آسمانی باپ
صاحبِ رشتہ
الہامی کتُب سے یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ انسان مدنی بالطبع اورصاحب رشتہ مخلوق ہے ۔ اس کا رشتہ بادشاہ ۔ملک اورہم جنس سے ہوتاہے۔ اکثر لوگ اپنے رشتہ کو بخوبی پہچانتے ہیں کہ ان کا رشتہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی یا مخالفت ،محبت یا نفرت کا ہے۔ جب یہ رشتہ ہمدردی ،مہربانی اورمحبت پرمبنی ہوتاہے توایک دوسرے کوبخوبی پہچانتے ہیں اورایک دوسرے پربھروسہ بھی کرتے ہیں اوراسی طرح برداری قائم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب آپ میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے تورشتہ نہ صرف ٹوٹ جاتاہے بلکہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔
جس طرح انسان ملکی ربط وضبط اورخاندانی میل ملاپ کے طورپرصاحبِ رشتہ مخلوق ہے۔ ایسے ہی دینی اعتبار سے آدمی خاص طورپر صاحبِ رشتہ مخلوق ہے۔ کیونکہ دینِ انسان اورخدا کے تعلق کی ایک خاص علامت ہے۔دین ہی وہ خاص رابطہ ہے۔ جوکہ انسانی روح کو خدا کے ساتھ مربوط رکھتاہے۔
صاحبِ اخلاق
چنانچہ جب ہم انسانی صفات پر غورکرتے ہیں توہم کو معلوم ہوتاہے کہ انسان ایک صاحبِ اخلاق وجود ہے۔ جونیک اوربد میں تمیز کرسکتاہے ۔ راستی اورناراستی کوسمجھتاہے۔ اعلیٰ درجہ تک علمِ وحکمت حاصل کرسکتاہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اپنے ہم جنس کے لئے دردمندی، مہربانی اورمحبت دکھلاسکتاہے۔ حتیٰ کہ موت بھی گوارا کرسکتاہے۔ پس جبکہ انسان اس اعلیٰ درجہ تک صاحبِ اخلاق ہے توپھرکیا اس کے خالق کوبدرجہ اولیٰ صاحبِ محبت اور ایثار کیوں نہ مانا جائے؟
بانیِ اخلاق
ہم جانتے ہیں کہ خداکے اخلاق کا ثبوت انسان کے اخلاق سے ملتاہے۔مثلاً یہ کہ خدا نیک اوررحیم ہے اوریہی صفت انسان میں بھی پائی جاتی ہے۔ فرق صرف اتناہے کہ خدا کی یہ خوبیاں نہایت اعلیٰ خالص اورکامل ہیں۔ ورنہ ہمارے نزدیک ان الفاظ کے کچھ معنی نہ ہونگے؟جب ہم اپنی عقل اوراخلاقی خوبی پرغورکرتے ہیں توہم کوماننا پڑتاہے کہ یہ خوبی ہمارے خالق میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔اگرآنکھ سورج کی طرح نورانی نہ ہوتی تووہ سورج کوکس طرح دیکھ سکتی۔ انسان کی عقل خدا کی حکمت کودھُندلے طورپرظاہر کرتی ہے۔ انسان کی نیکی خدا کی پاکیزگی کوہلکے طورپرنمایاں کرتی ہے۔ جس حال کی محبت رحم اورخود انکاری انسان میں پائی جاتی ہے ۔ توکیا ہم کوتسلیم کرنامناسب نہیں کہ یہ خدا کے وسیع دل کا عکس ہیں۔خلیفہ ہارون الرشید کی نسبت یہ کہا جاتاہے کہ اُن کو اپنی رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ وہ رات کوبھیس بدل کر شہر میں پھرا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کی ضرورتوں اورمصیبتوں کومعلوم کرکے اُنہیں دور کریں۔پس کیا خدا تعالیٰ ہارون کی نسبت کم مہربان، ہمدرد اورمحبت کرنے والا ہے۔ جب آدمی اس قدر صاحب محبت اورایثار پسند ہے توکیا خدا کے لئے ایسا ہوناناممکن ہے۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ خدا توکہیں زیادہ جانتاہے کہ محبت اورایثار کیاہے۔ چنانچہ سورہ الروم کی آیت ۲۰ میں وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً یعنی خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت اورنرم دلی رکھی ہے"۔ خدا کیونکر ایسا کرسکتاہے اگروہ خود کامل طورپر نہ جانتاکہ محبت اوردردمندی کیا ہے؟ الغرض جس قدرہم کو اپنی پہچان ہوگی۔ اُسی قدر ہم اپنے خالق کا عرفان حاصل کرینگے۔
مکاشفہ سے دلیل
اہل اسلام چار کتابوں کوالہامی مانتے ہیں۔ قرآن کے بموجب اُن کو موسیٰ کی توریت، داؤد کا زبور ، مسیح کی انجیل اورصحائف انبیا ء پرایمان لانا چاہیے ۔لہذا مناسب نہیں کہ اُنکی تکذیب یا حرف گیری کی جائے۔ بلکہ قرآن کے برابر اُن کی تعظیم کرنا لازمی ہے۔قُلْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ" یعنی کہو کہ ہم ایمان لاتے ہیں ساتھ اللہ کے اورجونازل ہوا ہم پر اورابراہیم اوراسماعیل اوراسحاق اوریعقوب پر اوراسرائیلی فرقوں پر اورجوملا موسیٰ اورعیسیٰ کو اورنبیوں کواپنے رب سے۔ ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اورہم اس واسطے اُس کے فرمانبردار ہیں(عمران آیت ۸۵)۔ اگرہماری کتُب منسوخ یا محرف ہوتیں تواُن پر ایمان کی تکلیف دینی مہمل ومجنونانہ فعل ہوتا۔لیکن وہ صرف صحیح وسالم ہیں بلکہ اہل دنیا کے لئےہدایت ،روشنی اوربموجب رحمت ہیں ہیں ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً یعنی ہم نے موسیٰ کوکتاب عطا فرمائی۔ جس سے نیکوکاروں پر ہماری نعمت پوری ہوئی۔ اُس میں کل باتوں کے تفصیلی احکام موجود ہیں۔ اورلوگوں کے لئے ہدایت اوررحمت ہیں(سورہ انعام آیت ۱۵۴)۔ )۔ وَآتَيْنَاهُ الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَیعنی اورہم نے عیسیٰ کو انجیل دی اوراُس کے اندر ہدایت اورنور ہے۔ اوروہ تصدیق کرتی ہے توریت کوجواُس کے آگے تھی۔ اوروہ ہدایت اورنصیحت ہے پرہیزگاروں کے لئے (مائدہ آیت ۴۸)۔ یااگرہماری کتُب مقدسہ خلط ملط ہوتیں توکیوں آنحضرت کویہ فرمایاکہ فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ یعنی اے محمد اگراس چیز سے شک میں ہے جوہم نے تیری طرف اتاری تواُن سے پوچھ لے جوتجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں (سورہ یونس آیت ۹۴)۔
پس اہل اسلام کوقرآن کی طرح ہماری کتُب مقدسہ پر نہ صرف ایمان لانا فرض ہے۔ بلکہ اُن کے احکام کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ کیونکہ وہ نوراورہدایت ہیں(مائدہ) امام ورحمت ہیں۔(احقاف) ۔ کل باتوں کے تفصیلی احکام ہیں (انعام) قرآن نہ صرف بائبل کا تصدیق کرنے والا ہے بلکہ محافظ بھی ہے۔(مائدہ) یہ امر قابل غور ہے۔ کہ کیا کوئی ایماندار محرف کتاب کوقابل عمل کہے گا۔ یاکسی منسوخ کتاب پر ایمان لانے کی ترغیب دیگا۔ نہیں ہرگزنہیں۔لیکن آنحضرت اہل کتاب کی کتابوں پر ایمان لاکر اُنہیں نوروہدایت بتلاتے ہیں اوریہ مشورہ دیتے ہیں کہ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ ۔ یعنی واجب ہے کہ حکم کریں انجیل والے اُسی کے مطابق جواللہ نے اُسکے اندرنازل فرمایا۔(سورہ مائدہ رکوع ۷)۔
انسان کارشتہ خدا سے
چنانچہ الہامی نوشتوں کے پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان اورخدا میں اخلاقی صفات پائی جاتی ہیں۔ توریت میں لکھا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ قرآن اس حقیقت کی تصدیق کرتاہے کہوَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً یعنی کہا پروردگار نے تیرے لئے فرشتوں سے کہ تحقیق میں بنانے والا ہوں بیچ زمین کے نائب (سورہ بقرہ آیت ۳۰) ۔ جس سے مراد یہ ہے۔ کہ انسان نہ صرف اشرف المخلوقات ہے۔ بلکہ تمام اخلاقی خوبیوں میں اپنے خالق کی مانند ہے۔ مشکوات المصباح جلد ۲ صفحہ ۱۷ پر لکھا ہے کہ فان اللہ خلق آدمہ علیٰ صورتہ سچ مچ خدا نے آدم کو اپنی صورت پرپیدا کیا ۔ قرآن میں آدم کی پیدائش کا بیا ن یوں ہے نفح فیہ من روحہ یعنی خدا نے اپنی روح آدم میں پھونکی (سورہ سجدہ) البیضاوی نے اس کی شرع میں یہ لکھا ہے کہ خدا نے آدم کا رشتہ اپنے ساتھ قائم کیاکہ انسان ایک عجیب مخلوق ہے اورکسی نہ کسی طرح ذاتِ الہٰی سے رشتہ رکھتاہے ۔ پس جوکوئی اپنے کو جانتاہے۔ وہ اپنے خداوند کو جانتاہے۔حضرت علی نے بھی ایسا ہی فرمایاہے کہ وہ جواپنے نفس کو پہچانتاہے وہ اپنے رب کو جانتاہے۔لہذا یہ تسلیم کرنا پڑیگا۔ کہ جس قدر اعلیٰ اخلاقی خوبی ہم میں ہوگی اُسی قدر ہم خدا کی حقیقی ذات اورصفات کوسمجھ سکیں گے ۔ کیونکہ خدا کی صورت سے یہی مراد ہے ناکہ جسمانی مشابہت اس سے بہتر اورکونسا اعلیٰ تصور ہوسکتاہے کہ انسان اپنی اخلاقی خوبی کے لحاظ سے اپنے تئیں خدا کا دھندلا عکس سمجھے۔افسوس کہ ہماری اخلاقی صورت بگڑگئی۔ آدم نے ممنوع پھل کھاکر اپنے خالق کی نافرمانی کی۔ اسی لئے حدیث میں کہا گیا ہے کہ خطا آدمہ مخطارت ذریتہ" آدم نے خطا کی اوراسی سبب سے اُسکی اولاد نے خطا کی"۔ کوئی بشر ایسا نہیں جس کے دل میں یہ موروثی فساد نہ ہو۔لہذا کوئی بشر اپنے اخلاقی معیارتک نہیں پہنچ سکتا۔ جب تک کہ وہ پہلے اپنے گناہ سے رہائی نہ پائے۔کیونکہ خوبی کسب، خوبی طبیعت پرموقوف ہے۔ "جیسا بُرا آدمی بُرے خزانے سے بُری چیزیں نکالتاہے۔ اوراچھا درخت نہیں جوبُرا پھل لائے اورکوئی بُرا درخت نہیں جواچھا پھل لائے"۔پس بگڑی طبیعت سے حقیقی نیکی کا صُدور اورالہٰی طبیعت کا حصول ممکن نہیں۔اسی لئے طبعی بگاڑ سے چھٹکارا پانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کی طبیعت کسی ایسی فوق الفطرت موثر سے متاثر ہو۔ جس سے اُس کی طبیعت کی اصلاح ہوجائے۔ یہ فوق الفطرت موثر کلام مقدس کے بموجب ربنا المسیح ہے۔
غرض کہ خدا نے ہم کو صاحب اخلاق اسی لئے پیدا کیاہے کہ ہم اُس کی ذات کوبخوبی سمجھ سکیں۔بھلا ایسے خدا سے تسلی واطمینان ہم کو کیونکر ہوسکتاہے۔ جس کی صفات ہم سے بالکل جدا گانہ ہو۔ کیا بت پرست لکڑی پتھر اورسونا چاندی کی مورتوں سے رفاقت رکھ سکتے ہیں؟ نہیں اس لئے کہ اُن کی صفات بالکل مختلف ہے۔ ایک جاندار اوردوسرا بیجان ایک مادہ اوردوسرا روح اورروح کوروح کے ساتھ میل ہے۔ انسان کو صرف ایسے وجود سے تسکین ہوسکتی ہے جواُس کی مانند اخلاقی خوبیوں کامالک ہے۔
پدرانہ محبت
اکثرکہا جاتاہے کہ انسان کی سب سے اعلیٰ قوت عقل ہے۔ لیکن محض عقل سے ہم اپنے ہم جنس انسان کے ساتھ رفاقت نہیں رکھتے بلکہ محبت سے کیونکہ تمام اخلاقی خصائل "محبت " کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ہماری مراد اُس محبت سے ہے جوخواہش نفسانی اورتمام گندگی سے مبرا ہے۔ اورجس کے تمام افعال پاکیزگی خود انکاری اورخودنثاری سے انجام پاتے ہیں۔ انسان میں یہ نیک خصلت کہاں سے آئی؟ اس میں شک نہیں کہ خالق نے اُسے یہ وصف عطا فرمایاہے کہ ورنہ انسان اپنے خالق سے بزرگتر ہوتا اوریہ ممکن نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اکثر لوگ جب محبت کا ذکر کرتے ہیں ۔ تب اُنکے خیال میں اُس کے ساتھ نفسانی علاقہ مربوط ہوتاہے۔ اوراس طرح سے لفظ محبت کوگندگی کے دلدل میں گھسیٹ لاتے ہیں۔حالانکہ قرآن شریف میں خدا کا ممتاز نام "الودود" ہے یعنی پیار کرنے والا ۔
بہر حال ہماری مراد ایسی محبت سے ہے جوکہ بیماروں ،غمزدوں اور گنہگاروں کے لئے ہمدردی ،دوستی اورصبر کااظہار کرتی ہے۔ کیونکہ محبت "صابر ہے۔ اورمہربان محبت حسد نہیں کرتی ،محبت شیخی نہیں مارتی اورپھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی ، اپنی بہتری نہیں چاہتی ،جھنجھلاتی نہیں ،بدگمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے"۔ایسی محبت نہ صرف اخلاقی خصائل کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ بلکہ انسان میں خدا کی صورت کوظاہر کرتی ہے ۔ جواُس کوپیدائش کے وقت عطا کی گئی تھی۔ پس جبکہ محبت انسان کوسب سے اعلیٰ مخلوق بنادیتی ہے۔ لہذا یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں کہ ہمارا رشتہ خدا کے ساتھ اورخدا کا رشتہ ہمارے ساتھ قائم وبرقرار رکھنے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ" ہم خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھیں۔
اسی نکتہ کوخواجہ عبید اللہ سورہ الفاتحہ کی تفسیر میں یوں پیش کرتے ہیں "اے خداوند توسیدھے راستے پر ہماری رہنمائی کر"۔ اُس راستے میں ہم کو لے چل ۔ جوہمیں تجھ پاس پہنچائے اوراپنی محبت سے ہم کو برکت دے جوتیرا ذاتی جوہر ہے اورہم کو ایسی بات سے خالی کرجوہم کوتجھ سے دُور رکھے ہماری اس راہ پر ہدایت کر۔ جس میں ہم سوائے تیرے اورکسی کونہ دیکھیں۔ سواء تیرے اورکسی کی نہ سنیں۔ سواء تیرے اورکسی سے محبت نہ کریں"۔(تفسیر حسینی )۔
الغزالی یوں بیان کرتے ہیں کہ جومناسبت خدا اورانسان کے درمیان پائی جاتی ہے وہ ان علم الہٰی داں کی دلیل کوباطل کرتی ہے جوکہتے ہیں کہ انسان ایسے وجود سے محبت نہیں کرسکتا جواُسی کے جنس سے نہ ہو۔ یہ مناسبت کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔ لیکن انسان اس مناسبت کے باعث خدا سے محبت رکھ سکتاہے جواس جملہ میں پائی جاتی ہے کہ خدا نے انسان کواپنی صورت پر بنایاہے(مشرق ومغرب جولائی نمبر ۱۹۱۰ء)پس جب خدا فرماتاہے کہ انسان اپنے سارے دل جان اورطاقت سے اُسے پیار کرے۔ تواس سے ظاہر ہوتاہے کہ ذات الہیٰ نہ صرف انسان کی محبت کوقبول کرسکتی ہے بلکہ اُس کے لئے اپنی محبت کوظاہر بھی کرسکتی ہے انجیل اس کے ثبوت میں یوں کہتی ہے کہ خدا محبت ہے۔ کس طرح خدا اپنی محبت انسان پرظاہر کرتاہے ایک ہی طریقہ ہے اوروہ طریقہ رشتہ پدرانہ جسے انسان جانتا اوربخوبی سمجھ سکتاہے۔
خدا باپ ہے
چنانچہ انجیل مقدس کی یہ تعلیم ہے کہ خدا ہمارے باپ کی مانند ہے۔ ہم سے محبت کرتاہے۔ لفظ باپ سے بڑھ کر کوئی اورایسا لفظ نہیں ۔ جس سے ہم ایسے مانوس ہوں ہر ذی سمجھ اتفاق کریگا۔ کہ خاندان اورہرملت میں پدرانہ رشتہ کی وجہ سے خالص محبت کااظہار ہوتاہے۔ اولاد کے لئے باپ کی محبت کا اندازہ کون لگاسکتاہے۔ باپ کی محبت اولاد کی بہبودی کے لئے ہر قسم کی تکلیف گوارا کرتی ہے۔جب بیٹا کسی خطا کامرتکب ہوتاہے۔ تواس ننگ وعار سے متاثر ہوکر باپ غمگین ہوتاہے۔ اوربعض حالتوں میں اپنے بیٹے کے جُرم کی سزا بھی اپنے اُوپر لینے سے گریز نہیں کرتا۔ سچ تویہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی محبت ایسی نہیں جیسی کہ باپ کواپنے بیٹے سے ہوتی ہے۔ یہ محبت خود انکاری اورجانثاری کی محبت ہے۔ گویہ ملائم اورمہربان ہے توبھی عدل کا پتلا سکتی ہے۔ الغرض جومحبت باپ کواولاد سے اوراولاد کوباپ سے ہوتی ہے۔ اس میں نفسانیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ مہربان محفاظ اورجانثار ہوتی ہے۔
پس جبکہ باپ اوربیٹے میں ایسی گہری محبت پائی جاتی ہے۔ توپھر خدا اورانسان میں وہی پدرانہ رشتہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہاں پریہ سوال پیدا ہوتاہے۔کہ ہم میں خدا کی پدرانہ محبت کا پاکیزہ خیال کہاں سے آیا؟کیا یہ بات سب سے پہلے ہمارے خالق کے دل میں موجود نہ تھی؟ توریت میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ انسان خدا کی صورت میں پیدا ہوا"۔ گوہم کمزور اورکج فہم ہیں۔ کہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا کی ذات کوپورے طورپر سمجھ سکیں۔ لیکن یہ مسئلہ قرین قیاس ہے کہ انسان کے لئے خدا اپنی محبت اس پاکیزہ رشتہ کے ذریعے ظاہر کرے۔ جسے وہ بخوبی جانتا اورسمجھتاہے۔
کتاب مقدس میں یہ رشتہ داری تین صورتوں میں ظاہر کی گئی ہے ۔ اول انسان اپنی کمالیت میں خدا سے رشتہ رکھتاہے۔ دوم خدا نے انسان کواپنی صورت پرخلق کیا۔ سوم۔ خدا ہرایک ایسے شخص کواپنا بیٹا کہنے خوش ہوتاہے۔ جواُس کی حضوری میں زندگی بسرکرے۔ لہذا ہر انسان کے لئے اعلیٰ امکانات کا موقعہ ہے۔ گوانسان نافرمانی کے باعث اپنے پیدائشی حق اوررفاقت الہٰی کھوبیٹھا ۔پھر بھی وہ اُسے ازسرنومسیح کے وسیلے حاصل کرسکتاہے۔ کیونکہ جن اُمور میں لوگ ناکام رہے۔ مسیح نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ ہم پرظاہر کیاکہ خداکا حقیقی بیٹا ہونا کیاہے۔اوریہ فرزندانہ رشتہ بذریعہ ایمان فرمانبرداری اورمحبت سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ چنانچہ خدا کی رفاقت کی آرزو جوانسان کے دل میں پائی جاتی ہے۔ اب مسیح میں بخوبی پوری سکتی ہے۔ کیونکہ وہ نہ صرف نئی راہ کابانی ہے۔ بلکہ بذات خود "راہ اور حق اورزندگی ہے" کیونکہ جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا۔ یعنی جواُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں"(یوحنا ۱: ۱۲)۔
خدا کا کنبہ
پس اگرہم باپ اوربیٹےکے حقیقی رشتہ کو جوہمارے اورخدا کے درمیان ہے۔ سمجھ لیں۔ تب ہم اجتماعی زندگی امن وامان سے بسرکرسکتے ہیں۔ کیونکہ بھائی چارہ کا یہ تقاضہ ہے کہ ہرشخص دوسرے کے ساتھ وہی سلوک روا رکھے جووہ اپنے لئے چاہتاہے۔ (متی ۷: ۱۲) یعنی تم نہیں چاہتے کہ کوئی تمہارے ساتھ بدعہدی ،بدسلوکی سے پیش آئے فریب دے، جھوٹ بولے اورتمہارا حق غضب کرے۔بدکلامی بدزبانی اوراحسان فراموشی کا ثبوت دے ۔ پس تم بھی اوروں کے ساتھ ایسا نہ کرو۔ اسی ایک بات میں ساری دنیا کی بھلائی ہے۔ اسی جملے میں امن اورسلامتی ہے۔ اسی اصول پر شخصی اورقومی زندگی کا مدار ہے ۔اگراس تعلیم پر پورا عمل ہو تو یہ دنیائے دوں بے آزار ہونے میں بہشت کا نمونہ نظر آئے گی۔ کیونکہ بدی کا مقابلہ نہ کیا جائے اوربدی کا جواب نیکی ہوتویہ پروگرام افراد اوراقوام کی زندگی اوربقا کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن اگربدی کا جواب بدی سے دیا جائے اوراینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تویہ لائحہ عمل افراد اور اقوام کے فنا کا موجب ہوجاتاہے خود اپنے ملک پاکستان کے دورحاضرہ کی تاریخ پرنگاہ کرو۔ تواس صداقت کی مثال پاؤ گے۔
مرحوم مولانا محمد علی نے کانگریس کے اجلاس میں اپنے خطبہ میں انجیل کی آیات اقتباس کرکے یہی درس دیاکہ " بدی کا مقابلہ نہ کرو" مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار زمیندار ۱۷نومبر ۱۹۲۹ء میں کہاکہ صبر اور ضبط کے سامنے بڑی جا ہ وجلال اورغرور ونخوت والی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی ہے "جوتم کو ایک گال پرطمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیردو"۔
"مہاتماگاندھی کے پیش کردہ اصول کا نتیجہ آج ہم کو نظر آرہاہے ہندوستان محکوم قوم نے عدم تشدد کواختیار کرک بقا اور زندگی حاصل کی اورہماری اپنی قوم کے بچوں نے اس اعتراض کا منہ بند کردیا۔ کہ مسیحیت ناقابلِ عمل ہے اوریہ سبق سکھلایا کہ کلمتہ اللہ کے اُصول کے سواء افراد اور اقوام کے لئے زندگی کی کوئ اورراہ نہیں۔ آنخداوند کے اصول پرچل کرہندوستان کے نونہالوں نے ساری دنیا پر ثابت کردیا کہ عدم تشدد کواختیار کرکے نہ صرف افراد اورگروہ بلکہ ممالک واقوام میں تشدد اورجنگ وجدل پرغالب آسکتی ہے" (ماخوذ) چنانچہ ایک دفعہ ایک عالم شرع نے کلمتہ اللہ سے پوچھا کہ سب حکموں میں مقدم حکم کونساہے آپ نے فرمایا کہ خدا اوراپنے پڑوسی سے اپنے برابر پیارکرنا(مرقس ۱: ۲۹)۔ یہ جواب سن کر عالم شرع نے پھر آپ سے دریافت کیا۔ کہ میرا پڑوسی کون ہے؟ آپ نے اس سوال کا جواب (نیک سامری) کی تمثیل کے ذریعہ دیا ۔ جس کا لُب لباب یہ ہے کہ خدا چونکہ کل بنی نوع انسان کا باپ ہے لہذا ہرفرد دوسرے کا بھائی ہے۔ اس لئے اس نوع انسان کے افراد پر لازم ہے کہ بلا امتیاز ایک دوسرے سے اپنے برابر محبت رکھیں جس طرح خدا باپ دنیا کی تمام اقوام سے مساوی طورپر محبت کرتاہے۔
یہ پہلا سبق ہے کتابِ ہدا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
پدرانہ پروردگاری
یہ امر قابل غور ہے کہ مسیح کلمتہ اللہ نے اپنی تعلیم خدا کی ہستی ثابت کرنے سے شروع نہیں کی۔بلکہ خدا کی پاک اورپیار کرنے والی ماہیت کوباپ کی حیثیت میں انسان پرظاہر کیا۔ دینوی باپ سے خدا کی مثال دے کر بتلایا کہ خدا پدرانہ پروردگاری سے انسان کے ساتھ سلوک کرتاہے"۔ تم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگراُس کا بیٹا روٹی مانگے تووہ اُسے پتھر دے یا اگر مچھلی مانگے تواُسے سانپ دے پس جبکہ تم بُرے ہوکر بچوں کواچھی چیزیں دینی جانتے ہو توتمہارا باپ جوآسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دیگا"(متی ۷: ۹تا ۱۱)۔
اس امر کوثابت کرنے کے لئے ہمارا آسمانی باپ چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں ہماری فکرکرتاہے۔ آپ نےفرمایا کہ وہ پھول اورمیدان کی گھاس کوبھی خوبصورت پوشاک سے ملبوس کرتاہے۔ اورپرندوں، چرندوں کوخوراک پہنچاتاہے ۔ توکیا تم اُن سے زیادہ قدرنہیں رکھتے"۔ وہ جوہم کوزندگی دیتاہے۔ کیا وہ اُس کو قائم نہ رکھیگا ؟ وہ ہماری ضرورت سے واقف ہے جس طرح دینوی باپ اپنے بچوں کی ضرورت کورفع کرتے ہیں اورحتیٰ الامکان اُن کی حاجتوں کوپورا کرتے ہیں۔ خدا جوہمارا آسمانی باپ ہے۔ ہماری ضرورت سے واقف ہے۔" اورتمہارے مانگنے سے پہلے جانتاہے کہ تم کن کن چیزوں کی ضرورت ہے" فی الحقیقت سچی پروردگاری یہی ہے۔
فرزندیت سے مراد
کلمتہ اللہ نے ہمیں یہ سیکھلایا ہے کہ انسان اُس وقت خدا کا بیٹا کہلانے کا مستحق ہے جبکہ وہ خدا باپ کی اخلاقی خوبی اپنی زندگی سے ظاہر کرے۔ یعنی ہمارا مزاج اورہمارے کام ویسے ہی ہوں" جیسے خدا کے ہیں"اوریہ برکت بچوں کی سی طبیعت رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگرتم نہ پھرو۔ اوربچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔" لہذا حلیم خدا کے وارث ہونگے۔ رحم دلوں پررحم کیا جائیگا۔ صلح کرانے والے مبارک ہونگے اورپاک دل خدا کودیکھیں گے"۔
بچوں کی سی زندگی جواس قدر دلکش اورخوشنما ہے۔ صرف دل کے نئے ہونے پر منحصر ہے۔ چنانچہ کلمتہ اللہ نے ہمیں مسرف بیٹے کی تمثیل کے ذریعے یہ سکھلایا پھر آپ نے ان سے فرمایا: کسی شخص کے دوبیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے اپنے والد سے کہا: ابا جان ! جائداد میں جو حصہ میرا ہے مجھے دے دیں۔ اس نے جائداد ان میں بانٹ دی۔تھوڑے دن بعد چھوٹے بیٹے نے اپناسارا مال ومتاع جمع کیا اور دور کسی دوسرے ملک کو روانہ ہوگیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش وعشرت میں اڑادی ۔جب سب کچھ خرچ ہوگیا تو اس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا اور وہ محتاج ہوکر رہ گیا۔جب وہ اس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈنے پہنچا۔ اس نے اسے اپنے کھیتوں میں سور چرانے کے کام پر لگادیا۔ وہاں وہ ان پھلیوں سے جنہیں سور کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا لیکن کوئی اسے پھلیاں بھی کھانے نہیں دیتا۔تب وہ ہوش میں آیا اور کہنے لگا: میرے والد کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زيادہ کھانا ملتا ہے لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکا مررہا ہوں۔ میں اٹھ کر اپنے والد کے پاس جاؤں گا اور ان سے کہو ں گا:ابا جان ! میں پروردگار کی نظر میں اور آپ کی نظر میں گنہگار ہوں۔ اب تو میں اس لائق بھی نہیں رہا کہ آپ کا بیٹا کہلا سکوں ۔ مجھے اپنے مزدوروں میں شامل کرلیں۔پس وہ اٹھا اور اپنے والد کے پاس چل دیا۔ لیکن ابھی وہ کافی دور تھا کہ اس کے والد نے اسے دیکھ لیا اور اسے اس پر بڑا ترس آیا۔ اس نے دوڑ کر اسے گلے لگالیا اور خوب پیار کیا۔ بیٹے نے اس سے کہا : اباجان میں پروردگار کی نظر میں اورآپ کی نظر میں گنہگار ہوں ، اب تو میں اس لائق بھی نہیں رہا کہ آپ کا بیٹا کہلا سکو۔مگر والد نے اپنے نوکروں سے کہا : جلدی کرو اور سب سے پہلے ایک بہترین چوغہ لاکر اسے پہناؤ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ ۔ ایک موٹا تازہ بچھڑا لاکر ذبح کرو تاکہ ہم کھائیں اور خوشی منائیں۔ کیونکہ میرا بیٹا جو مرچکا تھا وہ زندہ ہوگیا ہے ، کھو گیا تھا اب ملا ہے ۔پس وہ خوشی منانے لگے ۔(لوقا ۱۵: ۱۱تا ۲۴)۔
اول اس تمثیل میں انسان کی گری ہوئی حالت کی عمدہ تصویر ملتی ہے۔ جواپنی گنہگاری کی حالت معلوم کرکے توبہ اورایمان کے ساتھ واپس لوٹا اوربڑی خوشی سے قبول کیا گیا اور جب تک باپ کی طرف سے نہ پھرا اُس وقت تک بیٹا ہونے کا مطلق فائدہ نہ اٹھایا۔دوئم۔ اس تمثیل سے باپ کی اس خوشی کا اندازہ ہوسکتاہے جواُس کوبیٹے کے لوٹ آنے سے حاصل ہوا۔ سوئم۔ اس تمثیل میں باپ کے اُس غم کا پتہ ملتاہے۔ جواُس کواپنے بیٹے کی جدائی کے دنوں میں ہوااس تمثیل کی خاص تعلیم جو ہے انسان کا برگشتہ ہونا اُس کا واپس لوٹ آنا اور پھر بحال کیا جانا۔
محبت کا جوہر
چنانچہ لفظ باپ جوکلمتہ اللہ نے جوخدا کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس سے نہ صرف خدا کی پروردگاری کا اندازہ ہوتاہے۔ بلکہ ہماری طرف اُس کی محبت کا پتہ ملتاہے ۔ حقیقی معنی میں خداکا باپ ہونا کلوری کی صلیب پر آپ کوقربان کردینے سے ظاہر ہوتاہے۔ اوراپنے آپ کو قربان کردینے میں مسیح کلمتہ اللہ خدا کے باپ ہونے کی کامل تفسیر مہیا کرتاہے۔ اوراس قربانی پر ایمان لانا حقیقی فرزندیت کا ثبوت ہے۔ خدا کی پاک اورمحبت کرنے والی ذات کا کامل اظہار سیدنا مسیح کی قربانی میں پایا جاتاہے۔
مغل بادشاہوں کی تاریخ سے ہم کومعلوم ہوتاہے کہ جب شہنشا بابر کا بیٹا ہمایوں سخت بیمار تھا۔ توباپ اس قدر غم وفکر میں ڈوب گیا ۔ اوراُس نے مصمم ارادہ کرلیاکہ وہ اپنے بیٹے کے بدلے اپنی جان دیدے چنانچہ اپنی قوتِ ارادی کے باعث اپنے بیٹے کی بیماری کواپنے اوپر لے لیا اور پکار اٹھا کہ میں نے اُس کوپالیا "۔ مورخ بالااتفاق کہتے ہیں کہ ہمایوں اُس وقت سے بہتر ہونے لگا اوربابر کی صحت بدتر ہونے لگی حتیٰ کہ وہ مرگیا۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ "ہم واقعہ بابر میں" ایک قانون پاتے ہیں کہ محبت کا جوہر ایثار ہے خدا جومحبت ہے بھلا اُس کا پدرانہ دل کب یہ گوارا کرسکتاہے کہ جس انسان کواس نے اشرف المخلوق بنایا وہ دوزخ کاایندھن بن جائے ۔ جیسے کہ ایک دینوی باپ اپنے بیٹے کے بچانے کے لئے اپنی جان دے دیتاہے ویسے ہمارا آسمانی باپ اپنے بیٹے سیدنا مسیح کے ذریعے اپنے آپ کوقربان کردیتاہے۔تاکہ ہمارا رشتہ اُسکے ساتھ پھرقائم ہوجائے کیا خدا ایک دینوی باپ کے مقابلے میں اپنے بچوں کے گناہوں پر کم افسوس کرتا ہوگا؟ خدا قدوس ہے۔ کیا وہ اپنے بچوں کے گناہوں پر بہ نسبت دینوی باپ کے کم غمگین ہوتاہے؟ تم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگراُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے۔ تووہ اُسے پتھر دے ؟ یا اگرمچھلی مانگے تواُسے سانپ دے؟ پس جبکہ تم بُرے ہوکراپنے بچوں کواچھی چیزیں دینی جانتے ہو توتمہارا باپ جوآسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کواچھی چیزیں کیوں نہ دیگا۔ (متی ۷: ۹تا ۱۱)۔
پدرانہ محبت کا ثبوت
ماناکہ انسان بڑا سرکش ہے لیکن اُس کی محبت اس قدر گہری ہے کہ ہماری خطائیں اُس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکیں۔چونکہ خدا محبت ہے اس لئے اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔ تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے(یوحنا۴: ۱۰)۔ہم نے محبت کواسی سے جانا کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دی۔(۱یوحنا ۳: ۱۶)۔
واہ خدا کی محبت کیاہی عمیق ہے کہ عین اُس عالم میں جبکہ انسان کی کشتی عصیات منجدھار میں پھنسی تھی۔ وہ خود انسانی جامہ پہن کر ہمارے درمیان آیا اوریوں خدا کی محبت کا سماں ہماری آنکھوں کے سامنے بندھ جاتاہے۔ کہ کس طرح خدا نے مسیح میں ہمیں پیا رکیا۔ ہماری نجات کا بندوبست کیا اب کس طرح سے اپنے پاس بلاتاہے۔ اورکس طرح مسیح میں انسانی ذات انسانی صورت اور انسانی زبان اختیار کرتاہے۔
وہ خدا جوہمارے گناہوں کے باعث نہایت دُورتھا۔ اورجس کے بے پایاں جاہ وجلال سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ المسیح میں ایک ایسے خوش پیرایہ میں نظر آتاہے۔ جیسے سورج کی کرن قوسِ قزاح میں۔ خدا کی لامتناہی محبت مسیح میں ایسی ظہور پذیر ہے۔جس کو ہم آنکھوں سے دیکھا سکتے ہیں۔ کانوں سے سن سکتے اوردل سے محسوس کرسکتے ہیں۔ اگرہر پھول ، ہرشجر اورہربرگ وثمر میں نقش کروگار نظر آتے ہیں ۔ توکیا خدا کا انسانی جامہ پہننا غیرممکن تصور کیا جائے۔جبکہ اپنے کریکٹر اورمحبت کے اظہار کرنے کے لئے کرے۔ اگرخدا محبت ہے۔ توخدا کا تجسم خدا کی محبت کا عملی ثبوت ہے۔
چنانچہ جب ہم خدا کے تجسم کے مقصد پر غور وفکر کرتے ہیں ۔ تومحبت اورتقدس کے معنی ہم پر کھلتے ہیں۔ اوریہ کس طرح والدین کی محبت اپنے بچوں کے لئے جوش زن ہوتی ہے۔ خواہ اُن کے بچے اچھے ہوں یا بُرے۔ خدا کی محبت والدین کی محبت سے بہت زیادہ ہے اوراُس کے تحمل اورمعافی طاقتیں مقابلہ والدین کے بہت زیادہ ہیں۔ اورجب کوئی اس محبت کوکامل طورپر محسوس کرلیتاہے توپکارا اٹھتاہے کہ" اے باپ میں نے تیرا اور زمین کا گناہ کیا۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلاؤں"۔
حالانکہ ہم اس لئے خلق کئے گئے تھے کہ اپنے خالق کے حضور میں رہیں لیکن گناہ نے اس رشتہ کوتوڑدیا۔ مگر مسیح نے اپنی جان گنہگاروں کے بدلے فدیہ میں دے کر وہ حدِ فاضل جوگناہ کی وجہ سے انسان اورخدا کے درمیان ہے، اٹھادی ۔ اب انسان بذریعہ ایمان بالکفارہ قربت الہٰی حاصل کرسکتاہے۔"تم کوایمان کے وسیلے فضل ہی سے نجات ملی ہے اوریہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے اورنہ اعمال کے سبب سے تاکہ کوئی فخر نہ کرے"(افسیوں۲: ۸تا۹)۔
ربنا المسیح کی موت اور اُس کے دکھ اٹھانے کا بیان کتنا مختصر کیوں نہ ہو۔ لیکن جب انسان خدا کی محبت پرغورکرتاہے۔ جس کا ثبوت المسیح نے اپنی موت سے دیا۔ تواس کا دل ٹوٹ جاتاہے اوربے ساختہ کہہ اٹھتاہے کہ میرے گناہوں کی خاطر مسیح کلمتہ اللہ مصلوب ہوا اوریہ صلیب میری تھی۔ یہ سزا میری تھی۔ اوریہ رسوائی میری تھی۔ جومسیح نے اٹھائی ۔
بلاریب مسیح کی صلیب خدا کا وہ نور ہے۔ جوخدا کی محبت اور انسان کے گناہ کو، خدا کی قدرت اورانسان کی عاجزی کوخدا کی پاکیزگی اورانسان کی نجاست کوظاہر کرتاہے۔ درحقیقت مسیح ایک راز ہے اوراس کا حل اُس کی عظیم قربانی میں موجود ہے اوراس راز کا انکشاف صلیب پر ہوا۔ پس اس کوسمجھنا مسیح کوسمجھنا ہے اورخدا کا جانناہے ، خدا کوجاننا عالم موجودات اورزندگی کے معانی سمجھناہے ۔صلیب ہی وہ واحد کنجی ہے۔ جسے اگرانسان اپنے ہاتھ سے جانے دے۔تووہ پیشمان ہوگا۔ اورکائنات کا راز اس پر نہ کھلیگا، لیکن اگر اس کنجی کواپنے قبضے میں رکھے تووہ اس راز کومعلوم کرنے پر قادر ہوگا۔
دوستو! ہم صرف کلمتہ اللہ کی قوت میں ٹھہرسکتے ہیں۔"آسمان کے نیچے کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس کے وسیلے ہم نجات پاسکیں"(اعمال ۴: ۱۲)۔ دنیامیں کوئی اورطاقت نہیں جوانسان کی مادیت کا انسداد کرکے اس میں بلند نظری پیدا کرسکے۔ وہی ایک ایسے باغبان کی طرح ہے۔ جو جنگلی گلاب میں اصلی گلاب کی لہر دوڑادیتاہے۔ کیونکہ المسیح انسان میں بستا ہے، اس میں خیال کرتاہے اوریوں اُس کے خیال ہمارے خیال ہوجاتے ہیں۔ اُس کی زندگی ہماری زندگی ہوجاتی ہے یہ کیسا بھاری فضل ہے ۔ کیسی گہری برکت ہے ۔ کون ہے جودنیا میں ذرہ کواٹھا کر آفتاب کردے اور خاک کواکسیر اعظم بنادے۔
پس اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکہ بچ سکتے ہیں۔ اس لئے آؤ اوراپنی جبین نیاز آستانہ مسیح پر رکھ دو۔ وہی تمہاری روحوں کوسکون بخشیگا۔ وہی تمہارے کلبہ تاریک کوجگمگادیگا۔ وہ اسی لئے ابن مریم بناتاکہ ہمیں آسمانی خوشیوں سے مالا مال کرے۔ اُس نے اپنے آپ کو اس لئے پست کیا۔ کہ ہمیں آسمانی مقاموں پر پہنچائے۔ غرض اُس سے باہر موت اورہلاکت کی وادی ہے۔ چنانچہ اس ظلمت کدہ کے بسنے والوں میں سے جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے بیٹے ہونے کا حق بخشا۔ عالم بالا پر خدا کی تمجید اورزمین پر اُن آدمیوں سے جن سے وہ راضی ہے۔