Rev. Charles William Forman

1821–1894

Was a Presbyterian minister, missionary and the founder of Forman Christian College, a private university in Lahore, Pakistan.

Teg-o-Sipar-i-Iswai

The Christian Sword and Shield

Proofs of the Truth of the Christian Faith

Rev Charles William Forman

تیغ وسپر عیسوی

تیسراحصہ

عیسوی مذہب کا ثبوت

مولفئہ پادری فورمن صاحب

مطبع لودیانہ مشن میں واسطے لودیانہ مشن کے چھاپی گئی

۱۸۷۵ء



دیباچہ

سب سے اعلیٰ استعمال علم وعقل کا جو خدا نے ہم کو عنایت کی ہے ۔ یہ ہے کہ ہم سچائی کو دریا فت کریں اور خود خدا کی بابت دریافت کرنا نہایت ہی ضروری امر ہے ۔ کیا خداہے ؟ اور اگر ہے تو اس کی کیا صنعات (ہنر ،دستکاری )ہیں؟ اور آدمی کا اس سے کیا رشتہ ہے ؟ اور خدا انسان سے کیا چاہتا ہے ؟ ان سوالات کو ہر زمانہ کے دانا اور نیک لوگ سوچتے چلے آئے ہیں اور ہم کو بھی چاہیے کہ ان پر غور کریں کہ ایسے اشخاص بھی ہیں جو سوچتے ہیں یا سوچنے کا دعویٰ کر کے کہتے ہیں کہ ان سوالات کا حل کرنا آدمی کی طاقت سے باہر ہے ۔ لیکن یہاں خیال کرنا کہ خدانے انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے بنایا ہے کہ وہ خدا کو جانے اور اس کی بندگی کرے ۔ کیا عقلی بات نہیں ہے ؟ قطع نظر(اس کے سوائے ) اس کے ایسے اشخاص بھی ہیں جن کا یہ قول ہے کہ ہم قدرت اور عقل سے ے وہ باتیں جو ہم کو خداکی بابت جاننی چاہیے سیکھ سکتے ہیں اور اس لیے نوشتہ الہٰی کلام کی کچھ ضرورت نہیں اور نہ ہے خدا نے کبھی اس طرح سے اپنی مرضی کو لکھ کر ظاہر کیا اور نہ کرئے گا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے ان کے دلوں کو جو اس کے سچے متلاشی ہیں روشن کرئے گا تاکہ وہ اس کو جانیں اور اس کی بندگی کریں اور اسی طرح بہتوں نے مثلاً پرانے رشی، یہودی انبیاء،مسیح، کنفوش، زرتشت،بدھ، محمد،اور چتنا وغیرہ وغیرہ نے روشنی حاصل کی اس بات کا صرف یہی جو اب کافی ہے کہ یہ استاد اور راہنما آپس میں ایک دوسرے سے بہت اختلاف رکھتے ہیں۔ جیسے رات دن سے اور نیکی بدی سے اور نیز خصوصاً نہایت ضروری باتوں میں ان کا اختلاف تھا ۔چنانچہ خداکی ہستی اور اس کی صنعات کی بابت اور نیکی وبدی اور گناہ پاکیزگی کی بابت پھر ایسے اشخاص بھی ہیں جو اس بات کے مقر (اقرار کرنے والا) ہیں کہ خدانے ہر زمانے میں نبیو ں کو دنیا میں بھیجا اور ملہم (الہٰام کیا گیا ،وہ شخص جس کے دل میں کوئی بات ڈالی گئی )کیا وہ اپنے ہم جنسوں کو اخلاقی اور مذہبی باتیں سکھا ئیں ۔چنانچہ آج تک الہٰامی اشخاص کی تصنیفات محفوظ ہیں اور ان سے ہم وہ باتیں جو ہمارے لیے خداکی بندگی اور پرستش کرنے کے لیے ضروری ہیں سیکھتے ہیں اور پھر ان لوگوں میں جن کا یہ قول ہے کہ خدانے نبیوں کو موصوف (تعریف کیا گیا ) کیا کہ وہ آدمیوں کو نصیحت کریں اور ان کے ہادی (ہدایت کرنے والا،رہنما) بنیں۔ یہ بڑااختلاف ہے کہ وہ نبی کو نسے تھے ؟

اس چھوٹی سی کتاب کا مقصد ا س بات کو ثابت کرنا ہے کہ ایک خاص آدمی نے ملک شام میں ایک دفعہ ظاہر ہوکر اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں خدا سے بھیجا گیا ہوں اور جس پر کہ آج کل دنیا کے سب سے مہذب قومیں ایمان رکھتی ہیں کہ وہ شخص سچا تھا اور اس کا کلام جو آج کل پھیلا ہوا ہے اس قابل ہے کہ اس پر بھروسہ کریں اور اس کی تابعداری کریں اور کہ ایک دوسرا شخص ایسے ہی دعویٰ کرتا ہوا آیا مگر و ہ خدا کی طرف سے پہلے کا جانشین ہوکر نہیں آیا تھا۔ اس لیے اس نے سکھایا اس کو خدا کا کلام نہ ماننا چاہیے ۔ میں جانتا ہوں کہ ایسے بہت آدمی ہیں جو مذہبی مباحثہ کو بُرا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر ایک آدمی کو اس مذہب کی پیروی کرنی چاہیے ، جس میں کہ وہ پیدا ہوا ہے ۔ چاہے وہ مذہب خداکی پرستش کرنے سکھا ئے چاہے بتوں کی ،خواہ اس کو مہربان ہونا خواہ بے رحم ہونا خواہ اپنے بچوں کو مارنے والا یا بچانے والا ہونا سکھائے یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ٹھگؔ قوم کالیؔ کے نام پر لوٹ مار کرتی تھی اور سنتال لو گ سوائے شیاطین کے اور کوئی معبود نہیں جانتے اور ہر قسم کی بدی خون اور زنا اور مستی کو مذہب سے منسوب کرتے ہیں۔ نیز مذہب کے پاک نام سے ہندوستان کے میدان بار بار ویران کیے گئے ہیں اور ہزار ہا آدمی قتل ہوئے ہیں اور بے شمار مستورات (پردہ نشین عورتیں ) کا ننگ وناموس اتارا گیا ہے ۔ اے میرے دوستو! اگر ہم چاہیں کہ خدا کی بندگی کریں تو سب سے ضروری بات اس امر کا دریافت کرنا ہے کہ خدا نے اس بارے میں کیا قاعدہ مقرر کیا ہے اور اس بات کے دریافت کرنے کے لیے ہم متوجہ ہوتے ہیں اور خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ ا ن کو جو یہ کتاب پڑھیں راستی کی شناخت عطا کرے کہ وہ اس کی تابعداری کریں۔

حصہ اوّل

مسیحی دین کا ثبوت

پہلی فصل

اس بات کے بیان میں کہ اصل انجیل عیسائیوں کے پاس موجود ہے ۔

اکثر محمدیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اصل انجیل عیسائیوں کے پاس موجو د نہیں۔ پس اس امید میں کہ بہت سے اہل اسلام اس رسالہ کو مطالعہ کریں گے میں چند ایک قرآن کے آیتیں جن میں انجیل کا ذکر ہے یہاں لکھتا ہوں تاکہ وہ اس بات کو یقیناً سمجھیں کہ محمد صاحب کے وقت تک یعنی ساتویں صدی عیسوی تک اصل انجیل موجود تھی چنانچہ (سورہ یونس آیت ۶۴ رکوع۷)

َہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ

یعنی ان کو ہے خوشخبری دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بدلتے نہیں اللہ کی باتیں یہی ہے بڑی مراد ملنی ۔ اور (سورہ کہف آیت ۲۷ رکوع ۴)

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا

یعنی اور پڑھ جو وحی ہوئی تجھ کو رب سے اس کی کتاب کو ئی بدلنے والا نہیں اس کی باتیں اور کہیں نہ پائے گا تو اس کے سوا چھپنے کی جگہ ۔ اور (سورہ مائدہ آیت۶۸ رکوع ۱۰)

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ

یعنی تو کہہ اے کتاب والو تم کچھ راہ پر نہیں جب تک نہ قائم کرو توریت اورا نجیل اور تم کو اترا تمہارے رب سے

ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب کے وقت محمدی جانتے بلکہ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ اصل انجیل موجو د ہے پس ہم پر صرف یہ ثابت کرناباقی رہ جاتا ہے کہ وہ انجیل حضرت صاحب کے زمانے کے بعد بدل نہیں گئی جو کہ بہت سی دلیلوں سے ثابت ہوسکتا ہے اور یہ بات کہ انجیل بدل نہیں گئی بہت سی دلیلوں سے بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ مثلاًعالم جانتے ہیں کہ محمد صاحب کے زمانے میں بہت سی اناجیل کتب خانوں اور عیسائی عابدوں اور پادریوں کے گھروں میں موجو د تھیں اور ان میں سے اب بھی پائی جاتی ہیں چنانچہ ایک نسخہ انجیل کا جو محمد صاحب کے وقت میں موجود تھا اب لندن میں رکھی ہوئی ہے ۔ روم شہر کے ایک کتب خانہ میں ایک جلد جو اس سے پیشتر کی رکھی ہوئی ہے ۔ چند سال کا عرصہ گزرا ہے کہ ڈاکٹر ٹشن ڈرف صاحب نے کوہ طور پر ایک کتب خانہ سے ایک جلد انجیل کی جو قریب چودہ سو برس کے لکھی ہوئی ہوگی پائی۔ یہ نسخہ اس وقت زارروس کے قبضہ میں ہے اور جب ان قدیم زمانہ کی قلمی انجیلوں کا مقابلہ حال کی چھاپی ہوئی انجیلوں سے کیا جاتا ہے توان کی تعلیم میں ذرا بھی فرق نہیں پایا جاتا۔ قدیمی انجیل کے نسخے ایشیا، افریقہ ،فرنگستان اور بہت سے ملکوں کے کتب خانوں سے بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا بھی حال کی انجیلوں سے مقابلہ کیا گیا تو بھی معلوم ہوا کہ وہ سب متفق المعنی ہیں۔

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف انجیلوں کے نسخے آپس میں بہت سااختلاف رکھتی ہیں ۔یہ ان کی سراسر غلط فہمی ہے ۔ اس بات میں کچھ شک نہیں اور سب عیسائی عالم بھی اس کے قائل ہیں کہ بعض بعض نسخوں کی کوئی کوئی آیت البتہ مختلف اللفظ ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ہزار مختلف نسخوں کا آپس میں مقابلہ کرکے دریافت کرئے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کسی صورت میں مختلف المعنی نہیں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص پانچ سو آدمیوں کو ایک کتاب پڑھ کرسنائے اور وہ سب علیحدہ علیحدہ اس کتاب کو لکھیں تو بے شک ان کے نوشتوں میں بعض جگہ تفاوت(فرق) پڑ جائے گا۔ چنانچہ اگر ہر ایک نوشتہ میں صرف دس دس باتوں میں فرق ہوجائے تو سب نوشتوں میں پانچ ہزار فرق ہوجائے گا۔ مگر جب صاحب ہوش اور عالم لوگ سب کتابوں کو آپس میں مقابلہ کرکے غور سے دیکھیں گے تو وہ ان سب غلطیوں کو باآسانی نکال سکیں گے اور اکثر ایسے فرق ایک کتاب کو دوسری کتاب سے نقل کرنے میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ لیکن اس سے اس کتاب کی اصلیت میں کچھ چنداں فرق نہیں آتا۔ واضح ہو کہ دیکھو ٹشن ڈرف صاحب نے ایک انجیل انگریزی میں چھپوائی ہے ۔ جس میں مصنف نے وہ فرق جو تین بڑی قدیمی انجیلوں میں پائے جاتے ہیں لکھے ہیں مگر اس کتاب کے ملاحظہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان پرانی اناجیل میں اور اُن اناجیل میں جو آج کل موجود ہیں ایسا فرق کوئی نہیں کہ جس سے اس کی تعلیم میں فرق آیا ہو بلکہ سب متفق التعلیم ہیں ،کیونکہ اگر ان میں کوئی فرق ہے تو اس قسم کا فرق ہے کہ ایک نسخہ میں لکھا ہے کہ مسیح نے کہا اور دوسری میں عیسٰی نے اپنے شاگردوں کو کہا اور تیسری میں اس نے ان کو کہا وغیرہ علی ہذالقیاس (اسی طرح) اگر کوئی اس بات کو تحقیق کرنا چاہے تو کسی پادری کے پاس جائے وہ اس کی تسلی کردے گا اور اس پر پورے طور سے واضح کردے گا کہ حقیقت میں یہ سب اناجیل ایک ہی تعلیم دیتی ہیں۔

ایک اور بات جس سے اصل انجیل کا اب تک موجود ہونا ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ بہت سے عیسائی بزرگوں کے نام تمام عیسائی ملکوں میں مشہور ہیں۔ چنانچہ پالکاسپ اور کلمنٹ پہلی صدی میں، جسٹن شہید اور ٹرٹیلن جو دوسری صدی میں تھے ۔ آریجن تیسری صدی میں ، یسبوٹیس اور اگسٹین جو چوتھی صدی میں موجود تھے ان کی تصنیفات (تصنیف کی جمع،تحریر) آج تک موجود ہیں اور اکثر عیسائی عالم ان کو پڑھتے ہیں۔ ان کتابوں میں انجیل کی بہت سی آیتیں مندرج ہیں اور ان کو ہماری انجیل کے ساتھ مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انجیل آج کل موجود ہے وہی ان کے پاس تھی ۔ پس اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس انجیل کو ہم مانتے ہیں اسی کو اس زمانہ کے عیسائی لوگ بھی مانتے تھے ۔

ایک اور دلیل جس سے انجیل کی اصلیت پائی جاتی ہے یہ کہ عیسٰی کے تھوڑے دن بعد عیسوی دین کے بہت سے دشمن ہوگئے ان میں سے ایک سلسسؔ نام دوسری صدی میں پاؔرفری تیسری صدی میں جوؔلین چوتھی صدی میں تھے ۔ یہ سب بائبل کی تردید کرتے چلے آئے ہیں۔ مسمی سلسس نے ایک کتاب کلمہ حق نام لکھی ہے ۔ اس میں اس نے مسیح کی پیدائش، بپتسمہ،معجزے ،موت، جی اُٹھنے اور اس کی منادی کرنے کا ذکر کیا ہے ۔ آریجن نے جو تیسری صدی میں تھا ایک کتاب اس کے جواب میں لکھی ہے ۔ اس نے کئی ایک باتیں اس سے نکال کر اپنی کتاب میں درج کی ہیں ۔وہ کتاب پادریوں کے پاس موجود ہے اور اس کے اعتراضوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آجکل عیسائی جن باتوں کو مانتے ہیں اور سکھاتے ہیں اس زمانے کی انجیلوں میں موجود تھیں۔

پھر مسیح کی موت کے بعد بہت ملکوں کے لوگ عیسائی ہوگئے اور چونکہ وہ یونانی زبان نہ جانتے تھے عالموں نے ان کی خاص زبان میں انجیل کا ترجمہ کردیا۔ مثلاً سریانی، قبطی، لاطینی، انگلوسکسنی، ارمنی، اینی، ادپک اور گاتھک وغیرہ زبان میں ترجمہ ہوئے ایک سو برس مسیح کے وفات کے بعد سریانی اور لاطینی زبان میں ترجمے ہوئے اور اس طرح بعض دوسو برس بعداور بعض تین سو برس بعد یہ ترجمے ہوئے ۔ اس کے پیچھے یورپ کے ہر ایک ملک کی زبان میں ترجمہ ہوتا چلا گیا۔ ان سب ترجموں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل انجیل یہی ہے جواب موجود ہے ۔ کیونکہ وہ سب آپس میں بخوبی ملتی ہیں۔ پھر یہ بھی واضح ہو کہ اس وقت تخمیناً تین سو زبان میں انجیل چھپتی ہے اور دنیا کے تمام حصوں میں یعنی یورپ، ایشیا، افریقہ اورامریکہ کے ملکوں میں اور جزیروں میں ایک ہی مضمون کی انجیل پائی جاتی ہے ۔ دیکھو کیسی مشکل بات ہے کہ سارے ہند کے مسلمان متفق ہوکر اپنے قرآن کو بدل لیں اور تو سب کا اتفاق اس امر پر محال ہے ۔ اگر ایسا اتفاق ہو بھی جائے کہ وہ سب مل کر ایسی بے ایمانی کریں تو اور سب ملکوں کے محمدی لوگ مثلاً روم،شام، ایران، ٖمصر،زنجبار،الجزایر،طرابلس،طونس اور مراقش وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے قرآن کو ان کے موافق ہرگز نہیں بگاڑئیں گے ۔ یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ ایسا کریں۔ بلکہ جب وہ اپنے قرآن کو ہند کے قرآن سے مقابلہ کریں گے تو فوراً کہیں گے کہ ہند کے مسلمانوں نے یہ بدکام کیا کہ اپنے قرآن کو بدل ڈالا۔ اس طرح اگر انگریز اپنی انجیل کو بگا ڑیں تو جرمنی، فرانس اور ہسپانیہ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنی انجیل ہرگزنہ بگا ڑئیں گے ۔ بلکہ ان کی اس بے ایمانی پر سخت ناراض ہوجائیں گے ۔

پھر مسلمانوں کے کئی ایک فرقے ہیں جیسے شیعہ، سُنی، وہابی اور صوفی وغیرہ ان میں سے اگر ایک فرقہ اپنے مرضی کے موافق قرآن کو بدل ڈالے تو دوسرا فرقہ کب اس بات کو پسند کرے گا اور کب اپنے قرآن کو بدلے گا۔ اسی طرح عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو یونی ٹیرین، بونادرسلس، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک وغیرہ ناموں سے کہلاتے ہیں۔ ا ن سب کے پاس ایک ہی انجیل موجود ہے اگرچہ ان کی تعلیمو ں میں فرق ہے ۔ لیکن یہ جرات کوئی نہیں کرسکتا کہ اپنی انجیل کو اپنی تعلیم پر زیادہ تر ترغیب دلانے کے لیے بدل ڈالے اور دوسرے فرقے بھی اس کومنظورکر لیں۔ پس جب سب فرقوں کے پاس ایک ہی انجیل ہے تو اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے انجیل نہیں بگاڑی اور سب کے پاس وہی انجیل ہے جو پہلے زمانہ میں موجو د تھیں ۔پھر عیسائی لوگ اول سے لے کر آج تک ہر ملک میں اپنے مذہب کے دشمنوں کے درمیان رہتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ اب بھی انگلستان، جرمنی، فرانس اور امریکہ میں بہت لوگ عیسائی مذہب کے سخت دشمن ہیں۔ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے روبرو اپنی کتاب کو بدلیں اور وہ ہم کو نہ کہیں کہ تم نے اپنی کتاب بدل دی ہے ۔ حالانکہ انہوں نے ہم کو یہ بات کبھی نہیں کہی۔ پھر جب کہ محمدی، ہندو، سکھ اور آتش پرست وغیرہ کو ئی اپنی کتاب کو نہیں بدلتا تو عیسائی جو انجیل کی نہایت تعظیم کرتے اور اس کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں اور اس کی تعلیم پر اپنی نجات کے لیے بھروسہ کرتے ہیں۔ اور اور بڑی خوشی سے اس کو پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اپنے لڑکوں کو سکھاتے ہیں کس طرح جان بوجھ کر اس کو بدل سکتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ ہم اور ہمارے لڑکے نجات کی راہ پر نہ چلیں بلکہ دوزخ میں جائیں توجوکہ ہرگز ممکن نہیں ہے ۔ پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ جب تک کسی شخص کو کوئی دنیاوی فائدہ یا کسی طرح کی خوشی کی امید نہ ہو وہ کسی بُرے کام کے درپے نہیں ہوتا اور عیسائیوں کو انجیل کے بدلنے میں کوئی خوشی یا فائدہ بالکل نہیں۔ بلکہ سراسر نقصان ہے اور اپنا نقصان کوئی نہیں چاہتا۔ پس وہ کس طرح انجیل کو بدل سکتے اور اپنا نقصان منظور کرسکتے ہیں۔

اور یہ بھی ظاہر ہو کہ یہودیوں کے پاس توریت، زبور اور نبیوں کے صحیفے اب تک موجود ہیں اور سب عالم جانتے ہیں کہ جو تعلیم انجیل میں پائی جاتی ہے وہ ان تمام کتابوں میں بھی ملتی ہے ۔ مثلاً خداکی ہستی اور اس کی صنفین(صنف کی جمع،نوع، جنس، قسم) انسان کا گناہ گا ر ہوجانا۔ عیسٰی کی الوہیت اور اس کا کفارہ ہونا وغیرہ۔ ان سب باتوں کا ذکر ان سب کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔ اگر عیسائی اپنی کتاب کو بدلتے تو یہودیوں کی کتابوں کو بھی بدلتے تا کہ ان کتابوں کی تعلیم انجیل کے مطابق ہوجائے اور جب یہودی عیسائیوں کے دشمن ہیں اور اپنی کتاب کی حفاظت بھی بخوبی کرتے ہیں تو وہ اپنی کتاب اپنے دشمنوں کو کس طرح بدلنے کا موقع دے سکتے تھے ۔ یہ بات بالکل عقل سے بعید ہے ۔

پس اب ہم امید قوی رکھتے ہیں کہ اگر لوگ تعصب کو چھوڑ کر ا ن دلیلوں پر غور کریں تو وہ بھی اس بات کا اقرار کریں گے کہ یہ انجیل جواب موجود ہے وہی ہے ۔ جو عیسیٰ کے بعد پہلی اور دوسری صدی میں موجود تھی اگر کوئی محمدی ان دلیلوں سے بھی قائل نہیں ہے تو ان چند سوالوں کا جواب دے ۔

پہلا(۱) ۔ کس زمانہ میں انجیل بدلی گئی؟

دوسرا(۲) ۔ کس نے یہ کام کیا آیا عیسائیوں نے یا کسی غیر مذہب والے نے ؟

تیسرا(۳) ۔ کس ملک اور کس مقام میں یہ بد کام کرنے والے جمع ہوئے اور ایسا کیا؟

چوتھا(۴) ۔ وہ اناجیل اصل جو اس زمانے میں تھیں کہاں گئیں؟

پانچواں(۵) ۔ اس بدکام سے عیسائیوں کو کیا فائدہ اور کیا غرض تھی؟

چھٹا(۶) ۔ اگر محمد صاحب کے پیشتر انجیل بدل گئی تھی توقرآن میں اس کی تبدیلی کا ذکر کیوں نہیں آیا؟

ساتواں (۷) ۔ اگر محمد صاحب کے پیچھے یہ کام ہوا ہے تو محمدی لوگوں نے دوچار اناجیل کیوں نہیں رکھ لیں کہ عیسائیوں کو قائل کرتے ؟

جب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہند و ں کے شاستر ،آتش پرستوں کی زنداوستا اور سکھوں کا گرنتھ اصل ہیں اور ہم ان میں سے کسی کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے تو اسی طرح اصل انجیل کا موجود ہونا اس بات پر دلیل نہیں کہ وہ خدا کا کلام ہے ۔ اس لیے اب لازم ہوا کہ ہم دریافت کریں کہ آیا انجیل خداکا کلام ہے یا نہیں۔ پس اس امر کے ثابت کرنے کے لیے ہم چند دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

پہلی دلیل پیش گوئی

اسرائیلی، محمدی اور عیسائی سب اس بات پر متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مرضی نبیوں کی معرفت بنی اسرائیل پر ظاہر کی اور یہ تینوں فرقے یہ بھی مانتے ہیں کہ موسیٰ اور داؤد اور دانی ایل وغیرہ سب انہیں نبیوں میں سے تھے ۔ تواریخ اور بنی اسرائیل کے اقرار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی کتابوں کی بہت حفاظت اور عزت کرتے تھے ۔ جب خداوند یسوع اس دنیا میں تھا تو وہ اکثر ان کو ملامت کیا کرتا تھا کیونکہ وہ اپنی کتابوں پر عمل نہیں کرتے تھے ۔ مگر اس نے کبھی ا ن کو یہ نہیں کہا تھا کہ تم نے اپنی کتابوں کو خراب کردیا ہے بلکہ وہی کتابیں لے کر ان کو سناتا تھا اور فرماتا تھا کہ کس واسطے تم نے ان الہٰی کتابوں کو جو خدانے موسیٰ اور داؤد وغیرہ نبیوں کی معرفت تم کو دیں ہیں چھوڑ دیا ہے ۔ یہ کتابیں عبرانی زبان میں لکھی گئی تھیں اور آج تک یہودی اور عیسائی ان کو اسی زبان میں پڑھتے ہیں۔ مسیح سے تین سو برس پیشتر کے قریب سکندریہ میں ستر(۷۰) عالموں نے ان کی کتابوں کو عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کیا تاکہ جو عبرانی زبان سے ناواقف ہیں ان کو پڑھیں یہی ترجمہ جو روئے زمین پر مشہور اور اصل کے مطابق ہے نہ صرف یہودی عالموں کے پاس بلکہ یونانیوں کے پاس بھی تین سو برس مسیح کے پیشتر سے چلا آتا ہے ۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہودیوں نے عیسائیوں کو اتنی مہلت دی کہ وہ ان کی کتاب کو اپنی مرضی کے موافق بدل ڈالتے تاکہ وہ عیسیٰ پر گواہی دے ۔ کیونکہ وہ ہرگز مسیح کو نہیں مانتے بلکہ انہوں نے دشمنی سے اس کو مروا ڈالا اور آج تک ویسی دشمنی رکھتے ہیں۔

لیکن پھر خدا کی مرضی سے ایسا ہوا کہ یہودی تمام دنیا میں پراگندہ ہوگئے چنانچہ اس ملک میں بھی بڑے بڑے شہروں میں اکثر ملتے ہیں اور اپنی کتابیں بھی بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ عیسائیوں کو یا کسی اور مذہب والے کو اتنا موقع نہیں دیتے تھے کہ وہ ان کی کتابوں کو بدل ڈالیں ۔پس جب وہ کتابیں سینکڑوں برس مسیح کے پیشتر کی لکھی ہوئی ہیں اور عیسائیوں کو کبھی بھی ان کے تحریف کرنے کا موقع نہیں ملا تو اگر ان کتابوں میں عیسیٰ مسیح کا ذکر پایا جائے تو اس سے زیادہ ثبوت اور کیا ہوگا کہ مسیح سچا اور اس کا کلام حق لائق ماننے کے ہے ۔ پس میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جو پیش گوئیاں مسیح کی بابت ان کتابوں میں درج ہیں عیسائی دین کی سچائی پر مضبوط دلیل ہے ۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص پیش گوئی کے طور پر صرف اتنا کہے کہ عیسیٰ یا احمد یارام داس یا اور کوئی آئے گا اور یہ بات پوری بھی ہوجائے تو اس سے کہنے والے کا سچ یا جھوٹ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہزار ہا آدمی اس نام کے ہوتے ہیں اور والدین بھی فریب سے لڑکے کا نام ایسا رکھ سکتے ہیں یا اگر کوئی کہے اٹلی یا عرب کے ملک میں زمین سے آگ نکلے گی اور ایسا ہی ہو جائے تو اس سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ آگ کئی ایک ملکوں کی زمین سے نکلتی ہے یا اگر کوئی کہے کہ انگریز اس سال میں قندھار فتح کرلیں گے یا روسی کابل تک آجائیں گے اور ایسا ہی ہوجائے تو اس سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ مگر اکثر لوگ ایسی باتوں سے فریب کھا جاتے ہیں۔ میرے نزدیک چند نشان ہیں کہ جن سے سچی پیش گوئی ثابت ہوسکتی ہے ۔

اول :۔ پیش خبری کا اس کے پورا ہونے سے پیشتر لکھا جانا۔

دوسرا :۔ کہ وہ بالکل آدمی کی پیش بینی سے باہر ہو۔

تیسرا :۔ وہ پورے بھی ہوجائیں۔

چوتھا :۔ پیش گوئی اپنے پورا ہونے کے سبب نہ ہو۔

اگر یہ چار نشان پائے جائیں تو بے شک پیش گوئی خدا کی طرف سے ہوگی۔

اب ہم ان پیش گوئیوں کو جو مسیح کے باب میں اگلی کتابوں میں پائی جاتی ہیں غور کرکے دیکھیں گے کہ آیا یہ مذکورہ بالا چاروں نشان ان میں پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ دیکھو نبیوں کی کتابوں میں بے شمار پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ خدا نے نبیوں کی معرفت مصر، کوہ طور، بابل، سور اور یہودیہ وغیرہ کی بابت ذکر کیا ہے کہ آئندہ ان کا حال ہوگا اور ان کے پورا ہونے سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ نبی جن کی معرفت یہ سب باتیں لکھی گئی ہیں۔ خدا کی طرف سے بولتے تھے لیکن فرصت نہیں کہ میں ان سب کا بیان کروں۔ اس واسطے صرف ان پیش گوئیوں کا بیان کیا جاتا ہے جو مسیح اور اس کی بادشاہت کے باب میں ذکر کی گئی ہیں۔ پیدائش کی کتاب کے تیسرے باب کی پندرھویں آیت میں ایک بچانے والے کا ذکر ہے جس کا خطاب عورت کی نسل سے ہے ۔ انجیل سے بھی ثابت ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا۔ پھر خدانے اشارہ دیا کہ یہ بچانے والا ابرہام کی نسل سے ہوگا دیکھو(پیدائش کا ۲۲ باب آیت ۱۸) پھر لکھا اضحاق سے ہوگا دیکھو(پیدائش ۲۶ باب ۴ آیت) اور اسی کتاب کے (۴۹ باب کی۱۰ آیت) سے صاف ظاہر ہے کہ یہی بچانے والا بادشاہ یہودا کے فرقہ سے آنے والا تھا۔ جس کے بارے میں یسعیا ہ نبی لکھتا ہے (یسعیاہ۱۱ باب آیت ۱۰) میں یوں لکھا ہے کہ وہ یسی کی نسل سے ہوگا ۔پھر یسعیاہ نبی کی معرفت خدانے فرمایا کہ ’’کنواری پیٹ سے ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوئیل یعنی خداہمارے ساتھ رکھیں گے‘‘ہر ایک شخص جانتا ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا انجیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا مسیح میں مجسم ہوا تو وہ عمانوئیل یعنی خدا ہمارے ساتھ ہوا اور مسیح کے نسب نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابرہام سے اضحاق پیدا ہوا اضحاق سے یعقوب یعقو ب سے یہوداہ اور یہوداہ کے خاندان میں سے یسی اور یسی سے داؤد بادشاہ اور داؤد کے خاندان سے مسیح پیدا ہوا۔ پس مسیح میں یہ سب پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔ پھر یسعیاہ نبی نے کہا کہ ’’ہمارے واسطے ایک لڑکا تولد ہوگا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا جائے گا اس کے کاندھے پر سلطنت ہوگی اور اس کا نام عجیب مشیر ہوگا۔ خدائے قادر ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ ہوگا‘‘ (یسعیاہ۶:۹) ۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیش گوئیاں مسیح میں پوری ہوئیں کیونکہ مسیح خداکا بخشا ہوا لڑکا تھا اور بادشاہ بھی تھا اور عجیب بھی تھا کیونکہ اس میں الوہیت اور انسانیت تھی اور وہ اپنے حق میں کہتا تھا کہ میں اور باپ ایک ہیں۔ یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ ہمیشہ سے تھا اور سب چیزیں اس سے پیدا ہوئیں اور وہ امن اور چین کا بادشاہ تھا۔ پھر (میکاہ ۲:۵) میں لکھا ہے کہ وہ اسرائیل میں بادشاہت کر ے گا اور اس کا ظاہر ہونا قدیم سے ہے اور بیت لحم میں پیدا ہوگا یہ باتیں انجیل کے ساتھ مقابلہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ قدیم سے تھا اور اسرائیل یعنی خداکے لوگوں پر حاکم تھا اور (متی ۲ باب) سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر چہ مریم بیت لحم کی رہنے والی نہ تھی خدا کی قدرت اور حکمت سے وہا ں چلی گئی اور مسیح وہاں پیدا ہوا تاکہ یہ پیش گوئی پوری ہو۔ پھر (دانی ایل ۲۵:۹۔ ۲۷) میں یو ں لکھا ہے ’’سو تو بوجھ اور سمجھ کہ جس وقت کہ یروشلیم کے دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم نکلے مسیح بادشاہ زادہ تک سات ہفتے میں اور باسٹھ ہفتے اس وقت بازار پھر تعمیر کیے جائیں گے اور دیوار بنائی جائے گی مگر تنگی کے دنوں میں اور باسٹھ ہفتے کے بعد مسیح قتل کیا جائے گا پھر نہ اپنے لیے ‘‘۔

واضح ہو کہ ہفتے کی مراد سات برس کی ہے جب یہ خبر دانی ایل کو دی گئی تو بنی اسرائیل بابل میں قید تھے ۔ مگر تھوڑے دن بعد بادشاہ نے ان کو حکم دیا کہ پھر اپنے ملک میں جاؤ یروشلیم اور ہیکل کو بناؤ اگرچہ اس کے بنانے میں کچھ روک ٹوک بھی ہوئی تو بھی و ہ اپنے مقصود پر کامیاب ہوگئے اور اس حکم کے صادر ہونے سے مسیح کی موت تک (۴۹۰) برس سے تین چار برس کم تھے جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ وہ غیروں کے لیے پچھلے ہفتے کے درمیان مارا جائے گا۔ ویسا ہی واقع ہوا پھر جس طرح یسعیاہ نبی کے (یسعیاہ۱:۶۱۔ ۳) میں لکھا ہے ۔ اس طرح عیسیٰ نے لوگوں کو تسلی دی اور ان کو خوش خبری سنائی چنانچہ ان میں لکھا ہے کہ ’’خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ خداوند نے مجھ کو بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کروں اور قیدیوں کے لیے چھوٹنے اور بندھوں کے لیے قید سے نکلنے کی منادی کروں کہ خداوند کے مقبول سال کا صیحون کے غمزدوں کے لیے ٹھکانا کردوں اور خداوند کے انتقام کے روز کا اشتہاردوں اور سب کو جو غم زدہ ہیں تسلی بخشوں ‘‘۔

پھر (یسعیاہ ۱:۵۳) میں لکھا ہے کہ ’’لوگ اس پر ایمان نہ لائیں گے ‘‘ سو ایسا ہی ہوا پھر اس کی دوسری اور تیسری آیت میں ہے کہ و ہ اس کو حقیر جانے گے ۔چنانچہ یہ بھی پورا ہوا پھر چوتھی آیت سے ساتویں تک یوں لکھا ہے کہ ’’یقیناً اس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کا بوجھ اپنے اوپر اُٹھا یا پر اس کاہم نے یہ حال سمجھا کہ وہ خدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہوا ہے پر و ہ ہمارے گناہوں کے سبب گھائل کیا گیا اور ہماری بدکاریوں کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لیے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ہم میں سے ہر ایک نے اپنی راہ لی اور خداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اس پر لادی وہ نہایت ستایا گیا اور غمزدہ ہوا توبھی اس نے اپنا منہ نہ کھولا‘‘۔

یہ سب باتیں بھی حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ پھر (یسعیاہ ۶:۵۰) میں لکھا ہے کہ ’’میں(یعنی خداوند مسیح) اپنے پیٹھ مارنے والوں کو دیتا ہوں اور اپنا منہ تھوک سے نہیں چھپاتا‘‘۔

جس وقت اس کو مارنے کے لیے گرفتار کیا تھا اس وقت ضرور رومی سپاہیوں اور یہودیوں نے عیسیٰ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا یہ حال (یوحنا کی انجیل ۱۹ باب ) میں مذکور ہے اور مسیح کی موت کا بیان (زبور۱۳:۲۲۔ ۱۸) میں یوں لکھا ہے کہ ’’وہ مجھ پر پھاڑنے اور گونجنے والے شیر کی طرح منہ پسارے ہوئے ہیں۔ میں پانی کی طرح بہا جاتا ہوں اور میرے بندبند الگ ہوچلے ہیں۔ زبان تالو سے لگی جاتی ہے اور تو مجھے موت کی خاک پر بٹھا تا ہے ۔ کیونکہ کتے مجھے گھیرتے ہیں۔ شیروں کے گروہ میرا احاطہ کرتے ہیں وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں میں اپنی سب ہڈیوں کو گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے ہیں اور گھورتے ہیں ‘‘۔ (مرقس کی انجیل ۱۵باب ؛ لوقا ۲۳باب ؛ متی ۲۷ باب اور یوحنا ۱۹ باب )اس بیان پر گواہ ہے کہ یہ سب باتیں حرف بہ حرف مسیح میں پوری ہوئیں ۔پھر (زبور۹:۱۶۔ ۱۰) میں لکھا ہے کہ ’’اسی سبب سے میرا دل خوش ہے اور میری زبان شاد میرا جسم بھی امید میں چین کرے گا کہ تو میری جان کو قبر میں رہنے نہ دے گا اور تو اپنے قدّوس کو سڑنے نہ دے گا ‘‘۔ یہ سب باتیں بھی مسیح ہی میں پوری ہوئیں کیونکہ مسیح جمعہ کے روز مارا گیا اور اتوار کے روز بڑے فجر قبر سے اُٹھا ۔چالیس دن زمین پر رہا اور اپنے تیئں کئی بار اپنے شاگردوں کو دکھا یا اور پھر بہتوں کے روبرو آسمان پر چڑھ گیا۔ تمام پیش گوئیاں جو مسیح کے حق میں لکھی گئی ہیں ایک دوسرے سے ایسی ضد اور تفاوت رکھتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا یہ سب ایک آدمی میں پوری ہوں گی چنانچہ( زبور ۷:۲۔۱۲ ) میں لکھا ہے کہ وہ بڑا فتح مند ہوگا۔ پھر (یسعیاہ ۹ : ۶) میں لکھا ہے کہ وہ قادر مطلق ابدیت کا باپ اور اسی آیت میں ہے کہ وہ لڑکا ہوگا ۔پھر (دانی ایل ۲: ۴۴ )میں لکھا ہے کہ اس کی بادشاہت ابدالآباد ہوگی اور کئی ایک جگہ میں جیسے (یسعیاہ ۵۳ باب) میں لکھا ہے کہ وہ مارا جائے گا اور حقیر کیا جائے گا تو بھی یہ سب باتیں مسیح میں پائی جاتی ہیں۔ پس بے شک خدا نے ان پیش گوئیوں کو ہماری ہدائت اور تسلی کے واسطے لکھوایا۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہودی کس لیے عیسیٰ کو نہیں مانتے تھے تو جواب یہ ہے کہ بہت یہودی جن پر خدا کا فضل ہوا مسیح پر ایمان لائے مگر اکثر یہودی کہ ہمیشہ سے نہایت سنگدل اور سرکش تھے ایمان نہ لائے ۔ دیکھو جب موسیٰ خدا سے شریعت لینے کو پہاڑ پر گیا تھا تو پیچھے انہوں نے سنگدلی سے بچھڑے کی مورت بنائی اور اس کو پوجنے لگے یسعیاہ اور اور نبی ہمیشہ ان کو اس سبب سے جھڑکتے تھے کہ خدا کی تابعداری کیوں نہیں کرتے اور عیسیٰ بھی ان کو کہتا تھا کہ تم خدا کے حکم نہیں بلکہ اپنے بزرگوں کے حکموں کو (جو شریعت کے برخلاف ہیں) مانتے ہو اور خدانے بھی اس سرکشی کے سبب ہزار ہا آفتیں ان پر بھیجیں۔

اور یہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ نبیوں نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو اکثر یہودی نہ مانے گے ۔ (یسعیاہ۲:۵۳۔ ۳) میں لکھا ہے کہ ہماری خبر پر کون اعتقاد لایا اور خداوند کا ہاتھ کس پر ظاہر ہوا ۔وہ اس کونپل کی طرح اُگاہے اور اس جڑ کی مانند جو خشک زمین میں ہوا س میں کچھ خوبی نہیں اور کچھ بہار نہیں کہ ہم اس پر نگاہ کریں اور کوئی خوبصورتی نہیں اور کہ ہم اس کے مشتاق ہوں وہ آدمیوں میں نہایت ذلیل اور حقیرہے۔ وہ مرد غمناک اور آشنائے رنج ہے ہم اس سے گویا روپوش تھے ۔ اس کی تحقیر کی گئی اور ہم اسے حساب میں نہ لائے ۔ فقط یہودی منتظرتھے کہ مسیح ایک بڑا دنیاوی ظاہری بادشاہ ہوکر آئے گا اور ہم کو رومیوں کے ہاتھ سے چھڑائے گا اور ہماری قوم کو سب قوموں سے بڑا بنائے گا اور سب لوگ ہمارے تابع ہوجائیں گے ۔ پر جب مسیح ایک غریب حلیم غمزدہ صورت کا آدمی ہوکر آیا اور کہا کہ میں وہی مسیح ہوں جس کا ذکر تمہاری کتا بوں میں لکھا ہے اور جس کی راہ تم دیکھتے ہو۔ تب وہ تعصب اور ضد سے بھر گئے اور اس کی کرامتوں کو دیکھ کے کہنے لگے کہ شیطان کی مدد سے کرتا ہے ۔ یہاں تک اس کے ساتھ دشمنی کی کہ اس کو آخر کار مرواڈالا۔ اگر اس مقام پر کوئی کہے کہ عیسیٰ نے کتابوں میں پڑھ کے کہ مسیح آنے والا ہے اور یہ جان کے کہ یہودی اس کی راہ دیکھتے ہیں اپنے تیئں مسیح ظاہر کیا ہوگا تو اس کے جواب میں میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ آیا عیسیٰ نے اپنے تیئں آپ مروا یا کہ آپ کو مسیح ظاہر کیا تاکہ یسعیاہ نبی کی پیش گوئی جو (یسعیاہ ۵۳ باب )میں ہے پوری ہو اور پلاطوس کو خود کہلابھیجا کہ مجھے صلیب دے کہ داؤد کی پیش خبری جو (زبور۲۲) میں ہے خلاف نہ ہو اور پھر اپنے تیئں زندہ کیا کہ (زبور ۱۶) کی بات سچی ہو ۔معترض (اعتراض کرنے والا ) خود انصاف کرے کہ آیا یہ بات ممکن ہے ؟ ہر گز نہیں نبیوں کی تصنیفوں میں جابجا بیان ہوا ہے کہ جب مسیح آئے گا بہت قومی اور فرقے اس کی خوبی اور محبت دیکھ کر اس کے تابع ہوجائیں گے ۔ (یسعیاہ ۴۲ باب کی پہلی آیت ) میں لکھا ہے ۔ ’’دیکھو میرا بندہ جسے میں سمبھالتا ہوں۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے میں نے اپنی روح اس پر رکھی ہے وہ قوموں پر عدالت ظاہر کرے گا ‘‘۔ اسی باب کی چھٹی آیت میں ہے’’ خداوند نے تجھے صداقت کے لیے بلایا۔ میں ہی تیر ا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لیے تجھے دوں گا ‘‘۔

اور( یسعیاہ ۶۰ باب کی تیسری اور پانچویں اور گیارہویں آیت) میں لکھا ہے ’’اور قومیں تیری (یعنی مسیح کی ) بادشاہت کی روشنی میں اور بادشاہ تیرے طلوع کے تجلی میں چلیں گے ۔تب تودیکھے کی اور روشن ہوگی ہاں تیرا دل اوچھلے گا اور کشادہ ہوگا کیونکہ سمندر کی فراوانی تیری طرف پھر ے گی اور قوموں کی دولت تیرے پاس فراہم ہوگی اور تیرے پھاٹک نت کھُلے رہیں گے وہ رات دن کبھی بند نہ ہوں گے تا کہ قوموں کی دولت تیرے پاس لائیں اور ان کے بادشاہوں کو دھوم دھام کے ساتھ ‘‘۔ اور (یسعیاہ ۲:۶۲) میں بیان ہے ’’تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا‘‘۔

یہ سب پیش گوئیاں جوبیان کی گئیں اور بہت پیش گوئیاں جو یسعیاہ اور اور نبیوں کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اکثر پوری ہوئیں اور باقی پوری ہوتی جاتی ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ یہودیوں نے مسیح کو دیکھا اور اسے مرواڈالا۔ اس کی موت کے بعد اس کے حواریوں نے سب جگہ جاکر انجیل کی منادی کی اور ان کے بعد دینداروں نے ہر ملک میں جاکر انجیل سنائی اور غیر قوموں نے اس کو قبول کیا یہاں تک کہ اکثر ملکوں کے لوگ جو پہلے بت پرست تھے اب عیسائی ہوگئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں۔ چنانچہ ابھی قریب (۴۰) کروڑ نامی عیسائی دنیا میں موجود ہیں جو تعداد کہ دنیا کے تمام مذاہب کے لوگوں کی تعداد سے بڑھ کرہیں۔ پھر جب عیسیٰ اس دنیا میں تھا اس نے بہت سی پیش گوئیاں کیں جو پوری ہوئیں اس نے اپنی موت کی بابت پیش گوئی کی۔ دیکھو(متی ۱۷:۲۰۔ ۱۸) اس میں لکھا ہے کہ ’’جب یسوع یروشلیم کو جاتا تھا راہ میں بارہ شاگرد وں کو الگ لے جاکر ان سے کہا۔ دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابن آدم سردار کاہنوں اور فقہیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اس پر قتل کا حکم دیں گے اور اسے غیر قوموں کے حوالہ کریں گے کہ ٹھٹھوں میں اُڑئیں اور کوڑے ماریں اور صلیب پر کھینچیں پروہ تیسرے دن جی اُٹھے گا ‘‘۔

اور (مرقس ۱۸:۱۴) میں بھی جب وہ بیٹھ کے کھانا کھانے گئے یسوع نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک تم میں سے جو میرے ساتھ کھاتا ہے مجھے پکڑوائے گا ۔مسیح نے اور بہت سی پیش گوئیاں اپنے مرنے اور جی اُٹھنے کی بابت کیں جو سب پوری ہوئیں۔ وہ اپنے شاگرد یہوداہ اسکریوتی کے ہاتھ سے پکڑوایا گیا اور یہودیوں کی بڑی مجلس کے سامنے کھینچ کر لایا گیا اور انہوں نے اس کو غیر قوموں یعنی رومیوں کے حوالے کیا۔ جنہوں نے اس کی ہر طرح کی بے عزتی کرکے صلیب پر چڑھایا پر وہ تیسرے دن مردوں سے جی اُٹھا۔

پھر اس نے یروشلیم کے برباد ہونے کی بابت بھی کہا (متی ۲۴ باب) میں لکھا ہے ۔ تب یسوع ہیکل سے ے نکل کے چلا گیا۔ اس کے شاگرد اس پاس آئے کہ اسے ہیکل کی عمارتیں دکھائیں یسوع نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں ایک پتھر پر پتھر نہ چھوٹیگا جوگرایا نہ جائے گا۔ وہ تمہیں اذیت میں ڈال دیں گے اور تمہیں مار ڈالیں گے اور میرے نام کے سبب سے سب قوم تم سے کینہ رکھیں گے ۔ تب جو یہودیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ اس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دنیا کے شروع سے نہ ہوئی۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ جائے اس زمانے کے لوگ گزر نہ جائیں گے ۔ یہ سب باتیں مسیح کی موت کے (۴۰) برس پیچھے ظہور میں آئیں۔

دوسری دلیل معجزہ

یہ بات مشہور ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ عیسیٰ نے بہت سے معجزے کیے مثلاً اس نے بیماروں کو صحت دی۔ جنم کے اندھوں کو بینا کیا بہروں کو کان دیے کوڑھیوں کو پاک صاف کیا۔ پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار آدمیوں کو سیر کیا۔ مردوں کو زندہ کیا وغیرہ یہ سب عجیب کام اس لیے ہوئے تاکہ ثابت ہو کہ مسیح خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور لوگ اس کی تعلیم کو سنیں اور دل سے مانیں اور وہ جو ایسے معجزے کرتے ہیں بے شک اپنی زبان پر خداکی مہر رکھتے ہیں۔ واضح ہوکہ دنیا میں بہت سے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے پیغمبر یا گرو یادیوتا ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ بلکہ اپنے زبان سے انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ ہم معجزہ بھی کرسکتے ہیں۔ مگر حقیقت میں ان کا دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔ چنانچہ بہت معجزوں کا ذکر ہے جن کے سننے سے ہنسی آتی ہے ۔ بے شک ایسی بیہودہ کراماتوں کو نہ ماننا چاہیے لیکن سب کراماتوں کو رد بھی کردینا واجب نہیں۔ کیونکہ خداکے نزدیک معجزہ کوئی ناممکن امر نہیں ہے۔ لیکن اگر بہت سے روپیوں میں کچھ کھوٹے ہوں تو کیا ہمیں سب کو کھوٹا کہنا چاہیے ۔ نہیں بلکہ ہمیں واجب ہے کہ ان کو اچھی طرح پرکھ کے کھرے کھوٹے کو الگ کریں۔ اس لیے اب خداکے فضل سے سچی کراماتوں کے نشان بیان کئے جاتے ہیں۔

پہلا نشان

یہ کہ معجزہ وہ خدا کے لائق ہو نہ کہ ایسا معجزہ ہوکہ جس کے سننے سے خواہ مخواہ آدمی ہنس پڑے مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ فلانے شخص نے اپنے بیٹے کا سر کاٹ کر اس پر ہاتھی کا سر لگا دیا ہے ۔ یا کسی آدمی نے پہاڑ کو نِگل لیا ہے یا کسی نے چاند کو اپنی انگلی سے دوٹکڑے کردیا ہے ۔ تو ایسی باتوں کا عقل میں آنا نہایت مشکل ہے لیکن بیماروں کو چنگا کرنا اور اندھوں کو بینا مردوں کو زندہ کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا خدا ہی پر موقوف ہے اور اسی کے لائق ہے ایسے ایسے معجزے خداوند عیسٰی مسیح کی انجیل میں پائے جاتے ہیں اور اس کے معجزے ایسے تھے کہ ہم ان سے کئی عمدہ نصیحتیں حاصل کرسکتے ہیں اور ان سے تمام روحانی تعلیم ظاہر ہوتی ہے ۔ مثلاً جب اس نے کوڑھیوں کو پاک صاف کیا تو اسے ظاہر ہوا کہ وہ ہمیں گنا ہ سے بھی پاک کرسکتا ہے جب اس نے انجیر کے بے پھل درخت کو دیکھ کر اسے ایسا کردیا کہ بعد اس کے وہ کبھی پھل نہ لایا۔ تو اس سے یہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ ہر ایک آدمی جو نیکی کا پھل نہ لائے گا نیست ونابود کیا جائے گا۔ بیماروں کو تندرست کرنے سے واضح ہوا کہ وہ روحانی حکیم ہے اور دل کی بیماری کو بھی دور کرتا ہے بے شک عیسیٰ کے یہ معجزے خداکی دانائی اور پاکیزگی کے لائق تھے ۔

دوسرا نشان

سچے معجزے کا یہ ہے کہ معجزہ کرنے والا طرح طرح کے معجزے دکھلائے اگر کوئی شخص ایک ہی قسم کے کئی معجزے دکھائے تو وہ چنداں معتبر نہیں ہیں کیونکہ وہ جادوگری اور فریب سے ہوسکتے ہیں۔ مسیح نے برخلاف اس بات کے گا ؤ ں گاؤں شہر شہر پھر کر لوگو ں کو قسم قسم کی بیماریوں سے چنگا کیا مردوں کو قبروں سے اُٹھا زندہ کیا۔ لنگڑے اس کے حکم سے ہرنوں کی مانند کو دنے لگے ناپاک روحوں کو دیوانوں سے نکالا اور بعض وقت ایسا واقع ہوا کہ آندھی اور سمندر نے اس کا حکم مانا۔ آخر کا ر وہ آپ ہی مردوں سے زندہ ہوکر آسمان پر چڑھ گیا۔ طرح طرح کے معجزوں میں فریب کبھی نہیں ہوسکتا ہے اور نہ جادو کا یہ کام ہے ۔

تیسرا نشان

یہ کہ معجزہ برملا کیا جائے ۔ بے شک عیسیٰ نے سب لوگوں کے سامنے معجزے کیے اور یہودیوں نے بھی اقرار کیا کہ اس نے کراماتیں کیں لیکن یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ مسیح ان معجزوں کو شیطان کی مدد سے کرتا تھا لیکن وہ خود ہر طرح سے پاک تھا اور اس کے معجزے بھی ایسی تہمتوں سے پاک تھے۔

چوتھا نشان

چاہے کہ معجزے دفعتًہ ہوجائے ۔ وہ معجزے جو عیسیٰ کرتا تھا فی الفور(جلدی سے) وقوع میں آجاتے تھے ۔ چنانچہ جس وقت اس نے آندھی کو کہا کہ تھم جاوہ فوراً تھم گئی اور اور بہت معجزے ایک پل میں کئے ۔

پانچواں نشان

یہ کہ دشمن بھی اس کے معجزے کے قائل ہوں۔ اگر چہ مسیح کے دشمن دشمنی کے سبب معجزے کے وقت کہتے تھے کہ یہ دیوکی مدد سے کرتا ہے مگر توبھی دل میں اس کے معجزوں کا اقرار کرتے تھے ۔ اور ان کو درست جانتے تھے یہودی لوگ کہتے بھی ہیں اور ان کی کتا ب میں بھی لکھا ہے کہ عیسیٰ نے بہت عجیب عجیب کا م دکھاے مگر تعصب سے کہتے ہیں کہ وہ جادوگر تھا۔ بھلا جادو گر آدمی کا ایسا بے عیب چال چلن یہاں تک کہ دشمنوں کو پیار کیا اور پیار کرنا سکھایا۔ کب ہوسکتا ہے ؟ اور ایسا جادوگر کبھی دنیا میں کوئی ہوا ہے ؟ پس ظاہر ہے کہ مسیح جادوگر نہیں تھا۔ اگر جادوگر نہیں تھا۔ تو اس کے دشمنوں یعنی یہودیوں کی گواہی بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس نے ضرور عجیب کام یعنی معجزے کیے تھے ۔

یہ پانچ نشان جو ذکر کیے گئے ہیں ان سے ناظرین پر معجزوں کی سچائی کی حقیقت تو ظاہر ہوگئی لیکن ہمارے لیے جنہوں نے ان معجزوں کو روبرو نہیں دیکھا ایک اور چھٹواں نشان چاہیے ۔ یعنی یہ کہ پختہ اور معتبر گواہوں سے ان کی گواہی صداقت کو پہنچے تاکہ ہم ان پر ایمان لائیں۔ دیکھو جب کوئی پوچھے کہ تم کس طرح جانتے ہوکہ اکبر دہلی کا بادشاہ تھا۔ توتم جواب دوگے کہ لوگوں کی زبان سے اور کتب تواریخ سے ثابت ہے کہ وہ دہلی کا بادشاہ تھا اور اسی طرح سب جانتے ہیں کہ ارسطو ایک یونانی حکیم تھا۔ اور فرعون مصر کا بادشاہ ایسے ہی اور بہت سی باتیں ہیں جو صرف گواہی سے ثابت ہوتی ہیں اور ہم ان میں ذرا بھی شک نہیں کرسکتے اور بعض گواہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بالکل اعتبار کے لائق نہیں ہوتیں اسی لیے اول ہم کو دریا فت کرنا چاہیے کہ کس طرح سے سچی اور جھوٹی گواہی میں فرق کرسکیں۔ ہماری دانست میں چار طرح سے تمیز ہوسکتی ہے ۔

اول

یہ کہ کافی تعداد گواہوں کی ہوں۔ مثلاً ایک شخص کی گواہی پر کوئی عدالت اعتبار نہیں کرسکتی۔

دوم

وہ گواہ معتبر ہوں۔ مثلاً شریر اور بدمعاش لوگوں کی گواہی قابل سماعت نہیں ہوسکتی۔ دیکھو کسی مقدمے کی تصدیق کرنے کے لیے اگر ایک گواہ ہو تو عدالت میں کوئی اس کی بات پر اعتبار نہیں کرسکتا اور اگر شریر اور بدمعاش کسی بات پر گواہی دیں تو وہ سماعت کے قابل نہیں۔

تیسرے

یہ کہ گواہ نے اس گواہی سے اپنا کچھ دنیا وی فائدہ حاصل نہ کیا ہو۔ اگر اپنے مطلب کے لیے گواہی دے تو وہ بھی اعتبار کے قابل نہیں۔

چوتھے

یہ کہ گواہ جس پر گواہی دیتا ہے وہ اس سے بخوبی آگاہ ہو۔

پس وہ گواہی جس میں یہ چار باتیں پائیں جائیں قابل اعتبار ہے ۔ اب ہر ایک کا جدا جدا بیان کیا جاتا ہے ۔ پہلے وہ بات جس کی گواہی دی جاتی ہے قابل اعتبار ہو۔ دیکھو خدائے تعالی نے انسان اور حیوان کے لیے کیسے عمدہ بند وبست کیے ہیں۔

پہلی وجہ یہ کہ گواہ بہت ہوں۔ پوشیدہ نہ رہے کہ عیسیٰ کے کام اور کلام کے بہت گواہ ہیں ۔چنانچہ وہ شاگرد جو ہمیشہ عیسیٰ کے ساتھ رہتے تھے اور اس کے کلام سنتے تھے اس کے کام دیکھتے تھے ان کو ہم حواری کہتے ہیں ان کی گواہی آج تک موجود ہے ۔ ان میں سے متی، یوحنا،یعقوب، پطرس نے مسیح کا حال کچھ کچھ لکھا۔ ان کے سوا مرقس، لوقا اور پولُس نے اس کے کام اور کلام پر گواہی دی جب یہ تمام شاگرد اور عیسائی یہودیوں کے درمیان منادی کرتے اور کہتے تھے کہ ہم نے یہ باتیں بچشم خود دیکھیں اور اپنے کانوں سے سنیں تو بے شک وہ لوگ جن میں سے سینکڑوں نے مسیح کو بخود دیکھا تھا اور اس کاکلام بھی سنا تھا ان کی باتوں کو مانتے تھے اور سچ جانتے تھے ۔ پس یہی سب لوگ اس کے گواہ ہیں کہ ہم نے مسیح کی باتیں سنیں اور اس کے عجیب کام دیکھے۔

دوم اب ان لوگوں کے چال چلن کو جو گواہی دیتے ہیں دریافت کرنا چاہیے ۔ تاکہ معلوم ہوکہ وہ اعتبار کے لائق ہیں یا نہیں۔ جو کوئی حواریوں کی کتابیں پڑھے گا اس کو بخوبی واضح ہوگا کہ وہ راستباز حق گو نیک چلن تھے کہ ان کی تعلیم میں فروتنی، حلم، بردباری ایک دوسرے کی خطاؤں کو معاف کرنے کی خوبی اور سب سے محبت پائی جاتی ہے اور کہ خود غرضی اور غرور کا کہیں نشان بھی نہیں۔ عیسیٰ کے شاگرد ہر طرح سے خاکساری اور سب کی خیر خواہی ظاہر کرتے تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ حواری بن کے روپیہ جمع کریں یا کسی طرح کا دنیاوی فائدہ اُٹھائیں اس سے ظاہر ہے کہ ان کے دل میں خود غرضی اور لالچ نہ تھا۔ بلکہ اور لوگوں کی بہتر ی اور فائدے کے لیے طرح طرح کی تکلیف اُٹھاتے تھے ۔

تیسرا نشان سچی گواہی کا یہ ہے کہ گواہ کو گواہی سے دنیاوی فائدہ نہ ہو جب عیسائی مذہب شروع ہوا تو خداوندمسیح نے شاگردوں کو کہا کہ میں تم کو بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں کے درمیان بھیجتا ہوں اور جو کوئی تم کو مارڈالے گا یہی گمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت بجالاتا ہوں ویساہی یہودیوں اور غیرقوموں نے مسیح کے شاگردوں اور پیروں سے دشمنی اور حقارت اور طرح طرح کے ظلم کیے ۔ بلکہ بہتوں کو قتل بھی کیا باوجود اس ظلم وستم کے وہ لوگ اپنی جان کو ناچیز سمجھ کر ملک بہ ملک شہر بہ شہر اور گاؤں گاؤں پھرتے تھے اور انجیل کی منادی کرتے تھے ۔ تواریخوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حواری بالکل غریب اور کنگال تھے اور ان میں سے بہت مارے بھی گئے ۔ اس سے معلوم ہوتا کہ انہیں دنیاوی فائدوں کی کچھ بھی خواہش نہ تھی۔ وہ راستی سے دوستی اور جھوٹ سے نفرت کرتے تھے ۔ اگرچہ دنیا کے لوگ ان سے حقارت کرتے بلکہ اکثر ان کی جان کے بھی دشمن تھے ۔ اس لیے ان کے قتل کرنے بلکہ اکثر ان کی جان کے بھی دشمن تھے ۔ اس لیے ان کے قتل کے درپے رہتے تھے ۔ تو بھی وہ اپنے خدا اور بچانے والے کے حضور میں اپنی زندگی کو کمال صبر وبرداشت سے بے زوال آرام وچین اور بھی شانتی میں بسر کرتے تھے واضح ہوکہ جب یوحنا نے رویا میں آسمان کو کھلے ہوئے دیکھا اور بہت لوگ سفید پوشاک پہنے ہوئے اسے نظر آئے تو اس نے فرشتہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عیسائی دین کے سبب نہایت تکلیف اُٹھائی۔ پولُس رسول کی تحریر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس نے تین بار چھڑیوں سے مار کھائی۔ ایک دفعہ سنگسار کیا گیا۔ پانچ بار انتالیس(۳۹) کوڑے کھائے ۔ اور دوسری تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ آخر کو وہ قتل ہوا بے شک پہلے پہلے ایسے ہی انعام ملتے تھے جن کا بیان ہوا۔ پس جب ان کو مسیح پر گواہی دینے کے سبب اتنی تکلیفیں ملتی تھیں تو کس لیے انہوں نے گواہی دینا نہ چھوڑا۔ بس اس کا سبب یہی ہے کہ جو پولُس نے کہا کہ ہم نہ صرف مسیح کے لیے قید ہونے کو طیار(اڑنے والا، تیز دوڑنے والا، تیز رو) ہیں بلکہ مرنے پر بھی مستعد ہیں۔ پھر کیوں کر ایسے گواہوں کی گواہی ماننے کے قابل نہ ہوگی۔

چوتھا نشان سچی گواہی کایہ ہے کہ گواہ جس بات کی گواہی دے اس سے بخوبی واقف ہو۔ عیسیٰ نے جو کچھ سنایا یا سکھایا یا دکھایا جہان کے اور اپنے شاگردوں کے سامنے کیا۔ شاگرد گاؤں گاؤں ملک ملک اس کے ساتھ پھرتے تھے اور اسی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے ۔ اورجو معجزے اس نے لوگوں کو دکھائے سب انہوں نے بچشم خود دیکھے ۔ پس انہوں نے جو دیکھا اور سنا وہی لوگوں کے آگے بیان کیا اور کہا کہ ہم نے اس کے منہ سے فلانی فلانی بات اپنے کانوں سے سنی او رفلاں فلاں معجزہ جو اس نے کیا ہم وہاں حاضر تھے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جو باتیں حواریوں نے کہیں وہ سب ممکن الوقوع تھیں۔ اور ان کے گواہ بھی بہت تھے اور گواہ معتبر بھی تھے اور انہیں گواہی دینے سے کسی طرح کا دنیاوی فائدہ بھی نہ ملا بلکہ انہوں نے ہرطرح کی تکلیف اُٹھائی اور وہ باتیں جن پر وہ گواہی دیتے تھے ان کے سامنے ہوئیں۔ انہوں نے بچشم خود سب کچھ دیکھا پس ضرور ان کی گواہی سچی اور ماننے کے لائق ہے ۔

تیسری دلیل انجیل کی عمدہ تعلیم

جولوگ خداکومانتے ہیں اقرار کرتے ہیں کہ خدا دانا، پاک، عادل اور مہربان ہے ۔اگر انجیل اس کا کلام ہے تو ضرور یہ صفتیں اس کی تعلیم سے پائی جائیں گی اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب انجیل کی تعلیم سے ظاہر ہوتی ہیں اب ہم اس بات کی گواہی میں چند آیتیں پیش کرتے ہیں۔

اول

یہ کہ وہ دانا ہے (یہودا کاخط ۲۵ آیت) ’’خدائے واحد حکیم اور ہمارا بچانے والاہے ‘‘۔ پھر پولُس کا خط رومیوں کو (رومیوں ۳۳:۱۱) ’’واہ خداکی دولت اور حکمت اور دانش کی کیسی گہرائی ہے ۔ اس کی عدالتیں دریافت سے کیا ہی پرے اور اس کی راہیں پتا ملنے سے کیا ہی دور ہیں ‘‘۔

دوسرا

یعنی وہ قدوس ہے مکاشفات کا (مکاشفہ۴ باب ۸ آیت) ‘’فرشتے رات دن کبھی خاموش نہیں ہوئے مگر کہتے رہے ہیں قدوس قدوس قدوس خداوند خدا قادر مطلق جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے ‘‘۔

تیسرا

یعنی وہ عادل ہے پھر اس کے ساتوں باب کی سولہویں آیت یعنی(مکاشفہ ۱۶:۷) میں لکھا ہے ’’اے خداوند خدا قادر مطلق تیری عدالتیں سچی اور راست ہیں۔ پھر (مکاشفہ ۱۲:۲۰) میں لکھا ہے کہ ’’پھر میں نے دیکھا کہ مردے کیا چھوٹے کیا بڑ ے خدا کے حضور کھڑے ہیں اور کتابیں کھولی گئیں اور ایک دوسری کتاب جو زندگی کی ہے کھولی گئی اور مردوں کی عدالت جس طرح ان کتابوں میں لکھا تھا ان کے اعمال کے مطابق کی گئی ‘‘۔

چوتھا

یعنی وہ رحیم ہے ۔ پولُس رسول کا خط عبرانیوں کو (عبرانیوں ۱۲:۸) میں ان کی برائیوں پر رحم کروں گا اور ان کے گناہوں کو اور بے دینی کو کبھی یاد نہ کروں گا۔ پھر پولُس کا خط افسیو ں کو (افسیوں ۴:۲۔ ۷) میں لکھا ہے ’’خدانے جو رحم میں غنی ہے اپنی بڑی محبت سے جس سے اس نے ہمیں پیار کیا ہم کو جو گناہوں کے سبب مردہ تھے مسیح کے ساتھ جلایا‘‘۔ پھر متی کی انجیل میں (متی ۱۲:۱۸۔ ۱۴) مسیح خدا کے رحم کا بیان تمثیلوں میں کرتا ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو اگر کسی شخص پاس سوبھیڑہواور ان میں سے ایک کھو جائے کیا وہ ننانوئے (۹۹) کو نہ چھوڑے گا اور پہاڑ وں پرجاکر اس کھوئی ہوئی کو نہ ڈھونڈے گا اور اگر ایسا ہوکہ اسے پائے تو میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اس کے سبب ان ننانوے (۹۹) سے جو کھوئی گئی تھی زیادہ خوش ہوگا اسی طرح تمہارے باپ کی جو آسمان پرہے مرضی نہیں کہ ان چھوٹوں میں سے کوئی ہلاک ہو۔ پھر ( لوقا کی انجیل ۱۵ با ب ) میں ’’ایک شخص کے دو بیٹے تھے ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھے پہنچتا ہے وہ مجھے دے ۔ اس نے مال انہیں بانٹ دیا اور تھوڑے دن بعد چھوٹے بیٹے نے بہت کچھ جمع کر کے ایک دور کے ملک کا سفر کیا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اڑادیا اور جب سب خرچ کرچکا اس ملک میں بڑا کال پڑا اور وہ محتاج ہوگیا تب اس ملک کے ایک رہنے والے کے ہاں جاکرکام کرنے لگا۔ اس نے اسے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ ان چھلکوں سے جو سور کھاتے ہیں اپنا پیٹ بھرے پر کوئی نہ دیتا تھا ہوش میں آکر کہا میرے باپ کے مزدوروں کو بہت روٹی ہے اور میں بھوکوں مرتا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ پاس جاؤں گا اور اسے کہوں گا کہ اے باپ میں نے آسمان کا اور تیرے حضور گناہ کیا ہے ۔ اور اب اس لائق نہیں کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں میں سے ایک کی مانند بنا۔ تب اُٹھ کراپنے باپ پاس چلا اور وہ ابھی دور تھا کہ اس کو دیکھ کے اس کے باپ کو بڑا رحم آیا اور دوڑ کر اسے گلے لگایا اور چوما۔ بیٹے نے اس کو کہا اے باپ میں نے آسمان کا اور تیرے حضور گنا ہ کیا اور اب اس لائق نہیں کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں باپ نے اپنے نوکروں کو کہا کہ اچھی سے اچھی پوشاک نکال لاؤ اور اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی اور پلے ہوئے بچھڑے کو لاکر ذبح کروکہ کھائیں اور خوشی منائیں۔ کیونکہ یہ میرا بیٹا موا تھا اب جیا ہے ۔ کھوگیا تھا اب ملا ہے تب وہ خوشی کرنے لگے ‘‘۔

پھر یوحنا کا پہلاخط تیسراباب پہلی آیت۔ ’’دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائیں۔ پھر اسی خط میں (۱۔ یوحنا۸:۴۔ ۱۲) میں لکھا ہے ۔ ’’جس میں محبت نہیں سو خدا کونہیں جانتا۔ کیونکہ خدامحبت ہے ۔ خداکی محبت جو ہم سے ہے اس سے ظاہر ہوئی کہ خدانے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ ہم اس کے سبب سے زندگی پائیں۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت رکھی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو۔ پیارو جب کہ خدانے ہم سے ایسی محبت رکھی تو لازم ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ کسی نے خدا کو کبھی نہیں دیکھا اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں تو خدا ہم میں رہتا ہے اور اس کی محبت ہم میں کامل ہوئی۔

پھر جیسے انجیل میں خدا کی پاکیزگی کا بیا ن ہے ویسے ہی اس میں وہ تعلیم پائی جاتی ہے جس سے سب ماننے والے اس کی مانند پاک ہوجاتے ہیں اور خدائے پاک کی صحبت کی لائق ہوجاتے ہیں۔ یعنی جب کاموں سے خدا خوش ہوتا ہے ان کی بجاآوری ہمیں سکھاتی ہے اور جن سے اس کو نفرت ہے ان سے ہم کو بھی نفرت دلاتی ہے ۔ اب ہم ان باتوں کا مفصل بیان کرتے ہیں جو خداوند ہم سے چاہتا ہے اور انجیل بھی مطابق مرضی الہٰی ان کی ہمیں تعلیم دیتی ہے اور نیز ان باتوں کا ذکر کہ جن سے نفرت کرنا چاہیے ۔

اول:۔ یہ کہ ہم کس طرح سے مبارک ہوسکتے ہیں۔

اس کا بیان (متی ۳:۵۔ ۱۱) میں ہے کہ ’’مبارک وہ جو دل کے غریب ہیں۔ کیونکہ آسمان کی بادشاہت ان ہی کی ہے ۔ مبارک وہ جو غمگین ہیں کیونکہ و ہ تسلی پائیں گے ۔ مبارک وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے ۔ مبارک وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے ۔ مبارک وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے ۔ مبارک وہ جو صلح کرنے والے ہیں کیونکہ وہ خدا کے فرزند کہلائیں گے ۔ مبارک وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہیں کی ہے ۔ مبارک ہوتم جب میرے واسطے تمہیں لعن طعن کریں اور ستائیں اور ہرطرح کی بری باتیں جھوٹ سے تمہارے حق میں کہیں ‘‘۔

دوم :۔ یہ تو خون نہ کرنا۔

جس کا بیان (متی ۲۱:۵۔ ۲۴) میں ملتا ہے کہ ’’تم سن چکے ہوکہ اگلوں سے کہاگیا کہ خون مت کراور جوکوئی خون کرئے عدالت میں سزا کے لائق ہوگا۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بے سبب غصہ ہوعدالت میں سزا کے قابل ہوگا اور جو کوئی اپنے بھائی کو باولا(پاگل ) کہے گا مجلس میں سزا کے لائق ہوگا اور جو اس کو احمق کہے جہنم کی آگ کا سزاوار ہوگا۔ پس اگر تو قربان گا ہ میں اپنی نذر لے جائے اور وہاں تجھے یاد آئے کہ تیرا بھائی تجھ سے کچھ مخالفت رکھتا ہے تو وہاں اپنی نذر قربان گا ہ کے سامنے چھوڑ کر چلا جا پہلے اپنے بھائی سے میل کر تب آکر اپنی نذر گذران‘‘۔

سوم :۔ زنانہ کرنا۔

اس کا بیان (متی ۲۷:۵۔ ۳۲) میں ملتا ہے ۔ یہاں مرقوم ہے ’’تم سن چکے ہوکہ اگلوں سے کہا گیا تو زنا نہ کرنا پرمیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگا ہ کرئے اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا۔ اگر تیری دہنی آنکھ ٹھوکر کھانے کا باعث ہو اسے نکال ڈال اور پھینک دے ۔ کیونکہ تیری آنکھوں میں سے ایک کا نہ رہنا تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تیرا سارا بدن جہنم میں ڈالا جائے ۔ اگر تیرا دہنا ہاتھ تیرے لیے ٹھوکر کھانے کا باعث ہوئے تو اس کو کاٹ ڈال اور پھینک دے کیونکہ تیرے انگوں میں سے ایک کا نہ رہنا تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تیرا سارابدن جہنم میں ڈالا جائے ‘‘۔ یہ بھی لکھا گیا کہ جو کوئی اپنی جورو کو چھوڑ دے اسے طلاق نامہ لکھ دے ۔ پرمیں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو زنا کے سوا کسی اور سبب چھوڑ دے اس سے زنا کرواتا ہے اور جو کوئی اس عورت سے جو چھوڑی گئی ہے بیاہ کرے زنا کرتا ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ حرامکاری سے بچ رہنے کو ہر مرد اپنی جورو اور ہر عورت اپنے خصم(شوہر) رکھے خصم جو روکا حق جیسا چاہیے ادا کرے اور ویسے ہی جورو خصم کا ‘‘۔

چہارم :۔ قسم نہ کھانا۔

اس کلام اقدس کا بیان بھی (متی ۳۳:۵۔ ۳۷) میں موجود ہے ۔ تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تو جھوٹی قسم نہ کھا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کے لیے پوری کرپر میں تمہیں کہتا ہوں ہرگز قسم نہ کھانا نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے نہ یروشیلم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے نہ اپنے سر کی کیونکہ تو ایک بال کو سفید یا کالا نہیں کرسکتا پر تمہاری گفتگو میں ہاں کی جگہ ہاں اور نہیں کی جگہ نہیں ہو۔ کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ برائی سے ہوتا ہے ‘‘۔ پھر خداکا بندہ یعقو ب لکھتا ہے ’’سب سے پہلے اے بھائیو قسم نہ کھاؤ نہ آسمان کی نہ زمین کی نہ کوئی اور قسم بلکہ تمہارا ہاں ہاں اور نہیں نہیں ہوکہ تم سزا کے لائق نہ ٹھہرو‘‘(یعقوب ۱۲:۵) ۔

پنجم :۔ دشمنوں کو پیار کرنا۔

متی رسول کا انجیلی بیان اس بات پر شہادت ہے (متی ۳۸:۵۔ ۴۸) ’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت پرمیں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا۔ بلکہ جو تیرے دہنے گا ل پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے ۔ اگر کوئی چاہے کہ تجھ پر نالش کرکے تیری قبالے کُرتے بھی اسے لینے دے ۔ اگر کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلاجااور جو کوئی تجھ سے کچھ مانگے اسے عنایت کر اور جو تجھ سے قرض مانگے اس سے منہ نہ موڑ۔ تم سن چکے ہوکہ کہا گیا اپنے پڑوسی سے دوستی رکھ اور اپنے دشمنوں کو پیار کر اور جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو۔ جو تم سے کینہ رکھیں ان کا بھلا کرو جو تمہیں دکھ دیں اور ستائیں ان کے لیے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہوکیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر چمکاتا ہے اور راستوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے ۔ اگر تم ان کو پیار کرو جو تمہیں پیار کرتے ہیں تو تمہارے لیے کیا اجر ہے ۔ کیامحصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے۔ پس تم کامل ہوجیسا تمہارا باپ جو آسمان پر ہے کامل ہے ‘‘۔ پھر مزید بیان کیاگیا ہے ’’جوکچھ تم چاہتے ہوکہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ویسا تم بھی ان کے ساتھ کرو‘‘(متی ۱۲:۷) ۔ پولُس رسول رومہ کی کلیسیا کو ہدایت کرتا ہے ’’اگرتیر ا دشمن بھوکا ہواس کو کھلاپیاساہواُسے پانی دے ‘‘(رومیوں۲۰:۱۲) ۔ متی رسول ایک واقعہ کا بیان کرتا ہے کہ ’’عیسیٰ نے اسے کہا اے میاں تو کس لیے آیا۔ تب انہوں نے پاس آکر عیسیٰ پر ہاتھ ڈالے اور اسے پکڑ لیا اور دیکھو عیسیٰ کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کراپنی تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکرپر چلا کراس کا کان اڑا دیا۔ تب عیسیٰ نے اسے کہا اپنی تلوار میان میں کر کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں تلوار ہی سے مارے جائیں گے ‘‘ (متی ۵۰:۲۶۔ ۵۲)۔ پھر لوقا کی انجیل میں ہے ’’تب عیسیٰ نے جواب میں کہا اتنے ہی پر رہنے دو اور اس کے کان کو چھو کر اس کو چنگا کیا ‘‘(لوقا ۵۱:۲۲) ۔

ششم :۔ خیرات کرنا۔

(متی ۲:۶۔ ۴) میں ہے ’’جب توخیرات کرے اپنے سامنے تُرہی مت بجا جیسے ریاکار عبادت خانوں اور راستو ں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے ۔ جب تو خیرات کرے تو چاہے کہ تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے اور تیرا باپ جو پوشیدہ دیکھتا ہے خود ظاہر میں تجھے بدلہ دے ‘‘۔ پھر لوقا کی انجیل میں لکھا ہے ’’اس نے اپنے مہمان دار سے کہا کہ جب تو دن یا شام کا کھانا تیار کرے تو اپنے دوستوں یا رشتہ داروں یا دولت مند پڑوسیوں کو مت بلاؤ تاکہ وہ بھی تجھے بلائیں اور تیرا بدلہ ہوجائے جب تو ضیافت کیا چاہے تو غریبوں ، لنجوں، لنگڑوںاور اندھوں کو بلا،تب تو مبارک ہوگا کیونکہ ان کے پاس کچھ نہیں کہ تیرا بدلہ دیں پر راستبازوں کی قیامت میں تجھے بدلہ دیا جائے گا فقط‘‘۔

ہفتم :۔ نماز کرنا۔

(متی ۶:۶۔ ۸) میں ہے ’’جب تو دعا مانگے ریاکارو ں کی مانند مت ہوکیونکہ وہ عبادت خانوں اور راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوکر دعا مانگنا کو دوست رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلہ پاچکے ہیں۔ جب تو دعا مانگے اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کرکے اپنے باپ پاس جو پوشیدگی میں ہے دعامانگ اور تیرا باپ جو کہ پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے بدلہ دے گا اور جب دعا مانگتے ہو غیر قوموں کی مانند بک بک مت کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زیادہ گوئی سے ان کی سنی جائے گی پر ان کی مانند نہ ہو کیونکہ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے جانتا ہے کہ تمہیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے فقط‘‘۔ پھر(متی ۷:۷۔ ۱۱) میں ہے کہ ’’مانگو تو تمہیں دیا جائے گا ڈھونڈو کہ تم پاؤگے کھٹکھٹاؤ کہ تمہارے واسطے کھولا جائے گا کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا اور جو کوئی ڈھونڈتا سو پاتا ہے اور جو کوئی کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا یا تم میں سے کون آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے وہ اسے پتھر دے یا اگر مچھلی مانگے اسے سانپ دے۔ پس جب کہ تم جو بُرے ہواپنے لڑکوں کو اچھی چیزیں دیناجانتے ہو توکتنا زیادہ تمہاراباپ جو آسمان پر ہے انہیں جو اسے مانگتے ہیں اچھی چیزیں دے گا فقظ۔ پھر (لوقا۱:۱۸۔ ۷) میں ہے کہ ’’پھر اس نے اس لیے کہ ان کو دعا میں لگے رہنا اور سُستی نہ کرنی ضرور ہے ایک تمثیل کہ کسی شہر میں ایک قاضی تھا جو نہ خدا سے ڈرتا اور نہ آدمی کی کچھ پرواہ رکھتا اور اسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اس کے پاس آتی اور اسے یہ کہتی تھی کہ میرے دشمن کے ہاتھ سے میرا انصاف کراس نے کچھ دن نہ چاہا لیکن پیچھے اپنے جی میں کہا کہ ہر چند میں نہ خدا سے ڈرتا اور نہ آدمی کی کچھ پرواہ رکھتا تو بھی اس لیے کہ یہ بیوہ مجھے ستاتی ہے اس کا انصاف کروں گاایسا نہ ہوکہ وہ بہت آنے سے آخر کو میرا دماغ خالی کرے خداوند نے فرمایا کہ سنو جو کچھ اس بے انصاف قاضی نے کہا پس کیا خدا اپنے برگزیدہ لوگوں کا جو رات دن اس سے فریاد کرتے ہیں انصاف نہ کرے گا فقظ‘‘۔ پھر (لوقا ۱۰:۱۸۔ ۱۴) میں ہے کہ ’’دوشخص ہیکل میں دعا مانگنے گئے ایک فریسی دوسرا محصول لینے والا فریسی الگ کھڑا ہوکے یوں دعا مانگتا تھا کہ اے خدا میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ اوروں کی مانند لیٹرا ظالم زناکار یا جیسا یہ محصول لینے والا ہے نہیں ہوں میں ہفتہ میں دوبار روزہ رکھتا ہوں اور میں اپنے سارے مال کی دہ یکی دیتا ہوں پر اس محصول لینے والے نے دور سے کھڑا ہوکے اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھا ئے بلکہ چھاتی پیٹتا اور کہتا تھا کہ اے خدا مجھ گنہگار پر رحم کر میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ شخص دوسرے سے راستباز ٹھہر کے اپنے گھر گیا۔ کیونکہ جو آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے چھوٹا کیا جائے گا اور اپنے تیئں چھوٹا ٹھہراتا ہے بڑا کیا جائے گا فقظ۔ پھر (یوحنا۲۰:۴۔ ۲۴) میں ہے کہ ’’ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہووہ جگہ جہاں پرستش کرنے چاہیے یروشلیم میں ہے یسوع نے اسے کہا کہ اے عور ت میری بات کا یقین رکھ کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ اس پہاڑ پر اور نہ یروشلیم میں باپ کی پرستش کروگی تم اس کی جسے نہیں جانتی ہو پرستش کرتے ہو ہم اس کی جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے پر وہ گھڑی آتی ہے بلکہ ابھی ہے کہ جس میں سچے پرستار روح اور راستی سے باپ کی پرستش کریں گے کیونکہ باپ بھی اپنے پرستاروں کو چاہتا ہے کہ ایسے ہوں۔ خداروح ہے اور پرستاروں کو فرض ہے کہ روح اور راستی سے پرستش کریں ‘‘۔

ہشتم :۔ بخشش کرنا۔

(متی ۱۴:۶۔ ۱۵) میں ہے ’’اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشو گے توتمہارا باپ جو آسمان پرہے تمہیں بھی بخشے گا پر اگر تم آدمیوں کو ان کے گناہ نہ بخشوگے تو تمہارا باپ بھی تمہارے گناہ نہ بخشے گا فقط ‘‘۔ پھر(متی ۲۳:۱۸۔ ۳۵) میں ہے ’’آسمان کی بادشاہت ایک بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے لوگوں سے حساب لینا چاہا جب حساب لینے لگا ایک کو اس کے پاس لائے جس سے اس کو دس ہزار توڑے پانے تھے پر اس واسطے کہ اس کے پاس کچھ ادا کرنے کو نہ تھا اس کے خداوند نے حکم کیا کہ وہ اور اس کی جو رو اس کے بال بچے اور جو کچھ اس کا ہو بیچا جائے اور قرض بھر لیا جائے تب اس نوکر نے گر کے اسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند صبر کرکہ میں تیرا سارا قرض اداکروں گا اس نوکر کے صاحب کو رحم آیا اور اسے چھوڑ کر قرض اسے بخش دیا۔ اسی نوکر نے نکل کے اپنے ساتھی نوکروں میں سے ایک کو پایا جس پر اس کے سو دینار آتے تھے اس نے اس کو پکڑا اس کا گلا گھونٹا اور کہا جو میرا آتا ہے مجھے دے تب اس کا ساتھی نوکر اس کے پاؤں پر گرا اور اس کی منت کرکے کہا صبر کرمیں سب ادا کروں گا پر اس نے نہ مانا بلکہ جاکر اسے قید خانے میں ڈالا کہ جب تک قرض ادا نہ کرے قید رہے اس کے ساتھی نوکر یہ ماجرا دیکھ کے نہایت غمگین ہوئے اور جاکر اپنے مالک سے تما م احوال (حال کی جمع) بیان کیا تب اس کے مالک نے اسے بلاکر کہا کہ اے شریر نوکر میں نے وہ سب قرض تجھے بخش دیا کیونکہ تونے میری منت کی توکیا لازم نہ تھا کہ جب میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہم خدمت پر رحم کرتا سواس کے مالک نے غصہ ہوکر اس کو داروغہ کے حوالے کیا کہ جب تک تمام قرض ادانہ کرے قید رہے اسی طرح میرا آسمانی باپ بھی تم سے کرئے گا اگر ہر ایک تم میں سے اپنے بھائیوں کے قصور کو دل سے معاف نہ کرئے گا‘‘ فقط۔

خدا کا بندہ پطرس رسول بیان کرتا ہے کہ ’’غرض سب کے سب ایک دل ہو ہمددر ہو برادرانہ محبت رکھو رحم دل اور فروتن ہو۔ بدی کے عوض بدی نہ کرو گالی کے عوض گالی نہ دو بلکہ اس کے خلاف برکت چاہو کہ تم جانتے ہوکہ تم برکت کے وارث ہونے کو بلائے گئے ہوفقط‘‘(۱۔ پطرس ۳: ۸۔ ۹) ۔

نہم :۔ روزہ رکھنا۔

(متی ۱۶:۶۔ ۱۸) میں ہے ’’جب تم روزہ رکھو ریاکاروں کی مانند اپنا چہرہ اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں کہ لوگوں کے نزدیک روزہ دار ظاہر ہوں میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلہ پاچکے پر جب تو روزہ رکھے اپنے سر پر چکنا لگا اور منہ دھوتا کہ توآدمیوں پر نہیں بلکہ اپنے باپ جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر ہو اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے آشکارا تجھے بدلہ دے ‘‘۔

دولت کی بابت تعلیم

(متی ۱۹:۶۔ ۲۱) میں ہے ’’مال اپنے واسطے زمین پر جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور مورچہ (زنگ، پھپھوندی ) خراب کرتے ہیں۔ اور جہاں چور سیندھ(وہ سوراخ جو چوری کرنے کے لیے دیوارمیں کیاجاتا ہے ) اور چوراتے ہیں بلکہ مال اپنے لیے آسمان پر جمع کرو جہاں نہ کیڑا نہ مورچہ خراب کرتے ہیں اور نہ چور سیندھ دیتے اور چراتے کیونکہ جہاں تمہارا خزانہ ہے وہیں تمہارا دل بھی لگا رہے گا فقط‘‘۔ پھر (متی ۶: ۲۴۔ ۳۲) میں ہے کہ ’’کوئی آدمی دومالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا اس لیے کہ یا ایک سے دشمنی رکھے گا اور دوسرے سے دوستی یا ایک کو مانے گا دوسرے کو ناچیز جانے گا تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے لیے فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے اور کیا پیئں گے نہ اپنے بدن کے لیے کہ کیا پہنے گے ۔کیا جان خوراک سے بہتر نہیں اور بدن پوشاک سے ہوا کے پرندوں کو دیکھو وہ نہ بوتے نہ کاٹتے نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں توبھی تمہارا آسمانی باپ ان کو پالتا ہے کیا تم ان سے بہتر نہیں ہوتم میں سے کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بڑھا سکتا ہے اور پوشاک کی کیوں فکر کرتے ہو جنگلی سوسن کو دیکھو کہ وہ کس طرح سے بڑھتی ہیں وہ نہ محنت کرتی نہ کانپتی ہیں پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ سلیمان بھی اپنی سار ی شان وشوکت میں ان میں سے ایک کی مانند پہنے نہ تھا۔ پس جب خدامیدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جاتی ہے یوں پہناتا ہے تو کیا تم کو اے کم اعتقادو زیادہ نہ پہنائے گا۔ اس لیے یہ کہہ کے فکر مت کرو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئں گے یا کیا پہنے گے کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ ان سب چیزوں کے محتاج ہوفقط‘‘۔

نجات کو طلب کرنا۔

(متی ۳۳:۶۔ ۳۴) میں ہے کہ ’’تم پہلے خدا کی بادشاہت اور اس کی راستبازی کو ڈھونڈو یہ سب چیزیں بھی تمہیں ملیں گی۔ پس کل کی فکر نہ کرو کیونکہ کل اپنی چیزوں کی آپ ہی فکر کرلے گا آج کا دکھ آج ہی کے لیے کافی ہے فقط‘‘۔ مزید کلام خدا میں ہے کہ ’’تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ چوڑاہے وہ دروازہ اور کشادہ ہے وہ راستہ جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور بہت ہیں جو اس سے داخل ہوتے ہیں کیا ہی تنگ ہے وہ دروازہ اور سکڑی ہے وہ راہ جو زندگی کو پہنچاتی اور تھوڑے ہیں جو اسے پاتے فقط‘‘(متی ۱۳:۷۔ ۱۴) ۔ اسی باب میں بیان ہے کہ ’’نہ ہر ایک جو مجھے خداوند خداوند کہتا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوگا مگر وہی جو میرے باپ کی جو آسمان پر ہے اس کی مرضی پر چلتا ہے اس دن بہتیرے مجھے کہیں گے اے خداوند اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے دیوؤں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سی کرامات ظاہر نہیں کیں اور اس وقت میں ان سے صاف کہوں گا کہ میں کبھی تم سے واقف نہ تھا۔ اے بدکار و میرے پاس سے دور ہوپس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور انہیں عمل میں لاتا ہے میں اسے اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہراتا ہوں جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا اور مینہ برسا یا اور باڑھیں آئیں اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر زور ماراپر وہ نہ گرا کیونکہ اس کی نیو چٹان پر ڈالی گئی تھی پر جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل نہیں کرتا ہے وہ اس بیو قوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور مینہ برسا یا اور باڑھیں آئیں اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر زور مارا اور وہ گھر گر پڑا اور اس کا گرنا ہولناک واقع ہوا فقط‘‘ (متی۲۱:۷۔ ۲۷) ۔ نجات کی تعلیم میں مزید بیان ہے ’’تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا اگر کوئی چاہے کہ میرے پیچھے آئے تواپنا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھا کے میری پیروی کرے کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا پرجو کوئی میرے لیے جان کھوئے گا اسے پائے گا کیونکہ آدمی کو کیا فائدہ اگر تمام جہان کو حاصل کرے اور اپنی جان کھودے پھر آدمی کے بدلے کیادے سکتا ہے ‘‘(متی ۲۴:۱۶۔ ۲۶) ۔

ازسر نو پیدا ہونا۔

(یوحنا ۳:۳۔ ۸) میں ہے ’’یسوع نے جواب دے کر کہا میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں اگر کوئی سرنوپیدا نہ ہو تو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا۔ نقودیمس نے اس سے کہا آدمی جب بوڑھا ہوگیا تو کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے کیا اس میں یہ طاقت ہے کہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں پڑے اور پیدا ہو۔ عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں اگر آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہوئے تووہ خداکی بادشاہت میں داخل ہونہیں سکتا جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پید ا ہوا ہے روح ہے ۔ تعجب نہ کر کہ میں نے تجھے کہا کہ تمہیں سرنوپیدا ہونا ضرور ہے ۔ ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تو اس کی آواز سنتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے ہر ایک جوروح سے پیدا ہوا ایسا ہی ہے ‘‘۔

مسیح کے شاگرد ہونے کی تعلیم۔

(متی ۱۶:۱۰۔ ۳۳) میں ہے ’’دیکھو میں تمہیں بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں میں بھیجتا ہوں پس تم سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بے بد ہومگر آدمیوں سے خبر دار رہو کہ وہ تمہیں اپنی کچہریوں میں حوالہ کریں گے اور اپنے عبادت خانو ں میں کوڑے ماریں گے اور تم میرے واسطے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤگے کہ ان پر اور غیر قوموں پر گواہی ہو۔ لیکن جب وہ تمہیں حوالے کریں فکر نہ کرو کہ ہم کس طرح یا کیا کہیں گے کیونکہ جو کچھ تمہیں کہنا ہوگا اسی گھڑی تمہیں اس کی آگاہی ہوگی کیونکہ کہنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کی روح جو تم میں بولتی ہے ۔ بھائی بھائی کو اور باپ بیٹے کو قتل کے لیے حوالہ کرئے گا اور لڑکے اپنے باپ کی مخالفت میں اُٹھیں گے اور انہیں مرواڈالیں گے اور میرے نام کے باعث سب تم سے دشمنی کریں گے ، پر وہ جو آخر تک برداشت کرے گا سوہی نجات پائے گا جب وہ تمہیں ایک شہر میں ستائیں تو دوسرے میں بھاگ جاؤ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھرچکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آلے ۔ شاگرد اپنے استاد سے بڑا نہیں نہ نوکر اپنے مالک سے بس یہی کہ شاگر د اپنے استاد کی اور نوکر اپنے مالک کی مانند ہو۔ جب انہوں نے گھر کے مالک کو بعل زبول کہا ہے تو کتنا زیادہ اس کے لوگوں کو نہ کہیں گے ۔ پس ان سے نہ ڈرو کیونکہ کوئی چیز ڈھکی نہیں جو کھل نہ جائے اور نہ چھپی جو جانی نہ جائے جو کچھ میں تمہیں اندھیرے میں کہتا ہوں اُجالے میں کہواورجو کچھ تمہارے کانوں میں کہا جائے کوٹھوں پر منادی کرو اور ان سے جو بدن کو قتل کرتے ہیں پر جان کو قتل نہیں کرسکتے مت ڈرو ،بلکہ اس سے ڈر وجو جان اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا کیا ایک پیسے کو دوگورے (چڑیا) نہیں بکتے اور ان میں ایک بھی تمہارے باپ کی بے مرضی زمین پر نہیں گرتا بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں ۔پس مت ڈرو تم بہت گوروں سے بہتر ہو اس لیے جو کوئی آدمیوں کے آگے میرا اقرار کرے گا میں بھی اپنے باپ کے آگے جو آسمان پر ہے اس کا اقرار کروں گا پر جوکوئی آدمیوں کے آگے میرا انکار کرئے گا میں بھی اپنے باپ کے آگے جو آسمان پر ہے اس کا انکار کروں گا فقط‘‘۔ مزیدبراں لکھا ہے ’’اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے جوکوئی باپ یا ماں کومجھ سے زیادہ چاہتا ہے میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹا یابیٹی کو مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے میرے لائق نہیں اور جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کے میرے پیچھے نہیں آتا میرے لائق نہیں اور جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا پر جوکوئی میرے واسطے اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا ‘‘(متی ۳۶:۱۰۔ ۳۹) ۔

پاک اور ناپاک کی تعلیم

(مرقس ۱۴:۷۔ ۲۳) میں ہے کہ ’’پھر اس نے سب لوگوں کو پاس بُلا کے کہا کہ تم سب کے سب میر ی سنو اور سمجھو ایسی کوئی چیز آدمی کے باہر نہیں جو اس میں داخل ہوکے اسے ناپاک کرسکے پروہ چیزیں جو اس میں سے نکلتی ہیں وہی آدمی کو ناپاک کرسکتی ہیں جب وہ بھیڑ کے پاس سے گھر میں گیا اس کے شاگردوں نے اسے اس تمثیل کی بابت پوچھا تب اس نے انہیں کہا کیا تم بھی ایسے ناسمجھ ہوکہ تم نہیں جانتے ہو کہ جو چیز باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے اسے ناپاک نہیں کرسکتی اس لیے کہ وہ اس کے دل میں نہیں بلکہ پیٹ میں جاتی ہے اور پاخانے میں نکلتی ہے ۔یوں سب کھانے کی نجاست چھُٹ جاتی ہے۔ پھر اس نے کہا جو آدمی میں سب سے نکلتا ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتا ہے کیونکہ اندر یعنی آدمی کے دل ہی سے بڑے اندیشے زنا کاریاں، حرامکاریاں، قتل ، چوریاں، لالچ، بدی، مکرمستی، بدنظری، کفر، شیخی اور نادانی نکلتی ہیں یہ سب بُر ی چیزیں اندر سے نکلتی ہیں اور آدمی کو ناپاک کرتی ہیں فقط ‘‘۔

نکاح اور طلاق کی تعلیم

(متی ۳:۱۹۔ ۶) فریسی اس کی آزمائش کے لیے اس کے پاس آئے اور اسے کہا کیا روا ہے کہ مرد ہر ایک سبب سے اپنی جورو کو چھوڑدے اس نے جواب میں ان سے کہا تم نے نہیں پڑھا کہ خالق نے شروع میں انہیں ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت بنائی اور فرمایا کہ اس لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے ۔ اس لیے اب وہ دونہیں بلکہ ایک تن ہیں پس جسے خدانے جوڑا ہے اسے انسان نہ توڑے فقط‘‘۔ پھر اسی باب میں لکھا ہے ’’اور میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو سوائےزنا کے اور سبب سے چھوڑے دے اور دوسرے سے بیاہ کرے زنا کرتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی عورت کو بیاہے زناکرتا ہے فقط‘‘(متی۹:۱۹) ۔

خدااور آدمیوں سے محبت کی تعلیم

(متی ۳۵:۲۵۔ ۴۰) اور ان میں سے شریعت کے ایک سکھلانے والے نے اسے سے آزمانے کے لیے یہ پوچھا کہ اے استاد شرع میں بڑا حکم کون سا ہے؟ یسوع نے اسے کہا خداوند کو جو تیرا خداہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری سمجھ سے پیار کر اور بڑا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیارکر۔ جب آپ کو انہیں دواحکام پر سارا شرع اور سب انبیاء کی باتیں موقوف ہیں فقط‘‘۔ پھر (لوقا ۳۰:۱۰۔ ۳۷) یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک شخص یروشلیم سے یریحو کو جارہاتھا اور ڈاکوؤں میں جاپڑا ۔وہ اسے ننگا اور گھایل کرکے ادھموا چھوڑ گئے اتفاقاً ایک کاہن اس راہ سے جانکلا اور اس کو دیکھ کے کنارے سے چلا گیا اسی طرح ایک لاوی بھی اس جگہ آکے اسے دیکھ کر کنارے سے چلا گیا پرایک مسافر سامری وہاں آیا اور اس کو دیکھ کر رحم کیا اور اس کے پاس آکے اس کے زخموں کو تیل اور مٹی ڈال کر باندھا اور اپنے جانور پر ڈال کرسرامیں لے گیا اور اس کی خبرداری کی اور دوسرے دن جب جانے لگا دودینار نکال کے بھٹیاری کو دیئے اور کہا کہ اس کی خبرداری کر اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہوگا میں پھر آکے تجھے ادا کروں گا۔ اب ان تینوں میں سے اس کا جو ڈاکوؤں میں جاپڑا تھا تو کس کو پڑوسی جانتا ہے اس نے کہا اس کو جس نے اس پر ترس کیا۔ تب یسوع نے اسے کہا جاتو بھی ایسا ہی کر فقط‘‘۔ پولُس رسول لکھتا ہے کہ ’’بدی سے نفرت کرو نیکی سے ملے رہو بردرانہ محبت سے ایک دوسرے کو پیار کرو عزت کی راہ سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو فقط ‘‘(رومیوں ۹:۱۲) ۔ مزید براں پولُس رسول لکھتا ہے ’’سواآپس کی محبت کے کسی کے قرضدار نہ رہو کیونکہ جو اوروں سے محبت رکھتا ہے اس نے شریعت کو پورا کیا ہے اس واسطے کہ یہ حکم جو ہیں کہ تو زنا نہ کر، قتل نہ کر،چوری نہ کر ،جھوٹی گواہی نہ دے، لالچ نہ کر اور جو حکم ان کے سوا ہوں ان کا خلاصہ اس ایک بات میں ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا خود کو کرتا ہے کہ محبت وہ ہے جو اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتے اس واسطے محبت رکھنا شریعت کا پورا کرنا ہے فقط‘‘(رومیوں ۸:۱۳۔ ۱۰) ۔ یوحنا رسول لکھتا ہے کہ ’’جس کسی کے پاس دنیا کا مال ہواور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھے اور اپنے تیئں رحم سے باز رکھے تو خداکی محبت اس میں کیوں کر قائم رہتی ہے فقط‘‘۔

خداکی خدمت کی تعلیم

پولُس رسول کا خط رومیوں کو (رومیوں۱:۱۲۔ ۲) میں ہے کہ ’’پس اے بھائیو میں خداکی رحمتوں کا واسطہ دے کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ تم اپنے بدنوں کو گذرانو تاکہ ایک زندہ قربانی مقدس اور خدا کے لیے پسندیدہ ہوکہ یہ تمہاری عقلی عبادت ہے اور اس جہان کے ہم شکل مت ہو بلکہ اپنے دل کے نئے ہونے سے اپنی شکل بدل ڈالو تاکہ تم خدا کے اس ارادے کو جو خوب اور پسندیدہ اور کامل ہے بخوبی جانو فقط‘‘۔ پھر پولُس کا خط کلسیوں کو (کلسیوں ۲۳:۳۔ ۲۵) میں درج ہے کہ ’’جوکچھ کرو سوجی سے ایسا کرو جیسا خداوند کے لیے کرتے ہیں نہ کہ آدمیوں کے لیے کہ تم جانتے ہوکہ تم خداوند سے بدلے میں میراث پاؤگے کیونکہ تم خداوند مسیح کی خدمت بجا لاتے ہو پر وہ جو برا کرتا ہے وہ اپنے کئے کے موافق برائی پائے گا اور کسی کی طرفداری نہیں ہے فقط‘‘۔

فروتنی کی تعلیم

پولُس کاخط رومیوں کو (رومیوں ۳:۱۲) میں ہے ۔ ’’اس فضل سے جو مجھے عنایت ہوا ہے تم میں سے ہر ایک کو کہتا ہوں کہ اپنی قدر اس سے زیادہ جس کا جاننا مناسب ہے نجانے بلکہ اعتدال کے ساتھ اپنا مرتبہ ایساسمجھے جیسا خداوند نے ہر ایک شخص کو انداز سے ایمان دیا ‘‘۔ پھر یعقوب کا خط (یعقوب ۹:۴) ‘’افسوس اور غم کرو اور روتمہارا ہنسنا کڑھنے سے بدل جائے اور خوشی اُداسی سے ۔ تم خداوند کے حضور فروتنی کرو کہ وہ تم کو بڑھا ئے گا فقط‘‘۔

پاکیزگی کی تعلیم

پولُس کا خط افسیوں کو (افسیوں ۱:۵۔ ۷) میں ہے کہ ’’پس تم عزیزو فرزندوں کی طرح خدا کے پیرو ہوا ور محبت سے چلو جیسے مسیح نے بھی ہم سے محبت کی اور خوشبو کے لیے ہمارے عوض میں اپنے تیئں خدا کے آگے نذر اور قربان کیا اور حرام کاری اور ہر طرح کی ناپاکی یالالچ کا تم میں ذکر تک نہ ہو جیسا مقدس لوگوں کو مناسب ہے اور بے شرمی اور بے ہودہ گوئی ٹھٹھہ بازی جو نامناسب ہے نہ ہوئے بلکہ بیشتر شکرگذاری کیونکہ تم تو یہ جانتے ہو کہ کسی حرامکار، ناپاک یا لالچی کو جو بت پرست ہے مسیح اور خدا کی بادشاہت میں میراث نہیں ہے کوئی تم کو بے ہودہ باتوں سے بُھلا وا نہ دے کیونکہ ایسی باتوں کے سبب خداکا غضب نافرمانی کے فرزند وں پر پڑتا ہے ۔ پس تم ان کے شریک مت ہو کیونکہ تم آگے تاریکی میں تھے اب خدا میں ہو کے نور ہو۔ سو نور کے فرزندوں کی طرح چلو‘‘۔ اور اسی باب میں ہے (افسیوں ۱۱:۵۔ ۱۲) ’’اور تاریکی کے لاحاصل کاموں میں شریک مت ہو بلکہ بیشتر ان کو ملامت ہی کرو کیونکہ ان کے پوشیدہ کاموں کا ذکر بھی کرنا شرم ہے ‘‘۔ پھر پولُس کا خط کلسیو ں کو (کُلسیوں ۱:۳۔ ۱۷) ’’پس اگرتم مسیح کے ساتھ جی اُٹھا ے گئے ہو تو ان چیزوں کی تلاش میں رہو جو اوپر ہیں جہاں مسیح خدا کے دہنے بیٹھا ہے اوپر کی چیزوں سے دل لگا ؤنہ ان چیزوں سے جو زمین پر ہیں کیونکہ تم مر گئے ہو اور تمہاری زندگی مسیح کے ساتھ خدامیں چھپی ہوئی ہے جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گا تب تم بھی اس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جاؤگے ۔ اس واسطے تم اپنے عضوں کو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بری خواہش اور لالچ جو بت پرستی ہے کشتہ (کشتی، مقابلہ) کرو کہ انہیں کے سبب سے خدا کا غضب نافرمانی کے فرزندوں پر پڑتا ہے اور آگے جب تم ان کے بیچ جیتے تھے تم بھی ان کی راہ پر چلتے تھے پر اب ان سب کو بھی یعنی غصہ اور غضب اور بدکاری اور بدخواہی اور بدگوئی اور بد زبانی اپنے منہ سے نکال پھینکو ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولو کیونکہ تم نے پرانی انسانیت کو اس کے فعلوں سمیت اُتارپھینکا اور نئی انسانیت کو جو معرفت میں اپنے پیدا کرنے والے کی صورت کے موافق نئی بن رہی ہے پہنا ہے وہاں نہ یونانی ہے نہ یہودی نہ ختنہ نہ نامختونی نہ بربری (علاقائی تقسیم کا تصور ) نہ سکوتی (خانہ بدوش) نہ غلام نہ آزاد پر مسیح سب کچھ اور سب میں ہے۔ پس خدا کے چنے ہوؤں کی مانند جومقدس اور پیارے ہیں درد مندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلیمی اور برداشت کا لباس پہنواور اگر کوئی کسی پر دعویٰ رکھتا ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کو بخشے جیسا مسیح نے تمہیں بخشا ہے ایسا ہی تم بھی کرو اور سب کے اوپر محبت پہن لو کہ وہ کمال کا کمر بند ہے اور خداکے اطمینا ن جس کے رکھنے کے لیے تم ایک تن ہوکر بلائے گئے ہو تمہارے دلوں پر حکومت کرے اور تم شکر گزار رہو۔ مسیح کاکلام تم میں بہتات(کثرت ) سے رہے اور تم ایک دوسرے کو کمال دانائی سے تعلیم اور نصحیت کرو اور زبور اور گیت اور روحانی غزلیں شکرگزاری کے ساتھ خداوند کے لیے دلوں سے گاؤ اور جو کچھ کرتے کلام اور کام سب کچھ خداوند یسوع کے نام سے کرو اور اس کے وسیلے سے خدا باپ کا شکربجا لاؤ فقط‘‘۔

عورت اور خاوندکی تعلیم۔

پولُس کا خط افسیوں کو (افسیوں ۲۲:۵۔ ۳۱) ’’ اے عورتو اپنے شوہروں کی فرمانبرداررہو جیسا خداوند کی کیونکہ شوہر جو رو کا سر ہے جیسے کہ مسیح بھی کلیسیا کا سر اور وہ بدن کا بچانے والا ہے تو بھی جیسے کلیسیا مسیح کی فرمانبردار ہے ویسے ہی جو رواں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کی ہو ں۔ اے مردو اپنی جورؤوں کو پیار کرو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا کو پیار کیا اور اپنے تیئں اس کے بدلے دیا تاکہ اس کو پانی کے غسل سے کلام کے ساتھ صاف کرکے مقدس کرئے اور اسے اپنے پاس ایک ایسی جلال والی کلیسیا حاضر رکھے کہ جس میں داغ یا چین یا کوئی ایسی چیز نہ ہو بلکہ جو مقدس اور بے عیب ہو یوں ہی مردوں پر لازم ہے کہ جورؤوں کو ایسا پیار کریں جیسا اپنے بدن کو جو اپنی جورو کو پیار کرتا ہے سو آپ کو پیار کرتا ہے کیونکہ کسی نے اپنے جسم سے کبھی دشمنی نہ کی بلکہ وہ اسے پالتا اور پوستا ہے جیسا خداوند بھی کلیسیا کو کیونکہ ہم اس کے بدن کے عضو اور اس کے گوشت اور ہڈیوں میں سے ہیں۔ اسی سبب سے آدمی اپنے باپ اور ماں کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے فقط ‘‘۔ پھر پطر س رسول لکھتا ہے ’’اسی طرح اے عورتو تم اپنے اپنے شوہروں کے تابع رہو کہ اگر کوئی ان میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو وہ بغیر کلام کے اپنی عورتوں کے چلن سے موہے جائیں (رغب ہونا) فقط‘‘ (۱۔ پطرس ۱:۳) ۔ پولُس رسو ل کلسیوں کی کلیسیا کو لکھتا ہے ’’اے عورتو جیسا خداوند میں مناسب ہے اپنے اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرو۔ اے مردو اپنی جورؤوں کو پیا ر کرو اور ان سے کڑوے نہ ہو فقط‘‘(کلسیوں ۱۸:۳۔ ۱۹) ۔

بچوں کی اور ماں باپ کی تعلیم

پولُس رسول کا خط افسیوں کو (افسیوں ۱:۶۔ ۴) ’’اے فرزند تم خدا وند کے لیے اپنے ماں باپ کے تابع رہو کیونکہ یہ واجب ہے تو اپنے ماں باپ کی عزت کر کہ یہ پہلا حکم ہے جس کے ساتھ وعدہ ہے تاکہ تیرا بھلا ہو اور زمین پر تیری عمر دراز ہو اور اے بچوں والوں اپنے فرزند وں کو غصہ مت دلاؤ پر خداوند کی تربیت اور نصیحت کرکے ان کی پر ورش کروفقط‘‘۔ پھر پولُس کا خط کلسیوں کو (کلسیوں ۲۰:۳۔ ۲۱) ’’اے فرزندو تم اپنے ماں باپ کے ہر ایک بات میں فرمانبردار رہو کہ خداوند کو یہی پسند ہے اے بچوں والو اپنے فرزندوں کو مت چھیڑو نہ ہو کہ وہ بے دل ہوجائیں فقط‘‘۔

نوکروں اور صاحبوں کی تعلیم

پولُس رسول کا خط افسیوں کو (افسیوں ۵:۶۔ ۹) میں ہے ’’اے نوکر و تم ان کے جو جسم کی رو سے تمہارے خداوند ہیں اپنے دلوں کی صفائی سے ڈرتے اور تھرتھراتے ہوئے ایسے فرمانبردارر ہو جیسے مسیح کے اور آدمی کے خوشامد کرنے والوں کی طرح دکھانے کو نہیں بلکہ مسیح کے بندوں کی مانند دل سے خدا کی مرضی پر چلو اور خوشی سے نوکری کرو اسے خداوند کی جانکر نہ کہ آدمیوں کی کی تم جانتے ہو کہ جو کوئی کچھ اچھا کام کرے گا کیا غلام کیا آزاد خداوند سے ویسا ہی پائے گا۔ اور اے مالکو تم بھی ان سے ایسا ہی کرو اور دھمکی دینے سے باز آؤ کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا بھی مالک آسمان پر ہے اور وہ کسی کے ظاہر پر نظر نہیں کرتا فقط‘‘۔ پھر پو لُس کا خط کلسیوں کو (کلسیوں ۲۲:۳۔ ۲۳) میں ہے ’’اے نوکرو تم ان کے جو دنیا میں تمہارے مالک ہیں سب باتوں میں فرمانبردار رہو پر نہ خوشامدی لوگوں کی مانند دکھانے کو بلکہ صاف دل سے خدا ترسوں کی طرح اور جو کچھ کروجی سے ایسا کرو جیسا خداوند کے لیے کرتے ہیں نہ کہ آدمیوں کے لیے کہ تم جانتے ہوکہ تم خداوند سے بدلے میں میراث پاؤگے کیونکہ تم خداوند مسیح کی خدمت بجالاتے ہو فقط‘‘۔

زبان کی تعلیم

پطر س رسول لکھتا ہے ’’جوکوئی چاہے کہ زندگی سے خوش ہو اور اچھے دنوں کو دیکھے تو اپنی زبان کو بدی سے اور اپنے ہونٹوں کو دغاکی بات بولنے سے باز رکھے فقط‘‘(۱۔ پطرس۱۰:۳) ۔ پھر مقدس یعقوب لکھتا ہے کہ ’’اگر کوئی تمہارے بیچ آپ کو دین دار سمجھے اور اپنی زبان کو لگام نہ دے بلکہ اپنے دل کو فریب دیوے تو اس کی دین داری باطل ہے فقط‘‘(یعقوب۲۶:۱) ۔

چوتھی دلیل کہ نجات انجیل سے ہے

تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر خدا نے اپنی مرضی سے آدمیوں پر الہٰام بھیجا تو چاہیے کہ اس میں انسان کے بچنے کا طریقہ پایا جائے ۔ کیونکہ صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ نیک اعمال سے نجات ہوگی کیونکہ انسان پہلے ہی سے گنہگار ہے اور اس لیے سزا کا مستحق ہے اور چونکہ وہ گناہ میں پیدا ہوا ہے اس لیے نیکی نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی آدمی خون کرے تو اس کو یہ کہنا کہ خون مت کرو تم پھانسی نہیں پاؤ گے یا اگر کوئی زہر کھائے تو اس کو کہنا کہ زہر نہ کھانا چاہیے بالکل بے فائدہ ہے ۔ ہم کو ایسی نجات درکار ہے جیسی کہ گنہگار کوچاہیے یعنی گناہ کی معافی اور پاکیزگی۔

انجیل ہم کو بتلاتی ہے کہ یہ ضرورت یوں پوری ہوئی کہ خدا نے دنیا کو ایسا پیار کیا کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے ۔

پہلا۔

یہ نجات دہندہ یعنی یسوع مسیح خداوند خود پاک تھا کیونکہ جب وہ اپنی ماں مریم کنواری کے پیٹ میں تھا تو جبرائیل فرشتہ نے اس کو کہا کہ اے مریم وہ پاک چیز جو تجھ سے پیدا ہوگی خدا کا بیٹا کہلائے گی۔ چونکہ مسیح بے گناہ پیدا ہوا اس لیے وہ خدا کا فرمانبردار اور عبادتی تھا اور اپنے آراموں کو ترک کرکے انسان کی بھلائی کرتا رہا۔ اور اس کی پاک اطاعت انجیل سے ثابت ہوتی ہے ۔ مثلاً مقدس لوقا لکھتا ہے ’’یسوع جب صرف بارہ (۱۲) برس کا تھا تو اپنی ماں سے کہا کیا تم نے نہ جانا کہ مجھے اپنے باپ کے یہاں رہنا ضرور ہے ‘‘(لوقا۴۹:۲) ۔ یعنی ضرور ہے کہ خدا کی بندگی میں لڑکپن ہی سے مشغول رہوں اور پھر لکھا ہے کہ ’’یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے پھر اور روح کی راہنمائی سے بیابان میں گیا اور چالیس دن تک شیطان سے آزمایا گیا اور ان دنوں میں کچھ نہ کھا یا جب وہ دن پو رے ہوئے آخر کو بھوکا ہوا تب شیطان نے اسے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اس پتھر کو کہو کہ روٹی بن جائے یسوع نے جواب میں اسے کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ خدا کی ہر ایک بات سے جیتا ہے اور شیطان نے اسے ایک اونچے پہاڑ پر لے جاکر دنیا کی ساری بادشاہتیں ایک دم میں دکھائیں اور شیطان نے اسے کہا کہ میں یہ سارا اختیار اور ان کی شا ن وشوکت تجھے دوں گا کیونکہ یہ مجھ کو سونپا گیا ہے اور جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ پس اگر تو مجھے سجدہ کرے سب تیرا ہوگا۔ یسوع نے اسے جواب میں کہا کہ اے شیطان میرے سامنے سے جا کیونکہ لکھا ہے کہ تو اپنے خداوند خدا کو سجدہ کر اور صرف اس کی بندگی کر وہ اسے یروشلیم میں لایا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کرکے اسے کہا تو خداکا بیٹا ہے تو اپنے تیئں یہاں سے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لیے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا کہ تیری خبرداری کریں اور تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے ۔ یسوع نے جو ا ب میں اسے فرمایا کہ کہا گیا ہے تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما‘‘(لوقا۱:۴۔ ۱۲) ۔ پھر متی رسول لکھتا ہے کہ ’’اور کچھ آگے بڑھ کے منہ کے بل گرا اور دعا مانگتے ہوئے کہا کہ اے میرے باپ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے گزر جائے تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ تیری خواہش کے مطابق ہو تب شاگردوں کے پاس آیا اور انہیں سوتے پاکر پطرس سے کہا کیا تم میرے ساتھ ایک گھنٹہ نہیں جاگ سکے جاگتے رہو اور دعامانگو تاکہ امتحان میں نہ پڑو۔ روح تو مستعد پر جسم سُست ہے ۔ پھر اس نے دوبارہ جاکر دعامانگی اور کہا اے باپ اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ مجھ سے نہیں گزر سکتا تو تیری مرضی ہو ‘‘(متی ۳۹:۲۶۔ ۴۲) ۔

مسیح کی پاکیزگی

پولُس رسول لکھتا ہے کہ ’’کیونکہ ایسا سردار کاہن ہمارے لائق تھا جو پاک اور بے بد اور بے عیب اور گناہ گاروں سے جد ا اور آسمانوں سے بلند ہے’‘ (عبرانیوں ۲۶:۷) ۔ مزید براں لکھا ہے ’’کیونکہ ہمارا ایسا سردار کا ہن نہیں جو ہمارے سُستیوں میں ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ ایسا جو ساری باتوں میں ہماری مانند آزمایا گیا پر اس نے گنا ہ نہ کیا ‘‘(عبرانیوں۱۵:۴) ۔

مسیح کا خدا سے دعا مانگنا

مقدس لوقا لکھتا ہے کہ ’’اور ان دنوں میں ایسا ہوا کہ وہ پہاڑ پر دعا مانگنے کو گیا اور خدا سے دعا مانگنے میں رات بتائی ‘‘(لوقا۱۲:۶) ۔ پھر متی رسول لکھتا ہے کہ ’’پھر آپ لوگو ں کو رخصت کرکے دعا کے لیے پہاڑ پر اکیلا چڑھ گیا اور جب شام ہوئی وہیں اکیلا رہا‘‘(متی ۲۳:۱۴) ۔

مسیح کی محبت ومہربانی

متی رسول لکھتا ہے ’’اے تم لوگو جو تھکے او ر بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا میرا جو ا اپنے اوپر لے لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں تو تم اپنے جیوں میں آرام پاؤگے ۔ کیونکہ میرا جوا ملائم اور میرا بوجھ ہلکا ہے ‘‘(متی ۲۸:۱۱۔ ۳۰) ۔ پھر لکھا ہے کہ ’’جب وہ جماعتوں سے کہہ رہا تھا۔ دیکھو اس کی ماں اور اس کے بھائی باہر کھڑے اس سے بات کیا چاہتے تھے ۔ تب کسی نے اس سے کہا کہ دیکھو تیری ماں اور تیرے بھائی کھڑے تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں پر اس نے جواب میں خبردینے والے سے کہا کو ن ہے میری ماں اور کون ہے ؟میرے بھائی اور اپنا ہاتھ اپنے شاگردوں کی طرف بڑھا کے کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی کیونکہ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پرہے مرضی پر چلتا ہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے ‘‘(متی۴۶:۱۲۔ ۵۰) ۔ مقدس پو لُس رسول لکھتا ہے کہ ’’مسیح کی محبت ہم کو کھینچے ہے کیونکہ ہم یہ سمجھے کہ جب ایک سب کے واسطے موا تو سب مردہ ٹھہرے اور وہ سب کے واسطے کہ جو جیتے ہیں سو آگے کو اپنے لیے نہ جئیں بلکہ اس کے لیے جوان کے واسطے اور پھر جی اُٹھا‘‘ (۲۔ کرنتھیوں۱۴:۵) ۔ مقدس لوقا اور متی رسول لکھتے ہیں کہ ’’لوگوں نے پاس آکر عیسیٰ پر ہاتھ ڈالے اور اسے پکڑ لیا اور عیسیٰ کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کر اپنی تلوار کھینچی اور سردار کا ہن کے نوکر پر چلا کراس کا کان اُڑا دیا اپنی تلوار میان میں کر کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں تلوار ہی سے مارے جائیں گے ‘‘(متی ۵۰:۲۶۔ ۵۲؛ لوقا۵۱:۲۲) ۔ پھر لوقاکی انجیل میں بیان ہے کہ ’’اور جب وہ اس جگہ پر جسے کلوری نام رکھتے ہیں پہنچے تو وہاں اسے صلیب دی اور بدکاروں کو بھی ایک دہنے دوسرا بائیں۔ اور عیسیٰ نے کہا اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں’‘ (لوقا۳۳:۲۳۔ ۳۴) ۔

یہی مسیح ہمارا اور خداکا درمیانی ہے جیسا کہ لکھا کہ خدا ایک ہے اور اس کے اور انسان کے درمیان وسیلہ بھی ایک ہے یعنی عیسیٰ مسیح اس نے ہمارے گنا ہ اُٹھالیے اور اسی سبب مصلوب ہوا تاکہ جو ہم گنا ہ میں مردہ ہوگئے تھے راستباز گنے جائیں۔

مقدس پطرس رسول لکھتا ہے کہ ’’وہ ہمارے گناہ کو اپنے بدن پر اُٹھاکے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے حق میں مرکے راستبازی میں جئیں ان کوڑوں کے سبب سے جو اس پر پڑے تم چنگے ہوئے ‘‘(۱۔ پطرس ۲۴:۲) ۔ پولُس رسول لکھتا ہے کہ ’’کیونکہ جب ہم ہنوز کمزور تھے مسیح عین وقت پر بے دینوں کے لیے موا۔ اب مشکل سے کسی راست کا ر کے لیے کوئی اپنی جان دے گا پر شاید کسی میں یہ جرات ہوکہ کسی نیکو کار کے لیے اپنی جان دے لیکن خدا نے اپنی محبت ہم پر یوں ظاہر کی کہ جب ہم گناہ گا ر ٹھہرے تھے مسیح ہمارے واسطے موا فقط‘‘(رومیوں ۶:۵۔ ۸) ۔ پھر اسی خط میں لکھا ہے ’’پس اب ان پر جو مسیح یسوع میں ہیں اور جسم کے طور پر نہیں بلکہ روح کے طور پر چلتے سزا کا حکم نہیں فقط‘‘(رومیوں ۱:۸) ۔ رسولوں کے اعمال میں لکھا ہے کہ ’’انہوں نے کہا کہ خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا فقط‘‘(اعمال۳۱:۱۶) ۔ اسی طرح (گلتیوں ۱۰:۳۔ ۱۱) میں لکھا ہے کہ ’’کیونکہ وہ سب جو شریعت ہے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں سو لعنت کے تحت ہیں کہ لکھا ہے جو کوئی ان سب باتوں کے کرنے پر کہ شریعت کی کتاب میں لکھی قائم نہیں رہتا لعنتی ہے پر یہ بات کوئی خداکے نزدیک شریعت سے راستبازنہیں ٹھہرتا سو ظاہر ہے کیونکہ جو ایمان سے راستباز ہو ا سو ہی جئے گا فقط‘‘۔ مقدس پولُس رسول گلتیوں کو (گلتیوں ۶:۵) میں لکھتا ہے ’’اس لیے کہ مسیح یسوع میں مختونی اور نامختونی سے کچھ غرض نہیں مگر ایمان سے جو محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے فقط‘‘۔ اور (رومیوں ۳۳:۸۔ ۳۹) میں ہے ’’خدا کے چنے ہوؤں پر دعویٰ کو ن کرئے گا خدا ہی ہے جو ان کو راستباز ٹھہراتا ہے کون سزا کا حکم دے گا مسیح جو مرگیا بلکہ جی بھی اُٹھا اور خدا کے دہنی طرف بیٹھا ہے وہ تو ہماری سفارش کرتا ہے کو ن ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگائی یا خطرہ یا تلوار چنانچہ لکھا ہے کہ تیری خاطر دن بھر ہلاک کئے جاتے ہیں اور ذبح کی بھیڑوں کے برابر گنے جاتے ہیں۔ بلکہ ہم ان سب چیزوں میں اس کے وسیلے جس نے ہم سے محبت کی ہر غالب پر غالب ہیں کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ نہ موت نہ زندگی نہ فرشتے نہ حکومتیں نہ قدرتیں اور نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں نہ بلندی نہ پستی اور نہ کوئی دوسرا مخلوق ہم کو خداکی محبت سے جو ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے جدا کرسکے گا فقط‘‘۔ (رومیوں ۱:۶۔ ۳) میں لکھا ہے کہ ’’پس ہم کیا کہیں کیا گنا ہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہوایسا نہ ہوہم تو جو گنا ہ کی نسبت موئے ہیں پھر کیونکر اس میں زندگی گزارئیں کیا تم نہیں جانتے کہ ہم میں سے جتنوں نے مسیح یسوع کا بپتسمہ پایا اس کی موت کا بپتسمہ پایا فقط‘‘ پھر اسی باب کی یعنی (رومیوں ۱۰:۶۔ ۱۳) میں ہے ’’کیونکہ وہ جو مواسو گناہ کی نسبت ایک بار موا پھر جو جیتا ہے سو خدا کی نسبت جیتا ہے اس طرح تم بھی آپ کو گناہ کی نسبت مردہ پر خداکی نسبت ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے زندہ سمجھو ۔پس گناہ تمہارے فانی بدن پر سلطنت نہ کرے کہ تم اس کی شہوتوں میں اس کے فرمانبردار رہو اور نہ اپنے عضو گناہ کے حوالے کرو کہ ناراستی کے ہتھیار بنیں بلکہ اپنے تیئں اس طرح خدا کو سونپو جیسے مر کے جی اُٹھے اور اپنے عضو خدا کے سپرد کرو تا کہ راستی کے ہتھیا ر بنیں فقط‘‘۔ پھر (رومیوں ۶:۲۳) میں ہے ’’کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے پھر خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے ہمیشہ کی زندگی ہے فقط‘‘۔

نئے دل کا بیان

انجیل میں انسا ن کا حال اس طرح لکھا ہے کہ انسان اس سبب سے کہ وہ آدم کی نسل سے ہے گناہ میں پیدا ہوا اور وہ بالکل لاچار پریشان گنہگار کمزور ہے ۔ بندگی اور نیکی جو وہ کرسکتا ہے سراسر ناقص اور نکمی ہے اس پاک پروردگار کے روبرو جو ہمارا حاکم اور منصف ہے بالکل کا م نہ آئے گی۔ اب اس بات کی تصدیق کے لیے چند آیا ت لکھی جاتی ہیں۔ پولُس کا خط رومیوں کو اس کے پہلے باب میں بت پرستوں کے حق میں لکھا ہے کہ’’ انہوں نے اگرچہ خدا کو پہچانا تو بھی خدا کے لائق اس کی بزرگی اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالوں میں پڑگئے اور ان کے نافہم دل تاریک ہوگئے ۔ وہ آپ کو دانا ٹھہرا کے نادان ہوگئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی آدمی اور پرندوں اور چارپائیوں اور کیڑے مکوڑے کی مورت سے بدل ڈالا۔ اس واسطے خدانے بھی ان کے دلوں کی خواہش پر ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ اپنے بدنوں کو آپس میں بے حرمت کریں اور مخلوق کی پرستش اور بندگی کرکے خالق کو چھوڑدیا جو ہمیشہ ستائش کے لائق ہے اس سبب سے خدا نے ان کو گندی شہوتوں میں چھوڑ دیا کہ ہر طرح کے بدکام شوق سے کریں‘‘۔ اسی خط کے دسویں (۱۰) باب میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جو خدا کے چنے ہوئے لوگ تھے وہ بھی کچھ اچھے نہ تھے ۔ اور پھر لکھا ہے کہ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں کوئی خدا کی باتوں کا سمجھنے والا بھی نہیں کوئی خدا کا طالب نہیں سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمے ہیں کوئی نیکوکار نہیں ایک بھی نہیں۔ ان کا گلہ کھلی ہوئی قبر ہے انہوں نے اپنی زبان سے فریب دیا ہے وغیرہ۔ (زبور ۳:۵۱۔ ۵) میں داؤد کہتا ہے کہ ’’میں اپنے گناہوں کو مان لیتا ہوں اور میری خطا ہمیشہ میرے سامنے ہے میں نے تیرا ہی گناہ کیا ہے اور تیرے ہی حضور بدی کی ہے تاکہ تو اپنی باتوں میں صادق ٹھہرے اور جو تو عدالت کرے تو توپاک ظاہر ہو میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گنا ہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا ‘‘۔ پھر ایوب لکھتا ہے ’’میں پلید ہوں میں خدا کو کیا جواب دوں ‘‘۔ ایسا ہی بائبل ہم کو تعلیم دیتی ہے کہ سب چھوٹے بڑے گناہگار ،پلید، پریشان ،نالائق اور کمبخت ہیں وہ ہمیں کہتی ہے کہ ہم نیکی نہیں کرسکتے جس طرح حبشی اپنے رنگ کو اور چیتا اپنے داغوں کو نہیں بدل سکتا اسی طرح گنہگار اپنے دل پلید کو پاک نہیں کر سکتا۔ خدائے تعالیٰ ہونٹوں کی بندگی نہیں چاہتا بلکہ دل کی بندگی چاہتا ہے اور اس کا پہلا حکم یہ ہے کہ اس کو سارے دل اور ساری جان سے پیار کریں۔ لیکن جب ہمارے دل میں دشمنی تکبر ضد اور خودغرضی بھری ہوئی ہے تو ہم خدا کو پیار نہیں کرسکتے خدا چاہتا بھی ہے اور حکم بھی دیتا ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایسا پیار کریں جیسا آپ کو اور اپنے دشمنوں سے بھی ایسا ہی سلوک کریں۔ اگر بھوکے ہوں تو کھلائیں پیاسے ہوں تو انہیں پلائیں اگر ہم کو دکھ دیں تو ہم ان کے لیے دعائیں مانگیں لیکن یہ سب باتیں ہم سے ہو نہیں سکتیں۔ پھر بائبل فرماتی ہے کہ سب لوگ کمزور ناچار اور نکمے ہیں جو کوئی اپنے چال چلن اور دل کو جانچے گا و ہ ضرور اقرار کرئے گا کہ بائبل میری تمام حالت صحیح صحیح بیان کرتی ہے ۔ واضح ہوکہ انجیل نہ صرف انسان کی بیماری ہی بیان کرتی ہے بلکہ انجیل کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ جو عیسیٰ پر ایمان لائے گا وہ حلیم طبع، فروتن، نیک مزاج اور خیر خواہ بن جائے گا۔ اور خدا کو پیار کرئے گا پہلے خدا سے ڈرتا تھا اب اس کی صحبت میں خوش رہے گا۔ خدا کو باپ کہہ کر پکارے گا۔ پہلے اس کو خدا کی عبادت سخت مشکل کام نظر آتا تھا اب وہ کمال خوشی سے اسے کرئے گا۔ گناہ سے نفرت رکھے گا اور حتی المقدور گناہ، خودغرضی، تکبر اور بری خواہشوں سے بچے گا۔ اس کو روح حق ملتی ہے جس سے آدمی کا مزاج نیک ہوجاتا ہے اور ازسر ِنو پیدا ہوتا ہے ۔ دیکھو نیکودیمس جب عیسیٰ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ اے ربیّ میں جانتا ہوں کہ توخدا کی طرف سے استاد ہوکر آیا ہے تو عیسیٰ نے اس کو جواب میں بھی کہا کہ ازسر ِنوپیدا ہونا چاہیے نہیں تو خداکی بادشاہت میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا۔ پس اس لیے ضرور ہم گنہگاروں کو ازسر نو پید ا ہونا چاہیے انجیل میں بار بار لکھا ہے کہ جو آدمی مسیح پر ایمان لائے گا ازسرنوپیدا ہوگا اور مسیح کے زمانے سے لے کر آج تک بہت سے لوگوں نے اس بات کا اقرار کیاہے کہ ہم آگے مردہ تھے اب مسیح پر ایمان لانے سے زندہ ہوئے ہیں۔ آگے خدا کو نہیں چاہتے تھے اب اس سے محبت رکھتے ہیں آگے اپنے دشمنوں کی بربادی چاہتے تھے اب ان کی بہتری چاہتے ہیں آگے گناہ کرتے تھے اب اس سے نفرت رکھتے ہیں۔ آگے انسانی عزت کی خواہاں تھے اب خدا کی طرف سے عزت چاہتے ہیں اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ جو لوگ مسیح پر ایمان لاتے ہیں البتہ یہ برکت یعنی نیا جنم پاتے ہیں۔

جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سچا عیسائی اپنے قول وفعل سے معلوم ہوجاتا ہے چنانچہ ایک درخت ہے اور وہ خراب اور کھٹا پھل لاتا ہے جب پیچھے وہ عمدہ اور شیریں پھل لانے لگے تو سب آدمی کہیں گے کہ آگے یہ درخت خراب تھا اب اچھا ہوگیا ہے ۔ پس یہی فرق عیسائیوں میں ہے کہ جب وہ دل وجان سے عیسیٰ پر ایمان لاتے ہیں تو ہر ایک کو ان کے عملوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو نیا جنم حاصل ہوگیا ہے اور ان کا چال چلن بدل گیا ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب خداوند عیسیٰ نے جو اتنا ذوالجلال تھا بہشت اور اپنے باپ کو چھوڑ دیا اور خراب دنیا میں آکر بے نہایت تکلیف اور دکھ اور بے عزتی اُٹھا ئی اور سولی پر اپنی بیش قیمت جان دی کہ ہم کو حقیقی دولت عزت اور ہمیشہ کی زندگی ملے ۔ پس اگر ہم اپنے بھائیوں اور جھوٹی دولت، فانی عزت اور چند روزہ خوشی کو چھوڑ دیں تو کیا مشکل اور کیا بھاری بات ہے ۔ بے شک ایسی خیر خواہی اور محبت حقیقی ایما ن اور ازسر نو پیدا ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور وہ انجیل جس کا آدمی کا مزاج ایسا بدل جاتا ہے سچ اور ماننے کے لائق ہے ۔ بھائیو وہ درخت جس سے ایسا پھل حاصل ہو بے شک بہشتی ہے ۔ اگر کوئی شخص دنیا کی سیر کرے اور ہر ایک مذہب کے لوگوں کو دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ اکثر مقاموں میں غریبوں، مسکینوں اور بیواؤں کی پرورش کے لیے کیسے خوب بندوبست کئے ہوئے ہیں۔ اندھوں اور بہروں کے سکھانے کے لیے مدرسے بنے ہوئے ہیں۔ بیماروں اور لاچاروں کے لیے شفا خانے کھلے ہوئے ہیں۔ جب ہو یہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھے گا اور دریافت کرے گا اس کو معلوم ہوگا کہ وہ ملک عیسائی لوگوں کے تحت میں ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ انجیل کی ساری تعلیم سے ظاہر ہے کہ خدا پاک، منصف اور مہربان ہے اور اس میں زندگی کے ایسے طریق پائے جاتے ہیں جو اس کے شایاں ہیں اور ماننے والوں کو خوش اور دنیا کو صلح سے بھر پور کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کا چال چلن، عبادت، محبت اور حلم سے پُر تھا اور نیز ہم کو زندگی اور نجات کا طریقہ ملتا ہے جو خدا کے شایاں ہے اور گنہگار کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور اس کو پاک ہونے کے لائق کرتا ہے ۔ بے شک ایسی کتاب جو ہماری ضرورتوں کو پورا کرتی ہے ضرورخداسے ہوگی۔ عزیزو!اب انصاف سے اس بات پر غور کرو کہ و ہ دین جس سے ایسے عمدہ فائدہ حاصل ہوں وہ سچاہے یا نہیں اگر یہ بات سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو بے شک یہ دین برحق ہے ۔

پانچویں دلیل انجیل کا پھیل جانا

جاننا چاہیے کہ صرف مذہب کے پھیلنے سے اس کی سچائی ظاہر نہیں ہوتی مثلاً کوئی شخص وحشی آدمی گھر میں بڑا بہادر ہو اور اس کی چار طرف چھوٹے چھوٹے مختلف رہتے رہے ہوں تو وہ بہادر ایک نیا مذہب جاری کرکے کہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی اس مذہب کے واسطے جنگ کرے گا تو اس کو اس دنیا میں لوٹ کامال اور خوبصورت عورتیں ملیں گی اور اس دنیا میں یعنی بہشت میں بھی اسے ایسی ہی خوشی عنایت ہوگی تو البتہ بہت لوگ اس مذہب کو قبول کریں گے اور جس قدر زیادہ شریر ہوں گے اس قدر اس کی زیادہ پیروی کریں گے ۔ کیونکہ زن اور زر کے لیے جنگ کرنا شریروں کو بہت پسند ہے ۔ پس ضرور وہ جلد تر اور زیادہ تر پھلے گا لیکن مسیح نے کبھی اپنے شاگردوں کو نہیں کہا کہ میرے پیچھے آؤ تم کو جسمانی یادنیاوی خوشیاں حاصل ہوں گی۔ بلکہ اس سے برعکس اس نے فرمایا کہ اس دنیا میں تم کو ہر طرح کی تکلیف ملے گی تمہارے گھر کے لوگ تمہارے دشمن ہوجائیں گے اور جو کوئی تم کو مار ڈالے گا گمان کرئے گا کہ میں نے خدا کی بندگی کی پھر اس نے کہا کہ میں تم کو بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں میں بھیجتا ہوں اور عیسائی دین ہی خود انسان کی خواہشوں کے برخلاف ہے ۔ دیکھو جب عیسیٰ کے شاگر د اس کی عزت اور بچاؤ کے لیے اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے تو و ہ ان کو منع کرتا تھا اور کہتا تھا کہ تم نہیں جانتے کہ تم کس طرح کی روح رکھتے ہو اور ان کو سکھلاتا تھا کہ رحم دل اور فروتن مزاج بنو۔ اگر دشمن تم پر سختی کریں تو خفا مت ہو اپنے دشمنوں کو پیار کرو ان کے قصوروں کو معاف کرو ان کے لیے دعا مانگو کیونکہ مغرور، لالچی، دغاباز، کینہ وراور سنگدل خدا کی بادشاہت میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا فقط۔

پھر ہم سب جانتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنے پُن اور ثواب کو اپنا فخر سمجھتے ہیں جیسے نمازی اپنی نماز، کو حاجی حج کو، پنڈت بدھیا کو، جاتیری تیرتھہ کو، جوگی یاسننیاسی بڑے دکھ اُٹھا نے کو۔ لیکن خداوند عیسیٰ مسیح نے صاف فرمایا ہے کہ تپ اور جپ پن اور ثواب خداوندتعالیٰ کے آگے کچھ قدر نہیں رکھتے یہ بھی سمجھو کہ جنہوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا ہے وہ بخوبی جانتے تھے کہ ہمارے رشتہ دار ہم کو چھوڑ دیں گے۔ بلکہ دشمن ہوجائیں گے اور حاکم ہم پر تعدی(حدسے زیادہ بڑ ھ جانا،ظلم وستم) کرئیں گے بلکہ مارڈالیں گے پھر انہوں نے یہ مذہب کیوں اختیار کیا چنانچہ مسیح کے بعد چوتھی صدی تک روم کے بادشاہوں نے باربار کوشش کی کہ عیسائیوں کو مار ڈالیں اور دین عیسوی نیست ونابود ہوجائے ۔

یہ بھی دریافت کے لائق ہے کہ وہ لوگ کیسے تھے جنہوں نے دین عیسوی جاری کیا۔ عیسیٰ تو خود غریب تھا اور اس کے پہلے شاگر د بالکل ناخواندہ تھے اسی باعث سے لوگ ان کو ناچیز جانتے تھے ۔یہ بھی ایک معجزہ معلوم ہوا ہے کہ غریب حلیم اور ناخواندہ آدمیوں سے ایسا جلد ملکوں میں پھیل جائے اور اب تک پھیلتا چلا جاتا ہے تو اریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ باوجود ان تمام سختیوں اور دشمنوں کے انجیل پھیل گئی اور جو کوئی اس دین کو قبول کرتا تھا وہ اپنی ماں باپ دولت اور عزت کو چھوڑ کرخوشی سے اس مذہب کو قبول کرتا تھا ،حالانکہ عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ دنیا میں تم کو ہر طرح کی تکلیف ملے گی اور ان کی آنکھوں کے روبرو مسیح کی بات پو ری بھی ہوتی جاتی تھی۔ پھر کیوں انہوں نے ا س مذہب کو قبول کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک انہوں نے اس مذہب کو حواریوں اور واعظوں کی باتوں پر یقین کیا۔

تیغ و سپر عیسوی

دوسرا حصہ

اعتراضات وجوابات

دیباچہ

اکثر لوگ جب غیر مذہبوں پر اعتراض سنتے ہیں۔ تو بغیر دریافت کرنے کے ان اعتراضوں کو درست اور صحیح مان جاتے ہیں۔ لیکن اگر نادان اور جاہل لوگ اس طرح فریب کھا جائیں تو بھی عاقل اور عالم کو چاہئے کہ عقل اور علم سے ان کو تحقیق کرے اور سمجھے ۔ اس لئے مصنف کا یہی ارادہ ہے کہ وہ اعتراض جو محمدی انجیل پر کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا جو اکثر سنی جاتی ہیں جواب دے ۔ بہت سے اعتراض کو توریت اور نبیوں کے صحیفوں پر کئے جاتے ہیں اس وقت ان کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ اگرچہ ہم کتابوں کو برحق اور کلام اللہ جانتے ہیں تو بھی انجیل ہمارے ایمان کی خاص بنیاد ہے اور اگر ثابت ہو کہ یہودیوں نے اپنی کتابوں کو بگاڑا ہے تو بھی اس بات سے انجیل کی بنیاد نہ ہلے گی اور مسیحی لوگ جب اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ محمد صاحب خود انجیل کو صحیح اور درست مانتے تھے تو محمدی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ وہ انجیل جس کا ذکر قرآن میں ہے موجود نہیں اور یہ انجیل جو تم لوگ رکھتے ہو ناقص اور نادرست ہے ۔ اس کتاب کے حصہ اول میں اس کا ذکر مفصل لکھا گیا ہے پر اس جگہ بھی اس کا مختصر جواب دینا مناسب سمجھا جاتا ہے ۔ مسلمان لوگ اقرار کرتے ہیں کہ انجیل ساتویں صدی عیسوی تک موجود تھی کیونکہ اس صدی میں محمد صاحب نے قرآن کو جس میں اکثر مقام پر لکھا ہے کہ ’’انجیل برحق ہے‘‘ اہل عرب کودیا۔

پوشیدہ نہ ر ہے کہ اس زمانے سے لے کر آج تک بے شمار عیسائی لوگ دنیا میں چلے آتے ہیں اور وہ بہت مختلف ملکوں میں آباد رہے ہیں اور ان کے بہت سے فرقے بھی چلے آئے ہیں۔ ان سبھوں سے ناممکن معلوم دیتا ہے کہ محمد صاحب کے پیچھے انجیل بدل جائے ۔کیونکہ اگر ایک قوم یا ایک فرقہ کے لوگ اپنی انجیل کو بدلیں تو بھی اور فرقوں اور قوموں کے لوگوں کے پاس اصلی انجیل رہے گی ۔لیکن معلوم رہے کہ سب عیسائی فرقوں اور قوموں کے پاس بھی یہی ایک انجیل موجود ہے اور آج تک انجیل کے بڑے پرانے نسخے عیسائی کتب خانوں میں موجود ہیں۔ جو محمدصاحب کے پیشتر لکھے گئے تھے ۔ جو کوئی چاہئے لندن، پیرس، روم، سینٹ پیٹرز برگ وغیری کے کتب خانوں میں جا کر دریافت کرلے ۔

اور یہ بھی واضح ہو کہ عیسائی عالموں کے پاس بہت سی کتابیں ہیں جو محمد صاحب کے زمانہ سے پیشتر موجود تھیں جن میں انجیل کی تعلیم کا ذکر اکثر جگہ ہے اور اگر ان کتابوں کو حال کی مروجہ انجیل کے ساتھ مقابلہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جو انجیل محمد صاحب سے پیشتر پائی جاتی تھی حال کے عیسائی بھی اسی انجیل کو رکھتے ہیں اور اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی کتاب بخوبی جاری ہو جائے اور بے شمار لوگ اس سے واقف ہو جائیں تو اس کے عوض میں ناقص اور جھوٹی کتاب کو جاری کرنا ناممکن ہے مثلاً اگر کوئی شخص ایک نئی گلستاں اس زمانہ میں تصنیف کرے اور لوگوں کو کہے کہ یہ اصلی گلستاں ہے تو کب ہوسکتا ہے کہ سب اپنی پرانی گلستاں کو بھول جائیں اور بجائے اس کے اس نئی گلستاں کو قبول کرلیں۔ پس جب کہ ایک شہر میں اس امر کاہونا محال ہے تو کس طرح کی جادو گری سے اتنے بڑے بڑے ملکوں میں انجیل بدل سکتی ہے ۔

یہ بھی واضح ہو کہ مسیح کے زمانے سے لے کر آج تک عیسائیوں کے بہت سے دشمن وقتاً فوقتاً چلے آئے ہیں اور وہ سب انہیں باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جو کہ حال کی انجیل میں موجود ہیں اس سے بھی ثابت ہے کہ انجیل کبھی بدلی نہ گئی تھی۔ اگر کوئی ان دلیلوں سے بھی قائل نہ ہو تو میں اسے تین چار سوال کرتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ عیسائی لوگوں کو اس حرکت سے کیا فائدہ ہوا ۔دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا؟

دوسرا سوال کہ کیا عیسائی ہی ایسے جاہل اور بے دین ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنی کتابوں کو آپ ہی بگاڑدیا یا کوئی اور فرقہ بھی ہے جس نے کبھی اپنی دینی کتابوں کو بگاڑا ہے ؟

تیسرا سوال اگر عیسائیوں نے اپنی کتاب کو بگاڑا ہے تو بے شک ان کو معلوم بھی ہوگا کہ ہم نے یہ حرکت کی ہے پھر کس طرح وہ اپنی انجیل پر ایمان لاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اور سب لوگ بھی اس پر ایمان لائیں؟

چوتھا سوال یہ ہے کہ انہوں نے کس زمانہ میں یہ حرکت کی اور کس شہر میں کمیٹی کر کے اس کام کو انجام دیا؟

ان سوالوں کا معقول جواب کسی نے نہیں دیا ہے اور نہ کوئی دے سکے گا۔ پس جو کوئی اس انجیل پر اعتراض کرے وہ خوب سمجھے کہ میں اصل انجیل پر اعتراض کرتا ہوں اب ہم ان اعتراضوں کا جو محمدی انجیل پر کرتے ہیں جو اب دیتے ہیں۔ مگر اول خداکی جناب میں دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہماری عقل کو روشن کرے اور ہمارے دلوں کو صاف کرے اور ہم کو مدد بخشے (اس کام میں) کہ ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کریں۔ اور سچائی کو قبول کر کے اس پر عمل کریں۔

آمین

پہلی فصل

اعتراض۔ درباب مسئلہ تثلیث اور الوہیت مسیح

پہلا اعتراض۔ عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ باپ ،بیٹا اور روح القدس ایک واحد لاشریک خدا ہے یعنی ایک کو تین اور تین کو ایک کہتے ہیں۔ اس بات پر اکثر لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ عیسائی تین خدا کو مانتے ہیں لیکن یہ بات بالکل باطل ہے ۔کیونکہ عیسائی کبھی اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ تین خدا علیحدہ علیحدہ ہیں اور بائبل میں لکھا ہے کہ خداایک اورواحد ہے جیسے(استثنا ۴:۶)میں مندرج ہے کہ ’’ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے‘‘ اور (مرقس۲۹:۱۲) کہ ’’خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خداوند ہے ‘‘۔ پس اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ بائبل میں خدا کے تین ہونے سے کیا مراد ہے ۔ مسیح نے اپنے حق میں فرمایا کہ ’’جس نے مجھ کو دیکھا خدا کو دیکھا ہے‘‘ اور پھر یہ کہ ’’میں اور باپ ایک ہیں‘‘۔ پھر لکھا ہے کہ ’’سب چیزیں اسی سے پیدا ہوئیں اور وہ سب چیزوں کو سمبھالتا ہےاور سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جیسے باپ کی عزت کرتے ہیں‘‘ اور روح القدس کے حق میں لکھا ہے کہ ’’وہ ہر ایک کو اپنی مرضی کے موافق نعمت دیتی ہے ‘‘۔ پھر یہ کہ ’’اس سے جھوٹ بولنا خدا سے جھوٹ بولنا ہے‘‘ (اعمال۳:۵۔۴) ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے جب عیسیٰ آسمان پر جانے کو تیار تھا اس نے اپنے شاگردوں کو کہا ’’کہ تمام دنیا میں جاؤ اور ہر ایک مخلوق کو باپ ،بیٹے اور روح القدس کے نام سےبپتسما دو‘‘ اور پھر پولُس رسول نے ایمان لانے والوں کے واسطے دعا مانگ کے کہا کہ ’’خداوند عیسیٰ مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح القدس کی رفاقت کی رفاقت تم سبھوں کے ساتھ ہوئے ۔ آمین‘‘ یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ مسیح یا روح القدس باپ سے الگ ایک خدا ہے۔ لیکن ہر جگہ میں ان کی الوہیت اسی واحدانیت سے جو باپ کے ساتھ رکھتے ہیں ثابت ہوتی ہے ۔ مسیح کے حق میں لکھا ہے کہ ’’وہ باپ کی گود میں تھا‘‘ پھر یہ کہ ’’خدا نے اس کو دنیا میں بھیجا‘‘ پھر مسیح نے فرمایا ’’میں جا کر روح القدس کو باپ کے پاس سے بھیجوں گا‘‘۔ پھر عیسیٰ نے روح کے حق میں فرمایا کہ ’’کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی وہ کہی گی۔ اس لئے کہ وہ میری بزرگی کرے گی وہ میری چیزوں سے پائیں گی اور تمہیں دکھائے گی‘‘ اور پھر عیسیٰ نے اپنے حق میں فرمایا کہ ’’اس روز تمہیں یعنی قیامت کے دن تم جانو گے کہ میں باپ میں اور تم مجھ میں اور میں تم میں ہوں اور کہ اگر کوئی آدمی مجھے پیار کرتا ہے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا اور میرا باپ اس کو پیار کرے گا اور ہم اس کے پاس آئیں گے اس کے ساتھ رہیں گے ‘‘۔ پھر عیسیٰ نے فرمایا کہ ’’بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا مگر جو کچھ کہ وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے ،کیونکہ جو کام کہ وہ کرتا ہے بیٹا بھی اسی طرح کرتا ہے‘‘ اور روح القدس کی نسبت مسیح نے کہا کہ ’’میرے باپ کہ روح تم میں بولے گی‘‘۔ (دیکھو یوحنا کی انجیل ۱۶،۱۵،۱۴باب) ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تین خدا نہیں ہیں مگر ایک اور یہ بھی کہ بیٹا یا روح القدس باپ سے الگ ہو کر ایک خدا نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ باپ اور بیٹا ایک ہیں اور روح القدس باپ اور بیٹے کی روح ہے ۔ اس لئے وہ تینوں ایک واحد خدا ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ وحدت میں کثرت کس طرح ہوسکتی ہے ۔ تو یہ درست ہے یعنی اگر کوئی کہے کہ تین چیزیں ایک چیز ہے یا تین ذاتیں ایک ذات ہے تو یہ بے شک برخلاف عقل کے ہے لیکن عیسائی یہ نہیں کہتے اور نہ انجیل میں اس طرح لکھا ہے۔ صرف ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’باپ بقا ہے بیٹا بھی بقا اور روح القدس بھی بقا۔ باپ قادر مطلق بیٹا قادر مطلق اور روح القدس قادر مطلق ہے توبھی تین بقا یا قادر مطلق نہیں مگر ایک ۔اگر کوئی کہے کہ یہ بات عقل اور سمجھ سے باہر ہے تو جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات اور صفات انسان کی عقل اور سمجھ سے باہر ہیں۔ عقل سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہے لیکن نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے ۔ یعنی فیلسوف کہتے ہیں کہ دو خدا ہیں۔ ایک تاریکی اور برائی کا مالک، دوسرا روشنی اور نیکی کا۔ بعضوں کا قول ہے کہ ناچیز سے کچھ نہیں پیدا ہوتا یعنی بغیر مادہ کے کوئی چیزبنا نہیں سکتا اور نہ بن سکتی ہے اور اس سبب سے وہ ساری چیزوں کو خدا کہتے ہیں۔ کون بیان کرسکتا ہے کہ خدا نے گناہ اور دکھ درد اور موت کو کیوں دنیا میں آنے دیا کیا وہ ان چیزوں کو پسند کرتا تھا یا کمزور تھا ان کو روک نہ سکا؟ کون بتلا سکتا ہے کہ ہیچ سے ہیچ کس طرح پیدا ہوتا ہے ؟ کون بیان کرسکتا ہے کہ خدا کس طرح سب جگہ میں موجود ہے ؟ اگرچہ اس کا کوئی حصہ یا جز نہیں ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ خدا ہر جگہ حاضر نہیں پر صرف قدرت ہر جگہ موجود ہے ۔ تو خدا محدود ہو جاتا ہے اور اس کی شکل بن جاتی ہے اور یہ محال ہے ۔ اگر کہیں کہ کل خدا ہر جگہ موجود ہے تو یہ بھی عقل سے باہر ہے کیونکہ کون بیان کرسکتا ہے یا خیال میں لاسکتا ہے کہ کل خدا ہر جگہ موجود ہے باوجود یہ کہ یہ حق ہے ۔ مگر کوئی نہیں سمجھ سکتا اسی طرح تین اقنوم کا ہونا اور پھر خدائے پاک کا ایک ہونا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جب یہ ساری باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں تو ہم تثلیث کے مسئلہ کو جو خدا کے کلام میں صاف لکھا ہے کس طرح رد کریں ۔گو ہماری ناقص سمجھ میں نہیں آتا یہ بالکل مغروری اور جہالت کا نشان ہے کہ ہم کسی بات کو نہ سمجھنے کے باعث رد کردیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انجیل خدا کا کلام ہے اور جو کچھ اس کے حق میں اس کتاب میں لکھا ہے ہم سچ جانتے ہیں اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ عین مضمون کتاب کا ہے ۔

کوئی نہ کہے کہ عیسائی لوگوں نے یہ تعلیم خود اپنی کتاب میں درج کی ہے کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا اور پھر ہم نے یہ تعلیم صرف انجیل ہی سے نہیں پائی بلکہ توریت میں بھی موجود ہے ۔ بائبل میں اول ہی لکھا ہے کہ ’’خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا‘‘ اور وہ لفظ جس کا ترجمہ خدا ہے ’’الوہیم‘‘ جمع ’’الو‘‘ کی ہے اس میں تثلیث کا اشارہ پایا جاتا ہے ۔ پھر (۲زبور) میں مسیح کے حق میں لکھا ہے کہ ’’تو میرا بیٹا ہے’‘ پھر (۱۱۰زبور) میں داؤد فرماتا ہے کہ ’’خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ میرے دہنے ہاتھ بیٹھ‘‘ اور اس میں باپ اور بیٹے کا ذکر بھی ہے پھر (۵۱زبور) میں داؤد دعا مانگتا ہے کہ ’’اے خدا تو مجھ سے اپنی روح پاک نہ لے’‘ اس میں بھی باپ اور روح القدس کا ذکر ہے پھر (یسعیاہ۹باب) میں لکھتا ہے کہ ’’ہمارے واسطے ایک پسر(لڑکا) پیدا ہوتا ہے جس کا نام قادر خدا ہوگا‘‘ غرض کہ اسی طرح تثلیث کے اشارے عہد جدید میں اکثر پائے جاتے ہیں اور سب عاقل جانتے ہیں کہ توریت، زبور اور انبیا کی کتابیں یہودیوں کے قبضہ میں ہیں اور وہ عیسیٰ سے بڑی دشمنی رکھتے ہیں اور اس کو جھوٹا جانتے ہیں اور اپنی کتابیں بھی نہایت خبرداری سے رکھتے ہیں اور عیسائیوں کو فرصت نہیں دیتے کہ ان کی قدیمی کتابیں بگاڑ سکیں اور اپنے مطلب کے موافق ان میں نئی تعلیم لکھیں اور سب اہل اسلام کو معلوم ہو کہ قرآن میں بار بار لکھا ہے کہ توریت اور انجیل برحق ہیں اور موجود ہیں اور قرآن سے خود معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے لوگ عیسیٰ کو خدا سمجھ کے اس کی عبادت کرتے تھے، لیکن انہوں نے یہ تعلیم بھی انجیل سے پائی اور اس میں آج تک یہ تعلیم لکھی ہے اور جو عیسائی لوگوں کی تواریخ سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مسیح کی پیدائش کے ۳۰۰برس پیچھے ایک بدعتی معلّم بنام ایریئس تھا۔ جو عیسیٰ کی الوہیت کا انکار کرتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ صرف مخلوق ہے ۔ اگرچہ سب مخلوقات سے بہتر اور بڑا ہے پھر اس کے آج تک اس کی مانند بہت کہتے ہیں کہ انجیل سچ اور برحق ہے لیکن مسیح کو مخلوق جانتے ہیں باوجود اس کے یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ بائبل میں مسیح کا نام خدا کا بیٹا وغیرہ لکھا ہے جیسے کہ بیان کیا گیا ہے ۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسیح نے کیوں کہا کہ باپ مجھ سے بڑا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’مسیح باپ سے نکلا اور باپ کے پاس سے آیا اور پھر باپ کے پاس گیا‘‘ اور مسیح نے بھی فرمایا کہ ’’خدا روح القدس کو میرے نام سے بھیجے گا وہ روح بھی باپ سے نکلتی ہے‘‘ ان آیتوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ دونوں یعنی روح اور مسیح خدا باپ سے نکلے ہیں۔ جس طرح سورج اور اس کی گرمی اور اس کی روشنی ایک ہیں اور کوئی ان کو جدا نہیں کرسکتا اور روشنی اور گرمی سورج کے پیچھے سے پیدا نہیں ہوئی جب سے سورج بنا ہے تب سے نور اور گرمی بھی بنی ہے اور وہ ایک ہی کہلاتے ہیں۔ مگر سورج اپنی روشنی اور گرمی سے تاثیر کرتا ہے اسی طرح کا حال باپ اور بیٹے اور روح القدس کا کہ وہ ایک ہی ہیں۔ مگر باپ بھی مسیح اور روح القدس سے سب کام کرتا ہے اس لئے مسیح نے کہا کہ ’’وہ مجھ سے بڑا ہے ‘‘۔ پھر لکھا ہے کہ مسیح نے فرمایا کہ ’’میں جہان نور ہوں‘‘ ایک اور جگہ میں لکھا ہے کہ ’’وہ خدا کے جلال کی رونق ہے ‘‘۔ پھر یہ کہ خدا کا کلام یعنی خدا کا ظاہر کرنے والا ہے سو جیسے سورج اپنی سے ظاہر ہوتا ہے اور اسی سے تاثیر کرتا ہے پس اس کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا ہے اس نے خدا کو دیکھا ہے ۔ دنیا میں ظاہر ہے کہ کسان زمین میں بیج بوتا ہے ،لیکن اگر گرمی نہ ہو تی بیج ہرگز نہ اُگتا۔ ایسا ہی خدا کا کلام میں لکھا ہے کہ ’’کلام دل میں بویا جاتا ہے اور خدا کی روح سے اگتا ہے اور پھل لاتا ہے ‘‘۔ پس سورج گرمی اور روشنی باپ روح القدس کا ایک خوب نمونہ ہے ۔ اگر کوئی بیٹے کے لفظ پر اعتراض کرے تو اسے دریافت کرنا چاہئے کہ اس لفظ کے کیا معنی ہیں۔ اکثر محمدیوں کا قول ہے کہ ’’عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدانے ایک دوسرے خدا کو اپنی پشت سے دیگر مخلوقات کی مانند پیدا کیا‘‘۔ یہ بات بالکل ہماری عقل اور عقیدہ کے برخلاف ہے ۔بلکہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح روح کے طور پر خدا کا ابدی بیٹا ہے یعنی باپ اور بیٹے کی ایک ہی ذات ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جبرئیل نے مریم کے پاس آکر کہا ’’تو پیٹ سے ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عیسیٰ رکھنا‘‘۔ مریم نے کہا کہ ’’یہ کس طرح ہوگا۔ جس حال میں کہ میں مرد کو نہیں جانتی‘‘۔ تب فرشتہ نے جواب دیا کہ ’’روح القدس تجھ پر اترے گی اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا۔ اس واسطے وہ پاک چیز جو تجھ سے پیدا ہوگی خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گی‘‘۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا کے سوا عیسیٰ کا کوئی باپ نہ تھا اور مریم کنواری کے شکم(پیٹ، بطن) سے پیدا ہوا کیونکہ روح القدس اس پر نازل ہوئی اور خدائے تعالیٰ کی قدرت کا اس پر سایہ ہوا۔ پس معلوم ہو ہے کہ مسیح دونوں انسانیت اور الوہیت کے طور پر خدا کا بیٹا ہے ۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ خدا تھا تو اپنے باپ سے کیوں دعا مانگتا تھا؟ یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح باپ سے الگ ایک خدا نہیں بلکہ اس لئے خدا ہے کہ باپ سے نکلا ہے اور وہ باپ میں تھا اور باپ اس میں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عیسیٰ میں پوری انسانیت تھی۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ سے جس پر انسانیت اور الوہیت موقوف تھی دعا مانگے خدا بیٹے میں روح کی تاثیر سے معلوم ہو جاتا ہے کوئی باپ کو نہیں جانتا اور روحانی طور پر اس کی بندگی نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ بیٹے کو نہیں جانتا جیسے کہ عیسیٰ نے خود کہا ’’کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگر باپ کو اور کوئی باپ کو نہیں جانتا مگر بیٹا۔ اور وہ جس پر بیٹا اس کو ظاہر کرے ‘‘۔ خدا ہم سبھوں کے دلوں کو نرم اور روشن کرے تا کہ ہم اس بھید کو جس کی پہچان سے ہمیشہ کی زندگی آرام اور خوشی ہے بدل و جان قبول کریں آمین۔

محمدی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’خدا مسیح میں مجسم ہوا‘‘ لیکن خدابے حد ہے کس طرح وہ ایک آدمی کے بدن میں محدود ہوا۔ تو بھی وہ یقین کرتے ہیں کہ جب محمد صاحب نے معراج کیا تو خدا کے پاس پہنچے اور اس سے باتیں سنیں تو ان کی سمجھ میں کیا مشکل ہے کہ خدا حاضر اور ناظر ہو اور مسیح میں بھی موجود ہو پھر قرآن اور تفسیر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خدا کا دیدار ہوگا۔ محمدی لوگ یقین کرتے ہیں کہ ایمان دار لوگ بہشت میں جاکے خدا کو دیکھیں گے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا دیکھا جائے گا اور جب کوئی شے نمود ہوکر دیکھی جاتی ہے تو اس کی حدیں بھی ظاہر ہوں گی ،کیونکہ ہم صرف حدوں کو دیکھ سکتے ہیں تو جب خدا کو دیکھا گیا تو پھر وہ بے حد کس طرح ہوا اگرچہ ہم ان دونوں باتوں کا پورا پورا بیان نہیں کرسکتے پر تو بھی ہم جانتے ہیں کہ دونوں باتیں سچ ہیں یعنی خدا دیکھا بھی جائے گا اور وہ بے حد بھی ہے ۔

تو اس سے ثابت ہے کہ اکثر باتیں حقیقت میں سچی ہیں مگر ان پر اگر کوئی شبہ کیا جائے تو ہم اہل ِ شبہہ کو رفع نہیں کرسکتے ۔ مثلاًہم سب جانتے ہیں کہ خدا مہربان ہے اگر کوئی پوچھے کہ اس میں یہی مہربانی ہے کہ جانوروں کو ایسا بنایا کہ ایک دوسرے کو کھائیں اور سانپ کے منہ میں زہر بھر دیا کہ لوگوں کو کاٹے پھر بھی ظاہر ہے کہ خدا رحیم ہے پر اگر کوئی کہے کہ یہی رحم ہے کہ گنہگار جہنم میں ڈالے جائیں تو یہ بالکل اس کی بے رحمی ہے۔ تو ہم اس کو کیا جواب دیں گے۔ معترض کا اعتراض ہے کہ تمام الوہیت مسیح میں تھی اور جگہ خدا بالکل موجود نہ تھا لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ نتیجہ اس نے کہاں سے نکالا ہے ۔ سب محمدی لوگ بالاتفاق یقین کرتے ہیں کہ خدا ہر ایک جگہ حاضر اور موجود ہے ۔ ہم تو صرف انتا ہی جانتے ہیں جو انجیل میں لکھا ہے کہ ’’مجسم ہوا‘‘ اگر یہ عقل سے بعید ہے تو عقل کے برخلاف بھی نہیں ہے اور خداوند عیسیٰ مسیح یہ نہیں فرمایا کہ ’’خدا کی مجھ سے محدود ہے ‘‘۔ جب وہ دنیا میں تھا تو اس نے فرمایا کہ ’’کوئی شخص آسمان پر نہیں گیا مگر ابن آدم جو آسمان پر ہے ‘‘۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے ’’میں جو یہاں جسم میں موجود ہوں آسمان پر بھی روح میں موجود ہوں‘‘۔

لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ مسیح جو تین دن تک دوزخ میں رہا تو خدا دوزخ میں رہا؟ یہ انجیل میں نہیں ہے کہ ’’عیسیٰ تین دن یا تین ساعت تک دوزخ میں رہا‘‘۔ مگر یہ لکھا ہے کہ ’’وہ جسم کے رو سے ماراگیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا‘‘ اور جسم میں ہو کے ان روحوں کے پاس جو قید میں تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرماں برداری تھیں۔ جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنوں میں انتظار کرتا تھا۔

یہ مشکل آیت ہے اس کے معنی بعض مفسرین کچھ سمجھتے ہیں اور بعض کچھ لیکن اس سے یہ نہیں نکلتا کہ مسیح دوزخ میں رہا۔ مگر یہ کہ وہ عالم ارواح میں تین روز تک رہا اور یہ درست ہے ۔

اکثر محمدی دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیح کو خدا کہنا انجیل کی تعلیم کے برخلاف ہے ؟ اس لئے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے فرمایا کہ ’’قیامت کا دن بیٹے کو معلموم نہیں‘‘ اور اس نے دعا مانگی کہ ’’اے باپ اگر ہوسکتے تو یہ پیالہ مجھ سے دور ہو وغیرہ‘‘۔

پوشیدہ نہ ر ہے کہ عیسائی لوگ جانتے ہیں اور خوشی سے اقرار کرتے ہیں کہ مسیح میں پوری انسانیت تھی۔ جیسے پوری الوہیت تھی۔ وہ مریم سے پیدا ہوا حکمت اور قد میں اور خدا اور انسان کے پیار میں بڑھا ،کھاتا، پہنتا ،خوش اور غمگین رہتا تھا اور صلیب پر کھینچا گیا۔ یہ سب باتیں اس کی انسانیت کو ظاہر کرتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں ظاہر کرتیں کہ اس انسانیت کے اندر الوہیت نہ تھی جیسا کہ انسان کا جسمانی ہونا اس کی روحانی ذات کے برخلاف نہیں اسی طرح بعض آیات میں اس کی الوہیت کا اور بعض میں اس کی انسانیت کا ذکر ہے ۔ اسی سبب سے (یسعیاہ ۹باب) میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوتا ہے اور ہم کو ایک بیٹا بخشا جاتا ہے کہ سلطنت اس کے کاندھے پر ہے اور اس کا نام عجیب ،مشیر، خدا قادر، ابدیت کاباپ سلامتی کا شہزادہ ہے‘‘۔ اسی طرح ایک یہودی پیغمبر نے مسیح کی پیدائش کے سات(۷۰۰) سو برس پہلے لکھا ہے کہ ’’اس کا نام عجیب ہوگا‘‘ بے شک وہ عجیب ہے جس میں یہ دو ذاتیں ملتی ہیں۔

محمدی لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ کو اوتار یعنی مجسم خدا مانیں تو کشن اور شو اور کالی کو بھی مانیں کہ خدا مجسم ہیں؟ اس سوال کا جواب صاف ہے کہ ایک کا ذکر خدا کے کلام یعنی انجیل صحایف انبیا اور زبور میں ہے اور دوسروں کا ذکر ہندوں کی کتابوں میں ہے جو کسی دلیل سے خدا کا کلام ثابت نہیں ہوتیں۔ پھر پوچھتے ہیں کہ عیسیٰ نے کیوں یوحنا کے ہاتھ سے بپتسمہ پایا؟ جب عیسیٰ یوحنا کے پاس آیا تاکہ اس سے بپتسمہ پائے تو یوحنا نے اسے منع کیا کہ میں تجھ سے بپتسمہ پانے کا محتاج ہوں اور تو میرے پاس آیا ہے ۔ عیسیٰ نے جواب میں اسے کہا ’’اب ہونے دے کیونکہ ہمیں مناسب ہے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کریں‘‘۔ تب اسے بپتسمہ دیا پوشیدہ نہ ر ہے کہ عیسیٰ دنیا میں آیا تھا کہ گنہگاروں کے بدلے ساری راستبازی کو پورا کرکے اپنی جان ہمارے بدلے میں قربان کرے اور راستبازی کو پورا کرنے میں اس نے خدا کے سارے حکموں کو جو اس سے آگے دیئے گئے تھے پورا کیااس سبب سے وہ ہماری راستبازی اور ہماراکفارہ اور ہماری نجات ہے ۔

دوسری فصل

اعتراضات درباب کفارہ

ابحاث ضروری کے مصنف نے مسیح کے کفارہ پر بیس(۲۰) اعتراض کئے ہیں ہم ان سب کا جواب مختصر طور پر دیتے ہیں۔

پہلا اعتراض:۔ اگر کفارہ صحیح ہو تو لازم آتا ہے کہ یہود اسکریوتی مسیح کے پکڑ وانے والے کو جزاے خیر ملے اور وہ نجات ابدی کو پہنچے ؟

جواب:۔ اعمال خیراخیر کے لائق اس وقت ہوتے ہیں کہ جب وہ نیک نیتی سے ظہور میں آئیں۔ اگر عامل کا بد اور فاسد ارادہ ہے تو کس طرح جزائے خیر پائے گا ۔مثلاً اگر کوئی شخص کسی بیمار کو زہر کھلائے اس ارادے سے کے اس کو ہلاک اور وہ بیمار زہر کھانے سے تندرست ہو جائے تو وہ شخص شاید معترض کے نزدیک جزائے خیر کے لائق ہوگا ورنہ از روئے عقل و عدالت وہ سزا کے قابل ہے ۔

اگر کوئی بدمعاش بادشاہ کو مار ڈالے اور پیچھے اس کا بیٹا تخت نشین ہو کر اپنے باپ کے قاتل کو اپنا وزیر بنائے تو کیا معترض کے نزدیک وزارت اس قاتل کو حق ہے ۔ اگر نہیں تو کبھی نہ کہیں کہ لازم آتا ہے کہ یہوداہ اسکریوتی کو جزاے خیر ملے ۔

دوسرا اعتراض:۔ یہ عدل نہیں کہ گناہ گار اچھی طرح گناہ کریں اور عاقبت کو بھی جنت میں داخل ہوں اور عوض ان کے حضرت عیسیٰ مسیح بے گناہ صلیب پر چڑھائے جائیں اور دوزخ میں بھی رہیں غرض یہ ظلم ہے ؟

جواب:۔ یہ بات سچ ہے کہ کوئی شخص گناہ خوب طرح کرے اور پھر عاقبت کو جنت میں جائے یہ عدل نہیں لیکن ذرا غور کیجئے کہ جو کوئی مسیح پر ایمان لائے گا وہ دنیا میں کس طور اچھی طرح گناہ کرے گا بلکہ اس کو بالکل گناہ سے نفرت ہوگی کیونکہ لکھا ہے کہ ایمان محبت سے کامیاب اور دنیا پر غالب ہوتا ہے ۔ پھرلکھا ہے کہ ہم گناہ کی نسبت موئے پھر کیونکہ اس میں زندگی گزرائیں۔ اسی طرح آپ کو گناہ کی نسبت عیسیٰ مسیح کے وسیلے زندہ سمجھو جو کوئی مانے گا کہ مسیح نے میرے واسطے اپنی بیش قیمت جان دی بے شک اس پاک شخص کو پیار کرے گا اور جو اس کو پیار کرے گا اس کی مرضی پوری کرنی چاہے گا اور اس کی مانند ہوگا اور جو مسیح پر ایمان لاتا ہے وہ اس کی صحبت میں رہتا ہے اور اس صحبت سے ضرور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور مسیح کے وعدے کے موافق اس کو روح القدس ملتی ہے جو اس کو پاک کرتی ہے ۔ غرض کہ اس بات پر ہمارا اعتقاد ہی نہیں کہ جو تمام عمر گناہ کرے اور گناہوں میں مرے وہ بہشت میں جائے ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ جو کوئی مسیح پر ایمان لائے وہ نجات یعنی گناہوں سے خلاصی اور ہمیشہ کی زندگی پائے گا اور ہم اس بات کو بھی ہرگز نہیں مانتے کہ مسیح دوزخ میں رہا جیسا کہ آگے بیان کیا گیا اور پھر اس میں کہ مسیح ہمارے گناہوں کے لئے صلیب پر کھینچا گیا۔ کچھ ظلم نہیں کیونکہ اس نے خود منظور کیا جیسے لکھا ہے کہ اس نے کہا میں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں کوئی اسے مجھ سے نہیں لیتا بلکہ میں آپ سے دیتا ہوں۔ تو ظاہر ہے کہ اس نے خوشی سے ہمارے گناہوں کے بدلے جان د ی اگر کوئی حاکم کسی مجرم پر ہزار رویپہ جرمانہ یا دو(۲) برس قید کرے اور زر جرمانہ زبردستی کرکے ایک دوسرے شخص سے لے تو بے شک یہ ظلم ہے۔ لیکن جب کوئی ضمانت کے طور خوشی سے ادا کرے تو یہ ظلم نہیں اسی طرح جب عیسیٰ نے خوشی سے سزا اٹھائی یعنی اپنی جان دی تو کس پر ظلم ہوا۔کسی پر نہیں نہ تو مسیح پر کیونکہ وہ اس میں راضی تھا اور نہ گنہگاروں پر کیونکہ ان کے تمام گناہ بخشے گئے مگر عدالت پوری ہوئی اور ہم کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور دنیا میں بھی یہ بندوبست خدا کا ہے کہ ایک آدمی سے گناہ ظہور میں آئے اور دوسرا اس کی تکلیف اٹھائے جیسے خدا کاکلام میں ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اس کے فرزند نے تکلیفیں اٹھائیں اور اٹھاتے ہیں۔

تیسرا اعتراض:۔ اگر حضرت عیسیٰ اپنی خوشی سے کفارہ قبول کرتے تو صلیب پر کیوں پکار کر کہتے ایلی ایلی لماشبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟

جواب:۔ غضب الٰہی بھی ایک حصہ گناہ کی سزا کا ہے اور مسیح نے گناہ کی تمام سزا اٹھائی۔ پس وہ نہ اس لئے ایلی ایلی پکارا کہ سزا اٹھانے سے ناراض تھا بلکہ اس لئے تا کہ سب لوگ جانیں کہ غضب الٰہی بھی اس پر نازل ہوا اگرچہ خدا مسیح سے خوش اور راضی تھا تو بھی ان گناہوں کے سبب جو ہمارے بدلے مسیح نے اٹھائے خدا اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا۔

چوتھا اعتراض:۔ جب مسیح نے سب گناہ اٹھا لئے تو گویا وہ مجموعہ گناہ کے ہوئے پس گناہ گار آدمی اپنے گناہ سے عذاب ابدی میں رہے گا تو کیا حال ہے اس کا جس نے سب کے گناہ اٹھائے ؟

جواب:۔ گناہ اٹھانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان گناہ سے پلید ہو جاتا ہے لیکن یہ کہ گناہ کی سزا اٹھانا ہے جیسے کہ (احبار ۲۰:۲۰، ۹:۲۲، ۱۵:۲۴) کہ جو کوئی کسی طرح کے گناہ کریں گے وہ اپنے اپنے گناہوں کو اٹھائیں گے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے صرف ہمارے گناہوں کی سزا اٹھائی بے شک مسیح نے بہت بھاری بوجھ اٹھایا ہے ۔لیکن یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اس نے اتنی تکلیف اٹھائی جتنی سب گنہگاروں کا حق ہے اور خدا اس لئے سزا نہیں دیتا کہ وہ گنہگاروں کی تکلیف سے خوش ہوتا ہے بلکہ قانون اور حکمت کے قائم رکھنے کے لئے سزا دیتا ہے۔ پس اس نے مسیح کو اتنی سزا دی جتنی درکار تھی نہ زیادہ مگر انسان کو معلوم نہیں کہ کتنی تھی لیکن اتنا تو معلوم ہے کہ اس کا درجہ نہایت بلند تھا پس اس کی تکلیف بھی نہایت قیمتی تھی۔

پانچواں اعتراض:۔ چاہئے کہ جو انبیا مسیح کے پہلے گزرے دوزخ میں رہیں کیونکہ ان کے زمانہ میں کفارہ نہ ہوا تھا؟

جواب:۔ عہد عتیق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آنے والے مسیح پر ایمان رکھتے تھے اور عیسیٰ نے بھی فرمایا کہ ’’ابرہام میرے دن دیکھ کر خوش ہوا‘‘ (یوحنا ۵۶:۸) ۔پھرپولُس کا خط رومیوں کو (رومیوں ۲۵:۳) میں لکھا ہے کہ ’’خدا نے ایک کفارہ ٹھہرایا تاکہ وہ اپنی راستی اگلے وقت کی بابت ظاہر کرے جس میں اس نے صبر کر کے گناہوں سے طرح دی‘‘۔ ان آیتوں سے معلوم ہے کہ جو ایمان دار لوگ تھے بابا آدم سے لے کے مسیح تک ان سب نے عیسیٰ مسیح کا کفارہ ہونے کے سبب سے نجات حاصل کی۔

چھٹا اعتراض:۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کفارہ سب کا ہوا ہے یا کہ موجود دین کا برتقدیر ثانی آیندہ اور گذشتہ کے واسطے اور کفارہ چاہئے برتقدیر اول جب لوگ پیدا نہ ہوئے تھے تو ان کے گناہ کیوں کر ایک شخص نے اٹھائے ؟

جواب:۔ دنیا کے ابتدا سے لے کر دنیا آخر تک جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں ان سب کےلئے مسیح کا کفارہ ہوا خدا پیش بینی سے پہلے ہی جانتے تھا کہ گناہ کس قدر ہوں گے اور گنہگار کس قدر ہوں گے ۔ اس لئے نے ایک ایسا کفارہ کامل مقرر کیا جو سب کے لئے کافی ہو اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی جانے کہ کل میرا بیٹا کسی کے سو(۱۰۰) روپیہ کا نقصان کرے گا تو پھر وہ چاہے کہ میں آج اس کا نقصان ادا کردوں تو وہ ضرور ادا کرسکتا ہے پوشیدہ نہ رہے کہ جس وقت آدم اور حوا نے گناہ کیا تھا اس وقت خدا نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ عورت کی نسل سانپ یعنی شیطان کے سر کو کچلے گی۔

ساتواں اعتراض:۔جب مسیح نے سب کے گناہ اٹھائے تو وہ گویا اول نمبر گنہگاروں کے ہوئے ۔پس محتاج ہوئے طرف کسی منجی کے کیونکہ بجز (مگر)منجی کے نجات ممکن نہیں۔ پس وہ بھی محتاج کفارہ کا ہوگا اور تسلسل لازم آئے گا؟

جواب:۔ اگر کسی گناہ گار پر جرمانہ ہو اور میں ادا کردوں تو میں گناہ گار نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح مسیح نے خود بے گناہ ہو کر ہمارے گناہوں کی سزا اٹھائی پس وہ گناہ گار نہیں ہو گیا کہ کسی اور منجی کا محتاج ہوتا اور تسلسل لازم آتا۔

آٹھواں اعتراض:۔ کفارہ سے لازم آتا ہے کہ قاتل اور چور وغیرہ مجرم کو پھانسی کی سزا نہ دی جاتی حالانکہ مسیحی دیتے اور لیتے بھی ہیں؟

جواب:۔ خداوند عیسیٰ انسان کے قانون کے حکموں کو پورا کرنے نہیں آیا بلکہ خدا کی شریعت کو اور وہ جو انسانی قانون کے رو سے گناہ گار ہوں گے واجب ہے کہ قانون کے حکم کے مطابق سزا پائیں۔ اگرچہ وہ ایمان کے وسیلے عاقبت میں اپنے گناہوں کی معافی پائیں گے ۔ وہ شخص جو چوری اور خون کرتا ہے خدا اور حاکم وقت کے قانون سے عدول کرتا ہے اور دونوں سے سزا کے لائق ہوتا ہے ۔ پس اگر کوئی دو آدمیوں کا قرض دار ہو اور اس کا دوست ایک آدمی کا قرض ادا کرتا ہے تو دوسرے کا باقی رہا اسی طرح اگر کوئی بدکردار توبہ کر کے مسیح پر ایمان لائے تو ضرور ہے کہ وہ دوزخ سے بچے لیکن سرکار سے ضرور سزا پائے گا۔

نواں اعتراض:۔ جب کفارہ ہوگیا تو کیا حاجب رہی نیکی کرنے کی باوجود یہ کہ مسیح نے چالیس روزے رکھے اور حواری بھی پابند نیکی کے رہے ؟

جواب:۔ خداوند عیسیٰ مسیح دنیا میں آیا کہ ہم لوگوں کو ہمارے گناہوں سے بچائے ۔ اس نے ہماری سزا کو اٹھایا اور ہم اور خدا میں صلح کرا کے راہ کو کھول دیا کہ خدا اپنی پاک روح ہم پر نازل کرے ۔ جس سے ہم نیکی کرسکیں اور اس نے وعدہ کیا کہ میں ان سب پر جو ایمان لاتے ہیں روح القدس بھیجوں گا تاکہ وہ ان کو سکھائے اور پاک کرے کہ وہ ہر ایک نیک کام کے لئے تیارہوئیں۔ پس معلوم ہو کہ نیکی ہمارے ایمان کا پھل اور مہر ہے اور جس طرح سے کہ اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اسی طرح سچا ایمان دار نیکی کا پھل لاتا ہے اور یعقوب رسول بھی سکھلاتا ہے کہ بدن بغیر روح کے مردہ ہے ویسا ہی ایمان بغیر افعال نیک کے مردہ ہے سچے ایمان سے خدا کی محبت پیدا ہوتی اور محبت سے فرمانبرداری۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہماری نجات کی بنیاد مسیح کی موت ہے جس کی شرط ایمان ہے اور اس کا پھل پاکیزگی ہے ۔ معترض کے اس سوال سے کہ جب کفارہ ہو گیا تو کیا حاجت نیکی کرنے کی رہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سمجھ میں اچھا ہوتا کہ آدمی عمر گناہ کرتا رہتا اور آخر بہشت میں جاتا لیکن سچا مسیحی گناہ سے گہن کرتا اور اس سے آزاد ہونا چاہتا ہے ۔

دسواں اعتراض:۔ اگر مسیح نے گناہ اٹھائے بھی ہوں تو لازم آتا ہے کہ امور غیر متناہی(جس کی انتہا نہ ہو) یعنی لاآخر کام واقع ہوں۔

جواب:۔ مسیح کا کام گناہ کے لئے کفارہ ہونے میں لا انتہا نہ تھا۔ وہ ایک دفعہ گناہ کے لئے مرا اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہے ۔ اس ایک دفعہ کے گناہ کے برداشت کرنے کا نتیجہ ہمیشہ تک رہے گا۔

گیارہواں اعتراض:۔ مسیح اگر کفارہ ہونے کو آئے تھے تو آتے ہی کفارہ کیوں نہ ہوئے بلکہ انجیل سے ثابت ہے کہ خلقت کو نصیحت کرنے آئے تھے ؟

جواب:۔ مسیح کے تین عہدے تھے کہانت، نبوت اور بادشاہت۔ پس وہ نبوت کا کام بخوبی بجا لایا یعنی نصیحت و تعلیم دی جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہانت کا کام بھی ایسا پورا کیا اور کرتا ہے کہ اپنے تئیں قربان کر کے خدا کے حضور ہمیشہ اپنی امت کی سفارش کرتا ہے اور جب اس نے مردوں میں سے زندہ ہوکر فرمایا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا تو اس کی بادشاہت جو روحانی اور ابدی ہے اس وقت سے لے کر اب تک موجود ہے اور ابد تک قائم رہے گی اور سب پر غالب آئے گی۔

بارہواں اعتراض:۔ اس کفارہ کے ہونے سے معافی گناہ کی تو نہیں ہوئی بلکہ زیادتی وقوع میں آئی کیونکہ یہودی مسیح کی حقارت کرنے کے باعث مستحق عذاب کے ہوئے ؟

جواب:۔ خداوند عیسیٰ مسیح اس واسطے دنیا میں آیا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے اور جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے اس کے واسطے سزا کا حکم ہوجیسا کہ خدا کے حکم سے نوح نے کشتی کو بنایا۔ اُن کے واسطے جو اس میں داخل ہوئیں نہ ان کے واسطے جو انکار کریں بے شک بہتوں نے مسیح سے ٹھوکر کھائی اور عذاب کے مستحق ہوئے جیسے لوقا کی انجیل (لوقا ۳۴:۲) میں درج ہے یعنی ’’مسیح اسرائیل میں بہتوں کے گرنے اور اٹھنے کے لئے رکھا ہے ‘‘۔ بادشاہ ان مفسدوں کو جو تابع دار ہو جاتے ہیں معاف کر دیتے ہیں پر جو تابع دار نہیں ہوتے دو چند سزا پاتے ہیں۔

تیرہواں اعتراض:۔ اگر کفارہ موافق مرضی خدا کی ہوتا تو علامات رحمت ظاہر ہوتیں حالانکہ چاروں اناجیل سے ثابت ہے کہ بعد سولی کے اس طرح کی علامات قہر خداظاہر ہوئیں کہ کبھی نہ ہوئی ہوں گی مثلاً جہان میں اندھیرا ہوجانا اور مُردوں کا قبروں سے نکلنا زمین کا کاپننا ہیکل کا پردا پھٹ جانا۔

جواب:۔ علامات جو وقوع میں آئیں غضب اور رحمت دونوں پر دلالت کرتے ہیں نہ صرف علامات قہر خدا ظاہر ہوئیں جیسا کہ معترض کہتے ہیں چنانچہ تاریکی اور زلزلہ دونوں نشان غضب الٰہی کے ہیں۔ اس سبب کہ لوگوں نے ایسا سخت گناہ کیا کہ مسیح کو صلیب دیا مگر مردوں کا زندہ ہونا اور پردے کا پھٹ جانا دونوں نشان رحمت کے ہیں۔ پہلا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم مردے مسیح کے وسیلہ زندہ ہوتے ہیں۔ دوسرا اس پر دال ہے کہ وہ پردہ جو درمیان خدا اورانسان کے تھا پھٹ گیا۔ یعنی وہ راستہ جو خدا کے طرف جاتا ہے کھل گیا داناؤں کے نزدیک درست ہے کہ خدا گناہ سے غضب دکھائے لیکن تو بھی درست ہے رحمت کانشان بھی ظاہر ہوئے ۔

چودہواں اعتراض:۔ جب کہ باقرار مسیحاں حضرت عیسیٰ جزو خدا کے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ صلیب پر کھینچنے والا انسان تھا۔ پس اس سے غلبہ مخلوق کا خالق پر پایا جاتا ہے ؟

جواب:۔ مسیحی ہرگز اس بات کی مقر نہیں کہ عیسیٰ خدا کی جزو ہے بلکہ اس کے حکم کے موافق اس کو اور خدا کو ایک جانتے ہیں جیسا یوحناکی انجیل (یوحنا ۳۰:۱۰) میں درج ہے کہ ’’میں اورباپ ایک ہیں‘‘ اور اس کی انسانیت کو بھی مانتے ہیں۔ چنانچہ (یوحنا ۲۷:۵) میں ہے کہ ’’وہ انسان کا بیٹا ہے’‘ غرض کہ اس کی الوہیت اور معبودیت دونوں کامل ہیں اور انہوں نے اس کی الوہیت کو صلیب نہیں دیا کہ غلبہ مخلوق کا خالق پر پایا جاتا مگر اس کی عبودیت کو ضرور صلیب دیا سویہ امر بھی اس کی مرضی سے وقوع میں آیا ورنہ ان کا کیا اختیا ر تھا۔ چنانچہ (یوحنا ۱۸:۱۰) میں مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’کوئی شخص مجھ سے جان نہیں لیتا۔ پس میں آپ سے دیتا ہوں میرا اختیار ہے کہ اسے دوں اور میرا اختیار ہے کہ اس سے پھیر لوں یہ حکم میں نے اپنے باپ سے پایا‘‘۔

پندرہواں اعتراض:۔ اگر کفارہ کا مان لیں تو لازم آتا ہے کہ کسی بخشش کرنے والے کی حاجت نہ ر ہی حالانکہ کتاب اعمال میں موجود ہے کہ حوارئین کو فرماتے تھے کہ جس کو تم بخشو گے وہ بخشا جائے گا؟

جواب:۔ یہ بات سچ نہیں کہ حواریوں نے خود کسی کے گناہ بخشے اور یہ ہرگز اعمال میں نہیں لکھا ہے حواری ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ مسیح پر ایمان لاؤ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے (اعمال۲۰:۱۶) وغیرہ ۔جو مسیح نے انہیں فرمایا کہ جس کو تم بخشو گے وہ بخشا جائے گا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ میں آسمان پر جا کر روح القدس تم پر بھیج دوں گا اور وہ تم کو سب کچھ سکھلائیں گی اور ان شرطوں کے بتلانے اور بیان کرنے پر جن سے نجات حاصل ہوگی تم کو اختیار ملے گا۔ جو دل سے سنے گا اور ایمان لائے گا وہ نجات پائے گا ۔جیسے ایلچی(قاصد، پیغام بر، سفیر) کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے بادشاہ کے پاس جائے اور بیان کرے کہ اس شرط پر ہمارا بادشاہ آپ سے صلح کرے گا اور جب وہ شرط اس بادشاہ نے قبول کر لی تو بے شک وہ ایلچی کہے گا کہ بس اب صلح ہوگئی۔ اسی طرح حواریوں کا اختیار اور طاقت دی گئی ہے کہ گنہگاروں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ خدا کس شرط پر بخشے گا اور جس وقت اس شرط کو وہ منظور اور قبول کرلیں تو بے شک حواری کہیں کہ تمہارے گناہ بخشے گئے ۔ پھر حواری مسیحی کلیسیا کے سردار تھے اور ان کو اختیار تھا کہ چاہے ممبروں کو قبول کریں چاہے روکیں۔ اس واسطے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گناہوں کا بخشنا نہ بخشنا اسی کے اختیار میں ہے اگرچہ فی الحقیقت خدا گناہوں کو بخش سکتا ہے ۔

سولھواں اعتراض:۔ اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت کو عدالت کریں گے اگر یہ سچ ہے تو بطلان کفارہ میں کیا شک ہے ؟

جواب:۔ بائبل کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ مسیح کے دنیا میں آنے سے تمام بچ جائیں گے بلکہ اس کے آنے سے بہشت کا دروازہ ان تمام کے لئے کُھل گیا جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اس کو اپنا نجات دہندہ مانیں اور اس کے مقبول ہوکر اس کی تابع داری کریں۔ مسیح روز عدالت میں ایمان داروں اور راست بازوں کوبے ایمانوں اور ناراستوں سے جدا کرے گا ۔جیسے گڈریا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے ۔

سترھواں اعتراض:۔ ہر ایک فرقہ پر اطاعت اپنے پیشوا کی لازم ہے پس اگر مسیح مصلوب ہوئے تو عیسائی کیوں صلیب پر نہیں چڑھتے ؟

جواب:۔ مسیح خود صلیب پر نہیں چڑھا بے ایمانوں نے پکڑ کے ان کو صلیب دیا۔ پس اسی طرح مسیح بھی تیار ہیں کہ جب کوئی ان کو صلیب دے تو قبول کرتے ہیں چنانچہ بہتوں نے ایسا کیا صلیب بھی اور صلیب کے برابر اور ہزاروں تکلیفیں اٹھائیں ۔چنانچہ مثل مشہور ہے کہ شہیدوں کا خون کلیسا کا تخم ہے۔

اٹھارھواں اعتراض:۔ اعتقاد کفارہ سے تحقیر شان متصور ہے یہ تحقیر ان کے پیرو پولُس صاحب بھی کرتے رہے قطع نظر مخالف سے چنانچہ گلتیوں کے خط میں لکھا ہے کہ جو سولی دیا گیا وہ لعنتی ہے ؟

جواب:۔ لعنت کے معنی غضب خدا ہے اور مسیح نے بے شک خدا کا غضب ہمارے لئے اٹھایا اور اس کے معتوب ہو نے کو تو ہم اپنا فخر سمجھتے ہیں یعنی جب اس نے ہماری لعنت کو خود اٹھایا اور ہمیں چھوڑایا تو کیا اس لفظ کے بولنے سے ہم اس کی عزت سمجھیں گے یا حقارت بے شک اس میں عزت پائی جاتی ہے۔

انیسواں اعتراض:۔ اگر مسیح کفارہ ہونے آتے تو دعائے تردید بلائے ہذا نہ مانگتے حالانکہ (مرقس باب۱۴) میں موجود ہے کہ مسیح نے رات بھر بہت تضرع (منت سماجت،رونا ،گڑگڑانا)سے دعا مانگی کہ یہ عذاب سولی کا مجھ سے ٹل جائے ؟

جواب:۔ مسیح نے کبھی نہیں کہا کہ عذاب صلیب کا مجھ سے ٹل جائے ۔بے شک یہ بات مرقس میں ہے کہ یہ پیالہ مجھ سے دور ہو تو میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی۔ اس وقت مسیح نہایت تکلیف میں تھا جیسے لکھا ہے کہ اس کا عرق بدن سے خون کے موافق نکلتا تھا کیونکہ ہمارے گناہوں کا بوجھ اس پر تھا ایسی سخت جان کندن کے رنج میں باپ سے یہ لفظ بولاکہ جس سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ جس قدر ہو سکے یہ تکلیف مجھ سے دور کی جائے ۔ پھر یہ بات بھی ساتھ کہی کہ میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی تکلیف کس قدر بھاری تھی اور کس قدر کامل اس کی تابع داری تھی۔

بیسواں اعتراض:۔ مسیح من حیث الروح کفارہ ہوئی ہیں یا من حیث الجسم برتقدیر ثانی جسم ان کا بشریت تھا اور کل بشر گنہگار ہیں۔ برتقدیر اول روح کو آپ خدا سمجھتے ہیں وہ سولی دیئے جانے سے مبرا ہے ۔ دوسرا روح محسوس نہیں جو صلیب پر کھینچا جاتا ہے ؟

جواب:۔ مسیح نے جسم میں سزا پائی یعنی اس کے جسم پر کوڑے پڑے اور اس کے ہاتھ پاؤں میں کیل گاڑی گئی اور اس کی پسلی برچھی سے چھیدی گئی۔ اگر کوئی ہزار اعتراض کرے تو کیا خدا تعالیٰ کا ایک لفظ اس سبھوں سے بھاری ہے جیسا کہ پرما یا نبی کے بے ایمانوں سے کہا کہ بھوسا گیہوں کے نسبت کیا ہے یعنی آدمی کا کلام خدا کے کلام کی نسبت ایسا ہے جیسے بھوسا گیہوں کی نسبت سے اور اگرچہ جسم اس کا بشریت کا ہے لیکن بشر گنہگا ر ہیں۔ وہ گنہگار نہ تھا کیونکہ وہ بشر کا تخم نہیں ہے کہ گنہگار ہوتا ۔جبرائیل فرشتے نے مریم صاحبہ سے کہا کہ ’’روح القدس تجھ پر اترے گی اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا اس سبب سے وہ قدوس خدا کا بیٹا کہلائے گا‘‘ دیکھو لوقا کی انجیل (لوقا ۳۵:۱) اور اس کی انسانی روح بھی اس کے دشمنوں کی ناشکر گذاری اور بے رحمی اورشرارت سے چھوڑی گئی تھی اور چونکہ الوہیت اس میں کامل تھی۔ اس لئے اس کے کفارہ کی فضیلت کامل تھی۔

تیسری فصل

عشاء ربانی کی حق میں

محمدی عشاء ربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا عجیب بات ہے کہ عیسائی روٹی لے کر توڑتے اور آپس میں بانٹ کھاتے ہیں اور پھر انگور کا رس پیالہ میں ڈال کر مسیح کی موت کی یاد گاری کے لئے پی لیتے ہیں۔ سچ ہے کہ مذہبی رسوم پر ہنسنا مشکل نہیں ہے ۔اگر کوئی ہندو رسم ختنہ پر ہنسے اور کہے کہ یہ ایک عجیب رسم ہے کہ محمدی اپنے لڑکوں کے بدن سے ایک تکڑا چمڑے کا کاٹتے ہیں اپنی خام خیالی سے کہتے ہیں کہ یہ حرکت خدا کو پسند آتی ہے تو کیا جواب دو گے ؟ توبھی یہودیوں اور عیسائیوں اور محمدیوں کومعلوم ہے کہ خدا نے اس رسم کو ابراہیم پر فرض کیا یہ سب لوگ جو تواریخ سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ اہل اسلام محمد صاحب کے وقت سے لے کے وضو روزہ و ختنہ اور اور رسومات مانتے چلے آتے ہیں۔ اس طور پر انجیل اور سارے عیسائیوں کی کتابوں سے جو مسیح کے وقت سے لے کر آج تک لکھی گئی ہیں خوب معلوم ہے کہ عیسائی عشاء ربانی مسیح کے وقت سے مانتے ہیں۔ پس جو عشاء ربانی پر ہنستا ہے وہ مسیح پر ہنستا ہے وہ خدا پر ہنستا ہے ۔ جس نے مسیح کو بھیجا عقل مندوں پر فرض ہے کہ سوچیں کہ رسم کا کیا فائدہ ہے اکثر آدمی اپنے مذہبی رسموں کا مطلب نہیں دریافت کرتے ہیں اور اگر کوئی پوچھے کہ رسم کو کیوں مانتے ہو تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ خدا کا حکم ہے لیکن سمجھنا چاہئے کہ خدا دانا ہے اور دانائی اس کی سب کاموں اور سب احکاموں میں ظاہر ہے ۔دینی ریت ور سم میں اگر ہم بخوبی غور کریں تو ضرور الٰہی دانائی ظاہر ہوتی ہے اور خوبی رسم کی یہ ہے کہ روحانی باتوں کو اچھی طرح ظاہر کرے اور ان کے وسیلے ان ضروری باتوں کو ہم یاد رکھ سکتے ہیں۔ پس میرے عزیزو غور کرو اورمعلوم کرو کہ عشاء ربانی کا مطلب کیا ہے اور وہ مطلب اس رسم سے پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔ عیسائی دین کی یہ بنیاد ہے کہ خداوند عیسیٰ مسیح گنہگاروں کے بدلے میں قربان ہوا اور صدہا جگہ لکھا ہے کہ ہم اپنی نیکی پر نہیں مگر اس کی موت پر بھروسا رکھیں۔

پس جب عیسیٰ مرنے پر تھا تو اس نے روٹی لے کر توڑی اور اپنے شاگردوں کودے کر کہا کہ یہ میرا بدن یعنی بدن کا نشان ہے جوتمہارے واسطے توڑا جاتا ہے ویسا ہی انگور کے رس کا پیالہ لے کر کہا کہ یہ میرا لہو ہے میری دانست میں یہ رسم بخوبی اس عمدہ بات پر دلالت کرتی ہے اور اس کے سوا عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو سکھلایا کہ حق اور زندگی میں ہی ہوں اور پھر اس نے کہا کہ میں زندگی کی روٹی ہوں اور وہ جو میرے پاس آتا ہے کبھی بھوکھا نہ ہوگا اور وہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا اورایک دوسری جگہ کہا کہ یہ وہی روٹی ہے جو آسمان سے اتری کہ آدمی اسے کھائے اورنہ مرے ۔ پھر یہ کہ میں وہ جیتی روٹی ہوں جو آسمان سے اتری اور وہ روٹی جو میں دوں گا میرا گوشت ہے جو میں دنیا کی زندگی کے لئے دوں گا۔ تب یہودی لوگ اس پر کڑ کڑانے لگے کہ یہ آدمی کس طرح اپنا گوشت ہم کو کھانے کے واسطے دے گا۔ تب عیسیٰ نے فرمایا کہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور خون نہ پیو تو تم میں زندگی نہیں۔ پھراس نے کہا کہ میں سچے انگور کا درخت ہوں اور تم ڈالیاں ہو اگر تم مجھ میں قائم ہو تو تم پھل لاؤ گے ۔ ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان کی زندگی خوراک پر منحصر ہے اور جس طرح ڈالی اور پھل کی زندگی درخت میں قائم رہنے سے ہے اسی طرح ایمان داروں کی روحانی زندگی اور حقیقی نیکی عیسیٰ مسیح سے ہے ۔گناہ کے باعث تمام دنیا مردہ ہے لیکن جو شخص مسیح پر ایمان لاتا ہے اور اس میں پیوند ہو جاتا ہے اس کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں اور اسی میں روحانی زندگی بھی پیدا ہوتی ہے ۔ یہ بات ہم پر انجیل اور تجربہ سے ثابت ہوتی ہے اور دونوں باتیں یعنی کہ خداوند عیسیٰ ہمارا کفارہ ہوا اور ہماری زندگی بھی ہے عشاء ربانی سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس میرے عزیزو تم سوچو کہ یہ رسم خدا کے لائق ہے یا نہیں۔ ہزاروں لوگ اس سے تسلی اور روحانی قوت پاتے ہیں اور داؤد خدا کی روحانی نعمتوں کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ’’ تونے میرے لئے میرے دشمنوں کے آگے دستر خوان بچھایا اور تو نے میرے پیالہ کو لبریز کیا‘‘ اور ایمان دار لوگ ایک دستر خوان پر جمع ہو کر کھاتے ہیں وہ خوشی سے یاد کرتے ہیں کہ ہم سب کا ایک باپ ہے یعنی خدا اور نجات دہندہ یعنی مسیح جس نے ہم سب کے واسطے جان دی اور ہم سب کیاچھوٹے کیا بڑے کیا امیر کیا غریب ایک ہی خدا کے فرزند ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ اس عید میں انگور کے رس کا کیوں استعمال کرتے ہو تو یہ جواب ہے کہ ہم اس عرق کو جسے اس ملک میں شراب کہتے ہیں نہیں استعمال کرتے یہ صرف تہمت ہے، لیکن مسیح کے حکم سے وائین یعنی انگور کا رس ضرور پیتے ہیں۔ موسیٰ یا عیسیٰ نے شیرہ انگور منع نہیں فرمایا اور اس کے پینے میں کچھ عیب نہیں بشرطیکہ اس کو بد طور سے استعمال نہ کیا جائے اور میری سمجھ میں عیسیٰ نے اس واسطے حکم دیا کہ اس عید میں وائین پییں کہ اکثر لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی عبادت میں بڑی تکلیف ہے اور چاہے کہ جو دین دار ہو وہ سب کو چھوڑ کر فقیر بن جائے اور جس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں خدا کی بندگی میں بڑا ثواب حاصل کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ سچے پرستار جو روح اور سچائی سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اس سے ایسی خوشی حاصل کرتے ہیں کہ جیسا دنیاوی لوگ مال و غنیمت سے خوشی ہوتے ہیں اور جس طرح شیرہ انگور آدمی کے دل کو خوش کرتا ہے ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ ترسچے پرستاروں کے دل خدا کی صحبت سے خوش ہوتے ہیں اس واسطے رسول نے فرمایا کہ شراب سے متوالے نہ ہو بلکہ روح یعنی خدا کی روح سے بھر جاؤ۔ کاش کہ یہ حقیقی خوشی ہم سب کو ملی کہ ہم بھی داؤد کے موافق کہیں کہ تونے میرے دل کو خوشی بخشی ہے ۔ اس خوشی سے زیادہ جو انہیں ان کے غلہ اور مئے کی بہتایت (کثرت)سے ہوتی ہے (زبور۷:۵) ۔

چوتھی فصل

درباب ریت و رسم

اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عیسائی حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور ہر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ سے کھالیتے ہیں فلانی فلانی چیز کھاتے اور پیتے ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ ان باتوں کا بڑی خوشی سے جواب دیتا ہوں ناظرین سے التماس ہے کہ بنظر غور دیکھیں اور حق اور باطل میں فرق کریں۔ پہلے لحاظ کرنا چاہئے کہ آیا ان دستوروں کی ماہیت کو عقلی دلیل یا نقلی دلایل سے ثابت کرنا واجب ہے شاید تم کہو گے کہ دونوں سے ثابت کیا جائے ۔لہٰذا ہم پہلے عقلی دلایل پیش کرتے ہیں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فلانے فلانے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے ۔ اس لئے کہ وہ میل کھاتے ہیں۔ اکثر یہ پختہ دلیل ہے تو معترض بھیڑ اور بط وغیرہ کیوں کھاتے ہیں اور کیوں کر ان کی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ جانور حلال ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دلیل کسی کام کی نہیں اور اگر یہ دلیل پختہ ہے تو شیر کا گاشت حلال اور گائے کا حرام ہوگا کیوں کہ گائے میل کھاتی ہے اور شتر میل نہیں کھاتا۔ اگر تم اچھی طرح دریافت کرو گے معلوم ہوگا کہ جیسا لوگوں کو کسی چیز کے کھانے کی عادت ہے تو اس کو حلال جانتے ہیں اور جب عادت نہیں تو اس کو حرام جانتے ہیں اور اس چیز کے کھانے سے انہیں گھن آتی ہے ۔ مثلاً محمدی لوگ سور کو بہت خراب سمجھتے ہیں لیکن سکھ لوگ اس کو بہت چاہتے ہیں۔ محمدی اور یہودی ٹڈی کو حلال جانتے ہیں لیکن عیسائیوں اور ہندوں کو اس سے گھن آتی ہے ۔ محمدی اور عیسائی گائے کا گوشت کھاتے ہیں لیکن ہندو لوگ اس جگہ سے جہاں گائے کا گوشت دیکھتے ہیں بھاگ جاتے ہیں۔ پھر کون عقل سے ثابت کر سکتا ہے کہ اونٹ کو گوشت حلال اور ہاتھی کا گوشت حرام ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ تب عقلی دلایل کو چھوڑدینا چاہئے ،کیونکہ وہ سب خام ہیں باقی رہیں نقلی سو یہ ہیں کہ قرآن میں لکھا ہے کہ فلانی فلانی چیز حرام ہے اس واسطے ان کو کھانا نہ چاہئے ۔یہ بات محمدی لوگوں کے واسطے دلیل ہو یا نہ ہو مگر عیسائی مذہب پر وہ قرآن کی دلیل سے اعتراض نہیں کرسکتے لیکن اگر تم کہو کہ موسیٰ نے ان چیزوں کو منع کیا اور عیسائی لوگ توریت کو مانتے ہیں۔ پس عیسائیوں کو بھی ان سے نفرت کرنی چاہئے اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ عیسائی لوگ خوب جانتے ہیں کہ توریت خدا کاکلام ہے لیکن ہماری خاص کتاب انجیل ہے اور ہم اس سے تعلیم پاتے ہیں کہ کس بات پرعمل کرنا ہے ۔مسیح توریت کی بابت ہم کو یوں سکھلاتا ہے کہ میں توریت اور انبیا کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں آیا لیکن ان کو پورا کرنے کو آیا ہوں (متی کی انجیل ۱۷:۵) اور پھر (مرقس ۷باب) دیکھو اس میں لکھا ہے کہ ایسی کوئی چیز آدمی کے باہر نہیں ہے کہ اس میں داخل ہوکے اسے ناپاک کرے لیکن وہ چیزیں جو اس سے نکلتی ہیں یعنی برے اندیشے ، زناکاری، قتل، چوری، لالچ، بدی، مکر، مستی، شیخی یہ سب بری چیزیں آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ ان باتوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اصلی حقیقی شریعت ہمیشہ قائم ہے اور تبدیل نہیں ہوتے اور اس پر عمل کرنا ہمیشہ سب پر فرض ہے لیکن موسیٰ کے بہت جسمانی احکام اور رسوم کومسیح نے پورا کیا جیسا کہ قربانی دینا کھانے میں فرق کرنا وغیرہ ،کیونکہ یہ حکم آنے ولی نعمتوں کے نشان اور نمونہ تھے۔ جیسا کہ پولُس کا خط عبرانیوں کو اس کے (عبرانیوں ۱۰باب) میں لکھا ہے کہ’’ شریعت جو آنے والی چیزوں کی پرچھاؤں ہے اور ان چیزوں کی اصلیت نہیں۔ ان قربانیوں سے جو وہ ہر سال ہمیشہ گذرانتے ہیں لوگوں کو کبھی کامل نہیں کرسکتی۔ یہ رسمیں مسیح دین کی حقیقی خوبیوں کا نشان نہیں اور وہ مسیح کے وقت تک قائم رئیں۔ اس بات کو ایک تمثیل دے کر بیان کرتا ہوں۔ ایک آدمی نے اپنے لڑکوں سے وعدہ کیا کہ چند روز کے بعد میں تمہارے واسطے خوبصورت اور فائدہ مند چیز لاؤں گا اور یہ لو ان کا نمونہ میں تمہیں دیتا ہوں۔ اس لئے کہ وہ چیزیں ہمیشہ تمہاری یاد میں رہیں تم ان نمونوں کو خبرداری سے رکھو اور ان کوبار بار دیکھو اگر چند روز کے بعد وہ باپ ان تحفہ چیزوں کو لائے اور ان کو دے تو وہ بڑے خوش ہوں گے اور جب نمونوں کا اصل ان کو ملے گا تو ان کی قدر کچھ نہ کریں گے ۔ اگر کوئی لڑکا تحفہ چیزوں کو چھوڑ کر صرف نقل کو قیمتی سمجھے تو باپ ضرور اس کو کہے گا کہ اب نقل کسی کام کی نہیں اصل کو لو کہ وہ اچھی ہے ۔

اسی طرح خدا نے یہودیوں کو بہت ریت و رسم بخشیں جو آنے والی برکتوں کی نمونہ تھیں لیکن جب مسیح آیا اور اس نے ان رسموں کو پورا کیا تب رسول نے ان کو سکھلایا کہ جب تم لڑکے تھے تب ان تربیت کرنے والے رسموں کے جو دنیاوی بند میں تھے لیکن اب تم کیوں دوبارہ ان ضعیف ادنیٰ قواعد و رسوم کے طرف مائل ہوتے ہو اور پھر ان کی غلامی میں کیوں رہتے ہو (گلتیوں ۴باب) دیکھو اب میں موسیٰ کے چند رسومات کے روحانی معنی بتلاتا ہوں ۔خدا نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون اور اس کے بعد اس کے اولاد میں سے ایک سردار کاہن مقرر ہوئے ۔ وہ ہمارے مسیح کا نشان تھا سردار کاہن کے لئے حکم تھا کہ پاک ترین جگہ میں جا کر جانور کا خون چڑھائے یا چھڑکے ۔ یہ مسیح کے خوں کا نشان تھا کہ ہمارے گناہوں کے واسطے بہایا گیا۔ کاہن کے لئے حکم تھا کہ عبادت گاہ میں جا کر خوشبو بتی جلائے یہ خوشبو روحانی بندگی کا جو خدا کی خدمت میں بھیجتے ہیں۔ ایک صاف نشان ہے ۔عبادت خانہ میں چراغ ہمیشہ جلتا رہتا تھا۔ یہ اس روحانی روشنی کا جو کہ خدا کا کلام اور روح سے ایمان داروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے نشان ہے اور جوخدا نے چند جانور جیسے سور، اونٹ، گھوڑا اور خرگوش وغیرہ کا گوشت منع فرمایا ہے ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ ہم دنیاوی لوگوں کے ناپاک کاموں سے پرہیز کریں جو کوئی کہے کہ مسیح نے ختنہ کرایا ضرور چاہئے کہ تمام عیسائی مختون ہوں۔ خدا نے ختنہ کا حکم ابراہیم کودیا جس وقت اس نے اسے کہا کہ دیکھ میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ تو بہت قوموں کا باپ ہوگا پھر خدا نے ابراہیم سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ میں رکھیں اور میرا عہد جو میرے اورتیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرد کا ختنہ کیا جائے ۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ختنہ صرف ابراہیم اور اس کی نسل کے واسطے تھا اور عیسیٰ بھی ابراہیم کی اولاد میں سے تھا۔ اس لئے وہ مختون ہوا اور اگر کوئی پوچھے کہ ختنہ سے کیامراد ہے تو یہ جواب ہے کہ وہ اس عہد کا نشان تھا جسے خدا نے ابراہیم سے کیا اس کے ایمان اور اس کی راست بازی کا نشان ہے ۔( رومیوں ۱۱:۴) میں ہے کہ ’’ جب خدا نے ابراہیم سے وعدہ کیا کہ تیری نسل ستاروں کی مانند ہوگی۔ ابراہیم ایمان لایا اور ایمان اس کی راست بازی گناگیا اور ختنہ اس کی راست بازی کا نشان اور خدا کی مہر تھا‘‘۔ پھر ختنہ تابع داری اور دلی پاکیزگی کانشان ہے ۔ جیسا کہ (استثنا ۱۰باب) میں لکھا ہے ۔ ’’پس اپنے دلوں کا ختنہ کرو آگے کو گردن کشی نہ کرو‘‘ اور پھر پولُس فرماتا ہے کہ حقیقی مختون وہ ہیں جو راست بازی سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور عیسیٰ مسیح پر فخر کرتے ہیں اور جسم کا بھروسہ نہیں کرتے ۔ (فلپیوں ۳:۲) اور (رومیوں۲۸:۲۔۲۹) دیکھو کیا لکھا ہے ’’وہ ختنہ نہیں جو کہ جسم میں ہے بلکہ ختنہ وہ ہے کہ دل اور روح سے ہونہ کہ لفظی جس کی تعریف خدا سے ہو نہ آدمیوں کی طرف سے ‘‘۔ پھر محمدی اکثر عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ تم شراب کیوں پیتے ہو اور شراب پینا ضرور چوری کے برابر بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ۔لیکن دریافت کرنا چاہئے کہ یہ کیوں کر گناہ ہے ۔ اگر تم کہو کہ یہ ہر مذہب میں منع ہے تو توریت اورا نجیل کو پڑھو کہ تم کو معلوم ہو کہ اس میں کچھ منع نہیں۔ اگر تم کہو کہ قرآن میں منع ہے تو شک نہیں۔ لیکن اس میں بھی لکھا ہے کہ شراب میں فائدے ہیں دیکھو (سورہ آمنت) میں اور یہ بھی واضح ہو کہ ہم عیسائی ہیں محمدی نہیں۔ فرض کرو اگر کوئی ہندو تم سے کہے کہ گائے کا گوشت حرام ہے کیونکہ شاستر میں منع ہے تو تم اس کو کیا کہو گے ۔ اچھا میں پوچھتا ہوں کہ شراب پینے میں کیا برائی ہے اگر کہو کہ شراب پینے سے مستی اور مستی سے زنا کاری، خون اور ہر طرح کے گناہ صادر ہوتے ہیں۔ ہاں بے شک یہ خرابی اس سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی کثرت سے اور بدطور پر استعمال کرنے سے ۔پس شراب پینا بالکل ممنوع نہیں ہے ۔

یہ ایسا ہے جیسے ایک یونانی حاکم لیگرگس نے یہ دیکھ کر کہ لالچ سے بڑی خرابی ہوتی ہے سونے چاندی کا سکہ بنایا اور استعمال میں لانا بالکل منع کردیا ۔اگر کوئی شکم پرست ہو تو اس کے لئے نقصان ہے ۔ دیکھو روٹی کھانے میں گناہ نہیں بلکہ بدپرہیزی میں گناہ ہے ۔ روپیہ حاصل کرنے میں نہیں بلکہ خیانت اور لالچ میں گناہ ہے ۔ اسی طرح شراب پینے میں نہیں بلکہ بدپرہیزی میں گناہ ہے ۔ اس واسطے بائبل میں شراب پینا منع نہیں ہے اور کسی نبی نے کبھی منع نہیں کیا لیکن متوالا ہونا منع ہے اور صاف لکھا ہے کہ کوئی متوالا بہشت میں داخل نہ ہو گا۔ اگر تم کسی دانا طبیب سے دریافت کرو گے تو وہ مئے اور شراب کے بہت فوائد بیان کرے گا کہ اکثر اوقات اس سے جان بچ جاتی ہے ۔ تو بھی اس لئے کہ اس کی کثرت سے بہت نقصان ہوتے ہیں بہتر ہے کہ بغیر سبب کے ہم نہ پئیں۔ میرے بھائیو یقین کرو کہ خدا کی مصنوعات چیزوں میں کوئی چیز بے فائدہ نہیں اگر ہم ان کو اس کی مرضی کے موافق استعمال میں لائیں تو اس کے فائدے معلوم ہوتے ہیں۔

پھر محمدی لوگ کہتے ہیں کہ عیسائی نماز نہیں پڑھتے باوجود یہ کہ عیسیٰ نماز پڑھتا تھا لیکن دریافت کرنا چاہئے کہ نماز کیا یہی نماز ہے کہ آدمی جھکے اور پھر کھڑا ہوئے یا سر زمین پر رگڑے یا عبرانی یا عربی یا سریانی زبان میں جس کو وہ سمجھتا نہیں ایسے چند الفاظ پڑھے جس سے اس کے دل پر کچھ تاثیر نہیں ہوسکتی ،کیونکہ وہ ان کے معنی نہیں جانتا۔ عیسیٰ مسیح نے اس طرح نماز نہیں پڑھی اور نہ اپنے شاگردوں کو اس طرح سکھلایا۔ وہ پہاڑ پر یا باغیچہ میں لوگوں سے پوشیدہ ساری رات دعا مانگنے میں گذارتا تھا اور اس نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ مانگو تو تم کو ملے گا، ڈھونڈھو تو تم پاؤ گے ، کھٹکھٹا ؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ اس لئے مناسب ہے کہ ہم ہمیشہ دعا مانگیں اور اس میں سستی نہ کریں۔ اس نے اس مضمون کی ایک تمثیل سنائی کہ کسی شہر میں ایک غریب بیوہ تھی اور اسی شہر میں ایک بے انصاف قاضی بھی رہتا تھا۔ اس بیوہ نے بار بار جا کے اس قاضی کے پاس عرض کی قاضی نے اس کی ہرگز نہ سنی جب وہ بہت دفعہ اس پاس آئی تو اس نے کہا کہ اگرچہ نہ میں خدا سے ڈرتا اور نہ آدمی کی کچھ پرواہ رکھتا ہوں تو بھی مجھے اس عورت کا انصاف کرنا لازم ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ بار بار آنے سے میرا دماغ خالی کرے ۔ پس خدا جو مہربان ہے وہ کس قدر اپنے برگزیدوں کا انصاف کرے گا۔ پھر لکھا ہے کہ نت دعا مانگو عیسیٰ نے کہا کہ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ وہ جو اس کی بندگی کریں روح اور سچائی سے کریں۔ پھر اس نے فریسیوں کو جو بڑے نماز گز ار تھے اور بڑے لالچی اور ظالم بھی تھے کہا کہ اے ریا کارو !تم سفید قبروں کی مانند ہو جو باہر سے بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں پر اندر سے مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی ناپاکی سے بھری ہیں۔ اے ریاکارو! تم پر افسوس کہ بیواؤں کے گھر نگل جاتے ہو اور مکر سے لمبی چوڑی نماز پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پاؤ گے ۔ پھر عیسیٰ نے کہا کہ جب دعا مانگو اپنی کوٹھہری میں جاؤ اور پوشیدگی میں اپنے باپ سے دعا مانگو اور و ہ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھ کو بدلا دے گا۔ پھر کہا کہ جب تم دعا مانگو تو کہو کہ’’ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو‘‘ وغیرہ۔ انجیل میں بھی لکھا ہے کہ آپس میں اکٹھے ہو کے ایک دوسرے کو نصیحت اور خدا کی بندگی کرو ان باتوں کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز نہایت ضروری ہے بلکہ آدمی کے جان کی برابر ہے، لیکن اگر وہ دل اور جان اور سمجھ سے نہ ہو تو وہ بالکل بے فائدہ اور جھوٹی ہے پھر معلوم ہو کہ ریاکاری سے نماز پڑھنا بڑا گناہ ہے ۔ نماز اکثر اپنے گھر میں لوگوں سے علحٰدہ ہو کر پڑھنی چاہئے پر نصیحت سننے اور عبادت کرنے کے لئے اکٹھا بھی ہونا فرض ہے ۔ پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ روزہ کیوں نہیں رکھتے ہو اگر ان سے سوال کیا جائے کہ روزہ کس واسطے رکھنا چاہئے تو کہیں گے کہ حکم ہے یا ثواب ہے یا خاموش رہیں گے ۔اگر خداکا حکم ہو تو بے شک ماننا چاہئے انجیل میں روزہ کا حکم نہیں تو بھی اس میں منع نہیں بلکہ اس کی مراد اور فائدہ کا ذکر بائبل میں مسطور ہے کہ جب لوگ مسیح سے پوچھتے کہ تیرے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے اس نے کہا کہ ’’کیا بڑبڑانے جب تک دولھا ان کے ساتھ ہے اُداس ہوسکتے ہیں؟ لیکن وہ دن آئیں گے کہ دولھا ان سے جدا کیا جائے گا تب وہ روزہ رکھیں گے‘‘( متی کی انجیل ۱۵:۹) کو دیکھو۔ پھر اس نے کہا کہ جب تم روزہ رکھو اپنے سر پر چکنائی لگاؤ اورمنہ دھو تا کہ آدمی نہیں پر تمہارا باپ جو پوشیدگی میں ہے تمہیں روزہ دار جانے اور تمہارا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں ظاہر میں بدلہ دے ۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا کہ روزہ رکھنا اچھا ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں غم کا نشان ہے اور دکھلانے کے واسطے روزہ رکھنا گناہ ہے۔

پھر جب عیسیٰ کے شاگرد اس سے پوچھتے تھے کہ ہم اس آدمی سے ناپاک روح نہیں نکال سکتے تو اس نے جواب میں کہا کہ ایسی روح صرف دعا اور روزہ سے نکالی جاتی ہے اور اس لئے اکثر روزہ کا ذکر دعا کے ساتھ آیا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کا یہ ایک فائدہ ہے کہ آدمی کھانے پینے سے الگ ہوکر خدا کی عبادت میں مشغول رہے (نعوذ بااللہ) کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا ہمارے بھوکا رہنے سے راضی ہے اور جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے دکھ سے راضی نہیں تو خدا جو تمام جہان کا خالق ہے ہمارے دکھ سے کس طرح خوش ہوگا۔ اگر کوئی لڑکا سارا دن بھوکا رہے اس لئے کہ وہ اپنے باپ کو خوش کرے تو اس کا باپ کس طرح اس سے خوش ہوگا۔ پس کوئی نہ سمجھے کہ ہم اپنے تئیں تکلیف دینے سے خدا کو خوش کرسکتے ہیں۔ خدا نے نبی کی معرفت فرمایا ہے (یسعیاہ ۵:۵۸۔۷) ’’کیا یہ وہ روزہ ہے جو میرے پسند ہے ؟ وہ روزہ جس میں آدمی اپنی جان دکھ دے اور سر کو جھاؤ کی طرح جھکائے ؟ کیا تم یہ روزہ رکھو گے اور ایسا دن خدا کو خوش آئے ؟ کیا وہ روزہ جومیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کا بند کھولو اور بھاری بوجھ کو اتارو اور شکستوں کو آزاد کرواور ہر ایک جوا توڑ ڈالو؟ کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی سے بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اور جب کسی برہنہ(ننگا، عریاں، کھلا ہوا) کو دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جنس سے روپوشی(منہ چھپانا، غائب رہنا) نہ کرے ؟‘‘ اس سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے معنی یہی ہیں کہ نفسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کو مار ڈالنا اور روزہ سے شکستہ دل اور رحیم ہو جانا ہے لیکن جو کوئی سارا دن بھوکا رہے اور ساری رات کھاتا رہے خاص کر سویرے بہت کھائے کہ تمام دن بھوک نہ لگے اس سے نفس اور شہوت اور شکم پرستی اور خود غرضی کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر ہوتی ہے اور جو آدمی گرمی میں سارا دن بھوکا رہے پانی اور حقہ تک نہ پیئے بے شک اس کے دماغ میں تیزی اور غصہ پیدا ہوگا۔ چنانچہ اکثر مشاہدہ میں آتا ہے اور غصہ حرام ہے اور اکثر اس سے غرور پیدا ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس ملک میں ماں باپ اپنے لڑکوں کو پیسہ دے کر روزہ رکھواتے ہیں تاکہ ہمسایوں پر ظاہر ہو کہ ہمارے لڑکے بڑے دین دار ہیں۔ حاصل ِ کلام کہ روزہ سے ثواب نہیں بلکہ غم کا نشان ہے اور اس سے فائدہ یہ ہے کہ دل دنیاوی خیالوں کو چھوڑ کر عبادت پر لگے اور شہوت اور شکم پرستی کو روکے اور آدمی فروتن اور حلیم بن جائے ۔ جو کوئی یہ سمجھ کر روزہ رکھے اورکسی طرح اس کو ظاہر نہ کرے تو البتہ فائدہ ہوگا اور جس طرح اس ملک میں روزہ رکھتے ہیں نہ تو اس میں کچھ دانائی نہ کچھ فائدہ نہ حکم الٰہی ہے بلکہ سراسر نقصان ہے ۔

پانچویں فصل

دربیان اعتراضات متفرقات عہد قدیم پر

بائبل میں لکھا ہے کہ خدا دنیا کو پیدا کر کے پشیمان(شرمندہ، نادم، منفعل) ہوا اور معترض کہتے ہیں کہ خدا کو انجام کی خبر تھی جب دنیا کو پیدا کیا تو وہ کس طرح پشیمان ہوا؟

جواب:۔ یہ بات سچ ہے اور بائبل میں بھی لکھا ہے کہ خدا آدم زاد نہیں کہ پشیمان ہوا اگر (زبور ۴۴:۱۰۶۔۴۵) تو دیکھو گے تو شاید سمجھو گے کہ خدا کے پشیمان ہونے کے کیا معنی ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ خدا نے اپنے لوگوں کے دکھ پر نظر کی جب کہ اس نے ان کا نالہ(فریاد، واو یلا) سنا اور اس نے ان کے لئے اپنا عہد یاد فرمایا اور اپنی رحمتوں کی فراوانی(زیادتی، کثرت، افراط) کے مطابق پچھتایا یعنی جب دیکھا کہ میرے لوگ سزا اٹھا کے توبہ کرتے ہیں تو پچھتایا یعنی ان کی سزا کو چھوڑ دیا جیسا آدمی جب کسی کام سے توبہ کرتا ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے اور اسی طرح پیدائش میں لکھا ہے کہ خدا جہان کے پیدا کرنے سے پچھتا یا یعنی اس کو طوفان سے برباد کرنے کے لئے تیار ہوا۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ خدا دیکھتا، سنتا اور غصہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی خدا پر عائد نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ خدا کی آنکھ اور کان نہیں اور نہ وہ انسان ہے کہ غصہ ہو۔ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا گنہگاروں سے خفا ہے تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ خدا ان کو سزا دینے کو تیار ہے ویسا ہی جب یہ لکھا ہے کہ خدا دنیا کو پیدا کرنے سے پچھتایا تو مطلب یہ ہے کہ خدا دنیا سے ناخوش ہوا اور اس نے اس کے برباد کرنے کا ارادہ کیا اور جو محمدی قرآن سے واقف ہیں ایسے اعتراض نہیں کرتے ۔ یہ نہ صرف بائبل کا محاورہ ہے بلکہ قرآن میں بھی ایسی باتیں ہیں جیسے لکھا ہے

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ۵۴

پس یہ لوگ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اللہ اُوپر ان کے اور ہے اللہ جاننے والا حکمت والا اور نہیں توبہ واسطے ان لوگوں کے کہ کرتے ہیں برائیاں

(سورہ عمران ۵۴) ۔

پھر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب نے خدا کے ساتھ کشتی کی؟

جواب :۔یہ نہیں لکھا ہے کہ یعقوب نے خدا کے ساتھ کشتی کی مگر یہ (پیدائش۳۲باب) میں ہے کہ یعقوب اکیلا رہ گیا اور وہاں پوپھٹتے تک ایک شخص اس سے کشتی لڑا۔ کیا اس نے یعقوب سے کہاکہ تیرا نام آگے کو اسرائیل ہوگا یعنی خدا کا ایک ولی کیونکہ تو نے خدا اور خلق کے پاس قوت پائی اور غالب ہوا۔ یعقوب نے اس جگہ کا نام فنی ایل رکھا اور کہا کہ میں نے خدا کو رو برو دیکھا اور میری جان بچ رہی۔ اس ماجرا کی بابت ہوسیع نبی کی کتاب کے (ہوسیع ۴:۱۲) میں لکھا ہے کہ ’’وہ یعنی یعقوب فرشتے کے ساتھ کشتی لڑا اور غالب آیا‘‘۔ جو کوئی بائبل کو غور سے پڑھے گا اس کو معلوم ہوگا کہ اس میں بار بار عہد کے فرشتے کا ذکر ہے جو آدم، ابراہیم، یعقوب اور یسعیاہ وغیرہ پر ظاہر ہوا اور صفات الٰہی رکھتا تھا جس سے وہ باتیں کرتے اور دعا مانگتے تھے ۔ چاہئے کہ محمدی (سورہ اعراف۱۴۳آیت) کے مضمون کو مطالعہ کریں۔

قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا۱۴۳

یعنی موسیٰ نے کہا اے رب تو اپنا مجھے دیدار دکھلا۔ خدا نے فرمایا تو میرا دیدار ہرگز نہ کرسکے گا اور فرمایا کہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر ٹھہر سکا تو تو بھی مجھ کو دیکھ سکے گا اور پھر جب خدا اس پہاڑ پر نمود ہوا تو وہ پہاڑ گر پڑا اور بے ہوشی موسیٰ پر طاری ہوئی ۔

بے شک توریت میں بھی لکھا ہے کہ خدا موسیٰ پر نمود ہوا۔ پھر کوئی یہودی یا عیسائی یا محمدی خدا کے نمود ہونے پر اعتراض نہ کرے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اس فرشتے کے ساتھ کشتی کرنے کے کیا معنی ہیں؟ تو یہ جواب ہے کہ جو کوئی دعا مانگنے میں مستعد رہے گا اگرچہ بدن کا تکلیف ہو تو بھی وہ خدا کے رحم اور فضل پر غالب آئے گا اور بڑی برکتیں پائے گا جیسا یعقوب نے خطاب اسرائیل پایا یعنی خدا کا ولی۔ آج کل بہت محمدی لوگ یہ کہتے ہیں کہ عیسائی لوگ خدا کو ریچھ اور شیر کہتے ہیں یہ بات بالکل بے جا ہے یرمیاہ نبی نے ضرور نالہ کر کے کہا کہ’’ خدا میرا مخالف ہے تمام دن تجھ پر دست انداز ہے ۔ اس نے میرے گرد ایسا احاطہ باندھا جس سے میں نکل نہیں سکتا وہ میرے لئے ایسا مہیب ہوا جیسے بھالو جو گھات میں بیٹھتا ہو اور جیسے شیر ببر جو چھپ کر کمین گاہ میں ہو‘‘۔ یرمیاہ نبی نے یہ بات اس وقت کہی جب کہ نبو کد نذر بابل کے بادشاہ نے آکر بیت المقدس کو برباد کیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ خدا نے کس طرح کلدیوں کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو برباد کیا۔ یعنی اس نے ایسا کیا جیسا کہ ریچھ یا شیر اپنے مقابلہ کرنے والے کے ساتھ کرتا ہے ۔ یہ نہیں کہا کہ خدا شیر ہے اور پھر جب خدا نے ہوسیع کی معرفت کہا کہ میں افرائیم کا پتنگا اور یہودیوں کے گرانے کے لئے گہن ہوں گا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں ان قوموں میں کیا کروں گا یعنی میں ان کو برباد کروں گا جیسے کیڑا کپڑے کو اور گہن لکڑی کو آہستہ آہستہ خراب کردیتا ہے ۔ پھر (یسعیاہ ۱۷:۳) میں لکھا ہے کہ خداوند صیہون کے بیٹیوں کی چند یا کوگنجا کر ڈالے گا اور خداوند ان کے اندام نہانی(شرم گاہ) کو اکھاڑے گاانتہا۔ اس بات میں خدا یہودیوں پر ظاہر کرتا ہے کہ ان کے گناہوں کے واسطے ان کو کیا سزا ملے گی اور سولھویں(۱۶) آیت سے لے کے ۔ وہ ان عورتوں کے گناہوں کا اور ان کے سزا کا ذکر کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ وہ فاحشہ اور بے شرم ہیں اس لئے خدا ان کی خوبصورتی اور بدصورتی ان کی برہنگی ظاہر کرے گا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ آخری فقرہ ایک دستور کے طرف جو اس وقت جاری ہوا تھا اشارہ کرتا ہے۔ یعنی کہ اسیروں(اسیر کی جمع: قیدی، بندی) کو ننگا کر کے اپنے ملکوں میں لے جاتے تھے ۔ جو کچھ ہوتا ہے خدا کی تقدیر سے ہوتا ہے اور جب خدا نے ارادہ کیا کہ یہ سخت سزا ان کے گناہوں کے واسطے ان پر لائی جائے بشرطیکہ وہ توبہ نہ کریں اور ان کو اس بات کی پیشتر سے اطلاع دیتے ہیں کہ ایسی آفت ان پر نازل ہونے والی ہے ،تاکہ وہ توبہ کریں اور اس سے بچ جائیں۔ کچھ عیب نہیں سب لوگ جو خدا کی تقریر کو مانتے ہیں جانتے ہیں کہ خدا ایسا کام بھی کرسکتا ہے اور اگر اس کو کرنے میں کچھ عیب نہیں تو اس کے ذکر کرنے میں بھی عیب نہیں اس بات پر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ (یسعیاہ ۳:۲۰) میں لکھا ہے کہ’’ خدا نے یسعیاہ نبی سے کہا کہ جا اور ٹاٹ کا لباس اپنے بدن سے دور کر اور اپنے پاؤں سے جوتی اتار اور اس نے ایسا ہی کیا کہ وہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن پھرا کیا لیکن اس سے نہیں معلوم ہوتا ہے کہ یسعیاہ بالکل ننگا ہو کر ان کے سامنے پھرتا تھا اور یہ مشہور ہے کہ جب آدمی اوپر کے کپڑے اتار کر بازار میں پھرے تو لوگ کہتے ہیں کہ ننگا پھرتا ہے ۔لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ خدا نے حزقی ایل نبی سے فرمایا کہ لوگوں کے سامنے انسان کی گندگی سے روٹی کھا ۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ جب حزقی ایل نے خدا کی درگاہ میں عرض کی تو اس نے اس کو کہا کہ روٹی گوبر سے بنا کرکھاؤ اور سب لوگ جانتے ہیں کہ جب شہر کا محاصرہ ہوتا اور اس کے باشندے اسیر ہو جاتے تو ہر طرح کی تکلیف لوگوں پر آتی ہے اور ہر طرح کی پلید چیزوں کو کھاتے ہیں۔ محمدی لوگ یہی جانتے ہیں کہ ایسی آفتیں خدا کی طرف سے آتی ہیں اور اگر خدا ایسی آفتیں لوگوں پر بھیجے تو کیا عجب ہے کہ پہلے خدا ایک نمونہ کے طور پر ظاہر کرے کہ یہ آفتیں ان پر نازل ہوں گی تا کہ وہ ڈریں اور گناہ سے ہٹ جائیں اور اپنے تئیں ایسی برائی سے بچائیں اور ضرور ہے کہ جب ہم کوئی آفت دیکھتے ہیں تو اس کی زیادہ تاثیر ہوتی ہے بہ نسبت اس کے جو ہم سنیں اس واسطے خدا نے حکم دیا کہ یہ نشان دکھلائے جائیں اور محمدی لوگ جو توریت اورنبیوں کے صحیفوں پر اعتراض کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ خیال کریں کہ ہم بھی موسیٰ، داؤد اور یسعیاہ وغیرہ کونبی جانتے ہیں پھر اعتراض کے کیا معنی ہیں۔ مگر شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کتابیں بدل گئیں۔ پھر جس طرح سے تم مانتے ہو کہ سب کتابیں جو کہ قرآن سے پیشتر آئیں خراب ہوگئیں۔ اگر ہم بھی اقرار کریں کہ جو انجیل سے پیشتر آئیں سب خراب ہوگئیں تو ہمارے اور تمہارے حال میں کیا فرق ہوگا۔ اگر تم اگلی کتابیں ناقص جانتے ہو اور تو بھی قرآن کو مانتے ہو سو اگر ہم بھی اگلی کتابوں کو ناقص جانیں تو کیوں انجیل کو نہ مانیں نہیں تو اگلی کتابوں کا ذکر کرنا فضول ہے ۔ اس مباحثہ میں صرف انجیل اور قرآن کا ذکر کرنا مناسب ہے اور اعتراضوں کا جواب دینا کچھ ضرورت نہیں لیکن اس لئے کہ میں خدا کی ساری کتابوں کو برحق جانتا ہوں اس لئے ان کو جھوٹی تہمت سے بچانا چاہتا ہوں۔

چھٹی فصل

دربیان اعتراضات متفرقہ عہد جدید پر۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ نے سب نبیوں کو جو اس سے آگے تھے چور اور بَٹ مار(ڈاکو) کہاہے ۔ جو لوگ انجیل سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح ہمیشہ اقرار کرتا تھا کہ ابراہیم، موسیٰ اور داؤد وغیرہ سب نبی تھے ۔ پھر کس طرح اس نے ان کو چور اور بٹمار کہا یہ بات ناممکن اور اعتقاد سے بعید ہے۔ عیسیٰ نے ضرور کہا کہ میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں سب جتنے میرے آگے آئے چور اور بٹمار تھے مگر ان آیتوں میں نبیوں کا ذکر نہیں۔ اگر مسیح کہتا کہ میں سچانبی ہوں اور جو نبی میرے آگے آئے چور اور بٹمار تھے تو بے شک سب نبیوں کو جھوٹا کرتا ۔لیکن وہ دروازہ کا ذکر کرتا تھا کہ میں وہ دروازہ ہوں اور سب جو میرے آگے آئے چور اور بٹمار تھے یعنی میں بہشت کا دروازہ ہوں اور صرف یہی ایک دروازہ ہے اور وہ جس نے کہا کہ میں دروازہ ہوں چور اور بٹمار تھا جو بھیڑوں کو خراب کرنے آیا۔ ابراہیم، موسیٰ یا داؤد نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم نجات کا وسیلہ یا بخشوانے والے ہیں۔ پس مسیح نے ان کے حق میں یہ فرمایا تھا غرض کہ جس حالت میں وہ نبیوں کا بالکل ذکر ہی نہیں کرتا تو کس طرح ان کو چور اور بٹمار کہتا۔ پھر اہل اسلام سوال کرتے ہیں کہ داؤد نے حتی اُوریا کے ساتھ کیسا بد سلوک کیا ہے باوجود اس کے اس کی تعریف انجیل میں کیوں لکھی ہے اگر (زبور۵۱) پڑھو گے تو تم کو معلوم ہو جائے گا کہ جب داؤد نے وہ بد کام کیا تھا اور ناتن نبی نے اس کے پاس جا کر اس کو سمجھایا تب داؤد نے توبہ کر کے اس زبور کو لکھا جس میں اس نے برائی اور کمبختی اور سزا کا اقرار کیا اور تمام عاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ جیسے کہ سب سچے تائب جب ان سے گناہ صادر ہوتے ہیں توبہ کرتے ہیں سب لوگ آدم سے لے کر جو ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیں سب کے سب گناہ گار لیکن خدا کا سچا بندہ وہ ہے جس کو خدا فضل سے نیا مزاج ملتا ہے اور توبہ کر کے سچا ایمان دار ہو جاتا ہے اور ضرور یہ بات سب لوگوں کی تسلی کے واسطے ہے ۔ اگر وہ توبہ کریں اور خدا کی راہ میں آئیں تو ان کے لئے نجات ہے اور خدا ان کی تعریف کرتا ہے ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی معصوم ہوتے ہیں لیکن یہ بائبل اور قرآن دونوں کے برخلاف ہے کیونکہ ان دونوں میں آدم کے گناہ کا ذکر ہے اور عیسائی اورمحمدی اس بات سے بالکل انکاری نہیں کہ آدم گناہ گار تھے اور محمد صاحب کی بابت یوں لکھا ہے کہ

اے نبی اپنے گناہوں کی معافی مانگ

دیکھو (سورہ محمد)

وَ اسۡتَغۡفِر لِذَنۡبِکِ۔

یہ اعتراض بھی اکثر کیا جاتا ہے کہ پولُس رسول فریب سے لوگوں کو اپنے دین میں لاتا تھا۔( ۱۔کرنتھیوں ۱۵:۹) میں لکھا ہے کہ میں یہودیوں کے درمیان یہودی سا تھا تاکہ میں یہودیوں کو نفع میں پاؤں میں شریعت والوں میں شریعت والا تھا تاکہ شریعت والوں کو نفع میں پاؤں اور بے شریعت لوگوں میں بے شریعت سا ہر چند خدا کے نزدیک میں بے شریعت نہیں ہوں بلکہ مسیح کی شریعت کا تابع دار تھا تاکہ میں بے شریعت لوگوں کو نفع میں پاؤں کمزوروں میں کمزور سا تا کہ کمزوروں کو نفع میں پاؤں میں سب آدمیوں کے واسطے سب کچھ بنا تا کہ ہر ایک طرح سے کتنوں کو بچاؤں اور میں یہ انجیل کے واسطے کرتا ہوں۔ اب اگر کوئی عقل مند آدمی بے تعصب ہو کے اس کو پڑھے گا تو وہ ضرور کہے گا کہ یہ کیا خیر خواہ اور رحم دل تھا اور جہاں تک اس نے اپنی خواہش اور خوشی اور دوستوں کو چھوڑا اور غیر لوگوں کے دستوروں پر عمل کیا تاکہ اور لوگوں کو خدا اور مسیح کی طرف پھیرے ۔ جیسا کوئی انگریز عیسائی محمدیوں کے ملک میں جا کے ان کی روشوں اور دستوروں پر جہاں تک وہ خدا کے حکموں کے برخلاف نہیں ہیں عمل کرے ۔ ایسا ہی پولُس نے کیا تا کہ بت پرست اور یہودی عیسیٰ پر ایمان لائیں کوئی آدمی گمان نہ کرے کہ اس نے کوئی کام خدا کے حکم کے برخلاف کیا کیونکہ اس نے کہا کہ میں خدا کے نزدیک بے شریعت نہ ٹھہرا بلکہ مسیح کی شریعت کا تابع دار تھا۔ پولُس نے جس کا نام سولوس(ساؤل) تھا رومیوں کے طرف سے جو حاکم وقت تھے بڑا عہدہ پایا تھا اور وہ یہودیوں میں ایک بڑا معلم تھا۔

لیکن جس وقت سے اس نے عیسیٰ کو مردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد دیکھا اس وقت سے اس نے دنیاوی دولت عزت اور حشمت کو ناچیز سمجھ کے چھوڑ دیا ۔ہر ایک ملک میں جہاں ہر ایک طرح کی بے عزتی اور تکلیف تھی گیا اور اپنے عیش و آرام و خوشی کو چھوڑا تاکہ اور لوگوں کو بچائے ۔ پس ضرور ہے کہ وہ سچا آدمی تھا نہیں تو کس واسطے اتنی تکلیف اٹھاتا اور جس بات پر گواہی دیتا ہے وہ تسلیم کے لائق ہے ۔ تو جس دلیل سے مخالف چاہتے ہیں کہ انجیل کو جھٹلا دیں اسی سے اس کی سچائی ثابت ہوتی ہے پھر اعتراض کرتے ہیں کہ متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ فلانی بات یرمیاہ نے کہی لیکن یہ بات یرمیاہ کی کتاب میں نہیں مگر زکریاہ کی کتاب میں پائی جاتی ہے ۔ (متی ۹:۲۷) کو دیکھو یعنی جب مسیح پکڑا گیا جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا سو پورا ہوا کہ انہوں نے وہ تیس روپیہ لیا اس کی ٹھہرائی ہوئی قیمت۔ اس اعتراض کے دو جواب ہیں پہلے کہ ابتدا میں اس جگہ زکریاہ لکھا ہو تھا اور نقل کرنے میں وہ یرمیاہ لکھا گیا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نہیں لکھا کہ یہ یرمیاہ کی کتاب میں ہے بلکہ یہ کہ یرمیاہ نے کہا اور اگر یرمیاہ نے جو اکثر ہمیشہ سے تعلیم دیتا تھا یہ بات کہی تو اس میں کیا تعجب ہے ۔ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کیا بات تھی اور کس کے حق میں زکریاہ نے کہا وہ یہ تھی (زکریاہ ۱۲:۱۱۔۱۳) ’’اور میں نے انہیں کہا اگر تم مناسب جانو تو میرا مول مجھے دو نہیں تو مت دو اور انہوں نے میرے مول کی بابت تیس روپیہ تول کے دیئے اور خداوند نے مجھے کہا کہ اسے کمہار کے پاس پھینک دے اچھی قیمت ہے جو انہوں نے دی اور میں نے ان تیس روپیہ کو لیا خداوند کے گھر میں اس کمہار کے لئے پھینک دیا‘‘۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ زکریاہ نبی نے پیش گوئی کے طور سے کہا کہ جب مسیح دنیا میں آئے گا تو لوگ تیس روپیہ اس کی قیمت ٹھہرائیں گے اور جب یہ تیس روپیہ ملیں گے تو لوگ ان سے کمہار کا کھیت مول لیں گے معترض اعتراض کرتا ہے کہ یہ پیش گوئی زکریاہ کی کتاب میں موجود ہے اور انجیل سے معلوم ہوتا کہ کہ پیس گوئی مسیح میں پوری ہوئی۔ پس اس سے ثابت ہوتا کہ عیسائی دین سچا ہے ۔ کاش کہ لوگ تعصب چھوڑ کے انہیں باتوں پر بخوبی غور کریں اور خداوند ان کی رہنمائی کرے کہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ جانیں اور چاہئے کہ جو لوگ عیسائی لوگوں پر یہ عیب لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی انجیل کو جان بوجھ کر بدل ڈالا ہے ۔ یہ دریافت کریں کہ وہ اس جگہ میں یرمیاہ کے بدلے زکریاہ کیوں نہیں لکھتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ وہ اپنی انجیل کو ایک حرف میں کبھی نہیں بدلیں گے ۔ اگرچہ ہزار اعتراض ان پر ہوئیں تو لازم ہے کہ معترض اس اعتراض کو کہ عیسائی لوگوں نے اپنی کتابوں کو ارادتاً بدل ڈالا بالکل چھوڑ دیں اور کبھی اس کا ذکر بھی نہ کریں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک یہ بڑا پکا اعتراض ہے کہ عیسیٰ نے پطرس کو شیطان کہا اور اس سے ثابت ہے کہ پطرس ماننے کے لائق نہیں اس بات کو ذرا دریافت کرنا چاہئے ۔ عیسیٰ نے بارہ شاگرد چنے تھے کہ اس کی موت کے بعد انجیل سنائیں اور ساڑھے تین برس تک انہیں سکھایا اور جب مسیح مرنے پر تھا ان سے صاف کہا کہ میں فارقلیط(روح القدس) تم پر بھیجوں گا اور وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتلائے گی۔ وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پائے گی اور تمہیں دکھلائے گی اور پھر اس نے کہا کہ تمہارے لئے میرا جانا فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں فارقلیط تم پر نہ آئے گی پر اگر میں جاؤں تو میں اس کو بھیجوں گا اور پھر اس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک یہ وعدہ پورا نہ ہو یروشلیم شہر سے باہر نہ نکلنا۔ اعمال کی کتاب میں بیان ہے کہ مسیح کی موت کے پچاس دن بعد اور اس کے آسمان پر چڑھ جانے سے دس روز پیچھے سب حواریوں پر جب وہ ایک جگہ میں ہو کے دعا مانگتے تھے کس طرح روح القدس نازل ہوئی اور کس طرح اس وقت سے لے کے روح القدس کی طاقت سے انجیل سناتے تھے اور بے شمار لوگ ان کی باتوں پر یقین کر کے اور گناہوں کر ترک کر کے عیسیٰ پر ایمان لائے اور حیات ابدی حاصل کی جب تک حواریوں نے روح القدس نہیں پایا تب تک تو بے شک اس کام کے لائق نہ تھے لیکن جس دن سے کہ یہ روح پاک پائی جس کا ذکر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کیا کہ میں تم کو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن تمہارے درمیان ایک ہے جو تم کو روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ تب سے وہ تمام الٰہام سے بولتے تھے اور ان کی بات قبولیت کے لائق تھی۔ لیکن آگے وہ بہت کمزور تھے کم اعتقاد اور نادان اور عیسیٰ نے اکثر انہیں جھڑک دیا۔ اب یہی سنو کہ عیسیٰ نے پطرس کوکیوں شیطان کہا؟ واضح ہو کہ مسیح اپنے شاگردوں کو سکھلاتا تھا کہ میں یروشلیم میں جا کر دکھ اٹھاؤں گا۔ تب پطرس نے اسے جھنجھلا کر کہا کہ اے خداوند تیری سلامتی ہو تجھ پر یہ کبھی نہ ہوگا۔ لیکن عیسیٰ خاص کر کے اس کام کے واسطے دنیا میں آیا تھا کہ اپنی جان دے کر گناہ گاروں کے لئے جو ایمان لائیں نجات تیار کرے اور اس نجات کے لئے خدا دنیا کو قائم رکھتا ہے اور شیطان خدا کا مخالف ہے خاص کر کے اس نجات کو روکنے میں اور گناہ گاروں کو برباد کرنے میں خدا کی مخالفت اور دشمنی کرتا ہے ۔

پس جب مسیح نے دیکھا کہ پطرس اس کام سے مجھ کو روکتا ہے اور کہتا ہے کہ تیری سلامتی ہو یہ تجھ پر کبھی نہ ہوگا تو اسے خداوند نے کماحقہ ملامت کی اور کہا کہ اے شیطان مجھ سے دور ہو پوشیدہ نہ ر ہے کہ مسیح عیسیٰ کے نام سوا کوئی دوسرا نام بخشا نہیں گیا کہ جس سے ہم نجات پائیں اور عیسیٰ ہم کو سکھلاتا ہے کہ جو کوئی اس نجات کے کام کو رو کے وہ خدا اور آدمیوں کا دشمن اور اس کے لئے شیطان کے نام سے کوئی اور بہتر نام نہیں ہوسکتا۔ پھر جائے غور ہے کہ اگر حواری فریبی ہوتے تو بے شک وہ کبھی اپنے حق میں نہ کہتے کہ عیسیٰ نے ہم میں سے کسی کو شیطان کہا ہے اور ایسی بہت باتیں جو انجیل میں ہیں اور جس سے اکثر ان کی جہالت اور کمزوری اور کم اعتقادی ظاہر ہوتی ہے کبھی نہ لکھتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سچے آدمی تھے اور ان کی باتیں اعتبار کے لائق ہیں۔ پھر جو انجیل( متی ۲۹:۲۶) میں لکھا ہے کہ مسیح فرماتا ہے کہ ’’میں انگور کا شیرہ پھر نہ پیوں گا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے بات کی بادشاہت میں نہ پیوں‘‘ اور اور بہت جگہ لکھا ہے کہ بہشت میں کوئی بیاہ نہیں کرتا اور جسم اور خون خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوسکتے تو اس جگہ مسیح کی یہ مراد نہیں ہے کہ جیسا میں اب تمہارے ساتھ کھاتا پیتا ہوں اسی طرح بہشت میں تمہارے ساتھ کھاؤں گا پیوں گا بلکہ مراد یہ ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ نیا آسمان اور نئی زمین ہوگی یعنی اور طرح کی زمین اور آسمان ہوگا کہ بہشت میں نئی یعنی اور طرح کی عید ہوگی کہ مسیح کے ساتھ حقیقی اور دلچسپ صحبت ہوگی وہ البتہ جن کے مزاج روحانی نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ شراب اور عورتیں وغیرہ ہم کو ملیں لیکن خدا اور مسیح اور فرشتوں اور مقدسوں کی صحبت ہی حقیقی عید ہے ۔ (لوقا ۱۸باب) سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ یریحو نام ایک شہر کے نزدیک جاتا تھا کہ ایک اندھے نے چلا کر کہا اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے مجھ پر رحم کر اور عیسیٰ نے اس کو چنگا کیا لیکن متی بیان کرتا ہے کہ جب یریحو سے باہر آیا دو اندھے بیٹھے بھیک مانگتے تھے اور عیسیٰ سے چلّا کے کہا کہ اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے ہم پر رحم کر لوگ کہتے ہیں کہ ان باتوں میں اختلاف ہے لیکن فرض کرو کہ جب وہ شہر میں جاتا تھا ایک آدمی نے چلا کر کہا اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے مجھ پر رحم کر اور اس نے ان کو تندرست کیا اس نے جا کر اپنے دوستوں کو جو اندھے تھے یہ خبردی۔سویرے وہ دونوں اندھے راہ میں بیٹھ کر اور عیسیٰ کو نزدیک آتے دیکھ کر اسی طرح چلائے کہ اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے ہم پررحم کر اور اس نے ان کو تندرست کیا تو ان باتوں میں کچھ اختلاف نہیں پایا جاتا۔( مرقس ۷باب) میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے گلیل کے دریا کے پاس آکر گونگے کو تندرست کیا ۔لیکن (متی ۱۵باب) میں یہ لکھا ہے کہ جب گلیل کے دریا کے پاس آیا تو وہ پہاڑ پر چڑھ بیٹھا اور بڑی بھیڑ لنگڑوں، اندھوں، گونگوں اور ٹنڈوں کو لے کر اس کے آئے اور اس نے ان کوشفا بخشی۔ لوگ کہتے ہیں اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ نے دریائے گلیل کے پاس ایک بہرے گونگے کو شفا بخشی اور جب وہ پہاڑ پر چڑھا جاتا تھا جلدی اس معجزہ کی خبر پھیل گئی اور بہت لوگ سن کر اپنے بیماروں کو اس کے پاس لائے اور اس نے ان کو بھی شفا بخشی۔

اس بات پر بھی شک کرتے ہیں کہ یوحنا کی انجیل کی پچھلی آیت میں لکھا ہے کہ اور بہت سے کام جو عیسیٰ نے کئے اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں دنیا میں نہ سما سکتیں۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ ہے اور اس کی مراد یہ ہے کہ عیسیٰ نے بہت سے کام کئے ہیں جیسے جب بہت لوگ کسی جگہ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دنیا جاتی ہے اور مفسرین سمجھتے ہیں کہ لفظ (χωρησειν) جس کا ترجمہ سماسکتیں ہیں یہ معنی دیتا ہے کہ لوگ قبول نہیں کرسکتے اور پڑھ نہیں سکتے کہ اتنی ہوتیں کہ دنیا کے لوگ ان کو اپنی سمجھ اور دل میں نہ رکھ سکتے ۔

ایک اور اعتراض یہ ہے کہ بائبل پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمیوں کا کلام ہے نہ خدا کا کیونکہ اس میں اکثر مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں۔ جیسے میں پولُس تم سے کہتا ہوں وغیرہ لیکن جب مسیح مرنے پر تھا۔ تو اس نے شاگردوں کو کہا کہ میں روح القدس بھیجوں گا اور وہ سب کچھ جو میں نے کیا اور کہاتمہیں یاد دلائے گی۔ پس ایسا ہی ہوا یعنی روح القدس آئی اور اس نے انہیں یاد دلایا اور انہوں نے یہ کتابیں لکھیں۔ پس جب روح القدس سے لکھی گئیں تو ضرور خدا کا کلام ہوا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ نبوت کی باتیں آدمی کی خواہش سے نہیں ہوئیں بلکہ خدا کے مقدس لوگ روح القدس کے بلوائے بولتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اپنی روح کے وسیلے اپنے بندوں کے دل میں کلام ڈال دیا اور انہوں نے خدا کی مرضی کے موافق اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ لیکن خدا جس طرح چاہے حکم جاری کرسکتا ہے وہ روبرو ہوکے آدمی کے ساتھ ہم کلام ہوا جیسے (پیدئش ۳ باب) میں پھر دس(۱۰) حکم موسیٰ کو پتھر پر لکھ کر دیئے جن سے (خروج۱۸:۳۱) میں۔ پھر اس نے دانی ایل کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جیسے (دانی ایل ۲۰:۹) میں۔ پھر پطرس اور پولُس کو رویا دکھایا جیسے (اعمال ۱۰باب اور ۱۶باب) میں۔ لیکن محمدی کیوں یہ اعتراض کرتے ہیں جب صاف ظاہر ہے قرآن کی پہلی سورہ میں صرف انسان کی دعا ہے کہ خدا ہماری ہدایت کرے اور بالکل نہیں لکھا کہ یہ خدا کا کلام ہے یا کہ خدا نے فرمایا۔ پھر (یوحنا ۱۲:۱۴) میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے فرمایا کہ ’’جو مجھ پر ایمان لاتا ہے جو کام کہ میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور ان سے بھی بڑے کام کرے گا‘‘ اور پھر(مرقس ۱۷:۱۶) میں لکھا ہے کہ وہ جو ایمان لائیں گے وہ میرے نام سے دیوؤں(بدروحوں) کو نکالیں گے اور بیماروں کو چنگا کریں گے وغیرہ جہاں پہلی آیت میں جو لکھا ہے یعنی جو مجھ ایمان لاتے یونانی انجیل میں یوں لکھا ہے (πιστευων)جس کاٹھیک یہ ترجمہ ہے کہ وہ ایمان لانے والا اور پچھلی جگہ میں لکھاہے (πιστευσασιν) یعنی ان ایمان لانے والوں یعنی ایمان لانے والی کراماتیں کریں گے ۔ جیسا کہ کوئی کہے کہ انگریز لوگ ہندوستان میں حکومت کرتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں پایا جاتا کہ ہر ایک انگریز اس ملک کا حاکم ہے ۔ اسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تمام ایمان لانے والے کراماتیں کریں گے اوربے شک مسیح کو حواری وغیرہ جو اس وقت موجود تھے اور بہت عیسائی لوگ اس زمانہ میں بھی بے شمار کراماتیں کرتے تھے جیسا کہ اعمال کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے اس میں مسیح کی بات پوری ہوئی ایک محمدی مصنف کہتا ہے کہ عیسیٰ نے اپنی والدہ کو جھڑکا اور کہا کہ عورت چلی جا میں نہیں جانتا کہ تو کون ہے ایسی بات کا ہم کیا جواب دیں۔ مگر یہ کہ سب بہتان ہے مسیح نے کبھی مریم سے نہیں کہا اے عورت چلی جا میں نہیں جانتا تو کون ہے ۔ جب مریم نے چاہا کہ عیسیٰ میری مرضی کے موافق ایک معجزہ دکھلائے تو اس نے اس کو کہا کہ مستورہ(پردہ نشین عورت) مجھے تجھ سے کیا کام یعنی یہ مناسب نہیں کہ اس کام میں ہاتھ ڈالے اس لفظ مستورہ میں کچھ بے عزتی نہیں کیونکہ جب مسیح نے مرتے وقت یوحنا شاگرد کا ہاتھ مریم کے ہاتھ میں دیا تو اس نے کہا اے مستورہ اپنے بیٹے کو دیکھ یہ صرف محاورہ ہے جو علیحدہ علیحدہ ملکوں میں علیحدہ علیحدہ ہے جیسا کہ اس ملک میں لفظ عزت دار کے حق میں بولنا بڑی بے عزتی کی بات ہے لیکن اور ملکوں میں اس میں بے عزتی نہیں ۔پھر پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ کے ماننے والے اس سے نجات پائیں گے تو محمدی جو اس کو مانتے ہیں نجات حاصل نہ کریں گے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ عیسیٰ کے معنی بچانے والا ہے ۔

پس جو اس کو اپنا نجات دہند ہ جانتے ہیں وہ ضرور اس سے نجات حاصل کریں گے وہ جو اس کو صرف نبی جانتے ہیں وہ عیسیٰ کو نہیں مانتے ان کو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا یہ بھی پوچھتے ہیں کہ برناباس(برنباس) کی انجیل کیون نہیں چھپواتے؟ جواب اس لئے کہ وہ جعلی ہے اور عیسائی بزرگوں میں سے ایک نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس واسطے کہ وہ موجود نہ تھی مگر محمد صاحب کے عہد سے پیچھے تصنیف ہوئی اور اس کی تعلیم سچی انجیل کی تعلیم کے برخلاف ہے اور جس حالت میں کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ پر ایک ہی انجیل اتری اور وہی اصلی ہے تو ان کی سمجھیں بھی برناباس کی انجیل ضرور جعلی ہے اور جب ہم بھی اس کو جعلی سمجھیں اور وہ بھی تمام اس بات پر متفق ہیں کیونکہ اس پر جھگڑا اور ایسے سوال کرتے ہیں۔ پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یونانی انجیل کو ترجمہ کے ساتھ کیوں نہیں چھپواتے ؟ان ملکوں میں جہاں یونانی علم ہے اسی طرح چھپواتے ہیں لیکن جب ہندو اور مسلمان یونانی سے واقف نہیں تو اس سے کیا فائدہ ہوگا لیکن جوشخص یونانی انجیل کو پڑھ سکے آسانی سے اس کو یونانی انجیل ملے گی اگر ترجمہ والی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہے ۔ پھر کہتے ہیں کہ عیسیٰ نے کہا کہ توریت کبھی منسوخ نہ ہوگی اور پولُس رسول یوں کہتا ہے کہ وہ کمزور ہے فقط۔ عیسیٰ نے کہا یہ خیال نہ کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پورا کرنے کو آیا ہوں۔ ایک نقطہ توریت سے نہیں مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔ ب

ار بار انجیل میں یہ تعلیم ہے کہ عیسیٰ ہمارے بدلے شرع کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں آیا اور اسی باعث سے وہ ہماری راستبازی ہے اور پولُس جو کہتا ہے کہ توریت کمزور ہے ۔ کمزوری سے مراد منسوخی کی نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ وہ ہم کو بچا نہیں سکتی اس لئے کہ اس پر عمل نہیں کرسکتے اور پولُس آپ ہی کہتا ہے کہ ’’کیا ہم شریعت کا باطل کرتے ہیں ایسا نہ ہو بلکہ ہم تو شریعت کو قائم کرتے ہیں‘‘ دیکھو (رومیوں ۳۱:۳) ۔ پس شریعت ہم کونیکی کا راستہ دکھاتی ہے لیکن بچا نہیں سکتی اور یہ بھی پوشیدہ نہ ر ہے کہ وہ جو رسمی حکم موسیٰ نے مقرر کئے اور مسیح کی طرف اشارت کرتے تھے وہ منسوخ نہیں بلکہ سب پورے ہوئے جیسے پہلے بیان کیاگیا یہ بھی اکثر پوچھتے ہیں کہ کس نے وہ پیش گوئیاں کیں جو انجیل میں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ (متی ۲۴:۲۶) میں لکھا ہے کہ مسیح نے لوگوں سے کہا تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اترتے دیکھو گے اور اب تک انہوں نے نہیں دیکھا پھر عیسیٰ نے کہا کہ ’’جو لوگ کھڑے ہیں بعض ان میں سے نہ مریں گے کہ میں آسمان پر سے اتروں گا‘‘ (انجیل متی ۲۸:۱۶) ۔ محمدی جانتے ہیں آواز بھی کرتے ہیں کہ روز حشر باروزحشر سے پہلے مسیح پھر آئے گا اور جب کہ لوگوں نے مسیح سے پوچھا کہ تو کب آئے گا اس نے جواب سے انکار کیا لیکن جب وہ آئے گا تو ضرور زندہ اور مردہ سب اس کو دیکھیں گے ۔ عیسیٰ نے نہیں کہا کہ جو کھڑے ہیں ان میں سے بعض نہ مریں گے جب تک میں آسمان سے نہ آؤں گا بلکہ یہ کہا کہ جب تک میں اپنی بادشاہت میں نہ آؤں گا نہ مریں گے ۔ اگر معترض یوحنا کی انجیل (یوحنا ۲۳،۱۸:۱۴) دیکھے اس میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا میں تمہارے پاس آؤں گا اب تھوڑی دیر ہے کہ دنیا مجھے پھرنہ دیکھے گی پر تم مجھے دیکھتے ہو اور جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ ان پر عمل کرتا ہے میں اسے پیار کروں گا اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کروں گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح کا آنا دو طرح یعنی روحانی اور جسمانی طرح سے ہوسکتا ہے ۔ عیسیٰ ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا اور اپنے مرنے کے بعد اس نے اگر اپنی بادشاہت کو خوب مقرر کیا۔

(گلتیوں ۱۳:۳) میں لکھا ہے کہ ’’مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے ہمیں بچایا کہ وہ ہمارے بدلے میں لعنتی ہوا کیونکہ لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے‘‘ انتہی۔ اس پر پوچھنا چاہئے کہ لعنت کے معنی گناہ کی واجبی سزا ہے ۔ پس اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ عیسیٰ نے ہماری سزا اٹھائی ہے۔یہ بھی اعتراض کرتے کہ (۱۔کرنتھیوں ۲۵:۱) میں لکھا ہے کہ ’’خدا کی بے قوفی آدمیوں کے دانائی سے زیادہ دانا ہے اور خدا کی کمزوری آدمیوں سے زور آور ہے ‘‘۔ اس کے ساتھ (۲۳آیت) کو بھی دیکھو جس میں یہ ہے کہ ’’ہم عیسیٰ مصلوب کی منادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے لئے ٹھوکر کھلانے والا پتھر اور یونانی لوگوں کے سامنے بے وقوفی ہے’‘ جیسے اب بھی بہت لوگ سمجھتے ہیں۔ جو کوئی کہے کہ مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے موا یہ بے وقوفی ہے اور سے ٹھوکر بھی کھاتے ہیں ویسا ہی پولس کے عہد میں بھی ایسا کہتے تھے پر وہ ان سے کہتا تھا ہم اس بات کو انجیل کو بے وقوفی اور کمزوری کہتے ہو لیکن یہ بے وقوفی آدمی کی حکمت سے زیادہ دانائی ہے اور یہ کمزوری آدمیوں سے زیادہ زور آور ہے ۔ وہ اعتراض جو محمدی انجیل پر اکثر کرتے ہیں میں نے ان کے جواب دیئے ہیں ۔مجھے امید ہے کہ جو کوئی ان پر غور کرے گا وہ جانے گا کہ اکثر انہیں سے شائستہ(مہذب، بااخلاق، تمیزدار) اور معقول ہیں اگر کوئی ان میں قبول خاطر نہ ہو تو ایسا نہ چاہئے کہ سب کو رد کردیں کیونکہ یہ عقل سے بعید ہے کہ ایک بات کو جولوگ پسند نہ کرے اس کے پیچھے دس باتیں پسندیدہ خاطر کو بھی چھوڑ دیں۔ بلکہ سمجھنا چاہئے کہ کوئی اور مجیب(جواب دینے والا، قبول کرنے والا، خدا تعالیٰ کا نام) جو اس مجیب سے زیادہ تر علم رکھتا ہو وہ ایسا جواب دے کہ دل کو خود قبول کرنا پڑے ۔ خدا ہم سب کو غرور اور تعصب اور خود غرضی سے چھوڑا دے اور ہمیں زندگی اور حق کی راہ میں چلائے تا کہ ہم منزل مقصود کو پہنچیں۔ آمین۔

ساتویں فصل

مصنف کی التماس

جو لوگ انجیل پر اعتراض کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ثابت کریں گے کہ یہ کتاب ماننے کے لائق نہیں تو عیسائی دین معدوم (ناپید ،نیست ونابود)ہو جائے گا۔ فرض کرو کہ کوئی ثابت کرے کہ یہ کتاب بالکل بدک گئی یا زیادہ الہام سے نہیں لکھی گئی اوربالکل ماننے کے لائق نہیں ہے تو بھی عیسائی مذہب قائم رہے گا اس بات سے تعجب نہ کرو کیونکہ عیسائی دین کا قیام صرف انجیل پر موقوف نہیں جب ایک چیز ایک چیز سے پیشتر ہے وہ بھی اس کا محتاج نہیں۔ پونے انیس (۴/۳ ۱۸) سو برس گذرے کہ عیسیٰ دنیا میں آیا اس نے اپنے شاگردوں کو جمع کیا ان کو سکھلایا اور ان میں سے( ۱۲ )کو حواری مقرر کیا کہ وہ سب جگہ جا کر کے شاگرد کریں بپتسم دیں اورکلیسیا کی بنیاد ڈالیں اور اس نے ان سے وعدہ کیا کہ خدا کی روح تم پر نازل ہوگی اور تم کو میری سب باتوں کی نسبت یاد دلائے گی اس کے حکم کے بموجب (وجہ سے)وہ چلے گئے ۔ منادی کی بپتسمہ دیا اور کلیسیا کو مقرر کیا اور اس لئے لوگ اس تعلیم کو یاد کریں انہوں نے کتابیں لکھیں۔ پس اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین عیسوی انجیل کے لکھے جانے سے پیشتر تھا اور ان پر موقوف نہیں۔ اگر ہمارے پاس یہ کتاب بھی نہ ہو تو بھی ہمارا دین سچا ہے ۔ پھر ہم تواریخ سے جانتے ہیں کہ مسیح یہودیوں کے بیچ منادی کرتا ہوا یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں وہی مسیح ہوں جس کا ذکر تمہارے نبیوں نے کیا اور ان کا کہا ہوا مجھ پر پورا ہوا ۔بہت یہودی آج تک تمام دنیا میں ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے اس کو صلیب دلوایا کیونکہ وہ فریبی تھا۔ سچا مسیح نہ تھا اور آج تک بہت داستانیں عیسائی بزرگوں کی لکھی ہوئی موجود ہیں ان سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کیا دعویٰ اپنے حق میں کیا تھا ۔جب ہم ان باتوں کو یہودی نبیوں کی پیش گوئی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں تو ہم کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ وہی مسیح تھا جس کا ذکر ان نبیوں نے کیا۔ اگر کوئی ان باتوں کو دریافت کرنا چاہے تو وہ ان نبیوں کی کتابوں اور عیسائی بزرگوں کی کتابوں سے معلوم کرے ۔ اگر کوئی کہے کہ ہم بھی جانتے ہیں کہ اصلی دین عیسوی سچا تھا مگر وہ تبدیل ہوگیا تو میں کہتا ہوں عزیزو عیسائی بزرگوں کی کتابوں سے یعنی جسٹن، ترٹیلئن، آریجن، کرس اٹم اور ایرسٹو اور بہت سے بزرگوں کی کتابوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ عیسوی صدی کے شروع سے لے کر وہ بزرگوں کی باتوں کو مانتے تھے جو ہم اب مانتے اور سکھاتے ہیں۔ مثلاً وہ باپ ،بیٹے اور روح القدس کو مانتے تھے اور اقرار کرتے تھے کہ عیسیٰ ہمارے لئے کفارہ ہوا اس پر ایمان لانے سے روح القدس حاصل کرتے ہیں اورنجات پاتے ہیں اور بہت سی باتوں کا انہوں نے بیان کیا ہے جن کو اب ہم بیان کرتے اور مانتے ہیں۔ پس ان کتابوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی دین نہیں بدلا جیسا شروع میں تھا ویسا ہی اب ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے خدا کا کلام نہیں بدلتا۔ چاہئے کہ محمدی لوگ ان لفظوں کے معنی جو بار بار قرآن میں ہیں سمجھیں اور ان کے معنوں پر بخوبی غور کریں پہلا عیسیٰ، دوئم مسیح، سوئم انجیل۔ عیسیٰ عبرانی لفظ ہے اور اس کے معنی بچانے والا ہے ۔

مریم ایک آدمی کی منگیتر تھی جس کا نام یوسف تھا اور جب یوسف نے دیکھا کہ وہ حاملہ ہوئی اس نے چاہا کہ اس کو چپکے سے چھوڑ دے اس وقت فرشتے نے اس پر ظاہر کو کر کہا اپنی بی بی کو یہاں لانے سے مت ڈر کیونکہ وہ روح القدس سے حاملہ ہے اور اس سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور تو اس کا نام عیسیٰ رکھنا ۔کیونکہ وہ اپنے لوگو ں کو ان کے گناہوں سے بچائے گا ۔لفظ عیسیٰ کے معنی بچانے والا ہے اور یہ نام اس کے کام کو ظاہر کرتا ہے اور وہ ہی نجات دہندہ ہے ۔ پھر مسیح کے معنی ہیں مسح کیا گیا اور یہ وہی نام ہے جو داؤد، دانی ایل نے اس کے آنے کے پیشتر اس کا نام رکھا تھا۔ لیکن انہوں نے یہ نام اس لئے رکھا کہ یہودی لوگوں میں یہ دستور تھا کہ اپنے سردار کاہن اور بادشاہوں کو خوشبودار تیل سر پر لگا کر مقرر کرتے تھے تو اس لفظ سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ ہمارا سردار کاہن ہے اس نے اپنی جان کو ہمارے واسطے قربان کی خدا سے ہماری سفارش کرتا ہے اور وہ بادشاہ ہے کہ ہمارے دلوں میں حکومت کرے اور اپنے لوگوں کی بہتری کے لئے سارے جہان پر اور سارے فرشتوں پر خواہ نیک ہوں خواہ بدسرداری کرے ۔ پھر انجیل ایک یونانی لفظ ہے جس کے ٹھیک ہجہ ’’یوانگ گیلن‘‘ ہے اور اس کے معنی خوشخبری ہے اور یہ صرف ایک کتاب کا نام نہیں ہے کیونکہ جب وہ کتاب بھی نہ تھی عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو کہا تھا کہ ساری دنیا میں جاؤ اور انجیل یعنی خوشخبری سناؤ۔ پس عیسائی دین کا نام خوشخبری ہے یعنی نجات کی خوشخبری اور سب جو اس کو مانتے ہیں عیسیٰ کے وسیلے سے راستبازی سلامتی اور حیات ابدی حاصل کرتے ہیں۔ پس جو آدمی ان تین لفظ یعنی عیسیٰ، مسیح اور انجیل کو نہ صرف زبان سے بلکہ سمجھ اور دل سے بولے وہ سچا عیسائی ہے اور اس کے لئے ہمیشہ کی زندگی ہے اور تین لفظوں کے معنوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلیت اور حقیقت عیسائی دین کی کیا ہے اس سے بھی قطع نظر یہودیوں اور عیسائی بزرگوں کی کتابوں سے جو اب تک موجود ہیں اور تواریخوں سے اور اپنے دشمنوں کی قدیمی کتابوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی دین کی اصلیت کیا ہے اور یہ دین پیشتر اس کے انجیل لکھی گئی موجود تھا۔ اگر محمدی ہزار دلیلوں سے ثابت کریں کہ یہ کتاب بدل گئی ہے تو بھی عیسائی دین قائم رہے گا کیونکہ وہ اس کتاب سے بھی پیشتر موجود تھا اور ہزار دلیلوں سے اس کی سچائی ثابت ہے فقط۔

تیغ و سپر عیسوی

تیسرا حصہ

قرآ ن کی بابت تحقیق

پہلی فصل

اس بات کے بیان میں کہ آیا قرآن خدا کا کلام ہے یا نہیں۔

چند ایسے نشان ہیں جن سے ہر ایک کتاب کی سچائی جو خدا کی طرف سے انسان کے لئے الٰہامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے آزمائی جاسکتی ہے ۔ ان میں سے ایک نشان معجزہ ہے ۔ جس سے خدا کی طاقت ظاہر ہوتی ہے ۔ دوسرا پیش گوئی جس سے خدا کی ہمہ دانی ظاہر ہوتی ہے ۔ تیسرا پاک اور نیک تعلیم جس سے خدا کے اوصافِ حمیدہ (تعریف کیاہوا )ظاہر ہوتے ہیں۔ جو کتا ب کہ الٰہی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس میں یہ باتیں نہ ہوں تو دانا اور نیک آدمی اس کتاب کو الٰہی کتاب کبھی نہیں مانیں گے ۔ اب ہم بہت غور اور سادگی اور عجز سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا قرآن کا کلام ہونے کا دعویٰ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔

لیکن مناسب ہے کہ ہم پہلے اس بات کو دریافت کریں کہ اصلی قرآن محمدیوں کے پاس موجود ہے یا نہیں۔ تمام علمائے محمدی اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ محمد صاحب پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور نہ انہوں نے کوئی کتاب تصنیف کی ہے ۔ بجائے اس کے اس بات کے مقر (اقراری)ہیں کہ ان پر علیحدہ علیحدہ آیتیں نازل ہوتی رہیں۔

بعض آیتیں لوگ بر زبان یاد کر لیتے تھے ۔ بعض ان میں سے ہڈی اور درخت کے پتوں اور چمڑے کے ٹکڑوں وغیرہ پر لکھ کر ایک صندوق میں جمع کی جاتی تھیں اور محمد صاحب کے فوت ہونے تک اسی طرح صندوق میں رہیں۔ محمد صاحب کےبعد خلیفہ ابوبکر نے حکم دیا کہ تمام آیتیں جمع کی جائیں قریباً (۱۷ )برس کے بعد عثمان نے دریافت کیا کہ قرآنوں میں باہم بہت اختلاف ہے اس واسطے اس نے ابوبکر کے قرآن کی مانند نیا قرآن بنوایا اور اور سب جلدوں کو جلا دیا۔ اس سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اور عثمان کے ہاتھ سے قرآن مرتب(ترتیب دیا گیا، تیار، مکمل) ہوا۔ پس ہم کو کس طرح یقین ہو کہ قرآن ان کے ہاتھ سے نہ بدل گیا ہوگا ۔پھر اہل تشیعہ کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ عثمان نے دس سیپاروں کو قرآن سے نکال ڈالا شاید جو وہ کہتے ہیں درست ہو۔

دوسری فصل

درباب ثبوت قرآن

پہلی دلیل معجزہ

خدا کے کلام کوثابت کرنے کے لئے ایک پختہ علامت ہے اور اکثر محمدی مقر ہیں کہ محمد صاحب نے بہت سے معجزے دکھلائے ہیں اور معجزوں کا ذکر حدیثوں اور قرآن میں موجود ہے ۔ اب ہم پر یہ فرض ہے کہ حتیٰ المقدور اس بات پر غور کریں اور دریافت کریں کہ آیا یہ معجزے اس لائق ہیں کہ قبول کی جائیں۔ میرا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کرامتوں کو نہیں دیکھا ان کو چاہئے کہ پختہ شہادتوں سے قبول کریں اور بغیر گواہی پختہ کے قبول کرنا مناسب نہیں۔ محمدیوں کا دعویٰ ہے کہ حدیثوں میں کراماتوں کا ذکر ہے ۔ مثلاً لکھا ہے کہ ایک روز جب محمد صاحب کو حاجت ہوئی تو درخت اکٹھے ہو کر اس کے لئے جائے ضرور بن گے ۔ اب ہم اس بات پر کئی ایک سوال کرتے ہیں۔

سوال اول:۔ کیا سب محمدی حدیثوں کو مانتے ہیں یا نہیں؟ کیا سنی حدیثوں کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں؟ اس واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سب حدیثیں اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔

سوال دوئم:۔ حدیث کس وقت اور کس طرح جمع ہوئیں؟

محمد صاحب کے حیات میں ان کے پیرو ان کو بہت عزیز جانتے تھے اور جب وہ فوت ہوگئے تو ان کا ذکر آپس میں کرنے لگے کہ حضرت نے ہم سے فلانی فلانی باتیں فرمائی تھیں۔ غرض ہر ایک ان میں سے یہی کہتا تھا کہ محمد صاحب نے مجھ سے فلانی بات بیان کی۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے محمد صاحب کی ان تمام باتوں کو جمع کر لینے کا ارادہ کیا اور جب عالموں نے ان باتوں پر غور کی تب انہوں نے دیکھا کہ سب باتیں ماننے کے لائق نہیں ہیں بلکہ انہوں نے پہچان لیا کہ ان میں سے کون اچھی ہیں کون بُری۔ بعض آپس میں ملتی ہیں اور بعض نہیں ملتی ہیں۔ پس جو باتیں ناپسند کیں ان کو رد کیا جو جو باتیں ان کو اچھی معلوم ہوئیں ان کو جمع کر کے کتابوں میں لکھ لیا اور اب تک محمدی بعض حدیثوں کو حدیث قدسی کہتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعضوں کو ادنیٰ اور بعضوں کو اعلیٰ خیال خیال کرتے ہیں۔ تو ہم کو کیونکہ معلوم ہو کہ وہ باتیں جن کو عالموں نے تسلیم کیا راست ہیں اور جن کو انہوں نے رد کیا خلاف ہیں وہ نبی نہ تھے آدمی تھے ۔ اپنی عقل اور خواہش کے موافق بعض رد کرتے تھے اور بعض رکھ لیتے تھے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حدیثوں میں سے کون سی اصلی ہیں اور کون سی نقلی۔ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جب کوئی پیشوا یا گورو مر جاتا ہے ۔ اس کے پیرو یا چیلے اس کے حق میں عجیب عجیب باتیں لوگوں کا سناتے ہیں مگر کون جانتا ہے کہ وہ سب سچی ہیں۔ کوئی دانا شخص ایسی باتوں پر بغیر ثبوت یقین نہیں کر سکتا۔ مثلاً صرف تین چار سو برس کا عرصہ گذرا ہے کہ بابا نانک مرگیا۔ اس کے پیرو اب تک بہت سی کرامتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان عجیب باتوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک روز بابا نانک مکہ شریف کو گئے اور کعبہ کی طرف پاؤں پھیلا کر سو گئے ایک مسلمان نے انہیں دیکھ کر انہیں بہت ملامت کی اور کہا کہ کعبہ کی طرف تم نے کیوں پاؤں کئے ہیں۔ یہ سن کر بابا نانک نے اپنے پاؤں دوسری طرف کر لئے اور سو رہے اتنے میں کعبہ بھی فی الفور اس کے پاؤں کی طرف ہوگیا۔ کیا کوئی محمدی اس کرامت کو قابل اعتبار سمجھتا ہے ؟ کوئی نہیں۔ جب کوئی آدمی اپنے لئے بڑا محل بنانا چاہتا ہے تو اس کو بڑی پختہ بنیاد درکار ہوتی ہے تاکہ اس کا مکان قائم رہے ۔ اس طرح ہمارے ایمان کے لئے پختہ نیو درکار ہے نہ کہ صرف لوگوں کی باتیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ اب ہمیں یہ دریافت کرنا چاہئے کہ قرآن میں جس کو کہ محمدی کلام اللہ مانتے ہیں نہ کلام انسان۔ محمد صاحب کی کراماتوں کی بابت کیا لکھا ہے ۔ (سورہ قمر کی پہلی آیت) میں لکھا ہے

اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ

یعنی پاس آلگی وہ گھڑی اور پھٹ گیا چاند۔

لیکن اکثر محمدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں روز حشر کا ذکر ہے اور ہم کو عبارت سے صاف معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس میں محمدصاحب کا ذکر ہے کیونکہ کسی کا نام اس میں مندرج نہیں کیا گیا۔ پھر (سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت) میں لکھا ہے

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ۔

جس کے یہ معنی ہیں پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات اد ب والی مسجد سے پر لی مسجد تک فقط۔

لیکن اس آیت میں بھی محمد صاحب کا نام نہیں ہے اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص نے اس معجزے کو دیکھا یعنی محمد صاحب کا بیت الحرام سے بیت المقدس تک جانا اور جب اس بات کا کوئی پختہ گواہ نہیں ہے کیا اس سے قرآن کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ ہوا تو یہ صرف قرآن کی گواہی ہے ۔مدعی علیہ اپنے حق میں گواہی دینے کا مجاز نہیں اور نہ مدعی علیہ کو گواہی اپنے حق میں تسلیم کی جا سکتی ہے ۔ (سورہ انعام ۳۷آیت) کو ملاخطہ(مشاہدہ، غور، توجہ) کرو

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یُّنَزِّلَ اٰیَۃً وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ ہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ

اور کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتری اس پر نشانی اس کے رب سے تو کہہ کہ اللہ کو قدرت ہے کہ اتارے کچھ نشانی لیکن ان بہتوں کو سمجھ نہیں۔

اور پھر (سورہ انعام کی ۱۰۹آیت)۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ

اور قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ اگر ان کو ایک نشانی پہنچے البتہ اس کو مانیں تو کہہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور تم مسلمان کیا خبر رکھتے ہو کہ جب وہ آئیں گے تو یہ نہ مانیں گے ۔

اور(سورہ انعا م ۱۱۱آیت)

وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَجۡہَلُوۡنَ

اور اگر ہم ان پر اتاریں فرشتے اور ان سے بولیں مردے اور جلائیں ہم ہر ایک چیز کو ان کے سامنے ہرگز ماننے والے نہیں مگر جو چاہے اللہ پر یہ اکثر نادان ہیں۔

اور(سورہ انعام ۱۲۴آیت)

وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕۘؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ

اورجب پہنچے ان کو ایک آیت کہیں ہم ہرگز نہ مانیں گے۔ جب تک ہم کو نہ ملے جیسا کچھ پاتے ہیں اللہ کے رسول اللہ بہتر جانتا ہے جہاں بھیجے اپنے نام۔

اور (سورہ بنی اسرائیل کی ۹۰آیت سے ۹۳آیت تک)۔

وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا

او ر بولے ہم نہ مانیں گے تیرا کہا جب تک تو نہ بہا نکالے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ یا ہو جائے تیرے واسطے ایک باغ کھجور اور انگور کا پھر بنائے تو اس کے بیچ نہریں چلا کر یا گرا دے آسمان ہم پر جیسا کہا کرتا ہے ٹکڑے ٹکڑے یا لے آ فرشتوں کو اور اللہ کو ضامن یا ہو جائے تجھ کو ایک کھر سنہری یا چڑھ جائے تو آسمان میں اور ہم یقین نہ کریں گے تیرا چڑھنا جب تک نہ اُتار لائے ہم پر ایک لکھا جو ہم پڑھ لیں تو کہہ سبحان اللہ میں کون ہوں مگر ایک آدمی ہوں بھیجا ہوا۔

اور(سورہ بنی اسرائیل ۵۹آیت)۔

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ کَذَّبَ بِہَا الۡاَوَّلُوۡنَ ؕ وَ اٰتَیۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَۃَ مُبۡصِرَۃً فَظَلَمُوۡا بِہَا ؕ وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا

اور ہم نے اس سے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا اور ہم نے دی ثمود کو اونٹنی سمجھا نے کو پھر اس کو حق نہ مانا اور نشانیاں جو ہم بھیجتے ہیں سو ڈرانے کو فقط۔

اور( سورہ انبیا کی ۵آیت)۔

بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۭ بَلِ افۡتَرٰىہُ بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ ۚۖ فَلۡیَاۡتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَاۤ اُرۡسِلَ الۡاَوَّلُوۡنَ

یہ چھوڑ کر کہتے ہیں اڑاتی خواب ہیں نہیں جھوٹ باندھ دیا ہے نہیں شعر کہتا ہے ۔ پھر چاہئے لے آئیں ہم پاس کوئی نشانی جیسے پیغام لائے ہیں پہلے ۔

اب ان آیتوں پر غور کرو اور دیکھو ان میں صاف پایا جاتا ہے کہ جب محمد صاحب اس دنیا میں تھے تو بہت لوگ ان کو کہتے تھے کہ ہمیں ایسی چند علامتیں جن سے نبوت ثابت ہوتی ہے دکھلائے ۔ تو انہوں نے انکار کیا اور یہ کہا کہ خدا تعالیٰ نے ایسی علامتوں کا دکھلانا بند کر دیا ہے کیونکہ اگلوں نے جھٹلایا۔ محمدی اس دلیل کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ نے بھی تو کہا کہ برے لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں لیکن ان کو کبھی دکھلایا نہ جائے گا۔ پر عیسیٰ نے یہ نہیں کہا بلکہ جب لوگوں نے اس کو آزمانا چاہا تو اس نے آسمانی نشان دکھلانے سے انکار کیا اور کہا کہ ان بُرے لوگوں کو کوئی نشان نہ دکھلایا جائے گا۔ مگر یوناہ نبی کا نشان کیونکہ جیسا یوناہ نبی تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ ویسا ہی ابن آدم (یعنی میں) تین دن زمین میں رہوں گا ۔مگر یہ ان کی سنگ دلی کی سزا ہے ۔ تو بھی فرماتا ہے کہ ان کے واسطے یہ نشان ہوگا کہ پھر میں زندہ ہو کر قبر سے نکل آؤں گا۔ یہ بھی آسمانی نشان تھا کیونکہ جب آدمی مر جائے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر زندہ ہو جائے تو ضرور اللہ کی قدرت سے ہوگا۔ عیسیٰ نے کبھی نہیں کہا کہ میرے پاس معجزہ نہیں یا خدا نے معجزہ بھیجنا بند کر دیا اس لئے کہ اگلوں نے جھٹلایا جیسا محمد صاحب نے کہا۔ پھر محمدی اقرار کرتے ہیں کہ قرآن خود ایک معجزہ ہے۔ کیونکہ اس کی عبارت ایسی عمدہ ہے کہ کوئی آدمی اس کے موافق بنا نہیں سکتا۔ بے شک یہ سچ ہے کہ قرآن کی عبارت بہت عمدہ ہے ۔ کوئی محمدی حوؔمر کی مانند یونانی عبارت اور درجؔل کی مانند لاطینی عبارت اور کالی د اس کی مانند سنسکرت عبارت ہرگز نہیں بنا سکتا ہے پھر کیا یہ بھی معجزہ ہوگا۔

اکثر محمدی کہتے ہیں کہ محمد صاحب کے وقت بھی کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ ایسی عبارت بنانے کی لیاقت رکھتا بلکہ تمام لوگ اقرار کرتے تھے کہ قرآن کی عبارت کے موافق کوئی بشر عبارت نہیں بنا سکتا۔ کیا کوئی سچ مچ یہ مانتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ محمد صاحب کے وقت سب لوگ ایسا ہی کہتے تھے ۔ اگر کوئی ان سے کہے کہ اس بات کو ثابت کرو کہ اس وقت سب لوگ یہ اقرار کرتے تھے تو وہ بالکل ثابت نہیں کرسکتے ۔ یہ صرف ان کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے ۔ آج کل فرانس، جرمی، انگلستان، آسٹریا، امریکہ وغیرہ ملکوں میں بہت لوگ عبرانی، یونانی، سنسکرت اور عربی زبان کو بخوبی پڑھتے ہیں اور ان زبانوں کی کتابوں کو کما حقہ(جیسا کہ اس کا حق ہے ، بخوبی، ٹھیک ٹھاک) سمجھتے ہیں۔ مگر کسی شخص نے کبھی نہیں کہا کہ قرآن کی عبارت دوسری زبانوں کی عبارت سے فوقیت(بڑائی، برتری، ترجیح) رکھتی ہے ۔ اگر محمدی عبرانی، یونانی، سنسکرت اور لاطینی زبان کو تحصیل کریں تو بڑا فائدہ اٹھائیں کیونکہ ان زبانوں میں نہایت عمدہ اور قدیمی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً وہ لوگ جو دہلی میں رہتے ہیں انہوں نے اور کوئی بڑا عالی شان شہر نہیں دیکھا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ دہلی کی مانند اور کوئی شہر دنیا کی سطح پر نہیں ہے ۔ اگر وہ اور اور ملکوں کی بھی سیر کریں اور سینٹؔ پٹرز برگ، واؔئینا، ماسکؔو، پاؔرس، نیوؔ یارک، لیور ؔپول اور لندؔن وغیرہ شہروں کو دیکھ کر پھر دہلی میں آئیں تو دہلی کی تعریف جیسے پہلے کرتے تھے ہرگز نہ کریں گے اور اور شہروں پر اسے فوقیت نہ دیویں گے ۔ اسی طرح اگر محمدی سیؔسرو، دئؔما شہر، درجؔل، ہاؔرس، حوؔمر اور مؔلٹن وغیرہ مصنفوں کی کتابیں پڑھیں اور قرآن سے ان کا مقابلہ کریں تو وہ بھی ضرور کہیں گے کہ ان کتابوں کی عبارت بے شک قرآن کی عبارت سے عمدہ ہے ۔

پہلے سمجھنا چاہئے کہ کرامات کے کیا معنی ہیں کیونکہ جب تک ہم یہ نہ سمجھیں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فلانا کام معجزہ ہے ۔ اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ سبب سے سبب پیدا ہواچلا آتا ہے ۔ جیسے سے ہمیشہ گرمی نکلتی ہے ، سورج سے روشنی ہوتی ہے ، آدمی ماں باپ سے تولد ہوتا ہے ، پانی سے زمین سیراب ہوتی، روئی کپاس سے پیدا ہوتی اگر اس کے برخلاف کچھ دیکھا جائے تو اس کو معجزہ کہنا مناسب ہے ۔ جیسے آگ لکڑی نہ جلائے اور گرمی نہ دیوے ، سورج نکلے اور رات رہے ، آدمی شیر سے پیدا ہو، پانی خوب بر سے اور زمین خشک رہے ، روٹی سر کنڈے سے پیدا ہو۔ البتہ ایسی صورتوں کو ہم معجزہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ صاف اس بندوبست کے برخلاف ہے جو خدا نے اس جہان میں مقرر کیا ہے اور ہم ہر روز اسے دیکھتے ہیں ۔لیکن اچھی عبارت کا ہونا اس بندوبست کے برخلاف نہیں ۔اس لئے ہم اس کو معجزہ نہیں کہہ سکتے ۔ کیلیفورینا ملک میں ایسے بڑے ڈرخت ہیں کہ اور کسی ملک میں نہیں اور وہ ایسے مشہور ہیں کہ جو مسافر اس ملک میں جاتے ہیں وہ ان درختوں کو دیکھتے ہیں اور وہ وادی جس کا نام حسمبؔتی ساری دنیا میں ان کے سبب سے مشہور ہے لیکن یہ تصور نہیں کیا جاتا کہ یہ معجزہ ہے ۔ اگر کوئی بڑی عمدہ پوشاک پہن کے دعویٰ کرے کہ میں نبی ہوں ۔یہ پوشاک میرے نبوت کا ثبوت ہے تو کون اس بات پر یقین کرے گا گو دوسرا کوئی اس کی مانند پوشاک نہ بنا سکے ۔ جب انگریز لوگ پہلے امریکہ میں گئے تھے تو وہاں کے وحشی باشندے ان کو دیکھ کر اور ان کی توپ کی آواز سن کر کہنے لگے کہ یہ لوگ آسمان سے اُترے ہیں۔ مگر یہ ان کی جہالت تھی پھر تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ یہ لوگ بھی ہماری مانند بشر ہیں۔

یہ بھی واضح ہو کہ عبارت مضمون سے ایسی نسبت رکھتی ہے جیسے آدمی کا بدن اس کے روح سے ۔ جب خدانے سمؔوئیل کو یؔسّی کے پاس بھیجا کہ اس کے بیٹوں سے ایک کو بادشاہ بنائے تو اس کا بڑا بیٹا جو خوبصورت جوان تھا آیا سموئیل نے سمجھا کہ ضرور یہی خدا کو مطلوب ہوگا ،لیکن خدا نے داؤد کو جوچھوٹاتھا پسند کیا اور نبی کو کہا کہ تو ظاہر پر نظر کرتا ہے اور میں باطن کو دیکھتا ہوں۔ پس ہم کو یہی مناسب ہے کہ ہم عبارت کا لحاظ نہ کریں مطلب پر خوب غور کریں۔ اگر بخوبی دریافت ہو کہ قرآن کی تعلیم سب مذہبی کتابوں کی تعلیم سے اچھی ہے تو میں اس کو ضرور خدا کا کلام سمجھوں گا اور مانوں گا لیکن اس کا ذکر آگے کیا جائے گا۔ پھر محمدی کہتے ہیں کہ محمد صاحب کے پیروں نے بے شمار معجزے کئے ہیں۔ اس بات کا ذکر کرنا لاحاصل ہے کیونکہ جب محمد صاحب کے معجزے ثابت نہ ہوئے تو ان کے پیروں کے معجزے کس طرح ثابت ہو سکتے ہیں۔

دوسری دلیل پیش گوئی

محمدی پختہ طور پر یقین کرتے ہیں کہ رسول کی رسالت پیش گوئی سے بھی ثابت ہوتی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد صاحب کے حق میں بہت سی پیش گوئیاں قدیم کتابوں یعنی توریت اور انجیل میں مندرج ہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ سچ ہے تو چاہئے کہ ہم سب محمدی ہو جائیں۔ مگر پہلے دریافت کرنا چاہئے کہ محمد کا ذکر پیش گوئی کے طور پر ان کتابوں میں لکھا ہے یا نہیں کیونکہ بغیر دریافت کرنے کے سچ یا جھوٹ اس دعویٰ کا معلوم نہیں ہو سکتا۔

(سورہ الصف ۶آیت) میں ضرور لکھا ہے

وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ

اور جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا آیا ہوں اللہ کا تمہاری طرف سچا کرنا اس کو جو مجھ سے آگے ہے توریت اور خوشخبری سناتا ایک رسول کی جو آئے گا مجھ سے پیچھے نام اس کا ہے احمد پھر جب آیا ان کے پاس کھلے نشان لے کر بولے یہ جاد و ہے صریح فقط۔

جب ہم محمدیوں کو کہتے ہیں کہ یہ بات انجیل میں نہیں ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس آیت کو تم انجیل سے نکال ڈالا ہے ۔ ان کو چاہئے کہ جب تک اس بات کو ثابت نہ کریں ہم پر یہ عیب نہ لگائیں۔

پوشیدہ نہ رہے کہ اگر یہودی مسیح کو جیسا مانناچاہئے نہیں مانتے تو بھی انہوں نے ان پیش گوئیوں کو جو مسیح کے حق میں ان کی کتابوں میں مندرج ہیں نہیں نکالا۔ اگر وہ ان پیش گوئیوں کو نکالنا چاہیں تو عیسائی ان کو کبھی نکالنے نہ دیں گے اور اس حرکت سے انہیں باز رکھیں گے کیونکہ یہ پیش گوئیاں ان کے واسطے نہایت مفید اور ان کے نزدیک اپنے دین کے سچا ہونے کی کامل دلیلیں ہیں۔ اسی طرح اگر ایسی پیش گوئی محمد صاحب کے حق میں توریت اور انجیل میں مندرج تھی تو محمدیوں نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی ان کو اصلی انجیل کی حفاظت کرنے کے لئے فرصت اور طاقت تھی انہوں نے اس بات کی ہرگز کوشش نہ کی بلکہ برعکس اس کے برباد کرنے کے لئے کوشش کرتے رہے ۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت برناؔ باس کی انجیل میں موجود ہے اور یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد صاحب کے وقت یہ انجیل عیسائیوں کے پاس موجود تھی اگر محمد صاحب کے وقت کی کتابوں میں یا اس سے پرانی کتابوں میں ایسی کتاب کا ذکر جس میں یہ پیس گوئی لکھی ہے دکھلائیں تو البتہ کچھ ثابت ہوتا ۔لیکن عیسائی بزرگوں میں سے کسی نے بھی برناؔ باس کی انجیل کا ذکر نہیں کیا۔ اگرچہ ان کی کتابوں میں جو اب تک موجود ہیں متی، مرقس، یوحنا اور لوقا کی انجیل کا ذکر ہے اور بے شمار آیتیں بھی ان میں سے درج ہیں مگر انہوں نے برناؔ باس کی انجیل کا ذکر کہیں نہیں کیا ۔کیونکہ ان دنوں وہ موجود نہ تھی۔ بلکہ سیل صاحب جس نے قرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا کہتا ہے کہ

یہ باباؔ مرنیا نے مسیح سے پیچھے قریب سولہ(۱۶) سو برس جب پانچواں(۵) سکسڈس روم کا پوپ تھا اس انجیل کو پوپ کے کتب خانہ میں ہسپنی زبان میں لکھی ہوئی پائی وہ پیچھے محمدی ہوگیا۔جس کو سیل صاحب محمدیوں کی انجیل کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسیح کابیان جو اس میں ہے اور جو سچی انجیلوں میں پایا جاتا ہے بہت فرق ہے ۔

محمدی یہ بھی کہتے ہیں کہ بائبل میں اور کئی ایک آیتیں ہیں جو محمد صاحب کے رسالت پر دلالت کرتی ہیں ان آیتوں میں سے ایک یہ ہے ۔ جو موسیٰ نے کہا کہ’’ میرے پیچھے ایک نبی آئے گا‘‘۔ بے شک موسیٰ نے یہ بات کہی ۔لیکن موسیٰ کے بعد بہت سے نبی آئے پھر کس طرح سے معلوم ہو کہ وہ ان میں سے کس کا ذکر کرتا تھا صرف ان علامتوں سے جن کو اس نے ظاہر کیا یہی معلوم ہوتا ہے اور اس نے کہا کہ ’’خداوند تعالیٰ تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا‘‘ (استثنا۱۵:۱۸) پر ملا خطہ فرمائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی جس کا ذکر موسیٰ نے کیا اسرائیلیوں میں سے تھا ۔کیونکہ حضرت موسیٰ نبی اسرائیل سے خطاب کرتا تھا نہ اہل عرب سے اگر کوئی کہے کہ یہ دونوں باتیں یعنی تیرے درمیان اور تیرے بھائیوں میں سے اسرائیل کی طرف خطاب نہیں کرتا تو ہم جواب دیتے ہیں کہ توریت میں بہت سی جگہ یہ دونوں باتیں اسی معنی میں استعمال کی گئی ہیں مثلاً (استثنا ۷:۱۵) میں لکھا ہے کہ ’’اگر تمہارے بیچ تمہارے بھائیوں میں سے تمہاری سرحد میں کوئی مفلس ہو تو اس کے ساتھ مہربانی سے سلوک کرو‘‘۔ پھر (استثنا ۱۵:۱۷) میں لکھا ہے کہ ’’تو اپنے بھائیوں میں سے ایک کو بادشاہ کر‘‘۔ پھر (استثنا ۱۴:۲۴) میں لکھا ہے کہ ’’تو اپنے نوکر پر ظلم نہ کر خواہ تیرے بھائیوں میں سے ہو خواہ کوئی اجنبی‘‘۔ ان آیتوں سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ تیرا بھائی بنی اسرائیل سے مراد ہے اور جب اس نے کہا کہ خداوندتیرے درمیان ہے اور تیرے ہی بھائیوں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا تو ضرور اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے جیسا ایک نبی بنی اسرائیل سے پیدا کرے گا یہ بھی واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے وعدہ کیا کہ تجھ سے ساری دنیا برکت پائے گی۔ پھر اضحاق اور یعقوب سے بھی یہی وعدہ کیا اگر دریافت کرنا منظور ہو تو (پیدائش ۱۸:۱۸، ۱۴:۲۶، ۱۴:۲۸) کو ملا خطہ فرمائیں۔ سب نبی اصحاق سے لے کر آج تک جو دنیا میں آئے سب کے سب اسی فرقے اور اسی خاندان میں سے تھے کوئی نبی ہندؔو، چیؔنی، انگرؔیز اور عرؔبی وغیرہ فرقوں میں نہ تھا اور انجیل سے بھی صاف پایا جاتا ہے کہ وہ پیس گوئی جوموسیٰ نے کی تھی عیسیٰ میں پوری ہوئی۔ (اعمال ۲۲:۳، ۳۷:۷) کو ملاخطہ فرمائیں۔ اگر کوئی کہے کہ موسیٰ کی مانند عیسیٰ کس طرح ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام بہت سی باتوں میں ملتے ہیں خاص کر پیشر و رہنما درمیانی ہونے میں یعنی جیسا حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے پیشرو اور رہنما ہو کر ان کو ملک مصر سے کنعان کو لے گئے تھے ۔ اسی طرح مسیح اپنے حقیقی بندوں کو اس دنیا بہشت کو لے جاتا ہے اور جیسے موسیٰ بنی اسرائیل اور خدا کے درمیان تھے ویسا ہی عیسیٰ ہمارے اور خدا کے درمیان ہے اور موسیٰ نے جو بنی اسرائیل سے کہا کہ خدا ایک نبی تم میں سے قائم کرے گا جیسا تم نے چاہا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی درمیانی ہوگا کیونکہ بنی اسرائیل جب کوہ سینا کی خوفناک آوازوں سے خوف میں تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم خداوند اپنے خدا کی آواز سن نہیں سکتے یعنی انہوں نے کوئی درمیانی چاہا جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہر ایک بات سے ان کو آگاہ کرے ۔بے شک مسیح سچا اور زندہ درمیانی ہے ۔ علاوہ اس کے انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ایک ہی خدا ہے اور خدا اور انسان کے بیچ میں ایک ہی درمیانی ہے یعنی عیسیٰ مسیح۔ اکثر محمدی کہتے ہیں کہ (یوحنا ۱۹:۱۔۲۹) محمد صاحب کا ذکر ہے اس جگہ یہ لکھا ہے کہ ’’جب یہودیوں کے کاہنوں اور لادیوں نے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے اقرار کیا کہ کہ میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے پوچھا کہ تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نہیں ہوں۔ پس آیا وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں۔

تب انہوں نے اس سے کہا کہ تو اور کون ہے اور اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ راست کرو۔ انہوں نے اس سے سوال کیا اور کہا اگر تونہ مسیح ہے اور نہ ایلیاہ اور نہ وہ نبی پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے ؟ یوحنا نے جواب میں اسے کہا کہ میں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں پر درمیان تمہارے ایک کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے ۔ یہ وہی ہے جو پیچھے میرے آنے والا تھا اور مجھ سے مقدم تھا جس کے جوتی کا تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں ہوں‘‘۔ اس جگہ سے محمدی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح اور تھا اور وہ نبی اورتھا۔ بے شک یہودی ایسا ہی سمجھتے تھے لیکن ان کا خیال خام تھا کیونکہ (اعمال ۳ اور ۷باب) میں لکھا کہ وہ نبی مسیح ہے جیسا بیان کیا گیا اور جو لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اسی انجیل کی (یوحنا ۱۴:۶) کو دیکھیں اس میں لکھا ہے ’’لوگوں نے یہ معجزہ جو یسوع نے دکھلایا تھا دیکھ کر کہا فی الحقیقت وہ نبی جو جہان میں آنے والا تھا یہی ہے’‘ مسیح وہ نبی تھا ان آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہودی لوگ اپنے نبیوں کی پیش گوئیوں کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے اور ہر ایک مضمون پر اتفاق نہ کرتے تھے ۔ اکثر محمدی دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد وہ فارہ قلیت (فارقلیط ،روح القدس)ہے جس کا ذکر عیسیٰ نے کیا ۔لیکن عیسیٰ نے اس کے حق میں کہا باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گا وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا دنیا اس کو نہ دیکھی گی وہ تم میں ہوگا (دیکھو یوحنا کی انجیل ۱۶باب) ۔ پھر عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو فرمایا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ جب تک یہ وعدہ پورا نہ ہو (اعمال ۴:۱) ۔ جو کوئی (اعمال ۲باب )کو پڑھے گا۔ اس کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ وعدہ روح القدس کے نازل ہونے کے باب میں تھا۔ جو عیسیٰ کے مرنے کے پچاس(۵۰) دن بعد اور اس کے آسمان پر چڑھنے کے دس(۱۰) دن بعد پورا ہوا اور وہ علامتیں محمد صاحب میں نہیں پائی جاتیں۔ کوئی آیت بائبل میں ایسی نہیں جس سے محمدیوں کا یہ دعویٰ کہ انجیل اور توریت میں ہمارے نبی کا ذکر ہے ثابت ہو ۔ اگر کوئی انجیل کو بخوبی سمجھے اور اس کے تعلیم کو خاص کر کے دریافت کرے اور وہ یہ ہے کہ مسیح مجسم ہوا پھر کفارا ہوا اور گناہ گار جو توبہ کر کے اس پر ایمان لاتے ہیں ان کا بچانے والا ہے تو وہ کبھی نہ مانے گا کہ خدا نے دوسرا نبی اس کے پیچھے بھیجا ہے اور ان سب باتوں کو ردکیا ہے۔ سوا اس کے اکثر بائبل میں لکھا ہے کہ مسیح کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہے گی۔ دیکھو (دانی ایل ۴۴:۲، ۱۳:۷۔۱۴، لوقا ۳۳:۱، عبرانیوں ۸:۱، ۱۔کرنتھیوں ۲۲:۱۵۔۲۸) ۔

تیسری دلیل تعلیم کے بیان میں

محمدی جانتے ہیں کہ جس طرح انجیل توریت کے قائم مقام ہے ۔ اسی طرح قرآن انجیل کا قائم مقام ہے ۔ مگر ظاہر ہے کہ ہر ایک بادشاہ جو دانا اور دور اندیش(عقل مند) ہے پرانے قانون کو منسوخ اور نئے قانون کو جاری کرتا ہے صرف اس واسطے کہ پرانے کی نسبت نیا اس کو اچھا معلوم دیتا ہے ۔ پس اگر قرآن حقیقتاً انجیل کے قائم مقام ہے تو بے شک اس کی تعلیم اخلاقی انجیل کی تعلیم سے افضل ہوگی۔ اس مقام پر فرض کرو کہ قرآن میں بہت اچھی تعلیم پائی جاتی ہے ۔مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوائے کسی کو سجدہ کرنا واجب نہیں۔ پھر یہ بھی کہ خدا قادر، حاضر ناظر، عادل، دانا، رحیم اور غفور ہے ۔ پھر خون نہ کرنا، چوری نہ کرنا اور نیکی خدا کے نزدیک اچھی اور گناہ برا ہے وغیرہ لیکن یہ سب تعلیم پیشتر توریت اورانجیل میں بھی موجود ہے یعنی جو اچھی باتیں قرآن میں پائی جاتی ہیں وہ توریت اورانجیل میں بھی ہیں جب یہ بات ہے تو ضرورت نہ تھی کہ نئی کتاب بھیجی جائے اور وہ باتیں سکھائے جو پہلے سکھائی گئی ہیں۔ ہاں بے شک بعض باتیں ہیں جن کے باب میں توریت اور انجیل کی تعلیم اور ہے اور قرآن کی اور ہے ۔ اب ہم ان باتوں کو جن میں اختلاف ہے مقابلہ کریں گے منصف مزاج غور کر کے دریافت کریں کہ ان میں قرآن کی تعلیم اچھی ہے یا توریت اور انجیل کابیان اچھا ہے ۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ دین سے مقصود ہے کہ اس سے نجات حاصل ہو اور وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے نازل ہوئی ضرور ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی پانے کی صاف ہم کو ہدایت کرے ۔ جو شخص انجیل کو غور سے پڑھے گا اس کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ بار بار نجات پانے کی ہدایت کرتی ہے ۔جیسا یسعیاہ نبی نے پیش گوئی کی راہ سے فرمایا کہ ایک شاہراہ ہوگا جس سے ایسے مسافر جو بالکل سیدھے سادے ہوں گے بآرام منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور انجیل کے ہر ایک مقام میں ایک ہی نجات کے طریقے کا ذکر ہے لیکن قرآن میں کئی ایک طریقے نجات کے لکھے ہیں۔ دیکھو (سورہ البقر ۶۲آیت)

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

یوں ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاری اور صابئین جو کوئی یقین لایا اللہ پر اور پچھلے دن پر اور کام کیا نیک تو ان کو ہے مزدور ی اپنی اپنے رب کے پاس اور نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ غم کھائیں۔

(سورہ المائدہ ۶۹آیت)

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

یعنی البتہ جو مسلمان ہیں اور جو یہودی اور صابئین اور نصاری جو کوئی ایمان لائے اللہ پر پچھلے دن پر اور عمل کیا نیک نہ ان پر ڈر ہے نہ وہ غم کھائیں۔

پھر (سورہ عمران ۸۵آیت) میں لکھا ہے

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ

یعنی جو کوئی چاہے سوا اسلام کے حکم برداری کرے اور دین کے سوائے اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خراب ہے فقط۔

یعنی اگر کوئی دین اسلام نہ مانے پر چند خدا اور پچھلے دن پر یقین اور نیک کام کرے اس کو نجات نہ ملے گی۔ یہ بیان ایک دوسرے سے مخالفت رکھتا ہے پھر قرآن کی اکثر آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں یعنی قرآن پر ایمان لانا، گناہ سے توبہ کرنا اور نیک اعمال بجالانا۔ لیکن اگرچہ کوئی قرآن پر ایمان لائے تو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا جب تک اس پر عمل نہ کریں یعنی جب تک توبہ کر کے حکموں پر عمل نہ کریں اور اگر کوئی پوچھے کہ حقیقی توبہ کیا ہے تو وہ ضرور یہی کہے گا کہ گناہ پھر نہ کرنا اور اگر سوال کیا جائے کہ نیکی کس قدر چاہئے تو جواب دیتے ہیں کہ پوری نیکی یا جس قدر ہوسکے کون یہ دعویٰ کرے گا کہ میں نے سب گناہوں سے ہاتھ اٹھایا ہے اور میں خدا کے سارے حکموں پر عمل کرتا ہوں جس قدر چاہئے تو کس طرح توبہ اور نیکی سے نجات حاصل ہوسکتی ہے ۔ محمدی اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے گناہ کی سزا تو پائے گا لیکن کچھ عرصہ سزا پاکے بہشت میں ضرور داخل ہوگا۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایک گناہ کے لئے ہزارہا برس تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن جب ہمارے بے شمار گناہ ہیں تو بتلاؤ کہ ہم کو کس قدر سزا اٹھانی پڑے گی یہ بھی یاد کرنا چاہئے کہ گناہ خاص کر کے دل میں ہوتا ہے جیسے بے صبری، لالچ، دشمنی، مغروری وغیرہ اور ایسے گناہ دوزخ میں بھی ہوسکتے ہیں تو ان کے لئے بھی سزا چاہئے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح آگ سونے کو صاف کرتی ہے اسی طرح سزا آدمی کو گناہ سے صاف کرتی ہے مگر یہ بھاری غلطی ہے تم نے کئی دفعہ دیکھا ہوگا کہ جس قدر سزا ہوتی ہے ۔ اسی قدر بے صبری، دشمنی سختی زیادہ ہوتی جاتی ہے اور جب ایک گناہ کے واسطے ہزارہا برس کی سزا مقرر ہے اور دوزخ میں بھی گناہ ہوگا تو گنہگار کب دوزخ یا جہنم سے نکلے گا۔ اکثر محمدی یہ خیال کرتے ہیں کہ محمد صاحب ہمارے شفیع اور گناہوں کے بخشوانے والے ہوں گے قرآن میں نہیں لکھا ہے کہ محمد صاحب اپنی امت کے گناہوں کو بخشوائیں گے اور مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ تو نہ کہہ کہ میں نبی کی بیٹی ہوں جو تو بچے گی تو اپنے نیک اعمال سے بچے گی۔ (سورہ انعام ۵۱آیت) میں لکھا ہے کہ

اِلٰی رَبِّہِمۡ لَیۡسَ لَہُمۡ مِّنۡ الخ

یعنی جمع ہوں گے اپنے رب کے پاس ان کا کوئی نہیں حمایتی اس کے سوا نہ سفارش والا۔

اور محمدیوں میں مشہور ہے کہ ایک بال جیسے باریک پل بہشت میں ہے اور وہ تلوار کی دھار جیسی تیز ہے بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس پل پر ضرور چلنا ہوگا۔ یہ پل خدا کی شریعت کی طرف دلالت کرتا ہے جس پر کوئی شخص چل نہیں سکتا کیونکہ ہم سب کمزور گنہگار ہیں ہمارے دل بُری بُری خواہشوں سے معمور ہیں جب یہ حال ہے تو ہم کیا کریں اور کس طرح نجات پائیں گے اگر ہم اپنی نیکی پر بھروسا رکھیں تو کچھ بن نہیں پڑتا کیونکہ ہم میں کیا نیکی ہے یسعیاہ نبی نے کہا ہے کہ ہماری ساری راستبازیاں گندی دھجّی کی مانند ہیں۔ اگرچہ محمدی نجات کے بہت طریقے بیان کرتے ہیں پر ان سے نجات نہیں ہوسکتی ہے ۔ قرآن سے ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ خدا کس طرح راست اور عادل ٹھہرے گا اور گناہ گاروں کا بچارے گا۔ ہم سب تقصیر وار ہیں اور اگر خدا ہمارے قصوروں کو معاف نہ کرے تو ہم بے شک دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ اے عزیز بھائیو نیکی اور ثواب کا ذکر خدا کے آگے مت کرو اس لیےے کوئی نیکی اور ثواب تم میں نہیں پایا جاتا ہے بلکہ اپنے گناہوں کا جو آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں اقرار کرو۔ یہ بھی واضح ہو کہ جس طرح قرآن میں نجات پانے کا طریقہ صاف بیان نہیں کیا گیا اسی طرح اصلی بہشت کا بھی ذکر اس میں نہیں پایا جاتا۔ (سورہ یٰسین ۵۵۔۵۷آیتوں) میں دیکھو وہاں لکھا ہے

اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَلَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ

یعنی تحقیق بہشت کے لوگ آج ایک دھندے میں ہیں باتیں کرتے وہ اور ان کی عورتیں سایوں میں تختوں پر بیٹھے ہیں تکئے لگائے ان کو وہاں اور ان کے ہے جو مانگ لیں۔

سورہ البقر۲۵آیت

وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ

یعنی اور خوشی سنا ان کو جو ایمان لائے اور کام نیک کئے کہ ان کو ہیں باغ بہتی نیچے ان کے ندیاں جب ان کو وہاں کا کوئی میوہ کھانے کو کہیں یہ وہی تھا جو ملا تھا ہم کو آگے اور ان پاس وہ آئے گا ایک طرح کا اور ان کو ہیں وہاں عورتیں ستھری اور ان کو وہاں ہمیشہ رہنا فقط۔

صافات۲۹

اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الۡمُخۡلَصِیۡنَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌفَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَفِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِکَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍۭ بَیۡضَآءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ لَا فِیۡہَا غَوۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ عَنۡہَا یُنۡزَفُوۡنَ وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ

یعنی مگر جو بندے اللہ کے ہیں چنے ہوئے جو ہیں ان کو روزی ہے مقرر میوے اور ان کی عزت ہے باغوں میں نعمت کے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے لوگ لئے پھرتے ہیں ان کے پاس پیالے شراب ستھری کے سفید رنگ مزہ دیتی پینے والوں کو نہ ان میں سر پھرتا ہے اور نہ اس سے بہکتے ہیں اور ان کے پاس ہیں عورتیں نیچے نگاہ رکھتیاں بڑی آنکھوں والیاں گویا وہ انڈے ہیں چھپے دھرے ۔

(سورہ ص ۴۹۔۵۳آیت)

ہٰذَا ذِکۡرٌ ؕ وَ اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ لَحُسۡنَ مَاٰبٍ جَنّٰتِ عَدۡنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الۡاَبۡوَابُ مُتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا یَدۡعُوۡنَ فِیۡہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیۡرَۃٍ وَّ شَرَابٍ وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ اَتۡرَابٌ ہٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِیَوۡمِ الۡحِسَابِ

یعنی ایک مذکورہو چکا اور تحقیق ڈروالوں کو ہے اچھا ٹھکانا باغ میں بسنے کے کھو ل رکھے ان کے واسطے دروازے تکیہ لگائے بیٹھے ان میں منگواتی ہیں ان میں بہت میوے اور شراب اور ان کے پاس عورتیں ہیں نیچے نگاہ والیاں ایک عمر کی یہ وہ ہے جو تم کو وعدہ ملتا ہے دن حساب کے ۔

(سورہ دخان کی ۵۱۔۵۵ آیات)

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍفِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ یَّلۡبَسُوۡنَ مِنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ کَذٰلِکَ ۟ وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ یَدۡعُوۡنَ فِیۡہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیۡنَ

یعنی بے شک ڈروالے گھر میں ہیں چین کے باغوں میں اور چشموں میں پہنے ہیں پوشاک ریشمی پتلی اور مہین اور موٹی ایک دوسرے کے سامنے اسی طرح اور وہ بیاہ دیں ہم نے ان کو گوریاں بڑی آنکھوں والیاں منگواتے ہیں وہاں ہر میوہ جمع خاطر سے

اس تعلیم پر پہلا یہ شک ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے خدا مردوں کو بہت پیار کرتا ہے لیکن عورتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا چاہے وہ مردوں سے اچھی ہی ہوں۔

دوسرا یہ کہ اس سے ظاہر ہے کہ مصنف جانتا تھا کہ جسمانی خوشی روحانی خوشی سے افضل ہے ۔

تیسرایہ ہے کہ سب لوگ جانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ جوکوئی آدمی دل وجان سے خدا کی بندگی کرتا ہے اور اس کی محبت میں رہتا ہے اور اس کو دل وجان سے چاہتا ہے فروتن اور رحیم اور پاک دل ہے وہ عمدہ عمدہ کھانے ، شراب، میووں اور حوروں پر دل نہیں لگا تا یہ خوشیاں سب شہوت پرستوں ،عیاشوں اور فاحشوں کو پسند آتی ہیں۔یہ ہونہیں سکتا کہ خدا ایسا بہشت بنائے جو نیک لوگوں کی خواہش کے برخلاف ہوا ور شہوت پرستوں کی مرضی کے مطابق ہو۔

چوتھا شک اس تعلیم پر یہ ہے کہ وہ انجیل کے برخلاف ہے انجیل میں لکھا ہے کہ بہشت میں نہ شادی کرتے نہ شادی میں دئے جاتے ہیں بلکہ خدا کے سامنے فرشتوں کی مانند رہیں گے۔ شاید مسلمان کہیں گے کہ انجیل کو بے ایمانوں نے خراب کردیا ہے اور اس سبب اس کی تعلیم قرآن کی تعلیم کے ساتھ نہیں ملتی مگر بڑے تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ لکھوائے کہ بہشت کی خوشی جسمانی انسان کی خواہش کے مطابق ہے یعنی ریشمی کپڑے پہننے ، گوشت کھانے ،شراب پینے اور خوبصورت حوروں کی صحبت میں ہے اور کہ شریر لوگ ایسی تعلیم نکالیں اور اس کے بدلے یہ درج کریں کہ بہشت کی خوشی اس میں ہے کہ ہم بالکل پاک اور بے داغ ہوکر خدا اور فرشتوں کی صحبت میں ہمیشہ رہیں کیونکہ جسمانی شہوتی اور ناپاک لوگ ان خوشیوں کو جن کا ذکر انجیل میں ہے نہیں چاہتے مگر جسمانی باتوں پر دل لگا تے ہیں ہمارا اس دنیا میں خاص کام یہ ہے کہ ہم بہشت کے لیے تیار ہوں۔ اگر بہشت کی خوشی شراب پینے اور حوروں کے ساتھ صحبت کرنے سے ہے تو کیا تیاری کرنی چاہیے یہ بھی واضح ہوتا کہ قرآ ن کی ایک بات دوسر ی بات سے اچھی طر ح مطابقت نہیں رکھتی بلکہ اس میں ایک بات دوسری بات سے مخالفت رکھتی ہے ۔ اگرچہ اس میں لکھا ہے کہ صرف خدا ہی سچا معبود ہے اور ہر طرح کی بت پرستی نادانی اور سراسر جہالت ہے اور بت پرستی ہر مقام اور ہر زمانے میں محض کفر ہے جیسا کہ توریت اور انجیل میں لکھا ہے ۔ تو بھی (سورہ بقر۳۴ آیت ) میں یہ درج ہے ۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ

یعنی اور جب ہم نے کہا فرشتوں کو سجدہ کروآدم کو تو سب سجدے میں گر پڑے مگر ابلیس نے قبول نہ کیا اور تکبر کیا اور وہ تھا منکروں میں۔

(سورہ بقرہ ۱۵۸ آیت)

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَ مَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ

یعنی صفائی اور مروت جو ہیں نشان ہیں اللہ کے پھر جو کوئی حج کرے اس گھر کا یا زیارت تو گناہ نہیں اس کو کہ طواف ان دونوں میں اور جو کوئی شوق سے کرے کچھ نیکی تو اللہ قدردان ہے سب جانتا۔

پھر (سورہ البقرۃ آیت ۱۱۵) میں ہے

وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ

اور اللہ ہی کی ہے مشرق اور مغرب سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی متوجہ ہے اللہ اور برحق اللہ گنجائش والا ہے سب خبر رکھتا ہے ۔

پھر (سورہ بقرہ آیت ۱۴۲)

سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ

یعنی اب کہیں گے بیوقوف لوگ کیوں پھر گئے مسلمان اپنے قبلے سے جس پر تھے ۔

مفسرین لکھتے ہیں کہ محمدصاحب جب مکّے سے مدینے میں آئے ایک سال سے کچھ زیادہ تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہے لیکن پھر حکم آیا کہ کعبے کی طرف پڑھو بعد اس کے (سورۃبقرہ آیت۱۴۴) میں لکھا ہے

فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ

یعنی اب پھیر ومنہ اپنا مسجد الحرام کے اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی کی طرف

بے شک اس مقام میں محمدی کہیں گے کہ خدا جب چاہے اپنے حکموں کو بدل سکتا ہے اگر ہم اس بات کو بھی تسلیم کریں تو یہ ضرور ہے کہ خد ا لوگوں کے حال بدلنے سے اپنے حکموں کو بھی بدل دے کہ ان کے حال کے موافق ہوں۔پس اول تو یہ کہ اگر بادشاہ بے سبب روزمرہ اپنے حکموں کو بدل ڈالے تو اس کو کوئی دانا نہ کہے گا کہ دانائی کا نشان ہے ۔

دوسراہم پوچھتے ہیں کیا سبب ہے کہ خدا جو واحد اور برحق معبود ہے سب فرشتوں کو جو جلال والے ہیں حکم دے کہ آدم کو جو خاکی ہے سجدہ کریں اور کس لیے قبلہ کی بابت کبھی کچھ کہا کبھی کچھ آخر کو فرمایا کہ کعبے کی طرف جو بڑا مشہور بت خانہ تھا سجدہ کرو یہ ایسا ہے کہ کوئی ہندؤں کو سکھائے کہ شیو کچھ نہیں پھر کہے کہ تم سب شوالہ کی طرف سجدہ کرو پھر خدا نے یہ کیوں فرمایا کہ صفا اور مروہ نشان ہے اللہ کا اور جو کوئی طواف ان دونوں کا کرے کچھ گناہ نہیں بلکہ کچھ نیکی ہے مشہور ہے کہ ایک مرد اور عورت دونوں کعبے میں زناکاری کرتے تھے اور عین فعل میں مارے گئے ان کی یادگاری کے واسطے بت پرست عربیوں نے ان پہاڑوں پر ان کی مورتیں بنائیں تھیں۔ پس کیا ضرور ہے کہ مومن ان کا طواف کرے اور اس میں کیا نیکی ہے پھر محمدی یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسیٰ جیتے جی آسمان پر چڑھ گیا وہ ہرگزنہ موالیکن (سورہ مریم آیت۳۳۔۳۴) ہے کہ

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ

یعنی اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن کھڑا ہوں جی کر یہ ہے عیسیٰ بیٹا مریم کا سچی بات جس پر لوگ جھگڑتے ہیں۔

اور اگر محمدی اس دلیل پر اعتراض کریں اور کہیں کہ نہیں عیسیٰ پھر دنیا میں آکر وفات پائے گا تو میں سوال کرتا ہوں کہ اول آسمان پر جائے اور پھر آکر دنیا میں مرجائے تو اس سے کیا مبارکبادی ہے پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ عیسیٰ بڑے نبی تھے اور وہ اب تک بہشت میں موجود ہیں۔ لیکن (سورۃ الصافات آیات۲۲۔۲۳) میں ہے کہ

اُحۡشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَاہۡدُوۡہُمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡجَحِیۡمِ

یعنی جمع کروگنہگاروں کو اور ان کی جورؤوں اور جو کچھ پوجتے تھے اللہ کے سوائے پھر چلاؤ ان کو راہ پر دوزخ کے فقط

بے شک سب عیسائی عیسیٰ کو پوجتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور اس کے پیراؤ دونوں دوزخ میں جائیں گے اور دیکھو کہ رام اور کرشن اور شو ہندوستان میں بڑے بہادر تھے ان کی وفات کے بعد لوگ ان کی پوجا کرنے لگے مگر اس میں رام کرشن اور شوکا قصور کے لئے جائیں تو اس میں کیا انصاف ہے پھر محمد صاحب نے بہت سی چیزوں کو حرام کیا مگر (سورہ انعام ۱۴۵آیت) سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف چار چیزیں حرام ہیں اور سب چیزیں حلال ہیں۔

قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

تو میں نہیں پاتا جس حکم میں کہ مجھ کو پہنچا کوئی چیز حرام کھانے والے کی جو اس کو کھائے مگر یہ کہ مردہ ہو یا لہو پھینک دینے کا یا گوشت سور کا کہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کی چیز جس پر پکارا للہ کے سوا کسی کا نام۔

اس مقام میں محمدی کہتے ہیں کہ یہ آیتیں منسوخ ہوگئیں ہیں اور یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ جب تک منسوخ نہ ہوئی تھیں شراب، ہاتھی اور اور بہت سے جانور کہ جن کے ذکر سے لوگ ناراض ہوتے ہیں سب حلال تھے ۔ پس دریافت کرنا چاہئے کہ خدا نے کس لئے پہلے ان کو حلال کہا اور پھر تھوڑے دن بعد کس لئے ان کو حرام کہا وہ آدمی نہیں کہ جھوٹ بولے اور بدلے جائے وہ اپنی ساری تدبیر کو شروع سے جانتا ہے لیکن قرآن کا مصنف پہلے ایک حکم دیتا ہے ۔ جب اس میں کچھ نقصان دیکھا تو اس کو بدل ڈالتا ہے ۔ اسی طرح ۲۲۵آیتیں ہیں جو منسوخ ہوئیں۔ پس گویا ۲۲۵دلیلیں قرآن میں اس کے ثابت کرنے کے لئے موجود ہیں کہ قرآن اس خدا سے جو بے تغیر اور بے تبدل ہے نہیں صادر ہوا بلکہ بدلنے والے آدمی سے تصنیف کیا گیا ہے ۔ پھر محمد صاحب نے شراب کو بہت دفعہ حرام اور ناپاک ٹھہرایا لیکن (سورہ نساء ۴۳آیت) میں شراب کا اس طرح ذکر ہے ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ

یعنی اے ایمان والو نہ نزدیک ہو نماز کے جب تم کو نشہ ہو جب تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو۔

جب لکھا ہے کہ نماز نہ پڑھنا جب تک تم کو ایسا نشہ ہو کہ تم نہ سمجھو کہ کیا کہتے ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب حرام نہیں کیونکہ جب نشہ تھوڑا ہے اور ہوش باقی ہے تو نماز پڑھ لینا جائز ہوگا۔ پھر (سورہ الفجر ۱۔۴آیت) دیکھو۔

وَ الۡفَجۡرِوَ لَیَالٍ عَشۡرٍۙ وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِۙ وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِۚ

یعنی قسم ہے فجر کی اور دس(۱۰) راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور اس رات کی جب رات کو چلے ۔

(سورہ شمس ۱۔۳آیت)

وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَاوَ الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا۪ۙ وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا۪ۙ

یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ چڑھنے کی اور چاند کی جب آئے اس کے پیچھے اور دن کی جب اس کو روشن کرے ۔

(سورہ البلد ۱آیت)

لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِۙوَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِۙ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ

یعنی قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور تجھ کو قید نہ رہے گی اس شہر میں اور چنے اور جنا۔

(سورہ اضحیٰ ۱۔۲آیت)

وَ الضُّحٰیۙ وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰیۙ

یعنی قسم دھوپ چڑھتے چڑھتے وقت کی اور رات کی جب چھا جائے ۔

(سورہ التین ۱آیت)

وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِۙ

یعنی انجیر اور زیتون کی۔

(سورہ العادیات ۱آیت)

وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًاۙ

یعنی قسم ہے گھوروں کے دوڑنے اور ہاپننے کی۔

اور (سورہ العصر ۱آیت)

وَ الۡعَصۡرِۙ

یعنی قسم ہے اترتے وقت کی۔

بے ہودہ قسمیں کھانی سب عاقلوں کے نزدیک بُری بات ہے سب لوگ جانتے ہیں کہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی بات پر یقین نہیں ہوتا۔ پھر قسم ایک طرح کی عبادت ہے جب ہم خدا کی قسم کھاتے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ہماری بات راست نہ تو خدا سے ہم کو برکت نہ ملے بلکہ سزا اس واسطے خدا کے سوا اور کسی چیز کی قسم کھانی اچھی نہیں۔ پس خدا کس طرح بنائی ہوئی چیزوں کی قسم کھائے اور اس کو گھوڑوں اور سورج، انجیر وغیرہ سے کیا نفع نقصان ہوسکتا ہے یا وہ اس کو کس طرح فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ہندؤں کی مانند ہوا جو گنگا کی قسم کھاتے ہیں مگر خدا کی ذات سے یہ بات بعید ہے کہ موافق ہندؤں کے ایسی قسمیں کھائے ۔ محمدی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو یہ چیزیں عزیز تر ہیں مگر یہ بات تو قابل اعتبار نہیں کیا انجیر کا درخت تمام درختوں سے خدا کو زیادہ پسند ہے اور گھوڑا آدمی سے زیادہ عزیز ہے ۔ پھر (سورہ التحریم ا۔۲آیت) پر ملا خطہ فرمائے ۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ

یعنی اے نبی تو کیوں حرام کرے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے رضا مندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ٹھہرا دیا ہے اللہ نے تم کو کھول ڈالنا اپنی قسموں کا۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کوئی نبی حرام کرے اس چیز کو جس کو خدا نے اس پر حلال کیا ہو اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسا کام اپنی عورتوں کی رضا مندی کے واسطے کرے اور تعجب ہے کہ خدا نبی کو کہے کہ اپنی قسم توڑ دے ۔ پس دریافت کرنا چاہئے کہ کیا چیز تھی جس کو خدا نے حلال کیا اور محمد نے حرام کیا۔ اکثر کہتے ہیں کہ شہد تھا لیکن نہایت تعجب یہ ہے کہ اگر محمد صاحب نے شہد نہ کھانے پر قسم کھائی تھی تو خدا کو اس کے نہ کھانے پر کیا نقصان پہنچتا تھا کہ قسم نہ ماننے کا اس کو حکم دیا یہ بالکل اس نادان عورت کی مانند ہے جو اپنے بیٹے کو اس کے رونے کے سبب ایسی چیز دے کہ جس سے وہ بیمار ہو جائے ۔ ہاں اگر قرآن میں یہ بات نہ لکھی جاتی تو کون سمجھتا کہ خدا بھی ایسے حکم دیتا ہے کیا قسم خدا کے نزدیک ایسی ہلکی چیز ہے کہ صرف ایک شہد کھانے کے واسطے اپنی قسم کے توڑ ڈالنے کا حکم دے ۔ پھر اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں فلانی عورت کے پاس پھر نہ جاؤں گا اور جب پھر گیا تو اس کی عورتوں نے پوچھا کیا تم نے اپنی قسم کو توڑ ڈالا اس نے کہا کہ خدا نے مجھ حکم دیا کہ تو اپنی قسم کو توڑ ڈال۔ پس دیکھو کہ جب یہ اس کی جورو نہ تھی اور اس نے قسم بھی کھائی کہ میں پھر اس کے پاس نہ جاؤں گا تو کیا ضرور تھا کہ وہ پھر اس کے پاس جائے کیا اس کی جورو کوئی نہ تھی۔ ہاں یہ بات تو مشہور ہے اور قرآن میں بھی لکھا ہے کہ اے ایمان والو دو دو تین تین چار چار عورتیں رکھو۔ مگر محمد صاحب نے اس پر بھی قناعت نہ کر کے اٹھارہ(۱۸) عورتیں رکھی ہوئی تھیں۔ پس خدا کو کیا ضرورت تھی کہ بیگانی عورت کے واسطے اپنی قسم کے توڑ ڈالنے کا حکم دے ۔ اگر خدا ضرور ایسا حکم کرے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے لیکن اس کی دانائی اور پاکیزگی کہاں رہے گی۔ اگر قرآن میں یہ بات بھی نہ لکھی ہوتی کہ خدا نے اس شخص کو جس نے قسم کھائی کہ میں ناواجب کام نہ کروں گا حکم دیا ہے کہ بے شک کر اور قسم کو توڑ ڈال تو کون جانتا کہ خدا بھی ایسے کام کرتا ہے ۔ داؤد نے خوب کہا کہ وہ مبارک ہے جو قسم کھائے ۔ اگر اسے نقصان پہنچے تو بھی نہ بدلے قسم کھانی بھاری بات ہے اور جو کھائے پھر وہ لوٹ نہ جائے ۔ (سورہ البقر ۱۹۱آیت) پر ملا خطہ فرمائے

وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ

یعنی مار ڈالو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا۔

قرآن میں لکھا ہے کہ جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو جس قدر اس نے تم پر زیادتی کی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم اپنے دشمنوں کا قصور معاف نہ کرو گے تو خدا بھی تمہارے قصوروں کو معاف نہ کرے گا اور مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ خدا سے دعا مانگیں کہ ہمارے قصوروں کو بخشے جس قدر ہم اپنے دشمنوں کے قصوروں کو بخشتے ہیں۔ یہ بہت ہی مناسب ہے کہ ہم جو ہر روز خدا سے معافی مانگتے ہیں اور اسی کے فضل پر بھروسا رکھتے ہیں اپنے دشمنوں کے قصور بھی بخشیں۔ پھر (سورہ النساء ۳۴آیت) کو دیکھئے

تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ

یعنی جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو تم ان کو سمجھاؤ اور جدا کرو سوتے میں اور مارو ان کو۔

یہ نہیں لکھا ہے کہ جو بدخوہوئیں ان کو مارو بلکہ یہ بدخوئی کے ڈر سے ان کو مارو غور کا مقام ہے کہ جب تک کسی کا قصور ثابت نہ ہو اس کو سزا دینے کی کیا ضرورت ہے اور اگر بغیر ثابت ہونے قصور کے سزا مقرر کی جائے تو اس صورت میں کئی ایک بے گناہوں کو سزا دی جاتی ہے اور پھر جس صورت میں خدا نے عورت کو مرد کا رفیق بنایا اور کہا کہ یہ دونوں ایک تن ہوں گے تو کیا اپنے رفیق کو غلام کی طرح مار نامناسب ہے اور انجیل میں لکھا ہے کہ اے مردو اپنی جورؤوں کو پیار کرو جیسا کہ مسیح نے بھی کلیسیا کو پیار کیا اور اپنے تئیں اس کے بدلے دیا مردوں پر لازم ہے کہ اپنی جورؤوں کو پیار کریں جیسا اپنے بدن کو اور پھر اے مردو اپنی جورؤوں کو پیار کرو اور ان سے کڑوے نہ ہوں۔ اگر مرد اپنی جورؤوں کو پیار کریں اور ان کے ساتھ محبت سے سلوک کریں وہ بھی ان سے پیار کریں گی اور اگر ان کو ماریں اور جدا کریں تو کچھ تعجب نہیں کہ وہ بھاگ جائیں اور بالکل خراب ہوجائیں۔ (سورہ النور۴آیت) پر غور کیجئے ۔

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ

یعنی اور لوگ جو عیب لگاتے ہیں قید والیوں کو پھر نہ لائے چار مرد شاہد تو مارو اسے اسی(۸۰) چوٹ قمچی(کوڑا، چابک، ہنٹر) کی اور نہ مانو ان کی کوئی گواہی کبھی اور وہی لوگ بے حکم۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گوئی شخص خون کرے اور اس کا گناہ دو تین گواہوں سے ثابت ہوئے تو اسے بے شک مار ڈالو اور اگر معزز یا عزت دار عورت عین زنا میں پکڑی جائے اور اس بات کے دو تین معتبر گواہ بھی ہوں تو ۸۰ چوٹ قمچی کی مارنی چاہئے ۔ اگر اس عورت پر عیب لگائیں۔ اگر یہ باتیں قانون مروجہ حال میں پائی جائیں تو تمام عالم انگریزوں کی بے وقوفی پر ہنسے گا اور اور ان کی طرح طرح سے ہجو کرے گا بے شک محمدی اس قانون کو اچھا جانتے ہیں۔ اس لئے کہ قرآن میں لکھا ہے حکم ہوا کہ چار گواہ مرد ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد عورتوں کی بات پر کچھ بھروسا نہیں کرتا تھا اور نہ چاہا کہ اس کی امت عورتوں پر بھروسا کرے ۔ ہاں بے شک اگر وہ اپنی عورتوں سے نیک سلوک کریں اور ان کو خوب تعلیم دیں ان کی عزت کریں اور ایک ہی بیاہ کریں اور ان کو اپنا رفیق سمجھیں تو بے شک وہ بھی مردوں کی مانند قابل اعتبار ٹھہریں گی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں سے زیادہ دین دار، نیک، حلیم الطبع، رحم دل اور ملائم مزاج ہوتی ہیں اور یہ خوبیاں خدا کے آگے جس کا نام غفور اور غیور ہے نہایت عمدہ اور پسندیدہ ہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن کو غور سے پڑھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ مردوں کو عورتوں سے زیادہ چاہتا ہے اور اس نے ان کی خوشی اور خوشحالی کے واسطے زیادہ تدبیر کی ہے ۔ اس جگہ یہ سوال لازم آتا ہے کہ عزت دار عورت کا کیوں ذکر ہے کیا خدا غریب اور تنگ عورتوں کی عزت کا خواہاں نہیں۔ پھر (سورہ احزاب ۳۷آیت) لکھا ہے کہ

فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الخ

یعنی جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے وہ تیرے نکاح میں دی تا نہ رہے سب مسلمانوں پر گناہ نکاح کر لینا جورؤوں سے اپنے لے پالکوں کی جب وہ تمام کریں ان سے غرض۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ خدا اپنے نبی کو فرمائے کہ اپنے لے پالک بیٹے کی جورو کے ساتھ بیاہ کر۔ کیا اچھا ہوتا اگر محمد زید کو کہتا کہ اے بیتے اپنی جورو اپنے پاس رکھ اور یہ کوئی نہ کہے کہ وہ عورت بد کار تھی ۔کیونکہ اگر بد کار ہوتی تو محمد اس سے بیاہ نہ کرتا اور عبارت سے ظاہر ہے کہ محمد نے لوگوں کے ڈر سے اس بات کو اپنے دل میں چھپایا اور لوگوں سے ڈرنا لازم بھی تھا کیونکہ خدا اپنے نبی کو ایسا حکم کبھی نہ دے گا۔ افسوس ہے کہ وہ خدا سے نہ ڈرا اور اپنے دل سے ایسے بد خیالوں کو نہ نکالا۔ لازم کہ محمدی ان باتوں پر غور کریں (پھر جب زید تمام کرچکا اپنی غرض اس عورت سے ) اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب مرد اپنی عورت سے غرض پوری کر چکے تو بے شک اس کو اپنے گھر سے نکال دے اور وہ اور مرد کر لے چنانچہ ایسا ہوتا رہا تو جورو میں اور کسبی(فاحشہ، بد کار عورت، بازاری عورت) میں کیا فرق رہا۔ اس آیت سے اور اور آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مرد اپنی عورت سے سیر ہو جائے تو اسے نکال دے بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ محمدی اپنی خوشی سے اپنی عورتوں کا بے گناہ نکال دیتے ہیں اور دوسری کو کر لیتے ہیں ہر چند پہلی عورت کو اس بات میں تکلیف پہنچے اور اس کے کے رشتہ داروں کی بے عزتی اور بد نامی ہوئے وہ کچھ پرواہ نہیں کرتے ۔ پھر (سورہ النساء ۳آیت) کو دیکھو

فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ

یعنی تم نکاح کرو جو تم کو خوش آئیں عورتیں دو دو تین تین چارچار پھر اگر ڈرو کہ برابر نہ رکھو گے تو ایک ہی یا جو اپنے ہاتھ کا مال ہے ۔

پھر (سورہ مومنون۵۔۶آیت)

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ

یعنی اور جو اپنی شہوت کی جگہ تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ مال پر سو ان پر نہیں اولا تھا۔

ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دین محمدی میں تین چار جورؤوں اور لونڈیا ں بھی درست ہیں۔

(پیدا ئش ۲۴:۲) کو دیکھو جس میں لکھا ہے کہ ’’مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور جورو سے ملا رہے گا اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے‘‘ اور (ملاکی ۱۵:۲) میں لکھا ہے ’’کیا اس نے ایک ہی کو نہ بنایا باوجود یہ کہ روح کا بقایا اسی کا رہا اور کاہے کو ایک تا کہ دین دار نسل پائے اس لئے تم اپنی طبیعت سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی جورو سے بے وفائی نہ کرے ‘‘۔ (انجیل متی ۴:۱۹۔۶آیت) میں لکھا ہے ’’کہا کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خالق نے شروع میں ا نہیں ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت بنائی اور فرمایا کہ اس لئے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے اس لئے وہ دو نہیں بلکہ ایک تن ہیں‘‘۔ (۱۔کرنتھیوں ۲:۷) ’’ہر مرد اپنی جورو اور ہر عورت اپنا خاوند رکھے’‘ اور طاہر ہے کہ آدم اور حوا بھی ہر زمانے کے لوگوں کے لئے اس بات کے نمونہ تھے چونکہ اس بات میں حضرت مسیح کے حکم دینے کے پہلے خدا نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی تھی۔ اس لئے ہم ان نبیوں پر نکاحوں کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن کثیر الازواجی شادی متذکرہ بالا کے برخلاف ہے اور ملک میں فتور کا باعث گھر میں بے بندوبستی کا خائف (ڈرنے والا)رہنا ہوتا ہے اور وہ مشیت ایزدی(اللہ کی مرضی) کے برخلاف ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بابا آدم کے واسطے ایک ہی جورو بنائی ویسا ہی از روئے خانہ شماری بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زن و مرد کی تعداد مساوی ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خدا نے انجیل کا حکم شادی کے باب میں جوعین درست اور پاک تھا منسوخ کیا اور پھر یہ حکم جاری کیا کہ مرد چار عورت تک نکاح کرے اور لونڈ یا ں بھی رکھے ۔ (سورہ البقر ۲۲۳آیت) کو دیکھو

نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَ قَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ

یعنی عورتیں تمہاری کھیتی ہیں

آگے ترجمہ شر م کی بات ہم نہیں کہہ سکتے ۔سب شائستہ قومیں بخونی جانتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی رفیق ہیں ہمدردی اور تسلی کا چشمہ سختی اور پریشانی کودور کرنے والیاں۔ علاوہ اس کے دیکھو انجیل کیا کہتی ہے ۔ اے شوہرو تم دانائی سے ان کے ساتھ رہو اور عورت کو نازک پیدائش سمجھ کر عزت دو اور جانو کہ زندگی میراث کی نعمت میں تم دونو شریک ہو تا کہ تمہاری دعائیں رک نہ جائیں اور ان سے ایسا پیار کرو جیسا مسیح نے کلیسیا یعنی اپنے لوگوں سے کیا ہے اور ان سے اس قدر محبت کرو جس قدر تم اپنے سے کرتے ہو کیونکہ جو کوئی شخص اپنی عورت سے پیار کرتا ہے وہ خود آپ کو ہی پیار کرتا ہے دیکھو پطرس کا پہلاخط (۳باب) اور پولُس کا خط افسیوں کو ( افسیوں۵باب) قطع(تراش، طور، ڈھنگ) نظر اس کے جس گھر میں عورتوں کی عزت و حرمت ہوتی ہے اس گھر میں امن چین محبت اور ملاپ پرہیز گاری اور پاکیزگی موجود رہتی ہے ۔مثل مشہور ہے کہ ایک شیر اور ایک آدمی کسی جگہ جا نکلے وہاں ایک تصویر دیکھی کہ انسان نے شیر کو دبا رکھا ہے ۔ آدمی نے شیر سے کہا کہ دیکھتے ہو انسان کی سجاعت کیسا شیر کو قانو میں کر رکھا ہے ۔ شیر بولا کہ اس کا مصور(تصویر بنانے والا، نقاش، آرٹسٹ) آدمی تھا اگر شیر مصور ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ مطلب یہ کہ قرآن مرد کے ہاتھ سے لکھا گیا نہ عورت کے ہاتھ سے۔ اگر عورت کے ہاتھ سے لکھا جاتا تو مرد اس قدر عورت پر غالب نہ آتا اور اس پر بھی ظلم نہ کرسکتا۔ قرآن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف نفسانی خواہشوں کو زیادہ چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے (سورہ احزاب ۴۹آیت) میں

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

یعنی اے نبی حلال رکھیں تجھ کو تیری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا اور جو مال ہو تیرے ہاتھ کا جو ہاتھ لگائے تجھ کو اللہ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور رتیرے ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور کوئی عورت ہو مسلمان اگر بخشے اپنی جان نبی کو اگرنبی چاہے اس کو اپنے نکاح میں لے کہ روا ہے تجھ کو سوائے سب مسلمانوں کے ۔

کس واسطے خدا نے صرف محمد صاحب پر ان سب عورتوں کا جن کا ذکر ہوا حلال کیا اور کیا باعث ہے کہ اور لوگوں کو تین تین چار چار عورتوں کا حکم ہوا اور محمد صاحب جتنی چائیں کر لیں۔ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی اپنی امت میں نیکیوں کا نمونہ ہوتا ہے لیکن محمد صاحب اس بات میں نمونہ تھے ۔ قرآن میں لکھا ہے کہ جو آدمی دین کی راہ میں لڑتا ہے اس کو بڑا ثواب ہوتا ہے ۔ (سورہ نساء ۷۲آیت) میں لکھا ہے

فَلۡیُقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یَشۡرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ مَنۡ یُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیُقۡتَلۡ اَوۡ یَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

یعنی جو چاہیں لڑیں اللہ کی راہ جو لوگ بیچتے ہیں دنیا کی زندگی آخرت پر اور جو کوئی لڑے اللہ کی راہ میں پھر مارا جائے یا غالب ہوئے ہم دیں گے اس کو بڑا ثواب۔

جب ہم یہ دلیل محمدیوں کے آگے پیش کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا جہاد کرنا واجب ہے تو یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کنعانیوں کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ گنہگاروں کوسزا دینی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ جس طرح چاہے وہ سزا دیوے خواہ آگ سے جیسا حضرت ابراہیم کے زمانہ میں ہوا، خواہ طوفان سے جیسا کہ نوح کے زمانے میں تمام دنیا کو پانی سے برباد کیا، خواہ بذریعہ شمشیر کے جیسا کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ہوا۔ مگر اس کا مطلب اور ہے اور یہ حکم دینا کہ جہان کے آخر تک دین کے لئے لڑو اور کافروں کا قتل کرو۔ یہ اور بات ہے اور خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ لوگوں کو مار مار کر یہودی کرو بلکہ اس نے اسے بھیجا کہ اس قوم کی شرارت کی سزا نہیں دے ۔ اگر کسی کو اس بات پر شک ہو تو (پیدائش ۱۵باب) دیکھے اس میں لکھا ہے کہ خدا نے ابراہیم کو فرمایا کہ تیری نسل اجنبی ملک مسافر ہوگی اور ان کی خدمت کرے گی اور وہ اس پر( ۴۰۰ )چارسوبرس تک ظلم کریں گے لیکن چوتھی پشت وہ اس ملک میں یعنی کنعان میں پھر آئیں گے کیونکہ اموریوں کے گناہ پورے نہ ہوئے ۔ یہ لوگ ایسے شریر تھے کہ شرارت میں ضرب المثل ہوگئے تھے دیکھو (۱۔سلاطین۱۱:۲۱) ۔ محمدی جانتے ہیں کہ انجیل توریت کے بعد آئی اور قرآن انجیل کے بعد لکھا گیا اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلی کتاب پہلی کتاب سے اچھی ہوتی ہے نہیں تو کیا فائدہ اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ انجیل توریت سے کئی ایک باتوں میں بہتر ہے قرآن کو انجیل سے بہتر ہونا چاہئے تھا ۔کیونکہ یہ انجیل کے بعد لکھا گیا ورنہ اس کا کیا فائدہ۔ اس لئے اس کا انجیل سے مقابلہ کرنا ضروری ہے نہ کہ توریت سے پھر عیسیٰ نے حکم دیا کہ تمام دنیا میں جا کر انجیل کی منادی کرو۔ سب لوگوں سے میل کرو اور ان کے خیرخواہ ہو۔ اپنے دشمنوں سے محبت کرو ان کے قصوروں کو معاف کرو ان کے لئے دعا مانگو برائی کے بدلے برائی نہ کرو لیکن نیکی کر کے برائی پر غالب آؤ۔ محمد صاحب کہتے ہیں کہ دین کے واسطے اور لوگوں سے لڑو۔ کیا خدا کے مذہب کو بذریعہ تلوار کے پھیلانا کبھی اچھا ہوتا ہے ۔ اگر دو قومیں دین کے لئے لڑیں تو یہ ثابت ہوگا کہ ایک زور آور ہے اور دوسری کمزور نہ کہ زرو آور کا دین خدا کی طرف سے ہے ۔ اگر محمدی دین کے واسطے اور لوگوں کو مارنا بہتر سمجھتے ہیں تب اور لوگ اپنے دین کے واسطے محمدیوں کو مارنا بہتر کیوں نہ سمجھیں گے ۔ اگر عیسائی محمدیوں کو کہیں کہ عیسائی دین قبول کرو نہیں تو ہم تم کو قتل کریں گے تو محمدی کہیں گے کہ ہاں یہ بات درست ہے تمہارے لئے ثواب ہوگا۔ اس مقام میں ایک مثل یاد آئی ہے کہ ایک دہقان نے ایک قاضی کے پاس جا کر عرض کی کہ صاحب میرے بیل نے آپ کے بیل کو مار ڈالا ہے ۔ قاضی نے فرمایا کہ اس کا دام ادا کرو۔ دہقان نے کہا کہ نہیں صاحب بھول گیا ۔آپ کے بیل نے میرے بیل کو مار ڈالا ہے ۔ قاضی بولا یہ بالکل اور بات ہے اس پر سوچنا چاہئے ۔

اسی طرح محمدی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کسی کو مذہب کے لئے مار ڈالیں تو ثواب ہے اور اگر اور کوئی مذہب کے لئے ہم کو قتل کرے تو خراب اور ناصواب ہے ۔ پھر یہ بھی سمجھو کہ اگر جہاد ہو تو جو سچے دین دار ہیں وہ اپنے دین کے واسطے اپنی جان دیں گے اور جو خام بے ایمان ہیں ڈر سے اپنے دین کو چھوڑ دیں گے ۔ پس کیا خدا جس کا نام حق ہے پسند ہوگا کہ سچے دین دار مارے جائیں اور کچے مکار زندہ رہیں۔ پھر اگر کوئی بے ایمان قتل کیا جائے تو اس کو فرصت توبہ کی نہ ملے شاید وہ زندہ رہتا تو توبہ کرتا ۔جیسے پولُس کہ دیر تک عیسائیوں پر ظلم کرتا رہا آخر کو توبہ کر کے حواری بن گیا۔ اگر سب لوگ اس بات پر جو مسیح نے فرمائی غور کریں تو کیا اچھی بات ہو یعنی جیسا تم چاہتے ہو کہ اور لوگ ہم سے کریں تم بھی ان سے ویسا ہی کرو۔ دیکھو اگر ایک فوج جس میں ہزارہا لالچی شہوتی اور متعصب ہیں۔ کسی ملک میں داخل ہو اور لاکھوں آدمیوں کو مار ڈالے جیسے نادر شاہ کے وقت دہلی میں ہوا اور ان کے مال و اسباب کولوٹ لے اور ان کی عورتوں کو زبردستی سے پکڑ لے جائے تو کیا یہ سب خدا کے حکم سے ہوا۔ پھر اگر ایک قوم پر ظلم و تعدی کرنا واجب جانے تو دنیا کا کیا حال ہوگا سب نیست و نابود ہو جائی گی۔ انجیل میں خدا کیسا رحیم اور مہربان پایا جاتا ہے باپ باپ کہہ کر پکارا جاتا ہے محبت کا چشمہ ظاہر ہوتا ہے بلکہ اس نام ہی محبت ہے لیکن قرآن سے اس قدر محبت ظاہر نہیں ہوتی جس قدر انجیل میں سے پائی جاتی ہے ۔ اگرچہ خدا تعالیٰ کا نام اکثر مقام میں رحمان اور رحیم لکھا گیا ہے تو بھی قرآن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا بے ایمانوں کے مار ڈالنے کے لئے بار بار حکم دیتا ہے اور ان کی تکلیف سے خوش ہوتا ہے ۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس کا بیٹا اپنے گھر کو چھوڑ کر کسی دوسرے گھر میں چلا جائے اور وہ اپنے دوسرے بیٹے کو جو اس کے پاس ہو کہے کہ جا اور اس کو مار ڈال مگر یہ کہ اپنے بھائی کو محبت اور پیا ر سے لے آ۔ اسی طرح خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بے راہ ہو تو اس کو محبت اور الفت سے راہ پر لاؤ اور خدا نے حزقی ایل نبی کی معرفت فرمایا کہ مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے ۔ مگر قرآن میں بہت سی جگہ دوزخ کا ذکر اسی طرح سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا مصنف کافروں کے دوزخ میں جانے سے نہایت خوش ہوتا ہے اور ذرا بھی افسوس نہیں کرتا۔ انجیل میں لکھا ہے عیسیٰ نے فرمایا کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں اگر میری بادشاہت اس جہان کی ہوتی تو میرے بندے لڑتے لیکن میری بادشاہت اس جہان کی نہیں۔ پھر اس نے ایمانداروں اور بے ایمانوں کو گیہوں اور کڑوے دانے کی مثال دی کر کہا کہ دونوں فصل تک یعنی قیامت تک رہنے دو کیونکہ جب تم کڑوے دانے اکھاڑو گے شاید گیہوں کو بھی اکھاڑ دو گے اور جب عیسیٰ کو لوگو ں نے صلیب پر کھینچا اور ہر طرح کی بے عزتی کی تو اس نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کیا کرتے ہیں اور وہ جانتا تھا کہ میری موت کے بعد خدا ان کو اور ان کے شہر کو برباد کرے گا تو جس وقت وہ اس کے قتل کے درپے تھے اس نے ان پر افسوس کر کے کہا اے یروشلیم اے یروشلیم تو جو نبیوں کو قتل کرتا ہے اور انہیں جو تجھ پاس بھیجے گئے پتھراؤ کرتا ہے میں نے کتنی بار چاہا کہ تیرے لڑکوں کو مرغی کی طرح اپنے پروں کے تلے جمع کروں پر تم نے نہ چاہا۔ تمام صحائف انبیا اور اناجیل سے ظاہر ہے کہ خدا لوگوں کی برائی نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ توبہ کر کے نجات پائیں۔ کاش محمدی قرآن کا انجیل سے مقابلہ کر کے دریافت کریں کہ ان دونوں میں سے کس میں خدا کی محبت پائی جاتی ہے ۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف علم سے بھی واقف نہ تھا۔ (سورہ کہف۸۳۔۸۶آیت) ملا خطہ فرمائی۔

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا فَاَتۡبَعَ سَبَبًا حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا

یعنی اور تجھ سے پوچھے ہیں ذوالقرنین کہہ اب پڑھتا ہوں تمہارے آگے اس کا کچھ مذکور ہم نے اس کو جمایا تھا ملک میں اور دیا تھا ہر چیز کا اسباب پھر پیچھے پڑا ایک اسباب کے یہاں تک کہ پہنچا جب سورج ڈوبنے کی جگہ پایا کہ وہ ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندی میں اور پائی اس کے پاس ایک قوم۔

یعنی وہ لوگ جو تاریخ اور جغرافیہ سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ ذوالقرنین یعنی سکندر اعظم کے ملک کے مغرب طرف رومیوں کا ملک واقع تھا اور سکندراعظم رومیوں کے ملک میں کبھی داخل نہیں ہوئے ۔لیکن وہ جوانی کے وقت مشرق کی طرف آ کر پنجاب تک پہنچا اور یہاں سے پھر پیچھے لوٹ کر بابل تک جو دریائے فرات پر ہے جا کر کے( ۳۳)سال کی عمر میں مر گیا۔ یہ سب باتیں یونانی تواریخوں سے جو آج تک موجود ہیں اور یورپ کے تمام کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں ثابت ہوتی ہیں۔ پھر ان آیتوں میں سورج کا دلدل کی ندی میں ڈوب جانے کا ذکر ہے اور واضح ہو کہ یونان کی مغرب کی طرف اٹؔلی جس کا دارالسلطنت روم ہے ،ہسؔپانیہ، پرؔتگال وغیرہ ملک واقع ہیں اور ان ملکوں کے پچھّم کی طرف اٹیلنؔیٹگ یعنی بحراوقیؔانوس ہے اور اس سمندر کے مغرب کی طرف امریکہ جس کو نئی دنیا بھی کہتے ہیں واقع ہے۔ اس ملک کو کلمبس نے جہاز پر سوار ہو کر( ۳۸۳ )برس ہوئے ہیں کہ ظاہر کیا سکندر اعظم کے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ کوئی ایسا جزیرہ کہیں ہے ۔ میں اسی ملک کا باشندہ ہوں اور جب میں وہاں تھا سورج کو آسمان پر دیکھتا تھا جیسا کہ اب پنجاب دیکھتا ہوں کبھی دلدل میں ڈوبتے ہوئے اس کو نہیں دیکھا۔ اگر مصنف قرآن علم جغرافیہ سے واقف ہوتا تو کبھی نہ کہتا کہ سورج دلدل میں ڈوب جاتا ہے ۔ اگر کوئی جواب دیوے کہ عام محاورہ ہے کہ سمندر میں سورج ڈوب جاتا ہے جیسا معلوم ہوتا ہے مگر تو جیہہ یہاں درست نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت میں لکھا ہے کہ ذوالقرنین سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچا پایا کہ سورج ایک دلدل کی جگہ میں ڈوبتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے بیان کیا کہ سورج رات کے وقت کہاں چلا جاتا ہے اور وہ جگہ ہے ایک دلدل جیسا کہ ہندو کہتے ہیں کہ سورج سمیر پربت کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ مگر یہ دونوں کی تقریر صاف غلط ہے ۔ پھر (سورہ بنا ۶آیت)

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًاۙ

یعنی ہم نے نہیں بنائی زمین بچھونا۔

اور (سورہ لقمان ۱۰آیت)

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ

یعنی بنائے آسمان ‏بن ٹیکی اسے دیکھتے ہو اور ڈالے زمین پر بوجھ کہ تم کو لے کر جھک نہ پڑے ۔

ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پانی پر واقع ہے ۔ اگر زمین پانی پر کھڑی ہے تو پانی کس پر کھڑا ہے اور اگر پانی کے نیچے کوئی چیز ہے تو اس چیز کی اٹھانے والی کون شے ہوئی۔ اگر ہندوستان کا کوئی باشندہ دریافت کرنا چاہے کہ آیا زمین گول ہے کہ نہیں اور اس کے نیچے کی طرف یا اوپر کی طرف کیا چیز ہے جس نے اس کو اٹھایا ہے تو وہ پہلے لمبائی کو جائے وہاں اس کو ایسے جہاز ملیں گے جو اس کو سیدھا لے جا کر انگلستان پہنچا دیویں گے اور انگلستان سے اس کو ایسے جہاز دستیاب ہوں گے جو اس کو سیدھا امریکہ میں لے جائیں گے اور ریل اس ملک کے مشرق سے مغرب تک پہنچائیں گی پھر وہاں سے جہاز پر چڑھ کے چین میں آ جائے گا اور چین سے پھر جہاز میں سوار ہو کر کلکتہ میں پہنچ جائے گا پھر ریل اس کو کلکتہ سے دہلی یا لاہور کسی اور شہر میں کہ جہاں سے وہ پہلے چلا تھا پہنچائے گی پھر بخوبی اس کو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے نیچے اور اوپر کی طرف کیا ہے ہموار یا بالکل گول ہے اور جیسا سورج خدا کی قدرت سے بغیر کسی سہارے کے قائم ہے ویسے ہی زمین قائم ہے ۔یورپ اور امریکہ کے جہاز سب سمندروں میں ہمیشہ پھرتے رہتے ہیں اور اکثر مسافر بھی سوار ہو کر تمام دنیا کے چاروں طرف آتے جاتے ہیں۔ مگر آج تک کوئی شخص دم نہ مار سکا کہ زمین کے اوپر کی طرف یا نیچے کی طرف کوئی چیز ہے جس نے اس کو اٹھا رکھا ہے ۔ محمدی اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین پہاڑوں کے ذریعے سے جو میخوں کا کام دیتے ہیں۔ایک جگہ ٹکی ہوئی ہے یعنی ایک جگہ قائم کی گئی ہے اور (سورۃ النبا آیت ۶۔۷)

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙوَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًا

یعنی ہم نے نہیں بنائی زمین بچھونا اور پہاڑ میخیں

اگر وہ پہاڑوں کو خوب غور کرکے دیکھیں تو ان کو واضح ہوکہ پہاڑ میخیں نہیں ہیں مگر زمین کے حصے ہیں جو زمین کی اندرونی گرمی کے سبب اوپر ہوگئے ہیں کیونکہ وہ پتھر جو زمین کے نیچے پائے جاتے ہیں اسی قسم کے پتھر پہاڑوں پر پائے جاتے ہیں اور اکثر چیزیں فائدہ مند مثل لوہا تانبہ وغیرہ کے پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں جو میدان میں نہیں ملتی کیونکہ وہ زمین کے اندر ہیں آگ کے زور سے باہر آتے ہیں یہ وہی زور ہے جس سے ریل چلتی ہے اور اسی سبب زلزلہ آتا ہے یہ بھی واضح ہوکہ دنیا میں آج تک کئی ایسے پہاڑ ہیں کہ جن سے بہت جوش مارکر آگ نکلتی ہے ۔مثلاً اٹنا وسووئیس ،ہنکلا،سٹرام بولی یورپ میں اور کوٹوپیکسی جنوبی امریکہ میں اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑمیخیں کبھی نہیں ہوسکتے صرف زمین کی اندرونی گرمی سے اوپر ہوگئے ہیں۔ پھرقرآن میں لکھا ہے کہ سات (1) آسمان ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص جو پہاڑ سے تیس چالیس کوس کے فاصلے پر رہتا ہو پانی برسنے کے بعد فجر کے وقت جب آسمان صاف ہو پہاڑ کی جانب نظر کرے تو پہاڑ اس کو خوب نظر آئے گا اور معلوم ہوگا کہ آسما ن پہاڑ کی پچھلی طرف واقع ہے لیکن اگر دوتین گھنٹے کے بعد پھر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آسمان پہاڑ سے اس طرف ہے اور پہاڑ بالکل معلوم نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص سفر کرے تو اس کو آسمان چند کوسوں کے فاصلے پر زمین کے ساتھ ملا ہو ا نظر آئے گا لیکن جب اس جگہ پر پہنچے اسی طرح آسمان اس کو آگے دکھائی دے گا جس طرح کہ پہلے دکھائی دیتا تھا اگر ہزار کوس تک جائے تو بھی آسمان اس کے آگے آگے چلے گا ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان صرف حد نظر ہے اور کچھ نہیں جب یہ حال ہے تو ہم کیوں کر مانیں کہ آسما ن سات ہیں پھر قرآن میں لکھا ہے کہ سات زمینیں ہیں یہ بھی غلط ہے کیونکہ زمین حقیقت میں ایک ہی ہے اور نارنگی کی مانند گول ہے اور اس کی گولائی اور مقدار پر علم جہاز رانی موقوف ہے یعنی اسی سے جہاز چلتے ہیں اور دنیا کے ہر ایک سمندر میں بلکہ دنیا کے چاروں طرف پھرتے ہیں قرآن میں پاکیزگی کا ذکر بھی بہت سی جگہ آیا ہے لیکن اکثر تو صرف لیکن اکثر تو صرف بیرونی پاکیزگی یعنی ہاتھ منہ دھونے وضو کرنے اور حرام کھانے سے پرہیز کرنے کا ذکر ہے اگر کسی شخص نے اس پاکیزگی کا ذکر جو خدا کو پسند آتی ہے دیکھنا ہوتو( مرقس ۵:۷۔۶؛۱۴:۷۔۲۳) تک دیکھے فریسیوں اور فقیہوں نے عیسیٰ سے پوچھا کہ تیرے شاگر دبزرگو ں کے حکم پر کیوں نہیں چلتے کہ وہ بن دھوئے ہاتھ سے کھاتے ہیں اس نے انہیں جواب میں کہا کہ یسعیاہ نے تم ریاکاروں کے حق میں کیا خوب نبوت کی ہے کہ یہ لوگ ہونٹھوں سے میری بزرگی کرتے ہیں پر ان کے دل مجھ سے دور ہیں پھر اس نے سب لوگوں کو کہا کہ تم سب کے سب میری سنواور سمجھو ایسی کوئی چیز نہیں جو آدمی میں داخل ہوکے اسے ناپاک کرئے گی پر وہ چیز یں جو اس میں سے نکلتی ہیں وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں اگر کسی کے کان سننے کے ہوں تو سنے اس کے شاگردوں نے اس سے اس تمثیل کے معنی پوچھے تب اس نے انہیں کہا کیا تم بھی ایسے نادان ہوا ور نہیں جانتے ہوکہ جو چیز باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے اسے ناپاک نہیں کرسکتی اس لیے کہ وہ اس کے دل میں نہیں بلکہ پیٹ میں جاتی ہے اور وہاں سے خوراک کا تمام فضلہ پاخانہ میں جاتا ہے پھر اس نے کہا جو آدمی سے نکلتا ہے وہ آدمی کو ناپاک کرتاہے کیونکہ اندر یعنی آدمی کے دل ہی سے برے اندیشے ،زناکاریاں ،حرامکاریاں ،قتل ،چوریا ں ،لالچ ،بدی ،مکر ،مستی،بدنظری ،کفر ،شیخی اور نادانی یہ سب بری چیزیں اندر سے نکلتی ہیں اور آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔(متی ۳:۵۔۹) میں لکھا ہے کہ ’’مبارک وہ جودل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہوں کی ہے۔ مبارک وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے ۔ مبارک وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے ۔ مبارک وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے ۔ مبارک وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے ۔ مبارک وہ جو صلح کرنے والے ہیں کیونکہ وہ خدا کے فرزند کہلائیں گے ‘‘۔ یہ بھی واضح ہوکہ عیسیٰ فریسی کاہنوں اور یہودی مولویوں کو بار بار ملامت کرکے کہتا تھا کہ کہ تم پر افسوس کیونکہ تم ان سفید قبروں کی مانند ہوجو باہر سے سفید اور اندر سے مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی آلودگی اور میل سے معمور ہیں ویسے ہی تم لوٹ اور برائی سے بھرے ہوئے ہو اور تم رکابیوں کو باہر سے صاف کرتے ہو لیکن اندر سے نہیں۔ پھر بیواؤں کے گھر وں کو لوٹتے ہو اور لوگوں کو فریب دینے کے لیے لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہو کئی ہزار محمدی ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں اور ناپاک چیز سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر کوئی جھوٹ بولے اور زنا کرے تو اس پر کچھ عیب نہیں لگاتے اور اگر حرام گوشت کھائے تو اسی وقت عیب لگاتے ہیں بلکہ قوم سے نکال دیتے ہیں۔ پس اگر ہاتھ منہ دھونے اور حرام گوشت سے پرہیز کرنے میں حقیقی پاکیزگی ہے تو قرآن درست اور صحیح ہے اور اگر حلیمی اور عفو اور خیر خواہی اور محبت میں حقیقی پاکیزگی ہے تو انجیل کی تعلیم درست اور خدا کی مرضی کے موافق ہے پھر قرآن میں حج کا ذکر بھی اکثر آیا ہے اور محمدی بھی حج کرنے کو بڑا ثواب سمجھتے ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ نے اس سامری کو کیا عمدہ جواب دیا جب اس نے اسے پوچھا کہ ہم کس جگہ خدا کی بندگی کریں اس نے فرمایا کہ دیکھ وہ وقت آتا ہے اور اب بھی ہے کہ نہ تو اس پہاڑ پر جس پر سامری لوگ پرستش کرتے ہیں اور نہ بیت المقدس میں جہاں یہودی لوگ عبادت کرتے ہیں سچے پرستار پر ستش کریں گے تم نہیں جانتے کہ تم کس کی بندگی کرتے ہو خدا روح ہے جو شخص روح اور سچائی سے بندگی کرتا ہے وہ خدا کی پرستش کرتا ہے اور قرآن میں معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص لڑائی میں دشمن کو پیٹھ دکھائے یعنی بھاگ جائے وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (سورہ انفال آیت۱۵۔۱۶)


1 ۔ سات یہ لفظ دواور معنوں پر مستعمل ہوتا ہے چنانچہ پیدائش کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ خدا نے ستاروں کو آسمان کی فضا میں قائم کر رکھا۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسمان جہاں خدا کی حضوری ہے انجیل میں تیسر ا آسمان کہلاتا ہے دیکھو(۲۔کرنتھیوں ۱۲ باب)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ

یعنی اے ایمان والو جب لڑو تم کافروں سے میدان جنگ میں تو مت دوان کو پیٹھ اور جوکوئی پیٹھ دے اس دن مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جاملتا ہے فوج میں سو وہ لے پھر ا غضب اللہ کا اور اس کا ٹھکا نا دوزخ ہے اور کیا بُری جگہ ٹھہرا

جب عیسیٰ کے شاگردوں نے اس سے پوچھاکہ خداکی بادشاہت میں کون بڑا ہوگا اس نے کیا عمدہ جواب دیا ایک چھوٹا لڑکا بُلا کے اس نے ان کے بیچ میں کھڑا کیا اور کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر تم لوگ توبہ نہ کرو اور چھوٹے لڑکوں کی مانند نہ بنوتو آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہ ہوں گے ۔ پس جوکوئی آپ کو اس بچے کی مانند چھوٹا جانے وہی آسمان کی بادشاہت میں سب سے بڑا ہوگا۔ دیکھو قرآن میں کیا لکھا ہے کہ بہشت میں بڑا بدلہ کون پائے گا دیکھو(سورہ نساء آیت۷۴)

وَ مَنۡ یُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیُقۡتَلۡ اَوۡ یَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

یعنی اور جوکوئی لڑے اللہ کی راہ میں پھر مارا جائے یا غالب ہوئے ہم دیں گے اس کو بڑا ثواب۔

اور سب لوگ جانتے ہیں کہ جو لوگ سپاہ گری کرتے ہیں وہ اکثر مغرور اور خون ریز اور سنگدل ہوتے ہیں کب ایسا ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگ بہشت میں سب سے افضل ہوں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ جس کے دل میں دینداری اور خدا ترسی خدا اور انسان کی محبت موجود ہے وہ کبھی ایسی بات پر یقین نہ کرے گا۔ قرآن میں رسومات کا بہت ذکر آتا ہے جو توریت سے نکالی گئی ہیں جیسے روزہ رکھنا وضو کرنا قربانی دینا وغیرہ لیکن ان رسموں کے اصل معنی اور فائدہ کا بیان کچھ نہیں اور نہ محمدی آج تک ان کا خاص مطلب جانتے ہیں۔ (سورہ بقرہ آیت۱۸۵)

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ

یعنی مہینہ رمضان کا جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت واسطے لوگوں کے اور کھلی نشانیاں راہ اور فیصلہ پھر جو کوئی یہ مہینہ روزے رکھے فقط

روزہ رکھنا بُری بات نہیں بشرطیکہ ہم اس کے حقیقی معنی سمجھیں اور اس معنی کے مطابق روزہ رکھیں اول سمجھو کہ وہ غم کا نشان ہے نہ خوشی کا چنانچہ ایک دفعہ یوحنا کے شاگردوں نے عیسیٰ سے پوچھا کہ تیرے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے حالانکہ ہم اور فریسی سب روزہ رکھتے ہیں۔ عیسیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جب تک دولہا براتیوں کے ساتھ ہے وہ کس طرح روزہ رکھیں یعنی جب تک میں اپنے شاگردوں کے ساتھ ہوں وہ کیوں روزہ رکھیں جب میں چلا جاؤں گا تب وہ روزہ رکھیں گے ۔ پس معلوم ہوا کہ وہ غم کا نشان ہے کیونکہ ماتم اور غم کے وقت لوگ کھانا چھوڑ دیتے ہیں مگر شادی کے وقت کوئی بھوکا نہیں رہتا۔ محمدیوں کی سمجھ میں قرآن کا آنا خوشی کی بات تھی نہ غم کی پس جس مہینے میں قرآن آیا ہے اس مہینے میں کیوں روزہ رکھتے ہیں۔ پوشیدہ نہ رہے کہ روزہ سے یہ بھی مراد ہے کہ آدمی سب دنیاوی کاموں سے فراغت پاکر بندگی پر اپنا سارا دل لگائے اور اس سے کچھ ثواب کی امید نہ رکھنی چاہیے اور نہ یہ سمجھے کہ خدا ہماری تکلیف سے راضی ہوتا ہے بلکہ ہماری خوشی چاہتا ہے جب ہم روزہ رکھ کے خدا کی بندگی پر دل لگاتے ہیں تو روحانی خوشی زیادہ تر حاصل ہوتی ہے پھر جو لوگ سارا دن بھوکا رہتے ہیں اور تمام رات اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرتے ہیں ان کو روزہ سے کیا فائدہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا مصنف روزہ کا حقیقی مطلب اور فائدہ نہیں سمجھتا تھا پھر قرآن میں حکم ہے کہ قربانی دو اور توریت میں بھی حکم ہے لیکن جب یہودی اس کو ثواب جاننے لگے تو خدا نے ان سے کہا کہ تمہاری قربانیوں کی کثرت سے کیا فائدہ میں بیلوں اور لیلوں اور بکروں کے خون سے خوش نہیں اور پھر وہ جو لیلے کو چڑھاتا ہے ایسا ہے جیسا کتّے کا سر کاٹ ڈالتا ہے (یسعیاہ ۱۰:۱۔۱۵؛۳:۶۶) میں ہے اور انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ خدانے یہودیوں کو قربانیاں چڑھانے کا حکم اس لیے دیا کہ ہمیشہ وہ اس وعدہ کا یاد کریں جو اس نے مسیح کے حق میں کہا تھا کہ وہ آئے گا اور تمہارے گناہوں کے واسطے قربان ہوگا اور جب عیسیٰ دنیا میں آیا تو یوحنا نے اس کو اپنے طرف آتے دیکھ کر کہا کہ دیکھو خدا کا لیلا جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے (یوحنا۲۹:۱) ۔اس فائدہ مند تعلیم کے برخلاف محمدی سمجھتے ہیں کہ قربانی دینا ثواب ہے اور نہیں جانتے اس کا مطلب یا فائدہ کیا ہے اور نہ قرآن میں ان باتوں کا بیان ہے جس طرح یہودی نہا کے خدا کی بندگی کرتے تھے ۔ محمدی وضو کرکے کرتے ہیں اصل مطلب کو نہیں سمجھتے کہ ہاتھ منہ اور بد ن دھونے سے کیا فائدہ ہے اگر کوئی انجیل کو مطالعہ کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ اس کے حقیقی معنی کیا ہیں (متی ۱۱:۳) میں لکھا ہے کہ ’’یوحنا نے کہا کہ میں تم کو توبہ کے لیے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن وہ مجھ سے روز آور ہے ۔ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں۔ وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا‘‘۔ان تما م تر بیانات کی روشنی میں ذی عقل شخص خود ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کونسی کتاب مستند ہے اور کونسی شخصیت خدا کی طرف سے ہے۔خدا وند کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا اگر کوئی لاعلمی میں موت کے گھاٹ اترتا ہے تو بات اور ہے اور اگر کوئی علم رکھتے ہوئے بھی ہلاکت کا پھندا اپنے گلے میں پہنتا ہے تو وہ صاحب ِ عقل نہیں ہے۔