1891-1972

ALLAMA BARAKAT ULLAH, M.A.F.R.A.S
Fellow of the Royal Asiatic Socieity London


شمالی ہندوستان کی کلیسیا

کے

مائہ ناز مصنف ۔ عالم بے بدل

زبدة المتکلمین ۔ امام المفسرین ۔ سلطان المناظرین

جناب مولانا پادری سلطان محمد پال صاحب

پروفیسر عربی ۔ مشن کالج۔ لاہور

کی خدمت بابرکت میں

یہ ہدیہ

پیش کرتاہوں

ع گر قبول افتدز ہے عزوشرف

علامہ برکت اللہ



Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900

پادری مولوی عماد الدین لاہز



مقدمتہ الکتاب

چند سال ہوئے مرحوم خواجہ کمال الدین قادیانی نے مسیحیت کی عالمگیری اور بے نظیری پر ایک ایسے نکتہ نگاہ سے حملہ کیا تھا جس کو اگر چہ علمائے مغرب نے بوسیدہ اور مردود قرار دے دیا ہوا تھا لیکن وہ پنجاب کے سادہ لوح طبقہ کے مسلمانوں کے لئے ایک نیا نظریہ تھا۔ مرحوم نے اپنی کتاب میں بزعم خود پادری ڈاکٹر ٹسڈل صاحب کی بے عدیل کتاب ’’ینابیع الاسلام ‘‘کا الزامی جواب دینے کی کوشش کی تھی کہ اگر اسلام مختلف مذاہب سے مرکب ہے تو مسیحیت کے عقائد ورسوم بھی رومی یونانی مذاہب ِباطلہ سے ماخوذ ہیں۔

اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے حجم اور

ساقی نے بناکی روش لطف وستم اور

مدت ہوئی جرمنی اوردیگر ممالک مغرب کے مسیحی اور غیر مسیحی علمانے اس نظریہ کو باطل اور بے بنیاد ثابت کرکے اس کی دھجیاں اڑادی تھیں چنانچہ اس حقیقت کو ہم نے اپنی کتاب’’ نور الہدیٰ‘‘ کے دونوں حصوں میں واضح کردیا تھا اوریہ ثابت کردیا تھاکہ مسیحیت کے عقائد اور رسوم مذہب اسلام کی طرح ہر گز اساطیر الاولین نہیں ہیں کیونکہ مشرکانہ مذاہب باطلہ کے اعتقادات اور رسمیات میں اور مسیحیت کے اعتقادات اوررسمیات میں زمین آسمان کا فرق ہے اوروہ ایک دوسرے کے عین ضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں تصادم اورجنگ واقع ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلُ جہان نے مسیحیت کی بے نظیری اورعالم گیری کا لوہا مان لیا اورکامیابی کا سہرا مسیحیت کے سر پر رہا۔

ع۔ اے تاج دولت برسرت ازابتداتا انتہا ۔

ہم نے اپنے رسالہ ’’صحت کتب مقدسہ‘‘ میں یہ ثابت کردیا ہےکہ بائبل شریف کی صحت جس میں مسیحیت کی تعلیم درج ہے ایسی بے نظیر اوراعلیٰ پایہ کی ہے جو کبھی دنیا کے کسی دوسرے مذہب کی کتاب کو نصیب نہیں ہوئی ۔ پھر ہم نے اپنے رسالہ ’’کلمتہ الله کی تعلیم‘‘ میں یہ ثابت کردیاہے کہ یہ تعلیم جس کی صحت کا پایہ اس قدر لاجواب ۔اعلیٰ اور ارفع ہے عالمگیر اصولوں پر مشتمل ہے اوردنیا کے کسی مذہب کی تعلیم اس کے اصول کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتی۔ ہم نے اپنے رسالہ ’’ دین فطرت اسلام یامسیحیت ‘‘میں یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف مسیحیت کی تعلیم ہی انسانی فطرت کے تمام تقاضاؤں کو پورا کرسکتی ہے اورکرتی ہے پھر ہم نے اپنے رسالہ ’’ مسیحیت کی عالم گیری‘‘ میں یہ ثابت کردیاہے کہ صرف مسیحیت کے اصول اور ابن الله کی شخصیت ہی جامع اور عالم گیر ہے۔

مسیحیت کی بے نظیری کی واضح حقیقت کے باوجود بعض غیر مسیحی برادران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا مسیح کا مشن عالم گیر نہ تھا اور اس انکا ر کے ثبوت میں وہ بالعموم دوانجیلی آیات کو پیش کیا کرتے ہیں جن میں منجی کونین کے دو اقوال مندرج ہیں اور وہ آیات حسب ِ ذیل ہیں:

(۱۔) مقدس متی کی انجیل میں خداوند کا یہ قول ہے ’’ میں اسرائيل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘(متی ۱۵باب آیت ۲۴)۔

(۲۔) کلمتہ الله کاایک قول اسی انجیل میں ہے ’’ یسوع نے ان بارہ کو بھیجا اوران کو حکم دے کر کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائيل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اورچلتے چلتے یہ منادی کرناکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے ‘‘(۱۰باب آیت ۵تا ۷)۔

مذکورہ بالا آیات کی بنا پر بعض معترضین کہتے ہیں کہ جناب ِمسیح مرسل من الله تو تھے لیکن منجی ِ عالمین نہ تھے۔آپ کی رسالت صرف اہل ِ یہود تک ہی محدود تھی لہذا آپ کا پیغام عالم گیر نہ تھا۔

اس مختصر رسالہ میں ہم کلمتہ الله کے مذکورہ بالا کلمات ِ طیبات پر غور کریں گے تاکہ معلوم کریں کہ آیا مخالفین کے اعتراضات صحیح اور حق بجانب ہیں کہ نہیں۔ ہم اہل یہود کے نصب العین اور تاریخ پر انبیائے اسرائیل کی کتب اور خود سیدنا مسیح کے اقوال ومعجزات اورآپ کے احکام پیغام اور پروگرام اور طرزِ عمل پر کلمتہ الله کے حوارئین اور مبلغین (تبلیغ کرنے والا)کے اقوال وافعال وہدایات پر اورکلیسیائے جامع کے لائحہ عمل اورکارناموں پر ایک مختصر نظر ڈال کر مندرجہ بالا اعتراض کی صحت کو جانچیں گے اوران کی روشنی میں ابن الله کے ہر دو اقوال کی صحیح تفسیر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ معترض جو صدق دل سے ان آیات کی بنا پر مسیحیت کی عالمگیری کو نہیں مانتے اپنے نظریہ کی نظر ثانی کرکے منجی عالمین پر ایمان لا کر حیاتِ ابدی حاصل کریں ۔ وَما َتوفیقی الا بالله ۔

ہولی ٹرنٹی چرچ۔ لاہور

یکم جولائی ۱۹۳۸ء

علامہ برکت الله ۔

فصل اوّل

اصوُل ِ تفسیر

اس سے پہلے کہ ہم اُن آیات پر غور کریں جن کا ذکر مقدمتہ الکتاب میں کیا گیا ہے یہ مناسب معلوم ہوتاہےکہ ہم ناظرین کا کتابِ مقدس کی تفسیر کے صحیح اصُول سے جو مخالف وموالف دونوں کے نزدیک مسلم ہیں تعارف کرادیں ،تاکہ ان کو معلوم کرکے ناظرین خود آیات ِ مذکورہ بالا کی صحیح تفسیر کو جانچ سکیں۔ اگر اعتراضات کی بنا صحیح اصول تفسیر کے خلاف ثابت ہوجائے تو ان اعتراضات کے غلط ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہوگی۔ لیکن اگریہ اعتراضات صحیح اصول کے مطابق ہونگے توان کے حق بجانب ہونے میں کسی کو کلام نہ ہوگا۔

تفسیر کا صحیح اصل یہ ہے کہ کسی قول کی صرف وہی تفسیر صحیح ہوسکتی ہے جو قائل یا کہنے والے کے اصلی مفہوم اور حقیقی منشا کو ظاہر کرے ۔ پس اگر کسی قول کی تاویل ایسے طریقہ سے کی جائے جو کہنے والے کے اصلی منشا کے خلاف ہو تو وہ تاویل باطل اورگمراہ کن ہوگی۔ اس قسم کی تفسیر محض من گھڑت ہوگی اور ارباب ِ دانش کے نزدیک اس کی وقعت اور قدر صفر سے زیادہ نہ ہوگی۔

پس لازم ہےکہ جب ہم کسی شخص کے قول کی تاویل یا تفسیر کریں تو اس بات کا لحاظ رکھیں کہ وہ تفسیر کہنے والے کے خیالات کے مطابق ہو۔ اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرے اور اس کے افعال اور طرز ِعمل سے اس تاویل پر روشنی پڑے تاکہ وہ قائل کے خیالات ، جذبات اور افعال کا مظہر ہو۔ صحیح تفسیر کے لئے لازم ہے کہ وہ عبارت کے سیاق وسباق کالحاظ رکھے اور کتابِ مقدس کے الفاظ ومحاورات سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ہو۔ جو تفسیر اس اصول کے خلاف ہوگی وہ تفسیر القول بما لا یرضی بہ قائلہ متصور ہوگی ۔ یعنی وہ ایسی تاویل ہوگی جو قول کے کہنے والے کے مطلب ومنشا کے خلاف ہوگی۔ لہذا وہ تفسیر باطل اورناقابل اعتماد ہوگی ۔ اس قسم کی تاویل کو جو خلاف سیاق کلام ہو اور خلاف الفاظ انجیل جلیل ہو کوئی صحیح العقل (دانا،دانش مند) شخص قبول نہیں کرسکتا اور اگر کوئی شخص اس قسم کی تفسیر کرنے پر اصرار کرے تو وہ صحیح تفسیر نہیں بلکہ فضول بحث اور مکابرہ(شیخی ،گھمنڈ) ہوگا جس کے خلاف ہم کو انجیل شریف میں متنبہ کیا گیا ہے(۱۔ تیمتھیس ۶: ۴ وغیرہ)۔

پس اگر کوئی شخص انجیل جلیل کی کسی آیت کی یا سیدنا مسیح کے کسی قول کی اس طور پر تفسیر کرے جو سیدنا مسیح کے حقیقی منشا کے خلاف ہو اور آپ کے کلمات ِ طیبات،احکام وہدایات اور پیغام وپروگرام اور طرز عمل کے مطابق نہ ہو تو اس تفسیر کے غلط ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا۔ جو تفسیر کلمتہ الله کے خیالات، الفاظ اور جذبات کی صحیح ترجمانی نہ کرے بلکہ ایسے معنی بیان کرے جو سیدنا مسیح کے مطلب ومقصد کے عین نقیض (مخالف،عداوت ) ہوں تو وہ تاویل (شرح،ظاہر ی مطلب سے کسی بات کو پھیردینا )یقیناً صحیح تاویل کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی ۔

علاوہ ازیں اگر ایسی تاویل نہ صرف کلمتہ الله کے خیالات وجذبات ہدایات واحکام وافعال کے خلاف ہو بلکہ ایسی ہو جو کہ آپ کے حوارئین کے خیالات وجذبات واحکام اور طرز عمل کے بھی خلاف ہو تو ایسی تفسیر کے غلط ہونے میں شک کی گنجائش نہیں رہ سکتی ۔

مزید برآں اگریہ تاویل ایسی ہو جو نہ صرف منجی ِعالمین اورآپ کے حوارئین کے خیالات وجذبات واحکام او رپیغام، ہدایات پروگرام اور طرز عمل کے خلاف ہو بلکہ جمہور کلیسیائے جامع کی ہدایات اور طرزِ عمل کے بھی خلاف ہو تو اس تاویل کے مردود ہونے میں کسی شخص کو کلام نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ ایسی تاویل وہ معنی بیان کرتی ہے جو نہ کلمتہ الله سمجھے نہ آپ کے حوارئین نہ آئمہ اور آبائے کلیسیا جامع اورنہ عامہ مسیحی۔ ایسی تفسیر انجیل جلیل کی آیات کے وہ معنی بتلائے گی جو نہ عبارت کے الفاظ سے نکلتے ہیں نہ سیاق کلام کے مطابق ہیں، بلکہ وہ تاویل ایسی ہوں گی جو کلمتہ الله کے منشا اور انجیل کے مقصود اورحوارئین اور آبائے کلیسیا کی ہدایات کی جو اصلی غرض ہے۔ ان سب کے خلاف ہوگی ۔ پس اس قسم کی تاویل صریح اور صاف طور پر غلط اورناقابل قبول ہوگی۔

بعض غیر مسیحی اصحاب اس قسم کی غلط تاویل کو کام میں لا کر دو انجیلی آیات کی اس طور سے تفسیر کرتے ہیں جس طرح نہ تو خود کلمتہ الله نے سمجھا تھا نہ آپ کے حوارئین نے ،نہ آبائے کلیسیا نے ، نہ کلیسیائے جامع اورنہ جمہور مسیحیوں نے بلکہ یہ تاویل اس قسم کی ہے کہ جس سے انجیل کا اصل مقصود ہی فوت ہو جاتا ہے۔ یہ تفسیر کلمتہ الله کے خیالات ، انجیل کے الفاظ اور سباق عبارت اوراس کے عام منشا سے کچھ مناسب اورمطابقت نہیں رکھتی۔ یہ اصحاب انجیل کی آیات کواس طرح ماؤل کردیتے ہیں کہ وہ تاویل ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اس پر تاویل کا لفظ بھی صادق نہیں ہوسکتا ۔ مشہورہےکہ

ع۔ برعکس نہند نام زنگی کافور

اس قسم کی تاویل کے ذریعہ یہ اصحاب ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا مسیح کا مشن عالم گیر نہ تھا اورآپ منجی ِعالمین نہ تھے۔ اس انکار کےثبوت میں وہ بالعموم دو آیات کی تفسیر وتاویل پیش کرتے ہیں جن میں منجیِ کونین کے دو اقوال مندرج ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مقدس متی کی انجیل میں وارد ہواہےکہ ’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اورکے پاس نہیں بھیجا گیا ‘‘(متی ۱۵: ۲۴)۔اور آپ نے شاگردوں کو حکم دیاکہ ’’اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ غیر قوموں کی طرف نہ جانا‘‘ (متی ۱۰: ۵)۔

مذکورہ بالا آیات کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ کلمتہ الله کو یہ احساس تھا کہ آپ مرسل من الله ہوکر صرف قومِ یہود کے لئے آئےتھے اورآپ کا پیغام صرف اہل ِیہود کے لئےہی تھا نہ کہ دیگر اقوام ِ عالم کے لئے ۔ آپ کی ہمدردی کا حلقہ قوم اسرائیل سے زيادہ وسیع نہ تھا اور آپ کے خواب وخیال میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ آپ کا پیغام اسرائیل کے علاوہ کسی اور قوم کے لئے ہے ۔چہ جائیکہ(چاہے) وہ کلُ بنی نوع انسان کے لئے ہو۔

اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مذکورہ بالا تاویل کلمتہ الله کے خیالات وکلمات وجذبات وہدایات ،پیغام واحکام اورآپ کے لائحہ ِعمل اور طرزِ عمل کے مطابق ہے تو اس کے صحیح ماننے میں کسی صاحب عقل کو کلام نہ ہوگا۔ لیکن اگریہ ثابت ہوجائے کہ یہ تفسیر اورتاویل سیدنا مسیح کے خیالات وکلمات وجذبات وہدایات واحکام اور آپ کے لائحہِ عمل اور طرز ِعمل کے عین خلاف ہے اور ان الفاظ سے آپ کے حوارئین وہ مطلب نہ سمجھے جو یہ تاویل ہم کو سمجھانا چاہتی ہے بلکہ ان حوارئین کے خیالات ،کلمات ، ہدایات ، احکام اورطرزِ عمل اس تاویل کے عین ضد تھے ۔ مزید برآں کلیسیائے جامع اورجمہور مسیحیوں کا عقیدہ اور طرز ِعمل ابتدا سے دور حاضرہ تک اس تاویل کے برعکس رہا ہے تو یہ ظاہرہے کہ یہ تاویل بالکل غلط اورناقابل قبول ثابت ہوجائے گی اوران آیاتِ شریفہ کی صحیح تفسیر وہ ہوگی جو کلمتہ الله اورآپ کے حوارئین اورکلیسیائے جامع کے حقیقی منشا اور مقصود کے موافق ہوگی۔ انشاء الله ہم مابعد کی فصلوں میں یہ بات واضح کرکے ان آیات کی تاویل صحیح اصول تفسیر کے مطابق کریں گے ۔

فصل دوم

انبیائے اسرائیل کی رسالت کا مطمع ِ نظر

اور

اہل ِ یہود کا نصب العین

اس سے پہلے کہ ہم اُن آیات ومقامات کا مفصل مطالعہ کریں جن پر معترضین کے اعتراضات مبنی ہیں یہ مناسب معلوم ہوتاہےکہ ہم اس امر کو دریافت کریں کہ جس قوم میں کلمتہ الله نے پرورش پائی اس کا نصب العین کیا تھا اورجن انبیائے عظام(بزرگ) کی کتب کے گہوارہ میں آپ نےاپنے ایامِ طفولیت(بچپن) اورعالم ِشباب (جوانی)کے روحانی مدارج کو حاصل کیا۔ ان کے پیغام کا مطمع نظر کیا تھا۔ کیا اہل ِیہود اور اسرائیل کی نظر صرف قوم اسرائیل کے افراد کی نجات تک ہی محدود تھی یا ان کا خیال تھاکہ غیر یہود بھی نجات حاصل کریں گے ؟ کیا ان کے خیال میں ان کا خدا محض یہود کا ہی خدا تھا یا تمام عالم کا خدا تھا؟ اگریہ ثابت ہو جائے کہ اہل یہود کی نظر اس باب میں وسیع تھی اور ان کا یہ ایمان تھاکہ خدا رب العالمین ہے اور اقوام ِ عالم اس کی نجات سے بہرہ ور(فائد ہ اُٹھانے والے ) ہوں گی اوراگر یہ ثابت ہوجائے کہ انبیائے اسرائيل کی رسالت کا مطمع نظر(اصلی مقصد) ہی یہ تھاکہ بنی اسرائیل غیر یہود کو خداکے پاس لانے کا ذریعہ اوروسیلہ ہونگے تو یہ ماننا ایک نا ممکن امر ہوجائے گا کہ کلمتہ الله اپنے زمانہ کے ہمعصروں اور انبیائے سابقہ اوران کے مقلدوں(مرید) کی نسبت زیادہ تنگ نظر تھے ،کیونکہ اگر ابن الله کی ذہنی نشوونما اور روحانی ترقی کے ماحول وسیع تھے تو آپ کے خیالات ان سے زیادہ تنگ نہیں ہوسکتے ،کیونکہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کلمتہ الله کے خیالات اپنے ہمعصروں سے کہیں زیادہ بلند وبالا اور وسیع تھے۔ آپ کے آنے کی غایت (غرض ،مطلب،انجام ) ہی یہ تھی۔ آپ توریت اور صحف انبیاء کو پورا کریں اورایک کامل شرع اوراکمل نمونہ دیں (متی ۵: ۱۸، ۔۱۱: ۲۹، یوحنا ۱۳: ۱۵۔ رومیوں ۱۰: ۴، ۱۳: ۸ ؛ گلتیوں ۳: ۲۴ ، افسیوں ۴: ۲۰ وفلپیوں ۲: ۵ وغیرہ وغیرہ)۔

سچ تو یہ ہےکہ کلمتہ الله نے ایک ایسے گھرانے میں پرورش پائی تھی جو اپنی نظیر آپ ہی تھا۔ مقدسہ مریم پر بالفاظ انجیل’’ خدا کی طرف سے فضل ہوا ‘‘ تھا اورخدا تعالیٰ کی قدرت نے اس پر سایہ ڈالا تھا۔ بالفاظ قرآن الله نے آپ " کو پسند کیا اور پاک کیا اورتمام جہان کی عورتوں سے برگزیدہ کیا‘‘۔ انجیل جلیل اس بات کی گواہ ہے کہ مقدسہ مریم نے آپ کو صحف ِ انبیاء اسرائیل کی تعلیم دی تھی۔ ان صحف کے حصص کے حصص خداوند کو زبانی یاد تھے۔ یہودیت کی دعائیں بپچن ہی سے آپ کو حفظ کرائی گئی تھیں (متی ۴باب۔ ۵باب ، مرقس ۱۲باب ، ۱۵ باب ۔ لوقا ۲باب ۔لوقا ۲۳: ۴۶ وغیرہ )۔

حتی ٰ کہ آپ کے لڑکپن کی نسبت انجیل شریف میں وارد ہوا ہے کہ آپ اس زمانہ میں بڑھتے اور قوت پاتے اورحکمت سے معمور ہوتے ہوگئے اورخدا کا فضل آپ کے ساتھ مدام (ہمیشہ )رہا (لوقا ۲: ۴۰)۔ بالفاظ ِ قرآن آپ ایسے ’’ نیک بخت‘‘ واقع ہوئے تھے کہ آپ روح الله اورکلمتہ الله ’’وجیھاً فی الدنیا َ الاخرہ اورمنَِ المربین‘‘ تھے۔

پس جب کلمتہ الله نے ایسے حالات میں اپنی ذہنی اور روحانی پرورش پائی ہو تو معترض کا یہ قول نہ صرف لغو اور بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ اہل یہود تو اس بات کو مانتے تھے اوران کے انبیاء صدیوں سے ان پر یہ جتلاتے چلے آئے تھے کہ ان کا کام یہ ہےکہ اقوام ِ عالم خدا کی نجات کا پیغام دیں ۔ لیکن کلمتہ الله ایسے تنگ نظر واقع ہوئے تھے کہ اپنے ہمعصر یہود کے نصب العین اور انبیائے اسرائیل کے مطمع نظر کو جس سے وہ بچپن ہی سے واقف تھے دیدہ دانستہ پس ِ پشت پھینک کر یہ مانتے تھے کہ خدا کی نجات صرف ِ اہل یہود تک ہی محدود ہے اور اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ دیگر اقوام ِ عالم اس نجات سے بہر ہ اندوز نہیں ہوسکتیں ۔

اہل ِیہود کا نصب العین

یہودی انبیا کی رسالت کا مقصد یہ تھاکہ وہ اپنی امت یعنی قوم بنی اسرائیل پر یہ صداقت ظاہر کردیں کہ اس کی زندگی کا مطمح نظر اور نصب العین یہ ہے کہ وہ اقوامِ عالم کو خدا کی معرفت اورنجات کا پیغام دینے کا وسیلہ ہے تاکہ جملہ اقوام عالم اہل یہود کی معرفت ایک حقیقی واحد خدا کے علم کو حاصل کریں۔

یہ حقیقت عہد عتیق کی پہلی کتاب یعنی پیدائش سے لے کر آخری کتاب یعنی ملاکی نبی کی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ کتب مقدسہ کی پہلی کتاب یعنی پیدائش کی کتاب میں جو سیدنامسیح سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھی یہ مندرج ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم سے وعدہ فرمایاکہ’’ دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پائيں گے ‘‘( پیدائش۱۲: ۳)’’ابراہیم یقیناً ایک بڑی اوربزرگ قوم ہوگا اور زمین کی سب قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘( پیدائش۱۸: ۱۸) ’’ اے ابراہیم تیری نسل سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تونے میرے حکم کی تعمیل کی ‘‘( ۲۲: ۱۸ نیز دیکھو اعمال ۳: ۲۵، گلتیوں ۸:۳، ۱۸وغیرہ) پھر خدا نے حضرت اضحاق کو بھی یہی فرمایا ( پیدائش۲۶: ۴)۔ اس کے بعد خدا نے حضرت یعقوب کو رویا کے ذریعہ بتلایا کہ ’’ تیری نسل ایسی ہوگی جیسی زمین کی گرد اور توپچھم پورب اتر اوردکھن کوپھوٹ نکلے گا اور زمین کے تمام گھرانے تجھ سے اور تیری نسل سے برکت پائیں گے ‘‘ ( پیدائش۲۸: ۱۴)۔

پس ابتدائے زمانہ سے خدا کا یہ ارادہ تھا کہ اہل ِاسرائیل کو اقوام عالم کے درمیان اپنی معرفت اوربرکت بخشنے کا وسیلہ بنائے ۔ انبیائے اسرائیل نے اس حقیقت کو بار بار اہل یہود کے گوش گذار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھا(کسر نہ چھوڑنا ،سخت کو شش کرنا ،سب کچھ کہہ دینا )۔ چنانچہ اگرہم انبیائے اصغر کو نظر انداز کرکے صرف چند انبیائے عظام(بزرگ ) کو بطور مشتے نمونہ ازخروار ے(ڈھیر میں سے مٹھی بھر ،تھوڑے سے نمونے سے کل چیز کی اصلیت معلوم ہوجاتی ہے ) لیں تو یہ حقیقت ہم پر مہر نیم روز(دوپہر) کی طرح روشن ہوجاتی ہے مثلاً:

(۱۔) سیدنا مسیح سے (۷۶۰ )سال پہلے حضرت عاموس نے اسرائیل کو یہ سبق سکھلایا کہ جس طرح خدا اہل ِیہود کی حفاظت کرتاہے اسی طرح وہ اہل ِحبش کی بھی حفاظت کرتاہے۔ جس طرح خدا اسرائیل کو مصر سے نکال لایا اسی طرح وہ فلسطیوں کو کفتور سے اور ارامیوں کو قیر سے نکال لایا تھا۔ چنانچہ نبی کہتا ہے کہ ’’جو آسمان پراپنے بالا خانوں کو بناتا ہے اور زمین پر اپنے گردوں(رتھ،گاڑی ) کی محراب کو قائم کرتاہے۔ وہ جو سمندروں کے پانیوں کو بلاتا ہے اوران کو روئے زمین کی سطح پر انڈیلتا ہے ۔اس کا نام خداوند ہے و ہ فرماتاہے اے بنی اسرائیل کیا تم لوگ میرے حضور کوش کی اولاد کی طرح نہیں ہو۔ خداوند فرماتاہے کہ کیا جس طرح میں اسرائیل کو مصر کی سرزمین سے نکال لایا ہوں فلسطیوں کو کفتور سے اور ارامیوں کو قیر سے نہیں نکال لایا ہوں‘‘؟(عاموس ۹: ۷)

(۲۔) حضرت یسعیاہ نبی جو( ۷۶۰قبل از مسیح) پیداہوئے فرماتے ہیں ’’ساری اقوام خداوند کے گھر کی طرف روانہ ہوں گی اور کہیں گی آؤ ہم خداوند کے پہاڑ پر چڑھیں اور یعقوب کے خدا کے گھر میں ۔کہ وہ اپنی راہیں ہم کو بتلائیں گا اورہم اس کے رستوں پرچلیں گے کیونکہ شریعت صیہون سے اور خداوند کا کلام یروشلیم سے نکلے گا ‘‘( یسعیاہ ۲:۲) ۔رب الافواج اس پہاڑ پر تمام اقوام کےلئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت کرے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اس روز یہ کہا جائے گا کہ دیکھو یہ ہمارا خدا ہے ہم اس کی راہ تکتے تھے اور اس نے ہم کو بچایا۔ یہ خداوند ہے جس کے انتظار میں ہم تھے۔ اب ہم اس کی نجات سے خوش وخرم ہوں گے (یسعیاہ ۲۵باب نیز دیکھو ۹: ۲، ۱۱: ۱تا ۱۰۔۱۸: ۷، ۲۴: ۱۶، ۲۷: ۱۳۔ ۳۵: ۱، ۴۰: ۵و غیرہ وغیرہ)۔’’ اس روز مصر سے اسور تک ایک شاہراہ ہوگی اور مصری اسوریوں کے ساتھ عبادت کرینگے اوراس روز اسرائیل زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا اوررب الافواج اس کو برکت بخشے گا اور فرمائے گا کہ مبارک ہو مصرمیری امت ۔ اسور میرے ہاتھ کی صنعت اوراسرائیل میری میراث (۱۹: ۲۳ وغیرہ وغیرہ)۔

(۳۔) میکاہ نبی کی کتاب( ۷۰۰) عیسوی سے قبل لکھی گئی۔ اس نے بھی یہ حقیقت جتلائی ہے ( میکاہ باب ۴، ۵ وغیرہ وغیرہ)۔

(۴۔) حضرت یرمیاہ نبی سیدنا مسیح سے ساڑھے چھ سو(۶۵۰) سال پہلے پیدا ہوا اوروہ بار بار اپنی نبوتوں میں جو اس نے خود لکھوائیں اس بات کا ذکر کرتاہے اورکہتاہےکہ ’’ اے خداوند دنیا کے کناروں سے اقوام تیرے پاس آکر کہیں گی کہ فی الحقیقت ہمارے باپ داد ا نے محض بطالت کی میراث حاصل کی ‘‘( یرمیاہ ۱۶: ۱۹، ۴: ۲ وغیرہ وغیرہ)۔

(۵۔ ) صفنیاہ نبی کی کتاب سیدنا مسیح سے سوا چھ سو(۶۵۰) سال پہلے لکھی گئی اس میں مرقوم ہے کہ ’’ میں اس وقت لوگوں کے ہونٹ پاک کردوں گا تاکہ سب کے سب خداوند کا نام لیں ۔ اورایک دل ہوکر اس کی عبادت کریں۔ کوش کی نہروں کے پارسے میرے عابد ہدیہ لائیں گے‘‘(صفنیاہ ۳: ۹ وغیرہ)۔

(۶۔ ) حزقی ایل نبی سیدنا مسیح سے چھ سو بائیس (۶۲۲) سال پیشتر پیدا ہوا۔ وہ متعدد دفعہ اس بات کا ذکر کرتاہے ( حزقی ایل باب ۳۴، ۳۷ ، ۴۷ وغیرہ)۔

(۷۔)حضرت زکریا ہ نے سیدنا مسیح سے چھ سو بائیس (۶۲۲) سال پہلے نبوت کرنی شروع کی۔ وہ بھی اس نصب العین کا ذکر کرکے کہتاہےکہ ’’بہت اقوام اور زور آور امتیں رب الافواج کو ڈھونڈنے کو اور خداوند کے چہرے کو دیکھنے کو یروشلیم میں آئيں گی ۔ رب الافواج کو ڈھونڈنے کو اور خداوند کے چہرے کودیکھنے کویروشلیم میں آئیں گی۔ رب الافواج یوں فرماتا ہےکہ ان دنوں میں ایسا ہوگاکہ قوموں کے دس آدمی جن کو الگ الگ نعمت دی جائے گی ،ہاتھ بڑھائیں گے۔ وہ ایک یہودی شخص کے دامن کو پکڑیں گے اورکہیں گے کہ ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہےکہ خدا تمہارے ساتھ ہے( زکریاہ ۸: ۲۲۔ ۲۳، ۲: ۱۰، ۶: ۱۵، ۹: ۱ اور ۱۴باب وغیرہ)۔

(۸۔)اہل ِ یہود کی جلاوطنی کے دوران میں انبیائے اسرائیل نے اس نصب العین کو بار بار اپنی امت کے سامنے رکھا۔ چنانچہ( یسعیاہ کی کتاب کے ابواب ۴۰ تا ۶۶ )جو( ۵۴۶ تا ۵۳۹ )قبل از مسیح لکھے گئے اس نصب العین سے پرُ ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کی آیات ملاحظہ ہوں’’ اے بنی اسرائیل میں۔ خداوند نے تجھ کو صداقت کے لئے بلایا ہے میں تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اورقوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور قیدیوں کو زنداں سے نکالے اوران کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانہ سے چھڑالے‘‘(یسعیاہ ۴۲: ۶)۔ ’’ اے جزیروں میری سنو۔اے لوگو جو دورُ ونزدیک کے ہو کان لگاؤ۔ خداوند نے مجھ سے کہا کہ تو میرا بندہ ہے تجھ میں۔ اے اسرائيل ۔ اپنا جلال ظاہر کرونگا ۔ وہ فرماتاہے کہ یہ تو کم ہے کہ تو یعقوب کے فرقوں کے برپا کرنے اور اسرائیل کے بچے ہوؤں کے پھر لانے کے لئے میرا بندہ ہو بلکہ میں نے تجھ کو اقوام ِ عالم کے لئے نور بخشاتاکہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے ۔ دیکھ یہ دور سے اوردیکھ یہ اتر سے اورپچھم سے اور یہ سینیم کے ملک سے آئیں گے ‘‘ (یسعیاہ ۴۹: ۱۔ ۱۳)۔

’’ میری سن اے میری امت ۔اے میری گروہ میری طرف کان دھرکہ ایک شریعت مجھ سے رائج ہوگی اور میں اپنی شرع کو اقوام کی روشنی کے لئے قائم کروں گا۔ میری نجات چل نکلی ہے۔ بحری مملکتیں میرا انتظار کریں گی اورمیرے بازو پران کا توکل ہوگا‘‘( یسعیاہ ۵۱: ۴) ’’بیگانے کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزيز رکھیں اور اس کے بندے ہوں۔ میں ان کو بھی اپنی عبادت گاہ میں شادمان کروں گا کیونکہ میرا گھر سب اقوام کی عبادت گاہ کہلائے گا( یسعیاہ۵۶: ۶)۔ اٹھ روشن ہو کہ تیری روشنی آئی اور خداوند کے جلال نے تجھ پر طلوع کیا ہے۔ خداوند تجھ پر طالع ہوگا اوراس کا جلال تجھ پر نمودار ہوگا اقوام تیری روشنی میں اور شاہان تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے ‘‘(۶۰: ۱تا ۳ وغيرہ وغیرہ)۔

یہ تمام ابواب ان دوباتوں پر زوردیتے ہیں کہ خدا یہود اور غیریہود دونوں سے محبت رکھتا ہے اوراس کی تمنا یہی ہے کہ اقوام ِ عالم اہل اسرائیل کے ذریعہ اس کا عرفان حاصل کریں۔ خدا نے بنی اسرائیل کی طرف اپنے انبیاء بھیجے اوراب خدا اسرائيل سے یہ چاہتا ہے کہ کہ اس کے افراد انبیا زادے بن کر اقوام عالم میں جائیں اوران کو خدا ئے واحد کی طرف لائیں ان تمام ابواب میں باربار اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائيل خدا کا بندہ اور خادم ہے جس کو خدا نے اس مقصد کی خاطر چنا ہے کہ وہ اقوامِ عالم کو خدا کی شریعت اوراحکام کاعلم دے اور رضائے الہیٰ کی تلقین کرے(یسعیاہ ۴۲: ۱تا ۴۔ ۴۵: ۸۔ ۴۹: ۱تا ۶۔ ۵۰: ۴تا ۹۔ ۵۲: ۱۳تا ۵۳: ۱۲: ۵۵: ۵۔ ۵۶: ۳: ۶۱ باب ۔ ۶۵: ۱۔ ۶۶: ۱۲ وغیرہ وغیرہ)۔ اورجس طرح خدا نے اسرائیل کو مصر کی غلامی سے نجات دی۔ اسی طرح قوم اسرائیل اقوامِ عالم کوشیطان کی غلامی سے نکالے(یسعیاہ ۴۵: ۱تا ۶)۔

(۹۔) زبور نویس جو سیدنا مسیح سے صدیوں پہلے وقتا ً فوقتاً مختلف اوقات اور زمانوں میں مزمور لکھتے رہے بار بار اسی ایک حقیقت پر زور دیتے ہیں اور زبور کی کتاب کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جس میں بنی اسرائيل پر اس صداقت کو بظاہر نہیں کیا گیا۔ مشتے نمونہ از خروارے(ڈھیرمیں سے مٹھی بھر،تھوڑے سے نمونہ سے چیز کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے)۔’’ اے خدا توجو دعا کا سننے والا ہے ۔ سارے بشر تجھ پاس آئیں گے۔ اے ہمارے نجات دینے والے خدا تو زمین کے سارے کناروں کا اوران کا بھی جو دور دریا کے بیچ میں ہیں بھروسا ہے‘‘( زبور۶۵)۔’’ (اے اسرائیل) میں قومیں تیری میراث میں دوں گا اور اقصائے عالم تیرے پاس ہوں گے‘‘( زبور۲)۔سارے جہان کے لوگ سراسر خداوند کی طرف رجوع لائیں گے اور سب قوموں کے گھرانے تیرے آگے (اے خدا) سجدہ کریں گے کیونکہ سلطنت خداوند کی ہے اور اقوام عالم کے درمیان وہی حاکم ہے ‘‘( زبور۲۲)۔’’ تم جانو کہ میں خدا ہوں اقوام عالم میں بلند ہوں گا( زبور ۴۶)۔’’اے تو جو دعا کا سننے والا ہے سارے بشر تجھ پاس آئیں گے ‘‘( زبور ۶۵) ۔’’ساری زمین تجھ کو سجدہ کرے گی اور تیری مدح خواں ہوگی وہ تیرے نام کے گیت گائیں گے ‘‘( زبور۶۶)۔’’ اُمرا مصر سے آئيں گے ۔ کوش کے باشندے اپنے ہاتھ خدا کی طرف بڑھائیں گے ۔ اے زمین کی مملکتو ۔ خدا کے گیت گاؤ‘‘( زبور۶۸) سمندر سے دوسرے سمندر تک اور بحر سے انتہا زمین تک خدا کا حکم جاری ہوگا۔ وہ جوبیابان کے باشندے ہیں اس کے حضور جھکیں گے ساری گروہیں اورقبائل اس کی عبادت کریں گی۔ جب تک آفتاب رہے گا اس کے نام کا رواج ہوگا۔ تمام اقوام خدا کو مبارک کہیں گی ۔ تمام جہان اس کے جلال سے معمور ہے‘‘( زبور۷۲) اقوام عالم خدا کے نام سے ڈریں گی خداوند کا نام صیہون میں بلند کیا جائے گا جب کہ امتیں اورمملکتیں خداوند کی عبادت کے لئے ایک ساتھ جمع ہوں‘‘ ( زبور۱۰۲)۔’’ خدا ہم پر رحم کرے اورہم کو برکت دے۔ اپنے چہرے کو ہم پر جلوہ گرفرمائے تاکہ تیری راہ ساری زمین میں جانی جائے اور تیری نجات سب اقوام میں۔امتیں خوش ہوں کہ توزمین پر کی امتوں کی ہدایت کرے گا۔ خدا ہم کو برکت دے گا اورزمین کے سارے کنارے اس کا خوف مانیں گے ( زبور۶۷) ’’ اے خداوند ساری اقوام جن کو تونے خلق کیا آئیں گی اور تیرے حضور سجدہ کریں گی اورتیرے نام کی بزرگی کریں گی کہ توہی واحد خدا ہے‘‘( زبور۸۶)۔ ’’خداوند کے لئے گاؤ۔ اس کے نام کو مبارک کہو۔ روز بروز اس کی نجات کی بشارت دو۔ دنیاکی امتوں کے درمیان اس کے جلال کو تمام اقوام کے درمیان اس کی عجائب قدرتوں کو بیان کرو۔ کیونکہ خداوند بزرگ اورنہایت ستائش کے لائق ہے۔ دنیاکی امتوں کے معبود ہیچ ہیں پر آسمانوں کا بنانے والا خداوند ہے۔اے قوموں کے گھرانوں خداوند کی حشمت وقدرت کو جانو۔ اس کی بزرگی کرو اس کی بارگاہوں میں آؤ۔ خداوند کو حسنُ تقدس کے ساتھ سجدہ کرو۔ اے ساری زمین ۔ اقوام عالم کے درمیان اعلان کرو کہ خداوند سلطنت کرتا ہے‘‘( زبور۹۶ وغیرہ وغیرہ)۔

(۱۰۔) اس صداقت پر کہ اسرائیل کا نصب العین یہ ہےکہ اقوام عالم کو خداوند کا عرفان بخشے ۔زور دینے کےلئے عہد عتیق کی کتب کے مجموعہ میں روت کی کتاب اوریوناہ کی کتاب کا وجود خودایک زبردست دلیل ہے۔ روت کی کتاب کی ہیروئن ایک موابی عورت ہے جو غیر یہود تھی۔ لیکن اس کا وجود یہ ثابت کرتاہےکہ اہل اسرائیل کو اپنا نصب العین یاد تھاکہ اس کی ہستی کا واحد مقصد یہی ہے کہ غیر یہود کو خداوند کاعلم بخشے ۔

(۱۱۔) یونا ہ کی کتاب۔ سیدنا مسیح سے صدیوں پیشتر لکھی گئی ہے۔ اس کا واحد سبق یہی ہے کہ خدا کی نجات اوراس کا رحم تمام اقوام پر حاوی ہے خواہ وہ یہود ہوں یا غیر یہود۔ اس کتاب میں یوناہ د رحقیقت بنی اسرائیل کی ایک مثال ہے ۔ خدا نے بنی اسرائيل کے سپرد یہ خدمت کی تھی کہ اقوام عالم میں اس کے عرفان کوپھیلانے کا اور اس کی نجات کی اشاعت کا ذریعہ ہو۔لیکن یوناہ کی طرح بنی اسرائيل نے اس ذمہ واری سے انکار کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح مچھلی نے یوناہ کو نگل لیا۔ اسی طرح بابل نے بنی اسرائیل کو تباہ کردیا۔لیکن جس طرح مچھلی نے یوناہ کو زندہ اگل دیا۔ اسی طرح بنی اسرائیل بابل کی قید سے واپس یروشلیم آگئے ۔ تب پھر خدا نے ایک اور موقعہ بنی اسرائیل کو دیاکہ وہ خدائے واحد کی نجات کو غیر یہود اور اقوام عالم تک پہنچائے ،لیکن یوناہ کی طرح بنی اسرائیل نے بھی اپنا دل سخت کرلیا اوراس کی بجائے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے وہ اپنے دین اورمذہب کے سایہ میں بیٹھ گئے۔ جس طرح یوناہ کدوکی بیل کے سایہ میں بیٹھ گیا اوراس بات کے منتظر ہونے لگے کہ خدا غیر یہودکو تباہ اوربرباد کرے ۔لیکن خدا کے دل پر اسرائيل کی یہ حالت دیکھ کر چوٹ لگی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کےدل میں تبدیلی دیکھےاوربنی اسرائیل اپنی زندگی کے واحد مقصد کو سر انجام دیں اور اقوام عالم کو خدا کی نجات کی بشارت دینے کا ذریعہ ہوں۔

(۱۲۔) عہد ِ عتیق کی کتب کے مجموعہ کی کتاب ملاکی نبی میں جو سیدنا مسیح سے قریباً پانچ سو(۵۰۰) سال پہلے لکھی گئی اس صداقت کی ایک جھلک ہم کو دکھاتی ہے اور اس میں پرزور الفاظ میں لکھا ہے ’’ رب الافواج فرماتا ہےکہ آفتاب کے طلوع سے اس کے غروب تک میرا نام اقوام عالم کے درمیان بزرگ ہوگا ‘‘(ملاکی ۱: ۱۱)۔

ہم کہاں تک اقتباس کرتے جائیں اورکس کس کتاب میں سے اقتباس کرتے جائیں ہم نے بخوف ِ طوالت حضرت حجی کا (۵۲۰ ق ۔م) یوایل نبی، ہوسیع نبی (۷۴۰۔ ق۔ م) دانی ایل وغیرہ کی کتُب کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن عہد عتیق کی کتب شروع سے لے کر آخر تک یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بنی اسرائیل کے انبیاء مرسل اور زبور نویس سب کے سب اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اہل یہود کو خدا نے صرف اس مقصد کی خاطر اقوام عالم میں سے چن لیا ہے کہ ان کے ذریعہ خدا کاعلم اکناف (کنف کی جمع،کنارے ،سمتیں)واطراف اور اقصائے(بہت دور) عالم میں پھیل جائے تاکہ تمام روئے زمین کی اقوام خدا کی نجات کو نورُ سے منور ہوجائیں۔

(۲)

بنی اسرائيل نے سیدنا مسیح سے دو سو پچاس (۲۵۰)سال سے لے کرا یک سو پچاس(۱۵۰) سال پیشتر تک اپنی الہامی کتُب کا ترجمہ یونانی زبان میں کیا تاکہ اس نصب العین اوراپنی بھاری ذمہ داری کوپورا کرے۔یونانی زبان ان دنوں میں تمام مہذب ممالک اور اقوام کی زبان تھی۔ پس اس ترجمہ کےذریعہ جو سپٹواجنٹ کہلاتاہے اہل یہود نے کوشش کی کہ اپنے اس فرض سے جس کا بار خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے کندھوں پر ڈالا گیا تھا سبکدوش ہو(فارغ ہونا)جائیں اورخدا کی نجات کا علم ان سب پر ظاہر ہوجائے جو یونانی زبان سمجھ سکتے یا لکھ پڑھ سکتے تھے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ترجمہ غیر یہود کو خدا کے پاس لانے میں اس قدر موثر ثابت ہوا کہ اس کوالہامی ترجمہ قرار دےدیا گیا اور سیدنا مسیح کے زمانہ میں یہ ترجمہ اس قدد مقبول عام تھاکہ آپ کے حوارئین اس کو استعمال کیا کرتے تھے۔ اس ترجمہ کا وجود اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اہل یہود اوران کے انبیاء کی نظر تنگ نہ تھی بلکہ وہ اپنے مذہب کو کل دنیا کے لئے نور اور برکت کا باعث خیال کرتے تھے۔

(۳)

رسول ِ عرب حضرت محمد جیسے نکتہ شناس شخص نے بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ،اگرچہ ان کے پیرو اس نکتہ کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ’’ موسی ٰ کی کتاب امام اورحمت ہے ‘‘(سورہ ہود آیت ۲۰)۔ ’’ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے‘‘ (مائدہ آیت ۴۸)۔ ’’ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگوں کو راہ سمجھانے والی اورہدایات اوررحمت تھی۔ توکہہ اگر تم سچے ہو تو تم الله کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لاؤجو ہدایت میں ان دونو(یعنی تورات اور قرآن) سے بڑھ کر ہو تو میں (محمد) اسی پر چلنے لگوں گا‘‘( قصص آیات ۴۳و ۴۹)۔ مذکورہ آیات اوردیگر قرآنی آیات سے (جن کا اقتباس کرنے سےہم پرہیز کرتے ہیں )ہم کو معلوم ہوتاہےکہ رسول عربی اہل یہود کے ساتھ اس بات پر متفق تھے کہ یہودی کتب مقدسہ کلُ دنیا کی پیشوا،رحمت ، ہدایت اورنور ہیں جو لوگوں کو راہ سمجھانے والی ہیں اور آنحضرت اسی واسطے ان پر عمل پیرا بھی تھے۔

(۴)

سیدنا مسیح کی پیدائش سےدو صدیاں پہلے بنی اسرائیل کی تاریخ میں ایک زمانہ آیا جب یونانی اہل یہود پر حکمران تھے۔ اس زمانہ میں یونانی حکمرانوں نے سر توڑ کوشش کی کہ یونانی تہذیب اورکلچر یہودیت پر غالب آجائے ۔ معاملات نے یہاں تک طول پکڑا کہ یہودیت اوریہودی مذہب کی جان خطرے میں پڑگئی ۔ کیونکہ اہل یہود میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو یونانی تہذیب وخیالات سے متاثر ہوچکے تھے۔ جس طرح فی زمانہ ہندوستان کے ہندوؤں اورمسلمانوں میں بہت سے ایسے ہیں جومغرب کےعاشق اورمغربی خیالات کے گرویدہ اور مغربی رسومات کےشیدائی ہیں۔ بعینہ اسی طرح اہل یہود میں سے بہت لوگ ایسے تھے جو فاتح حکمران یونانیوں کے خیالات اور رسومات وغیرہ سے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کہ وہ اپنے مذہب اور دین حلقہ کے اصول کو عملاً خیر باد کہہ چکے تھے۔ پس حالات جس طرح دور حاضرہ کے کٹر ہندو یا کٹر مسلمان اپنے دین ومذہب کی حفاظت کی خاطر اور مغرب زدہ ہندوؤں اورمسلمانوں کو اپنے حلقہ کے اندر رکھنے کی خاطر مغرب سے بیزاری اورنفرت رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح مسیح سے دو صدیاں پہلے اہل یہود اپنے مذہب کی حفاظت کی خاطر اوراپنے دین کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لئے تمام غیر یہودی اقوام سے بیزاری حقارت ، کینہ اور دشمنی رکھنے لگ گئے ۔ مثال کے طورپر ہم یہاں ایک مضمون’’ مسلمان کی ذہنیت‘‘ کا جواہل حدیث مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا ملحض دیتے ہیں ایسے مضامین ہر روز ہندو مسلمان اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ جو کنعان کے ان یہودیوں کی ذہنیت کو ہم پر آشکارا کرسکتے ہیں۔

’’مسلمانوں کی حالت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ جس قدر ان میں مغربی تعلیم ترقی پذیر ہوتی جاتی ہے اسی قدر ان میں مذہبی احساس تنزل پذیر ہوتا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ ان کا مطمع نظر محض تعلیم اسلام کی ترمیم اورتنسیخ کرنا ہے اوربس جب کوئی امر شرعی نقطہ نگاہ سے ان کے سامنے پیش کیا جاتاہے تو اس کو اپنی منظور نظر مغربی تہذیب کے خلاف پاکر نہایت حقارت آمیز لہجہ سے رد کردینے سے ان کو مطلق باک نہیں ہوتا۔ وہ اسلام کو آباواجداد کی رسوم پارینہ(پُرانا) سے زیادہ وقعت نہیں دیتے۔ یہ روشن خیال مسلمان شریعت اسلام کی پابندی کو مد نظر رکھے بغیر مسلم قوم پر نیارنگ چڑھانے اوران میں مغربی تہذیب کی نئی جھلک پیدا کرنے کی کوشش میں سرگرم نظرآتے ہیں۔ یہ خیالات مسلمانوں کی کس قدر خطرناک ذہنیت کا اظہار کرتے ہیں کہ باوجود مسلمان کہلانے کے الله اوراس کے رسول کے نام سے اس قدر نفر ت پیدا ہو۔ اس سے اہل مشرق متاثر ہورہے ہیں کہ معالم شریعت اور شعائر(قربانیاں ،نشانیاں ،رسوم ،فرائض) اسلام ان کے دلوں سے محو ہوتے جاتے ہیں۔ آج خود مسلمان اسلام کے طرز ِتمدن پر، اس کی تعلیم پر ، اس کے تخیل پر اس کے اصول وفروغ پر نکتہ چینی کررہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگریہی حالت اور رہی تو مسلمان صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے ۔ الله نے صاف فرمایا تھاکہ مسلمانو تم اپنے ان دوست نما دشمنوں سے قطعاً دوستی پیدانہ کرو مگر یہ انہی میں جذب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مسلمانو تم اسلام کے سچے اورپکے پرستار بن جاؤ اوراپنا دستور العمل محض کلا م الله اورحدیث رسول الله کو بنالو‘‘۔

بعینہ اسی طرح کنعان کے اہل یہود کو یہ خوف لاحق ہوگیا تھا کہ مبادا ان کے بچے رومی یونانی تہذیب سے متاثر ہوکر اپنی جداگانہ ہستی کو کھو بیٹھیں اور مشرک کفار میں جذب نہ ہوجائیں اوران کی ’’مہذب ‘‘ سوسائٹی اور طرز معاشرت اور طریق تمدن کو اختیار کرکے موسوی شریعت سے روگردانی اختیار نہ کرلیں۔ پس وہ ہربات سے جس سے یونانیت کی بوُ آتی تھی نہ صرف گریز کرتے تھے اور دوسروں کو اس سے دور رہنے کی تعلیم دیتے تھے ،بلکہ اس سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہودا اور غیر یہود کے درمیان ایک خلیج قائم ہوگئی جو امتداد زمانہ سے زيادہ وسیع ہوتی گئی۔ یہ خلیج ہم کو خداوند کے زمانہ میں انجیل کے ورقوں سے ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔

پس ان بیرونی حالات اور تاثیرات کی وجہ سے ارض مقدس کنعان میں رہنے والے یہودی پہلی صدی قبل از مسیح اپنے قوم کے حقیقی نصب العین کو فراموش کرچکے تھے۔ بنی اسرائیل کے وہ شرکا جو یہودیہ اور یروشلیم میں رہتے تھے غیر اقوام سے دشمنی اور عداوت رکھتے تھے اوریہ عداوت اس درجہ تک پہنچ چکی تھی کہ وہ غیر یہود کے ساتھ خواہ وہ یونانی تھے یا سامری کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اس کانتیجہ یہ ہواکہ یہودیہ اور یروشلیم کے رہنے والے یہودی اپنے قومی تعصبات سے اس قدر بھر گئے کہ انہوں نے اپنی کتب مقدسہ کے احکام سے روگردانی اختیار کرلی۔ اور غیر یہود میں تبلیغ کا کام چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے انبیا کے پیغام کو پس ِ پشت پھینک دیا اوراپنے نصب العین سے بے تعلقی اختیار کرلی۔ چنانچہ دور حاضرہ کا یہودی فاضل ڈاکٹر مونٹی فیوری کہتاہے کہ

’’ ربیوں کے زمانہ کی یہودیت غیر اقوام کی طرف سے بے پروا تھی۔ اس زمانہ کے یہودی ان کو نفرت اور حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور غیر یہود کفار کو پرلے درجے کے جہنمی خیال کرتے تھے‘‘

(Judaism and Paul p.56)

ایک اورجگہ یہی عالم ہم کو بتلاتا ہےکہ

’’ اگرچہ بعض اوقات ربی کہنے کو توکہے دیتے تھے کہ جس طرح بنی اسرائیل ابراہیم کی اولاد ہیں اسی طرح غیر اقوام میں سے جو یہودی مذہب قبول کرتے ہیں وہ بھی ابراہیم کی اولاد ہیں لیکن عملی طورپر غیر اقوام کو یہودیت کے حلقہ بگوش ہونے میں سخت اوربے شمار مشکلات کا سامنا کرناپڑتا تھا ‘‘۔

(Hibbert Journal, July 1912.p 767 to 773)

یہود کے سردار کاہنوں نے خدا کی ہیکل (بیت الله ) کے اس حصہ کو جوغیر اقوام کی عبادت کے لئے مخصوص تھا تجارت کرنے والوں کو دے رکھا تھا (مرقس ۱۱: ۱۵) ۔جہاں تک ان کا بس چلتا وہ کسی قوم کو وہاں پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ مقدس پولوس اپنے ساتھ ایک غیر یہودی ’’ٹروفی مس‘‘ کو جو افسس کا رہنے والا تھا غیراقوام کی جائے مخصوص میں لے گیا تھا تو اہل ِیہود اس پر ٹوٹ پڑے تھے(اعمال ۲۱: ۲۹)۔یو ں اہلِ یہود کے قائدین اعظم نے خدا کی ہیکل کی بنیاد کو اپنے تبلیغی فرض کے انکار پر قائم کر رکھا تھا۔ ’’ ہیکل کے اندر اسرائیلی احاطہ اورغیر اقوام کے احاطہ کے درمیان پتھر کی ایک دیوار حدِ فاصل (فاصلے کوقائم رکھنے والی حد)قائم تھی۔ جس پر یونانی اورلاطینی زبانوں میں یہ کتبہ لکھا تھا۔ کسی غیر یہود کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی اس قانون کو توڑ کر حد سے تجاوز کرے گا تو اس کو سزا ئے موت دی جائے گی ۔جس کے لئے اس شخص کے سوائے کوئی اور ذمہ دار گردانا نہیں جائے گا‘‘۔

ہاں وہ یہودی جو ارض مقدس کنعان کے باہر رہتے تھے اورجن کا سابقہ رات دن غیر یہود سے پڑتا تھا اورجو یونانی رومی تہذیب سےقدرے متاثر ہوچکے تھے وہ تنگ نظر نہ تھے۔ وہ قدرتی طور پر وسیع الخیال واقع ہوئے تھے۔ قومی تعصبات نے ان کے دل سے ان کی ہستی کے حقیقی نصب العین کو مٹا نہیں دیا تھا اور وہ اپنی کتب مقدسہ کے احکام کو فراموش نہیں کرتے تھے اور غیر اقوام میں خداوند کی معرفت کا علم پھیلانے میں کوشاں رہتے تھے۔ پس ارض ِمقدس کی حدود کے باہر یہودی حلقہ میں ایسے خدا ترس لوگ موجود تھے جو اہل یہود کے وجود کے مقصد اور نصب العین کو پیش نظر رکھتے تھے ۔ وہ اس بات کو فراموش نہیں کرتے تھے کہ اہل یہود کا صدیوں سے یہ نصب العین رہا تھاکہ ان کا وجود دنیا کے لئے موجب ِ برکت ونجات ہے۔ پس اگرچہ سیدنا مسیح کے زمانہ میں کنعان کے اہل یہود غیر اقوام کو ا ن کی بُت پرستی اور دیگر قبیح (شرمناک ،معیوب)رسوم کی وجہ سے نفرت اور حقارت سے دیکھتے تھے ۔تاہم اس گئے گذرے زمانہ میں بھی کنعان کے باہر یہود کا تبلیغی کام دیگر اقوام کے درمیان نہایت وسیع پیمانہ پر جاری تھا(متی ۲۳: ۱۵)۔ یہودی مورخ یوسیفس کی تصنیفات سے بھی یہ ظاہر ہوتاہے کہ

اہل یہود مرید کرنے کے لئے خشکی اور تری ، زمین اور سمندر کا سفر کیا کرتے تھے۔ ان کے درمیان کتب مباحثہ ومناظرہ رائج تھیں جن کے ذریعہ وہ دیگر اقوام پر ان کے معبودوں کی بطالت اوربُت پرستی کی خدمت اوریہودیت کی صداقت کو ثابت کیاکرتے تھے۔

عبادت خانوں میں ’’ بیگانوں ‘‘ کو جانے کی اجازت تھی اوریہودی مذہب کے تبلیغی کام کے لئے عبادت خانوں کا استعمال وسیع پیمانہ پر کیا جاتا تھا۔ جس پر انجیل جلیل بھی ناطق (بولنے والا،دوسرے کو عاجز اور خاموش کردینے والا)ہے چنانچہ لکھاہےکہ ’’ قدیم زمانہ میں ہر شہر میں جوموسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ سبت کو عبادت خانوں میں سنائی جاتی ہے تاکہ باقی آدمی یعنی سب دیگر قومیں جومیرے نام کی کہلاتی ہے خداوند کو تلاش کریں (اعمال ۱۵: ۱۷، ۲۱)۔

پروفیسر ایڈورڈ مائر ( Edward Meyer) کا اندازہ ہے کہ

اسوری اوربابل کی اسیریوں سے پہلے بنی اسرائیل کے دوزادہ قبائل کی کل تعداد ساڑھے سات لاکھ تھی۔ لیکن ان واقعات کے چھ صدیاں بعد جب بنی اسرائیل سلطنتِ روم کے ماتحت تھے اہل یہود کی تعداد چالیس اورستر لاکھ کے درمیاں تھی۔ رومی سلطنت کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سلطنت کی آبادی میں ایک ہزار شخص میں سے ستر اشخاص یہودی تھے۔

(( Legacy of Israel p.29

اس اعداد وشمار سے ہم کچھ اندازہ لگاسکتے ہیں اہل یہود نے ان چھ صدیوں میں غیر اقوام میں سے کتنے لاکھ اشخاص کو یہودیت کا حلقہ بگوش کرلیا تھا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی صدی قبل از مسیح اورپہلی صدی عیسوی میں یونانی رومی دنیا میں ان یہودی مبلغین نے ارض مقدس کے باہر تبلیغ کا سلسلہ ایسے وسیع پیمانہ پر جاری کر رکھا تھاکہ جب مسیحی مبلغین مسیحیت کی منادی کے لئے ایشیائے کوچک اوریونان کے شہروں میں گئے تو وہاں ان کو غیر اقوام میں سے یہودی نومریدوں کے گروہ ملے جنہوں نے اپنے مذاہب باطلہ کو خیر باد کہہ رکھا تھا اوروہ اسرائیل کے واحد خدا پر ایمان لے آئے تھے۔ یوں مسیحی مبلغین کو ایک تیار زمین ملی جس میں انہوں نے انجیل کا بیج بویا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونانی رومی دنیا کی غیر اقوام موحد گروہ یہودیت کو چھوڑ کر مشرف بہ مسیحیت ہوگئے ۔

(۵)

پس جب اہل یہود کی تاریخ پر نظر کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ منجی عالمین اورآپ کے حوارئین کے زمانہ تک اہل یہود صدیوں سے یہ مانتے چلے آئے تھے کہ ان کی قوم کو خدا نے روئے زمین کی اقوام میں سے چن لیا ہے تاکہ وہ اپنے روحانی پیغام کے ذریعہ تمام دنیا کے برکت پانے کا وسیلہ ہوں۔ ان کا یہ عقیدہ تھاکہ آسمان کی بادشاہت کے قائم ہونے سے یہ برکت اقوام عالم کو ملے گی اورکہ اس بادشاہت کو قائم کرنے والا ایک فوق الفطرت شخص ہوگا۔ جو یہودی نسل میں سے ہوگا ۔ ان کی کتب مقدسہ اس شخص کی آمد کی منتظر تھیں۔ بالفاظ دیگر یہودی قوم کی کتب مقدسہ میں اس بات کا انتظار پایا جاتا ہے کہ یہودی مذہب میں سے ایک مذہب نکلے گا جو عالم گیر ہوگا اورجس کا قیام مسیح موعود کی ذات اور شخصیت کے ساتھ وابستہ ہوگا۔

(۶)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ ممکن ہے کہ کلمتہ الله تورات مقدس اور صحائف انبیاء کا مطالعہ کرکے اوران کے مطمح نظر سے واقف ہوکر اور یہودی مذہب کے نصب العین کومدِنظر رکھ کر اوراہل یہود کی سر توڑ تبلیغی مساعی سے واقف ہوکر اوراپنے آپ کو مسیح موعود جان کر جس کی ذات کے ساتھ اقوام عالم کی نجات وابستہ تھی خوواپنی رسالت کے دائرہ کو جان بوجھ کر تنگ کردیتے اورایسے کوتاہ بین ہوتے کہ اپنے مشن کو صرف اسرائيل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئےہی محدود محال کرتے ؟ کیا کوئی صحیح العقل شخص ایسی بات تسلیم کرسکتا ہے؟ اگر خداوند کا ایسا خیال ہوتا تو وہ اپنے ہمعصر یہود سے بھی زیادہ تنگ خیال تنگدل اور کوتاہ بین ہوتے ۔لیکن کیا یہ حق ہے کہ کلمتہ الله اپنے زمانہ کے یہود سے بھی زیادہ تنگدل اور کوتاہ بین واقع ہوئے ہوتے ؟ جس شخص نے قرآن شریف اور انجیل جلیل کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے وہ فوراً اس سوا ل کا جواب نفی میں دے گا۔ انجیل کا سطحی مطالعہ بھی اس بات کو ظاہر کردیتا ہے کہ کلمتہ الله کے دل اور دماغ پر اس خیال کا تسلط تھاکہ آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں جس کے وسیلے دنیا کی کلُ اقوام برکت پائیں گی جو شخص کنفوشیس سے واقف ہے وہ اس کو چین کا نبی کہے گا۔ مہاتما بدُھ کی ذات ہندوستان سے مخصوص ہے۔ حضرت محمد صاحب کو محمد عربی ہے کہا جاتا ہے ۔لیکن کلمتہ الله کو کوئی شخص گلیلی نبی نہیں کہتا ہے۔ آپ کو ’’ ابن آدم‘‘ ہی کہا جاتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آپ کا پیغام تمام دنیا کی تمام اقوام کے تمام آدمیوں کے لئے نجات اور انجیل یعنی ’’ خوشخبری‘‘ کا پیغام تھا۔

(۷)

انجیل جلیل کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدنا مسیح کے ہمعصر اہلِ یہود میں سے جو لوگ مسیحِ موعود کے منتظر تھے۔ ان کا بھی یہی خیال تھا ۔مسیح موعود کا وجود اہل یہود اور دیگر اقوام کے لئے نور اور برکت کا موجب ہوگا۔ ان کا یہ عقیدہ تھاکہ خداوند قدوس اورکل دنیا کا خالق ہے ۔ خدا کی وحدانیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کل اقوام عالم کا واحد پروردگار ہو۔لہذا وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسیح کی بادشاہت میں ہرقوم اور ملک کے راستباز شریک ہونگے پس جو ’’ خدا ترس‘‘ مسیح موعود کے منتظر تھے ان کا یہ ایمان تھاکہ وہ اپنی ’’ آنکھوں‘‘ سے خدا کی ’’ نجات‘‘ کو دیکھیں گے جو خدا نے مسیح موعود کے وسیلے ’’سب اُمتوں کے روبرو تیار کی بنے تاکہ وہ اقوام عالم کو روشنی دینے والا نور اور اسرائیل کا جلال ہے‘‘ (لوقا ۲: ۳۲)۔ یہ سب راستباز منتظر اس امید میں تھے کہ مسیح موعود کےذریعہ زبولون کا علاقہ اور نفتالی کا علاقہ دریا کی راہ، یردن کے پارغیر یہوداقوام کی گلیل میں جو لوگ اندھیرے میں بیٹھے ’’ہوں گے وہ بڑی روشنی‘‘ دیکھیں گے اور جو ’’ موت کے ملک اورسایہ میں بیٹھے ‘‘ ہوں گے ان پرروشنی چمکیگی‘‘(یسعیاہ ۹: ۱ تا ۲، متی ۴: ۱۵)۔

حضرت یوحنا بپتسمہ دینے والے نے جو مسیح موعود کا پیشرو تھا اپنے ہمعصروں کو یہ جتلادیا تھاکہ ’’ توبہ کے موافق پھل لاؤ اوراپنے دلوں میں یہ کہنا شروع نہ کرو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا ان پتھروں سے ابراہیم کے لئے اولاد پیدا کرسکتا ہے‘‘( لوقا ۳: ۸) اس کا مطلب یہ تھاکہ ہر قوم کا آدمی جو صالح اعمال کرے گا نجات پائے گا اور وہی مسیح موعود کا حقیقی پیرو ہوگا نہ کہ وہ اپنے آپ کو آل ِ ابراہیم کہے گا اوراہل اسرائیل کے زمرہ میں شمار ہوگا۔

یہاں وہی سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ کیا کلمتہ الله اپنے انتظار کرنے والوں اوراپنے پیشرو حضرت یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بھی زیادہ تنگ خیال اورکوتاہ نظر تھے کہ وہ اپنی رسالت کو صرف اہل یہود تک ہی محدود خیال کرتے ؟آپ کے پیشروکا یہ قول تھاکہ ’’ جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے میں اس کی جوتی کاتسمہ کھولنے کے لائق نہیں‘‘( لوقا ۳: ۱۶) ۔انجیل جلیل کا ہر ناظر(محافظ) یوحنا بپتسمہ دینے والے کے قول کی تصدیق کرکے کہے گا کہ یقیناً کلمتہ الله اپنے ہمعصر یہود سے اپنے انتظار کرنے والوں سے اوراپنے پیشرو سے کہیں زیادہ فراخ دلی اور دورُبین واقع ہوئے تھے(متی ۹: ۱۴۔ ۱۱: ۲، لوقا ۱۱: ۳۱، ۳۲۔ مرقس ۷باب ، متی ۱۵: ۱۲) اہل یہود کے حقیقی نصب العین کے علم میں ابن الله اپنے ہمعصروں سے بہت دورُ نکل گئے تھے اوراس کا حضرت یوحنا بپتسمہ دینے والے کو خود اقرار ہے(یوحنا ۱: ۳۰، متی ۱۱: ۱۱) کلمتہ الله کی نجات کا پیغام اس قدر وسیع تھاکہ وہ کل بنی آدم پر اورہر زمانہ اور ہرملک اورہر قوم کے ہر فرد بشر پر حاوی تھا(یوحنا ۳: ۱۶) وغیرہ۔

فصل سوم

سیدنا مسیح کےکلمات ِ طیبات

اور

آپ کا طرزِ عمل

اس سوال کے جواب میں کہ آیا مسیحیت عالم گیر مذہب ہے یاکہ نہیں منجیِ جہان کے اقوال اوراحکام آپ کی ہدایات اورآپ کالائحہ عمل اور طرزِ عمل ہی فیصلہ کن امور ہوسکتے ہیں۔اگرکلمتہ الله کے کلمات ِطیبات ، پیغامات ِ ہدایات اور طرزِ عمل سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کے خیال میں آپ کی رسالت صرف اہل یہود تک ہی محدود تھی۔ تو مخالفین کے اعتراضات حق بجانب ہونگے اورہم کو اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ کلمتہ الله صرف ایک یہودی مصلح تھے اوردیگر انبیاء اورمرسلین کی مانند صرف ایک نبی اور مرسل من الله تھے ۔لیکن اگرابن الله کے اقوال واحکام وپروگرام ، پیغام اور طرزِ عمل سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کے اپنے خیال میں آپ کی رسالت اہل یہود اوردیگر اقوام دونوں کے لئے تھی تو صحیح اصول تفسیر کے مطابق جن کا ذکر فصل اول میں کیا گیا ہے مسیحیت کا دعویٰ حق بجانب ہوگا کہ اس کا بانی فی الحقیقت دنیا کا منجی ہے( یوحنا ۴: ۴۲) اورایک ایسی لاثانی اوریکتا ہستی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر نہیں ملتی اوراگریہ نتیجہ درست ہے تو خداوند کےان اقوال کا جوان آیات میں درج ہیں جن کی بنا پر اعتراض کیا گیا ہے وہ مطلب ہرگز نہیں جو معترض نے لیا ہے۔ بلکہ ان اقوال کے مطالب ومعانی اور غرض وغایت کچھ اورہی ہوگی۔

سیدنا مسیح اور عہد عتیق کی کتُب

گذشتہ فصل میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ کلمتہ الله نے عہد عتیق کی کتُب کےگہوارہ میں پرورش پائی ۔ سیدنا مسیح نے اپنی کتب مقدسہ کا بچپن ہی سے مطالعہ کیا اورخدا کے ارادہ اور مقصد اور رضائے الہیٰ کی نسبت مستفسر(محقق،تحقیق کرنے والا ) رہے(لوقا ۲: ۴۰تا آخر )۔آپ نے ان کتب کے مطالعہ کو ہمیشہ حرزجاں بنایا(بہت عزیزسمجھنا ،بے حد احتیاط سے رکھنا ) اوردکھ مصیبت اورتکلیف میں یہی کتب آپ کی تسلی کا باعث تھیں (زبور ۴۳: ۵۔ ومتی ۲۶: ۲۸۔ زبور ۶: ۴، ۴۲: ۶ ویوحنا ۱۲: ۲۷: زبور ۲۲: ۲ ومتی ۲۷: ۴۶ ، زبور ۳۱: ۵ ولوقا ۲۳: ۴۶ وغیرہ)۔ آپ کا علم اس قدر وسیع تھاکہ آپ ان کتب کی ایک ایک بات سے واقف تھے اور اپنی تعلیم میں بیسوں(۲۰) دفعہ آپ نے ان کتب کے واقعات واشخاص کا ذکر کیا (یسعیاہ ۵۱: ۱۷،یوحنا ۱۸: ۱۱، متی ۲۶: ۳۹۔ حبقوق ۲: ۱۱، ولوقا ۱۹: ۴۰۔ زبور ۶: ۸ ومتی ۷: ۲۳، زبور ۱۴۷: ۹، لوقا ۱۲: ۲۴۔ یرمیاہ ۲۲: ۵۔ ومتی ۲۳: ۳۸، زبور ۱۱۸: ۲۶: ومتی ۲۳: ۳۹۔ ہوسیع ۱۰: ۸، لوقا ۲۳: ۳۰۔ زبور ۹۱: ۱۳۔ ولوقا ۱۰: ۱۹ ۔ یسعیاہ ۶: ۹ ۔ لوقا ۸: ۱۰۔ یسعیاہ ۱۴: ۱۳۔ ولوقا ۱۰: ۱۵۔ میکاہ ۷: ۶۔ ولوقا ۱۲: ۵۳، یسعیاہ ۱۹: ۲۔ ولوقا ۲۱: ۱۰۔ متی ۶: ۲۹۔ ۱۲ باب آیات ۳، ۴۰، ۴۲ ، ۲۳: ۳۵۔ لوقا ۴ باب ، ۲۷ ، ۱۷: ۲۶، ۲۹۔یوحنا ۸: ۴۰ وغیرہ وغیرہ)۔

مذکورہ بالا حوالہ جات اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سیدنا مسیح کتب عہد ِعتیق اور صحفِ انبیاء سے کماحقہ واقف تھے۔ آپ ان کتب کو ان نگاہوں سے نہیں پڑھتے تھے جن سے آپ کے ہمعصر ان کا مطالعہ کرتے تھے۔ کنعان کے یہود کے کے لئے یہ کتب شرع اور الہیٰ احکام کا فقط ایک مجموعہ تھیں ۔جن کی شرح اور تفسیر کرنا ربیوں اور فقہیوں کا کام تھا۔ سکندریہ کے یہود کے نزدیک یہ کتب پوشیدہ اور مخفی رازوں کا ایک مجموعہ تھیں ۔جن کو وہ اپنے فلسفیانہ نظریوں کے مطابق سمجھنا اور لوگوں کو سمجھانا چاہتے تھے۔ لیکن کلمتہ الله کی نظر میں یہ کتب خدا کے ساتھ رفاقت رکھنے کا ذریعہ تھیں۔ فقہا ان میں علم ِفقہ کے نکتے ڈھونڈتے تھے۔ فلاسفر ان میں اپنے فلسفہ کا سہارا پاتے تھے۔ لیکن کلمتہ الله ان کتُب میں خدا کے ازلی ارادوں کی تلاش کرتے تھے۔

خرد کی گتھُیاں سلجھا چکے سب

میرے مولا مجھے صاحب ِجنوں کر

الہیٰ مقاصد سے واقف ہوکر کلمتہ الله رضائے الہیٰ کوپورا کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے(مرقس ۱۲: ۲۴: تا آخر ۔متی ۱۹: ۸ وغیرہ)۔

پس کلمتہ الله اس بات سے کماحقہ واقف تھے کہ خدا نے قوم اسرائیل کو چنا ہے تاکہ اقوام عالم میں خدا کی معرفت کا علم اکناف ِ(کنف کی جمع ،اطراف) عالم تک پہنچائے۔آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ شریعت موسیٰ اورصحائفِ انبیاء کا نصب العین ہیں (لوقا ۴: ۲۱) آپ نے اپنی خدمت کی ابتدا میں علی الاعلان (گواہوں کے روبرو،بے روک ٹوک)یہودی عبادت خانے میں فرمایاکہ صحائف ِ انبیاء آپ کی ذات میں پوری ہوئیں۔ آپ نے عامتہ الناس کو صریح (صاف ) الفاظ میں بتلادیا کہ آپ شریعت اور صحائف انبیاء کو کامل کرنے کی غرض سے اس دنیا میں آئے ہیں اور فرمایا کہ آسمان وزمین ٹل جائیں لیکن کتب مقدسہ کا آپ کی ذات میں ِمبارک میں کامل ہونا لازمی اورلاابدی امر ہے ( متی ۵: ۱۷: ۱۷)۔چنانچہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں آپ نے صلیب پر سے یہ اعلان فرمایاکہ آپ نے سب کچھ کامل کردیا (یوحنا ۱۹: ۳۰) ۔ آپ نے خدا کے ازلی ارادہ اور مقصد کو پورا کرنے کے لئے یہودی کتب مقدسہ میں ان تمام امور کو یکسر خارج کردیا جو غیر یہود کو خدا کے پاس آنے کی راہ میں حائل تھے ،تاکہ یہود اور غیر یہود اورکل ُ بنی نوع انسان خدا کی نجات سے بہرہ ورہوکر خدا کی عالمگیر بادشاہت کے وارث ہوجائيں۔

سیدنا مسیح کی تعلیم کی بنیاد

سیدنا مسیح کی تعلیم کی اساس یہ ہیں کہ خدا کل بنی نوع انسان کا باپ ہے اورکلُ جہان کے انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔چنانچہ آپ نے اس حقیقت پر نہایت زور دیا (متی ۷: ۲۱ وغیرہ)۔صرف پہاڑی وعظ میں آپ نے خدا کو ۷ دفعہ ’’باپ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ خدا جو ہمارا باپ ہے وہ رب العالمین اوردنیا کا پروردگار ہے اس کی ذات محبت ہے اوراس کی لازوال محبت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ دنیا کا کوئی فرد بشر بھی خواہ وہ کسی قوم یا نسل کا ہو نجات سے محروم رہ جائے (یوحنا ۳: ۱۶ وغیرہ)۔ پس کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق خدا کی محبت اور ابوت پروردگاری اورنجات کسی خاص قوم، ملک ، طبقہ ، نسل ، قبیلہ ، ملت یا فردتک ہی محدود نہیں بلکہ وہ تمام دنیا پربلاکسی امتیاز کے حاوی ہے(متی ۵باب ۴۴آیت تاآخروغیرہ)۔ پس جب آنخداوند کی تعلیم کی بنیادہی ایسی ہے تو صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیدنا مسیح کی نگاہ صرف اہل یہود تک ہی محدود تھی کیونکہ یہ عالمگیر تعلیم انجیل کی کسی ایک آیت پرہی مبنی نہیں بلکہ انجیل کے رگ وریشہ میں اور ہر صحفہ میں پائی جاتی ہے اوراس کے بغیر انجیل کی تعلیم کا تاروپود(تانابانا) بکھر جاتا ہے۔

کلمتہ الله نے ہم کو یہ سکھلایا ہے کہ خدا دنیا کے ہر فرد بشر سے لازوال محبت کرتاہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم ’’ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو تاکہ تم اپنے آسمانی باپ کے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے آفتاب کو بدوں اورنیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اورناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ لازم ہے کہ تم بھی سب بنی نوع انسان سے کامل محبت رکھو جس طرح تمہارے آسمانی باپ کی محبت کامل ہے ‘‘(متی ۵باب ) خدا کی محبت ہر طرح کی فرقہ بندی اورہر قسم کے امتیاز سے بلند وبالا ہے۔جس طرح خدا ایک ہے۔ اسی طرح بنی آدم ایک ہیں اور ایک دوسرے کے اعضا ہیں (رومیوں ۱۲باب وغیرہ) ۔اگرخدا ایک ہے تووہ سب کا سلطان اورسب کے ساتھ یکساں محبت رکھنے والا ہے ۔ کلمتہ الله کی یہ محیر العقول (عقلوں کو حیرانی میں ڈالنے والا)تعلیم دنیا کی کایا پلٹ دینے والی تعلیم ہے (رومیوں ۵: ۶، ۸) ۔ ہر فرد بشر قابل قدر اوروقعت ہستی ہے( متی ۵باب وغیرہ) ۔ اس تعلیم کے مطابق اہل یہود کو غیر یہود پر فوقیت حاصل نہیں اورنہ مختون کو غیر مختون پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہے۔ غلام اور آزاد کی تمیز اٹھ گئی (کلسیوں ۳: ۱۱ ، رومیوں ۱۰: ۱۲۔ ۱کرنتھیوں ۱۲: ۱۳، گلتیوں ۵: ۶وغیرہ)۔ کیونکہ ’’ وہی سب کا خداوند ہے اورجو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پائے گا ‘‘(رومیوں ۱۰: ۱۲)اصول اخوت ومساوات مسیحیت کی روح رواں میں کل بنی نوع انسان خواہ وہ کسی ملک اورقوم اورنسل کے ہوں۔ ایک خدا کے ایک خاندان کےافراد ہیں جو خدا کو باپ کہتے ہیں (مرقس ۱۴: ۳۶، رومیوں ۸: ۱۵، گلتیوں ۴: ۶ وغیرہ)۔

پس جب منجیِ عالمین کی تعلیم کے بنیادی اصول عالم گیر ہیں تو صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق جس کا ذکر فصل اول میں کیا گیاہے لازم ہے کہ ان آیات کو جو اعتراض کی بنا ہیں اس طور پر تفسیر کی جائے جو کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق ہوکیونکہ یہ تعلیم کسی ایک آیت یادس بیس پچاس آیات پر منحصر نہیں۔ بلکہ آپ کی تعلیم کے اصول ہی عالمگیر تھے۔ کلمتہ الله کے مذہب کی عالمگیری انجیل کے رگ وریشہ میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً پہاڑی وعظ میں کیا شے ہےجویہودی مذہب یا کسی دوسری قوم کے ساتھ مختص ہو۔’’خداوند کی دعا‘‘ تمام بنی نوع انسان کی ضروریات کا خلاصہ ہے ‘‘ برکات' (متی ۵: ۱تا ۹) کل نوع انسان پر حاوی ہیں۔ خدا اورانسان کے ساتھ محبت رکھنا ،ا لہیٰ ابوت، انسانی اخوت ومساوات کے اصول ہیں بین الاقوامی اصول ہیں جو کل آدم زاد پر حاوی ہیں۔ کلمتہ الله نے جس اصول کی بھی تلقین فرمائی اس پر سطحی نگاہ بھی ڈالو تو کوئی بات ایسی نہ پاؤ گے جو کسی ایک قوم کے لئے اور دوسری اقوام پر اس کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔

پس جب یہ امر مسلمہ ہے کہ کلمتہ الله کی تعلیم کے اصول کسی خاص ملک یاقوم یازمانہ کےساتھ مختص نہیں تویہ درحقیقت اس امر کا اعتراف ہے کہ آپ کی تعلیم عالمگیر ہے ۔کیونکہ جس اصول کاتعلق تمام بنی نوع انسانی کے ساتھ ہو ،اس میں کسی ایک قوم کو دوسری اقوام پر ترجیح نہیں ہوسکتی۔ بلکہ تمام اقوام اس میں یکساں طورپر شامل ہوتی ہیں اور وہ اصول تمام ممالک وازمنہ اور اقوام کے واسطے ہوتے ہیں۔

ہم نے اوپر لکھاہے کہ مسیحیت کی عالمگیری انجیل مقدس کی کسی ایک آیت یا منتشر آیات پر مبنی نہیں۔ اگرہم اس عالمگیری کےثبوت میں آیات کودرج کرنے لگیں توہم کو بے شمار آیات درج کرنی ہوں گی اورہماری کتاب کے صفحے کےصفحے بھر جائیں گے۔ اگرناظرین میں سے کسی کو شک ہو تو وہ خود اس نکتہ نظر سے انجیل شریف کی آیات کو نقل کرکے ہماری بات کی تصدیق کرسکتاہے۔

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے

حقیقت تویہ ہے کہ مسیحیت کی عالمگیری انجیل کے تاروپود میں پائی جاتی ہے۔ صلیب پر کا کتبہ یونانی، لاطینی اور عبرانی زبانوں میں لکھا گیا تھا۔ (لوقا ۲۳: ۳۸) ۔ یہ ایک تمثیل ہے جس سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ صلیب تمام قوموں کے لئے نجات کی راہ ہے۔ پہلی تینوں انجیلیں ان تینوں اقوام کے لئے لکھی گئی ہیں جن کی زبانوں میں صلیب پر کا کتبہ تھا۔ مقدس متی کی انجیل عبرانیوں کی خاطر لکھی گئی تاکہ ان پر یہ ثابت ہوجائے کہ سیدناعیسیٰ ہی ان کا مسیح موعود ہے۔جس کی عبرانی قوم مدت سے منتظر تھی۔ مقدس مرقس کی ا نجیل روم میں لاطینی نسل کے اقوام کے لئے لکھی گئی جس میں آنخداوند کی وہ تصویر موجود ہے جوبالآخر سلطنت روم کو سیدنا مسیح کے قدموں میں لے آئی ۔ مقدس لوقا کی انجیل یونانیوں کے لئے لکھی گئی اوراس کا مصنف خود غیر اقوام میں سے مشرف بہ مسیحیت ہوا تھا اوراس کی تصنیفات ظاہر کرتی ہیں کہ سیدنا مسیح نہ صرف قوم یہود کے مسیح موعود تھے، بلکہ دنیا کے منجی تھے۔ مقدس یوحنا کی انجیل میں جو کلمتہ الله کی تعلیم درج ہے اس کا کسی ایک قوم اوربالخصوص قوم یہود سے کوئی خاص واسطہ نہیں۔ اس انجیل کے پہلے باب میں درج ہے کہ مسیح خدا کا کلام ہے اوراس کی شخصیت تمام کائنات اور خلفت کامبدا، مرکز اورانتہا ہے۔ اس انجیل میں صاف طورپر واضح کر دیا گیا ہے کہ مسیحیت کا پیغام عالمگیر پیغام ہے اور سیدنا مسیح کی شخصیت کل نوع انسان کی پناہ گاہ۔ آب ودانہ، روشنی اورزندگی ہے وہ کل عالم کی نجات کا دروازہ ہے( یوحنا۱۰: ۹)۔ وہ دنیاکا نور ہے ( یوحنا۸: ۱۲، ۱ :۹ ویسعیاہ ۴۹: ۶ یوحنا ۹: ۵، ۱۲: ۴۶۔)۔وہ زندگی کی روٹی ہے ( یوحنا ۶: ۳۵۔ ۶: ۵۱)۔ وہ آب ِ حیات ہے ( یوحنا ۴: ۱۰: ۷: ۲۷)۔ وہ زندگی کا سرچشمہ ہے ( یوحنا ۱: ۴۔ ۱۱: ۲۵۔ ۱۴: ۶)۔ وہ تمام اقوام ِ عالم کے ان لوگوں کو دعوت دیتا ہے جو شیطان کی غلامی میں تاریکی اور ظلمت میں پڑے بھوکے اورپیاسے مررہے ہیں ( یوحنا۶: ۵۳۔ ۷: ۳۷ وغیرہ)۔وہ

آفتاب آمد دلیل آفتاب

گردلیلت بایدازوے رومتاب

سیدنا مسیح کا لائحہ عمل

جب ہم انجیل شریف کو پڑھتے ہیں تو ہم پر یہ واضح ہوجاتاہے کہ ابتدا ہی سے سیدنا مسیح کی یہ دلی خواہش تھی کہ دنیا کی تمام اقوام خدا کی بادشاہت میں شامل ہوجائیں ۔ چنانچہ انجیل میں وارد ہے کہ شیطان نے سیدنا مسیح کی اس خواہش کو مدِنظر رکھ آپ کے سامنے یہ آزمائش پیش کی اورکہا توچاہتا ہے کہ تو دنیا کی اقوام کوخدا کے لئے حاصل کرے۔ آ۔ میں تجھ کو اس مقصد کو حاصل کرنے کاطریقہ بتلاؤں۔ اگر تو ان وسائل اور ذرائع کو استعمال کرے جو میں تجھے بتاؤں گا تواقوام عالم تجھ پر ایمان لے آئیں گی ۔ لیکن خداوند نے شیطانی طریقوں اوروسیلوں کو استعمال کرنےسے انکار کردیا(متی ۴: ۸تا ۱۰)۔ آپ دنیا کی کل اقوام کوخدا کے واسطے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے دل میں یہ زبردست خواہش موجود تھی کہ اقوام ِ عالم خدا کی بادشاہت میں شریک ہوجائیں لیکن آپ اس اعلیٰ ترین مقصد کو حاصل کرنے کے لئے شیطانی ذرائع استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ صرف اعلیٰ ترین وسائل کےذریعہ خدا کی بادشاہت کو اقوام عالم میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ پس آپ نے صلیب کا راستہ اختیار فرمایا اورعلی الاعلان کہاکہ ’’ ابن آدم اس لئے نہیں آیاکہ خدمت لے بلکہ خدمت کر ے اوراپنی جان بہتیروں کےبدلے میں فدیہ میں دے ‘‘(متی ۲۰: ۲۸)۔

(۲)

سیدنا مسیح نے اپنی خدمت کی ابتداہی میں اپنا لائحہ عمل یہودی اوردیگر اقوام کے سامعین کے سامنے عہد ِعتیق کے ان الفاظ میں پیش کیا جہاں مسیح ِموعود کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اہلِ یہود اوردیگر اقوام کے لئے رسول ہوگا۔ یہودی کتب ِمقدسہ میں مسیح ِموعود کی رسالت کے لئے فعل مستقبل استعمال کیا گیا تھا کیونکہ یہ کتب آنخداوند کی آمد کی منتظر تھیں۔ لیکن خداوند ِ عالمین ان الفاظ کا اقتباس کرتے وقت مستقبل فعل کی بجائے فعل حال استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ناصرت کےعبادت خانہ میں ابن الله نے فرمایا’’ خداوند کی روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھےغریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا ہے۔ اس نے مجھے بھیجا کہ قیدیوں کو رہائی اوراندھوں کوبینائی پانے کی خبرسناؤں۔ کچلے ہوؤں کو آزاد کردوں اورخداوند کےسال مقبول کی منادی کرو ں‘‘ خداوند نے عہد ِ عتیق کی کتاب کے ان الفاظ کا اقتباس کرکے فرمایا کہ ’’ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوگیاہے‘‘ (لوقا ۴: ۱۸تا ۲۱)۔ دوران تقریر میں کلمتہ الله نے ان غیر یہود مردوں اور عورتوں کاذکر کیا جنہوں نے بنی اسرائيل کےانبیا کے ذریعہ برکت پائی تھی ۔ آپ نے فرمایا’’ ایلیاہ کےدنوں میں بہت سی بیوہ عورتیں اسرائيل میں تھیں لیکن ایلیاہ(الیاس) ان میں سے کسی کے پاس نہ بھیجا گیا(مگر غیر یہود) ملک صیدا کےشہر صارپت میں ایک (غیراسرائیلی ) بیوہ عورت کے پاس۔ الیشع نبی کے وقت میں اسرائیل کے درمیان بہت سے کوڑھی تھے لیکن ان میں سے کوئی پاک صاف نہ کیا گیا۔ سوائے نعمان کے جو سوریانی تھا‘‘( لوقا ۴: ۲۶تا ۲۷)۔ کلمتہ الله کےسامعین ان معنی خیز مطاعن (مطعن کی جمع،عیب ۔طعنے)’’ کوسنتے ہی غصہ سے بھرگئے اورانہوں نے اٹھ کر اس کو شہر سے باہر نکال دیا‘‘(لوقا ۲۸:۴)۔

منجی عالمین کا طرزِ عمل

جب اہل یہود نے ابن الله کو شہر بدر کردیا توآپ نے کسی یہودی شہر میں رہائش اختیار نہ کی بلکہ ’’ آپ نے غیر قوموں کی گلیل ‘‘ کو اپنا وطن بنایا (متی ۴: ۱۵)۔اسی گلیل میں (جہاں غیر یہود کثرت سے آباد تھے)۔ کلمتہ الله نے اپنی سہ سالہ خدمت کا زیادہ حصہ صرف کیا۔کفر نحوم میں خداوند نے ایک رومی صوبہ دار کے خادم کو شفا بخشی (متی ۸: ۵۔ ۱۳)۔

وہاں سے خداوند نے ’’ صور اور صیدا‘‘ کی سرحدوں میں تشریف لے گئے (مرقس ۷: ۲۴)۔ جہاں آپ نے آیات زیر بحث کے مطابق ایک سور فینیکی عورت کی لڑکی کو شفا عنائت فرمائی (متی ۱۵: ۲۸)۔ اس جگہ کلمتہ الله نے کئی ماہ صرف کئے ۔ آپ نے کم از کم موسم ِگرما کےسب مہینے یہاں خدمت کی کیونکہ صرف اسی موسم میں اس جگہ سفر کیا جاسکتا تھا۔ اس علاقہ کے جتنے باشندے آپ کے پاس آئے ان کو منجی ِعالم نے تعلیم دی اوران کے مریضوں کو تندرست کیا۔

ان تمام مہینوں کے بعد ’’وہ صور کی سرحدوں سے نکل کر صیدا کی راہ سے دکپلس کی سرحدوں میں ہوتا ہوا گلیل کی جھیل پر پہنچا ‘‘(مرقس ۷: ۳۰)۔جولوگ غیر یہودی علاقہ دکپلس سے آپ کے پیچھے ہوئے وہ بھی آپ کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے (متی ۴: ۲۵)۔ آپ نے اس علاقہ کے غیر یہودی بیماروں کو بھی شفا بخشی (مرقس ۵: ۱تا ۲۱)۔

اسی طرح ادومیہ سے اور یردن کے پار صور اور صیدا کے غیر یہود علاقہ کےآس پاس سے ایک بھیڑ یہ سن کرکہ وہ کیسے بڑے کام کرتاہے اس کے پاس آئی ۔ پس اس نے اپنے شاگردوں سے کہا بھیڑ کی وجہ سے ایک چھوٹی کشتی میرے واسطے تیار رہے تاکہ وہ مجھے دبا نہ ڈالیں۔ کیونکہ اس نے بہت لوگوں کو اچھا کیا تھا۔ چنانچہ جتنے لوگ سخت بیماریوں میں گرفتار تھے اس پر گرے پڑتے تھے کہ اسے چھولیں‘‘( مرقس ۳: ۸تا ۹)۔

ابن الله نے نہ صرف ادومیہ اور یردن پار کے غیر یہود علاقوں میں خدمت کی بلکہ آپ سامریہ میں بھی گئے (لوقا ۹: ۵۲)۔ اور وہاں کے باشندوں کواپنی نجات کے پیغام سے سرفراز فرمایا (یوحنا ۴: ۴) اوربہت سے سامری اس پر ایمان لے آئے ۔ وہ اس کے پاس آئے اور درخواست کرنے لگے کہ ہمارے پاس رہ ۔ چنانچہ وہ دوروز وہاں رہا اوراس کے کلام کے سبب اوربھی بہتیرے اس پر ایمان لائے ’’اوراقرار کیاکہ یہ فی الحقیقت دنیا کا منجی ہے ‘‘( یوحنا ۴: ۳۹: ۴۲)۔

یک دم از بہر خدا دربر ما بہ نشینی

دل غم دیدہ بدیدار توگلشن داریم

’’ایک اور دفعہ جب خداوند نے دس کوڑھی اچھے کئے تو ان میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ میں شفا پاگیا بلند آواز سے خدا کی بڑائی کرتا ہوا لوٹا اور منہ کے بل یسوع (عیسیٰ) کے پاؤں پر گر کر اس کا شکر کرنے لگا اور وہ سامری تھا ۔یسوع نے جواب میں کہا کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے تھے پھر وہ نو کہاں ہیں؟ کیا سوا اس پردیسی کے اور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرتے۔ پھر اس نے اس سے کہا ۔ اٹھ کر چلا جا تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا ہے‘‘(لوقا ۱۷: ۱۵)۔ منجیِ عالمین نے اس سامری کی تعریف کی اور ان نو یہودی کوڑھیوں کی ناشکری پر اظہار ِتاسف(افسوس) فرمایا۔

پس جب ہم ابن الله کے طرزِ عمل پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنی تبلیغی مساعی کوایک حد تک اہل یہود تک محدود رکھا تو یہ کسی خاص مقصد کو نگاہ رکھ کر کیا۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ وہ مقصد کیا تھا لیکن اس مقصد کاتعلق یہودی قومی تعصبات سے ہرگز نہ تھا۔ساتھ ہی آپ نے کسی غیر قوم کے شخص کو اپنا جاں فزا (دل خوش کرنے والا)پیغام پہنچانے سے دریغ نہ کیا (متی ۸: ۱۳، ۱۵: ۲۸ وغیرہ)۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جہاں آپ نے خدا کی بادشاہت کوپھیلانے کا موقعہ پایا آپ نے وہیں کام شروع کردیا۔غیر اقوام میں کام اورخدمت کرنے کا خیال آپ کے ذہن میں شروع ہی سے تھا(متی ۱۰: ۱۸: یوحنا ۱۰: ۱۶۔ ۱۲: ۲۳و ۳۲ وغیرہ)۔ آپ نے اپنے شاگردوں کو واضح الفاظ میں بتلادیا کہ ان کی تبلیغی مہمیں اس کی اپنی مساعی (کوششیں)سے بہت زيادہ وسیع ہوں گی ۔(یوحنا ۴: ۳۸۔ ۱۴: ۱۲)اورساتھ ہی آپ نے اس کا سبب بھی ان پر ظاہر کردیا اور فرمایا کہ غیر اقوام میں تب کا م وسیع پیمانے پر ہوگا ۔ جب آپ اس مختصر زندگی کو ختم کرکے زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہوکر ان کےساتھ رہیں گے (یوحنا ۱۲: ۲۴)۔ غیر اقوام میں اس مقدس خدمت کو سر انجام دینے کےلئے آپ نے اپنے شاگردغیر اقوام میں روانہ بھی کئے (متی ۲۸: ۱۹، مرقس ۱۶: ۱۵، لوقا ۲۴: ۴۷تا آخر۔یوحنا ۲۰: ۲۱۔ اعمال ۱: ۸ وغیرہ)۔ کیونکہ آپ کو اس بات کااحساس تھا کہ آپ کی رسالت صرف یہود کے لئے ہی نہیں (متی ۸: ۱۲۔ ۱۱: ۲۰۔ ۱۲: ۳۹۔ ۲۱: ۴۱۔ ۲۲: ۷۔ ۲۳: ۳۴۔ ۲۴: ۲۔ لوقا ۱۳:۲۸ وغيرہ)۔

اب سوال یہ پیداہوتا ہےکہ اگر سیدنا مسیح کا یہ خیال تھاکہ آپ کی رسالت اہل یہود تک ہی محدود ہے تو آپ نے کیوں غیر اقوام کے علاقوں کے رہنے والوں اورسامریہ کےباشندوں کو تعلیم دی۔ ان کے بیماروں کو کیوں شفا بخشی اورکیوں ان کی خاطر موت کے منہ گئے ؟ جو اصحاب اہل یہود کے خیالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ انبیائے اسرائيل کے پیغامات کے باوجود کنعان کے یہود غیر اقوام کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ٹیسی ٹیس(Tacitus) کہتاہے کہ

’’اہل یہود اپنے سوا باقی تمام دنیا کو اپناجانی دشمن خیال کرتے تھے‘‘

یہودی عالم ڈاکٹر مونٹی فیوری کہتاہےکہ

’’ خداوند کے زمانہ کے اہل یہود غیر یہود کو نفرت ، حقارت اورعناد کی نظروں سے دیکھتے تھے اوران کا یہ خیال تھاکہ غیر یہود کا فر جہنم میں ڈالے جائيں گے جہاں تاریکی اوراندھیرا ہوگا‘‘۔

’’ہر یہودی کو غیر قوم والے سے محبت رکھنی اوراس کے ہاں جانا جائز نہ تھا‘‘ (اعمال ۱۰: ۲۸)۔علاوہ ازیں ’’یہود سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے تھے‘‘( یوحنا ۴: ۱۰)۔ دونو اقوام ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں(لوقا ۹: ۵۱تا ۵۶)۔ کسی شخص کو سامری کہنا ایک ناقابل برداشت گالی تھی(یوحنا ۸: ۴۸)۔ یہودی ربیوں کا قول تھاکہ

’’ جوسامریوں کی روٹی کھاتاہے وہ سور کا گوشت کھاتا ہے‘‘۔

’’ سامری قیامت کے روز مردوں میں سے کبھی زندہ نہ ہوں گے ‘‘۔

لیکن منجیِ عالمین نے نہ صرف ان کو تعلیم دی بلکہ ان کے ہاں گئے ۔ ان کے ساتھ رہے۔ ان کے بیماروں کو شفا بخشی اوران میں سے بہتیرے آپ پر ایمان بھی لائے ۔ خداوند نے اپنی خدمت کو یہود ،غیر اقوام اور سامریوں تک ہی محددد نہ رکھا بلکہ آپ نے بت پرست رومیوں میں بھی کام کیا۔ چنانچہ آپ نے رومی فوج کے صوبہ دار کے مفلوج خادم کو معجزانہ طور پر شفا بخشی ۔ہر شخص جس کو تاريخ سے ذرا بھی مس ہے جانتاہے کہ رومی فاتحین اوریہودی مفتوحین کے باہمی تعلقات کس قدر کشیدہ تھے۔ لیکن ابن الله نے ان میں بھی الہیٰ محبت کے ظہور کو دکھایا ۔ آپ نے رومیوں ، یونانیوں ، سامریوں ، یہودیوں وغیرہ کےدرمیان خدمت کی اور ان کو خدا کی نسبت تعلیم دی۔منجیِ کونین کو یہودی تعصبات سے ذرا بھی ہمدردی اور واسطہ نہ تھا۔ ابن الله کی وسیع نظر میں دنیا یہود اور غیر یہود پر مشتمل نہ تھی بلکہ نیک اوربد افراد پر مشتمل تھی ۔خواہ وہ افراد کسی قوم سے متعلق ہوں (متی ۵: ۴۵)۔یہی وجہ تھی کہ آپ نے فریسیوں اور فقہیوں کو مخاطب کرکے فرمایا’’ میں راستبازوں کونہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں‘‘(مرقس ۲: ۱۷)۔ اگر ابن الله اپنی رسالت کو صرف اہل یہود تک ہی محدود خیال فرماتے تو غیر یہود کے پاس ہر گز نہ جاتے اورنہ جن کو مرید بناتے ۔ لیکن آپ کاطرز عمل اس بات کو ثابت کرتاہے کہ آپ اپنی رسالت کو تمام دنیا کے لئے خیال کرتے تھے اورہر قوم اورگروہ کے شرکاء سے ملتے اوران کو تعلیم دے کر انہیں خدا کے قدموں میں لاتے تھے۔ منجیِ عالمین کی نظر نہایت وسیع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جونام اپنے لئے تجویز فرمایا وہ ’’ ابن آدم‘‘ تھا۔ یہ نام صاف ظاہر کرتاہے کہ آپ کو اس بات کاپورا احساس تھا کہ آپ کا پیغام کسی خاص زمانہ ، ملک ، قوم یا قبیلہ کے لئے نہیں تھا بلکہ کلُ بنی آدم کے لئے ہے۔

(۳)

سیدنا مسیح کی موت اور بنی آدم کی نجات

کلمتہ الله نے اپنی خدمت کے آخرمیں ایک ایسی بات کی جس سے سب یہود پر اور بالخصوص علماء اوررؤسائے یہود پر یہ ظاہر ہو گیاکہ آپ یہود اور غیر یہود دونو کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔ اس ایک واقعہ نے کلمتہ الله کی قسمت کافیصلہ کردیا اورآپ کو ایک ہفتہ کے اندر اندر مصلوب کردیا گیا۔ چنانچہ لکھاہے کہ آپ اپنی زندگی کے آخری ہفتہ میں یروشلیم تشریف لےگئے ’’ اورہیکل میں داخل ہوکر ان کوجو ہیکل (بیت الله ) میں خریدو فروخت کررہے تھے باہر نکالنے لگا اور صرافوں کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں الٹ دیں اور تعلیم میں ان سے کہا کہ کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائیگا؟ لیکن تم نے اسے ڈاکوؤں کی کھو ہ بنادیاہے اورسردار کاہن اور فقیہ یہ سن کر اس کے ہلاک کرنے کا موقعہ ڈھونڈنے لگے ‘‘(مرقس ۱۱: ۱۵) یہ جگہ جہاں خریدو فروخت ہوتی تھی ہیکل کا وہ حصہ تھا جو غیر قوموں کی عبادت کے لئے مخصوص تھا۔

’’ خداوند کے زمانہ کے سردار کاہنوں اور رؤسائے یہود نے یہ حصہ جو غیر یہود کی عبادت کے لئے وقف تھا سوداگروں کو دے کر غیراقوام سے عبادت اور پرستش کرنے کا حق چھین لیا تھا۔ خداوند نے فرمایاکہ ہیکل کا یہ حصہ غیر یہود کی عبادت کے لئے مخصوص تھالیکن تم نے ان کے جائز حقوق پر ڈاکہ زنی کی ہے ‘‘

خدا کی ہیکل سب قوموں کے لئے یہودہوں یا غیر یہود عبادت کا گھر ہے۔ خداوند نے ہیکل کو سوداگروں کے مال سے صاف کیا تاکہ غیر یہود وہاں عبادت کریں۔ خداوند کے اس طرز ِ عمل سے رؤسائے یہود کو اس بات کا پورے طور پر احساس ہو گیاکہ اس شخص کی زندگی قوم یہود کی ہستی کے لئے خطرناک ہے اور انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ایک آدمی کا مرنا اس سے بہتر ہے کہ ساری قوم ہلاک ہو ( یوحنا ۱۱: ۵۰)۔ اورانہوں نے منجیِ عالمین کو اس واقعہ کے چار دن کے اندر اندر مصلوب کردیا۔ پس خداوند نے اپنے خون سے اس بات پر مہرُ کردی کہ آپ یہود اورغیر یہود دونوں کے نجات دہندہ تھے۔

(۴)

جب خداوند آخری دفعہ یروشلیم میں عید فسح کے موقعہ پر تشریف لے گئے تو چند ’’یونانی ‘‘ آپ کے شاگرد فلپس کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ ’’ جناب ہم یسوع کو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔

یہ اشخاص اپنے ہم وطن شہره آفاق حکماء سقراط اورافلاطون کی حقیقی اولاد تھے۔ جن کے تحریری اورزبانی اقوال نور اور حق یعنی ربنا سیدنا مسیح کی تلاش اوردیدار کے شاہد تھے ۔

چونکہ فلپس ایک یہودی شخص تھا اوریہودی تعصبات سے متاثر تھا اوریہ اشخاص غیراقوام میں سے تھے۔ فلپس ان کو سیدنامسیح کے پاس لے جانے سے ہچکچایا اوراس نے ایک اور شاگرد اندریاس سےاس معاملہ میں صلاح اور مشورہ کیالیکن کلمتہ الله نے ان غیر اقوام کوملاقات کا شرف بخشا اورشاگردوں کو فرمایاکہ آ پ کی صلیب اور ظفریاب قیامت کےذریعہ غیر اقوام میں انجیل جلیل کی اشاعت کے لئے راستہ صاف ہوجائے گا (یوحنا ۱۲: ۲۳) اورخدا سےدعا کی کہ ان یونانیوں کےذریعہ بھی تو اپنے مقدس نام کو جلال دے تاکہ دنیا پر ظاہر ہوجائے کہ میری موت سے تیرا پاک مقصد پورا ہوگا اور دنیا اوربنی نوع انسان کی نجات ہوگی (آیت ۲۷، ۲۸)۔ دوران ِ ملاقات میں آپ کی روحانی آنکھوں نے انجیل کی بشارت اوردنیا بھر میں اس کی اشاعت کا نظارہ ردیکھا اور اپنی زبان مبارک سے فرمایا’’ وہ وقت آگیاہے کہ ابن آدم جلال پائے ‘‘(آیت ۲۳) منجیِ عالمین نے اپنی حیات اورموت کے ذریعہ اہل یہود اور غیر اقوام دونوں کو ایک کرلیا اورجدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھا ڈھادیا (افسیوں ۲: ۱۴) سیدنامسیح کے زمانہ میں انسان اورانسان کے درمیان بے شمار جدائی کی دیواریں تھیں۔ آپ نے اپنے اصول محبت، اخوت اورمساوات کے ذریعہ اورسب سے زیادہ اپنی صلیبی موت کے ذریعہ ان تمام دیواروں کوبالکل منہدم (خراب ،برباد ،ویران )اورمسمار کردیا۔ ان تمام دیواروں میں سب سے مضبوط اورپائدار دیوار وہ تھی جو یہود اور غیر اقوام کے درمیان حائل تھی۔ لیکن یہ دیوار ابتداہی میں ٹوٹ گئی (اعمال ۱۵باب)۔یہود اورغیر اقوام منجی جہان کی صلیب کے سامنے ایک ہوگئے۔ کلمتہ الله کی صلیبی موت نے خدا کی بادشاہت کے دروازہ کو تمام جہان کے گنہگاروں کے لئے کھول دیا۔ خواہ وہ گنہگار قوم کے یہود تھے خواہ غیر یہود (مرقس ۱۴: ۲۴، متی ۲۰: ۲۸ یوحنا ۱۰: ۱۵)۔ چنانچہ یوحنا رسول صاف اور صریح الفاظ میں بتلاتا ہے کہ ’’ یسوع اس قوم یہود کے لئے مرے گا اور نہ صرف اس قوم کے واسطے بلکہ اس واسطے بھی کہ خدا کے تمام پراگندہ فرزندوں کو جمع کرکے ایک کردے‘‘ (یوحنا ۱۱: ۵۲، ۱: ۲۹۔ ۴: ۴۲۔ ۱۲: ۳۲ وغیرہ)۔ ’’ وہ نہ صرف اہل یہود کے گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کاکفارہ ہے‘‘( ۱۔یوحنا ۲: ۲۔ رومیوں ۴: ۲۵۔ گلتیوں ۱: ۴۔ ۲: ۲۰؛ ۱ ۔تیمتھیس ۲: ۶۔ فلپیوں ۲: ۱۴۔ ۱ پطرس ۱: ۱۸۔ وغیرہ وغیرہ)۔

منجی عالمین کے کلماتِ طیبات

جب ہم کلمتہ الله کے کلمات ِ طیبات پر نظر کرتے ہیں تو یہ حقیقت ہم پر اوربھی واضح ہوجاتی ہے ،کیونکہ آپ کے زریں اقوال آپ کے لائحہ عمل اور طرز عمل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

منجیِ عالمین نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرکے فرمایا’’ تم زمین کے نمک ہو۔۔ تم دنیا کے نور ہو‘‘ (متی ۵: ۱۳)۔ آپ نے رومی صوبہ دار کے ایمان کی تعریف میں فرمایا ’’ میں تم سے ، سچ کہتا ہوں کہ میں نے اسرائيل کے کسی شخص میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔ اور میں تم سے کہتاہوں کہ بہتیرے (غیر اسرائیلی )پورب اورپچھم سے آکر ابراہیم اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہت میں شریک ہوں گے ۔مگر بادشاہت کے بیٹے( یعنی یہودی) اندھیرے میں ڈالے جائيں گے (متی ۸: ۱۱)۔ کلمتہ الله نے ایک غیرقوم کو جس سے میں بہت سی بدورحیں نکالی تھیں حکم دے کر فرمایا’’ اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اورانہیں خبردے کہ خداوند نے تیرے لئے کیسے بڑے کا م کئے اورتجھ پر رحم کیا ‘‘(مرقس ۵: ۱۹)۔ آپ نے نجات حاصل کرنے کی شرط بیان کرکے فرمایا۔ ’’دیکھو بعض آخر (یعنی غیر یہود) ایسےہیں جواول (یعنی پسندیدہ قوم ) ہوں گے ‘‘ (لوقا ۱۳: ۲) جب آپ کے سر مبارک پر عطر ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا’’ (تمام میں) جہاں کہیں انجیل منادی کی جائے گی یہ بھی یادگاری میں کیا جائے گا (متی ۲۶: ۱۳) ۔ابن الله نے اپنے رسولوں کو آنے والی تکلیفوں سے آگاہ کرتے وقت فرمایا کہ تم میرے سبب حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے تاکہ ان کے اور دیگر اقوام کے لئے گواہی ہو (متی ۱۰: ۱۸)۔ آپ نے یروشلیم کی بربادی اور یہودیت کی تباہی کی نسبت فرمایاکہ اس کی ہیکل میں ’’ کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گاجو گرایا نہ جائے گا ‘‘( مرقس ۱۳: ۲) اورانجیل کی اشاعت کی نسبت فرمایاکہ ’’ضرور ہے کہ سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے ‘‘(مرقس ۱۳: ۱۰)۔ آپ نے اقوام عالم کی طرف اشارہ کرکے فرمایا’’ اچھا چرواہا میں ہوں میں اپنی بھیڑوں کےلئے جان دیتا ہوں( اقوام عالم میں )میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس (یہودیت کے ) بھیڑ خانے کی نہیں۔ مجھے ان کا لانا بھی ضرور ہے اوروہ میری آواز سنیں گی ۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا‘‘( يوحنا ۱۰: ۱۶)۔ آپ نے اپنی موت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا’’جب میں زمین پر سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو میں سب کو اپنے پاس کھینچوں گا(یوحنا۱۲: ۳۲) کلمتہ الله نے پکار کر فرمایا’’ میں دنیاکو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں ‘‘۔خداوند نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت فرمایا’’ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں میں جاتا ہو ں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں‘‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ آسمان میں نہ صرف اہل یہود کے لئے مکان ہیں بلکہ اقوام عالم کے مکینوں کے لئے جگہ ہوگی۔ ابن الله کی یہ آخری گفتگو (یوحنا ۱۴: تا ۱۷ ابواب ) میں ہے اوراس کے ایک ایک لفظ سے یہی مترشح (ترشح کرنے والا،ٹپکنے والا)ہوتا ہے کہ منجیِ عالمین کا یہی خیال تھا کہ آپ کُل بنی نوع انسان کی نجات کے لئے مبعوث ہوکر اس دنیا میں آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا’’ میں نور ہوکر دنیا میں آیاہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے ‘‘(یوحنا ۱۲: ۴۶) اورپھر فرمایا دنیاکانور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا ‘‘(یوحنا ۸: ۱۳)۔ جب ابن الله نے لعزر کو دوبارہ زندہ کیا تو آپ نے فرمایا’’ قیامت اور زندگی میں ہوں جو مجھ پر ایمان لاتاہے گو وہ مرجائے تو بھی وہ زندہ رہے گا اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا‘‘(یوحنا ۱۱: ۲۵)۔آپ نے نشان طلب کرنے والوں کےجواب میں غیر اقوام کو اہل یہود پر ترجیح دی اور فرمایا نینوہ کےغیر یہود لوگ اس زمانہ کے یہودی لوگوں کےساتھ عدالت کے دن کھڑے ہوکر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یونس کی منادی پرتوبہ کرلی اوردیکھو یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے۔ دکن کی غیر یہود ملکہ اس زمانہ کے یہودی لوگوں کے ساتھ عدالت کے دن اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی ‘‘(متی ۱۲: ۴۱)۔ خداوند نے اپنے پیشرو یوحنا اصطباغی کے ہم آواز ہوکر اہل یہود کو جتلادیاکہ وہ آل ابراہیم ہونے پر نازاں نہ ہوں (فخر نہ کریں )اور فرمایاکہ ابراہیم کے فرزند کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو ابراہیم کاسا ایمان رکھتے ہیں خواہ وہ کسی نسل کے ہوں (یوحنا ۸: ۴۰)۔

(۲)

کلمتہ الله نے جن تمثلیوں کے ذریعہ تعلیم دی ان سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کو یہ حساس تھاکہ آپ کا پیغام کلُ دنیا کے لئے ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لوگ سیدنا مسیح کے نشان طلب کرنے لگے ۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’ یوناہ(یونس) کے نشان کےسوا کوئی اورنشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ آپ مطلب یہ تھاکہ جس طرح ایک یہودی نبی یوناہ کےذریعہ نینوہ ملک کے غیر اقوام باشندوں نے نجات حاصل کی تھی اسی طرح آپ کے اور آپ کے یہودی شاگردوں کی منادی کےذریعہ غیر اقوام نجات حاصل کریں گی۔ چنانچہ آپ نے اس مطلب کو یوں ظاہر کیا’’کیونکہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرے گا ۔ دکھن کی ملکہ اس زمانہ کے آدمیوں کےساتھ عدالت کے دن اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی۔۔۔۔ نینوہ کے لوگ اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ عدالت کےدن کھڑے ہوکر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کرلی‘‘(لوقا ۱۱باب )۔

خمیر کی تمثیل (متی ۱۳: ۳۳) سے ظاہر ہے کہ کلمتہ الله کا یہ خیال تھاکہ آپ کاپیغام خمیر کی طرح تمام عالم میں سرایت کرجائے گا۔ جب آپ کی زبان حقائق ترجمان نے کڑوے دانوں کی تمثیل کی تاویل کی تو فرمایا کہ اچھے بیج کابونے والا ابن آدم ہےاورکھیت دنیا ہے ‘‘(متی ۱۳: ۳۸)۔ یاد رہے کہ یہ تمثیل خداوند نے اپنی خدمت کی ابتدا میں فرمائی تھی جس سے ظاہر ہے کہ سیدنا مسیح شروع ہی سے جانتے اورمحسوس کرتے تھے کہ ان کا ’’کھیت دنیا ہے‘‘ کلمتہ الله کو ابتدا ہی سے اس بات کاعلم تھا کہ آپ کے اصول اوریہودیت کے اصول میں مغائرت (ناموافقت،اجنبیت)اور تضاد کا رشتہ ہے۔ چنانچہ آپ نے سامعین کو فرمایا کہ’’ کوئی شخص پرانے کپڑے میں نئے کی پیوند نہیں لگاتا اورنہ نئی مے پرانی مشکوں میں بھری جاتی ہے۔ کیونکہ پرانی مشکیں پھٹ جاتی ہیں اورمے ضائع ہوجاتی ہے ‘‘۔ یہودی عالم ڈاکٹر مونٹی فیوری اپنی تفسیر انجیل میں کہتا ہے کہ

یہاں پرانی مشکوں سے یہودیت اورنئی مے سے مسیحی اصول مراد ہیں ۔

کلمتہ الله نے اپنی خدمت کے آخر میں انگوری باغ کے ٹھیکے داروں کی تمثیل سنا کر فرمایا۔ خدا کی بادشاہت تم سے (یہودسے )لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کےپھل لائے دے دی جائے گی ‘‘(متی ۲۱: ۴۳)۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے لے کر آخر تک منجی ِعالمین کا مطمع نظر اور نصب العین یہی تھاکہ انجیل جلیل کی بشارت تمام قوموں میں ہو۔ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں آپ نے فرمایا ’’ جب ابن آدم جلال میں آئے گا تو سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی ‘‘ (متی ۲۵: ۳۲) رحم دل سامری کی تمثیل میں کلمتہ الله نے یہودی کا ہنوں اوریہودیوں کو رحم اورمحبت کا نمونہ نہ بتلایا بلکہ ایک سامری کو رحم اور ترس کانمونہ بنایا (لوقا ۱۰: ۳۳)۔ یہودیت کے مطابق لفظ ’’پڑوسی ‘‘ کا مطلب ’’ قوم کے فرزندوں سے تھا‘‘ (احبار ۱۹: ۱۸)۔ لیکن کلمتہ الله نے اس معنی کو مردود قرار دے دیا اور اس میں تمثیل کے ذریعہ یہ تعلیم دی کہ لفظ پڑوسی سے مراد نوع انسانی کے ہر فرد سے ہے۔ خواہ وہ کسی جماعت ، قبیلہ ، قوم یا نسل کاہو(لوقا ۱۰: ۲۵تا ۳۷)۔

کوئی کہاں تک کلمتہ الله کے اقوال کو نقل کرے ۔ جس شخص نے آپ کی تعلیم کا سر سری مطالعہ بھی کیا ہے وہ جانتا ہےکہ اس تعلیم کا یہودی قومیت کے ساتھ ذرہ بھر تعلق نہیں۔ کلمتہ الله کی تعلیم کا ایک مختص(مخصوص کیا گیا) نہیں ،بلکہ نوع انسان کے لئے ہے۔ جب آپ نے یہ تعلیم دی کہ خدا کل بنی نوع انسان کا باپ ہے اور اس کی لازوال محبت ازل سے یہود اور غیر یہود سب پر یکساں طورپر حاوی ہے (متی ۵: ۴۳تا ۴۸)۔ تو آپ نے سامعین کے سامنے ایسے اصول بیان کئے جن سے ان کے کان نا آشنا تھے۔ یہ اصول اپنی طرز میں درحقیقت بالکل نئے اصول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہودی سامعین ان کو سن کر غضب میں آجایا کرتے تھے(لوقا ۴: ۱۶تا ۳۰ وغیرہ) ۔ یہودی ربیوں کی تنگ نظری کا یہ حال تھا کہ

وہ کہتے تھے کہ خدا نے کہا ہے ’’ میں آئندہ جہان میں تمہارے لئے ایک بڑی میز تیار کروں گا۔ غیر اقوام دیکھیں گی اورحسد کے مارے جل بھن کر رہ جائیں گی۔

(Original Jesus p.376)

ایک اور عالم پروفیسر برکٹ (Burkitt) لکھتا ہے

’’یروشلیم کی تباہی سے پہلے کنعان کے یہودیوں میں چند ایک باتیں ایسی تھیں جنہوں نے یہودیت کو ایک قومی مذہب بنا رکھا تھا ۔حالانکہ یہ اس مذہب کی تعلیم نہ تھی اور نہ اس قوم کا حقیقی مطمع نظر تھا۔اس کی تعلیم تو یہ تھی کہ خدا ایک ہے جو اقوامِ عالم کا رب العالمین ہے لیکن عملی طورپر کنعان میں یہودیت ایک قومی مذہب تھا جس کا مرکز یروشلیم تھا ۔

(Legacy of Israel p.75)

کلمتہ الله کی عالمگیر تعلیم کی نئی مے ان پرانی بوسیدہ مشکوں میں بھری نہیں جاسکتی تھی۔ اگر آپ کی تعلیم یہودی خیالات کے حلقہ کے اندر محدود کی جاسکتی تو آپ کی علمائے یہود کے ساتھ کشمکش اورجنگ نہ ہوتی اور اس تصادم کا نتیجہ صلیب نہ ہوتا ۔

ع گل است سعدی ودرچشم دشمناں خاراست

ڈاکٹر مونٹی فیوری کہتا ہے کہ

کلمتہ الله نے یہودیت کے بنیادی عقائد کے خلاف اپنی تعلیم کے اصول کو عالم گیر بنادیا۔ اگرچہ بعض اعلیٰ ترین یہودی ربی اس بات کو ماننے کو تیار تھے کہ نہ صرف پیدائشی یہود آل ِابراہیم ہیں بلکہ دیگر اقوام کے نومرید بھی اس زمرہ میں شامل ہیں۔ لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ نفس الامر(در حقیقت،اصل بات) اس خیال کے آگے مشکلات کے پہاڑ سد راہ(حائل ہونا ) تھے۔ یسوع کاکمال اس میں ہے کہ اس نے اپنی تعلیم اور شخصیت سے ان شرعی اور قومی رکاوٹوں کو دور کردیا‘‘۔

خداوند کی تعلیم کے بنیادی اصول یہ تھے کہ خدا محبت ہے وہ بنی نوع انسان کا باپ ہے۔ اورکل اقوام عالم کے افراد آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ اصول ِ محبت واخوت ومساوات عالم گیر ہیں۔ آپ کا پیغام عالمگیر ہے جس کو انجیل نویس نے ان غیر فانی الفاظ میں ادا کیا ہے کہ ’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘( یوحنا ۳: ۱۶)۔ سیدنا مسیح نے خود اپنی زبان ِمبارک سے فرمایا ’’ اے سب محنت اٹھانے والو اوربڑےبوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تم کو آرام دوں گا‘‘( متی ۱۱: ۲۸)۔

ع ہست مے کدہ ودعوت ِ عام است ہیں جا

سیدنا مسیح کے احکام

جس طرح سیدنا مسیح کے لائحہ عمل ، طرز عمل اورکلمات ِ طیبات سے یہ مترشح ہوتاہے کہ آنخداوند اپنے آپ کو منجیِ عالم خیال فرماتے تھے اوراپنے پیغام کو کل بنی نوع انسان کے لئے تصور فرماتے تھے اسی طرح خداوند کے احکام سے بھی۔ یہی ثابت ہوتاہےکہ منجیِ عالمین کی رسالت تمام ملکوں قوموں اور زمانوں کے لئےہے۔ سیدنا مسیح نے شاگردوں کو جو مچھلیاں پکڑنے والے تھے بلاتے وقت فرمایا تھاکہ ’’میرے پیچھے چلے آؤ میں تمہیں آدمیوں کا پکڑنے والا بناؤں گا‘‘( مرقس ۱: ۱۷) مقدس لوقا ہم کو بتلاتا ہے کہ خداوند نے انجیل کی اشاعت کےلئے ستر شاگردوں کو بھیجا ( لوقا ۱۰: ۱۷) جس طرح کلمتہ الله نے بارہ شاگرد چنے تاکہ یہ تعداد بنی اسرائیل کے دوزادہ قبیلوں کے برابر ہو۔ اسی طرح ان بارہ کے علاوہ اب ’’خداوند نے ستر آدمی مقرر کئے ‘‘(لوقا ۱۰: ۱)اوراس تعداد کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کل دنیا میں ستر نسلیں اورقومیں آباد تھیں۔ ان مبلغین کو مبشر مقرر کرکے خداوند نے کل جہان پر یہ ثابت کردیاکہ جس طرح آپ نے بارہ شاگردوں کو بنی اسرائیل کے دوزادہ قبیلوں کے خیال سے چنا تھا۔اسی طرح آپ نے ستر (۷۰)مبلغین کو اقوام عالم کی تعداد کے خیال سے چنا تھا تاکہ سب ظاہر ہوجائے کہ آپ یہود اور غیر یہود دونوں کے منجی ہیں۔

’’یہ ستر(۷۰) مبلغین سامریہ اورکپلس کے غیر یہود علاقہ کے بُت پرست شہروں میں جو صوبہ پیریا کے شمال مشرقی علاقہ میں واقع ہے۔ جہاں غیر اقوام کثرت سے بستے تھے بشارت کے لئے گئے‘‘

(The Mission and Message of Jesus p.279)

سیدنا مسیح نے آپ غیر اقوام یونانیوں، سامریوں، دکپلس ،ادومیہ وغیرہ وغیرہ، یہودی بُت پرست علاقوں میں خدمت کی تھی چنانچہ آپ نے ان ستر (۷۰)کو وہاں بھیجا اور ان کی تبلیغی کوششیں اس قدر کامیاب ہوئیں کہ لکھاہے کہ وہ ’’ ستر خوش ہوکر پھر آئے اورکہنے لگے اے خداوند تیرے نام سے بدروحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔۔۔۔۔ اسی گھڑی وہ روح القدس سے خوشی میں بھر گیا اورکہا اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچو ں پر ظاہر کیں۔۔۔۔ اور شاگردوں کی طرف متوجہ ہوکر خاص انہیں سے کہا مبارک ہیں وہ آنکھیں جو یہ باتیں (یعنی غیر اقوام میں بشارت کے شاندار نتائج) دیکھتی ہیں جن کو تم دیکھتے ہو کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اوربادشاہوں نے چاہا کہ جوباتیں تم دیکھتے ہو (یعنی غیر اقوام کاخدا کا علم حاصل کرنا )دیکھیں مگر نہ دیکھیں اور جوباتیں تم سنتے ہو سنیں لیکن نہ سنیں‘‘(لوقا۱۰: ۱۷تا ۲۴)۔

اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان تبلیغی مساعی کے شاندار نتائج دیکھ کر خداوند نے ان کے علاوہ کئی دفعہ اور شاگردوں کو بشارت کے لئے روانہ کیا تھا ،کیونکہ مقدس مرقس کے الفاظ کہ ’’ انہیں دو دوکرکے بھیجنا شروع کیا ‘‘( مرقس۶: ۷)سے یہ نتیجہ مستنبط (اخذکیا گیا ،چھانٹاگیا)ہوسکتا ہے۔ یہی نتیجہ ہم اس انجیل کی ( مرقس ۱: ۳۷تا ۳۸) سے اخذ کرتے ہیں جہاں منجیِ عالم اپنے شاگردوں کو فرماتے ہیں ’’ آؤ ہم کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ میں وہاں بھی منادی کروں کیونکہ میں اسی لئے نکلا ہوں ‘‘ ان مختلف تبلیغی مساعی کے وقت خداوند نے شاگردوں کو یہوداور غیر یہود دونوں کی طرف بھیجا تاکہ ا س کام کو جو آپ نے غیر یہودی علاقوں میں کیا تھا مستحکم اور مضبوط کریں اوران غیر یہود کو جو آپ پر ایمان لائے تھے تعلیم دیں۔

غیر یہود میں تبلیغ کی ممانعت کا سوال

(۱)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خداوند یسوع سب شہروں اور گاؤں میں پھرتا رہا اور (گلیل میں یہود ) کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرتا اورہر طرح کی بیماری اورہرطرح کی کمزوری دور کرتا رہا اورجب اس نے (اہل یہود کی ) بھیڑ کو دیکھا تو اس کو لوگوں پر ترس آیا ،کیونکہ وہ ان بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ حال اور پراگندہ تھے۔ تب اس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔ پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیجے ۔اور اس نے ان بارہ (شاگردوں)کو پاس بلا کر ان کو ناپاک ’’روحوں پر اختیار بخشا کہ ان کو نکالیں اوران کو قدرت بخشی کہ ہر طرح کی بیماری اورہر طرح کی کمزوری کو دور کریں اوران کو خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیجا اوران کو حکم دے کر کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ مناد ی کرنا کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے ۔ بیماروں کو اچھا کرنا ، مردوں کو جلانا، کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا ، بدروحوں کو نکالنا، تم نے مفت پایا مفت دینا۔ نہ سونا اپنے کمربند میں رکھنا اور نہ چاندی اورنہ پیسے راستہ کے لئے نہ جھولی لینا اورنہ دو دو کرُتے ۔ نہ جوتیاں نہ لاٹھی ،کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے اورجہاں تم کسی گھر میں داخل ہو وہیں رہنا ،جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو اورجس کسی شہر کے لوگ تم کو قبول نہ کریں اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑدو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ عدالت کے دن اس شہر کی نسبت سدوم اور عمورہ کے علاقے کا حال زيادہ برداشت کے لائق ہوگا۔ دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کےبیچ میں ۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اورکبوتروں کی مانند بھولے بنو(انجیل متی ۹و ۱۰باب ۔ مرقس ۶باب ولوقا ۹باب)۔

(۲)

آیات ِمذکورہ بالا سے عیاں ہے کہ منجی ِعالمین نے اہل یہود کی بھیڑ کی پراگندہ اور خستہ حالت کو ملاحظہ فرما کر ان پر ترس کھایا اور اپنے دوزادہ شاگردوں کو اس خاص موقعہ پر صرف اہل یہود میں اپنےدائرہ تبلیغ کو محدود رکھنے اور ان ہی میں مقیم رہنے کے احکام صادر فرمائے تاکہ اہل یہود کی برگشتہ قوم پر اتمام(تکمیل ) حجت (تکرار،دلیل )ہوجائے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ممانعت صرف ایک دفعہ کے لئے تھی اور وہ بھی صرف بارہ شاگردوں کو خاص موقعہ کی ہدایت کو عام حکم تصور کرلیا جائے ۔ یہ صحیح ہے کہ سیدنا مسیح نے اپنے بارہ شاگردوں کو ایک خاص موقعہ پر ایک خاص تبلیغی مہم کے وقت یہ حکم دیا تھا کہ غیر یہود کی طرف نہ جانا ،لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ان کو یہ حکم دیا تھاکہ ہمیشہ کے لئے غیر یہود کے پاس نہ جانا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ منجیِ عالمین نے اپنے ہر شاگرد کو ہمیشہ کے لئے منع فرمایا کہ غیر یہود کے پاس ابد تک نہ جاناا ورنہ ان کے نزدیک پھٹکنا ۔ اس قسم کی دلیل ایک ایسا منطقی مغالطہ ہے جس کی ہمیں کسی صحیح العقل شخص سے توقع نہیں ہوسکتی۔

(۳)

خود ممانعت کے الفاظ اس اعتراض کو رفع کرنے کے لئے کافی ہیں۔ خداوند نے شاگردوں کو ہدایت فرمائی ’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر شاگردوں نے خداوند سے غیر قوموں کی طرف جانے اور سامریوں کے شہروں میں داخل ہونا نہیں سیکھا تھا تو ان کو کیسے خیال آگیا کہ وہ غیر قوموں اور سامریوں کی طرف جس پر خداوند نے ان کو فرمایا کہ اس دفعہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا؟ اگر شاگردوں کے دلوں میں یہ خواہش نہیں تھی تو خداوند کا حکم فضول تھا اوراگر یہ امنگ موجود تھی تو خداوند کے سوائے اور کس نے ان کو یہ سبق سکھلایا تھاکہ غیر اقوام اور سامری بھی اہل یہود کی طرح خدا کی بادشاہت میں داخل ہوسکتے ہیں ؟ خداوند کے یہودی شاگردوں نے اپنے ربیوں سے یہی سیکھا تھاکہ غیر اقوام خدا کی بادشاہت سے خارج ہیں۔ چنانچہ یہودی قومی تعصبات کی تنگ نظری اس ایک فقرے سے عیاں ہے جو سدراس کی دوسری کتاب میں ہے ۔’’ اے خدا تو نے فرمایا ہے کہ تونے دنیا کوہماری خاطر خلق کیا ہے اور غیر اقوام محض نیست ہیں اور تھوک کی طرح ہیں‘‘(۲۔سدراس ۶: ۵۵)۔ مورخ ٹیسی ٹس کہتا ہے کہ

یہود ایک دوسرے کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا کے باقی باشندوں کو اپنادشمن سمجھ کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

(Hist V.5)

سامریوں کے ساتھ نفرت رکھنا یہود کو ان کی ماں کی گود میں سکھلایا جاتا تھا۔ سامری ان اسوریوں کی اولاد تھے جو اسیری کے زمانہ میں ارضِ مقدس میں آبسے تھے اورانہوں نے اسرائیلی عورتوں سے شادی کرلی تھی(۲۔سلاطین ۱۷: ۲۴) اورموسیٰ کی شریعت کے پیروکار تھے۔ جب یہودی اسیری سے واپس آئے تو سامریوں نے یروشلیم کی ہیکل کودوبارہ تعمیر کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہا لیکن یہود نے ازراہ(طریقہ سے ) تحقیر ان کو رد کردیا۔ پس یہودیوں اور سامریوں میں دشمنی پیدا ہوگئی جو صدیوں تک رہی اورآئے دن دونوں اقوام میں کشت وخون ہوتا رہتا تھا۔ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ

’’ یہودی ربی کہتے تھے کہ جو شخص سامری کی روٹی کھاتا ہے وہ سور کا گوشت کھاتا ہے‘‘۔

(Mishnah Shebiith V111.10)

اور کہ

’’کوئی سامری کبھی یہودیت کے زمرہ میں شامل نہ کیا جائے۔ وہ مردوں کی قیامت میں شریک نہ ہوں گے ‘‘

(Pirke Elieser.38)

کسی کو سامری کہنا گالی دینے کے برابر تھا (یوحنا ۸: ۴۸)۔جب یہودی زائرین ہرسال حج کے موقعہ پر یروشلیم جاتے تو میلوں چکر لگاتے تاکہ سامریوں کے شہروں میں سے ان کو گذرنا نہ پڑے۔ ایک دفعہ سامریوں نے شاگردوں کو اپنے گاؤں میں ٹکنے نہ دیا تھاکیونکہ ان کا رخ یروشلیم کی طرف تھا۔ اس سلوک سے سیدنا مسیح کے شاگرد اس قدرغضب میں آگئے کہ وہ چاہتے تھے کہ آسمان سے آگ نازل ہوکر ان کو بھسم کر ڈالے (لوقا ۹باب )۔

جب صورتِ حالات یہ تھی تو یہ غبی(کم عقل ،کند ذہن) سے شخص پر ظاہر ہے کہ شاگردوں نے سامریوں اور غیر اقوام میں تبلیغی فرائض کو سر انجام دینے کا کام خود سیدنا مسیح کی تعلیم اورنمونہ سے سیکھا تھا۔

عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اس زمین وآسماں کوبے کراں سمجھا تھا میں

(۴)

ممانعت کے الفاظ قابل غور ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہےکہ آنخداوند اس موقعہ پر اہل یہود پر اتمام حجت (تکرار کی تکمیل )کی خاطر ایک خاص تبلیغی کوشش کرنا چاہتے تھے ۔آپ نے قوم یہود کی برگشتہ اور تباہ وخستہ اور پراگندہ حالت کو دیکھ کر حکم دیاکہ یہود کی طرف جاؤ اور’’ چلتے چلتے یہ منادی کرناکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ۔ نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے جس میں گھر میں داخل ہو اسے دعائے خیردو۔ اگر کوئی تم کو قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑدو۔ میں تم سے سچ کہتاہوں کہ عدالت کے دن اس شہر کی نسبت سدوم اورعمورہ کے علاقہ کا حال زيادہ برداشت کے لائق ہوگا‘‘( متی ۱۰: ۵تا ۱۵)۔ حکم کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ خداوند اہل یہود پر اتمام حجت کرنا چاہتے تھے۔ لہذا اس خاص تبلیغی مہم کو صرف اہل یہود تک محدود رکھنا چاہتے تھے، لیکن خداوند کے رسول بشارت کے جوش میں بھرے تھے اور چاہتے تھے کہ یہود کو بشارت دیتے وقت دورہ میں غیر اقوام کی طرف بھی چکر لگا آئیں اورچونکہ سامریہ بھی راستہ میں پڑتا تھا وہ چاہتے تھے کہ سامریوں کے گاؤں میں سے بھی ہوتے چلیں۔لیکن خداوند نے ان کو اس بات سے منع کیا اور فرمایاکہ اب کی دفعہ یہ تبلیغی مساعی خاص اہلِ یہود پر اتمام حجت کے لئے ہیں۔ ادھر اُدھر جاکر اپنے وقت اور کوشش کو صر ف نہ کرنا ’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اورنہ سامریوں کے کسی شہر میں داخل ہونا بلکہ اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اورچلتے چلتے یہ منادی کرناکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے اور اگر کوئی تم کو قبول نہ کرے اورتمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر سے یا شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ عدالت کے روز اس شہر کی نسبت سدوم اورعمورہ کے علاقے کا حال زیادہ برداشت کے لائق ہوگا‘‘۔

ہم نے سیدنا مسیح کے اپنے طرز ِ عمل سے تعلیم سے ، اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ کلمتہ الله اپنے آپ کو منجیِ عالمین خیال فرماتے تھے ۔ کیا کوئی دانشمند شخص یہ خیال کرسکتا ہے کہ ابن الله آپ تو غیر یہود ، رومیوں ، سامریوں میں کام کریں۔ معجزے دکھائیں اوران میں سے بعض کے ایمان کو اہل یہود کے ایمان سے بہتر قرار دیں۔ ان میں سے بہتیروں کو مرید بنا لیں لیکن اپنے ہرایک شاگرد کو ہمیشہ کے لئے قطعی طور پر یہ حتمی حکم دے جائیں کہ غیر یہود کی طرف نہ جانا اورنہ کبھی کسی سامری شہر میں قدم رکھنا؟ اس کے خلاف ہم سیدنا مسیح کا آخری حکم پیش کردیتے ہیں تاکہ کسی مخالف کو صحیح اصول تفسیر کے مطابق جس کا ذکر فصل اول میں کیا گیا ہے اعتراض کرنے کی یا شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔ منجیِ عالمین نے اس جہان سے الوادع ہوتے وقت اپنی زبان مبارک سے رسولوں اور دوسرے شاگردوں کو حکم دیا کہ ’’ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے پس تم دنیا میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو اور جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو یہ تعلیم دوکہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے حکم دیا ہےکہ دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں (متی ۲۸: ۱۹، مرقس ۱۶: ۱۵)۔ پھر فرمایا’’جب روح القدس تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے ‘‘(اعمال ۱: ۱۸)۔

سوُر فینیکی لڑکی کو شفا بخشنا

اب ہم سیدنا مسیح کے اقوال میں سے اس قول پر غور کریں گے جس کی بنا پر کہا جاتا ہےکہ آپ کو اس بات کا احساس تھا کہ آپ کا مشن صرف اہلِ یہود تک ہی محدود ہے ۔ انجیل میں وارد ہے کہ ’’خداوند یسوع وہاں سے نکل کر صورُاور صیدا کے (غیر یہود )علاقہ کو روانہ ہوا اور صور اور صیدا کی سرحدوں میں گیا اورایک گھر میں داخل ہواورنہیں چاہتا تھاکہ کوئی جانے مگر پوشیدہ نہ رہ سکا بلکہ ایک کنعانی عورت جس کی چھوٹی بیٹی میں ناپاک روح تھی اس کی خبر سن کر ان سرحدوں سے نکلی اورآئی اوراس کے قدموں پر گرپڑی۔ یہ عورت یونانی تھی اور قوم کی سورفینیکی۔ اس نے اس سے درخواست کی اورپکار کر کہا کہ اے خداوند ابن داؤ د مجھ پر رحم کر۔ایک بدروح میری بیٹی کو بری طرح ستاتی ہے۔اس بدروح کو میری بیٹی سے نکال ۔ مگر اس نے کچھ جواب اسے نہ دیا۔ اس کے شاگردوں نے پاس آکر اس سے عرض کی کہ اسے رخصت کردے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اورکے پاس نہیں بھیجا گیا۔ مگراس نے آکر اسے سجدہ کیا اورکہا اے خداوند میری مدد کر۔ اس نے جواب میں اس سےکہا کہ پہلے لڑکو ں کو سیر ہونے دے۔ کیونکہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوروں کو ڈال دینی اچھی نہیں ۔ اس نے جواب میں کہا ہاں خداوند کتورے بھی میز کے تلے کی روٹی کے ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو ان کی مالکوں کی میز پر سے گرتے ہیں۔ اس پر یسوع نے جواب میں اس سے کہا اے عورت تیرا ایمان بہت بڑا ہے اس کلام کے سبب سے جا جیسا چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو بدروح تیری بیٹی سے نکل گئی ہے اور اس کی بیٹی نے اسی گھڑی شفا پائی اوراس نے اپنے گھرمیں جاکر دیکھا کہ لڑکی پلنگ پر پڑی ہے اور بدروح نکل گئی ہے ‘‘(مرقس ۷باب ۲۴تا ۳۰آیات، متی ۱۵باب ۲۱تا۲۸آیات)۔

(۱)

ان آیات کی تاویل کرکے معترضین یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا مسیح صرف ایک یہودی مصلح ہو گذرے ہیں اور آپ کے کبھی وہم وگمان میں بھی نہ آیا تھاکہ آپ کی رسالت یہود تک محدود نہ رہے گی ۔ لیکن ہم سطور بالا میں ثابت کر آئے ہیں کہ صحیح اصول تفسیر کے مطابق معترض کی یہ تاویل باطل ہے۔ منجیِ عالمین کا طرز ِعمل صاف ظاہر کرتاہے کہ آنخداوند نے غیر یہود میں خدمت کی اوران کو تعلیم بھی دی۔ آیت زیر بحث خود اس بات کی گواہ ہے کہ منجی ِجہان کے معجزات کا فیض عام تھا اور آپ نے اس عورت کی لڑکی کو شفا بخشی (متی ۱۵: ۲۸)۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ خداوند کے کلماتِ طیبات بھی اس امر کے گواہ ہیں کہ آپ کی انجیل ساری خلق کے لئے تھی اورآپ کا حکم ’’ سب قوموں کو شاگرد بنانے کا تھا‘‘ہم ناظرین کو یاد دلاتے ہیں کہ صحیح اصول تفسیر تاویل الکلامہ بما یرضیٰ بہ قائلہ باطل ہے یعنی قول کے کہنے والے کی تاویل وہی صحیح ہوسکتی ہے جو اس کے منشا ، ارادہ اور خیالات کے مطابق ہو۔ پس ہم زیر بحث کی صرف اس طرز پر ہی تاویل وتفسیر کرسکتے ہیں جو سیدنامسیح کے لائحہ عمل ، طرز عمل ، کلمات، ہدایات اور احکام کے مطابق ہو۔ ہم ایک شخص کے کسی خاص قول کو اس کے دیگر اقوال اور حالات ِ زندگی کی روشنی میں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ انشاء اس صحیح اصول تفسیر کو مدِ نظر رکھ کر ہم معترضین پر یہ ثابت کردینگے کہ جونتیجہ وہ اس آیہ شریفہ سے اخذ کرتے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔ ع

کیں راہ کہ تو میروی بترکستان است

(۲)

یہ امر قابل غور ہےکہ یہ عورت اہل یہود سے نہ تھی۔ مقدس متی اس کو’’ کنعانی عورت‘‘ کہتا ہے ۔ مقدس مرقس کہتا ہے کہ ’’ یہ عورت یونانی اور قوم کی سورفینیکی ‘‘( مرقس۷: ۲۶) ’’کنعان‘‘ اور ’’ سور فینیکا‘‘ ایک ہی صوبہ کے دونام تھے جس طرح انگلستان کوبھی ’’انگلینڈ‘‘ اور کبھی ’’برطانیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس قوم کے لوگ ملک کنعان کے اصلی باشندے تھے جس کی نسبت اہل یہود کو حکم ہوا تھا کہ ان کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کردیا جائے( استثنا ۳۱: ۳تا ۵ وغیرہ) ۔اس بات سے ناظرین پر واضح ہوگیا ہوگا کہ یہودی قوم اور اس عورت کی قوم میں حددرجہ کی باہمی مخاصمت (دشمنی) اور منافرت (نفرت ،گھن )تھی۔ لیکن آیت زیر بحث سے ظاہر ہے کہ منجیِ عالمین کا محبت بھرا دل اس نفرت اور تعصب سے کلیتہً(کلی طور پر،مکمل طور پر) پاک تھا اور کلمتہ الله نے اس قوم کی دختر کو اور دیگر افراد کو شفا بخش کر اس حقیقت پر مہر ِصداقت لگادی۔

(۳)

یہ عورت جس کا نام روایت کے مطابق جسٹا (Justa) تھا اور اس کی دختر جس کا نام روایت کے مطابق برنیس (Bernice) تھا نہ صرف غیر قوم میں سے تھی بلکہ وہ ’’یونانی‘‘ تھی اور یونانی مذہب رکھتی تھی۔ وہ دیوی دیوتاؤں کی پرستار تھی۔ چنانچہ پرانے شامی ترجمہ کی قرات ہے ’’ وہ عورت بُت پرست تھی‘‘(مرقس ۷: ۲۶)اس علاقہ میں ایک بُت جس کا نام ’’صور‘‘تھا پوجا جاتا تھا ۔جس کی وجہ سے علاقہ کا نام بھی صور پڑگیا تھا

لیکن یہ بُت پرست عورت ایک یہودی ’’ابن داؤد‘‘ پربھروسا رکھ کر آئی۔ پس سیدنا مسیح نے اس کے ایمان کی تعریف کرکے فرمایا’’ تیرا بڑا ہی ایمان ہے‘‘ (متی ۱۵: ۲۸) جب ہم اس کے ایمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو ہم متعجب ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ یہ عورت اس قوم میں سے تھی جو اہل یہودکے ساتھ عداوت اور نفرت رکھتی تھی۔ لیکن تاہم وہ یہودی یسوع ناصری سے مدد کی خواہاں ہوئی۔ آنخداوند اس دفعہ علیحدگی ، عزلت اور گوشہ نشینی کی خاطر اس علاقہ میں تشریف لے گئے تھے( مرقس ۷: ۲۴) ۔لیکن جونہی اس عورت نے آپ کی آمد کی خبر سنی وہ بھاگی آئی اور آپ کے مبارک قدموں پر گر پڑی اوراس نے چلا کر کہا ’’اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر‘‘ اس کی حاجت مندی نے اس کے دل سے قومی تعصب بغض اورعناد کو دور کردیا اور وہ اپنی دشمن قوم یہود کے مسیح موعود کےپاس درخواست کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ گویہ ابن داؤد مسیح موعود قوم کا یہودی ہے تاہم وہ دیگر یہود کی طرح اس کا دشمن نہیں ہے ۔وہ ضرور اس کی بیٹی کو شفا عطا کرئےگا۔ماں کی ممتا اس کو مجبور کرتی ہے کہ یہودی مسیح موعود کے پیچھے پیچھے چلاتی جائے ۔ سیدنا مسیح کے شاگرد اس عناد ، نفرت اور تعصب سے خالی نہ تھے۔ انہوں نے اس کو خدا وند تک پہنچنے میں کوئی دلیری نہ دی تھی اور وہ تنگ آکر خداوند سے درخواست کرتے ہیں کہ ’’اسے رخصت کردے کیونکہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے‘‘۔

(۴)

ہم کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ صحیح اصول تفسیر کے مطابق جس کا ذکر فصل اول میں کیا گیا ہے اس آیہ شریفہ کی تفسیر کرتے وقت ہم کو موقعہ اورمحل اورانجیلی عبارت کے سباق کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ اس موقعہ پر سیدنا مسیح کی گفتگو کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھاکہ آپ کنعانی عورت سے اپنی زندگی کے نصب العین کا ذکر کریں۔ سیدنا مسیح اور اس عورت کےد رمیان سیدنا مسیح کے مشن کے مطمع نظر پر بحث اورمکالمہ نہیں ہورہا تھا ۔ اگر بحث کا موضوع سیدنا مسیح کے مشن کا مقصد ہوتا اور کوئی شخص نیکودیمس کی طرح آپ کے پاس آتا اور یہ دریافت کرتاکہ کیا آپ کا پیغام صرف قوم یہود تک ہی محدود ہے یا آپ غیر اقوام کو نجات دینے کے لئے بھی دنیا میں آئے ہیں اور کلمتہ الله جواب میں اپنے نصب العین کی تشریح وتوضیح کرکے فرماتے کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا اورآپ اپنے پروگرام ، پیغام، طرز عمل ، وغیرہ کو اس جواب کی تائید میں پیش فرماتے تو معترض کی تاویل حق بجانب ہوتی۔ لیکن اس موقعہ پر سوال جو درمیان میں تھا وہ آنخداوند کی زندگی کے نصب العین اور آپ کے مشن کے اصلی مقصد سے متعلق نہیں تھا ۔بلکہ اس عورت کی لڑکی کی بیماری اور شفا یابی کا سوال تھا۔ پس سیدنا مسیح کا جواب لڑکی کی شفایابی کے متعلق تھا اور آپ کے مشن کے نصب العین سے اس کا کچھ واسطہ نہ تھا یہ یاد رہے کہ زیر بحث فقرہ عورت سے نہیں بلکہ شاگردوں سے کہا گیا تھا۔ پس صحیح اصول تفسیر کے مطابق لازم ہے کہ ہم خداوند کے جواب کوجو آپ نے عورت سے نہیں بلکہ شاگردوں سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا اس کے موقع اورمحل کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اوراس کی تاویل خارجی امور کی روشنی نہ کریں۔ انجیلی عبارت کا سیاق صاف بتلاتا ہے کہ اس موقعہ اورمحل میں غیر اقوام کی روحانی نجات کا سوال ایک ایسا امر ہے جو خارج ازبحث ہے۔ پس صحیح تاویل میں ہم خارج از بحث امور کو نہ درمیان میں لاسکتے ہیں اور نہ ان کی روشنی میں اس آیہ شریفہ کی تفسیر کرسکتے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز امر ہوگا کہ عورت تو کہے کہ اے خداوند میری لڑکی کو شفا عطاکر اور خداوند جواب میں قوم یہود کی روحانی حالت ِزار پر بحث کریں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا ایک بُت پرست ہندوکسی موحد مسلمان طبیب کے پاس اپنی لڑکی کے علاج کا سوال کرے اور طبیب اس کے جواب میں برگشتہ مسلمانوں کی خستہ حالی کا رونا روئے اور ان کی دائمی روحانی نجات پر بحث کرے۔ انجیلی عبارت کا سیاق ہم کو بتلاتا ہے کہ کنعانی عورت نے ایک شفا دہندہ کی خبرسنی اور وہ اس کے قدموں میں آکر التجا کرنے لگی کہ میری لڑکی کو شفا بخش ۔ اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہوسکتا تھا یعنی یا اثبات میں یانفی میں۔ خداوند نے اس کی التجا کو قبول فرمایا اور لڑکی کو شفا عطا کی ۔

(۵)

پس انجیلی عبارت کے سیاق پر نظر کرکے ہم کہہ سکتے ہیں کہ درحقیقت اس کنعانی عورت کا چیخ وپکار نے خداوند کے دل میں خیالات کا سلسلہ شروع کردیا۔ آپ اپنے دل ہی دل میں ایک طرف تو گم گشتہ یہود کی پراگندہ حالت ِ زار پر غور فرمارہےتھےاور دوسری طرف بُت پرست غیر اقوام کی خستہ حالت کی صدا اس عورت کے نالہ کی صورت میں آپ کے کانوں میں آرہی تھی۔ انجیلی عبارت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا مسیح اپنے حوارئین کے آگے آگے آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور اپنے خیالات میں غرق تھے اوریہ عورت شاگردوں کے پیچھے چلاتی آرہی تھی۔ کلمتہ الله چلتے چلتے اس گہری سوچ میں پڑے ہوئے تھے اوراپنے خیالات میں اس قدر منہمک (کسی کام میں بہت مصروف) ہوگئے تھے کہ آ پ نے ’’ اس عورت کو کچھ جواب نہ دیا‘‘ ۔ایک طرف تو آپ اپنے دل میں بنی اسرائیل کے ان گمراہ لوگوں کا خیال کرکے ان پر ترس کھارہے تھے جو ’’ ان بھیڑوں کی مانند جن کا کوئی چرواہا نہ ہو خستہ حال اور پراگندہ تھے‘‘(متی ۹: ۳۶)۔ ان کی طرف نظر کرکے کلمتہ الله نے اپنے حواریوں کو چند روز پہلے فرمایا تھاکہ ’’فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں ۔پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے‘‘( متی ۹: ۳۷)۔ دوسری طرف کلمتہ الله کے کان میں ایک بُت پرست عورت کی چیخ پکار آرہی تھی کہ ’’ اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر‘‘۔ اس چیخ پکارنے آپ کے ذہن میں ان تمام بُت پرست غیر اقوام کا تصور باندھ دیا جو نجات اور’’ رحم‘‘ کی طلب گار تھیں۔ منجیِ عالمین قوم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف نظر کرتے ہیں توان کو پراگندہ اور خستہ حال دیکھ کر کہتے ہیں کہ ’’فصل بہت ہے‘‘۔ غیر یہود بُت پرست اقوام کی جانب نظر کرتے ہیں تو ان کی صنم پرستی اور پراگندگی کو ملاحظہ کرکے کہتے ہیں کہ ’’فصل بہت ہے‘‘ کام ہر طرف ہے۔ میں اکیلاہوں ، میری زندگی کے صرف چند ماہ باقی ہیں کہاں کہاں کام کروں۔ اہل یہود گوپراگندہ خستہ حال اور گم گشتہ ہیں تاہم وہ بُت پرست غیر یہود کی نسبت خدا کا علم زیادہ رکھتے ہیں اور بُت پرستوں سے زیادہ تیار ہیں کہ میرے پیغام کو قبول کرلیں۔ بہتر یہی ہے کہ میں اپنی زندگی کے چند ماہ جو باقی رہ گئے ہیں قوم یہود کی کھوئی بھیڑوں میں خدمت کرکے کاٹوں اور اپنے باقی ماندہ قیمتی وقت اور کوشش کو غیر یہود بُت پرستوں میں صرف نہ کروں اوراہل ِیہود کے گمراہ اور مرتد گروہوں کی طرف جو خدا سے برگشتہ ہوگئے ہیں خاص طور پر متوجہ ہوں۔ پس عالم انہماک (مصروفیت)میں کلمتہ الله نے اپنے خیالات کا اظہار کرکے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرکے اپنی زبان مبارک سے فرمایا ’’ میں بنی اسرائيل کی برگشتہ گروہ کے سوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔ یونانی عورت کی آنکھیں آپ کے مبارک چہرے پر لگی ہوئی تھیں۔ اس نے آپ کی لبوں کی جنبش کو دیکھا اوراس فقرہ کو سن لیا۔ اس کا ایمان زبردست تھا وہ آگے بڑھی اور اس نے کہا ’’ اے خداوند میر ی مدد کر ‘‘۔ ابن الله نے اپنے خیالات کا جن کو وہ سوچ رہے تھے اظہار کرکے فرمایا کہ ’’ پہلے لڑکوں کو سیر ہونے دے ‘‘ میرا اولین فرض یہ ہے کہ میں پہلے بنی اسرائيل کے مرتد لوگوں کو ان کے خدا کے پاس پھیر لاؤں بعد میں غیر اقوام بھی آجائیں گی’’ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوروں کو ڈال دینی اچھی نہیں ‘‘ میں پہلے اپنا پیغام اہلِ یہود کو سنالوں۔ یہ واجب نہیں کہ اب اپنے باقی ماندہ وقت اور کوشش کو اہل یہود کی طرف سے جو میرا پیغام سمجھ سکتے ہیں ہٹا کر غیر یہود کی طرف لگاؤں جو حقیقی خدا کی ہستی اورعلم سے بے بہرہ اورنبوت اورکتاب سے ناآشنا ہیں۔ عورت نے جواب دیا’’ ہاں اے خداوند لیکن کتورے بھی میزکے تلے لڑکوں کی روٹی کے ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں‘‘۔یعنی غیر یہود بُت پرستوں میں سے میرے جیسے جو ابن داؤد اورمسیح موعود سے رحم اور مدد کے ملتجی ہیں وہ بھی اہل یہود کے خیالات سے متاثر ہوکر ہی تیرے پاس آتے ہیں۔ اس پر منجیِ عالم نے فرمایا’’ اے عورت تیرا بڑا ہی ایمان ہے جیسا چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو اور اس کی بیٹی نے اسی گھڑی شفا پائی ‘‘( متی ۱۵: ۲۸)۔

(۶)

مذکورہ بالاآیات میں دو الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں یعنی ’’ لڑکے‘‘اور’’ کتورے ‘‘ بعض خیال کرتے ہیں کہ لفظ’’ کتورے‘‘ سے حقارت ٹپکتی ہے ۔ لیکن صحیح اصول تفسیر کے مطابق ہمیں زبان کے محاورہ کا لحاظ تاویل کرتے وقت رکھنا چاہیے۔ اگرہم اس اصول کو مدِ نظر رکھیں تو ہم دیکھیں گے کہ

خداوند نے جو الفاظ’’ لڑکے‘‘ اور ’’ کتورے‘‘ اپنی زبان مبارک سے فرمائے تو آپ نے اس وقت درحقیقت خاص ان الفاظ کو استعمال کیا جو بنی اسرائیل اور غیر اقوام خود اپنے اپنے بچوں کے لئے پیار کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ بنی اسرائیل اپنے بچوں کو پیار کے طور پر ’’ لڑکا‘‘ بلاتے تھے۔ (متی ۸: ۱۲ وغیرہ)۔ لیکن غیر اقوام اپنے بچوں کو ’’کتورا‘‘ بلایا کرتے تھے۔

ہمارے اپنے پنجاب دیس کے بعض اضلاع اور پہاڑی مقامات میں بھی والدین اپنے بچوں کو پیار کے طور پر ’’ کتورا‘‘ ، ڈبو وغیرہ بلاتے ہیں جس طرح انگریز اپنے بچوں کو ’’ کڈیز‘‘ یعنی ’’ لیلے‘‘ پکارتے ہیں۔

جائے غور ہے کہ جس یونانی لفظ کا اردو ترجمہ ’’کتے‘‘کیا گیا ہے اورہم نے ’’کتورے‘‘کیا ہے ۔ انجیل شریف میں یہ لفظ کسی اورجگہ وارد نہیں ہوا وہاں لفظ ’’کتے‘‘ کے لئے دوسرا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ پس صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق جب آنخداوند نے لفظ کتورہ استعمال فرمایا تو کسی حقارت یا نفرت کی وجہ سے نہیں کیا۔بلکہ ایک ایسا لفظ استعمال کیا جس کو غیر اقوام خود پیار سے اپنے بچوں کے لئے استعمال کیا کرتی تھیں۔اس لفظ سے آپ کا مانی الضمیر بھی ادا ہوگیا ۔ عورت کو مادری محبت اورماں کی مامتا نے عقل دی اوراس نے بھی ان دونوں الفاظ کے ذو معنی مطالب سے فائدہ اٹھاکرجواب دیاکہ ہاں ’’اے خداوند میرے چھوٹے منے کتورے کی بھی مدد کراور اس کو شفا بخش ‘‘۔

ع سخن شناس نئی دلبرا۔ خطا ایں جاست

(۷)

جس آیہ شریفہ کی بنا پر معترضین آنخداوند کے مشن کو اہل ِ یہود تک محدود خیال کرتے ہیں وہی آیت درحقیقت ان کے اعتراض کی رد میں پیش کی جاسکتی ہے۔ مقدس مرقس ہم کو بتلاتا ہے کہ خداوند نے عورت سے فرمایا’’ پہلے لڑکوں کو سیر ہونے دے‘‘( متی ۷: ۲۷)۔ لفظ ’’پہلے ‘‘ سےصاف ظاہرہے کہ منجیِ عالمین کی نظر کوتاہ نہ تھی اورنہ آپ اپنے دائرہ رسالت کو محدود خیال فرماتے تھے بلکہ آپ پہلے اہل یہود پر اتمام حجت (تکمیل تکرارودلیل ) کرنی چاہتے تھے اورغیر یہود کو اپنے نجات بخش پیغام سے محروم رکھنا نہیں چاہتے تھے۔

(۸)

اگرہم اس آیہ شریفہ کی وہ قرات قبول کریں جو پرانے شامی ترجمہ میں موجود ہے تو اس اعتراض کی سرے سے گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ وہ قرات یہ ہے۔

’’ اس نے جواب میں ان کو (شاگرد وں)کہا میں نہیں بھیجا گیا مگر ان بھیڑوں کی طرف جو اسرائيل کے گھرانے سے بھٹکی ہوئی ہیں‘‘( متی ۱۵: ۲۴)۔

اس قرات کے موافق آیت زیر بحث کا یہ مطلب ہواکہ خدا نے مجھے ان تمام اقوام کی خاطر بھیجا ہے جو اسرائیل کے گھرانے میں شامل نہیں ہیں۔ یعنی خدا نے مجھ کو غیر یہود کی جانب بھیجا ہے۔ یہ ترجمہ دوسری صدی میں شامی زبان میں کیا گیا تھا۔ ملک ِ شام ارض مقدس کنعان کے ساتھ ملحق ہے اور شامی زبان ارامی سے متعلق ہے، جوہمارے مبارک خداوند کی زبان تھی۔ عہد جدید کی کتُب کا سب سے پہلے اسی شامی زبان میں ترجمہ ہوا۔ پس ملک اور زبان کے تعلق اورترجمہ کی قدامت کے لحاظ سے بہت ممکن ہے کہ یہی قرات صحیح بھی ہو۔ یہی قرات پشیتو ترجمہ(عام اور سادہ ) کی ہے۔ جو شامی کلیسیا کا اسی طرح مستند ترجمہ ہے جس طرح ولگیٹ رومی کلیسیا کا مستند ترجمہ ہے۔

اقوام ِ عالم کی نجات اوراہل ِ یہود کا نصب العین

معترضین یہ سوال کرسکتے ہیں کیوں نجات کے معاملہ میں اہل ِ یہود کو غیر یہود پر ترجیح دی گئی ہے ؟ اگر ابن الله یہود اور غیر یہود دونوں کی خاطر اس جہان میں آئے تھے تو آپ کیوں اہل یہود کو اپنا پیغام پہلے پہنچانا چاہتے تھے ؟ (مرقس ۷: ۲۷)۔نجات کے معاملہ میں اہل ِیہود کو کیوں مقدم سمجھا گیا؟

صحیح اصول تفسیر کے مطابق لازم ہے کہ ہم کسی قائل کے قول کو اس کے دیگر اقوال کی روشنی میں سمجھیں ۔ چنانچہ مولانا رو م کہےگئے ہیں کہ

ع معنی قرآں ز قرآں پرُس وبس

اسی طرح اگرہم کلمتہ الله کے کسی قول کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس قول کی تاویل خداوند کے دیگر اقوال کی روشنی میں کریں۔ اس سوال کا جواب کہ نجات کے معاملہ میں اہل یہود کو کیوں تقدیم (ترجیح)حاصل ہے ۔ہم کو خداوند کے دیگر اقوال میں ملتا ہے۔ ایک دفعہ آنخداوند نے سامری عورت سے اثنائے گفتگو میں فرمایا تھاکہ ’’نجات یہودیوں میں سے ہے ‘‘( یوحنا ۴: ۲۲)۔ آنخداوند کو معلوم تھاکہ نجات کا علم خدا نے اہل یہود میں ودیعت(امانت ،سپردگی ) فرمایا ہےپس خداوند نے اپنی حیات میں اپنے کام اور پیغام کو ایک حد تک اہل یہود میں محدود رکھا۔اہل یہود کو دیگر اقوام کی نسبت خدائے واحد اوربرحق کا زیادہ علم تھا۔ ہم نے اپنی’’ کتاب نور الہدیٰ ‘‘میں بتلایا ہے کہ غير اقوام صنم پرستی اور شرک میں اور رسوم بد میں مبتلا تھیں۔ وہ بت کدوں میں لاکھوں دیوتاؤں کے آگے سرنگوں ہوتی تھیں، لیکن اہل یہود صرف ایک واحد خدا کی پرستش کرتے تھے۔ پس منجیِ کونین نے اہل یہود کی گم گشتہ گروہوں کو جگانے کی اوران پر خدا کا علم ظاہر کرنے کی سر توڑ کوشش کی تاکہ پہلے وہ خود کلام سنیں اور پھر دیگر اقوام تک اس خوشخبری کے پیغام کو پہنچانے والے بنیں۔ منجیِ عالمین کو اس بات کا علم تھا کہ دنیا پر آپ کی عمر کے دن تھوڑے ہیں لیکن آپ کو تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس تاریکی میں آپ کو ایک شمع ٹمٹماتی نظر آتی تھی یعنی یہودی قوم پس آپ نے دنیا کی تاریکی کو دور کرنے کی غرض سے اس ایک ٹمٹماتی شمع کی طرف خاص توجہ کی ۔ اہل یہود خدا کی پہچان میں بُت پرست فلاسفہ سے بھی گوئے سبقت لے گئے ہوئے تھے۔ جب ہم یہودی تعلیم کا یونانی فلسفہ اور اخلاقیات سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ سقراط، افلاطون اورارسطو جیسے عظیم الشان فلاسفر اس تعلیم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ انگلستان کا مشہور فلاسفر مرحوم ڈاکٹر ریشڈال اس موضوع پر مفصل تبصرہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ

’’ مذہب اوراخلاق کے معاملہ میں ارسطو کےہم عصر یونانی اہلِ یہود کے مقابلہ میں کل کے بچے تھے‘‘ ۔

پس جب خداوند نے اپنا کام اور پیغام ایک حد تک اہل ِیہود میں محدود رکھا تو اس کی وجہ آپ کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی نہ تھی ۔بلکہ اس کی اصل وجہ آپ کی معاملہ فہمی، دوراندیشی ، اورحکمت عملی تھی۔ جس کے مطابق آپ نے اپنے لائحہ عمل کو ڈھالاتھا۔

اگر معترض ہم سے یہ سوال کرے کہ آنخداوند نے کیوں فرمایا تھاکہ ’’نجات یہودیوں میں سے ہے‘‘۔ کیا کوئی اور قوم نجات نہیں پائے گی ؟ توہم اس کا جواب یہ دیں گے کہ سیدنا مسیح نے یہ نہیں فرمایا تھاکہ نجات یہودیوں تک ہی محدود ہے۔ اگر آپ نے یہ فرمایا ہوتا تو معترض کا اعتراض درست ہوسکتا تھا۔ لیکن آپ نے فرمایا تھاکہ ’’ نجات یہودیوں میں سے ہے‘‘۔ یعنی نجات کا علم یہود میں سے نکل کر دنیا میں پھیلے گا۔ اہل یہود دنیا میں نجات پھیلانے کا وسیلہ ہیں۔ خدا نے بنی اسرائیل کو اس لئے منتخب نہیں کیا تھاکہ صرف وہی نجات پائیں بلکہ خدانے یہود کے سپرد یہ خدمت کی تھی کہ وہ نجات کا علم دنیا کی اقوام میں پھیلائیں۔ اس رسالہ کی فصل دوم میں ہم یہ ثابت کر آئے ہیں کہ خدا نے اپنی توحید کے علم کو پھیلانے کے لئے بنی اسرائيل کو خادم کے طور پر چنا تھا نہ کہ منظور ِ نظر کے طور پر چنا تھا۔ ان کی صحف انبیاء اس امر کی شاہد ہیں کہ ’’امت اسرائیل غیر قوموں کو روشنی دینے والا نور‘‘ مقرر کی گئی تھی (لوقا ۲: ۳۲)۔ مثلاً اے بنی اسرائیل تم میرے گواہ ہو اورمیرا خادم بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا۔ میں ہی خدا ہوں سو تم میرے گواہ ہوگے۔ میں تجھے اقوام کے لئے نور کروں گا اور زمین کی انتہا تک تم میری نجات کے پیغامبر ہوگے ۔’’ غرض یہ کہ جس طرح جرمن نقاد ولہاسن (Wellhasusen)کہتا ہےکہ

’’بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھاکہ لا الہ الا الله اسرائیل رسول الله۔اہل یہود کی روزانہ دعا میں یہ فقرہ ہے‘‘۔

اے خداوند ہمارے خدا کل کائنات کے بادشاہ تو مبارک ہے کہ تونے ہم کو اقوام عالم میں سے چن لیا ہے۔

(۲)

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیوں خدا نے خاص قوم یہود کو دنیا میں نجات کا پیغام دینے کے لئے منتخب کیا اور دوسری قوموں کو اس کے ذریعہ اپنے علم کا نور بخشا ؟ تو اس کا جواب یہ ہےکہ ع

ہرکسے رابہر کارے ساختند

الہیٰ انتظام ہی ایسا ہے کہ قدرت نے مختلف نعمتیں مختلف افراد اوراقوام کوعطا فرمائی ہیں اوریہ انتظام ہم کو دنیا کی چھوٹی بڑی شے میں دکھائی دیتا ہے۔ مثلاًہمارے بدن کے مختلف اعضا کے سپرد مختلف کام کئے گئے ہیں اور تمام اعضا مل کر بدن کا سارا کام سر انجام دیتے ہیں۔خدانےہاتھ کے سپرد ایک کام کیا ہے۔ آنکھ کو دوسرا کام دیا ہے۔ کان کو تیسرا علی ٰ ہذا القیاس (اسی طرح)ہر ایک عضو کے سپرد ایک خاص کام ہے جو صرف وہی عضو بہترین طور پر کرسکتا ہے اور کوئی دوسرا عضو اس خاص کام کو سر انجام نہیں دے سکتا۔ اسی طرح انسان کی تمدنی زندگی میں ایک استاد ہے تو دوسرا لوہار ہے۔ ایک سنُار ہے تو دوسرا طبیب ہے ۔علی ٰ ہذا القیاس ہر شخص کے سپرد قدرت نے ایک خاص کام کیا ہے اوراس خاص کام کرنے کے واسطے اس کو پیدا کیا ہے۔ وہ کام صرف وہی بہترین طور پر کرسکتا ہے اور دوسرا شخص اس کام کو ویسی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن تمام افراد مل کر سوسائٹی کے کام کو چلارہے ہیں۔ اسی طرح قوموں کے سپرد قدرت نے مختلف نعمتیں کی ہیں۔ اگرہندوستان کو فلسفہ عطا کیا ہے تو روم کوقانون سازی کی نعمت عطا کی ہے۔ اگر جرمنی کو بال کی کھال نکالنے کی نعمت عطا کی ہے ،تو انگلستان کو تجارت کرنے کی نعمت عطا کی ہے۔ اگر یونان کو علم وفضل سے مالا مال کیا ہے تو یہود کو خدا نے اپنی نجات کاعلم بخشا ہے ۔ غرض یہ کہ قدرت نے ہر قوم اورملک کو مختلف کام سپرد کئے ہیں اور تمام اقوام اور ممالک مل کر نظام عالم کو چلارہے ہیں۔ جس طرح قدرت نے یونان کے ذریعہ تمام دنیا میں علم اور فلسفہ کی اشاعت کی ہے اور اس کے سپرد یہ خدمت کی کہ دنیا بھر میں علم اور فلسفہ کو پھیلائیں اسی طرح روم کے سپرد یہ خدمت کی کہ دنیا کوقانون سازی کا علم سکھائے۔ اسی طرح قدرت نے اہل ِ یہود کے سپرد یہ خدمت کی کہ دنیا میں خدائے واحد کی ہستی کا اور اس کی ذات وصفات اورنجات کا علم پھیلائیں جس طرح یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ تمام دنیا علم اور فلسفہ کے لئے یونان کی ممنون ہے اورقانون سازی کے لئے روم کی مرہون منت ہے ۔اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کلُ دنیا خدائے واحد برحق اور لازوال کے علم اور اس کی نجات کے نور کے لئے اہل ِیہود کی شرمندہ احسان ہے۔

(۳)

جب ہم اہل یہود کی تاریخ پر نگاہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس قوم میں جس کی ابتدا صحرا سے ہوئی اور دیگر شامی اقوام مثلاً اسماعیلی ، ادومی، موآبی ،امونی وغیرہ اقوام میں (جن کےساتھ ابتدا میں یہودی قوم کا خونی رشتہ تھا)۔ زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دیگر اقوام جس سطح پر پہلے تھیں وہیں رہیں اورانہوں نے اس سے آگے ایک قدم بھی نہ بڑھایا ۔بلکہ ان کو ایسا زوال آیاکہ دورِ حاضرہ میں کوئی ان اقوام کے نام سے بھی واقف نہیں۔ لیکن قوم بنیِ اسرائیل نے صحرائی فضا سے نکل کر حیرت انگیز ترقی کی ۔ وہ مصر میں گئے لیکن مصر کی زبردست تہذیب ان کو جذب نہ کرسکی۔ حالانکہ وہ اس ملک میں غلامی کی حالت میں رہے۔ جب انہوں نے کنعان میں بدوُباش اختیار کی تو وہ اپنے ارد گرد کی کنعانی ،فلستی اوردیگر بُت پرست ہمسایہ اقوام کی مشرکانہ راہ پر نہ چلی۔ مابعد کے زمانہ میں اس قوم کا سابقہ ارام، اسیریا، بابل ، مصر اور ایران ویونان وروم کے ساتھ پڑا اور ان میں سے بعض ممالک اس پر حکمران بھی رہے ،لیکن ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کی ہستی کو مٹا نہ سکے۔ ایک زمانہ میں اس کا سابقہ فینیشیا(Phoenicia) کےساتھ پڑا جوایسی زبردست بحری طاقت تھی کہ دنیا کو اپنے قبضہ میں لانے کے لئے سلطنت روم کا مقابلہ کرتی تھی۔ لیکن قوم یہود کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ بحیرہ متوسط کے مشرقی ساحل کے ارد گرد کے ممالک میں سکندر اعظم کی فتوحات کی وجہ سے یونانی تہذیب حکمران رہی اور جب روم نے ان ممالک کو فتح کیا اس زمانہ میں بھی یونانی علم ادب اور تہذیب کا دور دورہ تھا اورساتھ ہی رومی تہذیب کا سکہ بھی جم گیا۔ اس یونانی رومی تہذیب کے غلبہ نے بحیرہ متوسط کے ممالک کی تہذیب کا خاتمہ کردیا اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ مصر کی زبردست تہذیب کے پاؤں بھی اکھڑگئے اور وہ بھی تاب مقابلہ نہ لاسکی، لیکن یہ یونانی رومی تہذیب اپنی تمام طاقت کے باوجود قوم اسرائیل کے مذہب کی بلندی اور رفعت کو قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہ دیکھا۔ بنی اسرائيل نے ابتدا سے لے کر آخر تک اپنی انانیت (خودی ،غرور،خود ستائی)کو ہاتھ سے نہ کھویا۔ روئے زمین کی تاریخ میں قوم اسرائیل کی جداگانہ ہستی ایک ایسا معجزہ ہے جس سے کسی مورخ کو مجال انکار نہیں۔ یہ قوم فخریہ کہہ سکتی ہے کہ

یونان ومصر وروما سب مٹ گئے جہاں سے

مٹتا نہیں ہے لیکن نام ونشاں ہمارا

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور فلک ہمارا

ہم کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فی زمانہ جب ہم یونان اور روم کی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ یونان اورروم جن کی تہذیب کا ذکر کیا جاتا ہے صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مفقود ہوچکے ہیں۔ گویہ ممالک آج کل دنیا کے نفشہ پر موجود ہیں اوریونان میں بستے ہیں اور روم ایک بڑی طاقت ہے لیکن دورِ حاضرہ کے یونان اورروم کا قدیم یونان اورروم کی تہذیب سے رتی بھر تعلق نہیں۔ وہ تہذیب مٹ چکی ہے اور حرف غلط کی طرح محو ہوچکی ہے ۔ لیکن بنی اسرائیل کا یہ حال نہیں۔ ان کی تہذیب مردہ نہیں اگرچہ وہ ارض مقدس میں من حیث القوم (کاہنوں کی مملکت)نہیں بستے ۔

آخرکوئی وجہ تو ضرور ہے کہ یہ قوم جس کی سیاسی اور دنیاوی نقطہ نگاہ سے کچھ حیثیت نہیں زندہ ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ رب العالمین نے اپنی پروردگاری میں اس حقیر قوم کو خاص طور پر چن لیا تھاتاکہ اقوام عالم کو خدا کا سبق سکھلائے۔ قوم یہود کو بھی اپنے مشن کا احساس تھا اسی لئے اس نے اپنے آپ کو کسی مشرکانہ بُت پرست قوم کفار میں جذب ہونے نہ دیا۔ ان کی تاریخ اس پیش گوئی کو ثابت کرتی ہے جو بلعام نےان کی نسبت کی تھی کہ ’’ یہ لوگ اکیلے سکونت کریں گے اور قوموں کے درمیان شمار نہ کئے جائیں گے‘‘( گنتی ۲۳: ۹)۔ ان کو بخوبی معلوم تھاکہ ’’ خداوند نے یعقوب کو اپنے واسطے چن لیا اور اسرائيل کو اپنے خاص خرانے کے واسطے چنا‘‘(زبور ۱۳۵: ۴)۔ اس انتخاب کا مطلب یہ نہیں تھا کہ بنی اسرائیل کی قوم خدا کی منظورِ نظر ہے یا وہ جو چاہیں سوکریں خدا ہر حال میں ان کا مددگار ہوگا۔بلکہ خدا نے صاف طور پر ان کو بتلادیا تھا کہ اس خاص تعلق کی وجہ سے ان پر چند ایک ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،کیونکہ یہ ایک قانون ِ فطرت ہے کہ ’’ جس کو زیادہ دیا جاتا ہے اس سےزیادہ طلب کیا جاتا ہے‘‘۔چنانچہ خداوند نے حضرت عاموس کےذریعہ ان کو خبردار کردیا تھا اور فرمایا تھا’’ اقوامِ عالم میں سے میں نے صرف کو تم کوجانا ہے اس لئے میں تم کو تمہاری ساری بدکاریوں کےلئے سزا دوں گا‘‘(عاموس۳:۲)۔ پس انتخاب کا مطلب یہ نہ تھاکہ بنی اسرائیل کی ذات کوفائدہ پہنچے بلکہ خدا کا یہ ازلی ارادہ تھاکہ بنی اسرائیل خدا کی معرفت کے لئے ایک تبلیغی قوم ہو۔ غیر اقوام کے درمیان وہ چمکنے والا نور ہوتاکہ سیدنا مسیح کی نجات کا علم پھیلانے کے لئے وہ اقوام عالم کو تیار کرے۔ اورمنجیِ عالمین کے پیغام کی پیشروہو۔ پس بنی اسرائیل کا یہ مشن تھاکہ یہ قوم خدا کے علم کو اقوم ِ عالم میں پہنچانے کی خدمت کو پورا کرے اور اس قوم کو یہ احساس تھاکہ ان کی قوم فنا نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ اپنے مشن کو پورا نہ کرے (حزقی ایل ۳۷: ۲۰تا ۲۸)۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ اس نکتہ نگاہ سے کل اقوام عالم میں کوئی دوسری قوم بنی اسرائیل کی ہم پلہ نہیں ہوئی ۔

ابتدا ہی سے بنی اسرائیل اپنے خدا میں وحدانیت ، قدوسیت ،پاکیزگی اوررحم کی صفات کے قائل تھے۔ یہ صفات نہ تو ان کی ہمسایہ اقوام کے معبودوں میں اورنہ دنیا کی کسی قوم کے معبودوں میں پائی گئیں۔ نہ تو ان معبودوں کے پرستاروں نے اپنے دیوی دیوتاؤں میں یہ صفات پائیں اورنہ یہ معبود اپنے پرستاروں سے پاکیزگی کے طالب ہوئے ۔

دنیا کی تمام دیگر اقوام کی تاریخ میں ایک ایسا زمانہ آیا۔ جب ان اخلاقی نشوونما اس قدر ترقی کرگئی کہ وہ اپنے دیوی دیوتاؤں اور معبودوں کی صفات وعادات کی نکتہ چینی کرنے لگے ۔ مثلاً کہ وہ چوری یا زناکاری کے مرتکب تھے ۔بلکہ زناکاری بعض اقوام کی پرستش کا حصہ تھی۔ جس طرح اہل ِہنود کے بعض دیوی دیوتاؤں کی پرستش کا حصہ ہے۔ لیکن قوم اسرائيل کی تاریخ میں ایسا وقت کبھی نہ آیا۔ اسرائيل کا خدا خدائے قدوس اور تمام صفاتِ حسنہ کا جامع تھا جو اپنے پرستاروں سے پاکیزگی کا طالب تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے صرف بنی اسرائیل کے ذریعہ اقوامِ عالم کویہ تعلیم دی کہ خدا کی ذات نہ صرف ہر طرح کی بدی سے منزہ اور مبرا ہے بلکہ وہ ایک ایسی واحد اکبر اور قدوس ہستی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہےکہ ’’ تم پاک ہوکیونکہ میں پاک ہوں ‘‘( احبار ۱۱: ۴۴)۔

یہی وجہ تھی کہ سیدنا مسیح نے اہل یہود کے درمیان اپنی خدمت کوایک حد تک محدود رکھنا مناسب خیال فرمایا اورہمیشہ عہد عتیق کی کتب کا ہی استعمال فرمایا۔ آپ کی تعلیم میں اہل یہود کی لٹریچر کےعلاوہ کسی اورقوم کے علم ادب کاذکر نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو قدیم یونان کے فلسفیانہ خیالات اورایران وہندوستان کے مذاہب کی کتُب کا ذکر کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہ کیا کیونکہ اہل یہود میں قدرت نے مذہبی مزاج اورالہیٰ رغبت ودیعت کر رکھی تھی۔

(۴)

اہل یہود سامی نسل کے تھے اور دنیا کے بہترین انبیا اور تمام مذاہب کے عظیم الشان اشخاص اسی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل الله سے لے کر رسولِ عربی تک جتنے انبیاء اور مصلحین پیدا ہوئے ہیں سب اسی نسل کے تھے۔ اہل یہود نے ہی خدا کا علم دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلادیا۔ آج دنیا کے عظیم الشان مذاہب نے صرف یہودیت سے ہی توحید کا علم پایا۔ مسیحی کتب مقدسہ میں یہودی کتب مقدسہ شامل ہیں اوراسلام کی کتاب قرآن مجید ببانگ دہل (نقارہ کی چوٹ پر)پکار کر یہودی کتب مقدسہ کو بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ، نور کامل ، نعمت ،رحمت ،رہنما وغیرہ قرار دیتی ہے اوران کو امام الکتب والناس بتلاتی ہے اوربانی اسلام اوراہل اسلام کو ہدایت کرتی ہے کہ ان کتب مقدسہ کے احکام پر چلیں۔

(۵)

اہل ِیہود کی کتب مقدسہ سےہم کو معلوم ہوتاہےکہ کس طرح خدانے قوم اسرائیل کو اپنا پیغام تمام دنیا کو پہنچانے کی خدمت عطا فرمائی اوربنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتاہےکہ کس طرح خدا نے اس قوم کی تاریخ کی مختلف منازل میں اس کواس مبارک خدمت کو سر انجام دینے کے لئے تیار بھی کیا۔ پس منجیِ کونین نے اس قوم میں کام کیا جس میں خدا نے خاص طورپر اپناعلم ودیعت کررکھا تھا اورجس کے سپرد یہ خدمت کی گئی تھی اورجو اس خدمت کے لئے الہیٰ انتظام کے مطابق تیار بھی کی گئی تھی۔ آپ نے اپنے کام اورپیغام کو اسی قوم میں حد تک محدود رکھا تاکہ اس کو مبارک خدمت کے لئے زیادہ تیار کریں۔ کلمتہ الله اس دنیا میں نور ہوکر آئے اورتمام دنیا بھر کی اقوام میں صرف اہل یہود ہی ایسے تھے جن کو خدا نے اپنی نجات کا علم پھیلانے کے لئے تیار رکھا تھا ۔وہ خدائے واحد قدوس کے قائل تھے اورمانتے تھے کہ حی القیوم خدا اس کائنات کا خالق اور پروردگار ہے۔ جس نے دنیا کو ایک خاص مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے۔ اور واقعات ِ عالم میں سے کوئی واقعہ بھی اس کے علم اور ارادہ کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ ان کے پاس مقدس کتابیں تھیں۔ ان کے پاس انبیا آئے تھے جو مسیح موعود کی آمد، صفات ،خصوصیات آپ کی صلیبی موت اور قیامت کی پیش گوئیاں کرچکے تھے۔ اہل یہود اس مسیح موعود کی آمد کے انتظار میں بے قرار تھے۔ پس ابن الله نے اپنی دور اندیشی اورحکمت ِعملی اورنکتہ رس(تیزفہم) طبیعت کی وجہ سے اس تیار زمین میں اپنی تعلیم کا بیج بویا (متی ۱۳: ۲تا ۹)۔ سیدنا مسیح نے بنی اسرائیل میں ایمان دیکھا اوران میں وسیع پیمانہ پر اپنا کام کیا۔ خداوند ایمان کی تلاش میں تھے اورجہاں کہیں آپ نے ذرا بھی ایمان دیکھا وہاں آپ نے کام کیا خواہ وہ ایمان اہل یہود میں دیکھا خواہ غیر یہود میں (مرقس ۵: ۱۹و غیرہ)۔ جہاں سیدنا مسیح نے تیار زمین دیکھی وہاں آپ نے اپنی تعلیم کا بیج بودیا (متی ۱۳: ۳۸تا ۳۹)۔ چونکہ سب سے زيادہ تیار زمین آپ کو اہل یہود میں ہی ملی لہذ ا آپ نے تین سال کے مختصر عرصہ میں اپنے کام اور پیغام کوایک حد تک اہل یہود میں محدود رکھا ۔کیونکہ غیر اقوام خدا سے ناواقف اور بُت پرست تھیں۔ نہ وہ خدا پر ایمان رکھتی تھیں ،نہ صحف مقدسہ ان کے پاس تھیں اور نہ وہ مسیح موعود کی منتظر تھیں۔ ان کے سمجھانے کے لئے ایک عرصہ دراز اورمبلغین کی کثیر تعداد کی ضرورت تھی اوریہاں سیدنا مسیح کے پاس صرف آپ کی زندگی کے چند ماہ اور معدودے چند(گنتی کے ،بہت تھوڑی تعداد میں ) حوارئین تھے جو آپ کی زندگی کے آخر تک آپ کے پیغام کی تہ کو نہ پاسکے (لوقا ۲۲: ۲۴، متی ۲۰: ۲۵، لوقا ۲۴: ۴۴، اعمال ۱: ۶ وغیرہ)۔ پس سیدنا مسیح نے اپنی دوراندیشی اورحکمت ِ عملی کو کام میں لاکر اپنی خدمت کا اکثر حصہ اہل یہود میں صرف کیا تاکہ وہ اس برگشتہ قوم کو دوبارہ خدائے واحد کے قدموں میں لا کر ان کو اپنا وہ نصب العین یاد دلائیں جو ان کی کتب ِ مقدسہ میں بار بار بتلایا گیا تھا اوران کے انبیاء نے جوکئی صدیوں سے خدا کی طرف سے مامور ہوکر ان کی طرف آئے تھے ان کو بار بار بتلایا تھا ۔کہ وہ اقوام عالم میں خدا کی نجات کی اشاعت کا وسیلہ بننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔

(۶)

دورِ حاضرہ میں ہم ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندؤوں کی مثال دے کر اپنے مطلب کو واضح کردیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے مسیحیت کا حلقہ بگوش ہوجائے اور وہ اپنے خداوند اور منجیِ کے پیغام کو اپنے ہم وطنوں پر ظاہر کرنا چاہے تو وہ ہندو اورمسلم جماعتوں میں سے کس جماعت میں پہلے اپنی تبلیغی کوششوں کو شروع کرئے گا؟ اگراس کو یہ علم ہو کہ اس کی زندگی کے چند ماہ باقی ہیں اور اس کے معدودے چند شاگرد اس کے کلام کوکماحقہ نہیں سمجھتے اور اگروہ خود ہندومذہب کے عقائد ورسوم اور زبان وغیرہ سے نابلد(ناآشنا ،ناواقف) ہولیکن مسلم عقائد رسوم اور عربی فارسی زبان سے واقف ہوتو یہ ظاہر ہے کہ وہ اپنی خدمت کا اکثر حصہ مسلم حلقوں میں صرف کرےگا ۔کیونکہ مسلمان خدا پر، خدا کی کتابوں ، رسولوں پر، نبوت پر ، قیامت پر، حشر ونشر پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کلمتہ الله سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ آپ پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں آپ کی بابت بکثرت تصریحات (تصریح کی جمع،تشریح،صاف طور پر بیان کرنا ) موجود ہیں اوراہل اسلام آپ کی آمد ثانی کے منتظر اوربے قرار ہیں۔ اس کے برخلاف اہلِ ہنود مسیح سے محض نابلد ہیں۔ نہ ان کے ویدوں میں آنخداوند کاذکر ہے نہ ان کی کتب میں آپ کا نام اورنشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی کلیسیا اہل اسلام میں زیادہ سہولت کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔

(۷)

تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ منجی عالمین کے یہودی نژاد(حسب ،نسب) شاگردوں نے غیر اقوام میں منجیِ عالمین کے پیغام کوپھیلایا۔ آپ کے رسول سب یہودی قوم کے تھے اور وہی غیر اقوام کے رسول بھی ہوئے ۔ ہم فصل ِ چہارم وپنجم میں اس بات کا مفصل ذکر کریں گے کہ غیر یہود اقوام کی کلیسیائیں انہی یہودی نسل کے رسولوں کی وساطت سے منجیِ عالمین کے قدموں میں آئیں۔ پس یہ زیرِ بحث سیدنا مسیح کی دورُبین نگاہوں اورحکمت ِعملی اور دورُاندیشی اورمعاملہ فہمی پردلالت کرتی ہے نہ کہ آپ کے مشن کے محددود ہونے پر دلیل ہے۔

مسیحی نجات کی عالمگیری

پس کلمتہ الله کے کلمات طیبات، احکام ،ہدایات ، پیغام ، لائحہ عمل اورطرز ِعمل سے ہر منصف مزاج شخص یہی نتیجہ اخذ کریگا کہ آپ کی نظر تمام دنیا کی کل اقوام پر تھی۔ دورِ حاضرہ میں ڈاکٹر مونٹی فیوری سےزیادہ قابل شخص یہودیت میں نہیں ہے ۔ ہم اس کے الفاظ ذیل میں درج کرتے ہیں تاکہ معتر ضین ان پر غور کرکے اپنے خیالات کی صیقلی(صاف،چمک) کرسکیں۔ یہ یہودی عالم سوال کرتا ہے کہ

کیا مسیح کی بادشاہت عالم گیر ہے ؟ کیا اس نئی بادشاہت میں قومیت کی امتیاز نہیں ہے ؟ کیا یہود اور غیر یہود مسیحی خدا کے سامنے برابر ہیں؟ ان سوالات کے جواب میں کہتاہےکہ یہ ماننے کے لئے کافی دلائل موجود ہیں کہ دیگر یہودی انبیا کی طرح سیدنا مسیح کا بھی خیال تھاکہ اس کی نئی بادشاہت میں غیر اقوام کے ایماندار خارج شدہ یہودی گنہگاروں کی جگہ لے لیں گے ۔ مشرق اور مغرب شمال اورجنوب سے غیر اقوام آئيں گی اورآسمانی ضیافت میں ابراہیم کی حقیقی اولاد بنی اسرائیل کے ساتھ برابری کے درجہ حاصل کریں گی۔ایک اور امر میں جنابِ مسیح کے خیالات اپنے ہمعصروں کے خیالات سے بلند وبالاتھے۔ اس نے اہل یہود کی قومی تنگ نظری کوبالکل نظر انداز کردیا جہاں تک ان غیر مکمل متعصب اوریک طرفہ انجیلی بیانات سے پتہ چل سکتا ہے ہم کو ماننا پڑتا ہے کہ سیدنا مسیح اپنی بادشاہت کو کوئی یہودی سلطنت خیال نہیں کرتا تھا۔ اس کی بادشاہت میں یہود کو غیر یہود پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اس بادشاہت میں نہ کوئی حکم ہے نہ کوئی محکم اورنہ کوئی باجگزار ہے۔ اگر بادشاہت میں کوئی درجہ بندی ہے تو وہ خدمت کے لحاظ سے ہے۔ اس میں سب سے بڑا وہ ہے جو سب کا خادم ہے ۔

ایک اور یہودی ربی ڈاکٹر کلاسنر کہتا ہے کہ

جنابِ مسیح نے یہودی انبیا کی تعلیم سے تمام قومی اور سیاسی امور کو خارج کرکے اپنی تعلیم کو عالمگیر بنادیا ۔پھر ایک اورجگہ کہتاہےکہ " یہ حق ہے کہ یہودیت سے مسیحیت پیدا ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیت اور مسیحیت میں مماثلت اور مشابہت ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ یہودیت کے ساتھ مسیحیت نے کسی قسم کی مصالحت نہ کی اوراس نے اپنے اُصول کو اپنی راہ پرچلایا اوریہی وجہ ہے کہ یہودیت اورمسیحیت میں مغائرت اور فرق عظیم ہے ۔

ہمیں امید ہے کہ اہل اسلام اہل یہود ہی سے انصاف کی بات کرنا سیکھیں گے جن کو قرآن نے گدھے کی طرح حامل تورات (سورہ جمعہ آیت ۴)۔ ’’ناخلف‘‘ (اعراف ۱۶۸، مریم ۶۰) اور ’’سیاہ دل ‘‘ (مائدہ ۱۶) کے خطبات دے رکھے ہیں۔

فصل چہارم

حوارئین کی تحریرات اور طریق عمل

اگر کوئی شخص ابن الله کے احکام کے حقیقی منشا اور اصلی مطلب کو سمجھ سکتا تھا تو وہ آپ کے حواری تھے۔ آپ کے رسول آپ کی صحبت سے ہر وقت فیض یاب ہوتے تھے۔ چنانچہ ان کو یہ شرف حاصل تھا کہ انہوں نے آپ کے کلمات ِطیبات کو ’’ خود اپنے کانوں سے سنا اور آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا۔ ہم نے اس کو دیکھا اوراس کی گواہی دیتے ہیں اوراسی ہمیشہ کی زندگی کی تم کو خبردیتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے دیکھا اورسنا ہے اس کی تم کو خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اوریہ باتیں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہوجائے ‘‘(۱۔یوحنا پہلا باب )۔یہ حوارئین تبع تابعین کے گروہ میں سے نہ تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جن کو آپ کی رفاقت میں رہنے کا فخر ہروقت حاصل تھا اور آپ کے اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، کھانے پینے ، سونے جاگنے ، ہنسنے رونے ، مذاق طبعیت ، انداز ِگفتگو ، طرزِ زندگی ، غرضیکہ آپ کی ایک ایک ادا سے واقف تھے۔ وہ کلمتہ الله کے ساتھ شروع سے آخرتک رہے (یوحنا ۱۵: ۲۷۔ اعمال ۱: ۲ وغیرہ) ۔ پس آپ کے رسول مابعد کی نسلوں سے زیادہ اور گمراہ کن مفسرین سے کہیں زیادہ اپنے آقا اورمولا کے نصب العین مطمع نظر اور اصلی مقصد کو جانتے تھے۔ جب ہم ان شاگردوں اورحواریوں کے لائحہِ عمل ، طرز ِعمل ، تعلیم ، ہدایات اور احکام پر غور کرتے ہیں توہم پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ منجیِ عالمین کے سب شاگرد اورکل حوارئین یہی سمجھے کہ آنخداوند صرف اہل یہود کے لئے مبعوث ہوکر نہیں آئے تھے ۔بلکہ آپ دنیا کی کلُ اقوام اور بنی نوع انسان کے منجی ہوکر اس دنیا میں آئے تھے۔

(۲)

خداوند کی آخری ہدایات کے مطابق شاگردوں نے اول ہی اول یروشلیم میں گواہی دینی شروع کی ۔ ابن الله کے صعود آسمانی کے بعد مومنین کا گروہ مبلغین کی عظیم الشان جماعت میں تبدیل ہوگیا۔ انہوں نے یروشلیم کو مرکزی مقام قرار دے کر آس پاس کے گاؤں، قصبوں اور شہروں میں انجیل کی بشارت کی خدمت شروع کردی۔ اہل یہود ان کو طرح طرح کی ایذا ئیں دینے لگے تاکہ وہ اس بات سے باز آجائیں (اعمال ۴: ۱۸) لیکن

گشتگان خنجر رتسلیم را۔ ہر زماں ازغیب جانے دیگر است

ایذارسانیوں نے ان کی آتش شوق کو دوبالا کردیا ۔ع

حدیٰ راتیز ترمیخوں چومحمل راگراں بینی

فلپس شہر سامریہ میں جاکر منادی کرنے لگا اور لوگوں نے بالا اتفاق اس کی باتوں پر جی لگایا۔ جب رسولوں نے جو یروشلیم میں تھے سناکہ سامریوں نے خدا کا کلام قبول کرلیا تو پطرس اوریوحنا کو ان کے پاس بھیجا وہ گواہی دے کر اور خدا کاکلام سنا کر یروشلیم کو واپس ہوئے اور سامریوں کے بہت سے گاؤں میں خوشخبری دیتے گئے ‘‘(اعمال ۸باب)۔جائے غور ہے کہ وہ یہود جو سامریوں کے ساتھ صدیوں سے پر خار(تکلیف دہ ) رکھتے تھے مسیح میں ہوکر اپنے یہودی تعصبات سے کلیتہً ایسے آزاد ہوجاتے ہیں کہ اپنے جانی دشمنوں کو مسیحی اخوت کی عظیم الشان برادری میں داخل کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ اب کی دفعہ جب مقدس یوحنا سامریہ میں گیا ہوگا تو کیا وہ جگر خراش (نہایت رنج دہ )واقعہ یاد نہ آیا ہوگا ’’جب سامریوں نے خداوند کواور آپ کے شاگردوں کو اپنے گاؤں سے نکال دیا تھا اورایسا برُاسلوک کیا تھا کہ مقدس یوحنا کا جی چاہتا تھا کہ آگ آسمان سے برسے اوران کو بھسم کردے ‘‘(لوقا ۹: ۵۴)۔ لیکن سیدنا مسیح کی روح نے ہر طرح کی کدورت اورملال بغض اور عداوت کو اس کے دل سے نکال دیا( لوقا۹: ۵۵)اور وہ ’’ سامریہ کے بہت سے گاؤں میں خوشخبری دیتے گئے ‘‘اوران کے باشندوں کو مسیحی کلیسیا کی برادری میں شامل کرتے گئے‘‘ (اعمال ۸: ۱۷)۔

مقدس فلپس نے ایک حبشی وزیر کو بپتسمہ دیا (اعمال ۸: ۳۸) مقد س پطرس نے کرنیلیس کو جو غیر قوم اوراٹلی کا صوبہ دار تھا بپتسمہ دیا۔ ( اعمال ۱۰: ۴۸)۔ اوراس کے گھر میں غیر یہود کو انجیل جلیل کی عالمگیری پر درس دیا( اعمال ۱۰باب)۔ منجی کونین کے مصلوب ہونے کے تین سال کے اندر مسیحیت دمشق تک پھیل گئی ۔وہاں اس نے ایسی جڑ پکڑی کہ یروشلیم کے سردار کاہنوں نے ساؤل کو خطوط دئے تاکہ جن لوگوں کو وہ مسیحیت پر پائے ’’خواہ مردخواہ عورت ان کو باندھ کر یروشلیم میں لائے‘‘( اعمال ۹: ۲) مقدس ستفنس کے شہید ہونے پر سیدنا مسیح کے نام کا پر چار انطاکیہ تک چلے گئے اورانہوں نے یونانیوں کو بشارت دی ’’ اور خداوند کاہاتھ ان پر تھا اور بہت سے لوگ ایمان لا کر خداوند کی طرف رجوع لائے۔ ان لوگوں کی خبر‘‘ یروشلیم کی کلیسیا کے کانوں تک پہنچی اورانہوں نے برنباس کو انطاکیہ تک بھیج دیا۔ وہ پہنچ کر اور خدا کا فضل دیکھ کر خوش ہوا‘‘( اعمال۱۱: ۲۱)۔ واقعہ صلیب کے تین سال کے اند ر اندر شاگردوں نے یہ سب کچھ کردیا۔ روسائے (شرمندہ ) یہو دنے منجیِ عالمین کو مصلوب کرکے اپنے زعم باطل میں آپ کی رسالت اورنجات کے پیغام کا خاتمہ کردیا تھا۔ لیکن وہ اب خواب گراں سے جاگے۔ انہوں نے یہودیت کو قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے اوربے گناہ مسیحیوں کو ایذادینے پر کمر باندھ لی ،لیکن شہیدوں کا خون کلیسیا کا بیج ثابت ہوا۔ خداوند کے مصلوب ہونے کے بیس سال کے اندر انطاکیہ جو شرکِ زناکاری اورشہوت پرستی کا گھر تھا۔ انجیل جلیل کی بشارت کا صدر مقام بن گیا۔ اس جگہ سے سلطنت روما کے مختلف صوبے مثلاً گلاتیہ ، مقدونیہ ، آکیہ ، ايشیائے کوچک وغیرہ کے بعد دیگر ے مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوگئے ۔ اسی صدر مقام سے افسس اور جزائر ایجیبن میں بشارت کا کام ادا کیا گیا۔ انجیل کے علم بردار سمندر پار کرکے شہر روم میں جا پہنچے جو اس زمانہ کی معلوم دنیا کا مرکز تھا۔

سیدنا مسیح کی موت کے چالیس سال بعد رومی افواج نے یروشلیم کو تباہ اوربرباد کردیا اوراس واقعہ کے بعد مسیحیت اوریہودیت کے تعلق کا آخری رشتہ ٹوٹ گیا اور خداوند کے حوارئین اور تابعین نے پہلی صدی کے اختتام سے پیشتر غیر اقوام اور غیر یہود علاقوں میں روم اور افسس جیسی مختلف اور دورُدراز جگہوں میں تبلیغی مساعی کے صدر مقام بنالئے۔( Harnack, Expansion of Christianity)صلیب کے رسول یونان کو بھی انجیل کا فرحت افزا پیغام سنا گئے اور جزیرہ نما اطالیہ اور ہسپانیہ غرض’’ زمین کی انتہا‘‘ تک مژدہ جا ن فزادے گئے ۔ خداوند کے حواریوں اور رسولوں نے اس زمانہ کی معلوم دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کو منجیِ عالمین کی نجات کا پیغام دے دیا۔

(۳)

قابل غور بات یہ ہےکہ یہ مبلغین جنہوں نے انجیل کی خاطر ایسی شاندار خدمات سرانجام دیں یہودی نسل کے لوگ تھے۔ ہم گذشتہ فصل میں بتلاچکے ہیں کہ یہود کس نفرت کے ساتھ غیر یہود سے پیش آتے تھے ۔لیکن ابن الله کی تعلیم اورنمونہ نے اورمسیح کی روح نے ان مبلغین کے دلوں میں سے ہر قسم کے قومی اور نسلی امتیازات اور تعصبات کو نکال دیا تھا۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب کا مصنف خودغیر اقوام میں سے مشرف بہ مسیحیت ہوا تھا ۔لیکن اس کتاب کے کسی لفظ سے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیحی کلیسیا کی اخوت اور برادری میں یہودی عنصر نے غیر یہود کو جو مسیح پر ایمان لائے تھے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہو یا غیر یہود نے جو مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کو جو اہل یہود سے کلیسیا میں داخل ہوئے تھےبغض یا عداوت کی نظر سےدیکھا ہو۔ تصنیف ِاعمال الرسل یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کے غیر قوم مصنف کو قوم یہود سے کسی قسم کا عنادنہ تھا۔ پس مسیحیت کا یہ معجزہ شروع سے ہی چلا آیا ہے کہ جو اشخاص مختلف اقوام میں سے اس میں داخل ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں وہ ہر طرح کے قومی نسلی امتیازات ، تعصبات اور درجہ بندیوں سے آزاد ہوکر مسیحی محبت کے بندوں میں جکڑے جاتے ہیں۔ لیکن

گرنہ بیند بروز شپرہ چشم

چشمہ آفتاب راچہ گناہ

مقدس پولُس اور مسیحیت کی عالمگیری

معترضین جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کلمتہ الله کی رسالت اور پیغام صرف اہلِ یہود تک ہی محدود ہے۔ اب اس مشکل میں گرفتارہوئے کہ مسیحیت کی غیر یہود کے درمیان پھیلنے کی حقیقت کی تاویل ( بچاؤ کی دلیل)کس طرح کریں۔ انہوں نے یہ رویہ اختیار کیاکہ کلمتہ الله کو تو صرف ایک یہودی مصلح بنایا اور غیر یہود کے درمیان انجیل کی اشاعت کا سہرا مقدس پولُس کے سر پر باندھ دیا اورکہا کہ غیر اقوام کے درمیان مسیحیت کی اشاعت کا خیال پولُس رسول کے دل میں پیدا ہوا اور اسی نے مسیحیت کو عالم گیر مذہب بنادیا ورنہ کلمتہ الله نہ تو کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور نہ غیر یہود دنیا میں مسیحیت کی اشاعت آپ کے خیال میں کبھی آئی تھی۔

فصل سوم میں ہم نے یہ ثابت کردیا ہےکہ یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے ۔ سیدنا مسیح نے خودایک عالمگیر مذہب کی بنیادرکھی۔ کلمتہ الله کے اپنے لائحہ عمل ،طرز عمل ، تعلیم ، ہدایات اوراحکام وغیرہ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کا یہ خیال تھاکہ آپ کل دنیا کے منجیِ ہوکر آئے ہیں۔ یہ اصحاب مقدس پولوس کو وہ وقعت دیتے ہیں جس کا وہ مستحق نہیں ہے۔ مقدس پولُس کے ایک عظیم الشان انسان ہونے میں کسی صحیح العقل شخص کو شبہ نہیں ہوسکتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ شاگرداستاد سے بڑا نہیں ہوتا ‘‘(یوحنا ۱۳: ۱۶)۔ مسیحیت کی اشاعت کا خیال منجیِ عالمین سے شروع ہوا اور مقدس پولُس کے مسیحی ہونے سے پہلے خداوند کے رسولوں نے غیر یہود اور سامریوں حبشیوں وغیرہ کو مسیحیت کا حلقہ بگوش کرلیا تھا ۔مسیحی ہونے کے بعد مقدس پولُس نے بھی دیگر رسولوں کی طرح (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۱۱)اپنے آقا اورمولا کی ہدایت پر عمل کرکے انجیل جلیل کو غیر اقوام میں پہنچایا (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۱تا ۱۱)۔ اس کی تقریروں اور تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ خداوند کی عالمگیر شخصیت اورجامع ہستی اور عالم گیر نجات کی گرفت میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ وہ انجیل کا پیغام سنائے بغیر رہ نہیں سکتا وہ وارفتہ اور ’’بے خود ‘‘ ہے ۔ ’’مسیح کی محبت اس کو مجبو رکرتی ہے‘‘ (۲ ۔ کرنتھیوں ۵: ۱۳)۔ نجات کا پیغام سنانا اس کی زندگی کے لوازمات میں سے ہے وہ کہتا ہےکہ ’’اگر میں انجیل سناؤں تو میرا کچھ فخر نہیں کیونکہ یہ تو میرے لئے ضروری بات ہے بلکہ مجھ پر افسوس ہے اگرا نجیل نہ سناؤں ‘‘( ۱۔ کرنتھیوں ۹: ۱۶)۔ انجیل کی خاطر اس نے ’’ اپنے آپ کو سب کا غلام بنادیا‘‘ (۱۔ کرنتھیوں ۹: ۱۶تا ۱۹)۔ ع

اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا

تعجب یہ ہے کہ مقدس پولُس اپنے آپ کو خداوند ’’ یسوع مسیح کا عبد‘‘ (رومیوں ۱:۱)کہے اور اپنے آپ کو کلمتہ الله کا ’’ رسول ہونے کے لائق‘‘نہ سمجھے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۹)۔ اوریہ اصحاب اس کو اس کے آقا، مولا او رمنجی سے افضل سمجھیں یا بوالعجب(انوکھا) ! حق تو یہ ہے کہ جیسا پولُس رسول خود اس بات کا اقبال کرتا ہے۔ سیدنا مسیح نے ہی اس کو یہودیت کی غلامی سے آزاد کیاتھا اوراس طرح وہ خود آزاد ہوکر عالم گیر مسیحیت کا بانی نہیں بلکہ آزاد مسیحیت کا ایک اعظیم الشان واعظ بنا۔

من بندہ آزادم عشق است امام من

عشق است امام من عقل است غلام من

(۲)

معترضین اپنے دعویٰ کے ثبوت میں رسولوں کے اعمال کی کتاب کے پندرھویں باب کو پیش کرتے ہیں ۔ جب کلیسیانے یروشلیم میں مسیحیوں کے موسوی شریعت کے تابع ہونے کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یہ معترضین اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس کانفرنس میں متنازعہ فیہ امر یہ نہیں تھاکہ غیر اقوام کو انجیل کی بشارت دی جائے یا نہ بلکہ سوال یہ تھا کہ کن شرائط پر ان کو کلیسیا میں شامل کیا جائے ؟ یہ اصول تو پہلے ہی قائم ہوگیا تھا کہ مسیح ابن الله یہود اور غیر یہود دونوں کو نجات دینے والے ہیں۔ لیکن حل طلب مسئلہ یہ تھا کہ کیا کلیسیا میں داخل ہونے سے پہلے غیر مختونوں کا ختنہ کرنا ضروری ہے یا کہ نہیں ؟ بالفاظ دیگر کیا مسیحی کلیسیا کے گلے کا دروازہ یہودیت ہے جس میں سے اقوام عالم کا گذر کر مسیحیت میں داخل ہونا ہے؟

اگر یہ نہیں تو موسیٰ کی شریعت میں سے کس کس قانون اور شرع پر عمل کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جو غیر اقوام سے مسیحی ہوں ؟ ہم دیکھ چکےہیں کہ خود منجی ِعالمین نےغیر اقوام کے درمیان انجیل کی بشارت کا حکم دیا تھا اوراعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ اس کانفرنس کے نعقاد سے کئی سال قبل غیر یہود اور غیر مختونوں میں انجیل جلیل کے پیغام کی بشارت دی جاچکی تھی۔ لہذا یہ امر زیر بحث نہیں تھا۔ سیدنا مسیح نے اپنی زبان مبارک سے کلیسیا میں شمولیت کی شرائط نہیں بتلائی تھیں ۔لیکن خداوند نے یہ وعدہ کیا تھا کہ’’ روح القدس یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ‘‘( یوحنا ۱۶: ۱۳)۔ یروشلیم کی کانفرنس میں اس سچائی کے روح نے رسولوں کی معرفت فیصلہ دیا(اعمال ۱۵: ۲۸)۔ کہ غیر مختونوں مسیحی موسوی شریعت کے تابع نہیں ہیں۔ کتاب اعمال الرسل سے ظاہر ہے کہ مقدس پطرس غیر قوم کرنیلیس کے گھر اس واسطے نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ ’’ اس کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنی یا اس کے ہاں جانا نا جائز تھا ‘‘ نہ کہ وہاں انجیل کی بشارت نہ کرے۔ مقدس پطرس پر یروشلیم میں الزام لگایا گیا تھاکہ ’’تونا مختونوں کے پاس گیا اوران کے ساتھ کھانا کھایا‘‘ نہ کہ کیوں’’غیر قوموں نے بھی خدا کا کلام قبول کیا‘‘(اعمال ۱۱: ۱تا ۲)۔ اس کے برعکس یہودی مسیحیوں نے یہ سن کر خدا کی بڑائی کرکے کہا ’’بیشک خدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے ‘‘ (اعمال۱۱: ۱۸)۔

(۳)

مقدس پولُس کے تیز فہم نے مسیحی ہونے سے پہلے ہی کلمتہ الله کی تعلیم اور آپ کے رسولوں کی تعلیم اور طرز ِ عمل سے یہ معلوم کرلیا تھا کہ مسیحیت عالم گیر ہے۔ اہل ِیہود نے اپنے معبود یہوواہ کے ساتھ وفاداری کاعہد باندھا ہوا تھا اوراسی وجہ سے وہ یہوواہ کی خاص اُمت کہلاتے تھے۔ لیکن مقدس پولُس نے دیکھا تھا کہ مسیحی یہوواہ کی بجائے ایک دوسرے شخص یسوع ناصری کےساتھ وفاداری ، ارادت (اعتقاد،آرزو)وعقیدت کے جذبات رکھتے ہیں اور یسوع ناصری بھی وہ جو اس کے خیال میں شرع کی رو سے کافر اورمجرم ثابت ہوکر مصلوب کردیا گیا تھا ۔لہذا وہ ابتدا ہی سے بالفاظ مرحوم خواجہ کمال الدین

’’ ان کا جانی دشمن تھا ان کی ایذا رسانی میں اس نے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا‘‘

(ینابیع صفحہ ۱۲۴)۔

جس مسیحیت کے ساتھ پولُس رسول کا سابقہ پڑا تھا وہ محض یہودیت کی اصلاح نہ تھی۔اگروہ محض اصلاحی تحریک ہوتی تو پولُس رسول اس تحریک کا ’’جانی دشمن ‘‘ نہ ہوتا بلکہ وہ اس کا زبردست حامی ہوتا۔ ابتدا ہی سے وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ یہودیت اور یسوع ناصری کے اصول ایک دوسرے کے نقیض (مخالف)ہیں اور اس نتیجہ کے ساتھ یہودی ربی سردار کاہن ، فقیہ ، فریسی غرض تمام علمائے امتِ یہود متفق تھے اوراسی سبب سے ان شقی دل علماء نے سید الشہدا خداوند مسیح کو مصلوب کروادیا تھا۔

مقدس پولُس ’’ غیر قوموں کا رسول ‘‘ کہلاتاہے ۔لیکن جب ہم آپ کی یہودی تعلیم وتربیت اور قومی جذبات کی طرف نظر کرتے ہیں (گلتیوں ۱: ۱۴و غیرہ) تو ہم پر عیاں ہوجاتاہے کہ یہود کے عوض غیر اقوام میں انجیل کی بشارت دینے کے لئے جانا آپ کے لئے کیسا مشکل ثابت ہوا ہوگا۔ اپنے لوگوں کوجو ’’ وعدہ کے وارث تھے ترک کرنا ‘‘اور بے شرع نامختونوں کے پاس جو ‘‘ نہ ابراہیم سے اور نہ اس کی نسل‘‘ سے تھے جاکر خدا کے فضل کی خوشخبری دینا آپ پر کتنا شاق (دشوار،مشکل)گذرا ہوگا ۔(اعمال ۱۳: ۴۴تا ۴۷)۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ آپ غیر قوموں کے رسول ہونے کی الہیٰ بلاہٹ کو( گلتیوں ۱: ۱۶، اعمال ۹: ۱۵) کس قدر محسوس کرتے تھے۔ صرف ایک یہودی ہی اس بات کا کماحقہ اندازہ کرسکتا ہے کہ جب آپ کو اپنی بلاہٹ کا احساس ہوا ہوگا تو یہ معاملہ آپ پر کتنا شاق گذرا ہوگا۔ آپ نے ’’پینے کی کیل‘‘ پر کتنی بار ’’ لات‘‘ چلائی ہوگی۔ لیکن منجیِ عالمین کی روح نے مقدس پولُس کو بلا آخر ’’ غیر اقوام کا رسول بنا کر چھوڑا‘‘(گلتیوں ۱: ۱و۱۲)۔

اگر ہم دورِ حاضرہ سے مثال لیں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسا فی زمانہ جرمنی کا ہٹلر اہل یہود کو پامال ، برباد ، قتل اور غارت کرنے کی بجائے ان کو اور تمام دنیا کو یہ تعلیم دے کہ جرمنی کے اصل باشندے اوراہل یہود سلطنت جرمنی میں مساوی حقوق رکھتے ہیں اور ان میں اور اصل جرمن میں ہر طرح کی درجہ بندی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اگرہماری قوت ِ متخیلہ (سوچنے کی قوت) اس بات کی متحمل ہوسکتی ہے کہ ہٹلر غارت گرہونے کی بجائے اس اصول کا زبردست مبلغ اور عظیم الشان واعظ ہوجائے تو ہم کچھ کچھ سمجھ سکیں گے کہ غارت گر ساؤل پر یہ امرکس قدر شاق گذرا ہوگا کہ ایسی انجیل کی منادی کرے جو یہود اور غیر یہود میں کسی قسم کی تمیز روا نہیں رکھتی تھی۔

ہم کو یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس زمانہ میں یہود اور غیر یہود کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل تھی جو نہایت وسیع تھی اورجس کو مسیحیت کے سوا کوئی اور شے عبور نہ کرسکی۔ حقارت صرف اہل یہود تک ہی محدود نہ تھی بلکہ غیر یہود اوریونانی بھی یہود کو نفرت اورکراہیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ ارسطو جیسا فلاسفر نوع انسانی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے یونانی اور وحشی، اورکہتاہےکہ

فطرت نے یونانیوں کو حکمران اور دوسروں کو محکوم ہونے کے لئے پیدا کیاہے ۔

(Politics, 253 b, 1263a)

اس کے برعکس مسیحیت کے مبلغ یہ تعلیم دیتے تھے کہ خدا ازل سے یہود وغیر یہود کو پیار کرتا ہے اورہر قسم کی درجہ بندی قانون فطرت کے خلاف ہے۔(افسیوں ۳: ۴تا ۶، کلیسیوں ۱: ۲۶تا آخر وغيرہ)۔

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوعِ انسان کو

اخوت کی زباں ہوجا محبت کا بیاں ہوجا

مقدس پولُس بار بارذکر کرتا ہے کہ خدا کی نظر میں یہود اور غیر یہود میں کوئی تمیزنہیں اوریہود کو غیر یہود پر کوئی ترجیح حاصل نہیں (رومیوں ۱۰: ۱۲، ۱۶: ۲۵ وغیرہ) ابن الله نے اس دنیا میں آکر اس حقیقت کو مہر نیم روز کی طرح روشن کردیا۔ پولُس رسول اس حقیقت پر اصرار کرتا ہے کہ مسیح میں یہود اور غیر یہود خدا کی بادشاہت میں مساوی طور پر شریک ہیں اور غیر اقوام کے مسیحیوں کو یاد دلاتا ہے کہ ’’ تم جو جسم کی رو سے غیر قوم والے ہو اگلے زمانہ میں مسیح سے جدا اور اسرائیل کی سلطنت سے خارج اور وعدہ کے عہدوں سے ناواقف اورنا امید اور دنیا میں سے خدا سے دور تھے۔ اب مسیح کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہو جس نے یہود اور غیر قوم دونوں کو ایک کرلیا اورجدائی کی دیوار کو جو بیچ میں حائل تھی ڈھادیا‘‘(افسیوں ۲: ۱۱)۔ یہ رسول بار بار اپنے خطوط میں مسیحیوں کوجتلاتاہے کہ وہ سب خواہ یہود ہوں خواہ غیر یہود سیدنا مسیح میں وعدہ کے شریک اور آپس میں ہم میراث ہیں(۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۱۳، افسیوں ۳: ۴تا ۶، کلیسیوں ۱: ۲۶، رومیوں ۱۰: ۱۲، کلیسیوں ۳: ۱۱ وغيرہ) ۔گلتیہ کے مسیحیوں کی طرف جو خط آپ نے لکھا وہ اسی جذبہ کے جوش سے معمور ہے ( گلتیوں ۳: ۲۸ وغیرہ)۔ روم کے مسیحیوں کی طرف جو خط آپ نے لکھا اس میں آپ نے اس قضیہ (جھگڑا،تکرار)کو منطقیانہ استد لال (ثبوت،دلیل) سے ثابت کیا ہےکہ روحانی امور میں یعنی گناہ کی واضح اور عالمگیر حقیقت اورنجات کی ضرورت میں یہودیوں ، یونانیوں اور دیگر اقوام کے افراد میں کسی طرح کا فرق نہیں ۔ خداوند یسوع مسیح کل بنی نوع انسان کا منجی ہے (افسیوں ۲: ۱۱تا ۱۴)۔

رسولوں کی تحریرات اورمسیحیت کی عالمگیری

انجیل جلیل ستائیس(۲۷) کتُب اور مکتوبات پر مشتمل ہے اوریہ تمام کتابیں خداوند کے مختلف رسولوں نے اسی مقصد کے لئے لکھیں کہ یہود اور غیر یہوددونوں کو نجات کا علم ہوجائے۔ انجیل نویسوں نے اپنی اناجیل اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے تحریر کیں کہ منجیِ عالمین کل اقوام کا نجات دہندہ ہے اور اقوام عالم کو معلوم ہوجائے کہ ’’مسیح کے نام سے غیر قومیں امید رکھیں گی‘‘(متی ۱۲: ۲۱) تاکہ ’’ سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے تاکہ ان کے لئے گواہی ہو‘‘(مرقس ۱۰: ۹تا ۱۰)۔ مزید براں ’’ جن باتوں کی غیر یہود اقوام نے تعلیم پائی ہے ان کی پختگی ان کو معلوم ہوجائے ‘‘(لوقا ۱: ۴) تاکہ ’’ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اورایمان لا کر ا س کے نام سے زندگی پاؤ‘‘(یوحنا ۲۰: ۳۱)۔رسولوں کے اعمال میں ان تبلیغی مساعی کا مفصل ذکر ہے جوخداوند مسیح کی موت کے بعد ہی یہود اور غير یہود دونوں میں کی گئیں ۔پولُس رسول کے مکتوبات ایک مبلغ مسیحیت کے خطوط ہیں جو آپ نے وقتاً فوقتاً تبلیغی ضروریات کے ماتحت اپنے نومریدوں کو لکھے تھے۔ ان سب کا اول اورآخری مقصد اور ابتدا اور انتہا اور علتِ غائی (حاصل،سبب) الف سے لے کر ی تک صرف یہی ہے کہ ’’ یہ بات سچ ہے اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ یسوع مسیح گنہگاروں کو نجات دینے کے لئے دنیا میں آیا‘‘ (۱۔ تیمتھیس ۱: ۱۵)۔ مقدس یوحنا اپنے مخاطبوں کو کہتا ہےکہ ہم ’’ اس زندگی کے کلام کی بابت جسے ہم نے دیکھا تم کو خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اورہماری شراکت باپ کے ساتھ اوراس کے بیٹے یسوع مسیح کےساتھ ہے اوریہ باتیں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہوجائے ‘‘(۱۔ یوحنا پہلاباب ۱تا ۴آیت)۔ انجیل جلیل کی کتُب کے مصنفوں کے الفاظ اس زندگی کے تجربہ کو بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں اوروہ ہر ممکن طورپر اس تجربہ کو ظاہر کرنے کے لئے الفاظ اورمحاورات وضع کرتے ہیں تاکہ کل دنیا پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح منکشف ہوجائے کہ مسیح کل دنیا کا منجی ہے اورجو ابن الله کے قدموں میں آجاتے ہیں وہ ’’از سر نو پیدا‘‘ ہوجاتے ہیں۔ وہ’’تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ وہ نئے مخلوق ہیں اورنجات یافتگان کے گروہ میں شامل‘‘ ہوگئےہیں۔ مکاشفات کے مصنف پر پولُس رسول اور ’’پولُسی عقائد ‘‘ کا رتی بھر اثر ثابت نہیں لیکن وہ نجات یافتگان کی رویا دیکھتے وقت نہ صرف اہل ِیہود کو ہی نجات یافتہ لوگوں کی صف میں دیکھتا ہے، بلکہ دنیا کے ممالک کی اقوام کو بھی وہاں دیکھتا ہے اورلکھتاہے ۔ ’’ ان باتوں کے بعد جو میں نے نگاہ کی تو کیادیکھتا ہوں کہ ہرایک قوم اور قبیلے اوراُمت اوراہل زبان کی ایک ایسی بھیڑ جس کو کوئی شمار نہیں کرسکتا برّے (سیدنا مسیح) کے آگے کھڑی ہے اور بڑی آواز سے کہتی ہے کہ نجات ہمارے خداکی طرف سے ہے (مکاشفہ ۷: ۹)۔

بخوف ِ طوالت ہم انجیل جلیل کی کتُب کے اقتباسات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ اس موضوع پر اس کثرت سے آیات ہیں کہ اگر ہم ان کو نقل کرنے لگیں تو تمام انجیل کی انجیل ہم کو نقل کرنی پڑے گی۔

توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

جس شخص نے انجیل کی کتُب کی سطحی مطالعہ بھی کیا ہے اس کے لئے یہ ایک واضح اور روشن حقیقت ہے کہ انجیل جلیل کی ہر کتاب کا ہر صفحہ اس بات کا شاہد ہے کہ سیدنا مسیح کل دنیا کی اقوام کے نجات دہندہ ہیں۔ مسیحیت کی تبلیغ کے متعلق جو تعلیم اوراحکام ان کتب میں ہیں وہ صرف چند منتشر آیات پر ہی محدود نہیں ہیں ،بلکہ عہد جدید کے رگ وریشہ میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی صحیفہ ایسا نہیں جس میں تبلیغی کام اور کوشش اور تبلیغی احکام ومساعی کا ذکر نہ ہو۔ پس انجیل جلیل کی تمام کتابیں اورصحیفے بیک آواز ہم کو بتلاتے ہیں کہ سیدنا مسیح کے حواری اور رسول جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اورآپ کے خیالات جذبات احکام وہدایات سے کماحقہ واقف تھے یہی مانتے اورتعلیم دیتے چلے آئے کہ سیدنا مسیح دنیا کے تمام گنہگاروں کا نجات دینے والا ہے (۱کرنتھیوں ۱۵باب)۔

فصل پنجم

مسیحی کلیسیا کا طرزِ عمل

گذشتہ فصل میں ہم نے دیکھا ہے کہ انجیل جلیل کی کتب جو مسیحی کلیسیا میں ابتدا ہی سے مروج تھیں تبلیغ کے فرض کو بار بار ہر مسیحی کے کندھوں پر رکھتی ہیں۔یہ کتُب اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ابتدا ہی سے مسیحیت نے اور مسیحی کلیسیا نے تسلیم کیا ہے کہ سیدنامسیح کی نجات کا پیغام دنیا کے ہر فرد بشر کے لئے ہے اورکلیسیا کا یہ فرض ہے کہ اس پیغام کو اکناف ِ(کنف کی جمع،اطراف،سمتیں) عالم تک پہنچائے۔

یہ امر نہایت معنی خيز ہے کہ بفرض محال اگر ابتدائی کلیسیا میں کوئی ایسی کتابیں یا رسالے تھے جن میں تبلیغی احکام اور تبلیغی فرض کاذکر نہیں تھا تو ایسی کتابوں کی کلیسیانے پروا تک نہ کی اور وہ گور غفلت میں ہی گل سڑگئیں اورکلیسیا ایسی کتابوں کی پروا کرتی بھی کیسے جب وہ اس کے منجی کے اقوال، ہدایات ، احکام، لائحہ عمل اور طرز عمل کے عین نقیض (مخالف)تھیں اور اس کے رسولوں کے احکام ، اقوال ، تحریرات اور طریق ِعمل کی بھی مخالف تھیں۔ اگر بفرض ِ محال ایسی کتُب کبھی معرض ِوجود میں آئیں تو کلیسیائے جامع نے ایسی کتُب کو متفقہ آواز سے رد کردیا اوران کو عہد ِ جدید کی کتُب کے مجموعہ میں شرفِ شمولیت نہ ملا۔ عہد ِ جدید کا وجود اس بات کا زندہ گواہ ہے کہ ابتدائی زمانہ ہی سے کُل کلیسیا ئے جامع یہ مانتی چلی آئی ہے کہ سیدنا مسیح کُل عالم کا منجی ہے اورمسیحیت ایک عالمگیر مذہب ہے۔ جس کے اصول ہی ایسے ہیں جو عالمگیر ہیں۔ خدا کی محبت اور انسانی حقوق مسیحیت کی عمارت کے کونے کے پتھر ہیں۔ انجیل کے معنی ہی خوشخبری ہے جو ہر شخص کے لئے ہے۔ اس کی نجات کے دائرہ سے کوئی ملک قوم، قبیلہ، جماعت یا فرد خارج نہیں ہے ۔بلکہ وہ کل بنیِ نوع انسان پر حاوی ہے ۔ کلیسیا ئے جامع اور عہدِ جدید کی تعلیم کے مطابق ’’غیر قوم ‘‘ہونا کسی کی قومیت پر منحصر نہیں کیونکہ یہ قومیت کا معاملہ نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی معاملہ ہے۔ ’’غیر قوم‘‘ صرف وہی ہے جو دیدہ دانستہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو خدائے قدوس کی محبت ِ بیکراں سے علیحدہ رکھتا ہے ۔

(۲)

مسیحیت کی عالمگیری کا ثبوت نہ صرف منجیِ عالمین کے حواریوں نے ہی اپنی تعلیم اور طرز ِ زندگی سے دیا بلکہ ابتدا سے لے کر دورِ حاضرہ تک ہر ملک اور قوم کی کلیسیاؤں نے غیر مسیحیوں کے پاس مبلغین بھیجے اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اپنے نجات دہندہ کے لائحہ عمل اور کلمات ِ طیبات پر عمل پیرا ہے۔ مسیحی کلیسیا میں بیسوں(۲۰) تفرقے اور بدعتیں پیدا ہوئیں ، لیکن تبلیغ دین اور انجیل جلیل کی اشاعت کے فرض کو سب کلیسیاؤں نے بیک آواز تسلیم کیا۔ یہ امر کسی زمانہ میں بھی کلیسیا کی تواریخ میں متنازعہ فیہ (وہ چیز جس کی بابت جھگڑاہو)نہ ہوا۔ مشرق اور مغرب کی کلیسیائیں انجیل جلیل کی اشاعت کو موجب ِسعادت ہی خیال کرتی رہیں۔ چنانچہ ۱۵۰ء کے قریب جسٹن شہید لکھتا ہے کہ

’’ ہم معقول وجوہ کی بنا پر مسیح یسوع کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ وہ حقیقی خدا کا بیٹا ہے ۔ وہ اس کا اکلوتا بیٹا اور کلمتہ الله ہے۔ وہ کلام کی قوت سے خدا باپ کی مرضی کے مطابق ایک کنواری سے پیدا ہوا۔ وہ دانش کاکلام ہے جو خود خدا ہے وہ خدا کا کلمہ اور دانش اور طاقت اورجلال ہے‘‘۔

کوئی قوم اور ملت ایسی نہیں خواہ یونانی ہو یا وحشی یا کسی نسل کی ہو خواہ اس کا نام اور طریقِ رہائش کچھ ہی ہو ۔خواہ وہ غیر مہذب ہو یا زراعت سے ناواقف ہو۔ خواہ وہ آباد بستیوں میں رہتی ہویا خیمہ بدوش ہو۔ غرضیکہ کوئی قوم اور کوئی قبیلہ ایسا نہیں رہا جس میں مسیح مصلوب کے نام سے تمام مخلوقات کے خالق اورباپ کے حضور دعا نہیں کی جاتی ’’یہی مصنف ہم کو بتلاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا میں تبلیغ کا کام صرف رسول ہی نہیں کرتے تھے ،بلکہ تمام کی تمام مسیحی کلیسیا مبلغین کی ایک عظیم الشان جماعت تھی۔ ابتدائی مسیحیت کوپھیلانے والے وہ لوگ تھے جن کا پیشہ تبلیغ کرنا نہ تھا بلکہ وہ اپنے مختلف پیشوں کے ذریعہ روٹی کماتے تھے،لیکن چونکہ وہ رسولی جوش سے بھرے ہوئے تھے لہذا مسیحیت کے عظیم الشان مبلغ تھے۔ ان مبلغین کی مساعی کی وجہ سے کلیسیا کی عظیم الشان برادری اس قدر وسیع ہوگئی کہ دوسری صدی کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ

’’مسیحیوں اور دوسر ےانسانوں میں زبان یا رسوم یاملک کا فرق نہیں وہ جداگانہ شہروں میں نہیں بستے۔ نہ تو ان کی کوئی خاص زبان ہے اورنہ ان کے معاشرتی تعلقات علیحٰدہ ہیں۔ وہ جس شہر یا ملک میں پیدا ہوتے ہیں وہیں بودوباش رکھتے ہیں ۔ ان کی خوارک، لباس اور طرز رہائش دوسرے انسانوں کی طرح ہے ۔تاہم وہ کلیسیائی برادری اورمسیحی اخوت کو عجیب اور نرالے طوپر اپنی زندگیوں میں ظاہر کرتے ہیں ۔ وہ تمام باتوں میں اپنے شہری حقوق کوکام میں لاتے ہیں۔ لیکن اس طور پر زندگی بسر کرتے ہیں کہ اس دنیا کے ہوکر نہیں رہتے۔ وہ اپنے ملک میں پردیسیوں کی مانند بستےہیں اور پردیس ملک کو اپنا ملک تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو اس ملک میں بسر کرتے ہیں لیکن ان کا حقیقی وطن آسمان ہے۔ یہودان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یونانی ان کو ایذائیں پہنچاتے ہیں لیکن ان کے دشمن اپنی دشمنی کی وجہ بیان کرنے سے قاصرہیں جس طرح روح بدن کے ہر حصے میں موجود ہے اسی طرح مسیحی بھی دنیا کے ہر شہر میں موجود ہیں لیکن جس طرح روح بدن کا حصہ نہیں ہے اسی طرح مسیحی دنیا میں رہتے ہیں لیکن دنیا کے ہوکر نہیں رہتے ۔

آئرنیوس (Irenaeus) ۱۳۳تا ۲۰۳ءنہایت صاف اور واضح الفاظ میں مسیح کی عالمگیری اورلاثانی ہستی کی نسبت لکھتا ہے ۔

"ایک خدا ہے جو قادر مطلق ہےاورایک یسوع مسیح جو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے جس کے ذریعہ تمام چیزیں بنیں اور جو تمام چیزوں کا بنانے والا ہے ۔ وہ حقیقی نور ہے جو ہرایک آدمی کو روشن کرتا ہے۔ اگر کوئی ان حق باتوں کو نہیں مانتا تو وہ منجی کی تحقیر کرتا ہے اور اپنی نجات کا آپ ہی دشمن ہے‘‘۔

ہم ابتدائی مسیحیوں کی تصنیفات اورآبائے کلیسیا کی تحریرات سے بیسوں (۲۰)ایسے اقتباسات پیش کرسکتے ہیں جو اس امر کے شاہد ہیں کہ ابتداہی سے کلیسیا نے سیدنا مسیح کی عالمگیریت کو مانا اور آپ کو خدا کا ابن وحید اورمنجی عالمین جانا اوراس بات پر پختہ ایمان رکھاکہ جو مکاشفہ خدا نے کلمتہ الله کے ذریعہ بنی نوع انسان کوعطا فرمایا ہے ۔وہ قطعی ہے اور تمام عالم کے لئے ہے اورکہ اس مکاشفہ کے اصول ابدی اور لاتبدیل ہیں ۔جو زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہونے کی وجہ سے ہر قوم اورہرملت کو صراطِ مستقیم پر چلاتے ہیں۔

(۳)

کلیسیا ان باتوں کو محض زبانی جمع خرچ کے طور پر تسلیم نہیں کرتی تھی۔ تاریخ اس بات کی گوا ہ ہے کہ

’’ مسیحیت کے بیشمار اورکامیاب مبلغ صرف وہ نہ تھے جو مسیحیت کے پرچارک(مبلغ) اور معلم تھے، بلکہ مسیحی جماعت کے افراد اپنے ایمان کی زبردست طاقت کی وجہ سے اس کے نہایت کامیاب اور شاندار مبلغ تھے۔ اس مذہب کا یہ خاصہ تھا کہ ہر شخص جو مسیح کو اپنا نجات دہندہ مانتا تھا دوسرے لوگوں میں اس کا پرچار کرتا تھا۔ ہر مسیحی کو حکم تھا کہ وہ اپنی روشنی اس طرح چمکائے کہ بُت پرست اس روشنی کو دیکھ کر قبول کریں‘‘ ۔

اس جرمن عالم کے الفاظ درحقیقت تمام ممالک کی کلیسیاؤں پر چسپاں ہوسکتے ہیں ۔ ہر زمانہ میں گم نام مسیحیوں نے مختلف ممالک میں مسیحیت کی اشاعت کی ، تاریخ ان کے ناموں سے واقف نہیں، لیکن ان کے کام دفتر ِ حیات میں لکھے ہیں۔ ان گم نام مبلغین نےزبردست کلیسیاؤں کو قائم کیا۔ مثال کے طور پر ہم نہیں جانتے کہ شامی کلیسیا کی بنیاد کس نے رکھی لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ اس کلیسیا کے مبلغین دوُر ودراز کے ممالک مثلاً جنوبی ہندوستان اور چین تک پہنچ گئے تھے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ سکندریہ میں کس نے مسیحیت کی اشاعت کی لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کلیسیا علم وفضل کے لحاظ سے یگانہ(عزیز،رشتہ دار) روزگار تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ روم میں کس نے مسیحیت کی بنیاد ڈالی لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ رومی کلیسیا ابتداہی سے کلیسیائے جامع کی زبردست شاخ رہی ہے۔ ہر مسیحی مسیحیت کی اشاعت کواپنافرض اولین خیال کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۷ءمیں ٹرٹولین لکھتا ہے کہ

’’ ہم بہ مقابلہ دیگر مذاہبِ باطلہ کے ابھی کل کے بچے ہیں لیکن ہم نے شہروں ، جزیروں ، خیموں اور بازاروں کو معمور کررکھا ہے ۔ ہماری کوششوں کی وجہ سے اب صرف خالی مندر ہی تمہارے پاس رہ گئے ہیں‘‘۔

غرضیکہ دوسری صدی کے آخر تک مشرقی کلیسیا کے نامور اورگمنام مبلغین مغرب کی انتہا تک ہر صوبہ میں گئے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھا ان سرفروش صلیب کے جان نثاروں نے سفر کی تکلیفوں، زمانہ کی صعوبتوں، بادشاہوں کی ایذا رسانیوں کی پروا تک نہ کی اورآج مغربی ممالک کی کلیسیاؤں کاوجود مشرقی کلیسیاؤں کی انہی مساعی کا نتیجہ ہے۔

بے خطر کوُد پڑا آتش ِ نمرود میں عشق

عقل تھی محوِ تماشائے لب ِ بام ابھی

اسی طرح دورِ حاضرہ میں مشرقی ممالک کی کلیسیاؤں کاوجود مغربی کلیسیاؤں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ راسخ الاعتقاد کلیسیاؤں نے اپنے مبلغین کو دوُردراز کے ممالک میں بھیجا جوکوہ ودشت وبیابان اور سنگلاخ پہاڑوں میں سے گُزر کر دشوار گُزار راستوں کو طے کرکے دنیا کے ہر ملک میں پہنچے اورانہوں نے ہر قوم کو کلمتہ الله کی تعلیم اورنجات کے پیغام کے نور سے منور کردیا۔

ع کہ خون صد ہزار نجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

(۴)

بدعتی کلیسیائیں بھی جیسا ہم ذکر کرچکے ہیں مسیحیت کی اشاعت میں سرگرم رہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہاں صرف ایک بدعتی کلیسیا یعنی نسطوری کلیسیا کا ذکر کرتےہیں جس کے زیر اثر رسول عربی نے روحانی تعلیم اور تربیت پائی تھی۔ مورخ نیل ہم کو بتلاتا ہے کہ

’’نسطوری مسیحیوں نے اپنے خیمے خانہ بدوش تاتاریوں کے خیموں میں جا نصب کئے ۔ تب کالاماان کے منہ کی باتوں سے ہراساں تھا۔ پنجاب کے چاولوں کے کھیتوں میں وہ انجیل کی منادی کرتے تھے۔ بحر ِ آرال کے مچھلی پکڑنے والے ان سے تعلیم پاتے تھے۔ منگولیا کے لق دوق(صحرا،اصل ترکی ) بیابان میں سے وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گذر گئے ۔ مشہور سنگن فوکے کتبہ جات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے مسیحیت کے لئے چین کو فتح کرلیا تھا۔ ہندوستان کے ملیالی راجے ان کے دینی اختیار کی عزت کرتے تھے۔ گیارھویں صدی میں نسطوری بطریق کا اختیار اس قدر وسیع تھاکہ اس کے ماتحت پچیس صدراسقف تھے جان کااختیار چین سے لے کر دجلہ تک اورجھیل بیکال سے لے کر راس کماری تھا‘‘۔

(۵)

اگرچہ دورِ حاضرہ میں مسیحیت بیسوں(۲۰) فرقوں پر مشتمل ہے لیکن ان فرقوں میں سے ایک فرقہ بھی آپ کو ایسا نہ ملے گا جو یہ تسلیم نہ کرتا ہو کہ اس کی ہستی کا واحد مقصد اور علت غائی یہی ہے کہ دنیا کو اپنے منجی کے قدموں میں لائے۔ آج دنیا کا کوئی ملک اور کوئی قوم ایسی نہیں رہی جس میں مسیحی کلیسیا تبلیغ کے کام کو سرانجام نہ دیتی ہو۔ فی زمانہ مسیحی کلیسیانے بائبل شریف کاترجمہ ایک ہزار زبانوں میں کرکے صلیب کے لاکھوں علم برداروں کو دنیا کے ہرملک صوبہ شہر بلکہ گاؤں گاؤں میں بھیجا ہے تاکہ دنیا کے تمام ممالک اور نوع انسانی کی کل اقوام کو نجات کا علم ہوجائے اوراس مبارک مقصد کی خاطر کروڑہا بلکہ ارب ہا روپیہ ہرسال نثار کردیتی ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے تبلیغ کے فرض کوپورا کرے اور ہرفرد بشر کو منجیِ کونین کی جاں فزا(دل خوش کرنے والی ) نجات کا مژدہ مل جائے۔

فصل ششم

قرُآن اور مسیحیت کی عالمگیری

سطور بالا میں ہم نے اہل ِاسلام اور دیگر غیر مسیحیوں کو مخاطب کرکے ثابت کردیاہے کہ کلمتہ الله کی تعلیم عالمگیر ہے اورآپ منجیِ عالمین اور رحمتہ للعالمین ہیں۔ اب ہم خاص اہل ِاسلام سے مخاطب ہوکر انشاء الله قرآن سے ثابت کریں گے کہ خدا نے خاص قوم یہود کو چن لیا تھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کو خدا کا علم حاصل ہو اور مسیحی کتُب مقدسہ تمام جہان کی ہدایت کے لئے ہیں اور مسیحیت کا پیغام اہل یہود تک ہی محدود نہیں بلکہ کلُ بنی نوع انسان کے لئے ہے۔

ان امور کو ہم نے مسیحی کتُب مقدسہ سےثابت کیا ہے اورچونکہ قرآن مسیحی کتُب مقدسہ کا مصدق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لہذا وہ ہمارے مذکورہ بالا نتائج کی بھی تصدیق کرتا ہے۔

(۱)

ہم نے فصل دوم وسوم میں اس امر کو منقولی او رمعقولی دلائل سے واضح کیا ہےکہ خدا نے قوم یہود کو چن لیا تھا تاکہ وہ تمام دنیا پر خدا کے علم اور توحید کوپھیلائے۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ’’ اور بالتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی ۔ اوران کو تمام عالم پر فوقیت دی‘‘( جاشیہ آیت ۱۵)۔’’اے بنی اسرائیل میرے اس فضل کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا اوریہ کہ سارے جہان کے لوگوں پر میں نے تم کو فضیلت بخشی‘‘(بقر آیت ۴۴)۔ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب دی اور علم بخشا ‘‘(نسا آیت ۵۲)۔ ’’بالتحقیق ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور دونوں کی اولاد میں پیغمبری رکھی‘‘(حدید آیت ۲۶)۔ ’’ ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیا اور اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب کو رکھا‘‘(عنکبوت آیت ۲۷)۔کیا کوئی شخص ان الفاظ سے زیادہ واضح الفاظ میں ہمارے ان قضایا(قضیہ کی جمع ،فقرے جملے ،احکام،جھگڑے فساد) کی تصدیق کرسکتاہے کہ بنی اسرائيل کوخدا نے تمام اقوام پر فوقیت بخشی اوران میں اپنا علم ودیعت فرمایا۔ ان کی اولاد کو رسالت ، نبوت اورکتاب عطا فرمائی تاکہ ان کے ذریعہ اقوام عالم خدا کی معرفت اور علم کو حاصل کریں؟

(۲)

ہم نے اس رسالہ کی فصل دوم میں لکھا تھا کہ یہودی انبیا کا مطمع نظریہ تھا کہ ان کی کتُب مقدسہ تمام غیر یہود کے لئے ’’ نور ‘‘ ہیں اور ان کے وسیلے خداوندکی ’’ نجات دنیا کے کناروں تک ‘‘ پہنچے گی (یسعیاہ ۴۹: ۶) اورکہ ’’ اسرائیل قوموں کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا‘‘( یسعیاہ ۱۹: ۲۳تا ۲۵)۔ قرآن اس حقیقت کا اعتراف مختلف مقامات میں نہایت صاف اور واضح الفاظ میں کرتا ہے۔ ہم اختصار کو مد ِ نظر رکھ کر صرف چند مقامات کا حوالہ دیتے ہیں’’ بالتحقیق ہم نے موسیٰ کو ہدایت دی اور وراثت دی۔ بنی اسرائيل کو کتاب دی جو سمجھ والوں کو راہ دکھلانے والی اور یاد دلانے والی ہے‘‘( مومن آیت ۵۵)۔ ’’پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو احسن بات پر کامل ہے اور ہر شے کی تفصیل اورہدایت اوررحمت ہے‘‘(انعام آیت ۱۵۵)۔’’ بالتحقیق ہم نے اتاری تورات جس میں ہدایت اورنور ہے ‘‘۔

پس قرآن منجی عالمین کے اس قول کا مصدق ہے کہ ’’ نجات یہودیوں میں سے ہے‘‘( یوحنا ۴: ۲۲)۔ قرآن نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں اپنے پیروؤں کو بتلاتا ہے کہ خدا نے آلِ ابراہیم میں نبوت اور کتاب رکھی جو ہدایت ہے، رحمت ہے، نور ہے۔ وہ دنیا جہان کو راہ دکھلانے والی ہے تاکہ اس کے ذریعہ ساری مخلوق خدا کا علم حاصل کرے اور اس کی نجات دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے ۔ ناظرین نے یہ نوٹ کیا ہوگاکہ قرآن مجید یہود کی کتُب مقدسہ کے لئے وہی الفاظ استعمال کرتاہے جو صحائف انبیاء میں وارد ہوئے ہیں یعنی ’’نور ‘‘ اور ’’ہدایت‘‘۔

(۳)

اب ہم قرآن مجید سے یہ ثابت کرینگے کہ کتاب مقدس تمام دنیا کے لئے نور اور ہدایت ہے اور کہ وہ نہ صرف اہل یہود کے لئے ہی نور اور ہدایت ہے بلکہ تمام دنیا کی اقوام کے لئے نور ہے اورکہ بائبل مقدس کے احکام کلُ بنی نوع انسان پر حاوی ہے۔’’ وہ کتا ب جو موسیٰ لایا بنی نوع انسان کے لئے نور اورہدایت ہے‘‘ (انعام آیت ۹۶)۔ ’’ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو بنی نوع انسان کے لئے بصیرت ہدایت اوررحمت ہے شایدکہ وہ لوگ نصیحت قبول کریں ‘‘(قصص آیت ۴۳)۔ ’’ بالتحقیق ہم نے موسیٰ اورہارون کو فرمان دیا جو خدا پرستوں کے واسطے نور اور نصیحت ہے‘‘(انبیاء آیت۴۹)۔ اورمبادا مسلمان یہ خیال کریں کہ یہ کتُب سماوی ان کے واسطے نہیں قرآن کہتا ہے ’’ اے ایمان والو۔ ایمان لاؤالله پر اوراس کے رسول پر اور اس کتاب پر جواس نے رسول پر اتاری اوراس کتاب پر جو اس سے پہلے اتار ی اورجو کوئی منکر ہوا الله سے اس کے فرشتوں سے ، اور اس کی کتابوں سے اوراس کے رسولوں سے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا ‘‘ (نسا آیت ۳۵)۔ ’’اے پیغمبر ، ایمان داروہ ہیں جو اس پر یقین کرتے ہیں جو تجھ پر اترا اور جو تجھ سے پہلے اترا‘‘۔ مسیحی کتب مقدسہ نہ صرف اہل اسلام کے لئے ہی مستند ہیں اوران پر ہی ان کتابوں کے احکام کی بجاآوری لازم ہے بلکہ خود رسول عربی ان کتب مقدسہ کے احکام پر چلنا موجب سعادت خیال فرماتے تھے۔’’ اے پیغمبر تو کہہ (اے منکرو) اگر تم سچے ہو تو الله کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لاؤ جو ہدایت میں ان دونوں (قرآن وتورات) سے بڑھ کر ہو تو میں اسی پر چلنے لگوں گا‘‘(قصص آیت ۴۹)۔بلکہ قرآن میں الله نے آنحضرت کو حکم دیا ہے کہ’’ اگر تو اس کی طرف سے جوہم نے تیری طرف اتاری شک میں ہے تو ان سے پوچھ جو تجھ سے پہلے والی کتاب (بائبل )پڑھتے ہیں۔ بالتحقیق تیرے پاس رب سے حق آیا ہے پس تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو‘‘(یونس آیت ۹۴)۔ کیا اس سے زيادہ زبردست شہادت ممکن ہوسکتی ہے؟ ان چند اقتباسات سے ظاہرہے کہ مسیحی کتُب مقدسہ نہ صرف اہل یہود کے لئے بلکہ کلُ بنی نوع انسان کے لئے ۔ دنیا جہان کے پرہیزگاروں کے لئے ، اہل اسلام کے لئے اورپیغمبر اسلام کے لئے ہدایت ، رحمت اور نصیحت ہیں جن کے احکام کی بجا آوری ہر مومن مسلمان پر فرض ہے۔

ہمارے بعض مسلم برادران اپنےہم مذہبوں کو قرآن کی مخالفت میں کتاب مقدس کے مطالعہ سے یہ کہہ کر روکتے ہیں کہ بائبل شریف محرف (تحریف کی گئی ،ٹیڑھا)ہوگئی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ سراسر باطل اور بے بنیاد ہے۔ ہم نے اپنی کتاب’’ صحت ِ کتب ِ مقدسہ‘‘ میں یہ ثابت کردیا ہےکہ کتاب مقدس کی صحت لاجواب ہے اور اس ثبوت میں ہم نے تاریخی دلائل دے ہیں۔ ہم کو امید ہے کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے اوردیکھیں گے کہ کتاب مقدس کی صحت کے بارے میں تاریخ قرآن کی مصدق ہے۔

(۴)

اب ہم قرآن مجید سے ثابت کریں گے کہ سیدنا مسیح کا پیغام اہل یہود تک محدود نہ تھا بلکہ کل دنیا کی اقوام کے لئے تھا۔ سورہ مومنین میں وارد ہے ’’بالتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب اس غرض سے دی کہ لوگ اس سے ہدایت پائیں اورہم نے مریم کے بیٹے اوراس کی ماں کو (اپنی قدرت کی ) نشانی بنایا‘‘( سورہ مومنین آیت ۵۱ ترجمہ نذیر احمد)۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا کی نشانیاں صرف اہل یہود تک ہی محدود نہیں ہوسکتیں کیونکہ و ہ تمام کائنات کے لئے ہیں۔ پس اس آیہ شریفہ کا یہ مطلب ہے کہ ابن مریم آیت الله ہیں اور کل جہان کے لئے خدا کی قدرت کی نشانی تمام زمانوں کے لئے ہیں تاکہ آپ کے ذریعہ خدا کی قدرت کا ظہور بنی نوع انسان پر ہو۔ تب ہی قرآن کہتاہے کہ ’’ جو لوگ الله کی نشانیوں سے منکر ہوئے ان کے واسطے سخت عذاب ہے‘‘(عمران آیت ۴)۔

منجیِ جہاں کے عالمگیر مشن کے متعلق قرآن مجید کہتا ہے کہ ’’ اے پیغمبر خدا نے تم پر یہ کتاب برحق اتاری جو ان آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اوراسی نے اس سے پیشتر بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے تورات اورانجیل کو اتارا‘‘(عمران آیت ۲)’’ ہم نے عیسیٰ کو انجیل د ی جس میں ہدایت اورروشنی ہے جو تصدیق کرتی ہے تورات کی اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے ‘‘(مائدہ آیت ۴۵)۔ یہاں واضح الفاظ میں صراحت کے ساتھ اس حقیقت کا اقبال کیا گیا ہے کہ انجیل جلیل کا پیغام نہ صرف اہل یہود کے لئےہی تھا بلکہ کل اقوام عالم کے پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ خدا نے اس کو نہ صرف پرہیزگاروں کے لئے نازل کیا تھا بلکہ بنی آدم کے لئے نازل کیا تھا۔ لہذا کل بنی نوع انسان پر فرض ہے کہ اس پرا یمان رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ ’’ تم کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں الله پر اورجو نازل ہوا ہم پر اور ابراہیم اوراسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اسرائيلی فرقوں پر اورجو ملا عیسیٰ کو اور موسیٰ کو اور نبیوں کو‘‘۔

کیا مسیحیت کی کتابوں اور کلمتہ الله کے پیغام کے عالمگیر ہونے کی شہادت اس سے زیادہ زبردست ہوسکتی ہے کہ خود سیدنا مسیح آیت الله، روح الله ، کلمتہ الله قراردیئے جائیں۔ مسیحی کتُب مقدسہ بنی نوع انسان کے لئے عموماً اوراقوام عالم کے پرہیزگاروں کے لئے خصوصاً ہدایت ، امام، رحمت ، نور اور نصیحت وغیرہ قرار دی جائیں اورمومنین اورمومنات پر ان کے احکام کی تبعیت فرض کردی جائے ۔چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے کہ( ومن لمہ یحکمہ بما انزل الله فاولئک ھمہ الکافرون)۔ یعنی جو شخص خدا کی نازل کردہ کتاب پر عمل نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ امام رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

اس جملہ میں لفظ’’ من‘‘ شرط کی جگہ پر واقع ہوا ہے لہذا اس کا اطلاق بالعموم سب پر ہے‘‘۔

اب بھی اگر کوئی مومن مسلمان کلمتہ الله کی عالمگیری کو نہ مانے تو دقت سے کہ وہ اس نکتہ کو قرآن سے سمجھ لے ورنہ قرآن اس سے سمجھ لے گا ۔ ع

اگراب بھی نہ سمجھو تو پھر تم کو خدا سمجھے

وَماَ عَلیناَ اِلالبلاَغ

مقدمہ

سلام عماد الدین لاہز

تمام شد