Allama Abdullah Athim Masih
1830-1896
Andruna-e-Bible
Interiority of the Bible
Allama Abdullah Athim Masih
اندرونہ بائبل مروجہ قدیمہ
یعنی
خلاصہ و شرح امور اخص و فہم
من تالیف
علامہ عبداللہ آتھم مسیحی
۱۸۸۱ء
دیباچہ
دفعہ۱۔
بائبل ایک مجموعہ ہے تالیفا ت( تا لیف کی جمع تا لیفا ت ،مختلف کتابوں سے مضامین چن کر نئے پیرائے میں ترتیب دینا) مدعیان(دعویٰ دار) الہام (خدا کی طر ف سے دل میں آ ئی ہو ئی با ت ) کا جو مختلف زمانوں میں ظاہر ہوئے اور ناقل(نقل کرنے والا) مضامین ایک دوسرے کےمطلق نہیں گو اصول اُن کی کُل واحد ہی ہیں اور مضا مین اکثر مترادف۔
دفعہ ۲۔
جب سے یہ اجزا بائبل کے بعرض تالیف آئے کچھ ان میں الحاق(ملنا ) یا ان سے اخراج ( نکا س ) نہیں ہو ا۔بجُز ایسے الحاق کے کہ وہ جو بھی ساتھ دعویٰ الٰہام کے ہوا ہو اور ایسے اخراج کے کہ جو محض متعلق بتا کر اورتعلیمات کے ہو اور نہ خود تعلیما ت کے حروف و الفاظ اور فقرات کی کمی و بیشی یا پس و پیشی جب تک مضامین کی اصلیت میں کچھ خلل نہ ڈالے قابلِ لحاظ عقلا ً نہیں ہو سکتی ۔ یہ خلل بائبل میں کبھی نظر نہیں آیا ۔ مخالف اصلیت بائبل نے کبھی نہیں دکھلایا کہ فلانی تعلیم اصل میں نہ تھی جو الحاق ہو گئی ہے یا فلاں تھے جو خارج ہوگئی اور جب تک مخالف ایسا نہ کر سکے اُس کو قابل ِ حفاظت الٰہی کا اس کتاب کے بارے میں ہونا چاہیے ۔کیونکہ لفظوں کی ہمیشہ کتاب و ست بدست (ہاتھوں ہاتھ)جنگ میں رہی ہے۔
دفعہ۳۔
اصلیت بائبل حق خالص ہے یا غیر خالص اس کے واسطے یہ خود ہی موجود ہے آج تک اس کے مخالفوں نے اس کو غیر خالص ثابت نہیں کیا گو زور اپنا بار بار سارا لگا دیکھا ہے۔ یہ مخالفوں سے کبھی نہیں بھاگی اور مخالف ہمیشہ اس سے بھاگتے رہے ہیں اور جب چاہیں پھر آزما لیں۔ اگر خود اس کے اور نہ اس کے عاجز پیروؤں(شاگردوں) کو جنہیں بہت سے لائق مقا بلہ ہر ایک مخالف کے نہیں۔ سب سے بڑی بات اس کتاب میں یہ ہےکہ رحم الٰہی نے تقاضا ے عدل الٰہی دربار ہ(نسبت،بابت) گنہگار ان ،کیونکہ پورا کیا کہ ان کے لئے راہِ نجات عقبیٰ(آخرت،عاقبت) کھولے کیونکہ اسی میں ادراک ِ(عقل،فہم)انسانی عاجز اور عقل اس کی حیران تھی اور اسی کے لیے ضرورت الہام تھی۔ جس قدر کہ تھے اور یہ مشکل اس کتاب میں کاملاً (مکمل)حل ہوگئی ہے۔
دفعہ ۴۔
شرح راقم مبنی بر ترجمات و شرحات و شرحات (تراجم اور تفاسیر)علماء اصل کلام کی ہے۔ مترجموں کو اس لیے بے اعتبار نہیں ٹھہرایا گیاکہ معلم اصل کلام کے بھی ان سے زیادہ اعتبار کے لائق نہیں ٹھہر سکتے تھے اور محنتیں پہلے شارحوں (شرح لکھنے والے)کہ ہماری بصیرت کی روک کچھ نہیں بلکہ مدد ہیں۔ جس قدر بھی مدد ہو سکتی ہے۔ قاعدہ شرح اس کتاب میں بھی عامہ لیا گیا ہے یعنی یہی کہ تصنیف کے معنی اول اس کے مصنف ہی سے پوچھے جائیں اور اگر وہ ساکت (خاموش)ہو تو بہاوکاور حتی الوسیع بے عیب معنی کئی جا ئیں ۔ لم یزلی(الزام یزلی) شرح کا دعویٰ تو وہاں ہی صادق آتا ہے کہ جہاں علم کل امر مشروح (کھول کر بیان کیا گیا)کا ہم کو حاصل ہو، مگر غلبہ میں محفوظتری(حفاظت) کی راہ لینی بہتر معقولات (معقول کی جمع،علوم حکمت و فلسفہ و منطق)سے ہے۔
دفعہ۵۔
قّل و دلّ (خاتمہ )پر نظرمولف بہت رہی ہے ،تاکہ طوالت ملالت (لمبی اُداسی)نہ ٹھہرائے۔ لہذا یہ شرح مدؔوار ہے اور نہ متن وار اور صرف خلاصہ کی ہے اور نہ کُل کی اور اخص(نہایت اعلیٰ) و اہم باتوں کی ہے اور نہ عام کی۔ خاص کر نبوتوں کی شرح پر لحاظ ِ خاص کیا گیا ہے اور جو باتیں در خود صاف ہیں شرح کی شکل میں نہیں ڈالی گئیں۔
اس تالیف میں باب تین میں اوّل بر تورات موسویٰ دوئم بر انبیاء درمیانی ۔ سوئم بر انجیل۔ باقی تقطیع(ٹکڑے ٹکڑے کرنا،علم وعروض کی اصطلاح میں شعر کے اجزاء کو بحرکے اوزان پر وزن کرنا) برفصلات و دفعات وغیرہ ہے جیسا موقع نظر آیا ۔ حاشیے اور ضمیمے بھی جز کتاب متصور(خیال کیاگیا،سوچاہوا) ہیں۔ دعویٰ طبع آزمائی(ذہانت کاامتحان ) نہیں بلکہ محبت آزمائی ہے۔ فریب دھی مد ِنظر نہیں گو فریب خوروگی کہیں ہو۔
اللہ اکبر
الکتاب
باب اوّل
در خلاصہ و شرح تورات موسویٰ
تمہید
یہ کتاب سب سے اّول ہدایت نامہ تحریری د عویٰ الٰہام برائے انسان دنیا میں پیش ہوتا ہے جو حوالجات غیروں اور محک(وہ پتھر جس پر سوناچاندی پرکھا جاتاہے) اصطلاحی سے اوّل ٹھہرتا ہے۔ تقریر ی الٰہام اس پیشتر بھی یقین ہوتا ہے کہ تھا اور نقاط کے بڑھانے سے دعویٰ دس گنا جتنا چاہوبڑھالو مگر حوالجات اور محک اصطلاحی کے مقابل اس سے ساری کتب دنیا کی پیچھے ہی رہ جاتی ہیں۔
مرکوز اس کتاب کی صرف تصویر ایک معاملہ روحانی بناناہے۔ جس کا صاحب تصویر انجیل میں دکھایا گیا ہے۔ اسی لئے بقا کا جز جو متعلق روح کے ہے اس کتاب کے عنصروں میں کُھلا نہیں رکھا گیا ۔کیونکہ تصویر میں صرف عکس ہی ہوتا ہے اور نہ جان بھی۔ بولی اس کی فریم(ڈھانچا) سی ہے کہ اشاروںمیں کلام بہت کرتی ہے مگر بدیں تفاوت (فاصلہ)کہ ہنر فریم جب کہ محض نجات دنیا کچھ ہے تو اس میں منجی عقبیٰ کی تصویر بہت کچھ الا بجز تصویر مسیح۔
مضامین اس کے منقسم بر چار قسم ہیں چنانچہ
فصل اوّ ل
درخلاصہ و شرح شرع ِاخلاق
دفعہ۱۔
شریعت اخلاقی کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انسان تو اپنی ساری طاقتوں سے اپنے خالق کو ایسا پیار کر کہ جو جڑ ہے ۔ تیرے اپنے پیار کی اور نہ یہ کہ تیرہ اپنا پیار اُس کی جڑ ہے اور یہ پیار خالق کا ساتھ ادب واجب کے ہو جو ادب کہ دانائی کُل کی جڑ ہے ۔ اور بہ تبتع(تقلید،پیروی) پیار خالق کے صورت خالق کو بھی پیار کر جو انسان میں بھر گئی ہے ۔اول خالق کے پیار وں کو بعد ان کے اپنے جو ر (بیوی)اور بچوں اور اقربا (قریب کے رشتہ دار)کو، پھر دنیاوی دوستوں کو، پھر ہم طنو ں کو اور پھر عوام کو حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کو بھی۔ سب کا حق ادا کر اور اپنے حق کا انتقام نہ لے۔ خلاصہً پیار ساری شریعت اخلاقی کا خلاصہ اور پاک خالف کی ایک بلند کا سایہ۔
دفعہ۲۔
اب جو شخص تکالیف شرعی کے لائق ہے اور خود فریبی نہیں کرتا خود بخود دیکھ سکتا ہے کہ علت غائی (نتیجہ،حاصل) اس شریعت کی کیا ہے۔ یعنی جب کہ اس شریعت کو کسی بشر نے پورا کیا اور نہ کوئی آیندہ پورا کر تا نظر آتا اخلاق سے لے کر کتا ب میں بھرنا اس کا سوا ئے دو وجہ کے نہیں ہو سکتا یعنی یا تو یہ کہ قصورات اس شریعت میں جو انسان نے کئے ہیں یا ددلاکر ان کے بد نتیجہ سے متنبہ ( تنبیہ کیا ہوا/ خبردار) کیا جائے دیا بہ وسیلہ قصورات کے احتیاج منجی سے اُسے آگاہ کیا جائے۔ کلام بائبل کو راہ نجات دکھانے کا دعویٰ ہے لہذا احتیاج میں ماتحیاج( وہ چیز جس کی ضرورت ہو) ہی یہ دیکھانی یہا ں آسکتی ہے اور بہ جُز اس کے نتیجہ باطل ہے کیونکہ امر کر کو تب ہی ہم سمجھ سکتے ہیں جب وہ کچھ نہ کرتے ہوں اور نہ ہی کرتے ہوں تب ہی کہ جب وہ کچھ کرتے ہوں لہذا یہاں موت زندگی کی قدر کراتی ہے جو قدر اس کی کرنا چاہتا ہو۔
فصل دوئم
در خلاصہ و شرح شرع رسمیاتی
دفعہ۳۔
رسم ضرور ہے کہ در خود کچھ معنی رکھتی ہو ورنہ بے معنی ہے چنانچہ:
رسمِ اوّل
سبت پرستی ہے کہ جو خالق پاک نے اپنے نمونہ کام و آرام نقشہ موجودہ دینا میں واجب الا طاعت فرمائی تھی ۔ اخلاق میں اس شریعت کو ڈھونڈ وہم پرستی ہے اور پیروی اس نمونہ خالق میں کو ئی صورت تہذیب مخلوق کی نظر نہیں آتی ۔ عبادت الہی ہر دم یکساں فرض ہے تو ۷:۱ کو وہ کیونکر قبول فرما سکتا ہے ۔ بسبب قدامت کے یہ رسم عادی تو ہرگروہ میں ضرور ہو رہی ہے مگر اخلاق میں اس کا سراغ مطلق نہیں ملتا ۔ اصلی مراد اس رسم کی یہ ہےکہ جیسے نمونہ خالق سے یہ رسم لی گئی ہے اُسے خالق کے یاد دلانے والی یہ رسم ہے اور جیسے کام ہم سے پورا ہونہیں سکتا اور آرام ہم چاہتے ہیں تو یہ رسم کام و آرام ہمارے پورا کرنے کے واسطے توجہ اسی خالق پر دلاتی ہے کہ وہی تمہارا منجی بھی ہے جو خالق ہے۔ اب کون ہے یہ خالق و منجی اس کا جواب امثال کے باب ۸ اور انجیل یوحنا کے باب ۱۔ اور دانیال کے باب ۹ ۔ میں دیکھو کہ مسیح اقنومِ ثانی الوہیت (پروردگاری/خداوندی)ہے کہ نہیں وجہ کیا ہے کہ خالق و منجی ایک ہی ایک ہفتہ کار خلقت و نجات کی واسطےلیتے ہیں اگر یگانگت (اِتحاد/ قرابت) فاعل ہر دو کی نہیں دِیکھاتی ۔ باپ کو کسی نے نہیں دیکھا بہ جُز کھا نے بیٹے کےاور باپ سے کوئی نہیں مل سکتا بہ جُز ملانے بیٹے کے قول ہے یوحنا اور دانیا ل کا جو ہر دو محبوب الٰہی کہلاتے ہیں او ر اسی لیےکہ یہ رسم صرف یاد دہانی خالق منجی کی ہے کُلسیوں کے خط کے باب ۲ میں لکھا کہ کوئی تمکو سبتوں کی بابت نہ گبھرائےکیونکہ یہ سایہ ہیں اورو جو د ا ن کا مسیح ہے۔
سبت کو جو بجائے تُکملہّ( جو اصل مضمون کو مکمل کر دے) فرایض الٰہی کے الوح (لوح کی جمع/ پتھر کی تختیاں) شریعت اخلاقی میں رکھا گیا تھا اسکا مطلب بھی صورت تکمیل دکھانے کا تھا کہ کیونکر اور کس میں یہ شریعت پوری ہو سکتی ہے ورنہ بددن اس ایک حکم کے باقی یہ شریعت بہ جُز فتوائے قتل سنانے کے اور کیا تھی جو کسی سے پوری نہیں ہوتی ۔ خلاصہ یہ رسم یہ سکھاتی ہے کہ اے انسان تو اپنے سارے کاموں اور آرام کے واسطے اپنے خالق منجی کی پناہ لے اور اب کہ مسیح اور منتظر ظہور و جود مسیح کے نہیں لہٰذاپابند اس کے سایہ کے بھی نہیں رہ سکتے مگر فسح کی لیلے(برہ) کی یاد گار قائم رکھنے کا حکم ہے اور اکٹھا ہونے کا دوسرا فرض اس میں شامل ہو گیا ہے لہذا یاد گارو قیامت ِ مسیح اکٹھے ہو کر مسیح کیا کرتے ہیں کا تو اس سے مراد بتانے خصوصیت ہے اقنوم ثانی کی ہے اور یہ ہی کہ ماہیت (حقیقت /کفیت/ اصل جوہر) واحد میں کسی مظہر کا کام دوسرے مظاہر سے خارجی ہی ہو سکتا ہے۔
جو اصحاب کثرت فی الوحدت در وجود جو ہر فرد کے انکاری ہیں۔
اوّل۔یہ تو دکھائے کہ کوئی جو ہر فرد بدون متعدد(گنے ہوئے/ چند/ چُنے گئے) مظہرات کے وجود بھی رکھ سکتا ہے یا ایک مظہر سے ایک قسم کے ظہور ممکن ہیں۔ ہماری نظر میں کوئی وجود بدون متعدد مظہرات اپنے کے قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ایک مظہر سےایک اقسام کے ظہور ممکن ہیں پس وحدت محض نفی مطلق کا نام ہے۔
دوئم۔ اگر کہو کہ بحث تعداد صفات پر نہیں بلکہ کثرت الوحدت ذات پر ہے تو اولاً تو ہم پوچھتے ہیں کہ ذات کو کسی دوسرے مظہر پر فوق(بالا / بلند/ اُونچائی / سبقت) کونسا ہے جب کہ وہ بھی مانند دیگر مظاہرکے ایک ہی ظہور اپنا دکھا تی ہے یعنی جامعیت(ہمہ گیری / کاملیّت/ جس میں سب کچھ آگیا ہو) مظہرات یعنی درخود (اپنی مرضی سے،بذات خود)کا ثانیا ً ہم پوچھتے ہیں کہ کہاں لکھا ہے یا ہم کب کہتے ہیں کہ کسی خاص واحد مظہر میں یہ کثرت فی الوحدت ہے۔ کلام بائبل سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کُل عین الہی میں یہ کثرت نے الوحدت ہے اور جو ہم سے پوچھے کہ کیوں کر تو وہ کوئی عین بلا کثرت فی الوحدت کے خود ہی دکھائے اور تب پوچھے۔
سوئم۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مسئلہِ تثلیث فی التوحید میں تثلیث ،مظہراتی نہیں کہتے بلکہ درجات مظہراتی کے مانتے ہیں سو اگر کثرت فی الوحدت مظہراتی جائز ا بد امر ہے تو کثرت فی الواحدت درجات مظہراتی کے کیوں کر ناممکن ہو سکتی۔ ڈہکوسلہ(فریب / دھوکہ/ بیہودہ/ بہانہ/مہمل بات) لگانے کے ۔ جواصحا ب یوں فرما دیا کرتے ہیں کہ مظہرات شے کے نہ عین میں داخل ہیں اور نہ ہی غیر میں یہ بھی ایک ڈہکوسلہ ہے اس لیے کہ ممکن نہیں کہ عین اور غیر ہر دو نہ ہوں یا ہر دو ہوں اور غیر ہونا ان کا تب ہی مانا جا سکتا ہی کہ جب بغیر ان کے وجود شے ممکن ہو جو ہرگز نہیں۔
رسم دوئم
قربانیاں ہیں کہ جن میں بہ وسیلہ ذیبحہ جانور ان بے عیب(پاک) و غزا( مذہبی جنگ/ جہاد/ غزوات) ہے، لطیف و خوشبو ہے ملیح (نمکین/ سلونا/ خوبصورت/ سانولا) کی قبولیت عبادات و معافی تقصیرات (کوتاہی/ کمی/ غلطی/خطا/ قصور) شکرانہ انعامات ہوا کرتی تھی ۔ عبادات کبھی بدون (اس کے علاوہ) قصاص ( بدلہ / انتقام)تقصیرات کے کامل نہیں متصور(تصور کرنےوالا/ دل میں نقشہ جما لینے والا) ہوئیں اور تقصیرات فعلی وترک فعل اختیار ی و لازمی سب قصاص قربانی کا چاہتے تھے شکرانہ بھی بدون پاک نے بہ وسیلہ قربانی کے قبول نہیں ہوتا تھا۔ تراکیب ان قربانیوں کی با یں کثرت رکھی گئی تھی کہ مردان خدا کا سارا دھیان بہ مشغولہ(شغل) زندگی انہیں میں لگا رہے قبوحات(بُرائی/خرابی/ نقص) بدنی برائے نشانات قبایح(غلطیاں) روحی قائم ہو کر قربانی کے طالب تھے اور نہ جاننے پر کشش واجب کیوں نہ جانا کے ہو کر قربانی مطلوب(طلب کیا گیا/ مانگا گیا) ہوتی تھی ۔ اب کوئی بتادے کہ خون جانوران سےخطایات انسانی کیوں کر دھوئے جاسکتے ہیں یا غزا اور خو شبو ظاہری باطنی مردگی اور بدبو کا کیا چارہ کر سکتے ہیں۔ بہ جُز آنکہ یہ معاملہ سارا ہی نشان مسیح قربان شدنی ( ہونے والی بات/ اِتفاقی بات) اور غزا و ملاحت ( سانولا پن) روحانی کا نہ ہو۔فسح کا لیلا(برّہ) بہ جُز نشان مسیح اور کیا تھا جو شام کیا تھا۔ جو شام کے وقت دروازہ کے باہر مارا جاتا تھا اور اس کی ہڈی توڑنے کا حکم نہ تھا اور جس کو وہی کھا سکتا تھا جو اپنے وحید(یگانہ/ یکتا / لاثانی) کو ہلاکت سے بچانے کی چاہ کر روانگی بہ ملک آزادگی کے لیے برپا ہوا خمیر سے بچ کر فطیری روٹی( وہ روٹی جس میں خمیر نہ ہو) کڑوی بھاجی ( پکا ہوا کھانا یا ترکاری/ ساگ پات)سے کھائے ۔ کیا مسیح ہی وہ نہیں جو شام کے وقت باہر دروازہ سے مارا گیا اور جس کی ہڈی بر خلاف آہنی (لوہے کی بنی ہوئی)آئین(قانون) رومیوں کے نہ توڑے گئے اور بہ جُز اس کے کفارہ کے وحید روح کا بچاؤ اور کیا ہے ۔کون اس کے واسطے تقاضا عدل پو را کر سکتا ہےاور بدون تیاری و ترک خمیر غرور اعمال و علم تلخی بد اعمالی اپنے کےکون اس میں پیوند ہونے کے بغیر آزادگی کو دیکھ سکتا ہےاور کس لیے یاد گا رقیامت مسیح تا قیامت قائم ہوئی اگر وہ فسح کا لیلا نہ تھا۔
غذاِ روحانی بھی مسیح ہی تھا اور وسیلہِ خوشبو بھی وہی کہ جس بدون مردنی(موت کے آثار/علامتِ مرگ جو خون خشک ہونے سے چہرے پر پائی جاری ہیں) چھا رہی تھی اور بدبو عملی خدا کے سامنے نفرتی ہو رہی ہے۔
ضوابط آداۓ ان قربانیوں کہ یہ تھے کہ اول تو پیتل کی قربان گاہ خیمہ کی چار دیواری کے اندر تھا جس پر لہو اور گوشت قربانی کا جلا دیا جاتا تھا دوسرا سونےکا قربان گا ہ خود خیمہ کے اندر تھا جس پر پیتل کی قربان گا سے سُلگتا کوئلہ لےکر بخور (وہ چیزیں جن کے جلانے سے خوشبو نکلتی ہے/عود/لُوبان)جلایا جاتا تھا اور متصل (اتصال رکھنے والا/ قریب/نزدیک)اس کےنذر کی روٹیوں کی میز سونے سے جڑھی ہوئی تھی ۔ اب یہ قربان گاہیں بیرونی حقارت و اندرونی امارت (دولت مندی/ حکومت)مسیح پر اشارہ کرتی تھی اور تحمل باربرخود دیکھا کر خود بہ خود سہنے والا اس کو جتاتی تھیں۔
ازاں جا کہ یہ معاملہ قربانی کا جو ظاہری نشانوں میں رکھا گیا تھا صرف برائے چندہ تھا لہذا جیسا کچھ وہ قید زمانہ میں رکھا گیا تھا ویسی ہی قید مکان بھی اس کے واسطے تھی اور صرف اشد ضرورت میں مٹی ان گھڑ پتھروں یا پیشتر گھڑے(شکل دیئے ہوئے/ ڈھالے ہوئے) ہوے پتھروں سے باہر خیمہ یا خانہ خدا سے بھی قربان گاہ بنالیا جاتا تھا کہ مکان پرستی کی بدعت( دین میں کوئی نئی بات یا کوئی نئی رسم نکالنا) نہ قائم ہو جاۓ۔ ان گھڑ یا پیشتر سے گھڑے ہوۓ پتھر وں کی شرط اس لیے تھی کہ دنیاوی زور شور کا دخل تعمیر کلیسا الٰہی میں نہ ہونے پائے قربان گاہ ہیں موصوف (تعریف کیا گیا/ ممدوح وہ جس کی تعریف کی جائے) ہر دو مربع تھیں کہ ہر طرف سے پورے رہیں۔ تین ایک پورے کا عدد ہے اور تین تیا نو وہ عدد ہے کہ حاصلِ ضرب ان کا تو بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا صفر خالی جاکر سات میں تکرار تاکیدتثلیث کا ہے اور باقی صفرارامیہ جس سے سبت بنا ہے ۔ دو تکرارتوحید کا ہے جس کےباعث وہ کفایت گواہی کا عدد بھڑاتا(بڑھتا) ہے۔اس طرح۷،۴،۳،۲،۱، ۱۰ ۔ اسرار یہ عدد ہیں جس کے باعث مربع کامل کا عدد عام قرار دیا گیا ہے۔سوائےا ن کے اور بھی عدد کلام میں ہیں مگر وہ عام نہیں بہ جُز ۱۲ کے جو چاروں طرف کامل تثلیث دِکھاتا ہے۔ چڑھانے والے قربانیوں کے سردار کاہن تھے جو قربانی کی مانند بےعیب چنے جاتے تھے اور اسی کا م کے واسطے مخصوص کئے جاتے تھے اور ماتحت ان کے دوسرے کاہن ہم خدمت ہوتے تھے اور اسی لیے کہ یہ سبق عارضی تھے ہمیشہ تغیر وتبدیل اُن میں ہو تا رہتا تھا ۔مسیح کے نشان بردار سردار کاہن تھے اوراس کے شاگرد وں کے نشا ن بردار دوسرے کاہن ۔ یوں خود ہی قربان گا اور خود ہی چڑھانے والا قربانی کا آپ ہی آپ خداوند تھا۔
قربانیاں حسب ِ حاجت ہر وقت بھی ہوتی تھیں اور ہر ماہ نئے چاند کے دن بھی مگر عیدوں میں سب سے زیادہ مقدم یہ تھیں بہ جُز عید سبت کے جو بعد کام کے آرام کا نشان تھا ۔ دوسری عید ِ فسح بہ نشان حقیقی لیلے فسح(فسح کابرّہ) کے تھی کہ جس کا ذکر مختصر ہو چکا ہے۔ تیسری عید پہلاپولافصل کا نذر کرنے کی تھی کہ جس میں مسیح قیامت کا پہلا پھل ہوکر خدا کے حضور گذرا ۔ چوتھی عید پنتی کوست کی تھی کہ جس دن موسی کو شریعت ملی تھی اور خداوند مسیح نے اسے نیا کیا روح الٰہی بھیج کر۔ پانچویں عید نرسنگے کی تھی جو ساتویں مہینے ہوتے تھی جی اُٹھنے کا نرسنگا پھونکنے کا نشان ہو کر ۔ چھٹی عید کفارہ تھی جو ساتوں مہینے میں ہوتی تھی آتی تھی یعنی تعلیم کفارہ بہ وسیلہ نرسنگے جی اُٹھنے کے جو دس یوم بعد عید نر سنگے سے آتی تھی ۔ ساتویں عید خیمہ کی تھی جو خداوند مسیح کی کلیسیا میں داخل ہو کر اس کے منور کرنے کا نشان تھا ۔ یہ ساتوں عیدیں پوری ہو ئی جیسا کہ کُلسیوں کے خط کے ۲ باب میں لکھا ہے کہ عیدیں اور نئے چاند اور سبت ہاں سایہ میں اور وجود ان کا مسیح لہٰذا ان کی بابت تم کو کوئی نہ گھبرادے۔
خیمہ جماعت جس میں یہ قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں اپنے نام کے مطابق نشان کلیسیاء الٰہی کا اس کے واسطے اور اسی میں سب کچھ ہو جو اس کے واسطے بھلا تھا۔
صندوق عہد اس خیمہ میں نشان مسیح کا تھا جو اپنے اندر احکام اخلاقی کو سب سے تکمیل یافتہ رکھتا تھا اور ہمہ سوختنی (جلنے یا جلانےکے لائق)گنہگاران کو من سے شگفتہ و شاداب( سر سبز / خوبصورت) بنائے ہوئے تھا ۔ ان سارے راز و ں پر وقت ظہور مسیح تک مہر کی ہوئی تھی کہ جس نے گستاخانہ صندوق کو چھُوا فی الفورمارا گیا اور کرو بیں(فرشتے) اپنے پروں سے اس صندوق کو نہ اوروں ہی سے چھپاتے تھے بلکہ خود بھی سرنگوں در تلاش رہتے تھے ۔ موسیٰ نے ایک بار چہرہ اس صاحب نشان کا دیکھنا چاہا تو اس پر بڑی مہربانی یہ ہوئی کہ پیٹھ دیکھائی گئی کیونکہ وقت معین (مقررہ)سے پہلے کسی مخلوق کو اجازت دیکھنے اس چہرہ پاک ذات کی نہ تھی۔ جو دراصل چہرہ اور پیٹھ سے پاک مطلق ہے بسبب کُل نور بہ حدو کامل ہونے کے اور جس کا چہرہ اور پیٹھ صرف مجسم ہونے میں نظر آیا۔ پیٹھ سے مراد کچھ ہے جیسا کہ پیٹھ سے بہت کچھ نظر نہیں آتا صرف کچھ ہی اور اسی لیے بطونہ (بھید/ حال / راز)تورات کچھ اور تھا ظاہری الفاظ کے سوا موسیٰ نے اسی سے کچھ آگاہ ہو کر استثنا کے باب ۳۱ میں یوں کہا ہے کہ با طن تورات کا تعلق خدا سے ہے اور ظاہر متعلق ہمارے چاہیے کہ بےچوں چرا (بنا کسی سوال کے) اس کو مانا جائے اور باب ۱۸۔ استثنا میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جب وہ نبی مانند درمیانی خاص بنی اسرائیل میں سے ظاہر ہو تو اس کی سنو ۔نہیں تو ماخذ( وہ جگہ جہاں سے کوئی چیزنکالے/منبع/ نکاس/ اصل جگہ) ہوگا۔ یقیناً جو موسیٰ کہہ چکا تھا اس کے تکرار کے واسطے آنا اس کا عبث( بے فضول / بے کار/ بے فائدہ) تھا اور بر خلاف موسیٰ کے اگر کچھ کہے تو یہ تخالف (مخالف ہونا/ دشمنی ہونا/ لاگ/تنازعہ)کلام ہو کرنا نہ روا ہے لہذا انکشاف (عیاں/ ظاہر / نمودار) بطو نہ تورات صریح(صاف/ ظاہر آشکار) اس پر منحصر تھا اور اسی لیے کہ بنی اسرائیل نے مسیح کی شرح نہ قبول کی وہ ماخذ مدعودہ توراتی گرفتار ہیں کہ لعنتی یہودی ان کا خطاب ہورہا ہے اور وطن سے جلا وطن جمہوری سلطنت سےمحروم اور جزا عظیم ان کی عبادات کا جو قربانیاں در یروشلیم ہوتی تھیں نا مقبول مطلق ہیں۔
غرض کہ راز در صندوق و صندوق زیر پر ہائے کروبیاں اور کرو بیاں اندر پر دوں کے نشان حفاظت رازبنے ہوئے تھے جب تک کہ وقت ظہور نہ آیا۔
پردہ ہا چار دیواری و خیمہ و قدس الاقدس کے سوسو ہاتھ کے مربع تھے( ۱۰×۱۰ ۔ ۲۰×۵۔) جو داہم دا ہی سو ہوکر کمال کا نشان ٹھہرے۔ کتان (باریک کپڑا)کے پردے ارغوانی و قرمزی ونیلگون (نیلا رنگ)رنگوں سے مزین(سجایا ہوا/ آراستہ ہوا) تھے جو رنگِ دھنک (قوسِ قزع)کے ہیں امان و طوفان یا د دلانے کو۔
اس خیمہ کے دروازے سارے شرق(مشرق) رویہ تھے تاہم خیمہ کے اندر آفتاب دنیاوی کو دخل نہ تھاکیونکہ ان کا ایمان جانب آفتاب صداقت تھا۔ بانی اس خیمہ کے بزلی ایل و سلیمان و شلتائیل اولاد یہود سے ہوئے اس لیے کہ نسل یہود میں خداوند موعود ( وعدہ کیا)تھا ۔ محافظ ورشرقی(مشرقی) بھی لشکر یہودا کا تھا اس لیے کہ اسد (شیرِ /آسمانی بُرج کا نام) یہودا کے وہ خدمت گار تھے یہ خیمہ پہلے دوشی (خطا کار)بنا تھا پر ہیکل سلیمانی میں عجوبہ دنیا ہوگیا۔
پھر رویت حزقی ایل میں اور بھڑا اور مکا شفات یوحنا میں واحد ادراک(فہم/ عقل) انسانی تک پہنچ گیا تاکہ ایما(اشارہ) ہو کہ کلیسیا الہی خیمہ دو شے سے خیمہ آسمانی بننے والی ہے۔
بہت سی چیزیں متعلق اس خیمہ کے لوازمی بھی تھیں جیسے بہ لُبان(خوشبو دار چیز) اور حلقے (لوہے نما چیز)جو اٹھانے خیمہ کے واسطے ضرور تھے جو خیمہ کے ساتھ ہیکل میں بدلنے سے نا ضرور ہو گئے اور یوں بہت سی چیزوں گھٹ بڑھ گئیں تاہم خداوند نےناضروری چیزوں میں بھی غیر کو دخل نہیں دیا ۔تاکہ منصوبہ الہی کل میں کل اسی پاک کار ہے۔
یوں جیسے کنعان مرکز نشانی کلیسیاء آسمانی کا قرار پایا تھا اور بنی اسرائیل اعضا نشانی کلیسیاءظاہری کے رکھے گئےتھی اور برکات و لعنات ودنیاوی نشانات برکتوں اور لعنتوں عقبیٰ (مشکل گھاٹی/ اونچی اور لمبی پہاڑی جس کی چوٹی تک جانے کا راستہ ہو) کی ٹھہرائی گئی ایسا ہی حال قربانیوں اور قربان گاہوں اور کاہنوں ہیکل وغیرہ کا تھا تاکہ صاحب تصو یرکے آنے تک تصویر میں سبق آمادہ گی پختہ ہو ۔ بقیہ بنی اسرائیل نیز آخر میں مسیح ہو جائیں گے کیونکہ باقی کو ئی نہ رہے گا جو مسیحی نہ ہو جائے گا اور سچا اسرائیلی نہ ٹھہرے گا۔
رسمِ سوئم
حفاظت نسب نامو ں کی تھی کہ جس کہ واسطے سامان ذیل رکھے گئے تھے یعنی ۔
• بنی اسرائیل کو منع تھا کہ غیر قوم کے مومن تک کو اپنی دختر (بیٹی)دیں اور علی العموم غیر قوم کی دختر لیں۔
• بسبب اس کے کہ بنی اسرائیل کے لوگ اکثر جنگ دائمی میں مارے جاتےاور بیوہ اور یتیم بہت سےچھوڑ جاتے تھے خدا تعالیٰ نے بجائے اس کے کہ غیر قوم کے وہ دست نگر( محتاج/ حاجت مند) بنیں اُن کو در خود کثرت مناکحت (نکاح کرنا/ عقد/ ازدواج) اور غلامی کی اجازت دے دی تھی ۔
• جو سات گروہ فلستیوں کے بنی اسرائیل کی نسل منقطع(قطع کرنا/ ختم کرنا/ اختتام کو پہنچنا) کرنے پر آمادہ رہتے تھے ان کے واسطے خداکا حکم تھا بنی اسرائیل اُن کو زیر(نیچا دیکھانا/ وجود مٹانا) کریں کہ یا وہ اطاطت قبول کریں ورنہ ویسے ہی منقطع کئےجائیں جیسے وہ بنی اسرا ئیل کو منقطع کرنی چاہتے تھے۔
• زانیہ (زنا کار عورت) مارے جاتے تھے اور جہا ں رفع شبہ بابت زنازانیہ کے سامان دنیاوی سے نہ ہو سکتا تھا معجزہ کا پانی اس کی ران کو پاک یا نا پاک ثابت کر دیتا رہا ہے۔
• جو شخص بے اولاد جائے اس کے واسطے اس کا بھائی نسل قائم کرئے حکم تھا اور جس کے فرزند نرینہ(نر/ لڑکا) اس کے داماد کو منصب فرزندی دیا جائے تاکہ نسب قائم رہیں۔
• نسل بگاڑ دینے کے واسطے عبرت (نصیحت پکڑنا/خوف/ اندیشہ) طوفان نوحی کے پیش نظر رکھے گئے تھے۔
کس لیے یہ سب سامان حفاظت نسب ناموں کے لیے تھے کیا اسی لیے نہیں کہ جیسے زمان و مکان ظہورِ مسیح منجی کا پہلے ہی مقرر ہو چکا تھا ۔اگر خاندان ظہور بے نشان رہے تو بھٹک سکتا ہے بالضر ور اسی لیے یہ رسم قائم ہوئی تھی ورنہ اس میں فائدہ ہی کو نسا تھا۔ مسیح کے سوا اور سب دوسرے اشخاص کے نسب نامے بجائے پوش (پہننے کی چیز یا کپڑا/ مرکبات کے آخر میں استعمال ہوتا ہےجیسے سیاہ پوش)نسل موعود(وعدہ کرنا) کے رکھے گئے تھے اور اسی لیے کوئی ان میں سے کسی کمال کو نہ پہنچا اور چھلکوں کی طرح پر جھڑتے گئے اور جب مسیح ظاہر ہو چکا تو حفاظت نسبتوں کی منقطع ہو گئی اس لیے کہ اور کچھ ضرورت ان کی باقی نہ تھی ۔
نسب نامہ خداوند مسیح اپنا مطلب آپ بھی بولتا رہا ہے مگر اشاروں میں جیسا کہ آدم دم کفارہ پر بھی ایما کر تا ہے اور اور بھی چند باتوں میں یہ نشان مسیح قا ئم ہوا تھا چنانچہ موقع پر دکھایا جائے گا۔
شیتبائبل جیسے مومنوں کا اپنے نام کے معنوں میں بدلہ بنتا ہے جہت(سمت/ باعث/ جانب/ وجہ) ان کہ وہ مسیح بدلہ شدنی ( ہونے والی بات/ اتفاقی بات)کا مورث (وارث کرنے والا/ وہ شخص جس سے ورثہ ملا ہو) و نشان ہے۔ انوس (آدمی/ سیت کا بیٹا اور آدم کا پوتا) جامع کلیسیا حقیقی کا نشان در خود قائم کرتا ہے۔ حنوکصعود خداوند ی کا نشان بنتا ہے۔ نوحمنجی بر گزیدوں کا نشان ہوتا ہے ۔ طوفانوں دینا پر غالب ا ٓکر اور اسی بزرگ کے زمانہ میں یہ بھی جتایا گیا کہ خدا کے فرزند وں کا انسانوں میں شامل ہونا خداوند تعالیٰ کو کس قدر ناگوارہ ہے کہ طوفان کے آنے کا یہی سبب تھا ۔یعنی ان لوگوں کا جو نسل مو عود فر زندِ اکبری کی مورث اعلیٰ قرار دئے گئے تھے اور اسی لیے فرزندان الہٰی کہلائے عام انسانوں میں ملنا ناگوار ہو ا اس لیے کہ ہمیں نشان خاندان نسل مدعو دکا مٹتا تھا۔
نسب نامہ موعود کے رشتہ دار ان کو یہ خطاب جو بخشے گئے تھے کہ فرزند الہی کہلائیں اور دوسرے لوگ بمقابلہ ان کے محض انسان یا کتے اور پاک اور برگزیدہ وغیرہ کہلائے یہ سارے فرزندی اور پاکی و برگزید گی بوجہ علا قہ با فر زند حقیقی خدا تعالیٰ یعنی مسیح خداوند کے تھے ورنہ در خود یہ خطاب ایسے اوچھے(کم ظرف کمینہ/ احسان جتانے والا) تھے کہ ان پاک اور برگزیدہ فرزندوں میں سے بہت سے جہنم میں ڈالے گئے اور ان انسانوں اور کتوں سے جنت کے وارث بنے۔
پھر سام ابن نوح میں امن کے ڈیرے ہر ملک میں کھڑے کرنے والے یعنی مسیح خداوند کا نشان دیا گیا ہے۔ پھر ابراہام و اسحاق و یعقوب کو جتا دیا گیا کہ ان کی نسل میں ساری دنیا کی گروہیں برکت پائیں گی ۔ پھر یہودا میں شیلوہ(سلامتی) مرجع( رجوع کرنے کی جگہ / لوٹنے کی جگہ/ جائے پناپ/ ٹھکانا) خلایق( خلق کی جمع/مخلوقات) ہونے کی خبر دی گئی ہے اور داؤد میں ابدی سلطنت خداوندی کی۔
نسب سے خداوند کو کچھ فخر نہ تھا بلکہ نسب کو اسی سے دنیا وی بلند خطا بوں کا فخر کس قدر ضروری تھا اور اسی غلطی کے رفع کرنے کے واسطے مشیت ( مرضی / خواہش/ ارادہ) خداوندی نے ایسا کیا کہ راحب اور روت کو خاص اس طرف میں شامل اپنی نسب کے کر لیا کہ جس سے زیادہ علاقہ جسمی خداوند کا تھا تا کہ گواہی کافی اس بات کی رہے کہ غیر قوم بخرہ(حصہ)غیریت(اجنبیت) برگزیدگی نسب کے اور کسی اور امر میں غیر نہ رکھی جائے گی اورپھر نسب نامہ بھی کامل رکھا کیونکہ نسب نامہ میں لحاظ صرف مردوں کے نام کا رکھا جاتا ہے۔
کثرت منا کحت(نکاح کرنا/ عقد/ ازدواج) میں اگر عورت بہت شوہر ا یک ساتھ کرے توعارضہ (مرض/ دُکھ/ بیماری) آتشک( ایک جنسی بیماری / گرمی) پیدا ہوتا لیکن اگر مرد ایسا کرے تو عا ر ضہ جسمی کوئی اس میں لاحق نہیں ہوتا ۔اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کثرت مناکحت بازنان(عورتیں) کے بارہ میں تو اجازت الہی ہو سکتی تھی مگر بامردان (مرد)کے بارے میں نہیں اور وہ بھی جب مفید فریقیں یہ امر اٹھہرے اوربنا ظلم نہ قائم کرے ایسا ہی جو از( اجازت/ منظوری/ جائز) غلامی میں بشرط مفید ہونے کے فریقیں (جماعت / گروہ)کےایسی اجازت ہو سکتی تھی ۔ اب کہ کثرت مناکحت بازناں اور غلامی توراتی میں یہ منشا(خواہش) تھی کہ حفاظت نسل موعود کی ہو اور کہ نسل مو عود کے لوگ غیر قوموں کے محتاج نہ کئے جائیں ۔ تاکہ ان کہ بد اثر میں گر فتار نہ ہو جائیں بلکہ غیر قوموں کے لوگوں کو بھی اگرممکن ہو خدا کے لوگوں کا اثر پاک ملے۔ تو کثرت مناکحت و غلامی توراتی میں جو ازایسے امور فرقانی(حق اور باطل میں فرق کرنے والا) سے بڑا فرق ہے۔کیونکہ تورات ایسے جو ازو ں میں منصوبہ ِ نیکی کو قائم فرماتی ہے۔ جب کہ فرقان خط نفسانی کو زور دیتا ہے ۔ جب ظہور نسل مو عود یعنی خداوند مسیح کا ہو چکا تو اسی محبت کو اصل الا صول شریعت کا ٹھہرا دیا۔جو انصاف سے بھی بالا رتبہ پر چڑھ گیا کہ انتقام کی روح تک مٹا گیا ایسا ہی فرق جہاد توراتی اور فرقانی میں ہے جیساکہ کثرت مناکحت و غلامی ان ہردو میں ظاہر ہو یعنی جہاد توراتی خاص گروہوں فلستیوں تھا اور نہ ایمان پھیلانے کو بلکہ ان کی شر (بُرای / بدی/ جھگڑا/ فساد)سے امان (پناہ/ حفاظت / آرام)پانےکو جب کہ جہاد فرقانی ساری دنیا سے ہے نہ امان پھیلانے کو بلکہ ایمان جبری(زبر دستی) بڑھانے کو جو سچے ایمان سے علاقہ کچھ نہیں رکھتا کیونکہ بارضافریق ثانی کے نہیں ۔ انجیل میں کثرت مناکحت اور غلامی اور جہاد کے بارے میں لفظی حکم تو کوئی نہیں مگر اصولی ہے ۔ یعنی کہ جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے دوسرے کے لیے بھی نہ کرو اور انتقام کی راہ کو چھوڑ کر خالق قدوس کا نمونہ رحم و کرم کا اختیار کرو ۔
ما سوا اِن رسموں کے
جو بطور نمونہ اور بڑے بڑے دیکھ کر بیان ہوئے اور بھی چند رسمیں یہودیوں میں مقرر تھیں مثلاً نرالی پوشاک اور بالوں کی خاص تراش وغیرہ جن میں مطلب ان کے علیحدہ رکھنے کا غیر قوموں سے تھا ۔ ختنہ جس میں ایما ( اشارہ کرنا) برائی نفس کےر کھے گئے تھے اور جس کی بجائے انجیل میں جامہ نفسا نیت کو بپتسمہ میں دھو ڈالنا رکھا گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب معاملات روحانی باتوں کے عناصر رسمیات میں تصویرہی صرف تھے بے روز یا انصاف طبقہ نور کو کھول دیتا ہے اور غرض بےجا اندھا کر دیتی ہے۔
فصلِ سوئم
درخلا صہ و شرح شرع قضائے
دفعہ ۵۔
شر یعت قضاتی(فرمان الہٰی) موسوی میں صرف اتنا ہی نہ تھا کہ حق انسانی کے جبرو فریب غیر سے حفاظت کرے بلکہ رسمیات الٰہی کی حفاظت بھی حکومت کے داخل تھی ۔مثلاً بت پرست اور غیر قوم میں اختلا ط(میل جول) جوزانی وزانیہ والدین کا نا فرمان وغیرہ وغیرہ سخت سزا کے لائق ٹھہرتے تھے۔
ساؤل کو با کراہت (نفرت/ بیزاری/ گِھن) خدا نے نائب اپنا تو قبول فرمایا مگر شریعت اپنی سے اجازت تجاوز کی کسی کو نہ بخشی تا و قت یہ کہ شیلو ہ نہ آئے۔ باد شاہاں اور بیگمات کو بہ جہت نیا بت(قائم مقامی) خود والدین کا رتبہ بخشا مگر شیلونے آناہے فرما دیا کہ یہ بادشاہت دنیا وی میری نہیں۔ یوں یہ ہر سہ شریعتیں پوری تُلی ہوئی تھی ایک احتیاج (حاجت/ ضرورت/ خواہش/ چاہنا) دکھلانے کو اور دوسری ما یحتاج ( انسانی ضرورت کی چیزیں )کے دکھانے کو اور یہ تیسری وقت موعود تک نشانات مایحتاج کے قائم رکھنے کو شیلو کے ظہور پر عملی حفاظت نشانات کی فضول ہو گئی۔ لہٰذا شریعت رسمیاتی و مخصوص قضاتی کا عمل پھر باقی نہ رہا۔
فصل چہارم
در خلاصہ قصص
دفعہ ۶۔
پہلا قصہ
ظہور طبقہ موجود ہ اس دنیا کا اس طرح لکھا ہے کہ:
پہلے دن:
خدا کی ریح نے یعنی ( ہواِ عظیم نے/دم نکلنا) اس دُھند کو جو کرُہ ارضی پر تاریکی پھیلا رہی تھی رقیق( نرم) کر دیا اور اجرامِ سماوی (آسمان/ از غیبی) کی کر نیں چھننے لگیں ( روح بجائے ریح (ہوا) پڑنے میں معجزات بلا ضرورت پڑانے پڑتے ہیں)
دوسرے دن :
ا ُسے ہو ا کے زور ے ابخرے(بخارات) دُھند کے نیچے اوپر پھٹ گئے اور زمین آسمان میں فضا نمو دار ہوئی جس کی فضا کا نام یہا ں آسمان رکھا گیا ہے۔
تیسرے دن:
ایسا ہو ا کے زور سے تراوتیں (تازگی / ٹھنڈک)سطح ارضی کی خشک ہو گئی اور پانی نشیبوں (گہرے گڑے) میں جا ٹکے اور نباتات کا بیج خدا نے زمین میں ڈال دیا ۔
چوتھے دن:
اسے ہو ا کے زور سے مطلع صاف (آسمان کا ابرو غبار سے صاف ہو جانا) ہو گیا اور اجرام سماوی (آسمانی) نمو دار ہو کر اپنے اپنے کا م کی عہدہ برا ری ( پورا کرنے والا/ لے جانے والا) کر نے لگے۔
پانچویں دن:
ٓبی اور فضائی جاندار متعلق نقشہ موجودہ پیدا کی گئی۔
چھٹے دن:
زمین کے حیوانات اور کل کا بادشاہ جوڑا آدم کا بنایا گیا۔
ساتویں دن:
خداوند نے ایزا دی (زیادتی/ کسی کام یا چیز کاکثیر مقدار میں ہونا/ شدت ہونا)جدید کام سے آرام فرمایا کہ جو دن آج تک ختم نہیں ہو ایہ دیکھانے کو کہ یہ دن معمولی ۲۴ گھنٹے کے نہ تھے بلکہ زمانوں کہ نام دن رکھے گئے ہیں۔ اسی لیے سبت بھی دنوں اور سالوں او رہفتہ ہائے سالوں کی رسم سبت میں قرار دی گئی تھی۔ کیو نکہ عمر انسانی اصلی زمانوں کے لیے کافی نہ تھی اور اس رسم کا قائم فرماناضرور تھا ۔
تورات کا یہ فقرہ کہ ابتدا میں الو ہیم خدا نے زمین و آسمان کو پید کیا ( جس کے معنی یہ ہیں کہ کُل کا خالق ِ واحد خدا ہے جو اپنی ذات میں بے حد ہے اور سب کو اس نےحد لگا دی ہے) اجمالی(مشترکہ/ جس میں حصہ کشی نہ کی گئی ہو) نہیں بلکہ اصولی ہے اس لیے کہ اجمالی تو تب ہوتا کہ جب چھ دن کا کام اس کی تفصیل ہوتی حالانکہ کرہ ارضی اور اجرام سمادی کی خلقت ان چھ دنوں میں نظر نہیں آتی ۔ پہلے اس موجودہ طبقہ نباتات و حیوانات سے اس دنیا پر کیا کچھ تھا اس کا ذکر اس میں کچھ نہیں لکھا۔
اس تواریخ چھ روزہ میں الوہیم خالق کی تثلیث فی التوحید کا تکرار ضرور نظر آتا ہے کہ جیسے لفظ ضرورو با لضرور یا سچ سچ میں تکرار وتاکیدصداقت کا ہوتا ہے اور بھی اس تواریخ کا اشارہ ہے۔
قصہ دوئم
دوسرا قصہ آدم کو اپنی صورت پر الوہیم خدا کے بنا نے کا ہے اور اس صورت کا سہ قرار کر کے ایک ہی موقع پر ذکر ہے یہ دیکھانے کو کہ یہاں کچھ عمیق(گہرا) راز ہے ۔ سردار ی اورپاکی میں بھی یہ صورت مشبہ ضرور بنا ئی گئی تھی مگر کوئی تیسرا اور ہی جز تشبیہ کا ہے۔ کیونکہ الو ہیم سہ قرار کر کے جو فرماتا ہے تو کچھ معما تثلیث کا یہاں پر ہے۔ اصل یہ ہے کہ جو ہرفرد روح انسانی میں بھی تین درجے صفاتیہ ہیں ( دیکھو ضمیمہ اول کتاب ہذاکو) اور اسی تشبیہ پر یہ سہ قرار اشارہ ہے۔
قصہ دوئم
تیسرا قصہ آدم کی زندگی براہ نتھونوں کے درانیے کا ہے جس کا ایما یہ ہے کہ آدم کو نیک و بد کے بو لینے کے قابل بذات خود بنایا گیا ہے اور اس امر میں محتاج تعلیمِ غیر کا نہیں رکھا گیا۔ مراد یہ کہ انسان صفات اخلاقی کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
قصہ چہارم
چوتھاقصہ حواکی عجوبہ پیدایش پسلی آدم سے کا ہے۔ وجود حواکے واسطے مٹی تھڑ ( کم) نہیں گئی تھی اور نہ پہلے سے خدا تعالیٰ اس کا بنانا بھولا ہوا تھا تاہم اس نےا ٓدم کو سُلا کر اور اس کی پسلی کاٹ کر اسی سے حوا بنائی جو ایک نہایت پیچ دار راہ بنانے کا ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ آدم کو مسیح خداوند کا نشان بہت سی باتوں میں خدا تعالیٰ نے قرار دیا تھا جس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جیسے مسیح خداوند کو صلیب پر سُلا کر پسلی چھیدے جانے پر تھی اور اس پسلی سے پانی برائے اصطباغ(بپتسمہ) اور لہو برائے عشا نکل کر کلیسیا عروس (دلہن)مسیح پیدا ہونے والی وہی نمونہ پہلے سے آدم میں بھی دکھایا جائے۔ آدم پہلے سے اپنے نام میں بھی خون کا نشان دیتا تھا جیسا کہ خداوند مسیح کا کفارہ خون کفارہ اکیلا ہے نجات کی بنیاد ہے اور پھر آدم بھی اپنی حوا ہی کی خاطر مارا گیا تھا اور پھر جی اُٹھا جیسے مسیح خداوند اپنی کلیسیا کی خاطر مارا گیا اور جی اٹھا اور پھر آدم کے عمل کی تاثیر بھی عامہ (سبھی کے لیے/ ہر ایک کے لیے)ہےکُل نبی آدم کے واسطے جیسے خداوندمسیح کا عمل بھی تاثیر عامہ رکھتا ہے البتہ آدم کا عمل تاثیر بد رکھتا ہے او ر تاثیر اس کی فانی ہے جب کہ مسیح کا عمل تاثیر نیک رکھتا ہے اور تاثیر اس کی باقی ہے ۔مگر عمومیت ( سرسری طور پر) ہونے ان ہر دو کے عمل میں کچھ کلام نہیں جو جُزتشبیہ(مشابہت دینا/ تمثیل / کسی چیز یا شخص کو دوسری چیز یا دوسرے شخص کی مانند ٹھہرانا) ہے۔
قصہ پنجم
پانچواں قصہ درختانِ حیات و ممات (حیات کا درخت)کا ہے۔ ممات (موت کی جمع)کے درخت میں شناخت نیکی کی بمقا بلہ بدی کے تھی کیونکہ محتاج با بغیر بدون مقابلہ صاف ظلم کسی شے کا حاصل نہیں کر سکتا اور شناخت بدی کی پھل ممنوع کے کھانے سے نسبتی پیدا ہوئی تھی ۔ درخت ممات کو خوشنما لکھا ہے اور درخت حیات کو اس صفت سے موصوف(تعریف کیا گیا) نہیں کیا۔ یوں یہ درخت ممات نشان شرع کا رکھا گیا تھا کہ دیکھنے میں تو لبھانے والی ہے مگر انجام میں بسبب نہ تکمیل تعمیل ہونے کی موت کو لاتی ہے او درخت حیات نشان خداوند مسیح کا ہے جو ظاہری خوبی سے تومعرا (ننگا/ برہنہ/ خالی/ سادہ) ہےمگر باطن میں روحانی ابدی خوش زندگی۔
یہی ہر دو نشان شرع اور مسیح کے وجود موسیٰ اور یشوع میں بھی بھرے گئے ہیں کہ موسیٰ شریعت مجسم ہو کر اپنی ساری شان شوکت شرعی کے ساتھ بنی اسرائیل کووعدے کی زمین میں نہ لے جا سکا جب کہ یشوع با برکت ہم نامی خداوند یسوع مسیح کے لے گیا۔
یہ موسیٰ ایک بڑا عجوبہ شخص تھا کہ حاجت منجی کے دیکھانے کو تو شرع مجسم بنا اور واسطے دیکھانے منجی کے درمیانی خدا اور انسان کا ٹھہرا تصویر پوری کرنے کو طفل کش (بچوں کاقتل کیا جانا) زمانہ میں پیدا ہوا ۔غیروں کے ہاتھوں میں پرورش پایا (مسیح کا والد تو تھا ہی نہیں والدہ کو بھی اسے ایک دفعہ کہا کہ اے عورت میرا تجھ سے اصلی علاقہ کیا ہے) گڈرئیے کا پیشہ اختیار کیا ( کیونکہ مسیح بھی روحانی گڈریا تھا) الوہیت مسیح دیکھانے کو بہ مقابلہ فرعون بہ منزلہ خدا بھیجا گیا اور ہارون اس کا نبی ہوا۔ اپنی قوم کے خطایوں(گنہگاروں) کو اشتعال (شعلہ اُٹھانا/ آگ بھڑکانا/ جوش / غصہ)کے سبب ماراگیا دفن ہوا اور جی اٹھ کر الیاس ( ایک پیغمبر کا نا م جو لوگوں کے عقیدے میں قیامت تک زندہ رہیں گے اور حضرت خضر کے بر عکس خشکی پر بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں) کے ساتھ اپنے خداوند کو پہاڑ پر ملنے گیا۔ نئی شریعت اور کثرت معجزات میں نمودار ہو ا غرض یہ موسیٰ دوسرا ملک صدق تواریخ مجسم در نشانات خداوند کا ہوا ہے (تواریخ کرشن باکرایسٹ کے توافقات کے لیے دیکھو ضمیمہ ۲ کتاب ہذا کو)
قصہ ششم
آدم کے ممنوع پھل کھانے اور موت روحانی میں گرفتار ہونے کا ہے پھل کھاتے ہی اندھا تو وہ آپ ہو ا مگر اپنا ننگ چھپانے کے لیے خدائے ہمہ (سارا جملہ/ تمام) بین( دیکھنے والا) سے چھپنے گیا اور بد تو آپ بنا اِس پر بھی الزام کو لوٹا کر بولا کہ تونے ہی تو یہ عورت دی تھی ۔یعنی یہ تیری خطا ہے حالانکہ پہلے اِسے ہی اپنی جان و استخوان(ہڈی ) گوشت و پوست(کھال/ جلد/ چھلکا/) مانتا تھا۔ خدائے رحیم نے جب دیکھا کہ اس کے بچے روحانی موت میں گرفتار ہو گئے تو اس قدر ۔پدرانہ تنبیہ(باپ کی طرح تربیت کرنا) تو ان کو کی کہ آیندہ امتحان جسمانی اُن کاسخت ترکر دیا اور علیحدگی جسم کو ڈراونا بنا دیا۔ با قی ان کی روح کے بچانے کے لیے ان کو برہ ازلی کی پو شاک میں ڈہک لیا کہ ننگ کی شرمساری ان کو نگل نہ جائے اور باغ عدن کو اجاڑ دیا کہ جس میں نہ تو تکلیف بدنی کچھ تھی اور نہ ڈراونا فراق جسمی ( گو امتحان ہر موقع پر طالب اپنے خاتمہ کا ضرور رہتا ہے) اس پر بھی پورب کی سمت باغ سے ان کو نکالا کہ آفتاب ِ صدا قت کی طرف جائے جو ان کو راہ نجات کا نور بخشے گا اور اس میں حصہ ڈھونڈ یں۔
اسی موقع پر خداوند نے سانپ شیطان مجسم کو فرمایا کہ جس عورت کو تونے کمزور دیکھ کر فریب دیا او ر گناہ کی بنیاد ڈالی اس کی نسل تجھ پر غالب آئے گی تیرے ڈنگ کے سبب ا یڑیوں میں میخیں (لوہے کی لمبی سُلاخیں) تو گڑھیں گی مگر ان ہی ایڑیو ں کے نیچے تیرا وہ سر بھی ہوگا جو منصوبے مسدودی ( بند کیا گیا/ رد کیا گیا/ رُکا ہوا) راہ نجات کی سو چتا رہتا ہے اور ایسی تگ و دود (کوشش/ جدو جہد)کے تیرے پاؤں آیندہ کے لیے کاٹے گئے اور بجائے مراد یابی ( مراد یا خواہش پووری ہونا) کے خاک ہمیشہ کے لیےتیرے نصیب ہوئے۔ مراد یہ کہ مسیح ابن مریم صیلب پر کفارہ گناہان ادا کر کے راہ نجا ت کھول دے گا اور شیطانوں کو مغلوب کرئے گا ۔جسم حیوانی میں پاؤں اور ہاتھ ایک ہی منزلت رکھتے ہیں لہذا ایڑی کا لفظ ہر دو پرحاوی ہے ۔ نسل ہمیشہ منسوب بہ مر د رہی ہے اور بطن بہ عورت لہٰذا یہ پیشن گوئی سوائے مسیح ابن مریم کے اور کسی پر نہیں لگ سکتی ( کرن کے قصہ کے واسطے دیکھو ضمیمہ ۲کو) بیج گو عنصروں(عنصر کی جمع ،ایسے ذرے جن کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا) ہی سے بنتا ہےمگر خصوصیت اپنی بطور تسلسل ساتھ لاکر۔ لہٰذا عورت کا بھی نسل میں گو حصہ ضرور ہے۔ مگر مرد کا اس میں جزواعظم ہے اور نسل کا منسوب بہ عورت کرنا اسی لیے نا معقول ہے۔
اسی موقع پر الوہیم خدا نے فرمایا کہ دیکھو انسان نیک و بد کے پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ لہٰذا درخت ِحیات سے وہ علیحدہ کیا جائے۔ یعنی اب کہ انسان نے نیک و بد پہچاننے میں بوسیلہ جسم خاطی ( خطا کرنے والا)کے گناہ کر کے ضرورت اس امر کی پیدا کی کہ ہم میں سے ایک اسی صورت میں کفارہ ادا کرے اور انسان کو پھر لائق ہماری صحبت پاک کا کر ے تو بہتر نہیں کہ یہ جسم خاطی ہمیشہ کو بنا رہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ حیات جسمانی سے جو بہ وسیلہ درخت حیات کے قائم رہ سکتی تھی اسے دور کیا جائے ۔چنانچہ دور کیاگیااوربہ جا نب مشرق یعنی بہ تلاش آفتاب صداقت اسے نکال دیا ۔ محتاج با لغیر کا سب کچھ محتاج ہی ہوتا۔ لہٰذا علم بدی کا بھی اس کا کسبی(فعلی/ جو کام کیا جائے/کاریگر/ دستکار) ہی ہو سکتا ہے لہٰذا ایسے علم کے ساتھ وہ صحبت پاک الوہیم (خداوند ) کے لائق ہرگز نہیں بن سکتا اسی لیے اس جملہ میں کہ ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ کوئی مخلوق داخل نہیں ہوسکتا تھا اورانسان کو مشابہ بخود فرمانے ہیں الوہیم اشارہ کرتا ہے کہ اس کے واسطے ہم کو کفارہ کر نا پڑا۔
انسان کو جو فرمایا گیا کہ خاک تو ہے اور خاک میں مل جائے گابا عتبار خبر خاکی یعنی جسم اس کے فرمایا گیا ہے اور نہ باعتبار روح اس کے جو نہ خاک سےبنےاور نہ خاک میں مل سکتی ہے ( دیکھو ضمیمہ ۱ فصل ۱) اور جُز میں کلام تشبیہی ایک صحیح مجاز (حقیقت کے بر عکس/ وہ جس کی اصلیت نہ ہو/ کسی کلمہ ک غیر حقیقی معنی اصلی معنوں کی مناسبت کے ساتھ جیسے مٹی کے اصلی معنی خاک اور مجازی معنی موت / با اختیار/ اختیار دیا گیا ہو) ہے۔
اس کے بعد آدم کی اولاد ہوئی جو بنی آدم کہلاتے ہیں اور ان کا امتحان ویسا ہی سخت رہا کہ جیسا آدم کا بعد اس کے گہنگار ہونے کے کیا گیا تھا یعنی آرام جسمی ان کا گھٹ گیا اور انتقال جس میں ڈروانا ہو گیا اور یو ں آدم کے گنا ہ نے سب کو پکڑ لیا ۔مگر نہ جہنمی بنانے کے لیے بلکہ صرف سختی امتحان بڑھانے کے لیے کیونکہ اگر جہنم اس میں ہو سکتا تو مسیح کا کفارہ ضرور اس سختی کو بھی دور فرما دیتا۔ یہ ایک غرور باطل ہے کہ شیدی (حبشی)اور سر کیشیائے(باغی) ایک ہی آدم کی اولاد نہیں ہو سکتے جب کہ حرارت بالوں کو ضعیف اور مرغولہ (خم دار)کر دیتی ہے بشرط یہ کہ بال دراز اور ضعیف ہو نے کے قابل بھی درخودہوں جیسے انسان کے ہیں اور ملک حار(حرارت رکھنے والا) میں نتھنے دم لینے کے لیے کافی نہیں اور بہت دم لینے کے سبب سے نتھنے فراخ (کشادہ)اور ہونٹ لٹکویں(لٹکنے والے) ہو جاتے ہیں۔ ذرات رطوبت حرارت کے ساتھ مل کر مساموں(جسم کے وہ سوراخ جن میں سے پسینہ نکلتا ہے) کو پھنا(فنا) کر دیتے ہیں کہ جن میں کر نیں جذب ہو کر رنگ سیاہ نمودار ہوجاتا ہے ۔ برہنگی پاؤں کے پاؤں کے پتلا کر ڈالتی ہے صعوبت(سختی،مشکل) و حرارت درتلاش رزق فلکی(آسمانی) جلد کو کر خت ومضا عف (سخت دوگُنا،دونا)اور عقل کو کند (تنگ)اور پیشانی کو مثلث و سلامی(تین کونوں والی ڈھال) بہت سابنا دیتی ہے یوں جتنے دنوں میں سیر کشیا ئے شیدی بن سکتا ہے شیدی سر کشیائے بھی بن سکتا ہے کیونکہ یہ وہ تدریج(درجہ بدرجہ) نہیں جو بعض نادان حکمانے ٹھہرائی کہ بلور(صاف،ایک چمک دار معدنی جوہر کا نام) سے صدف (سیِپ،سمندری گھونگا)اور صدف سے مچھلیاں اور مچھلیوں سے پرند اور پرند وں سے چرند اورچرندوں سے انسان بن گئے کہ جس کا نہ توکہیں شروع نظر آتا ہے اور نہ وسط (آخر)بلکہ بندر جو نزدیک تر ہے شکل ِ انسانی سے دور تر ہے عقل کتے اور ہاتھی سے۔ ہندو عرب میں آسودہ گھروں کی شیدی غلام مایل بشکل ملک ہو جاتے ہیں اور انگلش سیلر(چیزیں فروخت کرنے والے)جس قدر برہنہ تن ( ننگا پن/ بنا لباس کے )رہتے ہیں سفید سے مسی (سیاہی)رنگ بنتے ہیں۔
فصل ہفتم
طوفان نوح کا ہے کہ جس میں اونچی سے اونچی ملجا(پناہ ملنے کی جگہ ) انسانی پر( ۱۵) ہاتھ پانی چڑھ گیا اور وہی جاندار بچا کہ جو لجائے انسانی سے دور یا داخل کشی نوح یا آبی تھا یعنی آب (پانی)میں بھی زندگی کر سکتا تھا ۔ باعث اس طوفان کا وہی تھا جو پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے ۔یعنی جب خدا نے دیکھا کہ مور ثا ن (میراث رکھنے والے)اعلیٰ فرزند اکبری کی غیر نسل میں خلط ملط (مخلوط النسل ہونا،ایک نسل کا دوسر ی نسل سے تعلق قائم کر لینا)کر نے لگے اور نشان خاندان نسل مو عود کا مٹانے لگے تو خدا نے یہ طوفان بھیجا اور صرف نوح نسل خالص کو بچا لیا ۔ اسی طوفان نے سطح عدن کی شکل بھی بگاڑ دی سو توں انہار (نہر کی جمع)کو زلزلوں سے خراب اور مبدل(تبدیل شدہ) کر کے اس طوفا ن نے معصو موں کو ہلاک کر کے غیر معصوم کو کچھ نہیں کردیا ۔کیونکہ مو ت جسمی کسی کو غیر معصوم نہیں بناتی مگر غیر معصوموں کا خاتمہ خوفناک ضرور کر دیا۔
بعد اس طوفان کے خداوند نے لہو کو بدلہ کے لیے مقدس اپنے واسطے فرما کر گوشت حیوانات کی اجازت بھی انسانوں کو فرما دے او ر امن کے ڈیروں کی اولاد سام میں خوشخبری سُنادی اور قوس قزّح جو اشارہ بطرف آفتاب صداقت کے ہر طوفان میں کرتی ہے نشان امن ٹھرا دیا۔
ارواح (روح کی جمع)حیوانات کی بابت کلام تو ساکت(خاموش) ہے مگر عدل سے وہ بھی محروم نہیں ہو سکتے اور نہ معصوم کی موت اسے غیر معصوم کر سکتی ہے ۔ ذبیحہ جانور ان حظ نفسانی(جسمانی خوشی) کے واسطے روا نہیں ہوا بلکہ جلال الہٰی کے لیے جو کسی کی خرابی میں خوش نہیں بلکہ صرف خوبی میں کیونکہ وہ خود خوب اور مقدس ہے تعلیم جنم باربار کی نا معقولی(غیر مناسب) یہاں سے ظاہر ہے کہ نہ تو اس میں بدلہ گنا ہ اصغر تک کا پورا ہوتا ہے اور نہ ندامت گناہ بسبب لا علمی فعل کی سزا اس کی ٹھہر سکتی ہے ۔ جانور و ں کےبھی روح کا ہونا ہم تسلیم کرتے ہیں اور دکھ ان کو ہونا بخر نفع یا سزا ان کی کے ہم برخلاف عدل و تقدس(پاکیزگی) کے مانتے ہیں۔ لیکن کس طرح کا جنت یا جہنم اُن کے لیے ہے اور کس چیز میں وہ دکھ یا سکھ مانتے ہیں ہم کو اس خبر نہیں ۔
سا م کے امنی(امن والے) ڈیرو ں میں جویافت کی نسل کا دخل لکھا ہے اس کی ایما یہ تو نکلتی ہے کہ یا فت سے اول یا بکثرت بطرف ( کی طرف) مسیح رجوع لائیں گے مگر یہ نہیں کہ سا میو ں پر یافت سے راج کرے گے جیسا کہ بعضوں نے غلط سمجھا ہے کیونکہ سام کو یہ کچھ لعنت نہیں ہوئی تھی کہ اس کے ڈیرے امن کے کھڑے ہونگے بلکہ یہ تو برکت ہی تھی کہ وہ امن دنیا کے گروہوں کا ہوگا ۔ حام کو بھی جو غلامان غلام ہونے کا حکم ہوا تھا۔ا ن کے مسیحی ہونے تک یہ سزا یا سختی امتحان کی قرار پائی تھی اور نہ ازدست آزاد گان خداوند ی بلکہ از دست خود غلامان گناہ کی جو پاک محبت کی راہ کو ترک کئے ہوئے ہیں ا ورخداوند کی بے بہا محبت کی قدر نہیں کرتے۔
قصہ ہشتم
آٹھواں قصہ بابلی زبانوں کا ہے کہ جس کے وسیلے روک نمرود جبار کی زمین پرپھیلنے انسانوں کی دور فرمائی گئی۔ تفریق رایوں (لوگوں) کی کہ یہ بابلی نہیں معلوم ہوتی اس لیے کہ نمرود جیسے جبار کی مخالفت رائے کی کر کے کامیابی مشکل نظر آتی ہے اور زبانوں کے تبدل ہونے میں مشکلات ملا لجی (جائے پناہ)کی بھی آسان تر ہو جاتی ہیں جیسے ایام(دن/ دِنوں) کی طوالت میں مشکلات جیا لجی (نسل کا علم)کی آسانی ہوگئی۔
قصہ نہم
نواں قصہ ابر اہام کی فتح پر مخالفانِ خانداں لوط اس کے عزیز کا ہے جو چار بادشاہ چار سُو دنیا کے پیشوا ہو کر آئے تھے اور سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے ساتھ لوط کے خاندان کو پکڑ کر لے گئے تھے۔
یہ فتح ابرا ہیم نے بہ مدد ملکِ صدق کے پائی تھی جو غیر قوموں میں مسیح خداوند کا مظہر تھا کہ جس نے ابر ہیم کو عشاِر بانی کے ساتھ متبرک کیا تھا پولوس مقدس عبرانیوں کے خط میں ظاہر کرتا ہے کہ یہ بزرگ اپنے نام کے معنی کے موافق صداقت کا بادشاہ تھا اور سلامتی اس کے تخت کا نام ہے اور نہ اس کے ایام کا شروع ظاہر ہے اور نہ آخر اور وہ خد ا تعالی کا سردار کاہن تھا جسکی صف میں بقول داود ہمارے خداوند ہنے کہانت چلائی ۔ یہاں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غیر قو م بھی مسیح سے کبھی محروم نہیں ہوے گو پورا مظہر اس کے واسطے پیدا کرنےدلایل قاطع کے بنی اسرائیل ہی میں رکھا گیا تھا چنانچہ میکاہ نبی نے بھی جب کل فرائض انسانی جمع کیے یوں فرمایا کہ اے انسان جو کچھ خدا تجھ سے چاہتا ہے وہ تجھے سیکھا دیا گیا ہے۔ (یعنی تیری خلقت میں رکھ دیا گیا ) یعنی یہی کہ توصداقت کے کام کرے اور رحم سے لو نگاوے اورفروتنیسے اپنے خالق کے حضور چلے۔ اب کیا صداقت میں کُل شریعت اخلاقی نہیں اآجاتی اور رحم سوا اس کے اور بھی کوئی ہے جس نے تقاضا عدل الہی پورا کیا گو کما حقہ کوئی اس کو نہ جانتا ہو اور فروتنی میں پورا اقرا ر اپنی نالوئقی اعمال کا نہیں بھرا ۔ پھر کوئی انسان کیونکر کہ سکتا ہے کہ وہ مسیحی اصول لے کر پیدا نہیں ہو ا،یا پیدایش میں کوئی دوسرا مذہب اسے دیا گیا ہے ۔ کلام الہی افزونیفضل کے واسطے بخشی گئی ہے کیو نکہ خلقت کی طاقت گوکافی ہو مگر بدون مدد کلام کے یہ خشک روٹی اور بالکل پانی ہی ہے اورنعماتدلکشا نہیں ہاں جو کلام کو دیدہ دانستہ بااختیار خود درد کرتا ہے وہ رحم و فضل کو رد کرتا ہے۔
پس باقی حصہ اسکا عدل ہی ہےنہ فضل و رحم۔
قصہ دہم
دسواں قصہ سدوم و گوار کی بربادی کا ہے جنہوں نے اپنے محسن ابر ہیم سے کچھ نہ سیکھا اور اپنے جیتے ہی نمونہ جہنم دیکھ لیا۔ لوط کمزور پر پھر رحم ہو اور اس کی جورونمونہ نافرمانی کا بنائی گئی۔
قصہ گیارھواں
گیارھواں قصہ غلطی ابرا ہیم دربار مر مورث اعلی نسل موعود اسمائیل کے سمجھنے کا ہے کہ جس کو خداوند تعالیٰ نے اصلاح دے کر فرمایا کہ وہ مورث اسمائیل نہیں بلکہ اسحاق ہی ہوگا تاہم اسما ئیل بھی ککنیز ک زادوں کی مانند خدمت اسحاق میں نہ چھوڑا جائے گا بلکہ وہ یعقوب کی مانند کی بارہ سرداروں کا باپ ہوگا اور اپنے بھائیوں میں مقابلہ کا بھائی ہوگا ۔ اسماعیل کا ہاتھ برخلاف اس کے بھائیوں کے اور اس کے بھائیوں کاہاتھ برخلاف اس کی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ بنی اسماعیل بادیہ نشین قزاق ہی ہو نگے بلکہ ان لفظوں میں مقابلہ برائے درجہ مساوات دیکھانےکو بھر گیا ہیں کیونکہ اسمائیل کو جنگلی گور خر سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جو زیرران کسی کے نہیں آتا مراد ان کل تشبیہات کی یہ ہے کہ وہ کنیز ک زادہ ہو کر خدمت گزار اضحاق کا نہ رہے گا بلکہ مقابلہ کا بھا ئی برابر کا بنا رہے گا اور اسی کے مطابق اسماعیل سے بارہ سردا ر پیدا ہوئے اور اضحا ق کی غلامی اسے کبھی نہیں کی کیونکہ یہ موروثیت کا معماہیدنیا وی معاملوں سے علیحدہ امر تھا کہ جو اخیر کو ساری بنی آدم کو برابر کا بھا ئی بنا دینے والا ہی کہ جس میں نہ ذات ہے ، نہ رنگ ،نہ عبد ہی اور نہ حر ہے ۔ یہ بھی لکھا ہی کہ اسماعیل کا خدا ساتھ تھا۔
قصہ بارھواں
بارھواں قصہ اضحاق کے تین دن تک ظلموت کی وادی میں رہ کر جی نکلنے کا ہے تاکہ مسیح کی موت و قیامت کا وہ نشان بنے۔
قصہ تیرھواں
تیرھواں قصہ یعقوب کی روحانی کشتی باخداوند کا ہے کہ جس میں فضل مانگ کر وہ فتح وہ پا گیا اور اسی فتح کے سبب اسرائیل کہلایا اور بہ جہت اس کے مورث اعلی خداوند کا مقرر ہوا تھا اس کی ران پیٹھ کی یاد گار قربانیوں ذبیحہ میں رکھی گئی تاکہ وہ مسیح قربان شدنی کا نشان بنا رہے۔
قصہ چودھواں
یہ قصہ یوسف منجی اپنوں او ر غیر وں کا ہے جو سکے ایذارسانہوئے تھے تاکہ مسیح خداوند کا نشان اپنے اندر دکھائے۔
قصہ پندرھواں
پندھوراں قصہ نبوت یعقوب کا ہی جو اس نے اپنے بیٹوں کے حق میں کی کہ جس کا جز کامیابی دنیاوی کا تو موسیٰ سے لیکر سلطنت یہودا اور بنی اسرائیل میں پورا ہوا اور خبر دینی مسیح کی ظہور پر کامل ہوگیا۔
افرا ئیم کو اس نے دنیا وی برکات اک حصہ زیادہ دیا تھا سوا اسی کے مطابق افرائیمی بہت سے شاہ نبی اسرائیل ہوئے ۔ یہودا کو اس نے بنی اسرائیل کی طاقت آنے شیلو ہ کے مقرر کیا تھا اور اسی کے موافق فرقہ یہودا ہمیشہ زبر دست بنا رہا ۔ یہود کو سارے بنی اسرائیل کا باپ بھی بجائے اسرائیل خدا نے مقرر کیا تھا کیونکہ بعد یعقوب اسرائیل کی طرح اور کسی کا نام نہیں چہایا۴۱ مگر یہودا کا چنانچہ یعقوب کی اولاد یاتو بنی اسرائیل ہی کہلائے یا یہودی ہی اور کسی بیتے کا نام کل پر نہیں پڑا ۔(تواریخ ایام کی کتاب اول باب ۵) یعقوب نے کہا کہ عصائے حکومت یہودا سے نہ اٹھ جائے گا اور نہ شریعت کا چلا نے والا اس کے زیرقدوم سے باہر ہوگا جب تک شیلوہ نہ آئے جس کے پاس رجو عت گروہو ں دنیا کی ہوگی ۔ اب جب مسیح ظاہر ہو ا تو ہیرودیس یہودیوں میں بادشاہت کرنا تھا جو باپ کی طرف سے غیر قوم اور صرف ماں کی طرف سے یہودی تھا مگر نسل عورت کا وہ زور تھا کہ اس کی مجال نہ تھی کہ غیر از یہودی اپنے آپکو کہلائے اور پھر باوجود اس کے یہ ہیرودیس ایک نہایت شریر مخالف خدا تھا مگر کیا طاقت کہ شریعت یہودی یعنی تورات کے برخلاف دوسرا قانون جاتی کر سکے اس لیے کہ نبوت یہ فرماتی ہے کہ جو ہی اس وقت تک بادشاہ رہے نام یہودا کا اپنے سر پر رکھے گا اور حکم رانی میں زیر قدمی سے یہودا سےباہر نکلنے نہ پائے گا ۔ پھر جب مسیح ظاہر ہوا تو یہودیوں نے خود ہی اور اقرار کردیا کہ اب ہمارا پنا کوئی بادشاہ نہیں اور بجاے اپنے حکم کے رومیوں سے مسیح کو صلیب دلایا اور مسیح کے تیسرے دن جی اُٹھنے پر رجوعت گرو ہوں کی اس کی طرح شروع ہو گئی چنانچہ ہر روزوہ رد بہ ترقی(دن بہ دن کامیابی / ترقی) ہے ۔ پس او ر مسیح کا انتظار نبوت ہذا کو بہتوں کی مطابقت کرنے والی کرتا ہے لہذا خوبی نبوت کی بجائےخرابی بناتا ہے لہذا ایسا تر صددوسرے مسیح کا خالی از شر نہیں ہو سکتا ۔
قصہ سولھواں
سولہواں قصہ کے طفلکش زمانہ میں پیدا ہونے کا ہے اور اسے سانپوں کے بلوں میں پررورش پانے جو اپنی رعیت (قوم) کے بچوں کو آپ ہی نگلتی تھی اور کفر کا زہر اوگلتی ۔ موسیٰ سسکتا بچااور پہنچ گیا ۔یوسف کے قدردان فرعون دنیا سے اُٹھ گئے اور ایک حاسد فرعون تخت نشین ہو ا جس کو اولاد بنی اسرائیل کی ترقی کا رشک (حسد) پڑا اور وہ یہ بہانہ کثرت و خوف سازش یا مخالفان بنی اسرائیل کے نرینہ بچو ں کو مارنے لگا مشیت(خواہش/ مرضی/ ارادہ / تقدیر) الہی نےموسیٰ کو نجات بنی اسرائیل کے لیے ہاتھ اس ظالم سے بچا لیاجب یہ موسیٰ اپنے قاتلان (قاتل کی جمع )سےچُھپ کر ملک مدیان میں اپنی خیر مسترد سردار کاہن کی بکریاں چراتا پھرتا تھا تو خداوند اسی آگیں نظر جو اپنے بوٹوں کو خوش گرم اور منور کر رہے تھےاور دشمنوں کو بھسم کر نے سےڈراتے تھے یہ ظہور پہلی تسلی موسیٰ کے لیے تھا۔ پھر خداوند نے عصا ئے موسیٰ کو سانپ بنا کر اس کے قبضہ میں کر دیا تاکہ وہ جانے کہ شیطان سانپ ایک ادنامخلوق ہے اور جس کے وہ قابو میں کیا جائے اس کو ڈرنا کیا ہے پھر خداوند نے تغیر جسمانی اس کے ہاتھوں میں کر دکھایا کہ وہ تغیرات (تبدیلی) جسمانی کو بھی حکم یا اذان الہی کے متعلق سمجھے۔ پھر خدا نے اپنا نام اس کو یہ ہوا بتایا جس کے معنی میں ؔ ہوں سو ہوں میں ؔ یعنی بے نظیر مطلق تا کہ وہ اس کے ثانی دوسرے کو نہ جانے ۔ ان چار ہتیاروں سے چار سمت دنیا میں اُسے محفو ظ کر کے بہ منزلہ خود بہ مقابلہ فرعون خدا وند نے بھیج دیا اور ہارون کو اس کا نبی مقرر رکھا۔
اب جن معجزوں سے خداوند نے فرعون کو زیر( نیست/برباد/ ختم کر دینا/ مٹا دینا) کو کیا وہ یہ ہیں یعنی ۔
پہلا ۔معجزہ موسیٰ کے سانپ بنانے کا ہے تاکہ سانپ پرستوں کو قابل ا سابلکا کر ے کہ سانپ اپنی سار ی سرون و انائی کے ساتھ صرف ایک عاجز مخلوق ہے۔
دوسرا ۔نیل کے چشموں کے لہو بنانے کا ہے ا سلیے کہ نیل کو پاک اور لہو کو ناپاک اور مصری سمجھتے تھے پرستش نیل کے ساتھ ناپاکی کی مقابلہ خدا کے بدلے جائے۔
تیسرا ۔نیل سے میں مینڈک پیدا کرنے کا جن کو مصری نفرتی ناپاک جانور جانتے تھے۔
چوؔتھا ۔جوؤں کا ہے جن کو مصری نحو ست و ادبار مانتے تھے او ر اسکا دفعیہدیوی دیوتوں کی بیٹیوں سے کرتے تھے ۔
پاؔنچواں۔ مچھروں کا بشرح جو ؤ ں کے ہے جس میں سوزش کس قدر بھڑ کی ہے
چھؔٹا۔ تباہی مویشی کا ہے جو گاؤں پر توسونے کے آسرے پر پڑا تھا۔
سؔاتواں ۔ اسےبہبوت سے جسے مصری خاک شفا مانتے تھے جلتے پھوڑے پیدا کرنے کا ہے۔
آؔٹھواں ۔اولو ں سے مصریوں کا غرور رزق گھٹانے کا ہے۔
نوؔاں ۔ ٹڈی لانے ہے کہ جو اولوں سے بچا سو ٹڈی نے چاٹا۔
دؔسواں۔ تاریکی سورج دیوتا کا ہے جو بمقابلہ آفتاب صداقت کے پست کیا گیا ۔
گیاؔرھواں۔ مصر کے پہلوٹھوں کو ہلاک کرنےکا ہے بہ حمایت پہلوٹھے خدا کے جو مصر سے نکال کر بیت اللحم افراطہمیں پہنچانا تھا۔
باؔرھواں۔ اخیر فرعون اورفر عونیوں کے بحر احمر میں غرق کرنے کا ہے اور فتح الہی کا ڈنکا بجانے کا ۔
یوں یہ بارہ معجزے کامل تثلیث کا چو طرف ڈنکہ بجانے کو حساب کیے گئے تھے اور موافق حال اپنے وقت کے تھے کہ جس میں ناپاک خیالات مصریوں کو اصلاح ہو کر غیر چھوڑیں اورخدا کو ملیں۔ موسیٰ کے تین اولین معجزوں کی کس قدر نقل ساحراں مصر نے بھی کی اور خدا نے انہیں ایسا کر نے کی اجازت دی اس لیے کہ ایسی نقل میں ساحر بطلان اپنے ہی دیوتا وں کا کرتے تھے مگر جب خر مغرہوکر اس باریکی کو وہ نہ سمجھے اور اپنی ننگ میں فخر کرنے لگے تو آیندہ ان کو روک دیا گیا اور مغلوب فرمایا گیا۔ جو لوگ سحر کے قائل نہیں ہوتے ا ن کو ارواح شیاطین یعنی ناپاک فرشتوں کی ہستی کابھی انکار ضرور ہے اور اس امر کا بھی کہ ان کو اجتماع و انتشار ( فساد برپا کرنا) عناصر نادیدنی کی بھی طاقت کچھ ہو اور یہ سب کچھ وہ اس لیے صرف کرتے ہیں کہ ان کے تجربہ کے ایسے امور خلاف ہیں اورمحض ممکنات(ممکن ہونا) کو وہ گواہی کسی تجربہ پر نا آئینگے۔
ہم ایسے پاگلوں کو لائق کلام بھی نہیں سمجھتے جو اپنے تجربہ کو علم کل بنائیں حالانکہ صریح ووہ اپنے کل میں محدود بھی ہوں ۔
عجوبہ کو ہم معجزہ نہیں کہ سکتے اس لیے کہ معجزہ وہی ہو سکتا ہے جو تصدیق کسی امر ممکن کے کرے تا ہم واقع ہونا عجائبات کا کسی صورت سےبر خلاف امکان نہیں گو ممتحن ایمان بھی وہ ہوں ۔
قصہ سترھواں
سترھواں قصہ بلعام نبی مردود کار کو جس نے اطاعت الہی پاک دل سے ان کی اور باوجود اس کے کہ اُس نے یعقوب کا نورانی ستارہ صبح صادق کا یعنی مسیح دیکھاتا ہم دل ِدینادونو ں سے لگا کر باعث خرابی بنی اسرائیل کا زناکی ٹھوکر ان کے سامنے رکھ کر ہوا۔
قصہ اٹھارہواں
اٹھارہواں قصہ پیتل کے سانپ کا ہے جو زہری سانپوں کے ڈسنے کا منجی ٹھرا جو مسیح کی مانند و ذات معصوم سے مرکب تھا اور دوسروں کے واسطے سانپ بنا کر لکڑی پر لٹکا یا گیا تاکہ جو اس پ نظر کرے ہلاک نہ ہونے پائے خواہ کیسی ہی زہری سانپ نے اسے کاٹا ہو۔ یہ نشان مسیح کا بہت صاف ہے جو انسانیت والوہیت سے مرکب ہو کر با وجود اپنی پاکی کے دوسروں کی ناپاکی کے واسطے بانئی گناہ کی شکل میں لٹکایا گیا تاکہ جو اس پر نظر کرے ڈنگ سانپ شیطان سے بچ کر جو گناہ ہے نجات ابدی پائے۔
خلاصہ:
یہ ہے شکل تورات کی کہ جیسے ایک شفاف طبقہ پانی پر کوئی نوری پرند تھر کتا ہواور جو اہر جو اس کے وجود میں ٹکے ہوں انکا عکس ( سایہ)اس پانی میں نظر آتاہو اور جو شخص اس پرند کو نظر نہ کر کے پانی میں ان جوہرات کے نکالنے کے لیے ہاتھ مارے پانی کو بھی گندہلا دے اور کچھ نہ پائے اور جو اس آسمانی پرند پر نظر کرے اصلیت کو حاصل کرے ۔اس کی شریعتیں اور قصص امر و نہی نظائر و مضامین سب مل کر ایک ہو تصویر کے متفرق اجزا ہیں لیکن جنے کی تلاش تصویر میں کرنے ایک صریح بطلان ہے ۔ یہی سبب ہے کہ بقا حقیقی نیک و بدکا لفظ تک تورات میں کہی نہیں ملتا اس لیے کہ تصویر میں صاحب تصویر کا پورا کوئی جز ملنا محال و بےموقع ہے ۔ صاحب تصویر میں صاحب تصویر اس کا انجیل میں ملتا ہے اور جب تک اسے ظہور نہ فرمایا تھا تصویر اسکی اسکے قائم مقام تھی اور اب بھی بہ منزلہ تصویر عزیز کے ہے۔
ہم سمندر کے کنارہ پر جاکر ہر قسم کے گواہراتکے چننے کا حوصلہ نہیں کر سکتے اور نہ چُن لینے کاان کے دعویٰ قابل التفات ( کسی بات سے اتفا ق رکھنا/ راضی ہونا)ہے مگر کافی نمونہخر وار کا ہم پیش کرتے ہیں سواگرانے بے ایمان تو ہمارے ایمان کو ہنوز تمسخر ( مذاق اُڑانا) کرے ہم تیری اس بے ایمانی پر عش کرتے ہیں کہ بل بے تیری بے ایمانی جو آفتاب کا انکار بد عوے بینائی و زندگی کر سکتی ہے۔
باب دوم
درخلاصہ و شرح کتب انبیا درمیانے
یعنی من یسوعہ الےٰ ملاخی
فصل اول
درخلاصہ و شرح کتاب یسوع بن نون
دفعہ ۷ ۔
اس کتاب میں دخل بنی اسرائیل بملک موعود کنعان کا ذکر ہے کہ جس کا وعدہ موسیٰ شریعت مجسم نے کیا تھا یسوع با برکت ہم نامی خداوند یسوع مسیح کے پورا کرے تاکہ ظاہر ہو کہ فتح شریعت سےنہیں بلکہ ایمان یسوع سے ہی ہے۔
یسوع نے اثر اپنی قدرت معجزہ کا یردن اور سورج پر تتبعموسیٰ و مسیح کے دیکھا کر یہ ظاہر کیا کہ وہ ہر دو کا ملانے والا ہی ہے اور علیحدہ کرنے والا نہیں ۔ موسیٰ نے بحر احمر میں راستہ بنایا تھا تو یسوع نے بحر یر دن میں بنایا مسیح نے صلیب جنگ روحانی کے وقت سورج پر اثر اپنا دیکھانا تھا تو یسوع نے جنگ جسمانی میں سورج کو ٹھہرایا۔
(ان انقلابات سورج ک ی بابت دیکھو ضمیمہ 2 کتاب ہذا کو)
فصل دوئم
در خلاصہ و شرح تواریخ من بعد یسوع الیٰ یستر
دفعہ۸۔
ان کتابوں میں ذکر باربار شرارت بنی اسرائیل اور ان کے عاجز آنے پر ترجم خداوندی کا ہے۔ خاص مطلب ان کتب کا نمونہ ترحم وتحمل دکھانے خداوندی کا ہے اور حفاظت منصوبہ نجات و تواریخ اپنی کلیسیا کا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بنی اسرائیل شرارت میں ہم سے بڑ ھ کر تھے مگر یہ کہ نائب( خلیفہ/ ساتھی/ دوست) کو اخیر تک امید نجات باقی ہے گو وہ شرارتوں میں ڈوبا ہوا کیوں نہ ہو۔
ان کتابوں میں یہ بھی ظاہر فرمایا گیا ہے کہ وقتاً فوقتاً خداوند تعالی نیکیوں اور بدوں کو اپنا ہتھیار بنا کر خاص خاص امور کے واسطے بر گذیدہ کر لیتا ہے اور اس میں اپنے نیک نیتی سے اور بد اپنی شرارت سے مشیت (مرضی/ خواہش)کو پورا کو دیتا ہے ۔ خداوند کسی سے بدی نہیں کراتا مگر بدی سے نہ روکنے میں بھی قدوسی اپنے ظاہر فرماتا ہے۔
اس تواریخ کے ایام میں نامی گرامی بادشاہ ساؤل و داؤد و سلیمان ہوئے ہیں اور بزرگ بنی سموئیل وداؤدوالیاس و یشیعا و دانیال و یرمیاو خر قائیل وذکر یا ہوے۔
ساؤل کو جو پہلا بادشاہ بنی اسرائیل کا ہوا خدا نے باکرا ہت منظور فرمایا تھااس لیے کہ شریعت قضائی موسوی انسانی سلطنت کے لائق نہیں۔
ساؤل جب اپنے اخیر دنوں میں خدا وند کے منہ لگنے سے دور ہو گیا تو ایک جادوگرنی سے نتیجہ جنگ پیش آمدہ کا پوچھنے گیا اور خداوند نے رویت سموئیل کو اجازت دے بہ وسیلہ اس شیطان عورت کے انجام ساؤل موت بتائے کہ جس رویت سے جادوگرنی بھی حیران ہوئی اس لیے کہ وہ غیر مترصد تھے اور ساؤل بھی مطابق کہنے رویت کے مارا گیا(سموئیل نے کہا کہ کل تومیرے ساتھ عالم ارواح میں ہوگایہاں کل بمعنی زمانہ عنقریب کی ہیں)
بعد ساؤل کے داؤد بادشاہ ہو جس نے اس وعدے کو پورا دیکھا جو خداوند نے ابراہام وموسیٰ سے کیا تھا یعنی بنی اسرائیل ملک کنعان کے وارث ہو گئے۔ داؤد باوجود اپنی سخت اور مکر وہ کمزور یوں کہ خداوند کو پیار کرتا تھا اور اسی لیے فضل کا وارث ہوا۔
بعد داؤد سلیمان اِس پر داؤد تخت نشین ہوا جس کو جو ہر عقل انسانی باین ( یعنی) خدا نے کامل بخشا تھا باپن مراد کہ خدا کے لوگوں کااچھا حاکم بنے اور ہیکل کی تعمیر کرے۔ حکومت بھی اس نے اچھی کی اور تعمیر ہیکل بھی خاطر خواہ خداوند کی پوری کی مگر اس کی عقل نے اس کے نفس امارہ پر غلبہ کچھ نہ کیا بلکہ نز دیک تھا کہ وہ دوزخ میں ڈالا جائے مگر امید قوی ہے کہ فضل سےتائب ہو کر بھیجا گیا۔
زیادہ عقل کے معنی یہ نہیں کہ شے معلوم میں کچھ زیادہ دیکھ سکے بلکہ صرف یہ کہ زیادہ معلومات کے قابل ہو پس عقل سلیمانی قابل زیادہ معلومات کے تو تھی۔ مگر علم اس کا موافق اپنے ہی زمانہ تھا۔مسیح انسان کی عقل کو بھی عقل سلیمانی نہیں پہنچتی تھی۔ اس لیے کہ مسیح پاک انسان تھا اور پاک کی تھوڑی عقل بھی ناپاک کی بہت سی بہت ہے۔ اسی لیے خداوند نے اپنے بارہ میں فرمایا کہ دیکھو یہاں سلیمان سے بھی ایک بڑا ہے۔ عقل سلیمان شکل ابو سالم اور طاقت سمسون نے صرف یہ ثابت کیا کہ بدون فضل ، پیچ و ناکارہ سے بھی بد تر ہیں ، پیچ ہے۔
ہم مسیح کے خون بدن اور روح بن ۔ ہیچ یہ اور ہیچ وہ سب ہیچ مطلق ہیچ و ہیچ بعد سلیمان حکومت بنی یہود اور بنی اسرائیل کے پھٹ کر دو ہو گئے اور ہر دو شرارت میں پڑنے لگے حتی کہ ہر دو مٹادیئے گئے اور خدا نے اپنے قہر میں سلیمانی ہیکل کو ہاتھ بنو خدنذر شاہ بابل سے مسمارکرا دیا جو فخر یہود یوں کا تھا اور ستر برس کی قید کے بعد ایک بے نشان سا ہیکل پھر انہیں بنانے کی اجازت ملی جو بہ حمایت و و ہمت نحمیا و عذرا جیسے بزرگو ں کے تیار ہو گئے سلیمانی ہیکل کا بڑا انجنیر تو سلیمان ہی تھا مگر کہتے ہیں کہ ماتحت ہیں کہ ما تحت سلیمان ہیران نامی ٹایر شہر کا ایک راج کاریگر تھا جو پہلا فریمسن کہلایا جس کے معنی آ زاد و معمار کے ہیں۔ کلام ِ الہی میں اس کچھ ذکر نہیں اور نجات عقبیٰ سے اگر اس ہنر کا کچھ علاقہ ہوتا تو فیض عمیم اس کے کوئی محروم بھی نہ کیا جاتا۔ اندر ون والا فرانس کے فریمن پابندی اس امر کی اوٹھانے پر بھی راضی تھے کہ قایلی خدا کی کوئی شرط شاگرد ی اس ہنر کی نہ ر ہی مگر انگلینڈ کے لوگوں نے نہ مانا تا ہم اس سے بھی دنیا ہی مطلق ہونا اس کا ظاہر ہے۔ پھر کچھ چھپا نہیں جو کہا نہ جائے گا مگر عجلت چاہیے کہ گناہ نہ کرا دے۔
آستر کا قصہ صر ف حفاظت مشینی کلیسیا کی ظاہر کرنے کو لکھا گیا ہے ۔ ہامان نسل عمالیقیوں کا اخیر شخص تھا جو کلیسیاہ سلف کو نگلنا چاہتا تھا اور جن عمالیقیوں کی بابت خداوند نے فرمایا تھا کہ میں اُن سے ہمیشہ لڑوں گا اور جیسا وہ کلیسیا کو شیطان کو مجسم ہو کر منقطع کرنے آیا تھا بہ وسیلہ آستر خود ہی منقطع ہو گیا۔
فصل سوئم
دو شرح و خلاصہ ایوب
دفعہ ۹۔
اس کتاب میں خاص دو باتیں تعلیم کی ہیں یعنی ۔
اوّل ۔یہ کہ بعض اوقات خدا تعالی اپنے مقبولو ں کا بھی سخت امتحان بہ معر فت دوست و دشمن ہونے دیتا ہے جیسا ایوب کا امتحان ہوا۔ مگر اخیر اُن کو پار نکال لاتا ہے۔
دوئم۔ غیر قوم بھی مانند ایوب کی روح نبوت پا سکتے ہیں کہ جس نے بعد وفات اپنی کے دیدار منجی کی نبوت کی ۔ یہ نبوت متشابہات ( تشبیہہ دینا) کچھ نہیں جیساکہ بعضوں نے غلط سمجھا ہے بلکہ صاف نبوت ہے۔
فصل چہارم
درخلاصہ و شرح زبور
دفعہ ۱۰۔
دوسری زبورمیں مسیح کی ازلی اور ابدی سلطنت کی نبوت ہے جو خدا باپ کی آج میں پیدا ہوا جو بسبب ازلی و ابدلی ہونے کی ماضی و مستقبل کچھ نہیں رکھتا بلکہ سب کچھ اس کا حکم حال اور آج میں داخل ہے۔
سو لھویں زبورمیں مسیح کی قبر سے بے لاگ جی اٹھنے کی خبر ہے اس زبور میں جو بجائے واحد مقدس کے جمع بڑھا دینی شوشہ بہ شکل ہمزہ سے (ء ) اصل میں بن گئی ہے پطرس حوار ای اسے غلط کہتا اور سوائے مسیح کی قبر سے بے لاگ اور کوئی دوسرا کبھی نہیں اٹھا تو یہاں سے بھی اس کا سہو(غلطی/ خطا/ بھول چوک سے) کاتب ظاہر ہے۔
بائیسویں زبور میں معاملہ وقت صلیب کی نبوت ہے کہ کیونکر خداوندایلی ایلی لما شبقتنیٰ کہہ کر چلا گیا اور سریر تو کل علی اللہ کا اس کو طعنہ دے گے او ر اس کپڑوں پر قرعہ اندازی کر ے گے ۔ داؤد اس مو قع پر سہاوک اپنے محبوب کی رہائی کی دعا کر رہا ہے۔ اور بنظر کفارہ ثنا اور تمجید کی طرف لوگوں کو ابھارتا ہے۔
چالیسویں زبور میں خداوند مسیح خدا باپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، کہ حیوانوں کا لہو تیری نظر میں کافی نہ ہو اس لیے یہ میں خود ہی بہ موجب نبوتوں کے تیری رضا پوری کرنے آتا ہوں کہ اپنا لہو دوں۔
پنتالیسواں او ر ایک سو دسویں زبوروں میں مسیح کی ازلی (ازل / ابتدا/ آغاز) فرزندیت اور ابدی ہمتائی ساتھ باپ خدا کا ذکر ہے چنانچہ(۴۵) زبور میں لکھا ہے کہ اے خدا تیرے خدا نے بھائیوں میں تجھے سب سے زیادہ مسیح سےمعطر(خوشبودار) کیا اور(۱۱۰ )زبورمیں ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ تو میرے دہنے بیٹھ جب تک میں تیرے دشنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی کروں ۔ (۴۵) زبور میں لفظ اے کا پیش از لفظ خدا ناحق اصل میں ساقط کیا گیا ہے جیسا کہ متن اسی زبور کا الوہیت مسیح کی بدون اس لفظ اے کی بھی صاف دکھا رہا ہے اور پولوس حواری اس غلطی کی اصلاح عبرانیوں کے خط میں بخوبی کر رہا ہے۔ (۱۱۰) زبور میں اصل کے الفاظ یوں ہیں کہ یہودا خدا نے ایدو نائی خدا سے کہا ۔ جو ہر دو نام مخصوص خدا بر حق کے ہیں اور کبھی کسی مخلوق پر نہیں لگے اور یہاں باپ اور بیٹے کی تمیز دکھانے کو استعمال دو کئے گئے ہیں کتاب یرمیا ہ میں مسیح کو یہواہ صادق بھی کہا گیا ہے تاکہ الوہیت(خداوندی) مسیح میں کچھ شبہ باقی نہ رہ جائے ۔
ایک سو اٹھارویں زبور میں مسیح کا کلیسا کے کونے کے سر ے کا پتھر کہا ہے کہ جس بدون (کے علاوہ) عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی ۔ اسی زبور میں بے ایمان معماروں کو ملامت بھی ہوئی ہے جو مسیح کو رد کرتے تھے۔
دفعہ۱۱۔
ماسوا امور متذکرہ بالا کے زبور وں میں عشق و ثنا الہی کے راگ ہیں۔ موت اس کی اصطلاح میں دوزخ ہے۔ گناہ مادری مراد خواص فطرتی سے ہےاور دشمن مولف دشمنان ِ خدا متصور ہیں جس کے واسطے( زبور(۱۴۰) کی آیت ۲۱۔ )
فصل پنجم
در شرح و خلاصہ کتب سلیمانی
دفعہ ۱۲۔
یہ امثال کی کتاب دراصل پوری نہیں بلکہ صرف چند فقرات پس ماندہ ہے اصل مجموعہ کے ہیں اور امثال در خود بھی واحد مضمون نہیں بلکہ متفرق مضامین کا مجموعہ ہے اس لیے اس کتاب میں سلسلہ وار بہت کچھ نہیں ملتا اورجو ملتا ہے بطور متفرق بجائے خود بہت اچھا ہے ۔ اس کتاب میں بڑی بات یہ ہےکہ عاقل بے بدل دنیا نے عقل اولی بانئی دنیااور معلم سا وہ لوحان کو دیکھا اور اس پر گواہی دی اور اتنی ہی بات کے واسطے پس ماندہ فقرات مولف نے الہام میں حفاظت حاصل کی ہے تاکہ سب سے بڑی عاقل دنیا کے بھی گواہی مسیح کے بارہ میں دیتی رہی۔
دفعہ ۱۳۔
کتاب و عظ بھی بشرح امثال پس ماندہ اجزا ہیں اور صرف اس نتیجہ کے واسطے جو سلیمان نے نکالا کہ خدا سے ڈر اوراُ س کے حکموں کو ما ن کیونکہ وہ اخیر نیکی کے جزا اور بدی کی سزا دینے والا ہے محفوظ فرمائی گئی ہے۔ اس کتاب میں خیالات انسانی کا اظہار شاعرانہ ہے جیسے امثال بھی شعروں کی کتاب ہے اور ایوب داؤد وغیرہ بھی شعر ہی میں کلام کرتے ہیں۔
دفعہ ۱۴۔
غزل العزالات صرف وہ کتاب سلیمانی نظر آتی ہے جو درخود پوری ہے ۔ معشو قہ (محبوبہ)اس میں کلیسیا ہے اور شوہر مسیح ۔ تین سو شہزادیاں اور چار سو سہیلیاں عدد سات کا پورا کرنے کو بیان ہوئے ہیں جو نشان کما ل کا رکھا گیا ہے جیسے سات شمع دان وغیرہ مراد پورے سے ہے۔ جو سہیلیاں ہیں وہی چھوٹی بہن بھی ہے جس کی ہنوز چھاتیاں نہیں اُبھری یعنی غیر قوم کی کلیسیا جو ہنوز طفولیت ( بچپن)کے عالم میں ہےاور پولوس حواری لکھتا ہے کہ واوث صغر سن غلام سے بھر نہیں ہوتا ۔ لومڑی بچے خیالات فاسد ہیں جو روحانی تاکستان کو پنپنے نہیں دیتے اور کونپلوں(پھول پر کھلنے والی نئی کلی جو مکلمل طور پر پھول کی شکل اختیار نہیں کی ہوتی) ہی کو چاٹ جاتے ہیں جن کے ڈر سے قدما اس کتاب کو کم سن جوا نوں کو پڑھنے نہیں دیتے ہے۔ سلیمان اس رویت کو گاکر دعا کرتا ہے کہ اے دولہا جلد آ جیسا کہ (مکاشفات کے۲۲ باب) میں حکم ہےکہ جو سنے کہے اور آمین ۔ ہارون نے کہانت کا نشان کھڑا کیا تھا اور موسیٰ نے نبوت کا اور داؤد نے بادشاہت درِ جنگ کا تو اب سلیمان کا حصہ یہ تھا کہ باداشاہت درامن ومعشیت مسیح کا نشان کھڑا کر ے جن کے واسطے یہ خیالات نازک و پاک شاعری میں بھر گئے ہیں۔
فصل ششم
در خلاصہ و شرح کتاب الشعیا بن عاموس
دفعہ ۱۵ ۔
(باب ۲ ۔) اشعیا میں بشر ح باب (۲۰) مکاشفات کے نمونہ صلح موعود بہرا گیا ہے جو بنمونہ قیامت ایک عرصہ دراز تک مخالفت حق کو مٹا دے گی۔
(باب ۸،۷ )میں خبر ہے کہ سلطنت بنی اسرائیل کے با عث عناد بسلطنت یہوداہ کی سلطنت یہودا ہ سے خود ہی پہلے مٹ جائے گی ایسا کہ مہر لال شہبازاس پرا شعیانبی کے دودھ چھڑانے سے پہلے ہی جاتی رہے گی جبکہ سلطنت یہوداہ عمانوئیل کنواری کے فرزند یعنی مسیح خداوند کے مکھن اور شہد کھانے تک بنی رہے گی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (علماء جس کا ترجمہ کنواری ہے عورت جوان کو تو کہتے ہیں مگر بیاہی گئی پر کبھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا)
(باب 9) میں اسے عمانوئیل ( جس کہ معنی خدا ہمارے ساتھ ہے) کنواری زا کے اسما صفا تیہ یہ بتائے گئے ہیں یعنی:
1۔ عجیب : بسبب کنواری زادمظہر الوہیت ہونے کے۔
2۔ مشیر :بسبب اقنوم(اقانیم/ تثلیث) مشارک اقانیم الوہیت کے ۔
۔ خدائے قادر : بسبب حقیقی خدا ہونے کے۔
4۔ اب ابدیت: بسبب واحد بالاب ہونے کے۔
5۔ شاہ سلامت :بسبب سلطنت امنی کے۔
6۔ وارث تخت داؤدی :بسبب مظھر او ر نسل داؤد ہونے کے۔
7۔ شہنشاہ ابدیت: بسبب ازلی و ابدی واحد خالق و مالک کے۔
(با ب ۱۱ ۔اور ۱۲) میں وہی نسل داؤد یعنی خداوند مسیح کل بنی آدم کی تسلی اور دافع اشیاء مضر وموذی (خطرناک/ نقصان دہ) کا جتایا گیا ہے۔
(باب ۱۳۔ سے ۳۹۔)تک خرابی مخالف سلطنت کی خبریں ہیں جو کلیسیا الہیٰ کے مخالف ہوئے چنانچہ سلطنت اسرائیل کی بوسیلہ سلطنت بابل کے خرابی کی نبوت ہے اورسلطنت بابل بوسیلہ سارس مدیانی کے خراب ہونے کی خبر ہے جو سارس بوقت نبوت پیدا بھی نہ ہواتھا۔
مصر کی خرابی میں مومن بستیاں ماموں فرمائے گئے ہیں سارس کی فوج کے دو دو گھوڑے او ر اونٹ اور گدھے جو نبی رویت میں دیکھتا ہے دو سے مراد کافی کی ہے کیونکہ دو کی گواہی کافی کلام میں متصور ہے اور یہ جو لکھا ہے کہ وہ رات کو دن اور دن کو رات بناتے آتے ہیں مراد یہ کہ طبقہ کو اُلٹ پلٹ کرتے آتے ہیں ۔
شاہ سنخرب جو حزقایا شاہ یہوداہ کو اپنے کفر سے دباتا چلا آتا تھا خداوند نے بہ جماعت اپنے لوگوں کے اس کے۔۔۔۔۔۔ 185 لشکری ایک رات کومار دئیے اور جب وہ بھا گ کر اپنے بت کے آگے سر نگوں ہو ا تو اسی کے فرزند وں نے اس کا سر کاٹ لیا۔
حز قایا جو مرنے پر تھا خدا نے اس کی پندرہ سال عمر بڑھا دی اور اسے یقین دلانے کو دس درجہ سورج کو جدھر سے چڑھتا آتا تھا ہٹا دیا تاکہ دس دیکھے اور ڈیوڑہ ایمان لائے۔ ( دیکھو ضمیمہ ۲کو)
(باب ۴۰ سے ۵۱ )تک خداوند اپنے پیشرو (یعنی یحیٰ) کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ خدا اوراس کے روح نے مجھے بھیجا ہے کہ تم کو ( رجوع نہ جدا کروں یعنی انا اقنوم ثانی کا مطابق مشورہ اقا نیم ثلاثہ کے ہے۔
(باب ۵۶، ۵۳) میں خداوند مسیح کے کفارہ اور وجہ کفارہ اور قیامت مسیح کی نبوت ہے کہ کیونکر ہمارے گناہوں کے بدلے وہ مارا گیا اور اس کے مارکھا نے سے ہم کو نجات ملتی ہے۔ اور گو موت اس کی عاجز شریروں کے ساتھ ٹھہرائی گئی مگر وہ گور نیک دولتمند میں رکھا گیا اور بندگی بجالا کر اسے رضا الہی کو حاصل کیا اور جی اٹھ کر القادرکی میراث ( دولت/ جائیداد)کا وارث بنا اور بہتوں کو جو اس کے رد کرنے والےنہ ہو سادق ٹھہرانے والا ٹھہرا۔
(باب۵۴ )سے اخیر کتاب تک خوف درجا کے نصایح ہیں اور شمولی گرو ہوں کے واحد کلیسیا میں خبر ایسا کہ دوئی دور ہو کر ایک گلہ اور ایک گڈریا ہو جائے گا۔
فصل ہفتم
درخلاصہ و شرح
ُُکُتب یرمیا
دفعہ ۱۶۔
باب اسے (۳۱) تک خبر ہے کہ بنی اسرائیل و یہودا (۷۰) برس کی قید بابل میں ضرور جائےگی اور ان میں سے تھوڑے ہی بہ وسیلہ یہودا صد یقونی نسل داؤود کے بچائے جا ئےگے جس کے ظہور پر شریعت بیرونی درونی ہو جائے گی یہ عُذر باطل ٹھہرے گا باپ دادوں کے گناہوں کی خطا فی الحقیقت اولاد کو پکڑتی ہے بلکہ سچ یہی ظاہر ہوگا کہ جو روح گناہ کرتی ہے وہی مرےگی۔
خداوند کے ظہور پر نظر کر کے یہ نبی فرماتا ہے کہ راما میں( جو بیت الحم افراطہ کے متصل ایک قریہ تھا اور اولاد بطنی راحیل سےآباد) راحیل کے نوحہ کی آواز ہے اس لیے کہ اس کے بچے مارے گئے(یہ ہیرو د کا ظلم نبوت ہوا ہے جسے مسیح کے مارنے کے واسطے اسکی عمر کا اندزا کر کے قرب جواربیت لحم کے بچے مروادئیے تھے باقی بشرح اشیعا خرابی سلطنتوں مخالف کلیسا کی نبوتیں ہیں لیکن ایک میں مجمل اور دوسرے میں مفصل کرکے۔
(باب ۳۲ سے ۳۴) تک بعد خرابی بوسیلہ بابل یرو شالم کے پھر کر آباد ہونے کی خبر ہے۔ یہودا صد یقونی کے ظہور پر بنی اسرائیل و یہودا میں دوسرے تخت نشیں دنیا وی اور عہدہ کہانت کی حاجت نہ رہے گی یعنی یہ تصویر کا معاملہ سب بدل جائے گا جس کے لیے ہیکل کہانت بادشاہت اور قو میت بنی اسرائیل اور یہوداہ کی ضرورت تھی کیونکہ ابدی سردار کاہن اور شہنشاہ حقیقی مسیح ظہور فرمائے گا ۔
(باب ۳۵)سے اخیرکتاب تک نصائح پدری میں نمونہ اطاعت پدری فرقہ ر کا بیہ کا دے کر جس نے اپنی اولاد کو شراب خواری سے منع کیا اور اس کی اولاد نے مانا تاکہ بنی اسرائیل بھی نشہ غفلت سے ہوش میں آئیں اور سوائے نصائح کے تکرار نبو توں ما قبل الذکرکا ہے۔
دفعہ ۱۷۔
کتاب نوحہ میں بربادی یرو شالم کا نوحہ ہے اور وہ وعدہ فضل ِ خد ا پھر کر۔
کتاب نوحہ میں بربادی یرو شالم کا نوحہ ہے اور وہ وعدہ فضل ِ خد ا پھر کر۔
در خلاصہ شرح حزقی ایل نبی
دفعہ ۱۸۔
(باب ۱سے ۳۷ )تک روایت تک رویت انقلاب سلطنتوں کے ہے واسطےظہور سلطنت ابدی مسیح کے اور شکست حد قوم اور غیر قو میت کے ۔ کبریا بہ شکل انسان تخت کبر یائی پر بگولہ ہوا میں نظر آیا یعنی مسیح ابن اللہ ظہور انسانی میں بقالب آدم زاد حزقا ئیل کے یہ نبوت کرتا ہے۔ بگولہ نشان انقلابوں کا ہے ۔ تخت کو چار چار پر کے جاندار جن کے چھرےانسان و شیر و عقاب و بچھڑ وں کے تھے اٹھائےہوئے ہیں یعنی سریع پر واز انسان بہ قوت شیرو سرعت عقاب اور ثابت قدمی بچھڑوں کے یہ اشارہ بطرف سلطنت بابل و فارس و یونان و روم کے ہے جو تقاضا ئے وقت کے مطابق ہواکے زمانہ سے مشبیت اس تخت نشین کے پورے کرنے کو اٹھے تھے ۔ تخت کے نیچے چار چکر اندر بیرونی چکرو ں کے تھے یعنی چار انا جیل اندر سے چار دفتر توراتی کو گھما رہی تھی جن کے واسطے یہ انقلاب جلدی کررہی تھے ۔ تورات کا پانچواں دفتر استثنا کا صرف خلاصہ چار اولین کا ہے او ر انجیل میں سوا ئے چار اناجیل کے باقی سب شرح او ر ثبوت انہیں چار کا ہے لہذا چار چار ہر دو کے لیے گئے ہیں باہر تورات کے اور اندر انجیل کے جو اصل تورات کے ہیں اور خلاصہ اس رویت کا یہ ہے کہ شریعت بیرونی اندرونی ہونے پر ہے جیسا کہ یرمیا ہ نے بھی نبوت کی ہے اور یہ چار جاندار ہیں انقلاب کے واسطے جنگل شگافی راستہ کی کر رہے ہیں نہ بہ نیک نیتی مگر با اجازت مشیتی کے۔
بنی اسرائیل کو (۳۹۰) دن اور بنی یہودا کو(۴۰) دن کی تنبیہ کی جائے گی یعنی ہر دو کو ملا کر(۴۳۰) کا عدد یاد دلایا جاتا ہے جو قید مصر کی یاددہانی ہے ۔ یہودا کو کم اور بنی اسرائیل کو زیادہ جیسا کہ اشعیا نے بھی دکھلایا کہ بنی اسرائیل کی سلطنت جلد جاتی رہے گی اور یہودا کی کچھ دیر پاکر ۔
حزقائیل بھی یر میا کی طرح پر تعلیم گناہ موروثی(ایسے گناہ جو نسل در نسل چلتے آ رہے ہو) کی مخالفت کرتا ہے یعنی تشبیہ میں نہیں مگر فی احقیقت ایساماننے میں کہ باپ دادا کے گناہ کا ان کی اولاد سے ماخذہ ہو سکتا ہے ۔ امتحان کی سختی نر می البتہ باپ داد وں کے اعمال پر منحصر کی گئی ہے اس پر نبی کی مخالفت کچھ نہیں۔
مکر ر(دوبارہ) رویت اسے کبریا میں نبی بجائے بچھڑو کے مکرر(دوسری دفعہ)شکل انسان کو دیکھتا ہے یہ شاید بنو خدنذر شاہ بابل کے پھر کر ہوش میں آنے پر اشارہ ہے جو سات برس تک بحالت جنون حیوانوں میں گھا س کھا تا پھرا تھا دیا تبدیل موقع رویت نے اُسے ایسا دکھایا ہو۔
( باب ۳۸، ۳۹ )میں بہ زمانہ آخیر غلبہ یا جوج و ما جوج کی خبر ہے اور بعد غلبہ انکی تباہی کامل کی ظہور اس بلا کا بھی جانب شمال سے لکھا ہے جدھر سے آفت بابل و فارس کی نبوت اشعیا دیر میاہ نے کی تھی ۔ طوفان شمالی تند تر بھی ہوتا ہے مگر مخرج ان آفات کا بھی موقع نبوت سے بہت سا بہ جانب شمال ہی ہے او ر شمالی ملک وہ کہلاتے رہے ہیں۔ یہ گر وہ ان یا جوج وما جو ج کی ہے جو دیوار چین کے اس طرف کھنڈے ہوئے تھے( مکاشفات کے باب ۹ ،۲۰) میں اس بلا کو چار سمتی اور چار ہورائی بھی کہا گیا ہے اس لیے کہ مخرج اس کا گو شمال سے ہو مگر پھیلاؤ ان کا چار سمت دنیا میں ہونے والا تھا۔ (پیدایش کے باب ۱۰)میں ماجوج و ماسک و طوبائی و تیراس اولادِ یافت کے نام میں جو بہت بطرف شمال ہی پھیلے تھے مسیح فرقے کے یہ لوگ نہیں ہو سکتے اس لیے کہ بنی مسیح سلطنت کے پھیلاؤ نیک کی تو نبوت ہی کرتا ہے تو مسیحی یہ کیونکر ہو سکتے ہیں۔ غرض کہ یہ لوگ ترک غیر مسیح ہیں اور نہ اروس مسیح ۔ سات سال سات ماہ سات روز تک ان کا قتلان اور مقتولا ن ان کی ہڈیاں بٹورے(سمیٹے/اکٹھا کیا جانے) جانے کا حکم ہے یعنی کامل قتلان جو سات کے عدد میں ٹھہرایا گیا ہے۔ ( مگر فتح کنعان بد ست ترکان قتلان ترکان پر مقدم رکھی گئی ہے دیکھو( باب ۹ مکاشفات کو)قتال اتراک یا خلیفہ بغداد کی خبر بھی انہیں مقامات سے نکلی ہے اس لیے کہ اُ ن سے بخوبی نکل سکتی تھی ( دیکھوضمیمہ ۳)
(باب ۴۰) سے اخیر کتاب تک علت غائی انقلابوں متذکرہ بالا کا اظہار ہے مراد یہ کہ ہیکل الہی بڑھ جائے گا یعنی جائیگا یعنی کلیسا مسیح جسمیں اندرونی چکر تخت کبریا کے باہر آجائے گے اور سطح ہیکل جو رویت میں بڑھا کر نا پایا گیا ہے۔ بھر ا جائے گا اور آخیر و فعیہ بلائے یا جو جی و باجوجی پر فتوائے عدل پاک کا وقت آجائے گا اور کلیسیا صورت نقشہ (مکاشفات کے باب ۲۲)کی پکڑ لے گی۔
فصل نہم
در خلاصہ و شرح نبوت دانیال
دفعہ ۱۹ ۔
دانیال نشان بردار کسی خاص عہدہ مسیح کا نہ تھا بلکہ ایک معزز قیدی تھا اس لیے قدما کی فہرست انبیاء میں نہیں رکھا گیا تاہم وہ یوحنا کا ثانوی تھا اور ان ہر دو کو خدا نے محبوب اپنا فرمایا ہے اور حزقا ئیل نبی نے اسے صادق مردکا خدا کا کہا ہے جیسا پطرس نے پولوس کے مقدس ہونے پر گواہی دی ہے اور نبوتیں دانیال کی ایسی پر زور صا ف ہیں کہ ان سے بڑ ھ کر او ر کسی نبی کی نبوت نظر نہیں آتی ۔ موسیٰ اوراشعیا اور دانیا ل و ذکریا اور یوحنا کی نبوتیں دریا کوزہ بھی ہیں۔ پار فری جیسا بے ایمان اشعیا اور دانیال کی نبوتوں کو بعد کا جعل کیوں نہ رکھے گا جبکہ اسکی بے ایمانی کو یہ کتابیں گنجایش ہی نہیں دیتی اور سب تا جنٹ کے ترجمہ اسکندری کو وہ کیوں دیکھے گا جب کہ سورج کو بری آنکھیں دیکھنے کو راضی ہی نہیں ہوتی ۔ لگن کے پھبن تو ہر طرف ضرور ہوتی مگرواقع بھی کچھ شے ہے جو صادقوں کا ایمان ٹھہرتا ہے۔
باب ۲۔ اس کتاب میں دانیال بنو خذر نذر شاہ بابل کا جواب فراموش شدہ جتا کر یوں تعبیر کرتا ہے کہ تصویر خوابی کا سرسو نے کا خود بنو خذ نذر ہے اور چھاتی میں دو باز بعد سلطنت ہی اور پیٹ میں دور انیں داخل اسکندر برنجی سلطنت ایشیاو یورپ کی ہے اور ہر دو ساقوں میں دوپہر ویں انگلیوں سمیت آہنی سلطنت روم غربی و شرمی کی ہےکہ جس کی انگلیاں کچھ مٹی کی اور کچھ لوہے کی لکھی ہیں (خط ٹف کی ان یورپ کی شکل پانون زانوزدہ کی) ۔ دس انگلیاں اس سلطنت کے شروع میں بالقوہ رہی میں مگر آخیر اسما ذیل میں با لفصل آئی ہیں یعنی ۱۔ فرانس۲۔ وندال ۳۔ وی ویز یگا تھ ۴۔ استرو گاتھ ۵۔ بلرڈی ۶۔ ہارونیر ۷۔ سوی۸۔الد۹۔ برگنڈی ۱۰۔ کپیڈی۔ دس سے مراد کامل سے بھی ہے جیسا کہ ایک موقع کہ تشریح کیا گیا ہے۔ رونا اور اٹلی بھی انہیں دس کے داخل دوسرے نام ہیں۔
باب 3۔ میں صدرق و میشاق و عبدہ نجوہ کے آ تش کدہ سے بچا لینے کا ذکر ہے جن کو ابن اللہ نے بچا لیا ۔
باب 4 میں بنو خد نذر کو بذریعہ خواب اور اسکی تعبیر کے اطلاع دی جات ہے کہ وہ سات برس تک دیونہ ہو کر ڈنگر وں میں رہیگا چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔
باب ۵ میں وست غیب بلشاذر نسل بنو خد نذر کو یہ جتاتا ہے کہ اس پر مادا و فارس کی سلطنت کو فوق بخشا گیا اس لیے کہ اس نے خدا کے حضور گستاخی بے جا کیل
باب۶ میں فرشتہ خدواند کا دانیال کو دبرونکے چنگل سے چھڑاتا ہے۔
باب ۷ میں باب ۲ کی خبر کو قالب دوسرا دیا گیا ہے او ر اس پر ضمیمہ چھڑایا گیا ہے۔ چنانچہ :
پہلا حیوان شیر عقاب کے پروں والا تو دہی طلائی سر سلطنت بابل کی ہے جو بطاقت شیرو سرعت عقاب اٹھے تھے ۔
دوسرا حیوان بہا لو تین پسلی منہہ میں لیے ہوئے فارس و مدیان و بابل کی مجموعی سلطنت ہے جو چاندی کی چھاتی اور بازو ں میں پہلے بھری گئی تھی اور بے رحمی کے سبب بھالو سے تشبیہ دی گئی اور جو حکم لم یزلی کا دعویٰ رکھتے تھے۔
تیسرا حیوان چیتا چار پروالا وہی اسکندر یونانی ہے جس کے چار جنرل تھے اور جو سکندر کی سلطنت بر نجی پیٹ میں دو رانوں سی مشبہ ہوئے تھے۔
چوتھا حیوان دس سینگا لوہے دانتا دہی روم کی سلطنت ہے کہ جس کی دس انگلیاں دس سنیگ ہو گئے اس لیے کہ انگلیاں اور سینگ استحکام کے نشان ہیں۔
اب ضمیمہ یہ چھڑایا گیا ہے کہ نبی رویت میں دیکھتا ہے کہ اس حیون کے منجملہ دس کے تین سینگ ٹو ٹ گئے اور بجا ئے ان کی ایک چھوٹا سینگ اوگا جس میں انکھیں بھری تھیں اور ایک بڑا بول بولنے والا منہہ اسے دیا گیا تھا جو زمان و زمانیں و نصف زمان تک مقدسوں سے لڑا اور ان پر غالب آیا جب تک کہ قدیم الایام نے ظہور نہ فرمایا۔ یہ چھوٹا سینگ عمدہ پوپی ہے جب وہ رونا ولمبر دی اور اٹلی کا بادشاہ بنا اور یہ تین ملک سلطنت روم سے بحکم فوکس قیصر کے اسے کاٹ کر دے گئے آنکھیں اس میں چتر ائی دینا کی ہیں جو قالب ِ دین کا لے کر بادشاہ دنیا بنا اور وہ بھول گیا جو خداوند مسیح نے فرمایا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اور بڑے بول اس کے دعویٰ لم یزی شرح بائبل دنیا بت مسیح کے ہیں ساتھ باطل شرح اور نا لیاقتی نیا بت کے(دیکھو مکاشفات کا باب ۱۱ سے ۱۹ تک ) ساعت نبوت بمقابلہ سا ل کے تو ایک زمانہ قلیل ہوتا ہےاور اگر بلا مقا بلہ ہو تو سالانہ دنوں کا سال ہوتا ہے یعنی ۳۶۰ سال اور دن جو بغیر صبح شام کے ہو توبمعنی سالکے آتاہی اور سالہ صبح شام کے ۲۴ گھنٹہ والا دن ہے یو ں ساڑھے تین زبان یا ساعت ۱۲۶۰ برس ہوتے ہیں اب ۴۱۰ میں فوکس قیصر نے یونفس یوپ کو یہ تین ملک اپنی سلطنت سے کاٹکر بخش دئیے تھے اور ۱۸۷۰ میں و کٹر عمانوائیل شاہ اٹلی نے یوپ کو ملکی حکمرانی سے بالکل خارج کر دیا اور جبر پوپ کاتوڑ ڈالا جو حکماً اپنا کلمہ پڑھاتا اور مقدس کشی کرتا تھا یوں قدیم الایام اور درسی مظلوم روحوں کے واسطے ظاہر ہو ااور جبر ظالم کے دانت کھٹے ہو گئے پوپ اور اس کی کونسل میں نہ تو الہام کی کچھ مدد ہے اور نہ عقل وام سے کچھ بڑھ کر تاہم ہم لم یزلی شرح اور بخشنے اور نہ بخشنے گناہوں کا اس کا کفر آمیزدعویٰ چلا ہی جاتا ہے کیونکہ نفس حق سے غرض نہیں رکھتا ۔
باب ۸ ، ۱۰ ، ۱۱، ۱۲ میں نشان و جال کلیسیا مسیح کی خبر ہے کہ جسیے کلیسیا سلف میں نشان ظاہر رہیں ۔ دانیال بعادت ماعود خود اس خبر کے درمیان وہ تسلی بھری خبر باب ۹ کی سڑ جائے۔ دن اس نشاناتی و جال کی صبح شام اس کا پیمانہ مقصر نہیں بلکہ پورا سالانہ دنوں کا دن ہے ۔
صاحب نشان اس دجال کا دراصل تو وہی پرانا خونی اژدھا ہے تاہم وہ منہ پھاڑتا ہے تو اس کے دو جباٹھرے پوپ اور بنی عرب کی تواریخ اپنے اندرمجسم دکھاتے ہیں چنانچہ یہ مراد آگے واضح ہو جائے گا ۔ نشان ہذا اینٹوکس انفپی میں بھرا گیا ہے جس کہ ۱۲۶۰ دن تو کمال شرارت کی تھی جب اس نے مقدسا بنی اسرا ئیل کو تہ تیغ بد دریغ کیا اور ہیکل الہی میں سوروں کی قربانی چڑھائی مگر کل ملا کر ۳۰۰ دن شرارت ا س کی تھی اور اس کے صاحب نشانوں میں بھی بہ پیمانہ کامل بھی صورت نظر آتی ہے۔
وہ جو بعضے اس بادشاہ تند چھر ہ عمیق باتوں سے ماہر مندرجہ باب ۸ ۔ اور بادشاہ نشان دا دہ در سلسلہ سلطنت یونان مندرجہ باب ۱۰ ،۱۱، ۱۲ سے محض بنی عرب مراد لیتے ہیں دو غلطیاں کرتے ہیں یعنی ایک قو دانیال کے طریقہ تکرار نبوتوں کا لحاظ نہیں فرماتے و دوئم سلطنت یونانی ک سلسلہ میں سلطنت رومی کو بھی لپیٹ ڈالتے ہیں ۔ نبی باب۸ کی نبوت کو حسب عادت خود نبوت باب ۱۰ وغیرہ میں مفصل ہی بیان کرتا ہے اور نبوت باب ۸ و باب ۱۰ وغیرہ کی سلسلہ تواریخ سلطنت تواریخ یونانی کو مطلق نہیں چھوڑتے پس یہ ہر دو خبریں واحد اینٹوکس اپفنی کی ہیں جو نشان ہوا ہے پوپ و محمد کا۔ چنانچہ دیکھئے۔
باب ۸ میں پتا اس نشاناتی دجا لکایوں دیا گیا ہےکہ جب فارس و مدیاں کے بادشاہ کو یونان کا بادشاہ مار لے گا تویونان کے بادشاہ کی جگہوں جار با د شاہتیں قائم ہو جائینگی اور ان چار کےاندر ایک چھوٹا سا سینگ پیدا ہو گا جس کی شرارت ورکل ۳۰۰ ۲ دن کے لیے ہوگی جس میں کلال شرارت کے دن ۱۲۴۰ ہو گے ۔ باب ۱۰ سے بغائت ۱۲ میں پھر مفصل پتا اس نشاناتی دجالکایوں لکھا ہے کہ پہلے اس کے ظہور سے فارس میں چار بادشاہ ہونگے چنانچہ ۱۔نکبیسؔ۲۔ پسید ؔو سمرس ۳۔ ار تیز کسیؔس ۴۔ دیر لؔیس ہشتا سپ ہو پانچواں دیر یس یا دارا دہی تھا جس کو الکسندریا اسکندر نے مار لیا۔ اسکندر کے مرنے پر لکھا ہے کہ چار بادشاہتیں ہو جائے گی چنانچہ ۱۔ یوناؔن ۲۔ ملک ایشیاؔ ۳۔ ایشیا کو چک کو مملکت شمالی کر کے مصبطلح کیا گیا ہے اور مصر کو جنوبی اور انہیں دو سے آیندہ مطلب ہو نے کا ہے اس لیے یونان و ملک ایشیا اکا ذکر آگے ترک ہوگیاہے۔ پھر لکھا ہے کہ شاہان شمال و جنوب میں نفاق عظیم رہے گا اور ایک شاہ جنوب شاہ شمال کو بد یں نیت و ختر دیگا کہ اپنی آل کو تخت نشین شمال کا کر دی مگر یہ مراد ا سکی بر نہ آئے گی چنانچہ یہ دختر بیر نس نامی تھی جس کی خاطر پہلے تو تالمی شاہ شمال نے لیو دیس اپنی پہلی بیگم کو نکال دیا مگر پھر جلد ہی لیودیس کو لے لیا اور بیر نس کو نکال دیا ۔
لیودس نے قابو پاکر ٹالیے اپنے شوہر کو زہر دے کر مار دیا اور لیوکس اپنے فرزند کو بجائے اس کے تخت نشین کر دیا تسپبیر ہرنس کے چچا نے جو مصر کا تخت نشین ہوا تھا انتقام کو چڑھائی کی اور لیو دس اور سلیو کس ہر دو کو قتل کیا اس جنگ میں شاہ جنوب ے حامی مقدس لوگ بھی ہو گئے تھے یعنی بنی اسرائیل جو خطاب مقدس گو اکثر ذلیل کرتے رہے ہیں اورخدا و ر خلقت کے ساتھ بغاوت ان کا ہمیشہ پیشہ رہا ہے اور اسلیے نظر شاہان شمالیں گھنونی آیندہ کو بنی رہے بعد اس کے تخت نشین شمال نے غلبہ جنوب کو دیکھ کر شاہ جزائر کو دختر دی تاکہ اسکی حمایت اور مدد حاصل کرے مگر وہ دختر خیر خواہ اپنے شو ہر کی بنے گی۔ یہ شاہ شمال نے چند جزائر اپنے داماد کے چھین لیے مگر اٹلی کے ایک مغرور جنرل نے پھر ان کو چھڑا لیا۔ والدہ کلیو پیڑہ اخر نراسی میں مر گیا اور اس کا فرزند بھی مر گیا اور اس کے پوتے کو اس شدنی غاصب نے کہ جسکی نشان دہی کے واسطے یہ سار ی نبوت تواریخی دریا درکوزہ ڈالا گیا یعنی انٹوکس اپفنی نے محروم تخت سے کر کے بجائے اس کے تخت نشین ہو گیا۔ برائے نام تو یہ اپنے باپ دادا کا مذہب رکھتا تھا لیکن درا صل مکاری اور خود غرضی صرف ا س کا مذہب تھا با ین درجہ کہ اس کے بڑے اس قدر اس مذہب سے واقف بھی نہ تھے آدھے ہفتہ تک سنے اپنی کمال بدی کے ایام میں دائمی قربانی ہیکل کی مقوف کر دی اور مقدسوں کو تہ تیغ بیدریغ کی ا ور جا سان جیسے نا پاکوں کو سر دار کاہن بنا کر سوروں کی نفرتی قربانی ہیکل الہی میں چڑھا ئی سا ڑھےتین ساعت یا ۱۲۴۰ دن یا آدھے ہفتے سالی ایام سے مراد ناقص زمانہ بھی ہیں کیونکہ سات جب کمال کا عدد ہے تو نصف اسکا نقص کا نشان ہو تاہم بھی عدد ساڑھے تین سال یا ساعت یا ۲۴۰ ۱ دن یا بیالیس مہینے کا جب کہ نبوت پوپ میں بھی مکاشفات کی کتاب میں آتا ہے تو خصوصیت اسکی غور طلب ہو جاتی ہے۔
لکھا ہے کہ یہ شریر عورات کی قید میں بھی نہ آتا تھا کیونکہ جن دّجالوں کا یہ نشان تھا وہ بھی بذریعہ طلاق و تجر کے ایسی قید بر خود روانہ رکھتی تھی۔ اس نشاناتی دجال میں تفریق ۲۳۰۰ دن کی اس ط چر لکھی ہے یعنی ۱۲۴۰۔ و۔ ۳، ۴۵ باقی ۹۶۵ بلا تفصیل جس کا جملہ دنو لکا چھ برس چار ماہ بیس ونکا ہوتا جو قریب ہفتہ کے ہو کر قریب الکمال کے معنی بناتا ہے اور کچھ اشارہ ان میں تفریق زمانوں اس ناپاک کا بھی ہے جس میں خاص خاص ناپاکیاں اسکے ظاہرہو گی اور آخیر کیڑے پڑ کر وہ مر گیا۔
غرض یہ ہر دونبوت یعنی باب ۸ اور ۱۰ الغیایت ۱۲ کی سلطنت یونانی میں نشان دئیے گئے ہیں اور مفصل کر کے انٹیوکس اپفنی پر انگشت دہرتے ہیں تو اس کو چھوڑ کو دوسرے کسی پر نہیں لگا سکتی ہاں پیمانہ زمانہ مقصر اور پورا کر کے پوپ اور محمد پر بھی یہ خبریں درست آتی ہیں اور شرح مکاشفات میں دکھلایا جائے گاکہ دین پوپی اور محمد ایک ہی اژدہا کے دو جباڑے ہیں لہذا انتوکس نشانی دجال آیندہ دجالوں مذکورہ کا صریح ہے۔
میں جو آخیر زمانہ میں ظہور اس نبوت کا لکھا ہی وہ آخیر کا نہیں بلکہ سلطنت یونانی کا ہے اور مکاشفات میں جو لکھا ہے کہ پھر زمانہ نہ ہو گا اس کی مراد بھی یہی ہے کہ دجالوں کی سلطنت کا زمانہ نہ ہو گا۔ یا جو جی ما جوجی بد عت صلح موعود کے بعد اٹھنے والی جو بعد ان دجالوں کے لکھی ہے وہ صلح موعود سےنیازمانہ نہ شروع کرتی ہے اور وہ بدعت کسی قالب مسیح میں اٹھ کر فی الفور آتش آسمانی سے صا ف ہوجانے والی ہے سلطنت بننی نہ پائے گی ۔ دانیال کو جو حکم ہے کہ آخر اس رویت کو وہ بعد وفات اپنی کے دیکھ لے گا اس کی مراد قیامت سے ہے جب نشان و صاحب نشان دجالوں کا زمانہ طے ہو ے گا۔
موقع اس نبوت اخیرکا یوں لکھا ہے کہ دانیال تین ہفتے تک د عا و نماز میں تھا کہ خدا تعالی فارس کے بادشاہ کے دل میں ڈالے کہ وہ بنی اسرائیل کو قید سے رہا کر دے جو بنو خذرج شاہ بابل نے قید کئے تھے تاکہ وہ یرو شالم کو پھر کر آباد کر لیں یہ تھی وہ لڑائی تین ہفتے کی جو میکائل کلیسیا سلف کے فرشتے اور فارس کےفرشتے کے درمیان تھی۔ مکائل اس جنگ میں غالب آیا یعنی بادشاہ فارس نے نبی اسرائیل کو رہا کر دیا مگر خدا نے فارس سے بد تر د جالوں کی دانیال کو خبر دی جو آنے والی تھی۔
میں وہی جبر ا ئیل فرشتہ جو مریم کے پاس بھیجا گیا تاھ دانیال کے پاس بھی بھیجا گیا جو اسے جتاتا ہے کہ یرو شالم کے پھر کر بنانے کا حکم نکلنے سے ستر ہفتے کے اندر مسیح منجی حقیقی آئے گا اور و بات اور نبوتوں کے موافق اور وں کے لیے مارا جائے گا ۔
اور آخیر ہفتے ان ستر ہفتوں میں تعلیم و تکمیل کفارہ در نصفا نصف فرمائے گا اور پھر بھی اس پر ایمان نہ لائے گا وہ جی اٹھ کر اس سےانتقام لے گا۔
موقع اس نبوت کا یہ لکھا ہے کہ ستر سال خاتمہ نبوت یرمیا کے قریب جن میں قید نبی اسرائیل بد ست بابل کا حکم تھا دانیال دعا کرنے گیا کہ رہائی بخشی جائے اور بسبب جدید گناہان بنی اسرائیل کے وہ قید مزید نہ ہو جائے خدا نے وہ دعا اس کی قبول فرمائی اورچونکہ دانیال خدا کی نظر وں میں عزیز تھا یہ بھی فرما دیا کہ حقیقی رہائی یہ نہیں جو قید بائبل سے وہ حاصل کر ے گے بلکہ اس کے لیے ستر ہفتے سالوں کے اور چاہیں سو بھی یرو شالم کے پھر کر بنانے کا فرمان نکلنے سے جن میں سا ت ہفتے یرو شالم کی تعمیر کو لگین گے اور باسٹھ ہفتے درمیانی وقفہ ظہور باقی نبوتوں کے ہیں اور آخر کا ہفتہ تکمیل و تعلیم و کفارہ مسیح کا ہے۔ جنہیں مسیح کا اپنا کچھ نہ تھا۔ یعنی وہ نیجطا دوسروں کے خطاؤں کے واسطے قدس القدس ہو کر مار ا جائے گا ۔ عذرا اور نحمیا کی کتابوں مین کفیت اس حکم کی پڑھ کر دیکھو جو تعمیر کرنے پر یروشلیم کی بابت یوں لکھی ہے کہ اس مقدسہ میں پہلے تو ساس نے اجازت دیدی تھی مگر وہ حکم بوجہ فساد باہمی بنی اسرائیل کے بے عمل رہ گیا تھا اور دوسرے ایک حکم سارس میں ظروف ہیکل الہی کے ملنے کی اجازت بھی ہو گئی تھی یہ حکم بھی گویا اجازت بھی ہو گئی تھی یہ حکم بھی گویا اجازتی تعمیر یرو شلیم کا تھامگر عمل اس کا بھی مروہ ہی رہا بعد سارس کے بہمن دراز دست نے دو حکم نافذ کئے یعنی ایک تو سلطنت کے ساتویں سال میں اور دوسرا بیسویں سال میں انمین کا آخیر حکم پورا تعمیل پایا اور یہ حکم اس نبوت سے ۸۱ سال بعد نافذ ہوا تھا جس سے مسیح خداوند کے جی اُ ٹھے تک ستر ہفتے ہفتے یعنی ۴۹۰ برس پورے ہوتے ہیں بحساب قمری تین یوم کے مہینے کے جو طریقہ شمار بنی اسرائیل کا رہا ہے۔ سرا یزک نیوٹن حکیم ساتویں سال سلطنت بہمن سے حساب شمسی بھی پورا کر دیتا ہے شاید بدیں خیال کہ اہل فارس حساب شمسی ہی رکھتے تھے اور اصل حکم ساتویں ہی سا ل کا تھا کہ جس کی تاکید بیسویں سال میں ہوئی اور یہ ایک عجوبہ مشیتی ہے کہ شمسی اور قمری ہر دو حساب پورےایک ہی نبوتیں ہو جائیں ۔ مسیحی تعلیم و تکمیل کفارہ کی بابت جو آخیر ہفتہ نصفاً کیا گیا ہے نصف اس کا یحییٰ کی منادی کا ہے اور نصف باقی ظہور مسیح بمنصب مسیح کا ہے کہ جس میں اس نے ذلتیں اُٹھائیں اور کفارہ ادا کیا یحییٰ صرف مسیح کی منادی کرتا تھا لہذا اس کی تعلیم مسیح کی تعلیم متصور ہوئی ہے۔
برباد ی یرو شلیم کی خبر بعد اس آباد ی کے تضمینی خبر ہے کہ جو مسیح کو نمانینگے ان سے وہ جی اُٹھ کر انہیں کی معرفت بدلہ لے گا جن کے وسیلہ انہوں نے مسیح کو صلیب دلوایا تھا اور اس لیے کہ یہ خبر تضمینی ہے ستر کے داخل نہیں اور مطابق اس خبر تضمینی کے بنی اسرائیل افا ت توراتی میں ماخوذ ہیں کہ ان کا نہ کوئی خاص ملک رہا اور نہ ملکیت اور لعنتی یہودی ان کے ضرب المثل ہو رہی ہے یرو شلیم ان کا اجاڑہ گیا اور قربانیاں ان کی مردود ٹھی گئیں اور جیسے وہ وہ پہلے نیک کاموں کے لیے چنے گئے تھے اب ضرب المثلی لغت کے واسطے رہ گئے ہیں اس لیے کہ انہوں نے مسیح موعود کو نہ مانا۔
اگر آنا مسیح کا صرف بنی اسرائیل یا یہودی کے واسطے ہوتا تو ان کی شرارت بے پایاں کے واسطے ممکن تھا کہ مسیح کا وقت ظہور وقت معینہ پر ٹل جائے جاتا مگر وہ نجات ِ عامہ کے لیے لہذا ٹل نہیں سکتا تھا پس اب انتظاردوسرے مسیح کا دراصل انتظار دجال مسیح کا ہے کہ جیسے چورو بٹ مار پہلے خداوند سے آئے تھے جن کا ذکر گما لیل پانچویں باب اعمال میں کرتا ہے اور چند بعد خداوند کے آئے جس کا ذکر یوسفیس نے تواریح بربادی یرو شلیم از دست رومیان میں لکھا ہے۔
فصل دہم
درخلاصہ و شرح من ہلو شلیع تا ملاخی
دفعہ ۲۰ ۔
ان صحیفوں میں ذکر یا نبی کا صحیفہ سب سے بڑا اور مشکل ہے اسلیے ہم اسکو اول لیتے ہیں اور بعد اس کے علی الترتیب انشا اللہ ذکر کر ے گے مگر حسب ضرورت۔
دفعہ ۲۱۔
ذکریا خبر دیتا ہے کہ تعمیر یرو شلیم میں غیر قوم بھی شامل ہو گے یہ اشارہ ہے اس امر پر کہ عنقریب دوئی دور ہونے والی ہی نفظی معنوں میں ہیرو دنی بھی کچھ خبر ہیکل کا تعمیر کی تھا جو اصل کا غیر قوم آدمی ہی تھا۔
پھرلکھا ہے کہ شاخ تنہ داؤدی کی سات آنکھوں والا پتھر ہیکل ہو گا ۔ یعنی مسیح دانا و بینا چٹان کلیسیا ہے ۔
پھرلکھا ہےکہ غیرت دور ہوکر سب کوئی ہمسایہ بن جائے گا ۔ یعنی مسیح میں قوم اور غیر قوم کوئی نہ رہے گا سب ایک ہو جائے گا ۔ زور بابل شہزدہ یہودا ور یہود شفقت سردار کاہن زیتون روغن بخش چراغ کلیسیا یا ہیکل ثانی کے قرار پائی ہیں نشانات مسیح قائم رکھنے کو جب تک کہ مسیح صاحب نشان انکا ظا ہر ہو۔
پر لکھا ہے کہ طومار نعتھا سے بھرا ہوا دس ہاتھ چوڑا اور دس ہاتھ لبنا اور پھواسے دو گنا نظر آیا اور ایک عورت جس کے منہہ پر سکہ دھرا تھا پیمانہ میں بند و کہائی دی اور دو عورتیں اور نظر آئیں جو اس پہلی سیر یا اور بابل میں لے بڑے مراد یہ ہے کہ جو شرارت مخالفت تعمیر ہیکل کی کرتی تھی اور سیر یا اور بابل نے بھیجی تھی بند فرمائی گئی اور دس بیس گنی ہو کر وہ لعنتیں جدھر سے آئے تھے اُنہی پر جا پڑی اور انہوں نے سیر یا اور بابل کو خراب کر ڈالا۔
پھر چار گاڑیاں کولے گھوڑوں کی شمال کو گئی یعنی بابل میں ماتم ڈالنے کو پھنکنے رنگ لگنے کی جنوب کو گئی یعنی مصر میں بے فرگی پھیلا نے کو لال رنگ کی سمت دنیا میں گئی یعنی تلوار چلانے کو اور سب سے بعد سفید گھوڑوں کی نمو دار ہوئی یعنی مسیح فتح و امن دکھانے کوتبدیلی عہدہ کھانت کے ملک صدق کی صف میں خبر دی گئی ہے کہ جس کے آگے تاج نذر آندو ں کے گذر ینگے ۔ یہ ابدی کاہن سچائی کا بادشاہ سلامتی کا تحت نشین مسیح خداوند ہے کہ جس نے پر دہ راز صندوق عہد کو اپنی موت میں کھولدیا۔
یروشلیم میں منا دی کی جاتی ہے کہ تیرا بادشاہ جوان گدھے کا سوار ہوکر آتا ہے یعنی مسیح جو جنگ کے گھوڑے پر نہیں بلکہ بربادی کے گدھے پر سوار ہوکر ظاہر ہوا جو گھوڑوں اور گدھوں کا یکساں مالک ہے۔
خداوند بقالب ذکریا آ کر نبی اسرائیل سے پوچھتا ہے کہ پہلے میں نے تین چرواہے ایک مہینے کے واسطے تمہارے سبب نثار کئے اب میں پھر رحم کروں گا تو بھلا اب بتاو کہ میری بھلائی اور محبت کی چر والگی کا کیا صلہ دو گے ۔ یعنی قید بابل کے وقت تمہاری شراکت کے سبب مینے تیس سا ل تک بادشاہ اور کا ہن اور نبی موقوف کئے اور اب میں پھر رحم کرنے پر ہوں اس کا صلہ کیا دو گے ۔ اس کے جواب میں ان کے روحوں نے عالم علم الہی میں بولا کہ تیس ٹکڑے چاندی کی دین گے ( یہ وہی تیس روپیہ ہیں جن کے بدلے خداوندکو صلیب دینے کی لئی خریدا ) خداوند نے سن کر فرمایا کیا خوب انکو کہمار کے آنے پر ڈال دو( جس نے کہمار کا آوا گور غریبوں کے واسطے خرایدا گیا تھا) اور ایسے نا شکری گلہ کو مکار بھیڑ یوں کے حوالہ کر دے کہ ان کو تباہ کریں جب تک رحم کا وقت پھر کر نہ آئے کہ جب ان کا ضیعف داؤد خداوند کی مانند ہو جائے گا یعنی نا طاقت زور پالے گا اور زور آور بہت ہی زور آور ہو جائے گا جبکہ جنھوں نےمجھے چھیدا ہے مجھ پر نظر کرے گے اور ماتم کے ساتھ تائب ہو گے۔
پھر اسے رویت میں خداوند سے سوال ہوتا ہے کہ تیرے ہاتھوں میں زخم کیسے میں اس نے فرمایا کہ دوستوں کے گہر میں زخمی ہوا تھا یعنی صلیب کے میخوں کے زخم ہیں جو اپنوں نے کرائے۔ اس موقع پر خدا باپ لشکروں کا خدا بولا کہ اُٹھ اے تلوار میرے چرواہے اور چرواہے اور میرے مسادی پر چرواہوں کو ماراں اور بھڑیں تتر بتر ہوں مگر میں اپنے بچوں کو ہاتھ دے کر بچا وں گا دو ثلث کٹ جائے اور ایک ثلث تایا جائے گا اور تب حقیقی یرو شلیم آباد ہوگا یعنی مسیح پر جب تلوار اٹھے گی شاگرد اِسے چھوڑ جائے گے اور تھوڑے ہی آتش امتحان سے تاے جا کر بچینگے اور ان سے تعمیر کلیسیا کی شروع ہوگی۔
دفعہ ۲۲۔
ہو شیع نبی بےد ینوں بنی اسرائیل میں شادی کر کے محبت قرابت کے ساتھ غیرت خدا ان کے سا مہنے رکھتا اور چھنا لہ تب پرستی سے ان کو روکتا ہے۔
دفعہ ۲۳۔
یوئیل نبی نازل ہونے روح قدوس کے بروز نیتکوسٹ خبر دیتا ہے کہ جس روز آفتاب و مہتاب و ستارے بنی اسرائیل کے یعنی نمودار لوگ کلیسیا سلف کے مبدل ہو جائے گے چنانچہ ایساہی ہوا۔
دفعہ ۲۴۔
عبید یا فرقہ ایدامی کی نفرت بنی اسرائیل پر نفرین کرتا ہے اور اس کی خرابی کی خبر دیتا ہے اورصیحون میں مسیح کے داخل ہونے کی پیشن گوئی کرتا ہے۔
دفعہ ۲۵۔
یونس ننوا کے گنہگاروں میں جو غیر قوم تھے تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہ کر اور تیسرے دن اس سے زندہ نکل کر مسیح کے تین دن قبر میں رہ کر جی اٹھنے کی نبوت کرتا اور رحم خداوندی کی طرف رجوع لوا کر قہر الہی سے انہیں بچاتا ہے ۔
مکر شرارت پر ننوا ئی ناحوم کی نبوت کے مطابق برباد کئے گئے کیونکہ شرارت کی برداشت ہمیشہ کو نہ ہو گی۔
دفعہ ۲۶ ۔
میکاہ نبی یرشلیم کی بربادی بوجہ شرارت یہود اور مکرر آبادی برائے آمد مسیح کی خبر دیتا ہے بیت الحم افراط جائے تولد مسیح اعلان کرتا ہے اور انصا ف و محبت با رحم و فروتنی میں کل فرائض انسانی منقش نجلقت بتاتا۔
دفعہ ۲۷۔
حبقق درفنا یا بنی اسرائیل کی قید بابل اور پھر اس سے رہائی کی خبر دیتے ہیں۔
دفعہ ۲۸۔
حجی نبی یہو د کو تعمیر ہیکل جیسے کیسی کی ترغیب یہ کہ کر دیتا ہے۔ کہ اس کو بمقابلہ تعمیر سلیمانی کی حقیر نہ جانو کیونکہ خواہش گروہوں کی اس میں داخل ہوگی یعنی مسیح کہ جس کے سبب شان اس کی پہلے سے بڑہ جائگی ۔ ہیرود نے اس پچھلے ہیکل کوئی ایزادی اور مرمت ضرور کی تھی لیکن اس سے تیسرا ہیکل کوئی نہیں بنا بلکہ یہ صرف ایزادی اورممت ہی متصور ہے اور نہ ایجاد ی۔
دفعہ ۲۹۔
ملاخی الیاس کو پیشترو مسیح بیان کرتا ہے جو نبوت یحییٰ بپتسمہٰ دینے والے میں پورے ہوئے جو الیاس کی مانند آزاد متس دلیر قانع جنگل باش اور پاک آدمی تھا الیاس بہی موسیٰ کے ساتھ مسیح ملنے آیا تھا مگر یہ پیشتر وی صرف تشبہیہ ہی الیا س میں ہے۔ اور نہ خود الیاس میں۔
خلاصہ
جو صورت باب اول کتاب ہذا کی تھی سو ہی حال باب دوسے کا ہے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے باب میں نشاناتی نبوتیں زیادہ تہہ اور اس میں لفظی زیادہ ہیں کیونکہ نشانوں کے لفظوں ہی میں تعبیر ہوتی ہے۔ اب آگے انجیل تکمیل نبوتوں سے بھری ہے مگر آنکھیں خدا سے ملی ہیں نفسانیت سے مطلق نہیں۔
باب چہارم
در خلاصہ و شرح انجیل عہد جدید
فصل اول
درخلاصہ و شرح اناجیل ابرلع بقدر احتیاج
تمحید۔ ۱۔ متی ۲۔ مرقس ۳۔ لوقا اور یوحنا چار گواہ تکمیل نبوتوں عہد عتیق کے برحال و قال خداوند مسیح کے چنے گئے تھے اور ان کی گواہی نہ تو اس قدر متفق اللفظ ہے کہ ایک دوسرے کی نقل شمار ہو اور نہ اس قدر مختلف کہ ایک دوسرے کا بطلان کرے۔ گواہی دوست ہی دیا کرتے ہیں مگر نہ معلوم کہ اگر یہ جھوٹھے تھے تو جھوٹھ بول کر انہوں نے کیا کمایابخر خرابی دارین کے اور اگر دیوانے تھے تو ان کا جنون کیونکہ متفق ہوا اور کیونکر دنیاوی طاقتوں پر غالب آیا سب سے پیارا اکیلا یوحنا ہی ان میں تھا باقی عامی فرزند وں کی مانند تہا اور مرقس اور لوقامنزلہ پوتے شاگردوں ہی کے تھے لہذا منصوبہ گواہی بھی ان میں بڑے بھروسہ پر منحصر نہ تھا ۔ گواہی ان کی ان کے عصر سے عام میلہ بنی ہوئی اور دوست و دشمن کو ان کے پرکھنے کی کامل فرصت رہی ہے۔ اور گواہی ان کی صاف ہے متحاھ شرح کی نہیں اور اس میں تکمیل نبوتوں سلف کی جزا عظم رکھا گیا تا ہم ہم چند مقامات کی شرح کرنے مناسب سوچتے ہیں کیونکہ وہ غور طلب ہیں اور کلید ما بقی مضامین کے بنتے ہیں بعون حق ۔
دفعہ ۳۰۔
متی اور لوقا کے نسب ناموں مسیح میں داؤد تک تو نام مورثان اعلیٰ میں اختلاف ہے باقی اتفاق ۔ لوقا نے متی سے انجیل اپنی بعد میں لکھی ہے اور لوقا اپنے دیباجہ میں بر تحیر اصلیت ایما کرتا ہے اور یہ بھی کہتا کہ وہ باجائے قلم ہی اس انجیل کا لکھنے والا ہے دراصل در پر دہ اس کا لکھا نے والا کوئی اور ہے یعنی پولوس مقدس جسکا ہم خدمت کا رکدا میں وہ ہمیشہ رہا ہے جیسے مرقس پطرس کا ہم خدمت تھا۔( انجیل سے مریم کو کوئی بھاحقیقی ہونا ثابت نہیں ہوتا اور تورات میں ایسا لکھا کہ جس یہودی کے فرزند نرینہ نہ ہو اس کا داماد بجائے فرزندان قائم ہو سکتا ہے یہ ہی اصلیت لوقا کی نسب نامہ کی کہ وہ مریم کا نسب نامہ بنام یوسف شوہر اس کے لکھتا ہے جب کہ متی نے یوسف ہی کا نسب نامہ حسب رواج میں لکھا تھا۔ اگر یہی تمیز جو اوپر بیان ہوئی صحیح نہ ہوتی تو دو ایسے مخالف نامے نسب نامے مخالفوں ہمعصر کے اعتراض سے کیونکر بچ سکتے تھے)معترض ہمارے اس شرح کو قیاسی گو بتائے مگر اس شرح کو سنکر اعتراض بھی وہ نہیں کر سکتا تا وقت یہ کہ مریم کا حقیقی بھائی کس کو ثابت نہ کرے۔ ایک مریم عمران کی دختر موسیٰ اور ہارون کی بہن بھی مریم والدہ مسیح سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے تھے سواگر کوئی قرآن کے دھو کھے خوری پر مریم والدہ مسیح کو دخرت عمران و ہمشرہ ہارون مان لے تو اس کو اختیار رہے مگر انجیل یا کسی کتاب ہمعصر انجیل سے مریم کا کوئی حقیقی بھائی ثابت کرنا اسے محال ہو گا۔
ازانجا کہ متی کا نسب نا مہ صرف رواجی ہے اور اصلی نہیں متی اس لیے وجہ بی بعض اسماء چھوڑ جانے ک نہیں دیتا جو غالباً یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں بعض گناہوں کے سببب نام منقطع کر دیا جاتا تھا اور یوں بغیر نام کے عدد بنا رہتا تھا اور اس لیے متی نسب نامہ کو آدم تک بھی نہیں پہنچا یا جس کو لوقا خداکا بیٹا بوجہ علاقہ بفرز ند اکبری لکھتا ہے۔
دفعہ ۳۱۔
خداوند مسیح کبھی تو فرماتا ہے کہ کون تم میں سے مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے اور کبھی فرماتا کہ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو میرے کاموں ہی پر ایمان لاؤ۔ ان دو فرمانوں میں خداوند یہ اصول قائم فرماتا ہے کہ پا کی تعلیم کے ساتھ تصدیق معجزہ کی حجت قاطع الہام کے لیے بن جاتی ہے کہ جس کا انکار روا نہیں ہو سکتا۔
اب پاکی تعلیم خداوند ی کا حال تو یہ ہے کہ مخا لف ہر قالب میں باربار سارا زور اپنا لگا چکا ہے۔ کہ کچھ بطلان اس کا کرے مگر خود ہی باطل ثابت ہوا اور آیندہ جب چاہے پھر آزما کر دیکھے اور ثبوت عامہ معجزات مسیح کے بارہ میں آرچ بشب و ہٹپلی صاحب سچ کہتا کہ جب کہ تعلیمات مسیح ادراک فلاسفی سے بھی بعض باہر میں مثلاً تعلیم تثلیث فی التوحید و منصوبہ کفارہ وجنت معراّ از لذات جسمانی وغیرہ اور پھر ہر طرح کی مخالفت جسمانی شیطانی اور دنیا وں میں یہ دین یکا یک قائم ہوا ہے سوا گر معجزات مندرجہ انجیل سیح نہ تھے تو غرور پاکی یہودیان و عقل یونانیان و شجاعت رومیان پر غالب آنا اس کا خود ہی سب سے بڑا معجزہ ہے کیونکہ محمدی تلوار اس دین کے ہاتھ میں نہ تھی اور نہ شراب و کباب حورو قصور جنت کا لالچ اس میں کچھ تھا اور نہ خوشامد کسی دوسرے مذہب کی اس کے داخل آئی اور نہ عقل دنیا وی اس کی کچھ بنیاد ٹھری اور نہ تدریج اس کی تعلمیات کے منانی میں کارگر ہوئی جیسے صدیوں کی غلطیاں جمع ہوئی ہوتی ہیں پس قائم ہونا اس کا درخود ایک سب سے بڑا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔
مسیح کا قبر سے تیسرے دن جی اُٹھنا ایک اور بھی عجوبہ معجزہ ہے اس لیے کہ اس کا فاعل بھی خود کے کوئی دوسرا بر وقت اس معجزے کے ظاہر نہیں ہوا۔ دلایل اس کے ثبوت کے ذیل میں ہیں یعنی ۔
اوّل۔فرض کریں کہ گواہ اس معجزے کے فریب دہندہ لوگ تھے تو سوال یہ لازم آتا کہ ا س فریب دہی میں اُنہوں نے کیا حاصل کِیا کَیا فریب دہی وسیلہ عاقبت بخیری کا بھی ہو سکتا ہے اور کیا دنیا میں سوائے ہر طرح کی ذلت اور خانہ خرابی اور خوفناک موت کے کچھ اور بھی انہوں نے حاصل کیا۔ مخالف جب تک اس فریب دہی کا نفع دنیا وی یا دینی نہ بتا سکے فریب دہندہ ان کو نہیں کہہ سکتا۔
دوئم۔فرض کرو کہ وہ فریب مجزوب تھے تو سوال یہ ہے کہ جنون بہتوں کے میں اتفاق کیونکر ممکن ہوا اور اگر ہوکا انکو ہو ا تو اصل اس دھو کھے کی کیا تھی کیونکہ بدون کچھ اسل کے دہو کہ محال ہے۔
سوئم۔ کیا کوئی فریب دہندہ خوردہ اپنے منصوبہ کو ایسا کچا بھی باندھتا ہے کہ اس میں مخالف کو شبہ کرنے کی گنجایش مل جائے اور پھر یہ کیا جو کاتبان اناجیل معانیہ قیامت مسیح پر حوالہ گواہی کسی مخالف کا نہیں دیتے اور حفاظت قبر مسیح کی مخالفان سے عین وقت قبر میں رکھنے مسیح سے نہیں بیان کرتے بلکہ دوسرے دن کی فجر سے۔
چہارم۔ اگر فرض کیا جائے کہ قیامت مسیح ایک معاملہ رائے کا تھا اور واقع کا نہ تھا سوال یہ ہے کہ بجائے رائے کے واقع کامیلہ یاد گار کیونکر نہ گیا جو ہراتوار کو اسی واقع کا میلہ سارے مسیحوں دنیامیں قائم و دائم چلا آتا ہے اور اگر یہی فرض واقع تھا تو اس پر اتفاق بلا اختلاف کیونکر شروع سے ہوا۔
پنجم۔یہودیوں نے بلا اطیمنان حفاظت قبر مسیح کی کیونکر اپنے ذمہ کے لی اور کس لیے گم شدہ لاش کو یہود یوں اور رومیوں نے برامد نہ کرایا۔
یوں یہ قیامت مسیح برہان قاطع و حجت ساطع در خود رکھتی ہے۔خداوند نے ایسے شریر وں کو جو ادھر تو آسمانی قدرت کے معجزات زمین پر دیکھتے تھے اور پھر آسمانی نشان طلب کرتے تھے واجباً دکھانے معجزات سے آیندہ کے لیے انکار فرمایا اور جو اس کے قتل کے ناحق پیرو تھے ان سے کہا کہ آیندہ کے لیے انکار فرمایا اور جو اسے قتل کے ناحق پیرو تھے ان سے کہا کہ آپندہ زمینے معجزہ بھی انکو صرف یونس کے معاملہ کا سا دکھایا جائے گا کہ جن آنکھوں سے وہ یونس کا مچھلی سے پیٹ سے زندہ نکل آنا دیکھتے ہیں انہیں آنکھوں سے مسیح کا قبر جی اٹھنا دیکھیں گے تاکہ انکو غرض ہو تو ایمان لائیں مگر خداوند کو غرض انکی ترغیب دہی کی آیندہ نہ ہو گی ۔
معجزات کا ہجوم اتنا تھا کہ خدا وند بعض اوقات انکی چر چا کو بھی منع فرماتا تھا اسلیے کہ چرچا اس کے اصلی کام نجات بخشی میں ہارج ہوتے تھے اور تعلیم دہی میں روکتے تھے اور اگر شیطان کو یہ معلوم ہوتاکہ موت مسیحی فتح ابدی رحم الہی کی کنجی ہے تو حتی المقدور اسے وہ مرنے بھی نہ دیتا۔
دفعہ ۳۲۔
مسیح خداوند کو درخود ختنہ اور بپتسمہ کی حاجت مطلق نہ تھی لیکن پنٹیکوسٹ کی دن تک نئی شرع مسیحی کی اجرا کی تیاری ہی ہوتی تھی لہذا پرانے کی حفاظت ضرور تھی۔ پینتیکوست یعنی نزول روح قدس بر حواریان کے دن آفتاب و مہتاب و ستارےکلیسیا سلف کے زوال پال گئے اور آفتاب صداقت چمک آیا اور جو جوٹھ موٹھ کی روشنی بنی اسرائیل میں بعد پینتیکوست کے باقی رہے بھی تھے وہ بربادی یروشیم ازد ست رومیان میں تمام ہو گئی۔
تیری اظہار شریعت مسیح کے واسطے معلم اول درکار تھے اور بنی اسرائیل سے بہتر معلم اس معاملہ میں دوسرے ہو نہیں سکتے تھے ا سلیے نبوتوں کے پہلے سے امسانتدار وہی لوگ ہی تھے یہ سبب تھا کہ خداوند نے اپنی رسالت کو اول مختص بہ بنی اسرائیل کیا تھا اور جب یہ حاجت رفع ہو گئی تو یہ قید خصوصیت کی بھی دور فرمائی گئی ۔ بمقابلہ فرزندان بنی اسرائیل کے دو سروں کوخداوند نے کتابہی فرمایا ہے مگر ایسے ہی وہ فرزند ہیں کہ جن میں سے بہت سے جنم کے وارث ہوئے اور ایسے ہی وہ کتے ہیں کہ جن میں سے پورب اور پچھم اوتر دکھن سے ابراہام کی گود اور جنت میں ابد کے لیے داخل ہوگے اور ہوئے غرض کہ یہ خطاب فرزندی قدوسی و بر گزیدگی اور کتے وغیرہ سب فانی ہی تھےباقی ایمان اور بے ایمان متعلق عقبیٰ ہی کے ہے۔
دفعہ ۳۳۔
یحییٰ باوجود واقف ہونے کے مسیح کا اقرار اسکے دعویٰ ہونے مسیح موعود واقف ہونے کے مسیح کا اقرار اسکے دعویٰ ہونے مسیح موعود کا چاہتا ہے اس لیے کہ بدون دعویٰ تسلیم دعویٰ بھیجا ہے اور مسیح بحوالہ تکمیل نبوت اشعیا و معجزات و تعلیمات اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے ۔خداوند قدما میں یحییٰ کو سب بڑا نبی بحجت علم نبوت سلف کے فرماتا ہے اور اُخرا میں سب سے چھوٹے کو بھی اس سے بڑا اس لیے فرماتا وہ تکمیل نبوت سے بھی آگاہ ہے۔
دفعہ ۳۴۔
خداوند ایسے معجزات کے تکذیب کو جو مصدق پاک تعلیمات کی ہو ں روح القدس کے بر خلاف گناہ قائم فرماتا ہے کہ جس کی معانی دارین میں ممنوع فرمائی گئی۔
دفعہ ۳۵۔
متی کے باب ۱۷ میں جو خداوند نے فرمایا کہ دیو دن پلید روحوں کے نکالنے کا ایمان زہدو نماز بدون کا ر گر نہیں ہوتا۔ یہاں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ بخش خوس جڑ اعمال نیک کی ہے ۔ مرقس کے باب ۱۶ میں جو ایمان یک جا کر دئے گئے ہیں اسکی وجہ یہ کہ شاگردان خداوند نے جب معجزہ قیامت خداوند کے ماننے میں کمزوری دکھائے تو بعد تنبیہ پدری کے ان کی ایمان کو تقیویت بخشی بھی مناسب نظر آئی لہذا بمعرفت خاص حواریان یہ وعدہ عام ہوگیا کہ ایماندار کو طاقت معجزئی بھی روح قدس سے ملے گی اسی کے مطابق ہے کہ یحییٰ کے شاگردوں کو روح نہ ملی تھی جب تک حواریوں نے انکے سر پر ہاتھ نہ رکھے تھے اور کرنتھیوں کے خط میں پولوس حواری حوالہ دیتا ہے کہ تھوڑا بہت ایک نہ ایک قسم کا معجزہ سب مومن اس لے زمانہ میں کر سکتے تھے۔
ایمان معجزہ بخش تو بمعرفت خاص حواریان ہی کے ملتاتھا مگر بخش کی بابت یہ حکم ہے کہ جہنم کے پہاٹک اسے کبھی بند نہ کر سکیں گے یعنی کبھی وہ موقوف نہ ہوگا ار نہ ایسا کوئی زمانہ آئے گا کہ جب سارے جہنمی ہی ہو جائے گو کالعدم سا ان کا عدد ہو جائے جو مومن جنتی ہوگے۔
دفعہ ۳۲ ۔
خداوند نے پطرس کے اس اقرار پر کہ اسے خداوند کوزندہ خدا کا بیٹا کہا فرمایا کہ اے پطرس تجھے میں کلیسا کی چٹان بناؤ گا اور تیرا کھولنا اور باندھنا زمین پر آسمان پر منظور ہوگا اور تجھے آسمان کی کنجیاں عطا ہونگی کہ جس کے گناہ تو بخشے جائیں اور جس کے نہ بخشے جائیں ۔ الفا ظ بالاکا مطلب صاف صاف یہ ہےکہ پطرس کلسیا مسیح کی بنیاد کا پتھر ہوگا جسکے کو نے کا پتھر خود خداوند ہے اور بمعرفت پطرس جز انجیل بمعرض تحریر آئے گا جو قانون کھولنے اور باندھنے اور بخشنے اور نہ بخشنے گناہان کا ہے اور یہ کنجی آسمانی بھی انجیل ہی ہے اور نہ یہ معنی اس کے ہیں کہ پطرس کو شریک خد ا فرمایا گیا تھا اور پھر عطیات بالا مختص بہ پطرس بھی نہ تھے بلکہ کل حواریاس معاملہ میں یکساں ہیں بلکی بعض امور میں دوسرے شاگرد بھی شامل ہیں جیسے لوقا و مرقس جنکی معرفت انجیل کے اجزا باقاعدہ تحریر ہے پطرس بسبب کلانی عمراور سادگی طبع کے مخالف و مخاطب الیہ خداوند سے تو اکژ ہوتا تھا اور یہ اسکی کلانی پر ایما ضرور ہے مگر یہ معاملہ ایسا نہیں کہ باپ مرنے والا ہو اور فرزند کلان اسکا جانشین ہونے والا بلکہ یہاں تو دائم زندہ قادر و عالم صاحب ارادہ کامل کے سب مسیحی بیٹے پوتے ہیں کہ جس میں شریک وارث تو سب ہیں مگر تخت حکومت باپ ہی کوحاصل ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ۔ پطرس جیسا بڑا تھا یوحنا ویسا ہی پیارا تھا اور پولوس ویسا ہی شجاع اور عقیل بیٹا تھا یہودا اسکریوتی ناخلف بھی ان میں تھا جو قائن کی خور رکھ کر پولوس کو بجائے خود اٹھا گیا غرض کہ اس پاک کف میں بھی سر رشتہ دنیا نظر آتا ہے کہ ہر رنگ موجود ہے۔
رومن کتھولک کس قدر غلطی اپنی غرض پرستی کے لیے کرتے ہیں جو پطرس کو جانشین مسیح کا بنا کر پوپ کو جانشین پطرس کا بناتے ہیں ۔ خداوند مسیح کہاں گیاہے۔ جو اس کو پطرس کی حاجت ہواور اگر نشان مر ئی کا یہ حساب ہے تو اس کے کیا معنی ہیں جوخداوند فرماتا ہے کہ میرا جانا ہی بھلا ہے تاکہ روح قدس آئے کیا بھلائی اس میں تھی کیا یہی نہیں کہ وجود مرئی محدود ہر ایک بشر کی پہنچے لائق نہیں تو پھر محدوس پطرس کیونکر سبکو بھیج سکتا تھا اور پوپ کجا ۔ اصل بات تویہ ہےکہ غرض نفانی نے تمام پوپ صاحبان کو ایسا اندھا بنا رکھا ہے کہ خداوند کی رضا کے عین بر خلاف ان کی رضا ہو رہی ہے چنانچہ خداوند تو فرماتا ہے کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں گو میری پاک اجازت یا حکم بدون کوئی شے ظہور نہیں پا سکتی مگر پوپ کہتے ہے کہ ہاں ہے اس دنیا کی بادشاہت بھی اسی کی ہے تاکہ ان کو جانشینی خداوند کا حصہ ملے۔ پر خداوند تو فرماتا ہے کہ میرا جانا ہی پہلا ہے تاکہ روح قدس بجاے میرے کام کرے وہ کہتا ہیں کہ روح قدس نہیں بلکہ ہم بجائے خداوند کے راج کرے گے۔ اور ایسے ایسے غرض آلودہ شرحا ت پر طرہ دعویٰ لم یزلی شرح کا بھی اپنے سر پر لگائے ہوئے ہیں بلا ثبوت الہام یا مادہ عقل زائید از عام بتائید خود۔ اتفاق باہمی بھی وہی خوبی بہرا ہے جو بازادگی ذبلا حبر ہو اور نہ ایسا کچھ جیسا پوپی اور محمد یوں کا ہے کہ جو نہ مانے وہ مارا جائے ۔ زمانہ سلف میں بادشاہ اور حکومتیں والدین کلیسیا اس واسطےقرار دی گئی تھی کہ شریعت رسماتی کی حفاظت ان کے ذمہ تھی مگر جب صاحب نشان ان رسمیات کا مسیح خداوند ظاہر ہوگیا تو اسے صاف یہ فرما دیا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں ۔ کلیسیا سلف میں بھی صرف دو عہدے خدمات دینی کے ہم دیکھتے ہیں یعنی سردار کاہن و کاہن خداوند مسیح نے بھی وہی نقشہ در ذات پاک خود وحواریان خود کھا پولوس حواری نے بھی تیمتھیس اور طِطس کو بجائے خود بھیج کر وہی نمونہ دیا پھر نہ معلوم کہ اسقفون اور کُلسیوں ما سواپوپ اور کار دنل اور آرچ بشپ اور دیکن اور آرچ دیکن دینی کام میں کہاں سے گھس آئے بجز نفسانیت کے جو شان و شوکت دنیاوی کو خیالات دینی پر فوق دیتے رہتے ہی نمونہ انجیلی میں بادشاہ بھی عضویت کلیسیا سے تو باہر نہیں مگر حکومت اور شان دنیا کی پوشاک حسن بے دینے کی بجائے فروغ کس قدر بے حسن ہی کرتی ہے گو نفسیات اس شان دنیا وی کو چھوڑنا ہرگز نہیں چاہتی لیکن وہ د ن چلے آتے ہیں کہ خواہ نخواہ دلوں سے خود بخود یہ نفانیت دور ہو جائے گی کیونکہ بہتر کے ظہور دلوں سے خود بخود یہ نفسیانیت دورہوجائے گی کیونکہ بہترکے ظہور پو ناقص ٹک نہیں سکتا ۔
دفعہ ۳۷ ۔
خداوند نے آیندہ طلاق بدون علت زنا کی منا ہی فرمادی کیونکہ کثرت منا کحت کی بھی حفاظت نسل موعود کے لیے حاجت نر ہی تھی جو سخت دلی پیدا کرتی تھی ۔ البتہ جو شخص بحجت مسیحی ہونے اپنے جوڑےکے اس کو چھوڑتا ہے وہ طرف ثانی کو بھی اپنے قید نکا حمیں نہیں رکھ سکتا اور بہت جوروں والا نو مسیحی اسقف یا قسیس ہی نہیں ہو سکتا چھوڑنا کسی اس کو ضرور نہیں مطلقہ ناجائز کے ساتھ نکاح ثانی بھی ناجائز ہے۔
دفعہ ۳۸۔
نہ بچوں کو علی العموم خداوند شبہ بہ ور ثا خدا کی بادشاہت کے فرماتا ہے تاکہ ثابت ہو کہ مقبولیت منحصر بر قبولیت خداوند کے نہیں بلکہ نارد کرنا خدا وند کا اس معاملہ میں کافی امر ہے۔
دفعہ ۳۹۔
خداوند نے ایک ریاکار خود فریب جو انکو قایل الوہیت خداوندیہ کا نہ تھا اول تو فرمایا کہ تو مجھے اچھا کیوں کہتاہے جبکہ اچھا بجز خدا کے کوئی نہیں دوسرے فرمایا کہ اگر تو نجات چاہتا ہے دولت دنیا کا پیار چھوڑاور میرے پیچھے ہو لے کیونکہ دولت اور خدا کو اکٹھا پیار کوئی نہیں کر سکتا مگر وہ اونٹ پن اپنا چھوڑ تے نہیں خدا کو اکٹھا پیار کوئی نہیں کر سکتا مگر وہ اونٹ پن اپنا چھوڑتے نہیں چاہتا تھا لہذا اس سوئی کے ناکے سے اسے نکالنا محال ہوگیا اس لیے دولت کو پیار کرتا تھا۔
دفعہ ۴۰۔
خداوند نے مزدوروں کی مثالیں آخیر تائب تک صلہ نجات کاوعدہ بخشا ایسا کہ ظرف چھوٹا ہو یا بڑا خوشی ابدی سے بلب کیا جائے گا۔ دفعہ ۴۱ ۔ خداوند نے یرو شلیم سے ا پنے انتقام کی خبر دی ہے کہ وہ دن ایسے عنقر یب ہیں کہ ہمعصروں کا طبقہ بغیر دیکھنے اس کے اٹھ نہ جا ئے گا اور اس روز باقی رہا ہوا فروغ بھی سورج اور چاند اور ستاروں یعنی نامداروں بنی اسرائیل کا دور جا تا رہے گااور یہ معاملہ تغیر قیامت کا سا ہو گا کہ جس میں ان کا طبقہ الٹ جائے گا کہ کوئی ملک اور جہتی بندی انکی نہ رہیگی ۔ خداوند فرماتا ہے کہ میں باد لوں پر آئے گا یعنی دل انسانوں کے وسیلے اور دانیال کے ستر ہفتہ کی نبوتوں کا ضمیمہ یاد دلاتا ہے باین مراد کہ یہ انتقام بوسیلہ لشکر غیر قوم کے ان سے لیا جائے گا قتل مسیح کے واسطے اور فرماتا ہے کہ سچی مسیح کو تو انہوں نے قتل کرایا ہے اب جھوٹے مسیح آئے گے اور انہی کے ہاتھ سے جن کے ہاتھ سے انہوں نے سچے مسیح کو قتل کرایا ہے۔ وہ انکو قتل کرا دے گے۔ چنانچہ یہ جھوٹھے مسیح شمعون اور یوحنا تھے جنکا ذکر یوسیفس یہودی مورخ نے کیا کہ جنہوں نے یہودیوں یا بنی اسرائیل کو وعدہ خلاصی از حکومت رومیان کے دیا اور جن کی باتیں لگن دلی کے سبب معجزہ ہو کر ان کو لگیں۔ خداوند اس روز کی سختی ایسی بیان فرماتا ہے کہ نظیر ندار دیعنی درجہ رغائت کی۔ یو سیفس لکھتا ہے کہ تلوار نے اتنے نہ مارے تھےجتنے بھوک نے مار ڈالے کہ ماؤں نے بچے بھون کھائے اور جو بچے سو ا اس وقت میں پڑے کہ کثرت کے سبب غلامی میں بھی انکو کوئی نہیں خریدتا تھا۔ خداوند اپنوں کی بابت فرماتا ہے کہ میں اپنے فرشتے بھیج کر ان کو نکال لو ں گا۔ چنانچہ یہ فرشتے رومی لشکر تھے اور جد ھر جدھر عقب یہودیوں کے یہ جاتے تھے ۔ یہودی مسیحوں کو اپنے درمیان سے دھکے دے کر نکال دیتے تھے بایں خیال کہ وہ رومیوں کو آخیر مغلوب کر لے گے اور نہ ہوکہ مسیح اس فتح میں حصہ پالیں یوں جو مقرر ہوا تھا پورا ہوا ورشیا طین نے فر شتو ں کا کا م کیا ۔ قیا مت مسیح سے ۳۶ سا ل بعد یہ وا قع پو را ہو ا اور ہمعصر مسیح نے یہ معا ملہ بچشم خو د(اپنی آنکھوں سے) دیکھا جیسا کہ حکم تھا کہ یہ طبقہ بغیر دیکھے اس کُل ما جر ہ کے اُ ٹھ نہ جا ئےگا ۔
د فعہ ۴۲ ۔
خدا وند نے ایک تو ڑے و الی عقل کو ہد ایت فر ما ئی کہ تھو ڑی عقل کو کا لعدم (معدوم ،ناپید،گویا کہ ہے ہی نہیں)سمجھ کو بیکا ر نہ چھوڑے ،بلکہ اس سے کم از کم اسری(رائی) کا بیوپا ر کر کے ایسو ں کی اسر ی پڑ ھ کر جو حسا ب سمجھا تے ر ہیں اور نہ یہ کہ بقا لب(انسانی جسم) بزرگان ٹھگ یا فر یب خو ردہ خو د ہی ہو ں ۔
دفعہ ۴۳ ۔
لو قا کے با ب ۱۴ میں نا دا نستگی کے خطا سے مر ادار دتا ًنا دا نستگی سے ہے اور کم زیا دہ سزا با عتبا ر پیما نہ فر ما گئی ہے اور نہ نسبت زما نہ جو اصغر و اکبر گنا ہ کی سزا یکساں دا ئم (ہمیشہ،قائم)ہے۔ اکثراوقا ت کلا م الہٰی میں مبا لغہ مجا ز بھی استعما ل ہو ا ہے۔ چنانچہ ہیچ(نکمّا) بمغی ہیچ وار اور غائیت(مطلب،انجام) بمغی کثر ت بہت ہے مقا ما ت سے ظا ہر ہو تا ہے ایسی ہی یہ نا دا نستگی در خبر د ہے اور نہ در کل ۔
دفعہ ۴۴ ۔
خدا وند غیر وں کو بھی دیو(بدروح) نکا لنے سے منع نہیں کر تا جب تک وہ ساحران (جادوگر)مصر کی ما نند شیطنت ہی کے گھر میں خلل انداز ہیں ۔مگر جب تعلیم اُن کی مضر(نقصان دہ)مشیت(خواہش ،ارادہ) ہو نی چا ہتی ہے تو الما س جا دو گر کی طر ح روک دی جا تی ۔
دفعہ ۴۵ ۔
لو قا کی ا نجیل میں جو خدا وند نے فر ما یا تھا کہ اُس کے شا گر د آ یند ہ کے لئے تلو ار خر ید لیں اس سے مرا د حفا ظت معجز ئ (معجزہ کی تانیث)سے نکل کر حفا ظت خو د اختیا ری سیکھنے کی ہے ۔
دفعہ ۴۶ ۔
خدا وند نس (رگ)پھل انجیر کے سُکھا نے میں دکھ کسی کو نہیں دیتا ،مگر نس پہلی کا نتیجہ سب کو جتا تا ہے کہ ہمیں سو ختنی بنا یا جا ئے گا۔
دفعہ ۴۷ ۔
خدا وند نے جو ایک اپنے ہم صلیب کوفر ما یا کہ ’’آج میر ے سا تھ فر دوس میں ہو گا‘‘ اس فر دوس سے فر دوسیو ں کے عا لم ارواح مراد ہے کیو نکہ اصل جنت و جہنم جا و قت بعد حشر نشر مقر ر ہو ا ہے ۔
دفعہ ۴۸ ۔
یحییٰ نے جو کہا کہ میں وہ نبی یہی نہیں وہ سے مر اد ایک خیا لی نبی یہو د یوں کا ہے ،کہ جس کو نبو ت مسیح میں دُکھ اُٹھا نےیو الا سلطنت کر نے وا لے سے علیحد ہ سُو چتے تھے ۔یحیی ٰ نے اُنکی غلطی کی اصلا ح ضر ور نہ جا نے مگر اُنکے سوا ل کا جو اب صر ف دیدیا ۔
دفعہ ۴۹ ۔
یر دن میں یحییٰ بپتسمہ اس لئے نہیں دیتا تھا کہ غو طہ ضر وری امر ہے۔ جب کہ یہی یحییٰ نبو ت کرتا ہے کہ مسیح خدا وند آ گ سے بپتسمہ دےگا اور وہ آگ کا بپتسمہ بر وز پنتی کوست صر ف پیشانیوں پر دیا گیا تھا اور نہ کُل بد ن پر۔یہ بھی غلط ہے بپتسمہ وہی پا سکتا جو ایما ن لا نے کے قا بل ہو، جب کہ کلسیوں کے با ب( ۲ )میں صا ف لکھا ہے ،کہ بپتسمہ بجا ے ختنہ رکھا گیا ہے ۔بد لے میں نفس کے سر کا ٹ ڈالنی کی نفسانیت کو دھو ڈا لنا کر کے اور ختنہ آٹھ دن کے بچہ کے بھی ہو تی تھی ۔عشابجا ے فسح کے ہے اور فسح وہی کھا سکتا تھا جو خو د کمر بستہ ہو کر بدون(علاوہ ازیں) مد د غیر کے ملک (حق)آزاد گی کو جا نے پر تیار ہو۔ لہٰذ ا عشا بچو ں کو نہیں دے سکتے مگر بپتسمہ دے سکتے ہیں ۔بچو ں کا بپتسمہ جب وہ بڑے ہو جا ئیں کا نفر میش (استحکام)بھی ضر ور چا ہتا ہے کیو نکہ بچپن کا بپتسمہ بجا ے اسم نو یسی سپا ہی زا دوں ہی کے ہے کہ لا یق کا ر ہو نے تک غذا رو ح ا ن سے محر وم نہ کئے جائیں اور جب لا یق جنگ ہو جا ئیں۔ تب اُن سے خو د اپنا اقر ار ضر ور ہے، تب ہی وہ مستقیم متصو ر (سوچا ہوا)ہو تے ہیں اور جس لڑ کے کے ما ں باپ یا بڑا بھا ئی یا کو ئی اور قر یبی پیش کر نے وا لا بپتسمہ کے لئے نہ ہو ۔ اُ س کے لئے کو ئی ماں یا با پ جو اس میں خو شی منا تا ہو دینی بھی ضر ور ہے۔ سوا ئے بپتسمہ اور عشا کے انجیل میں کو ئی سا کرا منٹ (پاک رسوم)نہیں یعنی ایسی با ت جو پُر انے نشا نوں کو نشا ن رکھا گیا ہو ۔ بیا ہ سا کرامنٹ نہیں کہ جس کا کر نا اور نہ کر نا اختیا ری امر ہے ،مگر دنیا وی عہد بھی یہ محض نہیں کیو نکہ اس عہد میں خدا کو ہر دو فریق ضا من دیتے ہیں اور خا ص بر کتو ں کا وعدہ پاتے ۔
دفعہ ۵۰ ۔
یو حنا کے باب( ۸ )میں جو مقد مہ ز ا نیہ کو بعض الحا قی(شامل ہونا) سمجھتے ہیں ۔اصو ل تو اُس کا مو ا فقِ انجیل کے ہے کہ ما ر نے سے بچا نا افضل ہے اور نسب (نسل سلسلہ ِ خاندان)کی حفا ظت بھی اب ضر ور نہ تھی ۔
دفعہ ۵۱ ۔
خدا وند نے ایک اندھے ما درزاد (پیدائشی اندھا)کو چنگا کر کے فر ما یا کہ اند ھا ہو نا اُس کا کسی کے گنا ہ کے سبب نہ تھا یہا ں سے یہ تعلیم نکلتی ہے کہ خدا و ند اپنے خو بی اور جلا ل بہت سے ایسے امو ر میں دکھلا سکتا ہے جن میں دینا کے نا دا ن سزا کا خیا ل کر لیتے ہیں ۔
دفعہ ۵۲ ۔
خدا وند نے جو فر ما یا کہ یہ میرا نیا حکم ہے کہ خدا کے لو گو ں کو اور لو گو ں سے زیا دہ پیا ر کر و یہ اخلا ق میں بہت سا مٹ گیا تھا ۔اس لئے نیا کہلا تا ہے ورنہ در اصل اخلا قی ہی ہے ۔
دفعہ ۵۳ ۔
خدا وند نے اصول دعا دین و دنیا کی حا جا ت رفع کر نے والی مختصر میں سکھلا دی اور کہا کہ آ یندہ د عا کو بو سیلہ میر ے مانگاکر و کیو نکہ اور انتظا ر آمد خدا وندی با قی نہ ر ہا تھا اور بد ون (علاوہ ازیں)وسیلے خدا وند کے وسیلہ قبو لیت اور کو ئی بھی نہ تھا ۔
دفعہ ۵۴ ۔
خدا وند نے حوار یو ں اور شا گر د وں خا ص اپنوں کو فر ما یا کہ یر و شلم سے با ہر نہ جانا تم پر روح القد س نا زل ہو گا جو اور کُچھ نہ کہے گا ، مگر میر ی با تیں تم کو یا د دلا ئےگا۔ وہ تم میں اب بھی ہے مگر دنیا اُسے دیکھ نہیں سکتی اور تم اُسے دیکھو گے یہ پنتی کوست کی خبر ہے ۔
خا تمہ فصل اوّل
اُن امو ر کا شر ح (تفسیر)کر نا ہم نے ضر وری نہیں سمجھا جو در خو د صا ف تھے اور نہ تکمیل اُن نبو تو ں کی بھی جو محض خدا وند کے تو لد و جا ئے تو لد حال قا ل و غیر ہ سے علا قہ رکھتی ہیں۔ مر کو ز کتا ب ہذا کا اند ر و نہ با ئبل کو دکھلا نا ہے اور نہ اُس سمندر کو طے کر نا جس کی با بت یو حنا مقد س و ا جبا ً کہتا ہے کہ اُس کے کا مو ں کی تفصیل دفتر د نیا بھی نہیں سما سکتی۔ اس لئے خدا ئےبے حد کے کا م بھی بے شما ر ہیں ۔
فصل دو ئم
در خلا صہ و شر ح اعما ل
دفعہ ۵۵ ۔
پہلا عمل حوار یو ں کا بذریعہ قر عہ اندازی مہتیاس کی بجا ے یہو دا سکریوتی مر دود (لعنتی،نکمّا)کے چننے کا تھا اور از ا ں (سا،سے)جا کہ یہ عمل اُن کا قبل از نزول روح القدس کے تھا اور کہیں اُس نے منظو ری الہٰی حا صل نہیں کی اور فی الحقیقت خدا وند نے یہ عہد پو لو س کو بخشا تھا ۔ لہٰذا یہ عمل کو نیک نیتی سے ہو ا مگر دراصل غلط تھا ۔کیو نکہ خدا وند نے حد قو م اور غیر قو میت کو آپ تو ڑ ڈالا تھا ۔پس تیر ہو یں(۱۳)حو اری کی ضرورت کُچھ نہ تھی اور با ر ہواں خدا وند نے خو د ہی مقر ر فر ما دیا ۔ با رہ کا عدد چار سمت دنیا میں تثلیث کو کا مل کرتا ہے اور اس لئے یہ عد د متبر ک فرمایا گیا ہے ۔
دفعہ ۵۶ ۔
پنتی کوست کے دن علم زبا نو ں کا اس لئے بخشا گیا تھا کہ ہر زبا ن میں دعوت دین مسیحی کی دی جا نے اور قید قو م غیر قو میت کی دور ہو جا ئے اور پہلے کے آفتا ب و مہتا ب اور ستا رے یعنی نمو دا ر عہد ے کلیسیا کے مد ھم فر ما ئے جا ئیں ،کیو نکہ پو پھٹ آ ئے اور دورہ آ فتا ب صدا قت کا شر وع ہو گیا ۔سو اب تصو یر سے کُچھ کا م نہ ر ہا ،کیو نکہ صاحب تصو یر ظاہرہو گیا ۔پطر س حو ار ی کےو عظ پر آج کے دن ہزا ر ہا یہو دی مسیح ہو گئے تھے اور کر نیلیس کا خا ند ان غیر قو مو ں میں سے بھی پہلے پہل پطر س کے وسیلے مسیحی ہو ا تھا۔ سو بعض اُس کو بھی کھو لنا اور با ند ھنا پطر س کا تصور کر تے ہیں پہلے کلیسیا میں بھی غیر قوم کو دخل بخشا گیا تھا اور خدا وند مسیح نے ایک صو بہ دار رومی کے ایما ن کی بھی تعر یف فر ما ئی تھی جس کےبیٹے اُس نے با ت سے اچھا کیا تھا ۔
دفعہ ۵۷ ۔
پطر س کی ایک کمزور ی کو پو لو س اصلا ح دیتا ہے تا کہ ظا ہر ہو کہ کلا م الہٰی سے سوا کسی کا عمل پیما نہ نہ بنا یا جا ئے ۔
دفعہ ۵۸ ۔
مسیحی ہو نے پر بہرحا ل یہ لا زم نہیں آتا کہ اُسکا ما ل متا ع عا مہ بجا ئے کیو نکہ ایسا حکم کہیں نہیں مگر تقا ضا ئے وقت اس نمو نہ کا بلا شک متقا ضی ہو سکتا ہے جو زما نہ حو ار یو ں میں پیش ہو ا ۔
با قی
اس کتا ب میں اعما ل ِحو ار یا ں کا ذکر ہے کہ کیا کیا اُنہو ں نے کیا ،تا کہ ہم سیکھیں کہ خدا وند کے لو گو ں کو جنگ دینی میں کیسا سر گر م ہو نا چا ہئے ۔
فصل سو ئم
در خلا صہ و شر ح خطوط پو لو س مقد س بکلیسیائے
روم ، کر نتھس ، گلتیہ ،اِفسِس ، فلپی ، کلسےا و رتھسلینکے
تمہید
یہ سا ت کلیسیا عنوا ن کے بمقا بلہ سا ت کلیسیا مکا شفا ت کے چنے گئی ہیں تا کہ عدد کما ل کا ہر دو میں مسا وی نظر آ ئے۔ کلیسیا ہر دوگر وہ یعنی یہودی یا بنی اسرائیل اور ما سو ا قو مو ں میں سا ت سات ہی بر وقت ان خطا بو ں کے نہ تھے، بلکہ بہت زیا دہ اُن سے تھے مگر عدد سا ت میں کما ل اور کُل آ جا تا ہے ۔اس لئے سات کے عدد پر اکتفا کیاگیا ہے۔ با قی خطو ط پو لو س حو ار ی کے اشخا ص مخصوص کے نا م پر ہیں یا عا م بنا م عبرا نیوں لہٰذا وہ مقتبس(اقتباس کیا گیا) سے کُچھ علا قہ نہیں رکھتے ۔
خلا صہ تعلیما ت خط رومیوں
دفعہ ۵۹ ۔
رو میو ں کے خط میں تعلیما ت ذیل میں یعنی۔
( ۱ ) ۔ایما ن بر کفا ر ہ مسیح سے نجا ت ہے اور نہ اعما ل شر یعتی سے ۔
( ۲) ۔نا پا کی ا عما ل سے جب کہ کفا رہ مقد س بچا نے آیا ہے تو پھر اسی نا پا کی میں جا نے کی اجا زت کیو ں کر دے سکتا ہے ؟
( ۳ ) ۔نجا ت مسیحی ایسی ہی عا مہ(سب لوگوں سے منسوب) ہے کہ جیسی تا ثیر گنا ہ آ دم کی بنی آدم پر عا مہ ہے ،کہ ہر ایک بنی آدم کا امتحان گنا ہ آدم کے سبب سخت تر ہو گیا ہے ۔تا ہم فضل بڑ ھ کر ہے اس لئے کہ گنا ہ آدم نے تو امتحا ن ہی بنی آدم کا سخت تر کر دیا تھا ۔مگر فضل مسیحی نے نجا ت عقبیٰ (عاقبت،آخرت) کی راہ سب گنا ہ گا رو ں کے وا سطے کھو ل دی جودید ہ ودانستہ اس کو ر د نہیں کر تے ۔آدم کا اثر خدا وند مسیح نے اس لئے دور نہیں فرمایا کہ وہ ایک فا نی امر تھا اور خد ا وند مسیح بقا کی خو بی کے لئے آ یا تھا سو یہ ہر دو کا کا م متضا د ہ نہ تھا کہ ایک کے ہو تے دو سرا نہ رہ سکے ۔
( ۴) ۔خدا وند نے ظر فِ عزت اور بے عزتی کی تو ایک ہی لو ندے سے بنی آدم میں بنا ئے مگر تو ڑ ڈالنے کے وا سطے کو ئی بر تن نہیں بنا یا ۔یعنی تقد یرِ ارادی کی مطابق خو بی کا حصّہ تو کم و بیش ملا ہے۔ مگر نا انصا فی کسی سے نہیں ہو ئی خو بی کسی کا حق نہیں ،ور نہ خو بی بھی وہ نہیں رہ سکتی بے عز تی سے یہاں مر اد کمینہ (نیچ ذات)عہد ہ سے ہے ۔جیسے سر کی بہ نسبت پا ؤں کا عہدہ ہے یا کھا نے کی بر تن کی بہ نسبت پا خا نہ کا بر تن ہے اور نہ دکھ ذ لت سے ۔
( ۵ ) ۔شر ا رت بھی فر عو ن کی بجز ؟حکمت جلا ل افزونی خدا وند کی اجا زت نہ پا ئی تھی اسی طر ح بدی کی اجا زت بھی جلا ل الہٰی کے وا سطے ہے جیسے نیکی کاحکم۔
( ۶) ۔وسا ئل پہچا نی کلا م الہٰی کی انسا نو ں کوبہر حا ل مو قو ف بر انسان نہیں رکھی گئی۔ بلکہ یہ کا م خاص روح الہٰی کا ہے ۔
( ۷ ) ۔با دشا ہو ں کی نیک نیتی سے اطا عت کر و کیو نکہ وہ نیکی کی جزا اور بد ی کی سزا کے لئے مقر ر ہو ئے ہیں ۔
خلا صہ تعلیما ت خطو ط کرنتھیوں
دفعہ ۶۰ ۔
خطو ط کرنتھیوںمیں تعلیما ت ذیل ہیں یعنی ۔
( ۱ )۔ مسیحی ہو کر پو لو س اور اپلو س کے نہ کہلا ؤ یعنی تفر یق نہ ڈا لو ۔
( ۲)۔ کلیسیا کو گھا س پھو س سے تعمیر نہ کر و کیو نکہ ہر ایک کے کا م کو آگ امتحا ن کی آ ز ما ئے گی اور جس معمار کا کا م قا ئم نہ رہے گا۔ شر مند گی اُٹھا کر بچے گا ۔ یہ نصیحت خا دم و نیان کے لئے ہے کہ بد ون صا دق کے کسی کو شر یک کلیسیا الہٰی کا نہ کر یں ۔
( ۳ )۔ زا نی اور متوالے اپنے مذ ہب سے ملت نہ رکھو جب تک وہ درستی پر نہ آ ئیں ، کیو نکہ وہ تمہا رے دین پا ک کی عا ر(شرم ،لاج) میں ۔
( ۴ )۔ وقت کا تقا ضا دیکھ کر شا دی کر و کہ جسم کا دکھ نہ بڑ ھا لو ۔لیکن ہوئی شا د ی کو از جا نب خو د نہ چھوڑ و ہا ں فر یق ثا نی اگر تمہا رے ایما ن کے سبب نہیں چھوڑدے تو تم بھی آ زاد ہو ۔
( ۵ )۔ کمز ور و ں کی رعا یت سا تھ نثا ر معیشت جا ئز تک کر و مگر گنا ہ کر نے میں نہیں
( ۶ )۔ نمو دا ر ہو نے کے لئے روا جو ں کو نہ بدلو جیسے مر د کو سر ڈ ہانپنا اور عو رت کو کھو لنا جب دینی مجلس میں جمع ہو ں ۔
( ۷ )۔ عشا ء ربا نی کو شکم سیری(پیٹ بھرنے) کی با ت نہ سمجھو بلکہ رو ح کی سیری سمجھو ۔
( ۸ )۔ نہ سب حو اری ہیں نہ سب نبی اور نہ سب معلم مگر عضویک دگر سبب میں اور مسیح سب کا سر ہے ۔
( ۹ )۔ قیا مت دانہ غلہ کی ما نند مر کر جی اُٹھنا ہے (کو یلے کی ما نند ) بے عز تی میں دفن ہو تا ہے ( ہیر ے کی ما نند ) عز ت میں اُٹھتا ہے یا بر خلا ف اس کے جیسےاس کے اعمال ہوں۔
( ۱۰ )۔ پو لو س اپنے الہا م کی ذلت روانہ ر کھ کر دعو ے کر تا ہے کہ وہ کسی حوا ری سے کم نہیں ۔
خلا صہ خط گلتیوں
دفعہ ۶۱ ۔
شر یعت رسوماتی مسیح کی رہنما تھی جو بچو ں کو بخشتی گئی تھی ۔لہٰذا بعد ظہو ر مسیح اُس کی قید نا جا ئز ہے۔
خلا صہ خط افسیوں
دفعہ ۶۲ ۔
فا نی خطا ب اسرا ئیلی ہو نے کا فخر نہ کر و ایما ن مسیحی بد ون(علاوہ ازیں) نجا ت نہیں ۔
خلا صہ خط فلپیوں
دفعہ ۶۳ ۔
خو اہش نیکی کی تم کر و اور تو فیق اُس کی خدا نے ملتی ہے ۔ تمہا ری خو اہش بد ون خدا تو فیق نہ دے گا اور بد ون خدا کی تو فیق کے تم نیکی نہ کر سکو گے ۔
خلا صہ خط کلسیوں
دفعہ ۶۴ ۔
بپتسمہ مبا دلہ ختنہ کا ہے اور عید اور نئے چا ند اور ہر قسم کی سب سا یہ و جو د خد اوند مسیح کے ہیں ۔
خلا صہ خط تھسلینکیوں
دفعہ ۶۵ ۔
خبر دار ہو جا ؤ ہلا کت کا فر زند آ تا ہے جو ا پنی آ پ کو جا نشین خدا وند قر ار دے گا اور پا ک روا یا ت کے بر خلا ف اپنے غر ض آ لو دہ روایا ت گھڑ ےگا اور تا ریکی کے فر زند وں کے لئے سحر کلا م ہو گا ( دیکھو مکا شفا ت کا با ب ۱۲ و غیر ہ )۔
فصل چہا رم
در شر ح و خلا صہ
خطو ط بہ تیمتھیس وطِطس وفلیمون از پو لو س مقدس
دفعہ ۶۶ ۔
تیمتھیس اور طِطس کو ہد ایا ت ہوتیں ہیں کہ قسیس (دین انصار یٰ کا عالم)اور ڈیکن ایسے شخصو ں کو بنا دیں جو علم وعمل اور حا ل و قال سے مخا لف کا مُنہ بند کر سکیں۔دوجوروں و الو ں میں سے نہ ہو ں۔ یعنی جس قدرسبکد و ش(بری الذمہ ،آزاد) ہو ں بہتر ہے ۔عمر رسید ہ ہو ں اور پہلے سےعزت دار تا کہ یہ عہد ہ امتحان غر ور اور عزت دنیا وی کا نہ بن جائے ۔تا ہم جو شخص خد مت دینی کا عہد ہ چا ہتا ہے وہ مضا عف (دوگنا،دوچند) عزت یا بی کے لا یق ہے۔ جب وہ اس عہدے پر ما مو ر ہو ۔اس لئے کہ یہ عہد ہ در خو د پدرانہ ہے ،متنبہ (خبر دار ،آگاہ)فر ما یا جا تا ہے، کہ اخیر زما نہ میں بد عت ،پاک نکا ح کے بر خلا ف اُٹھے گی ( یعنی بد عت پو پی ) ہد ایت ہو تی ہے ۔ ایسی بیو ہ کا بھا ر کلیسیا اپنے اوپر لے، جو( ۶۰ ) برس کی عمر میں ہو اور جس نے ایک ہی شو ہر اپنی عمر میں کیا ہو۔ یعنی جو کما نہ سکتی ہو اور صر ف بےجا سے تنگد ست نہ ہو ئی ہو ۔ہدایت ہوتی ہے جن با تو ں کا نجا ت سے کچھ علا قہ نہ ہو اُن کو خبر نجا ت بھی نہ پا یا جا ئے ( نجا ت کی با تیں صر ف ذیل ہیں )۔
( ۱ ) با پ ،بیٹے اور روح القد س کو واحد خا لق و ما لک کل اشیا محد دوکا جا نو ۔
( ۲ ) نجا ت بد ون کفا رہ مسیح مظہر الہٰی در انسا ن یسو ع محال سمجھو ۔
( ۳ ) کفا رہ مسیح میں پیو ند ہو نے کے لئے قدرت رو ح القدس کی ضر وری ما نو اور جو اُن کی لا زمی با تیں ہیں ۔با قی فا ئد ہ مند با تیں تو بہت ہیں مگر نجا ت سے اُن کا علا قہ نہیں صر ف روح کی تا زگی اُ ن سے مر اد ہے سو بجا ئے تا زگی کے جھگڑے بن کر افسر د گی وہ نہ بننی چا ہئیں۔
دفعہ ۶۷ ۔
فلیمو ن سے درخو است محبتی ہے کہ وہ اپنے غلا م کی خطا ئے مغر وری معاف کر ے ۔ ا ٓ زادگی کی تلا ش کی اُس میں منا ہی نہیں مگر فسا د کے باعث ہو نے کی مخا لفت ہے ۔
فصل پنجم
در شر ح و خلا صہ خط عبر ا نیوں
دفعہ ۶۸ ۔
اس خط میں پو لو س حو اری رسمیا ت مو سو ی و نشا نا ت سلف کی تعبیر مسیح اور اُس کی کلیسیا میں کر تا ہے تا کہ اصو ل سبق عہد جدید کا با ٓسا نی دہن نشین ہو جا ے اور وہ قو م اور غیر قو م کا حو اری ثا بت ہو اور یہ ایک نہا یت جلا ل بھرا خط ہے ۔
فصل ششم
درخلا صہ و شر ح خط یعقوب مقدس
دفعہ ۶۹ ۔
ایما ن بلا اعمال(عمل کے بغیر) شیطا نی اور مر دہ ہے ۔یعنی زند ہ ایما ن کا نشا ن حسنہ اعما ل ہیں ۔دینی مجلسو ں میں دو لت مندوں دینا کو سبب اُ ن کی دو لت کے صدر نشین نہ بنا یا جا ئے ۔
فصل ہفتم
در شر ح و خلا صہ خطو ط پطرس مقدس
دفعہ ۷۰ ۔
انبیا سلف نے بھی و عظ مسیحی کیا ہے ۔ پو لو س مقّدس کی با تیں حکمت الہٰی سے بھر ے ہیں ۔سا را الہا م مر د خدا کے فا ئدہ کے لئے ہے۔ با قی نصائح(نصیحت کی جمع) عا م پد ری(باپ سے ورثے میں ملی ہوئی) ان خطو ں میں ہیں ۔
فصل ہشتم
در شر ح و خلا صہ خطو ط یوحنا مقّد س
دفعہ ۷۱ ۔
خد ا محبت ہے اور خو بصو رت اللہ ( یعنی انسان ) کو پیا ر نہیں کر تا اُس کا دعو یٰ اللہ کے پیا ر کا با طل ہے ۔با قی نصا یح۔
خط اول کے پا نچو ں با ب میں جو الفا ظ تثلیث لکھے میں بعض اُن کو الحا قی سمجھتے ہیں بد وو جہ یعنی۔
اوّل ۔یہ کہ قد یم نسخو ں میں نہیں ملتے ۔
دو ئم۔ اگر قدیم انجیل میں ہو تے تو بد ون بحث از قد ما بھی نر ہتے ہما را جو اب یہ ہے کہ ان الفا ظو ں کو چھو ڑ کر با ئبل میں تثلیث بھری ہے گو نفظ تثلیث کہیں نہیں لکھا چنانچہ مو قعا ت پر ہم نے بد ھی(مخالفت) نشا ں کر دی ہے ۔
فصل نہم
در شر ح و خلا صہ خط یہوداہ مقّد س
دفعہ ۷۲ ۔
خبر دار فر ما یا جا تا ہے کہ رو ح دجا لی(مخالف ِ مسیح) پیدا ہو گئی ہے۔حنوک کی نبو ت زما نہ سلف(بزرگوں کا دور) کا حو الہ بہ حو اری بہ سند ا لہا م خو د دیتا ہے ۔
فصل دہم
در خلا صہ و شر ح کتا ب مکا شفا ت
دفعہ ۷۳ ۔
با ب ( ۱ ) سے ( ۳ ) تک تنبیہا ت (آگاہی)پد رانہ و نصا ئح(نصیحت) نبو ت امیز خدا وند سا ت کلیسیا ؤ ں ایشیا کو کرتا ہے کہ ہو شیا ر اور بید ار ہو ں۔ اس لئے کہ وقت امتحان آ ر ہا ہے ۔ سا ت سے مر اد کل ہے جیسے ہفتہ میں کا م و آ ر ام کل آجا تے ہیں۔ لہٰذ ا سا ت کلیسیا سے مر اد کل ممالک کی کلیسیا ہے۔سمر نا کے کلیسیا دس سا ل کی سختی بھو گ کر ہنو ز قا ئم ہے ۔جیسا کہ نبو ت میں گبن بے ایما ن کے د انت کھٹے کر نے کو لکھا گیا تھا ۔
دفعہ ۷۴ ۔
با ب ( ۴) و ( ۵ ) میں لکھا ہے کہ تخت خد اوند کے آ گے ( ۲۴ ) تخت نشین نظر آ ئے، یعنی با رہ خا ند ان بنی اسرا ئیل کے اور با رہ حواری ۔اُٹھا نے والے اُس تخت کے انسا ن ، شیر ، عقا ب اوربچھڑاتھے۔یعنی انسان بطاقت شیر وسرعت (تیزی)عقاب و ثا بت قد می بچھڑ ا کے اور ا ُ ن حما لو ں (حمال کی جمع،بوجھ اُٹھانے والا)کے چھ چھ پر تھے۔ دو اُ ڑ نے کے، دو تیا ری در حکم ثا نی کے اور دوننگ پو شی(جسم ڈھانکنا) کے ( یہ دو دو پر حز قی ایل کی نبو ت سے زیا دہ ہیں ) پر و ںمیں آ نکھیں تھیں ۔یعنی پر گو خو دنہ دیکھ سکتے تھے مگر اند ھے اتفا ق سے اُنکی حر کا ت و سکنا ت نہ تھی بلکہ وہ مشیت (خواہش)خداوند کو پو را کر نے تھے۔ کبر یا (خداتعالیٰ کاایک صفاتی نام)تخت نشین کی شکل ہیر ے اور لعل کی سی تھی، یعنی سفید ی صلح اور سر خی قہر کے لئے ہو ئی ۔ قو س مدور(گول ) اُس کے تخت پر تھے۔ یعنی اما ن و طو فا ن یا د دلا نے کو تخت کے آگے برہ خدا سا ت تا ج اِن کلیسیا ؤ ں کے سا تھ نبو ت آ یند ہ با تو ں کے کھو لنے پر تھا۔ خو د ہی تخت نشین تھا اور خو د ہی بر ہ ا ور خو د ہی ہیراتھااورخود ہی لعل رحم و قہر پیش کئے ہو ئے کہ جس کی خو ہش ہو حا صل کر ے ۔
دفعہ ۷۵ ۔
با ب ۶ سے خا تمہ کتا ب تک یہ صو رت ہے کہ نبو ت ایک اژدہا کو دیکھا تی ہے ،کہ جس کے ایک جبا ڑ ہ اور پچھلی شمو لی(شمولیت) تنہ کا تو ایک سلسلہ نبو ت کا ہے اور دو سرا جبا ڑہ اور پچھلے شمو لی تنہ کا دو سر ا سلسلہ غر ض کہ تنہ تو اُن کا و احد ہے اور جبا ڑے دو ہیں ۔پھر وہ کلیسیا سے لڑتی ہے اور کلیسیا بمد د شو ہر خو د یعنی خدا و ند مسیح کبر یا کی اس پر فتح پا تی اور اس فتح میں نجا ت فتح عقبیٰ(عاقبت،آخرت) ہے ۔چنا نچہ
سِلسِلہ اوّل
دفعہ ۷۶ ۔
با ب( ۶ )سے( ۱ ۱ )تک یہ شکل ہے کہ منجملہ سا ت مہر وں نبّو ت کے جو پہلے تو ڑے گئے ۔تو اُس سے سفیدگھو ڑا نکل یعنی کا میا بی دین مسیحی کے پھیلا نےکو دو سرے تو ڑے تو اُس سے لا ل گھو ڑا نکلا، یعنی کلیسیا میں خو نر یزی کر نے کو تیسر ے تو ڑے گئے تو اُس سے کا لا گھو ڑا نکلا یعنی تاریکی اور قحط عضو اں (اجسام)دینی نمودار کر نے کو، مگر اُس میں حکم ہو ا کہ تیل اور مے کو ضر ر پہنچے۔ یعنی عا شقا ن الہٰی گوتھو ڑے رہ جائیں مگر نو ر عر فا ن الہٰی سے منو ر اور نشہ حق سے سر شا ر رہیں۔ چو تھے تو ڑے گئے تو اُس سے پھینکا(زرد)گھو ڑ ا نکلا یعنی اُد اسی اور نر اسی(مایوسی) پھیلا نے کو ۔
یہ چا ر گھو ڑے و یسے ہی ہیں جیسے حز قی ایل اور زکر یا ہ کی ر و یا ت میں انقلا ب پیدا کر نے کو نمو دار ہو ئے تھے ان میں تفا وت(فاصلہ،دوری) صر ف یہ ہے کہ ان میں سفید گھو ڑا پہلے نمو دا ر ہو تا ہے ۔جب کہ ان میں یہ آ خر نمو دار ہو تا تھا اور چا ئے بھی یو ں ہی تھا ۔اس لئے کہ ان میں دین مسیح کا ظہو ر ما بعد تھا اور ان میں اول ہی مرادر وئت اُن گھو ڑ وں کی ظا ہر ہے یعنی یہ کہ دن مسیحی پھیلے گا اور اس پر آ گ امتحا ن کی بذ ریعہ تلوا ر اور بھو ک کے پڑ ے گی اور اس تکلیف بدنی کے سبب قحط عضو ں کلیسیا الہٰی کا پڑ ےگا ۔جس کے سبب کلیسیا میں اُد اسی اور نر اسی سے پھیل جا ئگی مگر جو بچیےگا وہ نو رو نشۂ حق میں منو ر اور سر شا ر بھی ہو گا ۔ پا نچوں مُہر تو ڑ ی گیٔ تو اس سے خو ن شہیدان کی فر یا د آسما ن کی طر ف بلند ہو ئی اور وعدہ انتقا م خدا نے کیا ۔چھٹی مہر تو ڑی گئی تو بھونچا ل آ ئے اور اجرا م سما وی(آسمان) بد ل گئے ۔ سا تویں مہر تو ڑی گئی تو آ دھی گھڑ ی چین ہو ا اور سا ت فر شتے نر سنگو ں والے آ مو جو د ہو ئے ۔یہا ں تک تو اریخ کلیسیا مسیحی کا پہلا حصّہ ہے جو نبو ت میں بیا ن ہو ا ۔یعنی شر وع دین مسیحی سے لے کر زما نہ قسطنطین تک یہ توا ریخ ہے ۔چنانچہ پہلے تو سفید گھو ڑ ا قحط عضوا ن کلیسیا مسیحی (مسیحی کلیسیابدن کی طرح ہے )اور ظلما ت پھیلا نے وا لا آیا۔ پھر پھینکا (زرد)گھو ڑا ہر طر ح کی بے مز گی ،تلو ار، قحط اور اداسی کا آیا اس پر آ ہ شہید ان سُنی گئی اور قسطنطین کے زما نہ میں غا زیا ن (غازی کی جمع،فتح مند)الہٰی کو کُچھ آرام بخشاگیا۔ اس سے بعد دو سرا حصّہ توا ریخ کلیسیا کا نبوّ ت میں شر وع ہو ا اور صو رت جنگ بد ل گئی ۔یعنی غیر قو م کے آ فتا ب و مہتا ب اور ستارے تو ز لزلہ سلطنت اور زوال ان کے سے بد ل گئے، مگر دوسر ے اُن کی بجا ئے جو قالب دین میں آ ئے وہ بھی بے د ین دراصل تھے۔ لہٰذ ا ان میں متفر ق قسم کے آ فا ت نمودار ہو ئے ۔چنا نچہ پہلے فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو خو ن آ لو دہ اولے زمین پر گر ے بمشا بہ (کی مانند)اولو ں مصر کے جو سر خ آ گ میں لپٹے ہو ئے تھے ۔دو سر ے فرشتے نے پھو نکا تو آگ بر سی جیسے ا لیا س نے بر سا ئی تھی ۔تیسرے نے پھو نکا تو پا نی تلخ ہو گئے جیسے پا نی مارہ کے با عث کڑ کڑ ا ہٹ بنی اسر ا ئیل کے تلخ ہو گئے تھے ۔
چو تھے نے پھو نکا تو آ فتا ب و ما ہتاب اور ستا ر ے بے فردغ ہوگئے ۔جیسے پہلے حصّہ اس تو ار یخ نبو تی میں اور بر وقت بر با دی یر و شلیم بعد ظہو ر خدا مسیح کے ہوئے تھے ۔
خلا صہ ان چا ر آ فت کا یہ ہے کہ بعد ظہور قسطنطین کی مخا لفت غیر قوم نےکی تو دور ہو گئی تھی مگر بجا ئے اُس کے بد عا ت بے د ینی کلیسیا میں گھس آ ئی کیونکہ طنطنہ قسطنطین کو د یکھ کر شا ن و شو کت پر ست دنیا کے دین میں گھس آ ئی اور ان میں غضب دار جلن جھگڑے پید ا ہو ئے اور ا ٓ خیر کٹ ٹھپ کرمٹ گئے یہ تھے وہ خو ن ا ٓ لو دہ او لے جلن اور حسد کے جو نا م کے مسیحیو ں اور اصل کے فر عو نیو ں پر پڑ ے جو اُ ن کے اعما لو ں کے سبب یخ(برف،بہت ٹھنڈا) میں آگ لگا رہے تھے اور یہ تھے۔ وہ آ تش غضب و غصہ کے جو با ہم اُن کے دستے کے دستے غا رت کر رہے تھے اور یہ تھے وہ تلخ کا می(ناپسندیدہ کام) جو بگڑ ے ہو ے اسر ا ئیلیو ں نے با ہم حسدا اور کینہ کے پیدا کر ر کھے تھے۔ حتٰی کہ اُ ن کے نمو دار سر دار ما رے گئے ۔مگر انہو ں نے ہنو ز اپنی بد یو ں سے تو بہ نہ کی اور اس لئے کہ یہ آ فا ت تشبیہی تھی اور سخت سروں(سرکش) میں نہ سما ئی۔ لہٰذ ا بد تر ین آ فا ت کو اجا زت ہو ئی کہ اُن کی تا دیب و تلقین کر یں ۔چنا نچہ دو سر احصّہ بھی مطابق پہلے حصّہ کے ہے یعنی تین سو بر س کے قر یب اور تو ا ریخ کلیسیا اس حصے کے واسطے بھی دیکھی جا ئے کہ کیا ٹھیک ٹھیک در ست آ تی ہے۔ غر ض کہ ہر دو حصّے قر یب تین تین سو بر س کے ہیں۔ یعنی ایک تو زمانہ مسیح سے قسطنطین تک اور دو سرا قسطنطین سے سا تو یں صدی کے شر وع تک ہر دور صحیح صحیح پو رے ہو تے ہیں آ گے اس سے اسی سلسلہ کا تیسرا حصّہ خوفناک آ تا ہے ۔
دفعہ ۷۹ ۔
جب پا نچو یں فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو اس میں سے بڑ ے افسو سوں کا پہلا افسوس اس طر ح پیدا ہو کہ آ سما ن سے ایک ستا رہ گر ا جس کو قعر اسفل(نہایت نچلی گہرائی) السا فلین (کمینہ)کی کنجی دی گئی تھی ۔جس کے کھو لنے پر بڑ ے پیچھے کا سا د ھو اں نکلا جس سے ریح (ہوا،پاد)اور آفتا ب منغض (گدلا)ہو گئے۔ پھر اُس دھو یں سے ٹڈیاں نکلیں جن کے دانت ببر کیسے تھے اور بال عورتوں کے سے اور سر وں پر سنہر ی تاج تھے اور بد ن پر لو ہے کی بکتر اور دمو ں میں بچھو وُں کے سے ڈنگ تھے اور جن کے پر وں کی آ وا ز ایسی تھی۔ جیسے جنگی گھو ڑ ےگا ڑ یو ں کی ہو تی ہے۔ اُن ٹٹدیو ں کو اجا زت ہو ئی کہ اُن کو ہلا ک کر یں جن کے ما تھے پر خدا کی مُہر نہیں ۔لیکن د ر ختو ں اور گھا س کو ہلا ک نہ کر یں مگر اذیت دیں ۔ان دنوں لوگ مو ت کو ڈ ھو نڈ یں گے مگر مو ت ان سے بھا گے گی اُن ٹڈ یو ں کا ایک با دشا ہ تھا ہلا کو نا م ( یہ نا م دو زبا نو ں میں تبدیل ہے یعنی عبر انی اور یو نا نی میں ) پا نچ ما ہ اِس ٹٹد ی کی عمر کے ہو ں گے ( یہ عمر بھی دو دفعہ بتلائی گئی ہے ۔)
اب سلسلہ تو ا ریخ نبو ت کا اس آ فت کو زما نہ بنی عرب میں صا ف صا ف لے ڈا لتا ہے یعنی سا تو یں صدی میں اور جا ئے تنا سل(افزائش نسل) ٹڈ ی باد یہ (صحرا)عر ب معر وف ہے ۔چنا نچہ شا می لو گ ٹڈ ی کو عر ب بھی اس لئے کہتے ہیں یعنی بلا ئے عر ب خر وج کے با ب( ۱۰ )میں مو سیٰ نے جو مصر پر ٹڈی منگا ئی تھی سو بھی شرق(مشرق) سے منگا ئی تھی ۔یعنی عر ب سے اور سو رۃ قصا ص کی آ یت ۴۴ میں جو لکھا ہے کہ مو سی ٰ غر ب (مغرب)میں تھا ۔جب اُس کو پیغا م پہنچا تو اس سے ایسا ظا ہر ہو تا ہے کہ عر ب کو شر قی ملک عا م کہتے تھے ۔حلیہ ان ٹڈ یو ں کا نیز (اور ابھی)عر ب سے ملتا ہے۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ با ل اُن کے عو ر تو ں کے سے تھے، کیو نکہ وہ بلو چو ں اور لو مڑیو ں اپنے ہمسا یو ں کا سا سارا سر رکھتے تھے اور سور ۃ قارعہ کی آ یت ۱۵ و ۱۶ میں جو لکھا ہے کہ ہم مخا لفو ں کو کھینچیں گے ان کی چو ٹی سے تو اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ عو ر تو ں کی سی چو ٹی عر ب لو گو ں کے سر و ں پر ضر ور ہو تی تھی ( لفظ نا صیہ کا ترجمہ مو لو ی عبدا لقا در نے چو ٹی درست کیا ہے کیو نکہ پیشا نی میں کوئی جا ئے گر فت کی بھی نہیں ہو تی ) اور سور ۃ فتح میں جو لکھا ہے کہ مو منین مکہ میں خوش ہو نگے با ل منڈ واتے اور کتر واتے ہو ئے تو اس سے بھی کچھ ایما (اشارہ)ایسی نکلتی ہے کہ مکہ با لو ں کی بھیٹ(نذرانہ) اتا رنے کی جگہ تھی جیسے ہند میں بھی بعض خا نقا ہیں(درویشوں اور مشائخ کے رہنے کی جگہ) اسی امر کے وا سطے مخصو ص ہیں ۔ دانت ببرکے سے سو رہ العمران الفا ظ و ا غلاط (خطا)علیم میں دیکھی جا ئیں۔ جن میں لکھا ہے کہ منکر و ں پر تندخو ی(بد مزاجی) کر ۔سر و ں پر سنہری تا ج اشا ر ہ بطر ف ابر یشمی لنگیو ں کے بھی ہو سکتا ہے ۔جو سونے کی طر ح چمکتی ہیں اور جس ریشم اور سو نے کے اہلعر ب ایسے شا یق تھے کہ:
أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
ترجمہ: بہشت میں بھی سو نے کی کنگن اور ابر یشمی پو شا ک کا اُنہیں وعدہ ملا ہے ماسوا شر اب و کباب حو ر(بہشت کی خوبصورت عورت)وغلمان(بہشت کے خوبصورت لڑکے ) کے ( سو رہ کیف آ یت( ۳۰ )۔میں ذ کر و عد ہ سو نے کے کنگنو ں اور ر یشمی پوشاک کا ہے۔
ویسا ہی سورہ حج کی آ یت(٢٣ )
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہیں ہیں۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔
سو رہ صا فا ت آ یت( ۴۲ )
عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ
ترجمہ: بہشت میں شرا ب مز ید ارا و ر عو رتیں بڑی ا ٓ نکھو ں والیاں انڈ و ں کی ما نند خو بصو رت کا ذکر ہے ۔
سو رہ ص کی ا ٓ یت( ۵۲ ) یعنی بہشت کی عو ر تو ں کی عمر محفو ظ کی گئی ہے) ۔
وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ
ترجمہ: اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی ۔
سو رہ فصلا ت کی آ یت( ۳۱) میں لکھا ہے کہ بہشت میں سب کچھ ہے جو چا ہو ۔
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں) ۔ اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو (ملے گی) اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لئے (موجود ہوگی) ۔
سو ر ہ طو ر کی آ یت( ۲۰ تا ۲۲ )
وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ
میں لکھا ہے کہ بہشتیو ں کو کنو اریا ں بڑ ی آ نکھو ں والیا ں ملیں گی اور میو ؤ ں اور گو شت ہر قسم کی ریل پیل لگ جا ئے گی اور چھو کرے مو تی سے بھر تی ہو ں گے اور شر اب کے دور چل رہے ہو ں گے ۔
سو ر ہ رحمان کی آ یت( ۵۶ و ۷۰ )میں لکھا ہے
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ
ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں جن کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ کسی جن نے ان میں نیک سیرت (اور) خوبصورت عورتیں ہیں ۔
سو رہ و ا قعا ت کی آ یت( ۱۷ )تا( ۳۶ )
عَلَىٰ سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ وَحُورٌ عِينٌ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ وَمَاءٍ مَّسْكُوبٍ وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا
(لعل و یاقوت وغیرہ سے) جڑے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ (ایک ہی حالت میں) رہیں گے ان کے آس پاس پھریں گے یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس لے لے کر اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں اور پرندوں کا گوشت جس قسم کا ان کا جی چاہے اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جیسے (حفاظت سے) تہہ کئے ہوئے (آب دار) موتی یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا) اور داہنے ہاتھ والے (سبحان الله) داہنے ہاتھ والے کیا (ہی عیش میں) ہیں (یعنی) بےخار کی بیریوں اور تہہ بہ تہہ کیلوں اور لمبے لمبے سایوں اور پانی کے جھرنوں اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہم نے ان(حوروں) کو پیدا کیا تو ان کو کنواریاں بنایا (اور شوہروں کی) پیاریاں اور ہم عمر۔
اے سلطنت ہر کہ و مہ کے سر میں بہر ے تھے یہ بھی سنہر ی تا ج سروں پر تھے کیو نکہ اہل عر ب کسی کی ملا زمی میں نہیں لڑ تے تھے ۔بلکہ شر یک سلطنت ہو کر لڑ کے تھے ۔دُم میں نیش عقر ب (بچھو کا ڈنک) تلو ار بر راں آ و یز ا ں و خمید ہ تھے ۔مو ت کی جلن پیدا کر رہے تھے صو ر ت گھو ڑو ں جنگی گھو ڑا گا ڑ یو ں کی سی پر ہ (صف)ہا ئے لشکر سو ا ر وں میں دیکھی جا ے سو رہ تو بہ کی آ یت( ۹۳ و ۹۴ )میں لکھا ہے ،کہ جہا د سے وہی معذ ور ہیں جو بد ن میں لا چا ر یا بد ون سو اری کے ہیں ۔جس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ لشکر عر ب کل سو ار و ں کا تھا اور سو رہ عا دیا ت میں ہا نپتے گھوڑوں کی قسم بھی کھا ئی گئی ہے ۔کرتی لوہے کی وہ سرابیل ہیں جن کی تعریف سورۃ نحل میں کی گئی ہے۔ غر ض کہ سو ا ے زما ن و مکا ن کے حیلہ بھی مو افق ہے ۔اب بڑی با ت یہ ہے کہ یہ ستا رہ آ سما ن سے گر ا کون ہے اور کیو ں اُس کوآ سما ن سے گر ا لکھا ہے ۔سو رہ حج میں تسلیم کیا گیا ہے کہ جس نے خدا کو شر یک لگا یا وہ گو یا آ سما ن سے گر ا اور یہ قو ل قر آ ن کا بہت درست بھی ہے مگر ظاہر ہے کہ شر یک لگا نا دو قسم کا ہے یعنی ایک تو یہ کہ ا ُس کا ثا نی غیرا س کو ما ننا اور دو سری یہ کہ اِس کو ہو ُا ہُوا نہ ما ننا اور اپنی خو ا ہش یا خیا ل کی گھڑت (ہاتھ کی کاریگری) کو بجا ئے اُسکے ما ننا ۔ مو لف مکاشفات یہی دو سر ے قسم کا الز ام شر ک کا بنی عر ب پر لگا تا ہے کہ اُس نے ما ہئیت الہٰی میں رو ح القدس اور ابن کا انکا ر کیا ہے ۔چنا نچہ لکھا ہے کہ اس ستا رہ کو اسفل السا فلین (اتھاہ گڑھا)کی کنجی دی گئی جس کو اُس نے کھو لا اور اس میں سے بھٹے کا ساد ھو اں نکلا کہ جس سے ریح و آ فتا ب تا ریک ہو گئے اب ریح اور روح عبر انی نبی کے خیا ل میں ایک ہی لفظ مستعمل ہے یعنی روا خ ۔اور آ فتا ب ایک نا م مسیح ابن اللہ کا ہے چنا نچہ ملاکی بنی اس کو آفتا ب صداقت کہتا ہے اور انجیل یو حنا با ب (ا)میں اُس کو نو ر جہا ں تا ب لکھا ہے ۔اب سو رہ نسا ء کی آ یت( ۴۶ )میں تو لکھا ہے کہ خدا شر یک لگا نا نہیں بخشتا اور سب کچھ بخشتا ہے اور( ۱۶۹)میں تعبیر اُس کی یو ں کی گئی کہ مت ما نو تثلیث مگر تو حید پھر سو رہ ما ئد ہ کی ا ٓ یت( ۱۹ )میں لکھا ہے کہ جو مسیح کی الو ہیت ما نتا ہے وہ کا فر ہے اور اسی سو رہ کی آ یت ( ۷۶، ۷۷، ۸۱)میں لکھا ہے کہ مسیح کی اُ لو ہیت اور تثلیث کو ما ننا کفر ہے ۔اور نجا ت کے بارہ میں سو ر ہ بقر کی آ یت( ۴۷)میں لکھا ہے کہ قیا مت میں بد لہ اور سفا رش نا کا ر ہ با تیں ہیں اور سو رہ انعام کی آ یت ( ۱۶ )میں ہے، کہ نیکی کا درجہ دس گُناہے اور بد ی کا اُتنا ہی جتنا وہ ہو ۔غر ض کہ ثا بت ہو ا پو ری پو ری طر ح سے یہ امر کہ یہ ستا رہ با شا رہ مکا شفا ت کے بنی عر ب ہے۔ اس لئے کہ اسی نے روح الہٰی اور آ فتا ب صدا قت کو منغض(گدلا) کیا ہے ۔دو سرا خا ص نشا ن نبی اس کا یہ دیتا ہے کہ ان دنو ں لو گ مو ت کو ڈھو نڈ ھیں گے اور نہ پا ئیں گے اور یہ ایک بڑی تعجب کی با ت ہے، کہ اُس ستا رہ کا نا م تو ہلا کو بتا یا گیا ہے پھر مو ت اُس کے دنو ں میں گم ہو جا ئے مطلب یہ ہے کہ دل خو اہ مو ت بھی لو گو ں کو اُس کے دنو ں میں نہ ملے گی۔ بھلا جن لو گو ں کو جو رواں اور بیٹیا ں ،ما ئیں اور بہنیں پیر وا ں محمد ی حر م اور بد ون نکا ح کے حلا ل سمجھیں اور دین عزیز اُن کا اُس نے بجبر چھڑ ایا جا ئے اور ما ل دو لت سب چھین لیا جا ئے۔ اُن کو منہ ما نگی مو ت کہا ں سے آ ئے ۔سو رہ نساء میں عا م محمد یو ں کے وا سطے ایک و قیمتیں چا ر منکو حہ عو را ت (عورت کی جمع)اور بلا تعدا د لو نڈ یو ں کی اجا زت ہے ۔( بذریعہ طلا ق پھر جب چا ہیں اُن کو بدل بھی سکتے ہیں اور سو رہ احزا ب سے معلو م ہو تا ہے کہ لو نڈ یوں کی دو قسم ہیں۔ یعنی ایک تو ما ملکت یمینک خا ص ہیں یعنی ملکیت دست راست یعنی خر ید کی لو نڈیا ں ۔دو سر ی ممّا افا ک اللہ علیک یعنی جو ہا تھ لگا دے تجھ کو اللہ یعنی لو ٹ کی عورا ت ما سوا ان کے جو خر ید اور لو ٹ کی لو نڈیا ں ہیں وہ کیا ہیں ۔جن کا بیا ہ بو لا یت غیر کے ہو تا ہے اور اُن کا کچھ اختیا ر نہیں چلتا ۔دا نا ؤ ں کی نظرمیں تو وہ بھی لو نڈ یا ں ہی ہیں جیسا کہ سو ر ہ بقر کی آ یت (۲۳۷)میں اس و لا یت کا ذکر ہے جہا ں طلا ق مر دو ں کا اختیا ری امر ر کھا گیا ہے ۔سو راہ العمران کی آ یت ۶۱ میں لکھا ہے کہ غا زیو ں کو جوا ن میں خو بی دنیاکی چا ہے گا وہ بھی پا ئے گا اور جو عا قبت کی خو بی چا ہے گا سو بھی ملے گی ۔یو ں مزے میں جو چا ہو سو لو ۔سو ر ہ ممتحنہ میں ایک آ یت ہے کہ جو عورت ایما ن لا نے و الی ہو وہ اُس کے بے ایمان شو ہر کو وا پس نہ کی جا ئے۔ مگر اُس کی قیمت دی جا ئے ۔سو رہ العمر ان میں ایک فقرہ ہےکہ غیر منکوحہ عورات تمہا رے لئے جا ئز نہیں تا و قت یہ کہ تمہا ری ملک نہ ہو جا ئیں ۔یعنی حر م بلا فیصلہ حرا م ہے ۔نبی عر ب نے سو رہ احزاب میں اپنے لئے تو تعدادعورا ت اور سلو ک با عورات کچھ قید نہیں رکھی مگر سو رہ نسا ء میں اپنے پیر و ں کو یہ کہا تھا کہ چا ر نکا ح تب کر و جب سب کو بر ابر دیکھ سکو ور نہ عو رت ایک ہی اور لو نڈ یا ں جتنی چا ہو اور پھر ا سی سو رہ میں یہ بھی کہہ د یا تھا کہ کہ بہت کو تم ایک نگا ہ سے ہر گز نہ د یکھ سکو گے ۔مگر عا بد ان پاک کب ایسی قید کو ما ن سکتے ہیں کہ بر ابر دیکھیں ورنہ ایک ہی نکا ح کریں ۔معبد فروسی با مید حو ر۔بجز چا ر و نا چا ر (مجبوراً،زبردستی)با قی نفور(نفرت کرنا) اور سو ر ہ بقر کی( ۱۹۳ ) ۔ آ یت میں لکھا ہے کہ
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِہا د تب تک ضر ور ہے جب تک کُل دین اللہ محمد کا ہو جا ئے ۔یہی حکم سورہ انفا ل کی آیت( ۴) میں ہے اور سو رہ تو بہ میں لکھا ہے کہ کلا م سن لینے تک مخا لفو ں تک فر صت دی جا سکتی ہے کہ ما نیں یا مر یں۔ سو رہ فتح میں بھی لکھا ہے کہ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ یعنی تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔ ایک عجو بہ یہ بھی ہے کہ جبر کے سا تھ ایما ن تو مقبو ل ہے مگر انکا ر خدا جو جبر سے کر ا یا جا ے و ہ لا ئق غضب الہٰی کے نہیں جیسا کہ سو رہ نحل کی ا ٓ یت( ۱۰۸ )میں لکھا ہے۔غرض کہ یہ سبب تھا جو مو ت حسب دل خواہ نہ ملتی تھی جیسے بچھو کے ڈسے کی مو ت تڑ پ تڑ پ کر بُر ی ہو تی ہے ۔
تیسرا بڑا عجو بہ نشا ن یہ دیا گیا ہے کہ اس ٹڈی کو حکم نہ تھا کہ درختوں اور گھا س کو ہلا ک کر یں ( مگر اذیت دیں یہ لکھا ہے )۔ بلکہ صر ف اُن لو گو ں کو ہلاک کر یں جن کے ما تھے پر خدا کی مہر نہیں ۔ یہ اوصا ف ہے(صفت کی جمع) کہ درخت اور گھا س سے یہا ں مر اد اُن لو گو ں سے ہے جو مقا بلہ دوسروں کی مہُر خدا کو اپنے ما تھے پر رکھتے ہیں۔ یعنی یہ مہُر دار لو گ اہل کتا ب میں پُرا نے درخت یہو دی اور نیا اور نر م سبزہ نصا ریٰ ہیں ۔یہ تو سچ ہے کہ سو رہ بقر کی آ یت( ۲۰۴ )میں کہنیا ں (بازو)اُجا ڑ نے و ا لوں کو بھی فسا دی کہا ہے ۔مگر سو رہ حشر کی آ یت( ۵ )میں یو ں لکھا ہے کہ جو در خت کھجورو ں کے تم نے کا ٹ ڈ الے وہ بحکم خدا ایک امرتھا و اسطے رسوا ئی مخا لفو ں کے ۔غر ض کہ یہ گھا س اور درخت بھی اور ہیں اور یہ ٹڈی بھی اور کچھ۔سو رہ تو بہ کی آ یت( ۲۹ )اس خبر کی پو ری تکمیل کر تی ہے جس میں لکھا ہے کہ جو سچادین قبو ل نہ کر ے اُسے ما ر ڈالو، مگر کتا ب وا لے جزیہ دے کر اور ذلیل رہ کر بچ سکتے ہیں ۔ یعنی اہل کتا ب متثنیٰ ہیں اس حکم سے کہ یا ما نیں یا مر یں ۔کیو ں اس لئے کہ خدا نے بمو جب اس نبو ت کے قتل اور قید سے ان کو محفو ظ کر دیا تھا مگر ذلت سے نہیں ۔یہ جو بعض صا حب کہتے ہیں کہ محمدﷺ پر یہ نبو ت درست نہیں آ تی کہ اُس نے اہل کتاب بھی بہت ما رے ہیں اُن کا جو اب یہ ہے کہ بمو جب اس آ یت سو رہ تو بہ کے تکلیف دینے کے واسطے نہیں ما رے ملک سلطنت دنیوی کے واسطے لڑ ائی میں ما رے ہیں۔ جیسے اہل کتا ب خو د بھی تو آ پس میں جنگ سلطنت کے وا سطے لڑا کر تے ہیں لہٰذ ا یہ اعتراض اُن کا معقو ل نہیں ٹھہر سکتا۔
چو تھا نشا ن اس ستا رے کا نا م ہلا کو ہے جو عبر انی اور یو نا نی ہر دوز با ن میں بتا یا گیا ہے، کہ دنید ا ر اور عا قل جھٹ(جلد) پہچا ن لیں کہ یہ کو ن شخص ہے۔ یعنی وہی جس کی صفت ہلا ک کر نا ہو ا ور جب تعلیم اس کی یہ ہے کہ یا اُس کی با ت کو لوگ ما نیں یا مر یں تو اسلا م وہ اپنا نا م کیو ں نہ ر کھے بقو ل آنکہ (ان کے)بر عکس نہ ہند نا م مشک زنگے کا فور۔اور کیا کبھی کو ئی بُرا بھی اپنا نا م برُا رکھتا ہے بجز اُس کے کہ اُس میں بھی کچھ تعریف ہو ۔
پا نچو اں نشا ن اس ستا رے کی عمر کا ہے جو اُس کے نا م کی طر ح تکر ار پا نچ ما ہ کی بتا ئی گئی ہے کہ با یقین (یقین کے ساتھ)ایسا ہی ہے کیو نکہ تکرار براے تا کید آ تا ہے ۔ان پا نچ مہینوں کی دو شر ح کی گئی ہیں۔ یعنی ایک تو یہ کہ پا نچ مہینے کے ایک سو پچا س دن سالانہ ہو تے ہیں اور جہا د محمد یو ں نے ڈیرہ سو بر س کے بعد نہیں کیا۔ جیسے کہ شا رل میں شا ہ فر انس سے شکست کھا ئی بعد اُس کے جو لڑ ا ئی اُنہو ں نے کی ملک گیر ی کی تو کی ہے ،مگر دینی جہاد کے نہیں کی دوسرےنے معنی یہ ہیں کہ نیچرلسٹ فلا سفر ٹڈ ی کی عمر در کُل با نچ ما ہ کی لکھتے ہیں ۔راقم کی نظر میں یہ پچھلے مغے زیا د ہ مطا بق تشبیہی ٹڈی کے ہیں ۔گو ان میں تعین وقت خا ص کا پتا نہیں ۔
ازا ں جاکہ بد عت محمد ی ضد کثر ت بتا ن (بت )پو پی سے نکلی ہےنا قص و کا مل کثر ت کو مٹا کرتو اصلی عمر بھی اس کی وہی معلو م ہو تی ہے جو اس کے چشمہ پو پی کی ہے ۔ یعنی ظہو ر مسیحی سے لے کر( ۲۳۰۰ )بر س تک جیسا کہ ان ہردو کے نشا ن میں دا نیا ل کے با ب( ۸ )میں دکھا یا ہے با ب (۱۹و۲۰) مکا شفا ت میں لیلا(برہ) دو سینگا (دوسینگوں والا)روح جبر د فر یب بد عت پو پی کا ہے جس کو بھی جھو ٹھا نبی کہا گیا ہے اور ایک اور جھو ٹھا نبی بھی ہے بلا تعر یف بلفظ وہ کی اس سے اشا ر ہ بطر ف بد عت محمد ی کے ہے اور حقیقت حا ل یہ بھی ہے کہ بجز نا م و شکل ظا ہر ی کےاصل ان ہر دو بدعات کی ایک ہی ہے ۔(الولد سّرلا بیہ) کے مطا بق اور ضد ان میں صر ف دھو کا ہے کیو نکہ ہلا کت اصل مر ا م (مقصد)ہردوکا و احد ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پیرواں بد عت پو پی و محمد ی کے سا ری جہنمی ہی ضرور ہیں۔ مگر یہ ہر دو بدعات قبیحہ (بُری)اور لا ئق پو رے الزام کے ضر ور ہیں۔ ( دیکھو صفحہ ۳ کتا ب ہذا کو ) ۔
دفعہ ۸۰ ۔
چھٹے فر شتے نے پھو نکا تو دو سرا افسوس بڑا وا لا ظا ہر ہو ا کہ جس میں حکم ہو کہ اُن چا ر فر شتوں کو جو دریا ے فر ات پر بند ھے ہو ئے ہیں کھو ل د وتاکہ ایک سا عت اور ایک دن اور ایک مہینے اور ایک سا ل تک اپنا کا م کریں۔اب سا عت بنو تی سا ل سا لا نہ دنوں کی ہو تی ہے یعنی (۳۶۰ )بر س کی بشر طیکہ با لمقا بل ویسی ہی دو سر ے سا ل کی نہ آ ئے ۔ور نہ وہ ایک سا ل ہی سبھا وک ر ہ جا تی ہے ۔جیسے دن جو سا تھ صبح شام کے نبوت میں لکھا ہویا شام یا صبح سے شروع کرئے تو ( ۲۶ )گھنٹہ کا شما ر ہو تا ہے ورنہ ایک سا ل کا۔ پس یہا ں سا عت (معین وقت )بمعنی ایک سا ل کے آ ئی ہے ،کیو ں کہ دو سرا سال یہاں مو جو د ہے اور یو ں جملہ اس سا عت و دن وما ہ دسا ل کا( ۳۹۱ )سا ل ہو ئے جو ۱۲۸۱ مسیحی سے ۱۶۷۳ مسیحی تک ترکو ں نے ایشیا کو چک پر جنگ و جد ل کیا اور غا لب آ ئے ۔
چا ر فر شتے اُن کو با عتبا ر چا ر ہو ا ئی دنیا کا ٹھہرا کر بھی کہا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ مکا شفا ت کے با ب( ۲۰ )میں انہیں یا جو جیو ں(جوج ماجوج،مکاشفہ میں یہ علامتی طور پر دنیا کی سب بے دین اور ملحد قومیں مراد ہیں ) کو چا ر ہوا ئی کہا گیا ہے اور باب( ۳۸ و ۳۹ )حز قی ایل میں گر و ہو ں سے بے شما ر اُن کو لکھا ہے ۔پھر لکھا ہے کہ سر اُن کے گھو ڑوں کے شیر ببر کی ما نند تھے اور اُن کے منہ سے آ گ اور سنبل ور گندھک نکلتی تھی ۔یہ رو یت تو پ خا نہ کی ہے کہ جس میں وہا تے تو پو ں کے گھو ڑوں کے درمیا ن ببر کے سر جیسے دکھا ئی دیتے ہیں اور اُن میں سے جب وہ سر ہوتے ہیں آ گ اورگند ہک کا شعلہ اور سنبلی دھو اں نکلتا ہے اور تو پخا نہ کے پہلے اُستا د تر ک ہی مشہو ر ہو ے ہیں جو چیں کی طر ف سے با رودلا ئے تھے
دُم اُن کے گھو ڑوں کی سا نپ جیسی لکہی ہے یعنی اُن کا جنگ جہا د دینی کا گو نہ تہا جو بچھو کی طرح خلقت کو تڑ پا دے مگر زہر تعصب سنے بھر ا ہو ا تھا جو لقت کو سلا دے۔ اگر ایک سا عت اور ایک دن اور ایک مہینے اور ایک سا ل کے پو رے عد دلئے جا ئیں تو( ۷۵۱ )ہو تے ہیں اور ۱۲۸۱ مسیحی سے اُن کو ملا یا جا ے ۔تو ۲۰۳۴ءتک اُن کا قا ئم رہنا تصو ر ہو تا ہے اور بمو جب با ب (۸)دا نیا ل کے در نشا ن دجا ل عمر دجا ل درکل( ۲۳۰۰ )کی ہو نے وا لی ہے ۔تو اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خا تمہ بد عت پو پی اور محمد ی کے لک بھگ ہے اُنکا بھی زوال ہو نے وا لا ہے اور حز قی ایل اُن کا خا تمہ بڑا خو فنا ک آخیر زما نہ میں لکھتا ہے پس یہ تو ظا ہر نہیں ہو تا کہ یہ بلا ر فع (چھوڑنا)کب ہو گی مگر اتنا صا ف ہے، کہ بقا اُس کو نہیں اور چو نکہ یہ بھی ایک ضمیمہ(وہ شے جو کسی اور شے پر بڑھا کر لگائیں ) دین محمد ی ہی کا ہے ۔اُسی کے پا نچ ما ہ کے اندر جو عمر ٹڈ ی کی ہے۔ یہ حشرا ت الا رض (کیڑے مکوڑے)بھی دفع ہو جا ئیں گے۔ یعنی نقص ان کا ر فع ہو جا ئے گا اور انسان سےخدا کو دشمنی نہیں۔قتال(قتل کرنے والا) اتراک باخلیفہ بغداد کی خبر بھی محمد صاحب نے انہیں مقامات نبو ت سے لی ہے جو بغداد مر کو زہ دارا سلطنت محمدی سے ہو کر قرات(پڑھنا) پر پہنچنے و ا لے تھے اور مشہو ر غا ر ت گر (لوٹ مار کرنے والا)اور خو نی لو گ یہ تر ک (چھوڑنا)ہیں ۔مکا شفا ت کے با ب( ۲۰ )میں پھر بھی بعد صلح مو عو د کے کو ئی غلبہ عظیم تر کا ن یا جوجی(جوج ماجوج کامخفف) کا ہو نے وا لا لکھا ہے، لیکن اُس کا علا قہ بد عت محمد ی کے سا تھ کچھ نہیں ہو سکتا ۔اس لئے کہ ٹڈی کی عمر مکر ر معین(طے شدہ وقت ) ہو چکی ہے ۔لہٰذ ا پھر وہ جی نہیں سکتی ۔ پس وہ غلبہ کسی اور بد عت مسیحی کا معلو م ہو تا ہے جو بعد صلح مو عود کے آ نے وا لا ہے۔ جس کو آ سما نی آ گ صا ف کر ے گی جو صر ف کھو ٹ کو کھا لے گی اور خا ص سو نے کو نہیں اور بعد اُس کے حقیقی قیا مت ہے ۔
دفعہ۸۱ ۔
اسی چھٹے فر شتے کے نر سنگے میں جس کا ذکر دفعہ( ۸۰ )میں ہو چکا ہے کچھ مختصر سی تو اریخ آ یندہ سلسلہ نبو ت کی بھی بیا ن ہو ئی ہے۔ یعنی اوّل سا ت گرجیں ہو ئیں جو سا ت پیا لیو ں میں قہر سے بھر ی تھیں اور لکھا ہے کہ پھر وقت نہ ہو گا، یعنی ما قبل صلح مو عو دکے بد عا ت مخا لف کا جس کو پہلے قیامت تعبیر کیا گیا ہے ۔جو جی بلا بعد صلح مو عو د نمو د ہو گی مگر جبر ا س کا بمعہ اُس کے فر یب کےآ گ آ سما نی سے فی الفو رصا ف کیا جا ئے گا اور ضر و اُس کا مقدسوں کو نہ پہنچے پا ئےگا ۔سا ت کا عد د کما ل کا ہے جو قہر کا مل کا نشا ن سا ت گر جو ں میں رکھا گیا ہے ۔یہ فر شتہ جس نے قسم کھا ئی کہ پھر وقت نہ ہو گا با دل کو اوڑ ھے تھا۔ یعنی دل انسا نو ں میں پو شیدہ اپنی مشیت(خواہش) کے کا م فر ما رہا تھا اور دھنک اُس کی سر پر تھی۔ طو فا ن اور اما ن چتا نے(نصیحت کرنا) کو کہ جو جس کا طا لب ہو ۔ آ فتا ب سا منو ر تھا یعنی خو د آفتا ب صدا قت مسیح خدا وند منو ر پتیل کے سے اُس کے پا ؤ ں تھے ۔یعنی ستون ہیکل الٰہی کے بنے ہو ئے تھے ۔بر و بحر (خشکی اور پانی )پر قدوم (قدم)رکھے تھا ۔یعنی ما لک بروبحر خود ہی تھا ۔اس فر شتے نے احوال گر جو ں کی تحریر سے یو حنا کو برائے چند یں تا مل (اتنی سوچ بچار)میں ڈالا اورایک کتا ب دی کہ اسے کھا جا ئے اور وہ اُس کے منہ میں میٹھی اور پیٹ میں کڑ وی ہو گئی۔ اس لئے کہ اُس کتا ب میں آ یندہ بد عت خا نگی(گھریلو) کا ذکر آ تا ہے، جو خبر کی طر ح تو مٹھا س در خود رکھتی تھی اور اپنے مضمو ن کی طرح کڑ و ا ہٹ ہے آ یندہ بدعت کے ایا م میں آ گا ہ کیا جا تا ہے کہ دو گو اہ زیتون کی ما نند مو جو د رہیں گے یعنی تیل حق سے بھری کا فی گو اہ کہ جس کا دیا (چراغ)بجھتا نہیں۔( ۴۲ )مہینے یا( ۱۲۶۰ )سا لا نہ دن یا زما ن وزما نیں و نصف زما ن یا آ دھے ہفتہ تک زور اس بد عت آ یندہ مذکو ر شدنی (ہونے والی بات)کے لکھے ہیں۔ جو( ۶۱۰ ء) مسیحی سے شروع ہو ئے جب فو کس قیصر نے بونیفس پو پ کورونا وبمر ڈی اور اٹلی کا تخت دیا اور (۱۸۷۰ء )میں ختم ہو ئی جب و کٹر عما نو ئیل شا ہ اٹلی نے خا تمہ حکو مت پو پی کا کر دیاتھا ۔ مگر یا د رکھنا چا ہئے کہ یہ( ۱۲۶۰ )سا ل صر ف اُس کے جبر ہی کے ہیں اور نہ جبر و فر یب ہر دو کے کیو نکہ کلا م اُس کو چھنا ل(بے شرم ،بدکار فاحشہ عورت ) پیشہ سے تشبیہ دیتا ہے ،کہ جس کے اصغر اورا کبر سنے(سال) کے ایا م چھنا لہ کی عمر سے ما سواہیں۔ کل عمر اس چھنا ل کی زما نہ ظہو ر خدا و ند ی سے لے کر (۲۳۰۰)بر س ہیں ۔جیسا کہ اس کے نشان میں دا نیا ل نے اپنے با ب( ۸ ) میں دکھا ئی ہے اور یہو داہ مقد س اپنے خط میں وا قع ہو نے اس کی پیدائش کا ذکر کر تا ہے ۔چھنا ل اس کو اس وا سطے کہا ہے کہ یہ اپنے شو ہر خدا وند مسیح کے سا تھ وفا دار نہیں رہی اور غیر وں کو بھی اس نے اُس کے برابر کر لیا ۔اس بد عت کے ایا م زور میں لکھا ہے، کہ گو اہی حق مو ت کیسے سکتہ (ایک بیماری جس میں آدمی مردے کی مانند بے حس وحرکت ہوجاتاہے)میں پڑ جا ئے گی ،لیکن پھا ٹک جہنم کے جنت کی راہ پر غا لب کبھی نہ آ نے پا ئیں گی۔ان گو اہو ں کو نشا نا ت مو سو ی اور الیا سی سے مز ین (آراستہ )لکھا ہے ،کہ اولے اور آ گ بر سا سکیں اور با رش کو چا ہیں تو بند کر دیں۔ یعنی خدا وند اُن کی ایسے ہی سنتا ہے جیسے مو سیٰ اور الیا س کی تا کہ فر عو نی بت پر ست جا ن لیں کہ انہیں کے ہا تھوں مغلو ب ہوں گے ۔یہا ں تک تمہید سلسلہ دوئم کا سلسلہ اولین میں ذکر فر ما یا گیا ہے جیسا کہ تنہ (درخت کادھڑ)ہر دو سلسلو ں کا واحد ہی ہے گو جبا ڑے علیحدہ علیحد ہ
سِلسِلہ دو ئم
دفعہ ۸۲ ۔
سا تو یں فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو ایک عو رت سورج کو اوڑ ھے چاند پر بیٹھی ہو ئی با رہ تا جو ں کے سا تھ دکھا ئی دی یہ عو رت کلیسیا مسیحی ہے جوآفتا ب صدا قت کو اوڑ ھے اور سلف(بزرگوں) کی کلیسیا پر بنیا د ڈالے ہو ئے با رہ حو اریو ں سے مفخر (فخرکیاگیا،معزز)تھے ۔
اس عو رت کو دردزہ لگے اور با مید رفا ہیت بخشدہ کے یہ اینٹھ (اکڑ)رہی تھی ،یعنی تکلیف کے ایام میں با مید رفا ہیت انٹھیتےتھے ۔پھر ہر ایک سُر خ اژ دہا نظر آیا ۔جس کے سات سر اور دس سینگ اور سا ت سر وں پر اُ س کے تا ج تھے ۔یہ خو نی شیطان بقا لب(انسانی جسم) سلطنت بت پر ست روم سا ت ٹیکر وں (انبار)وا لے دار الخلافہ کاہے کہ جب خو د سر ہو کر کما ل اپنے زور کا پیچ بھر تا تھا اور دس سینگ اس کے وہ دس مملکتیں تھیں۔ جو پہلے با لقو ہ (ازروئے قوت )رہیں اور بعد میں بفعل (کام)آ ئی یعنی ( ۱ ) فرانس، ( ۲ ) دندال ، ( ۳ ) ویز لیگا تہ ،( ۴ ) لبمروی ، ( ۵ ) او ستر وگا تہ ( ۶ ) ہا رولیز ( ۷ ) سو ی ، ( ۸ ) الد، بر گندی ،( ۱۰ ) کیپیدی ۔اس ا ژدہا نے تہا ئی (تیسراحصہ)ستارے آ سما ن کے گر ادئے ،یعنی جزو نما یا ں مقد سا ن (مقدسوں)کو شہید کیا اور منہ پھا ڑ کر اس عو رت کے آ گے آ یا کہ جب وہ جنے تواس کے بچے کو نگُل جا ئے۔ مگر اس عو رت کو عقا ب کے پر دئے گئے کہ آ دھے ہفتے تک جنگل کو اُڑجا ئے اور وہا ں اس کے رحم کے بچے کی پر ورش اور تر بیت ہو ۔یہ وہ حا ل ہے کہ جب قسطنطین کے ظہو ر تک سا ڑھے تین سو بر س تک کلیسیا ہا تھ ظا لمو ں سے بڑی تکلیف میں تھی، کہ ظا ہر ہو کر مسیحیوں کا جینا مشکل ہو گیا تھا اور اکثر پہاڑوں اور جنگلو ں میں مسیحی گذ ر کر تے تھے ۔آ دھا ہفتہ یہا ں صد یو ں کے دنو ں کا ہے کیو نکہ قرینہ(طور طریق) ایسا ہی ظا ہر کر تا ہے اور دن خدا وند کے کبھی سالوں کے ہیں اور کبھی سینکڑ وں اور ہزاروں سا لو ں کے ۔پھر لکھا ہے کہ جب وہ عورت جنگل میں اُڑ گئی تو وہا ں بھی اژدہا نے عقب(پسِ پشت) اس کے گرِ ل پھینکی کہ اُسے بہا ئے ۔ لیکن زمین وہ گر ِل سو کھ گئی ۔مر اد یہ کہ جب شیطا ن نے دیکھا کہ مسیحی لو گ جنگل اور پہاڑوں میں پھیل گئے تو اُ س نے بذ ریعہ رو میو ں کے اپنے لعا بی(چیپ) پیغا م بھیجےکہ سبھو ں کو مار ڈ ا لو کیو نکہ یہ ہما ری دیو ی اور دیو تا ؤں کی بیری(دشمن) ہیں۔ مگر جنگل اور پہا ڑ کے لو گو ں نے ان کو بےآ زار (بغیر تکلیف)دیکھا اور ان کے مخا لفو ں کی با تو ں کو پی گئے ۔کچھ عمل اُ ن پر نہ کیا ۔پھر لکھا ہے کہ وہ عورت فر زند نرینہ جنی جو مقرر ہوا تھا کہ لو ہے کو عصا سے قو مو ں پر حکمر انی کر ے ۔یہ نا ئب خدا وند قسطنطین ہے جس کو کلیسیا نے جنااور نہ مسیح جس نے کلیسیا کو جنا جیسا کہ بعضو ں نے غلط سمجھا ہے ۔
یہ ہے وہ مو قع جس میں حو اری دیکھتا ہے کہ اس اژ دہا کا ایک سینگ ٹو ٹ گیا، جو بد و نظر میں مہلک نظر آ یا۔ مگر جلد ہی وہ زخم اند ما ل (زخم بھرنا،تسلی )پا کر چنگا (تندرست)ہو گیا ۔یعنی یہ زخم وہ تھا جو بو سیلہ قسطنطین کی سلطنت مسیحی ہو نے کا لگا اور شر وع میں مہلک نظر آ یا اور اند ما ل اس کا اس طرح ہو گیا کہ شیطا ن نے قا لب(خواہش) بُت پر ستی کا چھوڑدیا اور جھٹ پٹ قا لب مسیحی میں آ گیا ۔جیسا کہ جب لو گو ں نے دیکھا کہ بوسیلہ قسطنطین کی سلطنت مسیحی ہو گئی تو کچھ تو اُن میں سے جن کے دل پہلے سے مسیحی دین کی سچا ئی کے قا ئل تھے اور دبے بیٹھے تھے مسیحی ہوگئے اور بہت سے شان اورشکم(پیٹ) پر ست اس میں آ گھسے اور نا پا کی قد یمہ اپنی اپنے سا تھ لے آ ئے ۔یو ں حق و با طل نے مل کر پہلاطبقہ بت پر ستی کا تو اُلٹ یا تھا مگر وہ زخم اژدہا کا یو ں چنگاہو گیا کہ صو رت تو تبدیل ہو ئی مگر اصلیت میں چنداں (تھوڑا سا)فر ق نہ ہو ا ۔
دفعہ ۸۳ ۔
بعد اُس کے حو اری رویت میں دیکھتا ہے کہ ایک حیو ان چیتے جیسا پھرتیلااور بھا لو جیسا بے رحم اور قو ی دست اور شیر جیسا پر زور نمودار ہو ا اور دس سینگ اس کے سر پر کفر کے نا مو ں سے بھر ے ہو ے تا جدارہیں اور اُس اژدہا نے اپنی طاقت اس کو حو الہ کر دی ۔اب غو ر کر نا چا ہئے کہ اژدہا کے تو سر و ں پر تا ج تھے اور اس حیو ان کے سینگو ں پر تا ج ہیں کیو نکہ بُت پر ست روم تو خو دسر تھے اور یہ حیو ان بہت سا در خو د نہیں رکھتا ،بلکہ دو سر ے سروں کی اسری حکو مت کر تا ہے ۔پس ظا ہر ہے کہ یہ حیو ان بُت پر ست روم نہیں ، بلکہ بد عتی مسیحی روم ہے اور سو ائے اس حیوا ن کے حو اری نے ایک اور لیلا(برہ) دو سینگا دیکھا جو بڑے غرور سے تعریف اُس اژدہاکی کر تا تھا اور اس حیو ان کو بچا تاتھا ۔یہ وہ روح جبر و فریب کی ہے جو حکومت ودین کے قالب میں تا ئید اس حیو ان اور اژدہا کی کر تی ہے ۔ایک تا ئید بو ا سطہ اور من ضد بھی ہو تی ہے یہ صو ر ت ہو تو یہ لیلادین محمد ی ہے کہ جس کی غیر ت نے بد عت پو پی کو ا َ ور بھی بڑ ھا یا اور اصو ل ہر دو کے مقد س کشی میں ممد(مدد کرنا)یک دیگر بھی ہیں۔ کفر کے نا م اس حیو ان کے سینگو ں پردرج ہیں ۔
( ۱ ) دعو یٰ لم یز لی شر ح با ئبل کا ہے۔بلا تا ئید ا لہا م یا عقل مزیداز عا م ( ۲ ) بخشنے اور نہ بخشنے گنا ہو ں کا ہے جو سوائے خدا کے اور کو ئی نہیں کر سکتا
(۳) تبد ل(بدلنا) روایا ت کلام الہٰی ،ر وایا ت نفسا نی ( ۴ ) دعو یٰ نیا بُت الہٰی دردین دُنیا بلا وجہ مطلق ۔
دفعہ ۸۴ ۔
فر شتہ خدا کا بتا تا ہے کہ یہ حیوا ن کو ن ہے جو باشکل چھنا ل(بے شرم) ار غو انی اور قر مز ی شا ہا نہ جو ڑا کی پو شا ک میں جو اہرا ت سے لدے ہو ئے، پا نیوں پر بیٹھی نظرآ ئی اور خو ن شہیدان ا لٰہی سے سرشا ر (نشے میں چور)تھی ۔یعنی روم جو با بل اور صدوم بو ضع روحا نی کہلائے۔ جس کو دیکھ کر حو اری بھی دنگ ہو ا اس لئے کہ قالب (خواہش)تو پیشوائےِ دین کا اس میں بھر ا تھا اور فعال خو نی اژدہا کے اس میں تھے ۔فر شتہ اس کو آ ٹھو اں(۸) مخا لف کلیسیا الہٰی کا بتا تا ہے ۔یعنی پہلا تو مصر تھا ،دوسرا سر یا نی سلطنت ،تیسرا با بل، چو تھا فا رس، پا نچواں یو نا ن ،چھؔٹا غیر قو م کا اٹلی، سا تو اں کا بتک جر من جو برائے چند ے آ نے والا بتا یا گیا ہے اور آ ٹھو اں یہی سلطنت پو پی ۔چھٹے کی با بت فر شتہ کہتا ہے یہ ہی جو فی الحا ل راج کر رہا ہے، یعنی غیر قومو ں کے اٹلی اور سا تو یں کی با بت کہتا ہے کہ بر ائے چند ے ہی آئے گا مگر بڑے ہی خو ن خو ار مسیحیو ں کے یہ لو گ تھے ۔بعض آٹھ یو ں کہتے ہیں ۔اوّل با دشا ہت ،دوئم کو نسل ،سوئم ڈ کٹیتر ،چہا رم دلمیوز، پنجم ملٹری ٹریبو ن ،ششم ایمپریل ،ہفتم شاہت، ایمپیریل ہشتم مقد س رومن ایمپایر بر عکس نہ ہندنا م مشک زنگی کا فو ر ۔
عد دنا م اس حیوان کے( ۶۶۶) بتائے گئے ہیں جو سہ کر رکر کے دنیا کا عددہے ۔یعنی دنیا دنیا دنیاوہیچ۔عبر انی میں’’ بلؔعام‘‘ کے نا م کے بھی یہی عدد ہیں۔ جو مردود نبی تھا یونانی میں لفظ ’’لاٹنیاس ‘‘کے بھی یہی عدد ہیں جس کے معنی لاتینی کا آ دمی ہے ۔جس نے با ئبل کو’’ لا ئٹن‘‘ زبا ن میں قید کر ڈالا اور لا ئٹس نے زبا ن میں ’’وکرس فیلدائ ‘‘کے بھی یہی عدد ہیں۔ جس کے معنی نا ئب خدا ہیں اور جو خطاب پو پ نے اپنا بنا ر کھا ہے ۔یو ں جو ز با ن اصلی نبی کی تھی اور جس میں اُس نے مکا شفا ت کو لکھا اور جس میں شخص مرکو ز سمجھے یہ نا م پتا دیتا ہے ۔جس کے کان ہو ں سُنے اور آ نکھ ہو دیکھ لے ۔
دفعہ ۸۵ ۔
اس بدعت کے ایام میں حکم ہو اکہ فر شتے ہنسوا(درانتی) لگا ئیں اور نا لا ئق انگوروں کو کاٹ ڈالیں جن کا خو ن( ۱۶۰۰ )فر سنگ (تین میل سے زائد کا فاصلہ) تک بہا ۔یعنی چا ر سمت دنیا میں بہت سے چا ر دفع اور اس بحر احمر (بہت سرخ دریا)خو ن نا پا کا ن(ناپاک کی جمع) سے پا ر ہو کر (۱۴۴۰۰۰)۔یعنی با رہ حو اریو ں سے جو با رہ با رہ ہزار بنے تھے، یعنی بہت بہت سے با رہ دفع موسیٰ خدا کے بندے کا راگ گا ئیں گے اور تخت اس حیوان پر تاریکی چھاجا ئے گی اور عفرات کلا ن(وسیع) بھی خشک ہو جا ئے گی یعنی سات دفع ہو نے بدعت پوپی کے بدعت محمد ی کا چشمہ بھی جو سلطنت ترکان (ترکی)میں جا ری ہے سوکھ جا ئے گا ۔جو دوسرے افسوس میں جا ری ہو اتھا ۔شر ق (مشرق)کے با دشا ہ اِن ہر دوبدعات پر غا لب آئیں گے۔ یعنی پیرواں (پیروی کرنے والے)آ فتا ب صداقت کے فرا ت سے وہ تین روحیں مینڈکو ں کے دورہو جائیں گے۔یعنی اژدہا اور حیو ان او ر جھوٹھے نبی جن کا ذکر ہو رہا تھا ۔ہر مجدون (ایک وادی کا نام)میں بڑی جنگ ہو گی جہا ں دبو ر ہ اور با رک نے لشکر مجمو عی مخالفوں کو شکست دی تھی۔ان باتوں سے ایسا ظا ہر ہو تا ہے کہ کو ئی قسطنطین ثا نی اور بھی آ نے وا لا ہے کہ جس کے سا تھ کلیسیا ہو گی اور اس کے سا تھ مقا بلہ دجال(مخالف مسیح ) کا اخیرہو نے والاہے اور اس مقا بلہ میں بہت ساقتلان (قتل وغارت)مخالفوں کا ہو کر خا تمہ ہو جا ئے گا ۔
دفعہ ۸۶ ۔
پھر لکھا ہے کہ اخیر وہی دس سینگ جو اس بیسوا کو مدد کر تے تھے اس کی مخا لفت کر یں گے اور اس کے کسد با زاری (معمولی شخص)پر اس کے سا ہو کا ر روئیں گے ۔یہ خدا کی شا ن ہے کہ ایک روزتو وہ تھا کہ جو شخص اس حیوا ن کا نشان اپنے اوپر نہ رکھے ما ر ڈالا جا ئے ۔یا انجام یہ ہے کہ اس سے نفر ت کلی ہے۔ بد عتوں کی جڑ پر کلہا ڑا بجر ہا ہے جس کی آنکھ ہے سو دیکھ لے ۔
دفعہ ۸۷۔
خا تمہ دجالا ن(دجال کی نسبت) مذکور پر صلح مو عود کا وعدہ ہے۔ جس میں جبر وفر یب مخا لف حق کا ہزا ر سا ل تک دورہو جا ئے گا۔ خدا وند بو ضع روحا نی سا ری دنیا میں راج کر ئے گا ۔
ہزار سا ل سے مر اد بہت کی معلو م ہو تی ہے جو دہا (دہائی کا ہندسہ)کہ کو ٹھہرا یاگیا ہے ۔شکل صلح مو عو د کی مشا بہ بقیا مت رکھی ہے جس میں مردے جی اُٹھیں گےیعنی روح الہٰی سے مر دہ روحیں دین داری میں جی اُٹھیں گے اور گنا ہ کی مر دگی دورہو جا ئے گی اور پہلاوقت نہ ر ہے گا ۔
دفعہ ۸۸ ۔
بعد صلح مو عود کےپھر ایک اکٹھ بڑا بھا ری کسی یا جو جی بدعت کا ہو نے وا لا ہے ۔جو بدعا ت مذکو رہ سے سوا ہو گا کیو ں کہ یہ بدعا ت پھر کر جینے والی نہیں اور اس بد عت کی صفا ئی ا ٓ گ ِآ سما نی سے ہو گی ۔یعنی اس قہر سے جو صر ف کھو ٹ کو جلا دے گااور زر خا لص کو صر ف جِلادےگا ۔
دفعہ ۸۹ ۔
با ب( ۲۱ ، ۲۲ )میں حسب ادراک (فہم)انسانی بقا کا نظارہ ہے ۔جس میں خا لص اور سدا کا سکہ سا تھ بھر پو ری کے محبا ن(دوست کی طرح) حق کے لئے ہے اور بالعکس ( بر عکس ) اسکے مخالف ِحق کے لئے ۔
دفعہ ۹۰۔
مو سیٰ نے ابتدائے انسا ن سے شر وع کیا اور یو حنا نے انجا م اُس کا دکھایا ۔کلام الہٰی بعلاقہ نجات آ خر ی کی صر ف کلا م کر تی ہے وہی نجات راقم (تحر یر نویس)کو مطلو ب ہے جس کے واسطے دعاراقم یہ ہے کہ اے دُلہا جلد آ اور مجھے سا تھ میروں (پیشوائے دین)کے بچا۔
ضمیمہ اوّل
دربحث علم سیکالو جی ونیچرل تھیالو جی یعنی
علم روح انسا نی ومعقولات الہٰی
با ب ِ اوّل
در بحث علم سیکالو جی یعنی ورح اِنسانی
فصل اوّل
درتمیز ورح ازعنا صر
عنا صر(عنصر کی جمع،اصلی اجزاء) میں نہ تو صفت علم کی ہے اور نہ ارادہ کی ۔لہٰذا علم وار ا دہ کسی تر کیب عناصر ی میں پیدا بھی نہیں ہو سکتا ۔کیو نکہ جو شئے کسی کی ذات میں نہ ہو وہ کسی ترکیب میں کہا ں سے آ ئے۔یہ کہنا کہ شا ید با لقو ہ ہو تب ہی تسلیم ہو سکتا ہے کہ جب ہر فرد عنصر میں کو ئی کس قدر بہ فعل بھی لا کر دکھا سکے والا فلا۔ کیو نکہ ہم شکل اجناس (جنس کی جمع)تر کیب دہ (کسی چیز کو ملاکرچیزبنانا)کی تو نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر غیر جنس نہیں ہو سکتا تقر یر با لا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم وار دہ والی شئے ماسوائے عناصر وو جودعناصر ی کا ہے اور اُسی کو ہم رو ح کہتے ہیں ،وجو د عنا صر ی کی قید میں پڑ کر یہ روح ظہو ر اپنی بہ قیدحسجا ت(محسوس کرنے کی قوت ) جسما نی اس لئے کر تی ہے کہ آ ئین مقر ر ہ اپنے خالق کو تو ڑ نہیں سکتی۔ جیسے سمتیں تو چا روں یکسا ں ہیں مگر مقناتیس (آہن رُبا،چمبک پتھر)کو حکم نہیں کہ سو ائے شما ل کے اور طر ف رخ کر ے ویسے ہی روح بھی درخو د تو جوہر فر د ہی ہے مگر اپنے ظہور میں محتا ج اجا زت خالق اپنے کی ہے ۔
حقیقی تغیر (تبدیل حالت)بجزعد م و وجو د کے جو ہر فر دمیں اور قسم کا محال ہے ۔تقسیم ِجو ہر فر د کی تعلیم با طل ہے۔ خوا ہ عنا صر میں ہو یا ارواح میں اس لئے کہ جب تقسیم جائز رکھی گئی تو جب تک کوئی خبر سمتوں میں مو جو د ہے۔ تقسیم پذیر بھی ہے اور تقسیم کسی جزکو فنانہیں کر سکتی پس ضر ورہے کہ تقسیم شئےبے حد کو محدودکردے اور محد ودکو بے حد۔بے حد میں تقسیم حد ڈا لتی ہے اور بے حد حصے مکا ن محدودمیں سما نے (رچنا،بسنا)کے لائق نہیں رہ سکتی ،کیو نکہ ہر ایک حصّہ جب کہ کچھ مکان چا ہتا ہے تو بے حد حصّے بے شک بے حد مکا ن لیں گےغلط فلا سفر جس کو تقسیم کر کے دکھاتے ہیں وہ دراصل تفر یق فر دات(فرد کی جمع) مجمو عی ہی کی ہے اور نہ تقسیم شے و احد کی ما سوا اُس کے کہ تقسیم بے حد کو محد ود اور محدود کو بے حد کر تی ہے ۔امتیاز (فرق)چھو ٹا ئی اور بڑائی کا بھی دور کر دیتی ہے کیونکہ جب چھو ٹی اور بڑی شے میں بے حد حصّے ہیں تو وہ ہر دو مسا وی بھی ہو ئی حیا ت جسمی (بدنی)اور شئے ہے اور روح اور شئے،حیا ت آ ئین جسم کا نا م ہے ۔جو نباتا ت میں نشو ونما کر تی ہے اور گھٹ بڑھ بھی سکتی ،مگر اس میں علم اور ارداہ نہیں۔
بشپ بٹلردرست کہتا ہے کہ
جب کہ عنا صرجسمی بد ل جا تے ہیں اور وہ اپناتجربہ آ یندہ عنا صر بجا ئے خو د کو دے نہیں سکتے گو خا نہ اپنا جیسا کا تیسا د ے جاتے ہیں اور پھر یا د گزشتہ اور اُمید آ یندہ نہیں بد لتی تو روح کسی صو رت سے جزو عنا صر نہیں ہو سکتی۔اور پھرہر انسا ن اپنی تو حید کا خو د ہی عا لم و قائل بھی رہتا ہے لہٰذا اسکی فر دیت میں کیا شک ہے ۔
فصل دو ئم
دربحث مظہر اوّل ر وحی
پہلا مظہر روح کا مد رکہ (وہ قوت جس سےانسان اشیاء کی حقیقت دریافت کر سکے ،یعنی عقل اور ذہن)ہے جس سے ادراک خو د کے سا تھ خو د علمی کے وہ کر تا ہے اور ادراک غیر کا سا تھ مس(چھونے کا فعل) با خو د کے ۔
ادراک غیر کے با ب سا ت حس (محسو س کر نے کی قوت)بیرونی ہیں یعنے
( ۱ ) با صر ہ (دیکھنے کی قوت)جہا ں سے کر نو ں کےر نگ کا مس ہو تا ہے۔
( ۲ ) سا معہ (سننے کی قوت)جہاں سے ذرات (چھوٹے چھوٹے ریزے جو قابل تقسیم نہ ہوں)آ واز کی مس ہو تی ہیں ۔
( ۳ ) شا مَّہ (سونگھنے کی قوت یا حِس)جہا ں سے ذ رات بو کی مس ہو تے ہیں ۔
( ۴ ) لا مسہ (چھونے یا مس کرنے والی قوت)جہا ں سے گر م و سر د ذرات کا مس ہو تا ہے ۔
( ۵ ) ذ ا ئِقہ (چکھنے کی قوت)جہا ں سے لذات شے کی مس ہو تی ہیں ۔
( ۶ ) با ہ (قوت ِجماع،قوت ِ مردمی)یہ جہاں سے کیفیت شہو ت کی مس ہو تی ہے ۔
( ۷ ) جا ذبہ(ایک قوت جواعضاء میں موجود ہےاور اپنے موافق مادہ کو جذب کرتی ہے۔) جہاں سے نر م و سخت کا مس ہو تا ہے ۔ہر ایک حس کا خاص مر کز ہے اور ہر ایک حس درخو د مخصوص ہے گو مس اور جذب میں یہ سا تو ں آ سکتے ہیں ۔
تمیز،اثر ،ایما ن ،لف لا زمی داخل مدرکہ ہیں چنانچہ ادر اِک شئے بدون (علاوہ ازیں)تمیز اس کے غیر کے نہیں ہو سکتا اور شئے مد روک بلا اثرنیک یا بدکسی قدر کے نہیں رہ سکتے اور احتیاج(ضرورت،حاجت) شئے میں ما یحتاج (انسانی ضرورت کی چیزیں)ا س کا ضر ور نظر آ تا ہے۔ جیسے صنعت میں صانع(کاریگر) اور اسی طر ح کے دیکھنے کو ایما ن کہتے ہیں ۔ایما ن وہ نہیں جو وسیلہ دکھلانے اپنے کا کُچھ نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تو سریع(جلدی کرنے والا) الا یما نی یا وہم ہی ہے ۔
آ ئینات (آئینہ کی جمع،ظاہر ،صاف)متعلقہ مدر کہ مفصلہ(کھول کر بیان کیا گیا) ذیل ہیں یعنی
( ۱ ) عکس گیر ی شئے مدروک میں روح مدرک (سمجھنے والا،دانا) ٹھیک ما نند شیشہ فٹ گرافی کر نے کے ہے کہ اگر فا عل ومفعول قا ئم بتوجہ یک دیگر ہوں تو عکس سا لم بر آ تا ہے ،ورنہ غیرسا لم ۔غیر شئے کا درمیان حا ئل ہو نا دا خل عکس آ جا تا ہے ۔حد سے زیا دہ اگر تو جہ سمتیں بنی رہیں تو عکس اصلیت سے زیا دہ گا ڑ ھا ہو جا تا ہے اور اگر کم رہے تو اصل سے خفیف رہ جا تا ہے ۔
خیا ل وخو اہش ا کثر حا ئلیت (روکنے والا)کر تے ہیں اور دور بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
( ۲ ) غا یت (انجام)ما ئل(راغب) بہ بے حدی اور اک محد ود میں سما نہیں سکتی ۔اجزا نا دیدنی درخو د کچھ اثر گو کر تے ہو ں مگر جب تک مجموعہ اُن کا دید نی نہ بنے ادراک اُن کا محا ل ہے ۔
( ۳ ) بد ون مقا بلہ شئے ادراک شئے صا ف نہیں ہو سکتا جیسا اندھا ما در زادبا وجو ددیکھنے تا ریکی کے علم تا ریکی بھی صا ف نہیں رکھتا ۔
( ۴ ) ر بط بد ون ضبط ادراک جلد تر نہیں ہو سکتا ۔
وجو ہ(اسباب) سلبیت (جذب ہونا)یا دواشتباہ(دوچیزوں کا یوں ایک ہونا کہ دھوکا ہو جائے ) در مشا ہدات طفو لیت(لڑکپن) آئینات مذ کور الصدرہی ہیں ۔چنا نچہ عا لم رحم میں مقا بلہ اور ربط کُچھ نہ تھا کیو نکہ وہا ں رحم بر ائے رو ح محض قید خا نہ ہی تھا ۔لہٰذ ا علم خو د بھی صا ف نہ ہو سکا پھر جب رحم سے روح با ہر آ ئی تو جم گھٹ(ہجوم) عجا ئبا ت نے اُسے ایسا گھیرلیا کہ پو ری تو جہ کسی شئے پر بھی نہ ہو سکی۔ لہٰذا گڑبڑہی رہی ۔پھر روشنی اور آ وازنے حد سے زیا دہ تو جہ بچے کو اپنی طر ف کھینچا لہٰذا اُن کا عکس اصلیت سے بڑھ کر تا ریک تر عا می سا ہو گیا اور کم پایہ (کم رتبہ)چیزوں کا عکس خفیف (تھوڑا سا)تررہ گیا ۔یو ں کُچھ بلا مقا بلہ رہ کرناصا ف رہ گیااور کُچھ دقیق (مشکل،نازک)اور رقیق(نرم) تر اصلیت سے ہو کر غیر نظر آ نے لگا۔ لہٰذا طفو لیت کا عا لم نا صا ف اور مشتبہ ہو گیا بخبر کسی ایسے امر کے جو خصو صیت پیدا کر کے مد ر کہ پر جم گیا جیسے بعض مخوف (ڈرانے والا)یا مُفّرِح(خوش کرنے والا) خا ص شئے بچو ں کی ہو تی ہے ۔
مدرکہ کل علو م اثبا تیہ (ثبوت ،دلیل)ونا فیہ(درمیان،وسیلہ) اصلی و لا زمی خو دوغیرکا اکیلاچشمہ ہے ۔اس کا خا صہ منو تی(پہلا انسان ،آدم) ہے ۔ اس کا مشا ہد ہ بلاغر ض کا نشنس کہلاتا ہے اس کی آ نکھ دھیا ن ہے اس کی بنیا د واقع ہے اس کا زلز لہ خیا ل بے جا ہے اور اس کا استیصال (جڑ سے اُکھیڑنا)خوا ہش فا سدہ (فسادی،خراب)۔
فصل سو م
دربحث مظہر دو ئم روحی
دو سرا مظہر ر وح کا فخر نہ ہے کہ جس میں نقو ش مد روک جمع ہو تے ہیں اور اس کے آ یا ت ذیل ہیں ۔
( ۱ ) پو را ادر اک شئے وا حد نما کا اس کا اکار ہ ہے گو دراصل وہ اکا ر ہ بہت سی ا یشا ء کا مجمو عہ ہی ہو ۔
( ۲ ) شئے مدخلہ فخرنہ کا اخرا ج طا قت روحی سے با ہر ہے ۔
( ۳) یا د وہا ں شئے بد ون شئے با لقوہ فخرنہ کے بفعل نہیں آ سکتی ۔
فصل چہا رم
دربحث مظہر سو م روحی
تیسرا مظہر روح کا مخیلہ(قوت ِ خیال) ہے جو نقوش ادراک کو فخر نہ سے لے کر بشکل اصلی اور وبیش وپس وپیش کے آ گے روح کے لا سکتا ہے ۔
امتیا زکا رمخیلہ ومدرکہ میں
دفعہ ۷۶ ۔
با ب( ۶ )سے( ۱ ۱ )تک یہ شکل ہے کہ منجملہ سا ت مہر وں نبّو ت کے جو پہلے تو ڑے گئے ۔تو اُس سے سفیدگھو ڑا نکل یعنی کا میا بی دین مسیحی کے پھیلا نےکو دو سرے تو ڑے تو اُس سے لا ل گھو ڑا نکلا، یعنی کلیسیا میں خو نر یزی کر نے کو تیسر ے تو ڑے گئے تو اُس سے کا لا گھو ڑا نکلا یعنی تاریکی اور قحط عضو اں (اجسام)دینی نمودار کر نے کو، مگر اُس میں حکم ہو ا کہ تیل اور مے کو ضر ر پہنچے۔ یعنی عا شقا ن الہٰی گوتھو ڑے رہ جائیں مگر نو ر عر فا ن الہٰی سے منو ر اور نشہ حق سے سر شا ر رہیں۔ چو تھے تو ڑے گئے تو اُس سے پھینکا(زرد)گھو ڑ ا نکلا یعنی اُد اسی اور نر اسی(مایوسی) پھیلا نے کو ۔
یہ چا ر گھو ڑے و یسے ہی ہیں جیسے حز قی ایل اور زکر یا ہ کی ر و یا ت میں انقلا ب پیدا کر نے کو نمو دار ہو ئے تھے ان میں تفا وت(فاصلہ،دوری) صر ف یہ ہے کہ ان میں سفید گھو ڑا پہلے نمو دا ر ہو تا ہے ۔جب کہ ان میں یہ آ خر نمو دار ہو تا تھا اور چا ئے بھی یو ں ہی تھا ۔اس لئے کہ ان میں دین مسیح کا ظہو ر ما بعد تھا اور ان میں اول ہی مرادر وئت اُن گھو ڑ وں کی ظا ہر ہے یعنی یہ کہ دن مسیحی پھیلے گا اور اس پر آ گ امتحا ن کی بذ ریعہ تلوا ر اور بھو ک کے پڑ ے گی اور اس تکلیف بدنی کے سبب قحط عضو ں کلیسیا الہٰی کا پڑ ےگا ۔جس کے سبب کلیسیا میں اُد اسی اور نر اسی سے پھیل جا ئگی مگر جو بچیےگا وہ نو رو نشۂ حق میں منو ر اور سر شا ر بھی ہو گا ۔ پا نچوں مُہر تو ڑ ی گیٔ تو اس سے خو ن شہیدان کی فر یا د آسما ن کی طر ف بلند ہو ئی اور وعدہ انتقا م خدا نے کیا ۔چھٹی مہر تو ڑی گئی تو بھونچا ل آ ئے اور اجرا م سما وی(آسمان) بد ل گئے ۔ سا تویں مہر تو ڑی گئی تو آ دھی گھڑ ی چین ہو ا اور سا ت فر شتے نر سنگو ں والے آ مو جو د ہو ئے ۔یہا ں تک تو اریخ کلیسیا مسیحی کا پہلا حصّہ ہے جو نبو ت میں بیا ن ہو ا ۔یعنی شر وع دین مسیحی سے لے کر زما نہ قسطنطین تک یہ توا ریخ ہے ۔چنانچہ پہلے تو سفید گھو ڑ ا قحط عضوا ن کلیسیا مسیحی (مسیحی کلیسیابدن کی طرح ہے )اور ظلما ت پھیلا نے وا لا آیا۔ پھر پھینکا (زرد)گھو ڑا ہر طر ح کی بے مز گی ،تلو ار، قحط اور اداسی کا آیا اس پر آ ہ شہید ان سُنی گئی اور قسطنطین کے زما نہ میں غا زیا ن (غازی کی جمع،فتح مند)الہٰی کو کُچھ آرام بخشاگیا۔ اس سے بعد دو سرا حصّہ توا ریخ کلیسیا کا نبوّ ت میں شر وع ہو ا اور صو رت جنگ بد ل گئی ۔یعنی غیر قو م کے آ فتا ب و مہتا ب اور ستارے تو ز لزلہ سلطنت اور زوال ان کے سے بد ل گئے، مگر دوسر ے اُن کی بجا ئے جو قالب دین میں آ ئے وہ بھی بے د ین دراصل تھے۔ لہٰذ ا ان میں متفر ق قسم کے آ فا ت نمودار ہو ئے ۔چنا نچہ پہلے فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو خو ن آ لو دہ اولے زمین پر گر ے بمشا بہ (کی مانند)اولو ں مصر کے جو سر خ آ گ میں لپٹے ہو ئے تھے ۔دو سر ے فرشتے نے پھو نکا تو آگ بر سی جیسے ا لیا س نے بر سا ئی تھی ۔تیسرے نے پھو نکا تو پا نی تلخ ہو گئے جیسے پا نی مارہ کے با عث کڑ کڑ ا ہٹ بنی اسر ا ئیل کے تلخ ہو گئے تھے ۔
چو تھے نے پھو نکا تو آ فتا ب و ما ہتاب اور ستا ر ے بے فردغ ہوگئے ۔جیسے پہلے حصّہ اس تو ار یخ نبو تی میں اور بر وقت بر با دی یر و شلیم بعد ظہو ر خدا مسیح کے ہوئے تھے ۔
خلا صہ ان چا ر آ فت کا یہ ہے کہ بعد ظہور قسطنطین کی مخا لفت غیر قوم نےکی تو دور ہو گئی تھی مگر بجا ئے اُس کے بد عا ت بے د ینی کلیسیا میں گھس آ ئی کیونکہ طنطنہ قسطنطین کو د یکھ کر شا ن و شو کت پر ست دنیا کے دین میں گھس آ ئی اور ان میں غضب دار جلن جھگڑے پید ا ہو ئے اور ا ٓ خیر کٹ ٹھپ کرمٹ گئے یہ تھے وہ خو ن ا ٓ لو دہ او لے جلن اور حسد کے جو نا م کے مسیحیو ں اور اصل کے فر عو نیو ں پر پڑ ے جو اُ ن کے اعما لو ں کے سبب یخ(برف،بہت ٹھنڈا) میں آگ لگا رہے تھے اور یہ تھے۔ وہ آ تش غضب و غصہ کے جو با ہم اُن کے دستے کے دستے غا رت کر رہے تھے اور یہ تھے وہ تلخ کا می(ناپسندیدہ کام) جو بگڑ ے ہو ے اسر ا ئیلیو ں نے با ہم حسدا اور کینہ کے پیدا کر ر کھے تھے۔ حتٰی کہ اُ ن کے نمو دار سر دار ما رے گئے ۔مگر انہو ں نے ہنو ز اپنی بد یو ں سے تو بہ نہ کی اور اس لئے کہ یہ آ فا ت تشبیہی تھی اور سخت سروں(سرکش) میں نہ سما ئی۔ لہٰذ ا بد تر ین آ فا ت کو اجا زت ہو ئی کہ اُن کی تا دیب و تلقین کر یں ۔چنا نچہ دو سر احصّہ بھی مطابق پہلے حصّہ کے ہے یعنی تین سو بر س کے قر یب اور تو ا ریخ کلیسیا اس حصے کے واسطے بھی دیکھی جا ئے کہ کیا ٹھیک ٹھیک در ست آ تی ہے۔ غر ض کہ ہر دو حصّے قر یب تین تین سو بر س کے ہیں۔ یعنی ایک تو زمانہ مسیح سے قسطنطین تک اور دو سرا قسطنطین سے سا تو یں صدی کے شر وع تک ہر دور صحیح صحیح پو رے ہو تے ہیں آ گے اس سے اسی سلسلہ کا تیسرا حصّہ خوفناک آ تا ہے ۔
دفعہ ۷۹ ۔
جب پا نچو یں فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو اس میں سے بڑ ے افسو سوں کا پہلا افسوس اس طر ح پیدا ہو کہ آ سما ن سے ایک ستا رہ گر ا جس کو قعر اسفل(نہایت نچلی گہرائی) السا فلین (کمینہ)کی کنجی دی گئی تھی ۔جس کے کھو لنے پر بڑ ے پیچھے کا سا د ھو اں نکلا جس سے ریح (ہوا،پاد)اور آفتا ب منغض (گدلا)ہو گئے۔ پھر اُس دھو یں سے ٹڈیاں نکلیں جن کے دانت ببر کیسے تھے اور بال عورتوں کے سے اور سر وں پر سنہر ی تاج تھے اور بد ن پر لو ہے کی بکتر اور دمو ں میں بچھو وُں کے سے ڈنگ تھے اور جن کے پر وں کی آ وا ز ایسی تھی۔ جیسے جنگی گھو ڑ ےگا ڑ یو ں کی ہو تی ہے۔ اُن ٹٹدیو ں کو اجا زت ہو ئی کہ اُن کو ہلا ک کر یں جن کے ما تھے پر خدا کی مُہر نہیں ۔لیکن د ر ختو ں اور گھا س کو ہلا ک نہ کر یں مگر اذیت دیں ۔ان دنوں لوگ مو ت کو ڈ ھو نڈ یں گے مگر مو ت ان سے بھا گے گی اُن ٹڈ یو ں کا ایک با دشا ہ تھا ہلا کو نا م ( یہ نا م دو زبا نو ں میں تبدیل ہے یعنی عبر انی اور یو نا نی میں ) پا نچ ما ہ اِس ٹٹد ی کی عمر کے ہو ں گے ( یہ عمر بھی دو دفعہ بتلائی گئی ہے ۔)
اب سلسلہ تو ا ریخ نبو ت کا اس آ فت کو زما نہ بنی عرب میں صا ف صا ف لے ڈا لتا ہے یعنی سا تو یں صدی میں اور جا ئے تنا سل(افزائش نسل) ٹڈ ی باد یہ (صحرا)عر ب معر وف ہے ۔چنا نچہ شا می لو گ ٹڈ ی کو عر ب بھی اس لئے کہتے ہیں یعنی بلا ئے عر ب خر وج کے با ب( ۱۰ )میں مو سیٰ نے جو مصر پر ٹڈی منگا ئی تھی سو بھی شرق(مشرق) سے منگا ئی تھی ۔یعنی عر ب سے اور سو رۃ قصا ص کی آ یت ۴۴ میں جو لکھا ہے کہ مو سی ٰ غر ب (مغرب)میں تھا ۔جب اُس کو پیغا م پہنچا تو اس سے ایسا ظا ہر ہو تا ہے کہ عر ب کو شر قی ملک عا م کہتے تھے ۔حلیہ ان ٹڈ یو ں کا نیز (اور ابھی)عر ب سے ملتا ہے۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ با ل اُن کے عو ر تو ں کے سے تھے، کیو نکہ وہ بلو چو ں اور لو مڑیو ں اپنے ہمسا یو ں کا سا سارا سر رکھتے تھے اور سور ۃ قارعہ کی آ یت ۱۵ و ۱۶ میں جو لکھا ہے کہ ہم مخا لفو ں کو کھینچیں گے ان کی چو ٹی سے تو اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ عو ر تو ں کی سی چو ٹی عر ب لو گو ں کے سر و ں پر ضر ور ہو تی تھی ( لفظ نا صیہ کا ترجمہ مو لو ی عبدا لقا در نے چو ٹی درست کیا ہے کیو نکہ پیشا نی میں کوئی جا ئے گر فت کی بھی نہیں ہو تی ) اور سور ۃ فتح میں جو لکھا ہے کہ مو منین مکہ میں خوش ہو نگے با ل منڈ واتے اور کتر واتے ہو ئے تو اس سے بھی کچھ ایما (اشارہ)ایسی نکلتی ہے کہ مکہ با لو ں کی بھیٹ(نذرانہ) اتا رنے کی جگہ تھی جیسے ہند میں بھی بعض خا نقا ہیں(درویشوں اور مشائخ کے رہنے کی جگہ) اسی امر کے وا سطے مخصو ص ہیں ۔ دانت ببرکے سے سو رہ العمران الفا ظ و ا غلاط (خطا)علیم میں دیکھی جا ئیں۔ جن میں لکھا ہے کہ منکر و ں پر تندخو ی(بد مزاجی) کر ۔سر و ں پر سنہری تا ج اشا ر ہ بطر ف ابر یشمی لنگیو ں کے بھی ہو سکتا ہے ۔جو سونے کی طر ح چمکتی ہیں اور جس ریشم اور سو نے کے اہلعر ب ایسے شا یق تھے کہ:
أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
ترجمہ: بہشت میں بھی سو نے کی کنگن اور ابر یشمی پو شا ک کا اُنہیں وعدہ ملا ہے ماسوا شر اب و کباب حو ر(بہشت کی خوبصورت عورت)وغلمان(بہشت کے خوبصورت لڑکے ) کے ( سو رہ کیف آ یت( ۳۰ )۔میں ذ کر و عد ہ سو نے کے کنگنو ں اور ر یشمی پوشاک کا ہے۔
ویسا ہی سورہ حج کی آ یت(٢٣ )
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہیں ہیں۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔
سو رہ صا فا ت آ یت( ۴۲ )
عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ
ترجمہ: بہشت میں شرا ب مز ید ارا و ر عو رتیں بڑی ا ٓ نکھو ں والیاں انڈ و ں کی ما نند خو بصو رت کا ذکر ہے ۔
سو رہ ص کی ا ٓ یت( ۵۲ ) یعنی بہشت کی عو ر تو ں کی عمر محفو ظ کی گئی ہے) ۔
وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ
ترجمہ: اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی ۔
سو رہ فصلا ت کی آ یت( ۳۱) میں لکھا ہے کہ بہشت میں سب کچھ ہے جو چا ہو ۔
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں) ۔ اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو (ملے گی) اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لئے (موجود ہوگی) ۔
سو ر ہ طو ر کی آ یت( ۲۰ تا ۲۲ )
وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ
میں لکھا ہے کہ بہشتیو ں کو کنو اریا ں بڑ ی آ نکھو ں والیا ں ملیں گی اور میو ؤ ں اور گو شت ہر قسم کی ریل پیل لگ جا ئے گی اور چھو کرے مو تی سے بھر تی ہو ں گے اور شر اب کے دور چل رہے ہو ں گے ۔
سو ر ہ رحمان کی آ یت( ۵۶ و ۷۰ )میں لکھا ہے
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ
ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں جن کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ کسی جن نے ان میں نیک سیرت (اور) خوبصورت عورتیں ہیں ۔
سو رہ و ا قعا ت کی آ یت( ۱۷ )تا( ۳۶ )
عَلَىٰ سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ وَحُورٌ عِينٌ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ وَمَاءٍ مَّسْكُوبٍ وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا
(لعل و یاقوت وغیرہ سے) جڑے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ (ایک ہی حالت میں) رہیں گے ان کے آس پاس پھریں گے یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس لے لے کر اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں اور پرندوں کا گوشت جس قسم کا ان کا جی چاہے اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جیسے (حفاظت سے) تہہ کئے ہوئے (آب دار) موتی یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا) اور داہنے ہاتھ والے (سبحان الله) داہنے ہاتھ والے کیا (ہی عیش میں) ہیں (یعنی) بےخار کی بیریوں اور تہہ بہ تہہ کیلوں اور لمبے لمبے سایوں اور پانی کے جھرنوں اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہم نے ان(حوروں) کو پیدا کیا تو ان کو کنواریاں بنایا (اور شوہروں کی) پیاریاں اور ہم عمر۔
اے سلطنت ہر کہ و مہ کے سر میں بہر ے تھے یہ بھی سنہر ی تا ج سروں پر تھے کیو نکہ اہل عر ب کسی کی ملا زمی میں نہیں لڑ تے تھے ۔بلکہ شر یک سلطنت ہو کر لڑ کے تھے ۔دُم میں نیش عقر ب (بچھو کا ڈنک) تلو ار بر راں آ و یز ا ں و خمید ہ تھے ۔مو ت کی جلن پیدا کر رہے تھے صو ر ت گھو ڑو ں جنگی گھو ڑا گا ڑ یو ں کی سی پر ہ (صف)ہا ئے لشکر سو ا ر وں میں دیکھی جا ے سو رہ تو بہ کی آ یت( ۹۳ و ۹۴ )میں لکھا ہے ،کہ جہا د سے وہی معذ ور ہیں جو بد ن میں لا چا ر یا بد ون سو اری کے ہیں ۔جس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ لشکر عر ب کل سو ار و ں کا تھا اور سو رہ عا دیا ت میں ہا نپتے گھوڑوں کی قسم بھی کھا ئی گئی ہے ۔کرتی لوہے کی وہ سرابیل ہیں جن کی تعریف سورۃ نحل میں کی گئی ہے۔ غر ض کہ سو ا ے زما ن و مکا ن کے حیلہ بھی مو افق ہے ۔اب بڑی با ت یہ ہے کہ یہ ستا رہ آ سما ن سے گر ا کون ہے اور کیو ں اُس کوآ سما ن سے گر ا لکھا ہے ۔سو رہ حج میں تسلیم کیا گیا ہے کہ جس نے خدا کو شر یک لگا یا وہ گو یا آ سما ن سے گر ا اور یہ قو ل قر آ ن کا بہت درست بھی ہے مگر ظاہر ہے کہ شر یک لگا نا دو قسم کا ہے یعنی ایک تو یہ کہ ا ُس کا ثا نی غیرا س کو ما ننا اور دو سری یہ کہ اِس کو ہو ُا ہُوا نہ ما ننا اور اپنی خو ا ہش یا خیا ل کی گھڑت (ہاتھ کی کاریگری) کو بجا ئے اُسکے ما ننا ۔ مو لف مکاشفات یہی دو سر ے قسم کا الز ام شر ک کا بنی عر ب پر لگا تا ہے کہ اُس نے ما ہئیت الہٰی میں رو ح القدس اور ابن کا انکا ر کیا ہے ۔چنا نچہ لکھا ہے کہ اس ستا رہ کو اسفل السا فلین (اتھاہ گڑھا)کی کنجی دی گئی جس کو اُس نے کھو لا اور اس میں سے بھٹے کا ساد ھو اں نکلا کہ جس سے ریح و آ فتا ب تا ریک ہو گئے اب ریح اور روح عبر انی نبی کے خیا ل میں ایک ہی لفظ مستعمل ہے یعنی روا خ ۔اور آ فتا ب ایک نا م مسیح ابن اللہ کا ہے چنا نچہ ملاکی بنی اس کو آفتا ب صداقت کہتا ہے اور انجیل یو حنا با ب (ا)میں اُس کو نو ر جہا ں تا ب لکھا ہے ۔اب سو رہ نسا ء کی آ یت( ۴۶ )میں تو لکھا ہے کہ خدا شر یک لگا نا نہیں بخشتا اور سب کچھ بخشتا ہے اور( ۱۶۹)میں تعبیر اُس کی یو ں کی گئی کہ مت ما نو تثلیث مگر تو حید پھر سو رہ ما ئد ہ کی ا ٓ یت( ۱۹ )میں لکھا ہے کہ جو مسیح کی الو ہیت ما نتا ہے وہ کا فر ہے اور اسی سو رہ کی آ یت ( ۷۶، ۷۷، ۸۱)میں لکھا ہے کہ مسیح کی اُ لو ہیت اور تثلیث کو ما ننا کفر ہے ۔اور نجا ت کے بارہ میں سو ر ہ بقر کی آ یت( ۴۷)میں لکھا ہے کہ قیا مت میں بد لہ اور سفا رش نا کا ر ہ با تیں ہیں اور سو رہ انعام کی آ یت ( ۱۶ )میں ہے، کہ نیکی کا درجہ دس گُناہے اور بد ی کا اُتنا ہی جتنا وہ ہو ۔غر ض کہ ثا بت ہو ا پو ری پو ری طر ح سے یہ امر کہ یہ ستا رہ با شا رہ مکا شفا ت کے بنی عر ب ہے۔ اس لئے کہ اسی نے روح الہٰی اور آ فتا ب صدا قت کو منغض(گدلا) کیا ہے ۔دو سرا خا ص نشا ن نبی اس کا یہ دیتا ہے کہ ان دنو ں لو گ مو ت کو ڈھو نڈ ھیں گے اور نہ پا ئیں گے اور یہ ایک بڑی تعجب کی با ت ہے، کہ اُس ستا رہ کا نا م تو ہلا کو بتا یا گیا ہے پھر مو ت اُس کے دنو ں میں گم ہو جا ئے مطلب یہ ہے کہ دل خو اہ مو ت بھی لو گو ں کو اُس کے دنو ں میں نہ ملے گی۔ بھلا جن لو گو ں کو جو رواں اور بیٹیا ں ،ما ئیں اور بہنیں پیر وا ں محمد ی حر م اور بد ون نکا ح کے حلا ل سمجھیں اور دین عزیز اُن کا اُس نے بجبر چھڑ ایا جا ئے اور ما ل دو لت سب چھین لیا جا ئے۔ اُن کو منہ ما نگی مو ت کہا ں سے آ ئے ۔سو رہ نساء میں عا م محمد یو ں کے وا سطے ایک و قیمتیں چا ر منکو حہ عو را ت (عورت کی جمع)اور بلا تعدا د لو نڈ یو ں کی اجا زت ہے ۔( بذریعہ طلا ق پھر جب چا ہیں اُن کو بدل بھی سکتے ہیں اور سو رہ احزا ب سے معلو م ہو تا ہے کہ لو نڈ یوں کی دو قسم ہیں۔ یعنی ایک تو ما ملکت یمینک خا ص ہیں یعنی ملکیت دست راست یعنی خر ید کی لو نڈیا ں ۔دو سر ی ممّا افا ک اللہ علیک یعنی جو ہا تھ لگا دے تجھ کو اللہ یعنی لو ٹ کی عورا ت ما سوا ان کے جو خر ید اور لو ٹ کی لو نڈیا ں ہیں وہ کیا ہیں ۔جن کا بیا ہ بو لا یت غیر کے ہو تا ہے اور اُن کا کچھ اختیا ر نہیں چلتا ۔دا نا ؤ ں کی نظرمیں تو وہ بھی لو نڈ یا ں ہی ہیں جیسا کہ سو ر ہ بقر کی آ یت (۲۳۷)میں اس و لا یت کا ذکر ہے جہا ں طلا ق مر دو ں کا اختیا ری امر ر کھا گیا ہے ۔سو راہ العمران کی آ یت ۶۱ میں لکھا ہے کہ غا زیو ں کو جوا ن میں خو بی دنیاکی چا ہے گا وہ بھی پا ئے گا اور جو عا قبت کی خو بی چا ہے گا سو بھی ملے گی ۔یو ں مزے میں جو چا ہو سو لو ۔سو ر ہ ممتحنہ میں ایک آ یت ہے کہ جو عورت ایما ن لا نے و الی ہو وہ اُس کے بے ایمان شو ہر کو وا پس نہ کی جا ئے۔ مگر اُس کی قیمت دی جا ئے ۔سو رہ العمر ان میں ایک فقرہ ہےکہ غیر منکوحہ عورات تمہا رے لئے جا ئز نہیں تا و قت یہ کہ تمہا ری ملک نہ ہو جا ئیں ۔یعنی حر م بلا فیصلہ حرا م ہے ۔نبی عر ب نے سو رہ احزاب میں اپنے لئے تو تعدادعورا ت اور سلو ک با عورات کچھ قید نہیں رکھی مگر سو رہ نسا ء میں اپنے پیر و ں کو یہ کہا تھا کہ چا ر نکا ح تب کر و جب سب کو بر ابر دیکھ سکو ور نہ عو رت ایک ہی اور لو نڈ یا ں جتنی چا ہو اور پھر ا سی سو رہ میں یہ بھی کہہ د یا تھا کہ کہ بہت کو تم ایک نگا ہ سے ہر گز نہ د یکھ سکو گے ۔مگر عا بد ان پاک کب ایسی قید کو ما ن سکتے ہیں کہ بر ابر دیکھیں ورنہ ایک ہی نکا ح کریں ۔معبد فروسی با مید حو ر۔ بجز چا ر و نا چا ر (مجبوراً،زبردستی)با قی نفور(نفرت کرنا) اور سو ر ہ بقر کی( ۱۹۳ ) ۔ آ یت میں لکھا ہے کہ
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِِجہا د تب تک ضر ور ہے جب تک کُل دین اللہ محمد کا ہو جا ئے ۔یہی حکم سورہ انفا ل کی آیت( ۴) میں ہے اور سو رہ تو بہ میں لکھا ہے کہ کلا م سن لینے تک مخا لفو ں تک فر صت دی جا سکتی ہے کہ ما نیں یا مر یں۔ سو رہ فتح میں بھی لکھا ہے کہ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ یعنی تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔ ایک عجو بہ یہ بھی ہے کہ جبر کے سا تھ ایما ن تو مقبو ل ہے مگر انکا ر خدا جو جبر سے کر ا یا جا ے و ہ لا ئق غضب الہٰی کے نہیں جیسا کہ سو رہ نحل کی ا ٓ یت( ۱۰۸ )میں لکھا ہے۔غرض کہ یہ سبب تھا جو مو ت حسب دل خواہ نہ ملتی تھی جیسے بچھو کے ڈسے کی مو ت تڑ پ تڑ پ کر بُر ی ہو تی ہے ۔
یسرا بڑا عجو بہ نشا ن یہ دیا گیا ہے کہ اس ٹڈی کو حکم نہ تھا کہ درختوں اور گھا س کو ہلا ک کر یں ( مگر اذیت دیں یہ لکھا ہے )۔ بلکہ صر ف اُن لو گو ں کو ہلاک کر یں جن کے ما تھے پر خدا کی مہر نہیں ۔ یہ اوصا ف ہے(صفت کی جمع) کہ درخت اور گھا س سے یہا ں مر اد اُن لو گو ں سے ہے جو مقا بلہ دوسروں کی مہُر خدا کو اپنے ما تھے پر رکھتے ہیں۔ یعنی یہ مہُر دار لو گ اہل کتا ب میں پُرا نے درخت یہو دی اور نیا اور نر م سبزہ نصا ریٰ ہیں ۔یہ تو سچ ہے کہ سو رہ بقر کی آ یت( ۲۰۴ )میں کہنیا ں (بازو)اُجا ڑ نے و ا لوں کو بھی فسا دی کہا ہے ۔مگر سو رہ حشر کی آ یت( ۵ )میں یو ں لکھا ہے کہ جو در خت کھجورو ں کے تم نے کا ٹ ڈ الے وہ بحکم خدا ایک امرتھا و اسطے رسوا ئی مخا لفو ں کے ۔غر ض کہ یہ گھا س اور درخت بھی اور ہیں اور یہ ٹڈی بھی اور کچھ۔سو رہ تو بہ کی آ یت( ۲۹ )اس خبر کی پو ری تکمیل کر تی ہے جس میں لکھا ہے کہ جو سچادین قبو ل نہ کر ے اُسے ما ر ڈالو، مگر کتا ب وا لے جزیہ دے کر اور ذلیل رہ کر بچ سکتے ہیں ۔ یعنی اہل کتا ب متثنیٰ ہیں اس حکم سے کہ یا ما نیں یا مر یں ۔کیو ں اس لئے کہ خدا نے بمو جب اس نبو ت کے قتل اور قید سے ان کو محفو ظ کر دیا تھا مگر ذلت سے نہیں ۔یہ جو بعض صا حب کہتے ہیں کہ محمدﷺ پر یہ نبو ت درست نہیں آ تی کہ اُس نے اہل کتاب بھی بہت ما رے ہیں اُن کا جو اب یہ ہے کہ بمو جب اس آ یت سو رہ تو بہ کے تکلیف دینے کے واسطے نہیں ما رے ملک سلطنت دنیوی کے واسطے لڑ ائی میں ما رے ہیں۔ جیسے اہل کتا ب خو د بھی تو آ پس میں جنگ سلطنت کے وا سطے لڑا کر تے ہیں لہٰذ ا یہ اعتراض اُن کا معقو ل نہیں ٹھہر سکتا۔
چو تھا نشا ن اس ستا رے کا نا م ہلا کو ہے جو عبر انی اور یو نا نی ہر دوز با ن میں بتا یا گیا ہے، کہ دنید ا ر اور عا قل جھٹ(جلد) پہچا ن لیں کہ یہ کو ن شخص ہے۔ یعنی وہی جس کی صفت ہلا ک کر نا ہو ا ور جب تعلیم اس کی یہ ہے کہ یا اُس کی با ت کو لوگ ما نیں یا مر یں تو اسلا م وہ اپنا نا م کیو ں نہ ر کھے بقو ل آنکہ (ان کے)بر عکس نہ ہند نا م مشک زنگے کا فور۔اور کیا کبھی کو ئی بُرا بھی اپنا نا م برُا رکھتا ہے بجز اُس کے کہ اُس میں بھی کچھ تعریف ہو ۔
پا نچو اں نشا ن اس ستا رے کی عمر کا ہے جو اُس کے نا م کی طر ح تکر ار پا نچ ما ہ کی بتا ئی گئی ہے کہ با یقین (یقین کے ساتھ)ایسا ہی ہے کیو نکہ تکرار براے تا کید آ تا ہے ۔ان پا نچ مہینوں کی دو شر ح کی گئی ہیں۔ یعنی ایک تو یہ کہ پا نچ مہینے کے ایک سو پچا س دن سالانہ ہو تے ہیں اور جہا د محمد یو ں نے ڈیرہ سو بر س کے بعد نہیں کیا۔ جیسے کہ شا رل میں شا ہ فر انس سے شکست کھا ئی بعد اُس کے جو لڑ ا ئی اُنہو ں نے کی ملک گیر ی کی تو کی ہے ،مگر دینی جہاد کے نہیں کی دوسرےنے معنی یہ ہیں کہ نیچرلسٹ فلا سفر ٹڈ ی کی عمر در کُل با نچ ما ہ کی لکھتے ہیں ۔راقم کی نظر میں یہ پچھلے مغے زیا د ہ مطا بق تشبیہی ٹڈی کے ہیں ۔گو ان میں تعین وقت خا ص کا پتا نہیں ۔
ازا ں جاکہ بد عت محمد ی ضد کثر ت بتا ن (بت )پو پی سے نکلی ہےنا قص و کا مل کثر ت کو مٹا کرتو اصلی عمر بھی اس کی وہی معلو م ہو تی ہے جو اس کے چشمہ پو پی کی ہے ۔ یعنی ظہو ر مسیحی سے لے کر( ۲۳۰۰ )بر س تک جیسا کہ ان ہردو کے نشا ن میں دا نیا ل کے با ب( ۸ )میں دکھا یا ہے با ب (۱۹و۲۰) مکا شفا ت میں لیلا(برہ) دو سینگا (دوسینگوں والا)روح جبر د فر یب بد عت پو پی کا ہے جس کو بھی جھو ٹھا نبی کہا گیا ہے اور ایک اور جھو ٹھا نبی بھی ہے بلا تعر یف بلفظ وہ کی اس سے اشا ر ہ بطر ف بد عت محمد ی کے ہے اور حقیقت حا ل یہ بھی ہے کہ بجز نا م و شکل ظا ہر ی کےاصل ان ہر دو بدعات کی ایک ہی ہے ۔(الولد سّرلا بیہ) کے مطا بق اور ضد ان میں صر ف دھو کا ہے کیو نکہ ہلا کت اصل مر ا م (مقصد)ہردوکا و احد ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پیرواں بد عت پو پی و محمد ی کے سا ری جہنمی ہی ضرور ہیں۔ مگر یہ ہر دو بدعات قبیحہ (بُری)اور لا ئق پو رے الزام کے ضر ور ہیں۔ ( دیکھو صفحہ ۳ کتا ب ہذا کو ) ۔
دفعہ ۸۰ ۔
چھٹے فر شتے نے پھو نکا تو دو سرا افسوس بڑا وا لا ظا ہر ہو ا کہ جس میں حکم ہو کہ اُن چا ر فر شتوں کو جو دریا ے فر ات پر بند ھے ہو ئے ہیں کھو ل د وتاکہ ایک سا عت اور ایک دن اور ایک مہینے اور ایک سا ل تک اپنا کا م کریں۔اب سا عت بنو تی سا ل سا لا نہ دنوں کی ہو تی ہے یعنی (۳۶۰ )بر س کی بشر طیکہ با لمقا بل ویسی ہی دو سر ے سا ل کی نہ آ ئے ۔ور نہ وہ ایک سا ل ہی سبھا وک ر ہ جا تی ہے ۔جیسے دن جو سا تھ صبح شام کے نبوت میں لکھا ہویا شام یا صبح سے شروع کرئے تو ( ۲۶ )گھنٹہ کا شما ر ہو تا ہے ورنہ ایک سا ل کا۔ پس یہا ں سا عت (معین وقت )بمعنی ایک سا ل کے آ ئی ہے ،کیو ں کہ دو سرا سال یہاں مو جو د ہے اور یو ں جملہ اس سا عت و دن وما ہ دسا ل کا( ۳۹۱ )سا ل ہو ئے جو ۱۲۸۱ مسیحی سے ۱۶۷۳ مسیحی تک ترکو ں نے ایشیا کو چک پر جنگ و جد ل کیا اور غا لب آ ئے ۔
چا ر فر شتے اُن کو با عتبا ر چا ر ہو ا ئی دنیا کا ٹھہرا کر بھی کہا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ مکا شفا ت کے با ب( ۲۰ )میں انہیں یا جو جیو ں(جوج ماجوج،مکاشفہ میں یہ علامتی طور پر دنیا کی سب بے دین اور ملحد قومیں مراد ہیں ) کو چا ر ہوا ئی کہا گیا ہے اور باب( ۳۸ و ۳۹ )حز قی ایل میں گر و ہو ں سے بے شما ر اُن کو لکھا ہے ۔پھر لکھا ہے کہ سر اُن کے گھو ڑوں کے شیر ببر کی ما نند تھے اور اُن کے منہ سے آ گ اور سنبل ور گندھک نکلتی تھی ۔یہ رو یت تو پ خا نہ کی ہے کہ جس میں وہا تے تو پو ں کے گھو ڑوں کے درمیا ن ببر کے سر جیسے دکھا ئی دیتے ہیں اور اُن میں سے جب وہ سر ہوتے ہیں آ گ اورگند ہک کا شعلہ اور سنبلی دھو اں نکلتا ہے اور تو پخا نہ کے پہلے اُستا د تر ک ہی مشہو ر ہو ے ہیں جو چیں کی طر ف سے با رودلا ئے تھے
دُم اُن کے گھو ڑوں کی سا نپ جیسی لکہی ہے یعنی اُن کا جنگ جہا د دینی کا گو نہ تہا جو بچھو کی طرح خلقت کو تڑ پا دے مگر زہر تعصب سنے بھر ا ہو ا تھا جو لقت کو سلا دے۔ اگر ایک سا عت اور ایک دن اور ایک مہینے اور ایک سا ل کے پو رے عد دلئے جا ئیں تو( ۷۵۱ )ہو تے ہیں اور ۱۲۸۱ مسیحی سے اُن کو ملا یا جا ے ۔تو ۲۰۳۴ءتک اُن کا قا ئم رہنا تصو ر ہو تا ہے اور بمو جب با ب (۸)دا نیا ل کے در نشا ن دجا ل عمر دجا ل درکل( ۲۳۰۰ )کی ہو نے وا لی ہے ۔تو اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خا تمہ بد عت پو پی اور محمد ی کے لک بھگ ہے اُنکا بھی زوال ہو نے وا لا ہے اور حز قی ایل اُن کا خا تمہ بڑا خو فنا ک آخیر زما نہ میں لکھتا ہے پس یہ تو ظا ہر نہیں ہو تا کہ یہ بلا ر فع (چھوڑنا)کب ہو گی مگر اتنا صا ف ہے، کہ بقا اُس کو نہیں اور چو نکہ یہ بھی ایک ضمیمہ(وہ شے جو کسی اور شے پر بڑھا کر لگائیں ) دین محمد ی ہی کا ہے ۔اُسی کے پا نچ ما ہ کے اندر جو عمر ٹڈ ی کی ہے۔ یہ حشرا ت الا رض (کیڑے مکوڑے)بھی دفع ہو جا ئیں گے۔ یعنی نقص ان کا ر فع ہو جا ئے گا اور انسان سےخدا کو دشمنی نہیں۔قتال(قتل کرنے والا) اتراک باخلیفہ بغداد کی خبر بھی محمد صاحب نے انہیں مقامات نبو ت سے لی ہے جو بغداد مر کو زہ دارا سلطنت محمدی سے ہو کر قرات(پڑھنا) پر پہنچنے و ا لے تھے اور مشہو ر غا ر ت گر (لوٹ مار کرنے والا)اور خو نی لو گ یہ تر ک (چھوڑنا)ہیں ۔مکا شفا ت کے با ب( ۲۰ )میں پھر بھی بعد صلح مو عو د کے کو ئی غلبہ عظیم تر کا ن یا جوجی(جوج ماجوج کامخفف) کا ہو نے وا لا لکھا ہے، لیکن اُس کا علا قہ بد عت محمد ی کے سا تھ کچھ نہیں ہو سکتا ۔اس لئے کہ ٹڈی کی عمر مکر ر معین(طے شدہ وقت ) ہو چکی ہے ۔لہٰذ ا پھر وہ جی نہیں سکتی ۔ پس وہ غلبہ کسی اور بد عت مسیحی کا معلو م ہو تا ہے جو بعد صلح مو عود کے آ نے وا لا ہے۔ جس کو آ سما نی آ گ صا ف کر ے گی جو صر ف کھو ٹ کو کھا لے گی اور خا ص سو نے کو نہیں اور بعد اُس کے حقیقی قیا مت ہے ۔
دفعہ۸۱ ۔
اسی چھٹے فر شتے کے نر سنگے میں جس کا ذکر دفعہ( ۸۰ )میں ہو چکا ہے کچھ مختصر سی تو اریخ آ یندہ سلسلہ نبو ت کی بھی بیا ن ہو ئی ہے۔ یعنی اوّل سا ت گرجیں ہو ئیں جو سا ت پیا لیو ں میں قہر سے بھر ی تھیں اور لکھا ہے کہ پھر وقت نہ ہو گا، یعنی ما قبل صلح مو عو دکے بد عا ت مخا لف کا جس کو پہلے قیامت تعبیر کیا گیا ہے ۔جو جی بلا بعد صلح مو عو د نمو د ہو گی مگر جبر ا س کا بمعہ اُس کے فر یب کےآ گ آ سما نی سے فی الفو رصا ف کیا جا ئے گا اور ضر و اُس کا مقدسوں کو نہ پہنچے پا ئےگا ۔سا ت کا عد د کما ل کا ہے جو قہر کا مل کا نشا ن سا ت گر جو ں میں رکھا گیا ہے ۔یہ فر شتہ جس نے قسم کھا ئی کہ پھر وقت نہ ہو گا با دل کو اوڑ ھے تھا۔ یعنی دل انسا نو ں میں پو شیدہ اپنی مشیت(خواہش) کے کا م فر ما رہا تھا اور دھنک اُس کی سر پر تھی۔ طو فا ن اور اما ن چتا نے(نصیحت کرنا) کو کہ جو جس کا طا لب ہو ۔ آ فتا ب سا منو ر تھا یعنی خو د آفتا ب صدا قت مسیح خدا وند منو ر پتیل کے سے اُس کے پا ؤ ں تھے ۔یعنی ستون ہیکل الٰہی کے بنے ہو ئے تھے ۔بر و بحر (خشکی اور پانی )پر قدوم (قدم)رکھے تھا ۔یعنی ما لک بروبحر خود ہی تھا ۔اس فر شتے نے احوال گر جو ں کی تحریر سے یو حنا کو برائے چند یں تا مل (اتنی سوچ بچار)میں ڈالا اورایک کتا ب دی کہ اسے کھا جا ئے اور وہ اُس کے منہ میں میٹھی اور پیٹ میں کڑ وی ہو گئی۔ اس لئے کہ اُس کتا ب میں آ یندہ بد عت خا نگی(گھریلو) کا ذکر آ تا ہے، جو خبر کی طر ح تو مٹھا س در خود رکھتی تھی اور اپنے مضمو ن کی طرح کڑ و ا ہٹ ہے آ یندہ بدعت کے ایا م میں آ گا ہ کیا جا تا ہے کہ دو گو اہ زیتون کی ما نند مو جو د رہیں گے یعنی تیل حق سے بھری کا فی گو اہ کہ جس کا دیا (چراغ)بجھتا نہیں۔( ۴۲ )مہینے یا( ۱۲۶۰ )سا لا نہ دن یا زما ن وزما نیں و نصف زما ن یا آ دھے ہفتہ تک زور اس بد عت آ یندہ مذکو ر شدنی (ہونے والی بات)کے لکھے ہیں۔ جو( ۶۱۰ ء) مسیحی سے شروع ہو ئے جب فو کس قیصر نے بونیفس پو پ کورونا وبمر ڈی اور اٹلی کا تخت دیا اور (۱۸۷۰ء )میں ختم ہو ئی جب و کٹر عما نو ئیل شا ہ اٹلی نے خا تمہ حکو مت پو پی کا کر دیاتھا ۔ مگر یا د رکھنا چا ہئے کہ یہ( ۱۲۶۰ )سا ل صر ف اُس کے جبر ہی کے ہیں اور نہ جبر و فر یب ہر دو کے کیو نکہ کلا م اُس کو چھنا ل(بے شرم ،بدکار فاحشہ عورت ) پیشہ سے تشبیہ دیتا ہے ،کہ جس کے اصغر اورا کبر سنے(سال) کے ایا م چھنا لہ کی عمر سے ما سواہیں۔ کل عمر اس چھنا ل کی زما نہ ظہو ر خدا و ند ی سے لے کر (۲۳۰۰)بر س ہیں ۔جیسا کہ اس کے نشان میں دا نیا ل نے اپنے با ب( ۸ ) میں دکھا ئی ہے اور یہو داہ مقد س اپنے خط میں وا قع ہو نے اس کی پیدائش کا ذکر کر تا ہے ۔چھنا ل اس کو اس وا سطے کہا ہے کہ یہ اپنے شو ہر خدا وند مسیح کے سا تھ وفا دار نہیں رہی اور غیر وں کو بھی اس نے اُس کے برابر کر لیا ۔اس بد عت کے ایا م زور میں لکھا ہے، کہ گو اہی حق مو ت کیسے سکتہ (ایک بیماری جس میں آدمی مردے کی مانند بے حس وحرکت ہوجاتاہے)میں پڑ جا ئے گی ،لیکن پھا ٹک جہنم کے جنت کی راہ پر غا لب کبھی نہ آ نے پا ئیں گی۔ان گو اہو ں کو نشا نا ت مو سو ی اور الیا سی سے مز ین (آراستہ )لکھا ہے ،کہ اولے اور آ گ بر سا سکیں اور با رش کو چا ہیں تو بند کر دیں۔ یعنی خدا وند اُن کی ایسے ہی سنتا ہے جیسے مو سیٰ اور الیا س کی تا کہ فر عو نی بت پر ست جا ن لیں کہ انہیں کے ہا تھوں مغلو ب ہوں گے ۔یہا ں تک تمہید سلسلہ دوئم کا سلسلہ اولین میں ذکر فر ما یا گیا ہے جیسا کہ تنہ (درخت کادھڑ)ہر دو سلسلو ں کا واحد ہی ہے گو جبا ڑے علیحدہ علیحد ہ
سِلسِلہ دو ئم
دفعہ ۸۲ ۔
سا تو یں فر شتے نے نر سنگا پھو نکا تو ایک عو رت سورج کو اوڑ ھے چاند پر بیٹھی ہو ئی با رہ تا جو ں کے سا تھ دکھا ئی دی یہ عو رت کلیسیا مسیحی ہے جوآفتا ب صدا قت کو اوڑ ھے اور سلف(بزرگوں) کی کلیسیا پر بنیا د ڈالے ہو ئے با رہ حو اریو ں سے مفخر (فخرکیاگیا،معزز)تھے ۔
اس عو رت کو دردزہ لگے اور با مید رفا ہیت بخشدہ کے یہ اینٹھ (اکڑ)رہی تھی ،یعنی تکلیف کے ایام میں با مید رفا ہیت انٹھیتےتھے ۔پھر ہر ایک سُر خ اژ دہا نظر آیا ۔جس کے سات سر اور دس سینگ اور سا ت سر وں پر اُ س کے تا ج تھے ۔یہ خو نی شیطان بقا لب(انسانی جسم) سلطنت بت پر ست روم سا ت ٹیکر وں (انبار)وا لے دار الخلافہ کاہے کہ جب خو د سر ہو کر کما ل اپنے زور کا پیچ بھر تا تھا اور دس سینگ اس کے وہ دس مملکتیں تھیں۔ جو پہلے با لقو ہ (ازروئے قوت )رہیں اور بعد میں بفعل (کام)آ ئی یعنی ( ۱ ) فرانس، ( ۲ ) دندال ، ( ۳ ) ویز لیگا تہ ،( ۴ ) لبمروی ، ( ۵ ) او ستر وگا تہ ( ۶ ) ہا رولیز ( ۷ ) سو ی ، ( ۸ ) الد، بر گندی ،( ۱۰ ) کیپیدی ۔اس ا ژدہا نے تہا ئی (تیسراحصہ)ستارے آ سما ن کے گر ادئے ،یعنی جزو نما یا ں مقد سا ن (مقدسوں)کو شہید کیا اور منہ پھا ڑ کر اس عو رت کے آ گے آ یا کہ جب وہ جنے تواس کے بچے کو نگُل جا ئے۔ مگر اس عو رت کو عقا ب کے پر دئے گئے کہ آ دھے ہفتے تک جنگل کو اُڑجا ئے اور وہا ں اس کے رحم کے بچے کی پر ورش اور تر بیت ہو ۔یہ وہ حا ل ہے کہ جب قسطنطین کے ظہو ر تک سا ڑھے تین سو بر س تک کلیسیا ہا تھ ظا لمو ں سے بڑی تکلیف میں تھی، کہ ظا ہر ہو کر مسیحیوں کا جینا مشکل ہو گیا تھا اور اکثر پہاڑوں اور جنگلو ں میں مسیحی گذ ر کر تے تھے ۔آ دھا ہفتہ یہا ں صد یو ں کے دنو ں کا ہے کیو نکہ قرینہ(طور طریق) ایسا ہی ظا ہر کر تا ہے اور دن خدا وند کے کبھی سالوں کے ہیں اور کبھی سینکڑ وں اور ہزاروں سا لو ں کے ۔پھر لکھا ہے کہ جب وہ عورت جنگل میں اُڑ گئی تو وہا ں بھی اژدہا نے عقب(پسِ پشت) اس کے گرِ ل پھینکی کہ اُسے بہا ئے ۔ لیکن زمین وہ گر ِل سو کھ گئی ۔مر اد یہ کہ جب شیطا ن نے دیکھا کہ مسیحی لو گ جنگل اور پہاڑوں میں پھیل گئے تو اُ س نے بذ ریعہ رو میو ں کے اپنے لعا بی(چیپ) پیغا م بھیجےکہ سبھو ں کو مار ڈ ا لو کیو نکہ یہ ہما ری دیو ی اور دیو تا ؤں کی بیری(دشمن) ہیں۔ مگر جنگل اور پہا ڑ کے لو گو ں نے ان کو بےآ زار (بغیر تکلیف)دیکھا اور ان کے مخا لفو ں کی با تو ں کو پی گئے ۔کچھ عمل اُ ن پر نہ کیا ۔پھر لکھا ہے کہ وہ عورت فر زند نرینہ جنی جو مقرر ہوا تھا کہ لو ہے کو عصا سے قو مو ں پر حکمر انی کر ے ۔یہ نا ئب خدا وند قسطنطین ہے جس کو کلیسیا نے جنااور نہ مسیح جس نے کلیسیا کو جنا جیسا کہ بعضو ں نے غلط سمجھا ہے ۔
یہ ہے وہ مو قع جس میں حو اری دیکھتا ہے کہ اس اژ دہا کا ایک سینگ ٹو ٹ گیا، جو بد و نظر میں مہلک نظر آ یا۔ مگر جلد ہی وہ زخم اند ما ل (زخم بھرنا،تسلی )پا کر چنگا (تندرست)ہو گیا ۔یعنی یہ زخم وہ تھا جو بو سیلہ قسطنطین کی سلطنت مسیحی ہو نے کا لگا اور شر وع میں مہلک نظر آ یا اور اند ما ل اس کا اس طرح ہو گیا کہ شیطا ن نے قا لب(خواہش) بُت پر ستی کا چھوڑدیا اور جھٹ پٹ قا لب مسیحی میں آ گیا ۔جیسا کہ جب لو گو ں نے دیکھا کہ بوسیلہ قسطنطین کی سلطنت مسیحی ہو گئی تو کچھ تو اُن میں سے جن کے دل پہلے سے مسیحی دین کی سچا ئی کے قا ئل تھے اور دبے بیٹھے تھے مسیحی ہوگئے اور بہت سے شان اورشکم(پیٹ) پر ست اس میں آ گھسے اور نا پا کی قد یمہ اپنی اپنے سا تھ لے آ ئے ۔یو ں حق و با طل نے مل کر پہلاطبقہ بت پر ستی کا تو اُلٹ یا تھا مگر وہ زخم اژدہا کا یو ں چنگاہو گیا کہ صو رت تو تبدیل ہو ئی مگر اصلیت میں چنداں (تھوڑا سا)فر ق نہ ہو ا ۔
دفعہ ۸۳ ۔
بعد اُس کے حو اری رویت میں دیکھتا ہے کہ ایک حیو ان چیتے جیسا پھرتیلااور بھا لو جیسا بے رحم اور قو ی دست اور شیر جیسا پر زور نمودار ہو ا اور دس سینگ اس کے سر پر کفر کے نا مو ں سے بھر ے ہو ے تا جدارہیں اور اُس اژدہا نے اپنی طاقت اس کو حو الہ کر دی ۔اب غو ر کر نا چا ہئے کہ اژدہا کے تو سر و ں پر تا ج تھے اور اس حیو ان کے سینگو ں پر تا ج ہیں کیو نکہ بُت پر ست روم تو خو دسر تھے اور یہ حیو ان بہت سا در خو د نہیں رکھتا ،بلکہ دو سر ے سروں کی اسری حکو مت کر تا ہے ۔پس ظا ہر ہے کہ یہ حیو ان بُت پر ست روم نہیں ، بلکہ بد عتی مسیحی روم ہے اور سو ائے اس حیوا ن کے حو اری نے ایک اور لیلا(برہ) دو سینگا دیکھا جو بڑے غرور سے تعریف اُس اژدہاکی کر تا تھا اور اس حیو ان کو بچا تاتھا ۔یہ وہ روح جبر و فریب کی ہے جو حکومت ودین کے قالب میں تا ئید اس حیو ان اور اژدہا کی کر تی ہے ۔ایک تا ئید بو ا سطہ اور من ضد بھی ہو تی ہے یہ صو ر ت ہو تو یہ لیلادین محمد ی ہے کہ جس کی غیر ت نے بد عت پو پی کو ا َ ور بھی بڑ ھا یا اور اصو ل ہر دو کے مقد س کشی میں ممد(مدد کرنا)یک دیگر بھی ہیں۔ کفر کے نا م اس حیو ان کے سینگو ں پردرج ہیں ۔
( ۱ ) دعو یٰ لم یز لی شر ح با ئبل کا ہے۔بلا تا ئید ا لہا م یا عقل مزیداز عا م ( ۲ ) بخشنے اور نہ بخشنے گنا ہو ں کا ہے جو سوائے خدا کے اور کو ئی نہیں کر سکتا (۳) تبد ل(بدلنا) روایا ت کلام الہٰی ،ر وایا ت نفسا نی ( ۴ ) دعو یٰ نیا بُت الہٰی دردین دُنیا بلا وجہ مطلق ۔
دفعہ ۸۴ ۔
فر شتہ خدا کا بتا تا ہے کہ یہ حیوا ن کو ن ہے جو باشکل چھنا ل(بے شرم) ار غو انی اور قر مز ی شا ہا نہ جو ڑا کی پو شا ک میں جو اہرا ت سے لدے ہو ئے، پا نیوں پر بیٹھی نظرآ ئی اور خو ن شہیدان ا لٰہی سے سرشا ر (نشے میں چور)تھی ۔یعنی روم جو با بل اور صدوم بو ضع روحا نی کہلائے۔ جس کو دیکھ کر حو اری بھی دنگ ہو ا اس لئے کہ قالب (خواہش)تو پیشوائےِ دین کا اس میں بھر ا تھا اور فعال خو نی اژدہا کے اس میں تھے ۔فر شتہ اس کو آ ٹھو اں(۸) مخا لف کلیسیا الہٰی کا بتا تا ہے ۔یعنی پہلا تو مصر تھا ،دوسرا سر یا نی سلطنت ،تیسرا با بل، چو تھا فا رس، پا نچواں یو نا ن ،چھؔٹا غیر قو م کا اٹلی، سا تو اں کا بتک جر من جو برائے چند ے آ نے والا بتا یا گیا ہے اور آ ٹھو اں یہی سلطنت پو پی ۔چھٹے کی با بت فر شتہ کہتا ہے یہ ہی جو فی الحا ل راج کر رہا ہے، یعنی غیر قومو ں کے اٹلی اور سا تو یں کی با بت کہتا ہے کہ بر ائے چند ے ہی آئے گا مگر بڑے ہی خو ن خو ار مسیحیو ں کے یہ لو گ تھے ۔بعض آٹھ یو ں کہتے ہیں ۔اوّل با دشا ہت ،دوئم کو نسل ،سوئم ڈ کٹیتر ،چہا رم دلمیوز، پنجم ملٹری ٹریبو ن ،ششم ایمپریل ،ہفتم شاہت، ایمپیریل ہشتم مقد س رومن ایمپایر بر عکس نہ ہندنا م مشک زنگی کا فو ر ۔
عد دنا م اس حیوان کے( ۶۶۶) بتائے گئے ہیں جو سہ کر رکر کے دنیا کا عددہے ۔یعنی دنیا دنیا دنیاوہیچ۔عبر انی میں’’ بلؔعام‘‘ کے نا م کے بھی یہی عدد ہیں۔ جو مردود نبی تھا یونانی میں لفظ ’’لاٹنیاس ‘‘کے بھی یہی عدد ہیں جس کے معنی لاتینی کا آ دمی ہے ۔جس نے با ئبل کو’’ لا ئٹن‘‘ زبا ن میں قید کر ڈالا اور لا ئٹس نے زبا ن میں ’’وکرس فیلدائ ‘‘کے بھی یہی عدد ہیں۔ جس کے معنی نا ئب خدا ہیں اور جو خطاب پو پ نے اپنا بنا ر کھا ہے ۔یو ں جو ز با ن اصلی نبی کی تھی اور جس میں اُس نے مکا شفا ت کو لکھا اور جس میں شخص مرکو ز سمجھے یہ نا م پتا دیتا ہے ۔جس کے کان ہو ں سُنے اور آ نکھ ہو دیکھ لے ۔
دفعہ ۸۵ ۔
اس بدعت کے ایام میں حکم ہو اکہ فر شتے ہنسوا(درانتی) لگا ئیں اور نا لا ئق انگوروں کو کاٹ ڈالیں جن کا خو ن( ۱۶۰۰ )فر سنگ (تین میل سے زائد کا فاصلہ) تک بہا ۔یعنی چا ر سمت دنیا میں بہت سے چا ر دفع اور اس بحر احمر (بہت سرخ دریا)خو ن نا پا کا ن(ناپاک کی جمع) سے پا ر ہو کر (۱۴۴۰۰۰)۔یعنی با رہ حو اریو ں سے جو با رہ با رہ ہزار بنے تھے، یعنی بہت بہت سے با رہ دفع موسیٰ خدا کے بندے کا راگ گا ئیں گے اور تخت اس حیوان پر تاریکی چھاجا ئے گی اور عفرات کلا ن(وسیع) بھی خشک ہو جا ئے گی یعنی سات دفع ہو نے بدعت پوپی کے بدعت محمد ی کا چشمہ بھی جو سلطنت ترکان (ترکی)میں جا ری ہے سوکھ جا ئے گا ۔جو دوسرے افسوس میں جا ری ہو اتھا ۔شر ق (مشرق)کے با دشا ہ اِن ہر دوبدعات پر غا لب آئیں گے۔ یعنی پیرواں (پیروی کرنے والے)آ فتا ب صداقت کے فرا ت سے وہ تین روحیں مینڈکو ں کے دورہو جائیں گے۔یعنی اژدہا اور حیو ان او ر جھوٹھے نبی جن کا ذکر ہو رہا تھا ۔ہر مجدون (ایک وادی کا نام)میں بڑی جنگ ہو گی جہا ں دبو ر ہ اور با رک نے لشکر مجمو عی مخالفوں کو شکست دی تھی۔ان باتوں سے ایسا ظا ہر ہو تا ہے کہ کو ئی قسطنطین ثا نی اور بھی آ نے وا لا ہے کہ جس کے سا تھ کلیسیا ہو گی اور اس کے سا تھ مقا بلہ دجال(مخالف مسیح ) کا اخیرہو نے والاہے اور اس مقا بلہ میں بہت ساقتلان (قتل وغارت)مخالفوں کا ہو کر خا تمہ ہو جا ئے گا ۔
دفعہ ۸۶ ۔
پھر لکھا ہے کہ اخیر وہی دس سینگ جو اس بیسوا کو مدد کر تے تھے اس کی مخا لفت کر یں گے اور اس کے کسد با زاری (معمولی شخص)پر اس کے سا ہو کا ر روئیں گے ۔یہ خدا کی شا ن ہے کہ ایک روزتو وہ تھا کہ جو شخص اس حیوا ن کا نشان اپنے اوپر نہ رکھے ما ر ڈالا جا ئے ۔یا انجام یہ ہے کہ اس سے نفر ت کلی ہے۔ بد عتوں کی جڑ پر کلہا ڑا بجر ہا ہے جس کی آنکھ ہے سو دیکھ لے ۔
دفعہ ۸۷۔
خا تمہ دجالا ن(دجال کی نسبت) مذکور پر صلح مو عود کا وعدہ ہے۔ جس میں جبر وفر یب مخا لف حق کا ہزا ر سا ل تک دورہو جا ئے گا۔ خدا وند بو ضع روحا نی سا ری دنیا میں راج کر ئے گا ۔
ہزار سا ل سے مر اد بہت کی معلو م ہو تی ہے جو دہا (دہائی کا ہندسہ)کہ کو ٹھہرا یاگیا ہے ۔شکل صلح مو عو د کی مشا بہ بقیا مت رکھی ہے جس میں مردے جی اُٹھیں گےیعنی روح الہٰی سے مر دہ روحیں دین داری میں جی اُٹھیں گے اور گنا ہ کی مر دگی دورہو جا ئے گی اور پہلاوقت نہ ر ہے گا ۔
دفعہ ۸۸ ۔
بعد صلح مو عود کےپھر ایک اکٹھ بڑا بھا ری کسی یا جو جی بدعت کا ہو نے وا لا ہے ۔جو بدعا ت مذکو رہ سے سوا ہو گا کیو ں کہ یہ بدعا ت پھر کر جینے والی نہیں اور اس بد عت کی صفا ئی ا ٓ گ ِآ سما نی سے ہو گی ۔یعنی اس قہر سے جو صر ف کھو ٹ کو جلا دے گااور زر خا لص کو صر ف جِلادےگا ۔
دفعہ ۸۹ ۔
با ب( ۲۱ ، ۲۲ )میں حسب ادراک (فہم)انسانی بقا کا نظارہ ہے ۔جس میں خا لص اور سدا کا سکہ سا تھ بھر پو ری کے محبا ن(دوست کی طرح) حق کے لئے ہے اور بالعکس ( بر عکس ) اسکے مخالف ِحق کے لئے ۔
دفعہ ۹۰۔
مو سیٰ نے ابتدائے انسا ن سے شر وع کیا اور یو حنا نے انجا م اُس کا دکھایا ۔کلام الہٰی بعلاقہ نجات آ خر ی کی صر ف کلا م کر تی ہے وہی نجات راقم (تحر یر نویس)کو مطلو ب ہے جس کے واسطے دعاراقم یہ ہے کہ اے دُلہا جلد آ اور مجھے سا تھ میروں (پیشوائے دین)کے بچا۔
ضمیمہ اوّل
دربحث علم سیکالو جی ونیچرل تھیالو جی یعنی
علم روح انسا نی ومعقولات الہٰی
با ب ِ اوّل
در بحث علم سیکالو جی یعنی ورح اِنسانی
فصل اوّل
درتمیز ورح ازعنا صر
عنا صر(عنصر کی جمع،اصلی اجزاء) میں نہ تو صفت علم کی ہے اور نہ ارادہ کی ۔لہٰذا علم وار ا دہ کسی تر کیب عناصر ی میں پیدا بھی نہیں ہو سکتا ۔کیو نکہ جو شئے کسی کی ذات میں نہ ہو وہ کسی ترکیب میں کہا ں سے آ ئے۔یہ کہنا کہ شا ید با لقو ہ ہو تب ہی تسلیم ہو سکتا ہے کہ جب ہر فرد عنصر میں کو ئی کس قدر بہ فعل بھی لا کر دکھا سکے والا فلا۔ کیو نکہ ہم شکل اجناس (جنس کی جمع)تر کیب دہ (کسی چیز کو ملاکرچیزبنانا)کی تو نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر غیر جنس نہیں ہو سکتا تقر یر با لا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم وار دہ والی شئے ماسوائے عناصر وو جودعناصر ی کا ہے اور اُسی کو ہم رو ح کہتے ہیں ،وجو د عنا صر ی کی قید میں پڑ کر یہ روح ظہو ر اپنی بہ قیدحسجا ت(محسوس کرنے کی قوت ) جسما نی اس لئے کر تی ہے کہ آ ئین مقر ر ہ اپنے خالق کو تو ڑ نہیں سکتی۔ جیسے سمتیں تو چا روں یکسا ں ہیں مگر مقناتیس (آہن رُبا،چمبک پتھر)کو حکم نہیں کہ سو ائے شما ل کے اور طر ف رخ کر ے ویسے ہی روح بھی درخو د تو جوہر فر د ہی ہے مگر اپنے ظہور میں محتا ج اجا زت خالق اپنے کی ہے ۔
حقیقی تغیر (تبدیل حالت)بجزعد م و وجو د کے جو ہر فر دمیں اور قسم کا محال ہے ۔تقسیم ِجو ہر فر د کی تعلیم با طل ہے۔ خوا ہ عنا صر میں ہو یا ارواح میں اس لئے کہ جب تقسیم جائز رکھی گئی تو جب تک کوئی خبر سمتوں میں مو جو د ہے۔ تقسیم پذیر بھی ہے اور تقسیم کسی جزکو فنانہیں کر سکتی پس ضر ورہے کہ تقسیم شئےبے حد کو محدودکردے اور محد ودکو بے حد۔بے حد میں تقسیم حد ڈا لتی ہے اور بے حد حصے مکا ن محدودمیں سما نے (رچنا،بسنا)کے لائق نہیں رہ سکتی ،کیو نکہ ہر ایک حصّہ جب کہ کچھ مکان چا ہتا ہے تو بے حد حصّے بے شک بے حد مکا ن لیں گے غلط فلا سفر جس کو تقسیم کر کے دکھاتے ہیں وہ دراصل تفر یق فر دات(فرد کی جمع) مجمو عی ہی کی ہے اور نہ تقسیم شے و احد کی ما سوا اُس کے کہ تقسیم بے حد کو محد ود اور محدود کو بے حد کر تی ہے ۔امتیاز (فرق)چھو ٹا ئی اور بڑائی کا بھی دور کر دیتی ہے کیونکہ جب چھو ٹی اور بڑی شے میں بے حد حصّے ہیں تو وہ ہر دو مسا وی بھی ہو ئی حیا ت جسمی (بدنی)اور شئے ہے اور روح اور شئے،حیا ت آ ئین جسم کا نا م ہے ۔جو نباتا ت میں نشو ونما کر تی ہے اور گھٹ بڑھ بھی سکتی ،مگر اس میں علم اور ارداہ نہیں۔
بشپ بٹلردرست کہتا ہے کہ
جب کہ عنا صرجسمی بد ل جا تے ہیں اور وہ اپناتجربہ آ یندہ عنا صر بجا ئے خو د کو دے نہیں سکتے گو خا نہ اپنا جیسا کا تیسا د ے جاتے ہیں اور پھر یا د گزشتہ اور اُمید آ یندہ نہیں بد لتی تو روح کسی صو رت سے جزو عنا صر نہیں ہو سکتی۔اور پھرہر انسا ن اپنی تو حید کا خو د ہی عا لم و قائل بھی رہتا ہے لہٰذا اسکی فر دیت میں کیا شک ہے ۔
فصل دو ئم
دربحث مظہر اوّل ر وحی
پہلا مظہر روح کا مد رکہ (وہ قوت جس سےانسان اشیاء کی حقیقت دریافت کر سکے ،یعنی عقل اور ذہن)ہے جس سے ادراک خو د کے سا تھ خو د علمی کے وہ کر تا ہے اور ادراک غیر کا سا تھ مس(چھونے کا فعل) با خو د کے ۔
ادراک غیر کے با ب سا ت حس (محسو س کر نے کی قوت)بیرونی ہیں یعنے
( ۱ ) با صر ہ (دیکھنے کی قوت)جہا ں سے کر نو ں کےر نگ کا مس ہو تا ہے۔
( ۲ ) سا معہ (سننے کی قوت)جہاں سے ذرات (چھوٹے چھوٹے ریزے جو قابل تقسیم نہ ہوں)آ واز کی مس ہو تی ہیں ۔
( ۳ ) شا مَّہ (سونگھنے کی قوت یا حِس)جہا ں سے ذ رات بو کی مس ہو تے ہیں ۔
( ۴ ) لا مسہ (چھونے یا مس کرنے والی قوت)جہا ں سے گر م و سر د ذرات کا مس ہو تا ہے ۔
( ۵ ) ذ ا ئِقہ (چکھنے کی قوت)جہا ں سے لذات شے کی مس ہو تی ہیں ۔
( ۶ ) با ہ (قوت ِجماع،قوت ِ مردمی)یہ جہاں سے کیفیت شہو ت کی مس ہو تی ہے ۔
( ۷ ) جا ذبہ(ایک قوت جواعضاء میں موجود ہےاور اپنے موافق مادہ کو جذب کرتی ہے۔) جہاں سے نر م و سخت کا مس ہو تا ہے ۔ہر ایک حس کا خاص مر کز ہے اور ہر ایک حس درخو د مخصوص ہے گو مس اور جذب میں یہ سا تو ں آ سکتے ہیں ۔
تمیز،اثر ،ایما ن ،لف لا زمی داخل مدرکہ ہیں چنانچہ ادر اِک شئے بدون (علاوہ ازیں)تمیز اس کے غیر کے نہیں ہو سکتا اور شئے مد روک بلا اثرنیک یا بدکسی قدر کے نہیں رہ سکتے اور احتیاج(ضرورت،حاجت) شئے میں ما یحتاج (انسانی ضرورت کی چیزیں)ا س کا ضر ور نظر آ تا ہے۔ جیسے صنعت میں صانع(کاریگر) اور اسی طر ح کے دیکھنے کو ایما ن کہتے ہیں ۔ایما ن وہ نہیں جو وسیلہ دکھلانے اپنے کا کُچھ نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تو سریع(جلدی کرنے والا) الا یما نی یا وہم ہی ہے ۔
آ ئینات (آئینہ کی جمع،ظاہر ،صاف)متعلقہ مدر کہ مفصلہ(کھول کر بیان کیا گیا) ذیل ہیں یعنی
( ۱ ) عکس گیر ی شئے مدروک میں روح مدرک (سمجھنے والا،دانا) ٹھیک ما نند شیشہ فٹ گرافی کر نے کے ہے کہ اگر فا عل ومفعول قا ئم بتوجہ یک دیگر ہوں تو عکس سا لم بر آ تا ہے ،ورنہ غیرسا لم ۔غیر شئے کا درمیان حا ئل ہو نا دا خل عکس آ جا تا ہے ۔حد سے زیا دہ اگر تو جہ سمتیں بنی رہیں تو عکس اصلیت سے زیا دہ گا ڑ ھا ہو جا تا ہے اور اگر کم رہے تو اصل سے خفیف رہ جا تا ہے ۔
خیا ل وخو اہش ا کثر حا ئلیت (روکنے والا)کر تے ہیں اور دور بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
( ۲ ) غا یت (انجام)ما ئل(راغب) بہ بے حدی اور اک محد ود میں سما نہیں سکتی ۔اجزا نا دیدنی درخو د کچھ اثر گو کر تے ہو ں مگر جب تک مجموعہ اُن کا دید نی نہ بنے ادراک اُن کا محا ل ہے ۔
( ۳ ) بد ون مقا بلہ شئے ادراک شئے صا ف نہیں ہو سکتا جیسا اندھا ما در زادبا وجو ددیکھنے تا ریکی کے علم تا ریکی بھی صا ف نہیں رکھتا ۔
( ۴ ) ر بط بد ون ضبط ادراک جلد تر نہیں ہو سکتا ۔
وجو ہ(اسباب) سلبیت (جذب ہونا)یا دواشتباہ(دوچیزوں کا یوں ایک ہونا کہ دھوکا ہو جائے ) در مشا ہدات طفو لیت(لڑکپن) آئینات مذ کور الصدرہی ہیں ۔چنا نچہ عا لم رحم میں مقا بلہ اور ربط کُچھ نہ تھا کیو نکہ وہا ں رحم بر ائے رو ح محض قید خا نہ ہی تھا ۔لہٰذ ا علم خو د بھی صا ف نہ ہو سکا پھر جب رحم سے روح با ہر آ ئی تو جم گھٹ(ہجوم) عجا ئبا ت نے اُسے ایسا گھیرلیا کہ پو ری تو جہ کسی شئے پر بھی نہ ہو سکی۔ لہٰذا گڑبڑہی رہی ۔پھر روشنی اور آ وازنے حد سے زیا دہ تو جہ بچے کو اپنی طر ف کھینچا لہٰذا اُن کا عکس اصلیت سے بڑھ کر تا ریک تر عا می سا ہو گیا اور کم پایہ (کم رتبہ)چیزوں کا عکس خفیف (تھوڑا سا)تررہ گیا ۔یو ں کُچھ بلا مقا بلہ رہ کرناصا ف رہ گیااور کُچھ دقیق (مشکل،نازک)اور رقیق(نرم) تر اصلیت سے ہو کر غیر نظر آ نے لگا۔ لہٰذا طفو لیت کا عا لم نا صا ف اور مشتبہ ہو گیا بخبر کسی ایسے امر کے جو خصو صیت پیدا کر کے مد ر کہ پر جم گیا جیسے بعض مخوف (ڈرانے والا)یا مُفّرِح(خوش کرنے والا) خا ص شئے بچو ں کی ہو تی ہے ۔
مدرکہ کل علو م اثبا تیہ (ثبوت ،دلیل)ونا فیہ(درمیان،وسیلہ) اصلی و لا زمی خو دوغیرکا اکیلاچشمہ ہے ۔اس کا خا صہ منو تی(پہلا انسان ،آدم) ہے ۔ اس کا مشا ہد ہ بلاغر ض کا نشنس کہلاتا ہے اس کی آ نکھ دھیا ن ہے اس کی بنیا د واقع ہے اس کا زلز لہ خیا ل بے جا ہے اور اس کا استیصال (جڑ سے اُکھیڑنا)خوا ہش فا سدہ (فسادی،خراب)۔
فصل سو م
دربحث مظہر دو ئم روحی
دو سرا مظہر ر وح کا فخر نہ ہے کہ جس میں نقو ش مد روک جمع ہو تے ہیں اور اس کے آ یا ت ذیل ہیں ۔
( ۱ ) پو را ادر اک شئے وا حد نما کا اس کا اکار ہ ہے گو دراصل وہ اکا ر ہ بہت سی ا یشا ء کا مجمو عہ ہی ہو ۔
( ۲ ) شئے مدخلہ فخرنہ کا اخرا ج طا قت روحی سے با ہر ہے ۔
( ۳) یا د وہا ں شئے بد ون شئے با لقوہ فخرنہ کے بفعل نہیں آ سکتی ۔
فصل چہا رم
دربحث مظہر سو م روحی
تیسرا مظہر روح کا مخیلہ(قوت ِ خیال) ہے جو نقوش ادراک کو فخر نہ سے لے کر بشکل اصلی اور وبیش وپس وپیش کے آ گے روح کے لا سکتا ہے ۔
امتیا زکا رمخیلہ ومدرکہ میں
صر ف یہ ہے کہ کا ر مخیلہ بہ نسبت مد ر کہ کے رقیق اور مد ہم ہو تا ہے۔ جب کہ کا ر مدرکہ بہ نسبت مخیلہ کے دقیق اور صا ف تر رہتا ہے ۔امتیا ز موصوف (جس کی تعریف کی جائے)ما سوائے بمقابلہ اصلی و خیا لی اشیا ءکے ۔خیا لی شئے اصل و محض خیا لی میں بھی ظا ہر ہے ۔چنانچہ اشیا ءسپنی (خواب) و جا گر ت (شعور)اور اصلی و خیا لی میں عا م عقل بھی کبھی دھو کا نہیں کھاتی جب کبھی مقا بلہ کر تی ہے تا و قت یہ کہ کسی عا ر ضہ(بیماری،دکھ) یا فر یب با طل فلا سفی کے لگن کسی کو نہ ہو ۔ دھوکے میں دھو کا جزمموسہ شئے کے دھوکے میں نہیں ہو تا ،مگر جزمخیلہ میں صر ف۔مثلا ً سُر آب (ریتلی زمین جہاں سورج اور چاند کی روشنی سے زمین پانی کی طرح نظر آتی ہے،دھوکا ہی دھوکا)میں مو آ جی(لہریں مارنے والا) آب کے بعینہ مشابہ اب کے ممسو س (چھو کر محسوس کرنے کے قابل ہونا)ہی اور اس میں کُچھ دھو کا نہیں ۔لیکن اور صفا ت آ ب (پانی)کے ممسو س نہیں بلکہ مخیلہ ہی ہیں لہٰذا سراب کو اب ما ننے ہیں دھو کا ہو تا ہے ،کیو نکہ جزواحد کا مشبہ ہو نا کل شئے کو مشبہ بہ نہیں کر سکتا ۔ایسا ہی وہ بر ج مر بع ہے جو دورسے طبقہ ہو ا ئی میں محیط ہو کر مُدّ ور (دائرہ نما ،گول)نظر آ تا ہے کہ جس کا بُعد(مسافت،فاصلہ) دور ہو نے سے پہلے نظر کا دھو کا متصور ہو تا ہے ۔حا لانکہ بُعد پُراز طبقہ ہو ئی ہے۔ اس کے دورکا خبر تھا لہٰذا مس میں یہ دھو کا نہیں مگر تبدیل ہو تی حا لت میں دھو کا خیا ل کیا گیا ہے ۔
قا عدہ امتیاز مذکورہ با لاعلم شئے کو بڑھا تو نہیں سکتا مگر اصول شک پر ست سے جو ہرامر میں شک کو گنجایش دیتا ہے بخو بی بچا سکتا ہے ۔کیو نکہ شک پرست اس امتیاز کو مٹا نہیں سکتا خوا ہ کتنا ہی زور لگا دیکھے۔
آ ئینا ت مخیلہ دیل میں یعنی
( ۱ ) جب روح شا غل (مصروف)بو اقعا ت ہے تو مخیلہ با طا عت روح کا ربند رہتا ہے ۔مگر جب روح و اقعا ت سے فا رغ ہے تو کا رمخیلہ بلا قید مطلق ہو جا تا ہے ۔
حا لا ت بین بین (متوسط ،درمیانی)جاگرت (بیداری)اور نیند میں کارمخیلہ بتدریج (درجہ بدرجہ)ہوتا ہے لہذا نقوش مخیلہ ٹکے ہوئے ہونے کے سبب بطور سُپنہ(خواب) کے یاد رہتے ہیں۔ مگر کامل نیند میں مخیلہ بے قید مطلق ہو جاتا ہے اور اس کی سرعت (تیزی)کارکردگی ردح کو نقش گیری میں تھکا دیتی ہے لہذا روح مشاہدات غیر اشیا سے آرام کرتی ہے اور جب اچانک اُس سے اُٹھا ئی جا ئے تو آرام ہی اُس کو یاد رہتا ہے اور نہ عدمیت(نیستی،نہ ہونا) جیسا کہ بعض حکمانے غلط سمجھا ہے۔ سُپنے اور جنوں کے حالات تو واحد ہیں مگر اسباب حالات میں فرق بیشک ہے۔
(۲)بدون سبب متحرک کے یہ صفت یا مظہر خود بخود تحریک نہیں کرتااور نہ بدو ن ختم ہونے سلسلہ رواں کے ساکت(بغیر حرکت کے) ہوتا ہے۔
(۳) چنچل (شوخ،بے چین)اور اچپل(چالاک) اس کا سبھاؤ(ڈھنگ) ہے یعنی بیکار رہنے نہیں چاہتا اور سرعت اس کے زمانہ سے کچھ ہی کم ہے۔ اگر حساب کیا جائے مگر نقل سے زیادہ یہ کچھ نہیں کر سکتا اور نہ حد کے اگے بڑھ سکتا ہے ۔تمیز موصوف کے ساتھ یہ صفت ایسی ہی کام کی ہے کہ جیسے کوئی اور صفت بجائے خود ہے مگر بلاتمیز موصوف کے با نی کُل غلطیو ں کا بھی یہ مظہر ہو سکتا ہے ۔جیسے خوا ہش بجاد رخود تو خو بی رکھتی ہے ۔ لیکن خو ا ہش بے جا سب بُر ائیو ں کی جڑ بھی ہے۔ خوا ہش بے جااگر غلطی سے موا فقت (دوستی ،رسائی)کر لے تو بد بد ترٹھہر جا تا ہے ۔
فصل پنجم
دربحث مظہرچہا رم روحی
چو تھا مظہر روح کا متف (فرق ہونا) حصہ ہے ۔جو تلا ش کر تا ہے معلو م کر نے اس مایحتا ج (انسانی ضرورت کی چیزیں)کی جو احتیا ج(ضرورت) شئے مد روک میں نا صا ف رہتا ہے خو اہش جو شعبہ(حصہ،محکمہ) محبت ہے ایک اور شئے ہے اور یہ مظہر اور شئے ہے۔کیونکہ خواہش شئے معلوم کی ہوتی ہے اور یہ معلوم کرنے شئے نا معلو م کے لئے ہے ۔
کیا اور کیوں اس مظہر کے خا ص سوال ہیں۔ کیا میں اس کا استفسار (دریافت کرنا)با بت قد یم و حا دث (قدیم کی ضد،فانی)جنس وقسم کے ہےاور کیوں میں مضرو مفید کو یہ دریا فت کر تی ہے۔ نیز سبب اور نتیجہ ہر شئے ہیں جہا ں تک گنجا یش نظر آ تی ہے ۔
آ ئین اس مظہر کی صر ف یہ ہے کہ تلا ش مر کو ز میں لگا ہی رہے۔ جب تک وہ حا صل نہ ہو لے یا غا لب ضر ورت غیر روک نہ دیا جائے ۔
شک سے یہ شر وع کر تی ہے اور یقین میں قر ارپا تی تعجب اِس کا خا صہ ہے اور فلا سفی ہر قسم کی یہ ما ہی ۔
فصل ششم
دربحث مظہر پنجم رو حی
پا نچو اں مظہر روح کا محبت ہے ۔اجو اش کل جس کے متفرق شبعے ہیں یا اشکا ل محض ہیں ۔مثلا ً محبت تو لگن ایک خا ص شئے کا نا م ہے ،مگر جب شئے برخلا ف اُس خا ص کے وہی لگن ہو تو بہ نسبت اُس خا ص کے یہی محبت ،نفر ت ہو کر نظرآ تی ہے ۔پھر نفر ت جب شئے ڈراونی کی ہو تو ڈربن جا تی ہے اور ڈر نے کی ہو تو غصہ تر صد میں اُمید بن جا تی ہے اور لگن امید میں خوا ہش مو قع انتقا م نہیں پا تی تو کینہ (نفرت)بن جا تی ہے اور عا جزآ تی ہے تو سفینہ(بیاض) وغیر ہ وغیر ہ ۔آئین اس صفت کی صرف یہ ہے کہ ما ضی اور مستقبل سے اس کا کُچھ کا م نہیں مگر حا ل کی بہتر ی کو یہ تر حیح دیتی رہتی ہے اور اگر حا ل میں دو مخا لف با ہمی اشیا میں بہتر کُچھ نظرنہ آ ئے تو جس کا ارادہ طر ف دا رہو اس طر ف داری سے تر جیح لیتی ہے ۔
فصل ہفتم
در بحث مظہر ششم روحی
چھٹا مظہر روح کا عقل ہے جو ما ضی و حا ل سے کُچھ کا م نہ ر کھ کر خو بی ما ل کو صر ف تر جیح دیتا رہتا ہے ۔
آ ئینا ت اس مظہر کے ذیل میں یعنے
( ۱ ) حُجّت قا طع(بحث وتکرار کوکاٹنایا ختم کرنا) کو بمدد خو د اوّل ڈھو نڈ ھنا اور اگر وہ نظر نہ آ ئے تو مخفو ظ تر کاہمیشہ پیر ور ہنا اور اگر وہ بھی نظر نہ آ ئے تو تلا ش حق کو بطلان اور نا محفو ظ تر پر ہمیشہ فو ق(سبقت،فضیلت) دیتے رہنا ۔
( ۲ ) محبت جو سکا ن(رہنے والا باشندہ) رو ح ہے ہمیشہ اپنے قبضہ میں رکھنے کی سعی و کو شش کر تے رہنا، لیکن اگر ہو ائے (خواہش)محبت مخا لف ہو جا ئے تو ارادہ سے مدد ما نگنی اور محبت پر اس کے اتفاق کے سا تھ غلبہ ڈھو نڈ ھنا ۔
بحث و جو ہا ت اس صفت کا ضا بطہ عمل ہے ۔
فصل ہشتم
در بحث مظہر ہفتم روحی
سا تو اں مظہر روح کا ارادہ ہے جو فیصلہ کر تا ہے ما بین (کے درمیان)دو ایسی شئے کے جو مسا و ی (برابر)الکشش (کھنچاؤ،رغبت)ہو کر ان وا حدمیں جمع نہ ہو سکیں نہ ہر دو ردہوسکیں اور نہ قبو ل ۔
یہ ایک فا ش(آشکارہ) غلطی ہے جو بعض حکما کہتے ہیں کہ دو شئے مسا وی الکشش ہو ہی نہیں سکتی ۔کیو نکہ جب ادراک ہما را محد ود ہے تو محد ود میں مکان نظیر (مانند،مثیل)کے سا تھ امکان نظیر بھی کھلا ہے ۔ادراک نا فیہ بے حد شئے کا نیز بے شک ہم کو حا صل ہے مگر نا فیہ سا تھ اثبا تیہ کے کبھی ہم وزن نہیں ہو تا۔ بلکہ اس سے سبک (ہلکا)تر رہتا ہے ۔اور پھر صر ف یہی نہیں کہ مسا وئین(برابری) اور ضد فی الحاصل کا ہو نا ممکن ہی ہے ،بلکہ اگر یہ واقعے بھی نہ ہو تا تو علم ندامت ہم کو کیو ں کر ہو سکتا تھا؟ جب کہ ارادہ نے محکوم سبب مجبو ر ہو کرکُچھ حر کت کی ہو ۔نیز علم آ زادگی ہم نے کہا ں سے پا یا ؟جب کہ آ زاد گی کو دیکھا ہی کبھی نہیں ۔یہ بھی ما نا کہ بسا اوقا ت ہم کوادراک تفاوت (فرق)کا مطلق(آزاد) نہیں ہو تا گو دراصل تفاوت اشیاء ردوقبول میں وا قعی ہے مگریہ ادراک کا نہ ہو نا۔ نیزممد(مدد گار)ہما ری ہی دلیل کی ہے اور نہ مخالف کی ۔یہ نا ممکن مطلق ہے کہ ارادہ آ زاد بھی ہو ا ور محکو م (تابع ،زیر ِ فرمان)سبب بھی کیو نکہ آ زادگی اور قید شئے وا حد میں مساوا ت نہیں بلکہ ضد ہیں ۔البتہ روح و احد میں محبت و عقل کا پابند سبب متحر ک کا رہنا اور ارادہ کا آ زاد مطلق ہو نا ضدنہیں مگر مسا وا ت ہے لہٰذا جا ئز اور تسلیم ۔
سکا ن(رہنے والا باشندہ) روح ارادہ نہیں بلکہ محبت ہے جو خو بی حا ل کو تر جیح د یتی ہے اور اگر محبت و عقل میں نا اتفا قی ہو جا ئے تو اُن کو فیصلہ ارادہ آ زاد کر تا ہے اور طرفداری بلا سبب ارادہ کے محبت کے لئے سبب تر جیح کے ہو جا تی ہے یو ں آ زادگی اور تر جیح ایک رو ح میں تو نما یا ں ہو تی ہیں مگر ایک صفت روح میں نہیں ۔عزم اس مظہر کے فعل کا نا م ہے اور آزادگی اس کی آ ئین (قانون ،ضابطہ)ہے ۔
فصل نہم
در بحث مظہر ہشتم روحی
آ ٹھواں مظہر رد ح کا ذات ہے بضر درت جا معیت صفا ت کے نظر آ تا ہے جس بد ون ہر مظہر علحٰد ہ علحٰد ہ ہو کر نفی ٹھہر جا تا ہے ۔
فصل دہم
در بحث مظہر نہم روحی
نو اں مظہر روح کا کو نت(تشخص) ہے کیو نکہ اگر کو ئی شئے ہے تو ضر ور ہے کہ کہیں ہو ۔
فصل یا ز دہم
دربحث مظہر دہم رو حی
دسوا ں مظہر روح کا ز ما نیت (دور)ہے کیو نکہ اگر کو ئی شئے ہے تو ضر ور ہے کہ کبھی ہو ۔
خلا صہ با ب ہذا
چا ر صفا ت اولین روح کے درجہ علمی کے ہیں ۔جن کا کا م صرف تحصیل علم ہے دو ما بعداِن کے درجہ علمی کے ہیں کہ جن کا کا م صر ف عمل ہے ۔ ایک مابعداِن کے درجہ ارادی کے ہےجو اس کو ذمہ دار اعما ل اپنے کا کر تی ہے ۔ایک ما بعداِس کے عا مہ (سب لوگوں سے منسوب)ہے جو ہر وجو د میں عا م ضر ور ہے۔ دو ما بعداس کے شر ط وجو د ہر شئے کے ہیں کہ ہر ایک وجو د کے لئے زما ن مکا ن وا حد ہے مکتفی(کافی) ہیں یو ں تین درجا ت اولین روح کے مخصو ص ہیں اور با قی عمو م(عام) اور سب مل کر دس دراصل ایک پر صفر ہے ۔کیو نکہ جو ہر ایک ہے اور ظہو ر انیک(ان گنت) پس ہر احد سے علیحدہ اور کل داخلی واحد ہے ۔
با ب دوم
دربحث علم نیچرل تھیالو جی یعنی معقو لا ت الہٰی
فصل اوّل
در رد ّ ہریت بہ برہا ن قطعی بر نبائ اثبا تیہ
تمہید
( ۱ ) اشیا ئے محدود فی المکا ن فی الو اقع موجو دہیں
( ۲ ) اشیا ئے مذکو ر اصلی ہیں کیو نکہ خیا لی سے دقیق اور صا ف ترہیں۔
( ۳ ) یہ اشیا ء جزیا صفت کسی دوسر ی شے کے نہیں کیو نکہ درخو د ذات و صفا ت اپنی علیحد ہ رکھ کرزما ن و مکا ن جدا گا نہ میں ہر ا حدی (اکیلا)مو جو د ہے ۔
( ۴ ) اگر خا لق کا ہو نا ما نا جا ئے تو فعل خلقت میں نتیجہ سبب کے مسا وی یا اُس سے بڑا ما نا نہیں جا سکتا کیو نکہ بصو رت مسا وات اسبا ب و نتائج میں تسلسل یادور کا ما ننا ممکن ہو جا ئے گا اور ازاں جاکہ جز واحد کل کے خوا ص مسا وی ہی ہو سکتے ہیں۔ گو ضخا مت میں اُن کے کچھ فر ق ہو تو جیسا ہر تسلسل و دور کے اجز امحتا ج یا بغیر یعنی یک دیگر (ایک کے بعدایک)ہو تے ہیں ویسا ہی کل بھی اُن کا مستغنی (آسودہ حال)الذا ت نہیں ہو سکتا اور نتیجہ سبب سے بڑا ما ننے میں اقل(کم سے کم) نتیجہ کے وا سطے سبب اس کانفی مطلق ماننا پڑے گا جو در خو د نا ممکن ہے ۔
( ۵ ) ہر شئے ضر ور ہے کہ درکل خود قدیم ہی ہو یاحا دث ہے کچھ کچھ ہر دور کا وہ نہیں ہو سکتی ۔
نتیجہ تمہید
دو واقع اولین دافع (دفع کرنے والا)ا صو ل با طلہ(جھوٹ) شک پر ست کے ہیں اور پھر دوسرا اور تیسرا دفع بطلا ن اصو ل ہمہ اوستیہ(سب کچھ خدا ہے) کے وا سطے کا فی ہے۔ با قی دوممد(معاون)تقریر مر کو ز کے براہ راست ہو ں گے ۔
اب شہنشاہ دہریا ن سے ہمارا
اوّل ۔سوال یہ ہے کہ جس شئے کی ضر ور ت مطلق صفت ذاتی ہو کہ جس کے سبب اُس کو ضر ور الو جودیاقدیم کہا جا تا ہے اُ س کو محکو م سبب تصو ر کر کے ضرورالوجو د کیو ں کر کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ وہ سبب اُس ضر ورت پر حکمرانی کر کے اطلا ق اِس کے کو دو رکر ڈالتا ہے ۔
دو ئم ۔جب کہ مکا ن بذات خو د بے حد اور مسا وی درخود ہے تو ایسے بے حد اور مسا وی مکا ن میں شئے محدودنی المکان کو حد مکا نی بلا سبب کیو نکر لگ سکتی ہے؟
اگر دہر یا یہ جو اب دے کہ یہ حد بلا ضر ورت ہے تو قا عدہ ( ۵ ) تمہید کا خطا کا ر ہے لہٰذا قا بل تو جہ عقل نہیں اور اگر کہے کہ اِس حد کی بھی کو ئی ضرورت ہوگی جو اُس کو معلو م نہیں تو ۔
سو ئم۔ سوا ل ہما را اس سے یہ ہے کہ یہ ضر ورت خا رجی ہے یا دا خلی ، اگر خا رجی اُس کو وہ ما نتا ہے تو یہ بھی ما نے کہ شے محد ود نے المکا ن محکو م سبب خارجی کے ہو کر قدیم یا ضر ور الو جو د نہیں رہ سکتے اور اگر داخلی اُس کو ما نتا ہے تو بتا ئے کہ دا خل شئے یہ ضر ورت کہا ں رہ سکتی ہے ۔اگر کہا جا ئے کہ داخل اُسی ضرورت کے کہ جس نے ضخا مت شئے متنا زعہ(وہ چیز جس کی بابت جھگڑا ہو) جو حد زیر بحث لگا ئی ہے ۔بڑھا نا اور گھٹا نا ضخامت شئے کا ایک ہی ضر ورت کا کام ٹھہر ے گا۔ حا لا نکہ ایک صفت سے متضا د(الٹا)ہے۔ یعنی ضد کرنے وا لے فعل ظہو ر نہیں کر سکتے جیسے نو ر سے روشنی و تاریکی ہردوظہور نہیں کر سکتا بلکہ نفی تا ریکی کی اثبا ت رو شنی کے بر خلا ف نو ر کو محد ود ہی ثا بت کر تی ہے ۔ایسا ہی گھٹا نا بر خلا ف بڑ ھا نے کے یہاں پر ہے اور اگر کہا جا ئے کہ شئے واحد کے اندرہی یہ ضر ورتیں ہیں ۔یعنی ایک حد متنا زعہ تک بڑھا نے وا لے اور دو سر ے آ گے نہ بڑھنے دینے والے تو یہ ہر دو ایک ہی مو قع پر مخالفت کرر ہے ہیں۔ سو اگر ہر دو مسا وی یک دیگرہیں ماسوائے فنا ہو نے چا ہیں اور اگر کم وبیش ہیں تو بیش ضر ور ہے کہ کم کو کہا جا ئے ۔دو مسا وی اور ضد ہو کر حد کو قا ئم اس لیے نہیں کر سکتے کہ ضرورت مطلق کسی سے ہٹ نہیں سکتے اور حد قا ئم کر نے کے لیے ضد میں ہردو کو ہٹناپڑ تا ہے ۔غرض کہ دہر یا کو یہا ں پر ما ننا پڑے گا کہ حد مکا نی شے محدودکی اُس کو ضر ور الو جود نہیں ہو نے دیتی اور جس سبب خا رجی نے اُسے ایک حد معینہ لگا دی ہے تو وہ اگر چا ہتا یا چا ہے اُسی حد کو گھٹا اور بڑھا کر بھی لگا سکتا ہے حتی ٰ کہ گھٹاتے گھٹاتےاُسے عدم میں پہنچادے اور بڑھاتے بڑ ھا تے کسی و جو د محدود میں لا سکے ۔قدامت کا علا قہ تو لا شک(بے شک) زما ن ہی سے ہے ،مگر ضر ورت مکا ن کو بھی بحث میں ڈا لتی ہے۔ جیسا کہ دیکھایا گیا ہے ۔یو ں زما ن و مکا ن بعلاقہ ہستی ایسے ایک تا نے با نے کی ما نند ہیں کہ جن کی تا ریں نقطہ میں الگ نہیں ہو سکتی ۔
فصل دوئم
دررددہر یت بہ برہان قطع برنبای نا فیہ
( ۱ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ کیا شئے ہے ضر ورت مطلق بجزجبر فطر تی کے جو حا لت حا لیہ میں بر خلا ف اپنے کو ما ننے نہیں دیتا اور پھر ایک خا ص حا ل کو حاوی بر کل عا م حا ل کے تصو ر کر نا جنو ن یا ضد نہیں تو اور کیا ہے ؟
فا ما (رنگ)الجو اب ۔جنو ن اور ضداِس میں ہے کہ دواور دو کے چا ر سے کم یا بیش ہو نے کا کبھی بھی انتظا ر کر نا اور نہ اس میں کہ لا ممکن(ناممکن) کو ممکن کبھی نہ ما ننا کیو نکہ صدق بھی ہمیشہ ضر درت مطلق ہی میں رہتا ہے ۔
( ۲ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ شر وع مطلق ادر ا ک میں کیو نکر سما وی (آسمانی)جب کہ عد م محض اسبا ب وجودکسی شئے کا ہر گز نہیں ہو سکتا ؟
فا ما الجو اب ۔جیسا شر وع مطلق ادراک ایک میں نہیں سما سکتا ویسا ہی تاشروع مطلق بھی ادراک میں نہیں سما سکتا۔ لہٰذا ادر اک میں نہ سما نا کُچھ دلیل نفی یا اثبات کسی شئے کے نہیں ہو سکتے اور عدم محض تو بے شک اب بنا، وجو د کسی شئے کا نہیں بن سکتا ۔مگر حا لق کو بھی اگر احتیا ج اسبا ب برائے خلقت ہو تو وہ خا لق ہی نہیں ر ہ سکتا بلکہ جا مع (تکمیل کرنے والا)بھی اسبا ب کا ٹھہرتا ہے ۔اب جب تک دہر یا یہ نہ کھلا سکےکہ شئے محد ودنی المکا ن میں ضر ورت مطلق اندرو نی حد مکانی کی کو ن سی ہے تو اُس کا اِ نکا ر قد رت خا لقہ(پیداکرنے والا) کا اِسی کی ما نند ہے کہ جیسا اند ھا ما ور زادبسبب (کیوجہ سے) نہ ر کھنے طاقت بصا رت(دیکھنے کی قوت) کے ر نگو ں کا انکار کر تا ہو۔ یعنی وہ قدرت خالقہ در خو د نہ ر کھ اگر خدا میں بھی اس کا منکر ہو تا اور عد م در ک (تمیز،سمجھ)کو درک عد م (سمجھ ناہونا)بنا تا ہے ۔
( ۳ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ جب کہ اجتما ع شئین(رسوائی) محا ل ہے تو خا لق بے حد اور مخلو ق محد ود زما ن و مکا ن واحد میں کیو ں کر سما سکتے ہیں ؟
فا ما الجو اب ۔اجتماع شئین ہر حا ل میں محا ل نہیں مگر صر ف دو حا ل میں یعنی ایک تو کسیفین(کسف کی جمع،مبہم،غیرواضح) جمع نہیں ہو سکتے کیو نکہ کسافت کسافت کے بر خلا فی کر تی ہے۔ دو سر ی جنسیں (نسل،نوع)قسم واحد جمع نہیں ہو سکتے کیو نکہ اُن کے جمع ہو نے میں دوئی (جدائی)نہیں رہ سکتی ۔اب جب کے خدا کی لطا فت(پاکیزگی) ضد ی ہے اور نہ نسبتی اور جنس اُس کی ضر ور الوجو د ہے جب کے اشیاء محد ود کی جنس نا ضر ور الو جود تو خالق خدا کو کونسا ملا ہے ، جو ہمہ جا ( ہر جگہ ) ہو نے سے روکے کیو نکہ سبب لطافت ( پا گیز گی ) ضدی کے وہ بنا چھیدکے باندھ سکتا ہے اور سبب غیریت(اجنبیت،بیگانگی) جنس کے سب سے ضر ور ہے کہ بے لا گ( صا ف ستھرا ) اور الگ رہے ۔زما ن و مکا ن درخود کچھ شے نہیں گو شروط (عہد وپیماں)وجود ہر شے کے ضرور ہیں۔ لہٰذا اُن کے علا قہ کی خصو صیت بھی کسی وا حد شئے سے متعلق نہیں ہو سکتے ۔
( ۴ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ کیا خدا اپنے آ پ کو بھی فنا کر سکتا ہے اگر نہیں تو اُس کی قدرت بے حد کیو ں کر ما نی جا ئے اگر کر سکتا ہے تو وہ ضر ور الوجو د کیوں کر ہوا؟
فا ما الجو اب ۔صفت و احد سے قسم و احد سے قسم وا حد ہی کے کا م لیے جا سکتے ہیں اورنہ اقسا م متفرق کے ۔اب کہ قد رت خد ا صر ف ممکنا ت ہی کے با لقو ہ(ازروئے قوت) سے بفعل لا نے و الی ہے۔ اُس سے غیر ممکنا ت کا ممکن بنا نا طلب کر نا جیسا خو د کو فنا کر نا ہے ،ایسا ہی ہے کہ جیسا کو ئی رو شنی سے تا ریکی کا کا م طلب کر ے اور بجائے حق کے حما قت ہی اپنی دکھا دے ۔ ما سو ا اِس کے اِس امر کو بھی غو ر کر نا چا ہئے کہ نا ممکن در خو د کیا شئے ہے کیا یہ دوسر ا نا م بطلا ن یا نقیض(مخالف ،الٹ) ہی کا نہیں ،کہ جس کے وا سطے گھاٹا صدا قت کا ہی کا فی ہے ۔بجا ئے ضر ورت کسی قدرت کے لہٰذا اعتراض متعر ض (اعتراض کرنے والا)یہ ہو ا کہ جس کما ل میں نقص نہیں وہ کما ل بھی نا قص ہے جو عقل نہیں بلکہ خبط(دیوانگی،جنون) ہے ۔ ( ۵ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ مستغنی(آسودہ حال) الذ ا ت کو احتیا ج بنا نے خلقت کا کو نسا تھا؟
فا ما الجواب ۔آ زاد مطلق کو بنا نے خلقت سے کو ن روک سکتا تھا اور کیا استغناء (بے فکری،بے پرواہی)اور آزاد گی با ہم ضد بھی ہیں ۔دہر یا خو د ہی جو اب دے۔ ما سو ا اِس کے جہا ں علم وقدرت بے حد الو جو دہیں اور ارادہ پا ک اُن کے سا تھ ہو تو ضر ورت فعل میں بھی استغنا کا کیا بگڑ سکتا ہے دہریا دیکھاوئے ۔بس خلقت کو کیوں بنا یا یہ سوا ل غلط ہے بلکہ صحیح یر ہے کہ کیو ں نہ بنا تا جب کہ وہ آ زاد تھا ۔
( ۶ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ جہا ں علم و قد رت وار ادہ کا مل جمع ہو ں تو نتیجہ مر کو ز پیچھے کیو ں کر رہ سکتا ہے اور جب کے خا لق میں یہ ہر سہ(۳) صفا ت ہمیشہ مو جو د ہیں تو مخلو ق خا لق سے ما بعد میں کیو ں کر ظہور پا سکتا ہے ؟
فا ما الجو اب ۔متعر ض یہا ں لفظ ارادہ کے معنی بجا ئے فعل خو د صفت ارادہ کے کر تا ہے ،یافعل کو خا صہ سے تعبیر کر تا ہے ،کہ جیسے حرارت خا صہ ا ٓتش ہمیشہ آ تش کے سا تھ رہتا ہے اور یہ ہر دواِ س کے غلطیا ں (غلطی کی جمع) ہیں۔ اِس لئے کہ صفت اور شئے ہے اور خا صہ صفت اور شئے، فعل پر فا عل کو ہمیشہ تقد یم (مقدم،فضیلت)ہے۔ مگر خا صہ پر شئے نہ تقدیم نہیں ۔لہٰذا صفت علم و قدرت وار ادہ کے جمع ہو نے سے خلقت ہم زما ن خا لق نہیں ہو سکتے مگر ہم زما ن فعل ارادہ ضر ور ہو جا تی ہےیعنی بعدفا عل ۔
( ۷ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ علم شئے بد ون شئے اور وجو د شئے بدون علم کہا ں سے ا ٓئے ؟
فا ما الجو اب ۔محتا ج با بغیر کا البتہ علم بھی محتا ج غیر کا ہے ۔جیسا کہ اس کا کل ہی محتا ج ہے ۔لیکن مستغنی (آزاد،آسودہ حال)الذات بھی اگر کسی امر میں محتا ج ہو تو وہ مستغنی نہیں رہ سکتا ۔
( ۸) دُکھ میں خو بی کو نسی ہے اور بنا نی دکھ سو ائے خدا کے کو ن ہو سکتا ہے؟
فا ما الجواب ۔دکھ تین قسم کے ہو سکتے ہیں یعنی تعلیمہ ، امتحا نیہ ، سز ا ئیہ ۔تعلیمہ تو وہ ہے جو سا تھ مقا بلہ اپنے کے سُکھ کو صقل دے ۔چنا نچہ بد ون مقابلہ کے کسی شئے کی قدرہم کما حقہ(بخوبی) نہیں جا ن سکتے ۔بلکہ اُس کا ہو نا اور نہ ہو نا مسا وی ہو جا تا ہے۔
امتحا نیہ وہ ہے کہ جس میں بد و ن کشش مسا وی دو طر فہ اور دُکھ اس کشش کے امتحا ن محا ل ہے ۔
سزا ئیہ وہ ہے کہ جس بدون سزا اور قدوسی عد ل ہو نا محا ل ہے ۔اب کہ دُکھ تعلیمہ تو مین مطا بق خو بی خا لق اُس کے ہے اور امتحا ن یہ مطا بق ارادہ پاک اِس مالک کے جس کے روکنے کی وجہ کو ئی نہیں اور سزا ئیہ مطا بق عد ل پا ک اُسی مقدس کے تو ا عتر اض کی گنجا یش بجز خیا ل فا سد( ناقص،فسادی) یا خو اہش بد کے اور نہ معلو م کہا ں ہے ۔
امتحا ن پر متعرض اعترا ض ذیل کر تا ہے ۔
( الف ) امتحا ن وہ کرے جو نتیجہ امتحان سے بے علم ہو ۔
( ب ) علم ابھی امتحا ن سے بد ل نہیں سکتا ۔
( ج ) خو د محبتی پر ا متحا ن غا لب نہیں آ سکتا ۔
( د) امتحا ن میں استر ضا (خوشنودی،رضامندی پوچھنا) امتحا ن دہند ہ کی ضر ورت ہے اورہامید جنت خطر ہ جہنم میں کو ئی نہ پڑ ے گا ۔
( ہ ) اگر اصو ل امتحا ن سچ ہے تو اعما ل میں کا میا بی کیوں نہیں نظر آ تی ۔
اجو بہ (دلیل)۔ ( الف ) امتحا ن نتیجہ معلو م کر نے ہی کے لئے صر ف نہیں ہو تا بلکہ بالقوہ سے بفعل لا نے کسی امر کے لئے بھی ہو سکتا ہے ۔
) ب ) علم خا لق متحر ک( حر کت کر نےو الا ) فعل مخلو ق نہیں ہو سکتا ۔لہٰذا علم ما نع( منع کر نے والا ) امتحا ن بھی کسی صو رت سے نہیں ہو تا ۔
( ج ) امتحا ن نیچر میں کُچھ انقلا ب بد پیدا نہیں کر تا جب کہ محبت خا لق کو بجا ے اصل اور خو د محبتی کو بجا ئے فر ع (شاخ،وہ جس کی اصل )یا ثمر ہ اس کی ر کھتا ہے ۔
( د ) استر ضا امتحا ن دینے والے کی تب ہی در کا ر ہے جب وہ امتحا ن لینےوا لے کا کُچھ د ہا ڑتا (شوروغل)نہ ہو ،یا سزا کا میا بی کی جزا کا میا بی سے بڑھ کر ہو ،یا جبر دفر یب غیر بھی ممد(معاون)نا کا میا بی ہو اہو ۔
( ہ ) امتحا ن صر ف ایک ہی امر میں نہیں بلکہ پو ری عمر میں ہے۔ لہٰذا ہر ایک امر ِعمر ی میں گِر نا اور قا ئم رہنا مسا وی ممکن ہے اور جب کہ خدا ئے رحیم نے خا تمہ امتحا ن برا عما ل نہیں چھوڑ دیا، بلکہ جو رحم الہٰی کو رد نہ کر ے وا رث اُ س کا بنایا جا تا ہے۔ تو رحم فتح اعما ل سے بہت بڑھ کر فضلیت رکھتا ہے لہٰذا امتحا ن بھی خو بی الہٰی سے خالی نہیں ۔مگر یہ بھو لنا نہ چا ہئے کہ خو بی اگر کسی کا قر ضہ ہو تو وہ خو بی بھی نہیں رہ سکتی تا ہم وعدہ کی پا بند ضر ور ہے ۔
آ دم کے و سیلے سختی امتحا ن تو دنیا میں ضر ور آ ئی ہے مگر کو ئی چو تھے قسم کا دُکھ اِس سے نہیں بڑ ھا کیو نکہ آ دم کے گنا ہ کے سبب نہ تو کوئی جہنمی ہو ا ہے اور نہ انصا فا ًہو سکتا ہے ۔اس سے کہ بھلا ئی بلا استر ضا سا بقہ خود تو ہم ہا تھ غیر سے لے سکتے ہیں مگر بُرا ئی نہیں تقد یر علمی کسی کے اعما ل پر مو ثر نہیں ہو سکتی اور تقد یر ارادی وہا ں ہی ظہو ر پا سکتی ہے ،کہ جہاں ار ادہ سب طر ح سے آ زاد مطلق اپنے فعل میں ہے ۔ لہٰذا تقد یر بھی کسی کو کسی طر ح کا دُکھ نہیں بڑھا دیتی ، ہرجنم کی تعلیم نہ تو ندا مت یا د گنا ہ کی اپنےسا تھ رکھتی ہے کہ دکھ سزا اٹھہر ے او رنہ گنا ہ اصغر تک اِس میں سزا کا فی نظر آ تی ہے ۔چو گھا ٹہ کو بھر دے لہٰذا سراسر خبط ہے ازروئےعقل۔
( ۹ ) دہر یا پو چھتا ہے کہ رحم نے تقا ضا عد ل کیو نکر پو را کیا جو راہ نجا ت گنا ہ گا ر ان کے لئے کھلے ۔کیا فعل گنا ہ شد سے نہ شد بھی کسی طر ح ہو سکتا ہے؟ یا وقت مخا لفت درعبا دت کا عیا دت(بیمار پرسی،بیمار کی خبر پوچھنا) بھی کر سکتا ہے ۔تا کہ وقت ضا یع شد ہ کی تلا فی ( معا فی ) کی جا ئے یا خداکسی کے بدلہ میں خو د بھی دُکھ مَسہ(چھونا) سکتا ہے جو دکھ سہنے سے پاک ہے یا کسی اور مخلو ق کو بد لہ گنا ہ گا ر میں بلا جبر و فریب کے سزا ئےابد ی سہنے کے لئے بر خلاف اِس کے خود محبتی(شفیق) کے راضی کر سکتا ہے ، یا سزا ئے ابد ی کو کسی طرح تقسیم کر کے نا ابد ی بھی بنا سکتا ہے ؟
فا ما ا لجو اب۔ جہا ں علم و قد رت بے حد مو جو د ہو ں وہا ں رحم کے ظہو ر پر ایسی حد یں بھی نہیں لگ سکتے کہ ظہو ر کے راہ ہی کو ئی نہ چھو ڑ یں اور نہ نجات کے لئے یہ کُچھ ضر ور ہے کہ اس راہ کا ہم کو علم بھی ہو جس را ہ سے رحم تقا ضا ئے عدل کو پو را کر ے ۔کیو نکہ علم نجا ت نہیں اور پھر اگر رحم کے ظہو ر کی کو ئی راہ نہ ہو تی تو ہم گنہگا ر ہو کر کسی طر ح کی خو بی بھی کیو ں کر دیکھ سکتے تھے۔ الہام اِس مشکل کو یو ں حل فر ما تا ہے کہ خدا ے ابد ی وازلی نے سا رے گنا ہو ں کے سزاوجو د انسا نی یسو ع مسیح پر لا د کر ختم کر دے اور وہ جو رو(چہرہ)بابد سزا تھی ۔بمقا بلہ ازلی اور ابد ی قد رت کے خاتمہ پاگئی کیو نکہ وہ روبا بد ہی صر ف تھی اور ازلی و ابد ی قدرت کے مقا بلہ میں رواں نہیں ر ہ سکتے تھی۔ مسیح انسا ن نے بھی اس کا خا تمہ دیکھ کر تن بہ ر ضا دے دیا ۔یو ں پا ک انسا نیت مسیح نے اس سزا کو ادٹھا لیا اور قدرت بے حد نے اُ ٹھو ادیا۔ پس ذ خیرہ نجا ت مسیح میں مو جو د ہے کہ جو خو د اس دین کو نہ بھر سکے مسیح کے ذخیرہ کو اپنے احتیا ج کے وا سطے رونہ کرے اِس راہ میں نہ تو عد ل کی کُچھ ذلت ہو تی ہے اور نہ ظہور رحم میں کوئی نقص یا دقت عائد ہوتی ہے ۔سوا اس کے اور کوئی راہ ایسا بے نقص رحم کرنے کا نہیں کیونکہ گناہ جب سبب ٹھہرا راہ خوبی الہٰی بندکرنے کا ثواب سبب ہی درکار ہے، کہ پھراس راہ کو کھولے اور راہ یہی ہے کہ جو نقصان گناہ نے کیا ہے بھر دے یا بھرا دے ۔گناہ درخور تو چنگارہ محدود کی مانند ہے مگر عدل بے حد کو چھیڑ کر قہر بے حد کو بھڑکا دیتا ہے۔
یہ غلط بات ہے کہ فعل گناہ درخود سزا رکھتا ہے ،بلکہ صحیح یہی ہے کہ جہا ں شر یعت نہیں وہا ں گنا ہ بھی نہیں۔ لہٰذا سزا اِس کی شر یعت وہ سے آ تے ہے اور اِس لئے بد لہ اس کا کو ئی دو سرا بھی دے سکتا ہے اگر قا بل دینے کے ہو ۔ہم ایک کے گنا ہ کی سزا دوسر ے کسی کو اِس لئے نہیں دے سکتے کہ دو سرا اپنے بو جہ سے خا لی نہیں اور ہما ری سزا سزایہ بھی نہیں بلکہ انتظا میہ ہے ،کیو نکہ ہما ری سزا میں بد لہ پو را نہیں ہو سکتا بلکہ صر ف انتظا م دنیا مد نظر رکھا جا تا ۔فر ض قرض ہے قر ض خواہ کو اِس میں حجت نہیں کہ قر ض دا ر خود ادا کر ے یا د وسر ا کو ئی اِس کے وا سطے و فا کر ے اگر سکتا ہو مگر رو پیہ کی کو ڑیا ں بنانا کسی سا ہو کا ر کو پسند نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا تقسیم سزا بہتو ں پر بھی ایسا ہی عدل کوذلیل کر تا ہے اور بلا پو را کر نے تقا ضا ئے عد ل کے نیز رحم عد ل سے نقیض(مخالف ،الٹا) ہی کر تا ہے اگر مخالف عد ل کے جا ئے ۔
صمیمہ د وئم
در اظہا ر تو افقات تو ار یخیہ بتو ا ریخ با ئبل
اوّل
ہند و شا سترو ں(ہدایت کرنے کا آلہ ،ہندوؤں کی مذہبی کتاب) میں خلقت کا حا ل یو ں لکھا ہے کہ پہلے ایک نا راین تھا( نا راین کے معنی پا نی میں رہنے وا لا ہیں اور ہم اِس کو نو ح فر ض کر تے ہیں ) اِس سے تین شخص ہو ئے ایک زند گی کا بخشنے وا لا، دو سرا حفا ظت کا کر نے وا لا اور تیسرا مو ت کا دینے وا لا ۔جو بر ہما وشن و مہش کے نا م سے معر وف ہیں ( نو ح کے سا م وہ بیٹا تھا جس کی نسل سے حیا ت ابد ی بخشنے وا لا مسیح ہو ا یا فت وہ ہو ا جو سا م کے ڈیر و ں کا محا فظ کر کے لکھا ہے یعنی کلیسیا مسیحی کا محا فظ اور حا م کو غلا ما ن غلا م کر کے لکھا ہے جو غلا می مو ت کے مشا بہ ہے ۔
جس کی آ نکھ ہو د یکھ لے
کہ ہنو د (ہندو کی جمع)تو ا ریخ اپنی نو ح سے شر وع کر تے ہیں یا نہیں ، چینی طو فا ن سےپہلےدس با دشا ہ ہزار ہز ار سا ل کے اپنی تو اریخ میں لکھتے اور اس کو آ دم سے نو ح تک دیکھا جا ئے کہ قر یب قریب ہیں یا نہیں ۔
دوئم
بھا گو ت گیتا و غیرہ میں لکھا ہے کہ سا مبل کے مگر میں و شنو بشن بر ہمن کے گھر میں کلکے او تا ر ہو نے وا لا ہے جو سفید گھو ڑے کا سوا ر ہو گا جو پہلوا ن کی بُد ھ کو نر مل (بالکل صاف)کر دے گا اور جو بُر ا ئی کو نہ چھو ڑے ما ر ڈالے گا اور دو ئی (مخالفت)کو دور کر دے گا ۔با ئبل میں لکھا ہے کہ سا م کے بل کے نگر میں یعنی نسل سا م میں وشنویشن بر ہمن کے گھر میں یعنی خدا کے ثنا ء خو ان عا رف اللہ خاند ان میں خدا وند مسیح تا ج مظہر ات الہٰی کا ظا ہر ہو گا جو سفید گھو ڑے کا میا بی اور صلح پر سو ار ہو گا اور مخالف کو زیر کر کے نو ر پھیلا دے گا اور ایک گلہ اور ایک گڈ ر یا دنیا میں ہو جا ئے گا ۔
سو ئم
شاستروں میں کر ن کا قصّہ یو ں لکھا ہے کہ وہ بن با پ کے پیدا ہو ا اور پید ایش سے زرہ اِس کے بد ن پر تھے جس کے سبب کر ن اِس کا نا م ر کھا گیا اورکوئی اِس کو ما ر نہ سکتا تھا ۔تا ہم وہ ایسا سخی مر دتھا کہ دشمن کی درخو است پر اس نے اپنا سر دے دیا ۔یہ قصّہ مسیح کو تو ا ریخ سے ملا یا جا ئے جو بن باپ کے پیدا ہو ا اور وہ قدرت الہٰی رکھتا تھا ،کہ کو ئی اُس کو ما ر نہ سکتا تھا مگر سخی بھی ایسا تھا کہ دشمنو ں کےبد لے اُس نے اپنی جا ن خو د ہی دے دی ۔
چہا رم
گیتا اور مہا بھا رت وغیرہ میں کر شن کا قصّہ یو ں لکھا ہے کہ وہ طفل( لڑ کا بچہ ) کش زما نہ پیدا ہو ا ۔علیٰ ہذالقیا س(اسی طرح) کر ایسٹ(یسوع مسیح) نیز پر ورش غیر وں کے ہا تہو ں میں پا ئی ( کرایسٹ کے بھی با پ تو تھا ہی نہیں اور ماں بھی اس قسم کی تھی کہ جس کو اُس نے فر ما یا کہ اے عو رت میرا تجھ سےاصلی کیا علا قہ ہے ۔) ر نگ اُس کا کا لا تھا یعنی جفریاہمہ مر د مک ( کر ایسٹ نیز ظا ہر خو بی سے معرا لکھا ہے اور خدا ئے ہمہ بین کر کے ) مشغولہ (شغل)زند گی اس کا صر ف گو پیو ں (گوالن)سے تھا ۔( کر ایسٹ کا نیز کلیسیا اپنی عروس (دلہن)سے ) مگر شہو تا نہ (جنسی خواہش)نہیں اِس لئے کہ جمنا نے ایک دفعہ گو پیو ن کو اسی لئے راستہ دے د یا کہ کر شن نے شہو تا نہ کبھی اُن کو مس نہ کیاتھا۔ ( کرایسٹ بھی کلیسیا کو کبھی بیٹی اپنی بھی فرماتا ہے ) سو لہ کلا سپور ن بھی یہی اکیلا اوتا رہے ۔دو سر ے سب اِس سے ینچے ہیں( کر ایسٹ نیز کما ل و حما ل وجلال الہٰی سے بھر پو ر کر کے لکھا ہے ۔) کا لے نا گ سو سری کے اوپر وہ کو دا جمنا در یا میں لکھا ہے ( کر ایسٹ نیز اِس خو نی نا گ کے سر پر کو دا جو بہت سے سر د انا ئی کے رکھتا ہے اور ساگر دنیا میں رہتا ہے ) با قی پا لیے کر شن تھا ،تو گّلہ با ن کر ایسٹ ۔
پنجم
تیکا بھا گو ت اور ما بھا رت میں لکھا ہے کہ
شب جی نے بد سلو کی سو ر ج پر جو اُس نے مہا راج کے شیوک و دہن ما لیی را کشش کے تھے سو رج کےرتھ کو کا شی میں بمو قع لو لا رک دے ما را تھا اور ادبھت را ما ین لکھا ہے کہ ایک دفعہ ہنو ما ن جی نے سور ج کو پھل سمجھ کر نگا نے کا اقدام کیا تھا ۔
اِن واقعات کا سُراغ ہم مصر کی تا ریکی معر فت مو سیٰ اور وقت صلیب کے تا ریکی مسیح سے ملا نے چا ہتے ہیں۔
ششم
مہا تم بھا گو ت میں لکھا ہے کہ گو کر ن ر کھے نے اپنے بھا ئی دہندکا ری کے گتے کے و اسطے سو رج کو کھڑا کر لیا تھا ( اِس واقع کو ہم یشو ع بن نو ن کے معجز ے یا اشعیا بن عا مو ص کے معجز ے سے مو افق کر ا نے چا ہتے ہیں ۔
ہفتم
کا زا ینڈ کیو ر مضفہ ڈا کٹر نیلسن امیر یکا ئی کے با ب ۴ میں لکھا ہے کہ
ز ما نہ یا ہو با دشاہ کے ( جو ہمہصر یشو ع بن نو ن تھا ) ایک روز سو رج کا کھڑا ر ہنا تو اریخ چین میں ایسا لکھا ہے کہ خوف بھسم ہو جا نے دینا تھا اور اویڈایک لا ٹن شا عر بز ما نہ با دشاہ ما ئیٹن کنعا ن کی فنشش کے لو گو ں سے ( جو یشو ع بن نو ن سے لڑ تے تھے ) رو ا یت کر تا ہے کہ ایک دن کھو یا گیا تھا
گو مضحکہ ہی میں یہ کہتا ہے ۔
ہشتم
سلسَس و تھا لسَس و فلیکن و غیر ہ رو میو ں نے صلیب مسیح کے و قت تا ریکی کا تذ کر ہ کیا تھا ۔
نہم
با ب ۱۹ ، ۲۰ ، ۲۱ کا زا نیدکیو ر میں بحو ا لہ طا ل مو د یہو دیا ںوا عما ل پیلا ط معجز ات مسیحی کا تذ کر ہ علی العمو ام کیا گیا ہے ۔
دھم
مینو کی تو ا ریخ مصر ی میں پہلو ٹھوں کے ما ر جا نے کی یا د داشت مصر یو ں میں مد ت درازتک رہی ہے ۔
نتیجہ
تو ا فقا ت (مطابقت)شا ستر ان ہنو دمیں ہما را مطلب وہی ہے ۔جو ایر ن وٹنس پر و فیسر کر شنا مو ہن با نر جی کا ہے کہ مخر ج(خارج ہونے کی جگہ) برہمنا ن ملک شا م و مصر سے ہے ۔جس کے واسطے وہ شا می جی اور مصر جی کہلا ئے اور تو اریخ اِن کی بھی تو اریخ با ئبل کا اِس لیے متبع(پیروی کرنے والا) بہت سا کر تی ہے ۔پر و فیسر مو صو ف رگ وید میں لفظ ’’یہو ا ‘‘کا دکھلاتا ہے کہ جس کا مخر ج کسی لفظ سنسکر ت سے کُچھ نہیں اور لفظ اسوراسی اسوری بر ہمنوں کو ثا بت کر تا اور جس نے اِس مضمو ن کی بڑ ی ہی معقول کتاب لکھی ہے ۔ روایا ت قد یمہ بقید تحر یر آ نے سے جد ید نہیں نہ بن جاتی سو تحر یر پُر ا نو ں کی تا ریخ اُن کے شر وع کی متصو ر نہیں ہو سکتی ۔
سوائے تحر یر ی تو افقا ت کی تعمیری اور تعمیل رسمی کی تو افقا ت بھی بہت ہیں ۔مگر طو الت یہا ں مد نظر نہیں ۔
ضمیمہ سو م
دراظہا ر اصلیت دعو یٰ قر ا ٓ ن مروجہ حا ل
سب سے پہلا سوا ل دین محمد ی سے یہ ہے کہ کیا کسی نئی تعلیم کی دنیا میں لا نے کا بھی اس کو دعویٰ ہے اگر ہے تو وہ نئی تعلیم اُس کی کو ن سی ہے ؟
جو اب قر آ ن
سوا ل با لا کی با بت یہ ہے کہ نئی تعلیم اِس میں کو ئی نہیں چنا نچہ ۔ سو رہ بقر کی آ یت( ۱۳۵ )میں لکھا ہے کہ دین محمد ی طریقہ ابرا ہیمی ہے اور وہ کل انبیاءوکتب انبیاء سلف کو ما نتا ہے ۔پھر سورہ انعام کی آ یٔت( ۱۶۱ ،۱۶۴ )میں بھی یہی مضمو ن ہے کہ دین ابر ا ہیمی ہی بنی عر ب کو سکھا یا گیا ہے ۔ سورہ یو نس کی آ یٔت ( ۹۴ ) میں لکھا ہے، کہ اگر تجھ کو شک ہو اس کلا م میں تو تو پو چھ لے اُن سے جو تجھ سے آ گے پڑ ھتےہیں ۔کتا ب سو رہ نمل کی آیٔت(۴۶ )میں ہے کہ قر آن یا د دا شت کتب انبیا سلف کی ہے ۔سو رہ مو منو ں کی آ یت(۵۴ )میں لکھا ہے کہ سب نبی تمہا رے دین کے ہیں وا حد دین پر اور اسی سو رہ کی آ یٔت( ۶۹ اور ۷۰ )میں لکھا ہے کہ کیا دھیا ن نہیں کر تے کیا کو ئی نئی با ت بھی ہے جو اس کو غیر سمجھتے ہیں۔ سو رہ عنکبو ت کی آ یت( ۴۳ )میں لکھا ہے کہ کتا ب وا لو ں سے جھگڑا نہ کر بند گی اُن کی اور تمہا ری ایک ہی اور اہل کتا ب قر آ ن کو سچا جا نتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ ہم تجھےوہی کُچھ کہتے ہیں جو کہہ دیا ہے پہلے رسو لو ں سے
یہ تنقیح اس مو قع پر بے جا ہے کہ
کہ قر آن نے فی الو اقع وہی کُچھ سکھلا یا ہے کہ نہیں جو انبیا سلف کی تعلیما ت ہیں کیو نکہ یہا ں در یا فت طلب صر ف یہ امر ہے کہ دعویٰ قر آ ن ا س با رے میں کیا ہے ۔
ہم یہ تو بخو بی جا نتے ہیں کہ یہ دعویٰ بھی بہت سچ نہیں چنا نچہ ۔
( ۱ ) با ئبل میں کہا ں لکھا ہے کہ نجا ت بد ون کفا ر ہ مسیح ممکن ہے اور عقل کب ما نتی ہے کہ نیکیا ں دس گنا ہ ہو کر بُرا یو ں کو کھا جا ئیں گی۔ جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے کہ گو یا ادائے جز و کل کے وا سطے کا فی ہو جا ئے گا۔
( ۲ ) با ئبل میں کہا ں لکھا ہے کہ جبر سے سچاایما ن پیدا ہو سکتا ہے اور عقل ایسے خلا ف وا قعہ کو کب تسلیم کر سکتی ہے جیسا قر آ ن وسیلہ ایما ن جبر دنیاوی اور خو ف جسما نی کو ٹھہراتا ہے۔
( ۳ ) با ئبل میں کہا ں لکھا ہے کہ تقد یر ارادی حا وی بر کل امور ہے ۔جیسا کہ سورہ العمر ان کی آ یت( ۱۵۵ )میں ہے کہ جو پو چھتے ہیں کُچھ بھی کا م ہے ہما رے ہا تھ تو کہہ دے سب کا م ہیں اللہ ہی کے ہا تھ یعنی تمہا رے ہا تھ کُچھ نہیں پھر سور ہ نسا کی آ یت( ۷۷ )میں لکھا ہے کہ ایک راہ پر خدا سب کو اِس لئے نہیں کر تا کہ دوزخ بھی بھر نا ہے۔
( ۴ ) با ئبل میں کہا ں لکھا ہے کہ بہشت شر اب و کبا ب حو ر و غلما ن سے بھر ا ہے جیسا کہ قر آ ن نے بہشت کو جسما نی بنا دیا ہے۔ بلکہ انجیل میں تو صاف صا ف یہ لکھا ہے کہ بہشت میں نہ کھانا ہے نہ پینا ہے نہ بیاہ بلکہ فر شتو ں کی ما نند پا ک رہنا ہے اور عجو بہ یہ بھی ہے کہ قرا ٓن حو روں کی بڑ ی تعریف کر تا ہے کہ وہ سو ہنی ہو ں گی۔ مگر مومن مر دوں کی تعر یف کُچھ نہیں کر تا جو اُن کے جو ڑے ہو ں گے۔ سو یو ں بہشت بھی اُن جا نو رں کی وا سطے جن کا گو شت کھا یا جا ئے گا اور اِن حو روں کے و اسطے جن کو عر ب کے با د یہ نشین اور شید ی (حبشی)بہت سے ملیں گے کیا انصا ف ہو ا۔
( ۵ ) با ئبل میں وہ عجو بہ قسمیں کہا ں ہیں جو قر آ ن میں بھری ہیں کہ خا لق مخلو ق کی قسمیں کھا تا ہے کہ جن میں مطلب بھی قسم کا پو را نہیں ہو تا جو یہ ہے کہ قسم جھو ٹی ہو تو شئے قسم خو ر دہ کی ما ر قسم کھا نے والے پر پڑے ۔ چنا نچہ سو رہ ص کی پہلی ہی آ یت میں لکھا ہے کہ قسم ہے قرآ ن کے سمجھنے و الے کی منکر غرور میں ہے سو رہ زخرف کی آ یت( ۸۸ )میں لکھاہے کہ قسم ہے رسو ل کی اِس کہنے کی کہ اے رب یہ لو گ نہیں ما نتے سور ہ ذاریات میں لکھا ہے قسم ہے بکھیر نے والو ں کی، ا ڑا کر پھر ا ُٹھا نے وا لیا ں، بو جہ کو پر جلنے والیا ں، نر می سے پر با نٹنےو ا لیاں، حکم سے بیشک خد اکا وعدہ سچا ہے ۔سو رہ طو رمیں لکھا ہے کہ قسم ہے طور کی اور لکھی کتا ب کے کشا دہ اور اق میں اور آبا د گھر کے اور اونچے چھت کی اور اُبلتے دریا کے بے شک عذاب تیرے رب کا ہو نا ہے اور اِسی سو رہ میں آگے چل کر لکھا ہے کہ تو نہیں اپنے رب کے فضل سے پر یو ں و ا لایا دیوا نہ گو یا اِن قسمو ں سے یقین اِن با تو ں کا دلا یا گیا ہے ۔سو رہ نجم میں لکھا ہے کہ قسم ہے تا رے گر ے کی بہکا نہیں تمہا را ر فیق۔ سورہ قلم میں لکھا ہے کہ قسم ہےقلم کی اور جو وہ لکھتی ہے تو نہیں اپنے رب کےفضل سے دیو ا نہ ۔سو رہ الفطار میں لکھا ہے کہ قسم ہے پیچھے ہٹ جا نے سیدھے چلنے دبک جا نے و الو ں کی اور رات کی جب اٹھا ن کر ے اور صبح کی جب دم بھر ے مقر ر یہ کلا م ہے ۔غر یت والے کا سو رہ فجر میں ہے کہ قسم ہے فجر کی اور اُس را ت کی اور جفت و طا ق کی اور جس ر ات کو چلے یہ قسمیں پو ری ہیں۔ عقلاًکے و اسطے تو نے نہ دیکھا کیا کیا تیر ے رب نے عا د(ایک قوم جس کے پیغمبر حضرت ہودعلیہ اسلام تھے) سے ۔ا ب اِن قسمو ں کو دیکھ کر انشا ء اللہ خان کے قسمو ں کو کیا کہیں جو لکھتا ہے، کہ لو نا چما ری(نمکین موچن) کی قسم اور کلو ابیر(کالاجن) کی ۔پہلے تلے کے بُھتنے (بھوت کی تصغیر،ناپاک روح)یعنی شیطا ن کی قسم ۔ کیا وہ زیا دہ اِن سے ہنسے معلو م ہو تے ہیں اور کو نسی شئے باقی ہے جس کی قسم قر آن نے نہیں کھا ئی جب کہ دید نی اور نا دیدنی اشیا ئے کل قسم بھی ایک اس میں ہے ( سو رہ حا تعہ آ یت ۳۸ ، ۳۹ ) ۔
یہ بھی غلط ہے کہ ایسے ایسے اختلا فو ں سے یہی ثا بت ہو تا ہے کہ با ئبل محر ف(بدلنے والا) کتا ب ہے ۔قر ان ایسے وا ہیات(بے ہودہ) نتیجہ کو خو د بھی نہیں ما نتا اور یہ نتیجہ بھی در خو د (بذات خود)نا ممکن ہے کہ ایسے اختلا فو ں پر جمہو ر (لوگوں)کا اتفا ق محض بے فا ئد ہ کے وا سطے ہو جا ئے ۔ قرآن یہ تو کہتا ہے کہ بعض ا ہل کتاب زبا ن مر و ڑ مر و ڑ کر پڑ ھتے ہیں کہ گو یا وہ کتا ب الہٰی میں لکھا ہے حا لا نکہ وہ نہیں ہے کتا ب اللہ میں ( العمران آیٔت ۷۷ ) یعنی سچ میں جھوٹ اپنے کلا م میں ملا تے ہیں مگر کلا م ا للہ میں نہیں اور سو رہ انعا م کی آ یٔت( ۳۳ )میں لکھا ہے کہ کلا م اللہ کوکوئی بد ل نہیں سکتا ۔
( ۶ ) با ئبل میں کلا م مجا زی تو بو لی گئی ہے کہ جیسے سو رج کا نکلنا اورسو رج کا چھپنا ۔اجرام سما وی اور وجو دہا ئے ار ضی کاجلا ل الہٰی ظا ہر کر نا مگر یہ فلا سفی قرآن کی با ئبل میں کہا ں ہیں کہ غر وب آ فتا ب کا دلدل کی ندی میں ذ والقر نین نے دیکھا ہے جیسا کہ سو رہ کہف کی آ یٔت( ۸۶ )میں ہے یا یہ پہا ڑ میخین بنا دئے گئے ہیں تا کہ زمین ڈگمگائے نہیں ۔( سو رہ نمل آ یٔت ۱۵ ) یا زمین کنا روں سے گھٹتی چلی آتی ہے ( سو رہ رعدآ یٔت ۴۱ ) یا آ سما ن میں خدا کی کونسل کر نے کے بر ج ہیں جن میں سے اگر شیطا ن کُچھ لے اڑتا ہے اِس کے پیچھےتا رہ ٹو ٹ کر انگا ر سا پڑتا ہے ( سو رہ حجرا ٓ یٔت ۱۸ ) یا ہم نے جنوں کو بے دھویں کی آگ سے بنا یا ہے ( سورہ حجر آ یٔت ۲۷ ) وغیرہ وغیرہ ۔
سو ال دوئم
یہ ہے اگر دین محمد ی میں نئی با ت ہی بقو ل قر آن کو ئی نہیں تو اِس کے نا زل ہو نے کا کیا فا ئد ہ ہو ا ؟
وغیرہ اس سوا ل کا یہ ہے کہ جب نبیو ں کا تو ڑ ا پڑ جا تا ہے اور لو گ آ پس میں جھگڑ اڈال لیتے ہیں۔ تب فیصلہ خدا کی طر ف سے آ یا کر تا ہے اور قرآن کے نا زل فر ما نے میں یہ بھی مدِنظر رکھا گیا ہے کہ اہل عر ب کے اوپر سے طعن امی کہلا نے کا اُٹھ جا ئے اور کلا م الہٰی اُن پر آ سا ن ہو جا ئے۔ جو غیر ز با نو ں میں لکھا ہو ا تھا ۔یعنی قر آ ن آ خیر اور اصح (بہت صحیح)شر ع کتب انبیا سلف کی ہے اور اہل عر ب کا فخر آ سا نی ۔چنا نچہ سو رہ مائد ہ کی آیٔت( ۴۴ )میں لکھا ہے کہ محمد تو ڑا بڑے پیچھے رسو ل ہو کر آیا ہے اور لکھا ہے کہ قر آ ن فیصلہ کر نے آ یا ہے جس میں جھگڑ رہے تھے سور ہ بقر کی آیٔت( ۲۱۳ )میں لکھا ہے کہ دین تو سب ایک ہی ہے مگر نبی اورالہا م جھگڑا مٹا نے آ یا کر تے ہیں ( وہ جھگڑا یہ تھا جو قر آ ن مٹا نے آ یا کہ کتا ب والوں میں بعض تو حیدالہٰی پر اتفا ق نہ کر تے تھے دیکھو (سورہ العمر ان کی آ یٔت ۶۳ کو ) اہل عر ب کو اہل کتا ب امی کہتے تھے بسبب(کی وجہ سے) لا علم ہونے کلا م الہٰی سے دیکھو سور ہ العمرا ن کی آ یٔت( ۷۵ )جس میں لکھا ہے کہ کہہ دے اہل کتا ب کو اور اُمیو ں کو یعنی جو ما سو ا اہل کتا ب کے ہیں اور سورہ جمعہ میں لکھا ہے کہ خدا نے اُمیو ں میں پڑھتا رسو ل اُٹھا یا ۔یہ بھی وا ضع ہے کہ سا رے اہل عر ب فی الحقیقت امی نہ تھے مگر صر ف باصطلا ح اہل کتا ب ہی امی بھی چنا نچہ سور ہ بقر کی آ یا ت( ۲۸۴ و ۲۸۳ )میں ا ہل عر ب کو بھی معاملہ معا ہدہ میں لکھ پڑ ھ لینے کی صلا ح بخشی گئی ہے۔ جس سے وا ضح ہو تا ہے کہ لکھنا پڑ ھنا اہل عر ب میں عا م معلو م ایک با ت تھی اور جو د محمد صا حب بھی لکھنے پڑ ھنے سے ہمیشہ محر وم نہیں ر ہے گو بچپن میں وہ نہ پڑ ھتے تھے۔ جیسا کہ سورہ عنکبو ت کی( ۴۳ آ یٔت سے۴۹ تک) اس با رے میں ذ کر ہے کہ تو ا ِس سے پہلے لکھنے پڑ ھنے سے وا قف نہ تھا جو جھو ٹھو ں کو گنجا یش شبہ کی ہو تی، بلکہ یہا ں سے ایسا معلو م ہو تا ہے کہ اُسی چیز کے لکھنے پڑ ھنے کی وا قفیت پہلے سے اُسے نہ تھی۔ جس میں شبہ ہو تا تھا یعنی کتب انبیا سلف کے اور پہلے ہی نا وافقی لکھنے پڑ ھنے میں اُن کی تھی مگر آ خر میں نہیں لکھا ہے کہ ہم تجھے وہی کُچھ کہتے ہیں جو کہد یا ہے سب رسولوں سے تجھے پہلے اگر ہم کر تے اسے اوپر ی ز با ن کو قر آ ن تو کہتے کہ اہل عر ب کو غیر زبا ن سے کیا علا قہ ہے کیو نکہ کھو لی گئی اس کی با تیں اور سورہ (دخا ن کی آ یٔت ۵۸ )میں لکھا ہے کہ قر آن آ سا ن کیا تیر ی بو لی میں کہ شا ید وہ یا د رکھیں ۔سور ہ انبیا کی آ یٔت ۱۰ میں لکھا ہے کہ ہم نے اوتاری ہے کتاب ( اے اہل عر ب ) کہ جس میں تمہا ری نا م آ ورے (مشہور) ہے پھر کیا تم کو عقل نہیں ۔
سو ال سو ئم
یہ ہے کہ کیا سند دی قرآ ن نے اپنی شرع کے اصح ہو نے کے جو وہ جھگڑ ا مٹا نے کا دعو یٰ کر تا ہے کیا معقو لا ت پر اُس کو رجوع کیا یا معجز ا ت پر۔
جو اب قر آ ن
یہ ہے کہ تنا زعہ(تکرار) صر ف مسئلہ تثلیث پر ہے جو بدعتیو ں نے اپنے ذہن سے گھڑ لیا ہے اس کے رو ک کےو اسطے نہ تومعقو لا ت کی حا جت ہے اور نہ معجزات کی۔ کیونکہ و حد ت پر ہدائت حکم حق کر ر ہی ہے اور تثلیث پر ہد ا ئت حکم نا حق ہو نے کا کر تی ہے چنا نچہ ۔
(سو رہ العمران کی آیٔت ۶۴،۵۱)میں ہے کہ اے کتا ب وا لو آ جا ؤ ایک سید ھی با ت پر کہ شر یک نہ لگا ئیں اللہ کو پھر اگر نہ ما نیں تو وہی ہیں نا فر ما ن اور (سو رہ بقر کی آ یٔت ۴۶) میں لکھا ہے کو اللہ اور روز جزا اور سزا پر ایما ن لا ے جو اہ یہودی ہو ں یا نصا را نڈ رر ہیں ۔
اور معجز ات کے با رے میں قرآ ن کا یہ جو اب ہے کہ کو ن سی با ت کے و اسطے معجزا ت طلب کرتے ہو۔ جب کہ نئی با ت بھی قر آ ن میں کو ئی نہیں اور پر ُانی باتوں کے وا سطے معجزا ت کا فی دفعہ ہو چکے ہیں ۔چنا نچہ ۔
( سور ہ العمران کی آ یٔت ۱۸۴ )میں ہے کہ اگر تمہا را سوا ل معجز ات کا درست ہے تو تم جو معجزات طلب کر تے ہو وہ بھی پہلے بنیو ں نے دکھا ئی تھی پھر ان کو قتل کیو ں کیا ۔(سو رہ انعام کی ۳۶ ، ۵۶ ، ۹۰ ، ۹۱ ، ۱۰۹ نعا م آیت ۱۱۱ )ان آ یا ت میں لکھا ہے کہ معجزہ طلب کر تے ہیں بےسمجھ ہیں۔ کہہ دے جس چیز کی جلدی کر تے ہو اگر میر ے پا س ہو تی تو جھگڑا ہی با قی کیا تھا۔ تو جن کو ملی ہے کتا ب اور شر یعت اور نبوت پہلے سے چل اُن کی راہ پر۔ منکر نا حق اشد قسمیں کھا تے ہیں کہ اگر کو ئی معجزہ زا ٓ ئے تو ما نیں گے۔ مگر ہر گز ما ننے وا لے نہیں ہم اُلٹ دین کے۔ اُن کی آ نکھیں جیسی زما نہ سلف میں ہو ا اور معجز و ں پر ہد ایت مو قو ف نہیں کتا ب وا لے خو د قر آ ن کی تصد یق کر تے ہیں۔ اللہ کا کلا م کبھی بد لتا نہیں( سور ہ اعر اف کی آیت۱۸۸ )میں لکھا ہے کہ میں غیب دان بھی نہیں کہہ د ے اور نہ ما لک اپنے بھلے بُرے کا بلکہ صر ف خو شی اور دُرسنا نیو الا ہو ں۔سور ہ یو نس میں لکھا ہے ( آ یٔت ۳۸ ، ۳۹ ) یہ قر آ ن ہے کہ سواے اللہ کے ایسا کو ئی نہیں بنا سکتا ( کیو ں ) یہ تصد یق ہے پہلے کلا م اور بیا ن کتا ب ۔کی جس میں شبہ نہیں جہا ں کے صا حب سے او پر اسی سو رہ کی (آ یت ۹۴ )میں لکھا ہے اگر تجھ کو شک ہو اس قرآ ن میں تو پہلی اہل کتا ب سے پو چھ لے ۔پھر ( سور ہ ہو د کی آ یت ۱۳ ، ۱۷ )میں لکھا ہے اگر یہ قر آ ن بنا وٹی ہے تو ایسی دس سو رتیں بنا کر دکھا ؤنہیں یہ تو گو اہی ہے اور پہلے اِس سے کتا ب مو سیٰ کی ہے ۔
(سورۃ نمل)میں لکھا ہے کہ قر آ ن یا د داشت ہے پہلے کتب کی جو معجز ات کے سا تھ آ ئے تھے ۔سورہ بنی اسرائیل میں لکھا ہے ( آ یت ۵۹) ہم نے اس سے مو قو ف کیں وہ نشا نیا ت بھیجنے کہ اگلو ں نے اُن کو جھٹلا یا ( وہ سے مر اد معجزے ہیں اس لئے کہ لفظ آ یت کے معنی قر آ ن میں نہیں ہیں ۔ یعنی نشا ن قد رتی و فقرات قر آ نی و معجزات جھٹلا ے جا ئیں گے ۔قا بل معجزات انبیا ء سلف ہی متصو ر(دل میں نقشہ جمالینے والا) ہیں اور ا ٓ یت (۱۹۰سے ۱۰۹ تک) اسی سور ہ میں اشارات ہیں کہ اِس قر آنی کو معجزات کی حا جت ہی کُچھ نہیں کیو نکہ اِس کی حقیقت پر پہلے کے علم والے کا فی گو اہ ہیں۔( سور ہ طہ کی آ یت ۱۳۳ )میں لکھا ہے کہ کہتے ہیں کیو ں نہ اُتری اُس پر کو ئی نشا نی ا ُس کی اب سے تو کہ کیا پہنچ نہیں چکے اُن کو نشا نیا ں پہلی کتابوں میں ۔(سورہ انبیا ء کی آ یت ۵ سے آ یت ۸ )میں لکھا ہے کہ منکر جو پہلے نبیوں کی طر ح کی نشا نیا ں طلب کر تے ہیں تو کہ کیا پہلوں کو ما نا ہے جو اب ما نیں گے ۔(سو رہ سجدہ کی آیت ۳)میں لکھا ہے کہ قر آ ن بنا وٹ نہیں بلکہ اُن کے لئے ہد ایت ہے جن کو پہلے ہا وی کو ئی نہیں بھیجا۔
البتہ (سورہ اعراف کی آ یت ۱۵۷ )میں یہ ضرور لکھا ہے کہ بنی امی کی خبر تو ریت و انجیل میں کی گئی ہےا ور (سور ہ صف آ یت ۶ )میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے احمد نا می کی بشا رت دی ہے ۔مگر مو جو د ہ تو ریت و انجیل میں تو ایسی خبر وں کا کُچھ پتا نہیں لگتا اگر کہیں ہے تو مد عی ہی دکھلا ئے۔ نیزیہ امر دعویٰ تحر یف میں بھی اگر بر خلا ف قر آ ن کیا جا ئے تو ثا بت نہیں ہو گا کیونکہ ایک دعویٰ کی تصدیق صر ف دوسر ے دعویٰ ہی سے نہیں ہو سکتی ۔
خلا صہ
قر آ ن تو اس وجہ کا مل کے سا تھ انکا ر مطلق ہر طر ح کے معجزے سے کر تا ہے کہ جب کہ قر آ ن میں نئی تعلیم ہے کو ئی نہیں۔ تو نئے معجزے کی ضر ورت بھی مطلق نہیں ۔مگر پیرواں قر ا ٓ ن اس و جہ سے تسکین نہیں پا تے اور کہتے ہیں، کہ ہا ں معجزے ہو ئے ہیں۔چنا نچہ فصا حت و بلا غت قرآنی خود ہی بڑ ا معجزاہے کہ جس کا ثا نی کو ئی مخلو ق نہیں بنا سکتا۔ اگر اُن سے پو چھیں کہ کہا ں سے سا رے قر آ ن میں دعویٰ فصا حت و بلا غت کا کوئی ایک لفظ تک اور پھر اگریہ فصا حت و بلا غت جدید مطلق شئے ہو تی بھی تو باسبب محتا ج ہونے کےتعلیم میں وہ آ سا نی اِ س میں کہا ں رہتی ۔جو (سور ہ دخا ن کی آ یت ۵۷ )میں لکھی ہے کہ قرآن آ سا ن کیا گیا ہے۔ تیر ی بو لی میں شا ید وہ یا درکھیں اور پھر اگر فصا حت (خوش بیانی)و بلا غت(حسب موقع گفتگو) اِس کی اُسی درجہ کی ہےکہ جیسےکا مل فصحا(خوش بیان لوگ) و بلغا(فاضل لوگ،عالم) میں ہو نی چاہئے اور اس سے پڑ ھ کر ایجا د سے میں کُچھ نہیں تو جن کے وہ نظیرہے وہی اُس کے نظیر ہیں پھر دعوےٰ بے نظیری کا کیا معنی رکھتا ہے ؟
حقیقت حا ل تو یہ ہے کہ دعو یٰ بے نظیری تعلیما ت انبیا ء سلف کا اس میں صر ف کیا گیا ہے ۔جیسا کہ او پر دکھلا یا گیا لیکن غر ض کی اند ھو ں کو سو ائے غر ض کے اور کُچھ نہیں نظر آ تا اور غر ض بھی وہ جو حق سے غر ض نہیں رکھتے ۔بعض کما ل لا علمی سے پو چھتے ہیں کہ تب جا دو صریح منکر کس شئے کو کہتے تھے ۔اُن کا جو اب (سورہ انعام کی آ یت ۷ )میں لکھا ہے کہ منکر خبر قیا مت کو کا غذ پر لکھے ہو ئے ٹٹول کر بھی جا دوصر یح کہتے ہیں۔ ایسا ہی (سورہ ہو دکی آ یت ۷)میں ہے کہ منکر خبر قیا مت کو جا دو صر یح کہتے ہیں ایسا ہی (سو رہ قمر کی آ یت ۲)میں ہے جس میں لکھا ہے کہ قر یب ہوئی قیا مت اور پھٹ گیا چا ند اگر دیکھیں ۔ کو ئی آیت ٹلا کر کہیں کہ یہ ایک صر یح جا دو ہے اور چلے اپنی مرضی پر اور ہر کا م ٹھہر رہا ہے و قت پر۔مر ادیہ ہے کہ اُن با تو ں کو بھی جو قُر ب قیا مت کی اُن کو سُنا ئی جا تی ہیں معمو لی جا دو کہتے ہیں مگر ہر کا م وقت پر منحصر ہے اور اب تو ا پنے چا ہ میں چلتے ہیں مگر جب سرپر آ پڑے گی تب دیکھیں گے ۔بعض وہم پر ست اِن آیات قمر میں بھی معجزہ شق القمر دیکھتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ نہ تو ان میں کو ئی فعل کا فا عل ظا ہر ہے اور نہ ایسے وقوعہ(واقعہ) کے کسی دشمن تو بر طر ف دوست ہمعصر نے بھی معا نیہ(جانچ پڑتال) کی گو اہی لکھی ہے اور نہ الفا ظ شا عر انہ اس مو قع کے امر ما ضی اِس وقوعہ کو کُچھ بنا رہے ہیں ۔جو ہنو ز(صرف) انحصا ر وقت کی شرط ڈال رہے ہیں تا ہم وہم پر ستی بسبب غر ض کے آ لو دگی کے نہیں چھو ڑتے ۔
البتہ دا نا ئی اور دلد اری کی پیشن گو ئیا ں اور نا مکمل مبا ہلی تو قر ان میں بھی ہیں جو پیشن گو ئیا ں اگر نہ پو ری ہو ئی تو شر طیہ اُن کو ٹھہر ا دیا گیا اور مبا ہلہ (بددُعا کرنا) میں اگر مخا لف مقا بلہ میں آ ہی گیا تو کو ئی وجہ دےکر ہٹ بیٹھتے ہیں ۔جیسا کہ سو رہ انعام میں جو بر خلا ف وعد ہ شکست محمد یو ں کے ہو ئے تو فر ما یا کہ تم نے ہی تو بز ولی کی خیرتم آز ما ئے گئے ہو مت ڈروا ور سو رہ انعام میں مبا ہلہ کیا گیا تھا کہ آ ؤ جھو ٹو ں پر لعنت کر یں۔ مگر سو رہ انفال اور ہو دمیں حب کفا ر نے ویسے ہی مبا ہلے پیش کئے تو فر ما دیا گیا کہ جب محمد صا حب درمیا ن کفا ر کے کھڑا تھا پتھر کیو نکہ بر ستے اور اولاد کفا ر میں تو امید مو منو ں کی بھی ہے پھر کیو ں کر لعنت آ ئے۔
یو ں قال اللہ اپنے میں جب محمد ی کو ئی معجزہ نہ پا سکے تونا چا ر قا ل الر سو ل میں دو سر ے صد ی میں جا کر جب ہمعصرمحمد ی سب مر گئے تھے۔ ہزا ر ہا معجزات بنا دے گئے اور صر ف یہی نہیں کہ نبی ہی کے معجزے بنا ئے بلکہ بیخ خشک کے شا خو ں کو بھی ایسے پھلو ں سے لا د دیا ۔ یعنی ولیو ں بزر گو ں کی کراماتیں ہزا ر ہا احا دیث کی طر ح پر بن سُنے دیکھے لکھ دیے اور یہ طر یقہ بھی محمد یو ں نے پو پوں سے سیکھا ہے کہ بعد وفا ت کسی نا مور کے سو پچاس بر س بعد اُن کو ولی بنا دینا،قتا ل(بہت قتل کرنے والا) اتر اک با خلیفہ بغداداورنا رحجا ز کی صر ف دوایسی خبر یں ہیں کہ جن کا یہ فخر پیش کیا جا تا ہے کہ بعد تحر یر اُن کی تکمیل ہو ئی ہے ۔ لیکن قتا ل اتراک کی خبر (حز قی ایل کے با ب ۳۸ و ۳۹ اور مکاشفا ت کے با ب ۹ آ یت سےخا تمہ باب تک ) سے بخو بی نکل سکتی ہے اور یہ ملک حجا ز بسبب والی تک ہونے کے ادنیٰ حکیم ایسی خبر دے سکتا ہے اور پھر عجو بہ یہ بھی ہے کہ لا د اجواس نا ر حجا ز کا بہ کر نکلا ہے اُس کو کپتا ن بر ٹن صا حب نے سیر عر ب میں دیکھا ہے کہ صر ف دو تین میل کے اند ر اند راس کا نشا ن مو جو د ہے ۔لہٰذا اقسطلا نی اور جما ل مستا ری کا سرا سر نقیض یہ واقع کر رہا ہے۔کپتا ن برٹن صاحب دین مسیحی اور محمد ی سے کُچھ غر ض اس واقع نگا ری میں نہ ر کھتا تھا۔ بلکہ بقا لب محمد یا ں صر ف سیر عر ب ست غر ض اس کی تھی ۔
سو رہ لعمر ان کی آ یت ۷ میں جو لکھا ہے کہ قرآن بعض آ یا ت تو پکی اورجڑ کتا ب ہیں اور دوسری ایسی ہیں کہ کئی ظر ف ملتی اور اُن کی کُل صر ف اللہ ہی بیٹھانی جا نتا ہے اور وہ ایما ن ہی مو منو ں کے لا ئق سب ہیں سو سوائے حر وف مقطعا ت(وہ حروف جو قرآن شریف کی بعض سورتو ں کے شروع میں آتے ہیں ) مثلاً الف، لا م ،میم وغیر ہ کے صر ف دھو کہ ہی ہے تا کہ کو ئی دعویٰ سمجھنے قر آ ن کا نہ کر ے کیو نکہ لفظ ضر ور ہے کہ اپنے معنی ظاہر کر یں اور اس سے کوئی قانو ن ما نع (منع کرنے والا)نہیں ہو سکتا اور ہد ایت بھی کیا اُسی کو کہتے ہیں جس کو کو ئی نہ سمجھے۔ یہ بھی ایک تعریف ہے مو منو ں اپنی پیر وی کرنے کو تو قرآ ن اعتر اض کر نے سے البتہ منع کر سکتا تھا جیسا کہ (سو رہ ما ئدہ کی آ یت ۱۰۱) میں منع فر ما یا گیا ہے کہ بہت سوا ل مت کر و کہ شا ید جوا ب اُن کے تم کو نا پسند ہو ں اور طر یقہ بُھلادینے اور منسو خ کر دینے آ یا ت کا بھی ایسے ہی مومنوں کے سا منے قبول ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ (سو رہ بقر کی آیت ۱۰۵ )میں اصول ڈ الا گیا ہے لیکن متلا شی حق ایسی ایسی روکو ں سے کب رُک سکتا ہے اوررک کر حق کو کیو ں کر پا سکتا ہے عقلمندخو د ہی انصا ف کر سکتے ہیں ۔
غر ض کہ نہ جنوں ان دیکھے اور فرشتہ دل پر قرآن اوتار نے والےاور سیر مسجد اقصی وقا ب قو سیں او رادنیٰ کے سو اجن با تو ں کا دیکھنا صر ف محمد صا حب ہی سے علا قہ رکھناقر آن میں لکھا ہے اور نہ تو کو ئی معجزہ قر آن میں سے اور نہ ایسی کو ئی احا دیث سن کہ جس کے معا نیہ غیر کی بلا واسطہ گواہی ملے اور نہ اصول قر آ نی یہ ہے کہ پُر انی تعلیمات کے لئے نیا معجزہ ہو نا چا ہئے تا ہم معجز ے ہزار ثبوت نا دار۔
سوا ل چہا رم و اخیر
یہ ہے کہ تب نبی عر ب ختم المر سلین کن معنوں کر کے قر ا ٓ ن میں کہا گیا ہے اور کہ کتب سلف کا جو پیر و اُس کو قر آ ن میں لکھا ہے تو کو نسی طر یقہ کا پیر وہے یہو دیا نصا را میں سے ۔
جو اب قر آ نی
تذ کر ہ مند رجہ ضمیمہ ہذا سے یہ نکلتا ہے کہ ختم المر سلین سے مر اد اُ س کے آ خیر و اصح شا رح (تفسیر ،کھول کر بیان کرنا)کتب انبیا سلف ہی سے ہے گو تا ئید اُ س کی شر ح کی نہ کسی معجزہ یا الہا م سے ہوتی ہے اور نہ عقل و معقو لا ت سے او رپیر ووہ اپنے آ پ کو طر یقہ نصا ر ا کا سمجھتا ہے۔ چنا نچہ (سورہ العمر ان کی آ یٔت ۵۳) میں لکھا ہے کہ میں ر کھو ں گا ( بر وے قر آ ن خدا کہتا ہے ) تا بعین عیسیٰ کو غا لب منکر ین پر دن قیا مت تک اور( سورہ نسا کی آ یت ۴۶ )میں لکھا ہے کہ مسیح پر اُ س کی مو ت سے پہلے سارے فر قے کتا ب وا لو ں کے ایما ن لا دین گئے اور وہ قیا مت کے دن سب کا راہ بتانے والا ہوگا یہا ں سے ہر ایک اپنی لئے خو د ہی انصا ف کر لے کہ جب کہ سوائےمنکر ین اور تا بعین کے تیسرا کو ئی نہیں تو محمد صا حب کدھر جا نا چا ہتے ہو ں گے اور کس کے منا داپنے آ پ کو قرا ر دیتے ہیں اور ثبو ت مصنف بنی معصو م کس لئے صر ف مسیح کو قر آ ن محتا ج مغفر ت نہیں کہتا اور دوسرے ا لو العز م نبیوں تک کہتا ہے ۔
خلا صہ
بنی عر ب کو بھی ما نند پو پ کے ہم کو مسیحی تسلیم کر نا تو ضر ور پڑ تا ہے مگر یو نی میڑ ین فٹیلسٹ ما رمن اور پیپسٹ کا کُچھ مجمو عہ کر کے یو نیڑن بسبب انکا ر تثلیث کے فیٹلسٹ بسبب ما نتے تقد یر ا رادی کے ہر مر میں ما رمن بسبب حو از کثر ت ازواج و غلا می کے اور پیپسٹ بسبب دعو یٰ لم یز لی شر ح خو د کے اور در حقیقت بد عت اور افسو س او لین (باب ۹ مکا شفا ت) کا ۔یو ں د جا ل صلح مو عو د میں مسیح آ نے و الا ہے روح ہا دی یا مہد ی کا انتظا ر صادقوں کو لگا ہو ا ہے حق با طل پر سا رے اور سدا کو ضر ور غا لب ہو گا آ مین ۔