Muhammad in Islam

Sketches of Muhammad from Islamic Sources
BY THE

REV. WILLIAM GOLDSACK

1915

محمد ازروئے اسلام

اسلامی ماخذات سےمحمدصاحب کی زندگی کا خاکہ

شیخ الاسلام حضرت علامہ ڈبلیو گولڈ سیک صاحب

THE CHRISTIAN LITERATURE SOCIETY FOR INDIA

MADRAS ALLAHABAD CALCUTTA RANGOON COLOMBO

Rev William Goldsack

Australian Baptist Missionary and Apologist
1871–1957

محمد صاحب کا احوال

دیباچہ

اِس چھوٹے سےرسالے میں محمد صاحب کی مکمل سوانح عمری تو مندرج نہیں ،صرف ا س بڑے مصلح کی زندگی کے بعض بیانات قلم بند کئے جاتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کی معتبر کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔اس رسالے کی غرض یہ دکھا نا ہے کہ اسلام میں محمد صاحب کا درجہ کیا ہے اور خود مسلمانوں نے اس کی نسبت کیا کچھ تحریر کِیا ہے۔ جہاں تک ممکن ہوا غیرمسلم علما کے قیاس کو ہم نے یہاں دخل نہیں دیا ۔ہندوستان میں حال کے مسلمانوں نے محمد صاحب کی کئی تاریخیں لکھی ہیں،لیکن اُن کی تاریخی صحت کالعدم ہے۔ان مصنفوں نے اپنے خیالات کا ایک ایسا پتلا کھڑا کر دیاہے ،جو نہ تو تاریخ سے لگا کھاتا ہے اور نہ خود محمد صاحب کے اپنے بیانات سے جو ان کے ہم عصروں نے قلم بند کئے تھے۔

جو ضروری بیانات اس رسالے میں مندرج ہیں وہ مسلمان مصنفوں کی کتابوں پر مبنی ہیں اور جب کسی خاص دلچسپ اَمر کا بیان آیا تو ہم نے اکثر اس کو لفظ بہ لفظ نقل کر دیا اور جہاں جہاں سے کوئی مضمو ن اخذ کیا اس کا صرف حوالہ دےدیا۔محمد صاحب کے بارے میں جو علم ہم کو حاصل ہوا وہ ان سوانح عمریوں کے ذریعہ ہو اجو او ائل مسلمانوں نے لکھی تھیں۔لیکن یہ سخت افسوس ہے کہ سب سے قدیم سوانح عمری اب موجود نہیں۔چنانچہ قدیم مورخوں نے محمد صاحب کی چند ایک سوانح عمریوں کا ذکر کیا ہے،جن کا اب کچھ پتا نہیں ملتا۔ گمان غالب ہے کہ زہری جس نے ۱۲۴ھ میں وفات پائی پہلا شخص تھا جس نے محمد صاحب کی سوانح عمری لکھی۔کم ازکم اتنا تو تحقیق سےمعلوم ہے کہ اس نے ایسی حدیثوں کو جمع کیا جو محمد صاحب کی زندگی اور سیرت سے علاقہ رکھتی تھیں اور ہمیں یقین ہے کہ مابعد مورخوں نے اس کتاب سے بہت مدد لی ہو گی۔اسلامی تاریخی کتابوں میں دو دیگر مورخوں کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے محمد صاحب کا احوال لکھا۔یہ دونوں دوسری صدی ہجری میں گزرے۔ان میں سے ایک کا نام ’’موسیٰ بن عکبہ ‘‘ تھا اور دوسرے کا نام’’ ابو مشر ‘‘ ۔ان دونوں مورخوں کی کوئی تصنیف ہمارے زمانے تک نہیں پہنچی اور ’’مدائنی‘‘ کی وسیع تصنیفات کا بھی یہی حال ہے جو دوسری صدی ہجری کے آخری نصف میں زندہ تھا۔

ایک دوسرا مصنف جس نے اپنے ہم عصروں کی نگا ہ میں بہت عزت حاصل کی ،وہ’’ محمد بن اسحق‘‘ تھا جس نے ۱۵۱ ہجری میں وفات پائی ۔محمد صاحب کے بارے میں حدیثیں اس نے ایک کتاب میں جمع کیں ،لیکن اب وہ کتاب بھی موجود نہیں ۔لیکن اُس کے دوست اور شاگرد’’ ابنِ ہشام‘‘ نے ’’ابنِ اسحٰق‘‘ کے جمع کردہ مسالے کو اپنی کتاب ’’سیرت الرسول ‘‘ میں مندرج کیا۔ ’’ابنِ ہشام‘‘ کی یہ کتاب اب تک موجود ہے اور محمد صاحب کی تاریخ لکھنے کے لئے اس ’’سیرت الرسول ‘‘ کا مطالعہ لازمی ہے۔اسلامی تاریخ میں یہ شخص بہت مشہور ہے۔اس نے ۲۱۳ھ میں وفات پائی اور مابعد سوانح نویسوں نے ہمیشہ اس سے مدد لی۔اس مختصر رسالے میں بھی اس مصنف سے چند اقتباسات لئے گئے ہیں۔

دوسرا مشہور مصنف جس کی تصنیفات ہم تک پہنچی ہیں،وہ’’ محمد بن سعد‘‘ ہے جو عالم و اقدی کا منشی تھا۔اس نے۲۳۰ ھ میں وفات پائی۔اس نے پندرہ رسالے لکھے ۔ان میں سے ایک ’’سیرت المحمدصاحب‘‘ ہے۔اس کتاب میں مضمون کے لحاظ سے ،نہ تاریخی سلسلے کے لحاظ سے حدیثیں جمع کی گئیں ہیں۔لیکن جو شخص اس مضمون کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو اس سے گراں بہا مدد مل سکتی ہے۔

محمد صاحب کی زندگی کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا دوسرا چشمہ احادیث ہیں۔ان حدیثوں کے کئی مجموعے موجود ہیں۔ان میں محمد صاحب کے اقوال و افعال کا بیان مندرج ہے اور اُن کی روزانہ زندگی کا خوبصورت خاکہ دیا گیا ہے۔یہ حدیثیں محمد صاحب کے اصحاب پہلے پہل تو زبانی بیان کرتے گئے،بعد ازاں ان کو جمع کر کے مختلف کتابوں میں قلم بند کر لیا۔ان مختلف کتابوں میں سے دو بہت مشہور ہیں یعنی’’ صحیح مسلم ‘‘اور’’ صحیح بخاری‘‘۔ان دونوں کتابوں کے مصنف تیسری صدی ہجری کےوسط میں رحلت کر گئے۔اس رسالے میں ان دونوں کتابوں اور ’’جامع الترمزی‘‘ کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔

محمد صاحب کے بارے میں علم حاصل کرنے کا تیسرا چشمہ قرآن مجید اور اُس کی مستند تفاسیر ہیں۔شاید مابعد احادیث کی کوئی بے وقری (بے عزتی) کرے ،لیکن قرآن مجید میں تو بانی اسلا م کی زندگی کے بارے میں ہم عصر شہادت موجود ہے اور اس جنگی نبی کی تصویر کو قرآن مجیدکی شہادت کے بغیر تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔اس میں بھی مفسروں کی تشریحات سے مدد لی گئی ہے ،جنہوں نے محمد صاحب کی زندگی کے متعلق بے شمار واقعات کا ذکرقرآن مجید کی بعض مشکل آیات کی توضیح کے لئے کیا ہے۔چنانچہ اس رسالے کو لکھنے میں ہم نے عباس ،بیضاوی اور جلالین سے اور کچھ کم معتبر مفسر مثلاً قادری،عبد القادر،روخی اور خلاصہ تفاسیر سے مدد لی۔

ایک اَور بات کا ذکر کرنا باقی رہا۔قدیم سانحہ نویسوں کی طرح ہم نے بھی مضمون کے مطابق اس کتاب کے ابواب کی تقسیم کی ہے اور تاریخ یا زمانہ کی چنداں پابندی نہیں کی۔اس لئے گو دو بڑے حصے یعنی ’’محمد صاحب کی زندگی مکے میں’’ اور’’ محمد صاحب کی زندگی مدینے میں‘‘ہم نے قائم رکھے ،تو بھی بعض اوقات چند واقعات جو ایک زمانے سے تعلق رکھتے تھے، وہ دیگر ویسے ہی واقعات کے ساتھ جن کا تعلق دوسرے زمانے سے تھا اکٹھے کر دیئے گئے۔ہم نے یہ کوشش بھی کی کہ یہ کتاب اِسم با مُسمّٰی (جیسا نام ویسے گُن یعنی اپنے نام کے عین مطابق)ہو اور محمد صاحب کی زندگی کےمتعلق صرف اُنہی واقعات کا بیان کریں جن کو مسلمان مورخوں نے قلم بند کیا تھا۔

ڈبلیو ۔جی (دسمبر۱۹۱۵ء)

حصہ اوّل

محمد صاحب مکّہ میں

پہلا باب

محمد صاحب کے زمانے کے اہل عرب

ا س شخص اور اس کے پیغام کے سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضرور ی ہے کہ اُس کے زمانے میں عرب کی حالت کیا تھی۔خوش قسمتی سے ایسے علم کے ذرائع شاذو نادر نہیں ۔عربی مورخ ابوالفدا نے بالخصوص زمانہ اسلام کے ماقبل عربوں کےبارے میں بہت کچھ مفصل بیان لکھا ہے ،مثلاً اُس نے یہ لکھا کہ:

وكانوا يحجّون البيت ويعتمرون ويحرمون ويطوفون ويسعون ويقفون المواقف كلها يرمون الجمار وكانوا يكبسون في كل ثلاث أعوام شهراً وحلق الختان وكانوا يقطعون يد السارق اليمنى.

ترجمہ:’’ وہ کعبہ کا حج کیا کرتے تھے اور وہاں وہ عمرہ اور احرام باندھا کرتے اورطواف کرتےاور(کوہ صفا و مروہ پر) دوڑتےاور کنکر پھینکتے اور ہر تین سال کے بعد ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھتے۔۔۔وہ ختنہ کرتے اور چور کا داہنا ہاتھ کاٹا کرتے تھے‘‘۔

ابن ہشام نے ’’سیرت الرسل ‘‘میں دیگر امور کے ساتھ ایک سارا باب عرب کے بتوں کے بیان میں مخصوص کر دیا اور ان لوگوں کی بت پرستی کے متعلق کئی دلچسپ قصے بیان کئے۔یہ تو سچ ہے کہ بت پرستی عربوں کا عام مذہب تھا ،لیکن یہ کہنا ٹھیک نہ ہو گا کہ بت پرستی کے سوا اورکوئی مذہب عرب میں پایاجاتا ہی نہ تھا۔کئی موحد ایمان دار تھے جو ’’حنیف‘‘ کہلاتے تھے ۔ وہ مروجہ بت پرستی سے کنارہ کش تھے اور صرف واحد خدا کی پرستش کرتے تھے۔ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’سیرت الرسل ‘‘میں صفحہ۲۱۵ پر ان طالبان حق کا بہت عمدہ بیان کیا اور یہ واضح کر دیا کہ واحد حقیقی خدا کا علم عربوں سے بالکل پوشیدہ نہ تھا۔جو علمی کتابیں ہمارے زمانے تک پہنچی ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ محمدصاحب کی پیدائش سے بہت پیشتر خدا تعالیٰ کا علم عربوں کو حاصل تھا اور اُس کی پرستش ہوتی تھی۔اسلام سے ماقبل تصنیفات میں اہل عرب کے ادنیٰ دیوتا’’ لات ‘‘کہلاتے تھے۔لیکن جب اس کے ساتھ حرف تعریف ’’ آل ‘‘لگایا جاتا تو’’ اَل لات ‘‘جس کا مخفف’’ اللہ‘‘ ہے وہ خدا تعالیٰ کا نام ہو جاتا ۔بُت پرست شاعر نبیکا اور لبید دونوں نے لفظ اللہ کو بار بار خدا تعالیٰ کے معنی میں استعمال کیا اور سبعہ معلقہ میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں مستعمل ہے۔محمد صاحب سے بہت زمانہ پیشتر مکہ کے کعبہ کو بیت اللہ کہا کرتے تھے۔

اس کا کافی ثبوت ہے کہ محمد صاحب کو اہل حنیف کے ساتھ راہ و ربط تھا۔ چنانچہ مسلم محدث نے یہ تحریر کیا کہ مصلحٰان کلان میں سے ایک شخص ورقہ بن نوفل تھا۔یہ شخص خدیجہؓ کا رشتہ کا بھائی تھا۔اس لئے محمد صاحب کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ توحید خدا کا مسئلہ اس سے سیکھ لے۔اس قدر تو تحقیق ہے کہ جب محمد صاحب نے وعظ کرنا شروع کیا تو اُس نے اپنے وعظ کا تکیہ کلام اسی لفظ ’’ حنیف ‘‘ کو ٹھہرایا اور بار باراُنہوں نے اس اَمر پر زور دیا کہ مَیں تو صرف ابراہیم حنیف کے مذہب کی تلقین کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔چنانچہ یہ لکھا ہے:

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا

ترجمہ:’’ میرے خدا نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ۔حقیقی دین ابراہیم حنیف کے ملت کی(سورۃ الانعام۱۶۱:۶)‘‘۔

اہل حنیف کے علاوہ محمد صاحب کے زمانے میں عرب میں دو دیگر موحد فرقے تھے یعنی یہودی اور مسیحی۔مکہ میں ان کا شمار تو بہت نہ تھا لیکن مدینے اور اُس کے قرب و جوار میں بہت بار سوخ اور دولت مند یہودی قبیلے پائے جاتے تھے۔فی الحقیقت محمد صاحب کی ولادت سے پیشتر جنوبی عرب میں ایک یہودی سلطنت تھی جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھ میں آگئی ۔اس مسیحی سلطنت کا دارالحکومت شہر ’’صفا‘‘ تھا جو مکہ سے مشرق کی طرف کچھ فاصلہ پر واقع تھا۔یہ یہودی اور مسیحی اہل کتاب بمقابلہ مشرکین زیادہ عالم اور بارسوخ لوگ تھے اور انہوں نے اہل عرب کے مذہب پر بہت تاثیر کی ہو گی۔اس سے یہ تو واضح ہے کہ ان جماعتوں کی تعلیم توحید نے محمد صاحب پر ضرور اثر کیاہوگا۔اس اَمر کی کافی شہادت ہے کہ ان کے ساتھ محمد صاحب کا گہرا راہ وربط تھا، مثلاً قرآن مجید میں پتری آرکوں کے جو قصے مندرج ہیں اگر ان کا مقابلہ تالمود کے بیانات سے کیا جائے جس میں بائبل مقدس کی تاریخ کو کچھ توڑا مروڑا گیاہے اور جو محمد صاحب کے زمانہ میں یہودیوں کے درمیان مروج تھے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان خیالات کے لئے محمد صاحب کہاں تک یہودیوں کے زیر احسان تھے۔خود قرآن مجیدمیں باربار محمد صاحب اور یہودیوں کے درمیان گفتگو کا ذکر آیا ہے اور یہ بھی شک نہیں کہ ایک وقت ان کایہ تعلق بہت ہی دوستانہ تھا ۔ ان کتابوں سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب کی یہ عادت تھی کہ دین کے بارے میں وہ یہودیوں سے سوال پوچھا کرتے تھے اور صحیح مسلم میں اس مقصد کی ایک حدیث آئی ہےجس سے سارا شبہ جاتا رہتا ہے ،وہ یہ ہے :

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 952

راوی: حسن بن محمد زعفرانی , حجاج بن محمد , ابن جریج , بن ابی ملیکة , حمید بن عبد الرحمن بن عوف

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْئٍ فَکَتَمُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا قَدْ سَأَلَهُمْ عَنْهُ

ترجمہ :۔’’ابن عباس نے کہا کہ جب نبی صلعم کوئی سوال اہل کتاب سے پوچھتے تو وہ اس مضمون کو چھپا دیتے اور اُس کی جگہ کچھ اَ ور ہی بتا دیتے اور اس خیال میں چلے جاتے کہ یہ سمجھے گا کہ جو اُس نے پوچھا تھا اُسی کا جواب ہم نے دیا‘‘۔

سید امیر علی نے اپنی کتاب (Life & Teaching of Muhammad ) میں صفحہ ۵۷ پر اس اَمر کو مان لیا کہ اسلام کی اشاعت میں یہودی اور مسیحی خیال نے کس قدر دخل پایا۔چند مسیحی بدعتی فرقوں (Docetes , Marcionites , Valentinians وغیرہ) کے عقیدوں کا ذکر کرتے وقت جو عرب آباد تھے، وہ کہتا ہے:

’’ محمد صاحب کی آمد سے پیشتر یہ ساری حدیثیں جو اَمر واقعی پر مبنی تھیں گو خیالات کی جولانی نے اپنا رنگ اُن پر چڑھا دیا،لوگوں کے عقائد میں نقش ہو گئی تھیں اور اس لئے اُن لوگوں کے مروجہ دین کا جزو اعظم بن گئیں۔پس جب محمد صاحب نے اپنے عقیدے اور شرائع(شرع کی جمع) کی اشاعت شروع کی تو ان حدیثوں کولوگوں میں مروج پایا ،اس لئے اُنہوں نے ان کو لے کر عربوں اور گردونواح کی قوموں کو اٹھانے کا وسیلہ بنا لیا کیونکہ وہ لوگ تمدنی اور اخلاقی طور پر بہت ہی گرے ہوئے تھے‘‘۔

ایک دوسرے مسلمان خدا بخش نے اپنے ایک رسالے(Indian + Islamic) میں صفحہ۱۰،۹ پر یہ لکھا:

’’محمد صاحب نے نہ صرف یہودیوں کی تعلیم وعقائد کو قبول کر لیا تھا اور تالمود کی رسوم کو، بلکہ بعض یہودی دستورات کو بھی اور ان سب سے بڑھ کر توحید کو جو کہ اسلام کی عین بنیاد ہے‘‘۔

پس یہ ظاہر ہو گیا کہ گو اکثر اہل عرب بُت پرست تھے ،لیکن سب کے سب بت پرستی میں مبتلا نہ تھے۔برعکس اس کے یہودیوں اور مسیحیوں کے بہت قبیلے تھے جن سے محمد صاحب نے حقیقی خدا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا اور توحید کی اس تلقین کے لئے راہ تیار کردی جس نے وہاں کے لوگوں کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا۔

دوسرا باب

محمد صاحب کی ولادت اور اوائل زندگی

محمد صاحب ۵۷۰ء میں بمقام مکہ پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام عبداللہ اور اُن کی والدہ کا نام آمنہ تھا۔موروثی طورپر اہل قریش کعبہ کے محافظ تھے اوراسی وجہ سے اہل عرب اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ عبداللہ اور آمنہ کے نکاح کے چند روز بعد عبداللہ کو تجارت کے لئے شام کا سفر کرنا پڑا۔اس سفر سے واپس آتے وقت راہ میں وہ بیمار پڑ گیا اور اپنی عروس کو دیکھنے سے پیشتر ہی رحلت کر گیا۔اُس کی وفات کے چند ماہ بعد آمنہ کے بطن سے محمد صاحب پیدا ہوئے اور چند ہفتوں کےبعد شہری عربوں کے عام دستور کے مطابق آمنہ نے اس بچہ کو ایک بدُّو عورت حلیمہ نام کے سپرد کیا۔حلیمہ نے اس یتیم بچے کی پرورش شروع کی اور پانچ سال تک وہ اس کی پرورش اپنے گھر پر کرتی رہی۔اس عرصے کے گزرنے کے بعد بچہ اُس کی والدہ کے حوالے کیا گیا۔قصص الانبیا اور دیگر حدیث کی کتابوں میں ایک عجیب قصہ بیان ہوا ہے کہ جن ایام میں محمد صاحب حلیمہ کے پاس تھے تو ایک حادثہ اُن پر واقعہ ہوا۔وہ قصہ یہ ہے کہ جب یہ بچہ حلیمہ کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا(یا بروایت دیگر بکریاں چرا رہاتھا)تونا گہاں دو فرشتے دکھائی دیئے۔انہوں نے آکر بچہ کو فوراً پکڑ لیا اور اُسے زمین پر چت لٹا کے اُس کےسینے کو کھولا اور خالص پانی سے دھو کر اُس میں سے ایک سیاہ چیز نکال ڈالی اور اُنہوں نے یہ کہا:

هذا حظ الشيطان منك يا حبيب الله ۔ترجمہ:’’اے خدا کے پیارے یہ تیرے اندر شیطان کا حصہ تھا‘‘۔جب وہ یہ کر چکے تو اُنہوں نے اُن کے سینے کو پھر بند کر دیا اور غائب ہو گئے۔اس عجیب قصہ کا ذکر مِشکوٰۃ المصابیح میں بھی ہوا ہے اور دیگر اسلامی کتابوں میں بھی اور بہت سےمسلمان مصنفوں نے اس پر بہت لمبے چوڑے حاشیے چڑھائے تا کہ یہ ظاہر کریں کہ خدا نے بچپن ہی سے محمد صاحب کو نبوت و رسالت کے لئے تیار کیا تھا۔بعضوں نے تو یہ کہا کہ محمد صاحب کو صاف کیا گیا اور اس میں سے گناہ کا داغ و دھبہ ہمیشہ کے لئے نکال دیا گیا۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو فرشتے اس غیر معمولی کام کے سر انجام دینے میں قاصر رہے یا محمد صاحب کی شخصیت کچھ ایسی مضبوط تھی کہ وہ خدا کے ارادوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی، کیونکہ قصص الانبیا میں مذکور ہے کہ چند سال بعد ایک دوسرے موقعے پر جب محمد صاحب معراج پر جانے کو تھے تو دو فرشتے ظاہر ہوئے اور محمد صاحب کا سینہ چاک کر کے آبِ زم زم کے پانی سے اس کو خوب دھویا۔خواہ کچھ ہی ہو حلیمہ نے جب یہ قصہ محمد صاحب اور اس کے رفیقوں سے سنا تو بہت گھبرائی اور ساتھ ہی مرگی کے آثاروں کو دیکھ کر اُس نے ارادہ کر لیا کہ اس بچے کواُس کی ماں کے حوالے کردے اور اُس کی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جائے۔سیرت الرسول میں یہ بیان ہے کہ حلیمہ کے خاوند کو بھی فکر پیدا ہو گئی اور یوں مخاطب ہوا:

’’اے حلیمہ مجھے اندیشہ ہے کہ اِ س بچے میں شیطان گھسا ہوا ہے، اس لئے جلد جا کر اس بچے کو اُس کی ماں کے سپرد کر دے‘‘۔

آمنہ نے دل لگا کر اس قصے کو سنا اور حلیمہ کے اندیشوں کو سن کر یوں چلّائی:أفتخوفت عليه الشيطان ۔ترجمہ:’’کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ اس پر شیطان چڑھا ہے‘‘۔لیکن چونکہ وہ بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اُس نے حلیمہ کو پھُسلا کر ایک اَور سال کے لئے بچہ اُ س کے سپرد کردیا۔

اس عرصے کے ختم ہونے کے بعد جب محمد صاحب چھ سال کا ہو گیا تو اُ س نے بچہ کو اُس کی ماں کے سپرد کر دیا۔جب محمد صاحب مکہ میں اپنی والدہ کے پاس آگیا تو اُس سے تھوڑی دیر بعد آمنہ اپنے کسی رشتہ دار کو مدینہ میں ملنے گئی اور محمد صاحب کو بھی ساتھ لیتی گئی۔چند دن وہاں ہنسی خوشی گزار کر اپنے گھر کو روانہ ہوئی۔لیکن آمنہ بیمار پڑ گئی اور چند دنوں بعد مر گئی اور یہ بچہ بالکل ہی یتیم رہ گیا اور ماں باپ کا سایہ سر پر سے اُٹھ گیا۔اب محمد صاحب کے دادا عبد المطلب نے اُس کی پرورش کا ذمہ لیا اور اُس کی بڑی خبرداری کرتا رہا۔لیکن عبد المطلب اسّی(۸۰) سال کا بوڑھا تھا اور دو سال بعد وہ بھی چل بسا اور محمد صاحب کو اپنے بیٹے ابو طالب کے سپرد کر گیا۔ابو طالب بہت نیک طینت اور کشادہ دل شخص تھا۔اس نے بڑی وفاداری اور خوش اسلوبی سے اس ذمہ داری کے کام کو سر انجام دیا جو اُس کے والد نے اُس کے کندھوں پر رکھ دیا تھا۔

دس سال کی عمر میں محمد صاحب کو اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی قافلے کے ساتھ جانا پڑا اور اس ملک میں مسیحیوں کی کثرت تھی ،اس لئے وہاں اُسے بہت سےمسیحیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔اس تاریخ سے لے کر دعویٰ نبوت تک تیس سال کا عرصہ گزرا۔اس عرصے میں محمد صاحب کی زندگی کے متعلق کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں گزرا۔اپنی صداقت و دیانت کے باعث محمد صاحب سب کا عزیز بن گیا اور کہتے ہیں کہ اسی صداقت کی وجہ سے لوگ اُسے ’’الامین‘‘ کہنے لگے۔

ابو طالب دولت ِدُنیا سے بہت بہرہ ور نہ تھا۔اس لئے اُس کی مشورت سے محمد صاحب کو اپنی معاش حاصل کرنے کی فکر ہوئی اور اس کے لئے جلد ہی ایک موقعہ مل گیا۔خدیجہؓ نامی ایک دولت مند بیوہ نے قافلہ کے ساتھ محمد صاحبکوشام جانے کے لئے ملازم رکھ لیا۔چند دنوں کےبعد ایک قافلہ کے ہمراہ وہ روانہ ہوئے اور جو کام اس کے سپرد تھااسے ایسی ہوشیاری اور تن دہی سے سر انجام دیا کہ اُس کے واپس آنے پر خدیجہؓ نے اُس سے شادی کر لی۔اس وقت محمد صاحب کی عمر تقریباً پچیس سال کی تھی اور خدیجہؓ کم ازکم چالیس سال کی۔عمر کے اس قدر تفاوت کے باوجود بھی یہ شادی مسعود ٹھہری۔اُس کے بطن سے چھ بچے پیدا ہوئے ،لیکن وہ سب ایام طفولیت ہی میں مر گئے۔خدیجہؓ کے بچے پہلے خاوند سے بھی تھے، لیکن اگر سب نہیں تو اکثر ان میں سے بھی پہلے ہی مر چکے تھے۔ان کے بارے میں مِشکوٰۃ میں ایک دلچسپ حدیث آئی ہے۔ محمد صاحب کے دعویٰ نبوت کے بعد ایک روز:

مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 1076

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات

سَأَلَتْ خَدِيجَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَلَدَيْنِ مَاتَا لَهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمَا فِي النَّارِ ترجمہ:’’خدیجہؓ نے نبی سے اپنے دو بیٹوں کے بارے میں جو ایام جاہلیت میں مر گئے تھے سوال کیا۔رسول اللہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں(دوزخ کی)آگ میں ہیں‘‘۔

اس میں تو کچھ شک نہیں کہ ایک وقت خدیجہؓ اور محمد صاحب دونوں بُت پرست تھے۔قدیم مسلمانوں کی تاریخ میں اس کا صریح ثبوت ملتا ہے،مثلاً کتاب مسند(جلد چہارم ،صفحہ۲۲۲)میں یہ مندرج ہے کہ رات کے وقت سونے سے پیشتر یہ دونوں بتوں کے آگے سجدہ کیا کرتے تھے۔ابن حنبل نے اس دستور کا یہ ذکر کیا:

حدثني جار لخديجة بنت خويلد أنه سمع النبي صلعم ويقول لخديجة أي خديجة والله لا أعبد اللات والعزى والله لا أعبد أبداً قال فتقول خديجة خل اللات خل العزى قال كانت صنمهم التي كانوا يعبدون ثم يضطجعون. ترجمہ:’’عبداللہ نے کہا:خدیجہؓ بنت خویلد کے خادم نے مجھ سے بیان کیا کہ اُس نے نبی کو خدیجہؓ سے یہ کہتے سنا۔خدا کی قسم اب میں لات اور عزی کی پرستش نہیں کرتا اور خدا کی قسم میں آئندہ کو بھی ایسا نہ کروں گا۔اُس نے کہا کہ خدیجہؓ نے یہ جواب دیا کہ لات اور عزی کو چھوڑ دو(عبداللہ نے) کہا، بستر خواب پر جانے سے پیشتر جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے یہ تھے‘‘۔

اس مضمون کے بارے میں قرآن مجید بھی بالکل خاموش نہیں۔سورۃ الضحیٰ(۷،۶:۹۳) میں یہ لکھا ہے:

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ

ترجمہ:’’کیا تجھے(اے محمد صاحب) یتیم نہیں پایا اور تجھے گھر دیا اور تجھے گمراہ پایا اور تیری ہدایت کی‘‘۔

جلال الدین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا:

ووجدك ضالاً عما أنت عليه من الشريعة فهدى أي هداك إليها

ترجمہ:’’کیا اس نے تجھے اپنی شریعت سے جس پر اب قائم ہے گمراہ نہ پایا اور اس کی طرف تیری ہدایت کی‘‘۔

شاہ عبد العزیز دہلوی نے قرآن کی فارسی تفسیر میں اس کی مزید وضاحت کر دی۔ بقول اُن کے :

اس آیت میں رسول صاحب کی روحانی تاریخ کے اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب اُ س نے بالغ ہو کر خرد حاصل کر کے یہ معلوم کر لیا کہ بتوں کی پرستش اور ایام جہالت کی رسوم ہیچ تھیں۔۔۔پس اُنہوں نے اُن بتوں کو ترک کیا اور اُن بد رسوم سے کنارہ کشی کی اور ابراہیم کے خدا کا عرفان حاصل کیا۔

پھر سورۃ الفتح(۲،۱:۴۸) میں یوں مرقوم ہے:

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ

ترجمہ:’’ہم نے تمہارے لئے ایک صریح فتح حاصل کی جس کا یہ نشان ہے کہ اُس نے تیرے پہلے اور تیرے پچھلے گناہ معاف کر دیئے‘‘۔

اس مشہور آیت کی تفسیر میں ’’پہلے گناہ‘‘ کی نسبت مفسر عباس نے یہ رقم کیا:

ما تقدم من ذنبك قبل الوحي

ترجمہ:’’یعنی تیرےوہ گناہ جو وحی نازل ہونے سے پیشتر کے تھے‘‘۔

عباس کے بیان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ محمدصاحب کے جن گناہوں کا اس آیت میں ذکر ہے، وہ اس عالم شباب اور اوائل عمر کے گناہ تھے۔یعنی ایسے گناہوں کا جو دعویٰ نبوت سے پیشتر اُن سے سر زد ہوئے اور خود محمدصاحب نے مابعد ایام میں اپنی جوانی کے گناہوں کی طرف اشارہ کیا اور صحیح مسلم اور بخاری میں اُن کے استغفار کی دعاؤں کا ذکر آیا ہے۔چنانچہ مثال کے طور پر ایک دعا مِشکوٰۃ المصابیح (کتاب الصلوٰۃ )میں سے یہاں نقل کی جاتی ہے:

صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ حدیث 1806

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي

ترجمہ:’’اے خدا میرےپہلے اور پچھلے (وحی نازل ہونے سے)گناہوں کو معاف کر جن کو میں نے چھپایا،جن کو میں نے ظاہر کیا،جن کو میں نے شدت سے کیا اور جن کو میری نسبت تو ہی جانتا ہے‘‘۔

یہ تسلیم کر لینا آسان ہے کہ محمد صاحب نے اپنے والدین اور متولّیوں کی طرح بت پرستی میں حصہ لیا۔یہ تو تحقیق ہے کہ اُس کے والدین بتوں کی پرستش کرتے تھے اور قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اسی وجہ سے محمد صاحب کو ممانعت ہوئی کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے لئے دعا کریں۔

سورۃ التوبہ(۱۱۳:۹) میں یہ لکھا ہے:

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ:’’ نہ نبی کو چاہیے اور نہ ایماندار وں کو کہ اُن لوگوں کی معافی کے لئے دعا کریں، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں بعد اس کے کہ یہ واضح ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں‘‘۔

گو محمد صاحب عالم شباب اور اوائل عمر میں بت پرست تھے ،لیکن متوسط عمر کے ہو کر اُنہوں نے بُت پرستی کی ساری رسوم کو ترک کر دیا۔اُس کے حنیف رشتہ داروں اور مسیحی متبنّٰی بیٹے زید کی تاثیر سے بلا لحاظ مسیحیوں اور یہودیوں کی عام تاثیر کے وہ بتدریج واحد خدا کے پرستار بن گئے اور اُس بڑے پیغام کے لئے تیار ہو گئے جس کی نسبت اُنہوں نے یقین کر لیا کہ خدا نے اُس کو لوگوں کو سنانے کے لئے بھیجا تھا۔

تیسرا باب

پیغام کا اعلان

خدیجہؓ دولت مند بیوہ تھی۔اُس کے ساتھ شادی کرنے سے محمد صاحب کو فارغ البالی کے ساتھ دینی امور پر غور کرنے کا موقعہ مل گیا۔سیّد امیر علی اپنی کتاب(Life of Muhammad) میں یہ مرقوم کیا:

’’یا تو اپنے خاندان کی گود میں یا صحرا کے وسط میں اُس نے اپنا وقت غورروفکر میں صَرف کیا۔گوشہ نشینی تو اس کی زندگی کا ایک جزو بن گیا تھا۔ہر سال رمضان کے مہینے وہ اپنے خاندان سمیت کوہ حرا پر چلا جاتا اور اپنا وقت دُعا و نماز میں گزارتا اور جو غریب غربا اور مسافر اس کے پاس آتے اُن کی مدد کرتا تھا‘‘۔

مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب فضائل سیّد المرسلین میں اس کا مفصل بیان پایا جاتا ہے،لیکن اُس بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔اس کے متعلق کہ اس عرصے میں اس نبی کا طرز زندگی کیاتھا؟یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ جب وہ اس غیر مرئی پر سوچ رہا تھا تو پہاڑ کی غار میں فرشتوں کی خیالی تصویریں اور روئتیں اُس کو نظر آنے لگیں اور اُس کو یہ یقین ہوتا گیا کہ آسمانی وحی اور فرشتوں سے وہ بات چیت کر رہا تھا۔ان ابتدائی خیالی رویتوں کا ذکر جابر نے یوں کیا:

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1276

راوی: عبد بن حمید , عبدالرزاق , معمر , زہری , ابوسلمہ , جابر بن عبداللہ

بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائَ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي

ترجمہ:’’جب میں چلا جارہا تھا تومیں نے آسمان سے ایک آو از سنی اور میں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا ۔ دیکھ ! ایک فرشتہ آسمان وزمین کے مابین تخت پر بیٹھا ہوا میرے پاس کوہ حرا میں آیا ۔اس کو دیکھ کر میں بہت ڈر گیا، تب میں نے اپنے گھر والوں کے پاس آ کر یہ کہا ،مجھے ڈھانپ دو اُنہوں نے مجھے ڈھانپ دیا‘‘(مِشکوٰۃ المصابیح باب البعث و بعدالوحی)۔

عائشہ ؓحضرت کی چہیتی بیوی نے یہ خبر خود محمد صاحب سے سنی ہوگی ۔چنانچہ اس نے اس وحی کے اُترنے کا بیان یوں کیا ہے :

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 423

آغاز وحی کی تفصیل :

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه و سلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه – وهو التعبد الليالي ذوات العدد – قبل أن ينزع إلى أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال : اقرأ . فقال : " ما أنا بقارئ " . قال : " فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ . فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : [ اقرا باسم ربك الذي خلق . خلق الإنسان من علق . اقرأ وربك الأكرم . الذي علم بالقلم . علم الإنسان ما لم يعلم

ترجمہ:’’نبی کو جو مکاشفے ابتدا میں ملے وہ سچے خوابوں کی صورت میں تھے۔ ۔ ۔ اس کے بعد خلوت نشینی کے دل دادہ ہوگئے اور کوہ حراکی ایک غار میں جا کر تنہا بیٹھا کرتے تھے اور رات دن عبادت میں لگے رہتے تھے۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ ایک روز فرشتے نے اس کے پاس آ کر یہ کہا ’’پڑھ ‘‘نبی نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ۔ محمد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد فرشتے نے مجھے پکڑ کر ایسے زور سے دبایا کہ میں مشکل سے برداشت کر سکتا تھا اور چھوڑ کر پھر مجھے یہ کہا ’’پڑھ‘‘ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں اور پھر پکڑ کر مجھے ایسے زور سے دبایا کہ میں مشکل سے برداشت کر سکا اورپھر مجھے چھوڑکرکہا کہ’’پڑھ‘‘ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں اور پھراس نے تیسری دفعہ پکڑ کر زور سے دبایا کہ میں مشکل سے برداشت کر سکا اور مجھے کہا ’’اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھ جس نے پیدا کیا آدمی کو، گوشت کے لوتھڑے سے بنایا اور پڑھ تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘‘۔

ایک خاص وقفے کے سوا اس وقت سے لے کر تقریباً ۲۳سال تک حسب موقعہ کئی مکاشفے محمد صاحب سناتا رہاجو دینی بھی تھے اور تمدنی اور ملکی بھی ۔ ان کی نسبت اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ جبرائیل فرشتہ کے وسیلے اس کو ملے تھے ۔اس نبی کی زندگی کا غور سے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ پہلے پہل تو اس نے سچے دل سے یہ یقین کر لیا کہ خدا نے اس کو چن کر اپنا رسول مقرر کیا ہے تا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو ان کی بت پرستی سے چھڑائے۔لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور زور و طاقت حاصل کرنے کی اشتہا بڑھتی گئی، تب بے شک انہوں نے بعض مکاشفات کو اپنے مقصد کی تائید کے لئے منجانب اللہ ٹھہراکر پیش کیا ہو گا۔

حدیث نویسوں نے ایک خاص عرصے کا ذکر کیا ہے جس میں کہ الہام نازل ہونا موقوف رہا ۔بعض کے نزدیک یہ عرصہ تین سال کا تھا اور بعض کے نزدیک صرف چھ ماہ کا ۔ خواہ کچھ ہی ہو،مسلم اور بخاری دونوں نےبیان کیا ہے کہ کچھ عرصے تک فرشتوں کا دکھائی دینا معطل رہا۔ اس سے محمد صاحب کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ ایک وقت خود کشی پر آمادہ ہو گئے۔

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 5882

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات

وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيُسْكِنُ ذَلِكَ جَأْشَهُ وَتَقَرُّ نَفْسُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ فَيَرْجِعُ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ وَفَتَرَ الْوَحْيُ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ: کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور سلسلہ وحی بند گیا، فترتِ وحی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی مرتبہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی وہ اس ارادے سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آجاتے اور عرض کرتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، اسے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش ٹھنڈا اور دل پر سکون ہو جاتا تھا، اور وہ واپس آجاتے ، پھر جب زیادہ عرصہ گذر جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی طرح کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے۔

مورخوں نے ا س اَمر کو بخوبی واضح کر دیا کہ محمد صاحب کو کچھ مرگی جیسی بیماری تھی اور اُن پر غشی طاری ہو جاتی تھی اور ا س حالت میں ہاتھ پاؤں مارا کرتے تھے۔مسلمانوں کی کتابوں میں اُن کی اس بیماری کا کئی بار ذکر آیا ہے اور جب ایسی غشی کی حالت طاری ہوتی تواُن کے پیرو اُن پر پانی کے چھینٹے مارا کرتے تھے۔چنانچہ بخاری میں محمد صاحب سے روایت ہے:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2137

راوی: یحیی , وکیع , علی ابن مبارک , یحیی بن ابی کثیر

يْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا

ترجمہ:’’میں نے خدیجہؓ کے پاس جا کر کہا مجھے ڈھانپ دے ،اس لئے انہوں نے مجھے ڈھانپ دیا اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا‘‘۔

مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب فضائل المرسلین میں عبادہ بن الصامت سے روایت ہے:

إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ كُرِبَ لِذَلِكَ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ

ترجمہ:’’جب اُس پر وحی نازل ہوئی تو اس کی وجہ سے اُن کو تشویش ہوئی اور اُن کا چہرہ گھبرا گیا‘‘۔

جو حالات ہم تک پہنچے اُن سے ظاہر ہے کہ ان غشیوں کی وجہ سے اُس کے پیروؤں کو بہت فکر پیدا ہو گئی۔بعضوں کو تو یہ اندیشہ ہو گیا کہ اُسے دیو کا آسیب ہے۔بعضوں نے خیال کیا کہ کسی جادو کا اثر ان پر ہو گیا۔خود محمد صاحب اسے جادو کی تاثیر سمجھتے تھے۔اگرچہ انہوں نے اس مرض سے بھی اپنی غرض نکالی اور ان غشیوں کو جبرائیل فرشتہ کی تاثیر سے منسوب کیا۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ احادیث میں بار بار ذکر ہوا ہے کہ محمد صاحب پر جادو کیا گیا تھا اور مسلمان علما کو اس میں کچھ نقص معلوم نہیں ہوتا کہ پیغمبر خدا جادو سے موثر ہو۔مِشکوٰۃ الصابیح میں باب معجزات میں اس عجیب اَمر کا مفصل بیان آیا ہے۔چنانچہ مفصلہ ذیل حدیث مسلم اور بخاری دونوں میں پائی جاتی ہے:

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 481

وعن عائشة قالت سحر رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى إنه ليخيل إليه أنه فعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيما استفتيته جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي ثم قال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الأعصم اليهودي قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال فأين هو قال في بئر ذروان فذهب النبي صلى الله عليه و سلم في أناس من أصحابه إلى البئر فقال هذه البئر التي أريتها وكأن ماءها نقاعة الحناء ولكأن نخلها رءوس الشياطين فاستخرجه متفق عليه

ترجمہ:’’عائشہ سے روایت ہے کہ اُس نے کہا کہ رسول خدا پر کسی نے جادو کر دیا جس کا اثر یہاں تک ہو ا کہ وہ خیال کرنے لگے کہ میں نے فلاں کام کیا، حالانکہ اُنہوں نے نہیں کیا تھا‘‘۔ پھر عائشہ نے کہا کہ محمد صاحب نے فرمایا کہ دو آدمی میرے پاس آئے ۔ایک تو میرے سر ہانے بیٹھ گیا اور ایک میرے پائے تانے۔ اس کے بعد ایک نے اپنے رفیق سے کہا کہ اس آدمی (محمد صاحب) کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔پہلے نے پوچھا کہ اس پر جادوکس نے کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ لبید العاصم یہودی نے۔اُس نے پھر پوچھا کہ کیسے کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ کنگھی اور اُن بالوں کے ذریعے جو اُس میں سے گرتے ہیں اور ایک مادہ کھجور کے پھول کے ساتھ۔پہلے نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟اُس نے جواب دیا کہ ضاروان کنوئیں میں۔یہ سن کر محمد صاحب اپنے چند اصحاب کو ساتھ لے کر اس کنوئیں پر گئے اور کہا کہ یہ کنواں مجھے بتا یا گیا ہے۔کنوئیں کا پانی حینہ میں جذب ہو گیا تھا اور کھجور کے درختوں کا عکس اس میں شیاطین کے سروں کی طرح نظر آتا تھا۔پھر محمد صاحب نے وہ چیزیں کنوئیں میں سے نکالیں،کہتے ہیں کہ اس کنوئیں میں محمد صاحب کی ایک مورت موم کی بنی رکھی تھی جس میں سوئیاں پروئی ہوئی تھیں اور ایک دھاگہ جس میں گیارہ گرہیں تھیں اُس کے ارد گرد لپٹا ہوا تھا ۔تب جبرائیل ایک سورۃ لائے جس میں حفاظت کی درخواست تھی اور اُس سورۃ کی ہر آیت کے پڑھنے پر ایک ایک گِرہ کھلتی جاتی تھی اور جو جو سوئی نکالی جاتی تھی،اُسی قدر محمد صاحب کو آرام ہو تا جاتا تھا۔حتیٰ کہ اُن کو اُس جادو سے بالکل آرام ہو گیا۔(بخاری جلد چہارم، صفحہ۱۸،۱۷) میں اس مضمون کا مفصل ذکر ہے جس سے بخوبی واضح ہے کہ محمد صاحب بھی اپنے ہم عصر لوگوں کی طرح جادو کو مانتے تھے۔الغرض اگر جادو،بدنظری اور شگون وغیرہ کے متعلق اسلامی کتابوں سے محمد صاحب کے عقیدہ کا بیان لکھا جائے تو ورقوں کے ورقے لکھے جا سکتے ہیں۔ ثبوت کے طور ایک دو مثالیں دینا بے موقعہ نہ ہوگا۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب الطب والرقعہ میں مسلم نے انس سے ایک روایت قلم بند کی ہے:

رَخَّصَ رسول الله صلى الله عليه وسلم فِي الرُّقْيَةِ مِنَ الْعَيْنِ وَالْحُمَّةِ وَالنَّمْلَةِ

ترجمہ:’’نظر بد،بچھو کے کاٹے اور پھوڑوں کے لئے محمد صاحب نے جادو کی اجازت دی‘‘ ۔

مسلم نے ایک اَور حدیث کا بھی اُسی باب میں ذکر کیا کہ اُم سلمہ نے کہا:۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ فَقَالَ اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ

ترجمہ:’’تحقیق محمد صاحب نے ایک لونڈی کو اپنے گھر میں دیکھا ۔اس کے منہ پر ایک زرد رنگ کا نشان تھا۔اس کی نسبت محمد صاحب نے کہا یہ تو نظر بد کا اثر ہے ،اس کے تعویذ استعمال کرو ۔

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 2154

أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَيْسٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْهِمْ الْعَيْنُ أَفَأَسْتَرْقِي لَهُمْ فَقَالَ نَعَمْ فَإِنَّهُ لَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ

ترجمہ:’’اسمہ بنت عمیس نے کہا اے رسول خدا اولاد جعفر پر نظر کا اثر بہت جلد ہو جاتا ہے تو کیا میں (اس کو د ور کرنے کے لئے)تعویذ استعمال کروں ؟ انہوں نے کہا ہاں کیونکہ اگر کوئی شئے تقدیر کی حریف ہے تو یہ نظر بد ہے‘‘۔

اس طرح کے توہمات کا محمد صاحب کی زندگی پر بہت اثر تھا۔ چلتے پھر تے ،کھاتے پیتے، جنات اور آدمیوں کی نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے اس قسم کے بہت سے ٹوٹکے استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم و بخاری دونوں نے اس مطلب کی حدیث بیان کی کہ محمد صاحب نے ایک موقعہ پر اپنے پیروؤں سے یوں خطاب کیا :

مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 951

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا سمعتم صياح الديكة فسلوا الله من فضله فإنها رأت ملكا وإذا سمعتم نهيق الحمار فتعوذوا بالله من الشيطان الرجيم فإنه رأى شيطانا "

ترجمہ :’’جب تم مرغ کو بانگ دیتے سنو تو خدا سے رحمت کی دعا کرو کیونکہ فی الحقیقت اس نے فرشتے کو دیکھا، لیکن جب تم گدھے کو رینکتے سنو تو شیطان الرجیم سے خدا کے پاس پناہ مانگو فی الحقیقت اس نے شیطان کو دیکھا ہے‘‘۔

ایک دوسرے موقعے پر محمد صاحب نے آدمیوں کے اس بڑے دشمن کے حیلوں سے بچنے کا یہ علاج بتایا کہ بائیں کندھے پر تین دفعہ تھوک لو ،چونکہ محمد صاحب کو جنات کی ہستی کا یقین تھا، اس لئے ان کی ساری زندگی خوف اور دہشت میں گزری اور یہی حال ا ٓج تک اس کے پیروؤں کا ہے۔ اہل قریش میں سے بعض لوگ محمد صاحب پر یہ طعن کیا کرتے تھے کہ اس پر کوئی جِن چڑھا تھا۔ یہ شہادت بھی کالعدم نہیں کہ ایک وقت ان کی زندگی میں ان کو خود یہ یقین ہو گیا تھا ۔

پہلے پہل محمد صاحب چپ چاپ پوشیدہ طور سے اپنی تعلیم کی تلقین کرتے رہے اور سب سے پہلے خدیجہؓ نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا۔ اس کے بعد دوسروں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا اور چند ماہ کے عرصے میں علی ،ابو بکر ،زید اور چند دیگر اشخا ص بھی ایمان لائے ۔یوں دو تین سال کے عرصے میں چالیس یا پچاس اَہالیان (اَہل کی جمع۔صاحبان)مکہ مرد و زن ملا کر اس نئے دین میں شریک ہوگئے ۔ جب یہ فریق کچھ زور پکڑ گیا تو محمد صاحب نے خدا کی وحدت اور اپنی رسالت کا اعلان برملا کرنا شروع کیا ۔پہلے پہل تو اہل قریش نے ان کو ہنسی میں اڑا دیا ۔لیکن جب اس نئے واعظ نے ان کے قومی دیوتاؤں کوبُرا بھلا کہنا شروع کیا اور ان کے پرانے عقائد کی مذمت شروع کی تو ان کی طرف سے لاپروائی ظاہر کرنے کی بجائے ان کی مخالفت شروع کر دی اور اس چھوٹے گروہ کو دکھ دینے لگے ۔ ان مخالفوں سے محمد صاحب کی ان کے چچا ابوطالب نے حفاظت کی ،لیکن اس کے پیروؤں کی حفاظت مشکل تھی ۔اس لئے قریش کا سارا نزلہ ان پر گرا ۔جب محمد صاحب نے دیکھا کہ نہ تو وہ اپنے پیروؤں کی حفاظت کر سکتا تھا اور نہ ان کو کھونا چاہتا تھا ، اس لئے قریش کے غضب سےبچانے کی اس کو یہ راہ سوجھی۔تفسیر البیضاوی(صفحہ ۳۶۷) میں مذکور ہے کہ:

’’ ایک نو مسلم عمر بن یسار کو قریش نے ایسا عذاب دیا کہ وہ آخر کار مرتد ہوگیااور اپنی برگشتگی کی صداقت ظاہر کرنے کی خاطر اس نے محمد صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ لیکن بعد ازاں جب وہ پھر محمد صاحب کے سامنے آیا تو اس نے بیان کیا کہ اس کا ارتداد تو محض دکھاوے کی خاطر تھا تا کہ وہ دشمنوں کے عذاب سے بچ جائے اور محمد صاحب کو ا س نے یقین دلایا کہ میرا دل تو ٹھیک ہے‘‘ ۔

اس پر محمد صاحب نے کہا کہ ایسی حالتوں میں تقیہ(ڈر کی وجہ سے حق پوشی کرنا) جائز تھا اور اپنے اس شاگرد کو خوش کر کے واپس کیا اور یہ کہا :

إن عادوا لك فعد لهم بما قلت

ترجمہ:’’ اگر وہ تجھے پھر ایذا دیں تو پھر ان کی طرف عود کر جا اور جو تو نے پہلے کہا تھا وہی پھر کہہ دے‘‘۔

محمد صاحب کی طرف سے ایسا بیان صداقت کے معیار سے ایسا بعید تھا کہ اس کا یقین دلانے کی خاطر خاص وحی کی ضرورت پڑی۔ پس ہمیشہ کے لئے قرآن کے اور اق میں اس ریا کی اجازت کا دھبّہ رہے گا۔ سورۃالنحل (۱۰۸:۱۶)میں یہ بیان پایا جاتا ہے :

مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ:’’جو شخص خدا پرایمان لانے کے بعد اس کا انکار کر ے ۔اگر وہ اس پر مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان میں مطمئن رہا (وہ بے قصور ہے) لیکن جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ان پر خدا کا غضب اور سخت عذاب نازل ہوگا‘‘۔

صرف اسی موقعہ پر محمد صاحب نے اپنے پیروؤں کو جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی ۔مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب الادب میں تین موقعوں پر جھوٹ بولنے کی اجازت پائی جاتی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ كذب الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ.

ترجمہ:’’رسول خدا نے فرمایا جھوٹ کی سوائے تین موقعوں کے اجازت نہیں ۔اگرکوئی اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولے ، جنگ میں جھوٹ بولے اور آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کی خاطر جھوٹ بولے‘‘۔

باوجود ان شرائط کے بھی ان مظلوم مسلمانوں کو دیر تک آرام نہ ملا اور قریش کا غصہ روز بروز بڑھتا گیا ۔حتیٰ کہ اسلام کی اشاعت کے پانچ سال کے بعد محمد صاحب کو یہ صلاح دینی پڑی کہ نو مسلم ابی سینا کو بھاگ جائیں ۔ اس لئے پندرہ مسلمان ابی سینا کی طرف روانہ ہوئے اور بعد ازاں کچھ دوسرے مسلمان اُن میں جا شامل ہوئے ۔ وہاں کےمسیحی بادشاہ نے اُن کے دشمنوں کے غیض وغضب سے اُن نو مسلموں کو پناہ دی۔

چوتھا باب

قریش سے تکرار

جب محمد صاحب کے پیروابی سینا کو ہجرت کر گئے تو رفتہ رفتہ وحی کے لہجے نے بھی کچھ سختی اختیار کرلی ۔پہلے پہل تو خدا کی وحدت ،خلقت میں اس کی قدرت اور حکمت پر زور دیا جاتا تھا اور قیامت اور عدالت کے یقینی ہونے کا بیان سنایا جاتا تھا ۔لیکن اب بے ایمان عربوں پر سخت لعنتوں کی بھر مار ہونے لگی ۔آیندہ سزا کی سختی ظاہر کرنے کے لئے دوزخ کی آگ و عذاب کا مفصل ذکر ہونے لگا اور جنہوں نے ان کی ایذارسانی میں خاص حصہ لیا تھا اُن پر لعنتیں اور بد دعائیں ہونے لگیں ۔چنانچہ قریش پر جو لعنت کی گئی اس کی ایک دو مثالوں سے ظاہر ہو جائے گا کہ انہوں نے محمد صاحب اور اُن کی تعلیم کی کہاں تک مخالفت کی تھی۔سورۃ الحج(سورہ۲۲) میں جس کے بعض حصے شاید مدینہ کو ہجرت کر جانے سے تھوڑا عرصہ پہلے نازل ہوئے ،بے ایمان قریش سے یوں خطاب کیا گیا :

سورہ الحج ۔ آیت 19سے21

هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

ترجمہ:’’جو لوگ خدا کو نہیں مانتے اُن کے لئے آگ کے کپڑے قطع کر دیئے گئے ہیں۔اُن کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس سے جو کچھ اُن کے پیٹ میں ہے اور کھالیں جل جائیں گی اور اُن کے لئے لوہے کے گُرزہوں گے اور گُھٹے گُھٹے جب اُن سے نکلنا چاہیں تو اُسی میں پھر دھکیل دیئے جائیں گے اور اُن کو حکم دیا جائے گا کہ جلنے کے عذاب چکھا کرو‘‘۔

سورۃ لہب(۱۱۱) اس سے کچھ پہلے کی ہے اور اُس میں محمد صاحب کے چچا ابو لہب کا ذکر ہے۔وہ محمد صاحب کی سخت مخالفت کیا کرتا تھا۔گالی دشنام دینے میں محمد صاحب اپنے رشتہ دار وں سے کچھ پیچھے نہیں رہے۔چنانچہ اس سے جو اقتباس دیا جاتا ہے اُس میں بخوبی روشن ہے اور سب مسلمان مانتے ہیں کہ یہ سورہ بھی لوح محفوظ میں ابتدائے عالم سے پیشتر لکھی تھی۔وہ عبارت یہ ہے:

’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور ہلاک ہوا ،نہ تو اُس کا مال ہی اُس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی اور وہ ڈینگ مارتے ہوئے عنقریب آگ میں جا داخل ہو گا اور اُس کی جورُو بھی جو لگائی بجھائی کرتی پھرتی ہے کہ اُس کی گردن میں بھانجوان رسی ہو گیا‘‘۔

یہ جائے تعجب نہیں کہ جب محمد صاحب نے نام لے لے کر کوسنا شروع کیا تو انتقام کے لئے سخت غصہ وغضب بھڑک اُٹھا اور یہ منصوبے ہونے لگے کہ اسلام کی اشاعت کسی طرح بند کر دی جائے۔اس میں تو شک نہیں کہ اگر ابو طالب کا یہ ڈر نہ ہوتا کہ اس کے بھتیجے کے قتل سے خون کا پاداش لیا جائے تو محمد صاحب کو انہوں نے کب کا قتل کر دیا ہوتا ۔لیکن محمد صاحب پر اس کا اُلٹا اثر ہوا۔وہ آگے سے زیادہ بت پرستی پر ملامت کرنے اور اپنے دعویٰ نبوت پر زور دینے لگے اور قرآن مجید کے لئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خدا کا کلام تھا جو آدمیوں کی ہدایت کے لئےآسمان سے نازل ہوا۔لیکن ایسے دعویٰ کا جو اب بے ایمان قریش نے ہمیشہ یہ دیا کہ یہ اس کا اپنا بنایا ہوا تھا کہ وہ محض ’’اساطیر الاولین‘‘ یعنی پہلو ں کی کہانیاں تھا۔

ابن ہشام نے سیرت الرسول میں اس زمانہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے اِن منکرعربوں کے سلوک کا حال معلوم ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک روز نذیر بن حارث نے اہل قریش کے سامنے کھڑے ہو کر فارسی بادشاہوں کے چند قصے سنائے اور یہ کہا:

والله ما محمد بأحسن حديثاً مني وما حديثه إلا أساطير الأولين كتبه كما أكتبه

ترجمہ:’’خدا کی قسم محمد صاحبکی کہانیاں میری کہانیوں سے بہتر نہیں، وہ تو قدیم لوگوں کے قصے ہیں جو اُس نے لکھ لئے ہیں جیسے کہ مَیں نے لکھ لئے ہیں‘‘۔

جب محمد صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہنے لگا کہ اس کی خبر یہودی اور مسیحی مقدس کتابوں میں دی گئی تھی تو قریش نے یہ جواب دیا:

يا محمد لقد سألنا عنك اليهود والنصارى فزعموا أن ليس لك عندهم ذكر ولا صفة فأرنا من يشهد لك أنّك رسول الله

ترجمہ:’’اے محمد صاحب ہم یہودیوں اور عیسائیوں سے تیری بابت پوچھ چکے ہیں۔لیکن انہوں نے یہ جواب دیا کہ تیری بابت اُن کے پاس کوئی پیشین گوئی نہیں۔پس اب ہم کو بتا کہ تیرے بارے میں کون گواہی دیتا ہے کہ توخدا کا نبی ہے‘‘(تفسیر البیضاوی،صفحہ۱۷۱)۔

پھر جب محمد صاحب نے قدیم بزرگوں کا حال قریش کے سامنے بیان کیا جیسا کہ اس نے اپنے یہودی دوستوں کی زبانی سنا تھا۔(ایسے قصے جو توریت کے مطابق نہیں بلکہ تالمود کے جعلی قصوں کے مطابق )تو قریش نے یوں طعنہ دیا۔

إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ

ترجمہ:’’تحقیق اُسے کوئی آدمی سکھاتا ہے‘‘(سورۃ نحل ۱۰۳:۱۶)۔

تفسیروں سے یہ واضح ہے کہ یہ جواب محض کسی اٹکل پر مبنی نہ تھا بلکہ اُس سے عام لوگ واقف تھےیعنی یہ کہ محمدصاحب چند یہودیوں اور مسیحیوں کی زبان بائبل مقدس کےقصے سنا کرتے تھے اور پھر اہل عرب کو وحی سماوی کے طور پر سنایا کرتےتھے۔مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں مولوی بیضاوی نے اس بات کو بخوبی ثابت کر دیا کہ اہل قریش کا یہ طعن بالکل درست تھا۔چنانچہ اُس تفسیر میں یہ عبارت آئی ہے:

يعنون جبرا الرومي غلام عامر بن الحضرمي، وقيل جبراً ويساراً، كانا يصنعان السيوف بمكة ويقرآن التوراة والإنجيل وكان الرسول صلى الله عليه وسلم يمرّ عليهما ويسمع ما يقرآنه

ترجمہ:’’کہتے ہیں کہ جس شخص کی طرف یہاں اشارہ ہے وہ یونانی(یعنی مسیحی) غلام جبر نامی غلام عاَمر ابن الحضرمی تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں اشارہ جبر اور یسار کی طرف تھا۔یہ دونوں مکے میں تلواریں بنایا کرتے تھے۔یہ دونوں توریت اور انجیل پڑھا کرتے تھے اور نبی اُن کے پاس سے گزرتےوقت سننے کے لئے ٹھہر جاتے تھے‘‘۔

مدرک اور حسین نے بھی یہی بیان کیا ہے ۔ا س لئے کچھ شک نہیں کہ محمدصاحب نے عہد عتیق اور عہد جدید کے جو قصے سنائے وہ انہوں نے یہودیوں اور مسیحیوں سے سیکھے تھے۔اسی وجہ سے قریش نے اُن کو نئے مکاشفے کے طور پر قبول کرنا نہ چاہا۔

اہل قریش اور مسلمانوں کے درمیان معجزوں کے بارے میں بھی بہت تکرار رہی ۔جب محمدصاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے تئیں موسیٰ اور عیسیٰ کا جانشین قرار دیا تو قریش نے یہ طعنہ دیا کہ اُن بزرگوں کی رسالت تو اُن کے معجزوں کے ذریعے ثابت ہوگئی۔لیکن تمہارے پاس وہ سند کہاں ہے؟چنانچہ قرآن مجید میں بار بار محمدصاحب سے معجزے طلب کرنے کا ذکر پایا جاتا ہے اور ہر موقعے پر محمدصاحب نے ایک ہی جواب دیا۔اُنہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ مجھے معجزے نہیں دیئے گئے اور یہ کہ معجزے صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں اور مَیں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ ایسی بے شمار آیتوں میں سے ایک آیت کا پیش کر دینا کافی ہوگا۔یہ سورۃ انعام(۱۰۹:۶) میں ہے:

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔

ترجمہ:’’اور اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ اُن کے سامنے آئے تو وہ ضرور اُس پر ایمان لے آئیں گے تم سمجھا دو کہ معجزے تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور تم لوگ کیا جانو یہ لوگ تو معجزے آئے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔

مفسروں کا یہ بیان ہے کہ قریش نے باربار محمدصاحب کے پاس آ کر یہ کہا’’اے محمدصاحب تو نے خود ہمیں کہا ہے کہ موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو چیرا اور اس میں سے پانی بہہ نکلا اور عیسیٰ نے مردوں کو زندہ کیا۔اگر تو بھی ایسا نشان ہمیں دکھائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے‘‘۔یہ تو سچ ہے کہ حدیثوں میں محمدصاحب کے بے شمار فسانہ آمیز معجزوں کے قصے آئے ہیں ،لیکن وہ تو مابعد لوگوں کی اختراع معلوم ہوتے ہیں اور محمدصاحب کی عزت بڑھانے کی خاطر درج کئے گئے۔اُس زمانے کی ایک ہی واحد کتاب جو ہم تک پہنچی ہے، وہ قرآن مجید ہے اور اُس میں صاف طور سے واضح کر دیا گیا کہ محمدصاحب قریش کا یہ تقاضا پورا نہ کر سکے۔شاید یہاںمعراج کا ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔قرآن مجید میں اس قصے کی طرف صرف یہ اشارہ ہے:

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا

ترجمہ:’’اس کی تعریف ہو جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا جس کا احاطہ مبارک ہے تاکہ ہم اپنی نشانیاں اُسے دکھائیں‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل۱:۱۷)۔

مابعد کی حدیثوں نے روحانی رویت کے اس سادہ بیان کو عجیب قصہ بنا دیا کہ محمد صاحب بدن کے ساتھ آسمان پر کی سیر کر آئے۔مِشکوٰۃ المصابیح اور قصص الانبیا اور دیگر حدیثوں میں ا س قصہ کا مختصر بیان یہ آیا ہے:

’’ایک رات کو جب محمد صاحب مکے میں اپنے گھر سو رہا تھا تو ناگہان فرشتہ جبرائیل اُس کے پاس آکھڑا ہوا اور اس کاسینہ چاک کر کے اُس کے د ل کو نکالا اور اُسے پانی سے دھویا اور پھر اس کو اسی مقام میں رکھ دیا اور ایک عجیب المخلوق مرکب براق نامی پر محمدصاحب کو سوار کر کے طرفتہ العین میں یروشلیم کی مشہور ہیکل میں لے گیا۔یہاں محمد نے نماز ادا کی اور پھر وہاں سے فرشتہ اُس کو آسمان میں لے گیا ۔وہاں خدا تعالیٰ سے اُس نے کلام کیا۔اسی رات وہ واپس زمین پر آگیا‘‘۔

اسی سفر کا نام معراج ہے اور اسے ایک بڑا معجزہ سمجھا جاتا ہے اور اُن کی رسالت کے ثبوت اور دعویٰ نبوت کی تصدیق میں پیش کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ہم ذکر کر چکے قرآن مجیدمیں اس کاذکر محض رات کی رویت کے طور پر آیا ہے۔چنانچہ سر سید احمد خان مرحوم نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔اس میں سفر کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی ۶۰آیت میں یوں آیا ہے:

وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ۔

ترجمہ:’’ اور خواب جو ہم نے تم کو دکھایا تو بس اس کولوگوں کی آزمائش ٹھہرایا اور درخت کو جس پر قرآن مجید میں لعنت کی گئی ہے‘‘۔

جلالین اور عباس دونوں نے ا س آیت کو معراج سے منسوب کیا ۔محمد عبد الحکیم نے قرآن مجید کی تفسیر میں (صفحہ۴۰۰) یہ لکھا:

یہ سب اعلیٰ درجہ کی رویت تھی جسے رسول نے رات کے وقت دیکھا تھا جیسا کہ اس سورہ کی پہلی آیت میں مذکور ہے کہ’’وہ اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا‘‘۔

یہ سب اعلیٰ درجہ کی رویت تھی جسے رسول نے رات کے وقت دیکھا تھا جیسا کہ اس سورہ کی پہلی آیت میں مذکور ہے کہ’’وہ اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا‘‘۔

إن عائشة زوج النبي صلعم كانت تقول ما فقد جسد رسول الله صلعم ولكن الله أسرى بروحه

ترجمہ:’’تحقیق عائشہؓ زوجہ رسول کہا کرتی تھی کہ رسول خداکا بدن تو غائب نہیں ہوا لیکن خدا رات کے وقت اُس کی روح کو لے گیا‘‘۔

اس مفسر نے ایک اَور حدیث معاویہ ابن ابو سفیان کے بارے میں اس مضمون کی قلم بند کی:

كان إذا سُئل عن مسرى رسول الله صلعم قال كانت رؤيا من الله تعالى صادقة.

ترجمہ:’’جب اس سے رسول خدا کے رات کے سفر کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے کہا یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سچی رویت تھی‘‘۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث اسی مضمون کی ابن ہشام نے قلم بند کی ہے:

کان رسول اللہ صلعم یقول فیمابلغنی تنام عینی و قلبی یقظان۔

ترجمہ: ’’رسول خدا یہ کہا کرتے تھے جو کچھ مجھے پہنچا اس وقت میری آنکھ سو رہی تھی لیکن میرا دل بیدار تھا‘‘۔

ان ابتدائی مسلمانوں کی شہادت سے یہ واضح ہے کہ جس معراج کا ذکر سیرت الرسول میں ہوا وہ ایک خواب یا رویا تھا ۔اُس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ معجزے کر سکتے تھے۔قرآن مجید کے سارے مفسروں نے ان الفاظ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کی بالاتفاق یہ تفسیر کی ہے کہ یہ یروشلیم کی ہیکل تھی اور مِشکوٰۃ المصابیح میں اس معراج کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے کہ محمد صاحب نے کہا:

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معراج کا بیان ۔ حدیث 447

وعن ثابت البناني عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أتيت بالبراق وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يقع حافره عند منتهى طرفه فركبته حتى أتيت بيت المقدس فربطته بالحلقة التي تربط بها الأنبياء " . قال : " ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين

ترجمہ:’’ اور حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( تابعی ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے سامنے براق لایا گیا جو ایک سفید رنگ کا ، دراز بینی ، میانہ قد ، چوپایہ تھا ، گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا ، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا ، اور میں نے اس براق کو ( مسجد کے دروازہ پر ) اس حلقہ سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرام ( اپنے براقوں کو یا اس براق کو ) باندھتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی ، ‘‘۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یروشلیم کی یہودی ہیکل اس وقت بالکل برباد ہو چکی تھی جیسا کہ ہر تعلیم یافتہ شخص کو معلو م ہے۔ محمد صاحب کی پیدائش سے صدیوں پیشتر رومیوں نے اس کو برباد کر دیا تھا اور اس وقت سے وہ کبھی تعمیر نہ ہوئی ۔اس اَمر واقعہ سے مطلع ہو کر بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں نے محمد صاحب کے جسم کے ساتھ معراج کرنے کے قصے کو رد کر دیا اور یہی کہنے لگے کہ یہ رویا تھی ۔چنانچہ سر سید احمد خاں نے اپنے لیکچروں میں اس کی یہی تشریح بیان کی:

’’مسلمانوں کو معراج کے بارے میں جس اَمر پر ایمان لانا چاہیے وہ یہ ہے کہ محمد صاحب نے رویت میں اپنے تئیں مکہ سے یروشلیم جاتے دیکھا اور اس رویت میں اُس نے فی الحقیقت اپنے رب کے بڑے سےبڑے نشانوں کو دیکھا‘‘۔

ایک دوسرے تعلیم یافتہ مسلمان مرزا ابو الفضل نامی نے اپنی کتاب منتخیات قرآن (صفحہ۱۸۱) میں قرآن مجید کی اس آیت کی یہ تفسیر کی:

’’ا س میں معراج کی اس مشہور رویت کی طرف اشارہ ہے جو محمد صاحب نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پیشتر دیکھی تھی‘‘۔

سید امیر علی صاحب نے بھی ا پنی کتاب حیات محمد صاحب(صفحہ۵۹،۵۸ انگریزی) میں یہ رقم کیا:

’’یہ عرصہ بھی معرا ج کی اُس رویت کے باعث قابل لحاظ ہے جس نے شاعروں اور محدثوں کے خیالات میں سنہری خوابوں کے جہانوں کو پیدا کر دیا اور قرآن مجید کے سادہ الفاظ سے بے شمار فسانے اور قصے بنا لئے۔۔۔میرے خیال میں میور صاحب نے ٹھیک کہا کہ’’ قدیم مصنف اسے رویا سمجھتے تھے،نہ کوئی سفر بدن کے ساتھ‘‘۔

اصل بات یہ ہے بشرطیکہ قرآن مجید کی شہادت قبول کی جائے کہ محمد صاحب نے کوئی معجزہ نہیں کیا۔اس نے بار بار اس کا انکار کیا۔جب منکر قریش نے اس سے معجزہ طلب کیا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ سکتا تھا کہ قرآن مجید ہی اُس کا واحد معجزہ تھا۔چنانچہ اس سے یہ روایت ہے:

مَا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ من نَبِيٌّ إِلَّا قد أُعْطِيَ من الآيات مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ

ترجمہ:’’کوئی پیغمبر نہیں گزرا جسے معجزہ نہ ملا ہو تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں،لیکن مجھے تو وحی ملی ہے‘‘۔

قرآن مجید میں بھی بالکل یہی مضمون آیا ہے۔چنانچہ سورۃعنکبوت(۵۱،۵۰:۲۹ ) میں یہ لکھا ہے:

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۔اَوَ لَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ۔

ترجمہ:’’اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جب تک اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان اس پر نازل نہ ہو۔۔۔۔ تو کہہ کہ نشان تو صرف خدا ہی کی طاقت میں ہیں۔میں تو صرف صاف ڈرانے والا ہوں۔کیا اُن کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی تاکہ تو اُن کو پڑھ کر سنایا کرے‘‘۔

اس کے بارے میں کہ محمد صاحب کوئی معجزہ نہ دکھا سکے قرآن کی شہادت ایسی صریح ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مجبوراً ایسی حدیثیں رد کرنی پڑیں جن میں محمد صاحب کے عجیب و غریب معجزوں کا ذکر ہوا اور ان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ محمد صاحب نے اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔چنانچہ سید امیر علی صاحب نے اپنی کتاب حیات محمدصاحب کےصفحہ۴۹(انگریزی) پر یہ صاف لکھ دیا کہ:

’’ اُنہوں نے محمد صاحب سے اُس کی رسالت کے ثبوت میں معجزہ طلب کیا تو یہ غور طلب جواب اُنہوں دیا کہ’’خدا نے مجھے معجزے کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔اُس نے تو مجھے تمہارے پاس وعظ کرنے کو بھیجا ہے۔اس لئے جو کچھ میں لایا ہوں اگر تم اُس پر ایمان لاؤ تو تم کو اس جہاں میں بھی خوشی ہو گی اور اگلے جہان میں بھی۔اگر تم میری نصیحت رد کرو گے تو میں تو صبر کروں گا اور خدا میرے اور تمہار ےدرمیان فیصلہ کرے گا۔ محمد صاحب نے معجزے دکھانے کی طاقت سے انکار کر کے اپنی منجانب اللہ کی رسالت کی بنیاد سراسر اپنی تعلیم پر رکھی‘‘۔

محمد صاحب نہ صرف قرآن مجید کو خدا کی طرف سے مکاشفے کے طور پر پڑھا کرتے تھے بلکہ اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ انسانی ساخت کی ساری علمی کتابوں سے وہ اعلیٰ کتاب تھی۔المختصر انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن مجیدایک لاثانی کتاب ہے اور یہ اعلان کر دیا کہ انسانوں اورجنّوں میں سے اگرکسی کو طاقت ہے تو اس کی مثل بنا لائے۔پھر بھی یہ عجیب بات ہے کہ تفسیروں اور حدیثوں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ قرآن مجید کے بعض حصوں کو محمد صاحب کے سوائے دوسروں نے تیار کیا۔چنانچہ تفسیر بیضاوی کے صفحہ ۱۶۴ پر ایک قصہ آیا ہے کہ محمد صاحب کا ایک منشی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھا جس نے کم ازکم ایک آیت قرآن کی بنائی۔بیضاوی نے جس قصہ کا بیان کیا ،وہ یہ ہے:

عبد الله بن سعد بن أبي سرح كان يكتب لرسول الله فلما نزلت: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُلالَةٍ مِّن طِينٍ، فلما بلغ قوله ثم أنشأناه خلقا آخر، قال عبد الله: فتبارك الله أحسن الخالقين تعجباً من تفضيل خلق الإنسان فقال عليه السلام اكتبها، فكذلك نزلت، فشك عبد الله، وقال: لئن كان محمداً صادقاً، لقد أوحي إليَّ مثل ما أوحي إليه، ولئن كان كاذباً، فلقد قلت كما قال

ترجمہ:’’عبد اللہ بن سعد بن سرح رسول اللہ کا منشی تھا اور جب یہ الفاظ نازل ہوئے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُلالَةٍ مِّن طِین اور ان الفاظ پر ختم ہوئے أنشأناه خلقا آخر تو عبداللہ نے چلا کر یہ کہا فتبارك الله أحسن الخالقين ۔۔۔۔۔۔اس پر محمد صاحب نے یہ کہا’’ان لفظوں کو لکھ دے کیونکہ ایسا ہی نازل ہوا ہے ‘‘۔لیکن عبداللہ کو شک ہوا اور کہنے لگا ’’اگر محمد صاحب کی بات سچ ہے تو جیسے اُس پروحی نازل ہوئی ویسی ہی مجھ پر بھی اگر محمد کی بات جھوٹ ہے تو میں نے بھی ویسا ہی کہا جیسا اُ س نے کہا تھا‘‘۔

بیضاوی کے اس قصے سے یہ واضح ہے کہ عبداللہ کے جملہ کی عمدگی سے محمد صاحب ایسے خوش ہوئے کہ اس جملہ کو فوراً قرآن میں داخل کر دیا اور اب تک یہ جملہ قرآن میں موجود ہے۔بخاری نے ایک معتبر حدیث روایت کی ہے جس کے ذریعے قرآن کے بعض دیگر مقاموں کا چشمہ بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ جس سے روشن ہے کہ محمد صاحب کے ہم عصروں میں بعض ایسے لوگ تھے جن کا طر ز کلام اور تحریر محمد صاحب کے طرز کلام سے کسی اَمر میں کم نہ تھا ،وہ حدیث یہ ہے:

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 658

عن أنس وابن عمر أن عمر قال : وافقت ربي في ثلاث : قلت : يا رسول الله لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى ؟ فنزلت [ واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى ] . وقلت : يا رسول الله يدخل على نسائك البر والفاجر فلو أمرتهن يحتجبن ؟ فنزلت آية الحجاب واجتمع نساء النبي صلى الله عليه و سلم في الغيرة فقلت [ عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن ] فنزلت كذلك وفي رواية لابن عمر قال : قال عمر : وافقت ربي في ثلاث : في مقام إبراهيم وفي الحجاب وفي أسارى بدر . متفق عليه

ترجمہ:’’ " حضرت انس اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا ۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مقام ابراہیم کو ہم نماز پڑھنے کی جگہ بنائیں تو بہتر ہو (یعنی طواف کعبہ کے بعد کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اگر وہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا ) پس یہ آیت نازل ہوئی : (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰه مَ مُصَلًّى) 2۔ البقرۃ : 125) اور بناؤ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ ۔" اور (دوسری بات یہ کہ ) میں نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو پردہ میں رہنے کا حکم فرمادیں (تاکہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ان کا آنا بند ہوجائے ) تو بہتر ہو ۔ پس (میرے اس عرض کرنے پر) پردہ کی آیت نازل ہوئی ۔ اور (تیسری بات یہ کہ ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے رشک وغیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا ۔ تو میں نے (ان سب کو مخاطب کر کے ) کہا تھا : اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار جلد تمہارے بدلے ان کو اچھی بیبیاں دے دے گا " پس میرے انہی الفاظ ومفہوم میں یہ آیت نازل ہوئی ۔اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا ، ایک تو مقام ابراہیم (کو نماز ادا کرنے کی جگہ قرار دینے ) کے بارے میں دوسرے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے ) پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں ۔ (

جن تین آیات کو عمر نے پیش کیا تھا وہ اب تک قرآن میں موجود ہیں اور کسی بات میں باقی قرآن سے متفرق نہیں۔قرآن مجید کو منجانب اللہ ثابت کرنے کے لئے محمد صاحب نے یہ دلیل بھی دی کہ وہ کبھی برباد نہ ہو گا ۔ محمد صاحب نے بار بار یہ کہا کہ خدا قرآن کا محافظ ہے تاکہ اس میں نہ تبدیلی ہواور نہ کسی طرح کی کمی بیشی ۔پس محمد صاحب نے بار بار اہل قریش کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن ہر زمانے میں ویسا ہی محفوظ رہے گا جیسا کہ جبرائیل فرشتے نے اُس کو محمد صاحب پر نازل کیا تھا اور اسی مقصد کے لئے محمد صاحب کا قول بھی مندرج ہے:

لُوْ جُعِلَ القرآنَ في إِهَابٍ ثمّ أُلقيِ في النَّارِ ما احْتَرَق

ترجمہ:’’اگر قرآن مجید کو چمڑے میں مجلد کر کے آگ میں ڈ ال دیں تو وہ جلے گا نہیں‘‘۔

ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں تاکہ یہ ظاہر کریں کہ قرآن مجید کے متن کو محمد صاحب کے زمانے سے لے کر کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ قرآن مجید کی جو معتبر تفسیریں ہیں ان میں بے شمار مختلف قراتوں کا بھی ذکر آیا ہےاور نیز اس کا کہ اصل قرآن مجید میں کس قدر کمی بیشی واقع ہوئی ہے۔اگر کوئی صاحب اس کا مفصل ذکر پڑھنا چاہے تو قرآن و اسلام نامی کتاب میں پڑھ سکتا ہے۔

محمد صاحب کے دشمن گو اُن کا جسمانی نقصان تو نہ کر سکتے تھے لیکن زبان سے برابر اُس کو بُرا بھلا کہتے رہے۔کبھی اُس کو انہوں نے دھوکے باز کہا اور کبھی عجب سوالوں سے اُسے تنگ کیا اور بعض اوقات جن لوگوں نے اُس کے دعویٰ کو رد کیا تھا اُس سے طعن و تشنیع کے ساتھ پیش آئے اور جو حال ہم تک پہنچا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ محمد صاحب کو ان لوگوں نے تنگ کر رکھا تھا۔بیضاوی نے اس قسم کا ایک قصہ بیان کیا ہے جس کو مثال کےطور پر ہم یہاں درج کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک دن قریش محمد صاحب کے پاس تین سوال لے کر آئے لیکن جب محمد صاحب اُن کو جواب نہ دے سکا تو اُن کو دوسرے دن بلوایا،لیکن دوسرے دن بھی وہ تیار نہ تھے۔اس لئے اُن سے کہا کہ کسی اَور دن آنا۔بیضاوی نے اس قصہ کو یوں بیان کیا ہے:

قَالَتِ الْيَهُودُ لِقُرَيْشٍ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَذِي الْقَرْنَيْنِ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ ائْتُونِي غَدًا أُخْبِرْكُمْ وَلَمْ يَسْتَثْنِ فَأَبْطَأَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بضعة عشر يوماً حَتَّى شَقَّ عَلَيْهِ وكذبته قريش

ترجمہ:’’یہودیوں نے قریش کو کہا کہ تم اُس(محمد صاحب)سے روح،اصحاب کہف اور اسکندر اعظم کے بارے میں سوال کرو‘‘۔تب انہوں نے یہ سوال کیے۔لیکن اُس نے کہا تم نے میرے پاس کل آنا تو میں جواب دوں گا۔لیکن وہ انشااللہ کہنا بھول گیا اور اس لئے دس روز تک کوئی وحی اس پر نازل نہ ہوئی اور یہ اُس پر بہت شاق گزرا اور قریش اُسے کذّاب کہنے لگے‘‘۔

عباس اور ابن ہشام نے(جلد اول،صفحہ۲۷۳) بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں نے محمد صاحب کے آزمانے کے لئے کہ آیا وہ نبی ہے یا نہیں یہ منصوبہ باندھا تھا۔یہ جائے تعجب نہیں کہ جب معترضین کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے ناراض ہو کر اُسے کذاب کہنا شروع کیا۔

محمد صاحب کے دشمن ایک اَور بات میں بھی اُس پر طعن کیا کرتے تھے۔قرآن مجید کے مختلف مقامات ایک دوسرے کے نقیض تھے اور اگر اس کتاب کو غور سے پڑھیں تو ایسے بہت نقیض مقامات ملیں گے اور اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ منکر عربوں نے فوراً اس سقم (خرابی۔نقص)کو دریافت کر کے قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے پر اعتراض کئے۔پہلے پہل جب محمد صاحب مکے میں بے کسی جیسی حالت میں تھے اور ان کی زندگی محض قوم کی مرضی پر حصر (منحصر ۔انحصار کرنا)رکھتی تھی ۔اس وقت انہوں نے مذہبی آزادی اور نرمی کے اصول کی تلقین کی۔لیکن مابعد زمانے میں جب مدینہ میں جنگی عربی فوج اس کے زیر فرمان تھی تو اُنہوں نے اپنے لہجے کو بدلا اور جہاد کی تلقین ہونے لگی اور مکہ سے بھاگ کر جب محمد صاحب پہلی دفعہ مدینہ پہنچے تو اُنہوں نےبارسوخ یہودیوں کے تالیف قلوب کی خاطر یروشلیم کو اپنا قبلہ ٹھہرایا۔مگر بعد ازاں جب اُن کو یہ امید نہ رہی تو کعبہ کو اپنا قبلہ بنا لیا کہ اُس کی طرف منہ کر کے سجدہ کریں تاکہ عربوں کو خوش کرے،کیونکہ اہل عرب کی نگاہ میں وہ قدیم سے قومی مقدس مانا جاتا تھا۔ مگر عربوں نے اس طرز پر بھی پھبتیاں اُڑائیں اور جب محمد صاحب نے یہ کہا کہ اس تبدیلی کا حکم خدا نے دیا ہے تو انہوں نے یہ کہا:

إنما أنت مفتر متقول على الله تأمر بشيء ثم يبدو لك فتنهي عنه

ترجمہ:’’تو (اے محمد صاحب) مفتری (فریبی)ہے تو اپنے الفاظ کو خدا سے منسوب کرتا ہے تو پہلے ایک بات کا حکم دیتا ہے اور پھر اپنے دل ہی سے اس کو بدل کے اُس کو منع کرتا ہے‘‘(تفسیر البیضاوی،صفحہ۳۶۶)۔

یوں زمانہ گزرتا گیا اور قریش غیر مطمئن اور منکر کے منکر رہے ۔جب انہوں نے محمد صاحب سے معجزہ طلب کیا تو اُس نے کہا کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہی ہوں اور جب سوالات کے ذریعے محمد صاحب کی نبوت کا ثبوت مانگا تو وہاں بھی مایوسی کے سوا اور کچھ نتیجہ نہ ہوا۔پس وہ اس ڈرانے والے سے متنفر ہو گئے اور ایسے شخص کو اپنے درمیان رہنے دینے کے روز بروز خلاف ہو تےگئے اور ان کو یہ یقین ہو گیا کہ محمد صاحب دھوکے باز اور احمق تھا۔

پانچواں باب

مکّہ سے ہجرت

جوکچھ ماقبل باب میں مرقوم ہوا اُس سے ناظرین یہ نتیجہ نکالیں گے کہ اس موقعہ تک مکّہ میں محمد صاحب کی رسالت کو بہت تھوڑی کامیابی حاصل ہوئی۔فی الواقع اہل قریش میں سے بہت تھوڑے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور جن لوگوں نےقبول کیا وہ ادنیٰ طبقے کے لوگ تھے۔ان امور سے محمد صاحب کے دل میں بڑا غم تھا اور اب یہی فکر تھی کہ کسی دیگر طریقے سے وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اس دین میں لائے اور اُن میں اعتبار قائم کرے اور یہی خیال بار بار آیا کہ جب موقعہ ملے ان لوگوں سے راضی نامہ کر لے۔یہ آزمائش جس میں کہ محمد صاحب گر گئے یوں پیش آئی،کہتے ہیں کہ ایک روز محمد صاحب کعبہ گئے اور سورۃنجم(۵۳)سنانے لگے اور جب وہ یہ الفاظ پڑھنے لگے

اللّٰت ولعزّٰی وَمنوۃ الثالثۃ الاخریٰ

تو قریش کو راضی کرنے کی خاطر اُس نے یہ الفاظ بھی زائد کئے۔

تلک العزانیق العلی وان شفاعتہم لترتجیٰ۔

ترجمہ:’’یہ سرفراز دیویاں ہیں اور تحقیق اُن کی سفارش کی امید رکھنی چاہیے‘‘۔

یہ سن کر قریش تو بہت خوش ہوگئے اور رسول کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے اور یہ کہنے لگے:

’’اب ہم جان گئے کہ واحد رب ہی زندگی دیتاا ور لیتا ہے، وہی خلق کرتا اور سنبھالتا ہے۔ہماری یہ دیویاں اُس کے پاس ہماری سفارش کرتی ہیں اور چونکہ تو نے اُن کا یہ رتبہ مان لیا ہے اس لئے اب ہم تیری پیروی کرنے پر راضی ہیں‘‘۔

لیکن اس راضی نامے سے محمد صاحب کا بہت نقصان ہوا اور دل میں اندیشہ پیدا ہوا اور اپنی غلطی سے تائب ہو کر وہ لفظ اُن کی جگہ ڈالے جو اَب اُس سورۃ میں پائے جاتے ہیں’’کیا تم لوگوں کے لئے بیٹے او ر خدا کے لئےبیٹیاں،یہ تو بے انصافی کی تقسیم ہے،یہ تو نرےنام ہی ہیں جو تم نے اور تمہارے بڑوں نے رکھ لئے ہیں‘‘۔

اس روش سے محمد صاحب کے پیروؤں کو صدمہ پہنچا اور کڑواہٹ یہاں تک ہونے لگی کہ محمد صاحب کو اس کی وجہ بیان کرنی پڑی۔انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ شیطان نے یہ لفظ اس کے منہ میں ڈال دیئے اور شیطان نے اُس سے ماقبل سارے انبیا کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا اور یہ وحی نازل ہوئی:

مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ۔

ترجمہ:’’ہم نے کسی رسول یا نبی کو تجھ سے پیشتر نہیں بھیجا کہ جب اُس نے سنانا شروع کیا تو شیطان نے کچھ(غلط) تمنا اُس کے دل میں ڈال دی اور جوتمنا شیطان نے ڈ الی تھی اُس کو خدا نے منسوخ کر دیا‘‘ (سورۃ الحج۵۲:۲۲)۔

ترجمہ:’’ہم نے کسی رسول یا نبی کو تجھ سے پیشتر نہیں بھیجا کہ جب اُس نے سنانا شروع کیا تو شیطان نے کچھ(غلط) تمنا اُس کے دل میں ڈال دی اور جوتمنا شیطان نے ڈ الی تھی اُس کو خدا نے منسوخ کر دیا‘‘ (سورۃ الحج۵۲:۲۲)۔اس

قالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ ، فَكَانَ يَوْمًا فِي مَجْلِسِ قُرَيْشٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى سُورَةَ النَّجْمِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: «أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى» أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ : «تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى»، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ

ترجمہ:’’ابن عباس اور محمدابن کعب القرضی سے روایت ہے اور علاوہ ازیں دیگر مفسروں نے بھی کہ جب محمد صاحب نے دیکھا کہ اس کی قوم اُس سے پھرتی جا رہی ہے اور اُس کی مخالفت کرتی ہے اور (قرآن کو) رد کر دیا ہے جسے وہ خدا کی طرف سے لائے تھے ۔تب اُن کے دل میں آرزوپیدا ہوئی کہ کوئی ایسا لفظ نازل ہو جس سے کہ اُس کے اور اُس کی قوم کے درمیان دوستی قائم ہو جائے اور ایسی ترغیب اُن کو ملے جس سے کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایسا ہو اکہ ایک روز جب وہ قریش کے کعبہ میں تھے تو خدا نے سورہ نجم اُن پر نازل کی اور محمد یہ سورۃ اُن کو سنانے لگے اور جب وہ اس مقام پہنچے افرایتم اللّات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری توشیطان نے وہی باتیں اُن کے منہ میں ڈال دیں جن کی آرزو اُن کے دل میں تھی ۔تلک الغرانین العلی وان شفاعتھم لترتجیاور جب قریش نے یہ لفظ سنے تو بہت خوش ہوگئے۔

مواھب الدنیا میں اس قصہ کا بیان اس طرح سے ہوا ہے :

قرأ رسول الله صلعم بمكة النجم فلما بلغ أفريتم اللات والعزى ومناة الثالثة الأخرى ألقى الشيطان على لسانه تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى. فقال المشركون ما ذكر آلهتنا بخير قبل اليوم فسجد وسجدوا فنزلت هذه الآية: وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي إلا إذ تمنى ألقى الشيطان في أمنيته.

ترجمہ:’’نبی مکہ میں سورہ نجم سنا رہا تھا اور جب وہ ان الفاظ پر پہنچا افرایتم اللّات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری تو شیطان نے اُس کے منہ میں یہ الفاظ ڈال دیئے۔ تلک الغرانیق العلی واَن شفاعتھم لترتجی ۔اس پر بت پرست کہنے لگے اس نے ہماری دیویوں کا ذکر خیر کیا ہے۔اُس نے نماز پڑھی ہے اور انہوں نے بھی نماز پڑھی اور تب یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ہم نے تجھ سے پیشتر کسی رسول یا نبی کو نہیں بھیجا لیکن جب وہ سنانے لگا شیطان نے اُس کے اندر کوئی تمنا ڈ ال دی‘‘۔

بیضاوی نے اپنی تفسیر کے صفحہ۴۴۷ پر یہی قصہ بیان کیا ،اس لئے اس قصے کی صحت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ابن اسیر جو محمد صاحب کے قدیم سوانح نویسوں میں سے ہے ،یہ لکھتا ہے کہ یہ افواہ مشہور ہوئی کہ قریش نے اسلام قبول کر لیا اور یہ خبر ابی سینا کے مہاجرین تک پہنچی اور وہ لوگ جلد مکہ کو واپس آئے۔گو مکہ کے دیوتاؤں کو اللہ کے ساتھ ملانے سے قریش خوش ہو گئے تھے لیکن جب اُس نے اپنے اس فعل سے توبہ کی تو قریش غصے کے مارے جھلّا اُٹھے اور اُنہوں نے یہ عزم بالجزم کیا کہ اس تحریک کو وسعت پکڑنے سے پیشتر ہی کچل کر نیست و نابود کر دیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو برادری سے خارج کر کے اُن کے ساتھ لین دین اور میل برتاؤ سب بند کر دیا اور اس فتویٰ میں انہوں نے نہ صرف محمد صاحب اور اس کے پیروؤں کو شامل کیا بلکہ بنی ہاشم کے سارے گھرانے کو۔اب سارے بنی ہاشم شہر کے ایک الگ محلے میں رہنے لگے اور دو تین سال تک اس سختی کی برداشت کرتے رہے ۔مگر آخر کار اہل قریش ڈھیلے پڑ گئے اور محمد صاحب کے گروہ کے ساتھ لین دین پھر شروع ہو گیا۔

اب محمد صاحب نے آگے سے دو چند کوشش شروع کی تاکہ قریش کسی طرح سے اس کی رسالت پر ایما ن لے آئیں۔اُس نے خاص کر اہل قریش کے رئیسوں کی طرف توجہ مبذول کی اور جس استقلال سے محمد صاحب نے وعظ کا کام جاری رکھا اُس کے بارے میں ایک قصے کا بیان آیا ہے جس سے محمد صاحب کی سیرت پربڑی روشنی پڑتی ہے۔بیضاوی نےا س قصے کا یہ بیان کیا ہے کہ ایک روز محمد صاحب قریش کے سرداروں کے سامنے بیٹھا اس نئے عقیدے کے دعاوی پر زور دے رہا تھا۔اس وقت ایک غریب نابینا شخص عبد اللہ بن ام مکتوم نامی نے نزدیک ہو کر یہ کہنا شروع کیا:

يا رسول الله علمني مما علمك الله

ترجمہ:’’اے رسول اللہ کیا تو مجھے اس اَمر کی تعلیم دیتا ہے جس کی تعلیم کہ خدا نے تجھے دیا‘‘۔

لیکن محمد صاحب نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور قریش سے ہی مخاطب رہا اور اس شخص کی خلل اندازی سے دق ہو کر تیوری بدل کر اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔اس کے بعد خدا نے محمد صاحب کی بے قراری پر اس کو ملامت کی اور محمد صاحب نے اپنے فعل سے توبہ کی(قصےمیں یہ ذکر ہے)اور اُس نابینا شخص کو بلا کر اُس پر عزتوں اور مہربانیوں کے پُل باندھ دیئے اور آخر کار اُس کو مدینہ کا عامل دیا۔ اس مورخ نے یہ بھی بیان کیا کہ محمد صاحب کو اپنے اس گناہ کا ایسا رنج تھا کہ جب کبھی وہ عبداللہ کو ملتا تو وہ یہ کہا کرتا تھا:

مرحبا بمن عاتبني فيه ربي

ترجمہ:’’مرحبا اُس شخص کو جس کی خاطر خدا نے مجھ پر عتاب کیا‘‘۔

چونکہ یہ واقعہ اہم تھا اس لئے قرآن مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا:

ترجمہ:’’ (محمد صاحب)اتنی بات پر چین بجبیں ہوئے اور منہ موڑ بیٹھے کہ ایک نابینا اُن کے پاس آیا اور تم کیا جانو ۔عجب نہیں وہ منور ہو جائے یا نصیحت سنے اور اُس کو نصیحت سود مند ہو تو جو شخص بے پروائی کرتا ہےاُس کی طرف تم خوب توجہ کرتے ہو۔حالانکہ وہ ٹھیک نہ ہو تو تم پر کچھ نہیں اور جو ڈر کر تمہارے پاس دوڑتا ہواآئے تو تم اُس سے بے اعتنائی کرتے ہو‘‘(سورۃ العبس۱:۸۰۔۸)۔

اسی وقت کے قریب محمد صاحب کی زوجہ خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ اس کا محمد صاحب کو بہت قلق ہوا اور اس کی جانثاری اور وفاداری کا ذکر اپنی موت تک کرتے رہے۔اب مصیبت پر مصیبت آئی۔خدیجہؓ کو گزرے تھوڑا ہی عرصہ ہو اتھا کہ محمد صاحب کا محافظ ابو طالب رحلت کر گیا۔ محمد صاحب کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور اس پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ابو طالب کا ہاتھ سر پر سے اُٹھ جانے کے بعد اس کا مکےمیں رہنا خطرناک تھا۔ان صدموں کے بوجھ سے آئندہ مکہ میں نا امیدی کے خیال سے محمد صاحب نے یہ ارادہ کیا کہ آئندہ کو وہ طائف میں جا کر وعظ کرے گا۔یہ شہر مکہ سے مشرق کی طرف ستر میل کے فاصلے پر تھا۔لیکن مکے کے لوگوں کی طرح طائف کے لوگ بھی اپنے بتوں پر فریفتہ تھے۔دس دن تک طائف کے لوگوں کے سامنے محمد صاحب وعظ و نصیحت کرتا رہا لیکن انہوں نے کچھ توجہ نہ کی ،بلکہ بے عزت و زخمی ہو کر وہ پھر اپنے شہر مکے کو واپس چلا آیا۔کہتے ہیں کہ اثنائے راہ میں اُس نے جنّوں کو وعظ کیا اور اُن میں سے کئی جِن ایمان لائے۔ہم ایسے قصے سے در گزر کرتے وقت سر سید احمد خاں کی طرح یہ کہیں گے کہ جنّوں سے مراد یہاں غیر مہذب عربوں کا گروہ تھا۔

محمد صاحب نے تھوڑی دیر ابی سینا کے ایک مہاجر کی بیوہ سے شادی کرکے اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے غم سے رہائی پائی۔اس کے بعد اُس نے ایک اور نکاح کیا۔یہ بیوی ابو بکر کی بیٹی سات سال عمر کی تھی۔اس کا نام عائشہ تھا۔اس عرصے میں محمد صاحب کی مخالفت زیادہ ہونے لگی۔اس لئے اب محمد صاحب صرف مسافروں کو وعظ کرنے لگےجو عرب کے دوسرے شہروں سے مکہ میں حج کے لئے سال بہ سال آیا کرتے تھےیا گاہے بہ گاہے مختلف اوقات و مقامات پر میلوں میں جمع ہو اکرتے تھے۔مدینے کے چند مسافروں نے محمد صاحب کی تعلیم کوقبول کر لیا اورجب مدینے کو واپس گئے تو انہوں نے اسلام کی تبلیغ ایسی کامیابی سے کی کہ دوسال کے بعد ستر شخصوں کا گروہ مکہ کو گیا اور محمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔اس کامیابی سے محمد صاحب کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اب جگہ بدلنی چاہیئے اور مکے کے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ سب کے سب مدینے کو چلے جائیں۔چنانچہ اس تجویز پر عمل ہوا اور تھوڑی دیر بعد محمد صاحب بھی اپنے رفیق ابو بکر کے ساتھ مدینے میں اُن سے جا ملے اور اہل قریش کے طعن و تشنیع کو پیچھے چھوڑ گئے۔مدینہ میں اُن کا استقبال بڑے تپاک سے کیا گیا۔محمد صاحب اور اُس کے پیروؤں کے یک لخت غائب ہو جانے سے اہل قریش گھبرا گئے اور ان کو راہ میں پکڑ لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔پس ۶۲۲ء میں مکہ میں تیرہ سال تقریباً بے سود محنت کرنے کے بعد محمد صاحب اپنے رفیقوں کو لے کر مکے سے مدینہ کو ہجرت کر گیا۔اسی وقت سے مسلمانوں کے سن ہجری کا آغاز ہوا۔

دوسرا حصّہ

محمد صاحب مدینہ میں

پہلاباب

تمدّنی اور دینی شرع

مکّہ صحرائے عرب کے وسط میں واقع ہے۔اس کے چاروں طرف بنجر زمین اورپتھر یلی پہاڑیاں ہیں جن پر سبزی کا نام و نشان تک پایا نہیں جاتا۔یہ ایسا ڈراؤنا اور روکھا نظارہ پیش کرتی ہیں کہ اس سے بڑھ کر احاطہ خیال میں نہ آیا ہوگا ۔برعکس اس کے مدینہ سر سبز میدان ہے ۔ اس کے چاروں طرف خوشنما باغات اور پھلدار نخلستان پائے جاتے ہیں ۔آج تک کھجوروں کی زراعت وپرورش وہاں کے باشندوں کا عام پیشہ ہے۔

محمد صاحب کے زمانے سے پیشتر اہل مدینہ عموماً دو حصوں پر منقسم تھے :بت پرست عرب اور موحد یہودی ۔ گو قرب و جوار کے دیہات میں معدودے چند(بہت تھوڑی تعداد میں) مسیحی فرقے بھی پائے جاتے تھے،مگر شمالی شہر میں اسلام کے قائم ہونے کے جلد بعد وہاں کے لوگ چارحصوں میں منقسم پائے جاتےہیں ۔

اول۔ تو مدینہ کے غیر مسلم عرب تھے جن کی بڑی آرزو یہ تھی کہ اس زبردست پیشوا کے ساتھ جو ان کے درمیاں آبسا تھا رشتہ اتحاد پیدا کریں ۔ لیکن وہ اسلام قبو ل کرنا نہ چاہتے تھے مسلمان مورخ ان لوگوں کو ’’منافق‘‘ کہتے تھے۔

دوم ۔وہ مسلمان تھے جو محمد صاحب کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرکے مدینے کو چلے گئے تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں کم وبیش افلاس کی حالت میں تھے۔ ان کو ’’مہاجرین ‘‘کہتے تھے۔ لیکن مابعدزمانہ میں یہ لوگ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ محمد صاحب کو بھی ان سے بڑا اُنس تھا کیونکہ انہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ ترک کیا تھا اور مکہ سے ہجرت کرنے میں ہر طرح کی تکلیف اور خطرہ کا سامنا کیا تھا۔ ان کے لئے محمد صاحب ہمیشہ مشکور رہے۔

سوم ۔مدینہ میں تیسرا فریق ’’انصار ‘‘کا تھا۔ یہ مدینہ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے خود اسلام قبول کیا اور پھر محمد صاحب اور اس کے مکی پیروؤں کو مدینہ میں بلا کر ان کی مدد کی ۔یہ ’’انصار‘‘چونکہ مدینے کے پہلے مسلمان تھے، اس لئے ان کی بہت بڑی عزت تھی اور جن لوگوں کو’’انصار‘‘ کا لقب ملا اُن کی بہت تعریف اور مدد کی جاتی تھی۔

چہارم ۔چوتھا فریق بالکل الگ تھلگ تھا ۔ یہ یہودیوں کے دولت مند بے شمار مختلف فریق تھے جو مدینہ کے گرد ونواح میں بستے تھے ۔کچھ عرصے تک تو محمد صاحب ان یہودیوں پر مہربان رہے اور حمایت وحفاظت کا عہد و پیمان کر لیا۔ لیکن یہ عہد و پیمان دیر تک قائم نہ رہا اور جیسا تیسرے باب میں ذکر ہے ۔ وہ وقت جلد آگیا جب کہ محمد صاحب نے ان یہودیوں کو جو اہل کتاب کہلاتے ہیں،اس علاقہ سے خارج کر دینا مصلحت ملکی و لازمی سمجھا۔

مدینہ میں پہنچنے کے بعد محمد صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھاکہ مسلمانوں کو جمع کر کے ان کو تاکید کی کہ نماز عام کے لئے ایک مسجد تعمیر کریں۔ کہتے ہیں کہ اس کام میں محمد صاحب نے اپنے ہاتھوں سے مدد دی اور تھوڑے عرصے ہی میں اینٹوں کی ایک عمارت کھڑی کر دی اور کھجور کی لکڑیوں کی چھت ڈال دی۔مسلمانوں کی دینی سرگرمی کی یہ یادگار تھی۔ اس مسجد کے ساتھ چند حجرے بھی تعمیر ہوئے جن میں محمد صاحب اور ان کی بیویاں رہا کرتی تھیں۔

اس کا ذکر ہم کر آئے ہیں کہ محمد صاحب نے پہلے پہل تو یہ کوشش کی کہ یہودیوں کو اپنا مطیع بنا لے اور اس مقصد کے لئے ان کو ’’اہل کتاب‘‘ کہا اور ان کی عزت بھی کی ۔ فی الحقیقت جو تاریخ ہم تک پہنچی ہے اُس سے یہ ظاہر ہے کہ محمد صاحب نے اُن کے چند ایک دستوروں کو بھی اختیار کیا اور اپنی شریعت میں اُن کو داخل کیا ۔جس خاص وسیلے سے محمد صاحب نے یہودیوں کی تالیف قلوب کرنا چاہی وہ یہ تھا کہ یروشلیم کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ یہودیوں کا یہ عام دستور تھا کہ یروشلیم کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ مسلمان مکہ کے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے،لیکن اب محمد صاحب کے حکم سے اور کچھ عرصے تک مسلمان جنوب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی بجائے شمال کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔مگر جب محمد صاحب نے دیکھا کہ یہودی اپنی ہٹ سے باز نہیں آتے اوراسلام کو قبول نہیں کرتے تو محمد صاحب نے پھر یہی قرار دیا کہ مکہ کے کعبہ ہی کو اپنا قبلہ ٹھہرائیں۔چنانچہ ایک روز نماز پڑھتے پڑھتے محمد صاحب نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا اور اُسی طرف نماز پڑھنے لگے۔یہ دیکھ کر سارے مسلمان حیران ہوئے ۔اس تبدیلی کی وجہ وحی سے منسوب کی اور اپنے پیروؤں کی تسلی کے لئے یہ آیت آسمان سے نازل شدہ قرار دی۔

سورہ بقرہ آیت 143

قَد نَریٰ تَقَلُّبَ وَجھکَ فِی السَّمَاء فَلَنُوَلّیَنَّکَ قِبلَۃً تَرضٰہَا فَوَلّ وَجھَکَ سَطَرَ المَسجِدِ الحَراَمِ وَحَیْتُ مَا کُنْتُم فَوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ شَطَرَہ‘ط۔

ترجمہ:’’ہم نے اے محمد صاحب تجھے آسمان کی ہر سمت رخ کرتے دیکھا لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو اُس قبلہ کی طرف رُخ کرے جو تجھے پسند ہے۔پس تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر اور جہاں کہیں تم ہو تم اُسی کی طرف منہ پھیرا کرو‘‘۔

جلال الدین نے اس آیت کی یہ تفسیر کی کہ محمد صاحب:

كان صلى إليها فلما هاجر أمر باستقبال بيت المقدس تألفاً لليهود فصلى إليه سنة أو سبعة عشر شهراً ثم حول

ترجمہ:’’اس کی(کعبہ کی) طرف منہ کر کے نما زپڑھا کرتے تھے لیکن(مدینہ کی طرف) ہجرت کرنے کے بعد اُنہوں نے (اپنے پیروؤں کو) یروشلیم کی ہیکل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا تا کہ وہ یہودیوں کو رضا مند کر ے ۔پس وہ اُس کی طرف منہ کر کے ایک سال یاسترہ ما ہ تک نماز پڑھتے رہے،پھر انہوں نے قبلہ بدل دیا‘‘۔

عبد القادر نے اپنی تفسیر کے صفحہ ۲۲ پر یہ مرقوم کیا:

’’ چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آوے سو آسمان کی طرف منہ کر کے راہ دیکھتے تھے کہ شاید فرشتہ حکم لاوے کہ کعبے کی طرف نماز پڑھو‘‘۔

جب صورت حال یہ ہو تو تعجب نہیں کہ محمد صاحب کی یہ آرزو جلد پوری ہو گئی اور وحی سماوی کے ذریعے اس تبدیلی کی منظوری ہو گئی۔احادیث میں محمد صاحب کی نمازوں کا بہت ذکر آیا ہے اور اس کی تفصیل آئی ہے کہ کس وقت اور کس طریقے سے وہ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ان حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب کے پیرو جو اُن کی تقلید میں وضو اور طہارت کی ہر رسم کے بڑے پابند تھے جب محمد صاحب کو اپنے ہی مقرر کر دہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے دیکھتے تو حیران رہ جاتے تھے ،مثلاً محمد صاحب نے اُن کو یہ حکم دیا تھا:

إنّ الله لا يقبل صلاة بغير طهور

ترجمہ:’’تحقیق خدا طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا‘‘۔

تو بھی مِشکوٰۃ المصابیح کتاب الاتامہ میں عمر بن عمیہ سے یہ روایت آئی ہے:

أنه رأى النَّبيَّ الله صلى الله عليْه وسلم يَحتزُّ مِن كَتِفِ شاةٍ في يَدهِ، فدُعي إلى الصَّلاة، فألْقَاهَا والسكين التي كان يَحْتزُّ بها، ثمَّ قام فصلَّى ولم يَتوضَّأ

ترجمہ:’’تحقیق اُس نے نبی کو بھیڑی کا شانہ کاٹتے دیکھا جو اُن کےہاتھوں میں تھا ۔پھر وہ نماز کے لئے بلائے گئے تو جس چھری سے وہ شانہ کاٹ رہے تھے اُسے اور شانہ کو چھوڑ کر وہ نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے وضو نہ کیا‘‘۔

ترمذی سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ کہا کرتے تھے:

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 302

راوی: علی بن حجر , اسماعیل بن ابراہیم , لیث , عبداللہ بن حسن , اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور وہ اپنی دادی فاطمہ کبری

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ عَنْ جَدَّتِهَا فَاطِمَةَ الْکُبْرَی قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، لیث، عبداللہ بن حسن، اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور وہ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو درود پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے اے اللہ میری مغفرت فرما اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول ۔

پھر وہاں سے رخصت ہوتے وقت یہ کہا کرتے تھے:

وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ

ترجمہ:’’اے میرے رب میرے گناہوں کو معاف کر اور اپنے فضل کے د ر و ازے میرے لئے کھول دے‘‘۔

محمد صاحب کی دعاؤں کے متعلق بخاری نے یہ بھی بیان کیا کہ تکبیر کے وقت اور قرآن مجید کی تلاوت کے عرصے میں وہ خاموش رہا کرتے تھے۔آخر کار آنحضرت کے دوست اور رفیق ابو ہریرہ نے اُن سے پوچھا’’اے رسول خدا تکبیر اور تلاوت کےوقت جب آپ خاموش رہتے ہیں تو اپنے دل میں کیا کہا کرتے ہیں؟ محمد صاحب نے یہ جواب دیا:

سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1216

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً حَسِبْتُهُ قَالَ هُنَيَّةً فَقُلْتُ لَهُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِسْكَاتَتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ قَالَ أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی اختیار کرتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں نبی اکرم نے جواب دیا میں یہ پڑھتا ہوں۔ اے اللہ میرے اور گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردے جتنا تونے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ رکھا ہے۔ اے اللہ مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک رکھا جاتا ہے اے اللہ میری خطاؤں کو برف اور ٹھنڈے پانی کے ذریعے دھو دے۔

محمد صاحب کی روز مرہ زندگی کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسمیات کا جو بوجھ اس نے اپنے پیروؤں پر لادا تھا، وہ خود اس کی برداشت سے نالاں تھے اور اس لئے مورخوں نے ایسے موقعوں کا ذکر بار بار کیا جب محمد صاحب نے اُن رسمیات کی خلاف ور زی کی ۔

چنانچہ ابن مسعود سے جو صحابہ میں سے تھے روایت ہے کہ ایک دن محمد صاحب نے:

صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا فَقِيلَ لَهُ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ صَلَّيْتَ خَمْسًا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ. ورواية أخرى قال: إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مثلكم أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فإذا أنْسيْتَ فَذَكّروني

ترجمہ:’’ ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھیں۔اس لئے بعضوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا رکعتیں(چار کی جگہ پانچ)بڑھ گئی ہیں۔اُنہوں نے کہا تمہارا کیا مطلب ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں پھر سلام کے بعد اُنہوں نے دو رکعتیں پڑھ کر یہ کہا۔’’فی الحقیقت میں بھی تو تمہاری مانند ہوں اور تمہاری طرح بھول جاتا ہوں۔اس لئے جب میں بھولوں تو مجھے یا د دلایا کرو‘‘(مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الصلوٰۃ)۔

محمد صاحب نے اپنے پیروؤں کی ہدایت کے لئے عبادت کی بہت طویل تفصیل دی۔لیکن مدینہ کی نئی مسجد میں اُس نے سارے زمانوں کے لئے ایک شرع بھی دی اور شریعت کا ایسا ضابطہ مقرر کیا جو زندگی کے ہر صیغے کے لئے خواہ تمدنی ہو یا سیاست یا دین کار آمد ہو سکے۔یہ تو ماننا پڑتا ہے کہ اسلام سے پیشتر عربوں میں جس شریعت کا رواج تھا اُس سے اسلامی شریعت بہت بہتر تھی۔لیکن محمد صاحب نے ایسی شریعت کو دینی جامہ پہنا کر اس کو دوامی بنا دیا۔پس اہل اسلام ایسی شرع کے ہمیشہ کے لئے پابند ہو گئے جو ساتویں صدی کے لائق تھی۔اس لئے اعلیٰ نصب العین تک ان کا ترقی کرنا محال ہو گیا۔چونکہ محمد صاحب نے ساتویں صدی میں غلامی اور کثرت از د واج کو جائز ٹھہرایا،پس وہ سارے زمانوں کے لئے جائز ہو گیا۔

محمد صاحب کے برپا ہونے سے پیشتر عربوں میں کثرت ازدواج کی کوئی حد نہ تھی اور اس کے ساتھ ایسی خرابیاں ملحق تھیں جن کا بیان کرنا مشکل ہے۔محمد صاحب ایسے رواج کو بیخ وبن سے تو اکھاڑ نہ سکے،البتہ اس پر حد لگا کر اُس کی برائیوں کو محدود کر دیا۔یہ اصلاح تو بذات خود اچھی تھی لیکن لونڈیوں کی غیر محدود اجازت دے کر اس خوبی کا اثر بھی زائل کر دیا۔لونڈیاں یا جو عورتیں جنگ میں پکڑی جائیں خواہ اُن کے خاوند بھی موجود ہوں،وہ مسلمانوں کو رکھنی جائز ہو گئیں اور زمانہ حال کی تہذیب کسی حالت میں ایسی برائی کی اجازت نہ دے گی۔قرآن مجید کی جن آیات میں یہ اجازت پائی جاتی ہے ،وہ یہ ہیں:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

ترجمہ:’’اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیموں سے ٹھیک سلوک نہ کر سکو گے تو اُن عورتوں میں سے جو تمہاری نظر میں اچھی ہوں دو یا تین یا چار کر لو او ر اگر تم کو خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی کرو یا لونڈیاں جو تمہارے داہنے ہاتھ نے حاصل کی ہیں‘‘(سورۃ النسا۳:۴)۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ

ترجمہ:’’تم کو حرام ہیں شادی شدہ عورتیں سوائے اُن کے جو تمہارے ہاتھوں میں بطور لونڈیوں کے ہیں‘‘(سورۃ النسا۲۴،۲۳:۴)۔

محمدصاحب کی وفات کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ مذکورہ بالا شریعت پر کافی روشنی ڈالتی ہے اور آج کےدن تک آرمینی مسیحیوں کا ترکوں کے ہاتھ سے بار بار قتل ہونا اس اَمر کا بھی شاہد ہے کہ کس قدر آرمینی مسیحی عورتوں کے ننگ و ناموس کو انہوں نے خراب کیا اور مسلمانوں نے اپنے گھروں میں اُن کو ڈال لیا۔

محمدصاحب کے زمانے کی ایک بڑی خرابی جس کی اصلاح کی انہوں نے کوشش بھی کی غلامی کا دستور تھا۔ محمدصاحب نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ اپنے غلاموں سے مہربانی کے ساتھ پیش آئیں اور غلاموں کے آزاد کرنے کو ایسا فعل قرار دیا جو خدا کو پسند تھا۔لیکن انسانوں کی خریدو فروخت کی تو اجازت دی اور مسلمان اُس وقت سے لے کر آج تک شرع نبوی کے مطابق اس بے رحم تجارت میں مصروف ہیں۔

مسلمان مہاجرین نے مدینہ میں پہنچ کر پہلے پہل تو کچھ تنگی اٹھائی۔ان میں سے اکثر تو بے زر تھے۔خود محمدصاحب کو فاقہ اٹھانا پڑا۔ترمذی نے بیان کیا ہے کہ اکثر مسلمان کھجوروں اور جَو پر گزران کرتے تھے۔ محمدصاحب کے ایک بے موقعہ اعلان کے باعث مہاجرین کو اَور بھی تکلیف ہوئی جو اپنی روزانہ روٹی کے لئے مدینے کے ایمانداروں پر حصر رکھتے تھے۔ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ مدینہ اور اس کی نواح کے اکثر باشندے کھجور کی زراعت و پرورش کا کام کرتے تھے اور اسی پیشہ میں اُن کوکمال حاصل تھا۔پیوند کے مصنوعی طریقوں سے بھی وہ واقف تھے اور اس طرح سے انہوں نے بہت کچھ کما لیا تھا۔لیکن مِشکوٰۃ المصابیح میں یہ بیان آیا ہے کہ جب محمدصاحبمدینے میں آئے تو اُنہوں نے اس پیشے کو منع کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب کھجور کی فصل کا وقت آیا تو ان مایوس مسلمانوں نے اپنی کھجوروں کو بے پھل پایا اور غیر مسلم باشندوں کو کثرت سے پھل حاصل ہوا۔ا س پریشانی کی حالت میں مسلمان محمدصاحب کے پاس جا کر اپنی حالت بتانے لگے۔کہتے ہیں کہ محمدصاحب نے یہ جواب دیا:

إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ، فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ.

ترجمہ:’’میں صرف بشر ہوں ۔اس لئے جب میں تمہیں دین کے بارے میں حکم دو ں تو تم مان لو اور جب میں تمہیں صرف اپنی رائے بتاؤں تب میں صرف بشر ہی ہوں‘‘(مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الاایمان)۔

اس اَمر کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ محمدصاحب کے اس جواب سے ان کے بھوکے محمدیوں کے پیٹ تو نہ بھرے اور نہ وہ مصیبت ٹل گئی جو اُن کو پیش آئی تھی۔اگلے باب میں ہم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے کہ محمدصاحب نے اس مسئلے کو کس طرح سے حل کیا اور اپنے پیروؤں کے افلاس کو دولت سے بدل دیا۔

دوسرا باب

جہاد کا اعلان

یہ ذکر ہو چکا ہے کہ اہل مدینہ کھجوروں کے بونے اور پرورش کرنے میں اکثر مصروف و مشغول رہتے تھے۔لیکن بر عکس اس کے اہل مکہ عموماً تاجر لوگ تھے اور اُن کے قافلے تجارت کے لئے برابر شام اور دیگر ممالک کو جاتے رہتے تھے ۔ محمدصاحب نے بھی اپنے عالم شباب میں ان قافلوں کے ہمراہ کئی بار شام اور دیگر ملکوں کی سیر کی تھی اور ہر سال اہل قریش کے قافلے قیمتی مال ومتاع سے لدے شمال کی طرف بصرہ،دمشق اور دیگر شہروں کی منڈیوں کی طرف جاتے نظر آتے تھے۔اہل مکہ کے یہ تجارتی قافلے عموماً اُس شاہراہ سے گزرا کرتے تھے جو مدینے کے قریب سے گزرتی تھی۔لیکن بعض اوقات اُس دوسری راہ سے بھی سفر کرتے جو بحیرہ قلزم کے مشرقی ساحل سے گزرتی تھی۔ محمدصاحب کو اب یہ خیال آیا کہ قریش کے ان قافلوں کو لوٹ کر اپنی اور اپنے رفیقوں کی تنگی وتکلیف کو رفع کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے چند مسلح دستے تیار کئے اور اُن کو ہدایت کی کہ اُن قافلوں کو لوٹ لیں جن کے اُدھر سےگزرنے کی خبر اُسے ملی تھی۔ان مہموں کا شروع میں یہی مقصد تھا کہ مدینے میں مہاجرین کے افلاس کو دور کرے ۔بعد ازاں دین اسلام کی اشاعت کی غرض بھی داخل ہو گئی اور جنگ و جدل جاری ہوگئے،نہ محض لوٹ کی خاطر بلکہ دین اسلام کی اشاعت کی خاطر۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ خدا نے ہماری کمزوری اور بے کسی پر نظر کر کے اس جنگ و جدل کو ہم پر جائز کر دیا(مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الجہاد)۔ محمدصاحب کے ان الفاظ کے معنی بخوبی واضح ہیں اور ان سے کچھ شک باقی نہیں رہتا کہ محمدصاحب کا ارادہ لوٹنے کا تھا اور اس کے لئے وحی کےذریعے اجازت حاصل کر لی۔

پہلے پہل تو مسلمان ناکام رہے اور ایک یا دو دستوں کو کچھ لوٹ نہ ملی۔ایسی ایک مہم کا ذکر عبداللہ بن حوالہ نے یوں کیا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسْولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدِ مِنْ قَبْلِنَا ذلِكَ بأن اللهَ رأى ضعْفَنَا وعَجزنا فيطيَّبها لنا.

ترجمہ:’’ رسول خدا نے ہمیں پیدل لوٹنے کے لئے بھیجا لیکن ہم بغیر لوٹ حاصل کئے واپس آ گئے‘‘(مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الفتان)۔

پہلے پہل تو محمدصاحب ان مہموں میں مسلمانوں کے ساتھ نہ گئے،لیکن اپنے پیروؤں کی ناکامی سے تنگ آکر اُن کا جوش بڑھانے کے لئے خود اُن کے ہمراہ ہو لئے اور لوٹ کی تلاش کرنے لگے۔واقدی مورخ نے کم از کم انیس ایسی مہموں کا ذکر کیا ہے جن میں محمدصاحب بہ نفس نفیس حاضر تھے۔ جس پہلی مہم میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی وہ ایک چھوٹی سی مہم تھی جس میں محمدصاحب خود حاضر نہ تھے۔قدیم زمانوں سے اہل عرب کا یہ دستور رہا کہ سالانہ حج کے مہینے کو مقدس مانتے تھے۔اس مہینے میں ہر طرح کی لڑائی ناجائز سمجھی جاتی تھی اور عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر ایک شخص کا جان و مال محفوظ رہتاتھا۔اسی دستور کی وجہ سے مکہ میں محمدصاحب کو موقعہ ملا تھا کہ جو لوگ حج کےلئے دورنزدیک سےآتے تھےاُن کو تبلیغ اسلام کرتے رہے۔ مگر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک موقعے پر محمدصاحب نے اپنا ایک مسلحہ دستہ ایک مقام بنام ’’نخلہ ‘‘کو روانہ کیا تاکہ قریش کے قافلے پر حملہ کرے جس کی خبر انہیں ملی تھی۔مسلمانوں کا یہ دستہ قریش کے ڈیروں کے پاس پہنچ گیا اور یہ مقدس مہینہ تھا جس میں خونریزی حرام تھی ۔لیکن مسلمانوں نے اپنے بھیس کو اتار پھینکا اور ان بے خبر مسافروں پر حملہ کر دیا۔ان میں سے بعضوں کو مسلمانوں نے قتل کیا اور بعضوں کو بھگا دیا اور غنیمت کے مال سے لدے مدینے کو واپس آئے۔مسلمان مورخ کہتے ہیں کہ محمدصاحب کے پیروؤں نے یہ پہلی غنیمت حاصل کی۔اس سے اُن کا حوصلہ دو بالا ہو گیا اور مال دار قافلوں کو جو شام اور دیگر ممالک کو مال لے کر جاتے تھے برابر لوٹنے لگے۔

مذکورہ بالا واقعات سے تھوڑی دیر بعد محمدصاحب کو یہ خبر ملی کہ قریش کا ایک بڑا قافلہ جس کا سردار ابو سفیان تھا شام سے تجارت کا کثیر مال لے کر واپس آ رہا تھا۔ محمدصاحب نے اس موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور بلا تامل خو د سرلشکر بن کر قافلے کو لوٹنے کے لئے روانہ ہوئے۔بخاری نے صاف طور سے اس کا بیان کیا کہ مسلمان ابو سفیان کے قافلے کو لوٹنے کے لئے گئے تھے۔لیکن یہ قافلہ بھی چوکنا ہو رہا تھا اور مسلمانوں کے حملے کے ارادے سے آگاہ ہو کر ایک سانڈنی سوار مکہ کو روانہ کیا اور خود ایک دوسری راہ سے اپنے قافلے کو لے کر روانہ ہوا اور یوں محمدصاحب کے ہاتھوں سے بال بال بچ گیا۔اس اثنا میں مکہ سے ایک بڑا گروہ اس قافلے کی تلاش میں نکلا اور اُس کی مٹ بھیڑ مسلمانوں سے بمقام بدر ہو گئی اور سخت جنگ ہوئی۔مسلمان گو شمار میں تھوڑے تھے لیکن فتح یاب ہوئے اور بہت سے آدمیوں کو اسیر کرکے اور مال غنیمت لے کر مدینے کو واپس گئے۔بہت اسیروں کو باوجود اُن کی منت سماجت کے مسلمانوں نے بری طرح سے تہ تیغ کیا اور اُن کی لاشوں کو کنوئیں میں پھینک دیا۔مِشکوٰۃ میں اس واقعہ کا ذکر یوں آیا ہے:

مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث 2171

حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ

ترجمہ:’’قتادہ سے یہ روایت ہے کہ اُ س نے کہا انس ابن مالک نے ہم سے ابو طلحہ سے روایت کی کہ بدر کے دن رسول خدا نے قریش کے چوبیس سردار وں کو موت کا حکم صادر کیا اور ان کی لاشیں بدر کے ایک کنوئیں میں پھینک دی گئیں‘‘۔

جو آدمی قتل ہوئے ان میں ایک شخص عقبہ بن ابو معیطہ تھا۔ابن مسعود بھی اس جنگ میں موجود تھا۔اُس نے عقبہ کے بارے میں یہ حدیث بیان کی جو مِشکوٰۃ المصابیح کے باب جہاد میں مندرج ہے:

وَعن ابْن مَسْعُودٍ إنّ رَسْولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لمّا أَراَدَ قَتْلِ عُقْبَة بن أَبيْ معيط قَالَ: مَنْ لِلصِّبْيَةِ يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: النَّارُ

ترجمہ:’’ ابن مسعود سے روایت ہے کہ تحقیق جب رسول خدا نے عقبہ بن ابو معطیہ کو قتل کرنا چاہا تو عقبہ نے کہا’’میرے بچوں کی خبر گیری کون کرے گا‘‘۔ محمد صاحب نے جواب دیا کہ دوزخ کی آگ‘‘۔

یہ کہہ کر محمدصاحب نے اُس کے فی الفور قتل کرنے کا حکم دیا۔بدر کی لڑائی کا جو احوال ہم تک پہنچا ہے (اور وہ کثرت سے ہے)اور جو واقعات اس جنگ کے بعد وقوع میں آئے اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ہنگامے کو فرو (دبانا)کرنے کے لئے محمد صاحب کو وحی کی مدد کی ضرورت پڑی۔چنانچہ فوراً یہ وحی خدا کی طرف سے آنازل ہوئی:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ

ترجمہ:’’وہ تم سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھیں گے تو کہہ دے کہ غنیمتیں خدا او ر رسول کی ہیں‘‘۔

جو مسلمان صاحبان یہ کہا کرتے ہیں کہ قدیم مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے جنگ کرنا پڑا وہ قرآن مجید اور احادیث کی شہادت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اَمر واقعی تو یہ ہے کہ اس زمانے کے سارے لٹریچر پر غنیمت کا لفظ بڑے حروف میں لکھا ہے۔ہدایا،مِشکوٰۃ المصابیح اور دیگر کتابوں میں غنیمت کے مال کی تقسیم کی نسبت چھوٹی چھوٹی تفصیل بھی مندرج ہے جو ان خونریزی کی مہموں میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی۔مگر محمد صاحب نے اس لوٹ مار اور قتل و غارتگری کے الزام کو اپنے اوپر عائد نہیں ہونے دیا کیونکہ انہوں نے یہ سب کچھ خدا کے حکم سے سر انجام دیا تھا۔چنانچہ انہوں نے یہ کہا:

إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَنِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ أَوْ قَالَ فَضّل أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ وَحَلَّ لنا الْغَنَائِمَ

ترجمہ:’’ تحقیق خدا نے مجھے دوسرے انبیا پر فضیلت دی یا (بقول ایک دوسری حدیث)یہ کہا اُس نے میری امّت کو دوسری امّتوں پر اس اَمر میں فضیلت دی کہ اُس نے لوٹ ہمارے لئے جائز کر دی‘‘۔

انس نے محمد صاحب کے دستور العمل کا بھی ذکر ایک حدیث میں کیا جو مسلم میں مندرج ہے:

كَانَ النَّبيُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغَيِّرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرَ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ

ترجمہ:’’رسول خدا علیٰ الصباح لوٹا کرتے تھے اور نماز کے لئے اذ ان کی آو از سننے کے منتظر رہتے جب اذ ان کی آو از سنتے تو لوُٹنے سے با ز رہتے،ورنہ لوٹتے رہتے‘‘۔

دیہات کے لُوٹتے وقت بعض اوقات اس سارے مال ومتاع کو بے رحمی سے جلا کر خاک سیاہ کر دیتے تھے ،جسے وہ اپنے ساتھ لے جا نہ سکتے تھے۔چنانچہ ابو داؤد نے اس مضمون کی ایک حدیث کا ذکر کیا ہے:

عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَهِدَ إِلَيْهِ قَالَ: أَغِرْ عَلَى أُبْنَى صَبَاحًا وَحَرِّقْ

ترجمہ:عروہ سے روایت ہے کہ اُس نے یہ کہا’’اسامہ نے مجھے خبر د ی کہ رسول خدا نے ابنا نامی ایک گاؤں پر علیٰ الصباح حملہ کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پھر اُس کو جلادو‘‘(مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الجہاد)۔

مِشکوٰۃ کے اردو مفسر نے مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں یہ رقم کیا:

’’اس سے معلوم ہوا کہ جائز ہے غارت کرنا اور جلانا کفار کے شہروں کا‘‘۔

اسلام کی تاریخ جنگ بدر سے لے کر وفات رسول تک اسی قسم کے لوٹ مار کی تاریخ ہے ۔ان لٹیرے دستوں کے سر لشکر بعض اوقات خود محمد صاحب ہوا کرتے تھے اور بعض اوقات اپنے معتبر اصحاب میں سے کسی کو سر لشکر بنا کر بھیجا کر تے تھے۔ اس قسم کے دھاوے ہمیشہ تو کامیاب نہ ہوئے،لیکن جن میں کامیابی ہوئی ان کے غنیمت کے مال سے مسلمان مالا مال ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر تو باقی عربوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور محمد صاحب کے زیر علم جوق د ر جوق جمع ہونے لگے ۔اس سے مکہ کے قریش کو خوف پیدا ہوگیا اور جب مسلمانوں نے ان کے ایک دولت مند قافلے کو لوٹا جو مدینے کے مشرق کی طرف سے ہوکر شام کو جانا چاہتا تھا۔ تب تو وہ اس خطرے کو دیکھ کر گھبرا اُٹھے ۔ اب انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ کو ئی ایسی سڑک تلاش کریں جس سے کہ وہ شمالی ممالک کی منڈیوں کو پہنچ سکیں ۔اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مدینے کے مسلمانوں پر فوج لے کر حملہ کرنا چاہا۔ چنانچہ تقریباً تین ہزار کی فوج جمع کر لی اور مدینے کے نزدیک بمقام اُحد پرمسلمانوں کو شکست فاش دی ۔اس جنگ میں محمد صاحب کو بھی چند زخم آئے۔اس شکست سے مسلمانوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں اور کہنے لگے کہ بدر کی فتح کے وقت تو محمد صاحب کی مدد کے لئے ہزار ہا فرشتے آگئے، اب ان کو یہ شکست کیوں ہوئی اور کیوںوہ زخمی ہوئے۔ایسے سوالوں کے جواب دینے کے لئے چند ایک مکاشفے ( وحی) پیش کئے اور جن مسلمانوں کے عزیز و اقارب اس جنگ میں مقتول ہوئے تھے اُن کی تسلی کے لئے یہ کہا گیا کہ جو کوئی راہ خدا میں جان دیتا ہے ،وہ شہید ہوتا ہے اور وہ اب بہشت کی نعمتوں کا مزہ اٹھا رہے ہیں۔ایسے مکاشفات میں سے ہم ایک مکاشفہ بطور نمونہ یہاں نقل کرتے ہیں:

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 1730

راوی: عبداللہ بن عبدالرحمن نعیم بن حماد بقیہ بن ولید , بحیر بن سعد , خالد بن معدان , مقدام بن معدیکرب

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ وَيَرَی مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ وَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ترجمہ:’’شہید کو خدا کی طرف سے چھ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔اُس کے خون کے پہلے قطرے کے نکلنے پر ہی اُس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر بہشت میں اُس کے تکیہ کی جگہ بنائی جاتی ہے۔عذاب قبر سے وہ بچ جاتا ہے۔دوزخ کے خوف عظیم سے وہ محفوظ رہتا ہے۔سونے کا تاج اُس کے سر پر دھرا جاتا ہے جس کا ایک ایک موتی کل دنیا اور اُس کی مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔۷۲ حوریں اُس کو نکاح میں ملتی ہیں اور اُس کے ستر رشتے دار وں کے لئے اس کی سفارش مقبول ہوتی ہے‘‘۔

جنگ بدر اور اُحد سے لے کر محمد صاحب کی تعلیم میں ایک عجیب تبدیلی پیدا ہوگئی ۔جنگ بدر سے پیشتر اور جب ان کے پیروؤں کا شمار تھوڑا تھا، اُس وقت تک تو اُن کو اپنے قرب و جوار کے لوگوں کا ڈر تھا اس لئے فروتنی اور اور صلح جوئی سے برتاؤ کرتا رہا اور لا اکراہ فی الدین (دین میں سختی یا جبر نہیں) کی تعلیم دیتا رہا اور اپنے پیروؤں کو یہ نصیحت کرتا رہا کہ جو لوگ دین میں تم سے اختلاف رکھتے ہیں اُن سے مہربانی کے ساتھ کلا م کیا کرو۔لیکن جب اُن کے اردگرد جنگجو عرب جمع ہو گئے اور ان کو بڑی جمعیت حاصل ہوتی گئی تو دین کے لئے جنگ کا مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا۔ان دینی جنگوں کو وہ جہاد کہنے لگے اور محمد صاحب نے اپنی تعلیم میں ان پر زور دینا شروع کیا۔مسلم اور بخاری میں اس مضمون کی ایک حدیث آئی ہے کہ ابوضری نے:

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حدیث 2414

راوی: عبیداللہ بن موسیٰ ہشام بن عروہ عروہ ابومرواح ابوذرع

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ

ترجمہ:’’کہا کہ میں نے رسول سے پوچھا کہ سب سے افضل فعل کیا تھا؟اُس نے جواب دیا کہ خدا پر ایمان لانا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔

قرآن مجید کی جو سورتیں اس وقت اور اس کے بعد نازل ہوئیں وہ سراسر اسی مضمون سے پُر ہیں اور باربار ایمانداروں کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ لڑتے جائیں جب تک کہ ایک ہی دین نہ ہو جائے۔چنانچہ یہ لکھا ہے :

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔

ترجمہ:’’جب مقدس مہینے گزر جائیں تو ان لوگوں کو قتل کرو جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں جہاں کہیں تم انہیں پاؤ۔اُن کو پکڑو اُن کا محاصرہ کرو اور ہر طرح سے اُن کے لئے کمین میں بیٹھو۔لیکن اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تب اُن کو چھوڑ دو کیونکہ خدا بخشنے والا رحیم ہے‘‘(سورۃتوبہ۵:۹)۔

یہودیوں اور مسیحیوں کو بھی اس سے بچاؤ کی صورت کوئی نہ تھی اور تلوار کی دھار سے بچنے کی صر ف یہ راہ تھی کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں۔سورۃ توبہ۳۰:۹ میں یہ متعصبانہ شریعت مندرج ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ۔

ترجمہ:’’ایسوں کو قتل کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے نہ یوم الآخر پر اور نہ اُس کوحرام ٹھہراتے ہیں جسے خدا اور اُس کے رسول نے حرام ٹھہرایا اور جو دین حق کا اقرار نہیں کرتے جب تک کہ اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ اد ا نہ کریں اور عجز نہ دکھائیں‘‘۔

محمد صاحب نے یہ اعلان کیا کہ جہاد لازمی ودائمی فرض تھا ،کیونکہ اُس نے یہ بیان کیا:

الجهاد ماض إلى يوم القيامة

ترجمہ:’’جہاد ر وز قیامت تک جاری رہے گا‘‘۔

اور محمد صاحب نے تاکید کی کہ جہاد کیا کریں کیونکہ اس کے صلے میں اُن کو بہشت ملے گی۔چنانچہ یہ الفاظ اُن سے منسوب ہیں:

من جاهد في سبيل الله وجبت له الجنة

ترجمہ:’’جو کوئی خدا کی راہ میں جہاد کرے بہشت اُس پر واجب ہو گیا‘‘۔

جنگ کرنے کی غرض بہت جلدبدل گئی۔ شروع میں تو یہ خالص لوٹ کی آرزو تھی جس سے مسلمان جان توڑ کر لڑتے رہے اور جنگ کرنے کے لئے یہ بڑی تحریص تھی۔لیکن بعد ازاں اسلام کی اشاعت کے لئےجنگ ہونے لگی۔اُن کو اس وقت تک لڑنے کا حکم تھا جب تک کہ سارا دین خدا کا نہ ہوجائے۔

اگر کوئی مذہب سے برگشتہ ہوجائے تو وہ مارا جائےاور بعض اوقات محمد صاحب نے غصے میں آکر بعضوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کرایا۔چنانچہ مِشکوٰۃ المصابیع کے باب الانتقام میں مندرج ہے کہ :

کسی خاص موقعے پربعض مسلمان اپنے دین سے برگشتہ ہو گئے اور مدینے سے بھاگتے وقت محمد صاحب کے بعض اونٹوں کو بھی ساتھ لے گئے اور جو لوگ ان اونٹوں کو چرا رہے تھے اُن میں سے ایک کو قتل بھی کر گئے۔آخر کار یہ لوگ پکڑے گئے اور محمد صاحب کے سامنے پیش ہوئے تاکہ وہ اُن کی واجبی سزا کا فیصلہ کرے۔

یہ جرم تو سنگین تھا اور وہ سخت سزا کے مستوجب تھے لیکن جو سخت سزا اُن کو دی گئی وہ سنگ دل سے سنگ دل مسلمان کو بھی شاق گزری۔چنانچہ یہ لکھا ہے:

فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا

ترجمہ:’’اُن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے اور اُن کی آنکھیں نکال ڈالیں اور ان کا خون بند نہ کیا جب تک کہ وہ مر نہ گئے‘‘۔

اس خوفناک ظلم کا ایک دوسری حدیث میں یہ ذکر ہے کہ:

اُن کی آنکھوں میں لوہے کی گرم گرم سلاخیں کھبوئی گئیں اور اس کے بعد اُن کو جھلستی دھوپ میں چٹانوں پر پھینکوا دیا اور جب اُن لوگوں نے شدت پیاس سے پانی مانگا تو اُن کو دیا نہ گیا حتّٰی کہ وہ تڑپ تڑپ کر مر گئے۔

جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا وہ محض مسلمانوں کی کتابوں سے لیا گیا ہے اور یہ کتابیں بھی اُن میں اعلیٰ درجہ کی مستند مانی جاتی ہیں۔اس لئے حامیان اسلام کا یہ رٹتے جانا کہ اسلام آزادی کا دین ہے اور یہ کہ محمد صاحب نے اپنے دین کی اشاعت میں زور زبردستی سے کبھی کام نہیں لیا فضول ہے۔امور واقعی اس کے خلاف ہیں۔گو مکی اور اوائل مدنی سورتوں کے بعض حوالے اُن کے دعویٰ کے کچھ ممد معلوم ہوں، لیکن قرآن مجید کے مابعد حصوں کے گہرے مطالعے سے اور مستند حدیثوں سے کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ محمد صاحب نے اپنے دین کے پھیلانے میں تشدد کی تعلیم بھی دی اور اُس پر عمل بھی کیا۔

تیسرا باب

محمد صاحب کا رشتہ یہودیوں سے

ہم یہ تو ذکر کر آئے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے وقت یہودیوں کے بہت سے طاقتور قبیلے مدینے اور اُس کے گردو نواح میں موجود تھے۔پہلے پہل تو محمد صاحب نے اُن کی تالیف قلوب کی بہت کوشش کی ۔انہیں بڑی امید تھی کہ چونکہ میں واحد خدا کی تلقین کرتا ہوں اس لئے موحد یہودی اُسے کھلے بازو بغل میں لے لیں گے اور میرے ساتھ متحد ہو کر بت پرستی کے خلاف جنگ کریں گے۔لیکن ان ساری کوششوں کا یہودیوں نے ایک ہی جواب دیا ،اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل کے باہر کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔شام اور فلسطین انبیا کا وطن تھا ،اس لئے ابراہیم اور موسیٰ کا حقیقی جانشین مکہ سے برپا نہیں ہو سکتا۔البتہ تفسیر بیضاوی (صفحہ۳۸۱) میں یہ مندرج ہے کہ یہودیوں نے ان الفاظ میں محمد صاحب کی ہنسی اڑائی:

الشام مقام الأنبياء فإن كنت نبياً فالحق بها حتى نؤمن بك

ترجمہ:’’ شام انبیا کا وطن ہے ۔اگر تو فی الحقیقت نبی ہے تو تُو وہاں جا تاکہ ہم تجھ پر ایمان لائیں‘‘۔

اس طنز کو محمد صاحب نے نہ سمجھا کہ یہودی اس کی مکی پیدائش پر ہنسی اڑا رہے تھے ،بلکہ ان الفاظ کو انہوں نے ایک عمدہ نصیحت کے طور پر قبول کیا۔کیونکہ بقول بیضاوی:

فوقع ذلك في قلبه فخرج مرحلة

ترجمہ:’’یہ( نصیحت) اُن کو پسند آئی ۔اس لئے وہ روانہ ہو کر ایک دن کی راہ چلے گئے‘‘۔

اس کے بعد وحی کے نازل ہونے پر وہ واپس آئے۔انہوں نےیہودیوں کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے ان کی مقدس کتابوں کی باربار تعریف کی اور اُن کو ’’کلام خدا‘‘ کہا’’ اورآدمیوں کےلئے نورو ہدایت ‘‘ جن کی تصدیق کرنے کے لئے قرآن مجید نازل ہوا، لیکن یہودیوں نے نہ تو محمد صاحب کو قبول کیا اور نہ قرآن مجید کو بلکہ جب کبھی ان کو موقع ملا انہوں نے اس نبی پر تمسخر ہی کیا ۔چنانچہ جب انہوں نے یہودیوں سے ان کی مقد س کتابوں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے وہ بات چھپا لی اور اپنی احادیث میں سے چند قصے اور فسانے اس کی جگہ سنا دیئے۔یہودیوں کے اس دستور کے بارے میں مسلم میں ابن عباس سے ایک حدیث آئی ہے:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فلما سَأَلَ النَّبِيُّ صلعم عَنْ شَيْءٍ من أهل الكتاب فَكَتَمُوهُ إياه وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ خْبَرُوهُ بِمَا قَدْ سَأَلَهُمْ عَنْهُ

ترجمہ:’’ابن عباس نے کہا کہ جب کبھی رسول اہل کتا ب سے کوئی سوال پوچھتے تو وہ اس مضمون کو دبا لیتے اور اس کی جگہ کچھ اَور ہی بتا دیتے اور یہ خیال کر کے چلے جاتے تھے کہ وہ سمجھ لے گا کہ جو کچھ اُس نے پوچھا تھا اُسی کا جواب انہوں نے دیا‘‘۔

علاوہ ازیں یہ نہ ماننا بھی مشکل ہے کہ بائبل مقدس کی تاریخ کے بارے میں محمد صاحب کی غلطیوں کی وجہ سے یہودی اُن پر برابر طعن کرتے رہے۔بخوف طوالت ایسی غلطیوں کی تفصیل دینا یہاں مشکل ہے۔لیکن اگر ناظرین رسالہ ہذا بائبل مقدس اور قرآن مجید کو لے کر اُن بزرگوں کے احوال کا مقابلہ کریں جو ان کتابوں میں مذکور ہیں تو وہ فوراً معلوم کر لے گا کہ قرآن مجید پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے میں کہاں تک قاصر رہا۔ محمد صاحب تاریخ بائبل سے ایسے ناواقف تھے کہ انہوں نے مریم والدہ یسوع کو موسیٰ و ہارون کی ہمشیرہ مریم سمجھا۔مدینے کے تعلیم یافتہ یہودی ایسے شخص کی کیا عزت کر سکتے تھے۔انہوں نے اُس کچھ عزت نہ کی بلکہ انہوں نے نظم میں اُس کی ہجو(بدگوئی ۔نظم میں کسی کی برائی کرنا) کرنی شروع کی اور اس سے محمد صاحب ایسے برانگیختہ ہوئے کہ ان کے تالیف قلوب کی کوشش سے دست بردار ہو گئے اور برعکس اِس کے اُن پر ظلم و قتل کرنا شروع کیا حتٰی کہ سارے یہودیوں کو مدینے اور اس کے قرب وجوار سے نکال دیا۔

سیرت الرسول میں ایک یہودی عصمہ بنت مروان کا قصہ آیا ہے جس سے محمد صاحب کی اس نئی حکمت عملی کی تشریح ہوتی ہے۔اس عورت نے چند شعر محمد صاحب کی مذمت اور ہجو میں لکھے تھے۔ محمد صاحبنے جب یہ شعر سنے تو وہ آگ بگولا ہو کر بولے’’کیا میں بنت مروان سے اپنے لئے تلافی طلب نہ کروں؟‘‘ایک مسلمان بنام عمیر بن عُدے نے محمد صاحب کے یہ الفاظ سنے اور ان کا یہ مطلب سمجھا کہ وہ عصمہ کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اُس نےرات کے وقت عصمہ کے گھر میں گھس کر ا س کو وحشیانہ طور سےقتل کیا۔اگلے روز اُس نے محمد صاحب کو اس فعل کی خبر دی۔ محمد صاحب نے عصمہ کے قتل کی خبر سُن کر یہ کہا’’اے عمیر تو نے خدا اور اس کے رسول کی مدد کی ہے‘‘۔

اسی وقت کے قریب محمد صاحب کے اشارے سے ایک اَور شخص قتل کیا گیا۔اس شخص کا نام کعب بن الاشرف تھا۔سیرت الرسول (جلد دوم۔صفحہ۷۴،۷۳) میں اس کی پوری تفصیل مندرج ہے۔مختصراً وہ قصہ یہ ہے:

کعب سے چِڑ کر ایک دن محمد صاحب نے یہ کہا۔ابن الاشرف کے معاملے میں میرا مددگار کون ہے؟ محمد صاحب کا ایک شاگرد فوراً یہ چلّا اٹھا’’اس معاملے میں مَیں آپ کی طرف ہوں۔اے رسول خدا میں اُسے قتل کروں گا‘‘۔پھر محمد صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد اور چند رفیقوں کو ساتھ لے کر چپکے سے کعب کے گھر میں جاگھسا اور اِس بہانے سے اُس کو گھر سے باہر لے آیا کہ وہ اوزار گروی رکھنا چاہتا تھا اور یوں اُس کو بُری طرح سے قتل کر ڈالا۔

ایک اَور یہودی بوڑھا شخص محمد صاحب کے حکم سے مارا گیا ۔اس کا نام رافع تھا ۔بخاری نے اس قصے کو یوں لکھا ہے:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1263

راوی: اسحق بن نصر , یحیی بن آدم , ابن ابی زائدہ , ابوزائدہ , ابواسحاق سبیعی براء بن عازب

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا إِلَی أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيکٍ بَيْتَهُ لَيْلًا وَهُوَ نَائِمٌ فَقَتَلَهُ

ترجمہ:’’ اسحاق بن نصر، یحیی بن آدم، ابن ابی زائدہ، ابوزائدہ، ابواسحاق سبیعی حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک جماعت ابو رافع کے گھر بھیجی اور جب وہ سو رہا تھا تو عبداللہ بن عتیک رات کے وقت اُس کے گھر گھس گیا اور اُس نے اُسے قتل کر ڈالا‘‘۔

ان قتلوں اور دوسرے قتلوں کے جو قصے مورخوں نے بیان کئے ہیں جن کے تحریر کرنے کی ہمارے پاس گنجائش نہیں ،اُن سے یہودیوں نے سمجھ لیا کہ اب اُن کی عین ہستی معرض خطر میں تھی اور چونکہ یکے بعد دیگرے ان یہودی قبیلوں پر حملے ہونے لگے اور مال و اسباب لٹنے لگا تو وہ مایوس ہو گئے۔ اس لئے بعض تو اپنی جان بچانے کی خاطر مرتد ہو کر مسلمان بن گئے۔چنانچہ ابن ہشام نے سیرت الرسول صفحہ ۱۸۶ پر بیان کیا کہ بہت یہودی:

فظهروا بالإسلام واتخذوه جنة من القتل

ترجمہ:’’دکھاوے کے لئے مسلمان ہو گئے، لیکن یہ انہوں نے جان بچانے کی خاطر کہا تھا‘‘۔

یہودیوں کے ایک قبیلے بنی قریظ پر ایک سخت مصیبت آئی جس کی وجہ سے وہ نہایت خوف زدہ ہو گئے۔سیرت الرسول میں اس کا مفصل ذکر ہے(جلد سوم،صفحہ۹۔۲۴)۔کتاب المغازی(صفحہ۱۲۵) ،مِشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجیار اور دیگر کتابوں میں اس ذکر مختصراً یہ آیا ہے۔ محمد صاحب کے جنگوں میں سے کسی میں بنی قریظہ نے مخالفانہ اور مکارانہ طرز اختیار کیا تھا۔اس کی وجہ سے مسلمانوں نے اُن سے انتقام لینے کا ارادہ کیا۔جب محمد صاحب کو کافی فرصت ملی تو مسلح فوج کا ایک بڑا دستہ لے کر انہوں نے اس قبیلے کے قلعے پر یورش کر دی اور ایسی سختی سے اس کا محاصرہ کیا کہ ان کی جورو ،بال بچے بھوک سے تنگ آگئے او ر مجبور ہو کر قلعے کو محمد صاحب کے سپرد کر دیا او ررحم کے لئے التجا کی۔لیکن کسی نے اُن کی التجا کی پرواہ نہ کی اور ان کو سزا دینے کے لئے ان کے سخت دشمن سعد بن معیدہ کو مقرر کیا ۔اُس وقت سعد جنگ میں زخموں سے سخت تکلیف میں تھا۔اُس نے فوراً یہ حکم دیا کہ سارے مردوں کو جو بالغ ہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ محمد صاحب نے اُس کا یہ حکم سن کر فرمایا:

حكمت بحكم الله

ترجمہ:’’تو نے خدا کے فرمان کے مطابق حکم دیا ہے‘‘

(تفسیر بیضاوی ،صفحہ۵۵۶ اور سیرت الرسل،جلد سوم،صفحہ۹۲)۔

چنانچہ مدینے کے بازار میں خندقیں کھودی گئیں اور چھ سو اور نو سو کے قریب یہودی مردوں کا سرد مہری سے سر قلم کیا گیا۔مختلف مصنفوں نے مقتولوں کا شمار مختلف بتایا ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ مقتولوں کی لاشیں نہ گنی گئیں صرف اُن کا اندازہ لگایا گیا۔کم ازکم ان کا شمار چھ سو تھا۔حالانکہ ابن ہشام یہ کہتا ہے:

المكثر لهم يقول كانوا بين الثمانمائة والتسعمائة

ترجمہ:’’زیادہ سے زیادہ شمار ان مقتولوں کا آٹھ سو اور نو سو کے درمیان تھا‘‘۔

اور محمد صاحب کے اسی تاریخ نویس نے یہ بھی لکھا:

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قسم أموال بني قريظة ونساءهم وأبناءهم على المسلمين

ترجمہ:’’رسول خدا نے بنی قریظہ کا مال و متاع، اُن کی بیویاں اور اُن کے بچے مسلمانوں کے د رمیان تقسیم کر دیئے‘‘۔

جس بے رحمی کے قتل کا اوپر ذکر ہوا اور جس سے محمد صاحب کے نام پر بڑا دھبا لگتا ہے ۔قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں ہواہے:

وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

ترجمہ:’’اور اہل کتاب کے جن لوگوں نے اپنے قلعوں کے نیچے آکر دشمنوں کی مددکی تھی اُس نے (خدا) اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈال دی۔بعضوں کو تم نے قتل کیا، بعضوں کو تم نے قید کیا اوراُس (خدا) نے ان کی زمین، اُن کےمکانات اور اُن کی دولت میراث میں تمہیں دے دی۔وہ زمین جس پر تم نے قدم بھی نہ رکھاتھا‘‘(سورۃ الاحزاب۲۶:۳۳)۔

غنیمت کے مال میں سے محمد صاحب کے حصے میں ریحانہ نام ایک عورت آئی جس کے خاوند کو محمد صاحب نے ابھی قتل کرایا تھا۔حالانکہ

ایک دوسرا یہودی فرقہ جس پر اسلامی طاقت بازو آزمائی گئی، خیبر کا یہودی فرقہ تھا جو مدینہ کے شمال کی طرف تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر خیبر کے سر سبز نخلستانوں میں رہتا تھا۔ان یہودیوں سے کوئی ایسی حرکت بھی سرزد نہ ہوئی تھی جس سے کہ مسلمانوں کو خفگی پیدا ہو۔اگر ان کا کچھ قصور تھا تو یہ تھا کہ صاحب مال و دولت تھے۔جب ان کی یہ حالت اُن لٹیروں کو معلوم ہوئی جو مدینہ پر حکمران تھے تو محمد صاحب بہ نفس نفیس لشکر جرار لے کر ان بے خبر یہودیوں پر حملہ کرنے کو چل پڑے۔یہ یہودی مغلوب ہوئے اور مسلمانوں کے ہاتھ غنیمت میں مال کثیر آیااور اس شرط پر ان یہودیوں کی جان بخشی ہوئی کہ وہ اپنی آمدنی اورپیداو ار کا نصف حصہ برا بر مدینے کو بھیجتے رہا کریں۔اس حملہ کی اہمیت اس اَمر سے بھی واضح ہو سکتی ہے کہ ابن ہشام نے اٹھارہ صفحے اس مہم اور اس کے امور متعلقہ کے بیان میں کالے کر دئیے۔کہتے ہیں کہ:

ایک مقتول یہودی کی بیوہ نے جس کا نام زینت بن حارث تھا انتقام کی راہ سے پکے گوشت میں زہر ملا کر محمد صاحب کے آگے دھر دیا۔ محمد صاحب اور اُس کے چند رفیقوں نے اُس گوشت میں سے کچھ کھا لیا اور کہتے ہیں کہ اُن رفیقوں میں سے ایک اُس زہر کے اثر سے مر گیا۔ محمد صاحب خود تو موت سے بچ نکلے لیکن سخت دردوں میں مبتلا رہے اور وہ اپنی موت کے دن تک یہ کہا کرتے تھے کہ جو زہر انہوں نے اس موقعہ پر کھایا تھا اس کا اثر وہ اب تک محسو س کرتے تھے۔

جب لوگوں نے اس عورت مسمات زینب کو محمد صاحب کے سامنے پیش کیا تو محمد صاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو نے میری جان کا قصد کیوں کیا تو اس عورت نے یہ جواب دیا:

فقلت إنْ كان ملكاً استرحت منه وإنْ كان نبياً فسيُخبر

ترجمہ:’’میں نے ( اپنے دل میں) کہا اگر یہ محض بادشاہ ہے تو ہم کو مخلصی حاصل ہو گی اور اگر یہ نبی ہے تو اس کو زہر معلوم ہو جائے گا‘‘۔

ایک دوسرے واقعہ سے بھی محمد صاحب اور اُس کے فریق کی عداوت یہودیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔قصہ یوں بیان ہوا ہے کہ:

ایک مسلمان تیمہ بن ابرق نامی نے اپنے ہمسایہ کا زرہ چرا لیا اور آٹے کی بوری میں چھپا دیا۔جب لوگوں نے تیمہ پر شک کیا تو اُس نے دوسروں کے ساتھ مل کر یہ الزام ایک معصوم یہودی زید بن السمین پر لگا دیا۔کہتے ہیں کہ محمد صاحب بھی ایک مسلمان کو سزا دینا نہ چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس چوری کی سزا میں اُس یہودی کے دونوں ہاتھ کٹوانے کا حکم صادر کر دیا۔لیکن اعجازی طور پر وہ اس حکم کی تعمیل سے باز رہے بلکہ برعکس اس کے ان کو حکم ہوا کہ خدا سے اپنی عارضی کمزور کے لئے معافی مانگیں(تفسیر بیضاوی۔سورۃ نسا۱۰۶:۴)۔

محمد صاحب نے آخری ایام میں یہودیوں اور مسیحیوں کے ساتھ سخت دشمنی اور عداوت کا اظہا ر کیا۔جب محمد صاحب مکہ میں بے کس اور مظلوم تھا تو وہ کہا کرتا تھا کہ:

’’اہل کتاب کے ساتھ بحث کیا کرو،لیکن نرمی سے۔ سوائے اُن کے جو تمہارے ساتھ بے جا سلوک کرتے ہیں اور تو یہ کہہ کہ ہم ایمان لائے اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو تم پر نازل ہوا ،ہمارا خدا اور تمہارا خدا واحد ہے اور ہم اس کے آگے سر خم کرتے ہیں‘‘ ۔

لیکن مدینے میں جب ان کو زور اور عروج حاصل ہوا اورجب وہ جنگ میں عربوں کے سر لشکر بن گئے تو بر عکس اُس کے اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیا:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

’’اُن لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جن پر کتاب نازل ہوئی لیکن وہ خدا پر ایمان نہیں لاتے۔ نہ یوم آخرت پر اور نہ اُس کو حرام ٹھہراتے ہیں جسے خدا اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا اور جو حق کا اظہار نہیں کرتے ،جب تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا نہ کریں اور عاجز ہو جائیں‘‘(سورۃ توبہ۲۹:۹)۔

چوتھا باب

عورتوں کے ساتھ محمد صاحب کا سلوک

محمد صاحب کی سوانح عمری کا مطالعہ کرنے سے یہ بخوبی روشن ہے کہ عورتوں کے بارے میں اُن میں ایک خاص کمزوری پائی جاتی تھی۔حدیثوں کا ایک بڑا حصہ اور قرآن مجید کا ایک بڑا جز اس اَمر سے علاقہ رکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے عورتوں کے بارے میں کیا کہا اور کیا کِیا۔ان بیانات کے سرسری پڑھنے سے بھی یہ امور نظر آجاتے ہیں۔یہ امور ایسے صریح ہیں کہ ہم صرف مسلمان مصنفوں سے اقتباس کرنے پر ہی اکتفا کریں گے اور ناظرین خود نتیجہ نکال لیں۔

محمد صاحب کا جو شوق محبت عورتوں سے تھا اس سےحدیثیں بھر پڑی ہیں۔لیکن یہاں ہم مشتے نمونہ از خروارے صرف دو یا تین مثالیں ہی پیش کریں گے۔ان میں سے ایک جو بہت مشہور ہے محمد صاحب کی زوجہ عائشہ سے مروی ہے اور مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب الادب میں مندرج ہے۔وہ یہ ہے:

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ مِنَ الدُّنْيَا ثَلَاثَةٌ: الطَّعَامُ وَالنِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، فَأَصَابَ اثْنَيْنِ وَلَمْ يُصِبْ وَاحِدًا، أَصَابَ النِّسَاءَ وَالطِّيبَ، وَلَمْ يُصِبِ الطَّعَامَ

ترجمہ:’’عائشہ سے روایت ہے کہ اُس نے کہا’’دنیا کی تین چیزیں رسول کو مرغوب تھیں طَّعَامَ ،عورتیں اور عطریات۔ان میں سے دو تو اُن کوحاصل ہو گئیں لیکن تیسری ان کو حاصل نہ ہوئی۔اُسے عورتیں اور عطریات تو حاصل تھیں لیکن طَّعَامَ حاصل نہ تھی‘‘۔

اسی باب میں انس سے یہ روایت مندرج ہے:

قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِّبَ إليّ الطّيْبَ والنّساءَ

ترجمہ:’’رسول اللہ صاحب نے کہاعطریات اور عورتیں مجھےپسند ہیں‘‘۔

پھر مِشکوٰۃ کے باب جہاد میں انس سے ایک اَور حدیث اس مقصد کی آئی ہے:

عَنْ أَنَسِ قَالَ لَمْ يَكُنْ شَىْءٌ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ النِّسَاءِ مِنَ الْخَيْلِ

ترجمہ:’’انس سے یہ روایت ہے کہ اس نے یہ کہا کہ عورتوں کے بعد محمد صاحب کو گھوڑوں سے زیادہ اورکوئی شے عزیز نہ تھی‘‘۔

یہ شہادتیں ایسے لوگوں کی طرف سے ہیں جو محمد صاحب کے اپنے خاندان میں سے تھے اور جو اُس سے بہتر واقف تھے۔اس باب میں جو محمد صاحب کی سیرت کا بیان ہوا ہے ایسی حدیثوں سے وہ سمجھ میں آ سکتی ہے،بغیر ان کی مدد کے اس کا سمجھ میں آنا مشکل ہے۔جب محمد صاحب کے اپنے پیرو اُن کی نسبت یہ کہا کرتے تھے تو جائے تعجب نہیں کہ محمد صاحب کےمخالف رسول خدا میں ایسی باتوں کو دیکھ کر اُن پر طعن کریں۔چنانچہ تفسیر بیضاوی میں صفحہ۲۵۵ پر یہ بیان آیا ہے:

’’بعض یہودی حضرت صاحب کو طعنے دیتے تھے کہ یہ نکاح بہت کرتے ہیں اور ہمیشہ عورتوں میں مشغول رہتے ہیں۔اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اُن کو عورتوں کا خیال نہ ہوتا‘‘۔

زمانہ حال میں محمد صاحب کے بعض مداح یہ کہا کرتے ہیں کہ محمد صاحب نے جو بہت سے نکاح کئے تو وہ محض خیر خواہی اور ترس سے کئے تا کہ اپنے متوفی پیروؤں کی عمر رسیدہ بیوگان کی معاش کا انتظام کر دیں۔ محمدی تاریخ سے ظاہر ہے کہ یہ عذر اور حیلہ بودا اور غلط ہے۔ محمد صاحب کی ساری بیویاں بیوگان میں سے نہ تھیں اور نہ ساری عمر رسیدہ تھیں۔بعض توکنواری نوجوان تھیں اور بعض اُن بدنصیب لوگوں کی بیوگان سے تھیں جن کو محمد صاحب نے قتل کیا تھا۔علاوہ ازیں یہ تاریخی واقعہ اور محمدی مصنفوں نے اس کی تصدیق کی ہے کہ درجن سے زیادہ بیویوں کے علاوہ محمد صاحب کے پاس چند ایک لونڈیاں بھی تھیں جن سے وہ حظ اٹھاتے تھے۔مِشکوٰۃ المصابیح کے باب نکاح میں یہ مذکور ہے:

صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث 988

راوی: عبد بن حمید , عبدالرزاق , معمر عروہ , عائشہ

و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ

ترجمہ:’’ عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو وہ سات سال کی لڑکی تھیں اور ان سے زفاف کیا گیا تو وہ نو سال کی لڑکی تھیں اور ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ‘‘

قرآن مجید اور حدیث میں ایک اَور واقعہ کا ذکر بھی آیا ہے۔یہ زینب بن جاحش کا قصہ ہے۔اس سے بخوبی واضح ہے کہ محمد صاحب کی کثرت ازدواجی فیاضی اور مہربانی کی غرض سے نہ تھی۔یہ زینب زید کی بیوی تھی اور یہ زید محمد صاحب کا متبنّٰی بیٹا تھا اور عام طور پر وہ ابن محمد ہی کہلاتا تھا۔مسلمان مورخوں کا بیان ہے کہ ایک روز محمد صاحب اچانک زید کے گھر چلے گئے اور زینب کو ایسے لباس میں پایا جس سے اُس کی عُریانی ظاہر ہوتی تھی اور اُس کےحسن کو چھپا نہ سکتی تھی۔ محمد صاحب کی خواہش نفسانی مشتعل ہوگئی اور فرط جوش میں یہ پکار اُٹھے:

سبحان الله مقلت القلوب

ترجمہ:’’ اُس خدا کی تعریف ہو جو دلوں کو بدل ڈالتا ہے‘‘۔

زینب نے بھی یہ الفاظ سن لئے اور فوراً اپنے خاوند کو اس اطلاع دی۔زید نے یہ سن کر زینب کو طلاق دے دی اور زینب کو محمد صاحب نے اپنے گھر میں ڈ ال لیا۔یہ حال دیکھ کر مسلمان ہکے بکّے رہ گئے۔اُن کے اطمینان کی خاطر وحی نازل ہوئی جس نے ایسی شادی کے جواز پر صاد (منظور کرنے کی علامت)کر دیا اور اس وحی کا ذکر قرآن مجید کے صفحوں میں ہمیشہ تک ایک سیاہ داغ رہے گا۔

فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا۔

ترجمہ:’’اور جب زید نے اُن کے طلاق کی ٹھان لی۔ہم نے اس کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تاکہ ایماندار وں کے لئے متبنّٰی بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنا جرم نہ سمجھا جائے جب کہ انہوں نے اُن کا معاملہ فیصلہ کر دیا ہو‘‘(سوۃالاحزاب۳۷:۳۳)۔

جلالین نے اس آیت کی تفسیر میں اس نکاح کی حقیقی وجہ بتا دی ۔اس تفسیر میں یہ صاف بیان ہے کہ:

فزوجها النبي لزيد ثم وقع بصره عليها بعد حين فوقع في نفسه حبها وفي نفس زيد كراهتها

ترجمہ:’’نبی نے( زینب کی) شادی زید سے کر دی بعداز اں کچھ دن پیچھے محمدصاحب کی نظر اُس (زینب) پر پڑی اور اُن کے دل میں اس کی محبت پیدا ہو گئی لیکن زید کے د ل میں کراہیت پیدا ہوئی‘‘۔

اس قصے پر کسی شرح کی ضرورت نہیں۔اس قصے میں اسلام کا نبی نہایت بھدے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی تکذیب ہوتی ہے جو یہ کہا کرتے ہیں کہ محمدصاحب کی شادیاں ایک طرح کے رفاہ عام کے خیال سے تھیں تا کہ غریب بیو گان کا بھلا ہو۔قرآن مجید میں ایک اَور معاملے کا ذکر آیا ہے جس میں محمدصاحب کی سیرت پر بہت روشنی پڑتی ہے ۔یہ سورۃ تحریم ۶۶ کی پہلی دو آیات ہیں۔ان میں یہ لکھا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ۔

ترجمہ:’’اے نبی تو اُس شے کو حرام کیوں سمجھتا ہے جس کو خدا نے تیرے لئے حلال ٹھہرایا،کیونکہ تیری خواہش اپنی بیویوں کو خوش کرنے کی تھی۔خدا غفور ورحیم ہے۔خدا نے تجھے اپنی قسموں سے در گزر کرنے کی اجازت دی‘‘۔

اس آیت کے بارے میں مفسروں کی یہ رائے ہے کہ:

محمدصاحب اپنی لونڈی ماریہ قبطی کے ایسے فریفتہ تھے کہ اُن کی دوسری بیویاں حسد کرنے لگیں اور ناراض ہو گئیں کہ انہوں نے اُن کو نظر انداز کر کے ایک اجنبی لونڈی کو مقبول نظر بنا لیا۔اُن کا غصہ یہاں تک بھڑکا کہ ان کو راضی کرنے کی خاطر انہوں نے قسم کھائی کہ وہ اس قبطی لونڈی کے نزدیک پھر کبھی نہ جائیں گے۔مگر آخر کار یہ حرمت اُن پر شاق گزرنے لگی اور ماریہ قبطی سے پھر صحبت کرنے کی آرزو کرنے لگے۔چنانچہ اس آرزو کے جواز کی تائید میں قرآن مجید کی مذکورہ بالاآ ٓیت نازل ہوئی اور محمدصاحب پھر ماریہ کے گھر جانے لگے۔

تفسیر بیضاوی کے صفحہ ۷۴۵ پر یہ بیان پایا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے محمدصاحب کی بیویوں کی ناراضگی غایت درجے تک بھڑک اٹھی۔وہ بیان یہ ہے:

رُوي أنه عليه السلام خلا بمارية في يوم عائشة أو حفصة فأطلعت على ذلك حفصة فعاتبته فيه فحرّم مارية فنزّلت

ترجمہ:’’یہ روایت ہے کہ وہ (یعنی نبی) عائشہ یا حفصہ کی باری میں ماریہ کے ساتھ خلوت میں تھے۔لیکن اس کی خبر پا کر حفصہ سخت ناراض ہوئی اور محمدصاحب کو ملامت کرنے لگی۔اس پر محمدصاحب نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اس کے بعد یہ آیت(جس میں اُن کواُن کی قسموں کے توڑنے کی اجازت دی گئی)نازل ہوئی‘‘۔

عباس نےاسی آیت کی تفسیر میں حفصہ کے بارے میں یہ کہا:

شق عليها كون ذلك في بيتها وعلى فراشها

ترجمہ:’’اُس (حفصہ) پر یہ معاملہ شاق گزرا کیونکہ یہ اس کے گھر میں ہی اور اس کے بستر پر وقوع میں آیا‘‘۔

اور محمدصاحب نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کی خاطر قسم کھا لی کہ وہ ماریہ لونڈی کی صحبت سے کنارہ کریں گے اور اس کے لئے دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ خدا نے محمدصاحب سے مذکورہ بالا الفاظ میں خطاب کیا،جن میں ان کو اپنی قسم توڑنے او ر اس لونڈی کی ناجائز صحبت کرنے کی اجازت ملی۔قرآن مجید میں یہ شرع ہے کہ جس آدمی کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہوں وہ ہر ایک کو برابر باری دے۔پہلے پہل تومحمدصاحب اس شرع پر عمل کرتے رہے اور اپنی مختلف بیویوں کے پاس باقاعدہ باری باری جاتے رہے۔لیکن کچھ عرصے کے بعد عائشہ کی صحبت ان کو ایسی بھائی کہ وحی نے آکر ان کو اس تکلیف دہ شرع سے آزاد کر دیااور ان کواجازت مل گئی کہ اپنی جور وؤ ں میں سے جس کو چاہیں اور جب چاہیں چن لیں۔اس عجیب مکاشفہ کو مسلمان عین کلام خدا مانتے ہیں اور یہ سور احزاب۵۱:۳۳ میں مذکور ہے:

تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ۔

ترجمہ:’’فی الحال جس سے چاہے تو کنارہ کر سکتا ہے اور جس سے تو چاہے ہم بستر ہو سکتا ہے اور جن کو تو نے پہلے ترک کیا تھا اُن میں سے جس کو تیرا جی چاہے اور یہ تیرے لئےجرم نہ ہوگا‘‘۔

مذکورہ بالا بیان پر ہم کچھ حاشیہ چڑھانا نہیں چاہتے ۔لیکن ہم ناظرین سے التماس کرتے ہیں کہ حضرت کی چہیتی بیوی عائشہ نے اس وحی کو سن کر جو تفسیر کی اُس پر غور کریں۔یہ مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب النکاح میں مذکور ہے۔وہ یوں گویا ہے:

ما أرى ربك إلى يسارع في هواك

ترجمہ:’’میں تیرے رب کو نہیں دیکھتی سوائے اس کے کہ وہ تیری دلی تمناؤں کو پورا کرنے میں شتابی کرتا ہے‘‘۔

اس میں توکچھ شک نہیں کہ محمد صاحب کے نزدیک عورت کا درجہ بہت ہی ادنیٰ تھا۔عورتوں کے بارے جوکچھ انہوں نے بیان کیا اُس سے ظاہر ہے کہ وہ عورت کو ایک لازمی زحمت سمجھتے تھے اور آدمی سے بہت ادنیٰ قرار دیتے ۔چنانچہ یہ اَمر مشہور ہے کہ محمد صاحب نے خاوندوں کو اپنی بیویوں کےساتھ زدو کوب کرنے کی اجازت ان الفاظ میں دی:

وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ۔

ترجمہ:’’ اُن بیویوں کی سر زنش کرو جن کے گستاخ ہونے کا اندیشہ ہے ۔اُن کو بستروں سے الگ کرو او راُن کو کوڑے لگاؤ‘‘(سورۃ النسا۳۴:۴)۔

مِشکوٰۃ میں مذکور ہے کہ ایام جنگ میں عورتیں لڑنے نکلا کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں ۔لیکن کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے اُن کو غنیمت کے مال میں سے حصہ دنیے سے انکار کیا۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب رقاق میں جو حدیث مندرج ہے اُس سے پتہ لگتاہے کہ اُن کی نگاہ میں عورتوں کی کیاقدر تھی۔وہاں یہ لکھا ہے:

مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 1

النساء حبائل الشيطان

ترجمہ:’’عورتیں شیطان کا پھندا ہیں‘‘۔

بخاری نے ایک اَور حدیث محمد صاحب سے اس مقصد کی بیان کی ہے:

قمت على باب النار فإذا عامّة من دخلها النساء

ترجمہ:’’میں دوز خ کے د روازے پر کھڑا ہو ں گا اور دیکھو کہ جو لوگ د وز خ میں داخل ہوں گے اُن میں سے کثرت عورتوں کی ہو گی‘‘۔

بخاری اور مسلم دونوں نے ایک اَورحدیث اس مضمون کی بیان کی ہے جس میں ذکر ہے کہ محمد صاحب نے کہا:

رأيت النار فلم أرَ كاليوم منظراً قطّ أفظع ورأيت أكثر أهلها النساء

ترجمہ:’’میں نے (رویا میں) نار جہنم کو دیکھا اور جیسا میں نے آج کے دن دیکھا تھا ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اور یہ ہولناک نظارہ تھا اور میں نے دیکھا کہ اہل د وز خ میں اکثر عورتیں تھیں‘‘۔

عورتوں کی کم قدری اور ادنیٰ ہونے کی تائید اس شرع سے بھی ہوتی ہے کہ ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کی گواہی کے برابر ٹھہرائی گئی۔چنانچہ قرآن مجید میں اس شرع کا یوں ذکر آیا ہے کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ: ’’ مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے ‘‘(سورۃ بقرہ۲۸۲:۲)۔

مشکوٰۃ میں محمد صاحب کی یہ حدیث مندرج ہے:

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حدیث 302

راوی: سعید بن ابی مریم , محمد بن جعفر , زید بن اسلم , عیاض بن عبداللہ , ابوسعید خدری

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحَی أَوْ فِطْرٍ إِلَی الْمُصَلَّی فَمَرَّ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُکُنَّ أَکْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَی قَالَ فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَی قَالَ فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا

ترجمہ:’’ سعید بن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے (واپسی میں) عورتوں کی جماعت پر گذر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو، اس لئے کہ میں نے تم کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے، وہ بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کثرت سے لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور تمہارے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ دین اور عقل میں نا قص ہونے کے باوجود کسی پختہ عقل والے مرد پر غالب آجائے، عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی شہادت (شرعا) مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا بس یہی اس کے دین کا نقصان ہے ‘‘۔

محمد صاحب نے نہ صرف کثرت ازدواج کو دنیا میں جائز ٹھہرایا بلکہ بہشت میں بھی اس کثرت کا وعدہ کیا۔اُن حدیثوں میں جو اس مضمون کے متعلق ہیں اور محمد صاحب سے منسوب ہیں بعض بہت ناشائستہ اور فحش باتیں آئی ہیں جن کا یہاں نقل کرنا مناسب نہیں۔ایک حدیث جو ایسی خراب نہیں مثال کے طور پر یہاں نقل کی جاتی ہے۔یہ مِشکوٰۃ المصابیح باب الجنّۃ میں مندرج ہے:

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ جنت کی صفات کا بیان ۔ حدیث 464

راوی: سوید بن نصر , ابن مبارک , رشدین بن سعد , عمرو بن حارث , دراج , ابوہیثم , ابوسعید خدری

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ الَّذِي لَهُ ثَمَانُونَ أَلْفَ خَادِمٍ وَاثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ زَوْجَةً وَتُنْصَبُ لَهُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ وَيَاقُوتٍ كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ إِلَى صَنْعَاءَ

ترجمہ:’’ سوید بن نصر، ابن مبارک، رشدین بن سعد، عمرو بن حارث، دراج، ابوہیثم، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ادنی جنتی وہ ہے جس کے اسی ہزار خادم اور بہتّر بیویاں ہوں گی۔ اس کے لئے موتی، یاقوت اور زمرد سے اتنا بڑا خیمہ نصب کیا جائے گا جتنا کہ صنعاء اور جابیہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ ‘‘

پانچواں باب

محمد صاحب کی وفات

مدینے کے قرب وجوار میں جو یہودی رہتے تھے جب ان کو محمد صاحب مطیع بنا چکے تو عرب کے بعید علاقوں میں مسلح فوجی دستے بھیج کر یہ تقاضا کرنے لگے کہ اگر وہ بت پرست ہوں تو یا اسلام قبول کر یں یا تلوار کے گھاٹ اتارے جائیں۔جامع الترمذی(جلد دوم)صفحہ۴۶۸ میں یہ مندرج ہے کہ محمد صاحب نے اپنی فوجوں کو یہ حکم دے کر بھیجا:

أمرت أن أقاتل الناس حتّى يقولوا لا إله إلا الله

ترجمہ:’’مجھے اُن سے جنگ کرنے کا حکم ملا ہے جب تک کہ وہ یہ کلمہ نہ پڑھیں،لا الہ الااللہ‘‘۔

یعنی جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کریں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سینکڑوں نے اسلام کا آسان طریقہ قبول کیا اور مسلمانی خون چکاں (جس سے خون ٹپکتا ہو)تلوار سے جو چاروں طرف چمک رہی تھی ،رہائی حاصل کی۔ اب محمد صاحب نے مکے کے حج کا ارادہ کیا اور سن چھ ہجری میں ایک لشکر جرار(بڑا بھاری لشکر) لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔لیکن قریش نے اُس کوشہر میں گھسنے نہ دیا۔کچھ گفت وشنید کے بعد مکہ کے نزدیک بمقام حدیبہ ان دونوں میں عہدو پیمان ہو گئے اور اُس میں یہ شرط ٹھہری کہ اب مسلمان بغیر حج کئے واپس چلے جائیں۔لیکن اگلے سال اُن کو مکہ میں داخل ہو کر حج کرنے کی پوری آزادی ہوگی اور کوئی تکلیف اُن کو نہ دی جائے گی۔بخاری نے اس عہد نامہ کا دلچسپ بیان دیا ہے اور مِشکوٰۃ المصابیح میں مندرج ہے۔ابن ہشام نے بھی سیرت الرسول کی تیسری جلد کے صفحے ۱۵۹ پر اس کا ذکر کیا ہے ۔بخاری کے بیان کے مطابق اس موقعےپر علی کو محمد صاحب نے اپنا وکیل چنا اور جب محمد صاحب نے اس کو یہ الفاظ لکھنے کا حکم دیا’’عہدنامہ مابین محمد صاحب رسول اللہ اور سہیل بن عمر‘‘تو سہیل نے اس جملے ’’رسول اللہ ‘‘پر اعتراض کیا اور کہا کہ اگر قریش محمد صاحب کو رسول اللہ تسلیم کر لیتے تو پھر ان کی مخالفت کیوں کرتے۔اس پر محمد صاحب نے علی کوحکم دیا کہ یہ جملہ’’رسول اللہ‘‘ کاٹ دے اور اور اس کی جگہ سہیل کے کہنے کے مطابق’’ابن عبد اللہ‘‘ لکھ دے۔علی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ’’ میں ہر گز یہ جملہ نہیں کاٹوں گا‘‘۔پھر یوں بیان ہے کہ:

أخذ رسول الله صلعم الكتاب وليس يحسن يكتب فكتب هذا ما قاضى محمد بن عبد الله

ترجمہ:’’رسول خدا نے کا غذ لیا۔گو اچھی طرح سے نہ لکھ سکے ،لیکن لکھا جیسا انہوں نے( علی کو) حکم دیا تھا یعنی’’محمد بن عبد اللہ‘‘۔

یہ قصہ اس لئے دلچسپ ہے کیونکہ اس میں اس اَمر کا ثبوت پایا جاتا ہے کہ محمد صاحب لکھ پڑھ سکتے تھے۔ گو زمانہ حال کے مصنف اس کے خلاف کچھ ہی کہیں ۔بعض دوسرے موقعوں کا بھی اس کتاب میں ذکر آیا ہے جن میں محمد صاحب نے کچھ لکھا۔

قریش کے ساتھ جب عہد بمقام حدیبہ باندھا گیا تو محمد صاحب مدینے واپس آئے۔اگلے سال وہ پھر مکے میں جا پہنچے اور ہزار ہا مسلمان اُن کے ہمراہ تھے اور عہد کے مطابق انہوں نے حج کی ساری رسوم ادا کیں۔عہد نامہ حدیبہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمانوں اور قریش کے مابین دس سا ل تک صلح رہے گی۔لیکن جس سال محمد صاحب نے حج کیا تواگلے سال اس عہد کے خلاف دس ہزار فوج کے ساتھ محمد صاحب اچانک مکے جا پہنچے ۔اہل قریش بالکل تیار نہ تھے اور شہر کو مسلمانوں نے بلا جنگ فتح کر لیا۔اس کے بعد کئی ایک مہمیں بھیجی گئیں جن کا مقصد تھا کہ قرب وجوار کے قبیلوں کو مطیع کریں۔علاوہ ازیں روم اور فارس کے بادشاہوں کو دعوت اسلام کے خط بھیجے۔

ان لگاتار مہموں کے باوجود بھی محمد صاحب کو نئے قوانین مشتہر کرنے کا موقعہ ملتا رہا۔تقریباً ہر صیغہ زندگی کے لئے وحی نازل ہوتی رہی۔اس بیسویں صدی میں اُس کی بعض تعلیمات تو کچھ بے موقعہ سی معلوم پڑتی ہیں۔پھر بھی سب مسلمان ایماندار وں کا فرض ہے کہ اُس کی تعلیم کو وحی منجانب اللہ مانیں، مثلاً

 قرآن مجید میں باربار یہ مذکور ہے کہ پہاڑوں کے پیدا کرنے میں خدا کا منشاء یہ تھا کہ زمین کو ہلنے سے بازرکھے۔

 شہابئے (وہ چمکتے ہوئے جرم فلکی جو رات کو ٹو ٹتے ہیں)وہ تِیر ہیں جو فرشتے شیاطین کی طرف پھینکتے ہیں جب کہ شیاطین آسمانی گفتگو کو سننے کے لئے جاتے ہیں۔

 دوزخ اور بہشت کی تفصیلیں خاص طور پر قرآن مجید میں مندر ج ہیں۔یہ دونوں مقام مادی بیان ہوئے ہیں۔بہشت سایہ دار درختوں اور سرد ندیوں کی جگہ ہے،جہاں شہوات ِنفسانی پوری کی جاتی ہیں اور شراب کی ندیاں وہاں کے لوگوں کی پیاس بجھاتی ہیں۔دوزخ بدنی عذاب کی جگہ ہے جس کی نسبت قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق قرآن نے قسم کھائی ہے کہ جِنّ و انس سے بھر دے گا۔

 اسی کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس مقصد کے لئے خدا نے انسانوں کو پیدا کیا بلکہ مسلمانوں کو بھی نار جہنم میں سے گزرنا پڑے گا اور قرآن مجید کی ایک مشہور آیت میں یہ مندرج ہے کہ ہر شخص اس عذاب کی جگہ میں داخل ہو گا۔

آج کل کے بعض مسلمان اس پر زور دیا کرتے ہیں کہ محمد صاحب ان کی سفارش کرے گا۔برعکس اس کے قرآن مجید میں بار بار یہ بیان کیا کہ عدالت کے د ن کوئی شفیع نہ ہو گا۔احادیث میں بھی گو اُن میں سے بعض قرآن کے خلاف ہیں، محمد صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اپنی بیٹی فاطمہ کو کہا کرتے تھے:

يا فاطمة انقذي نفسك من النار فإني لا أملك لكم من الله شيئاً

ترجمہ:’’ اے فاطمہ اپنے تئیں آگ سے بچا کیونکہ تیری بابت مَیں خدا سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔

محمد صاحب نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ وہ دوسروں کے بچانے کے ناقابل تھے بلکہ انہوں نے اپنے مستقبل کی طرف سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔چنانچہ بخاری میں اس مضمون کی ایک حدیث ہے:

والله لا أدرى وأنا رسول الله ما يُفعل بي ولا بكم

ترجمہ:’’خدا کی قسم گو مَیں رسول خدا ہوں مَیں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا‘‘۔

قرآن مجید میں بھی یہی بیان آیا ہے (دیکھو سوہ احقاف) ۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب اسمااللہ میں یہ مندرج ہے:

لَنْ يُنَجِّيَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ قَالُوا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَته

ترجمہ:’’ تم میں سے کسی کے اعمال اُس کو نہ بچائیں گے۔(ایک نے کہا)اے رسول خدا کیا تیرے اعمال بھی؟انہوں نے جواب دیا’’میرے بھی جب تک خدا مجھ پر رحمت نہ کرے‘‘۔

بلکہ محمد صاحب کو اپنے مستقبل کی ایسی فکر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو ان کے لئے یہ دعا کرنے کی تلقین کی:

إذا تشهد أحدكم في الصلاة فليقل: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وبارك على محمد وعلى آل محمد وارحم محمدا وآل محمد كما صليت وباركت وترحمت على ابراهيم وعلى آل إبراهيم

ترجمہ:’’جب تم میں سے کوئی (اپنی نماز کے وقت ) خدا اور اُس کے رسول کے بارے میں شہادت دے تب وہ یہ کہے’’اے خدا محمد اور اس کی آل کو برکت دے اور محمد اور آل محمد پر رحم کر جیسا تو نے ابراہیم اور اس کی اولاد کو برکت دی اور رحم کیا‘‘۔

آ ج تک ساری دنیا میں مسلمان اپنے نبی کی بھلائی کے لئے اِس دعا کو دہراتے ہیں۔ ہجری کے گیارہویں سال میں محمد صاحب بیمار ہو گئے۔مسلسل تیز بخار نے اُنہیں کمزور کر دیا اور بہت جلد وہ شدید بیمار نظر آنے لگے۔جب اُسےاپنے آخری ایام کے متعلق اندیشہ ہونے لگا تو اُس نے ابو بکرؓ کو مقر ر کیا کہ وہ اُس کی جگہ پر امام مسجد ہو اور پھر اپنی خاموشی(موت) کے وقت عائشہ کے کمرے میں اُس نے قلم اور سیاہی لانے کو کہا تا کہ وہ اپنی (دی ہوئی) گزشتہ تعلیم میں کچھ اضافہ کر سکے۔لیکن جو آگ (بخار کی حرارت)بڑی تیزی سے سلگ رہی تھی بہت زیادہ شدت اختیار کر گئی اور محمدصاحب زندہ نہ رہا کہ ان الفاظ کا اضافہ کر سکےجو کہ اس کے مذہب کی تکمیل اور اس کے پیرو کاروں کو بھٹکنے سے روکتے۔یہ واقعہ دو وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ محمد پڑھ اور لکھ سکتا تھا اور اس واقعہ سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس نے اپنا (اسلامی مذہبی)نظام نامکمل چھوڑا۔بخاری اس واقعہ کو ابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ جب رسول خدا مرنے کو تھااور کافی لوگ کمرے میں موجود تھے،ان میں عمر بن خطاب بھی تھا،اُس (رسول اللہ) نے کہا:

ھَلُمّوا اکَّتُبٗ لَکُمٗ کِتٰباً لَنٗ تَضِلّوا بَعٗدِہٖ۔

ترجمہ:’’آؤمیں تمہارے لئے ایک تحریر لکھوں گا(پس وہ)اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے‘‘۔

پھر عمر نے کہا:

’’ وہ یقینی طور پر درد میں مبتلا ہیں تاہم آپ کے پاس قرآن مجید ہے۔کلام خدا تمہارے لئے کافی ہے‘‘۔

پھر ایک تقسیم نے ان لوگوں کے درمیان جنم لیا جو کمرے میں موجود تھےاور ان میں بحث و تکرارشروع ہو گیا۔بعض نے کہا’’اُسے قلم اور سیاہی لا کے دو تاکہ رسول اللہ صاحبتمہارے لئے کچھ لکھ سکیں‘‘۔دوسرے عمر کے ساتھ متفق تھے۔کافی دیر تک جب وہ شور مچا رہے تھے اور تذبذب کا شکار تھے تو رسول اللہ صاحبنے کہا’’مجھے چھوڑ دو‘‘۔تھوڑی دیر بعد محمدصاحب نے عائشہ کے کمرے میں آخری سانسیں لیں اور خالق حقیقی سے جا ملے۔پیغمبر عربی مدفون اُس عظیم دن کے منتظر ہیں جب خدا کے سامنے ہر کسی کو اپنا حساب دینا پڑے گا۔

یوں یہ عظیم شخصیت گزر گئی۔اس کتاب کے مقصد اور محدودیت کے باعث اس (محمدصاحب)کی زندگی کا مکمل طرز عمل تحریر نہیں کیا گیا۔بہت سے دلچسپ اوراہم حقائق کونظرا نداز کر دیا گیا ،لیکن ہم نے کوشش کی کہ ہم نے جو کچھ لکھا( جس قدر ممکن ہو) اس کتاب کے عنوان کے مطابق سچ ہواور صرف وہی کچھ دیا جو خوداسلام میں پایا جاتا ہے۔جو تصویر مسلم تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہےوہ مکمل طور پر دلکش نہیں ہے اور اب ہم یہ قاری پر چھوڑتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرےکہ کس لحاظ سے محمدصاحب کوحقیقت میں خدا کانبی مانا جا سکتا ہے۔