اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ

(دین نزدیک اللہ کے اسلام ہے )

(سورہ عمران آیت ۱۹)

جلد اوّل

الفرقان

رسالہ

حتمی

مذاہب اسلام

حصہ اوّل

جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن کی تحریر میں مسیحی مذہب کا نام دینِ اسلام ہے۔

مسیحی مذہب کی پیروی اور اطاعت مصنف قرآن کی طرف سے حضرت محمد صاحب نے قلمبند کیا ہے ۔

The Religion before Allah is Islam

(Sura Imran Verse19)

AL-Furqan

The Quran

Vol:1

By

Allama Ghulam Masih

The author attempts to prove that present day

Islam is not the religion of Muhammad, which was Christianity; corruption took place under his immediate succerssors.

1904

دیباچہ

عرصہ گذر چکا جب سے ہم نے رسالہ ہذا کی تحر یر کا قصد کیا تھا پر فرصت کی قلت(کمی) اور فرائض منصبی کی بجا آوری(تکمیل حکم) اس کے وجود میں بار بار بھاری نقص(خرابی ،کمی) بن کر نمود(ظاہر) ہوتی رہی جس کی جہت(کوشش) سے ہم کو بار بار نظر ثانی کرنی پڑی اور سخت محنت اُٹھا نے کے بعد اب اُس کی ایسی صورت و شکل قدرت ایزادی(خُدائی) نے بنا دی کہ ہم اب اسے دُنیا کے رو برو پیش کئے بغیر رہ نہیں سکتے ۔

جب یہ محمدی قوم کا راہنما صفحہ ہستی میں وجود پانے کو تیار ہو گیا تو ہم کو ایک اور مشکل نے منہ آ دِیکھایا وہ اس کی اشاعت(شائع کرنا،شہرت دینا) کا خرچ تھا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ہم نے رسالہ مذکورہ ر لیجس بُک سوسائٹی کی کمیٹی کے سپرد کیا۔ پر دو سال تک جب ہمیں کچھ نتیجہ نکلتا ہوا دکھائی نہ دیا تو کمیٹی مذکورہ سے اس کی رائے سمیت رسالہ واپس منگا لیا گیا۔ کمیٹی کی ہدایت سے ہم نے اس کی نظر ثانی کی اور جو اعتراض کمیٹی کا تھا ہم نے اُسے رفع (دور)کیا یہ سب کچھ کر کے ہم نے محمد ی اسلام کے ہمدردوں سے چندے کی درخواست کی چنانچہ خُدا کی مہربانی اور ان دوستوں کی دریا دلی سے یہ رسالہ تیار کیا گیا۔ ہم ان مہربان مسیحیوں کا تہ دل سے احسان مانتے ہیں۔ اُمید کرتے ہیں کہ اُ ن کی سخاوت(فیاضی) محمدی قوم کے لئے ہمیشہ تک برکت ہو گی ۔ آمین ۔

یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس رسالے میں ہمارے مخاطب بجائے مسیحیوں کے محمدی صاحبان کی وجہ سے ہم نے آیات قرآنی کو بجائے دلیل استعمال کیا ہے اور ان مقامات کی بناء پر ضعف اور کمزوری قرآن اور اُ س کے الہٰام اور اس کے ذاتی مذہب کی ظاہر کرنی تھی وہ ایک دوسرے حصّہ میں جس کا نام’’ مذہب حنفی‘‘ ہے ظاہر کی ہے۔ پہلے حصّے میں جس کا نام’’ مذہب اسلام‘‘ کی قدر زور اور طاقت قرآن کے بیان سے مسیحی مذہب کو حاصل ہو سکتی ہے بطور پیش بندی نے ظاہر کر دی ہے۔ اور یہی باعث  ہے کہ ہم نے پہلے حصہ میں محمدی مذہب کی نسبت گلہ (شکوہ ،شکایت)نہیں کیا اور باقاعدہ دلیل وبُرہان(دلیل جس میں شک وشبہ نہ ہو) سے کا  م نہیں لیا اور اگر لیا ہے تو بہت کم پر ہم نے پہلے حصّے میں مسیحیوں کے مطالبوں کی محمدی قوم سے بنیاد ڈالی ہے۔ اور محمدی قوم پر ظاہر کر دیا ہے کہ تمہارا قرآن تم کو مسیحی مذہب کی پیروی کا حکم کرتا ہے اور بس۔

یہ رسالہ نہایت اختصار(مختصر طور پر) کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ تفصیل اور دلیل وبُرہان(دلیل جس میں شک وشبہ نہ ہو) اس کے شک میں موجود کی گئی ہے۔ محمدی قوم میں کام کرنے والے مسیحی منادوں کا فرض ہے کہ مقامات قرآنی کے ترجمے کا خوب مطلب سمجھ کر مناسب وقت پر دلیل کام میں لائیں۔اورنتائج حسب منشاء(آرزو)کے ہرایک محمدی کے روبرو رکھیں صرف ہمارے ہی مختصر بیان پر تکیہ نہ کریں کیونکہ ہم بخود طوالت (درازی، افزونی،دیر) پورے نتائج ضبط تحریر نہیں لا سکے ہیں۔

ناظرین رسالہ ہذا کی خدمت میں یہ بھی التماس ہے کہ روپیہ کی کمی کی وجہ سے ہم جلد اوّل کو پورا نہیں چھاپ سکے اس کے دو حصّے کر دیئے گئے ہیں۔ حصّہ پہلا آپ کی خدمت میں ہے اور پہلے حصّے کا دوسرا حصّہ جو اس سے بھی گرانقدر ہے باقی ہے۔ سو اگر آپ کے ہاتھ حصّہ اوّل  ہو تو دوسرے کے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور دوسرے حصّے کی اشاعت اوّل کی بکری پر منحصر ہے۔ سوا گر آپ محمدی قوم کو خُداوند کی شاگردی میں لانا چاہتے تو کپڑے بیچ کر مذہب اسلام کو خریدیں۔

اس کے سوا یہ امر بھی یاد لانا ضرور ہے کہ ہم نے الفاظ محمدی قوم اور محمدی وغیرہ استعمال کئے ہیں کہ حضرت محمد صاحب کے پیراؤں (پیروی کرنے والوں)اور اسلام کے تابعداروں میں فرق ظاہر ہو۔ نہ حقارت اور توہین کی راہ سے ۔پر صرف امتیاز کی غرض سے ۔

آخر میں خُدا سے اور خُداوند یسوع مسیح سے ہماری دُعا ہے کہ وہ محمدی قوم کے لئے اور اپنے جلال اور بزرگی کے لئے اس رسالے کو استعمال فرمائے اور اپنے لوگوں کوتوفیق دے کہ اس کے وسیلے سے اس کا جلال ہوتا رہے ۔ آمین ۔

غلام مسیح

پہلا باب

قرآن کے موافق اہلِ یہود کا بیان

قرآن کو پڑھنے والا اس بات سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کہ ایک مصنف قرآن کی آنکھیں سچائی کے آفتاب کے طلوع ہونے کی جگہ پر ضرور پڑیں۔ اس کے خیالات نے عرب کے ریگستانوں سے بلند پرواز ہو کر اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک کی ضرور سیر کی۔ اُس نے اپنے زمانے کی اقوام کے حال چال پر کسی قدر ضرور سوچا۔ لیکن جب اس کی تسلی کسی قوم کی مذہبی زندگی سے نہ ہوئی تو اس نے یہودی قوم میں آفتاب صداقت کو چمکتے دیکھا۔ لہٰذا اس کے خیالات کے کے جاسوسوں نے اسے اُِس بات سے قائل کر دیا کہ اگر دُنیا میں کوئی قوم قابل لحاظ ہے اور اگر دُنیا میں کہیں سچائی کا آفتاب سربلند ہے تو وہ قوم یہود اور اُس کے نوشتوں میں ہے۔ تورات اور زبور اور صحائف انبیاء اور انجیل حق اور سچائی کا درجہ رکھتی ہیں۔ انہیں کتابوں میں ایک الہٰی چلن اور رفتار کا زندہ اور عملی نمونہ پایا جاتا ہے ۔پس انہیں بنیادوں پر مصنف قرآن نے اہلِ یہود اور ان کے الہٰی مذہب کا شیدا (عاشق)ہو کر اُن کی خوشہ چینی(وہ شخص جو کھیت کٹنے کے بعد گرے ہوئے خوشے چن لیتا ہے) کو اپنا فخر تصور کر کے جو کچھ اُ سے حاصل ہو ااسی سے قرآن کی تصنیف کا ارادہ کر لیا تا کہ اہل عرب کو جہالت اور بت پرستی کی دلدل سے نکال کر سچائی کے تابعدار بنائے۔ پر یہ یہ کوشش صرف ایک ہی مصنف کی تھی ۔ ذیل کے صفحات میں ہم اسی مصنف کی دینی اعتقادکے نیتجے پیش کیا چاہتے ہیں اور دکھلایا چاہتے ہیں کہ دیں کی نسبت اس کا کیا فیصلہ ہے؟ اور وہ دین جو حضرت اور اُ س کی اُمت کے لئے چنا گیا کس نام و نشان کا نہیں کیا ہو ہذا ۔

پہلی فصل

اہل یہود کے آباؤں کا بیان

دفعہ (۱)

حضرت ابراہیم کے والدین کا بیان

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ؟

ترجمہ ۔ جب کہا ابراہیم نے واسطے باپ اپنے آزر کے کیا پکڑتا ہے تُو بتوں کو معبود ؟ (سورہ انعام ۹رکوع آیت ۷۴)۔

اس آیت میں حضرت ابراہیم کے والدین کا مذہب بت پرستی بتلایا جاتا ہے۔ اور یہ درست با ت ہے ۔ لیکن حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر قرار دینایہ مصنف قرآن کی لا عملی ہے۔ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام تارح تھا دیکھو (پیدائش باب ۱۱ )میں۔ باقی بیان جو کچھ قرآن میں حضرت ابراہیم کے والد ین کا اور ان کے مذہب کیا گیا ہے وہ بے سندبات ہے۔ پر حضرت ابراہیم کے والد ین جب عور(اُور)میں تھے تب اُن کا مذہب پرستی تھا۔ لیکن قرآن کا یہ بیان کہ ابراہیم کے والد ین بت پرستی ہی میں مرگئے الزام اور بے سندبات ہے۔

دفعہ (۲)

حضرت ابراہیم اور آپ کے مذہب کا تذکرہ

معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کی نسبت بہت بے سند باتیں قرآن میں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً بتوں کو توڑنا اور ابراہیم کا آگ میں ڈالا جانا( سورہ صافات ۸۱ آیت سے ۹۷ تک ۔سورہ شعراء ۶۹۔۸۹ آیت تک۔سورہ انبیاء ۵۲۔ ۷۲ آیت ۔سورہ مریم ۴۲ ۔ ۴۹ آیت تک )۔ حضرت ابراہیم کا اپنی قوم اور باپ کو بُت پرستی پر ملامت کرنا جیسا کہ (سورہ انعام ۷۴۔ ۸۲ تک مرقوم ہے۔ اور پھر خُدا کا ابراہیم کو مُردے جانور جلا کر دکھانا (سورہ بقر آیت ۲۶۲) کےموافق اور کعبہ کو تعمیر کرنے اور کعبہ سے ایک نبی کے ظاہر ہونے کی دُعا کرنے وغیرہ جیسا کہ(سورہ بقرآیت ۱۲۹ ۔ ۱۲۳ )تک سے اور (سورہ حج آیت ۲۷۔ ۳۴)تک سے ظاہر ہے۔

ایسےتمام بیانات کی صحت کو ثابت کرنا محمدی صاحبان کا ہی فرض ہے نہ کہ ہمارا۔ وہ ہی ثبوت دیں ۔ لیکن جو بات حضرت ابراہیم کی نسبت قرآن سے ہم نے چنی ہے اور جسے ہم محمد ی قوم کے روبرو لانا چاہتے ہیں ۔وہ آپ کا دین اور اس دین کا نام ہے جو دین حضرت ابراہیم کا دین تھا اور ہم اسی کی نسبت دیکھنا چاہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کا دین محمد صاحب کی وراثت میں کیسے آتا ہے قرآن کی تعلیم یہ ہے۔

(۱)(وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۱۳۱)۔

ترجمہ۔ اور کون پھر جاتا ہے دین ابراہیم کے سے مگر جس نے بیوقوف کیا جان اپنی کو اور تحقیق پسند کیا ہم نے اُس کو بیچ دُنیا کے اور وہ تحقیق بیچ آخرت کے صالحوں میں سے ہے۔ جب کہا اُ س کو رب اُ س کے نے کہ مطیع ہو ( یا مسلمان ہو) کہا اُ س نے مطیع ہوا میں واسطے پروردگار عالموں کے (سورہ بقر ۱۶ رکوع آیت ۱۳۰۔۱۳۱) ۔

(۲)(وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ (۱۲۴)

ترجمہ ۔اور جس وقت آزمایا ابراہیم کو رب اُ س کے نے ساتھ اپنے کلام کے پس پورا کیا اُ ن کو ۔کہا تحقیق میں کرنے والا ہوں تجھ کو واسطے لوگوں کے امام۔ کہا اور اولاد میری سے ؟ کہا نہیں پہنچے گا عہد میرا ظالموں کو (سورہ بقر ۱۵ رکوع آیت۱۲۴) ۔

اب ان دونوں آیات سے اوّل تو یہ روشن ہے کہ ابراہیم جس دین کی پیروی کرتا تھا قرآن اپنی اصطلاح میں اس دین کا نام اسلام رکھتا ہے۔ دوئم۔ ابراہیم کے دین کا مقصد و مدعا خُدا کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے ۔

سوئم ۔ کہ ابراہیم خُدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی جہت سے تمام لوگو ں کے لئے امام مقرر کیا گیا اور دُنیا اور آخرت میں وہ صالحوں سے ٹھہرا۔

چہارم۔کہ دین ابراہیم کی پیروی سے انکار کرنا بے دینوں کی صفت مقرر ہوئی۔

 پنجم ۔ کہ ابراہیم کی نافرمان اولاد بھی ابراہیم کے دین کی برکات سے خارج گردانی گئی۔ پس مطلب یہ نکلا کہ قرآن کی اصلاح میں اسلام نام اُ س دین کا ہے جس کے اصولوں کی پیروی ابراہیم نے کی۔ اور بس جو شخص دینِ اسلام کا پیروں ہو گا۔ گویا ابراہیمی دین کی برکات سے دین کی برکات سے خارج کیا جائے گا پر مطیع وارث گردانا جائے گا۔ لیجئے ناظرین ہمارے مطالبے کی پہلی راہ یہ نکلی کی کہ ابراہیم کا دین تام عالموں (دُنیا کے لوگوں )کے لئے قابل عمل ٹھہر چکا ہے ۔اس دین کا نام اسلام ہے۔ جس کی اطاعت سے برکت اور بغاوت سے لعنت انسان کے حصّہ میں آتی ہے۔ ابراہیمی دین کا ہم کہیں آگے چل کر مصنف قرآن اور حضرت محمد صاحب اور آپ کی اُمت سے مطالبہ کریں گے۔ انشاء اللہ ۔

دفعہ (۳)

مصنف قرآن نے اسلام کی فرمانبرداری کی صاف تعلیم دی اور اسلام قرآن پر فرض ٹھہرایا

(اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ)

ترجمہ ۔ تحقیق دین نزدیک اللہ کے اسلام ہے۔(سورہ عمران آیت ۱۹)

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (۸۵)

ترجمہ ۔ جو کوئی چاہے سوا اسلام کے دین پس ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اس سے اور وہ بیچ آخرت کے ٹوٹا پائے گا ۔(سورہ عمران ۸ رکوع آیت ۸۵)۔

(اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا)

ان آیات میں ہم مسیحیوں کے لئے ایک یہ سہولت قائم کی گئی ہے کہ قرآن کے مصنف نے اسلام ہے کو ایک مستند دین قرار دیا ہے۔ اور اسلام کے غیر کو بے دینی ٹھہرایا ہے۔ اور دوسری سہولت ان آیات میں یہ قائم کی جاتی ہے کہ محمد صاحب اور آپ کی اُمت پر دینِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری قائم کی گئی ہے گویا محمد ی قوم سے اسلام ہی لانا طلب کیا گیا ہے۔ اور دوسرا دین محمد صاحب اور قوم عرب کے لئے مردود(رد کیا ہوا، بدنصیب) ٹھہرایا گیا ہے۔ اب ہم کو یاد کرنا ہے کہ ابراہیم کا دین جو کچھ کہ تھا قرآن نے سچ مان لیا ۔ پھر کہ مصنف ِقرآن نے اس دین کا نام اسلام رکھا ۔ پھر کہ وہی دین محمد صاحب اور قوم عرب کے لئے پسند فرمایا ۔ پھر کہ اسلام کے غیر کو مردود ٹھہرایا۔ اب اگر محمد صاحب اور قوم محمدی دین ِاسلام کی پیرو ثابت ہو جائے تو دینِ عیسوی اور موسوی کے وارثوں کے ساتھ آپ وارث ہیں اور برابر کے حق دار ہیں ورنہ خارج ہیں۔ اس کا مفصل(تفصیل کے ساتھ) بیان ہم آگے چل کر کریں گے ۔ فی الحال مصنف قرآن نے ابراہیم کی خُدا پرستی اور اُ س کے دین کو حق مان کر محمد صاحب کے چلن وغیرہ کے لئے تجویز کر دیا ہے جس سے ہم کو ایک دین حق کی تائید مل جاتی ۔ جس پر تین اقوام متفق ہیں۔

دفعہ (۴)

دین اسلام یا دین ابراہیمی کی خصوصیات کا بیان

قرآن کے بیان کے موافق جیسا کہ ہم دیکھ چکے دین کا فیصلہ ابراہیم کے ہی وقت میں ہو چکا اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے ۔ خواہ وہ دین کچھ ہی تھا اور اُ س کے قواعد اور اصول کیسے ہی تھے اس کا شروع ابراہیم کے وقت سے ہو چکا ۔ اور اب گویا قرآن کے مطالق اس کا تبادلہ محال ۔ اب تو یہ بات جاننی ضرور ہے کہ ابراہیمی دین جو ہمیشہ کے لیے ہر ایک قوم کی نجات کے واسطے خُدا سے چن لیا گیا اور پسند فرمایا گیا اس کی خصوصیات کیا ہیں اور کہ دُنیا کی تمام اقوام میں سے کونسی اقوام اس دین کی پیرو کارہیں۔ کیونکہ اسلام کے سوا کوئی ملت یا مذہب مانا نہیں جا سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن ہم کو خصوصیات کی تعلیم بھی دیتا ہے۔

(اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا (۵۴)

ترجمہ ۔ کیا حسد کرتے ہیں لوگوں کا اُوپر اُ س چیز کے کہ دیا ہے اُ ن کو اللہ نے اپنے فضل سے۔ پس تحقیق دی ہم نے اولاد ابراہیم کی کو کتاب اور حکمت اور دی ہم نے اُ ن کو بادشاہی عظیم (سورہ نسا ء ۸ رکوع آیت ۵۴)۔

(اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (ۙ۳۳)

ترجمہ۔ تحقیق اللہ نے برگزیدہ کیا آدم کو اور نوح کو اور ابراہیم کی اولاد کو ۔۔۔اُوپر ( تمام ) عالموں کے (سورہ عمران ۴ رکوع آیت ۳۳) ان دونوں آیتوں سے ابراہیمی اسلام کی خصوصیت میں یہ امور دکھائے گئے ہیں۔

(۱)کہ ابراہیم کی اولاد کو کتاب کی ملی ہے۔
(۲) کہ ابراہیم کی اولاد کوکتاب کی حکمت و دانائی ملی ہے۔
(۳) کہ ابراہیم کے دین کو اور اولاد کو عظیم بادشاہی ملی ہے۔
(۴) کہ ابراہیمی دین کو اور ابراہیم کی اولاد کو تمام عالموں پر بزرگی اور فضیلت ملی ہے۔

اُوپر کے بیان سے دین ِاسلام یعنی دینِ ابراہیمی مخصوص اور محدود ہو چکا ہے۔ اور یہ خصوصیات قرآن کی اور مصنف قرآن کی مقرر شدہ ہیں۔ اور ہم فرضاً ان کو حق تسلیم کرکے مان لیتے ہیں کہ دین ِاسلام کی یہ تخصیص دُرست ہے۔ اس سے ہم یہ بات قائم کرتے ہیں کہ اب دیکھا جائے کہ کتاب اور حکمت اور دینی سلطنت اور سچائی کہاں پر پائی جاتی ہے۔ قرآن شریف کے مصنف کا رُتبہ ایک مخبر (خبر دینے والا)سے زیادہ نہیں ہو سکتا ہے وہ ہم کو صرف ایک حقیقی دین اور اس دین کی شناخت کے پتے بتلاتا ہے اور خود بھی اسی دین پر فریفتہ اور شیدا ظاہر ہوتا ہے جو ابراہیم کا دین ہے۔ پس ابراہیم کا دین قرآن نہیں ہو سکتا ہے قرآن اور قرآن کے پیروکاروں کا دین اور ابراہیم کا دین بتلایا جاتا ہے۔ پس اسلام قرآن میں نہیں بلکہ قرآن سے باہر ہے جس کی اطاعت و پیروی قرآن میں فرض ٹھہرائی گئی ہے ۔ قوم یہود اور نصاریٰ اور محمدی کا یہاں تک اتفاق چلا آیا ہے۔ اور اب جُدائی شروع ہوئی۔

دفعہ (۵)

ابراہیمی دین کی برکتوں کے دعویدار

ناظرین ۔ ابراہیمی دین کے حق ہونے پر اور اُ س دین کی بزرگی پر اب تک یعنی بیان مذکور ہ بالا تک ابراہیم کی اولاد میں اتفاق چلا آیا ہے۔ لیکن نااتفاقی اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ ابراہیم کے دو مشہور فرزند تھے۔ اور اُ ن کے آگے اولاد ہوئی ۔ جس اولاد میں ایک قوم محمد ی اسمٰعیل کی نسل سے ہوئی اور دوسری قوم یہود اور نصاریٰ اضحاق اور یعقوب کی اولاد سے نکلی ۔ اور ہر دو اقوام ایک ایک مذہب مانتی چلی آئی ہیں جو ایک دوسرے سے نہایت خلاف اور مختلف ہے۔ اور ظاہر ہے ان میں سے ایک قوم باطل کی پیرو ہو کر حقیقی اسلام سے خارج ہے اور جیسا کہ ہم اُ وپر ذکر کر چکے کہ ابراہیم کی نافرمان اولاد سے خُدا کا کوئی عہد نہیں ہے۔ ویسا ہی تصور کیا چاہیے ہر دو اقوام میں سے ایک قوم عہد ابراہیمی سے خارج اور دینی برکات سے محروم ہے۔ لہٰذا اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کونسی قوم ناراستی پر ہی مشکل امر ہے۔ اگر ہم قوم یہود کے نوشتوں سے محمدی قوم کا انصاف کرتے ہیں تو قوم محمدی ناراستی کا شکار ثابت ہوتی ہے اور اگر ہم قرآن سے قوم یہود وغیرہ کی نسبت فیصلہ کرتے ہیں تو قوم یہود ناراستی پر ظاہر کی جاتی ہے۔ اس لئے ہم نے ٹھہرایا ہے کہ قرآن سے ہی محمد ی قوم کی ناراستی اور قوم یہود کی راستی کو ظاہر کر دیں تو دونوں بھائیوں میں ملاپ کی اُ مید ہے۔ اب ہم اسمٰعیل کا ذکر کرتے ہیں جس کی بناء پر قوم محمدی ابراہیم کی برکات کی دعویدار بن جاتی ہے ۔ آپ کا ذکر یہ ہے۔

کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے مقام سے ہجرت کی سارؔہ کو کہ اُ ن کی منکوحہ تھی صندوق میں بند کر کے ساتھ لے چلے۔ راہ میں تلاش کرنے والوں نے روکا کہ اس صندوق کو بغیر دیکھے نہ چھوڑیں گے ۔ آخر کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت با کمال حسن و جمال بیٹھی ہے۔ غرض بی بی سارہ کو بادشاہ کے پاس لے گئے ۔ بادشاہ دیکھتے ہی حسن اس کاحیران رہ گیا ۔ ہاتھ دراز کیا اُ س کا ہاتھ خشک ہو گیا ۔ پھر سارہ سے کہا کہ جانتا ہوں کہ تیرا پروردگار ہے اُ س کی تو عبادت کرتی ہے اس سے تو میرے ہاتھ کی واسطے دُعا کر کہ اچھا ہو جائے پھر میں تجھے چھوڑوں گا۔ اُ س نے دُعا کی ہاتھ اچھا ہو گیا ۔ تیسری بار اُن کو چھوڑ دیا اور ایک لونڈی دی اور کہا ہاجرک۔

جب اس لونڈی کو اپنے گھر میں لائی تو اس کا نام ہاجرہ رکھا ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ اسلام جو آئے تو ان کو بوحی یا کشف سے معلوم ہوگیا کہ خُدا تعالیٰ نے سارہ کو سلامت رکھا ہے اس کا فر نے ان پر دسترس (رسائی)نہیں پائی ۔ پھر سارہ نے جو میل حضرت ابراہیم کا ہاجرہ کی طرف دیکھا تو ہاجرہ کو اُ نہیں کو بخش دیا جب ہاجرہ حاملہ ہوئی تو سارہ کو غیرت آئی چاہا کہ گھر سے نکال دُوں ۔ حضرت ابراہیم ہاجرہ کو لے کر مکہ میں آ ئے جہاں چاہ زم زم ہے۔ وہیں اُ ترے یہ حضرت ابراہیم ہاجرہ کو خُدا کے سپرد کر کے شام ( ملک شام کو ) کو سارہ کے پاس گئے ۔ ہاجرہ سے یہاں اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اس مقام پر پانی نہ تھا ۔ہاجرہ نے پانی کی طلب میں سعی کی ۔حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام نے پاؤں مارا وہاں ایک چشمہ جاری ہو گیا ہاجرہ نے کتنے پتھر گرد اُس کے رکھ دیئے کہ پانی بہ نہ جائے۔ پیغمبر خُدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر اسمٰعیل کی ماں پانی کو نہ بند کرتی تو اب تک وہ جاری رہتا۔ چاہ زم زم جسے کہتے ہیں یہ وہی چشمہ ہے کہ ہاجرہ کے بند کرنے سے نہر سے کنواں ہو گیا۔ غرض وہاں ویرانے میں ہاجرہ تھی اور چشمہ پانی کا جاری تھا دُور سے بعض لوگوں نے دیکھا کہ جانو ر اُدھر متوجہ ہوتے ہیں معلوم کیا کہ پانی ہے جب نزدیک آکر دیکھا تو متصور چشمہ پایا۔ سب نے وہیں وطن مقرر کیا ۔ ہاجرہ وہیں ویرانے میں پڑی تھی آبادی میں ہو گئیں ۔ جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بڑے ہوئے ان کا بیاہ کر دیا وغیرہ( حسینی جلد اوّل صفحہ ۱۳۹۔۱۴۰ تک) ۔ حضرت ابراہیم کی اسمٰعیل سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔

ہمارے محمدی بھائی ایسے ایسے بیانوں کی بنیاد پر بزرگ اسمٰعیل کی نبوت اور دینِ ابراہیمی کی برکتوں کے دعویدار ہو کرکہتے ہیں کہ ہم اسلام کے وارث ہیں۔ پر انصاف کرنے کے لئے ہم کو دوسروں کی بھی سننی چاہیے اہل کتاب کے نوشتوں میں اسمٰعیل کی نسبت یہ بیان پایا جاتا ہے۔

اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی ۔ اور جب اُ س نے معلوم کیا کہ میں حاملہ ہوئی تو اپنی بی بی کو حقیر جانا۔ تب سارہ نے ابراہیم سے کہا کہ ناانصافی جو مجھ پر ہوئی تیرے ذمہ ہے۔ میں نے اپنی لونڈی تجھے دی ۔ اور اب جو اُ س نے آپ کو حاملہ دیکھا تو میں اُ س کی نظروں میں حقیر ہو گئی ۔ میرا اور تیرا انصاف خُداوند کرے ۔ ابرام نے سارہ سے کہا کہ تیری لونڈی تیرے ہاتھ میں ہے جو تیری نگاہ میں اچھا ہو سو اُ س کے ساتھ کر۔ تب سارہ نے اُ س پر سختی کی اور وہ اُس کے سامنے سے بھاگ گئی ۔ اور خُداوند کے فرشتے نے اُ سے میدا ن میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس پایا ۔ یعنی اس چشمہ کے پاس جو صور کی راہ پر ہے۔ اور اُ س نے کہا کہ اے سارہ کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے۔ وہ بولی کہ میں اپنی بی بی سارہ کے سامنے سے بھاگی ہوں ۔ اور خُداوند کے فرشتے نے اُ سے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس پھر جا اور اُ س تابع رہ ۔ پھر خُداوند کے فرشتے نے اُ سے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خُداوند کے فرشتے نے اُ سے کہا کہ تو حاملہ ہے۔ اور ایک بیٹا جینے گی ۔ اُ س کا نام اسمٰعیل رکھنا کہ خدواند نے تیرا دُکھ سُن لیا وہ وحشی آدمی ہو گا۔ اُ س کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے۔ اور وہ اپنے بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا( پیدائش ۱۶: ۴۔۱۳)۔

ہم نے ناظرین کے لئے ہر دو اقوام کے بیانات اسمٰعیل کی نسبت بدیں غرض پیش کئے تاکہ اسمٰعیل کا حصّہ ابراہیمی اسلام سے خارج شدہ دکھلا کر یہ امر محمدی قوم پر ثابت کر دیں ۔ کہ اسمٰعیل اور اُس کی اولاد ابراہیم کے دین اور اس دین کی برکتوں سے ہر دو اقوام کے بیان کے موافق خارج ہے کوئی دینی خوبی نہ تو تھی اور نہ اس سے کسی قوم کو کوئی دینی خوبی حاصل ہوئی اور نہ قرآن اسمٰعیل اور اس کی اولاد کی دینی خوبیوں کا کچھ ذکر کرتا ہے اب اوپر کے بیان میں ۔

۱۔یہ دیکھو کہ محمد یوں کا بیان اسمٰعیل کے بارے میں بے سند ہے ۔لیکن اہل ِکتاب کا بیان سچائی کا درجہ رکھتا ہے۔
۲۔محمدیوں کا بیان سراسر ایک کہانی کی حقیقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ تمام بے ٹھکانے ہے اور کتاب مقدس کا بیان مسلسل اور واقعات سے پر ہے۔
۳۔ہر دو فریق اسمٰعیل کو لونڈی کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔
۴۔ہاجرہ کی ہجرت کے دو نوں فریق قائل ہیں ۔
۵۔سبب ہجرت میں اختلاف ہے۔محمد ی الزام سرہ پر دیتے ہیں ۔پر اہل کتاب ہاجرہ پر۔ ۶۔اسمٰعیل کی تولید کی جگہ اور ملک اور وقت میں اختلاف ہے ۔مختلف محمدی ہوئے ہیں کیونکہ کتاب مقدس مقدم ہے اور محمدی موخر۔
۷۔ کتاب مقدس کی صحت قرآن نے تسلیم کی ہے ۔لہٰذا اہل کتاب کا بیان درست اور محمدیوں کا اسمٰعیل کی نسبت بیان ازروئے قرآن باطل ہے۔

ہم نے فرض کیا

کہ محمدیوں کا بیان اسمٰعیل کی نسبت درست ہے ۔تو اب اس سے ذیل کے امور قائم ہوتے ہیں ۔

۱۔کہ اسمٰعیل کی پیدائش ابراہیم کے گھر میں نہیں ہوئی بلکہ عرب کے ریگستان میں ۔
۲۔اسمٰعیل کی پرورش ابراہیم کے گھر میں ہوئی بلکہ عرب کے ریگستان میں ۔
۳۔اسمٰعیل کی تعلیم ابراہیم کے گھر میں نہیں ہوئی ۔اور نہ اسمٰعیل نے اسلام کی تعلیم پائی ۔
۴۔اسمٰعیل کو ابراہیم نے کچھ ورثہ بھی نہ دیا ۔اور ابراہیم کبھی اسمٰعیل سے نہ ملا۔کیونکہ اگر ابراہیم اسمٰعیل کو محبت پدری کے تقاضے سے ملنے جاتا تو وہ کبھی پسند نہ کرتا کہ اس کا لخت ِجگر ریگستان میں جلتا رہے اور بھوکا مرتا رہے ۔اگر ملتا تو ضرور اسمٰعیل کو اپنے ساتھ لاتا۔
۵۔اگر ابراہیم کبھی اسمٰعیل کو ملا ہوتا اور اسمٰعیل ابراہیم کے ساتھ نہ آیا ہوتا تو اس حالت میں اسمٰعیل کی باپ سے عداوت کا اور نفرت کا ثبوت مِل جاتا پروہ محمدی بیان کے موافق کبھی نہ ملے تھے۔پس اگر یہ بیان درست ہوتو اسمٰعیل کا اور اس کی اولاد کا اسلام کی برکات سے خارج ہونا بخوبی ثابت ہے۔اور ہم تو یہ بھی افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن نے تو اسمٰعیل کو ابراہیم کا بیٹا تک قرار نہ دیا پھر اسمٰعیل کو نبی اور ابراہیم کا وارث ٹھہرانا کیا زیادتی نہیں ہے ؟
۶۔اگر ابراہیم کا اسمٰعیل وارث تھا درحالیکہ وہ لونڈی سے تھا ۔تو قرآن نے لونڈی کے بیٹوں کو کیوں میراث سے خارج گردانا ہے ؟ پس ہر طرح سے روشن ہے کہ اسمٰعیل کی کچھ تائید نہ کرسکا ۔سو ا نبی اور نیک مرد کہنے کے ۔

دفعہ (۶)

اس ثبوت میں کہ دینِ اسلام کے وارث اسحاق اور یعقوب ہیں

۱۔ایک بشارتی لڑکا۔

وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ (۶۹)فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ اِلَیۡہِ نَکِرَہُمۡ وَ اَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمِ لُوۡطٍ (ؕ۷۰(وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ (۷۱)

ترجمہ ۔اور البتہ تحقیق آئے بھیجے ہوئے ہمارے ابراہیم کے پاس ساتھ خوشخبری کے ۔کہنے لگے کہ سلام بھیجتے ہیں ہم کہا سلام ہے ۔پس نہ دیر کی کہ لے آیا گا ئے کا بچہ تلا ہوا ۔پس جب دیکھتے ہاتھ ان کے کہ نہیں پہنچتی طرف اس کی انجان ہوا ان سے ۔اورجی میں چھپایا ان سے ڈر ۔کہا انہون نے مت ڈر۔ تحقیق ہم بھیجے گئے ہیں طرف قوم لوط کی۔ اور بی بی اس کی کھڑی تھی پس ہنسی ۔پس بشارت دی ہم نے اس کواسحٰق کی اور سوا اسحٰق کے یعقوب کی ۔ (سورہ ہود ۷رکوع آیت ۶۹۔۷۱ )۔ (پیدائش ۱۸ باب) کو دیکھو۔

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ (ۘ۲۴(اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ (ۚ۲۵)فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ (ۙ۲۶)فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ (۲۷)فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَ بَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ (۲۸)فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُہٗ فِیۡ صَرَّۃٍ فَصَکَّتۡ وَجۡہَہَا وَ قَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ (۲۹)

ترجمہ ۔ کیا آئی ہے تیرے پاس بات مہمانوں ابراہیم حرمت کئے گیوں ؟ جس وقت کہ داخل ہوئے اُوپر اُ س کے ۔ پس کہا اُنہوں نے سلام ہے۔ کہا سلام ہے۔ تم قوم ہونا پہچان ۔ پس پھر آیا طرف لوگوں اپنے کی پس لے آیا گائے کا بچہ گھی میں تلا ہوا۔ پس نزدیک کیا اپ س کو طرف اُ ن کی کہا کہ کیا نہیں کھاتے تم ؟ پس چھپایا ان سے جی میں ڈر کہا اُ نہوں نے مت ڈر ۔ اور خوشخبری دی اُ س کو ساتھ ایک لڑکے علم والے کے پس آئی بی بی اُ س کی بیچ حیرت کے۔ پس ہاتھ مارا منہ اپنے کو اور کہا میں بوڑھی ہوں بانجھ (سورہ ذاریات ۲ رکوع آیت ۲۴۔۲۹) ۔ پیدائش ۔

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۱۰۰)فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ (۱۰۱)فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ (۱۰۲)فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ (۱۰۳)ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ (۱۰۴)ۙقَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (۱۰۵)اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ (۱۰۶)وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ (۱۰۷)وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ (۱۰۸)ۖسَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ (۱۰۹)کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (۱۱۰)اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (۱۱۱)وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۱۱۲)

ترجمہ۔ اے رب میرے بخش مجھ کو اولاد صالحوں سے ۔ پس بشارت دی ہم نے حلیم لڑکے کی اُ س کو پس جس وقت پہنچا اُ س کے ساتھ دوڑنے کو کہا اے میرے (چھوٹے) بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ تجھ کو ذبح کرتا ہوں ۔ پھر دیکھ تو تو کیا دیکھتا ہے۔ بولا اے باپ کر ڈال جو تجھ کو حکم ہوتا ہے تو مجھ کو پائے گا ۔ اگر اللہ نے چاہا سہارنے والا ۔ پھر جب دونوں نے حکم مانا پچھاڑ اُ س کو ماتھے کے بل اور ہم نے اُ س کو پکارا کہ اے ابراہیم تو نے سچ کر دیکھایا خواب ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو ۔ بے شک یہی ہے صریح جانچنا اور اس کا بدلہ دیا ہم نے ایک جانور ذبح کر بڑا اور باقی رکھا ہم نے اس پر پچھلی خلق میں۔ کہ سلام ہے ابراہیم پر ۔ یوں ہم دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو ۔ وہ ہی ہمارے بندوں میں ایماندار اور خوشخبری دی ہم نے اُس کو اسحٰق کی جو نبی تھا نیک بختوں میں(سورہ صافات ۳ رکوع آیت ۱۰۰۔۱۱۲)۔

۲۔ قرآن میں اسحٰق اور یعقوب ہی ابراہیم کے بیٹے گردانے گئے ہیں اور کوئی نہیں۔

(وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ)

ترجمہ۔ اور دیئے ہم نے ابراہیم کو اسحٰق اور یعقوب (سورہ انعام ۱۰ رکوع آیت ۸۴)۔

(وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً)

اور دیا ہم نے ابراہیم کو اسحٰق اور یعقوب زیادتی میں(سورہ مریم ۳رکوع آیت ۷۲) ۔

(وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ)(سورہ عنکبوت آیت ۲۷)

ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن میں قرآن کے مصنف نے کہیں نہ لکھا کہ (وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اسمٰعیل و اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ) ۔ (1)


(1) ۔ یہ تو لکھا ہے ۔(وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ) یعنی بڑھاپے میں دیئے مجھ کو اسمٰعیل اور اسحٰق(سورہ ابراہیم آیت ۳۹) ۔ پر یہ دُعا ابراہیم کی ہے مصنف قرآن خُدا کا پیغام نہیں لاتا ہے ابراہیم کا شکریہ ۔اگر اسمٰعیل کی مکہ میں تولید پر ابراہیم یہ کہے تو کہنے دو ۔

۳۔ اسحٰق اور یعقوب اور اس کی اولاد اسلام کی برکات کی وارث ٹھہرئی گئی ہے۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ (۷۲)وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَ کَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ۔

ترجمہ۔ اور دیا ہم نے اس کو اسحٰق اور یعقوب زیادتی (میں) اور ہر ایک کو کیا ہم نے نیک بخت۔ اور کیا ہم نے اُ ن کو پیشوا ہدایت کرتے تھے ساتھ حکم ہمارے کے اور وحی کی ہم نے طرف اُن کی کرنا بھلا ئیوں کا اور قائم رکھنا نماز کا اور دینا زکوۃ اور تھے واسطے ہمارے وہ عبادت کرنے والے (سورہ انبیاء ۵ رکوع آیت ۷۲۔۷۳)۔

فَلَمَّا اعۡتَزَلَہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۙ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا نَبِیًّا (۴۹)وَ وَہَبۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِیًّا (۵۰)

ترجمہ ۔پس جب چھوڑ دیا (ابراہیم نے ) اُن کو (اپنے والدین) کو اور اُ س چیز کو کہ عبادت کرتے تھے۔ سوائے اللہ کے (بتوں کو ) اور دیا ہم نے اُ س کو ابراہیم کو اسحٰق اور یعقوب ۔ اور ہر ایک کو کیا ہم نے نبی ( بطور جمع کے تینوں کو) اور دی ہم نے ان کو رحمت اپنی سے (مسیح کا جو قرآن میں رحمت خُدا کے نام سےموسوم ہے اُ ن کی اولاد سے آنا مقرر کیا) اور کی ہم نے واسطے اُ ن کے زبان راستی کی بلند (سورہ مریم ۳رکوع آیت ۴۹۔۵۰)۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۲۷)

ترجمہ۔اور دیا ہم نے اس کو (ابراہیم کو) اسحٰق اور یعقوب اور کی ہم نے بیچ اولاد ان کی کے نبوت اور کتاب اور دیا ہم نے اس کو ثواب اس کا بیچ دُنیا کے اور تحقیق وہ بیچ آخرت کے نیک بختوں سے ہیں (سورہ عنکبوت ۳ رکوع آیت ۲۷)۔

اس فصل کے کل بیان سے ازروئے قرآن منادوں کے لئے جو محمدی قوم میں کام کرتے ہیں یہ باتیں مفید مطلب قائم ہوتی ہیں جن کو خوب یاد کرنا چاہیے۔

۱۔ کہ قرآن کے مصنف نے دین ِابراہیمی کو حق اور درست اور منظور خُدا تسلیم کر لیا ہے جیسا کہ (دفعہ ۳،۲ )کے مقامات سے ثابت ہے۔

۲۔ کہ مصنف قرآن نے حضرت ابراہیم کے دین کا نام دینِ اسلام رکھا ہے۔ اور دینِ اسلام کے سوا دوسرا مذہب مردود ٹھہرایا گیا ہے۔

۳۔ کہ دینِ اسلام کی برکات کی وارث حضرت ابراہیم کی نسل قراردی گئی ہے ۔ اور وہ برکات دینی ہیں یعنی رسالت ۔ نبوت ۔ کتابت اور حکمت اور سچائی کی حکومت وغیرہ۔

۴۔ کہ مصنف قرآن نے دین ابراہیمی یعنی اسلام محمد صاحب پر اور آپ کی اُمت پر فرض ٹھہرایا ہےکہ یہ قوم اُ س کی پیروی کرے۔

۵۔ کہ مصنف قرآن نے اسمٰعیل کو حضرت ابراہیم کی نسل اور اسلام کا وارث نہیں مانا ہے بلکہ اسحٰق اوریعقوب کو ۔پس ابراہیم کا دین اور اُ س کی برکات اسحٰق اور یعقوب اور اُ س کی نسل کی وراثت گردانی گئی ہیں۔ اسمٰعیل اسلام سے خارج سمجھا گیاہے۔

۶۔ قربانی مصنف قرآن کے نزدیک اسحٰق کی ہوئی ہے اسمٰعیل کا ذکر تک نہیں تمام محمدی ضد سے اسمٰعیل کی قربانی مانتے ہیں (سورہ الصّافات آیت ۱۱۲) میں دو ثبوت اسحٰق کی قربانی کے ہیں یعنی لفظ (یٰنبیَّ) اور(وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ) باقی آیات منقولہ میں صرف اسحٰق کی بشارت کا ثبوت ہے۔ پس مناسب ہے کہ آپ لوگ محمدیو ں سے اس دین کی پیروی کا مطالبہ کریں جو دینِ اسلام ان پر فرض ٹھہرایا گیا۔ اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ قرآن میں دین ِاسلام نہیں پایا جاتا ہے پردین اسلام کا وجوب(ضروری ہونا) پس دین اسلام قرآن سے ضرور باہر ہے۔ اور وہ دین اسحٰق اور یعقوب کی نسل کے سلسلے میں بتایا گیا ہے جسے دوسرے لفظوں میں بائبل کا دین کہتے ہیں۔

محمدی صاحبان کے فرائض

۱۔اس فصل کے مضامین کی نسبت محمدی صاحبان کا یہ فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ مسلمان یا صاحبِ اسلام ہیں ۔اسلام سے گمراہ نہیں ہیں۔

۲۔ محمدیوں کا فرض ہے کہ ثابت کریں کہ اسمٰعیل اسلام کی برکات کا وراث ہو سکتا ہے جس حال کہ وہ لونڈی کا بیٹا جس کی تولید مکہ میں ہوئی اور ثابت کریں کہ اسمٰعیل قربانی چڑھایا گیا۔ جب کہ قرآن سے ثابت نہیں ہے۔

۳۔ محمدیوں کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ اسلام اور اُ س کی برکات کے وارث حضرت اسحٰق اور یعقوب اور اُ ن کی اولاد نہ تھی بلکہ کوئی غیر شخص تھا۔

۴۔ کیا کوئی محمدی قرآن لکھا دیکھا سکتا ہے کہ (وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اسمٰعیل) وغیرہ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ مصنف قرآن اسمٰعیل کو خُدا کی بخشش قرار ہی نہیں دیتا ہے ۔ درحالیکہ اسحٰق اور یعقوب تک کو خُدا کی بخشش بتلاتا ہے۔

اے محمدی صاحبان ہم آپ کو مفروضہ مذہب سے ہزاروں کو س دور ثابت کرنے کو تیار ہیں اور ہم خُدا کی مدد سے کر دیکھائیں گے۔ اور وہ بھی قرآن سے اور اب آپ اپنے کو اسلام ابراہیمی کے پیرو ثابت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں ہم نے اس فصل ہیں صرف ایک مورچہ سر کیا ہے وہ اسلام ابراہیمی اور اُ س کی برکات کا اسحٰق اور یعقوب اور اس کی اور اولاد کے حصّہ میں آنا ہے ۔ آگے کو ہم لفظ اسلام اہلِ کتاب کے دین پر استعمال کریں گے ۔ اور آپ دیکھتے جائیں کہ ہم کیا ثبوت رکھتے ہیں۔

دُوسری فصل

کہ جس میں وہ آیات قرآنی وارد ہوئی ہیں جو

اسحٰق کی اولاد کا مذہب اسلام بیان کرتی ہیں۔

وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ (۱۳۲)ؕ اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ (۱۳۳)

ترجمہ۔ اور وصیت کے ساتھ اس کے ابراہیم نے بیٹوں اور یعقوب سے۔ اے بیٹو میرے تحقیق اللہ نے پسند کیا ہے واسطے تمہارے دین ۔ پس نہ مرو تم مگر مسلمان ہو کر۔ کیا تم حاضر تھے جس وقت آئی یعقوب کو موت ؟ جس وقت کہا اس نے اپنے بیٹوں سے کس کی عبادت کرو گے تم ؟ پیچھے میرے اُنہوں کہا انہوں نے عبادت کریں گے۔ ہم معبود تیرے کو معبود باپوں تیرے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق کے معبود ایک کو اور ہم واسطے اس مسلمان ہیں۔(سورہ بقر ۱۶ رکوع آیت۱۳۲۔۱۳۳ )۔

وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ ؕ لَئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَ عَزَّرۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَقۡرَضۡتُمُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق لیا اللہ نے عہد بنی اسرائیل کا اور کھڑے کئے ہم نے اُن میں سے بارہ(۱۲) سردار۔ اور کہا اللہ نے تحقیق میں ساتھ تمہارے ہوں اگر قائم رکھو تم نماز کو اور دو تم زکوۃ کو۔ اور ایمان لاؤ تم ساتھ پیغمبروں میرے کے اور قوت دو ان کو اور قرض دو تم اللہ کو قرض اچھا ۔ البتہ دُور کروں گا میں تم سے بُرائیاں تمہاری اور داخل کروں گا۔ میں تم کوبہشتوں میں کہ چلتی ہیں نیچے اُ ن کے نہریں۔ پس جو کوئی کا فر ہو۔ پیچھے تم میں سے پس تحقیق گمراہ ہوا راہ سید ھی سے (سورہ مائدہ ۳رکوع آیت ۱۲) ۔

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰقَوۡمِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّسۡلِمِیۡنَ (۸۴) فَقَالُوۡا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ۚ

ترجمہ۔اور کہا موسیٰ نے اے قوم میری اگرہو تم ایمان لائے ساتھ اللہ کےپس اُوپر اُس کے توکل کرو تم اگر ہو تم مسلمان پس کہا اُنہوں نے اُوپر اللہ کے توکل کیا ہم نے (سورہ یونس ۹ رکوع آیت ۸۴۔۸۵)۔

اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ (ۙ۳۰) اَلَّا تَعۡلُوۡا عَلَیَّ وَ اۡتُوۡنِیۡ مُسۡلِمِیۡنَ (۳۱)پھر (اَنۡ یَّاۡتُوۡنِیۡ مُسۡلِمِیۡنَ (۳۸)پھر(قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۴۴)(سورہ نمل۳ ،۴ رکوع آیت۳۰۔۳۱؛ ۳۸؛ ۴۴)۔

ترجمہ۔ تحقیق وہ سلیمان کی طرف سے ہے۔۔۔ مت سرکشی کرو اُوپر میرے اور چلے آؤ میرے پاس مسلمان ہو کر وغیرہ ۔

وَ اِذۡ اَوۡحَیۡتُ اِلَی الۡحَوَارِیّٖنَ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّنَا مُسۡلِمُوۡنَ (۱۱۱)

ترجمہ ۔ اور جس وقت وحی بھیجی ہم نےطرف حواریوں کے یہ کہ ایمان لاؤ ساتھ میرے رسول کے۔ کہا اُنہوں نے ایمان لائے ہم اور گواہ رہ تو ساتھ اس کے کہ ہم مسلمان ہیں(سورہ مائدہ ۱۵ رکوع آیت ۱۱۱)۔

ان آیات کے سوا اہلِ کتاب کا ایک یہ بھی دعویٰ تھا ۔ کہ ہم قرآن سے پیشتر ہی اسلام کے تابع تھے۔ چنانچہ مصنف قرآن کی یہ تصدیق ہے۔

(اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّنَاۤ اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلِہٖ مُسۡلِمِیۡنَ (۵۳)

ترجمہ ۔ تحقیق یہ (قرآن) سچ ہے رب ہمارے کی طرف سے تحقیق تھے ہم پہلے اس ( قرآن ) سے مسلمان ۔(سورہ قصص ۶رکوع آیت ۵۳) ۔

ناظرین مضمون ذیر بحث کے فیصلے کے لئے اُوپر کے مقامات کافی ہیں۔ اب ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ آپ ذیل کی باتوں پر غور کر کے فیصلہ کریں۔

۱۔ کہ آیت اوّل میں اسمٰعیل کے خُدا کا حوالہ فضول اور بے سند اور بے موقع دیا گیا ہے کہ جس میں مصنف قرآن خواہ مخواہ اسمٰعیل کی بزرگی کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے خُدا کی اطاعت کا اقرار کرنا سچے اسلام کی اطاعت کے اظہار میں کافی اقرار تھا ۔ اس لئے اسمٰعیل کے خُدا کا حوالہ فضول ہے۔

۲۔ دوئم آیت منقولہ میں اقرار یعقوب کے بیٹوں کا نقل کیا گیا ہے۔ جس میں اعتبار اور یقین کو جگہ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ یعقوب کے بیٹے کوئی ملہم (وہ شخص جس کے دل میں غیب سے کوئی بات پڑے)نہ تھے لہٰذا یہ ان کی غلطی ہو سکتی ہے کہ اسمٰعیل کے خُدا کا حوالہ دیا ۔

۳۔ اسمٰعیل کی خُدا پرستی کا بائبل میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ قول غلط ہے۔

۴۔ ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کا کوئی قول اسمٰعیل کی خُدا پرستی پر قرآن میں نقل نہیں کیا گیا ۔بلکہ ایک قول میں یعقوب اسمٰعیل کا ذکر تک نہیں کرتا ہے درحالیکہ مصنف قرآن کو ابراہیم یا اسحٰق یا یعقوب کے قول سے اسمٰعیل کی خُدا پرستی ثابت کرنی تھی پر بھول گیا ۔ اسمٰعیل کی خُدا پر ستی ان بزرگوں کے قول سے ثابت نہ کی ۔ پر خلاف اس کے ۔ یوں لکھا ہے ۔

وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ وَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ اَتَمَّہَا عَلٰۤی اَبَوَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (۶)

ترجمہ۔ اور اسی طرح برگزیدہ کرے گا تجھ کو پروردگار تیرا اور سکھلائے گا تجھ کو تعبیر کرنی باتو ں کی۔ اور پوری کرے گا نعمت اپنی اُوپر تیرے اور اُوپر یعقوب کی اولاد کے ۔ جیسا پورا کیا تھا۔ اُ س کو اُوپر دو باپ تیرے کے پہلے اس سے ابراہیم اور اسحٰق کے ۔تحقیق رب تیرا جاننے والا حکمت والا ہے۔ (سورہ یوسف ۱رکوع آیت ۶) ۔ اب غور فرمائیے کہ یعقوب تو اپنی اولاد کو دادا اور پردادا کا نام سکھلائے اور اسمٰعیل کو خارج گردانے اور اولاد اپنے باپ کا باپ اسمٰعیل کو قرار دے؟ یہ بات عجیب ہے۔ اور پھر یوسف کا بیان سُنئے ۔ (2)

۵۔ یعقوب کے بیٹوں کے جواب میں جو اسمٰعیل کو یعقوب کا باپ گردانا ہے ہم بتلائے دیتے ہیں کہ اس جواب میں یعقوب کی سخت بے عزتی بیٹوں نے (اسمٰعیل کو یعقوب کا باپ کہنے سے ) کی ۔ کیونکہ اسمٰعیل ایک لونڈی کا بیٹا تھا جس کی پیدائش محمدی مذہب کے موافق مکہ میں ہوئی اور ابراہیم کے گھر میں نہیں ہوئی۔ اسمٰعیل میراث سے خارج تھا۔ بھلا ایک لونڈی کے بیٹے کوایک آزاد کے بیٹے کا باپ کہنا اس کی سراسر بے عزتی نہیں ہے ؟ بلاشک ہے ۔ پس ہم کہتے ہیں کہ مصنف قرآن نے یعقوب کے بیٹوں کے نام سے حضرت یعقوب کی سخت بے عزتی کی جو ہر گز قبول نہیں ہو سکتی ہے۔

۶۔ اصل مطلب جو ہم دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ وہ یعقوب کے بیٹوں کا اسلام کو قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہے۔ پس ابراہیم مسلمان تھا ۔ اسحٰق اور یعقوب اور یعقوب کی اولاد کا مذہب اسلام تھا۔ پس ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب اور یعقوب کی اولاد کے مذہب کا نام قرآن کے مصنف نے اسلام رکھا ہے۔

۷ ۔ حضرت موسیٰ اور موسیٰ کی قوم کا مذہب اسلام تھا۔

۸۔ حضرت سلیمان اور اُ س کی قوم کا مذہب اسلام تھا۔

۹۔ خُداوند یسوع مسیح اور اُ س کے شاگردوں کا مذہب بھی اسلام تھا۔

۱۰۔ محمد صاحب کے وقت کے اہلِ کتاب کا مذہب بھی اسلام تھا۔ کیونکہ مصنف قرآن محمد صاحب کو اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اہلِ کتا ب کہتے ہیں کہ ہم تو قرآن سے پیشتر ہی مسلمان ہیں۔ پس ثابت ہے کہ دین ِاسلام قرآن کی اصلاح میں اہلِ کتاب کے مذہب کا نام ہے اور یہی اسلام محمد صاحب پر اور محمد صاحب کی اُمت پر فرض ٹھہرایا گیا جس کا مطالبہ ہم آگے چل کر کریں گے۔

ہر ایک محمد ی پر جس کی آنکھوں پر تعصب کا پردہ نہیں ۔ جو حق کے عوض گمراہی پسند نہیں کرتا یہ امر حیرت خیز ہے کہ مصنف قرآن اسمٰعیل اولاد کا کوئی مذہب نہیں بتلایا ہے۔ وہ اسمٰعیل کی اولاد میں سے کسی ایک کو ہمارے روبرو نہیں لاتا ہے۔ گویا کہ اسمٰعیل اور اُ س کی اولاد میں اُ س نے ایک بھی خوبی نہ دیکھ کر اُ سے ایسا چھوڑا کہ گویا اسمٰعیل اور اُس کی اولاد کو جانتا تک نہیں۔ درحالیکہ اسمٰعیل کی اولاد تھی اور اسمٰعیل اور اُ س کی اولاد کے مذہب کا مطلق(بالکل) کچھ ذکر نہیں کرتا ۔ ہم محمدی صاحبان سے پوچھتے ہیں کہ اس میں کیا راز مخفی تھا؟ کہ مصنف قرآن اسمٰعیل کو صرف نیک اور نبی کا خطاب دے کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کو اور اس کی اولاد کو بھول جاتا ہے اور کیوں اہل ِکتاب اور اُ ن کے مذہب پر فریفتہ ہو کر اسحٰق کی نسل کے مذہب کا عاشق ہو جاتا ہے۔ اور محمدی قوم پر اسی مذہب کی اطاعت فرض ٹھہراتا ہے؟ آپ صاحبان خُدا کے خوف کو مد نظر رکھ کر اُوپر کے مضامین پر غور فرمائیں اور ہم ایک دوسرے مضمون کی تلا ش میں جاتے ہیں ۔السلام علیکم ۔


(2) (وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ) یعنی پیروی کی میں نے دین باپوں اپنے کی ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے (یوسف ۵ رکوع آیت ۳۸)۔

تیسری فصل

جس میں وہ آیات قرآن آئی ہیں جن میں بنی اسرائیل کی

فضیلت اور فضیلت کے اسباب بیان ہوئے ہیں

(۱) وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (ۚ۱۶)

ترجمہ ۔ اور البتہ تحقیق دی ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت اور رزق دیا ہم نے اُن کو پاکیز ہ چیزوں سے اور بزرگی دی ہم نے اُن کو اُوپر عالموں کے(سورہ جاثیہ ۲ رکوع آیت ۱۶)۔

(۲) (وَ لَقَدۡ نَجَّیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنَ الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ (ۙ۳۰)۔۔۔وَ لَقَدِ اخۡتَرۡنٰہُمۡ عَلٰی عِلۡمٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (ۚ۳۲)

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق نجات دی ہم نے بنی اسرائیل کو عذاب رسوا کرنے والے سے۔ اور البتہ تحقیق پسند کر لیا ہے ۔ ہم نے اُن کو ساتھ علم کے اُوپر عالموں کے (سورہ دخان ۲رکوع آیت ۳۰، ۳۲)۔

(۳) یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (۴۷)

ترجمہ۔ اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کر و وہ جو انعام کی ہے میں نے اُوپر تمہارے اور یہ کہ میں نے بزرگی دی تم کو اُوپر عالموں کے (سورہ بقر ۶رکوع آیت ۴۷)۔

(۴) قَالَ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡغِیۡکُمۡ اِلٰـہًا وَّ ہُوَ فَضَّلَکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (۱۴۰)

ترجمہ۔ کہا موسیٰ نے کیا سوائے خُدا کے چاہوں میں واسطے تمہارے معبود ۔ اور اُس نے بزرگی دی تم کو اُوپر عالموں کے( سورہ اعراف ۱۶رکوع آیت۱۴۰) ۔

(۵) وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ (۲۰)

ترجمہ ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا اے میری قوم یاد کرو نعمت اللہ کی اوپر اپنے جس وقت کئے بیچ تمہارے پیغمبر اور کیا تم کو بادشاہ اور دیا تم کو وہ کچھ جو نہ دیا کسی کو سارے عالموں سے( سور ہ مائدہ ۴ رکوع آیت ۲۰)۔

(۶) وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو صداقت کی جگہ اور رزق دیا ہم نے اُن کو پاکیزہ چیزوں سے (سورہ یونس ۱۰رکوع آیت ۹۳)۔

(۷) وَ نَجَّیۡنٰہُ وَ لُوۡطًا اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا لِلۡعٰلَمِیۡنَ (۷۱)

ترجمہ۔ اور نجات دی ہم نے اس کو (ابراہیم کو ) اور لوط کو طرف اس زمین کے کہ برکت رکھی ہم نے بیچ کے واسطے عالموں کے (سورہ انبیاء ۵ رکوع آیت ۷۱)۔

(۸) وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۲۷)

ترجمہ ۔ اور دیا ہم نے اس کو اسحٰق اور یعقوب اور کی ہم نے بیچ اولاد اُن کی رسالت اور کتاب اور دیا ہم نے اس کو (ابراہیم کو) ثواب اس کا بیچ دُنیا کے اور بیچ آخرت کے اور تحقیق وہ بیچ آخر ت کے البتہ نیک ہیں۔(سورہ عنکبوت ۳رکوع آیت ۲۷)۔

(۹) وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡہُدٰی وَ اَوۡرَثۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ (ۙ۵۳)ہُدًی وَّ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ (۵۴)

ترجمہ۔ اور البتہ ہم نے دی موسیٰ کو ہدایت اور وارث کیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا ۔ ہدایت اور نصیحت واسطے صاحبان ِعقل کے (سورہ المومن ۶رکوع آیت ۵۳۔۵۴)۔

(۱۰) وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ فَمِنۡہُمۡ مُّہۡتَدٍ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ (۲۶)

ترجمہ۔[جالندھری] اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو (پیغمبر) بنا کر بھیجا اور ان کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب (کے سلسلے) کو (وقتاً فوقتاً جاری) رکھا تو بعض تو ان میں سے ہدایت پر ہیں اور اکثر ان میں سے خارج از اطاعت ہیں (سورہ حدید ۴ رکوع آیت ۲۶)۔

اس فصل کی آیات میں سے ہم کو ذیل کی حقیقتیں ملتی ہیں۔ جن سے آنے والے بہت سے عقدے(مشکل بات،گرہ) حل ہو جائیں گے۔

۱۔ کہ ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کی نسل کی نہایت ہی خاص خصوصیت اور خاص بیان جس سے یہ قوم دیگر اقوام سے امتیاز کی جائے قرآن میں کیا گیا ہے۔

۲۔ کہ حضرت اسحٰق اور یعقوب اور اور اُس کی اولاد کی خاص نعمتیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے بنی اسرائیل کی دیگر اقوام کی نسبت خصوصیت ظاہر و ثابت ہے۔ اور وہ نعمتیں بھی ایسی کہ تمام عالموں سے کسی کونہ دی گئیں ۔ اور نہ دی جا سکیں جیسا کہ (آیت نمبر ۵) سے ظاہر ہے۔

۳۔ تمام اسرائیل کا تمام عالموں سے خُدا کی پسندیدہ قوم ہونا ثابت ہے جیسا کہ( آیت نمبر ۲)سے ثابت ہے اور اسی آیت سے یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ خُدا نے اپنے علم و دانائی اور دائمی پیش بینی سے جان کر اور پہچان کر بنی اسرائیل کو عالموں سے پسند کیا اور چُن لیا۔

۴۔ بنی اسرائیل کے حق میں یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کتاب اور شریعت اور نبو ت اور رسالت کے لئے مخصوص ہیں۔ بموجب بیان قرآنی یہ برکات دینی خُدا بنی اسرائیل کو دے چکا۔ اور انہیں کے لئے مخصوص کر چکا۔ (آیات نمبر ۱، ۵، ۸، ۱۰، ۱۱ کو دیکھو)۔ اور دینی حکومت اور بادشاہی اور الہٰامی سچائی کی بلند آواز خُدا بنی اسرائیل کو سونپ چکا ۔ دیکھو( فصل اوّل دفعہ ۶سورہ مریم ۳رکوع) کی آیت منقولہ کو ۔

۵۔ نہ صرف یہی بلکہ صداقت اور راستی اور برکات دینی کی جگہ بھی خُدا قرآن کے بیان کے موافق بنی اسرائیل کی میراث کر چکا (یعنی ملک کنعان ) جس میں برکات دینی خُدا نے تمام عالموں کے لئے ٹھہرائیں اور مقرر کیں۔ تاکہ تمام عالم ملک کنعان سے برکت دینی حاصل کریں۔ یہ بیان (آیت نمبر ۶، ۷)سے نکالا جاتا ہے۔

۶۔ بنی اسرائیل کو جو وراثت اور کتاب ملی ہے وہ دُنیا کے تمام عقلمندوں اور دین کے طالبوں کیلئے ہے صرف بنی اسرائیل ہی کیلئے نہیں ہے۔ تمام جاہل اور بے وقوف اس وارثت سے محروم رہیں گے ۔ یہ مضمون (نمبر ۹ )کی آیت سے نکلتا ہے۔

۷ ۔ تمام عالموں پر بنی اسرائیل کی فضیلت کا ایک اور سبق ہم کو پڑھا یا جاتا ہے۔ قرآن کا مصنف بنی اسرائیل کو تمام عالموں پر فضیلت دے چکا ہے اور فضیلت کے اسباب بھی بیان کر چکا ہے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اُوپر کے بیانات سے اور کون سی حقیقتیں قائم ہو جاتی ہیں۔

مسیحی مناد یاد کریں

۱۔ کہ قرآن فیصلہ کر چکا ہے کہ بنی اسرائیل رسالت اور کتابت دینی اور نبوت وغیرہ کے وارث ہیں لہٰذا بنی اسرائیل کے رسولوں اور نبیوں اور کتابوں اور نبوت کے مقابل کسی قوم یا فرقے کے کسی آدمی کو نبی نہیں مانا جا سکتا جب تک کہ وہ بنی اسرائیل سے نہ ہو اور اس کی نبوت بنی اسرائیل کی کتابوں سے ثابت نہ ہو ۔ اور نہ کوئی کتاب الہٰامی مانی جا سکتی ہے جب تک کہ ثابت نہ ہو کہ یہ بنی اسرائیل کے کسی نبی کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نبوت اور رسالت بنی اسرائیل میں محدود کی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل سے باہر کوئی نبی نہیں۔ کوئی کتاب نہیں ۔ کوئی رسالت نہیں ۔

۲۔ بنی اسرائیل کی تخصیص(خصوصیت،گُن،حق مخصوص) نبوت اور کتاب اور رسالت سے کی گئی ہے۔ محمدی کوشش کریں گے کہ اس خصوصیت سے انکار کرکے محمد صاحب کی رسالت کے لئے راہ نکالیں ۔ پر ہم کو خبردار ہونا چاہیے کہ قرآن کی آیات مذکورہ بالا میں ہر ایک غیربنی اسرائیل کے نبی ہونے کا راستہ بند ہے ایسے موقعہ پر محمدیوں سے کہو کہ محمد صاحب کو پیشتر بنی اسرائیل ثابت کریں۔

۳۔ محمدی صاحبان بنی اسرائیل کی فضیلت کے باب میں بھی تکرار کریں گے ۔ کیونکہ فضیلت بنی اسرائیل جیسا کہ قرآن میں ہم نے دکھایا مان کر کسی طور اور جہت سے محمد صاحب اور آپ کی عربی قوم کی بزرگی کا مسئلہ مانا نہیں جا سکتا ہے ۔ لہٰذا ہمارے محمدی صاحبان اور قرآن کے مفسرین فضیلت کے باب میں سخت اُلٹ پُلٹ تاویلات کریں گے اور خاص کر لفظ عالمیؔن کے معنوں میں تخفیف (کمی)کریں گے ۔ پر خبردار اُ ن کی طول طویل تاویلوں میں نہ پھنسنا۔

جاننا چاہیے کہ لفظ عالمین علَم سے مشتق (وہ لفظ جو کسی دوسرے لفظ سے بنایا گیا ہو)ہے۔ جس کے معنے نشان یا جھنڈے کے ہیں۔ اور چونکہ جہاں پر علم نصب ہوتا ہے۔ وہاں پر لشکر کی موجودگی ظاہر ہوتی ہے اس لئے لفظ علم سے عالم بنا یا گیا جو ایک زمانے کی تمام خلقت کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ پس اگر قرآن میں لفظ عالم بجائے عالمین استعمال کیا جاتا تو بنی اسرائیل کی فضیلت ایک عالم پر محدود ہوتی لیکن عالمین عالم کی جمع استعمال کر کے مصنف قرآن نے بنی اسرائیل کو تمام زمانوں کی خلقت پر فضیلت دی ہے جس سے مراد قیامت تک پیدا ہونے والی خلقت پر فضیلت ہے اور لطف یہ ہے کہ خُدا نے یہ فضیلت اپنی علم و دانائی سے جان کر دی ہے جو کسی طرح سے جا نہیں سکتی ہے کم نہیں ہو سکتی ہے اور نہ بنی اسرائیل تمام عالموں کی نسلوں میں دین کے باب میں ذلیل ہو سکتے ہیں۔ پس اس فصل کے مضامین محمد ی نبوت اور رسالت اور قرآن کے الہٰامی کتاب ہونے کے خلاف سد سکندری ہیں جن کو باطل کر کے محمدی نبوت کو ثابت کرنا آسان بات نہیں ہے۔

اب ہم محمدیوں سے مخاطب ہو کر گذارش کرتے ہیں۔ کہ قرآن سے ثابت ہے کہ نبوت اور رسالت اور الہٰام اور کتاب قرآن کے بیان کے موافق بنی اسرائیل میں محدود ہو چکی ہے۔ اب غیر بنی اسرائیل کو الہٰام اور نبوت اور رسالت کا حصّہ دار مانا نہیں جا سکتا ہے۔ محمد صاحب کو بنی اسرائیل کی ان برکات کی خبر دی گئی تاکہ حضرت جان لیں کہ آپ نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ آپ بنی اسرائیل نہیں ہیں۔

آپ بنی اسرائیل کی فضیلت میں ساجھی (حصہ دار)نہیں بن سکتے ہیں اس سے حضرت پر بنی اسرائیل کی فضیلت ثابت ہو چکی۔ پس اب آپ لوگ حضرت کے نبی ہونے اور قرآن کے الہٰامی ہونے کے اصولوں کی تلاش فرمایئے ۔ یہ مورچہ ہمارے ہاتھ آچکا ہے۔ کہ تمام دینی برکات بنی اسرائیل کی میراث ہیں غیر کی نہیں۔ پس اس فصل میں ہم نے دین ابراہیمی کی فضیلت جسے اسلام کہتے ہیں اور جو دین اسحٰق کی نسل کا دین ہی دکھائی ہے جس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کی فضیلت کا مسئلہ بھی فیصل ہو گیا زیادہ ہم پھر عرض کریں گے۔

چوتھی فصل

جس میں وہ آیات قرآنی نقل کی گئی ہیں جن سے جناب ِمسیح

کو رد کرنے سے بنی اسرائیل اسلام کی برکات سے خارج کئے گئے ثابت ہیں ۔

اس فصل کے مضمون سے ہمارا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل خُداوند یسوع مسیح کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے سزا کی حالت میں ہیں۔ پر صرف وہ اسرائیلی جنہوں نے خُداوند کو قبول نہ کیا وہ ہی سزامیں ہیں پر اُن کی فضیلت اور خصوصیت جاتی نہیں رہی۔ کیونکہ خُداوند یسوع مسیح اور اس کے شاگرد بھی اسرائیلی تھے۔ لہٰذا وہ فضیلت اور خصوصیت بحال رہی جو خُدا بنی اسرائیل کو دے چکا تھا اور جنہوں نے خُداوند یسوع کو نہ مانا وہ خارج کئے گئے اور قرآن سے ثابت ہے کہ جنہوں نے خُداوند یسوع کو نہ مانا وہ خارج کئے گئے ہیں ۔پر اس فصل کے مضمون کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بے ایمان اسرائیلی خارج کئے گئےاور غیر اسرائیلی اس فضیلت دینی کے وارث ہو گئے۔ اسلام اسرائیلی سے جدا نہیں ہوا۔ بعض کی بے ایمانی سے کل بنی اسرائیل کی فضیلت ضائع نہیں ہو سکتی ہے۔ مقامات یہ ہیں۔

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ (۷۸)

ترجمہ۔ لعنت کئے گئے وہ لوگ کہ کافر ہوئے بنی اسرائیل سے اُوپر زبان داؤد کے اور عیسیٰ بیٹے مریم کی کہ یہ بے سبب کے کہ نافرمانی کرتے تھے اور تھے حد سے نکل جاتے(سورہ مائدہ ۱۱رکوع آیت ۷۸)۔

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ (۵۵)فَاَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَاُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ (۵۶)

ترجمہ۔ جس وقت کہا اللہ نے اے عیسیٰ میں مارنے والا ہوں تجھ کو اور اُٹھا نے والا ہوں تجھ کو طرف اپنی اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے (تجھ سے) اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کرتے ہیں تیری فتح منداُوپر اُن لوگوں کے کہ کافر ہوئے (تجھ سے )قیامت کے دن تک ۔پس جو لوگ کہ کافر ہوئے (عیسیٰ کی پیروی سے ) پس عذاب کروں گا اُن کو عذاب سخت بیچ دُنیا کے اور بیچ آخرت کے ۔ اور نہیں واسطے اُن کے کوئی مددگار ( قیامت کے دن تک )(سورہ عمران ۵ رکوع آیت۵۵۔۵۶) ۔

قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ (۱۱۵)

ترجمہ ۔ کہا اللہ نے (عیسیٰ کو ) تحقیق میں اُتار نے والا ہوں اس کو (خوان کو ) اُوپر تمہارے پس جو کوئی کفر کرے ( عیسیٰ کی پیروی سے ) پیچھے اس کے (نزول خواں کے) تم میں سے پس تحقیق میں عذاب کروں گا اس کو وہ عذاب کہ نہ عذاب کروں گا وہ کسی کو عالموں میں سے(سورہ مائدہ ۱۶ رکوع آیت ۱۱۵)۔

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا (۱۵۵)وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا (۱۵۶ۙ)

ترجمہ۔ پس اپنے قول و عہد کو توڑنے کے سبب سے اور بسبب کفر ان کے کے ساتھ اللہ کی نشانیوں کے اور نبیوں کو ناحق قتل کرنے کے سبب اور یہ بات کہنے کے باعث کہ ہمارے دلوں پر پردے ہیں بلکہ مہر کی ہے اللہ نے اُوپر اُن کے کفر کے سبب سے ۔پس نہیں ایمان لاتے مگر تھوڑے اور اُ ن کے کفر کے سبب سے اور مریم پر بہتان لگانے کی جہت سے (اللہ نے مہر کی )(سورہ نساء ۲۲ رکوع آیت۱۵۵۔۱۵۶)۔

اُوپر کے مقامات سے ذیل کی باتیں قائم ہوتی ہیں۔

۱۔ کہ بنی اسرائیل قرآن میں اس لئے ملعون گردانے جاتے ہیں کہ وہ عیسیٰ پر ایمان نہیں لائے اور انبیاء کی پیروی نہ کی اور اُن کو ناحق قتل کیا اور حضرت مریم پر بڑا الزام لگایا۔

۲۔ اور بنی اسرائیل کل کے کل ملعون قرار نہیں دیئے گئے مگر وہ ہی جو خُداوند یسوع پر ایمان نہ لا کر اس کی پیروی سے با ز رہے۔

۳۔ وہ فریق جو بنی اسرائیل میں سے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لایا تمام برکات کا وارث ٹھہرایا گیا جو برکات بنی اسرائیل کو خُدا کی طرف سے دی گئی تھیں۔

۴۔ جو لوگ خُداوند یسوع پر ایمان نہ لائے اُ ن کے لئے عذاب شدید کا جب تک وہ ایمان نہ لائیں فتویٰ دیا گیا۔

۵۔ کہ وہ جو خُداوند یسوع پر ایمان نہ لائے اُن کے لئے اور اُ ن کی بے ایمان اولاد کے لئے قیامت تک مددگار اور رہائی دہندہ کا وعدہ اور اُمید باطل ٹھہرائی گئی گویا کہ بنی اسرائیل کے نافرمانوں کے لئے ہر ایک مددگار اور نجات دہندہ کا آنا موقوف کیا گیا مگر یسوع مسیح قیامت تک بنی اسرائیل کے نافرمانوں سے ایمان کا مطالبہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا جس کے سوا کوئی بنی اسرائیل کے نافرمانوں کو نجات نہیں دے سکتا دوسرے لفظوں میں یسوع مسیح کے سوا اور بعد ہر ایک نبی کا آنا موقوف کیا گیا۔

۶۔ جو اسرائیل خُداوند یسوع پر ایمان لایا قیامت تک اس کو اپنے دُشمنوں پر اور خُداوند یسوع مسیح کے مخالفوں پر فضیلت اور سرفرازی عنایت ہو چکی جو کبھی جاتی نہ رہے گی۔ پس خُداوند یسوع مسیح کے بعد خُداوند یسوع کے پیروں کے لئے اور مخالفوں کے لئے بالکل نبوت اور نبی کا سلسلہ ختم ہو گیا اب صرف نجات کے لئے یسوع مسیح ہی قیامت تک دُنیا کے روبرو ہے اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ہے۔

ناظرین پر آفتاب نیم روز کی طرف روشن ہو گیا کہ ہر ایک نافرمان اسرائیلی خُداوند یسوع مسیح پر ایمان نہ لانے کی جہت سے سزا کا مستوجب قرار دیا گیا ۔ پر اسلام اور اسلام کی فضیلت اور میراث کا ہر ایک فرمانبردار اسرائیلی وارث ٹھہرا ہاں جو اسرائیلی خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لایا وہی اسرائیلی اسلام کا اور فضیلت کا وارث رہا پر ہر ایک بے ایمان اسرائیلی خارج کیا گیا ۔ پس ثابت ہے کہ دینِ عیسوی اسلام ہے۔

پانچویں فصل

جس میں وہ آیات قرآنی آئی ہیں جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ

مسیحی مذہب ابراہیمی اسلام ہے اور اس کی برکتوں کا وارث ہے۔

ہم نے گُزری فصل میں بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے بے ایمان لوگ خدواند یسوع مسیح پر ایمان نہ لانے کی جہت سے مسیحی مذہب کی دولت سے محروم ہوئے یا اسلام کی برکات سے الگ کئے گئے پر جو بنی اسرائیل خُداوند یسوع پر ایمان لائے وہ اسلام کی دولت کے وارث ہوئے ۔ اب ہم بیان کرتے ہیں کہ دینی فضیلت اور اسلام کی سربلندی مسیحی مذہب کی میراث ہو گئی ہے ۔قرآن اس پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ مقامات یہ ہیں۔

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (ۙ۳۳)

ترجمہ ۔ اور تحقیق اللہ نے برگزیدہ کیا آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو اُوپر عالموں کے ۔( عمران قرآن کے موافق خُداوند یسوع کا نانا تھا)(سورہ عمران ۴ رکوع آیت۳۳) ۔

وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (۹۱)

ترجمہ۔ اور کیا ہم نے اس کو (مریم ) کور اور بیٹے اس کے کو معجزہ واسطے عالموں کے (سورہ انبیاء ۶رکوع آیت ۹۱)۔

وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ (ۚ۴۸)وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ

ترجمہ۔ اور سکھا دے گا اُ س کو یعنی عیسیٰ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل اور کرے گا اُ س کو رسولوں طرف بنی اسرائیل کی(سورہ عمران ۵ رکوع آیت ۴۸۔۴۹)۔

وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (ؕ۴۶)

وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (ؕ۴۶)

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ (۵۲)

ترجمہ۔ پس جب دیکھا عیسیٰ نے اے کفر۔ کہا کون ہیں مدد دینے والے مجھ کو طرف اللہ کی ؟ کہا حواریوں نے کہ ہم ہیں مد د دینے والے اللہ کے ایمان لائے ہم ساتھ اللہ کے اور تو گواہ رہ ساتھ اس کے کہ ہم مسلمان ہیں(سورہ عمران ۵ رکوع آیت ۵۲)۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (ۙ۸۴)وَ زَکَرِیَّا وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ (ۙ۸۵)وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَ کُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (ۙ۸۶)وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (۸۷)ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (۸۸)اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ۚ فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ (۸۹)اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ

ترجمہ ۔ اور دیئے ہم نے واسطے اس کے (ابراہیم کے ) اسحٰق اور یعقوب ہر ایک کو ہدایت کی ہم نے اور نوح کو ہدایت کی ہم نے پہلے اس سے۔ اور اولاد اس کی میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح جزا دیتے ہیں ہم احسان کرنے والوں کو ۔ اور زکریاہ کو اوریحییٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو ہر ایک صالحوں سے تھا۔ اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو اور ہر ایک کو بزرگی دی ہم نے اُوپر عالموں کے اور باپوں اُن کی سے اور اولاد اُ ن کی سے اور بھائیوں اُن کے سے اور پسند کیا ہم نے اُ ن کو اور ہدایت کی ہم نے اُن کو طرف راہ سیدھی کے۔ یہ ہے ہدایت اللہ کی دکھاتا ہے ساتھ اس کے جسے چاہتا ہے بندوں اپنے سے۔ اور اگر شریک کرتے ہو البتہ کھوئے جاتے ہو جو کچھ تھے وہ عمل کرتے ۔ یہ لوگ ہیں وہ جو دی ہم نے ان کو کتاب اور حکم اور نبوت ۔ پس اگر کفر کریں ساتھ اس کے (اُوپر کے بیان کے) یہ (اہل مکہ اور عرب )پس تحقیق مقرر کیا ہے ہم نے ساتھ اس کے اس قوم کو کہ نہیں ہیں ساتھ اس کے (اس بیان کے) کفر کرنے والے (کہ اہل ِکتاب ہیں) یہ لوگ ہیں جن کو ہدایت کی اللہ نے پس ساتھ ہدایت ان کی کے (اہل ِکتاب کی کے) پیروی کر تو ( اے محمد)(سورہ انعام ۱۰رکوع آیت ۸۴۔۹۰)۔

اُوپر کے مقامات ہم نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں نقل کئے ہیں کہ اسلام ابراہیمی مسیحی مذہب ہے۔ اور اس بیان سے ہم یہ دلائل نکالتے ہیں۔ انصاف پسند محمدی صاحبان غور فرمائیں ۔

۱۔ اسمٰعیل کی نبوت ثابت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اسمٰعیل کی اولاد کو خُدا نے ہدایت نہیں کی اور اس کی اولاد کی ہدایت صراطِ مستقیم (سیدھی راہ)کی طرف کی نہ گئی محمد صاحب کے وقت تک اسمٰعیل کی کل اولاد گمراہ تھی۔ اور کتاب ِمقدس سے ثابت نہیں کہ اسمٰعیل نبی تھا۔

۲۔ کہ ابراہیم کی نسل میں اور عمران کے خاندان کا انتخاب ثانی ہوا۔ قرآن کا مصنف کہتا ہے کہ خُدا نے عمران کے خاندان کو عالموں پر پسند فرمایا خاص کر آلِ عمران کو عالموں پر پسند کرکے برگزیدہ کیا ۔ اور یہ آلِ عمران حضرت مریم اور اس کا بیٹا عیسیٰ مسیح ہے۔ جسے خُدا نے عالموں پر فضیلت بخشی اور عالموں کے لئے معجزہ مقرر کیا۔

۳۔ قرآن سے خُداوند یسوع مسیح کی رسالت اور نبوت ثابت ہے۔ جسے بنی اسرائیل کے بے ایمانوں نے نہ مان کر رد کیا اور اس باعث سے یہ نافرمان ملعون(لعنتی) ہو کر اسلام سے خارج ہوئے اور مسیح کو ماننے والے اسلام کے وارث ٹھہرے جس سے جائز طور سے مسیح کا مذہب اسلام مقرر ہوا۔

۴۔ کہ مسیح بنی اسرائیل کا نبی ہو کر تورات اور زبور اور صحائف انبیاء کا مصدق ٹھہرا اور قرآن کے مصنف نے یہ تصدیق جائز ٹھہرائی اور جسے کتاب اور حکمت وغیرہ ملی جس میں ہدایت اور نور اور نصیحت پائی جاتی ہے۔ پس یسوع مسیح مکمل اور مصدق کتبِ ربانی ہو کر اسلام کو مضبوط اور قائم کرنے والا اور اسلام کی برکات کا وارث ۔

۵۔ کہ خُداوند یسوع مسیح نے اسلام کی تعلیم دی اور یسوع مسیح کے شاگردوں نے مذہب ِاسلام قبول کیا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ ہم جسے دینِ عیسوی کہتے اور قرآن جسے اسلام کہتا ہے مسیحی مذہب ہے جس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے کیونکہ اسلام ہی دین ہے جس کی پیروی خُدا کو منظور ہے۔

۶۔ یہ بھی یاد رکھنا ضرور ہے کہ اسلام کی پیروی تورات کو ہی قبول کرنے سے نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ تورات بغیر انجیل بے تصدیق اور نامکمل ہے۔ صرف انجیل ہی کی پیروی اسلام کی پیروی ثابت ہوئی۔ پس جو کوئی انجیل کی اطاعت نہ کرے وہ اسلام سے خارج ہے۔

اب اُوپر کی وجوہات سے جو بات بحث طلب قائم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کے دُنیا میں آنے کے بعد اسلام کی برکتوں کا وارث ہونا یا تو مسیحی والدین کے گھر پیداہو کر مسیح ہونے پر منحصر ہوا اور یا ایمان و یقین سے عیسائی ہونے پر اور کوئی طریقہ مسلمان ہونے کا نہیں رہا۔

مسیحی منّاد یہ بات نہ بھُولیں

کہ حضرت محمد صاحب اور محمدی قوم نے دُنیا کے روبرو مسلمان ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اب اُ ن سے پوچھا جائے کہ حضرت محمد صاحب کب عیسائی ہوئے اور محمدی قوم کا ہرایک شخص کب مسیحی ہوا جو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ وہ کسی قاعدے سے مسلمان ثابت نہیں ہو سکتے ہیں اس لئے کہ وہ کبھی مسیحی نہ ہوئے۔ مسیحی مذہب تمہارے روبرو قرآن سے اسلام ثابت ہے۔ اب محمدی قوم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے کہ کیا ہے؟ ورنہ آج سے مسلمان کہلانا چھوڑا جائے ۔ کیونکہ یہ صریح(صاف،واضح) فریب ہے۔

۷۔ قرآن میں محمد صاحب کو صاف حکم آیا ہے کہ عیسائیوں یا اہلِ کتاب کی ہدایت کی پیروی کی جائے جیسا کہ(سورہ انعام) کی منقولہ بالا آیات سے ظاہر ہے۔ جس پر یا جن معنی پر مفسرین قرآن نے آج تک پردے ڈالتے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ کب مسیحیوں کی ہدایت پر عمل کیا گیا ؟ محمدی صاحبان ان تمام باتوں کے جواب آپ لوگوں سے طلب کئے جائیں گے۔ ہم حق کو ظاہر کریں گے دیکھیں گے۔ کہ آپ لوگ کب تک سچائی کو رد کرتے جائیں گے۔ بہتر ہے کہ ابھی اسلام کو قبول کرو ۔ دیکھو اب بھی قبولیت کا وقت ہے۔

قرآن ِشریف میں یہی مسیحی مذہب اسلام کے نام سے آپ لوگوں کے لئے پسند کیا گیا تھا۔ لیکن دیکھو آپ لوگ آج تک اسلام سے ہزاروں میل دُور ہیں۔ سچائی کے طالبو اور ابراہیمی مذہب کی برکتوں کے عاشقواب اُٹھو خُداوند یسوع کے شاگرد ہو کر مسلمان ہو کیونکہ مسیحی مذہب ہی اسلام ہے۔

جب کہ بغیر مسیحی ہونے کے خاص مسلمان جو اسلام کے حق دار تھے ملعون کئے جا کر اسلام سے خارج کئے گئے تو تو اے محمدی قوم جو اسلام حصّہ ہی نہ رکھتی تھی بغیر مسیحی ہونے کے کیونکر وارث ہو سکتی ہے؟ کیا تجھے لعنت کا ڈر نہیں ہے ؟ ہم تیری سلامتی کے لئے دُعا کرتے ہیں۔ اور دل سے چاہتے ہیں کہ تو اسلام کی وارث ہو جائے پر بغیر مسیحی ہونے کے نہیں ہو سکتی ہے۔ ہم دکھا چکے کہ تو اسلام کی پیرو نہیں ہے اور اسلام مسیحی مذہب ہے جس کی برکت بغیر ایمان باعمل کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ اب ہم اسلام ِحقیقی کے اصول کی کتاب کا ذکر کریں گے اور قرآن کی زبان سے منکر ان دین عیسوی اسلام کا منہ بند کردیں گے۔ تا کہ محمدی قوم پر روشن ہو کہ خُدا عیسوی اسلام کے مخالفوں کے منہ سے تعریف کرو ا سکتا ہے۔ زیادہ سلام علیکم۔

دُوسرا باب

اسلام ابراہیمی کے اصول کی کتاب کا بیان

اس باب میں ثابت کیا جائے گا کہ زمانہ ِمحمدی میں کتابِ مقد س موجود تھی اور کہ وہ بلا تحریف(تحریر میں اصل الفاظ بدل کرکچھ اور لکھ دینا) موجود تھی اور کہ قرآن نے کتاب ِمقدس کی تصدیق کی اور کہ اس کے احکام کے اجزاء کی تاکید کی ۔ اور کہ قرآن نے کتاب ِمقدس کی بعض خوبیوں کا بیان کیا۔ اور کہ محمدیوں کو کتابِ مقدّس پر ایمان لانے کی تاکید کی۔ اور منکران کتابِ مقدس کے لئے سزا تجویز کی گئی۔ اور کتاب ِمقدّس کی شہادت سند ٹھہرائی گئی وغیرہ۔

پہلی فصل

اس بیان میں کہ محمد صاحب کے زمانے میں کتاب مقدّس موجود تھی

اوّل ۔ اقتباسوں سے ثابت ہے۔

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (۱۰۵)

ترجمہ۔ اور تحقیق ہم نے (بعد ذکر یعنی توریت کے) زبور میں لکھا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے (سورہ انبیاء آیت ۱۰۵ )۔

دیکھو( زبور ۲۹:۳۷ )کو کہ صالحین زمین کے وارث ہوں گے اور ہمیشہ اس پر رہا کریں گے۔

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ

ترجمہ۔ اور لکھ دیا ہم نے اُن پر اسی (کتاب توریت میں اور انجیل میں کہ جی کے بدلے جی۔ آنکھ کے بدلے آنکھ الخ(سورہ مائدہ آیت ۴۵)۔

تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا اگلوں سے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت( متی ۳۸:۵ ؛ خروج ۲۴:۲۱؛ احبار ۲۴: ۲۰) وغیرہ ۔

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ علم کا بیان ۔ حدیث ۵۷۸

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ

ترجمہ ۔ بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ پہنچاؤ لوگوں کو میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل سے باتیں سُن کر نقل کرو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ( مشارق الانوار حدیث ۱۱۸۹۷) ۔

صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث ۲۰۵۵

راوی: محمد بن حاتم , بن میمون بہز حماد بن سلمہ ثابت ابی رافع ابوہریرہ

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي ، قَالَ : يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلاَنًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي ، قَالَ : يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلاَنٌ ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ ، فَلَمْ تَسْقِنِي ، قَالَ : يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلاَنٌ فَلَمْ تَسْقِهِ ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي.

ترجمہ ۔مسلم میں ابوہر یرہ سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا خُدا فرماؤں گا قیامت میں کہ اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تھا سو تو نے مجھ کو نہ پوچھا بندہ کہے گا کہ اے میرے رب میں کیوں کر تجھ کو پوچھتا اور تو تو سارے جہان کا مالک پالنے والا ہی خُدا فرمائے گا کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا؟ سو تو نے اس کی بیمار پر سی نہ کی کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی بیمارپرسی کرتا تو مجھ کو اس کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ کھانا مانگا سو تو نے مجھ کو نہ کھلایا۔ بندہ کہے گا اے میرے رب میں کیوں کر تجھ کو کھانا کھلاتا اور تو تو سارے جہان کا پالنے والا مالک ہے۔ خُدا فرمائے گا کیا تجھ کو نہیں معلوم کہ فلانے میرے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا سو تو نے اس کو نہ کھلایا۔ تجھ کو معلوم نہ تھا کہ اگر تو اس کو کھا نا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا ۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا۔ سو تو نے پانی نہ پلایا۔ہاں جان رکھ اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا ۔

(متی کی انجیل ۳۱:۲۵۔۴۶)۔

جب ابن آدم اپنے جلال سے آ ئے گا اور سب پاک فرشتے اس کے ساتھ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ۔ اور سب قوم اس کے آگے حاضر کی جائے گی اور جس طرح گڈریا یا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے وہ ایک کو دوسرے سے جُد ا کرے گا اور بھیڑوں کو دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔ تب وہ بائیں طرف والوں سے بھی کہے گا اے ملعونوں میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں جاؤ جو شیطان اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ کیونکہ میں بھوکا تھا پر تم نے مجھے کھانے کو نہ دیا ۔ پیا سا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں نہ اُتارا ۔ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنا یا بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی۔ تب وہ بھی جواب میں اُسے کہیں گے اے خُداوند کب ہم نے تجھ کو بھوکا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی۔ تب وہ جواب میں انہیں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ نہ کیا تو میرے ساتھ بھی نہ کیا اور وہ ہمیشہ کے عذاب میں جائیں گے۔ پر راستبا ز ہمیشہ کی زندگی میں ۔

صحیح بخاری۔ کتاب التوحید۔ حدیث 7469

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ ‏"‏ إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ، كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُعْطِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُعْطِيَ أَهْلُ الإِنْجِيلِ الإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صَلاَةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُعْطِيتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، قَالَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ رَبَّنَا هَؤُلاَءِ أَقَلُّ عَمَلاً وَأَكْثَرُ أَجْرًا‏.‏ قَالَ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَىْءٍ قَالُوا لاَ‏.‏ فَقَالَ فَذَلِكَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ ‏"

ترجمہ۔ بخاری اور مسلم میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا سوائے اس کے کوئی مثل نہیں ہو سکتی کہ عمر اور مدت تمہاری اے مسلمانوں اگلی امتوں کی عمر اور مدت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسی عصر کی نما ز سے شام تک یعنی اگلی اُمتوں کی زندگی زیادہ تھی جیسے صبح سے عصر تک اور مسلمانوں کی عمر کم ۔ جیسے عصر سے شام تک اور نہیں ہے مثل تمہاری اے مسلمانوں اور مثل یہود اور نصاری کی مگر جیسے مثل اس مرد کی جس نے کام کروایا کارندوں سے سو اُس نے کہا کہ جو میرا کام کرے صبح سے دوپہر تک اس کو ایک ایک ملے گا سو کا کیا یہود نے دوپہر تک ایک ایک قیراط (درہم کے بارہویں حصے کے برابر ایک وزن)پر پھر کہا اس مردنے جو میرا کام کرے دوپہر سے عصر کی نماز تک اس کو ایک ایک قیراط مزدوری ملے گی ۔ تو نصاریٰ نے دوپہر سے عصر تک ایک ایک قیراط پرمزدوری کی ۔پھر اس مرد نے کہا کہ جو میرا کام کرے عصر کی نماز سے شام تک اس کو دودو قیراط پر مزدوری ملے گی۔ جانوں اے مسلمانو سو وہ لوگ تم ہو۔ جنہوں نے عصر سے شام تک کام کیا۔ دو دو قیراط پر ۔ جان رکھو کہ تمہاری مزدوری دونی ہے سو غصّہ ہوں گے۔ یہود اور نصاریٰ قیامت میں ۔ پھر کہیں گے کہ ہم کام میں زیادہ ہیں اور مزدوری میں کم یعنی عجب یہ ہے کہ کام بہت اور محنت کم ۔ خُدا فرمائے گا کہ میں نے تم پر کچھ ظلم کیا ۔ یعنی جو مزدوری ٹھہر گئی تھی اس سے کچھ کم دیا۔ کہیں گے جو ٹھہرا تھا اس سے کم نہیں ملا ۔ خُدا فرمائے گا سو یہ تو یعنی دونی مزدوری دینا میرا فضل ہے جس کو چاہوں اس کو دُوں ۔

(متی ۱:۲۰۔۱۶)کو دیکھو۔

کیونکہ آسمان کی بادشاہت اس صاحب خانہ کی مانند ہے جو تڑکے کے باہر نکلا تا کہ اپنی انگور ستان میں مزدورلگا ئے اور اُ س نے مزدور وں کا ایک ایک دینا روزینہ مقر ر کر کے انہیں اپنے انگور ستان میں بھیجا ۔ اور اُس نے پھر دن چڑھے باہر جا کے اور دن کو بازار میں بے کار کھڑے دیکھا اور اُن سے کہا کہ تم بھی انگور ستان میں جاؤ اور جو کچھ واجبی ہی تمہیں دُوں گا سو وہ گئے۔ پھر اُ س نے دوپہر اور تیسرے پہر کو باہر جا کے ویسا ہی کیا ۔ ایک گھنٹہ دن رہتے پھر باہر جا کے اوروں کو بے کار کھڑے پایا اور اُن سے کہا تم کیوں یہاں تمام دن بے کار کھڑے رہتے ہو ۔ اُنہوں نے اس سے کہا اس لئے کہ کسی نے ہم کو مزدوری پر نہیں رکھا۔ اس نے انہیں کہا تم بھی انگورستان میں جاؤ اور جو کچھ واجبی ہے سو پاؤگے۔

جب شام ہوئی انگور ستان کے مالک نے اپنے کارندے سے کہا مزدورو ں کو بلا اور پچھلوں سے لے کے پہلو ں تک اُن کی مزدوری دے ۔ جب وہ جنہوں نے گھنٹہ بھر کام کیا تھا آئے تو ایک ایک دینار پایا۔ جب اگلے آئے انہیں یہ گمان تھا کہ ہم زیادہ پائیں گے پر اُنہوں نے بھی ایک ایک دینار پایا ۔ جب اُنہوں نے یہ پایا تو گھر کے مالک پر کڑکڑائے (برا بھلا کہنا)اور کہا پچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کا کام کیا اور تو نے انہیں ہمارے برابر کر دیا جنہوں نے تمام دن کی محنت اور دھوپ سہی ۔ اس نے ان میں سے ایک کو جواب میں کہا اے میاں میں تیری بے انصافی نہیں کر تا کیا تو نے ایک دینار پر مجھ سے اقرار نہیں کیا۔ تو اپنا لے اور چلا جا پر میں جتنا تجھے دیتا ہوں پچھلے کو بھی دُوں گا۔ کیا مجھے روا نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہوں سو کروں۔ کیا تو اس لئے بُری نظر سے دیکھتا ہے کہ میں نیک ہوں ۔ اسی طرح پچھلے پہلے ہوں گے اور پہلے پچھلے ۔ کیونکہ بہت سے بلائے گئے پر برگزیدے تھوڑے ہیں۔

دوئم۔ بجنسہ (جوں کا تُوں،ہوبہو)کتبِ مقدسہ کی موجودگی کی مثالیں۔

۱۔ قرآن ۔ کہہ کس نے اُتار ا تھا اس کتاب کو جو لایا تھا موسیٰ روشنی اور ہدایت واسطے لوگوں کے کرتے ہو تم ظاہر اس کو ورق ورق (انعام ۱۱رکوع) ۔

۲۔ عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ , قَالَ : ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا , فَقَالَ : " ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ " , قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ ؟ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ , وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا , وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , قَالَ : " ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ , إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ , أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ , وَالْإِنْجِيلَ , لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا "

ترجمہ ۔ اور روایت ہے زیاد بن لبید سے کہا ذکر کیا حضرت نبی ﷺ نے ۔۔۔۔کیا نہیں یہ یہود اور نصاری پڑھتے تو رات اور انجیل کو ؟ نہیں عمل کرتے کچھ اس چیز سے کہ بیچ ان کے ہے۔

روایت کی یہ احمد نے اور ابن ماجہ نے اور روایت کی ترمذی نے زیاد سے مانند اسی کے اور اسی طرح دارمی نے امامہ سے ۔(مظاہر الحق جلد اوّل چھا پہ نولکشوری صفحہ ۸۱)۔

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث ۱۶۶۵

راوی: محمد بن بشار , عثمان بن عمر , علی بن مبارک , یحیی بن ابی کثیر , ابی سلمہ , ابوہریرہ

۳۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ أَهْلُ الْکِتَابِ يَقْرَئُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا الْآيَةَ

ترجمہ ۔ بخاری میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ محمد بن بشار، عثمان بن عمر، علی بن مبارک، یحیی بن ابی کثیر، ابی سلمہ ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اہل کتاب یعنی یہودی تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور پھر مسلمانوں کو عربی زبان میں اس کا ترجمہ کرکے سمجھاتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے ارشاد فرمایا کہ تم ان کو نہ سچا کہو اور نہ جھوٹا کہو بلکہ تم اس طرح کہا کرو کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس پر جو اس نے نازل فرمایا ہماری طرف۔ (مشار ق انوار حدیث ۵۷۲)۔

سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث ۴۳۶

۴۔ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي

ترجمہ۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔ ( مظاہر الحق جلد اوّل چھاپہ نو الکشور ایضاً صفحہ ۹۴)۔

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 883

۵۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ الْيَهُودَ جَائُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ کَذَبْتُمْ إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَی آيَةِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ارْفَعْ يَدَکَ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَی الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ

ترجمہ۔ عبداللہ مالک نافع حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ یہود کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ایک دن) حاضر ہو کر عرض کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تورات میں رجم کی بابت تم کیا (حکم) پاتے ہو انہوں نے کہا ہم زنا کرنے والے کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ان کے درے لگائے جاتے ہیں عبداللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم ہے۔ تورات لاؤ۔چنانچہ انہوں نے تورات کو کھولا ان میں سے ایک شخص نے تورات کی آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر اس کو چھپا لیا اور آگے پیچھے کا مضمون پڑھتا رہا۔ عبداللہ بن سلام نے کہا ذرا اپنا ہاتھ ہٹا۔چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو وہاں رجم کی آیت موجود تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں زانیوں کو رجم کا حکم دیا وہ دونوں سنگسار کر دیئے گئے۔ عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں میں نے مرد کو دیکھا وہ عورت پر جھکا پڑتا تھا اور اس کو پتھروں سے بچانا چاہتا تھا۔ الخ( مظاہر الحق جلد دوئم چھاپہ مجتبائی کے صفحہ ۲۸۳)۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ إِلَی الطُّورِ فَلَقِيتُ کَعْبَ الْأَحْبَارِ فَجَلَسْتُ مَعَهُ فَحَدَّثَنِي عَنْ التَّوْرَاةِ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ میں گیا کوہ طور پر تو ملا میں کعب بن الاحبار سے اور بیٹھا میں ان کے پاس پس بیان کیں کعب الاحبار نے مجھ سے باتیں تورات کی۔آخر تک دیکھو ( مظاہر الحق جلد اوّل چھاپہ نولکشور صفحہ ۴۷۱)۔اور اس کے علاوہ یہ حدیث " موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب الجمعہ ۔ حدیث 220

سوئم ۔ جو اہل کتاب محمد صاحب کے ایام میں دیندار تھے اُن کی چلن کی تصدیق سے ثابت ہے کہ کتاب مقد س ایام محمدی میں موجود تھی۔

(وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ (۱۵۹)

ترجمہ۔ اور موسیٰ کی قوم میں ایک اُمت ہے جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی پر انصاف کرتے ہیں (سورہ اعراف آیت۱۵۹) ۔

اُوپر کے کل بیانات سے بخوبی روشن ہو چکا کہ کتاب مقدس محمد صاحب کے ایام میں موجود تھی۔ حضرت جبرائیل کتاب ِمقدس کو ضرورت کی وقت خود پڑھا کرتے تھے اور حوالے نقل کرکے حضرت کے قرآن میں داخل کیا کرتے تھے ۔ لیکن کچھ تغیر (تبدیلی)کے ساتھ حضرت کے اصحاب کتاب ِمقدس کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔ اور حضر ت خود بعض اہل ِکتاب سے کتابِ مقدس سُنا کرتےتھے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے اصحاب کو صاف کتبِ مقدسہ سے حوالے نقل کرنے کا حکم تھا۔ یہ کتبِ مقدسہ نہ صرف اہل کتاب کے پاس تھی بلکہ محمدی صاحبان کے پاس بھی تھی جیسا کہ اُوپر بیان ہو ا اور کتب ِمقدسہ کی سند پر لوگوں کو سزا دی جاتی تھی اور نیکوں کی نیکو کاری کتب ِمقدسہ کے موافق ثابت کی جاتی تھی جیسا کہ اُوپر بیان ہوا۔ پس جس حال کہ علاوہ اہلِ کتاب کے جبرائیل اور محمد صاحب اور محمدی صاحبان کتبِ مقدسہ کے بیانات کو پڑھتے اور سنتے اور نقل کرتے اور نقل کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ تو کیا یہ نامعقول بات نہیں کہ کتب ِمقدسہ صحت کی حالت میں محمدی ایام میں موجود تھی ؟ ناظرین اس سے بڑھ کر صحت کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جبرائیل ان سے کچھ تغیر کے ساتھ حوالے نقل کرتا اور محمد صاحب اپنی شاگردوں کو حوالے نقل کرنے کی اجازت دیتے۔ حضرت کتبِ مقدسہ کے موافق لوگوں کو سزائے موت دیتے ۔ اور ان کی دینداری کا کتبِ مقدسہ کو ثبوت ٹھہراتے۔ پس کتبِ مقدسہ صحت کی حالت میں ایام محمدی میں موجود تھی ورنہ محمد صاحب اور جبرائیل کسی طرح اعتراض سے بچ نہیں سکتے ہیں۔ اگر آپ اعتراض سے بچ سکتے ہیں ۔ تو اسی طور سے کہ آپ لوگ تسلیم کریں کہ کتب ِمقدسہ محمدی ایام میں صحیح اور درستی کی حالت میں موجود تھی۔ ورنہ محمد صاحب اور جبرائیل فرشتے نے دھوکا کھایا اور لوگوں کو دھوکا دیا ۔ کیونکہ انہوں نے اُوپر کے مقامات سے تسلیم کیا کہ کتبِ مقدسہ درست ہیں۔ اے پڑھنے والے آپ خود فیصلہ کریں ۔ ہمارے نزدیک سچائی ہماری طرف ہے۔

رہی یہ بات کہ اہلِ کتاب کو نہ سچا جانو اور نہ جھوٹا تصور کرو۔ تو ناظرین آپ ہی فیصلہ کریں کہ اہل ِکتاب کو محمد ی کیا کہیں ؟ یہ ایک نہایت عجیب بات ہے کہ اہلِ کتاب نہ سچے اور نہ جھوٹے حضرت کے اس ارشاد کے معنی ظاہر ہیں کہ اہلِ کتاب کتبِ مقدسہ کو عبرانی وغیرہ زبان میں مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اور عربوں کے لئے عربی میں اس کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے کہ محمد صاحب کو ان کے ترجمہ پر اعتبار نہ تھا آپ نے یہ فرما دیا کہ نہ ان کو سچا جانو اور نہ جھوٹا پر یہ بھی اہل ِکتاب کی نسبت کہاگیا کتبِ مقدسہ کی نسبت آپ خاموش ہیں۔

بلا شک محمد صاحب اہل ِکتاب کی نسبت یہ سبق اپنے شاگرد وں کو سکھلا کر اُن تحریفی بیانات کی صحت کو قائم کرتے تھے۔ جو جبرائیل کتبِ مقدسہ سے نقل کرکے اور کچھ تغیر کر کے حضرت کے گوش گذار کیا کرتے تھے۔ اور عام محمدیوں کو بھی یہ اجازت دے رکھی تھی کہ کتبِ مقدسہ کے بیانات کو نقل کرکے محمدی منشاء کے موافق سُنایا کریں۔ پر اہلِ کتاب کی کسی بات کا اعتبار کرنا منع کیا گیا ۔ خیر یہ بحث دیگر ہے مطلب یہ ہے کہ محمد صاحب کے ایام میں کتابِ مقدس مروجہ(رائج کیا گیا) صورت میں موجود تھی۔ جس کی صحت مسلم تھی اور جو قابل ِعمل تھی جس پر محمد صاحب کو کبھی اعتراض نہ ہوا۔

دُوسری فصل

کُتبِ مقدسہ کی چند قرآنی خوبیوں کا بیان

جو اس فصل میں بیان ہوتا ہے وہ اس امر کا شاہد ہے کہ کتاب ِمقدس تمام الزامات سے پاک ہو کر صحیح اور درست مانی جا ئےکیونکہ انسان کے دین اور ایمان کا قانون ہے۔ علاوہ ازیں جو خوبیاں اس فصل میں ذکر کی جاتی ہیں پڑھنے والے پر یہ امر ظاہر و ثابت کرنے کو کافی ثبوت ہیں کہ مصنف قرآن کتبِ مقدسہ کا اندرونی خوبیوں سے کچھ واقف تھا ۔ چنانچہ ذیل کی آیات اس کا ثبوت ہیں۔

وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙمِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ

ترجمہ ۔ اور اُتاری تورات اور انجیل پہلے اس سے راہ دکھانے والی واسطے لوگوں کےاور اُتارا انصاف (سورہ عمران پہلارکوع آیت ۳۔۴)۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ

ترجمہ۔ تحقیق اُتاری ہم نے تورات پیچھے اس کے ہدایت ہے اور روشنی ہے حکم کرتے تھے ساتھ اُس کے پیغمبر وہ جو مطیع تھے خُدا کے واسطے ان لوگوں کےکہ یہودی ہوئے۔ اور حکم کرتے تھے۔ خُدا کے لوگ اور عالم ساتھ اس چیز کے کہ یاد رکھوائے گئے تھے کتا ب اللہ کی سے اور تھے اُوپر اُس کے گواہ (سورہ مائدہ ۷رکوع آیت ۴۴)۔

(وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ

ترجمہ۔اور دی ہم نے اُس کو انجیل بیچ اُس کے ہدایت اور روشنی ہے ۔ اور سچا کرنے والی اس چیز کو کہ اُس سے پیشتر ہے تورات سے اور ہے ہدایت اور نصیحت واسطے پرہیز گاروں کے (سورہ مائدہ ۷ رکوع آیت ۴۶)۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡہُدٰی وَ اَوۡرَثۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ ہُدًی وَّ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو ہدایت اور وارث کیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا ہدایت اور نصیحت عقلمندوں کے واسطے(سورہ مومن ۶رکوع آیت ۵۳۔۵۴)۔

وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً

ترجمہ۔ اور پہلے اس سے کتاب ہے موسیٰ کی پیشوا اور رحمت ۔(سورہ ہود ۲رکوع آیت ۱۷)۔

قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ الَّذِیۡ جَآءَ بِہٖ مُوۡسٰی نُوۡرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ تَجۡعَلُوۡنَہٗ قَرَاطِیۡسَ تُبۡدُوۡنَہَا وَ تُخۡفُوۡنَ کَثِیۡرًا ۚ وَ عُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَ لَاۤ اٰبَآؤُکُمۡ

ترجمہ ۔ کہ کس نے اُتارا ہے اس کتاب کو جو لایا تھا موسیٰ روشنی اور ہدایت واسطے لوگوں کے کرتے ہو ظاہر تم اس کو ورق ورق اور چھپاتے ہو بہت اور سکھائے گئے ہو وہ جو کہ نہ جانتے تھے تم اور نہ تمہارے باپ دادے (سورہ انعام۱۱رکوع آیت ۹۱)۔

ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ

ترجمہ۔ پھر دی ہم نے موسیٰ کو کتاب پورا فضل نیکی والے پر اور بیان ہر چیز کا اور ہدایت اور رحمت ۔ شاید وہ لوگ اپنے ر ب کا ملنا یقین کریں(سورہ انعام ۱۹ رکوع آیت ۱۵۴)۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً

ترجمہ۔اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب پیچھے اس کے کہ ہلاک کئے ہم نے قرن (جُگ)پہلے بصیرتیں(دیکھنے کی قوت) واسطے لوگوں کے اور ہدایت اور مہربانی (سورہ قصص ۵ رکوع آیت۴۳)۔

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَکَفَّرۡنَا عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاَدۡخَلۡنٰہُمۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ

ترجمہ ۔ اور اگر کتاب والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم اُتار دیتے اُن کی برائیاں اور اُن کو داخل کرتے نعمت کے باغوں میں اور اگر وہ قائم رکھیں۔ تورات اور انجیل کو اور جو اُترا اُن کوان کے رب کی طرف سے تو کھائیں اپنے اُوپر اور پاؤں کے نیچے سے۔ کچھ لوگ ان کے سیدھے ہیں اور بہت اُن کے بُرے کام کر رہے ہیں (سورہ مائدہ ۹ رکوع آیت۶۵۔۶۶)۔

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق لکھ دیا ہم نے بیچ زبور کے پیچھے نصیحت کی (کہ) آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے (سورہ انبیاء ۷ رکوع آیت۱۰۵)۔

ناظرین ہم اختصار(مختصر طور پر) کے ساتھ قرآن کی گواہی کتب سماوی کی تعلیم پر آپ کے رو برو پیش کر چکے۔ ہم نے جو کچھ قرآن سے سیکھا آپ کی نذر ہے اب آپ ہیں اور خُدا ہے جس کے روبرو آپ نے جواب دنیا ہے لیکن ہم اپنے فرض سے سبکدوش(آزاد) ہوئے ۔ اب ہمارا صرف اس قدر فرض باقی رہا کہ آپ کے رو برو مذکورہ بالا آیات سے وہ باتیں نکال کر رکھ دیں جو ان آیات میں دہرائی گئی ہیں وہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔

۱۔ قرآن شاہد ہے کہ تورات اور انجیل ہدایت ہے۔

اور یہ بات کسی محمدی پر مخفی(پوشیدہ) نہیں کہ ہدایت کی ضرور ت گمراہ لوگوں کو ہوا کرتی ہے ہاں اُن لوگوں کو جنہیں سیدھے راستہ کا علم نہیں ہو تا یا گنہگاروں کو جن کو زندگی کی راہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس قرآن ،تورات اور انجیل وغیرہ کو ہدایت قرار دے کر ایسے ہی لوگوں کی اُمید کو تازہ کرتا ہے جن کو ہدایت کی ضرورت ہے ۔ اور مصنف قرآن کا یہ فیصلہ تورات اور انجیل وغیرہ کتب ِربانی کی نسبت بالکل درست ہے کہ بائبل خُدا کی ہدایت ہے ۔ اور یہ ہدایات خاص کر اُن کے لئے ہے جن کو یہ بات سُنائی گئی۔

۲۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ بائبل نُور ہے۔

ناظرین پر مخفی نہیں کہ نور کی حاجت اُن کے لئے ہے جوتاریکی میں زندگی کاٹتے ہیں۔ بائبل بلا شک ایسے لوگوں کے لئے الہٰی نوُر ہے اور اس نُور کی آگاہی محمد صاحب کو دی گئی تاکہ آ پ اور آپ کی قوم اس نور سے منور ہر بلکہ کُل جہان اس نُور سے روشن ہوئے ۔ پس تورات اور انجیل ایسا نُور ہے جو تاریکی کو دُور کرتاہے۔ ناظرین یہ اوصاف ایسی کتاب کے نہیں ہو سکتے جو محرف (بدلا ہوا،تحریف کیا گیا)اور قابل عمل نہ ہو۔

۳۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ کتابِ مقدس نصیحت ہے۔

قرآن خُدا کو ایک بڑے ممبر پر کھڑا ہو ا دیکھ رہا ہے۔ خُدا کو لوگوں سے کلام کرتا ہو اسنتا ہے خُدا اپنی جماعت میں وعظ سُنا رہا ہے وہ اپنی جماعت کو نصیحت کر رہاہے ۔ وہ اپنے بندوں کو تاکید کرتا ہے کہ ہدایت کے موافق چلیں وہ اُن کو اُبھار رہا ہے کہ نُور میں خراماں(آہستہ آہستہ چلتے ہوئے) ہوں۔ اے ناظرین اگر آدمی کی نصیحت و پند تیرے نزدیک زیادہ اعتبار کے قابل خیال کی جاتی ہے اگر انسان کی باتیں تیرے دل کو لبھانے والی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر انسانی تجربہ تیرے نزدیک قابل قدر ہے تو کتنا زیادہ خُدا کا کلام خُدا کی ہدایت خُدا کا نُور اور خُدا کی نصیحت تیرے مفید مطلب ہو گی ۔ اے بزرگان ِدین محمدی آؤ خُدا آج نصیحت کرتا ہے سُنو۔ وہ آج ہدایت دیتا ہے لے لو ۔ وہ آج اندھیرے سے روشنی میں لانا چاہتا ہے قبول کرلو ورنہ وقت آتا ہے کہ پھر یہ نہ زمانہ ہوگا۔

۴۔ قرآن شاہد ہے کہ کتاب ِمقدس امام ہے۔

لفظ امام کے معنی پیشوا کے ہیں ۔ پیشوا آگے آگے چلنے والے کو کہا جاتا ہے۔ کتاب ِمقد س امام ہے ۔ راہنما ہے۔ آگے چلنے کے قابل ہے۔ خُدا نے یہ امام کل بنی آدم کے لئے ہے۔ تمام مسلمان جن کا ذکر اُوپر ہو چکا اس امام کے پیچھے چلتے تھے اور وہ صادق لوگ تھے۔ کتابِ مقدس اُن صادقوں کا امام ہے۔ یہ امام ہمیشہ کے لئے خُدا کی طرف سے مقرر ہو ا ہے۔ اور کوئی مومن قرار نہ پایا جو اس امام کے پیچھے پیچھے نہ چلتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ ہر ایک جو مومن ہواچاہے اس الہٰی امام کی پیروی کرے کیا تو اے ناظر بغیر اس امام کی پیروی کے مومن بن جائے گا؟

اس بات کا تجھے خود فیصلہ کرنا ہے۔ اے بھائی یہ فیصلہ عاقبت کی خیر و شر سے متعلق ہے بلکہ تیری ہی بھلائی اور بُرائی سے اس کا علاقہ ہے۔

۵۔ قرآن مقر(اقرار کرنے والا) ہے کہ کتابِ مقدس رحمت خُدا ہے۔

خُدا کی رحمت ۔ یہ رحمت اُن کے لئے مہیا کی گئی ہے جو رحمت کے محتاج ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے رحمت الہٰی کی حاجت نہیں ۔ کون بغیر رحمت کے عاقبت کی خیر اور سلامتی کا منتظر ہو سکتا ہے؟ اس دُنیا میں ہر فرد بشر کو خُدا کی رحمت کی ضرور ت ہے۔ ہر ایک روح شب و روز رحمت کی منتظر رہتی ہے۔ دیکھو خُدا نے ہمارے لئے رحمت بھیجی ہے۔ وہ رحمت کتابِ مقدس میں پائی جاتی ہے قرآن اس کا گواہ ہے۔ کیا تو رحمت الہٰی کو قبول نہ کرے گا ؟ کیا تیرا بھلا بغیر رحمت خُدا کے ہوسکے گا ؟ اگر نہیں تو آاور کتاب ِمقدس کو قبول کر وہ رحمت خُدا کا خزانہ ہے ۔ تیرا اس سے ضرور بھلا ہو گا۔

۶۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ کتاب ِمقدس میں ہر ایک امر کی تفصیل ہے۔

یہ کتاب مجمل بیان نہیں ۔ بلکہ ہر ایک معاملہ کی تفصیل اور توضیح (وضاحت)ہے۔ ہر ایک شک اور شبہ کا علاج ہے۔ ہرا یک امر میں اُمید کو قائم کرتی ہے۔ ناظرین یہ معاملہ آنکھوں سے دیکھنے کا ہے اور تجربہ پر موقوف ہے بہتر ہے کہ اگر ااپ کو قرآن کی اس شہادت پر شبہ ہو تو بائبل کا مطالعہ آج ہی شروع کریں ۔ تو آپ کو قرآن سے زیادہ نہیں تو قرآن کے برابر تجربہ تو ضرور حاصل ہو جائے گا۔

۷۔ قرآن گواہ ہے کہ کتاب ِمقدس میں نئی باتیں پائی جاتی ہیں۔

وہ باتیں جس کو اہلِ کتاب کے باپ دادے اور ہمارے پردادے بھی نہ جانتے تھے۔ وہ باتیں کتابِ مقدس ہی میں پائی جاتی ہیں۔ اور لطف یہ کہ وہ باتیں ہدایت اور نُور اور نصیحت خُدا ہیں۔

۸۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ کتابِ مقدس بصیر ت ہے۔

بصیرت کے معنی نگاہ یا نظر کے ہیں ۔کتاب مقدس بصیرتیں یعنی نظیریں ہے۔ یہ اندھے لوگوں کے لئے بلکہ جنم کے تمام اندھوں کے لئے تمام جہان کے اندھوں اور کور چشموں کے لئے خُدا کی طرف سے بصیرتیں ہے۔ تاکہ اندھے کتابِ مقدس کی نگاہ سے ہر ایک امر کو دیکھیں کتاب ِمقدس کی نگاہ سے ہر ایک شی کا علم حاصل کریں ۔ یہ اندھوں کے عینک ہے کیا ہمارے محمدی ناظرین اس عینک کو پھینک دیں گے؟ اے بھائیو ایسا مت کرو ۔ دیکھو اس سے آپ کا ہی نقصا ن ہو گا۔ آپ لوگ ہی ٹھوکر یں کھاؤ گے۔

آپ لوگ ہی خطر ے میں پڑو گے آپ اگر سلامتی سے چلنا چاہتے ہو تو اس عینک کو آج ہی آنکھوں پر لگا لو۔ تو آپ کو خطر ناک اور ہولناک اسباب فوراً سوجھ پڑیں گے۔ چھوٹے سے چھوٹا خطرہ آپ کی آگاہی میں آجائے گا ۔ کا شکہ خُدا ٓپ کو ایسی برکت بخشے۔

۹۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ کتابِ مقدس نبیوں اور عالموں اور فاضلوں کی حفاظت میں وہی ہے ۔

وہ کتاب ِمقدس کے موافق حکم کرتے آئے ہیں۔

ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو کہ اب بھی کتاب ِمقدس عالموں اور فاضلوں کی حفاظت میں موجود ہے ۔ جلد اس نعمت بیش قیمت کو لے لو وہ مل سکتی ہیں۔

۱۰۔ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ کتاب ِمقدس کی پیروی جنت کے حصول اور زمین کے وارث ہونے کا ذریعہ ہے

اُوپر کے کل بیان کے سوا آیات مذکورہ بالا سے دلا ئل اور نتائج کا ایک اور سلسلہ ان سے نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کتبِ مقدسہ کی نسبت جو کچھ ان آیا ت میں بیان ہوا ہے وہ کتبِ مقدسہ کی صحت اور درستی کی مضبوط بنیاد ہے۔ کیونکہ جو کچھ ان آیاتِ قرآنی میں مصنف ِقرآن کتبِ مقدسہ کی نسبت بیان کرتا ہے اسی کتاب ِسماوی کی نسبت بیان کرتا ہے جو محمد صاحب کے ایام میں اہلِ کتاب کے ہاتھو ں میں تھی ۔ اگر ان قرآنی مقامات کے نزول سے پیشتر کتب ِسماوی تبدیل ہو جاتی تو اوّ ل مصنف قرآن کتبِ سماوی کی نسبت ایسا بیان ہی نہ کرتا جیسا کہ اُوپر کی آیات میں آیا ہے ۔دوئم اگر بیان کرتا بھی تو یہ مصنفِ قرآن کے فریب کھانے اور فریب دینے کی بڑی دلیل ہوتی ۔ پر ہم تو مصنفِ قرآن پر ایسا الزام لگانا نہیں چاہتے ہمارے نزدیک صحیح سے صحیح کتاب کی نسبت ایسا بیان نہیں ہو سکتا جیسا کہ مصنف ِقرآن کتبِ سماوی کا کرنا ہے تو کتنا مشکل متبدل کتاب کی نسبت ایسا بیان نہ ہو گا۔

اس کے سوا یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کل قرآن کا بیان محمد صاحب کو سُنا یا گیا۔ اس کا مقصد اور مدعا صرف یہی ہو سکتا ہے کہ محمد صاحب اور تمام آپ کے پیرؤ اس کتاب کی طرف رجوع لائیں جس کی خوبیوں کا قرآن خاکہ کھینچتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا آیات قرآنی کے قرآن میں داخل کرنے کا یہ مقصد نہیں جو ہم نے بیان کیا تو ناظرین اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

ایک اور بات غور طلب ہے کہ جو کچھ کتب سماوی کی تعلیم کی خوبی کا قرآن بیان کرتا ہے جب ہم نے اس کو حق مان لیا تو اور کون سی بات کی بنی آدم کو ضرورت رہی ؟ مثلاًہم نے مان لیا کہ بائبل ہدایت کامل ہے۔ بائبل نورِ خُدا ہے۔ بائبل نصیحت ہے۔ بائبل امام ہے۔ بائبل رحمت خُدا ہے۔ بائبل ہر ایک امر کی تفصیل ہے۔ بائبل میں نئی باتیں جسے انسان نہیں جانتا پائی جاتی ہیں۔ بائبل بصیرت ہے۔ بائبل کی پیروی سے جنت حاصل ہو سکتی ہے۔ وغیرہ پس جب کہ قرآن کے بموجب بائبل بنی آدم کی کل ضروریات کی مرافعت (اپیل،نگرانی)کا ذخیرہ ہے تو بائبل کے سوا ضرورت کیا ہے؟ قرآن شریف کیا لایا جو بائبل میں نہیں ہے تا کہ وہ مانا جائے۔ اگر کہو کہ قرآن وہی لایا جو بائبل میں ہے تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی کچھ ضرورت نہ رہی کیونکہ وہ سب کچھ بائبل ہے ۔ اگر کہو کہ قرآن کوئی ایسی تعلیم یا خوبی لایا جو بائبل میں نہیں ہے اور اس کی انسان کو ضرورت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی وہ خوبی ہم کو دکھائی جائے۔ اگر کہو کہ قرآن بائبل کی سچائی کے خلاف ایک سچائی لایا ہے۔ تو پہلے جو کچھ بائبل کی نسبت کہا گیا ہے اس کو باطل ثابت کر کے دکھاؤ اور پھر بائبل کے خلاف سچا ثابت کر کے دکھا دو ۔ غرض ہمارے نزدیک قرآن کی تعلیم مذکور کو مان کر قرآن کی کسی طرح ضرورت نہیں رہتی ہے اور بائبل کا حق ہو نا قرآن تسلیم کرتا ہے۔

تیسری فصل

اس بیان میں کہ قرآن اُس کتابِ مقدس کی تصدیق کرتا ہے جو اہلِ کتاب کے ہاتھوں میں موجود تھی ۔ اور محمد صاحب کے ایاّم میں تھی۔

لفظ تصدیق کے معنی سّچا ٹھہرانے کے ہیں ۔ قرآن بائبل شریف کو سچا ٹھہراتا ہے ۔ اب آپ انہی معنوں کو یاد رکھ کر ذیل کے مقامات پر غور فرمائیں تا کہ آپ راستی کا فیصلہ کر سکیں ۔

وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ

ترجمہ ۔ اور ایمان لاؤ ساتھ اس چیز کے جو اُتاری میں نے۔ سچا کرنے والی ہے اس چیز کو جوساتھ تمہارے اور مت ہو پہلے کافر ساتھ اس کے (سورہ بقر ۵رکوع آیت ۴۱)۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ

ترجمہ ۔ اور جب آئی اُن کے پاس کتاب نزدیک اللہ کے سے سچا کرنے والی اُس چیز کو کہ ساتھ اُن کے ہے (سورہ بقر ۱۰رکوع آیت ۸۹)۔

وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ

ترجمہ۔ اور وہ سچ ہی سچ کرنے والا اس کو جو ساتھ ان کےہے (سورہ بقر ۱۰ رکوع آیت ۹۱)

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ

ترجمہ۔ کہہ جو کوئی دشمن ہے واسطے جبرائیل کے پس تحقیق اس نے اُتار ا ہے اس کو اُوپر دل تیرے کے ساتھ حکم اللہ کے سچا کرنے والا ہے اُس چیز کو جو اُن کے ہاتھو ں میں ہے (سورہ بقر ۱۲رکوع آیت ۹۷)۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ

ترجمہ۔ اور جب آیا ان کے پاس رسول نزدیک اللہ کے سے سچا کرنے والا اُ س چیز کو جو اُن کے ساتھ ہے(سورہ بقر ۱۲ رکوع آیت ۱۰۱)۔

نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ

ترجمہ۔ اُتاری اُوپر تیرے کتاب ساتھ حق کے سچا کرنے والی اُس چیز کو جو اُن کے ہاتھوں میں ہے (سورہ عمران ۱ رکوع آیت ۳)۔

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ

ترجمہ۔ اور جس وقت لیا اللہ نے عہد رسولوں کا البتہ جو کچھ دُوں میں تم کو کتاب سے اور حکمت سے پھر آئے تمہارے پاس پیغمبر سچا کرنے والا اس چیز کو کہ ساتھ تمہارے ۔ (تو) البتہ ایمان لاؤ ساتھ اس کے (سورہ عمران ۱۹رکوع آیت ۸۱)۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ

ترجمہ۔ اے لوگو جو دیئے گئے (ہو) کتاب ایمان لاؤ ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری ہم نے سچا کرنے والی اس چیز کو کہ ساتھ تمہارے ہے(سورہ نساء ۷رکوع آیت۴۷) ۔

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ

ترجمہ۔ اور اُتاری ہم نے طرف تیر ی کتاب ساتھ حق کے سچا کرنے والی اُ س چیز کو جو اُن کے ہاتھوں میں ہے(سورہ مائدہ ۷رکوع آیت ۴۸)۔

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ

ترجمہ۔ اور یہ کتاب ہے اُتاری ہے ہم نے اس کو برکت والی سچا کرنے والی اس چیز کو کہ آگے اُس کے ہے(سورہ انعام ۱۱ رکوع آیت ۹۲)۔

(وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ)

ترجمہ۔ اور نہیں ہے یہ قرآن کہ باندھ لیا جائے سوائے اللہ کے لیکن سچا کرنے والا ہے اس چیز کا کہ آگے اس کے ہے(سورہ یونس ۴رکوع آیت ۳۷) انتہیٰ۔

ہمارے محمدی ناظرین کے لئے شاید مقامات متذکرہ بالا کافی ہو ں گے اس لئے ہم انہیں پر اکتفاء کرکے اپنے مطلب کو پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ ہمارے مخاطبین حق اور ناحق میں فیصلہ کرنے کی طرف رجوع کریں ۔

۱۔ کہ قرآن کی تصدیق صرف کتاب مقد س سے نسبت رکھتی ہے اور کسی کتاب سے نہیں ۔

۲۔ کہ قرآن کی تصدیق اس کتاب کو صادق ٹھہراتی ہے جو قرآن کے ایام میں اہلِ کتاب کے ہاتھوں میں تھی۔

۳۔ بموجب اقرار محمد یان خُدا کا قرآن نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کتاب ِمقدس کی تصدیق کرے نہ تکذیب(جھٹلانا،جھوٹ بولنے کا الزام لگانا) ۔

۴۔ بموجب اقرار محمدیان جو قرآن جبرائیل لایا اور محمد صاحب کو دیا وہ قرآن کتابِ مقدس کی تصدیق کرنے والا تھا۔

۵۔ بموجب قرآن محمدصاحب کے نبی ہونے کا یہ مقصد بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کتاب ِمقدس کی تصدیق کرے۔

۶۔ کہ قرآن کتاب ِمقدس کی ذیل کی باتوں کو سچا ٹھہراتا ہے۔

۱۔ کہ کتابِ مقدس بلا تبدیل لفظی اس کے زمانے تک موجود تھی ۔

۲۔ قرآن کتابِ مقدس کے لفظ لفظ کو الہٰامی قرار دیتا ہے۔

۳۔ کہ کتبِ سماوی کی تعلیم قرآن کے مصنف کے نزدیک ہدایت الہٰی اور نور خُدا وغیر ہ ہے۔ اس کے سوا قرآن کتبِ مقدسہ کی تصدیق کے دعویٰ پر اپنے الہٰامی ہونے کی بنیاد بھی رکھتا ہو انظر آتا ہے جس پر غور کرنا ضروریات سے ہے۔ گویا قرآن تصدیق کی آڑمیں ہو کر اپنی الہٰی کتاب ہونے کا قضیہ(فساد،بحث ،تکرار) یوں پیش کرتا ہے کہ چونکہ میں خُدا سے الہٰام کیا گیا ہوں اس لئے میں تصدیق پہلی کتبِ ربّا نی کی کرتا ہوں یا یوں کہ چونکہ میں پہلی کتب ِسماوی کی تصدیق کرتا ہوں اس لئے الہٰامی کتاب ہوں یہ قرآنی دعویٰ جو در پردہ کیا جاتا ہے سچائی سے ہزاروں میل دُور ہے جسے کوئی سلیم العقل(دانشمند) مان نہیں سکتا ہے۔ کیونکہ

۱۔ کتبِ مقدسہ کی سچائی پر جو شہادت قرآن میں پائی جاتی ہے وہ ضرور امر ِحق کا اظہار ہے لیکن اگر قرآن کتبِ سماوی کے خلاف گواہی دیتا تو کتبِ مقدسہ کی سچائی پر تو بھی حرف نہیں آسکتا تھا ۔ اس لئے کہ حق کو حق کہنا تو ضرور سچائی ہے پر یہ ضرور نہیں کہ حق کہنے کے لئے ہر ایک شخص کو الہٰام دیا جائے اور اس کی گواہی کو الہٰامی مانا جائے۔

۲۔ ہم کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ قرآن کے اپنے حقین دعویٰ درست نہیں ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہم انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر دیں گے۔

غرض یہ کہ فی الحقیقت یہ امر فیصلہ کرنا ضرور ہے کہ قرآن کا کتاب ِمقدس کی نسبت کیا فیصلہ ہے۔ قرآن جو کچھ اپنے حق میں کہتا ہے اس کا بعدہ(اس کے بعد) فیصلہ ہوگا۔

اوّل۔ وہ شی جو مصدق قرار دے جاتی ہے ابراہیمی اسلام کے اصول کی کتاب ہے جسے بائبل کہتے ہیں ۔ قرآن اس کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے۔

دوئم۔ وہ ابراہیمی اسلام کے اصول کی کتاب جس کی قرآن تصدیق کرتا ہے حضرت محمد صاحب کے ایام میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں اور محمد ی صاحبان کے روبرو تھی۔

سوئم ۔ جس کتاب کی قرآن تصدیق کرتا ہے اس کے لفظ لفظ کو سچا قرار دیتا ہے۔ کیونکہ لفظ تصدیق کے معنی یہی ہیں کہ کسی شے کے غیر متبدل ہونے اور اس کی اصلی صورت میں پائے جانے پر گواہی دینا ۔

چہارم ۔ اگر قرآن نے متبدل اور منحرف کتاب کی تصدیق کی ہے تو قرآن کے باطل ہونے پر یہی کافی ثبوت سمجھنا چاہیے ۔ یہ کام مصدق کا تھا ۔ کہ اگر کتاب ِمقدس میں تبدیلی ہوئی تھی تو اس کی تصدیق نہ کرتا ۔ پر یہ بات کو ن محمدی مان سکتا ہے؟ پس بموجب قرآن کتاب ِمقدس لفظ بلفظ بے تبدیل اور حق ہے۔ (پر کتبِ مقدسہ کا بموجب قرآن بلا تبدیل ہونا محمد صاحب کے ایام تک ثابت ہوتا ہے۔ بعد کی قرآن کچھ خبر نہیں دیتا ہے)۔

اس کے سوا بعض محمدی صاحبان آج کل کوشش کرتے ہے تاکہ کتبِ مقدسہ کا تبدیل ہونا محمد صاحب سے پہلی صدیوں میں ثابت کریں۔ پروہ ایسا کرنے سے قرآن کی صداقت پر خود ہی حرف لاتے ہیں ۔ کیونکہ اگر یہ بات ثابت بھی ہو جائے کہ کتبِ مقدسہ ایاّم محمد ی سے پیشتر تبدیل ہو گئی۔ تو ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مصدق کی نسبت کیا فیصلہ کریں گے۔ جس نے ایام محمد میں کتبِ مقدسہ کی تصدیق کی پر ہم جانتےہیں کہ ابراہیمی اسلام کی بنیاد تبدیل نہیں ہوئی قرآن نے اچھا کیا کہ اس کی تصدیق کی کیونکہ وہ دین اور وہ کتاب سچ مچ تصدیق کے لائق ہے ۔ ناظرین اس کو ضرور دیکھیں۔

چوتھی فصل

کتاب ِمقّدس کے احکام کے اجراکی قرآنی تاکید

ہم اپنے مخاطبوں پر قرآن کی تصدیق جو کتابِ مقدس کے حق میں ہے ۔ مختصر طور سے پیش کر چکے اور اب ہم اُمید کرتے ہیں کہ اس تصدیق کی نسبت ہمارے ناظرین فیصلہ کر چکے ہو ں گے۔ اور قبول کر چکے ہوں گے کہ کتاب ِمقدس حق ہے۔ اس کی سچائی زندگی کے چلن ہی سے قائم ہو سکتی ہے اور کہ ہم پر بھی فرض ہے کہ اس کی سچائی کی شہادت دیں۔ اب ہم ناظرین کی خدمت میں ایک اور عرض کرتے ہیں اور اُمید ہے کہ حق کے متلاشی ا س کو ضرور قدر کی نگاہ سے ملاحظہ فرمائیں گے وہ گذارش یہ ہے کہ کتاب ِمقدس کے احکام کی اجرا پر قرآنی تاکید ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کتابِ مقدس اور اس کے احکام کو جاری رکھنے کی اہل ِکتاب کو تاکید کرتا ہے ۔ قرآن یہ نہیں ٹھہراتا کہ کتاب ِمقدس کی ضرورت منقطع ہو گئی قرآن یہ تحریک نہیں دیتا کہ کتابِ مقدس کا کام میں دے سکتا ہوں۔ اب کتابِ مقدس کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ وہ بڑے زور سے اہلِ کتاب کو کتابِ مقدس کے قائم کرنے اور جاری کرنے اور اس کے احکام کی زندگی میں مشق کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ بڑا کا م تھا کہ کتابِ مقدس کی زندگی میں مشق کی جائے ۔ اور زندگی کے چلن سے قائم کی جائے۔ اور اس وقت سے لے کر آج تک اس بات کی بڑ ی ضرورت ہم کو محسوس ہوتی ہے۔ کہ کتابِ مقد س عیسائیوں کی زندگی کا چلن بن جائے۔ تاکہ دُنیا جانے کہ اہلِ کتاب راہ پر ہیں ۔ قرآن کی ترغیب نہ صرف اہل ِکتاب کے لئے مفید ہے پر ناظرین ہر ایک کے لئے جو راہ پرآنا چاہے فائدہ مند ہے۔ وہ ترغیب اور تحریک ذیل کی آیات کا موضوع ہے۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ

ترجمہ۔ کہہ اے اہلِ کتاب نہیں تم اُوپر کسی چیز کے جب تک کہ قائم (نہ) کرو توریت کو اور انجیل کو اور جو کچھ اُتار ا جاتا ہے طرف تمہارے پروردگار تمہارے سے (سورہ مائدہ ۱۰ رکوع آیت ۶۸)۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ ۚ فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَ اخۡشَوۡنِ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ

ترجمہ ۔تحقیق اُتاری ہم نے توریت بیچ اس کے ہدایت اور نُور ہے حکم کرتے تھے ساتھ اس کے پیغمبر وہ جو مطیع تھے خُدا کے واسطے ان لوگوں کے کہ یہودی ہوئے اور حکم کرتے تھے خُدا کے لوگ اور عالم ساتھ اسی چیز کے جوان کی حفاظت میں تھی ۔ کتاب اللہ کی سے۔ اور تھے اُوپر اس کے گواہ ۔ پس مت ڈرو لوگوں سے اور ڈور مجھ سے اور مت مول لو بدے نشانیوں میری کے مول تھوڑا۔ اور جو کوئی حکم نہ کرے ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری ہے اللہ نے پس یہ لوگ وہ ہیں کافر(سورہ مائدہ آیت۴۴)۔

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

ترجمہ ۔ اور لکھا ہے ہم نے اُوپر ان کے (یہود کے) بیچ اس کے (توریت کے) یہ کہ جان بدلے جان کے آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور زخموں کا بدلاہے۔ پس جو کوئی خیرات کر ڈالے ساتھ اس کے پس کفارہ ہے ۔ واسطے اس کے اور جو کوئی حکم نہ کرے ساتھ اس چیز کے (یعنی تورات کے) کہ اُتاری ہے اللہ نے پس یہ لوگ وہ ہیں ظالم(سورہ مائدہ آیت ۴۵)۔

وَ لۡیَحۡکُمۡ اَہۡلُ الۡاِنۡجِیۡلِ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

ترجمہ۔ اور چاہیے کہ حکم کریں اہلِ انجیل ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری ہے اللہ نے بیچ اس کے اور جو کوئی نہ حکم کرے ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری ہے اللہ نے پس یہ لوگ وہی ہیں فاسق (سورہ مائدہ ۷رکوع آیت ۴۷)۔

ناظرین مقامات متذکرہ بالا ہمارے آ ج کے مضمون کی سُرخی کے ثبوت میں کافی ہیں۔ کیا اس وقت آپ کو فرصت ہے کیا آپ اس وقت قرآن کی اس تاکید پر غور کریں اگر فرصت ہو تو آؤ ہم پہلے اس امر پر غور کریں۔

۱۔ کہ قرآن کا صاف فیصلہ ہے کہ کتابِ مقدس کو قائم کئے بغیر اہلِ کتاب کسی شے پر یا راہ پر نہیں ہو سکتے۔

لفظ قائم کے معنی کھڑا کرنے یا بنانے کے ہیں۔ یا کھڑا کرنے والے اور بنانے والے کے ہو سکتے ہیں ۔ اور یہ لفظ گرانے اور ڈھانے کے مقابل ہے۔ مطابق ان معنوں کے بموجب قرآن خُدا اہلِ کتاب کو تاکید کرتا ہے کہ وہ کتابِ مقدس کو قائم کریں۔ اور جب تک وہ کتاب ِمقدس کو قائم نہ کریں تب تک وہ کسی شے یا کسی راہ پر نہیں ہو سکتے۔ اور یہ بات ہمارے نزدیک حق ہے۔

پر ناظرین اہلِ کتاب کس طور سے کتابِ مقدس کو قائم کر سکتے تھے۔ آپ کے نزدیک کتابِ مقدس کو قائم کرنے کا کون سا طریقہ بہتر ہے۔ کیا صرف کتابِ مقدس کا عمل نہیں ۔ کیا کتابِ مقدس کو اپنی زندگی کا قانون بنا نا نہیں ہے؟ ہمارے نزدیک یہی ایک طریقہ تھا جسے اہلِ کتاب عمل میں لا کر خُدا کی کتاب کو قائم کر سکتے تھے۔ ورنہ کتاب ِمقدس کے خلاف کو قبول کرنا کتابِ مقدس کو ضرور پائمال کرنا ٹھہرتا ۔ پس قرآن اس طریق سے کتاب ِمقدس کو قائم کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔

۲۔ کہ قرآن کتاب ِمقدس کے قائم کرنے کی سند بیان کرتا ہے۔

کیوں کتابِ مقدس قائم کی جائے۔ کیوں قرآن کے اس حکم کی اہلِ کتاب سے تعمیل کی جائے۔ کتابِ مقدس کے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کہ کتاب ِمقدس خُدا کی کتاب ہے۔ یہ خُدا کی معلومات کا دفتر ہے۔ یہ خُدا کے انسان کے حق میں صحیح فیصلے ہیں۔ اس وجہ سے کتاب ِمقدس کے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدا کتاب ِمقد س کے قائم کرنے کی ضرورت دیکھتا ہے اس لئے کہ وہ ہدایت اور نُور ہے۔ پس کتابِ مقدس کی سند خُدا ہے۔ کیا اسی لئے اس بابرکت کتاب کو قائم کرنا لازمی ہے؟ ناظرین آ پ کی کیا رائے ہے۔

۳۔ قرآن سے یہ امر بھی ظاہر ہے کہ کتاب ِمقدس کا خلاف کوئی شے یا راستہ نہیں ہے۔

اگر کوئی چیز یا کوئی راستہ ہدایت ہے تو کتاب مقدس کا قائم کرنا ہے۔ اگر کوئی اہلِ کتاب کے لئے کام ہے تو کتاب ِمقدس کا قائم کرنا ہے اگر ان کی تمام زندگی کی خدمت ہے تو کتابِ مقدس کا قائم کرنا ہے۔ ورنہ اور اہلِ کتاب کا کوئی کام نہیں ہے۔ اور اگر وہ کتاب ِمقدس کو قائم نہ کریں تو وہ کسی راہ پر نہیں ہیں۔ اس لئے کہ کتاب ِمقدس کا قائم کرنا ان کے لئے بموجب قرآن خُدا کی طرف سے فرض ٹھہرایا گیا ہے ورنہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ کسی چیز پر نہیں ہیں۔ ماسوا اس کے ظاہر ہے کہ کتابِ مقدس کا خلاف اہل ِکتاب کے لئے گمراہی اور تباہی ہے کتاب ِمقدس کا خلاف قرآن کے لئے بمنزلہ کفر ہے جیسا کہ اُوپر ذکر ہو چکا ۔ تو اے ناظر کتاب ِمقدس کا خلاف کیا تیرے لئے اسلام ہو سکتا ہے؟

۴۔ قرآن میں اہلِ کتاب کے لئے یہ حکم ہے کہ کتابِ مقدس قائم کی جائے ۔ اور یہ حکم قرآن میں آیا ہے ۔ کیا قرآن اس سے بُری ہے۔ کیا کہیں قرآن میں حکم ہے کہ قرآن اور محمدی کتابِ مقدس کے خلاف چلیں ؟ اگر نہیں تو یہ حکم محمدیوں سے کیوں علاقہ نہیں رکھتا کیا یہ فرض غیر ملہوں کا ہی ہو سکتا ہے۔ اور ملہم اس سے بُری ہو سکتے ہیں؟ ہمارے نزدیک یہ حکم پہلے صاحب الہٰام کو پورا کرنا ہے۔ پس جیسے اس حکم کی تعمیل اہل کتاب پر فرض ہے ویسے ہی قرآن اور محمد صاحب اور تمام محمد ی صاحبان پر واجب ہے۔ اگر آپ کواس میں عذر ہے تو کیوں؟

۵۔ قرآن صاف حکم دیتا ہے کہ اہلِ کتاب احکام ِالہٰی کو جاری رکھیں ۔ اس لئے کہ کتابِ مقدس ہدایت اور نُور ہے وہ خُدا کا فضل اور رحمت ہے۔ جیسی کہ اُوپر ہم قرآن سے کتابِ مقدس کی نسبت کیفیت دکھلا چکے۔ وہ ویسی ہی کتاب ہے اس لئے لازم ہے کہ اہلِ کتاب کتابِ مقدس کے احکام جاری کریں ۔ کتاب کے موافق حکم کریں۔

آخر میں کافروں اور اور ظالموں اور فاسقوں کے قرآنی احوال پر غورکریں جس کا قرآن بیان کرتا ہے۔

۱۔ دُنیا میں بموجب قرآن اللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ

ترجمہ۔ تحقیق اللہ نہیں ہدایت کرتا ظالموں کی قوم کو (سورہ مائدہ ۷ رکوع آیت ۵۱)۔

۲ ۔ اللہ دُنیا میں اُن کو گمراہ کرتا ہے۔

وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفۡعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ

ترجمہ ۔ اور گمراہ کرتا ہے اللہ ظالموں کو اور کرتا ہے اللہ جو چاہتا ہے (سورہ ابراہیم ۴رکوع آیت۲۷)۔

۳۔ ظالموں کو خُدا دوزخ میں ڈالتا ہے۔

وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا

ترجمہ۔ اورجو کوئی کرے یہ تعدی یاظلم سے پس البتہ داخل کریں گے ہم اس کو آگ میں (سورہ نساء ۵ رکوع آیت۳۰)۔

فاسقوں(جھوٹوں) کی نسبت یہ بیان پایا جاتا ہے۔

۱۔ کہ بموجب قرآن اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ

ترجمہ۔ اور اللہ نہیں ہدایت کرتا فاسقوں کی قوم کو(سورہ مائد ہ آیت ۱۰۸) ۔

۲۔ کہ اللہ اُن کو گمراہ کرتا ہے۔

وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ

ترجمہ۔ اور نہیں گمراہ کرتا ساتھ اسکے مگر فاسقوں کو (سورہ بقر۳رکوع آیت ۲۶)۔

ترجمہ۔ اور نہیں گمراہ کرتا ساتھ اسکے مگر فاسقوں کو (سورہ بقر۳رکوع آیت ۲۶)۔

قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ

ترجمہ ۔ کہہ خرچ کرو خوشی سے یانا خوشی سے ہرگز نہ قبول کیا جائے گا۔ تم سے (کچھ ) تحقیق ہو تم قوم فاسق (سورہ توبہ ۷رکوع آیت۵۳)۔

۴۔ ان کی بخشش محال اور عذاب دوزخ ان کے لئے لازمی ہے۔

سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ

ترجمہ ۔ برابر ہے اُوپر ان کے کیا بخشش مانگے تو واسطے ان کے یا نہ بخشش مانگے تو واسطے ان کے ہرگز نہ بخشے گا اللہ واسطے ان کے ۔ تحقیق اللہ نہیں راہ دکھاتا فاسقوں کی قوم کو (سورہ منافقوں ۱ رکوع آیت۶)۔

قرآن میں کافروں کے عذاب کی نسبت اس طور سے بیان پایا جاتا ہے۔

۱۔ کہ قرآن کے مطابق کافروں کو خُدا ہدایت نہیں کرتا ۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ

ترجمہ۔ تحقیق اللہ نہیں ہدایت کرتا کافروں کی قوم کی (سورہ مائدہ ۱۰رکوع آیت ۵۱)۔

۲۔ کہ خُدا کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔

کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الۡکٰفِرِیۡنَ

ترجمہ۔ اسی طرح گمراہ کرتا ہے اللہ کافروں کو (سورہ مومن۔ ۸رکوع آیت ۷۴)۔

۳۔ کافروں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا

ترجمہ ۔اور کیا ہم نے دوزخ کو واسطے کافروں کے قید خانہ (سورہ بنی اسرائیل ۱ رکوع آیت ۸)۔

اُوپر کے بیان سے یہ امر بخوبی روشن ہو گیا ۔ کہ کتبِ مقدسہ کے احکام اہل ِکتاب پر جاری رکھنے فرض تھے۔ اور اہلِ کتاب کو قرآن سے یہ تاکید تھی کہ وہ اپنے عمل سے اور اپنی زندگی سے کتاب ِمقدس کو قائم کریں اور اگروہ ایسا نہ کریں تو ظالم اور فاسق اور کافر ہو کر اور سب قسم کی ہدایت سے محروم ہو کر جہنم رسید ہوں ۔ اس حال میں وہ قرآنی ہو کر سزا سے نہیں چھوٹ سکتے تھے۔ کیونکہ ان کا کتاب ِمقدس کو قائم کرنا ضروری امر تھا۔ اور نہ قرآن ان کے لئے مفید ہو سکتا تھا۔ پس اہلِ کتاب میں سے کسی کا محمدی ہو نا گمراہی مول لینا تھا۔ اس لئے کہ جس حال وہ کتابی ہو کر کتابِ مقدس کو قائم نہ کر سکتے تھے۔ تو محمدی ہر کر کتابِ مقدس کو قائم کرنا ان کے کے لئے محال مطلق تھا۔ پر اہلِ کتاب میں ایک اُمت کتاب ِمقدس کو قائم رکھتی تھی۔ دیکھو چوتھا باب اس کی تیسری فصل کو۔

اس کے سوا محمد ی صاحبان کی نسبت اُوپر کے بیان سے یہ امر دریافت طلب باقی رہا کہ آیا یہ لوگ کتاب ِمقدس کے خلاف چلنے والے ٹھہرے یا کتابِ مقدس کے موافق عمل کرنے والے؟ سوا اس کا ذکر آگے آنے والا ہے۔

پانچویں فصل

بموجب قرآن کتابِ مقدس کے بِلا تحریف ہونے کا بیان

وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ

ترجمہ۔ اور ان میں ایک فریق ہے کہ زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں کتاب تو کہ تم جانو وہ کتاب میں ہے ۔ اور وہ نہیں کتاب میں الخ(سورہ عمران ۸رکوع آیت ۷۸) اس پر( تفسیر رازی)۔

کیوں کر ممکن ہے داخل کرنا تحریف کا توریت میں باوجود اس کی نہایت شہرت کے لوگوں میں ؟

جو اب شاید کہ یہ کام تھوڑے سے آدمیوں نے کہ جن کا تحریف پر اکٹھا ہو جانا ممکن ہو گیا ہو تو اس صورت میں ایسی تحریف ہونی ممکن ہے۔ مگر میرے نزدیک اس آیت کی بہتر تفسیر یہ ہے کہ جو آئتیں توریت کی نبوت محمد ﷺ پر دلالت کرتی ہیں ان میں غور و فکر کی احتیاج(حاجت،ضرورت) تھی۔ اور وہ لوگ ان پر سوالات اور بے جا اعتراضات کرتے تھے۔ پھر وہ دلیلیں سننے والوں پر مشتہبہ (مانند ہوجانا)ہو جاتی تھیں اور یہودی کہتے تھے کہ ان آتیوں سے اللہ تعالیٰ کی مراد وہ ہے جو ہم کہتے ہیں نہ وہ جو تم کہتے ہو۔ پس یہی مراد ہے تحریف سے اور زبان بدلنے سے یاپھیرنے سے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کہ ہمارے زمانہ میں جب کوئی محققق کسی آیت کلام اللہ سے استدلال کرتا ہے تو گمراہ لوگ اس پر سوالات اور شبہات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی مراد یہ نہیں ہے۔ جو تم کہتے ہو ۔اسی طرح اس تحریف کی صورت ہے۔

(قولہ ویلسون السنتھم معناہ یعمدون الیٰ الفظہ فیحر فونھافی حرکات الاعراب تحریفا یتغیربہ المعنی)

امام فخرالدین یہ بھی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ کتاب پڑھنے میں زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ (یہود مدینہ ) خراب کرتے ہیں لفظ کو اور بدل دیتے ہیں (پڑھنے میں ) اس کے اعراب کو کہ اس تبدیل سے اس لفظ کے معنی بگڑ جاتے ہیں۔

موافق تفسیر حسینی کے یہ الزام یہود مدینہ کے ان نامور لوگوں کو دیا گیا یعنی کعب وغیرہ کو(سورہ نساء رکوع آیت ۴۶) میں آیا ہے۔

(مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ)

ترجمہ۔ وہ یہودی ہیں بے ڈہب کرتے ہیں بات کو اُس کے ٹھکانے سے ۔

رازی اس پر یہ بیان فرماتے ہیں۔

(فان قیل کیف یمکن ہذا نی الکتب الدین بلغت احادحروفہ و کلمہ مبلغ التواتر المشہور فی الشرق والغرب قلنا لعلہ یقال القوم کا نواقلیلین والعلماء بالکتب کانوافی غایتہ القلہ فقد رواعلیٰ ھذالتحریف الثانی ان المرادبالتحریف القاء الشبھۃ الباطلتہ والتا ویلا الفاسد ۃ الخ)

ترجمہ۔ پس کس طرح ممکن ہے تحریف ایسی کتاب میں جس کے ہر حرف اور کلمے تواتر کو پہنچ گئے ہیں پہلا جواب شاید یوں کہا جا سکے کہ وہ لوگ تھوڑے تھے اور عالم کتابِ الہٰی کے بہت کم تھے۔ پس ایسی تحریف کر سکے۔ دوسرا جواب تحریف سے مراد ہے جھوٹے شبہوں کا ڈالنا اور غلط تاویلوں کا کرنا اور لفظ کو صحیح معنوں سے جھوٹے معنوں کی طرف کھینچنا لفظی حیلوں سے ۔جیسے کہ اس زمانے کی بدعتیں اپنے مذہب کی مخالف آتیوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اس کو سمجھا اور یہی مراد تحریف کی بہت صحیح ہے۔

(یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ ) (سورہ مائدہ آیت ۴۱)۔

ترجمہ۔ بدلتے ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے ابن عباس سے روایت ہے۔

(واخرج ابن جزیر عن ابن عباس فی قولہ یحرفون الکلم عن مواضعہ یعنی حدود اللہ فی التوراتہ)

ترجمہ۔ یہ جو فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ بدلتے ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے اس کے یہ معنی ہیں کہ جو حدیں اللہ تعالیٰ نے احکام کی مقرر کی ہیں تغیر و تبدیل کرتے ہیں۔

رازی بیان کرتا ہے۔

(التحریف یحتمل التویل الباطل ومحیتمل تغیر اللفظہ وقد بنیانی تقدم ان الاول اولیٰ لان الکتب المنقول باالتواترلا یتا تی فیہ تغیر اللفظ)

ترجمہ ۔ تحریف سے یا تو غلط تاویل مراد ہے ۔ یا لفظ کا بدلنا مراد ہے اور ہم نے اُوپر بیان کیا ہے کہ پہلی مراد بہتر ہے کیونکہ جو کتاب متواتر ہو اس میں تغیر لفظی نہیں ہو سکتا ۔ اور یہی حسینی کا بیان ہے۔

فتح الباری صحیح بخاری میں یہ بیان آیا ہے۔

(قدسئل ابن یتمیمۃ عن ہذا لمسئلۃ فاجاب فی فتاداۃ للعلماء فی ہذا قولین احد ھماوقوع التدیل فی الالفاظ ۔ایضاًتاینھمالاتبدیل الافی المعنی واجتح للثانی )

ترجمہ۔ ابن قیمیہ سے مسئلہ تحریف کا پوچھا گیا ۔ پس اُنہوں نے جواب دیا کہ علماء کے اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تحریف لفظوں میں بھی ہوئی تھی۔ دوئم یہ کہ تبدیل لفظی نہیں ہوئی مگر صرف معنوں میں اور اس دوسری بات پر بہت دلیلیں بیان کی ہیں۔ محمد اسمٰعیل بخاری لکھتے ہیں۔

(قولہ تعالیٰ ۔یحرفون الکلم عن مواضعہ ۔یحرفون یزیلون ولیس احد یزمل لفظ کتاب من کتب اللہ ولکنتھم یحرفونہ یتاولونہ علیٰ غیر تاویلہ)

ترجمہ۔ خُدا تعالیٰ کا یہ قول کہ تحریف کرتے ہیں کلموں کو ان کی جگہ سے ۔ سو تحریف کے معنی ہیں بگاڑ دینے کے۔ اور کوئی شخص نہیں ہے جو بگاڑے اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے ایک لفظ کسی کتاب کا لیکن یہودی خُدا کی کتاب کو اس کے اصلی اور سچے معنوں سے غیر تاویل پر پھیر کر تحریف کرتے تھے ۔

شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں۔

’’میرے نزدیک یہی تحقیق ہوا ہے کہ اہل ِکتاب توریت وغیرہ کے ترجمے میں تحریف کرتے تھے۔ نہ کہ اصل توریت میں‘‘ ۔

اور یہی قول ابن عباس کا ہے ۔ فوزالکبیر ۔

(تفسیر در منشور) کے منصف نے ابن منذروابن ابی حاتم کی زبانی یہ بیان روایت کیا ہے ۔

(و اخرج ابن المنزر وابن ابی حاتم عن وہب ابن مبنہ قال ان التورتہ والانجیل مکاانزل ھما اللہ لم تغیر منھما حرف ولکنھم یضلون بالتحریف والتاویل والکتب کانوایکتبو نھامن عند انفسھم ویقولون ھو من عند اللہ وماھو من عند اللہ فاماکتب اللہ فانھامحفوظتہ لامحول)

ترجمہ۔ توریت و انجیل جس طرح کہ ان دونوں کو اللہ نے اُتارا تھا اسی طرح ہیں ان میں کوئی حرف بدلا نہیں گیا۔ لیکن یہودی بہکاتے تھے۔لوگوں کو معنوں کے بدلنے اور غلط تاویلات سے اور حالانکہ کتابیں تھیں وہ جن کو اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اور کہتے تھے۔ کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے نہ تھیں ۔ مگر جو اللہ کی طرف سے کتابیں تھیں ۔ وہ محفوظ تھیں ان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا۔

اُوپر کے بیانات سے ثابت ہوا کہ کتابِ مقدس تحریف نہیں ہوئی کہ عنقریب کل مفسر اور محدث اور راوی اس پر متفق ہیں۔ کہ کتاب مقدس ایام محمدی میں بلا تحریف رہی اور آج تک بلا تحریف ہے۔

اس کے سوا اگر کتاب مقدس کا تحریف ہونا مانا بھی جائے تو پہلے اس کا نتیجہ قرآن کو بھگتنا پڑے گا۔ کہ جس نے محرف کتا ب کو روشنی اور ہدایت وغیر ہ قرار دیا۔ کہ قرآن باطل ہے کیونکہ وہ باطل کا مصدق ہے۔ دوسرا نتیجہ محمد صاحب کو بھگتنا ہو گا جس نے محرف کتاب کی تصدیق کا بیڑا اُٹھایا ۔ تیسرے کتاب ِمقدس پھر بھی بلا تحریف ثابت ہو گی ۔ کیونکہ اہلِ کتاب میں سے ایک بڑی گروہ ایمانداروں کی موجود تھی جس پر قرآن شہادت دے چکا ہے۔ پس ان پر کسی طرف سے الزام تحریف کا قائم نہیں ہو سکتا ۔ غرضیکہ سب طرح سے ثابت ہے کہ کتاب ِمقدس محمد صاحب کے ایام میں بلا تحریف موجود رہی جیسا کہ اُوپر کے بیانات سے ثابت ہے۔

پس جب کہ کتاب ِمقدس بلا تحریف موجود تھی تو آنے والے معاملات میں کتاب ِمقدس کی گواہی سند ہے اور پڑھنے والے اس بات کا خیال فرمائیں کہ قرآنی بیان کے مقابل کتاب ِمقدس کا کیا بیان ہے؟ اور کتابِ مقدس کا بیان سند ہو گا قرآن کا نہیں ۔اس لئے کہ قرآن کی سچائی مشتبہ(شبہ میں ہونا ،شک میں ہونا) ہے۔ لہٰذا صرف قرآنی بیان کسی امر میں سند نہیں ہو گا۔ تاوقت یہ کہ کتاب ِمقدس کا بیان اس بیان کے موافق نہ ہو۔ پس اب اگلے بابوں سے کسی بات کی نسبت محض قرآنی شہادت کو مدنظر رکھنا بے انصافی ہو گا۔ کیونکہ محض قرآن کی سچائی مشتبہ ہے۔

چھٹویں فصل

اس بیان میں کہ محمد ی ایاّم میں بموجب قرآن کتاب ِمقدس سند ٹھہرائی گئی

۱۔ اُن الزاموں سے جو قرآن کے مصنف نے اہل ِکتاب پر لگائے ہیں ثابت ہے کہ کتابِ مقدس سند تھی۔

یہ امر ثابت ہو چکا کہ کتابِ مقدس اہلِ کتاب کے ہاتھ میں بلا تحریف موجود تھی اور کہ اہل ِکتاب نے کتبِ مقدسہ میں کچھ خیانت نہ کی تھی۔ تاہم اہل ِکتاب میں سے بعض لوگ بموجب قرآن ایسے تھے جو اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا مصنف قرآن نے ان پر بار بار الزام لگا کر اور ان کو مجرم ثابت کرکے یہ امر ہم پر روشن کیا کہ کتاب ِمقدس چال چلن کے قانون کے لئے سندی کتاب ہے جس سے روگردانی گناہ عظیم ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے ذیل کی آیات منتخب کی جاتی ہیں۔

۱۔ اور روایت ہے زیاد بن لبید سے کہا ذکر کیا حضرت نبی ﷺ نے ۔۔۔۔کیا نہیں یہود اور نصاریٰ پڑھتے توریت اور انجیل کو ؟ نہیں عمل کرتے کچھ اس چیز سے کہ بیچ ان کے ہے اصل عبارت اور حوالہ دیکھو پہلے باب کی پہلی فصل میں۔

پھر (سورہ مائدہ آیت ۷۷ )کے شان نزول میں ابن اسحاق نے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

۲۔(ومن عدو انھم قال واتی رسول اللہ رافع بن حارثیہ وسلابن مشکم ومالک بن الضیف ورافع بن حرملہ فقالو ایا محمد الست تزعم انک علیک ملۃ ابراھیم ودینہ وتو من بما عند نامن التورتہ وتشھد انھا من اللہ حق ۔قال بلیٰ ولکنکم احد ثتم وججد تم مافیھا مما اخذ علیکم من لمیثاق وکنتم منھا ما امرتم ان تبیسنوہ الناس فبریت من احد اءلکم ۔قالو افاناناخذ بما فی اید ینا فاناعلی الحق والھدی ولائو من بک ولا نتبعک فانزل اللہ عزوجل فیھم قل یاھل الکتب)

پس اُوپر کے بیان سے یہ امر روشن ہوا کہ اہلِ کتاب میں سے بعض کتابِ مقدس کو چھپانے اور اس پر عمل نہ کرنے کی جہت سے قرآن کی نگاہ میں مجرم ٹھہرے ۔جس سے ثابت ہوا اُن کو کتابِ مقدس پر عمل کرنا چاہیے تھا اور کتابِ مقدس کو لوگوں پر بیان کرنا چاہیے تھا ۔پس یہ امر کتابِ مقدس کے سند ہونے کی کافی دلیل ہے۔

مزیدیہ کہ اہلِ کتاب کی گواہی کو فیصلہ کامل قرار دینے سے ثابت ہے کہ کتاب ِمقدس سند مانی گئی۔

(وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ (۴۳)

ترجمہ۔ اور جو کفر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ تو اللہ کا بھیجا ہوا نہیں ہے۔ تو کہہ کہ اللہ کافی ہے گواہ درمیان میرے اور تمہارے اور وہ بھی جس کو علم ہے کتاب کا(سورہ رعد آیت ۴۳)۔

جلال الدین لکھتا ہے۔ (ومن عندہ علم الکتب من مومن الیہود والنصاریٰ )

ترجمہ۔ اور جس کو کہ علم ہے کتاب کا یعنی مومنان یہود اور نصاریٰ۔

(وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (ۙ۴۳)

ترجمہ۔ اور تجھ سے پہلے ہم نے کسی کو رسول نہیں بھیجا سوا آدمزاد کے اور اُن کو ہم نے وحی دی ہے۔ پس پوچھ اہل ِذکر (اہل ِکتاب سے) اگر تم نہیں جانتے (سورہ نحل آیت ۴۳)۔

(وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسۡـَٔلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ)

ترجمہ۔ اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو(۹) صاف نشانیاں دیں پس پوچھ بنی اسرائیل سے (سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۰۱) ۔

جلال الدین ۔ فاسال یا محمد ۔ پس پوچھ اے محمد ۔

(فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ)

ترجمہ۔ پس اگر تو (اے محمد ) ہے شک میں اس سے جو اُتاری ہم نے تیری طرف تو پوچھ اُن سے جو پڑھتے ہیں کتاب پہلے تجھ سے (سورہ یونس آیت ۹۴)۔

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ

ترجمہ۔ پوچھ اُن رسولوں سے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا کیا ہم نے بنائے سوائے رحمن کے اور خُدا کہ جو پوجے جائیں۔ (سورہ زخرف آیت ٤٥)۔

بیضاوی لکھتا ہے ( اے اممھم وعلماء دینھم)اور جلال الدین لکھتا ہے(امم من اہل الکتابین) یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ۔ پس اُوپر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہلِ کتاب کی شہادت پر بنائے کتب ربانی محمد صاحب کے لئے قطعی فیصلہ تھی اور اس لئے کتاب ِمقدس سند ٹھہری کیونکہ قرآنی بیانات کی صحت کے لئے کتابِ مقد س اور اہل ِکتاب کی شہادت ثبوت قطعی ہے جن کے فیصلے پر قرآن کی صحت موقوف رکھی گئی ہے۔

قرآن کا اپنے بعض دعوؤں کی تائید میں کتبِ مقدسہ کو پیش کرنے سے کتابِ مقدس کا سند ٹھہرایا جانا ثابت ہے۔

(وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ (۱۹۶) اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (۱۹۷(ؕ)

ترجمہ ۔ اور تحقیق یہ (قرآن ) ہے پہلو ں کے صحیفوں میں اور کیا ان کے واسطے یہ نشانی نہیں ہوئی کہ بنی اسرائیل کے علماء (قرآن کو) جانتے ہیں ؟ (سورہ اشعراء آیت ۱۹۶۔۱۹۷)۔

یہ امر دیگر ہے کہ قرآن درست ہے یا نہیں لیکن یہ امر ثابت ہے کہ کتبِ مقدسہ میں قرآن کا پایا جانا اور علمائے اسرائیل کا اسی سے واقف ہونا قرآن کی اپنی صحت پر سند و دلیل ہے۔

کتابِ مقدس کی بعض امور میں شہادت طلب کرنے سے اور کتبِ مقدسہ کی شہادت پر عمل بھی کرنے سے کتابِ مقدس کا سند ہونا قرآن سے ثابت ہے۔

(کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِیۡلُ عَلٰی نَفۡسِہٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰىۃُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰىۃِ فَاتۡلُوۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (۹۳)

ترجمہ۔ سب کھانے کی چیزیں حلا ل تھیں بنی اسرائیل کو مگر وہ جو اسرائیل نےاپنے نفس پر توریت نازل ہونے سے پہلے حرام کر لی تھیں تو کہہ لاؤ توریت اور پڑھو اگر ہو تم سچے (سورہ عمران آیت ۹۳)۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ الْيَهُودَ جَائُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ کَذَبْتُمْ إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَی آيَةِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ارْفَعْ يَدَکَ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَی الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ

روایت ہے عبداللہ بن عمر سے یہ کہ یہودی یعنی ایک جماعت ان میں سے آئی طرف رسول خُدا ﷺ کی اور ذکر کیا انہوں نے روبرو حضرت کے یہ کہ ایک مردنے ان میں سے اور ایک عورت نے زنا کیا ۔ یعنی اور تھے وہ دونوں محصن(پاک دامن،شادی شدہ ) پس فرمایا ان کو رسول خُدا ﷺ نے کہ کیا پاتے ہو تم توریت میں نیچ مقدمہ رجم کے کہا یہودیوں نے فضیحت کرتے ہیں۔ ہم زناکرنے والوں کو اور دُرّے مارے جاتے ہیں ۔ وہ کہا عبداللہ بن سلام نے جھوٹ بولتے ہو تم تحقیق توریت میں بھی رجم ہے پس لاؤ توریت پس کھولا اُ س کو اور رکھ دیا ایک نے ان میں سے ہاتھ اپنا رجم کی آیت پر یعنی چھپالیا ہاتھ کے نیچے اور پڑھ گیا اس کے پہلے سے اور اس کے پیچھے سے ۔پس کہا عبد اللہ بن سلام نے اُٹھا ہاتھ اپنا پھر اُٹھا یا ہاتھ پس ناگہاں اس میں تھی آیت رجم کی۔ پس کہا یہودیوں نے کہ سچ کہا عبد اللہ نے اے محمد ۔ اس میں ہے آیت رجم کی پھر حکم فرمایا ان دونوں کے سنگسار کرنے کا نبی ﷺنے پس سنگسار کئے گئے دونوں ۔ الخ(مظاہرالحق جلد سوئم چھاپہ مجتبائی صفحہ ۲۸۴،۲۸۳ )۔

پس اُوپر کے کل بیان سے ثابت ہے کہ کتابِ مقدس بلا تحریف موجود ہو کر سندی کتاب تھی اس کی خلاف روی کفر عظیم اس کی شہادت پر قرآن کی سچائی کا انحصار ۔ قرآن اور محمد صاحب کی ہدایت اور تسلی کا سوتا جس سے اگر محمد صاحب دریافت و تحقیق کرتا تو ہدایت پاتا ۔ اس کی گواہی پر زندگی اور موت کے فیصلے کئے گئے۔ پس اے محمدی تو کونسے منہ سے کتبِ ربانی کی صحت کا منکر ہوتا ہے؟ پس تو انصاف کرکے اور خُدا کے خوف سے کتاب ِمقدس کی صحت کو قبول کر اور اس پر ایمان لا کر نجات کی اُمید رکھ ورنہ تو غضب الہٰی کا نشانہ ہونے سے ڈر ۔

ساتویں فصل

جس میں کتبِ مقدسہ پر ایمان لانے کے حکم احکامات سے کتبِ مقدسہ کی صحت کا قرآن سے ثبوت دیا گیا ہے۔

۱۔مقامات قرآنی ۔

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا (۱۳۶)

ترجمہ۔ اے ایمان والو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اُتاری اپنے رسول پر۔ اور اس کتاب پر جو اس نے اُتاری پہلے اس سے اورجو کوئی منکر ہو اللہ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور آخر ی روز سے پس تحقیق وہ دور کی گمراہی میں پڑا ( سورہ نساء آیت ۱۳۶)۔

(قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ (۸۴)

ترجمہ۔ کہو کہ ہم ایمان لاتے ہیں ساتھ اللہ کے اور جو نازل ہوا ہم پر اور ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب ار اسرائیلی فرقوں پر اور جو ملا موسیٰ اور عیسیٰ کو اور نبیوں کو اپنے رب سے ۔ ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم واسطے اس کے فرمانبردار ہیں (سورہ عمران ۹رکوع آیت ۸۴)۔

(اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ)

ترجمہ۔ ایمان لایا رسول ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری گئی ہے طرف اس کی رب اس کے سے اور ایمان لائے ایماندار ہر ایک ایمان لا یا ساتھ اللہ کے اور فرشتوں اس کے اور کتابوں اس کی کے اور رسولوں اس کے (سورہ بقرآیت ۲۸۵)۔

(وَ قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ (۴۶)

ترجمہ۔ اور کہو ( اے محمدیو) ایمان لائے ہم ساتھ اس چیز کے کہ اُتاری گئی ہے طرف ہماری اور اُتاری گئی ہے طرف تمہاری اور معبود ہمارا اور معبود تمہارا ایک ہے اور ہم واسطے اس کے مطیع ہیں(سورہ عنکبوت ۵رکوع آیت۴۶)۔

(الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِالۡکِتٰبِ وَ بِمَاۤ اَرۡسَلۡنَا بِہٖ رُسُلَنَا ۟ۛ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ (ۙ۷۰) اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ وَ السَّلٰسِلُ ؕ یُسۡحَبُوۡنَ (ۙ۷۱)

ترجمہ۔ وہ لوگ کہ جھٹلاتے ہیں کتاب کو اور اس چیز کو کہ بھیجا ہم نے ساتھ اس کے پیغمبر وں اپنوں کو پس البتہ جائیں گے۔ جس وقت کہ طوق ہوں گے بیچ گردنوں ان کی اور زنجیریں گھسیٹے جائیں گے۔ بیچ پانی گرم کے پھر بیچ آگ کے جھونکے جائیں گے(سورہ مومن ۸رکوع آیت ۷۰۔۷۱)۔

(اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا (۱۵۰)ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا (۱۵۱)

ترجمہ۔ تحقیق جو لوگ منکر ہیں اللہ سے اور اس کے رسولوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق ڈالیں اور کہتے ہیں ۔ کہ ہم بعضوں کو مانتے ہیں اور بعضوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ نکالیں ایک بیچ کی راہ ہیں لوگ سچ مچ کافر ہیں اور ہم نے تیار کر رکھا ہے واسطے کافروں کے عذاب رسوا کرنے والا ( سورہ نساء آیت ۱۵۰۔۱۵۱)۔

۲۔ ایمان کی تعریف سُنئے ۔

(وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ)

ترجمہ ۔اور خوشخبری دے ان لوگوں کو کہ ایمان لائے اور کام کئے نیک (سورہ بقر ۳ رکوع آیت ۲۵)۔

(قول النبی صلی االلہ علیہ وسلم بنی الاسلام علیٰ خمس۔۔۔۔وھوقول وفعل)

ترجمہ ۔فرمایا نبی ﷺ نے کہ بنا کیا گیا اسلام پانچ چیز پر اور (ایمان ) اقرار ہے اور عمل ہے۔ ظفر المبین بحوالہ (صحیح بخاری چھاپہ احمدی صفحہ ۵)۔

(الایمان قول وعمل یزید ونیقص)

ترجمہ۔ایمان اقرار ہے اور عمل ہے زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ۔ (شرح سفر السعادت چھاپہ نولکشور کا صفحہ ۵۰۶)۔

شیخ سید محی الدین عبد القاد ر جیلانی کی تعریف ۔

(ولعتقدان الایمان قول باللسان ومعرفۃ بالجنان عمل بالارکان الخ)

ترجمہ۔ یعنی اعتقاد کرتے ہیں ہم کہ تحقیق ایمان زبان سے اقرار کرتا ہے اور اعتقاد کرنا ہے اس کے معنوں کا دل کے ساتھ اور عمل کرنا ہے ساتھ ایمان کے رکنوں کے ایمان کے رکن وہ ہیں جن پر ایمان رکھا جاتا ہے دیکھو ( غنیتہ الطالبین چھاپہ لاہور کے صفحہ ۱۴۸کو)۔

۳۔ وہ اصول ایمانی جو اُوپر کے بیان سے نکلتے ہیں۔

۱۔ اُوپر کے بیان میں محمد صاحب اور محمدی صاحبان کو ایمان لانے کا تاکیدی حکم ہے۔

۲۔ کہ محمد صاحب اور محمدیوں کو کل قرآن پر اور کل تورات پر اور کل زبور پر اور کل صحائف انبیاء پر اور کل انجیل پر ایمان لانے کا صاف حکم ہے۔

۳۔ بعض کتاب پر ایمان لانا اور بعض کا انکار کرنا کفر قرار دیا گیا ہے۔

۴۔ کتب سماوی پر ایمان نہ لانا کفر اور بے دینی جہنم کی آگ کی سزاواری کی حالت ٹھہرائی گئی ہے ۔

۵۔ محمد صاحب اور محمد ی صاحبان کے کتب سماوی پر ایمان لانے کے اقرارات بھی موجود ہیں۔

۶۔ ایمان اقرار باعمل کا نام ہے ورنہ بے ایمانی کی حالت ہے ۔لیجئے صاحبان ۔ ہم آپ کے روبرو سیدھے سادے طور سے مسائل ایمانی بھی پیش کر چکے۔ اب محمد صاحبان سے جو حق پسند ہیں انصاف کے طلب گار ہو کر عرض کرتے ہیں کہ آ پ لوگ اب فرمائیں کہ کتاب ِمقدس محمد صاحب کے عین وقت میں اور یا آپ کے دعویٰ نبوت سے پیشتر تبدیل ہو چکی تھی یا کہ صحت کی حالت میں تھی؟ اگر بائبل میں تحریف ہو چکی تھی۔ تو قرآن کے بیان کے موافق کیا تحریف شدہ بائبل پر ایمان لانے کا حضرت کو اور محمدیوں کو حکم ہوا تھا ؟ کیا تحریف شدہ کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ۔ کیا پھر بموجب قرآن خُدا نے ان کتابوں کی غلطی سے تائید کی ؟ اور آپ کے حضرت اور اصحاب کبائرنے ایسی غلط تعلیم کو مانا تھا ؟ کیا قرآن ایسی مکروہ ہدایات سے بھرپورہے؟ پر یہ ہم نہیں کہتے ہیں اور کیا قرآن ایک تحریف شدہ کتاب کا مصدق ہے؟ اگر کتاب مقدس تحریف ہو گئی تو انصافاً قرآن شریف کو بھی سلام کورخصت کرنا ہو گا۔پر قرآن سے جس شدومد(شان وشوکت)سے کتاب ِمقدس کی صحت ایمان لانے کے حکموں سے ثابت ہو گئی ہے ہم ثابت کر چکے اور قرآن سے اور قرآن کے حکموں کے ساتھ کتابِ مقدس کی صحت کا ڈنکا بجا چکے اگر کوئی صم بکم(بہر ے گونگے ) عمی(اندھاپن) کا مصدق نہ ہوگا ۔ وہ ہماری سنے گا اور ہم دوسروں سے کچھ انصاف کی اُمید نہیں رکھ سکتے ہیں۔ پس اسلام عیسوی کا اصول صحیح اور درست ہے۔

اس کے علاوہ اب محمدی صاحبان اپنا دامن چُھڑائیں

ناظرین ہم ااپ کو دکھا چکے کہ حضرت کو اور آپ کی اُمت کو کتبِ مقدسہ پر ایمان لانے کا بار بار حکم ہوا اور ہم بتلا چکے کہ محمد ی ایمان کیا ہے۔ اب محمدی صاحبان ہم پر اور دنیا پر ثابت کر دیں ۔ کہ محمد صاحب کبھی کتابِ مقدس پر ایمان لائے اور بائبل کے عامل بنے اور محمدی صاحبان پر بھی ہمارا یہی اعتراض ہے؟ ہم صاف کہتے ہیں کہ حضرت محمد صاحب اور آپ کی اُمت اوپر کے حکموں کے بالکل خلاف چلتی اور مانتی اور کرتی آئی ہے۔ جس سے حضرت اور آپ کی اُمت (سور ہ نساء) کی منقولہ آیت کے فتویٰ کے نیچے ہے جس سے رہائی نہیں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ صاف ثابت ہے کہ حضرت اور آپ کی امت نے بعض کلام اور نبی کو مانا اور بعض یعنی تمام بائبل کو اپنی عمل سے خارج کیا۔ پس ہم قرآن کے موافق حضرت اور آپ کی امت کی نسبت سخت فیصلہ رکھتے ہیں۔ اس کے سوا حضرت اور آپ کی امت کو کتب سماوی پر ایمان لانے کے حکم تو پہنچ ہی چکے ۔ اس پر ایک اور مشکل یہ ہے کہ محمد ی قوم اور محمد صاحب قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے کتبِ سماوی پر ایمان باعمل لاہی نہیں سکتے ہیں۔ اگر کتبِ سماوی پر ایمان لانا چاہیں تو قرآن کی ضرورت رہتی ہی نہیں ہے قرآن پر ایمان تو درکنار ۔ پس بائبل اور قرآن پر ایمان باعمل کا مطالبہ قرآن میں اجتماع ضدین ہیں اور یہ سخت مطالبہ ہے جسے کوئی محمدی پورا نہیں کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک محمدی کا خاتمہ۔۔۔۔ نہیں ہوتا ہے۔ اے محمدی صاحبان ہم بھی کہتے ہیں کہ بائبل پر ایمان لاؤ ورنہ ہلاک ہو گے۔

ایک اور بات یاد کرنے کے قابل یہ ہے کہ کوئی محمدی صرف قرآن پر ایمان رکھنے اور اس پر عمل کرنے سے نہیں بچ سکتا اور نہ نجات پا سکتا ہے۔ پر اوپر کی آیات کے موافق وہی نجات پائے گا جو محمد ی بائبل پر ایمان لا کر عمل کرے گا۔ ورنہ سید ھا دوزخ کا شکار ہو گا ۔ اب محمد ی صاحبان کا فرض ہم بتلا چکے اور حقیقی اسلام کے اصول کی صحت کا ثبوت دے چکے خُدا کرے کہ محمد ی قوم ہدایت پا کر اسلام کی تابع ہو ۔ آمین۔

آٹھویں فصل

حصّہ اوّل کا ضمیمہ

ہم نے اب تک بائبل کو قرآن کے اس الزام سے بری نہیں کیا کہ قرآن کہتا ہے کہ بائبل تحریف ہو گئی اگر چہ ہم نے اوپر کی فصلوں میں بائبل کی صحت کا کافی ثبوت دیا پر اب تک تحریف کی الزام دہی میں بائبل کی صحت کی گنجائش نہیں دکھائی۔ لہٰذا اب ہم ان مقامات کو پیش کر کے جن میں تحریف کا الزام دیا گیا ہے انہیں سے بائبل کی صحت کا ثبوت بھی دیئے دیتے ہیں ناظرین ملاحظہ فرمائیں ۔

(یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۙ)

ترجمہ۔ بدل ڈالتے ہیں باتوں کو جگہ ان کی سے (سورہ مائدہ ۳رکوع آیت ۱۳)۔اسی آیت پر یہ جملہ جو اب یہ پایا جاتا ہے (الاقلیلاً منھم) ’’یعنی مگر تھوڑے ان میں سے ‘‘ ۔ یعنی باتوں کو بدلنے والوں میں سے تھوڑے ایسے بھی ہیں جو نہیں بدلتے ۔

پھر تحریف کے الزام کی نسبت اہل یہود سے ہے مسیحیوں سے نہیں ہے۔

(مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ)

یہودیوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کلام کو اس کے ٹھکانے سے ہٹاتے ہیں (سورہ النساء ۷رکوع آیت ۴۶)۔ یہاں پر بھی بعض یہود تحریف کا الزام ہے سب پر نہیں ہے اور مسیحی تو بالکل اس الزام سے پاک ہیں ۔

پھر دیکھو کہ تحریف کیا کرتے تھے۔ اور مصنف قرآن کے الزام کا کیا مطلب تھا ۔ اور تحریف کی صورت کیا تھی؟ اس کی تشریح بھی سنئے۔

(وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ)

ترجمہ۔ اور ان میں ایک فریق ہے جوکتاب پڑھتے وقت زبان کو مروڑتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ وہ کتاب میں ہے اور نہیں وہ کتاب میں (سورہ عمران ۸رکوع آیت ۷۸)۔

(اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (۷۵)

ترجمہ۔ پس کیا طمع(لالچ) رکھتے ہو تم یہ کہ ایمان لائیں واسطے تمہارے (یہود) اور تحقیق تھا ایک فرقہ ان میں سے سنتا کلام اللہ کا پھر بدل ڈالتے تھے۔ اس کو پیچھے اس سے کہ سمجھ لیتے تھے اس کو اور وہ جانتے ہیں(سورہ بقر ۹رکوع آیت ۷۵)۔

پس ان مقامات میں تحریف کی تشریح کی گئی ہے ۔ اور مصنف ِقرآن نے اپنے الزام کا مطلب کھول دیا ہے۔ جو یہ ہے ۔ کہ یہودی محمد صاحب کے روبرو کتاب پڑھتے وقت متن کتاب میں صرف قرات میں الفاظ بڑھا جایا کرتے تھے اور چونکہ حضرت کے اصحاب عبرانی سے ناواقف تھے۔ اس وجہ سے وہ دھوکہ کھاتے تھے۔ اور یہودی لوگ مخول اور تمسخر کی راہ سے ایسا کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ حضرت کو پڑھنا نہیں آتا تھا مصنف قرآن جوان کی چالوں سے واقف تھا ان کے ایسا کرنے کا نام تحریف رکھتا ہے اور حضرت کو آگاہ کرتا ہےکہ جو کچھ وہ زبان سے تجھے سناتے ہیں وہ بعض باتیں ان کی کتاب میں نہیں ہیں۔ وہ پڑھتے وقت زبانی قرات میں ملا دیتے ہیں۔ اور یہی معنی لفظ تحریف کے آیت منقولہ بالا بقر کے ہیں کہ کلام کو سن کر اورسمجھ کر اس کی ایسی تاویل کرتے تھے۔ جس سے محمدیوں کےخلاف مطلب نکلے (یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰامَ اللّٰہِ)کا مطلب سن کر کلام کے معنی کو بدل ڈالنے پر دلالت کرتا ہے نہ کہ کلام اللہ کے متن پر۔ پس محمدیوں کو خُدا کے خوف کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے کہ وہ قرآن کے نام سے کتبِ مقدسہ پر تحریف کا الزام اپنی طرف سے نہ دیں۔ قرآن سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ کتبِ مقدسہ کا متن تحریف ہو گیا بلکہ قرآن کے الزام میں صرف بعض بے دین ٹھٹھا کرنے والے لوگوں کے فعل پر تحریف کا نام ہے کہ وہ پڑھتے وقت عبارت قرات میں بڑھا جا یا کرتے تھے۔ اور یہ بھی سب لوگ نہیں کرتے تھے۔ مگر صرف حضرت سے کھیلنے والے لوگ۔ پس ہم نے ہر طرح سے دکھا دیا کہ حضرت کے وقت تک کتبِ مقدسہ صحیح اور درست صورت میں تھی جس کی سند ہم قرآن کے ہرایک فیصلے کی وقت پکڑیں گے۔ اور اب ہم کو اس بات سے کو روک نہیں سکتا ہے۔

اب ہم کوایک اور بات کا جوا ب دینا باقی رہا وہ بات یہ ہے کہ ہم نے کیوں اور کس اختیار سے قرآن کی بعض آیات کو جو ہمارے لئے مفید مطلب تھیں بطور دلیل وبرہان کے استعمال کیا اور کیوں ہم نے بعض قرآن کو دلیل وبرہان سے خارج گرداناہے؟

اگرچہ ہرایک ناظرہمارے رسالے کو پڑھتے وقت اس وجہ کو بخوبی سمجھ سکتا ہے لیکن تو بھی فائدہ عام کی خاطر ہم ان وجوہات کو بھی یہاں پر تحریر کر کے اپنی حق پسند ی کا اظہار کئے دیئے ہیں۔ تاکہ آئندہ کو کوئی غلطی میں مبتلا ہو کر یہ نہ سمجھے کہ ہم نے حق سے رو گردانی کی ہے۔ اس وجہ سے جس وجوہات سے ہم نے یہ کام کیا ہے ان کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے پڑھ کر ہر ایک ناظر حق کا فیسلہ کرے ۔وہوہذا(اور وہ یوں ہے)۔

جواب

۱۔ یہ امر حق ہے کہ ہم نے اپنے مفید مطلب قرآن سے آیات منتخب کر لی ہیں پر ہیں تو قرآن میں۔ ہمارے مفید مطلب تمہار ا ہی قرآن ہے۔ اور ہم کیوں اپنے مفید مطلب کو ترک کریں؟

۲۔ بعض قرآن کو رد کرنا اور بعض کو ترک کرنے کے جرم میں تو آپ لوگ بھی مبتلا ہو ۔ کیونکہ قرآن کی بعض آیات کو منسوخ خیال کر کے آپ خود بھی رد کرتے ہو اور بعض کو ناسخ (منسوخ کرنے والا)جان کر آپ لو گ بھی اپنے مطلب کے موافق قبول کرتے ہو تو اگر ہم نے بعض آیات قرآن کو اپنے مفید مطلب پا کر قبول کیا اور بعض کو قبول نہ کیا تو ہمارا کو ن سا خا ص گناہ ہوا جس سے محمدی قوم بری ہے؟

۳۔ نہ صرف یہی بلکہ ازروئے قرآن خُدا بھی بعض قرآن کی آیات کو رد کرتا ہے اور بعض آیات مفید مطلب کو قبول کرتا ہے کیونکہ وہ آیات ناسخ کو نازل کرتا ہے اور نازل شدہ آیات کو منسوخ کرتا ہے ۔ پھر ہم نے اگر قرآن کی بعض آیات کے ساتھ ایسا سلوک کیا تو خُدا کی نافرمانی نہیں ہے۔

۴۔ خود قرآن ہی کو دیکھ لو کہ بعض قرآن خود قرآن کے بعض کو رد کرتا ہے کیونکہ اس میں ناسخ منسوخ کلام جمع ہے۔ پھر ہم پر کس کا اعتراض ہے؟

ہم نے قرآن کی بعض آیات کی سچائی اور بعض کی غیر سچائی کا مسئلہ اسی بنا اور دلیل پر صحیح مانا ہے جس بنا اور دلیل پر قرآن نے اپنی صحت کا مسئلہ قائم کیا ہے جو ثبوت قرآن نے اپنی صحت میں دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔

(کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ)

ترجمہ ۔یعنی اسی طرح بیان کرتے ہیں ہم اوپر تیرے ان چیزوں (یا قصوں ) جو تجھ سے پہلے گذریں(سورہ طہ ۵رکوع آیت ۹۹)۔

(وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ (۱۹۶)

ترجمہ۔ اور تحقیق یہ (قرآن ) البتہ مذکور ہے بیچ پہلے پیغمبروں کی کتابوں کے (سورہ الشعراء ۱۱رکوع آیت ۱۹۶)۔

(اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (۱۹۷(ؕ)

ترجمہ ۔ کیا نہیں ہے واسطے اس کے نشانی (اہلِ مکہ کے واسطے ) یہ کہ جانتے ہیں قرآن کو بنی اسرائیل کے علماء(سورہ الشعراء ۱۱رکوع آیت ۱۹۷)۔

(مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدۡ قِیۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِکَ )

ترجمہ۔ (اے محمد) نہیں کہا جاتا واسطے تیرے مگر جو کچھ کہ تحقیق کہا گیا تجھ سے پہلے پیغمبروں سے (سورہ السجدۃ ۵رکوع آیت ۴۳)۔

خلاصہ مطلب

(سورہ طہٰ )کی آیت میں قرآن کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے۔ کہ یہ قرآن گذرے ہوئے قصوں کا جو قرآن کی جلد میں جمع کئے گئے مجموعہ ہو۔

اور (سورہ شعراء) کی آیت اوّل میں قرآن کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ قرآن معہ ان قصوں کے جو اس میں قلم بند کئے گئے پہلے انبیاء کی کتابوں میں مسطور ہے۔ اور سورہ اعلیٰ میں ان صحائف انبیاء میں سے جن میں قرآن مذکور ہے۔ بعض کا حوالہ بھی درج ہے کہ جس سے عیاں کیا گیا ہے کہ جن انبیاء کے صحائف میں قرآن لکھا ہے وہ انبیاء اور صحیفے بنی اسرائیل کے ہیں کسی اور قوم کے نہیں۔

اور (سورہ شعراء )آیت دوئم میں قرآن کی یہ تعریف ملتی ہے کہ قرآن نہ صرف بنی اسرائیل کے انبیاء کی کتابوں میں مذکور ہے بلکہ قرآن کو علماء بنی اسرائیل خوب جانتے ہیں۔

اور( سور ہ حج السجدۃ) کی آیت منقولہ میں قرآن کی یہ تعریف آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیائے سابقین کی کتابوں کے بیان کے سوائے اور کچھ قرآن میں حضرت کو سکھلایا ہے۔نہیں گیا مگر صرف کتبِ مقدسہ کا بیان اور اس مطلب پس ناظرین قرآن اپنے منہ سے اپنی آپ تعریف کر چکا میر ے اور آپ کے ڈھکوسلوں کی کچھ حاجت نہ رہی۔ مگر یہ کہ ہم قرآن اور بائبل کی تطبیق (مطابق کرنا،موافقت)کر دیکھیں اور بس۔

پس قرآن کی آیات مذکورہ بالا کے مطابق ہم نے تسلیم کر لیا کہ قرآن حقیقت میں قرآن کا وہ حصہ ہے جو کتبِ مقدسہ کے عین موافق اور مطابق ہے اور جو کتبِ مقدسہ میں پایا جاتا ہے اور جسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں۔ اور قرآن کا جو حصہ کتبِ مقدسہ سے خارج اور کتبِ مقدسہ کے باعتبار تعلیم اور تلقین کے خلاف ہے وہ سچا قرآن نہیں۔ اس لئے ہم نے بعض قرآن کو جو کتبِ مقدسہ سے نقل کیا گیا ہے قبول کر لیا قبو ل کر لیں گے۔ اور بعض کو ہم نے رد کر دیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم نے قرآن کی ان آیات کو جو کتبِ مقدسہ کے کسی مقام کا مطلب ادا کرتے ہیں بجائے دلیل استعمال کیا ہے اور اگر کوئی محمدی اس پر بھی شور مچائے تو ہم کہیں گے۔ کہ تم وہ قرآن ہمارے پاس لے آؤ جو کتبِ مقدسہ سے ٹھیک موافقت رکھتا ہو تو ہم تمہارا کل قرآن بھی مان لیں گے۔ کیونکہ موجودہ قرآن کتاب مقدس سے پوری پوری موافقت نہیں رکھتا ہے اس لئے محمد یوں نے قرآن کو سخت بدل ڈالا ہے جس کی جہت سے ہمیں بعض قبول اور قرآن کا بعض ترک کرنا پڑا ہے۔ اے محمدیو تم ہم کو اب اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں کہ ہم تمہارا تمام قرآن درست مانیں ۔ پر ہم وہی قرآن درست مانیں گے اور وہ بھی اگر تم موجود کر دو جو قرآن لفظاً اور معناً کتبِ مقدسہ میں ملتا ہو۔ باقی متروک(ترک کیا گیا)۔

اب ہماری محمدی قوم سے اور اس کے علما و فضلا سے اپیل ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ قرآن کے عین موافق کیا پھر ہم پر کیوں عوام ظلم کر کے یہ کہنے کو تیار ہیں کہ ہم نے بعض قرآن کو قبول کرکے بعض کو رد کر دیا۔ کیا قرآن ہم کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے یا نہیں؟ اور ہم نے جو طر ز رسالہ ہذا میں اختیار کی وہ ٹھیک ٹھیک قرآن کے موافق ہے یا نہیں ؟ اگر ہم نے رسالہ ہذا میں قرآن کے ہاں صحیح اور درست قرآن کے نقش پاکی پیروی کی ہے تو بس قرآن کے اور حدیث کے تابعداروں کا فرض مقرر ہو چکا کہ بائبل اور اس کے مذہب کی اطاعت و فرمانبرداری قبول فرمائیں اور موجودہ قرآنی اور حدیثی مذہب کا محمدی صاحبان فوراً انکار کریں۔اور اگر یہ نہ کیاجائے تو بتلاؤ کہ محمدی قوم قرآن کا انکار کرتی ہے یا نہیں کرتی ؟

ہم نے ثابت کر دیا کہ مسیحی مذہب قرآن کی اصطلاح میں لفظ اسلام کا موضوع ہے اور یہ ابراہیمی اسلام ہے ہم نے دکھا دیا کہ بائبل جو اسلام قدیم کا اصول ہے صحیح اور درست ہے اور ہم نے دکھا دیا کہ ہرا یک محمدی پر قرآن بائبل پر ایمان باعمل کی بڑی شدومد(دھوم دھام) سے تاکید کرتا ہے اور اس کے منکروں کو عذاب جہنم کا سزا وار ٹھہراتا ہے۔ اور ہم نے دکھایا کہ قرآن کی اطاعت وفرمانبرداری کی بائبل سے جدا کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن اپنے دعویٰ کے موافق بائبل میں موجود ہے ۔ اور یہ کہ قرآن حقیقی قرآن اپنے دعویٰ کے موافق بائبل میں موجود ہے ۔ اور یہ کہ قرآن حقیقی قرآن کا وہی حصہ ہے جو لفظاً و معناً بائبل سے موافقت رکھتا ہے ۔ پس یہی وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم نے بعض قرآن کو قبول کر کے بعض کو دائرہ سند سے خارج کر دیا اور یہ بھی قرآن کی ہدایت کے موافق۔ پس انہیں وجوہات سے قرآن کی حکم برداری یہ ثابت ہوئی کہ لوگ مسیحی ہو جائیں اور انہیں دلائل سے ہم آگے کو بائبل کی گواہی سند رکھ کر ہر ایک امر کا فیصلہ کر یں گے۔ اور قرآن کو اسی قدردرست مان کر جو بائبل کے موافق ہو گا۔ قبول کرتے جائیں گے۔ اور باقی کو ترک کرتے رہیں گے کہو اب سمجھے کہ کیوں بعض قرآن کو قبول اور بعض کو نا مقبول ٹھہرایا ؟ اب آگے ہم اسلام کے ہیرو خُدا وند یسوع مسیح کا بیان کریں گے۔ زیادہ حدادب۔