Hidden Treasure

By

W.J.W RICHARDS. RUTLAM, C.I

In form of a debate between a Maulvi, a Christian preacher and a convert from Hinduism, questions such as Salvation, the Sonship of Christ, Paraclete etc., are discussed, but hardly adequately

چھپا ہُوا خزانہ


کرسچن نالج سوسائٹی انار کلی لاہور

انارکلی ۔ لاہور

۱۹۲۳؁


چھپا ہُوا خزانہ

محمد حسین کے لڑکپن کا زمانہ

محمد حسین ایک اعلی ٰ گھرانے میں پیدا ہوا۔ چونکہ اپنے باپ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ اس لیے بڑے نازونعم (لاڈ پیار میں ) میں اس کی پرورش ہوئی۔جب یہ آٹھ برس کا ہوا تو اس کے باپ کو اس کی تعلیم کی فکر ہوئی۔ محمد حسین کے والدین ایک قصبے میں رہتے تھے ۔ اور انہیں مسیحیوں سے سخت نفرت تھی۔ چنانچہ کتنے ہی مسیحی منادوں کو محمد حسین کے باپ نے طرح طرح سے تکلیف بھی دی تھی۔ پر چونکہ اس قصبے میں سوا مِشن سکول کے اور کوئی مدرسہ نہ تھا۔ اس لیے محمد حسین مجبوراً اسی سکول کو بھیجا گیا۔

اس سکول میں ایک ہوشیار مسیحی استاد تھا ۔ اور اس کے پاس قریب تیس ایک لڑکے ہندو۔ مسلمان اور مسلمان اور مسیحیوں کے پڑھتے تھے۔ بڑے شہروں کے انگریزی سکولوں کی طرح یہاں میز کرسی یا بنچ نہ تھیں۔ پر اُستاد کے بیٹھنے کو ایک موڑھا(سرکنڈوں اور مونج کی بنی ہوئی کُرسی) تھا۔ اور لڑکے سب نیچے فرش پر بیٹھتے تھے۔ جیسے سب قصباتی مشن سکولوں کا دستور ہے۔ یہاں بھی پہلے گھٹنے میں بائبل پڑھائی جاتی تھی۔ اور اس سے محمد حسین اور اس کے والدین کو سخت نفرت تھی۔ اسی وجہ سے اکثر محمد حسین کو سکول میں ذرا دیر سے بھیجتے تھے۔اور اسی کوشش میں رہتے تھے۔ کہ وہ بائبل کے اس گھنٹے سے غیر حاضر رہے ۔ تو بھی مشن سکنعولوں کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم ضروری دی جائے۔ سو طرح طرح سے کچھ نہ کچھ مسیحی تعلیم اس چھوٹے لڑکے کے کان میں پڑ ہی جاتی تھی۔ جب قریب ایک سال محمد حسین کو اس مدرسہ میں پڑھتے ہو گیا۔ تو اگرچہ سلسلہ وار اور لڑکوں کی مانند اسے بائبل کی باتیں یاد نہ تھیں۔ مگر بہت سی سچی باتیں اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔

الغرض محمد حسینکو اسی سکول میں پڑھتے پڑھتے چار برس ہو گئے او ر اب اس کی عمر بارہ برس کی ہوئی ۔ اس عرصے میں اس قصبہ میں مشن کا کام یہاں تک بڑھ گیا کہ چھوٹا سا گرجا گھر وہاں بن گیا اور قریب بیس گھرانے مسیحیوں کے ہاں آباد ہو گئے ۔ بڑے پادری صاحب بھی وہاں رہنے لگے۔ اور اب یہ چھوٹا سا سکول مڈل تک بڑھا دیا گیا۔ ایک استاد کی جگہ اب چار اُستاد ہو گئے۔ اور اُستادوں کے لیے کرُسیاں اور لڑکوں کے لیے بنچ بھی مہیا ہو گئے۔ محمد حسین بڑا تیز فہم (جلدی سمجھنے ولا) و ہونہار لڑکا تھا۔ جو بات ایک دفعہ اس کے ذہن نشین ہو جاتی اس کو وہ کبھی نہ بھولتا تھا۔ اس عرصے میں اس نے اُردو کی چار کتابیں پڑھ لیں۔ اور انگریزی کی دو۔ اور کچھ حساب جغرافیہ بھی سیکھ لیا ۔ باپ اس کی نمایاں ترقی کو دیکھ کر پُھولا نہ سماتا تھا۔ گھر میں پہننے کو بہت تھا۔ اور کوئی جلدی نہ تھی ۔ کہ محمد حسین سکول چھوڑ کر نوکری تلاش کرے چنانچہ اس کے باپ کا مصمم(مضبوط، پکا ، پختہ) ارادہ تھا۔ کہ جب یہ یہاں کے سکول سے مڈ ل پاس کر لے گا۔ اور اس لائق بھی ہوجائےگا کہ اپنے کو سنبھال سکے تو کسی اسلامیہ کالج کو بھیجوں گا جہاں تک ممکن ہو وہاں علم تحصیل (حاصل کرنا ، وصول کرنا) کراونگا۔


جب محمد حسین قریباً۱۴ برس کا ہو گیا۔ اور مڈل کلاس میں پہنچا ۔ تو اس کی جوشیلی طبیعت اکثر بھڑک اُٹھتی تھی۔ یہ دوسرے لڑکوں سے انجیل کی جلدیں چھین لیتا اور پھاڑ کے پھینک دیتا تھا اور مسیحی لڑکوں کو طرح طرح سے ستایا کرتا تھا۔ کیونکہ جب یہ سکول سے گھر واپس جاتا۔ اور تھوڑی دیر کھیل کود کے بعد مولوی صاحب اسے قرآن پڑھانے آتے ۔ تو وہ اسے یہ تعلیم دیا کرتے تھے۔ کہ مسیحی لوگ بڑے دغاباز ہیں۔ انہوں نے اصلی انجیل تو غائب کر دی اور نقلی انجیل بنالی ہے۔ ان کی بات کر ہرگز نہیں ماننا چاہیے۔ ادھر ماں باپ نے بھی اس کے دل میں مسیحیوں کی طرف سے نفرت پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ (کوئی بہت چھوٹی چیز، معمولی بات) باقی نہ چھوڑا تھا۔ اس سبب سے جُوں جُوں محمد حسین بڑا ہوتا اور قد آور جوان بنتا گیا تب تب وہ مسیحیوں کا جانی دشمن ہوتا گیا۔ خیر جوہو سو ہو انجیل کی باتیں بھی مانند خمیر کے اسکے دل میں اپنا اثر کررہی تھیں۔ اور کبھی کبھی اس کے دل میں ایک عجیب جنگ ہوا کرتی تھی۔

پندرہ برس کی عمر میں محمد حسین نے مڈل کا امتحان با آسانی پاس کر لیا اور اگرچہ اس کے باپ کا ارادہ نہ تھا۔ تو بھی ماں کے بضد ہونے سے اس کی شادی ک انتظام کرنا پڑا ۔ اِدھر اِدھر سے خبریں تو آہی رہی تھیں۔ سو ایک شریف زادی سے اس کا نکاح ہو گیا۔ اس کی زندگی میں اس بڑی تبدیلی کے ہونے سے قریب ایک سا ل اس کا ضائع گیا لیکن اس کے باپ نے جلد لکھا پڑھی کر کے ایک اسلامیہ سکول میں اسے بھیج دیا۔ جہاں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ بجائے مسیحی تعلیم کے اسے محمدی تعلیم ملنے لگی ۔ یہاں بھی محمد حسین نے نمایاں ترقی کی۔ اور دوہی سال کے اندر انٹرکا امتحان پاس کر لیا۔ امتحان کے بعد وہ سیدھا گھر آیا۔ اور پُرانے مولوی صاحب نے گرمیوں کی چھٹی بھر مسیحیوں کے بر خلاف خوب ہی محمد حسین کے کان بھرے۔ باپ کا ارادہ تھا کہ وہ کالج میں ایف۔اے اور بی ۔ اے کی تعلیم پوری کرے۔ پر چونکہ اب محمد حسین کے بیڑیاں پڑ چکی تھیں۔ اسے گھر چھوڑ کالج کو جانا گوارا نہ ہوا لہذا اور آگے تحصیل علم کا خیال چھوڑ دیا۔ اور سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ گھر سے وہ آسودہ حال (خوش حال ) تھا۔ اور اس لیے حسین کو تلاش معاش (روزگار کی تلاش) کی چنداں ضرورت نہ تھی۔

محمد حسین اکثر مولویوں اور دیگر عُلما کی صحبت میں رہتا تھا۔ قرآن اسے اچھی طرح یاد تھا۔ اور دیگر مذاہب کا بھی کچھ علم اس نے حاصل کر لیا تھا۔ فارسی اور عربی کی طرف اس کی طبعیت کا رجحان ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ میں خاصی لیاقت (قابلیت)ان علوم میں حاصل کرلی۔ اب تو وہ طفل (چھوٹا بچہ، لڑکا ) مکتب(درسگاہ) نہ رہا ۔ جو چند ایک سال گذرے تھا۔ بڑے بڑے لائق اور معتبر(قابل ِ عزت) لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا اور سب لوگ مولوی صاحب کہہ کر پکارنے لگے۔ اس کا بوڑھا باپ بھی اس کی اس قدر شہرے سن کر دل ہی دل میں خوش ہوتا تھا اور اپنی ساری امیدوں کا مرکز اسی کا سمجھتا تھا۔

چنانچہ جب کبھی کوئی مسیحی ان کو اپنے کام میں مشغول ملتا تو وہ دوڑ کے مولوی محمد حسین کر بلالاتے اور اس سے بھڑا دیا کرتے تھے۔ اس طرح گویا د و مینڈھوں کی ٹکریں ہوتیں اور یہ لوگ تماشا دیکھتے تھے۔ اور جب کسی مناد سے محمد حسین کے سوالوں کا جواب نہ بن پڑتا تو یہ سب تالی بجاتے اور ہوہا(شورو غُل) مچاتے تھے۔ اس طرح یہ کام کچھ عرصہ تک ہوتا رہا۔ پر ایک دن کا ذکر ہے ۔ کہ ایک بڑے قصبے میں بازار میں منادی ہو رہی تھی۔ کئی ایک مسیحی مناد وہاں کھڑے تھے اور ایک کثیر (کثرت والی یعنی تعداد میں بہت زیادہ ) جماعت سننے والوں کی وہاں ان کے سامنے موجود تھی۔ محمد حسین اور اسکے ساتھی بھی آموجود ہوئے اور منادی میں گڑ بڑی ڈالنی شروع کی۔ جب یہ مناد کو بہت ہی دق (ایک بیماری جو پھیپھڑوں کے خراب ہونے سے لگ جاتی ہے) کرنے لگے۔ تو وہ خاموش ہو گیا ۔ محمد حسین کے ساتھیوں نے فوراً یہ تجویز پیش کی کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب مسیحی صاحبان ہمارے مولوی صاحب سے بحث کریں اور اگر ان کے سوالوں کا جواب آپ سے خاطر خواہ نہ بن پڑے۔ یا بحث میں ہار جائیں تو آپ سب کو مسلمان ہونا پڑے گا۔ منادوں نے یہ دیکھ کے کہ ا ن میں سے کسی طرح پیچھا نہ چھٹے گا۔ کہا کہ اچھا ہم آپ کے مولوی سے بحث کرنے کو تیار ہیں۔ پر چونکہ اب شام ہوئی اور وقت نہیں ہم کل چار بجے شام کو یہاں حاضر ہونگے۔ آپ کو جو جو سوال کرنے ہیں لکھ لائیں۔ اس پر محمد حسین اور اس کے ساتھی قہقہے مارتے ہوئے اس شام کو گھر گئے اور دوسرے روز وقت مقررہ پر بازار کے بڑے چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر حاضر ہوئے ایک کثیر جماعت اس مباحثے کو سننے کے لیے وہاں موجود تھی۔ ایک طرف بائبل رکھی ہوئی تھی دوسری طرف قرآن ۔ ایک طرف محمد حسین اور اسکے ساتھی بیٹھے اور دوسری طرف مسیحی مناد ۔ اب تک ایسے بھاری مباحثے میں کبھی محمد حسین شریک نہ ہوا تھا۔ پر تو بھی اسے اور اس کے ساتھیوں کو کامل ( مکمل) امید تھی کہ مولوی محمد حسین ہی جیتیں گے اور تب ہم ان مسیحیوں کا خوب ہی تمسخر ( مذاق اُڑانا) کرینگے۔ انتظام معقول ( مناسب ) کیا گیا۔ کتنے سپاہی پولیس کے بھی وہاں حاضر تھے۔

_________________________

روزِ اول کی بحث

ٹھیک چار بجے شام کو یوں بحث شروع ہوئی:۔

مناد۔جناب مولوی صاحب آپ جانتے ہیں کہ !

مذہبی باتوں پر گفتگو کرنا کوئی ہلکی بات نہیں ۔ لہذا میں شروع کرنے سے پہلے چند ایک باتیں پیش کرتا ہوں جن پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔

مولوی۔فرمائیے۔

مناد۔ اولاً تو آپ سے میری عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو مسیحی مذہب کی بابت دریافت کرنا ہے ۔ وہ اس غرض سے نہ ہو کہ آپ مسیحی منادوں کی لیاقت (قابلیت) جانچیں میں نے دیکھا ہے۔ کہ کتنے لوگ مسیحیوں کو خواہ مخواہ ( بنا کسی وجہ کے) اس غرض سے چھیڑتے ہیں کہ اگر ان سے ٹھیک جواب نہ بن پڑے ۔ تو لوگوں کے سامنے ان کی ہنسی ہو۔

مناد کی اس بات نے مولوی اور ان کے ساتھیوں کی دلی حالت کو آشکارا (صاف، واضح) کردیا۔ کیونکہ ان کی غرض بحث مباحثہ سے ہمیشہ یہی ہوا کرتی تھی۔ کہ مسیحی منادوں کی ہنسی ہو لیکن کم از کم مولوی کے دل میں تو یہ باپ چبھ گئی۔ اور اس نے غور کر کے کہا کہ

مولوی۔خدا نہ کر ے کہ ایسا خیال میرے دل میں آئے۔

مناد۔ دوئم میں آپ سے یہ عرض کرتا ہوں۔ کہ آپ سچ مچ راستی (سچائی) کے متحقق (تحقیق کرنے ولا، کسی چیز کا صحیح اور درست کرنے ولا) ہو کے ہم سے سوال کیجیے ۔ اور کسی طرح کے تعصب (فرق) کو اپنے پاس نہ بھٹکنے دیجئے۔

مناد کا یہ دوسرا تیر بھی مولوی کے گہرا لگا کیونکہ تعصب تو اس کی رگ رگ میں کوٹ کے بھر دیا گیاں تھا۔ شروع ہی سے وہ مسیحی مذہب کی طرف سے متعصب (تعصب یعنی فرق کرنے والا، مذہب یا قوم کی پچ کرنے ولا) تھا۔ خدا کے روح نے اس کے دل میں ایسا کام کیا۔ کہ اسے معلوم ہونے لگا۔ کہ مناد گویا اس کے دل کی ساری حقیقت سے واقف ہے۔ بات چیت کرنے سے پہلے اسے ان دو شرطوں پر بڑا غور کرنا پرا۔ بار بار اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیا انجیلی باتیں سچ ہیں۔ اور کیا میں اب تک غفلت (بھول چک، غلطی) میں رہا۔اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں خداکو حاضر و ناظر جان کے صاف دلی سے ان لوگوں سے بات چیت کرونگا۔ سو اس نے ذرا ٹھہر کے بغور کہا ۔


مولوی۔ہاں آپ کا کہنا ٹھیک ہے۔ میں دراصل سچائی کی تحقیق میں ہوں۔ علاوہ ازیں ہم اور آپ تو ایک ہی ہیں۔ ہم بھی حضرت عیسیٰ کو ایک بڑا نبی مانتے ہیں۔ صرف فرق ہے تو یہ کہ چند مسائل آپ کے مذہب میں ایسے ہیں جو کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے اور قرآن شریف ان کی تائید نہیں کرتا۔

مناد۔جی نہیں ۔ فقط یہی نہیں ۔ پر آپ کے مذہب میں اور ہمارے مذہب میں بڑا بھاری اختلاف راہ ِ نجات میں ہے۔

مولوی۔فرمائیے وہ کیا ہے۔

مناد۔ دیکھئے آپ محمد صاحب کو نبی مان کے کہتے ہیں۔ کہ صرف انہی کے ذریعے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ مہربانی کر کے قرآن شریف کی کوئی آیت پڑ ھےجس میں کہ محمد صاحب نے منجی ہونے کا دعویٰ کیا ہو۔

مولوی۔ یا د نہیں پھر بتاؤ گا۔ لیکن حضرت محمد صاحب ﷺ کے شافی (شفا دینے ولا) ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

مناد۔ لیکن ہم محمد صاحب کو شافی تو کیا نبی بھی نہیں مانتے ۔ وہ تو میری اور آپ کی طرح انسان تھے۔ شافی صرف خداوند یسوع مسیح ہی ہے۔ اور سوائے اس کے دنیا میں کوئی ایسا نام نہیں کہ جس کے ذریعے سے انسان گناہ اور گناہ کی سزا سے مخلصی پا سکے۔

مولوی۔ یہ تو زمین اور آسمان کا فرق ہے لیکن ہم کیسے جانیں ۔ کہ کون ان میں سے سچا ہے آیا ہمارے حضرت یا آپ کے عیسیٰ مسیح ؟

ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارا ہی مذہب سچا ہے۔ اس کی تعلیمات اور مسائل بھی راست و درست (سچے اور صحیح ) ہیں۔ چنانچہ جب حضرت یسوع ابن مریم آخری وقت میں آسمان سے اُترینگے ۔ تو ان سب کو جو محمدی دین کے منکر رہے ہیں ۔ وہ مسلمان کرینگے اور تب مدینے میں حضرت یسوع مسیح دفن کئے جائے گے ۔ آخرمیں دین محمد ہی قائم رہے گا۔

مناد۔ یہ جاننا کہ کونسامذہب سچا ہے اور درست۔کوئی مشکل با ت نہیں اس کی جانچ ہم آسانی سے کرسکتے ہیں۔

مولوی۔آپ ضرور بتائیے ۔ہم یہ جاننا چاہتے ہیں۔


مناد۔ جناب مولوی صاحب آپ جانتے ہی ہیں ۔کہ دنیا میں بہت مذہب اور مذہبی شاخیں ہیں اورہر ایک کی تعلیم اور مسائل جُدا جُدا ہیں۔ ایک کے اصول دوسرے کے خلاف ہیں۔ہندو مذہب راہ نجات کچھ اور ہی بتاتا ہے آپ کا کچھ اور ہے۔ اور میرا اور رہی ہے۔ اور ان سب کی تعلیمات مختلف ہیں۔

مولوی۔جی ہاں! میں مانتا ہوں ۔ کہ طرح طرح کے مذاہب اس دنیا میں ہیں۔

مناد۔لیکن عقل سلیم یہ صاف گواہی دیتی ہے ۔ کہ یہ سب کے سب خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ اگر اسی واحد خداکی طرف سے ہوتے تو پھر یہ ایک دوسرے کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ سب کی تعلیم ایک ہی سی ہونی چاہیےکیونکہ ایک ہی خدا ہے۔

مولوی۔یہ ٹھیک ہے۔سچا مذہب تو ایک ہی ہے ۔ اور وہ محمدی مذہب ہے ۔ اسی کے پیرو ہونا ہر ایک شخص کا فرض ہے۔لہذا آپ بھی محمدی ہو جائیے ۔

مولوی محمد حسین کی یہ بات سن کے ان کے ساتھیوں اور دیگرمسلمانوں نے جو اس وقت موجود تھے۔ قہقہہ مارا۔ اور کسی نے بھیڑ میں سے چلا کر کہا ’’ ان عیسائیوں کو جلد مسلمان کر لو‘‘۔

مناد۔ (قہقہے کا کچھ خیال نہ کرکے ) اچھا جناب مولوی صاحب تو پھر میرے اور آپ کے بیچ یہی فیصلہ باقی رہا۔ کہ آپ را ہ راست پر ہیں یا نہیں۔

مولوی۔جی ہاں۔ آپ یہی ثابت کر کے دکھائیے ؟

مناد۔ اس کے شمول میں یہ بی سمجھنا چاہیے کہ ۔ اگر اس تمام گفتگو و جستجو کے بعد مجھ پر یا آپ پر یہ آشکارا (صاف، واضح) ہو جائے ۔ کہ دونوں میں سے ایک غلطی پر ہے۔ تو ا س کا فرض یہ ہوگا۔ کہ فوراً اپنی غلطی کو محسوس کرکے راہ راست پر آجائے ۔ اور اپنی اس بڑی غلطی کو سب سامعین کے سامنے قبول کرکے اس کی معافی خداوند کریم سے مانگے ۔ کتنے ہیں جو اپنی غلطی کے قائل ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اسی میں مبتلا رہتے ہیں۔

مولوی۔اس میں کیا شک ہے جب اپنی غلطی کو معلو م کیا تو اس میں سے نکلنا ضروری امر ہے۔ یہ تو شرط ہم پہلے ہی آپ سے لگا چکے ہیں۔ کہ جب ہم آپ کو دین اسلام کا قائل کر دینگے تو آپ سب صاحبان کو کلمہ پڑھنا پڑیگا۔ دیکھئے ہم آپکو راہ راست پر لائے ۔

اس کے بعد مسلمانوں نے خوب من مانے قہقہے مارے ۔کوئی کوئی بھیڑ میں کہتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ کہ ’’جناب مولوی صاحب ہیں کہ ہنسی ٹھٹھا ( مذاق) ہے۔ ان کے سامنے ان عیسائیوں کی کیا مجال ہے۔ قریب دو تین منٹ تک بھیڑ میں ذرا گڑبڑی مچی رہی۔ اور پھر گفتگو شروع ہوئی ۔ منادوں نے مسلمانوں کی بات کاکچھ خیال نہ کیا۔ وہ خاموش بیٹھے سُنتے رہے۔ وہ اپنے دل میں کہتے تھے کہ انہیں تھوڑی دیر اسی طرح خوش ہو لینے دو۔ آخر خداوند یسوع مسیح کے نام کو جلال اور بزرگی ہوگی ۔ وہ اونچا کیاجائے گا۔ اور لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گا۔


مناد۔اچھا جناب مولوی صاحب ۔ اب میں آپ کو سچے مذہب کی جانچ بتاتا ہوں۔

مولوی۔معاف کیجئے۔ پہلے آپ ہمارے دو چار سوالوں کو حل کر دیجئے تب ہم آپ کی اس بارے میں سنے گے ۔ کہ سچے مذہب کی جانچ کیا ہے۔

مناد۔ہم بخوشی آپ کے سوالوں کو حل کرنے کی کوشش کرینگے۔ لیکن چونکہ اب چھ بج چکے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آج اب ہم سب رخصت ہوں ۔ اور کل پھر چار بجے شام اسی مقام پر حاضر ہونگے ۔ آپ اپنے سوالوں کو لکھ لائیے۔ اور ہم یکے بعد دیگرے(ایک کے بعد دوسرا) ان کو حل کرنے کو کوشش کرےگے۔ آپ تمام صاحبان کل پھر ضرور تشریف لائیے۔ آج کی گفتگو نہایت دلچسپ تھی۔ اور کل کی گفتگو سے ہم سب ضرور محظوظ (خوش و خرم ، نصیب) ہونگے۔

مولوی۔اچھا ۔ ہاں ۔ اب نماز کا وقت بھی ہے۔ اور ہم اور آپ دونوں تھک گئے ہیں۔ کل شام چار بجے ہم یہاں پھر حاضر ہونگے۔ آداب عرض۔

مناد۔تسلیمات عرض۔

ان حاضرین کا شمار دو تین سو سے کم نہ ہوگا۔ جب یہ لوگ جانے لگے تو کوئی شور مچاتا ، کوئی للکارتا ( اونچی آواز میں پکارنا) کوئی کہتا تھا کہ مولوی صاحب نے ان پادریوں سے اچھی بحث کی۔ یہ ان کو ضرور ہرادینگے۔ ایک عالم شخص ہیں۔ ان کے سامنے کون کھڑا رہ سکتا ہے۔کوئی کہتا اجی جناب ایسے کتنے ہی عیسائیوں کو وہ چپ کرا چکے ہیں۔ جو ہو سو ہو آج کی بات چیت بڑی دلچسپ تھی۔ انشااللہ مولوی صاحب کل ایسے سوال پیش کرینگے ۔ کہ جن میں سے ایک کا بھی جواب عیسائیوں سے نہ بن پڑیگا ۔ ہندوؤں کا خیال زیادہ تر یہ تھا کہ ’’مولوی ہار جائے گا۔ یہ عیسائی بڑے ہوشیار ہیں۔ یہ قران سے بھی خوب واقف ہیں ۔ کل ضرور آنا۔ دیکھیں کل کیا ہوتاہے‘‘۔

ایسی ایسی باتو ں اور شور و غل کے بیچ مناد بھی اپنے مکان کو گئے۔ جہاں پہنچ کر سب نے مل کر خدا باپ کا شکر ادا کیا۔ اور آنے والے دن کے لیے طاقت اور فضل مانگا۔ مناد تو یہ بھروسہ رکھتے ہوئے کہ کل خدا ضرور مدد کر کے اپنا جلال اور بزرگی ظاہر کرے گا سو رہے لیکن مولوی کے دل میں ایک عجیب بے چینی تھی جس کو نہ تو اس نے اپنے ساتھیوں پر ظاہر کیا۔اور نہ خود ہی اسے سمجھ سکتا تھا۔ یہ تو خدا کی روح تھی جو اسے بے چین کر رہی تھی۔ خدا نے اسے اپنے کام کے لیے چن لیا تھا اور وہ اسے اس بڑی تبدیلی کے لیے تیار کر رہا تھا۔

جو اس میں واقع ہونے والی تھی۔ مولویا کھانا وغیرہ کھا کے خوابگاہ کو گیا پر نیند نہ آئی۔ اس کی بی بی بھی ا س کے چہرے کو دیکھ کے حیران تھی۔ رات کو چاپائی پر پڑے پڑے بار بار یہ خیال اس کے دل میں آتا تھا۔ کہ کیا ہو سکتا ہے کہ مسیحی مذہب ہی سچاہے۔ جس کی میں نےاب تک سخت مخالفت کی ہے ۔ کیا وہ آیت جو مشن سکو ل کا ماسٹر بار بار لڑکوں کو سکھاتا تھا سچ ہوگی کہ ’’ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا۔ کہ اپنا اکلوتا بیٹا بخشا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ؟ لیکن خدا کا بیٹا ہونا کہاں ممکن ہے۔یہ بات تو میں مان نہیں سکتا۔ ضرور کچھ تو ردو بدل عیسائیوں نے اس میں کی ہے۔

ایسے ایسے خیالوں میں محمد حسین نے رات کاٹی ۔ دن بھر بھی یہی باتیں اس کے دماغ میں گونجتی رہیں۔ اب چار بجے کا وقت نزدیک آیا ہے اور ہم روز دوئم کی بحث کو سنے گے۔

_________________________

روزِ دوئم


وقت ِ معین ( مقررہ وقت) پر مولوی حسین اور اس کے ساتھی چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر ایک طرف آبیٹھے۔ اور مسیحی مناد بھی اپنے وعدہ کے مطابق حاضر ہو گئے۔ آج تو کل سے بھی زیادہ بھیڑ چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) کے آس پاس موجود تھی ۔ جس میں ہندو مسلمان سب ہی ذات کے لوگ تھے۔ لوگوں میں ایک بے چینی سی معلوم ہوتی تھی۔ وہ بےچینی سے راہ دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں آج مولوی صاحب کیاکیا سوال کرتے ہیں اور دیکھیں ان پادریوں سے کیسے کیسے جواب بن پڑیں۔ ٹھیک چار بجے مسیحی منادوں میں سے فضل مسیح اُٹھ کے کھڑا ہوا۔ کیونکہ آج اس ہی کی باری تھی۔ کہ محمد حسین سے سوال و جواب کرے۔ فضل مسیح کے والد صفدر علی ایک عالم مولوی تھے۔ قریب آدھی عمر میں انہوں نے مسیحی مذہب کی صداقت کو دیکھا ۔ اور محمدی دین کو چھوڑ کے مسیح کے پیرو ہوگئے۔ فضل مسیح کا مسلمانی نام فضل اللہ تھا۔ لیکن بپتسمہ کے وقت فضل مسیح رکھا گیا۔ وہ اس وقت قریب سولہ برس کا تھا۔ اور قرآن کو ختم کر چکا تھا۔ عربی ۔ فارسی کا علم بھی اچھا خاصہ حاصل کرلیا تھا۔ اور انگریزی بھی کچھ سیکھ لی تھی۔ مسیحی ہونے پر یہ ایک مشن سکول میں بھیجا گیا اور کچھ عرصہ وہاں تعلیم پاکے مدرسہ علم الہی ٰ کا کورس ختم کیا۔ اب وہ ایک لائق مناد بن گیا تھا۔ اور مولوی محمد حسین کے مقابل میں خم ٹھوک کے اس زبردسست پہلوان کی مانند جو اُکھاڑے(وہ جگہ جو کسرت کرنے یا کشتی کرنے کے لیے بنائی ہو) میں رنگ دکھانے کو تیار ہو۔ کھڑا ہو گیا اور بولا۔

فضل مسیح۔ اچھا جناب مولوی محمد حسین صاحب۔ اب وقت ہے کہ ہم آپکے سوالوں کو سنیں ۔ آپ کا پہلا سوال کیا ہے؟

مولوی۔ آپ مہربانی سے یہ بتائیے کے آپ لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کیوں کہتے ہیں ؟ کیا خدا بھی بیوی اور اولاد رکھتا ہے؟

اس پر کتنے لوگ ذرا مُسکرائے اور منادوں کی طرف دیکھنے لگے ۔ گویا کہتے تھے کہ دیکھیں کیا جواب دیتے ہو۔

فضل مسیح۔ خدا کا بیٹا ایک محاورہ ہے۔ عبرانی لوگ کسی شخص کو اس صفت کا بیٹا کہتے تھے۔ جو اس کی زندگی میں خاص طور پر نمایاں ہوتی تھی۔ علیٰ ہذا القیاس یہودا ہلاکت کا بیٹا کہلاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہلاکت سے بھر پور تھا۔ برنباس تسلی کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ تسلی کی صفت اس میں نمایا ں تھی۔ شیخ سعدی صاحب مسافر کو راہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ لہذا مسیح خداکا بیٹا اس لیے کہلاتا تھا کہ الوہیت اسکی زندگی میں خاص طور پر نمایاں تھی۔ یعنی مسیح اس صفت کا بیٹا یا خدا کا بیٹا ہوا۔ اسی طرح مسیح سلامتی کا شہزادہ بھی کہلاتا ہے۔ اسی محاورے کے مطابق دو بھائی یعقوب اور یوحنا ابن رعد کہلائے ۔ علاوہ ازیں آپ انجیل کو برحق مانتے ہیں کہ نہیں؟

مولوی۔ہاں ! فرمائیے۔

فضل مسیح۔ تو جب انجیل ہی میں یہ لکھا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ۔ تو انسان کون کہ چوں وچرا (اعتراض ) کرے؟

مولوی۔جی ہاں! یہ تو درست ہے لیکن انجیل کی بابت بھی تو اعتراض ہے۔

فضل مسیح۔ وہ کیا؟

مولوی۔ ہم لوگ اصلی انجیل کو برحق مانتے ہیں ۔ بےشک لیکن یہ انجیل جو آج کل رائج ہے۔ نقلی ہے اور اس لیے ہم کو اس کی شہادت سے دلجمعی (تسلی ، اطمینان) نہیں ہو سکتی ۔


فضل مسیح۔ بے شک نقلی تو ہے۔ یہ کب ممکن ہے کہ یہ وہی جلد ہو جو اس کے کاتبوں ( لکھنے ولا) نے لکھی۔ وہ تو صرف ایک ہی جلد ہو گی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مجلد ( جِلد) بھی نہ تھی۔ الگ الگ جُز (حصے) تھے اور بعد کو ایک جلد میں کی گئی۔ اور اب اس کی کڑوڑوں ، اربوں ، کھربوں جلدیں چھپ گئی ہیں۔ پہلے یہ کتابیں یونانی زبان میں تھیں۔ اب سینکڑوں زبانوں میں اس کے ترجمے ہو گئے ہیں۔ اور ہوتے جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ کا قرآن شریف بھی تو نقلی ہے ۔ قرآن کی بابت آپ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے آسمان میں تختی پر لکھا ہوا تھا۔ اور وقتاً فوقتاً خدا نے جبرائیل فرشتے کے ذریعے ایک ایک جُز کر کے محمد صاحب پر نازل کیا۔ اس کے مطابق اصلی قرآن تو خدا کے تخت پر رہا۔ او ر یہ جو آپ لوگوں کے پاس ہے ۔ اس کی نقل ہے۔ پھر چھاپے خانوں میں بائبل کی طرح اس کی بھی نقلیں ہوتی رہتی ہیں۔

مولوی۔ نقلی سے میرا مطلب یہ ہے کہ جو انجیل حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی وہ یہ نہیں ہے۔ جو آپ لوگوں کے پاس ہے۔ آپ لوگوں نے اس میں رد و بدل ( تبدیلی ) کر ڈالی ۔ اور اپنے مطلب کی باتیں درج کر لیں۔ لہذا جو انجیل اب آپ کے پاس ہے وہ تحریف شدہ ( تبدیل شدہ ) ہے۔ یہ بات عام طور سے ہم لوگ جانتے ہیں اور ایک زمانے سے چلی آئی ہے۔ ایسی انجیل کی شہادت( گواہی) کو آپ ہی کہے کہ ہم کیونکر مان سکتے ہیں۔

ہمیں آپ لوگوں پر نہایت ہی افسوس معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ لوگ کے پاس کوئی کتاب نہیں ہے۔ کہ جس کو ہم الہی ٰ کہ سکیں۔ آپ لوگ بھی صاحب کتاب تھے لیکن سب کچھ آپ ہی بگاڑ بیٹھے۔

علاوہ اس کے ایک اور بات بھی رائج ہے کہ جو انجیل حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی وہ تو انہی ک ےساتھ آسمان کو چلی گئی۔ اب انجیل ہے کہاں آپ کے پاس جو ہے سو سب بناوٹی بات ہے۔ یہ دونوں اعترا ض معقول ہیں جو ہم ہے کیا تمام دنیا کے مسلمان کرتے ہیں اور ضرور دونوں میں سے ایک تو ٹھیک ہوگا۔ یا تو یہ کہ انجیل آپ کے پاس ہے ہی نہیں کیونکہ وہ تو حضرت عیسیٰ کےساتھ ہی گئی ۔ یا یہ کہ جو ہے سو تحریف شدہ اور بے اعتبار ہے۔ لہذا اس کتاب سے حوالے دینا فضول ہے۔ اس کو مانے گا کون؟

اوؔل۔ تو ہم اس کا فیصلہ کرینگے کہ انجیل خداوند یسوع کے ساتھ گئی یا کہ یہاں ہے۔

دوئمؔ۔ یہ کہ اگر ہے تو کیا سکا تحریف ( تبدیل ) کیا جانا ممکنات میں سے ہو سکتا ہے۔

آپ کے پہلے اعتراض کے جواب میں سے بہت سی باتوں میں سے میں اس وقت چند ایک پیش کرتاہوں۔ صاحبان سنئے ۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ انجیل یہاں ہے ہی نہیں کیونکہ وہ یسوع مسیح کے ساتھ آسمان کو چلی گئی۔ قرآن یا حدیث میں یہ بات کہیں پائی نہیں جاتی۔ یہ صرف مسلمانوں کا کہنا ہے جس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔

۲۔ انجیل کی وہ باتیں جو یسوع مسیح نے سکھائیں اور اپنی زندگی میں عملی طور سے ظاہر کیں مسیح کے آسمان کو جانے کے وقت تک مکمل طور پر لکھی نہ گئی تھیں پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ یسوع مسیح انجیل کو اپنے ساتھ لے جاتا۔ اگر یہی بات ہم قرآن کی بابت کہیں۔ تو آپ یہی دلیل پیش کرینگے کہ واہ یہ کیسی ہنسی کی بات ہے ۔ محمد صاحب کی موت تک قرآن تو جمع کیا ہی نہ گیا تھا۔ اسے محمد صاحب اپنے ساتھ کیسے لے گئے۔

۳۔ہمیں یہ سن کے خوشی ہے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ انجیل مسیح پر نازل ہوئی اور قرآن کہتا ہے کہ انجیل خدا نے انسان کی روشنی اور رہنمائی کے لیے دی ( دیکھئے سورۃ ۵ المائدہ ۵۰ اور ۳ آل عمران ۲) اب آپ ہی خیال فرمائیے کہ جب انجیل انسان کی روشنی اور رہنمائی کے لیے دی گئی ۔ تو خدا جو عالم الغائب ( غیب کا علم رکھنے ولا) ہے جانتا ہے کہ انسان تو زمین پر ہیں نہ کہ فردوس میں۔ لہذا ہو نہیں سکتا کہ وہ انجیل کو جو انسان کے لیے ہے آسمان پر بھیج دے۔

۴۔ سب جانتے ہیں کہ محمد صاحب یسوع مسیح سے ۶۰۰ برس بعد آئے اور انہوں نے باربار انجیل کی باتوں کا بیان کیا۔ اور انجیل کے ماننے والوں کواہل کتاب کہا جس سے صاف ظاہر ہے کہ انجیل اس وقت یعنی ۶۰۰؁ میں موجود تھی۔ اب ہم آپ کے دوسرے اعتراض کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ کہ کیا انجیل تحریف ہو گئی ہے۔

دیکھئے جناب مولوی صاحب خدا کی کتاب میں ردوبدل کرنا کوئی ہلکی بات نہیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ بڑا بھاری گناہ ہے اور اس کی سزا بہت بھاری ہے۔

مولوی۔بےشک ۔ یہ بہت بھاری بات اور کبیراہ گناہ ہے جس میں آپ لوگ پڑ گئے ہیں۔ ( مسلمان یہ سن کے خوب ہنسے)

فضل مسیح۔ علاوہ ازیں یہ بھی لازمی بات ہے کہ جب یہ جرم اتنا بھاری ہے تو کسی کے اوپر اس کو قائم کرنے کے لیے ثبوت بھی بڑا پختہ ہونا چاہیے۔

مولوی۔اس میں کیاشک ہے ۔ چاروں طرف ثبوت ہی ثبوت موجود ہے۔


فضل مسیح۔ ایک بات اور بھی بتایئے کہ زیادہ تر مسیحی لوگ راست گو۔ خدا پرست اور خدا ترس ہیں کہ نہیں۔

مولوی۔ہاں یہ بات تو مانی ہوئی ہے۔

فضل مسیح۔ تو پھر آپ دیکھئے کہ اتنا بھاری جرم آپ ایسے عزت دار لوگوں پر لگاتے ہیں۔ اب اس کو قائم کرنے کے لیے بڑا ہی زبر دست نبوت آپ کو پیش کرنا ہے۔ اب آپ ثابت کیجئے ۔ اگر یہ نقلی ہے تو کیا آپ کے پاس اصلی ہے جس سے آپ اس کا مقابلہ کر کے کہتے ہیں۔

مولوی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سب مسلمان غلطی پرہوں؟ ثبوت یہی ہے کہ سب مسلمان یہ کہتے ہیں یہ بات کوئی ہم نے اپنے دل سے تو بنا ہی نہیں لی۔ مدتوں سے یہ روایت چلی آئی ہے۔

علاوہ اس کے ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ بہت سی باتیں جو اس اصلی انجیل میں حضرت محمد ﷺ اور قرآن شریف کی بابت تھیں ان کو آپ لوگوں نے اس میں سے نکال ڈالا۔ کیونکہ اس انجیل میں ہم انہیں نہیں پاتے۔

فضل مسیح۔ یہ کہنا کہ سب مسلمان غلطی پر ہو سکتے ہیں کوئی دلیل نہیں علاوہ ازیں یہ کہنا درست بھی نہیں ہے کیونکہ سب مسلمانوں کا کہنا یہ نہیں ہے۔ قدیم مسلمان مفسروں میں بہت ایسے ہوئے ہیں جن کی یہ رائے تھی کہ انجیل تحریف نہیں ہوئی ہے۔ مثلاً امام محمد اسماعیل بخاری۔ امام فخر الدین رازی ۔ شاہ ولی اللہ وغیرہ اور آج کل بھی ہندو ستان کے ذی علم مسلمان یہی کہتے ہیں کہ انجیل محرف (تحریف کرنے ولا ، بدلنے والا) نہیں۔ لیکن اگر سب مسلمان انجیل کے خلاف اس معاملے میں ایک رائے بھی ہو تے ۔ تو ان کا محض ایسا ہونا کوئی دلیل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور آج تک کسی نے کوئی ثبوت دیا نہیں ہے۔

مولوی۔کیا اور کوئی دلیل آپ کے پاس نہیں ہے؟ اس سے ہمیں تسلی نہیں۔

فضل مسیح۔ ہم بہت دلیلں پیش کر سکتے ہیں ۔ کہ بھلا یہودیوں اور مسیحیوں کا انجیل میں تبدیلی کرنے سے کیا مقصد ہو سکتاتھا؟ مکاشفات کی کتاب کے ۲۲ باب کی ۱۸، ۱۹ آیت میں ایک سخت سزا اس کی بابت لکھی ہے ۔ بھلا خواہ مخواہ کون اپنے اوپر بھاری سزا کو دیدہ و دانستہ(جان بوجھ کر) لے گا؟

مولوی۔ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایساکرنے میں ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ کی بابت جتنی نبوتیں اس میں تھیں انہیں نکال ڈالیں ایسا ہی انہوں نے کیا۔


فضل مسیح۔ یہ کیوں؟ ایسا کرنے سے انہیں کیا پانے کی امید تھی۔ اگر محمد صاحب کی بابت نبوتیں بائبل میں تھیں۔ تو انہوں نے اسے قبول کیوں نہیں کیا؟

مسلمان ہو جانے سے تو انہیں فائدہ ہوتا۔ کیونکہ جب مسلمانوں نے سیریا، فارس، فلسطین ، مصر اور دیگر ملکو ں کو فتح کیاتو لُوٹ کا حصہ انہیں بھی ملتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان نبوتوں کو بائبل میں شریک کرنا ممکن تو تھا پر نکالنا نہیں۔ مسلمان ہونے سے دے ان تمام مصیبتوں سے بچتے ۔ جو ان پر محمد صاحب اور ان کی امت کے ہاتھ سے آئیں۔

علاوہ بریں یہودی اور مسیحی محمد صاحب کے وقت میں یا بعد کو بائبل میں کچھ ردوبدل نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ اس وقت تو بائبل کی جلدیں دور دور پھیل گئی تھیں۔ اور اس وقت یہودی اور مسیحی بھی یورپ ہندوستان ، فارس ، میسو پاتامیہ، آرمینیا۔ ایشیائے کو چک، سیریا فلسطین، عرب ، حبش، مصر افریقہ وغیرہ میں پھیل گئے تھے۔ لہذا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا۔ کہ وہ سب کے سب جمع ہو کے بائبل کی سب جلدوں میں تبدیلی کریں اور اس بارے میں متفق الرائے ہوئیں اور اگر وہ بغیر اتفاق رائے کے ایسا کرتے تو دوسرے فورا ان کی سازش کو فاش کر دیتے۔

ہم دلیل پر دلیل اس بارے میں دے سکتے ہیں ۔ دیکھئے آج کل جو سب سے قدیم بائبل کی جلدیں ہیں وہ چار ہیں اور لندن سینٹ پیٹر برگ، روم اور پیرس میں پائی جاتی ہیں۔ یہ محمد صاحب سے قریب ۲،۳ سو سال قبل کی ہیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ اور ان کا مقابلہ دوسری نقلوں اور ترجموں سے کیا گیا ہے۔ اور کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ اور کتنی دلیلں ہیں جن سب سے یہی ثابت ہوتاہے کہ انجیل نقلی نہیں۔ پر بلا تحریف اصلی ہے۔

مولوی۔خیر یہ بات تو اب یہاں تک ہوئی۔ سبھوں نے ہماری اور آپ کی باتوں کو سنا۔ وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں اور جو بات ہے سو سب کے سامنے ظاہر ہی ہے ۔ اب رخصت ہونے کا وقت آیا۔ ابھی کئی ایک سوال ہمیں اور کرنے ہیں ۔ سو کل ہم یہیں چار بجے شام کو ضرور ہونگے۔

فضل مسیح۔ ٹھیک ہے۔ ہم کل پھر آئینگے ۔ آپ سب صاحبان بھی تشریف لائیے اور اپنے دوستوں کو ہمراہ لیتے آئیے۔ آداب عرض۔

مولوی۔تسلیم۔


روزِ دوئم کی باتیں کے مولوی اپنے دل ہی دل میں قائل اور پریشان اپنے گھر کو گیا۔ اور مسلمان کو چھوڑا اکثر لوگوں کا یہی فیصلہ تھا کہ واہ ۔ پادریوں نے اچھے دنداں توڑ جواب مولوی کو دئیے۔ دیکھئے کل کیا ہوگا۔ یہ عیسائی بڑے زبردست ہیں۔ مناد بھی خدا کا شکر کرتے ہوئے گھر گئے۔ اس رات کو گھر گھر اس مولوی اور اس کے ساتھیوں کے لیے دعا کی گئی ۔ اب ہم کل روز سوئم کی بہار دیکھیں گے۔

_________________________

روزِ سوئم


تیسرے روز حسب معمول طرفین ۔ ایک طرف مولوی محمد حسین اور دوسری طرف مسیحی مناد اسی چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر ٹھیک چار بجے فراہم ہوئے۔ اس مباحثے کی شہرت تمام شہر میں پھیل گئی تھی۔ اور لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ چاروں اطراف سے آرہے تھے۔ مسیحی منادوں کا دل اس کےدل کو دیکھ دیکھ کے امنگ مار رہا تھا۔ خاص کر کے پادری پریم مسیح کا ۔ کیونکہ آج کے دن خداوند یسوع مسیح کی عظمت و جلال ظاہر کر نے کا بیڑا انہوں نے اُٹھایا تھا۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے ناظرین کے سامنے آج کے مباحث کی زندگی کا مختصر احوال پیش کرینگے۔ پریم مسیح کے والد جواہر لال ایک شریف ہندو گھرانے سے تھے۔ جو اہر لال اور ان کی بی بی دونوں ہندودوستوروں کو بڑی جانفشانی (جان دینا) سے مانتے تھے۔ کھانے کپڑے سے آسودہ حال(خوش حال ) تھے۔ کسی بات کی کمی نہ تھی۔ لیکن ایک ہی بات کا رونا تھا۔ کہ گھر میں کوئی چراغ نہ تھا کہ جس سے ان کا گھر روشن ہوتا اور زندگی میں خوشی اور امید ہوتی۔ بہت دن تک کسی لال کے پیدا ہونے کا انتظار رہا لیکن جب ادھی ایک عمر گذرگئی۔ تو دونوں مایوس ہو گئے۔ ایک دن بیٹھے ان کے جی میں آیا کہ اب اس طرح زندگی بسر کرنے سے کیا فائدہ آؤ جیتے جی تیر تھوں کے درشن تو کر لیں۔ شاید اسی طرح ہمیں کوئی بچہ ملے۔ یہ جی میں ٹھان کے انہوں نے اپنا سب سامان مکان وغیرہ بیچ ڈالا اور گیرواں (لال رنگ کا) کپڑا پہن کے دونوں سادھو سا دھنی بن کے تیرتھ یا تیرا کو نکل پڑے۔ بدری ناتھ، کدراناتھ، پُشکر، پریاگ وغیرہ سب تیرتھوں کا پاؤں پیدل سفر کیا۔ کبھی کبھی نہایت دکھ اُٹھانا پڑا۔ چلتے چلتے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔ صحت خراب ہو گئی اور جب سب تیرتھ کر چکے ۔ تو ایک پیسہ بھی گانٹھ میں نہ رہا۔ ان سب تیرتھوں میں انہوں نے بڑی بڑی منتیں مانیں جن کا مطلب یہی تھا کہ کسی طرح ہمارے اولاد ہو کئی برس اسی طرح بھٹکتے پھر ۔ لیکن کچھ امید نہ ہوئی ۔ خیر آخر کو لاچار تھے ماندے ، بے پیسہ کوڑی، اپنے شہر کو واپس لوٹے۔ اور بڑے غریبانہ طور سے گذر کرنے لگے۔ اس کے پانچ برس بعد ایسا ہوا۔ کہ ایک دن جواہر لال نے بازار میں ایک مسیحی کتب فروش (کتابیں بیچنے ولا) سے دو پیسے میں ایک دھرم تُلما خریدی ، جس کو کئی روز تک بغور پڑھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے نا امید رنجیدہ ، دل میں روشنی کی ایک کرن چمکی جس نے اسکے کے دل کو امید اور خوشی سے بھر دیا۔


اس نے اپنی بی بی کو مسیحی مذہب کی بابت بتایا اور دھر م تلا پڑھ کر سنائی اور دونوں کے دل میں یہ بات جم گئی۔ کہ مسیحی مذہب ہی سے ہمیں راحت و آرام حاصل ہو گا۔ وہ ایک پادری کے پاس گئے اور تھوڑے دنوں میں اور تعلیم پاکے مسیحٰ ہو گئے ۔ حسن اتفاق سے ایسا ہوا کہ اسی سال جواہر لال کی بی بی کو امید ہوئی ۔ اور وقت پر ایک خوبصورت لال پیداہوا۔ جس کا نام پریم مسیح رکھا گیا۔ جوں جوں پریم مسیح بڑا ہوتا تھا۔ جواہر لال اور اس کی بی بی کا دل پھولا نہ سماتا تھا۔ ان کی زندگی امید اور خوشی سے بھر گئی تھی۔ اور ان کا اعتقاد یہی تھا کہ مسیحی مذہب کی یہ بخشش ہے۔ پریم مسیح ایک محنتی اور ہوشیار لڑکا بنا اور اپنے بہن بھائیوں سے بڑی الفت سے پیش آتا تھا۔ کیونکہ جواہر لال کے گھر اب چار بچے دس سال کے اند ر ہو گئے تھے۔ گھرانا بڑا تھا اور غریب تھے ۔ تو بھی زندگی بڑی خوشی سے بسر کرتے تھے۔ پریم مسیح روز رو سکول کو جاتا تھا اور پڑھنے لکھنے میں بڑی محنت کرتاتھا۔ پندرہ برس کی عمر میں اس نے مڈل پاس کیا ۔ لیکن چونکہ اس کے ماں باپ غریب تھے۔ اسے سکول چھوڑ کے نوکری کرنی پڑی۔ یہ دن بھر کا م کرتا اور رات کو پڑھا کرتا تھا۔ لیکن بےچارے کی اتنی آمدنی نہ تھی ۔ کہ ایک اچھا لیمپ جلا کے پڑ سکتا ۔ سو وہ اپنی بغل میں کتابیں دبا کے سڑک پر چوراہے کی سررکاری گیس بتی کے نیچے جا کھڑا ہوتا تھا اور کئی گھنٹے وہاں کھڑا کھڑا پڑھتا رہتا تھا۔ ایسی سخت محنت کر کے پریم مسیح بہت ہوشیار ہوگیا۔ پادری صاحب نے اسے ہو شیار ، محنتی اور ہونہار دیکھ کے مدرسہ علم الہیٰ میں بھیج دیا ۔ اور وہاں کا کورس ختم کر کے ایک زبر دست مناد بن گیا۔ آج ہم اس شخص کی تقریر کو سنے گے۔

پریم مسیح۔ اچھا کہیے جناب مولوی محمد حسین صاحب آج آپ کا سوال کیا ہے؟

سب حاضرین خاموشی سے کان لگا کر سنیں۔

مولوی۔ کل ہمارا سوال انجیل کی تحریف کے بارے میں تھا۔ خیر اب ہم اسکی بابت او ر کچھ نہ کہینگے ۔ جو ہے سو ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ آپ جو بار بار انجیل سے حوالے پیش کرتے ہیں۔ اس سے کیا فائدہ کیونکہ انجیل تو منسوخ (ختم ) ہو چکی ہے؟ شروع میں تو رات کی پانچ کتابیں حضرت موسیٰ پر نازل ہوئیں اور یہ کتابیں حضرت داؤد پر زبور کے نازل ہونے سے منسوخ ہو گئیں اور بعد کو زبور ا نجیل کے حضرت عیسیٰ پر نازل ہونے سے منسوخ ہوئی۔ اسی طرح انجیل قرآن کے نازل ہو نے سے منسوخ ہو گئی۔ اب اس کی شہاد ت بے سود(بے فائدہ ) ہے ۔ اب تو ہمارے پاس قرآن ہے ۔ اور ایسی کوماننا آپ کا فرض اور ہمارا فرض ہے۔

پریم مسیح۔ صاحبان سنیے مولوی صاحب کا دعویٰ آج یہ ہے کہ انجیل منسوخ (ختم) ہو گئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ جناب مولوی صاحب ۔ کیا جو آپ کہتے ہیں وہ قرآن کے مطابق ہے؟

مولوی۔بےشک ۔ قرآن اس کا شاہد (گواہ) ہے۔


پریم مسیح۔ کیا آپ قرآن میں سے ایک بھی آیت پیش کر سکتے ہیں۔ کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ قرآن کے آنے سے انجیل منسوخ ہو گئی ہے۔

مولوی۔مجھے افسوس ہے کہ اس وقت کوئی ایسی آیت یاد نہیں آتی۔

پریم مسیح۔ کچھ عجب نہیں۔ کیونکہ کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں۔ قرآن میں لفظ ’’نسخ‘‘ حرف دو ہی دفعہ آیا ہے۔ اور دونوں مرتبہ انجیل کی بابت نہیں لیکن قرآن ہی کی آیت کی نسبت ہے۔ آپ کے علما کی رائے ہے۔ کہ قرآن میں ۲۲۵ آیات منسوخ کی گئی ہیں۔ قرآن میں کہیں یہ شہادت نہیں ملتی کہ انجیل منسوخ ہوگئی ہے۔ یہ صرف لوگوں کا خیالی پلاؤ ہے۔

مولوی۔جی نہیں جناب یہ خیالی پلاؤ کی بات نہیں ہے۔عقلاً ہم یہ جانتے ہیں کہ جس طرح زبور کے نازل ہونے سے تورات اور انجیل کے نازل ہونے سے زبور منسوخ ہو گئے۔ اسی طرح قرآن کے آنے سے انجیل منسوخ ہو گئی ہے۔ ہر کوئی اسے سمجھ سکتاہے۔ اور زیاد ہ ثبوت کی کیا ضرورت ہے؟

پریم مسیح۔ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہو ۔تو بت پرستی مت کر۔ کیا یہ منسوخ ہوگئے ہیں؟

مولوی۔نہیں۔

پریم مسیح۔ تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لے۔ تو سبت کا دن پاک رکھنے کے لیےیاد رکھ۔۔ کیا یہ منسوخ ہیں؟

مولوی۔نہیں۔

پریم مسیح۔ یہ دس احکام میں سے چار ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی ہیں۔ مثلاً تو اپنے ماں باپکی عزت کر ، خون مت کر وغیرہ وغیرہ ۔ کیا یہ دس احکام منسوخ ہو گئےہیں؟

مولوی۔نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ یہ کیسے منسوخ ہو سکتے ہیں؟

پریم مسیح۔ اگر نہیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تو رات منسوخ ہو گئی ہے کیونکہ یہ تو تورات میں ہی ہیں۔


قرآن سے صاف ظاہر ہے۔ کہ محمد صاحب کے وقت میں تورات ، زبور اور انجیل کی شہادت مانی جاتی تھی۔ (دیکھئے سورۃ ۲۔البقرہ، ۱۳۰) مسیح نے صاف کہا کہ ’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ ( متی ۵:۱۷) سکول کو لڑکا پڑھنے کو جاتا ہے۔ شروع میں وہ پہلی کتا ب شروع کرتا ہے جب وہ ختم کر لیتا ہے تو دوسری کتاب استاد اسے دیتا ہے اور یوں جوں جوں وہ علم میں ترقی کرتا جاتا ہے تب تب اسے بڑی اور گہری کتابیں ملتی جاتی ہیں۔ پر دوسری کتاب پہلی کو منسوخ نہیں کرتی بلکہ دوسری کی بنیاد اسی علم پر ہوتی ہے جو لڑکےنے پہلی کتابوں میں حاصل کیا تھا۔اسی طرح خدا نے لوگوں کو رفتہ رفتہ ( آہستہ آہستہ ) تورات ، زبور ، نبیوں کے صحیفوں اور انجیل کے ذریعے تعلیم دی۔ انجیل کے بعد اور کوئی الہامی کتاب اس قسم کی ہے نہیں ۔ وہ سب زمانوں کے لیے ہے اور آج بھی ہے ۔

مولوی۔ہاں! پر ایک بات اور غور طلب ہے ۔ بہت سے انبیاء ہوئے ہیں ۔ رسول بھی بہت ہیں ہر ایک نبی اور رسول اپنے اپنے وقت کےلوگوں کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔ دیکھئے پہلے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ۔ ان کے بعد حضرت داؤد آئے۔ ان کے بعد سلیمان اور سلیمان کے بعد یحییٰ (یوحنا) بپتسمہ دینے والا! اور پھر حضرت عیسیٰ اور بعد میں آخرالزمان (آخری نبی ) حضرت محمد ﷺ ۔ اس طرح سے صاف ظاہر ہے کہ ایک کے بعد دوسرے کو منسوخ کرتا آیا۔اب سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کے بعد اور کوئی ہوا نہیں ۔ لہذا وہی آخر الزمان ہیں اور الہی پر نبوت ختم ہے ۔ وہی سب نبیوں پر گویا مہر ہیں ۔ جب ایک بادشاہ گذر جاتا ہے ۔ تو دوسرا اس کی جگہ لیتاہے۔ اور پہلے کا دور دوران جاتا رہتاہے اور دوسرے کا آجاتاہے۔ اسی طرح اب محمد ﷺ ہی کی بادشاہت ہے۔ انہی کو ماننا اور انہی کی تعظیم کرنا لازم و واجب ہے۔

پریم مسیح۔ یہ آپ کا کہنا صحیح ہے کہ جب ایک بادشاہ گذر جاتاہے۔ تو اس کی جگہ دوسرا گدی پر بیٹھتا ہے۔ لہذا جو مر گیا اس کا دور دورہ جاتا رہتا ہے۔ لیکن شاہی قانون بدل نہیں جاتے قوانین وہی رہتے ہیں جو گذشتہ بادشاہ کے وقت میں تھے۔ علاوہ ازیں یہ مثال صرف دنیاوی بادشاہوں اور بادشاہتوں کے بارے میں ہے ۔ اورجو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر عائد نہیں ہوتی۔ یسوع مسیح کوئی دنیاوی بادشاہ بن کے نہیں آیا۔ وہ صرف اس لیے مجسم ہوا۔ کہ گنہگاروں کو ان کے گناہ سے برکت بخشے ۔ علاوہ ازیں وہ موت کے اوپرغالب ہو کے آسمان پر چڑھ گیا اور اب بھی ازلی ابدی (اول و آخر) ہو کے خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔ بلکہ آپ لوگوں کا کہنا تویہ ہے کہ جب لوگ یسوع مسیح کو پکڑنے آئے تو اللہ تعالیٰ نے اسے تو آسمان پر بلا لیا۔ اور اس کے دشمنوں میں سے ایک کو اس کی صورت میں بدل دیا۔ جسے یہودیوں نے پکڑ کے مارڈالا۔ لہذا آپ کے عقیدے کے موافق بھی یسوع مسیح زندہ ہے۔ اور پھر آنے ولاہے۔ تو جب کہ وہ زندہ ہے توکون اس کی بادشاہت پر تصرف (خرچ کرنا، دخل دینا) کر سکتا ہے؟ علاہ بریں فرض کیا کہ یسوع مسیح کی روحانی بادشاہت بقول آپ کے محمد صاحب کو ملی تو یہ بتائیے کہ محمد صاحب کی موت کے بعدکون گدی پربیٹھا؟

پھر آپ خودکہہ چکے ہیں کہ آپ مسیح کو برحق نبی مانتے ہیں۔ جب وہ برحق ہے تو اس کی باتیں کیسے ٹل سکتی ہیں؟ یہ تو ایک حقیقت ہے اور حقیقت کوکوئی ردوبدل نہیں کر سکتا ۔ دنیاوی قوانین کی ترمیم ہوتی رہتی ہے۔لیکن خدا کے آئین کبھی نہیں بدلتے کیونکہ خدا خود بدل نہیں سکتا۔


مولوی۔اچھا خیر چلیئے۔یہ بات یہاں تک رہی ۔ اب برخاست ہونے کا وقت آگیا۔ کل اگر آپ پھر اسی وقت حاضر ہوں تو ہم کچھ اور گفتگو کرنے کی ۔ کئی ایک سوال ابھی باقی ہیں۔

پریم مسیح۔ بہت بہتر ک پھر سب صاحبان یہاں تشریف لائیے۔ آداب۔

مولوی۔ تسلیم ۔

اس گفتگو کے بعد روز سوئم کی بحث ختم ہوئی۔ مسیحیوں کے ایسے مدلل(دلائل ) اور صفائی کےجواب سن کے لوگوں میں ایک عجیب سماں چھایا ہواتھا۔ ان تین روز کی باتوں نے لوگوں کے دلوں پر بہت کام کیا۔ بہتوں کے دل میں اور تلاش حق ( سچ کی تلاش) کی آرزو ہونے لگی ِ۔ منادوں نے سوچاکہ کل مباحثے کے بعد انجیل اور حصوں کی چندجلدیں لیتے چلے گے۔ شائد کوئی خرید لے گا۔ مشنری صاحب نے ان کو چند جلدیں بائبل اور انجیل کی اور چند ٹریکٹ وغیرہ دے دئیے اور دعا ودھیان میں مصروف ہوئے تاکہ چوتھے دن کےلیے تیار ہوں۔ ان کے پچھلے تین دنوں سے ان کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی اور کامل یقین ہو گیا کہ ہمارا خداو ند یسوع مسیح اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب ہم اس کا کام کرتے ہیں تو وہ ہماری رہبری کرتاہے۔ اور مزید جو ش کے ساتھ وہاں کی تمام کلیسیا کے لوگ دعا کرنے لگے۔ اور یہ ایام (دن) تمام کلیسیا کےلیے بڑے تازگی بخش معلوم ہوتے تھے۔ ا ب اگر آپ کل چار بجے شام پھر بازار کی سیر کرتے ہوئے چبوترے (مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) کے پاس جا کھڑے ہوں۔تو چوتھے روز کی بہادر کی باتوں سے نہایت محظوظ (خوش و خرم ، نصیب) ہونگے۔ اسے معلوم ہے کہ کل مجھے ہی اکھاڑے میں مسیح دکھانا ہے۔ وہ بڑی غور وفکر سے کھانے کے بعد چراغ جلائے بیٹھا ہے۔ ایک طرف قرآن کھلا رکھا ہےاور دوسری طرف بائبل ہے اور وہ خاص خاص باتیں چُن چُن کے اپنی نوٹ بک میں درج کر رہا ہے۔ کبھی گھٹنوں پر گے کے دعا میں مدد مانگتا کبھی پھربیٹھ کے پڑھتا لکھتا اور یوں کل کی کُشتی مارنے کےلیے خوب تیار ہے۔ اسے اطمینان ہے کہ خداوند ضرور اونچا اُٹھایا جائے گا۔ اوراسکے نام کو جلال و بزرگی اس خاک کے پتلے سے ہوگی۔ ہمارا دل بھی کل کی باتیں سننے کو پھڑک رہا ہے کل ضرور سنےگے۔

_________________________

روزِ چہارم


منگل کے روز یہ بحث شروع ہوئی تھی۔اور آج جمعہ ہے۔ ایک کثیر جماعت چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر ساڑھے تین بجے سے ہی حاض ہو گئی تھی۔ لوگوں کی کوشش تھی کہ آگے جگہ ملے ۔ تاکہ وہ مسیحی منادوں کی باتیں آسانی سے سن سکیں۔ اور کوئی بھی لفظ رائیگاں (فضول، ضائع) جانے نہ پائے۔ پچھلے تین روز کی باتوں نے لوگوں کےدل میں بڑی دلچسپی پیدا کر دی تھی۔ آج مدرسے میں تعطیل تھی لہذا کئی ایک مسیحی جوان استاد و طلباء بھی موجود ہوئے جنہوں نے لوگوں کو بہ ترتیب بٹھایا ۔ شہر کےکئی ایک شرفا (شریف) بھی آج حاضرتھے جن کے لیے ہمارے جوان دوڑ کے کرسیاں اور بنچیں لے آئے ۔ اوریوں بڑے آرام و سہولت کے ساتھ سب بہ ترتیب بیٹھے ۔ ایک طرف سے مولوی محمد حسین اور ان کے ساتھی آئے۔ اور دوسری طر ف سے ٹھیک چار بجے مسیحی مناد بھی دارد ہوئے ۔ سب کی آنکھیں منادوں کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ کہ دیکھیں آج کون بولتا ہے۔

آج کا تقریر کرنے ولا ایک قومی ہیکل فیلتن چھ فٹ اونچا جوان ہے جس کو مسیحی جماعت ابن ِ رعد کہتی تھی۔ کیونکہ جیسا یہ قدوقامت میں بے مثال تھا ویسے ہی بولنے والا بھی تھا۔ اس کو تقریر کرنے مییں خدا داد لیاقت (قابلیت)تھی ۔ اس نے بہت وقت کل اور آج غور فکر اور دعا میں صرف کیا تھا۔ اور اس کے چہرے سے ااج اس دلجمعی کا اظہار ہو رہا تھا۔ جو اس نے اپنے خداوند کی صحبت میں حاصل کی تھی۔ اس جوان کی زندگی کامختصر احوال یوں ہے۔ کہ بلونت سنگھ ایک مالدار راجپوت گھرانے میں پیدا ہوا اور اپنے باپ اور چچا کے درمیان ایک ہی لڑکا تھا۔ چچا بھی ایک بڑا زمیندار تھا اور ان دونوں بھائیوں کی امید بلونت پر ہی قائم تھی۔ وہ آٹھ برس کی عمر میں ایک نہایت عمدہ سکو ل کو بھیجا گیا اور بیس بر س کی عمر تک اسے اچھی خاطر خواہ تعلیم دی گئی۔ راجپوت کے اس خاص سکول میں اور سکولوں کی مانند باقاعدہ ایف ۔اے ، بی ۔اے وغیرہ کی خواندگی نہ تھی۔ پر یہاں ان کو اردو ، فارسی ، عربی، ہندی اور انگریزی زبانیں سکھائی جاتی تھیں۔ اور حساب کتاب ، کاشتکاری،بندوق ، تلوار چلانا اور ریاست کےکام کو چلانا ۔ گھوڑے پر چڑھنا وغیرہ وغیرہ میں ماہر کرا دیتے تھے۔ ان سب باتوں کو بلونت نے ایسا سیکھا کہ سب طرح سے بلونت تھا اور دیکھنے میں گویا سانچے میں ڈھلا ہوا راجپوت تھا۔ جب بلونت بیس برس کی عمر میں اس راجپوت سکول کی سب تعلیم حاصل کر کے گھر واپس آیا۔ تو باپ اور چچا کو بڑی مسرت(خوشی) حاصل ہوئی۔ اور اس کی تعلیم کا زمانہ ختم کرنے کی یادگار میں بڑی بڑی خوشیاں منائی گئیں۔اب دوسری بات یہ ہونے کو تھی کہ اس کی شادی کی تاریخ مقرر کی جائے کیونکہ منگنی تو پہلے ہی ہو چکی تھی۔ باپ اور چچا کی امید تھی کہ شادی وغیرہ سے فارغ ہو کے کچھ دن میں زمین جائیداد سنبھالنے کے لائق ہوگا اور ہم دونوں بھائیوں کو بڑھاپے میں بڑا آرام ملے گا۔ لیکن ایک اور بات بلونت کی طالبعلمی کے زمانے ہی میں اس کے دل پر نقش ہو چکی تھی۔ جو بلونت کے باپ اور چچا کی سب امیدوں کو خاک میں ملانے کا باعث ٹھہری۔ اسی راجپوت کالج میں ایک اور راجپوت جوان تھا جس نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک ولایتی مسیحی خاتون سے پائی تھی۔ جو اس کی تربیت کے چھٹپن (۔) میں رکھی گئی تھی۔ یہ خاتون حقیقی مسیحی تھی اور ادب قاعدہ انگریزی وغیرہ کے ساتھ ہی ساتھ اس نے رگھبیر سنگھ کو مسیحی تعلیم دینے میں کوئی دقیقہ(معمولی بات) باقی نہ چھوڑا تھا۔


۔ رگھبیر یوں اس لیڈی کی زیر نگرانی ۱۲ برس کی عمر تک رہا اور اس عرصے میں بائبل کی خاص باتیں اور خاص کر راہ نجات اس کے خوب ذہن نشین ہوگئی تھیں۔ اور یہ بائبل میں یہاں تک دلچسپی لینے لگا کہ جب اس نے کالج کو جانا شروع کیا تو اس نے اپنی اسی لیڈی گورنس ( اتا لیقہ) سے انگریزی میں ایک چھوٹی سی بائبل مانگ لی جس کو موقعہ پا کے پڑھتا تھا۔ رگھبیر اور بلونت دونوں پولو کھیل کے بڑے شائق تھے اور یوں وہ دونوں آپس میں گہرے دوست ہو گئے۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ رگھبیر اکیلا بیٹھا چھپ کے اسی بائبل کو پڑھ رہا تھا کہ بلونت بھی گھو متا پھرتا ادھر آنکلا۔ رگھبیر نے بلونت کی آہٹ پا کے بائبل کو جھٹ سے جیب میں رکھ لیا لیکن بلونت اس کتاب کو دیکھ چکا تھا۔ اور چونکہ دیکھنے میں وہ کچھ غیر معمولی سی ہوئی اس کے دل میں فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی بھید کی کتاب ہے جو رگھبیر چھپ کر پڑھتا ہے ۔ ہونہ ہو یہ جادو کی کتاب ہے ۔ سو وہ رگھبیر کے پاس آکے بیٹھ گیا۔ دونوں دوست تو تھے ہی ۔ فوراً بول اُٹھا۔ ’’ کیوں یا رچھپ چھپ کے جادو سیکھتے ہو؟‘‘

رگھبیر۔ ’’کیسا جادو؟‘‘

بلونت۔’’ ہاں ہمیں چکمے دیتے ہو۔ ابھی وہ چھوٹی سی کیا کتاب پڑھ رہےتھے۔ بھلا جیب تو دکھاؤ۔‘‘

رگھبیر۔’’نہیں وہ کوئی جادوکی کتاب نہیں ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے۔‘‘

بلونت نے جو دیکھا کہ رگھبیر ٹال مٹولا کرتا ہے۔ اسے اور بھی شک ہوا اور کشتم کشا(کھینچا تانی) کرکے رگھبیر کی جیب سے بائبل نکال ہی لی۔ اس نے کبھی نہ تو بائبل پڑھی تھی نہ دیکھی تھی۔ حیرت میں ہو کے پوچھنے لگا۔’’ اچھا دوست اب بھید تو کھل ہی گیا۔ بتاؤ یہ ہے کیا جسے تم اس طرح پوشیدگی میں پڑھ رہے تھے۔ اگر یہ کوئی معمولی کتاب ہے تو پھر چھپانے کی کیا ضرورت ؟ ’’رگھبیر نے دل کھول کر اپنے دوست کو وہ سب باتیں شروع سے آخر تک کہہ سنائیں۔جو اس نے اپنی اتالیقہ سے سیکھی تھیں۔ یہ بلونت کو بھی بڑی دلچسپ معلوم ہوئیں۔ اور آج سے یہ دونوں موقعہ بہ موقعہ بائبل کو ساتھ ساتھ پڑھنے لگے۔ بہت سی باتوں میں رگھبیر بلونت کا استاد تھا۔ وہ پہلے پڑھتا اور پھر سمجھاتا تھا۔ ایک عرصے تک وہ اسی طرح کرتے رہے اور اس راز کے سبب وہ اور بھی گہرے دوست ہو گئے ۔ سچ ہے بلونت کےلیے یہ کتاب جادو ہی ٹھہری ۔ کیونکہ کالج سے نکلنے سے پہلے اس نے مصمم ارادہ (پختہ ارادہ) کرلیا کو جو ہو سو ہو میں تو اسی کتاب کو مانونگا۔ اور اسی مسیح کاجس کا اس میں ذکرہے ۔ شاگرد بنونگا۔ رگھبیر کا کالج سے نکل کے کیا حال ہوا۔ اس کا ذکر کرنے کا موقع نہیں پر پڑھنے والے خود تصور کر سکتے ہیں۔ کہ جو نخل (کھجور کا درخت، یا عام درخت) شروع ہی سے اس طرح سینچا گیا۔ اس کے پھل کیسے ہوئے ہونگے۔


بلونت نے کہا ۔ اگر میں شادی سے پیشتر ( پہلے) مسیحی نہ ہو جاؤں ۔ تو پاؤں میں بیڑی پڑ جانے کے بعد نہایت محال ہوگا۔ پاس ہی شہر میں پادری صاحب رہتے تھے۔ اس نے ان سے ملاقات کی اور اپنا سارا حال تفصیل و ا ر کہہ سنایا۔ پادری صاحب کو اس جوان کا حال سن کے بڑی خوشی ہوئی۔ اور آنے والے اتوار کو بپتسمہ کا انتظام کیا۔ شام کی عبادت کے وقت تمام مسیحی جماعت کےسامنے بلونت نے مسیح پر ایمان لانے کا اظہار کیا۔ اور بپتسمہ پایا۔ ہاں اس وقت بلونت کا کوئی رشتہ دار یا غیر مسیحی دوست یہاں حاضر نہ تھا۔ اور اس کے گھر والوں کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کہ وہ آج شام اس کو جس پر ان کی امیدیں بنی ہوئی تھیں۔ کھو رہے تھے۔ سچ ہے ۔ بلونت دنیا کے لیے کھویا گیا۔ اور مر گیا پر مسیح کے لیے زندہ ہوا تھا۔

بلونت گرجے سے نکل کے فوراً اپنے گھر گیا اور اس دلیری سے جس کے لیے راجپوت مشہور ہیں۔ اور جس پر وہ فخر کرتے ہیں۔ اس نے اپنے باپ اور چچا سے کہہ دیا کہ میں تو مسیحی ہو گیا ہوں۔ باپ نے سوچا کہ یہ یونہی کہتا ہے ۔ سو پہلے کچھ خیال نہ کیا۔ مگر جب بلونت نہایت سنجیدگی سے یقین دلانے لگا تب تو گھر بھر میں ہلچل مچ گئی۔ کوئی کہتا تھا کہ کیا بلونت دیوانہ ہو اہے۔ کوئی کہتا کہ کیا مذاق کرتے ہو۔ کہیں پُرکھوں کا دین ایمان بدلا جاتا ہے۔ یہ بات انہونی ہے۔ خیر شام ہوئی سب کھانا دانا کھا کے سو رہے لیکن بلونت کے باپ اور چچا کا دل نہایت بےچین تھا۔ ( نہیں نیند کہاں ! اِدھر بلونت بھی بستر ے پر پڑا پڑا سوچ رہا تھا۔ کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ وہ وہیں اپنی چارپائی کی پٹی کے پا س گھٹنے ٹیک کر دعا منانگنے لگا اور نہایت حلیمی کے ساتھ یہ کہا کہ ’’ اے مسیح مجھے طاقت دے کہ میں مشکلات کا مقابلہ کر سکوں ۔ میں موت تک تیرا وفادار خادم بنا رہونگا‘‘۔ اسی وقت عجیب طور سے اس کے دل میں تسلی محسوس ہوئی ۔اور ایک دھیمی آواز کان میں سنائی دی کہ ’’میرا فضل تیرے لیے کافی ہے‘‘۔ بلونت ابھی گھٹنوں ہی پر تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور دروازہ کھولنے پر کیا دیکھتا ہے کہ باپ اور چچا دروازے پر کھڑے ہیں۔ اور ان کی آنکھوں میں سے آنسو بہ رہے ہیں۔ چچا نے فوراً سینے سے لگا لیا۔ اور روتے روتے کہا ۔ ’’بلونت بلونت یہ تُو نے کیاکیا۔ ہمیں بے چینی کےمارےنیند نہیں آتی ۔ کیا تو سچ مچ مسیحی ہو گیا؟‘‘ بلونت بولا۔ ہاں چچا جی ۔ میں آج ہی شام مسیحی ہو گیا ہوں یہ تو رونے کی بات نہیں پر بڑی خوشی کی بات ہے۔ کیونکہ مسیحی مذہب میں سچ مچ مکتی (نجات) ہے۔ ‘‘ باپ ۔ ارے بھیا۔ آج تو ہمیں سکھاتا ہے ۔ کیا ہم نے تجھے پال پوس کے اس دن کے لیے اتنا بڑا کیا؟ تو کہاں عیسائیوں کے بہکانے میں آگیا۔ کیا تو ہمارے کل خاندان کا ناش(تباہ کرنا) کیا چاہتا ہے؟ اب چپ رہ اگر تو عیسائیوں کے بہکانے میں آکے ہو بھی گیا ہے تو ہم تیرتھ لے چلے گے۔ اور پنج (پنچایت) بیٹھا کر ہر جہ بھر دینگے ابھی کچھ بگڑا نہیں‘‘۔ بلونت ’’ پیارے پِتا۔ اور چچا جی میں اور سب باتوں میں آپ کی ماننے کو تیار ہوں میں آپ کا وہی بلونت ہوں۔ جواب تک تھا۔ پر جو ااپ یہ کہیں کہ مسیحی دھرم میں مت رہ تو یہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ میں نے پر میشور (خدا) کے آگے اور بہت سے مسیحیوں کے آگے وعدہ کر دیا ہے۔ کہ میں یسوع مسیح کو جو جگت(دنیا) کا مکتی داتا(نجات دہندہ) ہے۔ نہ چھوڑونگا ۔ جو میں چھتری کا بیٹا ہوں ۔ تو بچپن دے کے کیسے پلٹوں؟‘‘ دیر تک باپ اور چچا بلونت سے بہت اصرار کرتے رہے۔ بلونت ۔۔۔ کی طرح بے جنبش رہا۔ اور آخر کار وہ اسے اسی کے کمرے میں چھوڑ کے چلے گئے ۔ بلونت نے پھر دعا مانگی اور سورہا ۔ صبح کو ایک عجیب نظارہ پیش آیا۔ سب کی آنکھ بلونت ہی پر تھی۔ اور سب کےلبوں پر بلونت کا ہی نام تھا۔ گھر کے لوگوں کے چہروں پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ ماں ایک طرف چھاتی پیٹ رہی تھی۔ گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بلونت گذر گیا۔


جب دو روز ہو گئے اور بلونت اپنے ایمان و اعتقاد میں بلونت رہا ۔ تو اسے معلوم ہونے لگا کہ یہاں رہنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔ لہذا وہ تیسری رات کو اپنی تیز گھوڑی پر سوار ہو کے دبے پاؤں وہاں سے نکلا۔ اور ٹھیک بارہ بجے مشنری صاحب کا دروازہ آکھٹکٹھایا مشنری بلونت کی آواز پہچان کے پھُرتی ( تیزی) سے دروازہ کھوالا اور اس کے کہنے سے پہلے ہی بلونت کے وہاں آنے کا مقصد جان گیا۔ اسے دفتر میں بٹھا کے اس کے ساتھ دعا کی ۔ اور دلاسا( تسلی) دی۔ا ور فوراً ایک خط دوسرے شہر کی مشنری کے نا م لکھ کے اسے دیا ور کہا کہ وہاں چلے جاؤ بلونت ایڑی مارے رات ہی رات وہان پہنچا ۔ یہاں مشنری نے بڑیا آؤ بھگت سے قبول کیا اور کچھ دن آرام سے واں رکھ کے چپ چاپ دور ایک مدرسہ اعلم الہیٰ کو بھیج دیا۔ القصہ بلونت یہاں خداوند میں بلونت ہوتاگیا۔ اس عرصے میں اسکے گھر کے لوگوں کا غصہ بھی دھیما (آہستہ ، کم ) اور وہ آج اس چبوترے (مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر ہمارے سامنے ہے۔ اس کے حق میں رفتہ رفتہ مسیح کی یہ بات پوری ہوئی۔’’ جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیت کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا۔ اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا‘‘۔ (لوقا ق۱۹: ۲۹) آئیے آج ہم اس بلونت کی بلونت دلیلیں سنیں اور لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ بلونت آج ہمارے سامنے اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ لوگ روٹی ہی کی خاطر مسیحی نہیں ہو جاتے۔

بلونت۔فرمائیے جناب مولوی صاحب۔ آج آپ کو کیا دریافت کرنا ہے۔

مولوی۔ آج کی بات یہ ہے کہ آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انجیل میں حضرت محمد ﷺ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کیا آپ کا یہ قول نہیں ہے؟

بلونت۔ہاں یہ ٹھیک ہے۔ قرآن تو مسیح کا شاہر(گواہ) ہے مگر انجیل میں کوقئی ذکر محمد صاحب کا نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ محمد صاحب بھی انبیا میں سے کوئی ایک تھے۔

مولوی۔پہ خوش ! آج ہم آپ کو ثابت کر دینگے کہ اگرچہ آپ لوگوں نے بہت سی باتیں انجیل میں سے نکال ڈالیں۔ جو حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے کی شہادت(گواہی) دیتی تھیں۔ تو بھی آج تک کئی ایک باتیں موجود ہیں۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت محمد نبی آخر الزمان ہیں۔ اور اللہ کے نبی ہیں۔ ذرا انجیل کھول کے یوحنا کے ۱۴ باب ۱۶ آیت کو دیکھیں۔ وہاں یوں مرقوم (لکھا) ہے کہ ’’ میں باپ سے درخواست کرونگا۔ تو وہ تمہیں دوسرا وکیل بخشے گا۔ کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہنے دیکھئے۔ صاحبان یہ عبارت کیسی ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ لوگ اسی یوحنا کی انجیل کے ۱۴، ۱۵، ۱۶ ابواب کو بغور پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسیٰ بار بار اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں۔ کہ ان کے بعد ایک آئےگا جس کا نام عربی میں البارکلیت اور فارسی میں فار قلیط ہے۔ اس لفظ کے معنی بالکل وہی ہیں جو لفظ محمد یا احمد کے اس سے اور کیا صاف ہو سکتا ہے کہ یہا ں ایک نبوت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺآئے گے ۔ اس نبوت کے بارے میں کوئی شک ہو نہیں سکتا ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ کے بعد سوائے حضرت محمد کے اور کوئی آیا نہیں۔ انہیں پر نبوت ختم ہے۔ وہی نبی آخرالزمان(آخری نبی ) ہیں۔ کہیے صاحبان ۔ کیا یہ درست نہیں ہے؟


بلونت۔سنیے صاحبان مولوی صاحب نے اپنےدعویٰ کے ثبوت میں یوحنا کی انجیل کے ۱۴ باب کی ۱۶ آیت پیش کی ہے۔ اگر آپ ۱۷ آیت پر نظر کریں۔ تو وہاں ۱۶ آیت کی تشریح صاف صاف ہے جو یسوع مسیح ہی نے کی ہے۔ وہاں لکھا ہے۔’’ یعنی حق کی روح جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ نہ اسے دیکھتی اور نہ اسے جانتی ہے۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے۔ اور تمہارے انددر رہے گی۔ ‘‘ اس تشریح سے مسیح کا مطلب یہی تھا کہ لوگ اس کی بابت کچھ غلطی نہ کریں۔

۱۔ محمد صاحب کبھی حق کی روح کے نام سے نامزد نہیں ہوئے۔

۲۔ الفاظ ’’تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے۔ اور تمہارے اندر رہےگی‘‘

غور طلب ہیں۔ سب صاحبان جانتے ہیں کہ محمد صاحب مسیح سے ۶۰۰ سال بعد آئے۔ لہذا اگر یہ نبوت محمد صاحب کی بابت ہوتی تو کیونکر ان کے بارے میں یہ کہا جاتا کہ ’’تم اسے جانتے ہو‘‘۔ ۶۰۰ سال قبل کس کو محمد صاحب کی آمد کا علم تھا؟’’ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے ۔ اور تمہارے اندر رہے گی‘‘۔ محمد صاحب نہ تو مسیح کے شاگردوں کےساتھ تھے اور نہ وہ کسی طریقے سے بھی شاگردوں کے اندر رہ سکتے تھے۔ اورنہ رہے ۔ پھر لفظ ’’ وکیل ‘‘ جو ۱۴ آیت میں آیا ہے۔ اس کی تشریح ۲۶ آیت میں صاف صاف کر دی گئی ہے۔ کہ ’’وکیل ‘‘ یعنی روح القدس جسےباپ میرے نام سے بھیجے گا‘‘۔ روح القدس نام محمد صاحب کا قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ اور نہ محمد صاحب مسیح کے نام سے آئے ۔

اگر یوحنا کے ۱۶ باب کی ۱۳آیت سے ۱۵ آیت تک پڑھیں ۔ تو معلوم کر ینگے کہ مسیح اور روح القدس میں ایسی یگانگت (اتحاد، قرابت، اتفاق) ہے۔ کہ گویا وہ دونوں ہی ہیں۔ لیکن مسیح اور محمد صاحب میں بڑا بھاری اختلاف ہے۔ دونوں کی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اور خیال فرمائیے کہ یہاں لکھا ہے کہ مسیح کا بھیجا ہوا فار قلیط (پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا وہ نام جسکا ذکر بائبل میں آیا ہے یعنی ’’احمد‘‘) آیا ۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے۔ کہ اگر مولوی محمد حسین صاحب کے کہنے کے مطابق فار قلیط(پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا وہ نام جسکا ذکر بائبل میں آیا ہے یعنی ’’احمد‘‘) سے مرا دحضرت محمد صاحب سے ہے۔ اور کہ وہ نبی آخر الزمان(آخری نبی) ہو کے مسیح کی بادشاہت پر قابض ہیں تو یہ دونوں باتیں آپس میں موافقت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ قاصد بھیجنے والے سے بڑا نہیں ہو سکتا اور نہ بھیجنے والے پر اپنے آپکو ترجیح دے سکتا ہے۔

ہم کئی ایک اور مضبوط دلیلیں پیش کرینگے جن سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ اس نبوت میں حضرت محمد صاحب کی طرف مطلق اشارہ نہیں۔ سب صاحبان ۔ مہربانی سے ذرا انجیل کھول کے ان دو آیتوں کا ملاحظہ فرمائیے۔ اور ان کا مقابلہ کیجئے۔ دیکھئے رسولوں کا اعمال کی کتاب جو اسی یوحنا کی انجیل کے بعد ہے۔ اس کے پہلے باب کی چوتھی آیت میں لکھا ہے۔ ’’ اور اس نے ( یعنی مسیح نے بلا کر ان کو (یعنی اپنے شاگردوں کو) حکم دیا کہ یروشلم سے باہر نکل جاؤ۔ بلکہ باپ کے اس وعدے کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو۔ اب دیکھئے اسی کتاب کا دوسرا باب ۱ تا ۴ آیت ۔


جب عید پنتیکوست کا دن ہوا تو وہ سب ایک جگہ جمع ہوئے ۔ یکا یک آسمان سے ایسی آواز اآئی ۔ جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتاہے۔ اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا اور انہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹی ہوئی زبانیں دکھائی دیں۔ اور ان میں سے ہر ایک پر آٹھہریں۔ اور وہ سب ۔ ( ذرا غور فرمائیے) ۔ روح القدس سے بھر گئے ۔ صاحبان اب آپ سب یوحنا کی انجیل کی ان باتوں پر جن کا ذکر ہو چکا ہے ۔ اور اعمال کی کتاب کے ان دو مقامات کی باتوں پر ایک ساتھ کیجئے۔ یوحناکی انجیل میں روح القدس کے بھیجے جانے کا وعدہ کیا گیا۔ اعمال کے پہلے باب میں مسیح نے آسمان پر جانے سے پیشتر اپنے شاگردوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ وہ یروشلم میں ٹھہرے رہ کے روح القدس کا انتظار کریں ۔اور دوسرے باب میں ذکر ہے کہ یہ توح القدس بڑے زورکے ساتھ نازل ہوا۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ روح القدس یا فار قلیط (پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا وہ نام جسکا ذکر بائبل میں آیا ہے یعنی ’’احمد‘‘) کے بھیجے جانےسے وعدے اور نزول کے درمیان ۶۰۰ سال کا عرصہ ہوا؟ کیا مسیح کے شاگرد۶۰۰ سال تک یروشلم میں فار قلیط (پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا وہ نام جسکا ذکر بائبل میں آیا ہے یعنی ’’احمد‘‘) کے انتظار میں ٹھہرے ؟ ایسا خیال کرنا محض جہالت ہوگی۔ وہ ۱۰۰ سال کے اندر اندر سب گذر چکے تھے۔ روح القدس کے وعدے کے صرف ۱۰ دن بعد یہ نبوت پوری ہوئی ۔ انہی لوگوں کی زندگی میں کہ جن سے یہ ودعدہ کیا گیا تھا۔ لہذا اس میں حضرت محمد صاحب کی طرف کچھ اشارہ نہیں ہے۔

مولوی۔اچھا دیکھئے۔ ایس یوحنا کی انجیل ۱۴ باب کی ۳۰ آیت میں صاف مرقوم ہے کہ مسیح نے کہا کہ ’’ دنیا کا سردار آتا ہے ‘‘۔ کیا یہ نبوت صاف صاف حضرت محمد ﷺ کے بارے میں نہیں ہے؟ یہ حضرت کا ایک مشہور لقت ہے۔

بلونت ۔جناب مولوی صاحب۔ اگر میں صاف صاف کھول کے بتاؤں کہ یہ سردار کون ہے تو آپ کو بُرا لگے گا۔ اگر آپ لوقا ۱۰:۱۸، یوحنا ۱۲:۳۱، ۱۶:۱۱، ۲کرنتھیوں ۴:۴ ، افسیوں ۲:۲ اور ۶ باب ۱۱،۱۲ ملاحظہ کریں تو آپ پر آشکارا ( واضح) ہو جائے گا کہ یہ ہولناک شخص کون ہے۔

مولوی۔(گھڑی دیکھتے ہوئے ) خیر اب کہنا سننا تو بہت ہے۔ اب کل ہم ایک اور بات پر گفتگو کرینگے۔ یعنی مسئلہ تثلیث ۔ آپ کل پھر ۴ بجے تشریف لائیے گا۔

بلونت ۔بہت بہتر کل کا مضمون تثلیث ہے۔ آداب عرض۔

مولوی۔تسلیمات عرض۔

منادوں کی ان پر زور باتوں نےکتنوں کے تو دانت کھٹے کئے لیکن اس کثیر جماعت میں بہت ایسے بھی تھے جو بلا تعصب ( بنا کسی فرق کے) ا ن باتوں کو اپنے دل میں تو ل رہے تھے۔ اور کسی قدر مسیحی مذہب کی بابت اور علم حاصل کر نے کی آرزوان کے دل میں پیدا ہوگئی تھی۔ چنانچہ جب منادوں نے ہاتھ میں بائبل ۔ انجیل ٹریکٹ وغیرہ لے کے یہ اعلان کیا کہ جو صاحبان چاہیں ہم سے یہ کتابیں اور پرچے خریدیں اور مفت لیں۔ کئی سو کتابیں بیچی اور بانٹی گئیں۔ سکول کے استاد اور نیز طلبا نےا س میں منادوں کی مدد کی اور بڑی خوشی کے ساتھ اس شام مناد اپنے اپنے گھر گئے۔ اس کام کے لیے گھرانوں میں دعا بد دستور جاری ہے اور اس میں کچھ چک نہیں کہ خداکا ہاتھ اس تمام انتظام میں رہا ہے۔ اس نے بندوں کے ذریعہ کلام کیا اور اس کا کلام اس تک خالی نہ لوٹے گا۔ اب کل کے تقریر کنندہ اور اس کے دلچسپ اور پر زور دلیلوں پر کل غور کریں گے ۔ اس کی سوانح عمری نہایت دلچسپ ہے۔

_________________________

روز پنجم


پیشتر اس کے ہم روز ِ پنجم کی بحث شروع کریں۔ ہم دیباچہ کے طور پر آج کے تقریرکنندہ کی زندگی کا مختصر احوال سناتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ صاحبان اس کے مدلل( دلائل دینا) اور پرُزور تقریر کو سنیں گے تو ضروردریافت کرینگے کہ یہ شخص کون ہے ۔

گرجا گھر کے پیچھے ایک چھوٹا سا مکان نظر آتا ہے ۔ اس کے ایک کمرے میں ایک سفید ریش بزرگ نہایت غور وفکر میں محو (گم ) دکھائی دیتا ہے۔ قد لمبا، سینہ چوڑا ، چہرہ نورانی چمک رہا ہے۔ اگر چہ عمر رسیدہ ہے۔ تاہم مضبوط اور تندرست معلوم ہوتاہے ۔ ۷۰ سال سے اوپر نکل گیا ہے۔ لیکن نہ تو چشمہ اس کی آنکھوں پر ہے اور نہ چلنے پھرنے میں لاٹھی کی مدد ہے۔ پُرانے زمانے کے بزرگ ایسے ہی ہیں۔ آج کل کے جوان ان کے سامنے شرمندہ ہیں۔ اس بزرگ کا نام نامی پادری گنگا رام ہے۔ اور اسی گرجا گھر کا جو سامنے دکھائی دیتا ہے پاسبان ہے ۔ کوئی اسے دانا جی کہہ کے پکارتا ہے کوئی نانا جی اور زیادہ عمر والے اسے پاپا جی کہہ کے اس کی طرف اپنی الفت( محبت ) کا اظہا ر کرتے ہیں۔ قری ۲۵ برس سے وہ یہاں کی کلیسا کی خدمت کر رہا ہے۔ اور لوگ اسے نہایت جانتے ۔ اس کا برتاؤ سب چھوٹے بڑوں کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا اپنے خاندان کے ساتھ بہت سے لوگ اپنے دل کے راز آکے اس کے آگے کھول دیتے ہیں۔ کیونہ انہوں نے اسے حقیقی مددگار و ہمددرد پایا ہے ۔ جوان اپنے مذہبی شکوک و مشکلات اس سے آگے بیان کرتے اور وہ ان کے شکوک ( شک کی جمع) کو دور اور مشکلات کو سہل (آسان) کرتاہے۔ اگر کسی گھرانے میں میاں بی بی کے درمیان نا اتفاقی پیدا ہو جاتی یا نا سمجھ میاں بی بی آپس میں لڑتے جھگڑتے تو وہ فرداً فرداً اسی بزرگ کے پاس آکے اپنی شکایتیں پیش کرتے او ر وہ انہیں ایسے سمجھاتا۔ جیسے اپنے بیٹے بیٹیوں کو۔ الغرض یہ بزرگ اپنی کلیسیا کی پتوار کو تھامے ہوئے آندھی و طوفان میں ہو کے بہ سلامتی کھیلتا چلا جاتاہے ۔ اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا ہے۔ کہ جب تک یہ ہمارا پاسبان ہے تب تک یہ ہمارے پاس ایک حقیقی ہمدرد و مددگار موجود ہے۔


آج ہم اس کواور روز کی بہ نسبت زیادہ غور و فکر میں مصروف پاتے ہیں۔ کئی ایک کتابیں اس کے سامنے کھلی رکھی ہیں۔ ہاں ایک طرف قرآن بھی رکھا ہے۔ کبھی وہ اپنی پرانی بائبل جو نشانات سے بھری ہے الٹ پلٹ کرتاہے ۔ کبھی قرآن ٹٹولتا ہے۔ کبھی وہ جھٹ سے ایک کونے میں ہوجاتاہے۔ اور جب ہم ایک طرف سے جھانکتے ہیں تو اس مرد ِ خدا کو گھٹنے ٹیکے پاتے ہیں۔ اس ساری تفتیش اور محنت کا خاص سبب یہ ہ کہ رات ایک جوان نے آکے دروازہ کھٹکھٹایا اس بزرگ کا یہ دستور ہے کہ بلا یہ پوچھے کہ ’’کون ہے؟‘‘ فوراً یہی لبوں سے نکلتا ہے کہ ’’آؤ‘‘۔ یہ دروازہ کھٹکھٹانے والا تو بلونت ہے۔ جسے گنگارام بہت پیار کرتاہے ۔ بلونت اس بزرگ کے پاس ایسا بے تکلف ہو کے بیٹھ جاتاہے گویا وہ اس ہی کا گھر تھا۔ بزرگ پوچھتا ہے ۔’’ کہو بیٹا بلونت کیسے آئے ‘‘۔ بلونت آج کی منادی کا سب حال تفصیل وار کہہ سناتاہے ۔ اور بعد کو کہتا ہے کہ ’’پاپا جی کل کا مضمون تثلیث ہے۔ ہم لوگوں نے اب تک تو آپ کو تکلیف نہ دی۔ اور آپ ہی مار چلائی ۔ لیکن کل کے لیے سب کی رائے یہ ہے کہ آپ چبوترے(مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر چل کے ذرا مسلمانوں کے منہ سیدھے کر دیجئے۔’’یہی سبب ہےکہ آج ہمارا بزرگ اس قدر غور و فکر میں ہے۔ چار بجے آج اس مرد ِ خداکے ذریعے خداوند یسوع مسیح کا جلال ظاہر کیا جائے گا۔

اب ذرا اس بزرگ کی گزشتہ زندگی کا مختصر حال سن لیجئے ۔ گنگا رام یا گنگو کیونکہ بچپن میں وہ گنگو ہی کہلاتا تھا یک چھوٹے سے گاؤں میں ایک گڈریئے کے گھر میں پیدا ہوا۔ لہذا تعلیم کے لحاظ سے یہ بالکل ان پڑھ رہا۔ کیونکہ گاؤں کے پنڈت نے بڑی مشکل سے دو کتابیں ہندی کی اس سے ختم کرائیں۔ ۱۰۰۹۰ سال کی عمر میں یہ اور گڈریوں کےساتھ بھیڑ بکریاں چرانے جنگل میں جانے لگا اور جلد اس قابل ہو گیا کہ ایک چھوٹا سا جھنڈا س کے سپردکر دیا گیا۔ یہ سب دستور صبح کو روٹی کھا کے اور کچھ ساتھ لے کے اپنے جھنڈ کے ساتھ جنگل کو نکلتااور شا م کو واپس گھر آتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کی زندگی کے لحاظ سے گنگارا م کے ماں باپ آسودہ حال(خوش حال) تھے۔ ان کے پاس مویشیوں کا اچھا خاصہ شمارتھا۔ نہ صرف بھیڑ بکریاں ہی بلکہ گائیں۔ بھینسیں اور بیل بھی تھے۔ علاوہ مویشی رکھنے کے جو گڈریوں کا خاص کام ہے۔ ان کےکچھ کھیتی بھی ہوتی تھی۔ اورگاؤں کے لوگوں کے بیچ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ گنگا رام کے تین چھوٹے بھائی اور ایک بہن تھی۔ اور دو چچا بھی اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ اس لیے گھرانا بھی بڑا تھا۔ گنگا رام شروع ہی سے اچھا ہونہار لڑکا معلوم ہوتاتھا۔ اور نہایت جسیم و قد آور تھا۔ جب یہ ۱۸ سال کا جوان ہو گیا تو نہ تو یہ کسی انسا ن سے اور نہ جنگلی جانور سے ڈرتا تھا۔ اکثر بھیڑئیے کو دیکھ کے اکیلا اس سے لڑا کتا تھا۔ ۔ بلکہ ایک دفعہ کشتم کشتا بھی ہو گئی۔ یہاں تک کہ کوئی آدھ گھنٹے تک بھیڑ ئیے سے لڑتا رہا کہ اتنے ہی میں اس کےساتھی چرواہےآگئے اور سب نے مل کر بھیڑئیے کو مار ڈالا۔ اس لحاظ سے کچھ کچھ وہ بہادر داؤد کی مانند تھا۔

سب کچھ اچھا تھا لیکن ایک بات یہ تھی ۔ کہ گنگا رام میں آوارہ گردی کی طبیعت تھی۔ لہذا جب کبھی یہ طبیعت اس میں جوش مارتی تھی رو ادھر اُدھر گاؤں میں اپنے رشتہ داروں کے گھر چل پڑتا تھا۔ اسے ایک ہی جگہ رہنا پسند نہ تھا۔ اور اکثر اس چھوٹی سی عمر میں اس کے خیال دور دراز سفر کی طرف راغب ہوتے تھے۔ حسن اتفاق سے اسے ایک اور جوان ساتھی بھی ایساہی مل گیا تھا۔ اور یہ دونوں اکثر جب جنگل میں گلہ بانی کرتے تو کسی اونچی چٹان پر بیٹھ کر دُور دُور ملکوں وغیرہ کی بابت بہت خیالی پلاؤ پکایا کرتے تھے۔ اور زیادہ تر ساتھ ہی رہتے تھے۔ کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘۔


ایک دن کا ذکر ہے کہ گنگا رام کا ساتھی دوست بسنتا اپنے ایک رشتہ دار کی شادی میں شہر بریلی کو گیا۔ اور وہاں کئی روز تک اس کا رہنا ہوا۔ چونک گھومنے کی تربیت اس کی بھی تھی۔ اس نے تمام شہر چھان مارا۔ صبح کو نکلنا اور شام کو گھر واپس آنا ۔ یہی اس کا کام تھا۔ یہ گھومتے گھومتے خوب خوش ہو ہو کے سوچتا تھا۔ کہ گھر چل کے گنگا رام کو بہت سی نئی باتیں بتاؤں گا۔ ان دنوں بریلی میں ۔۔۔۔۔ وغیرہ جزیروں کے لیے قلیوں اور طرح طرح کے مزدوری پیشہ لوگوں کی بھرتی ہوا کرتی تھی۔ کمپنیوں کے ایجنٹ ادھر اُدھر گھومتے پھرتے تھے۔ کہ ایسے لوگوں کو جو ٹا پوؤں میں جا کے کم از کم چار سال کام کرنے کے لے راضی ہوں۔ پا کے بھرتی کریں۔ یہ لوگ زیادہ تر دیہات کے لوگوں کی تلاش کرتے تھےکیونکہ ایک تو وہ جفاکش اور محنت اُٹھانے والے ہوتے ہیں۔ اور دوسرے ان ایجنٹوں کے بہکانے میں جلد ی آجاتے ہیں ۔ چنانچہ کوئی عجب نہیں کہ بسنتا کو جو دیہاتی ہونے کی وجہ سے چھپا نہ رہ سکتا تھا۔ اس طور پر آوارہ گردی کرتے ہوئے ایک بھرتی کرنے واللے نے بھانپا جونہی بسنتا سڑک پر سے ادھر اُدھر دیکھتا ہوا ایک اچکا سا نکلا چلا جارہاتھا۔ یونہی ایک بھرتی والا اس کےساتھ ہولیا ۔ اور موقعہ پا کے چلتے چلتے اس سے پوچھنے لگا۔کہ کہو بھائی جوان کہاں کے رہنے والے ہو۔ بسنتا نے اپنا گاؤں تھا ؤں بتایا۔ اور بھرتی والے نے بات ہی بات میں ایسی چالاکی سے اپنامضمون چھڑا کہ بسنتا بالکل اس کی باتوں سے نہ بدکا بلکہ فریفتہ ہو گیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ واہ بھلا اس سے اچھا موقعہ میرے اور دوست گنگو کے لیے کیا ہوسکتا ہے۔ یہاں بھرتی ہو کے سات سمندر پا کے ٹاپوؤں(جزیرہ، خشکی کا وہ قطع جو چاروں طرف سے پانی سے گھیرا ہو) کو سیرکریں۔ اس نے فوراً بھرتی والے کو اپنا نام پتہ لکھا دیا۔ اور وعدہ کیا کہ میں اپنے ایک دوست کو ہمراہ لے کر جتنہ جلد ممکن ہو لوٹو نگا۔

اتنے میں ادھر شادی وادی بھی ہو چکی۔ اور برات واپس لوٹی ۔بسنتا بھی دل ہی میں مگن اپنے دوست گنگو کے پاس آیا۔ اور دوسرے دن جب یہ دونوں بھیڑ بکریاں چرانے جنگل کو نکلے اس نے بریلی کی ساری کیفیت کہہ سنائی ۔ ان دونوں نے مصمم ارادہ ( پکا ارادہ ) کر لیا کہ ضرور بریلی چل کے بھرتی ہونگے ۔ چنانچہ اس دن سے وہ دونوں سوچنے لگے کہ کب گھر سے نکلیں۔ ادھر سیر وسیاحت کی طبیعت زور مارتی تھی۔ ادھر گھر والوں کی الفت کھینچتی تھی۔ کیونکہ ان دونوں کی نہ صرف شادی ہی ہو چکی تھی۔ بلکہ ایک ایک بچہ بھی تھا ۔ اسی سوچ و فکر میں کئی دن گذر گئے اور دونوں میں سےکسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اس قدر دور ودراز سفر اختیار کرے۔ ایک دن جب یہ جنگل میں گلہ بانی کر رہے تھے۔ دونوں نے صلاح کی کہ یوں نہیں بنے گی۔ ایک کام کرو ۔ آج شام جب روٹی کھانے بیٹھو ۔ تو قسم کھاؤ ک جو پھر اس چوکے پر روٹی کھائیں تو گائے کھائیں ۔ اس طرح ارادہ کر کے وہ دونو ں شام کو حسب معمول گھر گئے ۔ اور جیسا ارادہ کیا تھا وہ دونوں دل میں قسم کھا کے رات کو اپنے اپنے گھر سے نکل پڑے اور ایک مقرر کئے ہوئے اڈے پر آملے ۔ رات ہی بریلی کی راہ لی۔ اور بھرتی کےمقام پر آپہنچے ۔ بھرتی والا دونوں مضبوط جوانوں کو دیکھ کر باغ باغ (خوش ) ہو گیا۔ اسی ہفتے میں ایک جہاز کلکتہ سے چھوٹنے ولاتھا۔ لہذا وہ دونوں لکھا پڑھی کے بعد فوراً کلکتے کو روانہ ہوگئے۔ ریل کے سفر میں کئی ایک بڑے بڑے سٹیشنوں پر سے ان کا گذر ہوا اور یہ اس سیر سے بہت خوش تھے۔ الغرض بھرتی والا ان کو لے کے کلکتہ پہنچا اور اس کے دوسرے ہی روز وہ جہاز پربیٹھ کے اور بہت سے مزدوروں کےساتھ ٹرینیڈاڈ کے لیے روانہ ہوئے جہاز پر بیٹھ کے تو ان کا دل خوش تھا۔ لیکن جب ان کو سمندر کی بیماری ہوئی۔ جو ان سب کو جو سمندری سفر کے عادی نہیں ہیں۔ ہوا کرتی ہے ۔ تو انہیں گھر یاد آیا ۔ خیر کچھ دن میں یہ بحری سفر کے عادی ہو گئے۔ اور بہتوں سے جو جہاز پر ان کے موافق دیہاتی تھے۔ دوستی ہو گئی۔ تو پھر یہ سیر کا مزا لینے لگے ان دنوں کے جہاز آج کل کے جہازوں سے بہت متفرق تھے۔ یہ آہستہ آہستہ جیسے ہو ا ہو۔ ویسے جاتے تھے۔ ا


اور رستہ بھی لمبا تھا۔ سو کئی مہینوں میں یہ منزل مقصود پر پہنچے ۔ جہاز سے اتر کے سب مزدور ایک بڑے احاطے میں جمع کئے گئے۔ اور وہاں جزیر ے کے مختلف حصوں میں تقسیم کئے گئے۔ یہاں اس وقت گنگا رام اور بسنت رام کو سخت صدمہ گذرا جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ دونوں دوست ایک ساتھ نہ رہ سکیں گے کیونکہ یہ دونوں جدا جدا حصے کے لیے چنے گئے ۔ خیر وہا ں ان کی مرضی چل نہیں سکتی تھی۔ مجبوراً دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو رو رو کے خدا حافظ کہا اور پھر یہ کبھی نہ ملے ۔ گنگا رام کو چائے اور قہوہ کے باغیچے میں کام کرنے کو ملا ۔ اور چار سال تک اس نے بڑی وفادار ی اور محنت سے کام کیا۔ اس سے باغیچے کا مالک بہت خوش تھا۔ کیونکہ گنگا رام نے کبھی اسے ناراض نہ کیاتھا۔ صرف چار سال تک گنگا رام کو وہاں کام کرنا تھا اور اب وہ آزاد تھا کہ اگرچاہے تو ہندوستان کو بغیر جہاز کا کرایہ بھرے واپس لوٹے ۔ لیکن اسے ان ٹاپوؤں(جزیرہ، خشکی کا وہ قطع جو چاروں طرف سے پانی سے گھیرا ہو) میں رہنا یہاں تک پسند آیا کہ اس نے وہیں رہنے کا ارادہ کر لیا۔ اب وہ آزاد تھا کہ جہا ں چاہے وہاں کام کرے ۔ سوا اس نے اور اطراف کے جزیروں میں جگہ جگہ سیر کرتے ہوئے طرح طرح کی نوکریاں کیں۔ اور آمدنی بھی معقول تھی۔ اس عرصے میں اس نے کچھ معمولی بول چال کی انگریزی بھی سیکھ لی تھی۔ کیونکہ وہاں زیادہ انگریزی ہی بولی جاتی تھی۔ اب ایک بڑی تبدیلی گنگا رام کی زندگی میں ہونے والی تھی۔ جس سے اس کی زندگی کا رخ بالکل پلٹ گیا۔

ان جزیروں میں بھی مشنری ہیں اور مشن کا کام ہوتا ہے۔ گنگا رام کے کئی ایک مسیحی دوست تھے جن کے ساتھ وہ ہر اتوار کر گرجے جایا کرتا تھا۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اب کوئی مذہبی بھوک پیاس اس میں پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن سبب یہ تھا کہ ۴:۵ سا ل تک ان جزیروں میں رہنے کے بعد اب گنگارا م وہی گڈریا نہ رہا تھا۔ اس کے پہننے کھانے ، رہنے سہنے اور بات چیت میں کچھ اور ہی بات آگئی تھی۔ اگر بریلی سے روانہ ہونے کے وقت اس کی تصویر کھینچی جاتی تو اونچی گاڑھے کے دھوتی اور گاڑھے کی انگرکھی بدن پر ہوتی۔ سر پر سفید پگڑی اور پاؤں میں نرمی کی مضبوط جوتی ۔ ہاں ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ اب اگر اس کے گاؤں کے لوگ بلکہ تھوڑی دیر کے لیے اس کے گھر والے بھی اسے دیکھنے تو نہ پہچانتے ۔ کیونکہ سرد ملک کی آ پ وہوا نے نہ صرف اس کے رنگ ہی میں کچھ فرق کر دیا تھا۔ بلکہ اب وہ گرم کالی بانات کی پتلون اور کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ سر پر ولایتی ٹوپی ہے اور پاؤں میں مضبوط کالے چمکتے ہوئے بوٹ ہیں۔ اب تو کچھ ٹھاٹھ ہی اور ہے۔ لہذا وہ صرف مسیحیوں کی صحبت میں رہنے اور ولایتیوں میں دم مارنے( شیخی مارنے، دعوی کرنا) کی وجہ سے شوقیہ طور پر گرجے جایا کرتا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کی جان پہچان ایک مشنری صاحب سے ہو گئی جو ہاں مشن کا کام کرتے تھے ۔ یہ بزرگ مشنری کسی وقت ایک مدت تک ہندوستان میں کامیابی کے ساتھ کام کرتے رہے اور ہر دلعزیز (ہر ایک کو پسند آنے ولالے) تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ سخت محنت کرنے اور چند دیگر وجوہات سے ان کی صحت یہاں تک خراب ہو گئی کہ آخر کار ڈاکڑوں نے انہیں مجبور کیا۔ کہ وہ اپنے ملک کو فوراً لوٹیں ۔ یہ امریکہ میں ایک عرصے تک رہنے کے بعد پھر کام کرنے کے قابل ہو گئے اور واپس ہندوستان آنا چاہتے تھے۔ لیکن ڈاکڑوں نے دور اندیشی کر کے صلاح دی کہ کسی گرم ملک میں کام نہ کریں ۔ چونک انہیں ہنوستانیوں سے الفت (محبت ) ہو گئی تھی۔ انہوں نے ٹرینڈاڈ جزیرہ کے ہندوستانیوں کے بیچ کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اور اب عرصے سے یہاں ہیں یہی ولایتی بزرگ ہے جس نے محنت کرکے گنگا رام کو انگریزی پڑھائی ۔ اور ہندوستانی زبان کے صحیح استعمال میں بھی کچھ مدد کی۔


یہاں تک کہ رفتہ رفتہ انہی کی محنت اور دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ گنگا رام مسیح کا سچا شاگرد بن گیا اور اپنے بزرگ مشنری کے کام میں بڑی امداد کا ذریعہ ٹھہرا ۔ یوں گنگا رام کو وہاں کا کام کرتے سیکھاتے قریب دس سال ہو گئے۔ اب گھر اور وطن کی الفت نے زور مارا اور اس نے ہند کو واپس آنے کا قصد(ارادہ ، نیت) کیا۔ تھو ڑ ے عرصےمیں ایک جہاز ہند کے لیے روانہ ہونے ولا تھا۔لہذا گنگا رام اور اس کا ایک اور ہندوستانی دوست دونوں ہو روانہ ہوئے۔ گنگا رام اور ا س کے دوست نے ایک اچھی خاصی رقم کمائی تھی جو کہ وہاں کے بینک میں جمع تھی۔ اور جب بینک والوں نے پوچھاک کہو اگر تم سفر میں ہندو ستان پہنچنے سے پہلے مرجاؤ تو تمہارا روپیہ کس کو دیا جائے۔ تو گنگا رام کے دوست نے چونک اس کاکوئی آگے پیچھے نہ تھا لکھوا دیا کہ اگر میں گذر جاؤں تو میرا سب روپیہ میرے دوست گنگار ام کو ملے ۔ اور جب گنگا رام سے یہی سوال کیا گیا تو اگرچہ گنگارام کے گھر والے تھے تو بھی چونکہ اس کے دوست نے اس کا نام لکھوایا تھا ۔ گنگا رام نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ اپنے دوست کرپا شنکر کا نام لکھائے۔ چنانچہ یہ سب لکھا پڑھی کرا کے گنگا رام اور کرپا شنکر دونوں بڑی خوشی سے جہاز پر سوار ہو کے روانہ ہوئے ۔ جب یہ قریب آدھےراستے می پہنچے تو اتفاق سے ایسا ہوا۔ کہ جہاز پر ہیضہ پھیلا اور باوجود ڈاکڑ کی کوشش اور گنگا رام کی تیمار داری کے کرپا شنکر گذر گیا۔ اس سے گنگا رام کو سخت صدمہ ہوا۔ اور کرپا شنکر کےساتھ ہی گنگا رام کے لیے اس جہاز کی ساری رونق اور دلچسپی اُٹھ گئی۔خیر کئی مہینوں کا مرحلہ کر کے جہاز کلکتہ کی اس بندر گاہ میں آپہنچا ۔ جہاں سے گنگارام اور بسنت رام دس سال ہوئے ۔ دہقانی(دیہات یا گاؤں کا باشندہ یا کسان) صورت میں بے پیسہ کوڑی روانہ ہوئے تھے۔ گنگارام نے اپنا اور اپنے مرحوم دوست کرپاشنکر کاسامان جہاز سے اتارا۔ اور بینک میں جا کے اپنا رویپہ معہ اس روپے کے جو کریا شکر بذریعہ وصیت گنگارام کے نام چھوڑ مرا تھا وصول کیا۔ اور دوسرےدن ریل میں بیٹھ کر اپنے گاؤں کی راہ لی۔

تین دن ورات سفر کرکے گنگارام اپنے گاؤں کو پہنچا ۔ اور تمام گاؤں میں شہرہ ہو گیا کہ ’’ارے کالے پانی کا آدمی آیا۔ کالے پانی کا آدمی آیا‘‘۔ کالے پانی کا آدمی گاؤں والوں نے اسکے کالے کپڑے دیکھ کر کہا۔ جو تبدیلیاں گنگارام میں ہو گئی تھیں۔ ان کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں ۔ لہذا کچھ عجب نہیں کہ اس کے گھر والوں نے بھی اسے نہ پہچانا ۔ وہ باہر چوپال میں بیٹھا اور ایک بڑی بھیڑ لوگوں کی اس کے اردگرد جمع تھی۔ پہلے اس کی بڑھیا ماں نکل آئی۔ اور تھوڑی دیرکے بعداسے پہچان کے گلے لگ لگ کے رونے لگی ۔ ا س پر اس کے چچیرے بھائی باہر نکل آئے۔ اور سب مل کر گنگا رام کو اندر لے گئے۔ اس کی بی بی بھی یہاں تھی۔ لیکن اس نے ہندو بیواؤں کا لباس اختیار کرلیا تھا۔ کیونکہ گنگا رام کےلیے سب رو بیٹھے تھے۔گنگا رام کا جو لڑکا دس سال ہوئے دودھ پیتا تھا۔ اب وہ اچھا بڑا ہو گیا تھا افسوس کہ گنگا رام کا باپ اور اس کا چچا گذر چکے تھے۔ جو چچیرے بھائی اس کے سامنے چھوٹے لڑکے تھے۔ اب وہ جوان ہو گئے تھے۔ ایک بڑی تبدیلی گنگارام نے گھر پر پائی ۔ ا س وقت سخت کال ہندوستان میں تھا۔ گنگا رام کی بی بی اور گھر کی سب عورتوں کا زیور جہاجن کے یہاں رہن (گروی) رکھ دیا گیا تھا۔ گھرانا بڑا تھا کھانے والےتھوڑے تھے۔ لہذا ہی سب اس وقت بڑی تنگی میں تھے۔ پوچھ پاچھ او ر خاطر خواہ تواضع کے بعد گنگارام کو گھر کا یہ سب حال ماں نے رو رو کے سنایا ۔ گنگارام نے سب کو دلاسا ( تسلی) دیا اور فوراً بڑا صندوق کھول کے ماں کے سامنے رپیوں کا ڈھیر لگا دیا۔ اب کیا تھا سب کےدل چاندی کو دیکھ کر باغ باغ ( بہت زیادہ خوش) ہو گئے ۔ فوراً اکٹھا اناج خریدا اور زیور بھی چھڑا لیے گئے۔ خیر یہ سب بڑی خوشی سے رہنے سہنے لگے ۔ اور کچھ دن تک گاؤں کی چوپاؤں ( جانورں ) ۔ گلی کوچوں میں لوگوں کی گفتگو کا مضمون گنگا رام ہی تھا۔ بلکہ وہ ایک نمایشی شے بنا رہا ۔


چند روز اس طرح خوشی خوشی میں گذرے پر مشکل یہ تھی کہ گنگا رام پر ایک ایک دن بھاری گذ ر رہاتھا وہ کم از کم پانچ سال کا سچا مسیحی تھا ان لوگوں کی بت پرستی وغیرہ کی برداشت نہ کر سکتا تھا۔ لہذا اس نے ایک دن اپنی بی بی سے راز کھولا۔ کہ میں تو ٹرنیڈاڈ ٹاپو (جزیرہ، خشکی کا وہ قطع جو چاروں طرف سے پانی سے گھیرا ہو) میں مسیحی ہو گیا ہوں۔ اتنا کہنا تھا کہ گویا بار ود میں بتی لگی۔ عورت بد ک کے ایک طرف ہو ئی اور سب گھر والےتھو تھو کرنے لگے۔ سب نے مل کر صلاح د ی کہ جو پردیس میں ہوا سو ہوا۔ روپیہ ہمارے پاس ہے ہی پھر برادری میں لینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ لیکن گنگا رام کو یہ سب باتیں کیونکر گوارا ہو سکتی تھیں؟ وہ اب کیونکر پھر ان باتوں کے سامنے سر جھکا سکتا تھا؟ اس نے ان تمام باتوں سے نہ صرف نکار کیا۔ بلکہ اپنے گھر کے لوگوں کو صلاح دی کہ تم سب مسیحی ہو جاؤ۔ تو ہم سب بڑے میل میلاپ اور سکھ ( چین ) سے رہےگے۔ اور پر لوک (بہشت یعنی جنت) میں سکھ پائینگے۔ طرفین اپنی اپنی جگہ اڑے رہے۔ نہ تو گنگا رام اب پھر ہندو ہوگا۔ اور نہ اس کے گھر کے لوگ ہی پرکھوں کے دھر م ( مذہب ) کو بدلے گے۔ القصہ نتیجہ یہ ہوا کہ گنگا رام کو اپنی جان کی خاطر گھر سے بھاگ کے نزدیک شہر کے مشنری کے ہاں پناہ گیر ہونا پڑا ۔ اب اس کے پاس سوائے کپڑوں کے اور کچھ نہ رہا تھا۔ کیونکہ روپیہ پیسہ سب گھر کے لوگوں میں بانٹ چکا تھا۔

پادری صاحب نے اسے خوشی سے قبول کر کے کام دیا لیکن جب پہلی تاریخ آئی اور تنخواہ کا وقت ہوا ۔ تو گنگا رام کو پانچ روپیہ پادری صاحب نے یہ کہہ کے دئیے۔ کہ بھائی جان میں آپکو زیادہ دینا چاہتا ہوں لیکن درمیان سال کا وقت ہے اس وقت میرے حساب میں زیادہ خر چ کی گنجائش نہیں ۔ خیر گنگا رام کو ذرا مایوسی ہوئی لیکن خدا کا شکر کرکے وہی پانچ روپے قبول کیے۔ اس نے بہت کوشش کی کہ بی بی اور لڑکا ساتھ آئیں۔ لیکن س ب رائیگاں (ضائع، فضول ) ٹھہری ۔کیونکہ اس نے مصمم ارادہ ( پکا ارادہ ) کر لیا تھا ۔ کہ میں سٹانوں کے دھرم میں ہرگز ہرگز نہ جاؤنگی۔ لہذا بذریعہ عدالت اسے طلاق دینا پڑا ۔ اور یوں گھر بار چُھوٹا ۔ زمین جائیداد چُھوٹی ، پیسہ گیا اور نوکری ملی تو پانچ روپے کی لیکن گنگارام مسیح میں ثابت قدم رہا۔ اور اگرچہ بارہا نا امیدی کےبادلوں نے اسے گھیراتا ہم اس کےدل نے کبھی جنبش نہ کھائی۔

گنگارام ایک سال کے بعد مدرسہ علم الہیٰ کو بھیجا گیا۔ او روہاں سے ہوشیارمناد ہو کر نکلا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایک اچھی مسیحی خاتون کےساتھ اس کی شادی ہو گئی۔ اور آج کےدن اس کےپوتے پوتی ہیں۔ اور اس گڈرئیے کو مسیح نے اپنے پیچھے بلا کے اپنے جھنڈ کی گلہ بانی دی ہے۔ ہاں گنگارام نے مسیح کی خاطر بہت مصیبت اُٹھائی اور سب کچھ کھویا۔ لیکن آج اس ہی کی گواہی ہے۔ کہ اس نے سو گنا پایا۔ آج وہ مسیح میں خوش وخرم ہے۔ کیونکہ اس سے مسیح کی قدرت کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ ہم نے اپنے سامعین کو گنگارام کی زندگی کا احوال تفصیل وار کہہ سنایا۔ کہ آپ دیکھیں کہ مسیح کیسا قدرت والا ہے اور اگرچہ وہ فضل اللہ جیسے مولوی کو فضل مسیح بناتا۔ پریم مسیح جیسے غریب کو قدرت بخشتا۔ بلونت کے بل کو اپنے لیے مخصوص کرتا و ہ گنگا رام جیسے دہقانی (دیہات یا گاؤں کا باشندہ یا کسان) کو بھی اپنی طرف کھینچ کے لوگوں کو حیران کرتاہے۔ یہ وہ رائی کا دانہ ہے جس میں چاروں طرف سے ہو اکے پرندے آکے آرام پاتے ہیں۔ آئیے اب بزرگ کی گفتگو کو تثلیث جیسے اہم مضمون پر سن کےخط اُٹھائیں۔

_________________________

روزِ ششم

گفتگو دوبارہ تثلیث

گنگارام ۔اچھا مولوی صاحب۔ فرمائیے تثلیث کی بابت آپ کا کیا اعتراض ہے ۔

مولوی۔ آپ کی تثلیث کی تعیم عجیب ہے۔ آپ تین خدا مانتے ہیں ۔ آپ ہی خیال فرمائیے کہ کونسی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ تین خداؤں کو ماننے والے ہندوؤں اور دیگر بت پرستوں سے کیا بہتر ہو سکتے ہیں؟ آپ کا مسئلہ تثلیث قرآن مجید اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔

گنگارام ۔سنے صاحبان مسیحی مسئلہ تثلیث مختصراً یہ ہے کہ خداایک ہی ہے۔ لیکن اسکی خدائی یا الوہیت (ربانیت) میں تین اقانیم ہیں یعنی خدا تعالیٰ، کلامِ خدا اور خدا کی روح کلام خداانسان بنا۔ پاک روح کے ذریعے کنواری مریم سے پیدا ہوا۔ جو یسوع مسیح کےنام سےکہلایا یہ تمام راز الہیٰ عقل انسان سے باہر ہے۔ لیکن خلاف تو نہیں۔

مولوی۔ تو اب آپ خیال فرمائیے۔ کہ جو بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کو ماننے سے کیا فائدہ ۔ دیکھئے محمدی مذہب کیسا صاف اور سیدھا ہے۔ خدا یک ہی ہے اس کا بھی جو سب نبیوں پر مہر ہے ۔ وہ محمد ہے ۔ یہ بات سب سمجھ سکتے ہیں۔

گنگارام ۔بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ پر تو بھی ہم ان کو مانتے ہیں۔ مثلاً آپ خود اپنے آپ ہی کو نہیں سمجھتے۔ انسان میں عقل ، روح اور نفس مانے گئے ہیں۔ آپ نہیں سمجھتے کہ فانی جسم میں غیر فانی روح کس طرح رہتی ہے۔ تو بھی آپ مانتے ہیں کہ آپ میں روح ہے۔ علاوہ ازیں روح عقل اور نفس تینوں جدا جدا ہیں۔ اور تو بھی آپ کی شخصیت ایک ہی ہے۔ اسی طرح الوہیت میں تین اقانیم ہیں۔ لیکن تو بھی خدا یک ہی ہے۔

مولوی۔روح القدس تو خدا نہیں کیونکہ یہ تو جبرائیل فرشتے کا لقب ہے۔

گنگارام ۔ہاں محمدی اس نام کا اسی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن بائبل میں دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ جبرائیل تو صرف خدا کی مخلوق ہے۔

مولوی۔قرآن مجید میں اس مسئلہ تثلیث کی تائید (حمایت کرنے ولا) میں کچھ نہیں ملتا۔ لہذاہم اس کو نہیں مان سکتے۔

گنگارام ۔ہم مسیحی بائبل ہی کی بنیاد پر اسے مانتے ہیں۔ تو بھی قرآن میں ایک دو باتیں غور طلب ہیں یہ اول تو یہ کہ خدا کا نام اللہ یا لرب ہے۔ جو کہ صیغہ واحد ہے۔ اور تو بھی بارہا لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے صیغہ جمع عائد ہوتاہے۔ کیا اس سے تثلیث نہیں ہوتی۔

مولوی۔ہرگز نہیں۔ لفظ۔ ’’دہم ‘‘ کا وہاں استعمال ایسا ہی ہے جیسا بادشاہ اپنے لیے ہم کااستعمال کرتے ہیں۔

گنگارام ۔اس کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ اگر قرآن خدا کا دیا ہواہے ۔ تو اس میں کوئی بھی لفظ بے معنی نہیں ہو سکتاہے۔

مولوی۔کچھ بھی ہو یا بات عقل میں نہیں آسکتی ۔ کہ ایک ہو اور پھر تین۔

گنگارام ۔اس کا عقل میں نہ آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ تثلیث خداوند ہے ۔ کیونکہ جو بات انسان کی عقل میں نہیں آتی ۔ تو وہ اس کو بنا نہیں سکتا۔

ذرا اور خیال فرمائیے۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ خدا کے اوصاف میں ایک وصف (خوبی، صفت) یہ بھی ہے کہ وہ الودود یعنی پیار کرنے وال ہے؟

مولوی۔ ہاں وہ یہ صفت رکھتا ہے۔

گنگارام ۔تو پھر کیا اس کا یہی مطلب نہیں کہ خدا میں صفت االواحد ہے۔ یعنی اس کی محبت خالص اور بے ریا ہے۔ جیسے گویا وہ باپ کی اپنے بچوں کی طرف ہوتی ہے۔

مولوی۔ہاں فرمائیے۔

گنگارام ۔اچھا تو محبت کی صفت خدا میں ہمیشہ سے ہے یا کسی وقت بعد میں اس میں پیدا ہوگئی؟


مولوی۔ضرور شروع ہی سے ہوگی۔

گنگارام ۔تو پھر محبت کےلیے کوئی دوسری شے ہونے چاہیے ۔ ک جس سے محبت کی جائے۔ آپ بتائیے کہ خلقت کے خلق کئے جانے سے پیشتر خدا نے کس سے محبت کی؟

مولوی۔وہ اپنے آپ سے محبت رکھتاتھا۔

گنگارام ۔کیا صرف اپنے ہی سے محبت کرنا کوئی اچھی صفت ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اپنے ہی سے محبت کرے۔ اسے ہم اچھا آدمی کہینگے یا خود غرض۔

مولوی۔ہاں تو وہ فرشتوں سے محبت رکھتاتھا۔

گنگارام ۔لیکن فرشتے تو شروع ہی سے تھے نہیں۔ وہ بھی تو خداکی خلقت ہیں۔

اگر محبت ایک اچھی صفت ہے۔ اور خدا کی ذات میں ہمیشہ سے پائی جاتی ہے۔ تو یہ اقانیم کے ہونے کی دلیل ہے اور تثلیث کا مسئلہ ہی اس معمے کو حل کرتا ہے۔

علاوہ ازیں آپ خود مسیح کو کلام اللہ اور روح اللہ کہتے ہیں کہ نہیں؟

مولوی۔ہاں لقب ان کے ہیں ۔ مگر یہ محض لقب ہیں ۔ان میں اور کچھ راز نہیں ہے۔

گنگارام ۔لقب دو طرح سے دئیے جاتے ہیں۔ یا تو صحیح معنی رکھتے ہوئے یا غلط اگر کوئی آپ کو سلطان ٹرکی کا لقب(خطاب) دے۔ اب آپ بتائیے کہ قرآن میں یسوع کو کلام اللہ اور روح اللہ کا لقب کس نے دیا؟

مولوی۔اللہ نے ۔

گنگارام ۔آپ خدا کو الحق کہتے ہیں۔ اور ٹھیک کہتے ہیں۔ کیا جب خدا یسوع کو اپناکلام اور روح کہتاہے تو وہ حق کی بات کہتاہے۔


مولوی۔بےشک ۔ کیونکہ خدا میں دروغ (جھوٹ، کذب، بہتان) نہیں ہے۔

گنگارام ۔تب اس سے ثابت ہو گیا کہ یسوع در حقیقت کلام اللہ اور روح اللہ ہے ۔ اب ذرا آپ تو یہ بتائیے کہ لفظ’’ کلمہ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ خواہ کسی کا بھی کلمہ کیوں نہ ہو؟

مولوی۔کلمہ سے مراد وہ بات ہے جو کسی کے دل کی با ت ظاہرکرے۔

گنگارام ۔درست ہے کلمہ دل کا اظہار ہے۔ اور چونکہ مسیح کلام اللہ ہے وہ خدا کا اظہار ہے ۔ جس طرح کلام کلام کنندہے جدا نہیں اسی طرح مسیح خدا س سے جدا نہیں لہذا وہ خدا ہے ۔ لقب روح اللہ سے بھی مسیح کی الوہیت (ربانیت) ثابت ہے۔

ہم تثلیث کے ثبوت میں دلیل پیش کر رہے ہیں۔ اور سنیئے۔ آفتاب (سورج) میں گرمی اور روشنی دو اصاف (وصف، خوبی) ہیں ۔ ان کے بغیرآفتاب آفتاب نہیں۔ یہ تینوں ایک طرح تو جُدا جُدا ہیں۔ تو بھی ایک ہیں ۔ جس طرح آفتاب اپنے آپ کو اپنی روشنی ظاہر کرتاہے ۔ اسی طرح خدا مسیح کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرتاہے ۔ چنانچہ لکھاہے کہ ’’خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے۔ اسی نے اظہار کیا۔‘‘ (یوحنا ۱:۱۸)۔

عزیز ناظرین چونکہ آج اس گفتگو کا آخری روز ہے۔ مجھ بڈھے کو یہ شرف (اعزاز) حاصل ہوا کہ آپ سے اہم مضمون پر گفتگو کروں ۔ اب تھوڑا وقت اور ہےکہ ہم سب جدا ہونگے۔ آپ اپنے گھر جائینگے ہم اپنے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس مسیح سے جس کی بابت ہم نے ان دنوں میں اتنی تفتیش(چھان بین) کی ہے کیا کرینگے؟ کیا مسیح کی نظیر (مثال ) دنیا کی تاریخ میں کہیں ملتی ہے؟ کیا کوئی شخص سوائے مسیح کے اور بھی ایسا ہوا جس نے گنہگار انسان کےلیے اپنی جان دی۔ اور مردوں میں جی اُٹھا۔ مسیح آپ کےلیے مرا جی اُٹھا اور آج ان سب کو جو بڑے بوجھ سے دبے اور محنت اُٹھاتے ہیں وہ اپنے پاس بلاتاہے کہ آرام دے میرے بھائیوں یہ زندگی ہم کو بار بار نہ ملےگی۔ پھر موقع نہ ملے گا ۔ میں بُڈھا آج آپ کے سامنے شخصی گواہی دیتاہوں۔ کہ مسیح سے دور ہو کے آرام نہیں ہے۔ اس نے مجھے عجیب طور سے اپنی طرف کھینچا اور اپنا خادم بنایا۔ آپ سن چکے ہیں کہ مسیح نے فضل اللہ پر کیسا فضل کیا۔ پریم مسیح کو اپنے پریم کے بندھنوں سے باندھا ۔ بلونت جیسے جوان کو اپنے نام کی خاطر کیسی کیسی مصیبت برداشت کرنے کو بل دا۔ اور مجھ غریب ناخواندہ(ان پڑھ) دہقانی(دیہات یا گاؤں کا باشندہ یا کسان) کو بھی اپنی بڑی رحمت سے اپنابنایا۔ جو اس نے ہم سب کے اور دیگر بےشمار لوگوں کے لیے ہر زمانے میں کیا وہ آج آپ کےلے بھی کر سکتاہے۔ مولوی محمد حسین صاحب آپ کچھ بھی کیوں نہ کہیں آپ کی نجات صرف مسیح ہی سے ہے۔ افسوس صد افسوس اگر آج آپ اسے قبول نہ کریں۔ بحث مباحثہ سے چنداں فائدہ نہیں۔ حق (سچ) کی تلاش کرنا چاہیے۔ مسیح کہتاہے۔ ’’ راہ حق اور زندگی میں ہوں‘‘۔ وہ معصوم برہ ہے جو جہان کے گناہ اُٹھا لے جاتاہے۔ آج ہی اور ابھی اسے قبول کیجئے۔


اتناکہہ کے ہمارا بزرگ بیٹھ گیا۔ جو اثر پھڑیر ہوا اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔ مولوی محمد حسین کے دل میں وہ ابتدائی مسیحی تعلیم زور مار رہی تھی جو اس نے مشن سکول میں پائی تھی۔ باربار دل میں ایسا کرتا تھا کہ بس اُٹھ کے مسیح کا اقرار کرنا چاہیے وہ مسیحی مذہب کی صداقت کا بالکل قائل نہ تھا کیونکہ جہاں خدا کی روح زور مارتی وہاں شیطان بھی اپنا کام کرتا ہے۔ محمد حسین نے اپنے جذبات کو روکا ۔ اور سلام کے گھر چلا گیا۔ اس میں تاب (ہمت) نہ تھی کہ اور زیادہ گفتگو کرے۔ اس کےساتھیوں پر بھی صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ ان مسیحیوں سے بحث چھیڑ کے ہم نے اپنا ہی نقصا ن کیا۔ ایک عجیب سنجیدگی لوگوں پر چھوئی ہوئی تھی۔ مسیحی منادوں نے ادب سے سب سننے والوں کاکو سلام کیا اور اس قدر تحمل سے سننے کےلیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور دعوت دی کہ اگر آپ لوگوں میں سے کوئی بھی مسیحی مذہب کی بات اور روشنی حاصل کیا چاہے۔ تو مکان پر آئے اور ہم بخوشی مدد کرینگے۔ سب رخصت ہوئے اور مناد بھی بمسرت ( خوشی سے) گھر گئے۔ دوسرےروز پادری گنگا رام نے سب کو گرجا گھر میں جمع کرکے ایک عبادت شکر گزاری کی کی اور مولوی محمد حسین اور ان سب کےلیے جنہوں نے ان کےکلام کو سناتھا دعائیں کی گئیں۔

اب ہم اپنے ناظرین کو تھو ڑی دیر کےلیے محمد حسین کی طرف پھر توجہ دلاتے ہیں ۔ محمد حسن کے دل میں بے چینی نے بڑا زور مارا۔ لیکن وہ باربار اپنے دل کو دباتا اور ان کے خیالات کو دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک عجیب تبدیلی اس کی زندگی میں ہو گئی تھی۔ جو کہ اس مکمل تبدیلی کا شروع تھی۔ جو اس میں بعد کو ہونےوالی تھی۔ وہ اگرچہ اب رسیمہ طور پر روزہ نماز کرتا رہاتو بھی اس کا دل ان باتوں میں مطلق نہ لگتا تھا۔ اب دیگر مسلمان مولویوں وغیرہ کے درمیان اتنی آمدورفت(آنا جانا) بھی نہ رہی۔ اور اس کےجان پہچان کےلوگ ذرا حیرت کی نظر سے اسے دیکھنے لگے ۔ ہوتے ہوتے اس بات کو دو سال ہو گئے۔ اسوقت سارے گاؤں میں طاعون(ایک مہلک اور متعدی وبا جس میں چھاتی، بغل یا خیصے کے نیچے گلٹیاں نکلتی ہیں اور تیز بخار ہوتا ہے) کی وبا پھیلی اس بےچارے محمد حسین پر سخت مصیبت آئی۔ والدہ کی موت کا داغ تو محمد حسین کو ایک سال گذرا لگ ہی چکا تھا۔ کہ یکا یک اس کےوالد طاعون(ایک مہلک اور متعدی وبا جس میں چھاتی، بغل یا خیصے کے نیچے گلٹیاں نکلتی ہیں اور تیز بخار ہوتا ہے) کا شکار بنے ۔ اس سے اسے سخت صدمہ پہنچا ۔ لیکن موت ابھی اس پر اور دھاوا (حملہ) کرنے والی تھی۔ کیونکہ چند ہی روز میں اسکی عزیز بی بی کو بخار آیا۔ گلٹی معلوم ہوئی اور بہت دھوڑ دھوپ (بھاگ دوڑ) کرنے پر بھی وہ اسے تین دن سے زیادہ نہ روک سکے۔ محمد حسین ان صدموں سے دیوانہ سا ہو گیا۔ اور دراصل اس کی حالت نہایت درد ناک تھی۔ چھوٹے چھوٹے دو بچے اس کے پاس تھے۔ اور ان کی صورت دیکھ دیکھ کے اسے بہت رونا آتا تھا۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ کہ جب انسان پست ہمت (پریشان اور بنا ہمت اور حوصلہ کے) اور لاچار ہوتاہے تو خدا کو اس می کام کرنےکا موقع ملتاہے۔ پادری صاحب سے محمد حسین کی ملاقات تو تھی ہی ۔ پس جب انہوں نے اس کی مصیبت کی خبر سنی ۔ وہ فوراً اس کے مکان پر اآئے ۔ اور انجیل سے پڑھ پڑھ کے نہایت تسلی کی باتیں اسے سنائیں اور مسیح کو اس خوبی سے اس کےآگے پیش کیا کہ محمد حسین سے پھر رہا نہ گیا۔ اور فوراً بول اُٹھا کہ بس اب دیر نہ کیجئے۔ مجھ اور میر ے دونوں بچوں کو مسیحی بنا لیجئے۔ میں چاہتاہوں کہ میں ان تمام مقامات میں جہاں میں نے مسیح کی مخالفت کی ہے جا کے مسیح کی شہادت دوں۔ اس پر پادری صاحب فوراً اسے اوراس کے بچوں کواپنے گھر لے آئے۔ اور مشن احاطہ کے خاص خاص مسیحیوں سے اس کی ملاقات کرائی ۔ ان سبھوں نے اسکی بڑی آؤ بھگت (میزبانی) کی اور اسے بڑی تسلی دی ۔ اسی ہفتے میں محمد حسین کے دونوں بچے مسیحی جماعت میں شریک کئے گئے۔ محمد حسین کے بچے مشن سکول میں تعلیم پانے لگے اور وہ خود علم الہیٰ کی اعلی تعلیم کے مدرسہ علم الہیٰ کو بھیجا گیا۔ جہاں وہ مسیح کےلیے زبر دست آلہ بن گیا۔ اس کی شادی بھی ایک نیک مسیحی خاتون کے ساتھ ہو گئی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب بذریعہ تار بزرگ پاسٹر گنگارام اور ان منادوں کو جن سے محمد حسین کی بحث اس چبوترے (مربع یا مستطیل بنائی ہوئی اونچی جگہ جہاں پر لوگ بیٹھتے ہیں) پر قریب دو سال کے گذرے ہوئے تھی خبر دی گئی۔ کہ محمد حسین اور اس کےدو بچے مسیحی ہو گئے تو انہیں بہت خوشی حاصل ہوئی۔ آج ہم مولوی محمد حسین کو جگہ بہ جگہ مسیح مصلوب کی گواہی دیتے ہوئے پاتے اور جانتے ہیں کہ ’’آسمان کی بادشاہت اور خمیر کی مانند ہے۔ جسے کسی عورت نے لے کر تی پیمانے آٹے میں ملا دیا اور ہوتے ہوتے سب خمیر ہو گیا۔‘‘ (متی ۱۳:۳۳) یہ خمیر محمد حسین میں ایک چھوٹے سے مشن سکول کے استاد کے ذریعے گویا ملایا گیا۔ اور آج تو محمد حسین سب خمیر ہے۔ اے مسیحٰ کا ر گذار ’’اپنی روٹی پانیوں پر ڈال دے اور بہت دن بعد تو اسے پھر پائے گا۔‘‘ ( واعظ ۱۱:ا)

_________________________

مسیحی پریس لاہور میں مسٹر غلام قادر مسیحی پرنٹر ومالک مسیحی پریس کے اہتما م سے چھپا

اور

مسٹر ایف ۔ ڈی۔ وارث سکرٹری پنجاب رلیجس بک سوسائٹی لاہور نے شائع کیا۔

ختم شدہ

-------------