#


Hidayat Nama
Barkat A.Khan

ہدایت نامہ

برائے

متلاشیانِ حق

مصنّف

برکت اے خان


مسلمانوں کے دوست

قرآن مجید میں حکم ہوا کہ دوستی کے بارے میں مسلمانوں کے لیے تُو اُن کو زیادہ نزدیک پائے گا ۔جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ (یعنی مسیحی) ہیں (سورۃ مائدہ آیت ۸۲)۔

اس آیت کی رُو سے مسلمانوں کے نزدیکی دوست مسیحی ہیں ۔رُوئے زمین (زمین کے اُوپر)کے تمام مسیحی لوگ مسلمانوں کے نزدیکی دوست ہیں ۔مغربی اور مشرقی ممالک کے مسیحی پاکستانی مسیحی مشنری اورغیر ملکی مسیحی مشنری سب کے سب مسلمانوں کے دوست ہیں ۔تمام اقوام ِ عالم کی نسبت صرف مسیحی لوگ ہی مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست ہیں ۔غیرمسیحی لوگ جب مسیحی ہوجاتے ہیں تو وہ بھی ازرُوئے قرآن مجید مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست بن جاتے ہیں ۔ بلکہ جو مسلمان مسیح خُداوند کو اپنا نجات دہندہ مان لیتے ہیں۔ وہ بھی مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست بنے رہتے ہیں۔

لیکن ایسے لوگ جو ان دنوں مسیحیت کو ایک فتنہ قرار دیتے ہیں اور انجیل کی منادی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی تجاویز پیش کرتے ہیں ۔ وہ قرآن مجید کی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں ۔ایسے لوگ اپنی کسی ذاتی غرض کے شکار ہیں ۔اور مسلمانوں اور مسیحیوں میں محبت اور دوستی کی بجائے کدورت (نفرت) دشمنی اور انتشار پیدا کرکے امنِ عالم کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ازرُوئے قرآن مجید رُوئے زمین کے تمام مسیحی لوگ مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست ہیں۔ انجیل مقدس میں زندہ مسیح کا یہ حکم ہے کہ ’’نہ صرف اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو بلکہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا کرو ‘‘(متی ۵: ۴۴۔۴۶)۔’’اور جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ۔ تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو‘‘(لوقا ۶: ۳۱)۔قرآن مجید میں لکھا ہے کہ’’ اے مسلمانوں تو اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا مت کرو‘‘(سورۃ عنکبوت آیت)۔لیکن جو لوگ مسیحیوں کے ساتھ انجیل مقدس کی منادی کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔کیا ان کی بابت ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کا حکم ماننے والے ہیں ؟ پھر انجیل کی منادی کو فتنہ قرار دینا تو قرآن کے حکم اور منشا کے بالکل ہی منافی ہے ۔قرآن مجید میں لکھا ہے کہ :۔’’چاہیے کہ انجیل والے اس کے مطابق جو اللہ نے انجیل میں نازل کیا ہے حکم کریں‘‘(سورۃ مائدہ آیت ۴۷)۔

پس جب کہ قرآن مجید میں اس موجودہ انجیل جلیل کی منادی کا حکم موجود ہے ۔ تو کیا اس انجیل کی منادی کو فتنہ قرار دینے والے اور اس کی منادی میں روک پیدا کرنے والے مسلمانوں اور مسیحیوں کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟ یہ انجیل ِ جلیل زندہ مسیح کا زندہ کلام ہے ۔جس کی منادی کا حکم قرآن مجید اور انجیل مقدس میں آج بھی زندہ اور قابل ِعمل ہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی دوسری انجیل نہیں ہے۔جس کی دُنیا میں منادی ہورہی ہے۔

مسیحیوں کے ساتھ زیادہ نزدیکی دوستی کا حکم آج بھی قرآن مجید میں زندہ اور قابلِ عمل ہے ۔ مسیحیون کے واسطے اس بے تبدیل انجیل کی منادی کا حکم آج بھی قرآن مجید میں زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

(۱۔) کیا کوئی جرات سے کہہ سکتا ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ زیادہ نزدیکی دوستی کا حکم قرآن مجید سے خارج اور متروک ہوگیا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ قرآن مجید میں یہ حکم آج بھی زندہ اور قابلِ عمل ہے لہٰذا قرآن کا یہ حکم منسُوخ نہیں ہوا۔

(۲۔) کیا کوئی مسلم جرات سے کہہ سکتا ہے ۔ کہ انجیل کی منادی کا حکم قرآن مجید سے خارج اور منسُوخ ہوگیا ہے؟ ہرگز نہیں قرآن مجید میں یہ حکم آج بھی زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

(۳۔) کیا (سورۃ مائدہ آیت ۸۲) میں سے مسلمانوں کے لیے اہلِ کتاب نصاریٰ کے ساتھ دوستی کا حکم خارج اور متروک ہوگیا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ لہٰذا قرآن مجید کا یہ حکم منسو خ نہیں ہوا ۔

(۴۔) کیا (سورۃ مائدہ آیت ۴۷) میں سے اہلِ انجیل کے لیے انجیلِ مقدس کی منادی کا الہٰی حکم خارج اور متروک ہوگیا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ دوستو! سیاسی اختلافات کو مدنظر رکھ کرہرگز فیصلہ نہ کریں ۔بلکہ ازرُوئے قرآن مجید فیصلہ کریں ۔ یہ آیت آج بھی واجب العمل (جس پر عمل کرنا لازم ہو) ہے۔ میرے دوستو! اگرچہ مسیحی دُنیا مسلمانوں کی طرح قرآن مجید کو کوئی درجہ دیں یا نہ دیں ۔لیکن مسیحیوح کے ساتھ زیادہ نزدیکی دوستی کا حکم تو قرآن مجید میں آج بھی اہلِ اسلام کے لیے زندہ اور قابلِ عمل ہے۔ اس لاتبدیل اور اٹل انجیل کی منادی کے معاملہ میں تو مسیحی لوگ گویا قرآن مجید کے حکم کی بھی پیروی کررہےہیں (سورۃ مائدہ آیت ۴۷)۔

پیارے دوستو! قرآن مجید اس انجیلِ مقدس کی سچائی کی آج بھی تصدیق کرتا ہے (سورۃ مائدہ آیت ۴۸)۔ازرُوئے قرآن مجید یہ انجیل مُقدس وہ ہے جس میں نُور اور ہدایت آج بھی موجود ہے (سورۃ مائدہ آیت۴۶)۔

اس انجیل میں جس نُور کا اشتہار ہے ، وہ نُور زندہ مسیح خُداوند ہے ۔ جو زندگی بخش نُور ہے(یوحنا۱: ۴)۔

’’زندہ عیسیٰ مسیح حقیقی نُور ہے۔ ایسا ’’حقیقی نُور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے ‘‘(یوحنا۱: ۹)۔

بمنزلہ آفتاب جس کی کرنوں میں شفا اور زندگی بخش تاثیرہے ۔عالم بالا کا آفتاب جو ہماری زندگی کو نجات کا نُور اور ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے (لوقا۱: ۷۸)۔ دُنیا میں روشنی لانے والا نُور جو ہر ایمان لانے والے کی زندگی کو روشن اور منور بھی کرتا ہے۔ زندہ مسیح کا فرمان ہے کہ

’’دُنیاکا نُور میں ہوں ۔جو میری پیروی کرئے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا ۔ بلکہ زندگی کا نُور پائے گا‘‘(یوحنا۸: ۱۲)۔

آسمانی ہستی عیسیٰ مسیح حقیقی نُور ہے بلکہ ایک زندہ حقیقی نُور ہے۔ گُناہ سے نجات دینے والا نُور خُدا کے ساتھ ہماری صُلح اور میل کرانے والا نُور آسمانی زندہ مسیح کا فرمان ہے کہ :۔’’میں نُور ہوکر دُنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے‘‘(یوحنا۱۲: ۴۶)۔

پیارے دوستو! کیا اس نجات دینے والے حقیقی نُور عیسیٰ مسیح کی خوشخبری کو روکنا عقل مندی ہے ؟ اہل ِاسلام کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم عیسیٰ مسیح کی بڑی عزت کرتے ہیں ۔تو پھر اس کی انجیل کی منادی میں روک پیدا کرنا ،جس میں نُور اور ہدایت ہے۔کونسی عقل مندی حکمت اور دانائی ہے؟ اور مسیحیت کو فتنہ قرار دینے میں قرآن مجید کے کونسے حکم کی بھلائی ہے؟

پیارے دوستو! آج بھی مسیحی دُنیا اہلِ اسلام کی دوست ہے۔ بلکہ زیادہ نزدیکی دوست ہے ۔اور دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے آپ کو نجات کی بیش قیمت خوشخبری کا اشتہار دیتے ہیں ۔مُقدس انجیل جلیل میں لکھا ہے کہ :۔’’اس شخص (یعنی مسیح) کی سب نبی گواہی دیتے ہیں ۔کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا۔اُس کے نام سے گُناہوں کی معافی حاصل کرے گا‘‘(اعمال ۱۰: ۴۳)۔زندہ مسیح خُداوند حقیقی نُور ہے ۔وہ زندگی بخش نُور بلکہ نجات دینے والا نُورہے ۔اُس نے صلیب کے اُوپرہماری نجات کاکام انجام دیا ہے ۔وہ دُکھیوں کا دوست ہے ،وہ گنہگاروں کا دوست ہے ،کیونکہ وہ گنہگاروں کونجات کا حقیقی اطمینان اور زندہ تسلی دیتا ہے ۔اُس نے دُکھی انسانوں کے ساتھ ہمدردی ، نیکی اور بھلائی کے لیے قربانی اور جانثاری کا نمونہ دیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔ جو لوگ مانتے ہیں کہ خُداوند عیسٰی المسیح زندہ ہیں ۔ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں ۔جن کو ابھی تک اس بات کا شخصی تجربہ حاصل نہیں ہوا ۔ کہ آسمانی ہستی زندہ مسیح خُداوند ہمارے نجات دہندہ ہیں ۔ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ زندہ مسیح خُداوند پرایمان لاکر نجات کا حقیقی اطمینان حاصل کریں ۔ کیونکہ جوا س پر ایمان لاتے ہیں زندہ مسیح یسوع ان کو نجات کا شخصی تجربہ اور حقیقی اطمینان عطاکرتے ہیں ۔نجات اور ہمیشہ کی زندگی دینے والا صرف واحد خُداوند یسوع عیسٰی مسیح ہے ۔وہ راہ اور حق اور زندگی ہے۔ زندہ عیسٰی مسیح منجی عالمین کا فرمان یہ ہے کہ :۔’’ دُنیا کا نور میں ہوں ۔جو میری پیروی کرئے گا ۔وہ اندھیرے میں نہ چلے گا ۔بلکہ زندگی کا نُور پائے گا‘‘(یوحنا ۸: ۱۲)۔’’کیونکہ میں دُنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہوں ‘‘(یوحنا ۱۲: ۴۷)۔



خُدا محبت ہے

خُدا محبت ہے اور محبت خُدا ہے ۔خُدا ازل سے ابد تک محبت ہے۔خُدا نے محبت سے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ۔محبت سے تما م دیکھی اور اَن دیکھی چیزوں کو پیدا کیا ۔محبت سے زمین کی تمام بے جان چیزوں اور جانداروں اور انسان کو پیدا کیا ۔تاکہ تمام مخلوقات خُدا کی محبت سے لطف اندوز ہو اور خُدا کا جلال ظاہر کرے۔خُدا اپنی محبت کی خوبی اور قدرت سے سب چیزوں کو سنبھالتا ہے۔ جب خُدا نے محبت ہے کائنات ِ عالم کو خلق کیا۔توتمام جانداروں اور انسانوں میں محبت کی خوبی کو بھی رکھا۔ تاکہ محبت کے ساتھ سب لوگ ایک خاندان کے لوگوں کی طرح رہیں ۔لیکن جب گُناہ دُنیا میں آگیا ۔تو محبت کی جگہ دشمنی اور پیار کی جگہ نفرت پیدا ہوگئی ۔مگر جس شخص میں محبت ہے۔خُدااس میں رہتا ہے اوروہ خُدا میں قائم رہتا ہے۔ جس گھرکے افراد میں محبت ہے ،خُدااُن میں رہتا ہے ،ایک رسول فرماتے ہیں کہ :۔’’اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کھلادوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں ۔محبت صابر ہے اور مہربان محبت حسد نہیں کرتی ۔محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں ۔نازیبا کام نہیں کرتی۔اپنی بہتری نہیں چاہتی ،جھنجھلاتی نہیں، بدگمانی نہیں کرتی ۔بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں ۔غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں۔ مگر افضل ان میں محبت ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۳۔۷، ۱۳)۔

پیارے دوستو! خُدا کی مرضی پر چلنا اور خُدا کی مخلوقات کی بھلائی کے کام کرنا محبت اور سچی عبادت ہے۔ کسی مذہب کی پیروی کا اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ انسان محبت کی اعلیٰ اخلاقی خوبیوں سے اپنی شخصی زندگی کو روشن کرے اور ان تمام اعلیٰ خوبیوں کو خُدا کی مرضی کے مطابق اپنے قریبی رشتہ دارون ، دوستوں ، دشمنوں اور رُوئے زمین کے تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کی بھلائی کے لیے صرف کرے ۔خداوند یسوع مسیح اس لیے دُنیا میں جلوہ گر ہوئے تاکہ خُدا کی عالم گیر محبت کو دُنیا پر ظاہر کریں لوگوں کے دل محبت کی مقدس صفات سے معمور کریں اور وہ لوگ جو خُدا سے دور ہیں ۔ خُدا کے ساتھ ان کا رشتہ محبت قائم کریں ۔چنانچہ وہ لوگ جو خُدا کی مرضی پر چلتے ہیں وہی خُدا کے پیارے لوگ ہیں۔ وہی خُدا کے ایماندار لوگ ہیں۔ بائبل مقدس جو مسیحیوں کے پاس الہٰامی کتاب موجود ہے۔ اس میں ایمان داروں کی بابت لکھاہے کہ وہ خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔اور خُدااُن کا باپ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے :۔( الۡخَلۡق عَیَالُ اللّٰہُ)       (مخلوق اللہ کا عیال ہے)

مولانا روم فرماتے ہیں :۔

اولیاء اطفالِ اندائے پسر           (اولیاء اللہ کے بیٹے ہیں)

میرے دوستو! محبت اور پیار کی وجہ سے ہی استاد اپنے شاگرد کو بیٹا کہہ کربُلاتا ہے۔ محبت کی وجہ سے بچے اپنے بڑے بزرگوں کو ابّا یا میاں کہہ کربُلاتے ہیں ۔کبھی کبھی علمائے دین اللہ میاں یعنی خُدا باپ اور اہلِ اسلام کو فرزندان توحید یعنی خُدا کے بیٹے کہہ دیتے ہیں ۔ محبت کے پاک روحانی رشتہ کی وجہ سے خُدااپنے ایمان داروں کا باپ ہے اور خُدا کے ایماندار خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں(رومیوں ۸: ۱۴)۔

تائب اور راسخ الایمان (پختہ یقین)لوگوں کو خُداتعالیٰ ایک روحانی زندگی کا ایک نیاجنم اور نئی پیدائش بخشتا ہے۔ ایمان داری اور راستبازی روحانی زندگی کا ایک نیاجنم اور نئی پیدائش ہے۔ جسمانی صورت میں ماں باپ سے پیدا ہونا جسمانی رشتہ کو پورا کرتا ہے۔ لیکن توبہ اور ایمان کے وسیلہ سے جب روحانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ تو یہ روحانی زندگی خُدا سے پیدا ہونے کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ روحانی عالم میں خُدا اپنے ایمانداروں کا باپ ہے۔ اور خُدا کے ایماندار خُداکے بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔لیکن یادرہے کہ ایمانداروں کی محبت اور فرزندیت کا یہ رشتہ اور سلسلہ اس زندگی میں زمین پر ہی شروع ہوتا ہے ۔کیونکہ خُدا کے ایماندار اپنی شخصیت میں مخلوق ہیں۔ خُدا اپنے ایمانداروں سے بہت محبت رکھتا ہے۔ لیکن ایک شخص اور بھی ہے جو خُدا کا ازلی محبوب ہے۔ وہ ازل سے خُدا تعالیٰ کے ازلی رشتہِ محبت میں رو ح اللہ اور ابن اللہ ہے ۔اور وہی خُدا کی محبت کا ازلی جائے مرکز ہے۔ وہ دُنیا کی نجات کی خاطر آسمان سے زمین پر اُتر آیا اور روح القدس کی قدرت سے مجسم ہوکر کنواری مریم سے پیدا ہوا ۔اس کا ذکر ہم آگے پڑھیں گے ۔

زندہ مسیح نے فرمایا ’’خُدا رُوح ہے‘‘ یعنی خُدا کی ہستی اور وجود مادی نہیں ۔مادی اشیا کی طرح ہم ذات الہٰی کا کوئی تصور اپنے ذہن میں قائم نہیں کرسکتے ۔خُدا ہمارا ہم طبیعت مادی انسان نہیں خُدا رُوح ہے ۔خُدا لامحدود ہے۔چنانچہ خُدا کی ذات سے ایک انسان کی طرح جسمانی تولید نسل کو خیال میں لانا سراسر حماقت ہے۔ اور خُدا کے لیے زوجہ کا تصور تو اور بھی مہمل (بیہودہ)اور فضول بات ہے۔کیونکہ ’’خُدارُوح ہے ‘‘ ۔اور خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اس لیے الہٰی ذات سے جسمانی تولید ناممکن ہے ۔کیونکہ وہ مادی جسم نہیں ہے۔ بلکہ قادر مطلق صاحب اختیار ہے۔

(۱۔) خُدا کی زوجہ اور الہٰی ذات سے جسمانی تولید کے ادنیٰ اور ناقص خیالات اور تصورات کا انجیل مقدس میں قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سن ہجری کی ابتدا کے وقت عرب میں کچھ جاہل اور نادان لوگ پیدا ہوگئے تھے ۔جو عیسیٰ کی الہٰی ابنیت کی عظمت کے بارے میں سخت غلطی میں مبتلا تھے۔ان کا خیال تھاکہ مسیحی لوگ زندہ مسیح کی الہٰی ابنیت کے بارے میں خُدا کی زوجہ کا بھی عقیدہ وخیال رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام ا س کی تردید کرتا ہے ۔لیکن خُدا نہ مرد نہ عورت ہے۔

(۲۔) لیکن یادرہے کہ خُدا کی زوجہ اورالہٰی ذات سے جسمانی تولید کے ادنیٰ اور جاہلانہ خیالات کی قرآن مجید تردید ضرور کرتا ہے۔لیکن قرآن مجید انجیل مقدس کا حوالہ پیش نہیں کرتا ۔کیونکہ انجیل مقدس میں خُدا کی زوجہ اور الہٰی ذات سے جسمانی تولید کا قطعاً کوئی ذکر اور نشان تک نہیں ملتا۔

(۳۔) اس لیے اہل اسلام دوستوں سے میرا پُر زور دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ مسیح ابن اللہ کا نام سن کر مسیحیوں کے آگے خُدا کی زوجہ اور جننے کی حُجت(دلیل ،تقرر) ہرگز کھڑی نہ کریں ۔ورنہ یہ حُجت انجیل مقدس سے ثابت کرنی پڑے گی اور ناکامی کی صورت میں سخت مایوسی ہو گی۔کتابِ مقدس کا خُدا رُوح ہے وہ مرد نہیں۔

پیارے دوستو! جب مسیح کلمہِ مجسم ہوکر بے باپ پیدا ہوئے تو اس وقت خُدا اور مسیح کے درمیان باپ اور بیٹے کا رشتہ شروع نہیں ہوا تھا۔ خُدا اور مسیح کے درمیان باپ اور بیٹے کا رشتہ تمام دُنیا کی پیدائش سے پیشتر سے ہے کیونکہ ازلی خُدا کا اکلوتا بیٹا زندہ مسیح بھی ازلی آسمانی شخص ہے ۔دُنیا کی پیدائش سے پیشتر خُدا جس سے محبت رکھتا تھا ۔وہ خُدا کا بیٹا کلمتہ اللہ مسیح ہے۔ جو دُنیا کی پیدائش سے پیشتر سے ازلی محبت کے پاک رشتہ مین خُدا کا پیارا اکلوتا بیٹا ہے۔جسمانی رشتہ سے ولادت بے پدر (بغیر باپ کے پیدائش)کے سبب مسیح ابن ِمریم ہے۔انسان کامل ہے ۔لیکن الوہیت کے باطنی کمالات ازلی جاہ وجلال اور شان وشوکت کے سبب خُدا کا ازلی بیٹا ہے ۔جو خُدا میں سے نکلا اور مجسم ہوکردُنیا میں آیا ۔خُدا اور مسیح کے درمیان باپ اور بیٹے کا رشتہ ازلی ہے ۔آسمانی ہے غیرمخلوق اور غیرفانی ہے۔اور تمام وقتی حدود اور قیود(قید کی جمع) کے تصورات سے بالاتر ہے۔ خُدا کے ساتھ تمام ایمانداروں کی ابنیت کے رشتہ کی نسبت ،مسیح کا رشتہ ابنیت تھا۔اور ازلی ہے کیونکہ زندہ مسیح اپنی ازلی شخصیت اور اپنے جلال میں ازلی خُدائے محبت کا ازلی محبوب یعنی ابنِ وحید اور اکلوتا بیٹا ہے۔مگر خُدا کے ایماندارزندہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے خُدا کے لے پالک بیٹے ہیں(افسیوں ۱: ۵؛ یوحنا۱: ۱۲)۔کتابِ مقدس میں باپ اور بیٹے کے الفاظ آسمانی دُنیا کی روحانی اصطلاح میں پیار اور محبت کے مقدس رشتوں کو ظاہر کرتے ہیں لیکن زمینی دُنیا میں باپ اور بیٹے کے الفاظ صُلبی رشتوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔

زندہ مسیح نے ارشاد فرمایا ہے کہ :۔’’مَیں خُدا میں سے نکلا اور آیا ہوں ‘‘(یوحنا ۸: ۴۲)۔یعنی خُدا سے خُدا اور برحق سے برحق یہ بھی فرمایا کہ:۔’’ دُنیا کی پیدائش سے پیشتر سے میرا جلال خُدا کے جلال کے ساتھ اور بنائے عالم سے پیشتر سے میری شخصیت خُدا باپ کی ازلی شخصیت کے ساتھ خُدا کی محبت کا جائے مرکز ہے ‘‘(یوحنا ۱۷: ۵، ۲۴)۔

میرے دوستو! اگر آپ انجیل مقدس کا مطالعہ کریں ۔تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ الوہیت کے جلال میں زندہ مسیح خُداوند سچ مچ خُدا کے جلال کا پَرتَو اور اس کی ذات کا نقش، اور اس کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے۔اور خُدا کے اکلوتے بیٹے مسیح کے وسیلہ سے خُدا کی محبت کا حقیقی بھید اور مکاشفہ اور ہمیشہ کی زندگی ظاہر ہوئی ہے ۔ انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ :۔’’کیونکہ خُدانے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پرایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ‘‘(یوحنا ۳:۱۶)۔

پس ثابت یہ ہوا کہ زندہ مسیح یسوع کی الہٰی ابنیت ازلی ہے۔ آسمانی ہے ۔روحانی ہے ۔غیرفانی ہے ۔کیونکہ الوہیت کی ساری معموری صرف زندہ مسیح یسوع میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے۔زندہ مسیح یسوع خُدا کے جلال کا پَرتَو ہے۔ خُدا کی ذات کا نقش ہے اور الہٰی محبت کے ازلی اور آسمانی اور بے مثل روحانی رشتہ کے سبب سے خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ لہٰذا زندہ مسیح یسوع کی الہٰی ابنیت کی عظمت کے مسئلہ میں مسیحیوں کے آگے خُداکی زوجہ اور خُدا کی ذات سے جننے اور جسمانی تولید نسل کا سوال کھڑا کرنا سخت بے علمی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ خُداوند یسوع مسیح کی آسمانی الہٰی ابنیت کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھا کر سوچ وبچار کریں۔ اور جو باتیں خانہ کعبہ کے بُتون لات ومنات وعُزیٰ کے بارے میں کہی گئی ہیں۔ اُن کو خُدا کے بیٹے مسیح ابن اللہ کے ساتھ جو ڑنے کی کوشش نہ کریں۔


محبّت اور قربانی

خُدا محبت ہے خُدا تعالیٰ تمام دُنیا سے محبت رکھتا ہے ۔جیسے ایک باپ بچوں کو پیار کرتا ہے اور ان پرترس کھاتا ہے ۔قادر مطلق خُدا اس سے بھی زیادہ انسان کو پیار کرتا ہے۔کیونکہ خُدا ازل سے ابد تک محبت ہے اور اس کی محبت بے حد ہے۔ کتاب مُقدس میں میکاہ نبی کی معرفت لکھا ہے کہ خُدا ’’رب العالمین ‘‘ہے(میکاہ ۴: ۱۳)۔یعنی وہ خالق کائنات اور رازق کل جہان ہے۔وہ تمام مخلوقات کی نسبت حضرت انسان سے بے حد محبت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ روزِ اول ہی ابوالبشر کو اشرف المخلوقات ہی نہیں بلکہ اُسے اشرف الاخلاق، اشرف العقل وحکمت اور اشرف الصفات یعنی اپنی صورت اور شبیہ کی مانند پیدا کیا اور بقدر ظرفِ انسانی اُسے اس لیے اپنی متشابہ صفات ودیعت کیں تاکہ رب العالمین حضرت ِ انسان کو مکالمہ ومخاطبہ یعنی بذریعہ الہٰام و کلام اپنی الہٰی محبت کے فضل وکرم سے مستفید فرمائے خُدا کی پدرانہ محبت پاک بے داغ بے عیب لازوال اور عجیب ہے وہ انسان سے ایسی عجیب محبت رکھتا ہے کہ کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ انسان دوسرے انسان سے ایسی محبت نہیں رکھ سکتا ۔اگرچہ خُدا تعالیٰ اپنی تمام اعلیٰ صفات میں لاثانی ہے مثل اور بے حد و بے حساب اور لاانتہا ہے۔ لیکن رب العالمین کی اعلیٰ ترین عالمگیر صفت یہ ہے کہ ’’خُدا محبت ہے‘‘۔اُس نے دُنیا سے محبت رکھی اور پاک انبیاء کے وسیلہ الہٰام و کلام بخشا ۔تاکہ ہر ایک انسان معرفت اور قُرب الہٰی (خُدا کی نزدیکی) میں خوشنودی حاصل کرے۔حق تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔اس لیے اس نے انسان کے لیے بھی اپنے الہٰام وکلام کی روشنی میں ایک بااخلاق پاکیزہ زندگی گزارنے کا اہتمام کیا ہے۔ بلکہ حق پرستوں کے باطن میں اس ذمہ داری کا احساس بھی ودیعت کررکھا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور انسانی نسل کو بھی حقیقت ومعرفت محبت واخوت کی روحانی صفات سے متصف(تعریف کیا گیا) کرتے رہیں۔

مال وجان کی قربانی اور جانثاری تقاضائے محبت ہے۔چنانچہ ذات الہٰی کے ساتھ محبت وعقیدت کے اظہار کے لیے ہر ایک مذہب میں محبت وقربانی کے اصُول اور مثالیں موجود ہیں ۔ خُدا پرست مخیر حضرات عاقبت کی خاطر غریبوں ،یتیموں ،بیواؤں، اپاہجوں اور محتاجوں کو خیرات دیتے ہیں ۔ بیماروں کی خبرگیری کرتے ہیں ۔ضبطِ نفس کے لیے روزے رکھتے ہیں ۔عبادت وریاضت میں اپنے بدن کو مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے ہیں ۔بعض لوگ پانی یا سخت دُھوپ میں ایک ٹانگ کے بل کھڑے ہوکر یادالہٰی میں مصروف رہتے ہیں ۔بعض دُنیاداری کا ماحول ترک کر کے قبرستانوں میں درویشی اختیار کرلیتے ہیں ۔بعض لوگ مقدس مقامات کی زیارت کو جاتے ہیں ۔بعض لوگ کھانے کی کئی ضروری اشیاء ترک کردیتے ہیں ،چوکوں اور موڑوں پر کھڑے ہوکر عبادت کرنا پسند کرتے ہیں ۔تاکہ لوگ ان کو عبادت گزار جانیں ۔بعض لوگ مختلف قسم کے جانوروں کی قربانی گزرانتے ہیں ۔تاکہ اُنہیں نجات اور قرب الہٰی حاصل ہو۔قربانی قربِ الہٰی کے مفہوم سے متعلق ہے ۔اس لیے بعض لوگ اپنے گناہوں کی معافی اور قُرب الہٰی کی خاطر ہرسال جانوروں کی قربانیاں گزرانتے ہیں ۔جیسے بزرگ آدم کےبیٹے قائین اور ہابل نے دُنیا میں سب سے پہلے خُدا کے حضور قربانیاں گزرانیں یا جیسے بزرگ ابرہام خُدا تعالیٰ کا حکم بجا لاکر اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہوگئے ۔بزرگ ابرہام خُدا کے ایک فرمانبردار دوست اور ایمانداروں کے باپ تھے ۔چنانچہ بزرگ موسیٰ نے توریت میں لکھا ہے کہ ایک بار خُدا نے بزرگ ابرہام کو اپنے فرشتہ کی معرفت فرمایا کہ :۔

’’اے ابرہام ! اُس نے کہا مَیں حاضر ہوں ۔تب اس نے کہا اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے ۔ ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو مَیں تجھے بتاؤں گا ۔سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر اپنے گدھے پر چارجامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کے لیے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اس جگہ کو جو خُدا نے اُسے بتائی تھی روانہ ہوا ۔تیسر ے دن ابرہام نے نگاہ کی اور اس جگہ کو دور سے دیکھا تب ابرہام نے اپنے نوجوانوں سے کہا ۔تم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔ مَیں اور لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجد ہ کرکے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے اور ابرہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لے کرا پنے بیٹے اضحاق پر رکھیں اور آگ اور چُھری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے ۔تب اضحاق نے اپنے باپ ابرہام سے کہا اے باپ !اس نے جواب دیا کہ اے میرے بیٹے مَیں حاضرہوں ۔اس نے کہا دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کےلیے برّہ کہاں ہے ؟ ابرہام نے کہا میرے بیٹے ! خُدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لیے برّہ مہیا کرے گا۔سو وہ دونوں آگے چلتے گئے اور اس جگہ پہنچے جو خُدا نے بتائی تھی ۔وہاں ابرہام نے قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں چُنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا اور ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرئے۔ تب خُداوند کے فرشتہ نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابرہام ! اے ابرہام !اس نے کہا ۔مَیں حاضرہوں ۔پھر اُس نے کہا تو اپنا ہاتھ لڑکے پرنہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ مَیں اب جان گیا کہ تُو خُدا سے ڈرتا ہے اس لیے کہ تونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے ۔مجھ سے دریغ نہ کیا۔اور ابرہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابرہام نے جاکر اس مینڈے کو پکڑ ا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا‘‘(پیدائش ۲۲: ۱۔۱۳)۔

چنانچہ اُس قربانی کی وجہ سے خُدا کے حضور بزرگ ابرہام کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔قرآن مجید (سورۃ صافات آیت۱۱۲۔۱۱۳) میں لکھا ہے کہ :۔’’اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی جو نیک بختوں میں ایک نبی تھا اورہم نے ابراہیم اور اسحاق کو برکت دی‘‘۔

بزرگ موسیٰ کی معرفت توریت یعنی الہٰی کامل شریعت کی کتاب احاطہ ِ تحریر میں آئی ۔مَیں اپنے مسلم دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ایک مرتبہ ضرور کتابِ مقدس کا اُردو ترجمہ لے کر اس میں سے توریت کی کتاب یعنی پیدائش،خروج ،احبار،گنتی اور استثنا کا مطالعہ کریں ۔الہٰی شریعت کی اس کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ مکمل ضابطہ ِ حیات یعنی حقوق شریعت ،ملکی اور سیاسی شریعت کے قوانین طریقہ عبادت اور قربانیوں کی رسوماتی شریعت کے تمام احکام وقوانین موجود ہیں ۔معافی اور قُربِ الہٰی کے لیے مختلف قسم کی قربانیوں کے متعلق بھی بڑا تفصیلی ذکر خیر موجود ہے۔ مثلاً آتشین قربانی ، سوختنی قربانی ، نذر کی قربانی ذبیحہ کی قربانی ،ہدیوں اور منّتوں اور رضا کی قربانی (احبار۲۳: ۳۷۔۳۸)۔توریت میں خُدا کی محبت اور خوشنودی کے لیے تمام قسم کی قربانیوں میں سے ذبیحہ کی قربانی کو بڑی خاص اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ خُدا کے کلام میں لکھا کہ :۔’’چنانچہ جب موسیٰ تمام اُمت کو شریعت کا ہر ایک حکم سُنا چکا ۔تو بچھڑوں اور بکروں کا خون لے کرپانی اور لال اون اور زُوفا کے ساتھ اس کتاب اور تمام اُمت پر چھڑک دیا اور کہا کہ یہ اس عہد کاخون ہے ۔جس کا حکم خُدا نے تمہارے لیے دیا ہے اور اسی طرح اس نے خیمہ اور عبادت کی تمام چیزوں پر خُون چھڑکا اور تقریباً سب چیزیں شریعت کے مطابق خُون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خُون بہائے معافی نہیں ہوتی ‘‘(عبرانیوں ۹: ۱۹۔۲۲)۔

خُدا تعالیٰ نے انسان کے باطن میں اظہارِ محبت وعقیدت کے لیے قربانی اور جانثاری کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا ہے۔ چنانچہ تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں قُرب ِالہٰی کے حصول کی خاطر ذبیحہ کی قربانیاں گزرانی جاتی ہیں ۔بعض لوگ قربانی کے جذبہ محبت میں تو اتنے دیوانے اور مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اپنے معبودوں کے آگے بکروں اور بچھڑوں کی بجائے اپنے بچوں یا دوسرے انسانوں کو ذبیحہ کی قربانی گزراننے سے دریغ نہیں کرتے اور وہ خون کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں ۔بے شک باغِ عدن میں پہلے انسان کی وجہ سے خُدا کی حکم عدولی کا گناہ دُنیا میں آیا اور یہی گناہ اب تک انسانوں کی زندگی میں ہمارے تجربات اور مشاہدات میں کام کررہا ہے ۔وہ ہے نفسِ امارہ(انسان کی خواہش جو برائی کی طرف مائل کرے)۔حضرت انسان اپنے گناہوں کی معافی اور قُربِ الہٰی کے لیے ذبیحہ کی قربانی میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ہمارے مشاہدات میں آئی ہے کہ زندگی میں ایک ہی بار ذبیحہ کی قربانی سے انسان کو معافی کی کامل تسلّی حاصل نہیں ہوتی ۔اس لیے وہ سال بہ سال باربار بلکہ ساری زندگی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، کہ یہ قربانیاں اُس کی نجات اور اُس کی باطنی تسلّی اور قلبی اطمینان کے لیے کار گر ثابت نہیں ہوئیں ورنہ وہ زندگی میں صرف ایک ہی بار ایک ہی قربانی گُزرانتا۔

دراصل جانور گناہوں سے معافی نجات اور قُربِ الہٰی کے حصُول میں باعث رکاوٹ نہیں جن کو انسان ذبیحہ کے طور پر قربان کرتے ہیں بلکہ انسان کا گُناہ ہے۔ جو خُدا اورانسان کے رشتہ محبت میں خلل اور جُدائی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا گناہ کو ذبح اور دور کرنےکی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ خُدا اور انسان کے درمیان سے گُناہ کی دیوار کا پردہ اُٹھ جائے اور خُدا اور انسان کے درمیان میل ملاپ کے دروازے کُھل جائیں۔ انسانی ضمیر گُناہ سے نجات اور قرب الہٰی کے لیے الہٰی محبت اور خُدا کے فضل و کرم کا تقاضا بھی ضرور کرتی ہے۔ لیکن اس کی تکمیل انسانی ہاتھوں اور کوششوں پر مبنی نہیں ۔جانوروں کی قربانی اور خُون میں پوشیدہ نہیں ۔کسی طریقہِ عبادت ریاضت یا نیک اعمال کے وسیلہ نہیں بلکہ قادرِ مطلق خُدائے محبت کے ہاتھ اوراختیار میں ہے۔ درحقیقت انسانی فطرت ایک ایسی عجیب مُقدس پاک بے عیب اور بے داغ قربانی کے برّہ کی خواہاں ہے۔ جس کے خون کے وسیلہ سے گُناہ سے نجات معرفت اور قرب الہٰی کا کامل احساس اور یقین محکم حاصل ہو۔ کیونکہ جانوروں کی تمام قربانیاں ایک حقیقی برّہ کی قربانی کا عکس ہیں۔

’’خُدا محبت ہے‘‘ چنانچہ جب خُدا تعالیٰ نے انسان کی مایوسی اور بے بسی کو معلوم کیا تو اس نے ایک پاک بے عیب ،بے داغ اور مقدس ترین برّہ یعنی مسیح مصلوب کو دُنیا میں بھیجا۔ جس کو رب العالمین خُدائے محبت نے ازل سے گنہگاروں کے فدیہ کفارہ اور قربانی کے لیے آسمانی مقاموں پر مقرر کررکھا تھا۔ تاکہ خُدا انپے مقررہ وقت پر اس پاک بے عیب بے داغ برّہ یعنی مولودِ مقدس مسیح مصلوب لاثانی ذبیحہ کی قربانی کے وسیلہ سے گنہگاروں کا فدیہ ادا کرے اور ان کو پاک کرے۔ ان کو مقدس کرے تاکہ وہ خُدا سے میل ملاپ کرلیں ۔کیونکہ گُناہ کی ناپاکی کی وجہ سے کسی گنہگار انسان کا خُدائے قدوس وبرحق کے ساتھ میل ملاپ اور قرب الہٰی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔چنانچہ خُدائے قدوس وبرحق نے اپنے بڑے فضل اور پدرانہ محبت وشفقت کے ثبوت میں اپنے بے عیب برّہ کلمتہ اللہ مسیح مصلوب کے وسیلہ سے گنہگار وں کی نجات معافی میل ملاپ اور ہمیشہ کی زندگی کے دروازے کھول دئیے ہیں ’’تاکہ جوکوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘۔ کیونکہ کلمتہ اللہ مسیح مصلوب خُدا کا برّہ ہے۔

’’وہ (خُدا کا برّہ مسیح)آپ ہمارے گُناہوں کو اپنے بدن پر لیے ہوئے ۔خُدا کے عدل وانصاف کے تقاضائے محبت کے مطابق صلیب پر چڑھ گیا۔ تاکہ تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کا فدیہ اور کفارہ ہو۔اور خُدا اور انسان کے درمیان سے جدائی کے پردے اُٹھ جائیں اور خُدا کے ساتھ میل ملاپ ہو۔خُدا کا دِل لازوا ل محبت سے معمور بھرپور ہے اور خُدا کےبرّے مسیح مصلوب کی قربانی الہٰی محبت کا ایک عظیم بے مثل اور عجیب معجزہ ہے۔ بزرگ زکریاہ کے بیٹے یحییٰ (یوحنا)نبی نے جب کلمتہ اللہ مسیح مصلوب کو دیکھا تو کہا کہ

’’دیکھوخُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے‘‘(یوحنا۱: ۲۹، ۳۶)۔

چونکہ منجی عالمین مسیح مصلوب موت پر قادر ہیں اس لیے وہ تیسرے دن بعد مصلوب مردوں میں سے جی اُٹھے ۔وہ چالیس (۴۰)دن تک اپنے مصلوب ہاتھوں پاؤں اور پسلی کو دیکھا دیکھا کر اور بہت سے ثبوتوں سے اپنے آپ کو اپنے شاگردوں یعنی رسولوں پر زندہ ظاہر کرتے رہے اور متعدد بار دیداروکلام کے بعد آخر پانچ سو(۵۰۰) سے زیادہ بھائیوں کو دیکھائی دے کر ان کے رُوبرو دیکھتے دیکھتے اوپر آسمان پر اُٹھا ئے گئے۔ یہ زندہ مسیح مصلوب وہی ہے۔ ’’جوسب آسمانوں سے بھی اوپر چڑھ گیا‘‘(افسیوں ۴:۱۰)۔وہی ہماری نجات اور شفاعت کے لیے خُدا کے دہنے ہمیشہ زندہ ہے (عبرانیوں ۷: ۲۵)۔وہی خُدا کابرّہ زندہ مسیح مصلوب پھر سب آسمانی فرشتوں کے ساتھ قیامت اور زندگی بن کر عدالت اور انصاف کے لیے دُنیا میں آنے والا ہے (متی ۲۵: ۳۱۔۴۶)۔

اور ’’مسیح جب مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے تو پھرنہیں مرنے کا ۔موت کا پھر اس پر اختیار نہیں ہونے کا‘‘(رومیوں ۶: ۹) اس کی خالی قبرہمیشہ خالی رہے گی ۔کیونکہ وہ ازلی ابدی زندہ ہستی ہے۔

گنہگاروں کی نجات اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے خُدائے محبت نے کلمتہ اللہ مسیح مصلوب کے وسیلہ سے الہٰی محبت قربانی اور نجات کا جو مکاشفہ ہمیں بخشا ہے۔ وہ فی الحقیقت قبولیت کے لائق ہے۔ اس حقیقت پر غور وخوض کے لیے پاکستان بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور سے انجیل مقدس منگوا کر بغور مطالعہ فرمائیں اور رب العالمین کی پدرانہ محبت کے الہٰی مکاشفہ اور فضل وکرم سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔


خُداروح ہے

حضور عیسیٰ المسیح نے انجیل جلیل لاتبدیل میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’خُدا رُوح ہے‘‘۔یعنی خُدا تعالیٰ کا وجود اور ہستی مادی نہیں ۔اس کی طرف تذکیر وتانیث ضرورت ازدواج یا تولیدِنسل کا خیال غلط ہے۔ کیونکہ خُداتعالیٰ کی وحدت ازروئے بائبل مُقدس لامحدود ہے اس کا نام واحد ہے ۔(زکریاہ ۱۴: ۹)۔ وہ حی القیوم ہے ۔(دانی ایل ۱۲: ۷) وہ رب العالمین ہے (میکاہ ۴: ۱۳)۔لہٰذا توحید الہٰی کا تصور انسانی دماغ میں نہیں سما سکتا ۔تاہم حق تعالیٰ ایک واجب الوجود ہستی ہے۔ وہ خالقِ کائنات ہمہ جاحاضر وناضر ہے ہم جو جو کام کرتے ہیں ۔ وہ دیکھتا ہےبلکہ وہ ہمارے دلی ارادوں اور خیالات کو خوب جانتا ہے۔ ساری چیزیں اور ہر شخص کے دل کا حال اس کے سامنے بے پردہ ہے۔لیکن ’’خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔وہ اُس نُور میں رہتا ہے۔ جس تک کسی کی رسائی ممکن نہیں (۱۔ تیمتھیس ۶: ۱۶)۔

چونکہ خُدا سراسر روح ہے ایک لامحدود ہستی ہے۔ اس لیے ہم خُدا کی ذات کے متعلق اپنے دماغ میں کوئی تصور نہیں کرسکتے۔ ان ساری باتوں کے باوجود خُدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے دل میں دیدار ِ الہٰی کی ایک خواہش ودیعت کر رکھی ہے۔ اگر انسان کے لیے خُدا کا دیدار ناممکن ہوتاتو خُدا انسان کے دل میں دیدار الہٰی کی فطرتی خواہش کبھی پیدا نہ کرتا ۔لیکن دیدار الہٰی کے لیے انسان کی کوئی کوشش ممکن نہیں ۔کیونکہ خُدا روح ہے وہ کوئی مادی ہستی نہیں ۔ اس لیے ممکن یہی ہے کہ خُدائے قادر خود کسی دیدنی صورت میں اپنی الوہیت کا ظہور بخشے ۔چنانچہ خُدا کے کلام سے ظاہر ہے کہ دُنیا کی پیدائش کے وقت سے خُدا اپنے خاص ایمانداروں کو مختلف دیدنی صورتوں میں اپنی ذات الہٰی کا دیدار بخشتا رہا ہے۔ تاکہ ایمانداروں کو استحکام اور زندہ ایمان کی مضبوطی بخشے ۔خُدا محض صفات ہی صفات کا مجموعہ نہیں ۔محض صفات الہٰی کو ہی خُدا کی ذات وحدت قرار دینا ایمان اور عقل کے منافی ہے اور ایسے خُدا کی عبادت ایک فریب ہے۔ اور اس کی طرف الہٰام اور کلام منسوب کرنا محض خوش فہمی ہے۔ کیونکہ ایسا خُدا ایک فرضی خُدا ہے۔ اگرچہ خُدا روح ہے اور وہ ایسے مقام میں رہتا ہے۔ جس تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ۔لیکن ان ساری باتوں کے باوجود دہ ہر جگہ حاضر ہے۔ وہ دُنیا کی پیدائش کے وقت سے ایمانداروں کو دیدار الہٰی بخشتا رہا ہے تاکہ دیدار الہٰی کے لیے انسانی فطرت کا تقاضا پورا ہو۔ اور خُدا کی ذات اور شخصیت کے بارے میں ہمارا ایمان زندہ اور مضبوط رہے ۔نبیوں کے وسیلہ سے کلام الہٰی اور الہٰی مرضی ظاہر ہوئی۔ لیکن مسیح یسوع کے وسیلہ سے خُداکی قدرت ذات وصفات خُدا کی مرضی سیرت ،خُدا کی محبت ،خُدا کی ماہیت اور الوہیت اور شخصیت کا جلال ظاہر ہوا ہے۔

میرے دوستو! ابتدائے عالم سے خُدا اپنے ایمانداروں کو اپنی الوہیت کا دیدار بخشتا رہا ہے۔’’کیونکہ اس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہے۔یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں (رومیوں ۱: ۲۰)۔ایسا خُدا جو دیدنی بے عیب صورتوں میں اپنی الوہیت کا نور و ظہور فرماتا رہا ہے ، وہ فی الحقیقت واجب الوجود ہے اور وہی حمد و ستائش کے لائق ہے اور اُس پرایمان رکھنے والوں کا ایمان زندہ رہتا ہے۔ خُدا کی شخصیت کا یقین اور اُس کی محبت کا کامل ثبوت خُدا کے ظہور وتجسّم کے وسیلہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔خُدا قادرِ مطلق ہے۔ اس کو اپنے ظہور و تجسّم پر قدرت اور اختیار ہے اور کوئی انسان اس معاملہ میں خُدا کا صلاح کار نہیں ہوسکتا۔’’خُداوند کی عقل کوکس نے جانا ؟ یا کون اس کا صلاح کارہوا؟‘‘(رومیوں ۱۱: ۳۴)۔

’’خُداوند کی عقل کو کس نے جانا کہ اس کو تعلیم دے سکے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۶)۔محض مخلوقات کے مشاہدات سے خالق اور قادرمطلق خُدا کا تصور اور اس کی ذات پر اعتماد رکھنا ایک فرضی اور نامکمل ایمان ہے۔ کیونکہ خُدا کے ظہور وتجسم کےبغیر انسان کا ایمان کچا اور ڈانواں ڈول رہتا ہے۔ اہل اسلام بھی متفق الایمان ہیں کہ کوہ طور پر آگ کی تجلّی میں خُدا کی الوہیت کا ظہور اوردیدار ہوا ۔اور خُدا موسیٰ سے ہم کلام ہوا(سورۃ نمل آیت ۷، ۹)۔روزقیامت ہم مجسم خُداکا دیدار کریں گے (سورۃ قیامہ آیت ۲۲، ۲۳)۔خُدادو کمان کے فاصلہ پر نزدیک آیا(سورۃ نجم آیت۹)۔

پیارے دوستو ! خُدا کے ظہور وتجسم کی وجہ سے خُدا کو لامحدود ہستی ماننے کے عقیدہ کی نفی نہیں ہوسکتی ۔خُدا ایسا ہرگز نہیں۔کہ کوئی مخلوق چیز خُدا کی ذات کا احاطہ کرسکے،کیونکہ جس دیدنی صورت میں خُدا کا ظہور ہوتا ہے ۔وہ دیدنی صورت خُداکی ذات کا احاطہ کرکے خُدا کو مقید یا محدود ہرگز نہیں کرسکتی ۔بلکہ خُدا کی الوہیت اپنے ظہور کی اس دیدنی صورت پر احاطہ اور قبضہ کے ہوتی ہے۔انسان روح اور جسم کا مجسمہ ہے۔ جب انسان کا جسم مرجاتا ہے ۔تو انسانی رُوح کسی روک ٹوک کے بغیر انسانی جسم سے خارج اور الگ ہوجاتی ہے۔ جب کہ انسانی جسم انسانی رُوح پر احاطہ اور قبضہ نہیں کر سکتا۔توخیال کیجئے کہ آگ یافرشتہ کی صورت یا انسانی صورت جس میں خُدا کی الوہیت کا ظہور ہوتا ہے۔وہ خُدا کی الوہیت پر احاطہ کرکے اُسے مقید یا محدود یامنقسم کرسکتی ہے؟ خُدا اپنے ظہور وتجسم کے باوجود ہر جگہ حاضر رہتا ہے۔ اگر خُدا کے ظہور وتجسم کا ذکر سُن کرکسی معرض کے دل میں خُدا کے محدود حلُول (ایک چیز کا دوسری چیز میں ایسے داخل ہونا کہ دونوں میں تمیز نہ ہوسکے)مقید یا منقسم(جُدا) ہونے کا دھوکا یاوہم ہوتو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ قصور تو خود معترض کے اپنے ایمان کی کمزوری اور بے علمی کا ہے۔ ورنہ ہمارا خُدا تو اپنی ذات میں لامحدود ہے ۔اور ہمیشہ ہر جگہ حاضر ہے۔ وہ ہمارے تصورات سے باہر ہے۔ اعتراض اور مخالفت کرنا خوبی اور لیاقت کی بات نہیں بلکہ خُدا کے ظہوروتجسم کو تسلیم وقبول کرنا خوبی کی بات ہے۔ زندہ مسیح ظہور الہٰی اور خُدائے مجسم ہے۔ خُدا کی پدرانہ محبت اور شفقت کا ثبوت یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہوکر کامل ظہور بخشا۔ اور اپنے دل کی محبت کی گہرائیوں کو ہم پر ظاہر اور آشکار کیا ہے ۔’’مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کرلیا‘‘(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۹)۔مسیح یسوع الوہیت کے جلال میں ایسے منور تھے۔جیسے لوہا آگ کےاندر روشن ہوتا ہے۔ توان میں فرق نہیں رہتا ۔کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے‘‘(کلسیوں ۲: ۹)۔

خُداوند مسیح نے فرمایا ’’مَیں اور باپ (خُدا) ایک ہیں‘‘(یوحنا۱۰: ۳۰)۔یعنی ازلیت میں ایک ابدیت میں ایک قدرت جلال مرضی اور اختیار میں ایک ۔فرمایا’’جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ‘‘(یوحنا۱۴: ۹)۔’’ مَیں خُدا میں سے نکلا اور آیا ہوں‘‘(یوحنا ۸: ۴۲)۔مخلوق اور مادی چیزوں کے متعلق توہم اپنے دماغ میں ایک یادوتین چار وغیرہ کا عدد ہی تصور قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن خُدا جو سراسر روح اور بے حد ہے۔ اس کی ذات اور شخصیت کے متعلق ہم کوئی عددی تصور قائم نہیں کرسکتے ۔خُدا اپنی ذات وحدت میں باپ بیٹا اور روح القدس ہے ۔باپ کامل خُدا ہے ،بیٹا کامل خُدا ہے۔روح القدس کامل خُدا ہے۔لیکن خُدا تین نہیں ۔بلکہ باپ، بیٹا ،روح القدس واحد خُدا ہے۔باپ، بیٹا ،روح القدس واحد خُدا کو تین خُدا کہنا سراسر دماغی تصورات کی کمزوری ہے۔ریاضی کے عدی تصور صرف مخلوق اور مادی چیزوں کی بابت درست ہوتے ہیں ۔ لیکن خُداباپ ،خُدابیٹا اور خُدا روح القدس لامحدود خُدائے واحد کی بابت ہم ایک یا تین کا کوئی عددی تصور قائم نہیں کرسکتے۔کیونکہ خُدا روح ہے ۔ریاضی کے اعداد صرف مادی اور مخلوق چیزوں کے شمار کے لیے مقرر کئے گئے ہیں ۔خُدا کی ذات کے لیے ریاضی کی عددی توحید کا تصور غلط ہے۔ اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے۔کہ خُدا کے (۹۹)نام ہیں ۔ پھر بھی (۹۹)خُدا نہیں۔ بلکہ خُدا کو واحدمانتے ہیں، لیکن جب مسیحی لوگ خُدائے واحد کے لیے (۹۹) کی جائے(جگہ)باپ ،بیٹااور روح القدس کا نام لیتے ہیں تو وہ تین خُدا کا شور مچا دیتے ہیں ۔مجھے اسلامی توحید کے اس فلسفہ کی سمجھ نہیں آئی؟ کیونکہ مسیحیوں کی الہٰامی کتاب بائبل مقدس میں تو صرف ایک ہی واحد لامحدود خُدا کا ذکر ہے۔چنانچہ یسوع مسیح نے فرمایا کہ :۔’’اے اسرائیل سُن خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے‘‘(مرقس ۱۲: ۲۹۔۳۰)۔ ’’خُدائے واحد۔۔۔۔کوجانیں‘‘(یوحنا۱۷: ۳)۔’’وہ عزت جو خُدائے واحد کی طرف سے ‘‘(یوحنا۵: ۴۴)۔

روئے زمین کے تمام مسیحی صرف ایک ہی لامحدود واحد اور زندہ خُدا کو مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں ۔لیکن جو لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ مسیحی لوگ تین خُدا کو مانتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں وہ مسیحی تصورِ خُدا کی عظمت سے بالکل بے خبر ہیں ۔جب کہ روئے زمین کے تمام مسیحی لوگ ایک ہی واحداور زندہ خُدا کو مانتے ہیں۔ تو پھر ا ن کی یہ بات کس طرح سچ اور برحق ہوسکتی ہے کہ مسیحی لوگ تین خُدا مانتے ہیں ؟یہ سراسر دروغ گوئی ہے۔

خُدا روح ہے ۔خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔خُدا مادی اور خاکی اور نفسانی وجود نہیں رکھتا ۔خُدا کے لیے زوجہ اور خُدا کی ذات سے بدنسل کا خیال بھی بالکل خلافِ عقل اور خلافِ توحید الہٰی ہے۔ بائبل مقدس میں نہ کہیں خُدا کی زوجہ کا کوئی ذکر ہے نہ خُدا کے جسمانی اور تولیدِنسل کا نام ونشان ہے۔ جب کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا مسیحی موجود نہیں ہے ۔جو خُدا کی زوجہ او رخُدا کی ذات کے جسمانی تولیدِ نسل کا عقیدہ رکھتا ہو۔توپھر ایسے لوگوں کی بات کس طرح سچی آسمانی اور الہٰامی ہوسکتی ہے۔جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ مسیحی لوگ خُدا کی ذات سے جسمانی تولید کومانتے ہیں ۔دعویٰ بلادلیل باطل ہوتا ہے ۔لہٰذا ہرگز مناسب نہیں کہ بلادلیل اثبات ِ(ثبوت کی جمع)انجیل مسیحیوں کے خلاف اس دعویٰ پر زور دیا جائے کہ مسیحی لوگ تین خُدا مانتے ہیں ۔اور الہٰی ابنیت کے معاملہ میں خُدا کی زوجہ کے قائل ہیں۔

وہ لوگ جو ازلی آسمانی اور غیر مخلوق ابن اللہ کی خوشخبری کو نہیں سمجھتے وہ مسیحیوں کے آگے خُدا کی جورو یا خُدا کے جننے یا تین خُدا کے سوال یا خیال پیدا کرتے ہیں ۔ان کی بے علمی کے سبب ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ذات الہٰی کے متعلق ان کے خیالات اور تصورات بالکل ناقص ہیں ۔خُدا اور مسیح کے درمیان الوہیت کی ساری معموری کے سبب الہٰی ابنیت اور وحدت ِ ذات کا ایسا ازلی رشتہ ہے کہ مخلوقات میں اس کی مثال اور نظیرڈھونڈنا بالکل بے کار ہے۔روحانی اور راسخ الاعتقاد و مسیحیوں کے دل میں خُدا کی جورو اور خُدا کے جننے یا تین خُدا کا خیال ہی پیدانہیں ہوتا ۔کیونکہ خُدا کی ذاتِ وحدت ہمارے تصورات سے بالاتر ہے ۔مسیح کلمتہ اللہ کا خُدا کے ساتھ ایسا گہرا رشتہ ِ محبت ہے ۔جیسا زبان کا دماغ کے ساتھ اور روشنی کا سورج کے ساتھ ۔اسی لیے کلام الہٰی میں لکھا ہے کہ کلمہ خُدا ہے اور کلمہ خُداکے وسیلہ سے ہی سب چیزیں پیدا ہوئیں ۔’’ابتداء میں کلمہ تھا۔کلمہ خُدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خُدا تھا‘‘سب چیزیں اس کے وسیلے سے پیداہوئیں ’’کلمہ مجسم ہوا‘‘(یوحنا۱: ۱، ۳، ۱۴)۔وہ روح القدس سے مجسم ہوکر کنواری مریم سے پیدا ہوا مطلب یہ ہے کہ خُدانے مسیح میں ہوکر اپنی ذات الہٰی کا کامل اظہار کیا ۔تاکہ گنہگار نجات پائیں اور زندہ مسیح میں خُدا کا شُکرکریں اور خُدا کی زندہ محبت کو مسیح کی صلیب کی روشنی میں دیکھ کر نجات کا حقیقی عرفان حاصل کریں ۔ارشاد ِ مسیح ہے ’’خُدا روح ہے اورضرور ہے کہ ۔۔۔پرستش کریں(یوحنا۴: ۲۴)۔




نیک اعمال اور نجات

جب ہم اس خوشخبری کی منادی کرتے ہیں کہ دُنیا کے تمام گنہگاروں کے نجات دہندہ صرف زندہ مسیح یسوع ہیں ۔کیونکہ زندہ مسیح یسوع کے شاگردوں نے اس کے حالاتِ زندگی سابقہ نبیوں کی کتابوں سے معلوم کئے۔ اورکہا کہ

’’اس شخص (یعنی زندہ مسیح یسوع )کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا اس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا‘‘(اعمال ۱۰: ۴۴)۔تو بعض لوگ اس خیال کو یوں پیش کرتے ہیں کہ اگ انسان توبہ اور استغفار(بخشش چاہنا) کرے تو اُسے نجات اور معافی مل سکتی ہے ۔لیکن یادرہے کہ تو بہ کا مطلب گناہ سے پچھتانا یا باز رہنا ہے۔ توبہ گذشتہ گناہوں کی تلافی یا معافی کا نام ہرگز نہیں۔البتہ حقیقی راہ نجات اختیارکرنے کے لیے ایک گنہگار کو توبہ کی سخت ضرورت ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص توبہ تو کرتا ہے ۔مگر خُدا کی تیار کردہ حقیقی راہ نجات اختیار نہیں کرتا تو اسے محض تو بہ سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

اسی طرح استغفار کا مطلب گناہوں سے نجات نہیں بلکہ خُدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے۔ استغفار گذشتہ گناہوں کی معافی کانام ہرگز نہیں ۔البتہ حقیقی راہِ نجات اختیار کرنے کے لیے ایک گنہگار کو استغفار کی سخت ضرورت ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص استغفار تو کرتا ہے۔ مگر خُدا کی تیار کردہ حقیقی راہِ نجات اختیار نہیں کرتا تو اُسے محض استغفار سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

اسی طرح بعض لوگ انجیل مقدس کے مبشرین (مبشر کی جمع،خوشخبری سُنانے والا)کے آگے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ جو کوئی نیک اعمال کرے گا اللہاس کو نجات دے گا۔ لیکن ایسے دوستوں کو معلوم ہوناچاہیے کہ جب انسان نیک ہی نہیں تو وہ نیک اعمال کس طرح کرےگا؟ البتہ خُدا تعالیٰ کی تیار کردہ حقیقی راہِ نجات اختیار کرنے کے بعد ہی انسان کے باطن میں نیک اعمال کی تحریک کا صحیح جذبہ محبت وخدمت پیدا ہوسکتا ہے۔ اور وہ نیکی اور بدی میں امتیاز کرسکتا ہے ۔نیک اعمال نجات کا سامان ہرگز نہیں بن سکتے ۔مثلاً اگر کوئی چور چوری کے جُرم میں پکڑا جائے اور وہ منصف حاکم کے سامنے اپنی رہائی کے واسطے یہ درخواست پیش کرے کہ جناب مَیں نے یتیموں اور محتاجوں میں کھانا اور کپڑا مُفت تقسیم کیا ہے تو کیا وہ حاکم اس چور کو جس نے محتاجوں اور یتیموں کے ساتھ ہمدردی اور نیکی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی ان نیکیوں کے بدلے اُسے معاف اور آزاد کردے گا؟ ہرگز نہیں ۔پس ثابت ہوا کہ انسان گنہگار کی نیکیاں اس کی بدیوں کے عوض میزانِ عدل(انصاف کا ترازو)ثابت نہیں ہو سکتیں ۔اپنے اعمال نیک کو نجات کا سامان خیال کرنے والے دوستوں سے میری یہ عرض ہے کہ کیا آپ نیک ہیں ؟کیا آپ گناہ سے پاک ہیں؟ کیا آپ بے خطا ہیں ؟ جب کہ کوئی بشر گُناہ سے پاک نہیں کوئی شخص بے خطا نہیں ’’کوئی نیک نہیں ‘‘(لوقا۱۸: ۱۹)۔تو وہ نیک اعمال کس طرح کر ے گا؟ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے نیک اعمال کو اپنی بدیوں کے عوض خُداکے حضور بطور رشوت خیال نہ کیا کریں ۔

پیارے دوستو! خُدا کے پاک کلام میں لکھا ہے کہ :۔’’کوئی ایسا آدمی نہیں جو گناہ نہ کرتا ہو‘‘(۱۔سلاطین ۸: ۴۶)۔’’سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں‘‘(رومیوں ۳: ۲۳)۔’’کوئی نیک وکار نہیں ایک بھی نہیں ‘‘(زبور۱۴: ۳)۔جب کہ خُدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’سب نے گُناہ کیا ‘‘ ۔ اور ’’کوئی نیک وکار نہیں‘‘ زندہ مسیح یسوع نے فرمایا کہ :۔’’تم میں سے شریعت پر کوئی عمل نہیں کرتا‘‘(یوحنا۷: ۱۹)۔شریعت کی نافرمانی کانام ہی تو گُناہ ہے۔تو پھر کس طرح ہم دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نیک وکار ہیں اور ہمارے اعمال نیک ہیں اور ہمارے اعمال ہمارے گناہوں کے عوض نجات کا سامان ہیں ؟ہمارے منجی زندہ مسیح یسوع نے ہم سب کو نیک اعمال کا حکم ضروردیا ہے کہ:۔’’تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجیدکریں‘‘(متی ۵: ۱۶)۔

انجیل مقدس میں یہ بھی لکھا ہے کہ :۔’’کیونکہ ہم اسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے ۔جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لیے تیارکیا ہے تھا‘‘(افسیوں ۲: ۱۰)۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ جب انسان نیک نہیں تو وہ نیک اعمال کس طرح کرے گا؟ چونکہ گُناہ آلودہ طبیعت سے نیکی کا صدور محالِ مطلق (نیکی کا نکلنا ناممکن )ہے۔لہٰذا گُناہ آلودہ طبیعت سے گُناہ کا صدور بھی لازم آئے گا۔اس لیے جب تک انسان کے دل میں سے گُناہ کا مرض دور نہ ہوجائے اس سے نیکی کا صدور امرِمحال ہے۔بھلاگُناہ آلودہ دِل کو نیکی کا پھل کس طرح لگے گا؟ بُرے سے بُرائی پیدا ہوگی ۔ہاں نیک سے نیک صادرہوگی ۔اس لیے نیک اعمال پر تکیہ کرنے والے حضرات کے لیے یہ امر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دِل میں سے گُناہ کو خارج کرنے اور اس میں نیکی کا جذبہ محبت وخدمت پیدا کرنے کی فکر کریں ۔بے شک دل کا نیک اور پاک صاف ہونا ہی نجات ہےتاہم جو کوئی نیک اعمال میں خوشی اور خُدا تعالیٰ کی عبادت میں لطف اندوزہونا چاہتا ہے ۔اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے باطن کو گُناہ سے پاک صاف کرے ۔کیونکہ نجات کا مطلب یہ ہے کہ انسان گُناہ سے شفا پائے اور خُدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا رشتہ محبت قائم کرے۔ تاکہ وہ ہمیشہ نیکی کو عمل میں لانے کے قابل بنے ۔کیونکہ :۔جب لنگڑے کی ٹانگ درست ہوجائے گی تو پھر اس کی چال رفتار بھی خود بخوددرست ہوجائے گی ۔جب گونگے کی زبان میں قوت گویائی (بولنے کی قوت) آجائے گی تو اس کی بول چال اور انداز گفتگو بھی خود درست ہوجائے گی ۔جب اندھے کی آنکھ میں بینائی آجائے گی ۔ تو پھر اس کی آنکھ سے از خود بینائی صادر ہوگی‘‘۔

اسی طرح اگر کوئی گنہگار اپنے گناہوں سے نجات کے لیے خُدا کی تیار کردہ حقیقی راہ نجات اختیار کرےگا تو پھر اس کے اعمال بھی درست ہوجائیں گے ۔اس لیے کہ خُدا تعالیٰ نے از راہِ محبت ہی گنہگاروں کے لیے ایک حقیقی راہِ نجات تیار کی ہے۔تاکہ تائب ایمانداروں کے باطن میں انسانی ہمدردی کا جذبہ محبت اور خدمت سرگرم عمل ہو۔یہ حقیقی اور زندہ آسمانی راہِ نجات خُداوند یسوع مسیح ہیں ۔انہوں نے ارشاد فرمایا کہ :۔

’’راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔کوئی میرے وسیلہ کے بغیر(خُدا)باپ کے پاس نہیں آتا‘‘(یوحنا۱۴: ۶)۔’’کیونکہ مَیں دُنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہوں‘‘(یوحنا۱۲: ۴۷)۔’’مَیں (خُدا) باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیا ہوں(یوحنا۱۶: ۲۸)۔ہمارے خُداوند یسوع مسیح ہمارے درودوصلوٰۃ اور دُعائے خیروبرکت کے قطعی محتاج نہیں کیونکہ وہ خود ایک صاحبِ اختیار قادر مُنجی وعالمین ہے ۔اس نے ارشاد فرمایا کہ :۔ آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے ۔۔۔۔اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخیر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں‘‘(متی ۲۸: ۱۸، ۲۰)۔

اس کے دُنیا میں جلوہ گر ہونے کا اولین عظیم مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے بڑے فضل سے گناہوں کی قیمت ادا کرکے دُنیا کو نجات ہمیشہ کی زندگی کی بے پناہ دولت سے مالا مال کردے۔کیونکہ انسان گنہگار کی نجات کاکام انسان کے اپنے اختیار اور نیک اعمال پر منحصر نہیں بلکہ دُنیا کجے منجی زندہ مسیح مصلوب کے ہاتھ میں ہے۔مقدس پطرس رسول نے لکھا ہے کہ :۔

’’وہ (مسیح مصلوب) آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سجے مرکر راستبازی کےاعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی ‘‘(۱۔پطرس۲: ۲۴)۔یہ بھی لکھا ہے کہ:۔’’ مسیح کتابِ مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کےلیے موا اوردفن ہوا اورتیسرے دن کتابِ مقدس کے مطابق جی اُٹھا‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۔۴)۔

زندہ مسیح یسوع اسی لیے مصلوب ومقتول ہوئے کہ گنہگاروں کواُن کے گناہوں سے نجات دے کر ان کے دل اور باطن میں نیک اعمال کی تحریک اور جذبہ محبت وخدمت پیدا کریں۔’’تاکہ فدیہ ہوکر ہمیں ہر طرح کی بے دینی سے چھڑالے اور پاک کرکے اپنی خاص ملکیت کے لیے ایک ایسی اُمت بنائے جو نیک کاموں میں سرگرم ہو‘‘(ططس ۲: ۱۴)۔چنانچہ تمام سابقہ انبیاء اور ایماندار جو منجی عالمین زندہ مسیح یسوع کی دُنیا میں آمد کے منتظر تھے۔ خُدا نے ان کے ایمان اور راست بازی کے باعث ان کو بھی پاک اورمقدس اور نجات کے وارث ٹھہرایا۔مقدس پولُس رسول لکھتے ہیں کہ:۔ ’’ا ے خُدا نے اُس کے خُون کے باعِث ایک اَیسا کفّارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائِدہ مند ہو تاکہ جو گُناہ پیشتر ہو چُکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمُّل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہِر کرے‘‘(رومیوں ۳: ۲۵)۔ یہی وجہ ہے کہ انجیل مقدس میں سابقہ انبیاء کو بھی پاک اور مقدس قرار دیاگیا۔پڑھیئے(لوقا۱: ۷۰؛اعمال ۳: ۲۱؛ ۲۔پطرس ۳: ۲؛افسیوں۳: ۵)۔زندہ مسیح یسوع کا ارشاد ہے کہ :۔

’’تم جانوکہ ابن آدم (یعنی مجھ یسوع)کوزمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے‘‘(مرقس ۲: ۱۰) ۔’’مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں‘‘(مرقس ۲: ۱۷)۔’’کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتروں کے لیے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے‘‘(متی ۲۶: ۲۸)۔ زندہ مسیح یسوع نے اپنے ساتھ مصلوب ہونے والے ایک تائب ڈاکو سے کہا :۔’’مَیں تُجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا‘‘ (لوقا۲۳: ۴۳)۔مقدس پولُس رسول نے فرمایا ہے کہ :۔’’یسوع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے‘‘(عبرانیوں ۱۳: ۸)۔’’چونکہ زندہ مسیح یسوع کلمتہ اللہ ایک ازلی شخص ہے۔ اس لیے وہ اپنی قدرت اور اختیار میں زمانہ ماضی حال اور مستقبل کے تمام ایمانداروں کا واحد نجات دہندہ ہے اور وہ ہماری پوری پوری نجات اور شفاعت کے لیے ہمیشہ زندہ ہے ‘‘(عبرانیوں ۷: ۲۵)۔انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ :۔’’کیونکہ تم ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔خُداکی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے ۔تاکہ کوئی فخر نہ کرئے ۔کیونکہ ہم اس کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خُدانے پہلے سے ہمارے کرنے کے لیے تیارکیا تھا‘‘(افسیوں ۲: ۸۔۱۰)۔

پس اگر آپ نیک اعمال کی باطنی تحریک اور جذبہِ محبت خدمتِ خلق سے بہتر طور پر لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں ۔تو سب سے پہلے خُداتعالیٰ کی تیار کردہ ’’راہِ نجات ‘‘ یعنی مسیح مصلوب منجی عالمین کو اپنا زندہ نجات دہندہ قبول کرلیں۔




وہ نبی

جب بھی اس خوشخبری کی منادی کی جاتی ہے کہ دُنیا کے گُنہگاروں کے واحد اور زندہ نجات دہندہ صرف زندہ مسیح خُداوند ہیں ۔ تو میرے مُسلم دوست اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ تو ریت شریف اور انجیل مُقدس میں عیسیٰ مسیح کے بعد ایک نبی کی آمد کی پیش گوئی موجود ہے ۔آپ لوگ اس پر کیوں غور نہیں کرتے ؟ جب ہم عرض کرتے ہیں کہ اس کے متعلق آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟ تو وہ ہمیشہ انجیل مقدس سے یہ حوالہ پیش کرتے ہیں کہ :۔اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلیم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے ۔کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ مَیں تو مسیح نہیں ہوں ۔اُنہوں نے اس سے پوچھا پھرکون ہے ؟ کیاتو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ۔کیا تُو وہ نبی ہے ؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں ‘‘ ۔۔۔۔اُنہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تونہ مسیح ہے نہ ایلیاہ نہ وہ نبی ،تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے ‘‘؟(یوحنا ۱: ۱۹۔۲۵)

اور کہتے ہیں کہ اس حوالہ میں ایلیا ہ کی روح میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور عیسیٰ ابنِ مریم تو مسیح ہیں لیکن ’’وہ نبی ‘‘ عیسیٰ مسیح کے بعد آنے والا ہے ۔ اور وہ ہمارے نبی حضور ﷺ ہیں۔ میرے مسلم دوستو! خُدا آپ کا بھلا کرئے اور آپ کو روشنی بخشے ۔میری دوستانہ مشورت یہ ہے کہ آپ کو یہودیوں کی کسی غلطی میں شامل اور شریک نہیں ہونا چاہیے جناب عیسیٰ ابن مریم مسیح بھی ہیں ۔اور وہ ایک نبی بھی ہیں ۔مسیح اور وہ نبی دراصل ایک ہی شخص یسوع کے دونام ہیں۔

پیارے مُسلم دوستو! میری عرض ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے زمانہ کے بعض یہودیوں اور سرداروں نے خُداوند یسوع مسیح کو پہچاننے اور قبول کرنے کے لیے کتاب مقدس کی پیش گوئیوں کی دُرست تحقیق وتفتیش سے کام نہیں لیا تھا ۔ جس کی وجہ سے اُنہوں نے جناب ’’مسیح‘‘ اور ’’وہ نبی ‘‘ کے بارے میں دو الگ الگ شخص سمجھ کر یوحنا سے یہ سوال کیا تھا ۔اُن کی اس غلط فہمی کا ثبوت روز روشن کی طرح جگہ جگہ انجیل مقدس سے ظاہر وعیاں ہے ۔ لہٰذا ہم آپ کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان کم فہم یہودیوں کی غلط فہمیوں کا ساتھ دینے سے پرہیز وگریز کریں۔

خُداوند یسوع مسیح کے شاگرد یہودی تھے ۔ اُنہوں نے توریت اور نبیوں کے نوشتوں کی روشنی میں یہ تسلیم وقبول کیا اور کہا :۔

(۱۔) ’’کہ جس (نبی )کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا وہ یسوع ناصری ہے‘‘(یوحنا ۱: ۴۵)۔

(۲۔) ’’ تھوڑے عرصہ بعد متعدد یہودیوں نے توریت شریف اور نبیوں کی کتابوں کی روشنی میں جناب مسیح یسوع کو پہچاننے میں تسلی حاصل کی اور اقرار کیا ۔کہ ’’جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا ۔فی الحقیقت یہی ہے ‘‘۔

(۳۔) پھر دوسری جگہ کہا ’’بے شک یہی وہ نبی ہے‘‘(یوحنا ۷: ۴۰)۔

(۴۔) پھر تیسری بار اقرار کیا کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپاہوا ہے ‘‘(لوقا۷: ۱۶)۔

(۵۔) بزرگ موسیٰ کی توریت شریف میں جس نبی کی بابت پیش خبر دی گئی ہےوہ (استثنا۱۸: ۱۵) زندہ یسوع مسیح مصلوب نے فرمایا کہ وہ پیش گوئی میرے حق میں پوری ہوگی ہے۔یوں فرمایا:۔

’’کیونکہ اگر تُم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اس لیے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے ‘‘(یوحنا ۵: ۴۶)۔پس بُزرگ موسیٰ کی پیش گوئی خُداوند یسوع مسیح کے حق میں پوری ہوگئی ۔کیونکہ زندہ مسیح مصلوب نے خود اس پیش گوئی کو اپنی ذات کے ساتھ منسوب کیا ہے ۔لہٰذا بزرگ موسیٰ کی پیش گوئی کے مصداق جناب مسیح کے بعد مزید کسی موعودہ نبی کی آمد کی گنجائش باقی نہ رہی کیونکہ نبی سے ذات الہٰی کاظہور وتجسّم مُراد ہے ۔یہ مسیح خُداوند ہے ۔

(۶۔) خُداوند یسوع مسیح نے یہ بھی فرمایا کہ مسیح (خرستس ) مَیں ہوں(یوحنا ۴: ۲۵۔ ۲۶)اور اپنے آپ کو موعودہ نبی کہتے ہوئے اپنی صلیبی موت کی پیش گوئی کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :۔ ’’کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلیم سے باہر ہلاک ہو‘‘(لوقا۱۳: ۳۳)۔

پس توریت شریف اور انجیلِ مقدس کی روشنی میں یہ مشکل حل ہوگئی کہ زندہ مسیح یسوع ہی موعودہ(عہد کیاگیا) ’’نبی ‘‘ اور موعودہ ’’مسیح‘‘ ہیں۔بزرگ موسیٰ کے بعد متعدد (بہتیرے)انبیاء دُنیا میں مبعوث(بھیجاگیا) ہوئے لیکن اُن میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو اس پیش گوئی کا مصداق قرار نہ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس موعودہ نبی کی آمد کا بزرگ موسیٰ نے ذکر کیا ہے ۔وہ عظیم ترین نبی ہی دراصل مسیح موعود آخرالزمان ابدی زندہ ہستی اور ذات الہٰی کا ظہور ہوگا ۔

پیارے دوستو! جناب یسوع مسیح نے اپنے بعد اپنے شاگردوں کو بھی نبوت اور رسالت کا مرتبہ اور پاک مقام بخشا ۔لیکن موسیٰ کی مانند وہ موعودہ نبی جس کا بزرگ موسیٰ نے توریت شریف میں ذکر کیا ہے ۔وہ خُداوند یسوع مسیح ہی ہیں۔ جو اُلُوہیّت کی ساری معموری سے مجسم ہوکر دُنیا میں جلوہ گر ہوئے ۔تاکہ دُنیا کے گنہگاروں کا واحد اور زندہ نجات دہندہ بنیں۔ چنانچہ مسیح خداوند نے صلیب پرنجات کا کام کیا ۔کیونکہ وہ خُداوند ہے ۔

پیارے مُسلم دوستو! خُدا آپ کو عقلمندی اور فہم میں ترقی بخشے ۔آپ تو خود ہی جناب عیسیٰ ابن مریم کو مسیح بھی مانتے ہیں ۔اور ایک نبی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔پھر ’’مسیح‘‘ اور ’’وہ نبی‘‘ کو دو الگ الگ شخص کیوں خیال کرتے ہیں ؟ اگر حضور عیسیٰ صرف ایک موعودہ مسیح ہیں ۔تو وہ موعودہ نبی کیوں نہیں ؟ کیونکہ اس کی ذات میں نبوت و رسالت کی تمام اعلیٰ ترین صفات موجود ہیں ۔جس کے سبب وہ ایک بے عیب ،گُناہ سے مبّرہ ،پاکیزہ ،بے عیب واحدانسان کامل تھے ۔اور اپنے کام اور کلام میں صاحبِ اختیار والے تھے۔

(۱۔) کیا آپ عیسیٰ ابن ِ مریم کو موعودہ ’’مسیح ‘‘ نہیں مانتے ؟ ہاں آپ ضروراُن کو موعودہ مسیح مانتے ہیں۔

(۲۔) کیا آپ حضور عیسیٰ ابنِ مریم کو جو موعودہ مسیح ہیں۔ اُن کو خود نبی نہیں مانتے ؟ہاں آپ ضرور اُن کو خُدا کا ’’نبی ‘‘ بھی مانتے ہیں ۔اور خُدا کا مسیح بھی تسلیم کرتے ہیں ۔

میرے دوستو! جس حال کہ تمام مُسلم حضرات عیسیٰ ابن مریم کو مسیح بھی مانتے ہیں اور ایک نبی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔تو پھر آپ کیوں کم فہم یہودیوں کی ابتدائی غلطی میں شریک ہوکر یہ خیال ظاہر کرتے ہیں ۔کہ زندہ مسیح ایک الگ شخص ہیں ۔اور وہ نبی کوئی دوسرا شخص ہے۔ مناسب نہیں کہ ایک مسلمان جو خود ہی اپنے عقیدہ کے مطابق جناب عیسیٰ یعنی یسوع کو مسیح بھی مانتا ہے ۔اور اُن نبی بھی تسلیم کرتا ہے ۔وہ کسی غلطی کا شکار ہوکر خُداوند یسوع مسیح کی نبوت کا انکار کرے۔خُداوند یسوع یعنی عیسیٰ موعودہ مسیح بھی ہیں۔ اور وہ موعودہ نبی بھی ہیں اور اُن میں نبوت ورسالت کے تما م اعلیٰ ترین اوصاف(وصف کی جمع، خوبیاں) موجودتھے۔ بلکہ اُلُوہیّت کی ساری معموری سے مجسم ہوکر دُنیا میں آنے اور صلیب پر ہمارے گُناہوں کا فدیہ اور کفارہ ادا کرنے کے سبب دُنیا کے واحد اور زندہ نجات دہندہ ہیں ۔نجات کی مفت بخشش کے لیے آپ کو زندہ مسیح خُداوند کی بابت خُوب غور وفکر کرنا چاہیے مجھے اُمید ہے کہ میری یہ تھوڑی سی دوستانہ مشورت آپ کے بہت سارے شکوک رفع کرنے کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوگی ۔اور اپنے مسلمہ عقیدہ کے مطابق جناب عیسیٰ یعنی یسوع کو خُدا کا موعودہ مسیح اور پاک موعودہ نبی تسلیم کرتے ہوئے زندہ ’’مسیح‘‘ اور’’وہ نبی‘‘ کودوالگ الگ شخص خیال کرنے کی غلطی سے پرہیز وگریز کریں گے اور اُسے اب ایک ہی واحد شخص تسلیم کریں گے ۔کیونکہ ایک ہی عظیم ہستی یسوع کے یہ دو مقام ہیں۔

زندہ خُداوند یسوع مسیح نے صلیبی موت اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اور صعود ِ آسمانی پہلے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ:۔ ’’یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں ۔جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں۔ پوری ہوں پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتاب مُقدس کو سمجھیں اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا اور یروشلیم سے شروع کرکے سب قوموں میں تو بہ اور گُناہوں کی معافی کی منادی اس(یسوع مسیح) کے نام سے کی جائے گی۔ تم ان باتوں کے گواہ ہو‘‘(لوقا۲۴: ۴۴۔۴۸)۔


یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ

میرے مُسلم دوست اکثر مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ کُتب سابقہ توریت ،زبور اور انجیل مُقدس مُحرّف(تحریف کیا گیا،بدلا ہوا) ہوچکی ہیں۔ جب مَیں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اس کے متعلق آپ کے پاس کای دلیل اور ثبوت ہے ؟ کیونکہ مجھے تو قرآن مجید میں بھی اس مضمون کی آج تک کوئی آیت نہیں ملی۔تو وہ ہمیشہ یہ آیت پڑھ کر سناتے ہیں ۔(ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ)(یعنی یہودی )لفظوں کو بدل ڈالتے ہیں۔ ان کے ٹھکانوں سے (سورہ نساء آیت ۴۶)۔

میرے مسلم دوستو! کتب سابقہ تورات ،زبور اور انجیل مُقدس کو سچا اور برحق کلام اللہ تسلیم وقبول کرنا اہلِ اسلام کے عقیدہ اور ایمان ِمفصل کا ایک نہایت لازمی جُزو اعظم ہے کہ:۔

مَیں ایمان لایا اللہ پر او ر اُس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں (یعنی تورات، زبور،انجیل) پر‘‘۔

کیونکہ (سورۃ نساء آیت ۱۳۶)میں مرقوم ہے کہ :۔’’جو کوئی اللہ پر اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں پر اور آخری دن پر یقین نہ رکھے۔ وہ گمراہی میں بہت دُور جا پڑا‘‘۔

بالفرض محال اگر یہ سابقہ الہٰامی کتابیں مُحرّف ومنسوخ ہوچکی تھیں تو پھر ان مُحّرف ومنسوخ شدہ کتابوں پر آپ کے ایمان کا اقرار چہ معنی دارد(کیاسبب ہے)؟اور پھر قرآن مجید کا قوم نصاریٰ (یعنی مسیحی قوم) کو بار بار اہلِ کتاب یعنی کتاب والے کہنے کا کیامطلب ؟ مسیحی دُنیا آج بھی اہلِ کتاب ہے ۔(سورۃ المائدہ آیت۴۶) میں بڑا صفائی سے لکھا موجود ہے کہ :۔’’اور اُن نبیوں کے پیچھے انہی کے نقش قدم پر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو توریت کا سچابتانے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی (موجود) ہے اور وہ توریت کو جو اس سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ سچا کرنے والی ہے اور ہدایت اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کے لیے‘‘۔

میرے پیارے دوستو! دیکھئے قرآن مجید میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں جن میں تورات ،زبور اور انجیل مقدس کی بڑی تعریف وتوصیف اور عظمت بیان کی گئی ہے۔(سورۃ انعام آیت ۹۱۔۹۲) اور (سورۃ المائدہ آیت ۴۴) میں لکھا ہے کہ ان کتابوں میں نُور اور ہدایت موجود ہے ۔پھر (سورۃ المائدہ آیت ۴۸) میں مرقوم ہے کہ قرآن مجید ان سابقہ کتابوں کا محافظ اور مصدق ہے۔لہٰذا ان سابقہ صحائف الانبیاء پر تحریف وتنسیخ (منسوخ کرنا، باطل کرنا)کا فتویٰ لگانا سراسر قرآن مجید کے دعویٰ مصدق و محافظت پرالزام تراشی ہے۔ پھر بعض بے علموں کا ایک من گھڑت مقولہ یہ بھی ہے کہ زبور شریف کے نازل ہونے سے تورات شریف منسوخ ہوگئی اور انجیل شریف کے نازل ہونے سے زبور کی کتاب منسوخ ہوگئی اور قرآن مجید کے نازل ہونے انجیل شریف منسوخ ہوگئی۔ یہ اُن کے منہ کی باتیں ہیں۔ بلکہ یہ ان کی ایک ایسی بوگس(بناوٹی، غیر حقیقی)اور ناقابلِ اعتباردلیل ہے۔ جس کا ثبوت وہ کسی بھی الہٰامی کتاب سے کبھی پیش نہیں کرسکتے ۔(سورۃ یونس آیت ۹۴) میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اپنے شکوک رفع کرنے کے لیے اہل کتاب (یعنی نصاریٰ اہل انجیل) سے پوچھ لیا کرو۔جو تم سے پہلے ان کتابوں کو پڑھتے ہیں ۔

میرے مسلم دوستو! خُدا آپ کو دانش اور پاکیزگی بخشے میری عرض ہے کہ اگر آپ قرآن مجید کا دوبارہ بغور مطالعہ کریں۔ تو آپ معلوم کرلیں گے۔کہ قرآن مجید کا ایک عمدہ انداز بیان یہ ہے کہ جس جس کتاب یا جس جس شخص کی بابت فرمایاگیا ہے ۔قرآن مجید ان کے جُداجُدا نام لے لے کر ان کی بابت کلام کرتا ہے ۔ اور نام بنام ان کی سچائی صداقت ،عظمت اور بزرگی بیان کرتا ہے ۔اس لیے میرے عزیز دوستو! بلاثبوت کیوں ہم مسیحیوں پر تحریف کتب کا الزام لگا کر مسیحیوں کی دلآزاری کیا کریں ۔کیونکہ جیسے اہل ِ اسلام کو قرآن مجید کا احترام ملحوظ خاطر ہے۔ویسے ہی مسیحیوں کو بھی بخوف خُدا بائبل مقدس اور انجیل مقدس کا احترام ملحوظ ِخاطر ہے۔ خُدا اپنے کلام کی حفاظت کے لیے ہم مسیحیوں کو علم وحکمت عطا کرتا رہا ہے ۔ جس کی قرآن مجید میں بھی تصدیق موجود ہے۔ کہ اہل ِکتاب یعنی یہود ونصاریٰ میں عالم ہیں کیونکہ وہ سب لوگ اللہ کی کتاب کے نگہبان ہیں۔(سورۃ المائدہ آیت ۸۲؛ توبہ آیت ۳۱، ۳۴)پھر ان کتابوں کے مُحرّف ومبدّل کرنے سے بھی کچھ نہیں۔ لاتبدیل خُدا اپنے کلام میں بھی لاتبدیل ہے۔ اور اپنے کلام کے تحفظ پر قادر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں تورات اور زبور اور انجیل مقدس کا ذکر خیر کم وبیش ایک سو تیس(۱۳۰) آیات ہیں ۔لیکن کہیں نہیں لکھا (یُحَرِّفُوۡنَ التَّوۡرٰىۃَ ،یُحَرِّفُوۡنَ الزَّبُوۡرِ، یُحَرِّفُوۡنَ الۡاِنۡجِیۡلَ)۔البتہ قرآن مجید کے الفاث کے ردّ وبدل کی بابت (یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِم) ضرور لکھا ہے۔

پیارے دوستو! (سورۃ نساء آیت ۴۶) (یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِم)کے الفاظ ہمارے زیرغور ہیں ۔یہ یہودیوں سے خطاب ہے ۔جو اسلام کے زیادہ مخالف تھے۔وہ قرآن مجید کے بعض الفاظ کا تلفظ بگاڑ کرپڑھتے تھے۔ مسلم مفسرین کے بیان کے مطابق وہ لفظ (رَاعِنَا) کو زبان موڑ کر(رَاعِیُناَ)پڑھتے تھے ۔ سو حکم ہوا کہ (رَاعِنَا) نہ کہا کرو۔بلکہ(اَنظُرنَا)کہاکرو۔اسی طرح لفظ(حِطَّۃَ)’’بمعنی مغفرت‘‘ کو یہودی لوگ(حِبّتَ) ’’بمعنی گیہوں‘‘ پڑھتے تھے۔(سورۃ اعراف آیت۱۶)جب یہودیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی ان غلط الفاظ کا رواج عام ہونے لگا تو یہودیوں کو بطور ملامت اور مسلمانوں کو بطور ہدایت فرمایا ،پڑھیئے( سورۃ اعراف آیت۱۶۲، سورۃ توبہ آیت۶۵۔۶۶، سورۃ البقرہ آیت۷۵، سورۃ عمران آیت ۷۱۔۷۲، ۷۸)۔قرآن مجید ان آیات میں یہودیوں سے مخاطب ہے کہ وہ قرآن مجید کے الفاظ بدل ڈالتے ہیں۔ لیکن ان آیات میں تورات زبور اور انجیل مقدس کا کوئی نام نہیں آیا۔ بالفرض محال اگر قرآن مجید کا اشارہ ان سابقہ کتب کے الفاظ کی طرف ہوتا تو قرآن مجید نام بنام خطاب کرنے کے اپنے عمدہ انداز بیان کے مطابق ضرور ان کتب سابقہ کے نام لے کران الفاظ کا ذکر کرتا۔یعنی (یُحَرِّفُوۡنَ التَّوۡرٰىۃَ ، یُحَرِّفُوۡنَ الزَّبُوۡرِ، یُحَرِّفُوۡنَ الۡاِنۡجِیۡلَ)۔چنانچہ ازروئے قرآن مجید یہ بات ثابت ہوگئی کہ تورات، زبوراور انجیل مقدس صحائف الانبیاء تحریف وتنسیخ اور ردوبدل کے تما بوگس دلائل اور الزامات سے پاک ہیں ۔پس ازروئے (سورۃ نساء آیت ۴۶) یہودی جن جن الفاظ کو بدل ڈالتے تھے وہ قرآن مجید کے ہی الفاظ میں سے ہے۔پر مسلم مفسرین نے ہمیشہ قلم اُٹھایا ہے ۔( رَاعِنَا، حِطَّۃَ)وغیرہ۔حال ہی میں روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور ۴مارچ ۱۹۷۶ء صفحہ۳ ،کالم نمبر ۱ پرحافظ محمد امین صاحب نے تحریر فرمایا کہ :۔
قرآن کریم کے پہلے پارے میں (سورۃ البقرہ سورہ ۱۰۴)میں ایمانداروں کو خطاب کیا گیا ہے اور ایسے الفاظ کو ترک
کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جس کے اندر یہ خرابی تھی کہ اگر زبان موڑ کر اور منہ دبا کراس کو ادا کیا جائے تو اس کے
ایسے معنی برآمد ہوں ۔جس میں مخاطب کی شان میں گستاخی پائی جائے ۔اور اللہ کو یہ کسی طرح گوارہ نہیں کہ
آنحضرتﷺ کی شان میں دانستہ یا نادانستہ گستاخی کی جائے ۔چنانچہ ایسے لفظ کو سرے سے ممنوع قرار دے دیا گیا
۔اس لفظ کا ہم معنی لفظ (اَنظُرنَا) استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔۔۔۔صحابہ کرام بھی بعض اوقات کسی بات کی
وضاحت کے لیے (رَاعِنَا) کہہ بیٹھتے اب اللہ کریم نے ایمانداروں کو مخاطب کرکے اس عمل سے روک دیا اور
اس کی جگہ (اَنظُرنَا)استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی‘‘۔

سرسید احمد خان نے امام محمد اسمعیل بخاری صاحب کی دلیل دے کر فرمایا کہ اہل ِ کتاب نے اپنی الہٰامی کتابوں میں کوئی تحریف نہیں کی ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کیمبل پورنے اپنی کتاب ’’ایک اسلام ‘‘اور ’’دواسلام‘‘ میں فرمایا ہے کہ صحائف الانبیاءتوریت،زبوراور انجیل مقدس تحریف و تنسیخ اور رد وبدل سے پاک ہیں ۔مولانا صدرالدین امیر جماعت احمدیہ لاہور نے بھی ’’پیغام صلح ‘‘ لاہور۲۲ جنوری ۱۹۵۸ء ص۵ پر احمدیوں کو ہدایت کی تھی کہ تورات، زبور اور انجیل مقدس کو دلی عقیدت کے ساتھ یعنی۔

رواداری کےطور پر نہیں بلکہ دل سے اُنہیں سچاتسلیم کریں ان پر ایمان لائیں کہ وہ کتابیں خُدا تعالیٰ کے طرف سے
نازل شدہ ہیں۔۔۔۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ مَیں انجیل کو اور حضرت عیسیٰ کو مانتا ہوں اور خُدا کی نازل کردہ تعلیمات
پر عمل نہیں کرتا۔ان کے مطابق مسائل بیان نہیں کرتا وہ نافرمان ہے اور بدعہد ہے ۔زبان سے کہہ دینا کہ موسیٰ
اور عیسیٰ سچے تھے ۔ان کی کتابوں کے اندر ہدایت اور نور ہے۔ مگر ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا یہ خُدا کے احکام سے
منہ پھیرنا اور عہد کرکے اس سے پھر جانا ہے ‘‘۔

زندہ خُداوند مسیح یسوع نے تما م سابقہ الہٰامی کتابوں کو تحریف و تنسیخ سے پاک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔’’یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے‘‘(متی ۵: ۱۷۔۱۸)۔زندہ مسیح یسوع نے جہاں سابقہ نبیوں کی کتابوں کو غیر منسوخ اور اٹل قرار دیا وہاں اپنے کلام الہٰی انجیل مقدس کو بھی غیر منسوخ اور اٹل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں (یعنی انجیل)ہرگز نہ ٹلیں گی‘‘(متی ۲۴: ۳۵)۔انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ ’’اس نبوت کی کتاب میں تحریف کرنے والا شخ مسوجب سزا ہوگا‘‘(مکاشفہ ۲۲: ۱۸۔۱۹)۔

سابقہ الہٰامی کتابوں کو مُحرّف ومبدل اور منسوخ قرار دینا سچے نبی کی شان کے خلاف ہے۔ کیونکہ سابقہ الہٰامی کتابوں پر تحریف وتنسیخ کا فتویٰ کبھی کسی نبی نے نہیں لگایا۔دُنیا میں ایک کےبعد دوسرا نبی آتا رہا ۔لیکن کبھی کسی لاحق نبی نے کسی سابقہ نبی کے کلام الہٰی کو محرف یا منسوخ قرار نہیں دیا۔بلکہ جو کلام الہٰی اس نبی پر نازل ہوتا تھا۔ اس کو وہ سابقہ انبیاء کے کلام الہٰی کے ساتھ ملاکر ایک ہی خُداکی طرف سے واجب التسلیم کلام الہٰی ثابت کرتا رہا ۔اگر خُدا ہر نبی کے آنے پر ہر سابقہ کتاب کی منسوخی کا حکم دے دیا کرتا تو خُدا صادق القول اور قائم المزاج خُدا کہلانے کا حقدار نہ رہتا ۔اور اس کے وعدہ وحید کا اعتبار دُنیا سے اُٹھ جاتا۔چنانچہ اس انجیل مقدس کی تبلیغ ومنادی کا حکم آج بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔ پڑھ کر دیکھیئے(سورۃ المائد آیت ۴۷)یعنی ’’چاہیے کہ انجیل والے اس کے مطابق اللہ نے انجیل میں نازل کیا ہے حکم کریں‘‘۔

پیارے مسلم دوستو! کسی نبی نے کبھی سابقہ الہٰامی کتابوں کو منسوخ ومحرف قرار نہیں دیا ۔یہ بات بے تبدیل اور صادق القول خُدا کی شان اور اس کے برحق نبیوں کی نبوت کے خلاف ہے۔ تورات، زبور اور انجیل مقدس بے تبدیل پر تحریف وتنسیخ کا الزام ازروئے قرآن مجید ایک راسخ الاعتقاد(مضبوط ایمان کا)مسلمان کے ایمان کے منافی ہے کیونکہ تمام الہٰامی کتابیں تحریف وتنسیخ اور ردّوبدل سے پاک ہیں۔

میرا خیال ہے کہ الہٰامی کتابوں پر ایسے مُہمل(بیہودہ ،بے معنی)اعتراضات کرنے والے اصحاب نے ان الہٰامی کتابوں کے قدیمی قلمی صحیفے جو عبرانی ،لاطینی اور یونانی زبان میں صدیوں سے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں موجود ہیں ۔ساری عمراُن کو نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ ان کا مطالعہ فرمایا ہے۔ تاکہ وہ اُن کتابوں کی تحریف اور ردّوبدل کا اندازہ لگا سکیں ۔کیا الہٰامی کتابوں کو متروک (ترک کیا ہوا)ومنسوخ قرار دینا اور پھر اُن ہی میں سے کسی موعودہ (عہد کیاگیا، وعدہ کیاگیا)نبی کا ذکر ِخیرتلاش کرنا علمی، ادبی اور اخلاقی اصوُلوں کے مطابق دُرست ہے؟

پھر بار بار ان سابقہ کتابوں پرایمان کا اقرار مجھے تو بڑا عجیب فلسفہ تعلیم معلوم ہوتا ہے؟ انجیل ِمقدس میں لکھا ہے کہ :۔’’ ہرایک صحیفہ جو خُدا کے الہٰام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راست بازی میں تربیت کرنے کے لیے فائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مردِخُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لیے بالکل تیار ہوجائے‘‘(۲۔ تیمتھیس۳: ۱۶۔۱۷)۔


شہادتِ القرآن

راسخ الاعتقاد(پختہ ایمان ) اہلِ اسلام جن کا قرآن مجید کے فرمان و احکام پر بدل وجان ایمان ہے ۔ان کے لیے واجب اور مناسب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کے اُن فرمودہ باتوں اور آیات کو اُسی طرح دلی عقیدت سے سچ اور برحق تسلیم وقبول کریں ۔جس طرح وہ قرآن مجید میں مرقوم وموجود ہیں اور قرآن مجید کی اُن آیات کی اُلٹی پلٹی من گھڑت من مرضی تشریح وتفسیر کرکے اسلامی دُنیا میں فرقہ بندی اور غیر مسلم اہل ِکتاب کے سامنے جگ ہنسائی (بدنامی)نہ کریں۔خصوصاً سابقہ الہٰامی مقدس کتابیں جن کی صحت وصداقت کے بارے میں متعدد بار(کئی بار)قرآن مجید میں بڑی تعریف وتوصیف اور تصدیق کی گئی ہے اور جن کی صداقت اور تحفظ کا بڑا زبردست دعویٰ بھی کیا گیاہے۔ ان تمام سابقہ الہٰامی مقدس کتابوں کو برحق تسلیم کریں جو آج بھی اہلِ کتاب مسیحیوں کے پاس لاتبدیل زندہ موجود ہیں۔ اورقرآن مجید آج بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نصاریٰ (مسیحی )اہلِ کتاب ہیں ۔اُن کے پاس ایک زندہ اور موثر کتابِ مقدس موجود ہے ۔جو زندہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ اقوام ِعالم کے لیے راہِ ہدایت اور کامل طور پر راہِ نجات ثابت ہورہی ہے۔

اگر کوئی حُجتی مسلم یہ کہے کہ نہ یہ وہ اہلِ کتاب نصاریٰ ہیں اور نہ ان کے پاس وہ کُتب موجود ہیں جن کی قرآن مجید تصدیق وتوصیف کا مُدعی ہے۔تو پھر لازماً یہ کہنا پڑے گا کہ آج سابقہ کتب کے متعلق قرآن مجید کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔کیونکہ جن اہلِ کتاب اورجن کتابوں کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایاگیا ہے ۔اُن کا دُنیا میں اب کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا۔ اس لیے سابقہ الہٰامی کتابوں کے حق میں قرآن مجید کا تمام فرمودہ آیات قرآنی منسوخ ومتروک قرار پائیں۔کیونکہ جس چیز کا وجود ہی نہیں اس کی صداقت کی تعریف وتوصیف چہ معنی دارد(بے معنی )؟

قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اہلِ کتاب میں عالم موجود ہیں ۔لہٰذا اہلِ کتاب عالم فاضل اصحاب ہی اپنی الہٰامی کتابوں کے قدر دان اور تحفظ کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ۔کیونکہ کتبِ مقدسہ کے تحفظ کے واسطے خُدا تعالیٰ کی مدد ہمیشہ کتابِ مقدس کے عالموں اور محافظوں کے شاملِ حال رہی ہے۔آج بھی اہلِ کتاب مسیحی علماء اپنی علمیت اورقابلیت اور حکمت میں اقوامِ عالم کے مقابلہ میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔اُمّی لوگ (ان پڑھ)جن کو الہٰامی کتابوں کے پڑھنے پڑھانے کی لیاقت حاصل نہ تھی ۔(سورۃ انعام آیت۱۵۶)وہ الہٰامی کتابوں کے تحفظ کی ذمہ داری کے طریقوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔جی! علمائے اہلِ کتاب کے ہاتھوں میں دی گئی۔کتاب تو غیر محفوظ ہوگئی اور اُمّی بے لکھے پڑھے لوگوں کے ہاتھ میں جو کتاب دی گئی وہ محفوظ رہ گئی ۔ سبحان اللہ!

عجب منطق ہے اُمّی نقطہ داں کے لیے

چنانچہ قرآن مجید کی آیات کے عین مطابق اہلِ اسلام کو ایمانِ مفصّل دیاگیاہے۔ جس کا وہ قرآن وسنت کے مطابق پنجگانہ نمازوں میں سابقہ الہٰامی کتابوں پر اپنے ایمان کا باربار اقرارواقبال کرتے رہتے ہیں ۔کہ ’’میں ایمان لایا ہوں اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر اور آخری دن پر‘‘(سورۃ نساء آیت۱۳۶)۔

جوشخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں مسلمان ہوں بشرطیکہ وہ پانچ وقت باقاعدہ نمازیں پڑھتا ہو۔کیونکہ جو شخص دن میں پانچ وقت نماز نہیں پڑھتا ۔وہ مسلمان کہلانے کا حقدارنہیں۔لیکن جوشخص یہ کہتا ہے کہ مَیں قرآن پرایمان رکھتا ہوں ۔مَیں باقاعدہ پنجگانہ نمازیں اور ایمان مفصل بھی پڑھتا ہوں ۔تو اس کے لیے یہ بھی لازم اور واجب ہے کہ وہ قرآن کی اُن باتوں کو جو سابقہ الہٰامی کُتب کی صحت وصداقت سے متعلق ہیں۔ اُن کو اُسی طرح برحق تسلیم وقبول کرے۔ جس طرح وہ قرآن مجید میں آج بھی موجود ہیں اور ان قرآنی آیات کی غلط تشریح وتفسیر کرکے اہلِ کتاب نصاریٰ کے آگے اپنی جگ ہنسائی(بدنامی)نہ کریں ۔کیونکہ قرآن مجید میں یہ الفاظ ہرگز موجود نہیں۔یعنی (یُحَرِّفُوۡنَ التَّوۡرٰىۃَ ، یُحَرِّفُوۡنَ الزَّبُوۡرِ، یُحَرِّفُوۡنَ الۡاِنۡجِیۡلَ)۔البتہ قرآن مجید کے بعض الفاظ کے ردوبدل کے بارے میں (یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِم)ضرور لکھا گیا ہے(سورۃ نساء آیت۴۶؛ سورۃ آل عمران آیت ۷۸)۔

تاہم قرآن مجید پر ایمان رکھنے والے قرآن کی باتوں کی تردید کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ سابقہ الہٰامی کتابوں میں ردوبدل ہوا ہے۔اُن میں تحریف وتنسیخ ہوئی ہے اور قرآن مجید کے آنے پر اب سابقہ کتابوں کی ضرورت باقی نہ رہی ہے۔ لیکن مستقل مزاج خُدا تعالیٰ کا ایسا کوئی غیر اخلاقی اصول کسی الہٰامی کتاب میں موجود نہیں کہ اُس نے قرآن کی خاطر اپنے سابقہ لاتبدیل کلام ِ الہٰی کتابِ مقدس کومتروک ومنسوخ قراردے دیا گیا ہے۔تو پھر اہلِ اسلام کیوں ازرُوئے قرآن اپنے ایمان مفصل کا اقرار کرتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معترضین(اعتراض کرنے والے) سابقہ الہٰامی کتابوں کی صحت و صداقت اور تحفظ کے بارے میں قرآن مجید کے دعویٰ کو سراسر غلط ثابت کرنے میں بڑے ہوشیار واقع ہوئے ہیں۔ لیکن مسیحی علماء نے ہمیشہ سابقہ کتابوں کے متعلق قرآن کے دعویٰ کو سراہا ہے۔ایسی باتوں سے اہلِ کتاب نصاریٰ مسیحیوں کا تو کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ البتہ قرآن مجید کی صداقت اور اس کے دعویٰ پر حرف ضرور آتا ہے۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرآن مجید میں سابقہ الہٰامی مقدس کتابوں کی کیوں اتنی تعریف وتوصیف کی گئی ہے؟اس کا جواب تو کوئی مسلمان ہی دے سکتا ہے۔

مسلم معترضین دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سابقہ الہٰامی کتابوں کے اندر ردّ وبدل اور تحریف وتنسیخ ثابت کرسکتے ہیں ۔لیکن ایسے لوگوں کی بابت ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کو قرآن مجید کے دعویٰ کی صداقت کا ذرا بھی پاس نہیں ۔بلکہ ایسے لوگ قرآن مجید کے دعویٰ کی توہین کے مرتکب ہیں ۔ ایسے مسلم حضرات کو سابقہ الہٰامی کتابوں پر ایسے الزامات لگانے سے پہلے قرآن مجید کی عزت واحترام کا کچھ خیال کرلینا چاہیے۔قرآن مجدی تو سابقہ الہٰامی کتابوں کی صحت وصداقت ،تحفظ واحترام کا دعویٰ کرتا ہے ۔کہ اِن میں نُور اور ہدایت موجود ہے۔لیکن فتنہ پسند عناصر قرآن کے اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں۔ سابقہ الہٰامی کتابوں یعنی توریت اور زبور اور انجیل مقدس اورپاک نوشتوں پر ردّوبدل اور تحریف وتنسیخ کا الزام لگانے والا محض ہرگز مستقل مزاج انسان یا نبی یارسول کہلانے کا مستحق نہیں۔کیونکہ کبھی کسی برحق صادق القول نبی یارسول نے جو خُدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہواتھا۔اس نے سابقہ الہٰامی مقدس کتابوں پر ہرگز ایسے بے بنیاد الزامات نہیں لگائے تھے۔ اور جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کے زیرسایہ الہٰامی مقدس کتابوں پر تحریف وتنسیخ کے الزامات لگائے اہلِ کتاب مسیحی دُنیا نے اُن کو خُدا کی طرف سے مبعوث نبی اور رسول تسلیم وقبول نہیں کیا۔ کیونکہ وہ خُدا کے کلامِ الہٰی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں ۔اور انہوں نے کتابِ مقدس کی تعلیمات کے خلاف قدم اُٹھایا ۔قرآن مجید میں لکھا ہے:۔ ( لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ)(سورۃ یونس آیت۶۴)۔’’یعنی اللہ کی باتیں بدلتی نہیں ‘‘۔وہ باتیں جو کہ تمام الہٰامی کتابوں میں موجود ہیں ۔اہلِ اسلام کے لیے میرا دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی عزت واحترام کی خاطر تمام سابقہ الہٰامی مقدس کتابوں کو جوالہٰامی کتاب مسیحیوں کے پاس زندہ موجود ہیں ۔اُن کو دلی عقیدت کے ساتھ برحق اور لاتبدیل قبول کریں۔اُن کی قدر کریں ۔کیونکہ اس میں قرآن مجید کی عزت کا سوال بھی ہے۔اور سابقہ کتابیں زندہ خُدا کا لاتبدیل زندہ کلامِ الہٰی ہے۔

مسیحی دُنیا خُداوند یسوع مسیح کی انجیل مقدس کے علاوہ سابقہ الہٰامی کتابوں کو بھی خُدا تعالیٰ کا لاتبدیل زندہ موثر کلام ِ الہٰی مانتاہے۔اور اُن پرہرگزتحریف وتنسیخ اور ردّ وبدل کا کوئی الزام نہیں لگاتی۔کیونکہ اُن کتابوں یعنی توریت اور زبور اور صحائف الانبیاء میں خُداوند یسوع مسیح منجی عالمین کی آمد اور ظہور وتجسم ،سیرت وکردار، معجزانہ قدرت اور جاہ وجلال کی عظیم اور بے شمار صفات اور خوبیاں مرقوم ہیں۔کیونکہ خُداوند یسوع مسیح نے یہودیوں کو فرمایا کہ:۔’’ تُم کِتابِ مُقدّس (بائبل)میں ڈُھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زِندگی تُمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔پھربھی تُم زِندگی پانے کے لِئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے‘‘(یوحنا۵: ۳۹۔۴۰)۔

اب آپ قرآن مجیدکی مندرجہ ذیل آیات پر غور کریں کہ سابقہ کُتب ِمقدسہ کے بارے میں اہلِ اسلام کوکیا ہدایت کی گئی ہے:۔

(۱۔) (سورۃ یونس آیت ۶۴) ( لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ)اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔(جو سابقہ کُتب میں ہیں)

(۲۔) (سورۃ یونس آیت ۳۷) ( وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ)(قرآن) لیکن سچا کرنے والا مصدق ہے جو اس سے پہلے ہے۔(سابقہ کتبِ مقدسہ)

(۳۔) (سورۃ المائدہ آیت۴۶) ( وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ)اور ان نبیوں کے بعد اُنہی کے نقشِ قدم پرہم نے عیسیٰ ابن مریم کو توریت کا سچا بتانے والا بناکربھیجا اور ہم نے اُسے انجیل دی جس میں ہدایت اور نور ہے اور توریت کو جو اُس سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔سچاکرنے والی ہے اور ہدایت ہے اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کے لیے۔

(۴۔) (سورۃ المائدہ آیت ۴۸) ( مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا))(قرآن)جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔اُن کی محافظ ہے۔

(۵۔) (سورۃ البقرہ آیت ۱۷۷) ( لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ )نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو،لیکن نیکی اس کی ہے جو اللہ پر اور آخری دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پرایمان لائے۔

(۶۔) (سورۃ نساء آیت ۱۳۶) ( وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا)اور جو کوئی اللہ پر اور کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں پر اور آخری دن پر یقین نہ رکھے ۔وہ گمراہی میں بہت دُور جاپڑا۔

(۷۔) (سورۃعمران آیت۸۴) ( قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ)تُو کہہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اُس پر جو ہم پر اُترا ہے اورجو ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق ویعقوب اور اس کی اولاد پر نازل ہواتھا۔اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور سب نبیوں کو اُن کے رب سے مِلاتھا۔ہم اُن میں سے کسی کو جُدا نہیں کرتے اور ہم اُنہی کے ماننے والے ہیں۔

(۸۔) (سورۃ نحل آیت۴۳) ( فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ)سواگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر (یعنی اہلِ کتاب)سے پوچھ لو۔

(۹۔) (سورۃ عنکبوت آیت ۴۶) ( وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ)اور تم (مسلمان)اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو۔

(۱۰۔) (سورۃ شوریٰ آیت۱۵) ( وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ)اور کہہ مَیں ہر کتاب پر جو اللہ نے نازل کی ہے ۔ایمان لایا۔

(۱۱۔) (سورۃ المائدہ آیت۴۴) ( وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ)اور عالم (یہودونصاریٰ) سب اللہ کی کتاب کے محافظ تھے۔


ایمانِ مُفصّل

مَیں ایمان لایا اس کے فرشتوں پر ۔اُس کی کتابوں پر اور اُس کےرسُولوں پر اور آخری دن پر۔ مسلمان کہتے ہیں کہ چار الہٰامی مقدس کتابوں یعنی توریت، زبور،انجیل اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں ۔لیکن وہ قرآن مجید کے سواکسی دوسری کتاب کی تعلیمات کو بالکل کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔یہ اچھے ایمان کی نشانی نہیں کہ وہ توریت اور زبور اور انجیل کے متعلق اپنے دل میں میل رکھتے ہیں ۔لہٰذا سابقہ کتابوں پر جو مسلمان ایمان نہیں رکھتا وہ گمراہی میں بہت دُور جا پڑا(سورۃ نساء آیت ۱۳۶)۔

اب ایک نئے عقیدہ نے جنم لیا ہے کہ ایک اللہ ایک قرآن اور ایک رسول پرہمارا ایمان ہے ۔


تبصرہ اصلی انجیل

جب ہم اپنے مسلم دوستوں کے آگے انجیل مقدس پیش کرتے ہیں تو وہ اکثریہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اصلی انجیل نہیں ۔اصلی انجیل جو جناب عیسیٰ المسیح پرنازل ہوئی تھی وہ انجیل خُداتعالیٰ نے آسمان پر اُٹھالی تھی یایوں فرماتے ہیں کہ اصلی انجیل تبدیل اور منسوخ ہوگئی ہے۔ کیونکہ اصل انجیل میں جناب عیسیٰ المسیح کی ’’الہٰی ابنیت‘‘ اور ’’صلیبی موت‘‘ کا کوئی ذکر نہ تھا۔

پیارے دوستو !یہ انجیل مقدس جو رُوئے زمین کی تمام مسیحی دُنیا کے پاس موجود ہے ۔یہ زندہ خُدا کا کلام ہے۔ اس مین ردّوبدل اور تحریف و تنسیخ کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی ۔نہ کسی نبی اور رُسول نے پہلی کتابوں پر تحریف و تنسیخ کا فتویٰ دیا۔ چونکہ خُدا تعالیٰ غیر متبدل ہے۔ لہٰذا خُدا تعالیٰ کاکلام بھی غیر متبدل اور غیرمُحرّف(تبدیلی کے بغیر)ہے۔ انبیاءنے آسمانی خُدا کی طرف سے نبوت اور الہٰام پاکر کلام الہٰی کو کتاب کی شکل میں قلم بند ضرور کیا تھا ۔لیکن یادرہے کہ صحائف الانبیاء توریت،زبور اور انجیل مقدس کسی وقت آسمانی عرش بریں پر لفظ بلفظ موجود نہ تھیں ۔ان الہٰامی صحیفوں کا لفظ بلفظ آسمان سے نزول کا عقیدہ صرف اہلِ اسلام کا ہے ۔اہلِ کتاب(یعنی مسیحیوں) کانہیں ۔قرآن مجید میں قریباً ایک سو تیس(۱۳۰) بار بڑی تعریف وتوصیف کے ساتھ انجیل مقدس توریت اور زبور کا ذکر خیر آیا ہے۔ چنانچہ انجیل مقدس کے بارے میں ابتدا سے مسیحیوں کا عقیدہ یہ ہےکہ جناب مسیح یسوع خُدا کا ایک ازلی اور آسمانی کلمہ ہے۔ جیسے اہلِ اسلام بھی ازرُوئے قرآن مجید یہ عقیدہ ہے کہ جناب عیسیٰ المسیح کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہیں (سورۃ النسا آیت ۱۷۱)بے شک ازروئے انجیل جلیل جناب مسیح یسوع بذات خود مجسم کلمہ یعنی ایک مجسم انجیل بھی تھے ۔چنانچہ اب بعد از مصلوب جناب مسیح یسوع کا پانچ سو(۵۰۰) سے زیادہ مسیحی بھائیوں کو دیکھائی دینا (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۔۸)اور پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے بجسدِ (جسم) عنصری زندہ آسمان پر اُٹھایا جاناتو عین برحق ہے (اعمال ۱: ۹)۔لیکن جناب مسیح یسوع کی ہدایت اور روح القدس کی تحریک سے اس کے برگزیدہ رسولوں کی ایک تحریر شدہ کتاب یعنی انجیل مقدس کا آسمان پر اُٹھایا جانا ایک قطعی ناقابل ِ اعتبارناقص دلیل ہے۔جناب مسیح یسوع کے ایک برگزیدہ رسول یوحنا نے انجیل مقدس میں تحریر کیا ہے کہ :۔’’ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خُدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خُدا تھا۔۔۔۔اور کلمہ مجسم ہوا‘‘(یوحنا۱:۱، ۱۴)۔

یعنی حضور مسیح کلمتہ اللہ نے مجسم ہوکر انسانی شکل اختیار کی بے شک وہ بذات خود ایک زندہ اور حقیقی آسمانی مجسم کتاب بھی تھے۔لیکن جناب مسیح یسوع کے برگزیدہ رسولوں نے روح القدس سے معمور ہوکر بموجب حکم مسیحا(یوحنا ۱۴: ۲۵۔۲۶)۔ اس کی عجیب ولادتِ بے پدر(بغیر باپ کے پیدائش) ،عالیشان کاموں کا بیان،عجیب وغریب تعلیم کا احوال، بعداز مصلوب ومقتول تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا کمال اور صعودِ آسمانی کا چشم دید اور حیرت انگیز ماجرہ معتبر محققانہ دلائل وحقائق کے ساتھ قلم بند کرکے ایک کتاب انجیل ِ مقدس کی صورت میں ہم تک پہنچایا ۔چنانچہ یہ وہی اصلی انجیل مقدس ہے جو یونانی زبان میں لکھی گئی ۔جس کی قرآن مجید نے بھی بڑے واضح الفاظ میں تصدیق و تعریف کی ہے پڑھیئے (سورۃ المائدہ آیت ۴۸)صحائف الانبیاء یعنی تورات، زبور اور انجیل مقدس کے صدیوں قدیمی قلمی صحیفے ابھی تک مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں عبرانی، لاطینی اور یونانی زبان میں موجود اور محفوظ ہیں اس انجیل مقدس کے اُردو ، فارسی ، عربی اور انگریزی ترجمے آپ کو پاکستان بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور سے دستیاب ہیں ۔دُنیا میں انجیل مقدس اور بائبل مقدس ہی ایک ایسی عالمگیر واحد مقبول عام کتاب ہے جس کے ترجمے دُنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں شائع ہورہے ہیں۔ چنانچہ انجیل مقدس میں جن جن برگزیدہ رسولوں نے جناب مسیح یسوع کے دُنیا میں مبعوث ہونے کے مقاصد قلمبند کئے ہیں وہ آپ کے شاگرد رسول مقبول اور ان رسولوں کے ہم خدمت مقدسین تھے جو ہر وقت آپ کے ساتھ ساتھ رہ کہ آپ کی زندگی کے پاکیزہ اصولوں، طبیعت سیرت مزاج اور انسانی ہمدردی کے الہٰی جذبہ محبت وخدمت ، ایثار وقربانی اور انجیل مقدس کی باتوں کا بغور مشاہدہ کرتے رہے ۔انہی شاگردوں کو مسیح یسوع نے اپنے رسول اور گواہ مقرر کیا ۔تاکہ آپ کے بعد از صعودِ آسمانی دوسرے مددگار یعنی روح القدس کی معموری اور تحریک سے وہ آپ کے چشم دید حالات زندگی اور انجیل مقدس کی تما م پاکیزہ باتوں کی اکنافِ عالم (کنف کی جمع،کنارے،تمام دُنیامیں)میں جاکر منادی کریں(مرقس ۱۶: ۱۵)۔ جناب مسیح یسوع نے اپنے رسولوں کو ارشادفرمایا کہ :۔’’تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو‘‘(یوحنا۱۵: ۲۷) ۔’’تم ان ان باتوں (یعنی انجیل مقدس) کے گواہ ہو‘‘(لوقا ۲۴: ۴۸)۔’’تم پاک ہو‘‘(یوحنا۱۳: ۱۰)۔’’اور ان کو رسول کا لقب دیا‘‘(لوقا ۶: ۱۳)۔

مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو اس لیے رسول کا لقب دیا تاکہ وہ اس کی انجیل مقدس کی دُنیا میں منادی کریں اور آئندہ پشتوں کے مفادِ عام کےلیے اُسے احاطہ تحریر میں لائیں کیونکہ خُدا کے رسولوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ الہٰامی کلام الہٰی کی منادی کریں اور پھر اسے احاطہ تحریر میں لائیں ۔قرآن مجید میں جناب مسیح یسوع کے مقدس رسولوں کی بابت لکھا ہے کہ اللہ نے عیسیٰ کے حواریوں پر وحی بھیجی (سورۃ المائدہ)۔ لہٰذا ہر مسلمان کو بسروچشم یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جناب مسیح کے مُلہم حواریوں یعنی مقدس رسولوں کی قلم بند کردہ یہ انجیل مقدس فی الحقیقت ایک الہٰامی اور آسمانی کتاب ہے کیونکہ حضور مسیح یسوع کے برگزیدہ رسولوں نے پہلے تو جناب مسیح یسوع کے حالات زندگی ،پاکیزہ اصولوں اور انجیلی تعلیمات کا بغور مشاہدہ ومطالعہ کیا۔ اس سے خود ذاتی طور پر استفادہ کیا ۔پھر انہوں نے حضور مسیح یسوع کے حکم کے مطابق دوسرے مددگار یعنی روح القدس کی تحریک سے اسے ایک کتاب یعنی انجیل مقدس کی صورت میں قلمبند کیا۔ کیونکہ جناب مسیح یسوع نے اُن کو انجیل مقدس کی جو تعلیم دی وہ فی البدیہہ اور زبانی زبانی تھی۔ چنانچہ اس کے ایک برگزیدہ رسول یوحنا آپ کے حق میں اپنی اور دوسرے رسولوں کی گواہی کے متعلق بڑے محققانہ اور مفکرانہ انداز میں تحریر فرماتے ہیں کہ :۔

۱۔ ’’ہم نے مسیح کلمتہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے (یعنی تمام رسولوں نے )

۲۔ بلکہ غور سے دیکھا ہے ۔

۳۔ اور اپنے ہاتھوں سے اُسے چھُوا ہے ۔

۴۔ اس لیے ہم ’’اس (کلمتہ اللہ) کی گواہی دیتے ہیں ‘‘(۱۔یوحنا ۱: ۱۔۲)۔

مقدس یوحنا رسول کے ان الفاظ سے ایک منصف مزاج محقق ومفکر(حق کی تلاش کرنے والا) کو یقین محکم حاصل ہوجاتا ہے کہ مسیح یسوع کے حالات زندگی اور پاکیزہ انجیلی تعلیمات کے بارجے میں جو کچھ انجیل مقدس میں اس کے چشم دید رسولوں نےقلمبند کیا ہے وہ فی الحقیقت قبولیت کے لائق ہے۔ مقدس لوقا لکھتے ہیں کہ جناب مسیح یسوع کلمتہ اللہ کی انجیل کی باتیں کرنے والے وہ اشخاص تھے۔جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام (یعنی مسیح کلمتہ اللہ) کے خادم تھے‘‘(لوقا۱: ۲)۔پس حضور مسیح یسوع کے حالاتِ زندگی اور واقعاتِ صلیب کی جو تصویر انجیل مقدس پیش کرتی ہے ۔فی الحقیقت وہ قابلِ اعتبار ہے کیونکہ اس کو اُن رسولوں نے قلم بند کیا جو شروع سے ہی جناب عیسیٰ المسیح کے چشم دید گواہ تھے۔ اور ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔اور اسے دیکھتے تھے۔

مُلک فلسطین کے جس جس صوبہ ،جس جس شہرگاؤں،جھیل یا پہاڑ پر ہمارے منجی مسیح مصلوب نے لوگوں کو اپنی تعلیم دی ۔جس جس جگہ معجزات کئے۔حتّی المقدور ان مقامات اور جگہ کے نام اور ساتھ ساتھ اوقات بھی انجیل جلیل میں مرقوم ہیں ۔ مسیح یسوع نے لوگوں کو جو تعلیم دی جو جو معجزات کئے ان کا ذکرِ خیربھی بڑی تفصیل وترتیب کے ساتھ انجیل مُقدس میں قلم بند ہے۔اور انجیل کے پڑھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اُسے چشم دید گواہوں نے لکھا ہے ۔

پیار ے دوستو! خُدا آپ کو دانائی بخشے ۔دُنیا میں صرف ایک ہی مسیح یسوع جلوہ گر ہوئے ہیں ۔وہ ایک تاریخی اور برگزیدہ ہستی تھے ۔ان کواس دُنیا میں یہ تاریخی عظمت حاصل ہے کہ وہ روح القدس کی قدرت سے مجسم ہوکر کنواری مریم مقدسہ کے ہاں بے پدر پیدا ہوئے ۔یعنی جناب روح اللہ نے انسانی شکل اختیار کی یا یوں کہیے کہ ایک غیر مخلوق اور غیر مجسم ہستی روح اللہ مسیح کلمتہ اللہ نے تجسم اختیار کیا۔ چنانچہ اس کی عجیب پیدائش داؤد کے شہربیت لحم میں آج سے دوہزار سال پیشتر اس زمانہ میں ہوئی رومی شہنشاہ قیصراوگوستس کی طرف سے پہلی بار مردم شماری کا حکم نافذ العمل ہوا یہ بیت لحم ملکِ فلسطین کے صوبہ یہودیہ میں واقعہ ہے۔ پھر جب جناب ِ مسیح یسوع لوگوں کو تعلیم دینے لگے تو قریباً تیس(۳۰) برس کے تھے ۔انجیل جلیل میں لکھا ہے کہ :۔’’جب یسوع خود تعلیم دینے لگا۔ قریباً تیس(۳۰) کا تھا‘‘(لوقا۳: ۲۳)۔

مسیح یسوع نے قریباً ساڑھے تین برس نجات کی خوشخبری کی منادی کی اور انسانی ہمدردی اور الہٰی جذبہ محبت و خدمت کے تحت ہر مرض کے بیمار کو شفادی ۔جنم کے اندھوں کو بینائی اور مُردون کو زندگی عطاکی ۔لیکن ایک دن یروشلیم شہر کے نزدیک گتسمنی باغ میں جب کہ جناب مسیح یسوع رات کے وقت اپنے رسولوں کے ہمراہ دُعا میں مصروف تھے تو سردار کاہنوں نے رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھا یا اور تلواروں اور لاٹھیوں سے مسلح سپاہیوں اورپیادوں کی ایک جماعت بھیج کرجناب مسیح یسوع کو پکڑ لیا۔ وہ اُسے باندھ کر سردار کاہنوں کے پاس لے گئے اور سردار کاہنوں نے اس پر موت کا فتویٰ لگا کر اُسے رومی حاکم پنطُس پیلاطُس کے حوالہ کیا ۔اگرچہ رومی حاکم پنطُس پیلاطُس نے بار بار اصرارکیا کہ جناب مسیح یسوع کے قتل کی کوئی معقول وجہ نہیں تو بھی یہودی قوم کے ہجوم نے اُسے مجبور کیا کہ وہ جناب مسیح یسوع کو مصلوب کرکے مارڈالے۔چنانچہ اُس رومی حاکم پنطُس پیلاطُس نے بخوف ِ بلوا اُسے کوڑے مروائے پھر یروشلیم شہر کے پہاڑ مقام گلگتا پر لے جاکر اُسے دو بدکاروں کے درمیان مصلوب کرکے مارڈالا۔ پھر جب وہ قبر میں دفنایا گیا تو یہودیوں کے اصرار پر اُس کی قبر پر مُہر لگائی اور پہرے دار سپاہی بھی مقرر کئے ۔لیکن جناب مسیح یسوع اپنے وعدہ اور پیش گوئی کے مطابق تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے ۔پھر وہ چالیس(۴۰) دن تک اپنے رسولوں کو اپنے مصلوب ہاتھ پاؤں اور پسلی کے نشانات دکھا دکھا کر صلیبی موت پر غالب آنے کا یقین محکم عطا کرتے رہے ۔(لوقا۲۴: ۳۸۔۴۶)انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ :۔’’اُس نے دُکھ سہنے کے بعد بہت سے ثبوتون سے اپنے آپ کو اُن پر زندہ ظاہر بھی کیا ۔چنانچہ وہ چالیس(۴۰)دن تک اُنہیں نظر آتا اور خُدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔۔۔۔۔پھر وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اُٹھالیا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چھپالیا‘‘(اعمال ۱: ۳، ۹)۔

مسیح یسوع نے مردوں میں سے جی اُٹھنے اور متواتر دیدار وکلام کے بعد یعنی عین صعودِ آسمانی کے موقعہ پر اپنے برگزیدہ رسولوں کو حکم دیا کہ ’’تم ان باتوں کے گواہ ہو‘‘(لوقا۲۴: ۴۸)۔چنانچہ جناب مسیح یسوع کے رسولوں نے روح القدس کی معموری حاصل کرنے کے بعد اُسی یروشلیم شہر میں یہودیوں کے درمیان اعلانیہ سرِبازار یہ گواہی دی کہ :۔’’اسی یسوع (مسیح مصلوب)کو خُدا نے جِلایا جس کے ہم سب گواہ ہیں‘‘(اعمال ۲: ۳۲)۔کیونکہ ہم نے اس کو مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اپنی آنکھوں سے بغور دیکھا ہے بلکہ اس کو چھوکر دیکھا ہے ۔اس لیے ہم اس کے گواہ ہیں ۔مسیح یسوع ایک تاریخی شخص ہیں اور ملک فلسطین میں بلحاظ زمینی خدمت اُن کو ایک جغرافیائی حیثیت بھی حاصل تھی ۔جناب مسیح یسوع کی زندگی سے متعلق تمام تاریخی اور جغرافیائی واقعات انجیل مقدس میں قلم بند ہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ محققین(حق کی تلاش کرنے والے) اور مفکرین اور متلاشیان حق بعد از مطالعہ اس انجیل مقدس کی الہٰامی صداقتوں کو بسر وچشم برحق تسلیم کرتے ہیں ، کیونکہ کسی واقعہ کی صحت کے لیے محققین ان تین باتوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔یعنی ’’واقعہ‘‘،’’ایام ِواقعہ‘‘ اور’’مقامِ واقعہ‘‘۔چنانچہ انجیل مقدس کی صداقت کے لیے ان تینوں باتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

میرے خیال میں انجیل مقدس کی مخالفت کی دو بڑی وجوہات یہ ہیں کہ مخالفین مسیح یسوع کو ’’ابنِ اللہ‘‘ اور زندہ مسیح مصلوب‘‘ماننے کو تیار نہیں حالانکہ دوہزار سال سے ساری دُنیا میں یہ دونوں باتیں جناب مسیح یسوع کی عالمگیر شخصیت محبت اور مقبولیت کا اہم حصہ اور مسیحی معتقدات کا ایک عظیم جُزو ایمان چلی آرہی ہیں اور مسیحی معتقدات(پیروی) کی یہی دوافضل ترین بنیادی حقیقت ہیں ۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’خُدامحبت ہے‘‘ کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘(یوحنا۳: ۱۶)۔ جس ابنِ اللہ مسیح مصلوب کی حقیقی تصویر آپ کو انجیل مقدس میں نظر آتی ہے صرف وہی مسیح قیامت اور عدالت کے لیے اس دُنیا میں دوبار ہ تمام آسمانی فرشتوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے ہیں (متی ۲۵: ۳۱۔۳۲)۔دُنیا میں صرف ایک ہی عیسیٰ ابنِ اللہ مسیح مصلوب جلوہ گر ہوئے تھے۔ جن کی کتاب انجیل مقدس اور کثیر التعداد اُمت اب تک دُنیا میں زندہ اور موجود ہے ۔لیکن آپ کو دُنیا کی تاریخ میں کوئی دوسرا عیسیٰ مسیح نہیں مل سکتا جو نہ خُدا کا بیٹا تھا اور جونہ مصلوب ہواتھا۔

پیارے دوستو! آپ ایک فرضی عیسیٰ مسیح کا تصور اور خیال چھوڑ کر ایک حقیقی اور سچے ابنِ اللہ مسیح مصلوب منجی وعالمین پرایمان لاکر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں ۔اورانجیل مقدس کے مطالعہ سے خُدا کی محبت اور اس کے فضل وکرم سے لطف اندوزہونے کی کوشش کریں۔


اَزلی محبوبِ خُدا

(حصہ اوّل)

خُداوند یسوع مسیح نے فرمایا

’’باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے ‘‘۔’’باپ مجھ سے اِس لیے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ اُسے پھر لے لوں کوئی اُسے مجھ سے چھینتانہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں ،مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھرلینے کا بھی اختیار ہے، یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا‘‘(یوحنا۳: ۳۵، ۱۰: ۱۷۔۱۸)۔

خُدا تعالیٰ کی کتابِ مقدس (یعنی بائبل)دُنیا کے تمام مذاہب کی مذہبی مقدس کتابوں کے مقابلہ میں ایک ایسی واحد ابتدائی الہٰامی آسمانی قدیمی اور لاتبدیل مُقدس کتاب ہے جس نے سب سے پہلے نسل آدم کو ذات الہٰی کی محبت، توحید الہٰی،احدیت اور الوہیت اور ظہور وتجسم کے بارے میں بڑے اعلیٰ سے اعلیٰ حقیقی تصورات اور عقائد عطا کئے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام مذاہب جو ذات الہٰی کی وحدت اور توحید الہٰی کی عظمت کے دعویدار ہیں اور فخر سے اپنا سراونچا کئے ہوئے ہیں۔ وہ سب کے سب ہمارے خُداتعالیٰ کی کتابِ مقدس کے مقروض ہیں چنانچہ صرف ہمارے خُدا تعالیٰ کی کتابِ مقدس کو خُدا تعالیٰ کا لاتبدیل اور غیرمحرف اور غیر منسوخ کلامِ الہٰی ماننے والے اصحاب ہی خُدائے محبت کی توحید الہٰی وحدت اور الوہیت اور اُس کے ظہوروتجسم کے عقیدہ کے بارے میں الہٰی مکاشفہ بیان کرسکتے ہیں اور اس بارے میں لوگوں کی رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں ۔کیونکہ ہماری کتاب مقدس کے قادرِ مطلق خُدائے واحد اور خالق کائنات کے سوا کوئی دوسرا خُدا نہیں ۔ہمارا خُداوند ’’الہٰ‘‘ ہے ۔(زبور۸۲: ۶؛ استثنا ۱۰: ۱۷) جس کا نام یہوواہ ہے (زبور۸۳: ۱۸)توریت شریف میں لکھا ہے کہ خُدا تعالیٰ :۔

’’واحد خُداوند ہے‘‘(خروج ۲۲: ۲۰)۔زبور شریف میں لکھا ہے کہ ’’توہی واحد خُدا ہے‘‘(زبور۸۶: ۱۰)۔انجیل مقدس میں لکھا ہے ’’خُدائے واحد‘‘(یوحنا۱۷: ۳؛ خط یہوداہ آیت ۲۵)۔

خُداوند فرماتا ہے :۔’’مَیں اوّل اور مَیں آخر ہوں ،میرے سوا کوئی خُدا نہیں‘‘(یسعیاہ ۴۴: ۶)۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذہبی شور وغل کی بجائے ہمارا خُداوند حلیمی اور سنجیدگی سے دعا اور عبادت کرنے والوں کو زیادہ پسند کرتا ہے ۔مسیح خُداوند کا ارشادہے:۔’’اور دعا کرتے وقت غیر قوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کروکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی ‘‘(متی ۶: ۷)۔

ہمارے خُدائے واحد لا شریک کی ذات اور مزاج اور اخلاق میں کامل محبت،کامل صبروتحمل،کاملِ حلم مزاجی اور کامل انسانی ہمدردی کا رفرما ہے۔کیونکہ ہمارا خُداوند وفادار خُدا ہے اور اُس نے ہم سے محبت رکھی:۔ ’’کیو نکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے ‘‘(یوحنا ۳: ۱۶)۔ہماری کتاب مقدس نے توحیدِ ذات الہٰی کے متعلق ہمیں اعلٰی ترین مکاشفات اور نہایت پاکیزہ حقیقی تصورات عطا کئے ہیں ۔چنانچہ ذات الہٰی کے بارے میں اپنی مانند یعنی انسانی طبیعت اور انسانی جنسی جذبات اور خواہشات کو اپنے تصورات اور ذہن میں رکھ کر سوچنا عقل مند ی نہیں کیونکہ لکھاہے کہ :۔’’خُدا روح ہے ‘‘(یوحنا۴: ۲۴)۔

’’خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا‘‘(یوحنا۱: ۱۸)۔’’اوروہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی نہ اُسے کسی انسان نے دیکھا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے ‘‘(۱۔ تیمتھیس۶: ۱۶)۔

خُدا کی ذات الہٰی لامحدود اور بے حد و بے حساب اور لاانتہا ہے ۔خُدا انسان نہیں اور انسان خُدانہیں ۔الہٰی مکاشفہ کے بغیر خُداتعالیٰ کی بابت جاننا مشکل بلکہ امرِ محال ہے اور خُدا کا الہٰی مکاشفہ کتابِ مقدس ہے ۔توریت شریف اور زبور شریف اور صحائف الانبیاجو کتاب مقدس کی الہٰامی کتابیں ہیں ان میں خُدا کے صدہا(سینکڑوں)ذاتی اور صفاتی نام موجود ہیں اور ذات الہٰی کے بارے میں بکثرت جگہ خُدا کی محبت کے الہٰی جلال کی بابت ’’باپ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔بزرگ موسیٰ نے لکھا ہے کہ :۔’’کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے ‘‘(استثنا۳۲: ۶)۔ یسعیاہ نبی نے لکھا ہے کہ :۔ ’’تُو اے خُداوند ہمارا باپ ہے‘‘(یسعیاہ ۶۳: ۱۶)۔’’اے خُداوند تُو ہمارا باپ ہے ‘‘(یسعیاہ ۶۴: ۸)۔

چنانچہ مسیح خُداوند نے اپنی الہٰی انجیلی تعلیمات میں ’’خُدا باپ‘‘ ،’’آسمانی باپ ‘‘،’’میرا باپ‘‘اور ’’تمہارا باپ‘‘ کے الفاظ کو بکثرت استعمال کیا ہے۔

(۱۔) اس لیے خُدا تعالیٰ کو خُدائے محبت کہہ دویا خُداباپ کہہ دوبات دراصل ایک ہی ہے۔

کیونکہ خُدا تعالیٰ اپنی آسمانی محبت کے عظیم جلال کے سبب ایمانداروں کا باپ ہے۔مسیح خُداوند نے اپنی الہٰی انجیلی تعلیمات میں یہ بات واضح کہہ دی ہے کہ خُدا کے اکلوتے بیٹے کے ظہور وتجسم اور اُس کی دُنیا میں مبارک آمد سے خُداتعالیٰ اپنی پدرانہ محبت کے الہٰی جلال میں اور بھی زیادہ انسانوں کے قریب تر آگیاہے۔زمانہ قدیم میں بھی بحیثیت ایک خُدا پرست قوم خُدا نے بنی اسرائیل کو من حیث القوم ’’خُدا کے فرزند‘‘ ،’’میرے بیٹے ‘‘او ر ’’میرا پہلوٹھا ‘‘کے الفاظ سے منسوب کیا تھا کہ :۔

’’اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پہلوٹھا ہے‘‘(خروج ۴: ۲۲)۔’’تم خُداوند اپنے خُدا کے فرزند ہو‘‘ (استثنا ۱۴: ۱)۔

’’تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو‘‘(زبور ۸۲: ۶)۔

چنانچہ مسیح خُداوند نے اپنے انجیلی کلامِ الہٰی میں خُداتعالیٰ کی پدرانہ محبت کے عجیب کمالات اور عظیم مکاشفات کی بڑی وضاحت کے ساتھ تشہیر ومنادی کی ہے کہ خُدا تعالیٰ اپنی لاانتہا الہٰی محبت کے سبب تائب گنہگاروں کو معاف کرنے ،اُن کو پاک کرنے اور اُن کو پیار کرنے والا زندہ آسمانی باپ ہے ۔خُدا تعالیٰ کی ہر صفت ازلی ابدی ہے ۔خُدا تعالیٰ ازل سے محبت بھرا آسمانی باپ ہے۔ لیکن محبوبِ خُدا کے بغیر خُدائے محبت کا تصور ناممکنات میں سے ہے کیونکہ مُحب و محبُوب دونوں کی ہستی اور شخصیت کا وجود لازم وملزوم ہے ۔چنانچہ خُداوند یسوع مسیح نے اپنی الہٰی انجیلی شخصیت کے بارے میں فرمایا کہ مَیں ازلی محبوب خُدا ہوں اور خُدائے محبت نے ازل سے کائنات ِعالم کی تخلیق سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی۔فرمایا:۔’’(اے باپ) تُو نے بنایّ عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی ‘‘(یوحنا۱۷: ۲۴)۔’’اے باپ! تُو اُس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے (دوبارہ عالم آسمانی میں ) اپنے ساتھ جلالی بنادے‘‘(یوحنا۱۷: ۵)۔

’’پیشتر اُسے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں‘‘(یوحنا۸: ۵۸)۔مسیح خُداوند نے خُداباپ کے ساتھ اپنی ازلی ابدی وحدت ذات اور الہٰی قدرت اور اختیارت اور اپنے آسمانی جلال اور شانِ الوہیت اور نسلِ آدم کے ساتھ انسانی ہمدردی کے معاملہ میں فرمایا کہ

’’مَیں اور باپ ایک ہیں ‘‘(یوحنا۱۰: ۳۰)۔’’انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ ’’خُدانُور ہے ‘‘(۱۔یوحنا۱: ۵)۔یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح خُداوند ’’حقیقی نُور‘‘ ہے۔’’حقیقی نُور جو ہرایک آدمی کو روشن کرتا ہے ‘‘(یوحنا ۱: ۹)۔’’دُنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی ‘‘(یوحنا۱: ۱۰)۔فرمایا:۔’’دُنیا کا نُور میں ہوں۔جو میری پیروی کر ے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا۔بلکہ زندگی کا نُور پائے گا‘‘(یوحنا۸: ۱۲)۔مسیح خُداوند حقیقی نُور اور آفتابِ صداقت ہے۔ اس لیے کہ وہ ہر ایک ایماندار شخص کی زندگی کو عرفانِ الہٰی کے نُور سے روشن اور منور کرنے کی قدرت اور کامل صلاحیت رکھتا ہے ۔فرمایا:۔ ’’تم دُنیا کے نُور ہو‘‘(متی ۵: ۱۴)۔اس لیے مسیح خُداوند کو

(۲۔) حقیقی نُور سے حقیقی نُور خُدا کو نُور مجسم کہہ دو یا خُدا سے خُدا اور بیٹاکہہ دو بات دراصل ایک ہی ہے ۔

کیونکہ مسیح خُداوند کے انجیلی کلام الہٰی کے مندرجہ بالا پُر فضل کلمات مقدس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ الوہیت کے آسمانی جاہ وجلال میں ایک غیر مخلوق آسمانی نُور اور آسمانی شخصیت کا مالک بلکہ ازلی محبوبِ خُدا ہے اور جب محبوبِ خُدا نورِ خُدامجسم اور متولد ہوکر دُنیا میں آیا تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ’’خُدا محبت ہے‘‘(۱۔ یوحنا۴: ۸) اور مسیح خُداوند حقیقی محبوبِ خُدا اور نورِ مجسم ہے اور خُدا تعالیٰ اپنی لاثانی پدرانہ محبت کے عالم میں اُس کا آسمانی باپ ہے۔ اور محبوبِ خُدا مسیح یسوع اُس کا اکلوتا بیٹا اور ابنِ وحید ہے اس لیے :۔

(۳۔) ازرُوئے کتابِ مقدس عالمِ محبت میں قادر ِمطلق خُدا کو خُدائے محبت اور خُدائے محبت کو خُداباپ کہہ دو۔یا خُداباپ کو خُدائے محبت کہہ دو۔ یا محبوبِ خُدا کو خُدا کا بیٹا کہہ دو بات دراصل ایک ہی ہے ۔

مسیح خُداوند کا ارشادِ مبارک ہے کہ ۔’’خُدا روح ہے ‘‘(یوحنا ۴: ۲۴)۔یہ بھی لکھا ہے کہ :۔ابتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا، اور کلام خُدا تھا‘‘۔’’اور کلام مجسم ہوا‘‘(یوحنا۱: ۱، ۱۴)۔یعنی کلمتہ اللہ کامل خُدا تھا جو مجسم ہوا ۔وہی کلام وکلمہ جو کائناتِ عالم کی تخلیق کے وقت ذات الہٰی میں موجود تھا اور جب ذات الہٰی سے کلمہ صادر ہوا تو پھر کائنات ِ عالم اُس کے وسیلہ سے معرض ِ وجود میں آئی کیونکہ انجیل مقدس میں یوں لکھا ہے کہ :۔

’’سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں ‘‘(یوحنا۱: ۳)۔اس لیے مسیح خُداوند کلمتہ اللہ وجہِ تخلیق ِکائنات ہے اور عالمِ وحید میں

(۴۔) ابن اللہ کو کلمتہ اللہ اور روح اللہ کہہ دو یا خُدا سے خُدا یا خُدا کا بیٹا کلام مجسم کہہ دو بات دراصل ایک ہی ہے۔

اس لیے کہ خُداباپ اور خُدا کے بیٹے کا ایک ہی جوہر ہے اور ایک ہی ذات ہے ۔کیونکہ انجیل مقدس کے آئینہ توحیدِ الہٰی میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ کامل خُدا ہے اور اُس پر ایمان لانے والے خُدائے واحد کے سچے پرستار اور اس کے لے پالک فرزند ہیں لکھا ہے کہ:۔

’’لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا ‘‘(یوحنا۱: ۱۲)۔

’’خُدائے محبت‘‘ اور ’’محبوبِ خُدا‘‘ کے الفاظ سے الہٰی محبت کی انتہائی سربلندی اور عظمت اتنی واضح نہیں ہو تی جتنی کہ ’’باپ اور بیٹے ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہوتی ہے چنانچہ ہرانسان ’’باپ اور بیٹے ‘‘ کے الفاظ میں محبت کی عظمت کے مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔اس لیے کہ انسانی سمجھ اور روزمرہ کی اصطلاح کے مطابق خُدا نے اپنی پیار بھری ذات ِالہٰی کے لیے ’’باپ‘‘اور اپنے محبوبِ خُدا کےلیے ’’بیٹے ‘‘ کے الفاظ کا انتخاب کیا ہے ۔کیونکہ انسانوں کی عام سمجھ اور اُن کے خاندانی رشتوں میں ’’باپ اور بیٹے‘‘ کے درمیان محبت کا جو اعلیٰ مقام اور مفہوم پایا جاتا ہے وہ چاچا،تایا، ماموں اور بہن بھائی وغیرہ کے رشتوں سے واضح نہیں ہوتا۔

دُنیا کی کثیر التعداد تمام مسیحی آبادی کتابِ مقدس کی روشنی میں ابتدا سے ہی بخوشی برضا ورغبت اس حقیقی عقیدہ کو تسلیم کرچکی ہے کہ خُداوند یسوع مسیح خُداکا اکلوتا بیٹا ہے اور خُدا تعالیٰ ہمارا پیار بھراآسمانی باپ ہے اور گناہوں سے نجات اور ہمیشہ کی زندگی اُس کے اختیار میں ہے۔خُدا کے اکلوتے بیٹے کی تردید میں خُدا کی جورو او ر خُدا کے جننے کا سوال کھڑا کرنے والوں کی غلط فہمی کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اندیکھے خُدا کی لامحدود ہستی کے بارے میں اُن کے خیالات اور اُن کا علم بہت محدود ہے اور اُن کے تصورات ِ خُدا کو وسعت درکار ہے۔کیونکہ خُداتعالیٰ کے ساتھ محبت کے مقدس اور پاکیزہ رشتہ میں باپ اور بیٹے کے الفاظ سے بڑھ کر کوئی دوسرے الفاظ الہٰی محبت کے حقیقی مکاشفہ کو بیان نہیں کرسکتے ۔جن کو انسانی زبان میں آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکے۔ اسی لیے خُدا تعالیٰ نے خود ہی الہٰی محبت کے اعلیٰ مفہوم کی وضاحت کی خاطر محبوبِ خُدا کے لیے ’’پیارابیٹا‘‘ کے الفاظ کا انتخاب کیا تاکہ معلوم ہو جائے کہ خُدائے محبت اور محبوبِ خُدا کے درمیان تمام انسانوں کے مقابلہ میں محبت اور پیار کی جو نمایاں خصوصیات اور امتیازی حیثیت اور اعلیٰ مقام پایا جاتا ہے وہ لاثانی او ر بے مثل ہے۔ لیکن تمام مسیحی ایماندار خُدا کے لے پالک فرزند ہیں ۔خُدا تعالیٰ نے اپنے محبوب کی بابت فرمایا:۔ ’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ جس سے مَیں خوش ہوں ‘‘(متی ۳: ۱۷)۔’’تو میرا پیارا بیٹا ہے ۔تُجھ سے مَیں خوش ہوں ‘‘(لوقا ۳: ۲۲)۔ خُدا کے مقرب فرشتہ جبرائیل نے جو خُدا کے حضور کھڑا رہتا ہے(لوقا۱: ۱۹)۔اُس نے حکم زبانی کے عین مطابق کنواری مریم مقدسہ کویہ خوشخبری دی اور دو دفعہ کہا ’’تیرے بیٹا ہوگا ۔وہ مولود ِمقدس خُدا کا بیٹا کہلائے گا‘‘(لوقا۱: ۳۲ ، ۳۵)۔زکریاہ کاہن کے بیٹے مقدس یوحنا(یحییٰ) نبی نے کہا:۔’’یہ خُدا کا بیٹاہے ‘‘ (یوحنا۱: ۳۴)۔

خُداتعالیٰ نے خُداوند یسوع مسیح کےلیے بیٹے کا لفظ بولنے سے پہلے ’’پیارا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔لفظ پیار کے آگے لفظ ’’بیٹا‘‘ آیا ہے ۔پس اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ خُدا تعالیٰ آسمانی پیارومحبت کے عالم میں ’’خُدا باپ‘‘ ہے اور مسیح خُداوند آسمانی خُدا کے پیارومحبت کے عالم میں ’’خُدا کا بیٹا‘‘ ہے جو آسمان سے زمین پر اُترا اور اُس نے انسانی جسم اختیار کیا(یوحنا۶: ۳۸)۔جب کہ خُدا کے ایمانداروں کو فرزندانِ توحید کہنے والے اصحاب خُدا تعالیٰ کو فرزندانِ توحید کی ماں کا شوہر خیال نہیں کرتے تو پھر وہ خُدا کے بیٹے پر کیوں اس قسم کے فضول اعتراضات کرتے ہیں ؟ مسیح خُداوند تو تخلیقِ آدم اور تخلیقِ مریم مقدسہ سے پیشتر سے خُداتعالیٰ کا آسمانی بیٹا اور محبوبِ خُدا ہے۔ اور وہ ’’کلمتہ اللہ ‘‘اور ’’روح اللہ‘‘ ہے(خروج ۳۱: ۳، ۳۵: ۳۱)۔کلمتہ اللہ اور روح اللہ کتابِ مقدس کے الفاظ ہیں اور ان مقدس الفاظ کے صحیح صحیح معنی صرف مسیحی اہلِ کتاب علماء ہی بیان کر سکتے ہیں ۔کیونکہ کلمتہ اللہ وجہ ِ تخلیق کائنات ہے ۔

(۵۔) اس لیے مسیح خُداوند کو روح اللہ یاکلمتہ اللہ کہہ دو یاخُدا سے خُدا یا خُداکا روح کہہ دو۔

یامحبوبِ خُدا کہہ دو یا خُداکا اکلوتابیٹا کہہ دو۔بات دراصل ایک ہی ہے۔

اس لیے ہم بڑی دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ خُدا کا پیارا بیٹا مسیح خُداوند فی الحقیقت محبوبِ خُدا اور آئینہ حق نما ہے۔کون بتا سکتا ہے کہ خُدا تعالیٰ بھی مردِ مذکر کی طرح ہے اور وہ اپنے آسمانی بیٹے محبوبِ خُدا کے زمین پر ظہور کی خاطر عام انسانوں کی طرح ازدواجی زندگی اختیار کرنے کا محتاج ہے یا خُداتعالیٰ ایک عورت کی مانند ہے ۔اور وہ اپنے آسمانی بیٹے محبوبِ خُدا کے زمیں پر ظہور کی خاطر ازدواجی زندگی اختیار کرنے کی محتاج ہے ؟انسانوں کی طرح ’’جننا‘‘ ہماری کتابِ مقدس کے خُدا کی پاکیزہ صفات میں شامل نہیں ہے۔کیونکہ کتابِ مقدس کی روشنی میں مسیحی دُنیا جن معنی میں ابن اللہ مانتی ہے ۔معترضین نے اُس کے برخلاف تو کچھ نہیں لکھا البتہ وہ ایسے عقیدہ کی تردید کرتے ہین جس کا مسیحی دُنیا کے انجیلی عقیدہ کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔کیونکہ مسیحی دُنیا ’’ولداللہ ‘‘ اور اللہ صاحب کی صاحبہ کا عقیدہ نہیں رکھتی ۔جس کی تردید کی جاتی ہے کہ اللہ کی صاحبہ نہیں ۔’’خُداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال تمہارے خیال نہیں اورنہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں ۔کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بُلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے میرے خیال تمہارے خیالوں سے بُلند ہیں ‘‘(یسعیاہ ۵۵: ۸۔۹)۔

خُداقادرِمطلق ہے ہر شے اُس کے حکم ربانی سے از خود معرضِ وجود میں آئی ۔خُداتعالیٰ نہ مرد ہے نہ وہ عورت ہے ۔خُدا روح ہے ۔خُدامحبت ہے۔ خُداباپ ہے۔خُدانور ہے۔پس خُدا کا ازلی بیٹا محبوبِ خُدا ولادت بے پدر کی صورت میں ایک نہات پاکیزہ کنواری مقدسہ کے ہاں متولد ہوا جس کے تولد سے پیشتر جبرائیل فرشتہ نے خوشخبری دی اور اُس نے انسانی صورت اختیار کی ،کیونکہ یسعیاہ نبی نے بھی ایک کنواری سے اُس کے تولد کی خبر دی تھی (یسعیاہ ۷: ۱۴)۔چنانچہ محبوبِ خُدا اگرچہ ازل سے خُدا کی صورت پر تھا اُس نے زمین پر اپنے ظہور کےلیے خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا اور انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔اور وہ جو خُدا کی صورت پر تھا۔اُس نے انسانی صورت اختیار کی اور حق پرستوں نے محبوبِ خدا کی ذات میں’’ اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال ‘‘۔کیونکہ وہ اپنے عالیشان معجزانہ کاموں اور حیرت انگیز موثر انجیلی کلامِ الہٰی کے سبب اور اپنی بڑی عجیب محبت اور قدرت اور جلال کا پَرتَو اور الوہیت کی ساری معموری سے معمور خُدا سےخُدا اور خُدائے مجسم ہے اور مردوں میں سے جی اُٹھنے کی قدرت کے سبب خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے(رومیوں۱: ۴)۔اور عالمِ توحید میں باپ اور بیٹا واحد خُدا ہے،کیونکہ عالمِ توحید میں ایک ہی کو دیکھا جاسکتا ہے۔تعدد اور ریاضی کی اکائی کے حساب سے خُدا تعالیٰ نہ ایک ہے نہ دو۔ نہ تین اور نہ چار۔خُداتعالیٰ کی ذات وحدت بے حد وبے حساب اور بے مثال ہے اس کی ہستی انسانی تصورات سے بالاتر ہے کیونکہ وہ لامحدود اور لاانتہاخُدا ہے۔

مسیح خُداوند نے اپنے اختیارات کی بابت فرمایا کہ:۔ ’’میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے‘‘(لوقا۱۰: ۲۲)۔ ’’باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے ۔اور اس نے سب چیزیں اُس کے ہاتھ میں دے دی ہیں ‘‘(یوحنا۳: ۲۵)۔’’باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کردی ہیں اور مَیں خُدا کے پاس سے آیا اور خُدا ہی کے پاس جاتا ہوں ‘‘(یوحنا۱۳: ۳)۔’’جوکچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے ‘‘(یوحنا۱۶: ۱۵)۔’’آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے ‘‘(متی ۲۸: ۱۸)۔

جس طرح کسی شخص کو اُس کی بہادری کی وجہ سے شیر کا بچہ کہا جاتا ہے اسی طرح کتابِ مقدس میں ایمانداروں کی بابت بطوراستعارہ اور متشابہ صفات کثیر التعدادمحاورات استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً نُور کے فرزند،راستی کے فرزند، پاکیزگی کے فرزند ، دن کے فرزند،خُدا کے فرزند لیکن زمینی مشن کی خدمت کے دوران مسیح خُداوند چونکہ اپنے کام اور کلام میں عجیب قدرت والا لاثانی شخص تھا اس لیے وہ دوسرے نبیوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح معجزانہ کام اور انجیلی کلام میں اپنا الہٰی حکم استعمال کرتا تھا اور اُس کے حکم سے جنم کے اندھے لنگڑے اور ہر طرح کے بیمار شفا پاتے تھے۔ ’’کیونکہ قوت اس سے نکلتی اور سب کو شفا بخشتی تھی ‘‘(لوقا۶: ۱۹)۔مُردے اُس کی آواز سُن کر زندہ ہوجاتے تھے۔ اس لیے کہ اُس کی قدرت خُدا کی قدرت تھی ۔اُس کا جلال خُدا کا جلال تھا۔اُس کی طبیعت الہٰی طبیعت تھی ۔اُس کا مزاج صریحاً الہٰی مزاج تھا۔اس کی انسانی ہمدردیاں فی الحقیقت الہٰی جذبہ محبت سے لبریز ومعمور تھیں ۔اُس کا دل عین خداکا دل تھا۔اُس کا صبر وتحمل اُس کی حلیمی اور فروتن مزاجی ذات الہٰی سے متشابہ(مانند) تھی ۔اس لیے خُدا باپ کے حکم ربانی کے عین مطابق وہ الہٰی ذات وصفات کے سبب خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔اُس نے گنہگاروں کی نجات بالکفارہ کی خاطر صلیبی موت گوارا کی تاکہ گناہوں کی معافی کے لیے خُدا تعالیٰ کے رحم اور عدل وانصاف میں گناہ کی سزا کا حکم مسیح مصلوب کے وسیلہ سے پورا کیا جائے ۔اور خُدائے محبت کا نام جلال پائے لکھا ہے کہ ’’اس کی جان گناہ کی قربانی کے لیے گذرانی جائے گی ‘‘(یسعیاہ ۵۳: ۱۰)۔وہ موت اور مہر شدہ قبر پر غالب آیا اور مردوں میں سے جی اُٹھا ،آسمان پر اُٹھایا گیا اور خُداباپ کے دہنےزندہ سرفراز ہے۔’’اور جلال اور عزت کا تاج اُسے پہنایا گیا‘‘،’’اور فرشتے اور اختیارات اور قدرتیں اس کے تابع کی گئی ہیں ‘‘(۱۔پطرس۳: ۲۲)۔ وہ ہماری شفاعت کے کام میں ہر وقت مصروفِ کار ہے (رومیوں ۸: ۳۴)۔

خُدا تعالیٰ کے لیے یہ سب عجیب اور عظیم کام سوائے خُدا کے اکلوتے بیٹے کے کوئی شخص انجام دینے کے لائق نہ تھا اس لیے خُداباپ اور خُدا کے مقرب جبرائیل فرشتہ اور مقدس رسولوں اور نبیوں اور مقدس یوحنا(یحییٰ) نبی کے ساتھ ہم آواز ہوکر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ :۔

(۶۔) خُداوند یسوع مسیح زندہ ’’خُدا کا اکلوتا بیٹا‘‘ ہے ۔اور خُدا کا اکلوتا بیٹا ازلی محبوبِ خُداہے اور گنہگاروں کا واحد نجات دہندہ ہے ۔کیونکہ جس طرح خُدا باپ آسمان پر زندہ ہے اُسی طرح خُدا کا اکلوتا بیٹا بھی آسمان پر زندہ ہے ۔’’جو کوئی اقرار کرتا ہے کہ یسوع خُدا کا بیٹا ہے خُدا اس میں رہتا ہے اور وہ خُدا میں ‘‘۔


ازلی محبوبِ خُدا

(حصہ دوم)

خُدا کی گواہی

’’جب ہم آدمِیوں کی گواہی قبُول کر لیتے ہیں تو خُدا کی گواہی تو اُس سے بڑھ کر ہے اور خُدا کی گواہی یہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دی ہے۔جو خُدا کے بیٹے پر اِیمان رکھتا وہ اپنے آپ میں گواہی رکھتا ہے۔ جِس نے خُدا کا یقِین نہیں کِیا اُس نے اُسے جُھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خُدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے اِیمان نہیں لایا۔اور وہ گواہی یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں ہمیشہ کی زِندگی بخشی اور یہ زِندگی اُس کے بیٹے میں ہے‘‘(۱۔یوحنا۵: ۹۔۱۱)۔

دُنیا میں مختلف مذاہب موجود ہیں ۔اُن میں اختلافات کی سب سے بڑی بنیادی وجوہات دوہیں ۔ایک تصور ات ِ خُدا اوردوسری تصوراتِ الہٰام الہٰی ۔لیکن مسیحی دُنیا کا یہ ایمان ہے کہ کتابِ مقدس خُداوند کی کتاب ہے (یسعیاہ ۳۴: ۶)۔صرف کتابِ مقدس کا خُدا ہی خالق کائنات اور لاشریک خُدا ہے(خروج ۲۰: ۲۳؛یسعیاہ ۴۴: ۲۴، ۴۵: ۶۔۷)۔’’جس کا نام یہوواہ ہے‘‘(زبور۸۳: ۱۸)۔کتابِ مقدس کا خُداوند واحد لاشریک ہے (خروج ۲۲: ۱۲؛ استثنا ۶: ۴؛ زبور۸۶: ۱۰؛ یسعیاہ ۴۴: ۲؛ یوحنا۵: ۴۴، ۱۷: ۳)۔’’ازلی بادشاہ یعنی بادشاہ یعنی غیرفانی نادیدہ واحد خُدا‘‘(۱۔تیمتھیس ۱: ۱۷)۔وہ قادرِ مطلق خُدا ہے (خروج ۶: ۳؛ زبور۹۱: ۱)۔کتابِ مقدس کے خُدا کا نام الہٰ ہے (اللہ )کتابِ مقدس میں بکثرت جگہ خُدا کے لیے الہٰ کا لفظ آیا ہے (پیدائش ۳۳: ۲۰؛ استثنا ۱۰: ۱۷؛ زبور ۸۲: ۶؛ یسعیاہ ۴۱: ۲۳)۔ حزقی ایل کی کتاب میں (۶)الہٰ کا لفظ آیا ہے (حزقی ایل ۲۸: ۱۔۱۰؛ دانی ایل ۳: ۲۵، ۱۱: ۳۶)۔کتابِ مقدس کا خُداوند حیُّ القیُّوم ہے (دانی ایل ۱۲: ۷)۔وہ رب العالمین ہے (میکاہ ۴: ۱۳؛ زبور۹۰: ۱)۔’’وہ وفادار خُدا ہے‘‘(استثنا ۷: ۹)۔’’خُدا محبت ہے ‘‘ (۱۔یوحنا۴: ۸؛ یوحنا۳: ۱۶)۔

(۱۔) اس لیے کتابِ مُقدس کے خُدائے واحد کے سوا کوئی دوسرا خُدا نہیں ۔

(۲۔) اور کتابِ مقدس کے سوا خُدائے واحد کی کوئی دوسری الہٰامی کتاب نہیں۔

(۳۔) اور خُداوند یسوع مسیح کے سواگنہگاروں کاکوئی دوسرا نجات دہندہ نہیں۔

خُداوند یسوع مسیح نے یہودیوں کو فرمایا :۔’’تم کتابِ مقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور وہ یہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے ‘‘(یوحنا۵: ۳۹)۔

چنانچہ ہمارے خُدا تعالیٰ کی کتابِ مقدس کے دلائل اور اثبات کی متعدد شہادتوں سے یہ بات واضح ہے کہ صدہا ذاتی اور صفاتی ناموں میں خُدا تعالیٰ الہٰی محبت کے عالم میں ’’ آسمانی باپ‘‘ ہے اور الہٰی محبت کے عالم میں خُداوند یسوع مسیح خُدا تعالیٰ کا ازلی آسمانی اکلوتا بیٹا ہے ۔یعنی کائناتِ عالم کی تخلیق وتعمیر سے پیشتر بلاامتیاز عالمِ توحید میں خُدا کا اکلوتا بیٹا خُدا کے ساتھ خُد کی صورت پر، خُدامیں خُدا،محبوبِ خُداتھا اور ہے ۔

چنانچہ خُدا باپ کو پسند آیا کہ وہ کائناتِ عالم پر اپنی پدرانہ محبت کا جلال ظاہر کرے اور گنہگاروں کی نجات اور شفاعت کے لیے اپنے آسمانی اکلوتے بیٹے کو انسانی صورت میں دُنیا میں بھیجے تاکہ خُدا کا اکلوتا بیٹا خُدا سے خُدا جو ایک مقدس ترین آسمانی ہستی کا مالک ہے وہ گنہگاروں کے گناہوں کے فدیہ اور نجات بالکفارہ کی خاطر ایک گنہگار کی طرح مصلوب کیا جائے اور خُدا کے بے عیب اکلوتا بیٹے کا بیش قیمت خون جو صلیب پر بہایا گیا وہ گنہگاروں کی نجات کا واحد وسیلہ بن جائے ۔خُدا کے اکلوتے بیٹے خُداوند یسوع مسیح کے آسمان سے دُنیا میں آنے اور اس کے ظہور اور تجسم وتولّد سے پیشتر خُدا تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتہ جبرائیل کو کنواری مریم مقدسہ کے پاس خوشخبری کا یہ عظیم پیغامِ حق دے کر بھیجا کہ :۔’’تیرے بیٹا ہوگا اس کانام یسوع رکھنا وہ بزرگ ہوگا اور خُداتعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔اور خُداوند خُدا اس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا اور وہ یعقوب کے گھرانے پرابد تک بادشاہی کرے گا اور اس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا‘‘(لوقا۱: ۳۱، ۳۳)۔

دریائے یردن پر بپتسمہ کے موقعہ پر خُداوند یسوع مسیح کے پیشرو یوحنانبی بن زکریاہ نے اُسے دیکھ کر ’’گواہی دی ہے کہ یہ خُداکابیٹا ہے‘‘ (یوحنا۱: ۳۴)۔اور آسمان سے آواز آئی کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے ۔تُجھ سے مَیں خوش ہوں‘‘(لوقا ۳: ۲۲)۔ایک دن خُداوند یسوع مسیح اپنے شاگرد پطرس اور یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لے کر اُنہیں ایک اونچے پہاڑ پرالگ لے گئے ۔ ’’اور اُن کے سامنے اس کی صورت بدل گئی اور اس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا اور اس کی پوشاک نور کی مانند سفید (بّراق)ہو گئی اور دیکھوموسیٰ اور ایلیاہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔۔۔۔دیکھو ایک نُورانی بادل نے اُن پر سایہ کرلیا ۔اور اس میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں ۔اس کی سُنو۔شاگرد یہ سُن کر مُنہ کے بَل گرے اور بہت ڈر گئے‘‘(متی ۱۷: ۱۔۶)۔

خُداوند یسوع مسیح نے اپنے انجیلی کلامِ الہٰی میں بار بار یہ ارشاد فرمایا کہ خُدائے محبت میرا آسمانی باپ ہے اور مَیں خُدا باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ ’’مَیں باپ میں سے نکلا اور دُنیا میں آیا ہوں ۔پھر دُنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاتا ہوں ‘‘(یوحنا۱۶: ۲۸)۔ ’’تُم نیچے کے ہو مَیں اوپر کاہوں ۔تم دُنیا کے ہو مَیں دُنیا کا نہیں ہوں ‘‘(یوحنا۸: ۲۳)۔آسمان اور روئے زمین پر مسیحیت کی ترقی اور عالمگیر مقبولیت اور سرفرازی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زندہ آسمانی مسیح مصلوب خُداتعالیٰ کا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ گنہگاروں کا واحد نجات دہندہ ہے۔چنانچہ جو کوئی کتابِ مقدس کے آسمانی خُداباپ کے کلام ِالہٰی کے دلائل واثبات کی روشنی میں اس بات کو برحق تسلیم وقبول نہیں کرتا کہ خُدا وند یسوع مسیح اپنے ظاہری ظہور وتجسم کے جلال میں ایک بے عیب کامل نبی مسیح موعود اور انسانِ کامل ہے اور وہ الوہیت کے باطنی جاہ وجلال میں خُدا کا غیر مخلوق آسمانی اکلوتا بیٹا ہے۔کامل خُدا ہے اور خُدا کا بیٹا مولود مقدس خُداسے خُدا ہے۔برحق سے برحق ہے۔ نور سےنور ہے ۔زندگی سے زندگی ہے۔ اور ازلی محبوبِ خُدا ہے۔اُس کے واسطے ہمارے پاس یہ جواب موجود ہے ۔کہ :۔

(۱۔) خُداوند یسوع مسیح ہمارے خُداوند کی کتابِ مقدس کے خُدا کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے۔

(۲۔) خُداوند یسوع مسیح توریت شریف اور زبور شریف اور صحائف الانبیاء اور انجیلِ مقدس کے خُدائے محبت کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے ۔

(۳۔) خُداوند یسوع مسیح ہماری کتابِ مقدس کے ابوالبشرآدم اور حوا اور بزرگ نُوح کے خُدا کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے۔

(۴۔) خُداوند یسوع مسیح ہمارے بزرگانِ سلف،ابرہام ،اضحاق ،یعقوب، یوسف اور موسیٰ ،ہارون ، داؤد اور سلیمان اور کتابِ مقدس کے دیگر تمام پاکیزہ انبیاء کرام کے خُدا کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے۔

(۵۔) خُداوند یسوع مسیح روئے زمین کے تمام مسیحیوں کے خُدائے واحد خُدائے محبت اور خُداباپ کا ازلی اکلوتا بیٹا ہے۔اگر کوئی کتابِ مقدس کے خُدا کی باتون کو نہ مانے تو پھر یہی کہا جائے گا کہ :۔البتہ وہ قرآن مجید کے اِلہٰ(اللہ) کا اکلوتا بیٹا نہیں ہے۔البتہ وہ اہل اسلام کے خُدا تعالیٰ کا اکلوتا بیٹا نہیں ہے۔ کیونکہ اہل اسلام کے خُدا کی کوئی صاحبہ نہیں ، اس لیے اُس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لیکن کتابِ مقدس کے خُداتعالیٰ کے متعلق صاحبہ اور جورو کا خیال اور سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ۔کیونکہ خُدا نہ مرد ہے نہ عورت ہے ۔اس لیے کہ مسیح خُداوند نے فرمایا کہ ’’خُدا روح ہے‘‘(یوحنا۴: ۲۴)۔’’خُدا کوکسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔اکلوتا بیٹا جو باپ کی گودمیں ہے اُسی ظاہر کیا‘‘(یوحنا۱: ۱۸)۔خُدا کی آسمانی مخلوقات میں اور آسمانی خُدا باپ کی ذات الہٰی میں تذکیر وتانیث کا کوئی مسئلہ نہیں نہیں ۔خُدا کا اکلوتا بیٹا نہ خُدا کی کسی جورو کا بیٹا ہے اور نہ خُدا کسی عورت کا شوہرہے۔خُداوند یسوع مسیح خُدا کی آسمانی دُنیا میں خُدا کا ازلی بیٹا ہے۔

خُداوند یسوع مسیح نے فرمایا

’’کیونکہ خُدا نے بیٹے کو دُنیا میں اس لیے نہیں بھیجا کہ دُنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لیے کہ دُنیا اُس کےوسیلہ سے نجات پائے‘‘۔’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا (انجیلی) کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگیا ہے‘‘(یوحنا۳: ۱۷، ۵: ۲۴)۔