1891-1972

ALLAMA ULLAH, BARAKAT

M.A.F.R.A.S

Fellow of the Royal Asiatic Society London

یہ رسالہ نیشنل کرسچین کونسل آف انڈیا کے

لٹریچر بورڈ کی مالی امداد سے شائع کیاگیا۔

دیباچہ

اس رسالہ کا بیشتر حصہ اخبار نورافشاں میں بزیرِ عنوان "اناجیلِ اربعہ کی چند آیات کا نیا ترجمہ" چھپ چکا ہے۔احباب تقاضا کررہے ہیں کہ ان مضامین کوکتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ پس ان کومناسب ردوبدل اورایزادیوں کے بعد شائع کیا جارہاہے۔ میری دعاہے کہ اردو خوان مسیحی اس کے مطالعہ سے انجیلِ جلیل کی آیات اورسیدنا مسیح کے کلماتِ طیبات کوکماحقہ سمجھ کر ابدی زندگی کے وارث ہوجائيں۔ آمین

احباب تقاضا کررہے ہیں کہ ان مضامین کوکتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ پس ان کومناسب ردوبدل اورایزادیوں کے بعد شائع کیا جارہاہے۔ میری دعاہے کہ اردو خوان مسیحی اس کے مطالعہ سے انجیلِ جلیل کی آیات اورسیدنا مسیح کے کلماتِ طیبات کوکماحقہ سمجھ کر ابدی زندگی کے وارث ہوجائيں۔ آمین

کورٹ روڈ امرتسرپنجاب

احقر العباد

برکت اللہ

یکم جون ۱۹۵۳ء

حصّہ اوّل

اناجیلِ اربعہ کی زبان

یونانی لفظ " انجیل" کے معنی بشارت یا خوشخبری کے ہیں۔ مسیحی اصطلاح میں یہ لفظ عموماً اُن ستائیس(۲۷) کتابوں کے مجموعہ کے لئے استعمال کیا جاتاہے جو"عہدجدید" میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں لفظ " انجیل" کا اطلاق اس مجموعہ کی پہلی چار کتابوں پر بھی کیا جاتاہے جن میں حضرت کلمتہ سیدنا مسیح کی تعلیم اورسوانح حیات وغیرہ درج ہیں۔ مثلاً " متی کی انجیل" سے مراد وہ کتاب ہے جس میں حضرت متی نے آپ کی تعلیم اورسوانح زندگی وغیرہ جمع کئے تھے۔ علیٰ ہذا القیاس (اسی طرح)مرقس کی انجیل، لوقا کی کی انجیل، اوریوحنا کی انجیل سے مراد وہ رسالے ہیں جواُن حضرات نے لکھے تھے جن میں اُنہوں نے اپنے اپنے نکتہ نگاہ کے مطابق کلمتہ اللہ کی تعلیم اورواقعات زندگی وغیرہ جمع کئے تھے۔ یہ تعلیم آپ کی جانفزا" بشارت" تھی اورآپ کی زندگی کے واقعات اس بشارت کوواضح کرتے تھے اورآپ کے پیغام کا عملی نمونہ تھے۔

حضرت کلمتہ اللہ نے خود نہ کوئی انجیل لکھی اورنہ لکھوائی۔ لیکن آپ اپنے پیغام کو" انجیل" یا "خوشخبری" کہتے تھے (مرقس ۱: ۱۴تا ۱۵)۔ آپ کی مادری زبان ارامی تھی۔ لیکن اناجیلِ اربعہ جن میں آپ کی تعلیم، سوانح حیات، صلیبی موت اورصعودِ آسمانی کا ذکر ہے یونانی زبان میں ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا یہ اناجیل پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں؟ اگرلکھی گئی تھیں تووہ کب احاطہ تحریر میں آئیں؟ موجودہ یونانی اناجیل کب اورکن حالات کے اندرمعرض وجود میں آئیں۔ اُن کے یونانی متن کا ارامی اناجیل سے کیا تعلق ہے؟

اس حصہ میں ہم اختصار کے ساتھ ان اہم سوالوں پر غورکریں گے ۔ اگرچہ اناجیل آسمانی کتابیں ہیں تاہم وہ دیگر دینوی کتُب کی طرح انسانوں کے ذریعہ تالیف کی گئیں۔اُن کی زبان۔ اُن کے مولفین کی طرزِ تحریر ، محاورات ، نکتہ نگاہ وغیرہ میں فرق ہے، اگرچہ ان کا موضوع ایک ہی ہے۔ لیکن یہاں ہم اُن کے خاص موضوع پر بحث نہیں کریں گے ۔ بلکہ ان اناجیل کے ماخذ اوراُن کے متن کی صحت پر بحث کریں گے اوراُن کو انہی اصولِ تنقید کی محک(کسوٹی ،وہ سیاہ پتھر جس پر سونا چاندی پرکھا جاتاہے) پر پرکھیں گے جوادبی دنیا میں تسلیم کئے گئے ہیں اورجن کے مطابق فی زمانہ، تمام مہذب اقوام کی لٹریچر کی کتابوں کی چھان بین کی جاتی ہے۔ ان تنقیدی اصولوں کے ماتحت ہم بیرونی شہادت یعنی تاریخی واقعات اوراندرونی شہادت یعنی بائبل کی آیات سے ہی کام لیں گے اور کلیسیائی روایات وغیرہ سے کچھ سروکار نہیں رکھیں گے۔

فصل اوّل

پہلی صدی مسیحی میں ارضِ مقدس کی زبانیں

: ارامی زبان کا عروج وزوال

پہلی صدی مسیحی میں ارضِ مقدس میں چار زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اہل یہود ارامی بولتے اورعبرانی سمجھ سکتے تھے۔ غیر یہود کی زبانیں لاطینی اوریونانی تھیں۔ اہلِ یہود کی کتبِ مقدسہ عبرانی زبان میں تھیں اوریہ کتابیں اصل زبان میں یروشلیم کی ہیکل اور دیگر جگہوں کے یہودی عبادت خانوں میں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن عبرانی زبان اہل یہود کے مدرسہ دینیات اورعلماء کے طبقہ تک ہی محدود تھیں۔ عوام الناس ارامی زبان بولتے تھے (اعمال ۱: ۱۹، ۲۱: ۴۰، ۲۲: ۲ وغیرہ) حضرت کلمتہ اللہ کی پیدائش سے صدیوں پہلے ارامی نے عبرانی کی جگہ غضب کرلی تھی۔ دونوں زبانیں سامی تھیں اورایک دوسرے سے متعلق تھیں۔ ارامی بھی ایک قدیم زبان تھی۔ عہدِ عتیق سے پتہ چلتاہے ۔ کہ خاص مسوپوٹامیہ میں ارامی آباد تھے۔ یہ وہ خِطہ تھا جودجلہ، فرات اورشمال کی جانب سلسلہ کوہسار اورصحرا کے درمیان ہے اوریہی وجہ تھی کہ یونانیوں نے اس خطہ کانام مسوپوٹامیہ رکھا تھا۔ پیدائش کی کتاب سے پتہ چلتاہے کہ حضرت ابراہیم ، بی بی سارہ ، حضرت یعقوب، اُن کی ازدواج بی بی لیاہ اوربی بی راخل سرزمین حاران کے تھے۔ حضرت یعقوب کے خسر بیتوایل ارامی تھے(پیدائش ۲۵: ۲۰۔ ۲۸: ۵) ۔ اور ارامی بولتے تھے(پیدائش ۳۱: ۴۷)۔

اخیمی سلطنت کے مغربی نصف حصہ میں ارامی درباری زبان تھی اورمسیح سے آٹھ صدیاں قبل شام کے شمالی حصہ میں نوشت وخواند کا وسیلہ تھی اگرچہ اس حصہ کی آبادی خالص ارامی نہ تھی۔ ایرانی سلطنت کے زمانہ (از ۵۳۶ تا ۳۳۰ قبل مسیح) میں ارامی نے مغربی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرلیا تھا۔ اور فرات سے لے کر بحر متوسط تک بولی جاتی تھی اورفرات کے مغربی جانب کے صوبوں کی درباری زبان تھی۔ مصر میں بھی ایرانی زمانہ کے کتبے دستیاب ہوئے ہیں جن پر زرسیس (Xerxes) کو چوتھا سال (۴۸۲ قبل مسیح) ثبت ہے۔ ان سے اوردیگرسرکاری کاغذات سے جوملے ہیں یہ معلوم ہوتاہے۔ کہ ایرانی شہنشاہ ارامی کو مصری زبان پر ترجیح دے کر مصریوں کے ساتھ اورمغرب کے دیگر ممالکِ محروسہ (ماتحت کیاگیا)کے ساتھ ارامی میں خط وکتابت کیا کرتے تھے۔ اسوری سلطنت کے بادشاہوں کے وقت میں ارامی نہ صرف درباری زبان تھی بلکہ اُنہوں نے اس کو ہرزبان پر ترجیح دے رکھی تھی۔ کیونکہ اس سلطنت کی بیشتر آبادی ارامیوں پر مشتمل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ شاہِ اسور کا رب ساقی ارامی میں کلام کرتا تھا اورشاہِ یہودا کے اراکینِ دربار بھی ارامی سے بخوبی آشنا تھے (۲سلاطین ۱۸: ۲۶۔ یسعیاہ ۳۶: ۱۱)۔فاضل نویلدیکی ہم کو بتلاتاہے کہ

اسوریوں کے زمانہ سلطنت میں اُنکی رعایا کا بہت بڑا حصہ ارامی زبان بولتا تھا

کلدی سلطنت کے غلبہ نے بھی (گوہ وہ پائدارنہ تھا) ارامی زبان کوبڑی تقویت دی۔ مدینہ کے شمال سے جوکتبے دستیاب ہوئے ہیں، اُن سے پتہ چلتاہے کہ پانچ سوسال قبل مسیح عرب کے شمال مغرب میں ارامی آباد تھے اوریہ زبان عرب میں چوتھی صدی مسیحی تک نوشت وخواند کا ذریعہ تھا۔ اورمہذب زبان ہونے کی وجہ سے اس کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اہل عرب اسی زبان میں لکھا پڑھا کرتے تھے کیونکہ اُن کی اپنی زبان ہنوز احاطہ تحریر میں نہیں آئی تھی۔ پارتھیوں کی سلطنت میں بھی اس کوممتاز جگہ حاصل تھی۔ کیونکہ یہ زبان تہذیب اورکلچر کی زبان تھی۔ گواس سلطنت کی درباری زبان پہلوی تھی۔

پس اگرچہ ارامی زبان کی ابتدا مسوپوٹامیہ اورشام کے چند اضلاع سے ہوئی لیکن وہ آہستہ آہستہ دُور دراز کے مقامات اورمختلف ممالک میں پھیل گئی ۔ پہلی صدی مسیحی کے قبل ارامی زبان کی مختلف شاخیں اُن تمام ممالک میں مروج تھیں جوبحرمتوسط اورکوہسار آرمینیا اور کروستان کے درمیان واقع تھے۔ رفتہ رفتہ یہ زبان ارضِ مقدس پر بھی چھاگئی۔ حضرت کلمتہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے ارضِ مقدس میں عوام الناس عبرانی کی بجائے ارامی بولتے تھے۔ اگرچہ اس زمانہ کا صحیح تعین نہیں ہوسکتا۔ اہل یہود کی اسیری (۵۸۶ قبل مسیح) سے پہلے کی یہودی کتابوں پر بھی اس زبان کا اثر نظر آتاہے۔ اگرچہ عہدِ عتیق کی بعض کتُب مثلاً آستر کی کتاب۔ واعظ کی کتاب اور بعض مزامیر کی زبان عبرانی ہے۔ لیکن ان کی طرزِ تحریر سے ظاہر ہے کہ ان کے مصنفین کی مادری زبان ارامی تھی کیونکہ ان کے الفاظ کے پیچھے جوروح ہے، وہ ارامی ہے۔ عزرا کی کتاب(جوقریباً تین سوسال قبل مسیح لکھی گئی ) کے مصنف نے ایک ارامی کتاب کا اقتباس کیا ہے (۴: ۸ تا ۶: ۱۸، ۷: ۱۲تا ۳۶)۔ دانی ایل کی کتاب ۱۶۶ سال قبل مسیح لکھی گئی اوراس کانصف حصہ ارامی زبان میں ہے(۲: ۴تا ۸: ۲۸)۔

پہلی صدی مسیحی میں جس قسم کی ارامی زبان ارضِ مقدس میں بولی جاتی تھی ۔ اس کا علم ہم کو یہودی کتُب "ترجم (Targum 1) سے مل سکتاہے ۔ یہودی عبادت خانوں میں یہ دستور ہوگیا تھا کہ جب تورات کی کتب پڑھی جاتیں توہرآیت کے پڑھنے کے بعد اس کا ارامی میں ترجمہ کیا جاتا اور جب صحائف انبیاء اورکتُب تواریخ پڑھی جاتیں توہرتین آیات کے پڑھنے کے بعد ترجمہ کیا جاتا تاکہ عوام الناس صحفِ مقدسہ کو سمجھ سکیں۔ یہ ترجمہ مابعد کے زمانہ میں احاطہ تحریر میں آگیاجس کو" ترجم" کہتے ہیں۔ ان کی زبان اُس ارامی سے مختلف نہیں ہے جو بائبل کی کتب عزرا اوردانی ایل میں ہے۔ حضرت کلمتہ اللہ اورآپ کے حواری ارامی زبان میں کلام کرتے تھے اگرچہ ان کی زبان یروشلیم اوراُس کے مضافات (مضاف کی جمع،منسلک،اضافہ کیاگیا)کی زبان کی طرح شستہ(پاک خالص) نہ تھی(مرقس ۱۴: ۷۰) ۔ حضرت کلمتہ اللہ خود عبرانی کا علم رکھتے تھے اورکتب مقدسہ کی تلاوت اصل زبان میں فرمایا کرتے تھے (مرقس ۱۲: ۲۴، ۲۷۔ ۱۵: ۳۴، لوقا ۴: ۱۶تا ۱۷)۔ لیکن آپ اپنے پیغام کوعوام الناس کی بولی ارامی میں سنایا کرتے تھے(اعمال۲۶: ۱۴)۔ لوگ جوق درجوق "خوشی" اورشوق سے آپ کے کلمات کوسننے کی خاطر جمِ غفیر (بھیڑ) میں جمع ہوجاتے اورایسا کہ کھوسے کھوا چھلتا تھا(مرقس ۱: ۳۳، ۴۵، ۲: ۴۔ ۴: ۱، ۵: ۲۴۔ لوقا ۱۹: ۴۸ وغیرہ) اس بات کا ثبوت کہ آپ ان سے ارامی میں کلام کیا کرتے تھے ، اناجیلِ اربعہ کے یونانی متن سے بھی ملتا ہے جہاں چند مقامات میں آپ کےمنہ کے ارامی الفاظ محفوظ ہیں۔(مرقس ۵: ۴۱، ۷: ۳۴، متی ۲۷: ۴۶ وغیرہ)۔

پہلی صدی مسیحی میں ارضِ مقدس پر قیاصرہ روم حکمران تھے۔ ان کی زبان لاطینی تھی۔ لیکن گواس صدی کے اوائل میں ملکِ شام میں یونانی نے اپنے قدم جمالئے تھے تاہم ارامی زبان کے غلبہ کا یہ حال تھا کہ لاطینی زبان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی کہ ارامی کی جگہ غضب کرلے۔ لیکن مثل مشہور ہے ۔ ہر کمالے رازوالے(انتہائی ترقی کے بعد زوال شروع ہوتا ہے )۔ یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) کے بعد حالات دگرگوں ہوگئے(اُلٹ پُلٹ گئے)۔ قومِ یہود کی تباہی کے ساتھ یونانی نے اپنے پاؤں پھیلالئے۔ پھربھی ساتویں صدی مسیحی تک اس زبان کی مختلف شاخیں (بالخصوص شامی زبان) یونانی زبان کے بعداہم ترین زبان تصور کی جاتی تھیں۔ لیکن اہلِ عرب کی اسلامی فتوحات نے ارامی زبان کا یک لخت خاتمہ کردیا اوریہ زبان جوبارہ سو(۱۲۰۰)سال سے زائد عرصہ تک ہرمہذب قوم کے استعمال میں آئی تھی، اسلامی غلبہ کے ہاتھوں ناگہانی موت مرگئی اورعربی زبان نے اس کی جگہ لے لی۔ موجودہ زمانہ میں یہ زبان چند اضلاع میں ہی بولی جاتی ہے۔


(1) https://en.wikipedia.org/wiki/Targum

:یونانی زبان اور یونانی تہذیب

یونانی زبان فلسفہ، ادب اور تہذیب کی زبان تھی ۔ وہ افلاطون ، ارسطو اوردیگر حکماء کی زبان تھی۔ جولکھا پڑھا شخص مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اس کے لئے یونانی کا علم حاصل کرنا لابدی امر تھا۔ سکند راعظم کی فتوحات (۳۲۳ قبل مسیح) نے اس زبان اورتہذیب کی رونق کودوبالا کردیا تھا۔ اس فاتح کے زمانہ میں ارامی زبان فرات سے لے کر بحرمتوسط کے تمام ممالک پر چھاگئی تھی۔ لیکن اس کی فتوحات کے ساتھ زمانہ نے پلٹا کھایا اوریونانی ارامی کی حریف(دشمن) ہوگئی۔ جب سکندر نے ارضِ مقدس (کنعان)کو(۳۳۲ قبل مسیح) حاصل کرلیا تواُس نے اہل یہود کو اپنی شریعت اوردستورات پر عمل کرنے کی رعایت عطا کی۔ جویہودی اُس کے شہر سکندریہ میں بستے تھے اُن کو پورے شہری حقوق عطا کردئے۔ اُس کے جانشینوں یعنی ٹولومیوں کے ماتحت (۳۲۰ قبل مسیح تا ۱۹۸ قبل مسیح) اورسلوکیوں کے ماتحت شام اورمصر کے ممالک نے یونانی زبان اورکلچر کوقبول کرلیا۔ رفتہ رفتہ اہل یہود میں بھی یونانیت اپنا اثر دکھلانے لگی۔ کیونکہ یہودی ان دنوں تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ ٹولومیوں کے ماتحت سکندریہ کے یہودی بہت حد تک یونانی فلسفہ اورتہذیب سے متاثر ہوچکے تھے حتیٰ کہ ان کی خاطر اہل یہود کی کتُب مقدسہ کا عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کرنا پڑا۔ یہ یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ تیسری صدی قبل مسیح کے درمیان سکندریہ میں شروع ہوا اوردوسری صدی قبل مسیح میں ختم ہوا۔ یہ ترجمہ مشہور ترین ترجمہ ہے جونہایت مستند ہے۔

ارضِ مقدس کے یہودی بھی یونانیت کی بے پناہ موجوں سے نہ بچ سکے۔ چنانچہ مسیح سے دوصدیاں قبل ان میں ایک ترقی پسند پارٹی قائم ہوگئی جس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی شریعت اوردستورات کی بجائے یونانی فلسفہ تہذیب اورکلچر ملک کنعان میں رواج پاجائیں۔ اینٹی اوکس چہارم(Antiochus Epiphanes ) نے ہرممکن طورپر ازحد کوشش کی کہ ارض ِمقدس میں یونانیت کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن اہل یہود نے منظم طورپر اس کا مقابلہ کیا۔ اُس نے حکم دیاکہ اُس کی تمام رعایا(یہودیوں سمیت) یونانی مذہب اوریونانی رسوم ورواج کواختیار کرلیں اوراس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کوجان سے مارا جائے۔ اُس نے ۱۶۷قبل مسیح سامریہ اوریروشلیم کی ہیکل کی قربانگاہ پرجوپیٹر کی قربان گاہ بنائی۔ اورخنازیر(سوُر) اوردیگرحرام جانوروں کی قربانیاں کیں۔ اُس نے یہود کوبُتوں کی قربانیوں کا گوشت جبراً کھلایا اوراُن کومجبور کیاکہ وہ بیکس (شراب کا دیوتا)کا تہوار منائیں۔ سبت اورختنہ کے شرعی احکام کو نہ مانیں ،نماز نہ پڑھیں، اپنے معبود یہوواہ کی عبادت نہ کریں اوران تمام امور سے پرہیز کریں جن سے یہ تمیز ہوسکے کہ وہ یہودی ہیں۔ اُس نے تورات کی کاپیوں کونذرِ آتش کردیا اورہزاروں یہودیوں کوتہ تیغ (تلوارسے قتل)کردیا۔ لیکن اہل یہود نے( ۱۶ قبل مسیح )مکابیوں کے ماتحت اس کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اوربالاان مجاہدین کی کوششوں سے یونانیت کوشکست فاش نصیب ہوئی۔ لیکن اس کے ساٹھ سال بعد فریسیوں اورصدوقیوں کے دھڑے بازی اوراہل یہود کی باہمی رقابت وپرخاش کی بدولت یونانیت کے قدم دوبارہ جم گئے۔( ۶۳ قبل مسیح) یہودیہ رومی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا۔ قیاصرہ روم نے ادومی نسل کے ہیرودیس کو( ۴۰ قبل مسیح) یہودیوں کا بادشاہ بنادیا۔ اس شاہی خاندان کی طفیل یونانیت ارضِ مقدس میں مضبوط جڑپکڑگئی۔ فریسی ربی اس بادشاہ کے جانی دشمن تھے۔ لیکن ان کی مخالفت کودبانے کی خاطر اُس نے یونانیت کے شیدائی یہودیوں کومنظورِ نظربنالیا اوریونانی اوررومی خیالات ، رسوم ورواج اور طرزِ رہائش وغيرہ کوترقی دی۔ اُس نے خاص یروشلیم میں تھئیٹر اورتماشہ گاہیں (Amphi Theatre) بنائیں۔ قیصریہ کے شہر کو یونانی رومی آرٹ کا بہترین نمونہ بناکر قیصر کے نام پر اس شہر کا نام قیصریہ رکھا۔ اُس نے جگہ جگہ رومی اور یونانی دیوتاؤں کے مندربنوائے اوریہود کوخوش کرنے کے لئے اوراپنی عظمت بڑھانے کے لئے اس نے سن( ۲۰ قبل مسیح )یروشلیم کی ہیکل کونہایت عالی شان پیمانہ پرتعمیر کرنا شروع کیا (مرقس ۱۳: ۱۔ متی ۲۴: ۱۔ یوحنا ۲: ۲۰ وغیرہ ) جس کو اس کے پڑپوتے ہیردویس اگرپا روم نے( ۶۵ء) ختم میں کیا۔ لیکن ہیردویس نے اس ہیکل کے بڑے پھاٹک پر ایک طلائی عقاب نصب کردیا جوقیاصرہ روم کا نشان تھا۔ جس سال سیدنا مسیح پیدا ہوئے ،افواہ اڑگئی کہ ہیرودیس مرگیا ہے۔ اس پر فریسیوں نے اس طلائی عقاب کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔ جب ہیرودیس کوخبر ہوئی اُس نے سردار کاہن متھیاس کواس کے عہد سے معطل کردیا اورفریسیوں کوزندہ آگ میں جلادیا۔

پس آنخداوند کے زمانہ میں سیاسی اورسماجی حالات کی وجہ سے یونانیت کی لہر بڑی تیز روی سے ارضِ مقدس میں چار سوپھیل گئی۔ خاص یہودیہ کے صوبہ میں اہل یہود کے علاوہ اطالوی۔ ادومی اورمختلف دیگرنسلوں اورقوموں کے لوگ بودوباش رکھتے تھے۔ گلیل کا صوبہ " غیر قوموں کی گلیل" کہلاتا تھا۔ جس میں یونانی فینکی، شامی وغیرہ اقوام آباد تھیں۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے یونانی زبان اوریونانیت روزبروز ترقی حاصل کرتی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں اقتصادی حالات بھی سازگار تھے اوریونانیت کے پھیلنے میں معاون تھے۔ کیونکہ یونانی زبان تجارتی اغراض کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ بالخصوص وہ بندرگاہوں اوراُن شاہراہوں کے اردگرد کے قصبات اوردیہات میں بولی جاتی تھی جو ملک کنعان کوایشیائے کوچک مسوپوٹامیہ اورمصرکے ممالک کے ساتھ ملاتے تھے۔ ان سیاسی، سماجی اوراقتصادی اسباب کا قدرتی نتیجہ یہ تھاکہ یونانی زبان روز افزوں ترقی پر تھی۔ عوام الناس ارامی بولتے تھے پر یونانی سمجھ سکتے تھے اورضرورت کے وقت بات چیت بھی کرلیتے تھے۔ خود سیدنا مسیح کا عالیشان شہر (متی ۹: ۱۔ ۱۱) کفرنحوم ایک ایسی شاہراہ پر تھا۔ ماہی گیروں کی بڑی بندرگاہ ہونے کے علاوہ یہ شہر تین اطراف سے گینسرت کے زرخیز میدان سے گھرا ہوا تھا اور تجارت کا بڑا مرکز تھا۔ علاوہ ازیں وہ اُس شاہراہ پر واقع تھا جودمشق سے لیوینٹ کوجاتی تھی۔ لہذا غلب ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ یونانی زبان سے بھی واقف تھے۔

فصل دوم

زمانہ تصنیفِ اناجیل اربعہ

(۱)

جب حضرت کلمتہ اللہ قریباً "تیس برس" کے ہوئے (لوقا ۳: ۲۳) آپ نے۲۶ء میں"روح کی قوت سے معمور ہوکر" (لوقا ۴: ۱۴) "خداکی خوشخبری" کی تبلیغ کی اورکہا کہ " وقت پورا ہوگیاہے اورخداکی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔ توبہ کرو اورخوشخبری پر ایمان لاؤ" (مرقس ۱: ۱۴) عوام الناس کی بھیڑوں کی بھیڑیں آپ کی خوشخبری کا پیغام سننے کے لئے ہرجگہ جمع ہوجاتیں (متی ۴: ۲۳، ۲۵۔ مرقس ۱: ۳۳، یوحنا ۶: ۱۰، ۲۴، مرقس ۴: ۱ وغیرہ) آپ نے اپنے مقلدین (پیروی کرنے والے)میں سے " بارہ کومقرر کیا تاکہ وہ آپ کے ساتھ رہیں"(مرقس ۳: ۱۴) ۔ یہ بارہ حواری بالعموم مزدورطبقہ کے لوگ اوراہل یہود کے مختلف فرقوں اورگروہوں میں سے تھے۔ لیکن سب کے سب لکھے پڑھے تھے۔ کیونکہ اہل یہودکے ہربچہ کے لئے لکھنا پڑھنا لازمی تھا۔ حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم سن کر" سب لوگ حیران رہ جاتے اورآپس میں یہ کہہ کر بحث کرتے" کہ یہ کیا ہے۔ یہ تونئی تعلیم ہے" کیونکہ آپ اُ ن کوفقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح" تعلیم دیتے تھے" (مرقس ۱: ۲۷۔، متی ۷: ۲۹وغیرہ) نہ صرف صوبہ گلیل کے پس ماندہ لوگ آپ کی تعلیم کوسن کرحیران رہ جاتے تھے۔ بلکہ یہودی علماء اورفضلاء کے خاص گڑھ یروشلیم کے رہنے والے بھی دنگ رہ جاتے اوربے ساختہ پکار اٹھتے کہ" انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا"(یوحنا ۷: ۴۶) ۔دریں حالات آپ کے بعض شیدائیوں اورحواریوں نے جوآپ کے ساتھ شب وروز رہے(متی ۱۷: ۱، یوحنا ۱۵: ۱۵، لوقا ۲۲: ۱۴ وغیرہ)آپ کے کلمات کوقلمبند کرنا شروع کیا جس طرح رسولِ عربی کے بعض معتقدین نے آپ سے سن کر قرآن لکھنا شروع کیا۔ ان حواریوں میں سے بالخصوص حضرت متیؔ آپ کے نادر اورچیدہ برجستہ کلمات کو ارامی میں جمع کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فرگیہ کے شہر ہائراپولس کا بشپ پے پئیس (Papias of Hierapolis1 ) دوسری صدی کے اوائل (۱۳۰ء) میں ہم کو بتلاتا ہے کہ

"متی نے آنخداوند کے کلماتِ کوارامی زبان میں جمع کیا اور لوگ اپنی لیاقت کے مطابق اُن کوسمجھتے تھے"

پے پئیس کی شہادت قابل قدر ہے۔ کیونکہ اُس نے یہ بات اُن لوگوں سے معلوم کی تھی جوحضرت متی کے ساتھی رہ چکے تھے۔ پس کلمتہ اللہ کی حین حیات میں لوگوں نے اوربالخصوص حضرت متی رسول نے آپ کے چند کلمات کوارامی زبان میں جمع کیا۔


(1) https://en.wikipedia.org/wiki/Papias_of_Hierapolis

(۲)

جب حضرت کلمتہ اللہ کومصلوب کیا گیا توواقعہ صلیب کے پچاس روز بعد(اعمال۲: ۱) یعنی دوماہ کے اندر اندر آپ کے حواریوں کی تبلیغی مساعی(کوشش) کی وجہ سے تین ہزار کے قریب لوگ آپ پر ایمان لے آئے(اعمال۲: ۴۱) ۔یہ یہود مختلف ممالک سے عید کے روز یروشلیم میں جمع ہوئے تھے۔ جوپارتھی، مادی، عیلامی، مسوپوٹامیہ، یہودیہ، کپدکیہ، پنطس ، آسیہ ، فروگیہ ، پمفولیہ ، مصر، کرینے ، کریتی اورعرب کے رہنے والوں میں سے تھے(اعمال۲: ۹)۔ اس کے چند روز بعد" ایمانداروں کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہوگئي"(اعمال۴: ۴) ۔ اس کے چند ماہ بعد یہودی نومریدوں کی کلیسیائيں اوردیگر غیریہود کلیسیائیں ارضِ مقدس کے مختلف صوبوں کے شہروں، قصبوں، اورگاؤں میں بڑی تیز رفتاری سے قائم ہوگئیں(اعمال۵: ۲۸، ۸: ۴، ۱۴، ۳۸، ۴۰ ۔ ۹: ۲۰، ۳۱، ۳۲۔ ۱۰: ۲۴، ۲۴، ۴۴، ۴۸۔ ۱۱: ۱۹ وغیرہ)۔ جب واقعہ صلیب کے قریباً چھ سال بعد حضرت پولوس مسیحی کلیسیا کے زمرہ میں داخل ہوگئے (اعمال ۹باب) توآپ نے ارضِ مقدس کے اندر اورباہر رومی سلطنت کے مختلف مقامات میں یہود اور غیر یہود دونوں کوانجیل کا پیغام سنایا اور اپنی شہادت کے وقت تک بتیس( ۳۲)سال محنتِ شاقہ(سخت محنت) کرکے جا بجا کلیسیائیں قائم کردیں۔ جن کوآپ نے وقتاً فوقتاً یونانی زبان میں خطوط بھی لکھے جوانجیل کے مجموعہ میں اب تک محفوظ ہیں۔ دوازدہ رسولوں اورسینکڑوں مسیحی مبلغوں کی تبلیغی مساعی کا یہ نتیجہ ہوا کہ سیدنا مسیح کی وفات کے پینتیس( ۳۵ )سال بعد جب رومی قیصر نیرو نے( ۶۴ء ) میں مسیحیوں کوایذائیں پہنچائیں تواُس وقت تک لوگ لاکھوں کی تعداد میں مسیحی ہوگئے تھے اوررومی سلطنت کے کونہ کونہ میں پائے جاتے تھے۔

(۳)

ان مسیحی کلیسیاؤں کواس بات کی ازحد ضرورت تھی کہ وہ اپنے آقا ومولا کی تعلیم اورواقعات زندگی سے واقف ہوں۔ چنانچہ بہت لوگوں نے آنخداوند کے واقعاتِ زندگی اورپیغامات کوجمع کیا تاکہ ان کلیسیاؤں کی روحانی ضروریات کوپورا کریں۔ چنانچہ مقدس لوقا ہم کوبتلاتاہے کہ " بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جوباتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں اُن کو ترتیب وار بیان کریں جیسا کہ اُنہوں نے جوشروع سے خود دیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے ہم تک پہنچایا"(لوقا ۱: ۱، ۲) ۔ ابتدا میں زیادہ تر وہ لوگ مسیحی کلیسیا میں داخل ہوئے تھے جواہل یہود میں سے تھے۔ کیونکہ اولین مبلغین خودیہودی تھے اوریہ ایک فطرتی بات تھی کہ وہ اپنے آقا کے فرمان کے بموجب پہلے اپنے لوگوں کویہودی کتبِ مقدسہ کی مسیح کی آمد، تعلیم ، صلیبی موت کی ضرورت اورمسیح کی معنی خیز قیامت کی بشارت دیتے(لوقا۲۴: ۴۴۔ ۴۸واعمال ۲: ۲۲۔ ۳۶، ۲۶: ۲۲۔ ۲۳ وغيرہ)۔ ان ایمانداروں کی زبان ارامی تھی جس میں حضرت کلمتہ اللہ نے تعلیم بھی دی تھی اورجس میں حضرت متی نے آپ کے کلمات جمع کر رکھے تھے۔علاوہ ازیں ارامی ایک ادبی زبان تھی۔ جس میں ہرقسم کا لٹریچر اورخاص کریہودی کا مذہبی لٹریچر"ترجم" موجود تھا۔ یہ زبان کئی وجوہ (وجہ کی جمع)سے ادبی زبان ہونے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی۔ کیونکہ اس کی لغت کے الفاظ نہایت وسیع تھے اوراُس نے بہت سی غیر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کررکھے تھے۔ بقول فاضل نولدیکی (Noldeki 1)


(1)https://en.wikipedia.org/wiki/Theodor_N%C3%B6ldeke

اس کی گرامیر پیچیدہ نہ تھی ۔اس کے صرف ونحو کے قواعد آسان، سادہ، اورواضح تھے۔ اس کے فقروں کی ترکیب آزادہ رُوتھی، اوریہ امورقدرتی طورپر صاف سلیس نثرلکھنے میں ممدومعاون تھے

علاوہ ازیں ارامی زبان جاننے والے مسافر کوبحراسود سے بالائی مصر تک اورہندوستان کی حدود سے ایجین کے کناروں تک کسی قسم کی دقت پیش نہ آتی تھی۔ پس یہ زبان اس خاص وقت میں انجیل کے پیغام کے لئے نہایت موزوں تھی اورانجیل نویسوں نے اس میں پہلے پہل اپنے آنخداوند کی تعلیم اورواقعاتِ زندگی کوقلمبند کیا کہ نومرید مسیحی اپنے مذہب کے اصول اور بانی کی زندگی سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔

:اناجیلِ اربعہ کی تاریخ تصنیف

(۱)

ہم نے چاروں انجیلوں کی ادبی اصول تنقید کے مطابق جانچ پڑتال کرکے دیکھا ہے کہ وہ سب کی سب سیدنا مسیح کی وفات کے بعد قریباً دس اورپچیس سال کے درمیانی عرصہ میں لکھی گئیں جب ابھی سیدنا مسیح کے ہمعصر اورچشم دید گواہ زندہ موجود تھے۔ ان میں سے دو انجیلوں کوحضرت کلمتہ اللہ کے رسولوں نے خود لکھا۔ ایک انجیل کو لکھوایا اور چوتھے انجیل نویس نے بڑی کاوش اورجانفشانی کے ساتھ تمام امور کو چشمدید گواہوں اورسولوں سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے لکھا۔ یہ اناجیل پہلی صدی کے نصف میں ارامی زبان میں لکھی گئیں اورسب کی سب اُن نومریدوں کے لئے لکھی گئیں جویہودیت سے مشرف بہ مسیحیت ہوئے تھے۔ ان چاروں انجیلوں میں ایک بھی ایسی نہیں جواُن حالات کی فضا میں سانس نہ لیتی ہوجوارضِ مقدس میں پہلی صدی کے پہلے نصف میں موجود تھے۔ یہ حالات بہت جلدی تبدیل ہوگئے۔ کیونکہ اہل یہود کے رومی سلطنت کے ساتھ جوتعلقات تھے وہ پہلے نصف کے بعدجوجلد بگڑگئے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ طیطس نے ۷۰ء میں یروشلیؔم کا محاصرہ کرکے اس کوسرکرلیا۔ اس کی عظیم الشان ہیکل کوجوصرف( ۵)سال پہلے مکمل ہوئی تھی برباد کردیا۔ یہود یاقتل ہوگئے یا بھاگ گئےکر اطراف وجوانب کے ممالک میں پراگندہ ہوگئے۔ ان حالات کا عکس اناجیل اربعہ میں ہم کو کہیں نہیں ملتا۔ اُن میں ہیکل کی تباہی کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ یروشلیم کی برباد کی پتہ نہیں چلتا۔ ان میں اہل یہود کی پراگندگی اور خستہ حالی کا کہیں بیان نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ تینوں باتیں ایسی تھیں جنکی سیدنا مسیح نے پیشینگوئی کی تھی اور یہ دلیل کلیسیا کے ہاتھوں میں ایک زبردست حربہ ہوتی۔ بالخصوص حضرت متی اس دلیل کا (متی ۲۷: ۲۵ )کے لکھنے کے وقت ضرور فائدہ اٹھاتے۔ لیکن اناجیل اربعہ میں اس قسم کی دلیل کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ یہ معنی خیز خاموشی، اس بات کوثابت کرتی ہے کہ اناجیل اربعہ سب کی سب پہلی صدی کے پہلے نصف کی تصنیفات ہیں۔

(۲)

علاوہ ازیں تمام اناجیل اربعہ کی اصل مخاطب خدا کی برگزیدہ قوم اہل یہود ہے۔ اگرچہ غیر یہود کا کہیں کہیں ذکر ہے اوران کا خداکی بادشاہی میں شامل ہونے کی خبر بھی چاروں انجیلوں میں ہے لیکن ان میں کسی جگہ اس بات کا اشارہ تک موجود نہیں کہ مسیحیت کا مرکزِ ثقلِ ارضِ مقدس سے ہٹ کر غیریہودی ممالک کی طرف منتقل ہوگیاہے(متی ۱۰: ۶، ۲۳؛مرقس ۷: ۲۷؛لوقا ۱۹: ۹؛ ۲۲: ۳۰؛ ۲۴: ۴۷؛ یوحنا ۴: ۴۲ وغیرہ) حالانکہ پہلی صدی کے نصف کے بعد اوربالخصوص( ۷۰ء )کے بعد یہ حالات رونما ہوگئے تھے۔ اگریہ حالات انجیل چہارم کی تصنیف سے پہلے کے ہوتے تومقدس یوحنا بارھویں باب میں ان سے ضرور فائدہ اٹھاتے اور موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ لیکن چاروں انجیلوں میں مسیحیت کا مرکز ارضِ مقدس ہے۔ چاروں انجیلوں میں غیریہود نومریدوں کی خاطر یہودی الفاظ ، رسوم ، اوردستورات کی تشریح کی گئی ہے۔(مرقس ۵: ۴؛ ۷: ۳، ۳۴؛ یوحنا ۱۹: ۳ وغیرہ)۔ کیونکہ غیر یہود بھی پہلی صدی کے پہلے نصف میں مسیحی ہوگئے تھے۔چاروں انجیلوں کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے۔ وہ سب کی سب یہ ثابت کرتی ہیں کہ سیدنا عیسیٰ ہی مسیحِ موعود ہے۔ جس کی خبرتورات، زبور، صحائف انبیاء میں دی گئی ہے اورکہ مسیح موعود کی برکات عالمگیر ہوں گی، جن میں مشرق ومغرب کی اقوام مستقبل زمانہ میں برابر طورپر شریک ہوں گی۔ لیکن ابھی یہ اقوام کلیسیا میں بڑی تعداد میں شامل نہیں ہوئیں۔ ابھی تک مسیحیت کا مرکزِ ثقل ارضِ مقدس اور یروشلیم ہی ہے۔ اناجیل میں جس کلیسیا کی تصویر ہم کو نظر آتی ہے وہ ابھی تک شمار،عقائد اورتنظیم کے لحاظ سے اُسی منزل پر ہے جس کا اعمال الرسل کے ابتدائی ابواب میں ذکر ہے۔ جن کا تعلق پہلی صدی کے پہلے نصف کے اوائل زمانہ کے ساتھ ہے۔


(1)See Also Allen, St Mark (Oxford Church Biblical Commentary) P.3

فصل سوئم

اناجیلِ اربعہ کے یونانی ترجمہ کا زمانہ

(۱)

سطورِ بالا میں ہم بتلاچکےہیں کہ پہلی صدی مسیحی میں ارضِ مقدس کے یہودی کی مادری زبان ارامی تھی اورحضرت کلمتہ اللہ اسی زبان میں تعلیم بھی دیا کرتے تھے (اعمال۱: ۱۹؛ ۲۶: ۱۴؛ ۲۱: ۴؛ ۲۲: ۲ وغیرہ) لیکن اہلِ یہود میں مسیح سے کئی صدیاں قبل ایک ترقی پسند فرقہ پیدا ہوگیا تھا جویونانیت کا عاشق تھا۔ ہیرودیس اعظم کے زمانہ میں اس گروہ کوبہت فروغ حاصل ہوگیا تھا۔ حکامِ وقت یونانیت کے رنگ میں رنگے تھے۔ اوریونانی علم وتہذیب کی اشاعت میں ہردم کوشاں رہتے تھے۔ جویہودی کنعان سے باہر رہتے تھے اُن کی خاطر یہودی کتب سماوی (آسمانی کتاب)کا ترجمہ یونانی میں ہوگیا تھا۔ کیونکہ ان ممالک کے یہودیوں کی زبان یونانی تھی سیدنا مسیح کے صعود ِآسمانی کے دس دن بعد ان یہود میں سے جوپارتھی، عیلامی، مسوپوتامیہ ،کپدکیہ، پنطس ، آسیہ ، فروگیہ ، پمفولیہ، مصر، روم ، کریت ، عرب وغیرہ ممالک میں رہتے تھے۔ تین ہزار کے قریب مسیحی جماعت میں شامل ہوگئے تھے(اعمال ۲: ۹۔ ۴۱) یہ سب کے سب یونانی بولنے والے تھے۔ آنخداوند کی وفات کے بیس سال کے اندر غیر یہودہزاروں کی تعداد میں، مسیحی کلیسیا میں شامل ہوگئے تھے ۔ جہاں خاص یروشلیم میں پہلی صدی کے پہلے نصف میں" یہودیوں میں سے ہزارہا آدمی ایمان لے آئے تھے"(اعمال ۲۱: ۲۰)۔ وہاں اس عرصہ میں غیر یہود نومرید سلطنت روم کے ہرملک میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہوگئے تھے اورروزانہ شمار میں ترقی کررہے تھے۔ پس اس بات کی ضرور ت لاحق ہوئی کہ ان غیر یہود نومریدوں کی خاطر یونانی زبان میں آنخداوند کے کلمات اورسوانح حیات ترجمہ کئے جائيں۔

چنانچہ سب سے پہلے حضرت کلمتہ اللہ کے اُن اقوال اورکلمات کا ترجمہ کیا گیا جوحضرت متی نے ارامی زبان میں جمع کئے تھے۔ چند سال ہوئے محکمہ آثارِ قدیمہ کوملک مصر سے اس کتاب کا ایک قدیم یونانی نسخہ دستیاب ہوا ۔ جب حضرت مرقس نے ارامی انجیل لکھی تواُس کا بھی ترجمہ یونانی میں ہوگیا۔ اس ترجمہ کی بہت سی نقلیں مختلف ممالک کوبھیجی گئیں ۔ یہ ترجمے یونانی بولنے والے مسیحیوں میں ہرجگہ رواج پاکر اس قدر مقبول عام ہوگئے کہ جب حضرت متی کی انجیل کا ترجمہ کیا گیا اورحضرت لوقا نے ارامی ماخذوں کا ترجمہ کرکے اپنی انجیل یونانی زبان میں لکھی تو ان انجیلوں کے مترجموں نے اُن عبارتوں کا جومرقس کی انجیل سے اورکلمات" سے لفظ بلفظ نقل کی گئی تھیں، نیا یونانی ترجمہ نہ کیا بلکہ وہی ترجمہ نقل کردیا جواُن میں موجود تھا۔ چنانچہ جب ہم ان تینوں انجیلوں کے الفاظ کا مقابلہ کرتے ہیں تویہ حقیقت نظر آجاتی ہے کہ جہاں یہ تینوں یونانی اناجیل کسی مقام پر متفق ہیں، ان تینوں کے الفاظ ایک ہی ہیں۔ اسی طرح مقدس یوحنا کی انجیل کا بھی یونانی زبان میں ترجمہ ہوگیا اور وہ ترجمہ ہوتے ہی مقبولِ عام ہوگئی۔

(۲)

ہم اُوپر ذکرکرآئے ہیں کہ پہلی صدی کے نصف کے بعد ارض ِمقدس کے سیاسی حالات دگرگوں ہوگئے۔ یروشلیم برباد ہوگیا ۔ہیکل مسمار ہوکر شہید کی گئی ۔ اہلِ یہود یا مقتول ہوگئے یا روئے زمین پر ابتر ی کی حالت میں پراگندہ ہوگئے۔ ان حالات کی وجہ سے یہودی مسیحی بھی مختلف ممالک میں نقل مکانی کرگئے۔ اب ہرملک کی کلیسیا کی بڑی اکثریت غیر یہود پر مشتمل ہوگئی۔ ان باتوں کا قدرتی نتیجہ یہ ہواکہ ارامی زبان کی رونق پرپانی پھرگیا۔ رفتہ رفتہ دوسری صدی میں ارامی اناجیلِ اربعہ کی نقلیں ہونا بند ہوگئیں اورمختلف دیاروامصار(مصر کی جمع ،بہت سے شہر) میں ان کی معدودے چند(گنتی میں تھوڑے) کاپیاں باقی رہ گئیں جوامتدادِ زمانہ (لمبی مدت)کے ہاتھوں نہ بچ سکیں۔ ممکن ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کومستقبل کے زمانہ میں یہ کاپیاں ہاتھ آجائیں۔ دوسری صدی کے آخر میں ارامی زبان کے یہ نسخے ایسے نایاب ہوگئے تھے کہ جیسا ہم ذکرکرچکے ہیں ۔ جب( ۱۹۰ء) میں سکندریہ کا پینٹینس ہندوستان سے واپس گیا تووہ ایک ارامی نسخہ تبرکاً اپنے ہمراہ لے گیا۔

اب ارامی اصل کی بجائے ان اناجیل اربعہ کے یونانی ترجمے ہرجگہ نقل ہوکر اشاعت پاگئے اوراکنافِ عالم(چاروں سمت) میں پھیل گئے ۔ جن ممالک میں یونانی زبان ان اوائل صدیوں میں رائج نہ تھی ان میں یونانی متن کا ترجمہ کیا گیا۔ چنانچہ تین سو سال کے اندریونانی اناجیلِ اربعہ کا ترجمہ شامی، آرمینی، حبشی، قبطی، لاطینی وغیرہ زبانوں میں ہوگیا اوران ترجموں کے نسخے ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوگئے۔ خدا کی شان ہے کہ وہ زمانہ تھا جب ارامی زبان کا ہرجگہ بول بالا تھا اوراب یہ زمانہ آگیاہے جب لوگ یہ بھی بھول گئے کہ اناجیل ارامی زبان میں لکھی اوریونانی میں ترجمہ کی گئی تھیں !

(۳)

یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ اس زمانہ میں جومصنف اپنے خیالات کواقوامِ عالم تک پہنچانا چاہتا تھا اس کے لئے یہ لازم ہوگیا تھاکہ وہ اُن کویونانی زبان میں ملبوس کرے۔ مثال کے طورپر یہودی مورخ یوسیفس کولے لو۔ یہ شخص ارضِ مقدس کا رہنے والا اورکاہنوں کے ایک مشہور خاندان کا چشم وچراغ تھا۔ اُس نے فریسیوں، صدوقیوں اورایسنیوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ پر وہ یونانیت کا بڑاحامی تھا۔ اُس نے اپن کتاب "تاریخِ جنگ یہود" ارامی زبان میں پارتھی، بابل، عرب اور مسوپوٹامیہ کے یہودیوں کی خاطرلکھی۔ لیکن یونانی زبان بولنے والے ملکوں اور لوگوں کی خاطر اس کویہ کتاب یونانی میں ترجمہ کرنا پڑی۔ وہ کہتاہے کہ اسے اپنی کتاب" انٹی کیٹیز"(Antiquities) کولکھنے کے لئے یونانی میں مہارت حاصل کرنے کیلئے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

"ہمیں اپنی یہودی تاریخ کوایک غیرزبان میں جس سے ہم مانوس نہیں ، ترجمہ کرنا سخت گراں معلوم ہوتاہے۔ میں نے بڑی ہمت اوراستقلال سے کام لے کر اس کتاب کو ختم کیاہے۔جس کو کوئی دوسرا شخص، یہودی یا غیر یہودی اس خوبی سے نہ نباہ سکتا۔ میں نے ازحد کوشش کی کہ یونانی زبان کا علم کماحقہ حاصل کروں۔ پس میں نے یونانی صرف ونحو میں بہت مشق کی۔ اگرچہ میری ذاتی عادات اورقومی حالات اس زبان پر حاوی ہونے میں سدِ راہ تھے"۔

تاہم اس کی یونانی ایسی رواں اورسلیس ہے کہ وہ ترجمہ معلوم نہیں دیتی۔

(۴)

یہ حقیقت قابل غورہے کہ اگرارامی اناجیل اربعہ کا ترجمہ ارضِ مقدس کی بربادی سے قبل یونانی زبان میں نہ کیا جاتا تومسیحیت کی اشاعت کنعان کی حدود سے آگے نہ بڑھتی اوروہ یہودی مسیحیوں تک ہی محدود رہ کر ان کی پراگندگی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اقلیت ہونے کی وجہ سے یا توختم ہوجاتی اور یا سسک سسک کرزندہ رہتی۔ لیکن چونکہ اناجیل ِاربعہ کا یونانی جیسی بین الاقوامی زبان میں مستند ترجمہ ہوگیا تھا، جواب مشرق ومغرب کی مہذب اقوام کی زبان تھی، لہذا مسیحیت کوعروج حاصل ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ پہلی تین صدیوں کے اندر رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم کے مسیحی ہونے سے پہلے رومی قیاصرہ کی پے درپے اورمسلسل ایذارسانیوں کے باوجود روئے زمین پر کوئی ملک اورشہر ایسا نہ تھاجس میں کلیسیا کے پاس انجیل نہ تھی یا جس کی زبان میں یونانی انجیل کا ترجمہ موجود نہ تھا۔

: یونانی ترجمہ کی زبان

اناجیل کے ترجمہ کی زبان وہ ٹکسالی یونانی نہیں جوافلاطون ، ارسطو اوردیگر یونانی فلاسفہ اورادب کے مسلم الثبوت اُستادوں کی زبان ہے بلکہ اس ترجمہ کے یونانی الفاظ اُس یونانی کے ہیں جو کونئی(Koine) کہلاتی ہے۔یعنی وہ یونانی جومسیح سے چار صدیاں بعد یونان کے باہر اُن ممالک میں بولی جاتی تھی جوسکندر اعظم کی فتوحات اورٹولومیوں اورسلوکیوں کی بادشاہیوں کی وجہ سے یونان اوریونانیت نے تسخیر کرلئے تھے۔ محکمہ آثارقدیمہ کی متواتر کوششوں کی طفیل( ۱۸۹۰ء اور ۱۹۰۷ء )کے درمیان آٹھ صدیوں کے نسخے،کتبے، پتھر، دھاتیں اور مٹی کے برتن وغیرہ دستیاب ہوئے ہیں جن سے اس "کوئنی" زبان کا پتہ چلتا ہے جوسلطنت روم میں بھی پہلی صدی میں مروج تھی اورجس میں اناجیل اربعہ کا ترجمہ کیا گیا۔ ان قدیم کا غذات کوپیپائرس(Papyrus) کہتے ہیں۔ جس سے انگریزی لفظ پیپر بمعنی کاغذ نکلا ہے۔ یہ کاغذ پیپائرس کے پودے کے گودے سے بنا ہوتا تھا۔ اورباریک ہونے کے باوجود "اہرام مصر سے زیادہ پائیدار تھا"۔ جس کو صرف پانی اورسیلا پن ہی خراب کرسکتے تھے۔ لیکن مصر کی خشک آب وہوا سے یہ کاغذات صدیوں تک زیر زمین محفوظ رہے۔ ان قدیم کاغذات کی یونانی وہ تھی جوعام طورپر ان آٹھ صدیوں میں یونانی اوررومی سلطنتوں کے ممالکِ محروسہ (ماتحت کیاگیا)میں بولی جاتی تھی۔ یونانی ادیبوں کی ٹکسالی زبان کے مقابلہ میں" کوئنی" گنواری یونانی تھی۔ ان دونوں میں ویسا ہی فرق پایا جاتا ہے جوکسی مسلم الثبوت دہلوی یالکھنوی ادیب کی تحریر اور کسی معمولی لکھے پڑھے پنجابی کی اُردو تحریر میں پایا جاتاہے۔

ان قدیم نسخوں سے علماء اورنقاد کوانجیل کے مجموعہ کتب کے الفاظ اورمحاورات کے اصل معنی اورمطلب معلوم کرنے میں بڑی مددملتی ہے، مثلاً ان کا غذات کے دستیاب ہونے سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھاکہ انجیل متی میں لفظ "کلیسیا" (متی ۱۶: ۱۸؛ ۱۸: ۱۷) سے مسیحی جماعت کی وہ منزل مراد ہے جب اُس نے دوسری صدی میں ترقی کرکے باقاعدہ طورپر منظم صورت اختیار کرلی تھی۔ لیکن ان قدیم کتبوں میں ایک کتبہ ملا ہے جس کی تاریخ( ۱۰۳ء )کی ہے۔ جس نےیہ ثابت کردیاہے کہ یہ لفظ ہرقسم کی جماعت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا خواہ وہ منظم ہویا غیر منظم۔ ان قدیم کاغذات کے ذریعے ہم یہودی صحفِ سماوی (آسمانی صحائف)کے یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ (ترجمہ سبعینیہ) کے الفاظ کے مفہوم کوبھی بہترطورپر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ ترجمہ بھی انہی صدیوں کے دوران میں ہوا تھا۔

: اناجیل اربعہ کے یونانی ترجمہ کی خصوصیت

(۱)

جب ہم یونانی ترجمہ اناجیل کی چھان بین کرتے ہیں توہم کو یہ عجیب بات نظرآتی ہے کہ اگرچہ ان کے مترجم قادرالکلام ادیب ہیں اوریونانی زبان کی لغت اورالفاظ اورگرامر پرحاوی ہیں اورمترادف الفاظ یونانی کے باریک فرق اور امتیاز سے کماحقہ واقف ہیں اوران کا محلِ استعمال بھی جانتے ہیں اورارامی کا ترجمہ عام فہم سلیس یونانی الفاظ میں بھی کرتے ہیں۔ تاہم اُن کے یونانی فقروں کی ساخت اورعبارت کی ترکیب بھدی (بدصورت)ہے اوروہ نہیں جوعام طورپر اُس وقت لکھی یابولی جاتی تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے توالفاظ ومحاورات وغیرہ کے نازک معانی اورمطلب کو ادا کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ لیکن یہ چاروں مترجم ارامی الفاظ ومحاورات اوریونانی زبان دونوں پر قادر ہیں اورصرف وہی عام الفاظ استعمال کرتے ہیں جوموزوں اوردرست ہیں۔ کیونکہ یونانی اُن کی مادری زبان ہے لیکن ا س پربھی اناجیل اربعہ کی عبارت بھدی ۔ بے ڈول اوربے ڈھنگی ہے۔

(۲)

یہی حال عہدِ عتیق کے یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ کا ہے جوعلم وفضل کے مرکز شہرسکندریہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے مترجمین کی بھی مادری زبان یونانی تھی اوروہ عبرانی اوریونانی دونوں زبانوں کے ماہر عالم تھے لیکن پھربھی جس طرح اناجیل اربعہ کے یونانی فقروں کی ساخت بھدی ہے اُسی طرح سیپٹواجنٹ کی عبارت بھی بے ڈھنگی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ صحفِ عتیق اوراناجیل اربعہ دونوں کے ترجموں میں اصل الفاظ کا لحاظ رکھا گیاہے۔یہ حقیقت ہم پر ظاہر ہوجاتی ہے جب ہم عہد عتیق کی کتب کےعبرانی متن کا سیپٹواجنٹ کے یونانی متن سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کتب کے مترجمین عبرانی کتب سماوی کے ایک ایک لفظ کو الہامی مانتے تھے لہذا اُنہوں نے عبرانی عبارت کا نہایت کاوش اورجاں فشانی کے ساتھ لفظی ترجمہ کیا اوراس بات کا خاص خیال رکھا کہ ایسے عام فہم یونانی لفظ مہیا کئے جائیں جوعبرانی لفظ کےمفہوم کوعین درست طورپر ادا کرسکیں خواہ ایسا کرنے میں یونانی عبارت بے ڈول ہی معلوم دے۔ مثلاً مشتے نمونہ از خروارے(بڑے ڈھیر میں سے مٹھی بھر)۔( گنتی ۹: ۱۰ )کا اُردو ترجمہ یہ ہے۔ اگرتم میں سے کوئی آدمی کہیں دُور سفر میں ہو تو بھی وہ خداوند کے لئے عید فسح کرے "۔ اُردو میں عبرانی لفظ" ایش" کا ترجمہ" کوئی آدمی" کیا گیاہے۔ لیکن عبرانی محاورہ کے مطابق جب مُراد ہرآدمی یعنی ایک ایک فرد سے ہو تب یہ مفہوم لفظ" ایش" کودوبارہ لکھنے سے ادا ہوتاہے۔ یعنی" ایش ایش" ۔ پس عبرانی متن میں اس آیت میں آیاہے "ایش ایش" سیپٹواجنٹ کے مترجمن نے اُردو مترجمین کی طرح نہیں کیا بلکہ عبرانی کا لفظی ترجمہ کرکے یونانی میں" این تھروس۔ این تھروس" یعنی" آدمی آدمی" کردیاہے۔ حالانکہ یہ یونانی زبان کے محاورہ اورقواعد کے سراسر خلاف ہے۔ کوئی سلیم ِالعقل(دانا) شخص یہ خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا کہ اس قسم کی یونانی سکندریہ جیسے دارالعلوم میں لکھی یا بولی جاتی تھی۔ لیکن ان مترجمین کویہ احساس تھاکہ وہ ایک الہامی کتاب کے الہامی الفاظ کا ترجمہ کررہے ہیں۔ پس اُنہوں نے یونانی محاورہ کی طرف سے لاپرواہ ہوکر ایسا ترجمہ کیا جولفظی تھا اوریوں اصل عبرانی متن کے ایک ایک لفظ کوترجمہ کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھا۔

اناجیل ا ربعہ کے مترجمین کوبھی اس بات کا احساس تھاکہ وہ کسی معمولی قسم کی کتابوں کا ترجمہ نہیں کرتے۔ ان کا یہ ایمان تھاکہ وہ ایسی کتابوں کا ترجمہ کرتے ہیں جن میں اُن کی نجات کے بانی کواپنی زبان کے الفاظ اورواقعاتِ زندگی اورموت محفوظ ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کتابیں مقدس کتابیں تھیں اوریہودی صحفِ سماوی سے کئی گنازیادہ قابلِ سند تھیں(متی۱۲: ۶، ۴۱، ۴۲؛یوحنا ۱: ۱۔ ۱۸؛عبرانیوں ۱: ۱ ۔ ۲ ؛ ۲۔پطرس ۱: ۲۰۔ ۲۱؛ ۳: ۲، ۱۵ وغیرہ)پس اُنہوں نے سیپٹواجنٹ کے مترجمین کا نمونہ اختیار کیا۔ اُنہو ں نے یونانی زبان کے محاورہ ، گرامر اورفقروں کی ساخت اورترکیب کے قواعد وبالائے طاق رکھ دیا اورسخت پابندی کے ساتھ اصل ارامی کا موزوں عام فہم یونانی الفاظ میں ترجمہ کردیا۔ اس یونانی ترجمہ کی عبارت اہل قلم ادیبوں کی نظروں میں بھدی اوربے ڈول ہے۔ کوئی یونانی ادیب اس قسم کی عبارت نہیں لکھ سکتا تھا جس کے الفاظ توعام فہم ہوں لیکن فقرے یونانی محاورات اوراصولِ گرامر کی طرف سے بے نیاز ہوں۔ لیکن اس قسم کا ترجمہ اناجیلِ اربعہ کے چاروں مترجموں کے مقصد کوکماحقہ (جیسااس کاحق ہے)پورا کرتا تھا۔

(۳)

اس بات کو ہم شاہ عبدالقادر اورشاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے قرآنی ترجموں کی مثال سے کچھ کچھ سمجھ سکتے ہیں۔اگرچہ ارامی اوریونانی، عربی اوراُردو زبانوں کے قواعد گرامر اورانشاء پردازی میں بڑافرق ہے۔ شاہ رفیع الدین (سورہ بقرہ) کی ابتدائی آیات کا تحت اللفظی ترجمہ یوں کرتے ہیں "یہ کتاب نہیں شک بیچ اس کے راہ دکھاتی ہے۔ واسطے پرہیزگاروں کے وہ جو ایمان لاتے ہیں ساتھ غیب کے اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اوراس چیز سے کہ دی ہے ہم نےاُن کوخرچ کرتے ہیں اورجولوگ کہ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس چیز سے کہ اتاری گئی ہے طرف تیری اورجوکچھ اتُاری ہے پہلے تجھ سے اورساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اوپر ہدایت کے ہیں پروردگار اپنے سے اوریہ لوگ وہی ہیں چھٹکارا پانے والے" وغیرہ وغیرہ۔ شاہ صاحب مرحوم دہلوی تھے۔ ٹکسالی اُردو بولنے تھے۔ اُردو اورعربی دونوں زبانوں پر حاوی تھے۔ کوئی واقف کار شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُن کے زمانے میں اس قسم کی "گلابی اردو" لکھی یابولی جاتی تھی لیکن وہ ایک ایسی کتاب کا تحت اللفظی ترجمہ کررہے تھے جس کے ایک ایک لفظ کووہ اللہ سے منسوب کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سب کے سب الفاظ عام فہم ہیں۔ اورگومترجم ایک عالم شخص ہے لیکن فقروں کی ترکیب اور ساخت اوراُردو انشاپردازی کی طرف سے لاپرواہ ہے۔ اگرچہ اناجیل اربعہ کا یونانی ترجمہ اس قسم" کی گلابی " یونانی کا ساتحت اللفظی ترجمہ نہیں ہے تاہم اس مثال سے ہم کو مترجمین کے خیالات اورنکتہ نگاہ کوسمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اناجیلِ اربعہ کے یونانی مترجم بھی ایسی ہی ذہنیت کے مالک تھے۔ اُنہوں نے یونانی قواعد انشاپردازی کوپسِ پشت پھینک دیا اوراصل ارامی متن کا عام فہم یونانی فقروں میں ارامی الفاظ کا ترجمہ کردیا۔

: اناجیلِ اربعہ کےمتن کی صحت

(۱)

اس "غلامانہ" لفظی ترجمہ سے دو فائدے ضرور ہوئے۔ اول۔ چونکہ یہ مترجمین ارامی اوریونانی دونوں زبانوں میں مہارت نامہ رکھتے تھے انہوں نے لفظی ترجمہ کرتے وقت اس بات کا سخت پابندی کے ساتھ خاص خیال رکھاکہ یونانی کے صرف وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جوارامی الفاظ کے مفہوم کو کماحقہ بطرزاحسن ٹھیک اور درست طورپر ادا کرسکیں۔ ترجمہ کرتے وقت اُنہوں نے الفاظ کے نازک فرق کو اورمترادف الفاظ کے باریک امتیازات کوملحوظِ خاطر رکھا۔ پس اُن کے یونانی الفاظ نہایت صحت کے ساتھ ارامی اصل مطالب کوادا کرتے ہیں اورہم اس بیسویں صدی کے درمیان اصل ارامی متن کو جان سکتے ہیں اورمعلوم کرسکتے ہیں کہ پہلی صدی کے اوائل میں حضرت کلمتہ اللہ نے کیا کہا تھا اورکیا کیا تھا۔پس یہ لفظی یونانی ترجمہ اصل ارامی متن کی صحت کا زندہ جیتا جاگتا ضامن ہے۔ جس طرح ترجمہ سیپٹواجنٹ عہدِ عتیق کے عبرانی متن کا محافظ ہے۔

(۲)

اناجیلِ اربعہ کے ان مترجمین کی فاضلانہ کوششوں کی طفیل ہمارے زمانہ کے نقاد اور محقق آج اس قابل ہیں کہ موجودہ یونانی اناجیل کے متن کے الفاظ کے ذریعہ وہ اُن اصل ارامی الفاظ کومعلوم کرسکیں، جن کا وہ لفظی ترجم ہیں۔ چنانچہ ہمارے زمانہ کے بعض علماء نے جوارامی اوریونانی دونوں زبانوں کے ماہر ہیں اناجیلِ اربعہ کے یونانی الفاظ کا پھردوبارہ ارامی زبان میں لفظی ترجمہ کرکے اصل ارامی اناجیل کے متن کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایسا ایک ترجمہ اس وقت میری میز پر رکھاہے۔ جس کا مترجم امریکہ کا مشہور فاضل پروفیسر ٹوری(Prof Torrey) ہے۔

: انجیل کےمجموعہ کے باقی رسائل

پہلی صدی کے نصف کے بعد دوازدہ رسل کی کوششوں کی طفیل اورصدہا مسیحی مبلغین کی مساعی جمیلہ کی بدولت غیریہود کثرت سے کلیسیا میں شامل ہوگئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسولوں اورمبلغوں نے جوخطوط مختلف کلیسیاؤں کوپہلی صدی کے نصف حصہ کے بعد لکھے وہ اُن کویونانی زبان میں لکھنے پڑے۔ ان خطوط میں تیرہ (۱۳)خط مقدس پولوس نے لکھے۔ دومقدس پطر س نے لکھے۔ تین مقدس یوحنا نے لکھے۔ ایک خط حضرت کلمتہ اللہ کے بھائی حضرت یعقوب نے لکھا۔ یہ تمام خطوط اوررسائل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھے گئے اوراب تک انجیل کے مجموعہ میں محفوظ ہیں۔

حصّہ دوم

تمہید

ہم نے پہلے حصہ میں شرح اوربسط کے ساتھ ڈاکٹر ٹوری کے نظریہ کوبیان کیاہے کہ اناجیلِ اربعہ پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئیں اوربعد میں ان ارامی انجیلوں کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس نظریہ کی تائید میں اس جّید عالم نے اناجیل کا نیا ترجمہ اورایک مشرح کتاب اورمتعدد مضامین شائع کئے ہیں ۔ 1

چند دیگرعلماء بھی ڈاکٹر ٹوری کے ہمنوا ہوکر یہی کہتے ہیں کہ اناجیل اوّل اوّل ارامی زبان میں لکھی گئیں اوریہ ایک قدرتی بات معلوم دیتی ہے کہ کیونکہ سیدنا عیسیٰ مسیح کی اورآپ کے بارہ رسولوں کی مادری زبان ارامی تھی اوراولین نومرید ارامی بولنے والے یہودی تھے۔ جن کی خاطر یہ اناجیل احاطہ تحریر میں آئیں۔ چنانچہ آرچڈیکن ایلن(Allen) انجیل دوئم کی نسبت لکھتے ہیں کہ

’’موجودہ یونانی انجیل اصل ارامی انجیل مرقس کا ترجمہ ہے‘‘ ۔2

پروفیسر برنی نے ایک مبسوط کتاب لکھ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ انجیل چہارم پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھی جس کابعد میں یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا -3اسی قابل مصنف نے ایک اورکتاب میں یہ ثابت کیاہے کہ اناجیلِ اربعہ بالخصوص مقدس متی کی انجیل ،عبرانی علم ادب کی صنعتوں سے معمور ہے -4مشہور نقاد ڈالمین (Dalman) نے اپنی کتاب5 میں ثابت کیاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کی اصل زبان ارامی ہے جن کو یونانی لباس پہنایا گیا ہے۔ دیگرعلمائے مغرب ڈاکٹر ٹوری اور پروفیسر برنی کی طرح یہ کہنے کو تیار نہیں کہ اناجیل اربعہ اول سے آخر تک تمام کی تمام پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ لیکن اِن علماء کی تقریب قریب سب جماعت اس امر پر متفق ہے۔ کہ اناجیل اربعہ کے ماخذ کم وبیش سب کے سب ارامی میں تھے جن کویونانی لباس پہنایا گیاہے ۔6


(1) Torrey, The Four Gospels. Also, Our Translated Gospels. (2)St. Mark Oxford Church Biblical Commentary (Preface and Introduction) (3)Burney, The Aramaic Origin of the Fourth Gospel Clarendon Press 1922 (4)Burney, The Poetry of Our Lord Oxford 1925 (5)Dalman, The Words of Jesus, T&T Clark, Edinburgh 1902. (6)Black, Aramaic Approach to the Gospels and Acts,(Clarendon Press 1946)

پروفیسر ٹوری نے اپنی کتابوں میں یہ ثابت کیاہے کہ یونانی اناجیل اربعہ جن آیات کی ہم کوسمجھ نہیں آتی وہ سب کی سب درحقیقت اصل ارامی متن کا غلط یونانی ترجمہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آنے کی وجہ یہی ہے۔ کہ یونانی اناجیل کے مترجموں نے ان آیات کے کسی ارامی لفظ کا صحیح ترجمہ نہیں کیا۔ جس سے اصل مطلب خبط (دیوانگی)ہوگیاہے۔ پس اس جید عالم نے (جوارامی اوریونانی دونوں زبانوں کا ماہر ہے) ایسے یونانی الفاظ کا پھر سے ارامی زبان میں دوبارہ ترجمہ کرکے غلطی کھانے کی اصل وجہ دریافت کرکے اس خاص لفظ کی ارامی زبان میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے مترجم کودھوکا ہوا اورجس کا اُس نے ایسا ترجمہ کردیا۔ جواصل ارامی کے مطلب کوادا نہیں کرتا اوراس غلط ترجمہ کا نتیجہ یہ ہواہے کہ اس خاص آیت کوسمجھنے میں دِقت پیش آتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر ٹوری اورپروفیسر برنی کے ثبوت وزن رکھتے ہیں۔ رسالہ اس حصہ سے ناظرین ڈاکٹر موصوف کے نئے ترجمہ کودیکھ کرخود محسوس کریں گے کہ ان کے خیالات نہایت معقول ہیں۔ اگرصاحب موصوف کی یہ کوشش کامیاب ہوجائے توان کا یہ نظریہ پایہ ثبوت کوپہنچ جاتاہے کہ یونانی اناجیل اربعہ درحقیقت ارامی اصل متن کا ترجمہ ہیں۔

میں نے ذیل میں اناجیل اربعہ کی صرف تہتر(۷۳ )مشکل اورپیچیدہ آیات کا ترجمہ کیاہے۔ تاکہ جس طرح مجھے ڈاکٹر ٹوری کی کتب کے مطالعہ سے ان آیات کا اصل مطلب سمجھنے میں مدد ملی ہے ، اُردو خوان ناظرین کی مشکلات بھی رفع ہوجائيں اوروہ انجیل جلیل کی ان آیات کے اصل مفہوم کومعلوم کرکے انجیل جلیل کے مطالعہ سے مستفید ہوسکیں۔

اناجیلِ اربعہ کی چند آیات کا نیا ترجمہ

- (لوقا۱۶: ۸تا۹)

"اورمالک نے بے ایمان مختار کی تعریف کی اس لئے کہ اُس نے ہوشیاری کی تھی۔ اورمیں تم سے کہتاہوں کہ ناراستی کی دولت سے اپنے لئے دوست پیدا کرو تاکہ جب وہ باقی رہے تویہ تم کو ہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں"(لوقا۱۶: ۸تا۹)۔

ان آیات کا موجودہ ترجمہ سیدنا مسیح کی تعلیم کے عین ضد (اُلٹ)ہے۔ کیونکہ ان سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ آپ ایک بے ایمان اورخائن (خیانت کرنے والا)مختار کی بددیانتی کواپنے شاگردوں کے لئے ایک نمونہ بتلاتے ہیں۔ لہذا مفسرین ہرممکن طورپر کوشش کرتے ہیں کہ ان آیات کی ایسی تاویل کی جائے جوانجیل جلیل کی تعلیم کے مطابق ہو۔ لیکن جہاں تک راقم الحروف کا مطالعہ ہے یہ کوششیں بیکارثابت ہوئی ہیں۔

پروفیسر ٹوری صاحب کا یہ نظریہ ہے کہ

’’اِن آیات کایونانی متن ارامی متن کا غلط ترجمہ ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ارامی زبان میں استفہامیہ نشان نہیں پایا جاتاتھالیکن سیاق وسباق کے ذریعے پڑھنے والے پرظاہرہوجاتا تھا کہ فقرہ بیانیہ ہے یا کہ استفہامیہ ہے‘‘۔

روزمرہ کی گفتگو میں بھی ہم کسی استفہامیہ فقرے یاسوال کولفظ" کیاہے" سے شروع نہیں کیا کرتے بلکہ بولنے والے کا لہجہ اوراندازِ خطاب ظاہر کردیتاہے کہ فقرہ بیانیہ ہے یااستفہامیہ ۔ مثلاً جب کوئی کہتا ہے" میں کہتاہوں ۔ پانی پی لو" اس فقرے سے دوباتیں مراد ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ بولنے والے نے حکم یاصلاح دی تھی لیکن اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے۔ "کیا میں کہتاہوں کہ پانی پی لو؟" اوربولنے والے کامطلب یہ ہوتاہے کہ میں یہ نہیں کہتا۔ اس صورت میں یہ فقرہ بیانیہ ہونے کی بجائے استفہامیہ ہوجاتاہے ۔ جس کا جواب نفی میں ہوتاہے لیکن یہ بات کہنے والے کےلہجے پر منحصر ہے کہ فقرہ کو بیانیہ سمجھا جائے یا استفہامیہ سمجھا جائے۔

پس جب کلمتہ اللہ نے ارامی زبان میں آیات ۸ اور۹ کواپنی زبانِ مبارک سے فرمایا توآپ کا درحقیقت یہ کہنے کا منشا تھا"۔ کیا مالک نے بے ایمان مختار کی تعریف کی اس لئے کہ اُس نے ہوشیاری کی تھی؟(ہرگز نہیں) اورکیا میں تم سے کہتاہوں کہ ناراستی کی دولت سے اپنے لئے دوست پیدا کرو؟(ہرگزنہیں"۔

پس اس نظریہ سے یہ ان آیات کامطلب صاف اور واضح ہوجاتاہے جوانجیل جلیل کی اخلاقی اورروحانی تعلیم کے عین مطابق بھی ہے۔ اس مقام میں کلمتہ اللہ اپنے شاگردوں کوایمانداری کاسبق دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان امور کا جواُن کے سپرد کئے گئے ہیں صحیح استعمال کریں۔ کیونکہ اندیشہ ہے کہ اُن کے غلط استعمال سے وہ اُن کوہاتھ سے کھوبیٹھیں گے اوراگروہ اپنی دنیاوی ترقی اورنفس پروری کی خاطر ان کا غلط استعمال کریں گے توان کا نقصان کریں گے۔ اس سبق کوذہن نشین کرنے کے لئے کلمتہ اللہ نے حسب عادت ایک تمثیل کے ذریعہ ان کوتعلیم دی جوطنز آمیز ہے۔اورطنزیفانہ پیرائے(رمز کے ساتھ بیان کرنا) میں بیان کی گئی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگراس جہان کے فرزند ہوشیاراورچالاک ہوں تووہ اپنی مختاری کوبددیانتی سے اپنی دنیاوی ترقی کا وسیلہ بنالیتے ہیں لیکن نور کے فرزند یہ غلط خیال رکھتے ہیں کہ وہ خدا اوردولت دونوں کی خدمت کرسکتے ہیں۔ کیا ان کے دوست جن کو وہ رشوت دیتے ہیں یہ ذمہ لے سکتے ہیں کہ وہ ان کوفردوس میں جگہ دیں گے؟ جب دولت جیسی معمولی شے اپنا بُرا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہ سکتی اوروہ نا راست دولت کے معاملہ میں دیانت دار نہ ٹھہرے توکون ہے جوحقیقی دولت کواُن کے سپرد کردے گا؟ پس آیات(لوقا ۸ تا ۱۳ )یوں پڑھی جانی چاہیئں:

(جب بے ایمان مختار نے اپنے مالک کواس طرح دغادی) توکیا مالک نے بے ایمان کی تعریف کی ہوگی۔ اس لئے کہ اُس نے ہوشیاری کی تھی؟ (کیونکہ اس جہان کے فرزند اپنے ہم جنسوں کے ساتھ معاملات میں نور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں)؟(ہرگز نہیں) اورکیا میں تم سے کہتاہوں کہ ناراستی کی دولت سے اپنے لئے دوست پیدا کرو تاکہ جب وہ جاتی رہے تویہ تم کوہمیشہ کے لئے مسکنوں میں جگہ دیں؟ (ہرگز نہیں)۔ جوتھوڑے سے تھوڑے میں دیانت دار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار ہے اورجوتھوڑے سے تھوڑے میں بددیانت ہے وہ بہت میں بھی بددیانت ہے۔ پس جب تم ناراست دولت میں دیانت دار نہ ٹھہرے توحقیقی دولت کون تمہارے سپرد کرے گا؟ اوراگر تم بیگانے مال میں دیانتدار نہ ٹھہرے توجوتمہارا اپنا ہے اسے کون تمہیں دے گا؟ کوئی نوکردومالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ تم خدا اوردولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔

متی ۲۶باب ۴۵آیت ۔ مرقس ۱۴باب ۴۱آیت

موجودہ ترجمہ کے مطابق باغ گتسمنی میں جانکنی کے وقت خداوند اپنے تین مقرب شاگردوں کوحکم دیتے ہیں "اب سوتے رہو اورآرام کرو"۔ حالانکہ اس سے قبل آپ نے اُن کو حکم دیا تھا تم یہاں ٹھہرو اورجاگتے رہو"(آیت ۳۵)۔ اورجب اُن کو خلافِ توقع سوتا پایا توفرمایا تھا" اے شمعون توسوتا ہے ؟ کیا توایک گھڑی بھی نہ جاگ سکا،(آیت ۳۷)۔ پھرتعجب یہ ہے کہ سونے اورآرام دینے کا حکم دیتے ہیں اور حکم دینے کے عین بعد فرماتے ہیں۔ "بس وقت آپہنچا اٹھو"(آیات ۴۱، ۴۲) یہ کیوں؟

ناظرین کویادہوگا کہ ہم نے (لوقا ۱۶باب کی ۸تا ۹آیت) پر بحث کرتے وقت یہ بتلایا تھاکہ ارامی زبان میں استفہامیہ نشان نہیں تھا۔ لیکن سیاق وسباق کے ذریعے پڑھنے والے پر ظاہر ہوجاتا تھا کہ فقرہ بیانیہ ہے یا استفہامیہ ، آیت زیربحث بھی درحیقیقت استفہامیہ ہے۔ اس مقام میں آنخداوند اپنے مقرب شاگردوں کوسونے کا حکم نہیں دیتے۔ بلکہ سوال کرتے ہیں۔ "کیا تم اب بھی سوتے اورآرام کرتے رہوگے"؟

جرمن نقاد ولہاسن کا بھی یہی خیال ہے 1۔ اس نظریہ کو(لوقا ۲۲باب کی ۴۶آیت) سے بھی تقویت ملتی ہے۔ جہاں سیدنا عیسیٰ ان سے سوال کرتے ہیں" تم سوتے کیوں ہو"؟

پس ان آیات کا صحیح اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

"پھر وہ ایک جگہ آئے جس کا نام گتسمنی تھا۔ اوراُس نے اپنے شاگردوں سے کہا"تم یہاں ٹھہرو اورجاگتے رہو" اوروہ تھوڑا آگے بڑھا اورزمین پرگرکردعا مانگنے لگا۔ پھروہ آیا اورانہیں سوتا پاکر پطرس سے کہا" اے شمعون توسوتاہے ؟ کیا توایک گھڑی بھی نہ جاگ سکا؟ جاگو اوردعا مانگو تاکہ(بوقتِ) امتحان (جوقریب ہے) تم گر نہ جاؤ"پھر وہ چلا گیا اورپھرآکر اُنہیں سوتے پایا۔ اوروہ اُنہیں چھوڑکرپھرچلا گیا۔ پھر تیسری بار اُن سے کہا کیا تم اب بھی سوتے اورآرام کرتے رہوگے؟بس وقت آپہنچاہے ۔۔(مرقس ۱۴باب کی ۳۲۔ ۴۲آیت۔


1 McNeil, St. Matthew p.392

یوحنا۶باب کی ۳۲آیت

" میں تم سے سچ کہتاہوں کہ موسیٰ نے تمہیں آسمانی روٹی نہ دی۔ لیکن میرا باپ تم کو حقیقی روٹی آسمان سے دیتاہے"۔

موجودہ ترجمہ کے مطابق سیدنا مسیح ایک صریح واقعہ کا انکار کرتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعہ کا انکار آپ کی دلیل کے لئے ضروری نہ تھا اورنہ آپ کے مخالفوں نے حضرت موسیٰ کا نام ہی لیا تھا۔ ان باتوں کے برعکس اس واقعہ کا تسلیم کرنا ہی آپ کی دلیل کی بنیاد تھی۔ بنابریں متن کا یہ یونانی ترجمہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔

ہم بتلاچکے ہیں کہ ارامی زبان میں استفہامیہ نشان نہ تھا۔ لیکن اہلِ زبان پڑھتے وقت سمجھ جاتے تھے کہ فلاں فقرہ بیانیہ ہے یا استفہامیہ۔ سوال کی صورت اورپوچھنے کا انداز اوربولنے والے کا طریقہ خطاب سامعین پرخود ظاہر کردیتا تھا کہ فقرہ استفہامیہ کا جواب "ہاں" ہے یا" نہیں" ۔ مثلاً اگربولنےیا پڑھنے والا کہے" بادشاہ صاحب قدرت نہیں ہے"تواگر اس کااندازِ خطاب سوالیہ ہوگا تو اس کامطلب یہ ہوگا "کیابادشاہ قدرت والا نہیں ہے"؟ اوراس کا جواب سامعین کے دلوں میں ہوگا" ہاں وہ ضرورقدرت والا ہے"۔ لیکن اگر اُس کا اندازِ خطاب سوالیہ نہیں ہوگا تویہ جملہ بیانیہ ہوگا کہ بادشاہ قدرت والا شخص نہیں ہے۔

پروفیسر ٹوری کے مطابق یہ آیت بیانیہ نہیں جیسا کہ موجودہ ترجمہ ظاہر کرتاہے۔ بلکہ استفہامیہ ہے۔ فصیح ارامی مقرر عموماً ایسا سوال کرتے تھے۔ جس کا جواب مخالف وموالف کے نزدیک مسلم ہوتا۔ پھروہ اس مسلم جواب کو اپنی دلیل کی بنیاد قرار دے کرے بحث کرتے تھے۔ اوراپنے دعویٰ کوثابت کرتے تھے مثلاً (زبور۹۴: ۸۔ ۱۱۔ امثال ۶: ۲۷ )وغیرہ۔ سیدنا مسیح نے یہی طرز اختیارفرمایا۔ آپ یہودی سامعین سے فرماتے ہیں "۔ میں تم سے ایک سچی بات کرتاہوں۔ کیا موسیٰ نے تم کو روٹی آسمان سے نہ دی تھی؟ (ہاں ۔ ضروردی تھی) لیکن (اب)میرا باپ تم کو (بغیر کسی انسانی وسیلہ کے) آسمان سے حقیقی روٹی بخشتاہے"۔

آنخداوند اکثر اس قسم کی دلیل سے مخالفین کا منہ بند کیا کرتے تھے۔ مثلاً اسی انجیل کے اگلے باب میں آپ شقی یہود سے پوچھتے ہیں۔ کیا موسیٰ نے تمہیں شریعت نہیں دی؟(ہاں۔ ضرور دی) توبھی تم میں سے شریعت پرکوئی عمل نہیں کرتا۔ تم کیوں میرے قتل کی کوشش میں ہو"(۷باب ۱۹آیت)۔


1 The end and the hour are pressing (Black, An Aramaic Approach to the Gospels p.162

:پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہوا

"سیدنا عیسیٰ نے اُن سے کہا۔ کیا موسیٰ نے وہ روٹی تم کو آسمان سے نہ دی تھی؟ لیکن میں تم سے سچ سچ کہتاہوں کہ میرا باپ آسمان سے تمہیں حقیقی روٹی دیتاہے"۔

یوحنا۷باب ۲۷سے ۲۸آیت

" اس کو توہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے ہے پر مسیح جب آئے گا ۔تب کوئی نہیں جانے گا کہ وہ کہاں سے ہے ۔ یسوع نے ہیکل میں تعلیم دیتے وقت پکار کرکہا۔ تم مجھے جانتے ہو۔ اوریہ بھی کہ میں کہاں سے ہوں۔ میں توآپ سے نہیں آیا لیکن میرا بھیجنے والا سچا ہے ۔ جسے تم نہیں جانتے"۔

موجودہ متن کے مطابق اس مقام میں اہل یہود کہتے ہیں کہ وہ خداوند کو جانتے ہیں اور خداوند بھی اس بات کا اقبال کرتے ہیں کہ اہل یہود آپ کو جانتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ خدا سچاہے۔ جومتنازعیہ فیہ بات ہی نہ تھی اورجس کا اہل یہود نے انکار بھی نہیں کیا تھا۔ علاوہ ازیں اس کے بعد ہی آپ فرماتے ہیں کہ یہود آپ کونہیں جانتے (۸: ۱۴تا ۱۹)۔ ان مشکلات کی بناء پرٹوری صاحب خیال کرتے ہیں کہ متن کا موجودہ یونانی ترجمہ غلط ہے۔ بلکہ اصل ارامی کلمہ جوسیدنا مسیح نے زبانِ مبارک سے فرمایا تھا وہ بیانیہ نہیں تھا۔ بلکہ درحقیقت استفہامیہ تھا۔ جس کا جواب نفی میں تھا۔ ڈاکٹر ٹوری کا ترجمہ دونوں مشکلوں کودُور کردیتا ہے آپ کے خیال میں صحیح ترجمہ یہ ہے:

"یہود کہنے لگے کہ" اس کو توہم جانتے ہیں کہ کہاں کا ہے۔ مگرمسیح جب آئیگا توکوئی نہ جانے گا کہ وہ کہاں کا ہے۔ پس یسوع نے ہیکل میں تعلیم دیتے وقت پکار کرکہا" کیا تم نہیں جانتے ہو؟ اورکیا تم یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ میں کہاں کا ہوں؟ (ہرگز نہیں) لیکن حق تویہ ہے کہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ جس نے مجھے بھیجا ہےاس کوتم نہیں جانتے"۔

یوحنا۱۱باب ۴۹آیت

" ان میں سے کائفا نام ایک آدمی جو اس سال سردار کاہن تھا اُس نے کہا تم کچھ نہیں جانتے ہو اوریہ سوچتے نہیں ہوکہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے اورساری قوم ہلاک نہ ہو"۔

ڈاکٹر ٹوری کے مطابق یہ فقرہ بھی استفہامیہ ہے یابیانیہ نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ فقرہ استفہامیہ مان لیا جائے تووہ زیادہ موثر ہوجاتاہے۔ اورانجیل نویس کے مقصد کوبہتر طورپر ادا کرتاہے۔ چنانچہ یہ ترجمہ یوں ہوگا:

"کیا تم کچھ سوجھ نہیں رکھتے؟ کیا تم یہ سوچ نہیں سکتے کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو"؟

یوحنا۱۲باب ۷آیت

" اسے یہ عطر میرے دفن کے لئے رکھنے دے"

یہاں عجیب بات یہ ہے کہ عورت نے عطر کویسوع کے پاؤں پر ڈال دیا تھا۔ لیکن آنخداوند یہودا غدار کوفرماتے ہیں کہ اسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لئے رکھنے دے۔ جب عطر ختم ہوچکا ہے تووہ کس طرح رکھا جاسکتا ہے؟ پروفیسر ٹوری کے مطابق ارامی اصل کا یہ یونانی ترجمہ غلط ہے صحیح ترجمہ یہ ہے:

"اسے (یعنی عورت کو) رہنے دو۔ کیاوہ یہ عطر میرے دفن کے دن لئے رکھ چھوڑے"؟ پس اصل ارامی فقرہ بیانیہ نہیں بلکہ استفہامیہ ہے۔

مرقس ۴: ۱۲۔ لوقا ۸: ۱۰۔ متی ۱۳: ۱۳

"ان کے لئے جوباہر ہیں سب باتیں تمثلیوں میں ہوتی ہیں تاکہ وہ دیکھتے ہوئے دیکھیں اور معلوم نہ کریں اورسنتے ہوئے سنیں اور نہ سمجھیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ رجوع لائیں اور معافی پائیں"۔

اہل یہود کی کتب مقدسہ میں خدا کے اصل مقصد اوراس کے اٹل قوانین کے نتائج میں تمیز نہیں کی گئی۔ ہرواقعہ خدا کے مقصد اور ارادہ کا ظہور تصور کیا جاتا تھا ۔ اگراہل یہود تائب ہوکرخدا کے پاس نہیں آتے تویہ سمجھا جاتا تھا کہ خدا کا یہی ارادہ تھا کہ وہ نجات نہ پائيں۔ چنانچہ یسعیاہ نبی کہتاہے "خدا نے مجھے فرمایا کہ جا اوراُن لوگوں سے کہہ کہ تم سنا کرو اورسمجھونہیں۔ تم دیکھا کروپربوجھو نہیں۔ توان لوگوں کے دلوں کوچربادے اوران کے کانوں کوبھاری کراوراُن کی آنکھیں بندکردے تاکہ نہ ہو کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اوراپنے کانوں سے سنیں اور اپنے دلوں سے سمجھ لیں اوربازآئيں اورشفا پائيں(یسعیاہ ۶: ۹تا ۱۰) نیزد یکھو(۲۔تواریخ ۱۱: ۴)۔

بعینہ یہی سوال مقدس پولوس اوردیگر یہودی مسیحیوں کے سامنے تھا۔ اُن کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھاکہ جب مسیح اہل یہود کے پاس آیا تواس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔ پس اُنہوں نے بھی اہل یہود کےانبیاء کے حل کوتسلیم کرلیا کہ خدا کی مرضی یہ نہیں تھی کہ وہ نجات سے بہرہ ور ہوں(اعمال ۲۸: ۲۵۔ ۳۸، یوحنا ۱۲: ۳۸۔ ۴۰ وغيرہ)۔

لیکن اناجیلِ اربعہ کا سطحی مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتا ہے کہ سیدنا مسیح اس قسم کے خیال رکھنے والے انسان نہ تھے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کل بنی نوع انسان کونجات دینے کے لئے اس دنیا میں آئے۔ آپ کو یہ زبردست احساس تھا کہ خدا کی یہ مرضی نہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اس نجات سے بے بہرہ رہے(یوحنا۱۲: ۴۶۔ ۳: ۱۶ وغیرہ)۔

لیکن اس کے برعکس زیربحث آیات (متی ۱۳: ۱۳۔ مرقس ۴: ۱۲۔ لوقا ۸: ۱۰)۔ سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کی تمثلیوں میں تعلیم دینے کی غرض ہی یہ تھی کہ لوگ آپ کے اشارات کونہ سمجھیں اورتائب ہوکرمعافی نہ پائیں"۔ مقدس متی لفظ" تاکہ" کی بجائے" کہ استعمال کرتاہے(متی ۱۳: ۱۳) اوربظاہریہی معلوم دیتاہے کہ آنخداوند کا اصل مقصد یہ تھا کہ بارہ رسولوں کے سوا آپ کی تمثلیوں کوسمجھ کرکوئی توبہ نہ کرے۔

ایک اوربات قابلِ غور ہے مقدس متی کے بیان کے مطابق حضرت کلمتہ اللہ خود یسعیاہ کی مذکورہ بالا پیشین گوئی کا اقتباس فرماتے ہیں ۔ جس کسی نے انجیلِ اوّل کاسطحی مطالعہ بھی کیا ہے وہ جانتا ہے کہ مقدس متی اپنی انجیل میں بار بار انبیاء یہود کی پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کا ذکر کرتے ہیں اوراُن کا اقتباس کرنے سے پہلے ہرموقعہ پر لکھتےہیں" کیونکہ جونبی کی معرفت کہا گیا تھاوہ پورا ہو"۔ کیونکہ نبی کی معرفت یوں لکھا گیا ہے" (متی۱: ۲۳؛ ۲: ۵، ۱۷؛ ۴: ۱۴۔ ۱۳: ۳۵ وغیرہ)لیکن اس مقام میں انجیل نویس یہ فارمولے استعمال نہیں کرتا کیونکہ یہاں کلمتہ اللہ خود فرماتے ہیں" اُن کے حق میں یسعیاہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی ۔۔۔۔۔ اور میں اُن کو شفا بخشوں "۔ اگرناظرین یسعیاہ نبی کی کتاب کے الفاظ(یسعیاہ۶: ۹تا ۱۰)۔ اورمنجی عالمین کے الفاظ(متی ۱۳: ۱۴تا ۱۵)۔ کا بغور مقابلہ کریں تودونوں عبارتوں میں حیرت انگیز فرق پائيں گے جوہم پر فوراً ظاہر کردیتاہےکہ خداوند کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ یسعیاہ نبی کے الفاظ سے یہ ثابت کریں کہ تمثلیوں میں تعلیم دینے کی غرض یہ تھی کہ لوگ تائب ہوکر رجوع نہ لائیں۔

اس اختلافِ قرات کی کیا وجہ ہے؟ پروفیسر مین سین (T.W. Manson)1 کہتے ہیں۔کہ یہ اقتباس یسعیاہ کی کتاب کےاصل عبرانی متن یا اس کے یونانی سیپٹواجنٹ ترجمہ سے نہیں لیا گیا بلکہ تارگم (یاتراجم یعنی یہودی توضحیح) سے کیا گیاہے۔تارگم کے اس مقام (یسعیاہ ۹: ۹) میں لکھا ہے

" اورخداوند نے مجھے فرمایا جا اور اُن لوگوں سے کہہ جودیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اورسنتے اورنہیں سمجھتے تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اوردل سے سمجھیں اوررجوع لائیں اور میں اُن کو شفا بخشوں"

اگر پروفیسر مذکور کا یہ خیال صحیح ہے(اورہم کواس کے قبول کرنے میں مطلق تامل نہیں)تویہ ثابت ہوجاتاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے خیال مبارک کے مطابق یسعیاہ کے تارگمی الفاظ کے مصداق وہ لوگ ہیں جودیدہ دانستہ آنکھیں اور کان بند کرلیتے ہیں تاکہ حق کاکلمہ ان کے دلوں میں جڑپکڑ کر ان کو توبہ پر مجبور نہ کردے۔ خدا کا یہ مقصد تھاکہ وہ نجات پائیں لیکن ان کے اپنے سرکش دل ان کو خدا کی طرف رجوع کرنے نہیں دیتے۔ یہ تشریح سیدھی سادی ہے اور اس کو قبول کرنے سے کوئی معمہ حل طلب نہیں رہتا۔

ناظرین نے یہ نوٹ کیا ہوگاکہ انجیلی اردو ترجمہ کے الفاظ" کہ اورتاکہ" کی بجائے مذکورہ بالا ترجمہ میں لفظ" جو" استعمال کیا گیاہے۔جس نے ہرمشکل کورفع کردیاہے ۔ سیدنا مسیح کی مادری زبان ارامی تھی۔ جس میں آپ تعلیم دیا کرتے تھے۔ آپ نے ارامی زبان کا ضمیر موصولہ"دِ" کا استعمال فرمایا تھا جس کا مفہوم یونانی زبان میں تین الفاظ سے ادا ہوتاہے۔"جو ، کہ، تاکہ" جس طرح فارسی ضمیر موصولہ" کہ" کا مفہوم اُردو زبان میں" جو، کہ،تاکہ" سے ادا ہوتا ہے جب اناجیل اربعہ کے ارامی متن کا یونانی ترجمہ کیا گیا توانجیلِ اوّل کےمترجم نے لفظ"د" کے لئے لفظ "کہ استعمال کیا اورانجیل دوم اورسوم کے مترجمین نے لفظ" تاکہ" استعمال کیا۔ حالانکہ اس مقام میں لفظ" جو" صحیح ترجمہ تھا۔ یونانی متن کا یہ غلط ترجمہ اناجیل اربعہ کے متعدد مقامات میں غلط فہمیاں پیدا کردیتاہے۔ انشاء اللہ ہم آئندہ آیات میں بھی یہ واضح کردیں گے کہ ارامی ضمیر موصولہ" دِ" کا غلط ترجمہ بہت دقتوں اورمشکلوں کا ذمہ وار ہے۔

پس آیات زیربحث کا صحیح اردو ترجمہ یہ ہے" تم کو خدا کی بادشاہی کا بھید دیا گیا ہے ۔ مگر ان کے لئے سب باتیں تمثیلوں میں ہوتی ہیں جودیکھتے ہوئے معلوم نہیں کرتے اورسنتے ہوئے نہیں سمجھتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ رجوع لائیں اور معافی پائیں" (مرقس ۴: ۱۲)۔

Black, Aramaic Approach pp.153-8

متی ۵باب ۴۸آیت

"تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے"

صدیوں سے یہ آیت مفسروں کے لئے دردِ سر کا موجب رہی ہے۔ بعض اس سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ مسیحی کا یہ فرض ہے کہ اپنے آپ کو اس درجہ تک کامل کرے کہ الہٰی فضل اس میں کمال تک پہنچ جائے۔ جس کا نتیجہ ایک ایسی شخصیت ہوجائے جس سے زیادہ کامل زندگی تصورمیں بھی نہیں آسکتی۔ چنانچہ ریاضت کش رہبان کہتے تھے کہ اس آیت کامطلب یہ ہے کہ شخصی پاکیزگی کی انتہائی منزل حاصل ہوجائے جس میں خدا کی وہ صورت ظاہر ہوجائے جس پر باغ عدن میں انسان خلق ہونے کے وقت پیدا کیا گیا تھا۔ چنانچہ مغربی ممالک کے قرونِ وسطیٰ کے متکلمین فلسفیانہ باریکیوں کوکام میں لاکر کہتے تھے کہ آدم کی معصیت اورنسلِ انسانی کے ہبوط (نازل،نیچے اترنا)کے وقت خدا کی صورت(جس پر انسان پیدا کیا گیا تھا) نہیں مٹی تھی گومشابہت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔


1 T.W. Manson, Teaching of Jesus p.76 (Cambridge 1931)

(۱)

دیگر مفسرین1کہتے تھے کہ اس آیہ(آیت) شریفہ کا یہ مطلب ہے کہ ہم مسیح کی مانند ہوجائیں جوخدا کی صورت پر تھا اورخدا تھا۔مسیح کامل انسان تھے اورہم پر فرض ہے کہ" ہم کامل انسان بنیں اورمسیح کے قدکے پورے اندازے تک پہنچ جائیں" ۔(افسیوں۴: ۱۳۔ کلسیوں ۱: ۲۸)۔ اس کے خلاف دیگر مفسر کہتے ہیں کہ یہ امر انسانی فطرت اورنسل انسانی کی تاریخ کے خلاف ہے ۔ اس تصور کا (کہ انسان خدا کے کمال کوحاصل کرسکتاہے) کتاب مقدس میں نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ گویہ غیر مسیحی بُت پرست فلاسفروں کا مطمع نظر ضرور تھا۔ پس اس حکم سے مراد یہ ہے کہ انسان ضعیف البیان (انسان،کمزور)پرظاہر ہوجائے کہ وہ خود اپنی کوششوں سے یہ منزل نہیں حاصل کرسکتا اورکہ صرف وہی انسان نجات حاصل کرتے ہیں جن کو یا تو خدا اپنے ازلی ارادے کے مطابق پہلے سے چن لیتا ہے یا جن کو فضل کی معموری حاصل ہوجاتی ہے۔ بہر حال انسانی اعمال بیکار رہیں اورانسانی کوشش بے سود ہے۔ لہذا دونوں کا اس معاملہ میں دخل نہیں۔ یہ بحث مقدس آگسٹین سے دورِ حاضرہ تک برابر جاری ہے۔

(۲)

بعض علماءان الجھنوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اس آیت میں لفظ" کامل" کی جگہ" رحیم" ترجمہ کرکے کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے"تم رحیم ہوجیسا تمہارا آسمانی باپ رحیم ہے" لیکن مشہور جرمن عالم اور زبان دان ڈالمن کہتا ہے کہ یہ ترجمہ صرف کوئی ناواقف شخص ہی کرسکتاہے2

(۳)

یہاں ایک اورسوال پیدا ہوتاہے کہ خدا کی ذات ایک کامل ہستی ہے اورجن معنوں میں وجودِ مطلق کامل ہے اُن معنوں میں کوئی انسان ضعیف البیان کامل نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ جیسا مقدس یعقوب فرماتاہے" نہ تو خدا بدی سے آزمایا جاسکتاہے اورنہ وہ کسی کوآزماتاہے" (یعقوب۱: ۱۳)۔ لیکن انسان آزمایا جاتاہے اورآزمائش پر غالب آکر ہی کامل ہوتاہے۔چنانچہ سیدنا مسیح کی کاملیت کا بھی یہی راز تھا(عبرانیوں ۴: ۱۵۔ متی ۴: ۱) اورخود سیدنا مسیح کی زبانِ صداقت بیان نے اس فرق کوتسلیم فرمایاہے(مرقس ۱۰: ۱۸)۔ بڑی سے بڑی بات جوانسان کرسکتاہے وہ یہ ہے کہ "بےعیب اور بھولے ہوکر خدا کا بے نقص فرزند" بنارہے (فلپیوں ۲: ۱۵)۔ذاتِ الہٰی کی طرح کامل ہونا انسان کے لئے ناممکن ہے ۔ اندریں حال سیدنا مسیح کے اس فرمان کا کیامطلب ہے ۔جواس آیہ شریفہ میں موجود ہے؟

علاوہ ازیں سیاق وسباق کی آیات کا اس آیہ شریفہ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ان آیات میں کلمتہ اللہ فرماتے ہیں "اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کروتاکہ تم اپنے باپ کے جوآسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پرچمکاتا ہے اورراستباز وں اورناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے"۔پھر عین اس کے بعد نتیجہ کے طورپرفرماتے ہیں " پس چاہیے کہ تم کامل ہوجیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔ لیکن پہلی آیات میں اخلاقی کاملیت کا ذکر نہیں بلکہ الہٰی محبت کے سب پرحاوی ہونے کا ذکر ہے۔ اور آیہ زیربحث میں لفظ"پس" ظاہرکرتاہے کہ اس آیت میں پیشتر کی آیات کا نتیجہ موجود ہے۔ جس میں لکھاہے کہ خدا کی اخلاقی کاملیت کے کمال کی سی کاملیت حاصل کرو۔


1 Thomas Aquinas, Summa Theological 1Art. 9 2 Dalman, Words of Jesus p.66

(۴)

ڈاکٹر ٹوری کا ترجمہ اس قسم کی تمام الجھنوں اورمشکلوں کو حل کردیتاہے وہ کہتے ہیں کہ یہاں مترجم نے اصل ارامی لفظ پرغلط اعراب لگا کر پڑھے جن کی وجہ سے یونانی متن کا غلط ترجمہ وجود میں آگیاہے۔ اس عالم کا خیال ہے کہ اصل ارامی الفاظ تھے " ھوجمرن" جس کے معنی ہیں کشادہ۔ وسیع ،محیط، جامع، لیکن یونانی مترجم اس کو" جمر" پڑھ گیا جس کے معنی کامل کے ہیں۔

پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ (جوسیاق وسباق کے مطابق بھی ہے، یہ ہے:

جس طرح تمہارے آسمانی باپ (کی محبت) سب پر حاوی ہے۔ چاہیے کہ تمہاری(محبت) بھی جامع ہو۔ یعنی جس طرح خدا باپ تمام بدوں اورنیکوں ،ناراستوں اورراستبازوں سے محبت رکھتاہے ۔ تم بھی اپنی محبت کے دائرہ میں سب کو شامل کرلو۔ اورکسی کواس دائرہ سے مستشنیٰ نہ کرو۔

یہ ترجمہ سیدھا ہے اورسیاق وسباق کے عین مطابق ہے۔ اورسب مشکلوں کوحل کردیتاہے اوراس سے پہلی آیات کا نتیجہ بھی ظاہر کردیتاہے۔

متی ۸: ۹۔ لوقا ۷: ۸:

اس آیت میں صوبہ دار سیدنا مسیح کو کہتاہے " کیوں کہ میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہو ں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں"۔ بادی النظر میں اس قول کے پہلے حصے میں صوبیدار گویاکہتاہے " اے خداوند میں بھی تیری طرح دوسر ےکے اختیار میں ہوں"۔ لیکن درحقیقت یہ اس کامطلب نہیں ہے۔ ڈاکٹرٹوری کہتاہےکہ اصل ارامی الفاظ کے غلط یونانی ترجمہ کا یہ نتیجہ ہے۔ اس حصہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ " کیونکہ میں بھی دوسروں پر اختیار رکھتاہوں اورسپاہی میرے ماتحت ہیں"۔ اس ترجمہ میں کسی طرح کی دقت پیش نہیں آتی ۔

متی ۱۰: ۲

اوربارہ رسولوں کے نام یہ ہیں۔ پہلا پطرس اس ترجمہ میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ مقدس پطرس"پہلا" رسول نہیں تھا جوسیدنا مسیح کے پیچھے ہولیا۔ نہ آپ مقدس اندریاس سے پہلے سیدنا مسیح کے حلقہ بگوش ہوئے تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں لفظ" پہلا" سے مراد کسی قسم کا تفوق یا مقدم ہونا نہیں ہے"(دیکھو مرقس ۱۰: ۴۴۔متی ۲۰: ۲۷۔لوقا ۲۲: ۲۶)ڈاکٹرٹوری کہتے ہیں کہ ارامی زبان میں لفظ" پہلے "الفاظ" بارہ" اور"رسول" کے درمیان تھا۔ یعنی عبارت یہ تھی " اوربارہ پہلے رسولوں کے نام یہ ہیں"پطرس۔۔۔۔۔۔" لفظ"پہلے" کے لئے ارامی لفظ "قدیم" تھا نہ کہ" مقدم" ۔ جب مقدس متی اس انجیل کولکھ رہے تھے اس زمانہ میں مقدس متیاہ کا نام بارہ رسولوں میں شامل تھا۔ (اعمال ۱: ۱۵تا ۲۶)۔ مقدس متی کا منشا قدیم رسولو ں کے ناموں کا بتلانا تھا۔ پس آیت ہذا کا صحیح ترجمہ یہ ہے" اورپہلے بارہ رسولوں کے نام یہ ہیں"۔

متی ۱۰: ۴، مرقس ۳: ۱۹، لوقا ۶: ۱۶۔

بارہ شاگردوں کی فہرست میں آخری نام ہے۔ یہوداہ اسکریوتی ۔ جس نے اُسے پکڑوابھی دیا۔

بعض مفسر"اسکریوتی" سے مراد" قریوت" کا رہنے والا کہتے ہیں"(دیکھو یرمیاہ ۴۸: ۳۴ وغيرہ) ۔ اگریہ درست ہے توبارہ رسولوں میں سے صرف یہوداہ ہی اکیلا شخص تھا جویہودیہ کا رہنے والا تھا کیونکہ باقی تمام شاگرد گلیلی تھے۔ دیگر مفسروں کا یہ خیال ہے کہ" اسکریوتی" کامطلب یہ ہے کہ وہ سکری(Sicarii) یعنی خنجر چلانے والا تھا ۔ یہ گروہ رومی سلطنت کودرھم برھم کرنے کے لئے تشدد کے طریقوں کا حامی تھا۔ اس کے ممبران یہودیوں کوقتل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے جواس سلطنت کے وفادار تھے۔ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ

’’لفظ" اسکریوتی" ایک دوغلا لفظ ہے۔ جس کے معنی غدار ہیں۔ ارامی لفظ" شقار" کے معنی غدار اوردغاباز کے ہیں۔ عربی لفظ "شقاریٰ" غالباً اسی سے مشتق ہے‘‘۔

پس اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے"یہوداہ غدار جس نے اسے پکڑوا بھی دیا" اوراناجیل اربعہ میں جہاں کہیں "یہ یہوداہ اسکریوتی" لکھاہے وہاں"یہوداہ غدار" پڑھنا چاہیے ۔

مرقس ۹: ۴۹تا ۵۰

"کیونکہ ہرشخص آگ سے نمکین کیا جائیگا۔۔۔"

مسیحی مفسر شروع سےہی سے اس آیہ شریفہ کے الفاظ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔اس آیت کا کیامطلب ہے؟ مرحوم مولوی ثناء اللہ نے ایک دفعہ یہ آیت قرآنی تعلیم کی حمایت میں پیش کی تھی کہ ہرشخص کوجہنم میں داخل ہونا پڑے گا ۔ قرآنی الفاظ یہ ہی ۔

وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا یعنی ہر فرد بشر ایک دفعہ ضرور دوزخ میں جائے گا ۔ خدا پرفرض ہے کہ سب کو ایک دفعہ ضرور دوزخ میں پہنچائے۔ لیکن اس قسم کے عقیدہ کو انجیل جلیل اوربالخصوص منجی جہان کے کلماتِ طیبات سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔

بعض مفسرین کی تاویلیں نہایت مضحکہ خیز ہیں جواُن کے اپنے ذاتی اورشخصی خیالات کا آئینہ ہیں۔ چنانچہ ابتدائی صدیوں میں اس آیت کوسمجھنے کے لئے (احبار ۲: ۱۳ )کی طرف رجوع کیا گیا ،جہاں لکھا ہے کہ" تواپنی نذر کی قربانی کے ہرچڑھاوے کونمکین بنانا اور اپنی کسی نذر کی قربانی کواپنے خدا کے عہد کے نمک بغیر نہ رہنے دینا۔ اپنے سب چڑھاوؤں کے ساتھ نمک بھی چڑھانا" یہی وجہ ہے کہ کسی ابتدائی مفسر کی تاویل کو(جو اس نے اپنے نسخہ کے حاشیہ میں لکھی تھی) نسخہ کے کاتب نے متن میں نقل کرلی اور یوں اس نے بعض نسخوں میں جگہ حاصل کرلی اور اس آیت کے بعد یہ الفاظ ایزاد (زیادہ ،اضافی) ہوگئے" اورہرایک قربانی نمک سے نمکین کی جائے گی" جوزائد ہونے کی وجہ سے اب اصل متن سے خارج ہیں۔

پادری گولڈ(Gould) اپنی تفسیر میں کہتے ہیں 1"تمام لوگ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت نئے عہدنامہ کی اُن آیتوں میں سے ہے جونہایت مشکل ہیں۔ اس آیت میں مشکل کی اصل جڑلفظ" آگ" ہے۔ جو ۴۸ آیت میں اوراس آیت میں بھی موجود ہے"۔ غبی(کم عقل) سے غبی شخص پربھی ظاہر ہے کہ کوئی انسان آگ سے نمکین نہیں کیا جاسکتا اورنہ وہ نمک سے آگ کی بھٹی میں ڈالا سکتا ہے۔

آیت ۴۸ میں عہدِ عتیق سے یسعیاہ نبی کا اقتباس کیا گیا ہے(یسعیاہ ۶۶: ۲۴) ۔ اس مقام میں نبی وادی حنوم کا ذکر کرتاہے ۔ جویروشلیم کے جنوب مغرب میں واقع تھی، جہاں کسی زمانہ میں برگشتہ اسرائیل مولک دیوتا کے سامنے اپنےبچوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ یرمیاہ نبی اس جگہ کولعنتی قرار دیتا ہے(یرمیاہ ۷: ۳۱) یسعیاہ نبی وادی حنوم یا جائے حنوم (جوبگڑ کر"جہنم" ہوگیا ہے) کی نسبت کہتاہے کہ" جائے حنوم" یا"جہنم" میں خدا کے دشمنوں کی لاشیں ہمیشہ کے لئے جلتی رہیں گی۔

آیت ۴۸ میں الفاظ" ان کا کیڑا نہیں مرتا اورآگ نہیں بجھتی"۔ سیدنا مسیح کے اپنے منہ کے الفاظ نہیں بلکہ( یسعیاہ ۶۶: ۲۴ )کا اقتباس ہیں جو یونانی انجیل کے مترجم کے سامنے عبرانی میں لکھے تھے۔ لفظ" آگ" کی عبرانی" ہائش " ہے جو آیت ۴۸ میں ہے۔ جب یونانی مترجم آیت ۴۹ کا ترجمہ کرنے لگا تووہاں ارامی لفظ " بائش" تھا۔ لیکن اس نے یہ سمجھ کر کہ یہاں بھی وہی عبرانی لفظ "ہائش" ہے۔ اُس کا ترجمہ "آگ" کردیا۔ کیونکہ اس نے مشابہ حروف ھ اور ب میں تمیز نہ کی۔ مترجم کی اس غلطی کی وجہ سے اس آیت کا یونانی ترجمہ غلط ہوگیا ۔کیونکہ عبرانی لفظ " ہائش" کے معنی" آگ" ہے لیکن ارامی لفظ" بائش" کے معنی "بگڑنا" ہے۔

ایک اور امرقابلِ غور ہے۔ اس آیت کے شروع میں ارامی الفاظ " کُل بائش" تھے جن کامطلب یہ ہے کہ" کُل بگڑی ہوئی چیزیں" لیکن چونکہ مترجم نے اُن کو" کل ہائش" پڑھا لہذا اس کا ترجمہ " کُل انسانوں کوآگ سے "ہوگیا ۔

پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق آیت ۴۹ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"ہربگڑی ہوئی چیز نمک سے نمکین کی جاتی ہے"۔

اس ترجمہ کے معنی نہایت واضح اورصاف ہیں اورکسی تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔

مرقس ۱۶: ۲

وہ (مریم مگدلینی وغیرہ) ہفتے کے پہلے دن بہت سویرے جب سورج نکلا ہی تھاقبر پرآئیں"۔

باقی تینوں انجیلوں میں لکھا ہے کہ یہ عورتیں" پوپھٹتے وقت" (متی ۲۸: ۱)"صبح سویرے"(لوقا ۲۴: ۱) "ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا"(یوحنا ۲۰: ۱) قبرپرآئیں لیکن مقدس مرقس میں ہے کہ وہ "بہت سویرے جب سورج نکلا ہی تھاقبرپرآئیں" قیاس یہی چاہتاہے کہ وہ صبح تڑکے پوپھٹتے وقت قبر پرآئی ہوں گی لیکن اُس وقت میں اور " سورج کے نکلنے " کے وقت میں بڑا فرق ہے۔ پوپھٹتے وقت ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی ، سورج نہیں نکلا کرتا۔


1 International Critical Commentary p.180

پروفیسر ٹوری کہتےہیں کہ اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ مقدس مرقس کی انجیل کے مترجم نے ارامی زبان کے حرفِ عطف واؤ کا لفظی ترجمہ کرتے وقت اس کوایسی جگہ لکھ دیا جوموزوں نہ تھی۔جس کی وجہ سے فقرے کی ساخت میں الفاظ " بہت سویرے" کے بعد" جب سورج نکلا" لکھا گیا پروفیسر مذکور کے مطابق ان آیات کا اصلی ترجمہ یہ ہے:

" وہ ہفتے کے پہلے دن بہت سویرے قبرپرآئیں۔ جب سورج نکلا تو وہ آپس میں کہتی تھیں کہ ہمارے لئے پتھر کوقبر کے منہ پر سے کون لڑھکائيگا؟اُنہوں نے نگاہ کی تودیکھا کہ پتھر لڑھکا ہوا ہے اور وہ بہت ہی بڑا تھا"۔

یوحنا ۲۰: ۱۷۔

یسوع نے مریم سے کہا مجھے نہ چھو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا۔ لیکن میرے بھائیوں کے پاس جاکر اُن سے کہہ۔۔۔۔۔ الخ

اس موجودہ ترجمہ کے مطابق سیدنا مسیح کوچھونے کی ممانعت کاسبب سمجھ میں نہیں آ تا اوران الفاظ کوسمجھنے کے لئے مختلف مفسر مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔

پروفیسر ٹوری کہتےہیں کہ اس مشکل کی وجہ بھی ارامی کا حرفِ عطف واؤ ہے جو الفاظ" میرے بھائیوں سے جاکر کہہ" سے پہلے ہے اورجس کا اردو میں ترجمہ" لیکن" کیا گیاہے۔ یونانی مترجم انجیل ن حرفِ عطف واؤ کا لفظی ترجمہ" اور" کرکے اس کویونانی عبارت کے ایسے مقام میں لکھا ہے جس سے تمام آیت کا مطلب خبط ہوگیاہے۔

علاوہ ازیں اس آیہ شریفہ میں اصل ارامی الفاظ کے دومعنی ہوسکتے ہیں "میں اب تک باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا" جو موجودہ یونانی متن اور اس کے اُردو ترجمہ میں ہے۔ لیکن انہی ارامی الفاظ کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتاہے۔" اس سے پہلے کہ میں باپ کے پاس اُوپر جاؤں " پہلا اردو ترجمہ بےمعنی ہے۔ لیکن دوسرا ترجمہ اختیار کرنے سے سیدنا مسیح کے ارشاد کا مطلب نہایت واضح ہوجاتاہے ۔

پس آیات کا پروفیسر ٹوری اوردیگرعلماء کے مطابق ترجمہ حسب ذیل ہے:

یسوع (سیدنا عیسیٰ) نے اس سے کہا ۔ مریم ۔ وہ اسے پہچان1 کر اُس سے عبرانی زبان میں بولی اور ربونی یعنی اے استاد یسوع نے اُس سے کہا۔ مجھے نہ چھو۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں باپ کے پاس اُوپر جاؤں تومیرے بھائیوں کے پاس جاکر ان سے کہہ کہ میں اپنے باپ اورتمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اُوپر جاتاہوں"۔

متی ۶: ۱۳۔ ۲۶: ۴۱۔ مرقس ۱۴: ۳۸۔ لوقا ۱۱: ۴۔ ۲۲: ۴۰ ۔ ۲۲: ۴۶

"آزمائش میں نہ پڑنا"۔


1 Black, Aramaic Approach pp.189-190

مذکورہ بالا چھ مقامات میں لفظ"پڑنا" کی بجائے لفظ " گرنا" اصل ارامی لفظ کوبہتر طورپر ادا کرتاہے۔اُردو زبان کے مختلف ترجموں میں دعائے ربانی کے اس فقرے میں لفظ" لانا" اور" ڈالنا" استعمال کئے گئے ہیں۔ لیکن ارامی لفظ کے معنی ہیں۔ "مغلوب ہوجانا یا گرجانا" پس اردو ترجمہ ارامی مفہوم کو بطرزِ احسن ادا نہیں کرتے۔ "ہم کوامتحان میں نہ ڈال"۔ (ترجمہ سرام پور ۱۸۲۹ء)۔ "ہمیں آزمائش میں نہ ڈال" (ترجمہ مرزا پورا ۱۸۷۰ء) ہمیں آزمائش میں نہ لا"(موجودہ ترجمہ) ہمیں آزمائش میں نہ پڑنے دے"۔ (ترجمہ کتاب دعائے عمیم ۱۹۰۰ء) وغیرہ کی بجائے صحیح ترجمہ یہ ہے" ہم کو آزمائش نہ گرنے دے"یا "ہم کو امتحان" کے وقت فیل نہ ہونے دے"بدقسمتی سے عام طورپر الفاظ" امتحان" اور " فیل" کا تعلق طالب علموں کی زندگی کے مدارج کے ساتھ ہوگیاہے ۔ ورنہ (متی ۲۶: ۴۱۔ مرقس ۱۴: ۳۸۔ لوقا ۲۲: ۴۰) میں لفظ" امتحان" موزوں ترین لفظ ہے اور ان مقامات میں صحیح ترجمہ یہ ہوگا۔ "جاگو اور دعا مانگوتاکہ (بوقتِ) امتحان (جوقریب ہے) تم گرنہ جاؤ"(چنانچہ مرزا پور کا ترجمہ دعائے ربانی کے فقرہ میں لفظ " آزمائش" استعمال کرتاہے۔ اس مقام پر لفظ امتحان" استعمال کرتاہے۔

لوقا ۱: ۳۹۔

"انہی دنوں مریم اٹھی اورجلدی سے پہاڑی ملک میں یہوداہ کوگئی"۔

اس ترجمہ میں دقت یہ ہے کہ یہوداہ شہر نہیں تھا۔ بلکہ ایک صوبہ کے نام تھا۔ پس اردو کے موجودہ ترجمہ کرنے والوں نے انگریزی ریوائزڈ ترجمہ کی طرح اس مقام پر"یہوداہ کے ایک شہر" لکھ دیاہے۔ جواصل یونانی کا صحیح ترجمہ نہیں ہے۔

پروفیسر ٹوری نے زبردست دلائل سے یہ ثابت کردیاہے کہ" عبرانی اوریہودی تصانیف میں ابتدا سے لے کر مسیح سے چند صدیاں بعد تک لفظ "مدینہ سے مراد "صوبہ" لی جاتی تھی۔ لیکن جب غیر یہود اس لفظ "مدینہ" کواستعمال کرتے تھے۔ تواس سے مراد" شہر "لیتے تھے1 ۔ چونکہ مقدس لوقا غیر اقوام سےمشرف بہ مسیحیت ہوئے تھے لہذا انہوں نے اس مقام میں عبرانی لفظ"مدینہ" کا ترجمہ صوبہ کی بجائے غیریہودی محاورہ کے مطابق شہرکردیا۔ لیکن مقدس لوقا کا اصل مطلب شہر نہیں تھا بلکہ صوبہ تھا(دیکھو لوقا ۲: ۴)۔ پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہوا۔ اُنہی دنوں میں مریم اٹھی اور جلدی سے پہاڑی ملک میں یہودیہ کے صوبہ کو گئی "۔

لوقا ۸: ۳۹

"وہ روانہ ہوکر تمام شہر میں چرچا کرنے لگا"

یہاں بھی مقدس لوقا نےعبرانی لفظ مدینہ کا ترجمہ غیر یہودی محاورہ کے مطابق" شہر"کردیاہے۔لیکن یہودی محاورہ کے مطابق یہاں بھی لفظ صوبہ چاہیے ۔ چنانچہ مقدس مرقس کے بیان میں بھی ہے کہ اس نے تمام ضلع(دکپلس) میں چرچا کردیا تھا (مرقس ۵: ۲۰)۔ پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" وہ روانہ ہوکر تمام صوبہ میں چرچا کرنے لگا"۔

لوقا ۲: ۱


1 Harvard Theological Review Vol.11(1924) pp.83-89

"اُن دنوں میں ایسا ہواکہ قیصر اگسطس کی طرف سے یہ حکم جاری ہواکہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائيں"

اس مقام میں مفسروں کویہ دقت پیش آتی ہے کہ جس یونانی لفظ کا اردو ترجمہ" دنیا" کیا گیاہے ۔ اس کے معنی میں" تمام دنیا جس میں انسان بستے ہیں" اورچونکہ اس قسم کی مردم شماری ناممکن تھی لہذا مفسر اس مردم شماری کورومی سلطنت تک ہی محدود بتلاتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ رومی سلطنت کی اس مردم شماری کےحکم کا کسی دوسری جگہ پتہ نہیں چلتا ۔ 1

پروفیسر ٹوری کہتے ہیں کہ یہ دقت عبرانی لفظ" ارض" کے غلط یونانی ترجمہ کی وجہ سے پیش آتی ہے ۔ عبرانی لفظ" ارض" سے اہل یہود کی مراد ہمیشہ ارضِ مقدس یعنی کنعان کے ملک سے ہوتی تھی۔ لیکن غیر یہود اس یہودی محاورہ اوراستعمال سے قدرتاً واقف نہ تھے ۔پس مقدس لوقا جوغیر یہودی تھے اس کا لفظی ترجمہ" دنیا" کرتے ہیں۔

یہی غلطی مقدس لوقا سے (اعمال ۱۱: ۲۸ )میں سرزد ہوئی جہاں لکھا ہے کہ" تمام دنیا میں بڑا کا ل پڑے گا" ۔ حالانکہ یہاں بھی لفظ ارض سے مراد صرف ارضِ مقدس ہے۔ کیونکہ خود اعمال کی کتاب ہی سے ظاہر ہے کہ اس کال کا انطاکیہ میں بھی وجود نہ تھا۔ اگرچہ وہ تمام" دنیا" پر حاوی ہو۔

پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے" ان دنوں میں ایسا ہواکہ قیصر اگسطس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا۔ کہ ساری ارض(مقدس) کے لوگوں کے نام لکھے جائیں"۔ اوراعمال کی کتاب کی پیش کردہ آیت کا صحیح ترجمہ ہوگاکہ" ساری ارض(مقدس) میں بڑا کا ل پڑے گا"۔

لوقا ۶: ۴۰

"شاگرد اپنے استاد سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ ہرایک جب کامل ہوا تواپنے استاد جیساہوگا"۔

موجودہ ترجمہ میں الفاظ" جب کامل ہوا" عبرانی لفظ" تقین" کا ترجمہ ہیں۔ اہل یہود کے محاورہ میں یہ لفظ عموماً تب استعمال کیاجاتا تھا جب کہنے والے کامطلب یہ ہوتا تھا۔ کہ فلاں بات موزوں ،مناسب، درست یا ٹھیک ہے۔ مثلاً یہی لفظ (پیدائش ۲: ۱۸۔ ۱۶: ۶۔ خروج ۸: ۲۶ ) میں استعمال ہوا ہے۔ جہاں اس کا اردو ترجمہ "اچھا" ،"بھلا" ،"مناسب"، کیا گیاہے ۔ لیکن غیر یہود میں یہ لفظ ان معنوں میں رائج نہیں تھا۔ اوروہ اس یہودی محاورہ سے ناآشنا تھے۔ پس مقدس لوقا نے(جوغیر یہودتھے) اس لفظ کے معنی غیر یہودی مروجہ معنوں میں استعمال کرکے اس لفظ کا ترجمہ" جب کامل ہوا" کردیا۔ پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" شاگرد اپنے استاد سے بڑا نہیں ہوتا۔ بلکہ ہرایک کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے استاد جیسا ہو"۔

چنانچہ مقدس متی نے بھی اپنی انجیل میں اسی طرح ترجمہ کیا ہے "شاگرد اپنے استاد سے بڑا نہیں ۔ شاگرد کے لئے کافی ہے کہ اپنے استاد کی مانندہو'(متی ۱۰: ۲۵)۔

لوقا ۸: ۲۷


1 Plummer, St. Luke (International Critical Commentary p48)

"جب وہ کنارے پر اُترا تواس شہر کا ایک مرد اُسے ملا جس میں بدروحیں تھیں"۔

جب ہم اس بیان کو انجیل مرقس(مرقس ۵: ۲) اورانجیل متی (متی ۸: ۲۸) میں پڑھتے ہیں تویہ ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ پاگل آدمی شہر سے نہیں آیا تھا۔ بلکہ شہر کے باہر جوقبریں تھیں اُن میں سے آیا تھا۔ خود مقدس لوقاکابیان بھی یہی ظاہر کرتاہے کہ" وہ قبروں میں رہا کرتا تھا"۔ یہ پاگل شخص خطرناک تھا جوننگا پھرا کرتا تھا اورشہر کے کسی گھر میں نہیں رہتا تھا بلکہ وہ " بیابانوں" میں بھاگا پھرا کرتا تھا۔

اس آیت میں لفظ" شہر" ارامی لفظ" قریہ" کا غلط ترجمہ ہے۔ قریہ کا کنعانی ارامی زبان میں ترجمہ نہ صرف شہر تھا بلکہ اس سے مراد گاؤں بستی مزروعہ زمین، مفصلات کھلا میدان بھی تھے۔یہ لفظ صرف پہاڑی بنجر زمین کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس لفظ سے مراد وہ خطہ زمین تھا جوکسی آبادی کے آس پاس ہو۔ لیکن غیرکنعانی اس لفظ سے عموماًشہر سے مراد لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس لوقا نے اس جگہ اس لفظ کا غلط ترجمہ شہر کیاہے۔ پس اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" جب وہ کنارے پر اُترے توکھلے میدان سے ایک مرد اسے ملا "۔

لوقا ۹: ۱۰

"وہ ان کوالگ لے کر بیت صیدا نام ایک شہر کو گیا"۔

جب ہم اس مقام کا مقدس مرقس کے بیان(مرقس ۶: ۳۱) اور مقدس متی کے بیان(متی ۱۴: ۱۳) سے مقابلہ کرتے ہیں توہم پر عیاں ہوجاتاہے کہ سیدنا مسیح اپنے رسولوں کوکسی خاموش مقام میں لے جانا چاہتے تھے۔ تاکہ وہ قدرے آرام کرلیں۔لیکن اس آیت میں لکھا ہے کہ آپ ان کو"بیت صیدا نام"شہر میں لے گئے" اورپھر لطف یہ ہوا کہ دوآیتوں کے بعداس جگہ کو باقی انجیل نویسوں کے بیان کے عین مطابق "ویران جگہ" کہا گیاہے (آیت ۱۲)۔ یہ تضاد مقدس لوقا کے ارامی لفظ" قریہ" کے غلط ترجمہ "شہر " کی وجہ سے ہے۔ جیسا اُوپر ذکر کیاگیاہے ۔ پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" وہ ان کوالگ لیکر بیت صیدا کے مفصلات(شہر کے اردگرد کے قصبات ودیہات) کوگیا"۔

ناظرین رسالہ ہذا کویادہوگا کہ ان آیات کے نئے ترجمے کی بنا ڈاکٹر ٹوری صاحب کا یہ نظریہ ہے کہ اناجیل اربعہ پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ جس سیدنا مسیح اورآپ کے ہمعصر یہود بولتے تھے اوربعد میں یہ اناجیل لفظ بلفظ ترجمہ کی گئیں۔ اس ترجمہ کے دوران میں صرف چند مقامات میں ارامی زبان سے واقفیتِ نامہ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مترجمین سے غلطیاں سرزد ہوگئیں۔ جن کی وجہ سے ان مقامات کا یونانی متن بعض اوقات ایک معمہ سا بن جاتاہے۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ دعویٰ ہے کے جب موجودہ یونانی متن کا ازسرِ نور ارامی زبان میں ترجمہ کیا جاتاہے توہم پرفوراً واضح ہوجاتاہے کہ اناجیل کے مترجموں نے غلطیاں کس طرح کیں۔ مثال کے طورپر ہم ذیل میں اور مقامات پیش کرتے ہیں۔ جن سے ڈاکٹر ٹوری کا یہ نظریہ ناظرین کوسمجھ میں آجائے گا۔

مرقس ۱۰: ۱۲

" اگرعورت اپنے خاوند کو چھوڑدے اور دوسرے سے بیا ہ کرے توزنا کرتی ہے"۔

اس ترجمہ میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ ہندوؤں کی طرح موسوی شریعت کے مطابق عورت اپنے شوہر کوطلاق نہیں دے سکتی تھی، اگرچہ شوہر اپنی بیو ی کوطلاق دے سکتا تھا۔ پس یہ آیت بے معنی ہوجاتی ہے ۔

ڈاکٹر ٹوری کہتاہے کہ جن الفاظ کا ترجمہ" شوہر کوچھوڑے" کیا گیاہے، وہ ارامی میں " پتر لگبر" ہیں۔ لیکن چونکہ اردو کی طرح ارامی عبارت پر عموماً زیروزبر نہیں دی جاتی تھی لہذا یونانی کے مترجم نے ان الفاظ کو" پَتَر لگَبر" پڑھالیکن اس کویہاں ت پر زبر کی بجائے زیر پڑھنا چاہیے اور اصل لفظ" پتِر لگبر" تھا جوفعل معروف نہیں بلکہ فعلِ مجہول تھا جس کے معنی ہوئے" شوہر کی چھوڑی ہوئی"۔

پس اصل ترجمہ یہ ہے " اگرشوہر کی چھوڑی ہوئی عورت دوسرے سے بیاہ کرے توزنا کرتی ہے" بعینہ یہی بات لوقا مقدس کی انجیل میں لکھی ہے"(لوقا ۱۶: ۱۸) اورمقدس متی میں بھی سیدنا مسیح یہی فرماتے ہیں "(متی ۵: ۳۲) یونانی نسخہ بینری میں بھی" شوہر کی چھوڑی ہوئی عورت" لکھاہے ۔1

لوقا ۱۰: ۴

"نہ بٹوالے جاؤ، نہ جھولی نہ جوتیاں اورنہ راہ میں کسی کو سلام کرو"۔

اس ترجمہ کے مطابق سیدنا مسیح نےاپنے شاگردوں کو نعوذبااللہ بدتمیز ی کی بات سکھلاتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ یہاں ارامی لفظ" شلیم" تھا۔ جس کا یونانی مترجم" شَلّم "بہ معنی سلام کرناپڑھا گیا۔ لیکن اس لفظ کے ش پر زبر نہ تھی اورنہ ل مشددتھا۔ بلکہ لفظ " شلیم" تھا۔ جس کے معنی ہیں " ساتھی ہونا" یا"ساتھ کرنا" پس سیدنا مسیح اپنے شاگردوں کوہدایت فرماتے ہیں کہ" نہ بٹوا لے جاؤ، نہ جھولی نہ جوتیاں اورنہ راہ میں کسی کےساتھ بنو"۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ "تم انجیل سنانے جارہے ہو، راہ میں اس بات کا انتظار نہ کرو کہ جب تم کو کوئی ساتھی ملے تب سفر کرو"۔

لوقا ۱۱: ۴۱

"اندر کی چیزیں خیرات کردو تودیکھو سب کچھ تمہارے لئے پاک ہوگا"۔

انجیل سوم کا ہر مفسر اس آیہ شریفہ کومشکل بتلاتاہے اورمختلف مفسرین اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں اور بمشکل دومفسر ایسے ہوں گے جن کی تاویل ایک ہو۔

جب ہم مقدس لوقا کی انجیل (لوقا ۱۱: ۳۹سے ۴۱) کا مقدس متی کی انجیل (متی ۲۳: ۲۵ ) سےمقابلہ کرتے ہیں توہم پر فوراً ظاہر ہوجاتاہے کہ مقدس متی کے الفاظ اصل مفہوم کوپیش کرتے ہیں۔ انجیل اول کے الفاظ پہلے پیالے اوررکابی کواندر سے صاف کرتاہے کہ وہ اُوپر سے بھی صاف ہوجائیں"۔ کے سامنے انجیل سوم کے الفاظ" اندر کی چیزیں خیرات کردو تودیکھو سب کچھ تمہارے لئے پاک ہوگا"۔ ایک عجیب اورپیچیدہ معمہ سا دکھائی دیتاہے۔

جرمن نقاد ولہاسن کا خیال ہے کہ


1 Montefiore, Synoptic Gospel, vol 1 p.234

"مقدس لوقا کی انجیل میں کاتب نے غلطی سے " دَکو" بمعنی" پاک کرو" کی بجائے" زکو" بمعنی" خیرات کرو" لکھ لیا"۔

اس نقاد کے مطابق اس آیہ شریفہ میں لفظ" دَکو" تھا اوراصل متن یہ تھاکہ " اندر کی چیزوں کوپاک کرو تودیکھو تمہارے لئے سب پاک ہوگا"۔

ڈاکٹر ٹوری ولہاسن کے لفظ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ارامی حروف مذکورہ بالا الفاظ کے پہلے حروف جن کو اردو میں "و" اور" ز" سے لکھا گیا ہے۔ آسانی سے خلط ملط نہیں ہوسکتے۔ لہذا کاتب یہ غلطی نہیں کرسکتا تھا۔ علاوہ ازیں لفظ" زکو" ارامی لفظ نہیں بلکہ خالص عربی لفظ ہے جوکنعان کی ارامی بولی میں نہیں تھا۔اُردو خوان ناظرین اس نکتہ کوسمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لفظ" زکواتہ" سے بخوبی واقف ہیں۔ٹوری صاحب کہتے ہیں کہ اصل ارامی متن میں لفظ صَدِقہ بمعنی" صداقت" سے کام لو" تھا۔ جس کو یونانی کے مترجم نے صدقہ بمعنی" خیرات " پڑھ کر غلط ترجمہ یونانی میں کردیا۔ اُردو خوان ناظرین صداقت بمعنی سچائی اورصدقہ بمعنی خیرات سے واقف ہیں اوراس نکتہ کوآسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ پس آیہ شریفہ کا ڈاکٹرٹوری کے مطابق صحیح ترجمہ یہ ہے" جو(تمہارے) اندر ہے اُس کو درست کرو۔ توسب کچھ تمہارے لئے پاک ہوگا"۔

لوقا ۱۱: ۴۸

"انہوں نے (تمہارے باپ دادا نے) اُن نبیوں کوقتل کیا تھا۔ اورتم اُن کی قبریں بناتے ہو"۔

اگراس آیت کا مقدس متی کی انجیل (متی ۲۳: ۲۹تا ۳۱) سے مقابلہ کریں توسیدنا مسیح کے اس قول کامطلب واضح ہوجاتاہے۔ کہ" تم تونبیوں کی قبریں بناتے ہواورتمہارے باپ دادا نے اُن کو قتل کیا تھا"۔ (آیت ۴۷) پس ان کی قبریں بنانے سے تم اپنے باپ دادا کے طرزِ عمل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو۔اورکہتے ہو" اگرہم اپنے باپ دادا کے زمانہ میں ہوتے تونبیوں کے خون میں اُن کے شریک نہ ہوتے" (متی ۲۳: ۳۰) ۔لیکن آیت ۴۸ میں لکھا ہےکہ" تم گواہ ہو، اوراپنے باپ دادا کے کاموں کوپسند کرتے ہو۔ کیونکہ اُنہوں نے قتل کیا تھا اورتم اُن کی قبریں بناتے ہو"(لوقا ۱۱: ۴۸)!!

انجیل اول وسوم کی مذکورہ بالا آیات کی تفاوت سے ظاہر ہے کہ یہ آیہ زیربحث میں سیدنا مسیح کا منشا یہ نہ تھا کہ" تم نبیوں کی قبریں بناتے ہو"۔ علاوہ ازیں اس آیت میں الفاظ "ان کی قبریں" کسی یونانی لفظ کا ترجمہ نہیں1 بلکہ آیت کوسمجھنے کے لئے یہ لفظ انگریزی اوراُردو ترجموں میں ایزاد (اضافہ)کئے گئے ہیں۔ یونانی متن کے سامنے سوال پیدا ہواکہ کیا بناتے ہو؟ اور اس نے آیت ۴۷ سے لفظ" قبریں" لے کر آیت کو پورا کردیا۔ لیکن قبروں کے بنانے سے جیسا مقدس متی میں وارد ہواہے۔ ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا نہ کہ پسندیدگی کا۔


1 West Cott and Host, Greek New Testament.

پس یونانی متن میں صرف لفظ" بنانا" آیاہے۔ پروفیسر ٹوری کہتاہے کہ اس مقام میں اصل ارامی لفظ" بنین" بہ معنی " اولادیا بچے" تھا۔ لیکن یونانی متن کے مترجم نے اس لفظ کو بنین" بہ معنی" بنانا سمجھ لیا۔ جس کی وجہ سے آیہ شریفہ کے سمجھنے میں دقت پیدا ہوتی ہے ۔ اُردو خوان ناظرین لفظ" بنی" بہ معنی اولاد اورلفظ "بناء" بہ معنی بنانا سے واقف ہیں اوراس نکتہ کوبآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ کا شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے" اُنہوں نے ان کوقتل کیا تھا اورتم(بھی تو) انہی کی اولاد ہواسی لئے خدا کی حکمت نے کہا ہے۔۔۔۔۔الخ۔

لوقا ۱۶: ۱۶۔ متی ۱۱: ۱۲

"شریعت اورانبیا یوحنا تک رہے۔ اُس وقت سے خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دی جاتی ہے اورہرایک زورمار کر اُس میں داخل ہوتاہے"۔

آنخداوند کامطلب یہ ہے کہ یوحنا کی آمد تک صرف موسوی شریعت اور انبیاء اللہ ہی اہل یہود کے رہنما تھے۔ لیکن اب آپ کی آمد سے دنیا میں ایک نئی چیز یعنی خدا کی بادشاہت آگئی ہے ۔ لیکن لوگ اُس سے کس قسم کا سلوک کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب (متی ۱۱: ۱۲ )میں ہے،کہ خداکی بادشاہت کا مقابلہ کیا جاتاہےاورزور آور شخص اُس کے نمائندوں پر تند ہاتھ ڈالتے ہیں۔ یوحنا کو قتل کیا گیا اورمیرے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا(متی ۱۷: ۱۲) ۔

لیکن موجودہ ترجمہ سیدنا مسیح کا یہ مطلب ادا نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ لوگ جوق درجوق خدا کی بادشاہت میں زور مارکر داخل ہوتے ہیں۔جوآپ کے منشاء کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ ترجمہ( متی ۱۱: ۱۲ )کے متضاد ہے۔

ڈاکٹرٹوری کہتے ہیں کہ یونانی متن ایک ارامی لفظ کا غلط ترجمہ ہے جواعراب کی تبدیلی کی وجہ سے وجود میں آیاہے۔ اگرمترجم اُسی لفظ کے اعراب کوصحیح طورپر پڑھتا تواس کا صحیح ترجم یہ ہوتا " شریعت اور انبیاء یوحنا تک رہے اس وقت سے خدا کی بادشاہی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اورہرایک اس سے زورآزمائی کرتاہے"۔ یہ ترجمہ( متی ۱۱: ۱۲ )کے مطابق بھی ہے۔

لوقا ۲۴: ۳۲

کیا ہمارے دل جوش سےنہ بھرگئے تھے"۔

یہ تمام واقعہ(لوقا ۲۴: ۱۳سے ۳۵ )ثابت کرتاہے کہ اماؤس کی راہ پر دونوں شاگردوں نے آنخداوند کونہ پہچانا۔ کیونکہ اُن کی آنکھیں بند" تھیں (آیت ۱۶) لیکن زیربحث ترجمہ کہتاہے کہ راہ میں ہی ان کے دلوں کے جذبہ نے ان کوبتلادیا تھا کہ اُن کا ساتھی کون ہے؟ عبرانی اورارامی زبانوں میں لفظ دل سے عموماً مراد" ذہن" لی جاتی ہے۔ پس دونوں شاگردوں کا درحقیقت مطلب یہ تھا کہ جب آنخداوند اُن سے گفتگو فرمارہے تھے تواُن کی سمجھ پر پتھر پڑگئے تھے (آیت ۲۵) اوراُن کے ذہن ایسے کند اورسست ہوگئے تھے کہ وہ آپ کی شناخت بھی نہ کرسکے۔ دونوں شاگرداپنے آپ کو غبی (کم عقل)ہونے کی وجہ سے ملامت کرتے تھے۔

یہ امر قابل غور ہے کہ اناجیل کے قدیم ترین تینو ں شامی ترجموں میں" ہمارے دل جوش سے بھرگئے تھے"۔ کی بجائے الفاظ" ہمارے ذہن کند ہوگئے تھے"۔ پائےجاتے ہیں۔ حالانکہ ان شامی مترجموں کے سامنے یونانی متن موجود تھا جس سے وہ ترجمہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر ٹوری کا خیال ہے کہ یہاں ارامی لفظ یقیر" معنی"کند ،غبی یا سست تھا جس کویونانی مترجم نے بقید بمعنی جوش پڑھ کر غلط یونانی ترجمہ کردیا۔ پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے"انہوں نے آپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتااورہم پر نوشتوں کا بھید کھولتا تھا توکیا ہمارے ذہن (سچ مچ) کند نہ ہوگئے تھے۔ (کہ ہم اس کو پہچان بھی نہ سکے)؟

یوحنا ۶: ۲۱

"پس وہ اُسے کشتی پر چڑھا لینے کوراضی ہوئے"۔

موجودہ ترجمہ نہایت عجیب اورحیران کن ہے۔ آنخداوند جھیل کے پانی پرچلتے ہیں۔ شاگرد وں کی ڈر کے مارے جان نکلی جاتی ہے۔ سیدنا مسیح اُن کو ڈھارس دے کر فرماتے ہیں ۔ "میں ہوں، ڈرومت ۔ پس وہ اسے کشتی پر چڑھالینے کو راضی ہوئے"! ڈاکٹر ٹوری کہتےہیں کہ یہاں اصل ارامی لفظ" ب،ع،و" تھا۔یونانی متن کے مترجم نے "بعو" بمعنی راضی ہونا پڑھ کر موجودہ ترجمہ کردیا۔ لیکن یہ لفظ درحقیقت" بُعو" تھا جس کے معنی ہیں فرطِ انبساط (انتہائی شادمانی) سے خوش اورمسرور ہونا۔ "پس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہوا" میں ہوں، ڈرومت پس وہ اسے کشتی میں چڑھاکر نہایت مسرور ہوئے" یہی لفظ" بعُو" (استثنا ۲۸: ۶۳۔ زبور ۱۹: ۵ امثال ۲: ۱۴۔ یرمیاہ ۲۲: ۴۱ ، حبقوق ۳: ۱۴۔) میں وارد ہواہے۔

یوحنا ۱۰: ۷

"بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اورڈاکو ہیں"۔

موجودہ ترجمہ میں مفسرین کویہ مشکل پڑتی ہے کہ اس سے پہلے کی آیات میں جب سیدنا مسیح نے سامعین سے دروازہ"بھیڑ خانہ" دربان کا دروازہ کھولنا وغیرہ کی تمثیل فرمائی اوروہ تمثیل کونہ سمجھے تومقدس یوحنا کے مطابق سیدنا مسیح نے اس تمثیل کوواضح کرنے کی خاطر ان سے فرمایا کہ"بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں" ۔ لیکن اس استعارہ سے مندرجہ بالا تمثیل پر روشنی نہیں پڑتی بلکہ یہ استعارہ دماغی الجھن اورکوفت پیدا کردیتاہے۔ آپ کے سامعین تویہ سمجھ گئےکہ" چوراور ڈاکو" سے آپ کی مُراد اُن فقیہوں فریسیوں اورصدوقیوں سے تھی" ۔ جوآپ کے مخالف تھے(متی ۷: ۱۵۔ ۲۳باب، ۱۱: ۵۴ وغیرہ)جن میں سے بعض وہاں کھڑے بھی تھے اورجوآپ کے خون کے پیاسے تھے۔ وہ اچھے چرواہے نہ تھے۔ کیونکہ ان نام نہاد لیڈروں نے اہل یہود کے خیالات کواپنی من مانی تفسیروں اورتاویلوں سے ایسا کردیا تھا کہ جب مسیح موعود آئے توبھیڑیں اپنے اصلی چرواہے کو نہ پہچان سکیں۔ (حزقی ایل ۳۴: ۱تا ۱۶۔ یرمیاہ ۲۳: ۱تا ۴ وغيرہ)۔ لیکن یہ سامعین "دروازہ" کے استعارہ سے نہ آشنا تھے پس وہ "نہ سمجھے کہ یہ کیا باتیں ہیں۔ جو وہ اُن سے کہتاہے"(آیت ۶)۔ اس پر سیدنا مسیح اُن کو اپنا مطلب سمجھانا چاہتے ہیں۔ لیکن آیت کے موجودہ ترجمہ کے مطابق سمجھنے کی بجائے اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوتاہے۔

ڈاکٹر ٹوری کہتاہے کہ آیت سات میں یونانی مترجم اصل ارامی الفاظ نہیں سمجھا۔ جس کا نتیجہ یہ غلط ترجمہ ہے۔ چنانچہ اصل ارامی الفاظ یہ ہیں" اَناتِ خار حوان دِانا" ۔ لیکن ارامی حروف کی غلط تقسیم کرکے یونانی مترجم ان کو " اَناتارَ خون دِانا" پڑھ گیا۔اورت کو مشد د کرگیا۔ جس کا ترجمہ ہوگیا" میں بھیڑوں کا دروازہ ہوں" لیکن اصل ارامی الفاظ کا ترجمہ " میں بھيڑوں کا چرواہاں ہوں"۔ بعد میں آیت ۹ کو آیت ۷ کے خاطر ایزاد (اضافہ)کردیا۔ جس طرح (مرقس ۹: ۴۹ )کوسمجھانے کی خاطر اُس میں الفاظ ایزاد کردئے گئے تھے۔ پس آیت ۹ کو حذف کردینا چاہیے۔

لہذا ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے" بھیڑوں کا چرواہا میں ہوں"۔ ڈاکٹر بلیک بھی اس ترجمہ کی حمایت کرکے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ٹوری کی مجوزہ ارامی عبارت سادہ اورقدرتی ہے۔ جب " ت " کو ردکردیا جائے ۔ تواس کا یونانی ترجمہ وہی ہوتاہے ۔ جومتن میں ہے ۔1

ڈاکٹر ٹوری کا ترجمہ اناجیل کے سحیدی ترجمہ کے مطابق بھی ہے ۔ ڈاکٹر موفٹ کے خیال میں صحیح ہے۔ چنانچہ آپ اس کا یہی ترجمہ کرتے ہیں ۔2

یوحنا ۱۴: ۲

"میرے گھر میں بہت سے مکان ہیں اگرنہ ہوتے تومیں تم سے کہہ دیتا کیونکہ میں جاتاہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں"۔

موجودہ ترجمہ کے مطابق آیت کا دوسرا حصہ " اگر نہ ہوتے ۔۔۔۔ جگہ تیار کروں"۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ پس بعض مفسرین اس کو سوالہ فقرہ سمجھ کر کہ" اگر نہ ہوتے تومیں تم سے کہہ نہ دیتا؟" اس کی تاویل کرتے ہیں دیگرعلماء مختلف طریقوں سے اس مشکل کو حل کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ یہاں بھی یونانی مترجم نے ارامی الفاظ کو غلط پڑھ کر ان کے حروف کی غلط تقسیم کی ہے۔ اوریہ امر تمام مشکلات کی اصل وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں اصل ارامی الفاظ " والاِ" تھے۔ جس کے معنی ہیں" یہ واجب ہے" یا "یہ اچھا ہے لیکن یونانی مترجم نے ان کو " واِلا" پڑھا جس کے معنی ہیں" اگرایسا نہ ہوتا" چنانچہ فارسی اور عربی تراجم میں بھی موجودہ یونانی متن کا ترجمہ" وَاِلابہ شما ہے گفتم " وَاِلا فاِنی کنت قُد قلت لکم کیا گیا ہے اورناظرین آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ " وَاِلا کس طرح وَالا "ہوگیا ۔

پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے" میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ میں تم سے کہتاہوں کہ یہ اچھا ہے کہ میں جاکر تمہارے لئے جگہ تیار کروں"۔

پس اس آیت کے دوسرے حصہ کے الفاظ کا وہی مفہوم ہے " میرا جانا تمہارے لئے فائد مند ہے"۔ جہاں" اچھا آئے" فائدہ مند" یا مفید ترجمہ کیا گیاہے۔

پس چودھواں باب یوں شروع ہوتاہے:

"تمہارا دل نہ گھبرائے ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں میں تم سے کہتاہوں کہ یہ اچھا ہے کہ میں جاکر تمہارے لئے جگہ تیارکروں"۔

یوحنا ۱: ۱۸

"خدا کوکسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے۔ اُسی نے ظاہر کیا"۔

قدیم زمانہ ہی سے اس آیت کے الفاظ زیربحث رہے ہیں۔ اس آیت دوامور غورطلب ہیں۔


1 Black, Aramaic Approach p.193 Note 2 Moffat, New Translation of N.T

:اول جب سیدنا مسیح دنیا میں تھے تووہ "باپ کی گود" میں تھے۔ کیوں کہ آپ نے تجسم اختیار کرلیاہوا تھا۔ لیکن اس آیہ شریفہ میں زمانہ حاضر استعمال ہواہے۔" جو باپ کی گود میں ہے" اس زمانے کا کیامطلب ہے؟

پروفیسر ٹوری کہتے ہیں کہ یونانی متن کا مترجم اصل ارامی الفاظ کو خلط کرنے کی وجہ سے غلطی کرگیا۔ یہ غلطی ارامی لفظ ھو(جواسم واحد غائب ہے) میں اور ھوا(بمعنی "جوتھا") میں تمیز نہ کرنے سے ہے۔ مقدم الذکر لفظ زمانہ حاضر کے لئے استعمال ہوتاہے دوسرےلفظ کا تعلق زمانہ ماضی سے ہے۔ مترجم نے اس مقام پر لفظ " ھوا " کو " ھو" پڑھ لیا۔ پس اس جگہ صحیح الفاظ" گود میں ہے" نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کی بجائے صحیح الفاظ" گود میں تھا"۔ ہونے چاہیں۔ اورترجمہ یہ ہے"اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں تھا"۔

: دوم "اکلوتا بیٹا" بعض یونانی نسخوں اورقدیم ترجموں میں یہ الفاظ آئے ہیں۔ لیکن دیگر قدیم ترین یونانی نسخوں میں اُن کی بجائے "اکلوتا خدا" لکھاہے اوریہ نسخے معتبر قسم کے ہیں۔ سُریانی ترجمہ (ریوائزڈ) میں بھی اس مقام پر" اکلوتا خدا "آیاہے۔ دونوں قرات یعنی" اکلوتا بیٹا" اور" اکلوتا خدا" دوسری صدی کے نسخوں میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر مافٹ اس کا یوں ترجمہ کرتے ہیں 1

" خدا کو اکلوتے بیٹے نے ظاہر کیا ہے۔ جوالہٰی(صفات سے متصف) ہے"۔

ڈاکٹر لیمز انگریزی ترجمہ پشتیہ کا ترجمہ ہے۔ اس میں لکھا ہے

" خدا کے پہلوٹھے نے جو باپ کی گود میں ہے۔ اس کوظاہر کیاہے"

ڈاکٹر ٹوری اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں

" کے اکلوتے بیٹے نے جوباپ کی گود میں تھا۔ اُس کوظاہر کیا ہے"۔

یوحنا۳: ۱۳

"آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سو ا اُس کے جوآسمان سے اُترا یعنی ابن آدم جوآسمان میں ہے"

موجودہ یونانی متن کے زمانہ حال نے" جوآسمان میں ہے" قدیم سے مفسروں کوسرگرداں کررکھاہے۔ حتیٰ کہ اس مشکل کی وجہ سے یہ الفاظ بعض قدیم ترین معتبر نسخوں میں پائے نہیں جاتے۔ چنانچہ وسٹکٹ ہارٹ نے بھی ان کو اپنی ایڈیشن سے خارج کردیا ہے 2۔ بعض مفسر اس حصے کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ 3 ابن آدم گوزمین پر ہے لیکن اس کا دل اوراصلی رہائش آسمان میں ہے بعض کہتےہیں کہ انجیل نویس کا یہ مطلب تھا کہ اب اس وقت جب میں انجیل چہارم لکھ رہاہوں ابن آدم آسمان میں ہے۔


1 Moffat, New Translation of the New Testament, also Good Speech New Testament lomsa, The Four Gospels according to the Eastern Version 2 West Cott and Hart, the New Testament in Greek. 3 Plummer, St. John (Cambridge Bible)

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ اس آیہ شریفہ کے آخری حصہ میں بھی یونانی متن کے مترجم نے ارامی الفاظ ھوا اورھو کوخلط ملط کردیاہے۔یہاں مترجم نے ارامی لفظ" ھوا(بمعنی جوتھا) کی بجائے لفظ ھو پڑھ لیا۔ جس کا تعلق زمانہ حاضرہ سے ہے۔

ڈاکٹر ٹوری کے ترجمہ سے آیہ شریفہ میں کسی قسم کی مشکل نہیں رہتی۔ چنانچہ آیت کا ترجمہ یہ ہوگا" آسمان پر کوئی نہیں چڑھا۔ سوا اُس کے جوآسمان سے اُترا یعنی ابن آدم جوآسمان پر تھا"۔

یہ ترجمہ نہ صرف سیدھا سادھا ہے جوکسی تاویل کا محتاج نہیں بلکہ آیات ۱۱، ۱۲ کے مفہوم کوواضح کردیتاہے۔

مرقس ۹: ۲۹

"یہ قسم دعا کے سوا کسی اورطرح نہیں نکل سکتی"۔

اس ترجمہ میں مشکل یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ نے شاگردوں کو" ناپاک روحوں پر اختیار بخشا"تھا۔(مرقس ۳: ۱۵۔ ۶: ۷) اوراُنہوں نے مختلف مقامات میں "بہت سی بدروحوں کونکالا" بھی تھا(مرقس ۶: ۱۳) پھرکیا وجہ ہے کہ نوکے نوشاگرد اس خاص ناپاک روح کونکال نہ سکے؟

علاوہ ازیں اس آیت سے اورمقدس متی کی انجیل سے ظاہر ہے کہ سیدنا عیسیٰ کے شاگردوں میں دعا کی کسر نہ تھی۔ بلکہ ایمان کی کسر تھی۔ اُن کے ناپاک روح کونہ نکال سکنے کی وجہ ان کی اورلڑکے کے باپ کی بے اعتقادی تھی۔(مرقس ۹: ۳۳۔ متی ۱۷: ۲۰)۔ علاوہ ازیں اس مقام پر آنخداوند شاگردوں کودعا نہ کرنے کے لئے ملامت فرماتے ہیں۔ جوان کی بے اعتقادی کا نتیجہ تھی۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ سیدنا عیسیٰ اس خاص بدورح کونکالنے سے پہلے خودبھی دعا مانگتے ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے نکالنے اوردعا مانگنے میں لازم وملزوم کا تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ یہ مشکل یونانی مترجم کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اس مقام میں درحقیقت ارامی لفظ اِلا (بمعنی " سوائے" ) نہیں لکھا تھا۔ بلکہ ارامی متن میں اس مقام پر لفظ اپ لا(بمعنی "سے بھی " ) تھا۔ یونانی مترجم ارامی حروف کے یکساں ہونے کی وجہ سے یہ غلطی کرگیا۔ پس اس عالم کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے: " یہ قسم دعا سے بھی کسی طرح نہیں نکل سکتی"۔

مرقس ۱۵: ۲۱۔ لوقا ۲۳: ۲۶۔ متی ۲۷: ۳۲

"شمعون نام ایک قرینی آدمی سکندر اور روفس کا باپ دیہات سے آتے ہوئے اُدھر سے گذرا"۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ یونانی مترجم نے اس جگہ قروائی کی واؤ کوغلطی سے نون پڑھ کر قرنائی لکھ دیاہے۔ پس اس فاضل مصنف کے خیال میں اس آیہ شریفہ میں لفظ قرنائی بمعنی قرینی نہیں تھا۔ بلکہ قروائی بمعنی دیہاتی یا کسان تھا۔ چنانچہ مقدس متی اورمقدس مرقس دونو لکھتے ہیں کہ" شمعون دیہات سے آتے ہوئے اُدھر سے گزرا "۔ ان آیات سے ڈاکٹر ٹوری صاحب کے خیال کی تصدیق اورتائید ہوتی ہے۔

جب صلیبی واقعہ کے دس سال بعد انجیل مرقس لکھی گئی توشمعون کے بیٹے مسیحی کلیسیا کے "برگزیدہ" رکن تھے۔ جب مقدس پولوس نے اپنا خط رومیوں کولکھا تواس خاندان کے چند شرکاء روم میں اقامت گزیں تھے۔ چنانچہ رسول مقبول روفس اور اس کی ماں کوسلام بھیجتے ہیں(رومیوں ۱۶: ۱۳) ۔ پس ڈاکٹر ٹوری صاحب کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" شمعون نام ایک کسان سکندر اورروفس کا باپ دیہات سے آتے ہوئے اُدھر سے گذرا"۔

یوحنا ۱: ۱۵

"یوحنا نے اس کی بابت گواہی دی کہ جومیرے بعد آتاہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا"۔

پروفیسر برنی کہتے ہیں کہ اس آیہ شریفہ کی ارامی عبارت کا صحیح ترجمہ یوں ہونا چاہیے ۔ وہ جومیرے بعد آرہاہے مجھ سے مقدم ہوگا۔ کیونکہ وہ (سب سے ) قدیم تھا۔ یعنی وہ " ابتدا" میں تھا۔ یہاں ارامی الفاظ "قدامئے اور" قدمے" استعمال کئے گئے تھے۔ جوایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ انجیل نویس نے اس صنعت کواستعمال کرکے مقدس یوحنا اصطباغی اورکلمتہ اللہ میں فرق دکھایاہے۔

یوحنا ۲۰: ۲

"وہ (مریم مگدلینی) دوڑی ہوئی گئی ۔ اوراُن (شاگردوں) سے کہا۔ کہ خداوند کوقبر سے نکال لے گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ اُسے کہا رکھ دیا"۔

اس انجیل کے مطابق " مریم مگدلینی قبر پر اکیلی گئی تھی(پہلی آیت) لیکن دوسری آیت کے آخر میں وہ صیغہ جمع" متکلم" ہمیں " استعمال کرتی ہے۔ ڈاکٹر برنی کہتے ہیں1 کہ یہاں ارامی الفاظ" لایادِانا" تھے۔ جن کو یونانی متن کے مترجم نے غلطی سے " لایُدنا" پڑھ لیا۔ مقدم الذکر فعل واحد متکلم صیغہ مونث ہے۔ جس کے معنی ہیں"میں نہیں جانتی " لیکن موخرالذکر فعل جمع متکلم ہے جس کے معنی ہیں" ہم نہیں جانتے ہیں" پس اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" میں نہیں جانتی کہ اسے کہاں رکھ دیا"۔

لوقا ۱۳: ۳۱سے ۳۳

"دیکھ میں آج اورکل بدروحوں کونکالتا اورشفا دینے کاکام انجام دیتا رہوں گا۔ اورتیسرے دن کمال کوپہنچوں گا۔ مگرمجھے آج اورکل اورپرسوں اپنی راہ جانا ضروری ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلیم سے باہر ہلاک ہو"۔

موجودہ ترجمہ کہ مطابق آیت ۳۲، اور ۳۳ میں تضاد ہے۔ آیت ۳۲ میں آنخداوند فرماتے ہیں کہ" آپ" آج اورکل" اپنا کام انجام دیں گے۔ لیکن آیت ۳۳ میں ہے۔ کہ آپ کو انہی دنوں میں " اپنی راہ جانا ضرور ہے"۔

موجودہ ترجمہ کے مطابق الفاظ" اپنی راہ جانا ضرور ہے" کامطلب بھی صحیح طورپر واضح نہیں۔ عبرانی اورارامی محاورہ کے مطابق ان الفاظ کا مطلب آپ کی صلیبی موت ہے (یوحنا۸: ۲۱۔ مرقس ۱۴: ۲۱۔ متی ۲۶: ۲۴۔لوقا ۲۲: ۲۳۔ ایوب ۳۳: ۱۸ وغيرہ)۔


1 Aramaic Origin Ch.7

علاوہ ازیں الفاظ" کمال کو پہنچوں گا" موجودہ سیاق وسباق میں موزوں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مفسرین ان کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں 1۔ اوردورِ حاضرہ کے مترجمین ان الفاظ کےمختلف ترجمے کرتے ہیں ولہاسن ان آیات میں سے الفاظ" اورتیسرے دن کمال کو پہنچوں گا " مگر آج اورکل" کوخارج کردیتاہے تاکہ ان آیات کا مطلب نکل آئے ۔

ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ الفاظ" کمال کوپہنچوں گا اناجیل اربعہ کے کسی اورمقام میں منجی عالمین کی صلیبی موت کے لئے استعمال نہیں ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ ارامی زبان میں ارامی الفاظ کا ترجمہ " کام انجام دینا" (لِمعِبدَ) اور " راہ جانا" (لِمعَبر) ہیں ان میں صرف حروف "و" اور "ر" کا فرق ہے جومشابہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے کی بجائے لکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ارامی زبان کے الفاظ" (مَشلَم) بمعنی " کمال کو پہنچوں گا" ۔۔۔۔ اور مشلم ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں ۔ یونانی مترجم نے ان ارامی الفاظ کوخلط ملط کردیاہے۔ جس کی وجہ سے ان آیات کا صحیح مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔

ڈاکٹر بلیک 2 کہتے ہیں کہ الفاظ" آج اورکل اور برسوں" شامی زبان میں ایک محاورہ ہے جس سے مراد کوئی خاص دن یا زمانہ نہیں بلکہ غیر معین وقت ہوتاہے (ہوسیع ۶: ۲) مقام زیربحث میں بھی کوئی خاص دن مراد نہیں ہیں جن الفاظ کا" آج اورکل" ترجمہ ہواہے وہ ارامی زبان میں" یوم دن ویوم اخر" ہیں۔ جن سے مراد صرف "یوم بہ یوم" ہوتی ہے اور آنخداوند کا مطلب ہے کہ میں بدروحوں کا نکالتاہوں اوریوم بہ یوم شفا بخشتا ہوں"۔ یہی الفاظ دعائے ربانی میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ " ہبہ لنالحم" (ہمیں روٹی دے)" یوم دن یوم اخر" (یوم بہ یوم) یعنی ہمیں یوم بہ روٹی دے۔

پس ڈاکٹر بلیک کے مطابق مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے :

دیکھ میں بدروحوں کونکالتاہوں اوریوم بہ یوم شفا بخشنے کا کام انجام دیتاہوں۔ لیکن میں ایک دن جلدی کمال کو پہنچوں گا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ میں یوم بہ یوم کام کروں اورایک دن جلدی جاؤں"۔

"دیکھ میں آج اورکل بدروحوں کونکالنے اورشفا بخشنے کا کام انجام دیتارہوں گا۔ اورتیسرے دن پکڑوایا جاؤں گا۔ کیونکہ یہ ضرور ہے کہ میں آج اورکل کام کروں مگر پرسوں مجھے اپنی راہ پر جانا ضرور ہے"۔

یوحنا ۱۳: ۳۱تا ۳۲

"جب وہ باہر چلا گیا تویسوع نے کہا کہ اب ابن آدم نے جلال پایا اورخدا نے اُ س میں جلال پایا اورخدا بھی اسے اپنے میں جلال دیگا بلکہ فی الفور اسے جلا ل دیگا"۔

ان آیات میں الفاظ" جلال پانا"اور" جلال دینا" چار دفعہ وارد ہوئے ہیں ۔ لیکن ان الفاظ کے اعادہ سے آیات کے معنی واضح نہیں ہوتے۔ پس قدیم زمانہ سے ہی مفسرین ان آیات کی طرح بطرح تاویل کرتے چلے آئے ہیں لیکن کسی کونمایاں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔


1 Farrar, St Luke (Cambridge Bible) 2Black, An Aramaic Approach the Gospels and Act pp.151.153

ڈاکٹر ٹوری کہتاہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ انجیل کے موجودہ قدیم ترین نسخوں کی نقل سے بھی پہلے کسی کاتب نے آیت ۳۲ کے یونانی الفاظ کے" یوتھیوس" بمعنی" اوری فی الفور" کو" کے " ہوتھیوس" بمعنی" اورخدا" لکھ دیا۔ کتابت یہ غلطی آیت ۳۱ کے آخری الفاظ کی وجہ سے غالباً سرزد ہوگئی۔ اگر ڈاکٹر ٹوری کا یہ قیاس درست ہے توان آیات کا متن یہ ہے:

" جب وہ باہر چلا گیا تویسوع نے کہا کہ اب ابن آدم نے جلال پایا اور خدا نے اس میں جلال پایا اور وہ (ابن آدم) اب فی الفور اپنے میں اُس (خدا) کوجلا ل دے گا"۔

اگر یہ درست ہے تو اس آیہ شریفہ کا یہ مطلب ہوگاکہ سیدنا مسیح اعلان فرماتے ہیں کہ عنقریب آپ اپنی ہی جان کوقربان کرکے خدا کا جلال ظاہر کرنے والے ہیں۔ اس قیاس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ الفاظ" اب میں" ایک عبرانی اورارامی محاورہ ہے جس کے معنی" اپنی جان" کے ہیں۔ بعید یہی محاورہ( ۱۔سلاطین ۲: ۲۳ )میں ہے جہاں لکھاہے" تب سلیمان بادشاہ نے قسم کھائی اورکہا کہ اگرادونیاہ نے یہ بات اپنی ہی جان کے خلاف نہیں کہی تو خدا مجھ سے ایسے ہی بلکہ اس سے زیادہ کرے"۔

پس آنخداوند اس آیہ شریفہ میں اپنی موت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن سامعین آپ کی اس رمز کو نہ سمجھے۔ جس طرح وہ خداوند کے دیگر اشارات اورکنایات کونہیں سمجھتے تھے جن کا تعلق آپ کی صلیبی موت سے تھا(یوحنا ۳: ۱۴۔ ۸: ۲۸۔ ۱۲: ۳۲، ۳۳۔ ۱۸: ۳۲ وغیرہ)۔

پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق آیاتِ بالا کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"جب وہ باہرچلاگیا تویسوع نے کہا کہ اب ابن آدم نے جلال پایا اور خدا نے اس میں جلال پایا اوروہ اُس کواپنی ہی جان سے جلال دے گا"۔

لوقا ۲۱: ۵

"اورجب بعض لوگ ہیکل کی بابت کہہ رہے تھے کہ وہ نفیس پتھروں اورنذر کی ہوئی چیزوں سے آراستہ ہے تواسلئے کہاکہ وہ دن آئیں گے ۔۔۔۔ کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جوگرایا نہ جائے"۔

اس مقام میں "نذر کی ہوئی چیزوں" کا ذکراس سیاق وسباق میں بے محل اورعجیب معلوم ہوتاہے ۔ سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کےساتھ بیت اللہ سے دور شہر کی دیوار سے باہر جاچکے تھے(مرقس ۱۳: ۱۔ متی ۲۴: ۱) اور"زیتون کے پہاڑ پر بیت اللہ کے سامنے (مرقس ۱۳: ۲) بیٹھے تھے۔غالباً اس وقت آفتاب غروب ہورہا تھا اوراس کی آخری شعاعیں بیت اللہ کی دیواروں پر پڑرہی تھیں۔ شاگرد عمارت کی حیرت سے دیکھ کر انگشت بدنداں ہوکر کہتے ہیں۔ "اے استاد دیکھ یہ کیسے کیسے پتھر اورکیسی عمارتیں ہیں(مرقس ۱۳: ۱) کیونکہ ہیکل کی دیواروں کے پتھر بڑے قد کے تھے اور بعض چالیس مکعب فٹ لمبے اوردس فٹ اوُنچے تھے۔ سنگ مرمر کی سُرخ وسفید سلیں یکے بعد دیگرے سلسلہ وارترتیب سے لگی ہوئی ایک عجب نظارہ پیش کررہی تھیں1 ۔ اس سیاق عبارت میں "نذر کی ہوئی چیزوں" کا ذکر بے جا اورغیر موزوں معلوم پڑتاہے۔ان چیزوں میں اگرپا کی طلائی زنجیر، ٹولومی فیلڈفس اوراگستس اورہیلن 2کی نذر کی ہوئی چیزیں اورتاج ، سپریں اورڈھالیں اوربیش قیمت ساغروجام وغیرہ دیگر بے بہا اشیاء تھیں3 ۔ جن کی وجہ سے ٹیسی ٹس (Tacitus 4) کہتاہے کہ "ہیکل بے شمار دولت کا خزانہ ہے"۔ لیکن ان بیش قیمت" نذر کی ہوئی چیزوں" کوتوشاگردوہاں سے دیکھ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ اگروہ ہیکل کے اندر ہوتے تووہاں بھی ان کی نظران اشیاء پر نہ پڑسکتی تھی۔ علاوہ ازیں سیدنا مسیح کے جواب میں بھی جواگلی آیت میں ہے" ان نذر کی ہوئی چیزوں" کا ذکر چھوڑ،اشارہ تک پایا نہیں جاتا۔

اس بناء پر ڈاکٹر ٹوری کا یہ خیال ہے کہ جس ارامی لفظ کا یہاں ترجمہ "نذر کی ہوئی چیزوں" کیا گیاہے۔ وہ درحقیقت" قربانیں " نہیں تھا بلکہ" رُربانیں" تھا جس کے معنی "بڑے ،کلاں، عظیم" ہیں۔ ارامی حروف تہجی میں حروف ق اور ر میں فرق نظر نہیں آتا۔ جس کی وجہ سے ارامی متن کے مترجم نے "رُربانیں" کوقربانیں" پڑھ کر" بڑے" لکھنے کے بجائے نذُر کی ہوئی چیزیں " لکھ دیاہے۔

پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" اور بعض لوگ ہیکل (بیت اللہ) کی بابت کہہ رہے تھے کہ وہ نفیس اور بڑے بڑے پتھروں سے آراستہ ہے تواُس نے کہا کہ وہ دن آئیں گے ۔۔۔۔۔ کہ یہاں کسی پتھر پرپتھر باقی نہ رہے گا جوگرایا نہ جائے"۔

یوحنا ۱۴: ۳۱ کا آخری حصہ

" اُٹھو ۔یہاں سے چلیں"۔

(یوحنا ۱۴تا ۱۶)ابواب میں آنخداوند مسیح کے آخری کلمات درج ہیں اوریہ کلمات مسلسل ہیں۔ لیکن(یوحنا ۱۴: ۳۱ )آیت کا یہ آخری حصہ اس سلسلہ کلام کو توڑدیتاہے جس کی وجہ سے نفسِ مضمون کے بیان میں خلل واقع ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں پندرھویں باب کے شروع میں یہ نہیں لکھا کہ آنخداوند اورآپ کے شاگرد ہیں چلے بھی گئے۔ بلکہ ان کے جانے کا ذکر(یوحنا ۱۸: ۱) میں آتاہے۔

ان دونوں مشکلوں کوحل کرنے کے لئے مفسرین نے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں۔ بعض کہتےہیں کہ انجیل کا یہ حصہ (ابواب ۱۵تا ۱۶) بعد زمانہ کا ہے۔ بعض ابواب( ۱۳تا ۱۶ )کی ازسر نوتشکیل کرکے کہتے ہیں ۔ کہ یہ ابواب یوں لکھے جانے چاہئیں( ۱۳: ۱تا ۳۰۔ ۱۵باب۔ ۱۶باب ۱۳: ۳۱تا ۳۸۔ ۱۴باب )۔ غرض یہ کہ(یوحنا ۱۴: ۳۱ )کا زیربحث آخری حصہ مشکلات برپا کردیتاہے۔

علاوہ ازیں انجیل کے یونانی متن سے ظاہرہے کہ اس آیہ شریفہ میں آنخداوند نے ایک بات شروع کی ہے جوادھوری رہ گئی ہے۔ اورختم ہونے نہیں پائی۔ وہ کون سی بات ہے جس سے دنیا جان لے گی کہ آنخداوند باپ سے محبت رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب موجود نہیں ۔

ایک اور امرقابل ذکر ہے۔ اگرالفاظ زیربحث آیت ۳۱ کے آخر میں نہ ہوتے تو۱۴باب کے بعد پندرھویں باب کا آغاز ایک قدرتی امر نظر آتاہے۔


1 Josephus B.J.V. 2 Helen 3 Josephus B.J.V. 5.4: 2 Macc 5.16 Josephus, Antiquities xiii 3.xv 11.3 4 https://en.wikipedia.org/wiki/Tacitus

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ ان مشکلات کی اصل وجہ آیت کے اس حصہ کا غلط یونانی ترجمہ ہے۔ ارامی انجیل کے اس حصہ کے دونوں ارامی لفظوں میں حرف’’ الف ‘‘موجود تھا یعنی پہلے لفظ کے آخر میں’’ الف‘‘ تھا اوردوسرے لفظ کے شروع میں بھی’’ الف‘‘ تھا لیکن کاتب دونوں جگہ حرف ’’الف‘‘ لکھنے کی بجائے ایک’’ الف‘‘ کونظر انداز کریا گیا یعنی دو’’الف‘‘ لکھنے کی بجائے صرف ایک ’’الف‘‘ لکھ گیا۔ جس کی وجہ سے ترجمہ یونانی میں عبارت کچھ سے کچھ ہوگئی۔ کتابت کی یہ غلطی ایک عام غلطی ہے۔اس غلطی کی وجہ سے کاتب نے لفظ قومو لکھ دیا جوصیغہ جمع کا ہوگیا اوراس کا ترجمہ ہوگیا" اٹھو یہاں سے چلیں"۔ دراصل ارامی الفاظ کا ترجمہ یہ تھا" میں یہاں سے چلنے کو کھڑا ہوں"۔

اگرآیت کا یہ حصہ اس طرح پڑھا جائے توکلمات کے تسلسل میں اورنفسِ مضمون میں کسی قسم کا فرق نہیں آتا اور(ابواب ۱۴تا ۱۶) ایک مسلسل صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ منجی عالمین فرماتے ہیں " تمہارا دل نہ گھبرائے میں جاتاہوں۔ میں پھر آکر تم کواپنے ساتھ لے لوں گا۔ میں باپ سے درخواست کروں گا اوروہ تم کو تسلی دینے والا بخشے گا۔ میں تم کو اطمینان دئے جاتاہوں۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اورنہ ڈرے۔ میں نے تم سے کہا ہے کہ میں جاتاہوں۔ اگرتم مجھ سے محبت رکھتے ہو تواس بات سے کہ میں باپ کے پاس جاتاہوں خوش ہوتے۔ اب وقت ہوتاہے۔ اس دنیا کا سردار دروازہ پر ہے۔ میری موت کا وقت آگیاہے۔ اس لئے کہ دنیا جان لے کہ میں باپ سے محبت رکھتاہوں اورجس طرح باپ نے مجھے حکم دیا میں ویسا ہی کرتاہوں میں یہاں سے جانے کو تیار کھڑا ہوں"۔یعنی میں مرنے کو تیار ہوں"۔

مرقس ۶: ۸۔(متی ۱۰: ۱۰ ۔ لوقا ۹: ۳)

"(یسوع نے بارہ کو)حکم دیاکہ راستے کے لئے سوا ء لاٹھی کے کچھ نہ لو۔ روٹی ، نہ جھولی، نہ اپنے کمربند میں پیسے"۔

جب ہم اس آیت کا انجیل اول اورسوم کے مذکورہ بالامقامات سے مقابلہ کرتے ہیں توہم پریہ ظاہر ہوجاتاہے کہ ان مقامات میں لاٹھی کو مستشنیٰ نہیں کیا گیا۔پس مختلف مفسر طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت میں ارامی لفظ جس کے اردو میں معنی" سوا" کئے گئے ہیں۔ وہ " اِلا" نہیں تھا۔ بلکہ " لا" بمعنی" نہیں" تھا۔ اس عالم کے خیال کے مطابق لفظ" اِلا" کا پہلا حرف الف درحقیقت اس سے پچھلے ارامی لفظ کا حصہ تھا اورہاں صرف لفظ" لا"تھا۔ لیکن یونانی مترجم نے اس حرف الف" کو"لا" کے ساتھ ملاکر" اِلا" پڑھا جس کا ترجمہ "سوا" ہوگیا۔ درحقیقت یہاں لفظ" لا" جس کا ترجمہ یہاں" نہیں" ہونا چاہیے۔

پس ڈاکٹر ٹوری صاحب کے مطابق اس آیہ شریفہ کا اصلی ترجمہ یہ ہے:

" اُس نے حکم دیا کہ راستے کے لئے کچھ نہ ہو۔ نہ لاٹھی نہ روٹی، نہ جھولی ، نہ اپنے کمربند میں پیسے"۔

یہ ترجمہ (متی ۱۰: ۱۰ ۔ اورلوقا ۹: ۳) کے مطابق بھی ہے۔

یوحنا۳: ۳۳

"جس یوحنا (بپتسمہ دینے والے ) نے اُس(آسمان سے آنے والے ) کی گواہی قبول کی اُس نے اس بات پر مہر کردی کہ خدا سچاہے"۔

جب ہم اس آیہ شریفہ کے سیاق وسباق پرغورکرتے ہیں توموجودہ ترجمہ کی خامی ہم پر عیاں ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اول وہ اس آیت کو غیر ضروری اورفضول بنادیتاہے۔ دوم۔ اس آیت کے ابتدائی الفاظ سے یہ خیال پیدا ہوتاہے کہ آیت کے آ خری حصہ کا نتیجہ نہایت مضبوط اورزبردست ہوگا لیکن موجودہ ترجمہ میں نتیجہ نہایت بودا اورکمزور ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت کے بعد جو عقیدہ درج ہےاس کا انحصار اس دلیل پر ہے جوزیربحث آیت میں ہے لیکن دونوں میں کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔

جس حقیقت کا یہ آیت اعلان کرتی ہے وہ پرزور الفاظ سے شروع ہوتی ہے کہ ایک تنہاایمان دار(یوحنا) نے اُس کی گواہی کوقبول کیا جوآسمان سے اُتراہے اوراُس نے قبول کرکے اس بات پر مہرلگادی ہے کہ خدا سچاہے ! اب غبی سے غبی شخص پر بھی ظاہرہے کہ یہاں نتیجہ " خدا سچا ہے" بے محل ہے۔ کیونکہ جوشخص خدا پر ایمان لاتاہے اس کواس بات کے ماننے کے لئے کسی" مہر" کی ضرورت نہیں کہ" خدا سچاہے"۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ ارامی میں اصل لفظ "اِلاہ" بمعنی ربانی یا سماوی ) تھالیکن یا توارامی نسخہ کے کاتب نے اس لفظ کے بعدایک اورالف ایزاد کردیا یا یونانی مترجم نے اس کو"اِلاہا" پڑھ لیا جس کے معنی" خدا " ہوگئے۔

پس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہوا:

"جس (یوحنا) نے اُس (آسمان سے آنے والے) کی گواہی قبول کی اُس نے اس بات پر مہردی کہ وہ سچ مچ ربانی یا(سماو) ہے"۔

یہ ترجمہ نہ صرف ۲۹تا ۳۴ آیت کے مفہوم کے مطابق ہے بلکہ سیاق وسباق اس کے خواہاں ہیں۔ یہ ترجمہ آیت ۳۵ کے الفاظ کے مطلب کو بھی روشن کردیتاہے ۔ جس میں لکھا ہے کہ خدا نے اپنے مسیح کو روح ناپ کرنہیں بلکہ کامل اوراکمل طورپر عطا کی تھی۔

یوحنا ۳: ۳۴

"کیونکہ جسے خدا نے بھیجا ہے وہ خدا کی باتیں کہتاہے۔ اس لئے کہ وہ روح ناپ ناپ کر نہیں دیتا"۔

گذشتہ آیت کی نسبت ہم نے بتلایا تھاکہ ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس سے پہلی آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"جس (یوحنا) نے اس کو (آسمان سے آنے والے یعنی یسوع) کی گواہی قبول کی اس نے بات پر مہردی کہ وہ (یسوع) سچ مچ ربانی (یاسماوی) ہے"۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ آیت ۳۴ میں جس ارامی لفظ کا ترجمہ" دیتا" کیا گیا ہے وہ " یہب" ہے۔یونانی مترجم نے اس لفظ میں حرف ’’ی‘‘ پر’’ زبر ‘‘اورحرف’’ ہ ‘‘پر ’’زیر‘‘ لگاکر اس لفظ " کویَہِب" پڑھا۔ جس کی وجہ سے اس لفظ کا ترجمہ" دیتا"ہوگیا۔ ڈاکٹر موصوف کے خیال میں اس لفظ میں حرف ’’ی‘‘ پر’’ زیر‘‘ اور’’ہ ‘‘پر’’ زبر‘‘ تھی۔ پس مترجم کواسے "یِہَب" پڑھنا چاہیے تھا۔ جوفعل ماضی ہے اورجس کا ترجمہ " دی" ہونا چاہیے تھا۔

پس ڈاکٹر موصوف کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح اُردو ترجمہ یہ ہے:

" کیونکہ جسے(یسوع کو) خدا نے بھیجاہے وہ خدا کی باتیں کہتاہے ۔ اس لئے کہ اس نے (یسوع کو) روح ناپ ناپ کر نہیں دی "۔

یوحنا ۵: ۴۴

"تم جوایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اوروہ عزت جوخدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے یا نہیں چاہتے کیوں کر ایمان لاسکتے ہو؟"

اس مقام میں جیسا پروفیسر ذاہن کہتاہے۔ الفاظ" خدائے واحد" موزوں نہیں ہیں۔ ابتدائی زمانہ کی قرات بھی اس مفسر کی حمایت کرتی ہے۔

اس سے پہلی آیت میں حقیقی مسیح موعود کا جو" باپ کے نام سے آتاہے"۔ دیگر کاذب دعویداروں سے جو" اپنے ہی نام سے آتے ہیں" مقابلہ کیا گیاہے۔پس آیہ زیربحث میں" خدائے واحد" کے الفاظ بے محل اور غیر موزوں ہیں کیونکہ وہ سیاق وسباق کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر ٹوری کہتاہے کہ یونانی مترجم نے جس ارامی لفظ کا ترجمہ اس آیت میں" خدائے واحد" کیا ہے وہی لفظ ہے جو(یوحنا ۱: ۸ اور ۳: ۱۸) میں وارد ہواہے جہاں اس کا ترجمہ" اکلوتا بیٹا" کیا گیاہے۔ اگریہ درست ہے تواس آیہ شریفہ کا یہ مطلب ہے کہ دنیا کے لوگ کاذب دعویدارانِ مسیحیت کوقبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے دلوں میں اُس عزت کوحاصل کرنے کی خواہش موجود نہیں جوحقیقی مسیح موعود اُن کودیتاہے۔

ڈاکٹر ٹوری کے مطابق مترجم کے سامنے جوارامی نسخہ تھا، اس میں ان دولفظوں میں سے (جن کا ترجمہ " خدائے واحد " کیا گیاہے) حرف الف پہلے لفظ کے آخر میں اوردوسرے لفظ کے شروع میں تھا لیکن الف کو صرف دولفظ کے شروع" الہد" میں ہی ہونا چاہیے تھا۔

پس اس عالم کے مطابق آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

" تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جوخدا کے اکلوتے بیٹے کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیوں کر ایمان لاسکتے ہو"۔

یوحنا ۸: ۵۶

"تمہارا باپ ابرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا۔ چنانچہ اُس نے دیکھا اورخوش ہوا"۔

پروفیسر برنی کہتے ہیں کہ ان دونوں فقروں میں لفظ" خوش" نہایت بے محل ہے اورغیر موزوں بھی ہے۔ پہلے فقرے میں لفظ" خوش" کی بجائے کوئی اورلفظ اصل ارامی زبان میں تھا۔ جس کامطلب یہ تھاکہ ابراہام میرا دن دیکھنے کی بہت تمنا رکھتا تھا یا وہ میرا دن دیکھنے کا نہایت مشتاق تھا۔ تب دوسرا فقرہ ایک نہایت زودار اورپُرمعنی فقرہ ہوسکتاہے ۔ موجودہ ترجمہ میں لفظ" خوش" کا اعادہ کیا گیاہے۔ جس سے نہ صرف زورکم ہوجاتاہے بلکہ فقرے کے دونوں حصوں میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ اصل ارامی کے کاتب نے یایونانی مترجم نے دونوں فعلوں کوجن کا ترجمہ یہاں پر دونوجگہ"خوش" کیا گیاہےگڈ مڈ کردیاہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ دونو فعلوں کا غلط ترجمہ ایک ہی لفظ یعنی خوش کیا گیاہے۔ اس گڈ مڈ کی وجہ یہ ہے کہ یاارامی کاتب نے اوریایونانی مترجم نے ایک الف کو نظر انداز کردیاہے۔ پس اس فاضل مصنف کے مطابق پہلے فقرہ کے فعل میں حرف ’’الف‘‘ کو ایزاد کردینا چاہیے۔

پس ڈاکٹر موصوف کے مطابق اس آیہ شریفہ کا اصل ترجمہ یہ ہے:

"تمہارے باپ ابراہام نے میرا دن دیکھنے کی اُمید کے لئے دعا کی۔ چنانچہ اُس نے دیکھا اورخوش ہوا"۔

پروفیسر برنی کہتے ہیں 1کہ یہاں ارامی میں جو لفظ استعمال کیا گیا تھا اس کے معنی" خواہش مند" ہیں جس کا یونانی کے مترجم نے غلط ترجمہ کرکے اس آیت کے دونوں حصوں کوایک سابنادیاہے۔ پس پروفیسر موصوف کےمطابق اس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"تمہارا باپ ابراہام میرا دن دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ چنانچہ اُس نے دیکھا اورخوش ہوا"۔

مرقس ۱۰: ۳۲

"اور وہ یروشلیم کوجاتےہوئے راستہ میں تھے اوریسوع اُن کے آگے آگے جارہا تھا۔ اوروہ حیران ہونے لگے اورجوپیچھے پیچھے چلتے تھے ڈرنے لگے"۔

اس آیہ شریفہ میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ اصل یونانی میں لفظ "وہ " جوتیسرے فقرے کا فاعل ہے۔ موجود نہیں ہے ۔ پس یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کون"حیران ہونے لگے" ؟ اگریہ شاگرد تھے توان کے حیران ہونے کی معقول وجہ کیا تھی؟ علاوہ ازیں وہ کون لوگ تھے" جوپیچھےپیچھے چلتے تھے"؟ اوریہ لوگ کیوں ڈرنے لگے"؟ عموماً مفسرین کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ تھے جوکارواں میں عیدِفسح کے لئے یروشلیم کوجاتے ہوئے" آنخداوند کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ لیکن آیت ۳۲ کے دوسرے حصے اورآیت ۳۳ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جو" پیچھے پیچھے چلتے تھے" کوئی غیر نہیں تھے بلکہ وہ بارہ شاگرد ہی تھے۔ پس یہ تفسیر درست نہیں ہوسکتی۔ اوراگرہم ایک لمحہ کے لئے اس کودرست مان بھی لیں توپھراس سوال کا کیا جواب ہے کہ کارواں کے لوگوں کے لئے" ڈرنے" کا کیا موقعہ تھا؟

پس بعض مفسر مثلاً ڈاکٹر ٹرنر(C.H. Turner) اورڈاکٹر سامنڈ(Salmond) وغیرہ کہتےہیں کہ اس مقام میں یونانی متن میں کچھ فتورواقع ہوگیاہے اوراصل قرات یہ ہوگی کہ "وہ حیران ہونے لگا "۔2


1 C.F. Burney, The Aramaic Origin of the Fourth Gospel ch.7 2 St. Mark (Cent Bible) p.701

اصل حقیقت یہ ہے کہ ارامی زبان کے ہر لفظ کا ایک ایک حرف انگریزی ،ہندی اورپنجابی زبانوں کے الفاظوں کی طرح الگ الگ لکھا جاتا تھا اورارامی عبارت کے فقروں کے درمیان یا عبارت کے لفظوں کے درمیان لکھتے وقت کوئی فاصلہ یا وقفہ نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ اورنہ ایک فقرہ کے ختم ہونے کے بعد اوردوسرے فقرے کے شروع کرنے سے پہلے کاتب کوئی فاصلہ چھوڑتا تھا۔ پس کاتب اورمترجم دونوں سے اس غلطی کے ہونے کا امکان تھا کہ وہ کسی ایک لفظ کے آخری حرف کواس کے بعد کے دوسرے لفظ کے شروع کا حرف سمجھ لیں یا دوسرے لفظ کے شروع کے حرف کو پہلے لفظ کا آخری حصہ سمجھ لیں۔

آیہ زیرِبحث میں اسی قسم کی غلطی واقع ہوگئی ہے جس سے مطلب خبط ہوگیاہے۔ اس مقام کی ارامی عبارت میں حرف عطف واؤ (بمعنی اور) جو درحقیقت آیت کے چوتھے فقرے کا پہلا حرف ہے"(اورجوپیچھے پیچھے وغیرہ) اس کو ارامی کاتب نے یایونانی مترجم نے تیسرے فقرے(وہ حیران ہونے لگے)" کے آخری لفظ" ہونے " کا آخری حرف سمجھ لیا جس سے یہ فعل صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع ہوگیا یعنی" ہونے لگا" کی بجائے" "ہونے لگے" ہوگیا۔کیونکہ ارامی اورعبرانی زبانوں میں حرف واؤ حرفِ عطف بھی ہے اور جمع کی نشانی بھی ہے۔ پس اصل ارامی متن میں اس فقرے کا فعل واحد تھا۔(حیران ہونے لگا) اورچونکہ اس سے اگلا فقرہ حرف واؤ (جودرحقیقت حرف عطف تھا) سے شروع ہوتاہے لیکن یونانی مترجم نے اس کو اس فعل کے جمع کی نشانی خیال کرکے فعل کو جمع بنادیا۔ جس سے آیہ زیربحث بے معنی ہوگئی۔

یہاں لفظ " حیران" سے مُراد حیرت نہیں ہے۔ بلکہ بے قراری اور بے چینی مُراد ہے۔ دیکھو( مرقس ۱۴: ۲۳)۔

پس اس آیہ شریفہ کا اصل ترجمہ یہ ہے:

" اور وہ (یعنی سیدنا مسیح اور شاگرد) یروشلیم کو جاتے ہوئے راستہ میں تھے اور یسوع اُن کے آگے آگے جارہا تھا اوروہ بے چین ہونے لگا اور(شاگرد) جوپیچھے پیچھے چلتے تھے (اس کی بے قراری کودیکھ کر) ڈرنے لگے ۔

یوحنا ۱: ۱۳

"وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے"۔

اس آیت میں بھی ارامی متن کے کاتب سے یا یونانی کے مترجم سے وہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ جو(مرقس ۱۰: ۳۲ )میں ہوئی تھی۔ یعنی حرفِ عطف واؤ جس سے اگلا فقرہ(کلام مجسم ہوا) شروع ہوتاہے ، آیت زیربحث کے آخری لفظ یعنی فعل" ہونا" کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے جس سے وہ فعلِ واحد(پیدا ہوا) کی بجائے جمع (پیدا ہوئے ) ہوگیا۔ کیونکہ ارامی اورعبرانی زبان میں حرف واؤ حرفِ عطف ہونے کے علاوہ جمع کی نشانی بھی ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہاں فعل مستقبل کے زمانہ میں نہیں ہے بلکہ ماضی کے زمانہ میں ہے یعنی" پیدا ہوں گے" نہیں ہے بلکہ"پیدا ہوئے" ہے۔ پس یہاں کوئی وعدہ موجود نہیں ہے کہ مومنین ازسرنوپیدا ہوں گے۔(دیکھو یوحنا ۳: ۳)۔ یہاں عبارت کا مفہوم بھی اسی بات کا مقتضی ہے کہ اس فعل کا تعلق صرف ایک واحد ذات کے ساتھ ہو۔ کیونکہ صرف ایک ہی واحد اکلوتا بیٹا تھا جو"نہ جسم کی خواہش سے اورنہ انسان کے ارادہ سے" پیدا ہوا ۔تمام ایماندار جسم کی خواہش سے اورانسان کے ارادہ سے پیدا ہوتے آئے ہیں اورپیدا ہوتے رہیں گے(دیکھو یوحنا۱: ۸۔ ۳: ۱۶۔ ۳: ۱۸ وغیرہ)۔

پس آیہ زیربحث کا اصل ترجمہ یہ ہے:

" وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوا"۔

صرف یہی ترجمہ عبارت کے سیاق وسباق کے مطابق ہوسکتاہے۔ "وہ (کلام) اپنوں کے پاس آیا اوراس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا۔ اس نے اُن کوخدا کے فرزند بننے کا حق بخشا۔۔۔۔۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادے سے بلکہ خدا سے پیدا ہوا۔اورکلام مجسم ہوا اور فضل اورسچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اورہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال"۔

اس ترجمہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں تک تجسم کے مفہوم اورسیدنا مسیح کی پیدائش کا تعلق ہے۔ مقدس یوحنا اورانجیل اول وسوم کے بیانات میں رتی بھر فرق نہیں ہے۔

متی ۲: ۲۳

"اور(یوسف) ناصرت نام ایک شہر میں جابسا۔ تاکہ جونبیوں کی معرفت کہا گیا تھا۔ وہ پورا ہو کہ وہ (یسوع)ناصری کہلائے گا"۔

پہلی صدی مسیحی سے انجیل اول کے مفسرین اُن مقامات کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں۔ جہاں"نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا کہ وہ ناصری کہلائے گا"۔لیکن ان سے یہ معما تاحال حل نہیں ہوسکا۔ کیونکہ وہ یہ بات فرض کرتے رہے ہیں کہ یہ انجیل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ لیکن ان کو عہدِ عتیق کے صحفِ انبیاء میں کوئی ایسے مقامات نہیں ملے جن کی بناء پر یہ کہا جاسکے کہ آنخداوند کا" ناصری" کہلانا پورا ہوا۔

چوتھی صدی میں مقدس جیروم نے اوراس کے بعد دیگر مفسرین نے یہ بے سود کوشش کی کہ اس آیہ شریفہ کویسعیاہ نبی کے صحیفہ (یسعیاہ ۱۱: ۱) سے متعلق کیا جائے جہاں لکھاہے کہ" یسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی"۔ اوراس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی"۔ یہ کوشش ناکام رہی ہے۔ کیونکہ یہاں لفظ" ناصری" نہیں ہے۔

لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ انجیل نویس کی مُراد اسی آیت یعنی (یسعیاہ ۱۱: ۱) سے ہے۔ اورچونکہ حضرت یرمیاہ نبی مسیح موعود کے لئے لفظ" شاخ" استعمال کرتاہے (یرمیاہ ۲۳: ۵، ۳۳: ۱۵) لہٰذا انجیل نویس صیغہ جمع کا استعمال کرکے کہتاہے کہ "جو (یسعیاہ اوریرمیاہ )نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوا"۔

ڈاکٹر ٹوری جوارامی زبان کے ماہر ہیں لفظ" ناصری" کے معما کویوں حل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ۔ کہ یہ انجیل پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اوراس آیت کے ارامی متن میں جوالفاظ تھے وہ یہ تھے۔

" نصریتقرا" جن کے معنی ہیں" وہ شاخ کہلائے گا"۔ لیکن ارامی کاتب نے یایونانی مترجم نے دوسرے لفظ" یتقرا" کے پہلے حرف ی کواس سے پہلے لفظ" نصر" کا آخری حرف سمجھ لیا۔ اور یوں لفظ" نصر" حرف ’’ی ‘‘کے ساتھ "نصری" ہوگیا اوراس کا یونانی زبان میں " شاخ" کی بجائے" ناصری" ترجمہ ہوگیا۔

اس غلطی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ارامی عبارت کے فقروں کے درمیان اورفقروں کے مختلف الفاظ کے درمیان اور الفاظ کے حروف کے درمیان (جوالگ الگ لکھے جاتے تھے) کوئی وقفہ یا فاصلہ چھوڑا نہیں جاتا تھا ۔ پس کاتب کے سامنے ارامی عبارت یوں تھی:

"ن ص ر ی ت ق را"۔ پس کاتب یا مترجم نے "یتقرا" کی’’ ی‘‘ کواس سے پہلے لفظ "نصر" کا آخری حرف سمجھ کر" نصری" لکھ دیا۔ اور"یتقرا" کی’’ ی ‘‘کو بھی بحال رکھا۔ اوراس کویوں پڑھا۔

"ن ص ر ی ی ت ق را " یوں لفظ " نصر" بمعنی ’’شاخ ‘‘جس کا ذکر یسعیاہ اوریرمیاہ نبیوں کے صحیفوں میں موجو د ہے" نصری" یعنی ناصری ہوگیا۔ چونکہ اس زمانہ میں کتابوں طوماروں میں لکھی جاتی تھی اورابواب اورآیات میں منقسم نہ تھیں لہٰذا ارامی کاتب یا یونانی مترجم نے طوماروں کوکھول کر حوالہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بالخصوص جب کہ یہ آیہ زیربحث میں کسی خاص نبی کا نام بھی نہیں لکھا تھا۔

چونکہ ارامی زبان میں الفاظ" ناصرت" اور"نصر" ایک ہی اصل سے ہیں ۔لہٰذا انجیل نویس یہاں صنعت ایہام اورتجنیس استعمال کرکے لکھاہے کہ حضرت یوسف ناصرت میں جا بسا تاکہ جویسعیاہ اوریرمیاہ نبی کے صحیفوں میں لکھا تھاوہ پورا ہو کہ یسوع ’’نصر‘‘یعنی شاخ کہلائے گا۔

یوحنا ۷: ۳

"یہودیوں کی عیدِ خیام نزدیک تھی۔ پس اُس (یسوع) کے بھائیوں نے اس سے کہا۔ یہاں(یعنی گلیل) سے روانہ ہوکر یہودیہ کوچلا جاتاکہ جوکام توکرتاہے اُنہیں تیرے شاگرد بھی دیکھیں"۔

موجودہ یونانی ترجمہ حیران کن ترجمہ ہے۔ کیونکہ آنخداوند کے گلیلی شاگرد توآپ کے معجزاتِ بینات (روشن دلائل)کوہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ پس بعض مفسرین لفظ" شاگرد" سے مراد اُن شاگردوں سے لیتے ہیں، جواُن کے خیال میں یہودیہ میں رہتے تھے۔ لیکن آیہ شریفہ کے سیاق وسباق سے اس تاویل کی حمایت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس سے اگلی آیت میں ہی آپ کے بھائی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ توگذشتہ سال بھی عیدِ خیام کے موقعہ پر یروشلیم نہیں گیا تھا لیکن" ایسا کوئی نہیں جومشہور ہونا چاہے اورچھپ کر کام کرے۔ اگرتویہ کام کرتاہے تواپنے آپ کو دنیا پرظاہر کر" ان الفاظ سے صاف ظاہرہے کہ آنخداوند کے بھائیوں کا مطلب یہ تھا کہ اگرآپ فی الحقیقت مسیح موعود ہیں توآپ کویروشلیم میں جاکر عیدِ خیام کے موقعہ پر بین نشانوں کے ذریعہ دنیا پر یہ بات ظاہر کردینی چاہیے اوراپنی کوششوں کو دُور افتادہ گلیل کے صوبہ کے جاہل اورگنوار عوام تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر ٹوری کہتے ہیں کہ ارامی زبان میں اس فقرہ کا فعل (دیکھیں) جمع غائب ہے۔ جس کا فاعل"لوگ" فعل میں ہی مضمر ہے۔ ارامی کاتب نے یا یونانی مترجم نے حرفِ عطف واؤ کو جوالفاظ "تیرے شاگردوں" سے پہلے ارامی عبارت میں تھا نظر انداز کردیا اوریوں اس آیہ شریفہ کا اصل مطلب خبط ہوگیا۔آنخداوند کے بھائیوں کے مشورہ کا اصل مقصد یہ تھا کہ توعیدِ خیام کے موقعہ پر گلیل سے یروشلیم جا، وہاں تمام ارض مقدس (دنیا) جمع ہوگی اورقوم کے اُمراء اوررؤسا، علما ء اورفضلا سب لوگ اُن کاموں کودیکھ سکیں گے جوتوکرتاہے اوروہ تیرے شاگردوں کوبھی دیکھ سکیں گے جویہاں گلیل سے اوردوسری جگہوں سے یروشلیم میں جمع ہوں گے۔ کیونکہ ایسا کوئی نہیں جومشہور ہونا چاہیے اورگمنام مقاموں اورعام لوگوں میں ہی کام کرے۔ اگرتیرے کام فی الواقع مسیحائی کام ہیں تواپنے آپ کویروشلیم میں عید کے موقعہ پر ظاہرکر جہاں تمام دنیا جمع ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس ترجمہ میں نہ کسی تاویل کی ضرورت ہے اورنہ کوئی مشکل باقی رہتی ہے۔ پس ڈاکٹر ٹوری کے مطابق اس آیہ شریفہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"اس کے بھائیوں نے اس سے کہا۔ یہاں سے روانہ ہوکر یہودیہ کوچلا جاتا تاکہ (لوگ) تیرے شاگردوں کواورتیرے کاموں کودیکھیں"۔

یوحنا۷: ۳۷۔ ۳۸

پھر عید کے آخری دن یسوع کھڑا ہوا اور اس نے پکار کر کہا۔ اگر کوئی پیاسا ہو تومیرے پاس آکرپئے۔ جومجھ پر ایمان لاتاہے اُس کے پیٹ سے جیسا کتاب مقدس نے کہاہے زندگی کے پانی کے دریا جاری ہوں گے۔

موجودہ ترجمہ کے مطابق یہ پتہ نہیں چلتا کہ خداوند مسیح نے اس مقام میں کس" کتابِ مقدس" کا حوالہ دیا ہے اورعبرانی کتب مقدسہ میں کس جگہ آیاہے کہ ایماندار کے پیٹ سے زندگی کے پانی کے دریا جاری ہوں گے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں آنخداوند نے (یسعیاہ ۴۴: ۳۔ ۵۵:۱۱۔ زکریاہ ۱۳: ۱۔ ۱۴: ۸۔ حزقی ایل ۴۷: ۱۔ ۱۲ یوایل ۳: ۱۸۔ یرمیاہ ۲: ۱۳)۔ وغیرہ کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ لیکن ان تمام حوالہ جات میں الفاظ "اس کے پیٹ سے " کہیں نہیں ملتے۔ ان حوالجات کا یہ مطلب ہے کہ چونکہ اہل یہود کے خیال کے مطابق یروشلیم دنیا کی ناف یعنی مرکز ہے‘‘۔ لہٰذا مسیح موعود کے زمانہ میں زندگی کے پانی کے دریا یروشلیم کی ہیکل کی پہاڑی میں پھوٹ کر بہہ نکلیں گے اوردُور ونزدیک کے انسانوں کی زندگیوں کوسیراب کردیں گے۔ سیدنا مسیح نے اپنے سامعین کومطلع فرمایا کہ اب مسیح موعود کا دورشروع ہوگیاہے لیکن اُن میں سے کسی نے بھی الفاظ" اس کے پیٹ سے" کو نہ سمجھا ہوگاکیونکہ جیسا مقدس کرسسٹم نے کہاہے یہ الفاظ کتابِ مقدس کے کسی حصہ میں نہیں ملتے۔ ارامی زبان کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ الفاظ نہ عبرانی محاورہ کے مطابق ہیں اورنہ ارامی محاورہ کے مطابق ہیں۔

آیت ۳۸ کے پہلے حصہ کے الفاظ میں ڈکس بینری میں اختلافِ موجود ہے1 اوراس قرات کوقبول کرکے مغربی کلیسیا کے قدیم مفسرین (اوربعض جدید مفسرین بھی ) کہتے ہیں کہ یہ الفاظ "جومجھ پر ایمان لاتاہے" درحقیقت آیت ۳۷ سے متعلق ہیں اورسیدنا مسیح کا یہ قول دومتوازی حصوں پر مشتمل ہے۔"جوکوئی پیاساہے وہ میرے پاس آئے ۔ جومجھ پر ایمان لاتاہے وہ پئے"۔

آیت ۳۸ کے باقی ماندہ حصہ کی نسبت مختلف علماء کے مختلف خیال ہیں۔ ڈاکٹر برنی 2 کہتاہے کہ مذکورہ بالا کتب مقدسہ کے حوالہ جات ظاہر کرتے ہیں کہ اس مقام میں کوئی لفظ تھا جس کا مطلب" چشمہ یاندی" تھا ۔جس کو یونانی متن کے مترجم نے غلط پڑھ کر وہ یونانی لفظ لکھ دیا جس کے معنی" پیٹ" ہیں۔ چنانچہ اس عالم کے خیال میں یہاں اصل ارامی لفظ" مِین" (بمعنی چشمہ) تھا ۔ جس کو یونانی کے مترجم نے"مینِ" (بمعنی پیٹ) پڑھ کر غلط ترجمہ کردیا ۔ پس اس عالم کے خیال میں آیت ۳۸ کے باقی ماندہ حصہ کا ترجمہ یہ ہے" جیسا کتابِ مقدس نے کہاہے ۔ زندگی کے پانی کے چشمہ سے دریا جاری ہو گے"۔ اوران آیات کا ترجمہ یہ ہے" "یسوع نے پکار کر کہا۔ جوکوئی پیاسا ہے وہ میرے پاس آئے۔ جومجھ پر ایمان لاتاہے وہ پئے جیسا کتابِ مقدس نے کہاہے زندگی کے پانی کے چشمہ سے دریا جاری ہوں گے"۔

ڈاکٹر ٹوری کے خیال میں ڈاکٹر برنی کا یہ حل درست نہیں۔ وہ کہتاہے کہ سیدنا مسیح نے اس آیت میں صاف اور واضح طورپر( زبور۴۶ کی آیت ۴) کی جانب اشارہ کیاہے کیونکہ اس آیت میں نہ صرف لفظ "دریا" موجود ہے بلکہ اگلی آیت میں الفاظ" اس(یروشلیم) کے بیچ میں" موجود ہیں اور سیدنا مسیح کے سامعین جویروشلیم میں کھڑے تھے آپ کے اصلی مفہوم کوپاگئے کہ آپ یہاں زبور شریف کی(زبور ۴۶: ۴)کا اقتباس فرمارہے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف کہتاہے کہ یہاں ارامی لفظ" گو" تھا جواسم ضمیر مونث کے صیغہ میں لفظ " گوَہ" ہوگیا جو"شہر کے بیچ" کے لئے ہمیشہ استعمال ہوتاہے(عزرا ۴: ۱۵) لیکن جب لفظ" گوَ" کے ساتھ اسم ضمیر مذکرہوتب یہ لفظ" گِوہ" پڑھا جاتاہے جوارامی کتب" مترجم" میں انسانوں اور حیوانوں کے پیٹ کے لئے استعمال ہواہے۔پس یونانی مترجم نے اس مقام میں ارامی لفظ" گوّہ" (بمعنی شہریروشلیم کے بیچ میں) کوغلطی سے" گِوہ" پڑھ کر غلط ترجمہ کرکے" اس کے پیٹ سے" لکھ دیا۔ ڈاکٹر ٹوری کے ترجمہ کے مطابق سیدنا مسیح کا مفہوم نہایت واضح ہوجاتاہے کہ آ پ کی آمد سے مسیحائی دوُر شروع ہوگیاہے اوراب شہر یروشلیم کی ہیکل کی پہاڑی میں سے زندگی کے پانی کے دریا بہہ نکلیں۔ پس ڈاکٹر موصوف کے مطابق ان آیات کا صحیح ترجمہ یہ ہے:

"پھرعید کے آخری دن یسوع کھڑا ہوا اور اُس نے پکار کرکہا۔

جوکوئی پیاساہے وہ میرے پاس آئے۔ جومجھ پر ایمان لاتاہے وہ پئے"۔

(اب وہ وقت آگیاہے) جیسا کتابِ مقدس نے کہاہے اس شہر (یروشلیم) کے بیچ سے زندگی کے پانی کے دریا جاری ہوں گے"۔


1 Strachan, the Fourth Gospel p.202 2 Burney, Aramaic Origin of the Fourth Gospel p.110