اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡر
Truth and False Miracles
Hinduism, Christianity, Judaism, and Islam
1876
(میتھوڈسٹ پبلشنگ ہاؤس لکھنو )
دیباچہ
مُصنف نے یہ درس ڈسٹرکٹ کانفرس لوکل پریچران امریکن متھیوڈسٹ اپسکوپل چرچ ہند کے روبرو پڑھا سب جماعت نے علی الاتفاق یہ درخواست کی کہ طبع کرایا جائے۔ بعض اقوال اور توضیحات(واضح کرنا ) ان درسوں میں ایسے ہیں کہ سب مصنف کے ایجاد نہیں ہیں اور بعض دلائل مختلف انگیزی کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ اگر پہلے سے مصنف (لکھنے والا) کا ارادہ ان کے طبع(طبیعت، فطرت، مزاج) کرانے کا ہوتا تو اس مضمون کو مختلف طور پر اور زیادہ عمدگی اور وسعت سے لکھتا۔دوستوں کی درخواست کے بعد بھی میرا اراد ہ یہی ہے کہ بوقت فرصت اس کو در طور پر ترتیب دونگا مگر کثرت کارنے اتنی مہلت (وقت) نہ دی کہ ارادہ پورا ہوتا لہذابمجبوری حسب درخواست اپنے ہندوستانی بھائیوں اور دوستوں کے اُسی غیر مکمل حالت میں ان درسوں کےلیے طبع (طبیعت، فطرت، مزاج) کرانے کے لیے بھیجتا ہوں مگر با انیہمہ مجھےامید ہے کہ اگر کوئی بغور دیکھے گا تو مطلب بخوبی سمجھے گا اور نفع (فائدہ ) اُٹھائے گا۔
مُصنف کی دلی آرزو اور قادر مطلق حکیم و رحیم خدا تعالیٰ سے یہ التجا ہےکہ ان دونوں درسوں کے دلائل اور تشریحات عیسائی بھائیوں کی ایمانداری کو تقویت دین اور ہندو اور مسلمان بھائیوں کو ایسی توفیق ہو کہ خدا کے بیٹے یسوع مسیح پر ایمان لائیں۔ آمین
ڈی ڈبلیو ٹی
بریلی
یکم جنوری ۱۸۷۶
درسِ اوّل
کتابِ مُقدّس کے معجزات پر
جاننا چاہیے کہ ابتدائے زمانہ سے جتنے مذاہب دنیا میں گذرگئے کیسے ہی جھوٹے کیوں نہ سہی اور کیسا ہی خلافِ باہمی ان کی مسائل میں کیوں نہ ہو مگر دعویٰ سب مذہب والوں کا یہی رہا ہے کہ ہمارا مذہب خدا کی طرف سے ہےآج کل کے زمانہ میں جتنے مذہب بُت پرستوں کے جہاں جہاں کہ پائے جاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب حق اور الہامی ہے۔ البتہ ایک فرقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو اپنے مذہب کو الہامی نہیں بلکہ عقلی کہتا ہے سو اس پر اِطلاق (لاگو) مذہب کا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو چند اصولی باتیں ہیں جن کو اکثر بڑے علما نے ذات انسانی کے لیے ایسا ضروریات سے سمجھا ہے جیسے پھیپڑی کے لیے ہوا کا ہونا۔ پس مذہب عقلی صرف انہیں لوگوں کا طریق (طریقہ کار ) ہے جو الہامی مذہب سے مُطلق (آزاد) مُنکر(انکار کیا گیا) ہو کر یہ کہتے ہیں کہ انسان کی عقل ہے اس کا مذہب ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ اس کی عقل ہدایت کرے اگر اسی پر و ہ عمل کرے اور دل سے بجا لائے تو وہی اس کے لیے کافی ہے۔ اس فرقہ کے بعض عالموں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ خدا کی ذات و صفات اور بنی آدم کا غیر فانی(کبھی نہ مرنے ولا) اور آزاد اور اپنے افعال کا جوابدہ ہونا اور کُل تعلقات جو آدم زاد کو دنیا سے پائے جاتے ہیں۔ سب آدمی ہی کی ذات پر غور و پرداخت کر نے سے معلوم جاتے ہیں۔ ان کی تعلیم کے موافق یہ عمدہ (اعلیٰ) تاثیرات آفتاب (سورج کی تاثیر یا اثر) کی یعنی اس کی روشنی اور گرمی اور بار ان رحمت کا نازل ہونا اور خشک زمین کا سیراب کرنا رات دن کا نوبت بہ نوبت ہونا۔ موسم کا تغُیّر (بدلنا ) فصلوں کا بدلتا رہنا اّیام (دنوں) کی گردش یہ سب با تیں خدا کے رحم و فضل کو ظاہر کرتی ہیں بخلاف اس کے زلزلے کا آنا آندھی اور طوفان کا اُٹھنا اور آتش فشان پہاڑوں کے شعلے یہ سب اس کی عدالت اور انصاف کے نشان ہیں جنگلوں کا ہمیشہ سرسبز و شاداب(ہرا بھرا) رہنا بقا کے لیے روح کا خواش کرنا یہ انسان کے غیر فانی (کبھی نہ مرنے ولا) ہونے کی دلیل ہے۔ نباتات کا سوکھنا قسم کی باتیں اس فرقہ کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں مگر با انیہمہ حقیقی پرستش جو باطن سے تعلق رکھتی ہے اس کے لیے ا ن کے یہاں کوئی قاعدہ کلّیہ نہیں پایا جاتا ہے۔ کتب سیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں نے جو انسان نے عقل سے ٹھہرائی ہیں جن کو ان فلسفوں اور ان کے پیروں نے انسان کے لیے ضروریات سے جانا ہے۔کبھی آج تک وہ تاثیر جو حقیقی مذہب کی ہوتی ہے نہیں بخشی نہ اس میں اتنی قدرت ہے کہ آدم زاد کو گُناہ سے بچالےسو الہامی مذہب کے یا اس مذہب کے جو الہام کا مدعی ہے یا الہامی کہلاتا ہے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس میں کبھی عبادت کے طریقے معین (مقرر) اور تعلیم خاص پائی جائے معلوم ہوتا ہے کہ قریب تمام بنی آدم کے اس امر کے قائل ہیں کہ مذہب ضرور ایک الہام ہے اور سب اسی پر کار بند ہے جس سے یہ عمدہ نتیجہ نکلا کہ حق مذہب ضرور الہامی ہوگا اور مذہبی خواہش صرف الہامی مذہب سے تسکین پا سکتی ہے۔
پس نظربہ بیان بالا یہ سوال کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حق اور الہامی مذہب کی کیا شناخت اور ثبوت ہے۔
بعض لوگ نادانی سے کہتے ہیں کہ مذہب عیسوی اگر حق ہے تو اس کا ثبوت ضرور موافق چند مقرری قاعدوں کے جیسے ریاضی کے ہیں ہونا چاہیےحالانکہ یہ ان کی سراسر نادانی ہے۔ مذہب عیسوی کوئی شکل مربع یا مثلث (چکور یا تکون) نہیں ہے جو حساب یا جبرو مقابلہ کے اصول پر مبنی ہو۔ ریاضی کا تعلق اجسام سے ہے یعنی جو چیزیں داخل ابعاد ثلاثہ (تین) ہیں ان پر اس کا عمل ہو سکتا ہے لیکن مذہب کا تعلق روح سے ہے اس لیے اس کا ثبوت قواعد ریاضی سے نہیں ہو سکتا ہے۔ بھلا ہم پوچھتے ہیں کہیں کسی لڑکے کو گنتی سکھانے سے الف بے آجاتی ہے یا جنگل میں بھیج دینے سے وہ شہر کی عادتیں سیکھ سکتا ہے۔ ہرگز نہیں پس ہر علم جُدا ہےاور ہر شے کے جاننے کے لیے طریقے مخصوص رہیں لیکن آدمی کے دل کا حال یہ ہے کہ ہنوز (ابھی تک) قواعد مخصوصہ کو جانا نہیں کہ اس شے کی اصلیت کو ڈھونڈتا ہے یہ سچ ہے کہ انجیل کی سب تعلیم تسلیم (قبول کرنے کے) لائق ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ جو لوگ حق مذہب(سچے مذہب) کے متلاشی (تلاش کرنے والے) اور نیک اور اصلاح پذیر تھے ان کے دل مسیح کی تعلیم کی پڑھنے یا سننے سے پھر گئے اور دل سے یقین جاننے لگے کہ یہ مذہب خدا کی طرف سے ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ چونکہ انسان کا دل بالطبع ایسا خراب ہے کہ انجیل کی تعلیم کو کہ روحانی ہے قبول کرنا نہیں چاہتا ہے اس لیے عمدہ سے عمدہ دلائل ان کتابوں کے الہامی ہونے کے اس کے دل پر دفعتہً ہیں اثر کرتے ہیں۔ پس اس صورت میں ی معاملہ کیونکر طے ہو سکے گا کہ فلاں کتاب الہامی ہے یا نہیں۔ سواس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت میں ضرور ہے کہ خدا خود بتاتا ہے۔ اگر واقع میں وجود ِ الہام کا خدا کی طرف سے ہے اور یسوع مسیح اس کا بیٹا ہے تو ضرور تھا کہ خدا دوبارہ اس کیفیت سے بنی آدم کو مطلع (اطلاع ) کرتا سو اس نے معجزات کے ذریعہ حقیقت میں ایسا کیا۔ الہام خوددراصل ایک معجزہ ہے مگر انہوں کے لیے جو اُسے قبول کریں اور جو منکر ہیں ان کے لیے ضروریات اس بات کی ہوئی کہ کوئی اور معجزہ ظاہری اس کی تصدیق میں دکھایا جائے کیونکہ بنی آدم کی تسکین دلی اور یقین کّلی کے لیے اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے پس مذہب عیسویٰ ایک معجزانہ سر گذشت ہے اور یسوع اور اس کے حواری ان معجزات کو اپنی رسالت اور الہام پائے کی تصدیق کے لیے بطور ثبوت کیاپیش کرتے ہیں۔
اب بعد بیان مذکورہ کے اوّل یہ خیال کرنا چاہیےکہ اصلی معنی معجزہ کے کیا ہے۔
جاننا چاہیے کہ لفظ معجزہ کے اصلی معنی وہی ہیں جو عجیب کے ہیں۔ لیکن یہ کچھ ضرور نہیں ہے کہ جو فعل عجیب ہو معجزہ کہلائے۔ ممکن ہے کہ ایک چیز عجیب و غریب ہواور معجزانہ نہ کہلائے بلکہ فطرت کے قوانین مقرری کے مطابق ہو اور ہم کو بوجہ عدم واقفیت ان قوانین کے عجیب و غریب معلوم ہو تی ہو۔ پس معجزہ نام اس فعل کا ہے جو طاقت انسانی سے باہر اور فطرت کے قرانین مقرر سے مختلف ہو جس کو خود خدا نے اپنے کسی حکم یا پیغمبر یا رسول کی تصدیق کے لیے ظاہر کیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس معجزے سے قوانین فطرت میں جن پر قوام دنیا کا موقوف ہے کسی طرح کی مداخلت ظاہری پائی جائے لیکن مخل قوانین فطرت یا خلاف قوانین علت (نتیجہ ، حاصل) معلوم کے نہ ہو بلکہ نظام خلقی کے مقرری اور مخصوص قاعدے (اصول) سے ہو۔ پس اس میں فرق اتنا ہے کہ جو معلومات نظام خلقی کے قواعد عامہ کے موافق ہوتے ہیں ان کو ہم فطرت کہتے ہیں اور جو غیب ِ عام سےجُدا ہوں ان کو معجزہ کہتے ہیں مثلاً و سکتا رات و دن کا ہونا اور تغیر ایام اور پتوں کا مرجھانا اور گر پڑنا ندیوں اور دریاؤں کا بہنا ، بخارات کا اُٹھنا بیٹھنا یہ سب باتیں فطرت کے مقرری قواعد کے موافق ہوتی رہتی ہیں یعنی نظم و نسق ان کا برابر ایک ہی ترتیب سے جاری ہے جس سے خدا کی قدرت کہ وہ جہان کا محافظ اور ناظم ہے ظاہر ہوتی ہے۔ بخلاف اس کے مسیح کا مردوں کو جلانا اور پانچ جو کی روٹیوں اور تھو ڑی سی مچھلیوں کو اس قدربڑھا دنا کہ پانچ ہزار آدمی کھالیں اور پھر بارہ ٹوکری بچ رہیں یہ سب کام تجربہ کے خلاف اور طاقت بشری (بشر سے منسوب )سے باہر ہیں۔پس وہ خدا کی قدرت کا غیر معمولی عمل ہو ئے او راسی لیےمعجزات کہلائے۔ باوجود یہ کہ معجزات خلقت کی عام ترتیب سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں مگر کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ خلقت کی عام ترتیب سے بھی معجزات ملے ہوتے ہیں یعنی خدا کو اختیار ہے وہ چاہے تو انہیں چیزوں سے جو موافق مقرری قاعدوں کے معمولی نتائج پیدا کری ہیں دفعتاًکوئی ایسے نتائج ظاہر ہوں کہ معمولی سے بالکل مختلف ہوں مثلاً موسیٰ نے دریا پر ہاتھ بڑھایا اور خداوند نے بسبب بڑی پُوربی آندھی کے تمام را ت میں دریا کو چلایا اور دریا کو سکھا دیا اور پانی کو دو حصے کیا دیکھئے کہ پانی کی قدرتی کشش جو سطح اسفل کی طرف ہے اس وقت میں شدت طوفان اس کشش کی مانع (روکنے والا ، منع کرنا) پس ہوں کہنا چاہیے کہ خلقت کے ایک قاعدے پر دوسرا قاعدہ دفعتاً غالب آگیا نہ یہ کہ کوئی امر خاف قاعدہ فطرت ہوا۔ با انیہمہ اس کے معجزہ ہونے میں کچھ کلام نہیں ۔وہ ایسا صریح(آشکارا، ظاہر) اور حقیقی ہواکہ گویا خدا نے بلاِ علاقہ قوانین فطرت یعنی ان قاعدوں کو توڑ کر وہ معجز دکھایا پس بلا ِشک ہم نہیں کر سکتے کہ وہ امر خلاف قواعد فطرت ہوا۔ شاید وہ فعل کسی اور قاعدہ نا معلومہ کے مطابق جس کو ہم آدمی نہ جانتے ہوں وقوع میں آیا ہو۔الغرض معجزوں کے معنوں کی تصریح(آشکارا، ظاہر) بنے اس مقام پر اس سے کی ہے کہ خاص اعتراض معجزوں پر صحیح معنوں کے نہ جاننے سے ہے۔ مثلاً بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب قوانین فطرت خدا کے بنائے ہوئے قوانین ٹھہرے تو پھر اس میں تغیر وتبدل یا کسِی طرح کی اصلاح کیونکر ممکن ہے یعنی خدا اپنے قانون کو آپ نہیں توڑتا پس معجزہ ہونا غیر ممکن ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ واقع میں خلقت کے واسطے کچھ قاعدے مقرری پائے جاتے ہیں جن کو ہم تو قواعد ِ فطرت کہتے ہیں اور وہ بیشک خُدا ہی کے مقر کئے ہوئے ہیں لیکن نفس قواعد پر جو غور کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہِ بالذات کچھ قدرت نہیں رکھتے کہ کسی نتیجہ کو پیدا کر سکیں وہ تو صرف نام ہے اس طریقہ عام کا جو خدا نے اپنے جہان کی مخافظت کے اور طرح طرح کے تغیرات کے لیے مقرر کیا ہے۔ پس یہ دعوے کہ وقوع معجزے کا غیر ممکن ہے اس لیے کہ قوانین فطرت منسوخ نہیں ہو سکتے غلط بنا پر ہے معجزہ کس طرح مُخل(خلل ڈالنے والا) قانون نہیں ہے۔ ہاں اس کو ہم خود تسلیم کرتے ہیں کہ جن معجزات کا ذکر کتبِ مقدسہ میں پایا جاتا ہے ان کے وقوع سے قوانین عامہ فطرت میں کس قدر روک ہو گئی۔ جس سے خدا کی قدرت اور بھی زیادہ صفائی سے ظاہر ہوئی اور مذہب ِ عیسوی کی حقیقت کی دلیل ٹھہری لیکن فطرت کی ترتیب میں ذرا سا فرق پڑ جانا یا صرف ایسا اختلاف کہ فطرت کے عام قواعد سے خاص ہو نسخ قوانین فطرِت کسی طرح نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً مرغی کے بچوں کو دیکھو کہ عام قاعدہ ان کے پید اہونےکا یہ ہے کہ انڈے مُرغی کے تلے رکھے جاتے ہیں۔ وہ چند ہفتوں معینہ (مقرر) تک ان کو سیتی ہے یہاں تک کہ بچہ نکل آتے ہیں۔ لیکن آج کل یعنی بغیر مرغی کے تنور میں انڈوں کو دفعتا و معینہ کی گرمی پہنچا کے بچے نکالے جاتے ہیں۔ تو یہ طریقہ جدید خلقت کے عام قاعدہ سے بیشک مختلف ہوا۔ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ خلاف قاعدے کے ہوا یا نسخ(نقل،منسوخی) قوانین فطرت لازم آیا۔ اسی طرح گرم ملکوں میں گرمی کے موسم میں پانی کا جمنا فطرت کے عام قاعدے کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ تاہم آدمیوں نے ایسی کلین نکالی ہیں جن سے بذریعہ چند مصالحوں کے گرمی کے موسم میں برف جمایا جاتاہے۔ اب اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ خِلاف قاعدہ ہوا۔ اس تشریح سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو فعل انسان سے ہو معجزہ ہے یعنی گرمی پہنچا کر انڈوں سے بچے نکالنا یا گرمی میں برف جمانا یہ بھی معجزہ ہوا نہ یہ مطلب ہے کہ یہ مثالیں مسیح اور اس کے حواریوں کےمعجزوں سے مشابہت کّلی رکھتی ہیں۔ خُدا جو تمام خلقت کا خالق اور تمام قوانین کا واضح ہے اس کو اپنے سب قوانین اور افعال کا اختیار کّلی (تمام چیزوں کا اختیار) ہے اور اسی سبب سے وہ ایسی عجیب باتیں جو طاقت انسانی سے باہر ہو دکھا سکتا ہے اور ایسے عجیب افعال کو ہم اپنی اصلاح میں معجزات کہتے ہیں پس ہمارا مطلب اوپر کی تشریح سے صِرف اسی قدر ہے کہ جب کہ آدمی گرمی پہنچا کر بچے نکالنے اور گرمی میں برف جمانے سے فطرت کی عام ترتیب میں تغیر کرتا ہے تو مسیح نے جو خدا ہے اگر اپنی قدرت کو فطرت کی عام ترتیب کے موافق نہ استعمال کیا بلکہ کسی خاص و عجیب طور سے یعنی معجزانہ طور پر ظاہر کیا تو کیا استحالہ(حالت تبدیل ہوجانا) لازم آتا ہے۔ اگر آدمی مقرہ طریقہ کے بدلنے سے قوانین فطرت کا توڑے وا لا نہیں ٹھہرتا بلکہ اور اس کی عقلمندی ظاہر ہوتی ہے تو خالق بھی اپنی عام ترتیب کے بدلنے سے توڑنے والا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کی دانائی ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ آدمی کے لیے کچھ ضرور نہیں کہ جو فعل اس سے سرزد ہو بعینہ اسی قاعدہ فطرت کے موافق ہو کسی طرح کا فرق نہ پڑے صدہا افعال انسان سے ایسے وقوع میں آتے ہیں جو عام قاعدہ سے بہت مختلف ہوتے ہیں تو اسی طرح خدا جو واضع حقیقی ان سب قوانین کا ہے اس کے لیے تو بطریق(پادریوں کا سردار) اولیٰ کچھ ضرور نہ ہوگا کہ سب کام بعینہ اسی عام قاعدے کے مطابق کرے۔ پس مطلب یہ ہے کہ خدا جو سب کا مالک ہے گو کیسی ہی غیر محدود و قدرت رکھتا ہے اور گو کیسی ہی دانائی اور پاکی اس کے معجزات سے ظاہر ہوتی ہے اور طریقہ قدرت میں تغیر ہو جاتا ہے لیکن قانون وہ ہی رہتاہے وہ کسی طرح نیں ٹوٹتا ہے جیسے آدمی اپنی قدرت خلقت میں قوانین مقررہ سے مختلف طور پر ظاہر کرتا ہےاور پھر بھی نسخ قانون نہیں کہلاتا اسی طرح ممکن ہے کہ خدا بھی اپنی قدرت کاملہ کسی اور طور پر یعنی قواعد عامہ جن سے اب نظم و نسق جاری ہے ان کے سوا اور کسی صورت سے ظاہر کرے۔ اَب ہمیں اس بحث پر کتب مقدسہ کے معجزات کو مطابقت دینا چاہیے جس حالت میں کہ انگوروں سے مے بنتی ہے مسیح اپنی قدرت خالقہ اور طور پر کام میں لایا یعنی پانی سے شرا ب بنادی تو یہ عام طریقے سے ذرا جُدا ہوا اسی طرح پانچ روٹیوں سے کئی ہزار آدمیوں کو کھلا دینا یہ بھی قدرت خالقہ سے نئے طور پر کیا یعنی ان دونوں صورتوں میں اس نے دفعتاً اسی کام کو کر دیا جو موافق قاعدہ عام بہت آہستہ وقوع میں آتا۔
جس طرح یہ عرق انگوروں میں پہنچتا اور پھر ا سے انگور مرتب ہوتے اور پھر اس سے شراب بنتی اس نے دفعتاً(فوراً) ایسا کر دیا کہ پانی کی شراب ہو گئی۔ علی ہذا القیاس روٹی کو سمجھ لو۔ پس پیدا کرنے والی قدرت کو ا س نئے طورکی قدرت سے وہ ہی نسبت ہے جو بڑے کو چھوٹے سے یا کُل کو جزو سے ہوتی ہے۔ قدرت کا قانون کہ مراد اس سے صرف یہی ہے کہ اس پیدا کرنے والی قدرت کو اپنی بے انتہا دانائی اور الوہیت کے مطابق طاہر کرنا خواہ عام طریقہ پر یا کسی خاص طریقہ سے ہو ٹوٹتا نہیں۔ پس خدا کی قانون کی نسبت یہ گمان کرنا کہ سوائے ان عام قاعدوں کے اور کوئی صورت اس کے تاثیر (اثر) کی نہیں ہے یہ تو ایسا ہوگا جیسے کوئی طالب علم اپنے استاد سےصرف ایک دو سبق پڑھ کے اسے آزما ئے یا شیخی مارے کہ مجھے اس کے سب ہنر آگئے ہیں۔
اگر ثابت ہو جائے کہ فطرت چند پوشیدہ اور محدود علتوں(بیماری ، وجہ ، الزام) اور معلولات(علت کیا گیا،وہ شے جس کاکوئی باعث یا سبب ہو ) کی جو ہمیشہ تک ایک رہے گی پابندی ہےتو لازم آئے گا کہ مذہب بلکہ شانِ رزاقی(رزق دینے والی ذات) خدا کی بھی باطل ہے اور حقوق انسانی محض دھوکا اور خدا کی بندگی اور نماز حماقت ہے۔ لیکن یہ خیال خلاف جمہور ہے اسکو کوئی بھی صحیح نہ کہے گا۔ پس امکان ِ معجزات کا انکار سخت الحاد (دینِ حق سے پھر جانا) ہےخدا کی ذات ہر طرح اپنی خلقت سے اعلیٰ اور اولیٰ ہے اور جیسی اس کی ذات اعلیٰ ہے ویسے ہی اس کی قدرت بھی ضرور ہے کہ اعلیٰ ہواور جیسی اس کی قدرت قدرتِ انسانی سے بر تر ہے ویسے ہی اس کے افعال بھی بر تر ہونا چاہیے۔ پس اس کی قدت کا انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ وہ ترتیب قوانین فطرت نہیں بدل سکتا ہے اس کو انسان کےدرجہ سے بھی گِرا دینا ہے۔ اس لیے کہ انسان ہر وقت میں یہ قدرت رکھتا ہے کہ قواعدِ فطرت میں مداخلت کرے اور چاہے تو اس کے نتائج بدل دے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک ذرا سارے بچے میں یہ قدرت ہے کہ قواعد ِ فطرت کی ترتیب میں فرق ڈال کر مختلف نتائج پیدا کرے۔ مثلاً فرض کریں کوئی لڑکا باغ میں کھیلتے ہوئے کوئی اچھا پھول دیکھے اور اسکو توڑ کے تھوڑی دیر اسکی خوبی و بہار کو دیکھے پھر پھینک دے تو وہ پھول شاخ سے جُداہونے کے سبب جلد آفتاب کی گرمی سے مرجھا جائے گا اور اہل ِ گیروں کی پامالی سے جلد ساری اس کی بہاری جاتی رہے گی۔ اگر توڑا نہ جاتا تو یقیناً قانونِ فطرت کے موافق زیادہ دنوں تک اس کی تروتازگی اور خوشبو قائم رہتی لیکن دیکھئے ایک بچہ میں یہ قدرت تھی کہ مختلف نتیجہ پیداکر دیا۔ پس جب کہ قانونِ فطرت ایسا معینی نہ ٹھہرا بلکہ ایک بچہ میں یہ قدرت ہے کہ اُس کی ترتیب بدل سکتا ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ خدا جو سب سے اعلیٰ اور ادلیٰ ہے نہیں بدل سکتا یا نہیں بدلتا ہے۔خدا ترتیب، قانون، فطرت بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے۔
علم و تجربہ سے دریافت ہوتا ہے کہ خدا نے ترتیب خلقت ضرور بدلی ہے۔ خود کر ہِ زمین سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ دفعتاً (فوراً) اسی ایک صورت میں نہیں پیدا ہوا بلکہ رفتہ رفتہ مختلف ترتیبوں سے حالت ِموجودہ کو پہنچا ہے۔چنانچہ یہی علم جمادات سے معلوم ہوتاہے۔ ایک نوع کی چیزوں کا ناپید (دنیا سے بالکل ختم ) ہو جانا پھر اس سے نئے نئے طرح کی مخلوق کا ہونا اور اس نئی مخلوق کی طبیعتوں کے مناسب آب و ہوا کا بدل جانا چونکہ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ مقرری قواعد کے نتائج نہیں ٹھہر سکتے ہیں خلاف ترتیب مقرری ہیں اس لیے یہ سب گویا کہ اتنے بہت سے نوع بنوع کےمعجزات ہوئے۔
طبقہ زمین کی چٹانیں جو نوبت نبوت بنی ہیں حقیقت میں تمام معجزات ہیں جو کتب مقدسہ کےمعجزات سے بھی زیادہ ہیں انبیا اور حواریوں نے جس قدر معجزات بیان کئے ہیں وہ کچھ ان واقعات سے جو زمین کی معدنیات میں گذرے ہیں زیادہ نہیں ہیں۔ علم جمادات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے۔ کہ آب وہوا میں اور اس آب و ہوا کی وجہ سے جانوروں کے حالات میں بڑا تغیر (تبدیلی) واقع ہوا ہے۔ گر م ملکوں کے جانوروں کے باقیات سردملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ خلقت میں بہت سی ایسی چیزیں ہزار ہا برس قبل اس سے قانون مقرری کے بموجب اس وقت کے مناسب پیدا ہوئی ہونگی کہ اگر وہ چیزیں دفعتاً ہمارے سامنے ظاہر ہوں تو ہم ان کو ضرور معجزہ کہیں۔ قطع نظر اس کے ممکن ہے کہ بہتیری اور دنیا ئیں ہوں جن میں قوانین فطت بعینہ (چھپی ہوئی) وہ ہی ہوں جو اس دنیا میں معجزات کہلاتے ہیں پس اگر خدا ان دنیا میں اپنی قدرت اس طور پر ظاہر کرے جیسے اس دنیا میں تو البتہ وہاں کے رہنے والے متحیر ہو جائے۔ اور اس کو معجزہ کہیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ بالکل نئے اور عجیب معلوم ہو پھر جن باتوں کو ہم معجزات کہتے ہیں کہ وہ قواعد ہوں اور خدا نے اپنی دینی حکومت کے خاص مصلحتوں(نیک اصلاح) کے لیے مقرر کئے ہوں جو مدتوں بعد بوقت ضرورت وقوع میں آتے ہوں۔ لڑائی کے قوانین سے ہمارے اس بیان کی اچھی طرح تشبیہ ہو سکتی ہے۔مثلاًجب ملک میں صلح اور امن دامان ہوتی ہے تو ہر کام موافق قواعد مقررہ کے ہوتا ہے اور جب کوئی ہنگامہ برپا ہو تو صلح کے قوانین جاتے رہتے ہیں اور مختلف قاعدے اور نئی نئی ضوابط مقرر کئے جاتے ہیں۔جس پر یہی نفس قواعد جیسے صلح میں تھے ویسے ہی اس وقت میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتے ہیں۔ صرفِ اتنا ہے کہ ہیت(سبب ، باعث) قاعدے کی وقت کے مناسب بدل دی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خدا کا قانون محض جسمانی ہی نہیں ہےیعنی حیوانات اور نباتات کے طریقہ تمدن ہی پر نہیں موقوف ہے بلکہ اس سے عمدہ اور اعلیٰ قانون ہے اور جیسے قوانین خلقت تمام دنیا کے لیے ہیں یہ اعلیٰ قوانین تمام بنی آدم کے لیے ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جیسے جسم کے لیے کچھ قاعدہ معین (مقرر) ہیں ویسے ہی عقل اور اخلاق کے لیے بھی کچھ قاعدہ پائے جاتے ہیں جن سب کا ایک نام الہیات مقرر کیا ہے۔لیکن ان سب قوانین روحانی اور جسمانی کی نسبت اگر خیال کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُل یہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو اس کل کا صرف جزو (حصے) ہیں۔ خدا کے قاعدے اور مخلوقات اس قدر بےشمار ہیں کہ ہماری ناقص عقل اندازہ نہیں کر سکتی ہے اور اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اس کے سب قاعدے جہاں تک ہم کو معلوم ہیں ایک ہی ہیں اور اس وقت میں بھی یہ تو ظاہر ہےکہ درجے ان کے مختلف ہیں مثلاً جو عقل و اخلاق سے علاقہ (تعلق) رکھتے ہیں وہ قواعد اجسام کے مختلف ہیں یعنی اعلیٰ ہیں۔ مگر روح ذہن سے افضل ہے اس لیے جو روحانی قاعدے ہیں یعنی صفائی قلب(دِل) سے علاقہ رکھتے ہیں ضرور ہے کہ ذہن و عقل کے قاعدوں سے بڑھ کر ہوں۔ اب سوچیے کہ اگر اعلیٰ کے جاری کرنے کے لیے ادنی ٰ کی کچھ صورت بدل دی جائے توکیا قباحت (بُرائی ،خرابی ،نقص) ہو گی اور اس کوکون نسخ قوانین فطرت کہے گا۔ کیا یہی لفظ ادنی ٰ کا نہیں ظاہر کرتا کہ وہ اپنے اعلیٰ کا تابع و خادم ہے جیسا کہ تربیت الہیہ سے ظاہر ہے۔ آدمیوں کو ہی دیکھ لو کہ جسمی نفع کا جو کسی طرح ناروا بھی ہیں ہوتا۔ روحانی نفع کےلیے کچھ خیال نہیں کرتی ہیں۔ مثلاً دیکھو عام تعلیم کی خاطر تمام شہروں سے خرچ مدرسہ کا لیا جاتا ہے اس صورت میں عقل دولت کی حاکم ٹھہرتی ہےیا فرض کرو کہ ہم اپنے لڑکے کوکسی جگہ مدرسہ میں بھیجنا چاہیں اور دیکھیں کہ وہاں دو مدرسےتعلیم کے لیے مقرر ہیں جن میں سے ایک مدرسہ میں بہت اچھی طرح سے علم و ادب اور کچھ تھوڑی سی دینیات ناقص طور پر سکھائی جائے اور دوسرے میں خالص دینیات گو کہ اور علوم کا بندوبست اچھا نہ ہو سکھائی جاتی ہو تو ظاہر ہےکہ دینیات کے مدرسہ کو ترجیح دینگے اور اول کو اس کے سامنے محکوم (حکم کیا گیا )سمجھے گے۔ اسی طرح خیال کریں کہ قانون ملکی یہ ہے کہ رعایا کے مال و اسباب کی محافظت (حفاظت) کی جائے کہ جس طرح رعایا (عوام) چاہے اس سے نفع اٹھائے لیکن جب سرکار کو کسی عام فائدہ کے لیے ضرورت روپیہ کی پڑے تو اس وقت میں مالک مال کی پڑے تو اس وقت میں مالک مال کی رضامندی کا کچھ خیال نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ بخوشی نہ دے تو تکبیر(بڑائی کا اظہار) لیا جاتا ہے۔نوعی فائدوں کا کچھ لحاظ نہیں کیا جاتا اس لیے کہ کل ملک کا نفع (فائدہ) ایک شخص کے نفع پر مقدم (آمد)ہے۔ پس مال کے نفع پر عقل کا نفع مقدم(قدم رکھنے کی جگہ ) سمجھا جاتا ہے یا عقل و ذہن کے حقوق ضمیر کے حقوق کے مقابل ملحوظ (لحاظ کیا گیا خیال کیا گیا) نہیں ہوتے ہیں یا شخصی نفع کا نوعی کے سامنے خیال نہیں کیا جاتا ہے تو اس کو کون خلاف قاعدہ کہے گا کہ اعلیٰ کے سامنے ادنیٰ تابع ہوتے ہیں پس گویا ادنی ٰ اعلیٰ ہیں مل جاتے ہیں یا یوں کہنا چاہے کہ نفع عام میں خاص بھی ضمناً آجاتا ہے اور یہ امر اگروسیع طور سے لحاظ کیا جائے تو عین منشا قانونی کے موافق ہے اور جیسا جب یہ قانون تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ جیسے ضرور ہے کہ شخص تابع ملک اور جسم تابع عقل اور عقل تابع اخلا ق کی ہوئے علی ٰ ہذالقیاس خدا کے اور قوانین کا حال ہے کہ ادنی ٰ اعلیٰ کے تابع ہیں۔ جمادات تابع حیوان کے اور حیوان تابع انسان کے اور اغراض دنیوی محکوم(حکم کیا گیا ) دینی کی ہیں۔ پس در حال یہ کہ یسوؔع جو سب کا خدا ہے اس امتیاز کو یعنی ادنیٰ اعلیٰ کے ظاہر کرے اور شریعت قومی کو انسان غیر فانی(کبھی نہ مرنے ولا) کی روحانی زندگی کے لیے باطنی شریعت سے بدلے تو یہ توڑنا نہیں بلکہ عین قائم رہنا قانون کا ہوا۔ جب کہ یسوع نے مردوں کو جلایا اندھوں لوُلوں اپاہجوں کو صحت بخشی تو اس سے صرف اتنا ہوا کہ اسی قدرت الہیہ کی معمولی صورت کو جوادنی ٰ میں پائی جاتی تھی آدمیوں کی اعلیٰ زندگی کے لیے بدل دیا اس نے اپنے قانون کی اعلیٰ صورتوں کو بڑھایا اور ادنی کی فیاضانہ(سخی اور کھلے دل سے ) اور جائز استعمال سے گویا اپنی قانون کو عزت بخشی۔ معلوم ایسا ہوا کہ قانون معجزہ سے ٹوٹ گیا تاکہ روح کا اعلیٰ قانون قائم رہے۔ لیکن یہ ظاہری نسخ اس کی حقیقی حفاظت کے لیے نہایت ضروریات سے تھا۔ اس لیے کوئی نہ سمجھے کہ ہمیں قوانین مقررہ فطرت سے انکا رہے۔
ہماری تعلیم فقط یہ ہے کہ ادنیٰ درجہ کی قانون کی ظاہری صورت کو اٹلی سے بدل دینا قوانین ِ فطری کے عین موافق ہے۔ ہمارا اقرار ہے کہ ایسے قواعد کا مقرر ہونا حیاتِ انسانی کے لیے ضروریات سے تھا۔ اگر طلوع اور غروب ِ آفتاب کا کوئی وقت مقرر ہوتا جیسا اب ہے اور موسم و فصل کی کچھ قید نہ ہوتی اور بیجوں کا اپنے اقسا م کے پھل لانا ضروری و یقینی نہ ہوتا تو کیسی مصیبت کی حالت میں ہم بنی آدم ہوتے۔اسی مقرری طریقہ کی سبب ہم اپنی زندگی کے حالات کا حساب کر سکتے ہیں اور ٹھیک وقت پر کام کرتے اور آرام اُٹھاتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ اگر کوئی ضابطہ یا قانون ایسا نہ ہوتا جس کے مطابق دنیا کا نظم و نسق جاری ہوتا تو بےشک معجزہ کا بھی وجود نہ ہوتا۔ ہر امر بے قاعدہ ہوتا جس کی وجہ سے کوئی مذہب بھی نہ ہوتا اس لیے کہ وجود ایمان کا اس وقت میں غیر ممکن ہوتا۔ اگر آدمی پہلے سے فطرت کے قواعد مقرری کی ادنی ٰ صور تو ں پر کاربند (تعمیل کرنے والا) نہ ہوتا۔ تو کسی چیز پر اس کا اعتقاد اور بھروسہ نہ ہو سکتا بلکہ اس وقت میں تمام مذہبی باتیں اور ذہنی نتائج اور تمام عجیب عجیب کام جو خدا دکھاتا ہے سب کے سب اتفاقی سمجھے جاتے یعنی لوگ یہ سمجھتے کہ اتفاق سے ہو گئے ہیں پھر کسی نہیں وقوع میں آئے گے نہ کوئی خاص غرض ا ن سے ہے۔
پس نظر بوجوہ ِبالا دعویٰ ہمارا کہ با وصف مقرر ہونے قوانین ِ فطرت کی وقوع معجزہ کا ممکن ہے بلکہ یہی قوانین مقررہ امکان معجزہ کی دلیل ہے یعنی شاید خاص کر انہیں معجزوں کے ممکن ہونے کے لیے قوانین فطرت مقرر کئے ہیں نہایت صحیح ہوگا۔ انسان کا دینی اور ابدی نفع دنیا کے ہر کام پر کہ چند روزہ ہے بےشک مقدم ہے۔ حیاتِ ابدی کے مقابلہ میں دنیا کی تمام نعمتیں اور برکتیں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔ اور در حال یہ کہ یہ سارے نظم و نسق فطری ہماری دنیاوی حیات کے لیے کار آمد ہیں تو ظاہر ہے کہ دین کے لیے تو بطریق(پادریوں کا سردار) اولی ٰ مفید ہونگے۔ اسی سبب سے معجزہ کا ہونا اگرچہ فطرت کا بندوبست مقرری ممکن ہے۔بلکہ امکان معجزہ کا اسی لیے ہوا کہ فطرت کے قواعد مقرری ہیں۔پس مذہب آدمی کے لیے عمدہ چیز ہے تو کیا یہ ضرور نہیں کہ وہ اور چیزوں کی نسبت زیادہ مقرری ہو۔ ظاہر ہے کہ تمام ادنیٰ درجہ کی مخلوق اعلیٰ مخلوق انسان کے تابع ہیں۔
۲ غرض معترضوں (اعتراض کرنے والوں ) کا پہلا اعتراض جو ہے کہ فطرت کے قوانین مقرری ہیں اس وجہ سے وقوع معجزہ کا غیر ممکن ہے کیونکہ خداجو قدیم وغیرہ متغیر ہے اپنے قوانین کو آپ نہیں بدل سکتا اور اس کا جواب جیسا کہ اوپر۔۔۔ دے کر اور یہ ثات کر کے کہ معجزہ نسخ قانون نہیں بلکہ اسی قانون فطری کے ادنیٰ صورتوں کو اعلیٰ صورتوں کی ہیت(سبب، باعث) میں کر دینا معجزہ کہلاتا ہے جس سے نفس قانون کی خوبی اور بڑھ جاتی ہے اور یہ ثابت کر کے کہ وقوع معجزہ کا جس بنا پر غیر ممکن سمجھا گا تھا اسی بنا پر ممکن ہے یعنی اگر خلقت کے لیے کچھ قاعدے مقرر نہ ہوتے تو معجزہ کیونکر ہوتا اب ہم دوسرے اعتراض کا یعنی یہ کہ معجزہ یقینی نہیں اس لیے لائق اعتبار نہیں جواب دیتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا اعتراض پہلے ہی پہل ایک برے مشہور ملحد ہوم صاحب نے کیا ہے اس کے بعد بہت اور ں نے اس کی تقلید(پیروی کرنا ) کی ہے غرض خاص وہ جو اس اعتراض کی جو ہیں ان میں پہلی وجہ یہ ہے کہ معجزہ مستانم نسخ قوانین فطری ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ خلاف تجربہ ہے صرفِ گوا ہی سے اس کا ثبوت نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اس صورت میں معجزہ کے یقینی جاننے کی بہ نسبت گواہی کا باطل سمجھنا زیادہ یقینی ہے اس اعتراض کا جواب جہاں تک نسخ قوانین سے تعلق رکھتا ہے ہم نے پہلے ہی دے دیا ہے کہ یہ دعویٰ ہی سے سرے سے غلط ہے ہم نے خوب ثابت کر دیا ہے کہ جس کو لوگ غلطی سے منسوخ (ناسخ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے ختم ہونا ) ہونا کہتے ہیں وہ درحقیقت منسوخ ہونا نہیں ہے بلکہ وہ صِرف تغیر ہیت(سبب ، باعث) ادنیٰ کا اعلیٰ کی طرف ہے کیونکہ جِس حالت میں معجزہ قوانین مقررہ کو بالعض توڑنے کے اور زیادہ قائم کرتا ہے اور تقویت (ترقی کرنا ، آگے بڑھنا) دیتا ہے تو یہ اعتراض کہ وہ نسخ قوانین فطرت ہے خود بخودباطل ہو جاتا ہے رہا یہ امر کہ معجزہ کے یقینی جاننے سے گواہی کا باطل سمجھنا آسان تر ہے سوا اس کے جواب میں یہ ضرور سمجھنا چاہے کہ معجزات کسی عام شہادت سے نہیں ثابت ہوئے ہیں بلکہ خاص طرح کی شہادت سے۔ ہم خود کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ بعض گواہی غلط ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر طرح کی گواہی یقلم غلط ہو کیونکہ بعض قسم کی گواہیاں ایسی بھی ہیں کہ غلطی و فریب سے بالکل خالی ہیں یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ امران میں ممکن نہیں۔ اور اسی بعض قسم کی گواہیاں یعنی جن میں امکان غلطی کا نہیں معجزہ کے ثبوت میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ مختصر طور پر ہم آزمائے گے کہ آیا جو گواہیان اثبات معجزات کرتی ہیں واقعی ایسی ہیں کہ ان کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہماری علت ِغائی(ماحصل) اس کا کُل بیان سے اثبات (ثبوت کی جمع) مذہب عیسویٰ ہے اس لیے عہد عتیق (پُرانے عہد نامہ ) کے معجزات پر ہم بحث نہ کرینگے کیونکہ عہد جدید کو جو عتیق کا تکملہ ہے اگر مان لیں تو وہ ہی سب کا ماننا کہلائے گا۔ اس لیے مسیح کے معجزات کی شہادت کے لیے پہلے ہم اس کے حواریوں (شاگردوں )متؔی ،مؔرقس، لوؔقا، یوؔحنا کا جو مسیح کے گواہ تھے اور جن کی گواہیان مسیح کے معجزات کے بارے میں انجیل میں قلمبند ہیں ذکر کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کے آدمی تھے۔
۱۔ پہلے ی جاننا چاہیے کہ وہ عقل سلیم رکھتے تھے جیسا کہ ان کی نوشتوں (لکھا ہوا، تحریری سند) سے ظاہر ہے کیونکہ کسی ضعیف العقل(بےوقوف) کا یہ کام نہیں کہ بیانات کو لکھا سکتا۔پس جب کہ وہ عقل سلیم رکھتے تھے تو ظاہر ہےکہ ان کی گواہی بھی ان واقعات میں جو انہوں نے دیکھے یا سُنے قابل اعتبار ہوگی۔
۲۔ دوسرے یہ کہ جس ملک میں اور جس جگہ اور جس وقت معجزات دکھائے گئے یہ گواہ موجود تھے انہوں نے بچشم (اپنی آنکھوں سے ) خود دیکھا۔
۳۔ تیسرے وہ معجزا ت اس طور سے اور ایسے موقع پر واقع ہوئے کہ اس میں امکان دَغا (دھوکہ) اور فریب کا ہو ہی نہیں سکتا۔ مادر زاد اندھی کو دفعتاً (فوراً) بینائی (نظر آنا) بخشنا۔ چار دن کے مُردے کو جلادینا۔ یہ ایسا کام نہ تھا کہ چُپکے سے ہو جاتا۔ سر اے اس کے مسیح کے جی اُٹھنے کی ساری کیفیت جو اس کے تمام معجزات میں سب سے زیادہ مشہور واقعہ ہے اس کو خیال کر لیجئے۔ وہ ساری کیفیت ایسے طو پر گذری جس میں ذرا بھی شبہہ کا دخل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً اول یہ کہ وہ واقع میں موا اور دفن کیا گیا۔ (اس میں کسی کو کلام نہیں ) اور پھر اس خیال سے کہ مبادا (خدا نہ کرے) اس کے شاگرد خُفیہ لاش نکال لے جائیں اور مشہو ر کریں کہ جی اُٹھا سرکاری پہرہ قبر پر متعین (مقرر) ہوا ار اس اندیشے سے کہ پہرے کے سپاہی بھی کہیں سازش نہ کر لیں قبر پر سرکاری مُہر لگائی گئی۔
دوسرے قبر سے لاش کے نکل جانے کی صرف تین صورتیں خیال میں آسکتی ہیں یا تو دشمن نکالتے یا دوست یا وہ خود نکل آتا جیسا کہ متی ۲۷ باب۔۶۳ آیت اور یوحنا ۱۰ باب۱۷۔۱۸ آیات میں لکھاہے۔ لیکن دشمنوں سے ایسا ہونا ممکن نہ تھاکیونکہ ان کا اختیار ہوتا تو شاگردوں کے ہرانے اور مسیح کی فریب دہی ثابت کرنے کو اس کی لاش اور پیدا کر دیتےنہ کہ نکال لیتے اور جو یہ کیا جائے کہ اس کے دوستوں نے نکالا تو اس کی بھی کوئی صورت نہیں ہو سکتی دوستوں نے خود اپنی مرضی کے موافق اپنی زمین میں گاڑھا تھا ان کو کیا غرض پڑی تھی کہ نکال لیتے ممکن نہ تھا کہ دوست اس کی لاش چور اہے لے جاتے ساٹھ سپاہیوں کا پہرا کھڑا تھا۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ سب پہرے والے سو گئے ہوں جس حالت میں حکم سرکاری ایسا ناطق(بولنے والا، صاحبِ عقل ) تھا کہ اگر کوئی سپاہی پہرے پر سو جائے تو قتل کیا جائے۔ اور بفرض ان سب صورتوں میں وہ دوست اس کی لاش نکال بھی لے جاتے تو جی اُٹھنا کیونکر کہلاتا بلکہ یہ تو اور اُلٹی دلیل ان کے خلاف پڑتی پس ظاہر ہے کہ بجُز اس کے کہ آپ اپنی قد رت الہیہ سے نکل گیا ہو اورکوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔
سوائے وہ جو مذکورہ بالا (اوپر ذکر کئے گئے ) کے اور بھی عمدہ تر دلائل ہمارےپا س ہیں مثلاً اول یہ کہ بعد دفن ہونے کے بارہ مختلف صورتوں میں اس کا دکھائی دینا پانچ صورتوں میں جس روز جی اُٹھا اسی روز دکھائی دیا ار پانچ صورتوں میں قبل از صعود (خداوند یسوؔع مسیح کے آسمان پر زندہ اُٹھائے جانے سےپہلے) اور ایک مرتب ساؤل کو جب وہ ایمان لایا اور ایک مرتبہ یوحنا کوپطمس کے ٹاپو پر (پہاڑی) پر ظاہر ہوا۔ ۱کرنتھیوں ۱۵ باب ۵۔۹ اآیت اعمال ۱۱ باب ۵ آیت مکاشفات ۱۔ باب ۹۔۱۸۔ آیت اور یہ آخر کےدو ظہور ایک ہی دن کے مختلف وقت اور مختلف جگہوں میں ہوئے بلکہ اس میں ایک دفعہ تو ایسے ظاہر ہوا کہ پانچ سو سے زیادہ نے دیکھا۔
دوسرے یہ کہ اس کا ظہور خاموشی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ لوگوں سے بات چیت کی اور کھانا کھایا اور اپنے ہاتھ پاؤں دکھائے اور جہاں جہاں کے لیے جانے سے زخم ہو گئے تھے۔ان سے کہا کہ انگلیاں لگا کر دیکھو اور بہت دیر تک ان سے باتیں کرت رہا اور آخر کار ان کی نظر کے سامنے آسمان پر چڑھ گیا۔
تیسرے اس کے مرنے اور جی اُٹھنے کی یادداشت کے لیے اعشا ئے ربانی مقرر ہوا اور سبت کے عوض خداوند کا دِن یعنی ہفتہ کا پہلا روز قرار پایا۔ یہ دونوں رسوم اسی وقت جاری ہوئے ہیں جب سے مسیح مولا اور جی اُٹھا ہے اور آج تک تمام روئے زمین میں جہاں جہاں عیسائی ہیں یہ رسم یہی سے برابر چلی آتی ہے یقین ہے کہ کسی عقلمند کو اس امر میں انکار نہ ہو گا کہ بیان مذکورہ سے گواہی کی صحت و حقیقت کا ثبوت یعنی یہ کہ گواہی قابل تسلیم ہے بخوبی ہو گیا اور اسی سبب سے یہ ثابت ہوا کہ معجزات یہی وقوع میں آئے تھے۔
چوتھے یہ جاننا چاہیے کہ جن لوگوں میں مسیح نے وہ معجزات دکھائی تھےان لوگوں میں سے کسی کو ان کے معجزہ ہونے میں کلام نہ ہوا حالانکہ معجزہ کی دیکھنے والوں میں بعض تو بڑے بڑے ہو شیار اور بات کے پرکھنے والے تھے ایسے احمق (بےوقوف) نہ تھے کہ گونگوں کا بولنا اندھوں کا دیکھنا مُردوں کا جی اُٹھنا کچھ سمجھتے ہے نہ ہوں۔ مسیح کے معجزوں میں کوئی معجزہ ایسا نہ ہو جس میں کوئی صورت دھوکے کی نکلتی ہو۔ دیکھنے والوں کو ان کے آزمانے کا خوب موقع تھا بلکہ یاد رکھنا چاہیے کہ دیکھنے والوں نے جنہیں الہام سے انکار تھا ان معجزات کا اقرار کیا۔ جب مسیح نے اندھے فقیر کو بینائی بخشی تو یہودیوں نے اس اندھی کو بُلا کر پوچھا کہ کس نے تجھے اچھّا کیا تو اس نے جواب دیا کہ ایک آدمی نے جسے یسؔوع کہتے ہیں مجھے چنگا کیا ہے۔ اس پر فریسیوں نے جو یسؔوع کے معجزات کا اقرار کرنا نہیں چاہتے تھے اس آدمی سے کہا کہ یسوؔع کا نام مت لے خدا کی بزرگی کو وغیرہ یوحنا ۹ باب ۲۴ آیت اسی طرح جب مسیح نے لعزر و زندہ کیا۔ جو کاہنوں اور فریسیوں نے صدر مجلس جمع کی اور کہنے لگے کہ ہم کیا کرتے ہیں یہ مرد بہت معجزہ دکھاتا ہے یوحنا ۱۱۔ باب ۴۷۔ آیت۔
پانچویں اب رہا یہ امر کہ رسول جو خاص گواہ ان معجزات کےہیں ان کی گواہی کیونکر معتبر سمجھی جائے سواس کا جواب بھی بہت سی دلائل (بحث) قطعی ہی دینگے۔
۱۔ یہ جانناچاہیے کہ تعداد گواہوں کی بھی کافی ہے یعنی چار علیحدہ علیحدہ آدمیوں کی تحریری گواہی موجود ہے۔
۲۔ یہ کہ وہ چار دن گواہ متفق بیان کرتے ہیں جیسا کہ ایماندار گواہوں کا بیان ہونا چاہیے اور جس قسم کی شہادت عدالتوں میں ہمیشہ سے قابل ِ سماعت سمجھی جاتی ہے۔ فرض کریں چار عاقل ایماندار آدمی کچھ واقعات جو ان کی نظر سے گُذرے ہیں بیان کریں تو ان کی ترتیب بیان میں اختلاف ہو گا۔ کوئی کِسی بات کو خوب بیان کرے گا اور کوئی کسی بات کو لیکن اصل مطلب سب کا ایک ہی رہے گا گو ظاہری ترتیب میں کچھ فرق ہو پس اسی قسم کا اتفاق انجیل نویسوں کی گواہیوں میں بھی پایا جاتاہے۔
۳۔ تیسرے ان رسولوں کی نسبت کوئی شبہ اس قسم کا نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے جھوٹ بیان کیا ہو یا د ھوکہ دیا ہو کیونکہ ایسا جعل بنانے یا جھوٹ گڑہنے سے کوئی عزت یا دولت یا قدرت پانے کی امید نہ تھی بلکہ خاص کر اسی گواہی کی بدولت یعنی جب انہوں نے مسیح کے سب سے بڑے معجزہ کا کہ وہ جی اُٹھا ہے دعویٰ کیا تو طرح طرح کی تکالیف اور ذلتیں اور مصیبتیں اُٹھائی یہاں تک کہ زندگی سے بھی ہاتھ دھوئے اگر وہ مسیح کے جی اُٹھنے اور معجزات کی نسبت گواہی نہ دیتے تو ان سب خواریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہتے اور چین وآرام سے زندگی بسر کرتے بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر وہی مسیح کے خلاف گواہی دیتے یعنی اسے عیار و مکار(فریبی ، چالباز) بتاتے تو ضرور لوگوں میں بہت کچھ ان کی عزت اور آبرو بڑھ جاتی اور انعام پاتے لیکن نہیں وہ سادہ ایماندار آدمی جن کے تقدس (پاکیزگی، عزت اور شہرت) پر کوئی داغ نہیں لگا سکتا تا دم مرگ اپنی بات پر قائم رہے اور وہ ہی ایک گواہی کہ مسیح نے معجزات دکھائے تھے دئیے گئے بلکہ اس پر بھی اکتفا(کفایت کرنا ) نہ کر کے تمام گرِد نواح میں مسیح کے حالات کی منادی کرتی پھرے اور کمال فروتنی اور تقدس سے زندگی بسر کی اور لوگوں کو فائدہ پہنچا یا حالانکہ خوب جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے لوگوں کے بعض اور عداوت کی آگ بہت بھڑکے گی اور طرح طرح کے خوف و خطر پیش آئےگے اور زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ پس ظاہر ہے کہ سوا ئے ایسے شخص کے جس کو گواہی سے مطلق انکار ہو اور آدمیت سے خارج ہوا ور کوئی منقس رسولوں کی گواہی میں کچھ کلام نہ کرے گا۔ بھلا یہ ہو سکتا تھا کہ ایسے سچے رسولوں نے خلاف واقع کے در حال یہ کہ خطرہ جان کا اس سے ہو وہ بیان کیا ہو اور سب کے سب ایسے متفق (راضی ) ہو گئے ہوں کہ جو ات دیکھی نہ ہوا س کو اپنا مشاہد ہ بتائیں ہرگزنہیں۔ اس کو عقل کبھی باور(یقین، بھروسہ) نہ کرے گی۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیےکہ ان رسولوں نے مسیح کے عجیب کاموں کو صرف زبانی ہی نہیں بیان کیا بلکہ سب حالات کو قلمبند کر کے دوستوں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں دیا کہ اس کو غور سے آزمائیں۔ اور دشمن بھی ایسے کہ کچھ نادان نہیں بلکہ بڑے بڑے عالم اور ذی اختیار اور بات کے پرکھنے والے ہمیشہ ایس فکر میں لگے ہونے کہ کوئی ذرا بھی ایسی غلطی نکلے جس سے وہ نوشتے پایہ اعتبار سے گرجائیں۔ مگر کسی سے نہ ہو سکا کہ انکار کرتا۔ بلکہ انہیں یہودی مخالفوں نے اقرار کیا۔ ہزاروں دیکھنے والے تو اسی سبب سے اور بھی مسیح کے دشمن ہو گئے کہ اس نے وہ معجزات در پردہ نہیں دکھائے بلکہ علی الاعلان شہروں اور دیہات اور قصبات اور شہروں اور بازاروں میں جماعت کے سامنے ہیکل میں جا کر دن کو ہزاروں آدمیوں کے بیچ میں دکھائے ایک مرتبہ پانچ ہزار سے آدمی زیادہ جمع تھے اور ایک دفعہ چار ہزار سے زیادہ تھے جب مسیح نے معجزہ دکھایا۔ پس یہ امر کہ مسیح نے عجیب عجیب کام کئے اور معجزات دکھائے یہودیوں کی کتاب تالمود میں بھی مذکور ہے اور بڑے بڑے یہودی عُلما اور غیر قوم کے مصنف اور مسیح کی قدیم کلیسیا کی گواہیوں سے ثابت ہے۔ ان لوگوں میں بعض تو زمانہ معجزات میں موجود تھے اور بعض اس کے قریب زمانہ میں تھے۔ تلداتھ فرس کی تالمود میں ایسی باتیں مثلاً مُردوں کو جلانا ، اندھوں لوُلوں کو چنگا کرنا مسیح کی نسبت بیان کی ہیں۔ ا س میں یہ بھی لکھا ہےکہ بہت سے آدمی مسیح کی نسبت یہ بیان کرتی ہیں۔ اس میں یہ لکھا ہےکہ بہت سے آدمی مسیح کو سجدہ کرتے اور پکارے پکارکے کہتے کہ (حقیقت میں تو خدا کا بیٹا ہے) پنطوس پلاطوس نے اپنی تاریخ الٹا پلٹا میں یہودیوں کے معاملات کے ساتھ مسیح کے مرنے اور جی اُٹھنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ یوسفس جو بڑا مورخ(تاریخ نگار) یہودیوں میں گذرا ہے جو ۳۷ عیسوی میں پیداہوا جس نے ۷۵ کی یہودیوں کی لڑائیوں کا ذکر کیا ہے وہ بھی اکثر باتوں میں عہد جدید کی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔ سلیاس اور فارفری اور جولین جو غیر قوموں کے درمیان بڑے مشہور مورخ (تاریخ نگار)گذرے ہیں انہوں نے بھی مسیح کے معجزات کا اقرار کیا ہے۔ ارنیس اور پالی کا رب جو پہلی صدی میں پیدا ہوا تھا۔ ( یہ دونوں آدمی رسولوں کے ہمعصر اور ساتھی تھے) اور گناتیس اور پیئیس اور یوسیئس اور جستن شہید اور بہت سے اور قدیم عیسائی مورخون نے انجیل کے نوشتوں کی تصدیق کی ہے اور لکھا ہے کہ جو جو خاص باتیں انجیل کی ہیں ان سب کی تصدیق ہمارے ہمعصروں یہودیوں اور غیر قوموں کے مورخوں(تاریخ نگار) نے بھی کی ہے۔ مثلاً یوسئیس سب باتوں کا ذکر کر کے لکھتا ہے کہ میرے منجی کے جی اُٹھنے کی بابت فلستن میں بہت کچھ چرچا ہے یا جیسے پلاطوس نے شہنشاہ کو اس ماجرے کی خبر دی ہے۔ اسی طرح جستن شہید نے اور بہت اوروں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہودی مورخوں(تاریخ نگار) نے فقط یہ اقرار ہی نہیں کیا کہ انجیل کے نوشتے حواریوں کے لکھے ہیں بلکہ اپنی تفاسیر اور رومی سلطنت کی تواریخ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ پس میں دعویٰ کرتا ہوں کہ کوئی مکار ہو کر ایسا نہیں کر سکتا کہ انجیل کی سی باتیں محض اپنے دل سے بنا کر اور گڑھ کر تمام میں ان کو شائع کرے اور اسکی تعلیم و تلقین کرے۔ کیونکہ ان عیاروں(ٹھگ، فریبی) نے صِرف یہ ہی نہیں کیا کہ ان عجیب باتوں کو دل سے گڑھ کر اور جعل گانٹھ کر اپنی کتا بوں میں لکھ کر چھوڑ دیا ہو بلکہ ان کے ساتھ طرح طرح کے کام یاد گار یاں چھوڑیں بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ برابر لوگوں کو سمجھاتے اور رغبت دیتے رہے کہ تمہارے باپ دادے مسیح کی فلاں فلاں باتوں کو آج تک مانتے چلے آئے ہیں تم بھی مانو۔ اگر یہ باتیں ان کی جھوٹی ہوتیں تو کوئی مرد عورت اور لڑکا بھی نہ مانتا۔ سب کے سب آدمادہ مخالفت ہو جاتے اور یہ کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے مگر میرا دعویٰ یہ ہے کہ معجزات بے شک ہوئے اور یہ کہ ان کے ثبوت میں کسی طرح کا کلام نہیں۔
الحاصل معترضین (اعتراض کرنے والے) کے عام اعتراضات جو معجزات پر ہوتے ہیں انکا اس طرح جواب دے کر اور یہ ثابت کر کے کہ ان کا وقوع حقیقتاً ہو اب ہم ان دلائل پر جو انہیں معجزات سے واسطہ اثبات (ثبوت کی جمع) حقیقت دین ِ عیسوی پیش کئے جات ہیں لحاظ کرینگے یعنی ان معجزات سے یہ ثابت کر دکھائے گے کہ مذہبِ عیسویٰ خدا کی طرف سے ہے۔
ہم سب عیِسوی خدا کِی طرف سے ہیں۔
۱۔ یہ سمجھنا چاہیےکہ بیان مذکورہ سے ہمارا مطلب یہ نہیں کہ دینِ عیسوی کا ثبوت صرف معجزات ہے پر موقوف ہے بہت اور باتیں اس کے ثبوت کے لیے ہیں۔ مثلاً کفارہ اور صفائی قلب جس کو نیا دل کہتے ہیں اور مسیح اور اس کے حواریوں کے عادات وغیرہ مسائل اس دین کی حقیقت ثابت کرتے ہیں۔ پس اس لیے اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ مذہب کے بہتیرے (بہت سارے) ثبوتوں میں سے ایک ثبوت معجزات بھی ہیں۔ سوا اس کے مذہب عیسوی اپنی صداقت کا خود بھی گواہ ہے۔ اس کے کُل اصولوں باہمہ گر اتفاق رکھتے اور ایک دوسرے کو تقویت(ترقی دینا ، آگے بڑھنا) دیتے ہیں مگر انہیں اصول کے ساتھ یہ معجزات بھی ایسے واستہ ہیں کہ انجیل کی تمام تعلیمات میں اول سے آخر تک ان کو بھی داخل سمجھنا چاہیے پس معجزے کچھ ظاہری مُہر نہیں ہیں بلکہ وہ ایسے مضامین ہیں کہ بان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یسوع نے سوا معجزات کے بہت اور کام بھی کئے ہیں اور جس قدر افعال اس سے سر زد ہوئے ان پر خیال کرنے سے معابہً خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسی ذات پاک تھا جس سے ایسے ایسے کارنمایاں ہوئے۔
پس مسیح کے کل معجزات گویا ایک رسی ہے جس سے تمام کلیسا کے اعتقاد مسیح کی ذات پاک میں وابستہ ہیں اورباوجود یہ کہ مذہب عیسوی کے ثبوت کے لیے فقط یہ معجزات نہیں ہیں جس پر بھی ایسے ضروری ہیں کہ عیسائی مذہب کے یقین جاننے کی ان کو بنیاد کہنا چاہیے۔
انسان کی خواہش معجزات اور کرامات کے لیے۔
۲۔ ہم یہ پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ آدمی کے دل میں یہ خواہش ہے کہ وہ معجزات اور کرامات پر یقین لانا چاہتا ہے۔ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لوگ اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دنیا کے بڑے سےبڑے غیر قوم کے لوگ اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دنیا کے بڑے سے بڑے غیر قوم کے کافر اور عیسائی فلسفوں نے اپنی طبیعتوں کی خواہشوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ آدمی کی طبعیت میں ضرور یہ بات ہے کہ وہ معجزے اور کرامات کو ڈھونڈتا ہے اور اسی سب سے جس مذہب میں کوئی حقیقی معجزہ نہیں پایا جاتا تھا تو اس مذہب کے لوگوں نے اپنی طرف سے بنائے تاکہ ان کا مذہب سچا ٹھہرے۔ مگر جب سچا مذہب آیاتو اس میں نہ صرف حق و رحم اور دانائی بھلائی کی باتیں بلکہ معجزات بھی ظاہر ہوئے کیونکہ آدمی کی طبیعت کا مقتضا د (تقاضا کیا گیا ، مجازاً) یہ ہے کہ بغیر معجزات کے تسکین نہیں پاتا۔ اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نیک و ایماندار متلاشی کےلیے کتبِ مقدسہ خود ایک مضبوط گواہ ہیں مگر فقط اسی سبب سے نہیں کہ ان کے نصائح (نصیحت کی جمع، نصیحتیں) اور مسائل اور تعلیمات اچھی ہیں بلکہ اس سبب سے بھی ان میں خاص خاص معجزات کا ذکر ہے۔ فرض کرو اگر معجزات نکال لیےجائیں تو کتب ِ مقدسہ کے وعدے وغیرہ مثلِ عام باتوں کے رہ جائے کچھ خصوصیت نر ہے اور سب مسائل صرف دعویٰ ہی دعویٰ رہ جائے۔اور اس وقت میں یعنی بغیر معجزے کے گو کہ آدمی اس بات کو مانیں کہ کُتب ِ مقدسہ کی تعلیمات بہت اچھی ہیں۔اور ان میں بہت اچھی اچھی باتوں کو ذکر ہے مگر یہ ثابت کرنا کہ وہ الہامی کتابیں ہیں نہایت مشکل ہو جائے اگر کہا جائے کہ اس میں تاثیر ہی ایسی ہے جس سے اس کا الہامی ہونا ثابت ہو جائے گا تو میں کہتا ہوں کہ وہ تاثیر بھی جب تک کہ معجزات سے تصدیق نہ پہنچے اثر نہیں کرتی ہے۔ پس بائبل کے الہامی ہونے کی بڑی اور مستحکم سند یہی ہے کہ خدا خود اس کو کسی خاص طور سے ظاہر کر دے اور وہ خاص طور اس کے ظاہر کرنے کا فقط معجزے ہیں۔مسیح کی الوہیت (ربانیت) کی بڑی پہچان اس کے معجزات تھے۔ جیسے کوئی علم فلسفہ کا معلم (اُستاد) اپنی عزت بڑھانے کو یا اس لیے کہ بہت سے لوگ میرے شاگرد ہو جائیں طرح طرح کے تجربے علم کیمیا یا فلسفہ کے دکھاتا ہے اسی طرح مسیح نے اپنے پیروؤں کو اپنی طرف متوجہ اور پختہ کرنے کو معجزات دکھائے۔ اس لیے چونکہ روح ِ انسانی بغیر معجزات کے تسکین نہیں پاتی خدا نے ہمارے مذہب کی صداقت ک لیے معجزات کو دلیل گردانا(ترتیب کے مطابق صحیفوں کا دُہرانا)۔
یہودیوں کا اعتقاد کہ تصدیقِ رسالت کے لیے معجزہ ضرور ہے۔
۳۔ معجزات کا ہونا اس لیے بھی ضروری تھا کہ عہدِ عتیق میں جو کچھ وعدے اور پیشنگوئیاں مسیح کی نسبت ہیں وہ سب پوری ہوں۔ مثلاً خدا نے موسیٰ سے وعدہ کیاتھا کہ اسرائیلوں کے لیے ایک بڑا نبی پیدا کرونگا۔ اور جب وہ ظاہر ہو تو اس کی شناخت یہ ہوگی کہ وہ بڑے بڑے معجزے دکھائے گا۔
یسعیاہ نبی نے اس کے حق میں اس طرح پیشنگوئی کی ہے۔ (اس وقت اندھوں کی آنکھیں اور بہروں کے کے کان کھولے جائے گے تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائے گی۔ یسعیاہ ۳۵ باب ۵۔۔۶ آیت) اور پھر ایک اور جگہ مسیح کی نسبت اسی طرح لکھا ہے کہ لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لیے تجھے دونگا تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور ہندوؤں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خا نے سے چھڑائے یسعیاہ ۴۲ باب ۷۔۶ موسیٰ نے یہی اپنی تصدیق رسالت کے معجزات دکھائے تھے اور اسی لیے یہودیوں کو چونکہ اپنے مذہب کی تصدیق معجزوں سے ہو چکی تھی اور پرانے عہد نامہ کی پیشنگوئیوں پر یقین کا مل رکھتے تھے ضرور امید تھی ک جب مسیح ظاہر ہوگا تو طرح طرح کے معجزات دکھائے گا پس یہودیوں کی تعلیم و اعتقاد کے موافق اگر مسیح معجزے نہ دکھاتا تو وہ ہرگز اس پر ایمان نہ لاتے۔ ان کا اعتقاد یہی تھا کہ جو کوئی نبی ہونے کا دعویٰ کرے اس کو ضرور ہے کہ اپنی رسالت کی تصدیق کے لیے کوئی ظاہری نشان یعنی معجزہ یہی دکھائے۔ جیسا کہ موؔسیٰ اور الؔیا اور الؔیثا نے کیا تھا۔ پس اشد ضرورت تھی کہ یہودیوں کو مذہب ِ عیسوی کی صداقت(سچائی) ظاہر کرنے کےلیے معجزے دکھائے جاتے نبیوں نے بھی یہی خبر دی تھی کہ مسیح موعود (وعدہ کیا گیا، اقرر کیا گیا ) کی پہچان معجزوں سے ہوگی اس لیے ایک پختہ گواہی اس کی حقیقت کی معجزات بھی تھے۔
۴۔ مسیح کے پیدا ہونے کا حال اور موت کے واقعات جو کچھ گذرنے کو تھے۔ قبر سے جی اُٹھا اور آسمان پر چڑھ جانا ان سب باتوں کی خبر ان کی کتابوں میں تھی اور یہ سب بڑے بڑے معجزات تھے۔ فرض کرو اگر یہ معجزہ کہ وہ کنواری کے پیٹ سے پیدا ہو گا نہ وقوع میں آتا نہ مسیح نہ مسیح کا مذہب ہوتا مسیح کی موت کے وقت پردے کا پھٹنا زلزلہ کا آنا۔ تاریکی کا چھانا قبروں کا کھُلنا یہ سب باتیں اسی تصدیق کے لیے تھیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ لیکن قبر سے جی اُٹھنا اور آسمان پر چڑھنا سب سے بڑا معجزہ ہوا۔ اگر یہ واقعات نہ گذرتے تو لوگوں کو اس کے مسیح ہونے میں شک ہوتا مگر نہیں جس طرح صدہا برس پیشتر (پہلے ہی) سے خبر دی گئی تھی ویسے ہی سب باتیں وقوع میں آئیں او رپیشنگوئی پوری ہوئی اور اس کا مسیح ہونا بخوبی پایہ ثبوت کو پہنچا اور معلوم ہواکہ وہ نہ فقط نبی ہے بلکہ دنیا کا نجات دہندہ اور مسیحا ئی موعود (ودعدہ کیا گیا، اقرر کیا گیا ) ہے۔
۵۔ یہ امر کہ مذہب عیسوی کی صداقت کا پختہ ثبوت معجزات ہیں سو اس کو ہم ثابت کر ینگے کہ مسیح نے اپنی رسالت کی تصدیق کے لیے معجزات کو بڑی دلیل گردانا (ترتیب کے مطابق صحیفوں کا دُہرانا)ہے۔ اور اس کے شاگردوں نے ہمیشہ یہی اشارہ کیا ہے کہ ہمارے ایمان کی جڑ معجزات ہیں۔
۱۔ (تب یہودیوں نے جواب میں اس سے کہا کیا نشان تو ہمیں دکھاتا ہے جو یہ کام کرتا ہے) یسوع نے اپنی موت کی طرف اشارہ کر کے جواب دیا کہ میں اسے تین دن میں کھڑا کر دونگا اس لیے جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو ا س کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اس نے یہ ان سے کہا تھا اور وہ کتاب اور یسوؔع کے کلام پر ایمان لائے۔۱یوحنا ۲ باب ۱۸۔۱۹۔اور ۲۲ آیت ان آیات سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ مسیح نےاپنے جی اُٹھنے کے معجزے کو یہودیوں کے سامنے اپنے قدرت الہیہ رکھنے کا نشان ٹھہرایا جو ایسا کہا۔ دوسرے یہ کہ اس معجزے کے دیکھنے سے بہتیرے اس کی کتاب اور کلام پر ایمان لائے۔
۲۔ مسیح نے یوحنا ۱۵۔باب ۲۴۔آیت میں فرمایا ہے کہ اگر میں نے ان کےبیچ میں یہ کام جو کسی دوسرے نے نہیں کیئے نہ کیئے ہوتے تو ان کا گناہ نہ ہوتا پر اب تو انہوں نے دیکھا اور مجھ سے اور میرے باپ سے دشمنی کی۔ اس سے ثات ہے کہ اگر مسیح یہ کام یعنی معجزات نہ دکھاتا تو لوگ اس کو اچھی طرح نہ جانتے کہ وہ خدا کا بھیجا ہو ا ہے اور یہ گناہ کہ اس کو جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں نہ ہوتا لیکن اب وہ ا سکے کاموں کو دیکھ کر واقف ہو گئے کہ وہ خدا ہے یا یہ کہ خدا اس میں ہے۔
۳۔ پھر مسیح نے یہ فرمایا کہ میری بات کا یقین کرو کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے او رنہیں تو ان کاموں کے سبب مجھ پر ایمان لاؤ۔یوحنا ۱۴ باب ۱۱ آیت۔
۴۔ ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ جب یسوؔع نے ایک پیدائش کے اندھے کو بینا کر دیا تو یہودیوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ کے ساتھ کلام کیا پر ہم نہیں جانتے کہ یہ کہاں کا ہے۔ اس شخص (یعنی جسے) بینا کیا تھااس نے جواب میں انہیں کہا اس میں تعجب (حیرانی) ہے کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کہاں کا ہے اور اس نے میری آنکھیں کھولی ہیں۔ دنیا کے شروع سے سُننے میں نہیں آیا کہ کس نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں یوحنا ۹ باب ۲۹،۳۰، ۳۲۔آیات واقع میں اس شخص نے بڑا معقول (مناسب) جواب دیا کیونکہ اگرچہ ایسا ہے کہ بعض ہوشیار طبیب(ڈاکڑ یا حکیم) آنکھ کی چند بیماریوں کو رفع کر سکتے ہیں تاہم کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے جنم کے اندھے کو اچھا کیا ہو اور اسی سبب سے مسیح کا اس مادر زاد اندھے کو اچھا کر دینا واقع بڑے تعجب کی بات تھی یعنی پختہ دلیل اس بات کی تھی کہ مسیح خدا ہی کی طرف سے آیا ہے۔
۵۔ مسیح نے اس امر کے ثابت کرنے کو کہ مجھے اختیار و قدرت گناہ کے معاف کرنے کا ہےانہیں معجزوں کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ مرقس ۲ باب ۱۰،۱۱ آیت سے ظاہر ہے۔
۶۔ پطرس نے عید فسح کے روز یہودیوں کے سامنے مسیح کی رسالت اور الوہیت کا بیان کر کے فرمایا کہ یسوع ناصری ایک مرد تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر ثابت ہو ا ان معجزوں اور نشانیوں سے جو خدا نے اس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائے جیسا تم آپ بھی جانتے ہو اعمال ۲ باب ۲۲ آیت۔ اب دیکھئے رسول خود کہتا ہے کہ اس کا خدا کی طرف سے ہونا معجزوں سے ثابت ہوا پس صاف ظاہر ہے کہ لوگوں نے معجزوں ہی کے سبب مسیح کو خدا یا کم سے کم خدا کی طرف سے جانا۔
اب کچھ ضرورت معجزات دکھانے کی نہیں ہے۔
۷۔ یہ جاننا چاہیے کہ فقط مسیح نے یا اس کے رسولوں ہی نے کچھ معجزات کو یسوؔع کے خدا ہونے کی دلیل نہیں ٹھہرایا ہے بلکہ یہودیوں کے حاکم نیقودیمس نے جب مسیح سے گفتگو کر نے آیا تھا تو یہ کہا کہ اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا کیونکہ کوئی یہ معجزہ جو تو دکھاتا ہے جب تک کہ خدا اس کے ساتھ نہ ہو نہیں دکھا سکتا ہے۔ یوحنا ۳ باب ۲ آیت۔
دیکھئے نیقودیمس ایک عالم آدمی تھا۔ وہ صاف اقبال کرتا ہے کہ خالص گواہی مسیح کے رسول اور خدا ہونے کی یہی اس کے معجزات ہیں۔ اب ان چند آیتوں سے ہر ایک روشن ضمیر پر صاف ظاہر ہو جائے گا کہ مسیح پر ایمان کی بڑی بنیاد اس کے معجزے تھے۔ انہیں معجزوں سے لوگوں نے جانا کہ وہ حقیقی مسیحا ہے یہی کام پیام او رمرضی الہیٰ ظاہر کرنے کے عمدہ وسیلے ہوئے۔ پس نہ اس سبب سے کہ مسیح نے ان معجزات کو اپنی پاک الوہیت(ربانیت ) کی گواہی ٹھہرایا ہے بلکہ فقط اتنا ہے کہ مسیح کی ذات پاک سے اس کا ظہور ہوا ہے جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں معجزات کی عظمت و ضرورت دین ِ عیسوی کی صداقت کے لیے ثابت کرنے کو کافی ہے۔ کیونکہ ہم ایسا گمان نہیں کر سکتے کہ اس نے یہ کام بےفائدہ کئے ہوں۔ اگر معجزات ضروری نہ ہوتے تو کس لیے کرتا۔
اؔب غور کے لائق ہے کہ یہ جو لوگ اعتراض اکثر کرتے ہیں کہ اگر معجزات مسیح کے وقت میں ضروری تھے تو چاہیے کہ اس وقت میں بھی علی الخصوص غیر قوم کے لوگوں کے لیے ضروری ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس غرض سے معجزات دکھائے گئے تھے اب وہ غرض ہی نہیں رہی اس لیے اب ان کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ غرض یہ تھی کہ خدا کی طرف سے جو کشف و الہام (پردہ اُٹھانا) ہوتے تھے ان کی پُختگی معجزات سے ہو جایا کرتی تھی۔ سو جب تک کشف و الہام (پردہ اُٹھانا)جاری رہا معجزات بھی ہوتے رہے۔ اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا اس لیے معجزات بھی بند ہو گئے۔ خدا کی مرضی بائبل سے اب صاف ظاہر ہوتی ہے اور جو کچھ ہم کو جاننا یا ماننا ضرور ہے وہ سب اس پاک کتاب میں موجود ہے اس لیے کشف و الہام(پردہ اُٹھانا) کی کچھ ضرورت نہیں ہے نہ نشانیوں اور اچنبھوں کے دکھانے کا موقع رہا۔ دوسرے غالب ہے کہ اگر معجزے برابر ہوتے رہتے تو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیونکہ جو لوگ ان معجزات کے جو انجیل میں لکھے ہیں قائل نہیں ہیں وہ نئے معجزوں کے کب قائل ہوتے حالانکہ قطعی ثبوت اس کا موجود ہے کہ معجزے ضرور ایک وقت میں دکھائے گئے تھے مگر بعض لوگ اپنے تعصب اور بے ایمانی اور جوش طبیعت سے اس بات کو نہیں قبول کرتے ہیں اسی طرح اب بھی اگر کوئی معجزہ یا نشان دکھایا جائے تو اسی تعصب اور بے ایمانی کے سبب سے لوگ نہ مانیں تیسرے یہ بات ہے کہ اگر معجزے پُشت در پُشت برابر ہوتے رہتے تو یہ امتیاز (فرق) اُٹھ جاتا کوئی انہیں معجزہ نہ کہتا نہ کسی طرح کا اثر ان میں رہتا۔ کیونکہ پھر تو وہ ایسے ہو جاتے جیسے اور واقعات روز مرہ گُزاراکرتے ہیں خواہ ان کو ہم سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں۔ معجزہ عام قاعدہ سے باہر ہے ( یہ نہیں کہ وہ قاعدہ جس کی رو سے معجزہ ہوتا ہے عام قاعدہ سے باہر ہے) اور اس لیے کہ عام قاعدہ سے باہر ہے یعنی خاص اور اچنبھے(حیرت، تعجب) کی بات ہے ہمارا دل بھی اس کی طرف توجہ کرتا ہے۔اگر روز مرہ ہوا کرتے تو کوئی خیال بھی نہ کرتا۔ چوتھی یہ بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں بہ نسبت زمانہ مسیح روشنی زیادہ پھیل گئی ہے اور پہلے سے اب ایمان لاناآسان تر ہے اور اسی سبب سے بہ نسبت اگلوں کی بہت باتوں میں ہم خدا کی خاص رحمت پاتے ہیں۔ اٹھارہ سو برس سے زیادہ اس مذہب کو پھیلے ہوئے ہو چکے اور ۲۶ کڑوڑ سے زیادہ آدمی ہیں جو مسیح کے نام کو خوب جانتے ہیں۔ پس یہ بات اتنے عرصہ دراز سے اور اتنے بہت سے آدمی دنیا کے اس کو مانتے ہیں معقول (مناسب) گواہی اس بات کی ہے کہ اس نے اپنے زمانے میں معجزات دکھائے۔ جیسے ایک یریہو کے اندھے نے آنکھ کی روشنی پائی تھی یہاں کڑوڑوں نے روحانی روشنی پائی۔ یہ مسیح کے حق میں ایک پختہ گواہی ہے۔ پھر انسانی روحوں کا جی اُٹھنا یہ بھی ایسی ہی گواہی ہے کہ لعزر کے جی اُٹھنے سے مطلق کم نہیں ہے معجزات اب بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتے ہیں۔ اب دل کا حال کِسی ظاہری نشان سے نہیں بلکہ روح القدس کی تاثیر سے بدلتا ہے اور یہ امر کہ بدذات گنہگار لوگ گناہوں کو چھوڑ کر پاک ہو جاتے ہیں اور ناپاکی ایمان سے بدل جاتی ہے قدرت الہیٰ کا عجیب ثبوت ہے اور بہت بڑا معجزہ ہے۔ ایسے معجزے اب بھی دنیا میں جا بجا برابر ہوتے رہتے ہیں۔ معجزات اس امر کی تصدیق کے لیے تھے کہ مسیح گناہوں کے بخشنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ اب وہ تصدیق ہو گئی اور کُل اس کا مضمون قلمبند ہو کر یاد داشت کے لیے ہمارے پاس چھوڑا گیا۔ اور سوا اس کے کڑوڑوں سچے آدمیوں نے بھی گواہی دی اور دیتے ہیں کہ ہاں ہم نے مسیح کے وسیلے گناہوں سے نجات پائی پس اب کچھ ضرورت معجزات دکھانے کی نہ رہی۔ جن سبھوں سے خدا اب معجزہ نہیں دکھاتا وہی سبب سب آدمی کرتے ہیں کہ دنیاوی معاملات میں بھی پائے جاتے ہیں مثلاً فرض کرو کسی سرکاری انجینیر نے ایک عمارت کا اندازہ یا کسی کل کی قوت دریافت کی اور اپنے محکمے کی کسی کتاب میں اس کا سب حال قلمبند کر کے چھوڑ مرا تو اب جوکوئی اس کا جان نشین ہوگا اس کو پہلے حال کے آزمانے یا دریافت کرنے کی کچھ ضرورت نہ ہوگی کیونکہ سب لکھا ہوا موجود ہے۔
یہی حال معجزات عیسویٰ کا ہے۔مسیح کی ذات و صفات و قدرت کی بہت سے مختلف معجزات سے ایک دفعہ بخوبی تمام تصدیق ہو چکی اور وہ سب حالات بحفاظت تمام لکھے ہوئے موجود ہیں۔ پھر از سر تو اس کی تصدیق (جانچ پڑتال) کے متوقع ہونا بڑی حماقت (بے وقوفی) ہے۔ اب میں اس درس کو تمام کیا چاہتا ہوں امید ہے کہ جس قدر باقیں میں نے لکھی ہیں اس سے بخوبی ظاہر ہوا ہوگا کہ معجزات دین ِ عیسوی کی سچائی کی بہت پختہ دلیل ہیں۔
۱۔ یہ بیان کیا گیا ہے کہ معجزہ ایک ایسا فعل ہے کہ طاقت انسانی سے باہر ہے۔ سو اخدا کے یا اس شخص کے جسکو خد نے قدرت بخشی ہو او ر کوئی نہیں معجزہ دکھا سکتا۔
۲۔ یہ ثابت کیا ہے کہ مسیح نے حقیقت میں معجزے دکھائے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ضرور خدا تھا کیونکہ اس نے یہ معجزات اس لیے دکھائے تھے کہ لوگ جانیں کہ اس میں قدرت گناہوں کے بخشنے اور روحوں نجات دینے کی ہے۔ اور چونکہ سوا خدا کے اور کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا تو نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح خدا ہے۔ رسولوں کو معجزہ کرنے کی طاقت خدا سے اس لیےملی تھی کہ لوگ واقف ہو جائیں کہ خدا ان کے ساتھ ہے اور اسی سبب سے مسیح کے حق میں ان کی گواہی اور تعلیمات ضرور سچی ہیں۔ اگر وہ جھوٹے اور عیار(مکار) ہوتے تو خدا یہ اختیار کبھی نہ دیتا۔
۳۔ یہ لکھا ہے کہ معجزات سے مذہب عیسوی کی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔ اس کو کئی وجہوں سے ثابت کیا ہے۔
۱۔ یہ وجہ ہے کہ جو پیشنگوئیاں صدرہابرس پیشتر سے مسیح کی پیدائش اور اس کے کاموں اور موت کے واقعات یعنی جی اٹھنے اور آسما ن پر چڑھنے کے بارے میں ہوئی تھی ان کی تکمیل انہیں معجزات پر موقوف تھی ان پیش خبریوں کو یہودی مانتے تھے۔اس لیے اگر وہ نہ پوری ہوتی یعنی معجزات نہ ظہور میں آتے تو کوئی نہ مان سکتا کہ یہ مسیح وہی شخص ہے جس کی بابت ایسی ایسی پیشنگوئیاں ہوئی تھیں۔
۲۔ یہ ذکر کیا ہے کہ مسیح نے اور اس کے رسولوں نے مسیح کی الوہیت اور رسالت ی تصدیق کے لیے انہیں معجزات کو پیش کیا۔ اگر معجزے ضرور نہ ہوتے یا لوگوں کے یقین دلانے کو کافی نہ سمجھے جاتے تو مسیح یا اس کے رسول اس طرح کیوں پیش کرتے۔
۳۔ اس دفعہ کا یہ مضمون ہے کہ لوگوں نے بھی ا س کے کام دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ وہ خدا ہے۔ چنانچہ ایک یہودی حاکم نیقودیمس نامے کہ عالم بھی تھا جو کچھ کہا ہے یوحنا باب ۳ آیت ۱۔ وغیرہ میں مذکور ہے اس نے دیکھا کہ جو اچنبھے(حیرت، تعجب) کے کام مسیح نے کئے ہیں کوئی آدمی نہیں کر سکتا اور اسی سبب سے اس کو خوب یقین ہو گیا تھا کہ مسیح خدا کی طرف سے ہی یعنی قدت الہیہ رکھتا ہے۔
۴۔ جو لوگ مُنصف مزاج (انصاف کرنے والا) ہیں ضرور جانیں کہ خدا کے مذہب کی تصدیق ان معجزات سے بخوبی عجیب طور سے ہوتی ہے۔ معجزہ خدا کے لائق فعل تھا مناسب نہ تھا کہ قادرِ مطل خدا فلسفانہ کلام یا بحث کرتا۔
اس کے مناسب یہی تھا کہ مالکانہ تصفیہ کر دیتا۔سو اسی سبب سے اس نے اپنے مذہب کو دلائل سے نہیں بلکہ اپنی قدرت کُلّی (سب چیزوں پر قادر) کے افعال سے سچا ظاہر کیا۔ خدا کا کام برحق ہے اس کا ماننا انسان پر فرض ہے۔ خدا کی شان کے مناسب یہی ہے کہ ہم کو ایسے افعال دکھائے جس سے تصدیق ہو جائے کہ تمام مخلوق اس کی مطیع و فرنبردار ہے تاکہ ہم بھی اس کی بندگی پر کمر چست باندھیں سو یہ معجزات خدا نے اسی لیے مقر ر کئے تھے کہ اس کی اطاعت پر ہم سب قائم ہو اور شکوک رفع ہو جائیں اور کسی آدمی کو کسی حال میں گنجائش اعتراض کی رہی۔ اس قسم کی شہادت کشف و الہام (پیغامِ خداوندی سے پردہ اُٹھانا) کی سادگی اور عمومیت کو ظاہر کرتی ہے اور دل پر صحیح اثراس بات کا پہنچاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ بلا شبہ معجزات گویا کہ مہریں کہ خدا نے خود مقرر کی ہے تاکہ لوگوں پر ظاہر ہو کہ عیسیٰ مسیح نجات دہندہ ہے۔ خدا کرے کہ ہم سب مسیح کے عجیب کا موں پر صدق دل سے (سچے دل سے) غور کریں اور جیسی اس کی قدرت و محبت اس کے سب کاموں میں دیکھتی ہیں ویسا ہی خدا کرے کہ ہمارے ایمان کامل ہو جائیں۔ آمین
درس ِدوئم
جھوٹے معجزات کے بیان میں
اس لیے کہ مضمون اس درس کا بخوبی اور صحیح طور پر سمجھ میں آجائے اول صحیح معنی عیسوی معجزات بائبل شریف کے لکھا ہے اس میں ثابت کیا ہے کہ وہ عجیب کام ایسے تھے کہ خود خدا نے یا اس کے خاص لوگوں نے اس کے حکم و قدرت سے دکھائے تھے۔ پہلے درس میں یہ بھی ذکر آچکا ہے کہ ہر حقیقی معجزے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ اس کاسبب اول صرف مرضی و قدرت الہیٰ ہو۔ یہ دو اصول منتج(نتیجہ) اور حاوی اور موضح کُل(واضح کرنے والا) مطالب کے ہیں۔ مثلاً دنیا کے پیدا کرنے کا سبب اوّل صرف یہی تھا کہ اس کی مرضی و قدرت کا تقاضا ہو اکچ دنیا خدا کے قوانین مقررہ کی رو سے نہیں پیدا ہو ئی تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی چیز نہ تھی جس پر کسی قاعدہ کا اثر ہوتا۔ نہ خدا کے کسی نائب (خلیفہ ) نے اسے پیدا کیا کیونکہ اس وقت تک سِوا خدا کے اور کوئی نہ تھا۔ بجز اس کے کہ خود خدا ہی خالق دنیا کا اور کوئی صورت ممکن نہیں۔ اسی نے اپنی قدرت مطلقہ سے تمام جہان کی تاثیرات کو نیست(عدم) سے ہست(زندگی) کیا۔ اورپہلا بڑی معجزہ کتب مقدس کا ہے اور مرضی و قدرت الہیٰ تمام معجزات مندرجہ بائبل کا ضروری سبب ہے سوائے خدا کے اور کسی اس کے ماتحت نے اپنی مرضی وقدرت سے کوئی معجزہ نہیں کیا نہ فطرت کے قوانین مُقررہ سے ہوا۔ اگر برعکس اس کے ظہور میں آتا تو وہ حقیقتاً معجزہ نہیں کہتا۔ پس اس لیے کہ اور مذہب کے لوگوں کے عجیب کاموں اور معجزات کتب مقدسہ میں فرق ہوجائے کتب مقدسہ کے معجزات کو معجزات الہیہ کہنا اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ معجزات خدا کی مرضی قدرت کے نتائج تھے او راس لیے تھے کہ معلوم ہو جائے کہ جس نے انہیں دکھایا وہ خدا ہے اور وہ معجزہ جو نبیوں اور رسولوں نے کیا سو وہ خدا کی طرف سے ا س کی شریعت کے مُشہتر کرنے یا اس کی مرضی ظاہر کرنے کو کیا ہے جیسے کوئی سفیر(ایلچی، قاصد) کسی عدالت ملک غیر میں اپنے عہدہ کی تصدیق کے لیے اسناد پیش کری جِس سے ظاہر ہے کہ اس کو اس سرکار کی طرف سے مرضی ظاہر کرنے کو کیا ہے جیسے کوئی سفیر (ایلچی، قاصد) کسی عدالت ملک غیر میں اپنے عہدہ کی تصدیق کے لیے اسناد پیش کردی۔ جِس سے ظاہر ہو کہ اس کو اس سرکار کی طرف سے مرضی ظاہر کرنے کا اختیار ہے جس کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک سچے معجزے اور عجیب کام جس قدر نوشتوں سے معلوم ہوتے ہیں یا جس قدر سُننے میں آئے ہیں ان کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ تا وقت یہ کہ بخوبی ثابت نہ ہو جائے کہ خد کی خاص قدرت وغیرہ سے ہوا اسے معجزہ نہیں کہیں گے۔ چاہے وہ کیسا ہی بڑا اور عجیب کام کیوں نہ ہو مگر بموجب ٹھیک معنی کے اسے معجزہ نہیں کہا جائے گا۔ مثلاً سورج کا بالکل گہن ہو جانا عجیب ہے اور ناواقف لوگ اس کا سبب نہ جاننے سے اسے معجزہ خیال کرتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ معجزہ نہیں ہے وہ تو صرف زمین اور آفتاب کے درمیان کسی سیارہ کے حائل ہونے سے ہوتا ہے خدا کی کسی مرضی خاص یہ حکم سے نہیں ہوتا۔ امور فطری گو عالموں کے نزدیک وہ کیسے ہی سہل اور سیدھے سادھے ہوں مگر جہاں اس کو معجزہ سمجھتے ہیں مثلاً جب کولمبس کے جہاز پہلے پہل امریکہ میں پہنچے تو وہاں کے اصلی وحشی باشندوں نے یہ جانا کہ یہ کوئی نہایت بڑے آسمانی پرندے ہیں۔ یہ وحشی بےچارے بے شک بڑے خوف زدہ ہوئے او رکچھ بعید(چھپا) نہیں جو انہوں نے سمجھا ہو کہ یہ پرندے جو عالم ِروحانی سے آئے ہیں ہمیں ایسے ہی ہلاک کر دینگے جیسے عقاب چھوٹے جانوروں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ اوائل زمانہ میں(پہلے کے زمانہ میں ) جب لوگ قوانین فطری سے واقف نہ تھے تو ہر نئی بات یا نئے علمی قاعدوں کو معجزہ جان لیا کرتے تھے کہ۔۔۔آدمی یہ سمجھتے ہیں کہ شہاب کا گرِنا اور خوفناک طوفان اور آگ کے پہاڑ جن کو آتش فشا ں کہتے ہیں اس کا پھٹنا اور جادو گری وغیرہ ا ز قسم معجزات ہیں۔ لیکن علم کی ترقی نے اس لغو (بیہودہ، نامعقول)اعتقاد کو دنیا سے دور کر دیا ہے صرف جاہل کفار ایسی باتوں پر اعتقاد (بھروسہ) رکھتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عنقریب (نزدیک ) تمام غیر قوموں کی پوجا کی رسمیں وہی آدمیوں کے اس اعتقادپر مبنی ہیں کہ شہاب ثاقب اور سورج گہن وغیرہ باتین از قسم معجزہ ہیں اور عام بیماریاں اور دنیاوی تکالیف بدروحوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بہتیرے ہندو جو تعلیم یا فتہ نہیں ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ برہمن اپنے دیوتاؤں کے مدد سے کسوف و خسوف(سورج اور چاند کا گرہن) کے اوقات اور چاند کے تغیرات (تبدیلی) بتا دیتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہندوؤں کے گنگا نہانے کے بڑے میلہ میں میرا اتفاق بھی جانے کا ہوا۔ میں نے پیتل کی چند مورتیں وہاں خریدیں اور بہت سی بھیڑ جو میرےآس پاس کھڑی تھی اس سے میں نے پوچھا کہ کیا سبب ہے کہ اس کثرت سے لوگو بےوقوفانہ ایسی بے جان کردہ کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ ایک جوان آدمی نے جو اس وقت موجود تھا بڑی جُرات او رسر گرمی سے یہ جواب دیا کہ مورتیں ہمارے دیوتا ہیں اور وہ عجیب عجیب کام کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے پنڈتوں کو یہ دیوتے سارا حال چاند اور سورج کے گہن کا اور وہ گھڑی تک جس وقت چاند پورا ہوتا ہے بتادیتے ہیں مگر آپ پادری صاحبان ایسی باتیں اپنے خدا کی طرف سے نہیں بتا سکتے۔ایک ہندو جوان بریلی کا لج کا تعلیم یافتہ اتفاق سے آگیا تھا وہ اپنے ہندو بھائی کی باتیں سن کر بہت ہنسا اور اس سے کہنے گا کہ ٹھیک وقت چاند اور سورج کے گہن کا بتانا تو ایک طرف رہا یہ لوگ سونے کو پانی اور پانی کو سونا کر دیتے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں ایسے ایسے عجیب کام جانتے ہیں کہ پنڈتوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے ہونگے بےچارہ جاہل ہندو اپنے بھائی سے ہم لوگوں کی بہت سی عجیب باتیں سن کر مُتعجب(حیران) ہوا اور پھر کچھ نہ بولا۔ اس ایک مثال سے ظاہر ہے کہ وہمی اور جاہل لوگ فریبی پنڈتوں کے دام میں آکر دنیا کی عام و سادہ باتوں کو بھی معجزات سمجھنے لگتے ہیں تمام شاگرد اور بازیگر وغیرہ جو اپنے ہاتھوں کی چالاکی سے نئے نئے سوانگ(کھیل، تماشے) دکھاتے ہیں لوگ کیسی آسانی سے ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں چونکہ عوام الناس جاہلوں کی سمجھ میں بازیگروں وغیرہ کی باتیں نہیں آتیں وہ ان کو معجزہ یا کرامات سمجھنے لگتے ہیں ۔ سوائے ان لوگوں کے جو بائبل کے معجزات کو مانتے ہیں دنیا کے سب مذہب والوں نے دعوے معجزہ دکھانے کے لیے ہیں۔ موسیٰ او رہارون ہی کے وقت میں مصر میں یہ کیفیت تھی کہ جادوگر دعویٰ کرتے تھے کہ ہم کو بھی نبیوں کے برابر جو خدا کی مدد سے معجزہ دکھاتی ہیں معجزہ کہلانے کی قدرت ہے۔ (خروج ۷ باب ۱۱۔ ۲۲ باب ۷تا ۸) بائبل کی بہت اور جگہوں میں جادوگروں وغیرہ کا اس طرح ذکر آیا ہے کہ دنیا کی تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں باطل معبودوں کے پوجنے والوں نے دعوے کئے ہیں کہ ہم کو معجزہ دکھانے کی قدرت ہے۔ بہتیری پرانی قوموں کی تاریخوں میں سینکڑوں ہزاروں عجیب باتیں ایسی ہیں جن کو اس وقت کے لوگ معجزہ جانتے تھے۔ مثلاً فیثا غورث کی تاریخ جس کو فار فری اور ایلی خوس نے لکھا ہے اور لیوی کی تاریخ کے واقعات اور زمانہ بہادری کے جھوٹے قصےّ اور تمام یونانیوں اور رومیوں کے عجیب عجیب بناوٹ کے قصےّ اور تمام افریقہ اور چین اور جاپان اور ہندوستان کے لوگ اور تمام دنیا کی بت پرست قومیں جو آج کل پائی جاتی ہیں سب قدرت معجزات کا دعویٰ کرتی اور عتقاد رکھتی ہیں۔ بےشمار عجیب کام جن کا ذکر اوپرآچکا ہے اور جن کی نسبت لوگوں کا دعویٰ ہے کہ دیوتاؤں کی مدد سے اور روحوں اور بھوتوں کے وسیلہ سے ہوئے ان میں سے چند کا ذکر اس مقام پر بطریق(پادریوں کا سردار) مُشتے نمونہ از خروارے(ڈھیر میں سے مٹھی بھر) کیا جاتا ہے۔
اول۔ زحل اور اس کی بیوی آپس کے بیٹے مشتری(خریدار، مول لینے والا) کو پُرانے بُت پرست بہت بڑا دیوتا جانتے تھے اور ایسا سمجھتے تھے کہ وہ جزیرہ کریٹ یعنی کینڈا میں پیدا ہوا تھا اور وہاں ہی ترتیب پائی۔ اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس نے بڑی لڑائی لڑکے سر کش دیوؤں کی ایک فوج کو جس نے اس پر پہاڑ کی چٹانیں پھینک ماری تھیں اور آسمان کی راہ بند کرنے کو پہاڑ کھڑے کر دئیے تھے شکست فاش دی۔ کہتے ہیں کہ اس کے دماغ سے ایک لڑکی منردا نام پیدا ہوئی تھی اور وہ لڑکی مشتری کے سر سے پوری عمر کے اور ہتھیار بند(ہتھیار لگائے ہوئے ) پیدا ہوئی تھی۔
دوئم۔ یہ منردا دیوتا تھی اور تمام دنیا اسے پوجا کرتی تھی ایک دفعہ ا س کے باپ نے کہا کہ بنی اآدم کے لیے جو سب سے عمدہ چیز پیدا کرے وہ انعام پائے گا۔ اس پر منردا اور نیپچون میں بحث ہوئی کہتی ہیں کہ نیپچون نے اپنا ترشول ( ایک طرح کا ڈنڈا) جوچلایا تو گھوڑا پیدا ہو گی اور منروا نے اپنی قدرت سے زیتون پیدا کر دیا اور منردا نے انعام حاصل کیا۔
سوئم۔ مشتری (ایک ستارہ کا نام جو چھٹے آسمان پر ہے اور سعدِ اکبرسمجھا جاتا ہے)کے بیٹے عطارد کی نسبت لکھا ہے کہ اپنی پیدائش کے دوسرے روز ہی اس نے اومیئس کے اگلےّ چوراہے اسی نے دیوتا نیپچون کا ترشول اور وینس کے بیٹے مریخ کی تلوار اور اپنے باپ مُشتری کا عصا (لاٹھی ) چھین لیا اسی سبب سے اسے چوروں اور تمام بے ایمانوں کا خدا کہتے ہیں جنہوں نے اسے بڑی بڑی نذریں چڑھائی تھیں تاکہ اپنے بُرے کاموں میں اس سےمدد حاصل کریں۔ یونانیوں اور رومیوں کے معجزات کا بیان کرنے کے بعد اب چند اسی قسم کے معجزات ہندوؤں کی کتابوں سے یہاں لکھے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اِندر نے جس کی نسبت پرانوں میں لکھا ہے کہ بہشت کامالک اور تمام معبودوں کا بادشاہ تھا ساگرنامی سے وہ گھوڑا جسے وہ ۹۹ دفعہ قربانی کر چکا تھا اور چاہتا تھا کہ پھر اسی کی قربانی کر ے چُرا لیا۔ ایک روز اِندر گوتم کے مکان کے پاس ہو کر جو گُذرا اور دیکھا کہ وہ اس وقت گھر نہیں ہے تو ا س کا بھیس بدل کر مکان کے اندر گیا اور اس کی بیوی ابلہ کو دھوکا دے کر کہ میں گوتم ہوں زنا کیا۔ اس قصور کے عوض گوتم نے اور سزاؤں کے علاوہ بدنامی کے ایک ہزار داغ اِندر کے لگائے۔ لیکن اسے یہ امر ناگوار گذرا اس لیے اس نے ان ایک ہزار داغوں کی ایک ہزار آنکھ اپنے لیے بنالی۔
راون نے گداگر برہمن کا بھیس بنا کر سیتا سے درخواست کی کہ میرے ساتھ ہو مگر جب اس نے نامنظور کیا تو ان اپنی اصل صورت پر ہو کے اسے لنکا اڑا لے گیا۔
تیسرے کہتے ہیں کہ جب ایک بڑے دیوتا اگست پرالوال نے اس لیے چڑھائی کی کہ اس نے اس کے بھائی و تاپی کو کھا لیا تھا تو اس دیوتے نے ایسا کیا کہ الوال کی آنکھوں سے آگ کے شعلے نکلنے لگے جس سے وہ فوراً جل کر مر گیا۔ کہتے ہیں کہ اگست تین گھونٹ میں سارا سمندر کا پانی جو شیریں (میٹھا) تھا پی گیا اور پھر جو اسے اُگلا تو آب شور(کھاراپانی ، سمندر کا نمکین پانی ) تھا۔کہتے ہیں کہ یہ عجیب دیوتا بہشت کے مالک نہ ہوش پربہت غصہّ ہواکیونکہ ا س نے اس کی ایک کاکُل کھُول ڈای تھی اور ایک آن میں اس کو سانپ بنا دیا۔
چوتھے۔ دیوتے اسون جو صبح کے وقت آسمانوں کی روشنی پہنچاتےاور بد روحوں کو دور کرتے ہیں ان کی پوجا ہندوؤں میں بڑی سرگرمی سے ہوتی ہے کہتے ہیں کہ وہ جوان اور قدیم (پُرانی) اور خوبصورت اور شہد کے سے رنگ اور شعلوں اور روشنی اور نور کے مالک خیال کےروبرو جوان باز کی طرح سُبک(ہلکا،کم وزن) رفتار طرح بہ طرح کی صورت والے کنول کے پھولوں کے ہار پہنے ہوئے مضبوط قوت والے خوفناک عجیب قوتوں کے مالک اور بڑے دقیقہ(کوئی بہت چھوٹی چیز، معمولی بات ) رس عقلمند ہیں۔ رگوید میں لکھا ہے کہ جب چھپاون دیوتا بہت بوڑھا ہو گیا او راس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس دنوں اس کے جسم کو طاقت دی او رعمر بڑھا دی اور دوبارہ جوانی بخشی۔ اسی طرح کالی کو بھی انہوں نے دوبارہ جوانی دی۔ اور وسپال کی ٹانگ پرندے کے بازو کی طرح بالکل ٹوٹ پڑی تو انہوں نے لوہے کی ٹانگ معجزے سے بنا دی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک اندھی اور لنگڑے پر اجر بدمعاش کو بصارت (نظر) اور چلنے کی قدرت دی تھی۔یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے بھیڑیے کے منہ سے ایک پرندے کو جس نے انہیں مدد کے لیے پکارا تھا چھڑا لیا۔ کہتے ہیں کہ جس کا رتھ میدان ِجنگ میں لے جائیں اسے کوئی بلا نہیں ستاتی یا کسی طرح کا نقصان نہیں ہو سکتا۔
پانچویں۔ سُدھان کے بیٹوں یعنی برہیوں نے اپنی کاریگری سے خدا کے ہاں سے مرتبہ اور بقا پائی۔ لکھا ہے کہ انہوں نے قربانی کے ایک پیالہ کے چار پیالہ برابر مقدار ووزن کے بنا دئیے تھے۔ اس کام سے اور نیز اس سبب سے کہ انہوں نے اِندرکارتھ اور گھوڑے بنائے اور اپنے والدین کو جوان کر دیا تھا وہ دیوتا ہو گئے۔
چھٹے۔ دیا کے اوتار ہنومان یعنی بندروں کے بادشاہ سگریو کے (چیف جنرل خاص) کی نسبت اس طرح روایت ہے کہ وہ آپ کو اس قدر پھیلا سکتا تھا کہ پہاڑ کی برابر ہو جاتا تھا اور اس قدر گھٹا سکتا تھا کہ آدمی کے انگوٹھی کی برابر رہ جاتا تھا۔ جب راون رام کی بیوی سیتا کو لنکا چُرا لے گیا اور رام کو خبر ہوئی تو اس نے ایک جست(دلیل، بحث) میں کئی سوکوس (کئی میِلوں کی ) مسافت (دُوری) کو کہ ہندوستان کے کنارے سے جزیرہ تک سے طے کر کے سیتا کے لیے راون سے لڑائی شروع کی اور جب لڑائی کے ہنگامے میں رام کے خاص خاص سردار۔ ان کے بیٹے کی ساحرانہ(جادوگری کی مانند) ہتھیار وں سےسخت زخمی ہوئے تو ہنو مان فوراً ہمالیہ پہاڑوں پر دوا کے چار پیڑوں کے لیےجن سے مردوں کا جیسا اور زخمیوں کا اچھا ہونا یقینی تھا پہنچا۔ پیڑوں نے جب دیکھا کہ ہنومان آتا ہے تو فوراً غائب ہو گئے۔ اس پر ہنومان ایسا غصّہ ہوا کہ ایک آن میں اس نے سارا پہاڑ پھاڑ ڈالا اور سب درخت اور جو جو چیزیں اس پر تھیں رام کے لشکر میں لے گیا اور جتنے مردے اور زخمی تھے ان پیڑوں کی خوشبو پاکر فوراً بھلے چنگے ہو گئے۔
ایک اور قصہ اس کی نسبت اس طرح لکھی ہے کہ جب لکشمی شدت سے بیمار ہوئی تو اس کی دوا کے لیے مہیو شادی کے پیڑ جو گندہ میدان پہاڑ ہوتے تھے ڈھونڈنے گیا اثنائے راہ میں کال نیم سے بیویوں کی طرف سے اس کے قتل کو نکلا تھا بڑا مقابلہ ہوا اور اسے اور تیس ہزار گند ہوئی دیوتاؤں کو جو اس پر حملہ آور ہوئے تھے مار کر پہاڑ پر پہنچا لیکن جب وہ درخت نہ پایا تو فوراً سارے پہاڑ کو مع پتھروں اور معدنیات اور جنگلوں اور شیروں اور ہاتھیوں اور بھیڑیوں کے یعنی جو کچھ پہاڑ پر تھا سب کو شوشینا حکیم کے روبرو لا کر کے حاضر کیا۔ حکیم نے فوراً درخت کو پہچان کر لکشمی کو اس سے اچھا کر دیا اس مقام پر اور زیادہ ایسے ایسے معجزات کے بیا کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہزاروں معجزات مندرجہ کتب ہنود(ہندو کی جمع) میں عنقریب سب ایسے ہی وحشیانہ اور لغو (بیہودہ، نامعقول)باتوں سے بھرے ہیں۔ جس قدریہاں بیان ہوئے ان سے کل باطن معجزات ہنود کو قیاس(جانچ لگانا، اندازہ) کر لینا چاہیے۔بعض معجزات ہندوؤں کی کتابوں میں سے ایسے بھی اس جگہ لکھ سکتا تھا کہ چندان میں لغو (بیہودہ، نامعقول)نہ ہوتے مگر ان کے مقابلہ میں بعض ایسے بھی ہیں کہ مذکورہ معجزوں سے بھی زیادہ لغو ہیں۔
اب میں اس مقام پر چند ایسے معجزات جن کی نسبت محمدیوں کا دعویٰ ہے کہ ہمارے مذہب کے بانی نے دکھائے تھے بطریق اختصار(کوتاہی، کمی) لکھتا ہوں۔بمقابلہ ہندوؤں کے عجیب قصوں کے جو قبل ازیں مذکور ہوئے اور عجیب کا موں کے جو ان کی کتابوں میں لکھی ہیں مسلمانوں کی کتابوں میں سے ویسے بیانات بہت تھوڑے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں نے یہاں کی بعض معجزات ہندوؤں ہی کی طرح نامعقول ہیں۔مثلاً حدیثوں میں محمد صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ انکو خدا سے اس قدر قربت حاصل تھی کہ دنیا کی سب چیزیں پتھر اور درخت اور پہاڑ اور وحشی جانور انہیں سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ فرشتے بہشت سے اس کے لیے لذیز کھانے اور پھل لاتے تھے اور خدا کی رحمت آپ پراس قدر تھی کہ ابر(بادل، گھٹا) آپ پر سایہ کئے رہتا تھا۔
اگر پانچویں امام اِبنِ جعفر کے معجزات لکھے جائیں تو بہت بڑی کتاب ہو جائے ان کے خلیفوں نے بھی کچھ ان سے کم اچنبھے(حیرت، تعجب) نہیں کئے کہتے ہیں کہ نویں امام ایک رات میں سوریہ سے مکّہ تک گئے اور لوٹ آئے اور جب لوگوں نے جان کر قید کیا تو قید خانے سے باوجود یہ کہ سپاہیوں کا پہرہ تھا غائب ہو گئی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ بارہویں یعنی آخری امام ۱۱ برس کی عمر سے غائب ہیں اور اب تک کسی پوشیدہ (چھپی ہوئی) جگہ میں ہیں جہاں سے ضرورت کے وقت یعنی جب کبھی کسی چیز کی احتیاج(ضرورت، خواہش) ہوتی ہے تو اپنے ایلچی مومنین کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ وقت مقّررہ پر پھر ان کا ظہور ہوگا تاکہ اپنے دین کو قائم اور کفارہ کو غارت (تباہ) کریں لیکن چونکہ بہت سے مسلمان حدیثوں کو مشکوک (شک کرنا ) جانتے ہیں اس لیے ان کو چھوڑ کے ان معجزات کا بیان کرونگا جن کی نسبت بعض مصنفین کا دعویٰ ہے کہ خود قراں(نزدیکی، قربت) میں پائی جاتی ہیں ایسے معجزے صرف۔۔۔ ہیں۔
پہلا معجزہ۔ سورۃ بقر میں ہے۔ اس میں دعویٰ کیا ہے اگر تم سچے ہو تو دکھاؤ۔ ان کنتم فی ری مماتر لناعلے عبدنافا تو بسورۃ من مثلہً یعنی اگر تم شک میں ہو اس چیز سے کہ نازل کی ہم نے اپنے بندے پر تو ایک سورۃ ہی اس کی مانند بنا لاؤ۔ پھر سورۃ بنی اسرائیل میں ہے۔۔۔۔۔۔۔عربی۔۔۔۔۔ یعنی اگر آدمی اور جن جمع ہو کر ایک دوسرے کی مدد کریں تو بھی اس قرا ٓن کی برابر نہ بنا سکے۔
دوسرا معجزہ۔ سورۃ عشق القمر میں ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت قریب ہے اور چاند پھٹ گیا۔
تیؔسرا معجزہ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی پاک ہے وہ خدا جو اپنے بندے کو مکہ سے بیت المقدس یعنی یروشلم تک لے گیا۔
چوتھا معجزہ۔ سورۃ احزاب میں ہے۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یا دکر و خدا کی نعمت جب کہ آیا تمہارے پاس لشکر بھیج دئیے ہم نے ہوا اور ایسا لشکر کہ تم نے ا س
پانچواں معجزہ۔ سورۃ انفال میں ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی تو نے نہیں پھینکی (یعنی خاک) جب پھینکی مگر خدا نے پھینکی( جس سے کافراندھے ہوگئے)۔
تمام مذاہب جن میں لوگ بھوتوں کی پوجا کرتے ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو بھوتوں کے وسیلہ سے معجزہ دکھانے کا دعویٰ کرتے اور اس کو حقیقی معجزہ سمجھتے ہیں لیکن اس میں کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بُت پرستوں میں جتنوں نے معجزہ کرنے کا بہانہ کیا ہے وہ سب مذہبی جوش سے دیوانوں کی مانند تھے۔ وہی مکار (فریبی اور دھوکہ باز) تھے۔
انہوں نے جاہلوں اور بیوقوفوں کو جھوٹھے معجزوں سے دھوکھا دیا۔ ۲ تھسالینکیوں۲ باب ۹۔ آیت متی ۲۴ باب ۲۴ آیت۔ کیونکہ جُھوٹے مسِیح اور جُھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اَیسے بڑے نِشان اور عجِیب کام دِکھائیں گے کہ اگر مُمکِن ہو تو برگُزِیدوں کو بھی گُمراہ کر لیں۔
اور بہتیرے مسیحی معجزات کے ساتھ جھوٹھی نشانیاں ایسی ملا دی ہیں کہ مسیح کے حقیقی معجزوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں ہے۔ یہ شریر مکار وہم پرست لوگ نہ صرف بُت پرستوں میں گذرے ہیں۔ بلکہ عیسائیوں میں خاص کر رومن کتھولک میں گذرے ہیں۔ عیار (فریبی) لوگ کمزور نادان عیسائیوں کو ایسے ایسے عجیب کام دکھاتے تھے جو ان کی سمجھ میں نہیں آتے تھے جس سے وہ دھوکے میں آکر ان کو بڑا بزرگ اور واجب الاطاعت جاننے لگتے تھے۔
۱۔ قدیم کلیسا کی تواریخ میں لکھا ہے کہ بزرگ اسٹفن صاحب جو بہت مدت قبل اس واقعہ کے یہودیوں کے ہاتھ سے سنگسار ہو چکا تھا اس کی لاش نے بہت لوگوں کے عارضہ دور کئے۔ پُرانی کلیسیا کے بہت بڑے قابل اور پرہیز گار بزرگ اگسٹن صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ میرے ضلع ہپو میں بزرگ موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) کی لاش نے قریب ستر معجزات کے دکھائے اور صوبہ کلارمیں جہاں اس کا جسم مبارک تھا اس کے معجزات ستر سے بہت زیادہ تھے۔
۲۔مصنف مذکور نے بہت اور معجزوں کا بیان کیا ہے جو پروٹیسٹنٹ شہیدوں نے کئے تھے جن کی لاشیں امبروسانے قریب ملان کے پائی تھیں۔ مصنف مذکور لکھتے ہیں کہ اس نے اپنے رومال کے مس کرنے سے ایک نابینا کو بینائی دی صاحب موصوف (وہ جس کی تعریف ک جائے)نے ایک فہرست ان واقعات کی جن کو وہ معجزات سمجھتی ہیں۔لکھی ہے اور کہتے ہیں کہ میں نے اتنی کتابوں سے یہ معجزات اخذ کئے ہیں اگر ان سب کا نام لکھا جائے تو بہت کتایبں بن جائیں۔
۳۔ رومن کلیسیا کے بہت سے معجزات میں سے ایک معجزہ کرنل ڈی رٹر صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ ایک شخص کی ٹانگ بالکل کٹ گئی تھی۔ میں نے اس کو سار گورسا کی کلیسیا واقع ملک اسپین میں دیکھا کہ پاک تیل اس ٹھونٹ پر لگانے سے اس کی ٹانگ جیسی کی تیسی ہو گئی۔
۴۔ا س کی کلیسیا کے معجزات میں ایک معجزہ ای ڈی پیرس ایک مالدار اور سرگرم فرانسیسی جانسنی کی قبر کی نسبت لکھاہے کہتے ہیں کہ یہ مالدار آدمی تمام اپنی آمدنی غریبوں کو دیتا اور آ کے پھٹے کپڑے پہنتا تھا۔ زمین پر سوتا چھوٹے اناج کی روکھی روٹی اور اُبلی ترکاری کھاتا اور پانی پیتا اور نفس کُشی اور لاغری جسم کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتا۔ جب مئی۱۷۲۷ کو اس نے انتقال کیا اس طرف داروں نے اسے پیر بنایا اور کہا کہ اس کی قبر پر بہت سے معجزات ہوئے۔ اور سینکڑوں ہزاروں بیماروں میں سے جو وہاں گئے کئی نے شفا پائی۔ رومن کیتھولک کی کلیسیا کا یہ دعویٰ ہے کہ آج تک معجزات ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت جگہوں میں معجزوں کے نشان اب تک ہیں۔
لکھا ہے کہ بزرگ جنوریس کا خون بوتلوں میں شہر نپلس کے ایک گرجا گھر میں رکھا رہتا ہے۔ جب کہ خاص موقعوں پر وہ خون بزرگ موصوف کے سر کےقریب لایا جاتا ہے تو پگھلنے لگتا ہے۔ ان لوگوں کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بزرگ جنوریس جو مقام بنیو نٹو کا بشپ تھا ۳۰۵ میں مقتول ہوا۔ اور ایک دیندار عورت نے مقتل سے اس کا خون دو بوتلوں میں جمع کر کے شہر نپلس کے بشپ کو دے دیا۔ اس مقام پر سال میں تین میلے ہوتےہیں جن میں بڑا میلہ ۱۹ ستمبر کو بزرگ موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) کی شہادت کے روز ہوتا ہے۔ جب کوئی مصیبت یا خطرہ وہاں کے لوگوں کو پیش آتا ہے مثلاًزلزلہ وغیرہ تو لوگ جمع ہو کر خون کی بوتلیں اور گرجے کی بڑی قربان گاہ کو لے جاتے ہیں اور وہاں نماز پڑھ کے خون کی بوتلیں سر کے پاس لا کے رکھتے ہیں تو خون پتلا ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ لوگوں کو دکھایا جاتاہے تا ان کا اعتقاد و مذہب رومن کتھولک اور اس کے پادریوں پر بڑہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت دیر تک خون نہیں پگھلتا بلکہ بعض اوقات بالکل نہیں پگھلتا ہے خون کا نہ پگھلنا لوگ بُری علامت جانتے ہیں اور جب کبھی اس باطل معجزہ کے ہونے میں وقت معمولی سے دیر ہوتی ہے تو تمام جماعت میں ہل چل پڑ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ دیر کا ہونا شہر اور شہریوں کے لیے شگون بد (کچھ غلط ہونے کی علامت) ہے۔ سال میں کئی مرتبہ خون کی بوتلیں باہر نکالی جاتی ہیں خصوصاً ماہ ِ مئی کے پہلے اتوار کو یا جب کبھی کوئی مصیبت پیش آئے۔
عملِ مسمر نیرم کا ذکر اور اس کی تعریف
بت پرستوں اور محمدیوں اوررومن کتھولکوں کے معجزات باطلہ کے بیان کے بعد چند اور افعال عجیبہ کا ذکر مثلاً مسمر نیرم اور اسپر ٹسم یعنی وہ کام جس کو لوگ بتاتے ہیں کہ مُردوں کو روحوں کی مدد سے ہوتاہے جو آج کل امریکہ اور یورپ وغیرہ کے لوگ کیا کرتے ہیں اس مقام پر خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
اول۔ مسمر نیرم ایک فرضی تاثیر یعنی ایک عمل ہے جس سے ایک شخص بذریعہ حرکات عجیبہ دوسرے کے جسم پر کچھ اثر پہنچاکر اس کے خیالات اور اس کے افعال پر قادر ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فرضی تاثیر کو قوت مقناطیسی سے جو پتھر اور لوہے میں ہوتی ہے کچھ مناسبت ہے اسی لحاظ سے اس کو اکثر مقنا طیس حیوانی بھی کہتے ہیں۔ مسمر نیرم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ موجد اس کا انتھنی مسمر نامے تھا۔ یہ شخص ملک آسٹریا میں ۱۷۳۳ میں پیدا ہوا تھا او ر ۱۷۶۶ میں شہر دنیا کی دار التعلیم میں طبیبوں میں بھرتی ہوگیا۔ اور ۱۷۷۳ میں جب معالج قوتیں مقناطیس ی دریافت کرتاتھا تو اس کو یہ معلو م ہو اکہ قوت مقناطیسی کی طرح ایک قوت حیوانی بھی ہے جو جسم انسانی پر عجیب تاثیر سے عمل کرتی ہے۔ چنانچہ ۱۷۷۵ میں اس نے یہ اختراع(نئی بات نکالنا، ایجاد کرنا ) اور اس کے فائدے کی ساری کیفیت کہ ڈاکڑوں کے بہت کار آمد ہے مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) کی رکھتے ہیں کہ اس نے شہر پیرس میں اسی عمل سے صدہا بیماریوں کو اچھا کیا اور اب بڑا دولتمند ہو گیا۔ مسمؔر صاحب یہ کام چند اوزار دن سے کیا کرتا تھا لیکن جب سے اس نے اس کام کو چھوڑا تب سے لوگ اور طریق(طریقہ کار) عمل کرنے لگے۔ وہ طریق یہ ہے کہ عامل اپنے ہاتھ معمول کے سر سے نیچے تک اُتار کر اپنا اثر پہنچا تا ہے یا عامل کی نگاہ سے معمول اپنی نگاہ لڑاتا ہے تو اثر پہنچتا ہے۔ لیکن معمول اس کا یہی ہے کہ عامل ومعمول دونوں مقابل بیٹھتے ہیں اور عامل اپنے ہاتھوں سے معمول کے دونوں ہاتھ پکڑ لیتا ہے اس طرح کہ انگوٹھے برابر رہتے ہیں اسی حال میں دس پانچ منٹ برابر یا جب تک کچھ اثر پیدا ہو خاموش بیٹھتے رہتے ہیں۔ پھر عامل اپنے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ہاتھ کھول کر اور انگلیاں پھیلا کر سر سے پاؤں تک آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کو اُتارتا ہے اور جب نیچے سے اوپر کر ہاتھ لے جاتا ہے تو ان کو دورکھتا ہے اوپر سے نیچے کو ہاتھ لاتا ہے تو انگلیوں کے سرے مریض کے جِسم سے کوئی ایک انچ جُدا رہتے ہیں۔ اس طرح دس بارہ مرتبہ چڑھاؤ اُتار کرنے سے معمول حال غنودگی(نیم ہوش میں ہونا) میں آجاتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عامل اپنا خیال اثنائے عمل میں ہمہ تن مریض کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور آہستہ آہستہ عمل کر تا رہتا ہے یہاں تک کہ معمول نشہ کی کیفیت یا نیند سی طاری ہو جاتی ہے۔ مریض کو ضرور ہے کہ اثنائے عمل میں خاموش اور بے حِس و حرکت (بنا حرکت کئے) رہے اور بالطبع اس عمل کو قبول کرنا چاہیے۔ اس طری سے بعض اشخاص ِ عامل کے قبضہ قدرت میں پانچ لمحے میں اور بعض اس سے بھی کم عرصہ میں اس قدر آجاتے ہیں کہ وہی تصور باندھتے اور وہی باتیں کہتے اور وہی فعل کرتے جو عامل چاہتاہے۔ بعض کی طبیعت ایسی بھی ہوتی ہے کہ کئی دن تک گھنٹوں ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ تو متاثر ہوتے ہیں۔ مگر جس پر ایک دفعہ عمل ہو جاتاہے پھر دوسری مرتبہ اس پر سہل (آسان ) ہو جاتاہے ہر مرتبہ عامل کی قوت عاملہ اور معمول کی قوت معمولی بڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ جو معمول ابتدا میں گھنٹوں میں زیر ہو پاتے ہیں وہ آخر یں چند لمحوں میں متاثر ہو سکتے ہیں اور وہ بھی عامل کے صرف ہاتھ پھیلانے یا نگاہ کرنے یا صرف ارادہ ہی ہے۔
ان کا دعویٰ یہ ہے کہ عامل کے ذہ میں یہ قوت ہے کہ معمول پر قادر ہو جاتا ہے جیسے بڑا ٹکڑا مقناطیس کو چھوٹے کو اپنی کو طرف کھینچتا ہے۔ بعض اوقات اس طرح عمل کیا جاتاہے کہ معمول کے ہاتھوں میں روپیہ دے دیا جاتاہے جس پر وہ غور سے کچھ دیر تک نظر ڈالتا ہے تو نیند آجاتی ہے اس مقناطیس حیوانی کی تاثیر سے جو جو کیفیات طارہی ہوتی ہیں ایسے مختلف ہیں۔جیسے ان کے عمل کے طریقے جُدا جُدا ہیں۔
حالت خواب ِ بیداری میں مریض کیفیت ذہنی بتا دیتا ہے۔
مسمرنیرم والوں کا دعویٰ ہے کہ ایک طریقہ عمل کا جسے خواب بیداری کہتے ہیں ایسا ہے کہ اس کے ذریعہ سے جب عامل معمول کے سر کو جسے بعض اجزا ئے ذہنی کا مرکز قراردیتے ہیں ذرا چھوئے یا صرف انگلی سے اشارہ کرے تو مریض اپنی ساری ذہنی کیفیت بتا دیتا ہے اور وہ باتیں کرتا ہے کہ جن کا وقوع ان اجزا سے عجیب معلوم ہوتاہے۔ مثلاً جب جیب کو چھوئے تو مریض باتیں کرنے لگتا ہے اور ایک جگہ ایسی ہے کہ اس کے چھونے سے خندہ (ہنسی )کرنا اور ایک جگہ ایسی ہے کہ اس کے چھونے سے بڑا مہربان ہوجاتاہے علے ہذا القیاس۔
نیند میں چلنا پھرنا وغیرہ
دوسری کیفیت اس کی نیند میں چلنا پھرناوغیرہ ہے۔
کہتے ہیں کہ مریض کو حالتِ خواب میں وہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ آدمی جاگتے میں نہیں جان سکتا اور ایسی نئی اور عجیب معلوم ہوتی ہیں کہ یقین بھی نہیں آتا۔مثلاً جس پر یہ عجیب حالت طاری ہوتی ہے وہ آنکھیں بند کئے بھی دیکھ سکتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ چلنے پھرنے والا آدمی کھلی آنکھوں سے اس قدر نہیں دیکھ سکتا جو اس کو بیٹھے بیٹھے بند آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ بند چھٹی کا مضمون پڑھ لیتا ہے۔ کپڑے کے اندر کا حال اور دہات اور لکڑی کے صندوق کے اندر کی چیزیں بتا دیتا ہے۔ اینٹوں اور پتھروں کی دیواروں کے اندر کا حال بند مکانوں کے اندر جو ہورہا ہو سب دیکھ سکتا ہے۔ جب دوسری کیفیت کامل ہوتی ہے تو سینکڑوں میل کا حال اور لوگوں کے دل کی باتیں جاننے لگتا اور واقعات آئندہ جن کی کچھ خبر نہ ہو ان کی خبر دیتا ہے اور نیز روحوں سے خصوصاً ارواح مردگان سے بات چیت کر سکتا ہے۔ نہ صرف اپنے جسم کے باہر کی چیزوں کو بلکہ اس کے اندر کی چیزوں کو بھی دیکھتا ہے۔ سارا حال اپنی جسمی اور ذہنی حالت کا بتا دیتا ہے بلکہ جو کچھ ہماری اس کے جسم میں ہو یا ہونے کوہو اُسکا صحیح علاج سب بتا دیتا ہے۔ پھیپھڑا ، کلیجہ، دل اور کُل اندرونی حرکات اس کو ایسی صاف معلوم ہوتی ہیں جیسے شیشے کے اندر کی چیز اوراُن کے جسم کے اندر کا حال بھی در حال یہ کہ اس پر بھی اس کے ساتھ عمل کیا گیا ہو بتا دیتا ہے۔ جو عجائبات مسمرنیرم والے بیان کرتے ہیں ان میں سے چند کا یہاں بیان ہے جن کو بڑے بڑے عالم آدمیوں نے جو پہلے ان کے امکان بھی کلام کرتے تھے بچشم ( اپنی آنکھوں سے) خود دیکھا ہے۔
عمل ِ ارواح جس کے ذریعہ مردوں کی روحوں سے بات چیت ہوتی ہے۔
۲۔ دوسرا بڑا اور عجیب عمل مروجہ زمانہ حال جسے انگریزی میں اس پر ٹسم اور اردو میں عمل ارواح کہتے ہیں۔ حقیقتاً مسمر نیرم کی دوسری صورت یا شاخ ہے جو لوگ اس عمل پر یقین کر اقرار کرتے ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعہ ارواح مردگان سے بخوبی بات چیت کر سکتے اور طرح طرح کی کشف و کرامات اور قدرتیں و غیرہ اس سے حاصل ہوتی ہیں۔ زمانہ حال میں خصوصاً عرصہ ۱۸۴۸ سے اس عمل نے جب صورت پکڑی ہے۔ ہر چند کہ اس زمانہ تک ا س عمل کی کیفیت روحی نے اچھی طرح صورت صفائی نہیں حاصل کی تھی جس کے باعث اس کی عام شہرت ہوئی۔ مگر لوگ دعویٰ کر تے ہیں کہ اس کی بہت سی عجیب باتیں لوگوں کو مدت سے معلوم تھیں اور واقع میں یہ عمل کم از کم سو برس کےعرصہ میں اس نوبت موجودہ کو پہنچا ہے۔ بعض صاحبان کا قول ہے کہ ابتدا اس علم کی تعلیم کی سوئی ڈن برگ صاح سے ہے کہ جس کو سو برس سے زیادہ ہوئے۔
کہتے ہیں کہ صاحب موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) کو عالم ارواح سے کمال موافققت تھی اور ہر روحوں اور فرشتوں سے ایسی باتیں کیا کرتے تھے جیسے آدمی آدمی سے کرتا ہے صاحب ِ موصوف اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جس آدمی کی طبیعت کا مرتبہ روحانی، وسیع اور کشادہ (کھُلا) ہے وہ اپنے تما م حواس ِ جسمانی کو ساکت کر کے اوپر سے اپنے دل کی روحانیت کی طرف توجہ کرنےسے عقل ملکی کے مرتبہ پر پہنچ سکتا ہے معلوم ہوتاہے کہ اس عمل کی ایجاد کلیروینس یعنی حالتِ خواب کے طاری کرنے کا عمل بہت۔۔۔۔ ہوا۔ اور مشہور مُصنفِ جنگ اسٹلنگ صاح نے پہلے پہل اس کی خبر دی اور اس کو مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) کیا کہ جن لوگوں پر حالت خواب کے طاری کرنے سے عمل کیا جاتاہے انہوں نے اس حالت میں صاف ایسا اقرار کیا جس سے مجھ کو اطمینان ِ کامل اس امر کا ہو گیا کہ وہ معمول غیر محسوس روح سے بات چیت کرتے ہیں۔ یہی قاعدہ ڈاکڑ کا نر جرمنی کا تھا اور ایسا ہی انہوں نے مشہور کیا۔
صاح موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) کہتے ہیں کہ میرے مریضوں میں سے ایک شخص آخر عمر کے سات برس بسا اوقات حالتِ مقناطیس حیوانی میں رہا اور جب کبھی اس حالت میں ہوتا تو ان کے نام بتاتا اور ان کی سی بولی بولتا جن کو وہ کہتا کہ وہ ارواح میرے اوپر آئی ہیں۔ اور جب وہ بات چیت کرتا تو اس کے ساتھ نئی طرح کی آوازیں بھی زور سے ہوتیں اس طرح کی بہت صورتیں یعنی یہ کہ معمول حالت ِخواب میں غی محسوس مخلوق سے بات چیت کرتا ہے۔ نہ صرف ملک جرمن یا اور اطراف یورپ میں بلکہ امریکہ میں بھی واقع ہوئیں۔ ۱۸۴۶ میں ایک جوان آدمی مسمیٰ انڈریو جیکس ڈیوس نے جب کہ یکا یک(اچانک) حالت مقناطیسی اس پر طاری ہو گئی تھی یہ اقرار کیا کہ میں اس وقت روحوں سے بات چیت کرتا ہوں اور اسی حالت میں اُس نے ایک بڑی کتاب فطرت اور کشف و الہام (پردہ اُٹھانا)کے بارے میں لکھوائی۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے یہ کتاب روحوں کی مدد سے لکھوائی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ مُردوں کی روحوں نے میری وساطت(وسیلہ، ذریعہ ) سے یہ کتاب لکھی۔ واقعہ مذکورہ کے بعد سے پھر بہت اور لوگوں نے عجیب و غریب کیفیتوں کے اپنے اوپر گذرنے کا اقرا رکیا۔ عمل کے وقت معمول پر بیہوشی سی طاری ہوتی ہے اور اسی حالت میں معمول کہتا ہے کہ مجھ پر فلاں قوم کے لوگوں کی روحیں ہیں اور وہ لوگ فلاں زمانہ میں زندہ تھے اور وہ روحیں معمولوں کے جسموں پر قابض ہو کر طرح طرح کی آوزوں سے بولتی ہیں۔
روح کا کھٹکھٹانا
ابتدا اس واقع کی جسے روح کا کھٹکھٹانا کہتے ہیں۔ ۱۸۴۸ میں ہوئی کہتے ہیں کہ صوبہ نیوریارک واقع امریکہ میں چند آدمی کسی گھر میں رہتے تھے۔ اتفاقاً ایک روز ان کے گھر کے دوازے پر کچھ عجیب آواز میں سُننے میں آئیں۔ ہر چند انہوں نے اس ماجرے کی دریافت کرنے میں بہت کوششیں کیں مگر کچھ پتا نہیں چلا۔ اسی گھرمیں ایک رات دو لڑکیاں سورہی تھیں کہ ان کے بستر پاس وہی آزاویں سنائی دیں۔ چھوٹی لڑکی جس کا قریب دس برس کےسُن تھا ان آوازوں کے ساتھ چٹکیاں بجانے لگی۔ جس وقت اور جتنی چٹکیاں وہ بجاتی تھی اس وقت اتنی ہی آوازیں کھٹ کھٹ ہوتی تھیں۔ تب ایک اور لڑکی اس سے بولی کہ اچھا میری طرح ۱۔ ۲۔ ۳۔ ۴۔۵۔۶ تک گنتی گنواور گنتی پر تالی بجاتے جاؤ تو دیکھیں یہ آوازیں بھی ایسا ہے کرے گی۔چنانچہ اسی قدر دیر کےبعد اور اتنی ہی آوازیں بھی سنائی دیں۔ اس پر لڑکیوں کی ماں ان سے بولی کہ اچھا دس کی گنتی گنو۔ جب انہوں نے دس کی گنتی گنی تو اتنی ہی آوازیں صاف صاف ہوئیں۔ اور جب ۱۵ بولیں تو اس کے بعد آوازیں بھی ۱۵ ہوئیں۔ تب ماں نے اس آواز سے کہا کہ اچھا ہماری چھوٹی لڑکی کی عمر تو بتاؤ یعنی جتنے برس کی لڑکی ہے اتنی دفع کھٹکھٹاؤ تو ہم جانے گے کہ ٹھیک کہتے ہو یا نہیں۔ اس آواز نے صحیح عمر بتا دی۔ یہ کیفیت دیکھ کر وہ عورت بہت گھبرائی اور کہنے لگی کہ اگر تم از قسم آدم زاد ہو توبتاؤ۔ اس کے جواب میں کوئی آواز نہیں آئی۔ عورت نے پھر پوچھا کہ اگر تم کوئی روح ہو تو دو دفعہ صاف صاف کھٹ کھٹ کرو تاکہ ہم جان لیں کہ تم روح ہو اس پر دو حرکتیں ہوئیں۔ یہ حال دیکھتی ہے کہ گھر کے تمام لگ بستر سے اٹھے اور پیشتر کی طرح سارا گھر ڈھونڈھا لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائی جس سے کچھ حال اس بھید کا دریافت ہوتا۔ بعد عورت نے چند اور سوال کیے او رویسے ہی ان کے جواب بذریعہ حرکات کے ہوئے تو اس عورت نے اپنے پڑوسیو ں کو بُلایا تاکہ دریافت کریں کہ اس واقعہ کا سبب کیا ہے۔ لیکن ان سے بھی کچھ نہ ہو سکا اور جب سب نے کہا ک ہم بالکل حیران ہیں۔ مدت تک اس گانوں کا عجیب حا ل رہا۔ لوگ کثرت سے اس گھر کو دیکھنے آتے اور آوازیں سُنتے او سوال کرتے لیکن سوائے اس دعوے کے جو آواز کا تھا یعنی کہ وہ ایک روح ہے اور کچھ نہیں معلوم ہوتا تھا چند مدت بعد اس واقع کے ان گھر والوں نےکسی اور شہر میں بودوباش (سکونت ، قیام) اختیار کی ۔مگر وہاں بھی وہ وہی واقعات پیش آئے اور بطور مذکورہ بالا حرکات سے بحساب حروف تہجی یہ ظاہر ہوا کہ کُل ارواح مذکور اسی طور سے بات چیت کرتی ہیں اور قصہ مختصر ہےکہ جو کوئی چاہے انہیں دو لڑکیوں کے سامنے آکر اپنے مردہ دوستوں کی روحوں سے اس طرح بات چیت کر لے کہ سائل (سوال کرنے والا) کو بھی اطمینان ہو جائے کہ ہاں ی میرے دوست ہی کی روح ہے۔ چند ہی مدت بعد اس طریق کے ایک اور طریقہ میز کے اور وزنی چیزوں کے حرکت کرنے کا بِلا مدد کسی ظاہری فعل کے نِکلا۔ بڑی بڑی میزیں اور کُرسیاں بغیر آدمی کے سہارے یا کسی عمل جرثقیل کے حرکت کرتی تھیں۔ اور آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ارواح مُردگان کی مدد سے بڑی بڑی میزیں اور کُرسیاں جن میں آدمی بیٹھے ہوں۔ بڑے اونچے کمر وں میں نیچے زمین سے اوپر چھت تک لوگوں کے سامنے اُٹھ جاتی ہیں۔ اور جن لوگوں کی وساطت(وسیلہ، ذریعہ ) سے عمل ارواح کے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کچھ خصوصیت نہیں۔ ہر درجہ اور ہر حالت کے آدمی مذکریا مونث ،اعلیٰ یا کمتر ،امیر یا غریب ، عالم یا جاہل اور نیز بعض صورتوں میں لڑکی لڑکوں کے وساطت(وسیلہ، ذریعہ ) سے ایسی حرکات کا ظہورہوتاہے۔
عامِلوں کے دعوی کہ انگلی کے سہارے سے میز کا گھومنا وغیرہ
جس قِسم کے عجیب واقعات کا دعویٰ عاملوں کو ہے کہ روحوں سے واقع ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند کا ذیل میں ذکر کیا جاتاہے انگلی کے ذرا سے سہارے سے بڑی میز کا حرکت کرنا اور گھومنا۔ وزنی چیزوں کا حرکت کرنا بغیر حرکت دینے کِسی آدمی کے یا کسِی جرثقیل کے۔ اندھیری جگہوں میں بجلی سے روشنی کا پیدا ہونا۔ لوگوں سے ان کی قدرت سے زیادہ باجے بجوا دینا بلکہ اکثر ایسے لوگوں سے جو علم ِ موسیقی سے محض ناواقف ہوں بلا ارادہ لکھوا دینا۔ بیماروں کو اچھا کر دینا لوگوں سے رنگ برنگ کے نقشے اور تصویریں جن کو اس شخص نے جس کی وسات سے عمل مذکور کیا جائے کبھی دیکھا بھی نہ ہو بنوا دینا ہزاروں کوس دورکے آدمیوں کی صورت یا حالت دیکھنا اور بیان کر دینا ایسے شخص کے ذریعے سے جس نے کبھی دیکھا نہ ہو ہزاروں کوس دور کے جہاز کی تباہی کا حال اسی وقت کہہ دینا جبکہ جہاز تباہ ہوتا ہو محض اجنبی زبانوں میں جو کبھی نہ سیکھی ہوں تقریر و تحریر کرنا بلکہ عاملوں کا دعویٰ یہاں تک ہے کہ طرح طرح کی تحریرں سینکڑوں آدمیوں کے سامنے بغیر محسوس ہاتھ اور بلا مدد کسی آدمی کے اپنی طرف سے روحیں بنا سکتی ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جیسے پرند بازوؤں سے ہوا پر قائم رہتے ہیں ایسے ہی ارواح میں قدرت ہےکہ آدمیوں کو بغیر سہارے کسی محسوس چیز کے قائم رکھتے ہیں۔
بہتیرے ہوشیار معتبرشخصوں نے بیان کیا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو زمین سے کئی فیٹ اونچائی پر بغیر کسی قِسم کے لگاؤ یا سہارے کے کئی مِنٹ تک ٹھہرے دیکھا اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مثِل مردہ بےجان کے بے حِس و حرکت ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی مشہور کرتے ہیں کہ ہم نے مردہ دوستوں کی روحوں کو دیکھا۔ ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ حقیقتاً انہیں دوستوں کی روحیں ہیں اور جس قسم کی باتیں زندگی میں ہوتی تھیں اسی قسم کی باتیں کیں گو کہ وہ باتیں سوائے معمول کے اور کسی کے سُننے میں نہیں آئیں۔ایسی ایسی سخت بیماریاں جن کے معالجے سے بڑے بڑے اطّبا(طبیب کی جمع، ڈاکڑ) عاجز آگئے تھے۔ معمول کے بحالت عمل مریض پر ذرا ہاتھ رکھ دینے سے جاتی رہیں۔ بہت اور عجیب کام ہیں جن کےبارے میں لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ارواح مُردگان کی مدد سے ہوتے ہیں۔مگرمیں جانتا ہوں کہ پڑھنے والا میرے اس قدر بیان سے بخوبی سمجھ لے گا کہ اس قسم کے لوگوں کی کیا تعلیم ہے اور وہ کس قسم کے اعتقاد کا اقرار کرتےہیں۔ ملک امریکہ میں بہتیرے علم والے فیلسوف ایسی باتوں کو مانتے ہیں۔ انگلستان میں بہتیرے رئیس اور لارڈ ار اوسط درجہ کے لوگ بھی ایسی باتوں کو مانتے اورکہتے ہیں کہ ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں متوفی(مرا ہوا) سے بذریعہ اس عمل کے بات چیت کر سکتے ہیں۔ فرانسس میں اس قسم کے لوگ اور بھی زیادہ ہیں۔ قصّہ ِ مختصر ہ یہ ہے کہ قریب قریب یورپ کی ہر قوم میں اس عمل کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ قریب پچاس لاکھ آدمیوں کے تھوڑا بہت اس عمل کو مانتے ہیں اور قریب ایک ہزار کے بڑی چھوٹی کتابیں اس فن میں تصنیف ہو چکی ہیں۔ اور قریب ایک سو اخبار کے چھاپے جاتے ہیں جن کو کڑوڑوں آدمی تمام روئے زمین کے پڑھتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے عالموں کی جماعتوں نے اس کی کام تحقیق کی اور بہت آزمایا مگر کی دنیا وی فعل سے اس کا علاقہ (تعلق) انہیں نہیں معلوم ہوا۔ ہر چند کہ عامل یہ بھی کہتے ہیں کہ اکثر باتیں دھوکے سے بھی عمل کے ساتھ ہوتی ہیں۔ مگر ا ن کو یہ بھی دعویٰ ہے کہ بہت صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں کسی طرح فریب نہیں چل سکتا۔
مقابلہ اچنھبوں مذکورہ بالا کا متغیرات سے
بعدانفراغ بیان اجمالی ان عجیب کاموں یعنی اچنبھوں کے جن کو بہتیرے معجزات کہتے ہیں کتب مقدسہ کے معجزات سے ان کا مقابلہ کر کے دونوں فرق بتا ئے گے۔ کفار عیسائیوں کے معجزات پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مذہب عیسوی اور بائبل شریف کی صداق کی شہادت نہیں ہو سکتےکیونکہ باطل مذہب والوں کی کتابوں میں بھی معجزات پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ جو لوگ مذہبی عیسوی کے قائل نہ تھے انہوں نے بھی بہتیرے معجزات دکھانے کا دعویٰ کیا ہے۔ قبل از ان کہ کسی خاص معجزہ باطلہ مذکورہ کا بائبل شریف کے سچے معجزات سے مقابلہ کیا جائے ہم ان عام باتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن میں معجزات باطلہ بائبل شریف کے معجزات سے مختلف ہیں یعنی ااول کہ کوئی معجزہ مذکورہ بالا نئے مذہب کے جاری کرنے کے لیے نہیں عمل میں آیا کفار کے کُل معجزات باطل ادیان(جھوٹے دین ) موجودہ کی تقویت اور استحکام کے لیے دکھائے گئے تھے اور جن لوگوں کے سامنے ان کے دکھانے کا دعوی ٰ کیا جاتا ہے وہ پہلے ہی سے ان کو مانتے تھے۔ ہمارے پہلےدرس میں یہ ذکر آچکا ہے کہ معجزات عیسوی اس غرض سے دکھائے گئے تھے کہ دنیا میں ان کا افشا( ظاہر) ہو اور نئے مذہب کی تصدیق کریں یعنی یہ کہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ امر ضرور تاً مسائل و قواعد میں تمام ملل(ملت کی جمع، مذاہب) موجودہ کےخلاف تھا۔ جیساکہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سوائے مذہب عیسوی(اور شریعت موسوی کے کہ وہ عیسائی مذہب کی ابتدائی صورت ہے) کِسی مذہب کا یہ دعویٰ نہیں کہ وہ مبنی ہر معجزات ہے۔ یہ صرف عیسوی مذہب ہے جس کی اصل معجزات تاریخ یعنی مسیح کی پیدایش کی معجزانہ سرگذشت(ماجرا، واردات) اور اس کے معجزات اور جی اُٹھنے کا حال ہے اور اسی طرح یہ مذہب دشمنوں کے درمیان جاری بھی ہوا ہے۔ وسپاشین کا معجزہ جسے بے دین اکثر پیش کیا کرتے تھے کفار کے معبود سرانیس کے کہنے سے اس لیے ہوا تھا کہ لوگوں اس کی پوجا کیا کریں اور انہیں لوگوں میں ہوا جو اس معبود کو مانتے تھے۔ لاوی کے اچنبھے(حیرت، تعجب) اور رومیوں کے معجزات (اگر ہوئے دن ) تو انہیں باتوں کی مضبوطی کے لیے ہوئے تھے جن کو پہلےسے لوگ مانتے تھے۔ پس اور معجزے ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں ایسا کسی آدمی نے دعوی نہیں کیا کہ کوئی معجزہ سوائے کتبِ مقدسہ کی معجزات کے نیا مذہب قائم کرنے کو دکھایا گیا اور وہ مذہب دشمنوں کے بیچ میں رائج ہوا۔ خاص بات اس دلیل میں یہی ہے۔درحقیقت ان اچنبھوں میں کوئی صورت مماثل معجزات ِ حقہ (سچے معجزات) بمقابلہ عیسوی نہیں نظر آتی۔ لوگ اکثر بہتیرے لغو(بیہودہ، نامعقول) قصوّں اور توہمات کو جیسے بھُوت پلید اور تمسخر(مذاق اُڑانا) کی باتیں وغیرہ ایسے کاموں کو جن کا ذکر لغو(بیہودہ، نامعقول) حکایتوں میں پایا جاتا ہےصرف اس وجہ سے مان لیتے ہیں کہ ان کی طبیعت عجائب پسند ہوتی ہے۔ وہ عجب لاپروائی اور غفلت سے بلا تحقیق اس امر کے کہ ان باتوں کا کچھ وجود ہے یا نہیں بغیر سوچے سمجھے یقین کر لیتے ہیں مگر ایسے مستقل نہیں ہوتے کہ کوئی ان باتوں کی خاطر کسی طرح کی تکلیف پہنچا ئے اور وہ سہہ لیں کیونکہ کوئی امر ان باتوں کے حق و باطل ہونے پر موقوف نہیں ہوتا صرف عجائب پسندی طبیعت کی اس کی وجہ ہوتی ہے۔ایسا عقیدہ مسیح اور اس کے رسولوں کے معجزات سے کچھ مناسبت نہیں رکھتا ہے۔ ان معجزات سے بہت عمدہ باتیں خیراندیشہ عقل ِانسانی پہنچ سکتا ہے طے ہو گئیں مسیح کی تعلیمات نے انسان کی طبیعتیں ایسے امور میں درست کردیں جو ان کی نجات کے لیے تھے۔ ایسی صورت میں آدمیوں کا بے پروائی کرنا ممکن نہ تھا۔ مسیح کی تعلیمات اور اس کی معجزانہ پیدائش اور جی اُٹھنے کا حال وغیرہ یہودیوں کے دل پسند بندوبست اور مرغوب حدیثوں میں خلل (رکاوٹ) انداز تھا۔اور نیز غیر قوموں کے مخالف طبع(طبیعت، فطرت، مزاج) اس وجہ سے تھے کہ ا ن کی بت پرستی اور کثرت معبود پر داغ لگتا تھا۔ جن جن نے مسیح کے معجزات کو مانا ان کو بجز اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ اپنی پرانی باتوں کو جو مدت سے ان کے دلوں میں جا گزین ہو رہی تھیں اور اس مذہب کو جس پر ان کے باپ دادےمرتے دم تک چلے رہے یک بخت چھوڑ دیتے۔ یہ قیاس (جانچ لگانا، اندازہ) میں نہیں آتا کہ کوئی بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کہ اس کا اطمینان کامل نہ ہو لیا ہو یا اس کی صداقت کا یقین نہ ہو گیا ہو محض سُن سُنا کر ایمان لے آیا ہو۔ جنہوں نے مسیح کے معجزات کو یقین کیا ان کا محض عقیدہ ہی نہ تھا کہ وہ سچے معجزے ہیں بلکہ وہ جن کے یقین کرنے کا اقرار کرتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ بہتیروں نے توفی الفور نہ صرف اپنا چال چلن بدل کر نئے قاعدے اور ضابطہ اور رویئے اختیار کیےبلکہ اپنا وطن اورمال و اسباب اور عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر نئے دین کی تشہیر میں عمریں صرف (خرچ) کردیں۔بڑی بڑی مصیبتیں جھیلیں اور جان دینے میں دریغ نہ کیا۔ بھلا اگر مسیح کے معجزات محض افسانہ تھے تو پھر ان لوگوں نے کیونکر اپنے عیش و آرام اور جان و مال کو فدا کر دیا۔ دیکھئے کافروں کے معجزات باطلہ سے یہ باتیں کیسی مختلف ہیں۔
علم و تہذیب کی ترقی تو ہمات کو دور کرتی ہے۔
دوسرے علم و تہذیب کی ترقی سے اب یہ صورت ہے۔کہ بہت باتیں جو کسی زمانہ میں حیطہ قدرت ِانسانی سے باہر اور از قسم معجزات وغیرہ سمجھی جاتی تھیں قریب تمامی کے موقوف ہو گئی ہیں۔ برعکس اس کے عیسوی معجزات پر علم کی ترقی سے عقیدہ اور پختہ ہو تا جاتا ہے۔ بہت باتیں جو ایک زمانہ میں صحیح تاریخ کا مادہ تھیں۔ اب وہ محض افسانہ اور جھوٹے قصّہ ہو گئے ہیں۔ یونانیوں اور رومیوں کی تاریخیں اور وہ قومیں جو کسی وقتوں میں مہَّذب کہلاتی تھیں ان کے حالات پڑھنے سے عقل پر یہ امر بخوبی ظاہر ہو جائے گا۔ بہتیرے عجیب کام جن کا ذکر کافروں کی کتابوں میں ہے اور جو ایک زمانے میں طاقت ِ بشری (انسانی طاقت) سے برتر متصور (تصور یا خیال میں ہونا) تھے۔
بُت پرستی کے خیالات معدوم ہوتے جاتے ہیں۔
اب ان کو جانتے ہیں کہ قوانین مقررہ فطری کے عمل سے ہوتی ہیں۔جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ علامت بدمثلاً دُم دار ستارے اور کسُوف خُسوف(سورج اور چاند گرہن) اور شہاب اور بہتیرے عارضہ ایک زمانے میں حیطہ طاقت بشری سے باہر اور دیوتوں یا بُھوتوں کی قدرت خاص سے ان کا وقوع سمجھا جاتا تھا لیکن ا ب وہ سب قواعد علم فطری میں داخل ہیں اوربجائے اس کے کہ لوگ ان سے خوف کریں اور دغا باز فیلسوف۔ کافر۔گردِجاہلوں پر غلبہ پائیں یا یوں کہیے کہ جن سے ادیان باطلہ(دین کی جمع) کی غلطیاں اور فریب گروؤں اور پنڈتوں کی عیاریوں(دھوکا باز) سے دنیا میں قائم تھے اب وہ داخل ِ تعلیم مدارس ہیں۔ ایسے خیالات ا ب صرف چند کا فر اور نصف تہذیب یافتہ ملکوں کے غیر مہذب اور نرے جاہل لوگوں میں رہ گئے ہیں۔ اب دنیا کے روشن ضمیر ملکوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ اناج کی فصلوں کا مالک سریزدیوتا ہے اور نیپچون سمندر پر حکمران ہے اور ہوا کا مالک ہے اورورید اور فارنس باغوں کی نگہبانی کرتے ہیں اور دواؤں میں صحت کی تاثیر اسکلاپیس دیوتا کی طرف سے ہے۔سیریس اور نیپچون اور بیکس اور اسکلاپیس کے مندرجو کسی زمانہ میں پوجاریوں سے گھرے رہتے تھے آج ویراں پڑے ہیں اور جو اوقات باطل معبودوں کی پرستش وغیرہ میں صرف ہوتے تھے۔ اب نہایت استحکام سے تحصیل علم میں عالموں کی خدمت میں صرف ہوتے ہیں جنہوں نے ایسے قاعدے دریافت کیے ہیں جن سے حالات مذکورہ معلوم ہوتے ہیں۔جیسی علم کی ترقی دنیا میں ہوتی جاتی ہے ویسے ہی لوگوں کے خیالت و اہمہ بدلتے جاتے ہیں اور دنیا توہمات کے پھندوں سےچھُوٹ کرسچے مذہب کی طرف متوجہ ہوتی جاتی ہے یعنی کم سے کم توہمات اور بت پرستی موقوف ہوتی جاتی ہے۔ یونانیوں کے جھوٹے قصوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ رومیوں کا پنتھیں مندر پھر نہیں بنے گا۔ اب معبودان باطل کی پوجا اس مندر میں پھر نہ ہوگی۔ آثار قوی سےصاف ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے علم و تہذیب کی ترقی نے جہان سے جادوگی اور ظلم اور شعبدہ بازی اور سفلیات وغیرہ اور کسوف و خسوف (سورج اور چاند گرہن) اور طوفان اور زلزلہ کی نسبت خیالات و اہمہ کو دور کر دیا ہے۔ ایسے ہی یقینا ً مسمریزم اور عمل ارواح اور میز کے طلسمات اور شعبدہ بازی(جادو سے متعلق ہنر یا کھیل) وغیرہ کی نئی صورتیں تھی دور کردے گا عمل مسمریزم تو ابھی سے متروک (ترک کیا گیا ، چھوڑا گیا ) ہے۔ اور اسپرٹزم(عمل ارواح) نے اس کی جگہ رواج پایا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں کیفیات عمل ارواح قوانین ذہنی و جسمی کے نتائج ہیں۔ شاید کوئی کہے کہ علم تہذیب سے عقیدہ و قوع معجزات بلکہ بہتیرے تمسخر انگیز(مذاق اُڑانا، طنز کرنا) افعال جن کے معجزہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان کا عقیدہ بھی نہیں دور ہو سکتا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی حالانکہ نہایت تہذیب و روشنی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے عمل ارواح کی کثرت ہے اور یہ عقیدہ فقط انہیں لوگوں میں محدود نہیں ہے جن کو دعویٰ تہذہب نہیں یا جو عوام الناس کہلاتے ہیں۔ بلکہ علما اور فضلا اور حکام اور طبیب اور مقنن اور فیلسوف بہتیرے اس کے ماننے والے پائے جاتے ہیں بلکہ یہ عقیدہ دنیا کے نہایت روشن ملک کے ایک نہایت مہذب شہر سےنکلا ہے۔ حقیقتہً الامر یہ ہے کہ اول تو علم و تہذیب عجائبات کے جبلی (فطرتی ) شوق کو جو تمام عالموں اورجاہلوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے دور نہیں کر سکتے۔
لوگ اس لغو عمل کو کیوں مانتے ہیں۔
دوؔسرےاسی جبلی (فطرتی ) شوق کی جہت (سمت، جانب) سے عالم و مہذب آدمیوں نے عجلت سے ان افعال (کاموں ) کو معجزہ سمجھ لیا کیونکہ اسباب علم کو وہ دفعتاً (فوراً) تو دریافت ہی نہیں کر سکتے تھے اور ان افعال کو فوراً معجزہ تصور ہی کر چکے تھے تو اب انہوں نے اس کی غیر متعصبانہ تحقیق بھی چھوڑ دی۔
تیسؔرے اس میں شک نہیں کہ مسمرنیرم کے بہتیرے کرتب دھوکا بازی سے بھی ہوتے ہیں۔ علم و تہذیب سے بدذات شریر آدمیوں کے دل نہیں بدلتے بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہےکہ فریبی علم سیکھ کر اور پختگی سے لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔ دغا باز و فریبی زمانہ تہذیب اور روشنی میں بھی معدوم نہ ہو نگے۔لین اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ تہذیب کی ترقی نے ان لغویات(بیہودہ، نامعقول) کا عرصہ بہت تنگ کر دیا ہے اور یہ کہ علم و تہذیب نے جہاں کہیں ترقی پائی ان لغویات (بیہودہ، نامعقول)کو خصوصا ً تکلیف دینے اور ذلیل کرنے والے توہمات اور حرکات انسانی کو حقیقتاً نکال پھینکا ہے۔ یہ لغو(بیہودہ، نامعقول) عجیب باتیں کچھ تو اس وجہ سے دور ہوئیں کہ علم و تہذیب سے ان کے سبب اصلی معلوم ہو گئے اور کچھ اس امر کے دریافت ہونے سے کہ ان میں دھوکا بازی اور چالاکی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ بیان مذکورۃ الصدر درباب دنیا کے روشن ضمیر ملکوں کے تغیر عقائد (ایک عقیدہ ہونے کا خیال) کی نسبت افعال عجیبہ کے صحیح ہے اور وہ وجود جن سے تغیر واقع ہوا ہے وہی ہیں (جو اوپر مذکور ہوئے تو اب یہ سوال لازم آیا کہ معجزات مندرجہ بائبل انہی سببوں( وجہ ) سے ہو سکتے ہیں اور کیا وہ معجزات اسی طریق مذکورہ سے قدیم زمانے کی دغا بازی و فری میں نہیں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر معجزاتِ بائبل بطریق (طریقہ کار)مذکور (ذکرکیا گیا) معلوم ہو سکتے ہیں او ر کوئی پختہ تاریخی شہادت (گواہی) ان کے لیے اس سے زیادہ نہیں ہے جو ان امور کے لیے تھی جن کا مذکورہوا تو وہ بھی انسان کی نظرمیں ویسے ہی رہ جائےگی اوریہ عقیدہ کہ وہ معجزات ہیں قطعاً لوگوں کےدلوں سے اُٹھ جائے گا۔ بالفعل یہی امر قابل ِ لحاظ ہے کہ ان کے اسباب اصلی بطریق مذکورہ معلوم ہو سکتے ہیں یا نہیں اگر نہیں معلوم ہو سکتے تو وہ شہادت جو عموماً ان معجزات کے لیے معتبر سمجھی گئی ہے یعنی جس کے بھروسے پر ہم ان معجزات کو مانتے ہیں ایسے تغیرات سے جو اور امور میں واقع ہوئے ہیں غیر متاثر رہے گی۔ اور مصدق(تصدیق شدہ ) واقعات تاریخی زمانہ گذشتہ کے لیے بھی کمال پختہ و کافی شہادت متصور ہوگی۔
اولاً۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ مسیح کے معجزات قوانین فطری کے عمل سے نہیں ہو سکتے یعنی وہ معجزات قوانین فطری کے پابند نہیں ہیں ۔میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ اگر وقوع معجزات مذکور کا تسلیم کر لیا جائےتو فطرت کی ایسی کوئی قدرت یا اس کا ایسا عمل آدمی نہیں جانتا جس سے وہ ان معجزات کو معلوم کر ے یعنی ان کو علوم طبعی یا عقلی و جسمی میں سے کسی میں داخل نہیں کر سکتے۔ اگر لاذرس قبر سے اُٹھایا گیا اور مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا۔ اگرا ندھوں نے ایک بات کہنے یا ذرا مس کرنے سے بینائی پائی تو کوئی فاعدے علم کیمیا یا حکمت یا قوت برقی یا مقناطیسی کے ایسے نہیں پائے جاتے جن سے یہ باتیں معلو م ہو سکیں۔ کوئی قوت ان علوم میں نہیں جو ایسے نتائج اب پیدا کر سکیں کوئی ایسے اصول ان علوم سے نہ نکلے جن سے وہ باتیں معلوم ہوں۔ اس مقام پر ایک مشہور عالم ڈاکڑ بارنس صاحب کی تقریر لکھی جاتی ہے۔ صاحب موصوف (وہ جس کی تعریف ک جائے)کہتے ہیں کہ علم اس حد کو نہیں پہنچا ہے کہ اس کے کسی اصول معلومہ سے عہد جدید کے معجزات کی تشریح ہو سکے جیسا کہ معجزات باطلہ کا حال ان سے معلوم ہو ابلکہ جہاں تک علم کی پہنچ ہوئی اس سے یہی معلوم ہوا کہ بائبل کے معجزات کسی اصول معلومہ سے نہیں معلوم ہو سکتے نہ غالب ہے کہ کبھی کوئی علم ثقل یا کشش یا برق (بادل ، آسمانی بجلی ) کا یا معالج خاصیتیں نباتات یا معدنیات کی اسے معلوم کر سکیں۔ کیمیا اگر اندھے کی آنکھ مس کرنے سے نہیں کھول سکتا یا بیمار کو ایک بات سے اچھا نہیں کر سکتا۔ مردہ کو دھوکنی سے یا برق(بجلی ) سے نہیں جلا سکتا۔ بقول ایک اور عالم انِیل صاحب کے علم کی ترقی ہمارے عقائد کو معجزاتِ عیسوی کی نسبت اور تقویت (آگے بڑھنا ، ترقی کرنا) دیتی ہے نہ کہ ضعیف کرتی ہے۔ ہمارا تجربہ اسباب ِ علمی کی نسبت چاہے جیسا محدود اور اور تعداد اسباب نامعلومہ کی جیسی بڑی ہو ویسا ہمار ایقین بھی ہو گا یعنی یہ کہ کسی ایسے سبب سے جو ہمیں معلوم نہین کسی نامعلوم طور سے عجائبات مذکورہ کو پیدا کر دیا ہے لیکن جب کسی نو معلوم سببوں سے ظاہر ہو جاتاہے کہ وہ ان فرضی نتائج کو نہیں پیدا کر سکتے یا نامعلوم سبب جن کی نسبت ان نتائج کے پیدا کرنے کا احتما ل ہو کم ہو جاتے ہیں تو ویسا ہی ہمارا یقین بھی گھٹتا جاتا ہے۔
جب تحقیق بے روک ترقی زمانہ حال کے آدمیوں کو اس لائق کر دے کہ اندھے مس کرنے سے بینا ہو جائیں۔ طوفان آندھیاں ایک بات سے تھم جائیں مردے جی اُٹھیں آپ کو مار کر پھر جلائیں جیسا کہ مسیح نے کیا تھا تو اس وقت ہم مانیں گے کہ وہی سبب دس ہزار برس پہلے اس سے بھی کسی بڑے آدمی کے وسیلہ سے موثر ہو ئے ہونگے۔
لیکن جب تک ایسا نہ ہو اس وقت تک اور عجائبات کا حال معلوم ہو جاتا ہے عین دلیل اس امر کی ہے کہ مسیح اور اس کے رسولوں کے معجزات خدا کے دست قدرت سے تھے اور یہ کہ نہ کسی علم یا قدرت کی رسائی اس تک ہوئی اور نہ ہو سکے لیکن جس قدر علم بہ نسبت اگلے زمانے کے ترقی پکڑتا جاتاہے اسی قدر یہ یقین گھٹتا جاتا ہے کہ کسی آدمی نے گذشتہ زمانے میں وسائل ِ فطری سے وہ کام کیے تھے جو آج باوجود اس قدر ترقی علم کے کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آتے۔ لیکن بائبل کے مصنفوں کو ان علوم میں جو زمانہ حال میں ترقی پر ہیں کچھ دعویٰ نہ تھا وہ ایسے ملک کے رہنے والے نہ تھے جو علم میں ممتاز ہو۔ کوئی علمی تعلیم انہوں نے نہیں پائی تھی۔ جو سامان علم کے آجکل ہیں وہ انہیں میسر نہ تھے۔ کُل حالات سے یہی پایا جاتا ہے کہ وہ سیدھے سادھے بے پڑھے لوگ تھے۔ کسی بات سے جو انہوں نے کبھی کہی یا لکھی یا کی ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ انہیں علوم ابتدائی کے مسائل بھی معلوم ہوں۔
اصول علمی سےبائبل کے معجزات نہیں معلوم ہو سکتے۔
دوسرے علم کے اصول سے بائبل کے معجزات کا حال نہیں معلوم ہو سکتا نہ ان کی رسائی (پہنچ) وہاں تک ہوتی ہے۔ یہ بات خاص کر مُردہ کے جی اُٹھنے کے باب میں ہے اور خاص بات یہی ہے۔ ایک مشال دوبارہ جلانےکی کُل بحث کو طے کر دیتی ہے یعنی اگر مُردہ پھر زندہ کیا گیا تو مذہب عیسوی خدا کی طر ف سے ہے۔
علم سے یہ امر طے ہو چکا ہے یہاں تک کہ عام عالم ِ اسے تسلیم کرتے ہیں کہ محض علم کی قدرت سے جان نہیں پڑ سکتی ہے۔ جان جو کچھ ہو سوہو او ر چاہے یہ بات کبھی صحیح کیوں نہ ہو جائے کہ آدمی اس کی کیفیت بتا سکتا ہے لیکن یہ امر یقین کے مرتبہ کو پہنچ گیا ہے کہ اصول علمی سے جان نہیں پیدا ہو سکتی۔ آدمی میں کوئی قدرت ایسی نہیں کہ جان پیدا کر سکے نہ یہ قدرت ہے کہ بعد نِکل جانے کے پھر اسے ڈال دے۔
جب تک کہ ایسا نہ ہو اس وقت تک یہی متصور ہوگا کہ یہ امر طے ہوگیا کہ عہد جدید کے معجزات کو اصول علمی نہیں کھول سکتے اور جو کوئی نادانی سے ایسے امر کے امکان کے دعوے کرے تو ہم اس سے ایک مرتبہ اتنا ضرور ہی کہیں گے کہ وہی کام کسی عالم کو کرتے ہوئے ہمیں دکھائے کیونکہ یقیناً ایسا کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس زمانہ کے عالموں سے واقفیت علمی میں رسول کچھ بڑھے ہوئے تھے۔ قبل اس سے کہ معجزات کتب مقدسہ کی حقیقت کا تصفیہ ہو جائے جیسے جادوگری اور طلسمات اور مسمر یزم اور اسپرٹزم کا حال اصول علمی سے معلوم ہو گیا ہمارا حق ہے کہ یہ سوال کریں کہ آیا بھی کسی عمل سے جب کہ وقوع موت کا حقیقتاً ہو مردہ جلایا گیا جیسا کہ لعزر اور یسوع مسیح کے باب یں ہو ااور اس لیے کہ پوری مناسبت بھی ہو جائے یہ بھی ضرور ہے کہ عالم کی کسی با ت حکم ہی سے مردہ قبر سے جی اُٹھے۔ چونکہ یہ امر یقینی ہے اس لیے سب تسلیم کرتے ہیں کہ انسان سے کبھی ایسا نہیں ہوا اور ہوا اور یہ بھی یقین ہے کہ زمانہ حال یا استقبال کے علما اس امر کے طرف کوشش تک بھی نہ کرے گے ا س لیے سمجھنا چاہیے کہ یہ امر طے ہو گیا کہ معجزات عہد ِ جدید کے کسی اصول علمی سے نہیں معلوم ہو سکتے نہ سلک ِ قوانین فطری سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ اگر کتب مقدسہ میں کوئی ایسے معجزات ہوں کہ ان کو طلسم اور مسمریزم اور اسپرٹزم کے مشابہ (برابر) تصور کریں اور اسی وجہ سے داخل قوانین فطری کئے جائیں۔ تاہم وہ ایسے معجزوں سے وابستہ اور موافق ہیں جن پر ان مستثنیات میں سےکوئی سے کوئی بھی حاوی نہیں ہے۔ اور اسی سبب سے کوئی علمی یا فطری سبب ان کی نسبت نہیں مقرر ہو سکتا۔ پس یہ موافقت ان کے اعتبار کو تمام منصف(انصاف کرنے والے) مزاجوں کے دلوں میں قائم رکھے گی۔
جھوٹے معجزوں کا منشا اور ان کی اصلیت مسیحی معجزات سے بہت کم تر ہے۔
تیؔسرے بُت پرستوں کی طرح طرح کے معجزات اور حال کے اچنبھے(حیرت، تعجب) کتب مقدسہ کے معجزات سے با اعتبار اصلیت اور غرض کے بھی بہت ہی کمتر ہیں۔ بہتیرے اچنبھے(حیرت، تعجب) مندرجہ کتب مذاہب غیر جن کی نسبت معجزے ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے اس قسم کے ہیں کہ ان کی نسبت ایسا عقیدہ رکھنا بھی مشکل ہے کہ وہ کبھی وقوع میں آئے تھے اور بہتیرے ایسی عجیب قسم کے ہیں کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ ان کا وقوع ہوا تھا تاہم انہیں معجزات قرار دینا غیر ممکن معلوم ہوتاہے۔ ان معجزات کی نسبت وہ قیاس (جانچ لگانا، اندازہ) نہیں ہو سکتا جو پانی کے شراب ہو جائے اور چند روٹیوں سےپانچ ہزار آدمیوں کے کھالینے یا مسیح کے جی اُٹھنے کی نسبت ہے۔ جتنےمعجزات اس قسم کے ہیں سب کتب ِ مقدسہ کے معجزوں سے بہت کم تر ہیں اور ان کی اصلیت سے ہم کو بمجبوری یہ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے یوں ہی ازراہ توہم یا جوش خیال کے انہیں معجزے ٹھہرا لیا ہے۔ وہ ایسی بناوٹ کے اور تمسخر انگیز (طنز ، مذاق اُڑانا) ہیں کہ ہر غیر متعصب ان کے معجزے ہونے میں ضرور شک کرے گا ان سے ہمارے دینی خیالات میں جو خدا کی شان خالقیت کی نسبت ہیں فرق آتا ہے۔
معجزے خدا کی طرف سے اعلیٰ مقاصد دینی کے لیے ہوتے ہیں اس لیے ضرور ہے کہ ان سے مناسب علامات عظمت اور معقولیت کے ظاہر ہوں جو کچھ خدا آدمی سے خطاب کرے ضرور ہے کہ اس کی شان عظیم اور ذات سُبحانی کے موافق ہو اور اسی سبب سے غرض معجزات کی اعلیٰ اور عمدہ ہوگی۔ اگر عقل یہ تصور کرتی ہے کہ معجزے خدا کی طرف سے ہوتے ہیں تو ضرور خدا کسی عمدہ نتیجہ کے لیے ایسا کرتا ہے ۔محض اچنبھے (حیرت، تعجب)کی بات جسے انسان کی بہتری سے کچھ تعلق نہ ہو آدمی کے دل پر اثر نہیں کرتی۔ جب ہم اور معجزوں کے منشا اور اصلیت کو آزماتے ہیں تو ان سے بے دینی پائی جاتی ہے اور ایسے نتائج نکلتے ہیں جو حقیقت معلومہ کے خلاف ہیں اور یہ کہ ان سے نہ فقط بے دینی اور لغویت (بیہودہ، نامعقول) ظاہر ہوتی ہے بلکہ ایسا پایا جاتا ہےکہ آدمی کی ناموری کے لیے دکھائے گئے تھے تاکہ بے پڑھے لوگ دام میں آکر(فریب کھانا، دھوکہ کھانا) تابعداری اور عزت کریں اور روپیہ پیسہ دین اور بعض دفعہ ایسے دفعہ ایسے دھوکے کسی بےجا تعلیم کے رواج دینے یا کسی چیز یا عظمت وغیرہ کے بڑھانے کی غرض سے دئیےجاتے ہیں۔ اس مقام پر راستی کی راہ سے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جنہوں نے معجزے کرنے کا دعویٰ کیا ہے ان میں بہتیروں کو چلن رویہ بھی ایسا خراب تھا کہ یقین نہیں آتا کہ خدائے پاک ایسے خراب آدمیوں کے مدد کر ے لیکن بائبل کے معجزوں پر ایسے اعترا ض نہیں وارد ہو سکتے۔
مذہب عیسوی جس کی بنیاد ان معجزات پر ہے حال کے اور ضروری مطلب کی بڑی حقیقت ہے۔ اس مذہب نے بنی آدم کی تہذیب اخلاق اور دینداری پر بڑا اثر کیا ہے۔ اور پہلے علوم وفنون اور قوانین اور ادب میں بڑا فرق کر دیا ہے اور صرف یہی مذہب آج کے دن تک بڑے زور شور سے ترقی پذیر ہے یہی حالات ہیں جن سے اس مذہب کی تعلیمات کا فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اور جو خود بخود ہمارے دلوں پر اثر کرتے ہیں۔ اور چونکہ مذہب عیسوی کی بنیاد معجزوں پر ہے تو حقیقی نتائج کی مقدار ہمارے دعوے کی تصدیق کرتی ہے یا کم سے کم اتنا ضرور ہے کہ غیر متعقد کو عذر کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر وہ ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہر طرح کے وسائل سے نہ کرے۔
پس جس مذہب کا یہ حال ہو کہ ظاہر ظہور ایسی تاثیر کرے جیسا کہ ہم بتا سکتے ہیں اور جس سے بنی آدم کے درمیان روشنی پھیلے اس مذہب کو اگر کوئی نہ مانے اور بے پروائی کرے تو اسے سوائے بے دینی کے اور کیا نصیب ہوگا۔ کتب مقدسہ کے معجزات کا حال صرف یہی نہیں کہ وہ لغو (بیہودہ، نامعقول)نہیں ہیں بلکہ بڑی غرض ان کی یہ ے کہ اس الہام کی تصدیق کریں جس سے انسان کی موجودہ حالت کے اسرار کھلتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہےکہ آئندہ کو اس کا کیا حال ہو گا اور جہان کے قالب میں نئی روح ڈالے اور وہ آدمیت بتائے جو بڑے بڑے فلسفوں اور عقلمندوں سے نہ حاصل ہوتی۔ عیسوی معجزات کی عظمت اس تغیر کی وسعت پر قیاس (جانچ لگانا، اندازہ) کر لینا چاہیے جو عیسوی مذہب کے جاری ہونے سے ہو اہے۔ مسیحیوں کا عمل مسیحی تعلیم پر اور تعلیم کی صحت بائبل کے معجزات پر موقوف ہے اور جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ کُل معجزات خدا کے لائق اور بہ اعتبار اصلیت اور غرض کے اس کی اعلیٰ اور پاک ذات کے موافق ہیں یہ معجزے انہیں لوگوں نے کیے ہیں جو پاک باز اور ہواخواہ خلائق تھے اور اسی غرض سے کئے تھے کہ مستحکم کے طور سے ظاہر ہو جائے کہ یہ پیغام خدا کا آدمی کے بہت بڑے فائدے کے لیے ہے اور اس کی ذات اور احتیاج(حاجت، خواہش) کے مناسب ہے ایسے معجزات جو ایسے آدمی کریں بے شک خدا کی مہر ہے جو اس نے اپنے پیغام کی تصدیق کے لیے مقرر کی ہے۔
نقص ِ شہادت
چوتھے۔ معجزات ادیان باطلہ اور مسمریزم اور اسپرٹزم کے بہتیرے مشہور اچنبھوں کی جو شہادت پیش کی جاتی ہے وہ ناقص ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی شہادت اس قسم کی نہیں پائی جاتی جس سے ان کا وقوع ظاہر ہو نہ ہمیں اس سے انکار ہے کہ جس طور سے ان کا وقوع مشہور ہوا ہے۔ اسی طور سے ہوئے ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ سب مذہبوں کے لوگوں نے بلکہ شریر بد ذات آدمیوں نے بھی بہتیرے اچنبھے کئے ہونگے لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر واقع میں ان کا وقوع ہوا ہے۔ تو ضرور قوانین فطری سے ہوگا اور جو شہادت ان کے معجزہ ہونے کی نسبت پیش کی جائے گی ضرور ناقص ہو گی بہتیرے افعال عجیبہ جنہوں نے شہرت(مشتہر) پائی اور کتابوں میں انکا ذکر ہے کبھی وقوع ہی میں نہیں آئے تھے بلکہ شریروں کی دغا بازی اور بناوٹ سے اچنبھے(حیرت، تعجب) مشہور ہو گئے۔ اور جو صورتیں بطو نتائج قوانین فطری ظہور میں آئیں ان کی نسبت شہادت جو ہے وہ اپنے حالات کے ساتھ ہے جو اسے ضعیف کردیتے ہیں۔ تمام معجزوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی شہادت مسیحی معجزات کی برابر پائی جاتی ہے۔ چند نقص شہادت معجزات ادیان باطلہ کے اس مقام پر بیان کئے جاتے ہیں۔
نقص شہادت کی کیا صورتیں ہیں؟
اوؔل۔ یہ کہ اس وقت کی شہادت نہ ہو جس وقت کہ وہ فعل واقع ہوا۔
دوؔسرے۔ جس مقام پر فعل واقع ہوا س سے کسی دور جگہ کی شہادت ہو۔
تیؔسرے۔ شہادت ان گواہوں کی جو غالب فرقے کے شریک ہوں اور اس شہادت کے دینے کا انہیں کچھ اندیشہ بھی نہ ہو۔
چوؔتھے۔ بناوٹ کےعلامات اور دغا بازی کا مطلب پایا جائے۔ جو واقعات دنیا می ہوتے رہتے ہیں ممکن ہے کہ سماعی (سُنا ہوا، روایتی ) شہادت پر یقین کر لیے جائیں کیونکہ ایسی چیز کے وقوع پر پہلے ہی سے کچھ اعتراض نہیں لیکن معجزے ایسے واقعات ہیں کہ تجربہ کے خلاف ہیں۔
اس لیے ان کی شہادت بھی چشم دید ہونا چاہیے اور چونکہ اسی شہادت کی بنا پر ہم معجزات کا یقین کر سکتے ہیں اس لیے ضرور ہے کہ وہ شہادت قابل اعتراض نہ ہو جھوٹے مذہبوں کے بہت سے معجزوں اور حال کے اچنبھوںمیں گنجائش شک کی ہوتی ہے یعنی جو نقص شہادت کے مذکور ہو ئے ان میں سے ایک دو ضرور ہی پائے جاتے ہیں یا تو یہ کہ راوی چشم دید (آنکھوں دیکھا) نہیں بیان کرتے یا موقع پر نہیں مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) ہوئے تھے یا اگر ایسا ہو ا تو برسوں بعد وقوع کے ہوا یا جیسا کہ اکثر ہوا ہے گواہوں نے اپنے نفع کے لیے شہادت دی ہو یا کسی دوست کے باطل دعووں کو قبول کر کے اس کی شہرت کے لیے شہادت دی ہو اور کسی نے اس شہادت کی آزمائش اس طور سے نہ کی ہو کہ گواہوں پر سختی اور مصیبت اس کی خاطر پہنچی ہو۔ عیسوی معجزات کی نسبت صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ ان کی شہادت میں اس قسم کا کوئی نقص نہیں پایا جاتا جو بیان مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) ہوئے وہ ایسے زمانہ قریب کے تھے کہ یاد آدمی کی باآسانی قائم رہ سکتی تھی۔اور ایسے مقام پر مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) ہوئے جہاں کہ ذاتی تعصب اور دنیاوی نفع راویوں کے اس کے بر خلاف تھے۔ کسی سخت سے سخت دشمن مذہب عیسوی نے ان معجزات کا انکار نہیں کیا۔ اس کُل تحقیق سے جو دربار اصلیت اور غرض اور شہادت ادیان باطلہ کی ہم نے کی ہم سوچتے ہیں کہ ہر منصف دل (انصاف پسند دل ) ضرور تسلیم کرے گا کہ بائبل کے معجزات ایسے اعلیٰ ہیں کہ کوئی اور معجزہ ان کی برابر نہیں ہو سکتا اس میں شک نہیں کہ یہ عظمت اور برتری ان میں اسی غرض سے رکھی گئی ہے۔ کہ ہم الہام کے اعلیٰ مرتبہ کو جو ایسے مستحکم اور قوی نشانیوں سے دنیا میں پہنچا ہے پہنچائیں۔اب ہم اقوال مذکورہ بالا کی اصلیت دریافت کر نے کے لیے اور مذہبوں کے بعض مذکورہ اچنبھوں کا بائبل کے معجزات سے مقابلہ کرینگے یعنی ان کا فرق بتائے گے۔بہتیرے اچنبھے بت پرستوں کی کتابوں میں ایسے تسخیر انگیز(تابع ہونا ) اور لغو(بیہودہ، نامعقول) ہیں کہ ذکر کے لائق بھی نہیں اور بائبل کے پاک اور نافع معجزات سے ان کے مقابلہ کا نام لینا بھی فریب کفر ہے اور بہتیرے اس وجہ سے کہ ان سے مخالفت اور نسخ قوانین فطری لازم آتا ہے خود بخود باطل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں یونانیوں کے کئی ایک باطل معجزے جو ان کی جھوٹی روایتوں سے معلوم ہوتے ہیں جن کا اس درس کے شروع میں ذکر آچکا ہے اس جگہ چھوڑ دونگا۔ اب صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو قاعدے معجزوں کی اصلیت اور غرض اور شہادت کے دریافت کرنے کے لیے ٹھہرائے گئے ہیں جن کا مذکور (ذکر) ہوا وہ کامل ثبوت اس امر کا ہیں کہ وہ باطل معجزے معجزے نہیں ہو سکتے یعنی حسبِ مفہوم صحیح لفظ معجزہ کے انہیں معجزہ نہیں کہہ سکتے۔ اب میں غیر قوم کے چند ایسے معجزات کا ذکر کرونگا جن کی نسبت کفارہ کا دعویٰ ہے کہ وہ بائبل کے معجزوں کے برابر معتبر ہیں۔
مصری مجوسیوں کے کاموں کا بائبل کے معجزات سے فرق۔
اوؔل۔ وہ اچنبھے(حیرانی ) جو مصری مجوسیوں نے فرعون کے سامنے کئے تھے جن کا ذکر خروج ۸، ۷ میں ہے۔ کا فر کہتے ہیں کہ وہ حقیقت میں ایسے ہی معجزے تھے جو موسیٰ اور ہارون اور خدا کے اور بندوں نے کئے تھے۔ اب ہمیں شہادت وغیرہ کا آزمانا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ ہارون کے ہاتھ اُٹھانے کے بعد جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا خروج ۸،۷ اس آیت کو اصل کتاب میں جو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جادو گروں نے حقیقت میں اس سر زمین پر مینڈک چڑھانے کا ارادہ کیا تھا جیسا ہارون نے کیا تھا۔ بلکہ اس عبات سے کہ جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جادوسے ہاتھ بڑھائے اس لیے نہیں مینڈکوں کو پیدا کریں کیونکہ ان سے تو وہ بہت تکلیف میں تھے بلکہ جیسے ہارون نے مینڈک بڑھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے ایسے ہی جادوگروں نے اپنے جادو کے عصاؤں سے مینڈک دور کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے مگر بجائے اسکے کہ دور کرتے انہوں نے اس وبا کو چڑھا یا اور ترقی دی۔
دوسرے اگر اوپر کے معنوں کو صحیح تصور کروں تو برضامندی تسلیم کرونگا کہ جادوگروں نے اپنے جادو کے عصا اسی لیے بڑھائے جس لیے موسیٰ اور ہارون نے بڑھائے تھےیعنی مینڈکوں کو اس سرزمین پر چڑھا نے کو مگر اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انہوں نے یہ کام خدا کی مدد سے کیا۔ غالباً مینڈک دریا میں ہمیشہ رہتے ہی تھےخدا کی قدرت سے وہ نکل پڑے۔ مجوسیوں نے اپنے جادو کے عصا بڑھائے تو بھی وہ نکلے۔ اگر وہ نہیں بڑھاتے تو بھی ایسا ہی ہوتا۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ کام جادوگروں نے کیا ہے۔ حقیقت میں وہ ان کا فعل نہ تھا۔
تیسرؔےواسطے ثبوت اس امر کے کہ جادوگروں نے یہ کام خدا کی مدد سے کہ معجزے کے لیے شرط ہی نہیں کیا۔ اسی قدر کہنا کافی ہے کہ اگر انہوں نے واقع میں ہاتھ کے اشارے یا شیطانی قدرت سے مینڈک بڑھا بھی دئیے ہوں تو بھی یقیناً دور نہیں کر سکے کیونکہ فرعون نے موسی ٰ کی منت کی کہ خدا سے دعا کرے کہ کس طرح مینڈک دفع ہوجائیں۔ اگر جادو گر یا ان کے باطل معبودجن کی وہ پوجا کرتے تھے ایسا کر سکتے تو فرعون موسیٰ سے کیوں دعا کرتا ہے۔ پھر بعد اس کے موسیٰ اور ہارون نے اور معجزے کئے جو جادوگروں نے بہت ہی کوشش کی اور نہیں کر سکے۔اور جادوگروں نے بھی چاہا کہ اپنے جادوؤں سے جوئیں نکالیں پر نکال نہ سکے اور انسان اور حیوان کو جوئیں لپٹ رہی تھیں۔ تب جادوگروں نےفرعون سے کہا کہ یہ خدا کی قدرت ہے پر فرعون کا دل سخت ہو گیا اور جیسا خداوند نے کہا تھا اس نے ان کی نہ سنی۔ خروج ۸ باب ۱۸۔ ۱۹ آیت یہاں پر انہوں نے صاف اقرار کیا کہ ہم سےیہ سچے معجزے نہیں ہو سکتے اور باب ۹ آیت ۱۱ میں لکھا ہےکہ جادوگر پھوڑوں کے سبب موسیٰ کے آگے کھڑے نہ رہ سکے کہ جادو گر وں اور سارے مصریوں پر پھوڑے تھے خدا کے نبیوں کی کرامات بڑھی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ سب بُت پرست نبی کے قائل ہو کر بیٹھ رہے اور کچھ نہ ہو سکا پس سب جھوٹے مذہبوں کا بائبل پاک کے مقابلہ میں ایسا ہی حال ہے۔ یہی حال شمعون جادوگر کا ہواجس کا ذکر اعمال ۸ باب آیت ۸۔۲۵ تک ہوا ہے۔ یہ شخص اگرچہ بظاہر اسی قسم کے آدمیوں میں سے تھا جو مجوسی یا عقلمند کہلاتے ہیں لیکن ظاہر ظہور اپنے علم کو غرض بیجا میں صرف (خرچ) کرتا تھا جیسا کہ ان دنوں بہتیرے (بہت سے) لوگ کیا کرتے ہیں۔ وہ تو جادو گروں بازیگروں اور فال گویوں میں سے تھا جو شیطان کی مدد کے خواہاں ہوتے اور مردوں سے بات چیت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ آوازوں سے اورمقناطیس حیوانی سے اگرچہ اس زمانے میں یہ نام نہ تھا کام لیاکرتے تھے۔ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ قدت الہیٰ مجھ میں مجسم (جسم دار ہونا) ہوئی وہ بڑا شاطر (چالاک) فریبی (دھوکا باز) تھا۔ انبوہ کثیر جس میں اعلیٰ و ادنیٰ سب طرح کے لوگ تھے اسکے اچنبھوں سے دنگ ہو کر اس کے پیچھے پیچھے پھرتا تھا۔مرنے سے قبل اس نے دعویٰ کیا کہ میں قادر مطلق ہوں۔ مگر مسیح کی قدرت شمعون کی طاقت سے بدرجہ اعلیٰ ثابت ہوئی اور بھیڑ شمعون کو چھوڑ کر فلیبوس کے پیچھے ہو لی اور شمعون بھی بھیڑ کے ساتھ ہو لیا۔ اعمال ۸ باب ۴ تا ۱۰۔
اور جب اس نے پطرس اور یوحنا کے الہیٰ معجزات دیکھے تو جان لیا کہ ان کی سی قدرت مجھ میں نہیں ہے اور ان قدرتوں کے بھید وہی جانتے ہیں اور وہ ایسی جماعت کے شریک ہیں جس میں میری قدت سے اعلیٰ اور افضل قدرت ہے۔ اس نے انہیں روپیہ دنیا بھی کیا کہ کس طرح مجھے بھی یہ قدرت مل جائے مگر یہ نہ سمجھا کہ وہ قدرت صِرف خدا کی طرف سے تھی۔ صرف یہی بات کہ شمعون وہ کام نہ کر سکاجو رسولوں نے مسیح کے نام سے کئے اس امر کو طے کر دیتی ہے کہ ا سکے اچنبھے(حیرت، تعجب) معجزات نہ تھے۔ کیونکہ اگر وہ خدا کے حکم و قدرت سے کام کرتا تھا ایسی لاچاری نہ ظاہر ہرتا۔ لیکن دیکھے اس کے اچنبھے رسولوں کے اچنبھوں کے سامنے بے حقیقت تھے۔
۱۔ شعمون کے بھی محض افعال عجیبہ تھے۔
۲۔ ان سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا۔
۳۔ روپیہ کمانے کے لیے کرتا تھا آیت ۸۔
۴۔ اپنی آبرو بڑھانے کے لیے کرتا تھا۔
۵۔ نتیجہ ان کا یہ تھا کہ لوگ متحیر ہو کر ا س کی عزت کر نے لگیں۔
یعنی اس نے لوگوں کو ایسے تعجب اور دھوکے میں ڈال دیا کہ لوگ اس کے بُرے کاموں کو باآسانی ماننے لگے۔ یہ نہیں لکھا ہے کہ کس قسم کے معجزے اس نے دکھائے یعنی وہ اسی قسم کے لوگوںمیں سے تھا جو عملیات جاننے کا دعویٰ کیاکرتے ہیں۔ اس کی تعلیم چھوٹے اسرار تھے اس کا دعویٰ یہ تھا کہ ارواح مُردگان کی مدد سے کام کرتا اور ستاروں کا حامل جانتا ہوں۔ زمانہ آئندہ کی خبر دے سکتا ہوں۔ زندگی وموت صحت و تندرستی کا حال بتا دیتا ہوں اور غیر محسوس طاقتوں سے میری رسم و راہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اچنبھے(حیرت، تعجب) اس نے واقعہ میں کئے مگر وہ ذہن وجسم کے انہیں اصول نامعلومہ کی رو سے وقوع میں آئے۔ مگر بہتیرے کام اس نے محض جو ئے اور فریب سے کئے اور ان میں بعض ایسی بے جا حرکات بھی تھیں جن کا نتیجہ ہے کہ جہنم کی راہ دکھاتی ہے۔ ہم نے ذرا بھی ایسی کوئی بات نہیں پائی کہ شمعون کے اچنبھے لوگوں کے حق میں کوئی برکت سمجھے جائیں بلکہ بخلاف اس کے بہتیرے اپنے کاروبار بھی چھوڑ بیٹھے اور اس کے دھوکے کی باتوں کو ماننے لگے۔ کُل حالات سے یہی پایا جاتا ہے کہ وہ شریری و خراب تھا لیکن فیلبوس کی تعلیم و معجزات کو دیکھے کہ ان سے کیسے مختلف تھے کہ تما م شہر میں بڑی خوشی ہوئی اعمال ۸ باب ۸ صرف اسی سبب سے خوشی ن تھی کہ بیمار مر داور عورتوں نے خوفناک امراض سے شفا پائی۔ بلکہ اس سبب سے بھی کہ ان کے گناہ معاف ہوگئے اور پاکباز از زندگی بسرکرنے کی طاقت آگئی۔ خراب آدمی نیک ہو گئے۔ ناپاک روحیں بہتوں سے خبر پڑھی تھیں بڑی آواز سے چلا کے اُتر گئیں وغیرہ اعمال ۸ باب ۷۔ انہیں گناہ و شیطان کی غلامی سے نجات پانے کی خوشی ہوئی کہ زیادہ سے زیادہ خوشی جو انسان کو حاصل ہو سکتی ہے وہ یہی ہے۔
ایک جھُوٹا قصّہ جو انجیل شریف کے معجزات کے مقابلے میں پیش کیا جاتاہے۔
تیسرے۔جو مثال کفارکے بڑے عالموں نے عہد ِ جدید کے معجزا ت کے مقابلے پر سوچی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک اندھے اور ایک لولے آدمی کو شہنشاہ و شپاشین نے اچھا کر دیا۔ اس کا ذکر ایک اوررومی مورخ(تاریخ نگار) تسی تس نے کیا ہے۔ بت پرستوں کے معجزات کی یہ ایک بڑی مثال تصور کی گئی ہے اور اسکا حال لوگوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ۔
اسکند ریہ کے عوام الناس میں سے ایک شخص بعارضہ چشم ہو گیا تھا۔ سرافس معبود جس کو بت پرست سب دیوتوں سے زیادہ مانتے تھے اس کے کہنے سے وہ شخص شہنشاہ دشپاشین کے سامنے جا کے گر ِ پڑا ور بہت منت کی کہ میرے اندھے پن کا علاج کیجئے آپ میرے رخسار وں (گال) پر اور آنکھ کے اند ر لعاب ِ دہن (تھُوک) ڈال دیجئے۔
ایک اور شخص نے جس کا ایک ہاتھ بے کار تھا اسی دیوتا کے کہنے سے شہنشاہ سے عرض کی کہ آپ قدم میرے ہاتھ پر لگا دیجئے۔ دشپاشین نے پہلے تو اس درخواست کو سن کر ٹھٹھا کیا او رلغو (بیہودہ، نامعقول)جانا مگر بعد کو کبھی تو اسے شیخی وغرور کے الزام کا کبھی مریضوں کی منتوں کا اور اپنے خوشامدی لوگوں کے رغبت دلانے کا خوف آتا تھا۔ آخرالامر اس نے حکم دیا کہ حکیموں سے دریافت کیا جائے کہ یہ عارضہ علاج انسانی سے دور ہونے کے لائق ہے یا نہیں۔ حکیموں نے اس کی اطلاع خوب مفصل کیفیت کے ساتھ دی کہ اندھا جو ہے اس کی قوت بینائی نہیں سلب(جانے یا مٹانے کا عمل ، جذب کرنا ) ہوئی ہے اگر اس کا نقص دور کر دیا جائے تودیکھنے لگے گا۔
اس قصّہ کے لغو کے دجوہ۔
دوسرا شخص جو ہے اس کے جوڑوں میں نقص ہے اگر معالجہ سے قوت پہنچائی جائے تو کچھ بعید(دور، فاصلے پر) نہیں کہ اچھا ہو جائے اور یہ کہ دیوتاؤں کو بھی شاید آپ سے یہ کام کرنا منظور ہے اور آپ کو دیوتوں نے اس کام کے لیے پسند کیا ہے۔ اور آخر میں یہ لکھاتھا کہ اگر یہ کام ہو گیا تو شہنشاہ کابڑا نام ہوگا۔ اگر نہ ہوا تو شرمندگی عارضہ والوں پر ہوگی۔ وشپاسین نے یہ سمجھ کے کہ ہر بات میرے قبضے میں ہے اور کوئی امر قابل تشویش نہیں ہے جیسا کہ وہ چاہتے تھے کیا اسوقت بہت سی بھیڑ دیکھنے کے شائق پاس کھڑی تھی اور ان کے چہروں سے خوشی کے آثار نمایا تھے غرض شہنشاہ کے قدم لگاتے ہی ہاتھ کام کا ہو گیا اور تھوک لگاتے ہی اندھے کی آنکھیں کھُل گئیں جو لوگ اس وقت موجود تھے اس وقت میں بھی کہ جھوٹ بولنے سے کوئی نفع نہیں ہے۔ ان دونوں واقعوں کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ اب میں کہتا ہوں کہ حسب قول ڈاکڑ پیلی صاحب کے یہ شہادت ناقص ہے۔ تسی تس نے ۲۷ برس کے بعد اس ماجرے کو لکھا اور اسکندریہ میں یہ ماجرا گذرا اور لکھا روم میں بیٹھ کر او روہ بھی سن سنا کر نادوہر چند کے اس کے لکھنے سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ اس نے اس کی تحقیق کی یا اسے اس کی وقوع کا یقین تھا مگر لوگوں نے خواہ مخواہ شہنشاہ اور سرافس دیوتا کی (تعلیم کے لیے ) اسے معجزہ زسمجھ لیا۔ اور اس کا وقوع (اگر فرض کیا جائے) تو شہنشاہ کے خوشامدیون اور تابعین کے درمیان ہوا اور ایسے شہر میں جہاں کہ لوگ پہلے ہی سے بادشاہ کی ناموری اور دیوتا کی پرستش پر فریفتہ تھے۔ اگر ذرا بھی اس علاج کی شہر ت میں مخالفت کرتے یا اس میں کوئی نقص ظاہر کرتے تو داخل سرکشی اور کُفر سمجھا جاتا تھا اور بڑے غور کے لائق بات طبیبوں کی مفصل(تفصیل) کیفیت میں یہ تھی کہ اس سے ایسی بھی صورت نکلتی ہے کہ کوئی ظاہری نشان بیماری کا نہ تھا اس لیے ممکن تھا کہ فریب ہوا ہو کیونکہ ایک شخص کی قوت بینائی نہیں سلب ہوئی تھیں۔ دوسرے کے ہاتھ کے جوڑوں میں کچھ ضُعف(دوچند، دُگنا) تھا اور یہ امر کہ بعض تسی تس کی اس تحریر کو کہ جو لوگ اس کیفیت کے دیکھنے والے تھے وہ اسے ایسے وقت میں بھی مشہور کرتے رہے کہ جس وقت میں ایسا جھوٹ بولنے سے انہیں امید نفع کی بھی نہیں تھی لائق اعتبار سمجھیں گے ہمارے نزدیک کچھ بھی معتبر نہیں۔ اس کے بیان سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس قصّے کو بیان کیا وہ بہت برسوں تک اس پر اسرار کرتے رہے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر جھوٹ بولنے سے انہیں کچھ نفع نہ تھا تو نقصان ہی کیا تھا۔ اور اس قصّےکے بیان کرنے سے کونسی تکلیف و مصیبت انہیں پیش آئی۔ ایسی گواہی دینے سے اگر کسی میں پڑتے یا نقصان اُٹھاتے یا سخت ایذا (تکلیف) پہنچتی یا بُری ذلتّوں سے موت کا سامنا ہوتا تو کیا وہ گوارا کرتے۔ اب ہم معجزات ادیان باطلہ(دین کی جمع) اور بائبل کے حق معجزوں کا فرق بتانے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ دونوں واقع اگر دشمنوں کے سامنے ہوئے ہوتے یا جو لوگ اس وقت موجود تھے ان کی طبیعتوں میں پہلے سے ایسی باتوں کا اعتقاد نہ ہوتا اورجولوگ جلتے تھے وہ اسے دیکھ کر متعجب (حیران) ہوتے اور اس وقت یا بعد کو انہیں اس سے کچھ نفع نہ ہوتا اور جہاں تک ممکن ہوتا لوگ ان واقعوں کو بگاڑتے اور جنہوں نے آپ کو ان واقعات کا گواہ قرار دیا تھا اور اپنے مشاہدے کے بھروسے پر اسے مشتہر(شہرت دیا گیا، مشہور) کرتے پھرتے تھے ان کی۔۔۔ کی آرزوئیں جاتی رہتیں اور طریقہ زندگی کو بالکل بدل دیتے اور اپنے پُرانے منصوبوں اور دستوروں اور خیالوں کو جن میں انہوں نے تربیت پائی تھی ایک لخت چھوڑ دیتے اور اپنی آبرو اور آرام کو کھو دیتے اور شہادت ہی کی وجہ سے طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑتے اور سخت سے سخت تکلیفوں کو صبر سے برداشت کرتے مرنا بھی گوارا کرتے پر گواہی سے نہ پھرتے اور ایسے مذہب پر یقین لانے سےدنیا کے رسم و دستور اور مذہب بدل جاتے اور اٹھارہ سو برس سے برابر وہ تغیرات ہوتے چلے آتے یہاں تک کہ دنیا کو پہلی حالت سے بالکل بدل دیا اور رسوم اور دستور کو درست کردیا ہوتا تو اس وقت یہ کہنا زیب دیتا کہ وسپاشین کے معجزات عہد جدید کے معجزات کے خلاف پر ایک دلیل ہیں۔
اب ہم اختصار(کوتاہی، کمی) کے ساتھ ہندو مذہب کے اچنبھو ن کا کتب مقدسہ کے معجزات سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہندوؤں کے اچنبھے(حیرت، تعجب) یونانیوں اور رومیوں کے جھوٹے قصوں کی طرح سراسر لغو(بیہودہ، نامعقول) بلکہ خراب ہیں اور بائبل شریف کے پاک معجزات کے سامنے ان لغو و خراب اچنبھوں کامان لینا بھی مجھےکفر معلوم ہوتا ہے۔ وہ ہرگز لائقِ ذکر (جو اس قابل نہ ہو کہ اس کے بارے میں بات کی جائے) نہیں ہیں۔ صفحہ( ۵۷ تا ۶۰)پر میں نے تمثلاً ہندوؤں کے بعض معجزات کا جو ذکر کیا ہے ان کو پڑھنے والے ازراہ مہرانی آزمالیں ار کتب مقدسہ کے جس معجزہ سے چاہیں اس کا مقابلہ کر دیکھیں ہندوؤں کے کُل معجزات کی حماقت (بےوقوفی) ظاہر کرنے کو صرف ایک ہی مثال بندردیوتا یعنی ہنومان کی کافی ہوگی۔ کہتے ہیں کہ ہنو مان سورج کو بغل میں مارک کے دنیا کی کسی پوشیدہ جگہ میں لے گیا۔سب عقلمند جانتے ہیں کہ سورج کرہِ زمین سے ۱۳۰۰۰۰۰ درجہ بڑا ہے یعنی ہماری زمین کی مانند تیرہ لاکھ جہان ایک آفتاب سے چھپ سکتے ہیں۔ جس پر بھی ہندو مشہور کرتے ہیں کہ بندردیوتا سورج کو بغل میں دبا کر لے گیا اور رام کے لشکر میں رکھ دیا تاکہ صبح ہونے سے پہلے کچھ پیڑ جمع کر لے۔ذیل کے بیان ہندؤں کے مذہب کی بے اعتباری اور فریب کا حال ظاہر ہوتا ہے۔
۱۔ یہ کہ ان کا میلان کفر و بے دینی کی طرف ہے۔ ہندوؤں کے بہتیرے معبود نہایت بدکار اور بانی بے رحمی اور طرح طرح کی حرکات کے تھے اور ان کی تعلیمات ہندوؤں کو نہایت ہی بے دین کر دیتی ہیں۔ چوری کرنا ، جھوٹی قسم کھانا ، جھوٹ بولنا بلکہ خون کرنا بھی ان کے شاستروں سے جائز ہے مثلاً رومیوں ۸، ۱۰۴ میں لکھا ہے کہ چاروں ذاتوں میں سے اگر کسی کی جان سچ بولنے سے جاتی ہو تو جھوٹ بولنا روا بلکہ سچ سے بہتر ہے۔ پھر رومیوں ۸، ۱۲ تا ۱۰ میں اس طرح آیا ہے کہ عورتوں کو جب کہ شادی کے لیے درخواست کی جائے یا جب کہ گائے گھاس یا پھل کھا جائے یا لکڑی قربانی کے لیے چُرائی جائے یا برہمن کی جان بچانے کا وعدہ کیا جائے تو جھوٹی قسم کا کھانا گناہ نہیں۔ بلاشبہ ہندوؤں کی کتابوں سے صاف ظاہر ہے کہ خود ان کے دیوتا چور اور زانی اور قاتل تھے تو پھر ان کے پیروان سے کیا بہتر ہونگے۔ہم بغیر خطرے صحیح اعتراض کے یہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے معجزات یا ان کے مذہب میں ایسی کوئی بات نہیں معلوم ہوتی جس سے آدمی کے دل کو ذرا بھی صفائی حاصل ہو سکے۔ پریشان گنہگار معافی و صفائی قلب کو خواہان کسی صورت یا سہارا نجات کا ان کے جھوٹے معجزوں میں نہیں پاتا بلکہ باوجود نجات کی عمدہ کوشش کرنے کے گناہ کی غُلامی میں اور بھی گرفتار ہو جاتا ہے دیکھئے مسیح کے معجزات اور پاک تعلیمات ہندوؤں کی تعلیم سے کیسی مختلف ہیں۔
۲۔ شہادت معجزات ہنو(ہندو کی جمع)دناقص اور غیر معتبر ہے۔ اگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ بعید (دُور) نہیں کہ ہندوؤں کے پنڈتون اور فقیروں نے اپنے ہاتھ کی چالاکی یا انسان کے ذہنی و جسمی اصول یا مخفی قوتوں کے استعمال سے کچھ اچنبھے کئے ہوں تاہم ان کی تصدیق کے لیے جو شہادت پیش کی جاتی ہے اگر اس پر بغور لحاظ کیا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس سے کسی طرح نہیں ثابت ہوتا کہ مذکورہ اچنبھوں کا کبھی وقوع ہوا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ہندو ہمیشہ سے سریع الاعتقاد ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ جس کام کا سبب دفعتاً (فوراً) ان کی سمجھ میں نہیں آتا اس کو وہ معجزہ سمجھتے گئے ہیں۔ اسی عادت کے سبب سے چالاک دغا باز آدمی بہ آسانی ان کے درمیان معجزہ دکھانے والے بن جاتے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ہندوؤں کے معجزے نیا مذہب نکالنے کے لیے نہیں تھے بلکہ بر خلاف اس کے ان کتابوں کی تصدیق کے لیے تھے جن کو پہلےسے لوگ مانتے تھے اور اس لیے کہ لوگ ان کی اور برہمنوں کی تعظیم کریں۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ ہمارا مذہب سچا ثابت ہو جائے کیونکہ اس میں عیش و عشرت اور خواہشات نفسانی کے پورا کرنے کی اجازت تھی۔ اور یہ مشہور بات ہے کہ جس چیز کو آدمی کا دل چاہتا ہے اس کی شہادت بھی چاہے کیسی ہو فوراً قبول کر لیتا ہے اور خاص کر جو لوگ سریع الاعتقاد(جلدی بھروسہ کرنے والا) اور عجائب پسند ہوں جیسے ہندو ہیں ان کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔ لیکن کوئی نہیں تسلیم کرے گا کہ یہ مشہور اچنبھے(حیرت، تعجب) کبھی بھی وقوع میں آئے تھے کیونکہ جن کتابوں میں ان کا ذکر ہے انہیں کا اعتبار نہیں کہ کس زمانے میں اورکہاں اور کس طرح لکھی گئی تھیں۔
۱۔ بہتیری باتیں مندرجہ پرآن(جان،روح) اس زمانے کی تاریخوں سے موافقت نہیں رکھتی ہیں بلکہ بدرجہ غائت مخالفت روایات پر ان ہیں۔ مثلاً چنیوں کے تاریخی حالات جو بُدھا مذہب کے سیاحوں نے ہندوستان کے سفر میں لکھے ہیں یا یونانیوں کی تاریخی حالات جو سکندرِ اعظم کے ہندوستان پر حملہ کرنے کی نسبت یا جو یونانی ملک بکتریا کی متصل ہند کی نسبت پائے جاتے ہیں۔ اور مسلمان مورخ (تاریخ دان ، تاریخ لکھنے والا) جو ایک ہزارسال سے زیادہ عرصہ حال بوجہ قرب (نزدیکی) کے جانتے ہیں۔ وہ بھی ہندوؤں کی مقدس کتابوں سے نہ صرف ناموافق بلکہ کمال ہی مخالف ہیں اور ان کی تاریخوں کی صحت کا ثبوت ہندوؤں کی تاریخوں سے بہتر ہے۔
۲۔ پر آن (جان) بھی آپس میں مخالف میں کسی میں کچھ لکھا ہےاور کسی میں کچھ اور یہ مخالفت نہ فقط قصوں میں بلکہ ناموں میں اور تعداد میں اور ترتیب میں اعلیٰ الخصوص بادشاہوں کی نسبت کمال ہے مخالفت ہے۔ صرف یہی نقص ان کے بیانات کی بے اعتباری کے لیے کافی ہے کیونکہ جب دو بیان ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو دونوں صحیح نہیں رہے گے اور بفرض اگر ایک بھی باطل ثابت کیا جائے تو بھی اعتقاد کل کی طرف سے جاتا رہیگا۔
ڈاکڑ مچل صاحب اپنی ایک کتاب (خطوط بنام جوانان ہند) میں اس طرح لکھتے ہیں کہ بہت سے کندہ پتھر ہندوستان کی چٹانوں سے اور مورتیں غاروں سے اور بہت سے ان وقتوں ے سکے ہندوستان اور نیز اس کے قرب و جوارکے ملکوں میں نکلتے ہیں ان سے بھی پُرانوں کے بیانات کا مطابق ہونا غیر ممکن ہے یعنی پتھروں اور مورتوں اور سکوں پر جو عبارتیں کندہ ہیں دوسراسر مخالف مضامین پران ہیں۔ اور اس سے ہر ایک صاف دل سمجھ لے گا کہ ہندوؤں کے پُرانوں کی باتیں جھوٹی ہیں جب ہندوؤں کی کتابیں ایسی جھوٹی اور لغو(بیہودہ، نامعقول) ہیں تو ان معجزوں پریقین لانا جو ان کی جھوٹی کتابوں میں لکھے ہیں سوائے اسکے کہ باطنی معجزہ کہاجائے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک اور بڑی دلیل ہنود (ہندو کی جمع)کے بطلان شہادت کی یہ ہے کہ ان کے معجزات حقائق علمی کے علی الخصوص جغرافیہ زمینی اور نجوم آسمانی کے سراسر مخالف ہیں۔ مثلاً پران کی تعلیم یہ ہے کہ زمین گیند کی مانند گول نہیں ہے بلکہ برتن کی طرح چپٹی ہےاور ۱۴ ارب میل اس کا محیط(احاطہ کرنے والا) ہے حالانکہ حال کے علوم سے یہی ثابت ہوتا ہےکہ زمین گیند کی طرح گول ہے اور صرف ۲۵ ہزار میل اس کا محیط (احاطہ کرنے والا) ہے پھر شاستر میں لکھاہے کہ تمام جہان میں مع سورج کے صرف نو سیارہ ہیں اور سورج بہ نسبت چاند کے زمین سے قریب ہے وغیرہ وغیرہ ۔حالانکہ علم ہیت کے عالموں نے عمدہ دور بینوں سےبخوبی ثابت کر دکھایا کہ تمام جہان میں کم سے کم دس کڑوڑ ستارے تو ایسے ہیں کہ دور بین میں سے دکھائی دے سکتے ہیں اور ایک ہزار ستارے ہم اپنی آنکھوں سے یعنی بغیر دوربین کے دیکھ سکتے ہیں اور چونکہ سب ستارے دراصل سورج میں ان کے متعلق یعنی ان کے تابع سیارے واقمار بھی ہیں یعنی ہمارے آفتاب کی طرح ہر آفتا ب مرکز اپنے تابع سیاروں کا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ارب بتیس کڑوڑ اور کُرے ہماری زمین کی مانند آنکھ سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اور سورج بجائے اس کے کہ زمین سے بہ نسبت چاند کے قریب ہو نوکر درچالیس لاکھ میل دور ہے پس جو عقلمند آدمی جغرافیہ کے صحیح علم سے واقف ہوگا وہ ہرگز ہندوؤں کی کتابوں پر اعتبار نہیں کرے گا۔ اس سے اور نیز دیگرحالات سے جو ہنود (ہندو کی جمع)کے معجزات کے بارے میں ہیں ہم یقین کرتے ہیں کہ ا س کا تسلیم کرنا ضرور پڑےگا کہ ہنود (ہندو کی جمع)کے معجزات کو بائبل شریف کے پاک معجزات سے کچھ بھی مناسبت نہیں۔ جو نقص اوپر بیان کیے ان میں سے معجزات عیسوی پر ایک بھی صادق نہیں آتا۔
محمدی معجزوں کا عیسائیوں کے معجزوں سے فرق۔
اب محمدی مذہب کےمعجزات کو آزما کے یہ دیکھیں گے کہ ان میں اور عیسوی مذہب میں کیا نسبت ہے۔ نہایت بڑے مُصنف اس مضمون کی کتابوں کے جو ہیں ان کی کتابوں سے میں نے کامل تحقیق کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ محمدی معجزات اس کثرت سے لغو(بیہودہ، نامعقول) اور تمسخر آمیز اور مائل بے دینی نہیں ہیں جیسے ہنود (ہندو کی جمع)کے ہیں تاہم بہتیرےان میں کم سے کم نہایت ناکارہ(فضول) ہیں اور بہ اعتبار اعلیٰ و عمدہ مقصد کے ایسے ناقص ہیں کہ انہیں پاک اور کامل خدا کا کام بلکہ ایسے شخص کا کام بھی سمجھنا نہیں ممکن ہےجسے خدا سے مدد ملی ہو۔ اور اگر ان معجزات کی اصلیت اور غرض او رشہادت پر نظر کی جائے تو بہت کچھ وہی نقص ان پر بھی عائد ہوتے ہیں جو ہنود کے معجزات پر ہیں۔
۱۔ وہ بیکار اور خلاف قیاس(جانچ لگانا، اندازہ) ہیں۔ مثلاً محمدی مصنفوں نے لکھا ہےکہ کھانا اورمیوہ جات محمد صاحب کے لیے بہشت سے آتے تھے اور جانور اور پہاڑ اور درخت اور پتھر ان کی تعظیم کرتے تھے۔
۲۔ اس قسم کے جتنے معجزات ہیں ان کی حقیقت کی نسبت جو شہادت پیش کی جاتی ہے وہ نہایت ہی غیر معتبر ہے۔ محمدیوں کے اکثر معجزات حدیثوں میں جو مختلف مصنفوں نے بنائے ہیں پائے جاتے ہیں اور اس کو خود محمدی عالم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی حدیث کی کتاب ایسی نہیں کہ محمد صاحب کی وفات سے ایک سو برس کے عرصہ میں لکھی گئی ہو۔ سب ایک صدی بعد کی ہیں۔ اور اس قسم کی حدیثیں جن کا سلسلہ چار سو بس سے آگے نہیں پہنچتا بہت کثرت سے ہیں۔ خوب جان لینا چاہیے کہ زبانی روایت نہایت بے اعتبار اور غیر یقینی شہادت ہے۔ظاہر ہے کہ محمد صاحب کے بعد ایک سو برس کے عرصہ میں بہت بڑا فرق ان حدیثوں میں ہو اہوگا۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود محمدی علما کی رائیوں میں درباب حدیثوں کے بڑا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک لاکھ حدیث صحیح ہے اور بعض کہتے ہیں کہ پانچ ہزار دوسو پنسٹھ صحیح ہے اور بعض کے نزدیک ہر حدیث کی صحت میں شک ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اقل مرتبہ حدیثوں کی شہادت میں بڑا تفرقہ ہے حتی کہ بجر ایسے آدمی کے جو نہایت ہی سریع الاعتقاد(جلدی بھروسہ کرنے والا) ہو اور کوئی ان حدیثوں کی باتوں کا اعتبار نہیں کرے گا۔
۳۔ دوبارہ ان کے معجزات کے جن کی نسبت مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ قْرآن میں مذکور ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر فی الحقیقت محمد صاحب نے یہ تعلیم کی بھی ہو کہ میں معجزہ دکھا سکتا ہوں تو اس وقت میں بھی بہتر ہے نقص جو ہندوؤں کے معجزوں پر عائد ہوتے ہیں معجزات قرآنی پر بھی وارد ہونگے۔
۱۔ محمد صاحب اور ان کی تعلیمات کی بےدینی کی خاصیت معجزات کوغیر معتبر کر دیتی ہے۔ تعلیمات قرآنی بجائے اس کے کہ آدمی بُری خواہشوں کو روکیں اور بھی تقویت دیتی ہیں اور عیاشی کو ثواب ٹھہراتی ہیں۔ا سمیں خیر خواہی اور نیکی کی طرف ذرا میلان نہیں بُرائی اور خونزیزی اس کی تعلیم ہے۔ قرآن کی تعلیمات محبت اور رحم کے کاموں سے نہیں پھیلیں بلکہ خون ریزی لوگوں کی مہلک تلواروں کے زور سے پھیلیں۔ اس میں دل کے بگڑنے اور جُداہونے کا بہت کم ذکر ہے۔ البتہ صرف ایک امر یعنی شراب خواری کی ممانعت ہے سو وہ بھی ایسی کہ بہشت میں اس کے
ملنے کا وعدہ ہےکثرت ازواج (بیوی) جس کا قرآن سے جواز ہے ہر مصنف دل کے لی نقلاً عقلاًبہ اعتبار انسان کی وضع فطری کے بھی کافی دلیل قرآن کی بے دینی کی تعلیمات کی ہے۔ کون نہیں جانے گا کہ کثرت ازواج(زوج کی جمع ، بیوی) بڑی بُرائی کا چشمہ اور ہر طرح سے مفر(بھاگنے کی جگہ ) اور نہ صرف دین داری کے خلاف بلکہ تہذیب و تربیت کے بھی خلاف ہے تاہم ایک محمدی عالم اسماعیل ابن علی کا قول ہے کہ محمد صاحب نے خود فرمایا کہ مجھے عورتوں اور خوشبو سے شوق ہے۔ فی الحقیقت ایسا معلوم ہوتاہے کہ آخر ی عمر میں محمد صاحب کو عیاشی کا شوق ہو گیا تھا۔ ان کی پندرہ بی بیان اور بر وقت وفات کے نو موجود تھیں۔ سرولیم میور صاحب لکھتے ہیں کہ بلا شبہ محمدصاحب کا چلن رویہ خلاف ِتہذیب تھا ان کا دل کینہ اور خونزیزی اور شہوت اور غصہ سے خالی نہ تھا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایسی باتیں ان سے وقوع میں آئی تھیں۔ کون یقین لا سکتا ہے کہ خدا جو نہایت پاک و رحیم ہے ایسے کاموں کو پسند کرےگا ایسے آدمی کو جیسے محمد صاحب تھے معجزہ دکھانے کی طاقت دے گا۔ لیکن یسوع مسیح کے حالات اور اس کا مذہب جو معجزوں سے قائم ہو امحمد صاحب کے حالات سے کیسا مختلف ہے۔ اسکی تعلیمات بجا ہے اس کے کہ دنیا داروں کی طبیعتوں کے مناسب ہوتیں نہایت مخالف تھیں نہ صر ف عوام الناس کی مرضی اور خواہش اور عادت کے بلکہ شریرپر بے رحم حکام کے غرور اور ظلم کے بھی خلاف تھیں۔ انجیل میں بادشاہوں کو بھی اجازت نہیں ہے۔ کہ سختی یا بے رحمی کریں بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ رحم و معافی اور عدالت اور خیر خواہی کو ہاتھ سے نہ دیں او ریہی تعلیم ہے کہ پاک دل اور پاکباز زہنا آدمی کے لیے نہایت ضرور ہے۔
۲۔ قرآن کی تعلیمات اصول علمی کے خلاف ہیں مثلا سورۃ ۱۵ میں ہے۔ کہ شہات ثاقب شعلے ہیں جو شیطان پر پھینکے جاتے ہیں کیونکہ وہ چوری سے آسمان کی باتیں سُنتے جاتے ہیں اور یہ کہ بُرج آسمانی پر شیطان رہتے ہیں جن کو پتھر مار کر نکال دیا ہے سورۃ ۱۶،۳۱ میں لکھا ہے کہ زمین بے حرکت ہے یعنی وہ اپنے محور پر نہیں گھومتی اور پہاڑ اس پر اس لیے جمائے گئے ہیں کہ ہلنے نہ پائے اور سورۃ ۱۸ میں ہے کہ سورج سیاہ دلدل کے چشمے میں ڈوب جاتاہے۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ذوالقرنین یعنی سکندر اعظم نے اس ماجرے کو یعنی اس جگہ اور اس چیز کو جس میں سورج ڈوبتا ہے خوب دریافت کیا اور وہاں تک پہنچا جہاں سورج طلو ع ہوتا ہے۔ اب کہیے کہ جو شخص زمین کی کلائی اور حرکت کے مسائل مسلمہ سے واقف ہو گا وہ کیونکر قرآن کے مضامین کو مانے گا۔
۳۔ قرآن میں ایسے بھی قول ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف۔ محمدی علما کو بھی اس کا اقرار ہے کہ قرآن میں دو قسم کے آیات ہیں ایک ناسخ اور ایک منسوخ۔ لیکن یہ ایک عجیب ہنسی کی بات اور ہماری عقل کے خلاف ہے کہ بعض آیات جو پہلے نازل ہوئیں بعد کے آیات سے منسوخ ہو جائیں۔ مثلاً سورۃ ۱۶ میں ہے کہ۔ شراب خدا کی دانائی اور مہربانی کا ثبوت ہے تم تاڑ کے درختوں اور انگوروں سے نشے دار عرق اور اچھی پرورش پاتے ہو۔ لیکن دوسرے سورہ میں یہ لکھا ہےکہ وہ شراب اور جوئے کی بابت تجھ سے سوال کرینگے تو ان سے کہہ کہ دونوں فعل بڑے گناہ ہیں۔ ان آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ صریح (آشکارا، ظاہر) مخالفت ہے او ریہ مخالفت عین دلیل اس امر کی ہے کہ قرآن خد ا کا کلام نہیں۔
ہم خود تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی خاص امر ایک زمانے کے لیے مقرر ہو۔ یہ ہو سکتا ہے کہ خدا ایک کام کے کرنے کو ایک دن حکم کرے اور دوسرے دن اس کو منع کر دے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اصول ِ دینی کو خدا ایک وقت میں صحیح ٹھہرا دے اور دوسرے وقت میں غلط کر دے کیونکہ نہ صرف خدا ہی اپنی ذات می غیر متغیر (کبھی نہ تبدیل ہونے والا) ہے بلکہ ذات انسانی کی دینی طبیعت بھی ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ محمد صاح نے تسلیم کیا کہ بائبل کلام ِ ربانی ہے اور تمام اس کی تعلیمات سچی اور پاک ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ قرآن کی بہت باتیں اور تعلیمات بائبل شریف کی تعلیمات کے صریح(آشکارا، ظاہر) مخالف ہیں۔ مثلا ً قرآن میں لکھا ہے کہ نوح کا ایک بیٹا طوفانً میں ڈوب گیا اور فرعون کے بیوی نے موسیٰ کو بچایا حالانکہ بائبل میں لکھا ہےکہ نوح کا سارا گھرانا بچ گیا اور فرعون کی لڑکی نے موسیٰ کو بچایا۔ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ یسوع کی ماں مریم عمران کی لڑکی اور ہارون کی بہن تھی۔ (سورۃ۱۴) اور مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ جیتاآسمان پر اُٹھایا گیا۔ (سورۃ۴) او ریسوع خدا کا بیٹا نہ تھا۔ یہ سب باتیں عہد جدید کے مضامین کے بالکل خلاف ہیں۔ ہم بہت اورمثالیں جو بائبل کے خلاف ہوں قرآن سے لا سکتے ہیں لیکن اگر محمد صاحب نے سچ کہا ہے کہ بائبل الہامی یا خداکا کلام ہے۔ تو قرآن کے باطل ثابت کرنے کو ایک ہی خلاف کافی ہے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ قرآن و بائبل جو با ہم صریح(آشکارا، ظاہر) مخالفت رکھتے ہیں دونوں صحیح ٹھہر سکیں یعنی اجتماع ضدیں ممکن نہیں۔ اور اس کا محمد صاحب نے خود اقبال کیا ہے۔ کہ بائبل شریف صحیح ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن برحق (سچا) نہیں ہو سکتا اور جب قرآن حق نہیں تو مضامین دربار معجزات اس میں مندرج ہیں وہ بھی اعتبار کے لائق نہیں رہے گے۔
۴۔ درباب اس دعویٰ کے محمد صاحب کو معجزہ دکھانے کی قدرت تھی۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ معجزوں کا ذکر اشارتاً قرآن میں اکثر جگہ آیا ہے مگر کسی آیت میں صاف نہیں لکھا ہے کہ محمد صاحب نے معجزے کئے۔ ایسی بہت آیات ہیں جن میں محمد صاحب نے صاف کہا ہے کہ میں معجزے دکھانے کو نہیں بھیجا گیا ہوں۔ مثلاً سورۃ ۱۳ میں ہےکہ اے محمد کافر کہتے ہیں کہ جب تک کوئی نشانی خدا کی طرف سے تجھ پاس نہ آئے اس وقت تک ہم یقین نہیں کرینگے تو خدا کی طرف صرف وعظ و نصیحت کے لیے مقرر ہی نہ کر معجزے دکھانے کے لیے۔سورۃ ۱۷ میں ہے کسی بات نے ہمکو معجزوں کے ساتھ بھی بھیجنے سے نہیں روکا بجز ا س کے کہ اگلی قوموں نے اسے فریب اورجادو جانا لیکن ہمیں اس باب میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں جو مذکورہ باتیں ڈاکڑ مچل کی کتاب۔ خطوط بنام جوانان ہند کے مطابق ہیں ان سے ہر مصنف کا دل مان لیا گیا کہ یہ دعویٰ محمد صاحب نے حقیقت میں معجزات دکھائے غیر معتبر ہے اور اس بیان سے بھی بخوبی ظاہر ہوگا کہ محمد صاحب نے کبھی معجزات نہیں کئے اور وہ ایسے تمسخر انگیز اورمہمل ہیں کہ کوئی منصف دل ان کا خدا کی طرف سے ہونا یقین نہیں کرے گا مگر چونکہ مسلمان وقوع معجزات پر علے الخصوص معجزات قرآنی پر بہت ہی اصرار کرتے ہیں اس لیے ہم انہیں بائبل شریف کے معجزات سے مقابلہ کر کے دیکھے گے۔ اس مقام پر ڈاکڑ مچل صاحب کی کتاب سے چار معجزوں کا ذکرکیا جاتا ہے۔
معجزہ شق القمر
۱۔ معجزہ شق القمر۔ چند معجزات کا جن کی نسبت مفسرین کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن میں مذکور ہیں یہاں ذکر کیا جاتاہے ان میں نہایت مشہور معجزہ شق القمر ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن اس بارہ میں کیا کہتا ہے۔ سورۃ ۲۴ میں ہے کہ عدالت کی گھڑی قریب ہے یا لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ ہوگا کہ قریب آئی ہے۔ اور پھٹ گیا چاند اور اگر وہ دیکھیں۔ (یعنی دیکھیں گے نشانی تو پھرجائیں گے) یہ کہہ کر یہ صریح(آشکارا، ظاہر) جادو ہے۔
اس آیت کے معنوں پر محمدی خود متفق نہیں ہیں۔ بعض سمجھتے ہیں کہ محمد صاحب نے شاعرانہ زمانہ استقبال کا ماضی میں ذکر کیا ہے اور ایسا عبرانی اور عربی میں اکثر ہوا ہے۔ اس صورت میں چاند کا پھٹنا ایک ایسی نشانی ٹھہرے گی جس کا وقوع قیامت کے دن ہوگا۔ اور آیات مابعد کا مطلب ہمارے اس ترجمہ کے موید (تائید کرنا ) ہے۔محمد صاحب نے یہ نہیں کہا کہ بے اعتقاد باوجود نشانی دیکھنے کے پھر جاتے ہیں بلکہ یہ کہا کہ اگر وہ دیکھیں یقیناً اگر محمد صاح کا مطلب یہ ہوتا کہ اس معجزے کا وقوع حقیقت میں ہوا تو وہ اکثر کفار کے شرمندہ کرنے کو اس کا ذکر کیا کرتے۔
دوسرے یہ کہ محمد صاحب یہ نہیں کہتے ہیں کہ میں نے چاند پھاڑا اگر یہ عجیب بات ہوئی بھی ہوتو اس سے صرف خدا کی قدرت ثابت ہوگی۔ اس سے محمد صاحب کے دعووں کی ذرا بھی تائید نہیں پائی جاتی تیسرے یہ ظاہر ہے کہ اس مقام پر چاند کا شق ہونا قیامت کی علامت قرار دی گئی ہے۔ پس اگر محمد صاحب کے وقتوں میں یعنی جسے تیرہ سوبرس ہوئے یہ واقعہ ہو ابھی ہو تو نشانی قیامت کی کیسی ہو سکتی ہے۔ قیامت تو ابھی تک نہیں آئی۔
۲۔ معراج۔ دوسرا مشہور واقعہ محمد صاحب کی معراج ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ۔ پاک ہے وہ جن سے اپنے بندے محمد کو مسجد الحرام یعنی مکہ سے مسجد الاقصے یعنی بیت المقدس پہنچایا۔ محمدی عالموں سے معلوم ہوا کہ محمد صاحب ساتوں آسمانوں میں ہوئے خدا کی عین حضوری میں پہنچے اور اسی رات کو مکے کو لوٹ آئے۔ لیکن قرآن میں ایک لفظ بھی اس قسم کا نہیں آیا ہے اس لیے محمد صاحب پر الزام دینا نہیں چاہیے یہ قصور ان کے پیروں کا ہے۔ اور اگر فرض بھی کیا جائے کہ محمد صاحب نے یہ کام کیا ہے تو بھی اس میں کوئی معجزہ نہیں پائی جاتی۔ ہم اکثر بولتے ہیں کہ خواب میں ہم نے ایسا اور ایسا کیا اور فلانی جگہ پہنچے اس لیے عقلاً اس کا مطلب یہی ہے۔ بہتیرے محمدیوں کی بھی یہی رائے ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد صاحب کی بی بی حفصہ نے صاف صاف کہا کہ معراج کی رات آپ بستر سےنہیں ملے۔ ایسے مقدمے میں حفظہ کی گواہی نہایت معتبر ہو گی۔ یہ ممکن ہے کہ محمد صاحب کی جوش طبیعت سے یہ تمیز نہ رہا ہو کہ یہ واقعہ حقیقت میں گزارا یا خواب تھا یا انہوں نے بِلااردہ دھوکا دہی کےحقیقی تصور کر لیا ہو اس کی شہادت خود محمد صاحب ہی دیتے ہیں۔ ہم کیسے صرِف ایک گواہ کی گواہی پر جبکہ وہ اپنی گواہی آپ دےیقین کر سکتے ہیں۔
۳۔جِنون کا ایمان لانا۔تیسرا عجیب ماجرا جس کا قرآن میں ذکر ہے اور جس کو مسلمان معجزہ قرار دیتے ہیں یہ ہے کہ۔ جنوں کا ایک گرو ہ محمد صاحب کا قرآن پڑھنا سن کے ایمان لایا اور جاکر اپنے ساتھیوں کو دعوت اسلام کی۔ (دیکھو چھیالیس و بہتر) کہتے ہیں کہ جن بھی ایک مخلوق ہے جو نہ آدمی ہے نہ فرشتہ۔ ایک عالم مسلمان کا قول ہے کہ وہ شیطان کی زیارت ہیں اور فرشتوں سے ان میں اتنا فر ق ہے کہ ان کے لڑکی لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ اس معجزے پرسوائے اس کے اور کسی بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں ہےکہ ہمیں اول جنوں ہی کے وجود میں کلام ہے کہ آیا ایسی کوئی مخلوق ہے۔ پھر محمد صاحب کی شہادت اس بارے میں کس کام کی ہے۔ کیا بعید ہے کہ محمد صاحب نے ایسی کوئی چیز خواب میں دیکھی ہو لیکن ہمیں ان کے خواب سے کیا کام ہے۔ ہم اس معاملہ کو زیادہ طول دینا نہیں چاہتے۔ غرض یہ ہے کہ محمد صاحب کے دعووں کی صداقت(سچائی ) اس سے مطلق(آزاد) نہیں ہوتی۔ عیسائیوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح کو فرشتوں نے دیکھا اس کو کوئی عیسائی معجزہ تصدیق رسالت نہیں کہتا۔ تصدیق رسالت کے لیے ضرور ہے کہ معجزات صاف اور صریح(آشکارا، ظاہر) ہوں کوئی ان کا انکار نہ کر سکے۔
۴۔ فتح جنگ بدر معجزہ نہیں ہے۔ امر چہارم مذکورہ قرآن جسے مسلمان عجیب معجزہ سمجھے ہیں جنگ بد ر ہےجسمیں محمد صاحب فتح پائی تھی۔ کہتے ہیں کہ محمد صاحب کے ساتھ صرف تین سواُنیس آدمی تھےاور دشمن قریب ہزار کے تھے۔ قرآن کے تیسرے سورۃ آیت ۷ کا مضمون یہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں کی مدد کو اول ایک ہزار پھرتین ہزار فرشتے بھیجے۔اس لڑائی میں ۷۰ دشمن اور صرف ۱۴ مسلمان مارے گئے۔ یہ قصہّ اپنے مضمون کی وجہ سے باطل ہے۔ کیونکہ ۱۰۰۰ آدمیوں کی شکست کے لیے ۴۰۰۰ فرشتوں اور ۳۱۹۔ آدمیوں کی کیا ضرورت تھی۔ کسی مسلمان نے ان فرشتوں کو نہیں دیکھا۔ قطع نظر اس کے اگر صرف ۳۱۹ ہے مسلمانوں نے بغیر مدد فرشتوں کے ۱۰۰۰ آدمی کو شکست دی تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ تھوڑی برس ہوئیں کہ سر چارلس صاحب نے ملک سندھ کو حالانکہ مخالف کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی فتح کیا۔
معجزاتِ رومن کیتھولک
عمدہ معجزات مذکورہ محمد یان یہی ہیں لیکن ہم نے ثابت کر دکھایا کہ جو شہادت ان کے وقوع کی نسبت پیش کی گئی ہے وہ نہ صرف ناقص ہے بلکہ یہ معجزات بھی باوجود اعلیٰ و عمدہ کہلانے کے عمدہ و اعلیٰ مقصد سے ایسے خالی اور ایسے لغو(بیہودہ، نامعقول) اور حقیر ہیں کہ کتب مقدسہ کے پاک معجزات کے سامنے انہیں ایک وہمی بیمار آدمی کی تخیلات کہنا چاہے۔ جو مذہب اپنی حقیقت کے ثبوت میں ایسی شہادت رکھتا ہو ا کا کون اعتبار کرے گا بلکہ وہی معجزے جو قرآن کی تصدیق کے لیے پیش کیے جاتے ہیں اسے جعلی چابت کرتے ہیں۔ اور جبکہ عمدہ معجزات قرآنی کا یہ حال ہے تو حدیثیں جو چھوٹی روایتیں ہیں وہ کِس گنتی کی ہیں۔ ان سےکوئی نرِا ہی جاہل دھوکا کھا جائے لیکن جو تعلیم یافتہ وغیرہ متعصب ہیں وہ ان باتوں کو نظر ِ حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ میں ہندوؤں کے معجزات کی نسبت کہ آیا ہوں اسی طرح مسلمانوں کی معجزوں کی نسبت بھی کہتا ہوں کہ کتب مقدسہ کے معجزات سےان کے مقابلہ کا نام لینا بھی بیجا (فضول) ہے۔ مفت میں وقت کا ضائع کرنا ہے اور بہ اعتبارعیسوی معجزات کے اعلیٰ خاصیت کے یہ کہنا چاہیے کہ ایساکرنا بڑ ی نادانی اور صریح(آشکارا، ظاہر) کفر کی بات ہوگی۔ ا مر کوثابت کر کے کہ تمام معجزات مذکورہ دیگر ادیان باطل (جھوٹے دین ) ہیں یعنی وہ معجزات ِ الہیہ نہیں ہو سکتے او راسی سبب سے بہ حسب صحیح مفہوم و تعریف معجزات عیسوی کے ان کو معجزات حقہّ نہیں قرار دے سکتے اور بہ سبب لغویت اور منشا بے دینی اور نقصان شہادت وہ اس لائق نہیں کہ ان کو معجزہ کہیں۔ اب ہم ان معجزات کے دریافت کی طرف متوجہ ہوتی ہیں جن کے وقوع کا ایسے اشخاص دعویٰ کرتے ہیں جو آپ کو عیسائی کہتے ہیں۔ خصوصاً رومن کیتھولک او ر وہ کرامات جن کو رومن کیتھولک کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کی ہڈیوں سے سرزد ہوئی ہیں۔لیکن یہ معجزے بھی مثل ایسے عجائبات کفار ے ایسے لغو (بیہودہ، نامعقول)اور بااعتبار اپنے منشا کے ایسے پوچ ولچر اور بہ اعتبار شہادت کے ایسے ناقص ہیں کہ تمام سچے روشن ضمیر عیسائی ان کو بھی باطل جانتے ہیں۔
اعتراضِ کفار
کفار رومن کیتھولکوں کے معجزات کو تمام معجزات ِ حقہّ کی حقیقت کے مقابل میں معترضانہ پیش کر کے کہتے ہیں کہ اگر یہ معجزات جن کے وقوع اور ظہور کا دعوے اشخاص مدعی عیسائیت نے کیا ہے باطل ہیں تو مسیح اور اس کے رسولوں کے معجزات بھی باطل متصور ہونگے۔ بجواب اس کے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس امر کا ضرور لحاظ رکھنا چاہے کہ سچے عیسائیوں کے درمیان بعض ریاکار بھی ضرور ہوتے تھے۔ بعض آدمی بلکہ بعض پادری بھی خصوصاً کلیسائے رومن کیتھولک میں ایسے گذرے ہیں جنہوں نے مذہب ِ عیسوی صِرف اِس غرض سے اختیار کیا تھا کہ حکم ان کی قدرومنزلت کریں اور عزت ودولت حاصل ہو۔ اور ان کے دل روح القدس سے متاثر نہ تھے۔ اسی سبب سے ہر طرح کے فریب اور شرارت کیا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی خوب جان لینا چاہیے۔ کہ کِسی عقلمند کے نزدیک ایسے آدمیوں کا ریاکاروں کی جماعت میں پایا جانا کوئی دلیل مذہب عیسوی کی حقیقت یا صحت و عمدگی کے مخالف نہیں۔ نہ باطل معجزوں سے حق معجزوں کے خلاف پر کچھ دلیل ہو سکتی ہے۔
عقلاً کوئی نہیں کہ سکتا کہ بعض جعلسازوں نے کھوٹا روپیہ چلایا ہے اس لیے خاص روپیہ کہیں نہیں ہے بلکہ کھوٹے کا ہونا عین دلیل اس بات کی ہے کہ گہرے کا وجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کھرے کا امتیاز کہا ں سے ہوتا ایسا ہی حال مذہب عیسوی اور اس کے معجزات کا قیاس(جانچ لگانا، اندازہ) کر لینا چاہیے دربار معجزات رومن کیتھولک عیسائیوں کے ولایت امریکہ کی ایک جید عالم و معلم ڈاکڑ ہاچ صاحب اس طرح فرماتے ہیں کہ مختلف اعتبارات سے ان کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ بعض معجزے بہ اعتبار اصلیت کے غور طلب اور بڑے معلوم ہوتے ہیں اور بعض مثل بازی طِفلان ہیچ اور بعض نامعقول اور بعض مستلزم کفر ہیں۔ دوسرا طریقہ ان کے تقسیم کا یہ ہے کہ ان کے اصل منشا کو دریافت کرنا یعنی یہ کہ کس لیے وہ معجزات دکھائے گئے تھے بعض معجزے اشخاص یا مقامات یا اشیا ئے مخصوصہ کے اظہار ِ تقد س کے لیے بعض کِسی ایجادی مسئلے یا بدعت کے قائم کرنے کے لیے مثلاً اعتقاد اعراف اور اولیا اور اقطاب اور باکرہ مریم وغیرہ کی پرستش قائم کرنا۔ بعض اس لیے کہ لوگ ماننے لگیں کہ فلاں تبرکات فلانے بزرگ کے ہیں۔ روپیہ جمع کرنے اور قوت و شوکت بڑھانے کے لیے ہے ایسی باتیں لوگ کیا کرتے تھے ایسے معجزات کی نسبت ہم مندرجہ ذیل نتائج نکالتے ہیں۔
۱۔ بمقابلہ معجزات مندرجہ بائبل کے دینداری کے اعتبار سے وہ معجزات نہایت ادنی لیکن ظاہری شان و شوکت میں اعلی اور ایسی ایسی باتیں ان کے ساتھ ہیں کہ لوگ خواہ مخواہ ماننے لگیں۔بہتیرے ان میں سے ایسے فوق الطاقت و العقل نہیں جیسے خلاف عادت و عقل ہیں۔ مثلاً فلان عیسائی درویشوں کے ساتھ جنگلی درندے گینڈے ، شیر دوستی رکھتے تھے باتیں کیا کرتے تھے۔ مذہب کو مانتے بُرائیوں سےتو بہ کرتے اور دیندار ہو جاتے تھے وغیرہ۔
۲۔ وہ معجزے مذہب عیسوی کے استحکام کے لیے نہیں بلکہ۔۔۔ زندگی بسر کرنے اور عشاِ ربانی کی قوتِ سحری ثابت کرنے اور بزرگوں او ر ان کی تبر کات کی پرستش کرنے اور بہتیرے اور ناپاک توہمات کے رواج دینے کو دکھائے جاتے تھے۔
۳۔ رسولوں کے زمانے سے جس قدر بُعد ہوتا گیا اسی قدر ان کی تعداد بڑھتی گئی۔ حالانکہ کوئی وجہ یا ضرورت ان کی نہ تھی۔ ا س زمانے کے بہتیرے متحد (اکٹھے) عیسائی عالم جیسے اگسٹین نارٹن اور گرِبگری اول گذرے ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ چھوٹے تبرکات محض دھوکا دہی اور عوام الناس کے فریب دینے کے لیے تھے۔ باوجود یہ کہ رومن کیتھولک کے بہت سے معجزات لغو(بیہودہ، نامعقول) اور جھوٹے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ایسے سب معجزات عمداً فریب سے واقع ہوئے۔ معجزات اور فریب کے درمیان بہت سے درمیانی مراتب خود فریبی کے ہیں۔ مثلاً خوابِ بیداری۔واقعات اور علاج مقناطیسی اور روح انسانی کے غیر معمولی حالات جن کو کاملِ اسرار کہنا چاہیے اور جن کو ہم باوصف ہرروز کی دیکھ بھال کے نہیں معلوم کر سکتے ہیں۔ ایسے متعلق کاموں کے دریافت کرنے میں ہم کو نہایت درجہ کی احتیاط چاہیے۔ جھوٹی باتوں اور وہم کے اسرار سے یہ یاد کر کے بچنا چاہیے کہ آسمان و زمین میں بہتیری باتیں ایسی ہیں جو حکمت نے بھی کبھی خواب میں نہیں دیکھیں۔ تاہم حقیقی معجزات کا فرق باطل معجزوں سے بہ آسانی معلوم ہوجاتاہے۔ معجزات مندرجہ کُتب ِ مقدسہ میں کوئی ایسا بےکار اور تمسخر انگریز نہیں جیسے رومن کیتھولکوں کے معجزات فضول باتوں سے بھرے ہیں۔
بزرگ جنورنیس کا عجیب قصّہ
مثلاً بزرگ جنورینس کا عجیب قصہ کہ ان کا سر اور خون بوتلوں کے اندر شہر نپلس میں رکھا ہے اور خاص موقعوں پر جب دونوں بوتلوں کو ملاتے ہیں تو وہ خشک اور سخت خون پگھل کر مثل تازہ خون کے رقیق(پتلا ، باریک ) ہو جاتا ہے۔ (دیکھو صفحہ ۱۴) جاہل آدمی جوش ِ مذہبی سے اندھے ہوکر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے ایسا ہوتا ہے۔ اور بزرگ موصوف کی لاش کوپوجتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ یہ جعلی معجزہ کئی وجہ سے صریح (آشکارا، ظاہر) البطلان ہے۔
اس قصّہ کا بطلان کئی دلائل سے
۱۔ علم طبیعات کے اصول سے بہتیری چیزیں ایسی بن سکتی ہیں کہ تاریک و بند مکان میں رکھے رہنے سے سخت ہو جائیں لیکن جب انہیں باہر نال کر دھوپ دی جائے تو فوراً رقیق(پتلا ، باریک ) ہو جائیں۔ غالباً وہ خون بھی اسی قسم کی چیزوں میں سے ہوگا۔
۲۔ جس طریق سے فریبی اور چالاک راہب یہ کیفیت دکھاتے ہیں اس سے کچھ بعید نہیں کہ دو بوتلیں ایک خشک اور سخت خون کی اور ایک تازہ رقیق(پتلا ، باریک ) خون کی جیب میں چھپی رکھتے ہوں اور ہاتھ کی چالاکی سے تازہ رقیق(پتلا ، باریک ) خون کی بوتل کو جیب سے فوراً نکال کر سروں والی بوتل سے لگا کر یہ کہتے ہونگے کہ دیکھو سخت اور خشک خون سر والی بوتل کے مِلانے سے رقیق(پتلا ، باریک ) ہو گیا۔ چالاک راہیوں کو کچھ دشوار نہیں کہ تماشائیوں سے جو اس خانقا ہ (کسی پیر یا درویش کا مقبرہ) میں جمع ہوتے ہیں آنکھ بچا کر ان واحد میں ایسا کر لیں۔ اس ملک میں ادنی ٰ بھانمتی ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ اس ساختہ معجزے سے بھی نہایت مشکل اور عجیب کام ہوتے ہیں لیکن جس غرض سے یہ عجیب کیفیت وہاں کے راہب (راستہ دکھانے والے) دکھاتے ہیں وہ غرض ایسی نا معقول ہے کہ ہرگز اسے معجزہ الہیٰ کہنا زیب نہیں دیتا۔ وہ لوگ جاہلوں کو اس غرض سے یہ کیفیت دکھاتے ہیں کہ ان کی پرستش اور تعظیم کریں اور جانیں کہ جب کہ بزرگ جنورنیس کے سر اور خون میں ایسی قدرت ہے تو ہم جو زندہ ہیں کیسی قدرت والے ہونگے۔ پس یہ عجیب واقعہ بھی ادن ریاکارلوگوں کے بہت سے جعلی معجزوں کی مانند ہے اور ایسے باطل معزے اس لائق نہیں کہ کتب مقدسہ کے معجزات سے انہیں کچھ نسبت دی جائے مگر دو اچنبھے(حیرت، تعجب) ایسے ہیں جن کی نسبت کافر کہتے ہیں کہ وہ ایسے ہی لائق اعتبار ہیں جیسے معجزات مندرجہ بائبل اور اگر وہ باطل تصور کیے جائیں تو کُتب مقدسہ کے معجزات کو بھی صحیح نہیں جاننا چاہیے۔ اب ہم ان کا بھی مختصراً کتب مقدسہ کے معجزوں سے مقابلہ کرینگے۔
ٹانگ کا بطریق اعجاز بن جانا
۱۔ یہ معجزہ کہ اسپین کے رومن کیتھولک کلیسیا میں ایک نوکر کی ٹانگ روغن پاک ٹھونٹھ پر ملنے سے بنے گی۔ یہ قصہ کارڈنل ڈی رٹنز صاحب کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے بشپ صاحب موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) نے لکھا ہے کہ شہرسارگوسا کی کلیسیا واقع ملک اسپین میں مجھے لوگوں نے ایک آدمی دکھایا جو وہاں لیمپ جلانے پر نوکر تھا اور کہا کہ یہ شخص کئی برس اس پھاٹک پر ایک ٹانگ کار ہا۔ میں نے (یعنی ڈی رٹنز صاحب نے )اس کی دونوں ٹانگیں دیکھیں۔ اس بیان کو بغور آزمانے سے صاحب موصوف کا مطلب صاف معلوم ہوتا ہے۔ صرف مصنوعی ٹانگ کا لگا دینا اس قصہ کے سچا ٹھہرانے کو کافی تھا۔ جس جگہ ٹانگ بنا کر لگانا کوئی جانتا نہ ہو اور کسی نے یہ حکمت و کاریگری سُنی نہ ہو وہاں مصنوعی ٹانگ کسی حکمت سے بنا کر لگا دینے کو بھی جاہل لوگ معجزہ سمجھے ہونگے اور تمام شہرت ہو گئی ہوگی۔ کہ فلانے پادری صاحب کے پاک تیل ٹھونٹھ پر ملنے سے پھر وہی ٹانگ بنے گی۔ ڈی رٹنز صاحب کے بیان سے صرف اتنا پایا جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں ٹانگیں دیکھیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ میں نے دونوں ٹانگوں کو بغور آزمایا۔ صاف ظاہر ہے کہ صاحب موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) نے آزمایا نہیں انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ میں نے اسے چلتے دیکھا۔ اس میں شک نہیں ک کارڈنل صاحب نے جو کچھ دیکھا اور جس کی شہادت دی وہ صرف مصنوعی ٹانگ پر بھی صادق آئے گا۔ اصلی ٹانگ کی جگہ ٹانگ بنا کر لگا دینا کچھ ایسی بات نہیں کہ اسے معجزے کہا جائے۔ اس ملک میں بھی بہتیرے ایسے ہیں جیسا ڈاکڑ پانی صاحب لکھتے۔ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ خادم الدینوں نے اپنی و ناموری کے لیے اس قصّہ کو خوب بنایا ہوگا اگر وہ لوگ خود ا س قصّہ کو بتاتے تو کسی کی اخیر صدی کے وسط میں یہ جُرات نہ تھی کہ اس پر کچھ بحث کرتا جیسا کہ یہ قصّہ عوام کے جوش طبیعت اور خیالات کے مناسب تھا ویسا ہی کلیسیا کے لوگوں کے نفع سے بھی خالی نہ تھا۔یہاں تک کہ تعصب اور اختیار دونوں نے کامل جہالت پر موثر ہو کر ایسے مگر گانٹھنے میں کامیابی حاصل کی۔ اب معجزات عیسوی کے حالات کو دیکھئے کہ اس سے کیسے مختلف ہیں۔ یہ بےشک تعجبات سے ہے کہ مخالفین دینِ عیسوی عہد جدید کے معجزات کے مقابلہ میں ایسی لغو باتیں پیش کرتے ہیں۔مادرزاد اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو یسوع مسیح نے تندرست کیا اور اپنے حکم سے طبریاس سمندر پر طوفان کو تھما دیا۔ دفن ہونے سے چار روز کے بعد جب لعزر کی لاش کا سڑنا شروع ہوگیا تھا ا س قبر سے نکال کر زندہ کر دیا بھلا ایسے معجزوں کو ان لغو(بیہودہ، نامعقول) باتوں سے کیا نسبت ہے۔ بلا شبہ ڈی رٹنز صاحب کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب موصوف کو خود اس کا یقین نہ تھا لیکن کافر یہ کہتے ہیں کہ صاحب موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) نے اس لیے اس کا یقین نہیں کیا کہ لوگ جان لیں کہ سب معجزات ایسے ہی غیر معتبر تھے۔ مگر یہ دلیل ان کی ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ جماعت میں جعلسازی واقع ہوئی تھی اس لیے تمام جماعتوں کی کُل باتیں دھوکے اور فریب کی ہوتی ہیں۔ بڑے تعجب (حیرانی ) کی بات ہے۔ کہ کافر ایسے نادان ہو گئے کہ سبب کفر کو ایک دلیل سے جو بد یہی ضعیف ہے خطرہ میں ڈالتے ہیں۔
دعوے باطل کہ ابی پارس کی قبر پر مریضوں نے شفا پائی
۲۔ دوسری مثال جس کا کافر اکثر حوالہ دیتے ہیں وہ عجیب شفا ہے جو مریضوں کو ابی پارس کی قبر پر حاصل ہوئی تھی۔ یہ مشہور ہوا تھا اور بہتوں نے یقین بھی کیا کہ ہزاروں نے اس مشہور آدمی کی قبر پر شفا پائی اور بہت مریض اپنے گھروں ہی میں ابی پارس کے تبرکات کی برکت سے یعنی اس بزرگ کی مورتوں اور اس مٹی کی برکت سے جو قبر پر سے لائی جاتی تھی اچھے ہو گئے۔ اس باب میں اورنیز ان دلائل کے لیے جو ایسے معجزات باطلہ کی تائید میں بمقابلہ معجزات ِحقہ عہد جدید پیش کئے جاتے ہیں بیان مندرجہ ذیل کافی ہوگا۔
۱۔ تعداد ان کرامات شفا ئے مریضان کی جن کا وقوع ثابت کیا جاتا ہے بہت تھوڑی ہے ۔ اصل تعداد ا س کی مورخوں (تاریخ لکھنے والے، تاریخ دان ) نے صرف نو لکھی ہے۔
بطلان دعویٰ مذکورہ بوجھ
ہزاروں لاکھوں مریضوں میں سے جو اس قبر پر آئے تھے لکھا ہے کہ کل تو اچھے ہوئے۔ بہتیرے لوگ آج کل ایسے ہیں کہ آپ کو حکیم مشہور کر کے دوائیں کرتے ہیں اور ہزاروں میں بعض اچھے بھی ہو جاتے ہیں تو ا س سے ان کے فریبی اور دغا باز ہونے میں کچھ شک نہیں آتا۔
مسمرنیزم اور کچی دواؤں کے استعمال سے اس سے بھی زیادہ عجیب واقعات وقو میں آئے ہیں۔ بہتیرے امراض عجیبہ اتفاق زمانہ سے اچھے ہو گئے ہیں۔ بہتیری رگوں کے متعلق بیماریاں ایسی ہیں کہ صرف دوا کی تاثیر پر اعتقاد کرنے سے دور ہو جاتی ہیں یعنی بیماریا ں خیال کی تاثیر سے جاتی رہتی ہیں۔ بہتیرے جھوٹ موٹ کو بیمار بن جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم اچھے ہو گئے۔ لیکن آزمانے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ابتدا ہی سے ان کا فریب ہوتا ہے۔ اب دیکھئے ان باتوں کو مسیح کے معجزات سے کیا نسبت ہے۔ ہزاروں مریض اُس پاس آئے اور سب نے یہ کہ ہزاروں میں فقط تونے شفا پائی متی ۵، ۲۴، ۱۳، ۱۵، ۱۴، ۱۴، ۱۷، ۱۵ لوقا۲۲،۵۱ کو اعمال ۴، ۴۱، ۵، ۱۰، ۲۸، ۸ سے مقابلہ کرو۔
۲۔ اس زمانے میں نکتہ چینی کے ساتھ جو بیان ہوا اس سے ظاہر ہے کہ نہ صرف یہی ہوا کہ بہت سے آدمی اس قبر پر آئے اور کچھ فائدہ نہ اُٹھایا بلکہ بظاہر بیمار بن گئے۔ یہ خود انہیں کے اقرار سے ثابت ہوا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ بعض بیمار ایک روز میں اچھے ہو گئے اور بعض ہفتوں بلکہ مہینوں میں اچھے ہو پائے۔ اور بہتیروں نے اس وقت کہا کہ یہ معجزی غلط ہیں اور جب سرکاری عقلمندعہدہ داروں نے سوس کے لاٹ پادری سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے کہا ۲۲ آدمیوں کو میں جانتا ہوں کہ انہوں نے فریب سے اچھا ہونا اپنا مشہور کیا۔ آخر الام سرکار نے مداخلت کرکے اس فریب اور عیاری (دھوکا بازی) کی رسم کو موقوف کر دیا۔
۳۔ بہتیرے اس قبر کے خدا اور بعض ان لوگوں میں سے بھی جن کا اچھا ہونا مشہور ہوا تھا پہلے سے دوا کا استعمال کرتے تھے۔ ایک اندھا جس نے بینائی پائی تھی اس کی نسبت ثات بھی ہو گیا کہ قبر پر رجوع لانے سے پہلے اس نے شفا پائی تھی اور ا سکی موت سے پیشتر وہ معجزہ باطل قرار پایا۔
۴۔ ان معجزوں میں کوئی فوراً قبر پر نہیں واقع ہوا۔ مسیح اور اس کے رسولوں نے جتنے معجزے کیے وہ ایسے تھے کہ اندھا فوراً دیکھنے لگا۔ لنگڑا جب اسے چلنے کو کہا تو ہرن کی طرح گلُچارین مارتاتھا۔ مفلوج اپنی چارپائی لے کر فوراً چلنے لگا۔ نین کا جوان آدمی جو مرچکا تھا معاً(ایک ساتھ ، مل کر ) اُٹھ بیٹھا لعزر مسیح کے حکم دیتے ہی قبر سے نکل آیا۔ ابی پارس کی قبر پر ایسا نہ ہوا۔سب پُجاری ہفتوں اور مہینوں قبر پر پڑے رہے اور ہر روز اس سے گِڑگِڑاک دعائیں مانگتے تھے۔ اور جن جن کو وہاں شفا ہوئی بھی وہ بتدریج ہوئی پس ایسے واقعات اتفاقی سے کُفار مسیح کے سچے معجزات کے مقابلے میں کیا استدلال پکڑتے ہیں۔ بھلا مسیحی معجزات سے ان کو کہا نسبت ہے۔ مسیحی معجزوں کے برابر نہ کوئی معجزہ آج تک ہو اور نہ آئندہ ہو۔ ماحصل اس تقریر کا یہ ہےکہ جبکہ ان عجیب قصّوں میں سے کوئی بھی عہد جدید کے معجزات کی شہادت پر اثر نہیں کر سکتا تو وہ شہادت بےشک ویسی ہی پختہ اور کامل رہے گی جیسی کہ تھی۔
مصنف کی رائے مسمریزم اور عمل اروح وغیرہ پر
میری رائے ان سب باتوں مندرجہ کتب اقوام غیر اوررومن کیتھولک کے یہاں کے قصص و حکایات کی نسبت اور جنِ باتوں کا مسمریزم والے اور عامل دعویٰ کرتے ہیں ان کی نسبت یہی ہے کہ اکثر اس قسم کی باتیں بالکل دغا باز اور شریر آدمیوں کی بنائی ہوئی ہیں اور بہت باتیں فطرتی سبب سے واقع ہوئیں مگر لوگوں نے طرح طرح کے جھوٹ بناکر معجزہ ٹھہرادیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ بعض عجیب باتیں حقیقاً اسی طرح وقوع میں آئیں جیسا ان کی نسبت لکھا ہے۔ لیکن یہ میر اعتقاد نہیں کہ وہ باتیں معجزہ تھیں بلکہ فطرت کے قوانین مقررہ کے مطابق (وہ قوانین ذہنی یا جسمی ) وقوع میں آئیں۔ مسمرنیزم کے باب میں بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کی رگوں میں نہایت رقیق مادہ ہے جس کے سبب سے آدمی میں یہ قدرت ہے کہ دوسرے پردور سے اثر پہنچاتا ہے جیسے مقنا طیس لوہے کو دور سے کھینچتا ہے۔ ایک جرمنی کیمیا گر مسمے رخین باخ کہتے ہیں کہ میں نے فطرت میں ایک عجیب قوت دیکھی اور وہ اس وقت کواوڈلی کہتی ہیں صاحبِ موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) لکھتے ہیں کہ جو لوگ طبیعت کے نرم اور رقیق القلب ہوتے ہیں ان سے یہ قوت ظاہر ہو سکتی ہے۔ صاحب موصوف کے کل تجربات اس باب میں ایسے ہی شخصوں ے ذریعہ ہوئے۔مگر صحیح تجربہ سے دونوں رائیں غلط معلوم ہوتی ہیں۔ ایک حکیم برید صاحب ساکن مینچسٹرواقع انگلستان نے اس مقدمہ میں بڑی تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کچھ ضرور نہیں کہ دوسرا شخص ہو تو مسمرنیزم اثر کرے۔ صرف آدمی کوخاموش بٹھانے اور کسِی چیز پر نظر جمانے سے مثلاًروپیہ یا لکڑی وغیرہ ہو۔عمل کا اثر معمول پر بغی عام کے دیکھنے کے خوب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے صاحب موصوف(وہ جس کی تعریف ک جائے) یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رگوں کے رقیق مادہ (پتلا ، باریک ) سے ہاتھوں کے چڑھاوا اوتار سے اس عمل کو تعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں معمول کے جسمی اور ذہنی حالتوں پر علی الخصوص حالت ِ دماغی پر بہ تا ثیر خیال اور اشارہ کے موقوف ہیں۔ دنیا کے بڑےبڑے علمی تاریخ دان اور اطبا تاریخ کی جمع یعنی ڈاکڑاور علما تحقیق کر چکے کہ یہ رائے یعنی لوگوں میں کسی قسم کی عجیب قوت یا رقیق مادہ(پتلا، باریک) ہوتاہے یا آلہ مقناطیسی میں کوئی قوت ہے محض دھوکا ہے۔ جس مسمر صاحب نے اپنے عجائبات دکھانا شروع کیے تو اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد فرانسیسی گورنمنٹ کی طر ف سے بڑے بڑےعالموں کی جماعت کے لیے دریافت اس معاملے کے مقرر ہوئی۔ جنہوں نے یہ تصفیہ کیا کہ جو تاثیرات پیدا ہوتی رہیں وہ حقیقت میں خیال اور امید سے جن کا محرک عموما ً اشارہ ہے۔ پیدا ہوتی ہیں۔ ذہن کی یہ عکسی تاثیر ہم پر علم فطرتِ انسانی میں سے ہے گو کہ جب مسمریزم کی تعلیم شروع ہوئی تھی لوگ اس ذہن وجسمی قانون کو نہیں جانتے تھے بلکہ اب بھی ایسے تھوڑے ہیں جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے بہتیرے جانتے ہیں کہ واقعات مسمریزی معجزات ہیں۔ علم ترکیب جاننے والے سالہا سال سے جانتے ہیں کہ اشارہ انسان کے دماغ پر اثر کرتا ہے۔ اگر چہ بہت لوگ ذہن ِ انسانی کے اس عجیب قانون سے محض ناواقف ہیں لیکن یہ قانون بہت وسعت سے ہمیشہ اِنسان پر موثر ہے۔
اِشار ہ خارجی کِسے کہتے ہیں
یہ تاثیر قانون یا قوت اشارہ دماغ پر اور اس کی وجہ سے ذہنی خواص پر جو ہے بہت عام قعلوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جس کو کوئی معجزہ نہیں کہتا ہے یہاں تک کہ بہتیرے عجیب کام اسپرٹزم کے بھی ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اعداد سے یا اور طور پر دل میں خیال گڑ جاتاہے اور وہ خیال جاگتا ہے تو اس کے ساتھ اور خیال پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح سلسلہ خیالات کا بندھ جاتاہے۔ پس یہ ترکیب کہ ایک خیال سے اور خیال پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ فعل تک پہنچاتے ہیں۔ اشارہ ذہنی کا کل کام ہے۔ جب کوئی بیرونی اثر اندرونی خیالات پر موثر ہوا اور انکو بدل دے تو اسے اشارہ خارجی کہتے ہیں۔ جب آدمی جاگتا ہے تو مرضی سب اندرونی بیرونی اشارات کو دیکھتی بھالتی ہے اور اپنے قبضے میں لاتی ہے۔ حالت خواب یا خواب بیداری میں مرضی بالکل بےکار معلوم ہوتی ہے اور اشارات خارجی سے دل مثل ایک کل کے ہوتا ہے یہ خوا ب مشہور باتیں یا قانون ترکیب انسانی ک متعلق ہیں اور یہی ہماری رائے میں مسمریزم کے عجائبات کی خاص بنا ہے۔ ایک اور خاصیت ذہن و جسم کے قانون میں سے دھیان جمانا ہے۔ یا یوں کہے کہ کوئی چیزہے اس کا خیال آیا اور وہ قوی (طاقتور) ہو گیا۔ رگوں کے بگڑنے سے ایسا خیال اس قدر قوی ہوجاتاہے کہ محسوسات کو بھی مغلوب (غالب آنا)کر دیتا ہے۔ اس حالت میں خیالات اکثر مشاہدہ پر بھی غلبہ کر لیتے ہیں اور ایسے افعال مرضی کی قدرت سے باہر ہوتی ہیں بلکہ کبھی کبھی آدمی جانتا بھی نہیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر یہ بات ہے کہ اسی کا دھیان بہت قوت سے اعضائے جسمی پر اثر کرتاہے اور آدمی کا حال اکثر تو ایسا ہو جاتا ہے کہ جس بات کے دیکھنے یا سُننے کا وہ متواقع ہوتاہے وہی اسے دکھائی یا سُنائی دیتی ہے۔ مثلاً فرض کرو کوئی شخص کسی کا منتظر گھر میں بیٹھا ہو اور اسی حات انتظار میں غافل ہو جائے یکا یک اس کے کا ن میں آواز آئے تو ا س کو یقیناً ایسا معوم ہوگا کہ وہی شخص ہے یہاں تک کہ وہ اُٹھ کر دروازہ کھولنے جائےگا۔ یا فرض کرو کسی عورت کا لڑکا گم ہوگیا ہے او ر وہ اس کے فراق میں بیٹھی ہے۔ اسی اثنا میں کسی اور کے لڑکے کا اس عورت کے سامنے سے گذر ہوا تو وہ اس وقت یہی سمجھے گی کہ میرا لڑکا آگیا۔ یہی علم کے اصول ِ ذہنی او رجسمی ہیں۔ اورمسمریزم اور اسپرٹزم میں ان کا بڑا کام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مسمر یزم کی نیند اور خواب بیداری صحیح واقع ہیں۔ جب آد می اس حالت میں ہوتا ہے تو گویا اشارہ کا غلام ہو جاتاہے۔ اسی طرح عامل اپنی مرضی سے عم کرتا اور اسی اشارے سے حالتِ خواب پیدا ہو جاتی ہے۔ جب آدمی کا دھیان کِسی بات پر نہایت قوت سے جمے تو اس وقت خواب بیداری کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پاگل آدمی میں بعض اوقات حالت جنون میں دس گنا وہ طاقت آجاتی ہے جو اصلی حالت میں ہوتی ہے۔ یہ امر ذہن کی عجیب حالت کے سبب جب کہ وہ صرف ایک خیال یا بات کا محکوم(حکم کیا گیا ) ہوتاہے وقوع میں آتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرضی یا خیال کیسی قوت سے جسم انسانی پر انسانی پر اثر کرتاہے۔ اسی طرح مسمریزم اور اسپرٹزم کے معمول سے بڑے بڑے قوت کے کام ظہور میں آتے ہیں۔ وجہ اس قوت کی یہی ہے کہ آدمی کے دل پر خیال و امید مسلط ہو جاتے ہیں میں نے مختصر اصول اور تعلقات ذہن و جسم کا حال اوپر لکھا ہے۔ اب میں بطور مضمون تمہیدی اپنی رائے کے درباب دجوہ واقعات عجیبہ مسمریزم کے ذیل میں لکھتا ہوں
مضمون تمہیدی دربارہ دجوہ واقعات مسمریزم
اولاً۔مجھے مسمریزم کے خواب او رخواب بیداری کا یقین ہے۔یعنی انسان کی ساخت اس قسم کی ہے جس سے یہ امر ممکن ہے۔
ذہن کو جسم سے ایسا تعلق ہے کہ کسی ایک خیال یا چیز پر متوجہ کرنے سے وہ سب اعضا سے جُدا ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس طریق سے جو اس جسمانی ایسے محکو م ومغلوب ذہن کے ہو جاتے ہیں کہ نیند آجاتی ہےبلکہ مُردہ کی طرح بالکل ٹھنڈا او رسخت اور بے حِس و حرکت ہو سکتا ہے اور اس ذہنی جُدائی کے مختلف درجے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی اعضا اور حواس جسمانی بغیر معمولی طریقے گفتگو کرنے یا نتیجہ افعال سوچنے کے یعنی مجنونانہ بوجھ محکومی(حکم کیا گیا ) کسی خیال یا اشارہ کسی دوسرےشخص کے متابعت احکام ذہنی کی کرتے ہیں۔ اس حالت میں جسم بلکہ ذہن بھی کل کی مثل کام کرتا ہے۔کبھی ایسا ہوتاہے کہ حواس اور اعضائے جسمانی محض بے حس و حرکت اور بےجان سے ہوجاتے ہیں۔صِرف اتنا ہوتا ہے کہ دو قوتیں سامعہ اور ناطقہ بلکہ کبھی صرف ناطقہ قائم رہتی ہے جس سے معمول حالت خواب ِ بیداری میں بات چیت کرتا اور سوالوں کے جواب دیتا ہے مگر اس وقت میں مرضی قریب قریب مثل کُل کے عامل کے اختیار میں ہوتی ہے۔ مسمریزم والوں کا دعویٰ ہے کہ معمول پر حالت ِ خواب عامل کے نظر ڈالنے اور ہاتھوں کے چڑھاؤاوتار سے طاری ہو جاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں ممکن ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کسی ترکیب سے سُلا ئے یا یوں کہنا چاہیے کہ کسی کی مدد سے تعلقات جسمی سے ذہن کو جُدا کر کے نیند کی طرف مائل کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہےکہ قریب قریب اِسی ترکیب سے مائیں اپنے بچوں کو سُلا دیتی ہیں یعنی تھپتھپا کر اور گیت گاگا کر بچوں کے خیالوں اور دھیان کو یکساں کر کے سُلا دیتی ہیں۔ باانیہمہ جیسا ہم اوپر لکھ چکے ہیں یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ ایک چیز پر ٹکی باندھ کر دیکھنے سے مسمر یزم کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ معمولی نیند بھی صِرف یہی ہے کہ ذہن کو حواس یا اعضائے جسمانی کی طرف سے پھیر لیا جائے خواہ یہ امر بہ مرتبہ کمی ہو یا زیادتی۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ آدمی مختلف سببوں سے ایسا ضعیف ہو جاتا ہے کہ ذہن کی ذرا سی تبدیلیوں کو فوراً قبول کر لیتا ہے۔ مثلاً ممکن ہے کہ بوجہ کمزوری کے آدمی کی رگیں ایسی متاثر ہو جائیں کہ ذرا سے خوف و رنج سے ضعف(دوچند، دُگنا) طاری ہو جایا کرے۔ایسی حالت متاثرہ کے بڑھ جانے کا خوف ہوتا ہےاس لیے لوگ بڑی بڑی احتیاطیں کرتے ہیں کہ ایسے آدمیوں کا نقصان نہ ہو جائے میری رائے میں مسمر نیرم والوں کا یہ دعویٰ کہ ہم اپنے عمل سے دوسرے پر اختیار حاصل کرتے ہیں غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ تعلق ذہن و جسم کی جو قاعدے ہیں ان سے ایسا ہوتا ہےجیسا کہ اوپر مذکور (ذکر کیا گیا ) ہوا۔
کیفیت متاثرہ معمولی تین نوٹ یہ نوبت پڑتی رہتی ہے
البتہ جن لوگوں کی طبیعتیں اس عمل سے چند مرتبہ متاثر ہو چکی ہیں ان کا حال ایسا ہے کہ عامل کی ذرا نگاہ کرنے سے انکا دل محکو م ہوجاتا ہے یعنی جو اس جسمانی سے پھر جاتا ہے ۔ لیکن اس کو سب مسمریزم والے قبول کرتے ہیں کہ یہ حالت بغیر مرضی معمول کے نہیں ہو سکتی اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آدمی میں ایسی قدرت ہے کہ اپنے دلوں کو اعضائے جسمانی کی طرف سے پھیر کر صرف ایک امر یعنی نیند کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسمریزم ذہن کی ایک عجیب حالت ہے جو ذہن اور جسم کے قدرتی تعلق سے پید اہوتی ہے۔ یہ خاصیت اِنسانی ساخت کی پُشتوں سے لوگوں کو معلوم ہے گو عامل ان اصول سے جو کبھی کبھی عجیب نتائج کا موجب ہوتے ہیں محض ناواقف ہوں صاف ظاہر ہے کہ بوجہ اسی عجیب تعلق ذہن اِنسانی کے بہت جادوگر اور تماشاگر سوانگ (کھیل) تماشے بناتے ہیں اور یقین کامل ہے کہ بڑے بڑے عجائب اور غرائب جو غیر قوم کے پنڈتوں سے ظہور میں آتے ہیں وہ فطرت کے اسی ذہنی قانون کے مطابق وقوع میں آئے گو کہ اس قوت کا راز یعنی اس کے اصول خود عالموں کو بھی معلوم نہیں تھے اور اسی وجہ سے لوگوں نے بہ آسانی قبول کر لیا کہ یہ افعال از قسم معجزات ہیں بلکہ کچھ بعید نہیں کہ خود بعض عالموں نے ایسا سمجھا ہو کہ ہمارے دیوتوں کی مدد سے ایسا وقوع میں آتا ہے۔
کیفیت عمل ارواح ذہنی و جسمی قوانین مذکورہ کی رو سے ہوتی ہیں
دوسرے جن واقعات کا اسپرٹزم والے دعوے کرتے ہیں اس کے باب میں میری رائے یہی ہے کہ وہ اکثر انہیں ذہنی و جسمی قوانین مذکورہ بالا کی روئے عمل میں لاتے ہیں جن میں سے مسمریزم والے اپنے کرتب دکھاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تما م مذکور ہ باتیں جادو گری اور طلسم اور شعبدہ بازی(جادو سے متعلق ہنر یا کھیل) وغیرہ کی انہیں فطری قوانین یا ذہن و جسم کی بناوٹ کی وجہ سے وقوع میں آتی ہیں۔ مسمریزم او راسپرٹزم اور جادوگری اگرچہ سب ایک دوسرے سے تھوڑا تھوڑا فرق رکھتے ہیں تاہم بااعتبار اصلیت کے ان تینوں میں شرکت بھی اس قسم کی ہے کہ سب کا ایک ہی سبب یا بنیاد ٹھہرائی جائے او رمناسبت باہمی ان میں اس قدر ہے اور یہاں تک سب کا تعلق واحد چیزوں سے ہے کہ ایک ہی تشریح ان کی اصلیت اور رواج کے باب میں کافی ہو گیا یہ سچ ہے کہ مسمریز والے اور بعض اور عامل جن کے نام اوپر آئے ہیں۔
بائبل شریف میں بھوت پلیدہ ذکر نہیں ہے
اور جنہوں نے عجیب عمل دیکھا ئے ہیں یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم ارواح کی مدد سے کام کرتے ہیں اس لیے ان کو اسپرٹزم سے مختلف سمجھنا چاہیے لیکن حقیقت میں سبب ان سب عملیات کی ایک ہی پائے جاتے ہیں یعنی وہی عجیب قوت مرضی کی جسم پر اور عجیب قوت اشارے کی اور خوف پارجا کے وہیان اور خیالات کی ان عملیات کے سبب ہیں۔ مگر میں یہ ثابت نہیں کر سکتا اگرچہ میرا اعتقاد بھی نہیں کہ متوفی(وفات پایا ہوا) دوستوں کی روحیں اور بھوت اور نیک فرشتے یہ قدرت نہیں رکھتے ہیں کہ زندہ آدمیوں سے ملیں اور نیز زندہ آدمیوں کی مرضی درخواست سے ان کے جسموں پر قابض ہوں۔ یہ نہایت قرین عقل اور ممکن ہے کہ عقی وروحانی دنیا میں بھی قانون اور قوتیں اور عامل ہوں جن کی ہزاروں اقسام سے ہم فانی(فنا ہونے والا) آدمی مطلق(بےقید، آزاد) واقف نہ ہوں۔ جیسا کہ دور بین اور خُرد بین کے استعمال سے بہتیرے عجائبات اور مخلوق ایسی معلوم ہوئی ہے کہ اس آلہ کے ایجاد ہونے سے پہلے ان سے بالکل نا واقف تھے اسی طرح ممکن ہے کہ ہمارے چاروں طرف ا ہوامیں ایسی روحیں ہوں جن کو ہم جانتے نہ ہوں اس سبب سے کہ ہماری آنکھ اس قِسم کی نہیں کہ انہیں دیکھ سکے اور یہ بات کہ بھوت پلید اور بُری روحیں آدمیوں پر قابض ہوتی اور ان کو ستاتی ہیں بائبل شریف میں اس کی صاف تعلیم موجود ہے۔ جبکہ یسوع مسیح دنیا میں تھا تو پاس روحوں کا نکانا اس کے معجزوں میں سے تھا جب اس پاس گرگیسوں کے ملک میں پہنچا دو شخص جن پر دیوچڑھتے تھے قبرون سے نکل کر اسے ملے وہ ایسے تند تھے کہ کوئی اس راستے سے چل نہ سکتا تھا۔ اور کہے انہوں نے چلا کے کہا اے یسوع خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام تو یہاں آیا کہ وقت سے پہلے ہمیں دکھ دے اور ان سے کچھ دور صوروں کا غول چرتاتھا سو دیووں نے اس کی منت کر کے کہا اگرہمیں تو نکالتا ہے تو ہمیں ان صوروں کے غول (جُھنڈ) میں بھیج دے۔ اب اس نے کہا جاؤ اور وہی نکل کے صوروں کے غول میں گئے اور وہ صوروں کا سارا غول کرارے پر سے دریا میں کودا اور پانی میں ڈوب مرا۔ متی ۸ اباب ۲۸۔۳۲۔مرقس ۵،۱ وغیرہ۔ لوقا ۸۔۲۶ وغیرہ کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ جو ایمان لائے گے ان کے ساتھ یہ علامتیں ہونگی کہ وہ میرے نام سے دیوؤں کو نکالے گے۔ مرقس ۱۶۔۱۷۔ اور نیز مقدس پولوس نے خبر دی ہے کہ گناہ کے بھید شیطان اور اسی جواس کے محکوم(حکم کیا گیا ) ہیں دکھائے جائینگے۔ اس کا آنا شیطان کے کئے کے موافق سارے اقتدار اور جھوٹے نشان اور اچنبھوں اور ہلاک ہونے والوں کے درمیان شرارت کی کمال دغا بازی کے ساتھ ہوگا اس لیے کہ انہوں نے راستی کی محبت کو کہ جس سے وہ نجات پائیں اخیتار نہ کیا پہلا تھسالینکیوں ۱۱ باب ۹۔۱۰ آیت یہ یقین کامل ہے کہ یہودی اور اور لوگ مسیح کے زمانے کے اور مسیح سے مدت پہلے کے لوگ دیوؤں کے وجود کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور فریسی دعویٰ کرتے تھے کہ دیو آدمیوں پر قدرت رکھتے ہیں۔ کیونکہ جب یسوع نے دیو نکالے تو انہوں نے ان کے وجود کا انکار نہیں کیا او ربے دلیل یہ الزام لگایا کہ اس نے دیوؤں کی سردار کی مدد سے دیو نکالےہیں۔
جس وقت وہ باہر نکلے دیکھو لوگ ایک گونگے کو جس پر دیو چڑھا تھا اس کے پاس لائے اور جب دیو نکالا گیا وہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب (حیرانی ) کرکے کہا ایسا کبھی اسرائیل میں نہ دیکھا تھا۔ پر فریسیوں نے کہا کہ وہ دیوؤں ک سردار کی مدد سے دیووؤں کو نکالتا ہے متی ۹ باب آیت ۳۳،۳۴ اور جب کہ یہ ظاہر ہے کہ بدروحیں اندھے آدمیوں کے اس طور سے نہیں ستاتی یا گھسیٹتی ہیں جیسا اگلے وقتوں میں ہوا کرتا تھا تو یقین کامل ہے کہ شیطان اور اسکے رفیق بدروحیں آج کل کہ بہتیرے آدمیوں پر بڑی قوت رکھتی ہیں۔ شیطان کا شیریر دن کے بہکانے کا طریقہ بہ نسبت پہلے کے اب بہت ہوشیاری اور فریب کے ساتھ ہے اس لیے کچھ بعید نہیں کہ آدمی روح و جسم سے بمہ جہت(سمت ، طرف ، جانب) بھوتوں کے غلام بن جائیں۔ یا آپ کو یہاں تک ان کے حوالے کریں یعنی ان کی تاثیروں سے موثر ہوں کہ وہ بدروحیں علی الخصوص شیطان ان لوگوں کو وہ بری باتیں جن سے وہ واقف نہ ہوں اور جو بغیر مدد شیطان کے معلوم نہ ہو سکتیں بتائیں۔
جادوگر کا حال
اسپرٹزم والوں کے چال چلن اور ان کے ان افعال کی خاصیت سے جن کے دکھانے کا وہ دعوے کرتے ہیں مجھے ایسا یقین ہوتا ہے کہ ان کے مدد ضرور شیاطین ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی ثبوت کُتب مقدسہ سے اس امر کا نہیں ہے کہ زندہ آدمی اپنے احباب متوفی (مرا ہوا) کی ارواح سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ چند مقامات ایسے ہیں جن سے بعض یہ نتیجہ نکال لیں کہ بعض نیک آدمیوں کی ارواح نے زندوں سے بات چیت کی ہے لیکن ان مقامات کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ صرف ان امور سے تعلق رکھتے ہیں جن کے دیکھنے کا جادوگر دعویٰ کرتے تھے۔ اور ان لوگوں کو ان کی نسبت گمان تھا کہ ہاں وہ دیکھتے اور سنتے ہیں مثلا ً اندورجادوگر اور ساؤل کا حال اس طرح ہے کہ اس عورت نے سموئیل وغیرہ کو دیکھا لیکن ہمیں اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حواری کا یہ عقیدہ تھا کہ اس عورت نے حقیقتاً سموئیل کی روح کو دیکھا بلکہ اسکا مطلب یہ ے کہ وہ عورت دیکھنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ صاف ایسی صورت ہے کہ ان باتوں سے جن کا اسپرٹزم والے دعویٰ کرتے ہیں بہت مشابہت رکھتی ہے۔ اور یہ بخوبی ظاہر ہےکہ یہ سب باتیں نتیجہ اس بڑے خلاف اور جوش طبیعت کا تھیں جو ساؤل کے لاحق ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسے یہ گمان ہوا کہ یہ سموئیل ہے کیونکہ اس نے فلستیوں کی فوج کو خوف زدہ دیکھ کر خدا کی باتیں پوچھیں اور جب ان باتوں کا جواب نہ بذریعہ خواب کے ، نہ نبیوں سے پایا تو اس کی طبیعت میں نہایت خوف اور جوش پیدا ہوا اور اس عورت کی طبیعت اس قسم کی تھی کہ اس نے ساؤل کے دل کا حال اشارۃً اور سوالات کے ذریعہ سے بتادیا۔ پس اسی قانون مذکورہ الصدر یعنی ذہن و جسم کےسبب سے اور خواہش اور جوش طبیعت کا عمل ہوا۔ اس عورت نے ساؤل کے دل کا حال بتایا اور دعویٰ یہ کیا ہوگا کہ سموئیل یوں کہتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ خیال مطلق(بےقید، آزاد) نہیں گذرتا کہ خدا کا پُرانا نبی اور پاکباز سموئیل ایک ایسی بدذات جادوگر عورت کے حکم سے جیسی بالقین اندور کی عورت تھی اُٹھا ہو۔ رہادربارہ میزوں وغیرہ کی حرکت کے جس کی نسبت یہ دعویٰ ہے کہ باعانت ارواح ہوتا ہے سو ایسے شعبدہ(جادو سے متعلق ہنر یا کھیل) وہ آدمی بھی کرتے ہیں جنہیں اسپرٹزم کا یقین نہیں ہے اور جن جن بازیوں اور شعبدوں میں فریب نہیں وہ سب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ فطری سببوں سے ہوتے ہیں۔ ہر چند کہ بعض ایسا مشہور کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے ذرا انگلی لگانے سے بڑی بھاری میز حرکت کرنے لگتی ہے تاہم یہ امر بخوبی ثابت نہیں ہے یہ معمولی طریقہ اس کے حرکت کرنے کا یہ ہے۔ کہ کئی آدمی ہاتھ ملا کر میز پر رکھتے یں پھر وہ ارادہ کرتے ہیں کہ فلانی سِمت کو میز گھومے اور بغیر اسکے کہ کوئی کوشش انہیں اپنی طرف سے معلوم ہو کہ میز حرکت کرتی ہے۔ پروفیسر فریڈی صاحب ایک ممتاز علام انگلستانی نے ایک بہت عمدہ آلہ سے دکھادیا کہ جو لوگ میز کو گھیرے ہوتے ہیں ان کی رگوں کا زور بنز پر پڑتا ہے۔ اور یہ کہ جب سب سمجھ لیتے ہیں کہ میز فلانی طرف گھومنے کے ہے تو وہ اسی طرف گھومتی ہے لیکن ان لوگوں میں سے اگر کوئی یہ ارادہ دل میں کرے کہ دوسری طرف کو میز گھومے تو میز مطلق(بےقید، آزاد) حرکت نہیں کرتی کیونکہ اس وقت میں زور بٹ جاتاہے ان سب صورتوں میں یہ صاف معلوم ہوا کہ فاعل ان افعال کے محکوم(حکم کیا گیا ) تاثیر اشارہ تھے اگرچہ خود اس سے واقف نہ تھے اور بغیر مدد اعلیٰ پروفیسرفریڈ ری صاحب کے بالکل ناواقف رہتے وہ بحالت ناواقعی اپنا عمل کرتے ہیں اور ارواح غیر محسوس کی قوتیں مخفی (چھپی ہوئی ) سے اسے منسوب کرتے ہیں۔ اوپر کی تشریح میز کی حرکت کے بارے میں میز کی باتیں کرنے اور روح کے کھٹکھٹانے وغیرہ کی بیوقوفیوں کی تشریح کے لیے بھی کار آمد ہے۔ صورت اول الذکرمیں میز ہمیشہ بوقت سوال تھم جاتی ہےیا جب کہ ان شخصوں میں سے کوئی ارادہ کرے یا چاہے کہ میز اور طرف کو گھومے جس سے ظاہر ہے کہ وہ محرکین کے اشارہ ذہنی کا نتیجہ ہے۔ پس اسی طور پر تمام اقسام کے سوالات ملتےہیں۔ روح کے کھٹکھٹانے می بو ساطت ایک شخص کے ارواح سے بات چیت ہوتی ہے۔ موجودگی ارواح کے کھٹکوں سے ظاہر ہوتی ہے لیکن یہ کھٹکے بےشک وہی کرتا ہے جو وسیلہ گردانا(ترتیب کے مطابق صحیفوں کا دُہرانا) جاتا ہے او ر جس سے دھوکھا کھائے ہوئے سوالات کرتے ہیں ان کےجواب وہ شخص متوسط(درمیانی، بیچ کا، اوسط درجہ کا)کام دیتا ہے جو نہایت ہو شیاری اور احتیاط سے اس تاثیر کو جو اسوقت ان لوگوں پر خود اس کے اشارات سے ہوتی ہے دیکھتا رہتاہے۔ بہت صورتوں میں جو عوام کے سامنے ظاہر کی جاتی ہیں جو لوگ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہم پر خواب بیداری ہے اور ہمیں بغیر زبان دوسرے کے خیال پہچاننے اور بغیر آنکھوں کے کتابوں کے پڑھنے کی قدرت ہے وہ بڑے شاطر شعبدہ باز (جادو سے متعلق ہنر یا کھیل کھیلنے والا) ہیں۔ وہی خوب جاگتے ہوتے ہیں اور کوئی صحیح علامت ان ذہنی حالتوں کی جن سے غیر تعلیم یافتہ عوام کے دل میں اس قدر شوق اور تعجب پیدا ہو جاتا ہے نہیں پائی جاتی ہے۔
غالباً قانون تعلق ذہن و جسم ان علاجوں میں بھی موثر ہے
جن کی نسبت اقوام غیر مدغی مدد معبود ان وغیرہ ہیں ۱۲
درباب ان علاجوں کے جن کا دعویٰ غیر قوم کے پنڈتوں او رفقیروں کو ہے کہ ہم اپنے دیوؤں یا جِن بھوتوں کی مدد سے کرتے ہیں اور مسمریزم ولاے جو کہتے ہیں کہ ہم مریض کا دل و جسم اپنے عمل سے قبضے میں کر کے بیماری کو دورکرتے ہیں اور اسپرٹزم والے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم روحوں کی مدد سے اچھا کر دیتے ہیں ان سب امور کی نسبت غالب یہ ہے کہ اسی مذکورہ قانون یعنی تعلق ذہن وجسم سے ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ مریض کی مرضی اعتقاد مرض کے کھونے یا کسی ے اعتدالی بدنی کے دور کرنے میں اس کے جِسم پر عجیب اثر اور قدرت رکھتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ سخت بیماری اسی قدرت سے دور ہو جاتی ہے۔ امید کا دھیان متحرک خون پر اور محویت ذہنی اور یکا یک ترغیب و جوش دل کا درد و تکلیف پر بہت اثر رکھتا ہے۔ سب طبیب او ربہت اور لوگ خوب جانتے ہیں کہ بعض اوقات بیمار آدمی میں قوت ِمخفی اس قدر ہوتی ہے کہ بحالت ِ تندرستی بھی اس کے اختیار سے اسی قدر کبھی نہیں ظاہر ہوتی۔ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ جو مریض مہینوں سے بستر سے اُٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے اپنے دل کے بڑے جوش سے یکا یک چلنے بلکہ دوڑنے لگے اس قدر جلدی سے کہ صحیح و سالم آدمی نہ کر سکتے۔ مثلاً میں نےایک معتبر راوی سے سُنا کہ ایک شخص سخت بخار سے قریب المرگ ہو گیا تھا اورلوگ ہفتوں سے گمان کرتےتھے کہ یہ بچے گا نہیں۔ اتفاقاً اس کے کھتے میں جو آگ لگی تو وہ چلایا کہ کوئی اتنا نہیں کہ میرے مویشی نکال لےاور سیدھا پلنگ سے اُٹھ کر بیل پوہوں کو اس نے کھول دیا۔ جسم کو جو حرکت ہوئی تو اس قدر پسینا آیا کہ معاً(فی الفور) اچھا ہو گیا۔ جلتے کھتے نے کچھ اسے قوت نہ دی بلکہ اس کے دل کی امنگ نے اسی مخفی قوت(چھی ہوئی طاقت) کو جو اسکے جسم میں تھی اس وقت اُبھارا۔ ایک اور شخص یعنی عورت کا ذکر ہے کہ مدت دے بیمار تھی اور سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی یہاں تک کہ اس قدر طاقت نہیں رہی تھی کہ اپنے ہاتھ سے پانی کا برتن اُٹھا کر پانی پی لیتی۔ ایک روز اس کے گھر میں جو آگ لگی تو یکا یک پلنگ سے اُٹھ کر صند و قچہ چیزوں سے بھرا جسے وہ عزیز رکھتی تھی دروازے کے باہر تک لیے چلی گئی۔ یہ صندوقچہ اس قدر بھاری تھا کہ بحالت ِ صحت بِلا مدد غیر معمولی کوشش سے نہ اٹھا سکتی۔
یہ چند صورتیں اس موقع پر بیان کی گئیں۔ میں اور صورتیں اسی قِسم کی بتا سکتا ہوں جن سے صاف معلوم ہوگا کہ قوت مخفی اس سے بھی باہر ہوتی ہے کہ مرضی کی محکوم(حکم کیا گیا ) ہو یا کسی معمولی ترغیب و جوش سے ابھاری جائے۔ پاگلوں سے جو عجیب قوت اور برداشت تکلیف ظاہر ہوتی ہے وہ مستحکم ثبوت قوت مخفی کا ہے۔ سِوا اس کے اکثر دل کی اُمنگ سے وہ تکلیف کہ بغیر اس امنگ کے برداشت نہ ہو سکتی مریض کو مطلق(بےقید، آزاد) نہیں معلوم ہوتی ہے۔ بہتیرے لوگ داڑھ کے درد میں ہو جاتاہے۔ میں ایسے چند آدمیوں کو جانتا ہوں جن کے دانت ایسے دھوکے سے نکالے گئے کہ ان کو کچہ تکلیف نہیں ہوئی او ربعد کو معلوم ہوا کہ دھوکا دیا گیا تھا۔ میں نے ایک معتبر راوی سے سُنا جو کہتا تھا کہ میں نے اپنے نوکر سے کہا کہ میں ایسے سہارے سے دانت نکال کر جانتا ہوں کہ مطلق(بےقید، آزاد) تکلیف نہ ہو۔ غرض اسے ایک تار لے کر ایک سرا اس کا نوکر کے دانت سے باندھا اور دوسرا سراایک پیچ سے زیادہ باندھ دیا اور دفعتاًنتیجہ نکال کر چلایا کہ اوبدمعاش میں تیری کھوپڑی اوڑا دونگا یہ سُنتے ہی نوکر خوف کا کر اوپر کو جو اُچھلا تو دانت نِکل آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا کہ میں ایسا خوف زدہ ہوگیا تھا کہ مطلق(بےقید، آزاد) درد نہیں معلوم ہوا۔یہ مشہوریات ہے کہ بعض اوقات واعظ اور درس دینے والے بروقت وعظ کہتے یا درس دینے کے جوش طبیعت یا خود سے کھانسی اور دردسر اور درددندان(دانتوں کی درد) وغیرہ سے صحت کُلی حاصل کر لیتے ہیں۔میں ایک طبیب کو جانتا ہوں جنہوں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کی گینٹھیا کی بیماری جوش طبیعت اور خوف کی قوت سے بالکل جاتی رہی۔ وہ عورت اس مرض سے بہت تکلیف اُٹھا چکی تھی اور مہینوں یہ حال رہا تھا کہ بستر سے ہلا نہیں جاتا تھا۔ امید سخت کی نہیں رہی تھی اور کوئی علاج طبیب نے کرنے کو نہیں چھوڑا تھا۔
بجز اس کے بھا پ پہنچائی جاتی اور چونکہ کوئی معقول برتن نہ تھا اس لیے طبیب نے بمجبوری لوہے کی نلی کو ایک کیتلی بھاپ پہنچنے کے لیے تجویز کی۔ حکیم نے ایک سرانلی کا کیتلی کی ٹٹی سے لگا دیا اور دوسرا مریض کے بچھونے تلے رکھ کے نوکر سے کہا کہ آدھی کیتلی پانی سے بھرتا کہ بھاپ پیدا ہوکے نل کی راہ سے بچھونے تک پہنچ سکے اور آپ ایک جگہ بیٹھ کے کچھ پڑھنے لگا تاکہ دیکھےکیا نتیجہ اس علاج کا ہوتا ہے۔ نوکر نے نادانی سے ساری کیتلی بھر دی یہاں تک کہ جب پانی اُبلنے لگا تو بجائے بھاپ کے گرم پانی مریض عورت کے جسم تک نل کی راہ سے پہنچا جب کہ گرم پانی کا چہکااس عورت کے جسم سے لگا اس نے چیز ماری اور کہاکہ جی آپ نے تومیرا بدن ہی جلا دیا اور پلنگ سے چھل کر الگ جا پڑی۔ حکیم اور سب لوگ جو اس وقت گھر میں تھے اس کیفیت کو دیکھ کر کہ اس کا مرض اسی وقت جاتا رہا یہاں تک کہ اس نے پھر کبھی عود(لوٹنا، واپس آنا) نہیں کیا نہایت متعجب (حیران ) ہوئے۔اس میں شک نہیں کہ بہت بیماریاںمتعلق رگوں کے ایسی ہیں جن سے بظاہر کوئی نقص رگوں کی بناوٹ میں متصوًر نہیں ہوتا اور جو دل کے تغیر سے دور ہو جاتی ہیں اور اکثر بیمار کو نہیں معلوم ہوتا کہ کیونکر جاتی رہیں۔ اقسامِ مذکورہ کی بیماریاں مسمریزم اور اسپرٹزم والے اچھی کرتے ہیں۔
مرضِ خفیف مجرد اعتقاد سے بھی جاتا رہتا ہے
ایسی بیماریاں جیسا اوپر مذکور ہوا نرے اعتقاد سے بھی جاتی رہتی ہیں طبیبوں نے اکثر ایسا بیان کیا ہےکہ جس علاج کو مریض کی طبیعت نہیں قبول کرتی اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا بخلاف اس کی بعضی سیدھی سادھی دوائیں بلکہ ایسی چیزیں کہ ان میں کوئی معالج اثر بھی نہیں ہوتا مگر مریض کے گمان و اعتقاد میں اچھی ہوتی ہے تو وہ خوب اثر کرتی ہے۔ امریکہ میں میری ایک صاحب سے جان پہچان ہے جنہوں نے میں جانتا ہوں کہ کئی قسم مذکورہ کے دردوالوں کو ایک کاغذ میں روپیہ لپیٹ کر اس جگہ مس کرنے سے جہاں درد تھا اچھا کردیا۔وہ صاحب کہتے تھے کہ میں اول مریضوں کو یہ رغبت دلاتا تھا کہ مجھ پر بھروسہ کامل رکھیں کہ جو کچھ میں کہتاہوں وہی ہو گا۔ دوسرے یہ اعتقاد کریں کہ جو چیز میں لگاؤنگا وہ صحیح علاج ہے اور اس میں عجیب معالج قوت ہے (اگرچہ حقیقت میں سوا چاندی کے ٹکڑے کی اور کچھ نہ ہوتا تھا) کئی دفعہ اس نے ایک دوست کی داڑھ کا درد کو کاغذ میں لپیٹ کر داڑھ پر لگانے سے دور کیا اور جب اس نے دوست کو اس کیفیت سے مطلع کیا کہ واقع میں کوئی دوا نہ تھی صرِف روپیہ تھا تو پھر اس علاج نے جب کبھی درد اُٹھا کر کچھ اثر نہیں کیا۔ اسی بنا پر یا یوں کہنا چاہیے کہ ذہن ِ انسانی کی اس عجیب خاصیت سے طبیبوں کا نام ہو جاتاہے کہ بیماروں کو اچھا کیاجب کہ ان کی دوا اثر بھی نہیں کرتی۔ بلکہ واقع میں اس میں کوئی معالج قوت بھی نہیں ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے غیر قوم کے پنڈت اور فقیہ اس طرح سے یا قانون ِ ذہنی و جسمی کی قوت سے بیماروں کو اچھا کر دیتے اور جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے دیوتاؤں یا جِن بھوتوں کی مدد سے ہم نے اچھا کیا ۔ یہی صورت مسمریزم والوں اور اسپرٹزم والوں کی ہے۔ جو بیماریاں متعلق رگوں کے ہیں جیسے لقوا و فالج اور مرگی وغیرہ کہ رگوں کی بناوٹ میں فرق پڑنے سے پیدا ہو جاتی ہیں ان پر مسمریزم کا عمل ذر ابھی اثر نہیں کرتا نہ مسمریزم اور ا س پر ٹزم والوں نے ایسی بیماریوں کو کبھی اچھا کر پایا۔ مدّعا اس تحریر کا یہ ہےکہ تمام اچنبھے (حیرت، تعجب)جن کا فی الحقیقت وقوع ہو اہے وہ یا تو قوانین فطری سے یا طلسم سے یا امداد شیاطین واقع ہوئے ہیں بخلاف معجزات مندرجہ کُتب مقدسہ کے وہ صاف خدا کی دست قدرت سے معلوم ہو تے ہیں اور ان کا سبب صرف اسی قدر سمجھ میں آتاہے کہ ان کی فاعل قدرت الہٰی ہے۔ اگر بائبل شریف کے معجزات کے اسرار قوانین فطری سے نہیں حل ہو سکتے اور بڑے بڑے ہوشیار فلسفوں اپنی حکمت سے بھی جادوگری اور طلسم اور مسمریز م وغیرہ میں انہیں شامل نہیں کر سکتے اور نہ ان سے معجزات کے اسرار کو دریافت کرسکتے اور اگر محمدیوں اور ہنود(ہندو کی جمع) بلکہ رومن کیتھولک کے اچنبھے(حیرت، تعجب) جن سے کفار استدلال پکڑتے ہیں مقابل معجزات الہیہ نہیں ہو سکتے تو ظاہر ہے کہ دلائل صداقت معجزات بائبل شریف میں ایک ہزار آٹھ سو برس سے دنیا کی قوموں کو تسکین بخش ہیں ایسے ہی مستحکم ہیں جیسے پہلی صدی کے فرض کیے جائیں۔ اور وہ دلائل اسی بنا پر قائم کئے گئے ہیں جس بنا پر دنیا کی تواریخ میں واقعات مصدقہ(تصدیق کئے ہوئے ) کے دلائل قائل کئے گئے تھے۔ معجزات عیسوی کی صداقت کے حالات دنیاکی تواریخ میں موجود ہیں۔ و ہ ہرگز اس سے دور نہیں ہو سکتے۔ آج کل کے زمانےپیر اور آئندہ زمانے کی بہتری اسی سبب سے ہوگی کہ مسیح کے معجزے دکھانے اور قبر سے جی اُٹھنے کا لوگوں نے اقرار کیا۔ جیسا کہ قبل ازیں ذکر آچکا ے مسیح ک معجزات کی تصدیق انہیں لوگوں نے جنہوں نے ان پرانی باتوں کو جن کی تربیت پائی تھی صرف بدین خیال چھوڑدیا کہ مسیح کے معجزات کو خدا کی طرف سے جانتےتھے۔ جنہوں نے اپنے پُرانے تعصب کو چھوڑ کر ان کا یقین کیا۔ جنہوں نے ان معجزات کی تصدیق کی وجہ سے طرح طرح کی آفتیں اور ذلیتیں اُٹھائیں یہاں تک کہ جانوں سے ہاتھ دھوئے۔ جنہوں نے مرتے دم اپنی باتوں سے اعتراض نہیں کیا جنہوں نے دھمکیوں سے ڈر کر یا شوتوں کی طمع سے ان واقعات کی صداقت پر کبھی احتمال نہیں ظاہر کیا جن میں سے کبھی ایک نے بھی نہ کہا کہ مجھے دھوکا ہوا تھا یا جن لوگوں کی صحبت میں رہتا تھا انہوں نے دنیا کی دھوکا دہی کے لیے یہ مشورت کی تھی کہ نہایت ہوشیاری اور عقل کے زمانے میں جہان کہ مرکز علم تھابڑےمہذب لوگوں کے درمیان اور ان شہروں میں جہاں دنیا کی حکمت اور قدرتیں سب جمع تھیں معجزوں کی لوگوں نے گواہی دی اور ان کے کہنےکو مانا عیسوی ان معجزت پر ایمان لانے کے وسیلے سے پھیلا یہ صرف انہیں معجزات کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے مذاہب بدل گئے اور ۱۸۰۰ برس نیا ڈھنگ (طریقہ کار) جاری ہے۔ قربان گاہیں جاتی رہیں۔ مندروں کو لوگوں نے ترک کر دیا۔ سردار کاہنوں کو اب کوئی پوچھتا نہیں۔ قوانین بدل گئے نئے دستور جاری ہوئے دنیا کے علم و اد ب میں جان تازہ ڈالی گئی ۔لوگ بدی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کرنے لگے سب قوموں و ذاتوں کے ہزاروں شہید امیر بھی معزز بھی خوشحال بھی ناک مزاج بھی اپنے خون سے انہیں معجزات کی صداقت پر مُہریں کر مر ے یعنی جانیں دے دی۔ بخلاف اور مذاہب کے مذکورہ معجزات کے کہ ان سے کچھ بھی نہ ہو یعنی ان سے ایمان ملا، نہ کوئی صورت نجات کی نکلی ، نہ دینداری حاصل ہوئی لیکن مسیح کے معجزات سے یہ سب امور ظہور میں آئے اور تمام دنیا نئی مہذبانہ زندگی اور نور سے معمور ہو گئی۔ لاکھوں کڑوڑوں بڑے بڑے ہوشیار اور پاکباز آدمیوں نے اقرار کیا کہ ان مسیحی معجزات سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ مسیح خدا تھا اور اس سے یقین ِ کامل ہے کہ آئندہ زمانے میں بھی یہ عقیدہ مستحکم ہوتا جائے گا اسی قدر دنیا کی قوموں کی دینی و دنیوی حالتیں بہتر ہوتی جائے گی اور معاملات کی صفائی بڑھتی جائے گی۔ یقیناً کسی عقلمند آدمی پر جو دنیا کے حالات کو بغور دیکھتا ہوگا یہ امر پوشیدہ نہ ہو گا کہ مسیحی معجزت کی یہ تاثیر ہے۔ بخلاف اس کے اور اچنبھے(حیرت، تعجب) جن کو غلطی سے معجزوں کا لقب دیا گیا ہے سال بسال ان کا اثر کم ہوتا جاتاہے یہاں تک بہتیرے بے پڑھے بھی ان کو جھوٹ جانتے ہیں۔ تمام معجزات باطلہ کا وجود یا ان کا ماننا بمقابلہ معجزات الہیہ کُتب مقدسہ کے ایسا ہے جیسے آفتاب کی جان بخش روشنی کے سامنے جلتی ہوئی غِلاظت کاخراب اور مُضر(نقصان دہ) دھواں۔
ان درسوں کے مصنف کی تمنا ئے دی یہی ہے کہ اس کے ناظرین اور نیز جو کوئی حق و باطل کی تمیز کی استعداد رکھتا ہے سحروجعل کے اثر ضلالت سے محفوظ رہ کر نور معرفت اور ہدایت کو حاصل کرے۔