The Quranic Doctrine of Man

REV.W.R.W.GARDNER, MA

1873-1928

Insan Kiya Hai?

انسان کیا ہے؟

من تصنیف

علامہ ڈبلیو۔آر۔ڈبلیو۔ گارڈنر صاحب ۔ ایم۔ اے

Approved by A.C.L.S.M
By kind permission of the C.L.S

کرسچن لٹریچر سوسائٹی کی اجازت سے

پنجاب رلیجس بک سوسائٹی ۔انارکلی۔ لاہور
نے شائع کیا

1924

P.R.B.S. LAHORE

انسان کیا ہے؟

پہلا باب

ابتدائے انسان

قرآن کی تعلیم کے مطابق انسان خدا کی آخری اور اشرف صنعت ہے۔ ساری خلقت اس کے ماتحت اور مرضی کے تابع کی گئی "۔ اُسی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے خلق کیا"سورہ بقرہ ۲: ۲۷)۔ اُسی کی خاطر اوراُس کی ضروریات پوری کرنے اوراُسی کی آسائش کے لئے اس زمین کو اورجو کچھ اُس میں ہے پیدا کیا۔ اُسی کی خاطر ہوائیں چلتی اور پیاسی زمین پر بارش برستی ہے تاکہ زمین سے اپنی موسم پر پھل پیدا ہوں۔ " کیا اُس کو ترجیح نہ دیں جس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا اور جوتمہارے لئے آسمان سے مینہ برساتاہے۔ جس کے ذریعہ سے ہم نفیس مزے دار پودے پیدا کرتے ہیں"(سورہ نمل ۲۷: ۱۶)۔ "اُس کے نشانوں(معجزوں )میں سے ایک یہ ہے )کہ وہ ہواؤں کوبھیجتاہے جو(مینہ کی ) خوشخبری لاتی ہیں۔ تاکہ ہم تم کو اُس کی رحمت کا مزہ چکھائیں۔اوراُس کے حکم سے جہاز چلیں تاکہ تم اس کی نعمتوں سے(بذریعہ تجارت) مالدار ہوجاؤ اوراُس کا شکریہ ادا کرو"(سورہ مریم ۳۰: ۴۵۔ نیز دیکھوسورہ ۱۵ آیت ۲۱۔۲۲۔سورہ ۷آیت ۵۵۔سورہ ۲۵آیت ۵۵۔سورہ ۲۷آیت ۶۴۔سورہ ۲۶آیت ۱۰۔سورہ ۲آیت ۱۵۹۔سورہ ۴۳آیت ۸سے ۱۲)۔

آدمی کی خاطر بوجھ اٹھانے والے چوپائے بنائے تاکہ محنت کر ے اوراُس کو آدمی اوراُس کے مال ومتاع کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائیں اورہم ہی نے تمہیں مویشی دئیے تاکہ اُن میں سے بعض تم پر سواری کریں ۔۔۔تاکہ اُن پر سوار ہوکر دلوں میں جوکام سوچتے تھے اُن کو سرانجام دیں اوراُنہیں کےذریعے تم خشکی کا سفر کرتے اورجہازوں کے ذریعہ تری کا"(سورہ مومن آیت ۷۹)۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ

ترجمہ: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں ان میں سے ہم نے ان کے لئے چارپائے پیدا کر دیئے اور یہ ان کے مالک ہیں اور ان کو ان کے قابو میں کردیا تو کوئی تو ان میں سے ان کی سواری ہے۔(سورہ یسین آیت ۷۱)۔نیز دیکھو سورہ ۴۳آیت ۶سے ۱۲۔

وَمَا يَأْتِيهِم مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ

اور کوئی پیغمبر ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کرتے تھے تو جو ان میں سخت زور والے تھے ان کو ہم نے ہلاک کردیا اور اگلے لوگوں کی حالت گزر گئی اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ ان کو غالب اور علم والے (خدا) نے پیدا کیا ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا۔ اور اس میں تمہارے لئے رستے بنائے تاکہ تم راہ معلوم کرو اور جس نے ایک اندازے کے ساتھ آسمان سے پانی نازل کیا۔ پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کیا۔ اسی طرح تم زمین سے نکالے جاؤ گے اور جس نے تمام قسم کے حیوانات پیدا کئے اور تمہارے لئے کشتیاں اور چارپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو ۔(سورہ الزخرف آیت ۶سے ۱۲)۔

فی الواقعہ انسان خدا کا خلیفہ تھا۔ زمین پر اُس کا قائم مقام ہے جواجس کے ہاتھ کی صنعتوں پر مامور ہوا۔ جب تیرے خداوند نے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے کو ہوں۔ تواُنہوں نے کہا کیا توایسے شخص کومامور کرے گا جوزمین میں بدی اور خونریزی کرے گا"؟

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے (سورہ بقرہ آیت ۲۸)۔اُس کی ذات افواج ملاک سے افضل ہے۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کے وقت اُن کو حکم ہواکہ اُس کے شرف کو تسلیم کرکے اُس کے آگے سجدہ کریں۔(دیکھو سورہ ۱۵آیت ۲۶۔ سورہ ۷آیت ۱۰۔ سورہ ۱۷آیت ۷۲)۔

لیکن عین یہ عظمت اور شرافت بمقابلہ خدا کی دیگر صنعتوں کے بذاتہ اس امر کا امکان اپنے اندر رکھتی تھیں کہ وہ اس اعلیٰ حالت سے ہوکر اسفل اور ذلت کی حالت میں جاپڑے۔ جس شخص کےلئے اعلیٰ درجہ تک ترقی کرنے کا امکان ہو اُس کے لئے پستی اور ذلت کا ابھی ا مکان ہے۔ اور فی الحقیقت جومخلوق خدا کی افضل صنعت ہو اُس کےلئے ادنیٰ سے ادنیٰ ہونے کا امکان ہے اورایسا وقوع میں بھی آیا۔ اورناشکرگزاری اورکمینگی کے اسفل السافلین میں گر کر اُس سے بڑا عذاب اٹھائے " لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ

ترجمہ: بیشک ہم نے انسان کو اعلیٰ صورت پر پیدا یا۔ پھر ہم نے اُس کو ذلیل سے ذلیل کردیا سوائے اُن کے جو ایمان لاتے اورنیکی کرتے ہیں کیونکہ اُن کو اجر لازوال ملے گا (سورہ التین آیت ۴سے ۶)۔

ایسا کرنے میں کونسا طریقہ عمل میں آیا اس کا ذکر نہیں ۔کیونکہ یہ جملہ مٹی کے برتن کی طرح" تخلیق کے عمل کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس کی تکمیل کی طرف۔ اس میں اس امر پرزور ہے کہ انسان اپنی اصل کا فخر نہ کرے۔ جن عناصر سے اُس کا بدن بنا اُن میں کوئی شئےبذات خود کسی قدروقعت کی نہیں اورجوکچھ اُس میں کسی قدرووقعت کا ہے وہ دوسرے چشمے سے حاصل ہوا۔

آدمی کے بنانے یا صورت دینے کے طریقے کا کچھ ذکر نہیں ہم یہ قیاس نہ کریں کہ اس جملے سے " اُس نے آدم کوسوکھے گارے سے پیدا کیا"۔ محمد صاحب کے دل میں اُس کی تخلیق کے بارے میں صاف خیال تھا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ الفاظ استعارہ کے طور پر ہیں۔ اور صرف ایسے الفاظ ہی میں خدا کے خالقی کاموں کا بیان ہوسکتاہے۔ بے جان انسانی بدک خاک میں مل جاتاہے ۔ جس طرح یہ ہے کہ جس خاک سے وہ پیدا ہوا اُسی کی طرف وہ عود کرجاتا یہ خود بخود نہیں بن گیا۔ یہ خدا کی دستکاری ہے۔ اس لئے ہم یہی کہتے ہیں کہ" اُ س نے اسے زمین کی خاک سے بنایا "۔ یا اُس نے انسان کو مٹی کے برتن کی طرح سوکھے گارے سے پیدا کیا"۔

شروع میں ہم کو یہ معلوم ہوتاہے کہ قرآن کے الفاظ کے مطابق لفظ" پیدا کرنے" کے یہ معنی نہیں کہ نیست سے پیدا کیا ایسی مٹی کو وجود میں لانا جوپہلے اُس صورت میں موجود نہ تھی۔ گووہ شئے پہلے سے موجود عناصر سے بنی ہوقرآن کی زبان میں " خلق کرنا" ہے۔

علاوہ ازیں قرآن میں یہ فعل" خلق" خدا کے افعال ظاہر کرنے پر ہی محدود نہیں بلکہ آدمیوں کے افعال وایجاد پر بھی آتاہے۔ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ترجمہ:کیا تم نے نہیں سوچا کہ خدا نے (قوم) عادارم سے کیا سلوک کیا کہ اُنہوں نے عالیشان عمارتیں بنوائیں ۔ جن کی مانند اس ملک میں کبھی نہ(خلق) تھیں"(سورہ فجر آیت ۵سے۷)۔پہلے سے موجود مسالے سے عمارت بھی"خلق کرنا" کہلایا۔ بلکہ استعارے کے طورپر کسی انسان کے دماغ میں کسی خیال کا پیدا ہونا بھی" خلق کرنا" کہلاتاہے ۔إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ترجمہ:" تو تم خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے اور طوفان باندھتے ہو(سورہ عنکبوت ۲۹: ۱۶)۔الغرض قرآن میں لفظ " خلق کرنے" سے نیست سے ہست کرنا مراد نہیں۔ بلکہ لفظ" انشا" ایسے موقعوں میں استعمال ہوا ہے جہاں ہمیں لفظ " خلق" کو توقع تھی۔ مثلاً سورہ یسٰین ۳۶: ۷۹) میں یہ آیا ہے۔ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ : جس نے اُن کو اول بار پیدا (َنشَأَ) کیا تھا وہی اُن کو جلاۓ گا۔ اور وہ سب پیدا (خلق ) کرنا جانتاہے"۔اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت مقامات انسان کی پیدائش کا ذکر قیامت کے قرینے میں مذکور ہے۔ جوایک طرز میں " خلقت ثانی" ہے۔(دیکھو سورہ الحج ۲۲: ۵۔ اور دیگر مقامات کو)۔

"خلقت" کا یہ تصور اورخلق کرنے کے یہ معنی قرآن کا مطالعہ کرنے کے وقت یہ یادرکھیں جہاں کہ خدا اور اس جہان کے تعلق کا ذکر آیاہے۔ قرآن اس لفظ اوراس کے مشتق الفاظ کے بارہ میں اس عدم امتیاز کی سے محمدی علماء اورمحمدی مذہب کے متعلق عربی مصنفوں نے بھی مغالطے کھائے۔

علاوہ ازیں "خلقت" کا تصورجوقرآن میں پایا جاتاہے ۔ وہ وسائل کرنے سے ظاہر ہوگی جن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے سے ظاہر ہوگی جن میں سیدنا مسیح کے بچپن کے معجزوں کا ذکر ہے۔ کہ وہ مٹی سے پرند بنایا کرتے تھے۔ ایسے دو مقام ہیں۔ پہلے مقام میں یہ درج ہے۔ "میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی شکل کا سا جانور بناؤں (اخلق)۔پھر اُس میں پھونک ماردوں اور وہ خدا کے حکم سے اڑنے لگے"(سورہ آل عمران آیت ۴۳)۔ دوسرے مقام میں آیاہے۔ "اورجب کہ تم میرے حکم سے پرند کی صورت کی ایک مٹی کی مورت بناتے (تخلق) ۔پھر اُس میں پھونک مادیتے تووہ میرے حکم سے پرند ہوجاتی"۔(سورہ مائدہ ۵: ۱۱۰)۔ ذی حیات کی خلقت دوحصوں پر مشتمل ہے۔پہلے بدن تیا کیا جاتاہے۔ پھر اُس میں پھونک مارکر اُس کوزندگی دی جاتی ہے۔

جس طریقے سے خدا نے انسان کو پیدا کیا تھا ۔ اُس کی یہ ایک نقل ہے۔ جب خدا نے انسان کو خلق کیا تھا تواُس نے اسی طرح کیا تھا۔ اُس نے آدم کے بدن کوسوکھے گارے سے بنایا۔ پھر اُس نے اُس بدن میں اپنی روح پھونک دی ۔وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔(سورہ الحجر ۱۵: ۲۶)۔(نیز دیکھو سورہ الاعراف ۷: ۱۰)۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو۔

ان آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ انسان کیسے بتدریج بن گیا اوراس عمل میں نہ صرف دومختلف صورتیں ہیں بلکہ بدن کی ساخت بھی بتدریج عمل میں آئی۔ " اُس کو پورا بناچکوں"۔ اوراُس وقت تک اُس کی روح نہ پھونکی گئی جب تک کہ بدن پورا نہ بن چکا اوراُس روح میں رہنے کا سب مسکن نہ ہوگیا جسے وہ اُس میں پھونکنے پر شروع سے تیار کررہا تھا۔

البتہ ہم یہ توعویٰ نہیں کرسکتے کہ ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت حضرت محمد کومسئلہ ارتقا کا خیال تھا۔ توبھی یہ عیاں ہے اور قابل غور ہے۔ کہ یہ الفاظ مسئلہ ارتقا کے خلاف تونہیں۔ اوراہل اسلام مسئلہ ارتقا کومان کر یہ کہہ سکتے ہیں ۔ کہ یہ آیت اُس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے۔

انسان کی خلقت میں دوسرا جزو ازروئے قرآن یہ ہے کہ اُس بدن میں وہ روح پھونکی گئی جوزمینی نہیں بلکہ خود خالق سے رشتہ رکھتی ہے۔ کیونکہ وہ وجود پکڑتی اوربدن میں سکونت کرنے لگتی ہے یعنی بدن اب تک صرف انسان کی صورت پر تھا۔ اورپھر خدا نے اس بدن میں الہٰی روح پھونک دی۔ اورمیری روح میں سے اُس میں پھونکا"۔

یہ توتحقیق معلوم نہیں ہوا کہ انسان کی پیدائش میں ازروئے قرآن کوئی ایسی صورت بھی تھی جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہوا۔

خود خالق کےاس پھونکنے سے جو روح انسان کو ملی آیا وہ جان آنے سے پہلے ملی یا پیچھے اس کا بھی صاف ذکر نہیں۔ لیکن اتنا قیاس گزرتاہے کہ حضرت محمد نے انسان میں نہ صرف یہ دہری مانی بلکہ تہری ذات یا ایسی ذات جس کے تین حصے ہوں۔ طبعی ہمارے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ قرآن کی تعلیم اس مضمون کی نسبت بہت صاف نہیں۔البتہ یہ توعیاں ہے کہ انسان میں روح کے پھونکے جانے سے محض بدنی زندگی مراد نہیں بلکہ اُس سے کچھ زیادہ ۔چونکہ انسان میں کوئی شئے ایسی تھی ۔ جوبزرگ فرشتوں سے بھی اعلیٰ تھی اس لئے خدا نے اُن کو آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ آدمی میں بدن روح اورنفس ہے۔ عہد عتیق میں نفس سے زندگی بخش اصول مراد ہے۔ روح اُس سے بھی زیادہ لطیف ہستی ہے۔ ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ قرآن میں ایسا امتیاز کیا گیا ہے۔ البتہ انسان کی یہ تہری ذات مان سکتے ہیں۔ حضرت محمد فوق الطبع علم نہ رکھتے تھے اورنہ اُنہوں نے ہرلفظ کوایسے طورپر احتیاط سے استعمال کیا ہوگا کہ ایک لفظ سے خاص ایک ہی اصول یا عنصر مراد ہو اور دوسرے لفظ سے دوسرا۔ البتہ انسان میں تہری ذات کا ماننا قرآن کے نقیض نہیں چنانچہ محمدی علماء اوراسلام کا عام عقیدہ اس کا شاہد ہے۔ اہل اسلام کا یہ عام عقیدہ ہے کہ آدمی بدن ۔ نفس اور روح پر مشتمل ہے (عہد عتیق کے محاورے کے مطابق) اُس کی ذات کے اس اعلیٰ عنصر کا عدم دیوانگی پیدا کرتاہے ۔ دیوانہ شخص کی روح خدا کے پاس ہے اورآدمی اس اعلیٰ عنصر سے محروم ہوکے محض ایک حیوان اور بصورت انسان جواخلاقی طور سے ذمہ وار نہیں اورایک خاص معنی میں خدا کی حفاظت وہدایت کے تابع ہے۔

یہاں تک توہم نے آدم یعنی انسان اول کی پیدائش کے متعلق قرآن کا بیان کیا۔ اب ہم اس بات کا ذکر کریں گے کہ نوع انسان کے دیگر افراد کے بارے میں اس کی کیا تعلیم ہے۔ آدمی یعنی انسان اول سے خدا نے حوا یعنی عورت اول کوپیدا کیا۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا :اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو تن واحد سے پیدا کیا۔ اُس سے اُس کی بیوی کوپیدا کیا(سورہ نساء۴: ۱)کم از کم جسمانی پہلو قرآن نے نوع انسان کی یگانگت کی تعلیم دی۔ کیونکہ یہ نوع بالقوہ آدم میں موجود تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ازروئے قرآن آدم کی اولاد کے نفس (Souls) بھی آدم سے اُس کی اولاد کوملتے ہیں جیسے کہ بدن ملتے ہیں؟ یا اُس کی تعلیم یہ ہے کہ نوع انسان کے افراد کے نفوس پہلے سے موجود تھے ؟ یا یہ کہ یہ نفوس فرداً فرداً خدا کے حکم سے براہ راست خلق کئے جاتے ہیں؟

بعضوں کی رائے ہے کہ یہ دوسری رائے قرآن کی تعلیم کے مطابق ہے۔ کہ خدا نے اُن نفوس کوجوبدن میں ظاہر ہوئے یا ہوں گے پہلے سے ہی پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ اس رائے کی تائید میں قرآن کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔" وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) ۔ یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔(سورہ الاعراف ۷: ۱۷۱)۔بقول سیل صاحب مفسروں نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ "خدا نے آدم کی پیٹھ کو ٹھونکا ۔ اوراُس کی پشت سے اُس کی ساری اولاد کو نکالا۔ جوروز قیامت تک دنیا میں پیدا ہونے کوتھی پشت درپشت ۔ یہ ساری اولاد مثل چیونٹیوں کے الواقعہ جمع تھی۔ اوراُن کو خرد حاصل تھی۔ اورجب اُنہوں نے فرشتوں کے سامنے خدا پر توکل رکھنے کا اقرار کیا تواُنہیں پھر خدا نے آدم کی پشت میں رکھ دیا"۔ سیل صاحب کہتے ہیں کہ اس امر سے یہ ظاہرہے کہ قبل از دنیا نفوس کی ہستی کے علم سے اہل اسلام ناآشنا نہ تھے"۔

مخفی نہ رہے کہ سیل صاحب نے یہ نہیں کہا کہ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ قبل از دنیا نفوس کاوجود تھا۔ لیکن وہ صرف اتنا کہنے پر قناعت کرتے ہیں کہ اس تعلیم سے اہل اسلام ناآشنا نہ تھے۔ مگر یہ عبارت بہت مشتبہ سی ہے۔ اورجس قصے کا بیان سیل صاحب نے کیا اُس سے قرآن کی آیت کوتطبیق دینا بہت مشکل ہے۔ قرآن نے یہ ذکر نہیں کیاکہ آدم کی نسل کو بنی آ دم کی پشت سے نکالا۔ اوریہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس عبارت کے ٹھیک معنی کیا ہیں۔ لیکن اس کے معنی خواہ کچھ ہی ہوں یہ مسئلہ زیربحث میں کچھ وقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ بہت سے دیگر مقامات میں اس امر کی صاف وصریح تعلیم پائی جاتی ہے۔

ہم اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ ازروئے قرآن آدم کی ذات میں جو لطیف عنصر تھا۔ وہ خدا کے براہ راست امر سے جو موجود ہوا۔ جس نے آدم کے بدن میں اپنی روح میں سے پھونکا۔ اب ہم یہ بیان کریں گے کہ ازروئے قرآن نہ صرف اولاد آدم اس طرح کی خلق ہوئی بلکہ اس کے خلق کرنے میں اس نوع کے سارے افراد میں الہٰی روح اب تک پھونکی جاتی ہے۔

پہلے آدمی اورپہلی عورت کے خلق کرنے کے بعد خدا نے اپنے عمل کے طریقے کو بدل دیا۔ آدم کو اُس نے مٹی سے پیدا کیا اور حوا کو براہ راست آدم سے۔ لیکن اب جس وقت وہ کسی آدمی کوخلق کرتاہے وہ دیگر وسائل کوکام میں لاتاہے۔ خلق کرنے کا فعل توجاری ہے لیکن خلق کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ اللہ ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑا جوڑا بنا دیا۔ اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔(سورہ فاطر ۳۵: ۱۲)۔نیز دیکھو سورہ نحل آیت ۴ میں خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ اسی نے انسان کو نطفے سے بنایا۔سورہ فرقان کی ۵۳آیت میں ہے وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا۔سورہ النجم کی ۴۶ اور ۴۷آیت میں یوں ہے وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ اور یہ کہ وہی نر اور مادہ دو قسم (کے حیوان) پیدا کرتا ہے (یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے۔سورہ قیامہ کی ۳۷سے ۳۹آیت میں اس طرح ہےأَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا پھر (خدا نے) اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت۔اور سورہ الواقعہ کی آیت ۵۸سے ۵۹ میں کچھ اس طرح ہے أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔(سورہ نساء آیت ۱)۔"جوکچھ بھی خدا نے اُن میں پیدا کر رکھا ہو اُس کا چھپانا اُن کو جائز نہیں۔ اگر اللہ اور روزآخر کا یقین رکھتی ہیں"۔(سورہ بقرہ ۲۲۸آیت)۔ ان اورایسے ہی دیگر مقامات سے بخوبی واضح ہے کہ حضرت محمد نے یہ سمجھا کہ اولاد آدم کی خلقت خالق عملی حصہ لیتا رہتاہے۔ مگر براہ راست خاک سے خلق کرنے کے بجائے اُن کی اولاد کے خلق کرنے میں نوع انسان کے موجودہ افعال کی طبعی قوتوں سے کام لیتاہے۔ اس لئے پہلے والدین کی طرح اولاد بھی خدا کی خلق کردہ ہیں۔

خلقت کے اس دوسرے طریقے میں خدا نے اُس براہ راست خاللقہ فعل کو ترک نہیں کردیا جس کے ذریعہ ہر فرد بشر اُس کے رشتہ رکھتاہے۔ جواس معمولی طریقہ پیدائش سے بھی خلق کئے جاتے ہیں اُن میں بھی خدا اپنی الہٰی روح پھونک دیتاہے اور جب تک یہ روح پھونکی نہیں جاتی وہ فی الواقع انسان نہیں بنتی۔ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا پھر اس کی نسل خلاصے سے (یعنی) حقیر پانی سے پیدا کی پھر اُس کو درست کیا پھر اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔(سورہ سجدہ آیت ۶سے ۸)۔اس عبارت سے سورہ مومنون کی ۱۲سے ۱۴آیت کا مقابلہ جہاں آخری جملہ ہے " وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا"۔ اس میں غالباً روح کے پھونکے جانے کی طرف اشارہ ہے ۔جس کےذریعہ وہ فی الواقع اور فی الحقیقت انسان بن جاتا ہے وہ پہلے نہ تھا۔ (دیکھو سیل صاحب کا قران صفحہ ۲۵۷ کا نوٹ )۔

ہم نے یہ معلوم کرلیا کہ " خلق " کرنے میں خدا وسائل استمعال کرتاہے ۔ انسانی والدین خدا کے ہاتھ میں مثل اوزار کے ہیں۔ لیکن () کی مانند نہیں ۔ جسمانی لحاظ سے اُن میں یگانگت ہے۔ لیکن روحانی لحاظ سے اُن میں ایسی یگانگت نہیں۔ سورہ سجدہ کی آیت ۶ کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ عیاں ہے۔ حضرت محمد نے ہرفرد روح کو خدا کا پھونکا ہوا دم سمجھا اورخدا کی مخلوق براہ راست ۔ اورنہ کسی ادنیٰ معنی ہیں۔ یہ تو صاف ظاہر نہیں کہ خدا اس روح کو کس وقت خلق کرتا ہے۔لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ پیدائش کے وقت یا اُس کے قریب خلق کی جاتی ہے۔ البتہ عربوں میں پیدائش اورخلق کرنے کے

لئے لفظ آتے ہیں اُن میں امتیاز نہیں پایا جاتا ۔ افضل پر ادنیٰ غالب آتاہے اور خلق ہونا اور پیدا ہونا مرادف ہوگئے۔ کم از کم یمن کے لڑکے اپنے جنم دن کا ایسا ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ اُن کے حق ہونے کا دن ہے۔ جیسے دیگر ممالک میں لوگ اپنی پیدائش کے بیان کا ذکر کرتے ہیں۔ الغرض وہ خلق کئے جانے اور پیداہونے کا امتیاز نہیں کرتے۔

اسی طرح قرآن میں بھی طبعی پیدائش کوویسا ہی خدا کا سمجھا گیا۔ جیسے اس کا روح کو براہ راست پیدا کرنا۔ اور اس لئے ازروئے قرآن جب خدا آدمی کو خلق کرتاہے۔ وہ وسائل کے ذریعے کرتاہے اوریہ سب کچھ اُس کے ایک لفظ کنُ سے ہے۔ خلق کرنے کا یہ فعل ۔ نوع انسان کے افراد کی پیدائش کے بیان میں خدا کی مرضی کی تکمیل۔ زمان ومکان میں اُن وسائل کے سے عمل میں آتاہے۔جن کو اُس کی حکمت استعمال کرنا مناسب سمجھتی ہے۔ اور اب بھی جب کبھی وہ آدمی خلق کرتاہے اس سارے مختلف انقلاب اور پیدائش سے پیشتر کے مختلف مناظر اُسی حکم" کنُ" کی تاثیر سے باقاعدہ عمل میں آتے جاتے ہیں۔ یہ لفظ" کنُ " الہٰی ارادہ کا اظہار اوراُس کی مرضی کا بیان ہے۔ اس امر کوثابت کرنے کے لئے قرآن میں طبعی پیدائش خدا کا خالقہ سمجھا جاتاہے اگر مزید آیات کی ضرورت ہو تو یہ آیت کافی ہے"وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں(بتدریج) ایک طرح کے دوسری طرح تین اندھیروں میں بناتاہے"(سورہ الزمر)

الغرض قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے آدم کے بدن کو بنایا ۔ اوراُس میں اپنی روح میں سےپھونکا۔ جس کی وجہ سے آدم فی الحقیقت انسان بن گیا۔ اورویسے ہی ایک دوسرے عمل کے ذریعے اُس نے آدم کی اولاد کو بنایا اوراُن میں بھی اپنی روح کوپھونکا۔اور وہ بھی زندہ انسانی وجود بن گئے۔

آدم کی پیدائش کے بارے میں قرآن کی تعلیم کو " خلقیہ" Creationism کہہ سکتے ہیں بمقابلہ "موروثیہ"Traducianism کے اوراُس رائے کے جو ارواح کی کامل ہستی کو مانتے ہیں۔ اب ہم اس امر پر غورکریں گے کہ قرآن کی اس تعلیم کا تعلق انسانی ذات کی اخلاقی ذات اور خواص سے کیا ہے۔ خاص کر اس امر پر کہ گناہ کے مسئلہ کے ساتھ اورہر طرح کی پیدائش کے ساتھ کیا ہے۔

یہ سوال ایسا نہیں جس پر اہل اسلام نے بہت غور وفکر کیا ہو۔ اُنہوں نے اس کی کافی تشریح نہیں کی اورنہ وضاحت کے ساتھ اُس کو بیان کیا ۔ توبھی قرآنی تعلیم کےمطالعے کے شروع میں یہ مسئلہ آتاہے کہ اُس کے تسلیم کرنے کے نتائج اسلامی علمی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔

انسانیت فی الواقعہ اور فی الذات واحد نہیں ۔بلکہ نفس الامر انسانیت کوئی شئے نہیں۔ صرف نوع انسان ہے اوراُس نوع کی یگانگت اُس کی جسمانیت میں پائی جاتی ہے۔ نوع انسان کے بیشمار افراد کے بدنوں میں کچھ مشترکہ شئے ہے کیونکہ وہ سب آدم سے نکلے ہیں۔ لیکن ہر فرد روح خداکا براہ راست مخلوق ہے۔ جو کے فعل کے ذریعے سے اُس بدن میں رکھی گئی جوپہلے والدین سے ملا تھا۔

اس مشترکہ جزو کو بعض اوقات خلق کرنے کا عمل کہا گیا لیکن یہ براہ راست نہیں ۔ بلکہ اس معنی میں کہ ہرایک بیج کے اور ہرپھلدار درخت کا کلیا نا اورپھل لانا خدا کے فعل ہیں۔

یہاں تک توہم نے خلقت کے بارہ میں قرآن کی تعلیم سے نوع انسان کی ابتدا کیسے ہوئی اوراُس نوع کے افرادکا آغاز کس طرح ہوا۔ البتہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ بھی بڑا اہم ہے۔ یعنی قرآن کی تعلیم دربارہ پیدائش یا خلقت عامہ کے اُس کا ذکر اُس موقعہ پر آئے گا جب خدا کے مسئلہ اور دنیا کے ساتھ اُس کے رشتے کا ذکر ہوگا۔

دوسرا باب

انسان کی فطرت

انسان کی ابتدا کا ذکر توہوچکا ۔ اب ہم یہ دریافت کریں کہ اُس فطرت انسانی کے اخلاقی صفات اورخواص کونسے ہیں۔

ایسے مقامات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں جن میں انسان کی حالت کا ذکر آیاہے۔مثلاً سورہ بلد ۹۰: ۴ جہاں یہ لکھا ہے"لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ"ہم نے انسان کو مصیبت میں پیدا کیا"۔ یہ مصیبت" طبعی حالت ہے نہ اخلاقی ۔ گولفظوں میں یہ بیان ہے کہ وہ ایسی حالت میں خلق کیا گیا۔لیکن اُن سے لاکلام یہی مراد ہے کہ اس دنیا میں آدمی کو عموماً یہی بخرہ ملتاہے کہ وہ محنت ومشققت کرے۔ جیساکہ ایوب ۵باب کی ۷ آیت میں لکھا ہے کہ " آدمی تکلیف کےلئے پیدا ہوتاہے جس طرح سے چنگاریا ں اوپر کواڑجاتیں"۔

بعض دیگر مقامات بھی ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ۔مثلاًجن میں انسان کی تعجیل اور زوررنجی کے مزاج کا ذکر ہے إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا"کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ "(سورہ معارج ۱۹آیت)۔ ایسا ہی سورہ انبیاءآیت ۳۸ میں ہے کہ "خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ترجمہ: انسان جلد بازی کا بنایا گیا "۔یہ آیات مضمون زیربحث سے کچھ علاقہ نہیں رکھتیں۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ ان میں انسان کے مزاج کا ذکر پایا جاتاہے ۔ یہ مزاج عملاً عالمگیر ہے اوراس لئے یہ کہہ سکتے ہیں" انسان جلد بازی کا پیدا کیا گیا"۔ توبھی یہ صفت افراد سے علاقہ رکھتی ہے نہ کہ انسانی فطرت جوکہ سب انسانوں میں مشترکہ ہے اس لئے ہم ایسے مقامات ( ) طرح دیں گے۔

مفصلہ ذیل عبارت زیادہ اہم ہے

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ترجمہ" اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا "(سورہ شمس آیت ۷سے ۱۰)۔بیضاوی اور زمحشری دونوں نے اس کی تفسیر ایسی ہی کی ہے جیسے سیل صاحب نے کی۔ اس مقام کے یہی صحیح معنی معلوم ہوتے ہیں۔ ان آیتوں کے یہ معنی نہیں کہ آدمی کے نیک اور بداعمال دونوں یکساں خدا کی طرف سے ہیں۔ بلکہ یہ تعلیم ہے ہ خدا نے انسان کو فہم عطاکی ہے تاکہ نیکی اور بدی کو پہچانے ۔ اور یہ قابلیت بخشی تاکہ وہ اُن میں سے جس کوچاہے اختیار کرے۔ اس مضمون کے بارہ میں زمحشری نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اس آیت کے الفاظ کا مطالعہ یہی تقاضا ہے کہ اس کی یہی تفیسر کی جائے۔

پس انسان کو محض اخلاقی امتیاز ہی حاصل نہیں کہ وہ نیک وبد کو پہچان لے بلکہ اُسے فعل مختاری بھی حاصل ہے کہ ان میں سے جسے چاہے چُن لے۔ اوراسی چن لینے پر اُس کی خوشحالی یا مصیبت کا دارومدار ہے۔ جس نے اپنی روح کو پاک کیا وہ ضرور مراد کو پہنچا اورجس نے اُس کو دبا دیا وہ ضرور گھاٹے میں ہے"۔ فعل مختاری کے بارہ میں جوقرآن کی تعلیم ہے اُس کا پھرذکر ہوگا جب ہم یہ بیان کریں گے کہ خدا کے سامنے انسان کی ذمہ داری کے متعلق حضرت محمد نے کیا سکھایا۔ اس لئے اس وقت ہم اس مسئلہ کو غور کئے بغیر چھوڑدیتے ہیں۔

پس چونکہ انسان کو یہ اخلاقی امتیاز حاصل ہے اورنیکی اور بدی کے انتخاب میں اُس کو خاص اختیار حاصل ہے اس لئے دیگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے انتخابات میں کس کو میلان طبع ہے ؟ یا ایک دوسری صورت میں اس سوال کوپیش کرسکتے ہیں۔ کیا انسان کا ارادہ اپنی خلقت یا اپنی ذات ہی میں راست ہے یا بد؟

سورہ نساء آیت ۳۲میں مرقوم ہے وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے"۔ اس میں نو پیدا بچے کی بدنی کمزوری کا ذکر نہیں کیونکہ اُس میں سے گزرکر وہ بلوغت کی طاقت کو پہنچ جاتاہے اورپھر بڑھاپے کی کمزوری میں جا پڑتاہے۔ اس طبعی جسمانی کمزوری کا ذکر دیگر مقامات میں ہواہے مثلاً سورہ روم کی ۵۳آیت میں ہے اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے۔

لیکن پہلے حوالے نساء کی ۳۲آیت میں روحانی یا اخلاقی کمزوری کا ذکر ہے اوراُس آیت کی یہ تعلیم ہے کہ انسان بذات خود ۔ خدا کے براہ راست فعل خالقہ ہی سے اخلاقاً کمزور ہے۔ لیکن انسان کی ذات یا فطرت کے کمزور ہونے سے یہ مراد نہیں کہ وہ گناہ آلودہ ہے۔ اس مابعد جملے سے یہ مراد ہے کہ اس کی فطرت میں بدی کی طرف میلان پایا جاتاہے۔ مسیحی دین کی یہ تعلیم ہے کہ بدی کی طرف یہ میلان آدمی کی افتادگی کا نتیجہ ہے جس کا اثر انسانی ذات پر ہوا جو شروع میں پاک اور راست خلق ہوئی تھی۔ لیکن آدم کے گناہ کے بعد نوع انسان اس گناہ آلود یا بگڑی حالت کومیراث میں پاتے ہیں۔ قرآن اس حد تک توبیان نہیں کیا۔ بلکہ انسانی فطرت کی حقیقت کی تفتیش میں اُس نے ایک اور طریقہ اختیار کیا اور مختلف نتیجہ نکالا اوریہ کہا کہ انسان کمزور مخلوق ہوا۔

اب ہم ان مقامات پر تفصیل وار غورکریں گے ۔ جن میں روح یا نفس (Soul) کا ذکر آتاہے۔ اوریہ دریافت کرنے کی کوشش کریں گے کہ آیا قرآن میں اس نفس (Soul) کی کمزوری یا بگاڑ کا کچھ ذکر پایا جاتاہے یا نہیں۔ ان مقامات پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتاہےکہ لفظ" نفس" بہت مختلف معنوں میں مستعل ہے۔ اس لئے ہم ہمیشہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ جوکچھ نفس کے بارہ میں یہاں آیا وہ انسانی فطرت میں اخلاقی یا روحانی عنصر کے بارے میں ہے۔

بعض اوقات تویہ لفظ محض تاکید کے لئے استعمال ہوا۔ یعنی اس امر کے ظاہر کرنے کے لئے کہ خود میں نے یا خود اُس نے۔ اورانسانی فطرت جن عناصر سے بنی ہے اُن کے درمیان امتیاز کا شمہ تک اُس میں نظر نہیں آتا۔چنانچہ سورہ مائدہ کی ۲۵آیت میں یہ ذکر ہے قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا"۔ اس کے سوا سورہ مائدہ کی ۱۱۶آیت سے بخوبی روشن ہے کہ لفظ " نفس" وہاں انسانی فطرت کے اجزا کے امتیاز کےلئے مطلقاً استعمال نہیں ہوا"۔ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ترجمہ:"(اے عیسیٰ) عرض کریں گے کہ (اے پروردگار) تیری ذات پاک ہے مجھ سے یہ کیونکر ہوسکتاہے کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تومیرا کہنا تجھ کو ضرور ہی معلوم ہوگیا ہوگا۔ کیونکہ تومیرے دل (نفس) کی بات جانتاہے اور میرے تیرے دل(نفس) کی بات نہیں جانتا"۔

بعض اوقات لفظ "نفس جان یا زندگی کے معنی میں آیاہے۔ "ہم نے (تورات میں یہود کو ) تحریری حکم د یا تھا کہ جان ( النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ) کے بدلے جان اورآنکھ کے بدلے آنکھ۔۔۔۔"(سورہ مائدہ ۴۹آیت اور نیز سورہ بقرہ آیت ۵۰)۔

مگر قرآن میں اس لفظ کا زیادہ استعمال کل انسان یا انسان کے لئے ہوا ہے بلالحاظ اس امر کے اُس کی فطرت میں اُس کے ادنیٰ عناصر ہیں۔چنانچہ ایسے استعمال کی چند مثالیں یہ ہیں:

موسی جس طرح تونے کل ایک شخص (نفساً) کو مار ڈالا" (سورہ قسصص ۱۸آیت)۔ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ (خدا کو) تمہارا پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا ایک شخص (کے پیدا کرنے اور جلا اُٹھانے) کی طرح ہے۔(سورہ لقمان آیت ۲۷)۔ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ"جس نے تم کو ایک تن واحدسے پیدا کیا"۔(سورہ انعام آیت ۹۸)۔(ہر شی کل نفس ) اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے"۔(سورہ المدثر آیت ۴۱) اس آخری عبارت سے بادی النظر میں یہ ظاہر ہوتاہے کہ انسان اور روح (Soul) کےدرمیان امتیاز کیا گیا ہے۔ لیکن ایک دوسری سورہ کی آیت کے مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوجاتاہے کہ انسانی فطرت کے اعلیٰ وادنیٰ عناصر کے درمیان فرق کرنے کا اس میں کچھ ذکر نہیں"ہرشخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے"(سورہ طور آیت ۲۱ سے مقابلہ کرو جہاں یہ لکھا ہے) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اپنے اعمال کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو۔

اسی طرح جن مقامات میں ذکر ہے کہ ہرنفس موت کا ذائقہ چکھے گا وہاں بھی صاف ہے کہ اُس کے معنی کیا ہیں۔ اس لفظ کے معنی محض انسان یا شخص ہیں۔ اور کوئی شخص وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ بے حکم خدا نہیں مرسکتا۔(ہرایک کی موت) کا وقت مقرر لکھا ہوا ہے۔ (سورہ آل عمران ۳۹آیت)۔ اوراُسی سورہ کی ۱۸۲آیت میں یہ آیاہے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا"۔ غرض بہت سے ایسے مقامات ہیں جن میں لفظ" نفس" کل انسانی کے لئےاستعمال ہوا۔

برعکس اسکے بعض دیگر مقامات ہیں جن میں یہ لفظ کچھ خلقت کہ معنی میں آیاہے۔ آرزواورجذبہ کے ظرف کے معنی ہیں۔ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ خدا نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اور خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔(سورہ نجم ۲۳آیت)۔ "جس چیز کو اُن کا نفس چاہے"(سورہ زخرف آیت ۷۱)۔ "قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ترجمہ:"(سامری نے ) جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جواوروں کو نہیں دکھائی دی کہ میں نے فرشتے کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھرلی پھر اُس کو ڈھلے ہوئے بچھڑے میں ڈال دیا۔ اُس وقت میرے دل (نفسی) نے مجھے ایسی ہی صلاح دی"(سورہ طہ آیت ۹۶)۔ اُس پربھی اُس کے "نفس" نے (یعنی قابیل کے ) اُس کو اپنے بھائی کے مارڈالنے کے لئے آمادہ کیا"(سورہ مائدہ آیت ۳۳)۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں"۔(سورہ ق آیت ۱۵)۔اور پھر سورہ اعراف کی ۲۰۴آیت میں ہے وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا "۔

مفصلہ ذیل مقامات میں جہاں لفظ" نفس" استعمال ہواہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہاں اُس سے روح(Soul) مراد ہے یا نہیں"۔ اپنا نامہ اعمال پڑھ لے (نفسک) اورآج اپنا حساب لینے کے لئے توآپ ہی بس کرتاہے(سورہ بنی اسرائیل ۱۴آیت)۔ سورہ لنزعت کی ۴۰آیت میں یوں لکھا ہے فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا"۔"اور دل (بالنفس) کی قسم کھاتے ہیں نا جوملامت کیا کرتا ہے"(سورہ القیمتہ آیت ۲)۔ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے"(سورہ یوسف آیت ۵۳)۔سورہ شمس کی ۱۰آیت میں ہےوَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ترجمہ: اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی"۔اور سورہ نساء کی ۱۲۷آیت میں لکھا ہے"وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے"۔

یہ معلوم ہوتاہے کہ کم از کم پچھلے تین مقامات میں کچھ ( ) اس طرف ہے کہ کل انسان میں اور اُس میں امتیاز کرے جو میں موجود یا اُس سے علاقہ رکھتاہے اورجسے" نفس" کہتے ہیں ۱۲۔ ۵۳ میں یہ نفس بدی کی طرف اُبھارتاہے ۔ بیضاوی زمحشری دونوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ یہ کل نوع انسان پر ہوتاہے گویا اس کے معنی یہ ہیں کہ " ہر شخص بدی کی طرف مائل ہے"۔ الغزالی اس 'نفس" سے یہاں انسان کی ادنیٰ فطرت مراد لیتے ہیں۔ انسان کی طبعی حیوانی خواہش۔ اوراس تفسیر کے مطابق یہ بدی کی طرف مائل ہے۔ امام صاحب نے یہاں لفظ" نفس" صوفی معنی میں کیا ہے۔ خواہ کچھ ہی معنی ہوں۔ یہ لفظ ٹھیک اُس معنی میں مستعمل ہوا جس معنی میں کہ مقدس پولوس یا کوئی دیگر مسیحی مصنف استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت میں جو یہ استشنائیہ جملہ آیاہے "میرا پروردگار ہی رحم کرے"۔ اُس سے اِ س جملہ کے معنی بہت کچھ بدل جاتے ہیں اس کے معنی مختلف ہوسکتے ہیں اور مفسروں کا اس امر پر نہیں کہ اس کے معنی کیا لئے جائیں۔ شائد اس کے یہ معنی ہوں خدا کی رحمت کا تجربہ نہیں کررہے یا جنہوں نے اس کا تجربہ نہیں کیا ۔قرآن میں لفظ" رحم" کے معنی اکثر وہی ہیں جس کوہم مسیحی "فضل" کہتے ہیں۔ اور قرآن میں یہ رحم سب کے سامنے پیش کیا جاتاہے۔اب اُس سے فائدہ نہیں اٹھاتے) جو فی الواقعہ بدی کی طرف بیان کئے جاتے ہیں۔ یابقول امام غزالی جن کو نفس" شدت" سے آزماتاہے ۔ جن کا میلان طبع بدی کی طرف ہے۔

بہر حال اس مقام کے یہ معنی نہیں کہ آدم کے گرنے کے بعد بھی انسان فطرتاً گناہ آلود ہے۔

دوسری آیت (سورہ شمس کی ۷سے ۱۰آیت ) پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ نہیں لگتا۔ جس سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ انسان بالذات نیکی یا بدی کی طرف مائل ہے۔ جیسا اُوپر ذکر ہوا کہ انسان کو نیکی اوربدی کے مابین امتیاز کرنے کی قوت ہے۔ اوریہ قوت بھی کہ وہ خواہ نیکی کو چن لے خواہ بدی کو ۔ انتخاب پر ہی اُس کو خوشحالی یا مصیبت کا انحصار ہے۔

ان تین آیات میں سے آخری میں (سورہ النساء کی ۱۲۷آیت) کا یہ ترجمہ کیا" آدمیوں کی روحیں طبعاً لالچ کی طرف مائل طبعاً کے ڈالنے سے اس آیت کے معنی بہت کچھ بدل جاتے ہیں۔ اور راڈول صاحب نے جو لفظ(Prone)استعما ل کیا ہے کچھ مبالغہ آمیز ہے۔ قرینےکے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوتے ہےیں کہ لالچ یا بخل نوع انسان کے سامنے سدا ایک ہیں۔ اس لئے انسانی روح کی طبیعت یا فطرت کا اس سے نہیں بلکہ لالچ کے خوفناک آزمائش کا۔ جس مقام میں یہ آیت ہے اُس کا بغور مطالعہ کرنے سے یہی نتیجہ نکلتاہے۔

یہ کہنا تودشوار ہے کہ قرآن میں انسانی ذات یا فطرت آلود ہے اگرچہ اُس کی یہ تعلیم بھی ہو کہ آدمی بدی کی طرف مائل (اگرچہ یہ بھی مشتبہ معنی ہیں ) یہ رحجان بذات خود گناہ آلودہ نہیں انسانی کمزوری کا نتیجہ ہے۔اورجیسا ہم بیان کر آئے ہیں یہ ہی انسان کی خلقت میں پائی جاتی ہے۔

برعکس اس کے۔ قرآن نے گویہ مانا ہے کہ انسان کا ادنےٰپُرانی عنصر بدی کی طرف سخت آزمائش کا باعث ہے۔ توبھی اُنہوں نے یہ بیان کیاکہ انسانی ذات میں اعلیٰ اشیا کی قابلیت بلکہ طبع ہے۔ چنانچہ ا یسے مقامات ہیں جن میں یہ ذکر ہے "فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (سورہ روم آیت ۲۹)۔

اس لئے انسان میں اعلیٰ زندگی کی ایک قابلیت اورمیلان یعنی خداکی عبادت کرنے کا رحجان اور خدا کے بارہ میں کچھ رکھنے کی قابلیت ۔یہ قابلیت ۔میلان۔ رحجان اُسے فطرتاً کہتے ہیں۔ وہ اُن کے ساتھ خلق ہوئے ۔ اور نوع انسان کی تاریخ میں کوئی ایسا امر واقع نہیں ہوا جس نے اُس کو اُن سے ختم کردیا ہو۔ جب ہم یہ کہنے کی جرات کرتے ہیں توغلطی نہیں کرتے یہ اس امر واقعہ کا نتیجہ ہیں کہ خدا نے اپنی روح میں سے انسان کے اندر پھونکی ۔

مگر یہ تومشتبہ بات ہے کہ قرآن نے یہ تعلیم دی کہ خدا نے اُن کو یہ قابلیت عطا کی تھی کہ وہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ البتہ اُن کی عام تعلیم یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان خدا کی شفقت ورحمت کے بغیر پورے طور سے راستباز نہیں ہوسکتا ۔ سورہ نور کی ۲۱آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اے مومنو! شیطان کے قدموں پر نہ چلنا۔ اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو شیطان تو بےحیائی (کی باتیں) اور برے کام ہی بتائے گا۔ اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں پاک نہ ہوسکتا۔ مگر خدا جس کو چاہتا ہے پاک کردیتا ہے۔ اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے"۔

لیکن اس کے ٹھیک یہ معنی نہیں کہ فطرتاً انسان گناہ ہی کرسکتاہے ۔ اس میں صرف یہ تعلیم ہے کہ معمولاً سارے آدمی گنہگار ہیں۔ کیونکہ اگر سب ایماندار ہوں اور سب بے ایمان بھی گنہگار ہوں۔(اور قرآن کی یہ تعلیم ہے) توہم بلاتامل یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اہل کتاب ہے کہ سارے آدمی گنہگار ہیں۔ مگر قرآن میں ایک مقام آیا ہے جس میں کسی قدر یہ خیال ظاہر ہوتاہے کہ انسان میں بحثیت مخلوق ہونے کے گناہ نہ کرنے کی قابلیت ہے۔ چنانچہ سورہ نسا کی ۸۵آیت میں یہ لکھاہے وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے"۔

اس آیت کے آخری جملے میں البتہ نیکی کی طرف اورمیلان طبع اورنیکی کے چننے میں قوت ارادی بعض شخصوں میں ایسی مضبوط ہے کہ خدا کی کسی خاص رحمت کے بغیر وہ شیطان کے حیلوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ توبھی آیت کے معنی بالکل صاف نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ آیت عام مسئلہ کے سکھانے کے لئے نازل ہوئی ہو بلکہ کسی خاص موقعہ کی طرف اُس میں اشارہ ہو۔ فی الواقعہ اُن کی تعلیم بحیثیت مجموعی اس مسئلہ کے بارہ میں بہت صفائی اور صراحت سے بیان نہیں ہوئی۔

فی الحقیقت اس کے بارہ میں قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ انسان اس میلان طبع کے ساتھ خلق ہوا کہ وہ خدا کی عبادت کرے اورایسا کرنے کے لئے اُسے اُس طرف رحجان بھی ہو۔ لیکن پھر بھی ایسی اخلاقی کمزوری کے ساتھ کہ وہ ناقص طور سے اس پر عمل کرسکتا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً ضرور کرے گا۔ کیونکہ جواعلیٰ عنصر خدا نے اُس میں پھونکا تھا وہ ضعیف وکمزور تھا۔ وہ ضعف وکمزوری میں بذات خود نفس وروح میں تونہ تھی بلکہ اس میں تھی کہ جودانیٰ ذات اُسے بابا آدم سے میراث میں ملی تھی۔ اُس پر قابو رکھنے کے لئے اُس کی قوت ارادی محدود تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس امر میں قرآن کی تعلیم مسیحی مقدس کتابوں سے مختلف ہے۔ ان مسیحی مقدس کتابوں کے روسے انسان کی ساری فطرت نے آدم کے گرنے سے نقصان اٹھایا۔اورنیکی کرنے کے لئے ارادے کی کمزوری اُسی گرنے کے نتائج میں سے ایک ہے۔ قرآن کے رُو سے آدمی کی اخلاقی فطرت آدم کے گناہ کے باعث نہیں بگڑی بلکہ وہ فطرتاً کمزور ہے۔

اب ہم اس مضمون پر ایک دوسرے پہلو سے نظر ڈالیں گے اور دریافت کریں گے کہ قرآن میں آدم کی خطا اور افتادگی کےبارہ میں کیا تعلیم ہے؟

اس کتاب میں آدم کی افتادگی کا جو بیان آیاہے اُس سے بہت تو معلوم نہیں ہوسکتا ۔ یہ بہت مجمل اور بے تفصیل ہے ۔سورہ بقرہ ۳۳سے ۳۷آیت میں یہ بیان ہے۔وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

(تب) خدا نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جاتنا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش ونشاط) میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے اور جنہوں نے (اس کو) قبول نہ کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ دوزخ میں جانے والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے"۔

سورہ الاعراف میں یہ قصہ کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہےاور وہ اُس آزمائش کا کچھ زیادہ ذکر ہے۔ آدم کی افتادگی کے بیان پر غور کرنے میں اس وقت ہماری منشا یہ ہے کہ اس افتادگی کا اثر انسان کی فطرت پر کیا پڑا۔اوراس امر کو نظر انداز کریں گے کہ اس افتادگی سے انسان اورخدا کے رشتے پر اثر ہوا۔ البتہ اس سوال کے دو پہلو یہ ہیں جوآپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں توبھی وہ واحد نہیں ۔ اس افتادگی کا جو اثر خدا اور اُن کےد رمیانی رشتہ پر ہوا اُس کو یہاں اس لئے نظر انداز کیا ہے۔ کیونکہ جب ہم گناہ اورنجات کے متعلق قرآن کی تعلیم پر غور کریں گے اُس وقت اُس کا زیادہ مفصل بیان ہوگا۔ اس وقت صرف یہ بیان کریں گے کہ انسانی فطرت پر اس افتادگی کا کیا اثر اوراس کا بیان کرتے وقت ہم افتادگی کی حقیقت وکیفیت کا ذکر نہ کریں گے ۔ ہم صرف اتنا ہی مان لیں گے کہ افتادگی ازروئے قرآن ایک امر واقعہ ہے۔ اوریہ دریافت نہ کریں گے کہ اُس میں گناہ کیا تھا۔ بلکہ یہ دیکھیں گے کہ حضرت محمد نے آدم کی ذات عموماً نوع انسان کی ذات پر اس افتادگی کے اثر کے بارہ میں کیا سمجھا۔

اول تویہ یادرکھیں کہ یہ آزمائش خارج سے آئی نہ انسانی ذات سے۔ صرف اتنا لکھاہے کہ "شیطان نے دونو کو بہکایا" اس کا سخت دشمن تھا اورجس کے بارے میں خدا نے اس کو خاص ہدایت دی تھی(سورہ الاعراف ۲۱آیت)۔ اس افتادگی کا یہ نتیجہ ہواکہ عدن اُن سے چھن گیا اور نوع انسان کے افراد کے درمیان دشمنی پڑگئی " اُتر جاؤ تم میں سے ایک کا دشمن ایک"۔ باغ عدن کے چھن جانے سے خدا کی مہربانی بھی اُن سے جاتی رہے۔اس لئے آدمی کو اس کی ضرورت پڑی کہ توبہ کے الفاظ اُسے سکھائے جائیں تاکہ وہ پھر خدا کے سامنے حاضر ہوسکے۔ لیکن جہاں اُس نے یہ الفاظ کہے وہ مقبول نظر ہوگیا گوباغ عدن کی خوشحالی اُسے نصیب نہ ہوئی۔

اس تحقیقات کےلئے اس بیان میں قابل غور امر یہ ہے کہ خدا نے آدم اورحوا کو اُن کی نافرمانی کے باعث ملامت کی تواُس نے یہ کہاکہ " قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔(سورہ الاعراف ۲۲آیت)۔ البتہ یہ گناہ خدا کے خلاف نہیں بلکہ اُن کے اپنے خلاف وہ بیوقوفی ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے اپنی خوش حالی کا سکون کھودیا۔ جو کچھ اُنہوں نے کھویا تھا اُس کا رنج اُن کے دلوں میں سے زیادہ ہے اوراس کا کچھ خیال نہیں کہ اُنہوں نے کس طرح سے قدوس خدا کو ناراض اورغصے کیا۔

یہ توسچ ہے کہ اُن کو اس تعلیم کی ضرورت پڑ ی کہ معافی مناسب اورشایاں الفاظ کوئی اُنہیں سکھائے تاکہ اُن سے وہ معافی مانگیں۔

چنانچہ آدم کو ایسے الفاظ سکھائے گئے ۔لیکن اس کا کچھ ذکر نہیں اس افتادگی کے ذریعہ سے انسانی فطرت نے کوئی ایسی شئے کھودی جو اسے پہلے حاصل تھی۔ اُن کی "توبہ" اُن ہی کی طرف سے ہے اور تعلیم یہ ضرورت وہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنے گناہ کی شدت کو ہیں بلکہ یہ کوئی مناسب دُعا اُن کو سکھائی جائے جس کے ذریعے سے وہ معافی طلب کریں۔

اس مقررہ دعا کے سکھائے جانے کے علاوہ وہ خدا سے قوت مانگتے ہیں۔ اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ اُن کو مزید تعلیم ملے کہ وہ کیسے اُس خوشحالی کودوبارہ حاصل کریں۔ لفظ" ہدایت" ایمان اوراعمال کے متعلق تعلیم شامل ہے۔ اُن کو اس امر کے کہنے کی ضرورت تھی کہ خدا کے بارے میں وہ کیا ایمان رکھیں اس کو خوش کرنے کے لئے وہ کیا عمل کریں۔ ان کے متعلق قرآن کی تعلیم معلوم ہوتی ہےکہ انسان کو فضل کی ضرورت ہے تاکہ اُن کا ایمان محض یہی نہ ہو کہ چند مسئلوں کو عقل سے قبول کرلے۔ بلکہ مخلصی تجربہ ہو اور فرائض کا ادا کرنا محض ظاہری عمل نہ ہو بلکہ اُن کی باطنی تمنا ۔

لیکن قرآن میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ یہ دہری ضرورت افتادگی ہے۔ جس افتادگی نے کسی طرح سے انسانی ذات کوبگاڑا اور اب کیا ہے بلکہ خلق ہونے ہی سے انسانی ذات میں یہ متمکن ہے۔نفس الامر میں حضرت محمد نے یہ نہیں سمجھاکہ یہ پہلی خطا انسانی کے لئے نتائج سے پُر تھی۔ انسانی فطرت کوکوئی نقصان نہ پہنچا آدم کو محض توبہ کافی تھی تاکہ وہ ازسر نوخدا کا مقبول نظر ٹھہرے آدم کے لئے اس افتادگی کا اثر برباد کن نہ تھا ویسے ہی اولاد کےلئے بھی۔

ہم یہ ذکر کرچکے ہیں کہ قرآن میں انسانی ارواح کی پیدائش کا بیان آیا ہے۔اُس کے مطابق نوع انسان کے پہلے والدین کا کوئی بہت بڑا اثر انسانی ذات پر نہیں پڑا۔ اُنہوں نے گناہ کہ اُن سے اوراُن کی اولاد سے باغ عدن کی خوشحالی اور خدا کی منظور نظری۔ چھن گئی لیکن ازروئے قرآن اس کا کچھ ذکر نہیں کے گناہ کی وجہ سے انسانی فطرت کونقصان پہنچا۔

ہر فرد روح ہرفرد انسان کی پیدائش کے وقت جب خدا کے ہاتھوں سے نکلتی ہے وہ ہر طرح کی آلائش سے پاک ہوتی ہے ایسے بدن میں رکھی جاتی ہے جس کو بدی کے میلان اور ورثے میں ملے ہیں۔ چونکہ طبعی زندگی جوروح سے متفرق ہو یعنی ایسی زندگی جوسارے حیوانوں میں پائی جاتی ہے ۔آخر اس گناہ کے اثر کومحسوس کرتی ہے اور روح جواُس کی روح انسانی حیوان میں پھونکی جاتی ہے وہ اُس زمین پر زندگی کے ہی سے خسارے میں رہتی ہے اوراُس کو عمر بھر جذبات نفسانی خواہشات سے کم وبیش جنگ کرنا پڑتاہے۔لیکن کوئی ایسی نمورواری نہیں جس میں کہ کل نوع انسان شریک ہوں۔

زبور نویس کے ان الفاظ کے مطابق " دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی۔ اورگناہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا"۔(زبور ۵۱آیت ۵)قرآن میں کوئی جملہ نہیں پایا جاتا۔ روح کو شروع ہی سے جسم کے مقابلہ میں سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ نوع انسان کے والدین کی افتادگی کے ذریعے سے اصلی راستبازی کے کھوئے ہونے سے یہ جسم بذات خود گناہ آلودنہیں۔ یہ بھی کچھ مشتبہ امر ہے یا قرآن جسم کو انسانی ذات کا حقیقی حصہ بھی سمجھتاہے جس میں وہ صفات اورمیلان پائے جاتے ہیں جن سے انسان کو جنگ کرنا پڑتاہے۔

لیکن خواہ کچھ ہی ہو قرآن میں یہ تعلیم کہیں پائی نہیں جاتی کہ آدم گراوٹ میں نوع انسان کی گراوٹ تھی۔ اُس میں کہیں یہ تسلیم نہیں کیاکہ آدمی گناہ کے ماتحت پیدا ہوتاہے ۔ جب وہ اپنے پہلے والدین کے نقش قدم پر چل کے خدا کے احکام کے خلاف چلتاہے تب وہ افرادً گنہگار ہوجاتاہے۔

انسان کی فطرت کےبارہ میں یہ رائے کہا ں تک دیگر مسائل مثلاً گناہ اور نجات پر اثر ڈالتی ہےقرآن کی تعلیم کا مطالعہ کرنے سے بخوبی ظاہر ہے۔

تیسرا باب

انسان کی پیدائش کا مقصد

اور

اُس کا رشتہ خدا اور اُس کے ارادے

ازروئے قرآن انسان کے پیدا کرنے میں خدا کا مقصد کیا تھا؟ اس لئے ہم پہلے اس آیت کو پیش کریں گے"۔ ہم نے آسمان وزمین میں جوکچھ اُن میں ہے اُس کو کھیل کے لئے پیدا نہیں "(سورہ انبیاء نیز مقابلہ کرو سورہ الدحقان آیت ۳۸۔ سورہ ص آیت ۲۶۔سورہ آل عمران آیت ۱۸۸سے)۔

دنیا کے خلق کرنے میں خدا نے اپنی ہمہ دان حکمت سے جوکچھ اُس نے پیدا کیا اُ س میں اُس کا مقصد تھا۔ دنیا کی پیدائش محض ایک وہم یا ایک سرسری خیال نہ تھا۔ بلکہ الہٰی مقصد ازل سے موجود تھا۔ انسان اور خدا کے سامنے اُس کی ذمہ داری کے متعلق یہ تصور قرآن نے برابر مدنظر رکھا۔ آدم کی پیدائش سے پیشتر جوکچھ بناوہ اس مقصد کی غایت تکمیل کی تیار تھی وہ مقصد انسان کی پیدائش میں پورا ہوا۔ خلقت کے فطرتی عمل میں انسان ایک اتفاقی مخلوق نہیں یا الہٰی ہمہ دانی کا نتیجہ نہیں۔ خالق شروع سے جانتا تھا کہ وہ کس مقصد کےلئے کام کررہا تھا ۔ اوراپنی حکمت سے اُس نے انسان کو پیدا کیا جو اُس کے مقصد کے لئے مناسب تھا۔ اوراُسے وہ صفات اور قواے عطا کئے اُن کے ذریعے سے کہ وہ اپنی ہستی کے مقصد کو پورا کرسکے۔

یہ مقصد اور مدعا کیا تھا۔اس کا صاف ذکر اس آیت میں آیاہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔(سورہ الزاریت آیت ۵۶)۔انسان کے پیدا کرنے میں خدا کی غرض یہ تھی کہ وہ اُس کی عبادت کرے اورایسی عبادت میں وہ اپنے خالق کو پائے۔ عہد عتیق کی تعلیم بھی اس کے مطابق ہے کہ انسان حکمت سائنس والی اور معلومات عقلی پر مبنی نہیں بلکہ خدا کے خوف پر۔"خدا سے ڈرنا اور" خدا کی عبادت کرنا" ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ پس خدا کا خوف رکھنے یا اُس کی عبادت کرنے کے ذریعہ خدا کا مقصد پورا ہوجاتاہے جس کے لئے کہ وہ پیدا ہوا تھا۔

یہ تصور اُن آیات میں بھی پایا جاتاہے جن میں خدا کے چہرے کا بیان ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں یہ لکھا "جوکچھ بھی (تم خیرات کے طورپر) خرچ کروگے سواپنے لئے ۔اور تم توخدا کے چہرے کے حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہو"۔پھر سورہ رعد کی ۲۲آیت میں آیاہے "جولوگ صبح وشام اپنے پروردگار کی یاد کرتے ہو اُسی کی رضامندی (چہرہ) چاہتے ہیں "۔نیر دیکھو سورہ لیل اور سورہ انعام کی ۵۲آیت وغیرہ۔

خدا کی عبادت خواہ عبادت کے چند مقرر ہ افعال ہوں یہ زندگی یاایک دوسرے کے ساتھ مروت کا سلوک ان سب کی خدا کی رضا جوئی کی تمنا ہونی چاہیے ۔ یا دوسرے الفاظ میں ہی کہیں کہ انسان کی کل زندگی ایمان کے لحاظ سے ہو یا عمل کے سے وہ اپنے خالق کی مرضی کے مطابق بسر کی جائے اور اُس رضا جوئی ہماری ساری زندگی کا مقصد ہو۔ جن مقامات میں خدا کے چہرے (وجہ اللہ) کی تلاش کرنے کا ذکر ہے اُن میں سے اکثروں میں ہم ہمیشہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا کے چہرے سے خدا کے سوا کچھ زیادہ معنی ہوں۔ جب کہ خدا کا چہرہ انسان کی طرف اُس کی طرف سے ہٹ نہیں گیا۔عہد عتیق کی اصطلاح میں خدا کے چہرے کی روشنی کی تلاش کرتے ہیں اوراسی علم میں اپنا اجر اور خوشحالی سمجھتے ہیں کہ یہ چہرہ اُن کی طرف متوجہ ہے جن مقامات میں خدا کے چہرے کا ذکر ہے اُن میں کچھ زیادہ گہرے معنی پائے جاتے ہیں اوریہ معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اسے خوشی اورمبارک حالی صرف خدا ہی میں ملتی ہے۔ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے(سورہ بقرہ آیت ۱۱۴)۔کل دُعا ۔کل عبادت ان الفاظ میں شامل ہے کہ" خدا کے چہرے کی تلاش "کریں۔ لیکن ان الفاظ میں کم از کم یہ بھی اشارہ ہے کہ" اُس کے چہرے" سے خود خدا ہی مراد ہے۔ چنانچہ ان آیات سے یہ اور بھی واضح ہے" اُس کی ذات (وجہ) کے سوائے سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں"(سورہ قصص کی آیت ۸۸ اور نیزد یکھو سورہ الرحٰمن آیت ۲۶)۔ جتنی مخلوقات زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تمہارے پروردگار کی ذات وَجْهُ رَبِّكَ باقی رہ جائے گی"۔

لیکن ان الفاظ میں یہ خیال بھی چھپا ہے کہ جن پر خدا کے چہرے کی روشنی پڑے گی وہ بھی امن چین سے رہیں گے۔

خدا کے چہرے کے دیدار کے بارہ میں ہم یہاں کچھ کہنا نہیں چاہتے اس کی نسبت محمدی عالموں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان مقامات کا حوالہ دینے سے ہمارا مدعا یہ تھا کہ ان میں خدا کے چہرے کا جوذکر ہے اُس سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ انسان خدا کی عبادت کے لئے مخلوق ہوا۔ اوراُس کی اعلیٰ خوشی اور خوشحالی اس میں ہے کہ وہ چہرہ اُس کی طرف متوجہ ہے اور اس سے اُس کواطمینان حاصل ہوتاہے اوراُس کے دل کی تمنا اور آزوپوری ہوتی ہے اسی غرض سے خدا نے انسان کو پیدا کیا تھا۔

جب خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا تواُس کو اُس نے محض کل کی طرح نہیں بنایا کہ جس سے یہ مقصد برابر پورا ہوتا رہے بلکہ خدا کی ہی عبارت جوانسان کی زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے دانستہ اور معقول طور سے عمل میں آنی چاہیے۔ اوراس غرض سے خدا نے اُس کو ادراک نفس ۔خرد اور عقل سے مزین کیا بالرضا خدا کی تعظیم وعبادت کرے۔

اس نقطہ خیال سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو اس زندگی پر جوزندگی ملی ہے وہ اس عبادت یا تعظیم کرنے یا نہ کرنے کا ہے۔ اوریہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے پیدا کرنے میں خدا کا مقصد یہ تھا کہ اُس کو آزمائے۔"ہم نے آدمی کومرکب نطفے سے پیدا کیاتاکہ اُس کو آزمائے۔"إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ہم نے انسان کو نطفہٴ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا(سورہ الانسان آیت ۲)۔ البتہ اس کے یہ معنی تونہیں کہ انسان کوخدا نے محض اس لئے پیدا کیاتاکہ دریافت کرے آیا وہ اُس کی عبادت کرے گا یا نہیں ۔بلکہ اُس کی عبادت اور بندگی کرے اورجوتمنائیں اور آرزوئیں اُس کی سرشت میں رکھی تھیں اُن کی پیروی کرے۔ اسی وجہ سے اُس کو ایسا پیدا کیااورایسی حالت میں تاکہ اُس کو اُس کی عبادت کرنے یا نہ کرنے کی قابلیت اور موقعہ ۔اوراس معنی میں زمین میں زمین پر اُس کی زندگی ایک حالت آزمائش ہے۔

قرآن میں اس خیال کا اظہار اکثر ہوا اور خاص کر جن مقام میں مثال کے طورپر یہودی قوم کی تاریخ کی طرف اشارہ کیا۔مثلاً وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا"۔(سورہ الجاثیہ آیت ۲۱)۔ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ اور ہم نے ان کو جماعت جماعت کرکے ملک میں منتشر کر دیا۔ بعض ان میں سے نیکوکار ہیں اور بعض اور طرح کے (یعنی بدکار) اور ہم آسائشوں، تکلیفوں (دونوں) سے ان کی آزمائش کرتے رہے تاکہ (ہماری طرف) رجوع کریں۔(سورہ الاعراف آیت ۱۶۷)۔بعض دیگر مقامات میں یہی خیال پایا جاتاہے۔

اس سب کے معنی البتہ یہ ہوں گے کہ انسان خدا پر حصر رکھتاہے ۔ اوریہ حصر اس امر سے ظاہر ہے کہ ساری طبعی ضروریات کے لئے انسان کو خدا سے مانگنا پڑتا ہے۔ اور قرآن میں اس کا بہت ذکر آیاہے۔ لیکن خاص کر انسان کی اخلاقی اور روحانی ضرورتوں کے متعلق قرآن نے انسان کا حصر خدا پر بتایا۔

اس روحانی حصر کے بارے میں اگرہم اس کے لئے یہ جملہ استعمال(کرسکیں) قرآن نے برابر یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کی ان ضرورتوں کے رفع کرنے کے لئے خدا ہمیشہ سوچتا اوربہم پہنچاتا رہتاہے۔ چنانچہ یہ تعلیم آئی ہے کہ جب انسان گرگیا اوراُس خوشحالی کی دوبارہ حاصل کرنے کی کچھ اُمید نہ رہی توبھی خدا کی محبت اوررحمت نے اُس کو طلب نہ کیا بلکہ اُسے ہدایت اوررہنمائی کا وعدہ کیا جس کے ذریعے سے وہ اپنی پہلی خوشحالی کودوبارہ حاصل کرسکے۔"اور ہم نے حکم دیا تم(سب) اُتر جاؤ تواگر تمہاری طرف سے تم لوگوں کے پاس کوئی ہدایت پہنچے جوہماری ہدایت کی پیروی کریں گے اُن پر نہ تو خوف ہوگا اور نہ ۔۔۔۔(سورہ بقرہ آیت ۲۶)۔اس آیت میں یہ تعلیم ہےکہ خدا کی رحمت اورمحبت جس نے افتادگی کے باعث نوع انسان کونہ کیا تھا اُ سنے معافی اور دوبارہ منظور نظر ہونے کی اُمید اُن کے سامنے پیش کی۔لیکن اس امر پر ہم یہاں زور دینا نہیں چاہتے۔اس آیت کا حوالہ دینے سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ قرآن میں اس کی رحمت اور محبت کی تعلیم پائی جاتی ہے بلکہ صرف یہ ظاہر کیا جاتاہے کہ اس افتادہ انسان کوکسی نہ کسی طرح سے خدا کے فضل کی درکار تھی اور عام طورپر اب بھی درکار ہے تاکہ وہ خدا کا پھر منظور نظر بن جائے جس سے کہ گناہ نے اس کو محروم کردیا تھا۔

علاوہ ازیں قرآن کی تعلیم یہ بھی ہے کہ جو لوگ خدا کو خوش کرنا ہیں وہ اُس حصر کو محسوس اور تسلیم کریں۔ حصر کا یہ احساس کرنا انسان کے دل میں حقیقی دین کا آغاز ہے۔ اسلام کے قبول کرنے میں پہلا قدم اس امر کا محسوس کرنا ہے کہ ایک واحد سچا خدا ہے اس امر کو تسلیم کرنا کہ ہمارا حصر اُس پر ہے۔ اور یہ عزم کرنا کہ ہم اُسی کو اپنی زندگی کا رہنما بنائیں گے ۔ مگر یہ مکمل دین نہیں۔ خدا ہم سے اس سے کچھ بلکہ کچھ زیادہ طلب کرتاہے۔ وہ یہ طلب کرتاہے کہ آدمی یہ سمجھ کر کہتاہے کہ حصر سراسر خدا پر ہے اوریہ عزم کرکے کہ وہ اُسی کی اطاعت کرے اُس سے نجات کا طریقہ بھی سیکھے اور عمل کے ذریعے سے اُس کا تجربہ حاصل کرے۔ "قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔(سورہ الحجرات آیت ۱۴)۔

دوسری آیات میں اس امتیاز پر شاید اتنا زور نہیں دیا گیا لیکن یہ ایک ہی آیت اس امتیاز کوظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔

اگرچہ خدا پر یہ حصر عام ہے اورانسان کی اخلاقی اور طبعی حاجتوں پر محدود نہیں لیکن پھر بھی اُنہی کے متعلق انسان خدا کی ضرورت کوخاص کر محسوس کرتاہے۔جس مقصد کے لئے انسان مخلوق ہوا تھا جب وہ اس کو پورا کرنے کی سعی کرنے لگتا ہے تواُس کو خدا کی مدد کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ بغیر خدا اوراُس کے فضل کے انسان اپنے بدطبعی میلانوں پر غالب نہیں آسکتا جن کے ساتھ کہ روح کو اس دینوی زندگی کے شروع ہی سے سخت جنگ کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ راستبازی اورمبارک آسمانی مکانوں کوحاصل کرے۔ چنانچہ سورہ النور کی ۲۰آیت میں یوں مرقوم ہے وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے) اور یہ کہ خدا نہایت مہربان اور رحیم ہے۔(مقابلہ کرو سورہ النساءآیت ۸۵ اور سورہ البقرہ آیت ۶۱)۔چنانچہ جنہوں نے خدا کےفضل اور مدد کا تجربہ کیا ہے اُن کا یہی خیال ہے" خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو اس (بہشت) کا رستہ دکھایا اوراگر خدا ہم کو ہدایت نہ کرتا توہم رستہ نہ پائے "(سورہ الاعراف آیت ۴۱)اُن کومعلوم ہے کہ جوکچھ اُن کو ملا ہے وہ اُن کے کاموں کا ثواب نہیں بلکہ خدا کی راہ نمائی اورہدایت کے وسیلے حاصل ہوا۔

اس ہدایت میں نہ محض وہ علم داخل ہے جواُس مرضی کے مکاشفے سے حاصل ہوتاہے بلکہ وہ تاثیر جواُن کے دلوں اور عقلوں پر ہوتی ہے ۔وہ اُس کی ہدایت کوقبول کریں۔ پس انسان کوخدا کے منور کرنے والے مکاشفے کی ضرورت ہے اور نیز اُس کی ہدایت کی تاکہ وہ شخصی طورپر مکاشفے کوقبول کرلے اور اپنے دل کواس کی اطاعت کی طرف مائل کرے۔ یہ سوال کہ" ہدایت " کیا ہے اوراُس سے مراد کیا ہے اس کے مسئلہ میں مذکور ہوگا۔ ہم یہاں یہ فرض کرلیں کہ یہ فضل کے دونوں وسائل پر مشتمل ہے۔ یعنی اُس کے ارادے کا علم جواُس کے عطاکردہ مکاشفے کے وسیلے سے حاصل ہوا اور خدا کی ہدایت تک س مکاشفے کوقبول کریں اوراُس کے مطالبات کوپورا کریں۔

اب ہم یہاں یہ بیان کریں گے کہ جس ہدایت اور فضل کی سارے آدمیوں کوضرورت ہے قرآن میں اُن کا کہاں تک ذکر آیاہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جوکچھ ضرور ہے وہ مفت اُس کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ چاہے وہ اُسے قبول کرے۔ چاہے اُس کو رد کرے اسی وجہ سے انسان اپنی زندگی کی رفتار اوراپنی روح کی عاقبت کا ذمہ وار ہے۔

انسان کی یہ ذمہ واری قرآن کی خاص تعلیم ہے۔ آئندہ کو دن آرہاہے جب ہر انسان کو اُس کے آگے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا جس نے اُس کوپیدا کیا اوربنایا اوراُس میں اپنی روح میں سے پھونکا ۔ اس بیان کے ثبوت میں آیات کا پیش کرنا ضروری نہیں۔ یہ تعلیم عام ہے اوراسے سب مانتے ہیں۔ جیسے اس تعلیم کا بیان نئے عہدنامے نے کیا ویسے ہی زور وصفائی کے ساتھ قرآن نے بھی کیاکہ موت کے بعد عدالت ہوگی۔

مزید براں اس معاملے میں انسان کی ذمہ واری انفرادی ہے ۔اس بات پر کوئی عذر پیش نہیں کرسکتا کہ دوسروں نے اُس کو گمراہ کردیا یا اُس نے دوسروں کی نصیحت یانمونے پر عمل کیا"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ "اور(قیامت کے دن) اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔(سورہ فاطر آیت ۱۹)۔قرآن میں مجموعی یا جماعتی نجات کا کچھ ذکر نہیں یا ایسی نجات کا جو قوی برکتوں اور وعدوں کے میراث کے ملنے سے حاصل ہو۔ ہرشخص اپنی ذات سے کھڑا ہوتا یا گرتاہے۔ ہر شخص اپنے ہی گناہوں اوربے ایمانی کی سزا پائے گا اورویسے ہی اپنے ہی ایمان اورنیک اعمال کا اجر حاصل کرےگا۔ اورکسی پر ظلم نہ ہوگا۔

انسان کی یہ ذمہ واری اس امر پردلالت کرتی ہے کہ خدا کی پیش کردہ رحمت کوقبول کرنے یاردکرنے کی قابلیت اُس کو حاصل ہے۔ اس لئے قرآن میں یہ تعلیم صاف طور سے پائی جاتی ہے کہ آدمی کو ان دور میں سے ایک کوقبول کرنے کی طاقت اور موقعہ حاصل ہے۔ اس میں یہ بیان ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جسے مقصد ٹھہراتاہے ۔ اورجس کی وہ خاص آرزو رکھتاہے اُس کے چننے کا اُس کو اختیار ہے۔ اورلکھاہے کہ بعض تواس دنیا کو پسند کرلیتے ہیں بعض آئندہ جہان کو۔ بعض دنیا کی عارضی اور زوال پذیر چیزوں پردھیان لگاتے ہیں اور بعض ابدی ازلی اشیاء کی تلاش کرتے ہیں "۔مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ بعض توتم میں سے دنیا کے پیچھے پڑگئے اور بعض آخرت کی فکر میں لگے ہیں۔(سورہ آل عمران آیت ۱۵۱)۔ مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اس کے لئے جہنم کو (ٹھکانا) مقرر کر رکھا ہے۔ جس میں وہ نفرین سن کر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہو کر داخل ہوگا۔(سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۹)۔

"جن کا مطلب دنیا کی زندگی اور دنیاوی رونق ہوتی ہے۔ ہم اُن کے عملوں کا بدلہ دنیا میں اُن کو پورا پورا پھردیتے ہیں اور دنیا میں گھاٹے میں نہیں رہتے "۔(سورہ ہود) ۔

مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا ۔(سورہ الشوریٰ آیت ۱۹)۔

بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے۔(سورہ القیمتہ آیت ۵)۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور ہم شکر گزاروں کو عنقریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے۔(سورہ آل عمران آیت ۱۴۴)۔اس قرینے میں ہم سورہ الشمس کی ۷سے ۱۰ آیت کا پھر اقتباس کرتے ہیں وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا "۔نیکی وبدی کے درمیان امتیاز کے علم اور اُن میں سے ایک کو چن لینے کے اختیار کی طرف یہاں اشارہ ہے ۔ اور ہرفرد کی عاقبت کا انحصار اس انتخاب پر ہے۔

قرآن نے خدا کے انصاف وعدل کے بارہ میں جوخدا انسان کے ساتھ ہمیشہ برتے گا جوکچھ بیان کیا وہ اس مضمون سے علاقہ رکھتاہے اس بار یہ جملہ آیاہے"اور" کسی پر ظلم نہ ہوگا"۔اورحضرت محمد کی زبان سے جیسے یہ الفاظ نکلے ویسے ہی اُن کے معنی ہیں۔ خواہ علما اس کے خلاف کچھ ہی کہیں۔ آدمی اس دنیا میں جیسی زندگی بسر کرتاہے ویسے ہی اُس کو سزا جزا یا سزا ملتی ہے کیونکہ وہ جواب دہ ہے۔ خدا نے اپنی ہدایت ورہنمائی اُس کے سامنے پیش کی اوراب اُس کا حساب اسی اندازے سے ہوگا۔ کہ اُس نے کہاں تک اُن کو قبول یا ردکیا۔

یہ فیصلہ کرنا تومشکل ہے کہ اس انتخاب میں انسان کہاں تک مختار ہے۔ اس مسئلہ کے حل کرنے میں قرآن سے مدد نہیں ملتی اس لئے محمدی علما نے تقدیر وفعل مختاری کے بارے میں جو طویل بحث کی ہے اُس کا دارومدار زیادہ قیاس وفلسفے پر نہ الہام وتجربے پر۔ کیونکہ فعل مختاری یا عدم مختاری کے مسئلہ انسانی روح روشنی چاہتی ہے۔ اورکچھ مضائقہ نہیں کہ وہ کہاں سے ملتی ہے۔

ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلہ کا بیان کرنے میں قرآن سے بہت مدد نہیں ملتی۔ توبھی لاکلام اُس میں یہ تعلیم پائی جاتی ہے ۔ کہ اُس میں ایسی قابلیت اورطاقت ہے جسے ہم ارادہ یا اختیار کہتے ہیں۔ وہ یہ ارادہ کرسکتاہے کہ فلاں یا فلاں فعل کرے۔ جہاں تک وہ نیکی یابدی کا ارادہ کرتاہے وہ قابل تحسین یا قابل نفریں ہے۔ اوریہ کہنا توبے معنی ہے کہ ارادہ مختار نہیں کیونکہ صرف چند حدود کے اندر ہی انتخاب کا اختیار ہے اور یہ حدود کی ذات کی ساخت ہی نے اُس پر لاحق کردی ہیں۔

بلحاظ مذہب کے یہ مسئلہ عملی ہے اوراس لئے عملی پہلوسے ہی پر اس پر نظر ڈالنی چاہیے ۔ بالفرض انسان اپنے ہی طبقے کے فعل مختار ہو۔ اورجس معنی میں خدا خود فعل مختار ہے انسان معنی میں فعل مختار نہ ہو توبھی اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ محض قسمت کا ایک کھلونا ہے۔

قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ سارا جہان اورانسان جو طبعاً اُس جہان کا ایک جزو ہے وہ ہمہ دان قادر مطلق خدا کے زیر ہدایت وحکومت ہے ۔ یہ مسئلہ خدا کے احکام مطلق العنان ہیں جیسا کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے۔ قرآن نے خدا کے مطلق العنان ہونے اور انسان کے خود مختار ہونے دونوں پر زوردیا۔ اس لئے جومسئلہ قرآن کی تعلیم پر مبنی ہوگا وہ اُن دونوں کوتسلیم کرے گا اورہرایک کواپنی اپنی رائے رکھے گا۔ وہ یہ نہ کرے گا کہ ایک تعلیم کو قبول کرے اوردوسری کورد کردے۔ اگرچہ انسانی عقل ان دونوں مسائل کوتسلی بخش طریقے تطبیق نہ دے سکے۔

ان اوراق میں ہمارا ارادہ ایسی ہی تعلیم کوپیش کرنے کا ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتاہیں کہ اہل سنت جماعت کا مسئلہ تقدیر یک طرفہ اور قرآن کی تعلیم کا پورا بیان نہیں۔ لیکن اس امر کا مفصل ذکر اس جگہ ہوگا جب خدا اوراُس کے ارادے کے بارہ میں قرآن کی تعلیم پیش کی جائے گی۔ اوراُ س موقعہ پر قرآن کی تعلیم کے اس دوسرے امر پرغور کیا جائے گا۔

یہاں ہم اس مسئلہ کے انسانی پہلو پرزور دیں گے۔ حضرت محمد جو پیغام اپنے ہم وطنوں کودیا وہ اُن دوباتوں پر مشتمل تھا یعنی امر ۔لیکن ان کا تعلق ہمیشہ اُن کے دل اور ضمیر کے ساتھ تھا اور اسی لئے اُن سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ نیکی کوقبول کریں اور بدی سے کنارہ کریں۔" إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا یہ (قرآن) تو نصیحت ہے۔ سو جو چاہے اپنے پروردگار تک (پہنچنے کا) رستہ اختیار کرلے(سورہ مزمل آیت ۹)۔

آدمی کی ذمہ واری کا یہی خیال جس کا حصر اس پر ہے کہ آدمی کو چن لینے کا اختیار ہے اکثر قرآن کی اُن آیات میں آیا ہے جن میں یہ ہے کہ گنہگار یوم عدالت کو طرح طرح کے عذ ر پیش کریں گے"۔ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم ۖ بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِينَ وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ردوکد کر رہے ہوں گے۔ جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوجاتے بڑے لوگ کمزوروں سے کہیں گے کہ بھلا ہم نے تم کو ہدایت سے جب وہ تمہارے پاس آچکی تھی روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم ہی گنہگار تھے اور کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے (نہیں) بلکہ (تمہاری) رات دن کی چالوں نے (ہمیں روک رکھا تھا) جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم خدا سے کفر کریں اور اس کا شریک بنائیں۔(سورہ سبا آیت ۳۰)۔

یہ جملہ کہ " تم خود خطا وار تھے" اس فعل مختاری کا اظہار ایسا ہی سورہ صافات کی ۲۸سے ۳۱آیت میں یہ ذکر آیا ہے"ایک فریق دوسرے فریق سے کہے گا کہ تم پر پل پل کر آتے تھے وہ کہیں گے (کہ نہیں ) بلکہ تم(آپ) ایمان نہیں لائے ہمارا کچھ زور توتھا ہی نہیں۔ بلکہ تم خود سرکش لوگ تھے۔ پس ہمارے پروردگار کا وعدہ (عذاب) ہمارے (سب کے ) حق میں پورا ہوا۔ تو (سب ہی ) کو (عذاب کے ) مزے چکھنے ہوں گے۔ہم (آپ بہکے ہوئے تھے)سوہم نے تم کو بھی بہکادیا (مگر بزور نہیں ) "نیز دیکھو (سورہ الزمر ۵۸سے ۶۰آیت ۔سورہ زخرف آیت ۱۹سے ۲۵۔سورہ مریم آیت ۲۰ اور ۱۰۸آیت )۔

نئے عہدنامہ کی یہ تعلیم ہے کہ خدا ایماندار کے دل میں نیت اورعمل دونوں کو پیدا کرتاہے۔ اور مفصلہ ذیل آیات میں حضرت محمد کا پیغام بھی یہی تھا۔ گوالفاظ بہت صاف وصریح نہ ہوں"إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا یہ تو نصیحت ہے۔ جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے کا رستہ اختیار کرے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو خدا کو منظور ہو۔ بےشک خدا جاننے والا حکمت والا ہے جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کے لئے اس نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(سورہ الانسان آیت ۳۰)۔ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا یہ دن برحق ہے۔ پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانہ بنا ئے۔(سورہ النبا آیت ۳۹)۔ فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ پھر تم کدھر جا رہے ہو یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو خدائے رب العالمین چاہے۔(سورہ تکویر آیت ۲۷سے ۲۹)۔

ہم یہ ذکر کرآئے کہ اس مسئلہ پر مزید غور آگے چل کر ہوگا۔اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ حضرت محمد نے اس سوال کے ان کو تطبیق دینے کی کوشش نہ کی۔ لیکن اسی پرقناعت کی کہ توآدمی کی ذمہ واری پر زور اور دوسری طرف اس جہاد ۔پیدائش ۔حکومت اور انتظام میں خدا کے عالمگیر ارادے پر قادر مطلق ارادے اور آدمی کی فعل مختاری اور ذمہ داری کو پُرانے عہدنامے نے تسلیم کیا اور وہاں بھی اس مسئلہ کے فلسفیانہ مشکلات کوحل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اس مسئلہ کے متعلق قرآن کی تعلیم پر غور کرتے وقت ہم کو نظر انداز نہ کریں کہ جن آیات میں انسان کے ارادے کا خدا کے ارادے پر بیان ہوا وہاں نیکی یا راستی یا صحیح ہدایت انتخاب کی طرف اشارہ ہے۔ مجھے قرآن میں اب تک کوئی نہیں ملا جس میں یہ ذکر ہوکہ بدی کے انتخاب میں انسان کے ا رادے پر منحصر ہے۔حالانکہ کئی ایسے مقامات ہیں جن میں یہ ہے کہ جب آدمی بدی کا مرتکب ہوتا یا خدا کی پیش کردہ ہدایت کرتاہے اوراپنی خواہشات اورشہوات کی ہدایت قبول کر کے شیطان کےخراب وسوسوں پر کان لگاتا یا شیاطین کی تووہ آپ ہی ایسا عمل کرتاہے" وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ اور جو ثمود تھے ان کو ہم نے سیدھا رستہ دکھا دیا تھا مگر انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا دھند رہنا پسند کیا تو ان کے اعمال کی سزا میں کڑک نے ان کو آپکڑا۔ اور وہ ذلت کا عذاب تھا (سورہ فصلت آیت ۱۶)۔ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ یا یہ کہنے لگے کہ اگر خدا مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جانا ہو تو میں نیکوکاروں میں ہو جاؤں (خدا فرمائے گا) کیوں نہیں میری آیتیں تیرے پاس پہنچ گئی ہیں مگر تو نے ان کو جھٹلایا اور شیخی میں آگیا اور تو کافر بن گیا۔(سورہ زمر آیت ۵۸)۔ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ اور کہتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ہم ان کو نہ پوجتے۔ ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔(سورہ زخرف آیت ۱۹)۔" توشیطان کہے گا کہ خدا نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم پر میری کچھ زبردستی نہیں۔۔۔۔۔ بات تواتنی ہی تھی کہ میں نے تم کو (اپنی طرف ) بلایا۔ اورتم میرا کہنا مان لیا۔ تواب مجھے الزام نہ دو۔ بلکہ اپنے تئیں الزام دو "(سورہ ابراہیم آیت ۲۶سے ۲۷)۔

یہی تعلیم ٹھیک طورپر اُن آیات سے نکلتی ہے جن میں صاف طورپر یہ بیان آیاہے کہ جب آدمی گناہ کرتاہے تووہ خدا کی ہدایت اور پیروی نہیں کرتا۔چنانچہ سورہ قصص کی ۵۰آیت میں لکھا ہے فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(دیکھو سورہ بقرہ آیت ۲۶۰۔سورہ آل عمران آیت ۸۰۔سورہ مائدہ آیت ۵۶۔ سورہ انعام آیت ۱۴۵۔ سورہ توبہ آیت ۱۹ اور ۱۱۰۔ سورہ احقاف آیت ۹۔ سورہ صف آیت ۷۔

صاف طورسے قرآن کی عام تعلیم یہ ہے کہ خدا سب لوگوں کوہدایت دیتاہے خواہ کوئی اُسے قبول کرے خواہ رد کرے"۔ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖفَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔(سورہ کہف آیت ۲۸)۔ خدا کا فضل سب کے سامنے پیش ہے اور سبھوں کوتوبہ کی دعوت دی جاتی ہے۔لیکن یہ دعوت اُنہیں کے لئے موثر ہے جواس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ برگزیدہ ہیں۔ آدمیوں کے دلوں کے سخت ہونے کا مسئلہ نجات کی عالمگیر دعوت کے ساتھ ساتھ آتاہے۔ نئے عہدنامہ کی قرآن نے بھی اس مسئلہ کا عملی پہلو ہی بیان کیا اور یہ کہا کہ فضل کے اس تحفے کو وہ قبول کرلیتے ہیں اوراپنے دلوں میں وہ اور محسوس کرتے ہیں کہ جوکچھ وہ ہیں صرف خدا کی رحمت کے اور بغیر اُس کے فضل کے اُن میں اور دوسروں میں کچھ زیادہ ہوتا۔ وہ اس لئے خدا کے فضل کوقبول کرنے کا ارادہ نہیں کہ وہ برگزیدہ لوگ ہیں۔ بلکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ اُنہیں اُس فضل کے پیغام کوماننا اور قبول کرناچاہا اس لئے وہ ہیں" اور بول اٹھیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم کودکھایا۔اوراگر خدا ہم کو ہدایت نہ کرتا توہم (کسی طرح پر ہدایت کا رستہ نہ پاتے"(سورہ اعراف آیت ۴۱)۔

خدا کےفضل اورہدایت کے ہدئیے میں دہرا نتیجہ نکلتا ہے کہ اسے قبول کرنے والے اسے کیسے قبول کرتے ہیں۔ "کہہ کہ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اُن کے لئے تویہ (قرآن سرتا پا) ہدایت اور شفا ہے۔ اور جوایمان نہیں رکھتے اُن کے کانوں میں گرانی اور وہ اُن کے حق میں نابینائی ہے۔ یہ لوگ بڑی دور کی جگہ سے پکارنے جاتے ہیں'(سورہ فصلت آیت ۱۴)۔"سوجوایمان رکھتے ہیں اس نے اُن کا توایمان بڑھایا اور وہ خوشیاں مناتے ہیں۔ اورجن لوگوں کے دلوں میں روک ہے تواُس نے اُن کی خباثت پر ایک خباثت اور بڑھائی۔ اوریہ لوگ کفر ہی کی حالت میں مرگئے "(سورہ توبہ آیت ۱۲۵)۔ نیز دیکھو سورہ بقرہ آیت ۲۴ اور سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۴)۔

ہر فرد بشر کو اس روئے زمین پر ہی موقع حاصل ہے کہ خدا کی اس رحمت کوقبول کرے یا رد کرے۔ موت کے بعد کوئی مزید حالت آزمائش نہیں۔ جس تعلیم کا ہم ذکر کرآئے ہیں ۔ یہ اُس کے عین مطابق ہے کہ اس روئے زمین پر آدمی کی زندگی ایک حالت آزمایش ہے۔ہر آزمائش وامتحان کا ایک محدود وقت ہوتاہے۔ یہ لگاتار جاری نہیں رہتا۔ اب نئی بات جوہم پیش کیا چاہتے ہیں۔ یہ ہے کہ قرآن کے مطابق یہ محدود زمانہ ہرفرد کی موت تک ہی ہے اُس دن نہ تو نافرمانوں کو اُن کی عذر خواہی فائدہ بخشےگی اورنہ اُن کو (خداکے) راضی کرلینے کا موقعہ دیا جائے گا"(سورہ روم کی ۵۷آیت)۔" قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ کہہ دو کہ فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ اُن کو مہلت دی جائے گی (سورہ سجدہ آیت ۲۹)۔نیز دیکھو سورہ الحدید آیت ۵۷ اور سورہ فاطر آیت ۳۴)۔

ان جیسے مقامات سے بخوبی ظاہر ہے کہ قرآن نے آئندہ حالت آزمائش کی کوئی اُمید نہیں دی۔ اورجس مقصد کے لئے خدا نے انسان کو اس زمین پر پیدا کیا تھا اُس کے یہ عین مطابق ہے۔"جس دن تمہارے تمہارے پروردگار کے بعض نشان (یعنی قیامت ) کے بڑے آثار ) ظاہر ہوں توجوشخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں اُس نے نیک کام نہیں کئے۔ اب اُس کا ایمان لانا اس کو کچھ بھی سودمندنہ ہوگا (سورہ انعام آیت ۱۵۹)۔ آدمی جوکچھ اس زندگی میں بوتا ہے ویسا ہی وہ عاقبت میں کاٹے گا۔

اورایک اور بات کا ہم ذکرکریں گے اور قرآن شریف کی تعلیم جوانسان کے بارہ میں ہے اُس کو ہم ختم کریں گے گواس کی نسبت اوربھی کچھ لکھا جاسکتا تھا۔

ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ حضرت محمد نے یہ تسلیم کرلیاکہ دین کی قابلیت انسان کی سرشت میں تھی اورخدا کو ماننے اورایک حد تک خدا کو پہچاننے کی قوت اُس کو حاصل تھی۔خدا کو ماننے اورپہچاننے کی قابلیت کی وجہ ہی سے وہ اشرف المخلوقات اور دیگر حیوانات سے افضل ہے اوراس کا وجود اسی وجہ سے ہواکہ آدمی کی پیدائش کے وقت خدا نے اپنی روح میں سے اُس میں پھونک دیا۔ یہ توسچ ہے کہ قرآن کے رو سے ساری فطرت اور خلقت خدا کو تسلیم کرتی اوراُس کی عبادت کرتی ہے۔ سورہ رعد ۱۶ میں آیاہے "جس قدر مخلوقات آسمان وزمین میں ہے چارونا چار اللہ ہی کے آگے سربسجود ہیں۔ اورصبح وشام اُن کے سائے"۔(سورہ نحل آیت ۵۰تا ۵۱ میں ہے"کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے کسی چیز کی طرف نظر نہیں کی کہ اس کے سائے کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف جھکے ہوئے" اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ اور وہ عاجزی کا اظہار کررہے ہیں اور جتنی چیزیں آسمانوں میں اورجتنے جاندار زمین میں ہیں اللہ ہی کے آگے سربسجود ہیں"۔

لیکن فطرت اور ادنیٰ حیوانات کا عبادت کرنا دانستہ بلکہ جبر یہ ہے کہ آدمی کا درجہ اُس سے متفرق ہے۔ اُسے دین کی قابلیت حاصل ہے۔ لیکن اُسے یہ اختیار بھی عطا ہوا کہ خواہ وہ اپنے خالق کی واجب التعظیم کرے۔ خواہ نہ کرے دین کی یہ قابلیت اُس کا اپنا خاصہ ہے کیونکہ اُس میں کچھ الہٰی نور ہے۔ اسی عنصر کی وجہ سے وہ خدا سے رشتہ رکھتاہے۔ قرآن نے کسی جگہ صاف الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ خدا نے انسان کو" اپنی صورت پر"خلق کیا ۔ لیکن اس کتاب کے شروع سے آخر تک یہ خیال پایا جاتاہے اوراسی وجہ سے وہ غیر فانی ہے۔ اُس کی سزا ابدی عذاب ہے اُس کی خوشحالی خدا کے حضور ابدالاآباد خوشحالی ہے۔