قول المسیح
اے تم جو تھکے اوربڑے بوجھ سے دبے ہوئے ہو میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دونگا

Sher Afgan

Destroyer of the Lion
A reply to Maulvi Sana Ullah of Amritsar
(Known as Sher-i-Punjab) who had criticized the author’s Why I Became a Christian;
it confirms and supplement the latter again contending that
There is no Salvation in Islam

By
The Late Maulvi Sultan Muhammad Khan Paul
شیرِافگن

مصنفہ
جناب پادری مولوی سلطان محمد پال خان صاحب
پروفیسر عربی ۔ ایف۔ سی ۔ کالج۔ لاہور وایڈیٹر نور افشاں
(فاضل عربی)

The Late Maulvi Sultan Muhammad Khan Paul

Arabic Professor, Forman Christian College Lahore

1884-1960
فصل اوّل

مولوی ثناء اللہ صاحب اوراسلام میں نجات

چل میرے خامہ بسم اللہ

قبل اس کے کہ میں اس امرکو ظاہر کردوں کہ مولوی ثناء اللہ  صاحب اسلام میں نجات ثابت کرنے سے کس طرح قاصر اور عاجز رہ گئے  یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ناظرین رسالہ سے آپ کا تعارف کرایا جائے تاکہ اس امر کی صداقت کہ اسلام میں مطلق  نجات نہیں ہے آپ کی شکست  سے کامل طورپر یقین ہوجائے۔
آپ کا اسم گرامی ثناء اللہ ہے۔ جسکو بقول مصنف نشانات مرزا  بجواب الہامات  مرزا"  لوگ کسی قدر تغیر وتبدل کے ساتھ مختلف  طورپر لیکن ایک ہی وزن پر ادا کرتے ہیں علمیت  کے لحاظ  سے آپ مولوی فاضل ہیں اوراہلِ حدیث کے ایڈیٹر اورمالک ۔ بحث ومباحثہ  میں آپ کافی شہرت کے علاوہ کافی ثروت بھی حاصل کرچکے ہیں  اور نظر بدور باوجود پیرانہ  سالی کے اب تک  آپ جوانی کی دُھن میں خضاب استعمال کرتے ہیں اور پیر  چودہ سالہ بنے پھرتے ہیں۔ نہ معلوم آپ کو اس سے کیونکر تسلی ملتی ہے۔ اور دوسروں  کو کیونکر اعتبار ہوتاہے۔ تاہم آپ کو اس سے  ایک گونہ دلچسپی  ضرورہے۔ آپ کے احباب نے آپ کو فاتح قادیان اور شیر پنجاب کا خانہ ساز یا خانہ برانداز خطاب بھی دیدیاہے۔ لیکن نشانات مرزا بجواب الہامات مرزا میں آپ کو چند اورنہایت  درخشاں خطابوں کا بھی ذکر ہے جن کو ہم اس مضمون  کے آخری حصہ میں ہدیہ ناظرین کرینگے۔
                آپ اصلاً کشمیری ہیں لیکن امرتسر سے آپ کو خاص اُنس ہے۔ اسلئے آپ امرتسر میں مقیم ہیں۔ اصلاً آپ مسلمانوں کو اُس فرقے سے تعلق رکھتے  ہیں جس کووہابی، نجدی اور غیر مقلد کہتےہیں  غیر مقلد  کس کو کہتے ہیں  ۔ اس بارہ میں ہم ایک مسلمان کی تصنیف  سے ایک اقتباس  ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ میرے رسالہ کا جواب لکھتے لکھتے آپ اس خصوصی امتیاز کے اظہار  پر مجبورہوگئے۔ اورایک اور وہابی کے ساتھ مل کر وہ زہر اگلا   ہے جس سے ہم بھی یہ نتیجہ  نکالنے پر مجبور ہوگئے کہ  ع ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
اس قدر مختصر تعارف کرانے کے بعد اب میں اصل  مضمون کی طرف متوجہ ہوتاہوں  گذشتہ  ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء  میں حافظہ آباد میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک فیصلہ کنُ  مباحثہ ہوا۔ جس کا مفصل اور پوست کندہ  بیان۔ رسالہ " مباحثہ حافظہ آباد" میں  چھپ چکا ہے (جو مسٹر  موسیٰ خان مہاں سنگھ باغ لاہور سے نہایت کم قیمت پر مل سکتا ہے) اسی مباحثہ  میں ایک واقعہ کے دوران میں نے مولوی صاحب سے یہ کہا تھا کہ  آپ میں اگر کچھ غیرت اور حمیت باقی ہے تو آپ میرے رسالہ کا جواب لکھیں۔ اگر آپ اس کا ایسا معقول جواب دیں جس کا جواب الجواب میں نہ دے سکوں تو مسلمان ہوجاؤ نگا  جس کا صاف مطلب یہ تھاکہ  مجھ کو کامل یقین ہے کہ نہ تواسلام میں نجات ہے اور نہ آپ اس کا جواب لکھ سکینگے ۔ چنانچہ  جب آپ  امر تسر  پہنچ گئے  تو میرے رسالہ مذکورہ کا بزعم  خود جواب لکھنا شروع کیا۔ چنانچہ وہی  ہوا جو ہم کہہ چکے تھے  یعنی مولوی صاحب نے نہ صرف تسلیم کیاکہ اسلام میں نجات نہیں  ہے۔ بلکہ اپنی علمیت  پر بھی ایک بڑا داغ  لگایا ہے۔خیر جو کچھ  آپ نے لکھا ہے ہم اس کو  اپنے مختصر  ریمارک  کےساتھ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں  اورجب یہ مضمون  مکمل ہوجائے  تو بغرض  تصفیہ ہم اس کو اہلِ حدیث  کے دائل کے ساتھ پنڈت رام چندر دہلوی   کے پاس بھیج دینگے۔ کیونکہ ہم دونوں کے نزدیک  آپ منصف مقرر ہوچکےہیں۔
لیکن پہلے اس سے کہ  میں مولوی  صاحب کے جواب کی تردید لکھوں مناسب  معلوم ہوتاہے  کہ میں اپنے رسالہ  مذکورہ کا خلاصہ ہدیہ ناظرین کروں تاکہ  اس بحث کے سمجھنے  میں کوئی دقت باقی نہ رہے۔  میرے رسالہ مذکورہ کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔

(۱۔) قرآن شریف کے رو سے نجات اعمال صالحہ  پر موقوف ہے۔
(۲۔) ومن بعمل  مثقال  ذرتہٍ خیراً  یرہ ومن یعمل  مثقال  ذرتہٍ سراً رہ  کے روسے کوئی فرد بشر اعمال صالحہ  سے نجات حاصل نہیں کرسکتا ہے۔
(۳۔) تمام بنی آدم گنہگار ہیں۔
(۴۔) احادیث  صحیحہ کے رو سے اعمال صالحہ کوئی چیز نہیں  ہے۔ حتیٰ کہ خود آنحضرت کو ان کے اعمال نجات نہیں دلاسکتے ہیں۔
(۵۔) احادیث کے رو سے نجات صرف خدا کے رحم سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن رحم بلامبادلہ کوئی چیز نہیں ہے۔


 اس کا جواب اسی رسالہ کے تمہ میں دیکھو(منہ)

فصل دوم

مولوی ثناء اللہ صاحب بھی نجات بالاعمال نہیں مانتے

ناظرین آپ یہ دیکھ کر نہایت خوش ہونگے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے نہایت دیانتداری کے ساتھ مگر غیر متوقع طورپر میرے رسالہ کے شق اول اور دوم، سوم اور چہارم، پنجم کو یعنی میرے رسالہ کے تمام دلائل کو بلاکم وکاست تسلیم کیاہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کا ہمارے رسالہ کے آگے سربسجود ہونا۔ چنانچہ آپ اُن احادیث کے جواب میں جن سے ہم نے یہ استد لال کیا تھا کہ کوئی فرد بشر اپنے اعمال کے ذریعہ نجات حاصل نہیں کرسکتا ہے۔بلکہ خود آنحضرت کو بھی ان کے اعمال نجات نہیں دے سکتے ہیں۔ رقم فرماتے ہیں کہ :

 

" اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کا خدا سے جو رشتہ ہے وہ تقضی ہے کہ انسان دم بھر خدا کی یاد سے غافل نہ ہو شیخ سعدی مرحوم نے گلستان کے شروع سی میں اس راز کو لکھا ہے کہ" برہر نفسے دونعمت دیر ہر نعمت شکر واجب" "اس لحاظ سے انسان کے اعمال شرعیہ بھی اس کی نجات کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان میں بھی بہت سا وقفہ مل سکتاہے کہ انسان اپنے سانس اورکاموں میں خرچ کرے اور شکرواجب سے غافل ہوجائے یہ عارفانہ نکتہ سمجھانے کو حضور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی ہے (صدق اللہ ورسولہ)

بے شک اعمال شرعیہ اتنی حیثیت نہیں رکھتے کہ دنیاوی نعماء کا شکر ادا ہونے کے بعد نجات اخروی کے لئے بھی علت ہوسکیں۔ ہاں محض اس کا فضل ہی فضل ہے کہ چند لمحوں کی اطاعت کو دائمی راحت، (نجات) کا موجب بنادیا۔یہ تشریح ہے حدیث مذکور کی۔ کیا وجہ ہے کہ پہلے تو اعمال کے موجب نجات ہونے سے انکار کیا۔ پیچھے اعمال کی تاکید فرمائی ۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم بتاآئے ہیں کہ اعمال ذاتی حیثیت سے ہرگز موجب نجات نہیں۔ مگر بیکار بھی نہیں"(اہلحدیث امرتسر مطبوعہ ۹ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳)۔

 

شکر اللہ کہ میاں من داد صلح فتاد کہو عیسیٰ مسیح کی جے

قرآن مجید نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ " وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ "۔

یعنی " اے عیسیٰ میں تیرے پیروؤں کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر جو تجھ سے انکار کرتے ہیں غالب رکھونگا"۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے گذشتہ اوراق میں اپنے رسالہ کا (میں مسیحی کیوں ہوگیا) خلاصہ از قرارء ذیل لکھا تھاکہ

(۱۔) قرآن شریف کے رُو سے نجات اعمال صالحہ پر موقوف ہے۔

(۲۔) فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ کے روسے کوئی فرد بشر اعمال صالحہ سے نجات حاصل نہیں کرسکتا ہے۔

(۳۔) تمام بنی آدم گنہگار ہیں۔

(۴۔) احادیث صحیحہ کے رو سے اعمال صالحہ کوئی چیز نہیں ہے۔ حتیٰ کہ خود آنحضرت کو ان کے اعمال نجات نہیں دلاسکتے ہیں۔

(۵۔) احادیث کے رو سے نجات صرف خدا کے رحم سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن رحم بلامبادلہ کوئی چیز نہیں ہے۔

ان تمام شقوں کو تو مولوی صاحب نے اپنی عبارت بالا میں تقسیم کرلیا۔ البتہ شق سوم کے متعلق آپ نے ایک حرف بھی نہیں لکھا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو یہ بھی تسلیم ہے کہ تمام انبیاء اور باقی تمام انسان گنہگار ہیں۔ لہذا اب ہم میں اور مولوی صاحب میں کوئی اصولی اختلاف نہیں رہا۔ صرف آپ کو ان دوآئتوں کی تفسیر کرنے میں ہم سے کسی قدر اختلاف ہے۔ جن کو ہم نے اپنے رسالہ میں لکھاتھا۔ وہ دوآئتیں یہ ہیں۔

(۱)وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّاثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّاترجمہترجمہ: اور تم میں کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم اور مقرر ہے (سورہ مریم آیت 71، 72)

(۲۔)وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأَمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ترجمہ: اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم کرے۔ اور اسی لیے اس نے ان کو پیدا کیا ہے اور تمہارے پروردگار کا قول پورا ہوگیا کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔(سورہ ہود آیت 117 اور 118) ( میں کیوں مسیحی ہوگیا صفحہ ۳۱، ۳۳)۔

ان دو آیتوں کی بابت ہم اگلے صفحوں میں عرض کرینگے۔

فصل سوم

مولوی ثناء اللہ صاحب کی قرآن فہمی وحدیث دانی

آیت نمبر اول یعنیوَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا(سورہ مریم آیت 72، 73)(میں مسیحی کیوں ہوگیا صفحہ ۳۱) کے متعلق آپ لکھتےہیں کہ۔

" آیت موصوفہ میں صرف ایک لفظ تحقیق طلب ہے" یعنی وارد یہ لفظ اسی صورت (اسم فاعل ) میں سورہ یوسف میں آیا ہے۔ وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ (سورہ یوسف آیت ۱۹) یعنی جب مسافروں کا قافلہ آیا تو انہوں نے اپنا وارد بھیجا(تاکہ پانی لائے) اس نے اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالا"۔

یہی لفظ سورہ قصص کی آیت ۲۸میں بصفہ ماضی آیاہے ۔ غور سے سنئے۔

وَلَمَّا وَرَدَ مَاء مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ" یعنی حضرت موسیٰ مدین کے پانی کے پاس آئے تو وہاں دیکھاکہ ایک قوم پانی پلاتی ہے"۔

ان دونوں موقعوں پر اس لفظ سے پانی کے اندر گھسنا مراد نہیں۔ورنہ اس کے بعد ادلےٰ دلوہ اور وجد امد صحیح نہ ہوگا۔ پس وارد کے معنی ہیں پانی کے پہنچنے والا۔ ان دوشہادتوں سے آیت زیر بحث کے معنی یہ ہوئے کہ ہر ایک ابن آدم نیک ہو یا بد جہنم کے پاس سے گذریگا ۔ جس کی بابت حدیثوں میں اوپر کا لفظ آيا ہے نہ کہ اندر۔ پھر وہ اپنے اپنے اعمال کے موافق جہنم سے دوڑہتے جائينگے اور ظالم بد کردار جو جہنم ہی کے لائق ہونگے جہنم میں چھوڑ دیئے جائینگے"(اہل حدیث مطبوعہ ۱۹اکتوبر 1928ء صفحہ ۲)۔

پھر آپ لکھتےہیں کہ:

" مختصر یہ کہ لفظ وارد کےمعنی سمجھنے میں آپ کو غلطی ہوئی ہے۔ ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ پاس پہنچنے والا پاس سے گذرنے والا ۔ آپ کرتے ہیں آگ میں داخل ہونے والا ہمارے ترجمہ کی شہادت خود قرآن دیتاہے آپ کی نہیں" (اہل حدیث مطبوعہ ۱۹ اکتوبر 1928ء صفحہ ۲)

میں تو اس پیرجواں نماں یا جان بوجھ کر انجان بننے والے کی قرآن فہمی کا قائل اس وقت ہوچکا تھا جبکہ آپ نے قرآن شریف کی اس آیت کی بنا پر پر وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم (سور نساء آیت ۲۲ )یہ فتوے دیا تھا" کہ دادی سے پوتے کا نکاح جائز ہے"۔ اورپھر ایک حیدرآبادی وہابی کے سمجھانے پر رجوع کرلیا"(الفقیہ امرتسر ۲۱ مئی 1926ء صفحہ ۸) ہمیں کامل امید ہے کہ اگرہمارے سمجھانے پر نہیں تو کسی اور وہابی کے سمجھانے پر آپ پھر اپنے اس قول سے رجوع کرینگے کہ وارد کے معنی " پاس پہنچنے والا ۔ پاس سے گذرنے والا کے ہیں ۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ پاس پہنچنے والا پاس سے گذرنے والا"۔ آپ کرتےہیں داخل ہونے والا ۔ ہمارے ترجمہ کی شہادت خود قرآن دیتاہے۔ آپ کی نہیں"۔ (اہل حدیث۱۹ اکتوبر ۲۸ ۱۹ ء صفحہ ۲) جس کا صاف مطلب یہ ہے ۔ کہ اگر ہم بھی قرآن شریف سے " شہادت پیش کریں تو آپ بلا چون وچرا ہمارے ترجمہ کو تسلیم کرینگے ۔ لہذا ہم قرآن شریف سے چند ایسی آئیتیں پیش کرینگے جن میں یہ لفظ زیر بحث دخول کے معنی میں آیا ہے اورایسی واضح صورت میں کہ اگر تمام دنیا کے نجدی یا وہابی اکٹھے ہوں تب بھی دوسرے معنے نہ کرسکیں اوراس کے بعد ہم اپنی تائید کے لئے اشعار عرب سے بھی چند شواہد پیش کرینگے کہ اس فاضل وہابی کو کم از کم قرآن شریف کی کسی آیت کے تضیہ کرنے کا ڈھنگ تو معلوم ہوجائے ۔ وہ آئیتیں یہ ہیں۔

قرآن کی شہادت کہ آیت زیر بحث میں " وارد" کے معنی داخل کے ہیں

(۱۔)إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ(سورہ النبیاء آیت ۹۸، ۹۹) ترجمہ: تحقیق تم اورجو کچھ تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے ایندھن ہو دوزخ کے اور تم کو اس میں داخل ہونا ہے"۔

(۲۔)لَوْ كَانَ هَؤُلَاء آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ(سورہ النبیاء آیت ۱۰۰) ترجمہ:" اگر یہ لوگ خدا ہوتے تو دوزخ میں داخل نہ ہوتے اوریہ سب دوزخ میں ہمیشہ تک رہینگے"۔

(۳۔)يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ (سورہ ہود آیت ۱۰)۔ ترجمہ: قیامت کے دن (فرعون ) اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور داخل کرے گا (اپنی قوم کو ) دوزخ میں اور دوزخ داخل ہونے کی بُری جگہ ہے"۔

(۴۔)يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ (سورہ رمریم آیت ۸۹)۔

ترجمہ: " جس دن ہم اکٹھا کرینگے پرہیزگار وں کو رحمٰن خدا کے پاس مہمانی کے لئے اورہا نک لے جائینگے گنہگاروں کو دوزخ کی طرف داخل ہونے کے لئے"۔

ان قرآنی شواہد کے دیکھنے کے بعد اگر اس فاضل وہابی کے دل میں کچھ بھی قرآن شریف کی عزت باقی ہے توضرور اپنی اس رائے فاسد سے کہ " ہم اس کا ترجمہ کرتےہیں پاس پہنچنے والا ۔ پاس سے گذرنے والا"۔ اسی طرح رجوع کرے گا جس طرح اپنے اس فتویٰ سے رجوع کیاکہ" دادی سے پوتے کا نکاح جائز ہے" ۔ آپ کی لکھی ہوئی تفسیر بھی اس قسم کی لغویات سے بھری ہوئی ہے ۔ جن کی بناء پر آپ پر کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے۔ لیکن سنتے ہیں کہ ابن مسعود کے سمجھانے پر آپ نے اس قسم کے قابل اعتراض مقامات کو اپنی تفسیر سے خارج کردیاہے بعبارت دیگر اُن سے رجوع کیا ہے۔

اشعار عرب کی شہادت کہ " وارد" بہ معنی داخل ہے

ہم نے وعدہ کیا تھاکہ قرآن شریف کے شواہد کے علاوہ اشعار عرب میں سے بھی چند شواہد پیش کرینگے تاکہ قرآن شریف کے لفظ زیربحث کے معنی اچھی طرح سمجھ میں آجائیں یہ بھی سن لیجئے۔

لوردن دوار عاذ خرجن شعترا کا مثال الرصاع قد بلینا(مبع معلقات معقلہ پنجم )۔

ترجمہ: لڑائی میں وہ زرہ پہن کر داخل ہوتے ہیں ۔ اور پراگندہ ہو نکلتےہیں ان لگاموں کی مانند جن کی گانٹھ پرانی ہوچکی ہوں"۔

بانا نور دالتوایات بیضا ونصد رھن حمرا قدروینا(سبع معلقات معلقہ پنجم)۔

ترجمہ: ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے سفید نیزوں کو اپنے دشمنوں کے سینوں کے اندر داخل کردیتے ہیں اورجب انکو نکال لیتے ہیں تو خون سے سیراب اور سرخ ہوتےہیں " ۔

رعو اظما ھمہ حتی اذا تم وار د غمارا تفرے بالسلاح وبالدم( سبع معلقات معلقہ سوم)

ترجمہ: کچھ دیر تک دونوں فریق لڑائی سے باز رہے۔ جب معیار ختم ہوئی ۔ پھر لڑائی کے گہرے پانی میں اپنے ان کو کس طرح داخل کیا کہ ان کے ہتھیاروں اور خون سے پانی شق ہوگیا۔

ہم نے محض اس غرض سے قرآنی اور عربی شواہد پیش کئے تاکہ اس فاضل وہابی کی قرآن فہمی کی حقیقت واضح ہوجائے۔ ورنہ خود آیت زیر بحث ، اس قدر واضح ہے کہ جس کی وضاحت کے لئے اور " شہادت کی " مطلق ضرورت ہی نہیں ہے۔

آپ کی قرآن فہمی کی لیاقت ملاحظہ ہو آپ فرماتے ہیں کہ " آیت زیر بحث کے معنی یہ ہوئے کہ ہرایک ابن آدم نیک ہو یا بدجہنم کےپا س سے گذریگا ۔ جس کی بابت حدیثوں میں اوپر لفظ آیا ہے نہ کہ اندر پھر وہ اپنے اعمال کے موافق جہنم سے دور ہٹتے جائينگے ۔ اور ظالم بدکردارلوگ جہنم میں چھوڑ دئیے جائينگے" ہم کہتے ہیں کہ کیوں " ہر ایک ابن آدم نیک ہو یا بد" جہنم کے پاس سے گذرے۔ جنت کے پاس سے کیوں نہ گذرے۔ اورپھر ظالم بدکردار لوگ جنت کے پاس سے ہٹتے جائیں اورنیک لوگ جنت میں داخل ہوتے جائیں تاکہ بدکرداروں کو اور نیز اس شخص کو جس کا ذکر " نشانات مرزا بجواب الہامات مرزا" میں ہے۔ جنت کا نظارہ دیکھ کر اپنے قبح افعال کا اور زیادہ احساس ہوجائے کہ اگر وہ بدکردار نہ ہوتا تو ایسی دلفریب جگہ میں داخل ہوجاتا۔

شاہد آپ کی تفسیر کے بموجب اللہ میاں کو یہ منظور ہے کہ بدکرداروں کو جنت کی ہو ا تک نہ لگنی پائے۔ خود نیک کرداروں کو دوزخ کے پاس سے گذرنا پڑے اس کی بلا سے ۔یہ آپ نے خوب کہاکہ " پھر وہ اپنے اعمال کے موافق جہنم سے دور ہٹتے جائینگے"۔ اعمال کا یہاں کیا دخل ہے۔ کیا آپ اس قدر جلد بھول گئے کہ اعمال ہرگز موجب نجات نہیں"۔ جب " اعمال ہرگز موجب نجات نہیں" تو پھر دو اپنے اعمال کے موافق کس طرح جہنم سے ہٹتے جاسکینگے؟ حالانکہ یہ جملہ کہ " پھر وہ اپنے اعمال کے موافق جہنم سے دور ہٹتے جائینگے" آیت زیربحث کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک وہابی کے فرسودہ دماغ کا اختراع ہے جو بزعم خود اللہ میاں کی اصلاح کررہاہے ۔ مولوی صاحب آپ کا مقابلہ اس شخص سے پڑا ہے جو آپ کی آخری عمر تک آپ کو قرآن پڑھاسکتاہے۔ یہ صرف تعلی کے طورپر نہیں کہتا بلکہ میں اس کو بار ہا ثابت بھی کرچکا ہوں ۔ اس لئے اس قسم کے من مانی ترجموں سے آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کا میاب ہونا چاہتے ہیں تو میں اس کی صورت آپ کو بتلاتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ آخر تو آپ اہلِ حدیث ہیں جہاں حدیثوں کے رو سے صدہا آئتوں کو منسوخ مانتے ہیں وہاں اس آیت کو بھی ان میں اضافہ کرکے اس کو بھی منسوخ کہہ دیں یعنی یہ کہ اللہ نے اپنے قول سے رجوع کیا ہے اور اپنا پیچھا چھوڑائیے۔

آپ نے یہ بھی غلط لکھا کہ" جس کی بابت حدیثوں میں اوپر کا لفظ آیاہے کہ اندر" میں نے آیت زیر بحث کی تفسیر کےلئے اپنے رسالہ میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں یہی لفظ وردو۔ بہ معنائے دخول وارد ہواہے۔ جس کے جواب میں آپ ہی بے آپ کی طرح تڑپ رہے ہیں ۔ لیکن بنتا کچھ نہیں ہاں ایک ضمن میں آپ نے یہ لکھا کہ" قرآن مجید اورحدیث شریف کی تشریح تو ہم نے شہادت قرآن آپ کو بتادی" ہم نے بھی آپ کی اس تشریح کی دوتشریح کی جس کی دھجیاں قیامت تک آپ کی آنکھوں کے سامنے اڑتی پھرینگی۔

ناظرین جس حدیث کوہم نے بطور تفسیر نقل کیاہے اُس میں ایک ایسا لفظ وارد ہے جو مولوی صاحب کی تمام امیدوں پر پانی پھیردیتاہے۔ وہ لفظ یصدون ہے۔ جس کے معنی نکلنے کے ہیں۔ اور لفظ " درود" کا ضد ہے۔ چنانچہ المصباح المنیر میں جو نہایت معتبر لغت کی کتاب ہے لکھاہے کہ فاالورد خلاف الصدود۔ و الایرااوحلاف الاصدار (فصل الوادمع الراء)یعنی درود صددر اور ایرادو اصدار ایک دوسرے کے ضد ہیں۔ پس حدیث زیربحث میں چونکہ صدور کے معنی نکلنے کے ہیں۔ لہذا ورود کے معنی داخل ہونے کےہیں۔آپ تونرے وہابی ہیں جن کے نزدیک بجز قرآن وحدیث کے باقی علوم کا پڑھنا بدعت ہے۔ آپ کے ٹھوکر پر ٹھوکر کھانے کا یہی سبب ہے ۔ ورنہ اگر آپ کم ازکم لغات کی طرف رجوع کرتے تو آپ کو اس قدر خجالت نصیب نہ ہوتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ حدیث مافوق میں ہرایک نکلنے والے کی کیفیت بتلائی گئی ہے کہ بعض تو بجلی کی چمک کی طرح اوربعض گھوڑے کی دوڑ کی طرح اور بعض سوار کی طرح اور بعض انسان کی دوڑ کی طرح اور بعض پیادہ چلنے کی طرح دوزخ سے نکلینگے۔ پس اگر درود کے معنی یہاں" پاس سے گذرنے کے ہوتے تو نکلنے اورپھر اس طرح نکلنے کے کیا معنی؟

خیر ان تمام باتوں کو جانے دیجئے ۔ اگر ہم آپ کو ایک سے زیادہ حدیثیں ایسی بتلادیں جن میں صاف طورپر ورود کے معنی دخول کے ہوں تب تو ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ آپ فی الفور اسلام چھوڑ کر مسیحیت کے دائرہ میں داخل ہونگے۔ ناظرین حدیث ذیل کو غور سے پڑھیں:

احادیث کی شہادت کہ وارد کے معنی داخل کےہیں

(۱۔) ان عبداللہ بن رواحتہ قال خبر اللہ عن الورود ولمہ یخبر بالصد ورنقال علیہ السلام یا ابن رواحتہ اقراما بعد ہاثم ننجی الذین اتقو (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۵۵۶ مطبوعہ مصر)۔

ترجمہ: عبداللہ بن رواحہ نے آنحضرت صلعم سے کہاکہ خدا نے دوزخ میں داخل ہونے کی خبر تو دی لیکن اس سے نکلنے کی خبر نہ دی آنحضرت نے کہا کہ اے رواحہ کے بیٹے اس کے بعد کا جملہ پڑھو کہ ثم ننجی الذین اتقوا۔

(۲۔) لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا ، قَالَتْ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَانْتَهَرَهَا ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71 ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72 " . مشارق الانوار حدیث نمبر ۶۳۸)۔

ترجمہ: " کتاب مسلم میں اُم مبشر سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اگر خدا نے چاہا تو نہ ہوگا داخل دوزخ میں درخت والے اصحاب سے کوئی جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی تو حضرت حفصہ نے کہا کیوں نہ داخل ہونگے یا رسول سو حضرت نے ان کو جھڑکا ۔ پھر حضرت حفصہ نے کہا کہ خدا قرآن میں فرماتاہے کہ" تم میں سے ہر ایک دوزخ میں داخل ہوگا"۔ آنحضرت نے فرمایا کہ خدا اس سے آگے فرماتا ہے کہ " پھر ہم بچائیں گے پرہیزگاروں کو اور بدکردار وں کو۔ گھٹنوں کے بلُ اس میں پڑے رہنے دینگے۔

کہو مولوی صاحب ! اب بھی کچھ عذر باقی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ صرف نام کے اہل حدیث ہیں۔ آپ کو احادیث پر عبور حاصل نہیں۔ ورنہ کبھی یہ تعلی نہ کرتے کہ جس کی بابت حدیثوں میں اوپر کا لفظ آیاہے نہ کہ اندر۔ اگر آپ یہ نامعقول عذر کریں جیسی آپ کی عادت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت حفصہ نے ورود کے معنی دخول کے کئے ہیں نہ کہ آنحضرت نے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت حفصہ نے ورود کے معنی غلط بتلائےتو آنحضرت پر فرض تھا کہ اُن کو بتلاتے کہ تم نے غلط معنے کئے ہیں۔اس کے معنی دخول کے نہیں ہیں بلکہ" پاس سے گذرنے کے ہیں"۔ لیکن آنحضرت کا خاموش رہنا صاف بتلارہاہے کہ آیت زیربحث میں وارد کے معنی داخل ہونے کےہیں نہ کچھ اور یہ لیجئے ہم آپ کو ایک اورایسی حدیث بتلادیتے ہیں جس میں خود آنحضرت نے ورود کے معنی دخول کے بتلائےہیں ۔

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفہ ۵۵۶ مطبوعہ مصر)۔

ترجمہ: حضرت جابر بیان کرتےہیں کہ کسی نے اس (آیت زیر بحث) کے متعلق اُن سے سوال کیا تو حضرت جابر نے کہا کہ میں نے آنحضرت کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ورود کے معنی دخول کے ہیں اور کوئی ایسا نیک اور بدکردار شخص باقی نہ رہیگا جو دوزخ میں داخل نہ ہو۔ لیکن نیک کرداروں پر وہ ٹھنڈا اور بے ضرربن جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کی سروی سے لوگ چلا اٹھینگے۔

لواب تو فیصلہ ہوگیا کہ آیت زیر بحث میں وارد کے معنی داخل کے ہیں۔

اب آپ ہی انصاف سے کہہ دیں کہ آپ کے اس منقولہ شعر کا کہ

گدایاں رازایں معنی خبر نیست کہ سلطاں جہاں باماست امروز

مصداق کون ہے ۔ ہم یا آپ ؟

پس ثابت ہوگیاکہ آیت زیر بحث میں وارد کے معنی داخل کے ہیں ۔کیونکہ خود قرآن شریف کی شہادت " اشعار عرب کی " شہادت" اوراحادیث کی " شہادت" ہمارے حق میں ہے نہ کہ آپ کے حق میں۔

مولوی صاحب ! میں پھر کہتاہوں کہ آپ بیچارے کیا اگر تمام مسلمان اکٹھے ہوں اور آپ جیسے کروڑوں شیرقالین ان کی مدد میں ہوں تو وہ اسلام میں نجات ثابت نہیں کرسکینگے۔

فصل چہارم

لفظ وارد کا فیصلہ اور دوزخ کا بھرجانا

خدا کے فضل وکرم سے آیت نمبر اول کے لفظ وارد کی تشریح وتوضیح سے ہم فارغ ہوگئے یعنی خود قرآن شریف کی دیگر آیات کے رو سے اور اشعار عرب کے رو سے اوربالتخصیص خود آنحضرت صلعم کی زبانی ہم نے نہایت واضح طورپر ثابت کردیاکہ وان منکم الاوارد دھا میں وارد کے معنی داخل ہونے کے ہیں۔ اور حضرت جابر کی حدیث نے تو بیچارے مولوی ثناء اللہ صاحب کی تمام امیدوں پر پانی پھیر کر اُس کا فیصلہ ہی کردیا کہ وارد کے معنی نہ صرف داخل ہونے کے ہیں بلکہ ہر ایک مسلمان کا خواہ نیک ہو یا بد دوزخ میں داخل ہونا ضروری امرہے۔ دوزخ خواہ گرم ہو یا سرد خواہ وہ اپنے ہمراہ اور کوٹ لے کر جائے یا خس کی ٹٹی اس سے بحث نہیں۔ بحث تو اس سے ہے کہ ہرایک مسلمان کو اس جگہ جانا ہے جس کا نام دوزخ ہے اوریہ ثابت ہوگیا۔

میں لگے ہاتھ مولوی صاحب کو ایک اور پرُ لطف حکایت سنانا چاہتا ہوں جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسانوں اورجنوں سے دوزخ نہیں بھرجائے گا توپھر کس طرح خدا دوزخ کوبھردے گا۔

خدا کا دوزخ کو بھردینا

(مشکوات کتاب الفتن فی خلق الجنتہ والنار)

ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ ہمیشہ آدمی دوزخ میں ڈالے جائینگے۔ اور وہ کہتارہیگا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ عزت والا پروردگار اس میں اپنا قدم رکھیگا تو وہ آپس میں سمٹ جائیگا او رکہیگا کہ بس بس تیری عزت اور بزرگی کی قسم"۔ اس حدیث سے اور ایک اور حدیث بھی ہے جو ابوہریرہ سے مروی ہے اور متفق علیہ ہے۔ اس میں بجائے قدم کے یہ جملہ ہے کہ حتی یصنح اللہ رجلہ یعنی " یہاں تک کہ خدا اس میں اپنا پاؤں رکھیگا۔

ہم مولوی صاحب کی طرح غلط مبحث نہیں چاہتے ہیں ورنہ یہ ضرور پوچھتے کہ اللہ کے پاؤں اور قدم کیسے ؟ اگر درحقیقت آپ اہل حدیث ہیں تو ان احادیث کی تاویل یا تفسیر تو کردیجئے ۔ پھر دیکھئے آپ کو کن کن مصیبتوں کا سامنا ہوگا۔

ناظرین حدیث بالا کو پڑھ کر ضرورت دریافت کرنا چاہتے ہونگے کہ اللہ کو اس طرح دوزخ بھردینے کی کیوں ضرورت لاحق ہوئی۔ اس کی وجہ آیت نمبر دوم بتلاتی ہے جو حسب ذیل ہے۔

(۲۔)شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأَمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين (سورہ ہود آیت 118)۔

ترجمہ: اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بناتا۔ لیکن یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہینگے ۔ مگر جس پر تیرے رب کا حکم ہوا اور خدا نے اُن کو اسی لئے پیدا کیا ہے تاکہ تیرے رب کی یہ بات پوری ہو کہ میں جنوں اورآدمیو ںسے دوزخ بھردونگا"(میں مسیحی کیوں ہوگیا صفحہ ۳۳)۔

لیکن خدا سے یہ بھی تو نہ ہوسکا کہ دوزخ کو انس اور جن سے بھردیتا ۔کیونکہ حدیثوں میں دوزخ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دوزخ اس قدر طویل وعریض ہے کہ تمام افرادِ انسانی اور جن کیا اگرہماری اس زمین کی طرح سترزمینیں بلکہ ستر ہزار زمینیں بھی اس میں ڈال دی جائیں تو اس کا ایک کونا بھی بہ ہزار مشکل بھرسکیگا۔ اس لئے جب اللہ نے دیکھاکہ دوزخ توبھرتا ہی نہیں اور میں وعدہ کرچکا ہوں کہ تجھ کو بھردونگا۔ اس لئے اپنی بات کو پورا کرنے کے لئے اپنے پاؤں کو دوزخ میں رکھا تاکہ اس کم بخت کا پیٹ بھر جائے یہ ہے آیت نمبر دوم کی صحیح تفسیر جو مولوی صاحب کی سمجھ میں اب تک نہیں آئی۔

یہ آیت اس قدر صاف اور غیر مبہم ہے کہ اگر کسی شخص کو ذرا بھی عربی سے واقفیت ہو تو وہ اس کے مفہوم کے سمجھنے میں کچھ بھی دقت محسوس نہ کریگا۔ لیکن بیچارے مولوی صاحب سمجھیں تو کیونکر سمجھیں۔ کچھ تو ان کی اپنی فضیلت کا خیال اورکچھ اپنا حلوہ مانڈے کا فکر اورکچھ شیر قالین کہلانے کا پاس۔ لہذا گر کچھ سمجھیں بھی تو اس کو کس طرح ظاہر کریں۔ چنانچہ انہیں مجبوریوں سے مجبور ہوکر بادل ناخواستہ جس پر اُن کی عبادت شہادت دی رہی ہے یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

" اس مشکل کی آپ نے نہیں بتائی۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ کیا مشکل پیش آئی تھی ۔ اب ہم اس آیت کی تفسیر کردیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ صحیح تفسیر ہی سے آپ کی مشکل حل ہوجائے۔

 

اس میں کیا شک ہے کہ دنیا میں اختلاف رائے ہے نہ صرف دنیاوی کاموں میں بلکہ دنیاوی امور میں بھی۔ نہ صرف بیرونی کاموں میں بلکہ خاندانی امور میں بھی۔ اختلاف کا مبنی دارصل اختلاف فہم ہے جو قدرتی اصول پر مبنی ہے۔ اس قدرتی اختلاف کو ملحوظ رکھ کر قرآن مجید کی آیت مذکورہ میں بتایا گیا ہے کہ باوجود ان اختلافات کے خدا کو قدرت ہے کہ اگر چاہتا تو ان سب لوگوں کو متحد الخیال بنادیا (لاریب فیہ ) اس کے بعد فرمایا انسانی افراد اپنے خیالات میں ہمیشہ مختلف رہینگے اوران کو اسی اختلاف پر پیدا کیاہے۔ مگر جن لوگوں کے تلاش حق کرنے کی وجہ سے اُن پر خدا کی عنایت ہوگی وہ اس اختلاف سے الگ رہ کر سیدھی راہ پرچلینگے اورجو ٹیڑھے چلینگے خدا اُن سے جہنم کو بھریگا

 

یہ ہے اس آیت کی صحیح تفسیر" (اہل حدیث ۲ نومبر 1928ء صفحہ ۳)۔

شیرقالین کی گریز

قصیدوں میں گریز ایک صنعت خوبی سمجھی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے قصیدے کا حسن دوبالا ہوجاتاہے۔ اسی طرح مباحثوں میں اگرگریز صداقت ودیانت کے نام پر اختیار کی جائے اوراس میں روبابازی اورپردہ داری کا مطلق دخل نہ ہو تو نہایت مستحسن سمجھی جاتی ہےورنہ نہایت مذموم اور بددیانتی سمجھی جائیگی ۔ جو لوگ صداقت شعارو است گفتار ہوتے ہیں وہ علی اعلان اپنی شکست کا اظہار کرتے ہیں نہ خود کو دھوکہ دیتے ہیں اور نہ دوسروں کودھوکہ میں ڈالنا چاہتےہیں لیکن شیر پنجاب کو اپنی ہٹ دھرمی اور عزت کا اس قدر پاس ہے کہ مجال کیا کہ سرِ موٹس سے مس ہوجائے ۔ چنانچہ کس بھولے پن سے آپ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ " اس مشکل کی وجہ آپ نے نہیں بتائی ۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ کیا مشکل پیش آئی تھی"۔ آپ کی سمجھ میں کونسی بات آئی جو یہ آتی ۔لیجئے ہم اپنے فرض سے سکبدوش ہوتے ہیں اوراس مشکل کی وجہ ہم آپ ہی کی زبانی آپ کوسناتے ہیں جس کو خدائے برتر نے آپ ہی کی قلم سے اس طرح لکھوایا کہ خود آپ کو بھی اس کی خبر نہ ہوئی وہ یہ ہے کہ:

آیت نمبر ۲ کی مشکلات :

(۱۔) انسانی افراد اپنے خیالات میں ہمیشہ مختلف رہیں گے۔ ان کو اسی اختلاف پر پیدا کیا ہے"۔ جب خدا نے انسان کو اسی اختلاف پر پیدا کیا ہے جو شان خداوند کے سراسر منافی ہے اور وہ آپس میں ہمیشہ مختلف بھی " رہیں گے" اورپھر اسی اختلاف کو جس پر خود خدا نے انسان کو " پیدا کیا" ہے دوزخ میں جانے کا سبب ٹھہرنا کہاں کا عدل اور انصاف ہے ؟ آپ کا یہ کہنا کہ" مگر جن لوگوں کے تلاش حقِ کرنے کی وجہ سے ان پر خدا کی نظر عنایت ہوگی وہ اس اختلاف سے الگ رہ کر سیدھے راہ پر چلینگے " بالکل لغو ہے کیونکہ اگر " خدا کی نظر عنایت " ہوتی تو افرادً انسانی" کو اس "اختلاف" پر پیدا ہی کیوں کرتا ۔ نیز آپ خود لکھ چکے ہیں کہ" انسانی افراد اپنے خیالات میں ہمیشہ مختلف رہیں گے ۔ " انسانی افراد اپنے خیالات میں ہمیشہ مختلف رہیں گے ۔" تو اختلاف" سے کس طرح الگ" رہ سکینگے؟ دیگر یہ کہ انسان جس امر پر نظرتاً پیدا ہوتا ہے وہ اس امر سے کامل طورپر ہرگز " الگ " نہیں ہوسکتا ہے اگر اس پر بھی آپ " شہادت " چاہتے ہیں تو حدیث ذیل ملاحظہ فرمائیے

(مشکوات کتاب الایمان فی الصدر)

ترجمہ: ابی دروبیان کرتےہیں کہ ہم آنحضرت صلعم کے پاس بیٹھے ہوئے آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق گفتگو کرتے تھے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایاکہ جب تم یہ سنو کہ فلاں پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو تم اس کو سچ مانو اور جب تم یہ سنو کہ فلاں شخص کے اخلاق بدل گئے تو تم اس کو سچ مت مانو۔ کیونکہ جوشخص جس بات پر پیدا کیاگیاہے اُسی پر قائم ہوجاتاہے۔

علامہ علی قاری مشکوات کی شرح مرقات میں اس جملہ کی شرح میں یصیرالی ماحیل علیہ

یعنی ہر ایک انسان اسی بات پر قائم ہوجاتاہے جواس کی تقدیر میں پیشتر لکھی جاچکی ہے۔ حتیٰ کہ بزدلی اور عقلمندی وغیرہ بھی تقدیر سے ہیں ۔ جب تم یہ سنو کہ ایک عقلمند شخص جاہل یا کند ذہن بن گیا یا ایک کندذہن شخص عقلمند بن گیا تواس کو سچ مت مانو۔ آنحضرت نے جو پہاڑ ٹلنے کی مثال دی ہے یہ ایک تقریبی مثال ہے ۔جوممکن ہے لیکن اس خلق کا زوال جو پہلے مقرر ہوچکا ہے محال ہے" لہذا " انسانی افراد" کو " اختلاف پر پیدا کرنے اور "اختلاف " بھی ایسا " جو ہمیشہ رہتاہو اورپھر" اسی اختلاف" کوجہنم میں جھونک دینے کا سبب گرداننے کی تاویل بجز اس کے اورکیا ہوسکتی ہے کہ خدا کی نیت انسانوں کے متعلق بخیر نہیں ہے۔

فصل پنجم

مولوی ثناء اللہ صاحب کا اعمالنامہ

وہ نہیں چاہتا کہ کوئی انسان بھی دوزخ سے باہر رہے اس لئے فرمایا کہ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ۔ (۲۔) ذرا سوچ تو لیجئے کہ یہ جملہ کس قدر یا حیرت انگیز اور حوصلہ شکن ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ خدا کو کس امر نے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنی اُس بات کو پورا کرے کہ میں جنوں اور انسانوں کو دوزخ سے بھردونگا اورپھر اس بات کے پورا کرنے کے لئے اختلاف پیدا کرے اوراس اختلاف کے بہانے سے افراد انسانی کو جہنم میں جھونک دے کیا خدا کے " فضل " اور " رحم" کے یہی معنی ہیں ؟ جس کا راگ آپ الاپتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بوجہ پیرانہ سالی یا وہابی ہونے کے صرف دنحول بھول چکے ہیں تو امرتسر کے کسی حنفیہ مدرسہ میں کسی ادنےٰ درجہ کے طالب علم سے جاکر پوچھ لیجئے کہ لاملئن میں لام اورنون کے کیا معنی ہیں اورنیز یہ پوچھئے کہ " ناس" جمع ہے یا واحد اور پھر یہ پوچھ لیجئے کہ ناس پر الف لام کے کیا معنی ہیں اوریہ پوچھ لئجئے کہ اجمعین کس لئے آیا ہے تو وہ طالب علم آپ کو بتلائيگا کہ لاملئن میں لام تاکید یا نون تاکید ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ" ضرور بصد ضرور میں بھردونگا"۔ اورناس کے متعلق یہ بتلادیگا کہ یہ جمع ہے یعنی تمام اصناف انسانی اور الف لام کے متعلق یہ بتلادیگا کہ الف لام استغراق ہے جو تمام افراد انسانی پر حاوی ہے جس کے معنی۔ یہ ہیں کہ " تمام افراد انسانی" اجمعین کی بابت یہ بتلادیگا کہ یہ تاکید معنوی ہے یعنی " سب کے سب"۔

پس اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ کہ " میں ضرور بصد ضرورسب کے سب تمام افراد انسانی سےدوزخ کو بھردونگا"۔ اب ایک سوال اور آپ سے کرکے اس حصہ کو ختم کرتا ہوں وہ یہ کہ آخر آپ بھی تو افراد انسانی میں شامل ہیں۔ آپ کدھر جانا چاہتے ہیں دوزخ کی طرف یا جنت کی طرف ہماری تو یہی دعا ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ جنت میں ہوں۔

ذرہ ذرہ کا حساب کتاب

میں نے ومن یعمل مثقال ذرتہ خیراً یروہ من یعمل مثقال ذرتہ شرایرد (میں مسیحی کیوں ہوگیا صفحہ ۲۵) کی بناء پر یہ دعویٰ کیا تھاکہ اس قسم کی آیات کو پڑھ کر جوبادی النظر میں مرغوب اور تسلی بخش معلوم ہوتی ہیں۔ میرے دل میں یہ سوال پیدا ہواکہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سے نیکی ہی نیکی سرزد ہوجائے اورکسی قسم کی بدی سے ہم سرزد نہ ہو؟ کیا انسان میں ایسی طاقت ہے؟ (میں مسیحی کیوں ہوگیا صفحہ ۲۵، ۲۶) سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے میں نےاپنے رسالہ کے پانچ صفحوں میں مسلسل عقل اورنقلی دلائل سے اس پر بحث کرکے ثابت کردیا کہ بجز حضرت عیسیٰ کے اور کوئی انسان اپنے آپ کو نہ تو گناہوں سے بچا سکا ہے اورنہ بچاسکتا ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ہمارے ان تمام دلائل کو تسلیم کرکے اپنی خاموشی اورسکوت سے یہ ظاہر کردیاکہ درحقیقت انسان کا بے گناہ رہنا ایک امر محال ہے مگرمولوی صاحب نے یہ غضب کیاکہ جس آیت کی بناء پر میں نے یہ دعویٰ کیا تھا آپ نے اس آیت کو درخوراتنا نہ سمجھااور صرف ہمارے دعویٰ کو دلائل سے علیحدٰہ کرکے اختصار کے ساتھ یوں رقم فرمایا کہ

" میرے دل میں یہ سوال پیدا ہواکہ یہ ممکن ہے کہ ہم سے نیکی ہی سرزد ہوتی جائے اورکسی قسم کی بدی ہم سے سرزد نہ ہو؟ کیا انسان میں ایسی مفاقت ہے" صفحہ ۲۶۔ (اہل حدیث ۱۲اکتوبر 1928ء صفحہ ۳ کالم ۳ ) اب آپ کا جواب ملاخطہ ہو آپ فرماتےہیں کہ:

" بس یہ ہے منشا غلطی اورمزلت الاقدام جہاں سے پادری صاحب لغزش ہوئی۔ آپ نے سمجھاکہ قرآن شریف میں جوباربار اعمال صالحہ کی تاکید آئی ہے۔ اس سے مراد یہ ہےکہ انسان کے اعمالنامہ میں نیکی ہی نیکی ہو بدی کا نام ونشان نہ ہو۔ اگر ہم قرآن شریف ہی سے اس عقدہ کو حل کردیں تو غالباً ہمارے بھائی کی غلطی رفع ہوسکتی ہے قرآن مجید کے اُتارنے والے عالم الغیب کو علم تھا کہ اعمال صالحہ کی تاکید پر یہ سوال پیداہوگا۔ اس لئے اس نے پہلے ہی سے اس کا جواب قرآن میں دے رکھا ہے جو غالباً پادری صاحب کی نظر سے اوجھل رہا ۔ لہذا وہ غور سے سنیں ارشاد ہے۔ امامن ثقلت موا زینک فھہ فی عیشتہ راضیتہ۔ جس شخص کے اعمال میں اکثریت اچھی ہوگی وہ نجات پاجائیگا۔

اس ارشاد الہیٰ نےپادری صاحب کے عقدہ کو حل کردیا۔ لاالحمد ۔(اہلحدیث ۱۲اکتوبر 1928ء صفحہ ۲، ۳)۔

 

" آپ نے یہ غلط سمجھا کہ میں نے سمجھا کہ قرآن شریف میں جوباربار اعمال صالحہ کی تاکید آئی ہے اس سے یہ مراد ہے کہ انسان کے اعمالنامہ میں نیکی ہی نیکی ہو بدی کا نام ونشان نہ ہو"۔ میں نے جوکچھ سمجھا آیت بالا سے سمجھا جس کو آپ نے کسی مصلحت سے نقل نہیں کیا۔ یہ آیت اس قدر واضح ہے کہ جس کی توضیح کی ضرورت ہی نہیں ۔ جب ذرہ ذرہ نیکی کی جزا اور ذرہ بدی کی سزا ملیگی تو خواہ نخواہ اس کا نتیجہ یہی نکل آتا ہے کہ جب تک انسان نیکی ہی نیکی نہ کرے۔ اس وقت تک ممکن نہیں کہ وہ نجات حاصل کرسکے۔ کیونکہ اگر اس کے اعمال نامہ میں ذرہ بھی بدی ہو تو اگر خدا اپنے قول میں سچا ہے تو ضرور وہ بدکار شخص اس ذرہ بھربدی کی سزا بھگتے گا"۔ پس میں نے " سمجھا" نہیں بلکہ یہ قرآن شریف کا ایسا ناطق فتویٰ ہے۔ جس کے سامنے باقی فتویٰ باطل ہیں۔ پس میں نے نہیں" سمجھا" بلکہ خود قرآن شریف نے سمجھایا۔ آپ کا مندرجہ بالا آیت کو پیش کرنا " امامن ثقلت" آپ کی قرآن فہمی کا بین ثبوت ہے۔

فصل ششم

مولوی ثناء اللہ صاحب اب کیا کرینگے

خیر جب مولوی صاحب سے آیت محولہ بالا کا جواب نہ بن سکا تو آپ نے بمصداق ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ اس آیت کو پیش کیاکہ" فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ " بیچارے کو اتنا بھی خیال نہیں رہا کہ اس آیت میں اور آیت موحولہ بالا میں کھلا اختلاف ہے یعنی آیت محولہ بالا میں صاف طورپر یہ اعلان ہے کہ جو شخص ذرہ بھر بھی نیکی یابدی کرے گا وہ اسکی جزا یا سزا کو بھگتیگا۔ اور آیت امامَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ میں یہ اعلان ہے کہ نہیں ذرہ ذرہ کا حساب غلط ہے بلکہ " جس کے اعمال میں اکثریت اچھی ہوگی وہ نجات پاجائیگا" اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے فرض کیجئے کہ زید کے اعمالنامہ میں سو نیکی ہیں اور دس بدی ہیں۔ ظاہرہے کہ زید کے "اعمال میں اکثریت اچھی " ہے۔ لہذا مولوی صاحب کے عندیہ کی بناء پر زید کی دس بدیوں کی باُز پرس نہ ہوگی اور وہ سیدھا جنت کو سدھاریگا۔ لیکن یہ آیت وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (ترجمہ: اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ سورہ الزلزۃ آیت 8 )ذرہ الخ یہ کہتی ہے کہ مولوی ثناء اللہ غلط کہتے ہیں بلکہ ذرہ ذرہ کاحساب ہوگا۔ یعنی زید کو اُن دس بدکاریوں کا بھی مواخذہ ہوگا۔ جو زید سے سرزد ہوئی ہیں۔

میں پوچھتا ہوں کہ اگر خدا کو یہی منظور تھا کہ" جس کے اعمال میں اکثریت اچھی " ہو " وہ نجات پاجائے گا" تو آیت وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ کےنازل کرنے کی کیاضرورت تھی؟ کیا یہ صرف دھمکی ہی دھمکی ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگریہی ہے توپھر سارے قرآن شریف کا خدا حافظ ہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کی بُرھان تطبیق

اس آیت میں ایک اور بڑی قباحت ہے وہ یہ کہ اگر مولوی صاحب نے دروغ مصلحت آمیز سے کام نہیں لیا ہے تو ازروئے قرآن شریف ہر ایک انسان کو کم از کم وہاں تک گناہ کرنے کی اجازت ہے ۔ جہاں تک اس کے گناہ ایک ڈگری اُس کی نیکیوں سے کم ہوں مثلاً بقول مولوی صاحب اگر زید نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتاہے تو اگر وہ زنا کرے تو وہ جنت میں جائے گا ۔ کیونکہ ایک گناہ کے مقابلہ میں دونیکیوں میں " کثرت" اچھی ہے اسی طرح اگر زید نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے حج کرتاہے تو اگر وہ جھوٹ بولے اور چوری کرے تو وہ سیدھا جنت کو سدھاریگا ۔ کیونکہ دوگناہ کے مقابلہ میں تین نیکیوں کی " کثرت اچھی " ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اگر زید نماز پڑھتاہے روزہ رکھتا ہے حج کرتا ہے زکواة دیتا ہے ۔ اگر وہ شراب پئے جوُا کھیلے، قتل کرے تو وہ بلاشک سیدھا جنت میں جائے گا ۔ کیونکہ تین گناہوں کے مقابلہ میں چار نیکیوں میں کثرت اچھی ہے "۔ اگر اگر آپ مولوی ثناء اللہ صاحب کے عندیہ کے موافق ازطریق بالانیکوں اوربدیوں کامقابلہ کرتے جائیں تو وہ شخص جس کی نیکیوں اوربدیوں میں سو اورننانوے کابھی فرق ہو یقیناً جنت میں جائے گا۔

پس ہو جیو بشارت واسطے مولوی ثناء اللہ کے ہے نام جن کا مختلف اور زبانوں کے مختلف لوگوں کی بھی واسطے اُن کے جو چلتے ہیں پیچھے پیچھے اُن کے ساتھ خطاب اہلحدیث کے کہ جاؤ گے تم بیچ جنت کے اگر ہو اوپر تمہارے گناہوں کے زیادہ ایک نیکی بھی۔ پس کرو تم گناہیں اور اڑاؤ تم گلچھڑے ہوسکیں جتنے بھی تم سے ۔ مگر ساتھ اس شرط کے رکھیو حساب اس بات کا کہ رہے بیچ اعمال تمہارے ایک درجہ زيادہ اوپر تمہارے گناہوں کے ۔

فلسفہ کی کتابوں میں بہت سے براہین ہیں جن میں سے ایک نام " برہان تطبیق ہے۔ متکلمین اس سے یہ استدلال کرتےہیں کہ دنیا محدود ہے۔ لیکن مولوی صاحب نے یہ استد لال کیا ہے کہ اگر گناہ بمقابلہ نیکی کے محدود ہو تو اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ خواہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔ یہ ہے اسلام کی نجات جس پر ہمارے اہلحدیث دوست کو بہت کچھ ناز ہے۔

شائد اسی آیت بالا کی بناء پرمولوی ثناء اللہ صاحب نے گورداسپور کی عدالت میں حلفیہ بیان دیاتھاکہ " دروغ گو۔ جعلساز ، بہتان باندھنے والا ۔ افتراباندھنے والا۔ دغا دینے والا ایک معنی سے متقی ہے۔ بشرطیکہ توحید پر قائم ہو"۔ ہم ناظرین کی دلچسپی کے لئے مولوی صاحب کے حلفیہ بیان کی نقل اخبار بدرقادیان مورخہ 16 جون 1910ء سے ذیل درج کرتےہیں ۔ تاکہ ناظرین کو اسلام کی نجات اچھی طرح سمجھ میں آجائے وہ یہ ہے :

" نقل حلفیہ بیان مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

درعدالت لالہ آتما رام صاحب سابق مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور

نماز پڑھنے والا ، زناکرنے والا ایک قسم کا متقی ہے۔ قرآن کاکووی حکم توڑنے والا بھی متقی ہوسکتاہے۔ دروغ گو میں اگر اوصاف شرعیہ ہیں تو وہ ایک معنی میں متقی ہوسکتا ہے (قرآن حمائل ترجمہ نذیر احمد) اس کے ۸۰ صفحے پر جن متقیوں کا ذکر ہے وہ یہ ہیں صبر کرنے والے۔سچ بولنے والے اور خدا کی تابعداری کرنے والے اوراللہ کی راہ میں خرچ کرنے ولے اور صبح کے وقت بخشش مانگنے والے۔ یہ تمام صفات اس متقی میں ہونی چاہیے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ یہ خاص متقی ہیں اگران صفتوں میں سے کوئی صفت جاتی رہے تو ان معنوں میں متقی نہ ہوگا۔ یہ تعریف قرآن کے خاص اس قسم کے متقیوں کی ہے۔ جن کا ذکر اس میں ہے۔ قرآن کی پہلی آیت میں جو متقی ہیں اوراس آیت میں جو متقی ہیں اُن میں فرق ہے۔ ایک شخص جھوٹ بول کر پہلی آیت کےمعنوں میں متقی ہوسکتاہے ۔ بشرطیکہ اوراحکام کا پابند ہو۔ اگر ہمیں اس کے دیگر احکام کی پابندی کا علم نہیں ہے توہم اسے متقی سے الگ نہیں کرسکتے۔ جھوٹ بولنا ہر حالت میں ایک معنی سے منع ہے یعنی گناہ ہے۔ فاسق ایک معنی سے متقی ہوسکتاہے ۔ جھوٹ فجوری یعنی گناہ فاسق ایک معنی سے متقی ہوسکتاہے۔ جھوٹ فجوری یعنی گناہ فاجر کا مادہ فجوری کاذب ایک معنی میں قاصر ہے۔ ایک شخص برامل تقویٰ حاصل کرکے کریم شریعت میں کہلاسکتاہے ۔ میں شرعی حیثیت سے کہونگا ایک شخص شریف الطرفین تقویٰ چھوڑ کر میرے علم میں لئمیم نہیں ہے۔ شرعی لحاظ سے کریم نہیں ہوتا۔ شرعی احکام کےلحاظ سے لیئم ہوگا۔ بشرطیکہ اس میں کل عیب شرعی پائے جائیں۔

دروغ گو۔ جعلساز ، بہتان باندھنے والا ۔

افترا باندھنے والا ۔ دغا دینے والا ایک معنی سے متقی ہے۔

بشرطیکہ خدا کی توحید پر قائم ہو"۔

یعنی جو کچھ چاہو سوکرو ۔ صرف لاالہ اللہ پڑھو تو سیدھے جنت میں جا بسوگے۔ یہی وہ بات ہے جس کے متعلق میں نے اپنے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں لکھا تھا کہ اسلام میں نیک اعمال صرف ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں اورایک حدیث کو بطور سند کے نقل کیا تھا۔ جس کے جواب سے مولوی صاحب ایسے قاصر رہے ہیں کہ گویا وہ حدیث میرے رسالہ بالا میں ہے ہی نہیں اور وہ حدیث یہ ہے۔

ترجمہ: " ابی ذر نے کہا میں حضرت صلعم کے پاس آیا آپ سورہے تھے اور آپ پر سفید کپڑا تھا۔ جب میں پھر آیا تو آپ جاگتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہرایک بندہ جو لا الا اللہ کہے اور اس پر مرجائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہاکہ اگرچہ وہ چور یا زناکار ہو۔ آپ نے کہا اگرچہ چوریا زانی ہو۔ پھر میں نےکہا کہ اگرچہ وہ چور یا زانی ہو۔ آپ نے فرمایا اگرچہ چور یا زانی ہو۔پھر میں نے کہا اگرچہ وہ چور یا زانی ہو۔ آپ نے کہا اگرچہ وہ چور یا زانی ہو ۔ اگرچہ یہ بات ابوذر کو ناگوار معلوم ہوتی ہے "(میں کیوں مسیحی ہوگیاصفحہ ۳۵)۔

فصل ہفتم

مولوی ثناء اللہ صاحب کا خاتمہ

میں اس آیت وامامَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ الخ پر ایک اورپہلو سے بحث کرونگا۔ اول یہ کہ اگر مولوی صاحب کا استدلال اس آیت سے درست بھی ہوتب بھی کوئی انسان نجات نہیں پاسکتا ہے۔ کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں ہے۔ جس کے اعمالنامہ میں " اکثریت اچھی ہو"۔ دوئم یہ کہ اسلام کے رو سے اعمالنامہ میں اکثریت شایانِ التفات نہیں ہے۔

امراول کے متعلق قرآن شریف کی شہادت یہ ہے کہ " وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ "((سورہ النمل آیت ۶۳) یعنی" اگر پکڑے اللہ لوگوں کو اُن کے ظلم پر تو نہ چھوڑے زمین پر ایک چلنے والا "۔ اس آیت میں دوباتیں قابل غور ہیں۔ اول لفظ " ظلم"۔ دوم اسکی نسبت ، لوگ سمجھتے ہونگے کہ ظلم کوئی معمولی بات ہے۔لیکن قرآن شریف کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ظلم کوئی معمولی بات نہیں بلکہ وہ ایک سخت گناہ ہے جس کے کرنے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ کہ لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (سورہ الاعراف آیت ۴۴)۔ دوسری قابلِ غور بات ظلم کی نسبت ہے آیت بالا میں ظلم کی نسبت تمام افراد انسانی کے ساتھ دی گئی ہے۔ کیونکہ اول تو ناس خود صیغہ جمع ہے اورپھر اس الف لام استغراق کے اضافہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ تمام افراد انسانی ظالم ہیں۔ اس قدر تحلیل کے بعد اب آپ نفسِ آیت پر غور کریں کہ خدا کہتاہے کہ " اگر پکڑے اللہ لوگوں کو اُن کے ظلم پر تو نہ چھوڑے زمین پر ایک چلنے والا " ۔ یعنی اگر خدا انسانوں سے اُن کے گناہوں کا حساب لے توایک شخص بھی ایسا نہیں جو بچ سکے ۔ جس کا صاف اورواضح مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے اعمالنامہ میں " اکثریت اچھی " ہو کیونکہ اگر کسی کے اعمالنامہ میں " اکثریت اچھی" ہوتی تو وہ کیوں نہ بچتا ضرور بچ جاتا۔

ہماری تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔

ترجمہ: حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایاکہ کوئی شخص ایسا نہیں جس سے قیامت کے دن حساب لیا جائے اوروہ ہلاک نہ ہو۔ حضرت عائشہ نے کہاکہ یارسول اللہ کیا خدا نے قرآن میں یہ نہیں فرمایاکہ جس شخص کا اعمال نامہ اُس کے دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔ آنحضرت صلعم نے جواب دیاکہ یہ صرف پیش کرناہے۔ ہم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ قیامت کے دن حساب میں چون وچرا کرے اور وہ عذاب میں مبتلا نہ کیا جائے"یہ اوربات ہے کہ خدا مواخذہ کرے یا نہ کرے ہمیں اس سے کچھ سروکار نہیں۔ ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ کسی انسان کے اعمال نامہ میں "اکثریت اچھی" نہیں ہے ۔ چنانچہ یہی ثابت ہوا۔

باقی رہا امر دوم۔ یعنی یہ کہ اسلام کے روسے اعمالنامہ میں نیکی کی " اکثریت " شایانِ التفات نہیں ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہے جن کو میں اپنے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں نقل کیا ہے ۔ جن کو مولوی صاحب نے چھوا تک نہیں ۔ ناظرین سے التماس ہے کہ وہ رسالہ مذکورہ بالا کے صفحہ ۲۷ تک ملاحظہ فرمائیں۔ یہ وہ احادیث ہیں جن کے جواب سے اب تک مولوی صاحب سبکدوش نہ ہوسکے۔

اور نہ تابہ قیامت سبکدوش ہوسکیں گے۔

آپ آگے چل کر ارقام فرماتے ہیں کہ:

"پادری صاحب نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت آدم جو بھولے تو ان کی ساری اولاد بھولنے لگی اس حدیث سے آپ نے نتیجہ نکالا ہے ۔کہ

اس حدیث سے اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ درحقیقت کل بنی آدم گنہگار ہیں۔ کیونکہ گناہ نے سب میں نفوذ کیا" (صفحہ ۲۸)۔ حیرانی ہے پادری صاحب کس کوشش میں ہیں اور اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہیں۔ حدیث میں نسیان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان میں فطرتاً نسیان (بھولنا) داخل ہے۔عدم نسیان خدا کا خاصہ ہے۔ چنانچہ قرآن میں اشارہ ہے ۔ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا تمہارا پروردگار نہیں بھولتا "(سورہ مریم آیت 64)(اہل حدیث ۱۲اکتوبر 1928ء صفحہ ۳ کالم ۲)۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کی دیانتداری

آپ لکھتےہیں کہ" پادری صاحب نے ایک حدیث نقل کی ہے" وہ حدیث کہاں ہے شاید مولوی صاحب کے پیٹ میں! اگر آپ درحقیقت شیر قالین نہیں تو آپ نے اس حدیث کو بجنسہ نقل کیوں نہیں کیا آپ کی دیانتداری کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ بندگان خدا کودھوکے میں ڈال کر اُن کو یہ یقین دلارہے ہیں کہ " پادری صاحب نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آدم جو بھولے اُن کی ساری اولاد بھولنے لگی"۔ حالانکہ جس حدیث کو میں نے نقل کیا ہے نہ تواس کی عربی میں لفظ " بھولنا" ہےاور نہ ہی اس کے ترجمہ میں جس حدیث کو ہم نے نقل کیا ہے اس میں تین لفظ قابلِ غور آئے ہیں یعنی (۱۔) حجد۔(۲۔) نسی (۳۔) خطاء ۔ مولوی صاحب نے ان تینوں لفظوں میں سے صرف لفظ " نسی" کو لے لیا ہے اوراس کا غلط ترجمہ کرکے اپنےہم خیالوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ بس پادری سلطان محمد کا جواب ہوچکا۔ حالانکہ لفظ نسی کے معنی بھولنے کے نہیں بلکہ ترک کرنے کے ہیں۔ اچھا اس لفظ کو جانے دو آپ کا ترجمہ ہی صحیح لیکن لفظ حجد کےمتعلق جس کےمعنی انکار اور لفظ خطا کے متعلق جس کے معنی گناہ کے ہیں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ کچھ بھی نہیں سراسر خاموشی ۔ آپ کی کمزوری کا ایک بین ثبوت یہی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو نقل ہی نہیں کیا ۔ کیونکہ اصل میں ایسے الفاظ ہیں جن کی تاویل آپ کرہی نہیں سکتے۔ لیجئے میں پھر اس حدیث کو ذیل میں لکھتا ہوں تاکہ آپ کی دیانتداری کی حقیقت سب پر ظاہر ہوجائے۔ وہ حدیث یہ ہے :

مشکوات باب الایمان ۔ لقد۔

ترجمہ: ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلم نے فرمایا۔ جب خدا نے آدم کو خلق کیا اُس کی پشت کو چھولیا۔ پس آدم کی پشت سے اُس کی اولاد کی جانیں جن کو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے ٹپکنے لگیں اور ہرایک انسان کی دوآنکھوں کے بیچ میں اپنے نور کی روشنی رکھی۔ اس کے بعد اُن کو آدم کے سامنے پیش کیا ۔ آدم نے کہا اے رب یہ لوگ کون ہیں۔ خدا نے کہا یہ تیری اولاد ہیں۔ پس آدم نے ان میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی دوآنکھوں کے بیچ کی روشنی آدم کو پسند آئی ۔ آدم نے کہا اے رب یہ شخص کون ہے ۔خدا نے کہا داؤد ہے۔ آدم نے کہا اے رب اس کی عمر کو آپ نے کیا مقرر کیا ہے۔ خدا نے کہا ساٹھ سال آدم نے کہا خداوند میری عمر چالیس برس اس کی عمر میں زیادہ فرمائيے۔ آنحضرت صلم نے فرمایا کہ جب آدم کی عمر ختم ہونے کوآئی بجز اس چالیس کے (جوداؤد کو دئیے تھے ۔ سلطان) ملک الموت آدم کے پاس حاضر ہوا پس آدم نے کہا کہ کیا میری عمر میں سے چالیس برس باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہا کیا تو نے اپنے بیٹے داؤد کو نہیں بخشا تھا؟ پس آدم کے انکار سے اس کی ذریت انکاری ہوئی ۔ اورآدم کی نسیان سے جو شجر ممنوعہ میں سے کھایا اُس کی اولاد بھی ناسی ہوئي ۔ آدم نے خطا کی اُس کے لڑکے کے بھی خاطی ہوئے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیاہے "۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آدم کا اپنے وعدے کو ترک کرنا اورآدم کا انکار کرنا اورگناہ کرنا اُن کی ذریت میں منتقل ہوگئے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ" عدم نسیان صرف خدا کا حصہ ہے" اورنسیان مستلزم گناہ نہیں ۔ بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن شریف میں صاف لکھاہوا ہے کہ خدا بھولتا بھی ہے اورنسیان پر سزا بھی دیتاہے جو مستلزم گناہ ہے۔ آیت ذیل کے غور سے ملاحظہ کریں:

فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ(سورہ سجدہ آیت ۱۴)۔

ترجمہ: " سو اب چکھو مزا جیسے بھلادیا تھا اس اپنے دن کا ملنا ہم نے بھلادیا تم کو اورچکھو عذاب ہمیشہ کا بدلا اپنے کئے کا"۔

جو کچھ مولوی ثناء اللہ صاحب نے میرے رسلہ کے متعلق لکھا تھا اس کا جواب الجواب یہاں پر ختم ہوتاہے۔ ناظرین سے التماس ہے کہ ان کو بغور پڑھیں ۔ اب ہم مولوی صاحب کے ان اعتراضات کا جواب لکھتے ہیں جو الزامی طورپر ہم کئے ہیں۔

فصل ہشتم

مولوی ثناء اللہ صاحب کے الزامی جوابات پر نظر

مولوی ثناء اللہ صاحب جب میرے رسالہ کے جواب لکھنے سے نہایت بے بسی اور بے کسی کے ساتھ قاصر رہ گئے ۔ یعنی اسلام میں نجات ثابت نہ کرسکے تو الزامی جوابات کی آڑ میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ اورالزامی جوابات بھی ایسے پُرانے اوربوسیدہ کہ دقیانوس کے زمانے میں سے بھی برسوں آگے کے ہیں۔ بہ مصداق ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ مولوی صاحب نےاپنی بہتری اسی میں دیکھی ۔ چنانچہ آپ رقم فرماتے ہیں کہ:

" مسیح علیہ السلام نے بھی اعمال شرعیہ پر عمل کرنے کی بہت تاکید کی ہے چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں تو زندگی میں داخل ہوا چاہتاہے ۔ تو حکموں پر عمل کر۔(انجیل متی ۱۹باب ۱۸)۔

بس مختصر جواب تو یہی ہے کہ جس وجہ سے آپ نے اسلام کو چھوڑا یعنی احکام شرعیہ پر آپ خوف زدہ ہوئے وہی خوف انجیل میں بھی موجود ہے"(اہلحدیث ۵اکتوبر1928ء صفحہ ۳)۔

پھر آپ اہلحدیث مورخہ ۱۲اکتوبر 1928ء صفحہ ۳ میں لکھتے ہیں کہ:

" ہمارا خیال ہے کہ جس طرح پادری صاحب کی نظر سے یہ آیت قرآنی اوجھل رہی ہے۔ انجیل کا ایک مقام بھی انہوں نے نہیں دیکھا۔ دیکھا تو غور نہیں فرمایا۔ ورنہ پادری صاحب اگر اعمال صالحہ سے گھبراکر اسلام سے برگشتہ ہوئے تھے تو ادھر سے ہٹ کر عیسائی مذہب میں نہ جاتے ممکن تھا آزاد ہوجاتے لیکن مسیحی نہ ہوتے۔ پس پادری صاحب غور سے سنیں مسیح فرماتےہیں۔

" جو کوئی ان (تورات) کے حکموں میں سب سے چھوٹے کو ٹال دے اور ویسا ہی آدمیوں کو سکھادے آسمان کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہلائیگا ۔ کیونکہ میں کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں (علماء یہود) سے زیادہ نہ ہو تم آسمان کی بادشاہت میں کسی طرح داخل نہ ہوگے"(انجیل متی باب ۵ فقرات ۱۹: ۲۰)۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اناجیل میں اعمال صالحہ پر بے حد" تاکید" ہے۔ یہاں تک کہ قرآن شریف کی " تاکید" اس کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے لیکن قرآن شریف کی " تاکید" میں اور اناجیل کی " تاکید" میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ قرآن شریف کی تاکید کے معنی خدا کے ساتھ تجارت کرنا ہے ۔ چنانچہ خود مولوی صاحب نے ذیل کا شعر لکھ کر اس کی تصدیق کی ہے کہ:

جی عبادت سے چرانا اورجنت کی ہوس
کام چور اس کام پر کس منہ سے اُجرت کی ہوس

(اہلحدیث ۴اکتوبر 1928ء صفحہ۳)

اناجیل کی " تاکید" کے یہ معنی ہیں کہ ہرایک حالت میں خدا کی " عبادت" کرنی لازمی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اُس کو عبادت کی " اجرت" میں " جنت " ملےیا عبادت نہ کرنے کی سزا میں دوزخ ملے۔ ہم خدا کے فرزند ہیں۔ سعادتمند فرزندوں کا فرض ہے کہ اپنے باپ کے فرمانبردار اور مطیع رہیں خواہ اُن کا باپ ان کو انعام دے یا نہ دے۔ غرضیکہ مسیحیوں کے اعمال صالحہ میں خوف اور جاء کو مطلق دخل نہیں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اناجیل میں ایک آیت بھی نہیں ہے جو اس پر دلالت کرے کہ نجات اعمال صالحہ پر موقوف ہے۔ برعکس اس کے اناجیل میں سینکڑوں ایسی آئیتیں موجودہیں جو نجات کو صرف ہمارے منجی کی ذات پر منحصر بتلاتی ہیں۔ چنانچہ ایسی چند آئتیں ہم نے اپنے رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں نقل کی ہیں۔ (دیکھو رسالہ بالا کے صفحہ ۳۹۔ ۴۲ آیت تک)۔

مولوی صاحب چونکہ اناجیل کی اصطلاحات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے اناجیل میں جہاں کہیں ان کو لفظ " آسمان کی بادشاہت " مل گیا انہوں نے وہاں یہ سمجھا کہ اس سے مراد" نجات" ہے۔ چنانچہ آپ اہل حدیث مورخہ ۱۲اکتوبر 1928ء کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ " انجیل کے محاورہ میں نجات کو آسمان کی بادشاہت کہا گیا ہے" حالانکہ انجیل کے محاورہ" میں آسمان کی بادشاہت" نجات یافتہ یعنی مسیحیوں کا مقام ہے۔ نہ کہ " نجات" اور مقام سے مراد انجیل جلیل کا دائرہ اثر ہے جس کو ہم کلیسیا کہتےہیں۔ چنانچہ جن آیات کو آپ نے نقل کیا ہے خود ان میں اس کی تشریح موجود ہے کہ" آسمان کی بادشاہت سے نجات" مراد ہوتی ہے تو آسمان کی بادشاہت میں چھوٹا کہلانے کے کچھ بھی معنی نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی گنہگار اس میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوسکتا تو وہ اس میں کس طرح چھوٹا کہلایا جاسکتاہے۔

نیز ایک اور آیت میں خداوند نے اور واضح طورپر بیان فرمایا ہے کہ دیکھو خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان ہے"(لوقا ۱۷: ۲۱)۔ پس جہاں کہیں اناجیل میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں وہاں اُن کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو ایسا ایسا کام کرتاہے ایک ناقص مسیحی سمجھا جائیگا اور اس آیت کا اور اس قسم کی دوسری آیتوں کا مطلب کہ " اگر تمہاری ، راستبازی فقیہوں اور فریسیوں سے زیادہ نہ ہو تو تم آسمان کی بادشاہت میں کسی طرح داخل نہ ہوگے۔ یہ ہے کہ اگر تم اپنی تمام بدکرداریوں اور گناہوں کو ترک نہ کروگے تو تم مسیحی جماعت میں کبھی داخل نہ ہوسکوگے کیونکہ مسیحی ہونے کے معنی یہی ہیں کہ گناہوں سے متنفر ہونا اور راستبازی کی زندگی بسر کرنا ۔

پس اناجیل میں اعمال صالحہ پر اس لئے " تاکید" ہے کہ اعمال صالحہ ایمان یعنی مسیحی ہونے کی خاص علامت اور راستبازی کا نشان ہے یعنی ایک شخص کا مسیحی ہونا اس کے اعمال سے معلوم ہوجاتاہے ۔ اگر اس کے اعمال انجیل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں تو وہ ایک ایماندار اورکامل مسیحی ہے اور اگر اس کے اعمال میں کچھ کسر باقی ہے تو وہ ایک ناقص یعنی چھوٹا ۔ مسیحی کہلائیگا اور اگر وہ بالکل بدکردار شخص ہے یعنی انجیل جلیل کے احکام کے برخلاف چلتاہے تو مطلق حقیقی مسیحی نہیں ہے۔

ناظرین کو یاد ہوگاکہ میں نے اپنے رسالہ میں قرآن شریف کی وہ آیت نقل کی تھی جس میں یہ لکھا ہواہے کہ " ہر ایک شخص کو دوزخ میں داخل کرنا خدا پر فرض ہوچکاہے ۔ مولوی صاحب نے اس آیت کے بالمقابل انجیل جلیل کی اس آیت کو پیش کیاہے کہ " ہر ایک شخص آگ سے نمکین کیا جائے گا"(مرقس ۹: ۴۹)۔ بیچارے مولوی صاحب کو اس آیت میں لفظ " آگ " کیا مل گیا گویا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد دوزخ کی " آگ " ہے۔ یہ صرف جناب ہی کے ذہن رسا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خود آنحضرت صلعم نے بھی اس آگ کو دوزخ کی " آگ" سمجھ کر وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا کہ صورت میں قرآ ن شریف میں شامل فرمایا۔ چنانچہ میں نے ان دونوں آیتوں کو " ہمارا قرآن" میں بالمقابل نقل کیا ہے۔ میرے نقل کرنے کا مقصد صرف اس قدر تھا کہ وہ لوگ جو بائبل مقدس سے واقف ہیں اس امر کا اندازہ کرسکیں کہ آنحضرت کو بائبل مقدس کی آئتوں کے نقل کرنے میں اس قدر شغف اورانہماک تھاکہ جو آیت بھی آپ کو مل جاتی تھی اُس کے مفہوم سے قطع نظر کرکے قرآن شریف میں شامل فرماتے تھے۔

مرقس کی آیت مافوق میں آگ سے مراد روح القدس ہے جو پاکیزگی کا سر چشمہ ہے جس کی تائید لفظ نمکین کرتاہے جو پاکیزگی کی علامت ہے۔ انجیل جلیل میں بیسیوں جگہ روح القدس کو آگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جن میں سے ہم بطور نمونہ کے صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں۔ غور سے سنئے۔ اور" انہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائیں دیں اور اُن میں ہر ایک پر آٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھرگئے"(اعمال ۲: ۳، ۴)۔ لفظ نمکین کے متعلق ہم لکھ آئے ہیں کہ انجیل مقدس کی اصطلاح میں اس کے معنی پاکیزگی کی علامت کے ہیں۔ چنانچہ خود ہمارے منجی نے اپنے شاگردوں کو نمک سے تشبیہ دی ہے کہ" تم دنیا کے نمک ہو"(متی ۵: ۱۳)۔ پس آیت مافوق کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص پاکیزگی حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ تاوقتیکہ روح القدس سے بہر ہ یاب او رمعمور نہ ہوجائے اور اس کے بعد ہمارے منجئی نے اپنے شاگردوں کو یہ خوشخبری سنا ئی کہ ہر ایک سچے مسیحی پر روح القدس اُتریگا اوراُس کی زندگی نمکین یعنی پاکیزہ زندگی بن جائے گی۔

اگر سیدنا مسیح کا مقصد اس " آگ سے دوزخ" کی " آگ" ہوتا تو اس کے ساتھ لفظ نمکین استعمال نہ فرماتے۔ لفظ نمکین کا فرمانا ہی اس کی کافی دلیل ہے کہ اس " آگ" سے مراد روح القدس ہے نہ کہ دوزخ کی " آگ"۔ اب آیا سمجھ میں!

فصل نہم

مولوی ثناء اللہ صاحب کی نیکی اور بدی

ہم گذشتہ اوراق میں اعمال صالحہ کی تشریح اوراہمیت بیان کرکے یہ واضح کرچکے ہیں کہ مسیحیت میں اعمال صالحہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ناظرین کو مولوی صاحب کا وہ قول یاد ہے کہ!

" بے شک اعمال شرعیہ اتنی حیثیت نہیں رکھتے کہ دنیاوی نعماکا شکر ادا ہونے کے بعد نجات" اخروی کے لئے بھی علت ہوسکیں۔ ہاں محض اُس کا فضل ہی فضل ہے کہ چند لمحوں کی اطاعت کو دائمی راحت (نجات) کا موجب بنادیا۔ یہ تشریح ہے حدیث مذکور کی ۔۔۔۔۔۔کیا وجہ کہ پہلے تو اعمال کے موجب نجات ہونے سے انکار کیا۔پیچھے اعمال کی تاکید فرمائي۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم بتاآئے ہیں کہ اعمال اپنی ذاتی حیثیت سے ہرگز موجب نجات نہیں۔ مگر بیکار بھی نہیں"۔

(اہلحدیث مورخہ 9نومبر 1928ء صفحہ ۳)

توظاہر ہے کہ ہم میں اورمولوی صاحب میں اب کوئی اصولی اختلاف باقی نہیں رہا اورمولوی صاحب کو عبارت بالا کے لکھنے کے بعد خیال آیا۔ یا کسی نے خیال دلایا کہ آپ نے تو اسلام کے اصل اصول پر پانی پھیردیا۔ جب مسلمان آپ کے اس بیان کوپڑھینگے تو آپ کو کیا کہینگے" تومجبور اً آپ کو اس تامل رکیک سے کام لینا پڑا کہ ہم اعمال شرعیہ کو بحکم خدا( یجعل جامل) موجب نجات مانتے ہیں ۔

مولوی صاحب چونکہ نرے اہلحدیث ہیں اُن کو ان پیچیدگیوں کا جوفلسفہ کے کسی غلط مسئلہ سے پیداہوجاتی ہیں علم نہیں ہے۔ اگران کو اس گمراہ کن مسئلہ کے نتیجہ کا کچھ بھی علم ہوتا توہرگز اس قسم کا سقسطیانہ خیال ظاہر نہ فرماتے ۔

مولوی صاحب کے اس قول کا مفاد یہ ہے کہ دنیا میں نیکی اور بدی جن کو فلسفہ میں حسن و قح کہتے ہیں بذات خود کوئی چیز نہیں بلکہ جس چیز کو خدا (جاعل) بد(بُرا) ٹھہرائے خواہ وہ چیز بذات خود کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو وہ بدیعنی بُری ہے۔ اورجس چیز کو خدا (جاعل) نیک (اچھا) ٹھہرائے خواہ وہ چیز بذات خود کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو وہ نیک یعنی اچھی ہے۔ مثلاً چوری کرنا، جھوٹ بولنا، فریب دینا، ظلم کرنا بذات خود برُے نہیں ہیں۔ چونکہ خدا نے ان کو بُرا ٹھہرایا ہے لہذا وہ بُرے ہیں اسی طرح صداقت، دیانت، عدالت بذات خود اچھی نہیں ہیں۔ چونکہ خدانے ان کو اچھی ٹھہرایا ہے لہذا وہ اچھی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلیگا کہ اگر خدا اس قضیہ کو منعکس کردے یعنی قتل غارت ، ظلم ، کذاب کو اچھا ٹھہرائے تومولوی صاحب شوق کے ساتھ ان پر عمل کریں گے۔

اگر آپ دنیا کے کسی طبقہ میں جائیں حتیٰ کہ آپ دنیا کے دہریوں ، ملحدوں اورلامذہبوں کے طبقہ میں جاکر اُن سے دریافت کریں تو یہی جواب دینگے کہ ظلم وجھوٹ وغيرہ ذالک ہر حالت میں بُرے ہیں ۔ اور عدل وصداقت ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ اگر نیکی وبدی کا معیار الہام ہی ہوتا تو ان لوگوں کو جن کو الہام کا علم تک نہیں ہے۔ کیونکر اس کا علم ہوتاکہ ظلم وغيرے بُرے ہیں اور عدل وغیرہ اچھے ہیں۔

بخدا میرا ارداہ تھا کہ اس تباہ کن اورمخرب اخلاق مسئلہ سے جو نتائج پیدا ہوئے اُن سب کو بلاکم وکاست سپرد قلم کردوں۔ لیکن کیا کروں پھر بھی مجھے اسلام کا خیال ہے۔ میں نہیں چاہتاکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی غلطی سےاسلام کا وہ اہل حدیثانہ پہلوپیش کروں جن کو دیکھ کر لوگ محوحیرت ہوجائیں۔

کاشکہ مولوی صاحب کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ خدا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اچھے کوبُرا اوربرُے کو اچھا ٹھہرائے۔ بلکہ خدا کا کام یہ ہے کہ جو چیز اچھی ہے اس کو اچھی اور جو برُی ہے اسکو برُی بتلاکر ہمیں اچھی چیزوں کے اختیار کرنے اور نہ برُی چیزوں سےبچنے کاحکم دے اورہر ایک پر بالترتیب جزاوسزا مرتب کرے ۔

جعل جاعل کے متعلق مولوی صاحب نے ایک مثال پیش کی ہے جوآپ کے لئے تو مفید نہیں۔ البتہ ہمارے لئے مفید ہے۔ اس پر ذرا بھی غور کیجئے جو یہ ہے ۔

" اس کی مثال بالکل یہ ہے کہ آقا اپنے غلام کو حکم دیتاہے کہ ایک سال تک تم ایک روپیہ ماہوار مجھے دیا کرو تو میں تم آزاد کردونگا۔ آزادی کے مقابلہ میں ایک روپیہ فی نفسہ کچھ چیز نہیں لیکن ( بجعل جاعل) مالک کے کہنے سے یہی روپیہ موجب آزادی ہوگیا"۔

میں تھوڑی دیر کےلئے تنزلاً یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آزادی کے مقابلہ میں ایک روپیہ فی نفسہ کچھ چیز نہیں لیکن اس رحم مجسم " آقا" سے تو پوچھو کہ کیا اُس کے نزدیک بھی فی الحقیقت ایک روپیہ فی نفسہ کچھ چیز نہیں ہے۔ اگر اس کے نزدیک بھی " ماہوار ایک روپیہ" یعنی بارہ روپے سالانہ کچھ حقیقت نہیں رکھتے ہیں تو اس بیچارے غلام کو ایک سال تک تکلیف میں ڈال دینے سے کیا فائدہ ہے روپیہ لئے بغیر " اس کو کیوں آزاد نہیں کرتا ہے! بغیر روپیوں کے آزادنہ کرنا ہی اس کی کافی دلیل ہے کہ اگرچہ مولوی صاحب کے نزدیک بارہ روپے کچھ چیز نہیں" لیکن اس کے " آقا" کے نزدیک بارہ روپے اُس کے غلام کی آزادی سے زيادہ بیش قیمت ہیں۔

اگر درحقیقت ان تمام معاملات میں جعل جاعل کو داخل ہے توپھر کس منہ سے آپ کفارہ پر اعتراض کرنے بیٹھ گئے۔ کیونکہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی نے مسیح کے کفارہ کو روحانی آزادی کا سبب ٹھہرایاہے۔ آپ کی مثال میں لفظ " روپیہ" کی جگہ پر اگر آپ لفظ " مسیح کا کفارہ" رکھتے تو آپ کی مثال " بالکل" کفارہ کی تائید میں ہوتی ۔ دیکھئے خدائے برتر وتوانانے کس طرح آپ ہی کے قلم سے کفارہ کی تصدیق کرائی ۔

میں نے اپنے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں ان احادیث کے متعلق جن میں آنحضرت صلعم نے یہ فرمایا تھا کہ " میں بھی اپنے اعمال صالحہ سے نجات نہیں پاسکتا مگر خدا کے رحم سے" یہ لکھا تھا کہ اگر خدا اسی طرح رحم کیا کرے اورسب کو محض اپنے رحم سے بخش دیا کرے توپھر انبیاء کا معبوث ہوجانا ۔کتب سماویہ کا نازل ہونا یہ سب عبث ٹھہرینگے۔ مولوی صاحب نے اس فقرہ پر جس مسرت کا اظہار کیاہے وہ آپ کی ذیل کی عبارت سے عیاں ہے۔

" ناظرین فقرہ زیر خط کو ملحوظ رکھیں آگے چل کر ہم اس سے کچھ کام لینگے"۔

(اہل حدیث مطبوعہ 1929ء صفحہ ۳ کالم ۲)۔

آپ نے میری عبارت بالا سے اپنی سمجھ کے موافق یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا میں بھی اس سفسطہ کا قائل ہوں جن کے مولوی صاحب قائل ہیں۔ یعنی یہ کہ شریعت اورانبیاء اس لئے آئے تاکہ ایک چیز کو نیک ٹھہرائیں۔ خواہ وہ چیز فی نفسہ کیسی بد کیوں نہ ہو۔ بات یہ ہے کہ آپ بڑے سخن شناس ہیں۔ اس لئے آپ نے عبارت بالا سے یہ مضحکہ خیز نتیجہ نکالا جوا یک نہایت کم استعدادا دوخوال بھی نہیں نکالیگا حالانکہ اگر آپ میری عبارت کو پورے طورپر نقل کرتے تو آپ کی اس عجز نما خوشی کی حقیقت سب پر ظاہر ہوجاتی ۔ چونکہ آپ نے اس سے گریز کیا لہذا مجبوراً میں پوری عبارت ہدیہ ناظرین کرتا ہوں ۔ سن لیجئے۔

" اگر خدا رحیم ہے تو وہ عادل بھی ہے۔ اگر خدا صرف اپنے رحم سے معاف کردے تو صفت عدل معطل رہیگی اور تعطل سے خدا کی ذات میں نقص وارد ہوگا ۔ جو خدا کی شان کے شایاں نہیں۔ پس رحم سے نجات کامل پانا محال عقل ہے اورخدا ایسا کرتاہے تو خدا صرف مسلمانوں کا خدا تو ہے نہیں وہ کل انسان اور مافی الکون کا خدا ہے۔ لہذا اس کی رحمت کل کے لئے ہونا چاہیے ۔ یعنی وہ مشرکوں اور بُت پرستوں وغیرہ پر بھی رحم کرنا لازم ہے۔ لیکن خدا مشرکوں اور بُت پرستوں کو معاف نہیں کرتا۔ اورانبیاء کا معبوث ہوجانا کتب سماوی کا نازل ہونایہ سب عبث ٹھہرینگے ۔ چونکہ یہ عبث نہیں پس رحم سے نجات کی توقع رکھنا غلط ہے"۔

(میں کیوں مسیحی ہوگیا صفحہ ۳۸)

اب خود ناظرین انصاف فرمائیں کہ میں کیا کہتا ہوں اور مولوی صاحب کیا سنتے ہیں۔ جواب سے عاجزآکر ٹالمٹول کرنا مولوی صاحب کی عادت ہے۔

فصل دہم

مولوی ثناء اللہ صاحب کے کفارہ پر اعتراضات

اور قرآن وحدیث سے کفارہ کا ثبوت

مولوی صاحب نے نورافشاں (۹نومبر 1928ء ) میں سے سابق ایڈیٹر یعنی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ایک مضمون میں سے جو کفارہ پر تھا ایک اقتباس کیا ہے۔ آپ اسی اقتباس کی بناء پر لکھتے ہیں کہ:

" مگر ان میں ایک نقص یاسہل انگاری یہ ہے کہ ان مصنفوں نے اس امر کا فیصلہ نہیں کیا کہ شرعی گناہ فوجداری کیس ہے یا دیوانی؟ مثلاً بدکاری کی سزا شرع میں جہنم کی قید ہے یا مالی جرمانہ ہے۔ کچھ شک نہیں کہ حضرات انبیاء علیم السلام کی شریعت میں گناہوں کا مقدمہ فوجداری کیس ہے تو فوجداری میں اصل الاصول قانون ہے کہ

جو کرے وہ ہی بھرے!

(اہل حدیث ۷ دسمبر 1928ء صفحہ ۳)

مولوی صاحب فرماتےہیں کہ شرعی گناہ فوجداری کیس ہے۔ اور فوجداری کی تعریف " جہنم کی قید" ہے اور فوجدار میں اصل الاصول قانون " یہ ہے کہ جو کرے وہی بھرے" یعنی جو شخص گناہ کرتاہے وہی شخص سیدھا جہنم میں جاتاہے اور اس سے کوئی معاوضہ یا مالی جرمانہ نہیں لیا جاتا ہے۔ اگر میں ثابت کردوں کہ جو کچھ مولوی صاحب لکھ رہے ہیں قرآن وحدیث کے منافی لکھ رہے ہیں تو پھر مزید لکھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

قبل اس کے کہ میں قرآن شریف اور احادیث میں سے شواہد پیش کروں مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہ بھی گوش گزار کردوں کہ نفس کفارہ اور مسیحیت اوراسلام دونوں متفق ہیں۔ صرف اس کی نوعیت میں اختلاف ہے مسیحیت مسیح کو کفارہ مانتی ہے اوراسلام اور چیزوں کو ۔ قرآن شریف کی ذیل آئتیں ملاحظہ ہوں :

لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(سورہ مائدہ آیت 88)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتا۔ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر لیکن مواخذہ اس پر فرماتاہے کہ تم قسموں کو مستحکم کردو۔ سواس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلادینا ہے اوسط درجے کا جواپنے گھر والوں کو دیا کرتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا۔ اورجس کو مقددرنہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جبکہ تم کھالو اوراپنی قسموں کا خیال رکھاکرو۔ اسی طرح اللہ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتاہے تاکہ تم فکر کرو"۔

آیت بالا سے صاف ظاہر ہے کہ قسم کھاکر پورا نہ کرنا قابل مواخذہ گناہ ہے ۔ جو بقول مولوی صاحب ایسے شخص کو سیدھا جہنم میں جاناچاہیے لیکن قرآن شریف اس کو " مالی جرمانہ " پر چھوڑدیتاہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاء مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَ و عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ (سورمائدہ آیت 96)

ترجمہ: اے ایمان والو جنگلی شکار کو قتل مت کرو۔ جبکہ تم حالت احرام میں ہو ۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر پاداش واجب ہوگی جو مسبادی ہوگی اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں خواہ وہ پاداش خاص چوپایوں سے ہو۔ بشرطیکہ نیاز کے طورپر کعبہ تک پہنچائی جائے۔ اور خواہ کفارہ مساکین کو دیدیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لئے جائیں تاکہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے اور اللہ تعالیٰ نے گذشتہ کو معاف کردیا۔ اور یہ شخص پھر ایسی حرکت کریگا تو اللہ تعالیٰ انتقام لے گا اور اللہ زبردست سے انتقام لے سکتا ہے "۔

اس آیت سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بحالت احرام شکار کا قتل کرنا سخت گناہ ہے ۔ جس کے مرتکب کو بقول مولوی صاحب سیدھا جہنم میں جانا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن شریف اس کو" مالی جرمانہ" پر چھوڑ دیتاہے۔میں محض عدم گنجائش کی وجہ سے انہی دوآیتوں پر اکتفاکرتا ہوں۔ ورنہ قرآن شریف میں ایسی بیسیوں آئیتیں ہیں جن سے مولوی صاحب کی قرآن دانی کی حقیقت واضح ترہوجاتی ہے۔ یہاں تک قرآن شریف میں سے کفارہ کا ثبوت تھا۔ اب احادیث کی تعلیم ملاحظہ ہو(۱)

(مشکواة صفحہ ۴۸۵)۔ ترجمہ: ابی موسیٰ نے کہا کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا عیسائی دے کر کہیگا کہ یہ تجھ کو آگ سے رہائی دینے کا بدلہ ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کی ہے "۔ مولوی صاحب دیکھئے تویہ کہاں کا انصاف اور " فوجداری کیس" ہے کہ گناہ تو کریں مسلمان اوریہودی یاعیسائی بیچارے ان کے بدلے دوزخ میں جائیں ۔

(مشکوات ۳۶۲)۔

ترجمہ" سلمان بن عامر الضبی نے کہاکہ میں نے آنحضرت صلعم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ لڑکے کی پیدائش کے ساتھ عقیقہ کرنا لازمی ہے۔ پس اُن کے عوض میں خون بہاؤ (گوسفند ذبح کرو) اوراس سے ایذا کو دور کرو۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کی ہے۔

کیا مولوی صاحب " فوجداری کیس" کے یہی معنی ہیں کہ ایذا تو ہو لڑکے کو اور ذبح کیا جائے گوسفند؟ کیا میں مولوی صاحب سے پوچھ سکتا ہوں کہ حدیث بالا میں ایذا سے کیا مراد ہے؟ کیا اس گناہ کی اذیت تونہیں جو حضرت آدم سے دراثنا چلی آئی ہے۔ ذرا احتیاط کے ساتھ قلم اٹھائیے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر آپ کو ناپیدار کنار مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔

افسوس تو یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اورمسلمانوں کی طرح کفارہ پر ٹھنڈے دل سے کبھی غور نہیں کیا۔ ورنہ کفارہ کا ثبوت ہماری روزہ مرہ زندگیوں میں اس صفائی کے ساتھ ملتا ہے جس سے کوئی شخص بشرطیکہ تعصب سے اس کا دل آلودہ نہ ہو انکار نہیں کرسکتا ہے۔ ایک لائق باپ اپنی تمام زندگی اپنے اہل وعیال کی بہبودی کے لئے صرف کرتا ہے ۔ ایک گھر میں جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی بیماری کو اس کے تمام متعلقین اس طرح بانٹ لیتےہیں کہ کوئی ڈاکٹر بلالاتاہے کوئی دائی بلاتاہے۔ کوئی اس کے ساتھ جاگتا رہتاہے ۔ کوئی تسلی دینا، غرضیکہ ایک شخص کی تکلیف اوربیماری سے تمام گھر تکلیف دہ اوربیمار بن جاتاہے ۔ اگر اس کے متعلقین مولوی صاحب کے اس سنہرے اصول پر عمل کریں کہ " جو کرے وہ بھرے" تو اس بیمار کا خدا ہی حافظ ہے ۔ دنیا سے ہمدردی ، ایثار، اورمحبت اسی طرح مفقود ہوجائیں جس طرح مولوی صاحب کے دماغ سے قرآن شریف واحادیث کے صحیح مفہوم مفقود ہوجائیں۔

اسلام کا طریقہ نجات

آگے چل کر مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ :

" یہاں ہم صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ(۱۔) اگریہی طریق نجات ہے تو پہلے نبیوں کی امتوں کی نجات کس طرح ہوگی ؟ (۲) اگریہی طریق نجات خدا کے ہاں مقرر تھا تو شروع دنیا میں سب سے پہلے نبی پر اس کو کیوں ظاہر نہ کیا؟ (۳) اگرذریعہ نجات مسیح کی موت ہے توپھر مسیحی ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ خدا نے سب گناہوں کی بخشش کا انتظام فرمایا کسی خاص گروہ کا نہیں(۴) محض مسیحی کفارہ کافی ہے تو یوحنا رسول کیوں کہتے ہیں ۔ جو کہتا ہے کہ میں اُسے مانتا ہوں اوراس کے حکموں پر عمل نہیں سو جھوٹا ہے اور سچائی اس میں۔ ہر وہ جو اس کے کلام پر عمل کرے یقیناً اس میں خدا کی محبت ہے"(۱یوحنا باب ۲ آیت ۳ اہلحدیث مطبوعہ ۱۴ دسمبر 1928ء صفحہ ۲)۔

اعتراض اول کا جواب

جب تک مسیح کفارہ نہیں ہوئے تھے اس وقت " پہلے نبیوں کی امتوں کی نجات" اُن ظلی قربانیوں کی بنا پر ہوگی جن کو اُن کے انبیاء نے خدا کےحکم سے اُن میں جاری فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب قدیمہ میں قربانی مختلف صورتوں میں موجود ہے۔

اعتراض دوم کاجواب

اصول ارتقا کے بموجب خدا نے اول سے لے کر آخر تک ہر ایک نبی پر اس کو ظاہر فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ آخری انبیاء کے کتُب میں مسیح کے کل واقعات ہو بہو موجود ہیں۔

اعتراض سوم کا جواب

بے شک خدا نے سب گناہوں کی بخشش کا انتظام فرمایاہے۔ لیکن اس انتظام سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتاہے جو اس کو قبول کرتاہے۔ مثلاً خدا نے ساری دنیا کےلئے ہوا اور روشنی کا انتظام فرمایاہے۔ لیکن ان سے وہی شخص بہرہ انداز ہوسکتاہے جوہوا میں سانس لے اور روشنی میں آنکھوں سے کام لے۔ اگر کوئی شخص ہوا میں سانس نہ لے۔ اور روشنی میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لے تو ہوا اور روشنی سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے۔

اعتراض چہارم کا جواب مفصل دے چکے ہیں ۔ یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

مولوی صاحب ہم پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

" مختصر یہ ہے کہ پادری صاحب کے حق میں ہم نے یہ سمجھاکہ " آپ مفت خوری کے لئے مسیحی ہوئے ہیں"۔ کیونکہ اسلام بلکہ کل ادیان میں نیک اعمال کرنے کی تاکید ہے۔ اورمروجہ عیسائی میں اُن کی ضرورت نہیں"۔(اہلحدیث مطبوعہ ۱۴دسمبر 1928ء صفحہ ۳)۔

میں اعمال کی ضرورت اوراس کی اہمیت پر گذشتہ اوراق میں مفصل طورپر لکھ چکا ہوں ۔ صرف یہ گذارش کرنا باقی ہے کہ " مسیحیت میں مفت خوری" حرام ہے۔ البتہ اسلام نے اسکو شیر مادر کی طرح حلال فرمایاہے کہ:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(سورہ الزمر آیت 54)

ترجمہ: اے میرے بندوجہنوں نے زیادتی کی ہے اپنی جان پر خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ تحقیق اللہ بخشتا ہے تمام گناہوں کو بیشک ۔ ذرا معاف کرنے والا اورمہربان ہے" یعنی جتنے جی چاہے گلچھرے اڑاتے رہو۔ کچھ فکر نہیں ۔ خدا سب کو بخش دیگا۔

حدیث ذیل بھی ملاحظہ ہو:

ترجمہ: " ابی ذر نے کہا میں حضرت صلعم کے پاس آیا آپ سورہے تھے اور آپ پر سفید کپڑا تھا۔ جب میں پھر آیا تو آپ جاگتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہرایک بندہ جو لا الا اللہ کہے اور اس پر مرجائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہاکہ اگرچہ وہ چور یا زناکار ہو۔ آپ نے کہا اگرچہ چوریا زانی ہو۔ پھر میں نےکہا کہ اگرچہ وہ چور یا زانی ہو۔ آپ نے فرمایا اگرچہ چور یا زانی ہو۔پھر میں نے کہا اگرچہ وہ چور یا زانی ہو۔ آپ نے کہا اگرچہ وہ چور یا زانی ہو ۔ اگرچہ یہ بات ابوذر کو ناگوار معلوم ہوتی ہے "(مشکوات کتاب الایمان)

کہئے اس سے بڑھ کر مفت خوری آپ کو کہیں اورمل سکتی ہے۔

میرے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں ایسی چند حدیثیں اور ہیں جن کے جواب سے مولوی صاحب ایسے خاموش ہیں کہ گویا ان کی جان میں جان نہیں۔ملاحظہ ہو صفحہ ۳۵، ۳۶)۔

اسلام میں طریقہ نجات

اس کے بعد مولوی صاحب اسلام کا طریقہ نجات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " (۱) اسلام میں ایک طریق نجات تو اکثریت اعمال صالحہ کا ہے"۔(۲) دوسرا اکثریت اجتناب از معاصی ہے یعنی جو شخص اکثر حالات میں بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے گا وہ نجات پاجائیگا" (۳) بالکل آسان اور پادری صاحب کے حسب منشا ہے کہ طالب نجات انسان روزانہ اپنے گناہوں پر غور کرکے خدا کے حضور خالص توبہ کیا کرے تو خدا اُس کی توبہ کو قبول کرکے بخش دیگا"(اہلحدیث ۱۲اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳)۔

طریقہ اول کے متعلق ہم کافی سے زيادہ بحث کرکے ثابت کرچکےہیں کہ ۔ " اکثریت اعمال صالحہ سے کوئی مسلمان نجات نہیں پاسکتا ہے۔ اورمولوی صاحب نے بھی اس کو تسلیم کرلیاہے کہاعمال اپنی ذاتی حیثیت سے ہرگز موجب نجات نہیں"(اہلحدیث ۹ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳)۔

طریق دوم بھی باطل ہے۔ اول تو اس لئے کہ مولوی صاحب کا عندیہ اس آیت " کے منافی ہے وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ۔ جس پر ہم مفصل بحث کرچکے ہیں۔ دوم اس لئے کہ قرآن شریف میں کبائر کا تعین اور حصر نہیں ہے اورنہ احادیث سے اس پر روشنی پڑتی ہے اورنہ کسی عالم نے آج تک ان کا حصر اور تعین بتایا۔ بعض کے نزدیک کبائر کی تعداد ۷۲ ہے۔ اور بعض کے نزدیک سو سے بھی زیادہ اور بعض کے نزدیک اس سے بھی کم ہے۔ پس جب تک آپ پہلے اس کا تعین اور حضرثابت نہ کریں۔ اس وقت تک آپ کبائر کے ترک پر نجات کی بنیاد نہیں رکھ سکتے ہیں۔

طریق سوم کے متعلق یہ عرض ہے کہ میں ثابت کرچکاہوں کہ خواہ آپ توبہ کریں یا نہ کریں خواہ آپ نیک ہوں یا بد ہوں ایک بار آپ کادوزخ میں تشریف لے جانا ازبس ضروری ہے ۔ والسلام

بالاآخر میں اپنے دوست پیارے مولوی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ کے طفیل سے میرے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے مجملات اوراشارات مفصل اور واضح تر ہوگئے۔ نہ آپ اس کے جواب کی زحمت گوارا فرماتے اورنہ میں اس کی تفصیل اور توضیح کرتا ۔ یہ بھی خدا کی مرضی تھی جو پوری ہوگئی ۔

میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس مضمون کے آخر میں مولوی صاحب کی سوانح عمری لکھونگا ۔ میں نے آپ کی سوانح عمری بالکل مرتب کرلی ہے۔ لیکن بجائے اس کےکہ ہم اس کو اپنے رسالہ میں شائع کریں بہتر یہی ہے کہ ہم اس کو شائع ہی نہ کریں ۔ کیونکہ کسی کی ذات پر حملہ کرنا ہماری عادت نہیں۔ یہ وطیرہ قادیانیوں اوروہابیوں کومبارک رہے۔

تتمہ

گھر سے آیا ہے معتبر نائی

جیسا کہ ایک مسلمان کے حوالہ سے میں نے لکھا ہے کہ جبکہ وہابیوں کی بد زبانی سیابی اور فحاشی سے خود اُن کے بزرگانِ اولیاء انبیاءمحفوظ نہیں رہے۔ توایک عیسائی کیا اواس کی حیثیت کیا۔ جو اُن کی زبان شتم آفریں سے محفوظ رہ سکے۔ علی الخصوص وہ شخص جس کے عیسائی ہونے سے اُن کے گھر ماتم کدہ بن گئے ہوں اورجس کے قلم سے مولوی ثناء اللہ صاحب جیسے شخص کی جو اس فرقہ کے شیر بے دم میں ایسی فضیحت اور رسوائی ہوئی ہو جن کومرتے دم تک بھول نہ سکتے ہوں اس فرقہ سے کبھی حسن خلق کی توقیع نہیں ہوسکتی ہے جب اس شیر ریش دراز کو اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑا اورہمارے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے جواب سے سراسر قاصر اور خاسر رہے گیا تو بجائے اس کے کہ اپنی بے بضاعتی اور بے پائیگی پر خون کے آنسو بہانا یا دم دباکر امرتسر کی کسی مسجد کے حجرہ میں دب جاتا الٹا ہمیں موردطعن بنایا تاکہ عوام کالا انعام کی توجہ اُس کی شکست اور شرمساری سے ہٹ کو ذاتیات کی طرف مبذول ہوجائے۔

میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھ کو ایسوں کے متعلق کچھ شکایت نہیں ہے کیونکہ ان لوگو ں کا جوکسی حقیقیت کے ثابت کرنے سے عاجز رہے جاتے ہیں یہ عام دستور ہے کہ وہ اپنی جہالت اور فصلالت پر گالی گلوچ اور عامیانہ دسوقیانہ باتوں کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت شناس معلوم کرلیتے ہیں کہ حضرت کتنے پانی میں ہیں بعینہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہی حال ہے۔

آپ کا ایک معتبر نائی (خبررساں) بمبئی میں رہتاہے جس کا تعلق اسی نجدی فرقہ سے ہے اورجس کا پیشہ گاڑیوں کا رنگنا اوراس سے قبل بمبئی کے کسی تھیٹر میں پردوں کے رنگنے کا کام کرتا تھا اورجس کا نام عبدالروف ہے اورپنجاب کے کسی گاؤں کا رہنے والا ہے اس معتبر نائی کومولوی ثناء اللہ نے لکھا تھا کہ ہمارے بمبئی کے رہنے کے واقعات لکھ بھیجے ۔ کیونکہ اس شخص کا نام ہمارے رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوگیا" میں بھی آیا ہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کو یقیناً یہ خیال ہواہوگا کہ ہماری زندگی کے متعلق ان کو بہت سی ایسی باتیں ملینگی جو ہماری بدنامی اور بے عزتی کے لئے دلیل کا کام دینگی۔ لیکن خدا کے فضل سے چونکہ ہماری زندگی کا دامن اس قسم کے تمام بدنماء داغوں سے آئينہ کی طرح صاف اور شفاف ہے اُن کے معتبر نائی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ اس قسم کے اتہامات اور الزامات ہم پر چسپاں کرتا ہے جس طرح کہ مصنف آئينہ حقیقت نمانے مولوی صاحب پر چسپاں کیا ہے ۔ لہذا جو کچھ اس معتبر نائی نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو لکھا یہ لکھا کہ:

(۱۔) سلطان محمد کا اصلی نام سلطان احمد ہے۔

(۲۔)سلطان محمد کے قدم بفرض تعلیم منارہ والی مسجد میں آئے اورمسجد کی روٹیوں پر اوقات بسر کرنے لگا"۔

(۳) سلطان محمد بانی انجمن نہ تھا ۔۔۔۔ لیکن ممکن ہے کہ سلطان محمد کسی کونے میں بیٹھ کر تقریریں سنتا ہو"۔

(۴۔) اصل واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۰۳ء میں جلسہ بند کرکے میں دورہ پر گیا تھا۔جب واپس آیا تو معلوم ہوا کہ منارہ والی مسجد کا معمول طالب علم عیسائی ہوگیا۔ تحقیق کرنے سے ثابت ہو کہ سلطان محمد منصور مسیح کا بیٹا بن کر بپتسمہ لے کر ہمیر پو پادری احمد شاہ کانپوری کے پاس چلا گیا۔ منارہ والی مسجد کے طلباء سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد کی روٹیوں کے لئے اکثر شکایت کیا کرتا تھا۔کپڑے وغيرہ کی اس کو سخت تکلیف تھی بعض میمنوں نے بلحاظ ہمدردی روپے قرض دیئے تھے۔ بعض لوگ روپیوں کا تقاضا کرتے تھے جس کے سبب ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔ منصور مسیح نہایت تجربہ کار اورچالا ک مشنری تھا۔ اس نے اس کی ناداری اور غربت دیکھ کر ہمدردی کی۔ یہ اس کے مکان پر آنے جانے لگا اوراس نے اسکو ترغیب دی۔ یہ ناتجربہ اور شباب کا عالم گرجامیں۔۔۔۔ کی آمدورفت کامنظر دیکھ کر از خودرفتہ ہوا اور کسی خاص غرض سے عیسائی ہو کر یہاں سے چل دیا۔ ممکن ہے کہ اس کی دلی آرزو برآئی ہو"۔

(اہل حدیث ۲۱دسمبر 1928ء صفحہ ۲)۔

(۵۔) تین چار سال بعد بڑے دنوں کی تعطیل میں وہ اپنے (مصنوعی) باپ منصور مسیح کو ملنے آیا۔ جس کا قرض تھا ادا کیا۔ بعد واپس کا نپور چلاگیا"(اہل حدیث ۲۱دسمبر 1928ء صفحہ ۲)۔

(۶۔) اور پادری جوزف بہاری لعل اگرچہ مشن سے علیحدہٰ ہیں تاہم وہ بھی تک عیسائی ہیں۔ سلطان محمد کی طرح کے طالب نہیں ہیں میرے بیان کی تصدیق کرینگے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے درست ہے (اہل حدیث ۲۱دسمبر 1928ء صفحہ ۳)۔

شق اول کا جواب یہ ہے کہ اس معتبر نائی کا یہ لکھنا میرا نام"سلطان احمد" تھا سراسر جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے جس کی دلائل حسب ذیل ہیں۔

(الف) میرے عیسائی ہونے سے بہت پہلے میں نے مولوی غلام نبی صاحب باشندہ امرتسر کی ایک تصنیف پر جو عیسائیوں کے رد میں تھی فارسی میں ریویو لکھ کر اُن کو بھیجا تھا اس ریویو میں میرا دستخط (سلطان محمد) ہے۔ نہ کہ سلطان احمد " مولوی ثناء اللہ صاحب ! مولوی غلام نبی صاحب آپ کے شہر اورپڑوس میں رہتے ہیں آپ جاکر وہ ریویو اپنی آنکھ سے دیکھیں تاکہ سیادر کے شودہر کہ درد غش باشند ۔

(ب) میرے عیسائی ہونے سے چند ماہ پیشتر میں نے پادری مولوی حسام الدین صاحب ایڈیٹر کشف الحقائق کے ایک مضمون کا جو اسلام کے برخلاف تھا جواب لکھا تھا میں نے اس جواب کو رسالہ الحق میں جو کانپور سے پادری احمد شاہ صاحب شائق کی دارات میں شائع ہوتا تھا شائع کیا تھا اس میں بھی میرا دسختط" سلطان محمد" ہے یہ مضمون ۱۹۳۰ء کی فیل میں آپ کو ملیں گے۔

(ج) اس وقت تک افغانستان سے میرے نام جتنے خطوط آئے ہیں ان سب میں میرا نام سلطان محمد ہے۔ مثلاً منظر زی وزیر خارجیہ دورامانیہ افغانستان ۔ ملا غلام محمد خاں وزیر تجارت افغانستان، وبعدہ وزیر داخلہ افغانستان دورامانیہ جو میرے چچا ہیں۔ وزیر صاحب معارف افغانستان دورامانیہ شہزادہ عنائیت اللہ خاں وغیرہ ہم جتنے اراکین نے مجھ سے خط وکتابت کی ہے۔ ان سبھوں نے مجھ کو سلطان محمد لکھاہے ۔ کیونکہ میرا پیدائشی نام افغانستان کے سرکاری دفتر میں یہی ہے۔

(د) میرے چھوٹے بھائی تاج محمد خاں اور میری ہمشیرہ اور دیگر اقارب رشتہ دارومجھ کو ہمیشہ سلطان محمد کہتے ہیں ۔ یہ تمام خطوط میرے پاس فارسی زبان میں موجود ہیں۔

(ہ) میرے والد بزرگوار کی جاگیروں اور قلعوں کی تمام تمکات اورقبالہ جات میں جو میرے نام پر ہیں میرا نام سلطان محمد ہے۔

میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ میرے کسی خط سے خواہ میرے مسیحی ہونے سے قبل کا ہو یا بعد کا میرا نام سلطان احمد ثابت کریں ۔ اگرانہوں نے میرا نام سلطان احمد ثابت کیا توجو سزا مقرر کریں میں قبول کرونگا ورنہ اُن کے لئے جو سزا میں مقرر کروں وہ برداشت کریں۔ کیا اب بھی آپ کے معتبر نائی کے جھوٹے ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی ہے ۔

شق دوم۔کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی سراسر جھوٹ اور کذب ہے کہ میں نے منارہ والی مسجد میں ۱۹۰۳ء میں تعلیم پائی ہے۔ کیونکہ ان دنوں منارہ والی مسجد میں کوئی عربی کا مدرسہ نہ تھا اور غالباً اب بھی نہیں ہے۔ بلکہ میں نے مدرسہ ذکریا میں تعلیم پائی ہے اور خاص کر مولوی عبدالاحد صاحب سے جو کابلی تھے اور مدرسہ ذکریا میں مدرس تھے۔ جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ میں ذکر کیا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ندوتہ المتکلمین کے تمام اراکین جن کامیں نے اپنے رسالہ میں ذکر کیا کہ منتہی طالب علم تھے۔ ان میں سے ایک بھی منارہ والی مسجد سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔ کیونکہ اس وقت منارہ والی مسجد میں کوئی مدرسہ تھا ہی نہیں۔ میں آپ کے معتبر نائی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ثابت کریں کہ ان ایام میں جن میں نے ذکر کیا ہے منارہ والی مسجد میں کوئی مدرسہ بھی تھا۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ میں ۱۹۰۲ء میں آیا بلکہ میں بمبئی میں ۱۸۹۲ء یا ۱۸۹۳ء میں آیا تھا کیونکہ میں ۱۹۰۳ء تک مسلسل چھ سات سال بمبئی میں رہ چکا ہوں۔ آپ کے معتبر نائی نے یہ بھی جھوٹ لکھاہے کہ " میں مدرسہ کی روٹیوں پر اوقات بسر کرتا تھا"۔ کیونکہ میں کسی مدرسہ میں ()نہیں رہا بلکہ ٹیوشن اور طبابت سے اپنا گزارہ کرتا تھا۔ اور خدا کے فضل سے اس قدر آمدنی تھی کہ میں نے اپنی آمدنی سے حج کیا اور واپس آیا۔ اگر میں ایسا غریب ہوتا جیساکہ آپ کے معتبر نائی نے ظاہر کیا ہے تو میں نہ حج پر جاسکتا تھا اور نہ ہی واپس آسکتا تھا۔

یہ آپ کے معتبر نائی کا دوسرا جھوٹ ہے کیا ایسا جھوٹاآدمی قابل اعتبار ہوسکتاہے۔ آپ تو اہلِ حدیث میں سے ہیں راویوں کی جرح کے طریق سے خوب واقف ہیں۔ ذرا دیر کے لئے سرگریباں میں ڈال کر سوچئے۔

شق سوم کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت میں ہی ضیاءالاسلام اور ندوتہ المتکلمین کا بانی تھا۔ آپ کے معتبر نائی نے بجز انکا رکے اس کی کوئی تردید نہیں کہ جبکہ میں نے ثابت کردیا ہے کہ آپ کا معتبر نائی پرلے درجہ کا جھوٹا ہے توایسے جھوٹے شخص کے انکار سے کسی حقیقت کی ترید نہیں ہوسکتی ہے۔ دیگر یہ کہ جس وقت میں مسیحی ہوگیا اسی وقت کا نپور روانہ کیا گیا اور کانپور آتے ہی میں نے سب سے اول اپی فینی میں جو ایک نہایت مشہور ومعروف انگریزی مذہبی اخبار ہے اپنے مسیحی ہونے کی کیفیت لکھی ۔جس کا جواب بمبئی سے ایک مسلمان نے لکھا۔ اس مسلمان نے مجھ پر دواعتراض کئے تھے۔ اول یہ کہ " جب میں مسلمان تھا تو انگریزی نہیں جانتا تھا۔ اب دو تین مہینوں کے عرصہ میں مجھ کو انگریزی کس طرح آگئی "۔ دوسرا اعتراض یہ تھاکہ" جب تک میں بمبئی میں رہتا تھا تو میں نے اپنے والد کا نام کسی کو نہیں بتلایا تھا۔ اب اپی فینی میں ، میں نے کیوں ظاہر کردیا"۔ جس کا جواب الجواب میں نے اپی فینی میں دیا۔ اگر بمبئی میں میری وہی حالت تھی جو معتبر نائی بیان کرتاہے تو یہ شخص وہی بیان کرتا حالانکہ ان میں سے ایک کا بھی اس نے ذکر نہیں کیا تھا۔

دیگر یہ کہ میں نہ صرف اپی فینی میں بلکہ الحق میں اور نورافشاں میں نجات کے متعلق مسلسل مضامین لکھتا رہا۔ کیا اُس وقت اس معتبر نائی کو سونپ سونگھ گیا تھا جو ایسا چپ سادھا کہ گویا اس کے بُدن میں جان ہی نہیں ہے اور اب ۲۷سال کے بعد ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ " اب بھی اُن کو چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی تحریر ایسی پیش کریں کہ آپ بانیِ انجمن کب ہوئے ۔ آپ کا معتبر نائی جانتاہے کہ ۲۷ سال تک کون اس قسم کی فضول تحریریں اپنے پاس محفوظ رکھیگا۔ اس لئے چلو اپنی عزت رکھواور چلینج دو۔ اگریہ چیلنج مجھ کو اسوقت بھی دیا جاتا ۔ جبکہ میرا رسالہ' میں کیوں مسیحی ہوگیا" شائع ہوگیا تو میں اس معتبر نائی کو تحریریں دکھا کر بھی اس کے گھر تک پہنچاتا ۔ اب اس کے چیلنج کا یہ جواب ہے کہ مشتے کہ بعد ازجنگ بکارآمد بر کلمہ خود یایدزد۔

ہماری دیانت پر معتبر نائی کی مہر تصدیق

شق چہارم وپنجم کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ دونوں شقیں بھی سراسر جھوٹ اور دروغ بانی پر مبنی ہیں۔ کیونکہ نہ تو ہم نے کسی سے روپے قرض لئے تھے۔ اورنہ ہی قرضہ ادا کرنے کے لئے بڑے دنوں کی تعطیل میں بمبئی " گئے تھے ۔لیکن اس سے ہماری ریانت داری کی تصدیق ہوتی ہے۔ کہ ہم اس قدر دیانت دار اور صداقت شعار ہیں کہ کسی کا قرضہ خوردبرُد کرنا نہیں چاہتےہیں۔ بلکہ ہم اُس وقت بھی کسی کا قرضہ ادا کیا کرتے ہیں جب عدالتی کا رروائی بھی منقطع ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ عدالت کے رو سے تین سال اور چار سال کے بعد کوئی قرض خواہ اپنا قرضہ وصو ل نہیں کرسکتا ۔ لیکن ہم نے زاید المعیاد قرضہ کو بھی ادا کردیا۔ کیا مسلمانوں میں بھی کوئی ایسا دیانت دار شخص ہے؟ مولوی صاحب آپ کی کیا رائے ہے؟

شق ششم ۔ کا جواب یہ ہے کہ جھوٹوں کی تصدیق کرنے والا بھی جھوٹا ہوتاہے۔ چونکہ ہم نے ثابت کردیا کہ جس نائی کو آپ معتبر سمجھ رہے ہیں وہ سراسر نامعتبر اورناقابل التفات اور جھوٹاہے۔ اس لئے جو شخص ایسے شخص کی تصدیق کرتاہے ۔لامحالہ وہ بھی جھوٹا ہے۔

میں نہیں چاہتا کہ جوزف بہاری لعل صاحب کی پریشانیوں اور مصائب پر کچھ اضافہ کروں۔ صرف اس قدر لکھنے پر اکتفا کرتاہوں کہ آپ کے معتبر نائی کے اس جملہ سے کہ" پادری جوزف بہاری لعل اگرچہ مشن سے علیحدہٰ ہیں۔ تاہم وہ اب تک عیسائی ہیں "۔ ان تمام واقعات کی تصدیق مزید ہوتی ہے ۔ جو ان کے متعلق ہمارے ہاتھ پہنچے ہیں۔ خود ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک ایسا لمبا چوڑا خط ہمارے پاس ہے کہ جب ہم چاہیں ان کو پریشان کرسکتے ہیں با ایں ہمہ میں تمام مسیحیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جوزف بہاری لال صاحب کے لئے دعا کریں کہ خدا ان کو روحانی اورجسمانی تکلیفوں سے آزاد کرے۔ اور راہ مستقیم پر اُن کی رہنمائی کرے۔ والسلام۔

خاکسار ۔سلطان محمد افغان