’’جس بات کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اورنہ کچھ گھٹانا‘‘
(توریت شریف کتاب استشنا ۲:۴)
’’لیکن اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرِشتہ بھی اُس خُوشخبری کے سِوا جو ہم نے تُمہیں سُنائی کوئی اَور خُوشخبری تُمہیں سُنائے تو ملعُون ہو‘‘۔
(انجیل مقدس خط گلتیوں۸:۱)
Do not add to what I command you and do not subtract from it, ۔
Deuteronomy 4:2
But even if we or an angel from heaven should preach a gospel other than the one we preached to you, let them be under God’s curse!
Galatians 1:8
Adam-i-Zarurat-i-Quran
Absence of any need for the Quran
Deuteronomy 4:2
Showing that what that book has added to divine revelation is incorrect, while its re-statement as a fresh revelation of truths already promulgateri was unnecessary, with appendices on the Paraclete and “that prophet” (John1:20)
عدم ِضرورتِ قرآن
تصنیف
علامہ پادری جی ایل ٹھاکر داس
امریکن یونائیٹڈ پریسبٹیرین مشن
نجاب رلیجیس بک سو سائٹی کے لئے لودیانہ
مطبع مشن لودیانہ میں باہتمام پادری سی ۔بی نیوٹن صاحب مطبوع ہوا
۱۸۸۶ء
Rev Allama G.L.Thakur Das
1852 - 1910
عدمِ ضرورتِ قرآن
دیباچہ
شکر اور تعریف حق سبحانہُ تعالیٰ ،خالق زمیں و زمان ،مالک کون و مکان کو ہو جو اپنے انتظامِ خاص سے انسان کے حالاتِ پاکیزہ اور آلودہ کانگران حال رہتا ہے اور اپنی محبت سے اس کی ہدایت کرتا ہے اور ہدایت کے لئے وہ ہدایت نامہ بخشا ہے جو بائبل کہلاتاہے اور اسی آسمانی ہدایت کو انسان کے لیے ہر امرو نہی (حکم و ممانعت) کا کامل مخزن ٹھہرایا ،جو فریبیوں اور جھوٹے پیشواؤں کی آزمائش کی کسوٹی کا بھی کام دیتی ہے۔اس بائبل کی یہ حالت ہر تجاوز او ر آمیزش کی مانع (منع کرنے والی) ہے۔ایسا کرنے والوں کے حق میں وہ خوفناک کلمے کہتی ہے۔لیکن بعض لوگ اپنے تئیں کچھ ظاہر کرنے کا موقع پا کے اور خدا کے کلام کا کچھ لحاظ نہ کر کے اپنی باتوں اور خیالوں کو مقدم ٹھہرانے لگتے ہیں۔وہ جوا پنی عقل کے طریق پر چلتے ہیں اگر ان میں گاہے گاہے ایسے پیشوا اٹھیں تو کچھ اندھیر کی بات نہیں ہے ،جیسے برہمو سماج ،آریا سماج اور کوکا سماج وغیرہ اس ملک میں اور بدھا ، کنفیوشس اور لامہ وغیرہ سلطنت چین میں ۔لیکن اگر دائرہ مشاہدات ربانی میں ہو کر خود پسندی کی غرض سے ایسی گستاخی اور بے تمیزی ظہور میں آئے تو افسوس صد افسوس ہے! اور یہ اس حال میں جب اظہار ربانی کی باتیں چُرا کے اور نیز مان کے اور قدرے عمل کر کے اسی کے برخلاف لات اٹھائی جائے یا برابری کا ادعا (دعویٰ کرنا) ظہور میں آئے ۔ایسوں کی یہ حرکت خود انہیں شرمندہ اور نالائق ٹھہراتی ہے۔
حقیقتاً ہمیں پوپ پر اس قدر رنج نہیں جس قدر حضرت محمدصاحب پر ہے۔ گو نیت دونوں کی یکساں ہی ہو۔ہمارے مسیحی برادران نے محمدصاحب اور اس کے قرآن کا خدا کی طرف سے نہ ہونا ثابت کیا ہے اور بہت زور کے ساتھ کیا ہے۔لیکن تصنیف ہٰذا میں ان باتوں کا خیال نہیں کیا گیا ہے کہ آیا محمدصاحب نے معجزے کیے یا صاف انکار ہی کیا،نبوت کی یا نہ کی،ایک عاشق مزاج آدمی تھا یا نہ تھا وغیرہ ۔مگر اس بات کا اندازہ کیا گیا ہے کہ اگر محمدصاحب نبی ہو اور قرآن کلام خدا ہو ،تا ہم قرآن کی ضرورت کیا ہے؟آیا جب قرآن نہ تھا تو کیا قرآن والی باتیں لوگوں کو معلوم نہ تھیں ؟یا وہ باتیں اگلی کتابوں میں نہ تھیں؟ اس بات کو ہم نے اپنے مضمون کا مرکز ٹھہرا کر اس امر کی تفتیش مناسب سمجھی اور بموجب ہماری تحقیقات کے قرآن کا کلام اللہ اور محمدصاحب کا نبی ہونا تو بجائے خود وہ تو ایک جعل (دھوکا۔جھوٹ) ثابت ہو ا ہے اور ہمارے نزدیک جعلی کتاب وہ ہے جو نقل ہو کر اصل ہونے کا دعویٰ کرے۔اصل ہونے کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ یا وہ بات وحی ہی کی معرفت معلوم ہوئی ۔لیکن قرآن نے نقل ہو کر ایسی اصل کا دعویٰ کیا حالانکہ اس کا اس وقت کی مروجہ باتوں کا نقلی مجموعہ ہو نا ثابت ہے،جس سے ظاہر ہے کہ قرآن ایک جعلسازی ہے اور اس لئے اس صورت میں بھی اس کی ضرورت نہیں ہےیعنی ہر دوحالتوں میں فضول ہےاور ضرورت اسی کتاب کی ہے جس کی قرآن خود تصدیق کرتا ہےیعنی بائبل کی ۔ بے شک محمدصاحب کو یہ طور(طریقہ) اختیار کرنا مناسب نہ تھا اور واجب و لازم تھا کہ خوب طرح دریافت کر کے بائبل مقدس کے مضامیں سے واقفیت حاصل کرتے تو یہ قرآن مروجہ لکھنے کی نوبت نہ پہنچتی۔اس بات سے محمدیوں کی جدید بناوٹ نسخ اور تحریف قرآن سے رد ہوتی ہے، کیونکہ واقعی امر کومنسوخ کہنا تو بے معنی کلام ہے اور پھر ان کو جن کی قرآن میں تکرار آئی ہےاور وہ باتیں جو قرآن میں نئے قصے معلوم ہوتے ہیں اور بائبل میں نہیں ہیں تو وہ دراصل نئے نہیں ہیں ۔بات یہ ہے کہ ان کا مبدا بائبل نہیں، لیکن اَور پرانی کتابیں یا روایتیں ہیں۔البتہ امور اخلاقیہ منسوخ ہو سکتے ہیں لیکن وہ امور جو مقرری ہیں(و ہ منسوخ نہیں ہو سکتے)۔مگر قرآن میں تو وہ بھی درج کر لیے ہیں،منسوخ کس کو کیا اور محرف کو نسا ٹھہرا؟ اس لئے ہم نے کہا کہ اس حال میں قرآن کی رو سے یہ وہم بالکل رد ہوتا ہے ۔اور بائبل مقدس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن سے منسوخ ہو سکے وہ تو اصلی ضروری اور پوری کتاب ہے۔اور ناظرین اس رسالہ میں یہ سب امورآپ لوگوں پر خوب روشن ہو جائیں گے۔حق شناسی اور انصاف سے غور کرو،خدا ہدایت بخشے گا۔
تمہید
نبی کی ضرورت تذکرہ
بعض علمائے جدید کا گمان ہے کہ جس طرح پہلے دنیا تاریک اور مختلف خیالوں میں غرق تھی اب بھی اسی طرح ہی ہے ۔اس لئے اگر خدا نے سابق میں نبی بھیجے تھے تو اب بھی ان کی ضرورت ہے، کم سے کم ایک ایک تو ہر براعظم میں ہو نا چاہیئے۔ہماری طرف سے اس کا یہ جواب ہے کہ نبی کی ضرورت، ضرورت پر موقوف ہے ۔اگر کوئی امر انبیا ئے سلف سے رہ گیا جو انسان کی حاجات موجودہ اور آیندہ کے لئے نہایت ضرور ی ہے یا کسی امر میں ان سے خطا ہو گئی جس کی تصحیح سوائے کسی مرسل کے نہیں ہو سکتی تو کسی نبی کے آنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اگر کتب الہامیہ مسیحی میں کمی نہیں اور کسی امر میں قاصر نہیں ہیں ،تو کسی اور نبی کا ذکر کرنا بھی عبث ہے ۔اگر ایک الہام مستند اور کامل موجود ہے تو دوسرے کی حاجت نہیں۔اس اثنا میں ہمیں ایک دوزخی اور ایک بہشی کی گفتگو یاد آتی ہے (لوقا۱۹:۱۶۔۳۱)۔دوزخی نے اپنے قیاس میں مناسب سمجھ کر یہ عرض کی کہ اگر کوئی مردوں میں سے ان کے (اس کے رشتہ داروں کے) پاس جائے تو وہ تو بہ کریں گے ۔بہشتی نے جواب دیا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔پس فرض کرو کہ اب کوئی نبی بھیجا جائے تو اسے کیا کرنا پڑے گا،یہ کہ اپنی رسالت ثابت کرے۔
اولاً ۔وہ مرد خدا جو آج ظہور دکھائے اپنی رسالت کے کون سے ظاہری ثبوت دے گا اور ہم اس سے کیسے ثبوت طلب کریں گے ؟ظاہری، وہ جنہیں ہمارے ظاہر ی حواس تسلیم کر سکیں اور دھوکے کی صورت میں نہ ہو۔تو کیا وہ اپنے ملہم(الہامی) ہونے کا سلف سے زیادہ تر صریح ثبوت دے سکے گا۔ وہ کون سا امر ظاہر کرے گا جس کی مثال ہم نے سنی یا دیکھی نہ ہو۔ کیا وہ دریائے چناب کو دو حصے کر دے گا؟ مگر موسیٰ نے بحر قلزم کا یہ حال کیا۔کیا وہ وبا وغیرہ سے ہندوستان کو تحیر میں ڈالے گا؟یہ بھی موسیٰ نے کر دکھایا۔کیا جنم کے اندھوں کو آنکھیں دے گا؟ یہ خداوند یسو ع مسیح(عیسیٰ) نے کر دکھایا۔کیا مردوں کو زندہ کرے گا؟یہ بھی خدائے مجسم نے چار دن کا مردہ زندہ کر کے دکھا دیا۔ پس ان سے بڑھ کر کو ن سا کام کرےگا؟ طوفان کو دھمکائے گا؟ پر اس کو بھی دھمکی مل چکی ہے ۔ہاں شاید ہم ا س مرد خد ا نو آمدہ کو کہیں گے کہ عالم غیب کی خبر لائے۔سو مسیح کی موت کو یاد کرو۔پس اگر ایسی حرکات فوق العادت کو اپنے قائل ہونے اور ایمان لانے کی شرط پیش کریں گے تو یہ تو پیشتر بھی ظاہر ہو چکی ہیں۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اہل ہند ان کو کیوں نہیں مانتے ، اس لئے اگر ان کو نہیں مانتےتو اس کو بھی نہ مانیں گے۔
ثانیاً۔وہ مرد ِخدا جو یورپ میں ،خواہ ایشیا میں ظاہر ہو کوئی غیب کی خبر دے گا یا نہ دے گا؟ نسل آیند ہ کو بھی اس کی رسالت کا ظاہر ا ثبوت چاہیئے یا نہ چاہیئے؟پس اگر اخبارِ غیب بھی اثباتِ رسالت کی جزو میں داخل ہیں تو ہم اس سے لکھو ا لیں گے اور نسل آیندہ ان کی صحت کو بچشم خو ددیکھ لے گی اور یوں اس کی رسالت کے ثبوت میں ہمارے ساتھ متفق ہو گی۔پر کیا انبیائے سلف اخبار غیب نہیں لکھ گئے؟ اور کیا قریباً ہر زمانہ نے ان کی تکمیل کو نہیں دیکھا اور کیا آج کل ان کا فرمودہ وقوع میں نہیں آتا؟تو کیا ہم نے ان مانی ہے؟جب ان کو نہیں مانا تو اس کو بھی نہ مانیں گے۔دیکھتے ہوئے نہ دیکھنا اسی کو کہتے ہیں۔
ثالثا ً۔ کیا وہ نبی ان حقائق سے افضل حقائق بیان کرے گا جو کتب الہامیہ مروجہ میں مندرج ہیں؟ترتیب کی خاطر ہم حقائق کو چار قسموں میں لکھتے ہیں ۔(اول )خدا کی بابت ،(دوم) انسان کی بابت،(سوم )گزشتہ اور (چہارم) آئند ہ کی بابت۔
(اول)خدا کی بابت:خد اکی بابت ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بلحاظ بت پرستی وغیرہ کے ایک بادئ(ظاہر) الہٰی کی ضرورت تھی۔مگر یہودو عیسائیوں کے پاس انبیائے سلف کی وہ کتب الہامیہ موجود ہیں (جو پڑھے سو دیکھ لے) جن میں بت پرستی کی نسبت (خوا ہ کسی قسم کی ہو) سخت ہولناک امور موضوع ہیں ۔او ر خدا کی ہستی اور دیگر صفات ایسے صریح طور سے بیان ہوئی ہیں کہ توضیح مزید کی حاجت نہیں رکھتیں ۔خدا کی خدائی اور صفتیں جو دیکھنے میں نہیں آتیں لاریب(بے شک) اس کے کاموں پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتی ہیں ۔مگر جب انسان باوجود ان کاموں کے اپنی عقلوں کی پراگندگی میں آوارہ ہوئے اور خالق کو مخلوق سے بدل دیا تو بے شک امداد الہٰی کی اشد ضرورت ہوئی ،چنانچہ وہ حاجت رفع ہو گئی ہے۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ وہ نیا نبی خد اکی بابت اور کیا سکھائے گا؟ کیا صفات الہٰی کو بائبل سے بڑھ کر مکشوف او ر مشرو ح کرے گا؟ اگر خدا کی ہستی ،حکمت، قدرت،پاکیزگی ، عدل ،مہربانی ،سچائی ،بے انتہائی اور ہمہ دانی خدا کے لائق بیان نہیں ہوئی تو بیان دیگر کی حاجت ہے۔ مگر پیشتر اس سے کہ ہم کسی بیان ثانی کی ضرورت کے قائل ہوں ان صفات کی نسبت بیان الہامیہ کی کمی یا قصو ر اہل ملہم ثابت کر دیں تو بہتر ہو گا۔ تاوقتیکہ یہ نہ ہو کہ کسی نئے نبی کا تذکرہ فضول ہو گا۔ پھر کیا وہ رشتہ جو خدا اور انسان میں ہے، وہ نیا نبی توڑے گا یا محکم کرے گا؟ اگر اس سے انکار کرے تو کرے اور بہتر کر رہے ہیں اس کو بھی مثل اوروں کے سمجھ چھوڑیں گے اور اگر کہو کہ تقویت دے گا تو الہا م بائبل کو کسی نوزاد نبی کی تقویت کی حاجت نہیں۔ اگر اس کی نہ مانو گے تو اس کی تقویت کو بھی عبث سمجھو گے۔
(دوم)انسان کی بابت: انسان کے فرائض کی بابت جو جو مذکور کتب الہامیہ میں درج ہو چکے ہیں،معنی میں اس سے کوئی اور بیان فضیلت لے جا سکتاہے۔’’ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ‘‘ (متی۳۷:۲۲۔۳۹) ،کیا اس میں کچھ اور باقی رہ گیا ہے جو ہمیں پھر بھی کسی اور نبی کا محتاج رکھے؟ اس سے بڑھ کر ہم کیا کر سکتے ہیں اور خد اہم سے کیا طلب کر سکتا ہے؟ہاں اگر کہو کہ نیا نبی کچھ تخفیف کر دے گا تو ہم کہتے ہیں کہ بے جا کرے گا اور اگر اس کی تقویت کرے گا تو جب تم نے پہلوں کو نہ مانا تو پچھلے کی کب مانو گے۔ اس لحاظ سے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔پھر وہ نبی خدا او ر انسان کے میل او ر صلح کا کون سا طریقہ بڑھ کر بتائے گا؟شاید ہمارے نوجوان ہم عصروں کی تائید کرے گا کہ نجات کچھ حقیقت نہیں ، بےہودہ خیال ہے اور کفارہ ایک وسوسہ ہے اور نیکی کو صلح کا ذریعہ بیان کر ےگا۔اور یا ان باتوں کے خلاف سکھائے گا یعنی نیکی جس قدر مطلوب ہے، ہو نہیں سکتی اور اس لئے خدا سے عداوت جاری رہے گی اور صلح کبھی نصیب نہ ہو گی۔اور اس لئے کفارہ ہی نجات کا کافی و شافی وسیلہ ہے،مگر نیکی کرنا تو ہمار ی طبیعت ہی گواہی دیتی ہے کہ بھلا ہے اور الہام سابقہ میں بھی اس کی تاکید معہ امور نیک کے آچکی ہے۔اس لئے اگر وہ نبی فقط اسی قدر مژدہ لے کر آئے تو بہتر ہے کہ نہ آئے ۔یہ تو ہم خاطر خواہ جان چکے ہیں۔اور اگر وہ یہ پکارتا ہوا آئے کہ نجات ایک ضرور ی امر ہے اور کہ نجات کا انحصار کفارہ ہی پر ہے تو اس امر میں بھی الہام نے ہماری پوری تسلی کر رکھی ہے ۔او ر بالفرض اگر کوئی نبی ظاہر ہو بھی جائے تو ہمارے ہم عصر صرف یہ کہہ دیں گے کہ تسلیم الہام کی تو عادت ہی نہیں ،ہمارا کچھ اور ہی مت (عقل )ہے۔پس ظاہر ہے کہ جب بائبل کو نہ مانا تو اور کو کس طرح مانیں گے۔نہ مانیں گے، نہ مانیں گے، نہ مانیں گے۔
(سوم) گزشتہ کی بابت: گزشتہ کی بابت وہ نیا نبی کو ن سی نئی بات بتائے گا یا مظہر شدہ میں کو ن سا نقص بیان کرے گا؟ کائنات کا عدم سے موجود ہونا قادر مطلق کی قدرت کے کامل ظہور پر د لالت کرتا ہے۔اب کیا اگر وہ اس بیان مظہور کی تائید کرے تو یہ لوگ مانیں گے ، اگر اس کی مانیں گے تو الہام موجود ہ ہی کو کیوں نہیں مانتے ؟دنیا میں گناہ کے آنے کی کوئی نئی صورت بیان کرے گا یا الہام موجودہ کا موید (تائید کرنے والا) ہو گا؟ اگر ہم اس کی ماننے پر تیار ہیں تو کتب الہامیہ انبیائے سلف سے کیوں دل ڈر ڈر کے بغل میں دھسا جاتا ہے؟جب خدا کی طرف سے تواتر انبیا کا ہوگا تو اختلاف نہیں ،ان کے کلام میں یکسانی پائی جائے گی۔چنانچہ یہ امر انبیائے عہد عتیق و جدید کی موافقت سے عیاں ہے ۔اور اگر اس کے خلاف بتائے گا تو مخالفت پیشتر بھی موجود ہے اور پھر یہ لوگ کہیں گے کہ الہام الہٰی میں بھی اندھیر پڑ رہا ہے اور ہر دو حالت میں تسلیم کرنے سے متنفر رہیں گے۔
(چہارم) آیندہ کی بابت: ٓیندہکی نسبت جس قدر انسان اندیکھی چیزوں کو تعریف سخن سے سمجھ سکتا ہے کیا بائبل میں بیان نہیں ہوا؟ ابدیت،ابدی خوشی اور ابدی عذاب کو انسان بغیر آزمائے کس قدر قیاس میں لاسکتا ہے؟ کیا اس کی قابلیت کے بموجب آیندہ کا صحیح بیان نہیں ہوا۔پس وہ نبی بڑھ کر کیا بتائے گا، جب پاس والی خبر کو نہ مانیں تو اس نئے حامی کی کیونکر مانیں گے۔
رابعا: : کیا اس نئے نبی کی تعلیم او ر اس کی تعمیل سے زیادہ تر فوائد حاصل ہوں گے؟بائبل کی تعلیم نے تو دنیا کے وسوسوں کو زیر و زبر کر دیا ہے۔ انسان کے جسمانی اور روحانی تقاضے اس کی تعمیل سے پورے ہو رہے ہیں ۔وہ انسان جو پایہ انسانیت سے گر گئے تھے ان کو بحال کر دیا ہے اور کر رہی ہے۔کیا اس نبی کی تعلیم سے ان سے بڑے فوائد دنیا کو حاصل ہوں گے۔مگر بائبل مقدس اپنے کاموں سے ظاہر کر رہی ہے کہ وہی اس کام کے لئے مقرر ہوئی ۔پس جب ایسی ہدایت طاہر ،ماہر اور ظاہر کے شنوا نہ ہوئے تو دوسرے کی بھی نہ سنیں گے۔امور مذکورہ بالا کے سبب سے ہم قرآن وغیرہ کو بے فائدہ اور فضول جانتے ہیں،کیونکہ الہام کتب مقدسہ بائبل کا مل ہے اور لازم ہے کہ اسی کی سنیں اور بچیں۔
نبی کی ضرورت پر ایک جالندھری مسلمان کی پہلی تحریر کے جواب میں
واضح ہو کہ نبی کی ضرورت کے لئے مسیح کو ایک نبی اور روح القدس کو دوسرا نبی اور مسیح کی روحانی بادشاہی کو تیسرا نبی سمجھ کر تسلسل انبیا کی ضرورت منتج (نتیجہ) کر لینا کیا عمدہ دقیقہ (خفیف معاملہ) ہے! ان تینوں کو تو ہم ایک ہی صیغہ کے جزو سمجھتے تھے اور واقعی ایسا ہی ہے۔ اور اس مضمون کے لکھنے سے ہماری غرض اس نبی یا نبیوں سے تھی جو ا س دائرہ سے باہر ہیں ۔ بلحاظ مثال ہم محمدصاحب کو نذر ناظرین کرتے ہیں۔اور یہ جو کسی جالندھری مسلمان نے اقوال مسیح تحریر کئے کہ میں زمانہ کے آخر تک تمہارے ساتھ رہوں گا (متی۲۰:۲۸) اور کہ جہاں دو یا تین بھی اکٹھے ہو کے میرے نام سے کچھ مانگیں تو میں انہیں بخشوں گا (متی ۲۰:۱۸؛یوحنا۱۳:۱۴۔۱۴) ۔سو یاد رہے کہ یہ وعدے فقط مسیحیوں سے ہیں اور جب مسیحی ان باتوں کو یاد کرتے ہیں تو انہیں اپنی حالت زندگی میں بڑی تسلی پہنچتی ہے۔مسیح کا یہ وعدہ تو کسی غیر نبی کی ضرورت کو اور بھی بر طرف کرتا ہے۔پھر اگر ان وعدوں ہی پر غور کریں تو کیا خداوند کا مسیحیوں کے ساتھ رہنا اور ان کی دعاؤں کا سننا مسیحیوں کو مضامیں مندرجۂ بائبل سے کبھی افضل بیان القا کرنے کا موجب ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔ کیا کوئی عارف کہہ سکتا ہے کہ میں پولس سے سبقت لے گیا ہوں حتٰی کہ پولس کی نہیں اب میری ضرورت ہے؟مسیح کا ہمارے ساتھ رہنا اور دعا ؤں کا سننا بائبل کو برطرف نہیں کر دیتا،مگر بائبل کی صداقت کا ایک ثبوت ٹھہرتا ہے۔تو کیا ان روحانی نعمتوں کو جو رسول مقبول بائبل میں درج کر گئے اگر ہمیں حاصل ہوں تو ہم کہیں گے کہ اب دوسرا نبی چاہیئے اور پھر تیسرا نبی چاہیئے وغیرہ۔ان ہی نعمتوں کے سبب ہم بار بار کہتے ہیں کہ کسی غیر نبی کی ضرورت نہیں۔
قَولُہ‘۔‘۔(قَو۔لُ۔ہُو) (اس کا قول) ا گر اُن مرسلوں (مرسل:بھیجنے والا۔خط بھیجنے والا) جیسے جو پچھلے زمانوں میں خدا پرستوں کی ہدایت کے لئے بھیجے جاتے تھے ، اگر اب بھی بدستور ارسال ہوتے رہیں تو فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور بعد اس کے آپ لکھتے ہیں کہ ہمارا زمانۂ رواں کسی قسم کی کرامات و معجزات دیکھنے کا چنداں محتاج نہیں۔ تو کہیے صاحب ان مرسلوں کی شناخت کی کیا صورت ہو گی ۔معجزات وغیرہ دیکھنے کے آپ محتاج نہ ہو ں گے مگر ان ایام رواں میں ہم کیا ہمارے جیسے کروڑ ہا بِن دیکھے پاس نہ بیٹھنے دیں گے۔ اگر آپ ان کے بدستور ارسال کے قائل ہوتو بدستور کرامات سے کیوں منہ پھیرا۔اسی لئے کہ فریبی بھی مرسلوں میں چل جائیں۔دستور سابقہ جاری رکھنا اور نہ رکھنا اللہ تعالیٰ کےاختیار میں تھااور اس کی عدم ترویج سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اس میں زیادہ فائدہ نہ دیکھا۔اگر مرسل سلف سے شکوک و شبہے رفع نہیں ہوتے تو یاد رہے کہ ان سے زیادہ گھول کے نہ کسی نے پلایا، نہ کوئی پلائے گا۔مسیح سے اب تک قریب دو ہزاار برس ہوتے آتے ہیں۔تو کون سا بڑا شارح پیدا ہوا جس نے مسیح کو مات کردیا۔ کیا محمدصاحب ،کیا نانک،کیا بابو کشیپ چندر سین یا سید احمد خان بہادر (ہمہ مصلحین بے کرامت) کا وہاں تک دست فہم پہنچا ہے؟ اور با کرامت تو کوئی ہوا ہی نہیں۔ان سب کے ظاہر ہونے سے سوائے اختلاف کے کیا حاصل ہے۔ اسلئے ہم کہتے ہیں کہ نہ کسی نبی بے کرامت اور نہ نبی با کرامت کی ضرورت ہے۔بے کرامت تو اختلاف کا باپ ہو گا اور باکرامت یا الہامی بڑھ کر کچھ نہ کہہ سکے گا۔ اور پھر بائبل سے فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کا مکتفی ہو نا کسی غیر نبی کی ضرورت کو عدم ضرورت میں ڈالتا ہے۔
قَولُہ‘۔فرمایئے کون مسیحی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے کہ بائبل میں مقدمہ نجات کے سوائے حال اور استقبال کے جتنے ماہیات ہیں سب کے سب بہ تشریح بیان ہو چکے ہیں یا کسی کی سمجھ میں پورے طور پر آگئے ہیں۔
اس کے جواب میں ہم وہ بیان جو آیندہ کی نسبت از منجانب مسطور (اوپر لکھاگیا) ہوا دو بارہ لکھتے ہیں یعنی آیندہ کی نسبت جس قدر انسان ان دیکھی چیزوں کو تعریف یا نظیر سے سمجھ سکتا ہے کیا بائبل میں بیان نہیں ہوا؟ابدیت ،ابدی خوشی اور ابدی عذاب کو انسان بغیر آزمائے کس قدر قیاس میں لاسکتا ہے کیا اس کی قابلیت کے بموجب آیندہ کا صحیح بیان نہیں ہوا؟ مگر آپ کہتے ہیں کہ مثلاً روح اور اس کے مونزیات قیامت اور عدالت، دوزخ اور بہشت، بعد از مرگ روحوں کی کیفیت وغیرہ کی کس نے ایسی تصریح (واضح کرنا) کے ساتھ شرح (تفسیر) دی ہے کہ شک کے لئے جگہ نہ چھوڑی ہو۔
اگر آپ عقلی شرح کے محتاج ہیں تو سیری بھی کبھی نہ ہو گی اور اگر کہو کہ یہ امور بائبل میں بھی بطریق مشتبہ بیان ہوئے ہیں تو بائبل کو پھر پڑھو۔ اظہار بائبل روح کی نسبت یہ ہے کہ وہ جسم سے علیٰحدہ شے ہے (متی ۲۸:۱۰؛۱۔تھسلنکیوں۲۳:۵) ۔بقائے روح کی ایک اور وصف ہے اور یہ وصف انجیل کے ان مقامات سے مصرح (صراحت کرنے والا) ہے جہاں ہمیشہ کی زندگی اور ہمیشہ کے عذاب کا ذکر ہے۔قیامت کی بابت مسیح اور اس کے رسولوں نے نہ صرف تعلیم ہی دی جیسا لوقا ۱۴:۱۴ اور اعمال ۱۵:۲۴ سے مصرح ہےاور نہ صرف صدوقیوں کو انکار قیامت کی نسبت ملامت ہی کی (مرقس ۱۸:۱۲۔۲۵) بلکہ خود مردوں میں سے اٹھ کر ایسا واضح کر دیا کہ شک وشبہ کی تاب کو بے تاب کر دیا۔عدالت کی نسبت بھی بائبل ایسی تصریح کے ساتھ شرح دیتی ہے کہ شک گداز ہوتا ہے (دیکھو متی ۳۱:۲۵۔۳۲؛اعمال ۳۱:۱۷؛۲۔کرنتھیوں ۱۰:۵) ۔ بہشت اور دوزخ کی بابت بھی اکثر مقامات سے مصرح ہے کہ مقدم جائے آرام ہے اور موخر جائے عذاب ۔ان امور کی بابت بائبل صاف صاف بیان کرتی ہے یعنی جس قدر انسان بغیر دیکھے ان امور کو قیاس میں لاسکتا ہے اور جوجو کیفیت ان کی نسبت آیندہکے متعلق ہے، وہ اس زندگی میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ اور بعد از مرگ روحوں کا بھی اسی قدر مذکور ہوا ہے جس قد ر بغیر تجربہ کے کسی چیز کو معلوم کرسکیں اور جو کچھ حال میں ان کی نسبت جاننا ضرور ہے، وہ تو مصرح ہے۔ ہمیں خیال گزرتا ہے کہ آپ مفسروں کی لا علمی وغیر ہ پر اعتراض کرتے ہیں ،مگر یاد رہے کہ مفسروں کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب ان باتوں کی وہ کیفیت معلوم کرنی چاہتے ہیں جو بائبل میں مکشوف نہیں ہوئیں ۔نبیوں کے الہام میں دخل بے جا دینے سے لاعلمی کیا گمراہی کی نوبت پہنچ جایا کرتی ہے۔
قَولُہ‘۔مسیح کا خاص فرمودہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے لئے ابھی بہت باتیں باقی ہیں،مگر اس واسطے نہیں سمجھائی جاتیں کہ تم میں ان کی سمائی نہیں (اس لئے ہر زمانہ میں اور اب بھی نبی ضرور ہیں)۔
صاحب اگر اسی زمانہ میں وہ بہت باتیں حواریوں کو سمجھائی گئی ہوں تو ظاہر ہے کہ اب کسی سمجھانے والے کی حاجت نہیں جوکچھ سمجھنا اور سمجھانا تھا انبیائے بائبل سمجھ کے سمجھا گئے ۔اب دوسرے کی کیا حاجت رہی۔پھر یہ کہنا کہ روح القدس نے بھی حواریوں کی معرفت ایمانداروں پر پورا پورا مکاشفہ نہیں کیا ، مسیح کے اقوال کے بالکل خلاف ہے کہ روح قدس تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ وہ تمہیں سار ی سچائی کی راہ بتائے گا۔آخر میں آپ نے اس سامری عورت کا قول منقول کیا ہے کہ اس نے اپنے شبہات حضرت عیسیٰ کے سامنے پیش کر کے اقرار کیا کہ یہ سب باتیں تب ہی حل ہوں گی جب مسیح آئے گا۔اگر سامریوں کے شبہا ت سے آپ واقف ہوتےتو یہ بات نہ کہتے ۔مگر ہر ناظرین بائبل پر روشن ہے کہ کیا تھے۔پس واضح ہو کہ سامریوں اور یہودیوں میں مسیح کے آنے کی انتظاری تھی اور ان لوگوں نے ہر قسم کے شبہات کا حل مسیح کی آمد اول پر منحصر کر رکھی تھی اور مسیح نے آکر وہ شبہے حل کر دیئے ۔ نیز وہ شبہ جو اس سامری عورت نے بیان کیا تھا اس لئے کسی دوسرے حل کرنے والے کی ضرورت لاحق نہیں ،ناحق ہے۔
ساتھ ہی بعد اس سامری کے تذکرہ کے آپ نے مسیحیوں کی انتظاری بھی بیان کر دی کہ مسیح کے تشریف لانے پر ہزاروں اسرار اور عقد ے منکشف ہو جائیں گے۔بے شک وقت معینہ پر منکشف ہو جائیں گے۔حجاب آیندہ اپنے وقت پر اٹھ جائے گا اور امور متعلقہ آیندہکی باقی کیفیت بحیثیت ہماری قابلیت کے معلوم ہو جائے گی اور ضرور ی تجربے جو اس زندگی میں حاصل نہیں ہو سکتے ،اس وقت حاصل ہو جائیں گے۔اگر آیندہ کو زمانہ حال میں کھینچ لانے کی ضرورت ہے تو بے وقت ضرورت ہے ۔اس لئےاس کے لئے بھی کسی او ر نبی کی ضرورت نہیں ۔جوباتیں آیندہ کے لئے مقصود ہوئی ہیں، وہ آیندہ ہی میں منکشف ہو ں گی ۔اس لئے ٹھہر جاؤ ،صبر کرو،مسیح کو آلینے دو۔
پھر روح اور اس کے لوازمات مثل قیامت اور عدالت ،دوزخ اور بہشت کی بابت اور بھی واضح ہو کہ یہ اسی حال میں فائدہ رکھتے ہیں اگر روح زندہ ہو یعنی روح کو بقا ہو اور اگر روح کو فنا ہے تو اس کو ان لوازمات سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔لیکن انجیل سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ ’’مگراب ہمارے منجی مسیح یسوع کے ظہور سے ظاہِر ہُوا جِس نے مَوت کو نیست اور زِندگی اور بقا کو اُس خُوشخبری(انجیل)کے وسیلہ سے روشن کردِیا ‘‘ (۲۔تیمتھیس۱۰:۱)۔اس سے یہ امر روشن ہوتا ہے کہ روح کو زندگی اور بقا ہے۔اب معلوم کرو کہ اس بات کو مسیح نے کس طرح روشن کیا ہے۔نہ اس طرح سے جیسے ڈاکٹر جانسن وغیرہ نے کیا ہے ۔فیلسوفوں کی توضیحات خیالی ہیں اور فرضی باتوں سے تائید کی جاتی ہیں ، مگر انجیل کی توضیح حقیقت اور تجربہ پر مبنی ہےاور اگر ایسا نہ ہوتا تو انجیل یہ ادعا ظاہر نہ کرتی کہ زندگی او ر بقا انجیل سے روشن کئے گئے ہیں ۔
فلاسفی کہتی ہے کہ روح ہیولیٰ(مادہ) نہیں اس لیے ضرور نابود ہو نے کے قابل نہیں۔لیکن کس وجہ سے یقین ہو سکتا ہے کہ ہیولیٰ نہ ہونے سے روح نیست ہونے کے قابل نہیں، کس فلاسفر نے روح کی آیندہ حالت کا تجربہ کیا ؟ہم نے تسلیم کیا کہ روح ہیولیٰ نہیں پر اس سے کیا حاصل ؟ اس سے کچھ غرض نہیں کہ روح روح ہے ،مگر غرض اس بات سے ہے کہ روح کی آیندہ حالت اس دلیل سے کیونکر دائرہ یقین میں آسکتی ہے۔یعنی کیونکر یقین کامل ہو کہ اس کا ہیولیٰ نہ ہونا اس کی بقا کی دلیل ہے؟ یہ بات صرف فرض کر لی گئی ہے کہ روح ہیولیٰ نہیں اس لئے اس کو نیستی نہیں، یعنی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔یہ مشکلات ،یہ کم اعتقادی انجیل سے رفع ہو گئی ہے۔بائبل میں نہ صرف مردگان پیشین مثل ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کی موت کے بعد زندہ حالت کا بیان ہو ا ہے بلکہ ان سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ مسیح نے مردوں میں سے زندہ ہو کر ثابت کیا ، دکھایا دیا۔ ایک آیندہ حالت کو تجربہ میں لا کر اسی دنیا میں روشن کیا کہ روح کو زندگی اور بقا ہے ۔اس نادیدنی حالت کی ایک دیدنی نظیر دی ہے۔یہ اس دھندلی آیندہ حالت کی ایک روشن مثال ہے۔اس حقیقت سے کم اعتقادی کی چون و چرا کا عملی جواب ملتا ہے اور یقین کامل ہو تاہے کہ اسی طرح اور روحوں کو بقا ہے ،کیونکہ اب تو مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور ان میں جو سو گئے ہیں پہلا پھل ہوا (۱۔کرنتھیوں۲۰:۱۵)۔
پھر فلاسفی کی ایک اور مضبوط دلیل یہ ہے کہ روح بلحاظ اپنی طاقتوں کی ترقی کے غیر فانی ثابت ہوتی ہے۔یہ بات اور بھی تجربہ کے خلاف اور آیندہ میں خیال دوڑانا ہے۔یہ تو یہاں ایک باٹ مقرر کر لینا اور اس کانتیجہ آیندہ میں یوں یادوں فرض کر لینا ہے۔قوتوں کی ترقی سے بالکل یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ موت روح کی حد انتہائی نہیں ہے ۔تجربہ اس دلیل کی بنا نہیں ہے۔ انسان تندرستی کی حالت میں ایسا خیال کر سکتا ہے۔مگر عزیزو اس شخص سے پوچھو جو موت کے بستر پر ہے۔ا س کو قوتوں کی سو برس کی ترقی آیندہ ترقی کی کچھ امید دیتی یایقین کامل دلاتی ہے۔دریائے موت کے پار دیکھنے کا اس کے پاس کو ن سا ذریعہ ہے؟ دیکھو تجربہ تو اس دلیل کے بر خلاف معلوم ہو تا ہے۔بقا کی نسبت موت اور ا س کے لوازمات جیسی ناامید کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ا س وقت قوتیں ضعیف اور نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ موت اس کو موت کے بستر پر گزشتہ خوشی اور تنگی پر گویا جبراً قناعت کا حکم دیتی ہے۔نیچر اس کو نہیں بتاتی کہ نکلا دم ہست رہا یا نیست ہو گیا۔ پس ظاہر تجربہ تو یہ ہے اور انجیل بھی اس تجربہ کی تائید کرتی ہے کہ موت عذاب ہے ۔ہاں مسیح سے باہر وہ دہشت اور سختی ہے،کیونکہ اس نے زندہ ہو کر تجربہ کے نتیجہ کے برخلاف تجربہ سے ثابت کر دکھایا کہ روح کو بقا ہے ،قیامت ایک صداقت ہے۔پس دیکھو کہ کیونکر انجیل زندگی اور بقا کو روشن کرتی ہے۔کیا دفعیہ(دفعہ کرنے کی تدبیر۔توڑ) شک کے لئے اس دنیا میں روح اور اس کی آیندہ حالت کی اس سے زیادہ تصریح کے ساتھ شرح ہو سکتی ہے؟اس دنیا میں نہ ہوئی ،نہ ہوگی اور نہ کسی اور کی ضرورت ہے۔
جالندھری مسلما ن کی دوسری تحریر کے جواب میں
جس جس مقام میں جالندھری صاحب نے نبی کی ضروررت نہیں لکھنا تھا، وہاں ضرورت ہی لکھ دیا۔ چنانچہ ہم انہیں کی وجوہات کی رو سے اس نفی کو پھر درج کیے دیتے ہیں اور ساتھ ہی مطلع کرنا بھی انسب(زیادہ مناسب) سمجھتے ہیں کہ آپ کے مضمون کا پہلا ڈیڑھ کالم ہمارے مدعائے بحث سے بالکل خارج ہے۔ اس حصہ میں جو باتیں آپ نے تحریر کی ہیں ان ہی کے سبب سے ہم کسی غیر نبی کی ضرورت کے نافی (نفی کرنے والا)اور مبطل(باطل کرنے والا) ہیں۔
قریباً شروع مضمون میں آپ نے اختلا ف سمجھ کے سبب کسی نبی کی ضرورت کو ظاہر قرار دیا ہے۔ اس پر ایک نظر تو ہم پیشتر لکھ چکے ہیں ،اب ایک دو اور باتوں کا بیان کیا جاتا ہے۔اول یہ کہ اختلاف ِسمجھ سے بائبل میں نقصان مظنون(ظن کیا گیا۔مشکوک) نہیں ہوتا۔ بائبل کے اجزائے اظہار ایسے ہیں جو ایک کل کی طرف راجع ہیں ۔ا ن میں اختلاف نہیں، کمی نہیں، قصور نہیں ۔اختلاف عقلیہ کی طرف حواری کا اشارہ معلوم ہوتا ہے جب اس نے غیر انجیل سنائے جانے پر لعنت کی اور کلام الہٰی سے اختلاف یا اس کی مختلف تعبیریں کر نے کا یہ سبب بتایا کہ نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کہ وہ یہ اس کے آگے بیو قوفیاں ہیں اور نہ وہ انہیں جان سکتا ہے،کیونکہ وہ روحانی طور پر بوجھی جا تی ہیں۔سچ ہے، اگر کلام خدا اس دنیا کی حکمت سے ہوتا تو نفسانی روح اسے سمجھ سکتی اور ایسا اختلاف نہ ہوتا اور بدعتیوں کا نام بھی نہ سنتے۔ اب اس نفسانیت کو دل سے دور کرنے والا روح حق ہے ،نہ کہ کوئی آم ز اد۔
دوم ،ایک انسان سچائی کو زیادہ سمجھ سکتا ہے اور دوسرا کم ۔ایک کو سچائی کا ایک حصہ سمجھنے کا ادارک ہے دوسرے کو کوئی اور ۔اس سبب سے بھی اختلاف سر زد ہ جاتا ہے اورظاہر ہے کہ ہر بشر کے فہم کی یکساں وسعت نہیں ہے۔پھر اختلاف سے حیران کیوں ہوں۔ پولس اور دیگر حواریوں نے انجیل سے انحراف اور اختلاف ظاہر کرنے پر بار بار متنبہ کیا ہے۔ اس لئے بائبل اپنے کسی اظہار میں قاصر نہیں، جو ہر زمانہ میں ایک نہ ایک پولس کی ضرورت کو جگہ دے ۔اُسی پولس کے نامہ جات (خطوط)اب بھی کافی ہیں کہ اختلاف وغیرہ کو منتشر کریں۔
قَولُہ‘۔
مسیح کا شہود دنیا پربطور نبی، کاہن اور بادشاہ کے تھا اور میں پو چھتا ہوں کہ وہ عہدے جن کی اشد ضرورت اس وقت کے لوگوں کو تھی ،کیا حال کی امت کو نہیں ہے؟ بے شک ہے۔ ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان باتوں کی بابت لکھ دیا کہ ان تینوں کو ہم ایک ہی صیغہ کی جزو سمجھتے ہیں اور واقعی ایسا ہی ہے اور ہماری غرض اُس نبی یا نبیوں سے تھی جو ا س دائرہ سے باہر ہیں۔ اس کے ساتھ ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ مسیح کا وعدہ ساتھ رہنے ، دعاؤں کے سننے کا اور روحانی نعمتوں کی تحصیل کسی غیر نبی کی ضرورت کو اور بھی برطرف کرتی ہیں اور اُن غیروں کا پتا بھی بتا چکے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسیح کا نبی ، کاہن اور سلطان ہونا اور ہر گھڑی اور ہر ساعت (بلحاظ ان عہدوں کے) انسان کو روحانی ترقی بخشنا اور اس کی حاجتوں کو پورا کرنا بعد ُ ہ‘(بَع۔دُ۔ہُو) (اُس کے بعد) ہر زمانہ کی امت کے لئے کسی غیر نبی کی آمد کو عبث ٹھہراتا ہے ۔مسیح کا وہ شہودِارضی اور یہ ظہور فلکی غیر نبی کی عدم ضرورت کے لیے دلیل کافی ہے اور ہم جالندھر ی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی غیر نبی کی عدم ضرورت کے اظہار میں ہماری خوب مدد کی ہے۔
قَولُہ‘۔عیسی ٰ ہمارا نبی ہے اور اپنے کلام ذریعہ سے ہر وقت اور ہر ساعت وہی کام کر رہا ہے جو اس نے عالم شہو د میں آکر کیا تھا۔جب یہ حال ہے تو صاحب من خود ہی اظہر ہے کہ آپ کا عنوان غلط ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں نبی کی ضرورت ہے ۔جب مسیح موجود ہے تو پھر اس ضرورت کے کیا معنی۔مسیح کے ساتھ رہنے اور وہی کام کرنے کی ضرورت تھی ،سو وہ تو حاصل ہے۔اس لئے غیر غیر ہی ٹھہرا۔
قَولُہ‘۔مانا کہ وہ جلیلی (گلیلی )آج کل ٹابیرئیس(تبریاس) کے کناروں پر بدستور کھڑا ہو کے لوگوں کووعظ و نصیحت نہیں سناتا۔ تاہم اس کا کلام اسی مقام پرکہاہوا بدستور موجود ہے۔ برادر عزیز اس کلام کا بدستور موجود ہونا کسی غیر نبی کے کلام کی مداخلت کا مانع ہو ا یا نہ ہوا۔عدم ضرورت کی یہ ایک اور دلیل ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔اسی کلام موجودہ کی ضرورت ہے ،نہ کسی اور کی۔ اس لئے مناد سناتے ہیں او ر لوگوں کو سننا واجب ہے۔
قَولُہ‘۔مسیح نے خود اپنے وقت میں اپنے سے پہلے نبیوں پر اشارہ کرکے یہودیوں کو باآواز بلند فرمایا تھا کہ تم لوگ کیوں ان کا کلام نہیں پڑھتے ہو۔ سو اگر حال میں نبی کی ضرورت نہیں رہی تو بتاؤ کہ مسیح کے اس خطاب سے کیا مراد تھی۔
اس خطاب سے مراد یہ تھی کہ انبیائے سابقین کی کتب میں میری خبر ہے ۔سو تم لوگ ان میں یہ خبر ڈھونڈ و کہ مسیح کے نسب ،کام ، کلام ، منزلت اور رتبہ کی بابت وہ کیا لکھ گئے تھے اور یوں میری ضرورت کے قائل ہوگے ۔کسی غیر نبی کی ضرورت کا اشارہ نہیں کیا اور اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ انہیں کتابوں میں ڈھونڈو، انہیں میں میری خبر ہے ۔یہ حکم کسی غیر کتاب کی طرف رجوع کرنے کامانع ہے۔جالندھری صاحب کی باقی ماندہ تحریر سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارا مدعا پا گئےا ور جس ضرورت کا آپ اب تک گیت گاتے رہے اس کاتو ذکر نہیں ۔اسی کے تو ہم مفر (جائے فرار)ہیں اور اسی کے سبب غیروں کی عدم ضرورت کی تشبیہ میں ہمیں ذرا پس و پیش نہیں ہے۔
فصلِ اول
عدم ضرورتِ قرآن از روئے امور ِ اخلاقیہ
اس سے پیشتر ہم کسی نبی نوزاد کی ضرورت اور عدم ضرورت کا عموماً تذکرہ کر چکے ہیں۔اب مناسب ہے کہ جس خصوصیت کے لیے وہ عمومیت گویا تمہیداً اختیار کی گئی تھی ،وہ واضح کی جائے ۔تخصیص کا قرعہ بایں مو جب قرآن پر پڑتاہے کہ باوجود گی کتب انبیائے ملہم کے اس کا مصنف الہام کا دعویٰ کر کے اپنی تصنیف خلق اللہ کی ہدایت کے لیے پیش کرتا ہے۔لہٰذا ہم انصاف سے دریافت کرنا چاہتے ہیں اور کریں گے کہ کیا ضرورت تھی۔ضرورت تھی یا نہ تھی۔ اس تحقیقات میں لازم ہے کہ یہ امر ذہن نشین ہو کہ جب کسی مذہب کی اصلیت سے واقف ہو نے کی آرزو ہوتو فقط اس کے فروعات (فروع کی جمع۔جزئیات ۔غیر اہم امور) نو ایجاد اور بے ہودہ کو دیکھ کر پھولنا اور کہنا کہ وہ کتاب جس کی تقلید کے یہ یا وہ لوگ مدعی ہیں جھوٹی اور بے ہودہ ہے ،اس کتاب کی ماہیت حقیقی کی واقفی سے ہمیشہ محروم رہے گا،مثلاً دین عیسوی کو رومن کا تھلکوں وغیرہ کی ایجا د و ترمیم میں او ر زائد الغرض رسومات میں لپٹا ہو ا دیکھ کر کہنا کہ عیسوی مذہب بے ہودہ طریق ہے یا یہ کہ بائبل ایک ایسی کتاب ہو گی جو بے ہودگی سے پر ہواور یا اگر محمدی مذہب کی صرف خرابیوں کے سبب جو اس کے مقلدوں نے وارد کر لی ہیں، کوئی یہ گما ن کرے کہ یہ بڑاخراب مذہب ہے یا قرآن میں یوں اوروُوں (اِس طرح یا اُس طرح) ہو گا تو ایسے کم اندیش محققوں کو ہم بے خبر اور بے انصاف کہنے میں ذراتامل نہ کریں گے۔ ایسے شخصوں کو لازم ہے کہ اصل کتب کی طرف رجوع کریں اور ان کی عمدگی یا بے ہودگی سے استدلال پکڑیں۔اس قسم کے اتہام سے بری رہنے کی غرض سے ہم نے فقط بائبل اور قرآن ہی پر زور دیا ہے۔
پھر ہم نے کسی نبی کی ضرورت کی نسبت یہ بیان کیا تھا کہ یہ ضرورت، ضرورت پر موقوف ہے۔ اب ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی امر انبیائے سلف سے رہ گیا جو انسان کی دفعیہ(دفع کرنے کی تدبیر)حاجات کے لیے ضرورتھا تو محمدصاحب کی ضرورت تھی ۔دیا اگر ان سے کسی امر میں خطا ہو گئی ہو تو اس کی تصحیح کے لئے محمدصاحب کے آنے کی ضرورت کی گنجائش تھی ۔مگر بائبل میں نہ کوئی امر باقی رہ گیا اور نہ کسی امر میں خطا ہی ہوئی اس لئے قرآن کی ضرورت نہیں تھی ، محمدصاحب بے فائدہ نبی بنے۔
اس مضمون کے ضمن میں یہ بھی بیان ہو ا ہے کہ بہ لحاظ بت پرستی وغیرہ کےالہام کی ضرورت تھی۔مگر چونکہ بائبل مقدس میں ذات اور صفات ایزدی کے ایسےاظہار درج ہیں جو عقل کی ہر قسم کی آوارگی کے قلع قمع کے لیے مکتفی ہیں ۔لہٰذا اس بارے میں قرآن کی حاجت نہ تھی،غور کرو۔ جب احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں تو خداوند یوں فرماتا ہے کہ ’’میں ہوں جو ہوں ‘‘میر ا نام ہے۔ جب کوئی فیلسوف اشیائے ذاتی کو ہر نتیجہ کا سبب بتا کر مسبب الاسباب کے وجود سے منکر ہونے پر آمادہ ہو تو ایسے بیدار مغز کی فہمائش (ہدایت ۔نصیحت)کے لئے بائبل سلسلہ اظہار الہٰی کا شروع ہی یوں کرتا ہے’’ خدا نے ابتدا میں زمیں و آسمان کوپیدا کیا‘‘ (پیدائش۱:۱)۔جب انسان علیٰ العموم اس مقنن قادر کی جگہ قوانین قدرت کو ماننے لگے او ر واجب الوجود کے عوض وجود ساختہ کو اور اس حی القیوم کے مقابل میں ہر جاندار مخلوق کو حق عبادت کا ادا کرنے لگے، تب الہام بائبل نے صاف صاف کھلا کھلی متنبہ کیا کہ تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر یا زمیں پر یا زمیں کے نیچے ہو مت بنا اور نہ ان کے آگے سجدہ کر کیونکہ میں غیور خدا ہوں(خروج۵،۴:۲۰) ۔ جب شریر شرارت میں زندگی گزارتے اور کہتے ہیں کہ کوئی نہیں دیکھتا ،کیے جاؤ تو الہام بائبل نے خدا کو حاضر وناظر بتایا ،جیسا ایک سو انتالیس زبور میں مرقوم ہے۔جب انسان بار گناہ سے ملول خاطر ہوتا ہے تو بائبل میں یہ تسلی موجود ہے کہ خاطر جمع رکھ ،ایمان لا،خدا محبت ہے۔جب شریر شرارت میں خوش ہوتے اور باز پرس کا خیال تک نہیں کرتے تو خداوند بائبل کے ذریعہ سے ایسوں کو اور (عبرت کے لیے سب کو) اُنہیں کے محاورات میں خوب طرح آگاہ کرتا ہے کہ حاکم الحاکمیں راستی سے دنیا کی عدالت کرے گا ،شریر گھمنڈی کو بھسم کر دے گا ۔جب کوئی خوش فہم گمان کرتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا،یہی موجوادت خدا ہے،اس میں حلول ہو رہا ہے،اس سے جدا نہیں تو بائبل صاف صاف منکشف کرتی ہیں کہ یہ موجودات اس کی دستکاری ہیں۔ اس نے اس کی بنا ڈالی۔یہ اس کی قدرت کا ظہور ہے۔ خدا روح ہے،ہیو لانی مادہ نہیں۔
ایڈیٹر صاحب صفات الہٰی کا بیان تو بائبل میں مثل سیلاب کے موج زن ہے تو کہاں تک یہ کلک (قلم)دوزبان صفات ایزدی کی نسبت اظہار بائبل کا بیان کرے ،اتنے ہی پر اکتفا کر۔ اصل مدعا کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ کون سی صفت باقی ہے جو بائبل میں نہیں حتٰی کہ اس کے انکشاف کے لیے قرآن کی ضرورت ہوئی، ایک بھی نہیں۔ مصنف قرآن خو د علم صفات الہٰی کے لیے اسی بائبل کا دین دار ہے ۔ان صفات کے قرآن میں پائے جانے کے سبب نہ تو وہ الہامی ٹھہرتا ہے اور نہ اس کی ضرورت لاحق تھی۔بغیر قرآن کے بائبل نے صفات الہٰی کا خوب چرچا کر رکھا تھا اور اب بھی کر رہی ہیں۔جن ملکوں کی آب و ہوا کا مزہ قرآن نے چکھا ہی نہیں، وہاں بائبل نے دیکھو ان صفات کے علم سے مجہول دلوں کو کیسا روشن کر دیا ہے۔لوجہاں قرآن پہنچا وہاں نہ تو بائبل کو بر طرف کیا اور نہ اس پر فضیلت دکھائی۔پس جس حال کہ نہ نقص نکالا،نہ فضیلت دکھائی(فضیلت کیا برابر بھی نہیں اترا) تو اس کی حاجت ہی کیا تھی۔ خوانخواہ الہام پر الہام کے کیا معنی،کچھ معنی نہیں،بے معنی خیال ہے۔
اس بات پر ناظرین اہل اسلام مطلقاً نازاں نہ ہوں کہ مسیحی کمال نادانی سے یسوع مسیح کو جو ایک مقبول پیغمبر تھے،خدا اور خدا کا بیٹا کہتے تھے اس لئے ایسے نبی کی ضرورت ہوئی کہ اس فرق سے لوگوں کو آگاہ کرے ۔ ایسے آگاہ کرنے والے کئی محمدصاحب سے پہلے بھی ہو گزرے تھے۔مگر حقیقت حال یہ ہے کہ مولف قرآن نے مسیح کی دو ذاتوں کا خیال نہ کیا اور یا کہ خیال کرنے کا ملکہ نہ تھا اور اس لئے اس کی انسانیت سے اس کی الوہیت پر حملہ کیا ۔چنانچہ لوازمات انسانی کو بار بار پیش کر کے اس کی الوہیت سے انکار کیا ،جیسے کھانا کھانا اور بی بی مریم سے تولد ہونا۔ بائبل خود ہی اس قسم کی باتوں سے اس کی انسانیت کا کامل ثبوت پہنچاتی ہے اور مسیح خود اپنے تیئں ابن آدم کہتا ہے۔ مگر الہٰی لوازمات کا بھی بائبل بار بار ذکر کرتی ہےجو اس کی الوہیت پر بے کم و کاست(بالکل درست۔کمی بیشی کے بغیر) دال کرتے ہیں۔پہلے الہام کو نہ سمجھنا اور عدم واقفیت کے سبب مسیح کی الوہیت سے انکار کرنا بھولنے کا موجب نہیں۔بلا سمجھے کسی کلام پر کلام کرنا ناظرین خود ہی کہیں کہ نادانی ہے یا کچھ اور ،اورکس کے ذمے لگتی ہے۔یونی ٹیری ان (توحید پرست)بھی بائبل سے انسانی عرضات مسیح کی الوہیت کے خلاف پیش کر کے نازاں ہوتے ہیں ۔ محمدصاحب نے ان سے کچھ بڑھ کر نہیں کیا ۔ہمیں یقین ہے کہ اگر زیادہ دریافت کرتے تو واقف ہوتے کہ انجیل اس وجود جسمانی کو جو تولد ہوا، وجود الہٰی نہیں کہتی۔ہر د و میں صریح امتیاز کرتی ہے۔پس ایسی آگاہی کی ہر گز ضرورت نہ تھی۔
پھر انکار تثلیث بھی عبث ہے۔ محمدصاحب نے بائبل کی تثلیث سے انکار نہیں کیااو ر جس تثلیث فی التوحید کا حضرت نے انکار کیا بائبل خود پیشتر ہی اس کی مبطل ہے یعنی مریم،عیسیٰ(ابن مریم) اور خدا۔یہ بدعتیوں کی تثلیث تھی۔وہی اس کے موجد تھے۔بائبل ایسی تثلیث کی روادار نہیں اور وہ تثلیث جس کا بائبل اظہار کرتی ہے محمدصاحب صاحبِ کے علم سے خارج رہی۔اس کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔اب جس حال کہ بعض امور کی نسبت بے خبر ہے اور بعض کی نسبت ساکت ،تو ہادی ثانی اور مصحح (صحیح کرنے والا)کن باتوں کے تھے ۔یہ باتیں تو ان کی عدم ضرورت کی عین مصدق ہیں۔
پھر اس بات پر بھی افتخار(فخر) بے جا ہی ہے کہ محمدصاحب علم توحید بحال کرنے آئے تھے۔ہم کہتے ہیں کہ اگر بائبل اس امر میں قاصر ہوتی تو آپ کی ضرورت لاحق تھی، لیکن چونکہ یہودی اور عیسائی توحید کو دلی تعویذ کئے بیٹھے تھے اور ان کی کتب الہامیہ علم توحید کے انکشاف سے بھر پور تھیں۔ لہٰذا اس بحال کرنے کے کیامعنی۔ توضیح کی خاطر ہم چند مقامات شان توحید میں نقل کئے دیتے ہیں۔۲۔سموئیل ۳۲:۲۲ میں ہے ’’کیونکہ خُداوند کےسوا اَور کَون خُدا ہے؟اورہمارے خُدا کو چھوڑکراَورکون چٹان ہے ؟‘‘ استثنا ۴:۶میں لکھا ہے ’’ سُن اے اسرائیل! خُداوند ہمارا خداایک ہی خُداوند ہے‘‘۔ اس قول کا خداوند عیسیٰ نے بھی حوالہ دیا(مرقس۳۲:۱۲) ۔پھر پہلے کرنتھیوں۶:۸ میں موجود ہے کہ ہمارا ایک خدا ہے جو باپ ہے،الخ(تمام۔جب کسی عبارت کا تھوڑا حصہ لکھ کر باقی بخوف طوالت نہیں لکھتے تو الخ لکھ دیتے ہیں)۔ اگر بائبل اظہار توحید سے بیگانہ ہوتی تو قرآن لاریب(بلاشبہ) یگانہ ٹھہرتا۔ مگر اس حال میں تو اس کا وہی حال ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں ۔پس اظہار صفات الہٰی میں قرآن بائبل کو برطرف نہیں کرتا اور نہ اس پر فضیلت دکھاتا ہے۔بائبل اپنے آپ میں کامل ہے اور کسی صفت کے بیان میں قاصر نہ تھی جس سے الہام مزید کی ضرورت ہوتی۔پس بایں جہت قرآن کی ضرورت نہ تھی ۔اب ذیل میں ہم سلسلہ وار بائبل اور قرآن کے امور اخلاقیہ کو پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ ایک دوسرے سے کیا نسبت ہے اور ایک کے مقابل میں دوسرے کی کیا حیثیت اور ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ شرع اخلاقی یعنی دس احکام جو کوہ سینا پر حق تعالیٰ نے نہایت رعب وداب کے ساتھ فرمائے، ان کا پہلا حصہ ان سب باتوں کو شامل کرتا ہے جن کااب تک ہم نے عہد عتیق سے اقتبا س کیا ۔کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے جوابوں سے اس میں باقی کچھ نہیں رہا ۔اس قسم کی باتوں سے حکم، احکام اور نصائح سے وہ تو معمور ہے۔ہم نے توصرف بانگی (نمونہ) دکھائی ہے اور پھر یاد رہے کہ عہد جدید امور ہٰذا کی اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ شرح کرتا ہے۔خدا محبت ہے۔ خدا کو سارے دل و جان اور زور سے پیار کر۔خدا روح ہے۔روح اور راستی سے اس کی بندگی کر۔
اےاہل انصاف اب کہو کیا ان امور کی نسبت بائبل میں کچھ کمی تھی ،نقص تھا یا کیا تھا جو لوگ قرآن کی ضرورت درمیان میں لاتے ہیں۔ کسی امر میں بھی قرآن بائبل پر ترجیح پاتا ہے؟ وہی باتیں ، وہی تعلیم ہے ۔قرآن نے کچھ نقصان نہیں بتایا اور نہ فضلیت دکھائی تو آیا کیوں ؟ضرروت کیا تھی؟ عدم ضرورت اسی کو کہتے ہیں اور اسی طرح عائد ہو تی ہے۔
اےناظرین بائبل مقدس ان احکام اور شریعتوں سے معمور ہے ۔تو کیا محمدی ہم سے بائبل رکھوا کر اس کے عوض میں یہ قرآن پکڑاتے ہیں۔ اگر دونوں کا پورا پورا مقابلہ کیا جائے تو منصف مزاج قرآن کی تلاوت کا خیال تک نہ کریں ۔ہم نے تو آپ کو تھوڑے ہی میں دکھادیا کہ قرآن مجید کی مطلق ضرورت نہ تھی۔قرآن میں کون سی بات متعلق اخلاق کے بائبل سے بڑھ کر بیان کی گئی ہے۔ کون سا نقص نکالا، کس امر اخلاقیہ کو قاصر ٹھہرایا،کوئی نہیں ، کسی ایک کو بھی نہیں۔ اکثر انہیں قدیم احکام کی نقل کی ہے اور بعض امور میں خود ہی قاصر ہے۔لہٰذا اس کی ضرورت کا خیال تک نہ کرنا چاہیئے، وہ ایک فضول کتاب ہے۔
ضمیمہ نمبر ۱- فصل اول
اخبار مہر درخشاں دہلی مطبوعہ۲۱ جون۱۸۸۰ء میں امام فن مناظرہ اہل کتاب سید ناصر الدین محمد ابو المنصور نے کم ترین کے مسلسل مضامیں بعنوان قرآن کی عدم ضرورت کے نمبر ۲ مطبوعہ دہم جون ۱۸۸۰ ءپر بطور جواب کے کچھ لکھا تھا۔ مولوی صاحب کے جواب پر واجبی نظر ثانی نذر ناظرین کی گئی تھی۔
قَولُہ‘۔صفحہ۱۹۰ میں پادری صاحب فرماتے ہیں کہ خد ا سے محبت رکھنا کہیں قرآن میں نہیں آیا، اس وجہ سے قرآن کے قاصر ہونے میں کلام نہیں۔ناظرین اس صفحہ کو پھر دیکھیں اور معلو م کریں کہ ہم نے کیا لکھا ہے یعنی اگر یہ تعلیم قرآن میں کہیں موضوع ہے یا ایسی تاکید اور تفصیل کے ساتھ بیان ہو ئی ہے جیسی بائبل مقدس میں موجود ہے تو اس امر سے مطلع کیاجائے،ورنہ قرآن کے قاصر ہونے میں کلام ہی نہیں۔مولوی صاحب نے تاکید اورتفصیل تو نہ دکھائی مگر اس آیت کا حوالہ دیا ہے جو ہم نے صفحہ ۱۸۹ میں کالم قرآنی کے شروع ہی میں لکھا ہےاور نیز سورۂ عمران رکوع ۴ کا حوالہ دیا ہے یعنی اگر تم محبت رکھتے اللہ کی تو میری راہ چلو۔واضح ہو کہ ان آیات سے ہمارا مدعا ضائع نہیں ہوتا، بائبل مقدس میں یہ آیات عدم ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں۔پھر اگر اسی قدر بیان پُر زور ہے تو بھی بائبل کے حضور قاصر ہی ہیں۔بائبل میں یہ مقدم تعلیم ہے مگر قرآن میں پایہ تقدیم (مقدم سمجھنا۔ترجیح ) پر نہیں ہے،ایک سرسری ذکر ہے۔
قَولُہ‘۔صفحہ ۱۹۱ میں بھی پادری صاحب فرماتے ہیں کہ باہمی محبت کا ذکر قرآن میں ندارد(نہیں ۔غیر حاضر) ہے۔ یہاں بھی پادری صاحب دھوکا کھا گئے۔قرآن کی سورہ شوریٰ رکوع۳ میں باہمی محبت کا بھی حکم ہے یعنی قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۔یہ آیت جس کا مولوی صاحب حوالہ دیتے ہیں یہ معنی رکھتی ہے یعنی تو کہہ میں مانگتا نہیں تم سے اس پر کچھ نیک مگر دوستی چاہیئے ناتے میں۔سیل صاحب میرے ناتے میں ترجمہ کرتے ہیں۔ارے صاحب کہاں ناتے سے دوستی اور کہاں پڑوسی سے دوستی اور دشمنوں سے محبت اور لعنت کنندوں کے لئے برکت اور کینہ ور سے نیک سلوک اور ستم گر کے لئے دعائے خیر۔جب تک یہ باتیں نہ ہوں باہمی محبت ہر ایک سے (نہ فقط ناتے سے ) محال ہے۔ بائبل باہمی محبت میں ناتے کی قید نہیں لگاتی کُل کے ساتھ یکساں فرض ٹھہراتی ہے۔اس لئے ہمیں افسوس ہے کہ مولوی صاحب کا یہ چیدہ حوالہ باہمی محبت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔پھر جب سورہ بقر کے رکوع۲۴ آیت ۱۹۴ کا خیال آتا ہے اور جس کا حوالہ ہم انتقام لینے کے بارے میں دے چکے ہیں یعنی ’’جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر‘‘ ،قرآن میں باہمی محبت کو ندارد کہنے میں تامل نہیں ہے۔پس صاحب دھوکا کم ترین نے کھایا یا قرآن والے نے جسے ایک موقع کی کہی ہوئی دوسرے موقع پر یا د ہی نہیں رہتی ۔ آپ کی ان باتوں سے بھی قرآن کی عدم ضرورت ظاہر ہے۔
قَولُہ‘۔اب اس کا جواب سنو جو کہتے ہو کہ منصف مزاج قرآن کی تلاوت کا خیال تک نہ کریں ، الخ۔ اگرقرآن میں نیک تعلیمات بائبل سے کم بھی ہوتیں تب بھی جبکہ قرآن میں تحریف و تبدل کا کسی کو گمان تک نہیں (رسالہ تحریف قرآن طبع دوم مصنف ماسٹر رام چندر صاحب دیکھنا چاہیئے)۔پس ایسی کتاب کو چھوڑ کر ان کتابوں کی تلاوت کرنا جن میں تحریف و تبدل کا بقول علمائے اہل کتاب پایان تک نہیں ہے،کوئی مصنف مزاج تجویز نہ کرے گا۔
تعجب ہے کہ وہ کتابیں محرف ہو کر پھر بھی تعلیمات میں قرآن سے بدرجہ اولیٰ ہوں۔اس حال میں قرآن کی کیا حیثیت ٹھہری کہ ایسی کتابوں کے مقابل میں بھی عدم ضرورت سے موصوف ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ نیک تعلیمات میں تحریف و تبدیل نہیں ہوئی اور تحریف کا دعویٰ تو علمائے مسیحی خصوصاً ڈاکٹرفنڈر صاحب نے مردود ثابت کر دیا ہے۔ لیکن اگر اسے قائم کرنے کی آپ کے پاس کوئی نئی طرز ہو تو کا ہیکو(کا ہے کو۔کس لئے) اور کس وقت کے لئے چھپا رکھی ہے۔ ابھی شاید زندگی کے کچھ دن باقی ہیں ان میں اس کی نسبت ہی تسلی کرو اور تلاوت قرآن کا خیال بہر صورت متروک کرواور بائبل مقدس کو جو نیک تعلیم اور طریق الحیات سے پُر ہے دل سے تسلیم کرو۔ یہ بھی خیال رہے کہ قرآن کی عدم ضرورت سے کسی طرح رہائی نہیں ہے۔چنانچہ آپ کے جوابوں سے بھی یہی مشرح (واضح )ہے۔
ضمیمہ نمبر ۲-فصل اول
اخبار منشو ر محمدی مطبوعہ ۱۵ شعبان ۱۲۹۷ ہجری نمبر ۲۳ جلد ۹ میں حافظ عبدا لرحیم صاحب نے بندہ کی تحریر پراپنی دانست میں خداسے محبت رکھنے اور انسان کی باہمی محبت کی نسبت چند نسخے لکھے ہیں۔ آپ کی ابتدائی بکواس سے طرح دے کے اصل مطلب کی طرف رجوع کرنا انسب ہے۔ ہمارے نزدیک ان نسخوں کی رو سے بھی قرآن کی عدم ضرورت میں مطلق کسر نہیں آتی اور آپ نے پادر ی صاحب کی خاطر خدا کی محبت(خدا سے محبت رکھنے ) کی نسبت کئی ایک نسخے لکھے ہیں۔ بندہ نہایت مشکور ہے مگر افسوس ہے کہ نسخے مجرب(آزمودہ) نہیں۔
قَولُہ‘۔(پہلا نسخہ) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔ کہہ د ے اے نبی صاحب اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو۔ خدا تم کو دوست رکھے گا(سورہ عمران آیت۳۱)۔واضح رہے کہ خدا سے محبت رکھنا کسی انقیادی (مطیع ہونا ۔فرماں برداری) امر سے مقید نہ ہونا چاہیئے۔خدا سے محبت رکھنا سرشت گبدوں(گبد۔بےوقوف،کم عقل) لحاظ کسی محض انسان یا رسول بھیا ئے انسان پر واجب ہے کیا اگر محمدصاحب کی فرماں برداری نہ کی جائے تو خدا سے محبت نہیں رکھ سکتے ۔یہ کیا بات ہے۔پس یہ مشروط محبت بائبل کے مقابل میں قاصر ہے جو تصریحاً فرماتی ہے کہ’’۔۔۔خُداونداپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ‘‘ (متی ۳۸،۳۷:۲۲)۔
پھر یاد رہے کہ جو نتیجہ حافظ صاحب اس آیت قرآنی سے پیش کرتے ہیں وہ ہمارے مدعا سے خارج ہے ۔چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ اگر پادر ی صاحب بھی چاہیں کہ خدا مجھ کو دوست رکھے تو ہمارے پیغمبر اسلام کی فرماں برداری کریں ۔ ہماری غرض یہ نہ تھی کہ خدا انسان سے محبت رکھے یا نہ رکھے مگر یہ کہ انسان خدا سے محبت رکھے ۔پس آپ کا نتیجہ غیر ہے اور پھر چونکہ خداوند مسیح محمدصاحب سے بدرجہ ہااکمل اور افضل ہے ،لہٰذا پیغمبر اسلام کی تابع داری عدم ضرورت میں داخل ہے۔ پس دیکھئے آپ کےپہلے ہی نسخہ کا ہر جزو غیر مجرب ہے۔
قَولُہ‘۔(دوسرانسخہ) فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ۔ اس برآمدے میں وہ لوگ رہتے ہیں جو پاک ہونے کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پا ک رہنے والو ں کو دوست رکھتا ہے(سورہ توبہ آیت ۱۰۸)۔پادری صاحب کو بھی مناسب ہے کہ آب دست ( استنجا۔طہارعت) و غسل جنابت (ناپاکی) وغیرہ کر کے پاک و صاف رہا کریں، ورنہ خدا کی دوستی سے محروم رہیں گے ۔ آپ کے اس حوالہ سے تو کچھ اورہی حاصل ہے، نہ وہ بات جس کے آپ ساعی ہیں۔اول ، اس میں یہ مصرح نہیں کہ انسان خدا سے محبت رکھے ،مگر یہ کہ خدا ایسوں تیسوں کو دوست رکھتا ہے ۔دوم ،یہ کہ وہ پاکیزگی جس کا خدا دوست ہے آب دست و غسل جنابت ہے۔ صاحب من ایسی پاکیزگی پر تو آپ جانتے ہوں گے کہ ہنود محمدصاحب سے بڑھ کر زور دیتے ہیں اور اَور ملکوں میں بھی یہ دستور پا ک ہو نے کا تھا تو اس حالت میں وہ لوگ قرآن کی عدم ضرورت کے مضبوط مدعی ہو سکتے ہیں۔مگر یہ جسمانی پاکیزگی ہے ،خدا دلی طہارت کو دوست رکھتا ہے ۔کہاں بائبل مقدس کا یہ فرمان عمیم(سب پر حاوی۔عام) کہ’’ خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھ سکتا ہے اور اس کے مکان مقدس پر کون کھڑا رہ سکتا ہے۔وہی جس کے ہاتھ صاف ہیں اور جس کا دل پاک ہے‘‘ (زبور ۴،۳:۲۴)،پاکیزگی کی پیروی کرو جس کے بغیر خداوند کو کوئی نہ دیکھے گا (متی ۸:۵؛عبرانیوں ۱۴:۱۲) اور کہاں قرآن کا فرمان آب دست اور غسل جنابت جسے موجب حب یزدانی ٹھہرایا ہے ۔ارے صاحب طہارت دلی اور جسمانی میں امتیاز کر کے انصاف سے کہیے کہ اس تذکرہ کی رو سے بھی ( اِلاّ جو ہماری بحث سے خارج ہے) بائبل قرآن کو فضول ٹھہراتی ہے یا نہیں ۔مکرر(دوبارہ ،پھر) اس بات کا خیال رکھنا کہ آپ کا دوسرا نسخہ بھی ہمارے مطلب سے بعید اور غیر مجرب ہے۔
قَولُہ‘۔(تیسرانسخہ) یہ ہے کہ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا توبہ کرو طرف اللہ کے پوری توبہ کرو۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
حافظ صاحب آپ کا یہ حوالہ بھی ہمارے نزدیک بے معنی ہے کیونکہ ہمارے مدعا کو تو آپ نےنظر غائب کر رکھا ہے اور لکھتے ہیں کہ توبہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ، حالانکہ پیش نظر یہ بات تھی کہ انسان عموماً اور تائب خصوصاً اللہ تعالیٰ سے محبت رکھیں۔ اگر اس بات کا خیال رکھتے تو ہمارے ساتھ اس قول میں متفق ہوتے کہ قرآن میں خدا سے محبت رکھنے کا حکم ایسی تاکید اورتفصیل کے ساتھ موجود نہیں جیسا بائبل میں پایا جاتا ہے اور اس لئے اس کے مقابل میں قرآن قاصر ہے ۔بایں موجب آپ کا یہ نسخہ بھی مجرب نہ ٹھہرا۔ آپ نے تثلیث پرستوں کی خاطر تین نسخے لکھے ہیں۔مگر تثلیث پرست اس بات کے عادی ہیں کہ اس قسم کے نسخوں کو خوب طرح تحقیق کر لیا کرتے ہیں اور سچ کو اختیار کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔اب آپ پر بھی ان کا یہ وتیرہ ظاہر ہو گیا ہے۔ اس لئے آیندہ لکھتے وقت یہ نہ سمجھ لینا چاہیئے کہ کچھ لکھنے سے غرض ہے خواہ مطلب سے بعید ہی ہو۔
باہمی محبت
قَولُہ‘۔ خداوند تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردی ہے اور ہم کو ایک دوسرے کابھائی فرمایا ہے۔ دیکھو إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ۔ ’’بے شک مسلمان بھائی ہیں‘‘۔ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ اور محبت ڈال دی ان کے دلوں میں اگر تو اے محمدصاحب خرچ کرتا جو کچھ کہ زمیں میں ہے نہ الفت دے سکتا ان کے دلوں میں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پید اکردی ‘‘۔دیکھو یہاں کیسی باہمی محبت کی تعریف ہے۔
ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسی محبت کی تعریف ہے اور آپ کے حوالوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔مگر ان کاانسان کی باہمی محبت کے لئے حکم ہونے سے تحقیقاً انکار کرتے ہیں ۔بباعث آنکہ یہ صرف محمدیت میں باہمی محبت کا تذکرہ ہے ،نہ کہ کل انسانوں میں ۔ قرآ ن میں ایسے مقام بھرے پڑے ہیں جن سے باہمی محبت محدود ٹھہر چکی ہے اور وہ باہمی محبت جس کا بائبل مشاہدہ کرتی ہے قرآن میں ندارد ہے۔
چنانچہ سورہ عمران رکوع ۳آیت ۲۸ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ’’نہ پکڑیں مسلمان کافروں کو رفیق مسلمانوں کے سوا، الخ‘‘۔سور ہ نسا آیت ۱۴۴ میں ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا ’’ اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو؟ ۔سور ہ مائدہ آیت۵۷يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ’’اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو، الخ‘‘۔ سورہ الممتحنہ۱۳آیتيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ’’مومنو! ان لوگوں سے جن پر خدا غصے ہوا ہے دوستی نہ کرو (کیونکہ) جس طرح کافروں کو مردوں (کے جی اُٹھنے) کی امید نہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی آخرت (کے آنے) کی امید نہیںالخ‘‘۔ سورہ الممتحنہ کی آیت ۸ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ’’اللہ تو منع کرتاہے تم کو ان سے جو لڑے تم سے دین پر اورنکا لا تم کو تمہارے گھروں سے اور میل باندھا تمہارے نکالنے پر کہ ان سے دوستی کرو اور جوکوئی ان سے دوستی کرے سو وہ لوگ وہی ہیں گناہ گار‘‘۔دیکھو رفتہ رفتہ دائرہ محبت سے ہر ایک کو خارج کر دیا۔یہ انسانی خیالات ہیں جو اس کی طبیعت کے عین موافق ہیں۔ہر قسم کی لڑائی ، دشمنی اور جدائی جو آدم سے آج تک دنیا میں وارد ہوئی ایسے ہی خیالوں اور ار ادوں کا نتیجہ ہے ۔اپنی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ تواکثر رفاقت رہی ہے۔اس حب مقید کے بر خلاف دیکھو۔
بائبل یہ فرماتی ہے کتاب احبار۱۸:۱۹ ’’تو انتقام نہ لینا اورنہ اپنی قَوم کی نسل سے کیِنہ رکھنا بلکہ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبّت کرنا۔ مَیں خُداوند ہُوں‘‘۔انجیل متی ۳۹:۲۲ ،۴۰میں خداوند نے پہلا اور بڑا حکم بیان کر کے فرمایا کہ دوسر ا حکم اس کی مانند ہے کہ’’۔۔۔اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کےصحیفوں کامدار ہے‘‘۔اور یہ معلوم کر نے کے لیے کہ پڑوسی کون ہے اس شخص کو یاد کرو جو یریحو کو جاتے ہوئے ڈاکوؤں سے زخمی ہوا (لوقا۲۹:۱۰۔۳۷) ،جو ہم مذہب کی قید کو خارج کرتا ہے اور بھی دیکھو رومیو ں کا خط۱۰،۸:۱۳۔پھر لکھا ہے’’بدی کے عِوض کسی سے بد ی نہ کرو۔۔۔جہاں تک ہوسکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل مِلاپ رکھّو۔اَے عزیزو! اپنا اِنتقام نہ لو بلکہ غضب کو مَوقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے اِنتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دُوں گا۔بلکہ اگر تیرا دُشمن بھُوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگرپِیاسا ہو تو اُسے پانی پِلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تُواُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سےمغلُوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالِب آؤ ‘‘( رومیوں ۱۷:۱۲۔۲۱)۔’’ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو۔تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پرمینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تُم اپنے محبّت رکھنے والوں ہی سے محبّت رکھو تو تُمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی اَیسا نہیں کرتے؟‘‘ (متی ۴۴:۵۔۴۶) ۔یہ سب باتیں ان امور کو جو محبت باہمی کے مزاحم ہیں دور ودفع کرتی ہیں ۔لاریب باہمی محبت اسی کو کہتے ہیں۔اے حافظ صاحب! اگر کبھی حالت انصاف اور عدم تعصب کا تجربہ کیا ہو تو آیات قرآنی مذکورہ بالا کو اس تعلیم ربانی سے مقابلہ دے فرمایئے کہ قرآن میں یہ تعلیم ندارد ہے یا نہیں ۔ذرا سوچو کہ جو محبت عنادو دشمنی کی گنجائش رکھتی ہے وہ کیسی محبت ٹھہر ے گی۔اس کے ساتھ دیکھو توضیح عدم ضرورت قرآن فصل ہفتم۔
فصل دوم
عدم ضرورت قرآن از روئے مقرری امور اخلاقیہ
احکام اخلاقیہ کا ذکر ہو چکا، اب مقرری احکام اخلاقیہ کا تذکرہ پیش ہے ۔ہر دو قسم امو ر اخلاقیہ میں ہم نے یہ فرق سمجھا ہے کہ اول تو اخلاقی خوبی کو بذاتہ شامل کرتے ہیں اور دوم میں ان کا اخلاقی ہونا مقرر کیے جانے پر موقوف ہے۔ بدون احکام اخلاقیہ کے احکام کے مقرری انسان کے حق میں مطلقاً مفید نہیں ۔مگر احکام مقرری کے بغیر احکام اخلاقیہ انسان کی اخلاقی طبیعت کی ترقی اور طہارت کے لیے مفید ہیں حتٰی کہ اگر وہ نہ بھی ہوں تو بھی یہ تحصیل مدعا کے لیے کفایت کرتے ہیں۔
اس مقابلہ سے ظاہر ہے کہ نماز کے لئے بائبل میں صریح حکم موجود تھا تو قرآن کی کیا ضرورت تھی ۔کیا کچھ بڑھ کر بیان کیا یا کچھ نئی بات بات سنائی۔ اگر کچھ نئی معلوم ہوتو ہم اس کی بھی عدم ضرورت دکھائے دیتے ہیں اور یاد رہے کہ وہ نئی باتیں جو قرآن میں نماز کے متعلق ٹھہرائی ہیں ایسی ہیں کہ دلی نما ز کو ان سے کچھ تقویت نہیں پہنچتی ۔ویسی اَور ان سے بڑھ کر محمد صاحب سے پیشتر رائج تھیں اور ا ن کے زمانہ میں بھی تھیں۔
جب خیال گزرتا ہے کہ ان باتوں میں یہودی محمد صاحب کے ہادی تھے تو قرآن کی مطلق ضرورت نہیں معلوم ہوتی اور خاکی وضو کی نسبت نہ صرف یہود کے بلکہ فارسی آتش پرستوں کے بھی دین دار تھے۔ وقت ضرورت کے وہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ خاک یا ریت سے وضو کرتے یعنی پاک کرنے کا حکم گمارا میں آیا ہے۔ (ڈیونسخ) اور جنابت وغیرہ سے پاک ہونے کی بابت معلوم ہو کہ یہ نہ صرف اس وقت کے عربوں ہی کی رسم تھی بلکہ یہودیوں کو بھی ایسا ہی حکم تھا۔دیکھو انتخاب طالمود و مولف بارکلی باب ۳ ’’مرد اپنی جریان کی ناپاکی میں اور عورت اپنی ناپاکی میں غسل کرے‘‘۔ جس حال کہ یہ رسوم پیشتر موجود تھیں تو قرآن کی کیا ضرورت تھی۔ کیا قرآن میں درج ہونے سے الہامی ہو گئیں ،نہیں ۔اگلی بناوٹوں میں سے ایک بناوٹ ہے اور اس لئے فضول ہے۔
اوقات نماز کا بیان یہودیوں کی طالمود میں بھی آیا ہے،دیکھو انتخاب طالمود باب۴ مولف بارکلی’’ فجر کی نماز دوپہر تک پڑھی جاسکتی ہے‘‘۔ربی یہوداہ کہتا ہے’’ چوتھے گھنٹے تک سہ پہر کی دعا شام تک ‘‘۔ربی یہوداہ کہتا ہے ’’نصف سہ پہر تک۔ شام کی نماز کی قید نہیں ہے اور زائد دعائیں سارا دن مانگی جا سکتی ہیں‘‘ ۔ربی یہوداہ کہتا ہے ’’ ساتویں گھنٹےتک‘‘۔پس سن کے یااوروں کی دیکھا دیکھی ان باتوں کو فرض ٹھہرا کر کیا کتب سابقہ کو برطرف کر گئے،ہر گز نہیں۔اپنی تصنیف کی عدم ضرورت پر شہادت دے گئے ۔اس لئے بائبل کے ہوتے ہوئے ہم کیونکر قرآن کی سماعت کریں۔اے ناظرین ذرا سوچو کون سی کسر تھی جو محمد صاحب نے پوری کی۔اگر نہیں تو ان کی تقلید سے کیا حاصل ہے ۔ اسی بائبل کی طرف کیوں نہ رجوع کریں جو ہر امر ضروری کا مخزن اور مخرج ہے۔
جواب۔ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی اور مسیحی جانتے تھے کہ روزہ کیا چیز ہے اور محمد صاحب نے کوئی نیا عقدہ حل نہ کیا اور نہ پہلی کمی کو پورا کیا۔اس لئے اظہار روزہ کے لئے بھی قرآن کی عدم ضرورت اظہر ہے اور اس آیت میں محمد صاحب خود بھی اگلوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔پس آپ کے ہی منہ سے عدم ضرورت لپکتی ہے ۔چند باتیں اس روزہ کے بھی متعلق ہیں جو اغلباً نئی معلوم ہوں۔ مگر ہمیں تو کوئی نئی نہیں معلوم ہوتیں جیسے کھانے پینے سے اور عورتوں سے پرہیز ۔چنانچہ سیل صاحب دیباچہ قرآن انگریزی کی فصل ۴ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ روز ے کی نسبت بھی محمد صاحب نے یہود کی پیروی کی ہے ۔یہودی روز وں میں نہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کرتے بلکہ عورتوں سے اور چکنا لگانے سے بھی ۔دن نکلنے سے سورج غروب ہونے تک اور رات کو جو چاہتے کھاتے تھے ‘‘۔
یہ بیان صاحب موصوف گمارا(شرح مشناہ) سے نقل کرتے ہیں ۔اس کے موافق مشناہ میں بھی پایا جاتا ہے یعنی کام کرنے ، نہانے ،چکنا لگانے، جوتی پہننے ،چارپائی پر سونے ، منگنی اور شادی کرنے سے روزوں میں ممانعت ہے۔دیکھو انتخاب طالمود کتاب ۸ باب۱ وغیرہ مولف ڈاکٹر بارکلی ۔
پس اس تاکید اور تفصیل ربانی کی موجودگی میں تکرار فضول قرآنی کی کیا گنجائش ، کیا حاجت اور کیا ضرورت تھی۔
اب لاز م ہے کہ ناظرین کو یاد دلایا جائے کہ توریت میں ان امور مقرری کی نسبت کچھ نہ کچھ سبب روا اور ناروا ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔اِلّا( مگر۔ لیکن) محمد صاحب نے نہیں معلوم کس سبب یہ باتیں درج کیں ۔غالباً یہودیوں کی دیکھا دیکھی آپ نے یوں ہی فرمادیں۔ خوا ہ کسی سبب سے کیں مگر ان کی عدم ضرورت میں ذرا بھی کلام نہیں ہے۔کیونکہ محمد صاحب مثل یہود کے توریت کی ان باتوں کی نسبت غلط فہمی اور دھوکے میں پڑے جو بطور نبوت کے بیان ہوئی ہیں اور نیز وہ جو بلحاظ حفاظت قومیت(قوم یہود) کے مسطور ہوئیں۔پیش گوئی خواہ کسی صورت سے کہی جائے اپنے وقوع تک زور رکھتی ہے اور تشخیص حلال و حرام کی اور دیگر انقیادی امور بنی اسرائیل کے دائرہ قومیت کے اندر ہی اثر رکھتے ہیں۔ غرض کہ دونوں قسم کی باتوں سے ایک مآل(نتیجہ۔ انجام ) مدنظر تھا اور جب وہ حاصل ہو گیا تو وہ باتیں اپنی ترویج مزید کی آپ ہی مانع ہوتی ہیں۔
پس اولاً۔واضح ہو کہ رسوم قربانی مندرجہ توریت ایک قربانی اعظم کی عملی نبوت تھیں۔ان کی حد تام وہیں تک تھی اور اسی لئے ان کی نسبت پاک اور ناپاک جانوروں کی تشخیص آئی ہے اور بعدہُ کسی جانور کی قربانی اور اس کے لوازمات پر عدم ضرورت کا زور ہے ،نہ کہ وحی کا۔ثانیاً ۔توریت کےاحکام رسمی غیر اقوام میں مشتہر کرنے کا حکم کسی کتاب عہد عتیق میں نہیں آیا اور نہ یہودیوں نے اس امر میں کوشش ہی کی ۔ اگر آپ ہی آپ کوئی سیکھ لے تو اس سے ان کی ترویج عمیم کی ضرورت عائد نہ ہو گی۔ ثالثاً ۔یہ احکام بنی اسرائیل کی قومیت کی حفاظت اور صرف انہیں کے عمل کے لیے مقرر ہوئے ۔چنانچہ خود توریت ہی سے مصرح ہےکتاب استثنا۱:۱۴۔۲۹ ’’ تُم خُداوند اپنے خُداکے فرزند ہو۔ تُم مُردوں کے سبب سے اپنے آپ کو زخمی نہ کرنا اور نہ اپنے ابرُوکے بال مُنڈوانا۔ کیونکہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی مُقدّس قَوم ہے اور خُداوند نے تجھ کو رُویِ زمیں کی اَور سب قَوموں میں سے چُن لِیا ہے تاکہ تُو اُس کی خاص قَوم ٹھہرے۔تُو کسی گھنونی چِیز کو مت کھانا‘‘، الخ۔پھر باب ۲۶ کے آخر تک متفرق حقوق اور احکام کا ذکر کر کے اسی باب کی آیت ۱۶ سےآخر تک یوں فرماتا ہے’’خُداوند تیرا خُدا آج تجھ کو اِن آئین اور احکام کے ماننے کا حکم دیتا ہے۔ سو تُو اپنے سارے دِل اور ساری جان سے اِن کو ماننا اور اِن پر عمل کرنا۔تُو نے آج کے دِن اِقرار کیا ہے کہ خُداوند تیرا خُدا ہے اورتُو اُس کی راہوں پر چلے گا اور اُس کے آئین اورفرمان اوراحکام کو مانیں گے اور اُس کی بات سُنے گا۔اورخُداوند نے بھی آج کے دِن تجھ کو جَیسا اُس نے وعدہ کیا تھا اپنی خاص قَوم قراردِیا ہےتاکہ تو اُس کے سب حکموں کومانے۔اوروہ سب قَوموں سے جن کو اُس نے پَیدا کیا ہےتعریف اور نام اور عزت میں تجھ کو مُمتاز کرے اور تُو اُس کے کہنے کے مُطابِق خُداوند اپنے خُدا کی مُقدّس قَوم بن جائے‘‘۔ پھر ۶:۷ ۔۱۱میں یوں مرقوم ہے’’کیونکہ تُو خُداوند اپنے خُدا کے لئے ایک مُقدّس قَوم ہے۔ خُداوند تیرے خُدا نے تجھ کو رُویِ زمیں کی اَور سب قَوموں میں سے چُن لِیا ہے تاکہ اُس کی خاص اُمّت ٹھہرے۔۔۔اس لئے جو فرمان اور آئین اور احکام مَیں آج کے دِن تجھ کو بتاتا ہُوں تُو اُن کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا‘‘۔ان سے اوراسی قسم کے اور مقامات سے بخوبی روشن ہے کہ رسمی احکام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کا ایک علیٰحدہ اور خاص قوم رہنا متصور ہو۔رابعاً۔ ان احکام مقرر ی کو دائمی قرار دینے یا ان کے دوام کو قیام دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ لفظ جس کے معنی ابدی کئے گئے ہیں عبرانی میں کئی ایک معنی ادا کرتا ہے اور متفرق معنوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی قوم کے زمانہ قیام پر بولا جاتا ہے۔پس جب ان احکام کی نسبت لفظ ابدی کا استعمال ہوتا ہے تو صرف ان کے زمانہ قیام سے مراد ہے۔خامساً۔ان باتوں کی تواریخی حقیقتیں تقویت کرتی ہیں۔چنانچہ خداوند مسیح کے شہود پروہ انتظام سابق اپنی میعاد معینہ پر پہنچ گیا اور مطلب مقصود ہ حاصل ہوا۔ وہ ہیکل اور اس کے تعقات ختم ہوئے ۔توریت کے مقاصد مسیح میں پورے ہوئے ۔ان کے قیام کا زمانہ اسی عظیم الشان خدائے مجسم تک تھا ۔اس لئے مسیح کے بعد ان کے رواج دینے کا خیال کرنا بھی غلط فہمی اور ترغیب ترویج عدم ضرورت میں داخل ہے۔جب خدا تعالیٰ کوئی انتظام خواہ الہام کے ذریعہ اور خواہ نیچر کے ذریعہ کسی خاص امر کی تحصیل کے لئے مقرر کرتا ہے تو بروقت تحصیل مطلب کے وہ انتظام ختم ہو جاتا اور اس کا زور موثر نہیں رہنے پاتا۔ امور مقرری مذکورہ صدر کا یہی حال ہے۔اس لئے ان کی رو سے جو کہ اپنا کام دے چلے تھے قرآن کی عدم ضرورت پر ہم لاریب فیہ کہتے ہیں۔خداوند فضل کرے۔
فصل سوم
عدم ضرورت قرآن از روئے طریق الحیات
اگر مضامین بائبل کا اختصار کر کے صرف ایک مدعا بیان کیا جائے تو بقایا حیات ابدی کو ایک مال مقصودہ پائیں گے ۔چنانچہ بائبل اس کا خود ہی اظہار کرتی ہے۔’’ کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخشد ِیا تاکہ جوکوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِند گی پائے‘‘(یوحنا۱۶:۳) اور یہی وعدہ ہے جو اس نے ہم سے کیا یعنی ہمیشہ کی زندگی کا( ۱۔یوحنا ۲۵:۲) ۔’’۔۔۔تاکہ وہ ان سب کو جنہیں تو نے اسے بخشا ہے ہمیشہ کی زندگی دے‘‘( انجیل یوحنا ۲:۱۷) ۔جاننا چاہیئے کہ ازروئے بائبل حیات ابدی محض ہستی ہی نہیں بلکہ ان تعلقات ضروری کو شامل کرتی ہے جن سے وہ آراستہ ہو۔ انسان کے لئے ایک ضروری اور بہترین ہستی ٹھہرتی ہے۔پس اس حال میں نجات کیاہے؟ یہ کہ ان چیزوں سے جو حیات ابدی کی مانع اور مزاحم ہیں یعنی جسمانی اور روحانی آلودگی اور سختی سے رہائی پانا اور یوں روحانیت اور طہارت سے آراستہ ہو مال مذکور ہ کو حاصل کر سکتے ہیں ۔اس لئے جو جو طریق نجات کے بائبل اور قرآن میں مرقوم ہیں ان پر غور کرنا اور بایں جہت قرآن کی عدم ضرورت کا قائل ہونا روح فروشوں کے لئے عین سعادت ہے۔
انجیل تاکیدِ ایمان سے پُر ہے ۔جب یہ حال ہے تو اس میں اور کیا پڑ سکتا ہے،کچھ نہیں۔ اس لئے قرآن کی عدم ضرورت میں شک نہیں ۔اگر کسی کو یہ کہنے کا شوق کو دے کہ ایمان مسیحی کو خارج کر ایمان محمدی کو جس کا سورہ اعراف رکوع ۱۹ آیت ۱۵۸ میں ذکر آیا ہے قائم کرنے کی ضرورت تھی تو لازم ہے کہ اس ضرورت کی کیوں اور کس طرح کا جواب دیا جائے ا ور سوائے جنگ اور شہوت بازی وغیرہ کے کسی امر میں محمد صاحب کو خداوند یسوع مسیح سے افضل ثابت کیا جائے ۔اب تک کے مقابلہ سے محمد صاحب میں کمی بے شک ظاہر ہوتی رہی۔
اب چونکہ محمد صاحب نے نیک کاموں میں وہ باتیں بھی داخل کیں ہیں جو توریت میں عارضی طور سے مقرر ہوئی تھیں۔ اس لئے ان کا دوبارہ حکم دینا یا طریق الحیات میں سے ایک طریق قرار دینا فضول ہے۔ پھر چونکہ حضرت نے صرف ابنیائے سابقین کے ڈھب پر نیک کاموں کی تاکید ہی کی اور یوں اپنی رسالت کے فضول ہونے پر گواہی دی بلکہ ان کاموں کو شرط نجات بتایا اور انسان کی نا قابلیت کا کچھ خیال نہ کیا، کوئی علاج نہ بتایا جس سے ناقابلیت دور ہو کر طہارت دلی حاصل ہو اور علاج مشہودہ سے بھی آنکھ بچا کے وہ بھاری بوجھ پھر بے چارے لوگوں ہے کے سر پر دے مارا۔ اس لئے ایسے منا د کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔اس سے تو یوں ہی بھلے ہیں۔
مگر انجیل سے یہ بات ظاہر ہے کہ نجات ایمان سے ہے اور اس ایمان کی توفیق سے نیک کام کرنے کا مقدور حاصل ہوتا ہے اور یوں ایماندار نیک کام کر کرکے میلان بد اور گناہ کی آلودگی سے صاف ہوتا رہتا ہے اور پا کیزگی کو جو حیات ابدی کا مقدم اور ضروری اصول ہے حاصل کرتا ہے۔دیکھوططس۱۴:۲’’جِس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دِیا تاکہ فِدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بےدینی سے چھڑالے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایک اَیسی اُمّت بنائے جو نیک کاموں میں سرگرم ہو‘‘۔ پھر بائبل انسان میں نیک کاموں کی ناقابلیت اور عدم رغبت اور لا علمی (اصلی نیک کاموں سے) انسان کے سامنے رکھتی اور فرماتی ہے کہ نیک کاموں سے نجات نہیں ۔اس نے ہم کو راستبازی کے کاموں سے نہیں جو ہم نے کئے بلکہ اپنی رحمت کے سبب نئے جنم اور غسل اور اس روح قدس کے سر نو بنانے کے سبب بچایا(ططس۵:۳ اوررومیوں باب۳ دیکھنا چاہیئے)۔پھر اگر فضل سے ہےتو اعمال سے نہیں،نہیں تو فضل فضل نہ رہے گا اور اگر اعمال سے ہے تو فضل پھر کچھ نہیں،نہیں تو عمل عمل نہ رہے گا(رومیوں ۶:۱۱)۔’’ تَو بھی یہ جانکر کہ آدمی شرِیعت کے اعمال سے نہیں بلکہ صِرف یسوع مسیح پر اِیمان لانے سے راستباز ٹھہرتا ہے خُود بھی مسیح یِسُوع پر اِیمان لائے تاکہ ہم مسیح پر اِیمان لانے سے راستباز ٹھہریں نہ کہ شرِیعت کے اعمال سے۔ کیونکہ شرِیعت کے اعمال سے کوئی بشر راستباز نہ ٹھہرے گا‘‘(گلتیوں ۱۶:۲)۔پس جس حال کہ بائبل مقدس میں کامل طریق نجات کے موضوع ہیں تو کسی ناقص طریق کی کیا ضرورت ہے۔
معزز ناظرین بائبل کی اس بے نظیر تعلیم کے مقابل میں قرآن کی کچھ آب و تاب ہے ۔ذرا سوچو کون سا طریق خد اکے مناسب اور انسان کے شامل حال ہے اور کس طریق سے حیات ابدی کے لیے عمدہ اور پاکیزہ تیاری ہو سکتی ہے،بائبل ہی کے طریق الحیات سے ۔اس لئے قرآن ازروئے طریق الحیات بھی فضول ٹھہرتا ہے۔
کفارہ۔یہ مسئلہ نہایت ہی غور طلب ہے اس لیے کہ اسی پر مسیحیت کی بنا ہے۔اس کو خارج کرنے سے مسیحیت کو فقط بلحاظ اعلیٰ تعلیم اخلاق کے غیر مذاہب سے افضل کہہ سکیں گے،مگر اس کی حقیقی فضیلت اسی طریق نجات میں ہے۔اس میں شک نہیں کہ بائبل مقدس اخلاق میں اپنا نظیر نہیں رکھتی، مگر اس طریق نجات یعنی کفارۂ شافی کا اظہار اس کی بے نظیری کی شان کا مقدم جزو ہے۔
جب دنیا کے دینی حالات معلوم کرتے ہیں تو کسی قوم کوکسی نہ کسی طریق کفارہ سے بے خبر نہیں پاتے ۔کفارہ کی یہ عمومیت دو باتوں میں سے ایک نہ ایک کو شامل کرتی ہے یعنی یا تو ہرقوم کی عقل و تمیز میں قربانی مغفرت کا وسیلہ نظر آیا اور اس لئے باوجود اختلاف غیر باتوں کے اقسام رسوم قربانی نے رواج پایا اور یا تو روایتاً یہ رسم زمانہ آدم سے نوح تک اور نوح سے جس کے زمانہ کی مردم شماری ہر ایک کو معلوم ہےان قوموں میں پھیلی جو اس کے بیٹوں اور پوتوں وغیرہ سے پیدا ہو کر بڑھتے بڑھتے قومیں بنی گئیں اور زمیں کی حدوں کوآبا د کیا۔بالفعل ہم اس بات پر بحث ملتوی کرتے ہیں کہ ان باتوں میں سے کون سی خیالی اور کونسی واقعی ہیں اور اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں کہ نوح کے زمانہ تک اور بعد میں بھی یہ رسم ہابیل(ہابل) سے جاری ہو کر چلی آئی اور اس کے جاری کرنے کا خیال ہا بیل کے دل میں پیدا ہو ا یا خد انے قربانی کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہر دو حالت میں ظاہر ہے کہ خد انے اسے منظور کیا اور اس رسم کی ترویج کے لئے اس زمانہ کے بزرگوں کو یہی سند کافی تھی ۔قطع نظر اس کے اگر پولس رسول کی شہادت کا خیال کریں تو اس رسم کا خدا کی طرف سے ہونا یعنی اس کے حکم سے مقرر کیا جانا مصدق ٹھہرتا ہےاور وہ یہ ہے’’ ایما ن ہی سے ہابل نے قائِن سے افضل قُربانی خُدا کے لئے گُذرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی گئی کیو نکہ خُدا نے اُس کی نذروں کی بابت گواہی دی۔۔۔‘‘(عبرانیوں ۴:۱۱)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی خدا کی طرف سے ہے اور اسے راضی کرنے کو مقرر ہوئی ۔چونکہ اس سلسلہ میں ہماری گفتگو سوائے قرآن کے اور مذہب والوں سے نہیں لہٰذا معلوم کریں کہ وہ اس امر میں کیا کہتا ہے۔
اس کے ساتھ جناب مسیح کے اقوال کو پیش نظر رکھنا چاہیئے جو اس نے اس امر میں فرمائے یعنی’’ ۔۔۔ضرور ہے کہ جِتنی باتیں مُوسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبُور میں میری بابت لکھی ہیں پُوری ہوں‘‘(لوقا۴۴:۲۴)۔’’ چنانچہ اِبنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فِدیہ میں دے‘‘(متی۲۸:۲۰)۔پس توریت ،زبور اور انبیا کے صحیفوں اور انجیل میں یگانگی کا بندھن مسیح ہے۔سب قربانیوں کا اشارہ اسی قربانی کی طرف تھا اور اس لئے وہ حیات کا کامل اور شافی وسیلہ ہے۔ بہتیرے اہل یہود میں سے کتب انبیائے سابقین و انجیل کی یگانگی کے اس بندھن سے ناواقف اور بے پروا رہ کر منحرف ہوئے اور جہاں کہیں ان کا خمیر پہنچا(خصو ساً عرب میں) ان کو بھی اسی حالت میں رکھا ،جیسا ذیل کی باتوں سے مصرح ہے۔
جائے تعجب ہے کہ محمدصاحب نے چوپایوں کی قربانی کا ذکر کیا اور اس قربانی اعظم کی نسبت خاموش رہے ۔قرآن کے مطالعہ سے ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ حضرت توریت کی بہ نسبت انجیل کا ذکر بہت کم کرتے ہیں۔یہودیوں سے ہمکلام ہونا اور مضامیں توریت کے حوالے دینے اور رسومات یہود کو اختیار کرنا ہمارے قول کے مصدق ہیں۔ یہ ایک واقعی امر ہے کہ قرآن کے قریباً کل تقررات یہود کے مسائل الہیات کے گودے پرگویا پوست کی نسبت رکھتے ہیں ۔مگر ایسی کوئی تعلیم نہیں جس کو مسیحیت کا بھی لا گ (تعلق۔سہارا) لگا ہواور وہ باتیں جو مسیح کے تولد ہونے اور بدون مصلوب ہوئے عروج کرنے کے متعلق ہیں ،ان کی خبر غلط ذریعوں سے پا کر لکھی ہے ۔اس قسم کی باتوں کا ذکر اس سلسلہ کے کسی آیندہ حصہ میں کریں گے۔پس اس امر سے ظاہر ہے کہ درحقیقت مسیحیت سے محمدصاحب نا واقف تھے۔کیونکہ اگر واقف ہوتے تو کفارہ مسیح کی بابت عیسویت کا مقدم اصول ایمانیہ تھا اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتے اور توریت ، زبور ، انبیا اور انجیل کے مقصد مقدم سے محروم ہو کر ا غلب ہے کہ کسی مسیحی جماعت کے بشپ ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ طریق الحیات کی کاملیت کے اظہار سابقہ سے کماحقہ واقف نہ کر یوں اور ووں حکم دیئے۔ناظرین انصاف کریں کہ اس حال میں ایسے ناواقف پیشوا کے ناکامل طریق الحیات کی کیا ضرورت تھی۔مقلدین اسلام اس حالت میں کفارہ مسیح سے انحراف کریں ،اگر محمدصاحب اس پر کچھ تحقیقی جرح و قدح کر گئے ہوں۔بر خلاف اس کے قربانیوں کے الہٰی تقرر کا اظہار کرتے ہیں۔پس مناسب ہے کہ اول طریق الحیات مندرجۂ بائبل کو جانچیں کہ وہ ہمارے شامل حال ہے کہ نہیں اور پس ازآں قرآن کے پس خوردہ(بچا ہوا کھانا۔جھوٹا کھانا) طریقوں پر چل کر جان گنوائیں ۔
آخر میں اس بات کا ا ظہار انسب ہے کہ خدا کی صفت رحمانی کا بائبل اور قرآن دونوں میں بہت ذکر ہے اور اس سبب بعض لوگوں نے سمجھ چھوڑا ہے کہ نجات خوا ہ نخواہ بھی فضل سے ہو جائے گی۔مگر یہ خیال تقا ضائے بائبل اور قرآن کے خلاف ہے ۔چنانچہ ہم نے ناظرین پر واضح کردیا ہے کہ باوجود فضل کے دونوں کتابوں میں نجات امورمذکور شدہ پر منحصر ہے۔ اس لئے اہل اسلام کفارہ کی مخالفت کرنے میں قرآن کے خلاف چلا کرتے ہیں۔
فضل تو بہ وغیرہ سے کچھ نسبت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں توبہ وغیرہ کے بغیر بدی میں خواہ کیسے ہی سرگرم رہے ہوں بخشش ہو سکے گی۔ لیکن جب امور متعلقہ نجات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں خدا کی اور صفات کا بھی دخل ہے یعنی پاکیزگی اور عدل کا ۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا محض فضل ہی فضل ہوتا حتٰی کہ ہر دو صفات مذکورہ خارج ہو تیں تو نجات اسی ڈھب پر ہوتی جو ڈھب بعضوں کے ذہنوں میں منقش ہو رہا ہے۔مگر جب پاکیزگی اور عدل کابھی دخل دیکھتے ہیں تو کم سے کم یہ باتیں تو انسان کی مایوسی کا موجب ٹھہرتی ہیں۔ اول ،گناہ کی سزا ضرور ملے گی،یہی عدل کا تقاضا ہے۔ خدا گناہ سے ناراض اور متنفر ہے اور اگر یہ ناراضی ٹل نہ جائے تو گناہ کی سزا لازمی ہے۔ دوم ،خدا گناہ سے کیوں متنفر ہے؟اس لئے کہ وہ قدوس ہے۔پس گناہ اور قدوسی میں مخالفت ذاتی ہے اور اس حال میں خدا اپنے قول اور فعل میں اس کا مانع ہو گا اور دشمن سا پیش آئےگا۔ان باتوں کے مقابل میں جب انسان کی عدم طہارت اور احکام اخلاقیہ کی کامل پیروی کی ناقابلیت دیکھتے ہیں تو وہ تمام طریق نجات جو مذکور ہوئے عبث معلوم ہوتے ہیں اور آخر فضل ! فضل ! پکارتے ہیں ۔ مگر ہم نے بیان کیا کہ اس فضل کے ہم نشین اَور صفتیں ہیں جو انسان سے طہارت کل یا سزا کل طلب کرتی ہیں اور یہ باتیں بغیر کفارہ خدائے مجسم کے قابل تحصیل نہیں۔ا س لئے طریق الحیات مندرجہ بائبل حیات ابدی کے تحصیل کا کامل طریقہ ہے۔لہٰذا قرآن کی عدم ضرورت امر مسلم ہے۔ اےگنہگارو خوش ہو،مانو اور بچو۔
فصل چہارم
عدم ضرورت قرآن
از روئے بیان واقعات جو کبھی وقوع میں نہیں آئے
(دفعہ ۱) سور ۂ بقر رکوع ۸ آیت۶۲ میں مرقوم ہے کہ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ’’ اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہِ طُور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے، اس کو زور سے پکڑے رہو، اور جو اس میں (لکھا) ہے، اسے یاد رکھو، تاکہ (عذاب سے) محفوظ رہو ‘‘انتہیٰ۔ اس کے موافق دیکھو سورہ اعراف رکوع ۲۱ آیت ۱۷۲وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ’’ ’’ اور جب ہم نے ان (کے سروں) پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے تو (ہم نے کہا کہ) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو۔ اور جو اس میں لکھا ہے اس پر عمل کرو تاکہ بچ جاؤ‘‘۔کیا یہ کوئی واقعی حقیقت ہے؟ محمدیوں کی بے سرو پا روایتوں کے سوائے کون مورخ پہاڑ کے اس طور پر اونچا کیا جانے کا مصدق ہے؟ کیا موسیٰ؟ مگر موسیٰ کا بیان یہ ہے’’ اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دُھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خُداوند شعلہ میں ہو کر اُس پر اُترا اور دُھواں تنور کے دُھوئیں کی طرح اُوپر اُٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہِل رہا تھا‘‘(خروج۱۸:۱۹)۔ یہاں پہاڑ کے اونچا کیے جانے کا نشان تک نہیں ہے۔ پھر کیا یوسیفس ؟ مگر اس مورخ نے موسیٰ ہی کے بیان کا تذکرہ کیا ہے اور قرآن کے رفع الطور کا ذکر ندارد ہے( دیکھو انٹی کوئی ٹی کتاب۳ باب ۵ دفعہ ۲)۔ پس قول قرآنی کو کس کے اعتبار پر سچ مانیں؟ جائے فکر ہے کہ سوائے موسیٰ کے کون اس واقع کا سچا راوی ہو سکتا تھا۔ کیا موسیٰ جو اس وقت نہ صرف موجود بلکہ جس پر وہ وار داتیں گزریں یا اس کے ہزار وں برس بعد کی ایک روایت۔ اور اگر انحصار ثقاہت فرسودہ وحی پر ہے تو افسوس ! وحی موسوی اور وحی احمدی کا مبدا ءعلم جدا تھا ۔ یاد رہے کہ کسی تعلیم کی نسبت خدا زمانہ سازی اختیار کرے تو عجب نہیں! مگر کسی واقعی امر کی نسبت اختلاف نہیں کر سکتا ۔اس لئے یہ مذکور قرآنی ان واقعات میں گردانا جاتا ہے جو کبھی وقوع میں نہ آئے ۔ارے لوگو بیدار ہو ،یہ کیا باتیں ہیں۔
(دفعہ۲)سورہ بقرہ۸ رکوع آیت۶۴ میں یوں مسطور ہے وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ’’ اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہوں، جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے، تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل وخوار بندر ہو جاؤ ‘‘۔اس واردات کی مفصل کیفیت سورہ اعراف رکوع ۲۱ میں موجود ہے ۔محمدی مفسر اس واردات کا وقوع داؤد کے عہد میں بتاتے ہیں اور وہ بستی جس کا پتا سورہ اعراف میں پو چھا گیا ہے ،سیل صاحب اس کا نام اَیلَۃبتاتے ہیں جو بحر قلزم پر واقع تھی۔ اگر اس کا یہی نام و نشان تھا تو معلوم ہوا ہےکہ داؤد کے عہد میں اس بستی کی نسبت صرف اسی قدر مرقوم ہے کہ ’’اس نے یعنی داؤد نے ادوم میں چوکیاں مقرر کیں۔بلکہ سارے ادوم میں چوکیاں بٹھائیں۔اور سارے ادومی بھی داؤد کے خادم ہوئے‘‘(۱۔سموئیل۱۴:۸) اور معلوم ہو کہ یہ بستیاَیلَۃادوم میں تھی جیسا ۱۔سلاطین۲۶:۹ میں مرقوم ہے۔ان دو مقاموں کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد کا اَیلَۃ پر قبضہ تھا۔ان قدیم الہامی تواریخوں میں اَیلَۃ کا حال جو داؤد کے عہد میں گزرا اسی قدر مرقوم ہے۔مگر وہاں کے لوگوں کا بندر بن جانا کسی تواریخ سے مصدق نہیں ہےیا یوں کہیں کہ ہمیں کوئی ایسی تواریخ قابل اعتبار معلوم نہیں جو اس قصہ کی تائید کرے اور اس کا واقعی امر ہونا قائم کرے۔ پس یہ ذکر بھی اس کا واقع کا ٹھہرا جو کبھی وقوع میں نہ آیا۔
(دفعہ ۳) کعبہ ابراہیم نے بنایا جیسا سورہ بقر رکوع ۱۵ آیت ۱۲۷ میں لکھا ہے وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ’’ ’ اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ‘‘انتہیٰ۔پھر کعبہ عبادت کا پہلا گھر ٹھہرا تھا۔سورہ عمران رکوع ۱۰ آیت۹۹ ’’تحقیق پہلا گھر جو ٹھہرا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے۔ برکت والا اور نیک راہ لوگوں کو جہان کے‘‘۔
کیا یہ باتیں قابل تسلیم ہیں؟ کیا ابراہیم کبھی مکہ میں گیا اور کعبہ تعمیر کیا؟ اور کیا رسومات مکیہ ابراہیم سے نسبت رکھتی ہیں؟ اس قدیم اور مستند تواریخ یعنی توریت میں ابراہیم کے سفر و سکون کا احوال حسب ذیل میں درج ہے۔اس حال میں ابراہیم کا احوال اس زمانہ سے معلوم کرنا مناسب ہے جب وہ اپنے گروہ سے علیٰحدہ ہواا ور کدھر کدھر گیا اور کیا کام کیے۔ پس واضح ہو کہ جب ابراہیم اپنا وطن چھوڑ کر کنعان میں وارد ہوا تو سکم کی بستی اور مورہ کے بلوط تک گزرا اور وہاں اس نے خداوند کے لئے قربان گاہ بنائی (پیدائش ۷،۶:۱۲)۔یہ پہلا گھر یامقام عبادت کا تھا جو ابراہیم نے تعمیر کیا۔ بعد اس جگہ سے روانہ ہو کر اس نے بیت ایل کے پورب کے ایک پہاڑ کے پاس اپنا ڈیرا کھڑا کیا ۔اس جا بھی ابراہیم خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی ۔یہ دوسری عبادت گاہ تھی ۔اس لئے کعبہ پہلا گھر عبادت کا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہنوز وہ کنعان ہی میں تھا اور اسمٰعیل بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ اس کے بعد ابراہیم رفتہ رفتہ دکھن کی طرف گیا جب کنعان میں کال پڑا(پیدائش ۱۰:۱۲) تو اسے مصر میں جانا پڑا اور نہیں معلوم کتنا عرصہ وہ اس ملک میں رہا، مگر جب لوٹا تو سفر کرتا ہوا دکھن سے پھر بیت ایل میں گیا جہاں آگے اس کا ڈیرا تھا یعنی بیت ایل اور عی کے درمیان(۱:۱۳۔۴) ۔یہاں سے بھی ظاہر ہے کہ مکہ کی طرف نہیں گیا ۔بعدہُ لوط سے جدا ہو کر اس نے ممرےیا حبرون میں ڈیرا کیا۔اس کے بعد لوط کو اس کے دشمنوں سے لڑ کے چھڑایا اور ملک صدق سے ملاقات کی اور خداوند نےاس سے عہد کیا(پیدائش باب۵) ۔ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں جانے کی کوئی صورت نہ تھی۔اس کے بعد ابراہیم پروہ گذرا جو پیدائش باب۱۷،۱۶،۱۵ میں مرقوم ہے۔ ان ایام میں اسمٰعیل پیدا ہوا۔یہ سب باتیں کنعان ہی میں یعنی ممرے کے بلوطوں میں اس پر واقع ہوئیں ۔پھر بیسویں باب میں اس کے فلسطیہ میں جانے کا ذکر ہے۔ابراہیم کے آخری دنوں میں اس کی آزمائش ہوئی۔یہ بھی کنعان میں زمیں موریا ہ میں واقع ہوا (پیدائش ۱:۲۲۔۳)۔ اس کے بعد بھی ابراہیم کنعان میں تھا ۔اس کی جورو اور وہ خود کنعان ہی میں مر گئے اور مکفیلہ کے غار میں جوممرےکے سامنے ہی دفن کیے گئے ۔پس اس قدیم الہامی تواریخ سے ظاہر ہے کہ ابراہیم کبھی مکہ میں نہ گیا اور نہ کعبہ بنایا۔یہ کچھ بات نہیں ہے کہ کتاب پیدائش میں اہل پیشین کا بہت تھوڑا حال مرقوم ہے۔ ہم بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ باقی اور مفصل احوال کس کو معلوم تھا یا ہے۔ یہ روایت البتہ محمدصاحب کے پیشتر سے ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل نے کعبہ بنایا او ر سنگ اسود اس میں رکھا۔مگر اسمٰعیلیوں کی بت پرستی بھی قدامت کے پایہ پر ہے۔خصو صاً جب وہ پتھریلی پرستش کے زیر بار ہو گئے تو اغلب ہے کہ ایسی روایت ایجاد کر لی جس سے کعبہ کی تعظیم ہو اور سنگ اسود کی پرستش توقیر پائے۔قطع نظر اس سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ ابراہیم جس نے ایک زندہ خدا کا مشاہد ہ پایا ایسی مکرو بت پرستی کی بنا رکھتا۔کُجا کعبہ اور سنگ اسود اور کُجا یہ مشاہدہ کہ ’’میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو‘‘(پیدائش۱:۱۷) ۔یہی ایمان اضحاق کا ہوا(پیدائش ۳:۲۸) اور یہی یعقوب ابراہیم کے پوتے کا(پیدائش۱۱:۳۵) ۔پھر ابرا ہیم خود خدائے قادر کو ایک اور عمدہ صفت سے بیان کرتا ہے (پیدائش ۲۵:۱۸) اور خدا کا ابراہیم کو بت پرستوں میں سے بلانا، اپنے تئیں اس پر ظاہر کرنا ، اس سے وعدے کرنا ، اطاعت کا عہد کروانا اور عہد کا نشان مقرر کرنا وغیرہ سب اس کے مکہ میں جا کر کعبہ تعمیر کرنے اور سنگ اسود کی تعظیم کرنے کے مانع ہے۔یہ کبھی نہیں ہو ا۔ یوسیفس مورخ اس کی بابت خاموش ہے۔پس محمدصاحب نے اپنے آباؤں کی غلط روایت کی غلطی کو نہ جان کر اور کتب الہامیہ سابقہ کے صحیح بیان سے بے خبر رہ کر اس کو قرآن میں درج کر دیا۔ اب ناظرین ہی کہیں کہ محمدصاحب نے اپنی صداقت کا خود ہی کام کر دیا کہ نہیں۔ ایسی باتوں سے قرآن کی عدم ضرورت لاحق ٹھہرتی ہے۔
(دفعہ ۴) سور ہ ہود رکوع ۴ آیت۴۶،۴۳،۴۲ میں یو ں مرقوم ہے’’اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کو ا ور وہ ہور ہا تھا کنارے۔اے بیٹے سوار ہو ساتھ ہمارے اور مت رہ ساتھ منکروں کے اور بیچ میں آپڑی دونوں کے موج پھر ہوگیا وہ ڈوبنے ولاوں میں‘‘ انتہیٰ۔اس پر نوح نے خداوند سے فریاد بھی کی مگر جواب یہ پایا کہ اس کے کام ناکارے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ محمدصاحب اس واقع کو سچ جانتے تھے۔
اس کے برخلاف توریت کا بیان یہ ہے’’ تب نُوح اور اُس کے بیٹے اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں اُس کے ساتھ طوفان کے پانی سے بچنے کے لئے کشتی میں گئے ‘‘ (پیدائش۷:۷)۔ پھر ان کو نام بنام لکھا ہے’’ اُسی روز نُوح اور نُوح کے بیٹے سم اور حام اور یافت اور نُوح کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی تینوں بیویاں (کشتی میں داخل ہوئیں)‘‘ ( ۱۳:۷) اور جب طوفان کا پانی خشک ہوا تو یہی جانیں کشتی سے صحیح سلامت نکلیں ،جیسا لکھا ہے(دیکھوپیدائش۱۸،۱۵:۸)۔
یوسیفس کا بیان بھی اس کے موافق ہے ( دیکھو انٹی کوئی ٹی پہلی کتاب تیسرا باب)۔یہ مورخ غیر قوم مورخوں کو اپنے بیان کی صداقت کے لئے نام بنا سنداً پیش کرتا ہے۔پھر روایت قرآنی کی بہ نسبت زیادہ تر قدیم روایتیں احوال موسوی کی تصدیق کرتی ہیں۔چنانچہ بروسس جس نے ملک کسدیہ کی توواریخ لکھی تھی نوح کے طوفان کا بیان کرتا ہے جو قریباً موسیٰ کی تحریر کے موافق ہے، صرف بعض باتوں میں اختلاف ہے۔ماسوائے اور باتوں کے وہ یہ لکھتا ہے کہ:
’’ زی ستہرس(یا کسی ستہرس) کے عہد میں ایک بڑا طوفان واقع ہوا۔کر آناس نے اس کو خواب میں ظاہر ہو کے بتایا کہ ایک کشتی تیار کرے اور اپنے رشتے داروں اور رفیقوں سمیت اس میں داخل ہو۔ اس نے فرمان مان کر کشتی بنائی جس کا طول پانچ سٹے اور عرض دو سٹے دیہ تھا اور جب وہ بموجب ارشاد کے سب چیزیں اس میں جمع کر چکا تو وہ اپنی جورو اور بال بچوں اور رفیقوں سمیت کشتی میں داخل ہوا‘‘۔(ہسٹا ریکل ایویڈ نس۔رالن سَسن)
اس کے بعد یہ مورخ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے صحیح سلامت نکل آنے کا ذکر کرتا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ قدیم میں طوفان کا آنا اور نوح او ر اس کے ساتھیوں یعنی رشتے داروں اور رفیقوں کے بچ جانے کی روایت تھی۔تعجب ہے کہ قرآن کا ساتھ کوئی مورخ نہیں دیتا۔پس روایت قرآنی کا کیا اعتبار کریں ۔کون سی سند اس کی صداقت کی صفحہ عالم تواریخ پر موجود ہے یا کبھی موجود تھی۔
رہی تشریح سیل صاحب کی کہ محمدی مفسر مثل یحییٰ اور جلال الدین کے کنعان نامے نوح کا منکر بیٹا بتاتے ہیں جو ڈوب کیا تھا ،مگر موسیٰ کہتا ہے کہ نوح کے بیٹے جو کشتی سے نکلے سم ،حام اور یافت تھے اور حام(نہ کہ نوح ) کنعان کا باپ تھا۔نوح کے یہی تین بیٹے تھے اور انہیں سے تمام زمیں آبا د ہوئی۔پھر وہ جو کنعان کو نوح کا پوتا نیز منکر اور ڈوبنے والا بتاتے ہیں ،وہ یہ جانیں کہ نوح کے بیٹے سم ،حام اور یافت کا یہ نسب نامہ ہے اور طوفان کے بعد ان کو بیٹے پیدا ہوئے(پیدائش۱:۱۰) نہ کہ پہلے۔پس ظاہر ہے کہ نوح کا نہ کوئی بیٹا اور نہ کوئی پوتا ڈوبا تھا ۔یہ بات ہر گز وقوع میں نہ آئی تھی۔
مکرر ہم اس بات کا اظہار انسب سمجھتے ہیں کہ کل غیر قوم روای اور نیز محمدصاحب موسیٰ کے مقابل میں اس زمانۂ سلف کی حکایات کے بیان کرنے میں قاصر ہیں۔ کیونکہ (الہام کو ذرا بر کنار رکھ کر) ان کا مبدا ءعلم سچی اور جھوٹی روایتوں پر انحصار رکھتا ہے۔حالانکہ موسیٰ کو ان واقعات کی جو کتاب پیدائش میں مرقوم ہیں اورخصوصاً طوفان اور اس کے بعد کی وارداتوں کے وقوع کی ہنوز تاز ہ خبر مل چکی تھی۔ چنانچہ سم یہاں تک زندہ رہا کہ نوح اور ابراہیم دونوں کا ہم عصر تھا اور طوفان کی چشم دیدہ حقیقتیں ابراہیم سے بیان کر سکتا تھا۔ پھر اضحاق ابراہیم اور یوسف کا ہم عصر تھا اور یوں ابراہیم والی خبر کو دوسرے سے تازہ ہی تازہ بیان کر سکتا تھا اور اسی طرح یوسف سے عمرام کو جو اس کا ہم عصر تھا وہی تازہ خبریں پہنچیں اور عمرام سے موسیٰ کو ۔اس سے معلو م کرو کہ جس قدر ان واقعات کے نزدیک موسیٰ تھا اور جیسی صورتیں تواریخی معلومات کی وہ رکھتا ہے کسی اور مورخ کو جو بعد اس کے ہوا حاصل نہ تھیں، پھر کجا محمدصاحب۔
علاوہ ازیں اگر ان قدیم روایتوں کو تحریری روایتیں تسلیم کریں، جیسا اکثر بڑے بڑے محققوں نے مشتہر کیا ہے تو موسیٰ کی روایت اور بھی قوی اور معتبر ٹھہرتی ہےاور یاد رہے کہ بعض علما نے کتاب پیدائش کے پہلے چھ یا سات ابواب آدم ، سیت ،نوح اور سم کی تصنیف قائم کیے ہیں اور ہم نے اپنی سمجھ میں اس قول پر کوئی معقول اعتراض نہیں دیکھا۔پس اگر یہ صحیح ہے تو موسیٰ کی روایت اور بھی قوی ٹھہرتی ہے چونکہ اس کا انحصار چشم دید گواہوں کی تحریری شہادت پر ہے۔ ہاں اس کو موسیٰ کی نہیں بلکہ انہیں بزرگوں کی روایت کہیں گے جو فیض رحمانی سے خالی نہ تھے۔قطع نظر امور ہٰذا کے موسیٰ کا الہامی راوی ہونا مسلم الثبوت ہے۔ اس میں محمدصاحب کو بھی کلام نہ تھا یعنی اس کی زبان سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے ۔پس ایسے بیانات سے قرآن کی ضرورت کہاں رہی ،کبھی ہوئی ہی نہیں۔
(دفعہ ۵) سور ہ بقر رکوع ۳۵ آیت ۲۵۹ میں ایک شخص کا ذکر جو سو برس کا مردہ ہو کر زندہ ہوا۔چنانچہ لکھا ہے أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ’’یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔مسلم مفسر اس شخص کا نام عزرا بتاتے ہیں۔بہر صورت یہ بات خلاف واقع ہےکیونکہ جن ایام میں یروشلیم برباد پڑا تھا نحمیاہ گدھے پر سوار ہو کر رات کے وقت شہر کو دیکھنے گیا ،جیسا نحمیاہ کی کتاب باب۲ آیت۱۲۔۱۸ میں مرقوم ہے۔ مگر ا س کی موت اور سو برس کے بعد زندہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔یوسفس مورخ بھی اس قصہ کا ذکر نہیں کرتا۔اغلب ہے کہ اس جعلی قصہ کی وضع نحمیاہ کی اس سر گزشت سے ہوئی، جعلی اس لئے کہ اگر وقوع میں آیا ہوتا تو ادنیٰ بات نہ تھی ،مقدس راوی اس سے مطلع کرتے ۔ ہاں اس لئے کہ جن پر یہ کیفیت گزری انہیں تو خبر ہی نہیں اور خبر دینے والا ایک ہزار برس سے بھی زیادہ بعد اس واقعہ کے ہوا۔پس ایسے امور جو وقوع میں نہ آئے ہوں کسی کے دل میں ڈالنا سچی وحی کا کام نہیں ہے۔
(دفعہ۶) سورہ احقاف رکوع ۱آیت ۹ میں ہے قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ’کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر) خدا کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اسی طرح کی ایک (کتاب) کی گواہی دے چکا اور ایمان لے آیا اور تم نے سرکشی کی ۔ بےشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘( اس کے موافق دیکھو سورہ شعرا رکوع۱۱ آیت ۱۹۲۔۱۹۷ )۔سورہ احقاف والی آیت سے بعض مفسر موسیٰ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں ،خواہ ان کا کہنا خیالی ہی ہو کیونکہ متن قرآنی میں کسی کا نام نہیں ہے اور سورۂ شعرا میں صاف اگلی کتابوں کی طرف اشارہ ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے کسی ہم پلہ یہودی کے کہے پر لکھا یا ورنہ اگلی کتابوں میں قرآن کی گواہی ندارد ہے ۔ ناواقف انسان کی کارروائی اسی طرح ہو ا کرتی ہے۔ وحی کے کیا اختیار ہے اور ماہرین تو ایسی غلطیاں نہیں کیا کرتے۔
قرآن کے مطالعہ سے ہمیں ایک یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صاف حوالہ کسی خاص کتاب کا نہیں دیتے تھے اور مجمل اور مہمل طرز رکھی ہے۔یہ طرز خالی از مطلب نہ تھی اور ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ گرفت سے بچے رہیں ۔اس کا ہم پھر ذکر کریں گے۔
(دفعہ ۷) سورہ نمل رکوع ۲آیت۱۷ َحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ’اور جمع کیے سلیمان کے پاس اس کے لشکر جن اور انسان اور اڑتے جانور پھر ان کی مثلیں بیٹھیں‘‘۔ سورہ صٓ رکوع ۳آیت۳۴۔۳۷ میں سوائے اس بیان کے یہ بھی ہے کہفَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ’’ ’’ پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی اَور دیووں کو بھی (ان کے زیرفرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے ‘‘۔
سیل صاحب (مترجم قرآن انگریزی) لکھتے ہیں کہ اس وہم کے لیے محمدطالمود والوں کا دین دار ہے جو سلیمان کی ان باتوں کا اپنی طرز پر بیان کرتے ہیں جو کتاب واعظ ۸:۲ میں مسطور ہیں یعنی ’’میں نے گانے والے اور گانے والیاں رکھیں‘‘۔اسی پر ان کا یہ وہم ہے کہ جِنّ اس کی کارگزاری کرتے تھے۔خصوصاً وہ عالی شان عمارتیں جنہیں وہ نہیں بنوا سکتا تھا، وہ جنات نے بنائیں اور اس لئے جن اس کے تابع تھے اور ان سے ایسا کام کرواتا تھا ۔ تعجب ہے کہ سلیمان اور سب باتوں کا اظہار کرتا ہے اور بخشش کا ذکر ہاں اس ملکیت نہانی (پوشیدہ)کا پتا نہیں دیتااور نہ کسی اور کتاب عہد عتیق میں اور نہ یو سیفس میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔اِلّاطالمود والےایک امر نامنظور کو خود ہی پاگئےاور محمد صاحب نے بھی ان کے وہم کو وحی کے ذمے لگانے میں ذرا توقف نہ کیا۔غیر قوم مورخ ،مثل نبانڈر NBANDER'sاور یو پو لیمس وغیرہ نے سلیمان کی دولت ، سلطنت اور حکمت کی بابت لکھا ہے اور ان کے بیان عہد عتیق سے جا بجا موافقت رکھتے ہیں ۔ہمیں تعجب ہے اور افسوس بھی ہے کہ قرآن کا حامی نظر نہیں آتا ۔غرض کہ قرآن کا یہ مضمون بھی ایک قصہ ہے جس کے بانی محدث طالمود ہیں،مگر کبھی وقوع میں نہیں آیا۔اگر کبھی آیا تو یہود کے وہم میں آیا اور بس۔ پس اگر قرآن کی ضرورت ہوتی بھی تو بلحاظ سچے بیانوں کے ہوتی ،نہ کہ غلط باتوں کی رو سے اور اس حال میں تو عدم ضرورت لاحق ہے۔ خدا کرے کہ محمدی ناظرین تحقیق صدیق کی رو سے قرآن کو ترک کریں اور بائبل آسمانی ،ربانی اور الہامی کو قبول کریں اور دھوکا نہ کھائیں۔
فصل پنجم
عدم ضرورت قرآن
از روئے بیان واقعات جو مخلوط بالا غلاط ہیں
ہم نہایت افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ بائبل کے ساتھ قائم نہ رہ سکا ،لیکن مقابلہ میں وہ کتب بھی پیش کرنی پڑیں جو اپنے زمانہ کلہور سے جعلی ، غلط قصے اور روایتیں قرار دی گئی ہیں ۔اس موقع پر ہم محمدی برادران کو سمجھاتے ہیں اور مسیحی برادران کو آگاہ کرتے ہیں کہ اب محمدیوں کا کہنا کہ یہ توریت اور انجیل وہ توریت اور انجیل نہیں ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ پر نازل ہوئیں ،کس بات پر مبنی ہے۔ ہم ناظرین پر وہ باتیں ظاہر کر چکے ہیں اور کچھ اَور بھی بتائے دیتے ہیں جو قرآن میں غیرذریعوں سے درج ہوئی ہیں۔ جس سے بخوبی ظاہر ہوگا کہ بعض باتوں میں حقیقت معدوم ہو گئی اور بعض باتوں میں مخلوط ہو گئی ہےاور اس لئے قرآن کے بیانات کی یہ صورت اس کی عدم ضرورت پر دال کرتی ہے ،کیونکہ خلق اللہ کو صاف صحیح حقیقتوں کی ہمیشہ ضرورت ہے نہ جیسی قرآن میں ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ قرآن کے اس بیان کی کچھ باتیں توریت کے موافق اور کچھ زائد اور برخلاف ہیں۔چنانچہ فرشتوں سے خدا کا سوال و جواب کرنااور آدم کو حکمت سے جانوروں کے نام بتا کر فرشتوں کو قائل کرنا اور آدم کو فرشتوں کا سجدہ کرنا اور ابلیس کا نہ کرنا غیر باتیں ہیں۔یہ کہاں سے پائیں (کیا یہود یا مسیحیوں نے یہ بیان توریت سے نکال ڈالا تھا جو قرآن میں ہے اور توریت میں نہیں)یہ تو کبھی نہیں ہوا۔مگر قرآن میں یہ بیان حضرت محمد کے مبدائے علم ثانی یعنی احادیث یہود سے آیا ہے۔چنانچہ اس مقام پر سیل صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قصہ محمد نے یہودی حدیثوں سے لیا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ جب خدا نے ان سے اس کی پیدائش کی بابت مشورہ کیا اور فرشتوں نے انسان کی بابت تحقیر سے کلام کیا تو خدا نے جواب دیا کہ انسان تم سے دانا ہے اور اس کی نسبت انہیں قائل کرنے کے لئے وہ سب قسم کے جانوروں کو ان کے پاس لایا اور ان سے اس کے نام پوچھے۔ جب وہ نہ بتا سکے تو اس نے وہی سوال انسان سے کیا ۔اس نے ایک ایک کا نام لیا اور جب اس سے اپنا نام اور خدا کانام پو چھا گیا اس نے بہت ٹھیک جواب دیا اور خدا کا نام یہوواہ رکھا۔فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا بھی طالمود میں مذکور ہوا ہے۔ جائے غور ہے کہ یہود کی حدیثیں نہ ہوئیں حضرت محمدصاحب کے لیے الہام ٹھہریں ۔کبھی مسیحیوں کے اور کبھی یہودیوں کے جعلی قصوں سے کام چلایا ہے۔ یہودیوں کی حدیثوں کا یہ حال نہیں کہ موسیٰ سے شروع ہوئی ہوں ،مگر ان کی اپنی بناوٹ ہے جس میں انہوں نے توریت کی تفسیر ہی نہیں کی ہے بلکہ بہت باتیں توریت پر بڑھا کے موسیٰ کی طرف منسوب کر دیں ہیں اور ان کی یہ زیادتی خود توریت اور توریت کے حکم کےبرخلاف ٹھہرتی ہے۔پس ایسے بناوٹی قصوں کو حقیقتوں کے ساتھ مخلوط کرنے کی مطلق ضرورت نہ تھی ۔یہودیوں نے تو اپنے ایسے قصوں کو توریت سے علیٰحدہ بھی کیا تھا مگر حضرت محمد صاحب نے ہر دو کو ملا ہی دیا۔ سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہود کی آیت اور روایت میں فرق معلوم نہ ہوا اور اس لئے یہ آمیزش ظہور میں آئی ۔ یہ بات قرآن کی عدم ضرورت کو بالکل ثابت کرتی ہے کیونکہ سچ اور جھوٹ کی علیٰحدگی ہی بہتر ہے، اختلاط کی ضرورت نہیں۔
اب واضح ہو کے فرعون کے متفرق ظلموں کا یہی سبب تھا۔چنانچہ ان پر خراج کے لئے محصل بٹھانا اور دائی جنائیوں کو فرزند نرینے کے قتل کرنے کا حکم دینا اور ان سے مایوس ہو کر سب لوگوں کو حکم کرنا کہ ان میں جو بیٹا پیدا ہوتم اسے دریا میں ڈال دو اور جو بیٹی ہو جیتی رہنے دو (آیت۲۲)۔یہ سب ظلم بنی اسرائیل کی کثرت کے سبب سے ہوئے جس سے فرعون کو اپنی سلطنت کا خوف ہوا۔اسی ظلم کے درمیان موسیٰ پیداہوااور چھپایا گیا اور بڑا ہو کر خدا کا رسول ہوا،نہ کہ اس کے ایام رسالت میں لڑکوں کا قتل ہونا واقع ہوااور وہ بھی اس سبب سے کہ بنی اسرائیل موسیٰ پر یقین لائے تھے۔ اِلّابرخلاف اس کے ایام رسالت میں فرعون اور اس کے لوگوں پر اس قدر سختی پرسختی ہوئی کہ آخرش ان کے پہلوٹھے لڑکے بھی مارے گئے ۔البتہ جب موسیٰ فرعون کے پاس پہلی مرتبہ پیغام لایا (باب۵) تو فرعون نے بنی اسرائیل پر اینٹ بنانے کی بابت بہت سختی کی، مگر بعد اس کے ہمیشہ و ہ خود اور اس کے لوگ تکلیف اٹھاتے رہے۔ پس قرآن کا یہ بیان بھی مخلوط ہے۔
دفعہ ۳ ۔دعائے دین ابراہیمسور ہ بقر کے شروع میں یعنی پہلے رکوع میں قرآن کی کل تعلیم کا خلاصہ پایا جاتا ہے اور انہیں باتوں کو بار بار قرآن میں بیان کیا ہے۔ لیکن چونکہ ہم ان باتوں کا بیان نذر ناظرین کر چکے ہیں لہٰذا اب اس بات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو اس تعلیم قرآنی کا مقدم حصہ ہے یعنی دین ابراہیم جیسے سور ہ نحل رکوع ۱۶ میں لکھا ہے۔ ’’اصل ابراہیم تھا راہ ڈالنے والا حکم بردار اللہ کا ایک طرف کا ہو کر اور نہ تھا شرک والومیں حق ماننے والا اس کے احسانوں کا ۔ اس کو اللہ نے چن لیا اور چلایا سیدھی راہ پر اور دی دنیا میں ہم نے اس کو خوبی اور آخرت میں اچھے لوگوں میں ہے ۔پھر حکم بھیجا ہم نے تجھ کو کہ چل دین ابراہیم پر جو ایک طرف کا تھا اور نہ تھا وہ شرک والوں میں‘‘۔
پیشتر اس سے کہ دین ابراہیم کا ذکر کیا جائے اس جملے کا تواریخی ذکر گوش گزار کیا جاتا ہے اور ا س میں ہم اس امر کو پیش نظر رکھیں گے کہ کیا محمدصاحب اس تعلیم کا موجد مطلق ہے یا نہیں؟ تحقیق کے بعد معلوم ہو تا ہے کہ اس دین کا خیال پیشتر بھی تھا اور وہیں سے محمدصاحب بھی اس تعلیم کا مشاہد ہ کرنے پر آمادہ ہوا۔ محمدصاحب سے پیشتر حنیفیہ کاایک گروہ تھا ۔وہ اپنے تئیں ابراہیمی صابئین کہتے تھے اور شروع میں محمدصاحب نے اپنے تئیں ان میں سے ایک قرار دیا تھا۔ان کا طریق یہودی مسیحیت کی صورت رکھتا تھا۔ وہ ایک خدا کو مانتے تھے ۔ان کے پاس توریت ، انجیل ، ابراہیم اور موسیٰ کی روایتیں تھیں اور یہ روایتیں یہودیوں کی کتب مدراش میں پائی جاتی تھیں جو بطاریق اور فرشتوں اور پریوں کے قصے اور اَور زبانیں بھی شامل کرتے ہیں ۔اس فرقہ میں کئی ایک مشہور آدمی ہوئے ہیں۔ سب سے اول عمایہ ایک اعلیٰ درجہ کا شاعر تھا ۔یہ محمدصاحب کو مطلق نہ مانتا تھا اور ہمیشہ اس کی ہجو کیا کرتا تھاکیونکہ وہ خود نبی بننے کا ارادہ کرتا تھا۔ اس کے سوا چار اور ہیں جو محمدصاحب کے رشتہ دار وں میں سے تھےاور مشہور ورقہ بھی ان میں سے ایک تھا ۔یہ سب اپنے ملک کی پتھریلی پرستش سے بیزار ہو کر ایک دفعہ سالانہ عید پر کعبہ میں جمع ہوئے اور اپنے خیالات ایک دوسرے سے یوں بیان کیے کہ کیا ہم ایک پتھر کے گرد گھوما کریں جو نہ سنتا ،نہ دیکھتا ،نہ مدد دیتا اور نہ نقصان پہنچاتا ہے۔آؤ ہم ایک بہتر ایمان کی تلاش کریں اور پھر وہ اعتقاد حنفی یعنی دین ابراہیم کی تلاش میں لگے۔ اس دین ابراہیم کو محمد( محمد حنفی) نے بحال کرنے کا ارادہ کی اور پھر دیکھو کہ کس طور سے کرنا شروع کیا؟وہی دلائل اور تعلیم جو اس کے اجداد استعمال کرتے تھے آپ نے بھی استعمال کی اور خصوصاً زید کی جو لہو اور بت پرستی کی قربانیاں کھانے کو نفرت کے لائق کہتا تھا(یہ یہودی تعلیم یعنی توریت کا اثر تھا) اور بچوں کو زندہ دفن کرنے سے جو بت پرست عربوں کی رسم تھی حقارت کرتا تھا اور ابراہیم کے خدا کی بندگی کرتا تھا۔یہ زید مکہ میں تعلیم دیا کرتا تھا اور محمدصاحب بھی اس کا شاگرد ہو چکا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محمدصاحب دین ابراہیم کے پہلے واعظ نہ تھے ،مگر اس میں او ر وں کے شاگرد ہو چکے تھے۔
اب ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی دین ابراہیم کیا تھا؟ محمدصاحب اور اس کے ہم عصر اس سے کیا سمجھے؟ سورہ بقر رکوع ۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھا، نہ نصارا لیکن مسلمان تھا۔یاد رہے کہ جب لفظ مسلمان ابراہیم پر بولا گیا تو اس سے محمدی مسلمانی مراد نہیں ہے۔ لیکن یہ وہ بات ہے جو طالمود میں بیان ہوئی ہے۔مسلم طالمودی لفظ ہے۔ اس میں یہ لفظ راستبازوں پر بولا گیا ہے اورپھر یہ خیال کہ وہ نہ یہودی تھا نہ مسیحی طالمود او ر مدراش والا خیال ہے۔ جس سے غرض یہ ہے کہ اس کے وقت میں تورات اور انجیل نہ تھے اور ابراہیم کی مسلمانی یا راستبازی کے لحاظ سے مشنا میں آیا ہے کہ تم ابراہیم کے شاگرد بنو۔پھر دین ابراہیم میں محمدصاحب نےخدا کی وحدانیت کاموضوع سمجھا ۔چنانچہ حَگدہ Haggadah کے بموجب دین ابراہیم یہ تھا۔ ایک خدا کی ہستی جو خالق کل عالم کا ہے اور ا س عالم پر رحم اور مہربانی سے حکومت کرتا ہے۔فقط وہی انسان کی قسمت ٹھہراتا ہے ،نہ کہ فرشتے یا سیارے ۔بت پرستی اگرچہ اس کے اعتقاد کے ساتھ ملائی جائے تاہم نفرت کے لائق ہے۔صرف اسی کی بندگی کرنی چاہیئے۔مصیبت میں صرف اسی پر توکل ہونا چاہیئے۔وہ مظلوموں کو رہائی بخشتا ہے۔ہمیں اسی سے دعا کرنااورمحبت سے ا س کی خدمت کرنی چاہیئےاور وہی کتاب دین ابراہیم میں باہمی سلوک کی بابت یہ سکھاتی ہے کہ مہربانی اور رحمت ابراہیم کے ایمان کی نشانی ہے۔ وہ جو رحم دل نہیں ہے۔ابراہیم کے فرزندوں میں سے نہیں ہے وغیرہ۔
محمد صاحب نے اس دین میں خدائی تعلیم کو مقدم سمجھاہے۔ ان کل طالمودی فقروں میں لفظ رحمان استعمال ہو اہے اور یہ لفظ جا بجا قرآن میں بھی قائم رکھا ہےاو رسوائے اس کے محمد نے ان احادیث یہود کے مطلب کو ہمیشہ اورلفظوں کو اکثر قائم رکھا ہے اور کیا کرتے جو کچھ جس طرح سنا اور سیکھا اسی ڈھب پر کہتے ہیں۔ پس یہ ا س کی مقدم تعلیم کی اصل بناتھی ۔پھر ہم بیان قرآنی میں یہ دیکھتے ہیں ۔ابراہیم شرک والا نہ تھااور طالمود میں اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ خد ا ایک ہے اور اس کی عبادت میں شرکت نہ چاہیئے یعنی درمیانی یا وسیلے مثل بتوں یا سیاروں کے بالکل ردکیے ہیں۔ غرض کہ دین ابراہیم کا احوال حضرت محمدصاحب کو طالمود سے حاصل ہوا۔اس سے یہ باتیں عائد ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی عدم ضرورت اظہر ہے اور دوسری یہ کہ حضرت نے سیکھا طالمودسے اور کہہ دیا کہ حکم بھیجا ہم نے تجھ کو کہ دین ابراہیم پر۔یہ کیسا فریب ہے! بہتر ہوتا اگر دین ابراہیم توریت سے سیکھتے کیونکہ اس حال میں طالمود کے بناوٹی قصوں کے داؤ میں آجانے سے تو بچتے۔افسوس کہ قرآن میں وہ بھی سبھی منقول ہوئے ہیں۔ چنانچہ سور ہ انعام رکوع۹ میں یوں مرقوم ہے’’پھر اندھیری آئی اسی رات دیکھا ایک تارہ بولا یہ میرا رب ہےپھر جب وہ غائب ہوا تجھ کو خوش نہیں آتے چھپ جانے والے۔پھر جو دیکھا چاند چمکتا بولا یہ ہے میرا رب پھر جب وہ غائب ہو ا بولا اگر نہ راہ دے مجھ کو رب میرا تو بے شک رہوں میں بھٹکتے لوگوں میں۔ پھر دیکھا سورج چمکتا بولا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ۔پھر جب وہ غائب ہوا بولااس قوم میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو‘‘۔’’اور قسم ہے اللہ کی میں علاج کروں گاتمہارے بتوں کا جب تم جا چکو گے پیٹھ پھیر کر۔ پھر کر ڈالا ان کو ٹکڑے ۔۔۔بولے اس کو جلاؤ اور مدد کرو اپنے ٹھاکروں کی اگر کچھ کرتے ہو۔ہم نے کہا اے آگ ٹھندک ہو جا اور آرام ابراہیم پر ‘‘( سورہ انبیا رکوع۵)۔ دیکھو اے ناظرین یہ سب باتیں حگدہ مذکورہ بالا میں مفصل طور سے پائی جاتاہیں ۔چنانچہ پروفیسر پولانو کے انتخاب طالمود باب۔۔ میں یہ قصہ یوں لکھا ہے:
’’جب وہ(ابراہیم) بالکل لڑکا تھا اس نے دوپہر کے سورج کے روشن جلوے کو اور اس عکسی نور کو جو وہ اردگرد کی چیزوں پر ڈالتا تھا دیکھ کر کہا کہ یقیناً یہ مجلیٰ نور ضرور خدا ہے ،میں اس کی پرستش کروں گا اور اس نے آفتاب کی پرستش کی اور اس سے دعا مانگی ۔لیکن جوں جوں دن بڑھا سورج کی روشنی کم ہوئی ۔وہ چمک جو وہ زمین پر ڈالتا تھا رات کی گھٹا میں گم ہو ئی اور جیوں شفق گہری ہوئی لڑکے نے التجا کی موقوف کیا کہ نہیں یہ خدا نہیں ہو سکتا ۔پھر خالق کو میں کہاں پاؤں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ۔اس نے مغرب اور دکھن اور اتر اور پورب کی طرف دیکھا۔آفتاب اس کی نظر سے ناپدید(پوشیدہ) ہوااور نیچر ایک گزرے ہوئے دن کی چادر میں ملفوف ہوئی ۔تب چاند اٹھا اور ابراہیم نے اسے آسمانوں میں ہزار ہا ستاروں سے گھرا ہوا دیکھ کر کہا شاید یہ وہ الٰہ ہیں جنہوں نے سب چیزیں بنائیں اور اس نے ان کے آگے دعا کی ۔لیکن جب صبح ہوئی اور ستارے زرد ہوئے اور چاند روپے کی سی سفیدی میں زائل ہوا اور آفتاب کی باز آمدہ روشنی میں گم ہو ا۔تب ابراہیم نے خدا کو پہچانا اور کہا کہ ایک اعلیٰ قدرت،ایک اعلیٰ ہستی ہے اور یہ سورج چاند وغیرہ اس کے خدمت گزار اور اس کی دستکاریاں ہیں‘‘۔
پھر ابراہیم کی بت شکنی اور ازاں(اس سے) موجب بھٹی میں ڈالے جانے کی بابت یوں لکھا ہے:
تب ابراہیم پکارا۔میرے باپ اور اس خراب پشت پر افسوس ! ان پر افسوس! جو اپنے دلوں کو بطلان کی طرف مائل کرتے اور بے حس مورتوں کو پوجتے ہیں جو سونگھنے، کھانے ،دیکھنے اور سننے سے محروم ہیں۔ ان کے منہ ہیں لیکن وہ آواز نہیں نکال سکتے وغیرہ اور ایک لوہے کا اوزار لے کر اس نے سوائے ایک کے اور سب مورتوں کو توڑ ڈالا اور وہ اوزار اس باقی ماندہ کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔لیکن (اس حکمت سے اپنے باپ تارہ(تارح) کو سمجھا کر تھوڑی دیر بعد)وہ لوہا اس کے ہاتھوں سے لے کر اس کو بھی اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے توڑ ڈالا(جب اس کے باپ نے نمرود بادشاہ کو اس بات کی خبر دی تو بادشاہ کے مشیروں نے جواب دیا کہ) وہ جو بادشاہ کی بے عزتی کرے اس کو پھانسی دیناچاہیئے۔اس شخص نے زیادہ کیا ہے۔ وہ تبرکات کی چوری کا مجرم ہے ۔اس نے ہمارے الہٰوں کی بے عزتی کی ہے۔اس لیے وہ جلائے جانے کے لائق ہے۔اگر بادشاہ کو منظور ہو تو ایک بھٹی دن اور رات بھر گرم کی جائے اور تب یہ ابراہیم اس میں ڈالا جائے۔یہ صلاح بادشاہ کو پسند آئی اور حکم دیا کہ فوراً ایسا ہی کیا جائے۔۔۔ اور ابراہیم اور حاران (اس کو بھی ابراہیم کے باپ نے پھنسا دیا تھا) دونوں بادشاہ کے روبرو حاضر کیے گئے ۔سب باشندوں کے سامنے ان کے کپڑے اتارے گئے۔ان کے ہاتھوں اور پاؤں باندھے گئے اور وہ جلتی بھٹی میں ڈالے گئے اور آگ کی تیزی اس قدر تھی کہ بارہ آدمی جنہوں نے ان کو ڈالا تھا بھسم ہوگئے۔لیکن خدانے اپنے بندے ابراہیم پر رحم کیا اور اگرچہ وہ رسے جن سے وہ بندھا تھا اس کے اعضا پر سے جل گئے تھے،تاہم وہ آگ میں بے ضرر سیدھا ہو کر پھرتا تھا۔لیکن حاران اس کا بھائی جس کا دل خداوند کا نہ تھا، شعلوں میں فوراً مر گیا۔
پس دیکھو قرآن جھوٹی سچی روایتوں کامجموعہ ثابت ہوتا ہےا ور روایتو ں کا بھی ذرا خیا ل کرو کہ اَور مذہب والوں کی تھیں ۔ انہیں سے آپ نے سیکھیں، نہ کہ کسی وحی آسمانی سے ۔ان باتوں پر غور کرنے سے قرآن کیسا فضول ٹھہرتا ہے۔
یہ دونوں قسم کے بیان اناجیل الہامیہ کے خلاف ہیں اور پھر قرآن اور انجیل یعقوب میں بھی پوری موافقت نہیں ہے۔ تاہم ظاہر ہےکہ حضرت محمدصاحب کی معلومات کا ذریعہ ایسی یا یہی جعلی روایتیں تھیں جو اکثروں کی زبانی بیان ہوتے ہوتے قدرے تبدیل ہوگئیں،مگر ان کی بنا انہی جعلی انجیلوں پر تھی۔مگر اناجیل الہامیہ میں ان کے برخلاف بیان موجود ہے۔ چنانچہ میکاہ نبی کی معرفت یہ خبر تھی کہ مسیح بیت لحم میں پیداہوگا (میکاہ۲:۵) اور متی کی انجیل ۱:۲ میں یہ مذکور ہے کہ یسوع ہیرودیس بادشاہ کے وقت یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا اور میکاہ نبی کی نبوت کا اس موقع پر حوالہ دیاہے اور لوقا لکھتا ہے’’پس یوسُف بھی گلیل کے شہرناصرۃ سے داؤد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہُودیہ میں ہے۔ اِس لیے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اَولاد سے تھا۔تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حامِلہ تھی نام لکھوائے۔جب وہ وہاں تھے تو اَیساہُؤا کہ اُس کے وضع حمل کا وقت آپُہنچا۔اور اُس کا پہلَوٹھا بیٹا پَیداہُؤااور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھّا کیونکہ اُن کے واسطے سرای میں جگہ نہ تھی‘‘ (لوقا۴:۲۔۷) اور واضح ہو کہ تمام علمائے قدیم مسیح کے بیت لحم میں پیدا ہونے پر شہادت دیتے ہیں۔غار اور کھجور کا ان راویوں کو ذرا بھی خیال نہیں اور مریم اور لوگوں کا سوال و جواب بھی ایک جعلی بناوٹ ہے۔ان باتوں نے اصل بیان کو مخلوط کرد یا ہے۔پس ایسے قرآن کی مطلق ضرورت نہیں جو جعلی روایتوں سے اپنی حاجت پوری کرتاہے۔
اولاً ،ظاہرہے کہ انجیل مقدس کے حضور بیان قرآنی کی حاجت نہ تھی کیونکہ وہ بیان روح القدس نے ان لوگوں کی معرفت لکھوا دیا جو شروع سے مسیح کے گواہ تھے اور اس لئے محمد صاحب کا بیان ان کے مقابل میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ زیرا کہ اس قدر عرصہ دراز کے بعد اس کی تحریر کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ثانیاً، جب مضمون قرآنی کے ان بیانات پر نظر ٹھہرتی ہے جن پر خط کھینچا ہے تو وہ بیان مخلوط معلوم ہوتا ہے اور قرآن کی عدم ضرورت کو اور بھی واضح ولائِحَہ (کوئی واضح چیز) کرتا ہے۔یہ ملونی (ملاوٹ)کہاں سے آئی محمدصاحب تو کہتے ہیں کہ یہ خبریں غیب کی ہیں ۔ہم بھیجتے ہیں تجھ کو، الخ ۔اس میں شک نہیں کہ وہ اس وقت موجود نہ تھے مگر اس قسم کی خبریں تو اس زمانہ میں مشر قی مسیحیوں میں رائج تھیں۔چنانچہ طفولیت مسیح کی پہلی انجیل جو ایسی روایتوں کا گویا مخرج تھا ا س کے باب اول میں یہ ذکر ہے کہ وہ (یعنی یوسف سردار کاہن جسے بعض کیفا س کہتے تھے) بیان کرتا ہے کہ عیسیٰ نے جب وہ مہد(یا ماں کی گود) ہی میں تھا اپنی ماں سے کہا کہ ’’اے مریم میں عیسی ٰ خدا کابیٹا ہوں۔ وہ کلام جو تو نے جبرائیل فرشتے کے کہے کے موافق جنا اور میرے باپ نے مجھے دنیا کی نجات کے واسطے بھیجا ہے‘‘۔سورہ مریم والی آیت میں عیسیٰ کا اپنے تئیں بندہ اللہ کا کہنا محمدصاحب کے خیال کے موافق بیان ہوا ہے لیکن غرض مسیح کی ماں کی گود میں باتیں کرنے سے ہے۔سو یہ ایسی بات نہ تھی جو محمدﷺ کو اس کے علم کے لئے وحی کی حاجت ہوئی ۔وہی مشہور باتیں جو مسیحیوں میں روایتاً رواج پائی ہوئی تھیں ،قرآن میں بھی درج کی گئیں۔جب یہ حال ہے تو محمد ی کیوں نہ کہیں کہ انجیل مروجہ اصلی انجیل نہیں کیونکہ قرآن کے نزدیک تو اصلی انجیل وہ جعلی قصے ٹھہرے جو مسیحیوں میں رائج تھے اور جوا نجیل مقدس کے خلاف اور قرآن سے کسی قدر موافقت رکھتے ہیں۔ پس ایسے قرآن کی کس کو ضرورت ہے۔عاشقان حق کو ہر گز نہیں ہے۔
مسیح کی طفولیت کی یہی دو مثالیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں اور وہ بھی جعلی قصوں کے اعتبار پر ۔اس سے ہر ایک معلوم کرے کہ قرآن اور بائبل میں کیوں ایسا فرق ہےاور یادر ہے کہ صاف اور سچی حقیقتیں ،اصلی اور الہامی اناجیل میں موجو د تھیں اور ماسوائے ان کے غلط اور جعلی قصے بھی جہاں تہاں رائج تھے۔دیکھو سچ اور جھوٹ کی علیٰحدگی مناسب تھی ۔سووہ تو شروع ہی سے قائم ودائم رہی ۔پھر کیا ہردو کی آمیزش کے لیے قرآن کی ضرورت ہوئی ؟مگر ایسے اختلافات اور اختلاط کی مطلق ضرورت نہ تھی ۔پس اول ان باتوں پر فکر کریں اور پس ازآں قرآن پر نازاں ہوں یا اس کی تعمیل و تلاوت کا خیال دل میں لائیں یا ترک کریں۔خدائے کریم ہدایت بخشے ۔
دفعہ۶۔مسیح کی الوہیت کا احوال
واضح ہو کہ وہ جعلی انجیل جس کا اوپر ذکر ہوا اور انجیل طفولیت مریم اور انجیل یعقوب وغیرہ میں اور بہت قصہ جات مسیح کی بابت لکھے ہیں ،مگر مسیح کی الوہیت سے انکار نہیں ہے اور اناجیل الہامیہ میں تو اس تعلیم کو بدرجہ اولیٰ رکھا ہے۔مگر قرآن میں اس مسئلہ سے انکار ہے ۔پس وہ انکار کیونکر ہوا؟یہ الہامی اور جعلی تواریخیں اس امر میں تو حضرت محمد صاحب کا ساتھ نہیں دیتیں جیسا مقابلہ ذیل سے ظاہر ہے۔
واضح ہو کہ مسیح کو صرف خدا ماننا انجیل کے خلاف اور ایک بدعت ہے ۔چنانچہ انجیل میں مسیح کی حقیقی انسانیت ایسی ہی مصرح ہے جیسی اس کی الوہیت ۔ جس طرح الوہیت کے لیے الہٰی نام ، کام اور اوصاف منسوب ہوئے ہیں اسی طرح انسانیت کے لیے انسانی غرضات کا ذکر آیا ہے۔ الوہیت کی چند مثالیں بیان ہوئیں ۔اب انسانیت کے بارے میں ہم صرف ایک ہی مثال دیتے ہیں۔فلپیوں کے نام خط۶:۲ ۔۸میں یوں لکھا ہے ’’اُس نے اگرچہ خُدا کی صُورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دِیا اور خادِم کی صُورت اِختیار کی اور اِنسانوں کے مُشابِہ ہوگیا۔اور اِنسانی شکل میں ظاہِر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دِیا او ر یہاں تک فرمانبردار رہا کہ مَوت بلکہ صلِیبی مَوت گوارا کی‘‘انتہیٰ۔پھر دیکھو کہ اسی صورت میں ہو کے وہ خدا باپ کا رسول ہے’’ جس نے مجھے بھیجا میرے ساتھ ہے‘‘(یوحنا۲۹:۸)۔اب قرآن میں یہ ہاتھ کھیلا ہے کہ مسیح کی انسانی غرضات سے اس کی الوہیت پر حملہ کیا ہے ۔چنانچہ قرآن کے حوالوں مسطورہ بالا میں یہ باتیں شامل ہیں۔اول ،یہ کہ عیسیٰ مریم کا بیٹا تھا اس لئے خدا نہیں۔دوم، رسول ہے اللہ کا اس لئے وہ خود اللہ نہیں ۔سوم، کھانا کھا تا تھا اس لئے خدا نہیں کیونکہ خدا کھانا نہیں کھاتا۔مگر ان ہی باتوں سے انجیل مسیح کو کامل اور حقیقی انسان ثابت کرتی ہے جیسا مذکور ہوا ۔پس جب محمد صاحب نے سنا کہ مسیحی مسیح کو اللہ مانتے ہیں تو اس تعلیم کی ماہیت سے سہواً یا قصداً نا سمجھ رہ کر الوہیت سے انکار کیا اور یوں حقیقت صادق کو بیان قاصر سے ایک اور ہی صورت دی ۔پھر یہ ایک ظاہرا بات ہے کہ مسیح میں انسانی لوازمات سن کر یا دیکھ کر اس کی الوہیت کا یقین محال معلوم ہو۔ چنانچہ محمد صاحب کے سوائے اور بہتیروں نے ان سے پہلے [جن میں ایری اَن(اریوسی،چوتھی صدی میں اسکندریہ(مصر) کے پریسبٹر بشپ آریوس کا پیروکار) مشہور ہیں] اور بعد میں بھی اسی سبب انکار کیا اور اب تک ایسے لوگ(یونی ٹیری ان ) موجود ہیں۔عجب نہیں کہ ان کے دل میں بھی اس بات نے جگہ پائی ۔بایں ہمہ یہ بھی خیال رہے کہ ایسے انکاری محمد صاحب سے پہلے بھی ہو گزرے جن کے ذریعہ سے انکار الوہیت کا آوازہ بہتیروں کے کانوں تک پہنچا اور ارادہ نے بھی اس آواز کی طرف توجہ کی ۔ان میں سے سرنتھس اور تھیوڈوٹس بائی زن ٹئیس مشہور ہیں ۔ان ملحدوں کے پاس اپنے مطلب کی جعلی اناجیل ہوا کرتی تھیں، جیسے سرنتھس کی انجیل اور پطرس کا مکاشفہ وغیرہ اور اسی طرح ہم تم سب دیکھتے ہیں کہ محمد صاحب نے بھی اپنے مطلب کی قرآن کتاب نکال دکھائی ۔ان باتوں سے ظاہر ہے کہ قرآن کی عدم ضرورت ایک بدیہی امر کے پایہ پر ہے۔
اب کہا جائے کہ یہ انجیل محمدیوں کی جعلسازی ہے یا کہ کسی عیسائی کا جعل ہے جس میں محمدیوں نے ملونی کی ہے تو ہر دوحالت میں قرآن کی خرابی ہے ۔کیونکہ ایک واقعی حقیقت کو جو چھ سو برس قبل آپ کے ہر ملک میں مشہور ہو رہی تھی اور مسیحیوں کے ایمان کا گویا رکن تھی (جیسا جسٹن شہید کی گواہی سے ان ایام کی بابت ظاہر ہے۔وہ لکھتا ہے کہ انسان کی کوئی قوم نہیں خواہ بر بری خواہ یونانی یا جس کسی نام سے وہ کہلاتے ہیں جن میں سب کے باپ اور مالک کو مسیح مصلوب کے نام سے دعائیں اور شکرگزاریاں گزرانی جاتی ہوں)اور پھر یہ بیان الہامی کتابوں میں چشم دیدہ گواہوں کی معرفت قلم بند ہوا۔ ایسی حقیقت کو ایک بناوٹی بات سے ٹالنا چاہا ہے اور یا ایک جعلی قصہ کے اعتبار پر قرآن میں یہ تذکرہ درج کیا ہے۔ البتہ چند بدعتی لوگ محمدصاحب سے پہلےہوئے جنہوں نے قریباً ایسا ہی بیان کیا جن میں سے ہاسی لایڈنیر اور سرنتھس مشہور ہیں۔ مگر ان کے اور حضرت کے بیان میں کچھ فرق ہے ،یعنی وہ عیسیٰ کا سولی دیا جانا مانتے تھے مگر اس طور سے کہ مسیح اس وقت عیسیٰ سے جدا ہو کر پرواز کر گیا تھااور چھٹی صدی میں بھی مسیح کے جسم کی بابت بحث شروع ہوئی اور مدت تک جاری رہی ۔اس بحث میں بعضو ں نے مسیح کی حقیقی تکلیف وغیرہ سے انکار کیا ۔ بدعتیوں کی ایسی باتوں کی ہوا پا کر قرآن میں بھی مسیح کے مصلوب ہونے سے انکار ہوا،مگر ان سب کے برخلاف۔
انجیل مقدس کا بیان
انجیل مقدس کا بیان اس امر میں صاف صاف ظاہر کرتا ہے کہ مسیح مصلوب ہوا اور مردوں میں سے پھر زندہ ہوا ۔کتاب اعمال۳۶:۲’’پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خُدا نے اُسی یِسُوع کو جسے تُم نے صلیب دی خُداوند بھی کیاِ اورمسیح بھی‘‘۔’’ ہمارے باپ دادا کے خُدا نے یِسُوع کو جِلایا جِسے تُم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔اُسی کو خُدا نے مالِک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اِسرائیل کو تَوبہ کی تَوفیق اور گُناہوں کی مُعافی بخشے۔اور ہم اِن باتوں کے گواہ ہیں اور رُوحُ اُلقدس بھی جسے خُدا نے اُنہیں بخشا ہے جو اُس کا حکم مانتے ہیں‘‘(اعمال۳۰:۵۔۳۲)۔’’ پس جب یِسُوع نے وہ سِرکہ پِیا تو کہا کہ تمام ہُؤا اور سر جُھکا کر جان دے د ی‘‘(یوحنا۳۰:۱۹)۔
یوسیفس کا بیان
یوسیفس جو ایک مشہور یہودی مورخ ہے اور اسی زمانہ میں ہوا وہ بھی مسیح کے مصلوب ہونے پر شہادت دیتا ہے:
Now there was about this time Jesus, a wise man, if it be lawful to call him a man; for he was a doer of wonderful works, a teacher of such men as receive the truth with pleasure. He drew over to him both many of the Jews, and many of the Gentiles. He was [the] Christ. And when Pilate, at the suggestion of the principal men amongst us, had condemned him to the cross, those that loved him at the first did not forsake him; for he appeared to them alive again the third day; as the divine prophets had foretold these and ten thousand other wonderful things concerning him. And the tribe of Christians, so named from him, are not extinct at this day. (Antiquities of the Jews - Book XVIII Chapter 3) Sedition of the Jews against Pontius Pilate. Concerning Christ; and what befel Paulina, and the Jews at Rome.
ترجمہ:
’’اب قریب اسی وقت کے(اس سے پہلے یہ مورخ پلاطوس کا ذکر کرتا ہے)عیسیٰ ایک دانا آدمی ہوا اگر اس کو انسان کہنا روا ہو کیونکہ وہ عجائبات کا کرنے والا تھا۔ایسے لوگوں کا استاد جو سچائی کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔اس نے یہودیوں اور یونانیوں میں سے بہتیروں کو اپنی طرف کھینچا۔وہ مسیح تھا اور جب پیلاطس نے ہمارے سرداروں کی صلاح پر اسے صلیب کا فتویٰ دیاتو وہ جو پہلے اسے پیار کرتے تھے انہوں نے اسے نہ چھوڑا کیونکہ وہ انہیں تیسرے دن پھر زندہ دکھائی دیا، جیسا خدا کے نبیوں نے ا ن کی اور دس ہزار اور عجیب باتوں کی خبر دی تھی اور مسیحیوں کا فرقہ جو اس کے نام سے کہلاتا ہے آج تک معدوم نہیں ہوا‘‘(انٹی کوئی ٹی کتاب ۱۸باب۳ دفعہ ۳)۔
پس ظاہر ہے کہ قرآن کا یہ بیان بھی اس کی اپنی عدم ضرورت کو ثابت کرتا ہے۔ہاں اگر لغویات کو حقیقتوں پر ترجیح دے سکتے ہیں تو ایک نہیں اور کئی قرآنوں کی ضرورت ہے۔کیا حق تعالیٰ نے نئے طور اختیار کئے تھے جو ایسے قرآن کو نازل کیا،ہر گز نہیں ۔صداقت ہر حال میں صداقت ہی رہے گی۔
ضمیمہ فصل پنجم
کسی امر کی تحقیقات کرنے میں بہت محنت اور تجسس چاہیئے۔بعض وقت بعض غصہ میں آکر یا اپنی ناواقفیت سے بے خبر رہ کر بے طرح کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہیں اور اس کے چھپ جانے کو اس کا ثبوت سمجھتے ہیں۔لیکن اس میں بہت دھوکا ہے اور مناسب ہے کہ ایسے معاملات میں جب قلم اٹھا دیں تو چاروں کھونٹ کی سوچ لیا کریں ۔اگر یہ نہ ہو تو غلط کاریوں کا بہت اندیشہ ہے۔ میں اس کی ایک نظیر دے کر اہل قلم کو بیدا ر کیا چاہتا ہوں۔منشور محمدی مطبوعہ ۲۵ جمادی الاول ۱۲۹۸ ہجری جلد ۱۰ نمبر ۱۵ کے صفحہ۱۵۱ میں یوں مرقوم ہوا ہے’’لوقا اور متی اور مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کی صلیب شمعون قرینی پر رکھ کر صلیب دینے کے لئے لے چلے اور دستور یہ تھا کہ ہر شخص جو صلیب دیا جاتا اپنی صلیب آپ لے جاتا تھا‘‘(تفسیر سکاٹ صاحب متی۲۷۔۳۲،صفحہ۲۲۳) ۔اس سے آپ نے یہ بات نکالی ہے کہ شمعون قرینی مصلوب ہواکیونکہ وہ صلیب اٹھا کے لے گیا تھا۔یہ کیسا حیلہ آمیز کلام ہے۔اگر متی ، مرقس اور لوقا کے بیان سے آپ نے شمعون کا مصلوب ہونا سمجھ لیا تو پھر کیوں ان راویوں نے مسیح کی صلیب دیئے جانے کا بیان اس قدر تصریح کے ساتھ کیا ہے۔ کیا اتنی سوچ نہ آئی کہ شمعون کی بابت تو وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اسے جبراً بیگا ر میں پکڑا کہ یسوع کے پیچھے پیچھے اس کی صلیب لے چلے، لیکن یسوع ہی کو صلیب دیا نہ کہ اس قرینی کو۔پس ان تینوں اناجیل سے شمعون کا مصلوب ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا ۔جان بوجھ کے اپنی آنکھیں نہ پھوڑنی چاہیئں۔
رہا ایک فرقہ اور تین فرقے یعنی باسیلیدی ،سرہنتی ، کارپو کراٹی اور ڈوسیٹی۔سوسر ہنتی کی بابت واضح ہو کہ وہ یسوع کا صلیب دیا جانا مانتا تھا لیکن یہ کہتا تھا کہ بروقت مسیح جو بپتسما پانے کے اس میں کبوتر کی صورت میں داخل ہوا تھا آسمان پر اڑ گیا۔اس ملحد کی غرض یہ تھی کہ ناسٹکفس او ر یہودا ہ اور مسیح یسوع کی تعلیم کو ملا کر ایک نیا فرقہ بنا دے ۔ پس شمعون قرینی کے مصلوب ہونے کا یہ فرقہ شاہد نہیں ہو سکتا ۔پھر کار پوکراٹی اور باسیلایدی کا خیال یسوع اور مسیح کی نسبت سرہنتن کے موافق تھا۔اس لئے ان کے خیالوں سے بھی شمعون قرینی کا مصلوب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔باسیلیدیز کی بابت ایڑینی اکس کے قول پر بعضوں نے کہا ہے کہ وہ مسیح کا حقیقی جسم نہ مانتا تھا اور کہ شمعون قرینی اس کی جگہ صلیب دیا گیا۔مگر یہ قول غلط ثابت ہو اہے۔پھر ڈو سیٹی کے خیال کے بموجب مسیح کا حقیقی جسم نہ تھا اور اس لئے تاریکی کا سردار اور یہودیوں کا خدا یعنی اس دنیا کا خالق اسے ضرر نہ پہنچا سکے۔ اس سے بھی شمعون کا مصلوب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔آپ کے گواہوں کا یہ حال ہے اس لئے یہ دعویٰ کہ ان تینوں انجیلوں اور چار مسیحی فرقوں سے (مسیحی نہیں بدعتی تھے اور کار پو کراٹیز تو مصری فیلسوف تھا) کہ جن میں لاکھوں عالم و فاضل و تورایخ دان ہوں گے(نہیں کیونکہ ان فرقوں کی کچھ وسعت نہ تھی اور نہ بہت مدت قائم رہے) اور حضرت عیسیٰ کے عروج کے بعد انہیں دلوں میں موجود تھے (نہیں صاحب یہ سب دوسری صدی میں ہوئے)ثابت ہوا کہ صرف شمعون قرینی مصلوب ہوا نہ کہ حضرت عیسیٰ، صریحاً غلط ہے۔
قطع نظر اس کے واضح ہو کہ یسوع مسیح کا مصلوب ہونا اور زندہ ہونا اسی وقت سے لوگوں میں تحقیقی اور یقینی امر مسلم ہو گیا تھا ۔اس امر میں علمائے سابقہ نے ملحدوں اور مخالفوں کی تردید کی اور اس بات کو سچی حقیقت ثابت کیا۔ کس کس عالم اور مصنف کا تذکرہ سناؤں کیونکہ نہ صرف مسیحیوں میں یہ ایک حقیقی اور یقینی امر تھا بلکہ سرکاری دفتروں میں بھی حسب دستور قلم بند ہوا اور مسیحی مورخ حسب ضرورت ان کی طرف حوالہ دیتے تھے۔ چنانچہ یوسیبئیس مورخ لکھتا ہے کہ:
’’تمام فلسطین میں ہمارے نجات دہندہ کے جی اٹھنے کے چرچا ہونے پر پلاطوس نے بادشاہ کو اس سے مطلع کیا اور نیز اس کے معجزوں سے جو وہ سن چکا تھا او ر کہ اس کے مار ے جانے او ر جی اٹھنے پر بہتیرے اس کوخدا مانتے ہیں‘‘۔
پھر جسٹن شہید اور ٹرٹولین جو دوسری صدی میں ہوئے۔ایکٹس آف پائلیٹ (اعمال پلاطوس) کا حوالہ دیتے ہیں۔جسٹن شہید اپنی اپالوجی میں مسیح کے مصلوب ہونے اور اس کے متعلقہ حالات کا ذکر کر کے کہتا ہے اور کہ یہ سب باتیں اسی طرح واقع ہوئیں تم ان ایکٹس(اعمال نامہ ) سے معلوم کرو جو پنطوس پلاطوس کے وقت میں بنا یا گیا۔ پھر ٹرٹولین ان اپالوجی میں نجات دہندہ کے صلیب دیئے جانے اور جی اٹھنے وغیرہ کا بیان کر کے کہتا ہے کہ مسیح کی بابت ان سب باتوں کا احوال پیلاطوس نے شہنشاہ ٹائیبرئیس (تبریس)کی طرف بھیجا وغیرہ ۔ پھر غیرقوم مورخ مثل ٹاسٹیس نیرو بادشاہ کی تاریخ اور عیسائیوں کا احوال لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ اس فرقہ کا بانی مسیح تھا جو ٹائیبرئیس کے عہد میں پیلاطوس سے مجرم کے طور پر قتل کیا گیا‘‘۔یہودی مورخ بھی یہی کہتے ہیں۔ یوسیفس کا ذکر سنایا گیا تھا اب صرف ایک یہودی عالم کا ذکر کیا جا تا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ یہ یہودی عالم بنام ٹرایفو دین مسیحی کو اس کے بانی کے مصلوب ہونے کے سبب بڑی تحقیر سے بیان کرتا ہے اور اس کے معتقدوں کو ایک مصلوب شدہ شخص پر اپنی امید قائم کرنے کی نسبت ہنسی کرتا ہےاور پھر کہتا ہے کہ’’ وہ شخص جسے تم مسیح کہتے ہو اس نےسب سے ہیچ بے عزتی اٹھائی کیونکہ وہ مصلوب ہوا ‘‘اور پھر کہتا ہے کہ’’ شریعت میں لکھا ہے کہ ہر ایک جو صلیب پر لٹکایا گیا لعنتی ہے‘‘ ۔اس یہودی کی تحقیر آمیز باتوں کا جسٹن شہید نے دوسر ی صدی میں جواب دیا تھا(ہارن) ۔پس بہر صورت ثابت ہے کہ مسیح کا مصلوب ہونا اور زندہ ہونا واقعی امر ہیں اور ان سے انکار کرنا صداقت سے انکار کرنا اور حق کے دشمن ٹھہرنا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ کسی صاحب نے محمدصاحب کے کہے کو سچ ٹھہرانے کی خاطر یہ باتیں لکھی ہیں۔ چنانچہ اخیر میں اس کہے کو بھی لکھا ہےوَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ۔مگرحضرت نے تو شمعون قرینی کانام نہیں دیا ۔صرف بدعتیوں کے خیالی فلسفہ کو سن کر نا سمجھے یوں ہی لکھ دیا ہے اور انجیل برنباس سے بھی کچھ صلاح لی۔پس بعض بدعتیوں کےاختلاف رائے پر یعنی مسیح کے حقیقی جسم اور دکھ اٹھانے کی نسبت آپ نے بھی قرآن میں فیصلہ دے دیا کہ نہ اس کو مارا ہے، نہ سولی پر چڑھایا ولیکن وہی صورت بن گئی ان کےآگے اور جو لوگ اس میں کتنی باتیں نکالتے ہیں وہ اس جگہ شبے میں ہیں، کچھ نہیں ان کو اس کی خبر ،مگر اٹکل پر چلنا اور اس کو مارا نہیں بے شک ۔اے ناظرین اس سے بڑھ کر ناواقفی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ وہ جویوحنا کے بپتسما سےلے کے اس دن تک کہ وہ (مسیح) اوپر اٹھایا گیا اس کے جی اٹھنے کے گواہ تھے۔ہاں وہ جنہو ں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تا ک رکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا گواہی دیتے ہیں کہ یہود نے اسے پکڑا اور بے دینوں کے ہاتھ سے کیلیں گڑوا کے قتل کیا۔غیروں کی گواہی اس امر میں ہمارے نزدیک اور سب کے نزدیک اس گواہی کےحضور بالکل پوچ (حقیر۔لغو)ہے۔ پھر کجا بدعتیوں کا خیالی فلسفہ جس کو حقیقتوں سے نسبت ہی نہیں۔ کیا قرآن کی صداقت کے یہ ہی گواہ ہیں۔ مگر ان کی گواہی جو صرف خیالی خیال ہیں قرآن کے لئے مفید نہیں ۔ان بدعتیوں نے عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے انکار نہیں کیا،جیسا مذکور ہوا۔پس کہو قرآن کا کہنا اس بات سے بھی جھوٹ ٹھہرایا نہ ٹھہرا؟کون اٹکل پر چلا؟اور کون بے خبر ٹھہرا؟قرآن کی عدم ضرورت کے لیے یہی ایک بات کفایت کرتی ہے ۔خوب سوچ کے دیکھ لو۔
بایں ہمہ واضح رہے کہ وہ بیانات قرآنی جو کتب مقدسہ کے موافق ہیں ان کے لیے بھی قرآن کی ضرورت نہ تھی ۔اگر کہا جائے کہ ان قدیم واقعات کی شہادت کے لیے قرآن آیا تو یاد رہے کہ یہ شہادت بسبب اس قدر جدید ہونے کے کچھ شہادت نہیں ہے اور حضرت کی غرض بھی کچھ شہادت سے ایسی نہ تھی جیسی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے ان کتب اقدم کے بیانات سے صرف اپنی رسالت مدنظر رکھی تھی ،یعنی ان کو سچا کہہ کر آپ بھی ہر قول و فعل میں سچے بنتے ہیں اور اس حال میں فائیلو اور یو سیفس اور جس قدر بیان ہرا ڈٹس اور منی تہو مصری نے کیا ہے اور جس قدر اناجیل جعلی اور ٹائیٹس (ططس)وغیرہ میں ہے قرآن کی نسبت زیادہ تر معتبر ہے اور قرآن نہ صرف ان واقعات سے دور ہونے بلکہ غلط آمیزیوں کے سبب سے اور بھی کم قدر ہوتا ہے ۔غرض کہ قرآن کی گواہی بھی کوئی پختہ گواہی نہ گردانی جائے گی۔
یہ سب ماجرا دیکھ کر اب ناظرین غور فرمادیں کہ محمدی کیوں کہا کرتے ہیں کہ انجیل مروجہ اصلی انجیل نہیں ۔ایسا کہے بنا بنتی بھی تو نہیں کیونکہ قرآن میں تو اور ہی ذریعوں سے روایتیں درج کی گئی ہیں اور ان کے لحاظ سے انجیل پر طعن کیا جاتا ہے۔ پھر جو جو باتیں ہم نے اس سلسلہ میں تحریر کی ہیں ان سے محمدیوں کادعویٰ نسخ سراسر رد ہوتا ہے، یعنی ان امور کی وسعت میں نسخ وغیرہ کابالکل دخل نہیں ہے۔ یا درہے کہ ان امور کی قید ہم نے قرآن کے سبب سے لگائی ہے؟ امور پیش شدہ میں سے کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن نے منسوخ کی ہو یا کہ انہیں کو یامثل ان کے محمدصاحب نے قرآن میں درج کیا ہے تو وہ منسوخ کیونکر کہی جا سکتی ہیں اور واقعات تو کبھی منسوخ ہو ہی نہیں سکتے، خواہ وہ جن کی نقل قرآن میں ہوئی ہے خواہ جن کی نہیں ہوئی۔ اس لیے قرآن کی رو سے بائبل کی کوئی بات منسوخ نہیں ٹھہرتی اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ان امور میں تحریف بھی نہیں ہوئی ،کیونکہ قرآن میں ان کی نقل آئی ہے اور وہ جو بسبب مخالفت کے نئی معلوم ہوتی ہیں اور شاید ازاں موجب نسخ یا تحریف کا رغم (نفرت۔اختلاف) ہوتو یاد رہے کہ ہم نے ان مخالف اور نئی باتوں کا مبدا بتا دیا ہے جس سے قصور قرآن میں ثابت ہوتا ہے ، نہ کہ بائبل میں۔ اس لیے قرآن کو فضول جاننا ایک اعلیٰ صداقت کو ماننا ہے ۔اے محمدی برادران ضد کرنے میں کچھ نفع نہیں اور دیر کرنے میں نقصان ہے ۔اس لیے آؤ ہم سب کے سب خدا کے کلام بائبل کی ہدایت قبول کریں ۔خدا کرے کہ ہم نوشتوں میں ڈھونڈ یں اور ان کی سوچ میں لگے رہیں۔آمین۔
فصل ششم
عدم ضرورت قرآن
از روئے امور متعلقہ آئندہ
آیندہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسان بہ ہدایت محض مجرد عقل کے جو خیال چاہیئے کر سکتا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ اس حال میں اختلاف ہونا کچھ عجب نہیں کیونکہ آیندہ کی نسبت کسی قسم کا خیال قائم کرنے کے لیے کوئی یقینی امر یا بنیاد نہیں ہے ۔یہ کارروائی اپنی اپنی عمیق بینی پر موقوف ہے۔ کسی نے آیندہ کی نسبت یوں کہا اور کسی نےووں کہہ دیا ۔چنانچہ بعضوں نے یہ سمجھ چھوڑا کہ موت کے بعد خدا میں ایک ہوجائیں گے کیونکہ ہر شے کی موجودہ حالت خدائی حالت کا صرف جداگانہ ظہور ہے اور جب موت اس جدائی کو دور کرتی ہے تو سب اس خدا میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں ۔ بعضوں کوآیندہ کی نسبت شک رہا،بعضوں نے صاف انکار کیااور بعض نے آیندہ میں اس فانی دنیا کی عیش وعشرت کو کسی قدر بدل کر روا رکھا ۔ بعضوں نے اس فانی عیش کو متروک کر کے آیندہ زندگی کے لیے روحانی خوشی اور بزرگی کو قائم کیا ۔چونکہ اس سلسلہ میں ہماری غرض یہ نہیں کہ ہر ملت اور ہر فیلسوف کے خیالات کا مقابلہ کریں یا اتفاق ہی ظاہر کریں ۔لہٰذا ہم بائبل مقدس اور قرآن مجیدہی کے بیان کے موافق اظہار کرتے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ بائبل مقدس میں کیا تعلیم ہے اور قرآن کیا سکھاتا ہے۔آیا بائبل مقدس کی تعلیم سے کچھ بڑھ کر عمدہ تعلیم دیتا ہے یا فضول ہے۔
یہ ان ایمانداروں کی خوش وقتی اور نیک بختی کا بیان ہے۔اس مقابلہ سے ظاہر ہے کہ بائبل اور قرآن کی بہشت میں صریح ناموافقت ہے۔ ایک روحانی دوسرا نفسانی ہے یعنی ایک میں روحانی خوشی اور دوسرے میں نفسانی خوشی ہے۔ ایک میں ایماندار وں کے پاک شغل یعنی خداوند کی بندگی میں لگے رہنا اور دوسرے میں اس کے عوض شراب اور عورتوں کے شغل میں مشغول رہنا شامل ہے ۔ایک میں شادی بیاہ، کھانا پینا وغیرہ نہیں ہے اور دوسرے میں یہ باتیں ہیں۔ بہشت قرآنی کی نسبت ہم کیا کہیں، اوروں نے جو مناسب تھا اس امر میں اہل اسلام کی تنبیہ اور ہدایت کے لیے لکھا ہے۔ہماری غرض یہ ہے کہ محمدصاحب نے یہ بیان پایا کہاں سے ؟معلوم ہوتا ہے کہ مثل اَذراکثر باتوں کے اس بات میں بھی یہودی ہی ان کے استاد ہیں اور کسی قدر فارسی بھی۔چنانچہ یہودیوں کی طالمود میں یہ بیان پایا جاتا ہے کہ:
’’ قیامت کے بعد انسان کوئی کام نہیں کرتے اور جسمی تھکاوٹ یا ماندگی نہیں ہوتی۔ان کے مکان قیمتی پتھروں کے ہوں گے اور ان کے بستر ریشم کے اور شراب او رعطر کی نہریں ہوں گی‘‘(دیکھوانتخاب طالمودصفحہ ۳۲ مولف ڈاکٹر جوسف بارکلے)۔
سیل صاحب بھی دیباچہ ترجمہ قرآن کے صفحہ ۷۲ میں لکھتے ہیں کہ یہود کہتے ہیں کہ:
’’ ایمانداروں کے لیے ایک لذیذ باغ ہے جو ساتویں آسمان تک پہنچتا ہے۔اس کے تین دروازے ہیں اور چار نہریں ہیں جو دودھ ، مے اور بلسام سے بہتی ہیں‘‘ ۔
پس اس سے ظاہر ہے کہ قرآن میں طالمودی بہشت کا اظہار کیا گیا ہےجس میں فارسیوں کی بھی بہشت کی لاگ لگی ہے۔ اگر ان کے بہشت میں نفسانیت کی کچھ کسر تھی تو وہ محمدصاحب نے پوری کردی ہے۔اس کے متعلق ایک اور بات ہے جس کا ذکر اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے یعنی اگر کہا جائے کہ بیان بہشت قرآنی استعارہ کے طور پر ہوا ہے تو اس حال میں لازم ہے کہ استعارہ قرآن سے ثابت کیا جائے، کیونکہ وہ سب مقامات جن میں بہشت اور اس کے عیش کا ذکر آیا ہے کسی میں اس کو استعارہ کے طور پر بیان کرنے کا اشارہ بھی نہیں ہے۔برخلاف اس کے بار بار کہا ہے کہ یہ ایمان والوں کا بدلہ ہے ۔کیا خوب آرام ہے۔ کہیں تو کہہ دیا ہوتا کہ یہ آسمانی خوشیوں کی زمینی مثال ہے۔ قریباً اٹھائیس مقام ہیں جن میں بہشت کا ذکر آیا ہے ۔ان میں سے کسی میں استعارہ کی بو تک نہیں ہے۔ بجائے استعارہ کے تاکیداً لکھا ہے کہ’’ وہی بہشت ہے جو میراث پائی تم نے بدلے ان کاموں کے جو کرتے تھے‘‘ (سورہ زخرف رکوع ۷ آیت ۷۲ )اور کہ’’ یہی ہے مراد ملنی بڑی‘‘(سورہ توبہ آیت ۷۳ رکوع ۹) اور پھر یہ کہ ’’احوال ا س بہشت کا جو وعدہ ہے ڈرو الوں کو ‘‘(سورہ محمد آیت ۶) ۔اس بہشت کی نعمتوں کواور کی طرح بیان کرنا یا نہ ماننا گویا خد اکی نعمتوں کو جھٹلانا ہے، دیکھو سورہ رحمان رکوع ۳ کل۔
پس ظاہر ہے کہ اس تعلیم کے لیے بھی قرآن کی ضرورت نہ تھی۔ قرآن میں اوروں کی پرانی رائج باتوں کا بھی اندراج ہے وقوع میں آیا ہے ۔ چنانچہ سیل صاحب دیباچہ قرآن فصل ۴ میں لکھتے ہیں کہ:
’’یہ قصہ دوزخ کے خانوں اور دوزخیوں کا محمدصاحب نے یہودیوں سے لیا ہے اور بعض باتیں مے جاؤں سے۔یہ دونوں قومیں دوزخ میں علیٰحدہ خانے قائم کرتی ہیں اور یہودیوں کے خیال میں ان دوزخی خانوں میں سے ہر ایک پرایک نگہبان فرشتہ رہتا ہے اور کہ شریر مختلف قسم کی سزائیں اٹھائیں گے اور وہ نہایت سردی اور سخت گرمی سے ہوگی۔ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے او ر کہ ان کے ہم مذہب یعنی یہودی بھی دوزخ میں سزا پائیں گے ۔لیکن جب ان کا باپ ابراہیم انہیں ان کے گناہوں سے صاف کرے گا تو وہ جلد وہاں سے رہائی پائیں گے‘‘ ۔
یاد رہے کہ سوائے ان باتوں کے جو قرآن میں بائبل مقدس، احادیث یہود ، قصص فارسیان اور کتب جعلی سے لی گئی ہیں اور روایتیں ہیں جو ان لوگوں کی روایتوں سے نکالی گئی ہیں اور یہ بات پہلی بات کو قائم کرتی ہیں کہ محمدصاحب نے چنے چنائے اور سنے سنائے بیان قرآن میں درج کیے۔چنانچہ ہم ایک روایت کا مثالاً ذکر سنائے دیتے ہیں ۔ بہت اس لیے نہیں کہ ہماری غرض روایتوں کی روایت سے نہیں ہے۔قبر میں مردو ں کی آزمائش کی بابت محمدیوں کا یہ روایتی قصہ ہے کہ :
جب مرد ہ قبر میں رکھا جاتا ہے تو دو فرشتے سیاہ رنگ اور ڈ ر اؤنی شکل کے بنام منکر نکیر(وہ دو فرشتے جو قبر میں مردے سے سوال کرتے ہیں) اس کے پاس آجاتے ہیں ۔یہ دونوں مردہ کو حکم دیتے ہیں کہ سیدھا بیٹھ اور پھر اس کے ایمان کی آزمائش کرتے ہیں۔ اگر وہ ٹھیک جواب دے تو اس کو آرام سے پڑا رہنے دیتے ہیں اور وہ بہشت کی آب و ہوا سے ترو تازہ کیا جاتا ہے ،اگر نہیں تو لوہے کے لٹھ سے اس کی کنپٹیوں پر مارتے ہیں او ر وہ ایسی آواز سے چلاتا ہےکہ مشرق سے مغرب تک سوائے آدمی او ر جنات کے او ر سب کو سنائی دیتا ہے ۔ تب وہ لاش پر مٹی ڈال دیتے ہیں اور قیامت تک ننانوے اژدہے اس کو ڈنک مارا کرتے ہیں اور ایک ایک اژدہے کے سات سات سر ہیں۔
فرشتوں کی مار کا قرآن میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے ۔چنانچہ دیکھو سور ہ انفال رکوع ۷آیت۵۲ ’’اور کبھی تو دیکھے جس وقت جان لیتے ہیں فرشتے کافروں کی ،مارتے ہیں ان کے منہ پر اور پیچھے اور چکھو عذاب جلنے کا‘‘۔پھر سورہ محمد آیت ۲۹ رکوع ۳ ’’پھر کیسا ہو گا جبکہ فرشتے جان لیں گے ان کی مارتے جاتے ہیں ان کے منہ پر اور پیٹھ پر‘‘۔سیل صاحب (مترجم قرآن انگریزی ) لکھتے ہیں کہ :
یہ قصہ یہودیوں سے لیا ہے جس میں یہ باتیں قدیم سے مانی جاتی ہیں ۔ان کاخیال ہے کہ موت کافرشتہ آکر قبر پر بیٹھتا ہے تو روح فوراً جسم میں داخل ہوتی ہے اور اس کو پاؤں پر کھڑاکرتی ہے ۔تب وہ اس کوآزماتا ہے اور ایک زنجیر سے جو آدھی لوہے اور آدھی آگ کی ہے اسے مارتا ہے۔پہلے اور دوسرے صدمہ سے ہڈیاں ادھر ادھر گر جاتی ہیں اور تیسرا صدمہ جسم کو خاک کر دیتا ہے اور پھر وہ قبر میں پڑا رہتا ہے‘‘(ترجمہ قرآن دیباچہ صفحہ ۵۵ فصل ۴)۔
اس بیان سے بھی ظاہر ہے کہ نہ صرف قرآن ہی فضول ہے بلکہ حدیثوں کا بھی یہی حال ہے ۔دیکھئے ناظرین جن لوگوں کو اپنی طرف سے ہدایت کرنے آئے انہی سے سیکھ کر انہیں کو سکھانے لگے ۔بے شک ایسے معلم اور ایسی تعلیم کی ہر گز ضرورت نہ تھی جس میں اور لوگوں کی تعلیموں اور بیانوں کا صرف انتخابی مجموعہ اور جس حال کہ قرآن کی عدم ضرورت ایسی مصرح ہے تو بائبل جو اصلی قدیمی اور الہامی کتاب ہے کیوں نہ مانیں۔اے برادران اہل اسلام اس کم ترین کی عرض کا خیال رکھنا ،حق تعالیٰ آپ سبھوں کو حق پر لائے۔
فصل ہفتم
ضرورت انجیل مقدسہ اور عدم ضرورت قرآن کی توضیح
منشور محمدی مطبوعہ ۲۵ ماہ ذوالحجہ ۹۷ ہجری نمبر۳۶ میں ہمارے مولانا صاحب نے نمبر ۶ تک ضرورت قرآن کے بارے میں اور بھی شوق دکھا یا ہے۔مگر دراصل کسی میں قرآن کی ضرورت ثابت نہ کی ۔صرف ادھر ادھر کی باتیں کر کرا کے عنوان میں ضرورت قرآن لکھ دیا ہےجن میں سے پرچہ ہٰذا کے نمبر ۶،۵ کا جو ہم نے پیشی میں رکھے ہیں جواب لکھا جاتا ہے اور یہ اس لیے نہیں کہ ان سے قرآن کی ضرورت ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن اس لیے کہ انجیل مقدس کو بھی عدم ضرورت قرآنی میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ نے اس بات کو زور دے کے لکھا ہے ۔لہٰذا ہم ان باتوں کو ناظرین کے سامنے رکھ کر جواب دیں گے۔
وَہُوَ ہٰذا
(اور وہ یوں ہے)
قَولُہ‘پہلے ہم پادری صاحب سے سوالیہ دریافت کرتے ہیں کہ جب بقول جناب کے (اور دراصل بھی یوں ہی ہے )عہد عتیق میں ہر ایک قانون اور تعلیم الخصوص تعلیم توحید ایک زور اور کثرت سے موجود تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل کس اصول اور مقصد کے ارواج اور پورا کرنے کے واسطے دی گئی تھی(قرآن کی پھر بھی گنجائش نہیں اس کی ضرورت اور بھی کہیں دو رجا پڑی ۔کیا اس بات کا خیال نہ آیا کہ قرآن انجیل سے زیادہ فضول ٹھہرا)۔وہ کون سا اصول اور مقصد تھا جو بائبل مقدس یعنی عہد عتیق میں مندرج ہونے سے رہ گیا اور اس کو انجیل نے پورا کیا۔۔۔ اناجیل میں جس قدر اخلاقی اصول بیان ہوئے ہیں وہ سب بہ ہیئت مجموعی توریت میں پائے جاتے ہیں۔ساری توریت اور صحف عتیقہ نہ دیکھو صرف امثال کی کتاب کو ہی غور سے دیکھئے پھر معلوم ہو جائے گا کہ انجیل کو سارے عہد عتیق سے کیا نسبت ہے۔(اس حال میں تو قرآن کی ضرورت ثابت کرنا سراسر عبث ہے۔اس کو ترک کرنے ہی میں مصلحت ہے۔)
واضح ہو کہ انجیل ان ہی اصولوں کا اظہار کرنے سے جو عہد عتیق میں مندرج ہیں فضول نہیں ٹھہرتی کیونکہ ان کی نہ صرف تائید کرتی بلکہ اکثر باتوں کو ایسی تشریح کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ جس کے بغیر و ہ ایک مقید اور نا تمام صورت رکھتی ہیں اور انجیل اس طور کا بیان کر کے خود ہی ظاہر کرتی ہے کہ اس میں اور توریت اور انبیا میں ایک نسبت ہے ۔توریت ہی کی بنا پر اتمامی(اتمام۔تمام کرنا،تکمیل) تعلقات پڑھائے ہیں حتیٰ کہ عہد عتیق اور جدید ایک ہی سلسلہ کے دو جزو ٹھہرتے ہیں۔ہر دو میں ایسی نسبت ہے جیسی کسی چیز کے شروع اور انجام میں ہوتی ہے ۔اس حال میں انجیل کی عدم ضرورت کا خیال دل میں لانا اشارۃً یا اور لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ کتب عہد عتیق میں صراحتاً غلط ہیں کیونکہ ان میں بہت کچھ کہا گیا ہے جو کبھی پورا نہیں ہوا ۔ ہاں انجیل کو برطرف کریں تو جھوٹ اور بے ہودگی میں عہد عتیق کے برابر کوئی اور کتاب نہ ٹھہرےگی ۔پس توضیح امر ہٰذا کے لئےہم مسیح کے اس قول کو پیش نظر رکھیں گے یعنی’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں‘‘ (متی ۱۷:۵) ۔باوجو د موجودگی عہد عتیقہ کے یہی ایک قول انجیل کی ضرورت کے لیے مکتفی ہے۔اس لئے کہ اگر نبوت کی صداقت کے لئے اس واقع کی ضرورت ہے جس کی وہ خبر ہے اور اگر کسی امر کی ناتمامی اپنے اتمام کی محتاج ہے تو توریت اور صحف ابنیا ئےسابقین کے لیے انجیل کی ضرورت ہے ۔عہد عتیق میں ایک شخص عظیم کی آمد آمد رنگ رہی ہے۔ اس کے کام ، کلام، نام اور اوصاف بھی پیشتر ہی مشتہر ہو چکے تھے ۔ا س حال میں اگر وہ مرد ممسوح ظاہر نہ ہوتا تو اس بیان سابقہ کی کیا نوبت ہوتی ۔اس لئے خداوند یسوع مسیح نے فرمایا کہ میں توریت اور نبیوں کی کتابیں پوری کرنے کو آیا ہوں’’ ۔۔۔ضرُور ہے کہ جِتنی باتیں مُوسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبُور میں میری بابت لکھی ہیں پُوری ہوں‘‘ (لوقا۴۴:۲۴) اور یہ تکمیل مسیح یسوع نے بہر صورت مطلوبہ کر دکھائی ۔
پس اول مقاصد اخلاقیہ کی بابت واضح ہو کہ وہ بدیہی صداقتیں ہیں ،مگر انسان ان سے غافل رہ سکتا ہے اور ان کے برخلاف یا عوض میں جھوٹی باتیں کھڑی کر کے ان کے علم وتعمیل سے برگشتہ ہوسکتا ہے اور ایسا ہی ہوا ۔ جب ایسا ہی وقوع میں آچکا تو حق تعالیٰ نے بنی آدم میں سے ایک قوم کو برگزیدہ کرکے وہ امور گویا دوبارہ بتائے ،مگرا ور باتیں ان کے متعلق کیں جو محض اس بر گزیدگی پر اثر کرتی ہیں ۔اس لئے ضرور تھا کہ جب تشخیص کا زمانہ پورا ہوتو وہ صداقتیں اپنی ذاتی عمومیت کے پایہ پر لائی جائیں مثلاً، جب مسیح نے فرمایا کہ ’’ اُس نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے‘‘ (متی ۳۸،۳۷:۲۲) تو اس کو ان شرعی احکام ، شہادتوں اور حقوق کی قید سے نکا ل کر وسعت دی جن کی استثنا با ب ۱۶ اور اور جگہوں میں تاکید آئی ہے۔کیونکہ وہ احکام وغیرہ صرف بنی اسرائیل کے لیے خدا کی عبادت کا ذریعہ تھےاور پھر فرمایا کہ ’’ خُدا رُوح ہے اور ضرُور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچّائی سے پرستش کریں‘‘(یوحنا۲۴:۴)۔یاد رہے کہ خدا کو پیار کرنے میں فقط اس کی ہستی کا اقرار ہی نہیں بلکہ ایمان با اعمال شامل ہے یعنی اس کی صحبت میں خوش رہنا اور اسی کی عبادت کرنا اور اس کے احکام بجا لانا کیونکہ یوں تو ’’ شیاطین بھی اِیمان رکھتے اور تھر تھر اتے ہیں‘‘ (یعقوب۱۹:۲)۔
پھر دوسرے حکم کو بھی ان انقیادی تعلقات سے جو اس کی عمومیت کی بطریق عارضی مانع تھیں بری کر کے شریعت کا اصل مدعا بتاتا ہے،مثلاً توریت میں محبت کا حکم ہے کہ اپنے پڑوسی سے دوستی رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت(احبار ۱۸:۱۹ اور استثنا۶:۲۲)۔ان دونوں مقاموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دوستی اور عداوت محدود کی گئی تھی۔ یہ پڑوسی اسی قوم کے لوگ تھے اور غیر جو اس جماعت میں شامل نہ تھے بلکہ مخالف تھے ،ان سے عداوت کا حکم ہے ۔پس مسیح اس حد کو بے حد کرنے آیا اور یوں کیا’’لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تُم اپنے محبّت رکھنے والوں ہی سے محبّت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا مُحصول لینے والے بھی اَیسا نہیں کرتے ؟ اور اگر تُم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو ؟ کیا غَیر قوموں کے لوگ بھی اَیسا نہیں کرتے ؟ پس چاہیے کہ تُم کامِل ہو جَیسا تمہارا آسمانی باپ کامِل ہے‘‘(متی ۴۴:۵۔۴۸)۔ پھر کہا گیا کہ تو خون نہ کرنا اور جوکوئی خون کرے عدالت میں سزا کے لائق ہو گا(خروج ۱۳:۲۰ اور۱۲:۲۱۔۱۴)۔اس پر مسیح نے تشریحاً یہ زیادہ کیا کہ میں تمہیں کہتا ہوں جو کوئی اپنے بھائی پر بے سبب غصہ ہو عدالت میں سزا کے قابل ہوگا۔اس سے خون کے ارادے کی جڑ کو دل سے دور کیاتاکہ خون کی نوبت ہی نہ پہنچے، لیکن انسان کی طبیعت تو واقعی خون کو خون کہتی اور اس کی سزا دیتی ہے اور توریت میں بنی اسرائیل کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے سزائیں مقرر ہوئیں ،مگر مسیح اس حکم کو ان سے بری کر کے عمومیت دیتا ہےاور صرف ظاہری خون ہی کی نہیں بلکہ اس کی بیخ و بنیاد کی سزا یابی کی آگاہی دیتا ہے۔اسی طرح اور امور اخلاقیہ کی اصلی تشریح بیان کی ہے اور ان احکام کو سب کے اور ہر ایک کے لیے واجب ٹھہرایا ہے۔یاد رہے کہ ان احکام کی نسبت یہود کے خیال توریت کے اصل مدعا کے خلاف ہو رہے تھے ۔لہٰذا علاوہ اس تشریح کے ا ن کی خلاف تعبیروں کے برخلاف بھی توریت کو سچا ثابت کیا ہے ۔ہاں ضرور تھا کہ یہ باتیں اور اَور بھی جو توریت میں مقاصد اخلاقیہ کےمتعلق عارضی طور سے ٹھہرائی گئی تھیں ان کی معیاد پر کہے کہ پورا ہوا،مثلاً جورو کو چھوڑنے اور سبت کے متعلق احکام میں ایسی ہی عارضی باتیں تھیں(متی ۳:۱۹۔۹ اور ۱:۱۲۔۸) اور وہ بھی مسیح کے آنے سے اپنے انجام کو پہنچیں اور ان کا واجبی رواج قائم ہے۔
دوم واضح ہو کہ اس مرد ممسوح کی بابت نبیوں نے بہت خبریں طرح طرح کی لکھی ہیں۔ا ن کا پورا ہونا نہایت ضروری تھا اور انجیل اسی لیے ظاہر ہوئی کہ ان کی صداقت ثابت کرے۔ ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔پس معلوم ہو کہ جیسا ہم نے پیشتر فصل سوم میں بیان کیا تھا ، اب پھر کہا جاتا ہے کہ کل بائبل کا مقدم مآل(جائے رجوع۔نتیجہ۔انجام) حیات ابدی ہے اور اس کے لئے امور اخلاقیہ ضروری ہیں کیونکہ انہی کی تعمیل دل کو پاک رکھ سکتی ہے اور گناہ یعنی ان کی نافرمانی انسان کو اس تحصیل مآل سے محروم رکھتا ہے۔اب توریت میں اس نافرمانی کا فدیہ وہ احکام ہیں جو قربانیوں کو شامل کرتے ہیں اور اگر غور سے دیکھیں تو وہ قربانیاں شرع اخلاقی کے قائم رکھنے اور دلوں پر ثابت کرنے کے لیے تھیں۔ہر ایک قربانی ان میں سے کسی نہ کسی عدولی کا فدیہ ثابت ہو سکتا ہے(ہماری مراد ان قربانیوں سے نہیں جو حیض وغیرہ کی نسبت تھیں)۔ دیکھو خصوصاً احبار چوتھے سے دسویں باب تک۔اسی طرح عہد جدید میں ہے، جس میں گناہ کا فدیہ مسیح ہے تاکہ انسان حیات ابدی سے محروم نہ رہیں ۔ اس کی بنا توریت کے انہی احکام پر ہے کیونکہ وہ قربانیاں ایک حقیقی قربانی کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ا ن کا رواج اسی کے ظاہر ہونے تک تھا اور یہ بات آگے ہی کتب انبیا میں درج ہو چکی تھی ۔چنانچہ یسعیاہ لکھتا ہے ’’ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سب سے گھایل کِیا گیا اورہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہُوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تَو بھی اُ س نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظُلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کِس نے خیال کِیا کہ وہ زِندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا ؟ میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔۔۔جب اُس کی جان گُنا ہ کی قُربانی کے لِئے گُذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عُمر دراز ہوگی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پُوری ہوگی‘‘(یسعیاہ ۵:۵۳۔۱۰)۔ پس دیکھو کہ باوجود موسوی قربانیوں کے ایک اور گناہ کی قربانی کی خبر ہے ۔کسی بیل اور بکری کی نہیں مگر ایک مر د غم ناک کے قربان ہونے کا بیان ہے۔پھر دانی ایل اور بھی صاف طور سے نام لے کر بیان کرتا ہے ’’ تیرے لوگوں اور تیرے مُقدّس شہر کے لئے ستّر ہفتے مُقرّر کِئے گئے کہ خطاکاری اور گُناہ کا خاتمہ ہو جائے۔ بدکرداری کا کفّارہ دِیاجائے۔ ابدی راستبازی قائِم ہو۔ رویا ونبُّوت پر مُہر ہو اور پاکترین مقام ممسوح کِیا جائے‘‘(دانی ایل۲۴:۹)۔’’ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسوح قتل کِیا جائے گا اور اُس کا کُچھ نہ رہے گا اور ایک بادشا ہ آئے گا جِس کے لوگ شہر اور مقدِس کو مسمار کریں گے اور اُس کاانجام گویا طُوفان کے ساتھ ہوگا اور آخِر تک لڑائی رہے گی۔ بربادی مُقرّر ہوچکی ہے‘‘ (آیت۲۶)۔ ’’ اور وہ ایک ہفتہ کیلئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ مَو قُوف کرے گا‘‘،الخ۔پھر دیکھو یرمیاہ۳۱:۳۲۔۳۴’’دیکھ وہ دِن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے جب مَیں اِسرائیل کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھُوں گا۔ اُس عہد کے مُطابِق نہیں جو مَیں نے اُن کے باپ دادا سے کِیا جب مَیں نے اُن کی دستگیری کی تاکہ اُن کو مُلکِ مِصرسے نِکال لاؤں اور اُنہوں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ مَیں اُن کا مالِک تھا خُداوند فرماتا ہے۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اُن دِنوں کے بعد اِسرائیل کے گھرانے سے باندھُوں گا۔ خُداوند فرماتا ہے مَیں اپنی شرِیعت اُن کے باطِن میں رکھُّونگا اور اُن کے دِل پر اُسے لکھوں گا اورمَیں اُن کا خُدا ہُوں گا اور وہ میرے لوگ ہونگے‘‘،الخ۔پس جب اس کو نیا کہا تو پہلا پرانا ہوا اور جب نیا عہد باندھا تو پرانا ختم ہوا ہاں اس کے ختم ہونے کی ضرروت تھی۔دیکھو ان باتوں کا پورا ہونا ازحد ضروری تھااو ر مسیح نے اس لئے فرمایا کہ میں توریت اور انبیا کو پورا کرنے آیا ہوں اور صلیب پر بھی پکار کے کہا کہ ’’پورا ہوا‘‘(یوحنا۳۰:۲۰) اور زندہ ہو کر بھی اس تکمیل کی ضرورت بیان کی (لوقا۴۴:۲۴)۔بایں ہمہ ناظرین نامہ بطرف عبرانیوں غور سے دیکھیں ۔ اس سے معلوم کرو کہ مسیح نے کون سی بات پوری کی جو کتب سابقہ میں تکمیل کی حاجت رکھتی تھی ۔درحقیقت اس قربانی نے قدیم قربانیوں کا دور ختم کر کے آپ ان کا مطلب ادا کیا جس کے لئے وہ مقرر ہوئی تھیں ،یعنی شرع اخلاقی جو ہر انسان پرزور رکھتی ہے اس کی عدم تعمیل یعنی گناہ کا فدیہ دیا تاکہ انسان حیات ابدی سے محروم نہ رہیں ۔اس کفارہ میں یہ فوقیت ہے کہ عام ہے اور کسی خاص قوم کی قید نہیں ۔حالانکہ توریت کی قربانیاں صرف بنی اسرائیل کے لئے تھیں ۔یہ ایک اور بات ہے جو کتب سابقہ میں نہ تھی اور اس کے لئے مسیح کا آنا ضرور ہوا اور اس عہد کا عام ہونا یعنی غیر قوموں کا بھی یہود کے ساتھ نجات میں شریک ہونا کتب سابقہ میں پہلے درج ہو چکا تھا۔دیکھو یسعیاہ۱۹:۶۶۔۲۳،۲۱ اور ملاکی ۱۱،۱۰:۱ اور استثنا ۲۱:۳۲ بمقابلہ رومیوں۱۹:۱۰ اور یہ عمومیت موسوی قربانیوں سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے مسیح کا آنا اور یہ کام نا تمام تمام کرنا ضرور تھا ،دیکھو متی ۲۰:۲۸۔
قربانیوں کے متعلق ایک اور امر ہے یعنی کہانت۔ ۱۱۰ زبور میں ایک نئی کہانت کی خبر ہے جو ملک صدق کی صف میں ہو گی ۔اس کا پورا ہونا ضرور تھا اور یہ نا تمام امر مسیح نے پورا کیا ۔دیکھو عبرانیوں باب۷ اس سے لاوی والی کہانت کا ختم ہونا ظاہر ہے اور پھریسعیاہ ۲۱:۶۶ میں غیر قوموں کے کاہن اور لاوی قائم ہو نے کی خبر ہے۔پس اس کہانت کا دور مسیح نے اپنے کلام اور کام سے ختم کیااور خدا نے اپنے انتظام سے ظاہر کیا کہ ان کی معیاد وہیں تک تھی ،حتیٰ کہ نہ وہ ہیکل ہی رہی اور نہ وہ قربانیاں اور نہ لاوی والی کہانت رہی ۔لیکن مسیح خود ملک صدق کے طور پر ہمیشہ کے لیے سردار کاہن ہےاو ر اس کے خدام الدین ان قدیم کاہنوں کی جگہ روحانی نذریں ہر جگہ گزرانتے ہیں۔
ا س کے ساتھ یروشلیم اور ہیکل کی بابت یاد رہے کہ سوائے یروشلیم کے اور کسی جگہ قربانیاں کرنے کا حکم نہ تھا(دیکھو استثنا ۱۴،۱۳،۱۱:۱۲)اور قید بھی خالی از مطلب نہ تھی ،یعنی جب مسیح مصلوب ہو چکے اور وہ بھی یروشلیم میں پھاٹک کے باہر(عبرانیوں ۱۲:۱۳)۔تب بعد اس کے کوئی جگہ قربانی کی نہ رہی اور یہود اس سے (ہیکل سے) محروم ہو کر معلوم کریں کہ پھر گناہوں کے لیے کوئی قربانی باقی نہیں(عبرانیوں ۲۶:۱۰) اور ضرور اس اعلیٰ اور حقیقی قربانی پر یقین رکھ کے اپنے گناہوں سے پاک ہوئیں اور بچیں ،ورنہ اپنے گناہوں میں مریں جیسا خداوند یسوع مسیح نے ا نہیں صریحاً فرمایا کہ اگر تم ایمان نہیں لاتے کہ میں ہی ہوں تو تم اپنے گناہوں میں مرو گے (یوحنا۲۴:۸) اور یہود کا حال ایسا ہی ہوا اور اب ویسا ہی ہے۔ کہاں ہے وہ ہیکل ، وہ قربانیاں اور وہ کہانت ؟پس یہ مقاصد ہیں جو عہد عتیق میں بطریق نا تمام مندرج ہوئے اور مسیح کو ان کے پورا کرنے کی ضرورت ہوئی۔منجملہ اس کے اور بہت ایسی باتیں ہیں جن کا پورا ہونا ضرور تھا ،جیسے اس مرد ممسوح کا نبی اور سلطان ہونا ،کنواری سے بیت لحم میں پیدا ہونا اورمر کر زندہ ہونا وغیرہ وغیر ہ۔ مگر اب اسی پر اکتفا کیاجاتا ہے اور حسب ضرورت پھر دیکھا جائے گا۔انجیل میں یہ بات مدنظر ہے کہ عیسی ٰ وہی مسیح ہے اور ان سب باتوں کی تکمیل کے لیے انجیل کی اشد ضرورت تھی۔ اس سے عہد عتیق اور جدید میں لازمی نسبت ثابت ہوتی ہے۔ہاں مولانا صاحب ایسی نسبت جیسی پو پھٹنے اور طلوع آفتاب میں ہوتی ہےاور جب نیّر اعظم نکل آیا تو بعد اس کے کسی قندیل(ایک قسم کا فانوس جس میں چراغ جلا کر لٹکاتے ہیں) کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ نہیں ،وہ بے فائدہ ہے۔
قَولُہ‘۔اگرحقیقی تکمیل ہوتی اور مسیحی اس پر عمل کرتے تو مسیحیوں اوریہودیوں میں کسی قسم کی منافرت(نفرت) اور مخالفت نہ واقع ہوتی ۔ یہودیوں کی منافرت کی وجہ یہی ہے کہ جناب موصوف نے توریت کے سارے حکموں کو جڑ سے نیست و نابود کر دیا۔
واضح ہو کہ یہ وجہ عدم تکمیل کی بالکل غلط ہے۔ منافرت سے ثابت نہیں ہوتا کہ حقیقی تکمیل نہیں ہوئی ۔اس منافرت کا سبب ان کی اپنی نادانی اور ضد تھی۔ یہود کی اس کا رروائی کی بھی انبیائے سلف خبر دے گئےتھے۔چنانچہ داؤد کہتا ہے کہ ’’وہ پتھر جسے معماروں نے ردکیا کونے کا سرا ہوا‘‘الخ(زبور۲۲:۱۱۸۔۲۳)۔اس کے ساتھ دیکھو متی۳۳:۲۲۔۴۳ جہاں مسیح نے تمثیلاً بھی یہود کو سمجھایا اور پوچھا ’’۔۔۔کیا تُم نے کِتاب مُقدّس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جِس پتھر کومعماروں نے ردّ کِیا۔ وُہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خُداوند کی طرف سے ہُؤا۔ اور ہماری نظر میں عجِیب ہے ؟ اِس لئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ خُدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دیدی جائے گی۔ ‘‘
پھر دیکھو یسعیاہ ۱۵،۱۴:۸ بہ مقابلہ۱۔پطرس۶:۲۔۸ جہاں یہود کے ٹھوکر کھانے کی صریح خبرہے۔ پس یہ انکاراور ٹھوکر کھانا یہود کے ذمہ ہے۔ مسیح نے کئی مرتبہ ان کی نافہمی اورضد پر ملامت کی اور یہ منافرت ان کی اپنی نادانی سے پیدا ہوئی ہے۔انہوں نے حقیقی مسیح کو نہ مانا اور مخالفت کی اور اس وقت سے اب تک کسی مسیح کی آمد کے لیے سر پٹکتے ہیں ۔یہ بے جا ضد انہوں نے ہر صدی میں دکھائی اور کبھی اِس کو کبھی اُس کو(محمد پر بھی کچھ عرصہ دل لگا کر ہٹ گئے) مسیح قرار دیا، مگر آخر ہر بار دھوکے کھا کر مایوس ہو رہے ہیں اور عجیب مختلف باتیں سوچ رکھی ہیں۔اس سے معلوم کرو کہ ان کی منافرت کی بنا صداقت پر نہیں ،مگر نافہمی اورضد پر ہے۔اس حال میں یہودی اور آپ بھی رومیوں باب ۱۱،۱۰ کاغور سے مطالعہ کریں تو اول یہودیوں کی ضد ،نافہمی اور مایوسی جاتی رہے اور پھر آپ نامناسب تحکم(حکم کرنا۔زبردستی) سے بازگشت کریں اور انجیل کی ضرورت اور قرآن کی عدم ضرورت پر صاد کریں تاکہ معلوم ہو کہ جس زمانہ اور جگہ میں خداوند عیسیٰ نمودار ہوا،بموجب اخبار عتیقہ کے وہی زمانہ مسیح کے ظاہر ہو نے کا تھا اور کہ ان دنوں یہودی مسیح کے منتظر تھے،انہیں کے کاموں سے ظاہر ہے ۔چنانچہ انہی ایام میں تھیوڈس نے کچھ ہونے کا دعویٰ کیا اور بہتیرے اس کے معتقد ہوئے ۔یوسیفس مورخ اس کی بابت کہتا ہے کہ:
اس نے لوگوں کے ایک بڑے حصہ کو ترغیب دی کہ اپنا اسباب لے کر میرے پیچھے یردن دریا پر آئیں کیونکہ اس نے انہیں کہا کہ میں نبی ہوں اور اپنے حکم سے دریا کو دو حصہ کر دوں گا اور ان کے لیے سہل رستہ ہوگااور بہتیروں نے اس کی باتوں سے فریب کھایا( انٹی کوئی ٹی کتاب۲۰ باب۵) ۔
پھر کتاب ہٰذا کے باب۸ میں لکھتا ہے کہ :
ان جعلسازوں اور فریبیوں نے لوگوں کو بہکایا کہ جنگل میں ہمارےپیچھے پیچھے آؤ اور دعویٰ کیا کہ ہم تمہیں صریح عجائبات اور نشانیاں دکھائیں گے جو انتظام الہٰی سے ہوتے ہیں اوربہتیرے جو ا ن کے فریب میں آگئے ہلاک ہو ئے۔
اس کے بعد ایک مصری کا ذکر کرتا ہے۔ا س نے بھی نبی ہو نے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو کہا کہ :
میرے ساتھ زیتون کے پہاڑ پر چلو اور وہاں سے میں تمہیں دکھاؤں گا کہ میرے حکم سے یروشلیم کی دیواریں گر پڑیں گی اور میں ان گری ہوئی دیوارنوں سے تمہیں شہر کے اندر داخل کروں گا۔یہ لوگ بھی فریب کھا کے برباد ہو ئے۔
پھر جنگ یہود کتاب ۷ باب ۱۱ میں ایک یوناتن جلاہے کا ذکر ہے ۔ا س نے معجزے دکھانے کے وعدے پر لوگوں کو جنگلوں میں اپنے پیچھے بلایا ۔ان کو گٹلس نے سوار اور پیادے بھیج کر ہلاک کیا اور بعضوں کو قید کیا اور کئی ایک مثالیں ہم چھوڑے دیتے ہیں۔انہی سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں یہودیوں کے دل مسیح کے انتظار میں بے قرار ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے یہود نے ہر کس و ناکس کو نبی مان کر پیچھا نہ کیا تھا اور عجب ماجرا ہے کہ جب حقیقی مسیح ظاہر ہوا تو یہود نے اس سے انکار کیا ۔یہاں تک کہ اس کو قتل کروا کے اس کا خون اپنے اور اپنی اولاد پر لیا اور اس کا بدلہ وہ ہے جو آج تک یہودی بھوگ رہے ہیں اور ہم تم دیکھ رہے ہیں اور تاکہ یسوع کو مسیح نہ مانیں۔ وہ ضد سے کسی نہ کسی کو ہر صدی میں مسیح سمجھ کر دھو کا کھاتے رہے ہیں اور اپنی ضد کی کارروائی میں کبھی کامیاب نہ ہوئے۔
وہ نہیں سوچتے کہ ان کی امید کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے ۔ ان کا کل کارخانہ معدوم ہو گیا ہے پھر بھی جھوٹی امید اور ضد کو قائم رکھے جاتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے کبھی کسی کو مسیح گردانا اور کبھی کسی زمانہ کو مسیح کی آمد کا زمانہ قرار دیا ،مگر ہمیشہ مایوس رہے،جیسا ذیل کے بیان سے ظاہر ہے جو مسٹر لیسلی صاحب کی کتاب (میتھدوہٹہ دی جیوز) سے لیا گیا ہے۔بہ عہد ٹراجان(تراجان) ۱۴ء میں ایک انڈریومسیح مانا گیا اور ہزاروں یہودیوں کی بربادی کا باعث ہوا۔ ایڈر مان کے عہد میں بارکو سب کو مسیح سمجھا اور ایسی تباہی یہود پر آئی کہ ویسی بخت نصر یاٹائٹس کے عہد میں نہ ہوئی تھی ۔اس قدر ہلاکت اٹھا کے یہود نے اس کو جھوٹا مسیح کہا۔پھر۴۳۴ ء میں جزیرہ کریٹ میں ایک جھوٹا مسیح اٹھا اور ا س نے موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ میں کریٹ کے یہودیوں کو سمندر میں سے خشک زمیں پر پار کروں گا اور بہتیروں کو ترغیب دی کہ سمند ر میں کودیں ۔پھر ۵۲۰ء میں عرب میں ڈونان نامی ایک جھوٹا مسیح اٹھا اور اپنے پیرو یہودیوں کے ساتھ نگرا شہر میں مسیحیوں پر حملہ کیا اور بہت ظلم و جفا کیا اور آخر مارا گیا۔پھر۵۲۹ء میں جو لیان نامی ایک جھوٹے مسیح نے یہودیوں اور سا مریوں سے بذریعہ فریب کے بغاوت کروائی اور اس سبب ان میں سے بہتیرے مارے گئے ۔پھر اسی صدی میں محمد سے بھی دھوکا کھا یا اور مسیح سمجھ کر کچھ عرصہ اس کے گرد رہے اور آخر طرفین نے ایک دوسرے سے ترک اختیار کیا۔پھر ۷۲۱ء میں انہوں نے ایک سریانی کی جس نے کہا کہ میں مسیح ہوں پیروی کی ۔پھر ۱۱۳۷ء میں انہوں نے فرانس میں کسی کو مسیح تصور کیا اور اس سبب اس ملک سے نکالے گئے بہتیرے ان میں سے ہلاک ہوئے ۔پھر۱۱۳۸ ء میں ملک فارس کے اندر مسیحائی کا دعویٰ کر کے ہتھیار اٹھائے اور وہاں کےیہودیوں کی مصیبت کا باعث ہوا۔پھر ۱۱۵۷ ء میں یہودیوں نے ملک ہسپانیہ میں کسی مسیح کے زیر ہو کر بغاوت کی اور قریباً کل برباد ہوئے۔پھر۱۱۶۷ء کے اندر سلطنت فنیر میں ایک اور مسیح کے نیچے یہود نے بہت تکلیف اٹھائی ۔پھر اسی سن میں عرب کے اندر ایک اور اٹھا اور اسی صدی میں دریائے فرات کے پار ایک اور مسیح اٹھا اور یہ نشان دکھانے کا وعدہ کیا کہ میں کوڑھی ہو کر سو رہوں گا اور تندرست اٹھوں گا۔اسی صدی میں یہمو نایڈنیر یہودی عالم کہتا ہے کہ وہ مشہور جھوٹا مسیح فارس میں اٹھا جو ڈیوڈ رالرائے کہلایا ۔یہ بڑا جادو گر تھا اور بہتیرے یہودیوں کو دھوکا دیا۔پھر ۱۲۲۳ء میں یہودیوں نے جرمنی میں ایک جھوٹے مسیح کی پیروی جس کو وہ ابن داؤد کہتے تھےاور اسی برس وہ ایک عورت سے مسیح کے پیدا ہونے کی امید رکھتے تھے جو درمس کی تھی،لیکن اس عورت کےلڑکی پیدا ہوئی ۔پھر ۱۴۶۵ء میں جب سارا بسن یعنی محمدی عیسائیوں پر حملہ کرتےتھےتو یہودیوں نے سمجھا کہ یہ مسیح کے آنے کا وقت ہےاور اسی سال ایک یہودی نجومی ربی ابرہام نے نبوت کی کہ مسیح کے آنے کا وقت نزدیک ہے۔ربی آ بریانل نے بھی ایسی خبریں دی تھیں۔
پھر۱۴۹۷ء میں اسمعٰیل سوفس نے یہودیوں کو دھوکا دیا کیونکہ اس نے پارتھیا ، فارس اور مسوپتامیہ میں فتح یابی حاصل کر کے یہو دیوں کو دھوکا دیااور ایک محمدی فرقہ جاری کیا۔۱۵۰۰ء میں ربی اسخر نیملا جرمنی میں ظاہر ہوا اور کہنے لگا کہ میں مسیح کا پیش رو ہوں اور کہ مسیح اسی سال آئے گا اور یہودیوں کو ملک کنعان میں بحال کرے گا۔ اکثر یہودی ہر کہیں اس کی مان گئے اور مسیح کے آنے کی تیاری کے لیے روزوں اور نمازوں کے وقت مقرر کیے۔پھر ۱۶۶۶ء میں وہ مشہور جھوٹا مسیح سے تہائی زیوی اٹھا اور اپنی جان بچانے کی خاطر آخر محمدی ہو گیا۔پس دیکھو کہ کس طرح یہودی عیسیٰ ناصری کو مسیح نہ ماننے کی ضد پر ہر صدی میں مسیح مسیح کہتے رہے ہیں ۔یہ مسیح ہے، وہ مسیح ہے ان کی نافہمی اور ضد کے سبب ان کے منہ سے صادر ہوتا رہا ہے۔اس لئے ان کی منافرت اور مخالفت سے تکمیل میں نقصان نہیں آتا۔
بجواب اللہ دیا
اب ان باتوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو منشور محمدی مطبوعہ رجب المرجب۱۲۹۸ہجری نمبر۱۹ میں محمدیوں کی طرف سے قرآن کی ضرورت کی خاطر پیش کی گئی تھیں اور وہ توضیح جواز منجانب اس کے جواب میں لکھی گئی تھی نذرناظرین کی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے۔
قَولُہ‘۔جب یہ امر خود پادری صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ تمام بائبل مختلف زمانوں میں جدا جدا انبیا علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے تو کیا معنی جو بار بار احکام کے نزول کو فضول قرار دیتے ہیں۔اس قاعدہ کی بنیاد توصرف نافہمی یا دھوکا دہی پر معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب جدا جدا زمانہ میں انبیا علیہ السلام مبعوث ہوئے تو خداوند تعالیٰ نے ان کو خلعت رسالت سے ممتاز فرما کر کسی قوم کی طرف بھیجا تو ایک قانون اسی قوم کے لئے جو ان کی تہذیب ظاہر و باطن کو آراستہ کرے ،اس رسول کے ہمراہ عنایت کیا ۔بعد اس کے دوسرے زمانہ میں جب دوسرا رسول آیا وہی قانون ا س کو عنایت ہوا۔مگر اس قانون جدید میں کچھ کچھ قانون اول کی تشریح اور کچھ احکام کی منسوخیت جو قوم اول کو بطور میعاد کے جس کی معیاد علم الہٰی میں موجود تھی نازل فرمائی اور باقی کل احکام اخلاقی اور فرمان الہٰی قانون اول اور قانون جدید میں ضرور ایک ہی ہونا چاہیے انتہیٰ۔
اول ۔واضح ہو کہ میری غرض دھوکا دینے کی نہیں ہے لیکن بے ریا محبت کی رو سے آپ لوگوں کو ایک فریب عظیم سے رہا کرنے کی ہے۔ پس واضح ہو کہ انبیا ئے بائبل ایسے نہیں جیسے آپ بیان کرتے ہیں۔آپ کا بیان محمدی ڈھب پر ہے،کیونکہ انبیا خد اکی شریعت یعنی توریت کے محافظ اور معلم تھے۔ان میں سے کسی نے کوئی نیا قانون سوائے اس پہلے کے پیش نہ کیا۔وہ توریت ہی کے احکام کی تعمیل کے لیے بنی اسرائیل کو تاکید کرتے تھے۔صفات الہٰی اور فرائض انسانی جو توریت میں مندرج ہو چکے تھے ، ان سے آگاہ کرتے رہتے تھے اور ہر عدول کے لئے انتقام الہٰی کی خبر دیتے تھےاور اس کے وقوع سے انہیں عبرت دلاتے تھے۔توریت کے امور اخلاقیہ کی نہ صرف تاکید کرتے بلکہ انتظام الہٰی سے ان کی صداقت ان پر ثابت کرتے تھے ۔وہ سب واقعات جو بنی اسرائیل یا دیگر اقوام کی نسبت کتب انبیا اور کتب تواریخ میں قلم بند ہوئیں ہیں ،ان سے بھی لوگوں کی ہدایت مدنظر تھی ۔حتیٰ کہ انجیل میں بھی انہی کی طرف رجوع کرایا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ انبیا توریت ہی کے معلم اور نگہبان تھے اور کوئی اپنا نیا قانون نہ لایا ،انہیں کتابوں سے ظاہر ہے۔وہ اس کا ہدایت نامہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں (دیکھو یشوع۶:۲۳۔۷) اور جتنے قاضی ہوئے ان کے عہد میں جو ثواب اور سزائیں بنی اسرائیل نے کمائیں وہ تور یت کی تعمیل یا عد ول کا ظہور ہے۔زبور کی کتاب میں داؤد بارہا شریعت کی طرف رجوع کرتا اور توجہ دلاتا ہے۔دیکھو پہلا زبور اور ۱۹ اور۴۰ اور ۱۳۶،۱۳۵،۱۰۶،۱۰۵،۸۱،۷۸،۷۷اور خصو صاً ۱۱۹ زبور کل اور پھر اس نے اپنے بیٹے سلیمان کو بھی یہی ہدایت دی(۱۔سلاطین۳:۲۔۴،پھر دیکھونوحہ یرمیاہ۱۷:۲؛دانی ایل۱۱:۹۔۱۳؛یسعیاہ۲۴ ؛۹:۳۰ ؛۵:۲۴؛یرمیاہ ۸:۸ ؛ عاموس۴:۲؛حزقی ایل ۲۴:۴۴)۔اس سے ظاہر ہے کہ کوئی نبی نیا قانون لے کر نہ آیاکیونکہ پیشتر جو ایک موجود تھا۔لیکن ہرایک اپنی الہامی آزادگی کے موافق طرح بہ طرح اسی اول کی پیروی اور تعمیل کی ترغیب دیتا رہا اور نہ وہ اپنی اپنی قوم کے پاس آئے لیکن اسی ایک ہی موسیٰ والی قوم میں بھیجے گئے اور اس کا کوئی حکم منسوخ نہ کیا ،کیونکہ ان کی آمد کی یہ غرض نہ تھی۔ البتہ ایک آدھ حکم جن کی پوری تعمیل نہ ہوئی ان کو پورا کیا ،مثلاً بموجب حکم کتاب استثنا۴:۱۲۔۸بمقابلہ ۲۔تواریخ ۵:۶ ہیکل یروشلیم میں تعمیر کی گئی ،کیونکہ داؤد کے وقت تک کوئی مستقل جگہ عبادت وغیرہ کی قرار نہ پائی تھی۔باوجود ا س کے یہ بھی ظاہر ہے کہ شریعت کی رسمیات اور انقیادی تعلقات عارضی تھے ۔ان کی حد ترویج خد اکےا رادے میں مسیح تک تھی ۔اس لئے اگرچہ انہوں نے خود توریت کا کوئی حکم موقوف نہ کیا تاہم ا س کے ختم ہونے اور ختم کرنے والے کی خبر دینے کی ضرورت ہوئی ،جیسا ہم اور مواضع میں اس امر کا بیان کر چکے ہیں ۔پس صاحب ان انبیا ئےسابقین کا یہ کام تھا۔ آپ ان باتوں پر غور فرمایئے۔
بایں ہمہ یہ بھی واضح ہو کہ بائبل ایک کتاب ہے اور اس کے دوحصے ہیں جو دو زمانوں کے متعلق ہیں۔ایک میں توریت معہ شرح انبیا شامل ہے اور دوسرے میں اناجیل اربعہ(جو مل کے ایک ہی انجیل ہے) معہ شرح حوا رین شامل ہے۔پہلا ابتدائی یا تیاری کا حصہ ہے اور دوسرا اس کا انجام یا تکمیل ہے اور یوں دونوں حصے ایک دوسرے کے محتاج ہو کر ایک ہی کتاب ہے۔ا س لئے ایک کتاب یا اس کے حصے کو پارہ پارہ کر کے پناہ نہ ڈھونڈنی چاہیے۔
دوم۔ جو تعلیم وغیرہ حضرت محمدصاحب قرآن میں کہہ چکے ہیں ان کا ذکر گوش گزار کیا گیا ہے۔پس جس حال کہ انبیا ئے عہد عتیق کے احکام توریت کی ترغیب دیتے رہے اور ان کی زبانی خد انے ہر عدولی کی سزا عائد کی اور آیندہ اصلاح وغیرہ کی خبر دی اور پھر جس حال کہ وہ احکام جو قوم اول کو بطور میعاد نازل فرمائے تھے یعنی عارضی احکام اپنی حد کو پہنچ گئے اور احکام تشریح طلب کی زیادہ تشریح کی گئی اور جو تکمیل طلب تھے ان کی تکمیل ہو گئی اورجو دائمی تھے ان کا دوام قائم کیا گیا ۔ہاں یہ سب مطالب انجیل مقدس سے حاصل ہو چکے تھے ۔تو باقی کیا رہا؟ اس لیے قرآن پاک آپ کی طرز تحریر کی روسے بھی فضول ٹھہرتا ہے۔ اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اس کی پیروی سے کیا حاصل ہے؟ اور سوائے اس کے ان باتوں کا خیال کرو جو قرآن میں لکھی گئی ہیں ۔وہ کیا باتیں ہیں اور کہاں کہاں سے لے کر لکھی گئی ہیں ۔یہ تو نہیں کہ الہامی کتابوں سے مدد پا کر لکھا اور صبر کرتے ،مگر یہ جتانے کے لئے کہ اگلے نبیوں والی باتیں ہی نہیں زیادہ بھی بیان کرتا ہوں (نازل ہوتی ہیں) ۔انسانی روایتوں وغیرہ وغیرہ کو بھی الہامی باتوں کے ساتھ ہی ملا دیا ۔پس قرآن میں نہ صرف غلط بناؤں سے سیکھ کر صداقتوں کی مخالفت کی ہے بلکہ احکام اخلاقی و عارضی معلوم شدہ وغیرہ کو لکھ کر ان کو اپنی طرف سے جتایا ہے اور یوں نبی بننے کا شوق دکھایا ہے ۔اگر نبی ہونا ایسا ہی سہل ہے تو کون نہیں بن سکتا۔
سوم۔جو تعلیم وغیرہ حضرت محمدصاحب قرآن میں کہہ چکے ہیں ان کا ذکر گوش گزار کیا گیا ہے۔پس جس حال کہ انبیا ئے عہد عتیق کے احکام توریت کی ترغیب دیتے رہے اور ان کی زبانی خد انے ہر عدولی کی سزا عائد کی اور آیندہ اصلاح وغیرہ کی خبر دی اور پھر جس حال کہ وہ احکام جو قوم اول کو بطور میعاد نازل فرمائے تھے یعنی عارضی احکام اپنی حد کو پہنچ گئے اور احکام تشریح طلب کی زیادہ تشریح کی گئی اور جو تکمیل طلب تھے ان کی تکمیل ہو گئی اورجو دائمی تھے ان کا دوام قائم کیا گیا ۔ہاں یہ سب مطالب انجیل مقدس سے حاصل ہو چکے تھے ۔تو باقی کیا رہا؟ اس لیے قرآن پاک آپ کی طرز تحریر کی روسے بھی فضول ٹھہرتا ہے۔ اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اس کی پیروی سے کیا حاصل ہے؟ اور سوائے اس کے ان باتوں کا خیال کرو جو قرآن میں لکھی گئی ہیں ۔وہ کیا باتیں ہیں اور کہاں کہاں سے لے کر لکھی گئی ہیں ۔یہ تو نہیں کہ الہامی کتابوں سے مدد پا کر لکھا اور صبر کرتے ،مگر یہ جتانے کے لئے کہ اگلے نبیوں والی باتیں ہی نہیں زیادہ بھی بیان کرتا ہوں (نازل ہوتی ہیں) ۔انسانی روایتوں وغیرہ وغیرہ کو بھی الہامی باتوں کے ساتھ ہی ملا دیا ۔پس قرآن میں نہ صرف غلط بناؤں سے سیکھ کر صداقتوں کی مخالفت کی ہے بلکہ احکام اخلاقی و عارضی معلوم شدہ وغیرہ کو لکھ کر ان کو اپنی طرف سے جتایا ہے اور یوں نبی بننے کا شوق دکھایا ہے ۔اگر نبی ہونا ایسا ہی سہل ہے تو کون نہیں بن سکتا۔
الزامی اعتراضوں کا جواب
منشور محمدی مطبوعہ ۵رجب المرجب ۱۲۵۸ ہجری نمبر۱۹
قَولُہ‘۔پادری صاحب آپ کا قاعدہ اختراعی تو آپ کی بائبل اقدس ہی کی بیخ کنی کرتا ہے۔ دیکھو پیدائش باب۹آیت ۴ میں لکھا ہے کہ’’تُم گوشت کے ساتھ خون کو جواُس کی جان ہے نہ کھانا‘‘۔پھر استثنا۱۶:۱۴ میں بھی خون حرام ٹھہرایا ہے۔ دیکھئے یہ احکام حرمت خون میں دو دفعہ اولاً نازل ہو چکا تو تیسری بار اس کے نزول کی کیا حاجت تھی جو انجیل اعمال الرسل کے باب۱۵ کی ۲۰ آیت میں نازل ہوا۔
واضح ہو کہ جب خدا اس مخصوص قوم کو خاص طور سے احکام فرمانے لگا تو ضرور تھا کہ ہر امرو نہی کو جو پہلے تھا یا نہ تھا ان کے لیے قلم بند کرائے۔ اگر یہ حکم دوبارہ توریت میں درج نہ کیا جاتا تو بنی اسرائیل اس حکم کے زیر بار نہ ہوتے اور وہ خود بھی اس کے نوح والے حکم کو اوروں کے لیے سمجھتے نہ کہ اپنے لیے ،کیونکہ ان کو انہی احکام پر عمل کرنے کا حکم ہواجو توریت میں فرمائے گئے اور اس لیے ضرور ہوا کہ وہ عام حکم بنی اسرائیل کے لیے خاص کیا جائے ۔پھر بتایا بھی گیا کہ کیوں یہ حکم ان کے لئے بھی قائم رہا ،جیسے لکھا ہے کہ ’’ اوراِسرائیل کے گھرانے کا یا اُن پر دیسیوں میں سے جو اُن میں بُودوباش کرتے ہیں جو کوئی کسی طرح کا خُون کھائے مَیں اُس خُون کھانے والے کے خِلاف ہُوں گا اور اُسے لوگوں میں سے کاٹ ڈالُوں گا۔کیونکہ جِسم کی جان خُون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفّارہ کے لئے اُسے تُم کو دِیا ہے کہ اُس سے تمہاری جانوں کے لئے کفّارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خُون کفّارہ دیتا ہے۔اِسی لِئے مَیں نے بنی اِسرائیل سے کہا ہے کہ تُم میں سے کوئی شخص خُون کبھی نہ کھائے اور نہ کوئی پردیسی جو تُم میں بُودوباش کرتا ہو کبھی خُون کو کھائے۔۔۔اِسی لِئے مَیں نے بنی اِسرائیل کو حکم کِیا ہے کہ تُم کسی قسم کے جانور کا خُون نہ کھانا کیونکہ ہر جانور کی جان اُس کا خُون ہی ہے۔ جو کوئی اُسے کھائے وہ کاٹ ڈالا جائے گا، ‘‘الخ۔بنی اسرائیل میں سے جو شخص خواہ اسرائیل کے گھرانے کا ہو خواہ مسافروں میں سے جن کی بودو باش ان میں ہو کسی خون کو کھائے تو میرا چہرہ اس خون کھانے والے کے برخلاف ہو گا اور میں اسے اس کی جماعت میں سے کاٹ دوں گا ،کیونکہ بدن کی حیات لہو میں ہے۔سو میں نے مذبح پر وہ تم کودیا ہے کہ اس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو، کیونکہ وہ جس سے کسی جان کا کفارہ ہوتا ہے سو لہو ہی ہے۔اسی لیے میں نے بنی اسرائیل کو کہا کہ تم میں سے کوئی خون نہ کھائے،الخ‘‘(احبار۱۰:۱۷۔۱۶)۔پس بنی اسرائیل کے لیے توریت میں اس حکم کے دوبارہ نزول کی ضرورت تھی اور کتاب اعمال الرسل میں جو اس کا سہ بارہ ذکر آیا ہے تو وہ بھی ضرورت سے خالی نہیں ہے ۔نہ اس مذکور سے وہ کتاب فضول ٹھہرتی ہے کیونکہ جب احکام رسمی انجیل سے یعنی مسیح کے آنے اور کفارہ ہونے سے اپنی حد ترویج کو پہنچے جن میں یہ حکم مذکورہ بھی شامل تھا تو یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ حکم خون نہ کھانے کا قائم ہے۔اس حکم کو پھر فرمانا ضرور ہوا۔ اس لئے کہ اگر یہ حکم انجیل میں پھر مذکور نہ ہوتا تو غیر قوم عیسائی اور یہودی عیسائی بھی اس سے ویسے ہی بری ہوتے جیسے اور احکام سے ہیں ۔پس دیکھئے حکم اول اپنے دوبارہ اور سہ بارہ مذکور کو فضول نہیں ٹھہراتا ۔سو صاحب سمجھ میں آپ کی نہ آیا اور نافہمی ابتدا ہی میں میرے ذمہ لگائی تھی ۔بات پیچھے کرنا اور پہلے دوسرے کو نافہم کہہ لینا کسی کسی کا کام ہے۔
پھر دوسری نظیر آپ نے تمثیل انگورستان کی دی ہے اور لکھتے ہیں کہ یہ تمثیل اولاً زبور۸۰ اور پھر صحیفہ یسعیاہ علیہ السلام کے پانچویں باب میں بھی مذکور ہو چکی تھی اور اس کی ماقبل عبارت میں کہتے ہیں کہ جب یہ تمثیل روح القدس کی امداد سےحضرت متی نے انجیل میں نقل کردی تو وہی تمثیل روح القدس نے مرقس و لوقا کو کیوں ارشاد کی اور اس کل پر یوں کہتے ہیں کہ آپ کے اختراعی قاعدہ بموجب ایک امر اگر دوبارہ نازل ہونے سے تو فضول ہوجاتا ہے، یہاں پانچ دفعہ ایک ہی تمثیل کے بیان کو کیا فر مائیں گے۔سنیئے صاحب یہ تمثیل پانچوں دفعہ حسب ضرورت بیان ہوئی ۔دیکھئے پہلا ذکر یعنی زبور۸:۸۰ میں صرف ایک تاک کے لائے اور لگائے جانے کا ذکر ہے۔یسعیاہ میں ا س کو تاکستان بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اور کس لیے خدا نے اسے لگایا اور نگہبانی کی ،لیکن کچھ پھل اس سے نہ پایا اور اس تمثیل کو ایسی تشریحی طور سے اس لئے بیان کیا تا کہ بنی اسرائیل کی بدی کی شدت اور اس کی سزا سے آگاہ کرے یا اسے وارد کرنے کے لئے ایسا بیان کیا۔ داؤد کے وقت میں بنی اسرائیل بگڑے نہ تھے کہ ایسی تمثیل کی نوبت پہنچتی اور اس لیے زبور مذکور میں یہ باتیں نہیں ہیں ۔ زبور میں صرف اس کے لگائے جانے کا ذکر ہے ۔دوسری دفعہ یہ تمثیل یا مثل ہمارے خداوند نےکہی اور چونکہ اس تاکستان کی صورت میں مسیح کے زمانہ تک تغیر آگیا تھا اس لئے مسیح نے اس کی یعنی تمثیل کی طرز کسی قدر بدل کر اس میں وہ باتیں بڑھائیں یا ظاہر کیں جو یسعیاہ کے زمانہ کے بعد گزریں ۔اگر یسعیاہ والی باتیں کہہ کر ختم کرتا تو اس کے کہےکو فضول کہنے کی گنجائش ہوتی۔لیکن یسعیاہ اور مسیح نے اس تمثیل کے مختلف زمانے بیان کیے ہیں ۔پس یہ تمثیل دو ہی موقعہ پر حسب ضرورت کہی گئی اور اس کا دوبارہ ذکر فضول نہیں ٹھہرتا اور روح القدس نے متی ، مرقس اور لوقا تینوں سے انگورستان کی تمثیل کا ذکر بہ حیثیت ہم عصر مورخوں یا گواہوں کے کروایا ہے تاکہ اس بات کو کہ مسیح نے یہ تمثیل کہی تھی کثرت گواہوں سے ثابت کرے اور مسیح کے کام اور کلام ایسے واقعات تھے کہ ا ن کا کثرت گواہوں سے ثابت کرنا ضرور تھا۔ ہاں اس لئے ضرور تھا کہ ان کی ثقاہت (متانت ۔ قابل اعتبار ہونا)میں شک کی گنجائش نہ رہے۔ اگر مسیح کے کام اور کلام انسان کی نجات کا مرکز نہ ہوتے تو جس طرح دنیا کے اور واقعات کے لئے خواہ ایک گواہ ہو خواہ بہت تو چنداں مضائقہ نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی حالت رہتی ۔مگر روح القدس نے ایسا کرنا مناسب نہ جانا اور اپنی باتوں کو گواہوں کے ابر سے گھیر دیا۔(پس ان باتوں کو جو ایسے گواہوں سے ثابت ہو چکی تھیں لے کر بیان کرنا یا ان کے برخلاف کہنا اور کہنا کہ میں بھی رسول ہوں ،کیسا بڑا فریب ہے۔قرآن میں ان کے تصدیق کرنے کی حاجت نہ تھی کیونکہ ان کے ثبوت میں ذرا بھی قصور نہ تھا ،وہ باتیں مسلم الثبوت تھیں)۔ الحاصل آپ کی اس ہمت سے بھی قرآن آخر فضول ٹھہرتا ہے ۔یہ نظیریں اس کی ضرورت کے لیے مطلق مفید نہیں ہیں۔بعد اس کے جو آپ نے خدا اور انسان سے محبت رکھنے کی بابت لکھا ہے۔اس سے بھی ہمارا اتفاق نہیں ہے اور ہمار ا مطلب اس امر میں یہ ہے کہ قرآن میں خدا سے محبت کرنے کا بیان بائبل کےمقابلہ میں قاصر اور فضول ہےیعنی قاصر ہونے سے خود بخود فضول ٹھہرا۔ لیکن اگر برابر بھی ہو تو بھی فضول ہے اور باہمی محبت اس میں ندارد۔
قَولُہ‘۔یہ جو آپ نے خدا کی محبت کی بابت بائبل سے نقل کر کے لکھا ہے کہ تو اپنی ساری عقل اور سارے جی اور اپنے سارے زور سے اپنے خدا کو دوست رکھ۔جناب من یہ محبت عام ہے۔ہر کوئی جھوٹا اور سچا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں خداوند تعالیٰ کو سارے دل اور جان سے محبت کرتا ہوں ۔یہاں کوئی قید نہیں لگائی گئی جس سے جھوٹی اور سچی محبت میں تمیز ہو سکے۔برخلاف اس کے قرآن شریف میں بائبل سے کہیں بڑھ کر اول تو محبت خداوند تعالیٰ کا ذکر ہے۔دوسرے جھوٹی اور سچی محبت کرنے والوں میں ایک ایسا عمدہ قاعدہ مقرر ہوا ہے جس سے فوراً معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ شخص محب صادق ہے ۔ان دونوں باتوں کے لیے آپ نے سورہ عمران رکوع ۴ کا حوالہ دیا ہے یعنی ’’کہہ دے اے محمدصاحب اگر تم دوست رکھتے ہو اللہ کو تو میری تابعداری کرو‘‘۔
اقول ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ اس مشروط بیان کو بائبل کے بیان صریح سے بڑھ کر بتاتے ہیں ۔واضح ہو کہ اس آیت میں محمد کی تابع فرمانی مقدم ہے اور اس کی تابع فرمانی کرنا گویا خدا سے محبت کرنا ہے۔اس تابع فرمانی کو ذرا علیٰحدہ تو کر کے دیکھو کہ باقی کیا رہتا ہے ۔یہ کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو۔اس فقرے میں حکم محبت کا کہاں ہے؟بغیر محمد کی تابع فرمانی کے ساتھ ملائے کچھ بات ہی نہیں بنتی۔محمدصاحب کا دخل اس میں ضرور ہے اور آپ کا دوسرا حوالہ بھی تابع فرمانی کا آوازہ دیتا ہے یعنی وہ جو مسلمان ہوئے ہیں ان کو خدا سے نہایت سخت محبت ہے۔یہاں خدا سے محبت کرنا کیا ہے؟مسلمان ہونا۔جو مسلمان نہیں ان کو خدا سے محبت نہیں ۔ اس تابع فرمانی کا پیچھے ذکر ہو گا۔اول آپ کی اس بات کا جواب دیا جاتا ہے کہ بائبل میں کوئی قید نہیں لگائی گئی جس سے جھوٹی اور سچی محبت میں تمیز ہو سکے۔لو دیکھئے ۱۔یوحنا۱۵:۲’’ نہ دُنیا سے محبّت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔ جو کوئی دُنیا سے محبّت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبّت نہیں‘‘۔ پھر۲۰:۴’’اگر کوئی کہے کہ مَیں خُدا سے محبّت رکھتا ہُوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھّے توجُھوٹا ہے کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اُس نے دیکھا ہے محبّت نہیں رکھتا وہ خُدا سے بھی جسے اُس نے نہیں دیکھا محبّت نہیں رکھ سکتا ‘‘۔یہ باتیں تو محمدصاحب کے قیاس میں آئی ہی نہیں ۔سو صاحب محبت صادق کا یہ اندازہ ہے اور یوں تو ہر ایک پیشوا اپنے پیروؤں اور اوروں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ میری تابع فرمانی خدا کی محبت کا ظہور ہے۔پھر دیکھئے انجیل یوحنا۲۳:۵’’تاکہ سب لوگ بیٹے کی عِزت کریں جس طرح باپ کی عِزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عِزت نہیں کرتا وہ باپ کی جِس نے اُسے بھیجا عِزت نہیں کرتا‘‘۔پھر باب۲۳:۱۵ ’’ جو مجھ سے عداوت رکھتا ہے وہ میرے باپ سے بھی عداوت رکھتا ہے ‘‘ ۔ ا۔کرنتھیوں ۲۲:۱۶’’جو کوئی خُداوند کو عزِیز نہیں رکھتا ملعون ہو۔ ہمارا خُداوند آنے والا ہے‘‘۔دیکھئے قید محمدی کے مقابلہ میں یہ قید حب یزدانی کی موجود تھی۔ اس لئے محمدصاحب کا اپنی تابع فرمانی طلب کرنا فضول ہے ۔خدا کی محبت اور عدم محبت کی دلیل مسیح ہے۔قرآن میں کس وجہ سے محمد صاحب کو شرط محبت کہا ہے۔کو ن سا کام یا کلام محمد نے مسیح سے بڑھ کر ظاہر کیا جس سے مسیح کا خدا کی محبت کی قید ہونا ناپسند کیا جاتا ہے ؟ پس صاحب قرآن والی تابع فرمانی بھی فضول ٹھہری ۔بالفرض اگر مسیح کو فقط انسان ہی مانیں تسپر بھی مسیح کے حضور محمد کی کچھ حیثیت نہیں ۔ قرآن والی محبت یزدانی کا یہ حال ہےاور اس کو آپ بائبل کی تعلیم سے بڑھ کر کہتے ہیں اور اس میں محبت حق اور باطل کی قید سے انکار کرتے ہیں ۔ ضد سے کچھ حاصل نہیں مناسب ہے کہ حق کو حق کی خاطر قبول کرو۔
پھر کہیے صاحب کیا محمدصاحب اپنے تئیں اس محبت کی کل وسعت کا جو انسان پر خد اکی طرف واجب ہے اندازہ ٹھہراتے ہیں اور کیا آپ بھی ان کے کلام سے ایسا ہی سمجھتے ہیں ۔اگر جواب ہاں ہی ہے تو ہمارے نزدیک غلط ہے۔اگر بموجب آپ کی تشریح کے محمد صاحب اپنے تئیں اس محبت کی قید گردانتے ہیں تو کیا شک ہے کہ ان کا خیال محبت الہٰی کی نسبت قاصر تھا۔کیونکہ محبت الہٰی کی ایک صورت یا موجب یہ ہے کہ خدا کی ذاتی صفات کے لحاظ سے یا کہ خدا کو خد ا جان کے محبت کرنا یعنی ذات الہٰی کی محبت بلا کسی قید کے ہونی چاہیئے، جیسے پاکیزگی کو پاکیزگی کی خاطر یعنی اس کی ذاتی عمدگی کے سبب پیار کرنا چاہیئے ۔اس محبت کو ہم اخلاقی محبت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا ظہور انسان کی طرف سے خدا کی تعریف اور بزرگی کرنے میں ثابت ہوتا ہے اور وہ حکم کہ تو خدا وند اپنے خدا کو اپنے سارے دل و جان و زور اور سمجھ سے پیار کر اس اخلاقی محبت کی ترغیب ہے ۔اس کا نام نا مشروط محبت ہے اور یہ قرآن میں کم نظر آتی ہے ۔دوسرا موجب محبت ایزدی کا یہ ہےکہ خدا سے اس کی مہربانیوں کے سبب سے محبت ظاہر کرنی اور اگر قید لگ سکتی ہے تو اس محبت پر لگے گی ،جیسا ۱۔یوحنا۱۱:۴’’ اَے عزِیزو! جب خُدا نے ہم سے اَیسی محبّت کی تو ہم پر بھی ایک دُوسرے سے محبّت رکھنا فرض ہے‘‘۔پھر آیت ۱۹’’ہم اِس لئے محبّت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبّت رکھّی‘‘۔خدا کی مہربانیاں انسان پر بڑی ہیں اور ان کےلحاظ سے انسان کو لازم ہے کہ خدا محبت رکھے۔ لیکن اس نے ایک بڑی اور ابدی رحمت یعنی یسوع مسیح کو جس کے وسیلے سے خدا کا فضل اور فضل سے بخشش بہتیروں کے لیے ہوئی نازل کر کے انسان سےخاص محبت طلب کی ہے اور برکتیں سب اس سے نیچے ہیں۔ اس کی شناخت کی علامت یہ ہے کہ ہم بھی ایک ایک سے محبت رکھیں ۔ اس باہمی محبت میں ہر ایک کے لئے ہر امر میں خیر خواہی لازم ہے ۔ باتوں ہی سے نہیں کاموں سے لازم ہے کہ ہم بھائیوں کے واسطے اپنی جان دیں (۱۔یوحنا۱۶:۳)۔پس اس محبت کے لیے جس کا اظہار انسان سے خدا کے شکریہ میں ادا ہوتا ہے ،ایک قید موجود ہے جس سے جھوٹی اور سچی محبت میں تمیز ہو سکتی ہے تو محمدصاحب کی قید کیونکر درمیان آسکتی ہے،یہ فضول ہے۔محمد کو ہم کسی بات کے لئے خدا کی برکت یا فضل نہیں ٹھہرا سکتے ۔یہ حق اس کے پھلوں کا ہے،پھر باہمی محبت کی بابت۔
قَولُہ‘۔اولاً جو پادری صاحب نےانجیل متی ۴۴،۴۳:۵ میں سے نقل کر کے لکھا ہے کہ اپنے پڑوسی سے دوستی رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت ۔ پادری صاحب اگر متی صاحب کے معاون اور مددگار ہیں تو اس عبارت کا اور اپنے دشمنوں سے عداوت کا نشان دیں، ورنہ متی صاحب کی خانہ سازی میں کلام ہی کیا ہے۔
جنا ب جب ہم نے پڑوسی سے دوستی رکھنے کا حوالہ دیا تھا تو اس کے ساتھ دشمن سے عداوت کا بھی دیا، مگر چونکہ وہ حوالے خطوط وحدانی میں تھے آپ نے صرف احبار۱۸:۱۹ کو دیکھا جس میں دوستی کا بیان ہے اور دوسرے کو اسی مضمون کا سمجھ کر یہ لکھ مارا ہے اور یا کہ امور اخلا قیہ کے بیان میں صرف محبت کا حوالہ دیا گیا تھا اس سے آپ نے عداوت کا ذکر توریت میں ندارد سمجھ لیا۔ ہر حالت میں غلطی ہی کی ہے اور یا اپنے ہی طور پر غلطی کی ہے ۔ سوصاحب پھر دیکھواستثنا۶:۲۳ اور عزرا۱۲:۹ اور معلوم کرو کہ یہ متی رسول کی خانہ سازی نہیں آپ کی ناواقفی کا ظہور ہے۔
قَولُہ‘۔ اب میں چند آیات باہمی محبت کی قرآن شریف سے نقل کرتا ہوں ۔دیکھئے اول سورہ رعد میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ’’ جو لوگ برائی کے عوض میں بھلائی کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے دارآخرت یعنی قیامت ہے‘‘ ۔دوم پھر سور ہ قصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ان کو دہرا اجر ملے گا کہ انہوں نے صبر کیا اور بھلائی کرتے ہیں، برائی کے بدلے‘‘۔
جواب۔یہ باتیں ہم نے بھی سورہ رعد کے رکوع۳ اور سورہ قصص کے رکوع ۶ میں دیکھیں۔ اب آپ دیکھئے سورۂ شوریٰ رکوع ۴ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ’’ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔پھر دیکھئے سور ہ حج رکوع آیت ۶۰ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ’’ اور جس نے بدلہ دیا جیسا اس سے کیا تھا پھر اس پر کوئی زیادتی کرے تو البتہ اس کی مدد کرے گا اللہ‘‘(دیکھو قرآن محبت سکھاتا ہے!)۔ پھر دیکھئے سور ہ بقر رکوع ۲۴ آیت وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ’’ اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکے سے) وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔ اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرڈالو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔ ‘‘ (واہ رے محبت! تیری یہی خوبیاں ہیں)۔
قَولُہ‘۔سوم سورۂ مومن میں خداوند کریم فرماتا ہے’’ بری بات کا جواب وہ کہہ جو بہتر ہو‘‘۔
جواب۔یہ فرمان سور ۂ مومن میں ندارد ہے ۔لیکن دیکھو سورہ مومنون رکوع۶ آیت۹۷ جہاں یہ بیان پایا جاتا ہے ۔یہ تعلیم بے شک قابل پسند ہے مگر قرآن کےدیگر مقامات یا منشا ئے قرآن کے برخلاف معلوم ہوتی ہے ۔اختلاف پر افسوس ہے۔
قَولُہ‘۔چہار م سور ہ تغابن آیت۱۳ میں یو مرقوم ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ میں اللہ جل شانہ ُ فرماتا ہے’’ اے ایمان والو بعض تمہاری جوروئیں اور اولاد دشمن ہیں سو ان سے بچتے رہو(یہاں تک محبت نہیں ہے) اور اگر معاف کرو اور درگزر و،الخ‘‘ (اس میں معاف کرنا اور نہ کرنا مرضی پر موقوف ہے اور معاف نہ کرنے کو عیب نہیں کہا ہے)۔
جواب۔دیکھئے سور ۂ مجادلہ آخری آیت’’تو نہ پائے گا کوئی لوگ جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور پچھلے دن پر دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہوں اللہ کے اور ا س کے رسول کے اگرچہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے گھرانے کے ‘‘انتہیٰ۔پھر دیکھئے سورہ توبہ رکوع۳’’اے ایما ن والو نہ پکڑو اپنے باپوں اور بھائیوں کو رفیق اگر وہ عزیز رکھیں کفر کو ایمان سے اور جو تم میں ان کی رفاقت کریں سو وہی لوگ ہیں گناہ گار ‘‘۔
یہاں باپ وغیرہ بھی دوستی سے خارج کیے گئے ہیں ۔ اب دیکھئے کہ مسیح نےباہمی محبت کی ایک یہ دلیل بتائی ہے کہ خدا اپنے سورج کو بدوں او ر نیکوں پر اگاتا ہے اور راستوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔اس لئے تم بھی اپنے دشمنوں کو پیار کرو تا کہ اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہو۔ہاں جس حال کہ خدا بدکاروں یعنی اپنے دشمنوں کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے تو ہم کیوں اس کے اور اپنے دشمنوں سے عداوت کریں اور پھر دیکھئے کہ جوروؤں اور بیٹوں کی دشمنی سے درگزر کرنا وہ محبت ہے جوآپ نے پادری عماد الدین لاہز صاحب کی تفسیر سےبیان کیا ہے یعنی جسمانی پیار۔لیکن خداوند نے فرمایا کہ اگر تم فقط اپنے بھائی کو سلام کہو تو کیا زیادہ کیا؟او ر ہمارا مطلب باہمی محبت کو قرآن میں ندارد کہنے سے یہ نہیں کہ اس میں جورو وغیرہ سے بھی محبت کا انکار ہے ،لیکن یہ کہ وہ محبت ندارد ہے جس کا بائبل مقدس مشاہدہ کرتی ہے ۔کیونکہ محمد صاحب نے وہی تعلیم سکھائی جو ہمارے خداوند نے ناقص ٹھہرائی ہے ۔بائبل کی تعلیم میں عمومیت اور روحانیت ہے(دیکھولوقا۳۱:۶ )قرآن میں نفسانی قید ہے ۔ آخر اس جواب کےآپ کو یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ اس جسمانی محبت کی تاکید بھی بائبل میں آچکی ہے۔اس لئے قرآن فضول کہتا ہے( دیکھو نامہ افسیوں ۷:۶)۔اخیر اپنی تحریر کے اللہ دیا صاحب نے ان حوالوں کا جو ہم نے نو ر افشاں نمبر۳۶ جلد ۸ میں باہمی محبت کے ندارد ہونے کےثبوت میں پیش کیے تھے کچھ جواب نہ سنایا اور ا س کے بجائے یہ لکھتے ہیں ۔
قَولُہ‘۔دیکھو انجیل متی۵:۱۰ ۔پادری صاحب دیکھئے آپ تو صرف محبت خاص ہی پر طعن کرتے ہیں (صاحب طعن نہیں حق کہتا ہوں ) اور بموجب قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مسیحی دین ہی خاص ہےکیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود نبی اسرائیل تھے اور صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے ہدایت چاہتے تھے اور دیگر اقوام کو اس ہدایت سے محروم رکھنا چاہتے تھے ۔اس کے لیے مسیح کی تمثیل انگورستان دیکھو تو مسیحی دین کی عمدیت معلوم ہوگی اور بھی دیکھو متی ۱۱:۸۔۱۲ جہاں بنی اسرائیل کے نکال دیئے جانے اور غیر قوموں کا پورب اور پچھم سے آکر آسمان کی بادشاہت میں شامل کیے جانے کا بیان ہے۔پھر واضح ہو کہ اول وعدے بنی اسرائیل سے ہوئے۔وہ وعدے کے فرزند تھے اور اس لیے ان کی ہدایت پہلے شروع کی گئی ۔’’۔۔۔ضرُور تھا کہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنایا جائے لیکن چُونکہ تُم اُس کو ردّ کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زِندگی کے ناقابِل ٹھہرا تے ہو تو دیکھو ہم غَیر قَوموں کی طرف مُتوّجِّہ ہوتے ہیں‘‘(اعمال ۴۶:۱۳ )۔اسی سبب سے مسیح نے جی اٹھنے سے پہلے وہ حکم نہ دیا تھا جو متی کی انجیل کے آخر میں مرقوم ہے اور اس کے مطابق پولس رومیوں کے خط باب اول میں فرماتا ہے کہ مسیح کی انجیل ہر ایک کی نجات کے واسطے جو ایمان لاتا پہلے یہودی پھر یونانی کے واسطے خد اکی قدرت ہے۔پس صاحب اس ہدایت میں تدریج(درجپ بدرجہ ہونا) مد نظر تھی نہ کہ غیرقوموں کو ہدایت سے محروم رکھنا اور یاد رکھو کہ واقعات بھی اس تدریج کو ثابت کرتے ہیں۔
اللہ دیا صاحب کے جواب الجواب کا جواب
ہمارے جواب مرقومہ بالا پر اللہ دیا صاحب نے پھر منشور محمدی مطبوعہ۲۵ صفر الظفر نمبر ۶ جلد ۱۱ میں کچھ جواب لکھا تھا مگر الزامی طرز کو اور بھی بڑھایا ہےاو ر قرآن کی ضرورت کے ثبوت کو پھر بھی بھولے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔میں کہتاہوں کہ اگر محمدیوں سے قرآن کی ضرورت ثابت نہیں ہوتی تو صاف اقرار کریں کیونکہ بائبل کی چند ایک باتوں کے مکرر۔ سہِ کرر(دوبارہ تبارہ۔باربار) بائبل ہی میں مذکور ہونے سے قرآن کی ضرورت ثابت نہ ہوگی۔چاہیئے کہ قرآن کی ضرورت تحقیقی طور سے واضح کی جائے۔
قَولُہ‘۔ صدہا باتیں قرآن شریف کی تورات و زبور وصحیفہ انبیا علیہم السلام سے ملتی ہیں ۔ اس ملنے کو لے کر بیان کرنا پادری صاحب کی خام خیالی ہے کیونکہ الہام الہٰی سے جو کتاب لکھی جائے گی اس کا پہلی الہامی کتابوں سے میل جول ہونا ضروری امر ہے۔
اقول ۔ہاں صاحب دیکھو قرآن والا بھی اسی طرح کہتا ہے۔سورہ یوسف آخری آیت ’’کچھ بات بنائی ہوئی نہیں لیکن موافق اس کلام کے جو اس سے پہلے ہے‘‘ ۔مگر ہمارا دعویٰ توجیوں کا تیوں رہا کہ اس بات کی مطلق ضرورت نہ تھی کہ وہی اگلی باتیں لے کربیان کریں اور کہہ دیں کہ دیکھو میں ان کتابوں کے موافق بیان کرتا ہوں ۔وہ بیانات معدوم نہ ہو گئے تھے جن کے بحال کرنے کے لئے زیادہ الہام کی ضرورت ہوتی۔ صاحب من ان کے ہوتے ہوئے تو ایسا الہام فضول ہے ۔جس بات کو ثابت کرنا تھا آپ نے ا س کو یونہی فرض کر لیا ہے کہ یوں یا ووں ہواکیونکہ بندہ کا اس بات سے انکار نہیں کہ الہامی باتیں موافق ہونی چاہیئں ۔اگر موافق نہ ہوں تو اختلاف کی وجہ مذکور ہونی چاہیئے۔ مگر یہ کیا ضرور تھا کہ محمد صاحب کو الہام ہوتا کہ آخر اگلی کتابوں کی باتیں بیان کرے ۔ اس لیے قرآنی سلسلہ ہی فضول ٹھہرتا ہے اور پھر یاد رہے کہ کم ترین نے قرآن کی دھارا کے سب چشموں کا سراغ نکا ل دیا ہےاور آپ پھر بھی کہے جاتے ہیں کہ یہ موافقت الہام الہٰی کے سبب سے ہے۔کچھ تو سوچو۔ جو باتیں بائبل سے لی گئی ہیں وہ تو بائبل کے موافق ہوں گی اور جو او ر جگہوں سے لی گئی ہیں وہ کیونکر بائبل کے موافق ہوں گی۔ ناظرین قرآن کا یہ مرکب حال دیکھ چکے ہیں۔سو صاحب خام خیالی تو آپ ہے کے ساتھ نسبت رکھتی ہے، مجھے اس سے کیا واسطہ ہے۔
قَولُہ‘۔ا لہامی کتابوں سے جو مدد پا کر حواریوں نے لکھا ہے وہ پادری صاحب بخوبی جانتے ہیں ۔یہاں بیان کرنامضمون کو طول دینا ہے۔باقی رہا پادری صاحب کا یہ کہنا کہ انسانی روایتوں وغیرہ وغیرہ ۔سو جواب یہ ہے کہ پادری صاحب کا یہ اعتراض تواصل میں انجیل پر صادق آتا ہے۔ پادری صاحب ازراہ تعصب اولاً قرآن پر وار کرتے ہیں۔
اقول۔۔ آپ کا اصل مطلب سے کترانا خوب ظاہر ہے کیونکہ اس کا تحقیقی جواب کچھ نہیں ہے اور اس بات کو قائم رکھتے ہو کہ محمد صاحب نے بے شک نہ صرف الہامی کتابوں سے مدد پائی بلکہ انسانی غلط اور جعلی روایتوں سے بھی ایسا کام چلایا کہ ان کو اپنے الہام میں شامل کر لیا ۔اس نتیجہ کو آپ انجانے قبول کرتے ہو ،مگر شرم کے مار ے اس اقرار کو دباتے ہو اور جی چھپا کر پھر پھر انجیل پر زور مارتے ہو۔حواریوں کو اس مدد کی ضرورت تھی کیونکہ عہد عتیق انجیل کی بنا ہے اور انجیل اس کی تکمیل یا خاتمہ ہو کر اس کے ان مضامیں کو پیش کرتی ہے جن سے وہ اپنی ضرورت کی بنا رکھتی ہے ۔ تاہم انجیل عہد عتیق کے مقابل میں کل پر ایک نئی کتاب ہے مگر قرآن ایسا نہیں ہے۔لیکن پرانی باتوں سے مخلوط و مرکب ہے اور ان ہی باتوں کو پھر پھر پیش کر کے حضرت نے اپنی رسالت جتائی ہے۔ ان باتوں کا ذکر پیشتر ہو چکا ہے۔اب پھر یہاں اس کو پیش کرنا ضرور نہیں ۔پھر انجیل میں روایتی باتوں کے اندراج کی دو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں۔ایک متی ۲۲:۲ میں جیسا نبیوں نے فرمایا تھا پورا ہوا کہ وہ یعنی حضرت عیسیٰ ناصری کہلائے گا۔ اس پر کہتے ہو کہ تمام عہد عتیق میں کہیں نہیں لکھا کہ مسیح بہ سبب سکونت ناصرت بستی کاناصری کہلائے گا۔
واضح ہو کہ اس مطلب کی کوئی روایت بھی نہ تھی کہ خداوند عیسیٰ ناصری کہلائے گا اور نہ کسی خاص نبی کی کتاب سے اقتباس ہے۔لیکن اکثر نبیوں کے بیان کی طرف اشارہ ہے اور حواری لفظ نبیوں لکھتا ہے جنہوں نے ا س کی ناصری حالت کو بیان کیا ہے یعنی جن کےاقسام بیان کا یہ ایک خلاصہ ہے۔چنانچہ یسعیاہ نبی نے بیان کیا تھا کہ وہ آدمیوں میں بے نہایت ذلیل اور حقیر تھا بمقابلہ زبور۶:۲۲اور چونکہ ناصرت ایک حقیر جگہ تھی ،یہاں تک کہ گلیلی جن کو اور علاقوں کے یہودی کمینہ او ر حقیر جانتے تھے ۔وہ بھی اپنی اس بستی کو ہیچ سمجھتے تھے ۔حتٰی کہ مثل ہو چکی تھی کہ ناصرت سے کوئی اچھی چیز نہیں نکل سکتی۔لہٰذا بلحاظ اس بستی کی سکونت کے حواری نے نبیوں کے بیان کو لفظ ناصری سے بیان کیااور کسی انسانی روایت کو درج نہیں کیا ہےاو ر نبیوں کے اقسام بیان کو ایک خلا صہ میں پیش کرنااور مقاموں سے بھی ظاہر ہے (دیکھو یوحنا ۳۸:۷ او ر یعقوب ۵:۴)۔
دوسری مثال یہوداہ کا خط آیات۴:۹ بھی انسانی روایت سے بیان کیے گئے ہیں ۔معلوم ہو کہ یہ انسانی روایت اس طور پر بیان نہیں کی گئی ہے جیسا قرآن والے نے کیا ہے یعنی الہام انجیل کے اجزا میں سے نہیں ہے۔لیکن حواری ان لوگوں کی مسلم روایتوں سے بھی ان پر اپنے بیان کو ثابت کرتا ہے۔ پولس رسول نے ایک دو مرتبہ غیر قوم شاعروں کے قول اسی مطلب کے لیے پیش کیے ہیں ۔چنانچہ ایک مقلم کتاب اعمال الرسل ۲۸:۱۷ ہے ’’۔۔۔جَیسا تمہارے شاعِروں میں سے بھی بعض نے کہاہے کہ ہم تو اُس کی نسل بھی ہیں‘‘۔ اس جگہ رسول نے اپنے مدعا کو ان لوگوں پر ثابت کرنے کے لئے ان کی خاطر انہی کے شاعروں کو پیش کیا ہے۔دوسرا مقام ططس۱۲:۱ ہے جہاں پولس کرنتھیوں کے شاعر کے قول سے کرنتھیوں کا حال ططس پر ظاہر کرتا ہے’’ اُن ہی میں سے ایک شخص نے کہا ہے جو خاص اُن کا نبی تھا کہ کُریتی ہمیشہ جُھوٹے۔ مُوذی جانور۔ احدی کھاؤ ہوتے ہیں‘‘۔پس یہ روایتیں اور غیر بیان غیر ہی رہتے ہیں اور صرف لوگو ں کی خاطر روایت کے طور پر پیش کئے گئے اور رسولوں کے الہام میں داخل نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ باتیں انہیں اور طرح معلوم ہوئیں اور جس طرح معلوم ہوئیں انہوں نے انہیں اسی طرح پیش کیا ہے یعنی ان کو ان شاعروں ہی کا کلام کہا ہے ۔مگر قرآن والے نے دیکھو کیا کیا ہے۔سورہ نسا رکوع ۱۷ آیت ۱۱۲ ’’اللہ نے نازل کی تجھ پر کتاب اور کام کی بات اور تجھ کو سکھایا جو تو نہ جان سکتا ‘‘۔پھر سور ہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ ’’کہہ جمع ہوئیں آدمی اور جن ۔۔ کہ لائیں ایسا قرآن نہ لائیں گے ایسا قرآن اور بڑی مدد کریں ایک کی ایک اور ہم نے پھر پھر سمجھائی لوگو ں کو اس قرآن میں ہر کہاوت‘‘۔دیکھو سب کچھ وحی کے متھے مارا ہے۔حالانکہ آپ نے غیر ذریعوں سے،ہادیوں سے سیکھا جو حضرت کے ملک اور زمانہ میں موجود تھے۔اس کا نام جعلسازی ہے اور یہ قرآن کے نزول آسمانی کی عدم ضرورت کے لیے قوی دلیل ہے یعنی ایسے قرآن کے آسمان سے نازل ہونے کی کچھ ضرورت نہ تھی ۔کیونکہ اس کی ترکیب کا سامان زمین ہی پر موجود تھا۔
قَولُہ‘۔بھلا پادر ی صاحب یہ جو آپ نے تحریر کیا کہ احکام اخلاقی و عارضی معلوم شدہ وغیرہ کو لکھ کر اپنی طرف سے جتایا ہے۔براہ مہربانی قرآن شریف میں دکھایئے تو سہی یہ دعوی ٰ آنحضرت نے کہاں کیا۔ہائے افسوس صد افسوس پادری صاحب عدم ضرورت قرآن کا تو دعویٰ کریں اور قرآن شریف کی معلومات کا یہ حال ۔کیا پادری صاحب کی نظر مبارک سے سورہ نجم سپارہ۲۷ رکوع اول بھی نہیں گزرا۔
اقول۔ اپنی طرف سے جتانے کے یہ معنی ہیں یعنی یہ جتایا کہ میرے ذریعہ سے یا مجھ پربھی ایک کتاب آسمانی فلاں فلاں مضمون کی نازل ہوئی ہےاور صاف نہ کہنا کہ میں نے فلاں گروہ سے یہ اور وہ بات سیکھی ہےاور سور ہ نجم رکوع اول کو پیش کرنا فضول ہے،کیونکہ اپنا جعل چھپانے کے لیے حضرت کی یہ حکمت تھی۔ اس بھید کو توہم فاش کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ وحی قرآن کے لیے سوائے نزول قرآن کےا ور دلیل نہ رکھتے تھے ۔وہ نزول احکام اخلاقی اور عارضی اور دیگر امور ظاہر شد ہ کا صرف تکرار ہے اور قرآن کی یہ ترکیب نہ صرف اس کو فضول ٹھہراتی ہے بلکہ اس کے آسمانی نزول کو صریحاً رد کرتی ہے۔مگر پھر بھی دیکھو سورہ بنی اسرائیل رکوع۱۰ ’’اور ہم نے پھر پھر سکھائی لوگوں کو اس قرآن میں ہر کہاوت‘‘۔اس (ہم نے) کا اشارہ خد اکی طرف ہے یا محمد کی طرف ،بہر صورت ہماری تحریر ثابت ہے۔ہر کہاوت کو اپنی وحی کی یا اپنی طرف سے(جو ایک ہی بات ہے) جتایا ہے۔
قَولُہ‘۔شاید پادری صاحب نے قرآن شریف کو مثل انجیل کے حواریوں کی من گھڑت خیال کر لیا ہوگا ،اس لئے ایسا دعویٰ کر بیٹھے۔
اقول ۔صاحب من دعویٰ کہاں رہا ثابت کر دیا ہے کہ قرآن نہ صرف من گھڑت بلکہ سنی سنائی اور سیکھی سکھائی مروج باتوںکا مجموعہ ہےجس سے ظاہر ہے کہ وہ اس حالت میں ایک فضول کتاب ہے۔مگر دیکھئے آپ کی لاچاری پھر پھر ظاہر ہوتی ہے اور اصل مطلب سے آنکھ بچاتے ہو۔آپ محمد ی صاحبوں نے سمجھ چھوڑ ا ہے کہ انجیل پر اعتراض کرنےسے قرآن کا بچاؤ ہ۔سو آپ دھوکا کھاتے ہیں۔ کوئی واجبی صورت اختیار کیجئے۔
قَولُہ‘۔چنانچہ چند مقامات انجیل سے حواریوں کی من گھڑت بیان کرتا ہوں۔ خط اول کرنتھیوں ۲۵:۷ میں لکھا ہے کہ ’’ کُنوارِیوں کے حق میں میرے پاس خُداوند کا کوئی حکم نہیں لیکن دِیانتدار ہونے کے لئے جَیساخُداوند کی طرف سے مُجھ پر رحم ہُؤا اُس کے مُوافِق اپنی رائے دیتا ہُوں‘‘۔پھر خط دوم کرنتھیوں ۱۷،۱۶:۱۱ میں یوں مسطور ہے کہ’’ مَیں پِھر کہتا ہُوں کہ مُجھے کوئی بیُوقُوف نہ سمجھے ورنہ بیُوقُوف ہی سمجھ کر مُجھے قبول کرو کہ مَیں بھی تھوڑا سا فخر کرُوں۔جو کُچھ مَیں کہتا ہُوں وہ خُداوند کے طَور پر نہیں بلکہ گویا بیُوقُوفی سے اور اُس جُرات سے کہتا ہُوں جو فخر کرنے میں ہوتی ہے‘‘۔ان آیات مذکورہ بالا سے معلوم ہو گیا کہ اعظم الحوارین جناب پولس بدون الہام الہٰی اپنی طرف سے من گھڑت تو کیا بلکہ بے وقوفی سے بھی جو دل میں آیا فرما دیا کرتے تھے۔
اقول ۔ اول مقام کی نسبت واضح ہو کہ خداوند یسوع نے اس امر کی نسبت زمین پر ہوتے ہوئے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اس لئے حواری کہتا ہے کہ کنواریوں کے حق میں خداوند کا کوئی حکم مجھ پاس نہیں۔ لیکن پولوس رسول جس پر دیانت دار ہونےکے لیے خداوند کی طرف سے رحم ہوا، اس حیثیت میں ہو کر یہ صلاح دیتا ہےاور یہ رحم رسالت کے رحم سے مراد ہے ،جیسا دیکھو ۱۔کرنتھیوں ۱۰:۱۵’’لیکن جو کُچھ ہُوں خُدا کے فضل سے ہُوں اور اُس کا فضل جو مُجھ پر ہُؤا وہ بے فائدہ نہیں ہُؤا بلکہ مَیں نے اُن سب سے زیادہ محنت کی اور یہ میری طرف سے نہیں ہُوئی بلکہ خُدا کے فضل سے جو مُجھ پر تھا‘‘۔پس صاحب پولس رسول ا س فضل یا رحم کی راہ سے صلاح دیتا ہے اور اس کے ذمہ من گھڑت کا الزام لگانا، آپ کی گھڑت ہے۔
دوسرے مقام کی نسبت معلوم ہو کہ اس باب میں رسول ان جھوٹے نبیوں کے برخلاف جنہوں نے کرنتھیوں کو پولوس کی طرف سے بد ظن کر دیا تھا اپنی رسالت ثابت کرتا ہےاور ان پر اپنی رسالت ثابت کرنے کو بے وقوفی کہتا ہے، کیونکہ لوگ ایسی طرز کو بے وقوفی سمجھتے کہ اپنی آپ ہی کہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کی اس بےوقوفی اور فخر کی برداشت کریں ۔یہ بات ثابت کر کے کہتا ہے کہ کوئی مجھے بیوقوف نہ جانے اس خیال سے کہ میں اپنی رسالت آپ ہی ثابت کرتا ہوں اور پھر بھی اگر وہ اس بات کے لیے بیوقوف سمجھیں تو بھی اسے قبول کریں یعنی جوکچھ وہ کہتا ہے اسے قبول کریں اور اس کے اس فخر کا ساتھ دیں ۔ اس کے بعد بیان کرتا ہے کہ خداوند نے ایسا فخر نہیں کیا لیکن میں ا س فخر کو جو کہ گویا بیوقوفی ہے بیان کرنے کی ضرورت دیکھتا ہوں اور آیت۱۸ سے ا ن باتوں کا ذکر کرتا ہے جن پر جھوٹے استاد اپنا فخر کرتے تھے۔ حواری جتاتا ہے کہ اس امر میں میں ان سے بیشتر فخر کر سکتا ہوں اور یوں اپنا پچھلا حال ان پر ظاہر کرتا ہے۔اب اس میں آپ کا نتیجہ بالکل نا پاید ہے کیونکہ رسول لوگوں کے خیال کے موافق اپنے تئیں بیوقوف ہی ٹھہرا کے پھر بھی اپنی رسالت اور فخر ثابت کرتا ہے(کیا محمد نے کبھی اس طرح اپنی رسالت کے واضح ثبوت دیئے؟) اور اس موقع کو آپ فرماتے ہیں کہ پولس بدون الہام الہٰی فرما دیا کرتے تھے۔ دیکھو اسی باب کی آیت ۳۱ اور سمجھ لو کہ پولوس رسول من گھڑت باتیں نہیں کہتا تھا۔رسول یوں لکھتا ہے’’لیکن خداوند یسوع مسیح کا خدا اور باپ جو ہمیشہ مبارک ہے جانتا ہے کہ میں (پولوس) جھوٹ نہیں کہتا‘‘۔ارے صاحب قرآن کا تو حال ہی کچھ اور ہے ۔وہ تو سراسر دھوکا ہے۔
قَولُہ‘۔جناب پادری صاحب آپ کو نہ بائبل کی معلومات اور نہ قرآن کی پھر کس شیخی پر عد م ضرور ت قرآن لکھنے بیٹھے تھے۔
اقول ۔ آپ نے کئی مرتبہ ایسی دُر افشانی(خوش بیانی) کی ہے اور برادر عزیز کم ترین کی معلومات تو آپ پر اور سب ناظرین اخبار پر روشن ہے۔آپ کیوں تنگ آگئے۔مجھے اپنےعلم کی شیخی نہیں ،مگر اظہار صداقت کی غیرت نے یہ اثر دکھایا ہے اور اس میں آپ لوگ لاچار سے ہو رہے ہیں۔مجھے اس بات کا حسد نہیں اگر آپ کی معلومات مجھے سے زیادہ ہوں ،مگر تشہیر حق سے غرض ہے۔
قَولُہ‘۔اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ نبی تھا اگر ا یسا ہی سہل ہے تو کون نہیں بن سکتا۔جناب پولس صاحب کی نبوت کا حال دیکھو بخوبی معلوم ہے کہ آپ ہی آنکھیں بند کر کے اندھا ہو گیا ،پھر آپ ہی آنکھیں کھو ل کر بینا ہو گیا اور آنکھیں بند کرنے اور کھولنے سے نبی بن سکتا ہے تو کون نہیں بن سکتا۔
اقول ۔شاید حضرت محمد صاحب نے نبی بننے کا یہ طریقہ کسی سے سنا نہ ہو گا ،ورنہ اتنا جھوٹ سچ بولنے کی بجائے آنکھیں ہی پھوڑ لیتے تو مراد کو پہنچ جاتے ۔آپ کے اس بیان سے ثابت ہوا کہ کم ترین کا قول صحیح ہے یعنی حضرت محمد کا نبی بننا سہل تھا یعنی جو طریق انہوں نے اس مطلب کے لیے اختیار کیے، وہ اس شوق کو سہل کر دیتے ہیں اور بندہ نے ا ن کے نبی بننے کی سہولتوں کو صراحتاً ثابت کر دیا ہے۔مگر آپ نے پولوس رسول کا آپ ہی آنکھیں بند کر لینا اور پھر آپ ہی کھول کر نبی بن جانے کا کیا ثبوت دیا ہے؟ اس کے ثبوت میں بھی تو کچھ کہا ہوتا۔کیا ایسا یا وہ خیال قرآن کی ضرورت ثابت کرے گا؟اول خوب غور سے دیکھو پولس رسول ہونے سے پیشتر کیا تھا۔مسیح کی کلیسیا کا کیسا مخالف تھا ۔پس اس کو ماننے اور نبی بننے میں کیا نفع تھا ۔آپ کے خیال کے برخلاف ظاہر ہے کہ آسمانی نور سے اندھا ہو گیا اور دوسرے شخص کے وسیلے بینا ہوا اور بعدہُ اپنے رسول ہونے کے قوی ثبوت دیئے جن سے اس کے ہم عصروں کے منہ بند ہوئے ۔مگر آپ کے خیال کا کیا ثبوت ہے ،عجب چکر کھا رہے ہو۔
پھر بندہ نے تحریر کیا تھا کہ بائبل کی موجودگی کے مقابلہ میں قرآن کی ضرورت اسی بنا پر ہونی چاہیئے جس طرح بائبل کی کتاب نیچر کے مقابلہ میں ہے۔ اس بنا پر تو آپ قرآن کی ضرورت ثابت کرنے سے کترائے ہیں یاکم ترین کا مدعا نہیں سمجھے اور بادیدہ و دانستہ شرمساری کو چھپانے کی خاطر اپنی عادت کے موافق بائبل ہی پر ادھر ادھر اعتراض کر دیئے ہیں اور اس کے جواب میں یوں لکھتے ہیں۔
قَولُہ‘۔نیچر کے معنی ہیں قانون قدرت ۔سو بائبل قانون قدرت کے خلاف ہے ۔چنانچہ کتاب واعظ۲:۱۰ میں خلاف نیچر کے صاف لکھا ہے کہ ’’حکیم کا دل ا س کی دہنی طرف ہے‘‘۔دیکھئے دہنی طرف د ل کا ہونا صریح نیچر کے خلاف ہے۔
اقول ۔کہیے صاحب کیا یہ میری تحریر کا جواب ہے؟ مجھے تو آپ ناواقف اور جو کچھ جی میں آتا ہے کہتے ہیں اور اپنی سمجھ کا یہ حال ہے۔اس جملہ کا باقی حصہ یہ ہے’’پر احمق کا دل اس کے بائیں ہے‘‘۔یہ لفظ ہی ظاہر کرتے ہیں کہ دل کی جگہ سے مراد نہیں ہے کہ انسان کی دہنی طرف یا بائیں طرف موضوع ہے۔ اِلّاحکیم کے د ل کو دہنی طرف اور احمق کے دل کو بائیں طرف کہا ہے،چونکہ دہنا ہاتھ بائیں کی نسبت زیادہ کارآمد ہوتا ہے اس لئے حکیم کے دل کو دہنے ہاتھ یا طرف کہنے سے اس کے دل کی عملی حالت کو ظاہر کیا ہےیعنی وہ کام ظاہر کرتا ہے۔آپ یونہی خلاف نیچر پکار اٹھے۔دوسرا مقام آپ غزل الغزلات۱:۴ یوں پیش کرتے ہیں’’اے محبوبہ تیری آنکھیں تیرے ستر کے پیچھے ہیں ‘‘۔دیکھئے آنکھوں کا ستر کے پیچھے ہونا بھی خلاف نیچر ہے۔معلوم ہو کہ آپ نے سالم عبارت بیان نہیں کی اور وہ یوں ہے’’تیر ی آنکھیں تیری چادر(یاستر) کے پیچھےکبوتروں کی سی ہیں ‘‘ یا ’’تیری آنکھیں تیری زلفوں کے درمیان کبوتروں کی سی ہیں‘‘ ۔چادر کو آپ نے ستر لکھا ہے اور ستر کے معنی ہیں پردہ ۔پس تو آنکھوں کا چادر یا پردے کے پیچھے ہونا کیونکر خلاف قانون قدرت ہوا۔ عورتوں کی چادر یا زلف منہ پر پڑنے سے آنکھیں ان کے پیچھے ہو جاتی ہیں۔یہاں قانون قدرت کا کیا ذکر ہے۔قانون قدرت آنکھوں کا چادر کے پیچھے آجانے کا مانع نہیں ہے اور پھر اگر چادر کی بجائے زلفوں پڑھیں جیسا انگریزی ترجمہ میں ہے اور اردو ترجمہ کے حاشیہ پر ہے، تو چادر یا ستر والا بیان ضرور ی نہیں ہے ۔پس آپ کا بائبل کو ان مثالوں کی رو سے خلاف نیچر خیال کرنا باطل و رائیگاں ٹھہرا اور قرآن کے فضول ہونے میں کچھ کمی بیشی نہیں آئی۔جس بات سے آپ نے جی لکا یا وہ سامنےہی رہی یعنی بائبل کے ہوتے ہوئے قرآن کی ضرورت اسی بنا پر ہونی چاہیئے جس طرح کتاب نیچر کی موجودگی میں بائبل کی ہے۔یاد رہے کہ محمدیوں کو سمجھانے کے لئے ضروری نہیں کہ نیچر کے مقابل میں بائبل کی ضرورت ثابت کریں ۔ اس بات پر گفتگو ان لوگوں سے نسبت رکھتی ہے جو الہام الہٰی کے قائل نہیں اور مذہب طبعی پر شاکر ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ بائبل موجودہے تو قرآن کی کیا ضرورت ہے محمدی عیسائیوں پر ثابت کریں۔ مگر ہماری طرف اس بات کا خاطر خواہ ثبوت دیا گیا ہے کہ قرآن مجید فضول ہے۔
پھر جو کچھ ازیں جانب اللہ دیا صاحب کی ان مثالوں کے جواب میں لکھا گیا تھا جن کا آپ نے دوبارہ اور سہ بارہ اور پانچ بارہ لکھا جانا پیش کر کے قرآن میں مضامین بائبل وغیرہ کے تکرار کے لیے آسرا ڈھونڈا تھا۔ اس کو آپ کہتے ہیں کہ معہ رد الجواب بیا ن کرتا ہوں اور آپ کے جواب حسب ذیل ہیں۔
قَولُہ‘۔بھلا پادری صاحب یہ تو خداوند تعالیٰ نے خاص قوم بنی اسرائیل کی خاطر دوبارہ احکام توریت مقدس میں نازل فرمائے۔کیا آپ عیسائی صاحب بھی خاص قوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہو،کیونکہ سوائے توریت کے عیسائیوں کی خاطر بھی وہی حکم حرمت خونی میں سہ بارہ انجیل اعمال الرسل ۲۰:۱۵ میں موجود ہے۔
اقول۔واضح ہو کہ انجیل میں اس حکم کے سہ بارہ بیان کیے جانے کی قوی وجہ اور ضرورت بیان کی گئی تھی۔ شاید اس پر سے نظر پھسل گئی ہو ا س لئے آپ کے سوال کا پھر جواب دیا جاتا ہے۔
اول یہودی کلیسیا کے خارج ہونے پر مسیحی کلیسیا قائم ہوئی تو وہ خصوصیت لزو ماً موخر میں تبدیل ہوئی اور اس کے موافق یوں لکھا ہے کہ ’’تم بھی زِندہ پتھروں کی طرح رُوحانی گھر بنتے جاتے ہو تاکہ کاہِنوں کا مُقدّس فِرقہ بن کر اَیسی رُوحانی قُربانیاں چڑھاؤ جو یِسُوع مسیح کے وسیلہ سے خُدا کے نزدِیک مقبول ہوتی ہیں۔ چُنانچہ کِتاب ِ مُقدّس میں آیا ہے کہ دیکھو۔ مَیں صیون میں کونے کے سرے کا چُنا ہؤا اور قیمتی پتھر رکھتا ہوں جو اُس پر اِیمان لائے گا ہر گِز شرمِندہ نہ ہوگا۔پس تُم اِیمان لانے والوں کے لئے تو وہ قیمتی ہے مگر اِیمان نہ لانے والوں کے لئے جس پتھر کو معماروں نے ردّ کِیا وُہی کونے کے سِرے کا پتھر ہوگیا۔اور ٹھیس لگنے کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان ہُؤا کیو نکہ وہ نافرمان ہو کر کلام سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اِسی کے لِئے مُقرّر بھی ہُوئے تھے۔لیکن تُم ایک برگُزِیدہ نسل۔ شاہی کاہِنوں کا فِرقہ۔ مُقدّس قَوم اور اَیسی اُمّت ہو جو خُدا کی خاص مِلکیت ہے تاکہ اُس کی خُوبیاں ظاہِر کرو جِس نے تمہیں تارِیکی سے اپنی عجیب روشنی میں بُلایا ہے۔پہلے تُم کوئی اُمّت نہ تھے مگر اب خُدا کی اُمّت ہو۔ تُم پر رحمت نہ ہُوئی تھی مگر اب تُم پر رحمت ہُوئی‘‘ (۱۔پطرس۵:۲۔۹ ،۱۰)۔پھررومیوں ۲۶،۲۵،۲۴:۹’’ یعنی ہمارے ذرِیعہ سے جِن کو اُس نے نہ فقط یہُودیوں میں سے بلکہ غَیرقَوموں میں سے بھی بُلایا۔چُنانچہ ہوسیع کی کِتاب میں بھی خُدا یُوں فرماتا ہے کہ جو میری اُمّت نہ تھی اُسے اپنی اُمّت کہوں گا اور جو پیاری نہ تھی اُسے پیاری کہُوں گا۔اور اَیسا ہوگا کہ جِس جگہ اُن سے یہ کہا گیا تھا کہ تُم میری اُمّت نہیں ہو اُسی جگہ وہ زِندہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے‘‘۔پس دیکھو خدا نے عیسائیوں کو خاص قوم کر لیا ہے۔ہمارے محض دعویٰ کی کیا حیثیت ہوتی ۔
دوممسیح میں احکام رسمی ختم ہوئے اور اگر یہ حکم پھر انجیل میں بیان نہ کیا جاتا تو انہیں میں گردانا جاتا اور خون سے پرہیز کرنے کی پابندی نہ ہوتی۔مگر چونکہ اس حکم کی زیادہ تعمیل منظور تھی خدانے اسے انجیل میں پھر مندرج کروایا اور یوں آذروں میں سے اسے دوام بخشا۔پس قرآن جیوں کا تیوں فضول ہی رہا۔
قَولُہ‘۔جب عیسائیوں کو مخصوص قوم ہونے کے سوائے سہ بارہ وہی حکم صادر ہوئے اگر آنحضرت محمدصاحب کو بسبب اولاد ہونے حضرت ابراہیم کے چوتھی بارا حکام نازل فرمائے تو پادری صاحب کا کیا جرح ہے۔
اقول۔کیا اس سبب سے سارے ہی احکام چوتھی بار فرمانے تھے۔کیوں ،کیا ضرورت تھی؟ اگر حضرت کو ابراہیم کی اولاد سے ہونے کا کچھ فخر تھا تو بنی اسرائیل کی کتاب کو مانتے نہ کہ انہی کی کتاب کی باتوں کو اپنے الہام کے ذمہ لگاتے۔ا ن کا ایسا کرنا بالکل فضول تھا۔مگر ہمارے جواب مذکورہ بالا سے معلوم ہو گیا کہ عیسائی مخصوص قوم کے سوائے نہیں بلکہ اب مخصوص قوم وہی ٹھہرائے گئے ہیں۔اس لیے اس طرف سےآپ کی بات کی شکست ہے اور پھر جب کہ وہ پہلی رسوم اور نشانیاں مسیح میں پوری ہو گئیں جس تکمیل کا ثبوت انجیل میں خدا نے نہ فقط قولاً بلکہ فعلاً بھی ظاہر کیا ہےاور جبکہ مسیحی قوم میں نسل ابراہیم کے لحاظ کو ضائع کیا اور ایمان مسیح پر قومی خصوصیت ٹھہرائی گئی اور جس خصوصیت میں دنیا کی ہر ایک قوم شریک ہو سکتی ہے۔دیکھو کلسیوں کے نام خط۱۱:۳تو پھر لونڈی والی اولاد کو جو وعدے کے فرزند نہیں ہیں اور جن کی نسبت پیدائش۱۲:۱۶ اور۲۰:۱۷ والی بات کے سوائے اور کوئی وعدہ ہی نہیں ہے ۔پھر وہ احکام کیونکر فرمائے جاتے ۔ضرورت ہی کیا تھی اور اس میں بندہ کا کچھ جرح نہیں،ہرج تو قرآن کا ہے جو بلا ضرورت ان احکام اور احوال سے اپنی وحی کا منہ بھرتا ہے اور یوں اپنے تئیں فضول ٹھہراتا ہے۔
قَولُہ‘۔ یہ پادری صاحب کا محض جھوٹ ہے ۔اگر پادری صاحب اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم کو توریت میں نشان دیں جہاں اللہ صاحب نے قوم بنی اسرائیل کو یہ فرمایا ہو کہ تم پہلے انبیا علیہم السلام کے حکموں کو جو ہم نے ان کو بذریعہ الہام عطا کیے ہیں، ہر گز عمل نہ کریو۔
اقول۔واضح ہو کہ بندہ نے اس امر کو بخوبی ظاہر کیا تھا کہ اس حکم کی تکرار توریت میں خاص سبب سے ہوئی تھی اور کہ جو کچھ توریت میں مندرج ہوا وہی بنی اسرائیل کے لیے قانون ہدایت تھا۔اس پر اللہ دیا صاحب مجھے جھوٹا کہتے ہیں مگر جھوٹ کو ثابت نہیں کرتے ہیں، کیونکہ یہ بات تو آپ نےثابت کرنی تھی کہ دیکھو فلاں مقام جہاں خدا نےسوائے توریت کے علاوہ احکام پر جو توریت میں نہیں لکھے گئے اور پہلوں کے فرمائے ہوئے ہیں عمل کرنے کو فرمایا۔مگر آپ نے یہ تو نہ کیا اور مجھے جھوٹا کہنے میں جھٹ سے منہ کھول دیا۔پر خیر دیکھو استثنا۳۳:۵ ’’ تم اُس سارے طرِیق پر جِس کا حکم خُداوند تمہارے خُدا نے تم کو دِیا ہے چلنا تاکہ تُم جیتے رہو اورتمہارا بھلا ہو اورتمہاری عُمر اُس مُلک میں جِس پر تُم قبضہ کروگے درازہو‘‘ او ر بھی دیکھو۴۰:۴ ؛۱۱:۷؛۱۳:۱۰۔پس صاحب آپ ہی پھر سوچیں کہ جھوٹا میں ہوں یا آپ ہیں۔
قَولُہ‘۔اب میں پادری صاحب سے دریافت کرتا ہوں کہ ایک ہی تمثیل کو بکثرت بیان کرنا دوحال سے خالی نہیں یا تو اللہ صاحب کو اس تمثیل کی تاکید زیادہ بیان کرنا منظور تھی اس واسطے یہ تمثیل بار بار بیان کی گئی۔ سو یہی تاکید قرآن شریف کے احکام بیان کیے جانے پر تصور کی جائے یا پہلے حواری کے بیان کا اعتبار نہیں تھا جو دوسرے اور تیسرے بیان کنندہ کی حاجت ہوئی۔
اقول۔ یاد کرو صاحب کہ بندہ نے آپ کے اعتراض سے پہلے ہی بیان کیا تھا کہ ثقاہت کے معاملہ میں حضرت محمدصاحب کی کیا حیثیت ہے یعنی پہلی باتوں کی تاکید یا تصدیق کرنے کے لائق نہ تھے اور نہ اس امر کی ضرورت باقی تھی۔ پھر یہی توسوال ہے کہ جس حال وہ پہلے احکام اور واقعات طرح بہ طرح مسلم الثبوت تھے تو قرآنی تکرار اور تصدیق کی مطلق ضرورت نہ تھی اوراسی بات میں آپ حضرت کے لئے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔مسیحی اور بے دین محقق بھی جب بائبل کے واقعات کی تحقیق کرتے ہیں تو وہ قرآن کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔صاحب من آپ اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ قرآن کی بنفسہٖ کیا ضرورت تھی۔بے شک بڑے اندھیر کی بات ہے اگر بائبل کے ہوتے ہوئے خدا قرآن جیسی کتاب نازل کر دے ۔خدا اور انسان کو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ایسی فضول کتاب سے بچو۔
الحاصل قرآن کے حامیوں کے الزامی اعتراض جن سے وہ عدم ضرورت قرآن کے برخلاف قرآن کی ضرورت ثابت کرنا چاہتے تھے تحقیقی طور پر رد ہوئے اور ا مید ہے کہ یہ لوگ آیندہ ہوشیار رہیں گے۔اب آیئے ہندوستان کے محمدیو! کیا سو چ کے محمدیت میں قائم ہو۔تمہارے ہندو آبا جن میں سے بعضوں نے جہالت اور بائبل کی ناواقفی کے سبب قرآن کو جیسے تیسے مان لیا اور بعضوں سے جبراً منوایا گیا قرآن کی اس کیفیت سے ناواقف تھے جو عیسائیوں نے تم پر ظاہر کی ہے ۔پس اس کو چھوڑ و۔یہ ہمیں تمہیں زیب نہیں دیتا ہے اور بائبل کی پیروی کرو جو بذات خود ایک کامل ہدایت اور قرآن کا مخرج ہے۔بھائیو سوچو!
ضرورت قرآن کے لئے محمدصاحب کے اقوال
ہم نے پیروؤں کی دلیلیں ضرورت قرآن کے لیے سنیں، اب حضرت محمدصاحب کی بھی سنیں کہ وہ اس بات کے لیے کیا وجہ پیش کرتے ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں ۔
(ا) سورۃ انعام رکوع۲۰آیت۱۵۵۔۱۵۷’’ اور ایک یہ کتاب ہے کہ ہم نے اتاری برکت کی ۔اس واسطے کہ کبھی کہو کتاب جو اتری تھی سو دو ہی فرقو ں پر ہم سے پہلے اور ہم کو ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر نہ تھی۔یا کہو کہ اگر ہم پر اترتی کتاب تو ہم راہ چلتے ان سے بہتر‘‘۔اس کے مطابق دیکھو سورہ قصص رکوع۵ آیت ۴۷،۴۶ یعنی ان لوگوں میں پہلے کوئی کتاب نہیں آئی تھی اس لئے محمدصاحب اپنے اہل وطن کے لئے قرآن لے کر آئے۔
جاننا چاہیئے کہ لوگوں نے یہ سوال یا درخواست کسی رسول یا کتاب کے لیے نہیں کی تھی۔چنانچہ قرآن کی آیتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے، لیکن خود محمدصاحب لوگوں کی طرف سے بناوٹی سبب قرآن کے اترنے کا پیش کرتے ہیں یعنی پیش دستی سے خود ہی اگر مگر لگا کر لوگوں کی خواہش فرض کی ہے۔حالانکہ لوگ کہتے تھے کہ ہم توریت وقرآن دونوں کو نہیں مانتے(سورہ قصص آیت۴۸) پھر یہ کہ ہم ہر گز نہ مانیں گے یہ قرآن اور نہ اس سے اگلا(سورہ سبا رکوع ۴ آیت ۳۰) اور اس قرآن کی نسبت یہ کہا کرتے تھے کہ کچھ نہیں یہ مگر جھوٹ باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے یہ نقلیں ہیں اگلوں کی جو لکھ لیا ہے سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس پاس شام و صبح(سورہ فرقان رکوع پہلا) یاد رہے کہ اس بات کی محمدصاحب نے تردید بالثبوت نہ کی صرف اپنا معمولی دعویٰ سنا دیا تھا۔پس جس حال کہ منکروں کا اس قرآن کی نسبت یہ گمان تھا تو ایسی کتاب کے لئے وہ کیونکر آرزو کر سکتے تھے۔ کچھ نہیں صرف محمدصاحب نے آپ ہی لوگوں کی طرف سے آرزو فرض کر کے کہا کہ کبھی تم ایسا کہنے لگو کہ اے رب ہمارے وغیرہ اور پھر یہ کہ اگر ہم پر اترتی کتاب،الخ۔اس واسطے ہم نےاتاری ہے یہ کتاب۔ظاہراً یہ فرضی آرزو قرآن کے اترنے کا کوئی سبب نہیں ہوسکتی ۔اگر ان کی آرزو اس کے نزول کی ضرورت کی وجہ تھی تو ان کی عدم خواہش اس کی عدم ضرورت قائم کرتی ہے اور وہ عدم خواہش بلکہ صریح انکار قرآن ہی سے ثابت ہے،مگر آرزو ثابت نہیں ہے۔لہٰذا قرآن کے نزول کے لیے محمد صاحب کی یہ وجہ بالکل ناقص ہے۔ایک فرضی بات ہے۔
اسی طرح حضرت نےاہل کتاب سے کہا تھا۔دیکھو سورہ مائدہ آیت۲۲’’اے کتاب والو آیا ہے تم پاسں رسول ہمارا توڑا پڑے پیچھے رسولوں کا ۔ کبھی تم کہو ہم پاس نہ آیا کوئی خوشی یا ڈر سنانے والا۔سو آچکا تم پاس خوشی اور ڈر سنانے والا‘‘۔ یہ بھی ویسی ہی فرضی بات ہے جیسی آپ نے منکروں سے بیان کی تھی اور ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے لیے یہ بالکل کچھ وجہ ضرورت قرآن کے لئے نہ تھی۔ان کو ایسا خیال کرنے یا کہنے کی حاجت ہی نہ تھی۔ یہودی توریت رکھتے تھے جس کی نسبت محمد صاحب یہود کے سامنے اچھی گواہی دیتے تھے اور توریت میں بھی ان کو توریت ہی کی تعمیل کی ہدایت تاکیدی تھی۔ایسے لوگوں کی طرف سے ایسی فرضی باتیں پیش کرنا بالکل فضول تھا۔انبیا ئےسابقین کے اختتام کے بعد وہ لوگ مسیح کی انتظاری کرتے تھے اور خداوند یسوع کو مسیح نہ مانا اور اپنی اس بے ایمانی کے سبب اب تک کسی مسیح کی انتظاری کرتے ہیں ۔محمدصاحب کے لیے خواہش ظاہر کرنے کی ان کو کیا حاجت تھی جو محمدصاحب ایسی فرضی بات ان کی طرف سے لکھتے ہیں اور پھر عیسائیوں کو تو یہ فرضی آرزو کرنے کی گنجائش ہی نہ تھی ،کیونکہ انجیل میں مسیح کے بعد کسی نبی کتاب والے کی خبر نہیں ہے۔البتہ مسیح کے مخالفوں کی خبریں ہیں ۔جھوٹے نبیوں کی خبر ہے اور پھر ان کو ایسی آرزو کرنے کے برخلاف قطعی ممانعت تھی ،جیسا لکھا ہے کہ ’’اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرِشتہ بھی اُس خُوشخبری کے سِوا جو ہم نے تمہیں سنائی کوئی اور خُوشخبری تمہیں سنائے تو ملعُون ہو‘‘(گلتیوں۸:۱)۔اس سے ناظرین سمجھیں کہ انجیل کی روسے محمدصاحب کو کیسا سمجھنا چاہیئے۔ محمدصاحب نے بالکل پوچ وجہ قرآن کے آنے کی پیش کی ۔دراصل یہ کوئی وجہ ہی نہ تھی کہ جس کے سبب قرآن آیا۔مگر حضرت کا فرضی خیال ہے۔
پھر اس بات کا خیال کرنا چاہیئے کہ اہل کتاب عموماً قرآن ہی سے ظاہر ہے۔سور ہ مائدہ رکوع ۱۰ آیت۷۲ ’’اور ان میں بہتوں کو بڑھے گی اس کلام سے جو تجھ کو اترا تیرے رب سے شرارت اور انکار سوتو افسوس نہ کر اس قوم منکر پر‘‘۔پھر سورہ عمران آیت۹۹ ’’تو کہہ اے کتاب والو کیوں روکتے ہو اللہ کی راہ سے ایمان لانے والوں کو ڈھونڈتے ہو اس میں عیب اور تم خبر رکھتے ہو اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کام سے ‘‘۔سورہ مائدہ آیت۶۴’’تو کہہ اے کتاب والو کیا بہتر ہے تم کو ہم سے ۔مگر یہ ہی کہ ہم یقین لائے اللہ پر اور جو ہم کو اترا اور جو اترا پہلے‘‘، انتہیٰ۔پس اس حال میں وہ کیونکر قرآن جیسی کتاب کی کبھی آرزو کرنے والے تھے۔وہ تو اس کے انکاری تھے۔اس کے ساتھ معلوم کرو کہ محمدصاحب نے اہل کتاب کو توریت اور انجیل پر عمل کرنے کی ہدایت دی تھی ،جیسا قرآن سے مصرح ہے۔سورہ مائدہ آیت۷۴’’تو کہہ اے کتاب والو تم کچھ راہ پر نہیں جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل ۔اور جو اترا تم کو تمہارے رب سے ‘‘۔پھر اسی سورہ مائدہ کی آیت۵۱،۴۸ دیکھو آیت ۵۱ میں یوں ہے’’ اور چاہیئے کہ حکم کریں انجیل والے اس پر جو اللہ نے اتارا اس میں اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کے اتارے پر سو وہی لوگ ہیں بے حکم‘‘۔جائے غور ہے کہ ایک طرف تو اہل کتاب قرآن کو مانتے نہ تھے اور دوسری طرف محمدصاحب ان کو توریت اور انجیل پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہیں ۔تو پھر کیونکر وہ لوگ ،وہ فرضی خیال کبھی کر سکتے جو محمدصاحب نے ان کی طرف سے کیا ہے۔اس صورت میں محمدصاحب کا قول قرآن کے حق میں بالکل رائیگاں ہے۔فضول کتاب کے لئے ایک فضول دلیل ہے۔
البتہ ایک جگہ ذکر ہے کہ اہل کتاب نے کہا کہ ہم پر اتار لا کتاب آسمان سے(سور ہ نسا رکوع۲۲ آیت۱۵۲ )۔حضرت نے ان کا سوال تو پورا نہ کیا مگر کہہ دیا کہ مانگ چکے ہیں موسیٰ سے اس سےبڑی چیز،الخ ۔ مانگنے پر تو کوئی کتاب نہ دی مگر خوانخواہ فرض کیا کہ کبھی تم کہو کہ ہم پاس نہ آیا کوئی ڈر سنانے والا ،الخ۔الحاصل محمدصاحب کا یہ قول قرآن کی ضرورت کی دلیل نہیں ہو سکتا۔
(۲) سورہ نحل رکوع۸ آیت۶۶’’اور ہم نے اتاری تجھ پر کتاب اسی واسطے کہ کھول سنائے ان کو جس میں جھگڑ رہے ہیں‘‘ ۔پھر سورہ مائدہ آیت ۱۶’’ اے کتاب والو آیا تم پاس رسول ہمارا کھولتا تم پر بہت چیزیں جو تم چھپاتے تھے کتاب کی اور درگزر کرتا ہے بہت چیزوں سے‘‘۔
واضح ہو کہ جب ہم نےاس رسول کو اس قول کی صداقت کے لیے آزمایا تو اسے ان باتوں کی نسبت غلط کار اور ناواقف پایا جن کی نسبت لوگ جھگڑتے اور جن کو چھپاتے تھے،مثلاً مسیح کی الوہیت کی نسبت جو بیان محمدصاحب نے کیا ہے اس کا موجب تعلیم انجیل سے محض ناواقفی تھی۔ اگرچہ محمدصاحب کہتے تھے کہ جو میں کہتاہوں وہ تحقیق بات ہے ،مگر اصل بنا اس کی ناواقفی تھی( دیکھو رسالہ ہٰذا فصل پنجم دفعہ ۶)۔
پھر مسیح کے مصلوب ہونے کی نسبت محمدصاحب نے کہا کہ’’ جو لوگ اس میں کئی باتیں نکالتے ہیں وہ اس جگہ شبہے میں پڑے ہیں ،کچھ نہیں ان کو اس کی خبر مگر اٹکل پرچلنااور اس کو مارا نہیں بے شک بلکہ اس کو اٹھایا اللہ نے اپنی طرف اور نہ اس کو مارا ہے، نہ سولی دیا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے‘‘(سورہ نسا رکوع۲۲ آیت۱۵۷،۱۵۶)۔اس میں بھی محمدصاحب نے صریح غلطی کی ہےاور جھگڑے کو منکشف کرنے میں آپ نے بدعتیوں کا ساتھ دیا ہے جنہوں نے اس بات میں انجیل مقدس کے ساتھ اختلاف کر رکھا تھا۔اس لئے محمدصاحب کا دعویٰ کہ قرآن اس لئے آیا کہ کھول سنائے جس میں جھگڑ رہے ہیں ،بالکل فضول اور غلط ہے۔آپ کو اس بات کی صحیح خبر ملی ہی نہیں اور غلط سنا دیا اور اس لئے قرآن بے فائدہ آیا(دیکھو رسالہ ہٰذا فصل پنجم دفعہ ۷)۔
پھر دین ابراہیم کی نسبت اہل کتاب کے جھگڑے پر جو آپ نے سورہ عمران رکوع۷ میں بیان کیا ہے وہ یہودیوں کی طالمود کا بیان ہے اور وہی حضرت نے اپنے فیصلے میں سنا دیا(دیکھو رسالہ ہٰذا فصل پنجم دفعہ ۳)۔غالباً یہود اور عیسائی ابرہام کے یہودی یا عیسائی ہونے کی نسبت جھگڑے ہوں گے۔حقیقت میں دونوں درست تھے ۔مگر محمدصاحب نے توریت اور پھر انجیل کی ناواقفی کے سبب کہہ دیا کہ وہ نہ یہودی تھا نہ نصاریٰ کیونکہ توریت اور انجیل اس کے بعد اتری تھیں اور اس میں لطف یہ ہے کہ اپنی مناسبت ابرہام کے ساتھ پیش کردی ۔ حالانکہ قرآن انجیل سے بھی پیچھے آیا ہے ۔اچھی خبر رکھتے تھے جو اس طرح کی کارروائی کی ! پس اس امرمیں محمدصاحب نے نہ صرف نقل بلکہ غلطی بھی کی ہے۔
یہی حال ان باتوں کا ہے جن کی نسبت کہا ہے کہ لوگ چھپاتے تھے ۔حضرت محمدصاحب سمجھتے تھے کہ اگلی کتابوں میں میری نسبت خبر ہے اور ان کا اشارہ انہیں خبروں کی طرف ہے جب کہتے ہیں کہ لوگ چھپاتے تھے کتاب کی بات۔چنانچہ کئی ایک موقع پر آپ نے اس بات کو ظاہر بھی کیا تھا۔چنانچہ سورہ اعراف رکوع۱۹ آیت۱۵۸’’وہ جو تابع ہوتے ہیں اس رسول کے جو نبی ہے امی جس کو پاتے ہیں لکھا ہو ااپنے پاس توریت اور انجیل میں ‘‘۔پھر سورہ صف آیت ۶’’اور جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا آیا ہوں اللہ کا تمہاری طرف سچا کرتا اس کو جو مجھ سے آگے ہے تورات اور خوشخبری سناتا ایک رسول کی جو مجھ سے پیچھے اس کا نام ہے احمد‘‘ ۔ظاہر ہے کہ توریت میں محمدصاحب کی بابت خبر نہ تھی۔البتہ یہودی خداوند یسوع کومسیح نہ ماننے کے سبب کسی اور مسیح کی انتظاری کرتے تھے ۔ممکن ہے کہ محمدصاحب نے اس امر میں ان لوگوں کے فریب میں آکے یہ بات کہی تھی اور انجیل میں سے عیسیٰ کی زبانی جو خبر اپنی نسبت پیش کی ہے ،وہ انجیل میں نہیں ہے۔اس لیے محمدصاحب نے غلط کہا ہے، ورنہ لوگوں نے یہ بات چھپائی نہ تھی اور ایک جعلی انجیل میں جو برنباس کی کہلاتی ہے ،یہ ذکر پایا جاتا ہے ۔یہ انجیل برنباس مسیح کے بعد پانچویں صدی میں سننے میں آئی تھی اور زمانہ محمدصاحب میں ا س میں کسی عیسائی محمدی نے یہ باتیں بڑھائیں اور اس انجیل برنباس کا جھوٹا ہونا اور طرح سے بھی ثابت ہے( دیکھو رسالہ ہٰذا فصل پنجم دفعہ۷ اور اسی فصل کا ضمیمہ اور بھی دیکھو اظہار عیسوی جلد دوم باب۳ فصل ۳ )۔غرض کہ محمدصاحب نے اہل کتاب پر یہ عیب لگایا ہے کہ تم چھپاتے ہو کتاب کی باتیں حالانکہ وہ چھپاتے نہ تھے۔ لیکن ان کی کتابوں میں وہ باتیں نہیں تھیں۔پس ظاہر ہے کہ محمدﷺ نے بہت خبریں کھولنے میں بہت غلطیاں بھی کی ہیں جن میں سے کئی ایک رسالہ ہٰذا کی فصل چہارم و پنجم کے ملاحظہ سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔اس لیے اہل کتاب قرآن جیسی کتاب کے نہ خواہش مند ہوئے تھے اور نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ۔پس معلوم ہوا کہ یہ قول بھی محمدصاحب کا فضول گوئی میں داخل ہے اور قرآن کی ضرورت کے لئے محمدصاحب کی وجہ اور بھی ناقص ہے۔
تنبیہ
جاننا چاہیئے کہ اگر ہرقوم میں صحیح امور اخلاقیہ کی نسبت موافقت ہو تو کچھ عجب نہیں کیونکہ موافقت ہونی ضروری ہے۔زیرا کہ ہر قوم ایک ہی اصل کی نسل ہے اور وہ اصل خواہ آدم، خواہ نوح کو تصور کر لو۔حق تعالیٰ نے انسان کے باطن میں یہ باتیں گویا لکھ دی تھیں، مگر برگشتگی اور ایک دوسرے سے علیحدگی کے سبب امور اخلاقیہ میں متفرق قسم کے تصور اور اختلاف پڑ گئے۔صحیح علم کی ناقص حالت ہوگئی اور یہ واقعی بات ہے کہ اس حال میں اخلاق کے بگاڑ کی مختلف صورتیں ہوگئی ہیں ، مگر صحیح اخلاق کی ہر زمانہ ،ہر ملک اور ہر قوم میں موافقت ہے اور ہونی لازم ہے۔ پس جب اللہ حق تعالیٰ نے کامل اور صحیح اخلاق دوبارہ جتانا مناسب جانا اور ویسا ہی کیا تو اس میں صرف یہی بات شامل نہ ہوئی کہ ناقص کی صحت ظہور میں آئے اور بس۔اس مرض کی دوا تو ضرور تھی لیکن اس میں کل اخلاق کی تعلیم شامل ہے یعنی وہ امور جن کی صحت قائم تھی اور وہ جن کی تصحیح کی گئی ہر دو قسم شامل ہیں ۔ صحیح اخلاق ایک مکمل قانون اخلاق ظاہر کرنے کے لحاظ سے ترمیم شدہ کے ساتھ پھر بیان کیا گیا اور ا س کی تکرار سے یہ دھوکا کہ شاید ترمیم شد ہ امور ہی کل رسم اخلاق ہوں گے، دور ہوا۔اب اس حال میں جس قدر صحیح اخلاق کسی قوم یا سب قوموں میں باقی تھا یا ہے(یعنی جہاں الہام نہیں پہنچا) ضرور اس مشاہدہ کے موافق ٹھہرے گا جو خدا نے گویا دوبار ہ انسان کو بتایا یعنی صحیح اخلاق خواہ وہ الہامی کتابو ں میں ہو خواہ غیر الہامی میں ضرور موافق ہوگا۔ خواہ وہ غیر الہامی کتابیں یا روایتیں الہام سے پہلے کی ہوں ۔اب واضح ہو کہ یہ ہرگزخیال نہ کیا جائے کہ صیغہ اخلاق میں ہم ہر قوم کے صحیح اخلاق کی عدم ضرورت مد نظر رکھے ہوئے ہیں، ہر گز نہیں (البتہ ان قوموں کو ہماری طرف سے یہ آواز ہے کہ اب اس ہادی کامل کی طرف رجوع کریں) ۔لیکن غرض یہ ہے کہ قرآن جو بائبل سے بیشتر نسبت دکھاتا ہے اس کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ بائبل میں ہر قصور و فتور کو جو اخلاق میں پڑ گیا تھا صحیح کر کےمعاً اجزا ئےاخلاق کے جن میں صحت باقی تھی ایک کامل اور صحیح قانون ظاہر کیا ہے۔ تو پھر اس حال میں قرآن کی کیا ضرورت ہوئی ؟اور پھر بڑے غضب کی بات ہے کہ اسی بائبل کے اخلاق وغیرہ کو (جھوٹ باتیں اور غلط اخلاق کی اَور جگہ سے سیکھا)قرآن میں بیان کر کے محمدصاحب نے صرف اپنے نبی ہونے کا دعویٰ ظاہر کیا ہے ۔ہاں صرف اپنا یہ شوق پورا کیا ہے، ورنہ قرآن کی کسی امر کے لئے ضرورت نہ تھی ۔ بائبل کا مقابلہ نیچر اور اہل نیچر سے ہے اور قرآن کا بائبل سے ہے۔پس قرآن کی ضرورت بائبل کے مقابلہ میں قائم کرنی چاہیئے۔مگر کیا ضرورت ثابت ہوگی، اس کی تو قرآن تعظیم بجا لاتا ہے ۔بے شک قرآن والوں کی حالت پر ہم کو دل سے افسوس ہے۔ کیوں یہ لوگ بائبل کو چھوڑے ہوئے ہیں اور اس کے بر خلاف ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک فضول کتاب کے جوئے میں سرد یا ہوا ہے۔ اے برادران ہم نے آگاہ کردیا ہے، آگے تم جانو۔
خیال رہے کہ ہر ایک وثیقہ (معاہدہ) اپنی مطلب بر آری(کام نکالنا) کے لئے اپنی اپنی طرز بیان اور طرز ثبوت رکھتا ہے اور اپنی ایک دفعہ کی کہی ہوئی بات کو دوسرے موقع پر ضرورت کے موافق دوبارہ اور سہ بارہ پیش کر سکتا ہے،جیسا کل عہد عتیق ایک وثیقہ ہے اور ایک بیان یا نبوت یا تعلیم کو دوسرے موقع پر بیان کر کے تائید اور تشریح کرتا ہے ۔یا ویسے ہی بیان کا موقع دیکھ کر ایسی تکرار ظہور میں آتی ہے یعنی اپنے مطلب کو ہر صورت اور ہر موقع سے پورا کرتا ہے ۔ اسی طرح عہدجدید میں ہے اور ایساہی قرآن میں ہے۔ ہمارا مطلب نہ تھا کہ قرآن میں ایک بیان کو اس کے اسی قسم کے دوسرے بیان سے فضول ٹھہرا ئیں، یہ دیکھ کر کہ قرآن میں ایسی تکرار کی مثالیں کثرت سے ہیں ۔لیکن یہ کہ قرآن ایک جدا اور نیا وثیقہ بجائے خود ہونے کا مدعی ہے اور اس حیثیت میں ہو کر مواثیق (میثاق کی جمع)سابقہ کے مقابل میں ا س کی کیا ضرورت تھی ۔ہاں خیال رہے کہ عہد عتیق میں توریت ،زبور، امثال ، یسعیاہ،یرمیاہ اور دانی ایل وغیرہ علیٰحدہ علیٰحدہ وثیقے نہیں ہیں اور نہ انجیل میں اناجیل اربع ، اعمال الرسل اور نامجات وغیرہ جدا جد ا وثیقے ہیں اور نہ قرآن میں ہر ایک سورۃ یا ہر ایک سی پارہ بجائے خود کامل قرآن ہے ۔مگر یہ کل کتاب کے ترکیبی یا اثباتی اجزا ہیں ۔پس محمدی ناحق ہمارے بیان سے تنگ ہوتے ہیں اور اصل مطلب سے کتراتے ہیں اور لاچاری کی علامتیں ظاہر کرتے ہیں ، جب کہہ بیٹھتے ہیں کہ عہد عتیق یا جدید میں فلاں بیان کی تکرار آئی ہے اور اس لئے فضول ہے ۔ان کے جواب میں ہم بھی قرآن کی ایک سورۃ کو دوسری سے فضول ثابت کر سکتے ہیں۔مگر یہ ہماری غرض نہ تھی بلکہ یہ تھی کہ کل قرآنی انتظام بائبل مقدس کے سامنے فضول ہے اور اس امر کو ہم نے ثابت کیا ہے اور نیز ان باتوں کا بھی جواب تحقیقی دیا گیا جو الزاماً اور نافہمی مدعا کے سبب پیش کی گئی تھیں اور ہمارا مطلب یا دعویٰ جیوں کا تیوں قائم و ثابت ہے کہ بائبل کے مقابل میں یا اس کی موجودگی میں قرآن سراسر فضول کتاب ہے اور یوں ہی حق ہے۔
فصل ہشتم
پہلا حصہ
وہ نبی پر گفتگو
سوال عبد المجید صاحب(ایڈیٹر صاحب سلامت)
بعد سلام کے التماس یہ ہے کہ ان چند سطروں کو اپنے اخبار میں جگہ دے کر ممنون فرمایئے ۔وہ یہ ہیں کہ اخبار نور افشاں نمبر۲۲ جلد ۸ مطبوعہ۲۷ مئی ۱۸۸۰ ء صفحہ۱۷۳ مضمون بعنوان قرآن کی عدم ضرورت منجانب ٹھاکر داس عیسائی میری نظر سے گزرا۔لہٰذا میں نے بھی مناسب جا نا کہ صرف دو بات ٹھاکرداس صاحب سے دریافت کروں ۔اول، یہ کہ انجیل یوحنا۲۰:۱’’ تو اُس نے اِقرار کِیا اور اِنکار نہ کِیا بلکہ اِقرار کِیا کہ مَیں تو مسیح نہیں ہُوں‘‘۔(آیت ۲۱)’’ اُنہوں نے اُس سے پُوچھا پِھرکَون ہے ؟ کیا تُو ایلیاہ ہے ؟ اُس نے کہا مَیں نہیں ہُوں۔ کیا تُو وہ نبی ہے ؟ اُس نے جواب دِیا کہ نہیں‘‘۔اب ۱۹ ویں صدی عنقریب گزرنے والی ہے کیا آج تک وہ نبی نہیں آیا۔اب آپ کو لازم ہے کہ اس نبی کا نشان دیں ۔دوسرے یہ کہ آپ کے نزدیک قرآن شریف تصنیف انسانی ہے تو مہربانی فرما کر ایک دو صفحہ مثل قرآن شریف کے بنا کر پیش کیجئے اور جب یہ دونوں امر ایسے انجام کو نہ پہنچےتو آپ ہی فرمایئے کیا آپ کو اور آپ کی کتاب کو سچا سمجھا جائے گا ،ہر گز نہیں او ر جو آپ صرف تو تو میں میں کے پھیر میں ہوں تحقیقات کے درجہ میں نہ آئیں تو آپ کو اختیار ہے ،خوب خلق ہنسائی کیجئے ۔ جس وقت آ پ کی جانب سے دو نوں امر متذکرہ بالا کامل طور پر تحقیق ہو جائیں گےآپ کی تحریر نمبر۴،۳،۲ کا جواب شافی دیا جائے گا۔(راقم عبد المجید محرر کوٹھی افیوں شاہ جہاں پور)۔
جواب پادر ی صاحب۔’’وہ نبی‘‘ سے کنایہ اس نبی کی طرف ہے جس کی استثنا۱۸،۱۵:۱۸ میں خبر ہے اور وہ مسیح عیسیٰ ہے۔ اِلّا یاد رہے کہ بعض یہو د کا گمان تھا کہ وہ نبی مسیح سے علیٰحدہ اور ایک اَور ہی نبی ہے جو آنے والا تھا۔یوحنا۲۱،۲۰:۱ اس نے اقرار کیا۔۔۔ کہ میں مسیح نہیں ہوں ۔۔۔پس آیا تو و ہ نبی ہے اس نے جواب دیا نہیں ۔ پھریوحنا۴۰:۷۔۴۱’’پس بھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سنکر کہا بیشک یہی وہ نبی ہے۔ اَوروں نے کہا یہ مسیح ہے اور بعض نے کہاں کیوں ؟ کیا مسیح گلیل سے آئے گا ؟ اور بھی دیکھو۱۴:۶۔ یہ ان اہل یہود کا خیا ل تھا اور اس خیال میں اس سبب پڑ سکتے تھے کہ کتاب استثنا میں صرف ایک نبی سے بیان ہوا ہے اور نوشتوں کو نہ جا ن کر سوائے وہ نبی کے زیادہ نہ کہہ سکتے تھے۔
برخلاف ان کے بعضوں کا گمان تھا کہ وہ نبی سے مراد مسیح ہے ،جیسا سوخار شہر کی عورت کی باتوں سے ظاہر ہے اور وہ عورت سامری تھی اور سامری سوائے توریت کے اور کتابوں کو نہ مانتے تھے ۔اس کی بابت لکھا ہے’’ عَورت نے اُس سے کہا مَیں جانتی ہُوں کہ مسیح جو خرِستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا‘‘(یوحنا۲۵:۴)۔یہ بات ان لوگوں کو توریت ہی سے معلوم ہوئی اور استثنا والی خبر کے سوائے مسیح کے اس سے بڑھ کر صریح خبر کا نشان نہ رکھتے تھے۔ پھر یوحنا۴۵:۱ میں ہے’’فلپُّس نے نتن ایل سے مِل کر اُس سے کہا کہ جِس کا ذِکر مُوسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کِیا ہے وہ ہم کو مِل گیا۔ وہ یُوسُف کا بیٹا یِسُوع ناصری ہے‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ بعض اس نبی اور مسیح کو ایک ہی سمجھتے تھے۔
واضح ہو کہ یہ اختلاف رائے اسی زمانہ میں جس کو پونے انیس سو برس گزر گئے ،رفع ہو گیا تھا ۔ وہ نبی سے سوائے مسیح کے کوئی اور نبی تصور کرنے کی گنجائش ہی نہ رہی، جیسا کہ مسیح اور اس کے رسولوں کے اقوال سے مصرح ہے جس میں ذرا بھی کلام نہیں ہو سکتا۔
اقوال مسیح
’’ کیونکہ اگر تُم مُوسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اِس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لِکھّا ہے‘‘(یوحنا۴۶:۵ )۔’’ پِھر اُس نے اُن سے کہا یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تُم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرُور ہے کہ جِتنی باتیں مُوسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبُور میں میری بابت لکھی ہیں پُوری ہوں‘‘( لوقا ۴۴:۲۴ )۔
ااقوال رسل
پطرس رسول خداوندیسوع مسیح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اور استثنا والی خبر کا حوالہ دیتا ہے ’’ چنانچہ مُوسیٰ نے کہا کہ خُداوند خُدا تمہارے بھائِیوں میں سے تمہارے لِئے مجھ سا ایک نبی پَیدا کرے گا۔ جو کُچھ وہ تم سے کہے اُس کی سُننا۔اور یُوں ہوگا کہ جو شخص اُس نبی کی نہ سُنے گا وہ اُمّت میں سے نیست و نابُود کر دِیا جائے گا‘‘(اعمال ۲۲:۳۔۲۳)۔’’ لیکن خُدا کی مدد سے مَیں آج تک قائِم ہُوں اور چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دیتا ہُوں اور اُن باتوں کے سِوا کُچھ نہیں کہتا جِن کی پیش گوئی نبیوں اور مُوسیٰ نے بھی کی ہے۔ کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا ضرُور ہے اورسب سے پہلے وُہی مُردوں میں سے زِندہ ہو کر اِس اُمّت کو اور غَیر قَوموں کو بھی نُور کا اِشتہار دے گا‘‘( ۲۲:۲۶۔۲۳) اور بھی دیکھو کتاب ہٰذا۳۷:۷۔
اب اے سائل جس حال کہ بائبل اپنی نبوت کا نشان و پتا آپ ہی بتاتی ہے تو یہ کم ترین اس سے زیادہ اور کیا بتائے۔مصلحت یہی ہے اور خیر بھی اسی میں ہے کہ ایسی نبوت کے خیالی پتے نہ پوچھیں اور نہ بتائیں ۔مگر حسب ضرورت واقعی نشان اور بھی بتائے جا سکتے ہیں ۔بالفعل ان یقینی نشانوں ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔لیکن اگر اب بھی آپ کا دل ان فریسیوں کے سوال پر لگا ہو کہ آیا تو وہ نبی ہے؟ اور اگر سمجھو کہ ان کا اشارہ استثنا والی خبر کی طرف نہ تھا تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے خیالی وہ نبی کا بندہ ذمہ دار نہیں ہے ۔اس حال میں وہ کتابی نہ ہونے کے سبب مردود ٹھہرے گا۔
دوسرے سوال۔میں آپ نے عجب باتیں پیش کی ہیں ۔ہنوز بندہ آپ کے جواب میں اسی قدر اظہار کرتا ہے کہ آج تو آپ نے ایسا سوال کیا کل کو کوئی ہومر کا بالکا یا کالی داس کا حامی یا ملٹن صاحب کا خیر خواہ بھی یونہی کہہ اٹھے کہ دو دو صفحے مثل ان کے بنا کر پیش کرو تو میں سمجھتا ہوں کہ میر ے لئے یہ بہت کام ہو گا اگر نہ کروں ادھر تو قرآن کلام خدا ٹھہرتا ہے اور ادھر ہومر کی ایلیڈر ربانی ہوئی جاتی ہے اور پھر ملٹن صاحب کے خیر خواہ ہونے کا بھی خوف ہے کہ کہیں الہام الہام نہ پکار اٹھیں ۔ اس لئے آپ کو خوب طرح معلوم ہو کہ ظاہری سفیدی جس میں انسان کے ہنر کا کمال ہی کیوں نہ ہو اندرونی خوبیوں یا خرابیوں کی نسبت بہت ہیچ جانتا ہوں ۔گھاس پھوس کے جھونپڑے پر ہاتھی دانت کے پارچھے کی حیثیت کا بہت ہی کم قدر دان ہوں اور یقین ہے کہ کسی چیز کی عمدگی ، پختگی اور فائدہ اسی طریق سے کماحقُہ،(کما۔حَق۔قُ۔ہُو۔بخوبی) دریافت ہو سکتا ہے۔
پھر آپ کہتے ہو کہ جب یہ دونوں امر آپ سے انجام کو نہ پہنچے تو آپ ہی فرمایئے کیا آپ کو اورآپ کی کتاب کو سچا سمجھائے گا ۔ایک کا تو ساتھ ہی جواب شامل ہے اور دوسرا فرض کرو مجھ سے نہ ہو سکے تو کیا اس سے بائبل جھوٹی ٹھہرے گی؟ آپ کیا کہتے ہو؟ کیا اگر پارا ڈاینرلاسٹ کے موافق ایک اورکتاب نہ بن سکے تو اس سے گبن صاحب کی تواریخ فال آف دی رومن امپائر جھوٹ ٹھہرے گی؟ہر گز نہیں ۔ ذرا نسبت کا تو خیال کیجئے۔
پادر ی صاحب کادوسرا جواب ۔ پھر آپ نے منشور محمدی مطبوعہ ۵ذیقعد ۹۷ء میں بندہ کے جواب مسطورہ بالا پر کچھ نہ کچھ تو لکھ ہی دیا۔ مگروہ جواب ہمارے جواب کےکسی جزو پر اثر نہیں کرتا۔چنانچہ ہمارے اس قول پر کہ نوشتوں کو نہ جا ن کر سوائے وہ نبی کے زیادہ نہ کہہ سکتے تھے۔آپ کا یہ بیان ہے۔
قَولُہ‘۔ان یہود سے جو نوشتوں کو نہ جان کر سوائے ’’وہ نبی‘‘ کے زیادہ نہ کہہ سکتے تھے متذکرہ بالا کے یہود کا قول معتبر ہے جنہوں نے نوشتوں کو جان کر مسیح اور وہ نبی کو علیٰحدہ کر دیا کیونکہ وہ نوشتوں سے واقف اور یہ بے چارے ناواقف ،الخ۔
واضح ہو کہ ان ہی یہود سے ہماری مراد ہے جنہوں نے اس امر میں اختلاف رائےظاہر کی ۔مگر حقیقت میں ان کی باتیں ایک ہی نتیجہ دکھاتی ہیں ۔ چنانچہ جنہوں نے وہ نبی کہا انہوں نے نہ جانا کہ وہ نبی اور مسیح ایک ہی ہے اور جنہوں نے مسیح کہا و ہ بھی ناسمجھ رہے کہ مسیح وہی نبی ہے ،ورنہ ایسا نہ کہتے ۔پس وہ ناواقفی ہر دو قسم کے ذمے ہے۔ دونوں نے مسیح اور وہ نبی کو علیٰحدہ سمجھا۔لہٰذا ایک کو دوسرے کی بہ نسبت معتبر کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔پھر یہود کا نوشتوں کی ان باتوں کو نہ جاننا جو آیندہ کی خبر دیتے تھے ،ایک تحقیقی امر ہے۔چنانچہ مسیح نے یہود کو نہ صرف اور باتوں کی ناواقفی پر ملامت کیا(متی۲۹:۲۲) بلکہ اس موعودہ کی خبروں کی نسبت بھی ناسمجھ ٹھہرایا(دیکھو یوحنا۴۶،۴۵:۵ اور لوقا۴۵:۲۴)۔اس لئے اب مناسب ہے کہ دیدہ و دانستہ نا سمجھ نہ رہیں۔قطع نظر اس سے جب یوحنا ۱۴:۶ پر غور کرتے ہیں تو اس موقع پر ایسا اختلاف نہیں پاتے ۔مگر اس بیان سے یہ پایا جاتا ہے کہ توریت اور انبیا کی اس قدر نبوتوں کے باوجود صرف ایک بڑے نبی کے آنے کی انتظاری تھی او ر یہ بات دوسرے گمان کی مؤید ہے اور یہی گمان قوی ثابت ہوا ۔یوحنا بپتسما دینے والے نے بھی اسی مضمون کا سوال کیا تھا۔پھر سامری عورت کے بیان پر بھی جو ہم نے پیش کیا تھا کچھ ایسا ہی بے موقع ذکر کرتے ہیں اور مطلب کی بات کا خیال ہی نہیں کیا، چنانچہ
قَولُہ‘۔اس نیک بخت عورت نے تو وہ نبی کا نام تک نہیں لیا ۔صرف مسیح کو خرستُس کہا تھا اور خرستُس لفظ یونانی ہے جس کا ترجمہ مسیح ہے۔
واضح ہو کہ ہم نے اس عورت کے بیان کی بابت لکھا تھا کہ مسیح کا آنا ان لوگوں یعنی سامریوں کو توریت ہی سے معلوم ہوااور استثنا والی خبر کے سوائے مسیح کی اس سے بڑھ کر صریح خبر کا نشان نہ رکھتے تھے۔ مگر عبد المجید صاحب کے خیال شریف میں یہ بات نہ آئی اور نہ یہ کہ مسیح کا لفظ ان میں کہا ں سے آیا۔توریت (جس کے سامری پابند تھے) صرف ایک نبی کاپتا دیتی تھی اور عیسیٰ نے(بھی) اس سے کہا میں جو تجھ سے بولتا ہوں وہی ہوں ۔سو صاحب من آپ اس بات کا زور پھر آزمائیں۔
مکرر آپ کو اس بات کا بھی خیال رہے کہ مسیح کوئی خاص نام نہ تھا۔مگر آخر ایک آنے والے کا لقب پڑ گیا اور یہ لقب داؤد اور دانی ایل نےمشہور کیالیکن ضرور تھا کہ کسی مسیح کئے گئے کا پتا انہیں ہو اور وہ پتا وہ توریت میں پاتے تھے اور یہ بات کہ انبیا کی نبوتیں (مسیح کے حق میں) توریت کی نبوتوں کی تفصیل ہیں، انجیل سے بخوبی ظاہر ہے۔پس اگر سامری بھی مسیح اور اس ایک نبی کو ایک ہی نہ جانتے تو غیر مسیح کی امید نہ رکھتے اور نہ یہ لفظ اس ایک نبی پر بولتے ۔
قَولُہ‘۔ رہا قول فیلبوس کا ،اگر آپ کے نزدیک بلا دلیل معتبر ہے تو اَور مذہب میں کیا کیڑے پڑ گئے ہیں جو اس مذہب کے پیروؤں کا قول معتبر نہیں ہوتا۔
واضح ہو کہ اگر اس کے قول کا اعتبار نہیں تو ان کا گمان جن میں سے بعض نے وہ نبی اور بعض نے مسیح کہا مطلق معتبر نہ ہوگا۔ہمارا مطلب توان اقسام خیالات کے بیان کرنے سے یہ تھا کہ اس وقت لوگوں میں اختلاف واقع ہوا ۔جس طرح کوئی ان اخبار قدیم کو سمجھا اسی طرح بیان کیا۔ بعض نے ان سے مختلف شخصو ں کی طرف اشارہ سمجھا اور بعض نے سب سے ایک ہی کی طرف اور کہ وہ اختلاف دفع ہو گیا تھا ۔اس لئے آپ جیسوں کے خیالات کی گنجائش نہیں ہے۔اگر نہ سمجھو تو ہمارا کیا اختیار ہے اور فیلبوس کی بابت یاد رہے کہ وہ اخبار عہد عتیق کو ایسا ہی سمجھے ہوئے تھا اور جب اس پر واضح ہوا کہ عیسیٰ وہ شخص ہے ،تب اس نے اوروں پر بھی وہی بیان ظاہر کیا اور یہ بات اس نے تب ظاہر کی جب مسیح نے اسے کہا کہ میرے پیچھے ہو لے۔پس اس پیروی میں وہ اس بات کی تصدیق بھی حاصل کر سکتا تھا اور مسیح نے خود اس کے قول کے موافق فرمایا تھا، جیسا ہم نے اقوال مسیح میں بیان کیا۔بدیں جہت اس کا قول معتبر ثابت ہوتا ہے۔بایں ہمہ خیال رہے کہ اور مذہب میں کیڑے پڑ جانا بھی کچھ عجب نہیں اور یہ اس حال میں جب پیشوا کو ایک بات کی خبر نہ ہو اور پیرو تیرہویں صدی میں اسے اس کی خبر دیں یعنی سست مدعی(مدعی بھی کہاں )کے چست گواہ بنیں۔ پس آپ کے جواب کا جو ہمارے جواب کے تمہیدی حصہ پر تھا یہ حال ہے ،اب باقی ماندہ کا حال بھی سنیئے گا۔اقوال مسیح میں ہم نے بیان کیا کہ اخبار توریت و انبیا کو مسیح نے اپنے اوپر صادق ٹھہرایا مگر آپ ان سے کیوں منہ پھیر گئے ۔صرف کہہ دیتے کہ معتبر نہیں ہیں تو آپ کی طرف سے یہ جواب ہو جاتا اور رسولوں کے اقوال کی نسبت تو ایسی تحریر سے نہ چوکے ۔چنانچہ پطرس رسول کی نسبت ایسا ہی لکھتے ہو ۔مگر انجانے میں ثابت کرتے ہو کہ استثنا والی خبر مسیح کی خبر ہے۔
قَولُہ‘۔دوسرے یہ کہ جب جناب پطرس خود آپ کے نزدیک معتبر شخص نہیں تو ہمارے لیے ان کا قول سند ہو سکتا ہے ۔آپ کو پطرس کا قول ہی لکھنا مناسب نہ تھا ،الخ۔اس پر متی ۷۴:۲۶ کا حوالہ دیا ہے جہاں پطرس کے انکار کا ذکر ہے اور گلتیوں کے خط۱۱:۲ جس میں پطرس کے ملامت کیے جانے کا بیان ہے۔
دیکھئے صاحب آپ کو اس کے انکار کا اعتبار آگیا اور اقرار کا اعتبار نہ آیا۔یہ کیا چالاکی ہے ۔پس مقام مقدم کی بابت معلوم ہو کہ حواری ہنوز مسیح کے اقوال و افعال کے گواہ ہونے پر بالیقین آمادہ نہ ہوئے تھے ۔مگر جب مسیح مردوں میں سے جی اٹھا اور روح قدس ان پر نازل ہوا، تب انہوں نے بالیقین وہ گواہی دی جو انجیل میں شروع سے آخر تک مندرج ہے۔ پس حالت سابقہ میں پطرس نے مسیح سے انکار کیا مگر باب۲۶ کی آخری آیت میں ہے کہ جب ا س کو یسوع کی بات یاد آئی تو باہر جا کے زارزار رویا۔پھر جب مسیح مردوں میں سے جی اٹھا تو تین بار پطرس نے مسیح کے روبرو اقرار کیا کہ خداوند میں تجھے پیار کرتا ہوں اور مسیح نے اسے گلہ بانی سپرد کی۔بعد اس کے روح القدس رسولوں پر نازل ہوا تو پطرس نے وہ باتیں بیان کیں جو اقوال رسل میں مذکور ہوئیں ۔ پس پطرس کا انکار اس شہادت پر اثر نہیں کرتا ۔وہ انکار اس کے دل کی کمزوری سے ہوا تھا اور یہ شہادت اس نے امداد ربانی سے دی اور اگر کچھ اثر کرتا ہے تو یہ کہ اس کی گواہی کو اور بھی معتبر ٹھہراتا ہےکہ جس نے پہلے شک کیا اور انکار کیا اب قائل ہو انہیں باتوں کا بیان بالثبوت کرتا ہے ۔اس لیے جب اس کے انکار سے اعتبار کم ہو تو اس کے اقراروغیرہ سے قائم ہوتا ہےاور آپ جیسوں کی ایسی تحریر اس دفیع انکار کی رو سے تب ہی دفع ہو چکی تھی۔ لہٰذا آپ کا کہنا کہ پطرس خود آپ کے نزدیک معتبر شخص نہیں ،سراسر غلط ہے کیونکہ پطرس ہمارے نزدیک معتبر شخص ہے۔
پھر پطرس کا ملامت کیا جانا اس کی اپنی ذاتی دلی کمزوری کے سبب ہوا اور ہمارا اعتبار اس کے ان کاموں اور قولوں پر ہے جو روح قدس کی مدد سے ہوئے اور نوشتوں کی شرح رسول اسی قوت ربانی سے کیا کرتے تھے ۔پس یہ دونوں باتیں پطرس کے اعتبار سے کچھ تعلق نہیں رکھتیں۔اس کے بیان جو پیش نظر ہیں روح کے بیان ہیں ۔ہاں مسیح کے سکھائے ہوئے بیان ہیں جن میں مطلق شک نہیں ہے۔
قَولُہ‘۔ ٓپ نے جناب مسیح کو مانند موسیٰ تیزی عقل سے بنایا ہے، مگر یہ خیال آپ کا محال در محال بلکہ محض وہم وخیال ہے کیونکہ اس کی طاقت بے حد ہے ۔ہم اس کی کاریگری ہیں (دیکھو صفحہ۹۳ نورافشاں جلد ۸ مطبوعہ ۱۸ مارچ۱۸۸۰ء)۔ بھلا عیسائی تو مسیح کی کاریگری ٹھہرے ، حضرت موسیٰ کی کاریگری کون سی مخلوق ہے۔ اگر کوئی مخلوق کاریگری موسیٰ کی نہ ہو تو حضرت مسیح کیونکر مانند موسیٰ کے ہو سکتے ہیں ۔اس کا جواب سنبھل کر لکھئے، الخ۔
آپ بھی ذرا حواس قائمہ سے سنیے کہ جب موسیٰ اور مسیح میں موافقت بتائی جاتی ہے تو مسیح کی الوہیت سے نہیں مگر انسانیت سےا ور اس حالت میں ہو کر مسیح کا رسو ل ہونا مسلم ہے ،جیسا ا س نے خود فرمایا اور اقوال رسل سے بھی مصرح ہے (دیکھو اعمال ۲۲:۲ اور یوحنا ۲۶:۵۔۳۸)۔پھر جب پولوس رسول موسیٰ اور مسیح میں مشابہت بیان کرتا ہے تو اس کی ذاتی منزلت کو یگانہ ٹھہراتا ہے کہ ’’ موُسیٰ تو اُس کے سارے گھر میں خادِ م کی طرح دِیانت دار رہا تاکہ آیندہ بیان ہونے والی باتوں کی گواہی دے۔لیکن مسیح بیٹے کی طرح اُس کے گھر کا مُختار ہے اور اُس کا گھر ہم ہیں بشرطیکہ اپنی دِلیری اور اُمید کا فخر آخِر تک مضبُوطی سے قائِم رکھّیں‘‘(عبرانیوں ۶،۵:۳ )،انتہیٰ۔پر پیشتر اس سے جب رسول مسیح کی رسالت اور کہانت کا ذکر کرتا ہے تو یوں کہتا ہے ’’۔۔۔اُس رسُول اور سردار کاہِن یِسُوع پر غَور کرو جِس کا ہم اِقرار کر تے ہیں۔ جو اپنے مُقرّر کرنے والے کے حق میں دِیانتدار تھا جِس طرح مُوسیٰ اُس کے سارے گھر میں تھا‘‘(آیت ۲،۱) ۔اس سے معلوم کرو کہ مسیح کیونکر موسیٰ کی مانند ٹھہرایا جاتا ہےاور یاد رہے کہ موسیٰ کی خبر میں موجود ہے کہ میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔پس مشابہت بھی عہدہ نبوت میں ہے نہ کہ ادھر ادھر کی باتوں میں ،کیونکہ سکندر اعظم بھی کئی ایک باتوں میں موسیٰ کے موافق ہو سکتا ہے۔
پس ظاہر ہے کہ استثنا والی خبر مسیح پر صادق آتی ہے کیونکہ علاوہ ان حوالوں کے جو ہم نے بیان کیے تھے مسیح نے موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کر کے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لیے تفسیر کیں (لوقا۲۷:۲۴ )۔غور کرو کہ اس حال میں حضرت محمدصاحب کے لیے جگہ نہیں ہے ۔اب آپ کے دعویٰ کے لئے دیر ہوگئی ہے اور یہ بھی ہم آپ سے کہے دیتے ہیں کہ یہود کے خیالوں پر کہیں دھو کا نہ کھانا کیونکہ انہوں نے اپنے خیالوں سے آپ کئی مرتبہ فریب کھایا اور کھلایا ہے۔ عہد عتیق کی صحیح تفسیر عہد جدید میں موجو دہے ۔اس کو پڑھو اور بچو۔
دوسرا حصہ
فارقلیط پر گفتگو
یعنی محمد عبد المجید صاحب ضلع گود اوری کے دعویٰ کی تفتیش
منشور محمدی مطبوعہ ۲۵ ذیقعد ۹۷ ہجری نمبر۳۳ جلد ۹ میں محمد عبد المجید صاحب (از ایلو ر ضلع گوداوری) نے کم ترین کے مضامین دربارہ عدم ضرورت قرآن کا جواب تحریر فرمایا ہے اور کہتے ہیں کہ آپ کی عدم ضرورت نبی و قرآن مجید کے لکھنے سے حضرت مسیح اور کتاب مقدس پر نقص لازم آتے ہیں اور ان آیات انجیلی کو پیش کیا ہے جن میں مسیح نے روح القدس کا وعدہ فرمایا ہے اور آپ ا ن کو حضرت محمدصاحب کے حق میں بتاتے ہیں اور اس سے محمد اور قرآن کی ضرورت نکا لتے ہیں۔پس ہم ان کی وجوہات کی تفتیش کر کے ناظرین حق شناس پر واضح کرتے ہیں کہ مسیح کی مراد محمد سے نہیں ہے بلکہ روح قدس سے ہے جو انہیں ایام میں رسولوں پر نازل ہوا اور یوں کسی دوسرے فرضی نبی معود کو خارج کیا۔
قَولُہ‘۔ لفظ فارقلیط کہ جس کا ترجمہ محمد ہے اور اگرچہ مترجموں نے اس ترجمہ کا تسلی دینے والا روح القدس ،روح الصدق حاکم ،جہان کا سردار وغیرہ کیے ہیں ،مگر تاہم ہمارے نبی مطلب کی تائید ہے۔
واضح ہو کہ یونانی لفظ’’αρακλητο ‘‘ (پارا کلیٹاس) جو انجیل یوحنا۶:۱۴ ۱میں مستعمل ہوا ہے اور جس کا ترجمہ تسلی دینے والا کیاگیا ہے۔ اس کا ترجمہ محمد نہیں ہے ۔یہ غلط بات ہے اور اس لفظ کے اور معنی یہ ہیں یعنی وکیل ،مددگار اور اس معنی سے یہ لفظ یوحنا کے پہلے خط۱:۲ میں مسیح کے حق میں بولا گیا ہے۔مگر وہ لفظ جس کے معنی محمد ہیں وہ’’ ‘‘(پیری کلو ٹاس) ہے ۔ان دونوں لفظوں کا مصدر بھی جدا ہے ۔پھر واضح ہو کہ مترجموں نے لفظ مقدم کا ترجمہ روح القدس اور روح الصدق نہیں کیا ،مگراول مسیح نے اور پھر مقدس راویوں نے اس تسلی دینے والے روح القدس اور روح حق کے نام سے بیان کیا ہے یعنی یہ اسی تسلی دینے والے کے اور نام ہیں نہ کہ پارا کلے ٹاس کے مختلف معنی ہیں جیسا آپ کہتے ہیں اور جہان کا سرادر لکھتے وقت چاہیئے تھا کہ اس آیت کا پتا دیتے جہاں یہ لفظ روح القدس یا تسلی دینے والے پر بولا گیا ہے، کیونکہ یوحنا۳۱:۱۲ میں ہے’’ اس جہان کا سردار نکال دیا جائے گا‘‘۔پھر ۳۰:۱۴ میں ہے’’ اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں‘‘۔ پھر ۱۱:۱۶’’عدالت کے بارے میں اِس لئے کہ دُنیا کا سردار مُجرم ٹھہرایا گیا ہے‘‘ اور بھی دیکھو ۲۔کرنتھیوں ۴:۴ اور افسیوں ۱۲:۶ ۔ان مقاموں میں جہان کا سردار اور حاکم شیطان پر بولے گئے ہیں ۔آپ کی کس سردار سے مراد ہے ؟کیا انہیں مقاموں کی طرف اشارہ ہے؟اگر ہے تو خوب ہے۔
قَولُہ‘۔اگر عیسائی یہ اعتراض کرے کہ لفظ فارقلیط شیطان کے لئے بولا گیا ہے تو میں جواب دیتا ہوں یہ اعتراض اس کا سراسر غلط ہے۔
ہاں صاحب اس پاراکلی ٹاس کو شیطان سمجھنا سراسرغلط ہے ،مگر بتایئے کہ کس عیسائی نے یہ اعتراض کیا یا آپ ہی گھڑ گھڑ کے ان کے ذمے لگاتے ہو۔عیسائی یہ اعتراض ہر گز نہیں کرتے ۔اس لیے آپ کی باقی تشریح سب رائیگاں ٹھہری۔خوانخواہ ایک کالم سیاہ کر ڈالا ہے ۔مگر اس تشریح میں سے ایک بات کا اظہار ہم کئے بھی دیتے ہیں ۔چنانچہ
قَولُہ‘۔ کیونکہ آنحضرتصاحب نے ان لوگوں کو جو حضرت مسیح کو رسول نہیں جانتے تھے اور ان کی رسالت کے قائل نہیں ہوئے تھے، سزا دی وغیرہ ۔
صاحب من یہ کام تو حضرت کے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ ایسا کہ زمانہ مسیح کے(یہودی ) منکروں نے ایسی سزا پائی کہ ملک سے بے ملک ہوئے ، قوم ہونے سے موقوف ہوئے ،ہزار ہا برباد ہوئے اور ا ن کی نسل آج تک اس سزا کا اثر بھوگ رہی ہے۔ حضر ت نے کیا سزا دی مارے ہوؤں کو مارا۔ وہ بھی اپنے مطلب کے لئے اس میں مسیح کی کیا خاطر داری کی ۔اگر آپ اس امر سے خوب واقف ہوتے تو ایسا خیال ہرگز نہ کرتے کیونکہ حضرت پہلے تو یہود کی خاطر داری کرتے رہے اور ان کے طریق کی باتیں اختیار کیں ،جیسے نماز کا رخ بیت اقصیٰ کی طرف وغیرہ۔لیکن جب دیکھا کہ یہودی میری رسالت نہیں مانتے اور راضی نہیں ہوتے اور دھوکے دیتے ہیں (سورہ بقر آیت۱۲۰ اور بنی اسرائیل ا ٓیت۷۸)تو ان کو لعنتی اور بے ایما ن کہنا شروع کر دیا(سورہ نسا رکوع۴۲ آیت ۴۳ )اور آخر ان سے لڑائی شروع کر دی۔
قَولُہ‘۔اگر پھر کوئی عیسائی یہ اعتراض کرے کہ تسلی دینے والے سے روح القدس مراد ہے تو میں پھر یہی جواب دیتاہوں کہ یہ دعویٰ بھی ان کا غلط ہے، کیونکہ روح القدس کبوتر کی شکل میں حضرت مسیح پر پہلے ہی نازل ہو چکا ہے(مرقس باب۱۰)اور خود حضرت مسیح آسمان پر جانے سے پیشتر روح القدس اپنے حواریوں کو دے چکے تھے ( یوحنا۲۲:۲۰ )تو پھر اس صور ت میں روح القدس کا نازل ہونا غلط ہے کیونکہ روح القدس تو حواریوں میں موجود تھا ،پھر نازل ہونے کی کیا حاجت تھی۔
واضح ہو کہ یہ بات صحیح ہے اور آپ کا اسے غلط کہنا غلط ہے کیونکہ روح القدس کے متفرق کام ہیں ۔چنانچہ مسیح پر بشکل کبوتر نازل ہونا اس لیے ہوا کہ مسیح کو نہ صرف ممسوح کرے (اعمال۳۸:۱۰) بلکہ یوحنا کو اوراوروں کو بھی یقین ہو کہ مسیح خد اکا بیٹا اور وہی ہے جو آنے والا تھا (یوحنا ۳۴،۳۳:۱) ۔اسی طرح یوحنا ۲۲:۲۰ میں وہ بات حاصل نہیں ہے جوپینتی کوست کے دن واقع ہوئی ،یعنی وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں جیسی روح نے انہیں بولنے کی قدرت بخشی بولنے لگے(اعمال ۴:۲)۔پس معلوم کرو کہ روح القدس کاوقت بوقت دیا جانا خاص مطلب سے خالی نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ خدا کاروح انبیائے سابقین کے ساتھ پہلے بھی ہو ا کرتاتھا ،مگر وہ شراکت اس نزول کی مانع نہیں پھر روح القدس کے حواریوں میں موجود ہونے سے کیا سمجھتے ہو۔ہم تو یہ جانتے ہیں کہ روح القدس کی برکتیں جداگانہ اور بتدریج ہوا کرتی ہیں۔ پینتی کوست کے دن سے پیشتر ایک برکت انہیں دی گئی مگر یہ اور ضروری برکتوں کو نہیں رو کتی ۔پس روح القدس کا بلحاظ زمانہ کے(یعنی پہلے یاپیچھے کے)کسی میں موجود ہونا روح کی کسی برکت یا برکتوں کا موجود ہونا ہے، نہ یہ کہ روح القدس اس میں یا ان میں گھس گئی اور پھر باہر نہ نکلی۔علاوہ اس کے یاد رہے کہ تسلی دینے والے سے ضرور روح القدس ہی مراد ہے ۔دیکھو یوحنا۲۶:۱۴ ’’لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے،الخ‘‘۔ اگر غور کرکے دیکھو تو یہی ایک ہی فقرہ آپ کی ساری چوں چراں کو دورو دفع کرتا ہے۔
قَولُہ‘۔پھر اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ اس وقت روح القدس تھوڑا ملا تھا مگر مسیح کے آسمان پر جانے کے بعد ازکامل روح القدس ملا، تب بھی میں اس کہنے کو غلط جانتا ہوں کیونکہ خدا کچھ پیمائش کرکے روح نہیں دیتا( یوحنا۳۴:۳ فقرہ)۔
واضح ہو کہ تھوڑا یا بہت کہنا تو آپ کی بات ہے۔مگر حقیقت حال وہ ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا یعنی روح القدس کا وقتاً فوقتاً دیا جانا روح کی خاص برکتوں اور نعمتوں کا دیا جانا ہے جو مختلف اور بتدریج ہوا کرتی ہیں اور حواریوں کو بھی اسی طریق سے عطا ہوئیں ۔’’ نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں مگر رُوح ایک ہی ہے۔اور خِدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُداوند ایک ہی ہے۔اور تاثِیریں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُدا ایک ہی ہے جو سب میں ہر طرح کا اثر پَیدا کرتا ہے۔لیکن ہر شخص میں رُوح کا ظُہور فائِدہ پہُنچانے کے لئے ہوتا ہے۔کیونکہ ایک کو رُوح کے وسیلہ سے حِکمت کا کلام عِنایت ہوتا ہے اور دُوسرے کو اُسی رُوح کی مرضی کے مُوافق عِلمیّت کا کلام۔کسی کو اُسی رُوح سے اِیمان اور کِسی کو اُسی ایک رُوح سے شِفادینے کی تَوفیق۔کِسی کو معجزوں کی قُدرت کسی کو نبوت۔کسی کو رُوحوں کا اِمتیاز۔کسی کو طرح طرح کی زبانیں۔کسی کو زبانوں کا ترجمہ کرنا۔لیکن یہ سب تاثِیریں وُہی ایک رُوح کرتا ہے اور جِس کو جو چاہتا ہے بانٹتا ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۴:۱۲۔۱۱) ۔’’ اور ہم میں سے ہر ایک پرمسیح کی بخشش کے اندازہ کے مُوافِق فضل ہُؤا ہے‘‘(افسیوں۷:۴) اور وہ حوالہ جو آپ نے پیش کیا ہے سو یاد رہے کہ وہ بات مسیح اپنے حق میں کہتا ہے ،نہ کہ ہر ایک انسان کے۔ کیونکہ جیسا بیان ہوا انسانوں کو روحانی برکات اندازے کے موافق ملتی ہیں ’’ اور کلام مُجسّم ہُؤا اور فضل اور سچّائی سے معمُور ہو کر ہمارے درمیان رہا ۔۔۔‘‘۔’’کیونکہ اُس کی معمُوری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل‘‘(آیت ۱۶) ۔’’ کیو نکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معمُوری اُسی میں سکُونت کرے‘‘(کلسیوں ۱۹:۱)۔
قَولُہ‘۔پھر اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ روح القدس سے حضرت جبرائیل مراد ہےتب بھی میں اس دعویٰ کو غلط جانتا ہوں ،الخ۔
یہ بات آپ کی ایک اور بناوٹ ہے ۔عیسائی ہر گز روح القدس سے جبرائیل مراد نہیں لیتے ۔روح القدس کو جبرائیل کہنامحمدیوں کی اصطلاح ہے۔چنانچہ سور بقر آیت۲۵۳ رکوع۳۳ میں ہے ’’او ر زور دیا اس کو(عیسیٰ کو) روح پاک سے ‘‘ ۔اس پرسیل صاحب (مترجم قرآن انگریزی) جلال الدین وغیرہ کے اعتبار پر لکھتے ہیں کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ محمدصاحب اس جا روح القدس کو مسیحی مسلم معنوں میں سمجھتا ہے۔مفسر کہتے ہیں یہ روح پاک جبرائیل فرشتہ تھا جس نے عیسیٰ کی تقدیس کی اور ہمیشہ اس کی خدمت کرتا تھا ۔پس صاحب آپ کاہیکو ایسے اعتراض عیسائیوں کی طرف گانٹھ رہے ہیں۔
قَولُہ‘۔ اگر تسلی دینےوالے سے روح القدس مراد ہوتی تو مولٹانس نے کیوں دعویٰ کیا کہ میں تسلی دینے والا ہوں اور بہت سے لوگ اس کے پیرو ہو گئے۔
مولٹانس نے اس لئے ایسا دعویٰ کیا کہ بدعتی شخص تھا اور انجیل کے برخلاف کرنا چاہا ۔معلوم ہوا کہ آپ کو کوئی اور ٹھکانہ نہ ملا تو ایک ملحد کے دعویٰ کو سند سمجھا ہے اور انجیل یوحنا۲۶:۱۴ کے بیان سے کترا ئے جس میں موجود ہے کہ وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے ،الخ اور نہ آپ کو جمہور متقد مین کی پروا رہی اس لئے کہ ایک ملحد کا دعویٰ جو نظر پڑا۔مگر تس پر(اس پر) بھی دیکھئے صاحب کہ حضرت محمدصاحب نے تو وہ تسلی دینے والا ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا ،لیکن ایک غلط قول مسیح کے ذمے لگایا جو سورہ صف میں مذکور ہے یعنی احمد نامے ایک رسول کی خبر۔حالانکہ مسیح نے ایک تسلی دینے والا یعنی روح القدس کی خبر دی تھی اور اس قول کو محمد کے حق میں بیان کرنا صریح کفر ہے۔پھر اس کے بعد تیسری صدی میں مانیز فارسی (یاکسدی) نے بھی یہ دعویٰ اسی طرح کیا لیکن ان کے اس دعویٰ کرنے سے یعنی روح القدس اور تسلی دینے والے میں امتیاز کر کے اپنے اپنے تئیں تسلی دینے والا قرار دینے سے ان کاکچھ مطلب تھا۔چنانچہ مولٹانس نے یہ سمجھا کہ مسیح اور اس کے شاگردوں نے ایک غیر مکمل طریقہ سکھا یا تھا اور آپ اس کی تکمیل کرنے کا ارادہ کر بیٹھا اور اس کام کےلئے وہ تسلی دینے والا ہونےکا دعوی ٰ کیا اور مانیز نے جب مسیحی کتابیں دیکھیں اور اپنے پرانے طریق کے موافق اور مخالف سمجھا تو عیسویت کو اپنے دجالی طریق کے ساتھ مخلوط کرنے کا ارادہ کیا۔اس مطلب کی تحصیل کی سہولت کے واسطے ا س نے(یہ کہہ کر کہ مسیح نے طریق نجات جو کامل طور سے بیان نہیں کیا ) دعویٰ کیا کہ میں وہ تسلی دینے والاہوں جس کا مسیح نے وعدہ کیا تھا اور اپنے اس اور اَور واہی خیالوں کی تائید اورتشریح کے لئے اس نے اناجیل میں خرابیاں پڑ جانے کا دعویٰ کیا اور اعمال رُسل کو بالکل رد کیا اور ان کے عوض میں ایک اپنی انجیل ارننگ نامے قائم کی ۔پس صاحب ان کی نیت میں فرق تھا ور نہ ایسا دعویٰ نہ کرتے ۔اب کہیئے کیا ایسوں کی سمجھ کو سند سمجھ چکے ہو۔ اگر ان کا دعویٰ صحیح ہے تو ان پر سے ہٹا کے حضرت محمد پر کیوں جماتے ہو۔انہی کو وہ تسلی دینے والا ہونے دو۔ انہوں نے اپنے دعویٰ کی وجہ تسمیہ بھی بیان کی ،اپنی اپنی کتابیں بھی چلائیں اور مولٹانس نے نبوتیں بھی کیں وغیرہ تو انہیں کو وہ موعودہ کیوں نہیں مان لیتے اور ناحق اس تذبذب میں پڑتے ہو کہ ان بدعتیوں نے تسلی دینے والا ہونے کا دعوی ٰ کیا اس لیے محمدوہی تسلی دینے والا ہے ۔اس سے تو محمد صاحب مثل ان کےا یک بدعتی ٹھہریں گےاور مسیح ایسے لوگوں کے حق میں عمدہ خبر کیونکر دے سکتا تھا ۔اپنے بعد آنے والے مخالفوں کو اس نے اور ہی ناموں سے بیان کیا ہے،نہ کہ تسلی دینے والے ،روح حق اور روح القدس سے۔
قَولُہ‘۔ پھر اگر کوئی عیسائی کہے کہ سننے والے سے بھی روح القدس مراد ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ کہنا بھی اس کا غلط ہے کیونکہ بموجب عقائد عیسائیوں روح القدس خود خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنتا ہے اور اس صورت میں کہنے والا روح القدس سے بھی بڑا ٹھہرا۔
اگر عیسائیوں کے پورے عقیدے کو خیال کرتے تو معلوم کرتے کہ کس سے سنتا ہے یعنی تثلیث کا ایک اقنوم دوسرے سے سنتا ہے اور دوسرا اس سے کہتا ہے۔مگر ثلاثہ اقانیم کا باہم بولنا اور سننا ان کے ذاتی الہٰی طرز پر ہے جس کو انسان معلوم نہیں کر سکتا اور نہ انسانی طریق پر ہے۔البتہ انسانی محاورہ ان پر لگایا گیا ہے۔لیکن پھر بھی ان کی ہم کلامی انسان کے لیے ایک اسرار ہی ہے یعنی کس طرح اقانیم تثلیث کہتے اور سنتے ہیں بیان نہیں ہو سکتا اور اس لیے ان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا خیال بھی انسانی خیال ہے جو ان پر صادق نہیں آتا۔
آخر میں ہم صرف چند مقامات کا مقابلہ کر کے بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ تسلی دینے والا اورروح القدس میں تمیز نہیں ہو سکتی اور کہ وہ ایک ہی موعودکے متفرق نام ہیں ۔دیکھو یوحنا۱۷،۱۶:۱۴’’۔۔۔وہ تمہیں دُوسرا مددگار(تسلی دینے والا) ۔۔۔یعنی رُوحِ حق ۔۔۔‘‘۔’’ لیکن مددگار یعنی رُوحُ اُلقدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا۔۔۔‘‘(۲۶:۱۴)۔’’ لیکن جب وہ مددگار آئے گا۔۔۔ یعنی روحِ حق جو با پ سے صادِر ہوتا ہے ۔۔۔‘‘(۲۶:۱۵)۔ان تینوں مقاموں سے معلوم کرو کہ مددگار(تسلی دینے والا)،روح حق اور روح القدس ایک ہی ہے ۔مقدس راوی ان کے امتیاز سے ناواقف ہیں ۔اگر دو موعود مقصود ہوتے تو رسول ایسا ہی کہتے اور کرتے اور مسیح بھی فرما دیتا کہ ایک موعود تو آیا کہ آیا اور دوسرا چھٹی صدی میں آئے گا یا کسی اور طرح سے دونوں میں فرق ظاہر کر دیتا۔پس صاحب آپ کی ہر ایک وجہ کی تفتیش ہو چکی، اس سے آپ خوب سوچ کر معلوم کرو کہ نبی اور قرآن کی عدم ضرورت ٹھیک بات ہے۔