Injil-i-Daud
The Gospel of David
By
Bishop Thomas Valpy French
A treatise on the messianic prophesies of Pslams,
With special refrence to Muslim’s Objections.
انجیلِ داؤد
مصنف
لارڈ بشپ فرنچ صاحب
پنجاب رلیجس بُک سو سائٹی کی طرف سے شائع ہوئی
اور لودیانہ مشن پریس میں پادری ویری صاحب کے اہتمام سے چھپی
۱۸۷۷ء
Bishop Thomas Valpy French
(1 January 1825 – 14 May 1891)
دیباچہ
ہزار ہزار شکر ہے اُس قادرِ مطلق خدا کے لئے جس نے اپنے حقیقی دوستوں اور خواصوں(خواص کی جمع۔بڑے لوگ۔ہم صحبت) کو یہ مرتبہ اور شرف مرحمت (رحم ۔مہربانی)و عنایت فرمایا ہے کہ اُن کا بدن بھی ماسوائے روح کے روحِ حق کی جائے سکونت اور خدا کی عبادت گاہ ہو۔اور اس عبادت خانہ الہٰی میں باقی تمام اعضاکا امام اور مقتد ا(پیشوا) زبان ہوتی ہے کہ بلاناغہ دعا و سوال اور حمد و ستائش کا نذرانہ انسان کے شفتین سے صادر ہو کر رب تعالیٰ کے حضور میں گزرانا جائے۔بموجب فرمانے داؤد نبی کے کہ ’’میری دعا تیرے حضور بخُور کی مانند ہو اور میرا ہاتھ اُٹھا نا شام کی قربانی کی مانند ‘‘(زبور۲:۱۴۱)۔پس کلیسیائے عامہ خواہ یہودیوں کی ہو ،خواہ مسیحیوں کی اس اِقرار پر متفق ہے کہ حمدو ستائش کا قرض بالغرض ادا کرنے میں گو(ہر چند۔ اگرچہ۔بالفرض)امام الا ئیمہ حضرت داؤد ہیں ۔بآ نقدر کہ اگر کوئی شخص اِس عمدہ اور فرشتگانہ خدمت کا نمونہ اور نشان ڈھونڈھے تو مزامیر داؤد میں اُس کا مطلب اور مراد بخوبی بر آئے۔ہاں بلکہ ساکنان آسمان اور زمیں کی عبادت اِسی مزامیر داؤد میں موافقت اور مرافقت (باہمی میل جول) اورخوش اتفاقی سے ملتی ہے اور آپ داؤد بھی قبل از وفات اور منتقل ہونے اِس عالم فانی سے اِس بات کی خاص تقریر کرتا ہے کہ حق تعالیٰ کی رُوح کے الہٰام سے میں اِس عہدہ پروقف اور متعین کیا گیا ہوں ۔سموئیل کی کتاب میں یوں مرقوم ہے’’داؤد کی آخری باتیں یہ ہیں۔داؤد بِن یسّی کہتا ہے۔ یعنی یہ اُس شخص کا کلام ہے جو سر فراز کیا گیا اور یعقوب کے خدا کا ممسُو ح اور اِسرائیل کا شیرین نغمہ ساز ہے۔خداوند کی رُوح نے میری معرفت کلا م کیا اور اُس کا سخن میری زبان پر تھا ‘‘( ۲۔سموئیل ۱:۲۳۔۲ )۔ ایک عمدہ مشہور معلّم نے مزامیر افضل داؤد کا اجمالاً یہ بیان کہا کہ:
’’ایک بھی علم ضرور نہیں جسے خلق اللہ مزامیر داؤد سے نہیں نکا ل سکتی ۔جو حیات خدا میں کوتاہ عمر اور طفل(بچے) ہیں ،و ہ بھی اِس کتاب کے اند ر علم الہٰی کی ابتدا اور مقدمات کو بآسانی تمام حاصل کر سکتے ہیں اور جو خدا کی راہ میں کچھ آگے چل نکلے ہیں، اُن کو بڑی ترقی اور تقویت دستیاب ہوتی ہے۔ہاں بلکہ وہ بھی جو اَوروں کی نسبت مُوصَل(پہنچانے و الا) بکمال ہیں ، یہاں بڑی پختگی اور اِستقامت کے وسائل پاتے ہیں ۔اگر تم پہلوانوں کا حوصلہ یا ہمت اعلیٰ طلب کرو او ر ایسی عدالت اور ر استی جو بغایت تمام پہنچی ہو اور مزاج سنجیدہ اور معتدل اور میانہ روی اور تمام وقت کی دانائی اور بے ریب وبے ریا توبہ کاری اور صبوری(صبر) کا استقرار (قائم ہونا۔قرار پکڑنا)تو مزامیر د اؤد سے یہ سب فضائل مطوبہ اور اوصاف مرغوبہ غایت و نہایت تک مل سکتے ہیں ۔اگر ہم اور آپ خداکے اِسرار غائبہ کی طرف توجہ کر کے خواہ اُس کے ہیبت ناک قہر کا ذکر کریں ،خواہ اُس کی تسلی بخش رحمت کا بیان کریں یا اُس کے فضل اور اُلفت کے حُسن و جمال کا اعلان ہو۔یا اِس جہان میں پروردگار کے افعال کا تجسس اور تفحُّص(جستجو) ہو ،خواہ موعود(وعدہ کی ہوئی) میراث کا جو اُس جہان میں مقدس لوگوں کے لئے تیار ہے۔ ہاں بلکہ سب خُرّمی اور خیریت جس قدر علم اور عمل اور قبضے کے اندر آسکتیں ، سب کی سب اُس منبع اور معدِن(کان) آسمانی سے بے شک حاصل ہو سکتی ہیں ۔جتنے امراض اور غموم وہموم (افسردگی،رنج) سے آدم ز اد عاجز ہیں ،اِتنے ہی مرہم اور معالجے اسِ خزانہء نفائس(نفیسہ کی جمع۔نفیس چیزیں) میں سے بآسانی مل سکتے ہیں ‘‘۔
ایک معلم صاحب عزّو وقار نے کتاب مزامیر کی پیشین گوئیوں کی بابت یوں فرمایا ہے کہ :
’’جاننا چاہیئے کہ د اؤد کے زبوروں میں بعض تھوڑی(کچھ) ایسی پیشین گوئیاں ہیں کہ بلا واسطہ مسیح کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں۔بغیر از آں کہ خداوند مسیح پر اِطلاق کریں تو با لکل اور سراسر بے مطلب اور بے معنی گویا پوست بے مغز ہیں۔پر واضح ہو کہ اَور بہت زبور وں میں ایسا حال ہے کہ وہ مضمون اوّل او ر مضمون ثانی بھی رکھتے ہیں، یعنی مضمون حقیقی او رعالی‘‘۔
اِس امر مذکور کا جو ہم نے بیان کیا اصل اور خاص مطلب یہ ہے کہ انبیا ، اولیا اور سلاطین زمانہء سلف اپنے مراتب اور منازل اور عمر کے اہم ترین احوال اور اَعمال میں خصوصاًاپنی اوقات پستی اور بلندی میں تصاویر اور تَشابُہ(مشابہت۔مطابقت) کی راہ سے اُس آنے والے کی طرف اشارہ کرتے تھے کہ وہ خاندان الہٰی کا سر ہے اور اُولُو العزم (عالی حوصلہ)پیغمبر اور کاہن حقیقی اور بادشاہ جاودانی ہو گا۔ اِس امرمیں وہ شخص باعث حیرت اور تعجب کا نہ پائے گا ،جو غور اور تامّل کرے گا کہ جس روح کے اِلہٰام سے زبور تصنیف کئے گئے اُسی نےاحوال مذکور فیہ (ایسی بات جس پر اعتراض ہو)کی پیش بینی اور پیش انتظامی فرمائی اور بلحاظ اِس مضمون الہٰامی اور روحانی کے کتب الہٰی کُل عالم کے باقی مکتوبات سے اس قدر متفرق ہیں جس قدر ماجرے اور واقعات مندرجہ فیہ باقی ہر قسم کے واقعات سے ممتاز ہیں اور اُن کے مصنف بھی باقی سب مصنفوں پر سبقت اور تفصیل رکھتے ہیں ۔اور اس امر یعنی مضمون اول اورثانی کے کسی نبوت پر اطلاق کرنے کی ایک یہ شرط ہے کہ وہ آیات متعددہ کے شمار میں ہو، جو باہم سلسلہ بندی سے قرین (نزدیک۔ ملحق) اور مُقارِن (قریب)ہوں اور سب ایک ہی حدِ نظر اور منظر میں منتہیٰ( انتہا کو پہنچا ہوا۔ مکمل)ہوں۔چنانچہ کلام اللہ سے بخوبی صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کی پیشین گوئیوں میں جو تدابیر بیان ہوتی ہیں وہ ایسی کُلِّیَّتہً (کُل۔لِی ۔یَ۔تَن =پورے طور پر)ہیں کہ جن کے اجزاء خوش مرتب اور منظم ہیں ،جیسے کہ مینا کار ی میں سنگ رنگین او ر جواہرات سرخ و سبز ملتے ہیں ۔اِسی طرح جن مزا میر د اؤد میں د اؤد کے احوال اور افعال مذکور ہیں، اُن کے لفظی اور ظاہری معنی میں د اؤد ہی نظر آتا ہے ،مگر حقیقی معنوں سے خود مسیح ہی مراد ہے۔مثلاً جب داؤد اپنا حال بتاتا ہے کہ میں مفت مقہور (جس پر غصہ ہو،جس پر قہر ہو)اور مظلوم ہوں اور مورد لعن طعن ہوں اور جن جُرموں کا میں اصلاً اور ہر گز مرتکب نہ تھا، اُن کا مجرم ٹھہرا اور مَیں اُن کے سبب سزا بھی اُٹھاتا ہوں جن کا تصور تک بھی مکروہ جانتا ہوں اور ہر چند کہ میری جان تنگیوں اورتلخیوں اور رنجوریوں(بیماریوں) میں غرق ہوتی ہے، تو بھی اِس میرے توکل اور توقع میں جو خدا پر ہے ذرا بھی خلل نہیں آتا اور نہ میں اپنا تیقّن(یقین) کلام الہٰی سے چھوڑتا ہوں۔بلکہ صرف اسی کے مختلف لذائذ اور نفائس سے میری تسلی ہے اور کہ کس طرح بلاناغہ غصہ ور اور کینہ خواہ اور غنیم میرے درپے ہو کر دھاوا کرتے ہیں۔یہاں تک کہ میں ستم اور تَعَدّی(ظلم۔ستم) سے قدرے بھی آرام اور تخفیف(آفاقہ) نہیں پاتا۔(جن ستم گروں کے شمار میں مسمّٰی دوئیگ اور ابی سلوم و اخیتفل مشہور و معروف ہیں) اورخلاف اُمیدوقیاس اُ ن کی خِفّت ( خجالت۔ ندامت) اور اپنی سر بلندی اور مَلکُوت(بادشاہی۔سلطنت) جلالی کی پیش گوئیاں فرماتا ہے تواِ ن میں اور انہیں کی مانند دیگر امورات کے آئینہ میں داؤد حقیقی یعنی خداوند مسیح کی حقیقت حال منعکس ہوتی ہے۔یعنی مسیح کا الم و اندوہ(رنج وغم) اور اپنے باپ کی اِنقیاد(تابع ہونا۔مطیع ہونا) اور فرماں برداری کرنا اور اپنے قاتلوں کی بے انصافی اور خیانت اور اُن دونوں کے انجام اور عاقبت کی پیشین گوئی ۔اِن میں متضمِّن (مندرج۔شامل)ہے کہ وہ غنیم تو رسوا اور پشیما ن اور آپ تخت نشین اور متجلّی(آشکارا) ہو گا۔
پھر ایسے زبور بھی ہوتے ہیں جن کے مضامین اَور ہی طرح کے ہیں کہ گویا آسمان کھل گیا۔خدا تعالیٰ اپنے مظلوموں کی دست گیری اور پُشت پناہی کے لئے اُترا ہے۔گویا باد ِسموم (بہت گرم ہوا)اور زلزلۃ الارض اور برق و رعد اور ابر ِسیاہ بادشاہ اعلیٰ کے مر کبوں (مَرکَب=وہ شئے جس پر سوار ہوں ۔سواری) کو گھیر لیتے ہیں اور سر کوہ(پہاڑ کی چوٹی) سے دُخان(دُھواں۔بھاپ) عظیم اُٹھتے ہیں۔سخت سخت کوہ سوختہ(جلا ہوا۔جاذب) گداختہ(پگھلا ہوا) ہوتے ہیں۔دریائے عظیم موج زن اور جُنباں(ہلتا ہوا۔لرزاں)ہوتے ہیں ۔ کینہ وَراور غنیموں کے منصوبے خس و خاشاک (کوڑا کرکٹ)کی مانند اُڑائے جاتے ہیں ۔مسیح کا پیش دواں اور مشابہ خاص یعنی داؤد تخت اعلیٰ پر جلوس فرما کر حدود سلطنت کو بڑھاتا ہے ۔اللہ کے عبادت خانہ کوبَنی(تیار۔بنی ہوئی ) اور معمور کرنے کی تجویز کرتا ہے اور شہر یروشلیم بادشاہ عظیم کی حضوری سے رونق پذیر اور سب قوموں اور قبیلوں میں معروف ہو جاتا ہے۔
پس اِن سب احوال کاتعلق اور اتفاق خداوند مسیح کے بعث و صعود اور ملکوت کے ساتھ اِس دیباچہ کے اندر بیان و عیاں کرنا کیا ضروری ہے۔اِن شاءَاللہُ تعالیٰ ذیل میں ان کو مفصل بیان کریں گے۔اِلاّ اِجمالاً(لیکن مختصراً)ہم یہاں پر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ حضرت د اؤد کے زبور وں میں خدا تعالیٰ آپ ہی ایسا صاف و صریح اور قریب اور زندہ نظر آتا ہے کہ ہم نے گویا بچشم خود اُس کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنے دُکھ او ر رنج و عذاب کا ایسا علاج اور معالجہ پایا کہ گویا مہلک سانپ کے زہر سے ہم فضل الہٰی سے شفا یاب ہو گئے اور ضعیفی سے تقویت اور تاریکی سے روشنی پائی ۔خدا ہم پر فضل بخشے کہ ہم اِن باتوں پر بخوبی دل لگا کر اچھی طرح اُن کو فہم میں لائیں ۔مسیح کے وسیلے سے ،آمین!
باب اوّل
د ربیان آنکہ جملہ کلام الہٰی د ر مسیح منتہیٰ میشود وگویا مجموعہ اناجیل است
بعض اشخاص ناخواندہ اور سَفاہَت(کمینہ پَن۔حماقت) والوں کا یہ خام خیال ہے کہ دین عیسوی کے رسائل عقائد اور شارحین(شارح کی جمع،کھول کربیان کرنے والا ،شرح لکھنے والا) کی کتابوں میں جتنی باتیں تحریر اور تسطیر(سطر بندی کرنا۔لکھنا) ہوتی ہیں ۔مثلاً خداوند مسیح کے مجسم ہونے کی بابت اور آدم زاد کے عوض ہزار ہا رَنج اُٹھانے اور شیطان سے ممتحن ہونے اور مُورِدِ مزاح(جس کا مذاق اُڑایا جائے) اور مسخرہ پن کی بابت اور مظلوم اور متروک ہونے اور عالم اَرواح کے دُرُود(صلوات۔رحمت۔ شاباش۔استغفار۔تعریف۔دعا۔سلام) کرنے کی بابت اور مُردوں سے جی اُٹھنے اور سب آسمانوں سے بالا تر صعود کرنے اور خدا تعالیٰ کے دست راست پر نشست کرنے کے حق میں جتنی باتیں بصراحت(کھلم کھلا) تمام لکھی ہوئی ہیں ،یہ سب اور انہیں کی مانند مسیح کی عمر کے باقی امور واقعی صرف انجیل ہی میں مذکور اور مُبَیَّن (بیان کیا گیا)ہیں۔ ازآنرو کہ حضرت داؤد ، یسعیاہ ، حزقی ایل ، دانی ایل ، زکریاہ اور ما بقیٰ(بقیہ) انبیا ان واقعات آیندہ کے علم و فہم سے محروم تھے اور اس قدیمی عہد و میثاق سے جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سب کائنات پست و بالا پر اپنے فضل اور حکمت گُونا گُوں ( طرح طرح کی) کو منکشف اور نمودار کرنا چاہتا تھا، بالکل ناواقف اور بے اطلاع تھے ؟حالانکہ کُل اصحاب معرفت اور فہمید پر ظاہرو آشکارا ہے کہ بمشکل ایک امر اِن واقعات سے ملے گا ۔جو حضرت موسیٰ کی توریت میں مشابہات سےبیاں و عیاں نہیں ہوتا ۔اور بعد اززمان موسیٰ ،نبیوں اور پیغمبروں کے صحائف صغیر و کبیر میں نہ بطور کلمات مجازی اور تشبیہات کے بلکہ بصفائی و سلامت تمام یہ سب احوال اِس قدر منکشف اور مبیّن ہوتے چلے آتے تھے کہ اہل ایمان کے لئے جو پُشت در پُشت نور اور تاریکی کے سخت جنگ و جدال پر سپاہ گری میں مصروف اور متعین تھے۔وہ پیشین گوئیاں اُن شخصوں کی دل جمعی کے لئے نجات و سلامتی کا مقرّر(قرار کیا گیا۔بلاشبہ۔یقیناً)وسیلہ اور خستہ اور شکستہ دلوں کا معالجہ تھیں ۔
اسی طرح حضرت سلیمان کے اِس مشہور قول کا ثبوت ہو گیا کہ ’’ صادقوں کی راہ نور سحرکی مانند ہے جس کی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے‘‘(امثال۱۸:۴)۔ہاں بلکہ بلکہ فی التحقیق کُل کلام اللہ ایک انجیل ہے اور وہ سب و اقعات مندرجہ فیہ (جودرج کیے گئے ہیں)جن کابیان جاہل لوگ اور بے تمیز محض قصہ اور فسانہ جانتے ہیں ،اُن کی مثال مانند کھیت کے ہے جس میں خد اتعالیٰ نے بذریعہ اپنے انبیا کے اپنی آیندہ بادشاہت کا تخم بویا ہے۔ چنانچہ خدا کی مملکت صرف عالم غیب ہی میں قرار نہیں پکڑتی ،بلکہ عالم شہود اور ظہور میں بھی اور اُس کا اشتہار صرف خد اتعالیٰ کے کلمات اور اقوال سے نہیں ، بلکہ اُس کے افعال اور اُس کی رعایت اور پرور دگاری سے بھی جو آنجہانی مملکت اور سیاست میں اور باقی مہمات عالم کے انتظام میں نظر آتی ہے،گوش گزار ہوتاہے۔از آنرو کہ انسان کے جسم میں ہڈیاں گوشت ، خون اور کھال سے ملبس ہوتی ہیں۔اسی طرح خدا کا علم اُس کے عمل اور فعل میں عیاں و نمایاں ہوتا ہے اور ظاہری صورت قبول کرتا ہے اور مفید مسائل سے ثابت اور دل پذیر اور دل کش بھی ہوجاتا ہے۔جس سبب سے حضرت داؤد بارہا تاکید اور تائید سے خدا کے مقدسوں کا یہ فرض بتاتے ہیں کہ نہ صرف خدا کے اقوال مبارک کا تذکرہ کریں، بلکہ اُس کے افعال اور عجائب کا بھی ۔جن کے وقوع پر ختم وثوق اور اعتبار کتب الہٰامیہ موقوف ہے اور جن کی طرف ہزار ہا اشارات کتب قدیم سے کتب اخیر تک نقل کئے گئے ہیں ۔ہاں بلکہ محمدی بھی مجبوراً اور بے اختیاری سے آپ ہی اقرار کریں گے کہ جتنے قصص اُن کے فرقان میں منقول یا اشارۃً اور کنایتہً مذکور ہیں ، وہ سب عہد عتیق کے قصہ جات پر قائم اور منحصر ہیں۔ غیر از(علاوہ ازیں۔بجز اس کے) آنکہ ادیان یہود کے بے سرو پا (جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔جھوٹ) فسانوں سے منتخب ہوئے۔حاصل کلام کُل کلام اللہ گویا مجموعہء اناجیل بلکہ مسیح میں منتہیٰ ہو کر ایک انجیل ہے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ کی کتاب خدائے تعالیٰ کی حکمت بے پایاں (بےحد)اور روح القدس کی توفیق اور اُس کی پیش دانی سے ایک ایسا مِرآت(شیشہ) ہے جس میں ہر فرد مومن نے اپنے نفس کا عیب اور ستر باطنی اور موروثی تباہ حالی اور موروثی حاجتوں کا عکس دیکھا اور اُن حاجتوں کے رفع کرنے کے مقرری علاج اور تدارک کی تھوڑی بہت پیش فہمی اورسمجھ حاصل کی اور بینائی پائی۔ اور انبیا کی خاص رونق اور اُن کے قصوں کا عمدہ نفع یہ نہیں ہے کہ اچھی نصیحتوں اور نمونوں سے حق جو یوں کو فضائل کی ترغیب اور رزائل سے عبرت نمائی اور ممانعت کُلی کرتے ہیں، بلکہ یہ کہ وہ سب خدا کے ملکوت کے پیش دواں اور پیش گو ہیں اوراس خانہء الہٰی کی جو خود مسیح ہے ایک بنیاد ہیں ۔بموجب اِس نوشتہ کے کہ ’’اور(تم)رسولوں اورنبیوں کی نیو پر جس کے کونے کے سِرے کا پتھر خود مسیح یسوع ہے تعمیر کئے گئے ہو۔اُسی میں ہر ایک عمارت مِل مِلا کر خداوند میں ایک پاک مقدِس بنتا جاتا ہے‘‘ (افسیوں۲۰:۲ ،۲۱)۔پھر پطرس رسول بھی اس اصل کا شاہد ہے’’ اُس کے یعنی آدمیوں کے ردّکئے ہوئے پر خدا کے چُنے ہوئے اور قیمتی زندہ پتھر(خداوند یسوع مسیح) کے پاس آکر۔تم بھی زندہ پتھروں کی طرح روحانی گھر بنتے جاتے ہو۔۔۔‘ ‘ (۱۔پطرس۵،۴:۲)۔ رزائل
اور بموجب اِس اِبتدائی تفسیر کے آپ جان لیں کہ وہ حمدو ستائش جو مزامیر داؤد کا گویا نفس اور عین جان ہے ،وہ عام حمدو ستائش نہیں ہے۔پر اِس حمدو ستائش کا مرکز اور مدار وہ اوصاف الہٰی ہیں جو گمراہوں کے رجوع کرانے میں اور خطا کاروں کے تصدیق کرنے میں اور شکستہ حال لوگوں کے نجات و سلامت کے وارث کرنے میں خداوند مسیح کے ذریعہ اور طفیل سے ظاہر ہوئے ہیں ۔چنانچہ مکاشفہ کی کتاب میں مرقوم ہے کہ ’’۔۔۔یسوع کی گواہی نبوت کی رُوح ہے‘‘(مکاشفہ ۱۰:۱۹)یعنی گویا کتب انبیا کے باقی مطالب اور مقاصد اِن کا جسم ہے اور مسیح کی گواہی اُن کی روح ہے۔
اِس رسالہ کی ابتدا میں مصنف کا یہ ارادہ ہے کہ باقی کتب منزَّلہ کے دلائل خصوصاً مزامیر داؤد ی کی شہادت کو جو خداوند مسیح کے منازل اور مراتب پر اور اُس کی علّویت(بلندی۔رفعت) اور ذلت دونوں پر حضرت داؤد کی طرف سے دی گئی ہے، علیٰحدہ کر کے اُس کی کیفیت بالتخصیص اور بالتحقیق اِن شاءَاللہ بیان کرے۔یقین ہے کہ خداوند نے بار ہا اس شہادت کو اپنی طرف عائد اور منسوب کیا اور اپنے محرمان اسرار(محرمِ اَسرار= پوشیدہ باتوں کا جاننے والا) میں جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کو ویسے ہی حضرت داؤد کو بھی شمار کیا۔مثلاً جب خداوند مسیح مبارک نے یہود کے رئیسوں اور اَصحاب شرع اور فقیہوں کے رُوبرو اپنی ذات اور صفات الہٰی پر دعویٰ کرنا مناسب جانااور اُس کو کتب ِالہٰی سے ثابت کرنا مناسب سمجھا (کیونکہ اُس کی عمر مبارک کے ہر ایک احوال کا ایک معیاد اور وقت معین تھا جس میں ان امور مذکورہ کا اظہار کرنا ضروری تھا) تو بتصدیق اور بتائید اِس دعویٰ کے(زبور ۱:۱۱۰)کو نقل کر کے حضرت داؤد کی گواہی سے اُن معترضوں کو خجل اور لاجواب کیا۔
اور پھر دوسرے وقت کا ذکر ہے جب خداوند پہلی بار عیدِ فسح کی رسومات ادا کرنے کے لئے بیت المقدس کی طرف تشریف فرما ہوا تھا اور کوہِ زیتون کی چڑھائی پر پہنچا تھا۔جس کی چوٹی سے یروشلیم کی سب عمارتیں اور خصوصاً ہیکل مقدس کی رونق اور اُس کی زیب و زینت و جمال یک لخت نظر آیا تو یہ امر اُس وقت واقع ہوا کہ یہودیوں کی کُل جماعت بے اختیار گویا روح القدس کی تحریک ناگہانی سے جوش و جنبش زدہ ہو کر تمام دیکھے اورسُنے ہوئےعجائبات کے سبب بڑی بلند آواز سے شادمانی اور شکر گزاری کے گیت گانے لگی ۔اور معاً (ساتھ)مزامیر داؤد سے بعض ایسی پیش گوئیاں یک دلی سے زبان پر لائی کہ جو اُس زمانے کی اہل اُمت کے حرکات دلی کے ظاہر اور آشکارا کرنے کے لئے خداکی ارادت قدیمی سے مقرر ہوگئی تھیں۔یعنی( زبور۲۵:۱۱۸۔۲۶ )آیات سے اُنہوں نے یہ مضمون نقل کیا کہ ’’ابنِ داؤد کو ہوشعنا۔مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔عالم بالا پر ہو شعنا‘‘(متی۹:۲۱) ۔اِس ماجرے سے ثابت ہے کہ اِس قوم یہود میں جو خدا کے وعدے اور میثاق کے خاص وارث بر گزیدہ تھے، یہ اُمیداور انتظاری بہ یقین تمام زمان بعد زمان اُتری چلی آتی تھی کہ داؤد کی پژ مردہ اصل سے ایک زماخ یعنی ایک اصل جدید اور تازہ پھو ٹ کر شگفتہ ہو گی۔اور پھر پیش از آنکہ خداوند مسیح نے حضرت اعلیٰ کے تخت جلال کی طرف صعود فرمایا ۔
ایک مرتبہ کُل عہد عتیق کو تین جُزوں میں منقسم کر کے اور سب نبیوں کی پیشین گوئیاں اپنے میں انحصار کر کے یوں فرمایا کہ’’ یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں‘‘ (لوقا ۴۴:۲۴ )۔تو اب مصنف کا یہ ارادہ ہے کہ اُن تین بزرگ اور معتبر گواہوں میں سے دونوں کی گواہی پر محض اشارۃًو کنایتہً لحاظ کر کے زبوروں کے نقلی دلائل کو بالتشریح حتّی الوسع پیش کرے۔جس مصدّر الہٰی یعنی روح القدس نے انبیا سلف کے ذریعہ سے اِس تصویر کو کھینچا ،وہی مدبر(بدنصیب) بھی تھا، جس نے اپنی حکمت بے پایاں سے اُ س متصور الیہ(خیال کیاگیا) کے احوال اور افعال کا ایسا انتظام اور بندو بست کیا کہ اُن میں نقشہ قدیمی کی پوری مطابقت اور موافقت ہو۔ چنانچہ اگر ہم کتب ثلاثہ کی گواہی تین حصوں میں تقسیم کریں تو ہر ایک فرد میں صاف مطابقت پائی جائے گی۔اُن تینوں خدمتوں اور عہدوں سے جن کو خداوند نے اپنے ذمہ لے لیا تھا، زبوروں کی گواہی میں بالا ختصاص (خصوصیت رکھنا)بادشاہت کی پیشین گوئی او ر توریت کی گواہی میں کہانت کی او رشہادت انبیا میں نبوت کی۔
پس اِن تینوں میں سے شہادت زبور کو ہم نے علیٰحدہ کیا،اس سے مراد سے کہ مسیح کی قدرت و فیروزی (کامیابی،رتگاری،فیروزے کے رنگ کاسبز)اور جلال شاہانہ پر جس سے بسبب نادانی اور کوتاہ اندیشی کے اکثر محمدی ناواقف ہیں ،خاص غور اور ملاحظہ کرنے والوں کواس کتاب کی طرف متوجہ کروں ۔ہر چند کہ اِنہیں زبوروں میں خداوند کی کہانت اور نبوت کے خواص اور فضائل کے بعض صاف اور موزوں دلائل نظر آتے ہیں اور یقین ہے کہ یہ سب تین عہدے اور مراتب اُس ازلی وعدہ اور میثاق میں درج ہیں ،جسے خدائے قادر مطلق نے حضرت آدم کی عہد شکنی اور نافر مانی کے وقت سے لے کر مسیح کے تَوَلُّد جسمی(جسمانی پیدائش) تک بذریعہ انبیا کے آدم زاد کے ساتھ قائم فرمایا تھا۔اور سب تدابیر اور تجاویز الہٰی درباب نجات وسلامت آدم زاد کا مدار اور مرکز یہی تھا۔بآنقدر کہ جو شخص اس اصل مَبدَءِ (شروع ہونے کی جگہ)تدبیر الہٰی سے چوک گیا ہو ، تو وہ کلام الہٰی کی سیر کرنے میں ایسا کوتاہ شناس اور خوردہ بین ہے ،جیسے دشت میں کُور چشم(اَندھا) بے راہ اور گم گشتہ آوارہ گردی کرتا ہو۔قریب ہے کہ رسولوں اور نبیوں کے عالی کلمات ایسے آدمیوں کے لئے واہیات اور مہمّات غیر اِنحِلال(انحلال=کسی مرکب شے کے عناصر ترکیبی کا الگ الگ ہونا) کی صورت دکھائیں۔چنانچہ اس حمدو ستائش کے اندر جو مزامیر داؤد میں بکثرت و فراوانی مل سکتی ہے ،ایسے کون سے اَسما و صفات الہٰی ہیں جن کا اتنا وَقر(بڑائی،رُتبہ) ہوتا ہے ،جتنا اُن صفتوں کا جو بوکالت اور بوساطت خداوند مسیح کے آدم زاد کی سلامتی کے لئے ظاہرو آشکارا ہو گئیں ۔ اور اِسی طرح تقریباً ہر وعظ و نصیحت اور کلام عبرت آمیز انبیا کی یہی مراد اور انجام نظر آتا ہے ۔اور قوم یہود کے ہر ایک ابر آفت اور جورو جفا میں اُسی آفتاب شفا کی اُمید سے سب انبیا اپنے چراغ روشن کر کے ہر ایک خدا ترس اور طالبِ حق کی دست گیری اور خداوند کی طرف راہ نمائی فرمایا کرتے تھے ۔
اور علیٰ ہذا القیاس (اسی قیاس پر) مبادی (مبدا کی جمع ۔بنیادی باتیں)مذکورہ سے یہ نتیجہ صاف و صریح نکلتا ہے کہ وہ قدیمی وثیقہ اور وعدہ جس سے حضرت خلیل اللہ مشرف تھے، غیر ممکن ہے کہ حضرت داؤد کی بعثت اور جلوس کے بعد منسوخ ہو گیا ہو۔ہاں اگر بالفرض ممکن تھا کہ ایک مضمون کلمات اور اقوال الہٰی سے نسخ ہو سکتا ہے،تو بہر حال ممانعت خاص تردید اور نسخ توریت کی اِس بُرہان قوی اور راسخ سے ثابت ہوتی ہے کہ حضرت داؤد بلاناغہ بہ بلاغت( فصیح کلام)تمام توریت کا نام لے کر اُس کے اوصاف اور فضائل کی تعریف کرتے تھے ۔اور تارکین اور غافلین کو مورد غضب و عتاب بتاتے تھے۔اور جتنی خلقت اُس کی طالب حقیقی اور تابع ہیں ،اُن کو فضل اور برکت اور معرفت الہٰی کا وارث بتاتے تھے۔
اگر کوئی شخص کسی بات کے دلائل اور مسائل کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ شخص اِن شاءَ اللہ( ۱۹ اور ۱۱۹ زبوروں )سے پوری تسلی اور اِرتفاع(بلندی) شک پائے گا۔ اور مزامیر داؤد کے اَور بے شمار مطالب اِنہیں معنوں سے ہیں اور جس طرح حضرت داؤد توریت موسوی کی تحسین و تعریف کرتے ہیں ، اُسی طرح اُس عہدو وثیقہ سلف ِالہٰی کا جو توریت میں مبیّن ہے، بطور اشارہ اور تقریرمُصَفّا(صاف)کے شاہد بھی ہیں ۔ مثلاً (زبور۷۴کی ۲۰ویں آیت )میں حضرت موصوف باری تعالیٰ سے یوں سوال کرتے ہیں کہ ’’ (اے خداوند تُو)اپنے عہد کا خیال فرما کیونکہ زمین کے تاریک مقام ظلم کے مسکنوں سے بھرے ہیں‘‘۔اور پھر( زبور ۵۰ آیت ۵اور۶ )میں یوں مرقوم ہے ’’کہ میرے مقدسوں کو میرے حضور جمع کرو جنہوں نے قربانی کے ذریعہ سے میرے ساتھ عہد باندھا ہے ۔اور آسمان اُس کی صداقت کا بیان کریں گے کیونکہ خدا آپ ہی انصاف کرنے والا ہے‘‘۔شاید کوئی معترض بطریق مناظرہ کے کہے کہ میری دانست اور فہمید میں آیات مذکورہ میں وہ عہد سلف نہیں ہے جو حق تعالیٰ نے خلیل اللہ کو مرحمت و عطا فرمایا ہے ۔بلکہ عہد جدید ہے، جو اِس پہلے کےمنسوخ ہونے کے بعد حضرت د اؤد کے ساتھ منعقد تھا۔
تو اولاً جواب صریح اور قطعی یہ ہے کہ عہد مذکور حضرت داؤد کے ساتھ مخصوص بہ ذبائح و قربانی ہے جو عہد موسوی کی علامتیں بالتخصیص تھیں۔ چنانچہ اس میں مرقوم ہے کہ ’’ جنہوں نے قربانی کے ذریعہ سے میرے ساتھ عہد باندھا ہے ‘‘،فقط۔
ثانیاً اِس اعتراض کا یہ جواب ہے کہ اِس عہد سابق ابراہیی پر ایک یہ شرط ثابت ہے کہ اطاعت اُن احکام اورحفاظت اُن امور کی ہو جو توریت مبارک میں متضمّن(مندرج) تھے۔بآنقدر کہ جس نے اُن کا اِمتِثال (حکم ماننا) نہ کیا ،بلکہ اُن سے غافل رہا،وہ شخص اور وہ اُمت اِس میثاق کے لطف اور برکت موعود سے ساقط اور محروم ہونے والے تھے ۔بموجب اِس شہادت حضرت داؤد کے’’لیکن خداوند کی شفقت اُس سے ڈرنے والوں پر ازل سے ابد تک اور اُس کی صداقت نسل در نسل ہے۔یعنی اُن پر جو اُس کے عہد پر قائم رہتے ہیں اور اُس کے قوانین پر عمل کرنا یاد رکھتے ہیں‘‘ (زبور۱۸،۱۷:۱۰۳)۔ یعنی اُن اشخاص پر جو احکام توریت سے عمداً و قصداً متجاوز نہیں ہوتے۔
ثالثاً جواب اِس اعتراض کا یہ ہے کہ حضرت داؤد بار ہا اُس عہد قدیمی کے ابدالآباد تک غیر متغیر اور غیر فانی ہونے پر شاہد ہیں ۔دیکھو اِس عہدکی ابدیت کیا ہی صریحاً او ر مکررًا مشہود(ظاہر) ہے۔’’ اُس نے اپنے عہد کو ہمیشہ یاد رکھا۔ یعنی اُس کلام کو جواُس نے ہزار پشتوں کے لئے فرمایا۔اُسی عہد کو جواُس نے ابرہام سے باندھا اور اُس قسم کو جو اُس نے اضحاق سے کھائی اور اُسی کو اُس نے یعقوب کے لئے آئین یعنی اسرائیل کے لئے ابدی عہد ٹھہرایا‘‘ (زبور۸:۱۰۵ ۔۱۰ )۔ پس ابدیت اِس عہد کی اور اسناد اور اِستقرار اس عہد و میثاق پرمستلزم(لازم) بایں امر ہے کہ اصل میثاق ابراہیمی اور میثاق داؤد ی فی الحقیقت دو نہیں ،بلکہ ایک ہی ہے۔ اگرچہ اُن کے لفظوں اور صورتوں میں ذرا سا فرق بھی معلوم ہو، مگر اُن کا اصل مضمون متحد المعنی ہےاو ر دونوں کا انجام مسیح ہے اور دونوں میں اِس خداوند کی ولادت جسمیہ ،وفات اور بعثت و صعود سے اشارہ ہے ۔اور ان دلائل نقلیہ کے بموجب مسلم حقیقی اورروشن ضمیر کے لئے مستَحِیل(محال۔حیلہ جُو) ہے کہ وثیقہ موعود حضرت داؤد اور ابراہیم کو منسوخ اور رد ّنہ جانے بآنقدر کہ اُن کے اصول کا غور و ملاحظہ اور مدت الا حکام کا اِنقیاد اپنے اُوپر لازم نہ جانے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کُل جماعت انبیا اِس عہد قدیم ابراہیمی کے وارث اورشاہد حال ہیں اور یہ بھی یقین ہے کہ سب مومنین اور اہل ایمان جو پاک انبیا کی رفاقت میں قائم و دائم رہتے ہیں، سب ا س عہد کی رفاقت میں بفضل الہٰی خداوند مسیح کی خاطر شامل ہوتے ہیں۔چنانچہ دین الہٰی کے دو فرائض اَور ضروری ہیں ۔اول ،یہ کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کو بلاشبہ منظور کریں ۔دویم ،خدا کی مرضی معروف اور مشہود پر قربان ہو جائیں ۔کیا ہی سعادت مند اور مبارک ہے ۔وہ ایمان دار جو آپ ہی اِس رفاقت میں شریک ہو کر اور روح القدس کے ختم (مُہر)اندرونی سے مختُوم (مُہر شُدہ)ہو کر حضرت داؤد کو گویا اپناامام جان کر بطور مقتدی کے وہ اقرار کر سکتا ہے جسے اُس مبارک نے قریب الانتقال جوش دلی سے کیا تھا کہ’’۔۔۔اُس نے (خدا تعالیٰ )نے میرے ساتھ ایک دائمی عہد جس کی سب باتیں معین اور پایدار ہیں باندھا ہے کیونکہ یہی میری ساری نجات اور ساری مُراد ہے‘‘ (۲۔سموئیل۵:۲۳)۔
رابعاً قابل غور ولحاظ ہے کہ زکریاہ ابو الیحییٰ(یوحنا اصطباغی کا باپ) اُس حمد و ستائش کے گیت میں جو خداوند مسیح کے تَوَلُّد کے وقت روح کے الہٰام سے فرمایا تھا ،صاف تاکید اس بات کی کرتا ہے کہ اِس امر واقع یعنی تَوَلُّد مسیح میں عہد ابراہیمی اور میثاقِ داؤدی پورا اور اِیفا (وفا کرنا)ہو گیا۔اور دونوں میثاقوں کا اِتصال اور اِتفاق خداوند مسیح میں آکر ہوا۔ اور یہ بھی کہ وہ فیض اور فضل ِالہٰی جن کا مجمع اور منتہیٰ خود مسیح ہی تھا،صرف وہی برکات اور انعام تھے جو سب انبیا خصوصاًحضرت ابراہیم اور داؤد پر موعود ہو گئے تھے۔گویا محض تعمیل اُس علم کی تھی جو مقدسین سلف کو مرحمت فرمایا گیا ۔جیسے لوقا کی انجیل کے پہلےباب میں لکھا ہے کہ ’’خداوند اسرائیل کے خدا کی حمد ہو کیونکہ اُس نے اپنی اُمت پر توجُّہ کر کے اُسے چھٹکارا دیا۔ اور اپنے خادم داؤد کے گھرانے میں ہمارے لئے نجات کا سینگ نکالا۔جیسا اُس نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا تھا جو کہ دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔یعنی ہم کو ہمارے دشمنوں سے اور سب کینہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات بخشی ۔تاکہ ہمارے باپ دادا پر رحم کرے اور اپنے پاک عہد کو یاد فرمائے ۔یعنی اُس قسم کو جو اُس نے ہمارے باپ ابرہام سے کھائی تھی‘‘ (لوقا۶۸:۱۔۷۳)۔ اور اسی سبب سے متی اپنی انجیل میں مسیح کے نسب نامہ کی فہرست کے شروع میں یہ لکھتا ہے کہ’’یسوع مسیح ابنِ داؤد ابنِ ابرہام ‘‘ (متی۱:۱)۔گویا تمام مطلب ان دونوں لفظوں پر موقوف ہے۔
باب دوم
دربیان آں اِصطلاحاتِ زبور کہ بر نجات وحیات بخش
خداوند مسیح صاف و صریح دلالت میکنند
پہلے باب سے تشریحاً معلوم ہو گیا کہ مزامیر داؤد اُسی عہد قدیمی کی بنیاد پر جس کے حضرت ابراہیم اور اُ س کی اولاد حقیقی وارث ہیں، مبنی اور منحصر ہے کہ وہ عہد و میثاق شرع موسوی کی رسموں اور سنتوں کے ساتھ راسخ رشتوں اور رابطوں سے وابستہ تھا اور اُس کے مقرری عیدوں اور عُہدوں اور قواعد خدمت و عبادت میں صراحتاً مشہور اور مُشارُٗاِلیہ (1)تھا۔ تا آنقدر کہ جتنے سائے اُس میں پائے جاتے ہیں، اُن کا بدن حقیقی عین مسیح ہے ۔اور مُرادوں اور مقصودوں کی تکمیل اور تتمیم (مکمل کرنا)مسیح کے افعال اورعمر کے احوال میں نظر آتی ہے۔ پر بالفعل توریت اور انجیل کے باہمی اتفاق اور اِتصال(میل۔ملاپ) سے قطع نظر کر کے ہمارا یہ ارادہ ہے کہ غور سے لحاظ کریں اور طالبان حق و نجات کو متوجہ کریں ۔زبور داؤدی کی اُن اصطلاحات پر جن میں صراحتاً اس آیندہ نجات اور حیات بخش خداوند مسیح کی طرف اشارہ ہے اور جو اُس کے کمالات کے مظہر اور معرّف بھی ہیں۔مثلاً جب حضرت داؤد چاہتے تھے کہ اِجمالاً ان برکتوں اور نعمتوں کا مجمع جو مسیح کی آمد سے دستیاب ہونے والا تھا ،پیش کریں تو وہ انہیں دو لفظوں میں منتہیٰ اور مجتمع کرتے ہیں۔یعنی صداقت اور سلامت میں ۔اور بلاشبہ اِس آیندہ منجی عالم کے نام و نشان میں سے اِنہیں دونوں کو اختیار کرنا نہایت واجب اور مستحسن (پسندیدہ۔بہتر)تھا۔
از اں جہت(اس سبب سے) کہ انسان کی حالت ان کے بغیر سخت تر اور تلخ تر تھی اور دونوں میں باقی سب برکتوں کا گویا تخم اور زُبدَہ ٔ (کسی چیز کا بہترین حصہ)مبدامتضمن(شامل) ہے۔اور ان دونوں فوائد کا ذکر مکرَّر۔سہ کرَّر(بار بار۔کئی مرتبہ) کلام میں داخل ہے ،مگر ہر گز اِن کا ذکر بایں طور و طریق نہیں ہے، جس سے ظاہر ہو کہ اُن ہر دو کی تحصیل پیغمبر ِزمان کی شفقت اور سفارش پر موقوف ہے۔مگر اِن کا تعلق اور اِلحاق تقریباً ہمیشہ اُس عہد سلف کے ساتھ ہے جو جنت عدن کے وعدہ سے شروع ہو کر اور میثاق ابراہیمی میں تصدیق اور تبسیط(تَبَسُّط۔پھیلاؤ۔فراخی) پا کر اور صحف انبیا میں اَور بھی تشریح او ر ترقی او ر کشادگی حاصل کر کے آخر کو نسل موعود یعنی مسیح میں اِیفا کو پہنچا۔ اِس امر کے ثبوت میں ہم بعض آیات کو صحیفہء زبور سے نکال کر پیش کرتے ہیں جو قابل ملاحظہ و غور ہیں۔
(1) ۔(مُ۔شا۔رُن۔اِ۔لَیہ) وہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔مذکور الصدر۔
اولاً(زبور۷۱ کی ۱۵ ویں آیت) میں پاک نبی یوں فرماتا ہے’’میرا مُنہ تیری صداقت کا اور تیری نجات کا بیان دن بھر کروں گا‘‘(اصل زبان عبرانی میں لفظ’’ صدقات‘‘(צִדְקָתֶ֗) اور’’ تشوعات ‘‘(תְּשׁוּעָתֶ֑)ہے) کیونکہ مجھے اُن کا شمار معلوم نہیں‘‘۔جاننا چاہیئے کہ لفظ ’’تشوعات ‘‘ اُس مصدر سے مشتق ہے جس سے لفظ مبارک ’’یسوع ‘‘نکلا ہے۔پس اِس آیت کے قرینے اور سیاق ِکلام سے آشکارا ہے کہ حضرت داؤد اپنے غنیموں اور کینہ وروں کے فن فریب سے ظلم اور لعن طعن اُٹھا کر باقی سب اُمیدوں اور علاجوں سے مایوس ہو کر سب دوستوں سے جُداہو جاتے ہیں اور اسما اور صفات الہٰی کے تذکرہ اور حدّو حساب کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔چنانچہ صرف اِسی سے اطمینان اور دل جمعی پاتے ہیں ۔مگر خصو صاً اِنہیں دو صفتوں کی یاد کرتے ہیں کہ گویا میثاق فضل کے سب قواعد اِنہیں کے احاطے کے اندر مقیداور منحصر ہیں ۔اور وہ مردِ خدا اسی زبور میں اپنے عزم بالجزم (پکا ارادہ) کا معرُوض (عرض۔گزارش)خلق اللہ کے روبرو کرتا ہے کہ میں اپنی کُہن سالی(بڑھاپا) اور درازی عمر میں اپنے اہل زبان سے اس سلامت اور صداقت کی تشریح اور اشہاد(شہادت دینا) کرنے میں مشغول ہوں تاکہ پشت در پشت وہ شہادت متواتر ازمنہ خلف کے حوالہ کی جائے۔
ثانیاً فضائل و فوائد مذکور (زبور ۷۲ )کے جان و قلب ہیں ۔گویا اِسی قطب اور مدار کلام کی طرف باقی سب معنی رجوع لاتے ہیں اور انہیں دو لفظوں پر مسیح کی بنیاد قائم بتائی جاتی ہے اور اُس کی مملکت سب آنجہانی مملکتوں سے اِس جہت سے ممتاز ہے کہ اُس کے فیض فراوان سے وہ جو اُنہیں برکات موصوفہ کے طالب اور محتاج ہیں سیروآسودہ ہوں گے۔ (زبور۷۲ کی ۳ ،۴ آیات )میں یوں مرقوم ہے کہ ’’ان لوگوں کے لئے پہاڑوں سےسلامتی کے اور پہاڑیوں سے صداقت کے پھل پیدا ہوں گے ۔وہ ا ن لوگوں کے غریبوں کی عدالت کرے گا ۔وہ محتاجو ں کی اولاد کو بچائے گا اور ظالم کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا‘‘۔ اصل زبان یعنی عبرانی میں ان کا یسوع ہو گا۔اِن سے اور اِن کی مانند اَور آیتوں سے مثلاً (زبور۸۰ )سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فضائل مذکورہ نہ اہل علم و فضل اور نہ اِس جہان کے کبیرون اور فخر کرنے والوں کے ساتھ، بلکہ مسکینوں اور مظلوموں اور شکستہ دلوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔اور ہر قوم اور قبیلہ کا ہر شخص اُن میں شامل ہے جس کامزاج خداوند کے اِس قول شفقت آمیز اور مبارک کے موافق ہے۔’’مبارک وہ ہیں جو دل کے غریب‘‘(متی۳:۵) اور راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے‘‘(متی۶:۵)۔
ثالثاً (زبور۸۵ آیت ۴ )اور آخری آیتوں میں نہ صرف تاکید مزید الفاظ سے وہ دونوں اَوصاف مذکورہ ستودہ(جس کی تعریف کی جائے) اور محمودہ ہیں ،بلکہ کئی ایک بخششوں کا شکرانہ بھی ہے۔ جن کا خاص تعلق منجی عالمین کے ساتھ متعدد نقلی دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔ یعنی لفظ ’’ تصدیق‘‘ یعنی ’’صدق ‘‘مکرّر(بار دیگر)اور’’ یشع ‘‘یعنی ’’نجات ‘‘مکرَّر سہ کرَّر اور تین اَور اصطلاحات بھی ہیں یعنی’’ شالوم‘‘ بمعنی’’ صلح و سلامت‘‘،’’ حِسِد‘‘ بمعنی ’’رحمت و شفقت ‘‘اور ’’اِمِت‘‘ بمعنی’’ اَمانت ‘‘۔یہ ثلاثہ الفاظ قرینہء کلام میں داخل ہیں اور جو لوگ زبان عبرانی سے واقف ہیں اگر صرف بیک نظر اِس زبور پر نظر کریں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ تمام زبور یسوع مبارک کے اِسم مبارک سے معطّر ہے۔اور ُان صفات اور تجلیات الہٰی سے جو نجات کی تدبیرون میں کشف و نمایاں ہیں، عجیب طور پر خوشبو دار ہے ۔اور اگر قدرے اَور بھی غورو ملاحظہ کریں تو صاف ظاہر ہو جائے گا کہ اِس زبور میں نہ صرف حضرت داؤد کے زمانے کے کسی امر واقعی کی طرف اشارہ ہے، بلکہ زیادہ وسعت اور کشادگی اور وزن و وقار کی طرف اشارہ ہے جو ایک ہی قوم ،ملک اور زمانے کی حدّوں سے متجاوز ہے۔یعنی اِس سرّ ِغیب کی طرف جس کا مفصل حال (افسیوں دوسرے باب) میں ہے ۔اور یقین ہے کہ اگر بلاتعصب عناد کے زبور کی اُن پچھلی آیتوں کو حضرت بی بی مریم اور زکریاہ کے ُان گیتوں کے ساتھ مقابلہ کریں گے جو لوقا کی انجیل کے پہلے باب میں مذکور ہیں، تو گویا بے اختیار اقرار کریں گے کہ بلاشبہ ایک ہی نجات و سلامت اور ایک ہی نجات دہندہ ہے جس کی طرف ان تینوں زبوروں میں اشارہ ہے۔مثلاً جو سوال اس (زبور ۸۵ آیت۶ )میں ہے یعنی’’کیا تُو ہم کو پھر زندہ نہ کرے گا تاکہ تیرے لوگ تجھ میں شادمان ہوں؟‘‘،تو اِس سوال کا حقیقی جواب زکریاہ کے گیت کی پہلی دو آیتوں میں پایا جاتا ہے کہ ’’ خداوند اسرائیل کے خدا کی حمد ہو کیونکہ اُس نے اپنی اُمت پر توجہ کر کے اُسے چھٹکارا دیا۔اور اپنے خادم داؤد کے گھرانے میں ہمارے لئے نجات کا سینگ نکالا‘‘(لوقا۶۹،۶۸:۱)۔اور وہ صاحب یہ بھی اقرار کریں گے کہ و ہ دعا اور سوال جو (زبور۸۰ کی ۷ ویں آیت )میں پڑھا جاتا ہے یعنی’’ اے لشکروں کے خدا ! ہم کو بحال کر اور اپنا چہرہ چمکا تو ہم بچ جائیں گے‘‘۔اس کا جواب حضرت زکریاہ کی ان آیتو ں میں پایا جاتا ہے کہ’’ جیسا اُس نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا تھا جو کہ دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔ یعنی ہم کو ہمارے دشمنوں سے اور سب کینہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات بخشی‘‘(لوقا۷۱،۷۰:۱) ۔
اِسی طرح وہ صفات کریم اور اسما جلیل جو اِس (زبور۸۵ کی ۹ ویں،۱۰ ویں آیتوں) میں مذکور ہیں اور اُن کے اظہار کے قریب ہونے کی بشارت بکمال تیقن کی جاتی ہے، یعنی صلح و سلامت ونجات و صداقت و جلال ۔یہ سب اسی وقت ظہور و شہود میں آنے والی تھیں اور اپنے نور الہٰی کی شعاعیں اسی وقت دورو قریب تک منتشر کرنے والی تھیں ۔جب زکریاہ مقدس روح کے الہٰام کی توفیق سے یہ حمدو ستائش کی باتیں اپنی زبان پر لایا کہ ’’ یہ ہمارے خدا کی عین رحمت سے ہوگا جس کے سبب سے عالم بالا کا آفتاب ہم پر طلوع کرے گا۔تاکہ اُن کو جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں روشنی بخشے اور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے‘‘ (لوقا۷۹،۷۸:۱)۔
ایسے نقلی دلائل سے یقین ہے کہ عہدِنجات اور میثاق حیات کے اشتہار دینے میں ایک بڑا حصہ کلاں اور بخرہ گراں حضرت داؤد کو سپرد اور مرحمت ہوا۔ اور کون سا حصہ خلق اللہ کے لئے اس عالم فانی میں اِس سے بڑھ کر ہو سکتا ہے کہ اُ س کی تمام عمر تشبیہ اور تصویر کی راہ سے خداوند مسیح کی سلطنت کے فرائض کا اظہار اور اشتہار کرے۔ علاوہ بریں وہ خدا تعالیٰ کے بعض کمالات بزرگ اور جلالی کو جو مسیح کے مجسم ہونے کے وقت مِن وَّرَآءِ حجاب شہود(پردہ میں حاضر ہونا) میں آگئے ۔اُنہیں اپنے خاص ورثہ کے لئے حاصل کر کے اُن کے عرفان و تعّرف (شناخت کرنا،جتانا)سے مشّرف ہو(عزت بخشنا) اور نبیوں کی پاک جماعت میں نہایت عالی رتبہ تک سرفراز ہو۔ یہاں تک کہ اَور نامی گرامی نبیوں نے اپنے چراغوں اور مشعلوں کا اقتباس کیا۔اِس بات کی عمدہ مثال حضرت یسعیاہ ہیں، جسے بعض مفسروں نےبسبب صراحت ان پیش خبریوں کے جنہیں اُس مقدّس نے خداوند مسیح کے ظہور کی بابت تحریر فرمائیں ،انجیلوں کے شمار میں داخل کیا ہے۔چنانچہ ( یسعیاہ باب ۴۵ آیات۲۵،۲۴،۲۲ )میں اوصاف مذکور کی بابت یوں لکھاہےکہ ’’ اے انتہایِ زمین کے سب رہنے والو! تم میری طرف متوجہ ہو اور نجات پاؤ‘‘(یسعیاہ۴۵: ۲۲)۔’’ میرے حق میں ہر ایک کہے گا کہ یقیناً خداوند ہی میں راستبازی اور توانائی ہے‘‘(یسعیاہ۴۵: ۲۴)۔’’ اسرائیل کی کُل نسل خداوند میں صادق ٹھہرے گی‘‘(یسعیاہ ۴۵: ۲۵) ۔اور پھر( زبور۹۶ )میں حضرت داؤد نہ صرف اسما اور صفات مذکورہ کی بشارت دیتے ہیں، یعنی نہ صرف خدا تعالیٰ کی صداقت اور امانت کی تعظیم کرتے ہیں ، بلکہ اُمت یہود اور کُل عالم کی قوموں اور قبیلوں سے بحسب فرض رسالت للکار کر دعوے کرتے ہیں کہ تم سب لوگ اس شاہ جلیل کے دبدبہ اور کبریائی(عظمت) کے خوف کے مارے خاکساری سے اُس کی پرستش کرو اور اُس کی نجات کی خبریں شہرہء آفاق کرو۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اِس موقع پر اَور مقاموں کی طرح یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اِس نجات و سلامت میں خدا تعالیٰ کی عدالت بھی رونق افزا ( جلوہ فرما)اور متجلیّٰ ہو جاتی ہے۔
ہاں اے صاحبو کلام اللہ کی بھاری سے بھاری تعلیموں میں یہ بھی بالضرور شامل ہے کہ جس وقت رب تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل کو ظہور میں لاتا ہے تو انصاف اور عدالت بھی فوراً شہود میں آتے ہیں ۔کیونکہ باری تعالیٰ اس طور پر رحیم اور فیض اور لطف فرما نہیں ہو سکتا کہ عادل اور صادق القول ہونے سے باز آئے ،یعنی اُس کے ایک خاص اسم و صفت کی رونق اور جلال اِس وضع سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی کہ ثانی میں خلل آجائے۔ اور نہ ایک کی ایسی تفضیل (فضیلت دینا)جائز ہے جس سے دوسرے کی تذلیل(بے عزتی) ہو جائے۔ دیکھو اِس زبور میں یہ تین بڑی صفتیں کیا ہی عجیب طور پر باہم پیوستہ ہیں اور ہر ایک اِن میں سے ایسی پاک اور صریح (صاف) معلوم ہوتی ہے کہ گویا ہر واحد باقی سب کی حمایت اور حراست کاذمہ دار ہے۔ازآں وجہ(اس وجہ سے ) کہ رحمت اور فضل کا وعظ اور بشارت اور صداقت اور عدالت کی منادی بھی ہے اور ان دونوں کی جدائی و طلاق قیاساً بھی متروک (ترک کیاگیا)اور منسوخ ہے۔
چنانچہ ثبوت و وثوق اِس بات کا خداوند مسیح کے مصلوب ہونے او رصلیب برداری اور عذاب کشی میں ایسا صاف اور صریح نظر آتا ہے کہ اَور کسی دلیل سے نہیں ہو سکتا۔اور نبی اور رسول اِس بات پر نہایت تاکید کرتے ہیں کہ خدا کی پروردگاری اور اُس کی رعایت کلیسیا کے حق میں اور عدالت اور رحمت ازاِبتداتا اِنتہا(شروع سے آخر تک) دست بدست پیوستہ چلی جاتی ہے۔ اور دونوں کا میل و اتفاق محبت سے ہے۔ ہاں بلاشبہ اِس صلیب برداری اور جفاکشی اور مورد قہر ہونے میں ایک سّرِغیب ہے جو عالموں اور فاضلوں سے اکثر مخفی ہے ،لیکن مسکینوں پر فاش ہو جاتا ہے۔یعنی خداوند مسیح جس وقت اپنی صلیب پر سے مژدہ ٔحیات و سلامت خلق دور دراز تک پھیلاتا ہے تو عدالت کی راہ سے بھی آدم زاد کی حقیقت حال کی تمیز اور تفاصُل کرتا ہے ۔اور اُس عدالت کو جس کا اخیر اور اختتام اخیر الایام میں ہو گا، شروع کر کے اُسی انجیل کی ہر روز کی منادی اور واقعات عالم کی رعایت میں بڑھاتا اور برقرار کرتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ مژدۂ اِنجیل جو اسی باب میں درپیش ہوتا ہے ،قابل غور و لحاظ ہے اور اُس راز کی طرف اشارہ کئی ایک اور موزوں مقامات میں ملتا ہے۔مثلاً مسیح خود معترضان یہود کے رُو برو فرماتا ہے کہ’’مَیں دُنیا میں عدالت کے لئے آیا ہوں تاکہ جو نہیں دیکھتے وہ دیکھیں اور جو دیکھتے ہیں وہ اندھے ہو جائیں ‘‘(یوحنا۳۹:۹)۔ اور اِس بات پر (مکاشفہ باب۱۴ کی ۷،۶ ویں آیات) متفق ہیں ’’پھر مَیں نے ایک اَور فرشتہ کو آسمان کے بیچ میں اُُڑتے دیکھا جس کے پاس زمیں کے رہنے والوں کی ہرقوم اور قبیلہ اور اہل زبان اور اُمت کے سُنانے کے لئے ابدی خوشخبری تھی۔اور اُس نے بڑی آواز سے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اُس کی تمجید کرو کیونکہ اُس کی عدالت کا وقت آپہنچا ہے۔۔۔ ‘‘۔اِس زبور کے مضمون میں ایک اَور بات قابل لحاظ ہے جو اِس راز کا وزن اور مدار ہے کہ نہ کوئی فرشتہ اور نبی ،بلکہ خداوند آپ ہی تشریف فرما ہو کر اپنی نجات اورسلامت و صداقت کا انکشاف کرے گا۔(زبور۹۶ : ۱۲۔۱۳) میں لکھا ہے کہ’’میدان اور جو کچھ اُس میں ہے باغ باغ ہوں۔ تب جنگل کے سب درخت خوشی سے گانے لگیں گے۔خداوند کے حضور۔کیونکہ وہ آرہا ہے۔وہ زمیں کی عدالت کرنے کو آرہا ہے۔وہ صداقت سے جہان کی اور اپنی سچائی سے قوموں کی عدالت کرے گا‘‘۔ اور خداوند مسیح کی جتنی نشانیاں اور پیش گوئیاں عہد عتیق میں ہیں ، اُن کا جو عین قلب اور قطب اور وہ رشتہ اور رابطہ ہے جس سے وہ باہم منتظم اور مربوط ہیں ۔ خداوند خدا ہی کی امداد سے اُس کی حضوری کا وعدہ ہے یعنی یہ کہ وہ آنے والا اور موعود نجات کا بخشنے والا کوئی دنیوی بادشاہ یا نبی نہیں ہے، بلکہ خداوند بعینہٖ اور بنفسہٖ اپنی صورت جلال والی اور نورانی دکھائے گا ،پر تو بھی اُس کی قدرت حلم آمیز اور فضل پذیر ہوگی۔چنانچہ یسعیاہ انجیلی کی بعض بعض آیتوں سے اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں)ہے ،یعنی (یسعیاہ باب ۴۰ آیات۵، ۹۔۱۱ )میں یوں بیان ہوا ہے کہ’’خداوند کا جلال آشکارا ہو گا اور تمام بشر اُس کو دیکھے گا کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے‘‘(یسعیاہ۴۰: ۵)۔’’ اے صیّون کو خوشخبری سنانے والی اونچے پہاڑ پر چڑھ جا اور اے یروشلیم کو بشارت دینے والی زور سے اپنی آواز بلند کر! خوب پکار اور مت ڈر۔یہوداہ کی بستیوں سے کہہ دیکھو اپنا خدا۔دیکھو خدا وند خدابڑی قدرت کے ساتھ آئے گا اور اُس کا بازو اُس کے لئے سلطنت کرے گا۔دیکھو اُس کاصلہ اُس کے ساتھ ہے اور اُس کا اجر اُس کے سامنے۔وہ چوپان کی مانند اپنا گلّہ چرائے گا۔وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں جمع کرے گا اور اپنی بغل میں لے کر چلے گا اور اُن کو جو دودھ پلاتی ہیں آہستہ آہستہ لے جائے گا‘‘(یسعیاہ ۴۰: ۹۔۱۱)۔ملاکی اور زکریاہ نبی اِس عجیب اور نادر قول پر تشریحاً اور تقریرًا شاہد ہیں ۔چنانچہ اُس اول قیامت اور عدالت کی بابت جو مسیح کی عین پہلی آمدہے،حضرت ملاکی نے اپنی کتاب میں یوں فرمایا ہے’’۔۔۔خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہان اپنی ہیکل میں آموجود ہو گا۔ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزو مند ہو آئے گا ربُّ الافواج فرماتا ہے‘‘(ملاکی۱:۳)۔ پھر قیامت اور عدالت اخیر کے حق میں جو مسیح کی آمد ثانی سے مراد ہے، حضرت زکریاہ بیان کرتے ہیں کہ ’’۔۔۔کیونکہ خداوند میرا خدا آئے گا اور سب قُدسی تیرے ساتھ ۔اور اُس روز روشنی نہ ہوگی اور اجرامِ فلک چھپ جائیں گے‘‘زکریاہ۶،۵:۱۴)۔
اے صاحبو یہ مضامین نہایت عالی اور وزنی اور دل تراش ہیں اور شاہدان الہٰی اِ س گواہی میں بہت اتفاق رکھتے ہیں ۔مثلاً آخر الانبیا حضرت یحییٰ(یوحنا) بن زکریاہ نے مسیح کی آمد اور صدور اول کی اِس خاصیت اور کلمات سلامت کا نتیجہ بڑی قدرت اور بلاغت سے بیان کیا ہے۔مثلاً( متی ۳: ۱۰۔۱۱) میں جس کا دل چاہے دیکھ سکتا ہے ۔ یعنی’’ اور اب درختوں کی جڑ پرکلہاڑا رکھ ہوا ہے ۔پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے‘‘۔پر آپ لوگوں کے لئے ایک اَور شاہد درکار ہے جس نے شہادت باطنی پائی ہو۔ اِن عالی معنوں کا نہ صرف مسامع بلکہ مشاہد بھی ہوتا ہے۔جس کشف اندرونی کے حق میں پطرس رسول نے یہود کے صدر مجلس دینیات کے روبرو یہ گواہی عمدہ قابل غور فرمائی ہے۔رسولوں کے (اعمال ۳۲:۵) میں یوں لکھا ہے’’ اور ہم اِن باتوں کے گواہ ہیں اور رُوح القُدس بھی جسے خدا نے اُنہیں بخشا ہے جو اُس کا حکم مانتے ہیں ‘‘۔
پس اے صاحبو جتنے طالبان حقیقت ہو اس بات پر یقین کرو کہ بنی آدم میں سے جو کوئی شخص ہو کہ خدا تعالیٰ کا کلام حقیقی یعنی توریت اور زبور اور انبیا اور انجیل اُس کو دستیاب ہوتا ہے ،تو لابُد(یقیناً۔بے شک) اور بالضرور وہ کلام اس کو نہیں چھوڑتا اور اُس سے در گزر نہیں کرتا۔غیر از آنکہ اُس کی حالت حقیقی اور اندرونی کی آزمائش نہ کرے کہ وہ خدا کے روبرو او ر اُس کی درگاہ میں کیسا ہے۔ اگر شاید وہ شخص خدا کی اِس ملاقات سے جو کلام کے بغور و لحاظ پڑھنے سے ہوتی ہے، خوف و ترس کرے اور اِس بشیر اور نذیرو ناصح سے منہ نہ پھیرے ،تو کلام پھر بھی اُسے فرو گزاشت(درگزر۔بھُول) نہ کرے گا۔جب تک کہ اِس اندرونی حالت پر نور الہٰی کی شعاعوں کو پھیلا کر ایسی صاف روشنی نہ ڈالے گا کہ وہ حضرت ایوب کا وہ مشہور اقرار زبان پر لا کر جو توبہ کاری کی بابت ہے،اقرار نہ کر لے’’ مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے اس لئے مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں ‘‘ (ایوب۶،۵:۴۲)۔وہی میل اور اتفاق، سلامت و عدالت (زبور ۹۸ )کا بھی اصل مضمون ہے۔ اِس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جتنی صفات قہریہ اور جمالیہ کلام اللہ میں معروف ہیں ،مثلاً قدرت اور قدوسیت اور رحمت اور صداقت اور جلال شاہانہ اور شفقت پدرانہ سب اِس اجتماع عدالت و سلامت میں ظاہرو نمایاں ہوتی ہیں ۔بلکہ اِس زبور سے من کُل الوجوہ معلوم ہوتا ہے کہ سب قوموں اور قبیلوں کے آگے اُن صفتوں کی رونق اِس طرح سے مُتَعالی(بلند) و متجلیّٰ(روشن) ہو گی کہ کُل عالم کی جتنی کائنات ہے ،وہ سب گویا خوش سرودیوں(سرُود= گیت۔راگ) کا ایک طائفہ (گروہ۔جماعت)بنے گی، جس کی ہزار ہا آوازوں سے حمد اور شکر گزاری بلاناغہ درگاہ اعلیٰ میں گزرانی جائے گی۔ہر دو مزامیر بالا میں یہ بات ماقبِل(جوپہلے ہو) ہے کہ اس اِتصال عدالت ونجات میں خدا تعالیٰ کے مختلف کمالات کاا جتماع دیکھ کر غیر قوموں کے بت پرست ،خدا ترس اور مطیع ومنقاد (فرماں بردار)ہوں گے ۔اور قدرت اور کبریائی اور حُسن وجمال الہٰی کے مُقِرّ(اقراری) ہو کر اپنے اپنے بُطلان اور واہیات کو ترک کریں گے ۔
مگر دونوں زبوروں میں ا س بات پر تاکید ہے کہ یہ سب عجیب واقعات خود بادشاہ کی حضوری کے بغیر ظاہر نہ ہوں گے ۔اِسی سبب سے ہر دو زبور مسمیّٰ بزبور حادث ہیں (یعنی نئے گیت)۔جو کوئی چاہے کہ اِس سر نامہ کے رمز و راز کا شناسا ہو تو اُس کو لازم ہے کہ اِن دو زبوروں کو (مکاشفہ کی کتاب کے ۵ اور ۱۴باب) سے مقابلہ کرے، جن سے صاف معلوم ہو گا کہ وصف حداثَت(نیا پن۔شروع) کا جو مخصوص ہے۔اِن زبوروں کے ساتھ تو اس مراد سے ہے کہ ان میں ایلچی گری کی راہ سے نجات کا اشتہار اور اظہار ہے ۔اور اِس نجات میں نہ سلامت جزئی(کچھ۔بہت تھوڑی سی چیز) اور چند روزہ سے اشارہ ہے، بلکہ اُس نجات کُل اور کامل اور جاوید سے جس پر ابن آدم کے ذریعہ سے ہر آدم زاد بفضل الہٰی مدعی ہو سکتا ہے۔اورجسے اپنا حق اور میراث اور عمدہ سےعمدہ مغتنمات (مغتنمہ کی جمع۔ غنیمت چیزیں )جانتا ہے ’’اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی اِس کتاب کو لینے اور اُ س کی مہریں کھولنے کے لائق ہے کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر ایک قبیلہ اور اہل زبان اور اُمت اور قوم میں سے خدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا ۔اوراُن کو ہمارے خدا کے لئے ایک بادشاہی اور کاہن بنا دیا اور وہ زمین پر بادشاہی کرتے ہیں‘‘ (مکاشفہ۹:۵۔۱۰) ۔
مکاشفہ کے منقول بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ ارواح متقدمیں(متقدم کی جمع۔اگلے زمانے کے) کی زبانوں پر جو دنیا کے شرّ سے خلاص کئے گئے ہیں،اس نئے گیت سے کوئی شیریں اور لذیذ تر نہیں آتا۔از بس کہ(چونکہ) اس جہان کے مغنّیوں (مغنی کی جمع۔گویّا) کے ہنر اور حکمت سے سیکھا نہیں جاتا ۔مگر استعداد اس نئے گیت کی مسیح کے ہر پیرو حقیقی کو فی الفور ملتی ہے۔ جس دن سے گویا نبیوں اور رسولوں اور باقی مشائخ الہٰی کامُرید ہو کر اس قول رسول کا بدل وجان اقرار کرنا سیکھے’’ لیکن خدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس دُنیا میرے اعتبار سے مصلوب ہوئی اور میں دنیا کے اعتبار سے‘‘ (گلتیوں۱۴:۶)۔
یقین ہے کہ جس کے سینہ کے اندر اس نئے گیت کا مضمون نہ صرف بنفسہٖ بلکہ بعینہٖ نقش ہو گا ۔وہ بآسانی تمام اس بات کا معُترف ہو گا کہ جس طرح سینا پہاڑ یعنی کوہِ طور کے بیابان کے خیمہ عبادت کی قربان گاہ پر(جو تخت فضل بھی کہلاتا ہے) اللہ کا نور بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوتا تھا۔ از آنرو کہ وہی خدا کی حضوری اور ملاقات کا جائے اظہار مقرر تھا ۔اسی طرح کُل جماعت عامہ کے لئے خواہ یہودی ہوں ، خواہ غیر قوم ، مسیح کی صلیب مبارک ایک وہی مرکز ہے جس میں رب تعالیٰ کے کمالات اور نورانی تجلیات ملتیں اور وابستہ ہوتی ہیں ۔ہاں اِسی صلیب میں یہ اوصاف کامل طور پر اہل بینائی اور بصارت روحانی پر عیاں و نمایاں ہوتے چلے آتے ہیں ۔چنانچہ اِسی صلیب پر سے خداوند گویا اپنے ہاتھ کھول کر ایک سےموت اور دوسرے سے حیات بخشتا ہے۔از آنرو کہ نفس اور دنیا اور افعال شیطانی کے موت کو اور حیات الہٰی کو بفیاضی تمام بخشتا ہے۔
اے صاحبو ہم اِس اپنے سفر کی منزل پر ذرا مقیم ہو کر دُعا اُس دوست جاں نثار سے کریں کہ’’ اے خداوند ہماے لئے اپنے دونوں ہاتھوں کو کھول کر اور وہ موت اور حیات ہمیں دے اور ہمیں یہ فضل عنایت کر کہ مسیح کی اُس محبت کو جو سُننے سے باہر ہے ،جانیں ، تاکہ ہم خدا کی ساری بھر پوری تک بھر جائیں‘‘آمین۔
ایک اَور بات اُن مزامیر بالا سے قابل غور نکلتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرمان اور ارشاد بتاکید اور بتائید اِس امر پر ہے کہ اِس نئے گیت کے مضمون کا شنوا (سننے والا)اور شناسا (جاننے والا)ہو جائے ۔ہاں بلکہ اِس نجات کے ہر ایک وارث پر فرض بھی ہے کہ اِس سلامت اور عدالت کی دل تراش خبریں تابمقدور رُبع مسکوُن میں منتشر کرے۔بر عکس اِس کے لَجّا(شرم۔حیا) دریغ میں کتنے اشخاص ہیں مسمیّٰ بمسلمین ومشائخین ومرشدین جو صرف اِسی بات پر جدو جہد کرتے ہیں کہ اِس ارشاد کو مردود اور منسوخ ٹھہرا ئیں اور اُس لعنت کے مورد ہوجاتے ہیں جو خداوند رحیم و حلیم نے بھی اپنے ہم عصر فریسیوں پر پڑھی کہ’’ا ے شرع کے عالمو تم پر افسوس! کہ تم نے معرفت کی کنُجی چھین لی۔تم آپ بھی داخل نہ ہوئے اور داخل ہونے والوں کو بھی روکا‘‘ (لوقا۵۲:۱۱) اور بالا تفاق اُن دو زبورو ں کے (زبور ۱۱۱ )کا فحوائے کلام (گفتگو کا انداز) یہی ہے، بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تین زبور ظروف کی مانند اِس عہد کے آثاروں ا ور یادگاروں سے لبریز ہیں ۔چنانچہ دو آیتوں میں اِس عہد و میثاق کی ابدیت و مداومت کی شہادت دی جاتی ہے۔
از آنرو کہ خدائے قادر مطلق کے حضور میں اُس کی یادداشت تا ابد رہتی ہے اور اُس کی تدبیر و رعایت سے وہ عہد اہل ایمان سے فراموش اور منسوخ ہر گز نہیں ہونے پاتا۔اور تعلیم اس زبور کی یہ بھی ہے کہ خدا کے بعض اوصاف وکمالات اِس عہد کے ایفا ہونے سے ابدا لآباد تک متجلّی رہتے ہیں ۔ اوراگر شاید یہ سوال کرو کہ اس عہدکے قیام اور اجراء کا عمدہ موجب اور باعث کون ہے تو اِس زبور میں اس سوال کا جواب آپ سے آپ مل جاتا ہے کہ نجات اور فدیہ اُس پاک اور مخصوص کا جسے رب تعالیٰ نے آدم زاد میں سے اختیار کر لیا۔ سو اِس عہد کے قیام کا عمدہ اور اول باعث ہے ۔’’ اُس نے اپنے لوگوں کے لئے فدیہ دیا۔اُس نے اپنا عہد ہمیشہ کے لئے ٹھہرایا ہے ۔اُس کا نام قُدُوس اور مُہیب ہے‘‘ (زبور۹:۱۱۱)۔ اور یہ تلقین بھی ملتی ہے کہ خدا کے نادر معجزات اس عہد کے اُمور میں اس صورت اور وضع سے آشکارا ہو گئے کہ اُن کی تمیز اورغور کرنے والوں میں پاک خوف اور ہیبت پیدا ہوتی ہے اور اِس کا عمل میں لانا عمدہ سے عمدہ افضل دانائی ہے۔
(2) ۔ دُنیا کا چوتھا حصہ جو خشکی پر ہے اور آباد ہے
مزا میر د اؤد کی پیش گوئیوں میں (زبور ۱۱۸ )بڑے بزرگ رتبے اور وزن کا ہے اور نہایت التفات و فکر کے قابل ہے۔دیکھو مصنف زبور بعوض کُل مجلس مومنین کے اپنے عمل وعادت کے موجب اُس رنج و ایذا و ستم کا جسے مفسدوں اور متکبروں کی طرف سے بلکہ سب قوم اور ملک کی طرف سے اٹھایا تھا، بیان کرتااور از جانب انسان اپنی پوری نااُمیدی اور لا علاجی کا مقّر ہو کر اپنی اعانت اور کمک کے لئے صرف خدا ہی کے نام میں اپنا قلعہ اور جائے پناہ مانگتا اور لیتا ہے۔مگر خصوصاً اِس یقین کو بے خوفی اور خاطر جمعی کاموجب جانتا ہے کہ صداقت کے دروازے اِس کے لئے کھل گئے ہیں اور یہ کہ خداوند دعا و سوال قبول کرکے اُس کا نجات و سلامت بخش ہو گیا’’ صداقت کے پھاٹکوں کو میرے لئے کھول دو۔ میں اُن سے داخل ہو کر خداوند کا شکر کروں گا۔مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ تُو نے مجھے جواب دیا اور خود میر ی نجات بنا‘‘(زبور۱۱۸: ۲۱،۱۹آیات)۔یعنی اِنہیں دو اوصاف پراپنی امید کی قوی اور مضبوط بنا ڈالتا ہے اور اس تیقن کی وِثاقت(مضبوطی) سے اپنا قدم نہیں اُٹھاتا کہ جب خدا صادق ہے تو اپنے عہد و میثاق کا قول توڑنا اُس کی عین ذات سے بعید ہے۔وہ اپنی ذات کا انکار نہیں کر سکتا اور جب کہ نجات و سلامت بخش ہونا اس کی شان ہے، تو شیطان اور انسان کے کسی مظلوم کو جو فریاد خواں ہو بے امداد اور بے تدارک (سزا کے بغیر،مرمت کے بغیر)چھوڑنا خلاف قیاس ہے اور امر محال ۔
(زبور۱۳۰ ) کا متکلم بھی آپ کو ایک ایسا ہی مظلوم اور زیر بار جان کر اپنی جان خدا کے حضور میں ڈالتا ہے ۔چنانچہ اپنی جان ہی کا ڈالنا حقیقی دعا وسوال کی شرط بلکہ عین اصل ہے۔پس خالص فریاد خواں کا حال اُس خراج گیر کی مانند ہے جس کی خاکساری اور شکستہ دلی کی تعریف( لوقا ۱۸ باب) میں ہے۔یعنی خداتعالیٰ کے روبرو جو محض ر ا ست اور پاک اور عادل ہے۔بسبب خجالت اور پشیمانی کے کھڑا ہونے کی بھی جرأت نہیں رکھتا اور جس طرح اس خراج گیر نے آپ کو ہر طرح کے اعمال حسنہ اور ثواب اور لیاقت سے برہنہ جان کر عرض کی کہ قربانی اور کفارہ کے توسط سے میری دعا اور درخواست قبول ہو۔اسی طرح اس زبور کا فریاد کناں باقی سب اُمیداور توقع سے دست بردار ہو کر انہیں الہٰی ناموں اور افعالوں پر جو میثاق فضل کے اندر شہود میں آئے ہیں ،تکیہ لگاتا ہے۔کہ گویا اس عہد کے احاطے کے بیرون کہیں کچھ پناہ اور امن وامان نہیں دیکھتا۔
اب غور کرنا چاہیئے کہ اِس زبور مذکور میں کیسا صاف ایما اور اشارہ خداوند یسوع مسیح کی طرف ہے۔ازآنرو کہ جس طرح سڑکوں کے بیچ ایک نشان نصب ہوتا ہے، جس سے مسافروں کوبخوبی معلوم ہو کہ کون سا راستہ امرتسر اور کون سا ملتان وغیرہ کو جاتا ہے۔اسی طرح یہ الفاظ ذیل معروف جہاں جہاں ملتے ہیں ، وہاں نشان کے طور پر مسیح کی طرف رجوع کراتے ہیں اور دلوں کو اُدھر مائل کرتے ہیں ۔ پس یہ لفظ اِثنین(دو) یعنی اول ’’صلیحا‘‘ (لوقا۱۸: ۴ )میں جس کے معنی ہفتاد ی مترجمیں یہود یونانی زبان میں ’’تکفیر یا کفارہ‘‘ بتاتے ہیں اور ’’فدیہ‘‘ ساتویں اور آٹھویں آیتوں میں باتفاق اُس گواہی کے جو(زبور۱۳۰ : ۳۔۴) میں ملتی ہے کہ’’ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اے خداوند ! کون قائم رہ سکے گا؟پر مغفرت تیرے ہاتھ میں ہے (یعنی کفارہ فی اصل المتن) تا کہ لوگ تجھ سے ڈریں ‘‘ ۔دیکھو ان دو آیتوں میں گناہ کی محسوبی اور غیر محسوبی کی حالتیں کیا ہی صریحاً متمیزہ(جدا) ہوتی ہیں اور باہم مقابلہ کی جاتی ہیں اوروہ نامحسوبی کی حالت ادب اور خدا ترسی کا موجب بتائی جاتی ہے۔
پس پوچھتاہوں کہ ازروئے توریت موسوی کون سا فدیہ اور کفارہ غیر از مسیح مقرر ہو گیا اور اس کفارہ کا پتا نشان بجز کتب سماوی کہاں ملے گا۔شاید آپ یہ خام تصور کرتے ہیں کہ فدیہ اور کفارہ کا قیام ایک خاص قوم اور زمانے کے لئے مناسب اور مفید تھا، مگر ہر قوم اور زمانے پر لازم اور مقتضی نہیں تھا۔یا اگر آپ ازراہ ِانصاف اور اِنقیاد اس امر کے قائل اور مقّرہوں کہ لابُد سبھوں پر ہر وقت بجز شامل ہونے فدیہ اور قربانی کے گناہ کی قید اور حبس(بند۔گھٹن) سے رہا اور خلاص ہونا محال ہے تو میری عرض یہ ہے کہ بغیر مسیح کے کون دوسرا اس فدیہ اور کفارہ کے مقرر ہونے پر مدعی تھا ۔یا شاید اگر مدعی بھی ہوتا تو کون دوسرا شخص اس اپنے دعوے کو نصوص اور براہیں قطعی سے ثابت کر سکتا ہے۔اُس کے سوائے جس پر حضرت دانی ایل نے (دانی ایل ۹ : ۲۶،۲۴ )میں شہادت دی کہ وہی مسیح پیشوا ہو کرمنقطع (یعنی عالم شہود میں منقطع ہو گا) اور اسی مدت میں شرارت ختم ہو گی اور خطاکاریوں کا آخر ہو جائے گا اور بدکاریوں کاکفارہ دیا جائے گا اور ابدی راستبازی قائم کی جائے گی اور اُس پر جو زیادہ قدوس ہے مسح کیا جائے گا۔ یعنی تتمہ احسان اور تکفیر خطا کا صداقت جاوید داخل کرنے کی میعاد مسیح کے انقطاع (کٹ جانا)کی میعاد بھی ہوگی۔ اگر آپ بنظر انصاف اور بتوفیق روح القدس اس مضمون پر غور کریں گے تو اُمید قوی ہے کہ ایسا نور عرفان اور آتش محبت دل میں نمایاں ہو گی کہ خبائث دنیا کی طغیانی اور انفاس نفس کی باد سموم اور وساوِس شیطانی کے طوفانوں سے ہر گز نہ بجھے گی۔
باب سوم
د ربیان حقیقت گناہ و قبیح و مذموم بودنش
ہر صاحب تمیز پر یہ امر بہ ہدایت عقل روشن ہے کہ علم نجات بغیر از شعور شرّو خطا بے مطلب وبے بنیاد ہے۔چنانچہ بلاتشنگی(پیاس) کے کوئی شخص جُو(ندی۔سوتا) کی طرف آب جُو (ندی۔چشمہ)نہیں ہوتا۔ہا ں اگر رجوع بھی لائے تو کچھ تفریح اور تسکین نہیں پاتا۔بموجب اس مُبتدا(آغاز۔ابتدا) کے جتنے انبیا پر آیندہ منجی العالمین کی خبریں کثرت اور صفائی سے اُتری تھیں ،اُنہیں کے ذریعہ سے گناہ کی کیفیت اور حقیقت حال ایسی فاش اور عیاں ہو گئی کہ انہوں نے اُس کی قباحت کو بفراست تمام پردہ چاک کر کے ایسا عُریاں(ننگا) کیا کہ حیرت اور خوف خطاکاروں کے قلوب میں پیدا ہوا۔ چنانچہ داؤد مع ہذا(علاوہ بریں۔ساتھ اس کے) کہ خدا تعالیٰ کی اُلفت اور رحمت و شفقت کا نہایت واضح و لائح(کوئی واضح چیز) کرنے والا تھا ۔تو بھی اُس نے نہایت عبرت نما اور دل تراش الفاظ سے آدم ز اد کی شرارت اور ضلالت اور خبث کا حجاب کھول کر اُسے خدا کی کمال راستبازی اور نورشر عیہ کے مقابل دکھایا۔تاکہ وہ خطا کار قہر الہٰی کے دریائے مہلک پر سے سفینہ (کشتی)نجات وسلامت پر چڑھ کر مخلصی حاصل کریں ۔
اور یقین ہے کہ جس قدر تک کلام الہٰی کی ملامتوں اور عبرتوں اور سرزنشو ں سے ہم نے اپنی تمیز اور شعور باطنی کے مرات(شیشہ۔دَرپن) سے زنگ صاف کیا ہے، اسی قدر ہم درگاہ الہٰی میں ملزم اور خطارکار اور قہار عادل کے عتاب اور غضب جاوید کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اور اِس منجی عالمین کی دعوت کی شفقت آمیز آواز شیریں تر معلوم ہوتی ہے ،جو( یسعیاہ ۱: ۱۸ ) میں پڑھی جاتی ہے’’ اب خداوند فرماتا ہے آؤ ہم باہم حُجّت کریں۔اگرچہ تمہارے گناہ قِرمزی(سُرخ) ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چند وہ اَرغوانی(نہایت سُرخ) ہوں تَو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے ‘‘۔اور جو صاحب عدل وفقر زبوروں اور انبیاؤں کی کتب سماوی کو غور و لحاظ سے پڑھنے میں قائم رہتا ہے ،بتوقیق روح حق کے۔ اُس نے معلوم کیا ہو گا کہ مطلب اور مقصد اِن صحف الہٰی کا یہ ہے کہ انسان اپنی لاعلاجی اور ناچاری کی حقیقت حال دریافت کر کے بیخ وبُن(جڑ اور بنیاد) سے کیا ہی زشت(بُرا۔بدشکل) اور زبون ہے ۔اور وہ رَجا (آسرا۔اُمید)اور بھروسا جو اپنی خاص راستی اور اصل صلاحیت اور فضائل طبعیہ(فطری خوبیاں) پر رکھتا ہے،کیا ہی باطل اورعبث اور بے بنیاد ہے ۔اپنے نفس کی سب امیدوں سے متنفر (نفرت کرنے والا)اور منحرف (سرکش،باغی)ہو کر صرف خدا ہی کی دست گیری کو قبول کرے۔ اور اُس کی متعین جائے پناہ میں امن و امان سے پوشیدہ رہے۔
پس تصدیق اِس امر کی بیسوں بلکہ سیکڑوں آیتوں سے حاصل ہے، جنہیں حضرت داؤد نے بلکہ اَور زبورنویسوں نے بھی صرف اپنے ہی ہم عصر اور ہم وطنوں کے لئے نہیں بلکہ ہر زمانہ کے قوم و قبیلہ کے لئے زبان زد(مشہور،معروف)و تحریر کیا ہے۔ چنانچہ رومیوں کے خط کے تیسرے باب میں مزامیر داؤد سے اس کے ثبوت میں بعض مبین اور مستقیم آیتوں کو انتخاب کر کے تمام آدم زاد کی شرارت اور ضلالت عامہ کو روشن کیا ہے۔تا آں کہ(وہاں تک کہ) وہ سب مایوسی اور تباہ حالی میں غرق اور نہایت بے تدارک اور آپ ہی سے بے وسیلہ ہو کر اپنی چشم نابینا کو اس منور عالم اور آفتاب صداقت یعنی مسیح کی طرف رجوع کریں ۔اورننگ و ضعف اور تہی دستی اور خستہ حالی اِسی مخلصی بخش ربّانی کے رُوبرو دکھا کر اِتنے فضل کو حاصل کریں جس سے مسیح کے ساتھ مذبح پر زندہ قربانیاں اور نذرانہ ہونے کی اجازت اور استعداد پائیں ۔اور خزانۂ لطف و محبت سے ازراہ دور اندیشی اور گدائی کچھ بخشش اور انعام عطا فرمایا جائے۔دیکھو رومیوں کے اس باب معروف میں رسول نے کتنی کتنی آیتوں کو بیان کیا ہے،تا کہ معلوم ہو کہ نہ صرف خونی اور چور اور زناکار اور ظالم اور نشہ باز اور قسم قسم کے مجرم اور مکروہ الناس وغیرہ خدا کی درگاہ میں عاصی اور ملزم ٹھہرتے ہیں ، بلکہ بلا استثنا سب آدم زاد مورد قہر اور حیات الہٰی سے محروم اور قاطع الشرع (شرع توڑنے والے)اور راہ راست سے ضال(گم راہ۔بھٹکاہوا) اور شیاطین کے زر خرید اور اسیر اور گناہوں کے زیر بار ہیں۔
سنو یہ تباہ حالی اور ذلت عامہ و کلّیہ حضرت داؤد کے کلام منّزلہ میں گویا دو دھاری تلوار کے سخت قاتل گزاروں کے موافق کیا ہی مضبوط باتوں میں بیان ہوتی ہے ،تاکہ سب قاری ان آیتوں سے اس مرض الموت کے سرایت مہلک کا شعور پا کر طبیب حقیقی کے پاس رواں دَواں( بھاگتا ہوا) ہو کر شفا سے مستفیض ہو جائیں ۔رومیوں کے خط میں یوں لکھا ہے’’کوئی راستباز نہیں ۔ایک بھی نہیں ۔کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خدا کا طالب نہیں ۔ سب گمراہ ہیں اور سب کے سب نکمے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں ۔ ایک بھی نہیں ۔اُن کا گلا کھلی ہوئی قبر ہے۔اُنہوں نے اپنی زبانوں سے فریب دیا۔اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔اُن کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ اُن کے قدم خون بہانے کے لئے تیز رَو ہیں ۔اُن کی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے۔اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے ۔اُن کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں ‘‘(رومیوں ۱۰:۳۔۱۸)۔
حضرت سلیمان ابن داؤد کی مثالوں میں ایک مقولہ ٔمحمود ہے کہ’’ جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُر وفا ہیں لیکن دشمن کے بُو سے با اِفراط ہیں ‘‘ (امثال۶:۲۷)۔اور یقین ہے کہ جو شخص کلام الہٰی کے تیغ(تلوار) گزاروں سے گھائل نکلا۔ وہ دل وجان سے اقرار کرے گا کہ وہ دوست وفادار تھا جس نے ضرب کاری سے میرے نفس اور شیطان کو مارتے مارتے خاک میں پٹک دیا ۔اور اُس خائن (خیانت کرنے والا)اور خفیہ مفسد کو جو میرے خدا کے خلاف تھا ،پردہ کش کیا اور اُس کے فن و فریب کے پیچوں کو حل وباطل کیا۔ اِس امر میں دونوں عہدوں کے عقائد دینی اور مذہبی غیر قوموں کے مذہبوں سے نہایت متفرق ہیں ۔ان سبھوں میں یہ عیب اور قباحت لاحق ہے کہ گناہ پر پردہ ڈال کر ہزار ہا عذر خواہیاں اور بہانہ جوئیاں بنا کر، بلکہ اُس پر زیب و زینت دے کر اُس کے الزام کو مخفف کرتے ہیں اور آفت یا قسمت یا جبر یا ضرورت بشر یہ پر محمول(لادا گیا) کرتے ہیں ۔ جس سے خطاءحقیقی اور خدائے حقیقی کی فہمید اور پہچان میں خلل واقع ہوتا ہے۔
برعکس اس کلام الہٰی کے صاف آئینے میں ہر شخص اپنے قلب اور باطن کی گندی اور سیاہ صورت کو دیکھ کر خدا کے مقابل ملزم اور پریشان کھڑا رہتا ہے ۔اور اُس کی شرع کا کمال راستی اور صفائی سے لرزاں اور ترساں ہو کر گاہ گاہ (کبھی کبھی)اُس قدر آتش عذاب و عتاب میں آپ کو مبتلا جانتا ہے کہ گویا جہنم سے باہر وہ قہر الہٰی کا عذاب عین دوزخ ہی ہے۔ مثل اورنمونہ اِس تعلیم کا (زبور ۳۲ )میں دیکھنا چاہیئے ۔جس میں اگرچہ گناہ کے مَحو(فنا۔مٹا)و نیست ہونے کے لئے اقرار دلی اور زبانی اور حقیقی توبہ شرط ہو۔لیکن تو بھی اس گناہ کی بخشش اپنے اقرار و شکستہ دلی کی بنیاد پر قائم نہیں ہے اور نہ کسی انسانی ضعیف بنیاد پر مبنی ہے،بلکہ خدا کے اُس عین فضل اور فیض پر جس سے گناہ پوشش کفارہ سے محجوب (حجاب کیا ہوا۔پوشیدہ)ہے۔اور اُس کفارہ کی خاطر نا محسوب ہے۔
از آنرو کہ وہ خطا کار راستی اور صداقت الہٰی کے جامہ سے ملبوس ہو کر اللہ کی درگاہ میں ہر عیب و داغ کے الزام سے مبّرا و منزّہ ٹھہرا ہے ۔اور گناہ کے ظلم وجفا سے خلاص (آزاد)ہو کر کشادگی اور آزادی سے بتوفیق روح القدس کے احکام الہٰی کی راہ میں روز بروز ترقی پاتا چلا جاتا ہے۔شاید تم پوچھو کہ کون سے حجاب سے وہ گناہ محجوب ہے، تو بلاشبہ یہ حجاب اُس کفارہ ہی پر صادق آتا ہے جس کی سب قربانیاں اور کفارہ جات موسوی نشانیاں تھیں اور جس کی طرف اشارہ (زبور۶۵ :۳) میں پایا جاتا ہے’’ہماری خطاؤں کا کفارہ تُو ہی دے گا‘‘۔اس (زبور۳۲ )مذکور کی تفسیر رومیوں کے خط کے (رومیوں۴: ۱۔۲) میں تفصیل وار پائی جاتی ہے جس مقام سے گناہ کے نامحسوب ہونے کا راز ایسی قوی اور قطعی دلیلوں سے ثابت ہو گیا کہ لاکھوں خدا کے بندے وہاں سے مغفرت اور کفارہ گناہ کی کیفیت حال سیکھ کر اس کے تیقن کے اِتمام(کمال۔ تکمیل) سے مستفیض ہو گئے اور فرزندیت اور روح آزادگی کے درجہ تک سرفراز اور ممتاز ہوگئے۔
گناہ اور توبہ کی بابت یہ ایک اَور بھی عمدہ وزنی تعلیم مزامیر داؤد سے ہر خدا ترس شخص کو حاصل ہو گئی اور دل پر نقش ہونے کے قابل ہے۔ یعنی یہ کہ شکستہ د ل کی مرمت اور بحالی اور دلی خُبث و نجاست کا تصفیہ (فیصلہ۔واضح کرنا)صرف خدا کے روح حق کی شناخت اور صنعت ہے۔چنانچہ نومخلوق کرنے کی راہ سے انقلاب قلب بخشنا صرف اسی کا کار خانہ ہے۔چنانچہ (زبور۵۱ :۱۰۔۱۲) میں بیا ن ہے کہ’’اے خدا میرے اندر پاک دل پیدا اور میرے باطن میں ازسر نو مستقیم روح ڈال۔مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر اور اپنی پاک روح کو مجھ سے جدا نہ کر۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال‘‘ ۔اور( زبور۱۹ )کے اندر حضرت داؤد اسی نئی خلقت کا باعث اور آلۂ معین توریت کی تدریس کو بتاتا ہے۔چنانچہ وہ مرد خدا اس موقع پر توریت کی تعلیم کے فوائد میں یہ عمدہ فائدہ بتاتا ہے کہ گناہ خفیہ خواہ ذاتیہ اور جوہریہ ہو، خواہ عملی ہو توریت کی عبرتوں اور نصیحتوں سے علانیہ ظاہر ہو کر کَرِیہہ (قابل نفرت)و قبیح معلوم ہوتا ہے۔اور اس شر کی اصل بے حجاب اور نمایاں ہونے سے خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔اور بمجّرد خدا کی حمایت اور دست گیری پر بھروسا کرنے کے ایک علاج شافی باقی چھوڑ اگیاہے۔ ’’نیزاُن سے(یعنی کلمات الہٰی سے) تیر ےبندے کو آگاہی ملتی ہے۔اُن کو ماننے کا اجر بڑا ہے۔کون اپنی بھول چُوک کو جان سکتا ہے؟ تُو مجھے پوشیدہ عیبوں سے پاک کر۔ تُو اپنے بندے کو بے باکی کے گناہوں سے بھی باز رکھ۔وہ مجھ پر غالب نہ آئیں تو میں کامل ہوں گا ۔اور بڑے گناہ سے بچا رہوں گا‘‘(زبور۱۱:۱۹۔۱۳)۔
کتب سماوی کی اس امر پر متفق گواہی ہے کہ وہ تخم جو حیات جدید اور خلقت ثانی کی اصل ہے، سو یہی خدا کاکلام ہے۔چنانچہ (زبور۱۱۹ : ۹۳، ۱۵۰) میں یوں منقول ہے کہ ’’مَیں تیرے قوانین کو کبھی نہ بھولوں گا۔کیونکہ تُو نے اُن ہی کے وسیلہ سے مجھے زندہ کیا ہے‘‘(زبور۱۱۹: ۹۳)۔جس بات میں پوری مطابقت اس قول تمثیلی خداوند مسیح کے ساتھ ہے۔(متی ۱۳: ۳۷۔۳۸) میں یوں لکھا ہے کہ ’’ اُس نے جواب میں کہا کہ اچھے بیج کا بونے والا ابنِ آدم ہے ۔اور کھیت دنیا ہے اور اچھا بیج بادشاہی کے فرزند اور کڑوے دانے اُس شریر کے فرزند ہیں ‘‘۔ پھر یہ اَور بھی نصیحت آمیز تعلیم وتلقین حضرت داؤد کے نوشتوں سے ملتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی کچھ تصغیر اور تخفیف اور تَلئیِن (نرمی)نہیں کرتا ،اُس کو بغفلت و غلطی و لغزش وغیرہ کے مسمیّٰ (موسوم کرنا ۔نام رکھنا)نہیں کرتا ۔مگر اُس کے منبع اور چشمہ کو اصل طبیعت اور سر رشتہ بتاتا ہے۔اور نہ ان کو انسان کی میزان کاذب اور ترازوئے دغاباز پر تولتا ہے ،پر خدا تعالیٰ کے ترازوئے راست اور صادق پر تول کر اسے نہایت گراں و سنجیدہ کہتا ہے۔دیکھو (زبور ۱۴۳ : ۲؛ زبور۱۱۹: ۹۶) میں اس میزان حقیقی کی تکمیل اور وقعت اور صحت تمام پر کیسی صاف دلیل اور شہادت دی جاتی ہے’’ اور اپنے بندے کو عدالت میں نہ لا کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہر سکتا‘‘(زبور۲:۱۴۳)۔’’ مَیں نے دیکھا کہ ہر کمال کی انتہا ہے لیکن تیرا حکم نہایت وسیع ہے‘‘(زبور۹۶:۱۱۹)۔اور اِس میزان الہٰی کی وقعت کے سوائے چشم الہٰی کی تیز بینی اور وقعت بصارت اور نظارۂ حقیقت کی حیر ت ا نگیز صفائی فصاحت سے بیان کرتا ہے کہ اُس کے وجود ظاہری اور باطنی کے ذرّات اور نکات اور دقائق(دقیقہ کی جمع۔باریکیاں ) اور عمائق(عمق سے بمعنی گہرائی) اس ہمہ بین اور ہمہ دان خالق و مالک کے آگے ہر وقت اور ہر جا سب ننگے اور بے پردہ کھلے رہتے ہیں ۔جس جہت سے وہ آپ کو غایت تک سراسیمہ اور پریشان خاطر دکھائی دیتا ہے اور عزم بالجزم(پکا ارادہ) و قصد مصمم اور ہر ایک شرو شرارت اور شریر سے کینہ وری اور عداوت کلّیہ کا اپنے خدا کے حضور میں قول قرار دیتا ہے۔اور عین صدق دل اور خلوص خاطر کی یہ علامت ظاہر کرتا ہے کہ اپنی ہی تمیز سے تفتیش باطنی کے حاصلات کافی و وافی نہ جان کر اپنے خدا سے عرض کرتا ہے۔عجزو فقر حقیقی کی راہ سے کہ ’’اے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان ۔مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل‘‘(زبور۲۴،۲۳:۱۳۹)
پس یہ تعلیم شاذو نادر ہے ۔صرف اُنہیں نبیوں میں جو روح وحی سے مستفیض ہوئے ،مشترک ہے اور اُنہیں کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ بھی یقین ہے کہ جن جن اشخاص کو اس تباہ حالی ذاتیہ اور جوہریہ کی بے شعوری اور نافہمی ہے تو نجات الہٰی کی تدبیر اور وسائل معینہ اچھی طرح سمجھنے اور پہچاننے کی قابلیت حقیقی اور دائمی نہیں ہو سکتی۔ازآں جہت (اس سبب سے )کہ من تدابیر بالا ایک یہ بھی تدبیر ہے کہ حضرت الیاس(ایلیاہ) اور حضرت یوحنا مسمی بہ بپتسما دہندہ کی وہ منادی دل تراش اور قلب شکن جس سے غافلوں اور سُست دلوں کے لئے تنبیہ اور ترغیب توبہ کاری کی طرف ہے ۔سو خداوند کی بشارت فضل کی پیش روی اور پیش قدمی کرتی ہے۔جس امر کا بیان ان شاء اللہ آگے بمزید تفصیل ہو گا۔بالفعل اس بات کے ثبوت میں صلاح ہے کہ بعض خیالات اورتعلیمات انتخاب کروں ،اُُن حقائق مختلفہ اور متعددہ میں سے جو گنا ہ کے باب میں حضرت داؤد کے زبوروں میں مسطور ہیں ۔
اولاً بعض زبور گویا صورتاً و تشبیہاً مرثیوں کی مانند ہیں، جن میں کُل آدم زاد کی ذلت اور زبونی اور حماقت اور خصوصاً اِس جہان کےمنازل اور مراتب والوں اور شریفوں اور نام والوں کی خودی اور نفس پروری اور حُب دنیا اور وُحُوش (وَحش کی جمع۔جنگلی جانور)مزاجی اِس طرح معیوب اور مکروہ ہوتی ہیں کہ بہ بداہت عقل صورت اور حقیقت حال سے صاف معلوم و ظاہر ہے کہ اپنے یا اپنے قبائل اور ناطے رشتہ والوں کے لئے ایسا کفارہ میسر کرنا جو خطا کے عوض گزرانا جائے اور جو تصدیق اور تقبُّل کا باعث اور ورثہ حیات ابدی پر دعوے کرنے کا صحیح موجب ہو، بالکل محال ہے اور ایسی سب امیدیں بے بنیاد اور بے اصل ہیں ۔بسبب اس بات کے کہ جان انسان کی نہایت بیش بہا اور گراں قیمت ہے اور اُس کا فدیہ بے حساب ’’اُن میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا نہ خدا کو اُس کا معاوضہ دے سکتا ہے۔کیونکہ ان کی جان کا فدیہ گراں بہا ہے وہ ابد تک ادا نہ ہو گا ‘‘(زبور۹،۸:۴۹)۔پس اصل مضمون اس زبور کا صاف ہے کہ کُل آدم ز ا د بُطلان اور خطا کے زِندان (قید خانہ )میں اِس قدر مقید ہیں کہ کلید(کُنجی) اُمید سے اس زندان کا حل اقفال کرنا(تالاکاکھولنا) خلاف قیاس اور خلاف تجربہ ہے ۔تو آ د م ز اد کا حال یہ ہے کہ ثواب وفخر کے اَحاطے سے ابدالآباد تک محروم و مایوس ہو کر احاطۂ فضل او ر عاجزی کو غنیمت جان کر اُس میں مداخلت ہونے کی معروض بہ منت کرے ۔یہی چار ہ و علاج ہے، واحد و مجرد باقی رہا۔چنانچہ اسی زبور کی ۱۵ ویں آیت میں لکھا ہے ’’لیکن خدامیری جان کو پاتال کے اختیار سے چھڑالے گا کیونکہ وہی مجھے قبول کرے گا‘‘۔یعنی خدا آپ ہی فدیہ اور کفارہ میسر کرتا ہے۔اور پھر بھی پوچھنا واجب ہے کہ وہ فدیہ او ر کفارہ جو آدم کی نسل مجّرد سے نہ ہوسکا اور خدا کی قضا اور عین فضل سے مقدّر اور مقّرر تھا ،سو کون ہے۔ وہ کفارہ اور فدیہ قدیم جس پر نبیوں اور رسولوں کی پوری موافقت اور مرافقت (اتحاد۔ باہمی میل جول) تھی۔بموجب اس قول الہٰی کے جو رسولوں کے اعمال میں ہے ’’اس شخص (خداوند یسوع مسیح )کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے گا اُس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا‘‘(اعمال ۴۴:۱۰ )۔
بلاشبہ اُن سب اور اُن کی مانند اور سب نقلی دلیلوں کو بنظر عدل و تمیز دیکھنے سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہےکہ جب چاروں اطراف کا مدنظر محض گھنے گھنے بادلوں اور ظلمات کی جھومتی ہوئی سیاہی ہے، تو عالم بالا اور درگاہ خدا پر سے ایک ستارہ ٔ صبح یعنی فضل الہٰی کا عہدو میثاق سلف اپنی شعاعوں کا فرحت انگیز نور طلوع کرتا ہے۔اُسی ستارہ کی طرف وہ خدا کا بندہ نگاہ کر کے سوال کرتا ہےکہ’’اپنے عہد کا خیال فرما کیونکہ زمیں کے تاریک مقام ظلم کے مسکنوں سے بھرے ہیں مظلوم شرمندہ ہو کر نہ لوٹے‘‘(زبور۲۰:۷۴)۔ اور اس اپنے سوال کا جواب (زبور۸۹ :۳۴۔۳۵) سے پکڑتا ہے کہ ’’مَیں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا اور اپنے منہ کی بات نہ بدلوں گا۔میں ایک بار اپنی قُدُّوسی کی قسم کھا چکا ہوں ۔مَیں داؤد سے جھوٹ نہ بولوں گا ‘‘۔پھر (زبور۷۵ : ۳) میں لکھا ہے کہ ’’زمین اور اُس کے سب باشندے گُداز ہوگئے ہیں ۔مَیں نے اُس کے ستُونوں کو قائم کر دیا ہے‘‘۔
ثانیاً کیفیت اور حقیقت گناہ کی بابت یہ تعلیم زبوری کے مبدءِ احوال سے ہے کہ نہ صرف وہ قوم جو حدّ شرع اور قید سنت سے خارج ہے،بلکہ خاص اہل شرع اور اہل سنت بھی درگاہ خدا میں ملزم اور قہر ربانی کے مستحق ہیں ۔باوجود اس بات کے کہ اہل سنت اس تعلیم دل شکن کو نہایت مکروہ جانتے تھے۔یہا ں تک کہ اُس کی برداشت کے قابل نہ تھے۔تاہم جیسا کتب انبیائے سلف ،ویسا ہی زبوروں میں سخت ترین سرزنشیں اور عتاب اور چشم نمائی کی باتیں اُن اہل شرع کے ساتھ جو مسمیّٰ بشہر امین اور خدا کے فرزند عزیز اور نُخست زادے (پہلوٹے)تھے ،مخصوص پائی جاتی ہیں ۔ مثلاً (زبور۹۰ )میں جس کے سرنامہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محققین یہود نے اس کا مصنف حضرت موسیٰ جو بتایا ہے ۔وہ مرد خدا ایک مرض مہلک اور آفت شدید کا اشارتاً بیان کرتا ہے جس کے صدمے سے ہر عمر اور ہر رُتبہ کے ہزار ہا یہود جیسے مَر غ زار(سبزہ زار) کے پھول بادسموم کے مقابل ناگہان پژمردہ گرتے ہیں ۔ ویسے ہی ملک الموت کے نفخ (پھونکنا)قاتل سے میدان میں مَرے پڑے تھے۔پھر اِس سخت آفت میں قہر اُس بادشاہ اور منصف تعالیٰ کی صاف علامات پہچاننے کی تلخ اور تُرش ندامت کی باتوں میں اپنے اور اپنی قوموں کے گناہوں کا مقّر(اقرار) ہے اور گویا اپنے جگر کا خون بُوند بُوند بہاتا ہے۔ (زبور۹۰: ۷۔ ۱۲ ) میں یوں لکھا ہے ’’ کیونکہ ہم تیرے قہر سے فنا ہوگئے اور تیرے غضب سے پریشان ہوئے۔تُو نے ہماری بدکرداری کو اپنے سامنے رکھا اور ہمارے پوشیدہ گناہوں کو اپنے چہرہ کی روشنی میں ۔ کیونکہ ہمارے تمام دن تیرے قہر میں گزرے۔ہماری عمر خیال کی طرح جاتی رہتی ہے۔ہماری عمر کی معیاد ستر برس ہےیا قوت ہو تو اسّی برس۔۔۔۔تیرے قہر کی شدت کو کون جانتا ہے اور تیرے خوف کے مطابق تیرے غضب کو؟ہم کو اپنے دن گننا سکھا۔ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں ‘‘۔اِس کلام میں وہ مرد خدا اتنا بعید ہے، اس خواہش سے کہ اپنی سیاہی پر ر وغن لگاکر اور شرّ موروثی اور عملی سے چشم پوشی کرکے کہ وہ عین اسی بات پر معروض و منت کرتا ہے کہ جس قہر سے ہم آفت زدہ اور زحمت آلود ہیں ،اُس کی کبریائی اور ہیبت ناکی کی مقدار کو جانیں ۔تا آں کہ(وہاں تک کہ ) چند روزہ انسانی عمر کے خشک ویران دشت سے بدست توبہ کاری و ایمان داری فہمید اور حکمت کی فصل کاٹیں ۔
قابل غور ولحاظ ہے کہ کیسی عاجزی اور انکساری سے اس بر گزیدہ قوم کے لئے جو خواص من الناس کہلاتے تھے ،استغفار کرتا ہے۔ بعد ازاں کُل بنی آدم زاد کی حالت عامہ کی طرف اشارہ اور ایما کر کے پُشت در پُشت کے تسلسل کے فنا و زوال سے اور خصو صاً اُن کی عبرت نمائی سے جو ناگہانی ضرب الموت سے اجل گرفتہ ہو گئے تھے۔یہ نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ خدائے راست اور قادر نے اُن کی بد فعلیوں بلکہ دل کی گمراہیوں کو جو مخفی تھیں ، اپنے چہرہ کے جلوۂ براق اور اَبیض(اُجلا۔سفید) کے روبرو رکھا تھا۔
آخر کو دست بستہ اور سر بہ گریبان ہو کر خدائے تعالیٰ کے فضل و رحم کی درخواست کرتا ہے اور اس قادر مطلق کے افعالوں اور اعمالوں کا کشف راز مانگ کر صرف اِنہیں کی خاطر اپنے عملوں کی قبولیت اور منظوری کا سائل ہوتا ہے ۔اور بلاشبہ عین انجیل اور ایمانِ انجیلی کی اصل رونق یہی ہے کہ اپنے ثواب اور جائے تفخّر کو ہیچ جان کر اور اپنی اصل نسل کی اور اپنے علم و عمل کی تفضیلات کو ناقص اور معیوب جان کر اپنی اُمید کا اقرار اور اپنے کمال اور بھروسے کا موجب و باعث صرف خدا ہی کے عمل سے دستیاب کریں۔
ثالثاً جاننا چاہیئے کہ اس کتاب سماوی میں نہ صرف خاص قوم اور بر گزیدہ اُمت یہود کی شرّ و ضلالت سے معیوب اور مذموم ہوتی ہے ، بلکہ اسی اُمت برگزیدہ کے درمیان جو شخص حق اور عدالت کی میزان کے موکّل ہو گئے تھے۔اور مسکینوں اور مظلوموں کی داد رسی اُن کے عہدے کا ذمہ تھی ، اُن کا بیان بھی( زبور۸۲ )میں ہے کہ وہ ظلمات میں آوارہ گم راہ پھرتے رہتے ہیں اور قسم قسم کی بے وفائی اور خیانت اور زمانہ سازی کے سبب خدا سے مردود اور اُس کے عتاب وعِقاب (سزا۔عذاب)و انتقام کے سزاوار ٹھہرتے ہیں ۔اور ہر چند رُکن عالم اور عماد الدولہ (بھروسہ کی دولت)اور اساطین (اُسطوانہ کی جمع۔ستون ۔کھمبا)الُملک وغیرہ کی رونق و خطاب سے بہرہ ور رہیں ۔بلکہ رب العالمین کے وکیل اور قائم مقام ہونے کے سبب الہٰوں کے خطاب سے مزّین اور مشّرف ہو گئے ہیں اور اُن کی مجلس شرف میں گویا پیشوا اور میر مجلس خدائے تعالیٰ آپ ہی ہے۔تاہم وہ ارکا ن دولت آپ ہی متزلزل ہو گئے ہیں ۔
بآنقدر کہ قاضی و مفتی ومنصف و باقی مسند نشین روداری اور کِذب (جھوٹ)اور رشوت خوری سے متنفر نہیں ہیں ۔چنانچہ ملک گیری اور ربط و انتظام بِلاد(بَلدہ کی جمع۔شہر) میں خلل آگیا ہے۔چنانچہ جب اشرافوں اور خواصوں کا احوال اس قدر بد تر ہو گیا ہے تو بطریق اولیٰ رعیت و عوام مضطرب و پریشان ہو گئے۔اور گویا زمین کے اسفل کی بنیادیں درہم برہم ہو گئیں ۔اور جس حال میں کہ حق اور عدل قریب ہے کہ ظالموں کے غنائم اور لوٹ کا مال ہو جائیں تو کیا علاج اس حال میں باقی ہے،مگر وہی سوال و دعا کہ پاک نبی اور اُس کے ہم دل رفیقوں کی زبان سے نکلا ہے۔(زبور۸۲: ۵۔۸) میں یوں مرقوم ہے’’وہ نہ تو کچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ وہ اندھیرے میں اِدھر اُدھر چلتے ہیں۔زمین کی سب بنیادیں ہل گئیں ہیں ۔مَیں نے کہا تھا کہ تم الٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔تَو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے اور اُمرا میں سے کسی کی طرح گِر جاؤ گے۔اے خدا! اُٹھ زمین کی عدالت کر۔کیونکہ تُو ہی سب قوموں کا مالک ہوگا‘‘۔
جواب اس سوال کا صاف و صریح ( زبور۷۵ : ۱۔۲) میں میسر ہوتا ہے ’’۔۔۔جب میرا معین وقت آئے گا تو میں راستی سے عدالت کروں گا‘‘۔پس ہم سوال کرتے ہیں کہ زمین کی عدالتیں کرنےوالا اوراُسے اپنے قبضہ اور میراث میں لانے والا کون ہے،مگر وہ جو آپ ہی کلمتہ اللہ ہو کر اپنی بابت تیقن اور اختیار الہٰی سے فرماتا ہے’’کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔تاکہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں ۔جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا‘‘ (یوحنا۲۳،۲۲:۵)۔
رابعاً اِس فساد اور ضلالت عامہ و کُلّیہ کی اس سے کون قویٰ اور اکمل دلیل ہو سکتی کہ پاک نبی آپ ہی کو اور ضمناً اپنے سب ہم وزنوں اور ہم رُتبوں یعنی انبیا اور رسولوں کو بھی اس شکستہ اور تباہ حالی میں شامل حال بتاتا ہے ۔اور تمام عاجزی اور غم خواری سے بحضور خدائے تعالیٰ اندرونی خبث اور گندگی کا مقّر ہوتا ہے۔اور اُس اہل جہل کی پوری ممانعت اور مرافعت(نگرانی) کرتا ہے کہ جس کی رائے اور دانست میں انبیا و اولیا شریف گناہ کی ہر صورت کی قباحت سے مبّرا و معصوم ہیں ۔حالانکہ گناہ سے تزکیہ (پاکی ۔صفائی)اورتبریتہ کا کوئی نبی یا پیغمبر کسی صحیفے مقدس میں ہر گز داعی نہیں ہوتا ہے۔کسی کی زبا ن پر یہ کبرو فخر خواب تک بھی نہیں آیا۔چنانچہ یہ رتبہ بَرِیَّت (رہائی ۔بے قصور ہونا)اور معصومیت کا کلمتہ اللہ یعنی خداوند مسیح کے ساتھ مخصوص جسم اور روح میں ہے۔اس امر میں نبی مبارک کی گواہی پر قدرے لحاظ کرنا چاہیئے کہ ’’دیکھ !مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور مَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا۔دیکھ تُو باطن کی سچائی کو پسندکرتا ہے اور باطن ہی میں مجھے دانائی سکھائے گا۔زوفے سے مجھے صاف کر تو پاک ہوں گا مجھے دھو اور مَیں برف سے زیادہ سفید ہوں گا۔اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسر نو مستقیم روح ڈال‘‘ (زبور۵:۵۱۔۱۰،۷)۔
ان آیات بالا سے واضح و لائح ہے کہ پاک حضرت یہ بات کافی ووافی نہیں جانتا کہ نقص قلیل اور لغزش صغیر کا مقّر اور مستغفر ہو اور راہ حق کے تجاوزات کو ضعف بشریہ پر یا شیاطین کے بغض و مکر پر اطلاق کرے اور نہ یہ کہتا ہے کہ اتفاقاً یا سہواً یا کرہاً وجبراً میں اِس جُرم کا مرتکب ہو گیا تھا۔بلکہ اِس گناہ کی بیخ وبُن(جڑ اور بنیاد) تک جو موروثی ہیں ، کھود کھود کر اس ضیا ءشمس اللہ کے مقابل خارج و عُریاں کرتا تھا تاکہ نہ شاخ بہ شاخ پر حتّی المقدور اصل و بیخ تورات زبانی کی کلہاڑی سے اُسے کاٹ ڈالے۔اسی طرح وہ اعمال بدو کَرِیہہ (قابل نفرت)جو اس اصل سے مشتق اور نشوونما ہوگئے ہیں، بلا دریغ مغلوب اور زیر پا کرے۔اور نہایت بعید ہے ایسے قیاس سے کہ کلمۂ استغفار پڑھنا بمقام کمال صدق دلی اور خدائے تعالیٰ کی رحمت اور کفارہ مقررہ کی کافی و مقبول ٹھہرے گا۔
برعکس اِس بات کے تمام عاجزی اور منت سے درخواست اور اقتضا (خواہش کرنا،تقاضا)کرتا ہے، شکستہ دلی اور روح جدید کا اور باطن راست کا اور اس یقین میں تمام قائم و مستقر (ٹھہرنے کی جگہ،ٹھکانہ)ہےکہ یہ سب فوائد و غنائم (لوٹ کامال،مال غنیمت) صرف روح حق کے تَوَسُّل (وسیلہ ) سے اور اُس کی حضوری اور حُلُول (3)سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔اور بدل وجان اس بات کا قائل بھی ہے کہ جتنے رنجوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہوگیا ہوں ، اُن میں ہر واحد کا مَیں نہایت مستحق اور سزاوار ہوں ۔تُو اے خدا راست ہے ،مَیں اور میری قوم خطاکار ہیں ۔کثرت گناہ سے کثرت شدائد (شدیدہ کی جمع ۔تکلیفیں )بڑھ کر نہیں ۔لہٰذا اِ ن سب عقلی اور نقلی دلیلوں سے ظاہر و روشن ہے کہ مزامیر داؤدی کے اصل مضمون اور مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ جمیع الناس عوام و خواص حق تعالیٰ کے حضور میں گناہوں کے زندان میں محبُوس (اسیر۔مقید)اور گناہ میں مولود (پیدا ۔جناہوا)بھی ہیں ۔اور عمل و عادت سے بھی ابناء (اِبن کی جمع۔بیٹے)قہر و غضب ہیں اور اس تعالیٰ کے فضل و لطف سے عاجز اور خصوصاً اُس عہد قدیمی سے جو فضل الہٰی کا گنج(خزانہ) مستور (پوشیدہ) اور متعین ہے، بغایت تمام حاجت مند ہیں ۔وہ باری تعالیٰ ہم سبھوں پر عنایت کرے کہ اُس کی شرع کے تلخ پیالے کو پینے سے ہمیں کچھ عُذر نہ ہو، بلکہ رضامندی اور خوشنودی ہو،تاکہ تلخی کے بعد اُس کے فضل کے شیریں پیالے کے پینے کے لائق اور مستحق گنے جائیں ،آمین۔
(3) ۔یہ عربی اسم مذکر ہے۔ اس کے معنی ہیں ایک چیز کا دوسری چیز میں اِس طرح داخل ہونا کہ دونوں میں تمیز نہ ہو سکے۔
باب چہارم
د ربیان آں مخلص عالمین و سلطان السلاطین کہ از نسل داؤدی مجّسم شدنی بود
جتنے اَصحاب کلام اللہ کے بصدق دل خوانندے(خواندہ=پڑھا لکھا۔حرف شناس) ہیں ،انہیں یاد ہوگا کہ حضرت داؤد نے بعد ازاں(اس کے بعد) کہ باہر کے جنگ و جدال و یلغاروں سے اور اندر کے فتنہ و فساد سے مہلت و فراغت پا کر تخت موعود اسرائیل پر قیام و قرار پکڑا ،تو اِس مردِخدا کے دل میں یہ اشتیاق اورآرزوپیدا ہوئی کہ خداوند اپنے خدا کی عبادت عامہ کے لیے اور اُن رسومات اور فرائض کے جو خدا ترس لوگوں پر لازم ہیں بجالانے اور ادا کرنے کے لیے ایک ایسا گھر تعمیر کرے جس کا جمال و رونق وزیبائش کل عالم میں معروف و محمود و ستودہ ہو۔اور یہ بھی کہ وہ ہیکل یادداشت و شہادت کا وسیلہ اور شکرانہ کی علامت ہو، جس کے ذریعے سے اسرائیل پُشت در پُشت اس بات کا اقرار اور اعتراف کریں گے ایفائے عہد اور افاضت کرم و فضل بے قیاس سےہم اپنےخدا کے نہایت احسان مند اور مرہون منت ہیں ۔اور ہر چند کہ وہ مراد بادشاہ کریم الشان کی بالفعل بر نہ آنے پائی اور اِس مَقدِس کی بنا ڈالنی پاک حضرت داؤد کو ممنوع تھی۔یعنی اُس کی درخواست وسوال کا حرف وظاہر منظور نہ تھا ،پر توبھی اس سوال کے معنی بفیاضی و ازدیادی (ازدیاد بمعنی زیادہ ہونا)تمام قبول ہو گئے۔
ازآنروکہ اُس کی نسل میں سے ایک شہزادہ کا تولد اور اُس کی ملکوت(بادشاہی) کی مداومت(قیام) اور برقراری اور اُس کی شان کی عظمت و علویت کا قول و قرار تخت ایزدتعالیٰ سے صادر ہوا کہ وہ ولد داؤد خدا کے گھر میں مشرف ہو گا اور وہ بجائے جنگی اوزار وں اور خون ریزی اور عالم گیری کی صلح اور حلم و محبت کا جھنڈا کھڑا کرکے دوروقریب کی مملکتوں کو اپنی طرف رُجوع کرکے اُنہیں ملک میں ملالےگا۔ جیسے( ۲۔سموئیل باب۷ کی ۱۴،۱۳،۱۲ آیات اور زبور۷۲ کی۱۱،۱۰،۹ آیات) سے ثابت ومعلوم ہوتا ہے’’اور جب تیرے دن پورے ہو جائیں گے اور تُو اپنے باپ دادا کے ساتھ سو جائے گاتو مَیں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیرے صُلب سے ہوگی کھڑا کر کے اُس کی سلطنت کو قائم کروں گا۔وہی میرے نام کا ایک گھر بنائے گا اور مَیں اس کی سلطنت کا تخت ہمیشہ کے لئے قائم کروں گا۔اور مَیں اُس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا ۔۔۔‘‘ (۲۔سموئیل۱۲:۷۔۱۴)۔’’ اُس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریایِ فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی۔بیابان کے رہنےوالے اُس کے آگے جھکیں گے اور اُس کے دشمن خاک چاٹیں گے۔ترسیس کے اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گزرانیں گے۔سبا اور سیبا کے بادشاہ ہدئے لائیں گے۔بلکہ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہوں گے ۔کُل قومیں اُس کی مطیع ہوں گی‘‘(زبور۸:۷۲۔۱۱)۔
اس امر میں اگر شاید کوئی صاحب ذہن و تمیز کہے کہ لابُد (یقیناً۔بے شک)ایک مصداق عمدہ اس پیش خبری کا حضرت سلیمان ہے، تو ہم بھی بسرو چشم اُس کی رائے پر ہیں ۔پر اگر شاید وہ یہ اور بھی کہے کہ اس وعدے کی کُل کیفیت ہم لفظ و ہم معنی حضرت سلیمان سے پوری موافقت و متابقت رکھتی ہیں ۔غیر از اں کوئی دوسرا مصداق لازم و ضرور نہیں یا اگر مقتضائے عدل و انصاف سے منحرف ہو کر خداوند مسیح کے سوائے کسی دوسرے کو اس وعدہ کا عمدہ مصداق جانے مَعاذاللہ(خدا کی پناہ ۔اللہ محفوظ رکھے!توبہ توبہ!) حاشا وکلّا(خدا نہ کرے۔ہرگز نہیں) کہ ہم اس کی رائے سے متفق ہوجائیں۔
اولاً اِس سبب سے کہ عبرانیوں کے خط کے مصنف الہٰامی نے معروفاً ا س وعدہ کے عین تلفظ کو خداوندمسیح پر محمول کیا ہے’’کیونکہ فرشتوں میں سے اُس نے کب کسی سےکہا کہ تُو میرا بیٹا ہے۔آج تُو مجھ سے پیدا ہوا؟ اور پھر یہ کہ مَیں اُس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہو گا؟اور جب پہلوٹھے کو دنیا میں پھِر لاتا ہے تو کہتا ہے کہ خدا کے سب فرشتے اُسے سجدہ کریں ‘‘(عبرانیوں۶،۵:۱)۔
ثانیاً خداوند ہی کی شہادت سنجیدہ اور دل سوز جو اپنے اختتام مکاشفہ میں یعنی کلام اللہ کی آخری آیات میں اپنی شانِ حقیقی کے حق میں فرمائی ،یعنی مکاشفہ کی کتاب میں یوں فرمایا کہ ’’۔۔۔مَیں داؤد کی اصل ونسل اور صبح کا چمکتا ہوا ستارہ ہوں‘‘(مکاشفہ۱۶:۲۲) ۔جو باقی سبب اور موجب غیر از مسیح کسی دوسرے مصداق اعلیٰ کے مانع ہیں، وہ سب کے سب (زبور۸۹ ) کی تفسیر میں ذیل میں پیش کئے جائیں گے۔چنانچہ اس شہنشاہ کے تولد اور اُس کی سلطنت کے خواص اور علامات ہر چند کہ سموئیل کی دوسری کتاب میں اجمالاً مسطور ہوئی ہیں، پر اِس (زبور۸۹ )میں تفصیل و بساطت سے نمایاں ومعروف ہوتی ہیں ۔چنانچہ مشہور ہے کہ تصویر کلاں (بڑا۔وسیع) میں تصویر خُرد(چھوٹا) کی نسبت علامات قیافہ(شناخت۔سمجھ۔اندازہ) زیادہ بہ آسانی اور بصفائی عمدہ پہچانی جاتی ہیں ۔اِسی طرح (زبور ۸۹ ) کے اشارات اور عبا ر ات کو حضرت سموئیل کی نبوت بالا کے ساتھ مقابلہ کرنے سے معلوم و مفہوم ہو گا کہ وہ نبوت اگرچہ بلحاظ سطح و صورت حرف ظاہری کے جزئیۃً ابن داؤد سلیمان کی طرف بکمال وجوب عائد ہوتی ہیں۔لیکن تاہم جو اصحاب تمیز اُس کی کُلیت اور بطن پر ذرا غور کریں اور یہود و نصاریٰ کی جماعت عامہ کی گواہی متفق پر التفات کریں تو یقین ہوگا کہ کُلیتہً مضمون اس نبوت کا حضرت سلیمان کی نسبت ایک افضل اور بزرگ تر شخص کا مستلزم (کوئی کام اپنے اوپر لازم کرنے والا) ہے او ر بہ نسبت آنجہانی بادشاہوں کے اکمل اوصاف کا مقتضی ہے۔
ہاں صاحبو یقین ہے کہ اس نبوت کے کھیت میں ایک گنج دفینہ (قیمتی خزانہ)بیش قدر مخفی ہے اور ظاہری حرف میں ایک رازو رمز ہے، جس سے خود مسیح ہی کا مقولہ متفق ہے کہ یہاں سلیمان سے ایک بزرگ تر موجود ہے۔سوچنا چاہیئے کہ انبیا ئے قدیم اس مضمون کی نسبت کسی دوسرے مضمون کے بیان میں زیادہ فصاحت وبلاغت سے نہیں بولتے۔ازآنرو کہ اس اصل ونسل داؤدی عظیم الشان کی انتظاری کو کم ہمت ودل گیر کی عین تسلی و تشفی کا باعث بتاتے ہیں۔مثلاً حضرت یرمیاہ انہیں ایام کے اظہار اور اشتہار کی راہ سے یوں فرماتے ہیں کہ ’’دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ مَیں داؤد کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا اور اُس کی بادشاہی ملک میں اقبال مندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہو گی۔اُس کے ایام میں یہوداہ نجات پائے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا اور اُس کا نام یہ رکھا جائے گا خداوند ہماری صداقت ‘‘ (یرمیاہ۶،۵:۲۳)۔ اور پھر حزقی ایل نبی بھی یوں رقم طراز ہے کہ’’اور مَیں اُن کے لئے ایک چوپان مقرر کروں گا اور وہ اُن کو چرائے گا یعنی میرا بندہ داؤد۔وہ اُن کو چرائے گا اور وہی اُن کا چوپان ہو گا۔اور مَیں خداوند اُن کا خدا ہوں گا اور میرا بندہ اُن کے درمیان فرمانروا ہو گا۔مَیں خداوند نے یوں فرمایا ہے‘‘(حزقی ایل ۳۴: ۲۳۔۲۴)۔
ایک اَور بات غور و لحاظ کے قابل ہے کہ جتنی پیشین گوئیاں حضرت داؤد پر ناز ل وصادر ہوئی تھیں کہ اُن سے مراد وہ ولد موعود تھا جس کی سلطنت تمام عالم میں منتشر ہونے والی تھی۔اُ ن نبوتو ں کا مجموعہ داؤد کی یقینو ں رحمتوں یا داؤد کے لطف ہائے امین سے (اصل زبان یعنی عبرانی میں حسدی داوید حینٔمانیم سے) خطاب کیا گیا ہے۔یہ عبارت خاص اصطلاحی ہے اور اُس وعدہ اور میثاق سے مقید ہے جس کا مصداق وہ اصل و نسل موعود ہے یعنی خداوند مسیح۔ اس عبارت کا منشا صاف و صریح ہے کہ بالاختصاص یہ دو اوصاف خدائے قادر مطلق کے یعنی لطف ورحمت و امانت اس وعدہ کے اِیفا اور اِتمام کے گویا ذمہ دار ہیں اور اس امر میں بطور ضمانت کے مقید ہیں ،تاآنقدر کہ اگر عہد و میثاق کے ایفا میں کچھ نقص یا قصور پڑے گا تو رب تعالیٰ کے اُن اوصاف میں ضرور خلل آئے گا۔اور یہ امر قابل غور ہے کہ کل کتب مقدسہ میں کوئی دوسرا میثاق معروف نہیں ہے کہ جس کی دوام اور ابدیت پر اسما ءاوراوصاف پاک خدا کے مرہون ہیں ۔بجز اس میثاق کے جس کے وعدوں کا مجمع اور ماخذ اور مدار مضامین تولد جسمی اِس ابن ابراہیم اور ابن داؤد کا ہے، جس میں یہ دو صفات الہٰی گویا جسم انسانی میں صورت پذیر ہو گئے ہیں۔ اور وہ عبارت اصطلاحی فی التحقیق سات مرتبہ اس زبور میں پڑھی جاتی ہے۔یہ بات اُن کو صاف معلوم ہوگی جو اصل متن سے واقف ہیں ۔ہر چند کہ ترجمہ کے لفظوں میں یہ قوی اور وزنی دلیل مفقود(معلوم نہیں) ہے۔
یہ مطالب اگرچہ سفاہت (کمینہ پن۔حماقت)والوں کو ذرا دقیق(نازک۔مشکل) اور باریک معلوم ہوں تو بھی حقیقت میں بہت مفید اور متیّن(مضبوط،سنجیدہ) ہیں۔ کیونکہ اُن کا علم کلام الہٰی کی بہت پیش خبریوں کے طورو طریق کا مظہر اور کشاف المشکلات ہے اور اصحاب ایمان اور اہل فراست کے لئے ضمیر الہٰی کا حجاب کش ہے۔ جو صاحب اِس مزاج کا ہوتو دیکھے کہ اس زبورکی پہلی دو آیتو ں میں یہ دو صفات کس طرح محمود اور ستودہ ہیں اور پھر پانچویں آیت میں وہ دونوں تو نہیں ،لیکن ایک ان دونوں میں سے یعنی’’ حِسد‘‘ (כִּסְאֲך)اور اس کے ساتھ ایک اَور بھی صفت الحاق کی جاتی ہے،یعنی’’ پیلا‘‘ (פִּלְאֲ)جس سے مراد ہے وہ صفت الہٰی جس سے خوارق عادت(خلاف عادت باتیں ) اور اُس تعالیٰ کی ماہیت و کمالات کے غیر معمولی اور نادر ظاہرات اور خصوصاً خدا کے لطف اور رحمت و حکمت کے وہ ظہور حیرت انگیز جن کا حاصل خلق اللہ کی نجات و سلامت ہے ،صادر ہوتے ہیں ۔
اور قابل غور و لحاظ ہے کہ اس نا م سے خداوند مسیح بالا ختصاص مخاطب( یسعیاہ ۹: ۶) میں ہے کہ سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام ’’عجیب‘‘،عبرانی زبان میں ’’پیلا ‘‘(פֶּלֶא) (4) اور پھر اس کے بعد’’ مشیر‘‘ پھر ’’خدایِ قادر ‘‘اور پھر ’’سلامتی کا شہزادہ‘‘ ۔پس اس (زبور ۸۹ : ۵) سے جومانند دیباچہ و مقدمہ کے ہے۔زبور خواں اس امر سے مطلع ہو جاتے ہیں کہ مضمون اس زبور کا اس وزن و وقار کا ہے کہ ساکنان بہشت بھی ساکنان زمین کے ساتھ اس سرود پُر سرور میں رفیق ہیں اور کہ اس ابن داؤد اور شہنشاہ موعود کی حکمرانی معمولی صورت پر نہیں ۔پر وہ علامت و واقعات جو اُس کے پس وپیش(آگےپیچھے) ہوں گے ،ایسے اسرا ر وغیب اور خوارق عادات بھی ہوں گے کہ جن سے لطف اور قدرت الہٰی آشکارا بے نظیر اور بے مثال وضع سے ہوں گے ۔’’اے خداوند ! آسمان تیرے عجائب کی تعریف کرے گا۔مقدسوں کے مجمع میں تیری وفاداری کی تعریف ہوگی‘‘(زبور۵:۸۹) ۔
حاصل کلام مضمون اور مفہوم اس زبور کا کوئی دوسر ا نہیں ہے ،مگر وہ سلامت جلیل و جمیل جو حضرت ابراہیم اور داؤد کی ذُریت موعود پر صادر ہو کر غیر قوموں کا نور اور بنی اسرائیل کا شرف و رونق ہونے کے لئے مقرر تھا۔اسی (زبور۸۹: ۱۵) میں ایسے بادشاہ کی تشبیہ اور تمثیل نظر آتی ہے کہ وہ حشمت شہنشاہانہ سے اپنی رعیت کے بعض اسیروں کو ظالموں کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے اپنے محل سے نَہضَت (کُوچ۔ رُخصت) فرماتا ہے اور اس کُو چ میں ا س کے پیش رواں اور پیش دواں صدق و عدل اور رحمت و لطف اور امانت و وفا ہیں۔اور اُن کے منہ سے گویا تُرئی (5) کی سی آواز سے مخلصی اور رہائی کا اشتہار آتا ہے۔اس بلند آواز کے سننے والو ں اور پہچاننے والوں کے لئے مبار کبادی بھی ہوتی ہے۔از اں جہت کہ وہ سب دن بھر بادشاہ عظیم الشان کے چہرہ کے نور میں چلتے ہیں اور اُس کی قدرت وصداقت اُن کی وراثت عزیز و فخر کا باعث ہے’’صداقت اور عدل تیرے تخت کی بنیاد ہیں۔شفقت اور وفاداری تیر ے آگے آگے چلتی ہیں۔مبارک ہے وہ قوم جو خوشی کی للکار کو پہچانتی ہے۔وہ اے خداوند! جو تیرے چہرہ کے نور میں چلتے ہیں ۔وہ دن بھر تیرے نام سے خوشی مناتے ہیں اور تیری صداقت سے سرفراز ہوتے ہیں‘‘(زبور۱۴:۸۹۔۱۶)۔
(4) ۔عبرانی بائبل میں یہ لفظ یسعیاہ باب۹کی ۵ویں آیت میں مذکور ہے۔
وہ خوش آو از ی تُرئی مذکورہ اصل زبان یعنی عبرانی میں وہ ’’تروعاہ‘‘( תְרוּעָ֑ה) (6) ہے ،جسے بنی اسرائیل بموجب شرع موسوی کے پچاس پچاس برس کے بعد شِنوا ہو کر جتنے اُن کے بھائیوں سے غلا م وزرخرید ہوگئے تھےاُسی دم آزادگی اور حُریت کی حالت میں داخل ہوجاتے تھے اور جتنوں نے جاگیر اور جائداد غیر از اصل مالک کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کی تھی ،اُسی’’ تروعاہ‘‘ کے سنتے ہی اپنے تصرف و تسلط میں کر لیتے تھے۔ تو جاننا چاہیئے کہ یہ لفظ ’’ تروعاہ‘‘ اُن اصطلاحات میں سے ہے جن میں اشارہ صاف و مشہور اس بشارت انجیل سے اور اس پوری رہائی اور آزادگی مژدہ بخش سے ہے،جو شیطان و گناہ کے جکڑ بندوں و مظلوموں کو اس خداوند مخلص مصلوب کے ذریعہ سے حاصل و واصل ہے ۔جس کا ایک بیان دل سو زو فرحت اندوز یسعیاہ نبی کی کتاب میں سے پڑھنے اور حفظ کرنے کے لائق ملتا ہے کہ ’’ اُس کے پاؤں پہاڑوں پر کیا ہی خوش نما ہیں جو خوش خبری لاتا ہے اور سلامتی کی منادی کرتا ہے اور خیریت کی خبر اور نجات کا اشتہار دیتا ہے ۔جو صیّون سے کہتا ہے تیرا خدا سلطنت کرتا ہے‘‘(یسعیاہ ۷:۵۲ ) ۔
ایک اَور مفید اور بھاری تعلیم بھی اِس زبور سے ملتی ہے کہ اگرچہ حضرت سلیمان کی جس حیثیت سے وہ شاہ صلح و سلامت تھا، بڑی مطابقت اور مشابہت خداوند مسیح کے ساتھ تھی اور عہد ابراہیمی اور داؤدی کی نعمات اور برکات کا ایک وارث حقیقی ،بلاشبہ وہ بھی تھا تو بھی اس عہد کا نزول بہ خصوصیت اسی پر نہ تھا، بلکہ اس کے باپ داؤد پر تھا اور اول وارث اور بہرہ ور اِس وصیت فضل کا بعد از خداوند مسیح جواول سے آخر تک اُس کا درمیانی اورا صل و حقیقی مضمون تھا ،حضرت داؤد ہی ٹھہرا ،نہ اس کا ولد حضرت سلیمان ۔چنانچہ خداوند مسیح بہ اسم داؤد مخاطب ہے، لیکن بہ اسم سلیمان ہر گزنہیں۔مثلاً ہوسیع کی کتاب میں اس کی صاف دلیل ہے کہ ’’اِس کے بعد بنی اسرائیل رجوع لائیں گے اور خداوند اپنے خدا کو اور اپنے بادشاہ داؤد کو ڈھونڈیں گے اور آخری دنوں میں ڈرتے ہوئے خداوند اور اُ س کی مہربانی کے طالب ہوں گے‘‘ (ہوسیع۵:۳)۔ اور بموجب اس قول کے جبرائیل فرشتہ نے حضرت مریم کو نہ صرف تخت سلیمان پر بلکہ تخت داؤد پر مسیح کے جلوس کرنے کے بارے میں مطلع کیا’’وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گااو ر وہ یعقوب کے گھرانے پر ابدتک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کاآخر نہ ہوگا‘‘(لوقا ۳۳،۳۲:۱ ) ۔اور فرشتہ کریم وجلیل کے پیغام میں عنقریب( زبور ۸۹ : ۲۱،۲۰ ) بلفظ منقول ہیں کہ ’’میرا بندہ داؤد مجھے مل گیا ہے۔اپنے مقدس تیل سے مَیں نے اُسے مسح کیا ہے‘‘۔’’ اُس کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی اور اُس کا تخت آفتاب کی مانند میرے حضور قائم رہے گا۔وہ ہمیشہ چاند کی طرح اور آسمان کے سچے گواہ کی مانند قائم رہے گا‘‘(زبور۸۹: ۳۷،۳۶ آیات)۔علیٰ ہذالقیاس (اسی قیاس پر)خدا کی د رگاہ میں فرزندیت اور نخست ز ادگی (پہلوٹھا ہونا)کا رتبہ اوررونق بعد از مسیح جس کے بغیر فرزندیت حقیقی کے شرف سے خدا کے گھر میں مشرف ہونا ناممکن ہے ،حضرت داؤد کا ورثہ خاص ہے اور لیاقت اور استعداد اس میراث کی اُسی کو بخشی گئی ہے،نہ حضرت سلیمان کو۔پر تو بھی اِس اعتبار سے نسل موعود بطور مشابہت کے وہی تھا تو فرزندیت کا درجہ اُس کو ملا اور مرحمت ہوا پر نُخست زادگی کا درجہ بعد ازمسیح صرف حضرت داؤد کو۔چنانچہ اسی( زبور۸۹: ۲۷،۲۶ ) میں یہ راز صاف مبین ہے کہ ’’ وہ مجھے پکار کر کہے گا تُو میرا باپ میرا خدا اور میری نجات کی چٹان ہے اورمَیں اس کو پہلوٹھا بناؤں گا اور دُنیا کا شہنشاہ‘‘۔اِن آیات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور نہایت عظیم وز ن اور رتبے کا ہے اور رمزوں اور اسراروں سے بھرا ہے اور یقین ہے کہ اس وعدے اور وثیقے داؤدی کی کیفیت میں مسیح کی تشبیہات مصفیّٰ اور متعددہ روشن ضمیر وں کو نظر آتی ہیں۔
(5) ۔یہ لفظ تُرئی،تُرہی،تُری تینوں طرح سے ٹھیک ہے۔اس کے معنی’’ بِگل‘‘ اور’’ تُرم‘‘ کے ہیں ۔’’تُرم ‘‘ایک قسم کاباجا ہے۔یہ منہ سے بجانے کا وہ آلہ ہے جس سے فوج میں قواعد کا حکم سنایا جاتا ہے۔ (6) ۔عبرانی بائبل میں یہ لفظ زبور۸۹ کی ۱۶ویں آیت میں مذکور ہے۔
اولاً ثبوت اِس امر کا یہ ہے کہ داؤد مسیح بھی کہلاتا ہے اور مسیح بھی بارہا داؤد کہلاتا ہے۔
ثانیاً یہ کہ آغاز اور ابتدا اِس اَمر کا داؤد بھی ہے اور مسیح بھی۔ مسیح تو اصالتاً اور حقیقتاً اور داؤد مجازاً و رعاریتاً یعنی ازراہ شرکت فضلیہ اور اِسی طرح سے۔
ثالثاً نُخست زادہ ذاتیہ اور جوہریہ مسیح ہے ،لیکن تطابقاً و تشبیہاً حضر ت داؤد ہے۔
رابعاً علیٰ ہذالرائے (بالارائے ہےکہ )حضرت داؤد اپنے ملک کی سر حدوں کو طویل و بسیط کرنےمیں اور بحر سے بحر تک اپنی حکمرانی کے انتشار اور ترقی کرنے میں اس سلطان السلاطین کا نشان ہے۔جس کا جلال تما م عالم میں دریائے عظیم کی مانند پھیلے گا اور جس نے اپنی ہی شان ِ الہٰی کی بابت دست راست تعالیٰ پر صعود کرتے وقت یہ شہادت فرمائی کہ ساری قدرت آسمان اور زمین پر مجھے دے گئی۔ چنانچہ وہ سلطنت کشادہ و فراخ جو حضرت سلیمان کو دستیاب ہوگئی تو وہ اُن فوجوں کی فتوحات پر منحصر تھی ،جن کا سر لشکر خود داؤد ہی تھااور گاہ گاہ (کبھی کبھی)اُمرا آزمودا جنگ جنہوں نے اپنے جان و مال کو اس کے تخت کے قیام اور اجراء احکام پر نثار کیا تھا۔
خامساً ایک اَور بڑے امر میں نشان اور مثل خداوند مسیح کی حضرت داؤد میں نظر آتی ہے کہ استقلال و استقامت وثیقہ فضل اس اصل و نسل کے لئے بےقید اور بے شرط اور بالاستقلال نہ تھی۔بسبب اس کے کہ داؤد کی اولاد اور ذُریت کا اس عہد و میثاق سے عدول کر کے انعام موعودہ سے محروم ہونا ممکن تھا، پر تو بھی نسخ ہونا اِس وعدے کا ناممکن تھا۔بسبب اس لطف و رحمت یقین اور امین کے جو مجرد حضرت داؤد ہی کے دست میں ا س عہد کے ایفا اور تتمیم کے لئے بطریق ضمانت و قبالت دی گئی۔ جس کا حاصل و نتیجہ یہ تھا کہ ہر چند اس میثاق کے پورا کر نے کے لئے کچھ تاخیر و مہلت ہو سکتی تھی، پر تو بھی مطلقاً نسخ و رَد نہ ہو سکا۔اگر ہوتا تواِن صفات الہٰی میں خلل واقع ہوتا،پر یہ باتفاق حکما ءو انبیا ءمحال ہے۔ اسی طرح خداوند مسیح کی نسل حقیقی میں سے معتبر ترین احقر(بندہ،بعض لوگ انکسار سے اپنی بابت یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ) کو جو بہ روح و جان و بدن ازراہ حیات جدید خداوند سے وابستہ ہے، پوری بے خوفی سے اس امر کا یقین ہو سکتا ہےکہ مسیح جو اللہ کا ابن وحید اور محبوب ہے۔میرے لئے اور اُس کی نسل کی سب اولاد کے لئے اِس عہد کے استقرار (قرار پکڑنا۔قائم ہونا)کا ضامن ہے۔ازاں قدر کہ اِنحلال (کسی مرکب شے کے عناصر ترکیبی کا الگ الگ ہونا)ا س رشتہ الفت و رابطہ رحمت کا منافی وخلاف یقین و قیاس ہے۔’’لیکن مَیں اپنی شفقت اُس پر سے ہٹا نہ لوں گا اور اپنی وفاداری کو باطل ہونے نہ دُوں گا‘‘(زبور۳۳:۸۹)۔
باوجود ان سب دلیلو ں کے اگر شاید کوئی معترض از راہ ضدیت(متعصب ہونا) اس رائے پر مستقل ہو کہ یہ پیش گوئیاں معروف کسی دوسرے کی طرف عائد و اطلاق نہیں ہو سکتیں ، مگرحضرت داؤد اور سلیمان پر، تو امید قوی ہے کہ (یسعیاہ ۵۵: ۲) پڑ ھ کر ا س (زبور ۸۹ )کے مصداق حقیقی یعنی مسیح کا قائل ہو جائے گا۔چنانچہ وہ پاک نبی یسعیاہ جس کا زمانہ تخمیناً ( ۲۵۰ ) برس بعد حضرت سلیمان کے تھا ،اُن نعمات موعودبہ داؤد کو نہ ماضِیَّہ(گزراہوا) میں گنتا ہے،بلکہ امور مستقبلہ میں جیسے لکھا کہ ’’کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ۔سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اورمَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا‘‘۔پھر اگر وہ معترض کوئی اَور معنی بنا کرکہے کہ مصداق اس آیت کے محمدصاحب ہیں، پھر بھی اُمید ہے کہ پولُس کی تفسیر الہٰامی پر غور وتامل کر کے بلاتعصب ہاں، بلکہ شکر گزاری سے اقرار کرے گاکہ لابُد(بے شک) اس عہد کی برکات و انعام موعود کا ضامن فقط خداوند مسیح ہی ہے’’اور اُس کے اِس طرح مُردوں میں سے جِلانے کی بابت کہ پھر کبھی نہ مرے اُس نے یوں کہا کہ مَیں داؤد کی پاک اور سچی نعمتیں تمہیں دُوں گا‘‘(اعمال۳۴:۱۳ )۔
دو تین اور موجب ہیں اُس کامل اتفاق کے جو اہل کتب اربعہ یعنی اہل توریت و زبور و انبیا وانجیل میں پایا جاتا ہے کہ غیرا ز مسیح کوئی دوسرا مصداق اس امر کا نہیں ہوسکتا ۔ایک یہ ہے کہ اس ’’تروعاہ‘‘ یعنی اس اشتہار خلاصی کے جو نتائج اور حاصلات(زبور۸۹: ۱۸،۱۷ )آیتوں میں بیان ہوئے ہیں، وہ سب بغیر ظاہری مبالغہ کے ،ہاں بلکہ بغیر قباحت کفر کے کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے ۔مگر آدم ثانی کی طرف جس کی آنجہانی عمر کے احوال چار انجیلوں کے بیچ گویا نورانی حروف میں مصور اور مبین ہوتے ہیں
صاحبو سنو کہ اس اشتہار اور مژدے کے شنوا اور شناسا ؤں کو کن کن برکتو ں کی تحصیل ان آیات میں موعود ہے کہ ’’ وہ دن بھر تیرے نام سے خوشی مناتے ہیں اور تیری صداقت سے سرفراز ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کی قوت کی شان تُو ہی ہے اور تیرے کرم سے ہمارا سینگ بلند ہوگا ‘‘ (زبور۱۷،۱۶:۸۹)۔دوسرا موجب اس یقین متفق کا کہ اس زبور کا مدار کلام مسیح پر صادق آتا ہے ،کسی دوسرے پر نہیں ۔سو یہ ہے کہ زبور کے دیباچہ اور مقدمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نادر اور بے معمولی اور آنجہانی واردات مہم ترین واقعات کا بیان ہونے والا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس ضامن عہد کی قدرت و جلال اور قوت و حکومت جاوید اور باقی کمالات ظاہراً انسان سے زائد اور فائق ہیں ،مثلاً (زبور۸۹: ۲۰ ) (7)میں لکھا ہے (بموجب اصل عبرانی متن کے )کہ’’ مَیں نے ایسے جبار کو اختیار کیا ہے جو امداد اور کمک دینے کے مساوی یعنی برابر ہے‘‘۔پس غور کے قابل ہے کہ عبرانی میں ’’ ایل جبار‘‘(עַל־גִּבֹּ֑ור )یعنی’’ خدائے جبار‘‘ ( یسعیاہ۹: ۲) میں مسیح کے خطابوں پر مشتمل ہے۔اور پھر یہ صفت بھی کہ اسی کے سبب سے عہد کے عدول کرنے والوں کے لئے غیر ازاعتاب و قہر چند روزہ (قطع نظر از نسخ عہد) خلل و جنبش بھی اُس میں داخل نہیں ہو سکتی ،تو کمال درجہ تک کس دوسرے پر عائد اور صادق ہو سکتی ہے اور ضمانت کے اتنے بارگراں پر قادر کون ہے ۔مگر وہ جس پر یوحنا رسول یہ شہادت اپنے پہلے خط کے دوسرے باب کی پہلی دو آیات میں دیتا ہے کہ’’۔۔۔ اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز۔اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی ‘‘۔
(7) ۔یہ اُردُو پروٹسٹنٹ بائبل میں زبور۸۹ کی ۱۹ ویں آیت ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’۔۔۔مَیں نے ایک زبردست کو مددگار بنایا ہے‘‘۔
حاصل کلام اِس زبور میں خطبہ نہ صرف حضرت د اؤد و سلیمان کے نام سے پڑھا جاتا ہے ،بلکہ اس بادشاہ مبارک کے نام سے جوان دونوں کا منجی اور خداوند ہے اور یہ بھی ہے کہ وہ عمدہ نعمتیں اور برکتیں جوان دونبیوں اور ان کی اولاد ں کا بخرہ اور ورثہ جلالی ہونے والا تھا، نہ اُن دو کے انتقال سے منسوخ اور مفقود ہو گیا ،بلکہ آخر الایام تک ہر واحد مومن اور اہل یقین کے لئے جس کا یقین اور انتظار مسیح کی طرف مائل اور متوجہ ہے۔ وہ وعدہ نجات کا کلمتہ ُاللہ کی ثقہ(معتبر۔معتمد) ضمانت سے اور خدا تعالیٰ کی قسم حریم سے قیام عالم سے قائم تر اور نیر آسمانی سے روشن تر اور اظہر ، ہاں بلکہ رب تعالیٰ کے فضل و لطف وامانت کاافاضہ(فیض پہنچانا) ابدا لآباد تک اس عہد پر مبنی او ر منحصر ہے۔ اور ساکنان بہشت (بہشت میں رہنے والے) میں سے جو خدا تعالیٰ کے اقرب المقربین ہیں، حکمت اور شفقت اور قدرت الہٰی کے بُرہانوں میں بھی بُرہان غالبہ اور بالغہ جان کر اس مضمون اعلیٰ کی بلاناغہ ثناخوانی اور ستائش کریں گے۔اور بطریق اولیٰ لازم و واجب ہے کہ ساکنان زمین(زمین پر رہنے والے) اس اپنے برادر نخست زادہ کی شکر گزاری کریں ۔جو انسان اول اور آدم ثانی اس مراد سے بن گیا کہ خلقت جدید کاآپ ہی بیخ اور اصل ہو کر آدم زاد کے لئے سب کمالات کا منبع اور نمونہ بھی ہو ۔تاکہ وہ سب اُس کی حیات اور صفات اور حسنات میں شریک ہو کر گویا مردوں میں سے نوزادے ہوجائیں اور فرزندیت حقیقی کے درجہ تک اور اُس کے حقوق تک سرفراز ہو جائیں۔ بموجب قول متین پولُس رسول کے جو عبرانیوں کے خط میں ہے کہ ’’’پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تاکہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پرقدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے‘‘ (عبرانیوں ۱۵،۱۴:۲)۔
باب پنجم
د ربیان آں مضمون کہ بادشاہت مذکور کہ اِجرایش ازجانب داؤد بسوئے خداوند مسیح است بغایت شرف و جلال خواہد رسیدو تامدّ تے د رحالت خوار ی و ذلّت و قلّت وردو خواہد کرد
اگر کوئی صاحب تمیز و بینائی کتب داؤدی میں جدو جہد سے تجسس کرے تو سینکڑوں اشاروں سے اس امر کی اطلاع پائے گا کہ اگرچہ انجام اور منزل مقصود اس راہ کا جس سبیل سے خداوند مسیح اپنوں کو ہدایت کرتا ہے،خدا تعالیٰ کی مشاہدت اور رفاقت اور مقدسوں کے ساتھ قیامت نورانی اور جلالی ہے۔پر تو بھی در اثنا ءراہ خواری و ذلت و عاجزی اور قسم قسم کی تکلیفات و شدائد ملتے ہیں ۔جیسے غریب الوطن اور مسافروں کے لئے جو جہاں دید اور عالم پیما ہیں کوہِ صعب(دشوار۔تکلیف دِہ) گزاراوربیابان سنسان اور وادی عمیق اور کرخت اور قاطعان(قاطع=کاٹنے والا ۔جمع قُطاع) سبیل اور غیر وطنوں سے ظلم اور تعدّی اور ہزار ہا خوف و خطرے کے باعث ہیں اور نہ صرف وقوع اور درود اُن تنگیوں اور تکلیفوں کی شہادت انبیا سے مصدق و مثبت ہے ۔پر تعلیمات زبوری سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو باتیں جن کی صورت متناقض ہے ،یعنی مسیح کا بادشاہ ہونا بھی اور مورد اہانت و حقارت ہونا بھی ،اِس قدر آپس میں پورا اتفاق اور پوری وابستگی رکھتی ہیں کہ وہ دونو ں لازم وملزوم کے طور پر آپس میں متعلق ہیں۔ اور جزآں راہ جس میں صلیب اور صلیب برداری ہے، کوئی دوسری راہ مسیح کے شاہانہ تاج وتخت تک نہیں پہنچاتی۔ہاں بلکہ یقین ہے کہ اس راہ میں عجیب اور نادر اجتماع شرف بشرم ہے ۔اور اجتماع ذلت و قلت بہ چشمت و عظمت اور فتوحات بادشاہی بہ زیر باری و انکساری ۔اور جو شخص معترض ایسا جانتا ہے کہ ان دو حالتوں سے دو شخص مراد ہیں ، ایک شخص کی دو صورتیں نہیں ۔تو وہ انقیاد حق سے بالکل چُوک گیا ہےاور رفاقت انبیاء کے حقوق کو نہیں پہچانتا۔
چناچہ زبور اور انبیا بھی اور انجیل ایسے یسوع مسیح کی شہادت پر متفق ہیں جس نے ازل سے اور اصل ذات و وجود سے درجہ اور حق معبودیت(خدا مالک) کا رکھ کر حالت عبودیت(بندگی ،عبادت) اور بندگی کی قبول فرمائی ۔اور بعض بعض مقاموں میں حوادث (حادثہ کی جمع۔واقعات)انسانیت اور عوارض (عارضہ کی جمع۔پیش آنے والی چیزیں)مکان و زمان سے مبرا اور معرّا (پاک۔آزاد)بتایا جاتا ہے۔ اور بعض اَور مختلف مقاموں میں ضروریات اور حاجات اور امراض اور سخت سخت تجارب(تجربہ کی جمع) آدم زاد سے ملبس (مکروعیب چھپانے والا)ہو کر ہم کو مرد الم اور آشنائے غم نظر آتا ہے۔ہر چند نہ کوئی قوت مُدر ِکَۂ (8)آنجہانی اور نہ کوئی تمیز ذہنی اور فراست انسانی عقل کے نور مجرد سے اس راز کی فہمید تک پہنچ سکے اور ہر دونوں یہود کے کرامت پرست اور اہل یونان کے حکمت پرست اس کرامت اور حکمت نادر الہٰی کے قابل فہم نہیں ہو سکے۔
چنانچہ یوحنا رسول سے اس مقولہ کے نئے نئے ثبوت پدید(واضح۔صاف) ہوتے چلے آئے ہیں کہ ایک شخص بھی بغیر توفیق روح القدس یسو ع مسیح کو خداوند نہیں کہہ سکتا۔پر تو بھی خدا کے فضل و ہدایت پر اس بندے کا پورا بھروسا اور یقینی امید ہےکہ جو کوئی شخص بعجز وعدل و تمیز روحانی کلام اللہ کی سیر و مطالعہ کرتا ہے اور معرفت اور حقیقت الہٰی کو نہ جزئیتاً (ٹکڑوں میں)بلکہ گویا اس کا کُل سانچا اور قالب اور صورت ثابت کو سیکھنا چاہتا ہے تو وہ ان شاء اللہ بخوش دلی و شکر گزاری اقرار کرے گا کہ اس اجتماع شرف و شرم اور قلت وکبر اور ذلت و علویت کا صرف وہی عین اجتماع ہے ۔ جس کا وعدہ اولیا اولین یعنی آدم و حوا جنت عدن میں سے اس ویرانہ تنہا تاریک عالم میں گویا اپنا دوست واحد اور یگانہ نور رجا اپنے ساتھ ساتھ لے گئے۔یعنی اجتماع کلمتہ اللہ بہ یسوع ابن داؤد نہ ازآں طور کہ اختلاط (میل جول)خالق بہ مخلوق ہو گیا۔یا یہ کہ ذات پاک و حریم الہٰی میں کچھ نقص داخل ہو گیا۔پھر یہ خدا کا عین سرّ حکمت اور ا س کی مرضی اور محبت کے سرّ غیب کا سب سے عمدہ اشتہار اور اظہار ہے۔از آنرو کہ جس جس شخص میں ایمان اور ایقان (یقین) اس راز کا پیدا ہوتا ہے اور وہ شخص آپ اپنے عمل وعادت و سیرت کو قربان کرتا ہے۔تو وہ مسیح کے ساتھ چسپیدہ (چپکا ہوا) ہو کر اور اس کے نوروحیات میں روا ں ہو کر خدا تعالیٰ کی رفاقت جاوید کی لیاقت و استعداد کا وارث ہو جاتا ہے ۔
(8) ۔مُدرِک کی تانیث۔وہ قوت جس سے انسان اشیا کی حقیقت دریافت کر سکے یعنی عقل اور ذہن۔
صاحبو چاہیئے کہ آپ اور ہم دونوں اس مژدہ حیات ونجات پر حمدو ستائش اور شکر گزاری کریں کہ حق تعالیٰ کا کلمہ ِوحید اور ابن محبوب عالم بالا اور تخت اعلیٰ پر سے اس ہمارے ادنیٰ اور حقیر ترین ذات تک سرنگون اور پست ہو گیا۔اور دارالملک جلال عالمین میں سے اس زشت و زبون سرائے زمیں میں اُتراتاکہ آدم زاد کو اپنابرادر عزیز بنا کر انہیں اپنا رشتہ دار قریب بلکہ اپنے کِنار (آغوش۔گود)لطف میں لے لیا کرے۔اور فرزندیت کے اُس درجہ میں جو فرشتوں کی شان ومنزلت سے عالی تر ہے،سرفراز کرے۔اور یہ قول نہ صرف رسولوں اور نبیوں کی تعریفوں سے ثابت و مبرہن ہے،بلکہ اس مرد غم و الم کی جس کی کیفیت و حقیقت زبوروں کے مفہومات اعظم میں سے ہے غم زدگی اور اندوہ گین (رنجیدہ،مغموم)کی نادر اوربے مثال صورت سے عیاں و نمایاں ہوتا ہے۔یعنی ان دکھوں کی حدت و شدت سے جو اس پر وارد ہونے والے تھے اور اُن کی وسعت بے حد حساب سے بعض ان دکھوں کی خصوصیات اور عجائبات سے جن کی نسبت کسی ابن آدم کا دکھ اس کے دکھوں کے برابر اور مطابق نہ تھا۔
چنانچہ کامل انسان ہونے کو واجب تھا کہ غم والم اور قہر الہٰی کے دریائے بے پایاں کے اندر اپنی برداشت اور صبوری(صبر) سےا پنے کمال کی تصدیق کرےاور اُن رنجوریوں اور تکلیفوں کوجو جزاً جزاً اُس کےبدن مجازی یعنی مقدسوں کی جماعت عامہ پر وارد ہونے والے تھے،آپ ہی اپنے سر پر تحمل کرے۔ہاں آپ ہی نے انہیں بہ تثقیل اٹھایا تا کہ وہ سب انہیں بہ تخفیف(کمی،ہلکاکرنا) اٹھائیں ۔ازاں جہت کہ جیسا جلال اور شرف و شان میں افضل تھا،اسی طرح شدائد اور تکلیفات میں بھی سبقت اور فوقیت لے جاتا ہےاور رضا و قضاالہٰی سے لزوم واقتضاء کمال اس امر اور حکم میں تھا کہ وہ کاہن ُالکُہَنَہ(کُہنہ =پرانا )اور رسول الرسل امتحانوں میں تجربہ کار اور غم آزمودہ ہو کر خلق اللہ کے ہم درد اورغم و الم میں ان کے رفیق ہونے کے قابل ٹھہرے۔او ر جو شخص اس پیشوائے نجات کے دکھ درد پر طعنہ زنی کرتا ہے تو وہ اپنی جہالت سے نہیں جانتا کہ اپنے دکھوں اورر اندوہوں پر مسخرہ پن کرتا ہے،جنہیں اس انسان اول نے گویا مجمع ذات جنس انسانی کو آپ ہی میں منتہیٰ کر کے بطور وکالت او ر خلافت کے اٹھایا تھا ۔جس راز پر اشارتاً دلیل دیتا ہے ،وہ سینہ بند جس سے کاہن یہود بموجب رسوم اور احکام توریت اپنی خدمت وخلافت کے فرائض بجالاتے وقت متلبس ہو کر خدا کے حضور میں قائم رہتا تھاکہ اس سینہ بند کا قلب گویا بارہ جواہر کا گل دستہ بطور مینا کاری(چاندی سونے پر مرصع سازی نگینے کاکام،باریکی) کے تھا ۔اور ہر ایک جو ہر پر ایک فرقہ یہود کا نام اس وضع سے منقش تھا کہ وہ کاہن انہیں پر نظر کر کے ان بارہ فرقوں کی حاجتوں سے غافل او ر فراموش نہ ہوسکے ،نہ ان کے لئے سفارش کرنے سے زبان بندہوسکے۔چنانچہ جو اس بیابان کے بیچ کلیسیا کا ہادی و محافظ تھا، اُس کے حق میں یسعیاہ نبی نے فرمایاہے کہ ’’اُن کی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت زدہ ہوا اور اُس کے حضور کے فرشتہ نے اُن کو بچایا‘‘(یسعیاہ ۹:۶۳)۔ اور اس رمز کو پولُس رسول نے عبرانیوں کے خط میں اور بھی فاش اور ظاہر کر کے فرمایا ہے کہ ’’پس اُ س کو سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ہو ا تا کہ اُمت کے گناہوں کا کفارہ دینے کے واسطے اُن باتوں میں جو خدا سے علاقہ رکھتی ہیں ایک رحم دل او ر دیانت دار سردار کاہن بنے‘‘(عبرانیوں ۱۷:۲ )۔
پس اس امر میں ایک راز اَور بھی غور کےلائق ہے کہ اگرچہ ازمقدسین ہر واحد تھوڑی بہت رفاقت اور اتفاق کی صورت اور حقیقت سے مشرف ہو کر مسیح کے اُس الم و اندوہ کے ساتھ جو زبوروں میں معروف ہے ،شریک ہو۔تو بھی بلاشبہ حضرت داؤد مسیح کے ہم صورت ہونے کے شرف اور رونق میں ان سے زیادہ فوقیت لے جاتا ہے۔چنانچہ اس پاک حضرت کی عمر کے واقعات میں اتنی اجماع محنت وتلخی اوراتنی کثرت شدائد اور تکلیفات اسا ئراس کے لئے مقدورو مقرر تھے کہ غیر از خداوند مسیح کسی دوسرے کے حال میں سرزد نہ ہوئے ۔ازبس کہ(چونکہ) اس مرد خدا نے اس قدر اپنی کُل عمر تنگیوں اور تکلیفوں میں کاٹی کہ جس وقت سے بھیڑوں کی چراگاہوں سے مُرَّخص(رخصت ۔روانہ) ہو کر بنی اسرائیل کی شہنشاہی اور پیشوائی پر مسح کیا گیا ۔بمشکل ا ُس کی تمام عمر میں ایک بھی ایسے برس کا ذکر ہوتا ہے جس میں اُس نے آرام پایا ہو،بلکہ یقین ہے کہ دکھوں کا سیلاب اور طغیان موج بعد موج کے بلاتفاوت و فراغت اس صدمۂ شدائد سے اس کے سر پر چڑھ آیا کہ گویا خدا کے قہر کے تیروں کا وہی تنہا ہدف و نشان کیا گیاتھا۔اور باقی نبیوں میں ممتاز اور سرفراز تھا ،اس تناسب اور تطابق میں جسے مسیح کے زخموں اور الم و اندوہ کے ساتھ اپنے مختلف احوال میں دکھایا کرتا تھا۔خصوصاً اس امر میں کہ اپنے ملک موعود کو تصرف میں لینے نہ پایا۔غیر از آنکہ جنگ وجدال کی سخت متواتر آزمائشیں اٹھائیں اور تنگ دستی اور طعنہ زنی اور زحمت اوراذیت کی تلخی سے لبریز پیالے کو نوش کر کے خالی کیا۔
اور پھر اُس مثلیت (مشابہت)کے سبب سے جو داؤد کو مسیح کے ساتھ تھی ،وہ مرد خدا زبوروں میں ’’یخید‘‘(یاخید) اور اُس کی جان’’ یخیداہ‘‘(יְחִידָ) (9)عبرانی میں کہی جاتی ہے،جیسے (زبور۲۲: ۲۰) میں لکھا ہوا ہے کہ ’’میری جان کو تلوار سے بچا۔میری جان کو کُتے کے قابو سے ‘‘۔مگر قاریان کلام کو معلوم ہوگا کہ پیدائش کی کتاب سے لے کر اخیر انجیل تک وہ لفظ ’’یخید‘‘ (یاخید)یعنی واحد اور مختص کے معنوں سے خداوند مسیح کی الوہیت اشارتاً و کنایتاً محمول ہے۔
اولاً اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں مسیح کی ابنیت کا ایک ایسا سرّغیب ہے اور اس پاک محمود کے ان اصول وجودی میں سے ہے جن کی مثال و نظیر کائنات ومصنوعات کے بیچ نایاب ہے۔ازاں جہت کہ وہ ابن وحید و فرید ہے اور عالم شہود کے ہر قسم کی ابنیت سے بعیدو بالا ہے، تو وحدانیت الہٰی میں ’’ اَب ‘‘اور ’’اِبن‘‘ اس قدر یک جان باہم پیوستہ اور وابستہ اور رشتہِ محبت و یگانگت سے باہم مربوط ہیں کہ اس عالم فانی میں جو محبت اور دلی چسپیدگی کی اکمل اور احسن صورتیں ہو سکتی ہیں۔سو اس عین محبت کے محض سایہ جات اور امثال کدورت آمیز ہیں۔اور کلام ربانی کے قصوں میں صرف ایک مثال شاذونادر اس رشتہ اور عقدۂ لاینحل(جوحل نہ ہو سکے۔پیچیدہ) کی دی جاتی ہے۔جن کی یگانگت میں ’’اَب ‘‘اور ’’اِبن‘‘ قبل از آفرینش(پیدایش) عالم الفت کے رابطے میں دل بستہ اور متوصل(ملاہوا) ہے۔
(9) ۔یہ لفظ عبرانی بائبل میں زبور۲۰ کی ۲۱ ویں آیت میں مندرج ہے۔
وہ مثال نادر وعجیب حضرت ابراہیم کی اُلفت اُس کے ابن اسحاق کی طرف ہے جو بلقب ابن وحید ملقب ہے۔ازاں جہت کہ اُ س کی ماں حضرت ابراہیم کی عورتوں میں سے حَرَّہ (پتھریلی زمین۔بانجھ)تھی۔ اُس نے پیر زن ہو کر بطور کرامت کے اس لڑکے کو جنا اور قابل لحاظ ہے کہ پیدائش کی کتاب کے باب۲۲ میں تین مرتبہ یہ لفظ’’ یخید‘‘(یاخید) (יְחִֽידְ)بمعنی واحد اسحاق ابن ابراہیم پر عائد ہوتا ہے۔مثلاً دوسری آیت میں لکھا کہ ’’ تب اُس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے اضحا ق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے۔۔۔۔سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا‘‘۔اور پھر ۱۶ ویں آیت میں لکھا ہے کہ ’’خداوند فرماتا ہے چونکہ تُو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھا‘‘۔
اس ماجرے کی طرف اشارہ کر کے اس قربان عظیم الشان کا ذکر جو اخیر الایام میں ہوا ،پولُس نے روح الہٰا م کی کشش سے اس طرح کیا ’’جس نے اپنے بیٹے ہی کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا وہ اُس کے ساتھ اَور سب چیزیں بھی ہمیں کس طرح نہ بخشے گا‘‘ (رومیوں ۳۲:۸)۔یہ بات لائق دید اور قابل غور ہے کہ اس الفت بے نظیر اور وصل لاثانی کی جس کے رشتے رابطے سے از ایام ازل ’’ اَب ‘‘اور’’ اِبن‘‘ ذات اور مرضی اور عمل میں وابستہ رہے، کیا ہی صاف اور دل سوز تعریف خداوند ہی کے کلمات سے ملتی ہے۔خاص کر حضرت یوحنا کی انجیل میں جس رسول کی روحانیت اور دقائق روحانی کی تیز بینی بصارت کی تمثیل دی جاتی ہے۔مثلاً (یوحنا۹:۱۵؛۱۵،۱۴:۱۰؛۲۴:۱۷ ) میں لکھا ہےکہ ’’جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔تم میری محبت میں قائم رہو‘‘(یوحنا۹:۱۵)۔’’اچھا چرواہا مَیں ہوں۔جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں ۔اِسی طرح مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور مَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں ‘‘(یوحنا۱۵،۱۴:۱۰) ۔ ’’۔۔۔تُو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی‘‘(یوحنا۲۴:۱۷)۔
ثانیاً اس لفظ ’’یخید‘‘ سے خداوند مسمیّٰ ہے ،بسبب اس کے دکھوں و زحمتوں کی بے نظیری و تنہائی کے۔چنانچہ جس طرح وہ اپنے رتبے اور منزلت میں تنہا اور وکالت اور فعلیت اور اختتام نجات میں تنہا اور غیر رفیق تھا ۔اسی طرح جس مدت مدید تک وہ غم آزمودہ اور قہر الہٰی کا بُردبار تھا تواس الم و اندوہ میں اُس کی تنہائی اور لا شریکی کے برابر و مانند کوئی تنہائی نہیں ہو سکتی تھی۔چنانچہ بزبان یسعیاہ نبی خداوند فرماتا ہے کہ ’’مَیں نے تن تنہا انگور حوض میں رَوندے اور لوگوں میں سے میرے ساتھ کوئی نہ تھا۔۔۔‘‘(یسعیاہ ۳:۶۳) اور لابُد اس دریائے غم سے پایابی تک واقف اور آگاہ ہو نے کی ایک شرط اور ضابطہ یہ تھا کہ صرف دوستوں اور رفیقوں میں سے اقرب المقربین سے جدا و علیٰحدہ نہ ہو، پر دلی کدورت کے اس ابر سیاہ سے بھی مُظلّ(سایہ ڈالنے والا) ہوجو رب تعالیٰ کی وجہ سے محروم اور اُس کے حضورسے متروک ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ازیں جہت کہ عین تنہائی اور مجردی اور مہاجرت یہی ہے اور لجّا(شرم۔غیرت)الم و رنج کا عمق عمیق ترین یہی ہے کہ تبسم پدرانہ ابن وحید محبوب کی طرف سے پس از نقاب قہر محجوب ہوگیا۔
اور اگر وہ کاہن عظیم اس تلخ آزمائش میں تجربہ کار نہ ہوتا تو کس طرح درد مندی کے قابل ہوتاکہ آپ ہی اس امر میں قاضی ہو جاؤ کہ یہ کیسی متروکیت ہے۔جو شاید کوئی شخص ماں باپ اور خاندان اور تبار (گھرانہ۔قوم)اور دوست و رفیق سے متروک ہو، پر خدا کی رفاقت اور مصلحت میں رہے ۔صرف ایسی صورت کی متروکیت سے واقف ہو کر کون کاہن آدم زاد کے متروکوں سے کہہ سکتا ہے کہ میں ہی تمہارے غموں کو پہچانتا ہوں۔ہاں بلکہ بالاختصاص تمام اس کی اندوہگینی اور غمگینی کا سر اور نہایت یہی تنہائی تھی اور اسی بات میں ہم نے کامل نمونہ پایا، اُس اِمتثال (حکم ماننا)اور اِنقیاد(فرماں بردار) کا جس سے وہ اپنے باپ کی قضا و رضا پر راضی و خوش تھا۔ چنانچہ بطور رمز و مثال کے حضرت خلیل اللہ قائم ایمان کے اس کے ابن عزیز اسحاق کے خوشی سے ذبیحہ ہونے کے بیان میں دو بارہ مرقوم ہے کہ ’’سو وہ دونوں آگے چلتے گئے‘‘(پیدائش۸:۲۲)۔
پس ہمار ے خداوند کے غم اور رنج کی وہ متعدد اور عجیب صورتیں جو زبوروں میں معروف ہیں کون کلمہِ عیاں و نمایاں کر سکتا ہے۔دیکھو وہ گلّہ عزیز اور مرغوب جس کی رہائی کے لئے آں عزیز الشان عالم بالا سے اترا تھا اور جس کی رعایت اور نگہداشت میں شب وروز صرف اوقات کیا کرتا تھا ۔ گویا اس اپنے چوپان کو نفرتی اور مکروہ جان کر اس کو رو گردان اور برگشتہ بتاتا ہے۔پر ذرا سوچ اور غور اس بات میں چاہیئے کہ جن احوال کا اب بیان ہوتا ہے ،ان کی صورت عین خلاف ہے۔اُس ذات جلوہ گر اور نورانی سے جس سے متلبس ہو کر ایام ازل سے سینہِ پدر میں نشست بقیام و دوام فرماتا تھا۔پر یہ اس پستی اور خواری و عاجزی کی صورت نظر آتی ہے جس کا متحمل ہو کر اپنے لطف بے حساب سے جسم انسانی میں ساکن ہو گیا۔اور جامۂ فقر و گدائی اور لبادۂ اطاعت و عبودیت پہن کر ہرایک اپنے حقیقی پیرو کے لئے یہ قاعدہ اور حکم وصیتاً چھوڑ گیا ہے کہ ’’اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوتا ہےاُسے بچائے گا‘‘(متی۳۹،۳۸:۱۰)۔اور اس خداوندمبارک کے آثار قدم پر جو خورد بینی اور باریک بینی سے نظر کرے گا،سو معلوم کرلے گا کہ ہر دوباتوں میں یعنی فقر و درویشی اور اطاعت وبندگی میں وہ یگانہ اور کُلیہ ہونے کو آیا۔
از آنرو کہ ایک ہی معہود اصل ونسل حضرت داؤد کا گاہ گاہ مسندِ عدالت و شہنشاہی جلال پر تخت نشین نظر آتا ہے۔اور کبھی بندگی اور فر ماں برداری کی راہ میں حلم اور صبوری میں ہمیں اپنے ہم راہ لے چلتا ہے۔اب خداوند مسیح کی عجزوفرماں برادری کی نصیحت آمیز نشانیوں پر لحاظ کر کے صلاح ہے کہ ذرا تفصیل وار اور تشخیص سے بیان کریں کہ روح القدس نے بزبان داؤد مسیح کے دکھ اور آزار کی کیفیت اور خصوصیت کی کیسی خبریں دی ہیں ۔او ر تفتیش وتحقیق بھی کریں کہ تابظہور کن کن مقاصد و مطالب سے یہ سب امورات واقعی خدا تعالیٰ کے دفتر قضا وقدرمیں متضمن ہوگئے تو اس تشخیص میں ایک علامت بصلاحیت سبھوں پر ظاہر ہے کہ اس غم و رنج کی جائے عروج و صدور نہ اتنا نفس و جسم بلکہ قلب اور دل ہی تھا ۔ چنانچہ صُوری(معنوی کی ضد۔ظاہری) اور نفسی دکھ کے سبب روحانی غم خواری زیادہ تر دل تراش اور سینہ شکن ہے اور زیادہ تباہی اور زوال کا باعث ہے۔
ثالثا زبوروں کے مواضع مختلف سے یہ بھی ثابت ہے کہ روح اور قلب انسانی جتنے بوجھوں اور تکلیفوں کے زیر بار ہو سکتے ہیں، ان میں سے کسی کی اتنی ثقالت (بوجھل ہونا۔بھاری پَن)نہیں جس قدر اُس غم کی جو گناہ کی یاد اور شعور سے پیدا ہوتا ہے۔چنانچہ حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ باقی سب بوجھوں اور ضعف کی برداشت حوصلہ مندوں سے ہو سکتی ہے ،لیکن شکستہ دل کی برداشت کے کو ن قابل ہے(امثال۱۴:۱۸)۔پس ان سب زبوروں میں جن میں دلی قباحت اور کدورت اور شکستگی کا بیان ہے، ایک شخص اس قدر غم زدہ اور اندو ہگین(رنجیدہ) خدا کے حضور میں متکلم اور گویا دکھائی دیتا ہے کہ اُس کا نالہ اور گریہ سننے سے گمان غالب اور یقینی پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص یا تو باقی سب آدم زاد سے بہتر یا سب سے بد تر ہوگا۔چنانچہ وہ اقرار کرتا ہے کہ میرے گناہ نے تودہ تودہ بن کر مجھے یوں دبا ڈالا ہے۔ جیسا کہ وہاں قبر پر من من بھر کا پتھر ایسا لگا ہے جو سرکانے کے لائق نہیں اور مثال ا س باد مخالف کی ایک دریائے متلاطم ہے ،جس کی موج پے در پے بڑے جورو جفا سے اُس کی جان پر صدمہ مار رہی ہے۔
تاآنقدر کہ قعر (بڑا گھڑا۔گہرائی)بے پایاب میں یا ریگ ِرواں(اڑنے والی ریت۔سراب) کے اندر غرق ہونے والا ہے، گویا اُس نے جان سے بھی ہاتھ دھو لئے ۔ہاں بلکہ ناظرین اسے خدا کا مکروہ و متروک جان کر اور انگشت نما کر کے ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں ۔ اور دور دور گویا کسی آفت و بلا سے گریزاں ہوتے ہیں ۔اسی موافق اس غم خوار اور باربردار کی حالت جس کی جان کے اندرسخت مصیبت اور زحمت گُھس گئی ہو اور انبار خطا اُسے گھیر لیتا ہے اور خدا کے ہاتھ نے چھوا اور مضروب(ضرب کھایاہوا) کیا ہے ۔سو تفصیل وار (زبور۸۸،۶۹،۳۸ )میں بیان ہوتی ہے۔یعنی گناہ کے محیط سے محصور ہو کر اور مجرم المجرمیں ٹھہر کر اور غبار برسر ہو کر صرف خدا ہی کی رحمت میں پناہ لیتا ہے۔
یہ تین زبور اُن سات مشہور زبوروں کے گلدستہ میں ہیں، جنہیں ہزار ہا برسوں سے پشت در پشت جتنے شخص خستہ و شکستہ و توبہ کار ہوگئے اور اپنی زبان پرلائے ہیں اور انہیں کی عبارت کے وسیلے اپنے اندرونی غم ورنج کی تعریف اور اظہار کرتے ہیں ۔بطور مثال بعض اُن آیات سے ہم نقل کرتے ہیں ’’تیرے قہر کےسبب سے میرے جسم میں صحت نہیں اور میرے گناہ کے باعث میری ہڈیوں کو آرام نہیں۔کیونکہ میری بدی میرے سر سے گزر گئی اور وہ بڑے بوجھ کی مانند میرے لئے نہایت بھار ی ہے۔۔۔مَیں پُر درد اور بہت جھکا ہوا ہوں ۔مَیں دن بھر ماتم کرتا پھرتا ہوں ۔۔۔‘‘(زبور۳:۳۸۔۸)۔ اور پھر( زبور۸۸ )میں یوں لکھا ہے’’تُو نے مجھے گہراؤ میں ۔ اندھیری جگہ میں ۔پاتال کی تہ میں رکھاہے۔ مجھ پرتیرا قہر بھاری ہے۔تُو نے اپنی سب موجوں سے مجھے دکھ دیا ہے۔تُو نے میرے جان پہچانوں کو مجھ سے دُور کر دیا۔تُو نے مجھے اُن کے نزدیک گھِنَونا بنا دیا۔مَیں بند ہوں اور نکل نہیں سکتا۔میری آنکھیں دُکھ سے دھندلا چلی۔۔۔‘‘(زبور ۸۸: ۶۔۹)۔’’پر اےخداوند! مَیں نے تو تیری دہائی دی ہے اور صبح کو میری دعا تیر ےحضور پہنچے گی۔ اے خداوند! تُو کیوں میری جا ن کو ترک کرتا ہے؟ تُو اپنا چہرہ مجھ سے کیوں چھپاتا ہے؟‘‘(زبور۸۸: ۱۴،۱۳)۔’’ تُو نے دوست و احباب کو مجھ سے دُور کیا اور میرے جا ن پہچانوں کو اندھیرے میں ڈال دیا ہے‘‘(زبور۸۸: ۱۸)۔
پس اگر کوئی شخص کم سوچ اور بے سمجھ ان زبوروں کی بعض بعض عبارتیں علیٰحدہ کر کے تاکید سے فرما ئےکہ بلاشبہ یہ زبور صرف ایسے لوگوں کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں،جو شرارت اور بدفعلی میں سب بنی آدم زاد سے بڑھ کر ہیں اور گناہ کے خبث اور گندگی تمام میں مستغرق ہیں ۔تو اُن کی اس رائے پر کچھ جائے تعجب وتحیر نہیں ،کیونکہ لابُد یہ راز انسان کی عقل اور تمیز مجرد سے بالا ہے اور علم الہٰی کے کاشف الاسرار صرف خدا کے روح حق کے کلمات ہیں ۔صرف ایسے شخص سے ہم اس راز کی بابت عرض کرتے ہیں کہ اے صاحب اگر آپ ذرا بھی سوچ سمجھ رکھو گے اور باریک بینی کی غربال (چھلنی)میں لفظ چھان کر نکالوگے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ مجرم جواِن زبوروں میں معروف ہے، صرف شریروں اور زبونوں اور نیکی کے کینہ وَروں کی دانست میں مجرم ٹھہرا ،پر خدا تعالیٰ اور خدا ترسوں کے نزدیک گناہ سے مبرا ومعرا ہے ۔اور اُس کے دشمن اور غنیم خدا کے مخالف ہیں اور ہر صورت کی صلاحیت اور فضیلت سے خصوصیت رکھتے ہیں ۔اور وہ سب اس غم زدہ کو نہ کسی بدی کے سبب ،بلکہ عین نیکی اور قدوسیت کے سبب معیوب ومکروہ جانتے ہیں۔اور ہر چند کہ خدا کے غضب کے تیزو تلخ تیروں سے چھد جاتا ہے اور اپنے زخموں کی حرارت و سوزو گداز سے کچھ خفت وفراغت نہیں پاتا تو بھی اُس تعالیٰ کو اپنے دل کی صفائی اور پوری طہارت کےلئے شاہد کر لیا ہے۔اور بے خوفی سے اُس تعالیٰ کے حضور کہتا ہے ’’جو نیکی کے بدلے بدی کرتے ہیں وہ بھی میرے مخالف ہیں کیونکہ میں نیکی کی پیروی کرتا ہوں ‘‘(زبور۲۰:۳۸)۔
دیکھو اس باب میں کیا ہی عجیب اور حیرت انگیز راز ہمیں نظرآتا ہے کہ ایک ہی شخص نہایت درجہ تک خداتعالیٰ کے زیر قہر ہے اوربیش از برداشت گناہ کے انبار تلے دبا بھی جاتا ہے اور تو بھی پورے طور پر سینہ کی حجاب کشی کر کے اپنے دلی اسرار کو اس ناظر وراست و عادل کے حضور میں انکشاف کرنے سے عذر نہیں کرتا۔ازاں جہت کہ اپنے اندرون کا یقینی شعور رکھتا ہے کہ میں محض خیر وخوب کا طلب کرنے والا ہوں ۔اور خدا ہی کے لیے اہل شرو خلاف سے ایذا واذیت اٹھانے سے باز نہیں آتا ،تو اس حاصل نتیجہ سے کون چارہ و علاج باقی ہے کہ و ہ بہتر بھی اور بدتر بھی سب آدم زاد میں سے ہو، اس اجتماع نقیضین کو کون صاحب حکمت محض عقل ہی کے زور سے حل کر سکتا ہے اور اس مشکل کے سخت قفل کو کس کلید عقل سے کھول سکتا ہے۔اور (زبور۶۹ )کے راز اتنی ہی دشوار اور جگر تراش سر گردانی کے باعث ہیں ۔
چنانچہ اس زبور کا متکلم بھی ایک غم زدہ اور خطا کار اور رسوا اور مذموم خدا کے روبرو اپنی تباہ حالی کو دکھاتا ہے اور آیت ۵ میں اپنےآپ کو ملزم ٹھہرا کر گناہ گاروں کے شمار میں محسوب ہونے کا مُقر ہے۔ اور باوجود متحمل ہونے اس الزام اور اقرار خطیّت کے اس امر پر مدعی ہے کہ خدا کی کمال رفاقت اور اس کی مرضی کے عین اتفاق اور تساوی (برابری)میں رہتا ہے۔از آنرو کہ خداکے دوست و دشمن میرے بھی ہیں اور میری مذمت و مدح دراصل اسی کی ہے۔ہاں بلکہ جو کچھ شے خدا کے گھر کی شان و شوکت کے مخل و مضر ہے تو اُس کا دل اس کی طرف غیوری کی حرارت سے جل جاتا ہے ،تو پھر بھی وہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ یہ اجتماع خیر و شر کون واجبیت اور اور ممکنیت رکھتا ہے۔
چنانچہ جو اہل شرارت سے بھی مجرم ٹھہرا تو اس راست و پاک تعالیٰ کے آستانے میں کب پاک، بے عیب اوربے گناہ ٹھہرے گا۔ ایسے راز اور مشکل کا ارتفاع اور انحلال نہ تو علویات سماوی سے اور نہ سفلیات زمینی سے ہوسکتا ہے۔اس قفل کی پیچش صرف ایک ہی کلید سے حل ہو سکتی ہے جو قاریان اناجیل (اناجیل کو پڑھنے والے)کو حاصل و موجود ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی شخص جو رافع اور قاطع الخطا اور خداکی طرف سے رحمت عطا کرنے آیا۔اُس نے آپ خواروں اور خطاکاروں میں گنا جانا، ہتک عزت اور قدوسیت اور طہارت اپنی قدوسیت اصلیہ و ذاتیہ کا نہ جانا، جس راز و ایما و اشارہ سے پطرس رسول اپنے پہلے خط میں فرماتا ہے’’وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی‘‘(۱۔پطرس۲۴:۲)۔تو مصداق ان سب آیات بالا مذکور زبور وں کا وہ خداوند مبارک ہے ،جو فی ذاتہ روح اور بدن میں گناہ کی ہر صورت ورنگ و بو سے مبرا تھا ۔صرف اس پروردگار اور مدبر نجات کی رعایت حکمت آمیز کے بموجب اپنے ہی سر پر آدم زاد کے بےحد اور بے شمار گناہوںکا تحمل کیا۔آیات مذکورہ سے لائح ہے:
اولاً یہ کہ اس عالم فانی کے ہر زمان کے اندو ہگین اور غم خوار وں میں زائد اور فائق غم زدہ وہی ہے، جس کے احوال ان مزامیر بالا میں صور ت پذیر ہیں۔
ثانیاً یہ کہ اس غم خواری میں خداوند مسیح ہر وضع کی رفاقت اور صحبت سے پوری مہاجرت اور تجرد رکھتے ہیں ۔چنانچہ یہ تنہائی اور یتیمی اس کے درد و الم کی شرط وضابطہ ضروری تھی اور صرف حضرت یوسف کے احوال میں ایک بعید اور دھندلی سی مشابہت اس ہجرت اور تجرد کی پائی جاتی ہے۔
ثالثاً یہ کہ خداوند نے صرف وہی دکھ اور رنج اٹھایا جو رب تعالیٰ کے ارادے مقرر اور رضامندی سے معین اور مقدر تھا۔اور خداوند مبارک آپ مرضی پدرانہ سے پورا اتفاق اور مرافقت رکھتا ہے ۔اور اُس نے بسرو چشم اور اس باربرداری سے اپنا نفس نذرانہ اور قربان کیا۔جس عِقاب و عذاب کے گناہ گار وخطا کار مستحق تھے، اس کو آپ بطور متوسط(درمیانی) و عوضی بن کراٹھایا۔
رابعاً حالانکہ کل مخلوقات میں گناہ کا اتنا انبار گراں کسی پر ہر گز نہیں لَدا تھا جس قدر خداوند مسیح کے سر پر فراہم ہوا۔ تو بھی یہ امر اظہر من الشمس اور ہزار ہا دلائل سے ثابت اور منصوص(ظاہر کیاگیا) ہے کہ وہ آپ ہر داغ و گناہ کے سایہ سے بھی مبرا تھا ۔اور برابر دونوں باتوں پر دعویٰ کرتا ہے کہ میں مجمع خطیات کا متحمل بھی ہو ں اور بہ اعتبار ذات ووجود کے گناہ کی کوئی مذمت ،بلکہ احتمال مجھے مس نہیں کرتا۔
صاحبو یقین کرنا چاہیئے کہ مزامیر داؤد کی کتاب میں گویا ایک ہی بحر مروارید (موتی ۔گوہر)اور معدن اَلماس(ہیرے کی کان) ہے ،یعنی روحانی دولت کا پنج گنج(خزانہ) ہے۔ اگر کوئی طالب عرفان اس معدن سے کھدوائی کرے اس بحر میں غوطہ بازی کرے تو ہزار ہا جواہر بیش قدر فراہم کرکے اقرار کر ےگا کہ میری جدو جہد عبث وباطل نہ ہوئی بلکہ اس مجمع سوغات کے تجسس کرنے یہ عمدہ اور خاطر خواہ امر ملا کہ ایک براد ر او ر دوست عزیز ہے۔جوآپ ہی ضعف او ر زحمت او ر مسکینی او ر حاجت مندی او ر موت او ر باقی شرائط بشریہ سے تجربہ کارہو کر شکستہ دلوں اور غمزدوں پر ترس کھانے کے قابل ہےاور ہر چند کہ گناہ سے خالی تھا۔تاہم گناہ گار وں کے مقام پرقائم ہو کر د رد مندی کی راہ سے ان کی ملاقات ا و ر رفاقت تک جھکا ہے ۔اور آپ عالم سفلی میں نہ صدر مقام میں نشست کا دعویٰ کیا ،بلکہ پست نشینوں میں پست ترین ہو کر او ر ان کے عذاب او ر دکھ کے د ریائے مواج (موجیں مارنے والا۔طوفا ن خیز)میں ورود(پہنچنا،اترنا،وارد ہونا) کر کے اُن کی سب رنجوریوں او ر د ردوں کو جان لیا ۔او ر جیسا حکیم ا ور طبیب مریضوں او ر زخم آلودوں کے د رمیان آکر اُن کے خُبث وسرایت مرض او ر خون اور پیپ زہر آمیز آپ تو نہیں لیتا ،مگر لے جاتا ہے۔ اسی طرح خداوند نے گنا ہ اور اس کی خُبث ولعنت و عفونت کو آپ تو نہیں لیا ،پر لے گیا۔اسی طرح خود ملعون تو نہ تھا، پر لعنت کو اٹھایا۔ جیسے آفتاب اپنی شعاعوں سے او ر ہوااپنی تاثیر سے خبث و نجاست کو بخارات کر کے کا فور کردیتے ہیں، پر آپ مورد خبث و نجاست نہیں ہیں ۔
اسی سبب سےوہ ان تین زبوروں میں متکلم ہو کر جومجرم اور لعین تر اور قبیح تر(برا،بدصورت،قباحت والا) من الناس ہیں،ان کے شروجرم و لعن اس قدر اپنے نفس کی طرف محسوب کرتا ہے کہ گویا آپ ہی انہیں میں شمار ہو گیا۔اوراُ ن کے قریب رفاقت میں آ کر اُن کے دریائے غم اور رسوائی اور قہر الہٰی کے عمق میں سے گویا ہوتا ہے اور گویا اپنی زبان سے ان کے واسطے کلمۂ استغفار بناتا ہے اور ان کے لئے عاجزی اور توبہ کاری کا نمونہ بنتا ہے۔۔چنانچہ خداوند کے ایام جسمیت میں اہل خلاف نےاس پر یہ ملامت کی تھی کہ یہ شخص گناہ گارو ں کو قبول کرتا ہے اور ان کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔چنانچہ لوقا کی انجیل میں بیان ہے کہ ’’اُس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بد چلن ہے‘‘(لوقا ۳۹:۷ )۔جیسے اب بھی بعض اہل محمدصاحب مثلاً صاحب استفسار فحش آمیز احتمالوں او ر فسق انگیز خلشو ں کو اپنے دل میں جگہ دے کر ہر چند کہ صاف و صریح شکایت کرنے سے ان کو بھی عذر ہے ،تاہم اس چشمہِ قدوسیت میں اپنے تصوروں کے میل ڈالنے کی جرأت کرتے ہیں۔اور اس پر جو کامل صفائی اور خیر اورصلاحیت کا نمونہ ہے، اپنی فصاحت کی کفِ دست (ہاتھ کی ہتھیلی)سے چھینٹ دے کر اسے آلودہ کرنے کی امید رکھتے ہیں۔خدا فضل کر کے ان نادانوں او ر اپنی نجات او ر فضل الہٰی کے خلاف کرنے والوں کی روح تنویر سے ایسی روشن کرے کہ چشم تمیز کی صاف بینائی پا کر اس راز کی فہمید لیں ،جس کی یسعیاہ نبی نے کشف کشائی کی ہے کہ ’’۔۔۔وہ خطاکا ر وں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی‘‘(یسعیاہ ۱۲:۵۳ )۔تو اس فہم میں قرار اور قیام پا کر ہر گز ان کے خواب و خیال میں ایسا تصور خلاف قیاس نہ آئے گا کہ کھوئے ہوؤں کا ڈھونڈنے والا (لوقا۱۰:۱۹)آپ ہی کھو گیا۔پر انشاء اللہ وہ آپ اپنی گمراہی اورآوارگی پر سے باہم فراہم ہو کر اور اپنی جان کے گلہ بان اور نگہدار حقیقی کے پاس رجوع لا کر استراحت(سکھ ،چین) اور اطمینان خاطر حاصل کریں گے۔
بعض بے خرد اور بے تمیزوں کا موجب اعتراض یہ ہے کہ وہ غم زدہ اور اندو ہ گین جوکہ بہ تجرد و تنہائی و یتیمی تما م اصحاب نجات کی لعنت اور عذاب کا متحمل ہے بہ طور نیازی مندی و تضرع و زاری زبوروں میں خداتعالیٰ سے منت کرتا ہے کہ اس الم و اندوہ ودردو دکھ و مذمت سے خلا ص کیا جائے اور فراغت و تخفیف پائےاور اس درگاہ اعلیٰ میں نالہ و گریہ و فریاد کرتاہے ۔پس وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس حال سے کیا ثبوت تمہاری تقریر کا ہے کہ اس حضرت نے بڑی رضامندی اور خوشنودی سے اپنی گردن اس جوئے اور غم کے بوجھ تلے دبائی اور کہ وہ صبوری اور براشت اور تحمل کا کامل نمونہ تھا۔در حالیکہ تاب وبے تابی اور عرق ریزی اور فریاد اور استعانت (مددمانگنا)سے ضعف و عجز اور بے صبری کی علامتیں بقول و فعل کثرت سے نظر آئیں۔چنانچہ (زبور ۲۲ : ۱۹،۱۱ ) اس پر دال ہیں کہ ’’مجھ سے دور نہ رہ کیونکہ مصیبت قریب ہے ۔اس لئے کہ کوئی مددگار نہیں ‘‘ (زبور۲۲: ۱۱)۔’’لیکن تُو اے خداوند! دور نہ رہ ۔ اے میرے چارہ ساز! میری مدد کے لئے جلدی کر‘‘ (زبور۲۲: ۱۹)۔ اور پھر (زبور۸۸: ۱۴،۱۳) آیات کا مضمون اس کے ٹھیک متفق ہے ’’ پر اےخداوند! مَیں نے تو تیری دہائی دی ہے اور صبح کو میری دعا تیر ےحضور پہنچے گی۔ اے خداوند! تُو کیوں میری جا ن کو ترک کرتا ہے؟ تُو اپنا چہرہ مجھ سے کیوں چھپاتا ہے؟‘‘۔
اور اسی طرح خداوند مسیح کے اورمسیحی دین کے مخالفوں نے جائے تعرض (مزاحمت ۔روکنا)و تاخذ(اندھیرا) پایا اس زاری و فریاد اور اشک ریزی میں جو خداوند کی جانب سے زیتون کے باغ میں برپا اور واقع ہوئی کہ سن عیسوی کی دوسری صدی سے آج تک برابر اہل خلاف کے لئے طعنہ زنی اور مزاح کا باعث اور موقع ہوتا چلاآیا ہے۔بعض قاریان اس رسالہ پر پوشیدہ نہ ہوگا کہ اس مقام پر اُس گریہ و زاری سے اشارہ ہے جس کا مفصل بیان ثلاثہ اُولیٰ انجیلوں میں پایا جاتا ہے اور عبرانیوں کے خط میں بھی اجمالاً نہایت دل سوز بیان ہوتا ہے’’اُس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اُسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اُس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب سے اُس کی سنی گئی‘‘ (عبرانیوں ۷:۵)۔ بعض لوگ بے تمیز اور بے سوچ جو یہ ظن خلاف قیاس او ر غیر واجبی اس آیت مذکورہ سے نکالتے ہیں کہ مسیح نے جو رو رو کر اور آنسو بہا بہا کر بہ انکسار و تضّرع و منت و سماجت اپنے باپ کےحضور میں دعائیں کیں تو صرف ایک ہی سوال و درخواست کرتا تھا او ر ایک ہی غنیمت او ر فائدہ اتنی شدت و جوش و جنبش سے طلب کر رہا تھا، یعنی کہ اس کی جان اس تلخ صلیبی موت سے بچ جائے ۔
اگر وہ صاحب اعتراض اس ماجرے کی تمام حقیقت اور کیفیت پر ذرا غور اور قدرے سوچ کرتے اور علم اخلاق کے قواعد کی ذرا تحقیق و تجسس کر کے معلوم کرتے کہ عالی ہمت اور حوصلہ مندوں اور خصوصاً مردان خدا اور مشائخ و انبیا کے دلوں میں تردّدات(تردد کی جمع سوچ،تذبذب، پریشانی ، محنت) کس طرح پیدا ہوتے ہیں ،تو یقین کرتے کہ اتنی شدت کی اندرونی کُشتی بازی اور سخت تنگی اور جگر سوزی ایک خواہش اور رغبت کی تیزی سے پیدا نہیں ہوتی اس قدر کہ جس قدر دو خواہشوں اور رغبتوں کے جنگ و جدال باطنی سے جو باہم تناقُض وتنازع رکھتے ہیں ۔
او ر اگر وہ صاحب اعتراض اس ماجرے کا وہ مفصل بیان جو( متی ۲۷ باب )میں پایا جاتا ہے ،غور سے ملاظہ کریں تو صاف دیکھیں گے کہ جس وقت خداوند زیتون کے باغ میں جان کندنی(نزع کی حالت۔عذاب) کے سے تلخ آزار والم میں تھا تو دو فکر او ر د رخواست متفرق اس کے پاک دل میں پیدا ہوئیں کہ طرفین کے کشمکش اور جدوجہد سے وہ کُشتی ہیبت انگیز مدت تک جاری رہی۔ایک اُن دونوں میں سے اس تلخ موت سے رہائی پانے کی اُمید اور خواہش جو ہر ایک حیوان قطع نظر از انسان کے خواص و شرائط وجود میں سے ہے۔یہاں تک کہ اُس کے موجود نہ ہونے سے انسا ن کے کمال او ر حقیقت وجود میں خلل آجاتا او ر دوسری خواہش پدرانہ مرضی کی تکمیل تھی او ر تعمیل تھی اور جو شاید پوچھا جائے کہ پدرانہ مرضی کون اور کس طرح او ر کس بات کی تھی، توصاف جواب اس سوال کا یوحنا رسول اپنی انجیل میں بتاتا ہے کہ’’اور میرے بھیجنے والے کی مرضی یہ ہے کہ جو کچھ اُس نے مجھے دیا ہے مَیں اُس میں سے کچھ کھو نہ دُوں بلکہ اُسے آخری دن پھر زندہ کروں۔ کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے او ر اُس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے او ر مَیں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں ‘‘(یوحنا ۴۰،۳۹:۶)۔
پس اس ہولناک او ر سہمناک ساعت میں یہ دونوں گویا میدان جنگ میں اُتر کے مقابل کھڑے ہیں ۔ایک طرف سے اس تلخ موت کا اندیشہ جس کی تلخی محض د ر د ہی کے ترس ولرز ش سے نہیں ہوئی، بلکہ اس امر سے کہ گناہ کا اجر او رپھل موت ہے ا ور قیاس لازم ہے کہ جس قدر وہ خدا کا بےداغ برّہ صفائی اورپاکی کے سبب گناہ کی حِسّ خبث سے گریزاں تھا ،اُسی قدر اُس کے پھل او ر اجر سے بھی، یعنی موت سے بھی گریز او ر نفرت اور غیرت بے اختیاری سے متنفر تھا۔پر دیکھو دوسر ی طرف سے وہ کمال اتفاق او ر انقیاد او ر امتثال(تعمیل ِحکم) خدا کی مرضی کی جس مرضی کے حق میں اُس نے فرمایا تھا کہ اُسی کو پورا کرنا میری خورد نوش ہے ۔او ر یہ بھی کہا تھا کہ مَیں ہر دم وہی باتیں کیا کرتا ہوں جو اُس کو خوش آتی ہیں تو خداوند اس پاک مرضی کے پورا کرنے اور عمل میں لانے کا نہایت حدت و شدت سے آرزو مند تھا۔اسی مرضی پر قربان ہونے کے لئے وہ نہایت تنگی سے دل بستہ او ر پابند تھا۔ہاں بلکہ اس محبت سے جو اس کے دل میں بھری تھی ،اُس کے باپ کی طرف جس کی قضا و قدر کے بموجب اس میدان جنگ میں اُترا تھا ۔او ر اس جماعت عامہ مقدسہ کی طرف جس کی جان کے عوض اپنی جان فدیہ او ر ذبیحہ کے طور پر سپرد کرنے والا تھا ۔ ایسی نہر فراوان او ر موج زن او ر پُر جوش اُمنڈتی چڑھتی آئی تھی، جس کی برداشت و گنجائش نہ ہو سکے۔
اور اگر شاید کوئی صاحب یہ جانے کہ اس رسالہ کا مصنف اپنے جوش سے مبالغہ کی باتیں بول رہاہے ،نہ صحیح ہوش واعتدال کے ساتھ تو اُس سے یہ عرض ہے کہ وہ انجیل (متی ۲۶ : ۴۴،۴۲،۳۹ )آیات کو پڑھ لے اوراُن آیات کی شہادت سے مکرر سہ کرر(باربار۔دوبارہ تبارہ)ان بھاری باتوں کا انفصال اور فیصلہ کرے کہ موت کا اندیشہ کہاں اور اپنے آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کرنے کی خواہش اور عزم بالجزم کہاں ۔تو ان آیتوں میں سے ہر واحد میں حقیقت حال اس ماجرے کی صاف دریافت اور ظاہر ہوتی ہے کہ اگرچہ وہ موت کا اندیشہ نفرت آمیز خدا کی پاک مرضی بجالانے اور ادا کرنے کے خلاف اپنا سر اٹھا سکتا تھا تو بھی حقیقت میں وہ امکان مُجادلہ(جنگ) کسی وقت وجود اور عمل میں نہیں آیا پر ہر وقت ایک ہی عاقبت اور نجام دکھائی دیتا ہے ۔یعنی وہ اندیشہ موت کا کامل تسلیم سے اور گویا اپنی مرضی کی خودکشی سے قربان ہو گیا اور زیر و مطیع بھی ہوا ۔متی رسول یسوع مسیح کی اس دعا کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے ’’پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔تَو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو‘‘(متی۳۹:۲۶)،’’ پھر دوبارہ اُس نے جاکر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو‘‘(متی ۲۶: ۴۲)،’’اور اُن کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا کی‘‘(متی ۲۶: ۴۴)۔
پس اِن ثلاثہ آیات بالا متی کی انجیل سے ثابت ہے کہ اس دلی مجادلہ اور دعاو سوال کے جوش وحدّت کی تین بڑی نوبتیں تھیں۔اور ان تین نوبتوں کا ایک ہی انجام تھا یعنی یہ کہ اندیشہ موت کا مفتوح ہوا ،لیکن خدا کی مرضی کی اطاعت اور فرما ں برادری بالکل غالب ہو گئی۔آفتاب نیم روز(دوپہر) کی طرح ہر صاحب عدل وتمیز پر صاف روشن ہے اور برہان قطعی اس بات کی (عبرانیوں ۵: ۷) سے صادر ہوتی ہے۔چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ جس امر کو ہیبت آمیز تسلیم کرتا تھا اُسی امر کے باب میں اُس کی دعا سُنی گئی اور منظور ہوئی۔
پس اے صاحبو میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ مسیح کی دعا کس بات کے حق میں سنی گئی اور مقبول ہوئی ،آیا موت کے اندیشہ کے حق میں یا کہ اپنے باپ کی ادائے رضا کے حق میں۔ آپ ہی طوہاً و کرہاً(جبراً۔خوامخواہ) اس بات کے مقر ہوں گے کہ ادائے رضا و قضا اور تسلیم حق میں سنا اورمنظور کیا گیا۔پس حاصل کلام کہ جو تقریر اس آیت میں پیش آتی ہے کہ رو رو کراور آنسو بہا بہا کر مسیح نے دعائیں اور منتیں کیں۔سو مراد اس تقریر کی خصوصاً و فضلاً نہ موت کا نفرت آمیز اندیشہ تھا ،بلکہ وہ مجادلہ اندرونی جس میں وہ اندیشہ اورلرزش تلخ موت کے روبرو جو انسان حقیقی کی شرائط وجود جنسیہ میں سے تسلیم و انقیاد کی برقراری سے دبایا گیا ،یہاں تک کہ نیست و نابود ہو گیا۔
ان خیالات پر لحاظ اور سوچ کرنے کے بعد زیادہ صفائی اور آسانی سے اس مسئلہ مذکور کا جواب ہو سکتا ہے کہ وہ غمگین بار بردار جو بہت زبوروں میں متکلم ہے،کیوں اتنی منت و خضوع و خشوع (عاجزی،گڑگڑانا)سے اپنے دکھوں اور دردوں کے ردو رفع ہونے کے لئے دعا و سوال کرتا ہے۔چنانچہ اب معلوم ہوگیا ہے ان دلائل قبل سے کہ مسیح اپنی جان کے خوف وخطر ے سے متردد و مضطرب نہیں تھا ۔پر اس کی پیش بینی اور دور اندیشی اس کے بر گزیدہ و رہانیدہ (نجات یافتہ)قوم کے آیندہ احوال کی طرف التفات کرتی تھی جن کو جلال وحیات پہنچانے کے لئے پدرانہ مرضی کے بموجب وہ مجسم بھی ہو گیا تھا۔ او ر بحسب مقتضائے کہانت اور بحسب شرائط عہد ومیثاق اپنی جا ن کو نذرانہ و قربان بھی کرنے والا تھا۔تو اِسی خاص قوم کا نام لے کر اور بڑی محبت و دردمندی سے ان کی یادداشت کر کے ان کے دکھو ں کے سبب اسفل گہرائی پر سے اور عین غایت سے زاری و فریاد کرتا ہے۔ اور ُان کا وکیل و عوضی ہو کر ان کی طرف سے معروض باپ کے حضور میں پہنچاتا ہے اور انہیں کے لئے اظہار ملامت اور اقرار خطا بطور استغفار کے ان کی حقیقت حال کی پوری واقفیت سے زبان پر لاتا ہے۔اور یہ امر اتنا جائے تعجب و تحیر نہیں جتنا کہ بڑی تسلی اور تقویت کا باعث ہے۔ان اصحاب ایمان اور عرفان کے لئے جنہوں نے کچھ اس راز کی فہمید میں دخل پایا ہے کہ مسیح نے اپنوں یعنی اپنے مجازی بدن کے عضووں کو کیسی پوری مرافقت و یگانگت میں اپنے ساتھ ملایا ہے ۔اور ان کے لئے اس کی دعاؤں اور شفاعت کی کیا ہی کاملیت اور منظوری ہوتی ہے ۔خاص کر اُس شفاعت کی جو مزامیر بالا کے مضمون میں درج ہے کہ ’’اے میرے باپ میری خطاؤں اور گناہوں کو یعنی میری جماعت برگزیدہ کی جوتمام جہان میں منتشر ہے شروخطا کو عفق کر اور اس شر وخطا کے سبب عقاب و عذاب کو یعنی ملامت وظلمات اور اندیشہ مرگ اور ان کی مانند غم واندوہ کو خفیف کر اور شکستہ دلوں پر مرہم لگا اور گھائلوں کے زخموں کو باندھ اور اتنا ان کا درد دکھ جسمانی جتنا کہ روح وجان کی غم خواری اور اندوہ کو محوکر‘‘ اور بلاشبہ ہر ایک شخص کے لئے جو روح اورقول و فعل میں خدائے حقیقی کا اور اس بادشاہت ربانی کا جو اہل ایمان کے قلوب اندرون میں قرار پاتی ہے،ڈھونڈنے والا ہے ۔لازم و مناسب ہے کہ خیال اوریقین دل نشین رکھےکہ اے میر ی جان یہ شکو ہ و فریاد و نالہ و گریہ جو مزامیر بالا میں اس بار بردار کے حق میں معروف ہیں ،چاہیئے کہ تو اپنے ہی حضور میں لائے ۔اور وہ اقرارو اظہار گناہ اپنی طرف منسوب کرےاور سوچ و غور بھی کرے کہ تیری ہی خاطر تیرے شفیع اور درمیانی خداوند مسیح نے یہ خشوع وخضوع (عاجزی و فروتنی)کی باتیں اپنی زبان پر لاکر عفو ومغفرت کی باتیں معروض(عرض ۔گزارش) کیں کہ یقین کر کہ وہ احب المحبین(دوست سے محبت کرنے والا) تیری ہی خاطر اس بار گراں کا متحمل ہوا۔اور دریغ و دل فِگاری(غمگینی۔زخمی دل) کی تلخ آوازیں نکالیں اور تیرے لئے وہ لعن طعن اٹھائے۔اور اس رنج وآزار کی نہ بطور قیاسی و صوری بُردباری کی پر اس جسم حقیقی عنصری میں جو حضرت مریم سے مولود اور بدست خُصُومت( عداوت۔دشمنی)و شرارت مصلوب بھی تھا۔ اور یوسف کی قبر میں مدفون اور خدا باپ سے ملتجی ہو کر مردوں میں سے نخست زادہ اور ثمرہ ٔاول ہو کر قبر سے اُسے برخاست کیا۔اے میری جان اسی بدن میں خداوند مبارک نے تشنگی اور گُرسنگی(بھوک) اور تاب و محنت اور ماندگی اور سنگ ساری کی برداشت کی ۔اور تیری خاطر بے خوان وتوشہ اور بے خانہ و سرائے اور قابل فساد وزوال ہوگیا۔اور ہرصورت سے مسکینی اور عبودیت(عبادت۔اطاعت) کے لوازم کو غیر از گناہ اٹھایا۔وہ نفس کہ انسان کامل کی جہل ذات سے تعلق نہیں رکھتا تھا،اسے قبول فرمایا۔تو جب یہ سب امور واقعیہ نہ صرف انجیلو ں سے بلکہ زبوروں او ر نبیو ں کی شہادت سے واجب التسلیم ہیں تو تجھ پر کیا فرض و لازم ہے کہ ان خطاؤں سے جن کے ظلم وجفا سے اس مخلص عالم نے اتنے بھاری داموں سے تجھے خرید لیا ہے، متنفر او ر دست براد ر رہے۔تجھے چاہیئے کہ اُس کی قدرت معہود پر تکیہ لگا کر ان کے سب آثاروں او ر علامتوں پر غالب او ر فتح یاب نکلے او ر عزم بالجزم میں قائم و دائم رہے کہ تو کبھی اس جانی دوست او ر براد ر عزیز کو اپنے تجرد او ر بغاو ت او ر خیانت سے غمگین نہ کرے۔
اس امر میں جاننا چاہیے کہ اس احب الناس نے وقت بوقت اپنے حواریوں کو بقدر ان کی برداشت اور استعداد کے اپنے دکھوں کی غایت اور انتہا سے آگاہ اور مطلع کیا ۔اور اس سے کہ کس طرح اپنی رحلت اور انتقال سے قبل وہ اپنی خاص قوم سے رد اور مظلو م ہوگا۔اور غیر قوموں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جائے گا۔ اور ہر چند کہ وہ رسول اپنے ضعف اور ضلالت ایمان کےسبب اس ا ٓخری رنج والم کی اطلاع سے مضطر اور سراسیمہ ہو گئے۔ تاہم خداوند مسیح نے بتاکید تمام اس بات کو اُن کے دلوں پر منقش کیاکہ شرفا اور علمائے یہود اور اہل روم بموجب اپنے مزاج اور تشنگی خون بے رحم کے میرے قتل کے منصوبے باندھنے میں باہم متفق ہوں گے۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے سب منصوبوں سے محض اتنا ہی حاصل کریں گے کہ خدا تعالیٰ کے مقرر ارادہ اور انبیا ئے سلف کی پیش خبریوں کو عمل میں لائیں گے اور سرا نجام دیں گے۔اور خصوصاً حضرت داؤد کی کتاب مقدس کھول کر اُسی کے اصل مضمون کی تشریح اور تفسیر کر کے اپنے نذرانہ اور ذبیحہ ہونے کی کیفیت حال کو ان پر روشن کیا تاکہ ان پر اور سبھوں پرمعلوم ہو جائے کہ بعید ازاں کہ خدا کی رضا و قضا میرے دکھ اور موت کے سبب باطل ٹھہری ۔اس میری موت مصلوبی کے درمیان وہ قدیمی مشورہ اور مصلحت خدا کی عین سر انجام ہوتی ہے اور میرے باپ کے جلال کا اظہار اور اشعار ہےاور اور تخم نئی حیات کا جس سے اصحاب نجات کی فصل مراد کاٹی جائے گی۔اس پژمردہ عالم کے کھیت میں بویا جاتا ہے اور بعد مرنے کے عجیب طور پربارآور ہوگا۔
اب چاہیئے کہ صحیفۂ زبور سے بعض آیتوں کو نکالیں جن سے وہ خاص امور مراد ہیں جو مسیح کی صلیبی موت میں واقع ہوگئے ۔بعض ایسی ہیں کہ اُن میں اُن واقعات کا خلاصہ اجمالاً مذکور ہے اور بعض ایسی ہیں جو اُن واردات کو مفصل بیان کرتی ہیں ۔ان شاءَ اللہ ہم ہردو صورت کی آیات کو بطور نقل باترتیب نکالیں گے۔
اولاً اس امر پر کہ خداوند مسیح اپنی ہی خاص قوم سے رد اور حقیر ہو گا اور ہیچ جانا جائے گا۔ (زبور۱۱۸ : ۲۲ ) بصراحت تمام دال(دلالت کرنےوالا۔پُر معنی) ہے’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا‘‘۔
ثانیاً ( زبور۲: ۱۔۲) سےیہ بات ثابت ہے کہ رد ہونا خداوندمسیح کا نہ صرف یہود کی برگزیدہ قوم سے وقوع میں آنے کو تھا، بلکہ ازجانب ملوک غیرقوم اور اُن کے بادشاہوں اور لشکروں سے کہ وہ’’ ابن خدا‘‘ کے حلقہ بگوش اور مطیع ہونے کا دعویٰ سن کر ہجوم و شورش و جوش و جنبش کی حالت میں نہایت غصہ کریں گے اور خدا کی اِس بادشاہت اور ہیکل کو جس کی اصل وبنیاد نبی ورسول ہیں اور کونے کا پتھر خود مسیح ہے، شکستہ اور خاک آلودہ کرنے کا منصوبہ باندھیں گے۔ ’’ قومیں کس لئے طیش میں ہیں اور لوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں ؟خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمیں کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکم آپس میں مشورہ کرکے کہتے ہیں آؤ ہم اُن کے بندھن توڑ ڈالیں اور اُن کی رسیاں اپنے اوپر سے اُتار پھینکیں‘‘۔
ثالثاً ایک خاصیت اس ظلم و ستم کی جسے خداوند اور اس کا بدن مجازی اہل خلاف کی طرف سے اٹھانے والاتھا، سو یہ ہے کہ وہ ظالم جس قدر تک اس منجی العالم کو مضروب اور مغموم کریں گے، اسی قدر جانیں گے کہ خدا تعالیٰ ہماری عبادت اور بندگی کو منظور کرتا اور حق ٹھہراتا ہے اور وہ اپنی دانست میں نہایت صواب (راست۔خوب)اور فارق(فرق کرنے والا) حقیقت اور ہر فضیلت و صلاحیت میں فائق(فوقیت رکھنے والا) اور خدا کے گھر میں اپنے اعمال حسنہ پر متکبر اور فخار ہوں گے۔مثلاً (زبور۳۵ )میں یوں لکھا ہے’’جو ناحق میرے دشمن ہیں مجھ پر شادیانہ نہ بجائیں اور جو مجھ سے بے سبب عداوت رکھتے ہیں چشمک زنی نہ کریں(زبور۳۵: ۱۹)،یہاں تک کہ انہوں نے خوب منہ پھاڑا اور کہا ہاہاہا! ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہے(زبور۳۵: ۲۱)،وہ اپنے دل میں یہ نہ کہنے پائیں آہا! ہم تو یہی چاہتے تھے ۔وہ یہ نہ کہیں کہ ہم اُسے نِگل گئے(زبور۳۵: ۲۵)،جو میرے نقصان سے خوش ہوتے ہیں وہ باہم شرمندہ اور پریشان ہوں۔جو میرے مقابلہ میں تکبر کرتے ہیں وہ شرمندگی اور رسوائی سے ملبس ہوں(زبور۳۵: ۲۶)‘‘۔ (زبور۳۵: ۲۶)‘‘۔ اِس مضمون سے متفق اَور بھی کلمات حضرت داؤد کے (زبور۶۹،۱۸،۱۶ )میں ہیں ’’جب مَیں نے ٹاٹ اوڑھا تو اُ ن کے لئے ضرب المثل ٹھہرا۔پھاٹک پر بیٹھنے والوں میں میرا ہی ذکر رہتا ہے اور مَیں نشہ بازوں کا گیت ہوں‘‘(زبور۱۲،۱۱:۶۹)۔اسی طرح (زبور ۳۸ )میں ہے ’’کیونکہ مَیں نے کہا کہ کہیں وہ مجھ پر شادیانہ نہ بجائیں ۔ جب میرا پاؤں پھسلتا ہے تو وہ میرے خلاف تکبر کرتے ہیں ‘‘(زبور۱۶:۳۸)۔اور خداوند مسیح کے دکھوں کے اُس وزن ووثاقت(پختگی۔مضبوطی) کی صورت پر صاف دلیل حضرت یسعیاہ کی کتاب کے باب۵۳ میں پڑھی جاتی ہے’’وہ آدمیوں میں حقیر و مردُود۔مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔لوگ اس سے گویا رُو پوش تھے اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی۔تَو بھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھا لیں اور ہمارےغموں کو برداشت کیا۔پر ہم نے اُسے خدا کا ماراکُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (یسعیاہ ۵۳: ۴،۳)۔اور (متی ۲۷: ۴۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے کُہنہ روسا نے خداوند مسیح پر طعنہ زنیاں اور تہمتیں لگائیں ،تو اِس بد گوئی میں وہی تلفظات اور عبارات داخل کر لئے جن کی خبر پیش از وقوع حضرت پر اُتری تھی اور اُس کے (زبور۲۲ : ۸،۷ ) میں مرقوم ہے۔اور موافق اس قول کے یہود کی وہ کذب اور مکر آمیز عذر خواہی تھی،بجواب اُس سوال کے جو خداوند نے ان سے فرمایا تھا کہ ’’۔۔۔مَیں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں ۔ اُن میں سے کس کا م کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کُفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اوراس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے‘‘ (یوحنا۳۳،۳۲:۱۰)۔ اور یقین ہے کہ حضرت کے احوال کو اس مصیبت کے امر میں بڑی مرافقت خداوند مسیح کے ساتھ تھی۔چنانچہ وہ مکار اپنے محب و خیر خواہ کا مجروح اور مظلو م ہونا عین اپنے فخر کا باعث اور بدزبانی کو اپنے حسنات اور اوصاف کے شمار میں حساب کر رہے تھے ۔ہا ں بلکہ اپنی وحشت مزاجی اور سیرت اور طنیت شیطانی اور خو ں خواری کو اسی بات میں عیاں وبیا ں کرتے تھے کہ نئی نئی تہمتیں اور رسوائیاں حوادث کی سختی اور اشد جعل سازی میں ہر حکمت وحیلہ کو حلال اور روا بلکہ مستحسن(نیک ،پسندیدہ) بھی جانتے تھے۔تاآں ساعت کہ اُس خون ناحق کی نشہ بازی سے مست ہو کر ایک دل اور ایک زبان سے چلّاچلّا کر اس لعنت آمیز درخواست و سوال پر مدعی ہوگئے، جس کا زہر ِہَلاہَل(زہر قاتل) کا سا پھل آج تک چکھتے چلے آئے ہیں کہ اِس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد ں پر لگا رہے(متی ۲۵:۲۷)۔پر اس امر میں ہزار ہا شکر گزار یوں کے لائق ہے کہ اصحاب شرارت وخصومت سے گو کتنی ہی حکمتیں اور حیلہ بازیاں اور جدو جہد منصوبہ جات وغیرہ ہوئے ،مگر ان سبھوں سے ایک ہی نتیجہ ہو رہا کہ خداوند مسیح وہ برہ بے عیب اور بے داغ اور ہر فعل و قول وخیال کی خطا سے مبرا ٹھہرا ۔اور تب سے آج تک پشت در پشت ہزار ہا جھوٹے گواہ اس امر کے ثبوت کے واسطے گانٹھے گئے اورہزار ہا مجلسوں کے بیچ ہزار ہا قاضی اسی مقدمہ کے فیصلے کرنے کے لئے مسند نشین ہوگئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس اقدس المقدسین کو نہ خطاکاروں کا بوجھ بردار کیا، بلکہ خود مجرم اور خطاکار اسی کو ٹھہرا۔
باوجود اِس کے بھی اُن کی مراد بر نہ آئی اور اتنی اتنی کوششوں او ر ہنر اور حکمت کی پیچشوں سے صرف یہی ایک بات نکلی ہے کہ وہ خداوند سر اور نمونہ قدوسیت کا اور اکیلا چشمہ ٔ صفائی کا ان کے لئے ہے جو خواہاں اور آرزور مند ہیں کہ اس قول وزنی اور سنجیدگی توریت کے شنوا ہو کر تابع بھی ہوں کہ ’’تم پاک رہو کیونکہ مَیں جوخداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں‘‘(خروج۲:۱۹)۔اور اگر شاید ممکن بھی ہو تا کہ کسی قاضی ،عادل اور راست کی مسند سے کوئی مسئلہ مخالف صادر ہوتا تو بھی کون ایسا فتویٰ ہو سکتا کہ جمہور عالم کے متفق شہادت کے مقابل قائم رہ سکتا۔ کون شرمندہ اور لاجواب نہ کھڑا ہو گا،جب خداوند آپ ہی اُس معترض کے روبرو وہ قول فرمائے گا جیسے یہودسے متکلم ہو کر فرمایا تھا’’تم میں کون مجھ پرگناہ ثابت کرتا ہے؟ اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟جو خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سنتا ہے تم اس لئے نہیں سنتے کہ خدا سے نہیں ہو‘‘ (یوحنا۴۷،۴۶:۸) اور (زبور۳۵ )کی بھی ویسی ہی گواہی ہے’’جھوٹے گواہ اُٹھتے ہیں او ر جو باتیں مَیں نہیں جانتا وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ۔وہ مجھ سے نیکی کے بدلے بدی کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ میری جان بے کس ہو جاتی ہے‘‘(زبور۳۵: ۱۲،۱۱)۔
اے صاحبو ذ ر ا سوچ کر دیکھو کہ مسیح کے حلم او ر برداشت کا مزاج کیا ہی برعکس تھا ،محمدصاحب کے مزاج سے۔ جس شخص کی بات راویان معتبر سے تسلیم ہو چکی کہ سو سو او ر ہزار ہزار یہود کے خون وقتل کے تماش بین اتنی ناہمدردی او ر لاپروائی سے تھے کہ اُن کی روح او ر رنگ میں کچھ تبدیلی نہ ہوئی او ر خداوندمسیح کی جاں فشانی او ر خود نثاری کی کون مرافقت بعید بھی ہوسکتی تھی۔اس صاحب کے ساتھ جس نے شہروں کے تسلط او ر تسخر کے جنگ وجدال کے غنائم میں سے ایک چوتھائی اپنے حصہ کی علیٰحدہ کرائی ۔اور پھر یہ جرأت کون صاحب تعصب کر کے اپنے خواب و خیال میں بھی ایسا جانے کہ پاکی او ر صفائی او ر نفس ا مارہ سے کمال پرہیز کے امر میں خداوندمسیح کے ساتھ محمدصاحب کو جائےتفضل اور رتبہ کبریائی ہو۔درحالیکہ(اس حال میں ) وہ اس جسارت کی غایت تک پہنچ گیا کہ قول وکلام اللہ کو اپنا ہی قبیل کرنا چاہا۔ از آنروکہ خصوصاً اُسی کے لئے درباب تزوج(شادی) کے شریعت اللہ کی تخفیف اور تَلئِین(نرمی) ہوجائے۔بآنقدر کہ جو باقی خلق اللہ کے لئے ممنوع و حرام تھا، صرف اس کے لئے حلال ہوجائے ۔یہ جائے تعجب ہے ،پر تو بھی اگرچہ اس امر میں مفروق اور متمیز ہونا ایسا آسان معلوم دیتا ہے کہ طفل شیر خوار بمشکل اس میں مطالعہ کر سکتا ہے تو بھی اصحاب عقل و فراست اس بات سے ضال (گمراہ )اور فریب کش ہیں ۔
بعض نام کے اصحاب عقل وفراست اس امر میں ایسے خال خیال اور جاہل مطلق رہتے ہیں کہ درباب صفائی و پاکیزگی دل محمدصاحب کو خداوند مسیح کا ہم رتبہ اور طبقہ بتاتے ہیں ۔بلاشبہ باعث اس ضلالت اور کور چشمی اُن کی کا یہ ہے کہ جو انجیل یوحنا میں مرقوم ہے کہ ’’۔۔۔ نُور دنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نُور سے زیاد ہ پسند کیا۔اس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے‘‘ (یوحنا۱۹:۳)۔یعنی اکثر الناس ایسا مذہب اور ملت چاہتے ہیں جس میں تخفیف شرع ہو اور خدا کے سخت امر اور نہی کی کچھ تلئین(نرمی) ہو اور ہوائے نفس کی کچھ اجازت ہو اور اصحاب بد مزاج اور بدمعاش رسومات دنیوی کو بجالانے سے اپنے اخلاق اور خوئے و خصلت کی معیوبی اور خرابی کا کچھ مبادلہ کر سکیں ۔اور کلمۂ استغفار بعوض انقطاع بدشہوتوں کے مقبول ہوجائے۔اور اس سے معلوم اور ثابت ہے کہ محض جہالت ہی سے اور اصول اور حقائق دین کی نابینائی سے وہ خام تصور پیدا ہوتا ہے جو ڈیون پورٹ صاحب کی کتاب میں لکھا ہے۔ازاں جہت کہ طالبان حقیقت کی آنکھوں میں گردو غبار ڈالے یعنی یہ تصور کہ بعض مسیحی فرقے کے بادشاہ بہت خوں خوار اور ظالم او ر عہد شکن ہوگئے ہیں ۔اس لئے ا ُن کا دین قابل ایجاب(قبول کرنا) نہیں ہے۔ازبرائے آنکہ اس قدر اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اصحاب مذہب کیسے یعنی دین کے کلمہ خواں کون کون روش و رفتار اتفاقاً اختیار کرتے ہیں ،پر یہ کہ خود دین ہی اپنے اصول اور حقائق میں کیسا ہے ۔اور وہ مزاج اور طبیعت خاص جو اِن حقائق اور احکام پر مبنی ہے اور اُن پر مستقر ہے، سو کیسی ہے۔ازآنرو کہ جس قدر نیک صورت باطنی وبیرونی اُس کے نقشہ پر منقش ہے اور اُس کی عین روح اور جان ،اُن کی روح اور عادت اور عمل میں حلول اور تحلل کرتی ہے۔اسی قدر وہ مزاج طہارت اور صفائی میں پہنچتے اور اُس میں ترقی اور تکمیل پاتے ہیں۔تو اگر شاید کوئی شخص ظاہراً خداوندمسیح کی برادری سے ہو ،پر در باطن نشہ باز یا ،رنڈی باز یا ظالم اور لٹیرا یا دوزنوں کا کم بخت شوہر ہو، صاحب مذہب تو شاید ہوسکے پر اہل دین سے محروم ہے اور ورثاء عہد کی برکتوں سے بے بہرہ ہے۔چنانچہ یوحنا رسول کے پہلے عام خط میں ہے کہ’’اُس سے سُن کر جو پیغام ہم تمہیں دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ خدا نور ہے اور اُس میں ذرا تاریکی نہیں ۔اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے‘‘(۱۔یوحنا۶،۵:۱)۔
رابعاً خداوند مسیح کے دکھوں اور غموں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اپنے اصحاب خصومت ظاہری کی نسبت اپنے دوستوں اور رفیقو ں کی طرف سے زیادہ آزار اور تکلیف کھینچی۔اور بہ نسبت کینہ ور دشمنوں کے عین مقربوں کی خیانت اور بے وفائی سے زیادہ مجروح اور مضروب تھا۔چنانچہ زکریاہ نبی نےاپنی کتاب میں معروفاً بابت اس امر کے لکھا ہے ’’اور جب کوئی اس سے پوچھے گا کہ تیری چھاتی پر یہ زخم کیسے ہیں ؟تو وہ جواب دے گا یہ وہ زخم ہیں جو میرے دوستوں کے گھر میں لگے‘‘(زکریاہ۶:۱۳ )۔ اور خاص اشارہ اس امر سے حضرت داؤد کے( زبور ۴۱ : ۹) میں پایا جاتا ہے ’’بلکہ میرے دلی دوست نے جس پر مجھے بھروسا تھا او ر جو میری روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی ہے‘‘۔ اور خودخداوند مسیح نے اس آیت کو اپنی حقیقت حال کی طرف محمول کیا’’مَیں تم سب کی بابت نہیں کہتا۔جن کو مَیں نے چنُا اُنہیں مَیں جانتا ہوں لیکن یہ اس لئے ہے کہ یہ نوشتہ پورا ہو کہ جو میری روٹی کھاتا ہے اُس نے مجھ پر لات اٹھائی‘‘(یوحنا۱۸:۱۳)۔
اور سوائے اِس کے دو اَور اوصاف و صریح پیش گوئیاں اس بے وفا کی شرارت اور اُس کی عاقبت کی تباہ حالی عبرت آمیز الفاظ میں انگشت نما کرتی ہیں یعنی ( زبور ۱۰۹ )میں یوں لکھا ہے کہ’’اُنہوں نے نیکی کے بدلے مجھ سے بدی کی ہےاور میری محبت کے بدلے عداوت۔تُو کسی شریر آدمی کو اُس پر مقرر کردے اور کوئی مخالف اُس کے دہنے ہاتھ کھڑا رہے ۔جب اُ س کی عدالت ہو تووہ مجرم ٹھہرے اور اُس کی دعا بھی گنا ہ گِنی جائے۔اُس کی عمر کوتاہ ہوجائے اور اُس کا منصب کوئی دوسرا لے لے‘‘(زبور۵:۱۰۹۔۸)۔واضح ہو کہ اسی آیت کو پطرس رسول نے رسولوں کے اعمال کے پہلے باب میں یہوداہ اسکریوتی کی خیانت کی طرف منسوب کیا اور زکریاہ نبی کا قول بھی اس کے موافق ہے’’اور مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو میری مزدوری مجھے دو نہیں تو مت دو اور اُنہوں نے میری مزدوری کے لئے تیس روپے تو ل کر دِئے‘‘(زکریاہ۱۲:۱۱ )۔
اور اسی مردود اورخداوند مسیح کے مخالف کو پطرس رسول نے(زبور۶۹ )کی بعض آیتوں کا مصداق بتایا تھا یعنی(زبور۶۹: ۲۶ ۔ ۲۸ ) اور شک وشبہ نہیں کہ اسی یہوداہ اسکریوتی پر( زبور ۵۵ : ۱۳،۱۲ ) عائد اورصادق ہیں ’’جس نے مجھے ملامت کی وہ دشمن نہ تھا ورنہ میں اس کی برداشت کر لیتا اور جس نے میرے خلاف تکبر کیا وہ مجھ سے عداوت رکھنے والا نہ تھانہیں تو مَیں اُس سے چھپ جاتا ۔بلکہ وہ تو تُو ہی تھا میرا ہمسر ۔میرا رفیق اور دلی دوست تھا‘‘۔اور اگر کوئی شخص یہ جائے تعجب اور تحیر جانے کہ اُس ایک شریر فتنہ انگیز اور عہد شکن کے احوال کی اتنی اتنی پیش خبر یاں کم سے کم چار یا پانچ پیشین گوئیاں بزبان انبیا صادر ہوگئیں تو اس شبہ کا ارتفاع و اجبی اور معقو لی یہ معلوم ہوتا ہے۔درحالیکہ ایسے شخص کے مرتد اور برگشتہ ہونے سے جوخداوند مسیح کے ممتاز اور مختص رفیقوں میں سے تھا ۔بعض ضعیف اور نیم خام نو مرید متردد اور ایمان میں متزلزل ہوسکتے تھے تو خدا کی یہ مرضی تھی کہ اس ماجرے کی بڑی پیش خبری اور عبرت نمائی ہو۔گویا کہ ضیاالشمس کے روبرو ظاہر اور روشن ہوجائے۔شاید نہ ہو کہ کوئی معترض قابو پا کر خدا کی حکمت یا خداوند مسیح کی پیش فہمی میں کچھ اشتباہ یا عیب چینی کا باعث پائے۔یا اُس کو خدا کی مشورت قدیمی کے مخل و مضر جانے ،اس لئے یہوداہ اسکریوتی دجالوں یعنی مسیح کے مخالفوں کے سلسلہ میں اول اور ان سب کا پیشوا گنا جاتا ہے اور صحف انبیا اور مزامیر داؤد میں یہی لعین من الناس ہے، جیسا کہ شیطان لعین من الارواح ہے اور وہ لعنتیں جو مزامیر بالا میں اُس پر وارد ہوئی تھیں ،ایسی حیرت افزا اور ہیبت انگیز ہیں کہ کُل کلام اللہ میں اُن سے تلخی اور شدت میں بڑھ کر کوئی نہیں ۔اور اِس بدعا کی یہ خاصیت ہے کہ کسی پر ہر گز نہیں کہی گئی، مگر یہودا ہ اسکریوتی اور اُس کی مانند دجال آخری مسیح کے مخالفوں پر کہ وہ سب اشخاص باقی سب اہل خلاف اور آبا فتنہ وفساد سے یہ تفریق رکھتے ہیں کہ ہر چند بالاختصاص تمام مراتب فضل اور مدارج قرب ورفاقت میں افضل اور اعلیٰ درجہ تک سرفراز ہوگئے تھے۔مگر پھر خیانت و تزویر(فریب۔دھوکا) کی طرف رجوع لا کر اول کینہ وفساد کے سر لشکر ہوئے اور گویا شیطان کے ہاتھ میں آپ سے آپ بک گئے۔اور اُ س کے فاسد اور فاسق منصوبوں کی علّتیں اور وسائل ہو کر آتش جہنم سے اپنی حرارت غصہ و عداوت کو سُلگایا۔
خامساً پھر زکریاہ نبی کی کتاب کے ۱۱ویں باب سے ثابت ہے کہ وہ تردید اور خیانت خاص جس کے سبب یہود اہ اپنے استاد اور خداوند کے خون و قتل کے منصوبے میں سر گروہ ہوگیا۔صرف اُس خیانت اور ناشکری عامہ و کلیہ کی مثال اور تشبیہ تھا جس کے سبب تما م قوم یہود آج تک مجرم ٹھہری اور ملک بہ ملک آوارہ اور پراگندہ ہو کر مبادلہ اور جرمانے اٹھا رہی ہے۔چنانچہ بددُعا کا طوق آہنی اپنی گردنوں میں لگائے ہوئے ہیں ۔بآ نقدر کہ یہ قوم مطلقاً بے چارہ اور لاعلاج اور آوارہ ہوگئی ہے۔لیکن ازاں باعث کہ عہد سلف ابراہیمی منسوخ ہونے کے قابل نہیں اور وہ عمدہ گڈریا جو اس عہد کا ضامن اور مقبل (حق کافرمان قبول کرنےوالا)اور رہیں القول ہے اپنے اقرار مستحکم سے نہیں ہٹ سکتا۔
پس ہر چند کہ اُنہوں نے اپنے وکیل اور عوضی کو یہوداہ اسکریوتی کے ہاتھ سے جس نے بطور بے وفائی اور نمک حرامی کے اپنے چوپان کو فروخت کیا،خریدا۔ توبھی اُسی زکریاہ نبی کی کتاب میں(زکریاہ۱۲: ۱۰) سے یقین ہے کہ آخر الایام میں وہ قوم بے وفا اپنی مدت مدید کے مردود اور مقہور کئے ہوئے گڈریئے کی طرف بڑی پشیمانی سے رجوع لائیں گی۔چنانچہ مرقوم ہے’’اور مَیں داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح نازل کروں گا اور وہ اُس پر جس کو انہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اُس کے لئے ماتم کریں گے جیسا کوئی اپنے اکلوتے کے لئے کرتا ہے اور اُس کے لئے تلخ کام ہوں گے جیسے کوئی اپنے پہلوٹھے کے لئے ہوتا ہے‘‘۔
اس لئے کوئی صاحب دیدو دانش یہ خیال نہ کرے کہ یہود کی روگردانی اور سر کشی کے سبب خداوند مسیح کی رسالت باطل اور ناکارہ نکلی، ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ اس بات سے بے لحاظ اور بے سوچ نہ رہے کہ شہادت انبیا اور مزامیر داؤد اس امر پر عین متفق ہیں کہ عین خدا تعالیٰ کی حکمت اور پروردگاری کی مشورت اس تردید اور بے وفائی کے سربراہ اور سرانجام ہونے سے ذرا بھی نہیں رُکی اور نہ رُک سکتی تھی، بلکہ یہود اور اہل روم کے ارادت(خواہش) متعینہ(مقررکی ہوئی) سے خدا کی مرضی کا پورا افتتاح ہو سکتا تھا۔چنانچہ سلیمان فرماتا ہے کہ ’’آدمی کے دل میں بہت سے منصوبے بدلتے ہیں لیکن صرف خداوند کاارادہ ہی قائم رہے گا‘‘(امثال ۲۱:۱۹)۔اسی سبب سے جب خداوند مسیح کی ساعت انتقا ل قریب آپہنچی تھی اور غم والم نہایت درجہ تک پہنچ گیا تھا۔تب اُس کے حواریوں نے ہر چند کہ سابق میں کوتاہ بین اور سست اعتقاد تھے، زیادہ تسلی اور تیقن قبول کیا۔از برائے آنکہ وہ پوری مطابقت اور موافقت جو پیش گوئیو ں کو امور واقعی کے ساتھ تھی، زیادہ صراحت سے روشن اور مفہوم ہو گئی۔چنانچہ حضرت داؤد کے نوشتوں کی بہت سی نہانی پیش گوئیاں آشکارا اور نمایاں ہو گئیں۔
سادساً ایک اَور خاصیت نادر اور بے مثال خداوند مسیح کے الم و اندوہ کی یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ابن وحید اور کلمہِ ربانی ہونے پر دعویٰ کرنا صرف اُسی پر لازم و واجب تھا ۔کسی غیر کووہ دعویٰ ابنیت اور کلمیت کا روا اور جائز نہ تھا۔اگر کوئی کرتا تو کفر ہوتا۔سچ ہے کہ ہر ایک زمانہ ٔسلف میں ہر صاحب رسالت ونبوت کو باقی ہم عصروں کی نسبت تجرد اور تنہائی اور یتیمی حاصل ہوئی ہے اور بطریق اولیٰ اُس کو جو نبیوں کے درمیان بہ یکتائی و تنہائی تمام ابنیت اصلیہ اور کلمیت جو ہریہ پر برحق مدعی تھا اور اپنے آپ کو خدا کی بادشاہت اور بارگاہ کا مختار اور خدا کے فعلوں کا فاعل اور کارساز اور سب عالموں کا وارث اور پروردگار بتا سکتا تھا ۔وہ بسبب اُس علویت خاص و بے نظیر کے اس قدر مورد حسدو کینہ وعداوت تھا کہ دوسرے کا ہونا غیر ممکن ہے۔ مثبت اس بات کا (یوحنا۱۰: ۳۷۔۳۸) کا مضمون ہے’’اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔لیکن اگر مَیں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقین کرو تا کہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور مَیں باپ میں ‘‘۔
اس آیت کے معنی نہایت باریک اور عالی ہیں ۔چنانچہ خداوند مسیح اس میں ایسی قدرت اور منزلت کا مدعی نہیں ، جس پر ہر کوئی صاحب معجزات یعنی ہر ایک نبی یا رسو ل دعویٰ کر سکتا، پر اپنے باپ کے قدرت آمیز افعال کی قابلیت اور فعلیت کی یہ بنیاد اور اصل باعث فرماتا ہے کہ ’’ باپ مجھ میں ہے اور مَیں باپ میں رہتا ہوں ‘‘۔پھر اس بات کی طرف بھی التفات کرنا چاہیئے کہ جب کہ خداوند کی یہ مرضی تھی کہ اُس کا ہر قول و فعل بر موقع اور بوقت مناسب اور متعین ہوتو وہ اعلیٰ دعویٰ نہ ہر وقت اور نہ بطور نخوت (خود بینی ،تکبر)اور شیخی بازی کے زبان پر لایا۔لیکن بلحاظ مقرری اوقات کے بعض وقت خاموش رہا اور بعض وقت گویا اور حجاب کش ۔چنانچہ متی کی انجیل میں اپنی آیندہ صلیبی موت کی صاف پیش خبریاں دیں اور اُس خاص جرم مزعوم کی جس کے باعث صلیب کے فتوے کا مستحق سمجھا گیا ’’جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا یہی وارث ہے۔آؤ اِسے قتل کر کے اِس کی میراث پر قبضہ کر لیں ‘‘(متی۳۸:۲۱)۔ اور بلاشبہ یہ اُسی خاص مذمت کی طرف اشارہ ہے جودوسرے زبورمیں ہے کہ ’’خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکم آپس میں مشورہ کر کے کہتے ہیں آؤ ہم اُن کے بندھن توڑ ڈالیں ۔۔۔ ‘‘ (زبور۳،۲:۲) اور اِسی طعنہ زنی سے خفیہ اشارہ (زبور ۲۲) میں ہے کہ ’’۔۔۔وہ سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں اپنے کو خدا کے سپرد کردے ۔وہی اُسے چھڑائے۔جب کہ وہ اُس سے خوش ہے تووہی اُسے چھڑائے ‘‘(زبور ۲۲: ۸،۷)۔اور عین وہی کلام علما اور ر وسا یہود نے زبان زد کیا ،مسیح مصلوب کے مقابل ۔چنانچہ (متی۲۷: ۴۳) آیت اس بات پر شاہد ہے۔اور اسی طرح (زبور۴۰ ) میں خداوند مسیح نہایت وزنی اور سنجیدہ قول سے صراحتاً تو نہیں، مگر ضمناً و کنایتاً اس عالی مرتبہ پر مشار ُ‘اِلیہ(وہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو) ہے’’قربانی اور نذر کو تُو پسند نہیں کرتا۔تُو نے میرے کان کھول دِئے ہیں ۔سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی تُو نے طلب نہیں کی۔تب مَیں نے کہا دیکھ! مَیں آیا ہوں۔ کتاب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے۔اے میرے خدا !میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے‘‘ (زبور۶:۴۰۔۸)۔اس اشارے کو بعید و مبہم جان کر بعید از بحث نہ جاننا چاہیئے ۔
ازاں جہت کہ ہفتادی مترجم جو اہل خلاف ہیں، اِس عبارت کو(یعنی تُو نے میرے کان کھول دئیے ہیں) بطور صراحت و وضاحت کے اور بطریق تبدل حرف بمعنی تاویل کر کے اس کے یہ معنی بتاتے ہیں کہ ’’ تُو نے میرے لئے ایک بدن تیار کیا‘‘۔جس امر میں وہ مترجمین یہود یا تو اپنے نسخوں میں ایک اختلاف نقلی کے قائل ہیں ،جواُن کی دانست میں معتبر اور صحیح تھا یا وہ ہفتاد علما اس رائے پر متفق ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ دو اصطلاحات ایک ہی معنوں سے ہیں ۔
اولاً یہ کہ خدا کی مرضی کے موافق اس کی طرف سے گوش (کان)کی کشادگی ہو۔
ثانیاً یہ کہ رب تعالیٰ کی طرف سے ایک جسم مرتب اور مکمل کیا جائے ۔یہ امر کسی طرح ہو مگر یقین ہے کہ شارحین یہود کی اس تاویل اور تفسیر کو روح القدس نے منظور کیا اور (عبرانیوں ۱۰: ۵) آیت ختم ثبوت الہٰامی سے اس ترجمے کو مختوم(مہر شدہ ،بند کیاہوا) کر کے اس مضمون کی صحت اور اصلیت کا مقبل ور ہیں ہوگئی ’’اسی لئے وہ دنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میر ے لئے ایک بدن تیا ر کیا‘‘۔
حاصل کلام خصوصیت اس گلہ وشکوےکی یہی ہے کہ خداوند نے جو کچھ اپنے اصل وجود کی حقیقت کے باب میں اور اپنے اس عالم شہود میں مجسم ہونے کے مقاصد اور مطالب کے باب میں فرمایا تھا ،اس بیا ن کُلی میں رب تعالیٰ کے نام پر یعنی اُس کی ذات و صفات پر مدعی ہوتا چلا آیا، نہ بطور ادنیٰ اور مجازی،بلکہ بطریق اعلیٰ اور حقیقی جیسا خدا تعالیٰ نے اُس کے رتبے او ر وجود کا ر از حضرت موسیٰ پر ظاہر ا ور کشف فرمایا تھا’’تم اُس کے آگے ہوشیار رہنا اور اُس کی بات ماننا۔اُسے ناراض نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری خطا نہیں بخشے گا اس لئے کہ میرا نام اُس میں رہتا ہے‘‘(خروج۲۱:۲۳)۔
اے صاحبو اِس آیت پر خوب غور و لحاظ کرنا مستحب (پسندیدہ )بلکہ واجب ہے کہ و ہ مالک میثاق اور ضامن عہد کون ہے کہ خطاؤں کا حل و عقد اُس کے اختیار میں ہے۔او ر جو اپنے قول وکلام کے عدول کرنے والوں کے لئے بمقا م مَلک میثاق ،مَلک قہر اور مَلک الموت بن جاتا ہے۔آپ ہی قاضی اور مفتی ہو کر اس بڑے مقدمے کا انفصال کر کے اس بات کے قائل ہو جاؤ گے کہ یہ خطا کا عقدو حل کرنےوالا کوئی دوسرا نہیں، مگر وہی جس نے اپنے حواریوں کو بھی اختیار بخشا کہ میر ا نام لے کر خطا کاروں کو عطا و عفو گناہ سے بہرہ ور یا بے بہرہ کریں ۔جیسے متی کی انجیل میں لکھا ہے ’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تم زمین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھےگا اور جوکچھ تم زمین پر کھولو گے وہ آسمان پر کھلے گا‘‘(متی۱۸:۱۸)۔
اب ذرا اَور بھی اُس عجیب اتفاق پر جو زبور کی پیشین گوئیوں اور واقعات انجیل میں ثابت ہے، تفصیل وار دلیل دینی، صلاح ہے ۔خصوصاً اُن سوانح کے حق میں جو مسیح کی عمر اینجہانی کے آخری اوقات میں سر زد ہوئے۔یہ ذیل میں بیان ہیں ۔
آیات انجیل مقدس |
آیات مزامیر د اؤد |
اوّل | اوّل |
’’جب سپاہی یسوع کو مصلوب کر چکے تو اُس کے کپڑے لے کر چار حصے کئے۔ہر سپاہی کے لئے ایک حصہ اور اُس کا کرتہ بھی لیا۔یہ کُرتہ بن سلا سراسر بُنا ہوا تھا ۔اس لئے انہوں نے آپس میں کہا کہ اِسے پھاڑیں نہیں بلکہ اس پر قرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ کس کا نکلتا ہے۔یہ اس لئے ہوا کہ وہ نوشتہ پورا ہو جو کہتا ہے اُنہوں نے میرے کپڑے بانٹ لئے اور میر ی پوشاک پرقرعہ ڈالا‘‘ (یوحنا ۲۴،۲۳:۱۹)۔ | ’’وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میر ی پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں‘‘(زبور۱۸:۲۲) |
دوئم | دوئم |
’’پِت ملی ہوئی مے اُسے پینے کو دی مگر اُس نے چکھ کر پینا نہ چاہا‘‘(متی ۳۴:۲۷)۔’’سپاہیوں نے بھی پاس آکر اور سرکہ پیش کر کے اُس پر ٹھٹھا مارا اور کہا کہ اگر تُو یہودیوں کا بادشاہ ہےتو اپنے آپ کو بچا‘‘(لوقا۳۷،۳۶:۲۳)۔ | ’’اُنہوں نے مجھے کھانے کو اندارین بھی دیا اور میری پیاس بجھانے کواُنہوں نے مجھے سرکہ پلایا‘‘(زبور۲۱:۶۹)۔ |
سوئم | سوئم |
’’اِسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹھے سےکہتے تھے ۔اِس نے اوروں کو بچایا۔اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔۔۔ اِس نے خدا پر بھروسا کیا ہے اگر وہ اسےچاہتا ہے تو اب اِس کو چھڑا لے کیونکہ اِس نے کہا تھا مَیں خدا کا بیٹا ہوں ‘‘ (متی۴۱:۲۷۔۴۳)۔ | ’’وہ سب جو مجھے دیکھتے ہیں میرا مضحکہ اُڑاتے ہیں ۔وہ منہ چِڑاتے ۔وہ سر ہِلا ہِلا کر کہتے ہیں اپنے کو خداوند کے سپرد کر دے۔وہی اُسے چھڑائے۔جبکہ وہ اُس سے خوش ہے تو وہی اُسے چھڑائے ‘‘ (زبور۸،۷:۲۲)۔ |
چہارم | چہارم |
’’اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلّا کر کہا ایلی ایلی لمَاشَبقتَنِی؟یعنی اے میر ے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘(متی۴۶:۲۷)۔ | ’’ا ے میر ے خدا !اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟تُو میری مدد اور میرے نالہ وفریاد سے کیوں دور رہتا ہے؟‘‘ (زبور۱:۲۲)۔ |
پنجم | پنجم |
’’پھر ایک اَور نوشتہ کہتا ہے کہ جسے انہوں نے چھیدا اُس پر نظر کریں گے‘‘(یوحنا۳۷:۱۹)۔ | ’’۔۔۔وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔مَیں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں ۔وہ مجھے تاکتے اور گھُورتے ہیں ‘‘ (زبور ۱۷،۱۶:۲۲)۔ |
ششم | ششم |
’’اِس کے بعد جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئی تا کہ نوشتہ پورا ہو تو کہا کہ مَیں پیاسا ہوں‘‘(یوحنا۲۸:۱۹)۔ | ’’میری قوت ٹھیکرے کی مانند خشک ہو گئی اور میری زبان میرے تالُو سے چپ گئی اور تُو نے مجھے موت کی خاک میں ملا دیا‘‘ (زبور۱۵:۲۲)۔ |
ہفتم | ہفتم |
’’پیلاطُس نے سردار کاہنوں اور عام لوگوں سے کہا مَیں اس شخص میں کچھ قصور نہیں پاتا‘‘(لوقا۴:۲۳)۔’’۔۔۔دیکھو مَیں نے تمہارے سامنے ہی اُس کی تحقیقات کی مگر جن باتوں کا الزام تم اُس پر لگاتے ہو اُن کی نسبت نہ مَیں نے اُس میں کچھ قصور پایا۔نہ ہیرودیس نے۔۔۔‘‘(لوقا۱۵،۱۴:۲۳)۔ | ’’مجھ سے بے سبب عداوت رکھنے والے میرے سر کےبالوں سے بھی زیادہ ہیں۔میری ہلاکت کے خواہاں اور ناحق دشمن زبردست ہیں پس جو مَیں نے چھینا نہیں مجھے دینا پڑا‘‘(زبور۴:۶۹)۔ |
ہشتم | ہشتم |
’’پھر یسوع نے بڑی آواز سے پکارکر کہااے باپ! مَیں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اور یہ کہہ کر دم دے دیا‘‘ (لوقا۴۶:۲۳)۔ | ’’مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھ میں سونپتا ہوں۔اے خداوند! سچائی کے خدا! تُو نے میرا فدیہ دیا ہے‘‘(زبور۵:۳۱)۔ |
نہم | نہم |
’’یہ باتیں اس لئے ہوئیں کہ یہ نوشتہ پورا ہو کہ اُس کی کوئی ہڈی نہ توڑی جائے گی‘‘(یوحنا۳۶:۱۹)۔ | ’’وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی‘‘(زبور۲۰:۳۴)۔ |
واضح ہو کہ اِس آخری اَمر سے ایک عادت مشہور اور معروف یہود پر اشارہ ہے ۔چنانچہ جو شخص دن بھر مصلوب رہ کر اس قدر بدن کی تقویت رکھتے تھے کہ ان کی جان بعینہ ثابت وقائم رہتی تھی اور قریب الوفات ہونے کی صاف علامتیں دکھائی نہیں دیتی تھیں، تو اُن مصلوبوں کو ایسا سخت مضروب کرتے تھے کہ بدن سے فوراً جان نکل جاتی تھی۔اس طرح جلادوں کا کام بھی جلدی سے تمام ہوتا تھا اور وہ مجرم مدت کی جان کندنی کے درد سے مخلصی پا کر جان دیتا تھا۔علاوہ ازاں عید فسح کےایک قاعدہ موسوی پر بھی اشارہ ہے،جس کا اشارہ بتکریر وتاکید تمام توریت میں ملتا ہے۔ ’’نہ تم اُس(بّرہ) کی کوئی ہڈی توڑنا‘‘(خروج۴۶:۱۲) ۔اِس ہڈی کے توڑنے کی ممانعت ایک تمثیل نصیحت آمیز بہ آں معنی تھی کہ فرض ہے جتنے جتنے شخص ایک ایک گھر میں اِس پاک عید کے دستر خوان پر بیٹھے تھے اُن کی رفاقت میں کچھ پھوٹ اور شگاف نہ ہو۔اور پھر بھی اس رفاقت کی یگانگت اور استقرار کا خود ذبیحہ بھی نشان تھا اور اُس اندرونی اور باہم چسپیدگی کا جو خداوندمسیح کے بدن مجازی کے عضووں کے ساتھ مامور ہے۔اور اُس رعایت و محافظت کا بھی جس سے خداوند انہیں خوف وخطرے سے رہائی و خلاصی دیتا ہے ۔
چنانچہ بالا زبور میں مرقوم ہے کہ وہ اُس کی ساری ہڈیوں کا نگہبان ہے ۔اور یہ بات یقیناً قابل لحاظ ہے کہ روح القدس نے جس قدر بزبان انبیا ان آخری دکھوں اور آزاروں کے واقعات کو کشف اور ظاہر کیا ۔سو ان میں ایک بھی قلیل و ذلیل نہ جانا، سبھوں میں راز ورمز عبرتاً نصیحت آمیز پوشیدہ رہے۔جس بات کا یہ امر بُرہان اور نشان ہے کہ چاروں کتب سماوی میں سے تین کتابوں کے بیچ جو اِس استخوان کے توڑنے کی ممانعت معروفاً و مشہور اًپائی جاتی ہے۔تو اس امر قلیل میں بھی قوی ثبوت اور دلیل ہے اُس قریب اتفاق اور اتصال اور رشتہ و رابطہ داری پر جس سے کُل کلام اللہ از ابتدا تا انتہا طبقہ بہ طبقہ باہم ملتا جاتا ہے۔
اور اُن آیتوں سے ایک اَور وزنی اور دل سوز تعلیم ملتی ہے کہ خداوند مسیح کے بدن حقیقی اور مجازی میں کیا ہی پوری موافقت ہے۔ اور بلاشبہ اس اتحاد اور اتفاق پر جو شخص بہ تیقن تمام استقرار پائے تو کلام اللہ کی تشریح اور تفسیر میں ہزار ہا مشکلات اور مسائل حل ہوجائیں گے۔ چنانچہ مدبراعلیٰ کے اس خاص علاج اور تدارک کے جو وسیلات نجات ہیں ۔اُن کے عین مبادی (مبداء کی جمع،ابتدا)اور حقائق میں سے ایک یہی امر ہے ،مثلاً اگر ذرا بھی سوچ و غور ہو تو صاف معلوم ہوگا کہ خداوندمسیح کے دونوں بدن یعنی حقیقی و مجازی مظلوم اور مضروب ہونے اور مورد لعن وطعن و مزاح و شماتت(کسی کے نقصان پر خوش ہونا) ہونے سے برابر نصیب ور رہے۔اور ہر دونوں کے لئے خیر خواہی کا مبادلہ صرف کینہ پروری اور خصومت اٹھانی پڑتی ہے اور دونوں کے لئےذلت اور پست حالی اور ظاہری شکست و تباہی اور موت کی راہ آخر کو فتح یابی اور فیروز مندی اور جلال رساں ہے ۔ سب سے سیاہ غمام اور گھنے بادلو ں میں سے نیم روزی کا آفتاب تموز پدید (واضح گرمی)و روشن ہوتا ہے۔ثبوت اس تقریر کا وہ شخص آسانی سے پا لے گا جو(زبور۴۴ کو زبور۴۵ )کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ازبس کہ ( زبور۴۴ )میں متکلم نہایت غم ورنج میں غرق ہونے اور ظالموں کی تلوار سے مقتول ہونے والے کی آوازیں نکالتا اور فریاد رسی کرتاہے۔اور وہی شخص( زبور۴۵ )میں رونق افزا اور متجلی و متعالی ہو کر شکر و شادیانے کے گیت گاتا ہے اور اُس کا رتبہ فتح یاب اور محمود اور ستودہ بادشاہ کا رتبہ ہو گیا۔اوراِس گواہی کی مانند سیکڑوں اور شہادتیں مزامیر کے احاطے کے اندر اِس حجت و تقریر کو قید رکھتی ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ خدا کی تدابیر کلیہ کے جن حصوں سے انبیا مستفیض اور اُن کے اظہار الہٰامی سے متوکل ہو گئے ہیں، کسی دوسری کتاب میں مفصلاً بیان ہو جائے گا۔
باب ششم
د ربیان پیش گوئی ہائے مزامیر شریف درباب برخاستن خداوند مسیح از مُرد گان و صعود کردنش از ہمگی آسما نہا
اگر باوجود حجت و دلالت بالا شاید کوئی معترض اس بات کی تائید کرے کہ وہ مرد ِغم و الم جس کی کیفیت و خصوصیت زبوروں میں معروف ہے ،سو وہ ایک شخص ہے اور صاحب فتوحات اور خداوند جلال کوئی دوسرا ہے۔اور جمع ہونا اُن نقیضین صوری(ظاہری) اور ضدین ظاہری کا یعنی صور ت، تجلی اور فروتنی اور مدح و ذَم(برائی۔مذمت) کا ایک شخص کے اندر ایک وقت میں محال ہے ۔تو اس اور اِس کی مانند سوالات اور اعتراضات کا ایک جواب کافی ووافی یہ ہے کہ یہ سب تدابیر وتجاویز الہٰی جو آدم زاد کی نجات سےمتعلق ہیں، اس لائق نہیں کہ فقط مجرد عقل انسانی ہی کی جریب سے ان کی پیمائش کی جائے۔ازیں جہت کہ اس طرح صرف ایسی باتیں ادراک میں آسکتی ہیں جنہیں اپنے تنگ دائرے اور احاطے کے اندر رکھتا ہے اور جن کی آزمائشیں اپنی تجربہ کاری سے کی ہیں او رجنہیں آپ ہی سے موجود اور پیدا کر سکتا ہے۔برعکس اِس کے کلمتہ اللہ کے وجود اور احوال اور کمالات اور افعا ل کے راز بالکل بے مثا ل و بے مانند ہیں ۔اور اکثر مدعات عالم غیر مرئی (جس کو دیکھا نہ جاسکے)میں سے ہیں اور مضامین اعتقاد یہ میں داخل ہیں ۔
یہ جواب عام اگرچہ کافی ہے، لیکن اس کے سوائے ایک اَور جواب راسخ و موجب یقین ہے کہ مرتاً کرتاً ایک ہی زبور میں وہی ایک متکلم ہر دو حالات او ر مراتب کو اپنی طرف محمول کرتا ہے، یعنی فنا و زوال اور بقا وحی القیوم و وجود مطلق کی شان ۔یقین ہے کہ یہ اسرار بہ آسانی تمام انکشاف و انحلال کے قابل ہیں ۔لیکن ایسے شخصوں کے لئے جو روح حق کی توفیق و تنویر سے اس اول او ر اصل ر از کی ممیز اور مدرک(سمجھنے والا۔دانا) ہوگئے کہ جو کامل انسان ثانی ہے، وہی خداوند آسمان پر سے بھی ہے۔اور ضعف و ماندگی و تشنگی اور باقی سب حوادث اور عوارض انسانی میں جو انجیل کے اندر بیان ہوتے ہیں ،صرف انسان پر اطلاق ہے۔یہ امور اُس کی الوہیت پر قابل اطلاق نہیں ہیں ، بلکہ اُس جسمیت اور بشریت پر، جس کے سب لوازمات اورملحقات غیر از گناہ تحمل کئے تھے۔اور وَرا(پیچھے) حجاب اس جسمیت کے اپنے نورربانی کی تجلیات کو اکثر اوقات پوشیدہ کیا اور خدا تعالیٰ کی مرضی اور مقرری ارادت یہ تھی کہ اِس خداوند کی عمر کے احوالوں میں اور کلیسیا کی اینجہانی مسافری تواریخ کے درمیان یہ ظاہری نقیضین یعنی ضعف انسانی اور قدرت یزدانی باہم مقارب کئے جائیں اور اس تقارب ہی کے ذریعہ سے ان کا صاف اظہار ہو۔ مثلاً موت وفنا وحیات و بقا کے مقابل آخر الامر اُن میں ایسا قرب ہو کہ موت حیات میں اور فنا بقا میں مستغرق و معدوم ہوجائے۔ پولُس رسول کا یہ بیان کہ ’’ فتح نے موت کو نگل لیا‘‘(۱۔کرنتھیوں۱۵: ۵۷)۔
پر افسوس ہے کہ بعض معترض اپنا عناد و تعصب خصوصاً اسی امر میں صاف ظاہر و آشکارا کرتے ہیں کہ اِس صوری اور ظاہری شکست کی طرف بسرو چشم نگاہ کرتے ہیں ۔اور بہ ہوشیاری تمام اس کی طرف اپنے رفیقوں اور معتقدوں کو متوجہ کرتے ہیں ،پر ہر ایک آیت سے جو اُس خداوند کے برخاست اور صعود جلالی اور اُس کی فیروزی اور فتح یابی اور حکمرانی پر دال و شاہد ہے ،گویا چشم پوشی یا تذلیل و تکذیب کرتے ہیں یایہ کہ اُن آیات کو غیر صحیح اور غیر معتبر جانتے ہیں ۔اور لوگ اس اور اِس کی مانند اور شہرہ آفاق علاجوں سے منقطع ہو کر اور پیچشوں اور روباہ بازیوں(مکر۔فریب) کی طرف رجوع لا کر ایک قسم کی آیات یعنی خواری وذلت کے اظہار کرنے والوں کا مصداق خداوند مسیح کو بتاتے ہیں اور آیات دیگر کو جو فتح یابی و حکمرانی اور شہنشاہ عالم پر مشتمل ہیں ،اپنے مطلب کے لئے تعصب کی راہ سے محمدصاحب کی طرف عائد کرتے ہیں ۔
چنانچہ اِس طرح اکثر باتوں میں خدا تعالیٰ کے مخالف اور مقابل گویا دست بہ قبضہ کھڑے ہو کر اُس رب تعالیٰ کی حکمت آمیز رعایت کو ہیچ و باطل جان کر ردو نیست کرنا چاہتے ہیں۔اس بہانے کو پیش کر کے کہ ہمارا مذہب عقل میں محدودنہیں ،بلکہ ایسی عجائب و غرائب حکمت اور عالی معانی اور اسرار غیب پر مشتمل ہے جو انسان کی قوت اور قیاس مجرد سے بیرون و برتر ہیں ۔ہر چند کوئی بات واجب اور معقول اس سے بڑھ کر نہیں کہ خدا کے ارادات اور حقائق وجود کو خدا آپ ہی سب سے بہتر جانتا ہے اور قول حقیقی سے ان کا بیان کرتا ہے ۔اور جب کہ خدا خود ہی بولے تو ہم کو خاموش اور عاجز رہنا فرض ہے اور یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی اشیا کے حق میں ہماری ناقص عقلوں سے ہر گز صلاح لینے کا حاجت مند نہیں ،مگر ہم نہایت حاجت مند ا ُس کے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے ہم کو ہدایت کرے اور بینا اور منور فرمائے۔
اب ذرا ان باتوں سے فارغ ہو کر ان آیتوں کے غور وملاحظہ سے جو خداوند مسیح کی ذلت و خواری کی مظہر ومعرف ہیں، فیض یاب ہوں اور اُن کی طرف مائل ہو کر التفات کریں ،جو اُس کی برخاست اور صعود جلالی اور تخت نشینی دست راست پر اور اُس کی سلطنت کے فضائل و رونق و فوائد کے تمام عالم میں منتشر ہونے پر دال اور شاہد ہیں۔ خصوصاً اُن کی طرف جن کی تشریح صحف انجیل میں پائی جاتی ہے۔چنانچہ پولُس تین مختلف زبوروں میں سے مسیح کی برخاست از مُردگان کی خاص شہادت رسولو ں کے اعمال کی کتاب میں پیش کرتا ہے’’اور ہم تُم کو اُس وعدہ کے بارے میں جو باپ دادا سے کیا گیا تھا یہ خوشخبری دیتے ہیں ۔کہ خدا نے یسوع کو جِلا کر ہماری اولاد کے لئے اُسی وعدہ کو پورا کیا ۔چنانچہ دوسرے مزمور میں لکھا ہے کہ تُو میرابیٹا ہے۔آج تُو مجھ سے پیدا ہوا ۔اور اُس کے اس طرح مردوں میں سے جِلانے کی بابت کہ پھر کبھی نہ مرے اُس نے یوں کہا کہ مَیں داؤد کی پاک اور سچی نعمتیں تمہیں دُوں گا۔چنانچہ وہ ایک اَور مزمور میں بھی کہتا ہے کہ تُو اپنے مقدس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے نہ دے گا ‘‘ (اعمال۳۲:۱۳۔۳۵ )۔ دیکھو کیسی دل تراش حجتوں اور شافی بُرہانوں سے پطرس نے مسیح کی قیامت از مردگان کو ثابت کیا۔ اور ان میں اُس پیشین گوئی کو جو داؤد کے (زبور۱۶ )میں شامل ہے، نقل کر کے یہود کی مجلس کلاں کے اصحاب میں ایسا خاطر نشین کیا کہ وہ مجبور اور لاجواب ہو کر نہایت چھد گئے اور اس امر واقعی کے جو مدار ایمان ہے، قائل ہو گئے۔چنانچہ اِس مقدس نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ’’اے بھائیو!مَیں قوم کے بزرگ داؤد کے حق میں تم سے دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مؤااور دفن بھی ہوا اور اُس کی قبر آ ج تک ہم میں موجود ہے۔پس نبی ہو کر اور یہ جان کر کہ خدا نے مجھ سے قسم کھائی ہے کہ تیری نسل سے ایک شخص کو تیرے تخت پر بٹھاؤں گا۔ اُس نے پیشین گوئی کے طور پر مسیح کے جی اُٹھنے کا ذکر کیا کہ نہ وہ عالم ارواح میں چھوڑا گیا نہ اُس کے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی‘‘(اعمال۲۹:۲۔۳۱)۔
شاید کسی کے دل میں یہ اشتباہ اور سوال پیدا ہو کہ وہ وعدہ داؤدی جس کی خاص استقامت اور ضمانت خدا کی رحمت اور امانت داری ہے ۔کیوں اس مزید اختصاص سے مسیح کی برخاست پر صادق آتاہے اورا ُس میں ایفا ہوتا ہے۔ تو اس بات کا باعث بداہت عقل سے بعید نہیں ۔چنانچہ میں یہ عرض کرتاہوں کہ خدا کی کلیسیا کے اوقات سلف و خلف میں کون سےوقت اس وعدے کے فراموش اور نسخ و نابود ہونے کی اتنی دہشت ہو سکتی تھی، جیسے کہ خداوندمسیح کی وفات و تدفین کے وقت ہوئی ۔اور کس وقت خد اکی رحمت و امانت داری کا اتنا قوی وثوق اور ایقان(یقین ہونا) اور اظہار ہو گیا،جیسا اُس ساعت جلالی میں تھا۔جب قبر کا فتح الباب(لُب کی جمع،عقلیں) ہو گیا اورخداوند مسیح نے موت کی زنجیر وں کو کاٹ کر اور مدت مدید کے قیدیوں کو خلاص کر کے عالم میں شمس نور افزا طلوع کیا اور مملکت خدا کو علی الدوام(ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) قرارو قیام بخشا۔
اور اگر ہم دوسرے زبور کے مضمون پر ذرا غور کریں تو دیکھیں کہ اُس کا منشا ءاور فحوائے کلام(بات کا مطلب۔گفتگو کا انداز) مجملاً وہی ہے ،جو منشا کُل کتاب مزامیر کا ہے۔ یعنی بعد ظاہری شکست کے حقیقی فتح یابی اور بعد ظاہری موت و انتقال کے بر خاست اور بعد شورش و ہجوم کے وہ راحت و آرام جو ملکوں میں اکثردائم و مستقر ہو ا کرتا ہے۔بعد ازاں کہ سب مفسد اور بدخواہ سر نگوں ہو کر حلقہ بگوش ہوجاتے ہیں ۔ اور لابُد اِس دوسرے زبور سے صاف مفہوم ہوتا ہے کہ باعث اور موجب اور موجد اس حالت استراحت اور آرام کا ایک ارشاد شریف خدائے ہمایوں ہے ،جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوا۔اِ س کے ابن وحید یسوع مسیح کی بابت’’مَیں اُس فرمان کو بیان کروں گا۔خداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔آج تُو مجھ سے پیدا ہوا‘‘(زبور۷:۲)۔جس میں اشارہ نہ اُس تولد بے نظیر اور بے مثال کی طرف ہے جو قبل اززمان اور بعید از مقام تھا۔ اور جس کی نسبت حضرت میکاہ نبی فرماتا ہے کہ ’’۔۔۔اُس (مسیح)کا مصدر زمانۂ سابق ہاں قدیم الا یام سے ہے‘‘(میکا ہ۲:۵)۔
پر اُسی تولد ثانی کی طرف جس سے تولد اول پر ختم وثوق لگاہے ،یعنی وہ تولد کہ رحم اَرض سے تھا جو برخاست از مُردگان ہے۔ بموجب اُس قول کے جو رسولوں کے ا عمال کے۱۳ ویں باب میں مذکور ہے اور جا بجا کلام خدا میں بتاکید اور بکثرت اس بات پر شہادت صریح ہے کہ قیامت اور حیات خدا کی جتنی صورتیں ہیں، سب کی سب خداوندمسیح کی اس قیامت از مُردگان پر منحصر ہیں ۔چنانچہ آپ ہی فرمایا کہ ’’قیامت اور زندگی تومَیں ہوں‘‘(یوحنا۲۵:۱۱) ۔اور کتب انبیا کے مطالعہ کرنے والوں پر مشہود ہے کہ جن جن مقاموں میں خدا کی کلیسیا کے حال یا استقبال کی تباہ حالی اور پژمردگی کا بیان ہے ،انہیں مقاموں کے ماقبل اور مابعد ایک نئے تولد اور قیامت کا ذکر دل پذیر ہے ،تا کہ امید یقینی اور قوی پید اہو کہ عاقبت اس تباہی اور موت کی بےفائدہ نہیں ہے، بلکہ سعادت و بقا ہے ۔
اور وہ تولد اور قیامت اس وجہ سے بتائی گئی کہ وہ کلیسیا عامہ کی بھی ہے اور ایک شخص خاص کی بھی ، جس کے ساتھ وہ پاک جماعت وابستہ اور نہایت متصل ہو کر اُس کی قربت میں قائم اور اُس کی حیات سے زندہ رہتی ہے اور اُس کی قیامت میں شامل حال ہو کر علی الدوام باقی اور مستقیم رہتی ہے۔ یعنی خداوندمسیح ہی کی قیامت میں قائم ہوتی ہے۔کوئی طالب خدا ایسا نہ جانے کہ بغیر خدا کی حکمت و رعایت کے یہود کے محققین کی طرف سے نظم و نسق با قرینہ اُسی طور پر تھا، جس طور پر کہ مسیح کے تولد کا ذکر اس صحیفہ شریف کے شروع میں بڑےسنجیدہ اور دل تراش اقوالوں میں درپیش آتا ہے، تاکہ غافل اور سست دل آدمی گویا برق و رعد(بجلی اور کڑک) کی سی آواز سے متحیر ہو کر اور اِس ارشادالہٰی کے قول کی طرف التفات کر کے معلوم کریں کہ خدا کی مملکت کا وہ ثبوت اور پختہ بنیاد کون سی ہے، جس کے سبب ہر چند چاروں طرف سے ڈاہ(کینہ۔دشمنی) اور مخفی کینہ وری اور خصومت ظاہری کی وہ مختلفہ اور متعددہ صورتیں جو باقی زبوروں میں بیان ہوتی ہیں، اُس پر صدمہ اور حملہ کریں، تو بھی وہ کلیسیا جب تک قیامت مسیح کے ایمان سے منحرف نہ ہو اس پر قائم و دائم رہے۔ہر ایک موت پر نئی قیامت سے نصیب ور ہوجائے اور خالق و پروردگار عالم کے وعدے راسخ اور واثق میں پناہ لے کر ہزار ہا صدموں اور ضربوں کو کھائے، لیکن جنبیدہ اور متزلزل نہ ہو، چِہ(کیا) ذکر نیست اور نابود ہونے کا۔
سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات اور زمانوں میں اس تولد اور ابنیت ازلی کی خبر اور بیان مدبر اعلیٰ اور ہمہ دان کے مخفی اسراروں میں پوشیدہ اور مخزون(خزانہ میں رکھا گیا،شامل خزانہ) رہتی ہے۔پر بعض ایسے وزنی اوقات بھی ہوئے ہیں جن میں اُس کی خبر یا تو افواج سماوی یا بنی آدم کے روبرو کشف اور ظاہر کی گئی ہے۔مثلاً آفرینش عالم کے وقت جب اجرام فلکی اور اجسام سفلی نیست سے ہست ووجود میں آئے تو قیاس غالب ہے کہ تب اِس سرّ غیب کا کچھ خاص انکشاف ہو گیا۔چنانچہ حضرت سلیمان کے امثال میں رقمزد(لکھا) ہے ’’کون آسمان پرچڑھا اور پھر نیچے اُترا؟ کس نے ہوا کو اپنی مٹھی میں جمع کر لیا؟ کس نے پانی کو چادر میں باندھا؟ کس نے زمین کی حدود ٹھہرائیں؟ اگر تُو جانتا ہے تو بتا اُس کا کیانام ہے اور اُس کے بیٹے کا کیانام ہے؟ خدا کا ہر ایک سخن پاک ہے۔وہ اُ ن کی سپر ہے جن کا توکل اُس پر ہے‘‘(امثال۵،۴:۳۰)۔ثانیاً ،مسیح کے برخاست کا وقت ان مواقع اور اوقات میں سے تھا، جن میں وہ ابنیت کا راز زیادہ فاش اور لاحجاب ہو گیا۔چنانچہ رسول رومیوں کے خط میں فرماتا ہے ’’ اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا جو جسم کے اعتبار سے تو داؤد کی نسل سے پیدا ہوا۔لیکن پاکیزگی کی رُوح کے اعتبار سے مُردوں میں سے جی اٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا‘‘(رومیوں ۴،۳:۱) ۔اور وہ دلیل دوسرے زبورکی تقریر بالا سے قوی اور مؤید (تائید کیا گیا)ہے۔
ازآنرو کہ اگر ہم اس زبور کے شروع پر ذرا غور کریں تو قرینہء کلام اور سلسلہ خیالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصداق اس پیش گوئی کا سوائے خداوندمسیح کے کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ وہ منصوبہ باندھنا بالاتفاق غیر قوموں اور بنی اسرائیل کا ،جس کا جوش و خروش اور شوروغل خدا تعالیٰ اور اُس کے مسیح پر صدمہ کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے ،یہ کب وقوع میں آیا ،مگر اُس وقت جب ان دونوں یعنی مخصوص قوم اور غیر قوم نے مل کر شریر ہاتھوں سے اس حیات کے پیشوا کو قتل کیا اور اس جوش وخروش کے مقابل اور اس شوروغل کی آڑ میں کب وہ امر شریف رب تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوا کہ’’ مَیں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِ مقدس صیُّون پر بٹھا چکا ہوں ‘‘(زبور۶:۲)۔مگر اُس صبح مبارک کو جب دو فرشتوں برق لباس نے ترساں و ہراساں عورتوں سے جنہوں نے خداوند کی قبر کھلی اور خالی پائی تھی، متکلم ہو کر فرمایا کہ ’’۔۔۔زندہ کو مُردوں میں کیوں ڈھونڈتی ہو؟وہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے‘‘(لوقا۶،۵:۲۴)۔
چنانچہ اُسی وقت سے لے کر کلام کے مناد اور بشیر بے خوفی اور پہلوانی سے مملکت خدا اور خداوند مسیح کا اشتہار اور انتشار ملک بہ ملک کرتے ہوئے چلے آئے ۔اور کچھ حسرت اور دریغ اس بات میں ہے کہ اکثر مناد انجیل اس ہندوستان کے بیچ خداوند مسیح کی کہانت اور رتبہ نبوت اور فوائد کے بہت اظہار اور بشارات دیتے ہیں ،پر ا ُس کے جلال اور بادشاہت کی تشہیر کم کرتے ہیں ۔اگر یہ قصور اور غلطی اُن کی خادمیت میں نہ ہوتی ،یعنی اگر وہ خداوندمسیح کی سلطنت کے حقیقی حال کو زیادہ صفائی اور دلیری اور فصاحت سے ظاہر کرتے اور ان پیش گوئیوں کا بھی جو اُس پر دال اور مظہر ہیں، زیادہ تجسس جدو جہد سے کرتے تو بمشکل ایسا خیال اورقیاس کفرآمیز بعض اہل محمدکی خاطر میں داخل ہوتا کہ تخت الہٰی اور دست راست کی نشست گاہ پر سے اس جلال کے خداوند کو معزو ل کر کے اپنے نبی صاحب کو قریب اس مکان کے تخت نشین اور تاج دار کریں ۔
بعد ازاں اِس زبور کے اوائل میں ایک فرمان قدرت وکبریائی اس قادر مطلق اور بادشاہ اعلیٰ کی طرف سے سب عالموں میں جاری کیا جاتا ہے ۔ اُس شہنشاہ کے حق میں جس نے کوہ صیون کے تخت جلال پر جلوس فرمایا ہے ’’مَیں اُس فرمان کو بیان کروں گا‘‘(زبور۷:۲) وغیرہ ۔ان سب واقعات مذکورہ میں صاف اور سلسلہ وار ترتیب نظر آتی ہے۔بعد بیان اس اتحاد اور اتصال مشورہ کے جو اہل روم اور اہل یہود میں خداوند مسیح کے مقابل اور مخالف تھا ،اُن کے مقتولو ں کے ابطال کا اور خداوند مسیح کی سلطنت کے قیام اور اثبات کا ذکر درمیان آتا ہے اور پھر بموجب سیاق کلام کے اس سلطنت کے ساتھ ابنیت کے اظہار اورانتشار کا قریب تعلق بتایا جاتا ہے۔چنانچہ رومیوں کے نام خط سے معلوم ہوا کہ استدلال قیامت بہ ابنیت یعنی قیامت کے ثبوت سے ابنیت کا ثابت اور مبرہن ہونا، کلام خدا کے اصول ضروریہ میں سے ہے۔اور اکثر مقامات میں مفسروں کی رائے کے بموجب ایک تیسرا وقت بالاختصاص اِس ابنیت اور تولد ازلیت کا مصدق و مظہر ہےاور اس کلام خدامیں مشارُ‘ الیہ ہے جو پولُس رسول کے عبرانیوں کے نام خط میں مرقوم ہے ،یعنی مسیح کے دوسرے ظہور اور آمد کا وقت جو قبل از روز قیامت ہو گا’’اور جب پہلوٹھے کو دُنیا میں پھِر لاتا ہے تو کہتا ہےکہ خدا کے سب فرشتے اُسے سجدہ کریں‘‘(عبرانیوں۶:۱)۔
ہم اس رسالہ کے پانچویں باب میں بعض نقلی دلائل (زبور ۱۱۸ )میں سے اس بات کے ثبوت میں لائے ہیں کہ خداوند مسیح کی تذلیل اور تصلیب نہ بنی اسرائیل صادق اور حقیقی کی طرف سے ہوئی تھی ،بلکہ کاذب (جھوٹا)کی طرف سے،یعنی اسرائیل بشریہ سے۔چنانچہ نسل کاذب اور صادق کی تفصیل کل کلام خدا میں بہت تاکید و شدید سے ہے۔اوراِس راز کا بیان مفصل پولُس رسول کے رومیوں کے نام خط میں ملتا ہے ۔جس کا دل چاہے باب ۹ غور سے پڑھ لے۔اور جیسی تذلیل اور تصلیب ویسی ہی قیامت جلالی اور صعود بہ فیروزی پر دلالت واضح و صریح (زبور۱۱۸)میں ہے۔مثلاً(زبور۱۱۸: ۲۳،۲۲ ) میں لکھا ہے’’ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے‘‘۔جن آیتوں کا خلاصہ اظہر من الشمس ہے ،نہ یہ کہ وہ معماروں کا مردود پتھر مسیح اور سر زاویہ محمدصاحب ہے۔
بموجب خام ظنیت (فضول خیال) بعض اشخاص کے جو اسلام حقیقی سے نہیں ،پر یہ عین ایک ہی شخص ہے جس کا شروع مردود اور آخر کو سر زاویہ بھی ہونا۔ ہر دو باتیں برابر خدا تعالیٰ کے قضا و قدر کے مضامین سے ہیں ۔اور مبارک ہیں وہ خلق جو حضرت ابراہیم اور داؤد کی معہود برکتوں سے نصیب ور ہیں ۔وہ خلق جو اپنے تجربے سے جانتے کہ خداوند مسیح کی اس موت و حیات میں عمر بھر شراکت اور رفاقت کیا چیز ہے، جس کے خواص اور فرائض رومیوں کے خط کے چھٹے باب میں تشریحاً و تفصیلاً روشن و مبین ہیں ۔اور وہ موت اور حیات (زبور۱۱۸ )میں پیش گوئی کی راہ سے بیان ہوتی ہے۔ازآنر وکہ جماعت اقدس جو خداوندمسیح کا بدن اور ملکوت بھی کہلاتا ہے ،قبر کی خُبث وذلت و سیاہی سے برخاست کر کے اس زبور کے اندر اُسی گیت کے عین تلفظ کو عاریتاً (قرضے کے طورپر،مانگ کر)لیتا ہے جس سے بحر قلزم کے عبور کرنے کے بعد موسی ٰاور بنی اسرائیل نے خدا تعالیٰ کی عجیب قدرتوں کی ستائشوں اور ثنا کو زبان زد کیا۔’’خداوند میری قوت اور میرا گیت ہے ۔وہی میر ی نجات ہوا‘‘(زبور۱۴:۱۱۸)۔اور بلاشبہ جس دن سےکوئی غریب ،ناچار، خطاکار اپنی جان پر ترس کھا کر اور خداوند مسیح کی قیامت کا تیقن پا کر اسی کا ہمراہ ہو کر اپنی عمر گزشتہ کی سال خوردگی کے سبب پژ مردگی سے نئی اور جیتےراہ سے تازہ حیات کے لئے جی اٹھتا ہے، تو اسی حال میں اس (زبور۱۱۸: ۱۶،۱۵ ) آیتیں کیا ہی خوب پوری ہوجاتی ہیں’’صادقوں کے خیموں میں شادمانی اور نجات کی راگنی ہے۔خداوند کا دہناہاتھ دلاوری کرتا ہے۔خداوند کا دہنا ہاتھ بلند ہوا ہے‘‘کہ گویا مقدسوں کے مسکنوں میں اُس فیروزی اور فتح یابی کے سبب جو افواج شیاطین اور موت کے اندیشوں اور قبر کے حولوں پر ہے ،شادیانے کی صدا سنائی دیتی ہے۔اور آسمانی اور زمینی پاک سرودیوں کی آواز بڑی ہم سازی اور خوش اتفاقی سے اس زبور شریف کے تہلیلوں میں ملتی ہے ۔اور وہ اپنے امام اورپیشوائے مبارک کے پس رو اور مقتدی ہو کر دروازہ صداقت وسلامت میں اُ س کے پیچھے ہو لیتے ہیں ۔اور چلتے ہوئے یہ کلمہ اور اقرار شکر پڑھتے ہیں’’ مَیں مروں گا نہیں بلکہ جیتا رہوں گا اور خداوند کے کاموں کا بیان کروں گا۔ خداوند نے مجھے سخت تنبیہ تو کی لیکن موت کے حوالہ نہیں کیا۔ صداقت کے پھاٹکوں کو میرے لئے کھول دو۔مَیں اُن سے داخل ہو کر خداوند کا شکر کروں گا ۔خداوند کا پھاٹک یہی ہے ۔صادق اِس سے داخل ہوں گے ‘‘(زبور۱۷:۱۱۸۔۲۰)۔ دیکھو وہ دروازہ بہشت اور باب حیات ہے کہ جس کی حراست اورزینہار(تاکیدکے لیے، خبرداری) کے لیے اس تعالیٰ کے ارشاد سے چلتی تلوار مقرر کی گئی، تا کہ کوئی خبث آلودہ خلق اِس میں مداخلت نہ پائے۔ اب و ہ دروازہ کیا ہی خوب مفتوح ہو گیا۔
ازاں جہت کہ سب مقدس اُس کے توسط سے اُس پر قوی یقین کر کے جو قبر کے قفل توڑ کر فرماتا ہے ’’ مَیں مرگیا تھا اور دیکھ ابدالآباد زندہ رہوں گا اور موت اور عالم ارواح کی کُنجیاں میرے پاس ہیں ‘‘(مکاشفہ۱۸:۱)۔گویا اُس کی حشمت ربّانی ہو کر اس محل اور حصار ربّانی کے ملازموں سے وہ ارشاد کر سکتے جو ۱۹ ویں آیت میں مرقوم ہے’’صداقت کے پھاٹکوں کو میرے لئے کھول دو۔ مَیں اُن سے داخل ہو کر خداوند کا شکر کروں گا‘‘(زبور۱۹:۱۱۸)۔اس جرأت اور بےخوفی کا سبب یہ ہے کہ خداوند نے آپ ہی اپنی قدرت الہٰی کے بموجب یسعیاہ کی کتاب میں فرمادیا’’تم دروازےکھولو تا کہ صادق قوم جو وفادار رہی داخل ہو‘‘(یسعیاہ۲:۴۶ )۔
یہ بھی ذرا غور ولحاظ کے قابل ہے کہ جب خداوندمسیح سر ز اویہ سے اس زبور میں ملقب ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلیسیا جو کُل عالم کی سب اقوام اور قبائل میں منتشر فراواں ہوتی چلی جاتی ہے ،ایک عمارت بزرگ او ر عالی شان سے تشبیہ رکھتی ہے ۔اور جیسے اورسب کا حال ہے ویسے ہی اس عمارت میں بھی تین پتھر مخصوص اور ممتاز ضرور چاہیئں، جن کی عزت اور رونق اور قدر عمدہ اور افضل اور اشرف ہے۔ یعنی
(اول )سنگ بنا(بنیاد کاپتھر) جس سے استقرار اور مضبوطی عمارت کو ملتی ہے۔
(دوم) سنگ زاویہ(کونے کاپتھر) جس سے اُس کےاجزا ئےمختلفہ وابستہ اور مربوط ہوتے ہیں۔
(سوم)سنگ قلّتہ (چھوٹے پتھر)المینار جس سے زیبائش اور تکمیل اور تتمیم ظاہر و عیاں ہو۔
پس ہم کو جاننا چاہیئے کہ مجلس خاص مومنین کی عمارت کے اِن تین سنگوں کے مجمع اوصاف وخواص کے بیان میں خداوند مسیح مشارُ‘ الیہ ہے ،یعنی کلیسیا کی بنا (بنیاد)مسیح پر۔ خصوصاً اُ س کی ابنیت اور الوہیت کے اقرار پر قیام اور بعد ازاں اُس کی موت اور قیامت از مُردگان پر مبنی ہے۔ اور اسی اقرار پر قیام اور قرار پا کر مربوط اور باہم پیوستہ بھی ہے اور اُس کی روح کے خصائل و فضائل سے معمور ہو کر اپنی زینت وجمال اور تمام و اختتام اس سے لیتی ہے۔ہاں شہادت رُسل و انبیا سے یہ صاف و صریح ہے کہ پاک کلیسیا کے سب کمالات اسی سے مستعار اور مستفاد ہیں ۔اور وہ جو پولُس رسول افسیوں کے خط میں فرماتا ہے کہ ’’اور رسولوں اور نبیوں کی نیو پر جس کے کونے کے سرے کا پتھر خود مسیح یسوع ہے تعمیر کئے گئے ہو‘‘ (افسیوں۲۰:۲ )تو فحوائے کلام یہ نہیں کہ رسول و انبیا نفسہٖ وبذاتہٖ جماعت مومنین کی بنیاد ہیں، بلکہ پیشتر وہ اقرار اور شہادت بنیاد ہے جو مسیح کی ذلت و قلت انسانی کی اور جلال وعظمت و قدرت ربانی کی نعمت فیض سے ان کو تفویض و مرحمت کی گئی۔ جس کا ثبوت وہ مشہور اقرار اور کلمہ ہے جسے پطرس رسول نے باقی حواریوں کے عوض خداوند کے حضور پڑھا کہ’’ تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے ‘‘(متی۱۶:۱۶) کہ وہ قول کبیر اور بزرگ جس وقت اُس مقدس کی زبان سے صادر ہوا ۔خداوند نے اُسے اُس رتبہ ممتاز سے مشرف کیا جس کا ذکر متی کی انجیل میں مندرج ہے’’۔۔۔مبارک ہے تُو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔اور مَیں بھی تجھ سے کہتا ہوں کہ تُو پطرس ہے اور مَیں اس پتھر پر اپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالم ارواح کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے‘‘(متی۱۸،۱۷:۱۶)۔
یہ واضح ولائح ہے کہ جس قدر رسول مبارک اپنے اقرار کی صفائی اور بے خوفی اور انکشاف عامہ میں فوقیت رکھتا تھا، اسی قدر تک رتبہ اور درجہ میں بھی فضیلت لے گیا۔چنانچہ کس شخص کا اقرار کبھی ایسا افضل ہوا ،جیسا اس رسول نے یہود کے رُؤسا اور خواص امت کے مقابل اپنے خطاب میں درپیش کیا ،جس کا بیان رسولو ں کے اعمال کی کتاب میں لکھا ہے’’یہ وہی پتھر ہے جسے تُم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں‘‘(اعمال۱۱:۴)۔
اے یارو خدا ٓپ پر فضل کرکے اس ایمان اور ایقان کو آپ میں خاطر نشین کرے کہ ہر کوئی جوخداوند مسیح کے وجود اور زیست اور قول سے منقطع اور منفصل ہے، اُس کی حیات خدا کی حیات کی نسبت فی التحقیق موت ہے۔اور ہر چند آدم زاد کے نزدیک اور اپنی دانست میں آپ لوگوں کے مراتب اور مدارج عالی اور ستودہ ہوں۔مثلاً شیخ جی یا حاجی جی یا سید جی یا پیر جی یا مرشد جی یا اہل تقویٰ جی یا فقیر جی یا غوث جی اور مانند اِن کی وغیرہ مراتب ہوں ،پر تو بھی اگر آپ خدا تعالیٰ کے اِس فضل وشفقت و رحمت کے احاطے سے جو خود مسیح ہے بیرون(باہر) رہیں تو خدا کی قربت اور دیدار کی اُمید باطل اور بے اصل ہے۔برعکس اِس کے جو سب سے قلیل اور ضعیف صاحب ایمان اور حقیقت ہے، اُس سےاِ س بندہ کا قول بلکہ قسم تک بھی ہے(کیونکہ خدا کی قسم شریف اس امر کے قبول کرنے والی ہے) کہ تو ہر گز کسی صدمہ اور ایقاع غم سے متاسف(افسوس کرنے والا) اور متزلزل نہ ہو، بشرطیکہ تو اس فضل و لطف کے احاطے کے اندر محصور ہو ۔اور کہ یہ تیرے سب معاملات اور مقدمات اُس خداوند مبارک کے ہاتھ میں سپرد ہیں کہ اس وکیل ثقہ(معتبر) اور امانت دار کے ذمے کلیسیا کا سب انتظام اور بندو بست حوالہ کیا گیا ہے ۔ہاں بلکہ خدا باپ تعالیٰ نے جو مالک اور خالق اوررازق العالمین ہے، بموجب تقریر قبل اپنی پاک صفات اور کمالات حسنہ اس امر کے وثوق پر کفیل کر دیئے کہ وہ اُسی کے ذریعہ سے تمہاری ساری خطاؤ ں کو عفو ومحو کرےگا۔ اور اپنا خوف اس قدرعمل اور اثر پذیر تمہارے دلوں میں ڈالے گا کہ تم کبھی اُس سے رُوگردان نہ ہوگے۔ اور حزقی ایل کی کتاب میں یہ قول خدا مرقوم ہے’’ اور مَیں اُن کے ساتھ سلامتی کا عہد باندھوں گا جو اُن کے ساتھ ابدی عہد ہو گا اور مَیں اُن کو بساؤں گا اور فراوانی بخشوں گا اور اُن کے درمیان اپنے مقدِس کو ہمیشہ کے لئے قائم کروں گا۔میرا خیمہ بھی اُن کے ساتھ ہوگا۔مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے‘‘(حزقی ایل۲۷،۲۶:۳۷)۔
اور جس شخص نے خداوند مسیح اور اس کے رسولوں کی گواہی کو منظور کیا ہے کہ زبور کی کتاب اُس کی پیشین گوئیوں اور اشاروں سے بھری ہوئی ہے اور متکلم مزامیر صرف خود داؤد حقیقی نہیں ، بلکہ اُس کی نسل موعود یعنی خداوندمسیح کو مانتا ہے ۔وہ شک و شبہ نہ کرے گا کہ تیسرے اور اٹھارہویں زبوروں میں خداوند مسیح کی بر خاست از مُردگان کی پیش خبریاں اُس روح حق کی طرف سے فرمائی گئی ہیں ،جس کی آواز اور الہٰام باطنی سے انبیا حالت خاموشی سے گویا ہو گئے۔ اور اُس کلمہ ِربانی سے جو خدا قادر مطلق کا کاشف الاسرار ہے، قوت انکشاف پائی۔اور عمدہ سے عمدہ مفسرین نے مفت اور غیر واجب نہیں کہا کہ تیسرے زبور کے سب مضامین نہ صرف داؤد پر صادق آتے ہیں بلکہ اُس کی طرف عائد ہوتے ہیں، جس کے حضور میں یریحُو شہر کا اندھا پکارتا تھا کہ’’ ابن داؤد! اے یسوع! مجھ پر رحم کر‘‘(مرقس۴۷:۱۰)۔چنانچہ نہ صرف دونوں کینہ وراور خونخوار دشمنوں سے محاصرہ کئے گئے ،بلکہ دونوں پر قتل اور تہمت اور طعنہ اور ملامت کا بوجھ پڑا کہ یہ خدا سے متروک اور اُس کی کمک سے محروم ہیں۔اور دونوں اس اژدہام (انبوہ،بھیڑ)اور شورش کے درمیان لیٹ کر سورہے اور جاگ بھی اُٹھے۔دیکھو وہ ابن داؤد بے خوفی اور دل جمعی تمام حملہ غنیموں اور صدمہ ِتکالیف کے باوجود گویا صلیب کے سخت بسترے پر پادراز کر کے استراحت کرتا ہے اور قیامت کی معیاد مقرر کی یقینی انتظاری سے اپنی جان کو باپ کے حوالہ اور سپرد کرتا ہے۔اور جیسا پہلوان نیند سے اٹھ کر تازہ دم نکلتا ہے اور ہر صورت کی پیش قدمی اور جواں مردی سے ہر شخص کے مقابل جنگ و جدال پر مستعد اور کمر بستہ ہے۔اسی طرح بموجب قول اس تیسرے زبور کےخداوند مسیح اپنی صلیبی موت اور قبر کی خواب گاہ سے اُٹھ کر آپ بھی فرماتا ہے اور اپنے بدن مجازی یعنی جماعت خاص کی ہر زبان پر یہ گیت دل جمعی اور تیقن کا لاتا ہے۔’’مَیں لیٹ کر سو گیا۔ مَیں جاگ اُٹھا کیونکہ خداوند مجھے سنبھالتا ہے۔مَیں اُن دس ہزار آدمیوں سے نہیں ڈرنے کا جو گردا گرد میرے خلاف صف بستہ ہیں‘‘(زبور۶،۵:۳)۔اور خداوند مسیح کے تسلط کی جو مُردوں سے برخاست کرنےکے وقت سب شیاطین اور کلیسیا کے سب غنیموں پر تھا۔اور اُس حکومت و قدرت کی جسے وہ مقدسوں کی جماعت خاص میں رکھتا ہے( زبور۱۹ )کے شروع میں مثال دی جاتی ہے۔آفتاب کےنور اور تجلیات کے انتشار سے، جس سے وہ رُبع مسکون کو گویا اپنی شعاعوں کی جریب سے پیمائش کر کے عالم کواپنے قبضے میں کر لیتا ہے اور اپنے رونق و جلال کے دریائے محیط سے اُس کو گھیر لیتا ہے ’’۔۔۔اُس نے آفتاب کے لئے اُن میں خیمہ لگایا ہے جو دُلہے کی مانند اپنے خلوت خانہ سے نکلتا ہے اور پہلوان کی طرح اپنی دوڑ میں دوڑنے کو خوش ہے ۔ وہ آسمان کی انتہا سے نکلتا ہے اور اُس کی گشت اُس کے کناروں تک ہوتی ہے اور اُس کی حرارت سے کوئی چیز بے بہرہ نہیں‘‘(زبور۴:۱۹۔۶)۔چنانچہ پولُس رسول نے رومیوں کے خط کے دسویں باب میں اِنہیں آتیوں کی تشریح وتفسیر کرکے خداوندمسیح کی طرف اور اُس کے مژدہ نجات اور بشارت کی جانب منسوب کیا ہے۔یوں مرقوم ہے’’پس ایمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سننا مسیح کے کلام سے ۔لیکن مَیں کہتا ہوں کیا اُنہوں نے نہیں سُنا؟ بے شک سنا چنانچہ لکھا ہے کہ اُن کی آواز تمام رویِ زمین پر اور اُن کی باتیں دنیا کی انتہا تک پہنچیں‘‘(رومیوں۱۸،۱۷:۱۰)۔
اور جس طرح رسول مبارک نے( زبور۱۹ )کے مضامین کا مصداق خداوند مسیح کو بتایا از آنرو کہ کہ فضائے سماوات کا نور اور تجلیات مژدہ اور بشارت انجیلی کے مشابہ ہیں ۔اور ضمناً و اشارتاً یہ بھی فرمایا کہ آفتاب فلکی کی رونق اور حشمت اور اُس کی پیش قدمی اور مداومت مثال اُس کلمتہ اللہ کی ہے جس کو نبیوں نے عالم ارواح کے لئے آفتاب صداقت سے ملقب کیا۔اِسی طرح اُسی رسول نے(زبور۱۸ : ۱) کے کُلیہ مضمون کو خداوند مسیح کی طرف محمو ل کیا۔چنانچہ ہم نے اِس رسالہ کے باب بالا میں اصحاب نبوت اور پیشین گوئی کے اُس قاعدہ اور دستور پر لحاظ اور التفات کیا تھا کہ اُنہوں نے کسی فقرہ اور آیت مجرد کو سلسلہء کلام سے منقطع اور منفصل کر کے آیندہ زما ن کے واقعات کے صرف ایک نشان بعید اور اشارہ عارضی کو درپیش نہیں کیا ،بلکہ ایسا سلسلہِ کلام ومضامین کانظرا ٓتا ہے جس میں قرینہ قبل و بعد کی اس آیت یا فقرے کے ساتھ پوری مطابقت وموافقت ہو۔پس اس قاعدے کی ایک مثال دیکھنے کے لائق وہی آیت مشارُ‘ الیہ ہے، جسے رسول نے (زبور۱۸ )کے اواخر سے نقل کیا ہے۔وہ آیت مع اس سیاق کے اِس وضع مذکور پر ہے’’مَیں کہتا ہوں کہ مسیح خدا کی سچائی کی ثابت کرنے کے لئے مختونوں کا خادم بنا تاکہ اُن وعدوں کو پورا کرے جو باپ دادا سے کئے گئے تھے۔اور غیر قومیں بھی رحم کے سبب سے خدا کی حمد کریں ۔چنانچہ لکھا ہے کہ اس واسطے مَیں غیر قوموں میں تیرا اقرار کروں گااور تیرے نام کے گیت گاؤں گا ‘‘(رومیوں۹،۸:۱۵؛زبور۴۹:۱۸)۔
اس موضع سے صاف ظاہرہے کہ رسول آیت کو نقل کرتا ہے ،بہ علّت ثبوت اس امر کے کہ غیر قوم زمان خلف میں خدا کی ثنا اور ستائش کریں گے۔بسبب اُس کے رحم و فضل کے جو یسوع مسیح میں مخزون تھا اور اُس کی موت وقیامت و صعود میں وقوع و شہود میں آیا۔سچ تو یہ ہے کہ اس آیت مذکور میں ثبوت واضح و لائح ہے ،حضرت داؤد کی فتوحات کا اور اُس قیامت خلاف قیاس کا جو اُس نے غم والم اور شکست وزبونی کی ظلمات سے حاصل کی تھی، پر تو بھی پولُس رسول کی شہادت اس بات پر دال ہے کہ بالاختصاص تما م اِس زبور ۱۸ کے مضمون کا تخم و اصل خداوندمسیح کے احوالوں کا اظہار واشتہار ہے کہ کس طرح اُن کے اوائل میں شکستگی اوررسوائی اور ذلت ہوگی ۔اور برعکس اِس کے اُن کے اواخر میں قیامت و صعود اور دور دور غیر قوموں تک تبسیط سلطنت ہوگی۔اور اِس آیت بالا کا قرینہ قبل و بعد بھی عجیب و غریب اتفاق حرفاً ومعناً رکھتا ہے ،باقی نبیوں اور خصوصاً یسعیاہ نبی کی مشہور پیشین گوئیوں کے ساتھ ،مثلاً شکست اور موت کے بیان میں مرقوم ہے’’موت کی رسیوں نے مجھے گھیر لیا اور بے دینی کے سیلابوں نے مجھے ڈرایا۔پاتا ل کی رسیاں میرے چوگرد تھیں موت کے پھندے مجھ پر آپڑے تھے‘‘(زبور۵،۴:۱۸)۔
اور پھر قیامت وفیروزی اور غنیموں کی شکست کی گواہی ۵۰،۴۴،۴۳ آیتوں میں دی جاتی ہے’’تُو نے مجھے قوم کے جھگڑوں سے بھی چھڑایا۔تُو نے مجھے قوموں کا سردار بنایا ہے۔ جس قوم سے مَیں واقف بھی نہیں وہ میری مطیع ہوگی۔ میرا نام سنتے ہی وہ میری فرماں برداری کریں گے۔پردیسی میرے تابع ہوجائیں گے،وہ اپنے بادشاہ کو بڑی نجات عنایت کرتا ہے اور اپنے ممسوح داؤد اور اُس کی نسل پر ہمیشہ شفقت کرتا ہے‘‘اور مثال اُس حکمرانی اور قدرت آمیز فتح یابی کی جس سے خداوندمسیح مُردوں میں سے جی اٹھ کر سب شیاطین کو اور اپنی کلیسیا کے سب غنیموں کو زیر پا کرنے والا تھا ،آفتاب کے طلوع ہونے اور اُس کی تجلیات کے انتشار سے( زبور۱۹ )کے شروع میں دی جاتی ہے ۔یعنی جس طرح وہ شمس فلکیہ اپنی شعاعوں کی جریب سے آسمان کی پیمائش کر کے اس پر گویا اپنا قبضہ کر لیتا اور اپنے رونق و جلا ل کے دریائے محیط سے گھیر لیتا ہے۔اسی طرح تمام عالم قوم بعد قوم کے اور اطراف بعد اطراف کے خداوند کامطیع ہوگا جیسا اس (زبور۱۹: ۴۔۷ ) میں لکھا ہے’’اور اُن کا کلام دنیا کی انتہا تک پہنچا ہے۔ اُس نے آفتاب کے لئے اُن میں خیمہ لگایا ہے جو دُلہے کی مانند اپنے خلوت خانہ سے نکلتا ہے اور پہلوان کی طرح اپنی دوڑ میں دوڑنے کو خوش ہے ۔ وہ آسمان کی انتہا سے نکلتا ہے اور اُس کی گشت اُس کے کناروں تک ہوتی ہے اور اُس کی حرارت سے کوئی چیز بے بہرہ نہیں۔خداوند کی شریعت کامل ہے۔وہ جان کو بحال کرتی ہے۔خداوند کی شریعت برحق ہے۔نادان کو دانش بخشتی ہے‘‘َ۔چنانچہ پولُس رسول نے رومیوں کے خط میں اس تفسیر اورتشریح کو صحیح اور برحق ٹھہرا کر فرمایا ہے ’’پس ایمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سننا مسیح کے کلام سے(یعنی مسیح کا کلام ایلچی گری کے طور پر سنانے سے ) ۔لیکن مَیں کہتا ہوں کیا اُنہوں نے نہیں سُنا؟ بے شک سنا چنانچہ لکھا ہے کہ اُن کی آواز تمام رویِ زمین پر اور اُن کی باتیں دنیا کی انتہا تک پہنچیں‘‘(رومیوں۱۸،۱۷:۱۰)۔
اور جس طرح رسو ل مبارک نے زبور۱۹ کے وزنی مضمون کا مصداق خداوند مسیح کو بتایا ہے ،از آنروکہ انجیل مسیح کی بشارت اور آفتاب کی شعاعوں کے نور اور حرارت کا ایک ہی حال ہے اور ہدایت مسیح کو اتنی ہی تاثیر ہے روحانیات میں، جتنی آفتاب کو عالم محسوسات میں ۔اس طرح اُسی رسول نے جو زبور۱۸ کی پہلی آیت کو خداوند مسیح کی طرف منسوب و محمول کیا ہے تو صاف معلوم ہے کہ باقی سب مضمون جو قرینہء کلام کے طور پر اُس آیت سے متعلق ہے ،کُلّیتًہ(پورے طور پر) مسیح پر صادق آتا ہے۔اور احوال مذکورہ زبور اُس خداوند کی سلطنت کے احوال کی گویا تصاویر اور تشابہہ کے برابر ہیں، بموجب ا ُس قاعدہ بیان نبویہ کے جو باب سابق میں مذکور ہو اکہ ہر پیشین گوئی کے قرینہ قبل و بعد کا سلسلہ ٔمضامین کے ساتھ تعلق اور تطابق قریب رکھتا ہے۔
پس اس قاعدہ کا نمونہ اُس آیت مشارُ‘الیہ سے خوب نکلا، جسے رسول نے (زبور ۱۸ )کے اواخر سے نقل کر کے مسیحی سلطنت کی طرف عائد بتایا ہے تو مصداق اُس آیت کا مع سیاق کلام کے خودخداوندمسیح ہے۔دیکھو پولُس رسول رومیوں کے خط میں یہ آیت کس طرح نقل کرتا ہے’’ اور غیر قومیں بھی رحم کے سبب سے خدا کی حمد کریں ۔چنانچہ لکھا ہے کہ اس واسطے مَیں غیر قوموں میں تیرا اقرار کروں گااور تیرے نام کے گیت گاؤں گا ‘‘(رومیوں۹:۱۵)۔اس مقام سے صاف ثابت اور ظاہر ہے کہ پولُس رسول آیت مذکور کو نقل کرتا ہے، بہ علت ثبوت اس امر کے کہ غیر قوم زمان خلف میں حق تعالیٰ کی ثناو ستائش کریں گے ۔اُس خاص رحمت اور فضل کے احسان کے سبب جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں مخزون ہو رہا ہے تھا ۔پھر اُ س کی موت اور قیامت و صعود سے وقوع اور شہود میں آیا۔سچ تو یہ ہے کہ اُس زبور میں شہادت صریح اور مستند ثبوت ہے، حضرت داؤد کی فتوحات کا اور اُس قیامت خلاف قیاس اور خارق عادت کا جسے اُس مبارک نے غم والم اور خوار ی و ذلت کی ظلمات سے پایا تھا ۔پر تو بھی پولُس رسول کی صاف گواہی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بہ تمام تفضیل و تخصیص اس (زبور۱۸ )کا اصل تخم خداوند مسیح کے احوالوں کا اظہار اور اشتہار ہے کہ کس طرح اُس کے اوائل میں خواری و رسوائی ہونے والی تھی ۔اور برعکس اُس کے اواخر اُس منجی العالم کے قیامت اور صعود اور دور دور غیر قوموں تک فیروز مندی اور سلطنت کی بڑھاؤ ہو گی۔
اور اس آیت مشارُ‘ الیہ کا قرینہ قبل وبعد عجیب اور قریب اتفاق رکھتا ہے۔ہم حرفاً اور ہم معناً باقی نبیوں اور خصوصاً یسعیاہ نبی کی مشہور پیشینگوئیوں کے ساتھ۔مثلاً فی الحال شکست او ر موت کا بیان( زبور۱۸ : ۵۔ ۶ ) کا مفہوم ہے’’پاتا ل کی رسیاں میرے چوگرد تھیں موت کے پھندے مجھ پر آپڑے تھے۔اپنی مصیبت میں مَیں نے خداوند کو پکارا اور اپنے خداوند سے فریا دکی ۔اُس نے اپنی ہیکل میں سے میری آواز سنی اور میری فریاد جو اُس کے حضور تھی اُس کے کان میں پہنچی‘‘۔اس کے برعکس قیامت اور فتح مندی اور اہل خلاف کی پراگندگی و ہزیمت کی گواہی(زبور۱۸: ۴۳،۳۷،۳۵ ) میں تفصیل وار دی جاتی ہے’’ تُو نے مجھ کو اپنی نجات کی سپر بخشی اور تیرے دہنے ہاتھ نے مجھے سنبھالا اور تیری نرمی نے مجھے بزرگ بنایا ہے، مَیں اپنے دشمنوں کا پیچھا کر کے اُن کو جا لُوں گا اور جب تک وہ فنا نہ ہوجائیں واپس نہیں آؤں گا،تُو نے مجھے قوم کے جھگڑو ں سے بھی چھڑایا۔تُو نے مجھے قوموں کا سردار بنایا ہے ۔جس قوم سے مَیں واقف بھی نہیں وہ میری مطیع ہوگی‘‘۔
ہر ایک انبیا خوان کو معلوم ہوگا کہ کیا ہی بے شمار پیش خبریا ں ان دو مضامین کی انبیائے خلف کے صحف نبوت میں پائی جاتی ہیں، اس وجہ سے کہ وہ حضرت داؤد کی آیات بالا مذکور کے عین مشابہ اور متفق ہیں ۔مثلاً یسعیاہ نبی کی کتاب میں مرقوم ہے’’جس طرح بہتیرے تجھ کو دیکھ کر دنگ ہو گئے اُس کا چہرہ ہر ایک بشر سے زائد اور اُس کا جسم بنی آدم سے زیادہ بگڑ گیا تھا۔اُسی طرح وہ بہت سی قوموں کو پاک کرے گا۔اور بادشاہ اُس کے سامنے خاموش ہوں گے کیونکہ جو کچھ ا ُن سے کہا نہ گیا تھا وہ دیکھیں گے اور جو کچھ اُنہوں نے سنا نہ تھا وہ سمجھیں گے‘‘(یسعیاہ۱۵،۱۴:۵۲) ۔
اب چاہیئے کہ اُن آیتوں کی طرف ذرا لحاظ کریں جن سے خاص مراد خداوند کا صعود اور عروج ہے۔اگرچہ شاید لازم اور ضروری نہ تھا کہ اس کے صعود پر علیٰحدہ شہادت اور دلالت دی جائے ۔ازاں جہت کہ خداوند مسیح کا صعود اُس کے برخاست از مُردگان کا اختتام تھا اور حقیقت میں یہ دو امور امر واحد ہیں، صرف خیا ل میں متفرق ہو سکتے ہیں یا بہر حال لازم وملزوم کی نسبت رکھتے ہیں ۔جس نجات کا کام خداوند نے اپنے ذمے لیا اُس کا کچھ کم تر حاصل اور اتمام اس سے نہ ہو سکا کہ آپ ہی قبر سے خروج کر کے آسمان کو بھی عروج کرے اور اپنوں کو بھی تحت زمین سے اور پنجہ ِموت سے خلاص کرکے اپنے صعود میں شامل اور ہم وارث اور اپنے جلال کے شاہد ہونے سے مشرف کرے۔بموجب اُس کی مراد مشفق اور مرضی مبارک کے کہ اپنے مجازی بدن کے سب اعضا کو اپنی عمر کے سب احوالوں میں بہرہ ور اور شریک کرے ۔چنانچہ انجیل کی آیات متعددہ سے صاف معلوم اور ثابت ہے کہ اہل مسیح کا حق بلکہ عین فخر وثواب یہی ہے کہ اپنے خداوند کی تصلیب اور تدفین اور برخاست ازمُردگان اور عروج میں رفیق ہو جائیں ۔مثلاً کلسیوں کے خط میں مرقوم ہے’’پس جب تُم مسیح کے ساتھ جِلائے گئے تو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہوجہاں مسیح موجود ہے اور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے ۔عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔کیونکہ تم مرگئے اور تمہاری زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے۔جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گاتو تم بھی اُس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جاؤ گے‘‘(کلسیوں۱:۳۔۴)۔ پس جب کہ خداوند مسیح کی عمر کے باقی امور کی نسبت اس امر کی یعنی اُس کے عروج کی رونق اور جلوہ گری زیادہ تھی ،ازاں جہت کہ تب ہی سے اُس کا جلوس بادشاہانہ اور دست راست پر تخت نشینی شروع ہوئی ،یعنی آپ ہماری خستہ شکستہ ذات کا متحمل ہو کر اور ا ُس کے خبث اور گندگی کو اُٹھا کر تب ہی سے اُسے ایسے عالی درجہ تک سر بلند کیاکہ کائنات کے سب مراتب اور منازل میں ایک بھی اُس کے مقابلہ کرنے کے لائق نہیں ۔تو قیاس واجبی تھا کہ بطور اشارے اور پیشین گوئی کے اس کا ذکر اور خبر حضرت داؤد کے زبوروں میں پایا جائے ۔چنانچہ کئی مشہور مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس مبارک نے بطور کشف اور دیا کے نظر نبوت سے اُس عروج کو دور سے دیکھا اور آیندہ زمانوں کے تیقن کے لئے اُسے مذکور اور مفہوم کیا۔مثلاً( زبور ۸ اور زبور۱۱۰ اور زبور۶۸ )کے کئی مضامین میں پولُس رسول نے خداوند مسیح کے صعود کا اظہار اورا شتہار پایاہے۔
(زبور۸ )میں بطور رمز وکنائیہ کے اُس شمس صداقت کی طرف اشارہ ہے، جس کے آگے باقی سب آفتاب نامی گرامی اینجہانی ریاست اور کبریت اور علم و حکمت اور وصف فضیلت کاجلال نورانی کسوف (سورج گرہن)کہلا تا ہے ،جیسےباقی اجرام فلکیہ شمس سماویہ کے طلوع کے آگے سیاہ فام ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اس زبور میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم کیا قدر اور کیا رونق رکھتا ہے ،اُن جلوہ گر سیاروں کی نسبت جس کاسیر گاہ اور دائرہ عزت مدار عرش کی فضا ہے۔پر تو بھی یقین ہے کہ مرد، بچوں اور شیر خواروں کی زبانوں سے رب تعالیٰ حمد وثنا کو منظور کر کے منزلہ تکمیل سے اُن قلیل ذلیلوں کو مشرف کرتا ہے، تو یہ کیا واجبیت رکھتا ہے اور اُس کا کیا سبب ہے۔
جاننا چاہیئے کہ اس سوال کاجواب حضرت داؤد اینجہانی حکیموں کی مجلسوں سے نہیں مانگتا ،بلکہ اُس مدبر اعلیٰ کی حکمت ورعایت کے دلائل و امثال سے جو اِس عالم کی تدبیر میں درپیش آئے ہیں ۔چنانچہ جواب حقیقی یہ ہے کہ اگرچہ انسان کے قدوقامت اور صورت جسمیہ اتنی ذلت و قلت کی ہے ،مگر فضل الہٰی سے اُ س کا رتبہ اور منزلت آنقدر بزرگ اور شریف ہے کہ خدا تعالیٰ سے تھوڑی کمی اور کوتاہی رکھتا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کے احسانوں اور انعاموں سے جو کچھ لینا ممکن تھا اور اُس کے فضل کی دولت عطا بخش اور کرم گُستر (10) کا جو کچھ تناوُل (کھاناکھانا)ہو سکتا تھا اُس سے تھوڑی ہی کمی اور کوتاہی رکھتا ہے۔ہاں بلکہ اُس تعالیٰ کے ساتھ وہ قریب تعلق رکھتا ہے جو مشابہت اشبہ(شبہ کی جمع،صورتیں) اپنے اصل نقشہ کے ساتھ رکھتی ہے۔لیکن اس امر میں ایک مسئلہ پیداہوتا ہے جس کا ذکر اور اشارہ عبرانیوں کے خط میں ملتا ہے کہ جب انسان کا پیدائشی حال ایسا ہی تھا تو اب بالفعل اُس کو کیا ہوا اور اُس کے مفقود ہونے کاکیا سبب۔رسول فرماتا ہے’’ تُو نے سب چیزیں تابع کر کے اُس کے پاؤں تلے کر دی ہیں۔۔۔مگر ہم اب تک سب چیزیں اُس کے تابع نہیں دیکھتے‘‘((عبرانیوں۸:۲)۔
(10) ۔گُستردَن مصدر سے اَمر کا صیغہ جو کسی اسم کے بعد آکر اُسے فاعل ترکیبی بنا دیتا ہے اور پھیلانے والا،کسی چیز کی افراط کرنے والا کے معنی دیتا ہے جیسے کرم گُستر۔
پھر رسول مبارک اس سوال کا جواب اس مضمون سے فرماتا ہے کہ ’’ البتہ اُس کو دیکھتے ہیں جو فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا یعنی یسوع کو کہ موت موت کا دکھ سہنے کے سبب سے جلال اور عزت کا تاج اُسے پہنایا گیا ہے تا کہ خدا کے فضل سے وہ ہر ایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے‘‘(عبرانیوں۹:۲)۔یعنی کُل جنس کو تو نہیں، مگر اُس کو جو کُل جنس کا سر اور پیشوا اور ہراول ہے ،جس نے بطور کفیل اور وکیل کے اُن کی نجات وسلامت کی مہمات کو اپنے ذمے لیا۔ آپ ہی گویا ان کا قائم مقام ہو کر اس تخت جلال پر چڑھ بیٹھا جہاں اُنہیں بھی اپنے ساتھ کر لینے اور رب تعالیٰ کے قرب ورفاقت میں پہنچانے کے قول واثق کی قبالت سے مرہون ہے ۔جیسا افسیوں کے خط میں اسی رسول نے فرمایا ہے’’مگر خدا نے اپنے رحم کی دولت سے ۔۔۔ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا(تم کو فضل ہی سے نجات ملی ہے) اور مسیح یسوع میں شامل کر کے اُس کے ساتھ جِلایا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا‘‘(افسیوں۴:۲۔۶)۔
اور دوسرے مقام میں یعنی کرنتھس کی کلیسیا کے نام خط میں رسول نے ان دو باتوں کو یعنی مسیح کے دست راست پر صعود وقعود (بیٹھک۔نشست) کو اور عالم گیری کامل اور جاوید کو لازم و ملزوم بتا یا ہے اوران دو امروں کا لاز م وملزوم ہونا اس (زبور۶:۸ )کی گواہی سے ثابت و منصوص کرتا ہے’’ کیونکہ جب تک کہ وہ سب دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لے آئے اُس کو بادشاہی کرنا ضرور ہے۔سب سے پچھلا دشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۲۶،۲۵:۱۵)۔ تو اس اصل زبور کو اور انجیل شریف کے جن جن مواضع مذکور میں اس کی عبارتیں منقول ہیں،اُن کے خیالات اور مضامین پر غور کرنے سے یقین ہے کہ خداوندمسیح نےاس گناہ کو جو انسان کے اصل حال کے مضر اور مخل تھے، بیچ میں سے اُٹھا کر سب مقدسوں کو آپ ہی میں پیوند کر کے ان کی عاقبت کو انسان کے اوائل کی نسبت اَور بھی اکمل اور اعلیٰ جلال کو سر بلند کیا ۔چنانچہ آپ خداوندمکاشفہ کی کتاب میں فرماتے ہیں’’جو غالب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھاؤں گا ‘‘(مکاشفہ۲۱:۳) او ر(زبور۱۸ )میں بھی دو مختلف حالتیں کمال شدید اور تخصیص سے آپس میں مقابلہ کی جاتی ہیں یعنی قید اور تنگی اور وفات اور بعد ہ حیات اور کشادگی اورآزادی بیان ہوتی ہیں۔
حالانکہ وہ شخص جس پر یہ دوحالتیں عائد و صادق ہوتی ہیں عوام الناس میں سے نہیں ہے ،بلکہ نہایت صاحب رونق و دبدبہ اورعالی درجہ پر ہے۔ تا ٓنقدر کہ اس کی عمر کے سب احوال سے خواہ ذلت و خواری ہو ،خواہ عظمت و علویت ہو، کُل عالم طبیعہ یعنی فلکیہ اور سفلیہ ہر طرح سے اثر پذیر ہیں اور اُس کی صورت کے تغیرات اور تقلبات سے اُن کی صورت بھی متغیر ہو جاتی ہے ۔اور خصوصاً جہان کے سب ملوک اور قبائل اور اُن کے اصحاب سیاست و ریاست اس شخص کے برخاست از مُردگان پر اور بعد شکست و تباہ حالی کے متجلی ہونے پر عجیب طور پر منحصر ہوتے ہیں ۔اور اس زبور مجید کی بہت سی عبارتوں اور مثالوں سے روشن اور پدید ہے کہ یہاں ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے جو متکلم بہ تجرد نہیں ہے ،بلکہ کسی قوم قبیلہ کی پیشوائی اور خلافت رکھتا ہے۔چنانچہ اِس شخص مذکور کے واقعات عمر میں اتنے اور ایسےمعجزات اور خوارق عادات(خلاف عادت باتیں ، معجزے) بیان ہوتے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے ملک مصر سے خروج کے وقت واقع ہوئے تھے۔جن کے وارد اور واقع ہونے سے اشہاد اور اظہار ہوگیا ،اُس ولادت ثانی کا اور اس رتبہ عالیہ کا یعنی کہانت بادشاہانہ ہونے کا اور سب اقوام میں سے قوم برگزیدہ اور پسندیدہ ہونے کا ،جو اُس زمان میں خلف ابراہیم کو ملا ۔پس یہاں بھی واجبی قیاس اور قرین یقین ہے کہ ان سب امثال اور عبارتوں سے ایک ہی شخص مفرد اور مجرد مراد نہیں، بلکہ خداوند مسیح مع اس قوم نومولود اور نو مخلوق کے جس کا تذکرہ پولُس رسول کے عبرانیوں کے نام خط میں پایا جاتا ہے’’پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُ ن کی طرح اُن میں شریک ہوا تا کہ موت سے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے‘‘ (عبرانیوں۱۴:۲)۔
ہا ں بلاشک صحیح تفسیر اور برحق تشریح اس زبور کی تب ہی ملتی ہے جب ہم نے مان لیا کہ اس کی عجیب اور نادر عبارتوں سے مراد ایک شخص بھی اورایک قوم بھی ہے ۔اور یہ کہ وہ شخص کوئی دوسرا نہیں ہے، مگر وہ خداوند جلیل اور مجید، جس کا تولد ازازل اُس کی قیامت ازمُردگان سے صاف صاف مبرہن اور منصوص ہو گیا۔اور نہ وہ قوم کوئی دوسری ہے، مگر وہ قوم ممتاز اور مختار مقدسوں کی جن کے منصب اور منزلت کے یہ اوصاف عبرانیو ں کے خط کے ۱۲ویں باب میں بیان ہوتے ہیں۔ ’’بلکہ تم صیون کے پہاڑ اور زند ہ خدا کے شہر یعنی آسمانی یروشلیم کے پاس اور لاکھوں فرشتوں ۔اور اُن پہلوٹھوں کی عام جماعت یعنی کلیسیا جن کے نام آسمان پر لکھے ہیں اورسب کے منصف خدا اور کامل کئے ہوئے راستبازوں کی روحوں۔اور نئے عہد کے درمیانی یسوع اور چھڑکاؤ کے اُس خون کے پاس آئے ہو جو ہابل کے خون کی نسبت بہتر باتیں کہتا ہے ‘‘ (عبرانیوں ۲۲:۱۲۔۲۴ )۔اور یہ امر کہ وہ فتح یاب عالم گیر جس کی غیر قوم قدم بوسی اور اطاعت کریں گے ،سو مسیح منجی العالم ہے۔ہاں وہی ہے جس کے لباس او ر جس کی ران پر وہ نام وخطاب منقش ہے ’’بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند‘‘(مکاشفہ۱۶:۱۹)۔سو وہی رسول رومیوں کے خط کے باب۱۵ کی آیت بالا مذکور کو نقل کر کے ظاہر اور ثابت کرتا ہے’’اور غیرقومیں بھی رحم کے سبب سےخد ا کی حمد کریں۔چنانچہ لکھاہے کہ اس واسطے مَیں غیرقوموں میں تیرا اقرار کروں گا اور تیرے نام کے گیت گاؤں گا‘‘(رومیوں۹:۱۵)۔
پس جب کہ اِس آخری آیت کا مصداق حقیقی مسیح ہے،رومیوں کے خط کی الہٰامی شہادت کے بموجب ،تو نتیجہ ان مقدمات سے اظہر من الشمس ہے کہ اس زبور کی باقی آیتو ں سے مراد اور مراد اُن واقعات سے جو اُن میں مفہوم ہیں، سو خداوند کی عمر مبارک کے احوال ہیں ۔مثلاً(۱۸: ۱۶۔۲۵) میں جتنی جتنی صورتیں ذلت اور خواری کی تصلیب اور تدفین اٹھانے میں خداوند نے قبول فرمائیں سبھوں کے برطرف ہونے کا اور عزت وجلال سے مبدل ہونے کا صاف و صریح بیان ملتا ہے ۔جس پر غور کرنے سے اور اُس میں اپنی رفاقت شراکت کے تیقن سے اہل ایمان کو ہر طرح کے شک وشبہ اور خوف و خلش سے جو اُن پر شاق ہوتا ہے، تسکین اور تشفی حاصل ہوتی ہے۔از آنرو کہ اُس پیشوائے متعالی (بلند،خداتعالیٰ کا نام)نےجو مشفق (مہربان)العاصین ہے، اُنہیں اپنی وفات اور قیامت میں شامل حال کر کے ملک الموت کے غنائم اس قدر تقسیم کر دیئے ہیں کہ قبر اُن کے لئے گویا سانپ بلا زہر کے پہلوان بدون(بغیر) تلوار کے موافق ہوگئی یعنی ٹھنکنے ڈرنے کی جگہ نہیں ، بلکہ شیریں اُمید گاہ اور بہشت کا دروازہ بنی ہے۔چنانچہ (زبور ۱۶: ۹۔۱۱ )آیات جنہیں پطرس رسول نے تمام تخصیص سے خود مسیح کی طرف حوالہ کیا ،سو بطور رفاقت کے ہر صاحب ایمان پر صادق آتی ہیں۔ قولُہ‘ (اس کا قول ہے)’’۔۔۔ میرا جسم بھی اُمید میں بسا رہے گا۔اس لئے کہ تُو میری جان کو عالم ارواح میں نہ چھوڑے گا اور نہ اپنے مقدّس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے دے گا۔تُو نے مجھے زندگی کی راہیں بتائیں۔تُو مجھے اپنے دیدار کے باعث خوشی سے بھر دے گا ‘‘(اعمال۲۶:۲۔۲۸)۔
پھر واجب اور مناسب یہ بھی تھا کہ بعد از اں کہ(اس کے بعد) قبر سے خروج اور برخاست کا ذکر درمیان آیاتھا، تب آپ خداوند کے اور اس کی جماعت عامہ کے اہل خلاف کے شکستہ اور پراگندہ ہونے کا اظہار ہوجائے کہ وہ ا ُس کے عروج ماقبل پر اور ریاست و سلطنت کی کرسی پر تخت نشین ہونے پر منحصر ہیں اور اُس کے مُثبَت(ثابت کیا گیا) بھی ہیں ۔چنانچہ اس (زبور۱۸ )کے آخر میں اُس فتح یابی کے اِتمام اور اِختتام پر بڑی زور آور بلاغت سے گواہی دی جاتی ہے(ان آیات۴۳،۲۸،۲۷ کو تکمیلی صورت میں پیش کیا جائے گا)’’ مَیں نے اپنے دشمنوں کا پیچھا کر کے اُن کو جا لیا اور جب تک وہ فنا نہ ہوگئے واپس نہ آیا،مَیں نےاُن کو ایسا چھیدا کہ وہ اُٹھ نہ سکے۔وہ میرے پاؤں کے نیچے گر پڑے ہیں،تُو نے مجھے قوم کے جھگڑوں سے بھی چھڑایا۔تُو نے مجھے قوموں کا سردار بنایا ہے ۔جس قوم سے مَیں واقف بھی نہیں وہ میری مطیع ہوگی ‘‘۔
پھر خداوند مسیح کے عروج اور اُس کے عمدہ پھل اور حاصلات پر کوئی بالغہ شہادت اور قطعی دلالت نہیں ہے۔(زبور۱۱۰ )کی اُس آیت سے جسے جب خداوند نے مجلس علما و شرفا یہود کے بیچ مسئلہ کے طور پر پیش کیا، تب اُس کی زبان مبارک سے گویا تلوار سے زخم قاتل کھا کر وہ سب خاموش ہو گئے اورشرمندہ اور لاجواب ہو کرچلے گئے’’خداوند نے میرے خداوند سے کہا میری دہنی طرف بیٹھ جب تک مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کردوں‘‘(متی۴۴:۲۲)۔اسی قول خدا کے تِیر سے پطرس رسول نے جس دن روح القدس آتشی زبانوں کی صورت میں نازل ہوا اُن عجائبات کے ناطرین اور شاہدین کویوں چھید کر مارا کہ بلا اختیار ہر ٹھٹھا باز اور خلاف گو کا منہ بند ہوگیا اور بڑی جماعت اُن واقعات کے حقیقت حال کی مُقر ہو کر رسولوں سے سوال کرنے لگی’’اے بھائیو! ہم کیاکریں؟‘‘(اعمال۳۷:۲) ۔چنانچہ اُس آیت کا اصل مضمون اس دن کی واردات کے ساتھ ا س قدرمتفق اور موافق دکھائی دیتا تھا کہ گویا خداوند آپ اس مجلس کے روبرو کھڑا ہو کر روح القدس کے حسنات اور طیبات کو دست راست پر سے اس کثرت و فراوانی سے عطا فرماتا تھا کہ رسول مذکور کی تقریر خوش تاثیر سے کسی میں خلاف بات کے کہنے کا زور نہ رہا۔’’پس خدا کے دہنے ہاتھ سے سر بلند ہو کر اور باپ سے وہ روح القدس حاصل کر کے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اُس نے یہ نازل کیا جو تم دیکھتے اورسنتے ہو‘‘ (اعمال۳۳:۲)۔
پھر خداوند مسیح کے عروج پر دال اور شاہد ایک اَور مقام زبور وں کا یعنی( زبور۶۸ : ۱۸ ) مشہور ہے جسے پولُس رسول نے اپنے افسیوں کے نا م خط میں نقل کر کے یوں فرمایا ہے’’اور ہم میں سے ہر ایک پر مسیح کی بخشش کے اندازہ کے موافق فضل ہوا ہے۔اسی واسطے وہ فرماتا ہے کہ جب وہ عالم پر چڑھا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا اور آدمیوں کو انعام دیئے‘‘(افسیوں۸،۷:۴) ۔یہاں ایک مثال لائق لحاظ اُس قاعدہ مذکور ہ بالا کی ملتی ہے جس سے کلام خدا کے مفسرین نے بہت ہی مدد پائی ہے ۔یعنی یہ کہ انبیائے خلف کو روح حق کی حکمت اور الہٰام سے انبیائے سلف کے مضامین عالی اور خفیہ کو حل کرنے کی قابلیت ملتی تھی ۔چنانچہ ایک ہی روح اللہ اُن دونوں میں ساکن اور متکلم تھی۔از آنروکہ اولین کے ہاتھ میں تو قفل سپرد کیا اور آخریں کو قفل کھولنے کی کلید بخشی۔اور انبیائے سابق جن جن باتوں کے اُمید و ار تھے انبیائے آخر بعد از و قوع امر اُنہیں کے مظہر اور کاشف مقرر ہو گئے اور اس سبب سے دونوں کو ایک ہی اجر و ثواب ملا۔مثلاً حضرت داؤد کو الہٰام سے معلوم ہوگیا کہ کوئی بادشاہ عظیم و کریم عالم بالا کو عروج فرما کر اپنی داد گستری(انصاف،دادرسی) اور سخاوت سے بڑی ناموری اور رونق پیدا کرے گا ۔پر کون اور کس زمانے میں کیسی بخششیں عطا فرمائے گا ،یہ مسائل تو خدا تعالیٰ کے خزائن خفیہ میں مستور ہو رہے۔ حواریین کے زمانے تک جو روح القدس کی رعایت سے اُن خبروں کے مصداق سے واقف اور آگا ہ کئے گئے اور اُس کے اظہار کرنے کے منزلت سے نصیب ور ہوگئے۔ اور اسی قاعدہ کا وہ صریح نمونہ با حسن و جہ سوچ اور غور کے لائق ہے جو(زبور ۸) کی تعبیر و تشریح بالا میں مفہوم ہو گیا تھا۔
یاد ہو گا کہ بنی آدم کی ظاہری ذلت وخواری میں اُس جلال کے تاج سے جو اُس زبور میں معروف اور موعود ہے، کچھ اختلاف اور تنافی(نفی،منع) مصنف زبور کو نظر آتی تھی۔اور سچ تو یہ ہے کہ ابن آدم کے ظہور کے ایام تک صاف جواب اس مسئلہ کا مفقود اور محجوب ہو رہا ۔صرف انجیل مقدس میں اور خصوصاً عبرانیوں کے خط میں وہ راز کھل جاتا ہے ۔اس خط کے دوسرے باب سے معلوم ہوگیا کہ آدمیت کی اصلیت حسنہ اور حقیقت کامل کو اس کی کیفیت حال میں جو اس قدر شکستہ اور زبوں ہے ،طلب کرنا بالکل بے جا اور بے مناسب ہے۔زندوں کو مُردو ں میں ڈھونڈنا کون واجبیت رکھتا ہے۔پھر جو کوئی طالب حق پوچھے کہ وہ حقیقت اور اصلیت متجلی انسان کی کس چیز پر یا کس شخص پر قرار پاتی اور کون کو ن سے ضوابط سے مشروط ہے ،تو اُسی باب کی(عبرانیوں۲: ۹،۸ )آیتوں میں راز مذکور کا کشف الہٰامی ملتا ہے۔ ’’ تُو نے سب چیزیں تابع کر کے اُس کے پاؤں تلے کر دی ہیں۔۔۔مگر ہم اب تک سب چیزیں اُس کے تابع نہیں دیکھتے ۔البتہ اُس کو دیکھتے ہیں جو فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا یعنی یسوع کو کہ موت کا دکھ سہنے کے سبب سے جلال اور عزت کا تاج اُسے پہنایا گیا ہے تا کہ خدا کے فضل سے وہ ہر ایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے‘‘(عبرانیوں۹،۸:۲) یعنی باعتبار اپنی جسمیت اور انسانیت کے بھی اُس نے اُس جلال کے تاج کوجو باعتبار اُس کی کلمیت او ر ابنیت ازلی کے ابتدا سے ا ُس کا حق اور میراث ذاتیہ تھا، پہن لیا ۔بموجب مضمون اُس سوال کے جو قبل مصلوب ہونے کے اپنے باپ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا’’اور اب ا ے باپ!تُو اُس جلال سے جو مَیں دنیا کی پیدایش سے پیشتر تیر ے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے‘‘(یوحنا۵:۱۷)۔ پس خداوند مسیح نے انسانیت کا عین اصل اور مبدا آپ ہی میں منتہیٰ کر کے اور اپنے نفس میں اُسے تخت جلال پر جلوس کر ا کے ذلت و زبونی کی حالت پر سے متعالیٰ اور متجلی کیا ہے۔تاآنقدر کہ جتنے اشخاص ایمان قلبی اور اطاعت کی راہ سے اُس کے ساتھ وابستہ اور چسپیدہ ہوتے ہیں، وہ اُس جلال سےبہرہ ور ہوجاتے ہیں،باقی مردود ہیں۔
ا ے صاحبو آپ سے اس بیان میں عجیب طوالت سے معافی مانگتا ہوں ،چونکہ یقین ہے کہ ان باتوں کےبیان میں دین مستقیم کے اُن اصول اور عیون(عین کی جمع،آنکھیں) میں درج و دخل ہوتا جن کے اشارہ کنایہ تک کا قرآن مجیدمیں کچھ ذکر نہیں ۔ہزار شکر اُس رازق اور پروردگار جلشانہ کا جس نے اوقات قدیم سے یہ تجویز نکالی کہ خود کلمتہ اللہ جو مسیح ہے، موت کا تلخ مزہ چکھنے تک اپنے آپ کو فرشتوں سے پست کر کے آدمیت کی ذلت اور خواری کے لباس سے اپنی شان حقیقی اور ربانی کو محجوب کر کے اور غیر ازگناہ ہر صورت سے اپنے برادروں کے شامل حال ہوکر اُنہیں اپنے ساتھ مقامات عالیہ تک سر بلند کرے اور ایسی منزلت اور منصب سے جو فرزندیت کے رتبہ سے افضل ہے ،مشرف کرے۔بموجب قول حضرت یسعیاہ کے’’مَیں اُن کو اپنے گھر میں اور اپنی چار دیواری کے اندر ایسا نام و نشان بخشوں گا جو بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی بڑھ کر ہوگا۔مَیں ہر ایک کو ایک ابدی نام دُوں گا جو مٹایا نہ جائے گا ‘‘ (یسعیاہ ۵:۵۶)۔جس مضمون کا عین اتفاق ہے ۔رسول مبارک کے اُس قول سے جورومیوں کے خط کے ۸ویں باب میں ہے’’اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تا کہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائیں‘‘(رومیوں ۱۷:۸)۔جو کوئی شخص ازراہ ایمان ومحبت و اطاعت مسیح کے ساتھ وابستہ اور اُس کے جلال کا ہم وارث ہو کر گناہ کی حق سزا اور اُ س کے ظلم وستم سے خلاص ہو گیا ،وہی خدا اور مسیح کی سلطنت میں داخل کیا گیا اور خدا تعالیٰ کی عین بادشاہی اِس جہا ن میں بھی ہے۔یعنی وہ وابستگی دلو ں کی خدا کے ساتھ فی الحال بہ واسطہ ِخداوند مسیح کے جو تقلّب قلبی اور نئی خلقت اور ولادت ثانی کہلاتی ہے۔اور کُل کلام خدا میں از شروع تا آخر رب تعالیٰ کی اُس سلطنت کا جو زمان حال میں ہے ،صرف یہی بیا ن ملتا ہے۔اگرچہ ہزار ہا امثال اور مشابہات اینجہانی بادشاہوں کی لشکر کشی اورشمشیر زنی اور قواعد جنگی اور سیاست مدائن (11)سے عاریتاً ماخوذ ہیں ۔اور غور وتامل کے لائق ہے کہ یہود نے جو کنعانی قوموں کے نیست و نابود اور استیصال کرنے کی تاکید بتائید پائی تو مراد اور مقصد اُس حکم کا یہ ہر گز بتایا نہیں جاتا کہ خدا کی بادشاہت جاری اور ساری کریں ۔مگر یہ کہ رب تعالیٰ کےاُس فتوائے لعنت وہلاکت کو جو اُن شریروں کے بغض و بغاوت اور لامثال مکروہات کے سبب خلیل اللہ کے زمانے سے لے کر پشت در پشت اُن پر وارد ہو ا سر انجام دینا، اُن کے حوالے کیا گیا تھا ،تو وہ ملک اُس قدیم قول اور عہد کے بموجب مورد لعن ہوگیا تھا۔
اور بنی اسرائیل اُس ملک ملعون کو ہر صورت خُبث اور گندگی سے صاف کرنے کی خدمت کے لئے برگزیدہ اور کمر بستہ ہوگئے ۔اُس اپنی قدوس منصب داری سے عذر کرنا ممنوع بلکہ جُرم موت کے برابر جانا جاتا تھا ،تو بھی یہ امر حضرت موسیٰ اور اُس کے خلیفہ یشوع کے تصور سے بعید تھا کہ بعد فتح یاب ہونے او ر ملک کنعان پر اپنا قبضہ کر لینے کے یہود کی ملکیت موعود کو خداکی بادشاہت کہتے۔ درحالیکہ خدا کی سلطنت دنیوی جنگ وجہاد اور عقل و حکمتِ جسمانی کی مدد سے پھیلتی نہیں ۔ اگر شاید پھیل بھی جائے تو باقی منافع اور استقامت حقیقی اُس ترقی سے حاصل نہیں ہوتے۔چنانچہ خود مسیح نے انجیل لوقا میں فرمایا تھا’’۔۔۔خدا کی بادشاہی ظاہر ی طور پر نہ آئے گی۔اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ دیکھو یہاں ہے یا وہاں! کیونکہ دیکھو خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے‘‘(لوقا۲۱،۲۰:۱۷)۔یعنی انسان کی بصارت جسمیہ کے مدعات میں سے نہیں ہے ،پر اندرون قلب کے قرار وقیام پاتی ہے اور غور ولحاظ کے لائق یہ بھی ہے کہ پروردگار نے کوہ سینا پر سے بنی اسرائیل سے یہ ارشاد بتاکید فرمایا کہ تمہارے لئے قید اور شرط بادشاہت کی پاکیزگی اور قدوسیت ہے ۔اور کہ اہل یہود صرف اُس قدر تک بادشاہ ہو سکتے جس قدر دنیا کی باقی سب قوموں کی نسبت او ر اُ ن کے مقام میں وہ امامت اور کہانت کے عمل اور ادائے فرض میں مشغول اور ممتاز بھی رہتے ہیں ۔
اسی طرح جو ہم حضرت داؤد کی سلطنت کے اوائل اور ابتدا پر لحاظ کریں کہ قتال و خون ریزی اور جورو جبر اُن کا تخم و بنیاد تھا ،تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہ خطاب سلطنت الہٰی کے مشرف ہونے کے فی الحال قابل و مستحق نہیں ٹھہرے ۔چنانچہ خداکی سلطنت میں مرنے کا علم داخل ہوتا ہے، مارنے کا نہیں۔یہ تو دنیوی سب بادشاہتوں پر مشترک ہے پروہ خدا کی سلطنت کے ساتھ مخصوص ہے اور اُن دونوں صورتوں کے تناقض اصلی اور ضروری کو حضرت یسعیاہ نے بڑی فصاحت اور صراحت سے بیان کیا ہے۔’’کیونکہ جنگ میں مسلح مردوں کے تمام سلاح اور خون آلودہ کپڑے جلانے کے لئے آگ کاایندھن ہوں گے۔اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہوگا‘‘(یسعیاہ ۶،۵:۹)۔پس تخت داؤد تب ہی سے آنقدر متجلی ہونے لگا جب رب تعالیٰ کے تخت اور برّے کے تخت سے ملقّب ہونےکےلائق اور قابل ٹھہرا ۔جب سے شاہ سلامت اپنے کلام صلح اور بشارتِ نجات کے وسیلے سے آسمان کی بادشاہت کو روئے زمین پر اظہار و اشتہار کرنے لگا۔چنانچہ انبیا اور رسولوں دونوں نے ایک ہی آواز سے صاف صاف پکارا کہ تم اپنے دلوں میں نئے بنو کہ آسمان کی بادشاہت قریب ہے ۔ان شاء اللہ باب ذیل میں اِس بادشاہت کے اوصاف اور فضائل کی کیفیت کا بیان تفصیل وار ملے گا۔
(11) مدینہ شہر کی جمع،عراق عرب کا ایک شہر جو نوشیرواں کا پایہ تخت تھا
باب ہفتم
د ربیان آں معنی کہ بادشاہت رب تعالیٰ فی الحال د ر عالم شہود کدام است وچہ صورت مے بندد ودر عالم مستقبل چہ حال و کدام صورتش خواہد شد
کتب انبیا کے معانی اور مبادی اندرونی سے واقف ہونے کی ایک شرط ضروری یہ ہے کہ سوچ و غور سے تجسس کر کے معلوم کریں کہ کلا م خدا میں خدا کی اور آسمان کی بادشاہت سے کیا مراد اور معنی ہے، یعنی رب تعالیٰ کی سلطنت اور باقی سلطنتوں کی نسبت کون سی اور کیسی خصوصیات رکھتی ہے۔اِس بات سے ناواقف ہونے کی جہت سے مولوی رحمت اللہ صاحب اور اُن کے تابعین لاہوری ہزارہا غلطیوں اور جہل آمیز قیاسوں وہموں میں پھنس گئےہیں ۔اور بالاختصاص بعض زبوروں اور انجیل مجید کے بعض مقاموں کا بہت ہی اُلٹا اور غیر واجبی بیان کیا ہے۔مثلاً صیانت(حفاظت۔بچاؤ) الانسان کے مصنف نے یہ ناقص سمجھ اور خام خیال کیا ہے کہ آسمان کی بادشاہت سے مراد آسمان یعنی بہشت ہے ،حالانکہ خداوند مسیح کی تمثیلو ں پر ذرا بھی غور وتامل کرنے سے صاف ثابت اور واضح ہے کہ وہ بادشاہت معروف اِس جہان کے درمیان پھیلتی اور بڑھتی ہے ۔اور کہ اس جہان کے سب معاملات اور امو ر اور واقعات اُس سے اثر پذیر ہوتے ہیں ۔اور یہ کہ وہ سلطنت اپنی ابتدا میں نہایت کوتاہ اور کم قد ر ہو کر ایسی ترقی اور قدرت اور بلاغت اور کل عالم میں انتشار سے نصیب ور ہو گی، جیسے حضرت دانی ایل نے اپنی نبوت کے دوسرے باب میں صاف بیان کیا ہے’’ تُو اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر ہاتھ لگائے بغیر ہی کاٹا گیا اور اُس مورت کے پاؤں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔۔۔۔اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو توڑا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین میں پھیل گیا ‘‘(دانی ایل ۳۵،۳۴:۲)۔جائے تحیرّ ہے کہ اس امر میں ذرا بھی شک اور احتمال کسی صاحب عقل وتمیز کے دل میں کیوں باقی رہتا ہے۔درحالیکہ اس بیان مذکور پر بے شمار گواہیاں اور دلائل قوی و قطعی انبیا اور انجیل میں درپیش آتی ہیں کہ اس عالم فانی میں تقلبات اور تغیرات کے باوجود وہ سلطنت موجود بھی ہے اور بموجب امر الہٰی کے منادوں کی بشارت سے منتشر اور معروف ہوتی رہتی ہے۔ اور کہ وہ پرانی خلقت کی بدی و زبونی اور خُبث و پلیدی کو نیست کرتی اور اُس کے مقام میں ایک خلقت پاک اور جدید اور قائم و دائم سر انجام کرتی چلی جاتی ہے۔جس سے اُس قولِ قدیم اور ارشادِ مبارک کی تتمیم ہوجائے’’پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں‘‘(پیدائش۲۶:۱)۔پولُس رسول نے مجملاً اس بادشاہت کے بیان میں کہا’’۔۔۔مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اُس سے بھی نہایت زیادہ ہوا۔تا کہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اُسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے‘‘(رومیوں۲۱،۲۰:۵) ۔ مطلب اِس آیت کا جیسا صاف و صریح ہے، ویسا ہی دل پذیر اور تقویت اور تسلی بخش ہے کہ خدا کی بادشاہت فضل کی حکومت اور تسلط ہے اور کہ اس حکومت کی فعلیت اور کارروائی بتوسط خداوند مسیح کے راستبازی ہے ۔جس کا انجام عالم جلال اور حیات یعنی سعادت آسمانی اوررب تعالیٰ کی پوری قربت اور دیدار ہوگا۔
آیات بالا مذکور سے مصنف نے اس امر کوظاہر اور ثابت کیا تھا کہ جب تک اسرائیل کی حکومت اور حضرت داؤد کی سلطنت جنگ وجدال و قتال پر قیام و قرار پارہی تھی اور اینجہانی دھوم دھام اور طمطراق(شان وشوکت) سے رونق دار اور مزین ٹھہری ۔تو حالانکہ وہ خدا کی بادشاہت کی تمثیل اور تشبیہ ہو سکتی تھی ،پر اپنے اصل وجود اور حقیقت میں اُس سے علیٰحدہ اور جداگانہ تھی۔صرف بعد اظہار خداوندمسیح کے اور ا س کے کلام شریف کے اشتہار کے ،وہ دونوں سلطنتیں یعنی خداوند مسیح کی اور داؤدکی اس قدر متفق اور باہم پیوستہ اور وابستہ ہوگئیں کہ لفظ و عبارت تک کچھ فرق نہ رہا۔ دونوں سے ازراہ حقیقت و انصاف مراد تھی، وہ بادشاہت فضل و کرم کی جسے خداوند اِس جہان میں جاری اور دائم قائم کرنے آیاتھا۔دونوں بدون (بغیر)تفرق و تمیز اُسی کی طرف اطلاق کی جاتی ہیں ۔چنانچہ انجیل مرقس میں خداوند مسیح کی اول منادی کا یہ بیان ملتا ہے ’’۔۔۔یسوع نے گلیل میں آکر خدا کی خوشخبری کی منادی کی۔اور کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ‘‘(مرقس۱۵،۱۴:۱) ۔اور پھر اسی انجیل میں لکھا ہے کہ ’’۔۔۔مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔مبارک ہے ہمارے باپ داؤد کی بادشاہی جو آرہی ہے۔عالم بالا پر ہو شعنا‘‘(مرقس۱۱: ۹) ۔جس میں اتفاق صاف اور کلیہ ہے انبیا ئے سلف کے صحیفو ں سے مثلاً بزبان حزقی ایل نبی کے’’میرا بندہ داؤد اُن کے درمیان فرمانروا ہوگا‘‘(حزقی ایل۲۴:۳۴) اور ہوسیع نبی کی کتاب اسی بات پر گواہ ہے ’’اِس کے بعد بنی اسرائیل رجوع لائیں گے اور خداوند اپنے خدا کو اور اپنے بادشاہ کو ڈھونڈیں گے۔۔۔‘‘(ہوسیع۵:۳)۔
اور یہ امر بھی کلام الہٰی کاایک اصل تعلیم اور ملاحظہ کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ کی مملکت اوقات ازلی سے قریب تعلق رکھتی تھی ۔یہودیوں کی اُس خاص اور مختار قوم سے جس سے توریت میں مخاطب ہو کر اُس رب تعالیٰ نے فرمایا تھا’’اور تُم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مقدس قوم ہو گے‘‘(استثنا۶:۱۹)۔ اور اُس تعلق کے سبب جو رشتہ رابطہ بنی اسرائیل کا خد اکی بادشاہت کے ساتھ تھا اگرچہ مدت مدید تک از جہت بغاوت اور روگردانی کے اُس میں خلل آگیا تو بھی آخر ایام میں اُس امر مضر اور مخل کی پوری مرافعت ہوجائے گی۔اور کل اسرائیل اپنے بادشاہ حقیقی کے مقر ہو کر خدا کی بادشاہت میں شامل ہوں گے ۔باتفاق پولُس رسول کی اس صاف گواہی کے جو رومیوں کے نام خط میں ملتی ہے ’’ اور اِس صورت سےتمام اسرائیل نجات پائے گا۔چنانچہ لکھا ہے کہ چھڑانے والا صیُّون سے نکلے گا اور بے دینی کو یعقوب سے دفع کرے گا‘‘(رومیوں۲۶:۱۱) اور کرتاً مرتاً آپ خداوند مسیح خصوصاً جس وقت کَہنَہ (کاہن کی جمع)اور رؤسایہود اور رومی حاکموں کی مسند عدالت کے مقابل حاضر کیا گیا ۔اسی امر مذکور کا قائل اور مقر ہوا تھا کہ بے شک میں بادشا ہ ہوں، نہ ازاں حیثیت کہ اینجہانی مملکت مجھے منظور اور مطلوب ہے ۔
ازبس کہ طلب رفعت اور اینجہانی تخت و تاج کی حرص مجھ سے دوروبعید ہے ،مگر عین حقیقت اور صلاحیت اور فضل الہٰی کی مملکت جس سے تہذیب عادت وعمل اور اصلاح علم وفہم اور انقلاب قلوب اور بنی آدم کی خلقت جدید ہر زمان و زمین میں متعلق ہے۔ سو میرے خاص نام یعنی کلمتہ اللہ کے نام سے اور ذات و ماہیت سے مقید اور میری خدمت اور ذمّت(فرض) سے مخصوص ہے۔ اور یوحنا رسول کی (مکاشفہ ۱۹ : اا )اور آیات مقارن(نزدیک،درمیان) سے صاف ثابت اور معلوم ہے کہ سلطنت خدا کی جتنی سیاست اور ریاست اور رعایت وتدبیر ہے، وہ سب اُسی کلمتہ اللہ یعنی خداوند مسیح کے توسط سے عمل میں آتی اور اسی کو حوالہ کی گئی ہے۔اور کہ بادشاہوں کا بادشاہ اُس کا خاص نام ہے یعنی سلطا ن السلاطین ہونا اُس کی عین کلمیت کے اصل خواص اور حقوق میں سے ہے ۔تو بلاشبہ عقل اور نقل دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جس خداوند کا نام ذاتی اور موروثی ازل سے کلمتہ اللہ ہے، سو خدا کی سلطنت کی تمام کارروائی اور دست گیری اُسی سے ہے ۔اور کہ وہی کل عالم کے بار سلطنت کے متحمل ہونے کا مستوجب ہے، پر تو بھی کچھ تعجب کی بات نہیں کہ جتنے اشخاص اُس کی ازلی اور ذاتی کلمیت کے منکر ہوتے ہیں اور رسول مقدس کی اس گواہی کو منظور نہیں کرتے کہ اُسی کے توسط سے رب تعالیٰ نے عالم کومخلوق کیا۔ سو اُس کے بادشاہ عالم کے نام وخطاب سے مشرف ہونے میں کچھ مناسبت اور واجبیت نہیں پاتے۔
اور مولوی رحمت اللہ صاحب کے موافق
ان زبوروں سے جن میں سلطنت خدا کے خداوند مسیح کو ذمے اور حوالہ ہونے کا بیا ن ہے، ٹھوکر کھا کر محمدصاحب کی طرف یا کسی اینجہانی پہلوان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔اور بو فور تکبر و تفخر انبیا ئے سلف اور خود مسیح اور اس کے رسولوں کی صاف متفق گواہی کو اس حق میں ہیچ اور پوچ (حقیر)جان کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ہزار ہا برسوں کے بعد از جہت اپنی تیز بینی اور ادراک نافذ کے اصحاب الہٰام کی گواہی کو رد کیا ہے اور کذب ٹھہرایا ہے، بلکہ وہ رازحقیقی جو کتب اور رُسل وانبیا کا عین ماخذ اور مبتدا اور بنیاد ہے یعنی خداوندمسیح کی وہ کلمیت الہٰی جس پر اس کی ابنیت ازلی کا راز بھی منحصر ہے اور اُس کے شاہ عالمین ہونے کا حق وتعلق غیر انحلال کی راہ سے اُن دونوں پر موقوف ہے،ہم نے سفینہ ِوجود سے مٹایا ہے۔
خلاف اس کے جن جن شخصوں نے روح القدس کی توفیق سے اس راز کا کشف پایا اور یقین کیا ہے کہ ان دونوں (زبور ۴۵ اور ۷۲ ) زبوروں کو خداوند مسیح کے سوائے کسی دوسرے کی طرف اطلاق کرنا عین نادانی اور ضلالت ہے۔وہ سب نہ صرف اِس امر سے بڑی خاطر جمعی لیتے ہیں کہ شروع سے اجماع یہود اور اجماع مسیحیان اس بات پر متفق ہوا ہے، بلکہ اس یقین قوی پر بھی اُس نے قیام پایا ہےکہ کتب اربعہ یعنی توریت،زبور،انبیا اور انجیل اس امر کی تبئین (پیروی)میں باہم پیوستہ اور ہر صورت سے موافق اور متفق ہیں اور علاوہ اس بات کے اپنے ہی دل میں بڑی تشفی اورآرام پایا ہے۔ اس تجربہ اور خیا ل سے کہ جو ہم گناہ گار، بدخواہ اور اصحاب بغاوت و قہر تھے تو اس بادشاہ کریم و مہربان نے ہمیں رب تعالیٰ کے ساتھ ملایا۔ جیسا پولُس رسول نے کلسیوں کے نام خط میں لکھا ہے ’’اُسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا‘‘(کلسیوں۱۳:۱)۔
(12) کسی مرکب شے کے عناصر ترکیبی کا الگ الگ ہونا۔
پر تو بھی کوئی شخص نہ سمجھے کہ خداوند مسیح نے صرف تہذیب قلوب اور اپنی روح کی قدرت والی تاثیروں سے اور اپنے کلام کے اشتہار سے اپنی بادشاہان شان کو فاش اور ظاہر کیا، بلکہ یہ بھی معلوم کر لے کہ اُس عالی مرتبہ تک اُس کا جلال لہلہایا کہ اس جہان فانی کے رنگا رنگ احوالوں اور واقعات کو اُس طریقہ پر تدبیر اور انتظام کرتا ہے ۔جس سے اجماع قدوسیان کی ترقی اور بہتری ہو اور سب اوقات اور زمانوں کے سروں کو آپ ہی میں منتہیٰ کرتا ہے ۔یعنی آپ اپنے دوسرے ظہور کے وقت جامع اوقات اور جامع واقعات عالم اِس قدر ہوگا کہ اُن کےسب مطالب کا اول اور اصل مطلب آپ ہی نکلے گا۔چنانچہ پولُس رسول نےافسس کی کلیسیا کے نا م خط میں صاف بتایا کہ ’’تاکہ زمانوں کے پورے ہونے کا ایسا انتظام ہو کہ مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہوجائے۔خواہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی ‘‘(افسیوں۱۰:۱)۔جس آیت پر اوراس کی مانند او ر آیات پر غور کر کے کوئی منصف حقیقت خواہ اور خوش تمیز کچھ جائے تناقض اس قول سے نہ نکالے جو خداوند مسیح نے خود فرمایا کہ ’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں ‘‘ (یوحنا۳۶:۱۸)کیونکہ اسی وقت اور اسی جگہ پر رومی حاکم کے روبرو یہ دوسرا قول بھی فرمایا ’’ مَیں بادشاہ ہوں۔۔۔ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے‘‘(یوحنا۳۷:۱۸)۔ان آیتوں کو پڑھ کر سمجھ لیجیےکہ آپ ہی نے تناقض کی ہر صورت کو رفع دفع کیا۔کیونکہ آپ ہی نے آنجہانی اور اینجہانی بادشاہتوں کا فرق صاف مبین اور فیصلہ کیا جس سے معلوم اور ثابت ہو کہ کون اور کیسی بادشاہت کامدعی اور مقر اور کون اور کیسی کا منکر ومانع ہے۔مُنکر تو اسی کا ہے جس کے باب میں فرمایا ’’ اگر میری بادشاہی دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تا کہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا‘‘(یوحنا۳۶:۱۸) جس سے صاف اشارہ (مکاشفہ ۱۱ : ۱۵ ) میں ملتا ہے’’اور جب ساتویں فرشتہ نے نرسنگا پھونکا تو آسمان پر بڑی آوازیں اس مضمون کی پیدا ہوئیں کہ دنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند اور اُس کے مسیح کی ہوگئی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کرے گا‘‘اور مقر اور مقبل اسی کا ہے جس کی یہ اصل خاصیت اور دعویٰ بتایا جاتا ہے ’’جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے‘‘۔ اور پھر وہی بادشاہت مسیحی کیا ہی خوب بیان ہوتی ہے (مکاشفہ۱۸: ۱۴) میں’’اور وہ دس سینگ جو تُو نے دیکھے دس بادشاہ ہیں۔۔۔ وہ برّہ سے لڑیں گے اور برّہ اُن پر غالب آئے گا کیونکہ وہ خداوندوں کا خداوند اور بادشاہو ں کا بادشاہ ہے اور جو بلائے ہوئے اور برگزیدہ اور وفادار اُس کے ساتھ ہیں وہ بھی غالب آئیں گے‘‘(مکاشفہ۱۲:۱۷۔۱۴)۔
صاحبو اس سلامت بخش حقیقت کو ضائع نہ کرو کہ وہ کتب اربعہ معروف جو عین کلام خدا ہیں یعنی توریت،زبور،انبیا اور انجیل۔ان شخصوں کے لئے غیر مفہوم اور سراسر مختوم اور محجوب ہیں جو خداوند مسیح کی نبوت کے قائل تو ہیں، پر اُس کی کہانت جاوید اور بادشاہت مدا م کے راز سے کہ یہ دونوں اُس کی کلمیت ازلی اور ابنیت الہٰی پرموقوف ہیں ،ہر صورت سے ناواقف او ر جاہل اور بلاتجربہ رہتے ہیں ۔جائے تعجب نہیں کہ ایسے جاہلوں کے لئےحضرت موسیٰ کی توریت معمات کی مانند ہے جو قابل انحلال نہیں اور زبوروں کی وہ تفسیر الہٰامی جو انبیا اور انجیل میں پڑھی جاتی ہے، محض واہیات اور اصحاب تعصب کے خالی تصورات ہیں۔ہاں تعجب کی بات نہیں کہ اُس مبارک کو بادشاہ عالمین اور انس وملائک کا منصف اور محتسب نہ جان کر اُس کے کلام کو رد اور متروک اور منسوخ بتاتے ہیں اور اُس کے حکموں کو نا منظور اور منقطع کرنا آسان بات اور بے کھٹکے جانتے ہیں اور بڑی لا پروائی اور بے خوفی سے خدا تعالیٰ کے عہدو میثاق وقدیمی سے بیرون رہنے سے خوب راضی ہیں ۔یعنی یہ خام خیال کرتے ہیں کہ اس کی صفات جمالی کو یعنی حسن اور رحمت اور فضل و محبت کو ہیچ جا ن کر عاقبت میں ا ُس کی صفات جلالی کو یعنی اس کے قہر اور راستی اور پاکی اور عدل و انصاف کے ظہور کو برداشت کر سکیں گے اور اپنے بر گزیدہ نبی کی وکالت میں پناہ پکڑ کر خداوند مسیح کے حساب اور آتشی امتحان کے اُس بڑے دن سے امن و امان میں رہیں گے۔خدا چاہے کہ وہ اصحاب اہانت ملاکی نبی کی دل تراش پیش گوئی ذیل ذہن نشین کریں، تاکہ غفلت اور ضلالت کی نیند سے بیدار ہو کر خدا تعالیٰ کی اُس تدبیر قدیم اور انبیا کے پیش نوشتہ شہادت کو منظور کریں اور اطاعت بھی کریں۔یوں لکھا ہے ’’۔۔۔خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہان اپنی ہیکل میں آموجود ہوگا ۔ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزو مند ہو آئے گا ربّ الافواج فرماتا ہے۔پر اُس کے آنے کے دن کی کس میں تاب ہے؟اور جب اُس کا ظہور ہو گا تو کون کھڑا رہ سکے گا؟کیونکہ وہ سُنار کی آگ اور دھوبی کے صابُون کی مانند ہے‘‘(ملاکی ۲،۱:۳)۔
باب ہشتم
دربیان آں مزامیر کہ باختصاص تمام بر ملکوت رب تعالیٰ و خداوند مسیح شہادت صاف و صریح د ر آنہا یافتہ مےشود
مزامیر گزشتہ سے مسیح کی برخاست از مُردگان اور بہشت میں صعود اور خدائے قادر مطلق کے دست راست پر تخت نشینی صاف پیش گوئیوں سے ثابت ٹھہری اور بعض اُن زبوروں میں سے مثلاً( زبور۸اور ۲۲ اور ۶۹ )اس راز پر دال ہیں۔ جسے عقل انسانی باوجو دیکہ اسے اپنی حد اور احاطے سے باہر اور اپنے مرتبہ سے بالا جانتا ہے ،تو بھی عاجزی اورخاکساری سے اسے قبو ل کر کے فی الحقیقت متجلی ہاں بلکہ اپنی قابلیت کے درجہ کمال تک سرفراز ہو جاتی ہے۔یعنی اس امر پر کہ وہ جو غمزدہ اور حقیر اور بے ایمانوں کی دانست میں ناچار ملعون تھا،سو بادشاہ عالمین بھی اور اقصائے زمین تک معبودیت کا مستحق اور تمام جہان کے بادشاہوں کا پیشوا اور فرمانروا ہے۔اس تعلیم نبوی اور لاتردید کی بابت (زبور ۲۲ : ۲۷ ۔۲۸ ) میں( مکاشفہ ۱:۵) کے ساتھ عین مطابقت اور موافقت ہے۔آنقدر کہ مقدس یوحنا کی شہادت مذکور اس (زبور ۲۲ )کی کلید قفل کشا ہے اور یہ کلید اس زبور کی اور اس کی مانند ہزار ہا مشکلات کی رفع اور حل کرنے والی ہے ۔اور اس سے ہم بخوبی نمونہ لے سکتے ہیں ،اس بات کا کہ کتب سابق الہٰی کی جو تفسیر او ر تشریح انجیل شریف میں ملتی ہے، وہ مختلف فضائل اور براہین رکھتی ہے۔پر عمدہ اور فاضل تر اُن فضائل سے اور قوی تر اُن براہین سے یہ ہے کہ وہ تشریح اس طرح کی ہے کہ اس میں ہزار ہا قفلوں کے کھولنے کے لئے ایک کلید ہے اور ہزار ہا گتھیوں اور عقدوں کے حل کرنے کے لئے ایک انگشت اور کلام خدا کے سائرین(سائر=سیر کرنے والا) کے واسطے ایک قطب نما ہے یعنی وہ مراتب ثلاثہ جو خداوند مسیح کی طرف منسوب ہیں۔
(اول) کہانت (دوم) بادشاہت (سوم) نبوت
اور اگر کوئی شخص پوچھے کہ کہانت سے کیا مراد ہے، تو وہ ذرا بھی تجسس کر کے معلوم کر سکتا ہے کہ کہانت سے مراد ہے وہ مرتبہ خداوند مسیح کا جس کے بموجب وہ صاحب امامت اور صاحب شفاعت او ر صاحب وکالت ہے۔اور اطوار واقسام وکالت سے خصوصاً وہ صورت وکالت کی اس جگہ معروف ہے جس کا یہ مقتضی تھا کہ وہ اپنی جان مبارک کو انسان کے عوض گزرانے اوراپنے آپ کو صدقہ کر کے تاابدالا ٓباد سب مومنین کے لئے سلامت بخش ہوجائے ۔اور یقین ہے عقل اور نقل اور روزمرہ کی تجربہ کاری سے کہ جب خداوند مسیح کے ا ن تین مرتبوں میں اُس کی انسانیت اور الوہیت کے خواص دونوں درج ہوتے ہیں اور اُن کی عملیت اور وفائے عہود میں مددگار ہیں تو ان دونوں ذاتوں کی اس وابستگی اور ملاپ میں اتنی وسعت اور دولت وسیلات کی ہے کہ انسا ن کی ہر حاجت روحانی کی مرافعت حاصل ہوتی ہےاور اُس کی عمر اینجہانی کی ہر حالت اور صورت کی پوری مناسبت پائی جاتی ہے، تا آنکہ رب تعالیٰ کی حکمت بے پایاں اور محبت بے بیان کشف اور نمودار ہوجائے۔
اب یہاں کچھ جواب اور تردید تفصیل وار چاہیئے اُس قیاس اور دعویٰ بے حیا کی جو رحمت اللہ صاحب نے پیش کیا ہے کہ وہ دونوں زبور مذکور یعنی (زبور ۴۵ اور ۷۲ ) خداوند مسیح کی طرف کسی وجہ سے حوالہ کرنے کے لائق نہیں ہیں، بلکہ محمدصاحب کی طرف باستحقاق تمام ان کا حوالہ کرنا چاہیئے۔ مولوی صاحب مذکور نے اس انیسویں صدی میں اوقات سلف کے معلموں کی سب تفصیلات اور تشریحات کو رد کر کےاُ ن کی حقیقی تفسیر اورتعریف نکالی ہے جس سے یہ غیر واجبی نتیجہ اول حاصل ہوتا ہے کہ یہود متقدمین کاا جماع شریف جس نے ان مزامیر کو خداوند مسیح کی طرف منسوب و محمول کیا ،بالکل اُن کے حقیقی معنی کے فہم و تمیز سے ضال اور ضائع ہوا اور محض غلط کے زعم میں پھنس گیا۔ہر چند کہ وہ پینتالیسواں(۴۵) زبور خود آپ ہی ہر عاقل اور پڑھنے والے پر صاف شاہد ہے کہ اُس کا مصداق ایک ایسے شخص کے ساتھ مقید ہے جو ایلوہیم یعنی خدا تعالیٰ کے نام سے مخاطب ہونے کے قابل ہے اور مخاطب ہوتا بھی ہے اور جو داؤد بادشاہ کا بیٹا بھی ہے ۔بغیر تاویل ظاہری اور صریح کے کوئی مفسر اس تعریف اور بیان سے جس سے وہ شخص جو اس زبور کا مصداق ہے بالاختصاص متعین اور متمیز ہوتا بچ نہیں سکتا ۔
اور دوسرا غیر واجبی نتیجہ یہ نکلا کہ خداوند مسیح خود اور اَور اُس کے رسولوں نے جو حضرت داؤد کی پیش گوئیوں کا درباب سلطنت صرف مسیح کو عین مصداق اور مراد جانا، سو وہ بھی اپنے آپ کو اور اپنے تابعین کو قصداً یا سہواً دھوکا دیتے تھے ۔مثلاً جس دن خداوند مسیح کوہ زیتون پر چڑھا اور عوام یہود کا بڑا ہجوم اُس کے ساتھ ساتھ چلا جاتا تھا تو اِس یقین سے کہ یہی ہمارا پیش گفتہ اور موعود داؤدی بادشاہ ہے ،اُن کے دل اس قدر جوش و نشاط سے نہال ہوگئے کہ ناگہاں آگے اور پیچھے جانے والوں کے منہ سے ایک آواز زبان زد ہوگئی کہ ’’مبارک ہے ہمارے باپ داؤد کی بادشاہی جو آ رہی ہے۔عالم بالا پر ہو شعنا‘‘(مرقس۱۰:۱۱) اور اس حمد اور شکر کی آواز کی جب بعض حاسد اور کینہ ور فریسیوں نے ممانعت کی اور اُن چلّانے والوں کو ڈانٹ کراُن کا جوش دبانا چاہتے تھے تو خداوندمسیح نے تاکید اور تہدید سے اُن حاسدوں کو سخت سرزنش کر کے کہا ’’ مَیں تم سے کہتاہوں کہ اگر یہ چُپ رہیں تو پتھر چلّا اُٹھیں گے‘‘(لوقا۴۰:۱۹)۔پس رحمت اللہ صاحب کے فخر آمیز دعویٰ کے بموجب خلق یہود نے بے معنی اور لاحاصل شکر کی آواز نکالی اور مبارک مسیح نےا ن حاسدوں کو مفت اور بے انصافی سے ڈانٹا اور کُل اجماع مسیحیان نے جو ابتدا انجیل سے لے کر آج تک خداوند اور اُس کے رسول کی گواہی منظور کی اور جیتے مرتے اُس اُمید اور یقین قوی پر اپنے ایمان کو مبنی کیا، سو(کیا) اپنے تعصب اور جہالت اور ضلالت کے سبب اس اعتقاد میں جیتے رہے اور وفات پاگئے؟اور اس امر میں کوئی شخص نہ سمجھے کہ ہماری حجت مردود ہو گئی اور باطل ٹھہری ۔اس وجہ سے کہ خداوند مسیح غمزدہ اور حقیر کو اکثر یہود نہیں مانتے ،مگر صرف خداوند مسیح عالم گیر اور سلطنت پذیر اور فتح یاب کو۔ ازبس کہ یہود اور مسیحی دونوں کمال متفق الرائے ہیں اس امر میں کہ ان دونوں زبوروں کا مصداق سوائے مسیح کے کوئی دوسرا نہیں ہے ۔الحاصل کچھ ڈرنے کا باعث نہیں کہ کوئی حقیقت خواہ اور معتدل مزاج اور صاحب تمیز اس وزن کی الہٰا می شہادت پر غور کر کے ہرگز ایسا دعویٰ برداشت کر سکے۔
اب ذرا بے تعصبی اور انصاف کی راہ سے ہم غور کریں کہ کون کون سی علامتوں سے معلوم اور ثابت ہے کہ یہ دونو ں زبور مذکور اور ان کی مانند اَور زبور داؤدی بکمال واجبیت بلکہ بہ لزومیت تمام خداوند کی طرف عائد اور صادق آتے ہیں اور صرف اسی صاحب جلال میں ان شرائط اور تعینات کا جو ان میں معروف ہیں ،اجتماع مل سکتا ہے۔ اگر صرف تلوار وں اور تیر کمان اور باقی جنگی اوز ار وں کا اور افواج اور جہانگیری اور قہر ریزی اور قتال کا ذکر و بیان ہوتا تو اُن زبوروں کو دارا یا خسرو یا سکندر اعظم یا محمدصاحب کی طرف یاکسی دوسرے سلطان عالم افروز کی طرف حوالہ کرنا ممکن، بلکہ معقول بھی ہوتا ۔لیکن ان دو زبوروں کے مصنف مبارک نے اس قدر صراحتاً اور مفصلاً گویا روح الہٰام کی انگشت سے خداوند مسیح اور اس کے خواصوں کو بیان کیا اور اس بیا ن کو اس کے وجود اور احوالوں کے اتنے اتنے تعینات سے مقید کیا ہےکہ جو شخص اِس تصویر کے قیافے پر لحاظ کرتا ہے، اگرچہ نابینا اور غافل بھی ہوتا ہے، مگر بہ مشکل مسیح کی عین مشابہت اور ہم صورتی کے پہچاننے سے بچ سکتا ہے۔
ا ے صاحبو آپ غور کر وگے تو دیکھو گے کہ ان منور زبوروں میں جونشانیاں خداوند مسیح پر اور اِس جہان کے عام پہلوانوں اور بادشاہوں پر مشترک ہیں، سو نہایت تھوڑی ہیں۔ پھر جو علامتیں خداوند مسیح کے ساتھ مخصوص اور مقید ہیں عام بھی ہیں اور خاص بھی۔پولُس رسول عبرانیوں کے خط کے پہلے باب میں جب نقلیات سے خداوند مسیح کی منزلت اور مرتبہ صاف دکھانا چاہتا ہے کہ فرشتوں سے کتنی تفضیل اور ترجیح رکھتا ہے تو مع اَور نقلی(نقل اُتارنا=کسی تحریر کو نقل کرنا) دلیلوں کے (زبور۴۵ : ۸) آیت پیش کرتا اور اُس پر معقولاً اور واجباً زور اور تاکید کرتا ہے ۔از بس کہ ایسی صاف و صریح گواہی کو جو ناخلفوں اور منکروں بلکہ غنیموں کی کتابوں میں مندرج ہے۔اور یہود اپنے انبیا ئے سلف کی تلاوت میں روز اسے زبان زد کرکے اپنے نفسوں پر الزام لگاتے ہیں، رد اور نامنظور کرنا محض بطلان اور بےہود گی ہے۔
پس اُس زبور کا مصنف اس بادشاہ کے خطاب میں جواز شروع تا آخر معروف اور محمود ہے ،بڑی سنجیدگی اور عبودیت کی راہ سے فرماتا ہے’ ’اے خدا! تیرا تخت ‘‘(زبور۶:۴۵)۔اور یقیناً ہر زبان شناس جو عبرانی لغت سے آشنا ہے، ناچار ہو کر اقرار کرے گا اس امر کا کہ غیر از تاویل عبرانی لغت سے صحیح قواعد کے بموجب دوسرے معنی اس آیت پر لگانے محال ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ (زبور۸۲ : ۶)میں اس جہان کے صدر دیوانوں اور مسند عدالت نشینوں وغیرہ سے مخاطب ہو کر روح القدس فرماتا ہے’’مَیں نے کہا تھا کہ تم اِلٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو‘‘ ۔پر اس جگہ اس لقب کا مجازی ہونا اور متعلق ہونا نہ ذوات (ذات کی جمع)اور اشخاص سے ،بلکہ اُن کی خاص خدمت اور خلافت اور جانشینی سے، یعنی ا ُس نشست مقام سے جو بالا ستحقاق و اختصاص خدا تعالیٰ کا ہے ۔سو قرینہ قبل و خلف سے صاف وصریح ،بلکہ اظہر من الشمس ہے۔پر( زبور۴۵ : ۷) میں حرف ندا کا استعمال یعنی’’ اے خدا ‘‘غیر اللہ کے خطاب میں صاف کفر ہو گا اور روح الہٰام کے طریقہ اور عبارت سے بعید ۔تو اس دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ و ہ بادشاہ جو اس زبور کا مصداق ہے ،خدا حقیقی کے خطاب سے مشرف اور متعالی ہے۔پس جب مخاطب حقیقی خدا ہے تو وہ مخاطب سوائے ہمارے خداوند مسیح کے جو منجی الخاطبین ہے، کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔
یسعیاہ نبی کی ایک مشہور آیت اس امر کی مویّد اور مصدق ہے کہ وہ بادشاہ جو حضرت داؤد کے تخت پر بیٹھنے والا اور بعوض قتال اجناس اور ملوک کو زیر پا کرنے کے صلح و سلامت اور عدل و انصاف کی سلطنت جاری کرے گا ’’ایل ‘‘یعنی ’’ایلو ہیم‘‘ خدا ہوگا۔اور زبور مذکور کو (یسعیاہ ۶:۹) کے ساتھ مقابلہ کرنے سے بہت روشنی اور خاطر جمعی پیدا ہوتی ہے کہ ’’ اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہوگا۔اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی۔وہ داؤد کے تخت اور اُس کی مملکت پر آج سے ابدتک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گاربُّ الافواج کی غیوری یہ کرے گی‘‘۔اب اس میں تین باتیں فی الحال غورو تامل کے لائق ہیں۔
اوّل یہ کہ( زبور ۴۵ )میں اور اس آیت میں ’’ایل‘‘ یا’’ ایلو ہیم‘‘ یعنی خدا کا نام اُس بادشاہ پر صادق آتا ہے جو نسل داؤد سے تولد ہو کر اُس کا خلیفہ اور قائم مقام تا ابد الآباد ہو گا۔
دوم یہ کہ لفظ ’’قادر‘‘ یا ’’جبّار ‘‘(גִּבֹּ֑ור) (13)ا ُس بادشاہ عالی قدر یا متجلی پر محمول ہے، ہر دو مقاموں میں ،یعنی (زبور۴۵ :۴) میں اور یسعیاہ نبی کی آیت معروف میں ۔
سوم یہ کہ ہر حالیکہ دونوں مواضع میں ’’جبّار‘‘ کا خطاب عبرانی عبارت میں اُس بادشاہ ابدی کے ساتھ ملحق ہے تو بھی ہر دو مقاموں کے مضمون کا مدار کلام وہ صلح سلامت ہے، جو اُس کی سلطنت کے زمانے میں اور اس کے وسیلہ سے مروج اور منتشر ہو گی۔
اور خصوصاً سوچ و غور کے لائق ہے کہ(زبور ۴۵ اور ۷۲ ) میں سلطنت معروف کی اسی خاصیت پر بہت سی صورتوں اور عبارتوں میں تاکید اور تائید کی جاتی ہے ۔مثلاً (زبور ۷۲ : ۷ ) کا نوشتہ ہے’’ اُس کے ایام میں صادق برومند ہوں گے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہے گا‘‘۔ازبس کہ عبرانی عبارت اصطلاحی’’ شالوم‘‘ سے مراد صرف سلامتی نہیں ،بلکہ صلح و سلامتی دونوں کا ملاپ ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بادشاہ معروف کی وہ تشخیص اور تخصیص کہ وہ ’’جبار‘‘ ہے اور تلوار سے کمر بستہ اور مرکب سوار اور دست راست سے دہشت ناک قدرتیں دکھاتا ہے اور اپنے نافذ تیروں سے مخالفوں کے قلوب تک چھیدتا ہے، مستلزم اور مستدل نہیں۔ایسی بادشاہت پر جو خونریزی اور جوروجفا اور لشکر شکنی اور کشور گیری پر مربوط ہے ،بلکہ برعکس اس کے ہر دو مزامیر مذکور کا مضمون عائد ہے، ایسے بادشاہ کے جلوس اور رونق پر جو کبریت اور جبروت میں سب سے بیشتر اور مقدم ہو کر ہر چند کہ سب وسائط (واسطہ کی جمع،تعلقات)اور وسائل جنگ سے تاکمال آراستہ ہو اور زائداز حدّو اندازہ صاحب افواج و خزائن ہوتاہم یہ بیشتر اور اپنی شان سلطنت اورجلال اور فضل الہٰی کے لائق تر جانتا کہ ظلم و ستم ودست درازی کو مکروہ جان کر صلح اور میل ملاپ و کرم ورحم وعدل وانصاف و مہروخیر خواہی کی مضبوط بنیادوں پر اپنی مملکت کو مبنی کرے تاکہ دور وقریب کی مختلف اقوام اس بادشاہ عظیم کے فضائل کی خبر سن کر خود اختیاری قربانیوں کی راہ سے اُس کی اطاعت قبول کریں اور وہ انہیں اپنی ملک گیری اور رعایت اور سیاست ریاست سے معمور کرے اور اس کے باقی سب منافع سعادت اور رونق اور امن و مان اور فوائد اور برکتوں میں شامل کرے۔
علاوہ اِس کے اگر آپ غوروتامل سے ان دو مزامیر بالا مذکور کی سیر کریں گے تو صاف دلائل سے یقین ہو گا کہ وہ تلوار جس سے کمر بستہ ہو کر وہ بادشاہ فیروزمند اور دشمنوں پر فتح یاب بتایا جاتا ہے، سو عالم روحانیت کے میدانوں میں چلائی جاتی ہے، نہ اس عالم فانی کے میدانوں میں۔بلاشبہ وہ تلوار کلام خدا ہے۔چنانچہ (زبور ۴۵ :۲) میں نوشتہ ہے کہ’’تیر ے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے‘‘اور پھر(زبور۴۵: ۴ ۔ ۵ ) میں کون صاحب علم وعقل جو ذرا بھی کتب سماویہ کے مغز اور قلب اندرونی سے آشنا ہو اس قدر مدرک اور روشن ضمیر نہ ہوگا کہ بے اختیاری سے معلوم کرے کہ لفظوں کا مطلب مجازی ہے ،حقیقی نہیں ۔’’اور سچائی اور حلم اور صداقت کی خاطر اپنی شان و وشوکت میں اقبالمندی سے سوار ہو اور تیر ا دہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا ۔تیرے تیِر تیز ہیں۔وہ بادشاہ کے دشمنوں کے دل میں لگے ہیں۔اُمتیں تیرے سامنے زیر ہوتی ہیں ‘‘۔جس قول پر متفق ہے پولُس رسول کا قول(افسیوں ۶: ۱۷) میں ’’روح کی تلوار جو خدا کاکلام ہے لے لو‘‘اور پھر (عبرانیوں ۴: ۱۲) میں ’’کیونکہ خدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بند بند اور گوُدے کو جدا کر کے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے‘‘۔اور پھر’’اس لئے کہ ہمار ی لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں ‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۴:۱۰)۔
(13) یسعیاہ ۹: ۶ میں یہ لفظ عبرانی زبان میں شامل نہیں ہے۔
ان سب آیتوں کا ایک ہی اصل مضمون اور ایک ہی جان ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت پولُس ایک ہی بات ایک ہی روح کے الہٰام سے بولتے ہیں۔ان زبوروں میں تلوار خونخوار سے کچھ اشارہ نہیں ،جیسا محمدصاحب اور اس کے خلیفوں کی تلوار۔اور ہزار افسوس ہے کہ بعض عیسائی پہلوانوں اور سلطانوں نے بھی اپنے خداوند مبارک کے حقائق اور مبادی سے غافل ونادان ہو کر اسی طرح کی خونخوار شمشیر زنی اوقات خلف میں کی جو لعن طعن کاموجب اور باعث ہو گئے۔ برعکس اس کے وہ جوکلمتہ اللہ اور حق تعالیٰ کا ابن مبارک ہے، اُس تیغ کلام سے جس میں حلم اور عدل اور صداقت کے حقائق اور مبادی مندرج ہیں ،قلوب کے غرور کو مضروب ومغلوب کرتا ہے،نہ یہ کہ ظلم سے مجبور کر کے دباتا ہے۔پر کلام شریف کی نرم اور شیریں کششو ں سے عہد فضل آمیز کے احاطے کے اندر پہنچاتا اور محبت کی گود میں کھینچتا ہے۔
انجیل اور قرآن کی فصاحت اور بلاغت کی بابت مولویان اور مجتہدان محمدی بڑے مبالغے اور زبان درازی کرتے ہیں ۔مگر اس طرح کی حجت سے عذر کرتے ہیں اور ایسے مطالب بحث میں اس عمر کوتاہ کو مصروف کرناباطل اور لاحاصل جانتے ہیں ۔ایسی مفاضلت اور مبادرت حکمائے یونان اور شعرا ئےعرب اور علما ء رومی کے لئے مناسب اور بجا ہو گی، مگر ہم اس قسم کے فضائل اینجہانی جن میں فضلائے فنون و علوم بت پرستان نہایت معروف اور محمود اور عالی قدر ہو سکتےتھے،اس عالم کے محتجُّوں کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ۔بموجب اس قول عالی مضمون خداوند مسیح کے کہ ’’ تُو میرے پیچھے چل اور مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے‘‘(متی۲۲:۸) ۔ نہ اس لئے ہم یہ فضائل چھوڑتے ہیں کہ کتب سلف وخلف الہٰی میں صحف موسیٰ سے لے کر انجیل شریف کے آخرتک کچھ بلاغت وفصاحت و جمال وجلال کی کمی وکوتاہی ہے۔
سینکڑوں مواضع صحف رسل وانبیا سے مثلاً مزامیر مذکور ۷۲،۴۵ کو ہم اس قدر مقوی اور حسین اور فصیح اور کلام کے سب فضائل اور خوبیوں سے اس درجے کمال تک آراستہ جانتے اور بتاتے ہیں کہ عنقریب ہے کہ بمشکل قرآن مجیدکی ایک بھی سورت کو اُس کے ساتھ مقابلہ ہونے کے قابل جانتے ہیں۔ قطع نظر از دعویٰ تفضیل اور تعظیم کے جسے مولوی صاحبوں نے بڑی لاف زنی سے نکالا ہے یا تو عناد اور تعصب سے اور یا ازجہت آنکہ وہ اصل عبرانی اور یونانی زبانوں سے آگاہ نہیں ہیں ۔لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے کلام مجید کا ثبوت ایسے دلائل اور علامتوں پر منحصر نہیں چھوڑا جن کے انفصال اور امتیاز کر نے کے لئے ایک ایسا ثالث چاہیئے تھا جو عبرانی ،عربی، سریانی وغیرہ زبانوں سے کامل اور پختہ واقفیت رکھتا اور علاوہ اس کے جو صرف ونحو و قواعد علم بلاغت سے خوب آشنا ہوتا اور جوش دینی اور تعصب کی بُو سے خالی ہوتا ،بلکہ افضل اور عمدہ ثبوت اور تائید اپنے کلام کی وہ قدرت الہٰی بتاتا ہے جس سے وہ آتش سوزاں کے موافق جسمانی شہوتوں اور نفس امارہ وغیرہ کو بھسم کرتا اور ہتھوڑے کے موافق سنگ دلوں کو ریزہ ریزہ کرتا اور دو دھاری تلوار کے موافق تیز اور زندہ اور جان اور روح کی جائے تفضیل تک نافذ اور دل کی نیتوں اور تصوروں کا ممیز ہے۔ بموجب اس قول خدا بزبان یرمیاہ نبی کے ’’ کیامیرا کلام آگ کی مانند نہیں ہے؟ خداوند فرماتا ہے اور ہتھوڑے کی مانند جو چٹان کو چکنا چور کر ڈالتا ہے؟‘ ‘(یرمیاہ۲۹:۲۳)۔
وہی کلام حیات الہٰی کے لازوال تخم کے موافق پرانی خلقت کی زبونی اور قباحت اور خرابی کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر نئی خلقت اور ولادت ثانی کا اصل باعث اور موجب اور وسیلہ ہوتا ہے اور رعدو برق سے خوف ناک تر آواز سے غفلت کی نیند توڑتا اور روحانی خبث اور فساد سے بھری ہوئی قبروں کا دروازہ کھولتا اور گناہ کے زہر مہلک سے مقتولوں اور مُردوں کا جلاتا ہے۔ جیسا خداوند مسیح نے آپ فرمایا’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جئیں گے‘‘(یوحنا۲۵:۵)۔اور وہی کلام قاضی صاحب اختیار کے موافق اس شخص پر جو قول خدا کو سن کر پُنبہ بگوش (کان میں روئی ڈالے ہوئے۔بےخبر)اور غافل رہتا ہے، بلکہ بعض مُلایان لاہوری کے طور پر محض اعتراض اور عیب چینی اور مضحکہ اور خیالات فحش کی تحریص کے لئے آیات مبارک کا مضمون بگاڑتا ہے اور تاویلات کذب سے شہد سے زہر بنانے کے واسطے آیات کو نقل کرتا ہے۔ عذاب کا فتویٰ منصف اعظم کے حضور میں صاف مشتہر (اعلان)کرے گا جس امر کا شاہد خود خداوند مسیح کا قول ہے’’اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پرعمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مجرم نہیں ٹھہراتا۔۔۔اُس کا ایک مُجرم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کیا ہے آخری دن وہی اُسے مجرم ٹھہرائے گا‘‘(یوحنا۴۸،۴۷:۴)۔جو چاہے سو مثالیں اس تحریص فحش کی جس کا اشارتاً ذکر کرنے سے بھی ہرنافاحش آدمی کے دل میں نفرت آتی ہے،اُس قذف قباحت آمیز میں پائے جسے مولوی لاہوری عین آفتاب صداقت یعنی ابن خدا مبارک پر لگانا چاہتا ہے۔ اُن مقدس عورتوں کے باب میں جو خداوند کی سیر و سفر کے وقت اُس کے نقش قدم پر چل کر اور اُس کا وعظ شریف سن سن کر اس کی خدمت کرتی تھیں اوراُس کے فقر وفاقہ کی تخفیف اپنے وسائل سے کیا کرتی تھیں اور پھر اُس عورت کی بابت جس نے خداوند کے سر پر اور پیروں پر بیش قیمت عطر کو نذر ونیاز کی راہ سے انڈیلا ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے قول وکلام کے ہتک عزت کے الزام سے کس طرح بچیں گے ،جو ہم اس کلام کی نافذ اور دل سوز دل شکن قدرت کو محض اس دنیا کے حکما اور فصحا ء کی بلاغت کی تاثیروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے اور اس قدر عجیب تقویت اور کبریائی اور وزن کے اقوال کو اینجہانی فقہا کے خوار وذلیل ترازو پر تولیں گے۔بلاشبہ تاثیر اس کلام کی جس کی دھمکیا ں سن کر شیاطین اپنے اپنے مظلوموں سے نکل بھاگے اور سمندر کا تموج اور تلاطم فی الفور تھم گیا اورخاموش ہو گیا ،لاچار عاجز انسا ن کے اندازہ اور مقدار پر آزمائش اور پیمائش میں نہیں آتی۔ اس بات پر رسولوں اور انجیلوں کی بعض گواہیاں غور سے سنو۔مثلاً متی کی انجیل میں مرقوم ہے’’ اور اپنے وطن میں آکر اُن کے عبادت خانہ میں اُن کو ایسی تعلیم دینے لگا کہ وہ حیران ہو کر کہنے لگے اس میں یہ حکمت اور معجزے کہاں سے آئے؟‘‘(متی۵۴:۱۳)۔اور پھر لکھا ہے ’’ اور کوئی اُس کے جواب میں ایک حرف نہ کہہ سکا اور نہ اُس دن سے پھر کسی نے اُس سے سوال کرنے کی جرأت کی ‘‘(متی۴۶:۲۲)۔ اور پھر لوقا کی انجیل میں یوں لکھا ہے’’اور سب حیران ہوکر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا کلام ہے ؟کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں ‘‘(لوقا۳۶:۴)۔اورپھر یوحنا حبیب کی انجیل میں قلم بند ہے ’’پیادوں نے جواب دیا کہ انسا ن نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا‘‘ (یوحنا۴۶:۷)۔اور عمدہ تشبیہ مسیحی قول کے اس عجیب اور بے قیاس قدرت کی وہ آتش آسمانی معلوم ہوتی ہے جس کا بیان اول صحیفہ سلاطین میں ہے کہ وہ حضرت ایلیاہ کی قربانی پر اتری ،جس سے وہ بھاری مقدمہ خدائے حقیقی اور فاسد و قبیح معبودوں کے درمیان فیصلہ ہوا اور رب تعالیٰ نے آسمان اورزمین کی موجودات کے مقابل گویااُن بت پرستوں پر سخت الزام اور فتویٰ عذاب کو اُس آتش کے درود سے اشتہار کرایا، کیونکہ نبی مبارک نے اس حجت کے انفصال کے لئےتجربہ کی یہ صورت بتائی تھی’’تم اپنے دیوتا سے دُعا کرنا اور مَیں خداوند سے دعا کروں گا اور وہ خدا جو آگ سے جواب دے وہی خدا ٹھہرے ‘‘ (۲۔سلاطین ۲۴:۱۸)اور نتیجہ اس تجربہ کا مشہور ہے کہ کس طرح’’ خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اُس نے اُس سوختنی قربانی کی لکڑیوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کر دیا۔۔۔جب سب لوگوں نے یہ دیکھا تو منہ کے بل گرے اور کہنے لگے خداوند وہی خدا ہے! خداوند وہی خد اہے‘‘(۲۔سلاطین۳۹،۳۸:۱۸) ۔جو صاحب تمیز ان زبوروں پر ذرا بھی غور سے لحاظ کرے گا ،وہ اس امر کا قائل ہو گا کہ جس بادشاہی الہٰی کو نبیوں نے اپنی پیش گوئیوں میں خداوندمسیح کی طرف منسوب کیا اور اس کے اوصاف و فضائل کا بیان کیا وہی ہے جس کے اصول و حقائق ان زبوروں میں فاش اور نمودار ہوتے ہیں یعنی حلم اور عدل اور صداقت اور صلح اور داد خواہوں اور مظلوموں کی پشتی بانی وغیرہ ۔اور یہ بھی شہرہِ عالم اور زبان زد ہو گیا کہ جس قدر تک رب تعالیٰ اور خداوند مسیح کی سلطنت اس رُبع مسکون میں منتشر ہوتی جاتی ہے، اسی قدر خواص اور فضائل قواعد مدائن اور قوانین ملوک مجالس مقبول ہوتے جاتے ہیں اور ان کی تعمیل اور ترقی اور قیام زائد ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ قواعد اور حقائق خلاف کے سب قاعدوں پر غالب ہونا چاہتے ہیں اور حضرت سلیمان ابن داؤد نے اپنی ا مثال کے باب۸ میں انہیں اصول اور حقائق کی تقریر کی کہ وہ اس حکمت الہٰی کے خاص اوصاف ہیں ،بلکہ اُسی کے ساتھ ملحق اور مقید ہیں جو ابتدا سے خدا کے ساتھ موجود ہوتی چلی آئی ہے اور جو خداوند مسیح کے آسمانی القاب میں سے ہے اور عنقریب ہے کہ وہ حکمت اُس کی کلمیت کا لفظ مترادف ہو اور انہیں اصول اور فضائل کی تشبیہ اور تمثیل ضعیف حضرت سلیمان کی سلطنت میں درپیش آئی ،یعنی اس کی بڑی مداحی اور ناموری تھی۔ ازاں جہت کہ اس نے بدون خونریزی اور قتال کے پہلوانی کی تعریف حاصل کی اور قدرت اور کبریت کی تعریف بغیر جوروجفا اور عالم گیری کے اور بغیر حرص اور دست اندازی کے اور بدون غزا(جنگ) اور جدال کے انصاف اور غیرت اللہ سے موصوف اور ممدوح ہو گیا۔
پس اس لامثال سلطنت کی سیرت اور صورت حضرت سلیمان میں دیکھو اور صورت حقیقی اور بے داغ و بے عیب خداوند مسیح پر نظر کرو۔اس بادشاہ مبارک اور محمود کا جھنڈا اور علم مراد ہے( زبور ۶۰: ۴ )میں ہے ’’جو تجھ سے ڈرتے ہیں تُو نے اُن کو ایک جھنڈا دیا ہے تاکہ وہ حق کی خاطر بلند کیا جائے‘‘۔چنانچہ حضرت یسعیاہ نے نظر نبوت سے اس جھنڈے کو دور سے دیکھ کر فرمایا’’اوراُس وقت یوں ہوگا کہ لوگ یسّی کی اُس جڑ کے طالب ہوں گے جولوگوں کے لئے ایک نشان(جھنڈا) ہے اور اُس کی آرم گاہ جلالی ہوگی‘‘(یسعیا ہ۱۰:۱۱)۔پر تو بھی اے صاحبو ایسا نہ سمجھو کہ میری تقریر اس دعویٰ پر ہے کہ ہر مسیحی حاکم اور بادشاہ کا ہر حکم و عمل و قانون شرع ان فضائل اور حقائق بالا موصوف پر قرار پاتا ہے ،جیسا پولُس رسول کامقولہ ہے’’اس لئے کہ جو اسرائیل کی اولاد ہیں وہ سب اسرائیلی نہیں‘‘(رومیوں۶:۹)۔ویسا ہی قول واجبی یہ بھی ہے کہ وہ سب مسیحی نہیں جو مسیح کا نام لیتے ہیں ،لیکن اتنا دعویٰ ہم لاپروائی سے کرسکتے ہیں کہ جس قدر مسیح کی تقویت بخش روح اور اُس کی محبت کا جوش اور اُس کی اور اُس کے احکام کی اطاعت اور اُس کی صورت حقیقی اور طبعی کی مشابہت کسی کے قلب اور مزاج کو قبض کر لیتی ہے تو اسی قدر فضائل اور خصائل معروف اُس کے تمام افعال اور اعمال میں حائل اور عامل ہوجاتے ہیں ۔اور اگر شاید ملک کی ریاست اور رعایت اس کے ذمہ ہو تو اس کی تمام حکمرانی اور ملک گیری پر خداوندمسیح کا نقش و طبع صاف و صریح چھپے گا۔ کیونکہ اگرچہ مسیح کی سلطنت مذکور قلب نشین اور اندرونی ہو پر اس کے نتائج اور علامات رفتہ رفتہ اندرون سے بیرون آتے اور ان سے قواعد ملکی کی اصلاح اور جو کچھ ذلت و قباحت ہو، اُس کی تخفیف ہو جاتی ہے اور خود غرضی اور خود پرستی پر قید ولگام دی جاتی ہے اور محتاجوں اور مظلوموں اور قیدیوں پر ترس کھانا اور بیمار پرسی اور زیر باریوں کی بار برداری اور بے لکھے پڑھوں اور جاہلوں کو درس دینا اور گمراہوں کو راہ رست کی ہدایت اورغمگینوں کو دلاسا دینا اور ماتم زدوں کی ہمدردی اور تمام خلق اللہ بلکہ اپنے غنیموں اور بدخواہوں کے حق میں خیر خواہ ہونا ،لعن طعن کرنے والوں کو برکت دینا اور جن کی روش اور رفتار زبون و ابتر ہو اُ ن کی اصلاح اور بہتری کے لئے محنت مشقت کرنے پر مستعد ہونا، بادشاہت مسیحی کے یہ اور ان کی مانند اور اوصاف صحف انبیاء میں معروف ہیں ۔مثلاً یسعیاہ نبی باب۳۲ میں یہ خواص اور حواصل سلطنت کیا ہی دل تراش اور شیریں عبارتوں میں متصور ہوتے ہیں ۔
پھر جو ہم انجیل شریف کی روایتوں کی طرف متوجہ ہو کر ملاحظہ کریں تو تطابق سلف و خلف یعنی سابق کی پیشینگوئیوں کا تطابق خود خداوند مسیح اور اُس کے حواریوں کے واقعات کے ساتھ صاف معلوم اور ظاہر ہوتا ہے اور جس بات کی شبیہ اور سایہ کو انبیا ءاور مزامیر داؤدی میں دیکھ کر ہم خوش ہو گئے تھے۔ اس کی حقیقت بلا سایہ وحجاب و تشبیہ انجیل میں نمودار ہو جاتی ہے اور ہر صاحب انصاف پر بلاشبہ روشن ہے کہ جس طرح خداوند مسیح کی ایک ہی روح الہٰام سے وہ پیش خبریاں یک صورت اور یک رنگ نکلیں ،اسی طرح مورد اور مصداق ان پیش خبریوں کا ایک ہی بادشاہ متجلی اور متعالی یعنی خداوند مسیح ہے اور اس کی بادشاہت کے خواص معروف۔ جیسا آپ خداوند کی کُل گفتار اور رسولوں کے کل وعظ اور افعال اور احکام میں ظاہر ہوئے، ویسا ہی اس کے اجماع عامہ کے ان رواجوں رسموں میں اور کلیسیائے جامع کی کل تدبیر ورعایت میں جو ابتدا میں مروج اور متداول ہو گئی اور نومریدوں سے لے کر اساقیف تک خلق مسیحی کی طبیعتوں اور مزاجوں میں سلطنت خدا کی عین کیفیت اور خاص طریقہ گویا ہزار گواہوں کی ایک زبان سے مبین اور منشور ہو گیا اور انجام و حاصل اُن فضائل و خصائل کا سوائے صلح اور آرام کے کون دوسرا ممکن تھا۔بموجب (زبور۷۲ : ۷ )میں ہے کہ’’اس کے ایام میں صادق برومند ہوں گے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہے گا‘‘ اور مصدق اُس قول روح خدا بزبان (یسعیاہ ۳۲ : ۱۷ ) میں مذکور ہے’’اور صداقت کا انجام صلح ہوگا اور صداقت کا پھل ابدی آرام واطمینان ہوگا‘‘ اور عنقریب ہے کہ امثال اور تصاویر جوکتب سابقہ سماویہ میں نظر آتی ہیں جن میں مسیح مشار ُ‘الیہ ہے، سب کے سب اسی مطلب اور مضمون میں ملتی ہیں یعنی حسن وجمال اور ملامت وتحمل اور سیرابی وزرخیزی اور فرحت ونشاط اور شیرینی اور نزاکت اور خلوص و آزادگی اور اطمینان وخاطر جمعی اور ہدایت اور تنویر اور مانند ان کی ہزار ہا حسنات او ر بر کات کا وعدہ مومنین کو حاصل ہوتا ہے۔ جب حقیقت حال یوں ہے تو کون صاحب سخن سنج اور امثلۂ(مثال کی جمع) گنج اور معقول فہم یہ خام خیال رکھنے کی جرأت کرے گا کہ ان سب تماثیل اور تشابہُ (مشابہت)سے خون ریزی اور جنگ خیزی اور مظلوموں کی آہ اور چیخ مارنا اور ہجوم ویلغار اور ملکوں کی تخریب اور شہروں کا استیصال ذرا بھی خوش اتفاقی دکھاتے ہیں۔اے صاحبو میں لاپروائی سے ہر شخص جو بے تعصب اور تجربہ کار ہو کر ازمنہ قدیم و اخیر کے سب راویوں اور مورخوں سے آشنا اور واقف ہو ،اس امر کا گواہ کر لیتاہوں کہ ممالک اینجہانی میں سے ایک بھی سلطنت نہ ہوئی اور ہر گز نہ ہوگی جس پر یہ مثالیں واجباً عائد اور صادق آسکیں ۔صرف ایک بادشاہ میں اور اس کی سلطنت کے واقعات اور حقائق میں یہ سب مثالیں مجتمع ہو کر اپنی جزا وجواب پاتی ہیں، صرف خداوند مسیح ہی میں اور اس سلطنت خدامیں جسے اس نےا س دنیا میں جاری کرنا اپنے ذمہ لیا تھا ،یہ سب پیش خبریاں وقوع اور ظہور میں آتی ہیں ۔پھر ذرا سوچ وغور کرنے سے صاف معلوم ہوگا کہ کیا سبب ہے اس بات کا کہ دشت کے باشندے اور خصوصاً عرب اور حبشی مع ترسیس والوں کے اقوام اور قبائل کے خود اس بادشاہ کے تابعین اور پیش کش پہنچانے والوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
پہلے اس امر کی یاد اور ذکر مفید ہے جو (۲۔تورایخ ۹: ۱۴ ، ۲۸ ) سے صاف معلوم اور ثابت ہے کہ انہیں ملکوں اور قوموں میں سے ملوک اور سلاطین حضرت سلیمان کے حضور میں پیش کش اور نذر و نیاز لے آئے اور بیانات بالا سے روشن ہوا کہ مراد اور مصداق ا ن زبوروں کاازروئے مجازی نہ بطور حقیقی، حضرت سلیمان ہے۔چنانچہ اس حضرت نے اپنی عمر کے خصوصاً تین امور اور واقعات میں یہ فضیلت پائی کہ سلطنت مسیحی کی پیش نمائی کرے۔
اولاً اس میں کہ شاہ صلح و سلامت ہونا اُس کا خاص خطاب الہٰام سے بتایا گیا ۔گویا مراتب انبیا میں یہ مرتبہ اسی کا تھا کہ مسیح کی اس مثلیت میں مقدم ہوجائے ۔
دوم یہ کہ اپنے زمانے کے سب سلاطین سے اُس حضرت نے حکمت او ر خرد مندی اور تیز فہمی کی سبقت اٹھائی۔
سوم یہ کہ اس نے ایسی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت پائی جو کُل خلق خدا کی خدا پرستی کا قطب اور مر کز ہو جائے۔
باوجود یکہ یہ رونق اور زینت بے مثال اُس کے باپ داؤد سے ممنوع تھی اور زکریاہ نبی کے موافق راز و رمز کے طور پر خداوند مسیح پر صادق آتی ہے’’اور اُس سے کہہ کہ ربُّ الافواج یوں فرماتا ہے کہ دیکھ وہ شخص جس کا نام شاخ ہے اُس کے زیر سایہ خوشحالی ہوگی اور وہ خداوند کی ہیکل کو تعمیر کرے گا۔ہاں وہی خداوند کی ہیکل کوبنائے گا اور وہ صاحب شوکت ہوگا اور تخت نشین ہو کر حکومت کرے گا اور اُس کے ساتھ کاہن بھی تخت نشین ہو گااور دونوں میں صلح سلامتی کی مشورت ہو گی‘‘(زکریاہ۱۳،۱۲:۶)۔
حاصل کلام جب حضرت سلیمان کم سے کم اپنی عمر و سلطنت کی تین خصوصیات میں خداوند مسیح مبارک کی مشہور تشبیہ اور تمثیل ٹھہرے ،تو یہ واجبی اور حق تھا کہ ان قوموں او رقبیلوں کا جو نہ جبراً بلکہ طوعاً اس کے مطیع ہو گئے، خاص اور صاف ذکر درمیان میں آئے۔
اس امر میں دوسری بات سوچ و غور کے لائق یہ ہے کہ بادشاہ معروف کے متابعین او ر انقیاد کرنےو الوں کا بیان عربوں اور ترکوں اور مغلوں سے مخصوص اور مقید ان زبوروں میں جاننا از جہت آنکہ ان ملکوں میں محمدصاحب کے تولد اور ان کے مذہب کی بیخ وبنیاد تھی، ہر صورت سے بے جا اور بے اصل ہے۔ از بس کہ حقیقت حال اس وجہ پر ہے خواہ خیال و رویا میں ،خواہ سچ مچ کوہ صیُّون پر کھڑا ہوکر چاروں اطراف کی طرف بار بار منہ پھیر کر فرات ندی کو مشرق کی طرف اپنا حد نظر کرتا اور جنوب کی طرف اہل عرب وحبش اور مغرب کی طرف ترسیس اور بحر روم اور جزیروں کو تاکہ معلوم ہو کہ کتنی کشادگی اور امتداد تا بر وبحر مسیح کی حکمرانی کی ہوگی ۔خصوصاً انہیں ملکوں اور حکمرانوں کی خود اختیاری اطاعت اور تابع فرمانیوں کو بتاتا ہے جو بنی اسرائیل کے قدیمی اور موروثی غنیم اور بد خواہی میں تلخ و سرگرم تھے کہ یہ سب اس شاہ صلح وسلامت کے جو حضرت داؤد کے خاندان سے ہو گا، قدم بو س اور حلقہ بگوش ہو جائیں گے۔اگر شاید آپ پوچھیں کہ یہ سب کس امید پر اور کون کون سی کششوں سے اس شاہ صلح کی رعیت اور رفیق ہو جائیں گے تو اس سوال کا صاف و صحیح جواب (زبور۸۷ )میں ملتا ہے’’مَیں رہب (مصر)اور بابل کا یوں ذکر کروں گا کہ وہ میرے جاننے والوں میں ہیں۔فلستین اور صُور اور کُوش کو دیکھو۔یہ وہاں پیدا ہوا تھا۔بلکہ صیُّون کے بارے میں کہا جائے گا کہ فُلاں فُلاں آدمی اُس میں پیدا ہوئے اور حق تعالیٰ خود اُس کو قیام بخشے گا ۔ خداوند قوموں کے شمار کے وقت درج کرے گا کہ یہ شخص وہاں پیدا ہوا تھا‘‘ (زبور۴:۸۷۔۶)۔اس سے یہ راز حاصل اور معلوم ہوا کہ ولادت ثانی کی راہ سے یعنی اس نو پیدایش کی راہ سے جو اندرونی اور روحانی تولد کا راز ہے، اُن خود نثار رعتیوں کے نام صیہون شہر یعنی اجماع عامہ کی فہرست میں داخل کیے جائیں گے۔وہ جن کی ولادت اول کا اتفاق مختلف اور متعدد ملکوں اور قوموں میں ہوا تھا ،اُن کا تولد جدید صیہون میں جو بیت المقدس آسمانی کہا جاتا ہے،واقع ہوگا ۔چنانچہ یوحنا رسول نے اپنی انجیل میں فرمایا ’’وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے‘‘(یوحنا۱۳:۱)۔
یہاں بھی مضمون کی بڑی خوش اتفاقی ان دوسرے مضمونوں کے ساتھ ہے یعنی صیہون کے موروثی دشمنوں اور تشنہِ خون کینہ وروں کی حالت اُس ولادت ثانی کےسبب سے اس قدر بدلے گی کہ فلستین اور بابل اور مصر وصور اپنی عداوت طویل کو موقوف کر کے حقوق فرزندیت کے خواہاں ہوں گے ۔یہی اپنا عین فخر اور منعفت جانیں گے کہ طومار نویسی کے وقت وہ آ پ بھی اجماع قدوس کی رونق اور سعادت سے مشرف ہو جائیں ۔یہی وہ قوم نو مخلوق اور مقدسوں کی جماعت ہے، جس کا یہ بیان (زبو ر ۱۰۲ )میں پایا جاتا ہے’’ اور قوموں کو خداوند کے نام کا اور زمین کے سب بادشاہوں کو تیر ےجلال کا خوف ہو گا۔کیونکہ خداوند نے صیُّون کو بنایا ہے ۔وہ اپنے جلال میں ظاہر ہوا ہے۔ اُس نے بیکسوں کی دعا پر توجہ کی اور اُن کی دعا کو حقیر نہ جانا۔یہ آیندہ پشت کے لکھا جائے گا اور ایک قوم پیدا ہوگی جو خداوند کی ستائش کر ے گی‘‘(زبور۱۵:۱۰۲۔۱۸)۔
پس کتب پاک اور سماویہ کی صداقت کے نشانوں اور دلیلوں سے یہ کم ترین اور حقیر ترین نہیں کہ یہ اور ان کی مانند دیگر الفاظ اصطلاحی جو عالی معنوں اور نہاں رازوں کے معرف ہیں، مثلاً نو مخلوق اور نو مولود وغیرہ ، زبور اور انبیا اور انجیل میں مضمون کے وفق اور تطابق عجیب سے درپیش آتی ہیں اور یہ امر ثابت اور ظاہر کرتے ہیں کہ جب اتنے متفرق زمانوں میں ان کتابوں کے اتنے مختلف مصنف تھے تو خیال واجبی بلکہ لازم ہے کہ وہ سب ایک ہی روح القدس کی ہدایت اور الہٰام سے بولتے او ر لکھتے تھے ۔یہ امر اور بھی غور و لحاظ کے لائق ہے کہ اس ولادت جدید مذکور کا تخم جب کلام خدا ہے اور روحِ خدا کی حضوری اور تحریک اور قدرت والی تاثیر کے بغیر وہ تخم لاحاصل اور مُردہ اور بے زور و زیست رہتا ہے اور اس عمدہ بیج کا بونے والا بموجب انجیل (متی ۱۳ : ۳۷) آیت کے ’’ابن آدم ‘‘ہے یعنی’’ خداوند یسوع مسیح‘‘ ہے تو ان سب باتوں پر جو سوچ کرے ، بمشکل اس یقین سے چُوک جائے گا کہ وہ نومولود وں کی پاک جماعت جو خدا تعالیٰ کا گھر اور خاندان کہلاتا ہے نہ تو خاص یہود، نہ انگریز، نہ ترک ،نہ مغل ہیں اور نہ باپ بیٹے کو وصیت اور ترکے کی راہ سے اسے سپرد کر سکتا ہے۔ آنطور کہ وہ رتبہ اور عالی درجہ فرزندیت کا دنیوی ورثہ کے موافق موروثی بن جائے ،بلکہ یہ امر خداوند مسیح کے بادشاہانہ اقتدار اور اختیار پر موقوف ہے، وہ جس کو چاہتا ہے بلکہ ہر مانگنے والے کوا نعام بخشتا ہے اور اس کام میں خداوند نے اپنے گھراور خاندان کا بڑا نتظام اور بندوبست کیا ہے ،یعنی اپنے رسولوں کے بہت سے خلیفوں اور اپنے رازوں کے خاص ولی عہدوں اور کارخانہ داروں کو پشت در پشت پسندیدہ اور برگزیدہ کر کے جن کو اُسقف(پادریوں کا سردار۔لارڈ بشپ) اور قسیس (مسیحی دین کا عالم ) کہتے ہیں، اُنہیں کے وسیلہ سے نومولودوں کو اپنے فرزندوں کے شمار میں اور گھر کی خدمتوں اور منصبوں میں داخل کراتا ہے ۔صرف یہ شرط ضروری ہے کہ دل وجان سے توبہ کار ہو کر اور صحت عادات و اعمال روح خدا کی توفیق سے پا کر اور دین حقیقی کی روایتوں اور اقراروں میں جو امور واقعی مندرج ہیں، اُن کے معترف اور مقر ہو کر غسل اصطباغ یعنی بپتسمہ کی پاک رسم منظور کریں ۔
خدا کرے کہ ہندوستان کی تمام خلق کو معلوم اور مفہوم ہو جائے کہ انبیاء اور رسولوں اور خداوند مسیح کی راہ میں داخل ہونا یعنی مسیحی ہونا نہ انگریز بن جانے کی بات ہے، نہ کِرانی(نصرانی) ہونے کی جیسا دین خدا کے مخالفوں اور متہموں (تہمت لگانے والے)میں زباں زد ہے، مگر مقدسوں کی جماعت برگزیدہ میں شامل ہونا ہے۔ جیسا رسول عبرانیوں کے خط (عبرانیوں۲۳،۲۲:۱۲)میں فرماتا ہے۔نخست زادوں یعنی نومخلوقوں کے شمار میں آنا جن کی حالت سعادت آمیز اور درجہ خاص یہ ہے کہ بجائے خلف محروم یا زرخرید غلام ہونے کے جو ہر دم گھر سے محروم ہونے کے خوف وخطرہ کے سبب بے چین اور بےآرام رہتے ہیں، وہ اس فرزندیت تک سرفراز ہیں جس کی بابت خداوند مسیح نے فرمایا ہے’’اور غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابدتک رہتا ہے۔پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے‘‘(یوحنا۳۶،۳۵:۸) اور روح خدا پولُس رسول کے توسط سے گلتیوں کے نام خط میں فرماتا ہے’’مگر کتاب مقدس کیا کہتی ہے؟یہ کہ لونڈی اور اُس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ لونڈی کا بیٹا آزاد کے بیٹے کے ساتھ ہرگز وارث نہ ہوگا۔پس اے بھائیو! ہم لونڈی کے فرزند نہیں بلکہ آزاد کے ہیں‘‘(گلتیوں ۳۱،۳۰:۴)۔
شکر ہزار شکر خدا تعالیٰ کا کہ یہ دروازہ بادشاہت کا یسعیاہ نبی کے اقوال الہٰامی کے بموجب د ن رات برابر کھلا رہتا ہے اور اس کھلے ہوئے دروازہ کی راہ نمائی کرنا اور گمراہوں کو اس کی طرف رشد و ہدایت کرنا خصوصاً دین کے خادموں اور استادوں کا عہدہ مبارک اور عموماً سب مقدسوں کا فرض یہی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ دین محمدی میں شامل ہو کر تم نے خدا کی دارالسطنت کو دور سے دیکھا تو یقین کرو کہ دروازہ کے اندر صرف دین خدا جو انبیاء اور خداوند مسیح کا دین ہے، آپ لوگوں کو پہنچا سکتا ہے ۔ہماری منت ہے آپ سے رب تعالیٰ کے عوض اور محبت کی راہ سے کہ بہشت کے دروازہ کے باہر مت پڑے رہو، بلکہ اسی کے توسط سے جو فرماتا ہے ’’ میں دروازہ ہو ں‘‘ ،’’میں راہ ہوں‘‘،’’ میں حیات ہوں‘‘ داخل ہو کر خدا کے پاس جو منصف العالمین ہے، آجاؤ ۔جیسا حضرت داؤد فرماتا ہے’’آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔مبارک ہے وہ آدمی جو اُس پر توکل کرتا ہے‘‘(زبور۸:۳۴)۔دو چند بلکہ دہ چند تلخ عذاب کا حکم اور فتویٰ ان شخصوں پر صادر ہوگا جو صرف قریب دروازہ ہی تک پہنچ کر اور وہاں سے منہ پھیر کر یا خونخوار شیر اور بھیڑیئے کا شکار ہوگئے یا چوروں ڈکیتوں کی رفاقت میں جاملے ۔ازبس کہ یوحنا رسول کے دسویں باب میں خداوند مسیح ان کو چور اور ڈاکو کہہ کر انگشت نمائی کرتا ہے جو آپ اس درواز ہ حقیقی میں داخل نہیں ہوتے اور داخل ہونے والوں کو روکتے ہیں۔برعکس اس کے حق تعالیٰ کے سب نبیوں اور پیغمبروں کو چونکہ وہ سب خداوند مسیح کے شاہد اور پیشوا اور اس ایک دروازہ کی طرف مرشد اور ہادی تھے بھیڑوں کا گلہ بان حقیقی بتاتا ہے، جن کی بہت بڑی شان فضیلت اور شرف ہے اور اُن کی صحبت سے محروم اور بے بہرہ ہونا سب سے بدتر لعنت اور کم بختی کا نشان بتاتا ہے ۔چنانچہ انجیل لوقا میں لکھا ہے’’وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا جب تم ابرہام اوراضحاق اور یعقوب اور سب نبیوں کو خدا کی بادشاہی میں شامل اور اپنے آپ کو باہر نکالا ہوا دیکھو گے‘‘(لوقا۲۸:۱۳)۔
باب نہم
د رباب آں علامتہا کہ دروقت عاقبت یعنی د ر وقت اختتام و تکمیل سلطنت حق تعالیٰ پدید و نمودار خواہند شد
خدا کی بادشاہی کی وہ صورت جو فی الحال ہے،کتب رُسل اور انبیا کی تعریفوں اور تقریروں کے بموجب بیان ہو چکی ۔اب یہ قرض و فرض باقی ہے کہ وہ صورت اُس بادشاہی کی جو اخیر الایام میں ہونے والی ہے ،کون اور کیسی ہوگی،اُنہیں کتابوں سے تحقیقانہ دریافت کریں ۔پس یہ امر صاف معلوم ہوتاہے کہ توریت کی بہ نسبت حضرت داؤد نے اُس آیندہ سلطنت کی کیفیت اور حقیقت حال کو زیادہ تفصیل اور تصریح سے بیان کیا ،پر انبیاء کی نسبت کچھ کم۔لیکن بعض خواص اُس سلطنت پر اور اُس کی وجودو ترقی کی صورتوں پر خواہ خوفناک ،خواہ تسلی بخش ہوں، ذرا سا ملاحظہ کرنا انشاء اللہ مفید بھی اور مطالب بالا کا مقارن بھی ہوگا۔
فی الحال کی بادشاہی کابیان جو زبور میں ملتا ہے کچھ توواقعات سابقہ اور امورات گزشتہ کا بیان تھا اور کچھ اُن امور واقعی کا جو حضرت داؤد کے عصر سے آج تک تعمیل اور تکمیل ہوتے چلے آئے ہیں اور جو بادشاہی آیندہ کابیان زبور میں ملتا ہے وہ تو واقعات شُدنی(اتفاقی بات) کابیان ہے جس کی وثاقت(پُختگی،مضبوطی) اور ثبوت خدا تعالیٰ کے قول وقرار کے سوائے کوئی دوسری نہیں ہو سکتی تھی۔پس ہر صاحب عقل کو صاف معلوم ہے کہ امورات واقعی منسوخ نہیں ہوسکتے اور اہل ایمان کو بھی برابر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مراد اور مقصد الہٰی جس کی تعمیل اور تکمیل کے لئے وہ واقعات پیش آئے اور متعین ہوئے ، وہ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا ،نہیں تو خدا تعالیٰ غیر متبدل اور لامتغیر نہ ہوگا ،بلکہ اس کی پاک ذات اور صفات میں خلل آجائے گا۔ جس حال میں کُل عالم مذہب ہنود کے بموجب مایا(خدا کی قدرت۔روح) اور پر پنچ(فریب) بنا ہے، واستوک (جڑی بوٹی)نہیں ہے ۔پھر نہ تو رب تعالیٰ ہو گا، نہ عالم در حقیقت وجود میں ہو گا اور یہ بھی ہر مومن پر صاف ظاہر ہے کہ وہ پیشن گوئیاں جن کی وفا اور کامل ہونے کا یقین اور انتظار مقدسوں کی جماعت میں قائم اور ناجنبیدہ رہتا جو شائد کسی کی دانست میں منسوخ ہوں تو رب تعالیٰ کی صفات جلالی، مثلاً اُس کی حکمت اور قدرت اور انصاف کا وہ شخص اس قدر مخل ٹھہرے گا کہ اُس کی رائے اور مذہب کو دہریوں کے مذہب سے تھوڑا ہی فرق ہو گا ۔
یا اگر شاید کوئی شخص یہ بھی کہے کہ رب تعالیٰ کی وہ حمد اور ستائش جو مزامیر داؤدی میں نادر اور ممتاز ہے اور اُس تعالیٰ کی عجیب ساخت و صنعت کی تعریف جو عالم کی آفرینش اور خوش انتظامی میں اور اجماع مقدس کی رعایت اور تعمیر میں نظر آتی ہے اور وہ دعائیں اور نصیحتیں جو مزامیر میں ہیں اور جو باتیں امید اور ایمان اور محبت کی تحریک کرنے والی اور غافلوں اور شریروں کی تنبیہ کرنے والی اور نشاط روحانی کی ابھار نے والی ہیں، وہ سب کی سب ہمارے مذہب کی شرائط اور اقرار کے بموجب منسوخ جاننا مستحب یا لازم بھی ہے ،تو کون صاحب حقیقت و عدالت اتنی کدورت اور رُوپوشی کی پردہ اندازی حق تعالیٰ کی تجلیات اور اسما ئےجلالی پر برداشت کر سکے گا ۔کون صاحب انصاف نہ کہے گا کہ در حالیکہ زبور نسخ ہو جائیں تو دُعا اور سوال اور استغفار اور حمد وممدوح اور حسنات و اوصاف کا ذکر اور احسانوں اور نعمتوں کی شکر گزاری کا نمونہ محو ونیست ہوگیا ،جو اس عالم فانی میں لامثال اور لاثانی ہے، ہاں جس سے فرشتوں کے مزاج کی مطابقت بنی آدم میں پیدا ہو سکتی اور ہوا بھی کرتی ہے اور مومنین اور مقدسین اُن کے پاک طوائف کی رفاقت میں داخل ہو جاتے ہیں ۔
بعد اس جملہ معترضہ کے جویان حقیقت کو معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کی آیندہ سلطنت کی تین چار خصوصیات اور لوازمات متعینہ مزامیر میں ظاہر کی جاتی ہیں ۔اول یہ کہ خداوند مسیح آپ ہی اپنی حضرت پُر جلال اور قدرت آمیز ظاہر کر کے اپنی مسند عدالت کے حضور میں کُل عالم کے ساکنان کو بلوائے گا ۔دیکھو (زبور۵۰ )میں وہ صدر عدالت کس طرح جاری ہو گا’’رب خداوند خدا نے کلام کیا اور مشرق سے مغرب تک دنیا کو بلایا۔صیُّون سے جو حسن کا کمال ہے خدا جلوہ گر ہواہے۔ہمارا خدا آئے گا اور خاموش نہیں رہے گا۔آگ اُس کے آگے آگے بھسم کرتی جائے گی اور اُس کی چاروں طرف بڑی آندھی چلے گی۔اپنی اُمت کی عدالت کرنے کے لئے وہ آسمان وزمین کو طلب کرے گا‘‘(۱:۵۰۔۴)۔جو اس بیان کے متفرقات اور مفردات پر غور وتامل کرے سو یقیناً جانے کہ اس صدر عدالت کا جو عافیت میں ہوگی ،تشریح احوال و حقائق زبور اور انجیل میں اصالتاً(بذات ِخود،خودآپ بہ نفسِ نفیس)ایک ہی ہے ،مثلاً وہ آواز جسے سُن کر ساکنان قبر اپنی خواب موت سے جاگیں گے خدا ہی کی آواز ہے۔ وہ کلمتہ اللہ جو خداوند مسیح ہے جس کے جسم متجلی میں الوہیت کی کُل بھر پوری رہتی ہے ،اپنے فرشتوں سے ارشاد کرے گا کہ زندوں مُردوں، خواص و عوام کو میرے حضور میں حاضر کرو،پر اولاً میرے مقدسوں کو ۔اس امر میں زبور اورا نجیل کی شہادت میں اتفاق کا مل ہے ۔چنانچہ کرنتھیوں کے پہلے خط میں مشہود(موجود،ظاہر) ہے’’لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے۔پہلا پھل مسیح۔پھر مسیح کے آنے پر اُس کے لوگ‘‘(۱۔کرنتھیوں۲۳:۱۵) اور تھسلنیکیوں کے نام خط میں لکھا ہے’’پہلے تو وہ جو مسیح میں مُوئے جی اُٹھیں گے‘‘(۱۔تھسلنیکیوں۱۶:۴)۔اور وہی رسول (عبرانیوں ۱۲ : ۱۹۔۲۶ ) میں ہمیں جتاتا ہے کہ یہ آواز اُسی متکلم کی ہے جس کی آواز کوہ سینا یعنی کوہ طور پر سن کر حضرت موسیٰ نے بھی لرزش و خوف کھایا اور بنی اسرائیل منت سے عرض ومعروض کرنے لگے کہ جو ہم اس آواز کو پھر سنیں گےتو مر جائیں گے اور اسی اپنی آواز کی قدرت کے بیا ن میں خداوند مسیح نے نہ مبالغہ اور مفاضلہ کی راہ سے ،بلکہ خوب ساختہ اور سنجیدہ عبارتوں میں اور قسم کھانے والوں کی تائید اور تشدید شہادت سے فرمایا ’’ اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے‘‘(یوحنا۲۹،۲۸:۵)۔ اور عبرانیوں کے نام خط کے اسی باب مذکور میں رسول مقدس نے روح الہٰام کی ہدایت سے حجی نبی کے اقوال الہٰامی کو مع تعریف اور تشریح نقل کرکے فرمایا ہے’’خبردار! اُس کہنے والے کا انکار نہ کرنا کیونکہ جب وہ لوگ زمین پر ہدایت کرنے والے کا انکار کر کے نہ بچ سکے تو ہم آسمان پر کے ہدایت کرنے والے سے منہ موڑ کر کیونکر بچ سکیں گے؟ا ُ س کی آواز نے اُس وقت تو زمین کو ہلا دیا مگر اب اُس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ایک بار پھر مَیں نہ فقط زمین ہی کو نہیں بلکہ آسمان کو بھی ہلا دُوں گا‘‘(عبرانیوں۲۶،۲۵:۱۲)۔
اسی کلمتہ اللہ نے جیسا توریت کے مقدمے میں بیان ہوتا ہے اجرام فلکیہ اور اجسام ارضیہ کو عالم نیست سے ہست میں داخل کرایا۔جس وقت’’ خدا نے کہا (یعنی کلام کیا)کہ روشنی ہو جااور روشنی ہوگئی‘‘(پیدایش۳:۱) اور وہی کلمہ آخر زمان میں اُسی عالم کے نظم ونسق کو اور تعلقات و سلسلہ جات کو جنہیں آپ ہی نے تعین کیا تھا، توڑ کر حل کرے گا اور وہ نیا آسمان اور زمین جو کامل راستی کا جائے سکونت اور قرار ہو گا، درپیش کرے گا۔پھر زبور مذکور کو انجیل پیشین گوئیوں کے ساتھ ملانے اور مقابلہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس مسند عدالت پر جس کے حضور میں ہر شخص گھٹنا ٹیکے گا اور ہر زبان اُس منصف عظیم کی الہٰی قدرت وکبریت کی قائل ہوگی، مقدسوں کی جماعت ہم نشین اور ہم جلیس ہو گی۔سچ تو یہ ہے کہ خداوند مسیح کے حقیقی دوستوں میں سے ایک بھی نہیں جو رتبہ عالی اور درجہ جلالی کی اُمید پر خداوند کی سپہ گری کی محنتیں نہیں اٹھاتا اور خوشی سے مورد ذلت و حقارت و رسوائی نہیں ہو جاتا ،بلکہ وہ تو اس نام مبارک اور محمود کے لئے بے عزتی اُٹھانی عین عزت جانتے ہیں۔
ازاں جہت کہ اُسی میں رب تعالیٰ کی ماہیت کا نقش اور جلال کے نور کا ظہور پہچان کر اُس کی قربت اور دیدار وخدمت کو بہشت کی عین نشاط جانتے ہیں ،پر جب اُس کی محبت اس قدر بے دریغ اور فیاض ہے کہ متابعین اور رفیقوں اور خادموں کو اپنی چیزوں میں یعنی اپنی تجلیات و فضائل و حسنات میں شامل و شریک کرنا اپنی شان جانتا ہے ،بقدر اُن کی استعداد کے تو کچھ بھی چیز اپنے واسطے نہیں چھوڑتا اور اُس کی مرضی یہ بھی ہے کہ اِس عالم کی عاقبت اور باز پُرس کے وقت اُس کی برگزیدہ خلق ازراہ خلافت و وکالت اُس کی ہم نشین ہو جائے ۔چنانچہ لوقا کی انجیل میں یہ وعدہ حوارین کے ساتھ مخصوص و مقید بتایا جاتا ہے ’’اور جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں ۔تاکہ میر ی بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پیو بلکہ تُم تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے‘‘(لوقا۳۰،۲۹:۲۲)۔
اور قریب اتنی ہی وسعت کا اور فیاضی کا ایک وعدہ عام اور بے قید سب خادموں کے لئے مکاشفہ کی کتاب میں اس شاہد حقیقی اور موتمن زبان پر آتا ہے’’جو غالب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھاؤں گا ۔جس طرح مَیں غالب آکر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے تخت پر بیٹھ گیا‘‘ (مکاشفہ۲۱:۳)۔اور پھر دانی ایل بھی اپنی نبوت میں اسی تقریرپر گواہ ہے’’لیکن حق تعالی کے مقدس لوگ سلطنت لے لیں گے اور ابدتک ہاں ابد الآباد تک اُس سلطنت کے مالک رہیں گے،اور تمام آسمان کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حق تعالیٰ کے مقدس لوگوں کو بخشی جائے گی۔۔۔‘‘(دانی ایل۲۷،۱۸:۷)۔تب اِبنائے خدا یعنی نخست زادے مقدسوں کی تمام خلق کا وہ ظہور ہو گا جس کا تذکرہ رسول مبارک نےرومیوں کے نام خط میں امیدو محبت کے بڑے جوش سے اشارتاً کیا ہے کہ ’’کیونکہ مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے‘‘(رومیوں۱۹:۸)۔ یہ بات اَور بھی عاقبت اندیشوں کے ملاحظہ کے لائق ہے جو زبور میں اجمالاً پر تفصیل وار مکاشفات یوحنا میں صاف نمودار ہوتی ہے کہ اُس نئے آسمان اور نئی زمین پر سے جو اُس وقت پرانوں اور رد کئے ہووں کے قائم مقام ہوں گے ،ہر خطا کار اور اہل شر نیست ہو جائے گا۔
زبوروں میں یہ عمدہ نتیجہ دو طرحو ں اور تدبیرون سے حاصل بتایا جاتا ہے ۔ایک تو یہ کہ کلام خدا کی اُس دل تراش شمشیر زنی سے جو مقدسوں کے منہ سے نکلے گی ،اہل خلاف میں سے لاکھوں آدمی اپنے کینہ اور فتنہ وفساد اور بغاوت کی نسبت قتل ہو کر اور مرکر خد ا کی اور اس کے ابن محبوب کی نسبت جئیں گے اور یہی کلام خدا وہ آہنی سلاخ اور طوق و زنجیر اور بیڑیاں اور قید خانوں کے قفل ہیں ،جن سے خدا کے بندگان حقیر ومظلوم اس وقت محبت آمیز انتقام کی راہ سے اپنے تشنہ خون ظالموں کو قید کر لیں گے ۔ہاں نہ عذاب وہلاکت کے لئے بلکہ حیات و سعادت بہشت کے لئے باندھیں گے۔ جس بات کی تعریف و تقریر (زبور ۱۴۹ )میں پڑھی جاتی ہے’’مقدس لوگ جلال پر فخر کریں۔وہ اپنے بستروں پر خوشی سے نغمہ سرائی کریں ۔اُن کے منہ میں خدا کی تمجیداور ہاتھ میں دو دھاری تلوار ہو تا کہ قوموں سے انتقام لیں اور اُمتوں کو سزا دیں۔اُن کے بادشاہوں کو زنجیروں سے جکڑیں اور اُن کے سرداروں کولوہے کی بیڑیاں پہنائیں تاکہ اُن کو وہ سزا دیں جو مرقوم ہے۔اُس کے سب مقدسوں کو یہ شرف حاصل ہے ۔خداوند کی حمد ہو‘‘(زبور۵:۱۴۹۔۹) ۔برعکس اس کے جو باقی شیطانی طبیعت والے ہیں، جن کی دانست میں ظلم و تعدی و شرارت عین فخرو زینت ہے اور وہ اپنے بغض سے خدا کی طرف مراجعت کرنا مکروہ جانتے ہیں۔ اُن کا ہولناک انجام بتایا جاتا ہے ۔چنانچہ دوسرے زبور میں لکھا ہے کہ’’ تُو اُن کو لوہے کے عصا سے توڑے گا ۔ کمہار کے برتن کی طرح تُو اُن کو چکنا چُور کر ڈالے گا‘‘(زبور۹:۲)۔اور مکاشفہ کی کتاب میں اُن کی شدت عذاب بیان ہوتی ہے وہ ’’۔۔۔پاک فرشتوں کے سامنے اور برّہ کے سامنے آگ اور گندھک کے عذاب میں مبتلا ہوگا‘‘(مکاشفہ۱۰:۱۴) ۔ تکمیل سلطنت کے قریب ہونے کی ایک اَور علامت زبوروں میں بلکہ کُل کلام خدا میں معروف ومشہور ہے کہ قو م متروک اسرائیل کی اور صیہون کا کوہ مردود دوبارہ حق تعالیٰ کے حضور میں مختار اور مختص اور منظور ہوگا ۔چنانچہ یرمیاہ نبی کی کتاب میں ہے’’خداوند فرماتا ہے اُن دنوں میں اور اُسی وقت اسرائیل کی بدکرداری ڈھونڈے نہ ملے گی اور یہوداہ کے گناہوں کا پتہ نہ ملے گا کیونکہ جن کو مَیں باقی رکھوں گا اُن کو معاف کروں گا ‘‘ (یرمیاہ۲۰:۱۴) اور رُسل وانبیا کی ہزار ہا گواہیوں سے یہ بات ثابت اور اظہر من الشمس ہے کہ رب تعالیٰ نے جس نسل یہود کو اس عہد و میثاق کے سبب جسے ابراہیم اور باقی اولیائے قدیم کے ساتھ متعین کیا تھا ،عزیز اور برگزیدہ کیا ۔سوانہیں آخر ایام میں اصل درجہ کی نسبت اور عمدہ اور افضل درجے میں بحال کرے گا اور اہل ایمان میں سے کون شخص ایسی غیر واجبی بات مانے گا کہ خدا تعالیٰ وفا وعید میں ایمان دار پر وعدوں کی تکمیل میں بے وفا ہو اور پولُس رسول کے رومیوں کے نام خط میں(رومیوں ۱۱ : ۱۵ ) یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب اُس محبوب قوم کی عہد شکنی اور بغاوت گزشتہ اللہ تعالیٰ کے فضل و وفاداری سے بخشی جائے گی اور اپنی فضیلت اور شرافت قدیم پر اُن کی بحالیت پوری ہوگی۔تب اس قدر چشمہ ِبرکت وخیریت فراوان کُل عالم کے لئے پھوٹ نکلے گا کہ اُس کا حال ایسا بدلے گا ،جیسا مُردہ اٹھ کر زندہ ہو گیا ۔اور یقین ہے کہ اُس وقت رب تعالیٰ کی اور اُس کے خداوند مسیح کی سلطنت جو مدت سے پوشیدہ اور خفیہ بڑھتی اور جڑ پکڑتی چلی آئی تھی ،علانیہ فاش و کشف ہو جائے گی۔
اے صاحبو اس ملکوت کے انکشاف پُر جلال کو اس روح خدا نے جو روح الہٰام اور کاشف اسرار ہے، اشارتاً اور مجملاً تو حضرت داؤد کے ذریعہ سے اور مفصلاً انبیائے سلف اور مصنف مکاشفہ کے ذریعہ سے مبین اور قلم بند کرایا ہے اور یہ امر بھی صاف دکھایا ہے کہ بیت المقدس اور کوہ صیہون اُس سلطنت کا دارالخلافت ہو گا۔چنانچہ (زبور۱۰۲ )میں وہ روح القدس ہمیں سکھاتا ہے ’’ تُو اُٹھے گا اور صیُّون پر رحم کرے گا کیونکہ اُس پرترس کھانے کا وقت ہے۔ہاں اُس کا معین وقت آگیا ہے،کیونکہ خداوند نے صیُّون کو بنایا ہے۔وہ اپنے جلال میں ظاہر ہوا ہے ‘‘(زبور۱۶،۱۳:۱۰۲)۔ اس کشف وظہور کی صریح شہادت یسعیاہ نبی کی کتاب میں ملتی ہے’’ اور جب ربُّ الا فواج کوہ صیُّون پر اور یروشلیم میں اپنے بزرگ بندوں کے سامنے حشمت کے ساتھ سلطنت کرے گا تو چاند مضطرب اور سورج شرمندہ ہو گا‘‘(یسعیاہ۲۳:۲۴ ) اور اسی طرح اس انکشاف سلطنت مذکور کے سب مقدمات یعنی واقعات قبل اور حواصل اور نتائج بعد کی کیفیت حال صرف اشارتاً اور مجملاً مندرج زبور ہوئی۔ یعنی قبل از قیام سلطنت، کس طرح وہ حریف خدا تعالیٰ کا اور خداوند مسیح کا جس کو اہل محمد’’دجا ل‘‘ کہتے ہیں، پر خداوند مسیح اور حواریین قدوس اُسے ’’صاحبِ شر‘‘ اور’’ مسیح کاذب ‘‘اور ’’مسیح کا عین مخالف‘‘ وغیرہ کہتے ہیں۔ہر چند کہ وہ کچھ عرصہ تک اجماع مومنین کی سخت اور مفید آزمائشوں کے لئے ابنائے مملکت کی خراب حالی اور دقت شدید اور دلی جنبش و اضطراب کا موجب و باعث ہو، پرتو بھی موسم معین پر خداوند کے ظہور کے شعلہ ِبراق سے بھسم ہوگا، بلکہ ابدتک نیست ونابود ہو گا اور کس طرح خداوند ا ن اور ان کی مانند دیگر تیز امتحانوں کے ذریعہ سے اجماع قدوس میں سے سب قبائح اور ہر قسم کا کذب و خُبث و فساد اور جو کچھ بات پلیدو نفرت انگیز اور ٹھوکر کھلانے والی اس میں مخلوط ہو گئی، اس کی کمال مرافعت بے دریغ اور تصفیہ کرے گا۔ بموجب اُس قول کے جو اُس کی زبان مبارک سے نکلا ’’ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ سب ٹھوکر کھلانےوالی چیزوں اور بدکاروں کو اُس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے۔اور اُن کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے۔وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے‘‘(متی۴۱:۱۳۔۴۳)۔ اور بے شک یہ بات اول زبور میں مشار الیہ ہے’’ اس لئے شریر عدالت میں قائم نہ رہیں گے نہ خطاکار صادقوں کی جماعت میں ۔کیونکہ خداوند صادقوں کی راہ جانتا ہے پر شریروں کی راہ نابود ہو جائے گی‘‘(زبور۶،۵:۱)۔
صاحبو میری منت اورعرض ہےآپ سے خواہ مسیحی ہو، خواہ محمدی اس بات پر غوروتامل کرو جس سے ایک بھی بات کُل کلام خدا میں اظہر اور صریح تر نہیں ہے کہ خداوند مسیح تب ہی یعنی قبل از کشف و قیام سلطنت سب مکاروں اور ریا کاروں کو جتنےجتنے خلق نے خلقت جدید کا بھیس پہن کر پرانی انسانیت کی گندی پوشاک تحقیق نہیں اتاری ،انہیں جماعت مومنین حقیقی میں سے روح عدالت اور روح سوزش سے صاف کر کے بھیڑوں سے بکریوں کو اور عمدہ گیہوں سے بھوسی جدا کر کے اپنی کلیسیا کو پاک ،بے عیب دلہن کی مانند اپنے باپ کے روبرو حاضر کرے گا۔چنانچہ رسول کلسیوں کے نام خط (کلسیوں ۳ : ۱۱ ) میں فرماتا ہے’’صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے‘‘ اور(۱۔کرنتھیوں۱۵: ۲۸) میں مشہود ہے’’سب میں خدا ہی سب کچھ ہو‘‘۔
ازا ں جہت کہ جہاں نور ہے، وہاں نور کی تجلیات اور جہاں ماہیت ہے ،وہاں ماہیت کا نقش ہے ۔اگرچہ وہ خاص ’’دجال ‘‘جو اخیر الایام میں ہو گا کسی زبور داؤدی کا صاف اور یقینی مصداق نہیں ہے ،پرتو بھی اس کے بعض پیش روؤں اور تمثیلوں کا ذکر اور اشارہ ہے ۔چنانچہ یوحنا رسول نے کہا کہ’’جیسا تم نے سنا ہے کہ مخالف مسیح آنے والا ہے۔اُس کے موافق اب بھی بہت سے مخالف مسیح پیدا ہوگئے ہیں ‘‘(۱۔یوحنا۱۸:۲) ۔جس سے وہ رسول ہمیں معلوم کراتا ہے کہ پشت در پشت بعض شخص خائن اور دغاباز اُٹھا کرتے ہیں جو خدا کی رفاقت قریب سے اپنا حال بدل کر تلخ ترین حاسد اور حیلہ ساز دشمن بنتے ہیں اور جن سے دجال کی بد بو نکلتی ہے اور اُس کی مکرو ہ صورت نظر آتی ہے۔ ہاں اس قدر خدا کی طرف سے کینہ اور نفرت ان کے دلوں میں جم جاتا ہے کہ اگر مقدور ہو تو خدا تعالیٰ کا نام و نشان اور اوصاف و جود عالم ہستی سے محو کر دیں ۔
ابواب بالا سے معلوم ہو گیا کہ غالباً ایک ایسا شخص اخیتفل نام حضرت داؤد کے مشیروں اور حبیب رفیقوں میں سے تھا اور اسی طرح خداوند مسیح کے حواریوں میں سے بھی یہوداہ اسکر یوتی نام ایک مشہور خائن نکلا۔ پس صرف ایسے ہی شخصوں اور قوموں کے ساتھ (زبور۶۹ اور ۱۰۹ )کی سخت اور وحشت انگیز لعنتیں مقید ہیں۔ ہرگز کوئی صاحب ایسا بے جا اور ناروا خیال نہ کرے کہ جو لعنتیں اور بد دعائیں ان زبوروں میں مندرج ہیں کسی نبی یا بندہ خدا نے اپنی جان یا گھر یا قبیلہ کے کسی دشمن کی نسبت اُنہیں زباں زد یا قلم بند کیا اور نہ خدا تعالیٰ کے عام دشمنوں کی نسبت۔مگر صرف خود شیطان ہی کی نسبت اور اُس کے خلیفوں کی نسبت جن کی عملیت اُسی کی فعلیت پر موقوف ہے اور جو جو رب تعالیٰ اور مسیح کے مخالف شروع سے اُس اشرّ (بہت شریر)اور اشدّ(شدید ترین) اور لعین(لعنتی) ترین تک جو عاقبت میں ہونے والا ہے ،برابر ہوتے چلے آئیں گے۔باقی ذرا سا ذکر چاہیئے ایک اور امر کا جو عالم عقبیٰ کے واقعات اور علامات موعود میں شمار ہوتا ہے کہ کلام خدا کے اس وقت ملک بہ ملک اور قوم بہ قوم اشتہارو انتشار ہونے کے سبب( زبور ۲۲ )کا وہ بھاری خوش مضمون پورا ہوگا’’ساری دنیا خداوند کو یاد کرے گی اور اُس کی طرف رجوع لائے گی اور قوموں کے سب گھرانے تیرے حضور سجدہ کریں گے۔کیونکہ سلطنت خداوند کی ہے وہی قوموں پر حاکم ہے‘‘(زبور۲۸،۲۷:۲۲) ۔اس مطلب مطلوب کے جلد سر زد اور بر پا ہونے کے لئے کاش ہم سب دل وجان سے وہ عمدہ سفارش( زبور۸۲ : ۸) سے نکال کر عرض کریں۔’’اے خدا! اُٹھ زمین کی عدالت کر۔کیونکہ تُو ہی سب قوموں کا مالک ہو گا‘‘آمین۔
باب دہم
د رباب فضائل شرع و خصوصاً د ر جواب آں مسئلہ کہ چہ طور آن شرع قابل متروکیت است و بکدام حیثیت و اعتبار متروکیتش علی الدّوام محال و بعید ازقیاس است
اس رسالے کے اکثر پڑھنے والوں کو معلوم ہو گا کہ بعض شخصوں نے یہ خام تصور کیااور اُسے حوالہ قلم بھی کیا کہ پولُس رسول نے اُس شرع موسوی میں جس کو توریت کہتے ہیں طرح طرح کے رزائل نکالے ہیں، کچھ فضائل اس میں نہیں پائے۔ جس سے اُنہوں نے یہ بےجا اور ناحق نتیجہ نکالا ہے کہ رسول مذکور نے حضرت موسیٰ کی شرع کو رد اور منسوخ بتایا اور اُسے ہر صورت سے باطل اور بے معنی، بلکہ خداوند مسیح کا عین مخالف جانا۔اور بے شک کچھ تعجب نہیں کہ جو اشخاص بلا غور وتامل اور روح القدس سے ہدایت اور توفیق مانگے بغیر تعصب و ہٹ دھرمی سے رسول مبارک کے خطوط کا مطالعہ کرتے ہیں ، کچھ احتمال اور اشتباہ کریں کہ اس مسئلہ کی بابت اُس کی تعلیم کی اصل مراد اور مطالب کیا ہیں اور کہ وہ لوگ بعض مہین اور باریک مضامین میں ٹھوکر بھی کھائیں۔چنانچہ پطرس رسول نے خود اپنے دوسرے خط میں(۲۔پطرس۳: ۱۵) فرمایا ۔ہمارے پیارے بھائی پولُس نے بھی سارے خطوں میں ان باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں کتنی باتیں ہیں جن کا سمجھنا مشکل ہے اور وہ جوجاہل اور بے قیام ہیں، ان کے معنوں کو بھی اپنی ہلاکت کے لئےپھیرتے ہیں۔
پس باب ذیل میں روح حکمت و فہمید سے مددو توفیق مانگ کر مصنف رسالہ اس بات کو مجملاً اہل انصاف اور محققین کے لئے ثابت کیا چاہتا ہے کہ پولُس رسول کے خطوط میں جتنی تقریریں اِس بُو اور مزہ کی ہیں کہ اُن سے رب تعالیٰ کی شرع موسوی معیوب اور حقیر اور مذموم معلوم دیتی ہے۔ سو وہ عیب و ذم صرف صورتاً اور ظاہراً ہے ،حقیقتاً نہیں۔بلکہ وہ حضرت شرع کےفضائل اور فوائد پر بہت زور اور تاکید فرماتا ہے اور جیسا خداوند مسیح نے آپ کیا، ویسا ہی اس کے رسولوں نے بھی شرع اور توریت کی تعظیم و تکریم فرمائی اور اپنے آپ کو اور کُل جماعت مسیحی کو اُس شرع کا نہایت احسان مند اور مرہون منت جانا۔انشاء اللہ رسول مبارک کا حقیقی مطلب اور مراد زیادہ صفائی اور آسانی سے فاش اور روشن ہو گا ۔پہلے ہی پہل لفظاً لفظاً وہ نقلیات پیش کریں گےجن کی ظاہری صورت اور خالی عبارت میں شرع کی ذرا سی تذلیل اور تحقیر معلوم ہوتی ہے۔ یعنی اُس کی عزت اور شرافت کچھ گھٹتی اور اُس کی بطالت اور کم قدری اور کم قوفی کی تعریف وتصدیق ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔اگر رسالہ خوانان ہوشیاری اور صبوری سے ان نقلیات پر غور کریں گے تو شاید شرع موسوی کی نسبت و تعلق شرع انجیلی کے ساتھ تھوڑا بہت واضح اور روشن ہو جائے گا۔
جاننا چاہیئے کہ خصوصاً تین خط پولُس رسول کے خطوط میں سے ہیں جن میں ظاہراً اور صورتاً شرع کی تذلیل دکھائی دیتی ہے ،یعنی رومیوں کے نا م خط اور عبرانیوں اور گلتیوں کے نام خط۔اولاً، رومیوں کے نام خط (رومیوں ۴ : ۱۴ )کا مضمون ہے’’ کیونکہ اگر شرِیعت والے ہی وارِث ہوں تو اِیمان بے فائدہ رہا اور وعدہ لا حاصِل ٹھہرا ‘‘۔ثانیاً، (رومیوں ۷: ۶) میں ہے’’ لیکن جِس چیز کی قَید میں تھے اُس کے اِعتبار سے مَر کر اب ہم شرِیعت سے اَیسے چُھوٹ گئے کہ رُوح کے نئے طَور پر نہ کہ لفظوں کے پُرانے طَور پر خِدمت کرتے ہیں ‘‘۔پھر گلتیوں کے نام خط میں ہے’’ اور یہ بات ظاہِر ہے کہ شرِیعت کے وسیلہ سے کوئی شخص خُدا کے نزدِیک راستباز نہیں ٹھہرتا کیونکہ لِکھا ہے کہ راستباز اِیمان سے جِیتا رہے گا‘‘(گلتیوں۱۱:۳) اور اسی خط میں ہے ’’ -تُم جو شرِیعت کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرنا چاہتے ہو مسیح سے الگ ہو گئے اور فضل سے محرُوم ‘‘ (گلتیو ں۴:۵)۔ان کے ساتھ اگر (افسیوں ۲: ۱۵)آیت ملائی جائے گی تو یہ امر اَور بھی روشن اور مبین ہو گا’’ چُنانچہ اُس نے اپنے جِسم کے ذرِیعہ سے دُشمنی یعنی وہ شرِیعت جِس کےحکم ضابِطوں کے طَور پر تھے مَوقُوف کر دی تاکہ دونوں سے اپنے آپ میں ایک نیا اِنسان پَیدا کرکے صُلح کرا دے ‘‘۔پھر عبرانیوں کے خط میں ہے’’کیونکہ اگر پہلا عہد بے نقص ہوتا تو دُوسرے کے لِئے مَوقع نہ ڈُھونڈا جاتا ،جب اُس نے نیا عہد کہا تو پہلے کو پُرانا ٹھہرا یااور جو چِیز پُرانی اور مُدّت کی ہو جاتی ہے وہ مٹنے کے قرِیب ہوتی ہے ‘‘(عبرانیوں۱۳،۷:۸) ۔اور اسی خط میں ہے’’ غرض پہلا حکم کمزور اور بے فائدہ ہونے کے سبب سے منسُوخ ہو گیا۔کیونکہ شرِیعت نے کسی چیز کو کامِل نہیں کِیااور اُس کی جگہ ایک بِہتر اُمّید رکھّی گئی جِس کے وسیلہ سے ہم خُدا کے نزدِیک جا سکتے ہیں ‘‘ (عبرانیوں۱۹،۱۸:۷)۔
اب ان کے مقابل کی بعض اَور آیتوں پر بھی غور وملاحظہ کرنا چاہیئے جن کی مراد اورمعنی ا ن آیات مذکور کے برعکس اور متناقض معلوم دیتے ہیں ، یعنی شرع کی تعریف اور تحریم و تحسین اُن سے صاف و صریح نکلتی ہے۔چنانچہ وہی رسول (رومیوں ۷باب )کی کتنی ہی آیتوں میں اس طور سے شرع کو ممدوح کرتا ہے’’پس شرِیعت پاک ہے اور حکم بھی پاک اور راست اور اچھّا ہے (رومیوں ۷: ۱۲) کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شرِیعت تو رُوحانی ہے مگر مَیں جِسمانی اور گُناہ کے ہاتھ بِکا ہُؤا ہُوں (رومیوں۷: ۱۴) پس ہم کیا کہیں ؟ کیا شرِیعت گُناہ ہے ؟ ہرگِز نہیں بلکہ بغَیر شرِیعت کے مَیں گُناہ کو نہ پہچانتا مثلاً اگر شرِیعت یہ نہ کہتی کہ تُو لالچ نہ کر تو مَیں لالچ کو نہ جانتا(رومیوں ۷: ۷) مگر گُناہ نے موقع پاکر حکم کے ذرِیعہ سے مُجھ میں ہر طرح کا لالچ پیدا کردِیا کیونکہ شرِیعت کے بغَیر گُناہ مُردہ ہے(رومیوں ۷: ۸) کیونکہ باطِنی اِنسانِیّت کی رُو سے تو مَیں خُدا کی شرِیعت کو بُہت پسند کرتا ہُوں(رومیوں ۷: ۲۲)، غرض مَیں خُود اپنی عقل سے تو خُدا کی شرِیعت کا مگر جِسم سے گُناہ کی شرِیعت کا محکُوم ہُوں(رومیوں ۷: ۲۵)‘‘۔
اب ان سب آیتوں کو ذرا ہو شیاری اور ادراک سے باہم ملانے والوں پر یہ روشن اور نمودار ہے کہ اس ایک لفظ یعنی ’’شرع ‘‘یا’’ شریعت‘‘ کے تین معانی پولُس رسول کے خطوں میں درپیش آتے ہیں، جن کی تمیز بخوبی اور بہ آسانی ہو سکتی ہے۔
اول شرع کے پہلے اور عمدہ معانی وہ مبادی اور حقائق و اصول ہیں جن میں شر ع کا خلاصہ ِلازوال اور لا متغیر درج ہے کہ یہ معانی اُس کا قلب اندرونی اور باطنی مغز ہیں ،مثلاً’’تم پاک رہو کیونکہ مَیں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں‘‘(خروج۲:۱۹)۔پر تو بھی اس حرف کا بے متروک اور محفوظ رہنا اخیر زمانے تک مفت اور لاحاصل نہیں ۔ازاں جہت کہ وہ حرف روحانی مزاج کے لئے عالی مضامین کا معرق ہے اور مومنین اور محققین شرع روح خدا کی تو فیق سے اُس پر غور کر کے اُس کے مضمون اندرونی سے روحانی رزق کو جذب کر کے ہضم کر لیتے ہیں ،جس طرح جسمانی غذا سے جسم کی قوت اور قدو قامت بڑھتا جاتا ہے ۔یہ شرع نہایت پاک اور محترم ہے ،از بس کہ رب تعالیٰ کے ضمیر غیب کا مظہر اور اس کے محجوب خیالات اور محاسبوں کا مبین ہے۔
دوم دوسرے معنی اس شرع کے ظاہری احکام اور تعینات ہیں ،مثلاً وہ جو رسوم عبادت اور عباد ت گاہ کی آرائش و زیبائش سے علاقہ رکھتےہیں اور جو فرائض کہانت اور وسائل طہارت اور ان کی زینت وحشمت ولباس سے اور ذبائح اور باقی سب قربانیوں کی ترتیب و انتظام سے اور عیدوں اور میعادوں اور پاک مجلسوں کے قواعد سے اور غسل و وضو خاص و عام کے قوانین سے ملحق و متعلق تھے۔پس سب اصحاب ادراک و تمیز کو معلوم بالبداہت(بداہت=فی البدیہہ بات کہنا۔صریحی) ہے کہ یہ سب قواعد و رسوم ایک زمان اور ایک قوم کے ساتھ مخصوص اور مقید ہونا چاہتے ہیں اور طفولیت کے حال سے مناسبت رکھتے ہیں، یعنی اس حال اور درجے سے جب جسم روح پر غالب ہوتا اور حرف معنی پر اور امثال و سایہ جات اشیاو جواہر پر تو واجبی حاصل ہے کہ جب وہ طفل خواہ شخص ہو ،خواہ قوم ہو عمر بلوغ(جوانی) تک پہنچ گیا ہو تو کثرت رسومات کے پختہ میوہ کےموافق آپ سے آپ کمال رسیدہ ہوکر گر جائے گی یا نرم و ملائم ہاتھ سے بنائی جائے گی۔
سوم شرع کے تیسرے معنی ایک خاص مزاج اور دل کامیلان ہے جس کی اصل حرف پرستی اور ظاہر پرستی ہے اور اس کا بھروسا اور لاپروائی خدا کی طرف اور اس کے روبرو عمل و کسب ورسم کی کثرت سے پیدا ہوتی ہے اور حلال و حرام کا اندازہ وحساب نہ قلب کی خیر وبد نیتوں اور رغبتوں اور خیالوں پر منحصر جانتی ہے، بلکہ قسم قسم کی خوراک کے پرہیز پر اور نمازودُعا کا صواب(نیکی) نہ اتنا دلی صفائی اور پاکیزگی پر اور اپنے کُل وجود کے نومخلوق ہونے پر اور روحانی مزاج اور خود نثاری اور گفتار ورفتار کی درستی پر ،مگر اُن قواعد شرعیہ پر جو رکوع و سجود اور قیام و قعود(بیٹھک،نشست) اور پانچ اوقات کے حدود سے علاقہ رکھتے ہیں، موقوف بتاتی ہے۔ پس اس میلان کا مزاج شرع یعنی شرع کی غلامی اور شرع پرستی کہلاتی ہے ۔ ازیں جہت کہ جس کو آلہ اور وسیلہ اور توسط جاننا چاہیے تھا اسی کو انتہا اور منزل مقصود جانتے ہیں۔
اب سوچ بچار کرنا چاہیئے کہ اس اول معنی میں جو شرع کا ذکر ہے تو رسول معروف اُس کی بے انتہا تعریف کرتا ہے اور ہرصورت سے اُسے متجلی اور رونق دار اور بزرگوار ٹھہراتا ہے اور اس کا عہدہ اور خدمت نہایت عمدہ اور مفید بتاتا ہے ،بلکہ اُس دوسرے معنی کی شرع کو مدت معین تک بڑی منعفت(نفع) کا باعث اور وسیلہِ ہدایت اور موجب شکر بتاتا ہے ۔ازاں جہت کہ وہ اصل و اول شرع مذکور اُسی کی رسوم اور آئین کے ذریعہ سے بندگانِ خدا کو تنبیہ اور تادیب دیا کرتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ جاہلوں کا مدرس او ر ضالوں(بے کار) کا معلم ہو گیا تھااور خدا تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ اس شرع رسمیہ کو نور اور ہدایت کے بعض اصول ومبادی سے معمور کر کے ان کے وسیلے سے اپنی امت کی دست گیری کر کےاُنہیں خداوند مسیح کی طرف لے جائے اور درجہ فرزندیت کو پہنچائے ۔
صاحبوِ شرع توریت کے لئے کوئی شکرگزار پولُس رسول سے بڑھ کر ہر گز نہیں ملتا۔ کوئی اپنے آپ کو اس کا زیادہ احسان مند نہیں جانتا۔ چونکہ اُسی کے ذریعہ سے گناہ کے تخم مہلک اور زہر قاتل کا پردہ کھل گیا تھا اور اُسی تُرش مُرشد کی ہدایت و تادیب سے اپنی حقیقت حال جان کر کہ محتاج ، ناچار، زیر بار گناہ گار میں ہوں ،خد اکے اُس محض فضل کا جس کی دولت مفت و بے نہایت خداوند مسیح میں ہے، امید وار ہو گیا تھا اور دریائے قہر سے شاہ بندر نجات وسلامت میں پنا ہ لے کر استراحت کلیہ اور آرام پایا تھا۔یہ وہ اصل شرع اور مجمع مبادی اور حقائق ہے جس کے حق میں خداوند نے فرمایا ’’ کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک آسمان اور زمِین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ تَورَیت سے ہرگِز نہ ٹلے گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے ‘‘(متی۱۸:۵)۔وہ شرع آپ ہی آپ کامل اور خیر او رراست اور جس خاص عہدہ اور خدمت کے لئے خدا تعالیٰ سے مبین ہو گئی، اُس کی مہمات اور ضوابط کو اس قدر کمال طور پر وفا کرنے کے قابل اور لائق تھی کہ ہر عیب و کوتاہی سے مبرا تھی اور جتنے نفر(ادنیٰ خادم۔نوکر) رو ح القدس سے روشن ضمیر اور غیب دان ہوگئے ،وہ حدو حساب سے زیادہ اسے لذیذ و نفیس و عزیز جانتے ہیں۔ جیسا حضرت داؤد (زبور۱۱۹ )میں ایمان و محبت ونشاط کے جو ش سے فرماتا ہے’’آہ ! مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔مجھے دن بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے‘‘(زبور۹۷:۱۱۹) ۔اور( زبور ۱۹)میں اُس اصل شرع کو جو مدار توریت ہے، شہداور شہد کے ٹپکنے والے چھتےسے شیریں تر بتاتا ہے (زبور۱۹: ۱۰) اور اس کی ازلیت اور ابدیت کی اُسی( زبور۱۱۹ )کی بیس تیس گواہیوں سے تقریر اور تصدیق کرتا ہے اور اس کے باطنی مضمون کی قدرو قیمت زر وسیم کے ہزار ہا خزانوں سے بڑھ کر جانتا ہے، نہ کہ اُسے متروک اور منسوخ جانتا ۔اور ایسا نہ ہو کہ کسی کے دل میں جوش و مبالغہ کا اعتراض اتنی مدح و ستائش سے پیدا ہو تو وہ حضرت شرع ربانی کے ذاتیہ اور باطنی اوصاف و فضائل کو سلسلہ داری سے شمار کر کے (زبور۱۱۹ )میں خصوصاً اس فائدے خاص کا تذکرہ کرتا ہے جو شرع کی امانت و ضمانت میں دیا گیا ہے، یعنی گناہ خفیہ کو بے حجاب اور ننگا کر کے اور اُس کے اسراروں کو کشف کر کے خدا تعالیٰ کی قہر ریزی اور سخت محاسبہ و عتاب کا خوف دل میں پیدا کرتا ہے’’کون اپنی بھُول چُوک کو جان سکتا ہے؟تُو مجھے پوشیدہ عیبوں سے پاک کر ۔تُو اپنے بندے کو بے باکی کے گناہوں سے بھی باز رکھ وہ مجھ پر غالب نہ آئیں تو میں کامل ہوں گااور بڑے گناہ سے بچا رہوں گا‘‘ (زبور۱۳،۱۲:۱۹)۔
صاحبو عبارت اور تلفظ ان دو آیات بالا منقول کا نہایت قوی اور نافذ اوردل سوز ہے۔چونکہ آنحضرت(درست تلفظ آں حضرت ہے) مجملاً خدا کی شرع کے اُس عمدہ فائدے کو بیان کرتا ہے کہ خداکی شریعت گناہ کے اُس موروثی تخم اور تاثیر کے جو جمہور بنی آدم میں صورت پذیر ہے اور فاعل و عامل شرارت ہے ،مخالف اور مقابل ہوتی ہے۔ تووہ د ونوں روبرو کھڑے ہوتے ہیں اور سخت جنگ اور کُشتی جاری ہوتی ہے۔ پھر اس جنگ کا جوش و جنبش بڑھانا اور مبعوث کرنا اور اس کُشتی کی آتش سوز اں پر ہیزم (ایندھن۔سوکھی لکڑی)کا انبار ڈالنا۔ شرع کا پہلا نتیجہ اور اس کی فعلیت متعین و موثر ہے ۔ہاں بے چارے گناہ گار کو مایوسی کے زندان میں جکڑ بند کرنا جس سے موت قبل از موت ہو اس شرع کے زخموں اور ضربوں کا حاصل حقیقی اورخاصہ ہے۔ہاں اِس کُشتی کی تخفیف اور اس جنگ میں کمک دینا اس کی منزلت اور کارروائی کے احاطے سے بیرون(باہر) ہے۔ اس تخفیف اور کمک کے کام میں آپ ہی اپنی کم قوتی اور قصور کا مقرو قائل ہے۔ اس ناچار گناہ گار کو خدا کے فضل ورحمت کےکھلے ہوئے دروازہ پر جو خداوند مسیح ہے، پڑا ہو اچھوڑا جاتا ہے۔ خداوند مسیح کے حضور میں پہنچا کر پھر آپ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔اور اس امر میں کچھ ہتک عزت نہیں اٹھاتا بلکہ شرف و عزت کا ازدیاد پاتا ہے ۔تنزل نہیں، بلکہ تفضل ملتا ہے۔ہاں جیسا اس کوہ ِطابور (Mount Tabor)میں جہاں خداوند مسیح نے نقل صور ت(تبدیلی صورت) ہو کر اپنے اصل جلال اور آیندہ سلطنت کی رونق کشف کی ۔حضرت موسی ٰ اور حضرت ایلیاہ جو دونوں کے دونوں شریعت کے عمدہ ستون اور مضبوط پشتی بان (14) تھے ،مسیح کے ساتھ متجلی اور منور تین مختص رسولوں کو نظر آئے۔ اسی طرح وہ شرع خود طالبان نجات اور منتظر ان خداوند مسیح کو خداوند کے حضور اور خدمت میں حاضر کر کے اُ س کی تجلیات میں جلوہ گر اور اس کی زیب و زینت سے نصیب ور کرتی ہے۔اسی طرح خداوند مسیح کی شرع موسوی اور کل شریعت الہٰی کا منزل مقصود اور اس کی سب مرادوں کی تکمیل اور سب وعدوں کا موفی بنا اور اس جہت سے شرع خداوند یسوع مسیح میں بڑی تعظیم اور تکریم پاتی ہے۔اور جو شرع کی تابع فرمانی اور تعمیل احکام بندگانِ خدا سے ناممکن تھی جب تک وہ شرع کی غلامی میں تھے، اب خداوندمسیح میں پیوستہ ہو کر فرزند بننے پر ان سے بخوبی اور آسانی سے ہوسکتی ہے۔ جس راز پر رسول مبارک صاف شہادت دیتا ہے ’’ اِس لِئے کہ جوکام شرِیعت جِسم کے سبب سے کمزور ہوکر نہ کرسکی وہ خُدا نے کِیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گُناہ آلُودہ جِسم کی صُورت میں اور گُناہ کی قُربانی کے لِئے بھیج کر جِسم میں گُناہ کی سزا کا حکم دِیا-تاکہ شرِیعت کا تقاضا ہم میں پُورا ہو جو جِسم کے مُطابِق نہیں بلکہ رُوح کے مُطابِق چلتے ہیں‘‘(رومیوں۴،۳:۸)۔
(14) ۔ اس لفظ کے معنی ’’ سہارا دینے والا،ساتھی ،مددگار‘‘ کے ہیں ۔اس سے مراد وہ لکڑی بھی ہے جو نیچے کی جانب پائداری کے لئے کواڑ،تخت،کشتی،جہاز وغیرہ میں لگائی جاتی ہے۔
پس جب اس اول اور اشرف معنی والی شرع کی یہ حالت ہے کہ اپنے عہدے اور احاطے کے اندر کی خاص خدمت اور کارروائی کو درجہ کمال تک پورا کر سکتی ہے، پر نجات و سلامت کے تیقن پیدا کرنے میں عاجز اور کم قوت ہوکر عذاب گرفتہ خطا کاروں کو عہد ومیثاق فضل کی اُمید میں قید اور پابند چھوڑتی ہے تو بطریق اولیٰ اُس شرع کا جس کا مدار کلام ،احکام اور رسوم ہیں ،وہی عجز کا حال ہوگا۔انہیں ظاہری رسموں اور قاعدوں کی طرف اشارہ کر کےپولُس رسول فرماتا ہے’’ پس اگر تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی اِبتدائی باتوں کی طرف سے مَر گئے تو پھِر اُن کی مانِند جو دُنیا میں زِندگی گُذارتے ہیں اِنسانی احکام اور تعلِیم کے مُوافِق اَیسے قاعِدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔کہ اِسے نہ چُھونا۔ اُسے نہ چکھنا۔ اُسے ہاتھ نہ لگانا۔کیونکہ یہ سب چِیزیں کام میں لاتے لاتے فنا ہو جائیں گی؟‘‘(کلسیوں۲۱،۲۰:۲)۔’’پس جب تُم مسیح کے ساتھ جِلائے گئے تو عالَمِ بالا کی چِیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسیح مَوجُود ہے اور خُدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے ‘‘(کلسیوں۱:۳)۔
پس اس کے موافق جو شرع پرست ہے تو شرع ربانی کے عین مطلب ومراد سے چُوک گیا ہے اور اپنی ہی راستی شرعیہ پر جب قائم اور مبنی ہوتا ہے اور اسے پختہ اور کامل اور بے عیب وبے چین دکھانا چاہتا ہے ،تب خدا کی حقیقی راستی سے بے بہرہ رہتا ہے اور چونکہ اس ملعون مہمان کی مانند جس کا ذکر انجیلی تمثیل میں عبرت کے لئے درج ہے، یہ جرأت کرتا ہے کہ بادشاہ کی مہیا کی ہوئی پوشاک رد کر کے بادشاہ کے دستر خوان پر حاضر ہونے کا اپنےآپ کو مستعد سمجھنا ہے۔اس واسطے ہر چند کہ رسم و رواج کے ہر حرف اور شوشے کا باریک بین اور نکتہ چین ہو، مگر پھر بھی شرع کی روح اور حقیقت مضامین سے محروم رہتا ہے اور ہزار ہا تکالیف شدیدہ اور لاضروری کا زیر بار ہوتاہے۔جو بندگان اس طرح کی غلامی کو فرزندیت کی آزادی اور کشادہ دلی سے افضل جانتے ہیں ،اُن کا انجام کیا ہی سخت دشوار اور ملامت آمیز ہے ۔بموجب اس قول مسیح کے ’’اور غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابدتک رہتا ہے۔پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے‘‘(یوحنا۳۶،۳۵:۸) اور پولُس رسول کی عبرت نمائی ویسی ہی ہے’’مگر کتاب مقدس کیا کہتی ہے؟یہ کہ لونڈی اور اُس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ لونڈی کا بیٹا آزاد کے بیٹے کے ساتھ ہرگز وارث نہ ہوگا۔پس اے بھائیو! ہم لونڈی کے فرزند نہیں بلکہ آزاد کے ہیں‘‘(گلتیوں ۳۱،۳۰:۴)۔
وہ تمام مسئلہ جس کا ماخذ و مدار شرع اور شرع پرستی ہے ،روح القدس نے حضرت پولُس کے گلتیوں کے نام خط کے ذریعہ سے اس قدر قطعی دلیلوں اور صاف تقریروں اور مفید صلاحوں سے انفصال و انقطاع کیا ہے کہ زیادہ قیل و قال اور مباحثہ محض طوالت لاحاصل اور باطل فضول گوئی معلوم دیتی ہے۔بلاشبہ کلام خدا کی شمشیر زنی اس خط میں نہایت تیز اور دل تراش ہے۔ اس سے یقین ہے کہ ہر شرع پرست خداوند مسیح کے اس عہدہ جلیلہ اور منزلہ لا شریک پرناحق دست اندازی کرتا ہے۔ جس سےوہ خداوند مسیح آپ مورد لعنت ہو کر قاتل اور قاطع لعنت شرعیہ سب مومنوں کے لئے ہوگیا اور علاوہ ازاں وہ شرع پرست خدا تعالیٰ کی اُس مشورت قدیم کو جو قبل از عالمین پختہ اور ثابت تھی، خوارو ذلیل جان کر تابمقدور زیرو زبر اور نیست ونابود کرتا ہے۔ ازاں سبب کہ اپنی قلیل و ناقص شرع پروری اورحفاظت احکام کا ثواب بمقام مسیح کی وکالت وکفارہ کے موجب قبولیت اور باعث نجات کا بتاتا ہے۔پس ہر طالب حقیقت سے عرض و معروض ہے کہ بڑی سوچ و غور سے اس خط کی سیر ومطالعہ کیجیئے اور لوح خاطر پر نقش و حفظ کیجئے۔
حاصل کلام اگر کوئی معترض یا جویان حقیقت پھر دوبارہ یہ سوال کرے کہ تعلیم الہٰامی رسولیہ اور درس مسیحی شرع پروری اور رعایت توریت کے ساتھ کون تعلق رکھتا ہے تو انشاء اللہ ان خیالوں پر غور کر کے ذرا سی خاطر جمعی حاصل ہوگی اور حقیقت حال دریافت ہو گی ۔اگر وہ محقق باعتبار اُس تیسرے معنی والی شرع کے یہ سوال کرے تو رسولوں کا جواب سادہ اور صریح آیات مذکورہ بالا سے نکل چکا ہے۔ رسول ہر حال اور صورت کی شرع پرستی کی تاکید سے تردید کرتا ہے ،بلکہ منت سے اس کی ممانعت کرتا ہے۔اگر اُس دوسرے کی نسبت سوال ہو جس سے مراد رسومات اینجہانی اور احکام جسمانی ہیں کہ تاوقت معین مامور ہوگئے تھے تو جواب اس کا برابر سیدھا اور سادہ اور بے پس وپیش ہے۔ اُس میعاد تک اُن کی حفاظت ورعایت بہت ہی صحیح ومستحب بلکہ فرض ولازم بھی تھی، بعد ازآں آزادی کے وقت اُن کی غلامی اور قید میں رہنا بے جا ہے اور محض ناشکری اور خود پسندی ،بلکہ فساد اور نافرمانی جو موجب الزام ہے۔ اور اول اور عالی معنی والی شرع کی حفاظت والتفات رسول اس قدر فرض و لازم جانتا ہے کہ لزومیت (ضرورت)اس کی اب ہزار گُنی بڑھ کر بتاتا ہے۔
اس وجہ سے کہ خداوند مسیح نے اُس اصل شرع کامع بعض ملحقات مقررہ کی تکمیل و تعمیل کرنا اور کرانا اپنے ذمہ لیاہے ،بلکہ اپنی ہی محبت کی خاطر اپنی روح کی توفیق سےاُس شرع کی رعایت اور تکریم کا دعویٰ اپنے سب بندوں سے کرتاہے اور اُس تعمیل کی رغبت اور قدرت بھی اُن کے اندرون میں پیدا کرنا ہے اور اپنی تکمیل شرع اور کفارہ کے ثواب سے ان کی تعمیل کا نقص و قصور بخشتا ہے اور پورا بھی کرتا ہے۔بموجب قول بالا معروف کے ’’ اِس لِئے کہ جوکام شرِیعت جِسم کے سبب سے کمزور ہوکر نہ کرسکی وہ خُدا نے کِیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گُناہ آلُودہ جِسم کی صُورت میں اور گُناہ کی قُربانی کے لِئے بھیج کر جِسم میں گُناہ کی سزا کا حکم دِیا-تاکہ شرِیعت کا تقاضا ہم میں پُورا ہو جو جِسم کے مُطابِق نہیں بلکہ رُوح کے مُطابِق چلتے ہیں‘‘(رومیوں۴،۳:۸)۔ اور اسی شرع کی حفاظت کی بابت پولُس رسول کرنتھس کے نام خط میں یہ تقریر اور تعریف کرتا ہے’’۔۔۔ خُدا کے نزدِیک بےشرع نہ تھا بلکہ مسیح کی شرِیعت کے تابع تھا‘‘(۱۔کرنتھیوں۲۱:۹)۔
باب یاز دہم
در بعض امثال و عبار ات و مضامین کلام اللہ و خصو صاً د ر بعض حواس وخواص کہ د ر کتب الہٰی سوئے رب تعالیٰ اطلاق کردہ شدہ اندکہ از آنہا نزد بعض معترضان نقص و قصور در شان او تعالیٰ لازم مے آید
قریب ہے کہ ہر قوم و ملک میں بعض اشخاص ایسےملتے ہیں جو امثال اور تشبیہات کی راہ سے متکلم ہونا خدا کا موجب تخفیف و تنقیص (نقصان ۔کمی) بتاتے ہیں اور اُس کی ذات مبرا ومعرا کے اوصاف سے بعید ۔اور اُن میں سے بھی جو امثال اور تشبیہات سے نفرت نہیں کرتے بعض ایسے ہیں کہ انبیا کی کوئی کوئی مثالیں کتب سماویہ کے نالائق اور نا سزاوار بلکہ زشت(بدشکل) اور زبوں(عاجز،ذلیل) بھی جانتے ہیں۔ ازبس کہ وہ لوگ اپنی ناقص عقلوں کو کلام خدا کے تراز و اور محک (کسوٹی ۔ و ہ سیاہ پتھر جس پر سونا چاندی پرکھا جاتا ہے)ٹھہرا کر اپنے اپنے زعم و قیاس کے قوانین کو بناتے ہیں۔ جس سے اگر ذرا بھی اختلاف کسی موضع میں ہو تو اُسے قول خدا سے منقطع کرنا چاہتے ہیں اور درحالیکہ خالق و پروردگار عالم نے اپنے دست کی صنعت گری سے جو بنی آدم ہیں، مخاطب اور متکلم ہونے کے کئی کئی طریقوں کو پسند کیا ہے ۔و ہ اُس رب تعالیٰ پر قید لگانے کے واسطے ایک طریقہ خاص جس کی محمدصاحب نے تقلید کی ہے ،منظور کر کے صرف اُسی کو شان خدا اور قول الہٰامی کا مستحق بتاتے ہیں اور باقی سب اطوار سے وہ سلوک کرتےہیں جو یہویقیم شاہ یہود نے بعض وعیدوں اور تہدیدوں سے کیا ،جنہیں اس تعالیٰ نے یرمیاہ نبی پر نازل فرمایا یعنی چاقو لے کر اُن ورقوں کو چاک چاک کر کے انگیٹھی میں ڈال کر بھسم کر دیا۔اسی طرح وہ نیم عقل اور گستاخ خدا تعالیٰ کے انبیا پر بلکہ خدا تعالیٰ پر تکبر انہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روح القدس کی الہٰامیت کو ہمارے قاعدوں کی حدود کے اند ر مقید اور محصور کرنا ضرور چاہیئے اور اگر شاید وہ روح اپنی آزادگی کے بموجب ان حدود موضوع سے کچھ تجاوز کرے تو انگشت بگوش ہوکر گویا خدا کے وزیر و مشیر بن کر خدا کے مقدسوں میں اپنے فتاوے جاری کرتے ہیں۔ ہر چند کہ حضرت سلیمان نے جو کُل جہان کے عمدہ سے عمدہ حکیموں سے سبقت لے گیا ،کلام اللہ کی کمالیت اور بے متروکی پر یہ صاف شہادت دی ’’اور مجھ کو یقین ہے کہ سب کچھ جو خدا کرتا ہے ہمیشہ کے لئے ہے۔اُس میں کچھ کمی بیشی نہیں ہو سکتی اور خدا نے یہ اس لئے کیا ہے کہ لوگ اُس کے حضور ڈرتے رہیں‘‘(واعظ۱۴:۳)۔
غالباً ا ن مذکور ہ بالا متکبروں نے اس امر مشہور کو فراموش کیا کہ جب صاحب علم وفضل اپنے لڑکوں کو درس دینا چاہتا ہے تو انہیں نہ اتنا باریک علم نہ اتنی لطیف اور ظریف عبارتوں میں جتنا عمر رسیدوں اور اصحاب استعداد کے لئے چاہیئے، تعلیم دیتا ہے ورنہ حکیم قدرشناس ہر گز نہ جانا جائے گا۔اب سوچ کرو اور ہوش سے اس بات کو سمجھ لو کہ بادشاہ اور پدر عالمین کی یہ مرضی اور رعیت پروری اور حکمت آمیز بندوبست تھا کہ کتاب قدوس و سماویہ نہ صرف یہود کی میراث ہو بلکہ کُل جنس انسان کے سب قبیلوں اور لغتوں پر، مثلاً بابل اور نینوہ اور ایران اور یونان اورروم وغیرہ۔ پر رفتہ رفتہ منقسم اور مشترک ہو جائے اور یہ بھی کہ وہ کتاب نہ ایک زمان یا پشت کے ساتھ مختص ہو، بلکہ پشت در پشت نسل ابراہیم کے تولد اور طفلیت ہی سے لے کر اُس نسل کی عمردرازی اور پیری تک پھیلتی اور اپنی تاثیر بڑھاتی چلی جائے یہاں تک کہ کوہ صیہون پر سے چشمٔہ لبریز اُمنڈ کر دریائے نور اور حیات بن کر رُبع مسکون کی برکت و صحت کا باعث ہو جائے۔
پس جب خدا تعالیٰ کی یہ مرضی تھی تو گمان غالب اور واجب تھا کہ الہٰام کا طرز طریق رنگا رنگ اور متفرق ہو اور کہ روح الہٰام مختلف انبیا اور مردان خدا کو اختیار اور تیار کر کے رب تعالیٰ کے پیغام کے مضامین بانٹ بانٹ کر سپرد کر ے اور یہ بھی کہ جس جس زمانے میں وہ الہٰام نازل ہو اتو اہل زمان کی فہمید اور استعداد کے کچھ موافق اور مناسب ہو۔ آنطور کہ درحالیکہ اصل مطلب تو ایک ہی ہو، پر نبی الزمان طفلوں سے طفلانہ اور بالغوں سے بالغانہ بولے اور یہ صرف واجبی گمان نہیں بلکہ صاف نقلی دلیلوں سے ثابت اور مفہوم ہے کہ خدا کی یہ عین مرضی تھی کہ معانی تو سب کے سب اللہ جل جلالہ ُ کے مستوجب ،مگر عبارت اور طریقہ تفہیم و تعلیم میں فرق بلحاظ و اندازہ تفریق حال وبرداشت سامعین کے مقرر ہو۔
چنانچہ ہوسیع کی کتاب میں ہے’’مَیں نے تو نبیوں سے کلا م کیا اور رویا پر رویا دکھائی اور نبیوں کے وسیلہ سے تشبیہات استعمال کیں‘‘ (ہوسیع۱۰:۱۲)۔ اور اسی امر کا مصدق ہے وہ قول خدا جس میں حضرت موسیٰ کی سبقت اور ترجیح باقی سب نبیوں کی نسبت بیان ہوتی ہے ۔دیکھو گنتی کی کتاب میں مرقوم ہے’’تب اُس (خدا)نے کہا میر ی سنو۔اگر تم میں کوئی نبی ہو تو مَیں جو خداوند ہوں اُسے رویا میں دکھائی دوں گا اور خواب میں اُس سے باتیں کروں گا۔پر میرا خادم موسیٰ ایسا نہیں ہے۔وہ میرے سارےخاندان میں امانتدار ہے۔مَیں اُس سے معموں میں نہیں بلکہ روبرو اور صریح طور پر باتیں کرتا ہوں اور اُسے خداوند کا دیدار بھی نصیب ہوتا ہے‘‘(گنتی۶:۱۲۔۸)۔ اور غالباً کلام الہٰی کے طرز و طریقہ کی یہ تفریق وصورت رنگا رنگ اشارتاً ایک دوسرے مقام میں بتائی جاتی ہے ،یعنی یسعیاہ کی کتاب میں ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا؟ کس کو وعظ کر کے سمجھائے گا؟کیا اُن کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جُدا کئے گئے؟کیونکہ حکم پر حکم۔حکم پر حکم۔قانون پر قانون۔ قانون پر قانو ن ہے۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں۔لیکن وہ بیگانہ لبوں اور اجنبی زبان سے ان لوگوں سے کلام کرے گا‘‘(یسعیاہ۹:۲۸۔۱۱)۔
علاوہ براں کلام خدا کی کُلیت تعلیم اور متعددہ خاص شہادتوں سے (مثلاً حضرت سلیمان کے امثال کی کتاب کے آٹھ اول ابواب پر غور ولحاظ کرنے سے )صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل اور عمدہ مراد رب تعالیٰ کی تما م جنس کی مصلحت اور تصحیح عوام ہے ۔بعدازاں تفہیم و تعلیم علما و حکما اور وہ حکم مکرر تاکید اً حضرت موسیٰ پر اُترا کہ طفلان کم فہم اور ناخواندہ بھی توریت میں روز روز سننے سنانے سے پختہ ہو جائیں۔ پس ایسے ایسے حکموں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ،مگر یہ کہ جیسا کوتاہ بینوں(نظر کی کمزوری) کے لئے عینک اور سست قدموں کے لئے عصا اور طفلوں کے لئے ابجد خوانی مفید ہے اور بکار(مرض) ہے ،اسی طرح کلام خدا کے مضامین عالی اور حکمتیں اورحقیقتیں بے پایاب نہ واہیات اور پوچ گوئیوں (فضول بکواس)اور دُون(شیخی) اور ادنیٰ اقوال میں، بلکہ روز مرہ کی تشبیہوں اور تمثیلوں میں اور منقولات زبان زد میں سست فہموں کے لئے معروف ہوجائیں۔
ہاں رب تعالیٰ نے جس کے اوصاف اور خطابوں میں بنی آدم کا محب اور محافظ مشہور ہے گویا تواضع کی راہ سے اپنی کبریت (گندھک،عمدہ سونا،زرخالص)کو گداز و ملائم کر کے اور اپنی علویت و بزرگی کو پست و خورد کر کے ایسے دلاسا اورنرم و سہل زبان سے انسا ن سے تکلم فرمایا کہ گویا آپ ہی حواس انسانی اوررغبتوں اور دلی حرکتوں اور جنبشوںمیں شریک تھا۔ مثلاً حضرت نوح کے زمانے کا ذکر ہے کہ تمام خلق خدا کی شرارت کلیہ اور ضلالت عامہ کے سبب اُسے نیست سے ہست میں لانے سے رب تعالیٰ تو اب(توبہ کرنے والا) تھا۔اور یرمیاہ نبی میں اس قادر مطلق کا بیان ہے کہ جس کسی ناچار خطا کار کے قلب و باطن سے غم وپشیمانی و ندامت کی صاف علامتیں دکھائی دیتی ہیں، اُس پر آں تعالیٰ سوختہ و گداختہ(جلاہوا،افسردہ،پگھلاہوا) ہوکر ترس کھاتا ہے اور توریت کے دوسرے مقام میں مذکور ہے کہ قادر مطلق نے غضب کےجوش اور سخت قہر ریزی سے حضرت موسیٰ کی سفارش کی ممانعت کی ،اس مراد سے کہ کُل قوم بنی اسرائیل کو بیخ وبن سے محو کرڈالے۔سچ تو یہ ہے کہ ایسے ایسے جوش و جنبش دلی سے خدا تحقیقاً مبرا و معرا ہے ،پر جب کہ یہ بھی سچ ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی مشابہت میں اپنی مانند خلق کیا جس سے ہمارے حواس کی مذکورہ بالا جنبشیں بعض اشیا اور حقائق کی جو اُس عالی معالی کی ذات میں موجود ہیں، ضعیف سایہ اور شبیہ ہیں، مگر نہ جیسی وہ اب اس ہماری خستہ شکستہ حالت میں جھلجھلاہٹ سے جوشاں ہیں ۔پر جیسی تب تھیں جب خدا تعالیٰ کی اُس اصل مشابہت اور انعکاس (عکس)میں کچھ خلل نہ آیا تھا اور اب بھی اُن جنبشوں کے آثار اور تصاویر و تشابہ (مشابہت)عادل وراست مسند نشین قاضیوں اور بادشاہوں کے مزاجوں اور فتاوے میں نظرآتے ہیں ۔
بہرحال کوئی صاحب ہوش و مدرکہ اس امر پر تعجب نہ کرے کہ فلاں فلاں اعمال جن جن جنبشوں اور دلی حرکات انسانی کا مظہر اور معرف ہیں، جب اُن یا اُن کی مانند دیگر عملوں کا فاعل حق تعالیٰ ہے تو اُنہیں حرکتوں اور دلی جنبشوں کو کتب الہٰامی کے مصنفوں نے اُس تعالیٰ پر اطلاق کیا ہے۔بروفق مبتدا ئےعلمیہ اور حکمیہ کے جو شرع فصوص میں ان لفظوں میں حوالہ قلم ہے۔اظہارِ اسما کہ کمال ذات تعالیٰ است از فعال اوست بایں معنی کہ اسما مخفی از عالمیان و ظہور اسما حاصل نمیشود مگر با ٓثار و افعال نہ بآں معنی کہ افعال سبب اسما اند زیرا کہ اسما سبب و علل افعال اند وغیرہ ۔
اور علاوہ براں جس طرح درحال ظہور و وقوع افعال نبیوں نےاُن دلی جنبشوں کو جن پر وہ اعمال بنی آدم کے بیچ مستلزم ہیں، اُس قادر مطلق پر اطلاق کیا اسی طرح اُن عبارتوں کو جو ایسی جنبشوں کی معرف ہیں ۔خدا تعالیٰ کی گفتار استعمالی سے بعید نہیں بتایا۔چنانچہ حضرت سلیمان کی امثال میں ٹھٹھے باز اہل شر کے حق میں یوں لکھا ہے’’اس لئے مَیں بھی تمہاری مصیبت کے د ن ہنسوں گی اور جب تم پر دہشت چھا جائے گی تو ٹھٹھا ماروں گی،تب وہ مجھے پکاریں گےلیکن مَیں جواب نہ دُوں گی اور دل وجان سےمجھے ڈھونڈیں گے پر نہ پائیں گے ‘‘(امثال۲۸،۲۶:۱)۔ان دو آیتوں کا مضمون تو ایک ہی ہے ،صرف تعریف کا طرز طریقہ متفرق ہے۔پہلی میں امثال اور تشبہیات اور دوسری میں صاف سادہ تقریر ہے ۔اتنا فرق ہے کہ امثال میں قوت اور لطف اور تاثیر خواص و عوام پر بڑھ کر ہے ،جو شاید کوئی معترض اُس پہلی آیت کی عبارت میں عیب چینی کرے تو دوسری آیت سے جب تشریح ملی تو کون صاحب قباحت و اعتراض باقی رہا۔
اسی قسم کے استعمال کا ایک اَور نمونہ( زبور۱۸ )میں دیکھو جہاں بعض معترضوں نے شاید جائے عیب و قباحت پکڑی ہے’’رحم دل کے ساتھ تُو رحیم ہو گا اور کامل آدمی کے ساتھ کامل۔نیکوکار کے ساتھ نیک ہوگا اور کج رَوکے ساتھ ٹیڑھا‘‘(زبور۲۶،۲۵:۱۸)۔یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے افعال سے واقف اور آشنا حضرت داؤد سے بڑھ کر کبھی کوئی عالم وجود میں نہیں آیا ،پر تو بھی وہ مرد خدا رب تعالیٰ کی اُس فعلیت اور سلوک کی طرف نظر ولحاظ کر کے جسے وہ تعالیٰ کج رؤوں کی طرف دکھایا کرتا تھا کج روی کی صورت اور اظہار خدا پر اطلاق کرتا ہے۔یہی جائے اعتراض ہے بعض اہل خلاف کے نزدیک ۔پس وہ لوگ غور کریں کہ وہ کلمات جو قبیح اور معیوب معلوم ہوتے ہیں ،سراسر تشبیہانہ طریقہ پر ہیں۔
اب فرض کر وکہ بجائے امثال و اشباہ کے اس جملہ میں صرف سیدھی تقریر ہوتی یا امثال اور صاف تقریر دونوں موجود ہوتیں اور کہ اُس کی عبارت اِس طور پر ہوتی کہ کوئی کج رو خدا کے گھر سے بے سزا روانہ نہیں ہو گا تو بہ مشکل تلخ ترین اور سخت ترین عیب جویوں میں کوئی اس تقریر میں اعتراض پکڑتا۔پس جب اس مضمون کی سادہ تقریر میں عیب نہیں تو اسی مضمون کی امثال کی عیب چینی کیساعقل و انصا ف ہے ۔یہی معترض خدا تعالیٰ کے کلام کی اور امثال پر عیب لگاتے ہیں اور اُنہیں قبیح جانتے ہیں جن میں پروردگار عالم کی فعلیت کا بیان ہے اور خصوصاً اُس عتاب و عذاب و انتقام پر جو باغیوں او ر مفسدوں پر صادر وارد ہوا کرتا ہے۔پس ان امثال میں سے بعض بعض ایسی ہیں جنہیں بعض مولویان لاہوری اپنے مریدوں سمیت زشت وزبوں اور فاحش بتاتے ہیں۔
اے صاحبو خد اکے حضور میں ہمیں یقین ہے کہ جس کسی شخص کے دل میں فحش کی جڑ اور اصل نہ ہو وہ خدا کے پاک کلام پر فحش کا الزام لگانے کا موقع کسی آیت یا جملہ سے نہیں نکالے گا ،بلکہ فسق و فجور کے افعال کا ذکر اشارتاً بھی نہیں آتا ۔مگر اس مراد سے کہ وہ اُنہیں جو شرکے مرتکب ہوئے ہیں ،ملزم اور مجرم ٹھہرائے اور اُن کے دلوں میں خوف اور عبرت ڈالے اور ہر صاحب عدل و عقل اس قاعدے کا قائل ہوگا کہ مصنف کی نیت اور ارادے پر لفظ کی نسبت زیادہ لحاظ کرنا چاہیئے۔جو اس قاعدے کے ترازو پر مضامین کو تولے گا ،وہ ہر گز ٹھوکر نہ کھائے گا۔ (یسعیاہ۴۷:۱۔۳) پر بعض مولویوں نے گندگی اور پلیدی کا عیب و داغ صادق کر نے کے لئے بہت بے جا سعی اور کوشش کی ہے اور خدا تعالیٰ کے سخت تنبیہ والے اور وزنی کلمات پر جبراً ایسے اُلٹے معنی ڈالے ہیں کہ بازاروں میں ہر بچہ اور جوان اُس پر میل پھینک کر اپنے آپ کو خدا پرست اور مسلم حقیقی جانتا ہے اور حیرت انگیز کفر کی باتیں چلّا چلّاکر خدا کی مصلحت آمیز عبارتیں اپنی ہلاکت کی طرف پلٹاتا ہے۔
اب ذرا سوچ کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان آیات مذکورہ میں ’’بابل کی بیٹی /دُخترِ بابل‘‘ سے مراد اہل بابل یعنی بابل شہر کے باشندے ہیں اور مثا ل اُس شہر کی ایک بادشاہ زادی سے دی جاتی ہے جو مدت سے بادشاہی محل میں نازنین و نازک پردہ نشین ہو کرعیش و عشرت میں رہا کرتی تھی اور شرف وزینت میں سب ہم عصر شاہزادیوں سے ممتاز اور مختار تھی ،پر تو بھی مغروری اور تکبر اور جوروجفا اور خود غرضی اور بت پرستی میں باقی سب قبائل جہان میں بے مثال اور شہرہ عالم ہو گئی تھی ۔اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور سے یہ فتویٰ نکلا کہ اُس کی شکست اور خاک نشینی اور فضیحت اتنی ہی ہیبت ناک اور عبر ت نما ہو گی جس قدر اوقات سابق میں وہ فخر وغرور میں سبقت لے گئی تھی۔ اُس کی پردہ نشینی کاحجاب کھل جائے گا۔ آیندہ زر خرید لونڈی کے موافق وہ چکی پیسے گی اور برہنہ پا فرات ندی کے پایاب کی راہ سے پا ر اترے گی ۔اتنی بے چارگی اور بے حرمتی کی حالت ہو گی کہ وہ انجام جس سے زنان شرم سار اور راز پرور موت کو ہزار گناہ مستحسن (بہتر)جانتی ہیں ،اُس پر سر زد ہو گا یعنی ننگ و ناموس کی پرد ہ کشائی ۔ جب کہ وہ بنت بابل اپنی نہانی(نہانے کی ضرورت،احتلام) شرارتوں میں ایسی بے چوں اور بے حیا تھی تو بطور قصاص(خون کا عوض خون) اور مجازات کے خدائے برحق کے راست فتویٰ سے وہ اپنی رسوائی اور رُوسیاہی میں بھی لا مثال اور بے چوں ہو گی ۔اور اِس کی مانند اَور بھی آیات ہیں جن میں بیا ن اُس ہولناک عذاب اور عتاب کا جو سرکشوں اور مفسدوں پر اُترنے والا ہے ،اس صورت پر ہے کہ سب سے سہم ناک امورات اینجہانی امثال اور تشبیہات کی راہ سے استعمال ہواکرتے ہیں تا کہ دیدنی معلومات کے ذریعہ سے مجہول چیزوں کا فہم اوریقین خدا ترسوں میں سینہ نشین ہو جائے۔ مثلاً قہر الہٰی کے اس مہلک اور بے برداشت صدمہ کی جو بے وفا اور بے ایمان اُمت پر وارد ہوا چاہتا تھا کیا ہی مقوی اور دل تراش مثال( ہوسیع ۱۳ : ۸،۷) میں ملتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ عالم شہود کے واقعات میں عالم روحانیت کی ایسی صاف مطابقت نظر آئے ، جیسا کہ آئینہ میں منہ منعکس ہو کردکھائی دیتا ہے’’ اس لئے مَیں اُن کے لئے شیر ببر کی مانند ہوا۔چیتے کی مانند راہ میں اُن کی گھات میں بیٹھوں گا۔مَیں اُس ریچھنی کی مانند جس کے بچے چھن گئے ہوں اُن سے دو چار ہونگا اور اُن کے دل کا پردہ چاک کر کے شیر ببر کی طرح اُن کو وہیں نِگل جاؤں گا۔دشتی درندے اُن کو پھاڑ ڈالیں گے‘‘۔یہاں بھی اُن بالا مذکور ہ آیات کے موافق ایک مشبہ ایک مشبہ بہ موجود ہے ۔ایک حقیقی شے اور ایک تمثیلی ۔
اب جومولوی صاحبوں نے تمثیل سے جائے تعرض اور تاخذ نکالا ہے تو افسوس ہے کہ وہ حقیقی شے سے جو اس موضع کی مراد ہے، چُوک گئے۔ اگر اس مقام کی اصل عبرانی عبارت پر ذرا سی صبوری سے لحاظ و غور ہوتاتو آسانی سے معلوم ہو تا کہ اس(یسعیاہ۱۳ :۶) سے لے کر مثال گلہ اور گلہ بانی کےدرمیان میں آئی ہے ۔بنی اسرائیل مثل گلہ کے ہے جو سبزہ زار کی شادابی اور چرائی کی فروانی سے سیر وفربہ ہو گئے اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے چوپان سے غافل اور بے شکر اور ا ُس کی مہرو محبت کو فراموش کر گئے تو غالباً اور واجباً اُس کی چوپانی اور گلہ بانی کی صورت بدل جاتی ۔ خدا تعالیٰ چرواہا ہونے سے باز تو نہیں آتا مگر ان غافلوں اوردو دلوں کو اپنی طرف رجوع کرانے کے لئے تادیب و تنبیہ کے وسائل اور تدابیر اپنی پروردگاری سے تیار کرتا ۔جس عرصہ تک یہ تادیب اور رنجوری برپا ہوتی اور اُس سے غم والم اور آہ دریغ پید اہوتا تو اسرائیل کا دوست گویا دشمن کے بھیس میں ہوتا ۔دل تو چرواہے کا پر صورت اور آواز شیر ببر کی ۔جب اس طرح کی سیاست اوررعایت کا کمال فائدہ حاصل ہو گا، تب انجام کیا ہی خوب ہو گا اور خدا کی دائمی محبت کی دلیل کیا ہی پختہ اور قوی ہو جائے گی ۔چنانچہ لکھا ہے’’اے اسرائیل یہی تیری ہلاکت ہے کہ تُو میرا یعنی اپنے مددگار کا مخالف بنا‘‘ اور اس نبی نے (یسعیاہ ۶ : ۱۔۲) میں اس عبارت الہٰی کے انجام اور حاصل کا اَور بھی صاف و صریح بیان ملتا ہے’’آؤ ہم خداوند کی طرف رجوع کریں کیونکہ اُسی نے پھاڑا ہے اور وہی ہم کو شفا بخشے گا۔اُسی نے مارا ہے اور وہی ہماری مرہم پٹی کرے گا۔وہ دوروز کے بعد ہم کو حیات تازہ بخشے گا اور تیسرے روز اٹھا کھڑا کرے گا اور ہم اُس کے حضور زندگی بسر کریں گے‘‘۔جاننا چاہیئے کہ یہ سب باتیں روح خدا کی حرکتوں اور آثاروں میں سے ہیں اور خدا کے رازوں اور فن وحکمت الہٰی کی پوشیدہ علامتوں سے ہیں ۔
ازاں جہت جسمانی مزاج اور قوت مدرکہ (دریافت کرنے اور معلوم کرنے کی قوت)کی سمجھ اور فہم میں داخل نہیں ہو سکتیں ۔ بموجب اس قول رسول کے’’ مگر نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبُول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدِیک بیوُقُوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طَور پر پرکھی جاتی ہیں ‘‘ (۱۔کرنتھیوں۱۴:۲)۔محفل حکما میں اس طرح کے مسائل کی حجت و بحث باطل ہے جب تک روح خدا کے نورو ہدایت سے حجاب نہ اُٹھ گیا ہو اور چشم روحانی پر سے جا لا نہ اُتر گیا ہو اور اُس عالم نورانی میں جس کا شمس خداوند مسیح ہے، قربت اور مداخلت کا حق دستیاب نہ ہوا ہو۔
حاصل کلام ان سب آیات مذکورہ میں اور جتنی اور ان کی مانند بطور تعرض مواخذہ کے پیش کی جاتی ہیں، صادقوں اور صاف دلوں کے نزدیک زشتی زبونی کے سبب معیوب ہونے کا ذرا بھی موقع اور موجب باقی نہ رہا ۔عین مراد اور مطلب حقیقی اُس روح الہٰام کا جس کے ضمیر مقدس کے وہ معرف اور مظہر ہیں، یہی ہے کہ سب سے قوی تر اور اثر پذیر اور دل تراش امثال کے ذریعہ سے وہ ہر شخص کو ہر طرح کی زشتی زبونی سے بر طرف کریں اور توبہ کرائیں ،زشت اور زبون بلاشبہ بعض عبارتیں پُر فحش ہیں جنہیں زبان پر لا کر مولویان لاہوری کلمتہ اللہ کے جو خداوند مسیح ہے ،تولد جسمیہ کے حوادث کو نہ اشارتاً بلکہ صراحتاً ٹھٹھے میں اڑاتے اور خدا کے پاک نام کے ساتھ ایسے زشت خیالوں کو ملحق کرتے ہیں کہ حوالہ قلم کرنے سے بھی ہیبت کے سبب عذر ہے۔اور علاوہ براں یقین ہے کہ جتنے مواضع میں ملّا صاحب ان خام حجتوں اور تقریروں کو درمیان لائے ہیں تو اس بڑے کذب اور غلطی میں اور اُس کے حق سزا و جزا میں اپنی جان پھنساتے ہیں ۔ جو وہ کہتے ہیں کہ مسیحی تمام ذات ربانی کی طرف ایسے حوادث کو حمل کرتے ہیں جن کو کلمتہ اللہ یعنی خداوند مسیح کی طرف بھی صرف اس حیثیت اور اعتبار سے حوالہ کرنا جائز و روا ہے کہ اُس کی کلمیت اور ابنیت الہٰی جسمیت عیسوی کے ساتھ اس قدر قریب وصل اور وابستگی میں پہنچی کہ کوئی وصل اس کے برابر نہ تو عالم شہود میں نظر آتا ہے اور نہ ایسا وصل بنی آدم یا ملائک بہشت کی خاطر خاطرا (کسی کا لحاظ کرتےہوئے)میں آسکتا ہے۔اس غلطی میں مولوی صاحبوں نے محمدصاحب کی تقلید کی ہے جس نے ناحق مسیحیوں کی طرف یہ بے اصل تہمت لگائی کہ اُن کے عقائد کے بموجب خدا مسیح ہے۔ ہر چند کہ ایسی تقریر اُن کے عقائد سے بعید ہے، مگر عکس اس بات کا ہزار ہانقلی دلیلوں سے ثابت ہے کہ مسیح خدا ہے، یعنی اُس کی پاک ذات کے اندر ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔کوئی وقت یا زمانہ قبل از اوقات ہر گز نہ تھا جب خدا تھا پر ا ُس کا کلمہ جو اس کا ابن محبوب ہے اس کی ماہیت میں درج و موجود نہ تھا۔
لیکن مولوی صاحب اس سے اور بھی بے موقع اور حیر ت انگیز غلط وکذب کے قائل ہیں ،جو وہ مسیحیوں کو نہ صرف حوادث کے ذات الہٰی کی طرف منسوب کرنے کے ملزم ٹھہراتے ہیں ،بلکہ ایسی نجاست و خبث کے حوادث کوکہ صرف وہی لسان ایسی باتو ں کو بتا سکتی ہے جس کا یعقوب رسول بیان کرتا ہے کہ ’’زبان بھی ایک آگ ہے۔۔۔اور جہنم کی آگ سے جلتی رہتی ہے‘‘(یعقوب ۶:۳)پھر قطع نظراز الوہیت جب مولوی صاحب جسمیت عیسوی کی طرف اُن حوادث کو حمل کرتے ہیں تا کہ اسے خوار وذلیل بتا کر اُس کی فضیلت و شرف و شان کو گھٹا ئیں تو کیا وہ اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں جو ہر ملّا صاحب بلکہ ہر مرد خدا کو معلوم اور مفہوم ہونی چاہیئے کہ حقیقت میں گناہ اور شرارت کے سوائے کوئی چیز زشت و زبون نہیں ،خدا کی درگاہ میں۔ صرف وہی خُبث اور پلیدی ہے جو عمداً خدا تعالیٰ کے کسی امر و نہی کا عدول و تجاوز ہے ۔سچ مچ تو بہت جائے تعجب نہیں ہے کہ وہ صاحب جن کی رائے کے بموجب دین اور بے دینی کی تمیز خصو صاً خورد نوش کے حلال و حرام سے متعلق ہے، وہ اُس چیز کو زشت وزبون جانیں جسے ظاہری حواس مکروہ جانتے ہیں، نہ اُس خطا و شرارت کو جس سے بندگان کی انقیاد اور دلی صفائی میں اور اُس پاک صورت باطنی میں جو خدا کی مشابہت میں نو مخلوق ہے ،خلل و قصور آتا ہے۔
اس غلطی مذکور کی مرافعت اگرچہ عقلی دلیلوں سے بھی ہو سکتی ہے، مگر اسے رفع دفع کرنے کا سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ آپ ہی ایک ہی روح کی یگانگت میں ایک ہی مسیحی بدن کےا عضا میں شامل ہو کر اور اُس کے اجماع قدوس میں مل کر صرف اور ظاہر پرستی کی ضلالت میں سے روح کی آزادی اور نور اور کاملیت میں آجائیں۔ اگر آپ لوگوں کا حال ایسا ہو تو وہ سخت حکم جو (حزقی ایل ۴: ۱۲ ) میں اُس نبی پر اُترا پہلے تو گُوہ(فضلہ ۔نجاست) انسان سے اور پیچھے(حزقی ایل ۴: ۱۵) میں گوہ انسان کے بدلے گوبر سے روٹی پکانے کی بابت ٹھٹھوں میں اُڑایا نہیں جائے گا۔تاکہ ہر نومخلوق اور روح القدس کا نومرید ان دو قاعدوں کو بے تردد اور بے حیرت منظور کرے گا۔
اولاً یہ کہ دینیات میں زشتی فی التحقیق وہی زشتی ہے جو اخلاقی اور روحانی خُبث ہے ۔
ثانیاً یہ کہ خدا کی سیاست عالم اور رعایت کلیسیا میں کوئی چیز چھوٹی اور کوئی وسیلہ ذلیل جاننا جائز و روا نہیں ،جس کے انجام میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور پروردگاری کے باعث بڑے بھاری فوائد حاصل ہونے والے ہیں۔
چنانچہ رسول فرماتا ہے’’ کیونکہ خُدا کی بیوُقُوفی آدمِیوں کی حِکمت سے زِیادہ حِکمت والی ہے اور خُدا کی کمزوری آدمِیوں کے زور سے زِیادہ زورآور ہے‘‘ (۱۔کرنتھیوں۲۰:۱)۔مثلاً تمثیل جس میں ہوسیع نبی کے ہم عصر یہود رب تعالیٰ کے قہر اور رنجوری اور آیندہ تنگی اور قحط کی نفرت انگیز تشبیہ دیکھ کر آپ اپنے شر سے متنفر او ر کنارہ کش ہو جائیں تو کون صاحب ہوش و عدل اس کو اس قدر مکروہ اور تردید کے لائق جائے گا کہ اپنے دل میں کہے یہ مثل میرے خاص زمانہ کے اہل لطف و فضل کی دانست میں بے مزہ اور بے موقع اور خلاف سلیقہ معلوم دیتی ہے، تو اسے کلام خدا سے منقطع کرنا ضرور چاہیئے ۔اس کے برعکس ایسے صاحب تمیز نے روز مرہ کے تجربہ اور بڑے بڑے اوقات سلف و خلف کے مصنفوں کی کتب کے سیر کرنے سے یہ قاعدہ منظور کیا ہو گا کہ اگرشاید کسی کتاب عالی مضمون کے درمیان کوئی باب یا فریق ضوابط ظرافت و لطافت سے ذرا ابتر معلوم دے تو پڑھنے والا ضرور دو امور سے ایک کو یقین کرے گا یا یہ کہ میرے ذائقہ اور خوش تمیزی میں قصور یا حد سے زیادہ اقتضا دقائق ہے ۔یا اہل زمانہ کی جہالت اور سنگ دلی اور وحوش مزاجی کے سبب نبی نے عمداً قصداً شیریں زبانی اور خوش گوئی چھوڑ کر اُن سخت دلوں کو تُرش اور دل شکن اور درشت (کرخت)لفظوں میں تنبیہ کی۔
جیسا پہلے بھی مصنف رسالے نے کہا تھاکہ حکیم محمود جب طفلانہ بولتا اور اپنے دستور سے بعید ہو تو ہر شخص کہے گا کہ یہ کم قوفی سے نہیں اور نہ کم ذہنی سے اور نہ اس صورت کا کلام بے مراد اور بے مطلب مفت بولتا ہے ۔اگرچہ مطلب خفیہ ہے ۔اور بطریق اولیٰ اغلب ہے کہ انبیا کی کتب الہٰامیہ میں یہ قاعدہ استعمال اور لائق قبولیت ہو۔ بایں وجہ کہ اُن کے معانی عالی اور باریک اور اُن کے مقاصد و مطالب انسان کی قوت مدرکہ سے بڑھ کر ہیں اور اگر کوئی شخص کہے کہ چاہیئے تھا کہ کلام خدا کا ہر لفظ اور فقرہ حکما اور فضلا اور شائقین ظرافت کے نزدیک بے عیب اور بے اخذ ہوتو جواب واجبی یہ ہے کہ کون جانتا ہے کہ اس حال میں خدا کو کیا چاہیئے تھا اور کیا فرض تھا ۔چنانچہ یسعیاہ نبی فرماتا ہے’’کس نے خداوند کی رو ح کی ہدایت کی یا اُس کا مشیر ہو کر اُسے سکھایا؟‘‘(یسعیاہ۱۳:۴۰ )۔
اور دوسرا جواب واجبی یہ ہے کہ آیا خدا صرف حکیموں کا خدا ہے یا کل عالم کا۔اگر کُل عالم کا ہے تو اس کُلیت اور جمہور عالم میں حکما کتنے اور حکمت میں ناقص اور قصیر (پست قد)کتنے ہیں۔پھر ہماری عرض یہ بھی ہے کہ اس سوال کا جواب دو کہ کیا خدا حکیموں کی حکمت سے عاجز ہے۔کیا جانے کہ عمدہ سے عمدہ حکیموں کی نہایت حکمت کچھ اَور چیز خدا کی حکمت مطلق کے آگے نہ ہو، مگر طفلانہ اور باطل پوچ گوئی۔ہوسیع نبی کی کتاب کے باب اول میں جواحکام خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی پر نازل ہوئے، ز ن حرام کار کو بیاہ میں لانے کی بابت ،شاید کوئی خدا ترس اور حق جُو نظر اول سے دیکھ کر کچھ ٹھوکر کھائے اور حیران و پریشان ہو جائے۔ لیکن نظر ثانی سے دیکھ کر اور امثال کی کُل سلسلہ بندی پر غور کر کے اس موضع کی پوری عقدہ کشائی ہو گی۔ اور صرف یہ نہیں بلکہ ایک قاعدہ اور قانون مفید تفصیل اور تشریح کلام کے لئے حاصل ہوگا جس سے اَور بھی اس کی مانند مشکلات حل ہو جائیں گی ا ور وہ معترض انجام میں تسلی پذیر اور شکر گزار بھی نکلے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر بالفعل اس عالم اشباہ اور امثال میں تادرجہ کمال اس موضع میں حل مشکلات نقلی دلیلوں سے نہیں ہوسکتا تو بھی بہ مقتضائے عقل ہر روشن ضمیر اور ذہین آدمی پر ظاہر اور بالبدایت(آغاز کرنا) واضح ہو گا کہ جب روحانی اور نفسانی زناکار وں کی تنبیہ اور تادیب ہوسیع نبی کی نبوتوں کی اصل مراد اور مضمون ہے ،تو اگر اس تادیب اور سرزنش کے شروع ہی میں زناکاری کا حکم دیا جاتا تو اس قدر بے ہودگی اور بے ٹھکانے ضدیت قول اور فعل کی اُس پر صادق آئے گی کہ قطع نظر از اصحاب نبوت کوئی شخص جو حواس باختہ نہ ہوتا، ہرگز ایسا نا موافق حکم زبان زد نہ کرتا۔ لیکن ایسی خام خیالی کی نقلی ممانعت اُسی نبی (ہوسیع۲ :۲) میں درپیش آتی ہے ۔اس دوسرے باب میں خداوند نے اس سلسلہ امثال کی صاف تفصیل عطا فرمائی ہے۔چنانچہ بطور معمات اور عمیق رمزوں کے ارشاد ہے کہ اُس زن حرام کار کا شوہر خداوند آپ ہی ہے، یعنی وہ زن حرام کار کل جماعت بنی اسرائیل ہے جسے خدا تعالیٰ اپنے عہد و میثاق شرعیہ سے عقدو رشتہ محبت میں باندھ کر اپنی قربت و وصل میں لایا تھا ۔پر جب وہ قوم مختار اور ممتاز اتنی مدت مدید سے گمراہ اور بے وفا اور نمک حرام ٹھہری تو اس امر سے کون ساعلاج اور چارہ باقی رہا کہ وہ اُمت زن بے وفا کی مانند اپنے خاوند سے مرودو اور متروک ہو۔ چنانچہ لکھا ہے’’تم اپنی ماں سے حُجّت کرو کیونکہ نہ وہ میری بیوی ہے اور نہ میں اُس کا شوہر ہوں کہ وہ اپنی بدکاری اپنے سامنے سےاور اپنی زناکاری اپنے پِستانوں سے دُور کرے‘‘ (ہوسیع ۲:۲)۔جس سے یقیناً اور صراحتاً یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اس نبی کے اول باب کامضمون امور واقعیہ کا بیان کرنے والا نہیں، بلکہ اُس میں امثال ہیں۔
باب دو از دہم
در باب نسخ و تحریف
اگرچہ وہ دعویٰ جو مولوی صاحبوں نے کتب سابقہ الہٰامیہ کی تنسیخ و تحریف پر حوالہ قلم و زبان کیا ہے، سیکڑوں مرتبہ ہزار ہا حجتوں اور دلیلوں سے اُس کی تردید و تکذیب ہو گئی اور اُن ہزار ہا دلیلوں کو مجملاً بھی اس رسالے میں تالیف کرنا محال اور مقصد مصنف سے بعید ہے تو بھی حق جویوں کی تسلی اور خاطر جمعی کے لئے بعض بعض اُن دلیلوں کو جو ہماری دانست میں قوی اور قطعی اور لاجواب ہیں، تابمقدور طوالت کے عیب سے بچ کر پیش کروں گا۔
نسخ کی بابت یہ پہلا سوال بے اختیاری پیدا ہوتا ہے کہ ان چاروں کتابوں سے جنہیں آپ منسوخ جانتے ہیں یعنی توریت ،زبور،انبیا اور انجیل ۔ان میں سے کون سی ہے اور اُن کے اجزا میں سے کون سا جُز ہے جسے منسوخ کہنا واجبی اور معقول بات ہے۔ شریعت موسوی کے حق میں باب گز شتہ میں خود خداوند مسیح کی اور اُس کے رسولوں کی گواہیوں سے معلوم اور ثابت ہو گیا کہ اُس شرع کی بعض رسومات عارضی اور چند روزہ فلانی قوم اور زمانہ کے ساتھ مقید تھیں جنہیں اس شرع کے اصول او ر حقائق سے علیٰحد ہ کرنا چاہیئے اور اُن کا برطرف ہونااور لاحاصل ٹھہرنا ،بعد اُن کی تکمیل کی معیاد کے عین شرع کے برطرف ہونے اور لاحاصل ٹھہرنے کے برابر جاننا نہ چاہیئے، بلکہ ان رسومات کو بھی سراسر لاحاصل کسی زمانہ میں جاننا نہ چاہیئے۔ ازاں سبب کہ اُن کی خبریں اور تعینات اور قواعد کے بیانات کلام خدا میں پیوستہ ہو کر اپنے اپنے حقائق اور اصول شرع پر گواہی دینے سے اخیر زمانہ تک باز نہیں آتے۔ہر چند کہ وہ عین اصل شرع تو نہیں پر اُس کے ملحقات بہ تعین زمین و قید زمان ہیں۔بہر حال عین شرع کا منسوخ جاننا اور بتانا زبور اور انبیا اور انجیل کی صاف شہادتوں اور تقریروں کے برعکس اور بر خلاف ہے۔
پھر وہ امور واقعی جو انبیا ئے سلف کی کہی ہوئی کتابوں میں یعنی یشوع اور قاضیوں کی اور حضرت سموئیل اور سلاطین کی کتابوں میں مندرج ہیں ،سو کُل عالم کے سب واقعات اور واردات سے چن لئے گئے ہیں ۔اِس علّت سے کہ خدا تعالیٰ کی سلطنت کی تیاری اور ترقی اور تدابیر تعمیر ظاہر کی جائیں تو اُنہیں کون صاحب عقل و ہوش منسوخ جان سکتا ہے۔اگر شدنی (اتفاقی بات)واقعات بھی غیر شدنی ہو سکتے ہیں تو بھی امور واقعی کب غیر واقعی ہوسکتے ہیں اور جب کہ واقعات سلف کا غیر واقع ٹھہرنا جائے تناقض اور اجتماع ضدین ہے ،تو وہ کتابیں جن میں وہ واقعات بیان ہوتے ہیں اتنی تفصیل اور تشریح سے جتنی اور کسی روایت میں نہیں ملتی، بلکہ خو د قرآن مجید میں اکثر واقعات صرف اشارتاً مذکور ہیں ،کون صاحب ذہن منسوخ ٹھہرائے گا۔ غرض کہ جو کتابیں خدا کی سلطنت کی تواریخ بلکہ کُل عالم کی تواریخ کی قطب اور مرکز ہیں، انہیں کوئی صاحب ہوش منسوخ نہیں ٹھہرا سکتا۔
پھر کلام خدا کے کوئی وزنی واقعات بیان نہیں ہوتے غیر از آنکہ اُن کا مقصد اور علت وقوع بھی بیا ن ہو اور بلاشبہ اُن امور کی علت ومقصد رب تعالیٰ کی کامل مصلحت اور غیر متناہی حکمت سے صادر ہے۔مثلاً حضرت یوحنا بن زکریاہ کُل عالم کے عوض قربان اور کفارہ ہونا مسیح کی صلیبی موت کی علّت بتاتا ہے۔ جس صلیبی موت پر مولویان لاہوری جا بجا بڑی تلخ گوئی سے ٹھٹھا مارتے ہیں ۔یوحنا نے خداوند یسوع کو اپنے پاس آتے دیکھا اور کہا ’’۔۔۔ دیکھو یہ خُدا کا بّرہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے ‘‘(یوحنا۲۹:۱)۔ اور خداوندیسوع اپنے حق میں مرّتاً یہ گواہی دیتا ہے ’’اور مَیں اگرزمین سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا‘‘(یوحنا۳۲:۱۲)۔ اور پھر خداوندمسیح کے مورد لعنت ہونے کی جس پر وہ مولویان بے دینوں اور دہریوں کے طور پر لہو ولعب کرتے ہیں ۔پولُس رسول گلتیوں کے خط میں یہ عمدہ علت بتاتا ہے’’مسیح جو ہمارے لِئے لَعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شرِیعت کی لَعنت سے چھُڑایا کیونکہ لِکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے ‘‘ (گلتیوں۱۳:۳)۔
ملّا صاحبان مذکور اُسی رسول مبارک کی اس ہیبت ناک تادیب کو بھول گئے ہوں گے جو کرنتھس کے نام پہلے خط میں درج ہے’’پس مَیں تمہیں جتاتا ہُوں کہ جو کوئی خُدا کے رُوح کی ہدایت سے بولتا ہے وہ نہیں کہتا کہ یِسُوع ملعُون ہے اور نہ کوئی رُوحُ القُدس کے بغَیر کہہ سکتا ہے کہ یِسُوع خُداوند ہے ‘‘(۱۔کرنتھیوں۳:۱۲)۔ اور اگر آپ پو چھتے ہو کہ کیا سبب ہے اس بات کا کہ روح خدا کے مہتدوں(مُہتدی=ہدایت پانے والا) میں سے ایک بھی نہیں جو یسوع کو ملعون کہتا تو سبب صاف ہے کہ خداوند مسیح نہ اُس لعنت کو اپنے ہی سر پر قائم رکھنے کے لئے مورد لعنت ہو گیا بلکہ ا ڑا دینے اور نیست کر نے کے لئے۔تو غور کرنا چاہیئے کہ جس طرح امور واقعیہ منسوخ نہیں ہوسکتے، ازاں جہت کہ غیر وا قع نہیں ہوسکتے اسی طرح ان واقعات کی علتوں اور مقاصد کا نسخ ہونا بھی محال ہے ،جیسا عین اصل شرع ۔چونکہ وہ خدا کی مرضی اور محاسبوں کا مظہر و معرف ہے، ہر گز منسوخ ہونے کے قابل نہیں ۔اسی طرح واقعات مذکور کی اُن علتوں کو جو کلام خدا میں صفائی اور لاپروائی سے معروف ہیں، کون شخص منسوخ بتانے کی جرأت کر سکے کہ وہ کامل اور انجام رسیدہ نہ ہوں اور خدا کے وعید و وعدے وفا نہ ہوں۔
پر ایک اَور امر پر بھی ملاحظہ کرنا چاہیے کہ جیسا امور واقعیہ کے بیان میں اُن کے سببوں اور علتوں کا بیان بھی جو محض خدا کی مرضی اور پروردگاری پر موقوف ہیں، درمیان میں آتا ہے۔ اسی طرح اُن علتوں کے ساتھ روح الہٰام و قدوسیت کی ہدایت سے بعض خاص تعلیمات ملحق اور متعلق ہیں کہ اُن کا ان سے فراق اور انقطاع اور جدائی محال ہے۔مثلاً اُن خطوط میں جنہیں رسول نے افسس اور کلسے کی کلیسیا کولکھ بھیجا خداوند مسیح کی صلیبی موت کی ایک علّت اور مقصد یہی تسلیم کیا جاتا ہے کہ خداوند مسیح کی صلیب میں یعنی اُس کے مصلوب بدن میں وہ دونوں پرانے انسان جو یہود اور یونا ن ہیں، پیوستہ وابستہ ہو کر ایک ہو جائیں۔ان کی سب جدائیوں کامیل ملاپ ہو جائے۔او ر علاوہ براں دونوں سے ایک ہو کر ایک نئی خلقت بنیں اور نئی خلقت بن کر خدا تعالیٰ کے ساتھ میل ملاپ کرائے جائیں۔
دیکھو کہ اس امر واقع یعنی مسیح کی صلیبی موت کی اُس علت مشار ُ‘الیہ سے یعنی انسان کے فریقین کے میل ملاپ سے کیا ہی بھاری تعلیمات اس خلقت جدید اور ولادت ثانی کی بابت روشن و ظاہر ہو گئیں۔پھر اس سے یہ نتیجہ واجب و لازم نکلا ہے کہ جیسا امر واقع منسوخ نہیں ہو سکتا جب تک کہ غیر واقع نہ ہونے پائے ،ویسا ہی اُس کے وقوع کی علتیں اور اسباب نسخ نہیں ہو سکتیں۔ پھر جس طرح اُن کا نسخ محال ہے، ویسی ہی وہ تعلیمات بھی جو اُن کے ساتھ وابستہ ہیں ممتنع النسخ(منسوخ کرنے سے باز رکھا گیا ) ہیں ۔اور یہی نہیں بلکہ وہ احکا م اخلاقی اور امر و نفی جو اُس خلقت جدید کے ساتھ ملحق اور مقید ہیں، کسی صورت سے قابل نسخ نہیں ہیں۔
پھر بمشکل اہل محمد دعویٰ کریں گے اس بات پر کہ قرآن مجیدکو کچھ ترجیح اور تفضیل ہے، اس حمدو ستائش اور عبادت و توبہ کاری اور شکرگزاری اور رسومات پر جو حضرت داؤد کے مزامیر میں اور جابجا باقی کتب منزلہ میں درپیش آتی ہیں، جن سے خدا کے خاص دوست اور بندے تین ہزار برس سے روحانی تربیت اور پرورش اور تادیب وتعلیم نکالتے ہیں اور دکھوں اور محنتوں اور متعدد آزمائشوں میں تسکین و تشفی پاتے ہیں۔اِس سے اور ان کی مانند اور عقلی دلیلوں کے سوائے بے شمار نقلی دلیلوں سے بھی کتب منزلہ سابقہ کے نسخ ہونے کی ممانعت قطعی اور کامل ہے، تو یقین ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے اور اُس کے کلمے اور ابن محبوب کے جو خداوند مسیح ہے ،جاہ جلال میں تا بمقدور خلل ڈالتا اور اُس تعالیٰ کی حیرت انگیز تحقیر اور تذلیل کرتا ہے، جو خدا کی ذات وصفات کی ابدیت کا تو مقر ہے ،پر اُس کے کلام سماویہ کی بقا کا منکر ہے۔از آنرو کہ جیسا ذوی الحیات ہونا اُس تعالیٰ کی مشہور صفت ہے ،اسی طرح ذوی الحیات ہونا کلام ربانی کا بھی ایک وصف معروف اور مشہور ہے۔
اور صاف روشن ہے کہ وہ کلام خدا جو ذوی الحیات کہلاتا ہے، اُس شخص کی موت وزوال میں شریک نہیں جو مورد کلام ہے۔چنانچہ روح القدس نے بزبان زکریاہ نبی فرمایا’’تمہارے باپ دادا کہاں ہیں ؟ کیا انبیا ہمیشہ زندہ رہتے ہیں؟لیکن میرا کلام اور میرے آئین جو مَیں نے اپنے خدمت گذار نبیوں کو فرمائے تھے کیاوہ تمہارے باپ دادا پر پورے نہیں ہوئے۔۔۔‘‘(زکریاہ۶،۵:۱ )۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلام اور قول خدا مورد کلام کی موت میں شامل ہو کر نہیں مرتا ،پر اُس رب ذوی الحیات کی حیات میں شامل ہو کر جیتا ہے۔اور جیسا اہل ایمان کو ہرگز نہ مرنے کا وعدہ دیا گیا ہے ۔خود خداوند کی زبان سے اسی طرح موضوع الایمان جو قول خدا ہے ہرگز مرنے اور زائل اور ضائع ہونے والا نہیں ہے ۔تو ہماری منت ہے خدا کے لئے اُن سبھوں سے جو نہ خادم اور نیم پختہ بلکہ کامل اور حقیقی اور پختہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں کہ وہ خدا کے کلام سابق کےاُس خاص وصف پر جو مکرّر سہ کرّر اُس کی طرف اطلاق کیا جاتا ہے ،سوچ اور غورکریں اور اُس کے روبرو ہراساں اور ترساں بھی ہوں۔ خصوصاً مسیح کے اُس سنجیدہ اور دل سوز قول سے ہیبت زدہ ہوں جو انجیل یوحنا میں قلم بند ہے’’جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا ‘‘(یوحنا۴۸:۱۲)۔
حضرت داؤد بھی کلام خدا کی بقا اور برقراری پر صاف دال اور شاہد ہیں ،مثلاً(۱۱۹ زبور کی ۹۰،۸۹ آیات )میں وہ فرماتے ہیں ’’اے خداوند! تیرا کلام آسمان پر ابدتک قائم ہے۔ تیری وفاداری پُشت در پُشت ہے۔تُو نے زمین کو قیام بخشا او روہ قائم ہے‘‘۔جن آیتوں سے واضح اور روشن ہوا کہ جیسا اُن قوانین میں جن سے عالم مشہود کا انتظام اور ارتباط(میل ملاپ) ہوا کچھ جنبش اور خلل و زوا ل نہیں آتا ،اسی طرح کلمات سماویہ الہٰی ہر گز ضائع اور زوال پذیر ہونے کے لائق نہیں ہیں اور اسی امر پر حضرت یسعیاہ میں مقوی دلالت حوالہ قلم ہے’’ گھاس مُرجھاتی ہے۔پھول کملاتا ہے کیونکہ خداوند کی ہوا اُس پر چلتی ہے۔یقیناً لوگ گھا س ہیں۔ہاں گھاس مُرجھاتی ہے۔پھول کملاتا ہے پر ہمارے خداوند کا کلام ابد تک قائم ہے‘‘ (یسعیاہ ۸،۷:۴۰)۔
اور جائے غور ہے کہ پطرس رسول اپنے اول خط کے پہلے باب میں صاف تقریر کرتا ہے کہ وہ کلام جس کی بقا اور ابدیت نشوونما کی فنا پذیری کے ساتھ مقابلہ کی جاتی ہے ،وہ کلام ہے جس کی بشارت و وعظ انجیل میں سنی جاتی ہے۔پر اس وجہ کی نقل دلیلوں کو بڑھانا فضول اور لاضروری ہے۔ درحالیکہ خدا شناسوں اور خدا ترسوں پر یہ امر بالبداہت (ناگہانی واقعہ،یقینی ہونا)ظاہر ہے کہ کلام خدا فی نفسہٰ اور فی ذاتہٰ قابل تغیر وتبدل نہیں ۔ اور ہر شخص کو جو غور اور بے تعصبی سے قرآن مجیدکی سیر و مطالعہ کرنے والا ہے،معلوم اور مبین ہے کہ وہی شہادت جو کتب منزلہ میں کلام خدا کے قیام و بقا پر دی جاتی ہے ،قرآن سے مکرّر سہ کرّر حاصل ہوتی ہے ۔جو چاہے ولیم میور صاحب کی تصنیف کی ہوئی’’ شہادت قرآنی‘‘ میں اور مولوی صفدر علی صاحب کے ’’نیاز نامہ‘‘ میں اس امر کی بابت ہر شک وشبہ کی مرافعت کرے اور تحقیق ہے کہ قرآن مجیدمیں کتب سابقہ کی تنسیخ کا اشارتاً اور کنایتاً بھی کچھ ذکر پایا نہیں جاتا۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ ہجرت کے بعد دو صدیوں کے عرصہ تک کسی کلام خدا کے نسخ ہونے کی حجت و بحث کسی کے سننے میں نہیں آئی ۔ اتنی مدت کے بعد بعض محمدی مجتہدوں (جدوجہدکرنے والوں)نے اللہ تعالیٰ کے دین حقیقی یعنی دین عیسوی کے وزن و کثرت دلائل سے حیران ہو کر یہ نئی حکمت نکالی۔ ہر چند کہ مجتہد خلف و سلف اس اپنے افترا(جھوٹاالزام) کے امر میں باہم اتفاق نہیں رکھتے کہ کون ساکلام کس قدر تک منسوخ ہے اور وہ تنسیخ کون کون سی شرائط و ضوابط سے محدود ہے۔
ہاں ہزار افسوس کی بات ہے کہ یہ بحث لفظی اور نکتہ چینی حکیموں کے لئے محض قمار بازی (جوا کھیلنا)ہے، پر اس کھیل میں جو ہار جاتا ہے نہ صرف اپنی ہی جا ن کی ،بلکہ شاید لکھو کھا (لاکھوں۔لاتعداد)اَور جانوں کی ہار کھا تا ہے ۔یہاں تک کہ اس بھاری مقدمہ کے انفصال پر موت اور حیات ابدی موقوف ہے اور بے شمار خلق اللہ کی ضلالت اسی غلطی سے خروج کرتی ہے اور درحالیکہ خداوند مسیح فرماتا ہے ’’دروازہ بہشت کا میں ہوں‘‘ (یوحنا۹:۱۰) اور’’ رستہ میں ہوں‘‘(یوحنا۶:۱۴) اور’’ حیات و قیامت میں ہوں‘‘ (یوحنا۲۵:۱۱)اور کُل عالم کی خلاصی اور نجات کے لئے اپنی جان کا کفارہ عطا کرتا ہوں۔ تووہ لوگ جو خلق اللہ کی راہ نمائی اور مرشدی کے دعوے دار ہیں ان پرفرض تھا کہ اُس منجی العاصین کی طرف اشارہ کریں اور منت سے بھی گمراہوں سے عرض معروض کریں کہ اُس دروازہ حق کے اندر موجود ہو کر جیو۔برعکس اِس کے وہ صرف ٹھٹھے بازی اور مباحثہ اور پس وپیش کرنے میں عمر عزیز کو کاٹتے ہیں اور مسیح کے ہمعصر یہود فریسیوں کے موافق علم حق کی کلید لے گئے اور خدا کی درگاہ میں داخل ہونےوالوں کو دق کرتے اور ستاتے ہیں ۔
اے صاحبو یہ تمہاری حجت اور بحث نہ پادریوں کے ساتھ اور نہ انگریزوں کے ساتھ بلکہ خدا تعالیٰ رب العالمین کے ساتھ ہے ۔آپ سے ہمارا یہ سوال نہیں ہے کہ ہمیں بڑی اینجہانی شان اور قدر کے لائق جانو او ربزرگ عہدہ داروں کے شمار میں حساب کرویا اپنی مجلسوں میں صدر مسند پر بیٹھا ؤ۔برحق جانو اُس تقریر کو جو توریت میں حضرت موسیٰ نے اور انجیل میں حضرت پولُس نے تسلیم کی کہ وہ کلام نجات بخش جس کی بشارت اب ہندوستان میں فضل الہٰی سے ہوا کرتی ہے، نہ تو آسمان پر ہے، نہ دریا پار ہے،نہ حکیموں ،نہ زاہدوں ،نہ حاجیوں کا ہے، نہ ایسی بات ہے کہ ملکی بحث اور کینہ اور مذہبی تعصب اور ہٹ دھرمی کا باعث اور گنجائش ہو۔پر اس امر میں غریب آدم زاد کی ملاقات خدا کے ساتھ ہے۔اُسی کی درگاہ میں اِس امر کا جواب وسوال اور اِس حجت کا فتویٰ دیا جاتا ہے، خداوند مسیح کی مسند عدالت کے حضور میں حساب لیا جائے گا۔اگر شاید ولایتی استادوں کی تعلیم لینے سے عذر اور ہرج ہو تو ہم سے علیٰحدہ ہو کر اپنی مجالس برادرانہ میں باہم ہو کر روح نوروہدایت سے توفیق مانگ کر اس کلام کو جو خلقت جدید کا تخم ہے، غور سے مطالعہ کرو ۔چنانچہ حضرت موسیٰ کے موضع مذکور میں لکھا ہے’’کیونکہ وہ حکم جو آج کے دن مَیں تجھ کو دیتا ہوں تیرے لئے بہت مشکل نہیں اور نہ وہ دُور ہے۔۔۔ بلکہ وہ کلام تیرے بہت نزدیک ہے۔وہ تیرے منہ میں اور تیرے دل میں ہے تا کہ تُو اُس پر عمل کرے‘‘(استثنا۱۱:۳۰۔۱۴)۔
اپنے ہی نبی کی شہادت رد نہ کرو بلکہ اپنے دل میں نقش کرو
(لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ)
(سورۃ المائدہ ۶۸)
اور پھر دوسری سورت کے اس مضمون پر لحاظ فرماؤ
(وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ)
(سورۃ المائدہ ۶۶)
اور پھر محمدصاحب کا ایک صاف وصریح قول آپ کے لئے غور و سوچ کے لائق ہے’’کَلَا مِی لَایُنسِخُ کَلَامَ اللّٰہِ‘‘تو آپ کےاجماع اُمت کو کہاں سے حقیقت مل سکتی ہے، اس اختیار اور اقتدار کی کہ ناسخ اور منسوخ کی بابت نئے نئے عقیدوں کو بنا کر قول خدا کی کمی بیشی کریں اور بھوکے پیاسے بنی آدم کو چشمہِ آب ِحیات سے جو صاف شفاف اور صحت بخش ہے ،ممنوع کر کے روایات انسانی کے گدلے پانی کے حوضوں کی طرف للکار کر اور ترغیب دے کر نہ قاتل اجسام بلکہ قاتل ارواح ہو جائیں۔ جس قتل اور خون سے کون زشت تر اورزبون تر اور عذاب جہنم کا لائق تر ہوسکتا ہے ۔خصوصاً بلحاظ اِس امر کے کہ وہی تمہارا نبی جس کے لئے آپ نے انبیا ئےخدا کو ترک اور رد کیا ہے۔ از آنر و کہ کہ اُن کی میعاد خلافت اور اُن کے احکام کی تعمیل کا وقت موقّت(کسی خاص وقت پر ٹھہرایا ہوا) اور منتہیٰ اور گزشتہ ہے۔ تو آپ ہی نے ارشاد کیا کہ جو فرقان مجھ پر نازل ہوا سو کتب سلف کا مہیمن اور مصدق ہے اور وہ انہیں گویا مستجمع جمیع فضائل بتاتا ہے ۔چنانچہ یہ شہادت قرآنی کتب موسوی پر ملتی ہے۔’’تَمَا مَا عَلَی کُلِ الَّذِی اَحَسَنَ‘‘۔
صاحبو جائے فکر وتامل ہے کہ روز قیامت جو حساب اور قہر الہٰی کے اظہار کا دن ہو گا مدعا علیہ اور مدعی دونوں منصف العالمین کے تخت سفید کے رُوبرو حاضر کئے جائیں گے۔ مدعی تو شرع و کلام خدا ہو گا مدعا علیہ کُل خلق خداہو گی۔ پر اُس مدعی اعظم و اعلیٰ کے دعویٰ سے کون بچ سکتا ہے۔اس عذر خواہی پر تکیہ کر کے کہ مَیں نے نہ اپنی خواہش اور یقین پر بلکہ اجماع اُمت کے فتویٰ پر بھو ل کر کتب سماویہ کی تلاوت اور کھوج چھوڑ دی اور حضرت نوح کے ہم عصروں کے موافق اپنی کشتی پر سوار ہونا اس سے بہتر جانا کہ خدا کی بنوائی ہوئی کشتی پر چڑھ کر طوفان قہر سے بھاگوں۔اجماع اُمت اگرچہ کلام اللہ کی شہادت جاوید وباقی کو مدت زمان میں محدود کرنے کی غرض سے حکم جاری کر سکے ،پر تو بھی کون اُس حساب آتشی کی آزمائش کو برداشت کر سکے گا۔ جو کذب کی سب بنیادوں کو اُڑا لے جائے گی۔
بموجب اس تقریر کے جو یسعیاہ نبی کی کتاب میں مرقوم ہے ’’پس اے ٹھٹھا کرنے والو! جو یروشلیم کے اِن باشندوں پر حکمرانی کرتے ہو! خداوند کا کلام سنو۔چونکہ تم کہا کرتے ہو کہ ہم نے موت سے عہد باندھا اور پاتال سے پیمان کر لیا ہے۔جب سزا کا سیلاب آئے گا تو ہم تک نہیں پہنچے گا کیونکہ ہم نے جھوٹ کو اپنی پناہ گاہ بنایا ہے اور دروغ گوئی کی آڑ میں چھپ گئے ہیں۔اس لئے خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔دیکھو مَیں صیَّون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھوں گا۔آزمودہ پتھر۔مُحکم بنیاد کے لئے کونے کے سِرے کا قیمتی پتھر جو کوئی ایمان لاتا ہے قائم رہے گا۔۔۔اولے جھوٹ کی پناہ گاہ کو صاف کر دیں گے ۔۔۔جب سزا کا سیلاب آئے گا تو تم کو پامال کرے گا۔۔۔سو اب تم ٹھٹھا نہ کرو۔ایسا نہ ہو کہ تمہارے بند سخت ہو جائیں‘‘(یسعیاہ۱۴:۲۸۔۲۲)۔
کتب سماویہ سلف کی تحریف کی بابت جو اعتراضات اور حجتیں اہل خلاف کے تعصب شدید سے مبعوث اور شہرہِ عالم ہو گئی ہیں، اُن کے جواب میں اتنی پختہ اور قوی دلیلیں مسیحی قسیسوں یعنی اماموں کی کتب بحث میں حوالہ قلم ہو گئیں کہ صرف مجملاً اور اشارتاً اُن کا ذکر مصنف رسالہ کو درکار ہے۔ مفصل بیان اس امر کا دو رسائل مذکورہ بالا سے حقیقت حال کے ہر طالب و جویاں کو آسانی سے مل سکتا ہے۔اور اس مسئلے کے حق میں بھی بڑی خاطر جمعی اور تیقن حاصل ہو جائے گا۔از آنرو کہ اس قسم کے اعتراضوں کا جواب بحث اور حجت عقلیہ پر اتنا منحصر نہیں، جتنا کہ صحیح اور مستند روایتوں پر اورا مور واقعیہ پر اور ایسے شخصوں کی شہادت پر جن سے کوئی زیادہ معتبر گواہ قیاس میں نہیں آسکتا ۔آنقدر کہ اگر شاید ایسے شخصوں کے قول اور گواہی پر اعتقاد کرنے سے عذر ہو تو زمان سابق کی شہادتوں اور سندوں کا ایمان سراسر عالم سے صفا اور محو ہو جاتا۔
اولاً وہ امر اہل محمد کے خاص غورو لحاظ کے لائق ہے جو دورسائل مذکور میں ثابت و نمایاں ہو گیا کہ کُل فرقان میں ایک بھی جملہ یا آیت موجود نہیں کہ جس میں کسی کتاب مقدس کی تحریف کا الزام کسی مسیحی پر لگایا گیا ہو یاخاص انجیل کی کسی آیت کی تحریف کا ذکر وبیان درپیش ہو ۔ایسے مواخذہ اور شکایت سے کُل اہل مسیح مبرا ہیں۔ ایسا خلل اور نقصان اُٹھانے سے کُل انجیل شریف بھی مبرا ہے ۔انجیل کی تحریف پر قرآن مجید میں ذرا بھی شہادت و دعویٰ نہیں ،بلکہ جن مواضع میں تحریف انجیل کی تقریر بتاکید سے یا خود انجیل کے زورگھٹانے یا اپنی شہادت کا وزن بڑھانے اورمؤید کرنے کے واسطے محمدصاحب کو بڑا فائدہ اور مدد ہوسکتی تھی ،ان میں وہ صاحب اس طرح کے عیب و الزام کی بابت بالکل خاموش رہتا اور ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ تک کا تذکرہ نہیں کرتا۔
ثانیاً جائے غورو تامل ہے کہ جب اُمت یہود کے بعض ساکنان مدینہ پر توریت کے محرف کرنے کا الزام قرآن مجیدمیں اطلاق کیا جاتا تو اُن یہود کی تحریف کے بیان میں یہ امر صاف معلوم اور نمودار ہے کہ تحریف مذکور سے وہ تحریف مراد نہیں جسے اکثر مجتہد اور مولوی صاحبان سمجھتے ہیں اور کتب سماویہ کے رد اور متروک کرنے کا حق اور واجبی باعث بتاتے ہیں ۔یعنی تحریف مذکور سے یہ مراد نہیں کہ کلام خدامیں کچھ کمی بیشی آگئی ۔ از آنرو کہ اصل متن میں صحیفہ یا باب یا فصل یا آیت یا جملہ کا نقصان عمداً و قصداً مُرُور(گزرنا۔چلا جانا۔منقضی ہونا) زمان میں درج ہو گیا۔دونوں اصحاب مذکور نے دو ذیل معروف آیتوں سے یہ امر عیاں اور نمایاں کیا ہے کہ تحریف سے مراد ہےکلام اللہ کا نقل مواضع کرنا اور قرینہِ کلام سے علیٰحدہ کر کے اُن کے اُلٹے معنی بتانا اور مختلف معانی اور مضامین کے فقرات اور آیات جابجا سے چُن کر جو پیوند کے لائق نہیں، پیوستہ کرنا اور جن جن شہادتوں کو فاش و پدید کرنا حق و لازم تھا، اُنہیں دغا اور فتنہ و فساد سے مخفی اور محجوب کرنا۔ جس سے شہادت اللہ کی کاملیت اور کلّیت میں نقص و خلل آجائے اور کم عقل، کم علم جویان حق فریب کھائیں ۔اس معنی کی حقیقت کی ایک دلیل سورۃ فرقان آیت ۱۳) سے لے لیجیو
فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۙ وَ نَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اصۡفَحۡ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ
(سورۃمائدہ آیت ۱۳)
مزید براں بیان ہے
وَ مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا ۚ سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ لَمۡ یَاۡتُوۡکَ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ اِنۡ اُوۡتِیۡتُمۡ ہٰذَا فَخُذُوۡہُ
(سورۃ مائدہ آیت۴۱)
امر ثالث غور کے لائق اس مسئلے میں یہ ہے جس کے بعض علمائے محمدی لا پروائی سے مقر اور قائل ہیں کہ ہر چند فرداً فرداً اور جدا جدا نسخہ جات میں سہواً یا قصداً از راہ نقص مزید خلل آسکتا تھا اور آبھی گیا اور زما ن سابق کی ہر سند میں ذرا سی کمی بیشی کا عیب علّت و خفّت انسانی کے شرائط ضروری میں سے ہے او ر بے شک نقلی سہو وں کی کُل تعداد بڑھ جائے گی۔ بقدر شمار نسخہ جات کے اور بھی ہیں ۔قدر کہ ہر شخص کو کتابت اور تلاوت کتب کی اجازت بے روک ٹوک دی جائے تو بھی خود انجیل کے اصل متن میں اور اصل معانی اور مضامین میں اس قدر خلل ڈالنا جس سے وہ غیر مستند اور غیر صحیح اور غیر معتبر ہو جائے، ہر صورت سے محال ہے۔ ازاں جہت کہ زمان عیسوی کے شروع ہی سے یعنی اوّل صدی سے متواتر پشت در پشت کلا م خدا کی دستیابی کی آرزو اور اُس کی قلم نویسی اور تلاوت کا عجیب و نادر اشتیاق شہر شہر اور ملک ملک منتشر ہو گیا اور جہاں جہاں مسیحی جماعتوں کی رقابت اور مہیمنیت میں کتاب شریف کا کوئی جز مخزون اور محفوظ رہا ، وہاں وہاں مکتوبات انجیلی مع اسناد پس ماندہ انبیا نقل ہونے کے واسطے اور محققین کی خاطر جمعی کے واسطے ڈھونڈے بھی گئے اور بے شمار نسخہ جات قریب وبعید سب اطراف اور اکناف رُبع مسکون میں متداول اور مروج ہو گئے ۔یقین ہے کہ خدا تعالیٰ جس نے بافضل روح القدس کی قدرتوں اور خوارق عادت(خلاف عادت باتیں ،معجزے) کے آفتاب صداقت کی شعاعوں سے عالم کو منور کیا۔ اُس نے ایسی خام تدبیر اور بندو بست نہیں کیا کہ اُس نور کی بشارت اور مژدہ کا نہال (تازہ لگایا ہوا پودہ)کھلتے ہیں اور ان کے نکلتے ہی اُسی دم انسان کے ظلم و فریب سے گُھٹ کر فوت ہوجائے اور اُس کی ازلی تقدیر و مصلحت جو پیش از بنائے عالم حکمت بے قیاس سے ایجاد ہوئی تھی ، عمل میں آتے ہی بے اختیار اہل خلاف کی خواہش اور اختیار میں ترک کی جائے ۔جس خدا تعالیٰ نے اپنی برگزیدہ قوم اسرائیل کی ولادت و طفلیت ہی سے اِتنی لطف و پیش بینی سے اُ س کی رعایت اور نگہبانی کر کے مصر کے تنور سے چھڑایا تھا اور ہیرودیس بادشاہ کی بد مشورتوں سے قوم اسرائیل کا وہ عمدہ مولود اور کُل خلقت کا نخست زاد ہ(پہلا پھل) یعنی اپنے کلمے اور ابن محبوب کو خلاص کیا تھا، سو اپنے وسائل میں ایسا تنگ اور لا تدارک نہیں تھا کہ اپنے لطف وفضل کا اظہار اور اشتہار جو کلام انجیلی ہے، اُسے دو ایک گوشہ نشینوں کی امانت میں حوالہ کر دے ۔جن کے حق میں اگر کوئی خطرہ بھی بے وفائی اور سازش کا نہ ہوتا ،بہر حال خدشہ اور خلش بعضو ں کے دل میں پیدا ہو سکتا اور معترضوں کی شکایتوں اور اشتباہوں میں کچھ صورت انصاف اور واجبیت کی دکھائی دیتی ۔ہر گز ہرگز نہیں بلکہ قسم قسم کے اہل خلاف کے روبرو خواہ یہود، خواہ یونان علما و حکما، خواہ عوام کا اژدہام(بھیڑ،انبوہ)، خواہ کینہ ور فریقوں کے حریف سبھوں کے مقابل کھلم کھلا خدا تعالیٰ نے اپنا کلام روشن اور مبین کشف کیا۔از آنرو کہ نہ اشخاص مفرد بلکہ بزرگ جماعتیں متعدد اُن پاک نوشتوں کی مہیمنیت کے متولی(انتظام کرنے والا) ہو کراُن کی شاہد اور بشیرہو جائیں ۔چنانچہ( زبور۶۸ : ۱۱ ) میں لکھا ہے’’خداوند حکم دیتا ہے۔ خوشخبری دینے والیاں فوج کی فوج ہیں‘‘۔
اور اگر شاید ایک شخص یا ایک جماعت کے نسخوں میں یا ایک اسقف (یعنی پاک جماعتوں کے رقیب و نگہبان) کی عمل داری کے حلقہ اور دائرہ کے اندر نسخہ جات کلا م میں کچھ خلل یا کمی و بیشی پڑ جائے تو جب وہ نسخہ جات ناقص و قبیح باقی اطرافوں اور عمل داریوں کے نسخہ جات کے ساتھ مقابلہ کئے جائیں، تا کہ نئے پرانے، غیر صحیح اور صحیح ترین، وہ جو جائے نزول کتب سے دور بعید شہروں میں ملے اور وہ جو قریب شہروں میں ملے،وہ جو جاہلوں کے ہاتھ سےقلم بند تھے اور وہ جو عالموں اور خوش نویسوں کے ہاتھ سے قلم بند تھے، یہ سب جب باہم ملائے جائیں تو بقدر وسعت انسانی اصلی صحت میں محفوظ ہو کر بتوفیق خدائے قادر و ہ کتب معتبر اور مستند اور لائق تسلیم کے ہو جائیں۔ذیل کے ابواب میں انشاءاللہ اس امر کا بیان بہ مزید تفصیل و تطویل ہو جائے گا۔اتنا یقین ہے کہ رب تعالیٰ کی مرضی تھی کہ وہ واقعہ نادر اور سلامت بخش یعنی شاہ صلح و نجات کا ظہور ایسا صاف، روشن اور نمودار اور مفہوم ہو جائے کہ جمہوراُ ناس(بہت سے لوگ) اُس کی تنقیح اور تحقیقات کر سکیں ۔کسی معترض کو جائے شکایت نہ ہو کہ سندیں زمین کے گوشۂ پنہاں میں درائے حجاب مستور ہو گئیں، صرف تھوڑے ہی پہنچے ہوؤں کا خاص مال اور حصہ مقید ہیں۔
رابعاً ارسطا طالیس (ارسطو)حکیم صاحب نے کہا ہے کہ
نہ صرف پختہ نصوص او رحجت قطعی سے متکلم لائق اعتبار و اعتماد جانا جاتا ہے ،و لیکن (مگر۔لیکن) اس سے بھی مؤثر اور وزنی قول کامعلوم ہوتا ہے کہ اُس کا مزاج خیر وصادق اور سلیم دکھائی دیتا ہے ۔ اس حال میں حاضر ین و سامعین معتقد ہونا چاہتے ہیں اور اُن کے دل تیقن پذیر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کی تاثیر اور خاطر جمعی اورتیقن حق جویوں کے ضمیر میں پیدا ہوتی ہے۔ جب مسیحی محققین کا مزاج اورارادہ دریافت کرتے اور مدت طویل کے تجربے سے معلوم کرتے ہیں کہ اُن کے مزاج میں کتنی صدق دلی اور بے غرضی اور حق وراست کی محبت محض و سادہ اور ہر ایک امر میں حقیقت حال کی جستجو اور دریافت کا اشتیاق تھا اور صر ف یہی نہیں بلکہ ہر ایک حق جُو کا تیقن اور خاطر جمعی اَور بھی بڑھ کر ہوجاتی ہے،جب وہ اِن محققین مذکور کی تنقیح حقائق اور قواعد تحقیق وتفتیش پر لحاظ کرتا اور اُن سے خوب واقف ہو جاتا ہے کہ قطع نظر از تعصب وہ ہر صورت کی خودغرضی اورطرف داری اور رعایت سے بعید اور متنفر ہیں، بلکہ اِس مزاج کی اتنی سختی او ر شد ومد سے مقتضی ہیں کہ بعض عنادی اور متعصب اُن پر گلہ اور مواخذہ کریں ،اس امر میں، یو ں کہہ کر کہ تمہارے قواعد تحقیق اس قدر شدید اور جبر آمیز ہیں کہ بعض آیتیں باعتبار اسناد قدیم کی صحت و کثرت کے محفوظ و منظور ہونے کے لائق ہیں ۔آ پ نے اصل متن سے متروک جانا اور بتایا۔اسی طرح محققین مسیحی نے دور وبعید کے مشرق ومغرب سے نئے پرانے نسخہ جات عہد عتیق وجدید جمع کر کے اُنہیں باہم مقابلہ کیا، جیسے مولویان او ر مجتہدان محمد آپ بھی جانتے ہیں اور طوعاً و کرہاً اس امر کا مقر ہونا ،اُن پر فرض ولازم ہے او ر صرف اصل متن کے نسخہ جات نہیں بلکہ نہات قدیم زمانوں کی تفسیروں اور تشریحوں اور ترجموں کو جزیتاً وکلیتاً جو سن عیسوی کی دوسری صدی سے چھٹی صدی تک کلام خداکے شوق و ذوق کے سبب تیار ہوتے اور منقول ہوتے چلے جاتے تھے، اُن محققین نے اتنی کوشش اور صبوری اور خرچ زر اور مداومت سے جمع کر لیا ہے ،جتنی اُن غوطہ بازوں کی ہے جو عمیق بحر سے مروارید وں (موتی،گوہر) کو نکالتے ہیں اور صرف یہی نہیں، بلکہ جو آیات مفرد اُن اول صدیوں کی کتب پس ماندہ میں موجود ہیں ،خصوصاً اُنہیں جو بحث اور حجت کے مطالب کی بابت حوالہ قلم ہو گئیں اوراختلاف رائے کے موجب و باعث ٹھہریں ،بڑی دقت اور خبرداری سے چُھان بِین کر روشن کر لیا۔جس سے حتی الوسع تا درجہ کمال ہر صدیق اور حق جُو اور ممیز نکات کو معلوم اور دریافت ہو کہ اصل متن معتمد اور مستند کون ہے جس کی بابت تخریب وتبدیل و سہو نقلی کا کوئی خدشہ یا اشتباہ و اجباً اور معقولاً پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس تحقیقات کے بعد جو شک کرے صرف محالات کا مقتضی ٹھہرایا جائے گا ۔از اں جہت کہ اشیااو ر واقعات قدیم الایام کے ایسے دلائل مانگتا ہے ،جیسے حال کی باتوں کے اور علم اخلاق و الہٰیات میں ایسی حجتیں اور نصوص طلب کرتا ہے، جیسے علم ہندسہ و ہیئت و نجوم اور باقی علوم طبیعات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔پس یہ علم وحکمت کے خلاف قواعد ہے۔
خیر صاحبو محققین مذکور کی تنقیح اور تحقیقات کے طریقہ کو اس رسالے کے مصنف نے خود اپنے تجربے سے معلوم و دریافت کیا ہے، یعنی جابجا اور ملک بہ ملک سیرو سفرکر کے اور کتب خانوں میں دخل پا کے اس تفتیش کے نتیجوں کو ثابت کیا۔پس اس تنقیح اور تحقیق کے حاصلات میں سے ایک بات یقینی یہ ہے کہ چھ سات وزنی آیات میں خود اصل انجیل کی تو نہیں مگر زمانوں میں بعض ملکوں کے نسخہ جات کی تخریب یا تبدیل یعنی کمی بیشی ہو گئی۔اب محققین نے اُن غیر معتبر نقلوں کو بڑی محنت و مشقت سے اُن صحیح اور مستند اور لائق التسلیم نسخوں کے ساتھ مقابلہ کر کے حقیقت حال کو صراحتاً پیش نظر روشن اور واضح کیااور جن جن آیتوں کی سند وں کے وثوق میں کچھ خلل و قصور داخل ہوا تھا ،اُن پر بعد امتحان کے محروم کرنے کا فتویٰ د ے کر باقی آیتوں کی وثاقت اور سندیت ایسی قوی شہادتوں اور مضبوط دلیلوں سے ثابت کی کہ خدا کا بندہ بڑی شکر گزاری اور خاطر جمعی سے کہہ سکتا ہے۔خدا کی حمد ہے کہ خود اصل انجیل بے تخریب و تبدیل مجھے دستیاب ہے اور ہر صورت سے قبولیت اور اعتقاد اور اطاعت احکام کے لائق ہے۔
اگر کوئی شخص صدق دل یا طلب دقت سے اُن چھ سات آیات مذکور کے باب میں سوال کرے کہ ان کا وزن کس قدر تھا تو بڑی تسلی کا جواب حق یہ ہے کہ جب متروک بھی ہوئیں ،تب بھی دین حق کے عقیدوں میں ذرا بھی نقص و قصور نہیں آتا ۔اعتقادات کے ہر جزو اور نقطے کی بنیاد کافی و وافی ثبوت سے مضبوط اور پختہ باقی رہتی ۔دروازہ بہشت کا جو انجیل و توریت میں بتایا جاتا ہے ،ذرا بھی نہیں ہلتا۔راستہ نجات اپنے اصلی سیدھے پن سے ذرا بھی پھیرو پیچش نہیں کھاتا ۔پھر ایک مدد اس تحقیقات میں یہ بہت بھاری ہے کہ دوسری تیسری صدیوں میں قریب انہیں عقیدوں کی بابت بحث ومناظرہ ہو اکرتا تھا، جو اب اہل مسیح اور اہل محمد کے درمیان مشہور ہیں اور تب بھی مسیحی اسقف اور کشیش اور معلم اپنے اپنے زمانے کی مروج او رمعروف کتابوں سے اکثر اُنہیں نقلیات سے دین کے عقیدوں اور سب اعتقادات کو تصدیق کیاکرتے تھے ،جو اب کتابوں میں موجود ہیں اور جن سے اجماع مومنین کا ایمان اور عمل مربوط ہے۔
اگر شاید کوئی معترض کہے کہ بلاشبہ تمہارے مصححین (مصحح کی جمع،صحیح کرنے والا)اور محققین کی نیت اور ارادہ خیر ودرست اور تعریف کے لائق ہے، پر اتنی مدت مدید کے بعد ان کی محنتوں کا کیا حاصل ۔اتنی دور اور قدامت کی باتوں کی تحقیق میں کہاں سے کوئی معتبر مدد مل سکتی ہے اور اتنی عمیق اور مواج بحروں میں سے دُرّ(موتی۔گوہر)حقیقت کے کھوج نکالنے کی کون سی اُمید قرین قیاس یا امکان ہو سکتی ہے۔اس اعتراض کے جواب میں میری عرض ہے کہ نہ صرف ان پچھلی صدیوں میں محققین اس قدر صدق د ل اور صابر اور ساعی اور جماعت مومنین وراشدین میں رونق افزا رہے ہیں ،بلکہ دوسری صدی کی انتہا سے لے کر ایسے محققین کی پکی خبر اور صاف پتا ملتا ہے اور اُن کی تصنیفات کُلیتاً تو نہیں پر جزیتاً محفوظ اور موجود ہیں اور ان کی تعریف اور تنقیر سب جماعات رسولیہ میں آج تک شروع سے سنی جاتی ہے۔ مثلاً ارجن صاحب جو مصر کے دارالخلافہ یعنی سکندریہ اعظم میں جماعت عیسوی کا بڑا عہدہ دار اور معدن علم ومعرفت تھا اور اُس کے مرید اور تابعین خصوصاً پمفلوس نام ایک مصنف اورمعلم صحیح ترین نسخہ انجیل وتوریت وغیرہ کے بٹورنے اور مقابلہ کرنے میں جوانی سے لے کر بڑھاپے تک مشغول و مصروف رہے۔اور بے شک دوسری صدی کے اخیر میں جو نسخہ جات جانے جاتے تھے ،تحقیق بڑے پرانے ہوں گےاور جب کہ ارجن صاحب نے اپنے عصر کے پرانے نسخہ جات سے عقائد حقیقی کا وہی اصل اور تخم نکالا جن کے وعظ و بشارت کے سبب اب بھی اجماع مسیحی کے قسیس اور پادری صاحبان بعض مولوی صاحبوں کے قلم وزبان سے تمسخر بردار اور طعن پذیر ہیں۔ تو کیا جائے تعجب ہے کہ اور مصححین اور حق جویوں کی اتنی جستجو اور تفتیش کی سخت محنتوں کے بعد انشاء اللہ ہماری بڑی خاطر جمعی اور تسلی اور مژدہ سلامت کی بشارت میں بڑی لاپروائی پیدا ہوتی ہے۔
اب ظاہر اور واضح ہو گیا کہ مصححین حقیقت اندیش کی کوشش اور سعی سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ بیش سے بیش ۶ یا ۷ وزنی آیتیں منجملہ آیات کے جو عقائد عیسوی کے ثبوت میں مفید تو ہوسکتیں ، پر سراسر ضروری اور لازمی نہیں ہیں ، ہم نے متروک اور غیر صحیح مان لیں ۔پر توبھی کلیت عقائد سے ایک شوشہ یانقطہ تک بھی نہیں کھو دیا اور خصوصاً ایک بڑابھاری فائدہ اس تحقیقات سے حاصل ہو ا جو غورو تامل کے لائق ہے کہ باقی سب آیتوں کی صحت اور اصلیت اور غیر متروکیت انہیں مصححین کی محنتوں سے اور تحقیق کے اُسی طریقہ اور شرائط پر اتنی ہی مضبوطی سے واثق اور معتبر اور لائق تسلیم بتائی گئی، جس سے اُن تھوڑی آیتوں کا رد کرنا یالازم یا مستجب معلوم ہوتا ہے ۔
تو حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ متروک ہو گیا ،اُس سے عقیدوں کی کفایت دلائل میں کچھ نقصان نہیں آیا اور جو باقی رہاتو تحقیق اور تنقیح سے اتنی مضبوط اور بے تردد اور لا جنبید ہ بنیادوں پر مبنی ٹھہرا کہ تاوسعت انسان کوئی شے مضبوط تر نہیں ہو سکتی۔ درحالیکہ نہ صرف اتنی بات صاف و ظاہر ہے کہ دوسری صد ی کے اخیر سے لے کر محققین اور مصححین کی سلسلہ بندی متواتر ہے، بلکہ یہ بھی کہ اُن کی تفتیشوں اور تحقیقات کے بڑے فوائد اور نتائج اور حاصلات اُن کی تصنیفات میں مرقوم اورموجود ہیں ۔اور وہ گواہ ایسے تھے جن کی عمر کے احوال اور اُن کی لیاقت اور استعداد اور مزاج اخلاقی اور روحانی تواریخِ کلیسیا یعنی اجماع مقدس کی کتب سے نہ ازراہ مبالغہ بلکہ بہ تمیز و قدر دانی صاف معلوم ہو سکتے ہیں۔ اور اگر شاید کوئی منصف مزاج اور روشن ضمیر اُن کا بیان پڑھے تو لاپروائی سے کہے گا کہ لامحال جتنی علامتیں وفاداری اور معتبری کی اِس عالم فانی سے مل سکتیں او ر راست قاضیوں اور عدالت نشینوں کے حضور منظور ہوتیں، اِتنی ہی اُن محققین میں بڑے کمال سے پائی جاتی ہیں۔
اس سبب سے جتنے معترض حق گو اور راست جُو ہیں، اُن کے روبرو ہماری پوری خاطر جمعی ہے، بلحاظ اس یقین کے کہ اُس خاص علم و فن میں جو کتب سلف کا علم وفن معروف ہے ،جتنے دلائل صحت ووثاقت(مضبوطی) اصحاب تمیزو عدل کی رائے کے بموجب کافی وافی ٹھہرتے ہیں، اتنے ہی دلائل کتب الہٰامیہ کی حفاظت ورعایت کی بابت حاصل و موجود ہیں۔ جیسا ایک ذیل کے باب میں زیادہ تفصیل سے بیان ہو گا،انشاءاللہ۔پر خداوند مسیح کے متعصب اور کینہ ور مخالف جو محالات کے مقتضی ہیں ،ہر گز کسی دلیل سے راضی اور خاطر جمع اور خوب مصدق باتوں کے قائل نہ ہوں گے۔ اُن کے حق میں کیا علاج باقی ہے۔ مگر یہ کہ خدا تعالیٰ کی عدالت اور صدور فتاوے (حکم الہٰی کا صادر کیا جانا)کی اُس بڑی مسند کے حوالہ کئےجائیں۔ بموجب اس ارشاد کے جو پولُس رسول کے خط (۱۔ کرنتھیوں ۴: ۵)میں ہے ’’ پس جب تک خُداوند نہ آئے وقت سے پہلے کِسی بات کا فَیصلہ نہ کرو۔ وُہی تارِیکی کی پوشِیدہ باتیں رَوشن کر دے گا اور دِلوں کے منصُوبے ظاہِر کر دے گا اور اُس وقت ہر ایک کی تعرِیف خُدا کی طرف سے ہوگی‘‘۔
باب سیز دہم
د ر باب آ ں شہاد ت کہ اجماع عامہ مومنین و مجتہدانش کہ خلفاء و رسل اند بر معتبری و صحت و وثاقت کتب مقدسہ از اعمال و اقوال و تصنیفات خود در پیش گزر انیدہ اند
باب گزشتہ کے مضمون سے متعلق دو اَور امور ہیں جن کے ملاحظہ کے بغیر کتب سماویہ کی حفاظت و رعایت کا حال خوب ترین طور پر معلوم نہیں ہو سکتا۔ اُس باب کے حواصل کلام سے ثابت اور روشن ہوا کہ اول زمان سے تا زمان حال بعض مشہور اور قابل اور معتبر معلموں نے یہ بھاری مہم اپنے ذمہ لی کہ کتب سماویہ منزلہ یعنی توریت،انبیا،انجیل وغیرہ کے نسخہ جات صحیح و سلیم اور مستند وثقہ صبر اور صرف کثیر سے اکٹھا کر کے اور باہم مقابلہ کر کے عین اصل متن کی حقیقی صورت دکھا ئیں ۔اس غرض سے کہ وہ نقل مصحح اور محکم آیندہ زمانوں کے لئے ایک صاف پختہ اور پیش نہاد نمونہ اور میزان ہوجائے۔ یہ سب مجتہد اور معلم مذکور صرف اپنے مزاج کی صلاحیت وروحانیت سے اجماع عامہ کے ستارہ گان نور افشاں کی مانند نہ تھے ،بلکہ علم و حکمت و معرفت سے شہرہ ِ عالم بھی تھے ۔لیکن خصوصاً یہ امر غور ولحاظ کے لائق ہے کہ نہ صرف اپنی خاص رائے اور خیال و قیاس پر گواہی دیا کرتے تھے ،بلکہ جن جن جماعتوں کی پیشوائی اور کارو خدمت روائی اور مُرشدی اُن کو سپرد ہوئی۔
اُن جماعتوں کے خلیف اور وکیل اور گویا قائم مقام اور ایلچی اور مترجم تھے۔مثلاً ارجن صاحب جو سکندریہ مصری کا پیشوا تھا ۔تا آنقدر کہ اُس شہر کے مدرسہ جات شہرہ عالم کے مدرسوں کا مدرس تھا اور جیروم صاحب جو بیت لحم یہود میں زاہد خانے کا پیشوا تھا اور بڑے روم میں بھی بڑا عہدہ دار اور وہاں کی جماعت عیسوی میں نہایت عالی قدر اور عظیم الشان تھا اور واعظین و شارحین میں نادر و ممتاز ۔یہ اَور اُن کی مانند باقی اساطین اجماع مومنین اپنی اپنی جماعتوں کے معلم اور خلیفہ تھے اور اُس کے مفہوم و ضمیر کے اظہار کرنے سے متوکل(توکل کرنے والا) اور متولی( انتظام کرنے والا) تھے۔
یقین ہے کہ خداوند مسیح نے طرح طرح کے عہدوں اور منصبوں (عہدہ)کو اپنی کلیسیا یعنی اجماع عامہ مومنین کے سپرد کیا اور اُس خدمت گزاری کے فرائض اور لوازم(لازم کی جمع،ضروری چیزیں ) میں یہ بھی شامل تھا کہ کلام اللہ کی کتب منزلہ کو اُن کے اوائل کی صحت اور اصلیت میں محفوظ و محروس (زیرنگرانی)رکھیں۔خصوصاً یہ بھاری کام اجماع مقدس کے عہدہ داروں اور منصب داروں کے ذمہ اور حوالے کیا گیا۔یعنی اسقفوں اور قسیسوں اور استادوں اور سب اصحابوں کے جو بسبب اوصاف اخلاقی اور فضائل عقلیہ اور مدارج روحانی کلیسیا کی پیشوائی اور نگہبانی کے مستحق اور مستعد گنے جاتے تھے۔ تو یہی اشخاص کماحقُہ،(بخوبی) اس خدمت عالی اور ثقیل یعنی رقابت کتب سماویہ کے ذمہ دار ہو گئے اور جو کچھ اُنہوں نے اس بات کے حق میں کیا، سو نہ اپنے فائدے اور ناموری کے واسطے اور نہ اپنی خواہش اور اختیار اور تحریک دلی سے کیا ،بلکہ خودخداوند مسیح اور اس کی کلیسیا کی خادمیت اور عبدیت کے طور پر اور کلیسیا کے عوض اوراُس کے روبرو اور اُس کے فائدے اور تعمیر کے لئے اور اُس کا وجوب وحق اُس سے ادا وو فا کرانے کے لئے اور روح القدس موعود کی تقویت اور توفیق کے لاپروائی سے اُمید وار ہو کر جو خداوند مسیح کے وصیت نامہ کے موافق عاقبت تک اُن کا گویا مال متروک اور ورثہ عزیز اور لا متغیر ہونے والا تھا۔چنانچہ خداوند مسیح کا قول رسولو ں کے اعمال کی کتاب کے پہلے باب میں مرقوم ہے’’ لیکن جب رُوحُ القُدس تُم پر نازِل ہوگا تو تُم قُوّت پاؤ گے اور یرُوشلؔیم اور تمام یہودؔیہ اور سامؔریہ میں بلکہ زمِین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے ‘‘ (اعمال۸:۱)۔تو جب مقدس رسولوں کی طرف سے کوئی خط و مراسلہ کسی خاص جماعت کے پاس پہنچایا گیا تو وہ جماعت مشرف کُل کلیسیا کے عوض اُس خط کی حفاظت و رقابت کی امانت دار اور ضمانت دار ہو گئی۔ از آنروکہ فی التحقیق وہ مراسلہ روح القدس کی طرف سے عطا و عنایت فرمایا گیا تھا ۔پس روح خدا کی بخششیں اور نعمتیں عام منعفت (فائدہ)کی برکتیں ہیں، تن تنہا کی نہیں ہیں۔ خواہ شخص ہو، خواہ جماعت ہو اور اُس خاص جماعت کے اساقیف(اُسقف کی جمع) یعنی پیشوا اور قسیس اِس گنج زر( دولت کاخزانہ) کے رقیب و نگہبان تھے۔
غرض جس طرح کل کلیسیا یعنی اجماع عامہ مومنین خود خداوند مسیح کی طرف سے امانتدار اور ضمانت دار ٹھہری اور ہر خاص جماعت دونوں یعنی خداوند مسیح اور کل کلیسیا سے ذمہ دار ہو گئی۔ اسی طرح اس جماعت کے جو عہدہ دار عالی منصب تھے،اپنی تمام برادری مسیحی کی مہرو پروانگی سے اِس حق میں اُن کے عوضی تھے اور بعد خداوند مسیح کے اُنہیں کے روبرو اُن کی جواب دہی تھی۔مثلا جیروم صاحب کے چوتھی صدی کے اخیر میں اپنے اُن خطوط کے جواب میں موجود ہیں۔۲۷ویں خط میں فرماتا ہے ،قولہ:
’’ جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے عصر کے سب کتب الہٰی کے ترجمے قبیح اور ناقص ہو گئے تو مَیں نے بڑی محنت و مشقت سے عمدہ یونانی نسخوں کے ساتھ اُنہیں مقابلہ کر کے صحیح کیا‘‘۔
دیکھو صاحب مذکور نے جو کچھ کیا، خفیتاً نہیں کیا ،بلکہ علانیتاً ۔چونکہ اپنی سب محنتوں کے حواصل و فوائد کُل کلیسیا کا عام فائدہ جان کر رسائل کے ذریعہ سے اُسے اپنی اس خادمیت اور اُس کے پھل اور حاصل سے آشنا کیا اور بڑی بڑی جماعتوں یعنی روم ، یروشلیم ،کارتھیج وغیرہ کے اساقیف سے صلاح لی۔چنانچہ اُس معلم معروف نے خود خداوند مسیح اور اُس کے رسولوں کے اِس مقولہ کو نہایت عزیز و منظور کیا کہ کُل اجماع مومنین ایک بدن ہے ،جس کا سر خداوندمسیح ہے اور ایک درخت ہے ،جس کی جڑ اور تنا خداوند مسیح ہے۔پس بعد خداوند مسیح کے کُل کلام خدا کی مہیمنیت تمام اجماع کی امانت اور ولایت (کسی کام کی ذمہ داری )میں سونپ دی گئی اور علیٰحدہ علیٰحدہ اجزا اُن جماعتوں ذمہ ہوئے جو شروع میں اُن کے جائے درود و وصول ہونے سے مشرف ہو گئی تھیں ۔مثلاً جماعت کرنتھس ،کرنتھس کے نام خط کی اور جماعت روم ،رومیوں کے نام خط کی نگہبان اور گویا خزانچی ٹھہری۔ اور بے شک یہ بندو بست عمدہ اور واجبی تھا کہ بڑی بھاری جماعتیں اور بالاختصاص وہ جو رسولوں اور اُن کے تابعین کے ہاتھ سے مبنی اور معمور ہو گئی تھیں، اُن کتابوں کے اصل متن کی صحت اور معتبری کی رعایت سے متولی ہو گئیں۔
اور یہ امر کہ اول زبان کی سندیں اور نسخہ جات اُن جماعتوں اور ا ُن کے پیشواؤں کی نگہبانی اور خبرگیری میں سپرد ہوئے،رسولوں کے اعمال کی کتاب سے صاف و صریح ثابت ہے’’ اور وہ جِن جِن شہروں میں سے گُزرے تھے وہاں کے لوگوں کو وہ احکام عمل کرنے کے لئِے پُہنچاتے جاتے تھے جو یرُوشلؔیم کے رسُولوں اور بُزرگوں نے جاری کِئے تھے-پس کلیِسیائیں اِیمان میں مضبُوط اور شُمار میں روز بروز زِیادہ ہوتی گئیں‘‘ (اعمال۵،۴:۱۶)۔ اور بے شک یہ بھی اُن علتوں اور غرضوں میں سے تھی جن کے لئے روح القدس کی حضوری کے دوام اور قیام کا وعدہ اجماع عامہ کے بیچ عنایت ہو ااور تقویت و ترقی اور خاطر جمعی کا باعث تھا ۔جیسا یوحنا رسول نے اپنے پہلے خط کے دوسرے باب میں فرمایا’’ اور تمہارا وہ مَسَح جو اُس کی طرف سے کِیا گیا تُم میں قائِم رہتا ہے اور تُم اِس کے مُحتاج نہیں کہ کوئی تمہیں سِکھائے بلکہ جِس طرح وہ مَسَح جو اُس کی طرف سے کِیا گیا تمہیں سب باتیں سِکھاتا ہے اور سچّا ہے اور جُھوٹا نہیں اور جِس طرح اُس نے تمہیں سِکھایا اُسی طرح تُم اُس میں قائِم رہتے ہو ‘‘(۱۔یوحنا۲۷:۲)۔ اور جائے شکر وحمد ہے کہ جو اشخاص پشت در پشت علم و عقل اور صداقت و صلاحیت کے حق میں معروف و ممدوح تھے اور سب سے خوش آباد اور شریف اور رونق دار جماعتوں کے پیشوا تھے۔اُنہوں نے رعایت اور محافظت کتب مقدسہ سے کوئی مہم ،مہم ترین نہ جانی اور محنت کا پھل ظاہر و واضح کیا۔ تا آنکہ کوئی معترض اور بدعتی فریبی جائے اخذ وتعرض نہ پائے ،بلکہ ابن خدا کے حضور میں خاموش اور شکستہ دل اور قائل حقیقت ہو کر اُس کے تابعین کے شمار میں حساب کیا جائے ۔جو صاحب اوقات گزشتہ کی مسیحی کلیسیا کی خبروں اور روایتوں سے واقف ہیں، وہ خو د جانتے ہیں کہ اُن محققین نے جو اتنی سعی اور کوشش سے نقلوں کی تصحیح کی ،سو اکثر محض حقیقت خواہی اور حُب صداقت سے کی، نہ کہ مولوی صاحبان سے مجبور ہو کر اور اُن کے ڈر کے مارے یہ کام کیا۔چنانچہ مصنف رسالے نے اکبر آباد کی مجلس بحث میں یہ عرض کی کہ ایسے صدق دلوں اور حقیقت اندیشوں کی تقریر وں پر غور کر کے مولوی صاحبان کو نہ چاہیے کہ اُن تقریروں سے موجب لاف زنی اور زبان درازی اور تردید کلام کا باعث نکالیں، بلکہ لازم ہے کہ اُن کی شہادت بے غرض سے مجذوب ہو کر آفتاب رحمت وسلامت کی طرف متوجہ ہوں اور تعصب کی بے ہوشی اور غفلت کی نیند سے جاگیں۔ جب تک رحمت کا وقت ہے اور قہر کا دن طلوع نہیں ہوا۔
اور اِس خیال کومضبوطی اور تاکید سے پکڑنا اور ہر گز فراموش نہ کرنا چاہیئے کہ خداوند مسیح نے صاف ظاہر فرمایا کہ مَیں نے اپنی کلیسیا یعنی اجماع عامہ مومنین کو اپنا مہتمم اور مختار کار اور ولی ذوی الاقتدار اس عالم میں مقرر کیا ہے اور یہ قول و قرار بھی کیا کہ مَیں زمانے کے تمام ہونے تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں اور میں صاف و تازہ ریزش روغن کے موافق اپنی روح کی تنویر وتقویت و تقدس کی تاثیر وں کو انڈیلوں گا اور یہ بھی کہا کہ اُس روح قدس کی کلیسیا کے اندر بڑی کارروائی اور برکت افزائی ہو گی اور اُس کار اور خدمت کا ماخذ و مدار یہی ہوگا کہ وہ میرا کلام خاطر نشین کرے گا اور یاد دلائے گا اور ساری حقیقت میں ہدایت کرے گا اور تمہیں اِس قدرقابلیت اور استعداد سےمعمور کرے گا کہ حقیقی کلام کی تمیز اور اُس کی حفاظت و رعایت کرنے کی طاقت حاصل ہو گی۔ مثلاً متی انجیلی نے خداوند مسیح کے ایک وزنی مقولہ کی خبر (متی ۱۸ باب) میں کلیسیا کے حق میں قلم بند کی ہے’’ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کُچھ تُم زمِین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھ جائےگا اور جو کُچھ تُم زمِین پر کھولو گے وہ آسمان پر کُھلے گا‘‘(متی۱۸:۱۸)۔
خداوند مسیح نے یہ وعدہ حل وعقد کرنے کا بتوسط رسولوں کے ظاہراً کُل کلیسیا سے فرمایا اور واجباً اس قول کے مختلف مضامین میں سے ایک مضمون حق یہ ہے کہ ایک کتاب مروج کو کتب منزلہ سماویہ کے شمار میں داخل کرنا اور دوسری کو بعد تحقیقات کے متروک کرنا ،کلیسیا کے خواص اور مراتب سے ہے ۔پھر روح القدس نے پولُس رسول کی زبان سے اجماع قدوس کی کیا ہی عمدہ فضیلت دکھائی ۔ پہلے تیمتھیس کے خط میں بیان ہے ’’کہ اگر مُجھے آنے میں دیر ہو تو تجھے معلُوم ہو جائے کہ خُدا کے گھر یعنی زِندہ خُدا کی کلیِسیا میں جو حق کا ستُون اور بُنیاد ہے کیونکر برتاؤ کرنا چاہئے ‘‘ (۱۔تیمتھیس۱۵:۳)۔پھر جب کہ کلیسیا لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی ہے تو چاہیے کہ کل اجماع کا اختیار اور اقتدار بعض مختار اشخاص کو تفویض ہوجائے ۔چنانچہ خداوند مسیح نے اپنی کلیسیا کی یہ ترتیب اور بندو بست کیا ہے اور اپنی مرضی صاف علامتوں سے دکھائی ہے اور خصوصاً اس طرح سے معلوم کرائی کہ اگرچہ ہر ایک حقیقی مومن روح القدس کے فضل و لطف سے بہرہ ور اور حصہ دار ٹھہرا اور اُس کی برکات موعودہ فرداً فرداً تمام نسل روحانی پر مشترک اور منقسم تھیں ،تو بھی خاص مورد اُس تنویر اور تقویت کے بعض عہدہ داروں اور منصب داروں کو اُس نے اپنی کلیسیا میں مبعوث کیا اور اُسی روح کے خاص وصفوں سے مشرف و موصوف کیا۔ اِس نیت سے کہ تمام اجماع مومنین کی علمیت اور فعلیت بھاری مقدموں کے بجا اور برپا ہونے کے وقت انہیں کے توسط سے ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ قدرت و اختیار کل کلیسیا کے تصرف میں ہے۔پر وہی اشخاص مختار وممتاز اور خاص فضائل سے موصوف اُس کے وکیل و متوسط مقرر تھے تا کہ اجماع کلیسیا کی آواز اور فتوے اُنہیں کی زبا ن سے سنائی دیں اور جب خاص مہمات کا انفصال اور مسائل و مشکلات کا انحلال جن سے تمام اجماع کی بہتری اور ترقی کا کچھ تعلق تھا ،درکار اور لازم ہو۔تب اجماع مقدس کی مجالس عامہ بادشاہ زمان کے اقبال سے کسی معین وقت و موقع پر مجتمع ہو سکےاو ر ایسا ہی ہوا۔چنانچہ پانچ پہلی صدیوں کے عرصہ میں چار مجلس عامہ معروف اور شہرہ ِعالم ہو گئیں ۔اس قسم کی مجالس عامہ میں چاروں اطراف سے مسیحی ،مختلف جماعتوں کے اسقف برو بحر اور دور دور ملکوں کی سیر وسفر کرکے تشریف لائے اور ادیان قدیم کی خبروں سے معلوم اور یقین ہے کہ روح القدس کی حضوری موعود کی بڑی التجا اور استدعا بھی تھی اور اُس عرض معروض کی اجابت اورقبولیت کی بڑی انتظاری تھی۔ اور اگرچہ عقلیات کی قدر اور رعایت حقیہ وہ مجلس نشین کیا کرتے تھے، تو بھی بالاختصاص نقلیات سے حجتیں اور دلیلیں نکا ل کر اُن شریفوں نے مقدمات کو فیصل کیا۔
پھر ایک اور اَمر صراحتاً واضح ہے کہ اگرچہ قول و قرار مسیحی کے بموجب روح القدس کی حضوری برابر ہر وقت اجماع مومنین میں قائم ودائم رہی، مگر بعض اوقات مثلاً اعتقادات کے معانی اور حدود کو متعین کرنے کے وقت یا اجماع عامہ کےخوش مرتب و منظم کرنے کے وقت تا تقویت ایمان اور ترغیب و تحریک محبت اور حکمت و مہارت و تمیز روحانی کی ترقی کے وقت اُسی روح خدا کا درود و نزول بڑی افزائش اور فراوانی سے ہوا ۔ جس بات سے یہ دو بڑے منافع حاصل ہوئے ۔
اول یہ کہ اہل کلیسیا میں بڑی خاطر جمعی اور اطمینان رہا۔ اس یقین سے کہ اس کی خاص حاجتوں اور خطروں اور تکلیفوں کے وقت خداوند مسیح کے خزانہ فضائل میں کمک و مدد کی بڑی دولت محفوظ اور مہیا ہے ۔
دوم یہ فائدہ کہ اُن کے مزاج میں غریبی اور حیا اور فروتنی کی حالت بڑھ کر ہو گئی۔ اس شعور اندرونی سے کہ ہر صورت سے مجھے قیام و دوام صرف خداوند مسیح ہی میں ہے۔ اُسی کےقول ووعدے پر میری اُمید منحصر ہے۔
اُن مجالس عامہ مذکورہ کا پہلا نمونہ رسولوں کے اعمال کے ۱۵ ویں باب میں مفصلاً بیان ہوتا ہے ۔جو چاہے سو اس طرح کی مجالس ائمہ کے شرائط وضوابط کو اُس پیش نہاد اعظم کی روایت سے سیکھ سکے گا۔اور ان سب امور میں خداوند مسیح نے اپنی کلیسیا کی ترتیب وتنظیم کے لئے کیسی عمدہ خبرداری اور پیش بینی اور مراعات سے بندوبست کیا۔ اس کی یقینی اور پوری خبر افسیوں کے خط میں ملتی ہے’’ اور یہ اُترنے والا وُہی ہے جو سب آسمانوں سے بھی اُوپر چڑھ گیا تاکہ سب چیزوں کو معمُور کرے-اور اُسی نے بعض کو رسُول اور بعض کو نبی اور بعض کو مُبشّر اور بعض کو چرواہا اور اُستاد بنا کر دے دِیا۔تاکہ مُقدّس لوگ کامِل بنیں اور خِدمت گُذاری کا کام کِیا جائے اور مسیح کا بدن ترقّی پائے۔جب تک ہم سب کے سب خُدا کے بیٹے کے اِیمان اور اُس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامِل اِنسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پُورے قد کے اندازہ تک نہ پُہنچ جائیں ‘‘ (افسیوں۱۰:۴۔۱۳)۔ بلکہ ازراہ محبت حق کے معترف ہو کر اُس میں جو سرہے یعنی خداوند مسیح میں ہر طرح سے بڑھتے جائیں ۔
اب ان سب بیانات سے معلوم ہوا کہ وہ اجماع مومنین جو زندہ خدا کی درگاہ اینجہانی ہے، ہر چند کہ وہ اصالتاً او ر باطناً خدا کے مختار بندوں اور نومولود فرزندوں کی عین یگانگت اور فراہم آوری ہے، تو بھی ظاہراً ایسی شراکت اور رفاقت ہے جس میں جو لوگ شامل ہیں اُن پر بہت ادائے حقوق و وفائے فرائض لازم آتا ہے اور اہل جہان کے مقابل خداوند مسیح کے گواہ اور ایلچی اور وکیل ہیں اور اس کے نور سے آپ منور ہو کر دنیا کی تنویر کے لئے مقرر ہیں اورخداوند مسیح کی طرف سے صدور احکام و قواعد سے مشرف ہو کر انہوں نے قسم قسم کے درجات اور مراتب پر مستعدوں کو وقف و تقدیس کرنے کا اختیار پایا ہے۔ جن کے ذریعہ سے اَور بھی خدمت گزاریاں پوری ہوں اور ایک ان میں سے نہایت بھاری اور عمدہ کتب مقدسہ کی محافظت ہے۔
بیان بالا سے یہ امر ظاہر اور نقلی دلائل سے ثابت ہوا کہ کلام خدا کے اسناد کی محافظت اجماع عامہ کے خاص عہدوں میں سے تھی اور ان منقولات کے موافق(افسیوں ۱: ۲۳،۲۲ ) نادر مضمون کی افسس کے نام خط کے پہلے باب میں ہیں’’ اور(خدانے) سب کُچھ اُس کے پاؤں تلے کر دِیا اور اُس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیِسیا کو دے دِیا۔یہ اُس کا بدن ہے اور اُسی کی معمُوری جو ہر طرح سے سب کا معمُور کرنے والا ہے ‘‘۔جس آیت میں وفق (مطابقت)و مناسبت تمام ہے، اس قول بالا منقول تیمتھیس کے نا م خط سے ’’ خُدا کے گھر یعنی زِندہ خُدا کی کلیِسیا میں جو حق کا ستُون اور بُنیاد ہے ‘‘ (۱۔تیمتھیس۱۵:۳)۔کتب مقدسہ کی رعایت اور رقابت کرنے کے قابل اور مستعد کون اس سے بڑھ کر ،بلکہ اس کے برابر ہو سکتا ہے جو حقیقت یعنی حق کلا م خدا کا ستون اور خداوند مسیح کی معموری یا بھر پوری ہے۔ گویا وہ خداوند مسیح اپنے سب اوصاف اور فضائل کو اپنے بدن مجازی یعنی کلیسیا کے عضوؤں پر منقسم کرتا ہے۔ پس خدا کی کلیسیا کے سوائے کون دوسرا محافظ کتب ان اور ان کی مانند اَور جمالی صفتوں سے موصوف مل سکتا ہے،ہرگز ہرگز کوئی نہیں ۔
یہ بات مشہور ہے کہ اجماع عامہ کی شاخیں مختلف اور متعدد ہیں اور یہ بھی علمائے دینیات کو معلو م ہو گا کہ اکثر کتب انجیلی یعنی چار انجیلوں اور اعمال رُسل اور پولُس رسول کے ۱۳ خطوط اور مقدس پطرس اور یوحنا کے اول خطوط کی جتنی کلیسیا کی شاخیں کُل عالم میں نور افشاں ہیں، سب کی سب برابر شاہد اور بشیر شروع ہی سے ہو رہی ہیں اور اُن کے عہدہ دار اور مجتہد اُن کی خوشخبریوں کے مناد اور واعظ ہونے سے باز نہیں آئے ۔چودھواں خط پولُس رسول کا یعنی عبرانیوں کے نام خط ہر چند کہ اول صدی یعنی رسولوں کی خاص صدی میں قبل از انتقال حضرت یوحنا حبیب، جاری اور معروف تھا اور مستند جانا جاتا تھا۔ تو بھی مغربی جماعتوں میں مروج اور متداول (دست بہ دست پہنچی ہوئی چیز،مروج)نہ تھا اور اُن کے گرجاؤں یعنی عبادت گاہوں کے وردوں کے استعمالی تلاوت میں شامل بھی نہ تھا۔ یعنی کلیسیا کے ایک جزو میں وہ خط کم معلوم تھا۔ بسبب آنکہ(اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس کا سرنامہ بااہل یہود مخصوص تھا اور مدار مضمون ان کے مراسم شرعیہ سے بہت تعلق رکھتا ہے۔پر تو بھی وہ خط جمہور کلیسیا میں یعنی اس کی جنوبی اور مشرقی جماعتوں میں معلوم اور منظور تھا ۔اور یقین ہے کہ چوتھی صدی کے اخیر میں اجماع مغرب کی مجالس مسیحیہ نے بعد تحقیق اور تفتیش دلائل اُس خط کو معتمد اور مستند جان کر کتب الہٰامیہ کے قانون مغربی میں درج اور شامل کیا۔چنانچہ جیروم صاحب خط ۱۲۹ میں فرماتا ہے:
’’عبرانیوں کا خط منظور کرنا رومی کلیسیا کا عمل و عادت قدیمی نہ تھا اور اسی طرح مکاشفہ کی کتاب یونان کی کلیسیا (یعنی شام وسور کی جماعتوں میں ،مثلاً انطاکیہ اور یروشلیم اور استنبول کی جماعتوں) میں مروج نہیں۔پر تو بھی ہم ان دونوں کو منظور کرتے ہیں، یعنی قانون کتب الہٰامیہ میں حساب کر لیتے ہیں ۔چنانچہ ہم نہ متاخرین ،بلکہ متقدمین کی عادت و عمل کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔
یہ شہادت جیروم صاحب کی جو انوار عالم اور اساطین اجماع عامہ میں شمار کیا جاتا ہے اور جس نے اپنی عمر کچھ تو بیت المقدس اور کچھ سکندریہ مصری میں اور کچھ روم اعظم میں بسر کی اور مدرسوں اور مجلسوں اور رہبان خانوں میں اُ س کی بڑی شان شرف اور قدرو منزلت تھی ،سو نہایت وزنی اور غور کے لائق ہے ،کیونکہ اس سے دو باتیں صاف ثابت اور معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی یہ کہ زمان سلف و خلف دونوں میں ان دوکتابوں کی شہادت جمہور کلیسیا کے بیچ متفق اور ایک زبان ہو رہی تھی۔
دوسری یہ کہ صرف وسط کے زمانوں میں جمہور کلیسیا کے ایک ایک حصہ میں ان کتابوں کی بابت شک وشبہ درمیان میں آیا تھا، یعنی روم کی کلیسیا میں عبرانیوں کے خط اور یونان کی کلیسیا میں مکاشفہ کی کتاب کی بابت۔
ہر صاحب دانش و بینش پر واضح اور نمایاں ہو گا کہ اس تھوڑی ہی عبارت میں جیروم صاحب نے اس بحث کو جو عبرانیوں کے خط اور مکاشفہ کی بابت جاری ہو گئی تھی ،انجا م واختتام ازروئے اختصار کیا۔یقین ہے کہ بعض زمانوں کی بعض جماعتوں میں جو جو شبہات اور شکوک ان کتابوں کے حق میں دل نشین ہو گئے تھے، انہیں رد اور رفع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ تاآں وقت کہ قوی دلیل اور ا ُن کے اسناد کی صحت اوروثاقت کا ثبوت نہ ہو۔ پھر اُن شبہات کو جیروم صاحب کے ہم عصر معلموں او ر محققوں نے بے اصل اور بے بنیاد ٹھہرا کر ردو برطرف کیا۔کون صاحب عقل و تمیز یہ امر جائے لحاظ اور جائے شکر نہ سمجھے گا کہ کتب منزلہ کی رقابت اور محافظت نہ فرداً فرداً تن تنہا معلموں کے ذمے اور حوالے کر دی گئی ،بلکہ کلیسیا جمہور کے سپرد کی گئی۔ جس سے خداوند مسیح نے اپنی ہمیشہ کی حضوری اور روح القدس کی تنویر کا وعدہ کیا تھا۔اور علاوہ براں رسولوں اور منادوں اور باقی استادوں اور معلموں اور عہد ہ داروں کو اپنی کلیسیا سے انعام بخشا اور ان خادموں کو بقدر مقتضائے اوقات اوصاف اور فضائل متعددہ سے موصوف کیا اور انہیں اختیار اور اقتدار اور حقوق ضروری عطا فرمائے ۔بموجب اس قول خداوند مسیح کے جو انجیل مرقس میں قلم بند ہے ’’ خبردار! جاگتے اور دُعا کرتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا۔یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جو پردیس گیا اور اُس نے گھرسے رُخصت ہوتے وقت اپنے نوکروں کو اِختیار دِیا یعنی ہر ایک کو اُس کا کام بتادِیا اور دربان کوحکم دِیا کہ جاگتا رہے ‘‘(مرقس۳۴،۳۳:۱۳)۔
چنانچہ ہرایک صدی کی کلیسیا نے اپنے اپنے معلموں اور مصنفوں اور عہدہ دار اسقفوں کو خداوند مسیح کے دست فضل سے لے لیا ،یعنی اس قدر سنجیدگی اور استعداد اور معتبری کے شخصوں کو جو ان کی خادمیت کے لئےحق اور درکار تھی اور بر موقع چاروں اطراف والی جماعتوں کے وکیلوں اور خادموں ذوی الا ستقلال کو جمع کر کے اور ہر ایک بدعتی اور مخالف مسیح کے کذب و کفر و فساد کے قضیوں کو پیش نظر کر کے اور بعد مباحثہ طرفین کے، اُنہیں میزان حقیقت میں تو ل کے، رو برو عالم کے اس مقدمہ کا فتویٰ جاری کیا اور مجلس عامہ کی مہر اتفاق سے ،ا ُس کو پختہ کیا اور مختوم(مہرشدہ،بندکیاہوا) کیا۔ہوسکتا تھا کہ بعض مفردوں ،خواہ مصنفوں، خواہ معلموں کی رائیں مختلف ہوتیں یا خاص خاص جماعتوں میں شک وشبہ پیدا ہوتا ۔اور اگر شاید خداوند مسیح نےا ن قضیوں اور اشتباہوں کے حل وفیصل کرنے کا کوئی وسیلہ مقرر اور متعین نہ کیا ہوتا، تو کچھ جائے جنبش و تزلزل دلوں میں باقی رہتی۔ مگر فی الواقع جائے استراحت و تیقن و دلاسائی جائے جنبش و اشتباہ سے ہزار چند بڑھ کر ہے ۔از آنرو کہ کُل کلیسیا جس نے تمام عالم میں شاخ دار درخت کی طرح اپنا سایہ اور پناہ پھیلائی تھی ،اس محافظت اور رعایت کتب کے عہدہ پر مہتمم ہو کر خداوند مسیح اور اُس کے حوارئین کے کلمات کی مثبت اور مصدق اور مظہر ٹھہری۔
جیروم صاحب جومتقدمین کو ان دو کتب مذکور کی صحت اور استناد(سند میں پیش کرنا،سند لانا) وثاقت کا مقر اور شاہد بتاتا ہے ،سووہ بات اول زمان کے اُن آثاروں سے جو اَب موجود ہیں، مؤید ہوسکتی ہے ۔مثلاً کلیمنس نامے روم کا اسقف شریف تخمیناً تیس (۳۰)برس پیشتر از انتقال یوحنا رسول، اپنے خطوط میں کئی آیتیں عبرانیوں کے خط سے نقل کرتا ہے اور ان منقولات پر عقائد دینی کی بعض تعلیمات اور اخلاقی نصیحتوں کو مبنی کرتا ہے اور ساٹھ برس مبارک یوحنا کی وفات کے بعد فرانسیسی دو جماعتوں کے قسیس ایشیائے کوچک کی جماعتوں کے پاس اپنے شہیدوں کی دلیری اور جواں مردی اور اپنے ظالموں کی کینہ پروری اور خوں ریزی کی مفصل خبر بھیجنے میں اتفاقاً مکاشفہ کی کتاب پر صاف و صریح گواہی دیتے ہیں کہ وہ مروج بھی تھی اور اُس کے کتب الہٰامی کے شمار میں گنے جانے پر دونوں جماعتیں متفق الرائے تھیں ۔از آنروکہ اُن کی خبروں میں یہ بیان آتا ہے۔شہیدوں کی مضبوطی اور برقراری دیکھ کر وحوش کی مانند عوام و خواص کی آتشِ غضب اور زیادہ تیزی سے بھڑک گئی ،تا کہ کتب مقدسہ کا کلام پورا ہو’’جو بُرائی کرتا ہے وہ بُرائی ہی کرتا جائے اور جو نجس ہے وہ نجِس ہی ہوتا جائے اور جو راستباز ہے وہ راستبازی ہی کرتا جائے اور جو پاک ہے وہ پاک ہی ہوتا جائے ‘‘ (مکاشفہ۱۱:۲۲)۔
اس امر میں غور کرنا چاہیے کہ تخمیناً پچاس (۵۰)برس زمان رسولیہ کے بعد ان مغربی جماعتوں کے شفقت نامہ میں جو مشرقی جماعتوں کے پاس بھاری مہمات کے بیان میں پہنچایا گیا اور اب بھی یوسیبیس(Eusebius) کی تواریخ میں موجود ہے، یوحنا کے مکاشفہ پر وہی نام اور وہی عزت و شرافت و قدر کی علامتیں اطلاق کی جاتی ہیں ،جو وقت سابق نبیوں اور اولیا کے ساتھ مخصوص تھیں اور اس خط کے راقم اس یقین سے لکھتے ہیں کہ متکلم کی جماعت اور مخاطب کی جماعت جو کلیسیا کی دو بڑی شاخیں تھیں ،دونوں بلا توقف و تعرض اس اقرار و شہادت میں بہ وفق تمام ملیں گی۔صاحبو مسیحیوں نے کلام خدا سے کیا ہی عمدہ اور تسلی بخش قاعدہ سیکھا ہے کہ مصنفوں کی گواہی کو اسی قدر اور اندازہ پر وزنی مانتے ہیں جس قدر بڑی بڑی جماعتوں کے معلم معروف اور ممدوح اور شہرہ ِ عالم ہو کر گویا اپنی زبان اور اپنے خاص اختیار سے نہیں ،پر کلیسیا کی زبان اور اختیار سے بولتے تھے۔ کیونکہ وہ خداوند مسیح کی ایسی شنوا اور تابع فرمان ہے جیسے زن اپنے خاص شوہر کی ۔
رسولوں ذوی الالہٰا م کے زمانے کے بعد نصف صدی کے فاصلہ پر ایک اور شاہد گرامی اور مشہور مکاشفہ یوحنا کی وثاقت اور لیاقت پر دال ہے، یعنی یوسطین شہید(Justin Martyr) جس میں بعض بعض منفصل جماعتوں کی شہادتیں ملتی ہیں ۔چنانچہ وہ نا بلوؔس سے جو بیت المقدس کے اطراف میں ہے ،ایشیائے کوچک میں خصوصاً افسسؔ شہر میں آیا اور وہاں سے روم اعظم کی طرف روانہ ہو کر اُس دارالخلافت میں مدت تک رہا اور علم الہٰیات کا مدرس ہو کر اپنی حکمت و علم و معرفت کی بڑی نیک نامی لے گیا اور بدعتیوں اور یہود اور بت پرستوں پر تا درجہ کمال بحث میں فتح یاب نکلا اور خدا تعالیٰ کے اجماع عامہ کو اور فوائد میں بھی اپنا احسان مند کیا اور اس میں بھی بالخصوص کہ مکاشفہ یوحنا کی تفسیر تیار کی اور اسی نصف صدی کے فاصلہ پر سارڈیؔس شہر کے اسقف ملیتؔو نام نے مکاشفہ کے بیان میں ایک رسالہ تصنیف کیا۔غور کرو کہ ابھی تین صاف گواہیاں اس امر پر ہم دے چکے ہیں کہ ایشیائے کوچک میں یعنی جس ملک میں رسول مبارک بڑھاپے بلکہ موت تک تعلیم و تدریس دیتا رہا تھا اور اندر باہر چلتا پھرتا رہا تھا، اُسی ملک میں یہ امر مشہور اور مشہود تھا کہ مکاشفہ کا مصنف وہی یوحنا ہے۔
صاحبو اب ہم ذرا سا سوال کریں اور از راہ تفتیش دریافت کریں ،ان معلموں اور مصنفوں سے جو دوسری صدی کے اخیر میں یعنی بعد انتقال حضرت یوحنا کے پہلی صدی کے اخیر میں تھے کہ خدا کی اجماع عامہ کی اُس زمانہ میں کیا رائے اور فتویٰ تھا، ان دو کتابوں کے حق میں یعنی درباب مکاشفہ اور عبرانیوں کے نام خط کے بارے میں اہل کلیسیا کیاجانتے تھے۔یہ بات یاد رہے کہ زمانہ مذکور کے مصنفوں کا یہ دستور ہے کہ جمہور کلیسیا کے فتوے اور انفصال کا علانیہ تن تنہا علما کی مختلف رایوں(رائے کی جمع) کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے ہیں اور ان مسیحی معلموں کی صدق دلی اور لاپروائی اور اپنے ایمان کی مضبوط بنیاد اور پشت پناہ پر بھروسا اور تیقن رکھتے ہیں۔ اس سے صاف روشن ہے کہ ہر ایک بات کی حقیقت حال کو برہنہ اور بے حجاب کرتے ہیں۔اور جمہور کلیسیا کے انفصال مسائل کے بعد کچھ عذر اُس سے نہیں کرتے کہ رائے متفرق اور خلاف فتووں کو جو جداجدامعلموں کے مشہور ہوگئے ،آمنے سامنے کریں ۔ہر چند کہ کلیسیا عامہ نےاُن شخصوں کے ضعف دلائل اور فہمید کی کوتاہی کے سبب اور ا ن کی حجتوں کی ناسازی اور نااتفاقی سے اُن کی تقریر وں کو بے ثبات اور منظور ٹھہرایا ہے۔
پس یوحنا رسول کے انتقال کے بعد دوسری صدی عیسوی کے اخیر میں چار شخص باقی معلموں میں عالی قدر اور رونق دار اور علم الہٰیات میں تا وسعت بشریت پختہ اور کامل مشہور تھے، یعنی یوسطؔین شہید(Justin Martyr) اور لیونؔیس ایک فرانسیسی شہر کا اُسقف، ایرینیس (Irenaeus)اور سکندریہ مصری کا قسیس اور مدرس کلیمنس اور کارتھیج کا قسیس طرطلیان(Tertullian) ۔فی التحقیق یہ معلم خود نثار اور فرشتہ مزاج( ۷۵ )برس زمانہ رسولیہ کے بعداور طرطلیؔان ایک صدی کے فاصلہ پر زندہ کلیسیا کے خادم اور اُس کی اولادوں کے مربّی اور خداوند مسیح کے گلہ کے چوپان تھے ۔ایرینیؔس تو مشرقی جماعتوں کی پیشوائی کرتا تھا، مگر ایشائے کوچک میں یوحنا رسول کے مریدوں اور رفیقوں سے درس و تعلیم پائی تھی۔ جن میں مشہور اور عالی قدر پالِیکارؔپ(Polycarp) اُسقف اور شہید تھا اور و ہ یوحنا رسول کے خاص مریدوں میں سے تھا۔
اب معلوم ہو کہ یہ مقدس اور مبارک جس کا ایسا قریب تعلق رسولوں کے اُس آخری پس ماندے کے ساتھ تھا اور اُس کا زمانہ رسول کے زمانے سے ایسا تھوڑا بعید تھا ،مکاشفہ کی کتاب سے اپنے درس و تعلیم کی نقلی دلیلوں کو اسی طرح طلب کیا کرتا تھا جس طرح باقی کتب الہٰامی سے۔ اور یوحنا رسول کو اس کا مصنف صاف بتاتا ہے ،بلکہ مکاشفہ کے جو بائیس ابواب ہیں ان میں سے گیارہ سے نقلیات نکالتا ہے ۔چنانچہ اس عالم فاسد کی آیندہ بحالیت کے بیان میں فرماتا ہے:
’’اور یہی وہ قیامت ہے جسے یوحنا اپنے مکاشفہ میں دکھاتا ہے’’مبارک اورمقدس ہے وہ جو پہلی قیامت میں شریک ہے‘‘(مکاشفہ۶:۲۰)۔
اسی طرح مقدس ایرینیس اپنی کتاب۴ کی ۲۵ ویں فصل میں ارشاد کرتا ہے:
’’بلکہ یوحنا بھی خداوند مسیح کا شاگرد اُس کی پُر جلال کہانت اور بادشاہی کی پیش خبریوں میں یہ گواہی دیتا ہے’’پھر سونے کے سات چراغدان دیکھےاور اُن سا ت چراغدانوں کے بیچ ایک شخص آدمزاد سا دیکھا‘‘وغیرہ (مکاشفہ۱۳،۱۲:۱)۔
اور جتنی مرتبہ وہ مقدس مکاشفہ سے منقولات نکالتا ہے ،اتنی ہی مرتبہ اس کے مصنف کا نا م بتکریم و تعظیم لیتا ہے کہ گویا اس امر کی بابت اُس زمانہ میں کوئی شبہ کسی کے دل میں ہر گز نہ آیا تھا ۔باوجودیکہ وہ کتاب جس میں یہ نقلیات موجود ہیں ،اُسقف مذکور نے بحث کی راہ سے مارقیون کی بدعت وغلط کو رد کرنے کے لئے تصنیف کی تھی اور اس حال میں ہر صاحب دانش کو معلوم ہے کہ ان کتابوں کے سوائے جنہیں دونوں یعنی بدعتی اور مسلمین حق کلام خدا مانتے تھے، کسی کتاب کی گواہی اس حجت میں منظور نہ ہوگی۔
کارتھیج کی کلیسیا کے قسیس طرطلیاؔن کی گواہی سے اُسی کتاب کی صحت اور اصلیت اور معتبری اور اُس کی مصنفی کا حال صاف معلوم و روشن ہوجاتا ہے ۔وہ مقدس قاعدہ مذکور ہ بالا کے بموجب ہر چند کہ بدعتی مارقیون یا مارسیون (مارسی ان)کی رائے اور حجت مختلفہ کا تذکرہ کرتا تو بھی اُس کے مقابل کلیسیا کا فتویٰ صاف بیا ن کرتا اور یوں فرماتاہے:
’’ایشیائے کوچک کی جماعتیں خو د یوحنا رسول کی سکھائی ہوئی اور تعمیر کی ہوئی ہیں اور انہیں جماعتوں کے اُسقف کی گواہی متسلسل اور متواتر سے کتاب مکاشفہ کی مصنفی بڑے بھاری ثبوت سے یوحنا رسول پر صادق آتی ہے‘‘۔
اُسی زمانے کے بعض اور مشہورمصنف ہیں جن کے کئی مکتوبات موجود ہیں۔ ان میں کلیمنس بڑا مفید اور معتبر گوا ہ اورصاحب خیالات ہے۔چنانچہ علم الہٰیات کے مدرسوں میں جو اُس وقت عمدہ اور افضل اور رونق دار تھا ،وہ مرد اس کی پیشوائی پر مہتمم (اہتمام کرنے والا)ہو گیا تھا اور چونکہ ایسا بھاری عہدہ دار اور صاحب اختیار عبرانیوں کے نا م خط کو پولُس رسول کی طرف حوالہ کرتا ہے او ر مکاشفہ کو یوحنا رسول کی طرف تو یقین قوی اور دلیل قطعی اس امر پر حاصل ہوئی کہ اجماع عامہ کا انفصال و فتویٰ بہر حال مشرقی اور جنوبی جماعتوں کا فتویٰ اس مسئلے کے حق میں مدت سے قائم اور برقرار رہا اور ذرا تَفَحُّص( جستجو۔تلاش)سے معلوم ہوگا کہ کلیمنس کے مکتوبات موجودہ میں بہت سے منقولات عبرانیوں کے خط سے ہیں اور اکثر جب اُس خط کے مضامین سے کچھ نقلی دلیل گزرانتا ہے تو عبارت منقول کے ساتھ مصنف کا نام بھی پیش کرکے کہتا ہے کہ ’’رسول یوں فرماتا ہے ‘‘یا’’ رسول خدا‘‘ یا ’’پولُس رسول‘‘ وغیرہ ۔
اسی طرح مکاشفہ سے بھی وہی مدرس او ر قسیس بعض آیتیں نقل کرتا ہے اور اُس کی مصنفی(لکھاری) کی بابت اُس کی گواہی باقی معلمین مذکور کے ساتھ ملتی ہیں اور اُس رونق دار مدرسے کی پیشوائی میں جو اُس کا قائم مقام اور خلیف تھا اور جس کی زیادہ استعداد بلکہ مجمع علوم ہونے کی تعریف شہر ہِ عالم تھی، یعنی ارجن صاحب کی شہادت اُس خط کی معتبری اور وثاقت اور حقیقی مصنفی پر نہایت بھاری اور موجب خاطر جمعی کی ہے ۔وہ معلم بعض شخصوں کے اشتباہات اور سوالات کا ذکر کر کے کہ آیا عبرانیوں کا کہا ہوا خط خود پولُس کی تصنیفات میں سےہے یا اُس کے رفیقوں میں سے کسی کی تصنیف ہے یعنی کلیمنس رومی یا لوقا انجیلی کی ۔اور کئی عبارتوں سے صاف ظاہر اور واضح کر کے کہ کتنی صدق دلی اور صبوری سےحقیقت حال کی جستجو کرتا تھا، بعد ازاں اپنی تحقیق کا حاصل اور نتیجہ ظاہر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ :
’’ مَیں ایک خاص رسالہ بھی اس مراد سے مہیا اور تیار کرنے پر مستعد ہوں کہ خط عبرانیوں کی مصنفی (لکھاری) صرف پولُس ہی کے لئے ثابت اور متعین کروں ‘‘۔
اور اسی رائے کے بموجب جابجا باقی تصنیفات میں خواہ کلیسیا ئے مسیحی کی تعمیر اور ترقی کے واسطے، خواہ معترضوں کی تردید کے لئے عقائد دینی کا بیان و تشریح کرتا ہے ۔مگر عبرانیوں کےخط کے متفرق بابوں کی شہادتیں نقل کر کے پولُس رسول کی مصنفی پرتاکید و تشدید کرتا ہے کہ گویا جمہور کلیسیا اور بڑی کثرت بدعتیوں اور معترضوں کی اس امر کے اقرار و اعتراف پر متفق ہیں۔اور اسی خط کی تفسیر اور تشریح میں ارجن صاحب کے وعظ و منادی کی کتاب مورخ یوسیبیس(Eusebius) صاحب کے پاس موجود تھی ،جسے صاحب مذکور مسیحی جماعتوں کے حضور مقرری دنوں میں سنایا کرتا تھا۔ جس بات سے دلیل قوی اور راسخ نہ صرف اِس امر پر ہے کہ وہ کتاب باقی کتب مقدسہ کی برابر مسیحی جماعتوں میں پڑھی جاتی تھی، بلکہ اِس پر بھی کہ وہ اِس قدر وزنی اور سندی بھی جانی جاتی تھی کہ واعظ اور مناد اُس کی تحریر اور بیش قیمت مضامین سے عوام و خواص کے لئے مفید نصیحتیں نکالتے تھے۔اور مسیحی کلیسیا کے اس فتوے کے متفق ایک اَور شہادت ارجن صاحب کی اس مراد سے ذکر کے لائق ہے کہ:
’’درحالیکہ بعض مصنف خلاف رائے پر تھے تو بھی متقدمین یعنی جمہور کلیسیا ئے سلف سے یہ فتویٰ تواتر سے چلا آیا کہ مصنف اس خط کا پولُس رسول ہی تھا‘‘۔
ان عقلی اور نقلی دلیلوں سے اصحاب دانش و بینش کو ہماری تقریر کے مطلب کی ذرا فہم اور سمجھ آجائے گی کہ کتنا فرق اور تفاوت ہے، جمہور کلیسیا کے فتوؤں اور تن تنہا مصنفوں کے قیاسوں اور رایوں میں ۔چنانچہ جماعت عامہ کتب سماویہ کی رقابت و محافظت پر مہتمم اور متفوص ہو گئی تھی۔ از آنرو کہ اکثر کتابیں توکُل کلیسیا کے ہاتھ ذمے اور حوالے کی گئی تھیں ،صرف تھوڑی ہی تھیں جو کُل اجماع عامہ کو نہیں ولیکن یا تو مشرقی یا مغربی اطرافوں کی جماعتوں کو سپرد ہوئیں۔انجیل کے اتنے اتنے ابواب سے صرف چھ ہی تھے جو شروع میں تو کم مشہور اور متداول ہوئے تھے، پر چوتھی صدی کی کلیسیا نے بڑی تحقیقات کے بعد اُن کی سندیں کافی اور واجب التسلیم ٹھہرا کر اور اُن کے شاہد بھی معتبر اوراُ ن کا مضمون بھی کتب الہٰی کی کُلیت مضامین کےمتفق پا کر اُس اختیار کے بموجب جسے خداوند مسیح سے لیا تھا ،اُس نے اُن کو یعنی پطرس رسول کا دوسرا خط وغیرہ قانونی کتابوں کی فہرست میں داخل کیا۔
ہمیں اِس طوالت بیان کے سبب معیوب ہونے کا ڈر ہے تو بھی اِس امر پر زور وتاکید کرنا فرض اور لازم تھا ،کیونکہ اس امر کی حقیقت حال سے ناواقف ہونے کے سبب ہزار ہا ناحق شکایتیں اور احتمالات پیدا ہوئے ۔اور افسوس ہے کہ بعض مولوی اس سے قابو پاکر انجیل شریف کی کتابوں کا حال بالکل مُشَوِّس (پریشان کر دینے والا)اور مشتبہ اور بے میزان ومحک اور مخلوط جانتے ہیں کہ گویاکلیسیا کا جہاز ابتدا سے پتوار اور ناخدا اور قطب نما سے بے بہرہ ہو کر مواج دریا پر بڑی لاچاری سے جھوٹی تعلیم کی ہو ا جدھر اُسے پھیرتی ہے، اُدھر پھر جاتا ہے۔چنانچہ سب کچھ اُن کی دانست میں خالی زعم اور مظنہ (گمان۔خیال)اور توہُّم(وہم ۔شک)ہے، ذرا بھی یقین اور خاطر جمعی نہیں ۔ہاں بلکہ وہ متکبر خداوند مبارک کو جو سب باتوں میں کلیسیا کا سر ہے ،مفت مصلحت دینے پر مستعد ہیں کہ یوں یایوں کرنا اُس کی شان کے لائق تر اور مناسب تر تھا اور کہ کرامت کی راہ سے ایسا بندوبست کرنا چاہیئے تھا، جس سے کتب رسولیہ کا کوئی تقلید کرنے والا نہ ہونے پاتا۔
سچ تویہ ہے کہ کتب سماویہ کی تقلید ہو سکتی ہے اور زر قلب زرخالص کی صورت تھوڑی بہت پکڑ سکتا ہے ۔پر تو بھی خدا تعالیٰ ایسا لاچار اور لاعلاج اور بے وسیلہ نہیں کہ انسان کے ظلم و فریب سے عاجز ہوکر اپنی حکمت بے پایاں اور ازلی سلامت بخش تدبیر کو عبث اور ساقط ہونے دے۔چنانچہ اس تعالیٰ نے اپنی پیش بینی اور رعایت سے ایک زندہ گواہ یعنی اجماع عامہ ظاہراً تعینات کیا جس کے وجود کلیہ میں روح القدس کی حضوری اخیر ایام تک قائم و دائم رہے اور اُس کا نور بجھنے نہ پائے۔ حالانکہ بعض مواقع اور جماعتوں میں اُس کی آواز کی خاموشی اور اُس کے نور کی دھندلاہٹ واقع ہوئی بھی ہے اور آیندہ ہو بھی سکتی ہے۔
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جس کسی کلیسیا کے پاس کوئی خط رسولیہ پہنچایا گیا تھا ،اُس نے جماعت اور اُس حلقہ اور علاقہ کے باقی سب جماعت والوں نے اُس خط کی محافظت اور رقابت کو اپنا فرض اور حق جانا ،نہ اپنے خاص فائدے اور ترقی کے لئے، بلکہ اجماع عامہ کے لئے۔ بموجب اُس قول مسیح کے جو مکاشفہ کی کتاب کے باب۲ اور ۳ میں مکرّر سہ کرّر سنائی دیتا ہے’’جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے‘‘۔یہ بھی اُوپر بیان ہو چکا ہے کہ خصوصاً وہ خطوط اُن جماعتوں کے اُسقفوں اور قسیسوں اور معلموں کی امانت اور ضمانت میں محفوظ رہے ،جس سبب سے اُسقفوں کے اسما ئےشریف کی فہرست مسلسل شروع ہی سے بعض عالی قدر جماعتوں میں بڑی خبرداری اور دقت سے صحیح و سلامت رکھی جاتی تھی ۔اور یہ بھی صاف یقین ہے اُن روایتوں کی گواہی سے جو زمان رُسل کے مقارن زمان سے آج تک مشہور ہوتی چلی آئی ہیں اور ہر چاہنے والے صاحب علم کو دستیاب ہو سکتی ہیں کہ دور دور جماعتوں اور اِن مشرف جماعتوں کے درمیان بہت آمدورفت ہوا کرتی تھی ،اُن خطوط رسولیہ کی تادیب و تعلیم سے معمور ہونے کے لئے ،کیونکہ کلیسیا کے تمام بدن کی یگانگت اور خوش اتفاقی کے سبب اور از آنروکہ وہ خداوندمسیح میں خوش مرتب اور محفوظ تھی ۔وہ خزانہ جو جُز کو ملا، سو کُل اجماع کا بھی خزانہ تھا اور کلام الہٰام کاجو کچھ حصہ کسی خاص جماعت کے حوالے میں مخزون ہو رہا ۔اُس کی نگہداشت اور حراست اسی طرح کل کلیسیا کے ذمہ تھی ۔مثلاً ہیگیسیپس نام اول مور خ کلیسیا کا اسی مراد سے برو بحر کی بہت دراز مسافری اور محنت کشی میں کئی برس تک مشغول رہا کہ ہر جماعت کی دستاویزوں خواہ نقلوں، خواہ اصلی سندوں کو بنظر خود دیکھ کر خاطر جمعی اور تسلی پائے۔
ایرینیس صاحب اس طرح کے دلائل بہت قدرو وزن کے جا ن کر کئی بھاری جماعتوں کے اُسقفوں کی فہرست بکمال ترتیب اور سلسلہ بندی سے ہمیں تفویض فرماتے ہیں اور کلام حقیقی کی اُس نگہداشت اور محافظت کا جو اُن کے توسط سے کُل کلیسیا کا عہدہ اور فرض ہے، پورا بیان کرتے ہیں اور وثوق کتب کی اُس کفالت پر بہت تاکید کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب باتیں امور واقعی ہیں ،خیالی نہیں۔ مثلاً اُس کی تیسری کتاب کی تیسری فصل میں مرقوم ہے:
’’اس لئے وہ کلام جسے رسول نے (اپنے خلیفوں کو) سپرد کیا ،تمام کلیسیا میں موجود اور حاضر رہتا ہے۔جو شخص حقیقت حال کی جستجو کی طرف مائل ہے ،اُس پر ملاحظہ کرے ۔ چونکہ ہم اپنے ہی ہم عصروں تک تشریحاً و صراحتاً ناموں کا حساب دے سکتے ہیں، جنہیں رسولوں نے متعدد جماعتوں میں اپنے قائم مقام مقرر کئے اور اُن کےنام بھی جو اُن کے خلیف ہو گئے۔پر جب کہ اِس ہمارے صحیفہ میں سب کلیسیاؤں کے اُسقفوں کے سلاسل(سلسلہ کی جمع۔زنجیریں) اسما کا گننا اور حوالہ قلم کرنا موجب تطویل(لمبا کرنا) ہو گا ۔لہٰذا ایک جماعت کو پسند کرتا ہوں جس کی شرف اور رونق افضل اور سب سے قدیم ہے اور دو رسولوں یعنی پطرس او رپولُس مبارک نے اُس کی بنا بھی ڈالی اور اُسے ربط و نظم کیا۔ انہیں رسولوں نے جو جو خبریں اور ایمان کے عقائد ہمیں سپرد کئے تھے، سو کُل عالم میں منتشر ہوگئے، بذریعہ تسلسل اساقف جو اس زمانہ تک ہوتے چلے آئے ‘‘۔
اُن رومی اُسقفوں میں چوتھا کلیمنس مذکور کو بتاتا ہے جو اول صدی کے اخیر سے پہلے انتقال کر گیا تھا اور اُس کے خط مشہور اور متداول کا تذکرہ کرتا ہے کہ کس طرح رومی جماعت نے اُس اُسقف کے ذریعہ سے جماعت کرنتھس کے پاس شفقت نامہ برادرانہ پہنچایا تھا۔ جس میں وہ اُنہیں اُن کے ذمہ سپرد کی ہوئی تعلیمات یا ددلاتا ہے اوراُنہیں ادا ئے شکراور حمد کی طرف ترغیب دیتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ تاکید سے اُنہیں جتاتا اورسمجھاتا ہے کہ تم ضرور دل وجان سے متوجہ رہو ،پولُس رسول کے اُس خط کی طرف جو تمہارے پاس بھیجا گیا یعنی اہل کرنتھس کے پاس اورا ب تک تمہارے پاس موجود ہے۔پھر وہی مقدس پالِیکارپ(Polycarp) نام سمرنا کے اُسقف کی شہادت پیش کرتا ہے جس نے بہت اشخاص کی جو خداوند مسیح کے ہم عصر اور بچشم خود اُس کے افعال کے ناظرین اور حاضرین اور بگوش خود اُس کے اقوال کے سامعین تھے، رفاقت کی تھی اوراُس کے حق میں یہ فرماتا ہے کہ:
’’میں نے آپ بھی چھوٹی عمر میں اُسے دیکھا اور گواہ ہوں کہ اُس نے وہی خبریں سکھائیں جو رسولوں سے سیکھیں اور جن کا شاہد و معلم اجماع عامہ ہے اور جن کے بغیر کوئی حقیقت نہیں ہے اور اِنہیں باتوں کے ایشیائے کوچک کی سار ی جماعتیں او ر پالیِکارپ(Polycarp) اُسقف کے سب خلیف شاہد ہیں‘‘ ۔
پھر یہ بھی صلاح دیتا ہے اور سوال کرتا ہے ، مارسیون اور باقی بدعتیوں سے جن کی غلط تاویلوں او ر تلبیس(لباس پہنانا۔فریب) حق کو ردّو رفع کرنے کے لئے اپنی اُن کتابوں کو تصنیف کیا تھا کہ :
’’آیا یہ بات فرض و اجب نہ تھی کہ جس کسی امر میں تمہارے اور مسلمین کے درمیان بحث و حجت پیدا ہوتی تھی، تم ا ُن قدیمی جماعتوں کی طرف رجوع لا کر جو رسولوں کی ملاقات اور رفاقت اور وعظ و منادی سے مشرف تھیں، اُنہیں سے جو کچھ ہر امر میں واضح اور روشن اور موجب تیقن و تسلی ہے ،سیکھ لیا کرتے۔ہاں بلکہ اگر شاید رسول کتب الہٰامی ہمارے حوالے کئے بغیر چھوڑ گئے ہوتے، تب بھی کیا نہ چاہیے تھا کہ اُس نظم و ترتیب و قاعدے کی پیروی و اطاعت کرتے جسے رسولوں نے اُنہیں سونپا جنہیں جماعتوں کی نگہداشت سونپی گئی تھی‘‘۔
دیکھو صاحبو کس طرح ہم یہاں کسی احتمالی اور مبہم خبروں کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہم قدم مارتے ہیں دلد لاتی(کیچڑ) اور کانپتی ہوئی زمین پر جہاں کچھ ٹھکانا اور جائے قرار اور ثابت قدمی نہیں ۔پر ہم کتابوں کی محافظت اور برحق و صحیح عقائد دینی کی نگہداشت کی بابت ایسے انتظام اور بندو بست کا بیان کرتے ہیں ،جسےرسولوں نے اُس حل و عقد کے وعدے مذکور پر اور روح القدس کے نزول پر اور اپنے خداوند کی دائمی حضوری پر بھروسا اور آسرا کر کے مقرر فرمایا تھا۔پس ایرینیس صاحب کی اس گواہی میں دو باتیں خاص غوروملاحظہ کے لائق ہیں۔
پہلی بات یہ کہ اُسقف مذکور دین مسیحی کی سب سے عمدہ اور اشرف شہادت پاک مکتوبات کی نقلی شہادت کو بتاتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ بعد نقلی شہادت یعنی مکتوبات کی شہادت کے جماعات رسولیہ (رسولوں کی جماعت)کی وہ شہادت جو زندہ زبان اور تمام اتفاق سےگزرانی گئی ،بڑی مراعات اور التفات کی مستحق بتاتا ہے۔
چنانچہ اِس قسم کی شہادت ایک جماعت کی زبانی تقریر میں پابند اور مقید نہیں ، مگر اُن سب جماعتوں کی گواہیاں اُس میں شمار اور شامل کی گئیں جو رسولوں کی حضوری اور تعلیموں سے مشرف ہوئیں۔بلاشبہ ایک نہایت مضبوط اور پائدار بنیاد اعتقادات کی اُس وقت ضرورت تھی ،جب مارسیون اور والیتینو ؔس اور قسم قسم کے بدعتی عقائد کی تلبیس اور تخریب کرنے کے لئے کتب مقدسہ کو گھٹانا بڑھانا چاہتے تھے۔چنانچہ اِس امر میں مارسیوؔن کی غلطی اور ضلالت پر ایرینؔیس صاحب صاف و صریح شاہد ہیں اور اِس وجہ سے اُسے ملزم ٹھہراتے ہیں کہ مارسیوؔن اور اُن کا فرقہ کلام خدا کے ٹکڑے ٹکڑے اور کاٹنے کی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔چنانچہ بعض اُن میں سے اُسے بالکل غیر منظور اور متروک کرتے ہیں۔ جزاز آنکہ(سوائے اس کے) لوقا کی انجیل اور پولُس رسول کے خطوط کی تصغیر (چھوٹاکرنا)اور تقطیع(ٹکڑے ٹکڑے کرنا) کر کے صرف اُن کتابوں کو برحق مانتے ہیں جو آپ ہی نے بولا اور مقطوع کی ہیں۔ پر ہم جو ہیں اُنہیں چیزوں سے (یعنی اُن مکتوبوں کے ذریعے سے ) جو ہمارے پاس محرُوس (محفوظ۔زیر نگرانی)اور مخزون (خزانہ میں رکھاگیا)ہیں، انہیں قابل تردید اور تکذیب ٹھہرائیں گے۔پر باقی سب فرقہ والے علم دروغ کے نام ہی سے پھولتے ہوئے کتب مقدسہ کو ظاہراً تو مانتے ہیں پر تاویلوں اور فاسد تفصیلوں سے اُن کا مضمو ن اُلٹا کر دیتے ہیں ۔اِن سے اور اِن کی مانند سینکڑوں اور صاف نقلیات قاطع (کاٹنے والا)سے واضح ہے کہ جب کلیسیا کا خزانہ بیش قدر بہت چوروں اور ڈکیتوں کے فریبی منصوبو ں سے سخت خطرے میں پڑا تو اُس کے متعین نگہبان غافل نہ رہے ،بلکہ بڑی چوکسی اور احتیاط سے چوکی پہرے پر قائم و دائم رہے او ر کتابوں کی محافظت اپنی جان کی رکھوالی سے اہم ترین جانتے تھے اور جُز جُز کے کاٹنے والوں اور بگاڑنے والوں کو بر سبیل وفاداری نظر بند کیا کرتے تھے اور کھلم کھلا کلام خداکی اُنہیں منقولات سے اُنہیں دینی عقیدوں کا ثبوت کیا کرتے تھے، جواَب ہماری مجلسوں اور جماعتوں میں مروج ہیں اور اس امر کی شکر گزاری واجب ہے کہ جس وقت بدعتیوں کے متعدد فرقے آپس میں محاربہ (لڑائی۔جنگ)او ر معارضہ اور بہ ہمد گر مقاتلہ (آپس میں خونریزی کرنا)بھی کرتے تھے، تب کلیسیا عامہ کی مضبوطی اور بر قراری بڑھتی چلی جاتی تھی اور ہر ایک اُن فرقوں میں جس جس جُز حقیقت کا مقر ہے، سو اُس اقرار کے ذریعہ سے اجماع عامہ کی شہادت کو تصدیق کرتا ہے اور جس جس جُز کو ایک فرقہ رد یا ترک کرتا ہے، دوسرا فرقہ مضبوطی سے اخذ کرتا ہے اورصادق مانتا ہے۔ تو جس حقیقت خدا پر اجماع عامہ کُلیتاً دال اور شاہد ہیں اُسی پر بدعتی جُزاًجُزاً گواہی دیتے ہیں ۔ اور ان سب امور کا حاصل رب تعالیٰ کا جلال کلیسیا کی ترقی نکلا۔چنانچہ ایرینیس صاحب اُسی کتاب کی بارھویں فصل میں فرماتا ہے:
’’ہماری انجیل کی گواہی کی اتنی توثیق اور قوی تصدیق ہے کہ بدعتی بھی خواہ مخواہ شہادت دیتے ہیں۔ از آنرو کہ وہ ہماری جائے خروج سے چل نکلے اور ہماری مسند اور پشتی پرتکیہ لگا کر ہر ایک ہماری کتابوں سے اپنی اپنی تعلیم کو صحیح اور مستند دکھانا چاہتا ہے۔چنانچہ عبیونی(ابونی) جو انجیل متی کو چھوڑ کر سب انجیلوں کے منکر ہیں ،کسی کو نہیں مانتے ہیں۔ پر اُسی اپنی خاص انجیل کی نقلیات سے قابل تکذیب و تردید ہیں اور مارسیونی بھی جو اتنے جرأت رسیدہ ہیں کہ خالی لوقا کی انجیل کو لائق سمجھتے ہیں اور اُس سے بھی صرف بعض جزؤں کو چُن کر باقی مضمون کو ردّی بتاتے ہیں ۔پر تو بھی اُن جزئیات سے جوباقی چھوڑی گئیں ،صریحاً کافر ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح والینٹنوس کے مرید اور پیرو خالی یوحنا رسول سے اپنے اعتقادات کے دلائل مانگتے ہیں۔ ہر چند کہ اُن کی خاص انجیلی ترازو پر تُل کر اُن کے عقائد اور حقائق، باطل اور واہیات نکلتے ہیں۔
اور وہی مصنف اسی طرح سچے راشدین اور مسلمین کے عقائد کو اجمالاً بیا ن کرتا ہے :
وہ کلیسیا جس کے علم ومعرفت کا تخم کُل عالم میں بویا گیا ہے، رسولوں اور تابعین رُسل سے اُس ایمان کو اپنے ذمہ اور سپردگی میں لیتی چلی آئی جو ایک ہی خدا ئے قادرمطلق پر ہے اور ایک ہی خداوند یسوع مسیح ابن خدا پر۔ جو ہماری نجات وسلامت کے لئے مجسم ہو گیا اور ایک ہی روح القدس پرجس نے نبیوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے اجماع عامہ کی آیندہ رعایت و انتظام و ترقی و تعمیر کا اشتہار اور اظہار کرایا اور ہمارے لئے خداوند مسیح کی آمد و تولد جسمیہ اور اُس کے درد والم پذیر ہونے اور اُس کے مُردوں میں سے برخاست ہونے اور صورت و حقیقت جسمیہ میں آسمان پر صعود کرنے اور اُس کے آیندہ ظہور رونق دار اور جلالی اور نورانی کا ،تا کہ وہ سب اوقات کے سِروں کو آپ ہی میں منتہا کرے اور آدم زاد کے ہر بشر کو از سر نو زندہ کرے اور غیر مرئی باپ تعالیٰ کی مرضی کے بموجب خداوند یسوع مسیح کے روبرو جو ہمارا خداوند اور خدا اور نجات بخش بادشاہ ہے، ہر ایک گھٹنا ٹیکے۔کیا آسمانی کیا خاکی موجودات اور ہر زبان اُس کا اقرار کرے۔چنانچہ وہ سبھوں پر راستی سے عدالت او ر حکم کرے گا اور مُرتد فرشتوں کو اور جتنے بدافعال اور اہل شرارت و کُفر من الناس ہیں، اُن کو آتش دوزخ میں ڈالےگا ۔اِس کے برعکس جو شخص اُس کے احکا م واجب العمل جانتے ہیں اور اس کے رشتہ محبت میں قائم ودائم رہتے ہیں، خواہ اپنی عمر کی ابتدا ہی سے ،خواہ بعد گمراہیوں کے دل وجان سے توبہ کارہوں ،اُنہیں بقا اور لطف اور قربت الہٰی کا انعام عطا فرمایا جائے گا۔
اِس ایمان کو کُل کلیسیا تمام عالم میں منتشر اورمزروع کر کے اِس کوشش و وفاداری اور خوش اتفاقی سے محفوظ کرتی ہے کہ گویا ایک ہی جان اور ایک ہی قالب ہو کر ایک ہی گھر میں رہتی اور ایک ہی زبان سے گویا ہو کر اس کی تعلیم دیتی اور قوم قوم کے مناد وں کو حوالے کرتی ہے۔ لغات اور عبارات تو مختلف ہیں ،پر حوالہ کئے ہوئے معانی اور مضامین متفق ہیں اور کچھ فرق نہیں اُن جماعتوں کے عقائد میں جو گلتی اور ہبیریاکے ملکوں میں اور اطراف مشرق اور لیبیا اور اطراف وسط میں ،مگر جیسا تمام عالم ایک آفتاب سے منور ہوتا ہے اسی طرح رب تعالیٰ کے ایک برحق کلام کے پیغام اور ایلچی گری سے ہر شخص جو شائق او ر طالب حقیقت ہے ،روشن ضمیر اوردانا وبینا ہو جاتا ہے۔اسی مصلحت آمیز شہادت سے پوری مطابقت رکھتا تھا۔
طر طلیان ایرینیس کا ہم عصر جو یوحنارسول کے پیچھے تخمیناً ایک صدی کے تفاوت پر کارتھیج کی جماعت کی پیشوائی اور قسیس تک سرفراز ہو گیا ۔اُس معلم کے بھاری کلمات سنو۔اگر یہ بات قابل اقرار ہے کہ جو سابق تر ہے ،سو صادق تر ہے اور وہی سابق تر ہے، جو ابتدا سے ہے اور ابتدا سے وہی بات ہے جو رسولوں سے ہے۔ تو اس بات کا بھی مقر اور قائل ہونا چاہیئے کہ جو کچھ جماعات رسولیہ میں حریم اور نقص و خلل سے مبرا ومحفوظ ہو رہا ،وہی بے شک رسولی سند اور واجب التسلیم ہے ۔دیکھو کیسا دودھ پولُس رسول نے کرنتھس کی جماعت کو پلایا اور سخت تنبیہ اور سرزنش سے کس قانون اور قاعدے کی طرف اہل گلتیہ کو رجوع کرایا ۔اُس پر بھی لحاظ کرو جو فلپی اورتھسلنیکی اور افسس کی جماعتوں میں پڑھا جاتا ہے اور دریافت کرو کہ رومیوں کو جو ہمارے قریب ترین وطن ہے،کون سی خوشخبری حوالہ کی گئی، جس پر وہاں کے مریدوں نے گویا اپنی شہادت کے خون سے مہُر چھپوائی اور اُس کی تصدیق کی ۔
علاوہ براں یوحنا کی تعمیر کی ہوئی جماعتوں کی گواہی مشہو ر ہے ،کیونکہ اگرچہ مارسیون اُس رسول کے مکاشفات سندی اور معتبر نہ جانے تو بھی اُن جماعتوں کے اُسقفوں کا سلسلہ متواتر یوحنا سے شروع ہو کر چلا آیا ہے ،جیسا چشمے سے نہروں کا درود(رحمت، تحسین وآفرین) ہے۔اور اسی طرح باقی سب انجیلوں کی وثاقت و معتبری اور استناد پختہ اور ثابت ہوتی ہے۔ پس میری تقریر یہ ہے کہ نہ صرف جماعت رسولیہ بلکہ جتنی جتنی جماعتیں اُن کی پاک رفاقت میں وابستہ اور پیوستہ ہو گئیں، سب کی سب وہی لوقا کی انجیل جسے ہم محفوظ رکھتے ہیں جس دن سے وہ اولاً مروج ہونے لگی، صحیح اور حقیقی جانتے ہیں اور انہیں جماعتوں کی شہادت اور قبالہ سے باقی اناجیل جنہیں ہم بہ تواتر مسلسل ان کے قانون اور روش رواج معمولی کے بموجب قبول کر رہے ہیں، مستند اور ثقہ اور اپنی اصل صحت میں محفوظ ٹھہرتی ہیں،اشارہ ہے متی اور یوحنا کی انجیلوں سے او ر مرقس سے ۔ہر چند کہ وہ انجیل جومرقس کی کہلاتی ہے تحقیق پطرس کی تصنیف بتائی جائے، جس رسول کا مترجم مرقس انجیلی تھا اور اسی طرح وہ انجیل جولوقا انجیلی نے تالیف کی پولُس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔از آنرو کہ واجباً شیخ اس کتاب کا مصنف معلوم ہوتا ہے جسے مریدوں نے مروج کیا ہے ،تو مارسیون سے یہ سوال کرنا حق ہے کہ تُو کیا چاہتا اور تیرا کیا مطلب ہے جو تُو باقی انجیلوں کو ترک کر کے صرف انجیل لوقا کو زور سے پکڑتا ہے ۔گویا کہ اجماع عامہ نے باقی کتابوں کو شروع ہی سے منظور و محفوظ نہ کیا ۔انہیں بُرہانوں سے انجیلوں کی تو ثیق کے ثبوت کو جماعت مسیحی بدعتیوں اور معترضوں کے مقابل صاف دکھاتے ہیں۔چنانچہ قرنیہ اوقات میں وہ جوصادق اور حقیقی اور کھڑا ہے ،کاذب اور قلبی سے مقدم ہے اور جماعتوں کی شہادت اور ذمہ داری تعلیمات رسولیہ کامسند اور سہارا ہے ۔از آنروکہ یہ بات بداہت عقل کے موافق ہے کہ مدعات حقیقی قلبی پر سبقت لے جائیں اور حقیقت کا مخرج کون ،مگر وہ جنہوں نے اوائل میں اُسے حوالہ کیا۔
پس اگر حق و باطل اور حقیقی اور قلبی کی تمیز نظریات اور عقلیات پر موقوف ہوتی ،نہ اعتقادات اور عملیات پر۔تو یقینی امید ہو سکتی کہ مولوی صاحبان ان قدیمی معتبر معلموں اور قسیسوں کی تصنیفات کو طے کرکے اوراُن ہزار ہاوزنی کلام خدا کی آیتوں پر لحاظ کر کے جو اُن کے رسالوں میں چار انجیلوں سے منقول ہو گئیں ، اپنی واہی بحثوں اور باطل حجتوں سے پرہیز کر کے اُس مصلوب خداوند مسیح کے قدموں پر جو عالم کا خالق اور بادشاہ اور منجی الخاطبین اور منصف معین ہے ،قربان ہو جاتے اور اُس ولادت ثانی سے بہرہ ور ہونےکا سوال کرتے ،جس کے بدون کوئی بشر خدا کو ہر گز نہ دیکھے گا ۔بہر حال اِ س امر کے مقر ہوتے کہ بمشکل زمان سلف کی ایک بھی کتاب نظر آتی ہے جو اتنی کافی ووافی سندوں اور راسخ دلیلوں سے صحیح اور معتبر ثابت کی گئی ہے ۔
اتنا یقین اور منصوص ہے کہ خواہ ہم مشرقی جماعتوں ،خواہ مغربی ،خوا ہ جنوبی سے سوال کریں کہ متی اور یوحنا اور مرقس اور لوقا کون اور کیسے اور مسیحی کلیسیا کے بیچ کس قدر اور رُتبہ کے حساب کئے جاتے ہیں تو مشرقی کلیسیا سے یوسطین شہید اور پیپیاس اور جنوبی سے کلیمنس اور طرطلیان اور مغربی سے ہیپا لیتس اور ایرینیس متفق گواہی دیتے ہیں ۔مثلاً نصف صدی بعد ازانتقال یوحنا یوسطین نے چار انجیلوں کے بیان میں کہا کہ:
’’ یہی وہ چار روایتیں رسولوں کی ہیں جنہیں عبادت کے وقت مسیحی لوگ اپنی مجلسوں میں ظاہراً پڑھا کرتے ہیں۔ جس طرح کتب انبیا اور اولیا مقدس کی تلاوت کرتے ہیں‘‘ ۔
اور جس کسی صاحب کی خواہش ہو تو بیک نظر اُس عمدہ معلم کی اُن تصنیفات پر جو اَب موجود ہیں، لحاظ کرے۔ عنقریب ہے کہ وہ ہر ایک انجیل کے ہر ایک باب میں سے دو ایک آیتیں نقل کرتا اور ہر ایک آیت کا ٹھیک وہی مضمون بتاتا اور سکھاتا ہے جواَب زمان سلف کے پس ماندہ نسخوں میں ، مثلاً کوہ سینا کے کہلائے ہوئے نسخے میں پایا جاتا ہے ۔اور جب کہ یہ سب آیتیں یونانی زبان کی خوش وضع اورفصاحت آمیز عبارتوں میں منقول ہیں، صرف تین باقی انجیلوں سے نہیں بلکہ متی کی انجیل سے بھی ۔تو ثابت اوریقین ہے کہ بالفرض متی کی انجیل کا اصل متن عبرانی تھا پر معاً یونانی بھی، اُس رسول کے جیتے جاگتے اور اُس کی ساخت و صنعت سے مہیا اور موجود تھا ۔مہیمنی اور محافظت سپرد کی گئی تھی ،مُہروثاقت و قبولیت اُس کے مضمون پر چھپوائی تھی۔چنانچہ یہ بات یعنی ایک تصنیف کا دونوں زبانوں میں مہیا ہونا یعنی یونانی اور عبرانی زبانوں میں مشکل یا مستحیل(بدلا ہوا،محال) نہ تھا اور اُس زمانے میں دونوں زبانوں کے بولنے والے ،نہ تھوڑے تھے بلکہ کروڑ ہا عوام اور خواص یعنی اکثر یہود عالم و فاضل و شریف بھی اور مہاجن و ساہو کار و صرّاف وغیرہ بھی ،دونوں لغتوں (زبانوں)کو برابر سہولت سے بولتے تھے اور کہیں کوئی روایت ضد نہیں پائی جاتی ۔اس کلیسیا کی روایت اور اعتبار اور زعم عامہ سے کہ متی رسول کی کہی ہوئی انجیل خود رسول ہی کے سامنے دونوں زبانوں میں مولف اور حوالہ قلم ہوگئی۔
اس کے برعکس کیا ہی بے ہودہ اور تعصب آمیز با ت ہے جو کوئی کہے کہ ہر چند وہ رسول مختلف لغت بولنے کے انعام سے بتوفیق روح القدس مستفاد(فائدہ حاصل کیا ہوا) ہو گیا تو بھی اُس نے اپنی خاص انجیل اُن دو عمدہ اور مشہور زبانوں میں قلم بند کرنے کی وسعت اور استعداد نہیں پائی اور یہ امر قابل غور ولحاظ ہے کہ نہ صرف دوسری صدی کے وسط کے مصنفوں کی کتب موجودہ میں بلکہ اُس کے شروع ہی میں ، مثلاً مقدس شہید اگنیشیس کے زمانے میں ہاں پہلی ہی صدی کے اخیر میں مثلاً کلیمنس اُسقف روم کے خطوط میں متی رسول کی انجیل یونانی سے کئی منقولات ہیں۔ پھر یو سیبیس مورخ کی روایتوں سے یقین ہے کہ متی رسو ل کے سیر و سفر اور وعظ و منادی ، قوم اور لغت عبرانی کی حدود اور احاطے کے اندر مقید نہ تھی ۔چنانچہ وہ راوی معروف اپنی تواریخ کی کتاب ۳ کی فصل ۲۴ میں یوں فرماتا ہے:
’’متی پہلے ہی پہل عبرانیوں کو وعظ ومنادی کر کے جب غیر لوگوں کے پاس کوچ کرنے والا تھا ،اپنی خاص انجیل کو وطنی زبان میں حوالہ قلم کر کے ترک کر گیا تھا ۔تا کہ اُس کی حضوری فی نفسہ کا نقص و قصور اُس دستاویز کے ذریعہ سے پورا ہو جائے ‘‘۔
پس جب اس موضع سے صاف معلوم ہے کہ رسول مبارک غیر قوموں کے بیچ انجیل کی ایلچی گری اور منادی سے متضمن کیا گیا تو خیال واجب اور قرین قیاس ہے کہ وہاں بھی اپنے نومریدوں کے لئے اُس منادی کامضمون تقریری یونانی زبان میں تحریر کرایا۔دیکھو اصحاب عقل و عدل کے لئے اور اُن کے لئے جو اِس حقیقت کے قائل ہیں کہ اصل مضمون حرف اور زبان سے ترجیح رکھتا ہے، کیا ہی عمدہ اور پختہ اطمینان اور تیقن متی رسول کی اصل صحت کے حق میں اِس سے حاصل ہو سکتا ہے کہ اول صدی کے معلمین مسیحی کی تصنیفات یونانی میں جتنے منقولات اِس انجیل سے طلب کئے جاتے ہیں ،تو وہ چوتھی اور پانچویں صدی کے نسخوں سے جواَب موجود ہیں ،پور ی برابری اور اتفاق رکھتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں پر دوسری صدی میں جووہ انجیل مع باقی اناجیل کے سریانی اور لاطینی زبانوں میں ترجمہ کی گئی،اُ ن ترجموں سے جتنے آثار اب بھی بکثرت موجود ہیں ، یعنی اُن میں سے جتنی آیات رسائل طرطلیان اور ایرینؔیس اور ہیلاریؔ اور رسائل مصنفین سُریانی میں صاف منقول ہیں، اُن کے مضمون میں کچھ نقص اور خلل اور اختلاف نہیں آتا ۔خواہ اُن آیتوں کا مطلب بعید اور بیرون از مدعات بحث ہو ۔خواہ اُن مدعات سے ہو جو بحث و مناظرہ میں مفید اور مطلوب ہوں ۔منشا اور غایت کلام دونوں حالوں میں جیسا اب نظر آتاہے ،ویسا ہی تب بھی تھا۔
باب چہار دہم
د ربیان بعض اقسام و انواع الہٰام ربّانی کہ بر مصنفان کتب مقدسہ یعنی رُسل وانبیا بمقتضائے مضامین و مقاصد احکام واقوال الہٰی نازل شد ند
ہزا ر شکر خدا تعالیٰ کی حکمت اور رعایت غیر متناہی کا جس نے اپنی متعالی رضا و قضا کے بموجب اجماع مومنین کے لئے ایک لطف آمیز اور تسلی بخش بندو بست مقرر کیا ۔جس سے اُ س کے اوصاف جلالی وجمالی کے تذکرے اور اُس کی تدبیرون اور مشورتوں اور وعدہ وعید کی صحیح اور پکی خبریں اور معرفت و فہمید تا اخیر الایام اُس اجماع مقدس کے تصرف وحفاظت میں رہیں۔اور اِس بندوبست میں دو بھاری تعینات اور مظاہر حکمت ہیں۔ ایک اُن میں مشہور یعنی یہ کہ نبیوں اور رسولوں کا پیغام تقریری خدا کے روح القدس کی عین وحی سے نکلا ۔ آنطور کہ وہ متکلم قول خدا کے قائل تھے اور اُن کے افعال نبویہ خاص قدرت الہٰی سے وقوع میں آئے۔اور دوسری یہ کہ اُن اقوال کے مُخبر اور حافظ اور اُن افعال کے راوی اور احوال کے کاتب آپ بھی روح القدس کے الہٰام سے بہرہ ور تھے اور یہ بات موجب شکر فراوان ہے کہ سب تجربہ کاروں اور جہاں دید وں کو معلوم ہے کہ خوارق عادت کے حق میں معتبر گواہوں کی شہادت بھی احتمالی اور مشتبہ ہے۔ از بس کہ بمشکل ایک بھی شیخ اور پیر ومرشد اور صاحب زہد و فقر و ریاضت شہرہِ عالم اور رونق دار ہو گیا ۔مگر اُس کے مریدوں اور اصحابوں نے ہزار ہا معجزات اور خوارق عادات بڑے مبالغہ سے ا ُس کی طرف حمل ومنسوب کئے ،بلکہ اتنے کرامات اور معجزات جتنے حضرت موسیٰ اور خداوند یسوع مسیح سے وقوع اور ظہور میں آئے ۔صرف ایک معجزہ خداوند مسیح کا مشہور ہے جو سرّ عجائب و غرائب تھا ۔جسے شاید کسی نہ کسی بشر کی طرف ہر گز منسوب نہیں کیا کہ آپ ہی نے اپنی جان دے کر اُس کو پھر لے لیا تو کچھ چارہ اس سے نہیں کہ اصحاب ذہن و عقل ہر صورت خوارق عادت کو احتمالی اور مبہم جانیں اور اس طرح کی سمعیات ماضیہ کو منظور نہ کریں۔ہاں اگر چہ سلسلہ متواتر گواہیوں کا ایسا ہو کہ اس میں کہیں سے کچھ انقطاع نہ ہو ۔ہاں اگر اُن کی قدرو منزلت ایسی ہو جیسا مصنف استفسار نے دعویٰ کیا ہے کہ سمعیات کے ثبوت کے فن عظیم الشان میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں دانا لوگ ہمارے یہا ں ایسے گزرے کہ اُن کی وثاقت اور اُن کے اُس فن کی مہارت سے اُن لوگوں کا کتا بوں کا لکھنا ایسا ثابت ہے ،جیسا اُن کا ہونا اور ایسا بھی ہو کہ ہزار ہا روایات متصلہ مرفوعہ (15) صحیحہ وغیر ہ ہوں۔تب بھی ایسی سمعیات پر اعتقاد کرنے سے عذر کرتے ہیں ۔اس لئے اہل دین و ایمان کے لئے خدا تعالیٰ سے یہ بندو بست مقرر و متعین تھا کہ انبیائے خدا قدرت الہٰی سے معجزات فعلی اور قولی دکھائیں اور صرف یہ نہیں بلکہ اُن معجزوں کی تحریری خبریں اور تذکرے ایسے ثقہ گواہوں سے دیئے جائیں جن میں روح خدا نے تحلّل اور حلول فرمایا تھا۔چنانچہ روح الہٰام کی توفیق سے رسول اور انجیل خداوند مسیح کے مردوں میں سے اُٹھنے اور اُس کے باقی معجزات پر شاہد ہیں۔اور وہ اپنے اُس الہٰام اور توفیق الہٰی کو آپ بھی معجزات سے مبر ہن اور مبین کر سکے ۔
(15) ۔لفظ ’’مَرفوُع‘‘ عربی اسم صفت ہے جس کے معنی ہیں’’ رفع کیا گیا،اُٹھایا گیا‘‘۔یہ لفظ جب اسم مونث کے طور پراستعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے ’’وہ حدیث جس کے راویوں کا سلسلہ رسول اکرم ﷺتک پہنچے۔اسی طرح خداوند مسیح سے متعلق روایات لکھنے والے راویوں کا سلسلہ خداوندمسیح تک پہنچے۔
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ محمدصاحب میں کون سی اس موافق قدرت الہٰی تھی کہ اصحاب کو اپنے پاس بلوا کر شیاطین کو نکالنے اور مُردوں کو جلانے کا اختیار اور مقدور آپ ہی سے افاضات(افاضہ کی جمع،فیض پہنچانا) کرے اور انصار پر پھونک کر کہہ سکے ،روح القدس کو تم لے لو ،جس کے محمدصاحب آپ بھی( سور ہ مائدہ آیت ۱۱۱ ) میں قائل اور معترف ہیں ’’ وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ‘‘۔ پس جب خداوند مسیح کے معجزات کے شاہد حال اور راویان محمد صاحب کے اقرا رکے بموجب مورد وحی ٹھہرے اور اُن شاہدوں سے دو خاص ا نجیلی اور دو حواریین کے اصحاب تھے ،تو کون صاحب عد ل و دانش قطع نظر از ثبوت ایسا تصور بھی کر سکتا ہے کہ محمدصاحب کے اصحاب یا تابعین اصحاب یا اصحاب کے تبع تابعین کی گواہی حواریین وحی پذیر کی گواہی کے ساتھ ملائے جانے کے لائق ہے۔
صاحبو اگر شاید آپ حواریین کے صاف صحیح دعویٰ اور پاک نوشتوں کی تقریر اور کُل اجماع مومنین کی شہادت متفقہ کو قابل اور واجب التسلیم نہیں جانتے بہر حال اپنے نبی کے کلام کو مشتبہ نہ جانو اور جو خداوند مسیح کے اصحاب ہونے کے درجے اور رُتبے سے روح القدس کی وحی سے مشرف ہو گئے تو اُس کے معجزات کے معتبر اور ثقہ گوا ہ کون اُن سے بڑھ کر ہو سکتے تھے۔ ہر چند کہ مؤلف استفسار جاہلوں کی آنکھ میں خاک ڈالنے کے لئے اور عین بے حیائی سے یہ بات کہنے کی جرأت کرتا ہے کہ مؤلف اناجیل سب مجہول الحال تھے، معلوم نہیں کہ کب اور کون اور کیسے تھے۔علاوہ براں میں ان معترضوں سے یہ عرض کرتا ہوں کہ بر تقدیر کہ وہ مؤلف اناجیل اور خداوند مسیح کے فعلی اور قولی معجزات کے راوی اور ذاکر نہ الہٰام الہٰی سے حقیقت حال کو بیان کرتے ،بلکہ اُس کے برعکس حق و باطل کی تلبیس سے مُزوِّر(جھوٹا۔دروغ گو) اور قلبی باتیں حوالہ قلم کرتے تو کلیسیائے عامہ نبیوں اور حواریوں کی بنیاد پر سے اُٹھ کر اوراپنی حقیقی جڑ سے اُکھڑ کر کون دوسری بنا پر قائم اور مبنی ہو کر ایسی بر قرار اور ثابت قدم رہی، بلکہ ہر صدی اور خصوصاً اِس انیسویں (۱۹)صدی میں بڑی ترقی اور تحصیل زیادہ سے رونق دار اور مستفیض ہو گئی ۔آنقدر کہ صاف معلوم وروشن ہے کہ خداوند مسیح کی کلیسیا ایک ایسا درخت ہے جو قابل زوال او ر بڑھاپے اور پژ مردگی کے نہیں، بلکہ اُس کی شاخیں اُس قسم کی ہیں ،جن کی حضرت داؤد (زبور ۹۲ )میں تعریف کرتا ہے’’جو خداوند کے گھر میں لگائے گئے ہیں وہ ہمارے خدا کی بارگاہوں میں سر سبز ہوں گے ۔ وہ بڑھاپے میں بھی برو مند ہوں گے۔وہ ترو تازہ اور سرسبز رہیں گے تاکہ واضح کریں کہ خداوند راست ہے۔وہی میری چٹان ہے اور اُس میں ناراستی نہیں‘‘(زبور۱۳:۹۲۔۱۵)۔
تو اے صاحبو عرض و سوال اس مصنف کا یہ ہے کہ یہ اجماع مومنین کی نوجوانی اور رطوبت دائمی اور ترو تازگی کی اُمید و امکان کس وجہ سے اور کہاں سے ہو سکتی تھی ۔غیر از آنکہ وہ اصل بیخ وبنیاد جس پر کلیسیا عامہ نے مبنی ہو کر مضبوط قرار پکڑا ،وہی بیخ (جڑ) ہے جس پرانبیا اور رسولوں نے دعویٰ کیا کہ و ہ روح خدا کے الہٰام سے معمور اور مملو تھے۔ تا آنقدر کہ اُن کے افعال رسالت و نبوت اُسی روح خدا سے قدرت پذیر تھے اور اُن کی گواہیاں خداوند یسو ع مسیح کے معجزات پر خواہ تقریر ی ،خواہ تحریری دونوں اُسی روح کے الہٰام سے مالا مال و موفور(وافر کیا گیا۔بہ افراط) تھیں ۔
پھر اِسی الہٰا م روحی توفیق سے اور رب تعالیٰ کی تدابیر اور خیالات اُنہیں مفوض (سپرد کرنے والا)ہونے کے سبب ہر گاہ(ہرجگہ) کہ اُن رسولوں نے عہد عتیق کے اصل مکتوبات سے بعض جملوں یا آیتوں کو نقل کیا ۔بہ علّت ثبوت اُس وفق و مطابقت کے جو دونوں عہدوں کو جوڑ کر ملاتی ہے، تو اُن جملوں اور آیتوں کو گاہ گاہ (کسی کسی وقت)ہفتادیونانی مترجموں کے ترجموں کے مطابق منقول کیا اور گاہ گاہ آپ ہی اصحاب الہٰا م ہو کر زمان سابق کے اصحاب الہٰام کے رازروں اور رمزوں سے ملے ہوئے مضامین اور ادراکات مستورہ (پردہ نشین دریافت کرنا)اور صادقہ نکالے، جیسے غیر الہٰاموں کو مہارت اور فراست عامہ سے ہر گز حاصل نہ ہو سکے۔ بموجب اس قول پو لُس رسول کے ’’اورنبیوں کی روحیں نبیوں کے تابع ہیں ‘‘ (۱۔کرنتھیوں۳۲:۱۴) اور اس کے موافق ایک قول پطرس رسول کا بھی ہے ،اس کے پہلے خط میں یو ں لکھا ہے’’ اُن پر یہ ظاہِر کِیا گیا کہ وہ نہ اپنی بلکہ تمہاری خِدمت کے لِئے یہ باتیں کہا کرتے تھے جِن کی خبر اب تُم کو اُن کی معرفت مِلی جِنہوں نے رُوحُ القُدس کے وسیلہ سے جو آسمان پر سے بھیجا گیا تُم کو خُوشخبری دی اور فرِشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مُشتاق ہیں ‘‘(۱۔پطرس۱۲:۱)۔
چنانچہ جب انبیا ئے عتیق اور انبیائے جدید یعنی حواریین کو کلام خدا کا تفویض کرنے والاایک ہی روح خدا تھا تو نہ صرف واجبی گمان ہے ،بلکہ بالبداہت عقل اور بیسیوں (بہت زیادہ)نقلیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اوقات سلف کے کلمات الہٰی زمان خلف کے ساحبان اُولو الالہٰام (انوکھی بات جوخداوند کی طرف سے ہو)کو عام مفسروں کی نسبت نہایت کا مل تر اور عالی تر طور پر روشن اور مبین ہوئے، اُن کے پوشیدہ معانی مفہوم و معروف اور اُن جملوں او ر آیتوں کو ہفتادی ترجموں سے نقل کرنے میں بجائے ایک لفظ یا حرف کے دوسرا لفظ یا حرف گاہ گاہ داخل کرنا اُن کے حق و اختیار سے بیرون نہ تھا۔ اس طرح کہ معنی اور مضمون میں ذرا بھی خلل نہیں آیا تاکہ اُن سبھوں کو تادیب اور چشم نمائی ہو جو حرف اور ظاہر معنی کو باطن پر مقدم جانتے ہیں ۔مثلاً عاموس نبی کی ایک آیت مشہور میں قول خدا ہے ’’مَیں تم کو دمشق سے بھی آگے اسیری میں بھیجوں گا‘‘(عاموس۲۷:۵)۔اس آیت کو ستفنس اول شہید نے یوں منقول کیا’’پس مَیں تمہیں بابل کے پرے لے جا کر بساؤنگا‘‘ (اعمال۴۳:۷)۔ دونوں باتوں کے معنی بر حق تھے۔ از آنرو کہ بنی اسرائیل کی اسیری اور جلاوطنی د رائے دمشق بھی اور درائے بابل بھی تھی ،فرق اتنا ہے کہ حضرت ستفنس اُس اسیری کی کیفیت حال سے واقف ہوکر بعد ا ز وقوع امورات مضمون اور منشا اور مدار کلام تو بچاتا، مگر حرف کو بدلتا ہے۔تو بھی اسے صاحبو ایسا نہ جانو کہ خداوند مسیح کے مرید وبندگان حرف ولفظ کی اہانت اور حقارت کرتے ہیں۔ ہم علم تصوف والوں کی مانند نہیں ہیں ۔پر اصول اعتقادیہ میں سے ایک یہ ہے کہ نہ حرف مضمون کی پر مضمون حرف کی علت ہے۔حرف ولفظ کتنے ہی بیش قیمت اور منظور نظر کیوں نہ ہوں تو بھی بہ نسبت مضمون کے وہ کم قدر ہیں۔ چنانچہ خداوند نے فرمایا ’’زندہ کرنے والی تو روح ہے۔جسم سے کچھ فائدہ نہیں ۔جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں ‘‘(یوحنا۶۳:۶)۔
خدا تعالی آپ لوگوں کو اپنی روح کی تنویر کی فراوانی سے مملو کرے تو یہ باتیں آفتاب نیم روز سے زیادہ فاش و کشف ہوں گی ،نہیں تو ظاہر پرستی یعنی حرف و ظاہر پرستی کے ظلم سے جا ن خلاص کرنی نہایت مشکل بات ہے۔تب آپ کی فہم و سمجھ میں حضرت موسیٰ کی وہ تقریر آجائے گی اور خاطر نشین ہو گی کہ انسان ہر ایک قول و کلام سے ،نہ ہر لفظ اور حرف سے’’بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے‘‘(استثنا۳:۸؛متی۴:۴)۔ انہیں قواعد مفہومہ بالا کے متفق ایک اَور امر لائق غورو تقریر ہے کہ کتب مقدسہ کے مصنف جس الہٰام پر قابض اور قادر تھے، وہ ایک قسم کا نہیں بلکہ کئی انواع و اقسام کا تھا۔اقسام کے فرق سے مراتب اور درجات کا فرق مراد نہیں ۔الہٰام الہٰی میں درجوں اور رُتبوں کا فرق درج کرنے سے عذر ہے۔چونکہ پولُس رسول نے صاف ارشاد فرمایا ہے’’ ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہٰام سے ہے تعلِیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راستبازی میں تربِیت کرنے کے لِئے فا ئِدہ مند بھی ہے۔تاکہ مَردِ خُدا کامِل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لِئے بِالکُل تیّار ہو جائے ‘‘(۲۔تیمتھیس۱۷،۱۶:۳)۔اگر کوئی شخص مراتب اور مدارج الہٰا م کا قائل ہو تو ہم اس بات کو موجب بحث شمار نہیں کرتے اور نہ ہم مصنف استفسار اوراُس کے پیروؤں کے ساتھ اُن کے اِس دعوے کے حق میں کہ ہمارا فرقان بلفظ کلام خدا ہے، بحث کرنے کا کچھ خیال کرتے ہیں ۔کیونکہ اُس بحث کے انفصال پر ایک اَور بحث کا انفصال(فیصلہ ہونا طے پانا،جُدا ہونا) مقدم ہے اور وہ بہت زیادہ قدر کی بحث ہے، یعنی آیا محمدصاحب کی رسالت از جانب خدائے برحق اور صادق تھی یا نہیں ۔ اور نہ ہم آپ لوگوں سے سوال کرنے کی فکر کرتے ہیں کہ کسی کلام تحریری کے کلام خدا ہونے کے لئے آپ کون سی شرطوں اور علامتوں کو لازم اور ضروری جانتے ہیں ۔اِس اَمر میں روح خدا کے وزیر و مشیر ہونے پر کون آدم زاد دعوےدار یا اپنے ایجاد و ترتیب کئے ہوئے قوانین کا مقتضی ہو سکتا ہے۔ پر اتنا صاف و واضح ہے ہر شخص پر جو بنظر خود کلام خدا کی وضع او ر ترتیب و ترکیب پر غور و التفات کرے کہ الہٰام خدا کی کئی صورتیں اور انواع ہیں اور روح کی وہ خاص توفیق جو نبیوں اور رسولوں کو عطا کی گئی، کئی سبیلوں(سبیل کی جمع،صورت،تدبیر) پر تھی ۔مثلاً بعض وقت خدا کے حضور یہ منظور اور پسندیدہ تھا کہ بر سبیل توریخ کلیسیا کے احوال ماضیہ(گزشتہ) یا مملکات(بادشاہت) اینجہانی کے امور واقعیہ اور ماجرے کے سمعیات (سن کی قوت)جن سے اور جس قدر تک کلیسیا کا نفع یامضرت (نقصان)ہو سکتی تھی، نبیوں کی معرفت سنائی اور سمجھائی جائیں ۔ تو اُن سمعیات اورروایات کو کلام الہٰی میں مندرج کرنا روح خدا کو مناسب اور مفید معلوم ہو ااور واجباً و لازماً اصحاب الہٰام کو اتنی توفیق عنایت اور افاضت ہوئی ، جس سے و ہ مؤلف کتب الہٰامی درباب واقعات اور تعلیمات کے ہر غلط اور خطا سے خواہ قصداً ہو ،خواہ سہواً بچ جائیں۔ تا آنقدر کہ اِس اَمر میں اصل متن کی زینہار (زِنہار=ہرگز ۔خبردار)اور حمایت پوری ہو ۔
پھر اُس اصل متن کی محافظت خداوند مسیح نے طریقہ مذکورہ بالا کے بموجب اولاً اجماع یہود کو اور بعد تردید اور متروکیت یہود اجماع عامہ مومنین کو تفویض فرمائی۔اس قسم کی کتب الہٰامیہ میں وہ کتابیں جو یشوع اور قاضیوں (قضاۃ) کی کہلاتی ہیں اور حضرت سموئیل اور سلاطین کی کتب اور وہ جسے روایات کہتے ہیں ،شامل ہیں ۔ بعض علما ئے یہود اور غیر یہود نے ان کتابوں کو تورایخ اور روایات نبویہ کی کتاب کہا ہے، صرف اس لئے نہیں کہ افعال واعمال انبیا اور تابعین انبیا کے تذکرے اور بیانات مختلفہ اُن میں مندرج اور محفوظ ہوئے اور نہ صرف اس لئے کہ باعتبار اُس خبر مشہود کے جو اُمت یہود کے اوائل سے ہوتی چلی آئی ہے۔ مصنف اُن کتابوں کے نبی ہی تھے ،بلکہ اس لئے روایات انبیا کہلاتی ہیں کہ اُن میں خدا کی ملکوت موعود اور اُس قوم مختار و مخصوص کے جو عہد و میثاق خدا کے وارث و حق دار تھے ،کیفیت احوال و واقعات کا بیان ہوتا ہے اور بالاختصاص اُنہیں احوالوں کی خبر ملتی ہے جن کی عاقبت یقینی اور نتیجہ اور حاصل حقیقی خدا کے لطف وفضل آمیز تدبیرون کی کشف اور صلح و سلامت کی خوشخبری کا ہر ملک میں اشتہار جاری ہونا تھا ۔
چنانچہ ان کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود بغض و بغاوت یہود کے اور غیر قوموں کے بیچ جو اہل خلاف اور کینہ ور غنیم تھے ،اُن کی روک ٹوک اور جورو جبر کے باوجود نہ تو خدا تعالیٰ کا قول ٹل سکتا تھا، نہ اُس کی عجیب دستکاریاں رک سکتی تھیں۔پر اُس کی قدیمی مشورتیں اپنے حد ونشان متعین تک بڑھتی بڑھتی بالغ ہوئیں۔تو روح القدس کی طرف سے وہ حکمت اور بینائی اور تمیز روحانی نبیوں کو نصیب ہوئی جس کے ذریعہ سے حقیقت ناموں اور روایات متعددہ سے صرف اتنوں کو علیٰحدہ کر کے کتاب مقدس کو تالیف کریں جو ملکوت اللہ کی رونق و بلاغت رسانی میں وزنی اور بیش قدر تھیں اور جن پر اُس ملکوت کی ترقی کی تاخیر یا تعجیل(جلدی) منحصر تھی اور اُسی الہٰام کے حواصل وفوائد میں یہ فائد ہ بھی شامل تھا۔
صرف یہی نہیں کہ اُن روایات نبویہ میں کوئی حکایت کا ذبہ و فاسدہ درج نہ ہوئی، بلکہ سبھی مندرجات بر حق اور اعتقاد اور تسلیم کے لائق تھے۔ پر یہ بھی کہ اُن بیانات میں نہ فضولی، نہ تخفیف و انقطاع ضروریات ،نہ اختصار ،نہ طوالت کی زیادتی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کی راہ و روش اور نقش قدم اور اُس کے افعال ومعجزات اور رضا و قضا اور مشورتوں کو اہل دانش و تمیز کے رُوبرُو دکھانے کے واسطے جتنے جتنے واقعات کے بیانات کافی اور وافی تھے، اتنے اتنے واقعات اِن تالیفات انبیا میں مجتمع اور مندرج ہوگئے ۔تو جو معجزات ان کتابوں میں مذکور ہوتے ہیں ، نہ اُنہیں مجرد اور علیٰحد ہ جداگانہ کر کے ملاحظہ کرنا چاہیئے بلکہ انہیں اُن کے ملحقات اور متعلقات کے ساتھ ملا کر، اہل ادراک و معرفت اُن پر التفات کریں ،کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے کشف ضمیر و خیالات سے اور آدم زاد کی نجات اور قربت ِالہٰی میں مداخلت کا حق لینے سے کمال تناسب اور تطابق غیر انقطاع رکھتے ہیں اور اسی طرح مقدس لوقا کی انجیل کے مقدمے سے ہم نے یہ خبر پائی ہے کہ خداوند مسیح کے واقعات عمر کے بیان میں بہت سمعیات اور دستاویزات تحریری شروع ہی میں موجود اور معروف تھیں۔ جن کے بعض مندرجات باہم مختلفہ اور متفرقہ تھے۔پس کلیسیا کے اول الاولین گواہوں سے برابر اور متفق یہ خبر متواتر ہم تک پہنچی کہ لوقا انجیلی مبارک نے جس وقت حضرت پولُس کی ہدایت و رفاقت سے مشرف تھا، جسے درجہ کشف و رسالت نصیب ہوا ،تو روح حق سے یہ تنویر اور قوت الہٰامی پائی کہ احوال و افعال خداوند مسیح کے سب مظہروں اور دستاویزوں اور سمعیات کو خواہ کاذب ہوں، خواہ صادق جمع اور باہم مقابلہ کر کے اور گویا چھانٹ کر ہر ایک امر میں حق باطل سے جدا کرے ۔تا آنکہ طلبائے حقیقت کو اطمینان خاطر اور تیقن حاصل ہو۔
پھر الہٰام روح خداکے کئی انواع اور اقسام حضرت یوحنا کو مرحمت ہوئے ۔چنانچہ اُس رسول محب و حبیب نے بعض باتیں تو وحی کی راہ سے خود کلمتہ اللہ یعنی خداوند مسیح کی زبانی سنیں اور اُنہیں حوالہ قلم کرنے کا حکم اُس سے پایا۔مثلاً مکاشفہ کی کتاب میں ہے’’پس جو باتیں تُو دیکھیں اور جو ہیں اور جو اِن کے بعد ہونے والی ہیں اُن سب کو لکھ لے‘‘(مکاشفہ۱۹:۱)۔اور وہ رسول مبارک اس قدر شرف وشان و فضیلت تک فیض رسیدہ تھا کہ روح خدا کی قدرت سے متلبّس ہو کر بر سبیل رویت عالم روحانیات اور درگاہ خدامیں منتقل المقام اور مصعود ہو گیا اور بہشت کا دروازہ کھلا ہوا دیکھا اور اُس دروازے کے اندر تخت نشین خداوند کا دیدار اور مکاشفہ پایا او ر اُ س کے دست مبارک میں ایک کتاب مستور اور مختوم دیکھی، جس کی فتح ختم پر کوئی شخص خاکی یا بہشتی غالب و قادر نہ تھا، ماسوا اُس برہ کے جو ذبح ہو اتھا(مکاشفہ باب۵،۴)۔
پس جب اُسی کی قدرت و غلبہ سے وہ مہُر کھل گئی تو وہ رسول اُس کے حیرت انگیز مضامین کا شنوا اور اُس کے کشف اسرار سے نصیب ور ہو گیا ۔پھر اُسی رسول نے بعض باتیں جس طرح حضرت موسیٰ پر رسومات اور احکا م شرعیہ نازل ہوئے ،اسی طور سے بتوسط فرشتگان سنیں اور تحریر بھی کیں۔خصوصاً تشبیہات اور تصاویر کی راہ سے اجماع عامہ مومنین کی آیندہ کشُتیاں اور شدائد اور فتوحات اور بعد تذلیل و پست حالی کے رونق و جلال خداوند مسیح کے ساتھ اور دیگر مظاہر اعجوبہ بر سبیل مکاشفہ اُسے نظر آئے۔چنانچہ رسول نے روح خدا کے قابو اور تسخیر میں ہو کر اور اُس کی پاک قوتوں اور تاثیروں کے حلول سے مورد الہٰام ہو کر اُسی روح کی توفیق وہدایت سے اپنے لفظوں اور عبارتوں میں اُن تصاویر اور امثال کو مع کئی تعبیرون اور تشریحوں کے مبین کیا۔اور اِسی طور پر پولُس رسول اپنے کلام الہٰامی کے دو اقسام و انواع بتاتا ہے۔ ایک قسم کے وہ صاف و صریح مکاشفات جن کا دیدار وجد روحانی کی حالت میں ہو کر پایا تھا اور مرتاً (نیم جان)اپنے خطوط میں اُن پر اشارہ کرتا او ر اُنہیں اپنی رسالت حقیقی کی قوی تر دلیلوں میں شمار کرتا ہے اور لاپروائی سے دعویٰ کرتا ہے کہ جتنی باتیں اُس کشف کی کلمات میں درج ہوئیں ، سب برحق قول خداہیں ۔مثلاً گلتیوں کے خط میں اپنے وعظ و منادی کے اصل مطالب کے حق میں یہ نہایت بھاری باتیں حوالہ قلم کرتا ہے’’ اَے بھائِیو!مَیں تمہیں جتائے دیتا ہُوں کہ جو خُوشخبری مَیں نے سُنائی وہ اِنسان کی سی نہیں۔کیونکہ وہ مُجھے اِنسان کی طرف سے نہیں پہنچی اور نہ مُجھے سکھائی گئی بلکہ یِسُوع مسیح کی طرف سے مُجھے اُس کا مُکاشفہ ہُؤا ‘‘(گلتیوں۱۲،۱۱:۱)۔
وہ کشف جس کا ذکر اِس آیت میں آیا عین خاص وحی ہے اور خدا تعالیٰ کا کشف بالاختصاص اُس پر صادق آتا ہے جس میں اُس متعالی اور متجلی کی ذات و صفات کا اظہار اور اُس کے احکام و مشاورات اور عہود و مواثیق اور تعینات اوقات کا اشتہار اور آیندہ امورات کی پیش خبریاں اور اعتقادات کی تقریر و تشریح حوالہ قلم ہوتی ہیں۔ جب وہ مجہولات پردہ فاش ہونے سے معلوم ہو گئے، تب بر سبیل اصطلاح کشف ہوتا ہے ۔چونکہ ذاتیاً و فعلیاً خداوند مسیح جو کلمتہ اللہ ہے، رب تعالیٰ کا کاشف الاسرار ہے تو وہ وحی اور کشف مذکور اُسی کے توسط سے حصول و وصول ہوجاتا ہے۔چنانچہ پیغمبر و رسول اس حالت میں ہو کر آپ تو فاعل و قائل نہ تھے، پر خداوند مسیح اور اُس کی روح کی فعلیت کے متحمل تھے اور اپنی خاص آواز کی نسبت خاموش ہو کر اُن کی زبان اُس اندرونی متکلم کے قول پر فدا ہو گئی، جس طرح بربط خود تو خاموش رہتا ہے پر مضروب ہو کر شیریں آواز دیتاہے، اسی طرح وہ پیغمبر ہر چند کہ بے ہوش اور لاادراک و شعور تو نہیں، تو بھی اپنے قابو سے باہر ہو کر نادیدنی اور ناشنیدنی اور بعید از قیاس مطالب کے مظہر اور پردہ کش ہوگئے ۔پس علامت اصطلاحی اُس حالت کشف کی وہ خاص عبارت ہے ’’اور خداوند نے ابرہام یا یشوع یا موسیٰ سے کہا ‘‘وغیرہ ۔
اور بعض اوقات یہ علامت ظاہراً تو مفقود پر حقیقتاً موجود ہوتی ہے۔از بس کہ خدائے تعالیٰ ہماری علامات سے مستغنی ہے اور ہمارے شرائط و ضوابط میں مقید نہیں۔ پھر اُس کشف اور وحی کی قسم سے متفرق ایک کلام الہٰامی مذکورہ بالا تھا، جس کا متکلم ظاہراً اپنی آواز سے اپنی باتیں بولتا تھا، پر روح خدا کی تحریک و تنویر باطنی سے او ر اُس کے حلول و تخلل کا منزلہ ہو کر کلام تقریری اور تحریری کی قابلیت اور استعداد پاتا تھا۔ صرف اِس الہٰام کی ایک شرط اور علامت یہ تھی کہ ہر متکلم کی تشخیص اور اُس کے شمائل(عادتیں) اور اوصاف کی خصوصیات مفقود اور ضائع نہ ہوتی تھیں، بلکہ اپنے اپنے نشانوں اور کھوجوں سے پہچانی جاتی تھیں ۔ جیسا قیافہ شناسوں کو جُداجُداصورتوں کے نقوش صاف متمیز ہوتے ہیں جو ہم اُس اول حالت پر ملاحظہ کریں تو خدا تعالیٰ بےتوسط فی نفسہ (دراصل ۔اپنی ذات میں )متکلم اور فاعل معلوم ہوتا ہے۔ پر دوسری حالت میں بتوسط قوت وفعلیت اور خادمیت انسانی کے اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے۔کشف کی حالت میں مصنف عنقریب جیسا قلم بدست محرر ،ویسا ہی ایک آلۂ بے جان کی مانند نظر آتا ہے۔ اُس دوسری حالت میں مصنف کتاب خود محرر ہی کی صورت پکڑتا ہے۔
پس جب اِس میں روح خدا کی تحریک اور ترغیب اور تنویر بھی ہے اور رسول کی تعریف لفظیہ اور تحریر ہے ،تو دو فعلیتین ایک امر میں ملیں اور مجتمع ہو گئیں ۔ظاہراً وہ رسول اپنی خواہش اور ضمیر باطنی کے خیالات سے بولتا اور لکھتا ہے، پر حقیقتاً روح القدس کی تاثیروں کا قائل و متحمل ہو کر تقریر و تحریر کرتا ہے۔ظاہراً تو آپ اپنے اختیار سے جو خبریں اور روایتیں موجود ہیں ، اُن سے بعض انتخاب کر لیتا ہے اور بعض کو چھوڑتا ہے، حقیقتاً اُسی روح کے قوی دست سے مجبور یا میٹھی کششوں سے مجذوب ہو کر حق و باطل کا خوب متمیز ہوتا اور ہر غلط و خطا سے بچایا جاتا ہے۔اور یہ بھی کہنا حق اور واجب ہے کہ مورد کشف کی حالت صاف اور زنگ سے خالص آیئنے کے موافق ہے ۔جس سے نو رالہٰی کی سب شعاعیں منعکس ہوتی ہیں۔ دوسری حالت کی مثل گوا ہ کی مثل ہے کہ وہ جن باتوں کا بنظر خود شاہد تھا ،ٹھیک ٹھیک اپنی معمولی عبارتوں میں بااندازہ وزن و قدر پیغام کے حاضرین و سامعین کو سمجھا دیتا ہے ،پرتو بھی رقابت اور ہدایت الہٰامی سے کسی صورت میں غنی اور بے نیاز نہیں، بلکہ اُس سے چارہ نہیں ہے کہ وہ روح جو اُس مردِ خدا میں ساکن ہے اور اُس کی جان میں متخلل کی گئی ہے ،اُس کے کلام کا مضمون و منشا اُس کے بدلے انتخاب کرے اور اُس کی عبارتیں بھی خطا سے بازکھے۔چنانچہ کرنتھس کے نا م پہلےخط میں پولُس رسو ل الہٰام کی ان دو جدا قسموں پر اشارہ کرکے فرماتا ہے’’باقیوں سے مَیں ہی کہتاہوں نہ خداوند(یعنی اس امر میں مجھے خداوند سے جو کاشف الاسرار ہے، کشف نہیں ملا۔ صرف اُس الہٰام باطنی کی معرفت مَیں متکلم ہوتا ہوں جس میں خدا کی روح انسان کی رُوح کے ساتھ مخالطت (میل جول،اختلاط)ہوتی ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۱۲:۷)۔’’کنواریوں کے حق میں میرے پاس خداوند کا کوئی حکم نہیں لیکن دیانت دار ہونے کے لئے جیسا خداوند کی طرف سے مجھ پر رحم ہوا اُس کے موافق اپنی رائے دیتا ہوں‘‘(۱۔کرنتھیوں ۲۵:۱)۔ اس سے صاف روشن ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے ظہورات اور ذات و صفات کی تجلیات متعدد اطواروں اور مختلف صورتوں سے زمان سابق کے انبیا کو نظر آئیں۔ اسی طرح زمان متاخر (آخر)میں روح خد ا ذوی الاختیار ہوکر اپنی تنویر الہٰی کو قسم قسم کر کے مختلف صورتوں اور طریقوں میں افاضت کرتا ہے اور اپنے فضائل خاصہ اور عظیم الشان جس کو جس قدر چاہتا ہے، بخشتا ہے اور اپنی پاک تاثیروں اور تحریکوں کی تقسیم میں آزاد اور بے قید ہے ۔خواہ وہ تحریک اُس کی مانند نرم اور ملائم ہو،خواہ برق و رعد اور بارش تیز رَو کے موافق زور آور زبردست ہو۔
اے صاحبو ان گرامی باتوں پر سوچ اور غور کرو جو کشف اور الہٰام کے ہیبت ناک رازوں سے قریب تعلق رکھتی ہیں ،کیونکہ نہایت عبرت نما اور قابل التفات وہ قول خدا حضرت یسعیاہ کی زبا ن سے ہے’’لیکن وہ باغی ہوئے اور اُنہوں نے اُس کی رُوح قُدس کو غمگین کیا۔اس لئے وہ اُن کا دشمن ہو گیا اور اُن سے لڑا‘‘(یسعیاہ۱۰:۶۳)۔
باب پانز دہم
د رباب بعض و زنی نقلیات کہ مستلزم و مستدل بر اُلوہیت و معبودیت خداوند مسیح میبا شند
جتنے سوالات ایک آدم زاد اپنے دوست اور بھائی یا اپنی ہی جان سے کر سکتا ہے ،اُن میں ایک بھی اِس سوال سے گرامی اور عالی قدر نہیں کہ تُو خداوند مسیح کے حق میں کیا جانتا ہے۔وہ کس کا ابن مبارک ہے؟ بالفرض کہ وہ کلام خدا کی طرح طرح کی تقریروں کے بموجب اللہ تعالیٰ کا ابن واحد ومحبوب ہو تو حقیقی مومنین اور مسلمین کا کیا فتویٰ اور رائے ہو گی ،بعض حدیثوں کے حق ۔مثلاًاُس حدیث میں جس میں اُس خداوند مسیح کی یہ تخفیف شان اور ہتک عزت درج ہے’’فَحَانَتِ الصَّلوٰۃ ُوَ اَمَمتُہُم‘‘ یعنی نماز کا وقت آیا تو مَیں نے اُن پیغمبروں کی امامت کی ۔قرینہِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں سے متکلم نے حضرت موسیٰ اور خداوند مسیح اور ابراہیم(ابرہام) سے مراد رکھی۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ سوال مذکورہ بالا خداوند مسیح نے اُمت یہود سے کیا اور ہر چند کہ اِن کا جواب یعنی ابن داؤد حقیقت کی ضد نہ تھا ،بلکہ حقیقت جزئیہ اُس میں شامل تھی تو بھی خداوند مسیح نے نقلیات بالغہ سے اُنہیں واقعی قدر دانی میں ناقص اور قصور وار ٹھہرایا ۔خصوصاًاُس دلیل نقلی سے کہ ابنیت داؤدی کی نسبت ضرورتاً زیادہ عالیشان اور جلالی ہوگی ۔اُس’’ ابن‘‘ کی وہ’’ ابنیت‘‘ جس کا خداوند حق لقب حضرت داؤد نے فرمایا’’ یہوواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیر ے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ کردُوں ‘‘(زبور۱:۱۱۰)۔
اب صاحبو یقین کرو کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں سے بھی بالفعل اسی سوال کا جواب طلب کرتا ہے، خداوند مسیح کون ہے اور اِبن کس کا؟۔شاید آپ اس سوال کے جواب میں کہیں کہ ابنیت اور اُلوہیت مسیح کا مُقر اور قائل ہونا ہم عین کفر جانتے ہیں ۔اگرچہ ہم اُس اقرار کو اپنے اُوپر فرض اور لازم جانیں ۔تو بھی آپ اُس کے کلمتہ اللہ ہونے کے قائل ہیں اور کلمیت الہٰی کا راز اتنا ہی باریک اور دقیق اور ادراک عقلیہ سے بیرون و بالا ہے، جتنا ابنیت الہٰی کا راز۔اور خود محمدصاحب بھی خداوند مسیح کے بعض ایسے معجزات پر شاہد ہیں، جن کی مرافقت اور ہمسری(برابری) کسی دوسرے نبی کی حقیقت حال میں پائی نہیں جاتی اور نہ اُس بے مثل خرق عادت اور بےنظیر قدرت کی کوئی ضد روایت موجود ہے اور نہ کسی صورت کی ممانعت غیراز آنکہ بعض عقل پرست یا اصحاب تعصب جن کی نشست وبرخاست و مخالطت دہریوں کی مجالس میں ہوتی رہتی ہے۔ اپنی محض خواہش سے بر سبیل بے ثبات اعتراض کے دعویٰ کرتے ہیں کہ جتنا میرا تجربہ ہےکچھ ایسا امر وقوع میں نہیں آیا اور غیر از مظاہر معمولی اور محسوسات اور روز مرہ کے واقعات کے کسی بات پر میرا یقین نہیں ۔فرقان میں بعض اُس طرح کے معجزات اشارتاً یا معروفاً نمایاں اور مبین ہوتے ہیں، مثلاً اس آیت میں ’’اِنِّی عَبدُاللّٰہِ اَتَانِی الکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیّاً وَالسَّلَامُ عَلَی یَومَ وُلِذتُّ وَ یَومَ اَمُوتُ وَیَومَ اُبعَث حَیَّاً ‘ ‘ اور دوسری آیت میں اُس بے نظیر ولادت جسمی کی بابت جو حضرت مریم سے ہوئی’’وَ اَرسَلنَا عَلَیہَا رُوحَنا وَتَمَثّلَ لَھَا بَشَراً سَوِیًّا ‘‘اورپھر سورہ نبین میں ’’وَنَفَخنَا فِیھَا مِن رُّوحِنَا‘‘۔
اب اس باب میں مصنف رسالہ کا ارادہ ہے کہ خدا کی توفیق سے خداوند مسیح کی کلمیت اور ابنیت اور الوہیت کے بعض مقوی دلائل اناجیل اور کتب انبیا و رُسل سے گزرانے ،لیکن بالاختصاص نہ وہ دلائل جن کا مبدا اور منشا ہیں ،وہ لقب اور اسما جو خداوند مسیح کی طرف منسوب ہیں ،بلکہ وہ دلائل جن کی تصدیق اُن مطالب ومقاصد سے ہوتی ہے، جن کے بھر پور اور سرانجام کرنے کے لئے خداوند مسیح صورت اور حقیقت بشر میں جسم پذیر ہو گیا اور اُس خدمت اور صنعت و فعلیت سے جسے وفائے عہد اور ادائے مشیت(خواہش) خدا کے لئے اِس خستہ شکستہ عالم میں بجالانے آیا۔ یعنی اصل سوال یہ ہوگا کہ خداوند نے کون سے ایسے اعمال و افعال دکھائے اور کون سی ایسی قدرتوں اور ذات وصفات کی خصوصیات پر دعویٰ کیا او ر اپنی خو خصلت و سیرت میں کون سی ایسی تفضیل اور ترجیح باقی سب آدم زاد سے لے گیا کہ وہ ذات خداپر مستلزم اور اُس کے ابن خدا ہونے کے دعوے کی مصدق تھی۔اتنا یقین ہے کہ جو شاید قصداً یا سہواً ہم اُس تقریر اور تشہُّد کو کلام خدا اور دینی اعتقادات سے کاٹ لیں گے تو کلام خدا بے اصل اور باطل اور بے جا ن ٹھہر ے گا۔ گویا وہ رشتہ ِزرین او ر نورانی جو کتب سماویہ کے کُل زر بفت (ایک کپڑا جوسونے اور ریشم کے تاروں سے بُنتے ہیں)کے درمیان کشیدہ ہو گیا، مفقود اور ضائع ہو گا اور وہ جو سب پیش خبریوں کا مصداق تھا اور گویا اُن کا جامع الآثار اور رافع الشُّبہات تھا ،اس قدر جاتا رہے گا کہ آیندہ وہ بے مطلب اور مخبوط(سودائی،خبطی) و مشوش (پریشان کرنے والا)ہوجائیں گی۔پس مہربانی کر کے اِس بات پر التفات کرو کہ اِس باب میں اُن معجزوں کا ذکر نہ ہوگا جو نبیوں اور رسولوں اور خداوند مسیح پر مشترک تھے۔ پرصرف اُن کا جو کلیتاً یا ایک جہت سے مخصوص تھے۔ از آنرو کہ نہ انبیا نے آپ ہر گز اُن پر دعویٰ کیا او ر نہ اُن کے مریدوں اور پیروؤں سے کسی نے اُن فضائل و تجلیات ربّانی کو اُن پر اطلاق کیا۔
اولاً قابل غور و تامل ہے کہ انبیائے سلف کی پیش خبریوں کی سلسلہ وار ی میں دو اساطیر مستطر برابر تفتیش ہوتی اور بڑھتی چلی آتی ہیں کہ وہ دونوں آخرش خداوند مسیح میں منتہیٰ ہوتی ہیں اور ملتی ہیں ۔
ایک اِن سطروں میں ا ِس منشا اور مضمون سے تھی کہ ابن داؤد اپنے تخت موروثی پر جلو س فرمائے گا اور داؤد کے خاندان کے لئے باپ اور مربیّ ہوگا اور اُس کے گھر کی کنجیوں سے کمر بستہ ہو گا۔
دوسری یہ کہ خدائے قادر مطلق آپ نمودار اور کُل بشر کے مقابل متجلی ہوگا ۔
عہدِ عتیق میں بہت سے اس طرح کے مقامات ہیں جن میں مومنوں او ر عاقبت اندیشوں کے لئے وعدہ صاف اورراسخ عطا کیا گیاہے کہ اُس آخری دن جو عدالت اور سلامت اور نجات کے اختتام کا دن ہو گا، خدا تعالیٰ کی حضوری اِ س عالم شہود میں نمود ہوگی ،بلکہ اُس کی حضوری فی نفسہ (دراصل،اپنی ذات میں)اور فی ذاتہ اس قدر علانیتاً اور صریحاً نمودار ہو گی کہ بموجب قول یوحنا رسول کے’’ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے ‘‘(مکاشفہ۷:۱)۔ اور قبل ازاں زکریاہ نبی کاوہ کلام پورا ہوگا ’’کیونکہ خداوند میرا خدا آئے گا اور سب قُدسی تیرے ساتھ ۔۔۔ اور خداوند ساری دُنیا کا بادشاہ ہو گا۔اُس روز ایک ہی خداوند ہوگا اور اُس کا نام واحد ہو گا ‘‘(زکریاہ۵:۱۴۔۹)۔تب معلوم اور ثابت ہو گا کہ رب تعالیٰ مظلوموں اور اسیروں اور شہیدوں کی فریاد وفغاں سے غافل اور فراموش نہ تھا ۔ہر چند کہ بڑی دیر کی صبوری اور مدد واعانت کی تاخیر تھی، پر تحقیقاً اُس قہار وصدیق کی درگاہ میں وہ سوال گوش گزار ہو گیا جس کی عبارت حضرت داؤد اور حضرت یوحنا سے تشریحاً حوالہ قلم ہوگئی’’اے خدا! اُٹھ زمین کی عدالت کر۔کیونکہ تُو ہی سب قوموں کا مالک ہو گا‘‘(زبور۸:۸۲)،’’اور وہ (شہیدوں کی رُوحیں )بڑی آواز سے چلّا کر بولیں کہ اے مالک! ا ے قُدُوس وبرحق ! تُو کب تک انصاف نہ کرے گا اور زمین کے رہنے والوں سے ہمارے خون کا بدلہ نہ لے گا؟‘‘(مکاشفہ۱۰:۶)۔
اِن سب اور اِن کی مانند سینکڑوں اَور مقامات پر جو نظر انصاف اور بے تعصبی سے غور کر ے ،وہ لاپروائی سے اقرار کرے گا کہ بے شک وہ بادشاہ حق گُستر اور آفتاب نور افشاں جو تخت داؤدی کو اپنی نشست متعالی سے رونق دار کرے گا ،سو ابن خدا وحید مسیح ہے۔اگر اس امر کی مصدق اَور بھی نقلیات طلب کرو تو یسعیاہ نبی کے ابواب۴۵ اور ۶۵ اور ملاکی نبی کے ابواب۳ اور ۴ کا مطالعہ کر کے روح حکمت و معرفت کی توفیق سے شک نہ کرو کہ یہ راز از درائے حجاب کشف ہوگا۔چنانچہ یہ راز وہ رشتہ مضبوط و محکم ہے جس سے دونوں عہد یعنی عتیق اور جدید مربوط اور باہم پیوستہ ہیں اور دونوں عہدوں کے قُدسی اور اولیا نے اِس قوی اُمید میں اپنی اوقات عمر کوبسرکیا اور اپنی جان کو تسلیم کیا اُن کے رقوب و رغبت اور انتظار کا مدعا نہ کوئی فرشتہ ،نہ نبی تھا، مگر خداوند مسیح ہی کی حضوری اور ظہور تھا ۔بآنحالت و صورت و ذات و صفات جن کی کیفیت اور تشخیص انبیا کی متفق گواہی سے معلو م اور معروف ہو گئی۔
اب ہم ذرا غور کر کے کلام خدا سے بعض مسائل کا حل وجواب طلب کریں۔خاص کر یہ بات تابمقدور اُس سےدریافت کریں کہ اُس خداوند کی آمد وظہور جسمیہ کے کون سےاور کیسے مطالب اور مقاصد تھے اور تین عالموں کے ساتھ اُس کے کون سے اور کیسے تعلقات تھے جس سے اُس کی ذات ووجود کی حقیقت حال حتی الوسع ہم پر روشن اور واضح ہو جائے۔ (مکاشفہ۱۸،۱۷:۱)۔ اور خداوند مسیح عالم غیب کا صاحب اختیار وتصرف تب ہی دکھائی دیا جب اُن دو ڈکیتوں میں سے جو اُس کے کنارے کنارے مصلوب ہوئے تھے،ایک کی عرض و معروض کو قبول کر کے قدرت اور محبت آمیز آواز سے وہ قول فرمایا ’’مَیں تجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فِردَوس میں ہوگا ‘‘(لوقا۴۳:۲۳)۔ پھر بر تقدیر کہ وہ خداوند صرف زمین اور عالم فنا میں قدرت بالاستقلال اور اختیار مطلق رکھتا، پر آسمانوں میں یہ اُس کا موروثی اور ذاتیہ حق نہ ہوتا تو وہ دعویٰ جو ذیل کی آیتوں سے مستفاد ہے ،کیا ہی باطل بے ہودہ گوئی اور ہوائے مبالغہ ہوتا(یعنی مکاشفہ کے۲اور ۳ ابواب سے)۔’’ جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زِندگی کا تاج دُوں گا ‘‘ (مکاشفہ۱۰:۲)، جو غالِب آئے اُسے اِسی طرح سفید پوشاک پہنائی جائے گی اور مَیں اُس کا نام کِتابِ حیات سے ہرگِز نہ کاٹُوں گا بلکہ اپنے باپ اور اُس کے فرِشتوں کے سامنے اُس کے نام کا اِقرار کرُوں گا(مکاشفہ۵:۳)، جو غالِب آئے مَیں اُسے اپنے خُدا کے مَقدِس میں ایک ستُون بناؤں گا۔ وہ پھر کبھی باہِر نہ نِکلے گا اور مَیں اپنے خُدا کا نام اور اپنے خُدا کے شہر یعنی اُس نئے یرُوشلِؔیم کا نام جو میرے خُدا کے پاس سے آسمان سے اُترنے والا ہے اور اپنا نیا نام اُس پر لِکھوں گا (مکاشفہ۱۲:۳)۔یہ اور اِن کی مانند اَور آیتیں اُس پیغام سنجیدہ کلام سے ہیں ، جو حضرت یوحنا کی معرفت ایشیائے کوچک کی سات جماعتوں کے پاس پہنچایا گیا اور مثبت اور مصدق ہے،خداوند کے اُس رتبہ عالی اور ذاتیہ کا جسے کسی مخلوق اور غیر از خدا کی طرف منسوب کرنا، عین شرک اور کفر ہے ۔کیونکہ وہ کلمتہ اللہ اور ابن اللہ کے ساتھ مخصوص اور مقید ہے اور اُس کی اصلی و ازلی ماہیت کے اسرار میں سے ہے۔چنانچہ پطرس رسول روح حق کے الہٰام سے اپنے اول خط کے تیسرے باب میں اسی امر پر عجیب وزن ووقار کی گواہی دیتا ہے’’وہ آسمان پر جاکر خُدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے اور فرِشتے اور اِختیارات اور قُدرتیں اُس کے تابِع کی گئی ہیں ‘‘ (۱۔پطرس۲۲:۳)۔
اے صاحبو کون خدا ترس اور عاقبت اندیش یہ باتیں سُن کر اور اُس بادشاہ عالمین کی علویت اور اُس کے خلاف کرنے کے خوف و خطرے کا محاسبہ ملاحظہ کر کے ،یہ صلاح نہ جانے گا کہ اپنے خویش و اقربا سے اور اہل رشتہ ورفاقت سے وہ سوال کرے جو اہل یہود بھی بعد نزول روح القدس کے دلوں میں چھد کر آپس میں کرنے لگے،’’اے بھائیو! ہم کیا کریں ؟‘‘(اعمال ۳۷:۲)۔جس سوال کے جواب میں یہ وعظ و نصیحت پطرس رسول سے ملی’’۔۔۔ تَوبہ کرو اور تُم میں سے ہر ایک گُناہوں کی مُعافی کے لئِے یسوع مسیح کے نام پر بپِتسمہ لے تو تُم رُوحُ القُدس اِنعام میں پاؤ گے ‘‘(اعمال ۳۸:۲)۔
پھر جو تعلق خداوند مسیح کا کلام خدا کے ساتھ ہے ،اُس کی ذرا سی تصریح اور تشریح چاہیئے ۔از بس کہ مولوی صاحبوں کا معمولی اعتراض اور مواخذہ یہ ہے کہ جیسا ہمارے محمدصاحب پر نزول کتاب ہوا، ویسا حضرت عیسیٰ پر نہ تھا ۔ہر چند کہ کُل قرآن میں بمشکل ایک بھی گواہی فصاحت اور توضیح میں اِس سے بڑھ کر ملے گی ، مثلاً ’’اٰتینَاہُ الِانجِیلَ فِیہِ ھُدًی وَنُورًا وَّمَوعِظَتہً وَلیحَکُم اَہلُ الِانِجیل بِمَا اُنزِل اللّٰہُ فِیہِ‘‘کچھ چارہ نہیں کہ اہل محمد اپنے ہی نبی کی ایسی صاف و صریح گواہیوں سے شش وپنج میں اور متردد ہو جائیں اور ان تقریروں کے ٹالنے کے لئے جو جو حکمتیں اور پیچشیں اور پس وپیش بنا رہے ہیں، سب اہل دانش پر روشن اور واضح ہیں۔مع ہذا(علاوہ بریں۔ساتھ اس کے) محمدصاحب اس امر کی حقیقت حال سے واقف نہ تھے اور نہ اُن کو فہمید صحیح اور درست اِس اَمر کی حاصل ہوئی کہ کلام خدا کے ساتھ خداوند مسیح کا تعلق کیا ہی خاص او ر نادر ہے ۔فی التحقیق وہ تعلق اقرب تعلقات سے قریب ترین ہے۔آنقدر کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات متجلی کے اُن اسرار غیب میں سے ہے جس تک عقل اورر وح انسان بغیر نصرت اور توفیق روح القدس کے ہر گز نہیں پہنچ سکتی۔چنانچہ خداوند مسیح کا حال اِس اَمر میں نبیوں اور پیغمبروں کے حال سے تاغایت نہایت دور وبعید ہے۔از آنروکہ وہ سب رب تعالیٰ کے کشف اسرار کے مختلف درجات و مراتب سے بموجب استعداد کے مشرف ہو سکتے تھے، پر خداوند مسیح اپنے اور اپنے رسولوں کی صاف تقریروں کے بموجب آپ ہی فی نفسہِ خدا کی پاک ذات اور اُس کے کلام خفیہ اور پنہاں کا عین کشف اور کاشف ہے۔ تو ایسا خام خیال کرنا نہ چاہیئے کہ عالم بالا سے عالی تعالیٰ کا کلام اُن پر نازل ہوا۔پر سچ اور برحق خبر یہ ہے کہ آپ ہی کلام الہٰی ازل سے ہو کر اُترا، نہ یہ کہ علم حقیقت اور معرفت الہٰی سے نادر اور بے مثال طور پر بہرہ ور اور سرفراز ہو گیا۔چنانچہ آپ ہی اپنی ماہیت کے حق میں فرماتا ہے’’۔۔۔حق اور زندگی(یعنی عین حق اور عین زندگی) مَیں ہوں(یوحنا۶:۱۴)،اور پھر’’۔۔۔ کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سِوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سِوا بیٹے کے اور اُس کے جِس پر بیٹا اُسے ظاہِر کرنا چاہے ‘‘(متی۲۷:۱۱)۔
دیکھو اے صاحبو کیسا بے اصل اور ناجائز اور بے موقع آپ کا سوال ہے کہ حضرت مسیح یسوع پر کلام اور کتاب کیوں نہیں اُتری ،جیسا حضرت موسیٰ اور داؤد اور یسعیاہ وغیرہ پر۔ وہ جس کا نام کلمتہ اللہ ہے اور وہ لقب اُس کی ماہیت کا معرف اور مظہر ہے، اُس کی ابنیت الہٰی کے مجمع تفاضیل سے عمدہ اور عالی تر خصوصیت اُس کی کلمیت ہے اور خواص کلمیت میں سے رب تعالیٰ کا عین کشف اسرار ہونا، وہ ا فضل خاصیت ہے جو باقی نبیوں کی نسبت خداوندمسیح یسوع کی ترجیح اور تفضیل ذاتیہ کا باعث ہے ۔ہاں بلکہ یہ خداوند مسیح کی وہ ترجیح اور تفضیل ہے جو از از ل سب مخلوقات اور موجودات پر ہے،خواہ وہ خاکی ہو،خواہ آسمانی اور اُس کا وہ جلال موروثی ہے ،جو مشارُ‘ الیہ ہے( یوحنا ۱۷ : ۵) میں ہے ’’اور اب اَے باپ! تُو اُس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پَیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مُجھے اپنے ساتھ جلالی بنادے‘‘ ۔تو خداوند مسیح کا یہ رُتبہ خاص یعنی کشف الا سرار ہونا، بآں حیثیت رکھتا ہےکہ اُس کی ذات اور لقب کلمتہ اللہ ہے،باتفاق اُس تقریر کے جو( یوحنا ۱۸:۱) میں ملتی ہے’’خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا- اِکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہِر کِیا ‘‘۔یا اگر ٹھیک اصل زبان کا ترجمہ کیجئے تو’’ اُس کی ذات کی تشریح کی ہے‘‘۔پھر خداوند نے کلمتہ اللہ ہونے کا رتبہ پایا، بآں حیثیت کہ وہ ابن خدا ہے۔چنانچہ مکاشفہ کی کتاب کے پہلے باب کی پہلی آیت میں لکھا ہے’’یسُوع مسیح کا مُکاشفہ جو اُسے خُدا کی طرف سے اِس لِئے ہُؤا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دِکھائے جِن کا جلد ہونا ضرُور ہے ‘‘۔پس بخوبی معلوم اور ثابت ہے کہ جس طرح خداوند مسیح منجی العاصین اور شفیع العالمین واحد وتنہا ہے،اب بھی اور حشر و نشر کے دن بھی ۔
اسی طرح عہد عتیق اور عہد جدید میں یہ مرتبہ خداوند مسیح کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی ذات اور قول اور فعل میں اللہ تعالیٰ کا عین کشف ہونا اور اُس کے جلال اور نور محجوب کا فاش کرنا ،تو اُس کاشف اللہ پر بچشم خود نگاہ کر کے اُس کا مبین کرنا اور گواہی کی راہ سے تقریری اور تحریری خبروں کا اظہار اور اشتہار کرنا، رسولوں کا عہدہ معین تھا۔ جیسے یوحنا رسول نے بھی کہا ’’ اُس زِندگی کے کلام کی بابت جو اِبتدا سے تھا اور جِسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غَور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چُھؤا۔یہ زِندگی ظاہِر ہُوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زِندگی کی تمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہِر ہُوئی۔جو کُچھ ہم نے دیکھا اور سُنا ہےتمہیں بھی اُس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تُم بھی ہمارے شِریک ہو اور ہماری شِراکت باپ کے ساتھ اور اُس کے بیٹے یِسُوع مسیح کے ساتھ ہے ‘‘(۱۔یوحنا۱:۱۔۳)۔یہ تو جائز اور ممکن تھا کہ اُس ہمہ دانی اور حکمت مطلقہ کو جو اُس کی ابنیت اور کلمیت کے خواص میں سے تھی، درائے حجاب جسمیت پردہ پوش کر ے اور عرصہ قلیل تک اپنی مرضی مجرد کے باعث بعض واقعات آیندہ کی کیفیت حال کی فہمید سے بے بہر ہ رہے۔جس امر سے بظن غالب اشارہ ہے مرقس کی انجیل کے ۱۳ ویں باب کی اس آیت معروف میں ’’ لیکن اُس دِن یا اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ ‘‘(مرقس۱۳: ۳۲)۔
اگر کوئی شخص بیٹے کی اس نافہمی کو موجب اشتباہ جانے تو چاہیئے کہ وہ ذرا غور کرے اس بات پر کہ جب خداوند مبارک نے اپنی غیر متناہی شفقت اور محبت ہم غریب خطاکاروں کی طرف اتنی اتنی باتوں اور طرحوں سے ظاہر کی کہ بالا سے پست اور عالی سے ادنیٰ اور غنی سے عاجز اور دولت مند سے محتاج ہوا اور بھر پوری کے بدلے تہی دستی اختیار کی ۔تو یہ ایک اور امر کیا مشکل یا محال تھا کہ وہ اپنے خاص روز کے جو حشر کا دن ہے، ناقص علم کا متحمل ہو جائے ،نہ اصلی اور ازلی کلمیت کی حیثیت سے جس میں کسی صورت کی قلت اورخفت کی مداخلت خلاف قیاس ہے۔مگر باعتبار اُس حالت اور صورت جسمیہ کے جس کے احاطے کے اندر اُس کا جلال نورانی موروثی محجوب ہوا۔حاشا للہ(خدا نہ کرے۔ہرگز نہیں) کہ خدا کی محبت آمیز قدرت اور حکمت اور خاص اُمت کی رعایت قادر اِس اَمر پر نہ تھی اور اُس کے ظاہری مواقعات پر غالب نہ ہو سکی ۔سچ تو یہ ہے کہ خداوند مسیح کلمیت الہٰی کی حیثیت سے بحق اور بصدق تمام کہہ سکتا تھا ۔اس کی شہادت ہمیں (متی ۱۱ : ۲۷ ) میں ملتی ہے ’’ میرے باپ کی طرف سے سب کُچھ مُجھے سونپا گیا ‘‘ اور پھر وہ بھی جو یوحنا رسول کی انجیل میں تسلیم ہے’’اِس لِئے کہ باپ بیٹے کو عزِیز رکھتا ہے اورجتنے کام خُود کرتا ہے اُسے دِکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام اُسے دِکھائے گا تاکہ تُم تعجُّب کرو‘‘(یوحنا۲۰:۵)۔
پر یہ گمان بھی غالب اور واجبی ہے کہ درحالیکہ علم مطلق اور فہمید کامل پر اختیار رکھتا تھا اور یہ بھی اپنے ازلی تولد کا حق بتاتا تھا، توبھی جس علم ناقد یا ناقص سے اُس کی کلیسیا محبوب کی کچھ منعفت ہو سکتی، بلکہ فی الحال اُس کے لاحجاب اور فاش ہونے سے کچھ مضرت بھی ہو سکتی تھی، اُس کے حصول سے اپنے ہی قصد اور خواہش اور اپنے باپ کی مرضی اور تعینات رعایت سے دست برداری اور دریغ فرمایا۔ لیکن شرط اُس دریغ اور دست برداری کی یہ تھی کہ خداوند کے اصلی اور ذاتیہ علم میں نقص وخلل کا تحمل کسی صورت نہ ہو سکے۔صرف یہ خود توہین یعنی آپ کو پست کرنا اس قدر جائز تھا کہ اُس دولت اور جمعیت علوم ومعارف سے جو اُس نے بحسب توسط ووکالت اپنی کلیسیا کے واسطے لے لی تھی ،یہ خاص خبر یعنی روز حشر کی خبر مستثنیٰ اور محروم رہ گئی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خداوند مسیح نے کلمتہ اللہ ہو کر بعض اوقات خدا تعالیٰ کی ذات و وجود اور خیالات ضمیر کو کشف کیا اور بعض اوقات اپنے روح القدس کی توفیق اور معرفت سے وہ کلام متعین گواہوں کو تسلیم کیا اور حوالہ قلم کرایا۔ پس دو بڑی بھاری باتوں میں خداوند مسیح کے متعین گواہ محمد صاحب کے گواہوں کی نسبت شرف ووزن و رونق کے حق میں حد سے زیادہ ترجیح رکھتے تھے۔
اول یہ کہ وہ گواہ مسیحی اصحاب الہٰام روح القدس کے تھے ،جیسا اُوپر مفصّل بیان ہو چکا ۔
دوسرا یہ کہ خود کلام اللہ سے اِن لوگوں کے فضائل اور اوصاف کے بیانات ملتے ہیں، جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون اور کیسے اشخاص تھے۔
ایک تیسرا سوال واجباً معجزات کی بابت پیدا ہوتا ہے کہ خداوند مسیح نے معجزوں کے امر میں کون سی ایسی ترجیح اور سبقت کی جو ذات اور قدرت الہٰی پر مستلزم تھی۔ہر حقیقت اندیش پر واضح ہو کہ اس فصل میں معجزات سے مراد وہ کرامات نہیں ہیں جو خداوند مسیح اور باقی نبیوں پر مشتمل ہیں۔ایسی دلیلوں سے ذات الہٰی پر دعویٰ کی تصدیق محکم ہر گز نہ ہو سکے گی۔پس مادر کلام اور سر بحث یہ سوال ہے کہ آیا وہ قدرت جس سے اظہار معجزات وخوارق عادات خداوند مسیح سے روز ہوا کرتا تھا ،اُس کی ماہیت سے خارج ہو کر باہر سے اُس کو افاضت اور عنایت ہوئی یا اندرون سے اُس کی ذات ہی کی اصل فعلیت تھی۔اِس اَمر میں آپ خداوند کی سادہ اور خالص گواہی پر غور کرو۔’’ لیکن اگر مَیں خُدا کی رُوح کی مدد سے بدرُوحوں کو نِکالتا ہُوں تو خُدا کی بادشاہی تُمہارے پاس آپہنچی ‘‘(متی ۲۸:۱۲)۔اسی طرح سےاَورانجیلی مصنفین اور رسول صرف اسی بات پر تاکید اور تشدید نہیں کرتے کہ خداوند مسیح نے شیاطین کے مظلوموں اور اسیروں کو آزاد کیا ہے ،بلکہ اِس بات پر کہ اُس نے اختیار والے حکمرانوں کے موافق بادشاہانہ ارشاد فرما کر شیاطین کو زیر دست اور مطیع کیا۔ جس بات پر مدعی ہونا ہر کسی شخص کا جو شہنشاہ جہاں نہ تھا، سراسر بے موقع اور ناجائز ہوتا ۔ صرف خداوند یسوع مسیح کی عین حقیقت اور رُتبہ لا متغیر تھا جس امر پر متی اپنی انجیل میں شاہد ہے’’جب شام ہوئی تو اُس کے پاس بُہت سے لوگوں کو لائے جِن میں بدرُوحیں تھیں۔ اُس نے رُوحوں کو زُبان ہی سے کہہ کر نِکال دِیا اور سب بیماروں کو اچھّا کردِیا۔ تاکہ جو یسؔعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پُورا ہوکہ اُس نے آپ ہماری کمزورِیاں لے لیں اور بیمارِیاں اُٹھا لیں‘‘(متی۱۷،۱۶:۸) ۔اور لوقا کی انجیل کی ایک مشہور مثال کا مضمون اِس شہادت سے عین اتفاق رکھتا ہے’’جب زور آور آدمی ہتھیار باندھے ہُوئے اپنی حویلی کی رکھوالی کرتا ہے تو اُس کا مال محفُوظ رہتا ہے ۔لیکن جب اُس سے کوئی زور آور حملہ کرکے اُس پر غالِب آتا ہے تو اُس کے سب ہتھیار جِن پر اُس کا بھروسا تھا چھِین لیتا اور اُس کا مال لُوٹ کر بانٹ دیتا ہے ‘‘ (لوقا۲۲،۲۱:۱۱)۔
قرینہِ کلام سے صاف وصریح ہے کہ وہ ہتھیار بند ابلیس ہے اور وہ پہلوان زو رآور تر وہی پہلوان ہے جس سے مخاطب ہو کر روح القدس نے بزبان داؤد فرمایا تھا’’اے زبردست! تُو اپنی تلوار کو جو تیری حشمت وشوکت ہے اپنی کمر سے حمائل کر‘‘ (زبور۳:۴۵)یعنی خداوند یسوع مسیح ہے۔چنانچہ موضع مذکور میں کاتبان و فریسیان یہود اور خداوند مسیح کے درمیان سر بحث یہی تھا کہ خداوند مسیح کس کی امداد اور اقتدار سے شیاطین کو نکالتا ہے۔اے صاحبو اِن صاف دلیلوں سے جو خداوند مسیح کی قدرت اور کبریت الہٰی پر مستلزم ہیں، کون معترض صاحب انصاف حیران اور سراسیمہ نہ ہوگا۔کون مقر نہ ہوگا کہ دین عیسوی کے عقائد کا ثبوت نہایت قوی اور محکم اور غالب ہے۔پر اے صاحبو فتح اور غلبہ اور نصرت لے جانے سے کیا پروا اور کیا تسلی۔رب تعالیٰ کی عین حقیقت کی بابت یہ حجت اور بحث ہے کہ تمہاری ہی جانیں اور تمہارے خویش و اقربا کی جانیں کُل عالمین کے خزانوں کے آگے بیش قدر اور گراں بہا جان کر خداوند مسیح نے اپنے ہی خون کے داموں سے خرید لیں۔ان خداوند مسیح کی خریدی ہوئی جانوں کو آپ جوکھوں میں کیوں ڈالتے ہیں۔ان جانوں میں سے اگر ایک بھی جان اِس رسالے کے ذریعہ سے اُس ظالم کی قید اور اسیری سے آزاد ہو کر نور حقیقت خدامیں داخل ہو گی تو میرا اجر اور موجب شکر خدا کی درگاہ میں کیا ہی بزرگ ہو گا۔ کاش ہم سبھوں کی آرزو مندی اور انتظاری ایسی ہی ہوتی ، جیسی لوتھر صاحب کی تھی۔ جس وقت اُس نےاصحاب خلاف کے ساتھ دین کی بڑی سخت کُشتی بازی میں اپنی جان کا بڑا خوف وخطر کھا کر یوں فرمایا:
’’مارٹن لوتھر تو مرجائے، مگر خداوند مسیح جیتا رہے۔جب تک وہ جیتا میں جیتا رہتا ہوں ،جو شاید وہ مرتا تو میرے جیتے رہنے سے کیا حاصل‘‘۔
ایک اَور امر میں خداوند مسیح کے معجزات نبیوں اور رسولوں کے معجزات سے اتنی ترجیح اور تقدیم رکھتے تھے، جتنی خدا کی دستکاریوں کو انسان کی دستکاریوں کی نسبت ہو۔یعنی اس امر میں کہ نہ صرف آپ ہی نےاُ نگشت الہٰی سے عجیب قدرتیں ظاہر اور نمودار کیں، بلکہ یہ حق اور اختیار بھی رکھتا تھا کہ اَوروں کو بھی اِس طاقت اور قابلیت سے موصوف اور مشرف کرے ۔چنانچہ ہم نے کئی مرتبہ اصحاب اناجیل سے صاف و صحیح خبر اِس بات کی پائی ہے کہ نہ صرف آپ ہی معجزات کرنے بلکہ اَوروں سے کرانے پر بھی قادر تھا۔مثلاً متی کی انجیل میں یہ خبر ہے’’پھر اُس نے اپنے بارہ شاگِردوں کو پاس بُلاکر اُن کو ناپاک رُوحوں پر اِختیار بخشا کہ اُن کو نِکالیں اور ہر طرح کی بِیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دُور کریں‘‘(متی۱:۱۰)۔ اور بعد ازاں کہ وہ فیض رسانی بارہ رسولوں پر ہوئی تھی۔ ستر اَور شاگردوں کو بُلا کر اور منادوں کے عہدوں پر تعینات کر کے اُنہیں اپنے فیض کی فراوانی سے اصحاب معجزہ ہو نے کا حق عطا فرمایا اور یہ بھی کہا’’ جِس شہر میں داخِل ہو ۔۔۔ وہاں کے بِیماروں کو اچھّا کرو اور اُن سے کہو کہ خُدا کی بادشاہی تمہارے نزدِیک آ پہنچی ہے‘‘(لوقا۹،۸:۱۰)،’’دیکھو مَیں نے تُم کو اِختیار دِیا کہ سانپوں اور بچھوؤں کو کُچلو اور دُشمن کی ساری قُدرت پر غالِب آؤ اور تُم کو ہرگز کِسی چیز سے ضرر نہ پہنچیگا ‘‘۔(لوقا۱۹:۱۰)۔
سب معترضوں سے میرا سوال یہ ہے کہ اِن معجزوں کے کرنے اور کرانے کی قدرت خداوند مسیح کے ساتھ مخصوص اور مقید تھی یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی مشترک تھی۔اس امر میں بے تعصبوں اور حقیقت جویوں کا صرف ایک جواب ہو سکتا ہے کہ اِس عین قدرت الہٰی کے ظہور اور صدور میں خداوند مسیح بے نظیر اور بے مثال تھا۔اور پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اِس بات میں اُس کے بے نظیر ہو نے کا کیاسبب تھا۔اس سوال کے جواب میں خداوند مسیح آپ بڑی صراحت سے فرماتے ہیں’’کیونکہ جِس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زِندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جِنہیں چاہتا ہے زِندہ کرتا ہے ،کیونکہ جِس طرح باپ اپنے آپ میں زِندگی رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زِندگی رکھّے ‘‘ (یوحنا۲۶،۲۱:۵) اور اسی انجیل میں خداوند فرماتے ہیں کہ ’’ قیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں۔جو مجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا ‘‘(یوحنا۲۵:۱۱)۔تو جب کہ خداوند حیات کی قیومیت(قیوم=قائم رہنے والا) بعینہ اپنے میں رکھتا ہے، باعتبار اُس ابنیت کے کہ ازازل تا ابد بے تغیر رہتی ہے، تو افعال اعجازی کی قوت اور لیاقت اِس طرح رسولوں کو مرحمت فرماتا ہے کہ گویا چشمہ حیات سے شفا بخش نہروں کو رواں کر کے موت کی سلطنت کو گھٹاتاہے اور فیض فضل ومحبت الہٰی کی سلطنت کو بڑھاتا ہے ۔تآنقدر کہ نہ صرف اپنے رسولوں کو بلکہ اُن کے مریدوں اور تابعین کو بھی اِس قدرت اعجازنما کو عطا فرماتا ہے۔چنانچہ ذرا بھی سوچ و غور کر کے معلوم ہو گا اور بداہت عقلیہ سے واضح کہ کن کن شخصوں سے مخاطب ہو کر خداوند نے مختلف زبانوں کے بولنے اور شیاطین کے نکالنے اور معجزات کے دکھانے کی لیاقت اور استعداد کا وعدہ کیا ۔یعنی نہ ہر پشت کے سارے اجماع مومنین کوتا عاقبت بلکہ خصوصاً اُنہیں کو وعدہ نصیب ہے جو خود خداوند مسیح کے بھیجے ہوئے رسول اور کلیسیا کی بنا ڈالنے کی خدمت پر موکل ہوئے ۔پر جنہیں خداوند مسیح نے تو نہیں، بلکہ اُس کے رسولوں نے کلیسیا کی عہدہ داری پر وقف وتقدیس کیا اور بشیروں اور منادوں کی خدمت پر سرفراز کیا، اُن کے مریدوں کے واسطے کوئی ایسا قول وقرار خداوند کی زبان مبارک سے نہیں نکلا۔آیند ہ جو بشارت ومنادی کے کام پر بھیجے گئے ہر چند کہ خداوند مسیح نے اپنی روح قدس کی معرفت اُنہیں اوصاف اور استعداد ضروری سے آراستہ پیراستہ کیا ،پر ظاہراً اُن کا بھیجنے والا خود خداوند مسیح نہ تھا، بلکہ از راہ وکالت اُس کے اجماع مومنین اپنے پیشواؤں کے توسط سے بھیجنے والے تھے۔ بموجب قول پولُس رسول کہ ’’ اگر ہمارے بھائیوں کی بابت پُوچھا جائے تو وہ کلیِسیاؤں کے قاصِد اور مسیح کا جلال ہیں ‘‘(۲۔کرنتھیوں۲۳:۸)۔پھراُس قیومیت حیات کے ساتھ قوت خلقت بھی بعینہ ملحق اور مقارن ہے،تو معجزات کا خواہ کرنا خواہ کرانا کیا محال اور مشکل تھا اُس کے لئے جو آپ ہی عین حیات تھا اور اپنے اصل وجود میں خالقیت اور راز قیت کی صفات رکھتا تھا۔ اِس اَمر پر بہت سی نقلی دلیلوں کو گزارنے کی کیا ضرورت، در حالیکہ مولوی صاحب آپ اقرار کریں گے کہ یہ صفتیں بکمال تصریح و تکرر اناجیل او ر خطوط مقدس میں خداوند مسیح کی طرف اطلاق کی جاتی ہیں، مثلاًکلسیوں کے خط میں صاف مشہود ہے’’ کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پَیدا کی گئِیں۔ آسمان کی ہوں یا زمِین کی۔ دیکھی ہوں یا اَن دیکھی۔ تخت ہوں یا رِیاستیں یا حُکُومتیں یا اِختیارات۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے واسطے پَیدا ہُوئی ہیں۔اور وہ سب چیزوں سے پہلے ہے اور اُسی میں سب چیزیں قائِم رہتی ہیں ‘‘ (کلسیوں۱۷،۱۶:۱) اور جیسا عالم کی آفرینش اول ویسی ہی خلقت ثانی اور جدید جو نو پیدائش بھی کہلاتی ہے اور طرح طرح کی اَور اصطلاحات سے معروف ہے، وہ بھی خداوند مسیح کی طرف مجرداً منسوب ہے ،جیسا کرنتھس کی کلیسیا کے نام دوسرے خط میں مرقوم ہے’’اِس لِئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلُوق ہے۔ پُرانی چِیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہوگئِیں ‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۷:۵)۔
اور اگر کسی صاحب کی خواہش ہو کہ بہ تصریح تمام معلوم کرے کہ کون سی اور کیسی وہ پرانی انسانیت کی موت اور نیستی ہے جو خداوند مسیح کی صلیب کی مقوی تاثیروں سے ہوتی ہے اور کیسی وہ نئی انسانیت کی ییدائش ہے جو خداوند مسیح کی قیامت کی قدرت والی فعلیت سے حاصل ہوتی ہے۔ تو وہ پولس رسول کے رومیوں کی کلیسیا کے نام خط کے باب۶ میں اُس کا پورا اور مفصل بیا ن پڑھے۔پس ضرور روح خدا کی توفیق سے بہت تسلی اور فہمید اور دل جمعی اُس بھاری مسئلہ کی بابت نصیب ہوگی اور موجب شکر وحمد ہوگا اور زیادہ یہ بھی ہے کہ ہر طالب حق اُس نو پیدائش اور خلقت جدید کا تجربہ کار ہو سکتا ہے۔چنانچہ رسول مذکور بڑی دل سوزی سے یہ دعوت اور نصیحت رب العالمین کی طرف سے ہر آدم زاد کو پہنچاتا ہے ’’ اور نئی اِنسانِیّت کو پہن لِیا ہے جو معرفت حاصِل کرنے کے لِئے اپنے خالق کی صُورت پر نئی بنتی جاتی ہے ۔وہاں نہ یونانی رہا نہ یہُودی۔ نہ خَتنہ نہ نامختُونی۔ نہ وحشی نہ سکُوتی۔ نہ غُلام نہ آزاد۔ صِرف مسیح سب کُچھ اور سب میں ہے ‘‘(کلسیوں۱۱،۱۰:۳)۔ اور دیکھو کہ یوحنا رسول اپنے پہلے خط کے آخری باب میں اپنی ساری تعلیمات کو اس اصل تعلیم میں منتہیٰ بتا کر فرماتا ہے’’ہم جانتے ہیں کہ ہم خُدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شرِیر کے قبضہ میں پڑی ہُوئی ہے ۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ خُدا کا بیٹا آگیا ہے اور اُس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اُس کو جو حقِیقی ہے جانیں اور ہم اُس میں جو حقِیقی ہے یعنی اُس کے بیٹے یِسُوع مسیح میں ہیں۔ حقِیقی خُدا اور ہمیشہ کی زِندگی یِہی ہے ‘‘(۱۔یوحنا۲۰،۱۹:۵)۔اور اِسی تعلیم پر منحصر وہ دلیل ہے جس سے رسول عبرانیوں کے خط میں خداوند مسیح کی کہانت کی استدامت (خواہش)اور کمالیت کی تصدیق کرتا ہے۔چنانچہ اُس حجت کا اصل مضمون یہ ہے کہ وہ کہانت مسیحی اور جتنے فوائد اور فضائل اُس سے حاصل ہوتے ہیں یعنی اُس کا کفارہ ہونا اور بدرجہ کمال دُکھیوں کے ساتھ ہمدرد ہونا اورازراہ امامت خلق خدا کی دعاؤں اور سوالوں کو پہنچانا اور شفاعت وسفارش کرنا سب اُس کی حیات باقی اور لازوال اور ممتنع الانحلال ہونے پر موقوف ہیں ۔یعنی اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ کا ابن واحد ومحبوب از ازل تا ابدلازم الوجود ہے، نہ ابتدائے ایام ،نہ انتہائے حیات رکھتا ہے۔چنانچہ (عبرانیوں ۷: ۵) اور آیندہ آیتوں میں اِس راز کی مثال وشبیہ جو بادشاہ قدیم مَلک صدق میں دکھائی د ی ، صراحتاً بیان ہوتی ہے۔
پھر ایک اَور امر پر غوروفکر کرنا چاہیئے کہ وہ خداوند مسیح کے ساتھ سراسر مخصوص تھا ،بلکہ اُس کے معجزات کا سر اور غایت نہایت تھا اور وہ خداوند کا معجزہ اس قدر بے مثال اور بے نظیر تھا کہ کوئی فرشتہ بھی مع ہذا(علاوہ بریں۔ساتھ اس کے) کہ اقرب المقربین ہوتا اور کوئی نبی بھی ہر چند کہ بفرض محال خاتم النبیین ہوتا ،اتنی جرأت نہ کرتا کہ ایسی نادر خرق عادت پر دعویٰ کرتا ،یعنی خداوند مسیح اپنے وجود انسانی کی نسبت موت کا متحمل ہو کر اپنی قدرت الہٰی سے پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اِس اَمر کی بابت خداوند مسیح ہی کی صاف تقریر سنو، جسے یوحنا رسول نے خداوند مسیح کی زبان سے قبول کر کے حوالہ قلم کیا ہے’’باپ مجھ سے اِس لِئے مُحبّت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہُوں تاکہ اُسے پھِر لے لُوں ۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں۔ مُجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے اور اُسے پھِر لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مُجھے مِلا ‘‘ (یوحنا۱۸،۱۷:۱۰)۔ اور مقامات متعددہ میں رُسل مقدس تاکید اور تائید تمام سے اِس بات پر شاہد ہیں کہ ہر چند خداوند بحسب ظاہری اور خارجی صورت کے محقر اور خوار اور خطاکاروں میں محسوب اور مُلزم تھا، تو بھی فی الحقیقت باختیار وقدرت شاہانہ مصلوب ہوتے وقت بھی لوازم کہانت کو ادا ووفا فرماتا تھا۔ لیکن اُن نقلیات میں سے بالفعل دو ہی اِس امر کی تصدیق پر کافی ووافی ہوں گی۔پہلی عبرانیوں کے خط سے منتخب ہے ’’ چُنانچہ اَیسا ہی سردار کاہِن ہمارے لائِق بھی تھا جو پاک اور بے ریا اور بے داغ ہو اور گنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں سے بُلند کِیا گیا ہو ۔ اور اُن سردار کاہِنوں کی مانند اِس کا محتاج نہ ہو کہ ہر روز پہلے اپنے گُناہوں اور پھِر اُمّت کے گُناہوں کے واسطے قُربانیاں چڑھائے کیونکہ اِسے وہ ایک ہی بار کر گُذرا جِس وقت اپنے آپ کو قُربان کِیا ‘‘ (عبرانیوں۲۷،۲۶:۷)۔ اور اُس کے موافق ایک اَور بھاری کلمہ کلسیوں کے خط میں مرقوم ہے’’اور حکموں کی وہ دستاویز مِٹا ڈالی جو ہمارے نام پر اور ہمارے خِلاف تھی اور اُس کو صلیب پر کِیلوں سے جڑ کر سامنے سے ہٹا دِیا ۔اُس نے حُکُومتوں اور اِختیاروں کو اپنے اُوپر سے اُتار کر اُن کا برملا تماشا بنایا اور صلیب کے سبب سے اُن پر فتحیابی کا شادِیانہ بجایا ‘‘(کلسیوں۱۵،۱۴:۲)۔
سچ تو یہ ہے کہ اَور بہت سےمواضع ہیں جن میں خداوند مسیح کے مُردو ں میں سے مبعوث ہونے کی قدرت خود خداوند مسیح کی طرف نہیں ، بلکہ رب العالمین یعنی خدا باپ کی طرف اور اُس کی روح قدس کی طرف منسوب ہے اور فی التحقیق یہ بات خدا تعالیٰ کی پاک و حدانیت کے اسرار غیب میں سے ہے اور اُن تعینات اور تفاضیل میں سے ہے جو اُس پاک ذات کے عمق میں مخفی ہیں ،جن کا راز اور رمز یوحنا رسول کی مختلف آیتوں میں مشارُ‘ الیہ ہے ،مثلاً ’’ یِسُوع نے اُن سے کہا میَں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ بیٹا آپ سے کُچھ نہیں کرسکتا سِوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جِن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے ‘‘(یوحنا۱۹:۵)۔یہ اُس نادر اور بے مثال ابنیت کے حقوق اور لوازمات سے ہے، جس کی نہ ابتدا تھی نہ انتہا ہوگی اور جس کے رُوبرُو انسان کی عقل نظریہ جب باریک بینی اور فراست میں بھی سبقت لے جائے ،تب بھی حیران اور خاموش اور عاجز کھڑی رہتی ہے۔ ہاں بلکہ اپنی کوتاہ بینی اور جہالت کے شعور سے شرم کے مارے منہ خاک آلودہ کر کے اپنے آپ کو مکروہ جانتی ہے تو بلاشک وہ شخص نہایت تعصب اور غایت نادانی کا ملزم ہوگا جو اُس دروغ اور باطل تقریر کو منظور کرے، جسے بعض مولوی صاحبوں نے دین برحق کو معیوب اور مذموم ٹھہرانے کے لئے کمال لاف زنی اور افتخار سے گزرانا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ عقائد عیسوی کا اصل مبدا اور منشا اور مخرج ہے۔ حالانکہ وہ دین کی عین انتہا ہے اور اُس کے اصول اول سے تعلیم فرعیہ اور ضروری نتیجوں کی راہ سے مشتق ہے اور تحقیق تثلیث پاک ومبارک کی تعلیم دین برحق کے ابجد کے درس میں نہیں آتی، پر اُس کے اسراروں کی غایت ہے۔بعد از آنکہ کوئی صاحب ایمان کُلیتاً خدا تعالیٰ کی اُن تجاویز اور تدابیر سے واقف اور آشنا ہوجائے جو عالم زاد کی صحت وسلامت کے لئے متعین و میسرہوئی ہیں اور اُن کی وسعت و طوالت و علویت کا کچھ شعور حقیقی نصیب ہوجائے، تب اسرار غیب الہٰی کے اُس قلب وباطن اور گویا قعر (گہرائی )دریا میں جو تثلیث فی التوحید کہلاتا ہے، بشرط صفائی اور پاک دلی کے مداخلت کرنے کی اُمید پر قادر ہوگا۔
ایک اَور بھاری مسئلہ کا بھی جواب اجمالی چاہیئے کہ خداوند مسیح کی خدمت اور عہدہ کی کیا اور کیسی نسبت و تعلق ہے ،اس عالم فانی کی حالت موجود کی تصحیح اور اصلاح کے ساتھ ۔یعنی اُس کے نقصوں اور قصوروں کے پورا کرنے اور اُس کے دُکھوں اور حاجتوں کے رفع کرنے کا کس قدر ذمہ دار ہے اور کس قدر اُس کے بوجھوں کے تحمل پر قادر ہے ۔اس سوال کا جواب خداوند مسیح اور اُس کے رسولوں نے بہت صاف دیا ہے اور اِس اَمر میں تا ٓنقدر خداوند مسیح نے اختیار اور اقتدار مطلق کا دعویٰ کیا کہ وہ سراسر اُلوہیت اور معبودیت پر مستلزم ہے۔ چاہے شیطان کی حیلہ بازی اور ظلم اور وسوسوں کا ذکر ہو ،چاہے اُس کُشتی کا جو نفس وگناہ اور اِس عالم ِفانی کے لذائذ ونفائس و عشرت و شہوت کے ساتھ کرنی ہوتی ہے، چاہے فکر وتردد اور درد والم کا ذکر ہو، چاہے اُس ایذا اور لعن وطعن و مزاح کا جو اصحاب خلاف وبغض سے ہے، چاہے اُس آخری دشمن کا جو موت ہے ،ذکر ہو ۔وہ اُن سبھوں کی تخفیف اور تشفی یا پوری خلاصی اور رہائی کا قول وقرار دیتا ہے۔ نہ ہر شخص کو جو صرف اُ س کے نام کا لینے والا اور کلام کا پڑھنے والا اور منادی کرنے والا ہے ،بلکہ ہر قوم کے ہر شخص کو جوخدا تعالیٰ کی مرضی پر اپنی خواہش اور مرضی کو قربان کرتا اور اُس کے فضل کے وہ خاص اور عہدہ ظہور جو اُس کے ابن وحید میں ہیں ،بدل وجان منظور کرتا ہے اوروہ اپنے چشمہ ٔحیات سے ہر صورت کی موت کو نیست کرنے کا وعدہ بھی بخشتا ہے۔مثلاً (یسعیاہ ۵۵ :۱) میں خداوند کیا ہی خالص صریح باتوں میں اِس دنیا کے سب پیاسوں او ر حاجت مندوں سے مخاطب ہو کر پوری آسودگی اور فیض رسی اور دولت فضائل و نفائس روحانی کے تیقن سے دلوں کو نہال کرتا ہے اور خداوند مسیح اُسی باب کا اصل مضمون اپنی طرف منسوب کر کے یوحنا رسول کی انجیل میں یوں فرماتا ہے’’اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آکر پئے‘‘(یوحنا۳۷:۷)۔ اور دوسری آیت میں اس وعدے کی وسعت اور گنجائش اَور بھی زیادہ بڑھاکر فرماتا ہے’’جو مجھ پر اِیمان لائے گا اُس کے اندر سے جَیسا کہ کتاِب مُقدّس میں آیا ہے زِندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی ‘‘(یوحنا۳۸:۷)۔اور ان آیتوں میں بہت سی موافقت اور مثلیت ہے،اُس مشہور آیت سے جس سے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اِس عالم کے شدائد اور تکلیفوں اور تلخیوں اور تردّدوں اور جنبشو ں کے بیچ پوری تسلی اور تسکین پائی ہے’’ اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آوَ۔ مَیں تُم کو آرام دُونگا ‘‘(متی۲۸:۱۱)۔اور مجملاً ہم واجباً کہہ سکتے ہیں کہ آدم زادوں کے ساتھ جتنی جتنی نسبتوں اور تعلقات پر خداوند مسیح آپ دعوی ٰ کرتا ہے یا رسولوں نے اُنہیں اُس کی طرف محمول کیا ہے، اُن سب تعلقات سے اُس کی ازلی کلمیت اور قدرت ربّانی لازم آتی ہے۔مثلاً اُس وزنی اور دلچسپ قول سے جو یوحنا کی انجیل میں مرقوم ہے’’کیونکہ خُدا کی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اُتر کر دُنیا کو زِندگی بخشتی ہے ‘‘(یوحنا۳۳:۶)۔اور متفق اِس مضمون سے (عبرانیوں ۲: ۱۵،۱۴ )آیتیں ہیں ’’ پس جِس صُورت میں کہ لڑکے خُون اور گوشت میں شرِیک ہیں تو وہ خُود بھی اُن کی طرح اُن میں شرِیک ہُؤا تاکہ مَوت کے وسیلہ سے اُس کو جِسے مَوت پر قُدرت حاصِل تھی یعنی اِبلیس کو تباہ کر دے۔اور جو عُمر بھر مَوت کے ڈر سے غُلامی میں گرِفتار رہے اُنہیں چُھڑا لے ‘‘۔پس جس کی قدرت اور فعلیت اور تقویت اور تحمل پر سب آدم کا معاش و معاد کے لئے بھروسا اور توقع منحصر ہے، کون شخص اُس کی ذات الہٰی سے انحراف اور انکار کر کے خدا کے غضب سے امن وامان میں رہ سکے۔چونکہ شرّو شدّ کی جتنی نابودی اور خیرو خوب کی جتنی فیاضی خداوند مسیح کی طرف سے ہمیں دستیاب ہوتی ہے، سب خدا کی مرضی اور محض فضل اور اُس کی مشورت اور قضا وقدر کی طرف اطلاق کی جاتی ہیں، تو واہی حجتیں اور مباحثات ایسی بالغہ دلیلوں اور محکم مقوی تقرروں کے مقابل کس قدر اور کس وزن کے ہیں ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسے سبک اور خفیف تارعنکبوت(مکڑی) اُس قہار ذوی الانتقام کے غضب کے دریائے موّاج سے پناہ دےسکتے ہیں جو خدا تعالیٰ ایسا صحیح اور سلیم خوف آپ کے دلوں میں ڈالے کہ آپ خداوند مسیح کی برحق اور کامل اُلوہیت اور خداوند یسوع مسیح کی پوری انسانیت کے میل ملاپ کے راز پر لحاظ کر کے کہ ایک سے دوسرے میں ذرا بھی خلل اور نقص نہیں آتا۔خوب اِس اَمر کو سمجھ لیں کہ اُن دو ذاتوں کے اوزان اور خواص از ازل تا ابد نا مخلوط و متفرق رہتے ہیں ۔ مع ہذاوہ ایسے قریب رشتے رابطے سے باہم وابستہ اور چسپیدہ ہیں (جس دن سے وہ کلمہ مجسم ہو کر ہمارے عالم مخلوق کے بیچ ساکن ہو گیا) کہ اُن کی جدائی و فراق یاعمل یا قصد بمشکل قیاس میں آسکتا ہے۔
یہ مسئلہ بھی باعث حجت وبحث ہوجاتا ہے کہ خداوند مسیح کا تعلق گناہ کی بخشش اور عطائے خطا کے ساتھ اور اُس کے جورو جفا پر غلبہ اور قابو دینے کے ساتھ کون اور کس قدر کا ہے۔ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے گناہ کا بخشنا اور عطا فرمانا مطلقاً خدا کا کارخانہ جانا اور کہ غیر از خدا ہر شخص کہ اس اختیار علی الاطلاق پر دعوے دار تھا،اُن کی دانست میں عین کافر تھا اور وہ انجیلی بھی آپ اس امر کے مقر اور معترف تھے اور تمام خلق خدا اِس اقرار پر سراسر متفق ہوگی کہ گناہ کی بخشش خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور جس طرح گزشتہ اور ماضیہ گناہ کی بخشش ،اسی طرح حال و استقبال کے گناہ کا دبا ڈالنا اور جڑ سے اکھاڑنا محض خدا کی فعلیت مجرد اور صنعت لا شریک ہے ۔پر تو بھی انجیلی مصنفین اور سب رسول وہ دعویٰ خداوند مسیح کا برحق اور معتمد اور صادق، بلکہ موجب شکرو حمد جانتے اور بتاتے تھے ،جو وہ بارہا فرماتا تھا کہ میں خطا کو عطا کرنے پر قادر ہوں اور یہ میرا حق بے ردو بدل ہے اور اُس کی شکست و تسخیر اور اُس کو مغلوب کرنا میرے قابو او ر اختیار میں ہے۔
کتب انجیلی کے جتنے مؤلف ہیں سبھوں نے دین اور ایمان کی یہی بنیاد ڈالی ۔آنقدر کہ اگر کوئی شخص سچے ایمان اور حقیقی عبادت کی کوئی اَور بنیاد ڈالنی چاہے تو کلام خدا کے بموجب اُس کی بے ہودگی اور حماقت اُس معمار کی مانند ہے جو کہے کہ گھر کی تعمیر نہ بنیاد ڈالنے سے، بلکہ چھت بنانے سے شروع کرنی واجب ہے۔بے شمار شہادتیں اِس تعلیم پر ہیں جنہیں تفصیل وار نقل کرنا موجب طوالت ہوگا ۔صرف دوایک کا بطور نمونہ جات کے نقل کرنا ،صلاح ہے۔یوحنا رسول اپنے پہلے خط میں یوں فرماتا ہے’’۔۔۔ اگر کوئی گُناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار مَوجُود ہے یعنی یِسُوع مسیح راستباز۔اور وُہی ہمارے گُناہوں کا کفّارہ ہے اور نہ صِرف ہمارے ہی گُناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گُناہوں کا بھی ‘‘(۱۔یوحنا۲،۱:۲)۔
اُسی روح القدس کے الہٰام سے پولُس رسول کے عبرانیوں کے نام خط میں یہ قول حوالہ قلم ہے’’۔۔۔ مگر اب زمانوں کے آخِر میں ایک بار ظاہِر ہُؤا تاکہ اپنے آپ کو قُربان کرنے سے گُناہ کو مِٹا دے ‘‘ (عبرانیوں۲۶:۹)۔اور پطرس رسول نے روح کے الہٰام سے یہ قول الہٰی ہمیں سنایا ہے کہ ’’اس لِئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لِئے گُناہوں کے باعِث ایک بار دُکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خُدا کے پاس پُہنچائے۔ وہ جِسم کے اِعتبار سے تو مارا گیا لیکن رُوح کے اِعتبار سے زِندہ کِیا گیا ‘‘ (۱۔پطرس۱۸:۳)۔افسوس ہے کہ مولو ی صاحبان اپنے بہت مقتد یاں از اہل محمد سمیت خداوند کے ذبیحے او ر قربان ہونے کی اُس خاص صورت اور طریقہ پر بلاناغہ تمسخر اور ٹھٹھولیاں کرتے ہیں، پر تو بھی نبیوں اور رسولوں کی اور آپ خداوند کی یہ صاف متفق گواہی اُن کے ٹالنے سے نہیں ٹلتی کہ خدا کی قضا وقدر اور مشیت کسی دوسری طرح سے عمل میں نہیں آسکتی تھی۔چنانچہ اُس کی مرضی تھی کہ اُس کا کلمۂ ربّانی جو اُس کا ابن وحید ہے، غایت جلال سے نہایت خواری وذلت تک پست ہوجائے ۔ہاں تخت مالکیت سے عبدیت اور غلامی کی خاک نشینی تک جھک کر اور محتاجوں میں محتاج ہو کر اُنہیں جو آپ سے آپ خدا تعالیٰ کے قریب نہیں آسکتے تھے، اپنے ساتھ پیوند کر کے اُس خاک وغبار سے تخت جلال کو سرفراز کرے ۔ اس لئے خداوند مسیح نے اپنے ہی جسم انسانی کے ساتھ اپنی کلمیت ازلی اور نورانی وابستہ کر کے اُس کاہن کامل اور مجمع الفضائل اور گناہ سے مبّرا کا نمونہ دکھایا۔ جس کی مشابہت خام و ناقص حضرت ہارون اور اُس کے خلیفوں میں ظاہر ہوتی چلی آئی تھی اور اُس میں وہ برّہ بے عیب و بے داغ اور صاف وسفید نظر آیا ،جس کی توریت موسوی کے ذبائح کی گزراننے والی خلق زمان در زمان انتظاری کرتی تھی اور جس کو اپنے ہرایک ذبیحہ میں بر سبیل پیش خبری کےحاضرین کے رُوبرو دکھایا کرتی تھی۔
پھر غور کے لائق ایک اَور امر ہے جس کا ذکر وبیان فصل بالا میں درپیش آیاتھا اور وہ رسولوں کی مشہور تعلیمات میں سے ہے کہ جس طرح خدا کی اول خلقت کی ابتدا مسیح تھا کہ گویا سب عالمو ں کی مخلوقات کے اعیان اُسی میں موجود تھے اور اُس کے ذریعہ سے عالم شہود میں آگئے، اسی طرح خلقت جدید اور ولادت ثانی اُسی میں اور اُس کے ذریعہ سے وقوع میں آئی اور اُس حیات روحانی کا بچانے والا اور بڑھانے والا وہی ہے ۔از آنرو کہ پُرانی انسانیت کو اپنی ہی موت میں شامل کرتا اور اپنے ہی ذبح اور مقتول ہونے میں اُس کی ہر صورت کی باطنی اور ظاہری شرارت او ر نفس امارہ کو اُس کی بُری رغبتوں سمیت مقتول ومغلوب کرتا اور اپنی برخاست اور قیامت از مُردگان میں بھی اُنہیں آنقدر رفیق و شریک کر دیتا ہے کہ اُن کی حیات باصلہ تاز ہ و جدید بن کر خالق کی پاک صورت میں ازسر نو مخلوق ہوجاتی ہے، جس سے یہ راز نکلا کہ خداوند مسیح عزیز سب حقیقی مومنوں کا وارث ہوتا ہے اورآپ بھی اُن کی میراث ہے اور یقیناً جس نے یہ میراث پائی ہے، نہایت بیش قیمت خزانے کا مالک ہے، کیونکہ خداوند مسیح اپنے سب دلی دوستوں اور پیروؤں کوجو اہل قدسیت اور ایمان ہیں اپنے ہی دُکھ درد کے ثواب اور اپنے اعمال وفضائل میں اور آخرش اپنی جان وجلال میں شامل کر لیتا ہے۔
صاحبو اگرذرا سا تامل اور سوچ کرو گے اور حقیقت حال پر بنظر تمیز و انصاف دیکھ کر فتویٰ دو گے تو اقرار کرو گے کہ یہ نعمتیں اور قوتیں جن کی معرفت وہ شخص جو ابھی شیطان کا عین صید و شکار تھا، اُس کے قابو اور قبضے سے چھوٹا اور اُس کی قید توڑکر اور سخت جوأ پیر تلے کچل کر خد اکی خدمت اور عبدیت کے لئے آزاد نکلا ہے ۔از آنرو کہ خداوند مسیح کی موت ماضیہ اور حیات حال اور آیندہ جلال کی اُمید قوی میں شامل ہو کر گناہ کی نسبت مرا ہے ،پر خدا کی نسبت زندہ ہے۔یہ سب ضرور خداوند مسیح کی ربونیت اور معبودیت پر دال اور مستلزم ہیں ۔
ایک اَور ضروری سوال ان مسئلوں کے شمار میں درج کرنا چاہیے کہ خداوند مسیح کا تعلق کُل عالم کی عاقبت سے، بلکہ ہماری تمہاری عاقبت کے ساتھ کیا ہوگا۔ پہلی سندوں اور دلیلوں سے معلوم ہوا کہ عالم نفسانیات سے عالم روحانیات میں لانا اور گناہ کے مقتولوں اور شیطان کے مظلوموں کو زندہ اور وارث بہشت بلکہ وارث خدا کرنا، صرف خداوند مسیح کاکام ہے ،کسی دوسرے کی اس خدمت میں ذرا بھی شرکت نہیں ۔اِسی فی الحال کی قیامت کے حق میں خداوند مسیح نے آیت مذکورہ بالا میں فرمایا تھا’’میَں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے ‘‘(یوحنا۲۵:۵)۔ اس آیت میں ظاہراً اول موت اور او ل قیامت کا ذکر ہے۔ پھر اُن آیتوں میں جو اُسی باب میں آیت مذکور کے مقارن ہیں ،دوسری حیات اور دوسری موت سے اشارہ ہے اور خداوند مسیح کا قریب اور ضروری تعلق اُس عاقبت کے ساتھ نمایاں و مبین ہوتا ہے’’اِس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُنیں گے ۔اور نکلیں گے جِنہوں نے نیکی کی ہے زِندگی کی قیامت کے واسطے اور جِنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے ‘‘(یوحنا۲۹،۲۸:۵)۔اور اگر کوئی شخص اس بات میں شک وشبہ کر کے سوا ل کرے کہ آیا اِس تعلق کے احاطے میں کُل عالم کے سب اقوام اور قبائل اور مذاہب شامل ہوتے ہیں یا شاید ایک خاص اُمت اور اصل نسل ۔تو جوا ب اِس سوال کا اور حقیقت حال کی حجت بالغہ یوحنا رسول کے انجیلی بیان میں منقول ہے’’چُنانچہ تُونے اُسے(یعنی ابن خدا کو) ہر بشر پر اِختیار دِیا ہے تاکہ جِنہیں تُونے اُسے بخشا ہے اُن سب کو ہمیشہ کی زِندگی دے ‘‘(یوحنا۲:۱۷)۔اور انجیل متی میں یوں مرقوم ہے ’’جب اِبنِ آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب پاک فرِشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بَیٹھیگا۔ اور سب قَومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دُوسرے سے جُدا کرے گا جَیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے ‘‘(متی۳۲،۳۱:۲۵)۔ اور مکاشفہ کی کتاب کے ۲۰ ویں باب کی آخری آیتوں میں اُسی مسند مسیحی کی نہایت ہیبت ناک خبر بیان کی جاتی ہے’’ پھِر مَیں نے ایک بڑا سفید تخت اور اُس کو جو اُس پر بیٹھا ہُؤا تھا دیکھا جِس کے سامنے سے زمِین اور آسمان بھاگ گئے اور اُنہیں کہِیں جگہ نہ مِلی۔پھر مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو خُدا کے تخت کے سامنے کھڑے ہُوئے دیکھا اور کِتابیں کھولی گئِیں۔ پھِر ایک اَور کِتاب کھولی گئی یعنی کِتابِ حیات اور جِس طرح اُن کِتابوں میں لِکھا ہُوا تھا اُن کے اَعمال کے مُطابِق مُردوں کا اِنصاف کِیا گیا۔اور سمُندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور مَوت اور عالَم ارواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اَعمال کے مُوافق اُس کا اِنصاف کِیا گیا۔پھر مَوت اور عالَم ارواح آگ کی جھیل میں ڈالے گئے۔ یہ آگ کی جھیل دُوسری مَوت ہے۔اور جِس کِسی کا نام کِتابِ حیات میں لِکھا ہُؤا نہ ملا وہ آگ کی جھیل میں ڈالا گیا‘‘(مکاشفہ۱۱:۲۰۔۱۵)۔
اے صاحبو یہ صاف وصریح شہادتیں کیا وفق و تطابق رکھتی ہیں ، آپ لوگوں کے نبی صاحب کی بعض روایتوں اور حدیثوں سے، مثلاً اُس حدیث سے جس میں یہ مضمون درج ہے’’وَلاُٰ خِرَۃُ الثَّالِثَہۃُ لِیومٍ یَرغَبُ اِلَیَّ الخَلقُ کُلُّہُم حَتَّی اِبَراہِیمُ صَلَّی اللّٰہ عَلَیہِ‘‘وغیرہ۔ جس کی ایک شارح نے یہ شرح کی ہے کہ’’ تیسرا سوال قیامت کے دن کے واسطے رکھ چھوڑا کہ جب تمام پیغمبر خوفناک ہوں گے اور کسی کے واسطے کچھ نہ کہہ سکیں گے ،تب ہمارے حضرت شفاعت پر مستعد ہوں گے‘‘۔معلوم ہوا کہ قیامت میں پیغمبر لوگ بھی حضرت سے اپنے واسطے کچھ سعی سفارش چاہیں گے۔یہا ں تک کہ ابراہیم سے پیغمبر بھی دامن محمدصاحب پکڑیں گے۔اور مذکورہ بالا شہادتیں کیا ہی اتفاق رکھتی ہیں، اُس قصہ معراج محمدی سے بھی یعنی اُس حدیث سے جس میں محمدصاحب کے اُس صعود مزعوم اور ہفت سماوات میں سیر کرنے کی روایت ملتی ہے’’ثُمَّ صَعَدَ بِی حَتّٰی اَلَیّ السَّماءُ الثانِیَہۃ ُ فَاستَفتَح فَلَمّاَ خَلَصتُ اِذَا یَحییٰ وَعیِسیٰ فَسَلّمتُ فَرداً ‘‘وغیرہ ۔دیکھو صاحبو وہ خداوند جو خدا باپ کی مرضی اور اپنی اصلی کلمیت اور ابنیت کی حقیقت سے زمین اور آسمان کا مالک اور خالق اور منصف العالمین ہے کس قدر اپنے تخت جلال سے اُتار دیا گیا اور معبود العالمین ہونے کی جگہ قریب ہے کہ تابع اورعابد محمدصاحب ہو جائے ۔ افسوس ہزار افسوس کہ آپ لوگوں کے راوی اور شارحین پر وہ قول مسیحی بعینہٖ عائد ہوتاہے ،جو مرقس کی انجیل میں یوں منقول ہے’’ تُم خُدا کےکلام کو اپنی روایت سے جو تُم نے جاری کی ہے باطِل کردیتے ہو۔ اور اَیسے بُہتیرے کام کرتے ہو ،اور یہ بے فائِدہ میری پرستِش کرتے ہیں کیونکہ اِنسانی احکام کی تعلِیم دیتے ہیں ‘‘(مرقس۷،۱۳:۷)۔پھر ذرا غور کرو اُن اوصاف اور دل سوز تقریروں پر جو عبرانیوں کے خط او ر غیر مقاموں میں شفاعت مسیحی کے حق میں مرقوم ہیں کہ وہ شفاعت تا ابد کُل مومنین کے لئے تادرجہ کمال مقبول اور منظور ہے،مثلاً خط مذکور میں کیا ہی کریم و نعیم کلام نظر آتا ہے’’اِسی لِئے جو اُس کے وسیلہ سے خُدا کے پاس آتے ہیں وہ اُنہیں پُوری پُوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لِئے ہمیشہ زِندہ ہے ‘‘(عبرانیوں۲۵:۷) اور پھراسی باب کی ۲۴،۲۳ ویں آیات وغیرہ میں ہے کہ ’’ اور چُونکہ مَوت کے سبب سے قائِم نہ رہ سکتے تھے اِس لِئے وہ تو بُہت سے کاہِن مُقرّر ہُوئے ۔مگر چُونکہ یہ ابد تک قائِم رہنے والا ہے اِس لِئے اِس کی کہانت لازوال ہے ‘‘،’’پس آؤ ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے‘‘ (عبرانیوں۱۶:۴)۔تو جب اِن اور اِن کی ماننداور آیتوں سے صاف معلوم ہوا کہ خداوند مسیح یعنی امامت و شفاعت دائم قائم تا ابد سبھی خلق خدا کے لئے ہے تو یہ مضمون کیا ہی کمال ضد ہے، اُس حدیث کی جس میں کیفیت معراج کی بابت یہ روایت تسلیم ہوتی ہے’’رَاَیَتُنِی فِی جَمَاعَۃٍ مِّنَ الاَ نبِیَآ ءِ۔وَاذَا عِیسَی ابنُ مَریَمَ قَائیِمٌ فَحَانَتِ الصّلوِٰ ۃ ُفَاَ حَمتُہُم‘‘(ترجمہ)’’نا گاہ عیسیٰ بن مریم کو دیکھا کہ کھڑا نماز پڑھتا ہے ۔پھر نماز کا وقت آیا سو مَیں نے پیغمبروں کی امامت کی‘‘ ۔
انجیل کے اقوال بالا کے متفق اَور بھی سیکڑوں نقلیات عاقبت اندیشوں کی خاطر جمعی کے لئے حوالہ قلم ہو گئیں ،مثلاًرومیوں کےنام خط کے (رومیوں۲ : ۱۶،۱۲ )آیتوں سےاور کرنتھیوں کے خط (۱۔کرنتھیوں ۴ : ۵) سے اِس امر کی صریح خبر دی جاتی ہے کہ دارالخلافت اور مسند انصاف کی مالکیت اور مختاری خداوند مسیح کو سپرد ہو گئی اور جس کی نشست اور صورت نورانی اُس سفید تخت پر ظاہر ونمودار ہوگی اور جس کے روبرو سب مُردے کیا چھوٹے کیا بڑے کھڑے کئے جائیں گے، سو خداوند مسیح ہے۔پر کون ایسا کوتاہ بین اور علم و عدل سے بے بہرہ ہے کہ اِن دوقیامتوں کی قدرت اور اختیار کو غیر از خدا کسی دوسرے کی طرف منسوب کرے ،خواہ اُس قیامت اول کا ذکر ہو جو اِس عمر چند روزہ کے وقت ہوتی ہے ۔ درحالیکہ روح انسان کی حالت ضلالت وفساد اور ذلت وزبونی سے خلاص ہو کر اور درگاہ ِخدامیں درجہِ فرزندیت سے مشرف ہو کر صورت خدا پر ازسر نو مصنوع اور مخلوق ہوتی ہے۔ خواہ قیامت ثانی کا ذکرہو جو خداوند مسیح کی دوسری آمد وظہور کےوقت برپا ہوگی۔ جب مومنین کا خاکی او ر ذلیل بدن اُس قدرت کی تاثیر کے مطابق جس سے وہ سب کو اپنے تابع کرسکتا ہے ،اُس کے نورانی جلالی بدن کے وفق ومشابہت میں متبدل ہو گا۔کیا وہ آدم زاد اور فرشتوں کے رُتبے سے ذات اور وجود میں اعلیٰ اور افضل نہ ہوگا۔جس کی مسند عدالت کے حضور میں ہم سب کو ضرورحاضر ہونا ہوگا یا اُس کا جلال اور کبریت سب مخلوقات کی ذات اور منزلت اور مقام سے بڑھ کر نہ ہوگا ۔جس نے بغیر تکبّر اور تفخّر کے عاقبت کے سب مہم ترین امورو واقعات کا سرانجام اور انتظام اپنی طرف منسوب کر کے وہ قو ل فرمایا جو متی کی انجیل میں مرقوم ہے’’ پس جَیسے کڑوے دانے جمع کِئے جاتے اور آگ میں جلائے جاتے ہیں وَیسے ہی دُنیا کے آخِر میں ہوگا۔ اِبنِ آدم اپنے فرشتوں کو بھیجیگا اور وہ سب ٹھوکر کھلانے والی چیزوں اور بدکاروں کو اُس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے۔ اور اُن کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔ اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانِند چمکیں گے۔ جِس کے کان ہوں وہ سُن لے‘‘(متی۴۰:۱۳۔۴۳)۔
قابل غور یہ امر بھی ہے جو مکاشفہ کی کتاب اور دانی ایل نبی کی کتاب کے آخری ابواب سے روشن اور واضح ہے کہ کیسی اور کتنی کُشتیوں اور جنگ و جدالوں میں سے اجماع عامہ حقیقی جو خدا کی خلق نو مخلوق ہے ،اپنے سب دشمنوں پر غالب و فتح یاب نکلے گا ۔خصوصاً اُس اژدہے کے پنجے سے جو شیطان ہے اور اُس حیوان سے جس کو اژدہے نے اپنی قدرت اور اختیار سپرد اور تفویض اور توکیل(وکیل کرنا) کیا ہے او ر جس سے مراد ہیں اِس دنیا کی وہ سلطنتیں جو بے دین وبے دیانت اور بے خدا ہیں ۔اور اُس کسبی کے فن وفریب سے جو حیوان پر سوار ہوئی اپنی جادوگری کے پیالوں سے سب قومو ں کو نشے سے بے ہوش کرتی ہے ۔جس سے مراد ہے وہ گروہ جو ازروئے دغابازی اور خیانت کے اجماع مومنین اور عقائد حق سے ہٹ گیا اور خدا کی نسبت زانیہ کی طرح فسق وفجور میں غرق ہوگیا۔اور جھوٹے نبی کی حیلہ بازیوں سے بھی جو حیوان کا وکیل اور مترجم ہے، ا ن سبھوں کے جوروجفا اور قبیح حکمتوں سے رہائی پاکر کمال صفائی کے پیراہن سے متلبس ہو کر وہ کلیسیا خداوند مسیح کی سلطنت کی خوبیوں اور فضیلتوں کی ہم وارث ہوگی۔ آنطور کہ دُلہن اپنے دُلہا کی حشمت اوررونق اور دبدبہ کی شریک اور رفیق ہوتی ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا آیتوں سے صاف معلوم اور ثابت ہوا کہ اُس سلطنت کا آفتاب خواری اور کدورت اورذلت کے گھنے گھنے بادلوں سے پھوٹ نکل کر طلوع ہوگا۔مثلاً یسعیاہ نبی نے فرمایا’’اس لئے مَیں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دُوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی‘‘(یسعیاہ۱۲:۵۳)۔یہ گواہی برحق ہے اور احوال جہان اور خلق خدا کے تجربے سے نت نئے ثبوت پاتی رہتی ہے اور خداوند مسیح کی خداوندی اور سلطنت کا جو لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کرتے ہیں کہ اُس سلطنت سے آپ ہی محروم ہوجاتے ہیں۔ چونکہ اُس دُکھ اور دردو رنج میں شرکت اوررفاقت رکھنے کی جگہ جو سلطنت کی طرف چلنے والوں کی متعین راہ ہے، وہ اُس کی صورت فروتن اور عاجز پر ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ جس کی بابت خداوند مسیح نے کہا’’ مُبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے ‘‘(متی۶:۱۱)۔اور وہ ٹھٹھا بھی مارتے ہیں اور لعنت کے متحمل کو ملعون جان کر یہود کے مزاح اور تمسخر کی تقلید کرتے ہیں اور پینے کی آر پر لات مارتے (16)ہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خداوند مسیح کی اُس سلطنت سے جو فی الحال اور فی الواقع جاری ہوتی ہے ،مراد ہے وہ نئی خلقت جس کی سرایت ملک بہ ملک اور قلب بہ قلب پھیلتی جاتی ہےاور بہت ہی سخت ،سرکش دلوں اور باغی مفسدوں کے تلخ اور شدید مزاجوں کو اُس منجی العاصین کے نرم جوئی تلے دباتی ہے۔از آنروکہ خدا کے فضل کو منظور کر کے اور اُس کے عہدو میثاق کے احاطے اندر آکے وہ اُس کی مرضی اور خدمت پر صدقے اور قربان ہوجاتے ہیں ۔اور اختتام و تکمیل اُس خلقت جدید کی وہ بادشاہی عموم اور غیر محدود ہوگی، جس کا دل سوز اور فرحت آمیز بیان مکاشفہ کی کتاب میں ملتا ہے’’ اور جب ساتویں فرِشتہ نے نرسِنگا پُھونکا تو آسمان پر بڑی آوازیں اِس مضمون کی پَیدا ہُوئیں کہ دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کرے گا۔اور چَوبیسوں بُزرگوں نے جو خُدا کے سامنے اپنے اپنے تخت پربیٹھے تھے مُنہ کے بل گِر کر خُدا کو سِجدہ کِیا ۔اور یہ کہا کہ اَے خُداوند خُدا۔ قادرِ مُطلِق! جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے۔ ہم تیرا شُکر کرتے ہیں کیونکہ تُو نے اپنی بڑی قُدرت کو ہاتھ میں لے کر بادشاہی کی ۔ اور قَوموں کو غُصّہ آیا اور تیرا غضب نازِل ہُؤا اور وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ مُردوں کا اِنصاف کِیا جائے اور تیرے بندوں نبیوں اور مُقدّسوں اور اُن چھوٹے بڑوں کو جو تیرے نام سے ڈرتے ہیں اجر دِیا جائے اور زمِین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ کِیا جائے‘‘ (مکاشفہ۱۵:۱۱۔۱۸)۔ اور پھر اسی صحیفے کے(مکاشفہ ۱۷: ۱۴) میں اُسی اختتام جلالی کا یہ ذکر ہے’’ وہ برّہ سے لڑیں گے اور برّہ اُن پر غالِب آئے گا کیونکہ وہ خُداوندوں کا خُداوند اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور جو بُلائے ہُوئے اور برگُزیدہ اور وفادار اُس کے ساتھ ہیں وہ بھی غالِب آئیں گے ‘‘(مکاشفہ۱۴:۱۷)۔آمین!
(16) ۔پینے کی آر پر لات مارنا ایک یونانی کہاوت ہے جس کا مطلب ہے’’ بے سود مزاحمت کرنا‘‘۔ پَینا تیز یا تیز دھار شے کو کہتے ہیں۔کسی اوزار کو تیز کرنے ’’ پَینانا ‘‘یا ’’ پَینا ‘‘کرنا کہا جاتا ہے۔