A Journey to the

City of Hyderabad Deccan

A Collection of J. Ali Bakash’s Dialogues & Lectures with the Islamic Community
Professor of
St. John’s Divinity College Lahore

سفرِ دکن

جس میں وہاں کے بعض مقامات کا دلچسپ بیان اور چندالیکچر جو اہل اسلام کے لئے مختلف جگہوں میں دئیے گئےاور اُن مباحثوں کا مختصر احوال جو وہاں کے بعض مسلمانوں سے ہوئے مندرج ہیں۔

علامہ پادری جے علی بخش


سفر دکّن

پہلا باب
ریل کا سفر

موسم برسات اور چاندنی رات میں نوجوانوں کےدلوں کے ولولے نہ مثل پوار بلکہ موسلادھار بارش کی صورت میں بہ نکلتے ہیں۔ قدرت نے بھی عجیب ہمدردی اورموافقت اس حالت سے دکھائی ہے۔میوجات جواس موسم میں پیدا ہوتے ہیں وہ اس مثل کے انوکھے معنی کے مصداق ہیں۔ کہ دریا کوزہ میں بند ہے ۔ پنجا ب آموں کے باعث مشہور ہے۔ آم وہ پھل ہے کہ بچے سے بوڑھے تک ہر ایک اس کا مزہ اٹھاتاہے۔ رَس کو زہ میں بند ہوتاہے۔اور برسات کے شروع ہوتے ہی اس رَس کی ندیاں بہ نکلتی ہیں۔ باغوں کی سیر ہوتی۔ آموں کی پچکاریاں دوستوں کی طرف چھوڑی جاتیں اور اس کے رَس سے گویاہوری کھیلی جاتی ہے۔یا یہ کہو کہ سربستہ رازوں کی مہریں توڑی جاتی ہیں اور دلی خیال اُچھل اُچھل کر دوسروں کے دلوں کو نہال کرتے ہیں۔ اہل فارَس نے اس کے لئے یہ چیستاں بنائی ہے۔

یک عجائب عجب دیدم درمیاں بوستاں
پوست اوبر موئے دیدم موئے اوبرا شخواں

یعنی باغ میں ایک ایسی عجیب چیز میں نے دیکھی کہ اُس کا چمڑا بالوں پر تھا اوراُس کے بال ہڈیوں پر تھے۔

لیکن اس دل بہلانے والے موسم میں یہاں گرمی بھی خوب پڑتی ہے ۔ پسینے سے کپڑے تربتر ہوتے رہتے ہیں دراصل یہ موسم کپڑا پہننے کا نہیں۔ جب فطرت رقص میں آجائے ۔ تو انسان کیوں دامن چاک کرکے اُس کے ساتھ شریک رقص نہ ہو۔پر انسان بیچارہ مجبور ہے۔ ادھر موسم کا یہ تقاضا اُدھر سوسائٹی اور تہذیب کی بندش ۔خاص کر ایسے زمانہ میں جب فن نے فطرت پر فتح حاصل کرلی ہو۔ کیا مجال کہ انسان عرُیان رہ سکے ورنہ تہذیب اُس پر وحشی پن کا فتویٰ دے کر دین ودنیا سے مردودکردینے اس لئے ہر وقت چارجامہ رہنا اور دُمچی قازہ پوزی سب کو درست رکھناضرور ہے۔

اس موسم میں اگست کا مہینہ ایک سخت مہینہ ہے۔خاص کر جب برسات کافی نہ ہو۔ اس مہینے کی آٹھویں تاریخ بروز پیر ۱۹۰۴ء کو مجھے حیدرآباد دکّن کی طرف روانگی کا اتفاق ہوا۔ اس وقت لاہور میں گرمی ۹۰، ۹۴ کے درمیان تھی۔ اور حیدرآباد میں ۷۰، ۷۴ کے درمیاں۔ چند کپڑے کتابیں کونیں لیکر بمبئی ڈاک گاڑی میں ۳ بجے شام کے لاہور سٹیشن سے سوار ہوا۔ شام کو چھاؤنی جالندھر میں شب باش ہوا۔وہاں میرا چھوٹا بھائی کمسریٹ میں کام کرتا تھا۔ اُس کے ساتھ ایک روزرہ کر شام کو گاڑی پرسوا ر ہوا۔اس روز خوب بارش ہوئی ۔لاہور بیچارہ مصیبت کا مارا اس برسات کو کیسا ترَس رہا تھا۔ دعا کی کہ لاہور بھی اس برکت باراں سے محروم نہ رہے۔ اب تو ریل تھی یا میں تھا۔ چلا چل ۔ دہلی سے گزرے آگرہ کے لال قلعہ کے دامن سے ہوتے ہوئے جھانسی، بھوپال پر نظر مارتے ہوئے گوالیار کا قلعہ نظر آیا۔ جو پہاڑی پر بستاہے روایت ہے کہ قدیم زمانہ میں دیووں نے یہ بنایا تھا۔ کبھی یہ مضبوط قلعہ ہوگا۔ لیکن توپوں کے سامنے اس کی کچھ وقعت نہیں۔ جبکہ اس کے بالمقابل ایک اونچی پہاڑی ہے جس پر توپ نصب کرنے سے قلعہ کے عین اندر گول


گولہ مارسکتے ہیں۔ ریل اس کے تقریباً تین پہلو دکھادیتی ہے۔وہاں سے گوالیار کے جنگل میں سے گذر کر کھنڈوابھوسوال وغیرہ ہوتے ہوئے منمار سٹیشن پر اترا وہاں بمبئی ڈاک گاڑی چھوڑ کر حیدرآباد سٹيٹ ریلوئے پر سوا ر ہونا تھا۔یہاں سرکار کی طرف سے بابولوگ مقرر ہیں کہ اسباب کی تلاشی لیں۔ چنانچہ بستر اور صندوق کھول کر دکھایا گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بعض لوگ چنڈوگانجا وغيرہ چھپا کر بیچنے کےلئے حیدرآباد وغيرہ کی طرف جاتے ہیں اس لئے سب مسافروں کی بلا امتیاز تلاشی ہوجاتی ہے ۔ سچ ہے ۔

چواز قومے یکے بیدانشی کرو
نہ کہ رامنزلت ماند نہ مہ را

ریلوئے کی یہ شاخ نئی نکلی ہے۔تقریباً دوسال سے یہ ریل جاری ہے ۔ گاڑیاں عمدہ بنی ہوئی ہیں۔ تیسرا درجہ یہا ں کا پنجاب کے دوم درجہ کو مات کرتا معلوم ہوتا تھا۔ انجن کی سیٹی متفرق تھی شائد اس لئے کہ انگریزی اور دیسی ریل میں سیٹی ہی سے فرق معلوم ہوجائے۔ چند سٹیشنوں کے گزرنے کے بعد اور رنگ آباد کا سٹیشن آیا۔ نام سنتے ہی اُس زبردست مشہور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا سماں آنکھوں کے سامنے چھاگیا۔ وہ شعریاد آیا۔

اے سکندر نہ رہی تیری بھی عالمگیری
آپ دو دن نہ جیا کس لئے دارا مارا

یہ وہ اورنگ زیب بہادر جس نے اپنے بڑھاپے میں دکن کو فتح کیا اور فروری ۱۷۰۷ء کو اورنگ آباد میں دفن کیا گیا۔ اس نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ اس کے جنازہ پر ساڑھے چارورپیہ سے زيادہ نہ خرچ ہو۔ یہ ساڑھے چارروپیہ اُس نے دوٹوپیاں بیچ کر حاصل کئے تھے جس کو اُس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا۔اور آٹھ سو پانچ روپے اُن قرانوں کو بیچ کر کمائے تھے جو اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھے تھے۔یہ رقم اُس کی وصیت کے موافق غریبوں میں تقسیم کردی گئی ۔ اس اورنگ زیب عالمگیر کا مقبرہ عالیشان اس اورنگ آباد میں موجود ہے جس کی زیارت کےلئے بہت لوگ دور دور سےآتے ہیں۔یہاں ایک پانی کا انتظام قابل دید ہے ۔ غالباً اورنگ زيب کے عہد سلطنت میں کسی جگہ سے پانی شہر میں لایا گیا۔اور گھر گھر رواں ہے۔ ابھی تک یہ ظاہر نہیں کہ کہاں سے یہ پانی آتاہے اس کا انتظام ایک خاص فرقے کے سپرد ہے جو پشت درپشت اس کی نگرانی کرتے ہیں اور دوسروں پر اس راز کو کوظاہر نہیں کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ واٹر ورکس کا انتظام قدیم لوگوں سے چھپا نہ تھا۔ البتہ انہوں نے ایسے فوائد کو مخصوص جگہوں میں محدود رکھا۔ آج کل وہ فوائد عام کردئے گئے ہیں۔یہاں سے گذرتے ہوئے اسکندریہ آباد پہنچے۔ راہ میں سوائے چکوترہ کے کوئی پھل نظر نہیں آیا اور سوائے چنوں کے اورکچھ بکتا نہیں پایا۔ البتہ ہوٹل میں کھانے کا انتظام سے گومہنگا ہے۔ پھر اسکندرآباد پہنچے یہ سکندر آباد بڑی بھاری انگریزی چھاؤنی ہے۔ حیدرآباد کی مدد کے واسطے کسی بغاوت کے فر د کرنے کے لئے غالباً انگریزی فوج منگوائی گئی تھی۔ اس نے وہیں چھاؤنی ڈالدی۔گواب ظاہر اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ مستقل چھاؤنی ہے ۔ اس کے خرچ اخراجات کی حامل ریاست حیدرآباد ہے ۔ اس میں چند مشن آجکل کام کرتے ہیں۔ ایس ۔ پی ۔ جی مشن اور

ویسین چرچ بہت مضبوط ہیں۔ سپر ٹنڈنٹ پادری ایس۔ پی جی مشن کے ایک دیسی صاحبہ ہیں جو اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ انجمن پرہیزگاری بڑے زور شور سے کام کررہی ہے۔ اس کا انتظام برہمو سماج کے متعلق ہے ۔ اس اسٹیشن پر آدھے گھنٹے کے قریب گاڑی ٹھیر کر چند منٹوں میں حیدرآباد پہنچی اورمیں منزل مقصور پر پہنچ گیا۔


دوسرا باب
حیدرآباد

۱۲اگست ۱۹۰۴ء کو میں حیدرآباد پہنچا۔ اورمشن ہوس کا راہ لیا۔ وہاں پادری گولڈ سمتھ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ یہ صاحب آنریری مشنری چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے یہاں چند سالوں سے ہندوستانی بولنے والے لوگوں میں کام کرتے ہیں ۔لاغر لیکن دراز قد چہرہ سے ریاضت ونفس کشی کے آثار ظاہر تھے۔ سادہ طور ووضع کے باعث ہرکس وناکس کے دل میں اُنہو ں نے گھر کرلیاہے ۔ محمدی اُنہیں ولی کہتے ہیں ۔ اورہوس رکھتے ہیں کہ ایسے شخص محمدیوں میں بھی پائے جائیں۔ اُن کی مہربانی سے مجھے یہاں آنے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے اخراجات کے یہ متحمل ہوئے ۔اپنے گھر میں کمرہ رہنے کو دیا اپنے ساتھ کھانے کا انتظام کیا دیسی غذا کو مد نظر رکھا ایک رکابی چپاتی یا چاول کی ضرور ہوتی۔ تاکہ میں انگریزي کھانے سے آکتا نہ جاؤں۔ اُن کی خوش سلوکی اور خوش خلقی نے راہ کی رنج وکوفت کو چشم زدن میں اڑادیا ۔ یہاں ایک پرانے دوست بھی ملے جو باغ مہاں سنگھ میں رہ چکے تھے۔ اب ریاست میں ملازم ہیں۔ ان کے چچا محکم چند صاحب اچھے عہدہ پرممتاز تھے۔ ان کے رسوخ کے باعث ہیم چندر صاحب کو بھی اُسی دفتر میں جگہ مل گئی۔ یہ پادری تارا چند صاحب اجمیری کے صاحبزادہ ہیں۔ خلیق ، فروتن اورملنسار ہیں۔ ان کی ملاقات کرانے میں نہایت مدد دی۔ جمعہ کو آرام کیا۔ سنیچر کے روز مسز نندی اور ڈاکٹر نندی صاحب کی ملاقات کےلئے گیا۔ مسز نندی ڈاکٹر چٹرجی صاحب ہوشیار پوری کی صاحبزادی ہیں۔ ان کا خاندان خاطر تواضع مسیحی محبت اورنمونہ کے لئے پنجاب میں مشہور ہے۔ اس خاندانی خوبیوں پر مسزنندی نے اور بہت خوبیاں بڑھائی میں جن کے باعث ان کا گھر حیدرآباد میں مسیحی گھر کا نمونہ بن گیاہے۔پنجابیوں سے خاص اُنس ہے۔ گویا اُن کی تو یہ پناہ گاہ ہیں۔ ان کی مدد کےلئے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ ڈاکٹر نندی صاحب بھی نہایت لائق سنجیدہ مزاج اور کم سخن شخص ہیں۔ ان سے ملاقات کرکے طبیعت کو نہایت فرحت حاصل ہوئی اور پنجاب کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ دوسرے روز اتوار تھا۔صبح شام دونو وقت اتوار کووعظ کرنے کا موقع ملا۔ صبح کو مکاشفہ ۲۔۱سے ۱۲تک پر وعظ کیا۔خُداوند نے جو پیغام افسس کی کلیسیا کو دیا تھا وہ پیغام حیدرآباد کی ہندوستانی کلیسیا کو سنایا گیا۔ شام کو یوحنا ۱: ۵۳ پر وعظ کیا اور بتایا کہ کس طرح آسمان کے کھلنے کا مسیحیوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ شاید اس مقام پر حیدرآباد کا کچھ حال لکھنا خالی از لطف نہ ہوگا۔

یہ شہر ریاست حیدرآباد کا دارالخلافہ ہے۔ میر محبوب علی خاں صاحب بہادر نظام حیدرآباد ہیں۔ بڑے فیاض رحمدل رعایا پرور اورحلیم مزاج ہیں۔ شیر کے شکارکا خاص شوق رکھتے ہیں جابجا تصویریں دیکھنے میں آتی ہیں جن میں بندگان عالی شیر کا شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لقب نظام اورنگ زیب کے زمانے میں کلک خا ں صوبہ دار دکن کو ملا ۔ یعنی وہ آصف جاہ نظام الملک کہلایا۔ یہ نورانی شریف خاندان سے تھا اُنہوں نے حیدرآباد ریاست کی بنیاد ڈالی یہ تجربہ کا مدّبر اوربہادر شخص تھا۔ محمد شاہ کے زمانہ میں یہ دکن کے مالک ہوگئے۔ پھر ۱۷۲۲ء میں دکّن سے اکثر شہنشاہ کے وزیر مقرر ہوئے لیکن بادشاہ کی عیاشی، لاپروائی اور غفلت سے دق ہوکر ۱۷۲۲ء میں واپس دکّن کو چلے گئے اور حیدرآباد کو جوقطب شاہی خاندان کا قدیم صدر مقام تھا ۔ اپنا دارالخلافہ بنایا۔ اس وقت سے لے کر اس ریاست نے ترقی کی۔ جب مرہٹوں کے مقابلے میں سوائے نظام الملک کے اور کوئی اس مہم کو سر انجام دینے والا نظر نہ آیا۔ اُسے بہت وعدے دے کر بلایا اس وقت اس بزرگ کی عمر ۹۳ سال کی تھی۔ مرہٹوں سے مجبور ہوکر صلح کرنی پڑی ۔ یہ وہی زمانہ ہے جب نادر شاہ نے ہند پر حملہ کیا۔ دہلی کو لوٹا اور سارا مال اسباب اور شاہی خزانہ لے کر واپس گیا۔ نظام الملک بہادر نے ایک سوچار سال کی عمر میں وفات پائی ۔ اس کا بڑا بیٹا دہلی کے دربار میں تھا ۔ چھوٹا بیٹا نظیر جنگ سر لشکر تھا۔ اُس نے فوراً شاہی خزانوں پر قبضہ کرکے اپنے تئیں نظام مشتہر کیا لیکن اُس کا بھتیجا مظفر جنگ دعویدار ریاست ہوا اوراُس نے چاندوصاحب اور فرانسیسی ڈوپلے صاحب کے ساتھ سازش کرکے نظیر جنگ سے مقابلہ کیا۔ مگر قسمت یاور نہ ہوئی شکست کھا کر قید ہوگیا پھر نظیر جنگ اور ڈوپلے صاحب میں جنگ ہوئی اور نظیر جنگ قتل ہوا۔اور مظفر جنگ صوبہ دار دکن مقرر ہوا۔ اور ۱۸۵۱ء میں فرانسیسی فوج


کے ہمراہ حیدرآباد میں داخل ہوا۔ لیکن سازش سے مارا گیا۔ بوسے فرانسیسی جنرل نے صلابت جنگ کوجونظیر جنگ کا بھائی تھا فوراً صوبہ دار دکن مقرر کردیا۔صلابت جنگ کا بھائی نظام علی وزیر تھا لیکن نظام علی نے اپنے بھائی کو مروڈالا ۔ اور خود صوبہ دار دکن بن گیا۔ ۱۷۶۶ء میں نظام نے انگریزوں سے عہد وپیمان کیا جس میں انگریزوں کی طرف سے یہ شرط تھی کہ ہم ایک قوی فوج سے اُس کے سلطنت کے ہر کام کے سرانجام دینے میں جوراست ومناسب ہوگا مددینگے ۔ اُس وقت مدراس کی حکومت مسٹر پلک کے ہاتھ میں تھی جو پہلے بطور چپلین کے ہندوستان کو آیا تھا۔ لیکن طمع دنیاوی سے اپنے پادری پن کو جواب دے کر سرکاری ملازمت اختیار کیا اور بڑا مال ودولت حاصل کرکے انگلستان میں بیرونٹ(Baronet) کا درجہ حاصل کیا۔ نظام حیدرآباد نے ۱۷۶۷ء میں حیدر علی غاصب سے انگریزوں کے خلاف سازش کی لیکن چنگم میں شکست پائی پھر بنگال سے انگریزی فوج نے آن کر ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا نظام علی یعنی نظام حیدرآباد ۔ اور اب گھبرایا اورحیدر علی کا ساتھ چھوڑ کر انگریزوں سے صلح کی درخواست کی ۔ چنانچہ۳فروری ۱۷۶۸ء کو عہد نامہ لکھا گیا۔ جس میں نظام کو چارعلاقوں کے عوض سات لاکھ روپیہ دینا منظور کیا گیا۔ انگریزوں نے یہ وعدہ بھی کیاکہ جب ضرورت ہو تو دوپلٹنوں چھ توپوں کے ساتھ جو یورپین افسروں کے ماتحت ہونگی نظام کی مدد کرینگے۔نظام علی نے اپنے بھائی بصالت جنگ کو گنتور کا علاقہ دیا تھا۔ اب یہ قرار پایا کہ بعد وفات بصالت جنگ وہ علاقہ سرکار انگریزی کے قبضے میں آجائے۔ لیکن اگر وہ سرکار انگریزی کے کسی دشمن کو پناہ یا مدددیگا توسرکار فوراً اُس پر قبضہ کرلیگی ۔ مگر اس نے فرانسیسی افسروں کے ماتحت ایک فوج تیار کی اورآخرکار سرکار کمپنی بہادر کو اپنا سارا علاقہ دیدیا۔ اور فرانسیسی افسر نکالے گئے اور انگریزی فوج کا دستہ رکھا گیا اوراس انتظام کی خبر نظام حیدرآباد کو دی گئی ۔اور نیز سات لاکھ روپیہ سالانہ نظام کو دینا منظور کیا تھا۔ وہ چند سالوں سے ادانہ ہوا تھا۔ اُس کا بھی تقاضا ہوا۔ اس سے نظام بڑا ناراض ہوا اور مرہٹوں اور حیدرعلی کے ساتھ سازش کی ۔ تاکہ انگریزوں کی طاقت دکن میں توڑ ڈالیں مگر گورنر جنرل وارن ہیسٹنگر کو جب پتا لگا تو اُس نے حیدرآباد کو مدراس گورنمنٹ سے علیحدہ کردیا گنتور کا علاقہ نظام کو واپس دیدیا اور روپے کے ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا اس طرح سے یہ سازش ناکام رہی ۔ لیکن چونکہ نظام نے بصالت جنگ کی موقوف کردہ فرانسیسی فوج کو نوکر رکھ لیا تھا۔ اوریہ خلاف عہد تھا ۔ تو سرکار انگریزی نے اُس سے درخواست کی یہ فوج نکال دی جائے تب یہ روپیہ ادا کیا جائيگا۔ ۱۷۸۸ء میں نظام علی کا ارادہ سلطان ٹیپو سے عہدوپیمان کرنے کا تھا۔ لیکن سلطان ٹیپو چونکہ حسب نسب کے لحاظ سے ادنیٰ درجہ کا تھا اس لئے نظام اس درخواست سے سخت ناراض ہوگیااور انگریزوں کے ساتھ ہی ملا رہنا چاہا۔ انگریزوں نے وعدہ کیا کہ مالا گھاٹ کا علاقہ جب ان کے ہاتھ آئيگا تو وہ نظام کو دینگے اور ۱۷۶۸ء کے معاہدوں کے مطابق ہردشمن کے مقابلہ میں اُس کی مدد کرینگے اوراگلے سال نظام نے دس ہزار فوج سے لارڈکارنوالس کو ٹیپو کے مقابلہ میں مدد دی۔ لیکن ۱۷۹۳ء میں نانافرنویس مرہٹوں کے سردار نے نظام کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور نظام نے حسب معاہدہ سرجان شور سے مدد طلب کی لیکن وہاں سے انکار ہوا۔ ۱۷۹۵ء میں مرہٹوں کی فوج اور نظام کی فوج کا مقابلہ ہوا مرہٹوں کی فوج کا شمار تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار تھا اور نظام کی فوج کا ایک لاکھ دس ہزار ۔ اور بمقام کرولا نظام علی کو شکست ہوئی اور تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار پونڈ سالانہ آمدنی کا علاقہ مرہٹوں کو دینا منظور کیا۔ ۱۷۹۸ء میں جب ٹیپو سلطان نے بونا پارٹ شاہ فرانس سے سازش کی کہ کسی طرح سے انگریزوں کو ہند سے نکال دے اورجب مرہٹوں اور گوالیار نے بھی انگریزوں کا ساتھ دینا نہیں چاہا تب نظام حیدرآباد نے فرانسیسی فوج کو موقوف کردیا۔ چھ ہزار انگریزي فوج کو اُن کو کی جگہ رکھ لیا اور انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اُس وقت سے انگریزي تاثیر اور رسوخ برابر حیدرآباد میں چلا آیاہے۔ جب ٹیپو کو شکست ہوئی تواس کا علاقہ انگریزوں اور نظام نے آپس میں بانٹ لیا اور انگریزوں نے نظام کو مرہٹوں کے حملوں سے بھی بچایا۔

نظام علی کی وفات کے بعد ۱۸۰۳ء میں اُس کا بیٹا نظام مقرر ہوا اُس نے مرہٹوں کے ساتھ سازش کرنی چاہی۔ لیکن راز فاش ہوگیا اور انگریزوں نے در گزر کی۔ اس کے بعد نظام کی مالی حالت بگڑی اور باہر کمپنی اور دیگر ساہوکاروں نے بہت قرض دیا تھا اوراس کے عوض بہت سود اور نفع طلب کر


کرتے تھے ۔ یہ حالت دیکھ کر گورنر جنرل نے پھر دخل دیا اور جو سات لاکھ سالانہ سرکار انگریزی نے نظام کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس کے عوض ایک رقم کثیر یک مشت نظام کو دیدی گئی اور وہ خراج ہمیشہ کےلئے موقوف ہوگیا۔ لیکن اس عارضی مدد سے نظام کو بہت زیادہ فائدہ نہ پہنچا۔ بعد ازاں کوئی خاص واقع قابل ذکر نہیں گزرا۔

موجودہ نظام میر محبوب علی خاں صاحب بہادر نواب افضل الدولہ کے فرزند رشید ہیں ان کے پہلے وزیر اعظم سرسالار جنگ بہادر تھے نہایت ذیعقل متبر اور صاحب فہم تھے آج کل جو وزیر اعظم ہیں وہ راجہ راجایاں اورمہاراجہ راجہ کشن پرشاد بہادر یمین السطلنت ہیں وہ بھی ہر دلعزیز ہیں ہندوؤں محمدیوں کے اتفاق کی ایک مثال ہے کہ محمدی ریاست میں ہندو وزیر ہو ۔ جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے پاس فقری صاحب تھے۔ ریاست پٹیالہ میں بھی محمدی وزیر ہوا کرتے تھے ۔ ۱۸۰۰ء میں ایک عہد نامہ سرکار انگریزی اور نظام کے درمیان ہوا تھا۔ جس میں حضور نظام نے وعدہ کیا تھا۔ کہ میں چھ ہزار پیادہ اور نوہزار رسالہ بوقت جنگ سرکار کی مدد کےلئے بھیجونگا۔ نیز اپنی ساری فوج سے مدد کرونگا۔اب اس فوج کے عوض کنٹجنٹ فو ج آٹھ ہزار دوسو سوار وپیادہ انگریزی افسروں کے ماتحت ساتھ چھاونیوں میں رکھی گئی ہے۔ ریاست خوشحال معلوم ہوتی ہے پولیس اور فوج کا انتظام اچھاہے۔ خزانہ معمور ہے ریزیڈنٹ صاحب کا محل شہر سے باہر ہے۔ شہر میں سکہ مغلیہ نظانیہ ہے ۔ رزیڈنسی میں انگریزی سکہ چلتاہے۔ ویسا ہی شہر کے اندرریاست کا ڈاکخانہ ہے۔ رزیڈنسی میں انگریزی ۔ یہ دو عملی البتہ باعث خرابی ہے۔ اچھا ہوتا اگر ایک ہی انتظام رہنے دیتے۔ مصریحہ رموز سلطنت خویش خسرواں دانند۔

موجودہ نظام دکن کے بارہ میں یہ عجیب افواہ سنتے ہیں، کہ آنحضرت کو سانپ کے ڈسے کا ایسا عمل یاد ہے کہ اگر سانپ کے ڈسے شخص کے کان میں زور سے یہ کہہ دیا جائے کہ میر محبوب علی خاں کی دہائی اور مارگزیدہ شخص وعدے کرے کہ میں اتنے عرصہ کے اندر خود حاضرخدمت ہونگا۔ تو سانپ کا اثر جاتا رہتاہے۔ اس قسم کا عمل سگ بریدہ کاایک اور نواب صاحب کو یاد ہے اور وہ مفت علاج کرتے ہیں۔ آج کل کی ڈاکٹری کیا کہیگی۔

تیسرا باب
انجمن پرہیزگاری

اس علاقہ میں تاڑ کے درخت بکثرت ہیں۔ تاڑ کے دود کی گویا ندیاں جاری ہیں۔ ہرکس وناکس کے گھر میں تاڑ کے دورجاری ہیں آنکھوں میں سسروردل میں فرحت لیکن دماغ میں فتوراسی کا چوچلہ ہے۔ تازہ رَس تو خوشگوار شربت ہے لیکن ذرا دیر رکھنے سے شراب سے بدل جاتاہے۔ اور دل ودماغ کو خراب کرتاہے اگرچہ محمدی ریاست ہے لیکن شراب کے لحاظ سے محمدشاہی درو ہے۔ اس لئے اس کثرت شراب نوشی کو رد کرنے کےلئے کئی انجمنیں پرہیزگاری کے متعلق جاری ہوگئی ہیں۔اگرچہ یہ بھی ایک فیشن ہے ۔ چنانچہ بعض لکچرار کے بارہ میں جو مے نوشی کے خلاف لکچر دیتے ہیں یہ سنا گ


گیا کہ وہ پیکر لکچر دیتے ہیں۔ بعضوں کا خیال ہے کہ ایسی انجمن کی ضرورت وہاں اس لئے ہے۔ کہ انگریزی شراب کی بکری وہاں بہت کم ہے اور دیسی شراب کی مخالفت او رممانعت ہر طرح سے کی جاتی ہے۔ دیسی شراب خانہ بند ہوا اور انگریزي شراب خانہ خراب کو ترقی ہو۔ ورنہ خالص سنیدھی اور تاڑی سے کہتے ہیں کہ وہ نقصان ہرگز نہیں ہوتا جو انگریزي شرابوں سے ہوتاہے ۔ انگریزی شرابوں میں الکحل بہت زیادہ اورمادہ غذایہ بہت کم ہوتاہے۔پھر بھی ایسی انجمنیں مفید ہیں اگرچہ ان میں اکثر وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو پہلے ہی اس سے کنارہ رہتے ہیں لیکن وہ انجمن کے ممبر ہونے کی حیثیت سے اوروں پر اس کی قباحتیں ظاہر کرکے ان کو پرہیزگاری کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

ایسی انجمن کی ایک شاخ مشن احاطہ میں پادری گولڈ سمتھ صاحب کے ذریعے جاری ہوئی ۔ایک محمدی نوجوان سکرٹری بھی مقرر ہوا لیکن ابھی کوئي باقاعدہ انتظام نہ ہوا تھا اورنہ کوئی کمیٹی مقرر ہوئي تھی کہ کاروبار کو سر انجام دے میرے حیدرآباد میں جانے پر پادری صاحب نے ایک جلسہ عام کیا۔ ۲۵اگست کو بہت نوجوان جمع ہوئے اورکہا گیاکہ پرہیزگاری کے بارہ میں لکچردوں چنانچہ میں نے چند امور کا بیان مے نوشی کے خلاف کیا۔ وہ چند امور یہ ہیں۔

• پرہیزگاری سے مراد

(الف۔) اعتدال سے بچنا۔

(ب۔) مضریات سے بچنا۔

(۱۔) اعتدال سے مراد ہے میانہ روی یعنی نہ کثرت کی طرف جھکنا نہ تلت کی طرف۔ چنانچہ ارسطو نے کہاہے " خیر الامور اوساطہیا۔

(۲۔) مضریات۔ یعنی نقصان دہ چیزیں یعنی اُن سے کرنا چاہیے ۔

(ج ۔)مے نوشی۔

(۱۔)قانون اعتدال کے خلا ف ہے۔

(۲۔)مضریات میں سے ہے کیونکہ الکحل جو شراب میں پایا جاتاہے وہ زہر ہے۔ جس سے اعضائے رئیسہ دل ، دماغ ، گردہ وغیرہ کو نقصان پہنچتاہے ۔

(د۔)مے نوشی کے نقصانات ۔

(الف)(۱۔) اس سے لے پروائی پیدا ہوتی ہے اگرچہ شراب خور بڑی خاطر کرنے والے ہوتے ہیں اور دوسروں کو اپنی شراب میں سے مفت دینے کو راضی ہوتے ہیں۔ لیکن سخت لاپروائی اُن میں پیدا ہوجاتی ہے۔وہ اس لڑکے کی مانند ہیں جو کسی کرارے پر چل رہاہے گیت گاتا اور خوشی میں مست ہے لیکن نیچے کھڈپر اس کی نظر نہیں پڑتی۔ محمد شاہ بادشاہ کا حال یا دہے۔ کہ جب نادر شاہ نے اُسے خط لکھاکہ میرے بعض آدمی بھا گ آئے ہیں اُن کو پکڑ کر واپس کردو جب یہ خط پہنچا تو محمد شاہ صاحب کے سامنے شراب کا دور چل رہا تھا۔ بادشاہ نے خط لے کر شراب کے پیالہ میں ڈبودیا اورکہاکہ " ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب" نتیجہ یہ ہوا کہ نادر شاہ دلی تک آگیا تب محمد شاہ کو ہوش آئی ۔ دلی میں تین دن تک قتل ہوا۔ خون کی ندیاں بہ گئیں۔ مغلیہ جاہ وجلال تخت طاؤس وغيرہ لوٹا گیا۔ یہ نتیجہ اس شراب خانہ خراب کا تھا۔کہ اُس نے ایسی لے پروائی محمد شاہ کی طبیعت میں پیدا کردی تھی۔

(۲۔) اس سے غفلت پیدا ہوتی ہے۔ ہوش کسی کام کی نہیں ہرتی منصبی فرائض ادا نہیں ہوسکتے۔ کئی شخصوں کے بارہ میں یہ مشاہدہ ہواکہ سرکاری عہدے اُن سے چھن گئے۔ سخت ذلت سے پیٹ پالنے کی نوبت آئی ۔ اسی شراب کے باعث۔


(۳۔)بدن سے بھی آدمی غافل ہوجاتاہے۔ ایک نوجوان لاہور میں تھا جس نے شراب کی حالت میں اپنے آپ کو پھونک لیا۔ اور جل کر کباب ہوگیا۔

(۴۔) شرابی اپنے خاندان سے بھی غافل ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کا حال یا دہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ گھر میں شراب پیا کرتا تھا۔ اور وہ ہی دوست اُس کی بیوی اور بہنوں کو نکال لے گئے اور آں حضرت کو پیچھے ہوش آئی۔

(۵۔) عزت کی پروا شراب کو نہیں رہتی۔

(۶۔) دین سے غافل ہوجاتاہے مجھے ایک شخص سے گفتگو کا اتفاق ہوا۔جس نے بیان کیاکہ جب سے شراب کی عادت اُس کو ہوئی دین کی طرف سے نہ صرف غفلت ہوئی بلکہ دین کا انکار کیا اور دہریہ بن گیا۔اورشائد یہی وجہ تھی کہ احبار ۱۰۔ ۹ میں یہ ہدایت کاہنوں کو ہوئی ۔

"جب تم جماعت کے خیمے میں داخل ہو تومے یا کوئی چیز جونشہ کرنے والی ہو نہ پیجیئواور نہ تیرے بیٹے نہ ہو کہ تم مرجاؤ۔۔۔۔۔تاکہ تم حلال اورحرام پاک اورناپاک میں تمیز کروتاکہ تم سارے احکام بنی اسرائیل کو سکھاؤ۔

(۷۔) فضول خرچی تو شراب نوشی کا قدرتی نتیجہ ہے یہ زمانہ ہی فضول خرچی کا ہے اور فضول خرچی کا انجام کنگال پن ہے۔

(۸۔) شرابی سوسائٹی کے سامنے ایک بدنمونہ ہے خود شرابی بھی اس بات کا قائل ہے اس لئے اکثر شرابی اپنے عزیزوں سے چوری پیتے ہیں۔ شرابی کا اعتبار کیا نہیں جاتا۔

(۹۔)زناکاری اس کی رفیق بہن ہے۔ اورتباہی کی یہ ماں ہے۔ کولمبس کی زندگی کا احوال پڑھنے سے معلوم ہوا کہ جب پورپین کے ذریعے جزیروں میں شراب داخل ہوئی وہ جزیرے جو پہلے لہلہاتے اور سر سبز نظر آتے اور انسان سے آباد تھے اب تباہ ہوگئے ہیں۔

(ب۔)بدنی نقصانات ۔

(۱۔)معدہ کو شراب کمزور کردیتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ شرابی کے معدہ پر خاص داغ ہوجاتے ہیں۔

(۲۔)تپ دق کا خاص ایک سبب مے نوشی ہے۔

(۳۔) عقل پر اس کا اثر ہوتاہے۔ دماغ جو ایسا نازک اورلچلچاہوتا ہے وہ شراب کے ذریعے سخت ہوجاتاہے ۔ اوراپنا معمولی کام نہیں کرسکتا پس ایسے سخت دیو کا مقابلہ کس طرح کرنا چاہیے۔

(ہ۔)(۱۔)بعض سمجھتے ہیں کہ مے خانوں کے آگے جاکر شراب کی مذمت کرنا چاہیے تاکہ جو شراب پینے وہاں جاتے ہیں اُن کو شراب کے نقصان معلوم ہوجائیں۔ لیکن اس سے تو شراب خانوں کا اچھا اشتہار ہوجاتاہے۔ اور شائد اس روز زیادہ بکری ہو۔

(۲۔) دوسرے رسالے اورپرچے مے نوشی کے خلاف شائع کرنا۔

(۳۔)اس قسم کے جلسے کرنا جس میں حاضرین پر پرہیزگاری کے فوائد ظاہر کئے جائیں۔

(۴۔)لیکن سب سے بڑھ کر شخصی کام ہے اگر ہر شخص جس نے پرہیزگاری کا عہد کیاہے اپنے کسی دوست یا آشنا کو جو اس مرض میں گرفتار ہوبچانے کی کوشش کرے تو بہت جلد یہ کام کامیاب ہوگا۔ دیوجانس کلبی کی مثال مجھے خوب یادرہتی ہے۔کہ جب وہ کسی دوست کو کسی ضیافت میں جاتے دیکھتا تواس کو بغل میں لے لیتا اورایسے تپاک اورہمدردی سے بیان کرتا کہ وہاں توایک رقاب میں ہیضہ ایک میں گھٹیا ایک میں فلاں دوسرے میں فلاں مرض ہے اوراُس دوست کو پھسلا کر اُس کے گھر پہچنا دیتا اگرہم کویقین ہے کہ شرابی ایسے خطروں سے گھرا ہے اورہم نے فی الحقیقت اُس کی بہبودی چاہتے ہیں توہم بھی اس قسم کا سلوک کریں۔


(۴۔)مے نوشی کے خلاف عہد لینا یا قسم کھانا اکثر مفید ہے۔ اس کے ذریعہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکتے ہیں۔ ہم کو یہ وعدہ یاددلاتاہے رہتاہے۔ اس کے ذریعےدوست شراب نوشی پر مجبور نہیں کرتے۔

(۵۔) لیکن یہ سارے وسائل ناقص رہینگے۔جب تک خُدا کی طرف سے مدد نہ ملے اوراس مدد الہٰی کےلئے خُدا سے دعا مانگنا نہایت ضرور ہے۔

میرے لکچر کے ختم ہونے کے بعد ایک مسلمان نوجوان عظیم الدین نامی نے اور بعدہ پادری گولڈ سمتھ صاحب نے کچھ بیان فرمایا۔ بعدہ بعض لوگوں نے عہد پر دسختط کیا۔ اور پرہیزگاروں کا شمار ۳۵ کے قریب ہوگیا۔ ان ممبروں میں سے کمیٹی چنی گئی۔ پادری صاحب نے چائے اور بسکٹ پیش کی جس میں مسیحی اور مسلمان شریک ہوئے اور جلسہ برخسات ہوا۔

چوتھا باب
نومسلم کا لکچر

حیدرآباد میں ایک بنگالی برہمن ادھڑ عمر کے رہتے تھے۔یہ صاحب علم فلسفہ میں ڈاکٹر تھے یورپ کے بعض ممالک کا سیر بھی کرچکے تھے ، مختلف مذاہب سے واقفیت بھی حاصل کی تھی۔ مسیحی مذہب کی طرف بھی توجہ رہی لیکن آخر کار جامع مسجد میں کلمہ پڑھ کر محمدی بن گئے اُنہوں نے فتح میدان میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے سامنے اپنے مسلمان ہونےکی وجوہات بیان کیں اوراثنا ئے تقریر میں یہ بھی بتایا کہ کیوں وہ مسیحی نہیں ہوئے ۔میں اور پادری گولڈ سمتھ صاحب بھی ۲۶اگست ۱۹۰۴ء کو یہ لکچر سننے فتح میدان میں گئے۔ یہ میدان خوبصورت وسیع گھوڑدوڑ کے لئے مخصوص ہ


ہے۔ ایک مکان بھی بناہوا ہے جس میں ایک بڑا ہال ہے۔ جہاں وقتاً فوقتاً لکچر ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت میدان میں خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ وہاں کئی سومسلمان لکچر سننے کو جمع ہوئے۔ ہمیں خاص اس امر کا خیال تھاکہ وہ مسیحی مذہب کے متعلق اپنی رائے کیا ظاہر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اُنہوں نے مفصلہ ذیل وجوہات مسیحی دین سے علیٰحدہ رہنے کی بیان کیں۔

(۱۔)مسیحی جماعت میں رومی کلیسیا اور اُس کے خادمان دین کی طرز زندگی اُن کو بڑی پسند تھی۔ اگر وہ مسیحی جماعت میں شامل ہوتے تو رومی کلیسیا میں داخل ہوتے لیکن کئی وجوہات سے داخل نہ ہوئے۔

• مسیحیوں کا مسئلہ کفارہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔

• عذاب ابدی کا مسئلہ ان کو تمیز وعقل کے خلاف معلوم ہوا۔

• مسئلہ تثلیث نے خاص کر (جیسا مقدس اتھاناسیس کے عقائدہ نامہ میں مذکور ہے ) اُن کی عقل کوحیران کردیا۔

• مسائل کی کثرت نے اُن کو ڈرایا۔ (جیسا کہ انتالیس مسائل دین انگریزی کلیسیا کے ہیں )۔

علاوہ ازیں مفصلہ ذیل امور نے اُن کو خاص کراسلام کی طرف رجوع کیا۔

(۱۔) محمدی دین کی تواریخی بنیاد ہے۔ محمد صاحب کی ہستی پر تواريخی طورپر کوئی شک نہیں ڈال سکتا ۔ حالانکہ بدھ اور مسیح کی ہستی پر لوگوں نے شک ڈالے ہیں کہ آیا کوئی ایسے اشخاص فی الحقیقت گزرے ہیں یا نہیں۔ لیکن محمد صاحب کی ہستی اظہر من الشمس ہے۔

(۲۔) محمد صاحب کی زندگی ایسی عجب اور موثر اور بے داغ ولوث گزری ہے کہ کوئی اس پر داغ نہیں لگاسکتا۔

(۳۔) محمدی دین میں کوئی وہمی اور خیالی باتیں نہیں۔ جیسے کہ دیگر مذاہب میں ہیں۔

(۴۔) قرآن ایسی اعلیٰ کتاب جہان میں ہے کہ کوئی کتاب اس کی ثانی نہیں۔اس کی صحت کے قائل دوست ودشمن دونو ہیں۔ مسیحی نوشتوں کی مانند نہیں کیونکہ اُن کی صحت کے قائل خود مسیحی نہیں قرآن میں ایسی یگانگت پائی جاتی ہے ۔ کہ کسی اورکتاب میں پائی نہیں جاتی۔مسیحیوں کی کتابیں صحیح سالم ہم تک نہیں پہنچیں جیسے کہ قرآن پہنچا ہے اور قرآن میں کوئی قصہ کہانی یا فساد نہیں جیسے دوسری مذہبی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔

(۵۔) ایک خُدا کی تعلیم ہے نہ تین خُدا ؤں کی۔

(۶۔) عام فہم مسئلہ نجات یہ ہے من قال لا اللہ الا اللہ ۔ پس جس نےکہہ دیا لا الااللہ پس وہ داخل ہوگیا جنت میں اس میں انتالیس مسائل کا جھمیلانہیں۔

(۷۔) محمدی دین عملی ہے۔ یعنی انسان اُس پر عمل کرسکتاہے۔ بدھ اور مسیحی دین کی ہدایات عملی نہیں وہ انسان کی طاقت سے بڑھ کر ہیں۔ مثلاً یہ ہدایت کہ جب کوئی تیری داہنی گال پر طمانچہ مارے تو بائیں گال بھی اُس کے آگے کردے ۔ کون اس پر عمل کرسکتاہے روس جہاں سب سے زیادہ مسیحی دین کا چرچا ہے اور خود شہنشاہ خاص دیندار بادشاہ دین کا حامی ہے۔ وہ جاپان کے ساتھ کیوں لڑرہاہے۔ شائد اُس کا شکست پر شکست پانا اسی ہدایت پر عمل کرنے کا باعث ہے کہ وہ داہنی گال پر مارکھاکر جاپان کو کہتاہے کہ آب بائیں پر بھی مارلے۔ تجرد کی جو تعلیم اور رواج مسیحیوں میں ہے، اُس کی قباحتیں سب پر روشن ہیں۔ ایک بیوی رکھنے کا یہ نتیجہ ولایت میں ہوا ہے۔ کہ ایک ایک عورت کئی کئی خاوند رکھتی ہے۔ لیکن برخلاف اس کے محمدی دین میں دوتین چار تک بیویاں کرسکتے ہیں۔


بعدہ چند یورپیں لوگوں کا ذکر کیا۔ جنہوں نے محدی دین کی تعریف کی اورمحمدیت کو ترجیح دی۔ اوراُن میں سے بعضوں نے مرتے وقت محمدی دین کو قبول کیا۔

پس یوروپ محمدی دین کے واسطے گویا تیار ہے۔ حیدرآباد میں ایک انجمن اشاعت اسلام کی ایسی ہونی چاہیے جو یوروپ میں محمدی مشنریوں کو بھیجے اور میں بھی اپنی خدمت ایسی انجمن کی نذکرنے کو تیارہوں۔

لکچر ختم ہونے پر بڑی تالیاں پیٹی گئيں۔خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔ بعداس کے انگریزی لکچر کا اُردو ترجمہ پڑھ کر سنایا گیا۔ اُس کے بعد مولانا گرامی صاحب جالندھری نے چند اشعار محمد صاحب کی تعریف میں پڑھ کر سنائے۔ جن میں اُنہوں نے محمد صاحب کا مقابلہ دیگر پیغمبروں خاص کر مسیح سے کرکے اُن کو سب سے اعلیٰ ٹھہرایا۔اُنہوں نے ذکر کیا کہ پورمریم کا تویہ معجزہ تھا۔ کہ اپنی سانس سے مردہ کو زندہ کیا کرتے تھے۔ لیکن محمد صاحب کا یہ معجزہ تھاکہ روحانی مردوں کو زندگی دیتے اور جو اُن پر ایمان لاتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔اورمسیح تو اندھوں کو روشنی دیتے تھے۔ لیکن محمد وہ نور ہے جو دنیا کی پیدائش سے پیشترخلق کیا گیا۔ اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔

پانچواں باب
میں مسیحی کیوں ہوں

ڈاکٹر نشینی کنٹھ کےلکچر کے بعد پادری گولڈاسمتھ صاحب نے فرمایا کہ یہ مناسب ہوگاکہ ایک لکچر مسیحیوں کی طرف سے دیا جائے ۔ جس میں اُن اعتراضوں کی تردید ہو۔جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے لکچر میں مسیحی دین پر کئے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے یہ تجویز کی کہ میں اپنے مسیحی ہونے کا حال سناؤں ڈاکٹر صاحب توہندو دین چھوڑ کر محمدی ہوئے تھے۔ میں محمدی دین چھوڑ کر مسیحی ہوا تھا۔اگران وجوہات کا ذکر کیا جائے ۔ جن کے باعث میں نے محمدیت کو ترک کیا توعین مناسب اور حسب الموقع ہوگا۔ چنانچہ اُنہو ں نے سنیچر کو نوٹس چھپوائے کہ پادری علی بخش پنجابی اور پادری گولڈ اسمتھ صاحب یکم ستمبر کو بروز جمعرات اس مضمون پر لکچر دینگے۔کہ " میں مسیحی کیوں ہوں"۔ نوٹس شائع کئے گئے ۔ اتوار کومیں نے وعظ کےلئے مکاشفہ ۲۔ ۸ سے ۱۱تک کولیا اوراس امر کو ظاہر کرنا چاہا۔ کہ موت تک وفادارہ رہ تو میں زندگی کا تاج تجھے دونگا۔

یکم ستمبر کو مشن ہوس کے احاطہ میں میز کرسی بنچ لگائے گئے ،کپتان فالین صاحب میر مجلس مقرر ہوئے۔ اور شام کے وقت لکچر شروع ہوا۔

لکچر

اس عجیب موقع کےلئے میں خُداوند کریم کا ممنون احسان ہوں اوراسی سے یہ دعا ہے کہ وہ اس موقع کو اپنے جلال اوراپنے بندوں کی ہدایت کا وسیلہ بنائے۔


(الف۔)جس امر کا ذکر کیا چاہتاہوں ۔ وہ یہ ہے کہ میں کیوں مسیحی ہوں؟ ہر فرد بشر پر لازم ہے کہ یہ سوال اپنے آپ سے کرے کہ میں کیوں ہندو یا محمدی یا مسیحی ہوں۔ سیلاب زمانہ کے ساتھ بہانہ چلا جائے۔ خواب غفلت میں رہ کر دین ودنیا کو ہاتھ سے کھونہ بیٹھے بلکہ سنبھلے اور خبردار ہو۔ آنکھیں کھول کر دیکھئے میں کون ہوں کہاں ہوں۔ اُمید ہے آپ جو یہاں تشریف لائے ہیں اوراپنے عزیزوقت کو اس لکچر کےلئے گویا وقف کرچکے ہیں ۔ ضرور ان چند خیالات سے فائدہ حاصل کرینگے۔

(۱۔) جب کوئی شخص اپنے سے یا کسی دوسرے سے یہ سوال کرے کہ میں کیوں یا تم کیوں ہندو یا محمدی یا مسیحی ہو تو اکثر صورتوں میں یہی جواب ملیگا۔پیدائش سے ۔ میرے والدین کا یہی مذہب تھا۔ اس لئے میرا یہی مذہب ہے۔ میں اپنے والدین سے دانا وبزرگ نہیں۔ اس لئے میں انہیں کے مذہب کا پیرو ہوں۔میں نے اسی مذہب میں تعلیم وتربیت پائی۔ مجھے یہی اچھا اورعمدہ مذہب معلوم ہوتاہے۔ اکثر یہی جواب دینگے خواہ ہندو ہوں خواہ محمدی اورمسیحی۔ ہندو لوگ تو اس کو گو ان کے اصول کے خلاف ہو ایسا پختہ مانتے ہیں کہ وہ تبدیلئے مذہب کو سخت گناہ سمجھینگے۔ ان کے نزدیک مذہب سے نکلنا قوم سے نکل جاناہےالبتہ اس روشنی کے زمانے میں آریاؤں نے جب دیکھا کہ اس قوم میں سے اخراج ہی اخراج ہے محمدی اور مسیحی اس قوم کو بتدریج گھٹارہے ہیں تواُنہوں نے بھی آمد کی صورت نکال لی۔ اور دیگر مذاہب میں سے مرید بنانا شروع کئے۔ چنانچہ حال ہی میں ایک محمدی تعلیم یافتہ بی ۔ اے گوجرانوالہ میں آریا بن گیا۔اور اب ہندو مذہب کی تعلیم کےلئے شائد بنارَس گیاہے۔ لیکن مسیحی اور محمدی تبدیلی مذہب کو اگر جائز وسیلوں سے ہو تو عیب نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ان کے پیشوا یعنی حضرت ابراہیم اور محمد صاحب اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب کے نہ صرف پیرو بلکہ بانی ہوگئے اور ہزاروں لاکھوں کو ان کے آبائی مذاہب سے نکال کر اپنے اپنے مذہب میں شامل کیا۔ پھر بھی کم تعلیم یافتہ یا متعصب صاحبان کسی کی تبدیلی مذہب کو بُرا جانتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ جس مذہب میں کوئی پیداہوتاہے اسی مذہب میں ضرور اُس کو رہنا چاہیے۔لیکن اے صاحبان یہ بڑی غلطی ہے۔ یادرکھئے کوئی شخص اپنی پیدائش سے ہندو محمدی یا مسیحی نہیں ہوتا۔ ہر مذہب اصولاً ایسی رائے کے خلاف ہے۔ ہندوں کا مقولہ ہے کہ جنم کے لحاظ سے ہر کوئی شودرہوتاہے۔ کرم کے لحاظ سے برھمن چھتری وغيرہ بن جاتاہے۔محمدی اگرچہ کہتے ہیں کہ ہر شخص فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے۔ لیکن وہ اس کے معنی غلط طور سے لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کا رواج اس معنی کی غلطی کو ظاہر کررہاہے۔ جب کوئی بچہ محمدی خاندان میں پیداہوتاہے تواس کو تکبیر یاکلمہ سنایا جاتاہے۔ تب گویا وہ مسلمان ہوتاہے۔ ویسے ہی ختنہ جس کا نام ہی پنجاب میں مسلمانیاں ہے بچہ کو مسلمان بنادیتاہےگو یہ فرض نہ ہو لیکن ایسی سنت ہے ۔ کہ شائد کوئی مسلمان خاندان اپنے لڑکوں کو بلاختنہ رہنے نہ دیگا۔ اور فرض اداہوں یا نہ ہوں۔یہ سنت ضرور وارد ہونی چاہیے۔ یہ سنت حضرت ابراہیم سے چلی آئی ہے جس کو بڑھاپے میں ختنہ کا حکم ملا اور اُس نے بڑھاپے میں اپنا اوراپنے بچوں کا ختنہ کرایا۔ محمدی جو ملت ابراہیم پر چلنے کا دعویٰ رکھتے ہیں ضرور اس رسم پر بھی عمل کرتے ہیں۔ دس پندرہ سال سے پیشتر یہ سننے میں نہ آیا تھاکہ کوئی شخص بلاختنہ کرائے بھی محمدی ہوسکتاہے۔ آج کل جب یوروپین میں سے بعض لوگ محمدی ہوگئے اُن کو ختنہ کی تکلیف نہ دی گئی ۔ عام محمید اب تک غالباً کسی نامختون کو اپنی بیٹي نکاح میں دینا نہ چاہینگے۔ افسوس ہے کہ محمدی اس رسم کو آجکل ڈھیلا کرنے لگے ہیں۔ یہ نو مسلم کی سچائی کا اچھا معیا رہوتا۔ جو شخص ختنہ کی تکلیف کو گوارا کرنا نہیں چاہتا وہ اس مذہب کے لئے جان دینے کےلئے کب تیا رہوگا۔

مسیحیوں کا تویہ اصول ہے اور بچپن ہی سے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ سرشت سے ہم گناہ میں پیدا ہوتے ہیں اور قہر کے فرزند ہیں ۔ لیکن روح اورپانی کے بپتسمہ کے ذریعے آسمان کی بادشاہت کے وارث ہوجاتے ہیں۔


پس اے حضرات یہ دلیل کافی نہیں۔ بیشک ایماندار گھرانے میں پیدا ہونے سے کئی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن نجات کسی گھرانے یا مذہب میں پیدا ہونے پر موقوف نہیں۔ سیدنا مسیح نے فرمایا ہےکہ" جو کوئی ایمان لاتاہے اور بپتسمہ پاتاہے وہ نجات پائے گا"۔ میں مسیحی گھرانے میں توپیدا نہیں ہوا اور اس لئے ان حقوق سے جو ایماندار مسیحی خاندان میں پیدا ہونے سے اولاد کو حاصل ہوتے ہیں ان سے مدت تک محروم رہا۔ میں غیر مسیحی خاندان میں پیدا ہوا اورپیچھے خُدا کے فضل سے مسیحی ہوگیا۔

(۲۔) اب یہ سوال رہاکہ کیوں میں نے آبائی مذہب محمدی کو چھوڑا اورمسیحی دین اختیا رکیا۔ یادررہے کہ کسی مذہب کے ترک کرنے کے کئی ایک اسباب ہوا کرتے ہیں۔ اُن کو میں تین اقسام پر تقسیم کرتاہوں۔

اول ۔ ادنیٰ یا دنیاوی وسائل ، مثلاًزر، زن، سوشل حالت وغيرہ اکثر وہ لوگ ان دنیاوی وسائل کے باعث ایک مذہب کو دوسرے مذہب سے بدل ڈالتے ہیں جو یا تو دین کو مانتے ہی نہیں دہریہ خیال کے ہوتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ سب دین یکساں ہیں یا اپنے دین کی نسبت اعلیٰ خیال نہیں رکھتے۔ دہریہ خیال کے لوگ ایک مذہب کو جو ظاہر اختیار کئے ہوئے تھے۔ منفت دینوی کےلئے ز ر کی اُمید پر عورتوں کی اُمید پر عزت کی اُمید پر ظاہر اور دوسرے مذہب سے بدل ڈالتے ہیں لیکن دل میں وہ جانتے ہیں کہ نہ وہ مذہب درست تھا۔ نہ یہدرست ہے جودنیاوی نفع ان سے مل جائے وہ غنیمت ہے۔ اور جو لوگ سب مذہبوں کویکساں جانتے ہیں وہ اُس مذہب کو قبول کرینگے۔ جس کے ساتھ دنیاوی منفعت بھی شامل ہے۔ یہ ان کی دانائی ہے۔ آج کل کسی نہ کسی وجہ سے مذہب کے تبدیل کنندوں پر یہی الزام لگایا جاتاہے۔ اگرہندومحمدی ہوجائے تو ہندو یہی کہینگے کہ کسی دنیاوی غرض سے زریا زن کی خاطر محمدی ہوا ویسے ہی اگر کوئي محمدی ہندو یا مسیحی ہوجائے تومحمدی یہی الزام لگائينگے لیکن یہ الزام اکثرت درست نہیں ہوتا۔

ذلیل اورپست قومیں جن کا مذہب بھی ذلیل اورپست ہے اعلیٰ قوموں میں شامل ہونے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ ایک ہندو دوکاندار یہاں شہر میں بیان کرتا تھاکہ یہاں کے دھیڑ (چمارقوم) جن کو ہم دکان پر کھڑا ہونے نہیں دیتے تھے۔ اب محمدی ہوکر برابری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسیحیوں میں بھی شاید بعض پست قوم کے لوگ اسی لحاظ سے داخل ہوگئے ہوں۔

بعض بخوف جان ومال کسی مذہب کو قبول کرتے ہیں۔ اس کی مثال خود ہندوستان ہی ہے۔ جہان ہزاروں ہندو بخوف جان ومال محمدی ہوگئے۔ مجھے یاد ہے چند سال گزرے ہندو محمدیوں میں کچھ فساد ہوا۔ چند گنڈوں نے اٹھ کر ہندوؤں پر حملہ کیا اُن کو زمین پر گراکر کلمہ پڑھوانےکی کوشش کی۔ کسی مذہب کو ترک کرنے اور دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کے یہ سب ادنیٰ نالائق وسائل ہیں شکر ہے خُدا کا کہ میں تو خُدا کو مانتا تھا اوریہ نہیں سمجھتا تھاا کہ سب مذہب یکساں درست یا غلط ہیں۔ بلکہ سمجھتا تھاکہ ضرور ایک مذہب درست ہے ۔ سارے مذہب درست نہیں ہوسکتے اورنہ سارے مذہب غلط ہوسکتے ہیں۔ میرے نزدیک جوایسے ناجائز ادنیٰ وجوہات سے مذہب تبدیل کرتاہے وہ ہردوجہاں میں مجرم ہے۔

دوم۔ بعض دیگر وجوہات بھی مذہب کی تبدیلی کا باعث ہوسکتے ہیں ۔ لیکن وہ بھی کلمہ کافی وجوہات نہیں۔ مثلاً۔

(۱۔) ہم مذہبوں کی بدچلنی۔ اس سے سچ مچ بڑی تکلیف ہوتی چنانچہ بعض جگہوں میں یہ رواج دیکھ کر طبیعت کو بڑی نفرت ہوئي ۔ کہ جب کوئی عورت ہندو مذہب کی بازار میں بیٹھنا چاہتی یعنی کسبی بننا چاہتی تو پہلے مسجد میں جاکر کلمہ پڑھتی۔ ایسے واقعات دیکھ اور سن کر بڑا افسوس ہوتا۔ کہ ان ملانوں کو کیا ہوگیا کہ وہ ایسی عورتوں کو روپیہ سواروپیہ کی خاطر کلمہ پڑھا کر بدچلنی کےلئے چھوڑدیتے ہیں ۔ ان کو نہ محمدی دین اور نہ اخلاق کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی اس وجہ سے مذہب چھوڑے کہ اُس میں بد چلن لوگ پائے جاتے ہیں تویہ کافی وجہ نہ ہوگی کیونکہ وہ دوسرے مذہب میں جاکر بھی فوراً معلوم کریگا کہ وہ بھی بد چلن آدمیوں سے خالی نہیں۔ ہمارے پاس بعض اوقات ایسے متلاشی آتے ہیں۔ جو یہی بہانہ پیش کرتے ہیں ہم اُن کو کہتے ہیں کہ مسیحیوں میں بھی بعض بُرے آدمی ملینگےتوپھر تم مسیحی مذہب کو ترک کروگے۔اس لئے اُن کو فوراً قبول نہیں کرلیتے اگرمیں محمدیوں کی بدچلنی کے باعث محمدی مذہب کو ترک کرتا تو ہرگز درست نہ ہوتا۔


(۲۔) جس بستی کا میں رہنے والا تھا۔ وہاں ہندوؤں کی کثرت اور زور تھا۔ وہ محمدی دین پر بہت ہی ہنسی مخول کرتے تھے۔ اس سے میرا دل بڑا دکھنے لگا۔ ان دنوں میں ایک کتاب بنام تحفہ الہند ہاتھ لگی جس میں ہندو مذہب کی خوب گت بنائي گئی تھی ۔ اس میں یہ دلیل ہرگز دی نہیں گئی تھی کہ چونکہ ہندو مذہب کے پیشواؤں کو تواریخی ثبوت نہیں ملتا اس لئے اس مذہب اور ان پیشواؤں کو چھوڑدینا چاہیے۔ یہ دلیل بڑی بودی ہوتی ۔کیونکہ تواریخ کا زمانہ بہت قدیم نہیں ہے چودہ پندرہ سو برَس پہلے کی کافی تواریخ بعض ممالک واقوام کی نہیں ملتی۔ توکیایہ مذہب کا قصور ہے ہرگز نہیں۔اورنہ مذہب کے ترک کرنے کا معقول سبب ہوسکتاہے آجکل تو وہ زمانہ ہے کہ آدمی کی ہستی ہی پر شک ڈالا جاتاہے۔اگرکسی قدیم مذہب یا بانی مذہب کی ہستی پر آجکل شک ڈالا جائے توکیا تعجب۔ جن چیزوں کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔معترض اُن کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمہاری آنکھوں کا دھوکا ہوگا۔ کیونکہ آنکھیں کبھی کبھی دھوکا کھاجاتی ہے۔ ویسے ہی اگر کوئی آجکل اٹھ کر کہے کہ مجھے بدھا یا مسیح کی ہستی پر شک ہے تواُس کے جواب میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا ۔ کہ مجھے تمہاری ہستی پر شک ہے۔ شائد کوئی دوچار سوسال کے بعد کہہ دے۔ کسی کی زبان ہم پکڑ نہیں سکتے ۔ کہ محمد صاحب کی ہستی پر مجھے شک ہے۔ حالانکہ ان کا مذہب پھیلا ہوا۔ہزاروں کتابیں ان کے بارے میں لکھی جاچکی ہیں۔ تو کیا ایسے شخصوں کے کہنے سے کوئی معقول طورپر ایسے مذہب کو ترک کرسکتاہے۔ ہرگز نہیں۔ مذہب اور بانی مذہب اپنی تعلیم اور پیروؤں کے ذریعے اپنی ہستی کا کافی ثبوت رکھتے ہیں۔ اور تواریخی ثبوت کا تویہ حال ہے کہ جتنا میری اورآپ کی ہستی کا ثبوت مل سکتاہے اتناہم سے دوپشت پہلوں کی ہستی کا ثبوت نہیں سکتا۔پس جب اس قسم کا عذر یا دلیل مسیحی مذہب سے کنارہ رہنے کی ایسے شخص سے سننے میں آئی جونہ صرف محمدی بلکہ محمدی مشنری بننا چاہتا ہے اور قرآن کو صحیح مانتاہے۔ تومجھے بڑا تعجب ہواکہ اُس نے بعض شخصوں کی بے تکی روایتوں کو قرآن کے بیان پر ترجیح دی جہاں مسیح کی اعجازی پیدائش اس کے معجزات اُ سکا زندہ آسمان پر ہونا اور اُس کا دوبارہ آنا پورے طور سے مانا گیاہے۔

(سوم۔)مذہب کے ترک کرنے کا کبھی یہ سبب بھی بتایا جاتاہے کہ اس میں مسائل کی کثرت اور پیچیدگی پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے مسیحی دین میں یہ نقص نکالا کہ اسمیں انتالیس مسائل دین مسئلہ تثلیث ،کفارہ وعذاب ابدی مسیحی دین کے قبول کرنے میں مانع ہوئے اوراُنہوں نے اس لئے محمدی دین کوقبول کیا کیونکہ اُس میں نہ مسائل کی کثرت ،نہ مسائل کی پیچیدگی پائی جاتی ہے۔ ایسے شخصوں کے ایمان کی بنیاد کیسی کمزور ہے۔ شائد کوئی انتالیس مسائل دین کا نام سن کر گھبرائے کہ یہ کیا طومارہے۔ اے صاحبان بائبل کی تعلیم کا خلاصہ ایمان وعمل کے بارہ میں ان مسائل کی صورت میں آسانی کےلئے بیان کیاگیاہے۔

مثلاً مسئلہ اول یہ ہے۔ اللہ واحد ذوالجلال اور برحق ہے اورازلی وابدی ہے وہ غیر متجسد غیرمنقسم اور غیر متاثر ہے۔۔۔۔۔دوسرے مسئلہ میں کلام اللہ کا ۔۔۔ وغیرہ کیا قرآن کی تعلیم کا خلاصہ محمدیوں میں پایا نہیں جاتا۔ امنت باللہ ۔۔۔۔ یعنی ایمان لایا خُدا پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، انبیاپر ،یوم آخرت ، وخیراً وشرًامن اللہ تعالیٰ پر اورمرنے کے بعد قیامت پر۔

عمل کے بارے میں پانچ اصول ہیں۔ کلمہ ، نماز، روزہ ، زکوات، حج،پھر ان کی تشریح ، مثلاً خُدا کی صفات، حیات ، علم ، قدرت ، ارادہ، سمع ، بصر، کلام ویسے ہی نماز کی مختلف اوقات ، پھر ہر وقت میں رکعتوں فرضوں کا شمار ، وضو کے قوانین وغیرہ وغيرہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جس نے مسائل کی کثرت کے باعث کسی مذہب کو چھوڑا اورمذہب اسلام کو قبول کیاکہ وہاں تو محض اتنا مان لینا کافی ہے۔لا الہ اللہ وہ جلد کثرت مسائل سے اکتا جائے گا، مخفی نہ


نہ رہے کہ ۳۹ مسائل دین۔ خاص اُن کو سکھائے جاتے ہیں۔ جو دین کے خادم یعنی پادری اور واعظ ہونا چاہتے ہیں ۔ عام آدمیوں کو اُن کی تکلیف نہیں دی جاتی ۔ ویسے ہی جو شخص محمدیوں کی طرف سے واعظ اور مشنری بننا چاہے۔ تو اُس کو ضرور اپنے دینی مسائل سے واقف ہونا پڑیگا اوریہ بیچارے عاشقان سادگی کو شاق گزریگا۔

مسائل پیچیدگی کا بھی یہی حال ہے ۔ شروع میں مسائل عموماً سادہ ہوتے ہیں۔ پھر عالموں کی بحث وغيرہ کے ذریعہ پیچیدگیاں پڑ جاتی ہیں ۔ یہ مذہب کا قصور نہیں بلکہ عقل انسانی کے چٹخل پن کا نتیجہ ہے۔مثلاً انجیل میں نہایت سادہ تعلیم ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ کو اکیلا سچا خُدا اور یسوع مسیح کوجسے تونے بھیجا ہے جانیں۔ (یوحنا ۱۷: ۳)۔

نماز ودعا کے بارہ میں صرف یہ قانون ہے" خُدا روح ہے اور اُس کے پرستاروں کو فرض ہے کہ روح اور راستی سے پرستش کریں"۔ جب تو دعا مانگے ریاکاروں کی مانند مت ہو۔۔۔ بلکہ اپنی کوٹھڑی میں جااوراپنا دروازہ بند کرکے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعامانگ(متی ۶: ۶)۔

یہاں نہ وقت کا شمار ہے۔ نہ قید نہ خاص طرف رخ کرکےنماڑ پڑھنے کی شرط ہر طرف منہ کرکے دعا مانگ سکتے ہیں۔ نہ رکعتوں کا جھگڑا ہے ۔ نہ وضو کی شرط نہ رمضان کے روزوں کی تاکید ہے بلکہ جب چاہے روزہ رکھ سکتے ہیں ۔ ایسی سادگی اورایسی خوبی کہاں پائی جاتی ہے۔ لیکن جیسا میں نے ذکر کیا ۔ عقل انسانی ہر ایک امر کی چھان بین کرنا چاہتی ہے۔ محض سادگی پر اکتفا نہیں کرتی اس لئے جب انسان کو حکم ملا کہ تم کو ایک خُدا پر ایمان لانا چاہیے۔ تو عقل فوراً یہ سوال کرتی ہے ۔ کہ ایمان کیاہے پھر توایک طول طویل بحث شروع ہوجاتی ہے۔ او روہ ایمان جو پہلے بالکل آسان امر معلوم ہوتا تھا۔ اب مسئلہ لايخل بن جاتاہے۔ چنانچہ اگر آپ تفسیر کبیر کی پہلی جلد میں اس بحث کو ملاحظہ فرمائیں۔ تو حیران ہوجائینگے کہ یہ ایمان آخر ہے کیا شے۔ اس تفسیر میں ایمان کی تعریف چار طرح سے کی گئی ہے۔

فرقہ اول کہتاہے " ایمان کی حقیقت زبان سے اقرار کرنا قلب وجوارح سے افعال کا عمل میں لانا"۔

فرقہ دوم کہتاہے "۔ ایمان کا مدار قلب پر بھی ہے اور زبان پر بھی"۔

فرقہ سوم کہتاہے " ایمان فقط زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے ۔

فرقہ چہارم کہتاہے" ایمان فقط زبان سے اقرار کرنے کانام ہے۔

ان فریق میں پھر اور بکثرت فریق ہیں۔

مسیحی دین میں ایمان کے متعلق یہ دقت نہیں کیونکہ وہاں نئے عہدنامہ میں ایمان کی تعریف کردی ہے۔ اس لئے بحث کی ضرورت نہیں ۔ دیکھو عبرانیوں کا ۱۱باب گلتیوں ۵۔ ۶۔

ویسا ہی عقل یہ سوال کرتی ہے کہ ایک خُدا سے کیا مراد ہے ۔ کس معنی میں ایک جنس نوع یا فرد کے لحاظ سے ذات یا صفات کے لحاظ سے ۔ خُدا نہ فرد کے لحاظ سے نہ نوع وجنس کے لحاظ سے ایک کہلاتاہے نہ صفات کے لحاظ سےایک ہے۔ البتہ ذات کے لحاظ سے اُس کو واحد کہتے ہیں۔ میں جب مسیحی ہوا تھا تومیں ان مشکلات سے کچھ عرصہ تک کنارہ رہا۔ میں صرف یہ مانتا تھاکہ سیدنا مسیح میرا نجات دہندہ ہے۔ اُس کے کوڑے کھانے سے میں نے شفا پائی اُس کی موت سے مجھے زندگی اور گناہوں کی معافی ملی۔ چنانچہ مسیحی ہونے کے بعد جب میں بٹالہ بورڈنگ سکول میں فارسی مدرَس ہوکے گیا تو وہاں ایک مشہور مولوی رہتے تھے۔ جن کے نام سے آپ بخوبی واقف ہونگے۔ یعنی مولوی محمد حسین صاحب میرے رشتہ داروں نے اُن کو لکھا کہ ہمارا لڑکا مسیحی ہوکر بٹالہ گیاہے۔ اس کو کسی طرحس محمدی بنانا چاہیے۔ مجھے بھی رشتہ داروں نے لکھاکہ مولوی صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوکر محمدی دین


کے بارہ میں جو شکوک ہوں حل کرلینا۔ چنانچہ میں مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ معمولی گفتگو کے بعد مولوی صاحب نے یہ سوال کیاکہ بھلا عیسائیوں کی تثلیث کیسے تمہاری سمجھ میں آگئي۔ کہ تم عیسائی ہوگئے۔ میں نےعرض کی کہ تثلیث تودرکنار مجھے کبھی توحید بھی سمجھ میں نہیں آئي بیشک سادہ طورپر کہتے چلے آئے ہیں کہ خُدا ایک ہے لیکن اس کا مطلب کبھی سمجھ میں نہیں آیا آپ مہربانی کرکے توحید سمجھادیجئے پھر تثلیث کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اُنہوں نے فرمایاکہ خُدا کی ذات واحد ہے اور ذات کے بارہ میں محمدی عالموں میں دوقسم کی رائے ہیں۔

اول۔ یہ کہ ذات مجموعہ صفات ہے۔

دوم۔ یہ کہ ذات جامع صفات ہے۔ اوراُس کی ذات میں دو طرح کی صفات ہیں۔ صفات عینی جواُس کی ذات سے الگ نہیں ہوسکتی اورنہ ذات اُن کے بغیر ہوسکتی ہے۔ دوم۔ صفات غیر عینی جوکبھی ذات سے علیحٰدہ ہوسکتی ہیں۔ میں نے ادب سے عرض کی کہ مولوی صاحب اگر ذات مجموعہ صفات ہے۔ توکثرت فی الوحدت لازم آتی ہے۔ پھر اگرکسی نے تثلیث فی الوحدت مان لی تو کیا مضائقہ۔ اگر دوسری تعریف کومانیں کہ ذات میں صفات عینی ہوتی ہیں جو ذات سے کبھی علیٰحدہ نہیں ہوسکتی تب بھی کثرت فی الوحدت پائی جائیگی ۔ دونو ں تعریفیں کثرت فی الوحدت کوظاہر کرتی ہیں۔ اگر عیسائی تثلیث فی الوحدت مان لیں توکیا ہرج ہے۔ مجھے اُن کی تقریر سے بہت فائدہ ہوا۔ جو مسئلہ ایسا ادق اور بھید معلوم ہوتاتھا اور صرف مسیحیوں کی خصوصیت سمجھا جاتا تھا اب ایک تو اس کے سمجھنے میں مدد ملی۔ دوم تسلی ہوئي کہ یہ مشکل نہ صرف مسیحیوں کی ہے بلکہ محمدی صاحبان بھی اس مشکل سے نہیں بچے پس وہ مسئلہ توحید جوایسا سادہ جس کی تعلیم توریت انجیل وقرآن میں پائی جاتی ہے عقل وفلسفہ کی مدد سے ایسا پیچیدہ ہوگیاہے۔ مقدس اتھاناسیس کا عقیدہ جو غالباً ساتویں صدی کا ہے انہیں عقلی مشکلات اور بدعتوں کی تردید میں بتدریج تیارہوا تاکہ لوگ عقلی مشکلات اور بدعتوں میں الجھ نہ جائیں۔

پس اگر میں یا کوئی شخص محمدی دین سے اسلئے کنارہ کرے کہ اُس میں اس کثرت کے مسائل اورایسی پیچیدگیاں ایمان، توحید ، اصحاب وغيرہ کے بارہ میں پائی جاتی ہیں تومیں اس امر کو تبدیلی مذہب کی کافی دلیل نہ گردانونگا ۔ جنہوں نے یہ دلیل گردانی مجھے اندیشہ ہےکہ وہ جلد گرداب مسائل میں پھنس کر نجات کے ملتجی ہونگے۔

پھر اگر کوئی پوچھے کہ مسیحی دین میں تو کفارہ اور عذاب ابدی کی تعلیم ہے جس کوعقل قبول نہیں کرسکتی۔ پھر تم نے کیسے مسیحی مذہب قبول کرلیا۔ میں اتنا جواب دونگا کہ محمدی ہونے کی حالت میں بھی میں کفارہ اور عذاب ابدی کا قائل تھا۔ یہ تعلیم میرے لئے نئی نہ تھی۔ ابراہیم کے فرزند کا ذبح عظیم کے عوض چھڑایا جانا ، روہ یا قسم کےٹوٹنے کے لئے فدیہ کا مقرر ہونا۔ پھر عید کی قربانی وغیرہ مجھے خوب یا د تھی۔ بعض شیعہ تو امام حسین کی شہادت کو بھی امت کےلئے کفارہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے مجھے وہ کفارہ جو ان ادنیٰ اور ناکامل فدیوں اورکفاروں سےکہیں اعلیٰ ہے باعث ٹھوکر معلوم نہ ہوا۔ عذاب ابدی کی تعلیم بھی بموجب قرآن میں مان چکا تھا۔ چنانچہ سورہ یونس کی ۵۳آیت میں عذاب الخلد کا ذکر سورہ جن میں۔ نار جھنمہ خالد ین فیھا ابدا۔ مجھے یاد تھا۔ محمد صاحب کی یہ تعریف کہ وہ دونو جہانوں کےلئے رحمت ہیں ( رحمتہ العالمین ) یاد تھی۔ اس سے عذاب ابدی کا ماننا میرے لئے مشکل نہ تھا۔ شکر ہے ۔ کہ مجھے محمدی دین میں اس قسم کے امور سے ٹھوکر نہیں لگی۔ جیسے کہ ڈاکٹر صاحب کو ان امور سے لگی۔

اس کتاب تحفتہ الہند میں دوامور پر خاص زوردیا گیا تھا۔

اول۔ ہندو مذہب کے دیوتاؤں اور اُتاروں کی بدچلنی۔

دوم۔ محمدی تعلیم کا افضل واعلیٰ ہونا۔


میرے خیال میں یہ بہت عمدہ دلیل تھی ۔ جب مذہب کا پیشوا نیک اور پاک نہ ہو تو وہ اپنے پیرؤں پر کیا تاثیر کریگا۔جو شخص اعلیٰ وروحانی تعلیم اپنے مذہب میں نہ دکھا سکے اورنہ اپنے پیشواؤں کی نیکی تو وہ اپنے مذہب کی فضیلت کیسے دکھائیگا ۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے یہ سن کر حیرانگی ہوئی۔ کہ ان کے مسیحی مذہب سے الگ رہنے کی ایک وجہ اس دین کی بہت اعلیٰ وروحانی تعلیم تھی بایں خیال کہ ہم انسان ضعیف البنیان اُس پرعمل نہیں کرسکتے۔یعنی وہ تعلیم عموماً عملی نہیں۔ ایک بڑا حصہ انسان کا اُس پر چل نہیں سکتا۔بمقابلہ اس کے چونکہ اسلام کی تعلیم عملی ہے۔ جس پر عام لوگ چل سکتے ہیں ان کے انگور اس1سے پک سکتے ہیں اس لئے اسلام کی تعلیم کو قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ منطق تودھوکا معلوم ہوتاہے۔ ذرا سنئے یہ تعلیم عام ہے ۔ ہندو محمدی مسیحی سب متفق ہیں ۔

راستی موجب رضائے خُداست

سچائی خیال قول فعل میں ضرور ہے۔ اب فرمائیے کون ایسی راستی پر چل رہاہے۔ یہ اعلیٰ معیار ہے اس دنیا میں عموماً لوگ اس پورے طور سے عمل کر نہیں سکتے۔ پس اگر اس تعلیم کو ذرا ادنیٰ کردیں کہ کبھی کبھی حسب ضرورت جھوٹ بول لیا کریں تویہ تعلیم زیادہ عملی اور عوام الناس کے مذاق کے مطابق ہوجائیگی ویسے ہی زناکاری گناہ ہے ۔ شہوت کی نظر سے دیکھنا بھی ممنوع ہے اور عموماً لوگ اس پر چل نہیں سکتے اسلئے یہ اجازت دیناکہ کبھی کبھی زناحسب ضرورت جائز ہے زیادہ عملی ہوجائیگا اور لوگ خوش ہوجائینگے ۔ مخفی نہ رہے کہ شیطان ہمیشہ راستی میں کچھ غلطی ملا کر پیش کرتاہے کیونکہ اگر محض جھوٹ پیش کرے تو لوگ اس کے کبھی تابع نہ ہونگے۔لیکن جب راستی میں کچھ جھوٹ ملادیتاہے ۔ تو بہت پیرو ہوجاتے ہیں۔ ایسی تعلیم نفسانی جسمانی دنیاوی ہوگی ۔ مگر روحانی آسمانی تعلیم اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ہمارے سامنے پیش کریگی تاکہ انسان جو ترقی کرنے والا انسان ہے وہ ہمیشہ کوشاں رہے کہ اعلیٰ اور افضل بنتا چلا جائے ۔ اگرمعیار ادنیٰ ہوگا تو انسان کی ابدی ترقی کا مانع ہوگا۔ بہت لوگ اس تعلیم پر عمل کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے۔ اسلئے کسی تعلیم کا اعلیٰ وافضل ہونا اُس کے اعلیٰ تصور سے پہچان سکتے ہیں۔ جتنا اعلیٰ تصور پیش کیا گیا اتنی اعلیٰ وقابل تعریف وہ تعلیم ہے گوایک وقت لوگ اُس پرپورے طورسے عمل نہ کرسکیں لیکن وہ ہمیشہ پشت درپشت ساعی رہینگے۔ کہ اس معیار تک پہنچیں اورخُدا کے نزدیک یہ سچی کوشش نہایت مقبول ومنظور ہے۔ یہی حال مسیحی تعلیم کا ہے کہ اس میں سب سے اعلیٰ اور افضل تصور اخلاق وروحانیت کا پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ مذہب عالمگیر ہونے کا دعویٰ رکھتاہے۔ نہ کہ قومی ومقامی مذہب ہے کہ اس میں قومی یا عارضی لحاظ سے ادنیٰ تعلیم نے دخل پایا ہو نہ چند روزہ ہے بلکہ زمانہ کے آخر تک اُس نے نوع انسان کوترقی وروحانیت کی طرف لے جاناہے اس لئے وہ ترقی انسان کو محدود دائرہ میں بند نہیں کرتا۔ بلکہ اس کےلئے وسیع میدان پیدا کرتاہے۔عملی تعلیم محمدی کی ایک مثال بھی ڈاکٹر صاحب نے دی کہ " مسیحی دین میں صرف ایک بیوی کرنے کی اجازت ہے۔ محمدی دین میں آدمی چار تک بیویاں کرسکتا ہے ۔ اس لئے یہ محمدی قانون زیادہ عملی اور ترجیح کے لائق ہے چونکہ مسیحیوں میں ایک بیوی کی تاکید ہے۔ اسلئے عورتوں میں بدی یازیادہ خاوند کرنے بدعادت پڑگئی ہے۔

بریں عقل وہمت بیاید گریست

ایسا دم بھرنے والے اپنے عالموں کی تعلیم اوراپنی مذہبی کتاب سے بالکل نا آسنا معلوم ہوتے ہیں مسٹر امیر علی جیسے لائق فائق شخص تواپنی کتاب میں یوں کہتے ہیں " نہایت قابل ملامت غلطی جومسیحی مصنفوں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے سمجھ لیاکہ محمد صاحب نے کثرت ازدواج کو اختیار

____________________

1ڈاکٹر صاحب نے یہ مثال دی تھی کہ اگرچہ بعض سیارے سورج سے بڑے ہیں لیکن ہمارے اُنگو اُن سے نہیں پک سکتے اس لئے ہمارے انگوروں کےلئے ہمارا سورج مقصد بس ہے۔


کیا اورجائز ٹھہرایا۔ یہ اُن کا غلط عقیدہ ہے چنانچہ سورہ نسا کی ۲۷ آیت کواپنی رائے کی تائید میں پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ محمدی دین میں ایک ہی بیوی کی اجازت ہے اورجو اجازت چاربیویوں کے بارہ میں معلوم ہوتی ہے وہ اصل میں ازقسم نہی ہے"اور سرسید احمد خاں مرحوم بھی یہی رائے رکھتے تھے کہ چونکہ عدل کی شرط ہے اور عدل کثرت ازدواج میں رہ نہیں سکتا اس لئے ایک سے زیادہ بیوی جائز نہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے ایک مضمون میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ رواج کثرت ازدواج بالکل موقوف ہوجائيگا۔میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ محمد صاحب نے زیادہ عورتیں کرنے کی اجازت نہیں دی اور جو اجازت ہے وہ ازقسم منع ہے۔

لیکن بالفرض چار بیویاں اور لاتعداد لونڈیاں رکھنی جائز بھی ہوں اور لوگ رکھتے بھی ہوں توکیا اس سے زناکاری بند ہوگئی۔ ہرگز نہیں اسی شہر میں نہ معلوم کئی بدکارعورتیں موجودہونگی یہی حال باقی تعلیم کا ہے۔ یہ مذہب بدلنے کےلئے کافی نہیں۔ اگرکوئی شخص اس خیال سے مذہب بدلے اوراعلیٰ روحانی معیار کو چھوڑ کر ادنےکی طرف عود کرے تو وہ دھوکا کھاتاہے۔ شکر ہے کہ میں نے ان اسباب سے مذہب نہیں بدلا۔

(۵۔) جب میں اپنے گاؤں سے انگریزی تعلیم کی تحصیل کےلئے لدھیانہ گیا۔وہاں پر مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ مسیحی مناد محمدی وآریامناد بڑی سرگرمی سے وعظ کرتے تھے۔ بحث مباحثہ ہوتے شعیہ وسنی کے اختلاف اورمسیحی دین کی تعلیم سے پہلے پہل وہاں واقفیت ہوئی چنانچہ بائبل مقدس کا ایک نسخہ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا۔ وہاں ایک الہ دیا جلد ساز تھا جس کو مذہبی مباحثہ کا بڑا شوق تھا۔ اورپرچہ منشور محمدی ان کے پاس آیا کرتا تھا۔ یہاں پہلی دفعہ تشویش پیدا ہوئی ۔ کہ جب حقیقی دین کے ماننے پر نجات دارین موقوف ہے تو اس کی تلاش فوراً کرنی چاہیے چنانچہ قرآن اور بائبل کو بالمقابل رکھ کر دونوں کا مطالعہ شروع کیا۔ بتدریج یہ مشاہدہ ہواکہ انسان گنہگار ہے گناہ کے ساتھ جنگ کرکے اُس پر غالب آنا ہے اورتجربہ اس جنگ میں یہ ہوا کہ اکثر گناہ غالب رہتاہے۔ بدھ نے یہ تجربہ کیا دوسرے لوگوں نے یہ تجربہ کیا کہ گناہ پر غالب آنا کیسا مشکل ہے۔اور بلا اس غلبہ اور گناہوں کی معافی کے خُدا کے سامنے سرخرونہیں ہوسکتا۔ اب اس لڑائی میں کونسا مذہب میری مدد کرتاہے " کونسا سورج میرے انگوروں کو پکاتاہے" کونسا پیشوا مجھے گناہوں سے بچانے اورنجات ابدی تک پہنچانے کا وعدہ کرتاہے۔ یہ سوال میرے دل میں بار بار آیا۔ اوراس کے حل کرنے میں قرآن نے مجھے بہت مدد دی۔چنانچہ قرآن کا سیدنا مسیح کی نسبت گواہی دینا اُس کی اعجازی پیدائش اُس کا مردوں کو جلانا اُس کااکیلا بے گناہ ہونا۔ اُس کا زندہ آسمان پر موجود ہونا ۔ اس کا دوبارہ آنا اُس کا کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہونا۔ ان ساری صفات کا ایک شخص میں جمع ہوجانا۔ اُس کوسب سے اعلیٰ وافضل ٹھہراتا ہے۔ اس تعلیم قرآن نے مجھے سیدنا مسیح کی طرف زیادہ رجوع کیا۔ اوراُس کے لئے میں نہایت شکرگزارہوں۔

انجیل کو جب میں نے شروع کیا توپہلے ہی سیدنا مسیح کے نام کی معنی وتعریف جوفرشتے نے بتائی تھی معلوم ہوئي کہ وہ " وہ اپنے لوگوں کو گناہ سے بچائیگا"۔ آگے بڑھ کر اُس کی یہ آواز کان میں آئی کہ میں" اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لوں بلکہ خدمت کروں اوراپنی جان بہتیروں کےلئے فدیہ میں دوں" اُس نے یہ وعدہ کیا کہ روح القدس کو بھیجدونگا جو تم کو ساری سچائی کی راہ میں چلائيگا۔ اُس نے محبت کی اعلیٰ شرع کو پیش کیا۔ خود انکاری اورمحبت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اُس نے کہا" تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کرسکتا ہے" اُس نے دعویٰ کیاکہ " قیامت اور زندگی میں ہوں جومجھ پر ایمان لائے اگرچہ وہ مرگیا ہو۔ توبھی زندہ رہے گااورجو کوئی جیتاہے اورمجھ پر ایمان لاتاہے کبھی نہ مریگا"۔(اس کی طرف مولانا گرامی صاحب نے اپنی نظم میں اشارہ کیا ہے۔ یاد رکھئے کہ یہ مسیح کا قول اپنے بارہ میں ہے نہ قرآن کی کوئی اہمیت محمد صاحب کے بارہ میں ) اُس نے یہ بھی کہا کہ " جہاں کا نور میں ہوں جومیری پیروی کرتاہے وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا(شائد اسی بناء پر محمد صاحب کے نورہونے کا مسئلہ قائم ہوا)اُس نے یہ بھی فرمایا ۔ کہ " آسمان

وزمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے اورمیں زمانے کے تمام ہونے تک ہر روز رتمہارے ساتھ ہوں" اُس کی نسبت اُس کے حواریوں نے یہ کہاکہ آسمان کے تلے زمین پر کوئی دوسرا نام نہیں دیا گیا جس سے نجات ہو"۔

یہ دعویٰ اُس کی پیشینگوئی کی تکمیل سے صادق وراست ٹھہرے چنانچہ جس نے یہ دعویٰ کئے تھے اُس نے یہ بھی خبردی کہ میں مرکر تیسرے دن جی اٹھونگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اُس نے اپنے جی اٹھنے کا کافی ثبوت اپنے شاگردوں کو دیا۔ وہ چالیس روز کے عرصہ تک شاگردوں کو دکھائ دیتارہا۔ اُن سے گفتگو کرتا رہا اُن کو تعلیم دیتا رہا۔ اُن کے مجمعوں میں حاضر ہوتا رہا۔ اور چالیسویں دن اُن کے سامنے اُن کو برکت دیتا ہوا آسمان کو صعود کرگیاہے۔ اس کا مختصر ذکر مقدس پولوس نے یوں کیا ہے کہ " مسیح کتاب مقدس کے بموجب ہمارے گناہوں کےلئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتاب مقدس کے بموجب جی اٹھا اورکیفا کو اوراُس کے بعد اُن بارہ کو دکھائ دیا۔ پھرپانچ سو بھائیوں سے زیادہ کوایک ساتھ دکھائی دیا ۔ جن میں سے اکثر اب تک موجودہیں اور بعض سوگئے۔ پھر یعقوب کو دکھائی دیا پھر سارے رسولوں کو ۔۔۔ یہاں مقدس پولوس ایک دوسرا ثبوت پیش کرتاہے کہ نہ صرف مسیح اپنی پیشینگوئیوں کے مطابق جی اٹھا ۔ بلکہ کتاب مقدس میں پہلے سے بعض نبیوں نے مسیح کے جی اٹھنے کی پیشینگوئي کی تھی۔

پھر مسیح کی یہ پیشینگوئی ہے کہ " دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے۔ اُس کو تم پر نازل کرونگا۔۔۔۔ اورجب تک عالم بالا پر سے تم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھیرے رہو" چنانچہ صعود کے بعد دسویں روز پینتیکوست کی عید کے دن روح القدس شاگردوں پر نازل ہوا اوراُن کو وہ قوت بخشی کہ حاکموں اور بادشاہوں کے روبرو اوردنیا کی حدوں تک اُس کے گواہ ٹھیرے۔

پھر اُس کی پیشینگوئی یروشلیم کی بربادی کےبارہ میں اس کے صعود سے تقریباً چالیس سال بعد ایسے طور سے پوری ہوئي ۔ کہ آج تک سب اس کے گواہ ہیں۔ پس جس نے ایسے دعوے کئے جس کی پیشینگوئیاں ایسی راست ٹھیریں کیوں انسان اس کی آواز کا شنوانہ ہو۔ جب و ہ کہتاہے " تم جوتھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہوئے ہو میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دونگا"۔ میری جان نے جوگناہوں سے تھکی ماندی تھی اوراس جنگ میں زخم کھاچکی تھی فوراً اس دعوت کو قبول کیا۔

بعض لوگ جو یہ آواز اٹھاتے ہیں ۔ کہ یہ کتابیں منسوخ یا محرف ہوچکی ہیں میں نے اس کی چنداں پرواہ نہ کی خاص کراس وجہ سے کہ گوآیات قرآنی کے بارہ میں یہ مسئلہ ہے کہ بعض آیات ناسخ منسوخ ہیں لیکن قرآن کا دعویٰ کتب سماوی کے بارہ میں کہیں نہیں۔ کہ وہ منسوخ ہوگئی ہیں۔ تحریف کے بارہ میں مجھے یہ تسلی تھی۔ کہ محمد صاحب کے زمانہ میں ہزاروں مسیحی محمدی ہوگئے اورمحمدیوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنی کتاب میں محمد صاحب کی خبرپائی۔ پس جب وہ لوگ محمد صاحب کے پاس آئے ہونگے تو ضرور وہ غیر محرف کتابیں بھی ساتھ لائے ہونگے جن میں محمد صاحب کی خبر ہوگی۔ اب وہ کتابیں وہ انجیلیں کہاں ہیں اگریہ دعویٰ درست ہوتا تو وہ کتابیں سینکڑوں محمدیوں کے پاس موجود ہوتیں۔ کیونکہ اس وقت سے لے کر آج تک محمدی دین اورحکومت اُن ممالک میں رائج ہے کسی نے وہ کتابیں ان سے چھین نہ لی ہونگی۔ لیکن آج تک اس قسم کی ایک کتاب بھی کسی محمدی کے پاس نہیں نکلی برنباس کی انجیل کا ذ کر کرکے اپنے دل کو بہت طفل تسلیاں دیں لیکن اُس سے کیا بنتاہے۔

اس لئے میں نے بعد غوروفکر ودعا ستمبر ۱۸۸۷ء کو بپتسمہ پاکر نجات ابدی حاصل کیا اوراب یہی دعا آپ کےلئے ہے کہ آپ بھی اُس صراط مستقیم کو حاصل کریں۔ جس کے لئے آپ دعا کیا کرتے ہیں۔ اور اس کو قبول کرکے جو راہ اورحق اور زندگی ہے" حیات ابدی حاصل کریں۔


چھٹا باب
وعظ

دوسری ستمبر کو ڈاکٹر نندی صاحب کے ہاں کھانا تھا۔ شب باشی کےلئے مسٹر تارا چند نے انتظام کیا۔ صبح اٹھ کر کپتان پریم سنگھ صاحب سے ملاقات کی۔ یہ شخص بھی پنجابی ہیں بڑے خلیق اور ملنسار باوجود ریاست میں رہنے اور فوجی عہدہ دار ہونے کے پنجابی پکڑی نہیں چھوڑی۔ اپنا گھر بنایا ہے انگریزی طوروطریقہ کو اختیا رکیاہے بچوں کی خورش پوسش تعلیم سب انگریزی ہے ۔ آزاد منش اور وسیع خیال شخص ہے۔ تعصب ذرا نہیں رکھتے مسیحیوں کی دوستی ومحبت سے خاص حظ حاصل کرتے ہیں۔ یہ سردار عطر سنگھ صاحب رائے بھدوڑیا کے رشتہ دار ہیں۔ سردار عطر سنگھ صاحب لدھیانہ میں سکونت رکھتے تھے۔ تعلیم کے بڑے حامی اور طالب علموں کے بڑے خیر خواہ تھے۔ ان کے فائدے کےلئے ایک چھوٹا سا کتب خانہ بھی کھول رکھا تھا۔ جس میں ہر طرح کے انگریزی اور اُردو اخبار آتے تھے اورمیں بھی ایام طالب علمی میں وہاں جاکر اخبار پڑھا کرتا تھا اور سردار صاحب کی نصحیت سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ مرحوم ڈاکٹر لائٹز صاحب نے ولایت سے آکر ۱۸۸۴ء میں انہیں کوٹھی پر ایک عمدہ لکچر دیا تھا۔ اُن پرُانے تعلقات کے باعث کپتان صاحب کی ملاقات نے ایک عجیب لطف پیدا کردیا۔

کپتان صاحب اگرچہ اب عرصہ سے حیدرآباد میں رہتے ہیں ۔ لیکن گفتگو میں اُنہوں نے اس شعر کی تصدیق کی۔

حب وطن از ملک سلیماں خوشتر
خاروطن از سنبل وریحاں خوشتر
یوسف کہ درمصر بادشاہی میکرو
میگفت گدابودن کنعان خوشتر

اُس روز شام کو واپس مشن ہوس کو آیا او رات کو صبح کے وعظ کےلئے تیار ی کی۔ اتوار کے روز گرجا میں اردونماز ہوئی اور عشائے ربانی عمل میں آئی۔ اس وقت وعظ میں عشائے ربانی کے چارناموں سے چار خاص نصیحتیں عشائے ربانی کی حقیقت اور ضرورت کے بارہ میں پیش کیں۔ قدیم نام عشائے ربانی کا یوخرست ہے۔ جس کے معنی شکر گذاری ہیں۔ شاید نام کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے خُداوند نے روٹي شکر کرکے توڑی اورپیالہ پر بھی شکر کیا۔شکرگزاری کی بنیاد یادگاری ہے اگر کوئی بات یادنہ ہو اس کےلئے شکرگزار نہیں ہوسکتے۔ اس رسم میں اول تو مسیح کی موت کی یادگار ہے اور جو فائدے اس کی موت سے ملتے اُن کی یادگارہے اوراس موت کو مسیح کی آمد تک یاددلاتے رہنا ہے مسیح کی موت خُدا کی محبت پر دلالت کرتی ہے اس لئے ہم

خُدا کی اس بڑی محبت کےلئے شکر گزار ہیں کہ خُدا نے جہان کو ایسا پیار کیا۔ کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جوکوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ نیز مسیح کی محبت کی یادگار ہے جس نے خوشی سے اپنی جان ہمارے لئے دی۔ اچھا گڈریا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتاہے۔ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے اوراپنی جان بہتیروں کےلئے فدیہ میں دے۔ ہم نے اس سے محبت کو جاناکہ اُس نے ہمارے واسطے جان دیدی۔

موت گناہ کو یاددلاتی ہے کیونکہ موت گناہ کی مزدوری ہے اس لئے مسیح کی موت میں اس بات کی یادگاری ہے کہ خُدا نے ہمارے گناہ مسیح کی خاطر سے معاف کردے اورہم کو شیطان کی غلامی سے چھڑا کر اپنے بیٹے بیٹیاں بنالیا۔ پس جب ہم مسیح کی موت کو یاد کرتے ہیں توہم خُدا کے شکرگزار ہونے اوراپنے گناہوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ ہمارے ہی گناہوں نے مسیح کو صلیب پر چڑھایا۔ ہم نے ہی اس کے ہاتھ پاؤں اور پسلی کو چھیدا اس رسم میں ہم روٹی اورمے کو خُدا کے سامنے پیش کرتے ہیں یعنی اُن چیزوں کو جوہماری محنتوں کے پھل ہماری کھیتی کی پیداوار اورہمارے بدنوں کی خوراک ہے۔ ہم اُن چیزوں کو معہ اپنی محنت کے پھل اپنی آمدنی اوراپنے بدنوں کو خُدا کی نذر کرتے ہیں کہ خُدا اُن پر برکت دے۔ یہ رسم روحانی اوردنیاوی برکتوں کےلئے شکر گزار ی ہے جو لوگ شکرگزار ہیں وہ اس عبادت میں شریک ہونے کےلائق ہیں۔

دوسرا نام ہے رفاقت اقدس یاپاک شراکت ۔ یعنی یہ رسم یادگار ہے خُدا اورانسان کے اتحاد اورانسانوں کے باہمی اتحاد کی۔ وہی ہماری صلح ہے جس نے دو کوایک کیا اوراس دیوار کو جودرمیان تھی ۔ڈھادیا۔۔۔۔۔ اورصلیب کے سبب سے دونو کوایک تن بنا کر خُدا سے ملائے "(افسیوں ۲: ۱۴، ۱۶)۔

کتاب بنام" بارہ رسولوں کی تعلیم" میں یہ عمدہ تمثیل دی گئي ہے۔ کہ روٹی جو خُداوند کے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ آٹے سے بنی ہے اور آٹا دانوں سے یہ دانے الگ الگ تھے وہ آپس میں اتحاد پیدا نہیں کرسکتے تھے۔یہی ہمارا حال تھا ہم دانوں کے کی طرح ایک دوسرے الگ اورمنتشر تھے۔ لیکن مسیح کی صلیب کے ذریعے ہم کوٹے گئے اوراُس کے خون میں گوندھے گئے اورایک روٹی یعنی ایک بدن بنایا گیا۔ اب ہم روٹی چڑھانے سے اپنی رفاقت کو جوخُدا کے ساتھ اورباہمی ہے ظاہر کرتے ہیں۔

تیسرا نام ہے عشائے ربانی ۔ بمعنی شام کا کھانا۔ ہمارےمولا نے جمعرات کے روز شام کے وقت یہ آخری کھانا اپنے شاگردوں کے ساتھ کھایا تھا۔ اس لئے یہ عشائے ربانی کہلاتاہے۔ یعنی خُداوند کا شام کا کھانا یہ شام کاکھانا خُداوند کی اُس تمثیل کو یادلاتاہے جولوقا ۱۴: ۱۶سے ۲۴ تک میں بیان ہوئي ہے۔ کہ ایک شخص نے شام کو بڑا کھانا تیار کرکے بہتوں کو بلایا۔ مبارک ہیں وہ جو اُس میں شریک ہوتے ہیں۔ توریت شریف میں بھی اس قسم کی ضیافت کا ذکر آتاہے۔ سلامتی اور شکر گزاری کےذبحیوں کے واسطے ہدایت کے ذبحیے کے ساتھ فطیری روغنی کلچے اور فطیری چپاتیاں تیل میں چپڑی ہوئی اور تیل میں پکے ہوئے میدے کے کلچوں کے ساتھ گذرانے اور خُداوند کے سامنے گزارننے کے بعد وہ خُداوند کے حضور کھائے یہ خُداوند کا دسترخوان تھا اور خُداوند کو جو کچھ دیا جاتاہے وا لٹ کر اپنے بندوں کو ساتھ کھلاتا اور پلاتاہے۔ شرط یہ ہے کہ نجس آدمی یہ گوشت نہیں کھاسکتا اور خُداوند کی ضیافت میں شریک نہیں ہوسکتا (احبار ۷: ۱۱سے ۲۱تک) ویسے ہی یہ ضیافت خُداوند کی طرف سے دی جاتی ہے اوروہی اُس میں شریک ہوسکتے ہیں جن کو خُداوند کے خون نے پاک کیاہے ورنہ وہ مکروہ ہے نہ صرف مکروہ بلکہ ہماری سزا کا باعث ہے۔ جیسے مقدس پولوس کہتاہے " جوکوئی نامناسب طور سے یہ روٹی کھائے یا خُداوند کا پیالہ پیئے تو وہ خُداوند کے بدن اور لہو کا گنہگار ہوگا۔ پس آدمی پہلے آپ کو جانچے اور یوں اُس روٹی میں سے کھائے اوراس پیالہ میں سے پیئے کیونکہ جومناسب طور سے کھاتااورپیتاہے سوخُداوند کے بدن کا لحاظ نہ کرکے اپنی سزا کھاتا اورپیتاہے"(۱کرنتھیوں ۱۱: ۲۷)۔

چوتھا نام مسہ تھا۔ جوآج تک رومی کلیسیا میں مشہورہے۔ اس کے معنی ہیں رخصت کرنا یعنی جب عشائے ربانی کی رسم شروع ہوئی تو غیر مسیحی اوردیگر شریک نہ ہوتے رخصت کئے جاتے۔ یہ رسم مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کے درمیان امتیاز کا نشان ہے پس جو لوگ اس رسم میں شریک ہوتے ہیں و ہ اپنے چال چلن کے ذریعے سے ظاہر کرتے ہیں کہ نہ شریک ہونے والوں سے متفرق ہیں۔

دوسرے روز قدرے بارش ہورہی تھی۔ اس روز ایک مشہور عہدہ دار حیدرآباد کا جنازہ نکلا۔ یہ شخص بلحاظ عہد کے عمادِجنگ کہلاتا تھا بہت مشہور اور مدبرشخص تھا۔ اورملکی فریق میں سے تھے۔ یہ فریق اس بار پرزور دیتاہے کہ حیدرآباد میں جتنے اعلیٰ عہدے ہوں وہ ملکیوں یعنی وہاں کے باشندوں کوملنے چاہئيں باہر کےلوگوں کوملنے نہ چاہیے۔ ان کی رائے میں یورپین اورمدارسی لوگ اس سے مستشنیٰ ہیں۔ خاص بند ش ہندوستانیوں کےلئے پیش کرتے ہیں کہ اُن کو اعلیٰ عہدے نہ ملنے چاہئیں۔ اُنہوں نے اپنے ایک بھتیجے نظام الدین صاحب کو ایک عہدے کےلئے نامزد کیا تھا۔ لیکن بندگان عالی سے ایک غیر ملکی کے نام حکم آیا اور وہ مقرر ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ عماد جنگ بہادر کو بستر بیماری پر یہ سخت صدمہ پہنچا۔ جس کی وہ برداشت نہ کرسکے اورجان بحق تسلیم ہوئے۔ میں بھی بارش برستے میں اُن کے مکان پر گیا۔ عزیزواقربا دوستوں لواحقوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ بڑی عزت وتوقیر کے ساتھ ان کے جنازہ کو ان کے خاص قبرستان میں لیگئے۔ بعضوں کو غم اور بعضو کو خوشی ہوگئي۔ انسان کیاہے پل بھر میں روتاپل بھر میں ہنستا ہے۔ دنیا بھی عجیب ہے کہیں نوحہ زاری۔ کہیں خوشی وخرمی کل ہم ایک جنازہ کا مشادہ کررہے تھے۔ دنیا کی بےثباتی اور فنا کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ آج ہم ایک شادی کے جلسہ میں شریک ہوتے ہیں۔ تلگو لوگوں کی شادی کا مشاہدہ پہلی دفعہ کیا۔ عورتیں یہاں ننگے سررہتی ہیں۔ اورگرجا میں بھی ننگے سرآتی ہیں۔ البتہ مشن سکولوں اور تہذیب نے بعضی عورتوں اور لڑکیوں کے سرپر سایہ ڈال رکھاہے ورنہ ننگے سررہنا فخر ہے۔ ہماری طرف عورت کاننگے سرہونا بدنامی اور رنڈ آپی کا نشان ہے۔ لیکن ان لوگوں میں سرڈھانپنا عورتوں کےلئے معیوب ہے شادی انگریزی گرجا میں ہوئی چھلے کے ذریعے شادی نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک قسم کا ہار گلے میں تھا۔ چنٹيا کے نزدیک اُس پرہاتھ رکھا جاتاہے۔جلسہ شادی میتھوڈسٹ گرلز اسکول میں ہوا لڑکیوں نے جاپانی گیت بہت عمدہ طور سے بڑے انداز سے گایا۔ دلہا دلہن خوش وخرم حاضرین سے ملاقات کرکے اپنے عشرت کدہ میں چلے گئے۔ ہم بھی اپنے کمرہ میں آجے بزا اور رات کو سوکر گزاردیا۔ دوسرے روز شام کو مس قرینلیوس کے ہاں دعائیہ جلسہ تھا۔ وہاں پادری گولڈاستمھ صاحب اور دوچار گھرانے سے باہر آئے تھے۔ یہ خاندان مسیحی کام میں بڑا سرگرم ہے گوچرچ آف انگلینڈ کے ممبر نہیں۔ لیکن ہر مشن میں مددینے کو تیار ہیں۔


ساتواں باب
پیشینگوئیاں

یہاں شہر میں ایک محمدی عثمان شریف نامی رہتے ہیں۔ان کو مذہبی مباحثوں کا شوق معلوم ہوتاہے شہر میں جہاں پادری گولڈاسمتھ صاحب منادی کیا کرتے ہیں وہاں یہ بھی آن کر کچھ چوں چاں کیا کرتے ہیں مجھے اجنبی دیکھ کر مجھ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی اورمجھے ترغیب دینے لگے کہ ان کے ساتھ تحریری مباحثہ کروں۔ میں نے ایسے مباحثہ سے عذر کیا انہوں نے زور دیا آخر کار میں نے اتنا قبول کیا کہ وہ کوئی سا مضمون مقرر کرلیں اس پر چند شخصوں کے سامنے سوال وجواب ہوجائیں۔ اُنہوں نے بھی اتفاق کیا۔ اُن کی طرف سے ایک چھوٹا دوورقہ رسالہ مسیحی مذہب کے خلاف شائع ہوا تھا اُس کو اُنہوں نے پیش کیا اورکہا کہ اس مضمون پر گفتگو ہو۔ اس رسالہ کا نام" رسالت محمدیہ" ۔ اس کے پہلے حصے میں تویہ ذکر ہے کہ توریت مقدس میں بعض انبیاء کو زانی (پیدائش ۱۹: ۳۳، ۳۴) اور ڈاکو(خروج ۱۱: ۲) قرار دیا ہے۔ بعض کو جھوٹا (پیدائش ۲۶: ۷) اور دغاباز (پیدائش ۲۹: ۲۵) وغيرہ دوسرے حصہ میں ذکر ہے کہ " اگر عیسائی تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر چشم انصاف سے دیکھیں توموجودہ انجیل میں باوجود بہت کچھ تبدیل کردئے جانے کے آپ کی نسبت (یعنی محمد صاحب کی نسبت) بہت سی پیشینگوئیاں پائینگے۔ منجملہ ان کے صرف دونقل کی جاتی ہیں۔ چنانچہ یوحنا ۱: ۲۱، ۱۶: ۱۲کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان میں محمد صاحب کی طرف اشارہ ہے۔ اس لئے یہ قرار پایاکہ ان پیشینگوئیوں کے متعلق گفتگو اور بحث ہو۔ طرفین کی رضامندی سے ۹ستمبر کوصبح وقت مقرر ہوا۔

چنانچہ وقت مقرر آپہنچا اورپادری گولڈ اسمتھ صاحب بھی جاموجودہوئے۔ عثمان شریف بھی آگئے البتہ اُن کے رفیقوں کے آنے میں کچھ دیر ہوئی۔ بہت لوگ جمع نہ تھے۔ لیکن مباحثہ شروع ہوا ملاطہ نامی بھی موجود تھے۔

میں نے مباحثہ کے شروع میں عرض کی کہ ایک ایک سوال پیش کیاجائے اس کا جواب دیا جائیگا۔ لیکن عثمان شریف نے اس پر اصرار کیاکہ سارے اعتراض اورسوال وہ ایک لخت پیش کرینگے اورمجھے سب کا اکٹھا جواب دینا ہوگا میں نے یہ بھی منظور کرلیا۔ اُنہوں نے جو اعتراضات پیش کئے اُن کا خلاصہ ان کے دوکیاکہ سارے اعتراض اور سوال وہ یک لخت پیش کرینگے اورمجھے سب کا اکٹھا جواب دینا ہوگا میں نے یہ بھی منظور کرلیا۔ اُنہوں نے جواعتراضات پیش کئے اُنکا خلاصہ ان کے دوورقی رسالہ میں یوں مندرج ہے۔

(۱۔) " یوحنا ۱باب ۲۱۔ تب اُنہوں نے پوچھا تو اور کون ہے کیا تو الیاس ہے۔ اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔ پس يا تو وہ نبی ہے اُس نےجواب دیا نہیں۔ یہاں وہ نبی سے مراد سرورکائنات ہے کیونکہ حضرت مسیح کے بعد سوائے حضور انور کے کسی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ بعض انجیل کے مفسرین کا خیال ہے کہ پوچھنے والوں کی غلطی تھی"۔ کیا تم وہ نبی ہیں" کرکے نہیں پوچھنا چاہیےتھا۔ مگرہم کہتےہیں کہ یہ اُن کی ہر گزغلطی نہ تھی اُنہوں نے ت

توریت مقدس میں دیکھ چکا تھا 1 ۔ کہ حضرت مسیح کے بعدایک نبی مبعوث ہونگے۔ اسلئے اُنہوں نے اس طرح پوچھا۔ اگراُن کی غلطی ہوتی تویوحن[ ان دونو فوٹ نوٹ کو آپ فوٹ نوٹ نمبر ۱ میں دیکھئے۔ 2اس غلطی کو دورکردیتے کیونکہ اس قسم کی غلطی یعنی اُن کے غلط اعتقاد کودرست کرنا اُن کا فرض تھا۔ بجائے درست کرنے کے خودیوحن نے اپنی زبان سے فرمایا کہ" نہ میں وہ نبی ہوں" اس سے صاف شہادت صرف دریافت کرنے والوں کی نہیں بلکہ یوحن کی بھی پائی جاتی ہے۔ کہ حضرت مسیح کے بعد دنیا میں ایک نبی 3 مبعوث ہونے والے ہیں۔

(۲۔)یوحنا ۱۶باب ۱۲" میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ روح حق آئے تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے" یہ پیشینگوئی بھی حضور انورمحمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے جس کو عیسائی روح القدس کی نسبت سمجھتے ہیں۔

" میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ تمہیں کہوں" اس سے صاف ظاہرہے کہ حضرت مسیح نے جن جن باتوں کی تعلیم دی۔ان کےعلاوہ اور بہت سی نئی نئی باتوں کی تعلیم آپ کے بعد آنے والا دیگا"۔ اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے"۔ اس سے ظاہر ہے ہوتاہے کہ حضرت مسیح کے اور حضرت مسیح کے بعد آنے والے کے درمیان عرصہ دراز یعنی اس قدر عرصہ کہ جس میں ان باتوں کی برداشت کرنے کا مادہ لوگوں میں پیدا ہوجائے گزریگا۔ بخلاف اس کے حضرت مسیح کے تھوڑے ہی عرصہ بعد روح القدس آپ کے شاگردوں پرظاہر ہوئی بہت سی نئی باتیں تودرکنار ایک بھی نئی بات کی تعلیم نہیں دی۔ اس لئے یہ پیشینگوئی روح القدس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی۔ بہت سی نئی باتوں کا تعلیم دینا اورحضرت مسیح کے بعد عرصہ دراز کا گزرہونا ہمارے نجات دہندہ محمد صاحب مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم میں پورا ہوا۔

جب عثمان شریف نے مفصلہ بالا بیان پیش کیا تو میں نے سلسلہ وار جواب دینا شروع کیا۔ یوحنا ۱۔ ۲۱آیت کے متعلق اول تویہ سوال کیا کہ آیا قرآن میں کبھی یہ پیشینگوئی اشارتاًیا صراحتاً محمد صاحب سےمنسوب ہوئی ہے اگرہوئی ہے تو اس کا بیان کریں۔

دوم۔ اس مقام میں کوئی پیشینگوئی کسی قسم کی نہیں۔ دوفریق کے سوال وجواب ہیں۔ ایک فریق کچھ سوال کرتاہے دوسرا فریق یا نہیں جواب میں کہتاہے۔

سوم۔ اس سوال وجواب میں کسی ایسے شخص کاذکر نہیں جو مسیح کے بعد آنے والا ہو۔ بلکہ جو مسیح سے پیشتر آنے والا تھا۔ چنانچہ سوال وجواب کی ترتیب انجیل کے مطابق یوں ہے" یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلیم سے کاہن او رلیوی یہ پوچھنے کو اُس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے تو اُس نے اقرار کیا اورانکارنہ کیا بلکہ اقرار کیاکہ میں تو مسیح نہیں ہوں اُنہوں نے اُس سے پوچھا۔ پھر اور کون ہے کیا توایلیاہ ہے اُس نے کہا نہیں۔ کیا تو وہ نبی ہے اُس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پس اُنہوں نے اُس سے کہا پھر توکون ہے تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں تو اپنے حق میں کیا کہتاہے۔۔۔۔۔ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیاہ نہ وہ نبی توپھر بپتسمہ کیوں دیتاہے"۔

اس ترتیب عبارت سے ظاہرہے کہ جب یوحنا نے مسیح ہونے سے انکار کیا تو اُ س سے سوال یہ نہیں کیا جاتا ہے تو مسیح کے بعد آنے والا نبی ہے یا نہیں بلکہ قدرتاً سوال یہ ہوگا کہ اگر تو مسیح نہیں تو اس سے پیشتر آنے والا نبی ہوگا۔ چنانچہ مسیح سے پیشترایلیاہ نبی کے آنے کی اُمید تھی۔ یہودی یہ دریافت کیا کرتے تھے ۔ مثلاً مرقس ۹۔۱۱ میں مسیح کے شاگرد اس کا ذکر کرتے ہیں " انہوں نے اُس سے یہ پوچھا کہ فقیہ کیونکر کہتےہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضرور

__________________

1اس غلط اردو کے ہم ذمہ وار نہیں ۔ ان کی یہ عبارت من وعن نقل کردگئی ہے۔

2 ان دونو فوٹ نوٹ کو آپ فوٹ نوٹ نمبر ۱ میں دیکھئے۔


ہے۔ اُن کا یہ سوال ایک قدیم پیشینگوئي پر مبنی تھا۔ جوملاکی ۴۔ ۵ مذکور ہے پس جب یوحنا نےکہا نہ تو میں مسیح ہو ں اورنہ میں مسیح سے پیشتر آنے والاایلیاہ ہوں تو دوسرا سوال یہ نہیں ہوگا کہ تومسیح کے بعدآنے والا نبی ہے ۔کیونکہ نہ مسیح ابھی آیا ہے اورنہ اُس سے پیشتر آنے والاایلیاہ ہے۔ تو کس طرح سے مسیح کے بعد آنے والا نبی کا ذکر ہوسکتا تھا۔پس سوال یہ ہے کہ اگر تومسیح نہیں اورنہ اُس سے پیشتر آنے والا ایلیاہ ہے۔ توکیا تو وہ نبی ہے جومسیح اورایلیاہ سے پیشتر آنے والا تھا۔ اُن دنوں میں معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایلیاہ سے پیشتر آنے والا تھا۔ اُن دنوں میں معلوم ہوتاہے کہ یہودی ایلیاہ کے سواایک اور نبی کے بھی منتظر تھے جومسیح سے پیتر آئيگا۔ چنانچہ اس کی طرف اشارہ متی ۱۶۔ ۱۳، ۱۴ آیات میں پیا جاتاہے۔ جب مسیح قیصریہ فلپی کے علاقہ میں آیا تواپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ بن آدم کوکیاکہتے ہیں اُنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں۔ بعض ایلیاہ بعض یرمیاہ یا نبیوں میں سے کوئي۔ الغرض یہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں مسیح کے بعد کسی شخص کا ذکر نہیں بلکہ اُس سے پیشتر آنے والوں کا ذکر ہے۔ اب رہا یوحنا ۱۶: ۱۲ کے متعلق میں اول اُن مقامات کا ذکر کرونگا جہاں اس روح حق کے آنے کا بیان ہے۔

" میں باپ سے درخواست کرونگا تو وہ تمہیں دوسرا وکیل بخشیگا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی حق کی روح جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اورنہ اُسے جانتی ہے تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی اورتمہارے اندر رہیگی(یوحنا ۱۴: ۱۶، ۱۷)۔

" میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہے کر تم سے کہیں لیکن وکیل یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھجیگا وہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا اورجوکچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاددلائيگا"۔(یوحنا ۱۴: ۲۵، ۲۶)۔

" لیکن جب وہ وکیل آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجونگا یعنی حق کی روح جوباپ کی طرف سے نکلتی ہے تووہ میری گواہی دیگی اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو۔ یوحنا ۱۵: ۲۶)۔

پھر یوحنا ۱۶: ۷سے لے کر یوں ذکر آیاہے" ۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آکر دنیا کوگناہ اور پرہیزگاری اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے ۔ پرہیزگاری کے بارے میں اس لئے کہ میں پروردگار کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے ۔ عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے ۔مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھا ئے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میری بزرگی ظاہر کرے گا۔ اس لئے مجھے ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ پروردگار کا ہے وہ سب میرا ہے ۔ اس لئے میں نے کہا وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا۔ (یوحنا ۱۶: ۷ ، ۱۴)۔

"دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے میں اس کو تم پر نازل کرونگا لیکن جب تک عالم بالا پر سے تم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھیرے رہو"۔(لوقا ۲۴: ۴۹)۔

اب غور کیجئے کہ اس روح حق کی کن کن صفات کا ذکر ہواہے ۔ آیا وہ صفات محمد صاحب پر صادق آسکتی ہیں یا نہیں۔

اول۔ یہ آنے والا روح حق کہلاتاہے۔ کیا کبھی محمد صاحب نے اپنے تئیں روح حق بیان کیا یا قرآن میں یہ نام اُن کو دیا گیا؟

دوم۔ یہ روح حق مسیح کے نام سے آتاہے۔ بلکہ مسیح باپ کی طرف سے اُس کو بھیجتاہے۔ کیا محمد صاحب مسیح کے آنام سے آئے یا محمدی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح نے باپ کی طرف سے محمد صاحب کو بھیجا ہے؟ کیونکہ اس کے مطابق اگر یہ روح حق محمد صاحب ہو تو وہ مسیح کا رسول ہوگا۔


سوم۔ یہ روح حق باپ کی طرف سے یا باپ سے نکلتاہے یعنی الہٰی ذات رکھتاہے ۔ کیا محمد صاحب خُدا باپ سے یااُس کی طرف سے نکلتا اورالہٰی ذات رکھتاہے؟ہرگز نہیں۔

چہارم۔ یہ روح حق مسیح کے شاگردوں کو وہ ساری باتیں یاد دلائیگا جومسیح نے اُنہیں سکھائی تھیں۔ کہاں محمد صاحب نے وہ ساری باتیں مسیحیوں کو یاددلائیں جومسیح نے اپنے شاگردوں کو کہی تھیں اُن کا عشر عشیر بھی قرآن یا احادیث میں اس طور پر مذکور نہیں ہے۔

پنجم۔ یہ روح حق آکر حق کی پوری راہ دکھائیگی اورآئندہ کی خبریں دیگی وہ مسیح کا جلال ظاہر کریگی کیونکہ وہ سب کچھ مسیح سے حاصل کریگی محمد صاحب نے کہاں کامل راہ دکھائی بلکہ وہ تواعلیٰ روحانی تعلیم سے ہٹا کر ابتدائی یہودی تعلیم کی طرف لے گئے۔ کونسی آئندہ کی خبریں دیں کہاں مسیح کا جلال ظاہر کیا بلکہ لاکھوں کروڑوں کو مسیح کی طرف ہٹادیا اور مسیح کے درجہ کو گھٹادیا۔ کہاں محمد صاحب مقر ہیں کہ میں نے ساری باتیں مسیح سے حاصل کی ہیں۔

ششم۔ اس روح کے بارہ میں یہ بھی مندرج ہے کہ وہ ہمیشہ تک شاگردوں کے ساتھ رہیگا۔

اب محمد صاحب اول تو تقریباً چھ سو برَس بعد آئے۔ ان کی نسبت یہ کیسے صادق آسکتاہے۔ کہ وہ مسیح کے وقت سے ابد تک مسیح کے شاگردوں کے ساتھ رہیگا۔

دوم۔ کہاں مسیحی لوگ محمد صاحب کومانتے ہیں یا محمد صاحب مسیحیوں کی مدد کرتا یا اُن کے ساتھ رہتاہے۔

ہفتم۔ پھر لکھاہے کہ اس روح حق کو دنیا نہ دیکھتی نہ جانتی ہے۔ کیا محمد صاحب کو دنیا نے کبھی نہیں دیکھا اورنہیں جانا؟

ہشتم۔ لکھاہے کہ اس روح حق کو مسیح کے شاگرد جانتے ہیں۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے۔ کیا محمد صاحب کی نسبت یہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہرگزنہیں۔

نہم۔ اس روح حق کی یہ صفت بھی مسیح نے بیان کی کہ" وہ تمہارے اندرہیگی" محمد صاحب کہاں مسیحیوں کے اندر رہتے ہیں۔

دہم۔ اس روح کی آمدہ عرصہ بھی مسیح نے محدود کردیا چنانچہ شاگردوں کوتاکید کی کہ اس کے آنے تک یروشلیم میں ٹھیرے رہو۔ اس سے صاف قطعی فیصلہ ہوجاتاہے کہ یہ پیشینگوئی ہرگز ہرگز محمد صاحب پر صادق نہیں آتی جو تقریباً چھ سوبرَس بعد برپا ہوئے اور وہ بھی عرب میں نہ یروشلیم میں ۔ لیکن اعمال کی کتاب کے پڑھنے سے اس روح کے نزول وآمد کا سارا حال کھل جاتاہے۔

الغرض جب یہ بیان ہوچکا عثمان شریف سے کچھ جواب نہ آیا۔ توملاطہ وغيرہ نے ایک اور دن مقررکیا اورکہاکہ وہ خود میرے ساتھ مباحثہ کرینگے کیونکہ اس جوان کو بہت واقفیت نہیں ہے میں نے منظور کرلیا جلسہ برخاست ہوا۔ اس کے لئے خُدا کا شکر کیا۔


آٹھواں باب
پُرانے اُستاد سے ملاقات

یہاں مولانا عبدالقادر گرامی صاحب برسوں سے مسکن پذیر تھے۔ ان کا وطن تو پنجاب تھا۔ لیکن اعلیٰ حضرت کی قدردانی اُن کو پنجاب سے کھینچ کر حیدرآباد لے گئی۔ نواب صاحب کی طرف سے منصب مل گیا۔ ریاست کی طرف سے شاعر مقرر ہوئے۔ یہ صاحب لدھیانہ میں فارسی معلم تھے۔ بندہ بھی ان دنوں میں لدھیانہ گورنمنٹ سکول میں تعلیم پاتا تھا۔ وہاں شرف قدمبوسی حاصل ہوا تھا۔ اوران کی شاگردی کا حق بھی ملا تھا۔ علاوہ تعلیم فارسی کے آنجناب شعر بھی کہا کرتے تھے۔ اس طبع موزون اور شعر خوانی کے باعث ہر دل عزیز تھے۔ ہر مجلس میں یہ رنگ جماتے۔ ہر محفل کو رونق دیتے تھے اُن دنوں میں سرسید حسین صاحب جگرنوای بورڈنگ ہاؤس کے سپر ٹینڈنٹ تھے ان کی طبعیت بھی شعرواشعار کی طرف بڑی مائل تھی اور شاید اسی وجہ سے گرامی صاحب کے بڑے دوست تھے۔ گرامی صاحب اکثرآپ کی ملاقات کو آتے ہیں۔ چند طلبا بھی ہالہ کی طرح آپ کو آگھیرتے اورہرایک کی یہی التجا ہوتی کہ گرامی صاحب کچھ سنائے یہ بھی اپنے طبعزاد شعروں کے ذریعہ ہم کوممنون اور محظوظ کرتے کبھی کبھی یہ بھی فرماتے کہ کسی خوبصورت شخص کو سامنے بٹھا دوپھر جتنے شعر چاہو سن لو ان دنوں ایک طالب علم بہت جو خوبصورت جوان تھا اُس کو ہم سامنے لابیٹھاتے رومی ٹوپی اُس کے سرپر رکھتے پھر توگرامی صاحب کی طبع رسا جوش زن ہوتی اورپھول اور تمر برسانے لگ جاتی تھی۔

کیا ہی لطف کا زمانہ تھا۔ جب یہ خبر لگی کہ گرامی صاحب حیدرآباد میں تشریف رکھتے ہیں پھر تو وہ قدیم سماں آنکھوں میں پھر گیا۔ پرانے دن یاد آگئے۔ اورجب ڈاکٹر نیشی کنٹھ کے لکچر کے وقت اُن کے شعر سے تو زیادہ شوق پیدا ہوا۔ الغرض ایک شخص رہنما کو ساتھ لیا۔ آپ کے مکان پرحاضر ہوئے۔ اُنہوں نے بھی پہچان لیا۔ ایک دوسرے کی ملاقات سے نہایت خوشی ہوئی ۔ پُرانی باتیں یادآئیں پُرانے دوستوں کا حال پوچھا پاچھا۔ پان گلوری کا مزا اڑایا۔ چاے کہ پیالہ نوش کیا۔ حبِ وطن ازملکِ سلیماں خوشتر کا چرچاہوا۔ آئندہ ملاقات کا وعدہ ہوا اور رخصت ہوکر بندہ اپنے مکان پر پہنچا۔ شام کو جلسہ پر ہیزگاری تھا اُس میں حاضر ہوا۔ عد جلسہ ڈاکٹر نندی صاحب کے کھانا کھایا اور مسٹر تارا چند صاحب کے ہاں شب باشی کی اور صبح کو حاضری کھائی وعظ کو تیا رکیا۔

دوسرے روز اتوار تھا۔ صبح کو مشن ہاؤس میں وعظ کیا۔ شام کو ایس پی ۔ جی کے گرجا میں وعظ کیا۔ رات کو کثرت سے بارش ہوئی ۔


نواں باب
عصمتِ انبیاء

۱۴ستمبر بدھ کے روز مشن ہاؤس میں بہت محمدی صاحبان حاضر ہوئے ۔ ملاطہ صاحب نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے مباحثہ کرینگے۔ اور شرائط مباحثہ پہلے سے مقرر کی جائینگی۔ فریقین اُن شرائط کے پابند رہینگے مجھے بھی یہ منظور ہوا۔ چنانچہ جب وہ محمدی دوستوں کے ساتھ تشریف لائے تواُنہوں نے چند تحریری شرائط پیش کیں وہ ہدیہ ناظرین کی جاتی ہیں۔

۱۔ گفتگو خلاف کتب الہٰی نہ ہو۔

۲۔ بلند آواز سے گفتگو نہ کریں جو خلاف قاعدہ ہو۔

۳۔ اثناے مناظرہ میں قہقہ نہ مارنا۔

۴۔ مطلب سے گریز نہ کرنا۔ یعنی ایک مضمون کو چھوڑ کر بلاواسطہ یا باواسطہ دوسرے پر نہ جانا۔ باواسطہ سے یہ مراد ہے کہ نظیر ومثال نہ دینا جب تک مناظر مطلب نہ سمجھنے کا اظہار نہ کرے۔

۵۔ الفاظ غریبہ استعمال نہ کرنا جن کومناظرین نہ سمجھتے ہوں۔

۶۔ حتیٰ الامکان مطلب کو طول نہ دینا۔

۷۔ جب ایک شخص کلام کرتاہو تو دوسرا خاموش رہے۔

۸۔ میر مجلس صاحب کو اختیار ہے کہ جب اثناے گفتگو میں کوئی امر قاعدہ مقررہ کے خلاف دیکھیں تو وہ متکلم کو آگاہ کردیں۔

۹۔ ضرورت کے وقت دلیل عقلی کو موقعہ دیا جائے۔

۱۰۔ تقریر میں جو الفاظ مشترکہ استعمال ہوں جن کے کئی ایک یا مختلف معنی ہوسکتے ہیں اُن میں سے ایک معنی کی تحقیق کی جائے تاکہ سلسلہ گفتگو برابر چلے۔

۱۱۔ ان قوانین میں فریقین کی رضامندی سے تبدیلی ہوسکتی ہے اوران میں بڑھاگھٹاسکتے ہیں۔

۱۲۔ جس کتاب سے اظہار مطلب کیلئے دلیل پیش کی جائے تو وہ کتاب جھوٹ اور شکیہ الفاظ سے مبرا اور معرا ہو یعنی اگرکسی کتاب میں جھوٹ اور شکیہ الفاظ پائے جائیں۔ تو وہ صرف اُنہیں الفاظ میں کمزور ہوگی۔ اس سے باقی کتاب پر نقص نہ آئے گا۔

ملاطہ صاحب نے چند رسالے مسیحی دین کے خلاف لکھے تھے۔ اس مقررہ دن سے پیشتر میں نے ان کا مطالعہ کرلیا تھا تاکہ مجھے ان کے خیالات اور اعتراضات معلوم ہوجائیں۔ کیونکہ اُنہوں نے یہ بتانا نہیں چاہا تھاکہ کس مضمون پر بحث ہوگی ان رسالوں سے معلوم ہواکہ صحت انجیل پر ان کے اعتراض تھےکئی یورپین مصنفوں کی کتابوں سے انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ انجیل محرف ہے اور بگڑ گئی ہے اسلئے قابل اعتبار نہیں۔ میں امید کرتاتھاکہ غالباً وہ اسی مضمون پر بحث کرینگے۔ جب اُنہوں نے آخری شرط مناظرہ پیش کی تو وہ اُس وقت صرف اتنی تھی" جس کتاب سے اظہار مطلب کےلئے دلیل پیش کی جائے تو یہ کتاب جھوٹ اورشکیہ الفاظ سے معرا او رمبرا ہو۔ اس کو دیکھتے ہی میں ان کا مطلب تاڑ گیا اور فوراً تشریحی جملہ پیش کیا کہ بڑھایا جانے۔ چنانچہ کچھ بحث کے بعد یہ جملہ بڑھایا گیا۔ " یعنی اگر کسی کتاب میں جھوٹ اور مشکوک الفاظ پائے جائیں تو وہ صرف انہیں الفاظ میں کمزور ہوگی اس سے باقی کتاب پر نقص لازم نہ آئے گا۔


جب شرائط مناظرہ کا فیصلہ ہوچکا اور دوشخص ثالث مقرر ہوئے ایک تو محمدی صاحب اور ایک پادری گولڈ اسمتھ صاحب اور ملاطہ صاحب کو کہا کہ وہ اپنا سوال پیش کریں۔ تواُنہوں نے عذر کیا اورکہاکہ ان کی بجائے ایک دوسرے شخص کو مباحثہ کےلئے منظور کریں کہ وہ خود دوسرے بدھ کو مباحثہ کرینگے۔ ان کا یوں پہلوتہی کرنا پسند تونہیں آیالیکن چونکہ اتنے لوگ جمع ہوچکے تھے۔ میں نے اُس دوسرے شخص سے گفتگو کرنا منظور کیا۔ یہ دوسرے شخص غلام حسین نامی ریاست حیدرآباد میں وکالت کرتے ہیں۔ بازار میں ایک دفعہ جب اُن سے گفتگو کا اتفاق ہوا تھا۔ تواُنہوں نے لوط کے قصہ کو بیان کرکے یہ ظاہر کرنا چاہاکہ جس کتاب میں یہ قصہ ہو اورایک نبی پر یہ الزام زنا کا لگا یا گیا ہو وہ کتاب خُدا کی طرف سے نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ آج بھی جب اُن کو گفتگو کا موقع دیا گیا۔ تواُنہوں نے یہ سوال کیا" کیا تمام پیغمبروں کو آپ حق سمجھتے ہیں "۔ میں نے یہی جواب دیا اس سوال میں دو لفظ مشترکہ ہیں ۔

اول۔ لفظ " تمام" بلحاظ محمدیوں کے یہ لفظ محمد صاحب تک حاوی ہے اور بلحاظ مسیحیوں کے اس میں وہی انبیاء شامل ہیں جو بائبل میں انبیاء کہلاتے ہیں۔ اسلئے میں نے یہ دریافت کیاکہ تم اس لفظ کو محمدی معنی میں استعمال کرتے ہو یا مسیحی معنی میں۔ شیعہ صاحب نے کہا کہ جس معنی میں آپ اس لفظ کو لینا پسند کریں۔ میں نے جواب دیا کہ میں صرف اُن انبیاء کے بارہ میں جواب دہ ہوں جن کا ذکر بائبل میں آیا اور کسی کا ذمہ وار نہیں ہوں۔

دوسرا لفظ حق تھا۔ میں نے یہ کہا کہ لفظ حق تین معنوں میں مستعمل ہوتاہے۔

(۱۔) کسی کا حقیقتاً موجود ہونا۔ اس معنی میں شیطان بھی حق ہے کیونکہ وہ سچ مچ موجود ہے۔

(۲۔) اپنے پیغام پہنچانے میں امانتدار ہونا۔

(۳۔) سراسر اول سے تادم زیست راستی پر چلنا اورکسی قصور کا سرزد نہ ہونا۔

ان معنوں کے لحاظ سے پہلے معنی میں سارے نبیوں کو میں حق سمجھتاہوں ۔ کیونکہ وہ فی الحقیقت موجود تھے۔ دوسرے معنی میں بھی ان کو میں حق سمجھتاہوں کیونکہ جو پیغام خُدا نے ان کے سپرد کیا اُس کو اُنہوں نے وفاداری سے خُدا کے بندوں کے پاس پہنچادیا۔

تیسرے معنی میں سارے انبیاء کو میں حق نہیں سمجھتا صرف ایک ہی کو حق سمجھتاہوں یعنی سیدنا مسیح اور خود خُدا اس معنی میں حق ہے کیونکہ صرف وہی سراسر پاک اورہرگناہ سے مبرا اورمنزہ ہیں۔

شیعہ صاحب۔ کیوں تم تیسرے معنی میں سارے انبیاء کو حق نہیں سمجھتے۔

جواب۔ کیونکہ اکثر ان نبیوں کے قصوروں اور غلطیوں کا ذکر آیاہے۔ قرآن بھی اس پر اتفاق ظاہر کرتاہے کہ آدم سے خطا ہوئ۔ ابراہیم ، موسیٰ وغيرہ انبیاء سے خطائیں ہوئیں اور خُدا کی طرف سے اُن کوحکم ہواکہ معافی مانگیں۔ بائبل میں بھی یہی ذکرہے کہ سوائے مسیح کے اور کوئی خطا سے نہیں بچا۔

یہ سوال تویہاں ختم ہوگیا۔ اب شیعہ صاحب نے اپنا خاص سوال پیش کیا جس کی تاک میں لگے تھے اور موقع نہ ملا تھا۔

شیعہ صاحب ۔ کیا باپ بیٹی سے زنا کرسکتاہے؟

جواب۔ لفظ کرسکتاہے۔ مشتر المعنی ہے ۔ مثلاً

۱۔ بلحاظ قدرت

۲۔ بلحاظ شرع

۳۔ بلحاظ رسم ، یا

۴۔ بلحاظ غلطی کے کرسکتاہے؟

پس آپ کس معنی میں پوچھتے ہیں۔ کہ باپ بیٹی سے زنا کرسکتاہے ۔

بلحاظ قدرت کے وہ کرسکتاہے یعنی جسمانی طاقت اور قوائے فطری کے لحاظ سے وہ ایسا کام کرنے پر قادر ہے۔ یعنی وہ کرسکتاہے۔

بلحاظ شروع کے وہ کرسکتاہے۔ یعنی اگر کسی قوم کی شریعت میں بیٹی سے شادی کرنے کی اجازت ہو۔تو وہ کرسکتا ہے۔

بلحاظ رسم کے کرسکتاہے۔ اگرکسی قوم میں ایسی رسم پڑگئی ہو۔ تو اس رسم کے زور پر آدمی ایسا کام کرسکتا ہے۔

پھر بلحاظ غلطی کے ایسا کام کرسکتاہے۔

شیعہ صاحب۔ کیا باپ بیٹی سے غلطی سے زنا کرسکتا ہے۔

جواب ۔ ہاں۔

شیعہ صاحب۔ غلطی سے کیا مراد ہے۔کیوں غلطی سے زنا کرسکتاہے؟

جواب ۔ غلطی سے مراد یہ ہے کہ

۱۔ وہ نہ جانتا ہو کہ یہ میری لڑکی ہے۔

۲۔ وہ حواس میں نہ ہو ۔ یا۔

۳۔ اُس نے کسی وجہ سے دھوکا کھایاہو۔

پس ایسی حالت میں وہ معذور ہے۔ اگرچہ یہ فعل اس سے سرزد ہوا۔ لیکن پھر بھی وہ کسی قدر معذور ہے۔ ایسی غلطی نبیوں سے ہوسکتی ہے۔ شیعہ صاحب۔ حکم الہٰی کے خلا ف کرنا بھی تو غلطی کرنا ہے۔

جواب۔ میں نے دوسرے معنی میں اس کا ذکر کردیا کہ بلحاظ شروع سے گناہ کرسکتاہے ۔ اب ان تین پہلے معنوں کو چھوڑ کر چوتھے معنی پر گفتگو اور سوال ہے۔ اس لئے اب ان معنوں میں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

اس پر وہ صاحب بڑے طیش میں آگئے۔ مباحثہ بھول گئے۔ شرائط مناظرہ کا پاس نہ رہا۔ ثالثوں کی آگاہی پر توجہ نہ کی۔ آخر ملاطہ اور مسٹر اختر وغيرہ نے مشکل سے اُن کو خاموش کرایا۔ یوں اس مباحثہ کا خاتمہ ہوا۔ بعد مباحثہ چند محمدیوں نے افسوس ظاہر کیا کہ کیوں ایسے شخصوں کے ساتھ گفتگو کرکےوقت ضائع کرتے ہو۔ لیکن ہم نے خُدا کا شکر کیاکہ یہ سوال جوبار بار محمدی کرتے اور الزام لگاتے تھے۔ اب ایسی جرات نہ کرینگے۔ اورمباحثہ میں تحمل برداشت ۔ بے تعصبی وغیرہ مسیحی سیرت کے ظاہرہونے سے حاضرین پر اچھی تاثیر ہوتی ہے۔ جلسہ کے بعدہم مسیحیوں نے مل کر ان سب کےلئے دعا کی۔

دسواں باب
تجسم

۱۵ستمبر کو میرا دوسرا لکچر مشن ہاؤس کے میدان میں ہوا۔ ڈاکٹر نندی صاحب میر مجلس تھے۔ اکثر محمدی صاحبان حاضرتھے۔ مضمون لکچر کا یہ تھا " کلام مجسم ہوا"۔

لکچر

آج میں آپ کے سامنے مسیحی دین کے خاص مسئلہ کا ذکر کیا چاہتاہوں جس کے بارہ میں بہت غلط فہمیاں لوگوں کے درمیان ہیں۔ لیکن وہ ایسا مسئلہ ہے جسےہم دینداری کی جان انسانیت کا اعلیٰ مقصد اورکمال کہہ سکتے ہیں۔ یعنی خُدا کا جسم میں ظاہر ہونا جیسالکھا ہے کہ " ابتدا میں کلام تھا کلام خُدا کے ساتھ تھا۔کلام خُدا تھا۔۔۔۔۔اور کلام مجسم ہوا"(یوحنا ۱: ۱، ۱۴)۔

شروع ہی میں اس بات کو ظاہر کردینا نہایت ضرور ہے ۔ کہ خُدا کے تجسم سے کیا مراد ہے کیونکہ جب ایک دفعہ صاف طورپر تجسم کی تشریح ہوجائے توہم کل مضمون کو بخوبی سمجھ سکینگے۔

اب سنئے۔ تجسم سے مراد ہے کسی کا جسم میں ظاہر ہونا۔ خُدا کے تجسم سے مراد ہے خُدا کا جسم میں ظاہر ہونا۔ یادرکھئے کہ کسی کا جسم میں ظاہر ہونا اور شے ہے کسی کا جسم بننا اور شے ہے۔ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ خُدا کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ وہ جسم بن گیا۔ یہ توناممکن اور بالکل غلط ہے۔ یہ انجیل شریف کی تعلیم نہیں۔ بلکہ ہم مسیحی کتاب مقدس کے مطابق یہ کہتے ہیں کہ خُدا جسم میں ظاہر ہوا۔ الہٰی ذات مادی ذات میں تبدیل نہیں ہوگئی۔ لیکن الہٰی ذات مادی ذات میں یا مادی ذات کے ذریعہ گویااُس کے پردے میں سے ظاہر ہوئی ۔ اس کی مثال ہم خود ہیں۔ روح اورمادہ دو متفرق اشیا ہیں۔ روح مادہ نہیں ہوسکتی۔ اورمادہ روح نہیں ہوسکتا۔لیکن روح مادہ میں ظاہر ہوسکتی ہے ہم انسانوں میں روح مجسم ہوا ہے یعنی مادی بدن میں روح کا ظہور ہوا ہے یا یہ کہو کہ روح کا تجسم ہوا ہے مادہ کے خواص ہم میں بحال رہتے ہیں اور روح کے خواص بھی باقی رہتے ہیں۔ مادی جسم کی زندگی خوراک پر مبنی ہے لیکن روح کی زندگی خوراک پر مبنی نہیں۔ جسم جگہ گھیر تا وزن رکھتاہے وغيرہ۔ روح نہ جگہ گھیر تی نہ وزن رکھتی ہے (روح کی ایسی حالت کے باعث بعض عالموں نے ٹھوکر کھائی اور روح کا بالکل انکار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انسان کے رگ وریشہ کو چھان ماراہے۔ لیکن روح کا پتہ نہیں ملا۔ اس لئے روح کوئی شے نہیں) پھر بھی روح جسم میں ظاہر ہے ۔ اُس کے کام جسم کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں اور ہم روح اور بدن یایہ کہو کہ روح کے تجسم کو مانتے ہیں۔ اس مضمون کی وضاحت کےلئے اس مثال کی تشریح ضرور تھی شاید اسی وجہ سے کسی نے کہاہے کہ جس نےاپنے نفس کو پہچانا اُس نے اپنے رب کو پہچانا (من و عرف نفسہ فقد عرف ربہ) اس مثال کے ذریعے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہونگے۔ کہ ہم تجسم خُدا کو کس معنی میں لیتے ہیں۔

نوع انسان کی حس مذہبی کسی زمانہ میں اس کے بغیر نہیں رہی ہے مصریوں، کسدیوں، عبرانیوں، عربوں ، ہندوؤں چینیوں وغيرہ تقریباً ساری قوموں میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ خُدا کسی نہ کسی مقصد سے جسم میں ظاہر ہواہے۔ خواہ وہ حیوان کا جسم ہو یا انسان کا یا کوئی اور عنصری جسم کو انسان آنکھ سے دیکھ سکے۔ چونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ اقوام مذکورہ بالا میں یہ خیال پایا جاتا تھا اور بعض میں اب تک پایا جاتاہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حس مذہبی کی تسلی وتشفی اس طرح سے ہوتی ہے چونکہ حسِ مذہبی دوسری حسوں پر فوق رکھتی ہے اس لئے یہ مسئلہ دیگر مسائل پر فوق رکھتاہے اوریہی حس ہم کو حیوانات سے ممیز کرتی ہے۔ پس جو موضوع اس حس مذہبی کا ہوگا وہ ہماری ہستی کا اعلیٰ مقصد بھی ہوگا۔ یہ تو قیاس چاہتاہے۔


البتہ محمدی صاحبان اعتراض کرینگے کہ ہم اس مسئلہ کو نہیں مان سکتے کہ خُدا جسم میں ظاہر ہوا اب ذرا تحقیق کریں کہ آیا ان کا مذہب سچ مچ اس خیال تجسم کے خلاف ہے یا نہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے محمدی مذہب اس خیال کے خلاف نہیں ہے چنانچہ سورہ طہٰ (۲۰ سورہ) کے شروع ہی میں حضرت موسیٰ کے بیان میں یہ مذکور ہے کہ موسیٰ کو دور سے آگ دکھائی دی تو وہ اس کے نزدیک آگ لینے کےلئے گئے۔ جب نزدیک پہنچے تو یہ آواز آئی ۔ یا موسیٰ انی اناربک" اے موسیٰ ہم ہیں تمہارے پروردگار تواپنی جوتیاں اتار ڈال"۔ اب خُدا ناریا شعلہ آتش میں ظاہر ہواہے۔ یعنی نارمیں مجسم ہوا ہے ۔ ویسے ہی محمدی احادیث میں جہاں آخرت میں خُدا کے دیدار کا ذکرآیاہے۔ وہاں بھی یہی خیال پایا جاتاہے کہ وہ پردہ نور میں یا نورانی صورت میں اپنے بندوں کواپنا دیدار بخشتاہے۔ پس خُدا جب ایک عنصر یعنی آتش میں اپنے تئیں ظاہرکرسکتاہے اوراُس نےظاہر کیاہے تودیگر عناصر یعنی باد۔ آب اورخاک میں بھی اپنے تئیں ظاہر کرسکتاہے۔یعنی بادی ۔ آبی ، خاکی صورت یاپردے میں اس کا ظہور ممکن ہوگیا۔

اب تویہ ان کےلئے دلیل ہے جواہل شرع اور خاص مخالف مسئلہ تجسم کے نظرآتے ہیں۔ صوفیہ کرام کا تو یہ خاص مسئلہ ہے۔ کہ خُدا انسان میں ظاہر ہوتاہے۔ یہ جسم انسانی وہ ہیکل ہے جس میں خُدا رہتاہے۔ یہ حقیقی مسجد اور خانہ خُداہے۔ اگرچہ خُدا کو ڈھونڈھنا چاہو تو اپنے اندر ڈھونڈھو ان کے خیال میں توانسان نہ صرف مطہر روح ہے بلکہ مظہر خُداہے ۔ یعنی جس کے ذریعے خُدا اپنے تئیں ظاہرکرتاہے اورانجیل شریف میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ کلمہ مجسم ہوا اورہم نے اس کا جلال دیکھا۔۔۔۔۔۔۔فضل اور راستی سے معمور ۔

اب یہ سوال رہا کہ عقلی طورپر بھی اس مسئلہ کی تائید ہوتی ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں عقل اس کی بڑی بھاری ممد ہے۔ ہماری ہستی کا قانون ہی یہ ہے کہ ہم خُدا کو مجسم مانیں ورنہ خُدا کا خیال بھی نہیں کرسکتے خُدا کا تصور کرنا ہی تجسم کی دلیل ہے جب ہم زبان سے یہ کلمہ ہی نکالتے ہیں کہ خُدا ہے۔ توہم خُدا کو مجسم بنادیتے ہیں کیونکہ عقلی طورپر کسی چیز کا ہونا دلالت کرتاہے مکان وزمان پر جہاں تک ہمارا تجربہ ومشاہدہ جاتاہے۔ وہ مکان وزمان سے محدود ہے۔ مکان وزمان سے باہر ہم خیال کرہی نہیں سکتے۔ اورکسی چیز کی ہستی کا خیال بلامکان وزمان کے عقل میں گذرہی نہیں سکتا۔ پس جب ہم نےیہ کہا کہ خُدا ہے توہم نے اُس کو مکان وزمان میں فرض کرلیا۔ تب اس کا خیال ہمارے ذہن میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا کا عرش معلیٰ پر ہونا ماناجاتاہے گووہ لامکان ہے وزمان کہلاتاہے لیکن وہ ایک خاص مکان پر ساکن نظر آتاہے۔ بلاتجسم خُدا کی ہستی کا خیال بھی ہم نہیں کرسکتے ۔ اور یوں وہ اعتراض بھی رفع ہوجاتاہے جو خُدا کے تجسم پر کیا جاتاہے کہ تجسم ماننے سے خُدا محدود ہوجاتاہے ۔ یادرکھئے خُدا اپنی ذات میں غیر محدود ہے ۔ لیکن جب وہ انسان پر اپنے تئیں ظاہر کرتا یا انسان اُس کا تصور کیا چاہتاہے تو محدود صورت ہی میں ہوسکتاہے۔ خُدا کا مکاشفہ اور خُدا کا تصور ہمیشہ محدود ہی ہوگا۔ اس کے بغیر خُدا کا علم ناممکن ہے۔ ایک دوسری مثال سے میرا مطلب واضح ہوگا۔ ہم سب مانتے ہیں کہ خُدا ہر جگہ حاضر ہے اوریہ بھی مانتے ہیں کہ کلیتہً حاضر ہے کیونکہ خُدا کا جزاً حاضر ہونا اس کی شان کے خلاف ہے۔ جہاں وہ حاضر ہے کلیتاً حاضر ہے۔ خواہ کسی احاطہ یا مکان یا سوراخ کا خیال کرلو وہاں خُدا حاضر ہے اورکلیتاً حاضر ہے اگرچہ احاطہ محدود ومکان محدود ہے اورمحدود جگہ میں خُدا کلیتاً حاضر ہے ۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ دیگر مقامات میں بھی حاضر ہے اُس کا ایک جگہ یا ایک حالت میں کلیتاً حاضر ہونا باقی جہان میں کلیتاً حاضر ہونے کا نقیض نہیں اور نہ وہ محدود ہوجاتاہے اگرچہ محدود جگہ میں وہ کلیتاً موجود مانا جاتاہے۔

ایک دوسرا اعتراض بھی اس سے رفع ہوجاتاہے۔ کہ خُدا کا مریم کے پیٹ میں آنا گویا اُس کو غلیظ کردیتاہے (نعوذ بااللہ) اس جہاں میں غلاظت کثرت سے ہے توبھی اس سے خُدا کی حضوری غلیظ نہیں ہوسکتی۔ آفتاب کی کرنیں گندی جگہ پرپڑنے سے گندہ نہیں ہوسکتی۔ ویسا ہی حضرت مریم کے شکم


میں خُدا کے جسم اختیار کرنے اس کو گندگی نہیں لگ سکتی۔ اوریہ خیال کہ بچہ پیٹ میں حیض ونفاس کھاتاہے۔ آج کل طبابت سے غلط ثابت ہواہے بچہ حیض ونفاس نہیں کھاتا۔

اس سلسلہ میں ہم یہاں تک پہنچ گئے کہ خُدا کے تجسم کا خیال نوع انسان کی مذہبی حس کے خلاف نہیں۔ محمدی مذہب بھی اس کے خلاف نہیں۔ عقل ممد ہے ۔ انسان کی ہستی کا یہ قانون ہے کہ خُدا کو کسی نہ کسی محدود صورت میں مانیں۔

مخفی نہ رہے کہ خُدا کا تجسم جزوی ہوسکتاہے۔ عارضی ہوسکتاہے کلی اوردائمی ہوسکتاہے۔

جزوی کی مثال۔ خُدا کی صفات کا ظہور اشیا میں ہوتاہے۔ کسی نے خوب کہاہے " ہر پتے میں ہے پتااُس کا۔ وہ عناصر میں ظاہر ہوتاہے ۔ جیسے آتش ۔ بادوغیرہ میں۔ لیکن چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔اورخُدا کی صورت پر خلق ہواہے۔ اورخُدا کی صورت پر بنایا جانا ہی اُس کو غالباً اشرف المخلوقات ٹھیراتاہے۔ اس لئے اگر خُدا کا کامل مکاشفہ ہوسکتاہے تو انسان میں ہوسکتاہے اورخُدا کی صورت پر بننے ہی میں یہ ایما معلوم ہوتاہے کہ وہ ایسے مقصد کے لئے بنایا گیا کہ خُدا اُس میں بسے۔ آدم گویا قالب ہوا اور خُدا جان ہو۔

شاید یہی وجہ تھی کہ خُدا جب اپنے خاص رسولوں پر ظاہر ہوا تو اکثر شکل انسان ہی میں ظاہر ہوا مثلاً حضرت ابراہیم پر جس کا ذکر پیدائش کی کتاب کے اٹھارہویں باب میں ہواہے۔ دانی ایل نبی کے رویت میں وہ انسانی شکل میں نظر آتاہے۔ چنانچہ دانی ایل کہتاہے۔ کہ " میں یہاں تک دیکھتا رہا کہ کرسیاں رکھی گئیں اور قدیم الاایام بیٹھ گیا۔ اُس کا لباس برف سا سفید تھا اوراس کے سر کے بال صاف ستھرے اُون کی مانند۔۔۔۔۔ میں نے رات کی رویتوں کے وسیلے دیکھا اور کیا دیکھتاہوں کہ ایک شخص آدمزاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا۔۔۔۔۔ " دانی ایل ۷باب یہ عظیم الشان رویتیں تھیں اور عارضی تھیں۔ خُدا نے اپنے تئیں ظاہر کرنے کےلئے انسانی صورت کو عارضی طورپر اختیار کیا تھا۔ کیونکہ انسان خُدا کو انسانی خیالات وتصورات کے ذریعے ہی سمجھ سکتاہے۔ اس کے بغیر خُدا کا علم ہو نہیں سکتا۔پس جتنا زیادہ اعلیٰ انسان ہوگا اتنا زيادہ اُس میں خُدا کا ظہور ہوسکتاہے۔ اسلئے اکمل اور افضل مکاشفہ خُدا کےلئے اکمل وافضل شخص چاہیے ۔ یعنی جوگناہ سے بالکل مبرا ہو۔ اور اعلیٰ اخلاق سے مزین۔ دینداری میں کامل اگرخُدا ایسی انسانیت کو اپنے ظہور یا تجسم کےلئے قبول کرے۔ توسب سے اعلیٰ اور افضل ومکاشفہ ہوگا۔

ہم مسیحی اس امر کے مدعی ہیں کہ سیدنا مسیح سارے انسانوں سے اکمل وافضل ہیں۔ وہ ہمیشہ خُدا کی مرضی کو پورا کرتے اورگناہ سے ہمیشہ مبرا رہے۔ وہ جامع صفات حسنہ تھے۔ اسلئے ان کی انسانیت کو خُدا نے اپنے ظہور کےلئے قبول کیا۔ خُدا جسم میں ظاہر ہوا۔ اسے مقدس پولوس دینداری کا بڑا بھید کہتاہے۔ کہ وہ" جسم میں ظاہرہواروح میں راست ٹھہرایا گیا۔ فرشتوں کو دکھائی دیا قوموں میں اس کی منادی ہوئی ۔ جہان میں اُس پر ایمان لائے جلال میں اٹھایا گیا" (۱تیمتھیس ۳: ۱۶)۔

یادر کھئے کہ یہ صرف ہمارا ہی دعویٰ نہیں اور نہ صرف حواریوں کا قول ہے۔ ہم ان کی مانند نہیں کہ پیر نہ پردمرید پراند۔ بعض فرقوں نے بعض انسانوں کو جنہوں نے کبھی یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ ہم میں الوہیت بستی ہے اورہماری انسانیت کے ذریعے وہ الوہیت ظاہر ہورہی ہے۔ ان سے یہ تجسم الہٰی منسوب کیا اوران کے نام میں بعض حروف کو نقاب ٹھہرایا اوراس پر خوف رقص ووجد کیا۔


احد درمیم احمد گشتہ ظاہر

زاحمد تا احد ایک میم فرق است

جہانے اندراں یک میم غرق است

بلکہ سیدنا مسیح نے اس امر کو واضح کردیاکہ جو ازل سے دنیا کی پیدائش سے پیشتر تھا۔ اب جسم میں ظاہر ہے۔ چنانچہ وہ کہتاہے کہ" تمہارا باپ ابراہام مشتاق تھاکہ میرا دن دیکھے۔ چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ پھر یہودیوں نے اُس سے کہا کہ تیری عمر تو پچاس سال کی بھی نہیں کیا تونے ابراہام کو دیکھا یسوع نے کہا پیشتر اس سے کہ ابراہام ہو میں ہوں"(یوحنا ۸: ۵۶ وغیرہ)۔

پھر وہ فرماتے ہیں " اے باپ اپنے ساتھ اس جلال سے جلالی بنا لے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتاتھا(یوحنا ۱۷باب )۔ " میں آسمان سے اس لئے نہیں اُترا کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے مطابق"(یوحنا ۶: ۳۸)۔

سیدنا مسیح کے ایک حواری فلپس نامی نے اُس سے کہا" اے خُداوند باپ کو ہمیں دکھادے۔یہی ہمیں کافی ہے سیدنا مسیح نے اُس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے مجھے دیکھا ہے اُس نے باپ کو دیکھاہے۔ توکیونکر کہتاہے کہ باپ کو ہمیں دکھا کیا تو یقین نہیں کرتا۔ کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ یہ باتیں جومیں تجھ سے کہتاہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا ۔ لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتاہے میرا یقین کروکہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں"(یوحنا ۱۴۔ ۸ سے)۔

اب اے صاحبان یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مذہبی حس اس کی مشتاق عقل اس کی ممد۔ قرآن اس کی طرف اشارہ کرتاہے خُدا کے ہاتھ وغيرہ کا ذکر کرکے بہتوں کے تعصب کو رفع کرنا چاہتاہے۔ بعض محمدی فرقے اس کے گرویدہ ہیں کہ خُدا جسم میں ظاہر ہوا۔ مسیحی گروہ اس کا مدعی ہے۔ مسیح کے حواری اس کا چرچا کرتے چلے گئے۔ خود مسیح نے یہی دعویٰ کیا۔ اوراپنے دعویٰ کو اپنے کاموں سے ثابت کر دکھایا پھر عذر کی گنجائش کہاں رہی۔ اے صاحبان اس کو بدل وجان قبول کیجئے۔ جو عمانوایل (یعنی خُدا ہمارے ساتھ ) یا خُدائے مجسم ہے۔ یہاں تک تو دلائل کا ذکر ہوا۔ اب میں مختصراً تجسم کے فوائد۔بیان کیا چاہتاہوں۔

(۱۔) ایک بڑا فائدہ تو اس سے یہ ہواکہ خُدا کا کامل مکاشفہ جواس جہاں میں مل سکتا ہے انسان کو دیا گیا بمقابلہ جزوی مکاشفوں کے جو قدیم بزرگوں کو عطا ہوئے تھے۔ چنانچہ یوں لکھاہے کہ" اگلے زمانہ میں خُدا نے نبیوں کی معرفت باپ دادوں سے حصہ بحصہ اور طرح بہ طرح کلام کرکے اس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے ساری چیزوں کا وارث ٹھیرایا اورجس کے وسیلے سے اُس نے عالم پیدا کئے۔ وہ اُس کے جلال کی رونق اورا سکی ذات کا نقش ہوکر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے"۔ (عبرانیوں ۱: ۱سے۔۔۔)۔

(۲۔) دوسرا بڑا فائدہ یہ ہواکہ آسمان وزمین کا اتحاد اسی تجسم کے ذریعہ سے ہوا۔ آسمان وزمین اورخُداوانسان میں آدم کے گناہ کے باعث جو جدائی ہوگئی تھی۔ اب ان کے درمیان اتحاد ممکن ہوگیا۔ کیونکہ اس نے جوآسمانی تھا اور اُ سنے جو اللہ تھا۔ زمینی کی صورت پکڑی اور انسان بن گیا۔چنانچہ لکھا

ہے کہ " وہ اندیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔۔۔۔ باپ کو یہ پسند آیا کہ سارا کمال اُس میں پایاجائے اور سب چیزوں کا اس کے وسیلے سے اپنے ساتھ میل کرلے خواہ وہ زمین کی ہوں خواہ وہ آسمان کی" (کلسیوں ۱: ۱۵، ۱۹، ۲۰)۔

(۳۔) تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ انسانوں میں جوباہمی نفاق وجدائی ہے اور اتفاق پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کا علاج یہ تجسم ہی ہے۔ کہ اس میں نہ صرف اللہ اورانسان کا اتحاد ہوا بلکہ انسان کا باہمی اتحاد بھی ممکن ہوگیا۔ جتنا زیادہ اس تجسم پر لوگ غور کرینگے اوراس میں شریک ہوتے جائينگے اتنا زیادہ اتحاد واتفاق ان میں بڑھتا جائیگا۔ انسان کے اتفاق کی بنیاد اگرکچھ ہوسکتی ہے۔ تویہی ہے اگرچہ مسیحی قومیں اب تک اس درجہ پر نہیں پہنچیں۔ لیکن ان کے پاس علاج موجو د ہے۔جب ان کی نظر کھلیگی ان میں وہ اعلیٰ اتفاق واتحاد بڑھتا جائیگا۔ اب بھی اتنا تونظر آتاہے کہ جنگ سے حتے الاامکان پرہیز کیا جاتا ہے ۔ زرکثیر خرچ کیا جاتاہے کہ انسان میں صلح قائم رکھی جائے۔ چنانچہ پولوس رسول کہتاہے" تم جو پہلے دور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہوکیونکہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دوکوایک کرلیا اورجدائی کی دیوار کو جوبیچ میں تھی ڈھادیا۔ چنانچہ اس نے اپنے جسم کے ذریعے سے دشمنی۔۔۔۔۔ موقوف کردی تاکہ صلح کراکے دونو سے اپنے آپ میں ایک نیا انسان پیدا کرے اور صلیب پر دشمنی کو مٹا کر اُس کے سبب سے دونو کو ایک تن بنا کر خُدا سے ملائے اوراُس نے آکر تمہیں جو دور تھے اورانہیں جو نزدیک صلح کی خوشخبری دی (افسیوں ۱: ۱۳سے ۱۷)۔

(۴۔) یہ تجسم گناہ کا علاج ہے۔ خُدا کا ہمارے اندر بسنا ایک ایسی قوت کا ہمارے اندر پیدا ہونا ہے جوگناہ کوہمارے اندر سے نکال سکتی ہے۔ جب تک اس الہٰی قدرت اور اس الہٰی تجسم کا پر توہمارے اندر نہ ہو ہم اکیلے شیطان کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے۔ یہ بیرونی جنگ نہیں کہ خُدا باہر کھڑا رہ کر ہمارے لئے لڑے بلکہ اندرونی جنگ ہے۔ اوراس میں فتحیابی کی یہی صورت ہے۔ کہ وہ ہمارے اندر بسے یہ لکھاہے کہ تم یسوع مسیح کا جامہ پہن لو۔(رومیوں ۱۳: ۱۴)۔

نئی انسانیت کو پہن لو۔(افسیوں ۴: ۲۴)۔

یہ تجسم وہ اوزار ہے جس کی نسبت مقدس پولوس نے فرمایا۔ " کہ تم خُدا کے سارے ہتیار باندھ لو تاکہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابل میں قائم رہ سکو۔(افسیوں ۶: ۱۱)۔

(۵۔) تجسم خُدا ہر طرح کی نیکی کا باعث اورچشمہ ہے ۔ چنانچہ وہ جو خُدائے مجسم ہے یہ فرماتاہے " تم بھی اگرمجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لاسکتے میں انگور کی بیل ہوں تم ڈالیاں ہوں جومجھ میں قائم رہتاہے اورمیں اُس میں وہی بہت پھل لاتاہے۔ کیونکہ مجھ سے جدا ہوکر تم کچھ نہیں کرسکتے"(یوحنا ۱۵: ۴، ۵)۔

پطرَس رسول نے فرمایا کہ تم اُس خرابی سے چھوٹ کر جودنیا میں بُری خواہش کے سبب سے ہے اُن کے وسیلے سے ذات الہٰی میں شریک ہوجاؤ۔ پس اسی باعث تم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی نیکی پر معرفت معرفت پر پرہیزگاری پر ہیزگاری پر ۔ صبر صبر۔ دینداری دینداری پر۔ برادرانہ الفت برادرانہ الفت پر محبت بڑھاتے جاؤ۔(۲پطرَس ۱: ۵سے)۔

(۶۔)یہ تجسم ہم کو بھی اُس صورت پر بحال کرتاہے جس پر انسان پہلے بنایا گیا تھا۔ یہ نئی انسانیت کا گویا بیج ہے۔ جب ہم اس مجسم خُدا پر ایمان لاتے ہیں۔ تونئی انسانیت کا ایک بیج ہم میں بویا جاتا ہے اور وہ نشوونما پاتاہے" جب ہم سب کے بے نقاب چہروں پر خُداوند کے جلال کا عکس اس طرح پڑتاجاتاہے جس طرح آئینے میں تو اُس خُداوند کے وسیلے سے جو روح ہے ہماری وہی جلالی صورت درجہ بدرجہ بنتی جاتی ہے"(۲کرنتھیوں ۳: ۱۸)۔


(۷۔)دیدار الہٰی جو ہرایماندار کی اُمید ہے وہ صرف انہیں کوحاصل ہوسکتاہے جو اس نئی انسانیت کو حاصل کرکے اُسی مجسم خُدا کی تاثیر سےخُدا کی صورت پر بنتے جانتے ہیں۔ چنانچہ یوحنا رسول نے فرمایا" عزيزو! ہم اس وقت پروردگار کے فرزند ہیں اورابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے ۔اتنا جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہونگے تو ہم بھی ان کی مانند ہوں گے کیونکہ ان کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہیں۔ اور جو کوئی ان سے یہ امید رکھتاہے اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کرتاہے جیسے وہ پاک ہیں۔(۱یوحنا ۳: ۲ سے)۔

پس اے صاحبان یہ میرا پیغام ہے جس کویوحنا رسول کے الفاظ میں پیش کرتاہوں" اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اورجسے ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگی ظاہرہوئی اورہم نے اُسے دیکھا اوراُس کی گواہی دیتے ہیں۔ اوراُسی سے ہمیشہ کی زندگی کی خبر دیتے ہیں ۔ جوباپ کے ساتھ تھی اورہم پر ظاہر ہوئی۔


گیارھواں باب
فلک نما

ہندوستان میں مغلوں کی یادگار اگرچہ اورشے نہ ہو تو ان کی عمارتیں چار دانگ عالم میں مشہور ہیں۔ آگرہ کا تاج محل، دلی کی مسجد، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کا مقربہ وغيرہ۔

شد آں مرغ کو خایہ زریں نہاد

حیدرآباد مغلیہ سلطنت کا بقیہ ہے۔ عمار ت کے لحاظ سے بھی مغلوں کا نام روشن کررہاہے۔ یوں تو سارا شہر ہی عجوبہ ہے۔ چاروں طرف سنگین فصیل سے گھرا ہے جس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی دومیل ہے۔ اس کی بنیاد محم قلی شاہ گولکنڈہ نے ڈالی تھی۔ پھر حضور نظام کا محل شاہی، جامع مسجد، مکہ مسجد جس میں شاہی قبرستان بھی ہے۔ مسجد افضل گنج، چارمینار، ان میں سے ہر مینار ڈھائی سو فٹ بلند ہے جسے بانی شہر نے وسط شہر میں بنوایا تھا۔رنگ محل جسے کرنل کرک پیٹرک نے اپنی ہندوستانی بیوی کے واسطے تعمر کروایا۔ اورفلکِ نما جوشہر کے متصل ریاست کے وزیر اعظم نے اپنی رہائش کے لئے بنوایا تھا۔ یہ محل ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقعہ ہے۔ دامن کوہ میں اصطبل اور باغیچہ ہے۔ محل کے اندر ولایتی سامان کثرت سے پایا جاتاہے تصویریں نہایت دلکش اور قیمتی ،شیشے قد آدم کےبرابر ، قیمتی قالین ملک ملک کے فرش بچھے ہوئے ہیں۔ محل کو دیکھ کر عقل حیران ہوتی تھی۔ نواب اقبال الدولہ وزیر صاحب کو بہت دیر تک اس محل کا لطف اٹھانا نصیت نہیں ہوا کہ ملک الموت نے پیغام اجل آسنایا۔اُنکی اولاد محل کو سنبھال نہ سکی حضور نظام نے چالیس لاکھ روپے دیکر خرید لیا۔ ڈاکٹر نندی صاحب کی مہربانی سے اس محل کے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ صاحب اقبال الدولہ کے دنوں میں بھی آیا کرتے تھے۔ اب وہ رنگ رلیاں جلسے اورمحفلیں نظر نہیں آتیں۔

سدانہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں

سدانہ راجے راج کریند ے سدانہ صحبت یاراں

جب اس محل کو دیکھ کر شہر میں سے گذرے تواہل شہر کا مشاہدہ کیا اُن کی شباہت سے مردانگی اور بہادری ٹپکتی تھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے کسی شہر میں ایسے بہادر جنگی مرد نظر نہ آئینگے۔ جیسے یہاں نظر آتے ہیں ہر کس وناکس کسی نہ کسی قسم کا اسلحہ اپنے ساتھ رکھتاہے۔ جب روسا ایک دوسرے کی ملاقات کو بابندگان عالی کے سلام کو جاتے ہیں۔ تو خنجر کمر میں ہوتی ہے۔ نوکروں کا بھی یہی حال ہے بہت فرقوں کے لوگ پنی قطع وضع سے پہچانے جاتے ہیں۔ بہت عرب لوگ بازار وں میں نظر آتے ہیں ۔ دوہرے بدن کے گورے رنگ کے گھنگر یالے بال۔ پیش قبض کمر میں پرانی قسم کی بندوق کندھے پر دھرے ادھر اُدھر جاتے ہیں۔ جب کوئی عربی شیخ شہر سے گزرتا ہے ۔ اُس کی پالکی یا ہاتھی کے ارد گرد بہت عرب لوگ ہوتے ہیں بندوقیں

چلاتے اور بلند آواز سے اس شيخ کےالقاب سناتے ہیں۔ کہیں سدی لوگ دکھائی دینگے۔ موٹے ہونٹ، لنبا سر ، چوڑا چمکتا کا لا کالا منہ ذرا ہنسی چہرے پر آجائے تو سفید دانت سیاہ زمین پر موتی کی طرح جڑے نظر آتے ہیں۔ یہ عربوں سے بھی زیادہ طاقتور اور قوی ہیکل ہوتے ہیں اورمسلح ہوکر باہر نکلتے ہیں ۔ ایک اور صورت نظر آتی ہے۔ آہست آہستہ بڑی شان سے ایک شخص چلا آتاہے۔ اونچی قطع دار پگڑی سرپر دھری ہے۔ ایک نیلا خفتان زیب تن ہے بڑے فخر سے اوروں پر نظر ڈالتاہے اوراپنے تئیں سب سے اعلیٰ سمجھتاہے یہ روہیلا ہے۔ پھر پٹھان اپنی قطع وضع سے نرالے ہیں۔ پھر افغان نظر آتاہے ، اسکے پاس اسلحہ اوروں سے کم یہ گھوڑے اونٹوں کی تجارت کرتے ہیں ۔ پھر ایک اور نرالی وضع کا آدمی سامنے آتاہے ، گینڈے کی ڈھال پشت پر ہے۔ ڈاڑھی مونچھ چڑھی ہیں۔تندشکل لیکن شریف وفادار بہادر، جان نثار یہ راجپوت سپاہی ہے۔ ان کے علاوہ فارسی بخاری، ترک ، سکھ، دکھنی مسلمان، پارسی ، مدارسی، پنجابی سب کو یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ پھر چند دکانیں دیکھیں۔ دکاندار ایک عجیب بھدی کرسی پر بیٹھاہے۔ آگے بڑے بڑے مٹکے بھرے رکھے ہیں۔ چند قوی الحبثہ دراز قد سیاہ فام مٹکے سر پر دھرے آرہے ہیں۔ دریافت کرنے سے معلوم ہواکہ یہ سیندھی کی دکان ہے ، تاڑی یہاں بکتی ہے بہت سستی ہے امیر اور غریب پیتے ہیں ۔ تھکان کو دورکرتی ہے اورموسم گرما میں طبعیت کو فرحت بخشتی ہے شراباً طہور کا خیال آگیا۔ کیونکہ محمدی ریاست میں دیگر شراب کی کب اجازت مل سکتی تھی۔

وہاں سے واپس آکر ویسلین گرجا میں لکچر پرہیزگاری کے بارہ میں دیا۔ دوسرے روز اسکندر آباد کو وعظ کرنے گیا۔ پادری گولڈاسمتھ صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب مسیحی مناد ہمراہ تھے۔ یہ شہر حیدرآباد سے چھ میل شمال کی طرف آباد ہے۔ دراصل یہ حیدرآباد کی چھاؤنی ہے جو ۱۷۹۸ء میں قائم ہوئی تھی نظام سکندرجاہ کے نام پر اس کا یہ نام رکھا گیا۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں سب سے بڑا فوجی سٹیشن ہے۔ ایک پلٹن یوروپیں ایک دیسی رسالہ ۔ ایک توپ خانہ رسالہ کا ۔ تین دیگر توپ خانے ۔ ایک کمپنی بیلدارونکی یہاں مقم ہیں۔ اس کے نزدیک دوچھوٹی پہاڑیاں ہیں ایک کا نام مولا علی دوسری کا نام قدم رسول ہے۔ روایت ہے کہ یہاں حضرت کے قدم کا نشان لگاہواہے۔ اس سے پانچ میل کے فاصلے پر نظام کو فوج ہے۔ جس میں ایک تو پخانہ ،ایک رسالہ پیادہ فوج یورپین افسر کے ماتحت ہے۔ الغرض وہاں پہنچ کر بازار کے چوک میں وعظ کیا۔ بہت لوگ سننے کے واسطے جمع ہوگئے۔ پھر واپس مکان کو آیا۔


بارھواں باب
عرب مّلا

ملّا صاحب کے نام سے توناظرین واقف ہونگے۔ یہ ملاطہٰ ہیں جنہوں نے عثمان شریف کے مباحثہ کے وقت اور غلام حسین صاحب کے مباحثہ کے وقت اپنی شریفانہ اورمنصفانہ مزاج دکھاکر میرے دل میں کچھ گھر کرلیا تھا۔ اوران کی اس طبیعت کے باعث اُن سے گفتگو کرنا ناگوار معلوم نہ ہوتا تھا۔ حسب وعدہ ۹ ستمبر کو پیر کے روز مشن ہاؤس میں ہم جمع ہوئے ملا صاحب کے رفیق اورمحمدی صاحبان حاضر تھے۔ کمرہ تقریباً بھرا ہوا تھا۔ شرائط مناظرہ جو پہلے مقرر ہوچکی تھیں ان کی پابندی قرار پائی۔ ثالث پادری گولڈ اسمتھ صاحب اورایک محمدی صاحب مقرر ہوئے۔ یہ شرط بھی قرار پاچکی تھی کہ دو گھنٹے سے زیادہ عرصہ مباحثہ میں نہ لگے۔

مباحثہ

شروع مباحثہ میں ملاصاحب نے یہ سوال کیاکہ میں مسیحی دین کے اصول اُنکو بتاؤں تاکہ میرا ٹھیک عقیدہ اُن کو معلوم ہوجائے۔ اور پھر اسکے مطابق وہ مجھ سےسوال کرسکیں اس لئے میں نے حسب فرمائش اپنا عقیدہ یوں بیان کردیا۔

1.خُدا کو ایک ماننا۔

2.سیدنا مسیح کو خُدا کی طرف سے ماننا۔

3.سیدنا مسیح کی موت وقیامت وآمدثانی پر ایمان رکھنا۔

4.سیدنا مسیح کو اپنا اکیلا نجات دہندہ سمجھنا۔

5.یہ ماننا کہ سیدنا مسیح مجسم کلمتہ اللہ ہے۔

6. روح القدس کلیسیا میں بستا اورایمانداروں کو پاک کرتاہے۔

7.مردوں کی قیامت ہوگی۔

یہ سات باتیں میں نے اس وقت پیش کیں۔

اس پر ملا صاحب نے یہ سوال کیا" خُدا، یسوع ، اور روح القدس سے تمہاری کیا مراد ہے۔ کیا یہ تینوں مل کر خُدا ہوتےہیں۔ یا الگ لگ خُدا ہیں۔ اورایک سے مراد اتحاد فے الذات یافے لاماہیت ہے کیا کیا"۔

جواب۔ خُدا سے مراد ذات الہٰی ہے جو غیر مرئی ہے یسوع سے مراد مجسم کلمتہ اللہ ہے، روح القدس سے مراد وہ تقدس ذات الہٰی ہے جو ایمانداروں کو پاکیزگی کی طرف مائل کرتاہے اورپاک بناتاہے چونکہ یہ دونو یعنی یسوع اور روح القدس ذات الہٰی کو اول بذریعہ تجسم، دوم، بذریعہ قدسیت منکشف کرتے ہیں اسلئے وہ ذات الہٰی سے الگ نہیں سمجھے جاتے اورنہ علیٰحدہ علیٰحدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ ذات الہٰی کے جز اور حصے نہیں ہوسکتے۔ ایک سے مراد اتحاد فے الذات الہٰی کے جز اور حصے نہیں ہوسکتے۔ ایک سے مراد اتحاد فے الذات ہے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ تینوں مل کر ایک خُدا ہوتے ہیں۔کیونکہ اس سے یہ لازم آئیگا کہ ذات الہٰی مرکب ہے۔

سوال : ملا صاحب ۔ خُدا سے مراد ذات الہٰی ہے کیا خُدا اوراللہ میں فرق ہے ۔ جو ذات الہٰی لکھوادی؟

جواب: فرق نہیں۔

سوال : ملا ۔ پھر مختلف الفاظ متحد المعنی لانے سے کیا مراد ہے۔

جواب۔ تشریح مطلب ۔

سوا ملا۔ لفظ مجسم جو آپ لائے ہیں۔ تمہارے پاس مجسم کس کو کہتے ہیں۔ کلمتہ اللہ جو مجسم ہواہے کیا آگے نہ تھا جو مجسم ہوا یا اگر تھا توجسم بدلنے کے سبب سے مجسم ہوا؟

جواب۔ مجسم سے مراد ہے کسی کا مادی جسم میں ظاہر ہونا یعنی جو پہلے موجود ہو وہ مادی جسم اختیارکرے۔ جسم کے بدلنے کو مجسم نہیں کہتے۔

(یہاں ایک اورمولوی صاحب نے ملا صاحب سے اجازت لے کر گویہ خلاف شرائط تھا میرے ساتھ مسئلہ ثالوث پر بحث شروع کردی اور جب حاضرین اور ملاصاحب کو اُن کی کمزوری معلوم ہوئی تواُن کو خاموش کردیا اورخود سلسلہ بحث کو لے لیا۔ اس لئے میں اُس بحث کو یہاں درج نہیں کرتا)۔

سوال ملا: یہ جملہ کہ " تجسم کے بدلنے کو مجسم نہیں کہتے " مسلم نہیں۔

جواب۔ ثبوت دیجئے۔

ملا صاحب کا ثبوت : اس کا ثبوت ہے بموجب آپ کے قول کے جو بیان کیاہے مجسم سے مراد ہے۔ کسی کا مادی جسم میں ظاہر ہونا یعنی جو پہلے موجود ہو وہ مادی جسم اختیار کرے۔ اس سند سے جوآپ نے فرمایا کہ پہلے موجود تھا وہ مادی جسم اختیار کیا۔ یہ لازم آتاہے۔

(۱۔) پہلے جو موجود تھا جواب مادہ اختیار کیاہے یہ مادہ پہلے تھا یا نہیں؟

(۲۔) اگر تھا تویہ مادہ جواب اختیار کیاہے یہ اُس کے موافق یاہے۔

(۳۔) اگر موافق ہے تو لازم آتاہے تحصیل حاصل ۔

(۴۔) اگر مخالف ہے تولازم آتاہے دو مختلف خُدا وجود میں آئے۔

(۵۔) کیا سبب کہ جو پہلےموجود تھا اُس کی قدرت ناقص ہے یا کامل ۔

(۶۔) اگر ناقص ہے تواس وقت سے جو مادی جسم لیا ہے ۔ بغرض تکمیل نقص لیاہے یا نہیں۔

(۷۔) اگر بغرض تکمیل نقص لیا ہے اس سے یہ لازم آتاہے کہ پہلا موجود محتاج ہو۔

(۹۔)اس کی سند عیسیٰ اورروح القدس کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہودلالت کرتی ہے اس بات پر کہ وہ محتاج ہو۔

(۱۰۔) اس کی سند تمہاری کتاب کی روسے جوملاکی کے تیسرے باب چھٹی آیت گواہ ہے اس باب پر لکھاہے کہ خُداوند بدلتانہیں۔

(اس کے متعلق دوباتیں ذکر کیا چاہتاہوں)۔

اول۔ یہ کہ اس غلط اُردو کا میں ذمہ دار نہیں۔ چونکہ یہ مباحثہ تحریری تھا۔ جو وہ لکھواتے تھے وہی لکھا جاتا تھا۔ اورملاصاحب کی اُردو زبان بہت صاف بامحاورہ نہ تھی۔ اس لئے اُس کی تصحیح کی کوشش نہیں کی گئی۔

دوم۔ میں نے یہ درخواست کی تھی کہ مجھے اجازت ملے کہ ان دس باتوں کا جواب اکٹھا دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ تھاکہ جب میں پہلی بات کا جواب دونگا تواُس پر پھر سوال ہوگا۔ یوں کلیلہ دمنہ کی حکایت شروع ہوجائیگی اور باقی نوجز بلاجواب کے رہ جائینگے۔ لیکن فریق ثانی نے یہ اجازت نہ دی

بلکہ اسی امر پر اصرار کیا کہ ایک ایک بات کو لیا جائے سارے اجزا کا اکٹھا جواب نہ دیا جائے۔ اسلئے آپ دیکھینگے کہ باقی نواجز کے جواب دینے کی نوت کبھی نہ آئی)۔

جواب جزاول۔ جومجسم ہواکلمتہ اللہ تھا۔ کلمتہ اپنی ذات میں مادی نہیں۔

سوال ملا: کلمتہ اللہ کس کو کہتے ہیں تمہارے پاس۔

جواب۔ کلمتہ اللہ ہمارے پاس وہ ہے جو الہٰی ذات غیر مرئی کو خلقت پر منکشف کرتاہے۔

سوال ملا: یہ جواب غیر مسلم ہے اس لئے کلمہ کے واسطے متکلم ہونا چاہیے ورنہ کلمہ بموجب قاعدہ عربی ہے جو تم عربی لفظ لایا ہے معلق رہتاہے۔ الفاظ معلقہ سے استد لال کرنا مطلب ظاہر نہیں کرتا۔

جواب۔ یہ جوآپ نے میرے جواب کے غیر مسلم ہونے کی دلیلیں دی ہے وہ درست نہیں۔ کیونکہ جب کوئی مذہب اپنے کسی مسئلہ کی تعریف کردے تواُس کےلئے عربی قواعد کو پیش کردینا بالکل غیر متعلق ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کلمتہ اللہ کے معنی صاف طورپر یوحنا کی انجیل کے پہلے باب میں بتائے گئے ہیں۔ اوریہ بھی مخفی نہ رہے کہ میں نے وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جوکتاب مقدس میں آئے ہیں اور شرائط مناظرہ میں یہ پہلے قرار پاچکا ہے کہ گفتگو کب مقدسہ کے مطابق ہوگی۔ اگر کوئی اعتراض میری تعریف یا بیان پر کیا جاتاتو وہ کتب مقدسہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ نہ کہ عربی قواعد کے مطابق۔ نیز جب خُدا کی ذات یا صفات کے بارہ میں ہم کوئی الفاظ استعمال کرتے ہیں تو وہ عام الفاظ سے جو انسانوں کے متعلق ہوں۔ پابند نہیں ہوتا(یعنی کچھ متفرق ہوتاہے ٹھیک اُسی معنی میں وہ مستعمل نہیں ہوتا) کیونکہ خُدا کی ذات وصفات بے نظیر ہیں۔ انسانی الفاظ وکلمات میں اُن کو پورے طور سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ پس اگرمیری تعریف غیر مسلم ٹھہرائی جاتی ہے تو کتب مقدسہ سے ٹھیرائی جائے نہ کہ عربی قواعد سے۔

سوال ملا: اگر کوئی مذہب میں کوئی غیر مذہب کا لفظ آجائے۔ توجس زبان کا وہ لفظ ہے اُس زبان کے قاعدہ کے مخالف نہیں ہوسکتا اسلئے وہ مذہب جو اُس لفظ کو غیر مذہب سے لیاہے۔ لینے کا وجہ یہ ہے کہ اُس لفظ کا موافق یا اُس کے معنی میں اپنی زبان میں نہ ملنے کی وجہ سے غیر لغت سے لفظ لیاہے۔ یعنی توبغرض تجسس عبارت لیاہے ۔ ہر حالت میں اگر دونو غرضوں سے لیا ہو تو اُس زبان کے قاعدہ کے مخالف نہیں ہوسکتا چاہے وہ لفظ خُدا سے یا خُدا کی صفات سے یا غیر سے تعلق رکھتاہو یا نہیں۔ ورنہ مجیب پر یہ لازم ہوگا اُس لفظ پر ایسا دلیل پیش کرے۔ ہم اپنی غرض کے موافق اُس لغت کے قاعدہ کو دلائل عقلی سے اُس کی تردید کرکے اپنی لغت میں استعمال کرینگے۔اگر یہ مراد ہے تمہاری کتاب مقدس میں جتنے عربی الفاظ ہیں اس کو بدل دینا کا اقرار کردیا نہیں۔ اگرنہیں تواپنے مطلب کے موافق جو ہے بدل دیتے اور جوتمہارے مطلب کے موافق نہیں ہے بحال رکھنا ۔ تشریح فرمائیے۔

جواب۔ میں نے کسی غیر مذہب کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ تمہارے مذہب میں کلمہ ایک جملہ کو کہتےہیں یاوہ پانچ کلمے جن کو آپ پڑھا کرتے ہیں اسلئے میں نے کلمتہ اللہ آپ کے مذہب سے نہیں لیا۔ دوم میں اردوزبان استعمال کررہاہوں اوریہ لفظ اُردو زبان کے قواعد کے خلاف نہیں۔ اگر اردو زبان کے قواعد کے خلاف تھا۔ توآپ کو قواعد اُردو سے اُس قاعدہ کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ لیکن قواعد اُردو سے توآپ واقف معلوم نہیں ہوتے۔ آپ کی عبارت اس امر کی شاہد ہے یہ جو آپ نے اپنی بے قاعدہ اُردو میں فرمایاکہ" وہ مذہب جواس لفظ کو غیر مذہب سے لیا ہے۔ لینے کا وجہ یہ ہے کہ اُس لفظ کا موافق یا اُس کے معنی ہیں میں اپنی زبان میں ملنے کی وجہ سے غیر لغت سے لفظ لیا" سوآپ کو واضح ہوکہ ہماری مذہبی کتابیں یونانی یا عبرانی زبان میں لکھی ہیں وہاں آپکی عربی زبان سے یہ لفظ نہیں لیا گیا۔ چنانچہ اُن زبانوں میں کلمہ کے لئے لفظ لاگوس یاممرے پایا جاتاہے۔ لیکن جب اُن کتابوں کا ترجمہ اُردو زبان میں ہوا تو اردو زبان کے لفظ استعمال کئے گئے اگرعربی زبان میں سے اردو زبان میں بعض الفاظ آگئے ہیں تو وہ مسیحیوں کا قصور نہیں نہ اُن کے وسیلے آئے ہیں۔


ہم نے یہ تو زبان اُردو بنی نبائی پائی اوراپنی کتابوں کو اُن میں ترجمہ کیاہم نے توکوئی لفظ آپ کے مذہب یا زبان سے مستعار نہیں لیا۔ پھر آپ یہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنی مقدس کتابوں سے سارے عربی الفاظ کو بدل دینے کا اقرار کرو۔ سوجناب من میں اقرار کرتاہوں کہ سارے عربی الفاظ اپنی مقدس کتابوں کے اردو ترجمے سے اُردو زبان سے نکلوائينگے ہم کو اُن الفاظ کے استعمال کرنے کی کچھ ضرورت نہ ہوگی اورنہ ہم کو ایسا بڑا شوق ہی ہے لیکن چونکہ اُردو زبان میں یہ لفظ آگئے ہیں۔ اس لئے ہم نے بھی استعمال کئے۔ ہماری غرض اردو زبان سے ہے۔ نہ عربی لفظ سے۔ جس دن آپ نے یہ الفاظ اُردو زبان سے خارج کرادئے۔تو غالباً سب سے پہلے مسیحی اپنی اردو کتابوں سے یہ عربی الفاظ نکلوائینگے۔

نیز آپ نے یہ فرمایا کہ " ہم اپنے مطلب کے موافق جو ہے بدل دیتے ہیں جومطلب کے موافق نہیں بحال رکھنا"۔ یہ توآپ نے انوکھی سنائی کہ جو مطلب کے موافق ہے اُس کو بدل دیتے ہیں اورجومطلب کے موافق نہیں اُس کو بحال رکھتے ہیں۔ ایسا کون پاگل ہوگا جوایسا کرے۔ بلکہ ہم تواس کے برعکس کرتے ہیں کہ جب ہم کتاب مقدس کے ترجموں کی اصلاح کرتے ہیں تاکہ ان کو زیادہ بامحاورہ بنائیں توہم اُن الفاظ کو جومطلب کے موافق ہوتے بحال رکھتے ہیں اور جومطلب کے موافق نہیں اُن کو بدل ڈالتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے نذیر احمد صاحب نے بھی اپنے قرآن کے ترجمہ میں اس قاعدہ کو قائم رکھاہے۔ اورچونکہ زبان میں اکثر زمانہ بزمانہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے اورپُرانے الفاظ متروک ہوتے جاتے ہیں نئے الفاظ اورمحاورے آجاتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنی کتابوں کو تازہ رکھنے کی غرض سےحسب زمانہ تازہ محاورات کو اختیار کرلیتے ہیں اورمتروک الفاظ محاورات کو بدل ڈالتے ہیں ۔ لیکن عبرانی اوریونانی کتابوں کے ساتھ ہم ایسا نہیں کرتے۔

(میں نے یہ جواب زبانی دیا تھا۔اس کو میں نے اُس وقت قلمبند نہ کیا تھا۔ میں نے اُس کا خلاصہ اپنی یادداشت سے یہاں درج کیاہے)اس جواب کے ختم ہونے پر ہمارے دوگھنٹے پورے ہوگئے اورمباحثہ بند ہوا۔ لیکن ملاصاحب نے پانچ منٹ کی اوراجازت مانگی۔ ان کے اصرار پر ہم نے اُن کو پانچ منٹ اوردیدئے ۔ چنانچہ اُنہوں نے اس پانچ منٹ کے عرصہ میں یہ سوال کیا۔

سوال ملا۔ اگرنہیں تواپنے مطلب کے موافق جوہے بدل دیتے اورجوتمہارے مطلب کے موافق نہیں بحال رکھتا۔ ہمارے مذہب میں یہ بات بہت عیب ہے۔ کوئی الفاظ الہٰی میں تغیر و تبدل کرنا جیسا تمہارے مذہب میں اپنی کتاب کو بدل دیاہے جیسا یوحنا کے پہلے خط پانچویں باب ساتویں آیت میں تبدیل کیاہے۔ جیسا تمہارے پاس مسلم ہے۔ اب کے چہار شنبہ اس کا جواب دینا۔

ناظرین پرواضح ہوگیا ہوگاکہ ملاصاحب نے مسئلہ ثالوث پر اعتراض کرکے جب جواب شافی پایا تو لفظی بحث پر اُتر آئے۔ اور بہت وقت ضائع کیالیکن لفظی بحث کے وہ ناقابل تھے کیونکہ زبان سے اچھی طرح واقف نہ تھے اورایسی عبارت استعمال کرتے تھے کہ مشکل سے اس کا مطلب ظاہر ہوتا تھا۔ چندمحمدیوں نے اس امر کی شہادت دی کہ جن اشخاص کو ایسے لفظی تکرار کی مرض ہو اُن سے گفتگو کرکے محض وقت ضائع کرناہے۔ میرا یہ عذر تھا۔ کہ میں ان کی اس عادت سے واقف نہ تھا۔ بلکہ پہلے دوتین موقعوں پر ان کی طبیعت ایسی ظاہر نہ ہوئی تھی۔ پھر بھی اس مباحثہ سے حاضرین پر اچھا اثر ہوا ۔ خاص کر مسئلہ ثالوث کے بارہ میں کیونکہ ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ ایسا مسئلہ نہیں کہ ہم مسیحیوں کو زچ کرسکیں۔ چنانچہ ملاصاحب نے بھی اس مسئلہ سے پہلوتہی کرکے صحت انجیل پر بحث شروع کرنا چاہا۔


تیراہواں باب
ایلور

۲۶ستمبر کو ایلور کی طرف روانہ ہوا۔ صبح دس بجے وہاں پہنچ گیا۔ پادر ی گولڈاسمتھ صاحب سٹیشن پر تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ الگزنڈر صاحب کے مکان پر جاکر حاضری کھائی۔ یہ بزرگ پادری صاحب گو بہت عمر رسیدہ ہیں لیکن زندہ دل ہیں اور اس علاقہ کے سپر نٹنڈنگ مشنری ہیں۔ حاضر ی تناول کرنے کے بعد دیسی پادری سبراؤ صاحب کے ساتھ رہنے کا انتظام تھا یہاں اس مشن کا ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا۔

جس موقعہ پر ہم لوگ پہنچے وہاں کے ہائی سکول کی جوبلی کا جلسہ ہورہا تھا۔ اس سکول میں چار سوسے زیادہ طلباء تھے۔ اس علاقہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مسیحی ہیں۔ خشک سالی سے یہاں لوگوں کوبہت تکلیف ہوئی۔ تعصب مذہبی تعلیم کے سامنے کا فورہورہاہے۔ ایک خاص فرقہ میں مسیحی دین کی طرف خاص تحریک پائی جاتی ہے۔ خُدا برکت دے۔

دوسرے روز پادری گولڈاسمتھ صاحب ایک محمدی صاحب کی ملاقات کوگئے۔ مجھے بھی ساتھ لے گئے اُن کے مکان پر چند محمدی جمع ہوگئے۔ مذہب کے بارہ میں کچھ گفتگو شروع ہوگئی۔ ایک محمدی صاحب نے یہ سوال مجھ سے کیا۔ کیا قرآن جھوٹی کتاب ہے؟کیا محمد رسول اللہ نہیں؟ جواب دینا ذرا مشکل تھا۔ کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جاکر اُن کے مذہب پر حملہ کرنا اوراُن کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہنا نازیبا معلوم ہوتاہے۔ پھربھی حق کو بیان کرنا ضرور ہے۔

پہلے سوال کے بارہ میں یہ جواب میں نے دیا۔ کہ الہامی کتابوں کا بیان جہاں کہیں آجائے۔ وہ الہامی ہی رہتاہےاگر کوئی شخص اپنی کتاب میں کسی الہامی کتاب سے اقتباس کرے یا اُس کا حوالہ دے تو وہ اقتباس اورحوالہ الہامی ہے۔ غیر الہامی نہیں گو وہ غیر ملہم شخص نے یا غیر الہامی کتاب نے مذکور کیاہو۔ چونکہ قرآن میں الہامی کتابوں میں سے بہت بیانات آئے ہیں۔ اسلئے ہم ان بیانات کو غیر الہامی نہیں کہہ سکتے اور اس کتاب کو چھوٹی کتاب نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں بہت سچے واقعات اورالہامی بیانات آئے ہیں۔ اور کتاب کی غرص بھی غلط معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ مشرکان عرب کو خُدائے واحد کی طرف آنے کی ترغیب اور دعوت دی ہے۔ میں نے یہ جواب اس لئے دیاکہ میں قرآن کو جھوٹی کتاب کہنے کےلئے تیار نہیں تھا۔

دوسرے سوال کے جواب میں یہ کہا کہ دنیا میں کوئی شخص بھی اپنی مرضی سے نہیں آیا اورنہ بے مقصد آیا۔خُدا نے ہرایک کو دنیا میں بھیجاہے۔اورہرایک کو ایک خدمت یا ایک کام دیکر بھیجاہے۔ یعنی دنیا میں ہر فرد بشر کاایک مشن یاایک رسالت ہے۔ اس لئے ہر شخص خُدا کی طرف سے رسول ہے۔ خُدا نے محمد صاحب کو بھی ایک خدمت سپرد کی اوراُن کا بھی ایک خاص مشن تھا۔ اس لئے وہ بھی رسول خُدا کہلانے کے مستحق ہیں۔ یہ دیگر امر ہے ہر شخص اپنے مشن اور رسالت کو خُدا کی مرضي کے مطابق سرانجام دیتاہے یا نہیں۔لیکن ہر شخص رسول ،نیز محمد صاحب نے عرب کے مشرکوں کو خُدا پرستی سکھائی۔ مسیحیوں کی خستہ حالی کےلئے ایک کوڑے کا کام دیا اس لئے وہ خاص طورپر رسول خُداکہلاسکتے ہیں۔ ہم مسیحی تونبوکدنصر اورخورَس جیسے بت پرست بادشاہوں کو منجانب اللہ کہتے ہیں اور خورَس بادشاہ خاص بندہ خُدا کہلاتاہے۔ توپھر محمد صاحب کو اس خاص معنی میں رسول کہنے سے ہمارا کوئی نقصان نہیں۔

یہ محمدی اس جواب کو سن کر خوش ہوگئے اورجولکچر میں یہاں دینے کوتھا۔ اُس کے سننے کے واسطے تیار تھے۔

یہاں پادری سیل صاحب مدراس سے تشریف لائے ہوئے تھے اُن سے بھی ملاقات ہوئی ۔ دوسرے دن شام کو میں نے سکول کے کمرہ میں لکچر دیا کہ"میں کیوں مسیحی ہوں" اور عام اجازت دی کہ بعد لکچر مضمون لکچر کے بارہ میں اگر کوئی سوال پوچھنا چاہے تو خوشی سے اُس کے سوال سن کر


جواب دینے کی کوشش کی جائیگی۔ لیکن یہ شرط تھی کہ سوال جواب میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے۔بعد لکچر صرف ایک شخص نے سوال کیا جس کا جواب باصواب دیا گیا۔ سیل صاحب بھی موجود تھے اُنہوں نے تعجب کیا۔ کہ یہ محمدی خاموش ہیں اورکوئی سوال نہیں پوچھتے یہ خیال گزراکہ شائد اُنہوں نے میری زبان نہیں سمجھی۔ اس لئے ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ میری زبان اچھی طرح سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ بخوبی سمجھ گئے۔ لیکن سوال کرنےکے لئے تیار نہ تھے۔ دوسرے دن سوال کرینگے۔

دوسرے روز پھر لکچر ہوا۔کہ " کلمہ مجسم ہوا" اس وقت ایک حافظ قرآن نے چند اعتراض اورسوال کئے۔مثلاً اُنہوں نے پوچھاکہ محمد صاحب کومسیحی کیوں نہیں جانتے؟

میں نے مختصر جواب دیاکہ

  • جب مسیح کے آنے سے شرع واخلاق پورے طور سے ظاہر ہوگیا تھا ۔ تب محمد صاحب کے ماننے کی کیا ضرورت رہی۔
  • جب مسیح نے جہاں کا نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کیا تو پھر کسی دوسرے پر نجات کےلئے ایمان لانے کی ضرورت نہ رہے۔
  • مسیح قدوس ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ اورمحمد صاحب اپنے گناہوں کے لئے معافی مانگتے ہیں جس سےظاہر ہے کہ حضرت مسیح محمد صاحب سےکہیں افضل ہیں۔

علاوہ اس کےمعمولی سوال فارقلیط کےبارہ میں کیا۔ جس کا جواب دیا گیا۔یہاں اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

جب حافظ صاحب خاموش ہوکر بیٹھ گئے توایک دوسرے محمدی نے گفتگو کرنا چاہا۔ چونکہ وقت ختم ہوچکا تھا۔ دوسرے دن صبح کو اُس کے ساتھ گفتگو قرار پائی۔ اُس کا سوال یہ تھاکہ اناجیل الہامی نہیں ہیں چنانچہ لوقا کے دیباچہ کا اُس نے حوالہ دیا۔

دوسرے روز وقت مقررہ پرسکول کے کمرہ میں حاضر ہوا۔چند مسیحی معہ پادری گولڈاسمتھ صاحب کے میرے ساتھ تھے۔ ستراسی محمدی بھی فراہم ہوگئے۔ لیکن جس کے ساتھ گفتگوٹھہری وہ تشریف نہ لائے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ ہم سبھوں نے انتظار کیا۔ بعد انتظار وعظ کا موقع ملا۔اور وعظ کرکے چلے آئے اُس روز شام کو میرا تیسرا لکچر دربارہ کفارہ مقرر تھا۔ اسلئے شام کو جگہ معینہ پر خُدا سے دعا مانگ کرحاضر ہوا۔ تقریباً چارسومحمدی تشریف لائے۔ خُدا سےمدد چاہ کر لکچر شروع کیا۔

چودھواں باب
کفارہ

کفارہ۔ اس لفظ کے معنی عبرانی زبان میں ڈھانپنا ہیں۔ خُدا نے حضرت موسیٰ کی معرفت ایک صندوق بنوایا تھا۔(جس کا ذکر سورہ بقرہ کی ۲۴۹آیت میں آیا ہے۔التابوت فیہ سکینتہ)اوراُسے حکم ملا تھاکہ" تواس عہد نامہ کو جو میں تجھے دونگا اُس صندوق میں رکھیواور توکفارہ کا سرپوش خالص سونے سے بنوائیو۔۔۔۔۔۔اور توسونے کے دوکروتی بنوائيو انہیں گھڑ کر اُس کفارہ کے سرپوش کے دونو طرف بنوائيو۔۔۔۔ تواُن کروبیوں کو اس کفارہ کے سرپوش کے دونو کونوں میں بنوائیو اور وہ کروبی پر پھیلائےہوئے ہوں ایسے کہ کفارہ گاہ اُن کے پروں کے تلے ڈھپ جائے اوراُن کے منہ آمنے سامنے کفارہ گاہ کی طرف ہوں اور تو اس کفارہ گاہ کو اس صندوق کے اوپر رکھیو اور وہ عہد نامہ جو میں تجھے دونگا اُس صندوق میں رکھیو۔وہاں میں تجھ سے ملاقات کرونگا اورمیں کفارہ گاہ کے اوپر سے کروبیوں کے درمیان سے جوعہدنامہ کے صندوق کے اوپر ہونگے اُن سب چیزوں کی بابت جومیں بنی اسرائیل کےلئے تجھے حکم کرونگا تجھ سے بات چیت کرونگا" (خروج۲۵: ۱۶سے ۲۲)۔

پھر ایک دوسرے مقام میں لکھاہے کہ" توکفارہ کا سرپوش شہادت کے صندوق پر پاک ترین مکان میں رکھ(خروج ۲۶: ۳۴)۔

پھر یوں آیاہے ۔ کہ اُس بخور کو خُداوند کے حضور آگ میں ڈال دے تاکہ بخور کا دھواں کفارہ گاہ کو جوشہادت کے صندوق پر ہے چھپائے کہ وہ ہلاک نہ ہو۔ پھر وہ اُس بچھڑے کا لہو لے کر اپنی اُنگلی سے کفارہ گاہ پر پورب کی طرف کو چھڑکے اورکفارہ کے آگے بھی لہو اپنی انگلی سے سات بار چھڑکے"(احبار ۱۶: ۱۳، ۱۴)۔

توریت کے مذکورہ بالامقامات سے اس لفظ کفارہ کی وجہ تسمیہ معلوم ہوجاتی ہے۔ یعنی۔

(۱۔)یہ شریعت کو ڈھانپتاہے۔جس کو انسانوں نے توڑا تھا۔اورخُدا کے عہد میں خلاف ورزی کرنے کے باعث خُداناراض تھا۔ اب یہ کفارہ ساری تقصیروں اورحکم عددلیوں پر گویا پردہ ڈال دیتاہے۔

(۲۔)جب انسان کے گناہ ڈھانپے گئے تویہ کفارہ خُدا سے ملاقات کا وسیلہ اورموقع ہوجاتاہے۔

یہودی شریعت میں سال میں ایک دن مقرر تھا۔ اس روز ساری اُمت کے گناہوں کا کفارہ دیا جاتا یایہ کہو کہ امت کے گناہ ڈھانپے جاتے تھے۔ اس دن کی رسم کا ذکر احبار کی کتاب کے سولھویں باب میں مختصراً یوں ہواہے۔ کہ ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ سارےبنی اسرائيل روزہ رکھیں۔ اور اپنی جانوں کو دکھ دیں۔ پھر بکری کے دوبچے چنے جائیں، ایک بچہ ذبح کیا جائے۔ اُس کا خون کفارہ گا پر چڑھکا جائے اوراُس کے ذریعے ہیکل کے لئے بنی اسرائیل کی ناپاکی کےلئے اوراُن کے گناہوں اور ساری خطاؤں کےلئے کفارہ دیا جائے۔ پھر وہ سردار کاہن دوسرے حلوان کے سامنے لائے اوراپنے دونوں ہاتھ اُس کے سر پر رکھتے اوراُن کے سارے گناہوں اورخطاؤں کا اقرار کرکے اُن کو اُس کے سر پر گویا لاددے اورکسی شخص کے ہاتھ اُس کو بیابان میں بھیجوادے۔

پس اس لفظ اور رسم سے ظاہر ہے کہ خُدا نے کفارہ کی تعلیم کو کیسا اہم اور ضروری ٹھہرایا اوراس کفارہ کا یہ اصول بتایاکہ لاخون بہائے معافی نہیں، یہ اُصول کبھی بدل نہیں سکتا۔ اس کی صورت اورشکل بدل سکتی ہے۔ لیکن اصول کبھی نہیں بدلتا ہم مسیحی اس اصول وتعلیم الہٰی کے موافق جو توریت شریف میں اس تفصیل سے بیان ہوا بدل وجان کفارہ کو مانتے ہیں۔ یہی تعلیم آسمانی ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ انجیل کی تعلیم کا مرکز یہی تعلیم ہے مسیح کے آنے کا بڑا مقصد یہی تھا۔جیسا اُس نے فرمایا " ابن آدم اس لئے نہیں آیاکہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے اوراپنی جان بہتوں کےلئے فدیہ میں دے"۔


اس تعلیم کوکئی ایک تشبیہوں اورتمثیلوں کے ذریعہ توضیح دی گئی ہے ۔ مثلاً۔

اسکو فدیہ یا زرمخلصی سے تشبیہ دی ہے اڑ لفظوں سے یہ تصور ہمارے سامنے کھینچا جاتا ہے۔ کہ کوئی شخص غلام ہے جس کی غلامی کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ وہ لڑائی میں شکست پاکر اسیر ہوگیا تھا اوراب بطور غلام کے اپنے فاتح کی خدمت کرتاہے۔ یا یہ وجہ ہوگی کہ تنگدستی کے باعث اُس نے اپنے تئیں کسی کے ہاتھ بیچ ڈالا۔اب اس میں اتنی قوت نہیں کہ اپنے تئیں چھڑاسکے نہ اُس کے پاس کچھ سرمایہ ہے جس کو دیکر اپنی جان کی مخلصی کرائے۔ یہی حالت گنہگار کی ہے۔ شیطان نے شکست دے کر اُسے اپنا غلام بنالیاہے یا کسی بُری عادت کا ایسا عادی ہوگیاہے کہ اُس سے چھوٹنا مشکل ہوگیا۔ یا شاید مجبوری سے گناہ کے ہاتھ بک گیاہے۔ بہر حال اُس کی اب یہ حالت ہے کہ وہ خود اپنی طاقت ولیاقت سے شیطان اورگناہ کے پنجہ سے مخلصی حاصل نہیں کرسکتا۔ ایسے گنہگار کےلئے مسیح نے اپنی جان فدیہ میں بطور زرمخلصی کے دے کر اُسے رہائی دلوادی ہے اب وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہے۔

چنانچہ پولوس مقدس نے بھی اس کے بارہ میں یہ کہا ہے" خُدا بھی ایک ہی ہے اورخُدا اورانسانوں بیچ میں درمیانی بھی ایک ہی جس نے اپنے آپ کو سب کے فدیہ میں دیدیا تاکہ مناسب وقتوں پر اس کی گواہی دی جائے"(۱تیمتھیس ۲: ۱۶)۔

" تم اپنے نہیں۔ کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو"۔" تونے ذبح ہوکر اپنے خون سے ہرایک فرقے اور اہل زبان اوراُمت اور قوم میں سے خُدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا ہے"۔

(ب) پھر اُس کو ملاپ سے تشبیہ دی ہے اس لفظ سے یہ خیال ظاہر ہوتاہے کہ دوشخص علیٰحدہ علیحٰدہ رہنے تھے اوراُن میں سے اتفاق نہ تھا۔ بلکہ جدائی تھی اُن کا طریقہ اُن کی روش ایک دوسرے سے متفرق تھا۔

اب مسیح نے آن کر اپنی جان دینے کے ذریعے گنہگار انسان کا خُدا سے میل کرادیا۔ چنانچہ پولوس مقدس نے اس خیال کو یوں ظاہر کیا"سب چیزیں خُدا کی طرف سے ہیں جس نے مسیح کے وسیلے سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کرلیا اورمیل کرانے کی خدمت ہمارے سپرد کی" مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح کے وسیلے سے اپنے ساتھ دنیا کا میل کرلیا اوراُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمہ نہ لگایا اوراُس نے میل کا پیغام ہمیں سونپ دیا"(۲کرنتھیوں ۵: ۱۸، ۱۹)۔

ایک دوسرے مقام میں اس کابیان یوں ہواہے"تم جو پہلے دورتھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہوکیونکہ وہی ہمار ی صلح ہے جس نے دونو کوایک کرلیاہے۔۔۔۔اُس نے آن کر تمہیں جودور تھےاوراُنہیں جونزدیک تھے صلح کی خوشخبری دی کیونکہ اُسی ہی کے وسیلے سے ہم دونو کی ایک ہی روح میں باپ کے پاس رہائی ہوتی ہے"(افسیوں ۲: آیت ۱۴سے)۔

تیسری تشبیہ کفارہ۔ یعنی ڈھانپنا۔ ہمارے بیشمار گناہ تھے ہم گندے اور پلید ہوگئے تھے۔ خُدا کی آنکھوں میں ہم مکروہ تھے اورخُدا کے غضب کی آگ ہم کو بھسم کردینے والی تھی کہ مسیح نے اپنی جان اور خو ن بہانے کے ذریعے ہمارے گناہوں کو ڈھانپ دیا۔ تاکہ بجائے غضب کے خُدا رحم کی نظر ہم پر کرے چنانچہ اس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے۔


چوتھی تشبیہ معافی۔ یہ لفظ قرضہ کے چھوڑدینے پر دلالت کرتاہے ۔ شریعت کو ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ خُدا کا یہ قرض ہم پر تھا۔ لیکن ہم اس قرض کو ادانہ کرسکے اورہمارا انجام اسی قسم کا ہونے والا تھا۔ جوایک نادہند قرضدار کا ہوتاہے۔ اسی لئے سیدنا مسیح نے ہمیں یہ دعا مانگنے کی ہدایت کی " جس طرح ہم اپنے قرضداروں کو بخشتے ہیں۔ توبھی ہمارے قرض ہمیں بخشدے"۔

یہاں تک توکفارہ کی تشریح ان چار تمثیلوں کے ذریعے ہوئی ہے اب یہ سوال اٹھتاہے کہ کیونکر مسیح کے ذریعہ یہ ملاپ ہواکیونکر غلامی سے مخلصی مل گئی اوریہ قرضہ معاف ہوگیا۔ نوع انسان کی حالت پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ سرخاندان اور قوم کے حسن وقبح کے نتائج میں باقی ممبرشریک ہوتے ہیں۔نہ صرف انسان کا بلکہ کل خلقت کا یہی حال ہے کہ جنس کے حسن وقبح میں کل انواع اورنوع کے حسن وقبح میں کل افراد اُس نوع کے شریک ہوتے ہیں ۔ آدم کی کمزوریوں میں اس کی اولاد شریک ہے حضرت ابرہام کو جوبرکت ملی اُن برکتوں سے اُس کی اولاد اور باقی ایماندار فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سلطنتوں میں یہی حال ہے چین میں چند شریروں نے کچھ فساد کیا تھا ساری سلطنت کو اُس کی تکلیف اٹھانی پڑی۔ جس طرح والدین کی عادات اور امراض میں اولاد مبتلا ہوجاتی ہے ۔ اورجیسے والدین کے گناہوں کے باعث اولاد کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ ویسے ہی اُن کی خوبیوں اور صلہ میں اُن کی اولاد شریک ہوتی ہے۔ یہ قانون فطرت ہے اوریہی دلیل پولوس مقدس نے رومیوں کی طرف کے خط میں دی ہے" جب ایک شخص کے قصور کے سبب موت نے اُس ایک کے ذریعہ سے بادشاہی کی توجولوگ فضل اور راستبازی کی بخشش افراط سے حاصل کرتے ہیں وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے ہمیشہ کی زندگی میں ضرورہی بادشاہی کرینگے۔۔۔۔۔ جس طرح ایک شخص کی نافرمانی سے بہت لوگ گنہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھیرینگے"۔

قرآن نے بھی اس اُصول کو ماناہے" چنانچہ سورہ فائدہ میں " ایک جگہ یوں آیاہے" فمن تصدق بہ فھو کفارہ" (پھر جو(مظلوم) بدلہ معاف کردے تو وہ (اُس کے گناہوں کا)کفارہ ہوگا(ترجمہ نزید احمد)" ۔

پھر ایک اور سورہ میں یوں آیاہے وفدینہ بذبح عظیمہ(ہم نے بڑی قربانی کو(اسماعیل کا)فدیہ دیا (ترجمہ نزیر احمد)علاوہ ازیں خاص خاص گناہوں کےلئے کفارہ مقرر ہے۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ممنوع مہینے میں شکار کرنے کےلئے کفارہ مقر ر ہے۔ کفارہ الانعامہ منسکین ۔ کفارہ ہے محتاجوں کو کھانا کھلانا)ویسا ہی قسم ٹوٹنے پرکفارہ مقرر ہے۔ یعنی اُن گناہوں کی معافی کسی دوسرے کے ذریعے سے مقرر ہوجاتی ہے۔ اہل شیعہ تو امام حسین کی شہادت کو اُمت کا کفارہ ماننے پر تیار ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ محمدی اس مسئلہ کفارہ کو غلط نہیں کرسکتے یہ اصول تو اُن کو قرآن کی تعلیم کے موجب بھی ماننا پڑیگا۔ ہاں خاص کے کفارہ کوچاہے مانیں چاہے نہ مانیں یہ اُن کا اختیار ہے ۔انجیل شریف میں تواس کی تعلیم بہت مفصل طور سے بیان ہوئی ہے جیساکہ پیشتر مذکور ہوا۔ چونکہ مسیح کلمتہ اللہ اورروح اللہ ہے اس لئے اس کےکفارہ کی تاثیر عالمگیر ہے یعنی سارے انسان اُس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں کیونکہ اس کی قدروقیمت غیر محدود ہے۔

البتہ بعضوں نے یہ اعتراض کیاکہ مسیح کا صلیب پر مرنا غلط ہے چونکہ مسیح کا کفارہ مسیح کی موت پر دلالت کرتاہے اورموت اس کی واقع ہوئی نہیں۔ اس لئے کفارہ نہیں ہوا۔ ان لوگوں نے یہ تو بخوبی سمجھ لیا۔ کہ کفارہ کا مرکز مسیح کی موت ہے۔ اگرچہ ایک طرح سے مسیح کی ساری زندگی کفارہ ہے۔ کیونکہ ہمیشہ اُس نے اپنے باپ کی مرضی کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا اوراُس پر عمل لیا۔ اور اُسی کو دوسروں کے سامنے پیش کیا۔ اگرچہ کفارہ کی عظمت بھی اس کی اس پاکیزہ زندگی اورفرمانبرداری پرموقوف ہے توبھی اس فرمانبرداری کا کمال اس سے ظاہر ہوا کہ اُس نے اپنی جان دیدی بعض۔ محمدی صاحبان نے اس لئے مسیح کے مصلوب ہونے کا انکار کیاکہ ان کے زعم میں صلیب پر لٹک جانا انسان کو لعنی کردیتاہے۔ لیکن ان کو شائد معلوم نہیں کہ


فرعون نے ان جادوگروں کوجو اپنے کفر سے توبہ کرکے موسیٰ پر ایمان لائے اورقوم کے سامنے علانیہ شہادت دی ہاتھ پاؤں کاٹ کر صلیب پر کھینچ دیا اور صلیب پر قتل کر ڈالا لا صلنبکمہ فی جذوع النحل (سورہ طہ ع)اورمسلم شریف میں آنحضرت نے قصہ اصحاب الاخدود میں فرمایا کہ کس طرح ایک کافر بادشاہ نے ایک ولی کامل صاحب کشف وکرامات کو صلیب کے اوپر کھینچدیا پھر اُس کے ایک تیر مارا جو مصلوب کی کنپٹی پر جالگا اور وہ وہیں مرگیا۔ اس کا مفصل بیان اکبر مسیح صاحب نے رسالہ ضربت عیسوی(یہ کتاب ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے) میں کیاہے۔ یہاں مجھے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

بعض صاحبوں نے قرآن کی اس آیت سے (ماقتلو وما صلبو)یہ سمجھا کہ نہ وہ قتل کیا گیانہ وہ صلیب دیا گیا۔ لیکن کیا ان الفاظ کے کچھ اورمعنی نہیں ہوسکتے۔ شاید ان الفاظ سے یہ مراد ہو کہ یہودی لوگ مسیحیوں کو چڑانے کے لئے یہ کہتے تھے کہ ہم نے تمہارے مسیح کو مارڈالا۔لیکن خُدا ان کے غرور کے جواب میں یہ کہتاہے کہ تم نے نہیں بلکہ میں نے اسے صلیب پر مصلوب ہونے دیا۔ چنانچہ مقدس پطرَس یہودیوں کے سامنے وعظ کرتے وقت اس کا ذکر کرتاہے" جب (یعنی یسوع)خُدا کے مقررہ انتظام اورازلی علم کے موافق پکڑوایا گیا۔ توتم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے میخیں گڑواکر مار ڈالا"۔ اور بعض عالم ماصلبوہ کے یہ معنی بھی کرتے ہیں توکیوں ایسے معنی اختیار کئے جائیں۔ جوانجیل شریف کے بیان اورانبیاء سلف کی پیشینگوئیوں کے خلاف ہوں اوریوں نجات کے طریقہ سے دورجاپڑیں۔

کبھی کبھی غیر مسیحی ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں۔ کہ اب مسیحیوں کو گناہ کرنے کی آزادی ہے جتنے گناہ چاہیں کرلیں کیونکہ مسیح ان کے لئے کفارہ ہوگیا۔ اے صاحبو صدیوں سے مخالفوں نے یہ الزام ہم پر لگایا اورمسیحیوں نے برابر اس کا انکار کیاہے کہ مسیح کے کفارہ کا یہ مقصد نہیں کہ ہم گناہ کیاکریں۔ چنانچہ مقدس یوحنا نے فرمایا کہ وہ"(یسوع) اسلئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اٹھالے جائے اور اُس کی ذات میں گناہ نہیں جوکوئی اُس میں قائم رہتاہے۔ وہ گناہ نہیں کرتا" (۱یوحنا۳: ۵، ۶)۔

"اس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتاہے۔۔۔۔اگراپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے"(۱یوحنا ۱۔ ۷، ۹)۔

اے صاحبو یہ خُدا کی محبت کا تقاضہ تھاکہ اُس نے ہم گنہگاروں کےلئے یہ انتظام کیاہم اس کے بڑے ادب اورشکرگزاری سے قبول کریں۔ لکچر کے ختم ہونے کے بعد چند سوالات حاضرین نے کئے۔ جن کا جواب دیا گیا۔ وہ معمولی سوال تھے اُس لئے اُن کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک مزے داربات واقع ہوئی۔ ایک شخص بہت کچھ اعتراض سوچ کرآیا تھا۔ اُس نے جواب ایک سوال پیش کیا تومیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم محمدی ہو؟کیونکہ میں اس وقت محمدی صاحبان سے مخاطب ہوں اور اُنہیں کےلئے یہ لکچر دیا گیا ہے اوراُنہیں کے سوالات کا جواب دینا چاہتاہوں ۔ پس اگرتم محمدی ہو تو سب کے سامنے کہہ دوپھر اپنا سوال پیش کرو۔ نہ معلوم اسے کیاہوا کہ وہ اپنے تئیں سب کے سامنے محمدی کہنے سے شرمایا۔ اور یہی اصرار کرتارہا کہ میں یہ نہیں کہونگا کہ میں محمدی ہوں۔ سب مسلمانوں نے اُس سے درخواست کی کہ محمدی ہوکر پھر تم کیوں اقرار نہیں کرتے۔لیکن اُس نے اقرار نہ کیا پر نہ کیا۔ پھر میں نے یہ بھی عرض کہ اپنے اعتراض کو کسی دوسرے محمدی بھائی کی معرفت پیش کردومیں اس کا جواب دونگا۔ لیکن میں تم سے مخاطب نہ ہوؤنگا۔اُس سےمخاطب ہوکر اُس اعتراض کا جواب دیدونگا۔ اس شخص نے یہ بات بھی نہ مانی اور بہتوں کو اُس سے شرم آئی اوراُس بزدلی کے باعث اُسےبہت شرمندہ کیا۔خُدا کی شان ہے کہ وہ عین وقت پر مخالفوں کے منہ بند کردیتاہے۔ اس کی حمدوتعریف ابدتک ہو۔


پندرھواں باب
مچھلی پٹم

ایلور سے روانہ ہوکر بجواڑہ میں آیا وہاں پادری اننتم گارو صاحب کے مکان پر چند گھنٹے ٹھیرا۔ یہ پادری صاحب ایک مشن ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ بڑے خلیق، ان کی میم صاحبہ نے بڑی خاطر مدارات کی اورمسیحی مہمان نوازی کا ثبوت دیا۔ یہ شہر پیپل کےدرختوں سے باعث بہت مشہورہے۔ کثرت سے پیپل کے درخت ہیں اوراُن میں دودھ کی ندیاں بہ نکلتی ہیں کہتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں یہاں کے لوگ پیپل کا دود پیتے ہیں اور گرمی کے وقت ان کے کلیجہ کو سرد کرتاہے۔ بعض دیگر امراض کے لئے یہ دودھ استعمال ہوتاہے ۔ خُدا کی رحمت کا نشان ہے۔ کہ ہرملک اورہر زمانہ میں اُس نے وہاں کے لوگوں کی آسائش اور ضروریات کےلئے حسب حالت سامان بہم پہنچادیا۔ پھر انسان کیوں شکرگزار نہ ہوں۔

یہ شہر دریاے کشناپر واقع ہے اوریہاں سے مچھلی پٹم تک اس دریاے سے نہر نکال کر لے گئے ہیں۔ اورکشتیاں انگریزی اور دیسی نمونہ کی یہاں ہیں۔ دخانی کشتیاں اکثر ہیں۔ اور بعضوں کو ملاح کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ مختلف درجے ان کشتیوں میں ہوتےہیں۔ اور خاص کوٹھریاں بھی ہوتی ہیں۔ گاڑی کا راستہ بھی مچھلی پٹم تک بنا ہوا ہے ۔لیکن میں کشتی کے سفر کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ چنانچہ ٹھیکدار کے پاس گیا اُس نے دُگنا تگنا کرایہ بتایا۔ اُن کو ذرا آنکھیں دکھائیں اورشرمندہ کیاکہ دیسیوں کی تجارت کے زوال کا ایک بڑا سبب یہ بددیانتی اور دروغ گوئی اور مسافروں کو تکلیف ہی ہے۔ کچھ شرمندہ ہوکر ٹھیکدار نے مناسب کرایہ بتادیا۔ اورمیں کشتی میں سوارہودوسرے روز علے الصباح مچھلی پٹم پہنچ گیا۔ وہاں پادری کلارک صاحب کے مکان پر حاضرہوا۔ وہ بڑی مہربانی سے پیش آئے ۔ کمرہ کا انتظام اُنہوں نے کردیا۔ ہاتھ منہ دھوکچھ تناول کرکے وہاں کے مشن کالج، ٹریننگ کالج اور لڑکیوں کے سکول کا ملاحظہ کیا۔ لڑکیوں کی ڈرل اورکھیلیں دیکھر بڑی خوشی ہوئی لڑکیاں خوب مضبوط اورخوش نظر آتی تھیں۔ جس سے پتہ لگتاہے کہ کھانے پینے کا انتظام اچھاہے۔ یہاں لاہور کی مس بوس صاحبہ کی بہن بھی رہتی تھیں۔ اُنہوں نے ڈاکٹر منز صاحب سے شادی کی ہوئی ہے۔ ان کی ملاقات کا شوق دل میں گداگدایا ان کے دردِ دولت پر حاضر ہوا دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔

یہاں محمدیوں کی حالت پستی کی طرف راجع ہے۔ شاید یہ وجہ ہو کہ یہاں چھینٹ کی تجارت بہت ہوتی تھی اور وہ تجارت عموماً ان کے ہاتھ میں تھی ۔ ولایت کی چھینٹ نے اس چھینٹ کو ماند کردیا۔اسکی بکری گھٹ گئی۔ تجارت برباد ہوگئی۔ تاجروں کی حالت زوال پکڑگئی۔ تعلیم میں بھی یہاں کے محمدی پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے مشن کی طرف سے بھی چند سکول کھولے گئےہیں جہاں ان کو بلافیس تعلیم ملتی ہے ایک اسکول میں لڑکوں کے سامنے کچھ بیان کرنے کا موقعہ ملا۔ بعد بیان نے بچوں میں مٹھاکی تقسیم ہوئی محمدن لڑکے اردو بخوبی سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنے بیان کے متعلق چند باتیں اُن سے دریافت کیں۔ توپتا لگا۔ کہ اُنہوں نے میرا مطلب بخوبی سمجھ لیا تھا۔

پھر دوسرے روز ایک لکچر دیا جس میں چند محمدی تعلیم یافتہ حاضر تھے۔ حاضرین کی تعداد پچاس سے زيادہ نہ تھی۔ اس روز زین العابدین کا مولود تھا۔ اوریہاں کے ایک مشہور مولوی صاحب رہتے تھے۔ ان کا نام عبدالکریم تھا۔ اوریہاں کے نواب کے ہاں قیام رکھتے تھے ۔ اُن کو پیغام بھیجا تھا۔ کہ اگرممکن ہو تو لکچر میں تشریف لائیں۔ لیکن وہ نہ آسکے ۔ لکچر کے بعد میں نے سوال وجواب کا موقعہ دیا۔ لیکن کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ صرف یہ درخواست کی۔ کہ میں ان کے مولوی صاحب کے پاس جاؤں اوران سے ملاقات کروں۔ میں خوشی سے چلنے پر راضی ہوگیا۔ میرے ساتھ دوتین مسیحی شخص تھے مولوی صاحب کے مکان پر محمدیوں کا ایک جمگھٹا لگا ہوا تھا مجھے کرسی دی اورمیں بیٹھ گیا۔ مولوی صاحب تشریف لائے ان کے ہمراہ چند شاگرد تھے نواب صاحب بھی تشریف لائے۔


مولوی صاحب نے بیٹھتے ہی یہ سوال کیاکہ آپ کیا پوچھتے ہیں ۔میں نے جواب دیا ۔ کہ میں کچھ پوچھنےنہیں آیا۔ میں تو صرف آپ کی ملاقات کےلئے آیاہوں۔ اوریہ مناسب بھی نہیں۔ کہ میں آپ کے گھر پر آکر آپ پر حملہ کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہوگا۔ البتہ میں نے لکچر دیا تھا۔ اس وقت میں نے چند باتوں کو پیش کیا تھا اور بعد لکچر حاضرین سے درخواست کی تھی کہ اگر کچھ پوچھنا چاہیں۔ تو پوچھ سکتے ہیں۔لیکن اُنہوں نے کچھ نہیں پوچھا۔ شائد آپ سے بھی کسی نے مضمون لکچر کا ذکر کیاہو۔ اگرآپ نے کچھ اُس کے متعلق پوچھنا ہے تو فرمائيے بندہ حاضر ہے۔ ان کے کہنے پر میں نے کچھ بیان کیاکہ قرآن میں جو درجہ مسیح کو دیا گیا وہ اورکسی نبی کو قرآن میں نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اس کی اعجازی پیدائش، اُس کا بچپن ہی سے معجزے کرنا۔ بیماروں کو شفا دینا کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا مردوں کو جلانا۔ آسمان پر زندہ چلا جانا۔ اُس کا دوبارہ آنا۔ اُس کا کلمتہ اللہ اور روح اللہ کہلانا۔ یہ ساری باتیں مسیح کے سوا اور کسی ایک نبی میں جمع نہیں ہوئیں اوربجز مسیح کے اورکوئی دوسرا شخص کلمتہ اللہ نہیں کہلایا۔ یہ سن کر مولوی صاحب نے کہا کہ کلمتہ اللہ میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں دوسرے پیغمبروں کو بھی یہ لقب ملاہے۔ مجھے اچھا موقعہ ہاتھ لگ گیا اورمیں نے تاکید سے کہاکہ ہرگز نہیں اگر قرآن میں یہ لقب کسی دوسرے نبی یا پیغمبر کے بارہ میں آیا ہو تو قرآن سے مجھے دکھاؤ۔ میرے پاس قرآن تھا۔ میں نے پیش کیا۔ کہ نکال کر دکھاؤ۔ اُنہوں نے میرا قرآن تونہ لیا۔ اپنے قرآن منگوائے اور تلاش شروع کی۔میں نے پھر کہہ دیا کہ ہرگز ہرگز قرآن میں نہ پاؤ گے۔ عجب نظارہ تھا۔ سینکڑوں محمدی چاروں طرف موجود تھے۔ مولوی صاحب اوراُن کے شاگرد اپنے اپنے قرآنوں کو الٹ پلٹ کررہے تھے۔ میں بالکل اطمینان سے خاموش بیٹھا اُن کا تماشادیکھ رہا تھا۔پورا آدھا گھنٹہ اُن کو لگ گیا۔ لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ آخر مایوس ہوکے مولوی صاحب نے مان لیا۔ اوربات بھی مان لینے والی تھی۔البتہ مولوی صاحب کی یہ خوبی تھی کہ اُنہوں نے اقرار کیا ورنہ اکثر لوگ کج بحثی کرتے اوراپنے قصور کو ماننا نہیں چاہتے۔اس انصاف پسندی کےلئے میں مولوی صاحب کی داد دیتاہوں پھر اور گفتگو دین کے متعلق ہوتی رہی۔ لیکن وہ زور شور نہ رہا۔ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھ کر وہاں سے رخصت ہوا۔ مولوی صاحب نے بھی فرمایا کہ پھر کب آؤ گے۔ کبھی خط لکھا کرو۔ میں نے بھی ادب سے جواب دیا اور دل میں خُدا کی تعریف کرتاہوا اپنے مکان پر پہنچا۔ وہاں سے دوسرے روز رخصت ہوکر کشتی کی راہ بجواڑہ پہنچا۔ وہاں سے ریل پرسوار ہوکر حیدرآباد کو واپس آیا۔

سولھواں باب
بنگلور

ایک روز حیدرآباد میں آرام کرکے پادری گولڈ اسمتھ صاحب کے ہمراہ بنگلور کو روانہ ہوا۔دورہی سے بنگلور کی سرسبزی اورہریاول اور پھولوں پھلوں نے دل کو فرحت بخشی۔یہاں زنانہ مشن کا کام ہوتاہے۔ ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن بھی تھوڑے عرصہ سے کھلی ہے۔مرے صاحب دل وجان سے اس کام میں مشغول ہیں۔ ایک شاخ اس ایسوسی ایشن کی ہندوستانی بولنے والے کے واسطے بھی کھلی ہے ۔ یہاں محمدی صاحبان کی آمدورفت اکثر رہتی ہے۔ ایک دیسی مسیحی کے سپردیہ کام ہے۔ اُن کا نام حکیم ناصر الدین ہے۔ بڑے جہاندیدہ شخص ہیں۔ عدن میں مدت تک رہ چکے ہیں۔ دیگرممالک

کی سیر سے بھی فائدہ اٹھایاہے۔ ہر دلعزیز ہیں۔ اکثر مسلمان ان سے بات چیت کرنے آتے ہیں۔ مرے صاحب کی مہربانی سے میری رہائش کا انتظام بھی اُن کے ساتھ ہوا۔ مہمان نوازی میں بھی یہ بھائی قابل تعریف ہیں۔ یہاں نوٹس چھپوا کر تقسیم کئے گئے تھے۔ کہ پادری جے علی بخش پنجابی تین وعظ مسلمانوں کیلئے کرینگے۔ اور بعد لکچر سوال وجواب کا موقعہ دیاجائيگا۔چنانچہ میونسپل کمیٹی سے میوہال میں وعظ کرنے کی اجازت مل گئی۔ پہلا لکچر جواس ہال میں دیا گیا یہ تھاکہ" میں کیوں مسیحی ہوں" مسلمانوں نے میری آمد کی خبر سن کر ایک محمدی مشنری صاحب کو دوسری جگہ سے بلایا تھا اُن کا نام مرزا عباس بیگ تھا۔ اُنہوں نے کئی رسالے مسیحی دین کے خلاف لکھے ہیں۔ ہرجگہ جنوبی ہند میں جاتے اورمسیحی دین کی مخالفت کرتے ہیں۔ بنگلور میں بھی تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ چند صندوق کتابوں کے ہمراہ تھے۔ بیس سے زیادہ مختلف ترجمے بائبل کے جمع کر رکھے ہیں۔ تاکہ لوگوں پر ظاہر کریں کہ مسیحی لوگ اپنی کتابوں کو ہر سال بگاڑتے اور اپنے مطلب کے مطابق بناتے رہتے ہیں ۔ میں نے بھی خُدا سے دعا مانگی۔ اوریہ دعا اس کے حضور تک جاپہنچی اس لکچر کے وقت تین سوکے قریب محمدی کمرہ میں حاضرتھے۔ اُنہوں نے اچھی طرح سے سنا۔ جب لکچر ختم ہوا میں بیٹھ گیا۔ اس جلسہ میں ہم نے ایک مسلمان صاحب کو میر مجلس مقرر کیا تھا۔ اُنہوں نے اجازت دی کہ حاضرین میں سے اگرکوئی سوال پوچھنا چاہے تو پوچھ سکتاہے ۔ اس پر مرزا عباس بیگ صاحب کھڑے ہوئے بڑے کروفر سے بائبل پر حملہ شروع کیا۔ چند مقامات کے حوالے پیش کئے ۔ جب وہ اعتراض کرچکے تومیں نے اٹھ کر بائبل کھول کر میر مجلس کے سامنے دھر دی اوران میں سے پہلا مقام نکالا اور پڑھ کر سنایا تو مرزا صاحب کا حوالہ بالکل غلط نکلا میں نے میرمجلس اور حاضرین کو توجہ دلا کر کہا مسیحی دین کے مخالفوں کا یہ شیوہ ہے کہ عبارت کو الٹ پلٹ اور قرینہ سے علیٰحدہ کرکے یا آیتوں کو غلط ملط کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ایک نظیر اس جلسہ میں حاضرین کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ مرزا صاحب تو برانگیختہ ہوکر آگ بگولا ہوگئے۔ اورجواب کے لئے کھڑے ہوئے اور تھرتھرانے لگے زبان بند تھی۔ بدن پر لرزہ تھا۔ ایک عجیب نظارہ دیکھنے میں آیا سب کی آنکھیں اُن کی طرف لگی تھیں ۔ لیکن مرزا صاحب کی زبان گویا نہ ہوئی چند منٹوں تک یہی حال رہا توچند مسلمانوں نے بمشکل تمام اُن کو بٹھادیا اورایسا بٹھایاکہ نہ صرف اس جلسہ میں بلکہ مابعد دوجلسوں میں بھی لکچروں کے وقت وہ نہ اٹھے۔ خُدا کی شان ہے جو ایسی صریح فتح بخشتاہے نہ انسانی دلیلوں اور فصاحت سے بلکہ اپنی قدرت سے۔ ایک دوشخصوں نے دوچار معمولی سوال کئے اور میں نے مختصر جواب دئے۔ اورجلسہ برخاست ہوا۔ اس کےلئے خُدا کا شکر ہے۔

دوسرے روز بھی اُسی جگہ میں نے اپنا دوسرا لکچر دیا۔ مضمون یہ تھاکہ خُدا جسم میں ظاہر ہوا۔ آج مسلمانوں کا بڑا ہجوم تھا۔ کئی محمدی حاضرتھے۔ بعد لکچر چند سوالات محمدی صاحبان نے پوچھے مثلاً ۔

۱۔ عیسیٰ کی آمد کی خبر پہلی کتابوں میں نہیں۔

۲۔ وہ کیوں اپنے دشمنوں کے سامنے بھاگتا پھرتاہے۔

۳۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو کہا شمشیر پکڑو۔

۴۔ مسیح نے کہا کہ غریب ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں پر میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں۔

۵۔ مسیح نفسی نفسی پکارتاہے۔ (اس سے اُن کا اشارہ تھی ایلی ایلی لما شبقتنی )۔

ان کے جواب مختصر طورپر دئے گئے اورجلسہ برخاست ہوا ۔

جواب مختصر یہ ہیں:


۱۔ یسعیاہ نبی نے مسیح کی پیدائش کے بارہ میں یہ فرمایا "دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنیگی اوراُس کا نام عمانوایل رکھیگی"۔ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اورہم کوایک بیٹا بخشا کیا اورسلطنت اُس کے کندھے پر ہوگی اور وہ اُس نام سے کہلاتاہے ۔ عجیب ،مشیر خُدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کاشہزادہ " میکاہ نبی نے یہ خبردی کہ وہ کس شہر میں پیدا ہوگا۔ "اے بیت لحم افراتاہ ہر چند کہ تویہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کیلئے چھوٹاہے توبھی تجھ میں سے وہ شخص نکل کر میرے پاس آئیگا جواسرائیل میں حاکم ہوگا۔ اوراُس کا نکلنا قدیم سے ایام الازل سے ہے"۔ زکریاہ نبی نے یہ ذکر کیا کہ وہ کس جانور پر سوار ہوگا" صیحون کی بیٹی سے کہو دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کہ بچہ پرسوار ہوکے تجھ پاس آتاہے" پھر یسعیاہ نبی نے اُس کی موت اوردکھوں کے بارہ میں مفصل بیان کیا" یقیناً اُس نے ہماری مشتقیں اٹھالیں اورہمارے غموں کا بوجھ اپنے اوپر چڑھایا۔ پر ہم نے اُس کا یہ حال سمجھاکہ وہ خُدا کا مارا کوٹا اورستایا ہواہے۔ پر وہ ہمارے گناہوں کے سبب گھائل کیا گیا اورہماری بدکاریوں کے باعث کچلاگیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مارکھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ۔ ہم میں سے ہرایک اپنی راہ کو پھرا۔ پر خُداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اُس پر لادی ۔ وہ تونہایت ستایا گیا اور غمزدہ ہوا توبھی اُس نے اپنا منہ نہ کھولا۔ وہ جیسے برہ ذبح کرنے لے جاتے اورجیسے بھیڑ اپنے بال کترنے والے کے آگے بے زباں ہے۔ اُسی طرح اُس نے اپنا منہ کھولا۔ ايذا دیکے اوراُس پر حکم کرکے وہ اسے لے گئے پر کون اُس کے زمانہ کا بیان کریگا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا۔ میری گروہ کے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی ۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی تھی پر وہ اپنے مرنے کے بعد دولتمندوں کے ساتھ ہوا۔ کیونکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اوراُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا"۔ (یسعیاہ ۵۳باب ۴سے ۹آیت تک)۔

الغرض بہت نبیوں نے اُس کی خبردی ہے۔ مشتے نمونہ ازخروارے یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

۲۔ اُ س کواپنے کام کا وقت اورلحظہ معلوم تھا۔ اور وہ کوئی کام بے وقت نہیں کرتا بلکہ عین وقت پر جو اس کیلئے خُدا نے مقرر کیا۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس کے بھائیوں نے عید خیام کے وقت اُسے کہاکہ تویہاں سے روانہ ہواوریہودیہ میں جاتاکہ ان کاموں کا جوتوکرتاہے تیرے شاگرد بھی دیکھیں۔۔۔۔۔۔ تب یسوع نے اُنہیں فرمایاکہ میرا وقت ہنوز نہیں آیا۔ پر تمہارا وقت ہروقت بناہے۔۔۔۔۔۔ تم عید میں جاؤ میں ابھی عید میں نہیں جاتاکہ میرا وقت ہنوز پورا نہیں ہوالیکن جب اُس کے بھائی روانہ ہوئے تھے وہ بھی عید میں گیا ظاہرانہیں بلکہ چھپکے اورجاکر ہیکل میں تعلیم دینے لگا۔ تب یہودی تعجب سے بولے کہ اس مرد کو بغیر پڑھے کیوں کر کتابوں کا علم ہے۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ میری تعلیم میری نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے مجھے بھیجاوہ شخص جواُس کی مرضی پرچلا چاہے جائیگاکہ یہ تعلیم خُدا کی ہے یاکہ میں آپ سے دیتاہوں(یوحنا۷باب)۔

اس سے ظاہرہے کہ اُس کے جانے کا وقت اورطریقہ اُسے خوب معلوم تھا۔ لیکن وہ بزدل نہیں بلکہ سرعام تعلیم دیتاہے جس سے اُس کی دلیری ظاہر ہوتی ہے۔ جب مسیح پکڑوایا تھا اُس وقت کی نسبت یوں لکھاہے " پس یہوداہ سپاہیوں کی پلٹن اور امام اعظم اور دینی علماؤں سے پیادے لے کر مشعلوں اور چراغوں اور ہتھیاروں کے ساتھ وہاں آیا۔ سیدنا عیسیٰ نے ان سب باتوں کو جو آپ کے ساتھ ہونے والی تھیں جان کر باہر نکلے اور ان سے فرمایا کہ کسے ڈھونڈتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا عیسی ٰ ناصری کو ۔ آپ نے ان سے فرمایا میں ہی ہوں اور آپ کا پکڑوانے والا یہوداہ ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ آپ کے یہ فرماتے ہی کہ میں ہی ہوں وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گرے پڑے ۔ پس آپ نے ان سے فرمایا تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ انہوں نے کہا عیسیٰ ناصری کو۔ سیدنا عیسیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تم سے کہہ چکا ہوں میں ہی ہوں ۔ پس اگرمجھے ڈھونڈتے ہو تو انہیں جانے دو۔(یوحنا ۱۸: ۱تا ۸)۔

کیا اب بھی اُس کی دلیری میں شک ہے۔ اورسنئے اس وقت سیدنا عیسیٰ کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھاکر اپنی تلوار کھینچی اور امام ِ اعظم کے نوکر پر چلا کر اس کاکان اڑادیا۔ سیدنا عیسیٰ المسیح نے اس سے فرمایا اپنی تلوارکو میان میں کرلو کیونکہ جو تلوار کھیچنتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے


جائیں گے ۔ کیا تم نہیں سمجھتے کہ میں اپنے پروردگار سے منت کرسکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کردیں گے ؟ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے۔(متی ۲۶: ۵۱تا ۵۴)۔

البتہ اس قسم کا بھاگنا محمد صاحب کے بھاگنے سے متفرق ہے کیونکہ وہ علی کو اپنے بستر پر سلا کے خود روپوش ہوئے ۔ غار میں چھپے رہے اور اکاد رہ کر مدینہ کی راہ لی اورہجرت کی۔ اہل انصاف خودفیصلہ کرلیں۔

ببیں تغاوتِ راہ از کجا ست تابہ کجا

۳۔) اس اعتراض کا گونہ جواب دوسرے سوال کے جواب میں آچکا ہے۔ کہ مسیح نے اپنے شاگرد کو کہا" اپنی تلوار میان میں کر کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار ہی سے مارے جائینگے"۔ اس سے ظاہر ہے کہ رسائل انجیل کے مدُعا اورمطلب سے واقف نہیں۔

۴۔ مسائل نے جس مقام پر اعتراض کیاہے وہ میں پڑھ کر آپ کے سامنے سنائے دیتاہوں۔ آپ خود جانچ لینگے کہ آنجناب کے اعتراض میں کیا زورہے" یہوداہ اسکریوتی جو آپ کو پکڑوانے کو تھا کہنے لگا۔یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟ اس نے یہ اس لئے نہیں کہا کہ اس کو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اس لئے کہ چور تھا اور چونکہ اس کے پاس ان کی تھیلی رہتی تھی اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ پس سیدناعیسیٰ نے فرمایا اسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لئے رکھنے دو۔ کیونکہ غریب غربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہوں گا۔ (یوحنا ۱۲: ۴تا ۸)۔

اے حاضرین ذرا سوچئے آپ کس کے ساتھ ہمدرد ہیں یہوداہ کے ساتھ یا مسیح کے ساتھ۔

۵۔ مسیح نفسی نفسی نہیں پکارتا۔ بلکہ صلیب پر جو پہلا کلمہ بولا گیا جو اُن کےمنہ مبارک سے نکلتاہے وہ یہی ہے" اے باپ اُن کو معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں۔(لوقا ۲۳: ۳۴)۔

بنگلور میں میرا تیسرا لکچر ہونے والا تھا۔ کہ اتنے میں خبر آئی کہ میونسپلٹی کی جگہ آج نہیں سکتی۔ گذشتہ دن محمدیوں کا شور تھا میونسپلٹی کو فساد کا اندیشہ پیدا ہوا۔ اس لئے اجازت نہیں دی۔ مسلمان اس ممانعت سے سخت ناراض تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم ہر طرح کا نقصان بھردینے کو تیار ہیں ہم ضمانت دیتےہیں کہ کسی طرح کا فساد نہ ہوگا۔ لیکن میونسپلٹی نے اجازت نہ دی۔ ہم سبھوں کو بڑی مایوسی ہوئی ۔ اس پر لنڈن مشن کا ہال جو پہلے ہال سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر تھا لکچر کےلئے مقرر ہوا۔ چنانچہ میونسپلٹی ہال کے دروازہ پر اشتہار چسپاں کیا گیا اور چند اشخاص مقرر کردئے کہ جو لوگ وہاں آئیں اُن کو خبردیویں کہ لکچر فلاں وقت فلاں روزلنڈن مشن ہال میں ہوگا۔ دوسرے روز بارش ہورہی تھی۔ لکچر کا وقت بھی آپہنچا۔ ہم سب لنڈن مشن ہال میں حاضر ہوئے۔ بارش برستے میں کئی سو محمدی جمع ہوگئے۔ محمدیوں نے اپنی طرف سے ایک شخص کو میر مجلس ہونے کیلئے پیش کیا۔ یہ صاحب ایک آنکھ سے کچھ عاری معلوم ہوتے تھے۔ ہم نے کچھ اعتراض کیا۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتاہے۔ دھینگا دھینگی اُس کو کرسی دی گئی ۔ میں نے کفارہ کےبارہ میں بیان کیا۔ بعد لکچر دوچار متفرق اشخاص نے مختلف اعتراض کئے ان میں سے بعض تو وہی تھے جن کے جواب مختلف موقعوں پر دے چکاتھا۔ ایک محمدی نے آخر کا یہ سوال کیا۔ کہ مسیحی لوگ محمد صاحب کو نبی کیوں نہیں مانتے جبکہ وہ نبی آخر الزمان ہیں۔ میں نے جواب دیاکہ مسیح کا شرع واخلاق کامل طور سے منکشف ہوگیا۔ اس لئے اُن کا کام پورا ہوا توان مقاصد کیلئے ہم کو کسی دوسرے کی ضرورت نہ تھی۔ گومسیح کے بعد کئی ایک نبی تو گزرے ہیں۔ جیساکہ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ظاہرہے۔ اور ان نبیوں نے کئی پیشینگوئیاں کیں اور وہ پوری بھی ہوگئیں لیکن نجات کےلئے ہم اُن سے اُمید وارنہیں۔ کیونکہ ہم کو صاف بتادیا کہ آسمان کے تلے زمین پر کوئی اورنام نہیں جس سے نجات مل سکے۔


دوم۔ کفارہ کی اصل یہ بیان ہوئی ہے کہ بلاخون بہائے معافی نہیں۔ توریت میں یہی منکشف ہوا ۔ انجیل میں یہی بیان ہے۔ مسیح کی زندگی اس کی شاہد ہے۔ لیکن قرآن نے کفارہ کو بدلے کے معنی میں تولیا۔ لیکن خون بہائے کو ضروری نہیں ٹھہرایا۔ اورمسیح کے کفارہ کو صاف طورپرنہیں بتایا اسلئے قرآن کے ماننے میں ہم تامل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں جب ہم محمد صاحب اور حصرت مسیح کی سیرتوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو مسیح کی سیرت کہیں اعلیٰ اورافضل معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ جتنی صفات خود قرآن میں حضرت مسیح سے منسوب ہیں کسی اورنبی سے بلکہ محمد صاحب سے بھی منسوب نہیں۔ مثلاً اس کی اعجازی پیدائش اُس کے معجزوں کا بیان کہ وہ بیماروں کا شفادیتے کوڑھیوں کو پاک صاف کرتے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ اُن کا کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہونا۔ ان کا ہر گناہ سے مبرا ہونا اور سراسر پاک ہونا۔ اُن کا زندہ آسمان پر اس وقت موجود ہونا روز قیامت سے پیشتر ان کا دوبارہ آنا۔ اب یہ ساری صفات سوائے مسیح کے کسی دوسرے نبی میں یا محمد صاحب میں بحیثیت مجموعی پائی نہیں جاتی۔ ان میں سے فرداً کئی ایک افراد میں پائی جائیں تو پائی جائیں لیکن کلی طورپر وہ کسی دوسرے پر صادق نہیں آتیں۔ مثلاً آدم وحوا کی پیدائش مسیح کی اعجازی پیدائش کے مشابہ ہوسکتی ہے۔ ایلیاہ اور الیشع نبی کے معجزے مسیح کے معجزوں سے ایک درجہ تک مشابہ ٹھیر سکتے ہیں۔ حنوق اورایلیاہ مسیح کے زندہ آسمان پر موجود ہونے کی مثال ہوسکتے ہیں۔ ایلیاہ نبی مسیح کی دوسری آدم کا نمونہ ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا کسی نبی اور پیغمبر کو کلمتہ اللہ اورروح اللہ کہہ سکتے ہیں؟ انسانوں میں مسیح کے سوا کون گناہ سے سراسر پاک رہا؟ پھران ساری صفات کا جامع مسیح کے سوا اور کون نظر آتاہے؟ اس لئے اے محمدی صاحبان ہم مسیح کو مانتے اُسی کو اپنا نجات دہندہ قبول کرتے اوراُسی کا نام آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ آپ بھی اُسی کے وسیلے نجات حاصل کرکے ابدی زندگی کے وارث ہوجائیں۔

جب میں جواب دے چکا ۔ تومیر مجلس صاحب اٹھے۔ اور اُنہوں نے مسیحیوں کے خلاف لکچر دیا۔ جوثالث تھے وہ متعصب طرف دار بن گئے۔ ہر چند میں نے اور دوسرے اصحاب نے اُن کو کہا کہ آپ کے عہدہ میر مجلس کے برخلاف ہے۔لیکن کون سنتا تھا۔ آدھ گھنٹے تک وہ شخص بولتا رہا اس کے بعد کئی اور محمدیوں نے شور مچایا ۔ہم کو جو پہلے دنوں میں اُن کے اخلاق کا کچھ خیال پیدا ہوگیا تھا۔ اب ہمارے دل سے دور ہوگیا۔ خیر شکر ہے اُس کو بھولا نہ جانئے جوشام کو گھر لوٹ آئے۔ دلوں میں خُدا سے دعا مانگتے اپنے مکان پر آئے۔

حکیم ناصر الدین کے مکان پر ایک اور مباحث پادری گولڈ سمتھ صاحب اور وہاں کے ایک مولوی صاحب کے درمیان ہوا۔ یہ مولوی صاحب بھی بڑے زبان آور اور طرار تھے۔ دو گھنٹے کے مباحثہ کے بعد طول طویل بیان کرکے اور اعتراض کو جواب دینے کا موقع نہ دیا۔ میر مجلس بھی محمد ی تھے۔ لیکن انصاف پسند تھے۔ انہوں نے بھی مولوی کو کہا۔ کہ ابھی پانچ منٹ سے زیادہ باقی ہیں۔ لیکن مولوی صاحب کی بلا جانے۔

الغرض ہم نے میر مجلس صاحب سے لکھوا لیا کہ مولوی صاحب قبل اوز وقت چلے گئے اور جواب کا موقع پادری صاحب کو نہ دیا۔

یہاں ایک پادری دھیان سنگھ صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کی میم صاحبہ وہاں کے ایک ہسپتا ل میں کام کرتی ہیں اپنا مکان بنگلور میں بنایا ہے۔ ان کے سلوک اور اخلاق کے لئے ان کا شُکرگذار ہوں۔ خُدا اُن کے کام پر برکت دے۔

الغرض ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۴ کو بنگلور سے پادری گولڈ سمجھ صاحب کے ہمراہ وادی کو روانہ ہوئے۔ وہاں پادری صاحب کو الوادع کیا اور خود گھر کی راہ لی۔ اور ۲۲ اکتوبر کو لاہور پہنچ گیا اور خُدا کا شُکر ادا کیا۔

-------------