The Teaching of Muhammad

(Muhammadan Doctrine)
By
Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz


تعلیم ِمحمّدی

مصنف

پادری مولوی عماد الدین لاہز

نے فائدہ عا م کے لیے اور کرسچین نولج سوسائٹی نے

1880

میں وکیل ہندوستان پریس امر تسر نے چھپوایا



Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900

پادری مولوی عماد الدین لاہز



تعلیم محمدی

دیباچہ

خُدا تعالیٰ کی حمدو ثناء اورشکر کے بعد ناظرین کتاب ہذا کی خدمت میں بندہ کمترین عماد الدین لاہز عرض پرداز ہے۔ کہ دنیا میں ہر بُرا بھلا آدمی اپنے افعا ل واقوال سےثابت ہوا کرتاہے اس کے سوا اور کوئی قاعدہ بُرے بھلے آدمی کے پہچاننے کا ہمیں معلوم نہیں ہے۔

حمد صاحب کا من جانب اللہ نبی ہونا یا نہ ہونا بھی اسی قاعدہ سے دریافت ہوسکتاہے جیسے کہ انبیاء سلف کا من جانب اللہ ہونا اوردوسرے معلموں کا جو بائبل مقدس سےالگ ہیں من جانب اللہ نہ ہونا بھی اسی قاعدہ سے ثابت کیا جاتاہے۔

اس کتاب کے پہلے حصہ میں جس کا نام تواریخ محمدی (جو ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہے) ہے جو ناظرین پر محمد صاحب کے افعال ظاہر ہوچکےہیں کہ وہ کام خُدا کے پیغمبروں کو لائق نہیں ہیں ۔ اس کتاب میں جس کا نام تعلیم محمدی ہے جو تلخیص الاحادیث(پاک اور صاف احادیث کا خلاصہ) کا دوسرا حصہ ہے حضرت محمد صاحب کی تعلیم کا بیان کرتا ہے۔

میری یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو دُکھ پہنچاؤں یا کسی کی اہانت(توہین) کروں مگر چونکہ میں نے خوب معلوم کرلیاہے کہ صرف بائبل ہی خُدا کا کلام ہے اوربائبل ہی والے پیغمبر خُدا کے رسول ہیں انہی ہی کی اطاعت سے شفاعت دارین حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے میں اس کلام کا منادہوں اورسب لوگوں کو خُداکے پاک کلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں پر اہل اسلام جومیرے قدیمی بھائی ہیں محمد صاحب کو خُدا کا نبی اوراس کی تعلیم کو الہٰی تعلیم بغیر فکر کئے جان بیٹھے ہیں ۔ اس لئےواجب ہے کہ انہیں خبردار کیا جائے یہ تعلیم محمدی اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور ہم جو اسے اللہ کی طرف سے نہیں جانتے ہیں اس کا کیا سبب ہے پس یہ سب تالیف اور تصنیف میری محض خیر خواہی اور دوستی ومحبت کےلئے ہے نہ کسی کی تکلیف کے لئے پر اگر حق بات کہنے سے کوئی ناراض ہو تو خیر میں معذور ہوں۔

مقدمہ

تعلیم کے اقسام اوراُن کی تعریفات کے بیان میں

میں دیکھتا ہوں کہ اکثر تعلیم یافتہ لوگ بھی عمدہ تعلیم کے معنوں سے کم واقف ہیں اوراس لئے بھی انہیں حق بات کا دریافت کرنا مشکل ہے بلکہ وہ یوں بھی کہتے ہیں کہ ہر تعلیم کی عمدیت اس کے اہل کی مزاج اور سمیات(زہریلی چیزیں ) پر موقوف ہے مثلاً گاؤ کشی اس وقت کے ہنود (ہندو کی جمع )کے سامنے برُی تعلیم ہے اور دوسرے لوگوں کےلئے کچھ برُی بات نہیں بلکہ مباح (جائز)امر ہے۔

اور بعض ہیں جو اس امر میں کچھ فکر ہی نہیں کرتے بلکہ آبائی تقلید کے سبب سے انہیں اپنے مرشدوں کی بُری باتیں بھی اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ غرض کہ عمدہ تعلیم کی تعریف بتلانا نہایت ضروری بات ہے اور اس پر فکر کرنا بھی سب حق پرستوں پر فرض عین ہے۔ اچھی تعلیم سچے نبی کا ایک بڑا نشان ہے یہاں تک کہ معجزات او رپیشیگوئیاں بھی اگر کوئی کرے اور فرشتوں جیسا چال چلن بھی بناکر دکھلادے اور دعویٰ رسالت کا کرے مگر اس کی تعلیم میں نقصان ہو یا اس کی تعلیم عمدہ تعلیم کی تعریف سے خارج ہو تو وہ آدمی پیغمبر خُدا کا ہونا عقلاً محال ہے اور اس کا قبول کرنا گمراہی میں پڑنا ہے ۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ معلم وہ ہے جو کسی بات کی تعلیم اپنے قول یا فعل سے دے۔

تعلیم وہ بات ہے جو کسی معلم نے سکھلائی خواہ خیال ہو یا رسم ودستور ۔ وغیرہ ہمارے خیال کی آنکھیں دنیا میں چار قسم کی تعلیمیں دیکھتی ہیں جھلی وعقلی نفسانی وروحانی۔

(۱۔) تعلیم جھلی وہ تعلیم ہے جو صحیح اور کشادہ عقل کے خلاف ہو یا اُس میں نادانی کی آمیزش ہو اور عقل صحیح کی روشنی اُس کی تاریکی دکھلاسکے جیسے بُت پرستی اور قبر پرستی اورنادانی کے عقیدے وغیرہ۔

(۲۔) تعلیم عقلی وہ تعلیم ہے جو آدمی کی عقل کے موافق ہوتی ہے اوریہ تعلیم پہلی تعلیم سےبہتر ہے مگر کافی نہیں ہے۔ امکان غلطی کے جہت سے اوراس سبب سے کہ بنی آدم کی عقلیں مدارج مختلف رکھتی ہیں اور گھٹتی وبھڑتی بھی ہیں۔ واضح رہے کہ عقل سے مراد یہاں اُن خیالات کا خزانہ ہے جو آدمی ذہن میں جمع کرتے ہیں پر وہ عقل جو روح کی صفت یا استعداور وحی ہے جسے روح کی آنکھ کہنا چاہیے اس کی ہدائیتیں البتہ مفید ہیں توبھی جب آدمی کی عقل بالائی روشنی عینی آفتاب صداقت سے منور ہوکر فکر کرتی ہے تو آدمی درست سوچتاہے ،پر جب ذہن کےکھوٹے کھرے مقدمات کی آمیزش سے وہ کام میں لائی جاتی ہے تو اُس میں بھی غلطی کا امکان ہے بلکہ آج تک چار طرف غلطیاں صاف نظر آتی ہیں۔

(۳۔) تعلیم نفسانی یہ وہ تعلیم ہے جو نفس کی خواہشوں کے موافق دی جاتی ہے بعض معلم اپنے نفس کی خواہشوں کے مغلوب ہیں اور ہر آدمی کا نفس شہوت پرستی اور عیاشی اورجسمانی لطف اور غرور اورحکومت اور غلبہ کا طالب ہے اور روح کی خواہشیں ضرورجسم کی خواہشوں کے خلاف ہیں ہر آدمی پر عقلاً واجب ہے کہ نفس کی خواہشوں کو مارے اور روح کی خواہشوں کی تکمیل کا فکر کرے پر بعض معلم نفس کے مغلوب ہیں اورانہوں نے اپنے نفس کی خواہشوں کو حتی المقدور پورا بھی کیا ہے او رویسی ہی تعلیم بھی دی ہے۔اگرچہ اپنی نفسانی تعلیم پرکہیں کہیں عقلی تعلیم کا ملمع(قلعی،ظاہری ٹیپ ٹاپ) بھی چڑھا یا ہے تاکہ نادانوں کو پھیلادیں توبھی ان کی تعلیم صاف ظاہر ہے یہ تعلیم سب تعلیمات سے زیادہ تر مفُر ہے۔

(۴۔) تعلیم روحانی یہ وہ تعلیم ہے جو آدمی کی روح کی اصل استعد دا اور اس کی سب عمدہ خواہشوں سے علاقہ رکھتی ہے۔

توضیح(کھول کربیان کرنا) اس کا یوں ہے کہ انسانی روح عالم تجرد(خلوت،تنہائی) کا ایک لطیف جوہرہے ۔عالم اجسام کی ترکیب سے متولد نہیں ہے چنانچہ اس کی خصائص(خصوصیت کی جمع) سے ظاہر ہے اور اس کے خصائص ایسے ہیں کہ اس جہان کی چیزوں سے تکمیل نہیں پاسکتے مثلاً وہ خوشی کی طالب ہے اوراس جہان کی کوئی چیز یاکل جہان اُس کی خوشی کو پورا نہیں کرسکتا مگر صرف عالم بالا کی خوشی سے اس کی سیری ہوتی ہے اسی طرح وہ انصاف دوست ہے اوربے انصافی سے اس میں ایذا پہنچتی ہے اور کامل انصاف کی اُمید اُسی خُدا میں ہے ۔ پر وہ اس وقت مقام خوف میں آپ کو دیکھتی ہے جب تک اُسے خُدا تسلی نہ دے اس کا خوف دورنہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح اُس کے اور اور خصائص بھی ہیں۔ پس جو تعلیم اس کی تشنگی کو بجھادے اوراس کے سوالوں کا جواب دے ایسا کہ اس کی تسکین ہوئے اُس تعلیم کو ہم تعلیم روحانی کہتے ہیں اوریہ بھی واضح رہے کہ عقلی تعلیم اگرچہ ایسی ہے کہ بعض اُمور میں جہاں تک عقل کی رسائی ہے ایسی ہدایتیں ملتی ہیں کہ کسی قدر روح تسلی پاسکتی ہے پر روح کی اُن خواہشوں کی تکمیل جواس جہان سے علاقہ نہیں رکھتی ہیں عقلی تعلیم سے ہرگز نہیں ہوسکتی ہے اور روح انسانی میں ایک اورہی قسم کا تعقل(سوچنا ،غور کرنا) ہے جس سے وہ اپنے دیس کی باتوں کو پرکھتی ہے اسی لئے سیدنا مسیح نے یوں فرمایا ہے (یوحنا ۷: ۱۷) جو کوئی خُدا کی مرضی پر چلنا چاہے وہ اس تعلیم کی بابت سمجھ جائے گا کہ کیا خُدا سے ہے یا میں اپنی کہتا ہوں ۔ یعنی جس آدمی کی روح کا تعقل زنگ خوردہ(زنگ لگا ہوا) نہیں ہے بلکہ حقیقی خوشی کی اُمنگ اس میں زندہ ہے وہ اس روحانی تعلیم کو جو میں دیتا ہوں سمجھ سکتاہے کہ یہ باتیں انسانی عقل کی تصنیف سے نہیں ہیں اللہ سے ہیں۔

پس بیان بالا کے بعد معلوم کرنا چاہیے کہ دین کی سچائی کےلئے یہ چوتھی قسم کی تعلیم مطلوب ہے اورجب ہم یوں کہتے ہیں کہ صرف بائبل مقدس ہی کی تعلیم عمدہ ہے اورسب جہان کی تعلیمات دین کے مقابلہ میں اس کے سامنے ہیچ ہیں توہمارا یہی مطلب ہے کہ صرف بائبل مقدس ہی کی تعلیم روحانی ہے اورچونکہ روحانی تعلیم عقل سے تولد نہیں ہوسکتی ہے اورنہ انسان کے روح سے پیدا ہوسکتی ہے اگرچہ امراض روحانی کا معالجہ ہے۔ پس وہ الہٰی الہٰام سے ہوتی ہے پس الہٰام کی شناخت کےلئے روحانی تعلیم کا ہونا پوری اورکامل شرط ہے جو معجزے اور پیشینگوئیاں اور معلم کی خوش چلنی یہ سب دوسرے قسم کی مہریں ہیں۔ خُدا سے اگرہم ایک اشرفی ہاتھ میں لے کر دریافت کرنا چاہیں کہ یہ کھوٹی ہے یاکھری تواس کے سونے کا کھرا ہونا دریافت کرنا پہلی بات ہے اوراس کے سکہ اور چھڑا(پاؤں کا کڑا) پر فکر کرنا دوسری بات ہے اگراس کا سب کچھ درست ہے تو وہ صحیح ہے پر ہوسکتا ہے کہ کھوٹے سونے پر کوئی جعلساز بادشاہ کا چھڑا اور سکہ لگادے اورآپ دیانتدار جوہری ظاہر ہوکے لوگوں کو فریب دے اس لئے بھائیو تعلیم کی عمدیت کا دیکھنا پہلے ضرور ہے۔

اب میں صاف کہتا ہوں کہ ہم محمد صاحب کی تعلیم کو عمدہ نہیں پاتے ہیں۔ اگر محمد صاحب کی تعلیم خُدا سے ہوتی ہے تو میں اپنے پیارے مسلمان رشتہ داروں کو اوراپنے قومی آرام کو چھوڑ کر اس عیسائیوں کی حقیر جماعت میں جہاں صدہا قسم کے دکھ بھی اٹھارہا ہوں ہر گز شامل نہ ہوتا ۔میں خوب جان گیاکہ صرف عیسائی دین خُدا سے ہے اس لئے سب کچھ اس کے واسطے سہنے کو حاضر ہوں تاکہ خُدا کے سامنے مقبول ٹھہروں۔

جب میں نے محمد صاحب کی تعلیم پر فکر کیا تو تین قسم کی تعلیم اُن کی پائی کچھ تعلیم ناواقفی سے علاقہ رکھتی ہے ۔مثلاً حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم کو عمران پدر موسیٰ کے بیٹے اورہارون کی بہن بتلانا وغيرہ اورکچھ باتیں صرف عقل سے علاقہ رکھتی ہیں مثلاً حزب بما لدلھیم فرحون ہر فرقہ اپنی حالت میں خوش ہے وغیرہ اور کچھ باتیں نفسانی خواہشوں سے علاقہ رکھتی ہیں مثلاً عورتوں کا بے نہائت تعثق وغیرہ اوریہ تین قسم کی تعلیم اُن کی بہت کثرت سے ہے۔ مگر چونکہ وہ بھی انسان تھے اور اُن میں بھی انسانی روح تھی جس کے واقعی خصائص عمدہ ہیں اس کی کشش سے اوراس دعوے کےلحاظ سےجوانہوں نے حصول دنیا کے لئے کیا تھا انہیں ضرور تھاکہ کچھ باتیں روحانی بھی بولیں سو انہوں نے خُدا کی کلام سے بعض عمدہ باتیں بھی نصرانی غلاموں کے وسیلہ سے معلوم کرکے قرآن میں بولی ہیں اور چونکہ الہٰی روح اس معاملہ میں اُن کی رہبر نہ تھی صرف انسانی عقل سے یہ انتظام تھا اس لئے اُن مضامین کی نقل کرنے میں اور ترتیب دینے میں اور نتائج نکالنے میں جگہ جگہ انہوں نے بہت ہی دھوکے کھائے ہیں اوربہت باتیں غلط طورپر سنائی ہیں اس کے سوا وہ عمدہ مغز روحانی باتوں کے جو روح انسانی کی تسلی کا باعث ہیں اور وہ خُدا ہی کی مدد سے سمجھے بھی جاتے ہیں انہوں نے ہر گز نہیں سمجھے اس لئے وہ عمدہ باتیں بھی جو کلامِ الہٰی سے اُنہوں نے انتخاب کی ہیں وہ بھی اُن کے قرآن میں آکر روح کے لئے تسلی بخش نہ رہیں کیونکہ کہیں کہیں سے ٹکڑے اڑائے ہوئے مفید نہیں ہوسکتے ہیں۔ اوریہ بات تو خوب ظاہر ہے کہ ہر جسمانی معلم اور وہ جو دھوکا دیتاہے کبھی دنیا میں نہیں دیکھا گیا کہ یہ سب کچھ غلط ہی بولے ہاں ایسے معلم غلط اور صحیح باتیں ملا کر بولا کرتےہیں اگر وہ سب کچھ غلط بولیں تو کون ان کی سنے گا۔ اوریہ بات بھی مسلم ہے کہ جب کوئی دنیاوی عقلمند تعلیم دیتا ہے تو اس کی وہ سب باتیں جو عقلاً صحیح ہیں قبول ہوتی ہیں اورجہاں پر اس کی غلطی ظاہر ہوتی ہے وہ بات چھوڑ ی جاتی ہے اس لئے کہ وہ انسانی عقل سے بولتا ہے اور انسان ہے اس لئے اپنی بھول پر بہت ملامت کے لائق نہیں ہے۔ پر جوشخص دعویٰ نبوت کے ساتھ تعلیم دے اورکہے کہ خُدا سے پاکر تمہیں سکھلاتا ہوں اس کی تعلیم میں سب کچھ صحیح ہوناچاہیے اگراس کی تعلیم میں تھوڑی سی بھی غلطی ظاہر ہو تو وہ معلم خُدا کی طرف سے نہیں ہے ۔مگر محمد صاحب کی تعلیم میں تو نہ صرف تھوڑی سے غلطی مگر بہت سی غلطی اور تھوڑی سی صحت ہے اور اس تھوڑی سی صحت کا ماخذ بھی معلوم ہے جو کامل صحت اپنے اندر رکھتاہے ۔اس لئے محمد صاحب کی نبوت کا انکار کرنا فرض عین ہے اور کلامِ الہٰی کی تصدیق کرنا نہایت ضروری بات ہے۔

ایک بات اور بھی ناظرین کتاب ہذا کو یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ یہ ہے کہ دنیا میں آدمیوں نے سب باتوں پر اعتراض کئے ہیں ۔راستی پر بھی اعتراض ہوئے ہیں اور ناراستی پر بھی اعتراض ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خُدا کی ذات پاک کو بھی آدمیوں نے بغیر اعتراضوں کے نہیں چھوڑا۔ پس کسی بات کو صرف اعتراضوں ہی کودیکھ کر ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ شائد اعتراض غلط ہوں اورکسی نے نادانی سے یا تعصب سے اعتراض کئے ہوں اس لئے واجب ہے کہ اُن اعتراضوں کے جوابوں پر پہلے غور کیا جائے اگر روح گواہی دے کہ جواب صحیح ہیں اور اعتراض غلط ہیں تو اُن اعتراضوں کی ہم کچھ پروا ہ نہیں کرتے اور اگر اعتراض صحیح ہیں اور جواب غلط ہیں تو معترض سچا ہے ۔دیکھو بائبل پر بھی ہزارہا اعتراض لوگوں نے کئے ہیں پر اُن کے ایسے شافی جواب موجود ہیں جو اعتراضوں کو فی الحقیقت اڑادیتے ہیں مگر قرآن اور تعلیم محمدی اورنبوت محمدی پر جو اعتراض ہوئے ہیں ناظرین کو چاہیے کہ علماء محمدیہ کی تصنیفات میں اُن کے جوابوں کودیکھیں اوراُن سے ان اعتراضوں کی بابت بات چیت بھی کریں انہیں خو دہی معلوم ہوجائے گا کہ اعتراض صحیح ہیں اور جواب غلط ہیں دیکھو مولوی رحمت اللہ صاحب نے اور حافظ ولی اللہ لاہوری نے اوردہلی کے امام صاحب نے اور آگرہ کے مولوی سید محمد صاحب نے اورلکھنو کے مجتہد صاحب نے اور، اور لوگوں نے بھی عیسائیوں کے جواب میں کیا کیا کچھ لکھاہے ناظرین آپ ہی انصاف سے کہہ سکتےہیں کہ کیا حقیقت میں عیسائیوں کےلئے جواب ہوگئے ہیں ہرگز نہیں ہم توبہت خوش ہیں کہ لوگ اُن کی کتابوں کو ہماری کتابوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور انصاف کریں کہ حق کدھر ہے۔ اب میں محمد صاحب کی تعلیم دکھلانا چاہتا ہوں اوریہ ان کی تعلیم چار (۴)قسم پر منقسم (تقسیم ،الگ الگ)ہے عقائد اورعبادات اور معاملات اور قصص اس لئے اس کتاب میں چار باب مقرر ہوتے ہیں اوران کی تعلیم کی سب ضروری باتوں کا ذکر آتاہے تاکہ ناظرین پوری مسلمانی سے واقف ہوں کہ کیاہے۔

پہلا باب

عقائد اسلامیہ کے بیان میں

عربی زبان میں عقیدہ کےمعنی ہیں گروہ لگائی ہوئی انسان پر واجب ہے کہ صحیح خیالات کے ساتھ اپنے روح کو باندھے اور وہ باتیں جن کے ساتھ روح باندھی جاتی ہے عقائد کہلاتے ہیں اوریہ عقائد ساری دین داری کی جڑ ہوتے ہیں چاہیے کہ اُن باتوں کے ساتھ روح کی بندش ہوجو قائم ودایم اور سچائی کی ہیں کیونکہ ایک وقت آئیگاکہ سب بطلان دفع ہوں گے وہ سچائی جو خُدا سے اورخُدا کی ذات میں ابد تک قائم ہے وہی باقی رہے گی ۔ پس ضرور ہے کہ آدمی کی روح سچائی کی طرف ہمیشہ تاکتی رہتی ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ پیوستگی حاصل کرے تاکہ جب قہر الہٰی کا طوفان تمام بطلان کے برباد کرنے کو زور مارے توہماری روحیں اُس سچائی کے ستون کو پکڑے ہوئے قائم رہیں۔ اسی واسطے ہردین مذہب کا معلم کچھ عقائد اپنے شاگردوں کو سکھلایا کرتاہے محمد صاحب نے بھی کچھ عقیدے سکھلائے ہیں مگر اہل اسلام کی کتُب عقائد دیکھنے سے معلوم ہوسکتاہے کہ صرف چند ضروری باتیں وہاں مذکور ہیں جو خُدا کی نسبت اورمحمد صاحب کی نسبت اوردیگر انبیاء اورکتُب انبیاء اور قیامت اور دوزخ بہشت کی نسبت ہیں باقی اوربیان جو وہاں ہیں وہ توجہ کےلائق نہیں ہیں ۔مثلاً خلیفہ اوّل کون ہے علی یا ابوبکر یہ بات عقلاً کچھ علاقہ ایمان سے نہیں رکھتی ہے۔ اسی طرح یہ کہ یزید کا فر تھا یا مسلمان۔ یا جب حضرت علی عائشہ سے لڑے تھے تو جانبین میں سے کس کے مرُدے دوزخ میں اورکس کے مرُدے بہشت میں گئے تھے ایسی ایسی باتیں ان اہل اسلام کے سب فرقوں میں جدی جدی(موروثی) ملتی ہیں۔ مگر میں ضروری باتوں کا ذکر کرتا ہوں۔

فصل اوّل

ایمان کے بیان میں

ایمان ساری دین داری کی بنیاد ہے مگر یہ ایمان دنیا میں سب فرقوں میں مختلف ہیں اس لئے صحیح ایمان حاصل کرنا ہر آدمی کا فرض عین ہے۔ محمد صاحب قرآن میں فرماتے ہیں کہ ایمان اور اعمال سے آدمی نجات پائے گا چنانچہ لکھاہے والشرالذین امنووعملو الصالحات ان لھم جناة تجری من تحتھا الانھار ’’خوشخبری سنادی اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک کام کئے اُن کےلئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں‘‘۔

اورایمان کےمعنی محمد صاحب کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ کلمہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کا زبان سے اقرار اور دل سے یقین ہوئے یعنی وحدت الہٰی اوررسالت محمدی کا یقین اور اقرار ایمان ہے اورنیک اعمال یہ ہیں کہ بعد ایمان کے آدمی قرآن اور حدیث کےحکموں پر چلے اوراس کی ہدائتوں کے موافق کام کرے ایسا آدمی نجات پائے گا اورایسے ہی کو نجات کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔

علماء محمدیہ میں اختلاف ہےکہ اعمال نیک ایمان میں شامل ہیں یا ایمان سے خارج ہیں۔ محمد صاحب نے بھی کبھی اعمال کو ایمان سے خارج کرکے بیان کیا ہے اورکبھی شامل کرکے دکھلایاہے۔لیکن اس بات پر حضرت کا زور ہے کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں اورایمان اوربات ہے اوراعمال اوربات ہے۔

’’مشکوات کتاب الایمان ‘‘میں بخاری ومسلم کی متفق علیہ ایک حدیث ابی ذر سے یوں لکھی ہے ابی ذر کہتاہے کہ

’’میں حضرت کے پاس آیا اُس وقت سفید چادر اوڑے سوتے تھے تب میں واپس چلا گیا جب پھر آیا توبیدار بیٹھے تھے پس فرمانے لگے کہ جو کوئی لا الہ اللہ اوراس پر قائم رہے کر مرے وہ بہشت میں داخل ہوگا (یعنی صرف خُدا کی توحید کے اقرار سے بد ونیک اعمال کے) ابی ذر نے کہا اگر وہ زنا اور چوری کیا کرے تو بھی بہشت میں جائے گا فرمایا زنا اور چوری کرکے بھی بہشت میں جائے گا ابی ذر نے تین بار اس بات کو تعجب کرکے پوچھا تب حضرت نے فرمایا زنا اور چوری کرکے بھی بہشت میں جائے گا ۔ ضرور جائے گا تیری ناک پر خاک ڈال کے (جب ابوذر اس حدیث کو سنایا کرتا تھا تو اس کے ساتھ یہ بھی کہا کرتا تھاکہ تیری ناک پر خاک ڈال کے )‘‘

دوسری حدیث اسی باب میں مسلم نے ابوہریرہ سے یوں بیان کی ہے کہ

’’جب محمد صاحب بنی نجار کےباغ میں تھے ابوہریرہ انہیں تلاش کرتا ہوا باغ کی موری سے اُن کے پاس پہنچا اورکہا حضرت ہم سب اصحاب آپ کی تلاش میں پھرتے ہیں دیکھو دیوار کی اس طرف سب دوست حاضر ہیں اس وقت حضرت نے فرمایا کہ یہ میری جوتیاں بطورنشانی کےہاتھ میں لے اورچلا جا جو کوئی تجھے اس دیوار کے پیچھے ملے اس سے کہہ کہ جو کوئی کہے لاالہ اللہ یقین کرے وہ بہشت میں داخل ہوگا پس ابوہریرہ چلا پہلے اُسے عمر خلیفہ ملے جب ابوہریرہ نے یہ خوشخبری سنائی اورجوتیاں دکھلائیں تو عمر نے اس کی چھاتی پر ایسی لات ماری کہ ابوہریرہ چوتڑوں کے بل گر پڑا اور چیخ مار کے رویا پھر محمد صاحب کے پاس آکر فریاد کی تب عمر نے پیچھے سے آکے کہا یا حضرت یہ بات نہ سناؤ لوگ اس کے بھروسہ پر عمل کرنا چھوڑدیں گے تب حضرت بولے اچھا نہ سناؤ عمل کرنے دو‘‘۔

ایسی روائتیں دکھلاتے ہیں کہ اعمال ایمان سے جُدا ہیں اور کہ نجات صرف ایمان پر ہے نہ اعمال پر (ف) مجھ سے کئی بار بعض اہلِ علم مسلمانوں نے بھی سوال کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی مسیح پر ایمان لائے اورساری بدکاریاں کیا کرے تو کیا اس کی نجات ہوگی۔ ان کا یہ مطلب تھاکہ اگرہم کہیں ہوگی تو وہ ٹھٹھا ماریں گے کہ یہ کیسی بُری تعلیم ہے اور جو ہم کہیں گے اعمال کی بھی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے کہ یہ نجات نہ صرف ایمان پر ہے مگر اعمال پر ہے۔ یہ خیال ان کے دل میں اس لئے آتاہے کہ وہ حقیقی ایمان کےمعنی سے ناواقف ہیں ۔محمدی ایمان اور مسیحی ایمان کا ایک ہی مطلب جانتے ہیں۔ پر ناظرین کو آئندہ سطروں میں اس کا فرق معلوم ہوجائے گا یہاں صرف یہ معلوم کرنا چاہیے کہ محمد صاحب خود فرماتے ہیں کہ ساری بدکاری کرے اور صرف اللہ کی وحدت کا قائل ہو تو بھی بہشت میں جا ئے گا۔ اگرچہ یہ حدیثیں قرآن کی آیت بالا کے ظاہری معنی کے خلاف ہیں توبھی صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں لکھی ہیں معتبر حدیثیں ہیں اور قرآن کی تفسیریں اور قرآن کی باطنی حالت کے مخالف نہیں ہیں۔

پھر مشکوات باب الکبائر میں ترمذی وابوداؤد سے ابوہریرہ کی یوں روائت ہے فرمایا

’’حضرت نے جب کوئی آدمی زنا کرتاہے تو اس کا ایمان اس کے دل میں سے نکل کے اس کے سر پر سائبان کی طرح کھڑا ہوجاتاہے جب وہ زنا کرچکتا ہے تو پھر ایمان دل میں آجاتا ہے‘‘۔

ان سب باتوں سے کئی ایک نتیجے نکلتے ہیں اوّل حضرت محمد کی تعلیم میں ایک فقرہ ہے یعنی کلمہ جس کے مضمون کا اقرار اور یقین ایمان ہے اوراس فقرہ کی دو جز ہیں پہلا لا الا للہ یعنی کوئی اللہ نہیں مگر ایک اللہ ہے کبھی تو صرف اسی جز کو ایمان بتلایا ہے اورکبھی دوسرا جز بھی اس کے ساتھ ملایا ہے کہ محمد الر سول اللہ یعنی محمد اللہ کا رسول ہے۔ پہلی جُز کو ہم بسر وچشم قبول کرتے ہیں ۔بشرطیکہ وحدت وجودی اور وحدت حقیقی اُس سے مراد نہ ہو بلکہ وحدت سے وہ وحدت مراد ہوئے جس کی کہنہ (پرانا)معلوم نہیں ہے۔

توبھی یہ اکیلا جز عقلاً ونقلاً موجب نجات نہیں ہوسکتا ہے سب شیاطین بھی جانتے ہیں کہ خُدا واحد ہے۔ پس جب ان کے حق میں یہ جز مفید نہیں ہے تو ہمیں کس طرح مفید ہوگا اورمحمد صاحب بھی اس اکیلے جز کو مفید نہیں جانتے ہیں اگرچہ کبھی کبھی مفید بتلایا ہے پر کبھی کبھی اس کے ساتھ دوسرا جز ملاتے ہیں یعنی محمد الرسول اللہ مگر یہ جز ثبوت رسالت کا محتاج ہے جو محال ہے ۔بالفرض اگریہ قرآن اوریہ حدیث اوریہ تواریخ محمدی دنیا میں نہ ہوتی اورمحمد صاحب کی رسالت ثابت بھی ہوتی تو بھی یہ جز پہلی جز کے ساتھ کافی نہ تھا کوئی اوربات بھی مطلوب تھی جس سے نجات کی خصوصیت اور استحقاق کلمہ کے مضمون میں پیدا ہوتا۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ ایمان انسان کا کام ہے یعنی انسان آپ اس کو پیدا کرکے تھامے رہے۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اعمال حسنہ ضرور اس ایمان سے جُدا ہیں۔

چوتھی یہ معلوم ہوا کہ یہ ایمان کچھ مدد نہیں کرسکتا ہے جب کسی کا نفس امارہ سرکشی کرتا ہے تو یہ ایمان زنا کے وقت اپنا گھر چھوڑ کر سر پر جا کھڑا ہوتا ہے اور منتظر رہتاہے کہ کب وہ زنا کرچکے تاکہ پھر اُس میں داخل ہو۔

انچویں یہ معلوم ہواکہ اس ایمان کو حضرت باعث نجات بتلاتے ہیں اوراعمال حسنہ کو بطور مصلحت کے کرنے دیتے ہیں ۔ ان حدیثوں میں اور قرآن میں ایمان واعمال ہر دو کو موجب نجات بتلاتے ہیں پس حدیثیں جو قرآن کی تفسیر ہیں اُن سے معلوم ہوگیاکہ قرآن میں بھی اعمال کی قید مصلحتاً ہے پر نجات صرف اُسی ایمان پر ہے یہ مختصر بیان محمدی ایمان کا ہے اگر کوئی اسے پسند کرتا ہے تو قبول کرے۔

اب مسیحی ایمان کا مختصر حال سنو

ایمان کا مغز یا ایما کی جان یہ ہےکہ اُس سچے اوربرحق زندہ خُدا پر آدمی کے دل کا بھروسہ قائم ہوجائے خُدا پر دل ٹھہرے اورتکاؤ حاصل کرے۔ مگر تفصیل اس کی یوں ہے کہ جس طرح خُدا نے اپنے آپ کو بائبل میں ظاہر کیا ہے اسی طرح سے اس کی نسبت یقین کیا جائے کہ خُدا ایک ہے اورا س کی یکتائی میں اقانیم ثلاثہ ہیں یعنی باپ، بیٹا اورروح القدس ایک واحد خُدا ہے اور یہ وحدت اس کی قیاس سے باہر ہے پر الہٰی انکشاف سے ہماری روحوں پر یہ بھید منکشف ہوتاہے کوئی آدمی اپنی قوت فکریہ سے اس کو سمجھ نہیں سکتا پر خُدا جس کو سمجھادیتا ہے وہ سمجھ جاتاہے اورقبول کرتاہے تب یہ ایمان عقل سے متولد نہیں ہوتا مگر خُدا بخشتا ہے وہ آپ بتلاتاہے کہ میں کیسا ہوں۔ پس یہ ایمان خُدا کی بخشش ہے جسے مرحمت(مہربانی) ہو انسان کا صرف اتنا فرض ہے کہ خُدا سے صحیح ایمان مانگے۔ پس جب انسان کی طرف سے ایمان صحیح کی طلب اپنےد رجوں پر ہو تو وہ ایمان جو آسمانی تاثیر ہے خُدا اس کو ضرور بخش دیتاہے ۔جب تک طلب میں خلوص نہ ہو وہ نہیں ملتا ہاں بعض وقت اُن کو بھی مل جاتاہے جو نہیں ڈھونڈتے پر ایسی بات خُدا کی پوشیدہ حکمت سے متعلق ہے پر وہ قاعدہ کہ جو کوئی ڈھونڈتاہے پاتاہے عام انتظام کے ساتھ علاقہ رکھتاہے اوراسی لئے انسان طلب میں قصور کے سبب ملزم بھی ہوتاہے۔

اس صورت میں حقیقی ایمان خُدا کا کلام ہے نہ آدمی کا کیونکہ خُدا آدمی کے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراپنی ذات پاک کو اس کی روح کے سامنے ظاہر کرتااور یوں آدمی کا دل خُدا پر قائم ہوتاہے اورجیسے بچہ نو پیدا جب والدہ اس کے منہ میں چھاتی دیتی ہے وہ شیر کو کھینچتاہے اسی طرح جب ہمیں یہ ایمان اللہ سے ملتاہے توہم اس ایمان کے وسیلہ سے خُدا سے قوت کھینچتے ہیں اورسارے نیکی کے کام کرنےکی طاقت پاتے ہیں اورساری بدخواہشوں کو دبانے اورمارنے کا زوربھی پاتے ہیں اوریوں ہماری ساری پارسائی اور تمام اعمال حسنہ اسی ایمان کے پھل ہوتے ہیں جہاں یہ ایمان ہوتاہے وہاں نیک اعمال ضرور پائے جاتے ہیں بغیر اس کے اعمال حسنہ ہو نہیں سکتے اورنہ وہ بغیر اعمال حسنہ کبھی کہیں پایا جاسکتا ہے ۔ایمان واعمال لازم وملزوم ہیں اوراس ایمان کی آزمائش اکثر امتحانوں کے وقت ہوا کرتی ہے کہ وہ موقع پر اپنی طاقت دکھلاتا ہے یہی مسیحی زندہ ایمان آدمی میں اُمید پیداکرتاہے۔ اس مسیحی ایمان کی بھی حقیقت میں دو ہی بڑے جز ہیں پہلا اللہ کی ذات کو ویسے ہی قبول کرنا جیسے اللہ نے آپ کو الہٰام سے ظاہر کیاہے کہ وحدت اقانیم ثلاثہ میں ہے اور اقانیم ثلاثہ وحدت میں ہمیں دوسرا یہ کہ اقنوم ثانی نے جسم کو اختیار کیا اورہمارے لئے سب فرائض ادا کئے اورہمارے گناہوں کا کفارہ ہوا۔ پس وحدت فی التثلیث اور کفارہ کا یقین اور اقرار کرنا بیان ہے اس دلی ٹکاؤ کا جو اللہ سے عنائت ہوا ہے اورا س ایمان میں جس میں کفارہ کا ذکر آیاہے نجات پانے کی وجہ بھی صاف صاف مذکور ہے یعنی کفارہ، عیسائی ایمان کا کلمہ یہ ہے جسے رسولوں کا عقیدہ کہتے ہیں۔

میں اعتقاد رکھتا ہوں خُدا قادرِ مطلق باپ پر جو آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اوراس کے اکلوتے بیٹے ہمارے خُداوند یسوع مسیح پر جو روح القدس سے پیٹ میں پڑ ا کنواری مریم سے پیدا ہوا ۔ پینطس پیلاطس کی حکومت میں دکھ اٹھایا صلیب پر کھینچا گیا مرگیا اور دفن ہوا اورعالم ارواح میں جا اترا اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا آسمان پر چڑھ گیا اور خُدا قادرِ مطلق باپ کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے جہاں سے وہ زندوں او رمرُدوں کی عدالت کرنے کو آئے گا۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں روح القدس پر پاک کلیسیا ئے جامع پر مقدسوں کی رفاقت گناہوں کی معافی جسم کے جی اٹھنے اورہمیشہ کی زندگی پر۔

سب عیسائی فرقے اس پر متفق ہیں بعض فرقے اس عبارت کو حفظ رکھتے ہیں اور بعض صرف اُس کے مضامین پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس عقیدہ کا ہر جز نہائت مضبوط اور قوی دلیل سے ثابت کیا گیا ہے اور ہر چیز پر دلائل کی کتابیں جدا جداموجود ہیں اگر کوئی اُن دلائل پر سوچے تو جانے گا کہ اس عقیدہ کا ہر ہر جزُ ایمان حقیقی کا ایک ایک رکن ہے اور زندگی کی تصویر اس میں منقش ہے۔

حمدی ایمان اوراس ایمان میں زمین آسمان کا فرق ہے اورجو ایمان اُنہوں نے پیش کیا ہے وہ اہلِ فکر کےلئے تسلی کا باعث نہیں ہیں بلکہ گھبراہٹ کا باعث ہے ۔پر یہ مسیحی ایمان جس پر سب پیغمبر بھی متفق ہیں نہائت تسلی بخش اور موثر ہے۔

دوسری فصل

انبیاء وکتُب سابقہ کے ذکر میں

محمد صاحب نے یہ عقیدہ بھی سکھلایا ہے کہ سب نبیوں اور پیغمبروں پر بھی ایمان لانا چاہیے یعنی اقرار کرناکہ سب رسول جو اللہ کی طرف سے دنیا میں آئے برحق تھے اُن میں سے بعض مشہور نام بھی قرآن حدیث میں مذکور ہیں اور اُن کی تعداد کے باب میں مختلف حدیثیں ہیں اوراُن کے درجوں میں بھی فرق دکھلایا گیا ہے بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔

ان کی کتابوں کی نسبت بھی حضرت کا یہ بیان ہے کہ وہ سب کتابیں جو نازل ہوئیں برحق ہیں یہ اعتقاد ہر مسلمان کو رکھنا ضرور ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہے۔

پھر ان کتابوں میں بعض کو صحائف یعنی چھوٹی کتابیں بتلایا ہے اور چار بڑی کتابیں بیان ہوئی ہیں۔ توریت، انجیل ، زبور اورچوتھا اُن کا قرآن پر اس وقت قرآن کو چھوڑ کر پہلی کتابوں کا ذکر ہے۔

پس اگلے پیغمبروں اوران کی کتابوں کی نسبت جو اہل اسلام کا اعتقاد ہے کہ وہ سب برحق ہیں یہ نہائت سچا اور پاک عقیدہ ہے۔ مگر اُن کا یہ بیان کہ اگلے پیغمبروں اورکتابوں کو برحق تو جانو لیکن اُن پر عمل نہ کرو کیونکہ وہ منسوخ ہوگئی ہیں یہ خوفناک عقیدہ ہے اورکوئی اہل فکر اس کو قبول نہ کرے گا۔

(ف) بعض مسلمان کہا کرتے ہیں کہ دیکھو ہم کیسے صلح کار ہیں ہمارا یہ اعتقاد ہے امنت باللہ وملائیکتہ وکتبہ ورسلہ میں ایمان رکھتا ہوں اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی سب کتابوں اوراس کے سب رسولوں پر۔ مگر عیسائی محمد صاحب کو قبول نہیں کرتے ہیں دیکھو یہ کیسا مغالطہ ہے۔ آپ صرف اُن کی حقیقت کے قائل ہوتے ہیں پر ان کی اطاعت سے منع کرتے ہیں ہمیں کہتے ہیں کہ تم محمد صاحب کی حقیقت کے بھی قائل بنو اوران کی اطاعت بھی کرو کیا عمدہ حیلہ سے ہمیں پیغمبروں کی سنگت سے الگ کیا چاہتے ہیں۔

واضح ہو کہ مسلمانوں کے اس عقیدہ میں بھی بہت سے خوف خطرے واقع ہیں اگر عدالت کے دن خُدا تعالیٰ کسی مسلمان سے پوچھے کہ کیا تونے میرے پیغمبروں کو نہیں پہچانا تو وہ کہہ سکتاہے کہ بے شک میں انہیں جانا کہ وہ برحق ہیں اورتیری سب کتابوں کو بھی برحق سمجھالیکن میں نے اُن پر عمل نہیں کیا میں نے پیغمبروں کو اور کتابوں کو دیدہ ودانستہ پہچان کر چھوڑ دیا دیکھو یہ شخص اقرار کرتاہے کہ میں پورا سرکش ہوں میں نے جان لیا توبھی عمل نہ کیا اب اس شخص کے پاس کیا عذر ہے۔

البتہ ایک عذر ہے کہ میں نے اُن کتابوں کو منسوخ سمجھا تھا اور قرآن کو ناسخ (منسوخ کرنے والا)جانا تھا محمد صاحب کے ارشادسے۔ لیکن خُدا تعالیٰ اس کو یوں قائل کرسکتاہے کہ کیا میں صادق القول اور قدیم وازلی ابدی نہیں ہوں کیا میرا کلام قدیم نہیں ہے کیا میں دنیاوی حکام کی مانند اپنے عہد کو بدلا کرتا ہوں کیا تونے نہیں سنا تھا کہ آسمان اور زمین جو مخلوق ہیں ٹل سکتے ہیں مگر میراکلام جو قدیم ہے ٹل نہیں سکتا پھر تونے اس کی نسبت منسوخ ہونے کا گمان کیوں کیا اگر میں منسوخ ہوجاؤں تو میراکلام بھی منسوخ ہوسکتاہے پر میں تو قائم دائم ہوں۔

کیا صرف محمد صاحب کے کہنے سے تونے اعتقاد کیا۔ پس تونے اُن میں کونسی نشانی رسالت کی پائی جس سے سمجھا کہ وہ میرے رسول ہیں اور کونسی معرفت کی بات تونے قرآن میں دیکھی جس پر تو فریفتہ ہوا ؟کیا صرف لفظی فصاحت جو سب شعراء کی کلام میں ہوتی ہے اس کے سوا یہ ان کا کہنا کہ میرے قرآن سے سب کلام الہٰی منسوخ ہوا ہے ۔ یہی ایک دلیل عدم نبوت کی تھی جو تونے سنی اوراس پر نہیں سوچا۔ اب بتلاؤ کہ اس عقیدہ والے کے پاس کونسا عذر باقی ہے جس سے وہ بچے ۔

ایک اوربات ہے کہ محمد صاحب نہ صرف یہ سکھلاتے ہیں کہ وہ کتابیں منسوخ ہیں بلکہ اُن کے پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں دیکھو مشکوات باب الایمان میں دارمی سے جابر کی روائت یوں لکھی ہے کہ

’’عمر خلیفہ حضرت کے پاس ایک توریت شریف لائے اورکہا یا حضرت یہ توریت کا ایک نسخہ ہے حضرت چُپ کرگئے اورعمر خلیفہ اُسے پڑھنے لگا تب تو حضرت کا چہرہ غصہ سے بدل گیا پاس سے ابوبکر خلیفہ نے عمر کو خطاب کرکے یوں کہا تجھے روویں ماتم کرنے والایاں یعنی تو مرجاے پڑھے جاتاہے اور رسول اللہ کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تب عمر نے حضرت کا چہرہ بدلا ہوا دیکھا اور ڈر کرکہا خُدا اور رسول کے غصہ سے خُدا کی پناہ ہم راضی ہوئے اللہ سے کہ وہ ہمارا رب ہے اور اسلام سے کہ وہ ہمارا دین ہے اورمحمد سے کہ وہ ہمارے رسول ہیں تب حضرت بولے کہ مجھے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرانفس ہے اگر موسیٰ تمہارے سامنے ہوتا تو تم مجھےچھوڑ کر اس کے تابعدار ہوجاتے اورگمراہ ہوتے سیدھی راہ سے اور اگر موسیٰ جیتا رہتا اور میرا وقت پاتا تو میرا تابعدار ہوتا‘‘۔

اس حدیث سے علماء محمدیہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن حدیث کو چھوڑ کر یہود اور نصاریٰ اورحکماء کی کتابوں پر رجوع کرنا منع ہے۔

اور میں یہاں سے یہ نتیجہ نکلتا ہوں کہ محمد صاحب جو توریت ، انجیل ، زبور کوخُداکلام بتلاتے ہیں اورپھر اُسی خُدا کےکلام کےپڑھنے اورسننے سے نفرت رکھتے ہیں تو ضرور یہ خُدا کے رسول نہیں ہیں ورنہ اپنے بھیجنے والے کےکلام سے انہیں بعض نہ ہوتا ۔

اگر کوئی کہے وہ کتابیں منسوخ ہیں اور عدم نسخ کی دلیل بالا پر توجہ نہ کرے تو ہمارا یہ جواب ہے کہ اگربالفرض ایسا ہے تودیکھو کہ قرآن میں کس قدر آیات منسوخہ موجود ہیں جنہیں حضرت نے خود منسوخ کیا ہے اُن کے پڑھنے سے حضرت نے کیوں منع نہ کیا اورانہیں قرآن سے خارج کیوں نہ کیا ؟اگراُنہیں خارج نہیں کرتے اورنماز میں بھی پڑھتے ہیں تو انہیں بھی پڑھو بلکہ قرآن کے ساتھ کتُب مقدسہ کو بھی مجلد کرو۔

اورجو کہ اُن میں تحریف ہوگئی ہے تواس کا ثبوت پیش کرنا چاہیے اورمحمد صاحب تو توریت شریف میں ہرگز تحریف لفظی کے قائل ہی نہیں ہیں دیکھو تفسیر فوز الکبیر جومسلمانوں نے بمبئی میں چھاپی ہے اس میں درمیان مخاصمہ کے یہود کی نسبت یہ عبارت لکھی ہے

’’اماتحریف لفظی درترجمہ توریت وامثال آن بکارمے بروندنہ دراصل پیش این فقیر این چنیں محقق شد ہو تو قول ابن عباس‘‘۔

یعنی ابن عباس کے قول سے مجھ فقیر کو (مولوی ولی اللہ محدث دہلوی پدر مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب کو) یہ ثابت ہواہے کہ اصل توریت میں تحریف نہیں ہوئی مگر ترجمہ میں تحریف لفظی یہودی کیا کرتے تھے۔

پس محمد صاحب کو لازم تھاکہ اصل توریت عبری اپنے قرآن کے ساتھ مجلد کرتے اوراس کے پڑھنے سے ناراض نہ ہوتے جیسے ہم نے انجیل کے ساتھ تمام کتب الہٰامیہ سابقہ کو مجلد کیاہے۔

اس کے سوا یہ بات ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک تنسیخ صرف بعض احکام میں ہوتی ہے اورکسی مضمون میں نہیں ہوسکتی بالفرض اگر کتُب مقدسہ منسوخ ہیں تو یہ نسخ ان کے احکام کی نسبت ہوگا نہ کل کتاب کی نسبت ۔پس کلام الہٰی کے قصجات اورخُدا کی ذات پاک اورارادے اورعہود کا ذکر اور روحانی ہدایتیں اور معرفت کے بھید جو اس میں بشدت بھرے ہیں وہ سب تو اُن کے عقیدہ کے موافق بھی منسوخ نہیں ہوسکتے۔ پس اُن بعض احکام کےلئے ساری پاک کتاب سے بعض رکھنا اورپھر یہ بھی کہنا کہ یہ برحق کلام الہٰی ہے یہ کونسی انصاف کی بات ہے۔

پس ناظرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا اقرار کرکے اُن پر عمل نہ کرنے والا اس کی نسبت جس نے نہیں پہچانا زیادہ سزا کے لائق ٹھہرے گا کیونکہ یہ اپنے ہاتھ آپ کاٹنے ہیں پس یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہم سب نبیوں پر اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں مگر اُن پر عمل نہیں کرتے خوفناک اور مضر عقیدہ ہے۔

سیدنا مسیح نے اگلے پیغمبروں کو اوراُن کی کتابوں کی بہت عزت کی ہے اور توریت شریف کی نسبت فرمایاکہ اس کا ایک شوشہ نہ ٹلے گا اورپولوس رسول نے گواہی دی کہ سارا نوشہ الہٰام سے ہے اورانسان کی بہتری کے لئے شروع سے مسیحی جماعت نے سارے پیغمبروں کی کتابوں کو انجیل کے برابر کلام الہٰی سمجھا اور سارے پیغمبروں کی سب کتابوں کو انجیل کے مجموعہ کے ساتھ ایک جلد میں باندھ کر ایمان اور عبادت اور قربت الہٰی کا وسیلہ جانا اورآج تک جس ملک میں جاتے ہیں سارے پیغمبروں کی کتاب کا مجموعہ پیش کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے دیکھو یہ راستی ہے یا وہ راستی ہے جو محمد صاحب نے سکھلائی ہے۔

البتہ محمدیوں میں اور عیسائيوں میں اس معاملہ کے درمیان ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ عہدجدید کی تعلیم پورا علاقہ رکھتی ہے عہدعتیق کی تعلیم سے کیونکہ ایک ہی مصنف اس مجموعہ کا ہے۔ مگر محمدی تعلیم اس مجموعہ سے کامل جدائی رکھتی ہے اوراس کے سامنے اس کی روشنی تاریک ہوجاتی ہے اس لئے وہ اس کو دور دور کرتے ہیں اورمحمد صاحب جانتے ہیں کہ اس مجموعہ کی ہدایتوں کے سامنے قرآن آدمی کے دل میں ٹھہر نہیں سکتا ہے اس لئے اس کے پڑھنے سے روکا اورخُدا کاکلام سن کے غصہ آیا۔

آج تک مسلمان کلام الہٰی کے پڑھنے سے ڈرتے ہیں مگر عیسائی اُن کے قرآن سے نہیں ڈرتے خوب پڑھتے ہیں خیالات وہی درست ہیں جو کسی کے اکھاڑنے سے اکھڑنہ سکیں اوریہ کیا بات ہے کہ وہ بات نہ سنو تب یہ بات قائم رہے گی ۔ صاحب خُدا کا دین وہی ہے جو سب کچھ سننے کے بعد بھی قائم رہتاہے مسیحی لوگ تمام جہان کے مذہبوں کی کتابوں کو پڑھتے ہیں اورسب اعتراض جو کلام الہٰی پر ہوتے ہیں سنتے ہیں توبھی قائم ہیں کیونکہ یہ خُدا کا دین ہے۔

تیسری فصل

قرآن کے بیان میں

حضرت محمد نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ قرآن خُدا کا کلام ہے جو مجھ پر نازل ہواہے اللہ کی طرف سے لفظ بہ لفظ خُدا نے بھیجا ہے بعض عالم کہتے ہیں کہ عبارت اور مضامین دونو ں خُدا سے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف مضامین قدیمہ خُدا سے ہیں اورسب جسم کا کام ہے۔ اتقان نوع ۱۶ میں لکھاہے کہ

’’یہ قرآن پہلے لوح محفوظ میں تھا وہاں سے سب کا سب یک مشت فرشتے رمضان کےمہینے میں اٹھالائے (جیسے قرآن میں بھی لکھا ہے)اور اس آسمان دُنیاپر لارکھا اور یہاں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر حسب ضرورت حضرت محمد پر نازل ہونا شروع ہوا ۲۰برس یا ۲۳برس یا ۲۵برس تک آتا رہا‘‘۔

مظاہر الحق جلد دوم کتاب فضایل القرآن میں لکھاہے کہ

’’قرآن تین دفعہ جمع ہوا ہے۔ پہلے آنحضرت کے سامنے جمع ہوا تھا مگر ایک جلد میں نہیں متفرق ورقوں پر لکھا گیا تھا۔۔۔ دوسری بار ابوبکر خلیفہ اوّل نے ایک جلد میں جمع کیا تھا۔ تیسری بار عثمان نے جمع کیا تھا اور قریش کے محاورات میں لکھا(اورمحمد صاحب کے عہدکے ورقے اور ابوبکر کا مجلد قرآن بھی جلادیا) پر وہی عثمان کا جمع کیا ہوا اب تک مسلمانوں کے پاس موجود ہے(جس کے محاورات میں تصرف ہے)‘‘۔

قرآن میں (۳۰) پارے یا ٹکڑے ہیں اور (۱۱۴) سورتیں یا باب ہیں اوراس میں ساری چیزوں کا بیان ہے اور سارے علوم اس میں ہیں (میں نے اُن سب علوم پر جو قرآن سے نکال کے اہلِ اسلام نےدکھلائے ہیں غور کئے ہیں یہ بات ہر گز درست نہیں ہے کہ اس میں سارے علوم ہیں بلکہ ساری شریعت محمدی بھی اس میں نہیں ہے اسی لئے تو اہلِ اسلام کو احادیث واجماع امت اور قیاس کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ساری شریعت قرآن میں نہیں ہے۔

اور وہ علوم جو لوگوں نے نکال کے فہرست دکھلائی ہے وہ کچھ بات نہیں ہے اُنہوں نے ایک ایک لفظ کو ایک ایک علم سمجھا ہے مثلاً وہاں لکھاہے الف لام میم کسی نے کہا کہ یہ جبر مقابلہ ہے میں نہیں جانتا کہ یہاں سے جبر مقابلہ کس طرح نکلا پر جب مرُدوں کے مال کی تقسیم کا ذکر آیا تو کسی نے کہا کہ وہاں سے علمِ حساب نکلا اور جب زیتون وانجیر کا لفظ آیا تو وہاں سے علم ِطب نکلا۔ اور زیادہ تر قرآن کی عبارت اور فقروں کی تقسیم اور صرف ونحواور صنائع بدائع (وہ عجیب وغریب نکات اور باریکیاں جو نظم میں ظاہر کی جائیں )کا ذکر اوریہ کہ رات کی کون کون آیتیں ہیں اور دن کی کون کون آیتیں ہیں اور عورتوں کے پاس سوتے وقت کون کون آیتیں نازل ہوئیں جاڑے میں کون کون اور گرمی میں کون کون نازل ہوئیں ایسی بہت سی باتوں کا مجموعہ کو قرآن کے علوم بتلاتے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ ساری دُنیا کے علوم اُس میں ہیں جس معنی سے اورجس طرح پر کہ قرآن سے علوم نکلتے ہیں اس طرح سے تو دُنیا کی ہر ایک کتاب میں سب جہان کے علوم بھرے ہوئے نظر آتے ہیں پس یہ بات کچھ جان نہیں رکھتی ہے۔

ہمارا خیال جوہم خُدا کو حاظر وناظر جان کے بے تعصب قرآن کی نسبت رکھتے ہیں یہ ہےکہ قرآن ایک کتاب ہے محمد صاحب کے ملفوظات(ملفوظ کی جمع زبان سے بولی ہوئی بات) عثمان نے اس میں جمع کئے ہیں ۔آسمان سے ہر گز نازل نہیں ہوا کچھ باتیں حضرت نے یہودیوں اور عیسائيوں سےسن کر لکھی ہیں اوران کے سمجھنے میں بھی کہیں کہیں غلطی کھائی ہے اورکچھ اپنے ملک عرب کے دستور اورکچھ قرب وجوار کے علاقوں کے دستور اورباتیں اُس میں درج ہیں اور کچھ اپنے دوستوں کی صلاح ومشورہ کی باتیں اور عورتوں کے ذکر اور لڑائی وغیرہ کی باتیں اور تقسیم اموال لوٹ وغیرہ کی باتیں جو وقوع میں آئیں اس میں لکھی گئ ہیں۔

اُس ساری کتاب میں جو جو باتیں کلام الہٰی کے موافق ہیں سب درست اوربجا ہیں مگر وہ حضرت کا الہٰام نہیں ہیں اہلِ کتاب اور عوام وخواص سے معلوم کرکے لکھی گئی ہیں۔ پر جوباتیں کلام کے خلاف ہیں وہ اُن کی اپنی باتیں ہیں وہ ایسی کمزور ہیں جو خود ظاہر کرتی ہیں کہ خُدا سے نہیں ہیں جب تک قرآن میں کچھ ایسی خصوصیات نہ دکھلائی جائے جس سے اس کا من جانب اللہ ہونا ثابت ہو اورجب تک ہمارے خیالات کو نہ توڑ ڈالا جائے جن سے قرآن کامن جانب اللہ نہ ہونا ثابت ہے تب تک اس عقیدہ کو کہ قرآن خُدا سے ہے قبول نہیں کرسکتے ہیں اور سب ناظرین پر بھی واجب ہے کہ یہی طور اختیار کریں کیونکہ جیسے ہر ایک صحیح عقیدہ ہماری روحوں کو فائدہ بخش ہے اسی طرح ہر ایک باطل عقیدہ روحوں کو سخت مضر بھی ہے۔

بائبل کی نسبت ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ خُدا کا کلام ہے ہم نہیں کہتے کہ لفظ بہ لفظ خدا کا کلام ہے کہیں کہیں خُدا کے منہ سے بھی بعینہ الفاظ مرقوم ہیں پر اکثر عبارتیں پیغمبروں کی ہیں۔ مضامین اللہ سے ہیں اوراس مجموعہ کا نہ ایک شخص کوئی آدمی مصنف ہے مگر بہت سے پیغمبر اس کے مولف ہیں ۔لیکن ایک ہی روح اللہ کے اُن سب مصنفوں میں بولتی تھی جو متفرق زمانوں میں تھے اورایک ہی حقیقی مطلب پر سب بولتے تھے۔

عزرا کاہن نے عہدِ عتیق کو آخر میں مرتب کیا اورکلیسیا نے عہدِ جدید کو ترتیب دی اور اختلاف نسخ بھی اب تک موجود رکھی۔

پر اس کلام میں ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے سارے علوم بھی بھرے ہیں ۔ہاں تمام روحانی تعلیم اور زندگی کی باتیں اورالہٰی ارادے اور خُدا کی پوشیدہ حکمتیں اور قدرتیں اور انتظام اُس میں مذکور ہیں دنیا کے سب علوم اسے سجدہ کرتے ہیں اور سب پرکھیوں اور نقادوں کے ہاتھ میں آکے وہ کلام کھرا ٹھہرتا ہے اوریہی ایک کلام ہے جو خُدا کی ساری خُدائی کا ثبوت کرتاہے اورانسان کی بہتری کی راہ دکھلاتاہے اوربہت سی خصوصیتیں اپنے اندر رکھتاہے۔ جس سے اس کا من جانب اللہ ہونا ظاہر ہوتاہے اوربہت سی طاقتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہے جس سے اپنے مخالفوں کے باطل خیالات کو توڑ ڈالتاہے وہ ہر ایک درجہ کے آدمیوں کی سمجھ کے ساتھ علاقہ بھی رکھتاہے اورسب کے لئے ہدائت بخش اور مفید ہے وہ حدیثوں کا اوراجمائع اُمت کا اور قیاس کا محتاج نہیں ہے پر خُدا کی پوری مرضی ظاہر کرنے پر قادر کلام ہے اوراس ہمارے دعوے کے ثبوت میں پہلے تویہی کہنا کافی ہے کہ اس کلام کو خود پڑھ کر دیکھ لو پھر یہ کہتے ہیں کہ وہ سب تصنیفات جو صدہا برس سے اس کلام کی خوبیوں کے اظہار میں ہمارے بھائیوں نے لکھی ہیں دیکھو اوراُن جملوں پر بھی معہ اُن کے جوابوں کے ملاحظہ کرو جو دشمنوں اوردوستوں کی طرف سے مرقوم ہیں پر اس سب کے ساتھ دلی انصاف شرط ہے اگر طبیعت میں انصاف اور حق پسندی نہ ہو تو آدمی جو چاہے کہے۔

چوتھی فصل

تقدیر کے بیا ن میں

حضرت محمد نے یہ عقیدہ بھی سکھلایا ہے کہ خُدا تعالیٰ نے سب کی تقدیریں زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار برس آگے مقرر کی ہیں اوریہ بیان مشکوات باب القدیر میں عبد اللہ بن عمر سے مسلم کی حدیث میں لکھا ہے اوراُن کے عقائد میں ہے والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ یعنی نیکی اور بدی کی تقدیر خُدا کی طرف سے ہے اور اسی باب میں مسلم سے یہ حدیث بھی لکھی ہے قال کتُب علی ابن آدم نصیبہ من الزنا مدرک لامحالتہ لکھا گیا ہے خُدا کی طرف سے حصہ آدمی کا زنا میں ضرور وہ کرے گا پھر اسی باب میں ابی الدرداء سے روایت ہے ان اللہ عزوجل فرغ الی کل عبدمن خلقہ من خمس من اجلہ وعملا ومضجعہ واثر ہ ورزقہ خُدا فارغ ہوچکا ہر بندہ کی نسبت پانچ باتوں میں موت، عمل ،جائے سکونت اور پھرنے کی جگہ اور رزق میں اوراس عقیدہ کے ماننے کی ایسی تاکید ہے کہ منکر تقدیر سے معاملہ رکھنا بھی مسلمانوں کو ناجائز ہے۔ اسی باب میں ابنِ عمر سے روائت ہے فرمایا حضرت نے تقدیر کے منکر لوگ میری اُمت کے مجوسی ہیں اگر وہ وہ لوگ بیمار ہوں تو اُن کی بیمار پرُسی نہ کرو اورجو مرجائیں تو اُن کی لاش کے ساتھ مت جاؤ۔

پھر اس تقدیر کے مقدمہ میں حضرت محمد نے بحث کرنے کو بھی منع کیا ہے۔

اس تعلیم کی تاثیر اہلِ اسلام میں نسبت اور تعلیمات کے زیادہ پائی جاتی ہے ہر مصیبت کے وقت وہ کہتے ہیں کہ تقدیر الہٰی میں یوں ہی تھا اورہر اُمید کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر تقدیر میں ہوگا تو ملے گا اوربدی کرکے کہتے ہیں کہ خُدا نے یہ کرنا ہماری قسمت میں لکھا تھا۔

اس عقیدہ میں کچھ کچھ تو سچائی ہے اورکچھ کچھ غلطی ہے بلکہ بڑی غلطی بھی ہے خُدا کے کلام میں بھی تقدیر کا ذکر کہیں کہیں آیاہے۔ ہم بھی محمد صاحب کے ساتھ اس معاملہ میں متفق ہیں کہ تقدیر کے بارے میں بحث کرنا اچھا نہیں ہے کیونکہ یہ خُدا کی پوشیدہ حکمت سے متعلق ہے اورہم اس کی دانائی کی اوراس کے پوشیدہ انتظاموں کو دریافت نہیں کرسکتے اس لئے اس میں فکر کے بعد فائدہ نہیں شائد کچھ نقصان ہوجائے۔

تو بھی کوئی قول فیصلہ اس معاملہ میں بولنا مناسب ہے سو معلوم ہوجائے کہ ہم نے اُس تقدیر پر جو بائبل کے بعض مقامات سے ثابت ہوتی ہے غور کی ہے اوراُس تقدیر پر بھی فکر کیا ہے جو قرآن حدیث میں محمد صاحب سے بیان ہوئی ہے اور ان دونوں میں بہت ہی فرق پایا ہے اور دونوں بیانوں کی تاثیریں بھی مختلف طورپر دونوں فرقوں میں نظر آتی ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ محمد صاحب کا بیان تقدیر کے بارے میں کچھ زیادتی کے ساتھ ہے اور بعض ایسی زیادتی ہے جو خُدا کی ذات پاک کے لائق نہیں ہے۔ البتہ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہےکہ جن امور میں مطالبہ اور مواخذہ ہے یعنی انسان کے بد اعمال اوربرُے منصوبے وہ ہرگز خُدا کی طرف سے نہیں ہیں انسان کی طرف سے ہیں کیونکہ انسان فعل مختار پیدا کیا گیا ہے ۔وہ اپنے اعمال میں الہٰی تقدیر کا مجبور نہیں ہے اگرچہ قدرت اعمال کی خُدا کی طرف سے پائی ہے پر اُس کا استعمال اس کے اختیار میں ہے اوراسی واسطے جزا اور سزا کے لائق ٹھہرتا۔

پر جن امور میں مطالبہ اورمواخذہ اورجزاوسزا نہیں ہے مثلاً عمر ،قدقامت اوررنگ روپ وغيرہ وہ سب الہٰی تقدیر سے ہیں اُس میں شاکر ہونا چاہیے (ف)محمدی عالموں نے اس بات میں دھوکا کھایاہےکہ اگر انسان اپنے بد افعال کا خالق ہے تو خُدا کے سوا ایک دوسرا خالق بھی ثابت ہوا ۔حالانکہ ایک ہی خُدا سب چیزوں کا خالق ہے مگر معلوم کرنا چاہیے کہ خالق وہ ہے جو اپنی قدرت سے کسی چیز کو پیدا کرتاہے اور جب دوسرے کی قدرت مفوضہ (سپرد کرنے والے)کوہم اپنے طورپر استعمال کرکے مرتکب افعال بد کے ہوتے ہیں تو ہم اپنے افعال کے دوسرے خالق نہیں ہیں مگر مرتکب اجرام ہیں اورمرتکب وخالق میں فرق ہے۔

(ف) خُدا کے کلام میں لکھا ہے کہ خُدا نے بعض آدمیوں کو ہمیشہ کی زندگی کےلئے آپ چُن لیا ہے۔ اس کا مطلب لوگ دوطرح پر سمجھتے ہیں کوئی کہتاہے کہ علم میں چُن لیا ہے نہ ارادے میں یعنی اس نے اپنے ارادہ سے انہیں یہ حصہ نہیں دیا ہے مگر علم ازلی سے جان لیا ہے کہ فلاں فلاں شخص الہٰی مرضی پر عمل کرکے بہشت میں جائیں گے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ارادے اورعلم دونوں سے چن لیا ہے اوریہ قول زیادہ تر موافق ہے خُدا کی کلام کے دیکھو ہمارے (۳۹) عقیدوں میں سے (۱۷ عقیدوں کو) جو نماز کی کتاب میں خُدا کی کلام کے موافق لکھاہے اور ضرور بعض عزت کے برتن اور بعض بے عزتی کے برتنوں کی مانند بنائے گئے ہیں پر یہ باطنی انتظام خُدا کی پوشیدہ حکمت سے علاقہ رکھتاہے۔ یہ ہماراکام نہیں ہے کہ ہم خُدا کی پوشیدہ حکمت میں ہاتھ ڈالیں جس سے فرشتے بھی آگاہ نہیں ہیں ہمارا واجب یہی ہے کہ ہم خُدا کے وعدوں پر بھروسہ رکھیں اور اس کے وعید(سزادینے کاوعدہ)سے ڈریں اوراس کی مرضی کی اطاعت اس کے کلام کے موافق اپنے ایمان اورافعال اورخیالات سے کریں۔ نہ یہ ہے کہ وہ ہمارا واجب جوہزارہا مقام پر کلام میں صاف صاف بیان ہواہے چھوڑ کر اُن دس پانچ مقام کے درپے ہوں جو ازلی برگزیدگی کے بیان میں ہیں اورسمجھ سے باہر ہیں ۔اگرچہ خُداکا باطنی ارادہ ہوکر زید کو جو بیمار ہے مار ڈالے گا توبھی ہمارا فرض ہے ہم انتظام جہان کے موافق اس کے معالجہ میں قصور نہ کریں۔

محمدی تعلیم کے درمیان اس تعلیم کے بارے میں جو جو قصور ہمیں معلوم ہوتے ہیں وہ یہی ہیں ۔

جیسے کہ خُدا ساری نیکی کا بانی ہے ویسے ہی محمد صاحب خُدا کو تمام بدی کا بانی بھی ٹھہراتے ہیں اس صورت میں خُدا شریر اوّل ٹھہرتاہے جو قدوس ہے اور خُدا کاکلام شریر اوّل شیطان کو بتلاتاہے نہ خُدا کو بعض مقام بائبل میں بھی ایسے ملتے ہیں جن کے ظاہر سے معلوم ہوتاہے کہ خُدانے یہ بُرا کام کیا مثلاً ’’فرعون کا دل خُدا نے سخت کردیا‘‘ مگر دوسرے مقام اس کی تفسیر دکھلاتے ہیں کہ آدمی جب بدی پر بشدت راغب ہے اورنیکی کو نہیں چاہتا تو خُدا اسے چھوڑدیتاہے کہ جس چیز کو وہ پسند کرتاہے اسی کو کرے اورہلاک ہو اور یوں وہ بدی میں زیادہ سخت ہوجاتاہے اسی معنی سے فرعون کی نسبت لکھاہے کہ خُدا نے اس کے دل کو سخت کردیا یعنی اُس کے دل پر سے اپنی برکت اٹھالی اس لئے وہ اپنی مرغوب بدی میں مضبوط ہوگیا پر بائبل سے یہ نہیں ثابت ہوتاکہ خُدا بدی کا بانی ہے جیسے محمد صاحب نے یہ لفظ کہ خُدا بدی کا بانی ہے شرکی قید سے عام خاص لوگوں کے عقیدہ کا ایک جزقرار دیاہے ۔اس صورت میں مبداء شرارت خُدا ٹھہرتاہے اوریہ اعتقاد نہایت خطرناک بات ہے اگر اس کو قبول کریں تو خُدا کی بے عزتی ہوتی ہے نہ قبول کریں تو محمدی نہیں رہ سکتے بہتر ہے کہ محمدی نہ رہیں پر خُدا کی عزت کریں جس کے ساتھ ہماری زندگی متعلق ہے۔

(۲۔) ایسی تقدیر کی تعلیم سے آدمی کو بدی میں بڑی جرات پیدا ہوتی ہے کہ وہ گناہ کرکے پشیمان نہ ہوگا اور تقدیر الہٰی سے اسے سمجھ کے اپنی روح میں نہ روئے گا اوریوں ہلاک ہوجائے گا۔

حافظ شیرازی نے اس بات کا ذکر یوں کیاہے۔

گناہ اگرچہ نبوداختیار ماحافظ تو درطریق ادب گوش گناہ منست

یعنی اگرچہ گناہ ہمارے اختیار سے نہیں ہے خُدا کی تقدیر سے ہے توبھی تجھے ادب کی راہ سے کہنا چاہیے کہ میرا گناہ ہے۔ یعنی حقیقت میں ہم گنہگار نہیں ہیں اللہ آپ ہی کراتاہے پر ادب کے لحاظ سے گناہ کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہیے یہ مضمون ٹھیک محمدی شریعت کے موافق ہے۔

کلام الہٰی میں لکھا ہے کہ اگر تم اپنے گناہوں کا پورا اور سچا اقرار نہ کروگے تو تمہاری بخشش ہرگز نہ ہوگی اور مراد سچے اقرار سے یہ ہے کہ یقیناً ہم نے گناہ کیا نہ خُدا نے گناہ کیا اور میں ادب سے اس عیب کو اپنے اوپر لیتا ہوں تاکہ خُدا کے عیب کو اپنے اوپر لگاؤں اوریوں ریاکاری کی تعظیم کروں۔ اب ناظرین آپ ہی انصاف کریں کہ کیا اس تقدیر کے ماننے والے پورا اقرار گناہ کا کرسکتے ہیں بائبل کے ماننے والے پورا اقرار کرسکتے ہیں اوریہ بات تو تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ جب پورا اقرار گناہ کا نہیں ہوتا تو دل گناہ کے بوجھ سے ہلکا بھی نہیں ہوسکتا ہے۔

(۳) یہ تعلیم ان رنڈیوں اورکسبیوں اوزناکار لوگوں میں جو ان بد افعال میں سرگرم ہیں بڑی بڑی تسلی کا باعث ہے وہ سب اس کام کےلئے آپ کو خُدا کی طرف سے مقرر سمجھ کر اس میں مضبوطی حاصل کرتے ہیں گویا خُدا کا ارادہ بجالاتے ہیں اوراس طرح شیطان کا مطلب اس تعلیم سے خوب نکلتاہے ہم نے کئی ایک ایسے لوگوں سے سنا کہ خُدا نے ہمیں اسی کام کےلئے پیدا کیا ہے اوریہی محمدی تقدیر کے ذکر انہوں نے سنائے ہیں۔

(۴۔) عدالت کے دن خُدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو سزا دے کے کیا ظالم اورجابر نہ ٹھہرے گا اس کی خُدائی کی شان کے خلاف ہے کہ اپنی تجویز کے کام پر کسی کو سزا دے۔

(۵۔) اگر یہ ساری شرارت خُدا کا کام ہے اوریہ قرآن جو بدی سے منع کرنے کا مدعی ہے اُسی کا کلام ہے تو خُدا کے قول اور فعل میں مطابقت نہیں ہے اور چاہیے کہ ضرور مطابقت ہوجیسے تمام جہان کے انتظام اوربائبل کی ہدائتوں میں موافقت ہے۔ حاصل کلام آنکہ تقدیر وہاں تک صحیح ہے جہاں تک خُدا کی کلام سے ثابت ہے مگر اس بارے میں حضرت محمد کی زیادتی جو موجب ہلاکت ہے ہرگز قبولیت کے لائق نہیں ہے۔

پانچویں فصل

گناہ کی تعریف کیاہے

محمدی لوگ محمد شرع سے انحراف کو گناہ کہتے ہیں مگر گناہ کی کامل تعریف (۱۔یوحنا ۵باب ۱۷ ) میں یوں لکھی ہے (کہ ہر ناراستی گناہ ہے) اور ۳باب آیت ۴ میں ہے (گناہ عدول شرع ہے) اس تعریف کو سب لوگ قبول کرتے ہیں توبھی اس کے سمجھنے میں " ہمارے اوراہل اسلام کے درمیان کچھ فرق ہے وہ لوگ صرف محمدی شرع سے انحراف کو گناہ جانتے ہیں انجیل توریت کے انحراف کو گناہ نہیں جانتے ہیں مگر کلام سے ثابت ہے کہ خُدا نے ایک ہی شرع اولین وآخرین کے واسطے مقرر کی ہے اورسارے پیغمبر ایک ہی شرع موسیٰ پر متفق ہیں ۔پس جو کوئی اس الہٰی شرع کا انحراف کرتاہے گناہ کرتاہے اور وہ الہٰی شرع بائبل میں مفصل لکھی ہے اوراسکا خلاصہ ہر بشر کی تمیز میں پایا جاتاہے کسی نہ کسی قدر صدہا برس سے جس شریعت کو سب پیغمبروں نے پیش کیا اورجس سے انحراف کو گناہ بتلایا اب حضرت محمد اس کے انحراف کو کہتے ہیں کہ گناہ نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ اسے چھوڑیں اور حضرت کی نئی شرع کو قبول کریں اس بات کو کوئی بے فکر آدمی قبول کرسکتاہے۔

چھٹی فصل

گناہ کا سرچشمہ کہا ں ہے

محمدی شریعت میں گناہ کا سرچشمہ منبع جس کے سبب دنیا میں گناہ آیا خُدا تعالیٰ کو بتلایا ہے کیونکہ شراس کی طرف سے ہے جس کا ذکر تقدیر کے بیان میں ہوچکا ہے پر خُدا کاکلام یوں کہتاہے کہ خُدا پاک ہے اور شریر اول ایک روح ہے جس کو شیطان کہتے ہیں۔ اس نے قدرت اختیاری پاکے آپ گناہ کیا خُدا کو اس کے کاموں سے نفرت ہے عدالت کے دن اُسے کامل سزا ملے گی اور آدمیوں کے درمیان بوسیلہ آدم کے اُسی شیطان سے گناہ آیا۔ اب دیکھ لو کہ جو اصولی باتیں دین داری کی ہیں ان میں خُدا کے کلام کے ساتھ محمد صاحب کی کس قدر مخالفت ہے اورہر گز عقلاً بھی حضرت کی یہ باتیں قبولیت کے لائق نہیں ہیں۔

ساتویں فصل

گناہ کے اقسام

حمد صاحب نے گناہ کی کئی ایک قسمیں بتلائی ہیں کفر ، شرک ،فیق ، نفاق، کفر کےمعنی ہیں خُدا کا یا اُس کے کلام کا یا اُس کے کسی سچے پیغمبر کا انکار کرنا۔شرک ہے خُدا کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک کرنا۔ فق ہے زنا چوری جھوٹ وغیرہ بدی کرنا۔ نفاق ہے ظاہر میں ایماندار پر باطن میں بے ایمان رہنا۔

پھر محمد صاحب نے گناہ کے دو حصے کئے ہیں صغیرہ اورکبیرہ یعنی چھوٹا اوربڑا گناہ ۔ یہ تقسیم حضرت کے پیغمبروں کے بیان سے مخالف نہیں ہے اوریہ سب بیان حضرت کا درست ہے اوریہ الفاظ تقسیم بھی لوگوں کے محاورے میں حضرت کی پیدائش سے پہلے عرب میں جاری تھی اور ہر معلم دین کی تعلیم میں ایسے محاورات بولنے ضرور پڑتے ہیں۔

آٹھویں فصل

آیا خُدا کو گناہ سے نفرت ہے یا نہیں

حضرت محمد نے قرآن میں بیان کیا ہے کہ خُدا کو گناہ سے نفرت ہے چنانچہ کافرین مشرکین اورمنافقین سے وہ محبت نہیں رکھتا تعجب کی بات ہے کہ جب وہ خود بدی کا بانی ہے اورساری بدی آپ کراتاہے تو پھر بدی کے مظہروں سے کیوں نفرت کرتاہے یہ حقیقی تناقض (ایک دوسرے کی ضد یامخالفت ہونا)قرآن میں ہے ۔اس کے سوا مشکوات باب الاستغفار میں مسلم کی روائت ابو ہریرہ سے یوں لکھی ہے والذی نفسی بیدہ لولم تذنبوالذ ھب اللہ بکم ولجا بقومہ یذبنون فیستغفرون واللہ فیتغفر لھم مجھے اس شخص کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو خُدا ضرور تمہیں نیست کرے گا اور ایک ایسی قوم پیدا کرے گا جو گناہ کرکے خُدا سے معافی مانگے گی اور خُدا انہیں بخش دے گا۔

پھر بخاری ومسلم کی صحیح حدیث ابوہریرہ سے اسی باب میں یوں ہے ۔

’’ آدمی گناہ کرتاہے پھر کہتاہے کہ اے رب میں نے گناہ کیا تو معاف کر خُدا کہتاہے کہ یہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی خُدا ہے جو گناہ بخشنے اور مواخذہ(جواب طلبی) کرنے پر قادر ہے اس لئے خُدا بخش دیتا ہے وہ پھر کرتاہے اوراسی قاعدہ سے بخشوالیتا ہے پس اسی طرح جب تک اس کا دل چاہے گناہ کرکے بخشوالیا کرے‘‘۔

اس بیان سے ظاہر ہے کہ اسے گناہ سے بڑی نفرت نہیں ہے بلکہ گناہ کرکے معافی مانگنا اُسے پسند ہے یہ بیان درست نہیں ہے ۔ خُدا کو گناہ سے پوری نفرت ہے اس نے گناہ کے سبب طوفان بھیج کر ساری دنیا کو ایک بار غرق کردیا تھا اوراب بھی گناہ کےسبب نافرمانی کے فرزندوں پر اُس کا قہر بھڑکتاہے ہاں وہ بڑا ہے بخشنے والا بھی ہے توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو بخش دیتاہے مگر وہ جن کے گناہ بخشے گئے یوں کہتے ہیں کہ (پس ہم کیا کہیں کیا گناہ میں رہیں تاکہ فضل زيادہ ہوہرگز نہیں ہم تو گناہ کی نسبت موئے ہیں پھر کیوں کر اس میں جئیں(رومیوں ۶: ۱تا ۲)۔پھر حضرت سکھلاتے ہیں کہ یہ طریقہ جاری رہنا چاہیے کہ گناہ کرکے معافی مانگا کریں اور ایسا نہ کریں تو خُدا ہمیں ہلاک کرکے ایسی دوسری قوم پیدا کرے گا کلام میں لکھاہے کہ خُدا نے گناہ کے سبب موت بھیجی ہے ۔ حضرت محمد فرماتے ہیں کہ گناہ نہ ہو تو موت آئے۔ پس اپنے قیام کےلئے ہمیں ضرور ہوگاکہ گناہ کرکے معافی مانگیں ورنہ ہلاک ہوں گے یہ بیان حضرت کا درست نہیں ہے۔

نویں فصل

خیالی گناہ کے بیان میں

گناہ کی دو قسمیں ہیں فعلی وخیالی پس ان دونوں قسموں کے گناہ کا بیان حضرت محمد کیا کرتے ہیں یہ بات اُن سے دریافت کرنے کے لائق ہے۔ واضح ہوکہ گناہ خیالی کو وسوسہ یا باطل منصوبہ بھی کہتےہیں علماء محمدیہ نے اپنی عقل سے خیالی گناہ کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ہواجس، خواطر ، عوازم، اختیارات ۔

ہواجس وہ وسوسے ہیں جو اعتبار دل میں آتے ہیں یہ وسوسے مسلمانوں کے خیال میں سب اہل اسلام کو معاف ہیں اوراگلی سب اُمتوں کو بھی معاف تھے یعنی خُدا اسقسم کے وسوسوں پر کسی کا محاسبہ نہیں کرتا۔

خواطر وہ وسوسے ہیں جو آکر دل میں ٹھہرتے ہیں اور خلجان پیدا کرتے ہیں یہ وسوسے صرف محمدیوں کومعاف ہیں مگر اور اُمتوں کو معاف نہ تھے یعنی اوروں کا مواخذہ ایسے وسوسوں پرہوگا پر محمد صاحب کے لوگوں کا نہ ہوگا۔

اختیارات وہ وسوسے ہیں جو دل میں آکر ٹھہریں اورہمیشہ دل میں خلجان رکھیں بلکہ آدمی کے دل میں اُن کی محبت اور لذت بھی پیدا ہوجائے یہ سب مسلمانوں کو معاف ہیں جب تک عمل میں نہ آویں صرف دل میں رہنے سے مواخذہ نہ ہوگا۔

عوازم وہ وسوسے ہیں کہ پکا ارادہ اُن گناہوں کے کرنے کا دل میں پیدا ہوجائے مگراُن کے کرنے اسباب موجود نہ ہوں اگراسباب موجود ہوتے تو وہ شخص ضرور اُن گناہوں کو کرتا۔ پس ایسے وسوسوں پر مسلمانوں کا تھوڑا سا مواخذہ اللہ کرے گا پوری سزا ان کی بھی نہیں دےگا اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اسلام کی رعائت ہوگی۔

واضح ہو کہ یہاں بیان عقلی ہے کیونکہ جو بدخیال آدمی کے دل میں آتاہے وہ یا تو جھپک کی مانند دل کی آنکھ کے سامنے سے گذرجاتا اُسی کو ہوا جس کہتے ہیں ۔ یا ذرا ٹھہرتا ہے اس کو خواطر کہتے ہیں یا زیادہ ٹھہر کر کچھ پرورش پاتاہے اور دل میں قائم ہوجاتاہے وہی اختیارات ہیں اورجب وہ زیادہ قوی ہو کے دل میں مضبوطی کے ساتھ جڑ پکڑ جاتے ہیں تو وہ عوازم کہلاتے ہیں ان چاروں قسموں کی نسبت علماء محمدیہ کے فتوے اوپر مذکور ہوگئے کہ پہلی قسم تو سارے جہان کے لوگوں کو معاف ہے دوسری وتیسری قسم مسلمانوں کو معاف ہے نہ کسی اور مگر چوتھی قسم پر تھوڑی سی سزا مسلمان بھی پاسکتے ہیں۔

لیکن مشکوات باب الوسوسہ میں بخاری اورمسلم کی صحیح حدیث ابوہریرہ سے یوں لکھی ہے کہ ان اللہ تجاوز عن امتی ماوسوست بہ صدورھا مالم تعمل بہ اوتتکلم ’’یعنی میری اُمت کے لوگوں کےد لوں میں جو وسوسے آتے ہیں وہ سب خُدا نے معاف کردئیے ہیں جب تک اُن پر عمل نہ کیا جائے یا منہ سے نہ بولے جائیں‘‘۔

حضرت محمد کی عبارت سے ظاہر ہے کہ وہ سب قسم کے وسوسوں کی نسبت فرماتے ہیں کہ جب تک اُن پر عمل نہ کیا جائے وہ میری اُمت کو معاف ہیں پس معلوم ہواکہ خیالی گناہ حضرت محمد کی شریعت میں معاف ہیں یہ بڑی خوفناک تعلیم ہے ۔

دیکھو ہر گناہ جو آدمی کرتاہے پہلے اس کا خیال دل میں آتاہے اورپیچھے اس کا ظہور فعل میں ہوتاہے پس وہ بد خیال اس گناہ کی جڑ ہوتی ہے اوراس کا وقوع وہ درخت ہے جو اس چھوٹے سے تخم سے پیدا ہوا ہے۔ پس جب کہ گناہوں کی جڑیں اور تخم مسلمانوں کو بلاوجہ معاف ہیں تو اس تعلیم سے دیکھو شرارت کی تخم ریزی کس قدر کی گئی ہے۔

خُدا کے کلام (یعقوب ۱: ۱۵) میں لکھا ہے خواہش حاملہ ہوکے گناہ پیدا کرتی ہے اورگناہ جب تمامی کو پہنچا تو موت کو جنتاہے۔

(پھر ایوب ۱۵: ۳۵) میں ہے انہیں زیالکاری کا حمل ہے اوربیہودگی کو جنتی ہیں اوراُن کے پیٹ میں فریب بنتاہے۔

(زبور۷: ۱۴) میں ہے دیکھو اُسے بدکاری کی دردلگی اورگناہ کا اُسے پیٹ رہا اور جھوٹ کو جنتا ہے اسی طرح کے مضامین (یسعیاہ ۵۹: ۴۰، ہوسیع ۱۰: ۱۳۔ رومیوں ۶: ۴۱تا ۴۲)۔ میں بھی ملتے ہیں اور سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ زنا کا خیال بھی آدمی کو مثل زناکار کے مُجرم بناتاہے ۔لیکن حضرت محمد صاحب ان بدخیالات کو معاف بتلاتے ہیں اوراس آدمی کو سزا سے بری کرتے ہیں۔

پھر اسی ابوہریرہ سے مسلم کی روایت ہے کہ لوگ حضرت محمد کے پاس آئے اورکہا یا حضرت ہمارے دلو ں میں ایسی ایسی باتیں پیدا ہوتی ہیں کہ ہم انہیں زبان پر لانابڑی بھاری بات جانتے ہیں۔ پس حضرت نے فرمایا ذلک صریح الایمان یہ تو صریح ایمان ہے۔ دیکھو جب بُری باتوں کادل میں آنا صریح ایمان ٹھہرا اوراُنہیں یہ تعلیم دی گئی کہ سب وسوسے معاف ہیں تو وہ لوگ دلی گناہوں پر کب افسوس کریں گے اورکیوں اُن سے ڈریں گے اورکیوں اُن سے توبہ کریں گے اور کیوں اُن سے کشتی کریں گے جیسے مسیحی لوگ اُن سے کشتی کرتے ہیں۔ پس یہ تعلیم حضرت کو قبول کرنے کے لائق نہیں ہے۔ خُدا قدوس ہے اور سب آدمی اس کے سامنے گنہگار ہیں خیال میں فعل میں قول میں خُدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ’’مبارک وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ خُدا کو دیکھیں گے‘‘ باطنی قربت جو انسان کی روح اللہ سے ہوتی ہے اس کے لئے دل کی پاکیزگی ضرور ہے اوردل کی پاکیزگی اورکیا ہے مگر یہ کہ صحیح اعتقاد اوراچھے خیال دل میں بسیں اور بد خیالات جو نفرتی شے ہیں دل سے نکلیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ دلی وسوسوں کو حضرت محمد بھی گناہ تو جانتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ میری اُمت کو معاف ہیں۔ خُدا میری اُمت کا محاسبہ ایسے گناہوں پرنہ کرے گا صرف اس لحاظ سے کہ یہ محمدی لوگ ہیں اور سب دنیا کا محاسبہ اُن میں ہوگا سیدنا مسیح یہ فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے لوگوں کے تمام گناہ خواہ فعلی ہوں یا خیالی عمدی ہوں یا سہوی بشرطیکہ اس کے کہ اُن میں صحیح ایما زندہ اور موثر ہوئے اور وہ میری روح میں سے حصہ پائیں تو محاسبہ میں نہ آئیں گے اس لئے کہ میں نے اُن کے گناہوں کی سزا آپ اٹھائی ہے اورمیں نے اپنی جان اُن کے کفارہ میں دی ہے یہ بات قول ہوسکتی ہے کیونکہ بادلیل دعویٰ ہے محمد صاحب کہتے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے اور میں کسی کا کفارہ نہیں ہوں پھر بھی میری اُمت کے گناہوں کا ایک حصہ معاف ہے یہ بات ہرگز قبولیت کے لائق نہیں ہے۔

دسویں فصل

فعلی گناہوں کے بیان میں اور اُن کی سزا کا ذکر

فعلی گناہ وہ ہیں جو عمل میں آچکے ہیں ان کا تدارک (تلافی ،سرزنش)حضرت محمد نے یہ کیا ہے جو مشکوات کتاب الایمان میں عمروبن عاص سے مسلم کی روائت ہے۔ ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ وان الھجرة تھدم ما کان قبلھا وان الحج یھدم ماکان قبلہ اسلام اور ہجرت اورحج اپنے اپنے مقابل کے گناہوں کو گرادیتے ہیں۔

علماء محمدیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی مسلمان ہوجائے تو اس کےپچھلے سارے گناہ خواہ اللہ کے ہوں یا انسان کے سب کے سب معاف ہوجاتے ہیں ۔ اور بعداسلام کے اگرپھر گناہ کرے تو ہجرت اورحج اورنماز جہادو خیرات وغیرہ عبادات سے بخشے جاتے ہیں بشرطیکہ یہ سب صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ہوں اور جو کبائر یعنی بڑے گناہ ہوں جن پر قرآن میں سزا مقرر ہے تو وہ گناہ اس سزا کے اٹھانے سے بخشے جاتے ہیں۔

جب کوئی مسلمان مرد یا عورت حضرت کے وقت میں زنا کا مرتکب ہوتا تھا تو حضرت اس کو پتھروں سے مرواڈالتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص اس سزا سے پاک ہوا ہے۔ مگراب قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں پتھروں سے مارنے کا حکم ہو لیکن پہلے قرآن میں یہ آیت تھی الشیخ والشیختہ اذازنیا فار جموھا البتتہ لکا الامن اللہ واللہ عزير حکیم ۔ بڈھا یا بڈھی جب زنا کریں تو اُن کو ضرور پتھروں سے مارو یہ اللہ کا عذاب ہے اوراللہ ہے عزیز حکیم۔

یہ آیت جو پہلے قرآن میں تھی اوراب خارج ہے اگرکسی کو اس بات میں شک ہو تو مظاہر الحق جلد سوم کتاب الحدود کی فصل اوّل میں دیکھ لے۔ وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اگرچہ اس آیت کی تلاوت موقوف ہوگئی ہے توبھی حکم اس کا باقی ہے اوریہ حکم شخص محصن (پاک دامن،شادی شدہ)کے حق میں ہے یعنی جو نکاح والا ہو۔ مگر وہ شخص زانی جو جورو والا نہ ہو یا عورت جو خصم والی نہ ہو اور زنا کرے اُن کے حق میں وہ حکم ہے جو سورہ نور کے اوّل میں ہے الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کے سو سو کوڑے مارو اُن پر رحم نہ کرو۔ ایسے شخصوں کے حضرت سوسو کوڑے مارا کرتے تھے اورایک ماہ کے لئے شہر سے بھی خارج کردیا کرتے تھے پھر ان سو کوڑوں میں بھی تفاوت (فرق)ہے انسان کی طاقت کے موافق سخت یا نرم سزا دی جاتی ہے۔

شرح سنہ وابن ماجہ کی روایت سعید بن سعد سے اسی باب میں یوں ہے کہ کوئی بیمار آدمی کسی لونڈے سے زنا کرتا ہوا پکڑ گیا اور حضرت کے سامنے لایا گیا حکم ہواکہ ایک کھجور کی لکڑی جس میں سوشاخیں ہوں لے کر اُس کے ایک دفعہ ماروتاکہ سو کوڑے کا حکم ادا ہوجاوے۔

پر مرد کے ساتھ جب مرد روسیاہی کرتے ہیں توایسے لوگوں کی سزا مختلف ہے ابن عباس کی روائت اسی باب میں یوں ہے کہ حضرت نے فرمایاکہ جو کوئی قوم لوط کے سے کام کرے وہ ملعون ہے۔ اورایک روائت میں ہے کہ علی نے ایسے آدمیوں کو آگ میں جلادیا تھا اورابوبکر نے ایسے لوگوں پر دیوار کرادی تھی۔ اورجانور سے زنا کرنے والے کو بھی سزادیتے ہیں۔

چور کی وہ سزا ہے جو( مائدہ کے ۶ رکوع کی آیت ۳۸ )میں ہے وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو پس محمدیوں میں حضرت کی ایک حدیث کے موافق دس درہم تک کی چوری پر ہاتھ کاٹے جاتے ہیں۔ جلالین میں لکھاہے کہ

ایک بار کوئی چوری کرے تو کہُنی تک دہنا ہاتھ کا ٹا جائے دوسری بار چوری کرے تو بایاں پیر گھٹنے تک کاٹا جائے۔ پھر بھی اگر وہ چوری کرے تو جابر کی حدیث موجود ہے جو مشکوات باب قطع السرقہ میں لکھی ہے کہ حضرت نے مارڈالنے کا حکم دیا ہے راوی کہتاہے کہ ایک آدمی کو ہم نے اسی طرح کنوئیں میں ڈال کر پتھروں سے مارا تھا‘‘۔

یہ باتیں قرآن حدیث میں دیکھ کر جب ہم توریت شریف کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہےکہ ایسے جُرموں کے لئے کچھ سزا ئیں وہاں پر بھی لکھی ہیں مگر عہدِ عتیق میں دوقسم کے انتظام موسیٰ کی معرفت خُدا کے کئے ہوئے ملتے ہیں ملکی اورظاہری انتظام جو ظاہری بادشاہت سے علاقہ رکھتاہے اور اسی کے لئے اُیسے جرُموں پر ایسی سزائیں مقرر ہیں دوسرا روحانی انتظام جو آدمیوں کی روحوں کی پاکیزگی اوربہتری کےلئے ملکی انتظام سے ملک کا بندوبست تھا اور روحانی انتظام سے روحوں کا بندوبست تھا ۔ملکی انتظام کے لئے ایسی سزائیں مقرر تھیں روحانی انتظام کے لئے قربانیاں مقرر تھیں ۔پس گناہوں کی معافی خُدا کے حضور میں قربانیوں کے وسیلہ سے حاصل کی جاتی تھی نہ انتظامی سزاؤں کے وسیلہ سے جب یہودیوں کی سلطنت جاتی رہی تو وہ سزائیں بھی اس کے ساتھ اڑگئیں جب وہ ملکوں میں آوارہ ہوئے تو صرف روحانی انتظام گناہوں کی معافی کےلئے اُن پر واجب تھا نہ اُن سزاؤں کا اجرجو اُن کی سلطنت کے ساتھ تھیں۔

جب سیدنا مسیح ظاہر ہوئے تو انہوں نے صاف کہا ہے کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں ہے میری بادشاہت آسمانی اور روحانی ہے اورگناہوں کی معافی کا انتظام خُدا کے سامنے اُسی پرانے انتظام کی اصل ہے جو میرا کفارہ ہے۔ پر ظاہری جُرموں پر ظاہری سزائیں جو ہیں وہ بادشاہوں کے اور حاکموں کے سپرُد ہیں وہ اپنی تمیز کے موافق انصاف سے عدالت کریں تاکہ اُن کے ملک میں خلل نہ واقع ہو اوراُن کی سب رعیت امن چین سے رہے اور عہدِ جدید میں یہ بھی بتلایا گیا کہ ساری حکومتیں خُدا سے ہیں یہ سب حاکم اور بادشاہ خُدا کی طرف سے ہیں اور وہ اسی واسطے تلوار رکھتے ہیں کہ بدکاروں کو سزادیں اورنیکوں کاروں کی تعریف کریں۔

حضرت محمد ضرور اپنے عہد میں بادشاہ تھے اورانہیں ضرور تھاکہ اپنے ملک کا انتظام اپنی تمیز کےموافق کریں ۔پس یہ سزائیں ایسے جرُموں پر جو اُن کی شریعت میں مقرر ہیں اُن کے دلی انصاف کے موافق اُن کے ملک کے انتظام کےلئے ہیں ۔یہاں تک ہم انصاف کی راہ سے قبول کرسکتے ہیں پر ان کا یہ بیان کہ گناہوں کے سبب جو روحانی آلودگی ہے وہ سب اُن سزاؤں کے اٹھانے سے اسلام وحج وہجرت وغیرہ نیک اعمال سے خُدا کے سامنے حاصل ہوتی ہے۔ یہ بیان ہم ہر گز قبول نہیں کرسکتے اس لئے کہ سب پیغمبروں کے روحانی انتظام کے خلاف ہے کیونکہ وہ سب اس آلودگی کا دفعیہ قربانی کو بتلاتے ہیں نہ کسی اور چیز کو اوریہ معالجہ لاکھوں روحوں پر موثر بھی پایا جاتا ہے نہ وہ معالجہ (علاج) جو حضرت محمد نے نکالا ہے۔

سب آدمیوں پر فرض ہے کہ اپنے خیالی اور فعلی گناہوں کا تدارک اسی زندگی میں جلدی کریں اورجب تک گناہوں کا بوجہ دل پر سے اسی زندگی میں دفع نہ ہو اورالہٰی برکات کا نزول دلوں میں نہ پایا جائے تب تک ہر گز تسلی نہ پائیں سو یہ بات بدوں مسیحی کفارہ کے ہر گز نہیں ہوسکتی ہے۔

جس الہٰام نے روح بشر کی بقا اور آنے والے غضب اور عدالت کی خبر دی ہے اورجس نے گناہ کی تشریح بھی سنائی ہے اُسی الہٰام کا کام ہے کہ گناہ سے اوراس کے وبال سے بچنے کی راہ بھی بتلادے سونئے عہدنامہ اور پراُنے عہد نامہ نے مسیح کے کفارہ کو گناہوں کی مغفرت کا طریقہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا بتلایاہے اور صدہا برس سے جب سے کہ یہ راہ ظاہر ہوئی ہے اس کی مومنین باصفاکی اس ترکیب کی تاثیردلوں میں دیکھی ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہی راہ مغفرت کی ہے۔

یہ بڑی غلطی ہے کہ روح کی ابدیت کا خیال اور عدالت الہٰی کی خبر توالہٰام سے قبول کی جائے اورگناہ کا تدارک اپنی عقل سے انسان تجویز کرے۔

گیارھویں فصل

تبدیل دل کے عقیدہ میں

واجب ہے کہ اس بات پر بھی فکر کیا جائے کہ بد آدمی نیک ہوسکتے ہیں یا نہیں اس امر میں قرآن اوراحادیث اورکلام الہٰی کیا خبردیتاہے اگریہ ہوسکتا ہے تو کوشش کی جائے اورجو یہ ہو ہی نہیں سکتا تو کوشش بےفائدہ ہے۔ قرآن میں ایسی بات کا ذکر صاف صاف نہیں ہے ۔ مگر حدیثوں میں مفصل بیان ہے مشکوات کتاب الایمان باب عذاب البقر میں احمد کی روایت ابی الدرداء سے یوں لکھی ہے اذا سمعتم بجبل زال عن مکانہ فصہ قوہ واذ استمعتم برجل تغیر عن خلقہ فلاتصد قوہ فانہ یصبران ماجبل علیہ اگر تم سنو کہ ایک پہاڑی اپنی جگہ سے ٹل گیا تو اس بات کو یقین کرلینا پر جب سنو کہ ایک ایک آدمی کا خلق بدل گیا تو اس با ت کا ہر گز یقین نہ کرنا کیونکہ انسان اپنی عادت جبلی پر مائل ہوجاتاہے۔

یہاں سے تبادر(سبقت)ہے کہ انسان کے خلق کا بدلنا اُن کے نزدیک محال ہے لیکن ایک اوربات ہے کہ آدمی کے عادات اوراخلاق کے دو حصے ہیں ایک وہ حصہ ہے جو ترکیب عناصر سے کچھ علاقہ رکھتاہے دوسرا حصہ وہ ہے جو تحصیل اشیاء خارجہ سے متعلق ہے ۔اگر یہ حدیث پہلے حصہ کی نسبت ہے تو شائد اس میں کچھ سچائی ہو اور جو دوسرے حصہ کی نسبت ہے تو اُس میں بڑی حجت(تکرار) ہے اور ہرگز سچائی نہیں ہے پر ظاہر ایسا ہے کہ دوسرے ہی حصہ کی نسبت حضرت نے یہ فرمایا ہے دووجہ سے ۔

وجہ اوّل یہ ہے کہ ایک اور حدیث اسی معاملہ میں صاف صاف وارد ہے جو مشکوات باب الاعتصام میں مسلم کی روائت ابوہریرہ سے ہے کہ الناس معادن کمعادن الذھب والفضتہ خیارھم فی الجاھیلتہ خیارھم فی الاسلام اذا فقھا ترجمہ: آدمی ایسے ہیں جیسی چاندی سونے کی کانیں ہوتی ہیں جو لوگ حالت کفر میں اچھے ہیں وہ حالت اسلام میں بھی اچھے ہیں جب سمجھ جائیں۔

یعنی اسلام اُن کی عادات پر حملہ نہیں کرسکتا بلکہ اگر وہ اچھے عادات لے کر اسلام میں آئے ہیں تو اسلام میں بھی اچھے ہیں اورجو بُری عادات لے کر اسلام میں آئے ہیں تو اسلام میں بھی بُرے ہیں بہ سبب اپنی جبلی عادت کے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن سے بھی ثابت ہوتاہے کہ حضرت محمد سب عادات کی نسبت بلکہ خاص دوسرے حصہ کی نسبت ایسا فرماتے ہیں ۔چنانچہ قرآن میں لکھا ہے۔ محمد الرسول اللہ والدین معہ اشدء علی الکفاررحماء بینھم محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں کافروں پر سختی کرنے والے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔

یہاں حضرت محمد کی عادت اوراُن کے ساتھیوں کے اخلاق کا ذکر ہے کہ وہی عادت اُن میں ہے جو سب دنیاداروں اورجسمانی مزاج لوگوں میں ہوتی ہے کہ اپنے لوگوں کو پیار کرنا اور مخالفوں کو دکھ دینا مگر الہٰی عادت یہ نہیں ہے وہ اپنا سورج سب بھلوں بُروں پر چمکاتا ہے اور ہر زمین پر مینہ برساتاہے اور سب پر مہربان ہے مسیحی دین اس عادت کو پہلے حصہ میں داخل نہیں سمجھتا بلکہ دوسرے حصہ میں قرار دیتا ہے اوراُس کی تبدیل کی کوشش میں ہے بلکہ اسے بدلواتا ہے حضرت محمد فرماتے ہیں کہ میرے اور میرے مسلمانوں کی یہ عادت نہیں بدلی تب صاف معلوم ہوگیا کہ اخلاق سے مراد اُن کی عام اخلاق ہیں نہ صرف پہلا حصہ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن اورحدیث آدمی کے اخلاق کی تبدیل ہی کے قائل نہیں اس صورت میں اسلام سے کیا فائدہ ہے۔

شائد کوئی کہے کہ اگریہ مطلب ہے توپھر حضرت کا ہدائت کرنا بے فائدہ ہے اور سب پیغمبروں کا ہدائت کرنا بھی بے فائدہ ہوگا سو جواب یہ ہے کہ سب پیغمبر تبدیل اخلاق کے قائل ہیں اس لئے ان کا کام بے فائدہ نہیں پر ضرور حضرت محمد جو تبدیل اخلاق کے قائل نہیں ہیں ان کا کام بے فائدہ ہوگا پر وہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم ازلی برگزیدوں کے لئے آئے ہیں انہیں کے لئے جو بھلے ہیں لیکن خُدا کا کلام کہتاہے بھلے چنگوں کو حکیم کی حاجت نہیں ہے اس لئے حضرت کے افعال اور اقوال میں تناقض حقیقی ہے۔

سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ’’ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خُدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا ‘‘(یوحنا ۳: ۳) ۔اس آیت میں نہ صرف تبدیل کا امکان مگر وجوب بیان ہواہے پھر (۲پطرس ۱: ۳) میں لکھاہے کہ اس کی الہٰی قدرت نے ہمیں سب چیزیں جو زندگی اور دین داری سے علاقہ رکھتی ہیں اُس کی پہچان سے عنائت کیں جس نے ہم کو جلال اورنیکی سے بلایا جن کے وسیلہ نہایت بڑے اور قیمتی وعدے ہم سے کئے گئے تاکہ اُن کے وسیلے اُس زندگی سے جو دنیا میں بُری خواہش کے سبب سے چھوٹ کے طبیعت الہٰی میں شریک ہوجاؤ۔

اس کے بعد سیدنا مسیح کے شاگردوں کے واقعات دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ لاکھوں آدمیوں میں تبدیل ہوگئی ہے بلکہ عیسائی ہونے کا مطلب یہی ہے کہ تبدیل ہوگئی۔ اس کے بعد چونکہ خُدا کے کلام میں نہ صرف تھوڑا سا تبدیل کا ذکر ہے مگر تبدیل مزاج کے سارے مدارج اوراُس کے سب پہلو اوراطوار اور علامات اور بواعث بشدت تسلی بخش طورپر مذکور ہیں اورکثرت سے وہ سب نمونے جات میں بھی مذکور ہیں جن میں تبدیلی ہوگئی ہے۔ پر دیکھو کہاں حضرت محمد کا بیان اور کہاں یہ بیانات اورکس قدر خوبی اورتسلی یہاں ہے اورکس قدر مایوسی اور حرمان(نااُمیدی) وہاں ہے۔ اور عقل ِانسانی بھی سوائے تبدیل دلی کے اور کوئی طریقہ انسانی کی بہتری کا قبول نہیں کرسکتی ہے جس کا حضرت محمد انکار کرتے ہیں پر اس کا سبب یہی ہے کہ یہ نازک بات اُن کے فہم شریف میں نہیں آئی جیسے کہ اس وقت بھی ہزارہا جسمانی آدمیوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتاہے۔

پھر یہ جو حضرت محمد نے فرمایا کہ پہاڑ کا ٹلنا خلق کے بدلنے سے آسان ہے اسی بات کا ذکر سیدنا مسیح نے بھی یوں فرمایا ہے کہ’’ اگر تمہارے درمیان رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو پہاڑ کو کہوگے کہ ٹل جا تو وہ ٹل جائے گا ‘‘پہاڑ سے مراد سیدنا مسیح کی وہی اخلاقِ انسانی ہیں جن کومحمد صاحب بھی پہاڑ سے زیادہ بھاری بتلاتے ہیں۔

مسیح کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مجھ پر ذرا بھی ایمان رکھتاہے اس میں اس ایمان کے وسیلہ سے ایسی طاقت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق بدکے چھوڑنے پر قادر ہوجاتاہے جو پہاڑ کے موافق سخت اور نہ ٹلنے والے معلوم ہوتے ہیں پر اگر وہ چاہے توایمان کے وسیلہ خُدا سے طاقت پاکے انہیں چھوڑ سکتا ہے۔ ناواقف لوگ بازاروں میں غریب عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہارے اندر ایمان ہے تونہ پہاڑ مگر صرف یہ ایک اینٹ معجزہ کے طورپر اٹھاکے بتلا ؤ وہ بےفکر لوگ نہیں جانتے کہ معجزے کرنا ہر زمانہ میں کسی قوم کا خاصہ نہیں ہے نہ مطلق ایمان کا نشان ہےورنہ معجزہ معجزہ نہیں رہ سکتا اور وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ پہاڑ سے مراد اخلاق ہیں پر اب حدیث بالا کے دیکھنے سے اُمید ہے کہ صاحب فکر مسلمان اس بھید کو بھی سمجھیں گے۔

بارھویں فصل

قیامت کے بیان میں

حضرت محمد نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ قیامت آئے گی مرُدے جی اُٹھیں گے اور خُدا آپ انصاف کرے گا ترازو رکھی جائے گی لوگوں کے نیک وبداعمال تو لے جائیں گے ۔ اورحضرت محمد کی بات خُدا تعالیٰ بہت سنے گا اور ان کو معہ اُن کی اُمت کے سب سے پہلے بہشت میں داخل کرے گا وہاں خوبصورت عورتیں اور لونڈی اور شراب اورکباب اور سب عیش کے سامان بخوبی ملیں گے۔ لیکن شریر مسلمان معہ کافروں کے دوزخ میں جائیں گے اورکچھ عرصہ کے بعد بڑا عذاب اٹھا کر پھر حضرت محمد کے وسیلہ سے وہ شریر مسلمان بھی بہشت میں آجائیں گے باقی کافر لوگ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اوربڑے بڑے عذاب ابد تک اٹھائیں گے۔

یہ خلاصہ ہے اس بارے میں اُن سب بیانوں کا اس میں بعض باتیں تو قرآن میں مذکو رہیں اور بعض حدیثوں میں ہیں اوربیانوں میں اُن کے کثرت سے مبالغے پائے جاتے ہیں اور وہ چیزیں جن کو آدمی کا نفسانی دل مانگتاہے وہاں ملنے کا وعدہ کی گئی ہیں حضرت محمد کے اس سارے بیان میں بعض باتیں بہت صحیح بیان ہوئی ہیں کیونکہ اگلے پیغمبروں کی کتاب سے منقول ہیں پر بعض باتیں جو اُنہوں نے اپنی طرف سے سنائی ہیں وہی قبولیت کے لائق نہیں ہیں۔

قیامت کے بیان میں خُدا کے کلام کے درمیان میں بھی بہت کچھ مذکور ہے مگر میں نے رسالہ آثارِ قیامت میں اس معاملہ کے درمیان جو مناسب سمجھا ہے ذکر کیا ہے اگر کوئی چاہے تو وہاں پڑھے۔

تیرھویں فصل

علامات قیامت کے بیان میں

حضرت محمد نے نہ قرآن مگر حدیثوں میں اُنہوں نے آنے والے وقت کی بابت کچھ علامتیں اورنشان بھی بیان کئے ہیں اور قسم قسم کی باتیں ہیں چنانچہ مشکوات کتاب الایمان فصل اوّل میں بخاری ومسلم کی روایت عمر بن خطاب سے یوں مرقوم ہے کہ

’’جبریل فرشتہ نے حضرت محمد سے قیامت کے نشان پوچھے کہ کیا ہیں فرمایا کہ باندی سے بچے کثرت سے پیدا ہوں گے اور کمینے لوگ ننگے بھوکے بکریاں چرانے والے اونچے اونچے گھر بنائیں گے‘‘۔

اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ غلام رکھنے کا دستور دنیا سے بہت اٹھ گیا ہے پھر کیونکہ غلاموں کی ترقی ہوگی ۔ شائد پھردُنیا میں یہ دستور جاری ہو۔ اور غرباء کا آسودہ حال ہونا حضرت کے گمان میں قیامت کا نشان ہے اگر یہ دوعلامتیں قیامت کی کسی کی عقل قبول کرسکتی ہے توکرے۔

پھر مشکوات باب اشراط الساعتہ میں انس سے بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ (علم جاتا رہے گا جہالت وزناکاری اورمے نوشی کی کثرت ہوجائے گی اور عورتیں بہت ہوں گی مرد کم ہوجائیں گے یہاں تک کہ پچاس(۵۰) عورتوں کا ایک شخص منتظم ہوگا۔

یہ علامت حضرت نے کلام الہٰی سے سن کر کچھ تصرف کے ساتھ بیان کی ہے کیونکہ وہ سیدنا مسیح نے فرمایا تھاکہ ’’بے دینی پھیل جانے کے سبب بہتوں کی محبت ٹھنڈی ہوجائے گی ‘‘اور عورتوں کی کثرت کے بارے میں( یسعیاہ ۴باب ۱ آیت) میں لکھاہے کہ ’’سات عورتیں ایک مرد سے کہیں گی کہ ہم صرف تیرے نام کی کہلاتی ہیں پس حضرت نے ان خبروں میں کچھ تصرف کیاہے۔

پھر مسلم سے ابوہریرہ کی روایت اُسی باب میں ہے کہ دولت ومال لوگوں کے پاس کثرت سے ہوجائے گا یہاں تک کہ صدقہ لینے والا فقیر بھی نہ ملے گا اور عرب کی زمین باغ وبہار ہوجائے گی۔ لیکن کلام الہٰی میں لکھاہے کہ قحط پر قحط ہوں گے۔

پھر ابوہریرہ کی روایت بخاری ومسلم سے ہے کہ فرات ندی خشک ہوجائے گی اور وہاں سے خزانہ نکلے گا مگر اہل اسلام کو وہ لینا جائز نہیں ہے۔ یہ پیشینگوئی خُدا کے کلام میں سے نکال کے حضرت محمد نے سنائی ہے دیکھو (مکاشفات ۱۶: ۱۲کو اور یرمیاہ ۵۰: ۳۸، ۵۱: ۳۶ ) پر اس کا مطلب اور ہے یہ مطلب نہیں ہے جو حضرت محمد نے سمجھا ہے ۔

پھر اسی باب میں بخاری کی انس سے روایت ہے کہ قیامت کی پہلی علامت یہ ہے کہ ایک آگ اٹھے گی اور مشرق مغرب تک آدمیوں کو جمع کرے گی اس خبر کی اصل بھی (۲۔تسھلنکیوں ۱: ۷) میں کچھ ہے۔

پھر انس سے ترمذی کی روایت اسی باب میں ہے کہ قیامت سے پہلے ایک برس ایک مہینے کے برابر ہوگا اورایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اورایک دن ایک گھڑی کے برابر ہوگا اورایک گھڑی ایک شعلہ آگ کی مانند ہوگی۔

اس خبر کی اصل صرف اس قدر کلام میں ہے کہ ’’وہ دن مقدسوں کی خاطر گھٹائے جائیں گے‘‘ (متی ۲۴: ۲۲) اس کا مطلب یہ نہیں ہیں کہ سورج کے گرد جو زمین کا دورہ سالانہ اور محور پر جو شبانہ روز کا ہے اس میں اس قدرمبالغہ کی کوتاہی ہوجائے گی پر ظاہر ایسا ہے کہ وہ مصیبتیں جلدی تمام ہوجائیں گی دیر تک نہ رہیں۔

پھر اسی باب میں عبداللہ بن حوالہ سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے (اے ابن حوالہ جس وقت میری بادشاہت بیت المقدس میں اتر جائے گی پس جان لے کہ قیامت نزدیک آئی اور فتنہ وفساد اوربڑے بڑے اُمور آپہنچے اور قیامت اُس دن لوگوں سے ایسی نزدیک ہوگی جیسے یہ میرا ہاتھ اس وقت میرے سر کے پاس ہے خلیفہ عمر نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا اس وقت تک (۱۳سو) برس کے قریب ہوتے ہیں مگر اب تک قیامت نہیں آئی مگرکلام میں ایسا لکھا ہے ۱۲۶۰ برس تک یروشلیم پامال کرنے کے لئے غیر قوموں کو دیا گیا ہے پر سال سے مراد کس قدر عرصہ ہے کوئی نہیں جانتا چاہیے کہ اس پامالی کے بعد وہ شہرا ن کے قبضہ سے نکلے اور پیش گویاں جو اُس کے بعد واقع ہونے پر ہیں ہوجاویں تب آخرت آئے گی۔

ایک اورخبراسی باب میں چند حدیثوں کے درمیان مذکور ہے وہ یہ ہے کہ (ایک شخص جس کا لقب امام مہدی ہے یعنی پیشوا محمدی دین کا ظاہر ہوگا اور وہ فاطمہ کی اولاد سے ہوگا یعنی سید اوراس کا نام محمد ہوگا اور اس کے باپ کا نام عبداللہ ہوگا صورت اس کی محمد صاحب کے مانند ہوگی مگر تمام خصلتیں اُس کی حضرت محمد کی مانند نہ ہوں گی وہ ساری زمین کو قرآن کی ہدائت کے موافق عدل اور انصاف سے بھردے گا اورسات یا آٹھ یا نوبرس بادشاہت کرے گا اُس کے زمانہ میں دنیا عیش آرام سے رہے گی۔

خُدا کے کلام میں ایسی بات کا ذکر نہیں ہے مگر زور کے ساتھ یہ بیان ہواہے کہ ایک شخص مخالف مسیح آئے گا اور ایک جھوٹے نبی کا بھی ذکر ہے۔ (مکاشفات ۲۰: ۱۰، ۱۹، ۲۰)۔

چودھویں فصل

حضرت عیسیٰ کے نزول کے بیان میں

حضرت محمد نے یہ بھی خبردی ہے کہ حضرت عیسیٰ پھر آسمان سے زمین پر آئیں گے۔ لیکن سب لوگ جانتے ہیں کہ مسیح کی آمدثانی کا چرچا حضرت محمد کی پیدائش سے چھ سوبرس پہلے سے اب تک ہے پس یہ کچھ نئی خبر نہیں ہے۔

البتہ حضرت کا اس قدربیان نیا ہے جو مشکوات کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ میں عبد اللہ بن عمر سے ابن جوزی کی روائت کتاب الوفا سے لکھی ہے کہ عیسیٰ بن مریم زمین پر آئے گا اورنکاح کرے گا اوربچے پیدا ہوں گے اور ۴۵برس زمین پر رہے گا پھر مرجائے گا اورمدینہ کے درمیان حضرت محمد کے مقبرہ میں مدفون ہوگا پھر جب قیامت آئے گی تو حضرت محمد اورابوبکر وعمرحضرت عیسیٰ بھی اس مقبرہ کی قبروں میں سے نکلیں گے۔

جائز ہے کہ ہم حضرت محمد کو مخالف مسیح کہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی مخالفت پر بڑی کمر باندھی ہے ان کے سارے دین کی مخالفت میں ایک شریعت اپنی ظاہر کی ہے اور تمام دین مسیح کے برخلاف عقیدے تجویز کئے ہیں صلیب کا انکار تثلیث کا انکار کفارہ کا انکار مسیح کی الوہیت کا انکار اوراس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں اوریہ سارے مجموعہ بائبل کی مخالفت ہے اسی طریقہ پر حضرت محمد نے مسیح کی آمدثانی کی بصورت کوبھی بدلا ہے پر جو باتیں وہ خُدا کی کلام کے برخلاف سناتے ہیں ان کو وہی آدمی قبول کرے گا جو خُدا سے نہیں ڈرتا ۔

(وہ مسیح کی موت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ آکے مرے گا) مگر خُداکا رسول (رومیوں ۶: ۹) میں کہتاہے کہ ’’وہ نہ مرے گا اور موت پھر اس پر تسلط نہیں رکھتی‘‘۔

پھر اس کے نکاح کا ذکر کرتے ہیں شائد حضرت محمد نے (مکاشفات ۲۱: ۹) کو الٹا سمجھا ہے جہاں لکھاہے کہ ’’ادھر آئیں تجھے دلہن یعنی برہ کی جورو دکھلاؤں‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آکے جوروکرے گا لیکن یہاں کلیسیا اورمسیح کا ذکر ہے کہ ان میں خاوند اوربی بی کی نسبت ہے بلحاظ پیار اور پرورش کےلیکن حضرت نے اپنی مرغوب چیز کا ذکر اس قدوس کی نسبت بھی کردیا ہے اوریہ بھی فرمایا ہے کہ اس کے بچے پیدا ہوں گے ۔ شائد حضرت محمد نے (یسعیاہ ۵۳: ۱۰) کا مطلب الٹا سمجھا ہے وہاں لکھاہے کہ ’’وہ اپنی نسل کو دیکھے گا‘‘۔ مگر وہاں نسل سے مراد وہ مومنین ہیں جنہوں نے اُس سے نیا جنم حاصل کیا ہے اور خُدا کے فرزند ہوئے (یوحنا ۱: ۱۲تا ۱۳)۔ پھر حضرت نے اس کی ۴۵برس کی عمر بھی تجویز فرمائی ہے مگر(دانیال ۲: ۴۴۔یسعیاہ ۵۳: ۱۰۔ مکاشفات ۱: ۱۷تا ۱۸ وغیرہ) بہت مقام ہیں جہاں اس کی ابدیت کا ذکر ہے۔

پھر حضرت فرماتے ہیں کہ قیامت کے د ن عیسیٰ ہمارے ساتھ سب مردوں میں اٹھے گا۔ مگر وہ خود فرماتاہے کہ عالم غیب اورموت کی کنجیاں میرے پاس ہیں(مکاشفات ۱: ۱۸)۔ اوریہ کہ میں آپ ہی قیامت اور زندگی ہوں(یوحنا ۱۱: ۲۵)۔ اوریہ کہ سارا اختیار آسمان اور زمین پر مجھے دیا گیا ہے(متی ۲۸: ۱۸)۔ دیکھو حضرت نے خُدا کےکلام کو ہر گز نہیں سمجھا یہ کس مرتبہ کا بیان ہے اور حضرت کیا فرماتے ہیں۔

دوسری بات اسی باب میں بخاری ومسلم سے ابوہریرہ کی روایت ہے کہ

’’جب حضرت عیسیٰ آئیں گے تو صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھائیں گے اور اس زمانہ میں مال بہت ہوگا‘‘۔

رومن کیتھولک گرجوں میں حضرت نے لوگوں کوصلیب کی پرستش کرتے دیکھا ہے اس لئے فرماتے ہیں کہ مسیح آکے اُن صلیبوں کو توڑ ڈالے گا۔ اور اگر حضرت کی یہ مراد ہے کہ وہ دین جس کی بنیاد مسیح کی صلیب ہےمسیح آکے اٹھائے گا۔ تویہ بات حضرت نے بموجب اپنے اس عقیدے کے بیان کی ہے کہ وہ مسیحی صلیب کے منکر ہیں ۔فرماتے ہیں کہ وہ مصلوب ہی نہیں ہوا پر یہ بیان تو حضرت کا بہت سی دلیلوں سے غلط ثابت ہواہے اس لئے اس کی یہ فرع (شاخ )بھی غلط ہے کہ صلیب کو توڑ ڈالے گا۔

مگر سور کے قتل کرنے کا کیا منشا ہے یہ مطلب ہے کہ بعض مسیحی لوگ سور کا گوشت کھایا کرتے ہیں اور حضرت کی شریعت میں سورحرام ہے جب مسیح آئے گا تو سوروں کو قتل کر ڈالے گا کہ نہ رہیں اورنہ لوگ کھائیں اور مسیح کی طرف سے اس کی حرمت کا فتویٰ سنیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ اگر وہ سوروں کو نیست کر ڈالے گا تو خرگوش اور اونٹوں کو کب چھوڑے گا جو مسلمان بھی برابر کھاتے ہیں اورموسیٰ کی شریعت میں منع ہیں اور سور کے برابر ہیں پھر یہ کہ جزیہ اٹھائے گا ۔ یا تو اس لئے کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے جن سے جزیہ لینا جائز نہ ہوگا یا اس وقت دنیا میں مال کی کثرت ہوگا جزیہ کی حاجت نہ رہے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے آنےکے وقت پر عید کفارہ ہوگی سب مومنین کفارہ کی خوشی منائیں گے کہ توہمارے لئے مو ا تھا صلیب پر ہمارے لئے جان دی تھی اور اس صورت میں صلیب کی عزت غیر قوموں پر بھی خوب ظاہر ہو کے اوربہت پچھتائیں گے کہ ہم صلیب پر پہلے سے ایمان کو نہ لائے کہ ہم بھی نجات پاتے ۔ اوریہ سب رسمی شریعتیں کہ یہ کہا اور وہ نہ کہا کامل طورپر روحانی نظر آئيں گے اور اس وقت مسلمان بھی جانیں گے کہ روحانی معنی مسیحی لوگ درست بتلاتے تھے اور سور اوربکری میں کچھ فرق نہ تھا پر اُس کا مطلب اورہی تھا کہ آدمی بُری عادتوں سے بچیں۔ اوروہ اپنے بندوں کو سب ظالموں کے ہاتھ سے بچائے گا اورحقیقی آرام میں اپنے ساتھ لے گا اورسارے بادشاہوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرے گا اوراپنی ابدی بادشاہت کو قائم کرے گا اورسچے عیسائی جن کا بھروسہ مسیح پر ہے سارے جہان پر فتح یاب ہوں گے۔ خُدا کےسارے کلام کا نتیجہ یہ ہی ہے۔

پندرھویں فصل

مسیح کی عدم صلیب وعدم الوہیت کے بیان میں

حضرت محمد کی تعلیم میں اس بات پر زور ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا جیسے خُدا کے کلام میں اس بات پر زور ہے کہ ضرور مسیح مصلوب ہوا اورنہایت ضرور تھا کہ وہ دُکھ اٹھائے۔

(سورہ نساء ۱۲رکوع) میں ہے کہ نہ عیسیٰ کو مارا اورنہ اسے صلیب دی مگر اُن کے سامنے عیسیٰ کی صورت پر ایک اور شخص ہوگیا تھا۔

یہ اعتقاد حضرت کا ہر گز قبولیت کے لائق نہیں ہے کیونکہ کتُب سابقہ اس کے مارے جانے پر پیش گوئیاں کرتی ہیں (یسعیاہ ۵۳: ۵تا ۹۔ دانیال ۹: ۲۶)اور وہ خود اپنے مرنے سے پہلے باربار فرماتا تھا کہ میرا مرجانا ضرور ہے (متی۱۶: ۲۱) اوراُن کے شاگرد گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہمارے سامنے مارا گیا (اعمال۴: ۱۰)۔ اوریہودی لو گ اب تک گواہی دیتے ہیں کہ اس کو ہمارے باپ دادوں نے ضرور مارا تھا۔ اوراس کی تعلیم بلکہ تمام بائبل کی تمام اس کی موت کی بنیاد پر قائم ہے پھر بتلاؤ کہ ان پانچ دلیلوں کو جو اپنی ذات میں کامل ثبوت رکھتے ہیں ہم کس طرح غلط جانیں۔

اور حضرت محمد کی بات جن کی نہ نبوت ثابت ہے اور نہ خود اُ س وقت حاضر تھے بلکہ چھ سو برس بعد پیدا ہوئے اور غير ملک کے شخص ہیں اورکلام الہٰی سے بھی پوری واقفیت نہیں رکھتے اور غرض بھی رکھتے ہیں کہ صلیب کے برخلاف ایک دین جاری کیا چاہتے ہیں کون دوراندیش دانا ہےکہ اُن کی بات کو قبول کرے گا۔

حضرت محمد سیدنا مسیح کی الوہیت کے بھی منکر ہیں (سورہ مائدہ ۱۱رکوع) میں ہے (مسیح مریم کا بیٹا ایک رسول تھا) یعنی اس میں الوہیت نہ تھی صرف انسان تھا اور پیغمبر یہ عقیدہ بھی حضرت کا خُدا کے کلام کے برخلاف ہے کیونکہ ضرور سیدنا مسیح نے الوہیت کا دعویٰ کیا ہے اوراپنی الوہیت اور انسانیت ظاہر کی ہے اورساری شان خدائی کی اپنے اندر دکھلائی ہے اس کی پاکیزگی اور قدرت وطاقت سے اُس کی خُدائی کا ثبوت اس کے کاموں اور خیالوں اورارادوں اور تاثیروں سے بخوبی کیا گیا ہے ۔ چنانچہ عہدنامہ جدید کے پڑھنے والوں کوخوب معلوم ہے اور پرانا عہدنامہ بھی دکھلاتاہے کہ آنے والا نجات دہندہ جو مسیح ہے اس میں الوہیت بھی ہوگی ۔چنانچہ یہ سب بیانات ہماری دوسری کتابوں میں کچھ مفصل لکھے گئے ہیں اگر کوئی چاہتاہے تو خاص کر ہماری اُن تفسیروں کو بلاتعصب پڑھے جو اب تک چھپ چکی ہیں اسے معلوم ہوجائے گا کہ ضرور اس میں خُدائی بھی تھی اور اُس کا انکار کرنا مشکل ہے انصاف کا کام نہیں ہے۔ واضح ہوکہ حضرت محمد کا یہ قول کہ مسیح صرف انسان تھا اورایک پیغمبر اُس میں الوہیت نہ تھی یہ ایک دعویٰ ہے اوراس کے ثبوت کی کچھ دلیلیں بلکہ ایک دلیل بھی قرآن حدیث میں نہیں ہے۔ اوریہ اعتقاد کہ مسیح انسان اور خُدا بھی ہے صدہا دلیلوں کے ساتھ اناجیل وغیرہ میں مذکورہے۔ اب کیوں کر ہوسکتاہے کہ ایک بے دلیل بات سے بادلیل عقیدہ چھوڑدیں۔مگر حضرت محمد نے چونکہ مسیحی دین کی مخالفت پر عمداً کمر باندھی یا کلام الہٰی اور واقعات مسیحی اور واقعات انبیاء سے ناواقفی کے سبب سے وہ ایسی باتیں بولتے ہیں اس لئے وہ نہ صرف عیسائی دین کی مخالفت کرتے ہیں مگر تمام کتُب سماوی اورسب سلسلہ انبیاء کے خلاف بولتے ہیں اُن کی باتیں خطرناک ہیں اُن کو جو سلامتی ابدی کے طالب ہیں بہت ہوشیار ہونا چاہیے اوربہت فکر کے ساتھ سب باتوں کو دریافت کرکے قبول کرنا مناسب ہے۔

دوسرا باب

عبادات اسلامیہ کے بیان میں

بادات اُن افعال اور رسوم اور ترتیبوں کو کہتے ہیں جو خُدا کی پرستش سے علاقہ رکھتی ہیں جن کے وسیلہ سے آدمی خُدا کے ساتھ قربت حاصل کرتاہے یہ نہائت عمدہ بات ہے کہ آدمی خُدا کی عباد ت کرے۔ لیکن ضرورہے کہ عبادت کے اطوار خُدا سے معلوم کئے جائیں کیونکہ مفید عبادت وہی عبادت ہے جو الہٰام سے خُدا نے بتلائی یا خُدا کی روح نے انسان کے دل میں ڈال کہ اس کے سامنے وہ اس طرح سے جھکے۔ محمدی مذہب میں اطوارعبادت کا بھی ایک بڑا سا دفتر لکھاہواہے جس میں سے بطور خلاصہ کے مختصر بیان اُن کی ہر ہر عبادت کا کرتا ہوں۔ اورچونکہ خُدا کےکلام میں محمدی مذہب کی نسبت بلکہ سب جہان کے مذہبوں کی نسبت زیادہ تر خُدا کی عبادت کے اطوار اوراس کے پہلو بیان ہوئے ہیں اس لئے محمدی عبادات کا اُن عبادتوں کے ساتھ کچھ کچھ مقابلہ بھی کیا جائے گا اگرکوئی خُدا پرست آدمی خُدا کے دین کی عبادتوں کے اطوار سے واقف ہونا چاہے تو اسےچاہیے کہ نماز کی کتاب کو پڑھے۔

فصل اوّل

طہارت کے بیان میں

طہارت عبادت میں داخل ہے۔ حضرت نے بہت زور کے ساتھ طہارت کی ضرورت کا بیان کیا ہے اوراکثر اس کے دقیقوں کو ظاہر کیا ہے اور یہ بیان کچھ تو قرآن میں ہے پر بہت سے ذکر حدیثوں میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :

چھہ باتوں کے سبب طہارت کی بڑی ضرور ت ہے۔

اوّل: نماز بغیر طہارت کے ہونہیں سکتی۔

دوم: قرآن کو بغیر طہارت کے ہاتھ نہیں لگاسکتے۔

سوم: مسجد میں بغیر طہارت داخل نہیں ہوسکتے۔

چہارم: حج کے لئے طہارت ضرور ہے۔

پنجم: حضرت محمد پر درود پڑھنے کےلئے طہارت چاہیے۔

ششم: پرہیز گارآدمی کو چاہیے کہ اکثر طہارت سے رہا کرے کیونکہ بغیر طہارت کے خُدا کی برکت آدمی پر نازل نہیں ہوتی ہے اورنہ بعض عبادت بغیر اُس کے قبول ہوسکتی ہے مشکوات کتاب الطہارت کی پہلی حدیث یہ ہےکہ الطھور شطر الایمان یعنی طہارت آدھا ایمان ہے۔ اب معلوم کرنا چاہیے کہ طہارت کیاچیز ہے دوقسم کی طہارت ہے۔

حقیقی طہارت

یہ ہے کہ بدن اورکپڑے کو نجاست دیدنی سے پاک رکھنا۔

حکمی طہارت

یہ ہے کہ بغیر نجاست دیدنی کے نادیدنی نجاست سے بحکم شرع کے پاکی حاصل کرنا مثلاً وضو ،غسل اورتمیم وغیرہ سے۔

خُدا کےکلام میں بھی بہت سا ذکر طہارت کا ہے اور موسوی شریعت میں جسمانی طہارت کی تعلیم بہت ہوتی تھی اور روحانی طہارت کا بھی بہت ذکر ہواہے پر یہودیوں نے جسمانی طہارت کی بہت پیروی کی اور روحانی طہارت سے غافل رہے مگر سیدنا مسیح نے دلی طہارت پر زور دیا اوریہ دکھلایاکہ جسمانی طہارت کی تعلیم روحانی طہارت کےلئے بطور نمونہ کے تھی ۔نہائت ضروری روحانی طہارت ہے کہ آدمی کا دل کفر غضب، دشمنی، حسد ، لالچ وغیرہ سے پاک ہو ۔تب الہٰی برکات کا مہبط (اُترنے کی جگہ)ہوسکتاہے(متی ۵: ۸)۔ ’’مبارک وہ ہیں جو پاک دل ہیں کیونکہ خُدا کودیکھیں گے ‘‘۔پس انجیل بھی طہارت کی ضرورت بتلاتی ہے لیکن یہ کہتی ہےکہ حقیقی طہارت دل کی پاکیزگی ہے اورمجازی طہارت جسمانی طہارت ہے۔

دیکھو ہزارہابے ایمان اگرچہ کیسے صاف ستھرے کیوں نہ رہیں خُدا کے نزدیک مکروہ ہیں اور وہ غریب ایماندار جو اپنی غربت اور تنگدستی کے سبب میلے کپڑے پہنے ہیں ایمان اور دل کی صفائی کے سبب خُدا کے مقبول ہیں۔

ہاں جسمانی طہارت سے جسم کی صحت ہے اور آدمی خوب نظر آتاہے پر الہٰی تقرب کے لئے دل کی طہارت مطلوب ہے پر حضرت محمد نے اپنا سارا زور جسمانی طہارت پر خرچ کیاہے۔ توبھی یہودیوں کی جسمانی طہارت سے ہرگز فوقیت نہیں لے گئے جنہوں نے مسیح سے صرف جسمانی طہارت پر ملامت اٹھائی کہ ’’پیالے اوررکابیوں کو باہر سے دھوتے ہو پر اندر لوٹ سے بھرے ہیں‘‘ ۔

فصل دوم

غُسل کے بیان میں

ہم بستری کے بعد اوراحتلام کی حالت میں حضرت محمد نے غسل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح عور ت کو حیض ونفاس سے پاک ہونے کے بعد بھی غسل ضرور ہے یہ باتیں مناسب ہیں اورموسیٰ کی شرع میں بھی ان کا ذکر ہے ۔ اور دنیا کی سب قومیں اپنی تمیز کے موافق ایسی صفائی کرتے ہیں۔ لیکن محمدی شرع میں چونکہ یہ امر عبادت میں داخل ہیں اس لئے بڑے بڑے بیان علماء نے ان کے کئے ہیں اوربے حیائی کے ذکر ایسے موقعوں پر بہت ہیں پر ہم اس بارے میں اور تو کچھ نہیں کہتے مگر یہ کہ حضرت محمد کا زور جسمانی طہارت پر ہے۔ عیسیٰ مسیح کے لوگ اپنے گناہ آلودہ دلوں اور روحوں کو مسیح کی پاک قربانی کے خون کے سوتے میں دھوتے ہیں تاکہ وہ پاکیزگی جو خُدا کو پسند ہے کریں اوراسی پر انجیل میں زور ہے ہاں وہ لوگ اپنے بدن اور کپڑوں کو بھی نجاست جسمانی سے پانی میں صاف کرتے ہیں پر نہ قربت الہٰی کے لئے مگر دفعہ کراہت اور صحت بدنی کے لئے ۔ اور خوب جانتے ہیں کہ توریت اورانجیل میں کچھ فرق نہیں ہے وہاں جسمانی طہارتیں اس لئے مقرر نہیں کہ آئندہ روحانی طہارتوں کے نمونے ہوں۔

فصل سوم

حیض کے بیان میں

حیض کی حالت میں عورت ناپاک ہے اوراس ناپاکی مُدت میں تین دن سے کم اور دس دن سے زيادہ اُن کی شرع میں نہیں ہے۔

عورت حائیضہ کو نماز معاف ہے اور وہ مسجد میں قدم نہیں رکھ سکتی۔ کعبہ کا طواف نہیں کرسکتی نہ قرآن پڑھ سکتی نہ اُس کو چھو سکتی ہے مگر غلاف کے ساتھ ۔ ایسی باتیں حضرت محمد نے حضرت موسیٰ کی توریت میں سے کچھ تصرف کے ساتھ اخذ کی ہیں جو مسیحی باطنی طہارت کے نمونے تھے۔ پر اب آزادگی کا زمانہ آگیا ہے اورباپ(پروردگار) کی پرستش روح اورراستی سے ہونے لگی اُس وقت کی رسمی شریعت ایک خاص حکمت پر مبنی تھی جس کی حکمت اب کھل گئی ہے ۔ لیکن حضرت محمد کا اب ایسا بیان کس حکمت پر مبنی ہے کوئی حکمت نہیں ہے مگر صاف بتلایا گیا ہے کہ ایسے کام تقرب الہٰی کےلئے نہیں جو تمیز پسند نہیں کرتی ہے۔

ہاں حضرت محمد نے عورت حائیضہ سے ہم بستر ہونے سے بھی منع فرمایا ہے اوریہ اچھی بات ہے عقلاً مگر خود حضرت محمد نے اس پر عمل نہیں کیا۔ چنانچہ مشکوات باب الحیض میں حضرت عائشہ بی بی حضرت محمد کی فرماتی ہیں کہ عین حیض کی حالت میرے ساتھ مباشرت کرتے تھے۔ اوراس بی بی کا یہ قول ہے کہ " کان یامرنی فاترز فیبا شرنی وانا حیض" ۔اگرچہ یہاں بالائے مباشرت کا ذکر ہے اورایسا ہی حکم حضرت نے اُمت کو بھی دیا ہے۔

اس مقام پر میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ اکثر مُدت حیض کی حضرت محمد نے دس یوم مقرر کئے ہیں پھر بھی ایسی بے صبری ہے ۔حالانکہ (۱۸) بی بیاں اوربھی موجود ہیں یہ باتیں مقدسوں کو لائق نہیں ہیں۔

خُدا کا سچا رسول (۱کرنتھیوں ۷: ۲۹) میں فرماتاہے کہ ’’بیاہی ہوئی ایسی ہوجیسی بن بیاہی ‘‘یعنی جانوروں کی طرح اکثر شہوت پرستی میں مصروف رہنا مقدسوں کو لائق نہیں ہے چہ جائیکہ رسولوں کا یہ حال ہو اب ناظرین آپ ہی انصاف کریں اور رسول کی اس تعلیم کو حضرت محمد کی اس تعلیم سے مقابلہ کرکے سوچیں۔

فصل چہارم

وضو کے بیان میں

وضو بھی ایک طہارت ہے نجاست حکمی سے وہ یہ کہ مسلمان آدمی قاعدہ مقررہ کے موافق منہ ہاتھ پیر وغیرہ دھوئے تاکہ عبادت الہٰی کے لائق ہوجائے اور صفت وضو کی یہ ہے کہ جو مشکوات کتاب الطہارت میں بخاری ومسلم نے عثمان سے روایت کی ہے کہ

’’ جو آدمی اچھی طرح وضو کرے اُس کے سارے بدن کے گناہ دفع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اُس کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی باقی نہیں رہتے‘‘۔

یہ بات عقل میں نہیں آتی اورکلام الہٰی کے بھی خلاف ہے گناہ جو ایک نجاست روحانی ہے وہ جسم کی صفائی سے کس طرح نکل سکتاہے البتہ پانی سے بدن کا میل چھوٹ سکتاہے پر روح کا میل پانی سے دھویا نہیں جاسکتا۔

انجیل میں مذکور ہے کہ بپتسمہ سے گناہ دفع ہوسکتے ہیں مگر اُسی کتاب سے ثابت ہے کہ روح اور آگ کے بپتسمہ سے جو مسیح دیتاہے یہ ہوتاہے نہ پانی سے ہاں پانی اُس کا نشان ہے مگر حضر ت محمد پانی سے اس نجات کا دفعیہ بتلاتے ہیں انجیل صاف بتلاتی ہے کہ نہ عبادت سے نہ ریاضت سے نہ عقائد سے بلکہ (ایمان) سے بھی نہیں مگر روح سے جو بوسیلہ ایمان کے اللہ بخشتا ہے یہ گناہ دفعہ ہوتے ہیں اوریہ بات عقل اور نقل سے مسلم ہے پر یہ عام بات جو بے اصل ہے کہ پانی سے گناہ دفع ہوں اگر کسی کی تمیز قبول کرسکتی ہے توکرے۔

پر یہ وضوٹوٹ جاتاہے جب کوئی نجاست دیدنی بدن سے نکلے باقی آجائے یا آدمی بآواز بلند ہنسے یا بے ہوش ہوجائے یا سوجائے وغیرہ اس صورت میں دوسری با روضو کرنا پڑتاہے ۔

مشکوات الطہارت فصل سوم میں لکھاہے کہ

’’ ایک دفعہ حضرت محمد نے امام ہوکے نماڑ پڑھوائی اور سورہ روم کو پڑھا مگر پڑھتے پڑھتے ایک جگہ بھول گئے جب نماز ہوچکی تو فرمایا کیا حال ہے لوگوں کاکہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے اورہمارے ساتھ نماز پڑھنے کو آجاتے ہیں اُن کے اچھے وضو نہ ہونے کے سبب ہم قرآن کو پڑھتے ہوئے بھول جاتے ہیں‘‘۔

یعنی اُن کے بُرے وضو ہمارے اندر تاثیر کرکے قرآن کو بھولادیتے ہیں یہاں سے ظاہر ہے کہ اُمت کی راستبازی پیشواکی راستبازی کو کامل کرتی ہے یانقصان پہنچاتی ہے یہ نہیں ہے کہ پیشوا کی راستبازی اُمت کے نقصان کو کامل کرے۔

اس تعلیم سے یہ خوف پیدا ہواکہ جب بعض آدمیوں کے بُرے وضو کے سبب اس وقت خُدا کی حضوری میں حضرت محمد قرآن کو بھول گئے تو قیامت کے روز جب خُدا اپنے جلال اور دبدبہ میں ظاہر ہوگا اور ہزارہا آدمی بالکل فرائض شکن اور بدیوں سے بھرے ہوئے حضرت محمد کے پیچھے ہوں گے تو اُس وقت کیا حال ہوگا ایسا نہ ہو کہ ساری نبوت ہی گم ہوجائے۔ پس اب ہم کیوں کر ایسے شخص کے پیچھے چلیں جو ہمارے اعمال صالحہ سے منور ہوکے ہمارے سامنے چمکنا چاہتاہے۔

پر تمیز صاف کہتی ہے کہ حضرت نے اپنے بھول کی شرم دفع کرنے کوعلی العموم(سارے) لوگوں پر یہ عیب لگایا تھاکہ وہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے۔

اب مسیحی وضور پر بھی خیال کرنا چاہیے کہ وہ کیا ہے(متی ۵: ۲۳۔ ۶: ۵) کو پڑھو کہ دوسروں کے قصور معاف کرکے اوربے ریاہوکر عبادت کرنا چاہیے مخالف رکھنے والا اورریاکار آدمی خُدا کی حضوری حاصل نہیں کرسکتا۔ اوراس مطلب سے توانجیل بھرپور ہےکہ آدمی کیسا ہی گنہگار کیوں نہ جب ایمان کے ساتھ سیدنا مسیح کے پیچھے جائے تو مسیح کے وسیلہ سے اُس کے سارے گناہ دفع ہوجاتے ہیں اور وہ منور ہوجاتاہے اُس کے گناہ دھوئے جاتے ہیں اوراُس کی سب اندرونی آلائش(گندگی) جل جاتی ہے اور نئی زندگی اور روشنی اُس میں داخل ہوتی ہے اور خُدا کی مرضی اس پر ظاہر ہوتی ہے نہ آنکہ ہمارا نقصان پیشوا کے ذہن میں سے بھی خُدا کی مرضی کو اڑادے۔

فصل پنجم

تمیم اور مسح خف کے بیان میں

حضرت محمد نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا بیماری کے خوف سے غسل ووضو نہ کرسکے یا جاڑے خوف سے پانی کی طہارت مذکور عمل میں نہ لاسکے تو بجائے پانی کی طہارت کے خاک پر یا پتھر پر یا چونے پر دونوں ہاتھ مارے اور منہ پر ایک دفعہ اور دوسری دفعہ ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لے پس وہ شخص غسل یا وضو کرُچکا اب وہ شخص نماز وغيرہ سب کام کرسکتا ہے یہ تمیم ہے۔

مسح خف یہ ہے کہ سردی کے موسم میں جب وضو کرے اور پیروں میں چمڑے کے موزے ہوں تو پیر نہ دھوے بلکہ پانی سے بھیگی ہوئی انگلیاں ہاتھ کی موزوں پر پھیر لے اورسمجھے کہ پیر بھی دھوئے گئے ۔ یہ نمونے ہیں عین کے عین توپانی ہی چاہے کہ اس سے پاکیزگی حاصل کی جائے پر عدم موجودگی اور ضرورت کی حالت میں پانی سے عوض یہ کام کرے یعنی جب اصل چیز نہیں ہے تو اُس کے نمونے سے کام نکالے یہ کارروائی کی بات ہے مگر اُن کی شریعت یہ کہتی ہے کہ ان نمونوں سے کام نکالنے والا برابر ہے اُس شخص کے جس نے عین یعنی اصل شے سے کام کیا۔

اس مقام پر میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ موسیٰ کی شریعت میں پانی کی جسمانی طہارت مسیح کی روحانی باطنی طہارت کا نمونہ تھا اور اصل اس میں روحانی صفائی تھی جونمونوں کے وسیلہ سے اس وقت کارآمد ہوئی اور جب تک اصل طہارت کا سرچشمہ جو مسیح کا خون ہے کھولا نہ گیا خُدا نے اپنے لوگوں کو اُس کے نمونوں سے برکات بخشیں پر جب عین آیا یعنی مسیحی خون کا سرچشمہ کھولا گیا تو پھر سب نمونے اُڑگئے کہ آب آمد وتمیم برخواست اور وہ عین جو ظاہر ہوا ایسا کامل ظاہر ہوا کہ اُس کے لئے پھر کسی حالت میں نمونے کی حاجت نہ رہی اب انسان خواہ بیمار ہو یا بڑی تنگی میں ہو یا فراخی میں ہر حالت میں ایمان کے ہاتھ سے مسیحی خون کے سرچشمہ میں دلی طہارت حاصل کرتاہے۔ لیکن حضرت محمد اس بھید کو نہ سمجھے اُنہوں نے اُن سابقہ نمونوں کے عوض میں اورنمونے تجویز کئے اوراُن نمونوں کو عین اور اصل ٹھہرایا اگر پانی کی طہارت اصل شے ہے اور تمیم اُس کا نمونہ وقائم مقام ہے تویہ اصل کیسی ناکامل ہے کہ زمین پر اپنی موجودگی حالت میں بھی بعض اوقات نمونے کی محتاج ہے پر مسیحی خون کا سرچشمہ اُس حالت میں نمونے میں ظاہر ہوا تھاکہ جب وہ وقوع میں نہ آیا تھا جب ظاہر ہوا تو مطلق نمونے ہٹ گئے۔ پر محمد ی تعلیم میں ہم کچی بنیاد پر کچی عمارت دیکھتے ہیں۔

فصل ششم

مسواک کے بیان میں

مسواک یا دانتن کرنا حضرت محمد کی بڑی عادت تھی اوریہ اچھی عادت ہے پر حضرت اس کو بھی عبادت الہٰی میں داخل سمجھتے مشکوات باب المسواک فصل ثانی میں عائشہ سے شافعی وغیرہ کے روائت یوں ہے المسواک مطہرہ للھم مرضات للرب مسواک منہ کی پا کی ہے اور خُدا کی رضامندی ہے۔اسی باب کی فصل ثالث میں ہے

’’فرمایا حضرت نے کہ جب کبھی جبرئیل فرشتہ میرے پاس آیا تب ہی مسواک کا حکم لایا یہاں تک کہ مجھے اپنا منہ چھل جانے کا خوف ہوا‘‘۔

پھر عائشہ کی حدیث میں ہےکہ جونماز اُس وضو سے پڑھی جائے جس میں مسواک کی گئی ہے وہ نماز ستردرجہ زیادہ ہے اُس نماز سے جس کے وضو میں مسواک نہ ہو۔

اس تعلیم کے سبب سے امام شافعی کا فرقہ اہلِ اسلام میں مسواک کی بڑی ضرورت سمجھتا ہے بلکہ بعض مسلمان مسواک ہر وقت پاس رکھتے ہیں پر اور فرقوں کے مسلمان وضو کے وقت اس کا استعمال کرتے ہیں۔

میں اس تعلیم پر صرف اتنا کہتا ہوں کہ مسواک خوب چیز ہے پر وقت معین پر خلوت میں بہتر ہے نہ عام مجلسوں میں اوریہ کہ یہ امر بھی جسمانی بات ہے نہ روحانی۔ لیکن حضرت محمد جوبہت مسواک کرتے تھے اُن کے بارے میں میری تمیزکی یہ گواہی ہے کہ حضرت محمد بہ سبب عورتوں کے اس کا استعمال زیادہ کرتے تھے اوریہی سبب ہے کہ مسواک کے سارے بیان میں رات کی مسواک کا ذکر ہے۔ اورسورہ تحریم کی اوّل عبارت کی تفسیروں میں ایک قصہ مذکورہ ہےکہ عورتوں نےکہا کہ اے محمد تیرے منہ سے بدبوآتی ہے۔ اوراسی واسطے حضرت کچا پیاز اور لہسن بھی نہ کھاتے تھے اور عطریات اورخوشبو سے کپڑے اوربدن کو بھی معطر رکھتے تھے پس مسواک کی کثرت کسی اورمطلب پر مجھے معلوم ہوتی ہے پر الہٰی عبادت کے پیرایہ میں حضرت نے اس کی تعلیم دی ہے۔

خُدا کی عبادت کےلئے جو مسواک یا دین کی صفائی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی زبان کو بدبات بولنے سے باز رکھے اورگالیاں وٹھٹھہ بازی اور چغل خوری اور کوسنا ولعنت کرنا چھوڑے(یعقوب ۳باب تمام)۔ یہ روحانی مسواک ہے جو عبادت ہے پر جسمانی مسواک جسم کےلئے صفائی ہے۔

فصل ہفتم

ایامِ متبرکہ بیان میں

حضرت محمد نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ برس کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے خُدا کے نزدیک زیادہ عزت دار ہیں چنانچہ (سورہ توبہ کے ۵ رکوع )میں لکھا ہے کہ خُدا کے دفتر میں سال کے بارہ مہینے مقرر ہیں جب اُس نے آسمان زمین کو پیدا کیا تھا اُن بارہ میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔

وہ یہ ہیں ، رجب، ذی عقدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے قدیم سے عرب میں متبرک خیال کئے جاتے تھے ان میں وہ لوگ لڑائی اور فساد نہ کرتے تھے حضرت نے قرآن میں اپنے آباء (با پ دادا) کےدستور پر انہیں مبارک بتلایا ہے اور ہر مہینے کی تعریف بڑے بڑے مبالغوں کے ساتھ کتُب احادیث میں ملتی ہے اور کچھ روزے اور دُعائیں اورنمازیں ان میں مقرر ہیں۔

ان چار کے سوا دو اورمہینے حضرت نے اپنی طرف سے معزز ٹھہرائے ہیں یعنی شعبان اور رمضان پس یہ چھ مہینے ہیں کہ ان کی تعریف قرآن حدیث میں بہت ہے۔

بعض خاص دن بھی ہیں جن کو حضرت نے بزرگ بتلایا ہے اوّل جمعہ کا دن ، دوئم شوال کی پہلی تاریخ ،سوم ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ،چہارم ذی الحجہ کی نویں تاریخ، پنجم ذی الحجہ کی دسویں تاریخ بلکہ یکم ذی الحجہ سے دسویں تاریخ تک سارا عشرہ مبارک ہے۔ ششم محرم کی دسویں تاریخ ہے اور ان کے سوا اوربھی دن ہیں جو کم مشہور ہیں۔

بعض راتیں بھی حضرت نے مبارک بتلائی ہیں اوّل شب برات جو شعبان کی چودھویں تاریخ کو آتی ہے ۔دوم لیلتہ القدر یہ رات معلوم نہیں کہ کب آتی ہے مگر سال میں کوئی رات ہے ۔ سوم ہر جمعرات جس میں پیروں فقیروں اور مُردوں کی روحوں کے نام پر لوگ کھانا دیتے ہیں۔

ایک گھڑی یا ساعت بھی حضرت نے مبارک بتلائی ہے جو ہر جمعہ کے دن صبح سے شام تک کسی وقت آجاتی ہے۔

ان مہینوں اور دنوں اور راتوں کا بیان حدیثوں میں اس کثرت سے ہے کہ اس بیان میں ایک مجلد کتاب تیارہوسکتی ہے پر اُس بیان میں کوئی مفید بات نہیں ہے صرف مبالغوں میں ثوابت کا ذکر ہے۔

عیسائی کلیسیا میں جو نماز کی کتاب مرُوج ہے جسے دُعا وعمیم کی کتاب کہتے ہیں اُس میں بھی بعض مہینوں اوردنوں اور راتوں کا ذکر ہے اور اُن میں بعض دُعائیں اورنمازیں اورنصیحتیں خاص مقرر ہیں اور پولوس رسول نے بھی (رومیوں ۱۴: ۵تا ۶) میں یوں لکھاہے کہ ’’کوئی ایک دن کو دوسرے سے بہتر جانتاہے اورکوئی سب دنوں کو برابر جانتاہے ہر ایک اپنے اپنے دل میں پورا اعتقاد رکھے اور وہ جودن کو مانتاہے سو خُداوند کےلئے مانتاہے اورجو دن کو نہیں مانتا سوخُداوند کےلئے نہیں مانتاہے‘‘۔

پس ہم دنوں کے تقرر کے بابت حضرت محمد پر بھی اعتراض نہیں کرتے ہیں لیکن صرف اس قدر ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی خُدا کے کلام پر اورنماز کی کتاب پر فکر کے اورحضرت محمد کے ایام متبرک پر بھی سوچےتواُسے یہ بات خوب معلوم ہوجائے گی کہ سوائے سبت کے اورکسی دن میں خُدا کی طرف سے کچھ خصوصیت مقرر نہیں ہوئی ہے۔

چنانچہ بائبل میں لکھاہے کہ خُدا نے چھ دن میں سب کچھ پیدا کیا اور ساتویں دن فراغت کی اورحضرت محمد نے قرآن میں بھی لکھاہے (اعراف ۷ رکوع میں ہے)اللہ الذی خلق السموات الارض فی ستتہ ایام ثم الستوی علی العرش اللہ وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کوچھ دن میں پیدا کیا اورپھر تخت پر بیٹھ گیا۔پس یہ تخت پر فراغت پاکے بیٹھ جانے کا دن جو برابر انبیاء میں مانا گیا ضرور خُدا سے مقرر اورمخصوص ہے۔

اگر چہ محمد صاحب نے اسے آپ ہی چھوڑ دیا ہے اوراس کے عوض جمعہ کا دن تعطیل(چُھٹی) کےلئے مقرر کیا ہے اورآپ ہی فرماتے ہیں کہ جمعہ خُدا کی تعطیل کا دن نہیں تھا کیونکہ جمعہ کے دن آدم پیدا کیا گیا تھا اُن کے قول کے موافق پر ہم سب انبیاء اُسی یوم کی عزت کرتے ہیں جو الستویٰ علی العرش کا یوم ہے یعنی سبت کا دن۔ ہاں اُس کے عوض ہم اتوار کو اب مانتے ہیں اس لئے کہ اُس دن نئی پیدائش کا کام تمام کرکے اقنو ثانی نے فرصت پائی اور مُردوں میں سے جی اٹھا تھا اوریہ سبت مسیحی کلیسیا کا ہوا جیسے وہ سبت یہودی کلیسیا کا تھا اس دن کے سوا اور دوسراکوئی دن کلام میں مخصوص نہیں ہے جو اخلاقی شریعت میں داخل ہوکے تمام جہان کے استعمال کےلئے پیش کیاگیا ہو۔

ہاں بعض ایام اوربھی توریت میں تھے جن کا ذکر کچھ آنے والا ہے لیکن ایسے مخصوص نہ تھے جیسا سبت تھا پر اُن کی خصوصیت بعض واقعات آئندہ کےنمونے پر تھی اورجب وہ واقعات ظہور میں آگئے تو اب اُن کی خصوصیت بھی جاتی رہی آب آمد تمیم برخواست کے قاعدے سے۔ ہاں اب نماز کی کتاب میں بعض ایام کلیسیا نے مخصوص کررکھے ہیں صرف واقعات گذشتہ کی یادگاری میں نماز کی کتاب ہرگز ہرگز نہیں کہتی ہے کہ یہ ایام اپنے نفس میں کچھ برکت رکھتے ہیں بلکہ وہ تو سب دنوں کے برابر دن ہیں لیکن بات یہ ہےکہ اُن دنوں میں اُن خاص واقعات کو بغور اوربالخصوص ہم یاد کرتے ہیں جو دین کے اُصول ہیں مثلاً مسیح کی پیدائش کا دن اورموت کا دن اورجی اٹھنے کا دن اور روح کی نزول کا دن اس دنیا میں جو یہ بڑے بڑے امور واقع ہوئے تھے اُن کی یادگاری بہ ترتیب سال میں کی جاتی ہے اگر سب مل کے ان دنوں کے عوض میں اوردن یادگاری کے اُن واقعات کے لئے مقرر کریں تو کتاب نماز کا انحراف نہیں ہے غرض اُس کے ان واقعات کی یادگاری سے ہے نہ اُن خاص دنوں سے۔

پر حضرت محمد کی تعلیم میں دن مخصوص ہیں دنوں اور گھڑیوں اور راتوں اور مہینوں میں برکت ہے نہ صر ف اُن کاموں میں جو اُن ایام میں کئے جاتے ہیں بلکہ وہ کام اُس دن میں واقع ہونے سے بہ سبب خصوصیت اُن اوقات کے نہ نسبت اور اوقات کے وہ زیادہ مقبول ہیں یہی فرق محمدی اوقات متبرکہ اور عیسائی ایام یادگاری میں ہے اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ اس تعلیم میں بھی کتنا فرق ہے اور معرفت کے رتبہ سے کس قدر یہ تعلیم حضرت کی گری ہوئی ہے۔

فصل ہشتم

عیدوں کے بیان میں

حضرت محمد کی تعلیم میں دوعیدوں کا بیان ہے عیدالفطر اور عید الضحیٰ یعنی عید وبقرعید۔

عید الفطر کی رسم خاص حضرت محمد کی ایجاد ہے پر عیدالضحیٰ عرب میں پہلے سے آتی ہے ۔

عید الفطر اس لئے ہے کہ ماہ رمضان خیر سے گذرا اور بعض روزوں کے آج مغفرت حاصل ہوئی ۔حدیث میں ہے عبادی ل صمتم ولی صلیتم انصرفوا مغفورالکم جب مسلمان عید کی نماز پڑھ کے آتے ہیں تو گویا خُدا اُن سے یوں کہتاہے کہ ’’اے میرے بندو !تم نے میرے لئے روزے رکھے اور عید کی نماز پڑھی پس چلے جاؤ بخشے ہوئے اپنے گھروں کو‘‘۔

اس عید کا یہ دستور ہے کہ صاف کپڑا پہنے ہوئے کچھ کھا کر گھر سے نکلیں اور عیدگاہ میں نماز پڑھیں اور صدقہ فطردیں اور خوشی کریں۔

لیکن بقر عید کو گھر سے باہر بغیر کھائے نہار منہ نکلیں اور بعد نماز گھر پر آکر قربانی کریں اورکھائیں اور خیرات دیں۔

مشکوات باب صلوات العیدین میں لکھاہے انس سے ابوداؤد کی روایت ہےکہ جب حضرت ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ میں آئے تھے تودیکھا کہ اہلِ مدینہ سال میں دو روز عید کیا کرتے ہیں مہرجان میں اور نو روز کے دن۔ مہرجان خزاوں کا مہینہ ہے اورنوروز سال کا پہلا دن ہے ۔یہ دوروز عید کے مدینہ میں مقرر تھے۔

حضرت نے اہل مدینہ سے کہا کہ ان دو روز میں خوشی کرنا چھوڑدو اس کے عوض میں خُدا نے ہمیں عید الفطراور بقر عید کا دن بخشاہے۔

جمعہ کا دن بھی مسلمانوں میں ایک عید کا دن ہے بموجب مشکوات باب الجمہ فصل ثالث کی اس روایت کے جو ابن عباس سے ترمذی نے نقل کی ہے۔

اور اس دن کی بڑی بزرگی بیان ہوئی ہے اور قرآن میں لکھاہے کہ جمعہ کی نماز کی اذان کے وقت بیع اور خریدفروخت بند کرکے مسجد میں آنا چاہیے۔

اوراسی باب میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہےفرمایا حضرت نے جو کوئی مرجائے جمعہ کو یا جمعرات کو تو وہ عذاب قبر سے بچ جاتاہے۔

جمعہ کی وجہ خصوصیت کئی ایک ہیں یعنی یہ کہ آدم جمعہ کے دن پیدا کیا گیا تھا اورجمعہ ہی کو بہشت سے نکالا گیا اور جمعہ ہی کو وہ مرا بھی تھا اورجمعہ کے دن ایک مقبول گھڑی آتی ہے اور قیامت بھی جمعہ کے دن آئے گی۔ لیکن نہائت درست بات اس دن کی خصوصیت کےلئے وہ ہے جو مشکوات باب الجمہ فصل اوّل میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے والناس لنافیہ تبع الیھود عذاً والنصاری بعد ضدٍ یعنی خُدا نے ہمیں جمعہ کا دن بتلایا ہے سب آدمی ہمارے پیچھے ہیں یہودی سنیچر (ہفتے)کو عبادت کرتے ہیں اورعیسائی اس کے بعد اتوار کو ہم سب سے آگے ہیں کہ جمعہ کو مانتے ہیں۔

بیان گذشتہ سے معلوم ہوا کہ یہ تین عیدیں اہل اسلام کی محض مخالفت دیگر اقوام پر قائم ہیں عید اور بقرعید حضرت نے مدینہ کے مہرجان اور نوروز کے بدلے میں قائم کی ہیں کہ اُن کی رسم اجاڑے اوران کی رسم قائم رہے اور تیسری عید جو جمعہ ہے وہ یہودی اورعیسائی لوگوں کی مخالفت میں ہے کہ ہم ان دونوں فرقوں سے کسی طرح پیش دستی کریں یہاں سے ظاہر ہےکہ تینوں عیدوں کی بنیاد مخالفت نفسانی پر قائم ہے پھر کیوں کر ان میں برکت ہوگی۔

خُدا کے کلام میں بھی عیدوں کا ذکر لکھاہے پر وہ عیدیں نہ کسی کی مخالفت پر قائم ہیں اورنہ انسان کی تجویز سے ہیں پر خُدا کے پاک بھیدوں کا عکس ہیں جیسے (احبار۲۳: ۴)۔ میں ہے کہ یہ خُداوند کی عیدیں اور مقدس منادیاں ہیں۔

پہلی عید ہفتہ ہے یعنی سنیچر کا سبت اس کی خاص وجہ وہی ہے جو کلامِ الہٰی میں اور قرآن میں بھی لکھی ہے کہ خُدا نے چھ دن میں سب کچھ پیدا کیا اور ساتویں دن فراغت کی یا تخت پر آرام سے بیٹھ گیا۔ اور خُدانے حکم دیاکہ میرے نمونے پر آدمی بھی چھ روز دنیاوی کام کریں ساتویں دین سب کچھ چھوڑ کر اللہ سےدل لگائیں اور عبادت کریں بہت ٹھیک طورپر یہودی اسے مانتے آئے یعنی ہفتہ ہی کے روز سبت کرتے رہے۔ پر عیسائی لوگوں نے اتوار کو سبت قرار دیا اس لئے کہ نجات کا کام پورا کرکے اُس دن مسیح قبر سے نکلا اوریہودی سبت کی تکمیل کردی۔

عیسائیوں نے یہ نفسانی خیال کبھی نہیں کیاکہ آؤ ہم یہودیوں سے سبقت لے جانے کےلئے جمعہ کو اختیار کرلیں اُس وقت تو مسلمان پیدا بھی نہ ہوئے تھے اگر عیسائی چاہتے تو جمعہ کو لے سکتے تھے پروہ اپنی مرضی سے دین نہیں بناتے ہیں وہ خُدا کے الہٰام کے تابع ہیں اورجب وہ خُدا کے تابع ہیں تب ہی تو خُدا انہیں عمدہ برکتیں دیتا ہے کہ اس نے انہیں اتوار بخشا کہ نئی زندگی کے لوگ اپنی نئی زندگی کے پہلے دن کو خُدا کی عبادت کے لئے مخصوص جانیں۔

(۲)عید فسح اور فطیر ہے (احبار۲۳: ۵، ۶) کے موافق یعنی پہلے مہینے کی ۱۴ تاریخ زوال وغروب کے درمیان مخلصی کی عید ہے اُس میں برہ ذبح کیا جاتا تھا اور دوسرے روز یعنی ۱۵ تاریخ کو عید ِفطیر ہوتی تھی جس میں سات دن تک فطیری روٹی کھاتے تھے۔

یہ عید سیدنا مسیح کی یادگاری میں جو دنیا میں آنے والا تھا خُدا نے یہودیوں کو بتلائی تھی ۔سیدنا مسیح ٹھیک اسی عید کے وقت ۱۲بجے سے تین بجے تک خُدا کا برہ ہوکے صلیب پر موا(متی ۲۷: ۴۵) ۔اب یہ عید تکمیل پاگئی یعنی اس عید کا مطلب ظاہر ہوگیاکہ یہ تھا اور ضرور بڑا بھاری مطلب اس میں تھا اوراس کے سب قواعد خوب اس میں پورے ہوئے۔ پس یہ عید کیا تھی مسیح کی موت کا ایک نقشہ کھینچا ہوا اللہ کا اُن کے ہاتھ میں تھا نہ نوروز کی مخالفت تھی نہ مہرجان کی پر خُدا کی آئندہ محبت کا پرُجلال نقشہ یاجہان کے نجات نامہ کی تصویر تھی پر درست مطلب جب کھلا جب کہ وہ آیا جس کی تصویر تھی ہم نے تصویر کو ہاتھ میں لے کر سب کچھ اس میں جس کی تصویر تھی درست پایا۔ اوراس کے بعد یہ فطیر ۱۵تاریخ سے سات دن تک ہوتی تھی سات کا عدد کمال پر اشارہ کرتاہے پس آخر تک شرارت کے خمیر سے کلیسیا پرہیز کرتی ہے قیامت کے دن تک یہ عید رہے گی اور قیامت کو یہ سات دن بحساب الہٰی پورے ہوں گے جب تک تمام ریاکاری کا خمیر دور کرتے رہتے ہیں اور خُدا کے فضل سے روحانی فطیری روٹی کھاتے ہیں۔

عید پولا ہلانے کی تھی اوروہ اسی مہینے کی ۱۶تاریخ کو ہوتی تھی کہ اُن ایام میں زراعت پک جاتی تھی مگر گاٹنے سے پہلے یہ عید ہوتی تھی اس عید کے بعد کاٹنا شروع ہوتا تھا مگر اس عید کے دن پر ایک پولا یعنی اپنی زراعت کا پہلا حاصل کاہن کے وسیلہ سے خُدا کے حضور میں پیش کیا کرتے تھے بموجب (احبار ۲۳: ۱۰) کے۔

سواُسی دن سیدنا مسیح تمام زمین کے مرُدگان کے کھتّے کا پہلا پھل ہوکے قیامت کی زندگی سے زندہ ہوکے جی اٹھا تھا۔ ۱۴تاریخ کو عید فسح کے دن موا(۱۵) تاریخ کو اس کی منادی ہوئی کہ سات دن تک کوئی خمیر کا استعمال نہ کرے یعنی اب جہان سے شرارت اورریاکاری متروک ہوئے ۔قیامت تک کیونکہ حقیقی کفارہ ہوگیا پر(۱۶)تاریخ جب پولا ہلانے کی عید آئی کہ اللہ کے سامنے اپنی زراعت کا پہلا پولا شکر گزاری میں پیش کریں اُس دن مسیح مردوں میں سے جی اٹھا یہ دکھلا کے کہ اب مردوں کے اٹھنے کاوقت آیا اب جو کچھ آنسووں کے ساتھ بویا تھا وہ خوشی کے ساتھ کاٹ کے گھر میں لائیں گے۔ پس مسیح میں قیامت کا شروع ہوگیا (دیکھو متی ۲۸: ۱۔ ۱کرنتھیوں ۱۵: ۲۰)۔ پس یہ عید بھی کامل ہوگئی اور شریعت کا بھید ظاہر ہوگیا اب اُس عید کی کچھ حاجت نہ رہی جس کی تصویر تھی وہ آیا۔

عید پینتکوست تھی جو تیسرے مہینے کی پانچ تاریخ کو ہوتی تھی بموجب (احبار ۲۳: ۱۵، ۲۱) کے یعنی عید فسح سے پچاس یوم کے بعد اس حساب سے کہ ۱۵ یوم ماہ اوّل کے اور ۳۰یوم ماہ دوم کے اور ۵ یوم ماہ سوم کے ملا کر برابر پچاس کے ہوتے ہیں اور یہ عید شریعت کی یادگاری میں تھی کہ خُدا نے اس دن شریعت موسوی عنائت کی تھی۔ مگر ٹھیک اسی عید پر خُدا کی روح مسیح نے آسمان پر شاگردوں پر نازل کی تھی اورانہیں برکات روحانیہ سے بھر دیا تھا اور تمام عہدنامہ جدید کی باتیں روح سے شاگردوں کو بتلائی گئی تھیں (اعمال۲: ۱ سے ۱۳) پس یہ عید بھی یہودیوں کی کامل ہوگئی یہ چاروں عیدیں یہود کی مسیح کی آمد اوّل سے متعلق تھیں سو پوری اورکامل ہوگئی اورجہان سے اٹھ گئیں کیونکہ ان کا عین آگیا۔

عید نرسنگے کی تھی بموجب( گنتی ۲۹: ۱ )کے سواس عید کا بھید انجیل شریف میں یوں ظاہر کیا گیا کہ جب مسیح پھر آئیں گے تب وہ عید بھی پوری ہوگی (متی ۲۴: ۳۰، ۳۱) اور چونکہ ساتویں مہینے کی پہلی تاریخ وہ عید تھی پس جب چھ مہینے پورے ہوجائیں گے اور ساتواں مہینہ آئے گا یعنی جب دنیا کا چھ دن کا کام پوراہوجائے گا اور ساتواں دن آرام کا آئے گا تو اس کی پہلی تاریخ وہ عید بھی ہم کرینگے۔ خُدا کا فرشتہ نرسنگا پھونکے گا اور لوگ قبروں سے نکلیں گے تاکہ خُداوند کے سامنے حاضر ہوں اور خوشی کی عید کریں۔

عید کفارہ تھی اور وہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ ہوتی تھی بموجب (احبار۲۳: ۶)۔ کے یہ عید ابھی باقی ہے مسیح کے آنے پر اورمسیحی مُردوں کے جی اٹھنے کے بعد یہ کامل ہوگی جب مسیحی کفارہ کی کیفیت اوراُس کے فوائد اوراس کی قیمت سب ایمانداروں اوربے ایمانوں پر بھی روشن ہوجائے گی جب وہ لوگ جو کفارہ سے پاک ہوئے ہیں نہایت خوشی کا منہ دیکھیں گے اور وہ جنہوں نے کفارہ کی تحقیر کی ہے پشیمان ہونگے اور حسرت سے کہیں گے کہ ہائے ہم اپنی نادانی اور سرکشی کے سبب کفارہ کی برکت سے محروم رہے اور اب ابد تک ہم پر افسوس اور افسوس ہے اورکچھ چارہ نہیں اس روز کفارہ کی عید ہوجائے گی پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ یہ ہوگا کہ یعنی مسیح کی تشریف آوری کےکچھ تھوڑے عرصہ کے بعد ۔

عید خیمہ تھی یہ عید ساتویں مہینے کی ۱۵تاریخ سے ۲۴تک ہوتی تھی بموجب احبار ۲۳: ۳۲) کے سو یہ عید اُس وقت کمال کو پہنچے گی کہ جب اُن ساری عیدوں کے بعد خُدا کا خیمہ آدمیوں کے ساتھ ہوگا(مکاشفات ۲۱: ۳)۔کو دیکھو۔

پس ان سات عیدوں میں سے جو یہودیوں کی کتابوں میں ہمارے مولا کی تصویروں کے طورپر مذکور ہیں ایک عید ہفتہ ہفتہ اتوار کو کی جاتی ہے کیونکہ وہ مقدسوں سے علاقہ رکھتی ہے کہ باپ کے نمونے پر ہمیشہ کام کریں۔

دوعیدیں ہوچکی اُن عیدوں کا مطلب پورا ہوگیا یعنی فسح اور پولا ہلانے کی عید تمام ہوئیں چوتھی عید۔ ہورہی ہے کہ انجیل سنائی جاتی ہے اور لوگ خُدا کی روح پاتے ہیں اورکلیسیا میں شامل ہوتے جاتے ہیں اور دنیا کی حدوں تک یہ سنائی جائيگی پانچویں چھٹی ساتویں عید مسیح کی دوسری آدم سے علاقہ رکھتی ہیں۔ جن کی انتظاری میں ہماری روحیں رات دن آسمان کی طرف تاکتے ہیں کہ کب وہ مالک الملک آئے اور انہیں پورا کرے جیسے اُس نے تین عیدیں پوری کی ہیں یہ خلاصہ توریت کی عیدوں کا ہے۔

اب دیکھ لو کہ محمدی عیدوں کا مغز اور ان عیدوں کا بھید کس قدر فرق رکھتاہے اور جتنا فرق آدمی میں اور خُدا میں ہے اُسی قدر فرق آدمی کے خیال اور خُدا کے خیال میں ہے۔ اب جو ہم عیسائی لوگ عیدیں مانتے ہیں وہ سب ہماری روحانی زندگی یا مسیح کے واقعات کی یادگاری کے دن ہیں۔

فصل نہم

نمازوں کے بیان میں

حضرت نے یہ تعلیم بھی تاکید کے ساتھ دی ہے کہ آدمی کو نماز پڑھنی چاہیے اورنمازیں اُن کی دو قسم پر ہیں۔

اوّل نماز

جو ہر مسلمان بالغ عاقل پر فرض عین ہے اور وہ پانچ نمازیں ہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا۔

ایک نماز میں دو یا تین یا چار رکعت ہوتی ہیں رکعت کے معنی ہیں ٹکڑا نماز کا بشرطیکہ اس میں جھکنا بھی پڑے پس کھڑا ہونا اورجھکنا اورسجدہ کرنا معہ نیت نماز اور اُن دُعاؤں کے جو اُن میں مقرر ہیں ایک رکعت کہلاتی ہے۔ صبح کو دورکعت ، بعد دوپہر کے چار رکعت کچھ دن باقی رہے اورچار رکعت ۔ فوراً غروب کے بعد ۳ رکعت کچھ رات گئی چار رکعت مقرر ہیں۔ یہ سب خُدا کی طرف سے آدمیوں پر بطور فرض کے رکھی گئی ہیں ۔ یہی پانچ نمازیں ہیں جو مشہور ہیں۔

مشکوات کتاب الصلوات فصل اوّل میں ابوہریرہ سے مسلم وبخاری کی روایت ہے کہ

’’فرمایا حضرت نے اگر کسی کے دروازہ پر نہر ہو او روہ پانچ دفع ہر روز اُس میں غسل کرے توکیا اُس کے بدن پر کچھ میل رہ سکتا ہے لوگوں نے کہا نہیں فرمایا یہ حال ان پانچ نمازوں کا ہے اُن کے سبب سے سب گناہ بخشے جاتے ہیں‘‘۔

مگر علماء محمدیہ کہتے ہیں کہ صرف چھوٹے چھوٹے گناہ بخشے جاتےہیں پر بڑے گناہ نہیں بخشے جاتے لیکن حضرت محمد کی عبادت میں چھوٹے بڑے گناہ کی کچھ قید نہیں ہے۔

شاید یہ نہر کی تمثیل حضرت محمد نے اپنی پانچ نمازوں کی نسبت پہلے زبور میں سے الٹ کے اخذ کی ہے وہاں نمازوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ مغفرت گناہوں مگر یہ ذکر ہے کہ کلام الہٰی میں رات دن سوچنے والا اس درخت کی مانند ہے جو نہر کے کنارے پر ہے جو ہر وقت سرسبز رہتاہے اوراُس کے پتے مرجھاتے نہیں وہ پھولتا پھلتا رہتا رہے گا یہ مضمون تو پسند کے لائق ہے پر نمازوں میں ایسی کیا خصوصیت ہے۔

دوم نماز سنُت

یعنی وہ نماز جو حضرت محمد نے اپنی مرضی سے پڑھی ہیں اگر کوئی انہیں پڑھے تو بڑا ثواب پاتاہے پر خُدا کا حکم اُن کی بابت نہیں ہے کہ ضرور پڑھی جائیں توبھی باسیدثواب حضرت کے ارشاد کے موافق ہر فرض نماز کے ساتھ کسی قدر سنت نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔

سوم تراویح

یہ وہ خاص نماز ہے جو صرف رمضان کے مہینے میں برابر رات کو پڑھی جاتی ہے اُس کی بیس رکعتیں ہیں۔ یہ بڑی لمبی نمازیں ہیں اور کبھی کبھی ضرور ہوتاہے کہ سارا قرآن ان میں ختم کیا جائے۔ پس فی یوم ایک سپارہ کی اوسط آتی ہے۔ دن بھر روزہ رکھا تھا شام کو کچھ کھایا جس سے بدن میں سستی آجاتی ہے مگر فوراً یہ تراویح پیش آتی ہیں معمولی نماز کے سوا یہ دیر تک کی اٹھا بیٹھی لوگوں کے لئے بڑی تکلیف کا باعث ہے پر لوگ بھی لاچاری سے اسے تمام کرتے ہیں۔

حضرت محمد نے یہ نماز جو تکلیف ہے آپ کبھی برابر مہینے بھر نہیں کچھ دن پڑھ کر چھوڑدی تھی۔

مشکوات باب قیام شہر رمضان فصل اوّل میں زید بن ثابت کی روایت بخاری ومسلم سے یوں لکھی ہے کہ’’ حضرت نے مسجد میں چٹائی کا ایک حجرہ بنایا اوراس حجرہ میں کئی رات اکیلے نماز پڑھتے رہے جب لوگوں نے یہ حال دیکھا تو وہ بھی آنے لگے اور حضرت اُن کے ساتھ نماز فرض اور تراویح پڑھنے لگے ۔پس کئی رات کے بعد ایک رات کو حضرت حجرہ سے باہر نہ نکلے لوگ باہر کھڑے کھڑے تنگ آکر کہنگہار نے لگے کہ شائد حضرت آواز سن کر باہر آئیں اورنماز کریں لیکن حضرت نہ آئے مگر کہہ دیا کہ تمہارا شوق اس نماز پر ہمیشہ رہنا چاہیے پر میں اس لئے اس نماز کے لئے باہر نہیں آتا کہ مبادا خُدائے تعالیٰ اس نماز کو بھی تم پر فرض نہ کردے اوراگر یہ فرض ہوگئی تو تم اس کو ادانہ کرسکوگے۔ پس اے لوگو بہتر ہے کہ تم اس نماز کو اپنے اپنے گھروں میں پڑھ لیاکرو‘‘۔

حضرت محمد خود جانتے تھے کہ یہ بھاری نماز تکلیف کا باعث ہے اسی لئے تو فرماتے ہیں کہ تم ادا نہ کرسکوگے ۔ اوریہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت اس بوجھ کے اٹھانے سے ضرور تھک گئے تھے چنانچہ اس تھکاوٹ کا مزہ مسلمان کو خوب معلوم ہے۔ مگر حضرت کا یہ عذر کہ میں اس لئے اب اس نماز کو ترک کرتا ہوں کہ مبادا خُدا ہم پر اس نماز کو فرض نہ کردے صاف ظاہر ہے کہ یہ کس قسم کا عذر ہے۔ یہ ایک حیلہ ہے۔یہ نہیں فرماتے کہ یہ بھاری بوجھ میں نے باندھا ہے خود نہیں اٹھاسکتا پر دوسروں کی گردن پر رکھتا ہوں(متی ۲۳: ۴) ۔بالفرض اگر یہ سچا عذر تھا جو تعجب کی بات ہے کہ یہ کیسا خُدا ہے اوریہ کیسے نبی ہیں کیا یہ خُدا اس نبی کو ایک کام پر مداومت (قیام)کرتے ہوئے دیکھ کر وہ کام اس کی اُمت پر فرض کردیا کرتا ہے نہ اپنی کسی خاص حکمت کے سبب مگر نبی کی مداومت کے سبب حالانکہ اوربہت کام اس نبی کی مداومت میں ہیں اور اس نے اُن کو اس امت پر فرض نہیں کیا۔اوریہ کیسے نبی ہیں کہ اپنے خُدا کے ساتھ بھی داؤ برتتے ہیں اورحکمت عملی سے چلتے ہیں یہ تو ایسی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا صندوقچہ ذرا اندر اٹھاکے رکھ دو زید آتا ہے شاید صندوقہ سامنے دیکھ کر کچھ روپیہ قرض طلب نہ کرے۔ یہ تو خُدا کے ساتھ دل کی اچھی نسبت نہیں ہے اور نہ خُدائی کی شان کے موافق اُس کی نسبت گمان ہے۔

پس ابوبکر کے عہد میں اور عمر کے عہد کے اوائل میں یہ دستور رہا کہ لوگ جمع ہوکر اس نماز کو نہ پڑھتے تھے جس کا دل چاہتا اپنے گھر میں پڑھا کرتا تھا۔ پر خلیفہ عمر نے کہا اب تو حضرت محمدانتقال کرگئے اورآسمان سے حکم اُترنے بند ہوگئے ہیں اب اس کا خوف نہ رہا کہ خُدا اس کو فرض نہ کردے۔ پس اب چاہیے کہ مسلمان مسجدوں میں جمع ہوکر اسے پڑھا کریں تب سے پھر اس کا دستور جاری ہوا۔

چہارم نماز شکرالوضو

وضو کے شکر میں جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ شکر الوضو ہے مشکوات کتاب الصلوات باب تسطوع فصل اوّل میں ابوہریرہ کی حدیث بخاری ومسلم سے یوں لکھی ہے کہ ایک روزصبح کی نماز کے وقت حضرت نے بلال سے کہا اے بلال تومجھے بتلاکہ کونسا نیک کام تونے کیا ہے جس سے تو ایسا مقبول ہوگیا کہ تیری جوتیوں کی آواز بہشت میں ،میں نے اپنے آگے سنی (یعنی رات کو تو بہشت میں مجھ سے بھی آگے جوتیاں کھڑکاتا ہوا پہنچ گیا) بلال بولا میں نے جب وضو کی ہے ضرور اُس سے کچھ نماز پڑھی ہے یعنی نماز شکر الوضو کے سبب سے یہ رتبہ پایاہے۔

حضرت محمد نے بہشت کو بہت ہی آسان بات سمجھا ہے کہ ایک ادنٰی سے بات کے وسیلہ سے آدمی وہاں پہنچ سکتا ہے بلال ایک سیدھا سادہ آدمی تھا جب حضرت نے اپنے کسی خواب کا ذکر کیا تو اُس نے بھی کچھ کہہ دیا مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے فقروں سے جیسا فقرہ حضرت محمد نے یہاں سنایا ہے اس وقت بھی مشائخ اور گورو لوگ عوام سامعین اور خُدام کے دلوں کو اپنی سمت کھینچا کرتے ہیں کچھ ایسی باتیں اپنی باتوں میں ملا کر بولا کرتے ہیں کہ لوگوں کو گمان پیدا ہوجائے کہ یہ بہت پہنچے ہوئے شخص ہیں۔

پنجم نماز صلوات الکبریٰ ہے

یعنی چاشت کی نماز اس کےلئے دورکعت سے بارہ رکعت تک تعداد ہے اوراس کا وقت پہر دن چڑھے سے دوپہر تک ہے اوراس کا بھی بڑا ثواب لکھاہے۔

ششم نماز صلوات الصغریٰ ہے

اس کو اشراق بھی کہتے ہیں دورکعت سے ۶رکعت تک ہے ایک گھڑی دن چڑھے سے پہر دن چڑھے تک اس کا وقت ہے۔ ہفتم نماز صلوات التسبیح ہے

اس میں چار رکعت ہیں۔ ہر رکعت میں الحمد اور کوئی سورہ پڑھ کر پندرہ دفعہ یوں کہے سبحان اللہ والحمد اللہ والاالہ اللہ اللہ اکبر ۔رکوع میں دس بار کہے رکوع سے اٹھ کر دس بار کہے سجدہ میں دس بار کہے سجدے سے اٹھ کر دس بار کہے پھر سجدہ دویم میں دس بار کہے پھر سر اٹھائے اور دس بر کہے یہ (۷۵) دفعہ ہوا اسی طرح پر چہار رکعت میں (۳۰۰) بار وہ عبارت پڑھے۔

ثواب اس کا یہ بتلایا گیا ہے کہ آدمی کےاگلے اورپچھلے پرانے اور نئے عمدے اور سہواً چھوٹے اوربڑے سب گناہ بخشےجاتے ہیں۔

خواہ ہر روز کوئی اس کو ایک دفعہ پڑھا کرے یا ہر جمعہ کو یاہر مہینے میں یا ہر برس میں یا ساری عمر میں ایک بار پڑھے۔

یہ خلاصہ ہے اُس حدیث کا جو مشکوات کتاب الصلوات باب صلوات التسبیح میں ابوداؤد اورابن ماجہ اوربیہقی وترمذی کی سند سے لکھی ہے۔

واضح ہو کہ ہم نے جہاں تک گناہوں کی معافی کے بارے میں کلام سے اور عقل سے اورطالبان ِنجات کی حالت پر سوچنے سے معلوم کیا ہے وہ یہ ہے کہ نہ توجہان میں کوئی ایسی عبارت ہے کہ جس کے پڑھنے سے آدمی معافی حاصل کرے اور نہ کوئی ایسا زہدوریاضت ہے اور نہ کوئی ایسی خیرات ہے اور نہ کوئی ایسا شخص ہے جس سے یہ برکت پائیں مگر صرف سیدنا مسیح کا خون ہے جس سے ہم اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرسکتے ہیں ۔ جنہوں نے خُدا کی معرفت حاصل نہیں کی وہ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہوں کی معافی بڑی ریاضت اٹھانے سے اور وظیفے پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے مگرایسے ہی موقعوں کےبارے میں مسیح نےفرمایا ہے کہ ’’غیر قوم سمجھتی ہے کہ بہت بولنے سے خُدا اُن کی سنے گا پر تم ایسا نہ کرو‘‘(متی ۶: ۷)۔

میں جو اس کتاب کا لکھنے والا ہوں پیدائش سے سن وقوف تک مسلمان تھا اور دین عیسائی سے بالکل واقف نہ تھا اُن دنوں میں میں نے خود بڑی محنت سے مُدت تک ان نمازوں کو پڑھا اوراُن کے ساتھ اور ریاضتیں بھی بہت اٹھائی ہیں پر کچھ روحانی برکت ان کے وسیلہ سے حاصل نہ ہوئی نہ تو دل گناہ کے بوجھ سے ہلکا ہوا اورنہ گناہ کی تاریکی دل پر سے ہٹی پر جب سیدنا مسیح پر ایمان لایا تب گناہوں کی معافی اُس کے نام سے حاصل ہوئی اور معافی کے آثار روح میں نمایاں ہوئے اورخُدا کی مرضی معلوم ہوئی اورپوری تسلی پائی۔

ہشتم نماز سفر ہے

یہ وہی ہے فرض نماز ہے جس کا پہلے ذکر ہوا۔ مگر یہ نماز سفر میں نصف نصف پڑھی جاتی ہے او رنصف خُدا کی طرف سے بطور صدقہ کے مسافروں کو معاف ہے اور نصف سے مراد یہ ہے کہ جہاں چار رکعتیں ہیں وہاں دو پڑھی جائیں۔

نہم نماز جمعہ ہے

جمعہ کے دن ظہر کی نماز معاف ہے اُس کے عوض جمعہ کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اُس دن خطبہ پڑھا جاتاہے اورخطبہ میں کچھ خُدا کی تعریف اورکچھ حضرت محمد کا ذکر اورکچھ اُن کے خلفاء کا ذکر خیر ہے اور وقت کے بادشاہ اسلام کے حق میں دُعا لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وعظ ہوتاہے قرآن سے یا حدیث سے۔

دہم نماز خوف ہے

وہ اس وقت پڑھی جاتی ہے کہ جب کسی دشمن جنگی کا خوف ہوتا ہے اوراس کی صورتیں مختلف ہیں۔

یازدھم نماز عیدین ہے

شعبان کی پہلی تاریخ اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہر سال میں دو دفعہ پڑھی جاتی ہے اُس کی دورکعتیں ہیں اورخطبہ بھی پڑھا جاتاہے۔

دوازدھم نماز خوف ہے

جب چاند گرہن ہوتاہے تویہ نماز پڑھی جاتی ہے۔

سیزدھم نماز کسوف ہے

یہ نماز سورج گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے اور بعض دُعائیں بھی ہوتی ہیں اور صدقہ وخیرات بھی دیا جاتاہے۔

چہاردھم نماز استقامت ہے

جب آسمان سے پانی نہیں برستا تب بامیدبارش یہ نماز پڑھی جاتی ہے۔

حضرت محمد نے نمازیں توبہت سے بتلائیں ہیں اورہم جانتے ہیں کہ اصل منشا نمازوں کا بہت اچھا ہے اس لئے کہ انسان پر فرض ہے کہ اپنے خُدا کی عبادت بھی کرے یہ خُدا کا حق ہے کہ لوگ اُس کی پرستش کریں اور آدمیوں کے دل اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خالق کی عبادت ضرور ہے اور اس لئے دنیا کی ہر قوم میں اُن کی تجویزوں کے موافق خُدا کی عبادت کی جاتی ہے پر تسلی بخش اور مفید اور قربت وقبولیت کے لائق عقلاً ونقلاً وہی طور عبادت کا اچھاہے جو خُدا نے الہٰام سے آدمیوں کو بتلایا او رجس پر انبیاء سلف عمل کرتے تھے۔

لیکن اس وقت محمدی نمازوں کی نسبت ناظرین دوباتوں پر فکر کریں کہ اُن کی شکل کیا ہے اوران کا مطلب کیا ہے۔ مطلب تو صاف ہے کہ دل کی حضوری سے خُدا کو سجدہ کریں چنانچہ وہ بھی فرماتے ہیں کہ لا صلوات الحضور القلب یعنی جب تک دل حاضر نہ ہو نماز درست نہیں ہے۔

پر شکل ان نمازوں کی یہ ہے کہ کپڑے اوربدن آدمی کا پاک ہو نجاست ظاہری سے اوروہ جگہ بھی پاک ہو جہاں کھڑا ہے اور منہ خاص کعبہ کی طرف ہو اور خاص دُعاؤں کو جو مقرر ہیں اُسی شمار کے موافق موقع پر پڑھے اور ساری قواعد جسمانی بھی ٹھیک موقع پر ادا کی جائے اورٹھیک وہی عرب کے لفظ بولے جائیں جو بتلائے گئے ہیں کوئی ایک لفظ بھی اپنی طرف سے خُدا کے سامنے نہ بولے اب یہ نماز پڑھنے والا سوائے اس خیال کی حضوری کے کہ میں خُدا کے سامنے کچھ کررہا ہوں خُدا کی حضوری میں اپنے دل کو حاضر نہیں کرسکتا ہے کیونکہ دوکام ایک ہی وقت میں انسان سے نہیں ہوسکتے یہ شخص اداِ قواعد میں دل کو حاضر رکھتاہے نہ خُدا میں۔

اچھی صورت نماز کی وہ ہے جو خُدا کے کلام میں مذکور ہے کہ روح اور راستی سے آزادگی کے ساتھ خُدا کی پرستش کریں نہ جسمانی قواعد اور رسوم کے ساتھ پر لکھاہے کہ روح ہے وہ جو چلاتی ہے جسم سے کچھ فائدہ نہیں ہے پس جسمانی حرکات اور خیلات او رزیادہ گوئی اورظاہر پرستی عبادت میں مضرین عبادت یہ ہے کہ انسان کی روح شکستہ دلی سے خُدا کی صفت وثنا اوراپنی بدحالت پر افسوس اوراپنی تمنا اور آرزو کو آپ خُدا کے سامنے اپنی زبان میں بیان کرے اور روح آپ اُس کے سامنے جھکے جسمانی قیود ورسوم سے آزادگی پاکے۔

پس اس نماز میں اورمحمدی نماز میں یہ فرق ہے کہ مسیحی نمازیوں سکھلاتی ہے کہ انسان کی روح کو حرکت کرنا چاہیے اورجو حرکت وہ کرے بموجب اپنی خواہش اوراپنے درد کے تو اُس حرکت کا مظہر زبان اور بعض اعضا کو ہونا چاہیے اگر روح چاہے ورنہ خیر۔

لیکن محمدی نماز یہ سکھلاتی ہے کہ جسمانی قیود وحرکات اور قواعد مقررہ کا مظہر خوروح کو ہونا چاہیے یعنی چاہیے کہ قواعد اورحرکات مقررہ کا اثر روح پر ہو نہ روح کا اثر جسم پر۔ پس یہ جسم کی تاثیر روح پر ہے او روہ روح کی تاثیر جسم پر ہے۔

محمدی نمازوں کا منشا یہ ہے کہ آدمی اُن کے وسیلہ سے نجات حاصل کرے۔ لیکن عیسائی نمازوں کا یہ منشا نہیں ہے۔ کیونکہ نجات نہ اعمال پر ہے مسیح کے نام سے ہے تب یہ نماز یں نجات یافتہ لوگوں کی اس لئے ہیں کہ خُدا کی شکر گزاری ہو اور مدد روحانی پاکر جسم پر غلبہ حاصل کریں اور خُدا سے باتیں کرکے دل میں خوشی پائیں اور انواربرکات دل پر نازل ہوں۔

یہ ایسی بات ہے جیسے چڑیا قفس آہنی (لوہے کا پنجرے)میں کوشش کرے کہ کسی طرح باہر نکلوں یہ محمدی نماز ہے۔ پر وہ چڑیا جس کے قفس کا دروازہ کسی نے باہر سے آکے کھول دیا اورخوشی سے نکلی اور آزادگی سے خوشی مناتی اوراپنی مرضی سے اُڑتی ہے اور قفس کشا کی شکر گزاری میں چہچاتی ہے یہ نماز مسیحی ہے۔

خاص کلام یہ ہےکہ نماز سے پہلے نجات ضرور ہے تاکہ نماز پڑھ سکیں نہ پہلی نماز ہے تاکہ نجات پائیں پہلے ہاتھ پیر جو بندھے ہیں کھول دو تاکہ کچھ کام کرسکیں نہ کہ ہاتھ پیر باندھ کے ہم سے کام کے طالب ہو کہ ہم کام کریں تب کھولے جائیں گے ۔

حضرت محمد یہ تو خوب جانتے ہیں کہ بے ایمان اورکافر کے لئے بہشت میں جانا ایسا مشکل ہے جیسا سوئی کے ناکے میں اونٹ کا داخل ہونا چنانچہ (اعراف ۵ رکوع )میں وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ترجمہ: پس کافروں کےلئے تو بہشت ایسا مشکل ہے اوراپنے مومنین کے لئے ایسا آسان کہ ان نمازوں کے وسیلہ سے بآسانی داخل ہوجائیں گے ضرو رہے کہ مُشکل بات کےلئے کوئی مشکل اورکامل راہ نجات ہو نہ یہ نمازیں انجیل میں بھی لکھاہے کہ آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا دولتمند کے لئے ایسا ہی مشکل ہے پر جب خُدا اُس کے دل کو دنیا کی محبت کی قید سے آزادگی بخشے تب آسان ہے ۔سو دلی قید او رگناہوں سے خلاصی کی راہ سے خُدا سے ظاہر ہوئی کہ خُدا آپ مجسم ہوکے آزادگی بخشنے کو آیا پس نہائت مشکل کام کے لئے بڑی آسان راہ دکھلاتے ہیں کہ حضرت محمد پر ایمان لائے اور نمازیں پڑھ کر بہشت میں چلاجائے مگر نہ اس ایمان میں کوئی ایسی خصوصیت دکھلاتے ہیں اورنہ ان نمازوں میں جس سے ثابت ہوکہ اس سے یہ ہوسکتاہے ۔

علاوہ اس کے ان روائتوں کے مبالغے اور ثواب کے بیان اس طرح پر بیان ہوئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ محض ترغیب ہے۔ پس بھائیوں اگر دوراندیش او رخيریت عقبیٰ (آخرت کی بھلائی) کے طالب ہو تو ہر بولنے والے کی بات کو پرکھو اور سوچ سمجھ کر سچائی کا پیچھا کرو۔

فصل دھم

نماز کے مکروہ اوقات کے بیان میں

حضرت محمد نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ تین وقت ایسے ہیں جن میں نماز نہ پڑھنا چاہیے اُن وقتوں میں خُدا کو سجدہ کرنا حرام ہے " ف" یہ نئی بات ہے کہ بعض اوقات ایسے بھی ہیں جن میں خُدا کی عبادت گناہ ہے ہماری عقل قبول نہیں کرتی کہ خُدا کی عبادت کسی وقت میں بھی گناہ ہوعبادت ہر حال اورہر وقت میں مفید ہے۔

مشکوات باب اوقات النہی میں مسلم کی روایت عقبہ بن عامر سے یوں ہے

’’تین وقت ہیں جن میں رسول اللہ ہمیں منع کیا کرتے تھے نماز پڑھنے سے او رمرُدے دفن کرنے سے پہلا وقت جب سورج نکلنے لگے جب تک بلند وہو دوسرا وقت جب ٹھیک دوپہر ہو جب تک دن نہ ڈھلے نماز جائز نہیں ہے (بلکہ گناہ ہے) تیسرا وقت جب سورج غروب ہو جب تک اچھی طرح غروب نہ ہوجائے‘‘۔

اس حدیث کے نیچے ایک اور حدیث میں اُن وقتوں میں نماز حرام ہونے کی وجہ کا ذکر ہے اوروہ یہ ہے کہ طلوع کے وقت اس لئے نماز منع ہے کہ سورج شیطان کی دوسینگوں کے درمیان سے نکلتاہے اوریہی سبب غروب کے وقت موجو دہے ۔ بین قرنی فی الشیطان کے لفظی معنی یہ ہیں کہ درمیان دوسینگوں شیطان کے یعنی طلوع وغروب کے وقت سورج درمیان دوسینگوں شیطان کے ہوتاہے ۔ اُن وقتوں میں شیطان سورج کو اپنے سینگوں پر اٹھالیتاہے۔

لماء محمدیہ یوں کہتے ہیں کہ وہ وقت شمس پرستوں کی عبادت کا ہے پس اُن کی عبادت کے وقت میں تم عبادت نہ کرو۔

میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا مطلب ہے آیا اگرہم اُس وقت عبادت کریں گے تو کیا خُدا ہمیں بھی شمس پرست سمجھے گا کیونکہ اس وقت شمس پرست بھی دنیا میں کہیں اپنی شمس پرستی کررہے ہوں گے۔ یا اس لئے کہ اُن کے ساتھ مشابہت ہونی ہے یہی دومطلب ہیں پر دونوں باطل ہیں اس لئے کہ خُدا عالم الغیب ہے وہ جانتاہے کہ کون شمس پرستی کرتاہے اورکون خُدا پرستی کرتاہے۔یا کیا جس وقت شریر اپنے بُتوں کو سجدہ کریں تو مومنین کو لازم ہے کہ حقیقی معبود کا اظہار اُس وقت نہ کریں اوراپنے خُدا کی عبادت کو اُس وقت گناہ سمجھیں صرف مشابہت کے سبب سے یہ بات کیسی بات ہے۔

دوپہر کے وقت نماز منع ہوئی اس کا سبب حضرت نے یہ بتلایا کہ ان جھنم تسجر الایوم الجمعتہ دوپہر کے وقت دوزخ میں ایندھن یا بالن جھونکا جاتاہے مگر جمعہ کے دن نہیں جھونکا جاتا۔

مطلب یہ ہے کہ دوپہر کےوقت فرشتے دوزخ میں لکڑیاں وغيرہ ڈالتےہیں تاکہ وہ بھٹی تیز ہو اس لئے اس وقت نماز پڑھنا منع ہے۔

اگر یہ بات درست ہے تو میرے گمان میں واجب اورلازم ہے کہ دوپہر کے وقت خوب نماز پڑھی جائے اور سجدے کئے جائیں خوب منت کریں کہ ہم نہ جھونکے جائیں مبادا فرشتے ہمیں بھی بیکار پڑا دیکھ کر دوزخ میں نہ جھونک دیں کیونکہ دوزخ کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جیسے قرآن میں لکھا ہے کہ وقود ھا الناس والحجار پس یہ وجہ تو اُس وقت نماز پڑھنا ضرور ثابت کرتی ہے نہ کہ اُسے چھوڑنا انجیل میں یوں لکھاہے کہ تمہارا وقت ہر گھڑی موجود ہے تم کو ہر وقت اپنا بندوبست روحانی کرنا چاہیے کوئی خاص وقت تمہارے لئے مخصوص نہیں ہے تم ہر وقت دُعا اور زاری اورحمدو ستائش میں مشغول رہو(یوحنا ۷: ۶۔ افسیوں ۶: ۱۸)۔

فصل یازدھم

نماز کے کپڑوں کے بیان میں

حضرت نے نماز کے لئے کچھ کپڑے بھی تجویز کئے ہیں اورنماز کی صحت اُن کپڑوں پر موقوف ہے۔

حضرت نے صریر اور ریشمی کپڑے سے نماز پڑھنا منع بتلایا ہے دوم یہ ہے کہ پجامہ یا تہہ بند جو کچھ ہو اتنا لمبا ہو جس سے ٹخنے چھپ جائیں ورنہ نماز مکروہ ہوجائے گی۔

مشکوات باب الستر میں ابو ہریرہ سے ابوداؤد کی روایت ہے کہ ایک آدمی نیچے آزاروالانماز پڑھ رہا تھا حضر ت نے فرمایا جا پھر وضو کر وہ گیا اورپھر وضو کرکے آیا تب ایک اورآدمی بولایا حضرت ایسا حکم کیوں دیا فرمایا ان اللہ لایقبل صلوات جل مبل ازارہ خُدا اُس آدمی کی نماز کو قبول نہیں کرتا ہے جو لمبے ازار پہن کر نماز پڑھے۔

یہ بات قیاس میں نہیں آسکتی کہ کسی آدمی کی نماز کپڑے پر موقوف ہو اس کے لئے دل کی حضوری ضرور ہے نہ بعض کپڑوں کی بھی رعائت ۔

اس کے نیچے عائشہ کی حدیث ہے کہ فرمایا حضرت نے لاتقل صلوات حایض النجار یعنی بغیر اوڑھنی کے جوان لڑکی کی نماز قبول نہیں ہوسکتی ہے۔

یہ بات شاید حضرت نے (۱کرنتھیوں ۱۱: ۵) سے سن کر دوسری طرح پر بیان کی ہے وہاں لکھاہے کہ دُعا کے وقت عورت کو اوڑھنی اوڑھنا ضرور ہے پر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اوڑھنی کے اُس کی نماز قبول نہیں ہوسکتی پر حیا اورحرمت کے لئے ایسا حکم رسول نے دیاہے حضرت نماز کی صحت میں کلام کرتے ہیں۔

علما محمدیہ کہتے ہیں کہ یہ حکم آزاد عورت کے لئے ہے لونڈی باندھی کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ کم عزت ہے۔

پھر ابوداؤد ترمذی نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت نے منع کیا ہے سدل سے اورمنہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے سے ۔

سریا کہوؤں پر کپڑا لٹکانے کو سدل کہتے ہیں اوریہ حکم بھی حضرت نے (۱کرنتھیوں ۱۱: ۴) سے نکالا ہے مگر رسول کہتاہے کہ سربرہنہ کرکے دُعا کرنا چاہیے تاکہ عزت اس حقیقی سر کے لئے ہو جو مسیح ہے پر حضرت سدل سے منع کرتے ہیں جو اور بات ہے اور سربرہنہ کرنے کو نہیں کہتے ہیں ۔

فصل دوازدھم

نماز کے مکان کے ذکر میں

حضرت نے مسجدیں بنانے کا بھی حکم دیاہے اوراُن کی فضیلت کا بہت ذکرکیا ہے اوربیان کیا ہےکہ مسجد یں بڑی بزرگی رکھتی ہیں اوراُن کے بنانے والے بڑا اجر پاتے ہیں اور مسجدوں میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن بعض مسجدیں بہت بزرگ ہیں اور بعض کم ہیں۔ مشکوات باب المساجد میں بخاری ومسلم سے ابی سعید حذری کی روائیت ہے کہ فرمایا حضرت نے لاتشروالرحال الالی ثلثہ مساجد المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھذا یعنی مت سفر کرو کسی مسجد کی طرف مگر صرف ان تینوں مسجدوں کی طرف سفر کرو اوّل مسجد حرام یعنی کعبہ کی مسجد دوئم مسجد اقصیٰ یعنی یروشلیم کی ہیکل سوم مسجد محمد یعنی وہ مسجد جو مدینہ میں اُن کی ہے اور بعض حدیثوں میں مسجد قبا کی بھی بزرگی بیان کی ہے اور یہ مسجد قبا مدینہ سے تین کوس ہے۔

اسی باب کی فصل ثالث میں ابن ماجہ سے انسق کی روائت ہے کہ

’’فرمایا حضرت نے اگر آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھے تو ایک نماز برابر ایک نماز کے ہے ثواب میں اورجو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے تو ایک نماز ۲۵ نمازوں کے برابر ہے اورجو جامع مسجد میں نماز پڑھے تو ایک نماز برابر ہے پانچ سو نمازوں کے اوربیت المقدس میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مکہ والی مسجدوں میں ایک نماز برابر ہے لاکھوں نمازوں کے پر مدینہ والی مسجد میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے‘‘۔

اوراسی باب کی فصل اوّل میں بخاری ومسلم کا بیان ابوہریرہ سے یوں ہے کہ

’’فرمایا حضرت نے میرے گھر اورمیرے ممبر کے درمیان جو زمین ہے وہ ایک باغ ہے جنت کے باغوں میں سے اور میرے ممبر میرے حوض کوثر پر ہے‘‘۔

امام مالک سمجھتے ہیں کہ وہ ٹکڑا زمین کا جو حضرت کے گھر اور حضرت کے ممبر کے درمیان ہے بہشت میں سے لاکر رکھا گیا ہے اورآخر کو یہ ٹکڑا پھر بہشت میں چلا جائے گا۔

اس محمدی بیان میں کئی ایک باتیں لائق غور کے ہیں اوّل آنکہ عبادت خانہ خُدا کا بنانا ضروراچھی بات ہے اور خُدا سے اجر کی بھی اُمید ہے اُن کے لئے جو بے ریا محبت سے خُدا کی بندگی کے لئے گھر بناتے ہیں تاکہ وہاں لوگ بیٹھ کے آرام سے اللہ کی عبادت کریں پر حضرت نے جو ثواب میں مبالغے کئے ہیں یہ محض ترغیب ہے۔

دوم آنکہ مسجدوں اور عبادت خانوں میں کوئی خصوصیت زيادہ ثواب کی عقلاً اورنقلاً ہرگز نہیں ہے سب ثواب اوربرکت آدمی کی نیت اور ایمان اور خلوص پر موقوف ہے نہ کسی مکان پر ہاں جماعتوں میں حاضر ہوکے خُدا کی بندگی کرنا اس لئے زیادہ مفید ہے کہ وہاں وعظ سنتے ہیں جس سے دل تیار ہوتاہے اورسب کے ساتھ ملکی رفاقت اورمحبت کے ساتھ خُدا کو پکارتے ہیں اورایک دوسرے سے مدد پاتاہے دل میں قوت آتی ہے۔

سیدنا مسیح نے اس کا فیصلہ حضرت محمد کی پیدائش سے چھ سو برس پہلے کردیا ہے دیکھو(یوحنا۴: ۲۰سے ۲۴) اُس نے کہا کہ نہ اس پہاڑ پر نہ یروشلیم میں مگر روح اور راستی سے ہر جگہ خُدا کی عبادت کرنے کا وقت آگیا ہے اب سچے پرستار خُدا کی عبادت خانے دل میں کریں گے خُدا ایسے پرستار چاہتاہے پراس عمدہ تعلیم کے بعد حضرت محمد نے یہ کیا سکھلاتے ہیں کہ فلاں فلاں مقام میں زیادہ برکت ہے۔

(ف۔) اگر کوئی کہے کہ یہودی پہلے کیوں یروشلیم کی ہیکل کو زیادہ متبرک جانتے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت سلیمان کی ہیکل آسمانی ہیکل کا نمونہ تھا اورآسمانی ہیکل وہ مقدسوں کی کلیسیا ہے جن میں خُدا رہتا ہے اور وہ سیدنا مسیح کا بدن ہے اب خُدا کے پرستار سیدنا مسیح کے بدن یعنی کلیسیا میں شامل ہوکے دلی ہیکل میں خُدا کی بندگی کرتے ہیں۔ سب جسمانی برکات اورجسمانی عمارتیں اورہیکل وغیرہ رسوم وظاہری قواعد دنیا سے اٹھ گئیں اُن کی حاجت نہ رہی کیونکہ مسیح آگیا جس کے لئے سب کچھ نمونے تھے۔ اب ساری زمین یکساں ہے خواہ بیت المقدس میں، خواہ گرجا میں، خواہ مسجد میں ،خواہ اپنے گھر میں جہاں عبادت کریں بشرطیکہ وہ عبادت سیدنا مسیح میں ہو مقبول ہے اوربرابر اجر ملتاہے ۔کوئی مکان زیادتی اجر کی خصوصیت نہیں رکھتاہے ۔یہ پرانی جہالت کا خیال ہے جو حضرت محمد نے سکھلایاہے۔

شائد کوئی کہے کہ عیسائی لوگ گرجے بناتےہیں اُن میں آرائش کرتےہیں اور اسقف کے وسیلہ سے اُنہیں مخصوص بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہاں ضرور حاضر ہوا کریں عبادت کے لئے اس میں کیا بھید ہے۔

جواب یہ ہے کہ دھوپ گرمی برسات سے بچاؤ کےلئے گرجے میں تاکہ وہاں بیٹھ کر حقیقی ہیکل میں جو سیدنا مسیح کا بدن یعنی اُس کی کلیسیا ہے آسائش سے روحانی عبادت کریں ہرگز مکان میں کچھ خصوصیت زيادہ یاکم ثواب کے نہیں ہے۔ ہاں گرجوں کی تخصیص جو اُسقف سے کی جاتی ہے وہ اس لئے ہے کہ گرجے کا مکان آدمیوں کے دنیاوی ملک سے الگ ہوکے وقف ہوئے اور خُدا کی عبادت کےلئے جدا کیا جائے سب کے سامنے دُعاؤں کےساتھ یہ کچھ اوربات ہے اور وہ کچھ اورہی بات ہے کہ بعض مکان متبرک ہیں اور بعض نہیں۔

فصل سیوزدھم

جماعت کی نماز کے بیان میں

حضرت نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا نہایت افضل ہے اگر ممکن ہو اور حضرت نے بڑے بڑے ثواب اس کے بیان کئے ہیں۔

اس تعلیم کے اصول میں بھی کچھ غلطی نہیں ہے جماعت کے ساتھ خُدا کی عبادت کرنے کو عبادتوں وغیرہ میں جانا ضرور مفید ہے انسان کے دل کی تیاری کے لئے۔ اور شروع سے یہ دستور جاری ہے مجمع مقدسوں کا ذکر توریت شریف میں بہت ہے اوریہودی ایسا کرتے تھے مسیحی بھی ایسا کرتے ہیں اور رسول نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جمع ہونے سے باز نہ آئیں (عبرانیوں کا خط ۱۰: ۲۵)۔

مگر محمدی جماعتوں میں اورہماری جماعتوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ حضرت محمد صرف نماز فرض کے ادا کرنے میں جماعت کی ضرورت دکھلاتے ہیں نہ اور اُمور میں پرعیسائی لوگ ساری باتوں میں عبادت میں وعظ میں اور دوسرے قسم کے دینی جلسوں میں بھی جماعت میں جمع ہونا بہتر اور مفید دکھلاتے ہیں۔

اوریہ بھی فرق ہے کہ حضرت بڑے بڑے مبالغوں میں جماعت کا ثواب دکھلاتے ہیں جو اللہ سے پائیں گے پر خُدا کاکلام ایسی باتیں نہیں بولتا مگر یہ کہ ہماری تعلیم اور تربیت اور روحانی حالت میں ترقی اس سے ہوتی ہے دُعا میں زور پیدا ہوتاہے ایک دوسرے سے یگانگت واتفاق پیدا ہوتاہے اُلفت برادارانہ بڑھتی ہے اور وہ لوگ جو ایسی مجلسوں میں وعظ ونصیحت دینے کےلئے بہت دُعاؤں اورمحنتوں سےتیار ہوکے آتے ہیں اُن کے خیالات سے ہم سب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرح ضعیف ایمان میں زیادہ قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔پس یہ باتیں تودل بھی قبول کرتاہے مگر وہ بڑے بڑے ثواب تمیز قبول نہیں کرتی ہے کیونکہ پھسلانے کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں ۔

فصل چہاردھم

اذان کے بیان میں

تواریخ محمدی میں اذان کے تقرر کا بیان ہوگیاہے کہ کس طرح سے اس دستور نے اہل اسلام میں رواج پایا ۔ اذان جو نماز سے پہلے مسجدوں میں ہوتی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ اہل محلہ نماز میں حاضر ہوں یہ ایک اعلان ہے۔ اسی مطلب پر ہمارے درمیان بندگی کے وقت گرجوں میں گھنٹے بجائے جاتے ہیں کیونکہ آواز گھنٹے کی بہ نسبت اذان کے دور ہوجاتی ہے اورپندرہ منٹ یا کم زیادہ تک گھنٹے بجانے سے لوگ آجاتے ہیں ۔ بہر حال وہ ایسا کرتے ہیں اوریہ ایسا کرتے ہیں غرض دونوں کی ایک ہی ہے۔

فصل پانزدھم

دُعاؤں کے بیان میں

حضرت محمد نے بہت سی دُعائیں بھی سکھلائی ہیں جو خاص وقتوں اورخاص مکانوں اور خاص کاموں کےلئے ہیں اور بعض عام ہیں ۔

پہلی دُعا اُ ُم الکتاب

حضرت کی سب سے بڑی دُعا اُم الکتاب یعنی قرآن کی ماہے اُسی کو فاتحہ اورالحمد کہتے ہیں اُس کا ترجمہ یہ ہے ۔

سب تعریف اُس خُدا کو ہے جو سارے جہان کا رب بڑا مہربان نہائت رحم والا انصاف کے دن کا مالک ہے تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں ہمیں سیدھی راہ دکھلا اُن لوگوں کی راہ جن پر تونے فضل کیا نہ اُن کی راہ جن پر تو غصہ ہوا اورجو راہ سے بھٹک گئے ہیں آمین۔

سب مفسر قرآن متفق ہیں کہ مراد حضرت محمد کی اُن دوفرقوں سے یعنی جن پر خُدا غصہ ہوا اور جوبھٹک گئے یہودی اورعیسائی ہیں۔

پس اس صورت میں مطلب دُعا کا یہ ہوا کہ سوائے یہود ونصاریٰ کے اور کوئی راہ جو ہدایت کی ہو ہمیں دکھلا یعنی مطلق ہدائت کی مطلب نہیں ہے مگر جس سے ہم ناراض ہیں اُنہیں چھوڑ کے اورکسی راہ کے طالب ہیں جو حق ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دُعا اگرچہ ظاہر نظر میں اچھی ہے تو بھی اس کے سب مضامین اُسی درجہ پرہیں جو انسان کی عقل کا درجہ ہے یعنی عقل سے پیدا کئے ہوئے مضمون ہیں۔

یہ دُعا مسلمانوں میں ایسی عزت رکھتی ہے جیسے سیدنا مسیح کی دُعا خُدا کے لوگوں میں عزت رکھتی ہے۔ کوئی نماز اس دُعا سے خالی نہیں ہے اوراس کو قرآن کی ما ں اس لئے کہتے ہیں کہ گویا سارا قرآن اسی سے نکلا ہے کوئی مضمون قرآن میں ایسا نہیں ہے جو اس دُعا کے مضامین سے بلند تر ہو اس میں قرآن کے سب اصول مندرج ہیں۔

پس ظاہر ہے کہ جب اُم الکتاب کے مضامین صرف عقلی درجہ کی حد تک کے ہیں تو سارے قرآن کے مضامین بھی اسی درجہ کے ہوں گے اور ضرور ایسا ہی ہے۔

ہمارے مولا کی دُعا جو ہماری سب دُعاؤں کی اصل ہے اورسارے کلام الہٰی کا خلاصہ ہے جو سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو خود سکھلائی اور آج تک سب دُعاؤں میں معزز اور سب سےزیادہ پیاری دُعا ہے۔ اُس کے مضمون عقل سے بالا اور روحانی ہیں اورانسانی عقل سے پیدانہیں ہوئی ہیں خُدا سے بتلائی گئی ہیں اور وہ دُعا یہ ہے۔

’’اے ہمارے باپ جو آسمان پرہے ۔تیرے نام کی تقدیس ہو۔ تیری بادشاہت آئے تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اورجس طرح کہ ہم اپنے تقصیر واروں کو معاف کرتے ہیں توہماری تقصیریں معاف کر اورہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ برائی سے بچا کیونکہ بادشاہت قدرت اورجلال ہمیشہ تیراہی ہے آمین‘‘۔

اس دُعا کے سارے مضامین ایسے گہرے ہیں کہ عالم بالا سے ہیں اگر کوئی شخص ان مضامین کی کچھ خوبی سے واقف ہونا چاہے تو خزانتہ الااسرار تفسیر انجیل متی میں دیکھے اورانصاف کرکے الحمد کے مضامین پر بھی سوچے کہ یہ خُدا سے ہے یا وہ۔

دوسری دُعا درود ہے

درود کے معنی یہ ہیں کہ خُدا سے حضرت محمد کےلئے اوراُن کی آل واصحاب کےلئے رحمت طلب کرنا۔

اوراصل اس مقدمہ میں وہ آیت قرآنی ہے جو( احزاب ۷رکوع کی آیت ۵۶ )میں ہے إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔

خُدا اوراس کے فرشتے دُعائے رحمت کیا کرتے ہیں حضرت محمد پر اے مسلمانوں تم بھی اُس پر دُعا ئے رحمت اورسلام بھیجا کرو۔

پس اس آیت کے حکم سے اوراُن بہت سی حدیثوں کے سبب جو کتُب احادیث میں ہیں اہل اسلام جب حضرت محمد کا نام سنتے یا سناتے ہیں تویوں کہتے ہیں کہ صلی اللہ وسلم رحمت ہو اللہ کی اُس پر اورسلام اگرچہ اس وقت یہ الفاظ عادت میں داخل ہوگئے اُن کے نام کا گویا ایک حصہ ہوگیاہے توبھی یہ ایک درود ہے جب حضرت محمد کا نام کہیں لکھتےہیں تو ساتھ ہی یہ درود بھی لکھتے ہیں یا لکھنے کے عوض اس کا مخفف اشارہ ایسا(صہ) کردیتے ہیں یہ بھی درود ہے۔

اس کے سوا بعض مسلمانوں کا یہ وظیفہ ہےکہ ہر روز ہزار دفعہ یا کم زیادہ درود پڑھا کرتے ہیں اوراُن کو بموجب ہدایت محمدی کے یہ اُمید ہے کہ اس سے آخرت میں ہمارا بھلا ہوگا۔

اس تعلیم پر ہمارا یہ فکر ہے کہ خُدا جو سب کو دینے والا ہے وہ کس سے دُعا کرکے حضرت محمد کو رحمت دلواتاہے اور اس کو کیا حاجت ہے کہ وہ ایک آدمی کے نام کی تسبیح پڑھا کرے اور اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیز کا نام جپا کرے اور فرشتوں کو بھی حکم دے کہ اُس کے نام کی تسبیح پڑھا کریں۔

حضرت محمد محض آدمی تھے انہیں لائق نہ تھا کہ اپنے نام کو اس قدر فروغ اُمت میں دیتے کبھی کسی پیغمبر نے ایسی جرات نہیں کی اورنہیں کہا کہ لوگ میرے نام کی تسبیح پڑھا کریں۔

محمدی لوگ جب نماز میں خُدا کے سامنے قعود(بیٹھک) کرتے ہیں تو وہاں پر بھی حضرت کو خُدا کی مانند حاضر ناظر کے الفاظ میں یاد کرتے ہیں التحیارت پر غور کرو۔

ہم لوگ جو سیدنا مسیح کو اور روح القدس کو بھی حاضر ناظر جان کے پکارتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ وہ خُدا ہے پر حضرت محمد خُدا نہیں ہیں کہ ان کا یہ منصب ہو یہ خاص جلال خُدا کا ہے نہ آدمی کا اُس کا جلال آدمی کو دینا گناہ عظیم ہے۔

البتہ رسول نے (۲۔تھسلنیکیوں۳: ۱)۔ میں لکھاہے کہ ’’اے بھائیو ہمارے حق میں دُعا کرو کہ خُدا کاکلام پھیل جائے ‘‘یہ بات درود کے قسم سے نہیں ہے۔

پر محمدی درود کی صورت دیکھ کر میری تمیز یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ منشا حضرت کا صرف یہ ہے کہ میری محبت لوگو ں کے دلوں میں قائم ہو یا شائد کسی کی دُعا سے میرا بھی بھلا ہوجائے پر ضرور یہ خوفناک تعلیم ہے۔

تیسری دُعا حمد ہے

تسبیح اورتحمید وتہلیل وتکبیر بھی حضرت نے اپنی اُمت کو کتُب الہٰامیہ اور عیسائی رواج سے دریافت کرکے سکھلائی ہے۔

تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا تحمید کے معنی ہیں الحمد اللہ کہنا تہلیل کے معنی ہیں لاالاالا اللہ کہنا تکبیر کے معنی ہیں اللہ الکبر بولنا۔

یہ تعلیم بہت اچھی ہے مگر اگلے پیغمبروں کی تعلیم ہے ۔چنانچہ داؤد پیغمبر کے زبوروں میں جگہ جگہ ان کاذکرہے توبھی ہم خوش ہیں کہ حضرت نے پیغمبروں کی کتابوں میں سے یہ باتیں لے کر سکھلائیں۔

مگر پیغمبروں کے بیان میں اور حضرت کے بیان میں تھوڑا سا فرق بھی ہے وہ نہیں کہتے کہ آدمی ان الفاظ کا وظیفہ پڑھے پر دُعا میں اور ستائش الہٰی کے وقت یہ الفاظ خُدا کے سامنے خوشی میں بولی جاتی ہیں۔

البتہ رومن کیتھولک لوگوں نے جو عیسائيوں کے درمیان ایک بڑا بدعتی فرقہ ہے وظیفوں کا دستور ایجاد کیا ہے جو خلاف ہے سیدنا مسیح کے اُس حکم کے’’ تم غیر قوموں کی طرح بک بک نہ کرو اورجیسے وہ سمجھتے ہیں کہ بہت بک بک کرنے سے خُدا اُن کی سنے گا تم ایسا نہ کرو‘‘۔

حضرت محمد نے انہیں لوگوں سے یہ دستور اخذ کرکے اپنی اُمت میں جار ی کیا ہے کیونکہ حضرت کے عہد میں یہی لوگ اُن علاقوں میں کثرت سے تھے اورجو کچھ ہم قرآن حدیث میں اور محمدی تواریخوں میں عیسائيوں کی بابت لکھا دیکھتے ہیں کثرت سے وہی باتیں ہیں جو اس بدعتی فرقہ کی ہیں۔

اصل کلام آنکہ حضرت نے یہ الفاظ تو ضرور کلام الہٰی کے موافق بتلائے ہیں پر ان کا استعمال کلام کے خلاف بدعتی فرقہ کے دستور پر سکھلایا ہے۔

چوتھی دُعا استغفار ہے

حضرت نےسکھلایا ہے کہ خُدا کے سامنے توبہ کرنا اور گناہوں کی معافی مانگنا ضرور ہے تو یہ نہائت اچھی بات ہے مگر اس کے استعمال کا طوربھی حضرت نے درست نہیں بتلایا۔

مشکوات باب الاستغفار میں اغرمزنی کی حدیث مسلم سے لکھی ہے کہ ’’فرمایا حضرت نے اے لوگو توبہ کرو خُدا کی طرف کیونکہ میں توبہ کرتا ہوں خُدا کی طرف ایک دن میں سو دفعہ ‘‘ سو دفعہ توبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لفظ توبہ سو دفعہ ہر روز پڑھا کرتا ہوں اس سے کیا فائدہ ہے۔

اسی دستور پر مسلمان لوگ تسبیح ہاتھ میں لے کر یا انگلیوں پر شمار کرکے سو دفعہ یا کم ز یادہ استغفر اللہ ربی والوب الیہ پڑھا کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ یوں مغفرت حاصل کریں گے۔

خُدا کاکلام یہ سکھلاتاہے کہ آدمی اپنے دل کو خُدا کی طرف متوجہ کرے اور گناہ سے اور دنیاوی محبت سے منہ موڑے اورجوکچھ کیا ہے اُس سے پچھتائے اور نفرت کرے اور ایمان کے ساتھ خُدا سے مغفرت کا طالب ہو یہ توبہ اور استغفار ہے۔

کچھ ضرور نہیں کہ وہ سودفعہ توبہ توبہ بولے اگر وہ ایک دفعہ بھی منہ سے یہ الفاظ نہ نکالے پر دل میں اُس کے یہ کام ہوجائے جواوپر مذکور ہے تو وہ ضرور سچا تائب ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ انسان ناطاقت ہے اس کا دل گناہ کی طرف جلدی مائل ہوجاتاہے۔ ضرور ہے کہ ایمان کے ساتھ رات دن توبہ کا ستون پکڑے رہے یعنی دل میں کوشش کرتا رہے کہ توبہ قائم رہے نہ یہ کہ سو دفعہ لفظ بولے اوردلی جنگ سے بے خبر رہے اوردل کو خُدا کے سامنے مرغ بسمل کی طرح نہ ڈالے اور توبہ کا پھل آپ میں دریافت نہ کرے وہ دھوکے میں ہے اب تک توبہ نہیں کی اور اُسے لاکھ دفعہ بھی استغفار پڑھنا مفید نہیں ہے۔

پھر اسی باب میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے واللہ فی الاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم سبعین صرہ بخاری نے ابوہریرہ سے یہ روایت کی ہے کہ ’’حضرت نے کہا خُدا کی قسم میں اپنے گناہوں کی معافی کے واسطے ایک دن میں ستر دفعہ اللہ کے سامنے استغفار کرتا ہوں‘‘۔

حضرت کی تمیز بھی گواہی دیتی تھی کہ میں گنہگار ہوں اس لئے یہاں پر وہ اپنے دل کا حال صاف صاف درست ظاہر کرتے ہیں۔

مگرعلماء محمدیہ بلا دلیل اُنہیں معصوم جانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ بات حضرت نے اس لئے کہی ہے کہ اُمت کو توبہ اور استغفار پر اُبھاریں ورنہ وہ خودگناہ سے پاک تھے۔ مگر یہ تاویل ان کی اس حدیث سے باطل ہے جو اسی حدیث کے نیچے مسلم کی روایت سے لکھی ہے وہ یہ ہے " انہ لیغان علی قلبی وانی لااستغفراللہ فی الیوم مایتہ مرتہ " میرے دل پر غفلت کا پردہ آجاتاہے اس لئے میں خُدا سے سودفعہ ہر روز معافی مانگتا ہوں ۔

یعنی میرا معافی مانگنا اُمت کی ترغیب کےلئے نہیں ہے بلکہ اس غفلت کے پردہ کےلئے جو میرے دل پر آتاہے۔

اس حدیث کی تاویل سے جب سارے محمدی عالم لاچار ہوئے تو یوں کہنے لگے کہ یہ حدیث متشا بہات میں سے ہے اس کے معنی معلوم نہیں ہوسکتے اورمسلمان کو نہ چاہیے کہ اس کے معنوں پر غورکریں اس کا بھید خُدا ہی جانتا ہے۔

دیکھو یہ کیسی بات ہے کہ ایک شخص صاف اقرار کرتاہے کہ میں گنہگارہوں اوراس پر خُدا کی قسم بھی کھا جاتاہے اور صاف کہتاہے کہ میرے دل پر غفلت کاپردہ آجاتاہے اور قرآن بھی اُس کے گناہوں کا اقرار قول سے اور فعل سے کرتاہے پھر بھی بے گناہی کا فتویٰ آدمیوں سے ہے حاصل کلام آنکہ حضرت محمد نے استغفار کے وظیفہ کو مفید بتلایاہے اورآپ بھی اُس پر عمل کیاہے اوراس بارے میں نہ وظیفہ مفید ہے مگر دلی رجوع مطلوب ہے پس حضرت کے اس بیان میں اس تعلیم کی اصل تودرست ہے لیکن استعمال کا طورنادرست اور غیر مفید ہے۔

پانچویں متفرق دُعائیں ہیں

ایسی ایسی بہت دُعائیں ہیں جو کھانے پنے کے وقت اور کپڑے پہننے کےوقت اورحاجت ضرور ی کے وقت اورہم بستری کےوقت وغیرہ اوقات میں پڑہی جاتی ہیں۔

اب حضرت کی ساری دُعائیں دیکھنے کے بعد اگر کوئی منصف آدمی داؤد پیغمبر کے زبوروں کود یکھے اور اورپیغمبروں کی دُعاؤں پر بھی غور کرے جو الہٰامی کتابوں میں مرقوم ہیں اورنماز کی کتاب کی ترتیب پر بھی غور کرے تواُسے بخوبی معلوم ہوسکتاہے کہ نہ تو حضرت محمد کی دُعاؤں کے مضامین اُس قدر عالیٰ ہیں جس قدر پیغمبروں کی دُعاؤں کے مضامین ہیں۔ اورنہ اتنا بڑا دفتر دُعاؤں کا حضرت کے پاس ہے جس قدر مسیحی کلیسیا کے پاس ہے اورنہ ان دُعاؤں کا استعمال حضرت نے اتنا مفید اور مناسب دکھلایاہے جس قدر مفید استعمال پیغمبروں نے سکھلایا ہے۔ اورنہ اس بارے میں مبالغے ہیں جیسے حضرت نے سنائے ہیں اور نہ حضرت اتنے بڑے دُعا کنندہ ہیں جتنا بڑا دُعا کنندہ داؤد پیغمبر اور سیدنا مسیح کی کلیسیا ہے۔ پس اس بارے میں بھی انبیاء کے سلسلہ اورمسیحی کلیسیا کو تقدم حاصل ہے۔

فصل شانزدھم

روزوں کے بیان میں

حضرت محمد نے روزہ رکھنے کا بھی حکم دیا ہے اوراُن کی شریعت میں روزہ یہ ہےکہ آدمی صبح سے شام تک بہ نیت روزہ کھانے پینے سے اور جماع سے باز آئے۔

اور ثواب روزے کا اُن کی شریعت میں اس مبالغہ کے ساتھ بیان ہواہے کہ ہوشیار آدمی کی تمیز کبھی اُس کو قبول نہ کرے گی غنتیہ الطالبین فضل فضائل الصوم علی الجملہ میں اس قسم کی باتیں بہت سی لکھی ہیں ازاں جملہ آنکہ فرمایا حضرت نے کہ اگرکوئی ایک دن خُدا کے واسطے روزہ رکھے خُدا اس کو دوزخ سے اس قدر دوررکھے گا کہ جتنی دورایک کاگ کا بچہ پیدا ہوکر اُڑ جائے اورساری عمر اڑتا رہے یہاں تک کہ بڑھا ہوکر مرجائے اورکہتےہیں کہ کاگ کا بچہ پانچ سو برس جیتاہے۔

پھر مشکوات کتاب الصوم میں ابوہریرہ سے روائت ہے کہ فرمایا حضرت نے روزہ داروں کے منہ کی بو خُدا کے سامنے مشک کی خوشبو سے بہترہے روزے دوقسم کے بیان ہوئے ہیں فرض اور نفل۔

رمضان کے روزے

یہ روزے فرض ہیں سب پر بشرطیکہ کوئی لاچاری نہ ہو روزوں کے احکام بہت سے لکھے ہیں جن پر غور کرنے سے ثابت ہوگیاہے کہ صرف ظاہری طورپر ہیں باطنی صفائی کا علاقہ روزوں کے ساتھ شرط نہیں ہے بد نظری سے محمدی روزہ نہیں جاتا اوربالائی بدفعلی سے بھی روزہ نہیں جاتا اور حضرت نے بھی روزہ میں ایسے ایسے کام کئے ہیں توبھی آپ کو روزہ دار جانا ہے اوروہ ایسی مکروہ باتیں ہیں جن کے ذکر سے شرم آتی ہے دیکھو مشکوات باب تنزیہ الصوم میں بخاری اورمسلم سے عائشہ کی روایت کیاہے۔

دوسرے قسم کے روزے نفل ہیں اگر کوئی رکھے تو ثواب پائے گا اورجو نہ رکھے تو گرفت نہ ہوگی اُن کی کئی ایک قسمیں ہیں۔

اوّل صوم الدھر

یعنی سال بھر برابر روزہ رکھنا ۔ بعض حدیثوں میں ایسے روزوں سے منع کیا ہے اور بعض حدیثوں میں ایسے روزوں کے بڑے ثواب بتلائے ہیں۔ بعض علماء محمدیہ نے کہا ہے کہ ایسے روزے منع ہیں لیکن غنتیہ الطالبین میں ہے کہ عائشہ اورابوموسیٰ اشعری اورابو طلحہ نے برس برس روزے رکھے ہیں اور کہا ہے کہ عیدوں کے دنوں میں روزے نہ رکھنا صوم الدھر کی صورت کو بدلتاہے۔

دوم صوم البیض

ہر مہینے کی ۱۳، ۱۴، اور ۱۵ تاریخ کو تین روزے رکھنا صوم البیض کہلاتاہے اور بعض لوگ رکھتے ہیں۔

سوم متفرق روزے

ہر پیر وجمعرات کا روزہ عاشورہ کا روزہ شش عید کے روزے ہر جمعہ کا روزہ وغیرہ یہ سب متفرق روزے ہیں۔

خُدا کےکلام کی طرف دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اگلے بزرگوں نے بھی روزے رکھے ہیں اوراب بھی لوگ رکھتے ہیں اورہم بھی روزہ رکھنا مفید جانتے ہیں پر کلام کے موافق نہ محمدی طورپر ۔

روزہ کا ظاہری طورتو یہ ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑ کر اقرار گناہ اور غم دُعا عاجزی کے ساتھ دُعاؤں میں مشغول ہو(۱۔سیموئیل۷: ۶؛ یوائیل۲: ۱۲؛ استثنا ۹: ۱۸؛ عزرا ۸: ۲۳) یہ توروزے کی ظاہری صورت ہے پر باطنی صورت اُس کی (یسعیاہ ۵۸: ۶۔ ۷) میں مرقوم ہے کہ نیکی کے سب کام کرے۔

مگر روزے کا وقت وہ ہے کہ جب آدمی مصائب میں گرفتار ہو (یوائیل ۱: ۱۴، ۲: ۱۲) اور وہ وقت بھی ہے کہ جب آدمی الہٰی برکات کےلئے دل کی تیاری چاہتاہے۔

اور غرض روزوں کی نہ بڑے بڑے ثواب حاصل کرنا ہے مگر روح کو تنبیہ دینا ہے کہ اُس میں عاجزی پیدا ہو اور وہ فروتنی سے خُدا کے سامنے جھکے (۶۹زبورآیت ۱۰؛ ۳۵زبورآیت ۱۳)۔ اس صورت میں وہ سب حرکتیں جو محمدی روزہ کو نہیں توڑتے ہیں اور اس روزہ کو توڑ ڈالتے ہیں کیونکہ یہ روزہ باطنی ہے پر محمدی روزہ ظاہری ہے۔ محمدی روزہ ایک حکم کی تعمیل ہے پر یہ روزہ نہ کسی حکم کی تعمیل ہے مگر ایک روحانی بیماری کی دوا ہے جو وقت پر دی جاتی ہے۔

کلام میں تین قسم کے روزے مذکور ہیں اول عوام کا روزہ جو صرف

ایک ظاہری بات ہے جس پر (یسعیاہ ۵۸: ۴، ۵) میں کچھ لکھا ہے محمدی روزہ بالکل یہی روزہ ہے۔

دوسرا خواص کا روزہ ہے جس کا ذکر خوبی کے ساتھ کلام میں ہے (یسعیا ۲۰: ۴۶)۔

تیسرا اخص الخواص کا روزہ ہے اورموسیٰ کا اورالیاس اور مسیح کا روزہ تھا کہ چالیس یوم کچھ نہ کھایا یہ روزہ طاقت بشری سے خارج ہے الہٰی طاقت سے ان لوگوں نے رکھا تھا۔ نماز کی کتاب میں روزوں کے چالیس دن کا دستور جو لکھاہے وہ اسی روزہ کی یادگاری میں ہے کہ اُن ایام میں مسیح کی جفا کشی پر فکر کرتے ہیں اوراپنے گناہوں کا آپ حساب لیتے ہیں اورکوشش کرتے ہیں کہ دوسرے قسم کا روزہ رکھ کے اپنی روح کو فائدہ پہنچائیں کہ وہ جسمانی بدخواہشوں پر غلبہ پائے۔ توبھی عیسائی آزاد ہیں خوشی سے روزہ رکھتے ہیں خوشی سے عبادت کرتے ہیں اور خوشی سے خیرات دیتے ہیں نہ جبر سے کہ ضرور کرو شریعت رسمی کا جبر جہان سے اٹھ گیا ہے شریعت اخلاقی کی تعمیل روح اور راستی کے ساتھ اُس آزادگی سے جو مسیح نے بخشی ہے بجالاتے ہیں اور خُدا ایسے پرستار چاہتاہے نہ ویسے جیسے غلامی کے فرزندہوتے ہیں ۔

فصل ھفدھم

اعتکاف کا بیان

اعتکاف کے معنی ہیں گوشہ میں بیٹھنا پر محمدی شرع میں اعتکاف یہ ہے کہ جامع مسجدمیں عبادت کی نیت سے روزہ کے ساتھ رات مقررہ تک بیٹھے رہنا۔

رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف سنت موکدہ (ایسی سنت جس کی تاکید کی گئی ہو)ہے ۔دس دن یا کم زیادہ جس قدر وہ نیت کرے اسی مسجد میں بیٹھے رہنا ہوگا صرف حاجت ضروری اور کھانے کے لیے نکل سکتا ہے اور کوئی دنیاوی کام نہیں کرسکتا مگر فقط خدا کا ذکر اور قرآن خوانی کرےگا ،

یہ رسم ملک عرب کی قدیم رسم ہے حضرت نے اسے پسند کرکے اپنی شریعت میں بھی جاری رکھا ہے ۔چنانچہ مشکوۃ باب الاعتکاف میں ابن عمر سے بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ

’’ عمر نے حضرت سے کہا میں نے ایام جاہلیت میں ایک رات اعتکاف کی نیت سےمسجد حرام میں نذر مانی تھی اب ادا کروں یا نہ کروں فرمایا ادا کرو‘‘۔

محمدصاحب ہر رمضان میں دس روز اعتکاف کرتےتھے مگر جس سال میں وفات پائی اس سال بیس روز کیا تھا۔

خدا کی عبادت کے لیے اگر کچھ عرصہ تک آدمی خلوت میں بیٹھے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے اچھی بات ہے لیکن جب دل چاہے اور جس جگہ موقع ملے خدا باتیں کرنے کے لیے مقدس لوگ ذرا تنہائی میں جایا کرتے ہیں کبھی کبھی پولُس رسول سفر میں ہمراہیوں سے الگ ہوکے اکیلا پیدل چلاکہ تنہائی میں کچھ فکر کے اور کبھی کبھی مسیح خداوند بھی اکیلا ہوا اور اور بزرگ بھی ایسا کرتے رہے اور اب بھی کلیسیا میں بہت لوگ ایسے ملیں گے کہ کچھ عرصہ تک اکیلے ہوکے خدا سے دعا کرتےے ہیں یہ مفید بات ہے ۔ہاں اگلے زمانہ میں بعض وقت بزرگ لوگ کسی غم کی حالت میں روزہ کے ساتھ ٹاٹ اوڑھ کر خاک پر بیٹھ جاتے تھے اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے تھے پر جب آزادگی اور فضل کی شریعت آئی یعنی انجیل تب سے اسی حکم پر عمل ہوتا ہے کہ اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر اور پوشیدگی میں خدا سے دعا مانگ ۔

پس کچھ ضرور نہیں کہ خاص رمضان ہی کے مہینے میں اخیر عشرے کے درمیان صرف جامع مسجد ہی میں قیود مقررہ کے ساتھ اعتکاف کیا جائے ہمیں ان قیود میں کچھ فائدہ معلوم نہیں ہوتا نہ کسی دن میں اور کسی مکان میں کچھ برکت ہے برکت خداسے ملتی ہے اور ایمان کے ہاتھ سے لیتے ہیں ۔

فصل ھیزدھم

قرآن خوانی کے بیان میں

اگر کوئی قرآن پڑھنا چاہے تو پہلے مسواک کی ساتھ وضو کرے اور کعبہ کی طرف منہ ہواور اچھی جگہ بیٹھ کر عاجزی سے پڑھے ۔پہلے اعوذبااللہ الخ پڑھے پھر قرآن پڑھنا شروع کرے اور آہستہ آہستہ فکر کے ساتھ معنی سمجھتا ہوا آواز خوب بنا کر نکالے اور پڑھتا پڑھتا روتا بھی جائے اگر رونا نہ آئے تو بہ تکلف غمگین ہوکر رونے والوں کیسا منہ بنائے جہاں کہیں عذاب کا بیان آئے وہاں پناہ مانگے جہاں خدا کی تقدیس کا ذکر آئے وہاں سبحان اللہ کہے اور قرآن پڑھتے وقت کسی آدمی کی تعظیم نہ کرے اور جلدی ختم بھی نہ کرئے ۔

اگر معنی نہ جانتا ہوتو یہ سمجھے کہ یہ کچھ بات ہے جو خدا بولتا ہے میں ادب سے اس کو سن لوں ساری عبادتوں سے بڑی عبادت یہ ہے کہ قرآن پڑھے اور اس پر عمل بھی کرے اور جب سجدہ تلاوت کا وقت آئے تو فوراً سجدہ کرے۔

ثواب یہ کہ قرآ ن قیامت میں آدمی کی شفاعت کرئے گا اور ایک ایک مقام قرآن کا جدا جدا ثواب رکھتا ہے رات دن میں چوبیس گھنٹے ہیں پانچ گھنٹےپانچ نمازوں میں گزر جاتے ہیں باقی رہے ۱۹ سو بسم اللہ الرحمن الرحیم جس کے ۱۹حرف ہیں اگر کوئی آدمی ایک بار پڑھے تو یہ ۱۹ گھنٹے بھی عبادت میں شامل ہوجاتے ہیں ۔پس ۲۴ گھنٹے عبادت ہی میں گذر جاتے ہیں ۔

اور سورہ الحمد دوتہائی قرآن کا ثواب رکھتی ہے اور ایک حدیث میں ہے جس نے الحمد کو پڑھا اس نے گویا تما م توریت اور انجیل اور قرآن سب کچھ پڑھ لیا ایسی ایسی باتیں اس مذہب کی بنیاد ہیں ۔

کلام الہٰی کے پڑھنے کا یہ دستور ہے کہ جس حالت میں ہوا س حالت میں عاجزی کے ساتھ اس ارادہ سے کہ میں اس کلام سے کوئی نصیحت اپنے لیے حاصل کروں اپنی زبان میں اس کو پڑھنا ثواب ہے بلکہ ہر عبارت کلام الہٰی کی جو وہ پڑھتا ہے اس میں سے کوئی مضمون دل میں اُٹھا کر اس کی تاثیر اپنے چلن میں دیکھو ں گا اور اپنے دل کی راہوں کو خدا کی راہوں سے جو کلام میں مذکورہ ہیں مقابلہ کرکے اپنی حالت کو آزماؤں گا ۔

کیونکہ شریعت کے سننے والے راستباز نہیں ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے والے راستباز ہیں ۔پس لفظوں کے پڑھنے سے کچھ ثواب نہیں مگر مضمون اور اس کی ہدایت کو دل میں جگہ دینے سے دل کی حالت بدلتی ہے اور خدا کا مقبول بندہ بناتی ہے اور کچھ ضرور نہیں ہے کہ یروشلیم کی طرف منہ ہو اور بہ تکلف رو دین اور یہ بھی کچھ ضرور نہیں ہے کہ غیر زبا ن میں جسے نہیں سمجھتے ہیں پڑھیں یہ سب ناکارہ باتیں ہیں جن پر لوگ زور دیتے ہیں ان سے کچھ ترقی نہیں ہوتی ہے بلکہ نقصان ہوتا ہے اور کچھ سچائی ہاتھ نہیں آتی ہے ۔

فصل نوزدھم

حج کے بیان میں

حج بھی حضرت نے فرض بتلایا ہے ہر مسلمان مرد عورت پر جو آزاد اور عاقل بالغ ہوں اور سواری وخوراک پر قادر ہوں ساری عمر میں ایک دفعہ کرنا چاہیے اور اپنی مرضی سےجب چاہے کیا کرے حج کا ثواب یہ کہ آدمی گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے اور یہ حج اس کے گناہوں ماقبل کا کفارہ ہے وہ آدمی جس پر حج فرض ہے اگر آپ نہ جائے تو کوئی دوسرا اس کے عوض حج کرکے بعوض روپیہ کے اسے ثواب دلوا سکتا ہے ۔

یہ حج ایک عجیب قسم کی عبادت ہے اور عجیب خیالات سے مرکب ہے یہ ویسا حج نہیں ہے کہ جیسے یروشلیم کی ہیکل میں چار طرف سے بنی اسرائیل حاضر ہوتے بلکہ یہ اس سے بالکل مختلف ہے ۔

(ف)موسیٰ کی توریت شریف میں بعض جسمانی باتیں اور کچھ رسمیں نظر آتی ہیں مگر ہرگز ہرگز اس حج کی مانند نہیں ہیں یہ تو کچھ اور ہی بات ہے اور وہاں اگرچہ چند باتیں ایسی ہیں مگر وہ ایسا عمدہ مطلب رکھتے ہیں کہ بعینہ انجیل ہیں اور روحانی باتوں پر اشارہ ہیں ۔ناظرین اس معاملہ میں خود توریت کو دیکھ سکتے ہیں اور محمدی حج کا بیان بھی مفصل لکھا گیا ہے ۔پس اپنی تمیزوں سے دریافت کریں کہ یہ کیا باتیں ہیں اور وہ کیا ہیں اور ذہن سے دریافت کریں کہ یہ حرکتیں بتلانے والاخدا ہے یا وہ حرکتیں بتلانے والا خدا ہے ۔

(ف)ہندوستان میں مشہور بات ہے کہ جو آدمی حج کرکے آتا ہے سنگ دل ہوجاتا ہے اس کا سبب یہی ہے سنگ پرستی سے سنگدل ہوتا ہے ۔

فصل بستم

زکوٰۃ کے بیان میں

قرآن میں ۸۴ جگہ اور حدیثوں میں بھی کثرت سے زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے اور اس کے بھی بڑے ثواب مذکور ہیں ۔سنہ ۴ ہجری میں بمقام مکہ رمضان کی پہلی تاریخ حضرت نے امت پر زکوٰۃ فرض کی تھی اور عبادت کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان یہ چار باتیں ضروری ہیں روزہ ،زکوٰۃ ،نماز اور حج ۔اور چونکہ ان لوگوں کا بھروسہ اعمال حسنہ پر ہے اس لیے اسی باتوں پر بڑ ا زور دیتے ہیں۔جو کوئی زکوٰۃ کا منکر ہے وہ مسلمان نہیں کافر ہے اور جو منکر نہیں پر ادا بھی نہیں کرتا وہ بڑا گنہگار ہے اسے قتل کرنا چاہیے ۔

زکوٰۃ ساری امت پر واجب نہیں ہے صرف اس مسلمان پر جو آزاد عاقل بالغ صاحب نصاب ہے ۔پس سال بسال حساب کے موافق زکوٰۃ دینا ہوگا۔

روپیوں کا حساب یوں ہے فیصد ی دوروپیہ آٹھ آنہ سالانہ دینا ہوگا۔اور سونے میں جب زکوٰۃ آئے گی جب سونا ساڑھے سات تولہ سے کم نہ ہو اور جب اس قدر ہوتو اس کا چالیسواں حصہ دینا ہوگا فی سال ۔اس کے سوا اونٹوں کی زکوٰۃ کا حساب اور بکریوں وغیرہ جانوروں کا حساب حدیثو ں میں بہت سالکھا ہے جس کی تفصیل سے کچھ فائدہ نہیں ہے ۔زکوٰۃ کا فائدہ یہ ہے کہ مال میں اس کی برکت سے ترقی ہوتی ہے اور باقی مال پاک رہ جاتاہے اور آدمی کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔

زکوٰۃ نہ دینے کی سزا مشکوات کتاب الزکوٰۃ میں ابوہریرہ سے منقول ہے کہ

’’ جو کوئی زکوٰۃ نہیں دیتا ہے اُس کا مال قیامت کے دن گنجا سانپ بن جائے گا اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے وہ اس آدمی کے گلے میں لپٹ جائے گا اور اس کی دوباچھیں پکڑکے کہے گا میں ہوں تیرا مال تیرا خزانہ‘‘۔

ابی ذر سے روائت ہے کہ جس کے پاس اونٹ گائیں بکریاں ہوں اور وہ زکوٰۃ نہ دے تو وہ جانور قیامت کوبڑے بڑے موٹے بن کر اُس آدمی کو روندیں گے اورسینگوں سے ماریں گے۔

زکوٰۃ مسکینوں فقیروں غریبوں کو دی جاتی ہے پر اقارب یعنی آبا واجد واولاد کو دینا جائز نہیں ہے ۔پر بھائی بہن وغیرہ اگرمحتاج ہوں تو انہیں مل سکتی ہے اسی طرح کافر کو دینا جائز نہیں ہے اور سیدوں کو اوربنی ہاشم کو بھی نہ دیں۔

یہ تعلیم اچھی ہے خیرات دینا ضروری کام ہے کیونکہ محتاجوں کا حق ہے کہ اہل توفیق اُن کی مدد کریں پر ہم ان ثوابوں اور عذابوں کی بابت کچھ نہیں جانتے صرف اتنا جانتے ہیں کہ خُدا کی رضا مندی ضرور اس میں ہے کہ محتاجوں کی مدد کی جائے پر جو لوگ نہیں کرتے وہ اپنا واجب ادا نہیں کرتے ہیں اس کا نقصان اٹھانا ہوگا اورجس نے رحم نہیں کیا اس پر رحم نہ ہوگا۔ پر زکوٰۃ کے بارے میں اگرچہ خُدا کے کلام میں دہ یکی کا ذکر ہے یعنی دسواں حصہ دینا چاہے پر آزادگی کی شریعت یعنی انجیل میں آزادگی ہے کہ جس قدر دل چاہتاہے دیں اپنی خوشی اور رضا مندی سے کہ جو تھوڑا دیتا ہے تھوڑا پائے گا جو بہت دیتا ہے بہت پائے گا کچھ قید چالیسویں اور دسویں حصے کے اب نہیں ہے اورنہ کسی پر جبر ہے کہ اگر نہ دے تو قتل کریں گے ہر گز نہیں وہ اپنا حساب آپ خُدا کو دے گا۔ ایسی بات انجیل میں ہے اورایسی آزادگی ہے توبھی خُدا کے فضل سے محتاجوں کی حاجت روائی اور تمام اخراجات دینی اسی چندہ سے سر انجام پاتے ہیں بلکہ اہل اسلام کی زکوٰۃ کی نسبت یہ چندہ زیادہ مفید نظر آتاہے اور نہ صرف ہندوستان میں مگر ایشیا کے غیر ملکوں میں بھی یہ خُدا کی برکت عیسائی چندہ پر ہے جو آزادگی کی روح سے دیا جاتاہے۔ پر عیسائی لوگ سب کچھ خُدا کے واسطے دے کہ بھی کچھ اُمید مغفرت اس چندہ پر نہیں رکھتے ہیں ہماری نجات صرف مسیح سے ہے اوریہ سب کا رخیر خُدا کی شکر گزاری میں کرتے ہیں اوربھائیوں کا حق اور خُدا کا حق پہچانتے ہیں۔

فصل بست ویکم

صدقہ فطر میں

جب رمضان تمام ہوتاہے اورعید کی صبح آتی ہے تو نماز سے پہلے واجب ہر مسلمان روزوں کے صدقہ میں چار سیر جویاکھجوریں یا دوسیر گیہوں فقیروں کو دے اور ہر آدمی اپنی اپنی طرف سے دے یہ صدقہ فطر ہے۔

یہ بھی ایک خیرات ہے بہتر ہے پر نجات اعمال سے نہیں ہے گناہوں کی معافی اگر ایسی عبادتوں اور ریاضتوں اور مکانوں او رکپڑوں اور اور غسلوں اور وضواورخیرات اور حج زکوات سے ہوسکتی ہے توبہت ہی آسان ہے کہ آدمی بہشت میں جائے اوران ادنٰی سی چیزوں کے ذریعہ سے بہشت کو کمالے اور وہ آرام جو خُدا کو حاصل ہے ان چیزوں کے وسیلہ سے آدمی بھی خریدلے اگریہ بات کسی کے خیال میں آسکتی ہے تووہ قبول کرے اوراس کچی بنیادپر اپنی اُمید کو قائم کرے پر ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ باتیں اورمطلب پر مفید نہیں ہیں نجات اورگناہوں کی معافی اور خُدا کی حضوری میں دخل پانے کےلئے یہ امور ہر گز مفید نہیں ہیں یہی بات سب پیغمبروں کے بیان سے ثابت ہے اوریہی تعلیم مسیح کی انجیل سے پاتے ہیں اور عقل بھی اسی بات کو قبول کرتی ہے۔ پس ہم آگاہ کردیتے ہیں سب ناظرین کو یہ باتیں حضرت نے بھروسہ کے لائق نہیں بتلائی ہیں اورکچھ ان کے سوا حضرت کے پاس نہیں ہے۔ اورانہیں باتوں کو پیغمبروں کی کتاب میں بھی جو حضرت نے پایا ہے تو حضرت محمد اُن باتوں کا درست مطلب نہیں سمجھے ہیں اس لئے دین کی بنیاد ان پر قائم کی ہے ۔حالانکہ سب پیغمبروں کی بنیاد سیدنا مسیح پر قائم ہے اوریہ سب عبادات وغیرہ اسی بنیاد اور جڑ کی شاخیں ہیں۔

تیسرا باب

معاملات میں

معاملات وہ امور ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ علاقہ رکھتے ہیں چنانچہ عبادات کو انسان اور خُدا کے درمیان علاقہ ہے جس کا ذکر ہوچکا ہے پر وہ امور جن کا علاقہ آپس میں آدمیوں کے درمیان ہے بموجب رضامندی الہٰی کے انہیں معاملات کہتے ہیں ۔ اس باب میں بھی کئی ایک فصلیں ہیں۔

پہلی فصل

کمائی اور کسب حلال کے بیان میں

علماء محمدیہ نے قرآن حدیث سے نکال کر کسب اور کمائی کی چار قسمیں بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ افضل اوراچھی صورت کمانے کی جہاد ہے یعنی امام کے ساتھ جہاد کرنے کوجانا اورکافروں کا مال لوٹ کر لانا یہ سب سے بہتر اور پاک کھانا ہے۔ اس کے بعد تجارت ہے پھر زراعت کا درجہ ہے پھر دست کاری ہے یعنی کوئی پیشہ ۔ خُدا کے کلام میں آدمی کی خوراک کا ذکر یوں لکھاہے کہ تواپنے منہ کے پسینے سے روٹی کھائے گا یعنی محنت اور جفا کشی سے۔ پر عقل سلیم کے نزدیک سب سے بہتر کام تجارت ہے پھر زراعت پھر دستکاری مگر لوٹ کے مال کو نہ عقل جائز بتلاتی ہے نہ خُدا کا کلام جس کو اس تعلیم میں سب سے بہتر کام قرار دیا گیاہے۔

پر اس کی بنیاد وہی عرب کی قدیمی عادت ہے جو اب تک بدوُں میں جاری ہے اور حضرت محمد کا بھی بعد دعویٰ نبوت کے ایام ہجرت سے آخر تک وہی پیشہ تھاکہ جہاد کا اموال غنیمت سے کھاتے پیتے تھے جس کی بابت اسماعیل کے حق میں خبردی گئی تھی کہ اس کے ہاتھ سب کے خلاف ہوں گے۔

اوریہ بات کہ خُدا نے ملک کنعان بنی اسرائیل کے ہاتھ میں کردیا تھا اور وہاں کے اموال (مال کی جمع ،مال ودولت)انہوں نے پائے تھے یہ بات خُدا کے انتظام سے علاقہ رکھتی ہے کہ اپنی خُدائی کے قانون کے موافق جو ملک جس کو چاہے بخش دے اس کا نتیجہ یہ نہیں نکل سکتا کہ آدمی کا اچھا پیشہ لوٹ مارہوئے۔ یا آنکہ دین کے پیرائیہ میں اس پیشہ کو اختیار کرے۔ البتہ دنیا کے ممالک خُدا نے بادشاہوں کے ہاتھ میں تقسیم کردئیے ہیں ۔ وہ اگر آپس میں لڑیں یاانتظام کےلئے کسی ملک کو لوٹیں اوراُن کے نوکر یا ساتھی ایسا مال اُن کے حکم سے لاکر کھائیں تو یہ ان کی محنت کی کمائی ہے پر دین کے لئے یہ کام عقلاً ونقلاً اچھا نہیں ہے۔

دوسری فصل

سود کے بیان میں

حضرت نے سودکھانے کو منع کیا ہے اورتجارت کو حلال بتلایا ہے یہ بات درست ہے۔ لیکن سود کیا چیز ہے اس بارے میں کلام الہٰی اور قرآن کے درمیان اختلاف ہے ۔علماء محمدیہ سود کی قسمیں بتلاتے ہیں سود نسیہ یعنی نقد چیز کو وعدے پر دینا سود فضل یعنی تھوڑے کو بہت کے بدلے میں دینا۔

پس اگر اتحاد جنس اور اتحاد قدر بھی ہو تو دونوں صورتیں سود کی حرام ہیں کیلی یا وزنی ہونا قدر ہے پر جب جنسیں مختلف ہوں اور دست بدست لین دین ہوجائے تویہ سود نہیں ہے۔

مگر کلام میں بیجا زیادتی کو سود کہتےہیں اورجنس وقدر دست بدست کی کچھ شرط نہیں ہے بنی اسرائیل کو منع تھاکہ نامناسب زیادتی آپس میں نہ لیں مگر پردیسی اور غير قوم سے سودلینا انہیں بھی منع نہ تھا۔ اب جو عیسائیوں میں سود کا رواج ہے یہ ایک قسم کی تجارت ہے پر اپنے احباب اور دوستوں میں ایسا نہیں ہے اور وہاں جہاں لیا جاتاہے اُس کے لئے بھی ایک شرح اور رواجی ہے اورمناسب ہے پر بیجا زیادتی اب تک وہ نہیں لیتے کیونکہ قانوناً وشرعاً ناجائز جانتے ہیں۔

روائت ہے کہ ایک آدمی نے بُری گیہوں بدلوائی تھی۔ اسی طرح پر کہ بُری چار سیرئی اوراچھی چار سیرئی حضرت محمد نے فرمایاکہ یہ عین سود ہے (اگر ایسی باتیں سود ہیں تو دنیا میں زندگی کیسی تلخ ہوگی) توبھی خود حضرت نے ایک بار ایک غلام لیا اُس کے عوض دوغلام دیئے تھے گیہوں کے قاعدے کے موافق یہ بھی سود تھا پر اس کو حضرت نے سود نہ کہا۔

حضرت نے فرمایاہے کہ سود کے ستر جُز ہیں سب سے چھوٹا سود یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے(اس مبالغہ کو خیال فرمائیے)۔

عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ معاملات میں سب سے پیچھے سود کی آئت نازل ہوئی تھی مگر حضرت نے اُس کی شرح بیان نہیں کی یہاں تک کہ وفات پائی پس چاہیے کہ جس چیز میں سود کا شک بھی ہو اسے چھوڑدیں۔ پس یہ صاف اقرار خلیفہ کا ہے کہ درست معنی سود کے معلوم نہیں ہیں اس صورت میں کیوں کر اس آفت سے بچ سکتے ہیں جوایسا بڑا گناہ ہے۔

تیسری فصل

اشیاء ذیل کی بیع ناجائز ہے

مردار اور خون اور حردام ولدیامکاتب یا مدبر کی بیع باطل ہے کہ بیع مال نہیں ہے۔

شراب اور سور کی بیع باطل ہے کیونکہ مال غیر متقوم ہے جانور کے پستان میں جو شیر ہے جب تک باہر نہ نکالا جائے فروخت کرنا باطل ہے۔ جو جانور خود مختار ہوا اڑتے ہیں۔ یا مچھلیاں جو دریا میں ہیں یالونڈی کا حمل یا وہ موتی جو صدف میں ہے اور وہ گوشت جو جیتےجانور میں ہے فروخت کرنا جائز نہیں مردار کا گوشت ، یا چربی یا نجس تیل اور انسان کا برُازجس میں مٹی نہ ملائی جائے فروخت کرنا منع ہے اورجمعہ کی اذان کے وقت کوئی چیز فروخت کرنا منع ہے۔

دیکھو یہ کیسی باتیں اوران میں حکم جاری کرنا کیا فائدہ رکھتاہے اگر کسی کو کسی دوا کے لئے یہ چیزیں درکارہوں اورکوئی لاکے بیچے تو کیا گناہ ہے۔

چوتھی فصل

احتکار کے ذکر میں

احتکار یہ ہے کہ ارزانی (سستا پن،کثرت)کے وقت غلہ جمع کیا جائے اس ارادہ سے کہ گرانی(بھاؤ کی تیزی،کال) کے وقت فروخت کروں گا یہ بھی حرام ہے۔ اگریہ کار جہان اٹھ جائے تو ہمیشہ قحط رہیں گے اورملک برباد ہوگا اور اگر نفع کی اُمید سے غلہ جمع کرکے نہ رکھیں تو ضرورت کے وقت روٹی میسر نہ آئے گی۔ ان باتوں کے سوا خریدوفروخت کے دستور اوربیع کی قسمیں علماء محمدیہ نے اپنے اجتہاد(جدوجہد) سے بہت سی بیان کی ہیں اوراُس میں بھی بہت غلطیاں ہیں اور بعض مقام علم انتظام مدُن(بہت سے شہر) کے خلاف ہیں پر میں ایسے بیان کرکے کتاب کو نہیں بڑھاسکتا۔ محمدی عالم طالب علم کی عمر ایسی باتوں میں برباد کر ڈالتےہیں ان باتوں سے نہ روحانیت بڑھتی ہے نہ دنیا وی فائدہ ہے یہ معاملات کی شریعت ہے۔

پانچویں فصل

نکاح کے بیان میں

لماء محمدیہ کہتےہیں کہ شہوت کے وقت نکاح واجب ہے اورجب زنا کا خوف ہو تو فرض ہے بشرطیکہ مہر اور نقد دینے کی طاقت ہو اور سنت موکد (تاکید کیا گیا )ہے حالت اعتدال میں۔ ایسے ہی خُدا کےکلام سے بھی معلوم ہوتاہے چنانچہ توریت میں لکھاہے کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اُس کے لئے ایک عورت بناؤں گا ۔ اور پولوس رسول سے یہ بھی سنتے ہیں کہ اگر آدمی ضبط پر قادر ہے توبہتر ہے کہ نکاح نہ کرے۔ ورنہ مناسب ہے کہ نکاح کرے یہاں محمدی بیان اورخُدا کےکلام میں کچھ مخالفت نہیں ہے۔

عیسائیوں کے دستور کے موافق مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لیں پر اگر بے ضبط ہوں تو غیروں سے ملاحظہ کرالیں۔ ضرور ہے کہ نکاح کے وقت کوئی عورت کا مختار ہو کے نکاح کر واےپر عورت کی مرضی بھی دریافت کرنا ضرور ہے ۔نکاح کے وقت دف بجا کر شہرت کرنا بھی ضرور ہے یا کسی اورطرح سے تاکہ یہ معاملہ مشہور ہوجائے۔ محمدی نکاح میں شرطیں بھی ہوسکتی ہیں جتنی چاہیں جانبین شرطیں کرلیں۔

اور تو سب باتیں درست ہیں مگر یہ شرطیں آزادگی کے ساتھ عیسائی دین میں نہیں ہیں اورنہ ہونی چاہئے صرف یہی شرطیں مناسب ہیں کہ عمر بھر کے لئے عورت مرد کی ہوئی اور مرد عورت کا ہوا اور وہ اس کی خدمت وعزت کرے گا اوروہ اس کے ہر حال میں اس کے سوا اورکچھ شرطیں عقلاً ونقلاً بہتر نہیں ہیں۔

چھٹی فصل

نکاح موقت

نکاح موقت(کسی خاص وقت پر ٹھہراگیا) ایک قسم کا نکاح مسلمانوں میں ہے جس کو’’ متعہ‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ نکاح کچھ دن کے لئے یعنی ایک خاص وقت مقررہ تک کی شرط سے کچھ دام دے کر کیا جاتاہے جب تک معیاد پوری نہ ہو وہ عورت بی بی ہے اورمیاں شوہر ہے اورجب معیاد مقررہ پوری ہوگئی عورت مرد فوراً نکاح سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

اگر ایسے نکاح سے اولاد جاری ہوجائے تو اُن کو باپ کا ورثہ نہیں ملتا ہے بحکم اجماع اُمت کے۔ اس لئے کہ اُن کی ماں نے متعہ کی اُجرت پائی تھی یہ نکاح او رلونڈی بازی راقم کے گمان میں برابر ہے۔

اب سنی مسلمان اس نکاح کو حرام جانتے ہیں اور اُن کے درمیان ایسے نکاح کا اب دستور نہیں ہے۔

لیکن شعیہ مسلمان اب تک اس کو حلال اورجائز بتلاتے ہیں اور یہ دستور اُن میں اب بھی جاری ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ دستور حضرت محمد کے حکم سے جاری ہواہے اورسنی بھی اس بات کے قائل ہیں۔

چنانچہ مشکوات کتاب النکاح باب اعلان میں بخاری ومسلم کی روایت ابن مسعود سے یوں لکھی ہے کہ ’’ہم لوگ حضرت کے ساتھ جہاد میں تھے اورہمارے ساتھ عورتیں نہ تھیں ۔ پس ہم نے کہا یا حضرت ہم خوجے ہوجائیں تب حضرت نے ہمیں خوجہ ہونے سے منع کیا اورہمیں رخصت دی کہ ہم متعہ کریں پس کوئی کوئی ہم میں سے کسی عورت کو کپڑا دے کہ کسی مدت مقررہ تک نکاح کیا کرتا تھا۔ یہ حدیث سنیوں کی ہے اور اس کےمعنی وہ لوگ یوں کرتے ہیں کہ ابتدا اسلام میں یہ دستور جاری تھا مگر آخر کو حضرت نے اس دستور سے منع کردیا۔پس یہ حدیث منسوخ ہے توبھی اس بات کا تو اقرار ہواکہ یہ دستور ابتداِ اسلام میں حضرت ہی سے مسلمانوں میں جاری ہوا تھا مگر صاف ظاہر ہے تواريخ محمدی کے دیکھنے سے جہاد وغزوی خاص مدینہ میں جاکر ہونی شروع ہوئی تھی یعنی اجراء اسلام کے ۱۱یا ۱۲ برس بعد ایک قرن تواسلام پر گذر چکا تھا اس وقت کے احکام اوائل اسلام کے احکام نہیں ہیں بلکہ اواسط اسلام کے احکام ہیں۔ اوریہ کیا بات ہے کہ وہ معلم جو خُدا کی طرف سے ہونے کا مدعی ہے اُس کی تعلیم اوائل واواسط واواخر میں وہی طوردکھلاتی ہے جو ہم سب کاطور ہے کہ موقع کے موافق کارروائی کرتے ہیں یا نادانی سے کوئی بات بولتے ہیں جب اُس کا نقصان ظاہر ہوتاہے تب اسے چھوڑدیتے ہیں۔

اس کے بعد دوسری حدیث ترمذی کی روائت سے مشکوات میں یہ ہے کہ ’’ابن عباس کہتے ہیں کہ متعہ کا دستور اول اسلام میں تھا جب کوئی مرد کسی ایسے شہر میں جاتا تھا جہاں اس کا کوئی واقف نہ ہو تو وہ کسی عورت سے بقدر قیام متعہ کرلیتا تھا تاکہ وہ عورت اسباب کی نگہبانی کرے اورکھانا بھی پکائے اورہمبستر بھی ہوئے جب وہ آیت اتری کہ باندی اوربی بی کے سوا کسی اور عورت سے صحبت کرنا نہ چاہیے تو ا س وقت یہ دستور حرام ہوگیا غرض اجراء اس کا حضرت ہی سے ہوا اور موقوف بھی اس کو حضرت ہی نے کیا توبھی شیعہ لوگ جائز جانتے ہیں کہ اورمنسوخ نہیں بتلاتے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ فی نفہ یہ دستور بد ہے اورزناکاری ہے اور اس صورت میں اوربھی زیادہ بدہے کہ جب اُسے ایک قسم کا نکاح سمجھیں جیسے کہ شیعہ وسنی ہردو اس کے قائل ہیں دونو ں کہتے ہیں کہ حضرت محمد نے یہ تعلیم دی تھی کہ اگرچہ ایک فرقہ کہتاہے کہ اب یہ منع ہے توبھی اقرار ہے کہ ہمارے پیغمبر کی تعلیم ہے ۔ پس اب خواہ وہ جاری ہو بموجب بیان اہلِ شیعہ کے یا نہ جاری ہو بموجب بیان اہل سنت کے بہر حال حضر ت محمد کی ضروریہ تعلیم ہے اوراس تعلیم سے اُن کی دل کی طہارت اور ذہن کی روشنی کی بابت ہم کچھ سمجھ نہیں سکتے ہیں۔

ساتویں فصل

نکاح غیر موقت

یہ وہ ہے جو سب مسلمان کرتے ہیں۔ اس کو غیر موقت اس لئے کہتے ہیں کہ اس کےلئے بھی کوئی وقت نہیں ہے خواہ موت تک رہے یا کبھی درمیان میں جاتا رہے۔

اس نکاح میں مرداقرار کرتاہے کہ میں نے اس عورت کو قبول کیا اور عورت اپنے دل کی زبان سے اقرار کرتی ہے کہ میں نے اس مرد کو قبول کیا۔ توبھی مرد کو اختیار ہے چاہے تمام عمر اس عورت کے ساتھ بسر کرے یا چاہے چھوڑدے۔ اوراس اقرار میں مرد کی طرف سے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ میں سب عورتوں کو چھوڑکے صرف اسی عورت کا شوہر رہوں گا کیونکہ وہ اور عورتیں بھی نکاح میں لاسکتا ہے لیکن عورت کی طرف سے اقرار یہ ہے کہ اورسب مردوں کو چھوڑ کر تیری ہی بیوی رہوں گی اورمیں تجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتی پر تومجھے چھوڑ سکتاہے۔

اس نکاح میں بھی ہمیں بہت سی بے انصافی اور خود غرضی نظر آتی ہے اور خاص کرکے عورتوں پر ظلم ہے اور ضرور خُدا کی طرف سے یہ تعلیم نہیں ہے کیونکہ وہ منصف ہے اور رحیم ہے۔

عیسائی مذہب میں نکاح کا اقرار یوں ہے کہ تمام زندگی کے لئے جب تک موت ہمیں جدا نہ کرے میں اس عورت کا شوہر رہوں گا اورسب عورتوں کو چھوڑ کر صرف اسی عورت کا میں ہوگیا ہوں اوراسی طرح عورت بھی سب مردوں کو چھوڑ کر تمام عمر کےلئے اسی کی بیوی ہوگئی ہے اور ہردوایک تن ہیں۔ ضرور یہ نکاح خُدا سے ہے جس میں انصاف ہےہاں اگر وہ لوگ زنا کرکے اس اقرار کو توڑ ڈالیں تو ممکن ہے کہ جدائی ہوجائے۔

آٹھویں فصل

حرام عورتوں کے بیان میں

حرام عورتیں جن سے شرع محمدی میں نکاح ناجائز ہے یہ ہیں:

(ف۔)حلالہ یہ ہے کہ مطلقہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے اور ضرور اس سے ہمبستر ہوئے اور پھر وہ شخص اُسے طلاق دے تو اب یہ عورت اگرچاہے کہ خصم سابق سے نکاح کرے تو جائز ہے مگر جب تک دوسرا خصم نہ کرچکے پہلے خصم کی طرف رجوع کرنا ناجائز ہے۔ یہ نوقسم کی حرام عورتیں فتویٰ عالمگیری کے مطلب کا خلاصہ ہے۔

خُدا کی شریعت میں بلحاظ حرمت کے اپنے ماں باپ کی طرف سے شیر کا بچاؤ ہے اوراپنی بی بی سے بھی ویسا ہی بچاؤ ہے کیونکہ خُدا کے حکم کے موافق اپنی بی بی کے ساتھ ایک تن ہوکے پوری یگانگت پیدا کرتاہے۔

اگر آدمی اُن عورتوں کی بابت فکرکرے اوراس انتظام پر بھی سوچے تو جانے گا کہ یہاں زيادہ حیاء شرم اوراقارب کی حرمت ہے۔

نویں فصل

مہر کا بیان

نکاح کے وقت عورتوں کے لئے کچھ مہر مقرر کیا جاتا ہے گویا یہ پہلے ہمخوابی (ہم بستر ہونا)کی اجرت ہے۔ ادنٰی درجہ کا مہر دوروپیہ دس آنہ ہیں اور زیادہ جہاں تک خاوند ادا کرسکے۔ حضرت کی بی بی ام حبیبہ کا مہر ایک ہزار پچاس روپیہ کا مقرر ہوا تھا۔ اور حضرت کی بیٹی بی بی فاطمہ کا مہر ایک سو پچاس روپیہ کا تھا۔ ان کے سوا اور سب عورتوں اور بیٹیوں کا مہر ایک سو اکتیس روپیہ چار آنہ کا باندھا گیا تھا۔

یہ مہر خاوند کو ادا کرنا ضرور ہے یا بی بی معاف کردے یا ضرور اُسے دیا جائے اگر خاوند نہ دے تو بی بی نالش کرکے لے سکتی ہے اور جو بی بی مرجائے تو اُس کی اولاد باپ سے لے سکتی ہے۔مگر نہائت مناسب یہ ہے کہ نکاح کے بعد ہم خوابی سے پیشتر ادا کردیا جائے کیونکہ حضرت نے اپنے داماد علی سے کہا تھاکہ ہم بستر ہونے سے پہلے فاطمہ کا مہر دیجئے اس نے کہا میرے پاس کچھ نقدی اس وقت موجود نہیں ہے فرمایا اپنی ذرہ دے دے تب اُس نے ذرہ دے دی اُس کے بعد ہم خواب ہوا۔

عیسائیوں میں کچھ مہر مقر ر نہیں ہے اس لئے کہ بی بی اورمیاں میں کسی طرح کا فرق نہیں رہتا ہے۔ جوکچھ خاوند کے پاس ہے یا وہ ساری عمر میں کمائے گا سب کچھ بی بی کا ہوگیا ہے خاوند معہ اپنے سب مال کے بی بی کا ہوگیا ہے اوربی بی اُس کی ہوگئی ہے ۔پس محمدی نکاح میں بہت فرق ہے اس لئے اس نکاح میں مہر کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں فرق قائم ہے اس نکاح میں مہر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فرق نہیں ہے۔

دسویں فصل

ولیمہ یاشادی کے کھانے اور سب قسم کے

ضیافتوں کے ذکر میں

مسلمانوں میں آٹھ قسم کی ضیافتیں یا کھانے ہوتے ہیں اوریہ نہ صرف مذہبی تعلیم ہے مگر ملکی اور رواجی بات ہے جو شرع میں بھی جائز رہی ہے۔

ُن سب کھانوں کے نام میں بھی عربی زبان میں جدا جدا ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ خُرس، عقیقہ ، اعذار ، نقیعہ، وکیرہ، مادبہ وخیمہ ولیمہ۔

(۱۔) خرس وہ کھانا ہے جو بچہ پیدا ہونے کی خوشی میں کھلایا جاتاہے۔

(۲۔) عقیقہ وہ کھانا ہے کہ بچہ کے نام رکھنے کے وقت کھلایا جاتاہے۔

(۳۔)اعذار وہ کھانا ہے کہ ختنہ کے وقت کھلاتے ہیں۔

(۴۔) نقیعہ وہ کھانا ہے جو مسافر کو کھلاتے ہیں۔

(۵۔) وکیرہ وہ کھانا ہے جو مکان کی عمارت تمام ہونے کے وقت کھلایا جاتاہے۔

(۶۔) مادبہ وہ کھانا ہے جو یوں ہی بلاکسی خاص سبب کے کھلایا جاتا ہے ۔

(۷۔) وخیمہ وہ کھانا ہے جو مصیبت کے وقت کھلاتے ہیں۔

(۸۔) ولیمہ وہ کھانا ہے جو بعد نکاح کے کھلاتے ہیں۔

ولیمہ سنت ہے یا واجب مگر اورسب واجب نہیں ہیں یہ خوشی کا کھانا ہے سب قوموں میں اس کا رواج ہے عیسائيوں میں بھی قسم قسم کے کھانے ہیں مگر سب کچھ توفیق پر ہے واجب یا سنت کچھ نہیں ہے محبت کی ضیافتیں ہیں جو خُدا کے جلال اور شکر گزاری میں کی جاتی ہیں ان باتوں میں فائدہ ہے۔

گیارھویں فصل

عورتوں کی باری مقرر کرنا

محمدی تعلیم میں چونکہ ایک مرد چار بیویاں بھی رکھ سکتاہے۔ اس لئے انہیں ضرورت ہے کہ اپنی بی بی کے لئے باریاں مقرر کریں تاکہ مرد اُن کی باریوں کے موافق اُن کی خدمت میں حاضر ہوا کرے اور کسی کا حق تلف نہ کرے قرآن میں لکھا ہے فان تعدلو فواحدہ اگر عدل نہ کرسکو تو ایک ہی جورو کرو پس اگر بموجب اوپر کی آیت کے دو دوتین تین چار چار بیبیاں کریں تو شرط یہ ہے کہ اُن میں برابری اور عدالت کی جائے ورنہ ناجائز ہے کہ ایک سے زيادہ کی جائے۔

مگر یہ بات محال ہے کہ انسان سب عورتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے اورسب کے حق برابر ادا کرے اس لئے علما نے اس آیت کے معنی یوں بیان کئے ہیں کہ ایک ایک رات سب کے پاس رہنا اوربرابر ہم نشینی کرنا اوربرابر کھانا کپڑا دینا ضرور ہے مگر برابر ہمخوابی اور برابر محبت سب سے کرنا کچھ ضرور نہیں یعنی لفظ عدالت میں یہ بات شامل نہیں ہے۔

دیکھو علماء محمدیہ کی تمیز نے خود گواہی دی کہ سب عورتوں سے برابر محبت اور ہم خوابی کرنا محال ہے اس لئے انہوں نے عدالت کے اور ہی معنی تصنیف کئے کہ سب کے پاس برابر وقت میں بیٹھنا اورکھانا کپڑا برابر دینا بس عدالت ہے مگر محبت برابر کرنا کچھ ضرور نہیں ہے ۔مگر یہ عدالت تمیز انسان کے خلاف ہے انہیں صاف کہنا چاہیے تھاکہ یا تو کثرتِ ازواج کی تعلیم ہی غلط ہے یا اس میں شرطِ عدالت غلط ہے۔

بالفرض اگریہ بناوٹی معنی عدالت کے جو خلاف تمیز ہیں قبول بھی کئے جائیں تو ایک اورتماشہ نظر آتاہے کہ حضرت نے خود اس آسان عدالت پر بھی عمل نہیں کیا اور صاف دکھلایا کہ یہ بھی کثرت ازدواج میں محال ہے ۔

آخر عمر میں حضرت محمد کے پاس نو عورتیں اکٹھی موجود تھیں لیکن باریاں آٹھ تھیں ۔ صرف عائشہ کے لئے دوراتیں تھیں اورسب کے لئے ایک ایک رات تھی سو وہ عورت باری سے محروم تھی۔

پھر یہ دستور بھی تھا کہ جب حضرت محمد کسی کنواری عورت کو لیتے تھے تو اوّل میں سات رات برابر اُس کے پاس رہتے تھے اور جو غير کنواری سے نکاح کرتے تھے تو اس کے لئے تین رات مقرر تھیں یہ بھی عدالت مفسرہ کے خلاف تھا۔

مگر علماء محمدی اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ عورتوں کے حق میں عدالت کرنا حضرت محمد پر واجب نہ تھا وہ اپنی خوشی سے جس قدر ہوسکتا تھا عدالت کرتے تھے پر خُدا کی طرف سے خاص اُن کے لئے اس امر میں عدالت کی شرط نہ تھی لیکن مسلمانوں کے لئے عدالتِ شرط ہے۔

دیکھو یہ کیسا جواب ہے کہ کسی آدمی کا دلی انصاف کو پسند کرسکتا ہے جب کہ عدالت خُدا کی صفت ہے اورمحال ہے کہ خُدا کبھی بھی عدالت سے باہر کوئی کام کرے اوربندگان خُدا پر فرض ہے کہ عدالت کریں ورنہ خُدا کے مجرم ہوں گے مگر رسول خُدا کو جائز ہے کہ وہ کبھی کبھی عدالت نہ کریں اُن پر عدالت واجب نہیں ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی تعلیم ہی خلافِ عدالت ہے جب ایک مرد نے چار عورتوں سے شادی کی تو اُس کے یہ معنی ہیں کہ اے عورتوں تم چاروں بالکل میری ہو اور ہر ایک تم میں سے بالکل پوری پوری میری ہے اور میں ہر ایک کے لئے پورا نہیں ہوں بلکہ ہر ایک کے لئے 4/1 ۔ اورپھر اس تعلیم میں عدالت کی شرط ہے یعنی امر عدالت شکن میں عدالت شرط ہے اور عدالت سے مراد وہ عدالت ہے جو فی الحقیقت عدالت نہیں ہے کیونکہ ہم خوابی اورمحبت جو حقیقی رکن عدالت کا عورتوں کے بارے میں ہے وہ اس عدالت سے خارج ہے صرف ظاہری ہم نشینی اورکھانا کپڑا برابر دینا عدالت کہلاتاہے جس سے عدالت کی غرض ہرگز پوری نہیں ہوسکتی۔

ناظرین کو ان باتوں پر فکرکے سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تعلیمات خُدا سے ہیں یا کسی انسان کی خواہشوں میں سے نکلی ہیں۔

شائد کوئی کہے کہ پرانے عہد نامہ میں بھی پیغمبروں کی نسبت لکھاہے کہ انہوں نے بھی بہت سے عورتیں جمع کی تھیں جواب مختصر یہ ہے کہ خُدا نے پہلے آدم کو ایک ہی عورت بخشی تھی اورانسان کی بگڑی ہوئی حالت سے پہلے یہ انتظام خُدا نے کیا تھا ۔پس اُس کی اچھی حالت کا انتظام خُدا سے یہی ہے کہ ایک بی بی ہو۔ مگر جب انسان کی حالت بگڑگئی توہم دیکھتے ہیں کہ قائن ظالم کے پوتے لمک نے یہ بُرا دستور جاری کیا کہ عدہ اور ظلہ دوعورتیں جمع کیں پھر اُسی کی سنت یہ دنیا میں جاری ہوئی اوراس میں لوگوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کے سبب سے بڑی ترقی کی پس جنہو ں نے یہ کام کیا اپنی نفسانی خواہشوں سے کیا اور بُرا کیا اور خُدا نے بھی اُن کی اس بد حالت سے طرح دی پر جب مسیح آیا اورانسان کی بحالی کا وقت شروع ہوا پھر وہی آدم والا دستور جاری ہوا اب ہم کثرت ِازدواج کو نہ پیغمبروں کی سنت مگر لمک کی سنت جانتے ہیں اور آدم کی حالت بیگناہی کی سنت چھوڑ کر آدمی کی بُری حالت اورنفسانی خواہشوں کی سنت پر نہیں چل سکتے جو خلاف ِعدالت اور خلاف ِعقل اورخلاف ِحکم کے ہے۔

بارھویں فصل

عورتوں سے خوش مزاجی کرنا

مشکوات کتاب النکاح باب عشرہ النساء میں لکھاہے کہ

’’ حضرت محمد نے تعلیم دی ہے کہ عورتوں کے ساتھ خوش مزاج رہنا چاہیے اور انہیں نصیحت بھی دینا چاہیے‘‘۔

یہ تعلیم اچھی ہے اور خُدا کےکلام میں بھی ایسا لکھاہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ خوش مزاج رہنا چاہیے۔ اور حضرت نے عورتوں کے مارنے سے بھی منع کیا ہے یہ سب مناسب اور لائق باتیں ہیں۔

مگر اورباتیں اسی باب میں ایسی بھی مذکور ہیں کہ اُن کا ذکر شرم کی بات ہے۔ پر اُس کا حاصل یہ ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کے لئے ہر وقت حاضر رہنا چاہیے جب وہ بلائیں بلاعذر حاضر ہونا چاہیے ورنہ خُدا کے فرشتے ساری رات عورت پر لعنت بھیجا کرتے ہیں اس جُرم میں کہ اُس نے اس رات ہم خوابی سے انکار کیا تھا۔

عائشہ کہتی ہے کہ میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی جب حضرت آتے تھے تو لڑکیاں بھاگ جاتی تھیں مگر حضرت اپنی خوش مزاجی کے سبب لڑکیوں کو بلا کر میرے پاس بھیجا کرتے تھے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت دروازہ پر کھڑے تھے اور حبشی نٹ برچھیوں پر تماشے کررہے تھے تب حضرت محمد نے عائشہ کو اپنے کپڑے کی آڑ میں لے کر اپنے کندھے پر چڑھایا اور تماشہ دکھلایا اس سے ظاہر ہے کہ حضرت بیویوں سے بہت خوش مزاج تھے۔

اور عائشہ بی بی بھی حضرت محمد سے ٹھٹھہ کیا کرتی تھیں چنانچہ ایک ٹھٹھہ اُن کا حضرت سے یہ بھی ہوا وہ کہتے ہیں کہ میں اُن عورتوں پر عیب لگایا کرتی تھی جو اپنا نفس حضرت کو مفت بخش دیتی تھیں میں کہتی تھی کہ یہ کیسی بے حیا اور شہوت پر حریض عورتیں ہیں کہ بے نکاح مفت اپنا بدن میرے خاوند کو ہم بستر ہونے کےلئے بخش دیتی ہیں یہ بات میرے دل میں تھی جب وہ آئت نازل ہوئی کہ نکال دے جس عورت کو تیرا دل چاہے اوررکھ لے اُس عورت کو جس کو تیرا دل چاہے تب عائشہ کہتی ہیں کہ میں یوں بولی مااریٰ ربک الایسار ع فی ھواک میں دیکھتی ہوں تیرے خُداکو کہ تیرے دل کی خواہشیں جلد جلد پوری کرتاہے پس یہ عائشہ کا ٹھٹھہ حضرت کے ساتھ ہوا۔

دیکھو نہ اس وقت صرف ہماری تمیز یہ کہتی ہے کہ محمدی تعلیم حضرت محمد کی نفسانی خواہشوں کا مظہر ہے مگر اُن کے اصحاب بلکہ ہمکنار بی بی کی تمیز بھی اس بات پر گواہی دیتی تھی کہ یہ خُدا اس کی خواہشوں کے موافق چلتاہے۔ پس یہ ایک بات حضرت کی عدم نبوت پر کافی دلیل ہے ،کیونکہ خُدا جو حقیقی خُدا ہے عقلاً ونقلاً محال ہے کہ کسی آدمی کی نفسانی خواہشوں کے موافق چلے پر وہ اپنی مرضی اور ارادوں کے موافق آدمی کو چلانا چاہتاہے سارے پیغمبر خُدا کی مرضی کی طرف آدمیوں کو کھینچتے ہیں اوراپنی خواہشوں کو اُس کی مرضی کے تابع کرنا چاہتےہیں پر یہاں دیکھتے ہیں کہ خُدا ایک آدمی کی خواہشوں کے تابع ہے پس بھائیو ہوشیار ہوجاؤ۔

عورتوں کے حقوق مردوں پر اور مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اُن کا مفصل بیان حضرت محمد کی تعلیم میں جو لکھاہے سوباب عشرہ النساء میں دیکھناچاہیے جس کا حوالہ اوپر ہے اورمسیحی دین کی تعلیم جو اس بارے میں ہے اس کا ذکر مفصل کتاب نمازترتیب نکاح کے آخر میں اگر کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھے اورپھر انصاف سے کہے کہ کونسی تعلیم خُدا سے ہے اورکونسی تعلیم نفس ِامارہ اور عقل ِانسانی ہے۔

تیرھویں فصل

طلاق کے بیان میں

محمدی تعلیم ہے کہ ہر مرد اپنی بی بی کو جب چاہے اورجس وجہ سے چاہے طلاق دے سکتاہے۔چنانچہ یہودی بھی ایسا کرتے تھے جن کے بارے میں سیدنا مسیح نے فرمایا تمہاری سخت دلی کے سبب موسیٰ نے ایسا حکم دیاہے۔

اور حضرت محمد نے بھی فرمایا ہے کہ البغض الحلال الی اللہ الطلاق یعنی حلال چیزیں جس سے خُدا کو بہت غصہ ہے وہ طلاق ہے یعنی اگرچہ یہ کام جائز ہے توبھی خُدا اس سے سخت ناراض ہے۔

مشکوات باب الوسوسہ میں مسلم سے جابر کی روائت ہے کہ فرمایا

’’حضرت نے شیطان کے پاس ایک تخت ہے وہ اسے پانیوں پر رکھ کر بیٹھا کرتاہے اور اُس کے نوکر اپنی خدمت گزاری کا روزنامچہ اُسے سنایا کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں شرارت کے کام آج کئے ہیں اورشیطان ہر ایک کی کارگزاری کے موافق اُن کی عزت کیا کرتا ہے پر جب کوئی نوکر کہتاہے کہ میں نے ایک عورت میں فساد ڈلواکے طلاق کرادی ہے تو شیطان بہت خوش ہوکے اُسے اپنے گلے سے لگا لیتا ہے‘‘

یہاں سے ظاہر ہے کہ طلاق کا دستور خُدا کے نزدیک مکر وہ ہے اگرچہ اس نے جائز کیا ہے اوریہ کہ شیطان کو اس میں بہت خوشی ہے۔موسیٰ کی شرع میں جو طلاق جائز تھی اس کی وجہ تو سیدنا مسیح نے وہ بتلائی ہے جس کو عقل بھی قبول کرتی ہے کہ آدمیوں کی سخت دلی کے سبب سے اُس نے ایسا حکم دیا تھا پر محمدی شرع میں جو یہ جائز ہے اس کی وجہ کیا ہے آیا سخت دلی آدمیوں کی یا مناسب انتظام اُمت محمدیہ کا یہ خُدا کی طرف سے ہے اگر آدمیوں کی سخت دلی کے سبب سے یہ رواج ہے تو ضرور حضرت محمد بھی سخت دل آدمی ہوں گے جنہو ں نے کئی عورتوں کو طلاق دی تھی اور وہ طلاق ضرور شیطان کے کسی نوکر کی تحریک سے واقع ہوگی ۔ بموجب حدیث جابر کے ۔ یا محض نیک انتظام کے لئے طلاق ہوگی اگر اس مطلب پر طلاق ہے تو بڑی نیکی ہے پر خُدا کے نزدیک البغض حلال کیوں ہوئی۔ اور وہ کونسی نیکی ہے جس سے شیطان خو ش ہوسکتاہے وہ تو محض بدی سے خوش ہوتاہے نہ نیکی سے اس لئے حیرانی ہے کہ شریعت محمدیہ کی طلاق کا کیا منشا ہے۔

اورجب ہم زیدوزینب کی طلاق پر سوچتے ہیں اور حضرت محمد کی خوشنودی اُس میں پاتے ہیں جس کا صاف ذکر قرآن میں ہے تب اوربھی حیران ہیں کہ حضرت محمد اس فعل سے کیوں خوش تھے جو خُدا کے نزدیک مبغوض (قابل نفرت)تھا اور شیطان کے نزدیک نہائت اچھا تھا اب سوچ لیں کہ اس معاملہ میں حضرت محمد کس کی طرف تھے۔ غرض یہ تعلیم جس کی منشا اور غرض اوربیان میں بہت گڑ بڑ ہے یعنی طلاق شریعت محمدیہ میں ہر وجہ سے جائز ہے اوراس کی کئی قسمیں ہیں۔

چودھویں فصل

خلع کے بیان میں

یہ ایک قسم کی طلاق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی جو رو رہنا نہیں چاہتی اُس سے آزاد ہونا چاہتی ہے تب وہ اپنے خاوند کو کسی قدر مال دے کر راضی کرتی ہے کہ اُسے چھوڑ دے اگر خاوند منظور کرے اوراس طرح سے چھوڑدے تو یہ خلع ہوا۔

پندرھویں فصل

طلاق مغلظہ وہ مخففہ کے ذکر میں

طلاق مغلظہ یہ ہے کہ مرد تین بار اپنی عورت سے یوں کہے کہ (اے عورت میں نے تجھے طلاق دی ) پس اس سے نکاح اُن کا مطلق ٹوٹ جاتاہے وہ پھر اس کی جورو نہیں ہوسکتی جب تک کسی غیر سے نکاح کرکے اورہم بستر ہوکے اوراُس سے پھر طلاق لے کے نہ آئے اورپھر اس سے نکاح نہ کرے۔ یہی حکم قرآن میں صاف لکھاہے حتی تنکح زوجاً غیر طلاق مخففہ اس سختی کے الفاظ میں نہیں ہے اس لئے اس سے مراجعت ہوسکتی ہے بغیر حلالہ کے۔

سولھویں فصل

لعان کے بیان میں

لعان بھی ایک قسم کی طلاق ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت کی نسبت زناکاری کا دعویٰ کرے تو دونوں قاضی کے سامنے حاضر ہوں اورجب مر د گواہوں سے زناکا ثبوت عورت کی نسبت نہ دے کسے تو چار دفعہ یوں کہے ( خُدا کی قسم میں اس دعویٰ میں سچا ہوں) اورپانچویں دفعہ یوں کہے (اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خُدا کی لعنت ہو) پھر عورت چاردفعہ یوں کہے (خُدا کی قسم یہ مرد جھوٹا ہے) اورپانچویں بار عورت یوں کہے (اگر یہ مرد سچا ہو تو مجھ پر خُدا کی لعنت پڑے) یہ لعان ہے یعنی اس میں ایک دوسرے پر لعنت کرنا جب یہ ہوا تو طلاق پڑگئی اب دونوں میں جدائی ہوگئی ۔

سترھویں فصل

عدت کا بیان

عدت اُس مدت کو کہتے ہیں جس میں عورت کو ضرور ہے کہ نکاح نہ کرے جب وہ مدت پوری ہوجائے تب نکاح کرے ۔

اگر خاوند مرجائے تو چار مہینے دس دن تک عورت کو نکاح کرنا درست نہیں ہے اُس کی یہ عدت ہے اگر وہ حاملہ ہے تو جنے تک عدت ہے۔رہتی ہے یا تین مہینے تک اگر حیض نہ آتا ہو۔

مگر لونڈی مطلقہ کی عدت دو حیض ہیں یا ڈیڑھ مہینہ اور اگر لونڈی کا خاوند مر جائے تو دو مہینے پانچ دن عدت ہے یہ بندوبست اس لئے ہے کہ وہ نطفہ مل نہ جائے۔

یہ بندوسبت مناسب ہے اس میں کچھ نقصان نہیں ہے بلکہ فائدہ ہے ہاں مدت عدت کی وقت کے مناسب چاہیے پر جو ان کے نزدیک اسی قدر مناسب ہے اور لوگوں کے خیال میں کچھ زیادہ وقت مطلوب ہے۔

اٹھاریوں فصل

عتق کے بیان میں

غلام کے آزاد کرنے کو عتق کہتے ہیں اس کا بڑا ثواب ہے کہ غلام آزاد کیا جائے۔ یہ بات بہت درست ہے کہ غلام کو آزاد کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا خوب بات ہے کہ غلام رکھنے کی رسم ہی جہان میں نہ رہے پر خیر شریعت محمدی میں غلام رکھنے کا دستور جاری ہے توبھی اُن تمیز کہتے ہیں کہ آزادگی چاہیے اس لئے کہتے ہیں کہ بڑا ثوابت ہے کہ غلا م آزاد کیا جائے۔

لیکن بعض وقت غلام آزاد کرنا گناہ بھی ہے اس وقت کہ جب خوف ہو کہ وہ کافروں کے ملک میں چلا جائے گا یا اسلام چھوڑ دے گا تو اس صورت میں آزاد کرنا منع ہے اس لئے کہ جبری اسلام بھی اُن کی شریعت میں محمود ہے۔

انیسویں فصل

قسم کے بیان میں

محمدی تعلیم میں قسم کی تین صورتیں غموس ، لغو منعقدہ۔

غموس وہ جھوٹی قسم ہے جو ماضی یا حال کے امر پر کھائی جائے اس قسم کے کھانے والا اُن کی شریعت میں گنہگار ہے اس کو چاہیے کہ توبہ کرے۔

لغو قسم یہ ہے کہ اپنے گمان میں وہ سچی قسم کھاتاہے امر ماضی یا حال پر مگر حقیقت میں اُس کا گمان باطل ہے پس اس قسم پر اُن کی شریعت کہتی ہے کہ خُدا سزا نہ دے گا بلکہ یہ معاف ہے۔

منعقدہ وہ قسم ہے کہ امر آئندہ پر قسم کھائی جائے اوراس کا پورا کرنا ضرور ہے اگر اُسے پورا نہ کرسکے تو کفارہ دے۔ غلام آزاد کرے۔ یا دس آدمی کو کھانا کھلائے یا تین دن روزہ رکھے۔

دیکھو ان ہر سہ قسم سے آزاد ہونا کچھ مشکل بات نہیں ہے۔ یہودی ربی لوگ بھی ایسی روائتیں سناتے تھے اور لوگوں کو قسم سے آزاد کیا کرتے تھے ۔ یہ سب وہی باتیں ہیں جو حضرت نے یہودیوں سے معلوم کی ہیں۔یہ تعلیم کہ لغو قسم معاف ہے اسی نے اہل اسلام کے عوام کو ایسی جرات قسم کے بارے میں دی ہے کہ وہ بات بات میں قسم کھاتے ہیں۔ پر خُدا کے کلام میں قسم کھانا منع ہے ہاں ضرورت کے وقت حاکم کے حکم سے اللہ کی قسم کھانا جائز ہے جو ایک سنجیدگی سے واقع ہوتی ہے پر بات چیت کے درمیان یا ادنیٰ باتوں پر ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں ہے۔

بیسویں فصل

عورتوں کی عقل اور دین کاذ کر

مشکوات کتاب الایمان میں ابی سعید حذری سے مسلم اوربخاری روایت کرتے ہیں کہ فرمایا حضرت نے اے عورتو !میں دیکھتا ہوں کہ مردوں کی نسبت دوزخ میں عورتیں بہت ہیں انہوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا حضرت نے کہ تم ناقص عقل اور ناقص دین ہو تمہاری عقل میں اورتمہارے دین میں بھی نقصان ہے تم لعنت بہت کرتے ہو اور خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو اور ہوشیار آدمی کی عقل کھودیتی ہو تمہاری عقل اس لئے ناقص ہے کہ میری شریعت میں ایک عورت کی گواہی برابر ہے نصف مرد کے اور تمہارا دین اس لئے ناقص ہے کہ ایام حیض میں روزہ نماز نہیں ہوسکتی ہو۔

اس تعلیم کو کون قبول کرسکتاہے کیونکہ یہ ہر دونقصان عورتوں کے اندر خُدا نے پیدا نہیں کئے ہیں یہ تو حضرت محمد کی شرع کے نقصان میں جبرًا ایک عورت کی گواہی کو نصف مرد کے برابر اس شریعت نے تجویز کیا ہے اور جبرًا اسے روزہ نماز سے روکا ہے پر عقل یہ کہتی ہے کہ جیسے مرد ہے ویسی ہی عورت بھی ایک انسان ہے اُس میں بھی نفس ناطقہ ہے۔ کیوں اُس کی گواہی ایک مرد کے برابر نہ ہو اور ایام حیض میں کیوں وہ نماز سے باز آئے خُدا کی عبادت روح سے ہوتی ہے وہ ہر حالت میں کرسکتی ہے محمدی شرع میں یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے کہ عورتوں کو مرد کی نسبت ناچیز یا کمتر اورحقیر گناہے اوریہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ شرع خُدا سے نہیں ہے خُدا کا کلام بتلاتاہے کہ عورت اور مرد خُدا کے سامنے یکساں ہیں الہٰی نعمتیں ہردو کےلئے برابر ہیں یہ بات درست ہے کہ مسلمان لوگ عورتوں کو حقیر جان کر اُن کی تعلیم اور تربیت میں بہت کم کوشش کرتے ہیں اُنہیں غلامی کی حالت میں ڈال رکھاہے انہیں کوٹھریوں میں بند کرکے دین، دنیا کے بھیدوں سے واقف ہونے نہیں دیتے ہیں ۔ اس لئے وہ ذلیل حالت میں ہیں اگراُنہیں ذرا آزادگی بخشیں تو دیکھو مردوں کے برابر ترقی کرتی ہیں یا نہیں اہلِ یورپ کی عورتوں اور اہلِ ایشیا کی عورتوں پر غور کرو۔ پر یہ ذلیل حالت جو ایشیا کی عورتوں میں ہے اس کا سبب صرف شریعِت محمدی ہے اوریہ اچھی حالت جو اہلِ یورپ کی عورتوں کو حاصل ہے اس کا سبب صرف خُدا کا کلام ہے۔

اکیسویں فصل

تعلیم دین کے بیان میں

حضرت نے علم ِدین کے سیکھنے اورسکھلانے کی بابت بڑی فضیلت اور ثواب اورتاکید کا بیان کیا ہے اورعلماء محمدیہ نے اور علماء عیسائیہ نے بھی اس بارے میں بہت سی ہدایتیں کی ہیں۔

مگر یہاں صرف محمدی تعلیم اورکلامِ الہٰی کا ذکر ہے اس لئے معلوم کرنا چاہیے کہ مقدر علم سیکھنے کی مشکوات باب العلم میں ابو داؤد سے یوں بیان ہوئی ہے کہ

’’سوال کیا گیا حضرت سے کہ یا حضرت آدمی کس قدر علم سیکھنے سے فقیہ ہوجاتاہے فرمایا جو کوئی میری اُمت کے فائدہ کے لئے چالیس حدیثیں یاد کرلی تو خُدا اس کو قیامت کے دن فقیہ کرکے اٹھائے گا اور میں اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا‘‘۔

اس حدیث کے موافق بعض مسلمان چھل حدیث جو ایک چھوٹا سا رسالہ ہے یاد کیا کرتے ہیں یہ کچھ بات نہیں ہے اس سے کیا فائدہ ہے۔

مسیحی فقیہ کا احوال پہلے زبور میں یوں لکھا گیا ہے کہ وہ (خُداوند کی شریعت میں مگن رہتاہے اور دن رات اس کی شریعت میں سوچا کرتاہے) اب اس تعلیم اور اس تعلیم کا بھی مقابلہ کرو اور سوچو کہ کونسی بات قرین ِقیاس ہے۔

یہ میں مانتا ہوں کہ بعض محمدی لوگ دنیاوی علوم پڑھتے ہیں اور محمدی شریعت کو بھی خوب دریافت کرتے ہیں اوریہ اُن خواص کا اپنا شوق ہے مگرمحمدی تعلیم صرف یہی سکھلاتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔

ہاں عیسائی لوگوں میں بھی لاکھوں عالم ہیں اور علوم دُنیاوی او ردینی بھی پڑھتے ہیں پر خُدا کا کلام صر ف اُسی کومبارک بتلاتاہے جو خُدا کی شریعت میں مگن رہتاہے اور رات دن اس میں سوچتاہے تاکہ کلامِ الہٰی کے بھیدوں کو دریافت کرکے ان کی تاثیر اپنے اندر حاصل کرے نہ کہ یہ چالیس باتیں یاد کرلے۔

اوریہ ذکور(ذکرکی جمع) جو زبور میں ہے خاص علماء کا نہیں ہے مگر چاہیے کہ ہر عیسائی مردو عورت خُدا کے کلام میں مگن رہے۔

پھر حضرت نے خُدا کے ۹۹نام بھی بتلائے ہیں اور وہ سب خُدا کی صفتیں ہیں اور فرمایا کہ جو کوئی انہیں حفظ کرے بہشت میں جائے گا۔ یہ بات بھی ہمارے قیاس میں نہیں آتی صرف نام یاد کرنے سے کیا فائدہ ہوگا چاہیے کہ اُن ناموں کی تاثیر اوراُن کا منشا آدمی کے خیال اورکاموں میں پیدا ہو مثلاً اگر کوئی کہے کہ خُدا حاضر ناظر ہے تو صرف یہی لفظ ہی بولنا مفید نہیں ہے جب تک کہ اُس کی حاضری کا رعب میرے خیال میں اور خلوتی گناہوں سے پرہیز میرے افعال میں اس لحاظ سے کہ وہ دیکھتاہے پیدا نہ ہو۔ مگر مسلمان لوگ ۹۹ نام خُدا کے جو عربی کی ایک گھٹی ہوئی عبارت میں ہیں ہر روز پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں اس اُمید سے کہ بہشت میں جائیں گے لیکن اُن سے بات کرکے معلوم کرسکتے ہیں کہ اُن ناموں کی تاثیر خیال وافعال میں کچھ بھی نہیں ہے اس کا سبب یہی ہے کہ حضرت محمد نے یوں ہی بولنے کو ثواب بتلایاہے جو قیاس سے بعید بات ہے۔

بائیسیوں فصل

منتر پڑھنے کا بیان

عربی میں رقیہ کے معنی منتر ہیں اس کی جمع رقیٰ ہے حضرت محمد نے یہ تعلیم دی ہے کہ بیماریوں میں دوا بھی کی جائے اور بعض بیماریوں میں منتر پڑھی جائیں پر شرک کہ منتر نہ ہوں چاہیے کہ قرآن کی آیتوں کو منتر بنادیں اور خُدا کے ناموں کو بھی منتر بنادیں اور غیر زبانوں کے منتر بھی پڑھے جائیں بشرطیکہ اُن کے معنی میں شر ک نہ ہو۔

مشکوات باب الطب الرقیٰ میں عائشہ کی روایت ہے کہ بخاری ومسلم سے یوں ہے ’’حضرت نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اگر کسی کو نظر لگ جائے تو منتر پڑھواؤ‘‘۔

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں حضرت نے ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا فرمایا اس کو نظر ہوگئی ہے اس پر منتر پڑھو اؤ۔

مسلم نے جابر سے روایت کی ہے کہ حضر ت نے منتر پڑھنے سے منع کیا تھا ۔پس عمر بن حزم کے لوگ آئے اورکہا ہمارے پاس ایک منتر ہے ہم بچھوکے کاٹے ہوئے آدمی پر پڑھا کرتے ہیں او ر آپ نے منتر پڑھنے سے منع کردیا ہے تب حضرت نے کہا اپنا منتر سناؤ جب سنایا توکہا اس میں کچھ خوف نہیں ہے اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچاؤ۔

حضرت نظربد کی شدت سے قائل ہیں بلکہ فرمایا کہ اگرکوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تویہی نظر بد آتی ایسی قوی تاثیر اُس کی ہے۔ پس اب اہل انصاف آپ ہی سوچیں کہ آیا نظر بد کا اعتقاد کس قسم کی بات ہے ۔آیا کوئی پیغمبر نظر بد کاقائل گذرا ہے یا کسی اہلِ عقل اس کا اقرار کرتے ہیں اورسب عقلمند اس بات پر ہنستے ہیں۔

تیسوئیں فصل

نظر بد کا علاج

حضرت نے نظر بد کا ایک عجیب علاج بتلایا ہے جو کتاب مظاہر الحق ۴ جلد کتاب الطلب فصل دوم کے آخر میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

’’جس نے نظر لگائی ہے چاہیے کہ وہ ایک پیالہ پانی میں کرلی کرکے بہ ترتیب مقررہ ہر دوتھیلیاں وکہنیاں اور پیر وگھٹنے اور پیشاب گاہ بھی اُسی پیالہ میں دھوئے اورپانی اُسی پیالہ میں جمع رکھے پھر جس کو نظر لگی ہے اس کی کمر کےپیچھے سےآکے وہ ناپاک پانی اُس کے سر پرڈالا جائے آرام ہوجائے گا‘‘۔

ماذری نےکہا کہ نظر لگانے والے پر جبر کرنا چاہیے تاکہ وہ ایسا پانی تیار کرکے دے۔ قاضی عیاض نےکہا ہےجو کوئی نظر لگانے میں مشہور ہے چاہیے کہ امام وقت اُس کو لوگوں کے درمیان آنے جانے سے منع کرے اور کہے کہ اپنے گھر میں رہا کر۔ تاکہ یہ کیسے خیالات ہیں اور ان کی کیسی برُی تاثیر جاہل مسلمانوں میں پائی جاتی ہے خاص کر عورتوں میں اوریہ بات کچھ جاہلوں کی نہیں ہے حضرت نے یہ تعلیم دی ہے اور علماء محمدیہ نے اسے قبول کیا ہے ایسی باتوں سے خُدا کاکلام مطلق پاک ہے اور پیغمبروں کی تعلیم میں ایسی باتیں نہیں ہیں۔

چوبیسویں فصل

بچھو کےکاٹے کا علاج

مشکوات کتاب الطلب میں بہقی سے روائت ہےکہ ایک رات حضرت نماز پڑھ رہے تھے جب زمین پر حضرت نے ہاتھ رکھا تو بچھو نے کاٹ لیا حضرت نے اُسے جوتی سے مارا اور فرمایا خُدا کی لعنت ہو بچھو پر نہ نمازی کو چھوڑتا ہے نہ بے نمازی کو یا یوں کہا نہ نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو۔ اس کے بعد حضرت نمک اورپانی ڈالتے تھے اور درد کے سبب انگلی کو ملتے تھے اور معوذ تین پڑھ کر دم کرتے تھے ۔پس یہ علاج بچھو کے کاٹے کا ہے جو حضرت سے ظاہر ہوا۔

قسم قسم کے علاج یکم حکیم لوگ ایسے موقعوں پر کرتے۔ جس سے آرام ہو آدمی وہ کرسکتاہے پر حضرت نے بھی علاج کیا تھا اب تو یہ علاج کچھ مفید نہیں ہوتا ہے توبھی بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ یہ موذی جانور سب کو ایذا پہنچاتے ہیں نبی وغیرہ نبی نمازی وغیرہ نمازی میں کچھ امتیاز نہیں کرتے ہیں۔ہاں ایک دفعہ ایک بڑا کالا ناگ پولوس رسول کو بھی چمٹ گیا تھا مگر اُسےکچھ ضرر نہیں پہنچا (اعمال ۲۸: ۴تا ۵ ) تک غور سے دیکھو۔

پچیسویں فصل

نیک فال اور بد شگون کا ذکر

حضرت نے فرمایا کہ نیک فال لینا چاہیے اور بد فال لینا نہ چاہیے اور وہ آپ بھی نیک فال لیاکرتے تھے خصوصاً لوگوں کے اور مقاموں کے نام سےمثلاً گھر سے نکلتےہی ایک آدمی ملا اُس کا نام رحمت اللہ تھا۔پس اس اچھے نام کےآدمی کےملنے کے سبب خوش ہونا اس اُمید پر کہ جس کام کو جاتے ہیں اُس میں کامیاب ہوں گے کیونکہ گھر سےنکلتے ہی وہ آدمی ملا جس کا نام اچھاہے۔

اور بد فال کو حضرت نےمنع کیا ہے مثلاً گھر سے نکلتے ہی ایک آدمی ملا جس کا نام میاں جھگڑو ہے تو یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ اب مطلب میں جھگڑا پڑے گا کیونکہ میاں جھگڑو راہ میں ملے تھےلیکن یہ ہونہیں سکتا کیونکہ جب نیک فال لینے کی عادت حضرت نے پیدا کردی ہے تو ناممکن ہے کہ اس کا عکس ذہن میں نہ آئے ضرور بد فالی خود بخود ذہن میں آئے گی ایک مرض تو حضرت نے آپ ہی پیدا کردیا پر اس سے منع کرنا کیا معنی رکھتاہے۔

پریہ علماء محمدیہ کی غلطی ہے یا خود حضرت ہی کی غلطی ہے کہ بد فال نہ لیجائے حضرت خود بد فال اورنیک فال لیتے تھے۔

مشکوات باب الفال میں ابو داؤد سے بریدہ کی روایت یوں لکھی ہے کہ

’’حضرت جس وقت کسی کو عامل یا تحصیل دار مقرر کرتے تھے تو اُس کا نام پوچھا کرتے تھے اگرنام اچھا ہوتا تو خوش ہوتے اور جو نام برُا ہوتا تو اداس ہوجاتے تھے اورایسا ہی حال گاؤں کے نام سن کر ہوتا تھا‘‘۔

پھر اسی باب میں ابوداؤد سے انس کی روائت ہےکہ

’’ ایک آدمی نے حضرت سےکہا ہم ایک گھر میں رہتے تھے وہاں ہمارے پاس بہت مال ہوگیا تھا جب سے وہ گھر چھوڑ ا اور نئے گھر میں آئے مال کم ہوگیا حضرت نے فرمایا کہ اس بُرے گھر کو چھوڑ دو‘‘۔

دیکھو حضرت مکانوں کو بھی منحوس یا غیر منحوس سمجھتے تھے۔ ناظرین اپنی تمیز کو جگادیں کہ یہ تعلیمات کیسی ہیں۔

چھبیسویں فصل

خواب کے بیان میں

حضرت نے فرمایا لم یبق من النبوت الالمبشرات نبوت تو تمام ہوگئی مگر اس کا ایک حصہ جو سچے خواب میں باقی ہے۔ اس بات کا میں بھی قائل ہوں کہ یہ درست بات ہے کہ سچے خواب اب تک ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات خُدا تعالیٰ کوئی بات ظاہر کرتاہے پر اس میں کچھ خصوصیت مومن اور غیر مومن کی میرے گمان میں ہرگز نہیں ہے کبھی کبھی بے ایمانوں کو بھی خُدا کوئی بات بتلاتاہے اور ایمانداروں کو بھی۔ پر خُدا کی مرضی جو انسان کی ابدی سلامتی اور اُس کے سب راہوں کے بارے میں ہے وہ تو سب خُدا کےکلام میں ظاہر ہوچکی ہے ہاں کسی خاص امر کی بابت کبھی کبھی خواب میں کچھ اشارہ اللہ سے پاتے ہیں (دیکھو ایوب ۳۳: ۱۵)۔

پھر فرمایا حضرت نے کہ اگر کوئی شخص بد خواب دیکھے جب نیند سے جاگے تو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھوک دے اُس بد خواب کی تاثیر نہ ہوگی۔ یہ بات قیاس میں نہیں آتی کیونکہ خواب سچے واقع ہوتے ہیں وہ تو واقعات آئندہ کا سایہ سا ہوتے ہیں جو آئینہ دل پر عالم بالا سے القا ہوتاہے اب وہ جس قسم کا واقعہ ہے خواہ بُراخواہ بھلا ضرور اُسی طرح ظہور میں آئے گا پر تین بار تھوکنے سے وہ انتظام اور ارادہ الہٰی کیوں کر ہٹ سکتاہے۔ یہ تو شائد ہوسکےکہ اگرایک آدمی خواب میں معلوم کرے کہ مجھ پر کوئی آفت آنے والی ہے اور اُٹھ کر توبہ و ایمان کے ساتھ خُدا کے سامنے رو رو کے منت کرے کہ خُدا اُسے بچالے تو اُمید ہے کہ خُدا جو نہائت ہی بخشندہ اور مہربان ہےاُس پر رحم کرے پر صرف بائیں طرف تھوکنے سے کیا ہوگا۔

اور جو حضرت کی مراد یہاں بد خواب سے محض واہیات خواب ہیں جو پیٹ کی بدہضمی سے ہوتے ہیں توپھر اس کے کیا معنی ہیں کہ تھوکنے سے اُس کی تاثیر نہ ہوگی کیا بد ہضمی کے خوابوں میں بھی کچھ تاثیر ہوا کرتی ہے وہ تو پیٹ کے ابخرے(بخار،دھواں) ہیں جو خیال میں آکے عجیب شکلیں دکھلاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔

حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ من رانی فی المنام فقدرانی فان الشیطان لا یمثل بی اگر کوئی مجھے خواب میں دیکھے تو یقیناً مجھ کو اس نے دیکھا ہے کیونکہ شیطان میرا ہم شکل بن نہیں سکتا۔

علماء محمدیہ کہتے ہیں کہ شیطان خُدا کا ہم شکل بن کر کہہ سکتاہے کہ میں خُدا ہوں اور یوں لوگوں کو فریب دے سکتاہے مگر محمد کاہم شکل بن کے نہیں کہہ سکتا کہ میں محمد ہوں یہ طاقت اس میں نہیں ہے۔ یہاں محمد صاحب کے لئے کچھ فوقیت خُدا کی شان سے بھی بڑی نظر آتی ہے اوراس کا نتیجہ ناظرین آپ ہی نکال سکتے ہیں میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا ۔

خُدا کے کلام میں لکھا ہے کہ شیطان نور کےفرشتوں سے اپنی شکل بدل ڈالتا ہے اور وہ اس جہان کا خُدا بھی کہلاتاہے کیونکہ اُس نے آپ کو اس جہان کے اہل تاریک لوگوں کی نظر میں مثل خُدا کے فریب سے بنا رکھا ہے اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی طرح مسیح کے حق میں بھی لکھاہے کہ مخالف ِمسیح آنے والا ہے اور جھوٹے مسیح ظاہر ہونے والے ہیں جو کہیں گے کہ ہم مسیح ہیں مگر حضرت محمد فرماتے ہیں کہ میرا ہم شکل نہیں بن سکتا۔

میرے گمان میں اس تعلیم کے وسیلہ سے شیطان کے کئی مطلب خوب نکلتے ہیں اور اہل ایمان کا اس تعلیم سے کچھ فائدہ نہیں ہے میں نہیں چاہتا کہ اس مقام پر تصریح کروں اگر ناظرین کا ذہن اُن نتائج کی طرف خود پہنچے تو کوشش کریں ورنہ خیر۔

ستائیسویں فصل

ملاقات کا دستور

ملاقات کے دستور میں حضرت نے تین باتوں کا ذکر کیاہے۔

اوّلاذن یعنی اگر کسی کے گھر پر جائیں یا اپنے گھر کے اندر آئیں تو بے اذن داخل نہ ہوں ہاں اپنے گھر میں ذرا کہنگھارتے آنا چاہیے تاکہ عورتیں برہنہ نہ دیکھی جائیں۔

یہ بہت مناسب بات ہے ایسی سنجیدگی ہر آدمی کو چاہیے اور سب اہل تہذیب ایسا کرتے بھی ہیں۔ مگر حضرت خود ایک دفعہ زینب کے گھر بے اذن بغیر نکاح چلے گئے تھے اور زینب نے اعتراض بھی کیا تھا۔ پس نصیحت دینا اُس ناصح کو زیبا ہے جو آپ بھی عمل کرتا ہے پر ایسا نمونہ سوائے سیدنا مسیح کے جہان میں اور کوئی بھی نہیں ہے۔

دوئم سلام کرنا یعنی السلام علیکم کہنا یاالسلام علیک کہنا ا س کےمعنی ہیں’’ تم پر سلام ہو یا تجھ پر سلام ہو‘‘۔ یہ تو اچھی تعلیم ہے تہذیب سے علاقہ رکھتی ہے ایک کا دوسرے پر حق بھی ہے اور اس سے محبت بڑھتی ہے اور سب لوگ اپنے اپنے ملک کے رواج کے موافق اس پر عمل بھی کرتے ہیں اوریہ بات پسند کے لائق ہے اور حضرت کی پیدائش سے بہت پہلے سے یہ رسم دنیا میں جاری ہے۔

مشکوات باب السلام میں مسلم روائت ابوہریرہ سے یوں لکھی ہے لا تبدوالیھود والنصاری بالسلام واذا القیتم احد ھم فی طریق فاضطر وہ الی ضیقہ سلام کا شروع یہودیوں اور عیسائیوں پر نہ کرو اورجب تمہیں کوئی اُن کا آدمی راہ میں ملے تو راہ گیر کے اُسے تنگ کرو یعنی ایسا راہ گیر کر چلو کہ وہ تنگی سے چل سکے۔

اور ابتداِ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے لئے شروع سلام کا تمہاری طرف سے نہ ہو ۔ہاں اگر وہ پہلے سلام کریں تو تم جواب دے سکتے ہو۔ دیکھو یہ غرور اور کینہ کی تعلیم ہے یا صفائی کی بات ہے صفائی اور پاک دلی کی بات یہ ہے کہ جسے موقع ملااُسی نے پہلے سلام کردیا خواہ کوئی آدمی ہو۔ پھر علماء محمدیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ضرورت یا کوئی حاجت عیسائیوں اوریہودیوں سے متعلق ہو تو اس ضرورت کےنکالنے کو جائز ہے کہ سلام کی ابتدا مسلمان سے ہوجائے ورنہ ہرگز نہیں چاہیے یہ خود غرضی کی ہدایت ہے۔

حضرت نے فرمایا ہےکہ اگر یہودی وعیسائی پہلے سلام کریں تو چاہتے ہیں کہ اُن کو پورا جواب بھی نہ دیا جائے بلکہ کہو وعلیک یا وعلیکم یعنی تجھ یا تم پر لیکن لفظ سلام نہ بولو یوں کہو ھد اک اللہ یعنی خُدا تجھے اسلام کی طرف ہدائت کرے۔

اور اگر کسی کا فر کو ناواقفی میں سلام کر بیٹھو اورپھر معلوم ہوجائے کہ وہ کافر ہے توکہو استر جعت سلامی میں نے اپنا سلام جو تجھے کیا تھا واپس ہٹالیا ہے۔ دیکھو یہ کیسی ایذا کی بات ہے محمد صاحب چاہتے ہیں کہ سب مسلمان آپس میں خوش رہیں پر دوسری قوموں کے ساتھ اچھا معاملہ نہ برتا جائے ۔پس یہ معلم یقیناً خُدا کی طرف سے نہیں ہے اس کی تعلیم تمام جسمانی خواہشوں سے نکلتی ہے اُس سے نہیں ہے جو اپنا مینہ سب پر برساتا ہے اور اپنا سورج سب پر طلوع کرتاہے۔

حدیثوں میں ہے کہ بعض یہودی جب حضرت سے ملتے تھےتو کہتے تھے السام علیکم سام کے معنی ہیں موت یعنی موت ہو تم پر۔ وہ لوگ بجائے السلام علیکم کے زبان دبا کر السام علیکم ایسے طورسے بولتے تھے کہ گویا اُنہوں نے سلام علیکم کیاہے۔ اس لئے حضرت نے بھی جواب میں سےلفظ سلام کو نکالا اور صرف وعلیکم کہنا شروع کیا یعنی تم پر۔ یہ صورت البتہ بدلا لینے کی تھی پر شرارت کا مقابلہ شرارت کے ساتھ کرنا عیسائيوں کو جائز نہیں ہے محمدیوں کو جائز ہے اس لئے میں اس مقام پر ایسی صورت میں حضرت کو الزام نہیں دے سکتا۔

البتہ وہ صورت الزام کی ہے کہ جوآدمی السام وعلیکم نہیں کہتا مگر محبت سے سلام علیکم کہتاہے اور اُسے بھی وہی جواب دینا کہ وعلیکم اچھا نہیں دل شکنی کا باعث ہے۔

دیکھو (متی ۵: ۴۷) میں لکھاہے کہ ’’اگر تم فقط اپنے بھائیوں کو سلام کر و تو کیا زیادہ کیاکیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے یعنی عیسائیوں کو بھی بس نہیں ہے کہ صرف عیسائیوں سے سلام کریں بلکہ انہیں واجب ہے کہ ہر کسی سے سلام کریں۔پھر ( لوقا ۱۰: ۵) میں لکھا ہےکہ’’ جس گھر میں داخل ہو پہلےکہو اس گھر کو سلام اگر سلامتی کا بیٹا وہاں ہو تو تمہاراسلام اُسے پہنچے گا ورنہ تمہاری طرف واپس آئے گا۔ تم اپنی طرف سے سلام کر گذرو اور عدالت الہٰی سے پہلے کسی کو لائق ونالائق نہ بتلاؤ اوراپنا سلام مثل مسلمانوں کےکافرسے واپس نہ مانگو اگر وہ برکت کااہل ہے تو خُدا سے برکت دے گا ورنہ برکت تمہارے اوپر ہوگی خود بخود‘‘۔

اب سوچو کہ محمدی تعلیم میں اور خُدا کی تعلیم میں کس قدر فرق ہے اورہر تعلیم کامنبع کہاں ہے حضرت کی تعلیم کا سرچشمہ اُن کی نفسانی خواہشیں ہیں جو اُن کی تعلیم میں لپٹی ہوئی ہیں جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پر الہٰی تعلیم کا سرچشمہ محض اللہ ہے جو نہائت مہربان اور ساری الایش سے پاک ہے اسی لئے اُس کی تعلیم پاک ہے۔

سوئم دوستوں اور بزرگوں اور خوردوں کے لئے مصافحہ اور معانقہ اور قبلہ بھی ملاقات کے دستور میں شامل ہے ہاتھ ملانا مصافحہ کہلاتا ہے۔ گلے لگ کر ملنا معانقہ ہے بوسہ لینا قبلہ کہلاتاہے۔

یہ ہر سہ باتیں بھی اگر گناہ کے طورپر نہ ہوں تو اچھی ہیں اوریہ نہ صرف محمدی تعلیم ہے بلکہ قدیم سے یہ پیار کے دستور جہان میں چلے آتے ہیں یہودی بھی کرتے تھے اور کرتے ہیں اورہندو بھی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ عیسائی بھی قدیم سے یہ کرتے آئے ہیں دیکھو(۲۔کرنتھیوں ۱۳: ۲)میں قبلہ کا ذکر ہے(اعمال ۲۰: ۳۷) میں مصافحہ اور معانقہ کا ذکر ہے اور آج تک عیسائیوں میں یہ رسم نسبت اور قوموں کے زیادہ جاری ہے۔ حضرت محمد نے یہ رسم عرب کے درمیان بھی جاری کی انہیں عیسائیوں اوریہودیوں سےلےکر ۔ یہ توبرتاؤ کی بات ہے اور اچھی ہے۔

اٹھائیسویں فصل

تعظیم وتواضع کے بیان میں

حضرت نے حکم دیا ہے کہ اپنے بزرگ یا سردار کی تعظیم کے لئے اٹھا کر اور وہ خود بھی بعض اشخاص کی تعظیم کے لئے اٹھا کرتے تھے چنانچہ عکرمہ بن ابی جہل کےلئے وعدی بن حاتم کے لئے اوراپنی بیٹی فاطمہ کے لئے وغیرہ۔

اور حضرت اپنے لئے لوگوں کومنع کرتے تھے کہ میرے لئے نہ اُٹھو۔ اوریہ بھی فرماتے تھے کہ جو کوئی اپنی تعظیم لوگوں سے چاہتاہے وہ دوزخ میں جائے گا ہاں اگرلوگ خود بخود اُس کی بزرگی کے سبب سے اُس کی عزت وتعظیم کریں تو بہتر ہےاور حضرت نے مسجدوں کے درمیان اور تلاوت کے وقت اور عبادت کے وقت بھی اسے تواضع کے طورسے منع کیا ہے کیونکہ آدمی اُس وقت خُدا کی طرف متوجہ ہی نہیں چاہیے کہ خُدا سے ہٹیں اور آدمیوں کو عزت کریں۔

یہ تعلیم بہت اچھی ہے اور مناسب ہے اوریہ جہان کی قدیمی بات ہے اس میں حضرت کی کچھ خصوصیت نہیں ہے(۱۔سلاطین ۲: ۱۹) کو دیکھو کہ سلیمان بادشاہ نے اپنی والدہ کی کیسی تعظیم وتکریم کی تھی اُسی دستور پر جو سب شرفاء میں قدیم سے جاری ہے۔

انتیسویں فصل

جلوس ونوم ومشی کے ذکر میں

جلوس بیٹھنے کو کہتے ہیں۔ کبھی حضرت محمد گوٹ مار کے بیٹھتے تھے اوراسی لئے اہل اسلام اس نشست کو متحسب جانتے ہیں مگریہ دیہاتوں کی نشست ہے۔ کبھی بشکل قرفصا بیٹھتے تھے وہ یہ ہے کہ زمین پر چوتڑ رکھے اور گھٹنے کھڑے کرے اوررانیں پیٹ سے لگائے اور ہاتھوں سے گوٹ مار کے ہتھیلیاں بغلوں میں داخل کی جائیں۔ یہ تو بڑی تکلیف کی نشست ہے کبھی چار زانو بیٹھتے تھے ۔ کبھی تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔ پس انہیں شکلوں سے بیٹھنے پر مسلمانوں کو موجب ثواب ہوگیا یہ کچھ بات نہیں ہے جس طرح انہیں اچھا معلوم ہوا وہ اُٹھتے بیٹھتے تھے اور جس طرح ہمیں بہتر معلوم ہوتاہے ہم بھی کرتے ہیں۔

’’نوم‘‘ کے معنی ہیں’’ سونا‘‘ کبھی حضرت محمد چت سوتے تھے اورکبھی دہنی کروٹ سوتے تھے لیکن اوند ہے سونے کو منع فرماتے تھے۔

واضح ہو کہ سونے کی چار صورتیں ہیں چت سونا یا پٹ سونا یا دہنی کروٹ سونا یا بائیں کروٹ سونا۔ اور چونکہ سونا آرام کے لئے ہے اس لئے بہتریوں ہے کہ بائیں کروٹ آرام سے سوئیں جس میں کھانا بھی خوب ہضم ہوتاہے اورنیند بھی آرام سے آتی ہے اور بد خوابی بھی نہیں ہوتی البتہ پٹ سونا طبعاً مکروہ ہے اور چھاتی پر بوجہ ہوتاہے۔ لیکن دہنی کروٹ بھی بے آرامی ہے اور چت سونا اکثر بد خوابی کا باعث ہوتاہے۔اگرچہ یہ سب کچھ ہے توبھی انسان آزاد ہے جس طرح اُس کو آرام ہو وہ سویا کرے۔

مشے چلنے کو کہتے ہیں۔ غرور کی چال جو مٹ کر چلنا ہے اُس سے حضرت نے منع کیا ہے یہ خوب بات ہے پسند کے لائق ہے مگر یہ مبالغہ حضرت کی عقل قبو ل نہیں کرتی کہ ایک آدمی دوچادر پہنے مٹکتا جاتا تھا اس گناہ کے سبب زمین پھٹ گئی اور وہ زمین میں دھس گیا اور اب تک دھسا چلا جاتاہے اور قیامت تک دھسا چلاجائے گا چنانچہ مشکوات با الجلوس فصل اوّل میں ابوہریرہ کی یہ روائت بخاری ومسلم سے منقول ہے۔

دوم عورتوں کے درمیان مرد کو چلنا بھی حضرت نے منع بتلایا ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ مرد فتنہ میں نہ پڑے۔

لیکن یہ حکم اُن کے لئے چاہیے جن کے دل میں خُدا کا خوف نہیں ہے اور حرص غالب ہے اُن کا حال ہر حال میں خطرناک ہے۔ لیکن خُدا پرست لوگ اپنی بی بی کو بی بی جانتے ہیں اور سب عورتوں کو بہن بیٹی یا ماں سمجھتے ہیں۔ کیا مضائقہ ہے کہ وہ اُن کے ساتھ چلیں خُدا کاکلام اور تمیز ایسے معاملہ میں الزام نہیں دیتاہے۔

سوم یہ کہ عورتیں جب چلیں تو راہ میں دیواروں کی طرف ہوکر چلیں تاکہ درمیانی راہ مردوں کے لئے کھلا رہے حضرت کے عہد میں عورتیں ایسی یک سو ہوکر چلتی نہیں کہ اُن کے کپڑے دیواروں سے رگڑ کھاکر خراب ہوجاتے تھے۔ ہمارے گمان میں یہ سختی تھی عورتوں پر کہ مرد تو کشادہ راہ میں چلیں اور عورتیں دیواروں میں رگڑ کھائیں مردوں کے خوف سے مگر شریعت محمدیہ کا یہ اصول ہے کہ عورتیں مثل غلام کے ہوئیں اور ساری زندگی مرد حاصل کریں اُسی بنیاد پر یہ سب ظلم اور بے انصافی کی باتیں عورتوں کے حق میں ملتی ہیں۔

تیسویں فصل

نام رکھنے کا دستور

مشکوات باب الاسامی میں حضرت محمد یہ تعلیم منقول ہے کہ فرمایا حضرت نے کہ میرا نام جو محمد واحمد ہے اور مسلمان بھی اگر چاہیں تو یہ نام رکھ سکتے ہیں مگر کنیت ابو القاسم ہے کہ کوئی یہ نام نہ رکھے۔

دوم یہ کہ عبد اللہ وعبدالرحمن یہ دونام خُدا کو بہت پیارے ہیں۔ بادشاہوں کا بادشاہ اگر کوئی آدمی اپنا نام رکھے تو خُدا اسے ناراض ہے۔

سوم یہ کہ بعض برُے ناموں کو حضرت بدل ڈالتے تھے مثلاً اسود بمعنی سیاہ نام کو بدل کر ابیض بمعنی سفید نام رکھ دیا اور عاصیہ کو جمیلہ کردیا تھا۔

چہارم آنکہ حضرت نے حکم دیا کہ غلاموں کا نام ریاح ویسار وافلح ونافع وبرکت نہ رکھنا چاہیے اورمطلب حضرت یہ تھاکہ ان لفظوں کے معنی اچھے ہیں اگر کسی کا نام برکت ہے اورکسی نےکہا کہ برکت گھر میں ہے یا نہیں جواب ہواکہ نہیں ہے تویہ بدشگونی ہوتی ہے۔

حضرت کی ایک بی بی تھی جس کا نام برہ بمعنی نیکوکار تھا اُس کو بدل کر حضرت نے جویریہ کردیااُسی مطلب بالا کے سبب سے۔

یہ جو فرمایا حضرت نے کہ ابو القاسم کو ئی اپنی کنیت نہ رکھے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میرے لئے یہ کنیت مخصوص ہے۔ پر عبد اللہ وعبدالرحمن کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کے یہ نام ہوں اور اُس کا چلن ان ناموں کے موافق ہو تو عقل چاہتی ہے کہ خُدا کو اُس کے چلن سے راضی ہونا چاہیے نہ صرف ان لفظوں سے۔ پر بادشاہوں کا بادشاہ یہ لقب خاص سیدنا مسیح کا ہے (مکاشفات ۱۷: ۱۴)نہیں مناسب ہے کہ کوئی آدمی اسے لے تو بھی اگر مجازاً اُن بادشاہوں کی نسبت بولا جائے جو بہت سے بادشاہوں کے اوپر ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے کیونکہ خُدا کی نسبت اورمطلب ہے اور آدمیوں کی نسبت اورمطلب ہے۔

چہارم آنکہ ہرنام آدمی کی شناخت کے لئے ایک نشان ہوتاہے اُس کےمعنوں پر اکثر لحاظ نہیں ہوتا ہے۔ مگر حضرت کے خیال کے موافق اگر کہا جائے کہ عبد اللہ یعنی خُدا کا بندہ گھر میں نہیں ہے مگر اورکسی کے بند ے موجود ہیں پس چاہیے کہ یہ نام بھی نہ رکھا جائے دیکھو اچھے نام سے یہ نتیجہ نکلتاہے اوربُرے نام سے وہ نتیجہ نکلتاہے جس کے سبب عاصیہ کا نام جمیلہ ہوا تھا تب کیا کریں نہ بُرے نام رکھ سکے نہ بھلے اور کوئی کلیہ قاعدہ یہاں نہیں ہے تب یہ تعلیم بھی ناقص ہے ۔

صحیح تعلیم وہ ہے جو خُدا کے کلام سے برآمد ہوتی ہے وہ یہ مناسب ہے کہ نام بامعنی ہوں اوراگر با معنے نہ ہوں تو بھی کچھ پرواہ نہیں ہے ہاں اگر با معنی ہوں توبھی اُس کے گھر میں ہونے یا نہ ہونے سے کچھ بدشگونی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ نام صرف نشان ہیں ہاں آدمیوں کو چاہیے کہ اپنے اچھے نام پر لحاظ کرکے نیک چلن ہوں۔

اکتسویں فصل

چھینک اور جبائی کے بیان میں

عطاس چھنکنے کو کہتے ہیں حضر ت نے فرمایا کہ خُدا چھنکنے کو پیار کرتاہے پس جو کوئی چھنکنے اورالحمد اللہ کہے اُس کے جواب میں یرحمک اللہ کہو۔

الحمد اللہ ویر حکم اللہ بولنا تو اچھاہے مگر خیال میں نہیں آتا کہ چھنکنے میں خُدا کی کیوں خوشنودی ہے یہ تو انتظام بدنی کی ایک بات ہے۔

متشا وب جبائی کو کہتے ہیں حضرت نے فرمایا کہ خُدا کو بُرا معلوم ہوتاہے جب کوئی جبائی لیتاہے کیونکہ جبائی شیطان سے ہے اور جبائی کے وقت شیطان ہنستاہے ایک حدیث میں ہےکہ شیطان اُس کے منہ میں گھس بھی جاتاہے ۔پس چاہیے کہ جبائی کو دفع کریں اورمنہ پر ہاتھ رکھ لیں۔ نیند کے وقت جبائی آتی ہے نشان ہے کہ نیند آئی اس میں شیطان کا کیا دخل ہے یہ تو آدمی کی جبلی بات ہے اور ہر دوحرکتیں موجب صحت ہیں۔

بیتسویں فصل

ہنسی ٹھٹھہ کے بیان میں

آواز سے ہنسنے کو ضحک کہتے ہیں۔ بلند آواز سے ہنسنے کو قہقہ بولتے ہیں۔ اورہنسی کا منہ بنانے کے تبسم یا مسکرانا کہتے ہیں۔ حضرت محمد ضحک اور قہقہہ کبھی نہ کرتے تھے مگر تبسم کرتے تھے اور مسلمانوں کو ضحک کرنا منع نہیں ہے پر قہقہ کرنا مکروہ ہے اور اگر نماز میں قہقہہ ہو تو وضو بھی ٹوٹ جاتی ہے۔

اہل اسلام بہت خوش ہوتے ہیں یہ سن کر کہ حضرت صرف تبسم کیا کرتے تھے جو بڑی سنجیدگی کی بات ہے میں بھی اس کو قبول کرتاہوں کہ تبسم سنجیدگی کی بات ہے اگر حضرت کی یہی عادت تھی توایک سنجیدہ عادت تھی ۔ توبھی ضحک اور قہقہہ برُی بات نہیں ہے بلکہ زندہ دلی کے نشان ہیں اور طبع کو فرحت بخشتے ہیں پر محض تبسم کا خوگر جو کبھی قہقہہ اور ضحک اپنے خاص دوستوں کے ساتھ خلوت میں بھی نہیں کرتا ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندہ دل آدمی ہے اوراس کا مزاج روکھا نہیں ہے۔

مزاخ کہتے ہیں ٹھٹھہ بازی کو جو خوش طبعی کے واسطے کی جاتی ہے جس میں کسی کو ایذا اورتکلیف نہ ہو حضرت محمد نے ایسی ٹھٹھہ بازی کو منع نہیں کیا بلکہ آپ بھی کیا کرتے تھے۔

انس کا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام تھا عمیر اس کے پاس ایک بلبل تھی جس کو عربی میں ’’نغیر ‘‘کہتے ہیں جب وہ بلبل مرگئی تو حضرت محمد اس لڑکے کو یوں کہہ کے چھیڑا کرتے تھے (اے عمیر کیا ہوئی نغیر) اور انس کو ٹھٹھہ سے کہا کرتے تھے کہ (اودوکانو والے) اور بڈھی سےکہا تھاکہ (بڑھیا بہشت میں نہ جائے گی)۔

اس کے سوا لوگ بھی حضرت محمد سے ٹھٹھہ بازی کیا کرتے تھے غزوہ تبوک میں جب حضرت ایک بہت چھوٹے تنبومیں جو چمڑے کا تھا بیٹھے تھے اور عوف بن مالک آیا حضرت محمد نے کہا آؤ وہ بولا (کیا میں سب چلاآؤں)۔

ایسی باتوں سے مسلمان یہ سیکھتے ہیں کہ ٹھٹھہ بازی کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو۔ یہ درست بات ہے۔

تینتیسویں فصل

خوش بیانی وشعر خوانی کے ذکر میں

مشکوات باب البیان والشعر میں لکھاہے کہ خوش بیانی کو حضرت نے پسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان من البیان السحرا یعنی بعض بیان جادو کا اثر رکھتے ہیں۔ یہ بات نہائت درست ہے اور خُدا نے ہر قوم کی زبان میں ایسے لوگ ظاہر کئے ہیں جو خوش بیان ہیں پر خوش بیانی اگر صحیح مضامین کے ساتھ ہوئے تو بہتر ہے ورنہ دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار ہے۔

حضرت نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ خوش بیان ہوں چاہئے کہ اپنے بیان کے موافق عمل بھی کریں ورنہ سزا پائیں گے۔ انس سے ترمذی کی حدیث غریب میں آیاہے کہ ’’ معراج کی رات کو حضرت نے دوزح میں ایسے لوگوں کو دیکھا تھا جن کی زبان مقراض (قینچی)سے کاٹی جاتی تھی جب حضرت نے پوچھا کہ یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا تیری اُمت کے واعظ ہیں اپنے بیان کے موافق عمل نہ کرتے تھے‘‘۔ خُدا کے کلام میں بھی لکھاہے کہ بے عمل ناصح سزا یاب ہوں گے پس حضرت کایہ سب بیان درست ہے مگر خاص مقراض کی سزا کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے خُدا جانے کیا سزا پائیں گے۔ دوئم شعر خوانی ہے۔ حضرت نے بُرے اشعار بنانے اور پڑھنے سے منع کیا ہے نہ اچھے ۔ یہ بات بھی عقل اورنقل کے موافق ہے اور ادنیٰ آدمی بھی اس بات کو پسند کرتاہے۔

مگر مظاھر الحق جلد چہارم باب البیان میں لکھاہے کہ

’’حسان بن ثابت شاعرمحمدی اپنے اشعار میں کفار قریش کے نسب ناموں پر طعن کیا کرتا تھا کعب نے اس کی شکایت حضرت سے کی کہ ایسے شعر جو طعن وسرزنش کے ہیں قرآن کے برخلاف ہیں حضرت نے فرمایا کہ جو شعراسلام کی تائید میں کہے جاتے ہیں وہ بُرے نہیں ہیں بلکہ جہاد کا ثواب رکھتے ہیں‘‘ ۔

لیکن ہمارا انصاف دلی اس بات کو قبول نہیں کرتا ہےکہ ایسے شعر بھی موجب ثواب ہوں جو دنیاہی میں مفید نہیں وہ آخرت میں کیا مفید ہوں گےالبتہ جس اصول پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اس اصول سے تو وہ مفید ہیں یعنی جبری اُصول سےمفید ہیں۔ پس ہم جس اُصول پر انجیل کی بنیاد دیکھتے ہیں یعنی محبت اُس اُصو ل سے یہ اشعار بُرے اور مضر ہیں۔

اگر کوئی چاہے تو علماء محمدیہ کے پاکیزہ اشعار مثل بان سعادت اور قصیدہ بردہ اور قصیدہ ہمز یہ وغیرہ کے ساتھ ملا کر عیسائی دین کے گیتوں کی کتاب کو ملاحظہ کرے اور سوچے کہ کونسے مضامین تربیت روحانی اور نصایح اورالہٰی حمدو ثنا ومناجات کے لئےمفید ہیں اورکون ہیں جو مبالغہ اورکذب سےخالی ہیں۔ البتہ فصاحت لفظی اوربرجستہ عبارت محمدی شعراء کے اشعار میں ان غریب عیسائیوں کی سادہ عبارت کی نسبت زیادہ ملے گی جو زبان دانی اورامور فصاحت لفظی اور مضامین خیالیہ سےعلاقہ رکھتی ہے۔ لیکن روحانی پرورش کی خوبی اور سچائی اوراسرار الہٰامیہ کی بھرتی انہیں کے سادہ کلام میں پائی جاتی ہے۔

چونتیسویں فصل

راگ وباجے کے بیان میں

راگ سننا اورباجا بجانے سے حضرت نے منع کیاہے اور فرمایا ہے کہ ’’راگ آدمی کےدل میں ایسی بے ایمانی پیدا کرتاہے جیسے پانی سے زراعت ہوتی ہے ‘‘ اور نافع کی روایت احمدابوداؤد سے یوں ہے کہ

’’ نافع لڑکا اورابن عمر ساتھ ساتھ کہیں جاتے تھے راہ میں بانسلی کی آواز کان میں آئی ابن عمر نے اپنے کان انگلیوں سے بند کرلئے اور دوسری راہ سے چلے دورجا کے ابن عمر نے نافع سےکہا اب کچھ آواز آتی ہے یا نہیں اس نے کہا نہیں آتی تب کان کھولے اور کہاکہ ایک روزحضرت محمد نے بھی یوں ہی کیا تھا ‘‘

ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ راگ اور باجا حضرت محمد کی شرع میں حرام ہے۔

مگر مشکوات باب صلوات العیدین میں بخاری ومسلم کی حدیث صحیح عائشہ سے یوں لکھی ہے کہ

’’ عید کے دن لڑکیاں دف بجاتی اور گاتی تھیں اور حضرت محمد گھر میں کپڑا اوڑھے ہوئےلیٹے تھے ابوبکر نے آکے لڑکیوں کو دھمکایا حضرت نے منہ کھول کر فرمایا مت دھمکاؤ عید کے دن ہیں گانے بجانے دو‘‘۔

اب محمدیوں میں گانے بجانے کی بابت اختلاف پڑگیا اہل شرع نے اُسے حرام بتلایا ہے ۔ اوراہل تصوف نے اُسے قربت الہٰی کا وسیلہ اور روح کی عذا کہاہے۔

پر ہم یوں کہتے ہیں کہ ایسا گانا بجانا جس سے نفسانی خواہشیں گناہ کی طرف جوش میں آئیں اور برُے خیال اور نفسانی مزہ پیدا ہو حرام یا نامناسب ہے اور اُس پر اصرار کرنے والے کا دل بگڑ جاتاہے۔

مگر وہ راگ اور باجا جو انسان کی روح کو خُدا کی طرف ابھارے اور خُدا کی صفت وثنا اورانسانی عجز والتجا اور شکر گزاری کا مزہ دل میں پیدا کرے عین عبادت اور زندہ دلی ہے ۔خُدا کے پیغمبر بھی راگ اورباجے کےساتھ عبادت کرتے تھے داؤد پیغمبر باجوں پر گا گا کے دُعائیں کیا کرتے تھا پر یہ حضرت کی تعلیم جو زہد خشک کی بات ہے ۔سب پیغمبروں اور تمیز مردم کے تجربوں کے خلاف ہے۔

پینتسویں فصل

فخر نسبی کے بیان میں

مشکوات باب المخافرت کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت نے حسب ونسب اور ذات پر فخر کرنے سے منع کیاہے۔

ابوہریرہ کی روایت بخاری ومسلم سے یوں ہے لوگوں نے پوچھا یا حضرت سب سے بڑا کون ہے فرمایا جو سب سے بڑا دین دار ہو وہ بولے دین دار کی بات ہم نہیں پوچھتے تب حضرت نے کہا کہ سب سے بڑا یوسف پیغمبر ہے وہ بولے پیغمبر کی بات ہم نہیں پوچھتے یہ پوچھتے ہیں کہ اقوام عرب کے درمیان کون قوم بزرگ ہےفرمایا کہ جو حالت کفر میں اچھے تھے حالت اسلام میں بھی اچھے ہیں۔

پھر اُنس سے مسلم کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت کے پاس آیا اور کہا یا خیر البریہ اے ساری دنیا سے اچھے شخص تب حضرت نےکہا یہ مرتبہ میرا نہیں ہے ابراہیم کا ہے۔

لیکن علماء محمدیہ یوں کہتے ہیں کہ سب سے اچھے شخص حضرت محمد ہیں پر وہ خود اس بات کاانکا ر کرتے ہیں اور ابراہیم کو اچھا بتلاتے ہیں اس کی کچھ تاویل کرنا چاہیے۔ پس تین طرح سے انہوں نے تاویل کی ہے۔ اوّل حضرت نے محض کسر ِنفسی کے لئے کہہ دیا ہے ۔ دوم یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت کو خُدا نے خبر نہیں دی تھی کہ تم ہی سب سے اچھے ہو۔ سوم ابراہیم اپنے زمانہ میں سب سے اچھے تھے۔

اگر کسی کی تمیز ان تینوں تاویلوں میں سے کوئی بات قبول کرسکتی ہے تو کرے میرے گمان میں تو یہ تاویلیں بعد ازقیاس ہیں

حاصل یہ ہی ہے کہ ذات پر فخر کرنا حضرت کے نزدیک گمراہی کی بات ہے۔ خُدا کےکلام میں بھی ایسا فخر کرنے والوں پر بڑی ملامت مذکور ہے۔

اگرچہ یہاں ایسی تعلیم کچھ ہے تو بھی حضرت کے شاعر قری کے سب ناموں پر اعتراض کیا کرتے تھے اور حضرت اُسےجہادِلسانی کہتے تھے اور حضرت خود بھی یہ فخر کرتے تھے کہ انا ابن عبد اللہ المطلب میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اوراسی طرح قوم انصار کو ایک خاص فضیلت دی گئی اور فاطمہ او رعلی اور اپنی آل کو ممتاز بتلایا کہ کل عرب کو تمام دنیا کی قوموں پر فضیلت بتلائی اور کتُب فقہ میں حسب نسب کا انحصار قوم عرب کو دیا گیا ۔پس اگرچہ منہ سے منع کیا مگر اُس پر نہ آپ عمل کیا نہ اُمت میں اُس کی تعمیل کرائی ۔آج تک اہل ِاسلام فخر نسبی پر عاشق ہیں اور دوسروں پر عیب لگاتے ہیں ۔ یہ خوبی خاص سیدنا مسیح کے دین میں ہے کہ اُس نے سب فرق اٹھادیاہے اور سب قوموں کو خوب ملادیا ہے رزالت اور شرافت کا انحصار ایمانداری اوربے ایمانی پر ہے نہ کسی قوم اور ذات اورپیشہ پر سب آدمی ایک باپ کے بیٹے ہیں ۔ پر اُن کے پیشے مختلف ہیں کوئی کسی پیشہ کے سبب سے رزیل نہیں ہےمگر گناہ اوربے ایمانی سے آدمی رزیل ہے۔

چھتیسویں فصل

والدین اقارب سے سلوک کے بیان میں

مشکوات با ب البروصلتہ میں لکھاہے کہ حضرت نے ماں باپ کے ساتھ بھلائی اوراُن کی فرماں برداری کا بھی حکم دیا ہے ۔ اور اسی طرح سب رشتہ داروں سے درجہ بدرجہ بھلائی اور سلوک کرنے کو کہا ہے اور صلح رحم کا بھی حکم دیا ہے اور قطح رحم سے منع کیا ہے ۔

اسماء بنت ابوبکر سے بخاری ومسلم کی روائت ہے کہ اس کی والدہ جو مشرکہ تھی اپنی بیٹی کے پاس آئی اسماء نے حضرت سے پوچھا اور کہاکہ میری ماں آئی ہے اور وہ کافر ہے اسلام سے ناراض ہے میں اُس کےساتھ سلوک کروں یا نہ کروں فرمایا اس کے ساتھ سلوک کرو۔

مسلمانوں کو اس حدیث میں مشرک رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا حکم ہے پر عیسائی او ریہودی رشتہ داروں سے سلوک کرنا منع ہے اور اُن کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے اس کا درست سبب یہ ہے کہ بُت پرست رشہ داروں سے صحبت رکھنے میں اسلام کا کچھ نقصان نہیں ہے کیونکہ قوانین اسلام بُت پرستی کے قوانین سے ضرور مضبوط ہیں ۔مگر عیسائیوں اوریہودیوں کے ساتھ صحبت رکھنا اس لئےمنع ہے کہ اُن کی سنگت سے اسلام جاتا رہتاہے کیونکہ اُن کی دلائل اوراُن کے خیالات نہائت قوی ہیں جو اسلام کو توڑڈالتے ہیں ۔اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ نہ ملو مگر ان کے ساتھ ملو ۔ پر حق یہ ہے کہ سب کے ساتھ ملیں سب کی سنیں اوراپنی باتیں سب کو سنائیں۔

حضرت نے یہ بھی کہا ہے کہ ماں کی عزت باپ کی نسبت تین درجہ زیادہ چاہیئے ۔ پر ہم خُدا کے کلام میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی ماں اور باپ کی عزت کر۔

ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے مگر جب ماں باپ مسلمان ہونے سے منع کریں تو اُن کی اطاعت کرنا نہ چاہیے۔ اس تعلیم کا اصول تو صحیح ہے کہ دین کی بات میں والدین کی اطاعت نہیں چاہیے چنانچہ توریت سے بھی ظاہر ہے کہ اور انجیل بھی یہ سکھلاتی ہے کہ دنیا کی باتوں میں دنیاوی والدین کی اطاعت چاہیے اور روحانی بات میں روحانی باپ یعنی اللہ کی اطاعت واجب ہے پس یہ تعلیم کلام الہٰی کی ہے جو حضرت نے اپنے اسلام کے لئے چن لی ہے۔

سینتیسویں فصل

لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر

حضرت نے حکم دیا ہے کہ آدمی کو وعدہ وفا ہونا چاہیے۔ یہ صحیح بات ہے مگر خود حضرت نے اس کے برخلاف نمونہ دکھلایا ہے چنانچہ جنگ بدرمیں ایک بڈھی کے ساتھ وعد ہ وفا نہیں کیا تھا اور اہل مکہ سےبھی عہد شکنی کی تھی اور اور کئی نمونے بھی پیش کئے ۔

حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بیہودہ بات زبان سے نکالنا نہ چاہیے یہ بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن خود حضرت نے بنی قریط یہودیوں کو اپنی زبان مبارک سے گالیاں دی تھیں اوربہت سے فحش لفظ اُن کے محاورات میں پائے گئے ہیں۔ پر یہ حکم ہے کہ اگر حضرت محمد کسی کو گالی دیں یا لعنت کریں تو یہ رحمت الہٰی ہے اگر ایسی باتوں کا استعمال نہیں تھا تو پھر کس دور اندیشی پر یہ حکم اوربیان تھا۔

غرور اور بد گوئی او رغنیمت اور لعنت کرنے سے بھی حضرت نے منع کیا ہے یہ سب اچھی تعلیم ہے اور تمام جہان کے معلم اسے قبول کرتے ہیں اور خُدا کا کلام بھی اچھی طرح سے ان مکروہات سے منع کرتاہے پر ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت آپ ان باتوں سے ہر گز نہیں بچے ہیں۔ تواريخ محمدی اور تعلیم محمدی ہر دو ناظرین کے سامنے پیش ہیں پس وہ خود معلوم کرسکتے ہیں کہ کس جگہ حضرت نے کیا کیا اور کیا کہا۔

پھر حضرت نے عورتوں اور بچوں اور یتیموں اور رانڈوں پر اور فقیروں اور مسکینوں اوراندھوں لنگڑوں وغیرہ پر مہر بان رہنے کا حکم دیا ہے اور سب آدمیوں کی تعظیم اور عزت اور خدمت درجہ بدرجہ بقدر طاقت کرنے کو ارشاد کیاہے۔

یہ ساری باتیں اچھی ہیں اورمناسب ہیں اور خُدا کا کلام میں اور ان کا نہایت اچھا بیان ہے اور وہاں سے یہ بیانات ہر طرف مشہور ہوئے ہیں اور خُدا کی دی ہوئی دلی شریعت جو لوگوں میں ہے ان باتوں پر اکثروں کو ابھارتی ہے اور یہ وہی باتیں ہیں جو دنیا میں مشہور ہیں اور سب جانتے ہیں کہ حضرت محمد کا بیان اس معاملہ میں اس قدر زائد ہے کہ ان کے ثواب مبالغہ کے ساتھ کثرت سے بیان ہوئے ہیں جس کو دل قبول نہیں کرتا ۔ جہاں تک درست ہے وہاں تک مانتے ہیں اور ان سب باتوں کو بائبل میں بے مبالغہ پاک طور پر سنتے ہیں یعنی یہ بیان فی نفسہ درست ہے پر حضرت کے بیان کا طور اور حضرت کے نمونے دل قبول نہیں کرتاہے بلکہ دل ہٹ جاتاہے نہ ان باتوں سے مگر حضرت کے بیان کی تصدیق سے کہ یہ اللہ سے نہ ہو۔

حضرت نے محبت کے بارے میں بھی تعلیم دی ہے اور اس کا بیان یوں کیا ہے چنانچہ مشکوات باب الحب فی اللہ میں عائشہ سے مسلم کی روائت ہے کہ

’’دنیا میں آنے سے پہلے ان سب آدمیوں کی روحوں کا ایک اکٹھا لشکر تھا جن روحوں میں وہاں ملاقات تھی اب یہاں بھی اُن میں محبت ہے اور جن میں وہاں ملاقات نہ تھی یہاں بھی اُن میں اختلاف ہے‘‘۔

یعنی موجب محبت اور موجب مخالفت تعارف سابق اور عدم تعارف سابق ہے نہ کوئی اور وجہ اگریہی بات ہے تو مثل تقدی کے محبت کا مسئلہ بھی ہوگیا اورمحال ہواکہ سب بنی آدم میں باوجود ہم مذہبی کے یہی محبت ہو۔

خُدا کا کلام بتلاتاہے کہ محبت خُدا کی صفت ہے۔ اور نے خُدا اپنی محبت کی کمال کو سیدنا مسیح میں دنیا پر ظاہر کیا ہے اور ہمیں اس میں نہائت ہی پیا ر کیاہے اُسی محبت کی تاثیر سے ہمارے دلوں میں خُدا کی محبت پیدا ہوتی ہے کہ ہم خُدا کواپنے سارے دل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے پیار کریں جیسا آپ کو۔

اسی باب کی فصل ثانی میں ابن عباس سے بیہقی کی روایت ہے کہ خُدا میں باہم دوستی رکھنا اور باہم بغض رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہ بات مان سکتے ہیں کہ خُدا میں محبت رکھنا ایمان کا حصہ ہے۔ پر خُدا میں بغض رکھنا ایمان کا حصہ نہیں ہوسکتا اگر کوئی شریر ہے تو میں اس کے بدکاموں سے ناراض ہوں مگر اس سے مطلق دشمنی نہیں رکھتا اس کا بھلا چاہتا ہوں یہ بات تو ایمان کا حصہ ہے پر لوگوں سے دشمنی رکھنا اُس کا حصہ نہیں ہے جو کلام الہٰی سے پیدا ہوتاہے ہاں اس کاایمان کا حصہ ضرور ہے جو قرآن سے پیدا ہوتاہے ۔ خُدا کی مہربانی کی نظر اُس د ل پر کبھی نہیں ہوسکتی جس دل میں بغض ہے۔

پھر مقدام ابن معد یکرب سے ابو داؤد اور ترمذی سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے چاہیے کہ ’’ جب کوئی کسی سے محبت کرنا شروع کرے تو پہلے اسے خبر دے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ کچھ بات نہیں ہے وہ سمجھے گا کہ مجھے فریب دیتا ہے بہتر ہے کہ بغیر کہے ہماری محبت کےکاموں سے وہ جانے کہ ہم نے اُس سے محبت شروع کی ہے۔

پھر معاذ بن جبل سے ترمذی کی روایت ہے کہ ’’جو لوگ میر ے جلال کے لئے آپس میں محبت رکھتے ہیں اُن لئے قیامت کے دن نور کے ممبرین رکھے جائیں گے ایسا کہ نبیوں اور شہیدوں کو بھی رشک آئے گا ‘‘ ناظرین ان مبالغوں کو خیال کریں تو یہ ہم مان سکتے ہیں کہ محبت آپس میں رکھنا ضرور اور مفید ہے اور خُدا کےجلال کےلئے اوربھی زیادہ مفید ہے۔ لیکن کیا پیغمبر لوگ اور شہداء اسی محبت سے خالی تھے بالفرض اگر اُن سے زیادہ محبت ان اشخاص میں پیدا ہوگئی تھی توبھی قیامت میں ان کے اجر پر وہ لوگ رشک نہیں کرسکتے کیونکہ بہشت میں رشک نہیں ہے وہ ناپاک دنیا نہیں ہے کہ وہاں بھی حضرت حاسد تشریف لائیں حسد میں دُکھ ہے۔

ابوہریرہ سے مسلم کی روایت ہے کہ ’’ خُدا جب کسی کو پیار کرتاہے تو جبرائیل کو بلا کر کہتاہے کہ میں نے فلاں شخص سے محبت شروع کی ہے توبھی اس سے محبت کر جبرائیل کہتاہے کہ بہت خوب پھر جبرائیل آسمان میں آواز دیتاہے کہ خُدا نے فلاں نے آدمی کو پیار کرنا شروع کیاہے اے آسمان والو تم بھی اُسے پیار کیا کرو۔ اس کے بعد اہل زمین کے دلوں میں اُس کی محبت ڈالی جاتی ہے اور سب آدمی وجن بھوت بھی اسے پیار کرنا شروع کرتے ہیں۔ اور جب خُدا کسی سے دشمنی شروع کرتاہے تو یہی حال اس کا ہوتاہے۔

خُدا ہر گز کے ساتھ دشمنی نہیں کرتا ورنہ آدمی کاپتہ بھی نہ لگے ہاں تنبیہ دیتاہے۔ مثل باپ کے اور آخر تک اس کی بہتری کا بندوبست فرماتاہے اگر وہ خود ہلاکت میں جانا چاہتاہے توجائے لیکن خُدا کی شان یہ ہے کہ وہ کسی کی ابدی موت نہیں چاہتا مگریہ کہ توبہ کرے اور بچ جائیں۔

یہ بات خوب معلوم ہے کہ جس قدر دنیا میں خُدا کے پیارے لوگ پیدا ہوئے ہیں دنیا نے ضرور اُن سے دشمنی کی ہے۔ پر اس محمدی بیان سے لازم آتا ہے کہ جن سے اہل دنیا نے دشمنی کی ہے وہ خُدا کے دشمن تھے اور جنہیں اہل دنیا نے پیا رکیا ہے وہ خُدا کے پیا رے تھے ۔یہ تو صریح باطل ہے سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا اپنوں کو پیار کرتی ہے پر تم دنیا کے نہیں ہو اس لئے دنیا تم سے دشمنی رکھتی ہے ‘‘ عدم مجانست کے سبب سے جو ایماندار اور بے ایمان کی روح میں پیدا ہوجاتی ہے خود حضرت محمد کے لئے ان کے دوستوں کی نسبت دشمن دنیا میں ہمیشہ زیادہ پائے گئے تو کیا یہ اس لئے ہے کہ خُدا اُن سے دشنی رکھتاہے۔ یہ دوسری بات ہے اور وہ دوسری بات ہے۔

پھر حضرت نے فرمایاہے ’’آدمی کو جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑدے‘‘ یعنی اگر غصہ اور لڑائی کے سبب جدائی ہوجائے تو عرصہ تین دن کے درمیان میل کرلینا چاہیے۔

پر انجیل سکھلاتی ہے کہ فوراً میل کرنا چاہیے کیونکہ اسی حالت میں آدمی خُدا سے دُعا اور نماز نہیں کرسکتا ہے بہتر ہے کہ وہ پہلے اپنے مدعی سے میل کرے( متی ۵: ۲۳تا ۲۴) اورپھر لکھاہے کہ’’ غصہ تو ہو پر گناہ نہ کرو ایسا نہ ہوکہ سورج ڈوبے اور تم خفا کے خفار ہو‘‘(افسیوں ۴: ۲۶)۔ مگر محمدی لوگ غصہ دل میں لے کر نماز کرسکتے ہیں اس لئے تین دن کی مہلت ہے عیسائی کو ضرور ہے کہ دلی طہارت کے بعد خُدا کی حضوری میں جائے۔

حضرت نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایاہے مگر تین جگہ جھوٹ بولنا درست بتلایاہے چنانچہ مشکوات باب مایہنی میں اسماء بنت یزید سے احمد وترمذی کی روایت ہے کہ

’’بی بی کے راضی کرنے کو اور لڑائی کے وقت پر اور دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کو جھوٹ بولنا درست ہے‘‘

پر ہم اسے قبول نہیں کرسکتے ہر حال میں سچ بولنا چاہیے۔

اڑتیسیویں فصل

بیماری کے ذکرمیں

مشکوات باب عیادت المریض میں ابن عباس سے بخاری کی روایت ہے کہ جب حضرت کسی بیمار کی خبر لینے جایا کرتے تھے تو فرماتے تھے لاباس طھور ان شا اللہ تعالٰییعنی کچھ خوف نہیں ہے بیماری سے آدمی پاک ہوجاتاہے اگر اللہ چاہے ۔

پھر ابی سعید حذری سے بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ کوئی رنج دکھ اور کوئی فکر اور غم او رایذا جو مسلمان پر آتا ہے خواہ ایک کانٹا ہی کیوں نہ چبہ جائے تو اس کے عوض بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔

یہ بات نہ تو عقل میں آتی ہے اور نہ کلام الہٰی سے ثابت ہے کہ بیماری سے اور ذرا سے دکھ سے یہی گناہ دفع ہوجائیں البتہ یہ قیاس میں آتا ہے جو خُدا کے کلام سے ثابت ہے کہ اکثر تکلیفات گناہوں کے سبب سے آتی ہیں تب وہ گناہوں کا وبال ہیں نہ گناہوں کے ذریعہ کا باعث ہیں۔

البتہ ان تکلیفات سے جو گناہوں کا وبال ہیں اگر آدمی تنبیہ پائے اور توبہ کرکے اپنی چال سدھارے اور ایمان میں مضبوطی حاصل کرے تو اُن سے صرف یہی نیک نتیجہ نکل آتاہے کہ اس کی چال سدھر گئی اورایمان سیج(بستر) پر درستی سے قائم ہوگیا تو اب پاکیزگی اور مخلصی گناہوں سے بوسیلہ مسیح کے ہوجاتی ہے اور جو چال نہ سدھری تو تکلیفات محض دکھ ہیں اور آخر کو ابدی سزا ہے۔

ہاں یہ جو حضرت نے بیمار پرُسی کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق بتلایاہے درست بات ہے اوراس میں ضرور خُدا کی رضا مندی ہے کہ بیماروں کی خبر لی جائے تو بھی حضرت کی تعلیم میں اس قدر نقص ہے کہ مسلمان کی خبر لینا مسلمان پر واجب ہے نہ یہ کہ سب کی خبر لینا خواہ مسلمان ہو یا کا فر بلکہ حضرت محمد نے منکر ان تقدیر کی بیمار پُرسی کرنے سےمنع فرمایا ہے ۔

سیدنا مسیح نے ہمیں یوں سکھلایا ہے کہ حتی المقدور سب کی خبر لو اور سب کے ساتھ نیکی کرو اگر تم صرف اپنوں کے ساتھ بھلائی کرو تو تم نے کیا زیادہ کیاخراج گیر بھی ایسا کرتے ہیں۔

انتا لیسیوں فصل

دوا کے ذکر میں

حضرت نے بیمار کےلئے دوا اور دُعا ہر دوکام کرنے کاحکم دیاہے یہ تعلیم درست ہے اور سب پیغمبروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور عقل ِعام اور عقلِ خاص بھی یہی چاہتی ہے اور سب لوگ ایسا ہی کرتے بھی ہیں۔ پر حضرت کی اس تعلیم میں ایک اور غلطی ہے وہ یہ ہےکہ حضرت نے خود طبیب ہوکے معالجے بھی سکھلائے ہیں حالانکہ علم ِطب سے حضرت بالکل ناواقف تھے۔

ایک کتاب طب ِنبوی نام مسلمانوں میں جاری ہے اوراُس کے موافق معالجہ کرنا سنت جانتے ہیں ۔البتہ عقلمند مسلمان اُس پر بھروسہ نہیں رکھتے ہیں توبھی بعض متشرع لوگ اُس کے موافق کام کرکے ہلاکت میں پڑتے ہیں۔

مشکوات باب الطب میں حضرت کی حکمت اور معالجے لکھے ہوئے ہیں اور وہ بطور نمونے کے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔

فرمایا حضرت نے تین چیزوں میں شفا ہے ۔ سینگی یا پچہنی لگانا۔ شہد پینا ۔ آگ سے داغ دینا۔

پھر فرمایا حضرت نے کہ موت کے سوا ہر بیماری میں کالا دانہ مفید ہے۔

اورایک شخص کو جسے دست آتے تھے حضرت نے تاکیداً چار دفعہ شہد پلایا تھا۔

اور قسط بحری یعنی کٹ کو بھی حضرت نے مفید بتلایاہے۔

اور فرمایا حضرت نے بخار اور تپ دوزخ کی بھانپ ہے اس کو پانی سے سرد کرو اور جب حضرت کا انتقال ہوا تھا تو بڑی سخت تپ حضرت کو چڑھی تھی اور حضرت خود پانی سے اسے ٹھنڈا کرتے تھے۔

عقُبہ کی حدیث میں ہے کہ فرمایا حضرت نے بیماروں کو کھانا کھانے کی تاکید نہ کیا کرو کیونکہ خُدا اُنہیں کھانا اور پانی دیا کرتا ہے۔

غرض ایسے ایسے معالجے لکھے ہیں اوران معالجوں سے حدیثوں پر چلنے والے لوگ عمل کرکے دکھ میں اور دیدہ ودانستہ پڑ جاتے ہیں۔

پیغمبروں کی کتابوں میں جسمانی علاجوں کاذکر نہیں ہے ہاں کبھی کبھی معجزہ کے طورپر کچھ بیان ہے پر کوئی مومن اُسے علم طب کا معالجہ نہیں جان سکتا ہے جیسے محمدی طب کومعالجہ جانتے ہیں۔

خُدا کےکلام میں روحانی امراض کا علاج مذکور ہے پر جسم کی صحت کےلئے طبیبوں کا علاج ہے جو تجربات سے اُنہوں نے حاصل کیاہے ۔

اگر حضرت محمد بگمان اہلِ اسلام کے علمِ لدنی رکھتے تھے اور اُسے علمِ لدنی سے علمِ طب میں بھی دخل دیاہے توظاہر ہے کہ یہ اُن کا دخل اس فن میں محض نادرست نکلا ہے اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ جب دنیاوی باتوں میں اُن کی سمجھ درست نہ نکلے تو آسمانی باتوں میں اور عبادات وعقائد میں اُن کا یقین کس طرح کرسکتے ہیں۔

چالسویں فصل

تلقین کے ذکر میں

جب موت نزدیک آتی ہے تو مسلمان لوگ بیمار کو کلمہ کی تلقین کرتے ہیں اور سورہ یاسین اسے پڑھ کر سناتے ہیں جس میں کچھ ذکر سیدنا مسیح کے شاگردوں کا ہے کہ انہوں نے خُدا کےرسول ہوکے اہل انطاکیہ کو کس طرح جاکے خوشخبری سنائی تھی ۔ یہ تو مناسب ہے کہ بیمار کو تلقین کی جائے پر حضرت محمد نے کلمہ کی تلقین کا حکم دیا ہے اور عربی زبان میں ایک فقرہ ہے جس کا نام انہوں نے کلمہ رکھا ہے پر حقیقی کلمہ سے ناواقف ہیں جو سب کی زندگی کا باعث ہے جس کا ذکر (یوحنا ۱: ۱) میں ہے اور وہ سیدنا مسیح ہے جو ایک شخص ہے اور خُدا ہے اور حضرت نے قرآن میں اُس کی نسبت یوں کہا ہے کہ عیسیٰ مسیح خُدا کاکلمہ ہے جسے خُدا نے مریم میں ڈالا تھا۔ پس ہم عیسائی اس حقیقی کلمہ کی تلقین کرتے ہیں جس میں زندگی ہے پر حضرت اُس کلمہ کی تلقین کراتے ہیں جن پر فصل اوّل باب اوّل میں بحث ہوچکی ہے اور حضرت سورہ یاسین پڑھواتے ہیں جس میں ہم کوئی تسلی کی بات نہیں پاتے پر عیسائی لوگ خُدا کے کلام میں اُسی مرنے والے کی زبان میں کوئی باب تسلی بخش نکال کے سناتے ہیں اور اُسے نصیحتوں سے اُبھارتے ہیں کہ سچی توبہ کرکے ایمان کے ہاتھ سے حقیقی کلمہ کا دامن پکڑلے تاکہ ابدی زندگی پائے۔

اکتالیسیویں فصل

تکفین وتجہیز کے ذکر میں

غسل دینا اُن کی تعلیم میں فرض ِکفایہ ہے اورپانی میں بیری کے پتے جوش دے کر اس سے نہلاتے ہیں اور خوشبو بھی لگاتے ہیں اور تین کپڑے دیتے ہیں لنگی کفن پوٹ کی چادر۔

اس معاملہ میں سب سے اچھا دستور یہودیوں کا ہے اوراسی طور سے سیدنا مسیح بھی کفنائے گئے تھے۔

ہم عیسائيوں میں دستور ہے کہ مردہ کو صاف پانی سے غسل دے کر اُس کی صاف پوشاک اُسے پہناتے ہیں اور جیسی خوشبو میسر آسکے اُسے معطر بھی کرتے ہیں پھر ایک صندوق میں جو اُس کے قدکے برابر بنایا جاتاہے اُسے لٹاتے ہیں گویا آرام سے سوتاہے اور صندوق کو بند کرکے بعد نماز کے قبر میں دفن کردیتے ہیں اس اُمید پر کہ سیدنا مسیح کے وسیلہ سے مُردوں کی قیامت ہوگی اور اس وقت یہ شخص بھی اٹھے گا۔

وہ جو مرگیا ہے اس جہان سے چلا گیا اُس کا بدن جو مٹی ہے اُسے آراستگی یا عدم آراستگی سے کچھ فائدہ یا نقصان نہیں ہے مگر محبت والفت کے سبب اوراس خیال سے کہ اُس کی مٹی خراب نہ ہو مناسب جانتے ہیں کہ درستی سے عزت کے ساتھ مدفون کیا جائے سو ایسی اچھی طرح سے کرتے ہیں جو سب لوگ جانتے ہیں اس معاملہ میں بھی عیسائیوں کا دستور بہتر ہے۔

بیالیسویں فصل

مشے ونماز وتدفین کا ذکر

مشے چلنا ہے حضرت نے حکم دیاہے کہ مرُدوں کے ساتھ تعظیم سے چلو اور کلمہ پڑھتے جاؤ نہ آواز سے پر آہستہ آہستہ اور جماعت کرکے اُس پر نماز پڑھو۔

یہ مقام بڑی عبرت کا ہے چاہیے کہ خُدا کے خوف کے ساتھ اپنے مرنے کا دن بھی یاد کرکے ادب کے ساتھ مردہ کو دفن کرنے جائیں ۔ مگر کلمہ پڑھتے جانے میں ہمیں کچھ فائدہ معلوم نہیں ہوتا ہے اس لئے عیسائی لوگ کوئی خاص الفاظ نہیں پڑھتے ہیں مگر طرح طرح کے خیالات مفیدہ ذہن میں ہوتے ہیں ۔دنیا کی ناپائداری کی بابت عدالت الہٰی کی بابت اپنے چلن کے بابت وغیرہ آدمی آزاد ہیں جو چاہیں سوچیں پر مفید باتیں سوچیں جو اُن کی روح کی سلامتی کا باعث ہوں۔

مُردہ کی نماز جو محمدیوں میں ہے اور حضرت نے سکھلائی ہے وہ بالکل مفید نہیں ہے صرف ایک جماعت کھڑی ہوئی نظر آتی ہے اور لفظ اللہ اکبر کا بھی کان میں آجاتا ہے پر وہ دُعا جو امام چپکے چپکے اپنے دل میں پڑھ لیتاہے کوئی نہیں سن سکتا کیونکہ وہ آواز سے پڑھی نہیں جاتی ہے۔ اور اگر آواز سے پڑھی بھی جاتی توبھی مفید نہ تھی کیونکہ اُس کا مطلب نہائت مختصر ہے ۔صرف یہ کہ اے خُدا مجھے بخش دے اوراس مردہ کو۔ مرُدہ کی نماز کا دستور جو ہماری نماز کی کتاب میں لکھا ہے اور خُدا کے کلام کے موافق ہے اگر کوئی چاہے تو کتاب نماز میں نکال کے دیکھے کہ وہ بیان تسلی بخش عقائد الہٰامیہ سے بھر پور اور نصیحت کے لئے بہت ہی اچھا ہے جس سے ایماندار آدمی کی آنکھیں زيادہ روشن ہوجاتی ہیں۔مردہ کی نماز سے صرف یہی فائدہ ہے کہ زندگان کو اچھی طرح سے عبرت حاصل ہو اور قیامت وعدالت اورابدی زندگی اور ابدی موت کی بابت فکر کریں سو یہ بات صرف اسی ترتیب سے جو مسیحی لوگوں میں جاری ہے حاصل ہوتی ہے۔

تینتالیسویں فصل

دفن کا دستور

لحد: اس قبر کو کہتے ہیں جس میں بغلی کھودی جاتی ہے اور شق وہ قبر ہے جس میں سیدھا گھڑا ہوتاہے حضرت محمد لحد کو پسند کرتےہیں پر شق کو پسند نہیں کرتے ہیں البتہ اگرآدمی صندوق میں دفن نہ کیا جائے تو اُس کے لئے لحد اچھی ہے۔عیسائيوں میں شق کھودنے کا دستور ہے اس لئے کہ اُن کے واسطے لحد سے بہتر چیز صندوق ہے۔

پھر حضرت محمد قبر کو اونٹ کی کمر کی مانند اونچا بنانا پسند کرتے ہیں نہ سطح اوراُس پر چونا لگانا بھی منع کرتے ہیں اور صرف کچے گارے سے لیپی ہوئی قبر رکھنا موجب ثواب بتلاتے ہیں۔ پر اکثر مسلمانوں نے اس تعلیم پر عمل کرنا چھوڑدیا ہے اور وہ ہزارہا قبریں چونے سے تیار کراتے ہیں۔

قبر ایک نشان ہے اس بات کا کہ یہاں فلاں شخص کی لاش دابی گئی ہے آدمی کی خوشی ہے جس طرح کا نشان چاہے بنائے خواہ پائداری کے لئے کوئی پتھر لگائے یا چونا ہمارے خیال میں اور خُدا کے کلام میں ایسی باتوں کے لئے کچھ ثواب وعذاب کا معاملہ نہیں ہے۔ عیسائی لوگ قبروں کی آراستگی محض محبت کے سبب سے اچھی طرح سے کرتے ہیں اوراُس کے اوپر کچھ لکھ بھی دیتے ہیں جس سے پڑھنے والوں کو اکثر فائدہ ہوتاہے۔

چوالیسویں فصل

قبرستان کے بیان میں

حضرت کے خیال میں بعض مقامات مقدس اورمبارک ہیں وہاں دفن ہونا اُن کے گمان میں اچھاہے۔ پر ہم لوگ اس اصول ہی کے قائل نہیں ہیں کیونکہ خُدا کا کلام اور عقل انسانی ہمیں اس بات کا قائل ہونے نہیں دیتی ہے۔

مشکوات باب حرم المدینہ میں لکھاہے کہ

’’فرمایا حضرت نے جوکوئی مکہ یا مدینہ میں مرجائے قیامت کے دن امن پانے والوں کے ساتھ اٹھے گا‘‘۔

ہمارے خیال میں یہ بات نہیں آسکتی کہ کوئی جگہ مردہ کے لئے فائدہ بخش زیادہ ہو انسان کےلئے صرف صحیح ایمان مفید ہے وہ کہیں مرجائے اورکہیں گاڑا جائے خواہ کاشی میں یا دوار کا میں یا متھرا میں یا ہمالیہ میں یا مکہ میں یا مدینہ میں صرف ایمان سے بچے گا اوربے ایمانی سے ہلاک ہوگا۔

مولوی ثنا اللہ قاضی پانی پتی نے جو عربی کے بڑے فاضل مشہور ہیں اپنی کتاب تذکرہ الموتیٰ میں لکھاہے کہ

’’بد آدمی کی قبر کے پاس مُردہ کو دفن کرنا نہ چاہیے کیونکہ بد مُردہ اپنے ہمسائے کے مردے کو تکلیف دیا کرتاہے۔ روائت ہے کہ ایک آدمی مدینہ میں مرگیا تھا اور دفن کیا گیا کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ عذاب میں ہے پھر ہفتہ کے بعد لکھا کہ عذاب جاتا رہا جب پوچھا گیا کہ عذاب کس طرح موقوف ہوا اُس نے کہاکہ میری قبر کے پاس ایک نیک آدمی گاڑا گیا ہے اُس نے چالیس مردوں کو جو ہمسائے تھے بخشوالیا ہے‘‘۔

اسی خیال سے اہل اسلام اپنے مردوں کو سیدوں اور مولویوں اور فقیروں اور حافظوں وغیرہ کے ہمسایہ میں گاڑنا بہتر جانتے ہیں بلکہ بعض مشہور اولیاؤں کی خانقاہ کے احاطہ میں بڑی قیمت سے قبریں خریدتے ہیں ۔

خُدا کاکلام ہمیں یہ سکھلاتا ہے کہ ایماندار کی روح ابراہیم کے پاس آرام میں چلی جاتی ہے اور شریر کی روح اندھیرے میں رہتی ہے۔ بدن خاک ہے اُسے قبر میں کچھ تکلیف نہیں ہے مٹی کو مٹی کیاتکلیف دی گی۔ یہ بہت پرانا خیال ہے ہندو مسلمانوں اور یہودیوں وغيرہ لوگوں میں پایا جاتاہے کہ بعض مکانات متبرک ہیں ۔مگر کلامِ الہٰی سے اور عقل سے اس کا ثبوت نہیں ہے ساری زمین برابر ہے کہیں دفن کرو نجات اورحقیقی آرام صرف سیدنا مسیح سے پاتے ہیں۔

لوگ قبرستان کے لئے احاطے بناتے ہیں اور زمین تجویز کرتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ایک ٹکڑا زمین کا اس کام کےلئے جدا ہوئے سو یہ اچھی بات ہے محمدی بھی ایسا کرتے ہیں اور عیسائی اُن سے زيادہ اچھی طرح اس کا بندوبست کرتے ہیں۔

پینتالیسویں فصل

قبر کے اندر کا احوال

اگرچہ یہ بیان عقائد میں داخل ہے پر یہاں معاملات میں فصل گذشتہ کے ساتھ علاقہ کے سبب سے بیان کیا جاتاہے۔

حضرت کی تعلیم سے معلوم ہوتاہے کہ قبر کے اندر کئی ایک باتیں واقع ہوتی ہیں۔

اوّل تاثیر تلقین: ابو امامہ سے غنیتہ الطالبین میں روايت ہے کہ

’’فرمایا حضرت نے کہ مردہ دفن کرکے جب سب لوگ چلے جایا کریں تو چاہیے کہ ایک مسلمان وہاں رہ جائے اور قبر کے سرہانے کھڑا ہوکے اُس مردہ کو پکارے کہ اے فلاں شخص تب وہ قبر میں فوراً اٹھ بٹھے گا پس اسے کہنا چاہیے کہ کہہ اللہ سے اوراسلام سے اورمحمد سے اور کعبہ سے اور قرآن سے میں راضی ہوں تب فرشتے کہتے ہیں کہ اب اس سے کیا سوال کرنا ہے سب جواب تو اسے سکھلائے گئے اس لئے وہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں‘‘۔

اس روائت پر کہیں کہیں عمل ہوتاہے ۔ یہ بات کس کی عقل قبول کرسکتی ہے کہ مُردہ قبر میں جی اٹھتاہے اور صدہا من مٹی کے نیچے دبا ہوا باتیں سنتا ہے۔

دوممنکر نکیر کی آفت ہے۔ حضرت نے سکھلایا کہ منکر نکیر دو فرشتے ہیں ہر مردہ کے پاس قبر میں آتے ہیں اور مرُدہ کو اٹھا کے بٹھلاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں اگر وہ نبوت محمد کی اقرار کرے تو چھوڑدیتے ہیں ورنہ لوہے کی موگری(کوٹنے کا آلہ) سے مارتے ہیں ایسا کہ اُس کا سر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتاہے پھر سر جوڑدیتے ہیں پھر موگری مار کے توڑتے ہیں اس کے بعد شریر کے لئے دوزخ کی طرف سے اورنیک کے لئے بہشت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول کے اس کو آرام سے سلاتے ہیں۔

یہ بات محض دہشت کی ہے اور جاہل آدمیوں کوڈرا کے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہم اس بات پر ہر گز یقین نہیں کرسکتے ہاں شریروں کو عذاب اور دکھ ہوتاہے پر روح کو ہوتا جہاں روح گئی ہے قبر کے اندر کچھ نہیں ہوتا ہے۔

سوم ضفطہ قبر ہے۔ ضفطہ کےمعنی ہیں دبانا یعنی قبر آدمی کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی ہڈیاں توڑ ڈالتی ہے اور زمین یوں کہتی ہے کہ تو میرے اوپر چلتا تھا آج تجھے میں دباؤں گی۔

کہتے ہیں کہ سعد بن معاذ کو جو بڑا بزرگ اصحاب حضرت کا تھا اور جس کے مرنے کے وقت خُدا کا تخت بھی کانپ اٹھا تھا اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازہ کے ساتھ چلے تھے اس کو ضفطہ ہوا تھا اور زینب ورقبہ حضرت کی بیٹیوں کو بھی ضفطہ ہوا تھا۔

چہارم۔ حضرت محمد نے سکھلایا ہے کہ مُردے قبروں میں پڑے ہوئے باہر والوں کی آواز سنا کرتے ہیں اور دیکھا بھی کرتےہیں۔

عائشہ کی روايت ہے کہ جب تک عمر خلیفہ حضرت کے مقبرہ میں مدفون نہ ہوئے تھے ۔ عائشہ کہتی ہے کہ میں کھلے منہ حضرت کی قبر پر جایا کرتی تھی کیونکہ پہلے وہاں صرف حضرت کی اور ابوبکر کی قبر تھی پر جب عمر مدفون ہوئے جو غیر شخص تھے اُن کے لحاظ سے اب عائشہ برقعہ اوڑھکے جانے لگیں اس لئے کہ حضرت نے اپنی زندگی میں زور کے ساتھ یہ تعلیم دی تھی کہ مُردے قبروں میں دیکھتےہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ دیکھنا اور سننا یہ روح کے ساتھ ہے اورمٹی میں کوئی حس نہیں ہے پھر کیوں کر یقین کریں کہ مُردے دیکھتے سنتے ہیں ۔پس یہ چار باتیں ہر گز قبولیت کے لائق نہیں ہیں اب کیا یہ تعلیم خُدا سے ہے ہر گز نہیں یہ تو عقل سے بھی نہیں ہے مگر ناواقفی کے انبار میں سے ہے یہ معلم جب ہمارے بہت ہی نزدیک کے واقعات میں ایسی غلطی سے تعلیم دیتا ہے تو عالم بالا کی بابت اس نے فصیح تعلیم کب دی ہوگی۔ پس کیوں کر اس شخص کے ہاتھ میں اپنی روح کو سپرد کریں۔

چھیالیسویں فصل

انبیاء و اولیاء کے جسم کی بابت

تذکرہ الموتی کتاب کی آخری فصل میں ہے کہ فرمایا حضرت محمد نے انبیاء واولیاء کے بدن قبر میں سڑتے گلتے نہیں ہیں جس طرح سے مدفون ہوئے ہیں اُسی طرح سے زمین میں سلامت ہیں۔

یہ تعلیم حضرت کی صحیح نہیں ہے کئی وجہ سے اوّل آنکہ قیاس قبول نہیں کرتا کہ بدوں کسی مصالح کے آدمی کا مُردہ بدن قبر میں سلامت رہے اور مٹی نہ ہو اور نہ کبھی یہ بات کسی کی تجربہ میں آئی ہے بلکہ برخلاف اس کے ظاہر ہوا ہے یوسف پیغمبر تھا مصر سے اُس کی ہڈیاں کنعان میں آئی تھیں بدن ثابت اور سلامت نہ تھا(خروج ۱۳: ۱۹) اور داؤد پیغمبر کی قبر بے عزتی کے ارادہ سے ایک دفعہ ہیرودیس بادشاہ نے کھلوا ڈالی تھی اُس کی لاش بھی سلامت نہ پائی گئی تھی اور (اعمال ۲: ۳۹) میں داؤد کی نسبت لکھاہے کہ اُس نے سڑن دیکھی ۔

دوئم آنکہ (۱۔سلاطین ۲: ۱۔۲) داؤد خود فرماتاہے کہ میں تمام جہان کے لوگوں کی راہ جاتا ہوں (ایوب ۱۹: ۲۶) میں ایوب پیغمبر کہتاہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گوشت کو کیڑے کھاجائيں گے اورسب پیغمبر ایسی باتیں بولتےہیں اور مقدسین اسی طرح کا خیال رکھتےہیں پھر یہ خیال حضرت محمد کو کیوں کر قبول ہوسکتاہے جو صریح غلط ہے۔

البتہ ایک شخص ہے جس کا نام سیدنا عیسیٰ مسیح ہے وہ بھی موا تھا اُس کے بدن نے سڑ ن نہیں دیکھی اور وہ تین دن سے زيادہ میں بھی نہیں رہا جو اب آسمان پر زندہ موجود ہے اورہر جگہ حاضر وناظر ہے خُدا ہوکے۔

ہاں مسیح کے جی اٹھنے کے بعد بہت سی لاشیں مقدسوں کی جو آرام میں تھیں قبروں سے اٹھیں اور بہتوں کو نظر آئیں (متی ۲۷: ۵۳) ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پہلے سے قبروں میں سلامت تھیں اُن کی روحیں خُدا کے پاس تھیں اور بدن اُن کے قبروں میں مٹی ہوئے پڑے تھے جب سیدنا مسیح جو کلیسیا کا سر ہے جی اُٹھا اور قیامت کا پہلا پھل ہوا تو اُس نے یروشلیم کے مقدسوں کے بدنوں کو بھی جو خاک تھے زندگی بخشے اورانہیں کی روحیں اُن میں ڈالیں اور انہیں اٹھایا یہ نشان دکھلانے کو کہ قیامت اور زندگی سیدنا مسیح ہے۔ قیامت کا شروع اُس سے ہوگیا ہے۔ وقت آئے گا کہ وہ اسی طرح سب مردگان کو زند کرے گا پس یہ اوربات ہے۔

پھر اُسی تذکرہ الموتی میں لکھا ہے کہ پیغمبر لوگ قبروں کے اندر نماز پڑھا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے ۔بےجان مٹی جس میں نہ فہم ہے نہ حس وحرکت ہے کیوں کر نماز پڑھتی ہے اورالبتہ روحیں پیغمبروں کی اور سب مقدسوں کی خُدا کی تعریف کرتی ہیں کیونکہ وہ زندہ ہیں پر وہ قبروں میں نہیں ہیں اور داؤد پیغمبر اُن کے بدنوں کی نسبت کہتاہے کہ’’ مُردے خُدا کی ستائش نہیں کرتے ہیں‘‘۔

یہ تعلیم حضرت کی مقدس لوگ اور پیغمبرقبروں میں رہتے ہیں اور دیکھتے وسنتے ہیں درست نہیں ہے اور اسی تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ اہل اسلام نے قبروں کی زیارت اوراُن سے دُعا مانگنا اوروہاں میلے کرنا شروع کیا ہے اور محض بُت پرستی کی حالت میں ایک فرقہ اہل اسلام کا جا پڑا ہے جن کو لوگ بدعتی کہتے ہیں پر وہ بدعتی کیوں کر ہیں وہ تو محمدی تعلیم کے موافق کام کرتے ہیں میرے گمان میں بدعت کا الزام اس فرقہ پر اس قدر عائد نہیں ہوسکتا ہے جس قدر حضرت پر اس تعلیم کا الزام عائد ہے۔

سینتالیسویں فصل

مرنے کا اچھا وقت

اسی تذکرہ الموتی میں دیلمی سےعائشہ کی روایت ہے کہ فرمایا حضرت نےجو کوئی جمعہ یا جمعرات کو مرے گا اُسے قبر میں عذاب نہ ہوگا اور قیامت میں بعلامت شہداء وہ اٹھے گا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی ماہ رمضان میں یا عرفہ کے آخر میں مرے گا تو بہشت میں جائے گا ۔ یا کوئی نیک کام کرتاہوا مرے گا مثل صدقہ یاروزہ یا جہاد یا حج یا عمرہ وغیرہ کرتا ہوا۔

یہ بات خیال میں نہیں آتی کہ ایک آدمی کو جمعہ کے دن مرنے سبب سے ثواب ملے اور دوسرے کو منگل کے روز مرنے سے اُس ثواب سے محروم رہنا پڑے۔ مرنا آدمی کے اختیار میں نہیں ہے جب عمر تمام ہوئی فوراً مرجاتاہے پس امور غیر اختیار پر یہ عذاب وثواب کا مرتب ہونا عقلاً ونقلاً ناجائز ہے۔ ہاں اگرایک نیک کام زندہ ایمان کی تاثیر سے کرتا ہوا کوئی مرجائے تو بظاہر اچھی علامت ہے پر سب کےدلوں اور گردوں کا حال خُدا جانتا ہے۔

حاصل کلام آنکہ نہ کسی وقت پر اورنہ کسی مقام پر اور نہ کسی کپڑے اور تبرک کی چیز پر اورنہ کسی عمدہ مقبرہ کے احاطہ میں دفن ہونے سے کچھ فائدہ ہے مگر صرف صحیح ایمان پر جو بموجب کلامِ الہٰی کےہو آدمی نجات پائے گا اس اچھے اصول سے ہم ہر گز نہیں ہٹ سکتے ہیں اورنہ اس میں کوئی اوربات داخل کرسکتے ہیں ورنہ تمام سلسلہ انبیاء کے برخلاف ہونے پڑے گا اور حضرت محمد ایسا ہی کرتے ہیں۔

اڑتالیسویں فصل

قبروں کی زیارت کے بیان میں

حضرت نے شروع میں تو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا مگر اُس کے بعد حکم دیاکہ قبروں کی زیارت کیا کریں اور قبروں پر جاکر مُردوں سے کہیں السلام علیکم یا اہل القبور اے قبروں میں رہنے والوتم پر سلام۔ اوراُن کے واسطے دُعا کریں اور قرآن کی عبارتیں پڑھ کر انہیں ثواب بخشیں۔

یہ تعلیم کہ قبروں میں جایا کریں ایک اور مطلب سے اچھی بات ہے کہ اپنی موت یادآتی ہے اوراپنے احباب رخصت شدہ کی محبت کا نشان ہے اور خُدا کا خوف دنیا کی ناپائداری دل پر تازہ ہوتی ہے۔ مگر اُن کے لئے دُعا سے کچھ فائدہ نہیں ہے اُن کا حصہ دنیا سے جاتا رہا جیسی کرنی ویسی بھرنی اُن کےلئے ہے اور خُدا کے کلام میں کہیں اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ مرُدوں کے لئے دُعا چاہیے یہ تو آدمی کی ایجادی باتیں ہیں۔

پر اُنہیں سلام علیک کرنا گویا کہ وہ حاضر ہیں اور سنتے اوردیکھتے ہیں یہ بات خاص محمدی اُصول پر مبنی ہے عقل اورکلام سے اس ثبوت نہیں ہے۔

حضرت نے اپنی قبر کی زیارت کا بھی حکم دیا ہے چنانچہ مظاہر الحق باب حرم المدینہ کی فصل ثالث میں لکھاہے من حج فزار قبری بعد موتی کا ن کمن زارنی فی حیاتی یعنی کعبہ کے حج کے بعد اگر کوئی آدمی میری قبر پر زیارت کرنے آئے گا تو ایسا ہوگا جیسے مجھ سے زندگی میں ملا۔

اورایک روائت میں ہے جس نے حج کیا لیکن میری قبر پر نہ آیا وہ ظالم ہے۔

اورایک روائت میں ہے کہ جوکوئی بعد حج کے میری قبر پر آیا اُس کو دو حج کا ثواب ملتاہے۔

حضرت محمد اپنی قبر پر لوگوں کو آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ خُدا کے پیغمبروں نے کبھی ایسا نہیں کیا سب پیغمبر لوگوں کو ایمان کے وسیلہ خُدا کی طرف بھیجتے ہیں اپنی طرف ہر گز نہیں بلاتے سیدنا مسیح اپنی طرف سارے جہان کو بلاتا ہے اس لئے کہ سارے جہان کا خُدا ہے پر حضرت کا مزاج ہم ویسے ہی پاتے ہیں جیسے اور لوگوں کے مزاج ہیں جو اپنی عزت کے طالب ہیں۔

انچاسویں فصل

روح کہاں جاتی ہے

تذکرہ الموتی میں قاضی ثنا اللہ نے اس امر کی تحقیقات میں کہ آدمی کی روح کہاں جاتی ہے قرآن حدیث سے بڑی فکر کے ساتھ بہت سا بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔

دومکان ہیں ایک نام سبحین ہے عربی میں سبحن جیل خانہ کو کہتے ہیں پس سبحین مبالغہ کے ساتھ بڑا جيل خانہ کافروں کی روحیں اس میں قیدرہتی ہیں۔

دوسرا مکان علیین ہے علیتہ کی جمع ہے بمعنی اونچی کھڑکیا ں یعنی بہشت وہاں مسلمانوں کی روحیں جاتی ہیں۔

ابوداؤد وغیرہ نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ فرمایا حضرت نے کہ بہشت میں ایک پہاڑ ہے وہاں پر مسلمانوں کے بچوں کی روحیں جاتی ہیں اورابراہیم وسارہ وہاں اُن کی پرورش کرتے ہیں جب قیامت آئے گی تو وہ اُن بچوں کو اُن کے والدین کے سپرد کردیں گے۔

یہ باتیں کلام کے چنداں خلاف نہیں ہیں حضرت نے یہ باتیں عیسائیوں سے معلوم کرکے اپنے طورپر بیان کی ہیں اور ابراہیم کے گود میں جانے کا ذکر (لوقا ۱۶: ۲۲) میں ہے تو بھی حضرت کے بیان میں کچھ زیادتی ہے جوثبوت کی محتاج ہے اور علیین وسبحین کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ضرور دومکان ہیں جہاں دو قسم کی روحیں رہتی ہیں۔

پھر خالد بن معدان کی روائت ہے کہ وہ بچے درخت طوبیٰ سے شیر پیا کرتے ہیں۔ شرودنیا میں بچوں کے ناتواں جسم کی پرورش کا وسیلہ ہے نہ روحوں کی سو جسم اُن کے خاک ہوگئے ہیں پر روح کی غذا چاہیے جس سے ابد تک روح جئے سو یہ خُدا سے ہے نہ بشر سے۔

مکحول کی روائت ہے کہ مسلمانوں کے بچے بشکل چڑیا بہشت میں اڑتے ہیں اورخاندان فرعون کے بچے ایک سیارہ رنگ پرندہ کے موافق ہیں جو صبح وشام دوزخ کے سامنے لائے جاتے ہیں۔

یہاں کچھ حیرانی ہے کیونکہ محمدی لوگ کل بچوں کی عصمت کے قائل ہیں پھر فرعون کے بچوں کو تکلیف کی وجہ کیاہے۔

بعض حدیثوں میں ہے کہ مسلمانوں کی روحیں مثل جانور کے بہشت کے درختوں پر اُڑتی ہیں قیامت کے دن بدنوں میں آئیں گی ۔ مگر شہیدوں کی روحیں ایک سبز جانور کے شکم میں داخل ہوتی ہیں اور وہ جانور بہشت کی نہروں کے کنارہ چرتے ہیں لیکن رین بسیرے کے وقت اُن قندیلوں کے درمیان جو الہٰی تخت کے نیچے آویزاں ہیں آکر بسیرا کرتے ہیں۔

اس معاملہ میں صرف ہم اتنا کہے سکتے ہیں کہ اُس نادیدنی جہان کی باتیں بغیر ثبوت رسالت کے حضرت کی زبانی کیوں کر قبول کی جاسکتی ہیں اوراُن کے مبالغے جو اُن کے بیان میں ہیں ان باتوں کا یقین دل میں پیدا ہونے نہیں دیتے ہیں۔ خُدا کا کلام یہ سکھلاتاہے کہ ضرور مقدسوں کی روحیں خُدا کی حضوری میں نہائت خوش ہیں اور اُنہیں کچھ درد ودکھ نہیں ہے خُدا کی ستائش اوراس کا دیدار اُن کی غذا ہے قیامت کے روز سب اپنے بدنوں میں آئیں گی اوراُن کےبدن نورانی ہوں گے اور وہ ابد الاباد خُدا کے ساتھ خوشی میں رہیں گے۔

پچاسویں فصل

بچوں کی موت سے والدہ کو اجر ملنا

مشکوات باب البکا میں مسلم سے ابوہریرہ کی روایت ہے

’’فرمایا حضرت نے جس عورت کے دویا تین چھوٹے بچے مرجائیں اورماں صبر کرے تو وہ بہشت میں جائے گی‘‘۔

اور صبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے صدمہ پر صبر کرے نہ آنکہ بتدریج صبر آئے۔

خُدا کلا کلام کہتاہے کہ بچے خُدا کی بخشش ہیں۔ اورجیسے خُدا سب کا مالک ہے بچوں کا بھی مالک ہے جب تک چاہے کسی کو دنیا میں رہنے دے جب چاہے بلالے۔ پس کسی کا مرنا جینا آدمی کے بہشت میں جانے کا باعث نہیں ہے صرف مسیح کا مرنا ہمارے گناہوں کو مارتاہے اور اس کا جینا ہمارے اندر الہٰی زندگی داخل کرتاہے۔ البتہ صبر کرنا ہر مصیبت میں مفید ہے جو آدمی کے دل کو سدھارتاہے اوراُس کا بھروسہ جو خُدا پر ہے اس کا ثبوت دیتاہے۔

اکاون فصل

مُردوں پر رونے کے بیان میں

حضرت نے مُردوں پر نوحہ کرنے کومنع کیا ہے مگر رونے سے منع نہیں کیا ہے اور بعض مقام پر حضرت خود بھی روئے ہیں۔

چیخیں مارنا اور بیان کر کر رونا اورحلقہ بندی کرنا اور کپڑے پھاڑنا اور چھاتی پیٹنا یہ نوحہ ہے۔

یہ تعلیم درست ہے اور سب ایماندار اور داناآدمی بھی ایسا کرتےہیں۔

پھر حضرت نے پیشینگوئی بھی کی ہے کہ اگرچہ ایسے رونے سے منع کئے گئے ہیں توبھی میری اُمت کے درمیان سے ایسا رونا دفع نہ ہوگا۔ اوریہ پیشگوئی سچ بھی نکلی ہے جو فراست سے تھی کہ اب تک اہل ِاسلام بُری طرح سے روتے ہیں۔

اس درد کے ضبط کی طاقت انسان میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب اس کا صحیح ایمان کامل ہو اوراس کی اُمید خُدا کے وعدوں پر بھروسہ رکھے۔

حضرت کی شریعت آدمی کے دل میں سچے اور زندہ اُمید پیدا نہیں کرسکتی ہے ۔اگرچہ قیامت اور بہشت کے وہ قائل ہیں پر قیامت کاثبوت جیسا مسیح کی انجیل میں ہے ساری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ سیدنا مسیح کا جی اُٹھنا قیامت کا کامل ثبوت ہے جس کے حضرت خود منکر ہیں۔ اس لئے مسیحی شریعت آدمی کے دل میں قیامت کی پوری اُمید پیدا کرتی ہے اوراس کے دل کو خُدا کے وعدوں پر قائم کرتی ہے لہٰذا سوائے سچے عیسائی کے کوئی آدمی احباب کی موت کے صدمہ پر ضبط کی پوری طاقت نہیں رکھتا ہے اس کی پوری اُمید ہے کہ مردوں کی قیامت ہوگی اور خُدا ہمارے آنسو پونچھے گا پر عقلی ضبط اور سخت دلی کا ضبط یا بے اصل بات پر یقین کرکے جو ضبط پیدا ہوتا ہےہاں وہ بھی صبر کا باعث ہے جو سب قوموں میں سے کسی کسی آدمی کے درمیان پایا جاتاہے پر مسیحی لوگوں کا ضبط کچھ اوربات ہے جو نہائت محمود ہے اورناظرین کتاب ہذا کچھ تھوڑا سا فکرکے اس بات کو دریافت کرسکتے ہیں۔

چوتھا باب

قصائص محمدیہ کےبیان میں

محمدی قصے قرآن میں کامل طورپر مذکور نہیں ہیں کسی کسی قصہ کا کہیں کہیں ٹکڑا ٹکڑا ملتاہے اور وہ قصہ ان ٹکڑوں سے کامل نہیں ہوتا ہے ۔محمدیوں نے اپنی حدیثوں اور روائتوں سے ان قصوں کے پورا کرنے میں بہت کوشش کی ہے اور بہت سی کتابیں اس باب میں تصنیف ہوگئی ہیں اس پر بھی ان لوگوں کو کوئی پورا قصہ صحت کےساتھ نہیں ملاہے۔ مگر میں ان قصوں کو جو اس باب میں بطور خلاصہ کے لکھا ہے عبدوالواحد بن محمدن المفتی کی کتاب قصص الانبیاء سے لکھوں گا جو اس وقت اس ملک کے سب لوگوں کو بآسانی ہر کہیں مل سکتی ہے اوراس کے مصنف نے کتب مذکورہ ذیل سے جو بہت معتبر کتابیں ہیں اپنی کتاب کو مرتب کیا ہے ۔ تیسیر، کشاف، کبیر، درُر، زاد المیسر، تبیان، جامع البییان، جلالین ، فشیری، مدارک ، نیشا پوری ، مغنی ، لباب ، عین المعانی ، ینابیع، بحر المواج، بیضاوی، معالم، وسیط، کواشی، عرایس، زاہدی، کشف الاسرار ، تفسیر یعقوب چرخی، حسینی، بستان فقیہ، ابوللیث، معارج النبوت ، شفا قاضی عیاض ، شواہد النبوت وغیرہ سے ۔

اس کے سوا یہ بات ہے کہ یہ قصے جو اس باب میں لکھے ہیں وہی ہیں جو اس وقت کے اوراگلے زمانہ کے بھی محمدی عالم اپنے وعظ ونصیحت میں لوگوں کو سناتے ہیں اور سنتے تھے۔

ہمیں ان قصوں کے دیکھنے سے بڑا افسوس آتاہے کہ ان حدیثوں نے کیسی غلطی میں آدمیوں کو ڈالا ہے کہ وہ اصل مطلب کو چھوڑ کر کہاں سے کہاں جا نکلے۔ اگر کوئی شخص ان قصوں کو صحت کے طورپر معلوم کرنا چاہے تو خُدا کے کلام یعنی بائبل میں ملاحظہ کرے یا ایک کتاب جس کا نام مقدس کتاب کا احوال ہے اورجس میں تمام قصص کلام الہٰی کے موافق خلاصہ کے طورپر لکھے ہیں غور سے دیکھے اور سارے محمدی قصے جو اس باب میں ہیں مقابلہ کرکے غلطی میں سے نکلے۔

قصہ آؔدم وحؔوا کا

جب خُدا نے آدم کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں فرشتوں نے اس ارادہ پر اعتراض کرکے کہا کیا مفسد(خرابی ڈالنے والا) اور خونی کو پیدا کرنا چاہتاہے جو اب ملا تم اس بھید کو نہیں سمجھتے میں خوب جانتا ہوں اس کے بعد خُدا نے ساری زمین کے ذروں سے ایک مشت خاک جبرائیل سے منگوائی پر زمین نے نہ چاہا کہ مجھ سے آدم پیدا ہو اور بعض اُس کی اولاد دوزخ میں جائے اس لئے جبرائیل خالی ہاتھ چلا گیا اسی طرح میکائيل اور اسرافیل بھی آئے اور زمین کا رونا دیکھ کر خالی ہاتھ چلے گئے آخر کو عزرائیل جان نکالنے والا آکر زبردستی زمین سے خاک لے گیا۔ تب خُدا نے اپنے ہاتھ سے اس مٹی کا چالیس برس میں خمیر اٹھائی حدیث میں ہے

’’خمرت طینتہ آدم بیدی ارابعین صلبحاً یعنی مجھے خُدا نے آدم کی مٹی کو چالیس دن میں اپنے ہاتھ سے خمیر اٹھایا ہے۔

پھر چالیس برس تک اس خمیر پر خُدا نے غم کے سمندر میں سے پانی برسایا اسی واسطے سب آدمی غمگین رہا کرتے ہیں کہ اُن کے خمیر میں خُدا نے غم داخل کیاہے۔ اس کے بعد آدم کا قالب بنا اور مکہ اور طایف کے درمیان رکھا گیا چالیس برس تک ہزارہا فرشتے اُسے دیکھنے کو آتے جاتے رہے مگر شیطان اسے دیکھ کر ٹھٹھ کیا کرتا تھا اس کے بعد خُدا نے اس میں روح داخل کرنے کا ارادہ کیا مگر روح نے تین بار عذر کیا چوتھی بار زبردستی اس میں ڈالی گئی‘‘ ۔

پھر آدم کو آسمان پر بہشت میں لے گئے وہاں فرشتوں کا اور آدم کا امتحان ہوا خُدا نے سب چیزوں کے نام فرشتوں سے پوچھے وہ نہ بتلا سکے لیکن آدم کو خُدا نے سب چیزوں کے نام سکھلا رکھے تھے۔ اس لئے اس نے بتلادئيے (یہ آدم کا امتحان ممتحن (امتحان لینے والا)کی رعائت سے اچھا ہوگیا)۔

پھر خُدا نے عرش کے برابر ایک تخت رکھوا کر اس پر آدم کو بیٹھایا اورحکم دیا کہ سب فرشتے اسے سجدہ کریں پس سب نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ نہ کیا اس لئے ملعون ہوگیا اس نے عذر کیا کہ میں ناری ہوں اور وہ خاکی ہے اور شائد یہ عذر بھی کیا ہو کہ خُدا کے سوا دوسرے کو سجدہ کرنا شرک ہے اے خُدا تو بُت پرستی کرنے کا حکم کیوں دیتاہے۔

پر کوئی عذر سنا نہ گیا فوراً لعنت آپڑی تب شیطان نے عرض کی کہ مجھے قیامت تک رہنے دے اور ابھی دوزخ میں نہ ڈال پس خُدا نے اُسے مہلت دی اوراس کی عرض قبول کرلی تب وہ بولا مجھے خُدا کی قسم سارے آدمیوں کو گمراہ کرکے دوزخ میں لے جاؤ ں گا خُدا نے کہا میرے خاص بندے گمراہ نہ ہوں گے ۔ اس کے بعد بڑی دھوم دھام سے آدم بادشاہوں کی طرح بہشت میں آیا وہاں طرح طرح کےمزے اور شراب کباب اور محل اورکھانے کپڑے وغیرہ موجود تھے پر کوئی عورت نہ تھی۔ پس آدم اسی فکر میں سوگیا تب اُس کی بائیں پسلی سے خُدا نے عورت بنائی اور وہ بہت خوبصورت تھی پھر خُدا نے آدم اور حوا کا نکاح محمدی دستور کے موافق کردیا اور حضرت محمد پر درود پڑھنا اس کا مہر ہوا۔

پس آدم اور حوا بہشت میں خوشی سے رہتے اور سب چیزیں کام میں لاتے تھے اورانہیں حکم تھا کہ سب چیزیں کھانا مگر اس درخت سے نہ کھانا لیکن شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر بہشت میں گیا اور آدم وحوا کو بہکایا تب انہوں نے وہ درخت بھی کھالیا اوربہشت سے نکالے گئے زمین پر گرائے گئے یہاں آکر بچے جنے لگے اوربڑے غم میں رہے پھر خُدا نے آدم کو چند کلمے سکھلائے ان کے وسیلہ اس کا گناہ معاف ہوا اور اُن کلموں کے بیان میں اختلاف ہے کہ وہ کیا کلمہ تھے بعض کچھ بتلاتے ہیں اور بعض کچھ ۔

لیکن توریت شریف میں لکھاہے کہ وہ مسیح کی بشارت تھی کہ تیری نسل سے شیطان کا سر کچلنے والا پیدا ہوگا ۔پس آدم کا بھروسہ اس شیطان کے سر کچلنے والے شخص پر جا ٹھہرا اوریہ بھروسہ مسیح پر ایمان اجمالی تھا اُسی سے آدم نے نجات پائی نہ قسم قسم کے لفظ پڑھنے سے ۔

پھر آدم دنیا میں ہزار برس جیا مگر کعب الاحبار کے قول کے موافق ۹۳۰ برس کی عمر پائی ہے ۔جب پانچ برس کا تھا اور اولاد بہت ہوگئی تھی اس وقت وہ پیغمبر ہوا اس پر ایک کتاب نازل ہوئی جس میں چالیس صحیفے تھے اور کشاف میں ہے کہ دس کتابیں اس پر نازل ہوئیں اور ۴۸ حرف عربی کے بھی اس پر نازل ہوئے مگر اس پرسوائے احکام شریعت محمدیہ کے علم طبعی وعلم ہند سہ او رعلم حساب وعلم طب وغیرہ بھی نازل ہوئے تھے اور جن بھوت کے تابع کرنے کے منتر جنتر بھی اُترے تھے اور جب قابیل ہابیل کو مارکر کسی سرزمین میں الگ جا بسا تھا اور آتش پرست ہوگیا تھا تو اُس وقت آدم بحکم الہٰی اُسے نصیحت کرنے کو گیا تھا آدم نے اپنی اولاد کو ایک ہزارزبانیں مختلف سکھلائیں گویا اسی وقت سے زبانوں میں اختلاف ہے۔ جب اس کے چالیس ہزار بچے پیدا ہوگئے اور وہ ہزار برس کا ہوا تب اس کی موت آئی اس و قت ا س نے شیث کو بلا کر نصیحت کی۔

اولدنیا میں دل نہ لگانا۔

دوم عورت کی بات نہ ماننا۔

سومہر کام کا انجام سوچ لیا کیجیو۔

چہارمجس بات میں شک ہو اُسے چھوڑ دیا کرنا۔

پنجمہر کام میں یاروں سے مشورہ کرلینا

اس کے بعد حضرت محمد کے اوصاف اور بزرگی کی بیان بھی سنایا کہ وہ سب پیغمبروں کے سردار ہیں اُن کی فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ میں ایک گناہ کے سبب ایسی بلا میں مبتلا ہوا مگر حضرت محمد کی اُمت ہزار گناہ کرکے بھی بہشت میں جاسکتی ہے اس کے بعد ایک صندوق نکال لایا اور قفل کھول کر ایک کتاب نکالی اُس میں آدم سے لے کر بہ ترتیب سب پیغمبروں کا حال لکھا تھا پھر ابوبکر وعمر و علی وحسن وحسین کا سب احوال سنایا پھر صندوق بند کرکے شیث کو دے دیا اور مرگیا اور محمدی دستور پر دفن ہوا اس کی قبر سر اندیپ کے ملک میں ہے اور وہاں ایک درخت اُس کی قبر پر کھڑا ہے اُس کے ہر پتے پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ قدرت سے لکھاہے بادشاہ لوگ وہاں سے پتے منگواکر اپنےخزانوں میں رکھتے ہیں ۔

اور وہی صندوق بنی اسرائيل میں نسلاً بعد نسلاً چلا آیا تھا۔

جنوں اور شیطان کا قصہ

نارسموم ایک بڑی آگ تھی اس میں روشنی اور تاریکی ملی ہوئی تھی روشنی سے فرشتے بنائے گئے اوراس تاریکی سے جس میں قدرے نور بھی تھا جنات پیدا ہوئے یہی شیاطین کہلاتے ہیں وہی ابتدا میں زمین پر رہتے تھے ۔جب ثوابت کا ایک دورہ یعنی ۶ہزار تیس برس کا عرصہ پورا ہو تو وہ جنات شرارت کے سبب ہلاک کئے گئے تو بھی بعض جنات جونیک چلن تھے باقی رہے اُن کو خُدانے نئی شریعت دی اورایک شخص اُن کا سردار مقرر ہوا اسی طرح ہر دورہ کے بعد شریر لوگ ہلاک ہوتے گئے اور اچھے جنات باقی رہتے گئے اُن میں بھی رسول آیا کرتے تھے جب چوتھا دورہ پورا ہوا خُدا نے فرشتوں کو بھیجا انہوں نے آکر جنات کو قتل کیا مگر بعض جن پہاڑوں اورجنگلوں اور جزیروں میں بھاگ گئے اُن کے لڑکے بچے جو فرشتوں نے قید کئے تھے اُن میں سے ایک جن کا لڑکا جس کا نام عزازیل ہے فرشتوں کے ساتھ آسمان پر چلا گیا اور وہاں تعلیم پاکر ہوشیار ہوا اور عبادت بہت کرنے لگا ۔پس عبادت کے سبب قید سے چھوٹا اورہر آسمان کے فرشتوں نے درجہ بدرجہ خُدا سے سفارش کرکے ساتویں آسمان تک پہنچایا پھر بہشت کے درواغہ نے سفارش کرکے بہشت میں بلوایا وہ وہاں جاکر فرشتوں کا معلم بنا اور فرشتوں کو وعظ نصیحت کیا کرتا تھا اوراس کا ممبر خُدا کے تخت کے نیچے تھا (مگر بعض محمدی اس کو اصلی فرشتہ کہتے ہیں )۔ اس اثنا میں اُن بھاگے ہوئے جنات کی اولاد پھر زمین پر زیادہ ہوگئی تب یہ عزازیل دنیاوی جنات کی تعلیم کے واسطے بطور رسول کے زمین پر آیا مگر نصیحت کرنے کے سبب اس کے ساتھی کئی ایک جنوں کے ہاتھ سے مارے گئے اس لئے عزازیل نے فرشتوں سے مدد لے کر جہاد کیا اور بہت جنات مارے گئے اُس وقت سے خُدا نے اس شیطان کو زمین پر بادشاہ مقرر کردیا پر اُسے اپنی عبادت اور علم کا غرور ہوگیا اوراسی وقت سے وہ لعنتی تھا مگر آدم کی نافرمانی کے وقت وہ لعنت ظاہر ہوئی ۔

میثاق کا قصہ

میثاق کے معنے عہد اور اقرار کے ہیں تفسیر مدارک میں ہے کہ خُدا نے آدم کو پیدا کرکے بہشت میں داخل ہونے سے پیشتر بہشت کے دروازہ کے سامنے یہ اقرار لیا۔ یا مقام نعمان سحاب میں اقرار لیا وہ عرفات کے نزدیک مکہ میں ہے یا مقام نہار میں لیا جو ہندوستان میں کوئی جگہ ہے اور معالم میں ہے کہ بقول امام کلبی مکہ اور طائف میں یہ اقرار لیا گیا مگر معارج النبوت میں ہے کہ بہشت سے نکلنے کے بعد یہ اقرار لیا گیا اور صورت اقرار کی یوں ہوئی کہ جب آدم مکہ میں حج کرنے کو گیا تھا تو کوہ عرفات کے پیچھے وادی نعمان میں سوگیا خُدا نے اپنی قدرت کا ہاتھ اُس کی پشت پر لگایا فوراً تمام آدم زاد جو آدم کے عہد سے قیامت تک پیدا ہوں گے سب کے سب بشکل چیونٹی ترتیب تولید کے موافق باہر نکل پڑے اوراُسی وقت جوان باعقل بالغ ہوگئے تب خُدانے سب سے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں وہ بولے ہاں تو ہمارا رب ہے ۔پس اقرار یہ تھاکہ میں تمہارا خُدا ہوں تم میرے بندے ہو اور سب نے قبول کیا اوریہ اقرار خُدا نے آدمیوں سے لے کر اُس کا لے پتھر کو جو کعبہ میں ہے سپرد کردیا اور خُدا نے سب سے کہا کہ تم مجھے اس وقت سجدہ کرو اورکالے پتھر کے ہاتھ لگاؤ مگر بعضوں نے سجدہ کیا اور بعض نے نہ کیا یہ پہلا سجدہ ہوا پھر دوسرے سجدہ کے وقت بعض نے جو پہلے نہ کیا تھا پچھتا کر دوسرا سجدہ کیا اوراُن میں سے بعض نے جو پہلے کیا تھا دوسرا نہ کیا اس لئے چار قسم کے لوگ ہوگئے اوّل جنہوں نے ہر دوسجدے کئے وہ ایماندار ہوکر جیتے اورایمان سے مرتے ہیں۔

دوم و ہ جہنوں نے نہ پہلا کیا نہ دوسرا وہ جیتے مرتے کافر ہیں ۔

سوم وہ جنہوں نے پہلا سجدہ کیا اور دوسرا نہ کیا وہ ایماندار ہوکر جیتے ہیں پر کافر مرتے نہیں۔ چہارم وہ جنہوں نے پہلا نہ کیا پر دوسرا کیا وہ کافر ہوکر جیتے ہیں اور ایمان سے مرتے ہیں۔ اس کے بعد سب طرح کے کام اور پیشے اور ہنر جو دنیا میں ہیں دکھلائے گئے جس نے جو پسند کیا وہ اس کا کام ہوگیا پھر سب پردہ غیب میں غائب ہوگئے یا آدم کی پشت میں پھر گھس گئے جہاں سے نکلے تھے گویا ایک جنم لے چکے اب دوسرے جنم میں اسی معاملہ کے موافق ہوکر مرتے جاتے ہیں۔

شیث کا قصہ

آدم کے بعد شیث پیغمبر ہوا آدمیوں اورجنوں پر اُس کا حکم تھا اُس کی شریعت مثل شریعتِ آدم کے تھی اوراس پر پچاس کتابیں نازل ہوئیں اُن میں علم ِحکمت اور ریاضی یعنی ہندسہ ، ہیت حساب او ر علم موسیقی اور علم الہٰی اور علم صنائیع مشکلہ مثل اکسیر وکیمیاگری وغیرہ کے مرقوم تھا اور شیث ملک شام میں رہتا تھا جب اُس نے شادی کرنا چاہا تو ایک نہائت خوبصورت عورت سے جو مثل حوا کے تھی اُس کا نکاح ہوا اورایک یاقوت وزمرد کے بُرج میں اُس نے اُس کے ساتھ خلوت کیا۔

اسی وقت نورمحمدی اُس عورت کے شکم میں آیا بعض کہتے ہیں کہ وہ عورت جنات میں سے تھی اوراُس سے انوش پیدا ہوا اور شیث سات سو برس کا ہوکر مرگیا اس کا بیٹا انوش جب نوے برس کا ہوا اس سے قینان پیدا ہوا اور انوش ۹۰۵ برس کا ہوکر مرگیا ۔جب قینان ۷۰ برس کا ہوا اس سے مھلا ایل پیدا ہوا وہ ۸۴۰ یا ۹۱۰ برس کا ہوکر مرا یہ مہلایل ملک بابل میں آبسا تھا اور شہر سبوس اُس نے بنایا اُس کے دوبیٹے پیدا ہوئے بیازا وراخنوخ۔

قصہ ادریس

اخنوخ کو ادریس کہتے ہیں اس کے زمانہ میں بُت پرستی کا شروع ہوا مگر پہلے بیان ہوچکا کہ قابیل آتش پرست ہوگیا تھا اور کلام الہٰی سے ظاہر ہے کہ طوفان کے بعد دنیا میں بُت پرستی جاری ہوئی پہلے بُت پرستی نہ تھی مگر نفسانی خواہشوں کی لوگ پیروی کرکے ہلاک ہوئے تھے ۔ ادریس پر تیس کتابیں نازل ہوئیں او رعلم نجوم اس نے ظاہر کیا سب سے پہلے قلم سے خط اس نے لکھا مگر ۴۸ حرف آدم پر نازل ہوئے تھے۔ انگریزی کا پیشہ اورہتھیار بنانے کا طور اورجہاد میں غلام پکڑنے کا دستور اس نے نکالا اور روئی کا کپڑا اس نے نکالا اور وہ جیتے جی بہشت میں اٹھایا گیا۔

ہاروت ماروت کا قصہ

ادریس کے زمانہ میں فرشتوں نے خُدا سے کہا کہ تونے آدمیوں کو کیوں پیدا کیا دیکھ وہ کیسے گناہ کرتے ہیں اگر ہم دنیا میں بجائے آدمیوں کے ہوتے تو گناہ نہ کرتے خُدا نے کہا اگر تمہارے اندر شہوت اور ہوائے نفس ہو تو تم بھی گناہ کروگے وہ بولے ہم ہرگز نہ کریں گے غرض دو فرشتے جن کانام ہاروت وماروت ہے آزمائش کے لئے کمربستہ ہوئے اور زمین پر آئے دن بھر زمین پر رہتے تھے رات کو اسم اعظم کے وسیلہ آسمان پر اڑجاتے تھے ۔ایک دن ایک بڑی خوبصورت عورت جس کا نام زھرہ تھا اُن کے سامنے آئی وہ عاشق ہوگئے عورت بولی اگرمیرے بُت کو سجدہ کرو اور میرے خصم کو قتل کرو اور مجھے اسم اعظم سکھلاؤ اورایک پیالہ شراب کا پی لو تو تمہاری ہوں گی ۔غرض اُنہوں نے سب کچھ کیا وہ عورت بعد زنا کے اسم اعظم کے سبب آسمان کو اُڑگئی اور ستارہ بن کر آج تک زہرہ ستارہ کہلاتی ہے۔ مگر وہ فرشتے گناہ کے سبب اُڑ نہ سکے ۔ غرض وہ فرشتے بابل میں کسی کنوئیں کے اندر بند ہیں اوراُن کو بڑی مار پڑتی ہے وہ قیامت تک مار کھائیں گے بعد قیامت کے بہشت میں چلے جائیں گے کیونکہ اُن کا عذاب دنیا میں پورا ہوجائے گا ۔ کہتےہیں کہ ایک محمدی شخص اُس کنوئیں پر گیا تھا جب اُس نے اندر جھانک کر دیکھا تو اُن کو بڑے عذاب میں پایا اندر سے فرشتے بولے تو کون ہے جو اوپر سے دیکھتاہے وہ بولا آدمی ہوں حضرت محمد کی اُمت کا تب وہ فرشتے بڑے خوش ہوئے اورکہا کہ حضرت محمد دنیا میں پیداہوگئے ہیں کہا ہاں توکہنے لگے کہ اب مخلصی کا دن نزدیک آیا کیونکہ آخری پیغمبر دنیا میں آگیا۔ کہتے ہیں کہ لوگ اُس کنوئیں پر جاکر اُن فرشتوں سے جادوگری سیکھا کرتے ہیں چنانچہ قرآن میں بھی ذکر ہے۔

قصہ نوح

نوح بڑا پیغمبر تھا اُس کے زمانہ میں کفر بہت پھیل گیا اور قابیل کی اولاد بُت پرست ہوگئی اُن کے پاس پانچ بُت تھے دومرد کی شکل سواع عورت کی صورت یغوث گائیں کی شکل یعوق گھوڑے کی صورت نسر کر گس کی مانند۔ مگر زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ یہ پانچ یعنی ودسواع یغوث یعقوق ، نسرپانچ نیک آدمی تھے جو آدم اور نوح کے درمیان کسی وقت ہوں گے لوگ پیروں کی طرح ان کی تعلیم تعظیم کرتے تھے جب وہ مرگئے تو اُن کی شکلیں پتھر کی بنا کر لوگ پوجنے لگے اور عرب میں بھی انہیں پانچ بُتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔

کہتے ہیں کہ شیث کی اولاد جو خُدا پرست تھی وہ کوہستان میں رہتی تھی اور قابیل کی اولاد شہروں میں بستی تھی قابیل کی اولاد میں عورتیں حسین اور خوبصورت تھیں۔ پس ان خوبصورت بُت پرست عورتوں سے شیث کی اولاد نے میل ملاپ کیا اس لئے اُن میں بھی بُت پرستی پھیل گئی۔ نوح ان سب بُت پرستوں کو منع کرتا تھا پر وہ نہ مانتے تھے بلکہ نوح کو بہت دکھ دیتے تھے ۔ پس نوح نے اُن کو بد دُعا کی خُدا نے وعدہ کیا کہ میں اُن کو طوفان سے ہلاک کروں گا اور نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا اُس نے سال کی لکڑی سے کشتی بنائی ۶۶۰ گز لمبی ۳۳۳گزچوڑی اُس میں تین طبقے تھے نیچے چار پایوں کا بیچ میں پرندوں کا اوپر آدمیوں کا طبقہ تھا۔ کشتی کے تختوں پر سارے پیغمبروں کے نام اور حضرت محمد اوراُن کے چار خلیفوں کے نام بھی لکھے تھے مگر طول عرض میں اختلاف ہے کہ کس قدر تھا۔ ہر جانور کا جوڑا بحکم الہٰی اُس میں آیا اور شیطان بھی گدھے کی دم پکڑ کر اُس میں جا بیٹھا نوح نے اُسے سمجھایا کہ توتوبہ کر اُس نے کہا کہ میری توبہ قبول نہ ہوگی آدم کی لاش کا صندوق بھی نوح نے قبر نکال کر کشتی میں رکھ لیا تھا خُدا نے کہا اگر شیطان آدم کے صندوق کو سجدہ کرے تو اُس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے مگر شیطان بولا کہ جس وقت آدم جیتا تھا تو میں نے اُسے سجدہ نہ کیا اب اُس کی مٹی کو کیوں سجدہ کروں ۔پس نوح چپ کر گیا۔ پھر کشتی کے درمیان ۸ یا ۱۰ یا ۲۰ یا ۷۸ یا ۸۰ شخص بیٹھ گئے مگر نوح کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان تھا نوح کے ساتھ کشتی میں نہ آیا وہ کافروں کے ساتھ مرا اس کے بعد طوفان آیا اور چالیس دن رات پانی برسا ایک برس کا کھانا اُس میں تھا سب کھاتے پیتے رہے۔ اور دوگوہر نورانی آسمان سے آئے تھے وہ کشتی میں سورج وچاند کا کام دیتے تھے لیکن کشتی میں گندگی بہت جمع ہوگئی تھی اوربڑی بد بو اٹھی نوح پر وحی آئی کہ ہاتھی کی دُم کو ہاتھ لگا جب اُس نے ہاتھ لگایا فوراً ایک سور اورایک سورنی اُس دم میں سے نکلی اور سب گندگی کھاگئی۔ حکم تھا کہ کہ کوئی جاندار کشتی میں اپنے مادہ سے ہم بستر نہ ہو مگر چوہے نے نہ مانا اور چوہی سے مل گیا اس لئے بہت چوہے ہوگئے اور کشتی میں سوراخ کرنے لگے تب خُدا نے کہا کہ شیر کے ماتھے پر ہاتھ لگا جب ہاتھ لگایا فوراً بلیاں نکلیں اور چوہوں کو کھاگئیں کشتی پانی پر چھ مہینے تک پھرتی رہی جب طوفان تمام ہوا تو وہ کوہ جودی پر کشتی ٹھہری اورایک مہینے تک وہاں رہے تب نوح نے ایک کاگ اڑایا کہ خشکی کی خبر لائے مگر وہ کم بخت کاگ مردار کھانے لگ گیا کشتی میں خبر لے کر نہ آیا تب اُس نے کبوتر کو اڑایا وہ زیتون کا پتہ منہ میں لایا جب زمین خشک ہوگئی نوح اُترا اورایک شہر بنایا جس کو سوق الثمانین کہتے ہیں وہاں نوح کے سب ساتھی مرگئے صرف نوح اوراُس کے لڑکے اور جورو یعنی آٹھ شخص باقی رہے ۔ تب نوح نے عراق اور فارس وخراسان کا ملک اپنے بیٹے سام کو بخش دیا اور حبش وہندوستان حام کو دیا اور چین وترکستان یافت کو دیا پھر نوح مرگیا ۱۵۰ برس کی عمر میں پیغمبر ہوا ۹۵۰ برس نصیحت کرتا رہا پھر طوفان کے بعد ۶۰۰ برس اور جیا ساری عمر اُس کی ۱۷۰۰ برس کی ہوئی اور بعض ۱۵۰۰ برس کی بتلاتے ہیں۔ نوح کے بعد سام پیغمبر ہوا اور ۵۰۰ برس کا ہوکر مرگیا اُس کی اولاد میں اکثر پیغمبر اور الیاء وحکماء وسلاطین پیدا ہوتے ہیں۔

قصہ عوج بن عنق کا

عوج آدم کا نواسا تھا اُس کی ماں جو آدم کی بیٹی تھی اس کا نام عنق تھا جب کشتی تیار ہوئی تو عوج نوح کے پاس آیا اورکہا مجھے بھی کشتی میں بیٹھا نوح نے کہا کافر کے لئے کشتی میں جگہ نہیں ’’مگر شیطان جو کافروں کا باپ ہے اس کے لئے کشتی میں جگہ تھی‘‘ پس عوج لاچار ہوکر چلا گیا۔ ساری دنیا غرق ہوکر مرگئی مگر عوج نہ مرا۔ معالم میں ہے کہ طوفان کا پانی پہاڑوں پر چالیس گز تک چڑھا تھا پر عوج ایسا لمبا تھاکہ وہ پانی اُس کے زانو تک بھی نہ آیا اُس قدر ۳۳۳۳ گز سے کئی مشت زیادہ تھا بادل اُس کی کمر تک آتے تھے سمندر کی تھاہ میں ہاتھ ڈال کر مچھلیاں پکڑتا تھا اورآسمان کے طرف سورج کے نزدیک ہاتھ بڑھاکر کباب کرلیتا تھا اورکہا جاتا تھاکہ یہ اکیلا طوفان میں بچا اورموسیٰ کے زمانہ تک جیا بلکہ موسیٰ کے ہاتھ سے مارا گیا اس کی عمر ۳۶۰۰ برس کی ہوئی اُس کی ماں بھی بڑی موٹی تھی ایک جریب زمین پر بیٹھتی تھی اُس کی ہرانگشت ۳ گز کی تھی اور دو دو ناخن ہر ایک انگشت پر مثل دودرانتے کے تھے اور سب عورتوں میں جو بدکار ہیں وہ پہلی عورت ہے۔

قصہ ہود کا

ہود ایک پیغمبر تھا سام کی دوسری یا چھٹی پشت میں اس کا نسب نامہ ملتاہے اور سام کی چوتھی پشت میں ایک اور شخص تھا جس کا نام عاد تھا اس کی اولاد بکثرت تھی اوران کو قوم عاد کہتے تھے اور وہ بڑے طویل لوگ تھے زيادہ سے زیادہ ۶۰ گز یا سو یا ۱۲۰ گز لمبے تھے او رکم سے کم ۱۶ یا ۶۰ یا ۸۰ گز کے ہوتے تھے شہر حضرموت سے عمان تک وہ رہتے تھے اوربُت پرست تھے حضرت ہود انہیں نصیحت کرنے کو آئے پر انہوں نے ہود کی بات پر یقین نہ کیا توبھی بعض اشخاص ایمان لائے پر کافروں نے ہود کو قتل کرنا چاہا اس لئے ہود نے بددُعا کی تو پانی برسنا بند ہوگیا اور سب چشموں اور کوؤں کا پانی بھی خشک ہوگیا ۳ برس یا ۷ برس قحط میں مبتلا رہے آخر کو انہوں نے لاچار ہوکر مکہ کی طرف جہاں عمالیق بستے تھے ایک جماعت کو روانہ کیا تاکہ مکہ میں جاکر پانی کے لئے دُعا کریں۔ پس اس جماعت نے مکہ میں آکرقربانی کی اوراس کا سردار جس کا نام قیل تھا دُعا کرنے لگا اُس وقت تین بادل مکہ میں آئے سفید اور سیاہ اورسرخ اور آواز آئی کہ اے قیل تو کونسا بادل پسند کرتاہے کہ تیرے ملک پر بھیجا جائے اس نے کہا سیاہ پس سیاہ بادل اس طرف روانہ ہوا ہود اس بادل کود یکھ کر ایک دائرہ میں اپنے لوگوں کو لے بیٹھا یا کسی جزیرے میں چلا گیا تب اُس بادل سے سانپ اور بچھو اس قدر نکلے کہ اس قوم کے سب راستے بند ہوگئے اور ہوا ایسی تند چلی کہ اُن کے سب گھر گر پڑے اس طرح سب ہلاک ہوئے۔

قصہ شدید وشداد کا

عاد مذکور کے دوبیٹے تھے شدید شداد یہ دونوں بادشاہ ہوئے تھے شدید سات برس کے بعد مرگیا اور شداد دو سلطنتوں کا مالک ہوا اور وہ کیمیا گربھی تھا۔ ہود اس کے پاس آیا اورکہا خُدا نے تجھے ہزار برس کی عمر دی ہے اور ہزار خزانے بخشے اور ہزار عورتیں تجھے ملیں اور ہزار لشکر بھی تونے مارے اب ایمان لا تاکہ اس کا دونا تجھے ملے اور بعد موت کے بہشت میں جائے اس نے کہا میں آپ ایک بہشت بناسکتا ہوں مجھے خُدا کی بہشت کی حاجت نہیں ہے ۔پس اس نے زمین عدن میں ایک بہشت بنایانہائت نفیس اوربہت سے بادشاہوں نے اس امر میں اس کی مدد کی جب وہ تیار ہوا اور خوبصورت لڑکے اور لڑکیاں بجائے حور غلمان کے اس میں چھوڑے گئے تب وہ اپنا بہشت دیکھنے کو آیا مگر اندر داخل نہ ہونے پایا کہ عین دروازہ پر فرشتے نے اُس کی جان نکالی وہ اپنے بہشت کی سیر نہ کرسکا یہ شداد بڑا کافر تھا خُدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ بعض مسلمان کہتےہیں کہ خُدا نے اس بہشت کو پسند کرکے آسمان پر اٹھالیا مگر صحیح یہ ہے کہ وہ برباد ہوا یا زمین نگل گئی اورہو دبھی ۴۶۴ برس کا ہوکر مرگیا۔

قصہ صالح پیغمبر کا

صالح پیغمبر نوح کی پانچویں یانویں پشت میں پیدا ہوا اور قوم ثمود کو جو اُسی کے خاندان سے تھی ہدائت کرتا تھا پر وہ جانتے تھے آخر کو اس قوم نے صالح سے کہا کہ اگر اس بڑے پتھر میں سے ایک اونٹنی ابھی نکلے اورفوراً باہر آکر ایک بچہ دے تو یہ معجزہ دیکھ کر ہم ایمان لائیں گے پس صالح نے دُعا کی اوراُن کی خواہش کے موافق اونٹنی نکلی جو ایک پہلو سے دوسرے پہلو تک ۱۲۲ گز کی تھی اوراس نے اپنے برابر کا ایک بچہ اسی وقت جنا پر لوگ یہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے بلکہ اسے جادوگر بتلایا مگر تھوڑے سے آدمی ایمان بھی لائے۔

اب وہ اونٹنی جنگل میں معہ بچہ کے چرا کرتی تھی اور تمام جنگل کا گھاس کھا جاتی تھی اور وہاں ایک ہی کنواں تھا جس سے سات قبیلہ پانی پیتے تھے مگر وہ اونٹنی سارا پانی ایک ہی دن میں پی جاتی تھی اس لئے لوگ دکھ میں پڑگئے آخر کو یوں ٹھہری کہ ایک روز سب لوگ پانی بھریں اورایک رواز اونٹنی پئے وہ سب اس فیصلہ پر راضی ہوئے ۔ مگر اونٹنی جو دوسرے روز ایک کنوا ں پیتی تھی اسی قدر دودھ بھی دیتی تھی اور سب شہر والے اس کے دودھ سے مشکیں بھر بھر لےجاتے تھے اوراس کا گھی اور پنیر اوراُون فروخت کرکے بڑے دولتمند بھی ہوگئے تھے ۔چار سوبرس اسی طرح اونٹنی سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن تکلیف یہ تھی کہ جو ایک پہاڑ سا پھرتا تھا ڈر ڈر کر نہائت لاغر ہوگئے تھے اور بھاگتے پھرتے تھے۔ وہاں وہ خوبصورت عورتیں بھی تھیں اُن کے بہت مویشی تھے اس لئے وہ اس اونٹنی سے تکلیف رسیدہ تھیں اتفاقاً اُن عورتوں کے عاشق دو شخص بدکار وہاں آئے عورتوں نے اُن سے کہ کہ ہم تم سے نکا ح کریں گی اگر تم اس اونٹنی کو ما ر ڈالو پس وہ دونوں شراب میں بدمست ہوکر کنوئیں پر آئے جب اس اونٹنی نے کنوئیں میں گردن ڈال کر پانی پینا شروع کیا اُن شخصوں نے اُس کے پیر کاٹ ڈالے اور فوراً مارلیا اور گوشت تقسیم کرکےفوراً کھالیا اُس کا بچہ بھی یاتو مار کھایا اُسی پتھر میں گھس گیا یا آسمان پر اڑ گیا۔ تب صالح نے خبردی کہ تین روز بعد خُدا کا قہر تم پر آئے گا پہلے دن زرد دوسرے دن سرخ تیسرے دن سیاہ تمہارے منہ ہوں گے اس کے بعد تم سب مر جاؤ گے ۔ پس اسی طرح ہوا کہ تیسرے دن جبرائيل نے آکر ایک ایسی چیخ ماری کہ خوف کے مارے سب کی جان نکل گئی۔

قصہ ابراہیم

ابراہیم ہو دکی پانچویں پشت اور سام کی چھٹی پشت میں ہے نمرود بادشاہ کےعہد میں تھا ۔ چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں کہ ساری زمین پر اُن کی سلطنت تھی اُن میں دو ایماندار اور دوکافر تھے ایک سکندر دوسرا سلیمان تیسرا بخت نصر چوتھا نمرود پر بعض بجائے نمرود کے شداد کو بڑا بتلاتے ہیں نمرود کی مملکت میں جادوگری اور شعبدہ بازی کا بڑا چرچا تھا جس جگہ اُس کی دارالسطلنت تھی وہاں پر کسی موذی جانور وحشرت الارض کو بھی دخل نہ تھا اُس نے کسی شہر کے دروازہ پر ایک حوض بنایا تھا سال میں ایک دفعہ وہاں معہ رعیت کے آتا تھا کہ جو کوئی آئے اپنے واسطے کچھ پینے کی چیز ساتھ لائے جب وہ آتے اپنے اپنے مشروبات ہمراہ لاتے تو حکم دیتا تھا کہ سب لوگ اپنا مشروب اُس حوض میں ڈال دیں تاکہ سب مشروبات آمیز ہوجائیں بعد اس کے کھانا کھلاکر راگ سنواتا تھا پھر حکم دیتا تھا کہ حوض میں سے شراب نکا ل کر سب کو دیں جب وہا ں سے شراب نکالتےتو ہر ایک کا مشروب قدرت سے جداجدا ہوکر نکل آتا تھا یہ اس کا معجزہ تھا۔ اور ایک اور حوض تھے اس میں زمین کے سارے شہر دکھلائی دیتے تھے جس شہر پر خفا ہوتا تھا اُسی حوض سے پانی نکا ل کر اُسے غرق کردیتا تھا۔اوراُس کے شہر کے دروازہ پرطلسم کی ایک بطخ بنی ہوئی تھی جب کوئی اجنبی مسافر شہر میں آتا وہ بطخ چلاتی تھی فوراً عہدداروں کو اطلاع ہوجاتی تھی کہ کوئی اجنبی شخص شہر میں آیا ہے۔ ہر شہر کے دروازہ پر ایک طلسم کا طبلہ رکھا تھا جس کے گھر میں چوری ہوجاتی تھی وہ آکر طبلہ بجاتا تھا تب اُس طبلہ سے آواز نکلتی تھی کہ تیرا مال فلاں جگہ رکھاہے اور فلاں شخص نے چُرایا ہے ۔ پس چور فوراً گرفتار ہوجاتا تھا۔ اور ہر شہر کے دروازہ پر ایک ایسی عجیب چیز بنا رکھی تھی کہ اگر کوئی شخص مفقود یعنی گم ہوجاتا اوراُس کا پتہ نشان نہ ملتا تو اس چیز کے سامنے ایک عورت کو لے جاتے تھے اوراُس سے اس گم شدہ کانشان پوچھتے تھے تو فوراً معلوم ہوجاتا تھا۔

جب نمرود شہر سے باہر آتا تھا تو اُس کا تخت چار بُرجوں پر چاروں پائے ٹیک کر رکھا جاتا تھا اور وہ چار بُرج دیبائی روم اور جواہرات سے آراستہ تھے ’’دیبائی روم اُس عہد میں کہاں تھی‘‘ اورسونے کی رسیوں سے کھینچے رہتے تھے اس پر نمرود بیٹھتا تھا جب اُس نے ایک ہزار سات سو برس سلطنت کی تو اُس نے خُدائی کا دعویٰ شروع کیا اور اپنی تصویرات اطراف عالم میں بھیجیں تاکہ لوگ اُن کی عبادت کریں۔

ایک روز نمرود بادشاہ نے شہر بابل میں ایک خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اوراُس کی روشنی سے سورج وچاند نابود ہوگئے اُس نے بیدار ہوکر نجومیوں سے تعبیر پوچھی وہ بولے کہ بابل کی مملکت میں ایک لڑکا تولد ہوگا اور وہ تجھے وتیری مملکت کوہلاک کرے گا۔

پس اُس نے حکم دیاکہ کوئی مرد عورت سے ہم بستر نہ ہو اور جو پہلے کی حاملہ عورتیں ہیں جب جنیں تو لڑکے قتل ہوں اور لڑکیاں چھوڑی جائیں اس حکم سے ایک لاکھ لڑکے قتل ہوئے ۔ پھر نجومیوں نے خبر دی کہ آج رات کو وہ لڑکا حمل میں آنے والا ہے اس لئے حکم ہوا کہ آج رات کو سب مرد شہر سے باہر چلے جائیں تاکہ کوئی عورت سے ہم بستر نہ ہو اور عورتیں شہر میں اکیلی رہیں اور دروازوں پر پہرے رہیں جب یہ ہو ا تو عورتیں شہر کی اُس رات گلیوں میں کھیلتی پھرنے لگیں۔ جس دروازہ پر آذر کا پہر ہ تھا وہاں اُس کی جورو آپہنچی اوراپنے خصم سے چُپ چاپ ہم بستر ہوکر چلی گئی اُس کے شکم میں حضرت ابراہیم آگئے ۔والدہ نے حمل کو چھپایا جب تولد ہوئے تو پوشیدہ پرورش کی گئی ۔جب بڑے ہوئے اول والدین سے بُت پرستی کے ابطال میں بحث کرنے لگے اور بُتوں کی مذمت سنانے اور بُت پرستوں کو گالیاں دینے لگے آخر کو یوں ہوا کہ اُن کے بُت خانہ میں ۷۲ بُت تھے جن کی پرستش سب لوگ کرتے تھے ایک دن وہ سب کسی میلہ میں باہر جانے لگے ابراہیم سے کہا کہ تو بھی چل وہ نہ گیا مگر جھوٹ بول کر کہا کہ میں بیمار ہوں جا نہیں سکتا تم جاؤ جب وہ گئے ابراہیم نے کلہاڑے سے سب بُت توڑڈالے لیکن بڑے بُت کو نہ توڑا بلکہ وہ کلہاڑا اُس کی گردن پر رکھ دیا تاکہ معلوم ہو کہ بڑے نے سب کو توڑا ہے جب وہ آئے اورابراہیم نے انہیں الزام دیا کہ بڑے نے سب کو توڑا ہے تو وہ لوگ ابراہیم کو نمرود کے پاس پکڑ کر لے گئے ابراہیم نے جاکر دستور کے موافق نمرود کو سجدہ نہ کیا جب اُس نے سجدہ نہ کرنے کا باعث پوچھا توکہا میں خُدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا اُس نے کہا تیرا خُدا کون ہے وہ بولا جو مارتا اورجلاتا ہے نمرود نے کہا میں مارتا اورجلاتا ہوں اور قید خانہ سے دوقیدی بلا کر ایک کو قتل کیا ایک کو چھوڑ دیا یہ دکھلانے کو کہ میں مارتا اورجلاتا ہوں۔ تب ابراہیم نے کہا خُدا تو سورج کو مشرق سے نکالتاہے تو مغرب سے نکال کر دکھلا پس نمرود لاجواب ہوگیا اورابراہیم کو غصہ میں آکر جلتے تنور یں ڈال دیا لیکن خُدا نے اسے بچایا پر نمرود نے ابراہیم کو قید میں رکھا چالیس دن سے لے کر سات برس تک مختلف روایات کے موافق اس عرصہ میں شہر کوفے کے پاس اُس گاؤں کے قریب جس کا نام کوثی تھا چار کوس مربع میں ایک چار دیواری بنائی گئی جس کی دیوار سوگز یا ساٹھ گز بلند تیس گز طویل بیس گز کے عرض کی تھی اُس میں ایک مہینے تک لکڑیاں بھریں اوربہت سا تیل بھی ڈالا اور شیطان کے بتلانے سے ایک منجنیق بنائی گئی تاکہ ابراہیم کو اُس میں بیٹھا کر آگ میں پھینک دیں پھر نمرود نے ابراہیم کو اپنے کپڑے پہنائے اس لئے کہ اگر نہ جلا تو لوگ سمجھیں گے کہ نمرود کے کپڑوں کی برکت سے بچ رہا ہے پس ابراہیم کو آگ میں ڈالا خُدا نے آگ کو سرد کردیا لیکن نمرود کے کپڑے اور بیڑیاں جل گئیں ۔ جب یہ معجزہ ہوا تو نمرود نے ابراہیم کو آگ سے باہر بلالیا اور چار ہزار گائیں خُدا کے سامنے نمرود نے قربان کیں پر مسلمان نہ ہوا۔ لیکن بعض اشخاص ایمان لائے ایک نمرود کی بیٹی دوسرا لوط ابراہیم کا بھتیجا اور تیسری سارہ ابراہیم کی بھتیجی۔ اس کے بعد ابراہیم نے نمرود کی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے مدین سے کردیا اُس سے نسلاً بعد نسلاً بیس پیغمبر پیدا ہوئے ۔ جب نمرود ابراہیم کو جلا نہ سکا اوراس کا فروغ ہوتا دیکھا تو اُسے معہ اُس کے مومنین کے شہر بابل سے نکال دیا وہ ملک شام کی طرف چلا راہ میں سارہ سے نکاح کیا اور ۲۰ دھرم کو ایک گدھا مول لے کر اس پر سارہ کو سوار کیا اورچل نکلا اس وقت ابراہیم ۷۵ یا ۸۳ برس کا تھا ۔ ایک روائت ہے کہ سارہ کسی بادشاہ کی بیٹی تھی جب ابراہیم بابل سے شام کو جاتا تھا راہ میں کوئی شہر ملا وہاں کے سب لوگ اچھی پوشاک پہن کر باہر چلے جاتے تھے جب ابراہیم نے ان کا حال پوچھا وہ بولے ہمارے بادشاہ کی ایک خوبصورت بیٹی ہے اور وہ شادی نہیں کرتی کہتی ہے کہ سب لوگ میرے سامنے اچھی پوشاک پہن کر حاضر ہوں تاکہ جسے پسند کروں اُس سے شادی کروں۔ پس ابراہیم بھی اُن کے ساتھ ملکہ کے سامنے گیا اُس نے ابراہیم کو پسند کیا اورنکاح کرکے اُس کے ساتھ مصر کو چلے گئے ۔وہی سارہ تھی پر مصر کے بادشاہ نے اُسے لینا چاہا اس لئے اُس کے سات عضو خشک ہوگئے اور اندھا ہوگیا پھر ابراہیم کی دُعا سے صحت پائی اور اپنا نصف مال اور ایک لونڈی ہاجرہ اُن کو بخش دی وہ بھی ابراہیم کی جورو ہوئی۔

بُر ج بابل کا قصہ

جب نمرود نے ابراہیم کو آگ میں ڈالا اور وہ نہ جلا بلکہ بچ کر شام کی طرف چلا گیا تو نمرود نے کہا ابراہیم کا خُدا بڑا بزرگ ہے جس نے اُسے بچالیا میں چاہتا ہوں کہ آسمان پر جاکر اُسے دیکھو اس لئے اُس نے ایک مینار بابل میں بنایا تاکہ اُس پر چڑھ کر آسمان پر جائے اور خُدا کو دیکھے جب اُس پر چڑھا تو آسمان اسی قدر بلند نظر آیا جس قدر زمین پر سے نظر آتا تھا حالانکہ وہ مینار پانچ ہزار گز یا دوفرسخ بلند تھا۔ تب خُدا نے ایک ہوا چلائی جس سے وہ مینار نمرودیوں پر گر پڑا اورایک ایسی آواز کہ سب لوگوں کی زبان بدل گئی اور ۷۲ زبانیں دنیا میں پیدا ہوگئیں۔

اس و قت نمرود بہت غصہ ہوا اورکہا کہ میں اس خُدا سے لڑائی کروں گا ۔پس اُس نے چار کرگس یا گدھ پالے اورایک بڑے سے صندوق کے چار کونوں پر چار نیزے کھڑے کئے ہر نیزہ پر ایک گوشت کی ران لٹکائی اور چاروں گدھ صندوق کے چاروں پایوں سے باندھے جب وہ گدِھ نیزوں پر گوشت دیکھ کر کھانے اڑے تو صندوق آسمان کی طرف چلا اُس صندوق میں نمرود اورایک شخص بیٹھے تھے دونوں خُدا سےلڑنے کو آسمان پر چلے ایک رات دن برابر چلے گئے جب اوپر کا دروازہ کھول کر دیکھا تو آسمان اسی قدر بلند تھا جتنا زمین سے ہے تب نمرود نے غصہ ہوکر آسمان کی طرف ایک تیر مارا خُدا نے اس تیر کو مچھلی کے خون میں ڈبا کر صندوق میں واپس ڈال دیا تب نمرود خوش ہوا کہ میں نے خُدا کو مارلیا ۔تب الٹے گوشت لٹکائے اورنیچے اترا۔ پھر جب ابراہیم سے ملاقات ہوئی تو نمرود نے کہا کہ میں نے تیرے خُدا کو مار ڈالا ابراہیم بولا خُدا کو کوئی نہیں مارسکتا نمرود بولا اس کے پاس کتنی فوج ہے ابراہیم نے کہا بے شمار لشکر ہے اُس نے کہا بھلا اپنے خُدا کی ساری فوج بلا کہ میری فوج سے لڑائی کرے ۔پس خُدا نے صرف مچھروں کی فوج بھیج دی تب نمرود کی فوج مچھروں سے ہلاک ہوئی اورایک لنگڑا مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اورایسا پُہر پہرایا کہ نمرود بڑا دق ہوگیا اورکسی طرح آرام نہ پاتا تھا جب اُس کے سر میں جوتی یا لکڑی مارتے تھے تب مچھر چب کرتا تھا ورنہ پُہر پُہراتا تھا یہاں تک کہ نمرود مرگیا۔

اسماعیل کا قصہ

جب ابراہیم بیت المقدس میں تھا تو اُس کے لڑکا اسماعیل ہاجرہ سے پیداہوا اس لئے سارہ کو رشک آیا کہ میرے اولاد نہ ہوئی ہاجرہ لونڈی بیٹا جنی اس لئے اُس نے کہا ہاجرہ واسماعیل کو بیابان میں نکال دے فرشتے نے بھی آکر کہاکہ اے ابراہیم سارہ کا حکم مان ان کو نکال دے ۔پس ابراہیم نے اُن کو نکال دیا اورمکہ کی سرزمین میں جہاں کوئی بستی نہ تھی ان کو چھوڑ گیا جب پانی نہ ملنے کے سبب ہاجرہ بے تاب ہوئی تو کوہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے لگی اور سات بار دوڑی اس لئے مسلمانوں کو حج کے وقت ان پہاڑوں میں سات با ردوڑنا سنت ہوگیا اورجب بہت پیاس لگی تو اسماعیل بے قراری میں زمین پر پیر مارنے لگا خُدا نے وہاں ایک چشمہ جاری کردیا جس کو آب زم زم کہتے ہیں اس لئے مسلمان اُس کا پانی پینا موجب ثواب جانتے ہیں۔ اس اثناء میں وہاں ایک قافلہ آگیا اورپانی کے سبب وہاں ڈیرہ لگادیا۔ ابراہیم جو چھوڑ کر چلا آیا تھا مدت بعد اُنہیں دیکھنے کو گیا مگر سارہ کا حکم تھا کہ سواری سے نہ اُترے کھڑا کھڑا دیکھ کر واپس آئے چنانچہ ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ اسماعیل جوان ہوگیا اور ہاجرہ مرگئی پر اسماعیل نے اُس جرہم کے قافلہ میں سے جو وہاں اترا تھا کسی عورت سے نکاح کرلیا ۔تب ابراہیم پھر ملاقات کو آیا اس وقت اسماعیل گھر میں نہ تھا صرف اس کی بی بی تھی اس نے نہ جانا کہ میرا خسر آیا ہے اس لئے کچھ خدمت نہ کی اورکہا کہ ہمارے گھر میں کھانے پینے کی تنگی ہے اس لئے ہم مسافرپروری نہیں کرسکتے ابراہیم نے کہا جب تیرا شوہر آئے تو اُس سے کہیو کہ اپنے گھر کا دروازہ بدل ڈالے یہ کہہ کر ابراہیم چلے آئے جب عورت نے اسماعیل سے کہا کہ کوئی شخص مسافر آیا تھا ۔ایسا شخص تھا اور یوں میں نے کہا اور یوں وہ کہہ گیا تو اسماعیل سمجھ گیا کہ میرا باپ تھا اور جورو کوطلاق دینے کا حکم دے گیا ہے۔ پس اس کو طلاق دی اورایک اور بی بی کرلی جس نے گھر کو خوب آراستہ کیا پھر ابراہیم آیا اور اس وقت بھی اسماعیل نہ تھا پر اُس کی بی بی نے ابراہیم کی بہت عزت کی اس لئے وہ کہہ گیا کہ جب اسماعیل آئے تو کہیو دروازے کی نگہبانی کرے یعنی بی بی کو حفاظت میں رکھے سو اس عورت کو اُس نے حفاظت سے رکھا۔

ابراہیم کے بیٹے کی قربانی کا قصہ

مسلمانوں میں اختلاف ہے کہ وہ کونسا بیٹا تھا جس کو ابراہیم نے قربان کیا بعض کہتے ہیں کہ اسماعیل کو کیا اور بعض کہتےہیں اضحاق کو ’’چونکہ اضحاق کے قربان ہونے سے اسماعیل کی عزت کم رہتی تھی اس لئے بعض مسلمانوں نے کہا کہ صحیح بات یوں ہے کہ اسماعیل قربان ہوا‘‘ اور قربانی کا قصہ یوں ہے کہ خواب میں ابراہیم کو آواز آئی کہ تو اپنے بیٹے کو قربان کر ۔پس وہ بیت المقدس سے مکہ میں آیا اورہاجرہ سے کہہ کر اس کے بیٹے اسماعیل کو آراستہ کرایا اُس وقت اسماعیل ۷، ۹، یا ۱۳ برس کا تھا کہ وہ اُسے ذبح کرنے کو لے چلا چھری اور رسی آستین میں چھپا رکھی تھی تب شیطان نے ہاجرہ کو کہا کہ تیرے بیٹے کو ابراہیم قتل کرنے کو لے جاتا ہے وہ بولی باپ بیٹے کو قتل نہیں کیا کرتا شیطان نے کہا کہ خُدا نے اُسے حکم دیا ہے تب ہاجرہ نے کہا یہ خوشی کی بات ہے پھر شیطان اسماعیل کےپاس آیا اورکہا تیرا باپ تجھے مارنے لے جاتا ہے اُس نے بھی ہاجرہ کے مانند جواب دئیے۔ پھر اسماعیل نے ابراہیم سے کہا کہ تو مجھے کہاں لے جاتا ہے اُس وقت ابراہیم نے بتادیا کہ یوں خُدا کا حکم ہے اُس نے کہا اچھا میں پسند کرتا ہوں مگر جلدی کر کیونکہ شیطان مجھے بہکاتاہے تب ابراہیم واسماعیل شیطان کے پتھر مارنے لگے اس لئے حاجی لوگ ان پہاڑوں میں شیطان کے اب تک پتھر مارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے اسماعیل کو ذبح کرنا چاہا اورکہا اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد۔یہ تکبیر مسلمان لوگ اُسی کی سنت پر اب تک پڑھتے ہیں۔ پر خُدا نے ایک بڑا دُنبہ بھیج دیا جو اُس کے عوض قربان ہوا اس لئے مسلمان اب تک قربانی کرتے ہیں۔

اس وقت وہ اختلاف کی صورتیں دیکھنا چاہیے جس میں اسماعیل کی قربانی پر یہ لوگ فتویٰ دیتے ہیں۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ سے روضتہ الاحباب میں یوں لکھاہے کہ اکثر لوگ کہتےہیں کہ اسماعیل قربان ہوا مگر ایک بڑی جماعت علماء کی قائل ہے کہ نہ اسماعیل مگر اضحاق قربان ہوا ہے جو لوگ اضحاق کی قربانی کے قائل ہیں وہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ قرآن میں یوں لکھا ہے کہ فبشر ناہ بغلام حلیم فلما بلغ معہ السعی قال یا ابتی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذ اتری ترجمہ: پھر خوشخبری دی ہم نے اُ س کو ایک لڑکے کی جو ہوگا تحمل والا پر جب پہنچا اُس کے ساتھ دوڑنے کو کہا اے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ تجھے ذبح کرتا ہوں پر دیکھ تو کیا دیکھتاہے ۔

یہاں سے ظاہر ہے کہ جس لڑکے کی پیدائش پرابراہیم کو بشارت سنائی گئی اُسی کے ذبح کرنے کا حکم بھی ہوا تھا اور قرآن سے صاف صاف ثابت ہے کہ صرف اضحاق ہی کے تولد پر بشارت دی تھی اورکسی لڑکے پر بشارت نہیں سنائی گئی چنانچہ سورہ ہود میں ہے فبشر ناہ باصحاق اور صافات میں ہے وبشر ناہ صحاق یعنی بشارت دی گئی تھی صرف اصحاق پر اور جس پر بشارت دی گئی بموجب پہلی آئت کے وہی قربانی بھی ہوا ۔یہ بڑی کامل دلیل ہے کہ اصحاق ذبح ہوا نہ اسماعیل۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت محمد نے حدیث میں کہا ہے کہ اصحاق ذبیح اللہ ہیں۔

پر وہ لوگ جو اسماعیل کی قربانی کے قائل ہیں یوں کہتے ہیں کہ قرآن میں اوّل قصہ ذبح کا بیان ہوا ہے اس کے بعد اصحاق کی بشارت کا ذکر ہے پس تقدم قصہ کے سبب اسماعیل مراد ہوناچاہیے ’’ہمارا جواب اس دلیل والوں کو یہ ہے کہ قرآن میں صاف بیان ہوچکا ہے کہ بشارت والا لڑکا ذبح ہوا ہے ۔پس جب کہ قرآن میں پہلے ذبح کا قصہ بیان ہوچکا ہے تو ضرورت ہوئی کہ اس ذبح شدہ لڑکے کا ذکر کیا جائے کہ وہ کونسا لڑکا تھا اس لئے اصحاق کا ذکر اُس کے بعد آیا تاکہ ذبح شدہ کی تشریح ہوجائے ‘‘۔دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ حضرت نے آپ کو ابن الذبیحین کہا ہے یعنی میں دوقربانیوں کا بیٹا ہوں ایک اسماعیل دوسرا عبد اللہ جس کی قربانی کا ذکر تواریخ محمدی میں ہوچکا ہے پس اگر اصحاق ذبح کیا جاتا تو وہ حضرت محمد کا باپ نہ تھا اس کا جواب اسی روضتہ الاحباب میں لکھاہے ’’کسے کہ مرتبہ عم بودہ حکم پدرد ادہ باشد‘‘ یعنی چچا بھی حکماً باپ کی مانند ہے۔

دیکھو اسماعیل کی قربانی والوں کی کیسی کچی دو دلیلیں ہیں جن کے جواب کامل ہوگئے پر اصحاق کی قربانی والوں کی دلیلیں لاجواب ہیں۔

شائد کوئی کہے کہ اگر اسماعیل قربان نہیں ہوا تھا تو عرب میں یہ قربانی کی رسم اُس کے نام پر کس طرح جاری ہوئی ہے۔

جواب یہ ہےکہ اصحاق کی قربانی کا ذکر اسماعیل نے سن کر قربانی کا دستور لوگوں میں جاری کیا اور کئی پشتوں کے بعد خواہ جہالت کے سبب خواہ یہود کی ضد میں اہل عرب نے اپنے باپ اسماعیل کی نسبت اس شرافت کو جو اصحاق کی تھی فرض کرلیا تو بھی وہ سب اس بات پر متفق نہ ہوئے اس عقیدہ میں یہ لوگ نہ صرف موسیٰ کے مخالف ہیں بلکہ تمام پیغمبروں کے بھی مخالف ہیں جو اصحاق کی قربانی کا ذکر کرتےہیں ۔ پھر مسلمان کہتے ہیں کہ اسماعیل پیغمبر بھی تھا وہ ملک مغرب کے بُت پرستوں کی ہدائت کے لئے بھیجا گیا تھا ۔پچاس برس اس نے ان کو ہدائت کی آخر کو مکہ میں آیا اور ۱۳۷ برس کا ہوکر مرگیا اوراپنی والدہ ہاجرہ کے پاس مکہ میں دفن ہوا۔ مگر خُدا کے کلام میں اُس کے پیغمبری کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ صرف یہ لکھاہے کہ وہ بھی تیری نسل ہے اس سے بارہ سردار نکلیں گے اوریہ کہ خُدا نے اُس کی مصیبت کے وقت اس پر رحم کیا۔ اوریہ کہ وہ وحشی اوربھائیوں کا مخالف ہوگا اوریہ کہ اصحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا یا یہ کہ اس کو اورا س کی والدہ کو گھر سے نکال دے کیونکہ وعدہ کے فرزند پر ٹھٹھہ کرتا تھا اور ستاتا تھا۔اس کے سوا اس کی نبوت کا کلام کہیں دنیا میں سنا نہیں گیا اورکسی پیغمبر کی زبان شریف سے کبھی اُس کی نبوت پر گواہی نہیں گذری البتہ ابراہیم پیغمبر کا جسمانی طورپر فرزند تھا اس لئے ہم بھی اُس کی عزت کرتے ہیں پر یہ رشتہ موجب نبوت نہیں ہے۔

لوط کا قصہ

لوط ابراہیم کا خواہر زادہ چچا زاد یا برادر زاد ہ بھائی تھا جب ملک شام میں ابراہیم آیا تو ملک فلسطین میں آپ رہا اور لوط موتفکہ میں جارہا ان دو مقاموں میں آٹھ پہر کی مسافت تھی۔ یہ لوط یہی مسلمانوں کے گمان پیغمبر تھا اور موتفکات کے لوگوں کے لئے بھیجا گیا تھا اور موتفکات پانچ شہر کو کہتے تھے سدوم اور عمورا۔ وداؤ ماوصعودایا صغر۔

ان بستیوں میں چالیس لاکھ آدمی تھے مرد اور عورتیں سب بدکار خلاف وضع تھے اور کبوتر بازی وسینٹی بازی بھی کرتے تھے اور راہ کے سروں پر بیٹھ کر ٹھٹھ بازی کیا کرتے تھے بیس برس لوط نے اُن کو نصیحت کی پر اُنہوں نے نہ مانی۔

ایک روز کچھ فرشتے ابراہیم کے پاس آئے وہ چار تھے یا ۳ یا ۸ یا ۷ یا ۱۲ پر سب خوبصورت لڑکے بن کر آئے تھے۔ ابراہیم اُنہیں آدمی سمجھا اور فوراً ایک بکری کا بچہ مہمانی کے طورپر پکا لایا وہ کہنے لگے ہم نہ کھائيں گے ابراہیم سمجھاکہ یہ چور ہیں کیونکہ اُس زمانہ میں دشمن اور چور جس کو دکھ دینا چاہتے تھے اُس کی روٹی نہ کھاتے تھے پر فرشتوں نے کہا ہم چور نہیں ہیں ہم فرشتے ہیں ابراہیم نے کہا پہلے سے خبر کیوں نہ دی کہ میں بکری کا بچہ ذبح کرکے اُس کی ماں سے اسے جدا نہ کرتا تب جبرائیل نے اپنا بازو اُس پکے ہوئے گوشت پر مارا وہ بچہ فوراً زندہ ہوکر اپنی ماں کے پاس چلا گیا ا س و قت فرشتوں نے ابراہیم کو خبردی کہ تیرے بیٹا پیدا ہوا اوراس وقت ابراہیم ۱۱۲ یا ۱۲۰ برس کا تھا اور سارہ ۹۹ یا ۱۱۲ برس کی تھی۔

پھر فرشتوں نے کہا ہم قوم لوط کے ہلا ک کرنے کو آئے ہیں یہ کہہ کر چلے گئے جب لوط کے پاس پہنچے وہ انہیں اپنے گھر لایا اور شہر والوں نے اُن فرشتوں کو خوبصورت لڑکے جان کر اُن سے بدی کرنا چاہا ہر چند لوط نے منع کیا اُنہوں نے نہ مانا گھر میں گھس آئے تب فرشتوں نے انہیں اندھا کردیا اور لوط سے کہا کہ اپنی جورو کو جو کافر ہے شہر میں چھوڑ اور سب عیال کو لے کر اندھیرے اندھیرے نکل جا ۔پس وہ نکل گیا تب جبرائیل نے اُن شہروں کو زمین سمیت آسمان کی طرف اٹھایا اور اتنے اونچے تک لے گیا کہ آسمان کے رہنے والوں نے اور شہروں کے کتوں اور مرغوں کی آواز سنی تب شہر نیچے زمین اوپر کرکے وہاں سے گرائے گئے اور سب دب کر مرگئے یہ وہاں کے مقیموں کااحوال ہوا مگر جو جو مسافر وہاں آئے ہوئے تھے اُن پر پتھر برسے ہر پتھر پر اُس آدمی کا نام لکھا تھا جس پر وہ پتھر گرنے والا تھا۔

اُن آفت زدوں میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ میں کعبہ کے اندر بھی آیا تھا جب تک کعبہ کی چار دیواری کے اندر رہا اس کا پتھر ہوا میں معلق(لٹکایا ہوا) رہا جب حرم سے باہر نکلا فوراً پتھر سر پر گرا اور وہ مرگیا بعد تباہی اُن شہروں کے لوط ابراہیم کے پاس چلا گیا اور عبادت میں مشغول رہا۔

قصہ اصحاق

اس کے بعد اصحاق پیدا ہوا اور لڑکے بھی حضرت سارہ کے شکم سے پیدا ہوئے اور اسماعیل اصحاق سے ۱۲برس بڑا تھا خُدا نے اصحاق کو بھی عہدہ پیغمبری کا بخشا اور وہ ملک کنعان کا پیغمبر ہوا اور کنعان کے سردار کی بیٹی اُس کی بی بی ہوئی اور دو لڑکے توام اس سے تولد ہوئے یعنی عیص ویعقوب پھر ۱۶۰ یا ۱۸۰ برس کی عمر میں اصحاق مرگیا اوراپنی والدہ کے پاس دفن ہوا۔

قصہ یعقوب ویوسف

یعقوب اصحاق کا بیٹا تھا خُدا نے اس کو پیغمبر بنایا۔ اس کے بارہ لڑکے پیدا ہوئے ۶ لیا کے شکم سے دو ایک لونڈی سے دو دوسری لونڈی سے دو راخیل سے۔ یوسف اس کا بیٹا بہت خوبصورت تھا اُس نے خواب دیکھا کہ بارہ ستاروں اورسورج وچاند نے اُسے سجدہ کیا یہ خواب سن کر اُس کے بھائی اس سے حسد رکھنے لگے۔ اورایک سبب حسد کا یہ بھی تھا کہ یعقوب کے گھر میں ایک درخت تھا جب کوئی لڑکا پیداہوتا تو اُس درخت میں ایک شاخ نکلا کرتی تھی جب وہ لڑکا جوان ہوتا تو یعقوب اُس شاخ کو کاٹ کر اُس کے ہاتھ میں دیا کرتا تھا کہ یہ تیری لاٹھی ہے۔ جب یوسف پیدا ہوا تو کوئی شاخ نہ نکلی پر جب جوان ہوا تو جبرائیل آسمان سے سبز زبرجد کی لاٹھی اُس کے واسطے لایا اس لئے بھائی اُس کے مرتبہ پر حسد کرنے لگے۔ ایک روز بھائیوں نے باپ سے کہا جنگل کی سیر کے دن ہیں تو یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دے تاکہ باہر کی سیر کرے پر یعقوب نے نہ چاہا بھائیوں نے یوسف کو باہر جانے کی رغبت دلائی اور وہ باپ سے اجازت لے کر اُن کے ساتھ گیا باپ کے سامنے پیا کرتے ہوئے لے گئے جنگل میں جاکر پہلے تو خوب مارا اور زمین پر پٹکا بھی ایک کنوئیں میں جو بیت المقدس سے تین چار کوس تھا باندھ کر ڈال دیا وہ کنواں ۷۰ گز گہرا تھا تھوڑی دور تک رسی سے لٹکایا پھر رسی کا ٹ کر نیچے گرادیا مگر فوراً جبرائیل نےآکر نصف کنوئیں میں تھام لیا اور آہستہ سے لیجا کر ایک پتھر پر بٹھایا اور بہشت سے کھانے پینے کو لایا کرتا تھا۔ اس طرف یوسف کے بھائی اُس کا پیراہن برہ کے خون سے آلودہ کرکے روتے ہوئے گھر میں آئے اورکہا یوسف کو بھیڑیا کھاگیا۔یعقوب بولا اگر بھیڑیا کھاتا تو پیراہین چاک ہوتا پر یہ تو چاک نہیں ہوا۔ بے شک تم نے اُس کے ساتھ کوئی شرارت کی ہے اچھا تم اس بھیڑئیے کو حاضر کر وجس نے اسے کھایا ہے۔ پس وہ جنگل سے ایک بھیڑ پکڑ لائے یعقوب نے بھیڑئیے سے پوچھا کہ تونے یوسف کو کھایا ہے وہ بولا پیغمبروں کا بدن زمین اور جانوروں کو کھانا حرام ہے۔ میں نے ہر گز نہیں کھایا ہم تو تیری بکریوں کے پاس بھی نہیں آسکتے پس بھائی شرمندہ ہوئے اور یعقوب روتا ہوا تلاش میں تھا اور یوں کہتا پھرتا تھا ’’اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اے میرے دل کے میوے تجھے کس کنوئیں میں ڈالا تجھے کس دریا میں ڈوبویا تجھے کس تلوار سے قتل کیا‘‘ اور وہ رات دن روتے روتے اندھا ہوگیا اور چالیس برس تک روتا رہا یہ مصیبت جو یعقوب پر آئی اس کا سبب یا تو یہ تھا کہ اس نے فقیر کو روٹی نہیں دی تھی یا ایک لونڈی جو یعقوب نے معہ اُس کے بچہ کے خریدکی تھی پھر اُس کے بچے سے جدا کرکے اُسے فروخت کردیا تھا اوروہ لونڈی اُس کی جدائی میں روتی تھی یااُس نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا تھا وہ بکری اپنے بچے کے لئے بہت روئی تھی اس لئے یہ بلاآئی تھی۔

یوسف ایک رات دن یا تین رات دن یا سات رات دن کنوئیں میں رہا پھر ایک مدین کا قافلہ مصر کو جانے والاراہ بھول کر وہاں آگیا جب مالک قافلہ نے پانی بھرنےکوکنوئیں میں ڈول ڈالا تو یوسف ڈول میں بیٹھ کر باہر نکل آیا پر کنواں اُس کی جدائی سے بہت رویا۔لیکن قافلہ والے بہت خوش ہوئے کہ ایک خوبصورت لڑکا پایا اس عرصہ میں بھائی اس کے وہاں آپہنچے اورکہا یہ ہمارا فراری غلام ہے اگر تم اسے لینا چاہتے ہو تو دام دے کر لے جاؤ۔ پس انہوں نے ۱۷یا ۱۸یا ۱۹یا ۳۰ درم مصری دے کر اُسے خریدا اور مصر کو لے چلے راہ میں یوسف نے اپنی والدہ کی قبر دیکھی اور شتر پر سے کود کر قبر پر رونے گیا اہل قافلہ سمجھے کہ بھاگتا ہے اس لئے اُس کے طمانچہ مارا اور پکڑ لائے پھر مصر میں جاکر عزیز مصر کے ہاتھ اُسے فروخت کیا اُس کی قیمت یہ ہوئی ۔

بحر اللوج میں لکھا ہے کہ یہ دولت دیکھ کر یوسف مالک پر خفا ہوا۔ اورکہا کہ میں نبی زادہ ہوں مجھے فروخت نہ کر بلکہ مفت عزیز کو بخش دے۔مالک بولا اچھا میں کچھ نہیں لیتا مگر تو دُعا کر کہ میرے گھر میں اولاد پیدا ہو کیونکہ میں بے اولاد ہوں یوسف نے دُعا کی تب اُس کی جورو کے بارہ حمل رہے ہر حمل میں دولڑکے پیدا ہوئے یعنی ۲۴ بیٹے ہوگئے یا اُس کےبارہ لونڈیاں تھیں ہر لونڈی دو لڑکے جنی تب ۲۴ ہوئے۔ غرض یوسف کو عزیز اپنے گھر لے گیا اوراپنی بی بی زلیخا سے کہا کہ اس کو لے پالک کرکے اس پر عاشق ہوگئی ۔

زلیخا کا احوال

مغرب کی زمین میں طموس نام ایک بادشاہ تھازلیخا اس کی بیٹی بہت خوبصورت تھی اس نے رات کو خواب میں یوسف کو دیکھا جب کہ وہ باپ کے پاس لڑکا تھا۔پس وہ خواب میں اس پر عاشق ہوگئی ایک برس اُس کے عشق میں روتی رہی پھر ایک روز یوسف اُس کے خواب میں آیا اس نے پوچھا کہ تو کون یوسف نے کہا میں عزیز مصر ہوں ۔القصہ جب زلیخا کی شادی کا بندوبست ہونے لگا تو بہت لوگ اُسے بیاہنے کو آئے پر اس نے کسی کو قبول نہ کیا اورباپ سے کہا میں عزیز مصر سے نکاح کروں گی جسے خواب میں دیکھا تھا ۔اس لئے اس بادشاہ نے عزیز مصر کو پیغام بھیجا کہ تم اس سے شادی کرو پر عزیز مصر نے کہلا بھیجا کہ مجھے فرعون رخصت نہیں دیتا آپ زلیخا کو یہاں بھیج دیں میں اُس سے نکاح کرلوں گا۔ پس زلیخا مصر میں آئی اورجب بوطیفار کو دیکھا تو گھبرائی کہ یہ تو وہ شخص نہیں ہے جسے خواب میں دیکھا تھا ۔پس آسمان سے فوراً آواز آئی کہ مت گھبرا اسی شخص کے وسیلہ سے تیرا محبوب تجھے ملے گا پس وہ بوطیفار کے گھر میں داخل ہوئی مدت بعد یوسف مصر میں فروخت ہونے کو آیا زلیخا کو خبر ملی اس نے بوطیفار کو ابھارا اوربہت سی دولت دی کہ کسی طرح اس غلام کو خرید لے ۔پس اُس نے خر ید لیا اور سات برس زلیخا نے یوسف کی خدمت کی اورچاہا کہ اُس سے ہم خواب ہو پر یوسف نے نہ چاہا آخر کو زلیخا نے ایک عجائب خانہ بنایا جس میں سات کمرے تھے ہر کمرہ بہت ہی آراستہ کیا گیا تھا پھر یوسف کولے کر عجائب خانہ میں آئی اور ہر کمرے کا قفل لگاتی جاتی تھی ساتویں کمرے میں جاکر اور سب اشارے کنایہ کرکے لاچار ہوگئی تب زبان سے کہا کہ تو یہ کام کر یوسف نے کہا مجھے دو خوف ہیں اوّل خُدا کا خوف دوسرے بوطیفار کا خوف زلیخا نے کہا کہ خُدا کا گناہ اس طرح بخشا جاسکتا ہے کہ میں بہت سا مال خیرا ت کروں گی اور بوطیفار سے بھی نڈر کہ میں اُسے زہر سے ماروں گی توبھی یوسف نے نہ مانا۔تب زلیخا نے تلوار نکالی اورکہا آپ کو مار کر مرتی ہوں میرے قصاص میں تجھے بھی قتل کرے گا۔ تب یوسف بولااے زلیخا جلدی نہ کر تو اپنے مطلب کو پھچی گی اس وقت یوسف کا دل ڈگمگا گیا اورچاہا کہ بدی کرے فوراً جبرائيل بشکل یعقوب نظر آیا اورکہا زنا مت کر تب یوسف ڈر کر بھاگا اور زلیخا پیچھے بھاگی اور قفل خودبخود کھل گئے پر زلیخا نے آخری دروازہ پر یوسف کا پچھلا دامن آپکڑا وہ ایسا بھاگا کہ پچھلا کپڑا پھٹ گیا اور یوسف گھبرایا ہوا باہر آنکلا وہاں بوطیفار کھڑا تھا وہ بولا کیا ہے یوسف نے سب حال سچ سچ کہہ دیا تب بوطیفار اُسے گھر میں لایا پیچھے زلیخا بھی آئی اورکہا کہ اس غلام کو تو یہاں لایا ہے کہ ہم سے زنا کرے میں سوتی تھی وہ مجھ سے زنا کرنے کو آیا میں جا گ اٹھی تب وہ بھاگا میں پیچھے پکڑنے کے دوڑی اس کا یہ کپڑا پھٹ گیا۔

پس بوطیفار نے کہا اے یوسف تونے ایسی بڑی بے ادبی کی وہ بولا زلیخا فریب دیتی ہے میں نے نہیں کیا مگر اُس نے یہ چاہا تھا وہ بولا کوئی گواہ ہے یوسف نے کہا یہ چھہ مہینے کا بچہ جو گواہ میں ہے گواہ ہے ۔پس خُدا نے بچہ کو زبان دی وہ بولا یوسف سچا ہے ۔اگراُس کا کپڑا پیچھے سے پھٹا ہو اور جو آگے سے تو زلیخا سچی ہے۔ تب بوطیفار نے زلیخا کوملامت کی اور چاہا کہ قتل کرے اُس بچہ نے کہا ایسا نہ کر اس میں تیری بدنامی ہوگی۔ پس بوطیفار نے یوسف سے کہا یہ بات کسی سے نہ کہنا اور زلیخا سے کہا توبہ کر اور چپکی گھر میں بیٹھ۔ مگر تین مہینے یا سات مہینے کے عرصہ میں یہ بات مشہور ہوگی۔مصر کی عورتیں زلیخا پر ہنسنے اورملامت کرنے لگیں زليخا نے جب یہ حال دیکھا تو سب عورتیں کی ضیافت کی اور اُن کے آگے کھانے اور چھریاں بھی رکھوائیں تاکہ میوہ تراش کر کھائیں پھر یوسف کا سنگار کراکے اُن کے سامنے بلایا وہ سب اُس کا حسن دیکھ کر ایسی بے ہوش ہوگئیں کہ بجائے میوہ کے انہوں نے اپنے ہاتھ تراش لئے جب یوسف سامنے سے ہٹا اور وہ ہوش میں آئیں تو کہنے لگیں یہ تو آدمی نہیں فرشتہ ہے۔ زلیخا نے کہا اسی کے عشق سے تو تم مجھے ملامت کرتے ہوتب وہ ملامت کرنے سے بازآئيں اور زلیخا نے بوطیفار سے کہا کہ میں یوسف کے سبب بدنام ہوگئی مناسب ہے کہ تو اُسے قید خانہ میں ڈالے تاکہ لوگ جانیں کہ یوسف کی خطا تھی نہ زليخا کی تب بوطیفار نے اُسے قید خانہ میں ڈال دیا او روہاں پر بھی زليخا نے اُس کی بڑی خدمت کی ہمیشہ اُس کے پیچھے قرم(بےحیامرد) لگائے اورکھانے بھجوائے اور رات کو بحیلہ سیردیکھنے بھی آتی رہی۔

الغرض نان بائی اورساقی دوشخص فرعون کے قیدی وہاں آئے اورانہوں نے خواب دیکھی اوریوسف نے اُن کی تعبیر بتلائی ساقی سےکہا کہ تو تین روز بعد چھوٹ جائے گا اورنان بائی سےکہا تو مارا جائے گا اور ساقی سے اقرار لیاکہ میری بھی مخلصی کر ایومگر وہ بھول گیا۔

یوسف کا عزیز مصر ہونا

سات برس یا دس برس قید میں رہا اوراُس وقت تیس برس کا تھاکہ بادشاہ مصر نے خواب دیکھا وہی خواب جو توریت میں ہے۔

جب اُس کے خواب کی کسی حکیم سے تعبیر نہ ہوسکی تو ساقی کو یوسف یادآیا اوراُس نے یوسف کا ذکر بادشاہ سے کیا بادشاہ نے اُس کو قید خانہ سے بڑی عزت وکروفر سے بلایا اوریوسف کے ساتھ ۷۰ ملکوں کی زبانوں میں باتیں کیں اُس نے ہر زبان میں جواب دیا اوراُس کے خواب کی تعبیر بتلائی جب تعبیر بتلا کر یوسف چلنے لگا تو عبرانی زبان میں دُعاء خیردی اور عربی میں سلام کیاان دونوں زبانوں کو بادشاہ نہ جانتا تھا کہا یہ کس ملک کی زبانیں ہیں یہ تو اُن ستر کےسوا ہیں جن میں میں نے تجھ سے بات چیت کی ہے یوسف نے کہا عبرانی میرے باپ کی زبان ہے اور عربی میرے چچا اسماعیل کی بولی ہے۔ پس یوسف بادشاہ نے زبان دانی میں بھی فالیق رہا’’مگر معلوم نہیں کہ وہ ستر زبانیں کونسی تھیں جو بادشاہ جانتا تھا اور عبرانی وعربی جو قریب کے ملک کی ہیں اُن سے وہ ایسا ناواقف تھاکہ پوچھنا پڑا یہ کس ملک کی زبانیں ہیں‘‘ غرض بادشاہ نے اُس کی بڑی عزت کی اورسارے ملک پر اُسے اختیار بخشا اور بوطیفار کو موقوف کردیا اب یوسف عزیز مصر ہوگیا اور چند روز بعد بوطیفار مرگیا۔

زليخا روتی ہوئی جنگل کو نکل گئی وہاں جو کوئی یوسف کی خبر لاتا تھا اُسے دولت بخشتے تھے آخر کو فقیر ہوگئی اوربوڑھی واندھی ہوگئی پر یوسف کی یادگاری نہ چھوڑی۔

ایک روز یوسف کے ہزار پیادے وسوار لےکر کہیں جاتا تھا راہ میں زلیخا آہ بھرتی ہوئی ملی یوسف نے اُس کی خراب حالت پر ترس کھایا حال پوچھا اور تسلی دی پھر دُعا مانگی تو وہ فوراً جوان اورپاکرہ ہوگئی اور پہلے سے زیادہ حسن آگیا تب یوسف نے اُس سے نکاح کرلیا۔

اُس سے دوبیٹے پیدا ہوئے افرایئم اورمنسی اوریوسف نے ازرانی(بہتات،سستے دام) کے سات برسوں میں غلہ جمع کیا اور گرانی(کال) کے ساتھ برسوں میں فروخت کیا اوراہل مصر کے سب املاک بلکہ بال بچے بھی خرید لئے اورپھر انہیں آزاد کر دیاتاکہ کوئی اُسے غلامی کی داغ نہ لگادے بلکہ سب اُس کے غلام ہوں۔

بھائیوں کی ملاقات

یوسف کے دس بھائی غلہ خریدنے کو مصر میں آئے جب یوسف کے سامنے پیش ہوئے انہوں نے یوسف کو نہ پہچانا پر یوسف جان گیا اوراُس نے کہا تم جاسوس ہو وہ بولے نہیں ہم یعقوب کے بیٹے ہیں ایک کو بھیڑیاکھاگیا ایک بنیامین باپ کے پاس ہےاورہم دس غلہ خریدنے کوآئے ہیں یوسف نےکہا اپنے اُس بھائی کو بھی لا کر دکھلاؤ تو مجھے یقین ہوگا کہ تم جاسوس نہیں ہو تب انہوں نے شمعون کو وہاں چھوڑا اورآپ وہاں سے کنعان کو غلہ لےکر واپس گئے اُن پونجی بھی جو انہوں نے غلہ کی قیمت دی تھی یوسف نے خفیہ بوریوں میں واپس کردی تھی ۔پس باپ سے بجد ہوکر بینامین کو لائے اور یوسف نے اُن کی ضیافت کی اور پھر اُن کو واپس کیا لیکن بنیامین کی بوری میں یوسف کا پیالہ اُس کے حکم سے چھپایا گیا تھا بعد تلاشی کے اُسے پکڑ اور غلام کیا اگرچہ بھائی بہت روئے پر اُس نے نہ چھوڑا آخر کو بنیامین کو وہاں چھوڑ کر وہ چلے گئے اور روبین بھی اپنی مرضی سے وہاں رہا اب یعقوب زیادہ مصیبت میں پڑگیا کیونکہ نہ یوسف ہے نہ بنیامین اور روبین بھی مصر میں رہ گیا لاچار ہوکر یعقوب نے عزیز مصر کو یہ خط لکھا اور لڑکوں کے ہاتھ بھیجا۔خط یہ تھا یعقوب اسرائيل بن اصحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ کی طرف سے عزیز مصر کو لکھا جاتا ہے کہ ہم لوگ اہل بیت ہیں جن پر بلائیں آتی رہیں میرا دادا ابراہیم آگ میں ڈالا گیا پر خُدا نے اُسے خلاصی دی میرے باپ اصحاق کے گلے پر چھری رکھی گئی اور خُدا نے اُس کے عوض فدیہ دیا میرا ایک پیارا بیٹا تھا اُسے جنگل میں لے گئے اورآکر کہا کہ اُسے بھیڑیا کھاگیا اُس کے غم میں روتے روتے میری آنکھیں سفید ہوگئیں اُس کا بھائی بنیامین تونے چوری کی تہمت سے پکڑ رکھا ہے ہم لوگ چور نہیں ہیں۔ پس میرے لڑکے کے چھوڑدے ورنہ ایسی بددُعا کروں گا کہ تیری ساتویں پشت تک اُس کا بداثر نہ جائے گا۔

یوسف نے اس کا جواب فوراً یوں لکھا۔

یعقوب اسرائيل اللہ بن ذبیح اللہ بن خلیل اللہ کی طرف عزیز مصر سے یوں لکھا جاتا ہے کہ آپ کا خط میرے پاس پہنچا جس میں آپ کے باپ دادوں کی اورآپ کی تکلیفوں کا ذکر ہے پس آپ کو صبر کرنا چاہیے تھا تمہارے باپ دادوں نے صبر کیا تو فتح پائی آپ بھی صبر کریں۔

جب یعقوب نے یہ پڑھا توکہا شائد وہ یوسف ہو کیونکہ یہ باتیں پیغمبروں کے سے ہیں۔ پس یعقوب نے اپنے لڑکوں کو جو مصر میں تھے اورخط لکھا کہ وہیں رہیں اور عزیز مصر کے سامنے عاجزی کرتے رہیں تاکہ تم پر مہر کرکے لڑکا چھوڑدے اورکچھ کھانا بھی دے۔ پس وہ سب جمع ہوکر اُس کے سامنے زاری کرنےکو آئے تب یوسف نے آپ کو اُن پر ظاہر کیا اور وہ شرمندہ ہوئے یوسف نے انہیں ملامت نہیں کی بلکہ بخش دیا اور تسلی بھی دی۔

یوسف کی باپ سےملاقات

۸۰ برس یعقوب اور یوسف میں جدائی رہی اس عرصہ میں یعقوب روتے روتے اندھا ہوگیا یادھندلا دیکھنے لگا۔ ایک دن یوسف نے بھائیوں سے کہا تم میرا کپڑا لے کر باپ کے پاس جاؤ اوراُس کے منہ پر ڈال دو وہ بینا ہوجائے گا پھر تم سب اُسے لے کر مصر میں چلے آؤ جب وہ لوگ کپڑا لے کر مصر سے باہر نکلے خُدا نے بادصبا کو حکم دیا کہ یوسف کے کپڑے کی خوشبو یعقوب کو پہنچادے۔ پس یعقوب کنعان میں بولا مجھے یوسف کے کپڑے کی خوشبو آتی ہے لوگوں نے اُسے دیوانہ بتلایا تب لڑکے آئے اورکپڑا ڈالا وہ بینا ہوا ۔پھر وہ سب بڑی خوشی سے مصر کو آئے۔ ۷۲یا ۹۳ یا ۷۰ یا ۴۰۰ شخص تھے جب مصر کے نزدیک پہنچے ستر فوجیں لے کر یوسف استقبال کو آیا ہر فوج دوہزار سوار کی تھی سب ۱۴۰۰۰۰ سوار ہوئے ۔پس پہلے یعقوب نے یوسف سے کہا السلام علیک یا مذہب الاحزان پھر مل کر روئے اور یعقوب پانچ گھڑی تک بے ہوش رہا آسمان کے فرشتے خُدا سے کہنے لگے اے خُدا دنیا میں کسی کے ساتھ ایسی محبت ہوگی جیسے یعقوب کو یوسف سے ہے خُدا نے کہا ان سے زیادہ مجھے محمدی لوگوں کے ساتھ محبت ہے۔

غرض یعقوب بعد ملاقات بیس برس اور زندہ رہا اور ۱۴۷ برس کا ہوکر مرگیا اوربموجب وصیت کے یوسف نے اصحاق کی قبر کے پاس شام میں جاکر دفن کیا پھر یوسف مصر میں آیا اور ۴۳برس اور جیا پھر مرگیا اُس کی لاش کی بابت اہل مصر نے تکرار کیا ہر کوئی اپنے قبرستان میں بامید برکت اُسے رکھنا چاہتا تھا۔

آخریہ بات قرار پائی کہ ایک سنگ مرمر کے صندوق میں اُسے بند کرکے رودنیل دریا میں رکھیں تاکہ برکت کا پانی سب کو پہنچے جب چار سو برس بعد موسیٰ پیداہوئے وہ اُسے وہاں سے اٹھا کر لائے اور شام کے ملک میں اپنے قبرستان میں دفن کیاگیا۔ یوسف کی عمر ۱۱۰ یا ۱۲۰ برس کی ہوئی مدارک میں ہے ۱۷برس کا تھا جب مصر میں بکا ۱۳برس بوطیفار کے گھر میں رہا ۳۰برس کا تھا جب وزیر ہوا ۳۳ برس کا تھا جب علم وحکمت خُدا نے اُسے بخشا ۱۲۰ برس کا تھا جب مرگیا۔

قصہ ایوب

ایوب پیغمبر رومی تھا عیص تیسری پشت میں سے اُس کی ماں لوط کی بیٹی تھی اُس کے سات یا تین بیٹے تھے اور ۳ یا ۷ لڑکیاں تھیں اور دولت بہت تھی اس پر بڑی مصیبت آئی اور سبب مصیبت کا یہ تھا کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی اُس نے نہیں کی تھی۔یاآنکہ اُس کے مویشی کسی کافر بادشاہ کے علاقہ میں چرتے تھے اورایوب اس رعائت سے اُس کے ساتھ جہاد نہیں کرتا تھا۔ یا اُس نے کوئی گناہ کی بات دیکھی اورچُپ کررہا یا اس نے کوئی بکری ذبح کرکے آپ کھائی اورہمسایہ بھوکا رہا تھا۔ یاآنکہ شیطان نے اُس پر حسد کیا اور خُدا سے کہا یہ شخص عیش وعشرت میں تجھے یاد کرتا ہے مصیبت میں بھول جائے گا ۔پس اُس کا سب کچھ مجھے سپرد کر کہ میں اُسے آزماؤں۔ یا فرشتوں نے حسد کرکے اُسے آزمائش میں ڈلوایا۔ یا خود اُس نے خُدا سے کہا کہ مجھے بلا میں ڈال تاکہ مجھے صابروں کا اجر ملے یا کوئی اور سبب ہو ا۔ پس اُس کے اونٹ بجلی نے مارے ،بکریاں غرقاب (پانی میں ڈوبا ہوا)ہوئیں، کھیت ہوانے جلائے، لڑکے لڑکیاں دیوار کے نیچے دب مری وہ ہر مصیبت پر کہتا رہا خُدا نے دیا خُدا نے لیا۔ آخر کو بدن میں کیڑے پڑے بدبو آنے لگی سب اُس سے جدا ہوگئے اور اُس کی تین جوروں طلاق لے گئیں ایک جورو مسمات رحمت یا رحیمہ جو افرایم بن یوسف کی بیٹی تھی یا وہ ماخیرنام منسی بن یوسف کی بیٹی تھی۔ یا لیانام یعقوب کی بیٹی تھی وہ ساتھ رہی۔

اور وہ جس شہر میں جاتا تھا وہاں سے لوگ نکالتے تھے سات شہروں میں سے نکالا گیا جنگل میں جارہا اور دوشاگرد بھی جو ساتھ تھے وہاں جداہوگئے صرف وہ عورت ساتھ تھی اور خدمت کرتی تھی۔

وہ سات برس یا ۱۳یا ۱۸برس بیماررہا کبھی اُس کی عبادت میں فرق نہ آیا نہ اُس نے مصیبت میں شکائت کی اس لئے صابر کہلاتا ہے ’’مگر قرآن میں لکھا ہے کہ اُس نے رب انی مسنی الضر اے خُدا مجھے مصیبت نے پکڑا ‘‘یہ شکائت کے الفاظ جو وہ بولا اس کی تاویل محمدی لوگ یوں کرتے ہیں کہ اُسے شیطان نے آکر کہا تھا کہ تو مجھےسجدہ کر جب تو اچھا ہوگا۔ یا اُس کی اُمت کے لوگوں نے اُس پر ٹھٹھ مارا تھا۔ یاآنکہ ایسا لاچار ہوگیا تھا کہ نماز بھی نہ پڑھ سکتا تھا۔ یاآنکہ ایک روز خُدا نے اُس کی بیمار پُرسی نہیں کی تھی۔ یاآنکہ اس کی بی بی نے کہا تھا کہ شراب اور سور کھالے تو اچھا ہوگا۔ یاآنکہ اس کی عورت کسی کافر عورت کےگھر گئی اور قرض کے طورپر کھانا مانگا ۔اس نے کہا اگر اپنے بال کاٹ کر مجھے دے تو کھانا دوں گی۔ پس اُس نے بال کاٹ کردئيے اور گھر آئی شیطان نے ایوب سے کہا تیری عورت نے زنا کیا ہے اُس کے بال کسی نے علامت کے لئے کاٹ لئے ہیں ۔ایوب نے کہا جب میں تندرست ہوں گا اُس کے سو کوڑے محمدی دستور پر ماروں گا غرض ان سببوں کے سبب اُس نے الفاظ شکائت بولے تھے ’’پر یہ سب تاویلات درست نہیں کیونکہ یہ تو سبب شکائت ہیں وجود شکائت کا اندفاع ان سے نہیں ہوسکتا ہاں بعض نے کہا کہ خُدا سے شکائت تھی نہ غیر سے یہ قرین قیاس بات ہے توبھی شکائت ہوئی ‘‘ خُدا نے ایک چشمہ پانی کا اُس کے پاس جاری کیا جس میں ایوب غسل کرکے تندرست ہوگیا جیسے اول میں تھا پھر وہ معہ زوجہ شہر میں آیا اور خُدا نے اُس کے مرے ہوئے بچے بھی جلادئیے اورسب مال مویشی بھی جی اٹھے اور جورو پھر جوان ہوکر اولاد جننے لگی اور وہ تین عورتیں جو طلاق لے گئیں تھی پھر گھر میں آبسیں اور وہ پہلے نبی تھا اب پیغمبر ہوگیا اوراس کے بعد ۴۸ برس جیا پھر ۱۳۵ یا ۱۴۱ یا ۱۴۶ برس کا ہوکر مرگیا۔

قصہ شعیب

شعیب پیغمبر ابراہیم کے بیٹے مدین کی دوسری پُشت میں تھا خُدا نے اُسے رسالت دے کر اہل مدین اورایکہ کے جنگل کے باشندوں کی طرف بھیجا تھا اُس کا یہ معجزہ تھاکہ جب کسی پہاڑ پر چڑھتا تھا تو وہ پہاڑ اُس کے سامنے جھک جاتا تھا اُس کے عہد کے لوگ ترازو میں ٹنڈی مارتے تھے راہ زنی کرتے تھے ۔شعیب نے لاچار ہوکر اُن کو جو ایمان نہ لائے بددُعا کی تب جبرائیل نے ایک سخت آواز سے انہیں ہلا ک کیا یہ تواہل مدین کا احوال ہوا پر اہل ایکہ ایسے سخت تھے کہ کوئی بھی ایمان نہ لایا تب خُدا تعالیٰ ایک قسم کی گرمی اُن پر لایا کہ وہ اُن کے پانی اور زمین جلنے لگی تب وہ جنگل کی طرف بھاگے وہاں ایک سردابرآیا جب وہ سب اُس کے نیچے جمع ہوئے خُدا نے اُن پر آگ برسائی اور وہ ہلاک ہوئے اب شعیب اپنے لوگوں کو لے کر مدین میں آبسا اورجب تک کہ موسیٰ پیدا ہوکر وہاں نہ آیا وہیں رہا جب موسیٰ اُس کے پاس سے چلا گیا تب چار مہینے سات برس کے بعد مرگیا اُس کی قبر کوہ صفا اور مروہ کے درمیان ہے۔

موسیٰ کا قصہ

موسیٰ لاوی بن یعقوب کی تیسری پُشت میں تھا اس کے باپ کا نام عمران تھا قابوس یا ولید بادشاہ مصر کے عہد میں پیدا ہوا اس بادشاہ کا لقب بھی فرعون تھا یہ فرعون یا تو اُس یوسف والے فرعون کی اولاد تھا یا وہی فرعون تھا جو اتنی دیر تک زندہ رہا اور آخر کو کافر ہوگیا اپنی تصویر کی پرستش لوگوں سے کراتا تھا اورکہتا تھا کہ میں تمہارا بڑا خُدا ہوں اوریہ بُت تمہارے چھوٹے خُدا ہیں اوراُس نے خُدا سے دُعا کی تھی کہ مجھے دنیا عنائت کر میں آخرت کی کوئی چیز نہیں چاہتا خُدا نے اُس کی عرض قبول بھی کی تھی اوراُس دریاِ نیل پر اختیار تھا جب حکم دیتا وہ چلتا جب منع کرتا وہ ٹھہرجاتا تھا۔

ایک دن فرعون سے کاہنوں نے کہا بنی اسرائيل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا اُس سے تیری مملکت میں زوال آئے گا۔ یا فرعون نے خواب دیکھا کہ ایک شخص پیدا ہوکر مجھے خراب کرے گا پس وہ غمگین تھا۔

ُس کے پاس ہزار جادوگر ،ہزار کاہن اور ہزار نجومی لوگ تھے وہ سب اپنے بُتوں سے منت کرکے پوچھتے تھے کہ وہ لڑکا کب پیدا ہوگا۔ پس جس وقت خُدا نے عرش کے فرشتوں سے کہا کہ میں بنی اسرائيل میں موسیٰ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ فلاں جمعرات کو تین گھڑی رات گذرے اُس کی والدہ کے شکم میں آنے دوں گا تو یہ خبردیوتاؤں نے آسمان سے چرا کر اپنے پوجاریوں کو لا کردی اوراُنہوں نے فرعون کو موسیٰ کے رحم میں آنے کا وقت بتلادیا۔

اس لئے فرعون نے اُس جمعرات کو بنی اسرائيل کے سب مرد عورتوں سے جدا کردئیے اورشہر سے باہر نکال دئیے اور فرعون آپ معہ عمران مصاحب کے شہر میں رہا اور عمران سے کہا کہ تو میرے دروازہ پر پہرہ دے میں محل میں جاتا ہوں عمران کی عورت یوخابذ کو خبر ملی کہ عمران شہر میں ہے وہ اُس کے پاس چلی آئی اور ہم بستر ہوکر حاملہ ہوئی ۔

اس وقت جادوگر چلائے جو بُتوں کی حضوری میں شب داری کررہے تھے وہ بولے کہ دشمن رحم میں آگیا اور یہ انتظام عورت مرد کی جدائی کا کارگر نہ ہوا پر اب تولد کے وقت انتظام کیا جائے گا۔ پس پھر یہ بندوبست ہواکہ جو لڑکا بنی اسرائيل میں تولد ہوتا مارا جاتا تھا۔ ۹۰ ہزار لڑکے مارے گئے جب موسیٰ تولد ہوئے دایہ نے مہربان ہوکر چھوڑا اور وہ تین مہینے یا زیادہ عرصہ تک پوشیدہ رکھا گیا۔ یہ یوجابذ عمران کی عورت لاوی کے خاندان سے تھی اور بقول معالم لاوی کی بیٹی تھی اُس کے دو بچے ہارون ومریم اوربھی تھے جب وہ عورت موسیٰ کو چھپانہ سکی تو ایک صندوق میں رکھ کر پانی میں ڈال دیا وہ بہتا ہوا فرعون کے باغ میں پہنچا وہاں فرعون اوراُس کی بی بی آسیہ جو ایماندار تھی اوراُس کی لڑکی بھی وہاں تھی انہوں نے موسیٰ کو صندوق میں پایا اوربیٹا کرکے پالا اور موسیٰ نام رکھا لفظ مو کے معنی ہیں پانی اورسا کہتے ہیں درخت کو مصری زبان کے موافق اور سریانی زبان میں مومروہ کے صندوق کو کہتے ہیں اور ساپانی کو۔ پس موسیٰ کے معنی ہیں پانی کے درختوں میں پایا ہوا یا پانی کا تابوت پر عربی میں موسیٰ استرہ کو کہتے ہیں جس سے بال تراشے جاتے ہیں۔ جب موسیٰ کو پانی میں پایا تو موسیٰ کی بہن مریم وہاں حاضر تھی اس نے کہا کہ میں اس کے لئے ایک دودھ پلائی لاسکتی ہوں اور وہ موسیٰ کی ماں کو لائی اس طرح اس کی پرورش ہوئی۔

موسیٰ کی زبان میں لکنت تھی اس کا سبب یہ تھا کہ ایک روز طفلی میں فرعون نے اسے گود میں لیا موسیٰ نے اس کی دہاڑی نوچ لی اور ایک طمانچہ اس کے منہ پر مارا فرعون نے غصہ ہوکر اس کے قتل کا حکم دیا آسیہ نےکہا یہ نادان بچہ ہے اسے تمیز نہیں یہ تو آگ میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے پس اُس نے آزمائش کے طورپر جواہرات اورآگ اس کے سامنے رکھوائی موسیٰ جواہرات اٹھانے لگا جبرائیل نے اس کا ہاتھ آگ کی طرف پھیردیا اوراس نے آگ اٹھا کر منہ میں ڈالی پس تھوڑی سی زبان جل گئی تھی اس لئے لکنت ہوئی اور فرعون نے جان بخشی کی ۔

قتل قبطی

جب موسیٰ ۱۳یا ۲۰یا ۳۰ برس کا ہوا ایک روز مصر میں یا کسی اور بستی میں تھاکہ ایک قبطی فرعون کا ملازم کسی اسرائيلی کو مارتا تھا اورکہتا تھا کہ باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لا اسرائیلی نے موسیٰ سے فریاد کی پہلے موسیٰ نے قبطی کومنع کیا جب اس نے نہ مانا تو موسیٰ نے ایک گھونسا مارا کہ وہ مرگیا اور کوئی وہاں نہ دیکھتا تھا ۔پس موسیٰ اور وہ اسرائیلی وہاں سے کھسک گئے۔

دوسرے روز وہی اسرائيلی کسی اورقبطی سے لڑتا تھا موسیٰ بولا تو بڑا گمراہ ہے کل تونے ایک شخص کو مروایا آج پھر جھگڑا کرتا ہے یہ کہہ کر موسیٰ قبطی کو مارنے آیا اسرائيلی سمجھا مجھے مارنے آتا ہے اس لئے چلا اٹھا کیا مجھے بھی آج مرتا ہے جیسے تونے کل اُس قبطی کو مارا ۔وہ قبطی جو حاضر تھا جان گیا کہ پہلے قبطی کا قاتل موسیٰ ہے اور یہ خبر فرعون نے سنی جب موسیٰ نے سنا کہ فرعون اب مجھے مارنا چاہتاہے تو بھاگا اور آٹھ روز گھاس کھاکر مدین کے نزدیک پہنچا وہاں راہ میں ایک کنوئیں پر گڈریئے گلے لے کر جمع تھےاور دو لڑکیاں بھی گلے لے کر حاضر تھیں اور منتظر تھیں کہ جب سب پلاچکیں تو باقی ماندہ پانی اپنی بکریوں کو پلائیں۔ موسیٰ نے کہا تم الگ کیوں کھڑےہو پانی کیوں نہیں پلاتیں وہ بولیں جب سب پلاچکیں گے اورپانی بچے گا تو پلائیں گی کیونکہ ہمارا کوئی مددگار نہیں ہے صرف ایک بوڑھا واندھا باپ ہے وہ نہیں آسکتا۔ یہ لڑکیاں شعیب پیغمبر کی بھتیجیاں یا بیٹیاں تھیں۔

پس موسیٰ نے اُن کی مدد کی اور اُن کے گلوں کو پانی نکال کر پلایا اور وہ لڑکیاں موسیٰ کو گھر میں لائیں اور شعیب نے اُسے کھانا کھلایا اورکہا آٹھ دس برس ہماری گلہ بانی کر توایک لڑکی سے تیرا نکاح کردیں گے پس موسیٰ نے یہی کیا۔ شعیب کے گھر میں وہ لاٹھی بھی رکھی تھی جسے آدم بہشت سے لایا تھا وہی لاٹھی موسیٰ کو شعیب نے دی وہی عصائے موسیٰ ہوا۔

موسیٰ کا مصر میں پھر آنا

جب موسیٰ چالیس برس کا ہوا تو اُس نے مصر کا ارادہ کیا اور شعیب سے رخصت لے کر معہ اپنی بی بی کے مصر کی طرف چلا جب وادی ایمن میں آیا تو راہ بھول گیا رات اندھیری تھی برف پڑتی تھی اوراس کی بی بی صفورا اسی وقت لڑکا بھی جنی تھی اور آگ میسر نہ آتی تھی اور وہ جمعرات کی رات تھی ناگاہ کوہ طور کی طرف آگ نظر آئی موسیٰ سب کو چھوڑ کر وہاں آگ لینے گیا آگ میں سے آواز آئی میں تیرا خُدا ہوں تو اپنی جوتیاں اتار۔

شائد اس لئے جوتیاں اتارنے کا حکم ہوا کہ وہ گدھے کے چمڑے کی ناپاک جوتیاں تھیں۔ یا صرف ادب وتعظیم کےلئے رکھا۔ یا جوتیوں سے مراد تفکرات دل اورعلائق جسمانی ہیں یعنی عالم تفرید(تنہارہنا) میں قدم رکھ یہ مطلب محمدیوں نے جوتے اُتارنے کا بیان کیا ہے۔

پھر کہا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے وہ بولا میر ی لاٹھی ہے جس سے بکریاں ہانکتا اور پتے جھاڑتا ہوں اوراس پر تکیہ کرتا ہوں معالم اورمدارک میں لکھاہے ۔ کہ اس لاٹھی میں کئی تاثیریں تھیں وہ لاٹھی موسیٰ سے راہ میں باتیں کرتی تھی۔ اور موذیات سے حفاظت کرتی تھی۔ راہ کا توشہ اٹھا کر چلتی تھی۔ اور کنوئیں پر وہ رسی اور ڈول بن جاتی تھی اور میدان میں درخت میوہ دار بن کر پھل دیتی تھی اور سایہ کرتی تھی۔ رات کو چراغ بن جاتی تھی۔ زمین سے چشمے جاری کرتی تھی۔ اور سواری کا کام بھی دیتی تھی اور اور بھی فائدے پہنچاتی تھی ۔

پس خُدا نے اس وقت موسیٰ کو عصا اور یدبیضا کا معجزہ عنائت کیا اور فرعون کی طرف بھیجا اورہارون کو اس کا مددگار کیا اس رات موسیٰ کی لوگ انتظاری میں رہے پر وہ آگ لے کر نہ آیا کوئی مدین کا قافلہ وہاں آگیا پس صفورا اس کے ساتھ شعیب کی طرف چلی آئی یا موسیٰ نے آکر سب حال سنایا اوراپناسب کچھ اُسے دے کر واپس کیا اب اکیلا مصر کو چلا قریب چا رگھڑی رات گذری شہر مصرمیں آیا ہارون اورمریم اوراپنی ماں کو دیکھا لیکن باپ مرگیا تھا۔ یا ہارون کو بھی وحی آئی کہ وہ راہ میں جاکر موسیٰ سے ملاقی(ملاقات کرنے والا) ہوا پھر وہ دونوں اُسی رات یا ایک برس بعد فرعون کے پاس گئے فرعون نے موسیٰ کوپہچانا اورباتیں ہوئیں موسیٰ بولا بنی اسرائيل کو ملک شام میں جانے دے اور غلامی میں نہ رکھ۔ اور تو خُدا پر ایمان لا پر اُس نے نہ مانا اور فرعون کے وزیر ہامان نے بھی بڑی سرکشی کی موسیٰ نے وہاں معجزات دکھلائے اور جادو گروں نے بھی اپنی کرامتیں دکھلائیں پر موسیٰ پر غالب نہ آسکے موسیٰ کے معجزے یہ تھے قحط سالی، ملخ پیادہ ،جوئیں ، مینڈک ، دریائے نیل کا خون ہونا اور مصریوں کے درہم دیناروں کا پتھر ہونا یہ سب بلائیں اُن پر آئیں پر وہ ایمان نہ لائے اس کے بعد بحکم موسیٰ بنی اسرائيل نے مصریوں سے برتن اور زیور عید کے بہانہ سے قرض لئے اور یوسف کی لاش کا صندوق دریا سےنکال کر رات کو بھاگ نکلے۔

شام کے وقت مصریوں کو خبر ہوئی کہ وہ چلے گئے ہیں وہ تعاقب کرنا چاہتے تھے لیکن ہر ایک گھر میں ایک پیارا عزت دار مرگیا تھا اس لئے اس روز غم میں رہے دوسرے روز تعاقب کیا۔ بنی اسرائيل دس لاکھ سے زيادہ تھے فرعون بھی چوبیس ہزار سوار آگے پیچھے دائیں بائیں کرکے اُن کے پیچھے آیا اور دریائے نیل پر ملاقات ہوئی ۔ موسیٰ نے دریاء نیل کو کہا یا باخالد ہمیں راہ دے باخالد رودنیل کی کنیت ہے۔

پس دریاء میں بارہ راستے ظاہر ہوئے اور دیواروں کی طرح ادھر اُدھر پانی کھڑا ہوگیا سب اسرائيلی پار اترگئے اورجب فرعون کا لشکر پانی میں آیا تو دریانے اُن کو غرق کیا اور فرعون بھی بے عزتی سے دریا میں ڈوب کر مرگیا اُس کی عمر چارسوبرس کی ہوئی ۔

موسیٰ کا طورپر جاکر کتاب لانا

موسیٰ نے سابق میں بنی اسرائيل سے وعدہ کیا تھا کہ جب فرعون معہ اپنی قوم کے غرق ہوجائے گا تب میں تمہارے فائدے کےلئے خُدا کے پاس سے ایک کتاب لاؤں گا اب کہ فرعون مرگیا بنی اسرائيل نے موسیٰ سے کہا وہ کتاب خُدا سے لاؤ جس کا تم نے وعدہ کیا تھا ۔پس موسیٰ نے بحکم الہٰی ماہ ذیعقد میں ۳۰دن تک روزہ رکھا اس کے بعد کوہ طورپر گیا مگر موسیٰ کو شرم آئی کہ میں نے روزہ رکھا ہے میرے منہ سے روزہ کی بو آتی ہوگی اس لئے اُس نے مسواک کرکے منہ صاف کیا فرشتوں نے کہا وہ روزہ کی بو ہمارے لئے مشک کی خوشبو سے زيادہ تھی تونے اسے مسواک سے کیوں دفع کیا یہ اچھا نہیں کیا تب موسیٰ نے بحکم خُدا اُس کے جرمانہ میں ذالحجہ کے ۱۰ روزہ اور رکھے اس طرح چالیس روزے ہوگئے اس کے بعد موسیٰ نے ہارون کو اپنا قائم مقام کیا اور کوہ طور پر چڑھا وہاں خُدا نے چالیس رات دن اُس سے باتیں کیں ۴ہزار یا ۷ ہزار یا ۹۰ ہزار کلمات اُس نے خُدا سے سنے ۔ آخر کوموسیٰ بولا اے خُدا مجھے بچا اپنا دیدار دکھلا اس نے فرمایا کہ تومجھے دیکھ نہ سکے گا پھر خُدا نے اپنے جلال کا ایک ذرہ پہاڑ پر ظاہر کیا اس وقت دنیا کے سب پاگل ہوشیار ہوگئے اور سب بیمار تندرست اور ساری سرزمین سبز ہوگئی سارے پانی میٹھے ہوگئے سارے بُت دنیا کے گر پڑے اور مجوس کی آگ بجھ گئی اور وہ پہاڑ طور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ۶ پہاڑ اُس پہاڑ میں سے ٹوٹ کر الگ جا پڑے۔

کوہ اُحد وکوہ قاف وکوہ رضوی مدینہ میں جا کر گرے اور کوہ ثور وکوہ بیشر و کوہ حرا مکہ میں گرے اور موسیٰ آٹھ پہر بے ہوش رہا جب ہوش آیا تو اٹھا اور خُدا کی تعریف کی۔ پھر خُدا نے اُسے ۷ یا ۹ یا ۱۲ تختیاں عنائت کیں ہر تختی ۱۰ یا ۱۲ گز لمبی تھی اور وہ یا تو یاقوت سرخ کی زبر جد کی سنگ زرحام یا زمرد کی تھیں یا اُس بیری کے درخت کی تختیاں تھیں جو بہشت میں ہے۔ یعنی سدرہ المنتہی۔ اور ان تختیوں پر سب کچھ لکھا تھا تفسیر مدارک میں ہے وکتبنا لہ فی الالواح کے ذیل میں لکھا ہے کہ جب توریت نازل ہوئی تو اس میں اتنا بوجھ تھا کہ ستر اونٹ اُسے اُٹھاتے تھے اورکسی نے اُسے اول سے آخر تک نہیں پڑھا صرف موسیٰ اور یشوع وعزیر اور عیسیٰ نے ان کے سواسب لوگوں نے تھوڑا تھوڑا اُس میں سے پڑھا ہے۔

سامری کا قصہ

ایک آدمی تھا جس کا نام سامری تھا وہ یا تو بنی اسرائيل کے بزرگ قبیلہ سامرہ کا تھا یا غیر قوم میں سے تھا اُس کو موسیٰ بن مظفر کہتے تھے یہ شخص بھی موسیٰ کی طرح مصر میں پیدا ہوا اور اس کی والدہ نے اس کو رودنیل کے کنارہ کسی جزیرہ میں فرعون کے خوف سے پھینک دیا تھا وہاں جبرائیل نے اس کی پرورش کی تھی جس وقت بنی اسرائيل مصر سے نکلے اور دریائے نیل پر فرعون غرق ہوا اس وقت جبرائیل فرشتہ سوار ہوکر موسیٰ کی مدد کو آیا تھا اس سامری نے جبرائیل کے گھوڑے کے سم کے نیچے سے تھوڑی خاک اٹھاکر اپنے پاس رکھ لی تھی اب کہ موسیٰ طورپر گیا تو اس شخص نے آکرہارون سے کہا کہ وہ زیوروبرتن جو بنی اسرائيل مصر سے عاریت لائے ہیں اس کا استعمال جائز نہیں ہے وہ سب جمع کرنا چاہیے کہ بنی اسرائيل اُس کو کام میں نہ لاسکیں سوہارون نے کہا اچھا وہ سب جمع کرو۔پس سامری نے وہ سب اموال لے کر آگ میں ڈالے اوران کا ایک بچھڑا ڈھالا اوراس کے شکم میں وہ مٹی جبرائيل کے گھوڑے کے سم کے تلے کی داخل کردی اس لئے وہ بچھڑا جی اٹھا اور آواز کرنے لگا ۔پس سامری نے کہا کہ یہ تمہارا خُدا ہے اس کی پرستش کرو موسیٰ طورپر گیا ہے خُدا آپ یہاں چلا آیا ہے دیکھو دہات کا بچھڑا بولتا ہے ۔پس سب نے اُس کی پرستش کی مگر ۶ لاکھ اور ۱۲ہزار نے اس کی پرستش نہ کی ہارون نے ہر چند منع کیا پر عوام نے نہ مانی۔

جب موسیٰ آیا تو نہایت غصہ ہوا اور وہ تختیاں غصہ میں زمین پر پھینک دیں اُن کے ۶ ٹکڑے ہوگئے ۵ آسمان کو اڑگئے اورایک حصہ رہ گیا جس میں وعظ نصیحت اوراحکام کی باتیں تھیں باقی پانچ جن میں خُدائی کے بھید لکھے تھے وہ اُڑگئے اورموسیٰ نے ہارون کی داڑھی پکڑی اورکہا تونے یہ شرارت کیوں ہونے دی وہ بولا لوگ مجھے مارے ڈالتے تھے میں لاچار ہوگیا تھا۔ پس موسیٰ ہارون کو قتل کرناچاہتا تھا مگر خُدا نے منع کردیا تب موسیٰ نے اُس بچھڑے کو جلاکر یا ٹکڑے ٹکڑے کرکے دریا میں ڈال دیا اور سامری کو جنگل میں نکال دیا اورحکم ہوا کہ کوئی اُسے نہ پوچھے آج تک اُس کی اولاد لوگوں سے کہتی ہے کہ ہمیں نہ چھوا اور سب بُت پرست لوگ جو اس کے مطیع تھے جنگل میں سرنگوں ہوکر توبہ کرنے لگے پھر ہارون بارہ ہزار شمشیر زن مرد لے کر نکلا اور صبح سے دوپہر تک ۷۰ہزار تک اُن کے قتل کئے تب باقیوں کی توبہ قبول ہوئی ۔

قارون ملعون کا قصہ

شائد یہ لوگ قارون قورح کو کہتے ہیں۔ یہ قارون موسیٰ کا چچا یاچچا زادہ یا خواہرزادہ بھائی تھا اورموسیٰ کی خواہر کا شوہر بھی تھا وہ بہت خوبصورت اور مالدار شخص تھا فرعون نے اُسے مصر میں بنی اسرائيل کا چودھری بنا رکھا تھا اوروہ بڑا ظالم اورمتکبر مغرو رتھا اُس کے پاس دولت بہت تھی چالیس خزانوں کا مالک تھا یا تو یوسف کی دولت اُسے ہاتھ آگئی تھی یا آنکہ فرعون کا خزانچی تھا جب وہ مرگیاتو اُس کا خزانہ دبا بیٹھا تھا ۔بعض کہتےہیں کہ موسیٰ نے کیمیا گری کاعلم اپنے خواہر کو سکھلایا تھااُس نے قارون کو بتلادیا تھا غرض قارون نے زکوٰۃ مال کی نہ دی اورموسیٰ سے ہمیشہ دشمنی رکھی اوراُس کی بے عزتی چاہتا تھا کہ ایک دفعہ موسیٰ کو اُس نے زنا کا اہتمام بھی کیا اور ہارون کے عہدہ پر حسد کیا تب موسیٰ نے اُس کے لئے بددُعا کی اور وہ معہ دس آدمیوں اوراپنے اموال کی زمین میں دھس گیا ہر روز ایک قد آدم نیچے اترتا ہے اور قیامت تک دھسا چلا جائے گا۔

قصہ گاؤ

بنی اسرائیل میں کوئي بڈھا آدمی تھا اُس کے اولاد نہ تھی صرف دو بھتیجے تھے اور اُس بڈھے کے پاس مال بہت تھا اُس کے بھتیجوں نے اس خیال سے کہ جب مرجائے گا تو سب مال ہمارے ہاتھ آجائے گا ایک روز اُسے مار ڈالا مگر قاتل معلوم نہ ہوا کہ کس نے اُسے مارا ہے ۔خُدا نے موسیٰ سے کہا کہ ایک گائیں ایسی ایسی صفتوں والی لے کر ذبح کر اوراُس کا گوشت اس مُردہ کے مارو خود زندہ ہوکر اپنا قاتل بتلادے گا چالیس برس تک اُن صفات کی گائیں تلاش کی گئی آخر ایک شخص کے پاس ملی اُس کی قیمت یوں ٹھہری کہ اُس کے چمڑے کو سونے سے بھر کر اُس کے مالک کو دیں گے پس اُس کو لیا اور ذبح کرکے اُس کا گوشت مرُدہ کے مارا وہ جیا اور قاتل بتلایا پھر مرگیا تب موسیٰ نے قاتلوں کو مارا اورمال اُس کا غربا کو بانٹ دیا۔

خضر کا قصہ

موسیٰ کو ایک روز یہ خیال آیاکہ میں سب سے بڑا عالم ہوں کوئی میرے برابر دنیا میں ہے یا نہیں خُدا نےکہا حضرت تجھ سے زيادہ ہے اور وہ وہاں رہتاہے جہاں دریائے فارس اور دریائے روم ملتےہیں تواپنے ساتھ ایک آدمی لے کر اُس کی تلاش میں جا اور ایک بھنی ہوئی مچھلی بھی ساتھ لے جا کہ وہ مچھلی تجھے خضر کا گھر بتلادے گی۔ پس موسیٰ ایک مچھلی بھنی ہوئی اور یوشع کے ساتھ لے کر اُدھر گیا جب مجمع البحرین پر پہنچا جہاں آبِ حیات کا چشمہ تھا وہاں موسیٰ تو سوگیا اور یشوع نے اُس چشمہ میں وضو کی کوئی قطرہ آب حیات کا اُس مچھلی پر گر پڑا فوراً وہ زندہ ہوگئی اور پانی میں بھاگ گئی یوشع حیران رہ گیا جب آگے چلے موسیٰ نے کہا اے یوشع کھانا نکال تاکہ کھائیں ۔پس یوشع نے دستر خوان نکالا اور مچھلی کا ذکر کیا کہ میں اُسے مجمع البحرین پر بھول آیا ہوں۔ موسیٰ بولا اُسی مقام پر واپس چلو وہی مچھلی خضر کا راہ بتائے گی جب وہاں واپس آئے تو دیکھا کہ وہ مچھلی جو زندہ ہوکر پانی میں چلی گئی تھی جس طرف وہ گئی اسی طرف پانی ایک خشک راہ کھلتی چلی گئی ہے تب اُسی راہ سے موسیٰ اور یوشع چلے گئے آگے جاکر دیکھا تو حضرت خضر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں موسیٰ نے سلام کیا خضر نے جواب دیا اورکہا تو کون ہے وہ بولا میں موسیٰ ہوں بنی اسرائيل کا پیغمبر خُدا نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے تاکہ تجھ سے کچھ سیکھوں بابا خضر نے کہا تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ تو میری باتوں پر صبر نہ کرسکے گا موسیٰ بولا میں صبر کروں گا اُس نے کہا اس شرط پر ساتھ رکھوں گا کو تو مجھ سے سوال نہ کرے چپ چاپ رہے جب تک میں خود بیان نہ کروں اُس نے یہ شرط قبول کی اور تینوں چلے اور دریاکے کنارے پر آئے اور ملاحوں سے درخواست کی ہمیں بھی کشتی میں سوار کرلو پہلے انہوں نے انکا رکیا پھر خضر کو پہچان کے مان لیا اوربڑی عزت سے کشتی میں بٹھلایا جب دریا کے بیچ پہنچے خضر نے چپکے چپکے تیر سے کشتی میں سوراخ کردیا موسیٰ بولا کیا تو لوگوں کو ڈبانا چاہتاہے خضر بولا کیا میں نے کہا تھاکہ تو میرےساتھ صبر نہیں کرسکتا موسیٰ نے کہا اب کی بار معاف کیجئے میں بھول گیا پھر ایک گاؤں میں پہنچے وہاں باہر لڑکے کھیلتے تھے خضر نے ایک خوبصورت لڑکا پکڑا اورگلا گھونٹ کر یا پتھر سے یا چھری سے مار ڈالا موسیٰ چلایا کہ تونے ناحق بے گناہ کا خون کیا وہ کہنے لگا میں نے نہ کہا تھاکہ تو میرے ساتھ صبر نہ کرسکے گا تب موسیٰ نے کہا معاف کیجئے اگر اب کے بار بولوں تو اپنی صحبت سے نکال دینا القصہ آگے چلے اور رات کو کسی گاؤں کے قریب پہنچے بستی کے دروازے بند ہوچکے تھے اس لئے لوگوں نے گاؤں میں گھسنے نہ دیا ساری رات بھوکے پیاسے باہر پڑے رہے وہاں شہر پناہ کی ایک دیوار پرانی گرنے پر تھی خضر نے ساری رات اُس کی مرمت کی موسیٰ بولا اس بستی والوں نے نہ کھانا دیا نہ اندر آنے دیا اورتونے ان کے ساتھ یہ نیک سلوک کیا خضر بولا یہ تیسری عہد شکنی ہے اب تو چلا جا پر میں تجھے تینوں باتوں کا جواب دیتا ہوں۔ وہ کشتی محتاج وغریب ملاحوں کی تھی اور ایک بادشاہ اچھی کشتیاں بیگار پکڑتا ہے پس میں نے اُس کشتی میں عیب لگادیا تاکہ پکڑے نہ جائے اوراُن کی روزی بند نہ ہو اوراس لڑکے کو میں نے اس لئے مارا کہ اس کے والدین نیک لوگ ہیں پر یہ لڑکا شریر اور کافر تھا بڑا ہوکر والدین کو بھی کافر کر ڈالتا اگرچہ وہ مرگیاپر اُس کے عوض اُس کے والدین کو خُدا اوربچہ دے گا۔کہتے ہیں کہ اُس کے والدین کے ایک لڑکی اُس کے عوض پیدا ہوئی اور وہ ایک پیغمبر کی جو روبنی اوراُس کی نسل سے ۷۰ پیغمبر نکلے۔ اوراُس دیوار کی مرمت کا یہ سبب ہوا کہ وہ گھر کسی یتیم کا ہے وہاں خزانہ دفن ہے اگر وہ دیوار گر جاتی خزانہ کھل جاتا تولوگ نکال لیتے پر ضرور تھاکہ اُس یتیم کو نہ ملے جب وہ بڑا ہوا۔ پس یہ سن کر موسیٰ خضر سے جدا ہوا۔

کہتے ہیں کہ یہ خضر اب تک جیتا ہے اور قیامت تک جئے گا کبھی کبھی وہ لوگوں کو ملا بھی کرتاہے زمین پر پھرتا ہے اور پانی میں رہتاہے اسی واسطے مسلمان سقے خضر کے لئے ہندوستان میں میٹھا دلیا پکا کر پانی میں ڈالا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دہلی کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن کبھی کبھی مسلمانوں سے اُن کی ملاقات بھی ہوئی تھی پر یہ بعض بزرگوں کا قول ہے کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے پر خضر کے قصہ نے اُن میں یہ مہمل خیال پیدا کیا ہے۔

بلعم بن باعور

بلعم باعورموسیٰ کے عہد میں مستجاب الدعوات شخص تھا اسم اعظم اُسے یاد تھا جب موسیٰ بقصد جنگ جبار ان ولائت شام میں گئے قوم بلعم نے کہا اے بلعم موسیٰ ہمارے قتل کے لئے آیا ہے دُعا کر کہ وہ واپس چلا جائے اُس نے کہا کہ میں پیغمبر اور مومنوں پر بددُعا کیوں کر کروں اچھا استخارہ کروں جیسا معلوم ہوگا کہہ دوں گا جب استخارہ میں معلوم ہوا کہ بددُعا نہ کر تو اُس کی قوم اُس کے پاس تحفہ تحائف لائے اور بددُعا کی تکلیف دی وہ گد ھے پر سوار ہوکر چلا راہ میں کئی بار گدھا زمین پر گر ا اُس نے مار مار کر اُسے اٹھایا تب خُدا نے گدھے کی زبان دی وہ بولا اے بلعام تو کہاں جاتا ہے دیکھ فرشتے مجھے پھیرتے ہیں تب بلعم نے گدھا چھوڑ دیا اور پیادہ پاحسبان کے پہاڑ پر چلا گیا اور جب بنی اسرائيل پر بددُعا کرنی چاہتا تھا خُدا اُس کی زبان کے الفاظ پلٹ دیتا تھا ایسا کہ اُسی کی قوم پر بددُعا پڑتی تھی اوراُس کے بعد بلعام کی زبان منہ سے نکل کر اُس کے سینہ پر آپڑی تب وہ بولا دنیا اورآخرت میری دونوں برباد ہوئیں اب ایک حیلہ کرنا چاہیے کہ تم اپنی عورتوں کو آراستہ سودہ بیچنے کے حیلہ سے بنی اسرائيل میں بھیجو اور سکھلادو کہ اگر کوئی اسرائیلی زنا کرے تو انکار نہ کریں اس حیلہ سے بنی اسرائيل برباد ہوں گے۔ پس ایک عورت کسی بنت صور اُن عورتوں میں سے جو وہاں آئیں زم زم بن شلوم سردار بنی اسرائيل کو پسند آگئی وہ اس کاہاتھ پکڑ کر موسیٰ کے پاس لے گیا اورکہا یہ عورت مجھ پر حرام ہے یا حلال موسیٰ نے کہا حرام ہے زم زم بولا میں اس بات میں تمہاری اطاعت نہ کروں گا پھر خیمہ میں آیا اوراُس سے زنا کیا تب وبا آئی ایک گھڑی میں ۷۰ ہزار مرگئے اُس وقت فینحاس ہارون کا پوتا حربہ لے کر زم زم کے خیمہ میں آیا اور زم زم کو معہ عورت کے قتل کیا تب وہ بلا دفع ہوئی ۔

بیابان کا بیاب اورموسیٰ کی موت

جب فرعون مرگیا تھا تو اب موسیٰ میں نبوت اور سلطنت دونو ں جمع ہوگئیں تھیں اُسے حکم ہواکہ فوج بنی اسرائيل کو اریحا کی طرف بھیجے اور قوم عمالقہ سے جنگ کرکے ولائت بیت المقدس خالی کرالے موسیٰ کے پاس بارہ فوجیں تھیں ہر فوج میں ۱۲۰ ہزار مرد تھے اوراُس کے پاس بارہ نقیب تھے ہر فوج کا ایک نقیب یا حاکم تھا۔ موسیٰ سب پر حاکم تھا اور ۳۶ یا ۳۹ برس حاکم رہا اُس کے پاس نہ گھر تھا نہ سواری ایک پوستین پہنتا تھا اور نمدے کی ٹوپی رکھتا تھا اور کچے چمڑے کی جوتیاں پیروں میں تھیں اورہاتھ میں عصا تھا رات کو مقام کرتا اور دن کو چلا کرتا تھا لوگ باری باری اُس کے پاس کھانا بھیجا کرتے تھے کوئی صبح کو اور کوئی شام کو بھیجتا تھا ۔خُدا نے وعدہ کیا تھا کہ ارض مقدسہ معہ سب ولایت کے بنی اسرائيل کو دوں گا مگر اُن میں اُس جگہ جبار یعنی عمالیق جو قوم عاد سے تھے رہتے تھے۔ ان کا قدچھ گز یا ۴سوگز یا ۱۸ گز یا ۷ سوگز یا ۸ سوگز کا تھا۔ پس جب کہ ملک مصر بعد ہلاکت فرعون بنی اسرائيل کے قبضہ میں آگیا تو اب جباروں سے جہاد کرنے کا حکم ہوا ۔پس موسیٰ نے ہر فرقہ کاایک نقیب بلا کر بارہ نقیب جاسوسی کو جباروں میں بھیجے ان بارہ جاسوسوں نے جاکر عوج بن عنق سے ملاقات کی اوراُن کے باغوں کو دیکھا اُن کے انگوروں کے ایسے بڑے بڑے خوشے تھے ایک خوشا آدمی سے نہیں اٹھ سکتا تھا اورانار ایسے تھے کہ ایک انار کے پوست میں پانچ آدمی سماسکتے تھے ۔پس ان جاسوسوں کو پکڑ کر انہوں نے اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ عوج نے ان بارہوں کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر اپنی جورو کے سامنے ڈال دیا اورکہا یہ لوگ ہم سے لڑنے آئے ہیں تو کیا کہتی ہے اگر تو کہے تو ان کا آٹا بنا ڈالوں عورت نے کہا انہیں دکھ نہ دے بلکہ چھوڑ دے تاکہ اپنی قوم میں حاضر ہوکر ہمارا ذکر کریں اور وہ سب ڈ ر کر چلے جائیں پھر عوج نے انہیں ایک انار کھانے کو دیاکہ اُس کے نصف سے یہ بارہ سیر ہوئے اور نصف باقی ہمراہ لے کر لشکر میں آئے۔ پس بارہ میں سے دس نے سب کو بے دل کردیا اورکالب ویوشع نے جرات دلائی ۔

ُس نے شہر سے تین میل کے فاصلہ پر لشکر موسیٰ آراستہ پڑا تھا تب عوج نے ایک پہاڑ پر تین میل مربع اکھاڑ لیا اور بنی اسرائيل پر ڈالنے کو سر پر اٹھاکر لایا۔ خُدانے ہدہد کو حکم دیا اُس نے فوراً اپنے منقار سے اُس پہاڑ میں سوراخ کردیا۔ پس وہ پہاڑ عوج کی گردن میں مثل طوق کے گر پڑا تب عوج زمین پر گرا اور موسیٰ نے جو دس گز کا آدمی تھا اور لاٹھی بھی دس گز کی رکھتا تھا یعنی بیس گز کی بلندی تک پہنچ کر عوج کے ٹخنے پر لاٹھی ماری پھر سب بنی اسرائيل تلواریں لے کر دوڑے اور عوج کا سر کاٹا اوراُس کے پیر کی ہڈی یعنی نلی لے کر رودنیل پر بطور پُل کے کتنے ہی دنوں کے ہوں بدبو نہ کرتے تھے اس چالیس برس کے عرصہ میں نہ بال بڑھے نہ ناخن نہ کپڑے میلےہوئے اورنہ پورانے ۔ بعض عالم کہتے ہیں کہ بعدچالیس برس کے موسیٰ باقی ماندہ کو لے کر اُس زمین میں داخل ہوا اور اریحا کو فتح کیا مگر بعض کہتےہیں کہ نہیں موسیٰ اورہارون بیابان میں مرگئے اور یوشع انہیں ارض مقدسہ میں لے گیا۔

ہارون وموسیٰ کی موت ہوئی کہ ایک روز ہارون کسی باغ میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا کہتا تھا اے بھائی موسیٰ کیا اچھا مقام ہے فوراً فرشتے نے آکر اس کی جان قبض کرلی اورموسیٰ سے ہارون تین چار برس بڑا تھا اورایک برس پہلے مرا جب وہ مرگیا موسیٰ نے آکر لوگوں سے کہا وہ بولے تونے اُسے مارا ہے تب ہارون پھر زندہ ہوا اورکہا مجھے موسیٰ نے نہیں مارا میں اپنی موت سے مرا ہوں پس وہ دفن کیا گیا۔

پھر جب موسیٰ کی موت آئی اور فرشتہ جان لینے آیا تو موسیٰ نے کہا بغیر وسیلہ فرشتے کے میں خُدا کو جان دوں گا جیسے بغیر وسیلہ فرشتے کے مجھ سے خُدا باتیں کیا کرتا ہے پھر موسیٰ نے فرشتہ کے منہ پر طمانچہ مارا اور وہ اندھا ہوگیا خُدا نے پھر اُسے بینا کیا اور موسیٰ کوہ طور پر گیا دیکھاکہ سات آدمی قبر کھود رہے ہیں پوچھا کہ کس کےلئے ہے وہ بولے تجھ جیسے شخص کے واسطے ہے۔ پس موسیٰ اس میں لیٹ گیا اوربولا کیا اچھی قبر ہے اگر میرے لئے ہوتی تو خوب تھا فوراً جبریل بہشت سے ایک سیب لایا اور موسیٰ نے سونگھا اورجان نکل گئی تب فرشتوں نے غسل دیا اور دفن کیا اور وہ گور آدمیوں سےچھپائی کئی کسی کو معلوم نہ ہوئی موسیٰ کی عمر ۱۲۳ برس یا ۱۳۰ برس یا ۱۵۰ برس یا ۱۶۰ برس کی ہوئی ہے۔

قصہ الیاس

ابن مسعود کی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ الیاس نام ہے حضرت یس یا حنوک کا مگر دو اور اقوال سے ثابت ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائيل میں سے ہے ابن عباس کی روائت ہے کہ وہ الیشاع کا چچا زاد بھائی تھا اور محمد اصحاق کی روایت ہے کہ وہ ہارون کی پشت میں تھا اُس کا قصہ یہ ہے کہ جب حزقی ایل نبی مرگیا اوربنی اسرائيل بُت پرستی کرنے لگے اس وقت الیاس اٹھا۔ اوریہ یوں ہواکہ جب یوشع بن نون نے ملک شام کو فتح کیا اورملک کو بنی اسرائيل کے درمیان تقسیم کردیا اور شہر بعلبک اوراُس کے نواحی میں بعض بنی اسرائيل کو جگہ دی تو وہ لوگ بعل کی پرستش کرنے لگے بعل ایک بُت تھا اُس کی شکم میں شیطان آکر بولا کرتا تھا ۔ اور ایک بادشاہ بڑا بُت پرست وہاں تھا اُس کی جورو بھی بڑی بُت پرست عورت تھی سات بادشاہ اُس کے خصم ہوچکے تھے اُس نے سب کو مارا تھا اور وہ ۷۰ لڑکے جنی تھی تو بھی چھنال تھی بہت سے پیغمبروں کو بھی اُس نے مارا تھا اور یحییٰ بن زکریا کوجو عیسیٰ کے عہد میں تھا اُسی عورت نے مارا تھا (یہ عورت ایزبل اخیاب کی جورو سے مراد ہے) اس عورت کے گھر کے پاس ایک اچھا باغ تھا کسی بھلے آدمی کا عورت چاہتی تھی کہ وہ باغ لے پر اُس کا مالک نہ دیتا تھا اس لئے وہ اُسے قتل کرنا چاہتی تھی مگر بادشاہ منع کرتا تھا جب بادشاہ کسی سفر کو گیا پیچھے عورت نے اُسے قتل کیا اورباغ لے لیا بادشاہ آکر اگرچہ ناراض ہوا تو بھی درگزر کی خُدا نے الیاس سے کہا اگر بادشاہ اوراُس کی جورو توبہ کریں اورباغ اُس کے وارثوں کو دیں تو بہتر ہے ورنہ میں ان دونوں کو ہلاک کروں گا جب الیاس نے یہ بات بادشاہ کو سنائی تو وہ ناراض ہوا اور الیاس کو دکھ دینا چاہا ۔پس الیاس پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا اورنباتات کھاتا رہا سات برس بعد پھر آیا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا لڑکا ایسا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب پہنچا تب اُس نے چار سو بعل کے پیغمبروں کو بعل کے پاس دُعا کے واسطے بھیجا بعل پرست کہنے لگے کہ تیری دُعا بعل نہ سنے گا تونے الیاس کو قتل نہیں کیا ہے بادشاہ نے کہا میں تو الیاس کو تلاش کرنے جاتا ہوں تم دُعا کرنے کو بعل کے پاس جاؤ۔ پس تلاش کرتے کرتے لوگوں نے الیاس کو پہاڑ پر بیٹھاپایا اور فریب سے بلانے لگے تاکہ پکڑلیں الیاس نے بددُعا کی پس ان پچاس آدمیوں کو آگ کھاگئی۔ دوسری بار پچاس آدمی بلانے آئے اُن کو بھی آگ نے کھایا۔ پھربادشاہ نے کہا کیا کروں لڑکے کی بیماری کے سبب میں خود جانہیں سکتا کہ وہ کس طرح آئے اچھا یوں کریں کہ اس ایماندار شخص کو جو اُس کی جورو کا وزیر تھا بھیجیں شائد وہ اُس کے ساتھ آئے ۔پس فریب سے وزیر پر ظاہرکیا اب تو میں بھی لاچار ہوں اس لئے الیاس پر ایمان لاتا ہوں تو اُسے جاکر لاوہ گیا اورالیاس کو لایا جب بادشاہ کے سامنے آیا اُس وقت لڑکا مرگیا بادشاہ اور سب لوگ غم میں مبتلا ہوگئے الیاس صرف شکل دکھلا کر پھر پہاڑ پر چلا گیا جب غم تمام ہوا بادشاہ نے الیاس کو یاد کیا تاکہ مارے۔ مومن نے کہا وہ تو چلا گیا ۔پس بادشاہ افسوس کرکے رہ گیا اوراس کا خیال چھوڑدیا۔

مدت بعدالیاس اپنی مرضی سے پھر آیا اورایک عورت کے پاس جو یونس پیغمبر کی والدہ تھی چھ مہینے پوشیدہ رہا انہیں دنوں میں یونس تولد ہوا تھا اورالیاس پہاڑوں کا رہنے والا گھر میں چھپا چھپا تنگ آگیا تھا اس لئے وہ پھر پہاڑ پر چلا گیا اس عرصہ میں یونس لڑکا مرگیا تب اُس کی ما ں الیاس کو پہاڑوں میں سے تلاش کرکے لائی۔ کہ باہر چل کے تم اپنے بُتوں سے اور میں خُدا سے دُعا کروں تاکہ سچائی اور کذب مذہبوں کی ظاہر ہوجائے۔

پس باہر گئے اور اوّل انہوں نے بُتوں سے دُعا کی مگر پانی نہ برسا تب الیاس نے خُدا سے دُعا کی اورایک چھوٹا سا بادل سمندر کی طرف سے اٹھا اور پانی برسا تو بھی وہ ایمان نہ لائے تب الیاس نے دُعا کی کہ مجھے دنیا سے اٹھالے خُدا نے اُس کے اٹھانے کی جگہ اور وقت مقرر کرکے اُسے بلایا اور ایک آگ کا گھوڑا یا کوئی اور سواری وہاں بھیجی اُس پر الیاس چڑھ کر آسمان کو چلا تب الیشع چلایا اورالیاس نے چادر اُس کے لئے اوپر ڈالدی اوریوں اُس کو خلیفہ بنایا پھر خُدا نے اُس بادشاہ کا ایک دشمن بھیجا جس نے اُس کو اوراُس کی جورو کو قتل کیا۔

خُدا نے الیاس کی سب انسانی خواہشیں دور کیں اب وہ آدمی بھی ہے اور فرشتہ بھی ہے اور وہ زمینی بھی ہے اورآسمانی بھی ہے اُس میں دو ماہیتیں جمع ہوگئیں ہیں اور الیاس جنگلوں اوربیابانوں پر خُدا کی طرف سے اب حکومت کرتاہے اور خضر دریاؤں کا حاکم ہے اوریہ دونوں شخص ماہ رمضان کے روزے بیت المقدس میں آکر رکھا کرتے ہیں اور ہر برس مکہ میں جا کر حج کرتےہیں اورالیاس وخضر ایک دوسرے سے علمی فائدہ بھی اٹھایا کرتے ہیں اوراچھے اچھے محمدی لوگ ان سے کبھی کبھی ملاقات بھی کیا کرتے تھے۔

یونس کا قصہ

یونس ہود کی اولاد میں سے تھا اوراُس کی ماں بنی اسرائیل میں سے تھے بعض کہتے ہیں کہ یونس اپنی ماں کی طرف منسوب ہے اورباپ اُس کا فرقہ لاوی میں سے تھا تاریخ ابن شخنہ میں لکھاہے کہ متااُس کی ماں تھی بعض کہتے ہیں کہ متا اس کا باپ تھا۔ خُدا نے اُسے رسالت بخشی اور نینوہ شہر میں بھیجا اُس نے وہاں جاکر مدت تک وعظ نصیحت کی لوگوں نے نہ مانا اور دکھ دیا اُس نے تنگ آکر کہا اے خُدا ان پر عذاب نازل کر خُدا نے کہا اچھا تو شہر میں خبر کردے کہ تین روز یا چالیس روز بعد عذاب آئے گا۔ پس یونس یہ خبر سنا کر پہاڑ میں جا چھپا جب وقت موعود آیا خُدا نے مالک دوزخ سے کہا کہ ایک جو کے برابر دوزخ کی ہوا اہل نینوہ پر جانے دے ۔پس اُس نے جانے دی جب شہر اُس آتش بار ہوا سے گھر گیا تو لوگ سمجھ گئے کہ یہ وہی عذاب آیا جس کی خبر یونس دے گیا ہے بادشاہ عاقل تھا یونس کو تلاش کرایا پر وہ نہ ملا تب سب لوگ معہ بادشاہ ٹاٹ کا لباس پہن کر بھوکے پیاسے جنگل میں روتے ہوئے نکلے اور توبہ کی یکم ذالحجہ سے دسویں محرم تک روتے رہے آخر کارجمعہ کا دن تھاکہ دُعا قبول ہوئی اور وہ ابردفع ہوا۔

بعد چالیس یوم کے یونس پہاڑ سے نکلا تو اُسے معلوم ہوا کہ عذاب رحمت سے بدل گیا۔ پس اُسے شہر میں جانے سے شرم آئی کہ لوگ مجھے جھوٹا بتلائیں گے کہ اُس کے کہنے کے موافق عذاب نہ آیا تب اُس نے جنگل کی راہ لی جب کنار ہ دریا پر پہنچا تو ایک ایسی موج پانی کی آئی کہ یونس کی جورو اورایک بیٹا پانی میں بہہ گئے ایک بیٹا باقی تھا کہ اُسے بھیڑ یا کھاگیا اب وہ اکیلا رہ گیا پس سوداگروں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا جب دریا کے بیچ میں آیا تو وہاں کشتی ٹھہر گئی ملاح بولے کہ کوئی فراری غلام اس کشتی میں ہے اس لئے کشتی نہیں چلتی۔ پس یونس بولا میں بھاگا ہوا غلام ہوں اور اس قوم کا دستور تھاکہ بھاگے ہوئے غلام کو دریا میں ڈبویا کرتے تھے اس لئے یونس کو دریا میں ڈالا اورمچھلی نے نگل لیا۔ ۴ گھڑی یا ایک دن یا ۳ روز یا ۷ روز یا ۴۰ روز یا چھ مہینے یا ۷ برس مچھلی کے شکم میں رہا جیسے بچے ماں کے شکم میں رہا کرتے ہیں اور خُدا نے مچھلی کا بدن مثل شیشہ کے شفاف کردیا تھا اور وہ مچھلی ساتوں سمندروں میں پھری یونس نے خوب عجائب غرائب سمندروں کے ملاحظہ کئے اور مچھلی یونس کو چہ ہزار برس کی راہ تک لے گئی یا ساتویں زمین کے نیچے تک گئی پر یونس ذکر الہٰی کرتا رہا جب وقت پور ا ہوا مچھلی نے جنگل میں اُسے اوگل دیا وہ بہت ناطاقت تھا اُسے دھوپ بُری لگی تب خُدا نے ایک ارنڈی کادرخت اُس پر اُگایا اورہرنی کو حکم ہوا وہ آکر اپنے پستان اُسے پلاتی تھی کیونکہ وہ مثل بچہ کے پیدا ہوا تھا آخر کو مضبوط ہوا اورایک روز سوگیا جب اٹھا تو دیکھا کہ درخت سوکھ گیا ہے بڑا غمگین ہوا خُدا نے کہا درخت کے لئے ایسا غم کرتا ہے اور اتنے ہزار آدمیوں کے لئے تونے بددُعا کی تھی۔

القصہ پھر خُدا نے اُسے نینوہ کو بھیجا لوگ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ایمان لائے یہ لوگ ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ سترہزار تھے وہ وہاں رہا آخر کو مرگیا اُس کی قبر کوفہ میں ہے۔

طالوت وجالوت کا قصہ

طالوت ساؤل کو اورجالوت جولیت فلستی کو کہتے ہیں ۔موسیٰ کی موت کے بعد بنی اسرائيل نے اپنے وقت کے پیغمبر اشمویل یعنی سیموئیل سے کہاہمارے درمیان توایک بادشاہ مقرر کر تاکہ ہم اُس کی مدد سے قوم جالوت یعنی عمالقہ سے جہاد کریں ۔یہ درخواست اس لئے کہ اُن کے درمیان اس وقت کوئی بادشاہ نہ رہا تھا سیموئیل بولا شائد تم پر جہاد فرض ہوجائے اور تم نہ کرکے ہلاک ہوجاؤ وہ کہنے لگے یہ کس طرح ہوسکتا ہےجب کہ قوم جالوت نے ہمیں لوٹا اوربرباد کردیا ہے حدیث میں ہے کہ قوم جالوت نے ۴۰۴۰ نفر بنی اسرائيل کے قید کرلئے تھے۔ پس سیموئيل نےد عا کی خُدانے ایک لاٹھی اور برتن میں تیل بھیج دیا اورکہا کہ جو لوگ تیرے گھر میں آئیں اوریہ تیل کسی کو دیکھ کر جوش مارے اوریہ لاٹھی اُس کے قدر کے برابر ہو تو اُسے بنی اسرائيل کا بادشاہ کردینا جب اُس کے پاس ایک شخص طالوت قوم کا کہ ٹیک یا سقاآیا اُس پر تیل نے جوش مارا اور لاٹھی اُس کے قدکے برابر نکلی وہ بہت خوبصورت اور قدر آور تھا بنی اسرائيل اُس کی بادشاہت سے ناراض ہوئے کیونکہ وہ شخص بنیامین کے فرقہ سے غریب آدمی تھا نہ یہودا کے فرقہ سے جس میں بادشاہت آتی تھی۔

بنی اسرائيل نے کہا اگرچہ تیل نے جوش مارا اورلاٹھی برابر نکلی توبھی کوئی اور علامت ہمیں خُدا سے دلوا جس سے ہم کامل یقین کریں کہ طالوت بادشاہ ہے۔ سیموئیل بولا دوسری علامت یہ ہے کہ تابوت جو اب یہاں نہیں ہے وہ تمہارے پاس آجائے گا ۔ تابوت کہتے ہیں خُداوند کے صندوق کو جسے قوم عمالیق بنی اسرائيل سے چھین کر لے گئے تھے اس میں موسیٰ کی جوتیاں تھیں اورہارون کی پگڑی اور تھوڑے سے من وسلویٰ اور اُن تختیوں کے سنگ ریزے جنہیں موسیٰ طور سے لایا تھا۔ جب عمالقہ اُسے لے گئے جہاں لے جا تے تھے آفت آتی تھی انہوں نے چاہا کہ جلادیں اُسے آگ نہ لگی چاہا توڑ ڈالیں ٹوٹ نہ سکا آخر انہوں نے کسی ناپاک جگہ میں دفن کردیا اور وہاں پیشاب کرنےآتے تھے جب کوئی وہاں پیشاب کرنے آتا اُسے بواسیر ہوجاتی تھی ۔اس لئے عمالقہ نے اُسے وہاں سے نکال کر ایک گاڑی میں رکھا اور دوبیل جوت کر جنگل کی طرف اکیلا ہانک دیا ۔ سو وہ سیموئيل کے پاس آگیا تب بنی اسرائیل کو یقین ہو کہ طالوت بادشاہ ہے۔ مسلمان کہتےہیں کہ وہ تابوت اب دریا طبریہ میں رکھا ہے قیامت سے پہلے نکلے گا ۔ پس طالوت بعد بادشاہی کے ستر ہزار بنی اسرائيل لے کر عمالقہ سے جہاد کیا گیا۔ شہرارون اور فلسطین کے درمیان بڑی گرم ہوا چلی اور لوگوں کو بہت پیاس لگی طالوت نے لشکر سے کہا خُدا تعالیٰ ایک ندی پانی کی ظاہر کیا چاہتا ہے اُس میں سے جو کوئی ایک کف دست(ہاتھ کی ہتھیلی کےبرابر) پانی پیے گا وہ مومن ہے اور جو دوکف دست سے پیے گا وہ بے ایمان ہے خبردار ہوجاؤ کہ یہ خُدا کی طرف سے آزمائش ہے پس ۲۱۳ شخص نے یک کف دست پیا اور سیر ہوئے مگر سب نے زیادہ پیا اور اُن کی زبانیں سیاہ ہوگئیں اور نہ پیاس بجھی پار اُترے جنہوں نے زيادہ پانی پیا تھا قوم جالوت سے ڈر گئے پر جنہوں نے تھوڑا پیا تھا مستعد اورتیار ہے ۔جالوت ایک آدمی تھا بڑا زور اور اُس کے ہتھیار بارہ من لوہے کے تھے اوراُس کا خُود تین من لوہے کا تھا اور سات ہزار اُس کے ساتھ تھے) بنی اسرائيل اُس سے ڈرگئے آخر اس کو داؤ د نے مارا۔

داؤد کا احوال

داؤد پیغمبر یہودا کی نویں پشت میں تھا اور داؤد کا باپ طالوت کے لشکر میں معہ اپنے چھ بیٹوں کے حاضر تھا مگر داؤد جو سب سے چھوٹا تھا بکریاں چراتا تھا۔ خُدا نے بنی اسرائيل کو خبردی کہ یہ جالوت مردود داؤد کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ پس بنی اسرائيل نے داؤد کو بلایا جب وہ آیا راہ میں تین پتھروں نے داؤد سے بات کہی کہ اے داؤد توہم سے جالوت کو مارے گا۔ پس داؤد نے وہ پتھر اٹھا کر توبرہ میں رکھ لئے اور صف جنگ میں آکر فلاخن میں رکھ کر جالوت کے مارے اُس کا سر ٹوٹ گیا اور قوم جالوت بھاگ نکلی۔

طالوت نے شرط کی تھی جو کوئي جالوت کو مارے میں اُسے اپنی بیٹی دوں گا اور نصف سلطنت بھی بخشوں گا پس داؤد کو اُس کی بیٹی اور نصف سلطنت مل گئی اس کے بعد ساری سلطنت اُس کی ہوگئی ۔ بعد سلطنت کے خُدا نے داؤد کو رسالت بھی دی اور کتاب زبور یونانی زبان میں اُسے مرحمت ہوئی اُس کتاب میں نواہی داوامر نہیں ہیں صرف حمدوثنا وعظ نصیحت اور حضرت محمد کی تعریف اور مسلمانوں کی ستائش لکھی ہے۔ داؤد پیغمبر موسیٰ کی شریعت پر چلتا تھا تفسیر بحر المواج اور زاہدی میں لکھا ہے کہ

’’حضرت عیسیٰ تک چار ہزار پیغمبر جو آئے سب کے سب ایک ہی شریعت یعنی توریت پر چلتے تھے اپنی جدی جدی شریعت نہ لائے تھے‘‘۔

داؤد کےہاتھ میں خُدا نے ایسی قدرت دی تھی کہ لوہا اُس کے ہاتھ میں موم ہوجاتا تھا اور وہ روز ایک ذرہ بناتا تھا اور چھ ہزار درم کو فروخت کرتا تھا اُن میں سے چار ہزار درم خیرات دیتا تھا اور دو ہزار سے آل اولاد کی پرورش کرتا تھا وہ ایسا خوش آواز تھا کہ جب زبور پڑھتا درندے پرندے اور وحوش(وحشی کی جمع،جنگلی جانور) بھی جمع ہوکر سنتے تھے اور مضطرب(بے قرار) ہوجاتے تھے بلکہ جانور بھی اُس کے ساتھ گانے لگتے تھے اور دریا وہوا ٹھہر جاتی تھی اور جب وہ چاہتا تھا تو پہاڑ بھی اُس کے ساتھ چلتے تھے ۔ ۹۹ عورتیں اس کی جوروں تھیں اور ۳۰۰ لونڈیاں بھی اُس کے پاس تھیں تو بھی اُس نے اوریاہ کی جورو کو لے لیا اور قصہ یوں تھا کہ ایک عورت سے اوریاہ نے منگنی کی تھی اُس کی منگنی پر داؤد نے بھی اُس کی درخواست کی اوراُس سے نکاح کرلیا اس لئے خُدا ناراض ہوا کہ تونے دوسرے کی منگنی کیوں چھین لی ۔ اس قصے میں علماء محمدیہ کی طرح بطرح کی روائتیں ہیں چونکہ وہ روائتیں عقل اور شرع کے برخلاف ہیں اس لئے یہ روائت کہ منگنی تھی محمدیوں نے قبول کی ہے تاکہ داؤد پر عیب نہ لگے توبھی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اور طرح کی بھی روائتیں آئيں ہیں جو ہماری عقل اور شرع قبول نہیں کرتی دنیاوی واقعات بھی چاہے کہ اُن کی شرع عقل کے برخلاف واقع نہ ہوں۔

پس خُدانے دوفرشتے اُس کے پاس بھیجے وہ آکر بولے کہ ہمارے درمیان انصاف کر یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ۹۹ بھيڑیں ہیں اور میرے پاس ایک بھیڑ تھی اس نے وہ بھی چھین لی تو داؤد بولا اس نے ظلم کیا ہے پس فرشتے فوراً غائب ہوگئے داؤد سمجھا کہ میرا امتحان کیا گیا رونے لگا چالیس برس یا چالیس دن روتا رہا تب خُدا نے اُسے بخشا داؤد کے زمانہ میں جمعہ کے دن عبادت کرنا یہود پر واجب تھا پر انہوں نے قبول نہ کیا ہفتہ کے روز عبادت کرنے لگے اورحکم تھا کہ اس روز مچھلی کا شکار نہ کریں پر بعض لوگ کرتے رہے اس لئے خُدا نے انہیں بندر بنادیا تین روز بندر رہے پھر مرگئے بعض کہتے ہیں کہ بندر کی نسل انہیں سے اب تک جاری ہے۔

سلیمان کا قصہ

جب داؤد بوڑھا ہوا جبرائیل ایک صندوق اُس کے پاس لایا اورکہا جو کوئی تیرے بیٹوں میں ۱۹ ہیں یہ بتلاؤ کہ اس صندوق میں کیا ہے وہی بادشاہ ہوگا ۔پس کوئی لڑکا نہ بتلا سکا مگر سلیمان نے کہا اس میں ایک انگشتری ہے اورایک کوڑا ہے اورایک چھٹی ہے جو کوئی اس انگشتری کو پہنے گا اس میں سب طرح کی قدرت ہوگی اوراس کوڑے سے حکومت کرے گا اور چھٹی میں پانچ سوال ہیں جو ان کا جواب دے گا وہ بادشاہ ہے ۔پس صندوق کھولا تو یہی نکلا اور سلیمان نے پانچ جواب بھی دئيے تب وہ بادشاہ ہوا اور داؤد مرگیا اُس کی عمر ۱۷۰ برس کی ہوئی جب سلیمان وہ انگشتری پہن کر بادشاہ ہوا تو سب آدمی اورجن وپریاں اور سب جانور بلکہ ہوا اور دریا بھی اُس کے مطیع ہوگئے ۔سمندر اور زمین نے اپنے سب خزانے اس کو بتلادئيے جنات نے اُن کو جمع کیا اور وہ ساری زمین کا بادشاہ ہوا وہ جانور کی آواز بھی سمجھتا تھا اور کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہ تھی۔ اس کے پاس شیشے کے ہزار مکان تھے جن میں تین سو عورتیں خوبصورت اُس کی جوروں تھیں اور سات سوباندیاں اور غلام تھے اُس کے پاس ساری دنیا کی شان وشوکت بدرجہ کمال موجود تھی اور دریائی گھوڑے جن کے پر تھے جنات اُس کے لئے سمندروں میں سے لائے تھے ۔ ایک روز سورج غروب ہوگیا اور وہ گھوڑ دوڑ کے تماشے میں نماز ادانہ کرسکا ۔پس سلیمان نے اُن فرشتوں کو جو سورج پر حاکم ہیں فرمایا تب انہو ں نے سورج کو الٹا ہٹایا اوراُس نے نماز پڑھی اور وہ سب گھوڑے قربان کر ڈالے۔ سلیمان کا لشکر سو فرسخ مربع میں خیمہ زن ہوتا تھا ۲۵ فرسخ میں آدمیوں کی اور ۲۵ میں جنات کی اور ۲۵ میں پرندوں کی اور ۲۵ میں درندوں کی فوجیں پڑتی تھیں۔

اُس کے پاس ایک عجیب قدرت کا تخت بھی تھا اورایسی ایسی چیزیں تھیں جن کا ذکر اس مختصر میں نہیں ہوسکتا۔

سلیمان کی خدمت میں ایک ہُد ہُد بھی تھا ایک روزہ وہ غائب رہا خدمت میں نہ آیا سلیمان اُس پر خفا ہوا اُس نے کہا کہ میں ملک یمن میں گیا تھا وہاں ایک عورت بلقیس نام ملکہ ہے اُس کی شان شوکت بڑی ہے اور وہ سوچ پرست ہے اُس کے ملک کی سیر میں مجھے دیر لگی ۔ پس سلیمان نے ایک خط لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم اے بلقیس میرے اوپر فوقیت کا دعویٰ نہ کر بلکہ مسلمان ہوکر میری خدمت میں حاضر ہو اوریہ خط ہُد ہُد کے منقار(چونچ) میں دے کر بلقیس کی طرف بھیجا ہُد ہُد نے جاکر بلقیس کو دیا اُس نے پڑھ کر ارکان دولت سے صلاح کی وہ لوگ جنگ پر آمادہ ہوئے پر بلقیس نے جنگ کرنا نہ چاہا بلکہ بہت سے تحفے تحائف عجیب غریب جو یہاں بیان نہیں ہوسکتے اُس کی طرف بھیجے اور آپ پیچھے سے آتی تھی جب وہ تحائف لے کر وکیل آئے سلیمان اُن سے ملا اوراپنی شان شوکت انہیں دکھلائی لوگوں نے سلیمان سے کہا بلقیس کم عقل اور بدشکل ہے تو اُس پر توجہ نہ کر۔ پر اُس نے حکم دیا کہ بلقیس کی حاضری کے پہلے اُس کا تخت اٹھاکر لایا جائے پس جنات جلدی جاکر اُسے اٹھالائے اور بلقیس پیچھے حاضر ہوئی اور مسلمان ہوگئی۔ سلیمان نے اُسے غسل دلایا اورنکاح کیا اوراُس کا ملک اُسے بخش دیا۔ ہر مہینے میں ایک بار اُس کے ملک میں جاتا تھا اور تین روز اُس کے ساتھ رہتا تھا اور اُس سے لڑکا بھی پیدا ہوا تھا۔ بعض کہتے ہیں آپ نے نکاح نہیں کیا ہمدان کے بادشاہ سے اُس کا نکاح کرادیا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ کسی جزیرہ میں کوئی کافر بادشاہ تھا سلیمان نے اُسے قتل کیا اور اُس کی خوبصورت لڑکی مسلمان کرکے نکاح میں لایا وہ لڑکی اپنے باپ کو یاد کرکے رویا کرتی تھی۔ پس سلیمان نے اُس کا دل بھلانے کو اُس کے باپ کی تصویر بنوائی تاکہ وہ عورت دیکھے اور تسلی پائے پر وہ معہ اپنی سہیلوں کے سلیمان سے پوشیدہ اُس تصویر کو پوجنے لگی آصف کو جو سلیمان کا وزیر تھا خبر ہوگئی۔ اس سلیمان سے کہا پس سلیمان نے فوراً اُس تصویر کو توڑ ڈالا اوراُس عورت کو لاتیں مار کر تنبیہ دی اور روتا ہوا جنگل کو نکل گیا۔ سلیمان کی عادت تھی کہ وہ انگشتری طہارت کے وقت اپنے بیٹے اُمینہ کے سپرد کرتا تھا ایک روز وہ انگشتری اُس لڑکے کے پاس تھی کہ صخرہ نام جن بشکل سلیمان آیا اور اُس سے انگشتری مانگ کر پہن لی اور بادشاہ ہوگیااب اُس کا حکم مثل سلیمان کے جاری ہوا اور سلیمان فقیر ہوکر بھیک مانگنے لگا جب لوگوں سے کہتا کہ میں سلیمان ہوں وہ اُس کو گالیاں دیا کرتے تھے اور خاک ڈالتے تھے آخر کو ایک ماہی گیر کا نوکر ہوگیا اور وہ ہر روز اُسے دو مچھلیاں دیا کرتا تھا۔ چونکہ چالیس روز اُس تصویر کی پرستش اُس کے گھر میں ہوئی تھی اس لئے چالیس دن سلیمان کا یہ حال رہا بعد اس کے وہ صخرہ جن اُس انگشتری کو دریا میں ڈال کر اُڑ گیا مچھلی نے انگشتری کو نگل لیا اور وہ مچھلی ماہی گیر نے پکڑ کر سلیمان کے حصہ میں دی اُسے چیر کر انگشتری نکالی اورپھر عروج ہوا۔ پر کہتے ہیں کہ سلیمان سب پیغمبروں سے پانچ سویا چالیس برس بعد بہشت میں جائے گا کیونکہ اُس نے دنیاوی شان شوکت بہت حاصل کی تھی اور حضرت محمد سب پیغمبروں سے پہلے بہشت میں جائیں گے کیونکہ وہ فقیر تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ بیت المقدس کی عمارت پہلے داؤد نے شروع کی مگر قبل ازاتمام انتقال ہوگیا۔ پھر سلیمان نے اُس کی تیاری میں بڑی کوشش کی اور کئی ہزار آدمی لگا کر زر کثیر سے سات برس تک بنایا ابھی تیار نہ ہوئے تھے کہ اس کی موت آگئی ۔ پس اُس کی لاش کو غسل اور کفن دے کر لاٹھی کے سہارے بیت المقدس میں کھڑا کردیا جنات نے سمجھا کہ وہ عبادت میں ہے اس لئے سب کام میں مشغول رہے اور وہ ایک سال تک کھڑا رہا آخر دیمک نے لاٹھی کو کھالیا اور لاش گر پڑی تب جنات بھاگ گئے اوربیت المقدس تیار ہوگئی مگر بخت نضر نے اُسے برباد کردیا۔ سلیمان کی عمر ۱۵۳ یا ۱۸۰ برس کی ہوئی اس کی قبر بیت المقدس میں ہے۔

زکریاہ اوریحییٰ کا قصہ

زکریاہ یحییٰ یا یوحنا اصطباغی کا باپ سلیمان بن داؤد کی اولاد سے تھا اور بڑا پیغمبر اوربیت المقدس کےاحباروں کا سردار تھا (واضح ہو کہ وہ اولاد داؤد سے نہ تھا کہ بلکہ ہارون میں سے ایک کاہن تھا ) اُس کی عمر ۶۰ یا ۷۰ یا ۷۵ یا ۸۵ یا ۱۲۰ یا ۹۹یا ۹۳ برس کی تھی اوراُس کی جورو ۸۰ یا ۹۸ برس کی تھی ایک ایک روز بیت المقدس کے محراب میں قربانی چڑھا کر دُعا کرتا تھا کہ اے خُدا میں بوڑھا ہوں اور میری جورو بانجھ ہے اور اولاد نہیں ہے تومجھے ایک بیٹا عنائت کر جو امور دنیا ودین میں میرا جانشین ہوا۔ دُعا قبول ہوئی اور خُدا نے کہا تیرے بیٹا ہوگا اُ س کا نام یحییٰ رکھنا اُس نے خُدا سے علامت مانگی خُدا نے کہا تین روز تو بول نہ سکے گا اس لئے اُس کی زبان تین روز بندرہی آخر کو کھل گئی اور ۹ مہینے کے بعد لڑکا ہوا وہ ٹاٹ کا لباس پہنتا اور ریاضت کرتا اوربہت روتا تھا اس لئے زکریاہ اُس کے سامنے وعظ نصیحت بھی نہ سنتا تھا کہ اُس کا غم زیادہ نہ ہو ایک روز زکر یاہ سمجھا کہ وہ مجلس میں نہیں ہے اور دوزخ کا بیان سنایا یحییٰ جو گوشہ میں بیٹھا تھا چیخیں مارتا ہوا جنگل میں بھاگا دن بھر پہاڑوں میں روتا رات کو کسی غار میں آسوتا تھا کسی چرواہے کے بتلانے سے اُس کی والدہ وہاں جاکر ملی وہ اُسے دیکھ کر بھاگنے لگا تب ماں نے حق شیر ثابت کیا تب وہ اُس سے ملا۔

اس عرصہ میں بنی اسرائيل شریر ہوگئے زکر یا ہ انہیں نصیحت کرتا تھا پر وہ نہ مانتے تھے بلکہ اُس کے دشمن ہوگئے تھے اوراُسے قتل کرنا چاہتے تھے ۔پس زکریا ہ اُن کے سامنے سے بھاگا اور اسرائیلی لوگ اُس کے پیچھے دوڑے راہ میں ایک درخت زکریاہ کے چھپانے کو پھٹ کیااور زکر یاہ اُس میں گھس گیا شیطان نے کفار سے کہا زکر یا ہ اس درخت میں ہے پس انہو ں نے آری سے چیرا جب اُس کے سر پر آرا چلااُس نے آہ ماری خُدا نے کہا اگر پھر مارے گا تو پیغمبر میں سے تیرا نام کاٹ ڈالوں گا پس وہ چپ چاپ چیرا گیا اس کی عمر اس وقت ۳۰۰ برس کی تھی۔

پھر بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا اُس کے ایک ملکہ تھی اوراُس ملکہ کی بیٹی تھی پہلے خصم سے ملکہ چاہتی تھی کہ اپنی بیٹی بھی اپنے حال کے خصم کی جورو بنا دے یحییٰ نے اس حرکت سے اُسے منع کیا اس لئے بادشاہ نے ملکہ کے کہنے سے اُس کی گردن میں ایک رسی باندھ کر حاضر کرایا اور سر کاٹ لیا وہ سر بھی کٹا ہوا بولتا تھا کہ جورو کی بیٹی سے نکاح کرنا نہ چاہیے کہتے ہیں کہ ملکہ کو شیر کھاگیا اوربادشاہ بھی معہ اپنے قوم کے شیروں سے ہلاک ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں اپنے بھائی کی بیٹی پر عاشق ہوگیا تھا یحییٰ کی عمر ۷۵ برس کی ہوئی اور دمشق کی جامع مسجد میں اُس کی قبر ہے۔

مریم اور مسیح کے تولد کا احوال

مریم سلیمان کی ۱۷ یا ۱۸ پشت میں تھی اس کی ماں ایک زاہد ہ عورت تھی جس کا نام حنہ تھا اوراس کا شوہر عمران تھا جب حنہ حاملہ ہوئی تو اُس نے نذر مانی کہ جو بچہ پیدا ہوگا وہ بیت المقدس کی خدمت کرے گا ۔پس اُس کے مریم لڑکی پیدا ہوئی مریم کے معنی ہیں خُدا کی باندی یا عابدہ حنہ اُسے کپڑے میں لپیٹ کر بیت المقدس میں لائی زکریا ہ نے اُس کی پرورش کی اور وہ بیت المقدس کی خادمہ ہوئی اور مریم کی بہن یا خالہ زکریاہ کی جورو تھی اگرچہ اُس وقت بیت المقدس کی خاکروبی ۴ہزار آدمی کرتے تھے اورمریم بھی اُن میں سے ایک تھی توبھی خُدا نے مریم کو ایسا قبول کیا کہ اُ س کا نام قیامت تک جاری رہے گا وہ ۱۰یا ۱۳ برس کی تھی کہ جبرائیل نے آکر فرزند کی بشارت دی اورکہا قدرت ایزدی سے بلا شوہر تیرے فرزند پیدا ہوگا ۔اسی وقت سے وہ حاملہ ہوئی اور حمل کی خبر زکریاہ کو ملی وہ متعجب ہوا کہ وہ بلا شوہر کس طرح حاملہ ہے زکریا ہ کی عورت نے کہا اُس کے شکم سے حضرت یحییٰ تھے۔ پس زکریا ہ کی عورت کے شکم والے بچہ نے مریم کے شکم والے بچہ کو سجدہ کیا اور تواضح سے جھکا اس لئے اُس نے اس کی تعریف کی۔ پس مریم یا تو جنگل کو نکل گئی یا شہر ایلیاہ جو ۶ کوس بیت المقدس سے ہے وہاں گئی اور اس خیال سے کہ لوگ مجھے اتہام (الزام ،شک وشبہ)کریں گے غمزدہ ہوکر موت کی آرزو کرنے لگی تب دردزہ ہوگیا اور درخت خرما جوخشک تھا تازہ ہوا اورایک چشمہ پانی کا جاری ہوا۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ بیت المقدس میں مریم نہیں ہے تو اُس کی تلاش میں پتا لگا کر اُسی جگہ آپہنچے اورمریم کو معہ لڑکے کے وہاں پایا اور کہا اے مریم عمران کی بیٹی ہارون کی بہن تیری ماں زناکار نہ تھی تونے یہ کیا کیا مریم نہ بولی بلکہ اشارہ کیا کہ اُس لڑکے سے پوچھو ۔پس بچہ نے جواب دیاکہ میں خُدا کا بندہ ہوں خُدا نے مجھے انجیل دے کر پیغمبر کیا ہے اور مجھے بابرکت بنایا ہے اورمجھے نماز اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے جب تک میں جیتا ہوں اورمجھے خُدا نے نیکو کار بنایا ہے اور گردن کش نہیں بنایا ہے ۔پس لوگوں نے جب یہ معجزہ دیکھا تو قدرت الہٰی سے حیران ہوگئے اُس وقت عیسیٰ کی عمر ایک دن یا ۴۰ دن کی تھی اور وہ ایک دفعہ باتیں کرکے پھر چپ رہا جب تک کلام کرنے کی عمر کو نہ پہنچا۔۳۰برس کا ہوا تب اُسے وحی آئی بعض کہتے ہیں کہ گہوارہ میں بھی لوگوں سے باتیں کیا کرتا تھا جب اُسے اُستاد کے پاس لے گئے تاکہ پڑھنا سیکھے تو معلم نے کہا کہہ بسم عیسیٰ علیہ السلام وہ بولا بسم اللہ یعنی اُس نے بسم عیسیٰ نہ کہا (شائد یہ معلم عیسیٰ کو اُس کے ظاہر ہونے سے پہلے بھی خُدا جانتا تھا کہ خُدا کی جگہ میں اُس کے نام کو رکھتا ہے)پھر معلم نے کہا الرحمن عیسیٰ بولا الرحمن الرحیم ۔ جب معلم نے کہا کہہ ابجد یعنی الف ب ج د عیسیٰ بولا بجد کیا ہوتا ہے اوراس کے کیا معنی ہیں وہ بولا میں نہیں جانتا عیسیٰ نے کہا الف علامت احدیت سے ب اُس کی بزرگی دکھلاتی ہے ج اُس کا جلال ظاہر کرتی ہے دال علامت دوام کی ہے۔ تب معلم بولا میں اس کو کیوں کر پڑھاؤں یہ تومجھ سے زيادہ عالم ہے ۔ پس عیسیٰ لڑکوں میں کھیلتا رہا اور جو جو کھانے لڑکے کھاکر آتے تھے وہ غیب سے بتلاتا تھا جب بالغ ہوا بنی اسرائيل کو ایمان لانے کے لئے دعوت کی پر کوئی ایمان نہ لایا اورکہا بے باپ کے لڑکے کا حکم ہم قبول نہیں کرتے ہم موسیٰ کے شاگرد ہیں لیکن سب سے پہلے اُس پر یحییٰ پیغمبر ایمان لایا مگر یہودی اُس کے درپے تھے اس لئے وہ ملک شام سے مصر کو چلا دریائے نیال کے کنارے اُس نے دھوبیوں کو کپڑے دھوتے دیکھا انہیں کہا تم کپڑوں کو سفید اورپاک کرتے ہو اگر میرے ساتھ آؤتمہارے دل کفر سے پاک کرکے میں تمہیں صاف بناؤں گا ۔پس وہ اس کے ساتھ ایمان لا کر ہوئے بعض کہتے ہیں کہ اس نے ماہی گیروں کو دیکھا تھا اور کہا میرے ساتھ آؤ کہ تم تو حید الہٰی کا شکار کروگے۔ تفسیر زاہدی میں لکھاہے کہ

’’ جب عیسیٰ کو کسی معلم نے نہ پڑھایا تو مریم نے اُسے کسی رنگریز (کپڑا رنگنے والا)کے پاس چھوڑدیا تاکہ یہ پیشہ سیکھ لے عیسیٰ نے اس کے سارے کپڑے اٹھاکر نیل کے ماٹ میں ڈال دئیے اورہر رنگ جو مطلوب تھا خود بخود ہوگیا ۔پس لوگ یہ معجزہ دیکھ کر اُس کے ساتھ ہوگئے جب عیسیٰ مصر سے واپس آیا اور بنی اسرائيل سے ایمان لانے کو کہا کہ میں خُدا سے معجزے لے کر آیا ہوں ایک تو یہ کہ مٹی کے جانور بناکر بحکم خُدا زندہ کردیتا ہوں اور وہ اڑتے ہیں دوسرے یہ کہ مادر زاد اندھے کو بینا کرتا ہوں اور کوڑھی کو صاف کرتا ہوں اوراُس کے پاس کبھی کبھی پچاس ہزار آدمی بیمار آتے تھے اور وہ سب کو تندرست کردیتا تھا اور جو نہ آسکتے تھے انہیں دُعا سے صحت بخشتا تھا اس کے منہ کے سانس میں بڑی تاثیر تھی۔

عیسیٰ نے چار مرُدے جلائے ایک ان میں سے سام بن نوح تھا جو ۴ ہزار برس کا مردہ تھا وہ زندہ ہوکر پھر اُسی وقت مرگیا مگر دوسرے تین جو جلائے دنیا میں رہے اوربچے بھی جنے اُس نے دوشخص شہر انطاکیہ میں بھیجے ان کا بندہ نے اتفاقی مباحثہ میں لکھاہے۔

پس عیسیٰ جو طرح طرح کے معجزے دکھلاتا تھا لوگ کہنے لگے وہ جادو سے کرتا ہے اور بعض کہتے تھے وہ سچا ہے ۔یہ لوگ ایمان بھی لائے اوراُسے خُدا سمجھنے لگے کیونکہ وہ لوگ گمان کرتے تھے کہ خُدا ہر زمانہ میں کسی جسم میں حلول(ایک چیز کا دوسری چیز میں اس طرح داخل ہونا کہ دونوں میں تمیز نہ ہوسکے) کرکے آتا ہے اس وقت عیسیٰ میں آیا ہے اور بعض کہتے تھے کہ تین خُدا ہیں ایک اللہ دوسری مریم تیسرا عیسیٰ اور بعض کہتے تھے کہ عیسیٰ خُدا کا بندہ اور رسول ہے۔ لوگوں نے عیسیٰ سے کہا کہ ہمیں آسمان سے کھانا منگواکر کھلاتا کہ ہمیں یقین آئے اس نے دُعا کی اورایک دستر خوان اُترا اس میں ایک مچھلی بھُنی ہوئی اورنمک اور سرکا اور ترکاریاں اورپانچ روٹیاں اور پانچ انار تھے لوگ بولے اس معجزہ میں کوئی اور معجزہ بھی دکھلا تب اُس نے اُس بھُنی ہوئی مچھلی کو زندہ کردیا اور عیسیٰ نے وہ سب کھانا ۱۳۰۰ یا ۵۰۰۰ یا پانچ لاکھ فقرا کو کھلایا پھر وہ دستر خوان آسمان پر چلا گیا اورجس روز وہ کھانا آیا وہ اتوار کا دن تھا اس لئے عیسائی لوگ اتوار کو عید کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تین روز یا سات روز یا ۴۰ روز کھانا آتا رہا حکم تھاکہ فقیر اس میں سے کھائیں امیر لوگ نہ کھائیں اس لئے دولتمندوں نے غصہ سے اُسے سحر (جادو)بتلایا تب عیسیٰ نے انہیں بددُعا کی اور ۳۳ یا ۳۳۳ یا ۵۰۰۰ شخص سور بن گئے اورگندگی کھاکر تین روز بعد مرگئے۔

حضرت عیسیٰ خوش روشخص تھے اور تُرک دنیا اور زہد میں درجہ اعلیٰ رکھتے تھے ۔ ایک روز جنگل میں شاگردوں کے ساتھ تھے کہ ایک لومڑی انہیں ملی عیسیٰ نے کہا تو کہاں سے آتی ہے وہ بولی عیسیٰ کے گھر سے آتی ہوں حضرت نے کہا میرے کوئی گھر نہیں ہے شاگردوں نے کہا کہ آپ واسطے جہاں کہو ہم گھر بنائیں فرمایا دریا، موُج زن کے اندر بنا ؤ وہ کہنے لگے یہاں کیوں کر بن سکتا ہے فرمایا دنیا دریائے موج زن ہے اس میں گھر بنانا نہ چاہیے ۔

عیسیٰ کا آسمان پر جانا

ایک روز حضرت عیسیٰ نے بیت المقدس کے منبر پر وعظ کیا او رکہا اے لوگو تمہیں معلوم ہے کہ یہود کے لئے ہفتہ کا دن اور توریت کتاب ِشریعت ہے۔ پس اب توریت منسوخ ہوئی اور ہفتہ کے دن کے عوض اتوار مقرر ہوا ۔پس یہودی دشمن ہوگئے اور قتل کی فکر میں لگے اور عیسیٰ اور مریم کوگالیاں دینے لگے اس لئے خُدا نے اُن کے جوانوں کو بندر اور بچوں کو سور بنادیا اس سے وہ اور بھی زیادہ دشمن ہوئے اور بڑی حیلہ بازی سے عیسیٰ کو پکڑا اور تمام رات ایک گھر میں قیدرکھا صبح کو گھر کے دروازہ پر سب جمع ہوئے اوراُن کا سردار گھر کے اندر گیا تاکہ عیسیٰ کو باہر لائے پر عیسیٰ کو تو اُسی رات خُدا نے آسمان پر بلالیا تھا ایساکہ کسی کو خبر نہ ہوئی تھی لیکن وہ سردار جب اندر گیا تو اُس کی شکل خُدا نے مثل عیسیٰ کے فوراً بنادی جب وہ باہر نکلا اورکہا گھر میں عیسیٰ تونہیں ہے لوگ اُسے چمٹ گئے کہ تو ہی عیسیٰ ہے ہر چند وہ کہتا رہا کہ میں عیسٰی نہیں ہوں پر شکل عیسیٰ کی تھی اس لئے کسی نے نہ مانا اُسے لے جا کر صلیب پر مارا پھر اپنے سردار کی تلاش کرنے لگے جب کہیں نہ پایا تو بہت گھبرائے کہ سردار مارا گیا اور عیسیٰ اڑگیا ۔ اُ س کے آسمان پر جانے کے طور میں بہت اختلاف ہے یا تو اُس کی جان خُدا نے قبض کی اور سات گھنٹے کے بعد اُسے آسمان پر لے گیا۔ یا وہ سوگیا تھا اور نیند میں اُسے خُدا نے اٹھالیا۔ یاابر آیا اوراُسے لے گیا جاتے وقت مریم عیسیٰ کو لپٹ گئی پس وہ ملاقات قیامت کا وعدہ کرکے چھوڑ گیا بعد اُس کے چھ برس مریم اور زندہ رہیں اور جب مسیح آسمان کو گئے تو اُن کی عمر ۳۳برس کی تھی اور وہ آسمان پر جاکر جسمانی نہ رہے بلکہ آسمانی ہوگئے ۔پھر لوگوں میں اختلاف پڑا کہ وہ کون تھا یعقوب نے کہا وہ خُداتھا ۔زمین پر آیا تھا پھر آسمان پر چلاگیا۔ نسطور بولا وہ خُدا کا بیٹا تھا خُدانے اُسے بھیجا تھا پھر بلالیا۔ ملکا بولا وہ بندہ اورسول تھا پس ان تینوں عالموں کی رائے کے موافق یعقوبیہ نسطوریہ ملکا نیہ تین فرقے ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ عیسیٰ پھر آسمان سےآئے گا اور دجال کو مارے گا اس کے عہد میں سب یہودی مارے جائیں گے اور کوئی کافر دُنیا میں نہ رہے گا اورایسا امن چین ہوگاکہ شیر اونٹوں اورگائیں اوربکریوں کے ساتھ ایک مکان میں چریں گے اورلڑکے سانپوں سے کھیلیں گے اور حضرت عیسیٰ محمدی شریعت پر عمل کریں گے اورکسی عورت سے شادی کرکے بچے جنیں گے اورچالیس برس بعد مرجائیں گے اور مدینہ میں حضرت محمد کی قبر کے پاس دفن کئے جائيں گے۔

نتیجہ

تعلیم محمدی کا ایک وہ حصہ جس میں نہائت فحش باتیں ہیں میں نے چھوڑ دیا ہے مگر اُن کی ساری اچھی تعلیم جو ہے سو یہ ہی ہے جو اس کتاب میں لکھی گئی ہے اوریہ سب بیان نہ صرف حدیثوں سے ہیں مگر قرآن اوراحادیث معتبرہ سے بموجب رائے علماء محمدیہ کے جو معتبر لوگ ہیں یہ ذکر لکھے گئے ہیں اور اگر کوئی بات باقی بھی رہی ہوگی تو رہے مگر سب ضروری باتیں اسلام کی مذکور ہوگئی ہیں۔ اب تواریخ محمدی اور تعلیم محمدی کے دیکھنے سے ناظرین کو معلوم ہوسکتا ہے کہ محمدی مذہب کے لئے اگرچہ ایک صورت تو ہے مگر اُس میں جان ہرگز نہیں ہے اس لئے وہ ایک مُردہ دین سے یا ایک پتلا ہے جو آدمی نے بڑی کاریگری سے بنایامگر اُس میں جان نہ ڈال سکا۔

آدمیوں کے تجویز کئے ہوئے دین تو اس جہان میں بہت ہیں بلکہ سوائے دین عیسوی کے سارے ادیان آدمیوں سے ہیں اور اب بھی آدمی بناتا جارہاہے پھر بھی مطلوب ہے جو نہ انسان سے پر خُدا سے ہے۔

محمدی لوگ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہمارا دین خُدا سے ہے کیونکہ حضرت محمد نے الہٰام کے دعویٰ سے اپنا دین جاری کیا ہے لیکن انصاف سے بولنا چاہیے کہ کیا کوئی دعویٰ بے دلیل دنیا میں کبھی اہل فکر لوگ قبول کرسکتےہیں البتہ بے فکر لوگ تو کبھی کبھی مان لیا کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کے فکر ناکارہ ہیں۔

ہم حضرت محمد کو بسروچشم قبول کرتے اگر ان کا دعویٰ حق دلیلوں سے ثابت ہوجاتا پر یہ تو محال ہے لیکن برعکس اس کے ان کے اقوال اور افعال سے یہ ظاہر ہواہے لیکن برعکس اس کے اُن کے اقوال اور افعال سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ضرور یہ دین خُدا سے نہیں ہے مگر انسانی کی نفسانی خواہشوں اوراُسی کی عقل سے پیدا ہوا ہے۔

خُدا نے آدمیوں میں یہ طاقت بخشی ہے کہ اگر وہ فکر کریں تو معلوم ہوسکتاہے کہ کون کون چیزیں خُدا کی بنائی ہوئی ہیں اورکون کون چیزیں انسانی عقل سے ایجاد ہیں اور کون کون چیزیں انسانی عقل سے ایجاد ہیں اورکون کون چیزیں نفسانی خواہشوں سے نکلی ہیں اور کون کون خیالات ورسوم انسانی نادانی سے ہیں کیونکہ ہر چیز اپنے مخرج او رمنبع کو آپ ظاہر کرتی ہے کہ کہاں سے ہے۔

تورايخ محمدی کے دیکھنے سے یہ بات خوب ظاہر ہے کہ حضرت محمد عرب کے ایک بادشاہ تھے اوریہ منصب انہوں نے اپنی چالاکی اور ہوشیاری اورحکمت عملی سے بوسیلہ دعویٰ نبوت اور بوسیلہ اُس ترکیب کے جو رنجیت سنگھ سے پنجاب میں ظاہر ہوئی تھی ملک عرب میں اچھا موقع پاکر حاصل کیا تھا اوربڑی کامیابی بھی حاصل کی تھی۔

ہاں اس کامیابی سے جو خُدا کی معیت(ہمراہی) کا خیال اُن کی نسبت بعض مردم کے ذہن میں گذرتا ہے میں بھی اس کا قائل ہوں پر یہ ویسی ہی معیت تھی جیسی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی تھی اور دنیاوی آفتوں اور انتظاموں کے ساتھ دنیا کےشروع سے اب تک ہے پر وہ معیت الہٰی جو مخصوص ہے ۔پیغمبروں کے ساتھ حضرت میں ہر گز پائی نہیں جاتی کیونکہ نہ تو خُدا نے اُن کی تعلیم پر اپنی قدرت کے معجزوں سے مہر کی اورنہ اُن کی تعلیم میں وہ دانائی ظاہر ہوئی جو خُدامیں ہے اس لئے اُن کی تعلیم سے روحوں کی تشنگی ہرگز نہیں بجھ سکتی ہے اوریہ بڑا ثبوت ہے کہ وہ خُدا کے پیغمبر نہ تھے۔

اس کتاب کے پہلے باب میں ان عقیدوں پرسوچو جو حضرت محمد نے سکھلائے ہیں کیا اُن سے طالبِ حق کی روح اطمینان حاصل کرسکتی ہے وہاں توبعض باتیں ناواقفی کی ہیں اور بعض باتیں اور بعض وہ باتیں بھی ہیں جو خُدا کے کلام سے سن کر حضرت نے سنائی ہیں۔

پھر دوسرے باب میں حضرت کی عبادات پر غور کرو وہ بھی انہیں تین قسم کی باتیں ہیں اوربنیاد اُن کے عبادات کی وہی پہلے باب کے عقائد ہیں ۔پس کچی بنیاد پر کچا گھر بنانا ہے۔

علی ہذا القیاس حضرت کے معاملات بھی اُنہیں عقائد پر مبنی ہیں اور وہی تین قسم کی ہدائتیں وہاں پر بھی مذکور ہیں۔

پر قصص محمدیہ پر غور کرنے سے خوب ہی معلوم ہوگیا کہ محض ہوائی مذہب ہے دیکھو حضرت پیغمبروں کی تواریخ سے کہاں تک ناواقف ہیں عوام سے سن سن کر کس قدر غلط باتیں قرآن اور حدیث میں بھردی ہیں وہ کون ہے جو بائبل مقدس کی تواريخ سے واقف ہوکر اس تواریخ کو جو حضرت محمد نے سنائی ہے قبول کرے گا اس تواریخ کا فقرہ فقرہ غلاطہ فاحشہ سے بھرا ہوا ہے جس زمانہ میں حضرت نے پیغمبروں کی یہ تواریخات سنا کر عرب کے ناواقف لوگوں کو اپنی طرف کھینچا اُس زمانہ میں رومن کیتھولک لوگوں نے خُدا کے پاک کلام کو اُس کی زبان میں بندکر رکھا تھا وہ کہتے کہ جائز نہیں کہ سوا ئے پادریوں کے خُدا کے کلام کو لوگ پڑھیں اپنی زبان سے عوام کو کبھی کبھی کچھ سناتے تھے اوراُس کے ساتھ اپنی روایتیں بھی بتلاتے تھے سننے والے اور ، اورکچھ اپنی طرف سے ملا کر مشہور کرتے تھے پس یہ باتیں مثل مثل افواہ کے اُڑتی تھیں اُسی افواہ کو حضرت اپنی تاویلات سے اپنی نبوت کی بنیاد پر رکھ لیتے تھے ہاں کچھ کچھ ٹکڑے بائبل کے بعض عیسائيوں کے پاس موجود بھی تھے اوریہودیوں کے پاس پورا عہدِعتیق بھی تھا اور حضرت نے اُس میں سے کچھ کچھ سنا بھی تھا پر یہودی بھی اپنی روائتیں بہت سناتےتھے اور حضرت جو سننے والے تھے خود ان پڑھ تھے اس لئے کچھ کچھ درست سمجھا اورکچھ کچھ نادرست سمجھا خواہ اپنی غلطی سے خواہ اُن لوگوں کی روائتوں کی غلطی سے اس لئے حضرت کے سر میں پوری اور صحیح تواریخ پیغمبروں کی ہر گز حاصل نہیں ہوئی پیچھے علماء محمدیہ نے جب ان تواریخات کا تکلمہ عرب میں کرنا چاہا انہوں نے بھی صحیح بات کے دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی مگر جو کچھ قرآن اورحدیث میں بیان ہوچکا اُسی کی تائید میں جہاں تک انہیں اُس ملک اوراُس عہد کی روائتیں ملیں انہوں نے جمع کرکے قرآن کی تفسیروں میں انبار لگادئیے اورعام مسلمانوں نے ان باتوں کو مستند سمجھ کر یقین بھی کرلیا۔ لیکن اب کہ خُدا کا کلام سورج کی طرح سے بلندی پر طالع ہوا تو ساری تاریکی ساری دنیا سے ہٹا تا ہے اوراس لئے محمدی دین کی روشنی بھی بجھ گئی ہے۔

اوریہ بات جو میں کہتاہوں کہ خُدا کے کلام کی روشنی سے مذہب محمدی کی بھی روشنی جاتی رہی نہائت سچ بات ہے اورا س کے ثبوت کی سب دلیلیں چھوڑ کر یہ کیا عمدہ دلیل ہے کہ بعض علماء محمدیہ یہ جو بڑے ہوشیار ہیں اس وقت اسلام کی مرمت کے فکر میں بشدت سرگرم ہورہے ہیں اور تمام محمدی فقہ اصول او راحادیث اور تفسیروں وغیرہ کو جوبارہ سوبرس سے مسلمانوں میں ایمان کا جزو اعظم تھا اب دور پھینکتے ہیں صرف قرآن کو ہاتھ میں لے کر اپنی عقل سے اُس کی کچھ اور ہی معنی بنانا چاہتے ہیں اورنئی قسم کی تفسیر محض عقل سے کرتے ہیں اور ایک بڑی الٹ پلٹ محمدی مذہب میں کرتے ہیں یہ اسی لئے ہے کہ اگلی روشنی اسلام کی دین عیسائی کے سامنے تاریک ہوگئی ہے اورانہیں اس سے نفرت آگئی ہے وہ نہیں چاہتے کہ توبہ کرکے سچے نور میں شامل ہوجائیں مگر اپنے آباؤ اجداد کی لکیر کے فقیر ہوکے اور اپنی عقل کو خُدا سے زيادہ رہبر سمجھ کے چاہتےہیں کہ قرآن پر اپنی عقل کی سونے کا ملمع چڑھادیں اور یوں قرآن کو بیش قیمت چیز ظاہر کریں پر یہ انہونی بات ہے اورانشااللہ کچھ عرصے کے بعد معلوم بھی ہوجائے گاکہ اس سے کیا نتیجہ نکلا۔

حاصلِ کلام آنکہ محمدی تعلیم محمد صاحب سے ہے نہ خُدا سے اور محمد صاحب سے بھی اس طرح سے ہے کہ بعض باتیں اُن کی دانائی میں سے نکلی ہیں اور وہ دانائی اُسی درجہ کی ہے جو انسان کی عقل کا درجہ ہے۔

بعض باتیں حضرت کی خواہشوں میں سے ہیں اوریہ وہی خواہشیں ہیں جو ہر انسان میں ہیں۔

بعض حضرت کی ناواقفی میں سے ہیں اوریہ ناواقفی وہی ناواقفی ہے جو سب ان پڑھ اور امی اور مہذب شہروں سے ذرا دور کے باشندے رکھتے ہیں۔

اور بعض باتیں سماعی ہیں خواہ درست طور سے سنیں خواہ غلط طور سے ۔

خُدا کے کلام میں ان باتوں کے خلاف کچھ اور ہی خوبیاں ہیں اور وہ یہ ہیں۔

کہ یہ مجموعہ نہ کسی ایک آدمی کے ہاتھ سے مگر تمام انبیاء سے ہے اور تمام مقدسین کا متفق علیہ ہے اور سب پیغمبروں کی کتابیں اس میں شامل ہیں اس کے ساتھ جب ہمارا دلی اتفاق ہوتاہے تو تمام مجموعہ انبیاء کے ساتھ ہم ہوجاتے ہیں وہ کون دور اندیش آدمی ہے جو سلسلہِ انبیاء کو چھوڑ کر محمد صاحب کی خطرناک چال میں اُن کے ساتھ چلے گا۔

خُدا نے آپ اس کلام کا ثبوت متعدد گواہوں سے دیا ہے یعنی رسولوں اورنبیوں کے معجزات اور پیشینگوئیاں جن سے وہ کلام بھر پور ہے یہ خُدا کی طرف سے اس کا ثبوت کامل ہے۔

خُدا کی ذات اور صفات اوراُس کی ساری خُدائی کی شان شوکت جو انسانی فہم سے بالا ہے صرف اسی کلام میں ہے۔

خُدا کی ذات کا وہ بیان جو صرف اُسی کو لائق ہے اوراُس کے ارادے اوراُس کے عجیب انتظام اوراُس کی مرضی انسان کی نسبت جیسے اس کلام میں بیان ہے ساری زمین پر کبھی کسی انسان میں طاقت نہیں ہوئی کہ ایسا بیان کرسکے سارا قرآن او ر سب احادیث محمدیہ اس معاملہ میں ہرگز اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔

پھر اس کلام کا کچھ مغز بھی ہے جس کو اس کلام کی جان کہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ اپنی زندگی آدمیوں میں بوسیلہ سیدنا مسیح کے داخل کرتاہے اوریوں وہ بچ جاتے ہیں اوراسی ہماری زندگی میں جواب ہم میں موجود ہے خُدا کی زندگی ہمارے شامل حال ہوجاتی ہے ۔ اور ہماری روحوں کے پاک اقتضا سب کے سب پورے ہوتےہیں۔سارے کلام کی سب تواریخات اور سب ہدائتیں اور تمام رسوم وانتظام ایک ہی مطلب پر مبنی ہیں کہ نجات صرف سیدنا مسیح سے ہے۔ حضرت نے مطلق اس کلام کو نہیں سمجھا اگر خُدا حضرت کا ہادی تھا تو کیا وہ بھی اس مطلب کو نہ سمجھا تھا اوراگرسمجھا تھا اوریہ منشا کلام کا جو ہم سمجھتے ہیں اُس کے خیال میں درست نہ تھا اس کے دلائل وہ پیش کرتاہے اورچاہیے تھا کہ وہ دلائل ابطالیہ(باطل کرنا) ہمارے دلائل اثباتیہ(ثبوت دینا) کے سامنے کافی ہوتے مگر قرآن کا مصنف توہمارے دلائل اثباتیہ ہی کو نہیں سمجھا یہ خُدا سے بعید(دور) ہے۔

حضرت محمد کو کلامِ الہٰی کا منشا سمجھنا توبہت مشکل تھا مگر موٹی باتوں کو بھی درست نہیں سمجھا ہے مریم موسیٰ کی بہن کو حضرت عیسیٰ کی ماں بتلادیا ہے اوریوحنا اصطباغی کے باپ زکر یاہ کو اوراُس زکر یاہ کو جو نبی تھا ایک ہی آدمی سمجھ لیا ہے اور ہیرودیس وہیردویا عورت کو جنہوں نے یوحنا کاسر کاٹا تھا اخیاب وايزبل بتلایا ہے اورعجیب بے سروپا قصے سناتے ہیں اگر کوئی آدمی مسلمان ہونا چاہے تو ضرور ہے کہ وہ ان سب محض غلط باتوں پر ایمان لائے کہ یہ سچ باتیں ہیں ورنہ مسلمان نہیں ہوسکتا اوراسی طرح ہزارہا غلط باتیں چاہے کہ دل میں بھرے بھائیو انصاف سے کہو کہ ہم معذور ہیں یا نہیں ہمارا عذر محمدی مذہب کی نسبت حق ہے یا نہیں اوراپنی حالت پر بھی فکرکرو۔

جب تک آدمی فضل اور سچائی سے جو سیدنا مسیح سے پہنچی ہے نہ بھر جائے وہ حیات ابدی کا منہ نہ دیکھے گا۔

سلام عماد الدین لاہز

تمام شد