Born 296.AD Died 373.AD
St. Athanasius
ON THE INCARNATION
کلام اللہ کے تجسم
کے بیان میں
مُقدّس اثناسیس کا رسالہ
مترجمہ پادری ایس۔اے۔سی۔گھوس بی۔اے
کرسچن نالج سوسائٹی انار کلی لاہور
۱۹۰۸
مطبوعہ فیض بخش سٹیم پریس فیروز پور شہر
اثناسیس کا احوال
اس رسالے کے مصنّف یعنی مقدّس اثناسیس مسیحی کلیسیا کے سب سے عظیم القدر ارکانِ دین میں سے ہیں اور یہ خاص کر اِس لئے مشہور ہیں کہ جو بدعت اَرایس کے نام سے مشہور ہے جس سے مسیح کی اُلُوہیّت کا انکار متصور تھا اُس کا رد انہوں نے اپنی تصنیفات (لکھی ہوئی کُتب میں)اور نیز اپنے انتظامی عمل در آمد دونوں طرح سے کیا۔
یہ بزرگ عارف۲۹۷ءمیں شہر اسکندر یہ میں پیدا ہوئے اور ۳۷۳ءمیں وہیں انتقال کرگئے۔ اِن کے لڑکپن میں بڑا ظلم واقع ہوا جو شہنشاہ روما مَکسِمِنُیس دارا کی طرف سے ۳۰۳ءتا ۳۱۳ءمیں ہوا اور اُسی ظلم میں پطرس اُسقُفِ اسکندر یہ ۳۱۱ءمیں شہید ہوئے۔ ۳۱۸ءمیں اثناسیس ڈیکن کے عہدے پر مامور ہوئے اور شہر اسکندر یہ کے اُسقف(پادریوں کا سردار، لارڈ بشپ) اسکندر یہ نے اُن کو بیٹے کے طور پر رکھا اور جلد آرچ ڈیکن کے منصب پر پہنچا دیا۔ اِس حیثیّت سے اُسقف کا خاص مددگار ہوکر اثناسیس کو شہر نیکایا کے مجمع عام میں جانے کا اتِفاق ہوا اور وہاں اُنہوں نے آرائی بدعت کی تردید میں اِس قدر علم اور سنجیدگی اور حلیمی روحانی جوش کے ساتھ دکھائی کہ ہر دلعزیز ہوگئے اور ۳۲۶ءمیں جب اسکندر یہ کے صدر اُسقف کا انتقال ہوا تو صرف اُنتیس (۲۹)برس کی عمر میں اُس کی جگہ اُس بڑے شہر اور بڑے علاقے کے صدر اُسقُف ہوگئے۔ تقریباً سات برس تک اُنھوں نے امن اور چین کی حالت میں اپنا کام انجام دیا مگر ۳۳۳ءسے لے کر ارائی بدعتیوں نے اُن کو تکلیف دینی شروع کی اور چونکہ اُن لوگوں کی قیصر کے حضور تک رسائی تھی اِس لئے بار ہا اُن کو اسکندریہ نکلوا دیا۔ یہاں تک کہ اُن کی عمر کے با قی چالیس (۴۰)برس کا نصّف حِصہّ جلاوطنی ہی کی حالت میں گرزا اور پانچ دفعہ اُن کو نکل کر بھاگنا پڑا لیکن جب واپس آتے تھے تو اہل ِشہر اپنی طرف سے اُن کو بڑے شوق اور بڑی تعظیم و توقیر (عزت)سے لاتے تھے۔ آخر کار ۳۷۳ءمیں ستترّ (۷۷)برس کی عمر وفات پائی۔
مقّدس اثناسیس نے ارائی بدعتیوں کے خلاف بہت سی کتابیں اور رسالے تصنیف کئے مگر اِس بدعت کے نکلنے سے پہلے اُنھوں نے دو خاص رسالے تصنیف کئے۔ پہلا بنام۔ تردید غیر اقوام دوسرا کلام اللہ کے تجسّم کے نا م سے۔ اور اِس دوسرے رسا لے کا ترجمہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اِس کے چند ابواب چھوڑے گئے ہیں جو حال کی معلومات سے مواقف نہیں رکھتے۔
فہرست مضامین کو دیکھ کر اس رسالے کا سِلسِلہ دلائل معلوم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی پیدائش۔ آدمی کا گناہ۔ کلام اللہ کا تجسُّم۔ اور مسیح کی موت اور قیامت۔ یہ اِس رسالے کے اوّل حِصّے ( یعنی باب ۲ تا ۳۲) کے مضامین ہیں۔ اثناسیس پہلے اُن عقلی اور بدعتی خیالات کو رد کرتے ہیں۔ جو اُس زمانے میں دنیا کی پیدائش کے بارے میں تھے۔ اور دنیا کی پیدائش کا سچّا مسئلہ قائم کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ خُدابذریعہ اپنے کلام کے دُنیا کو نیستی سے ہستی میں لایا۔ لیکن انسان کو اُس نے ہستی سے بڑھ کر فضیلت بخشی۔ یعنی اُسے اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ پھر بہشت میں رکھ کر اور شریعت دے کر اُس کو اور بھی قوی(مضبوط، طاقتور) کِیا۔ اگر شروع پر قائم رہتا تو اُس کی خوشحالی بھی قائم رہتی اور بغیر موت کے آخر کار آسمانی زندگی میں داخل ہوجاتا۔ لیکن برعکس اُس کے اُس کی نافرمانی کا یہ نتیجہ ٹھہرا کہ اُس پر موت غالب آئے گی اور انتشار (پریشانی)میں مبتلا رہے گا۔ اب انسان نے واقعی نافرمانی کی اور پہلے والدین یعنی آدم و حّوا میں شامل ہونے کے سبب سے کُل نسل گنہگار بن گئی۔ بنی آدم کا کلّیتاً(مکمل) گنہگارہونا دلالت کرتا ہے کہ اوّل ہی گناہ صاور ہوا۔ ک
کیونکہ آدم اور حّوا کے اندر کل نوع بشری موجود تھے اور اِن کی سرکشی کے با عث گنہگار بنے اِس لئے ضرور ہے موت کی سزا ملے ورنہ خُدا کا قول باطل ہوا جاتا۔ لیکن یہ کیا ہی بُرا ہوتا کہ مخلوق کا گناہ خُدا کے مقصد کو توڑ دے۔ گناہ کبھی صرف ایک قرض نہ تھا۔ جو خُدا کی عزّت کا حق تھا اور جو آدم کی توبہ پر معاف ہوسکتا۔ یا لائق کفارے سے اگر اِس کا ملنا ممکن ہوتا موقوف ہوجاتا وہ ایک ایسا مرض اور انتشار تھا آدمی کی عین سرشت (عادت)میں داخل ہوگیا۔ موت آدمی کے خمیر میں مل گئی تھی اور ضرور ہوا کہ حیات کے تعلق سے دُور کی جاتی اِس لئے خُدا کا ازلی کلمہ جس نے شروع میں اِنسان کو خُدا کی صورت پر خلق کیا تھا نیچے اُتر اور آدمی بن کر موت کے قانون کو پورا کر دیا مگر خُدائی کی حیثیّت میں اِس نے انسانی سرشت کے اندر اُس انتشار کا علاج داخل کردیا اور اپنی قیامت سے ابدی زندگی کا وعدہ بخشا۔
پس اِس حصّے کی تمام دلائل کی بُنیاد اِس پر ہے کہ کُل نوع بشر ایک شے ہے اور کلام اللہ کے تجسّم کے سبب سے مسیح کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہے۔
پس کفّارے کی بابت جو اِس رسالے میں ذکر ہے اِس کا مداراِسی پر ہے کہ مسیح اور اُس کے مومنوں میں اَیسا تو سل(وسیلہ) ہے کہ دونوں ایک ہی جسم سمجھے جاتے ہیں اور اِس لئے جو کچھ مسیح نے کیا اور سہا اس کا فائدہ اور اثر سبھی کو پہنچتا ہے چنانچہ پولُس رسول کی اِصطلاح کے بموجب اثناسیس بھی کہتے ہیں کہ مسیح کے ایماندار لوگ اُس میں ہیں۔ تجسّم کی ضرورت کی بابت اثناسیس کی یہ تعلیم ہے کہ خُدا باپ اور کِسی چیز کا مجبور نہیں سوا اپنی محّبت کے۔ اِس سبب سے آدم زادکی گری ہوئی حالت کو نہ دیکھ سکا بلکہ اس کے علاج کے لئے اپنے ازلی کلام میں مجسّم ہوا اوراِس لئے انسان خُدا کی صورت پر اور اس کی رفاقت کی قابلیت کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ اثناسیس کہتے ہیں کہ کلام اللہ انسان بناتا کہ ہم خُدا بنیں۔ یعنی خُدا کی خُوبیوں کا عکس ہم میں پُورے طور سے چمکے۔
دوسرا حِصّہ اِس رسالے کا وہ ہے جو یہودیوں اور غیرقوموں کی تردید میں لکھا گیا مگر یہودیوں کی تردید میں جو آٹھ باب ہیں وہ اِس لئے چھوڑ دئے گئے کہ ایک تو اثناسیس پُرانے عہدنامے کو صرف یُونانی بپتسمے کی شکل میں دیکھتے تھے اور اس کی چند اِیسی تاویلیں کرتے تھے جو عبرانی متن کے صحیح معنی کے مطابق نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہودیوں سے ہمارا واسطہ اِس ملک میں بہت کم پڑتا ہے باقی غیرقوموں کی تردید میں پندرہ (۱۵)باب ہیں اور اُن میں اثناسیس پہلے فلسفیا نہ دلیلوں سے اور بعدازآں حال کے واقعات سے ثبوت دیتے ہیں ۔ واضح ہو کہ اثناسیس افلاطونی فلسفہ کا مسئلہ مانتے تھے کہ مجموعہ مخلوقات ایک جسم ہے جس کی رُوح خود خُدا ہے۔ اِسی بنا پر یہ دلیل وہ پیش کرتے ہیں کہ جو شے کل موجودات میں موجود ہوکر سب کی زندگی اور ترتیب انتظام کا موجب ہے اس کا ایک انسانی جسم میں جو سب مخلوقات میں افضل واعلےٰ چیز ہے ظاہر ہونا قیاس سے کچھ بعید نہیں۔ یہ کلام اللہ۔ یا ابن اللہ وہی ہے جو سب چیزوں کی ہستی اور زندگی کا سبب ہے۔ تا ہم بذاتہ مخلوقات سے علیٰحدہ اور ممتاز اور صرف باپ کے ساتھ ایک ہے۔ اُس کی قدرت اور فوقیت اِس سے ثابت ہے کہ اُس کی حضوری میں بدی کی ہر صورت کو شکست ہوتی ہے۔ اور اُس کا مذہب دنیا بھر میں پھیل رہا ے۔ اور یہ فتح اِس کی موت اور قیامت سے وقوع میں آئی۔
آخری دوبابوں میں اثناسیس مَگاریُس نام مسیحی بھائی کو جس کے لئے اُنھوں نے یہ رسالہ لکھا یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اِن باتوں کی تحقیقات کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ آدمی پاک نوشتوں میں ڈھونڈے اور مقدسّوں کے چال چلن کی پیروی کرے۔
مصنّف کی دلیلوں میں ایک دلیل ہے جو کِسی قدر یُونانی لفظ کی شکل پر مبنی ہے اِس لئے کا تر جمہ کرنا کسی قدر مشکل ہے یُونانی میں لفظ’’ا لاگاس ‘‘کلام کے بھی معنی رکھتا ہے اور عقل کے بھی۔ اب اثناسیس کی یہ رائے ہے کہ گناہ نے آدمی کے ذہن کو بھی بگاڑ دیا اور اُسے نامعقول یا الاگاس گو یا غیرناظق یا حیوان مطلق بنا دیا۔ اِس قباحت کا علاج کلام کے تجسّم سے ہوا جس سے انسان پھر لاگاس یعنی ناطق یاذوی العقل بن گیا۔ اِس صنعت لفظی کے ادا کرنے کے لئے ہم نے ناطق کا لفظ اسِتعمال کیا جس سے کلام کرنے والا اور ذوی العقل دونوں مراد ہے۔
یہ رسالہ فی زمانہ مسیحیوں اور غیرمسیحیوں دونوں کے لئے دلچسپی رکھتا ہے چنانچہ مسیحی اِس سے معلوم کرسکتے ہیں کہ جس زمانے میں کلیسیا دنیوی حاکموں کے ظلم اور جھوٹے استادوں کی بدعت دونوں کی طرف سے جنگ وجدل میں مبتلا تھی اُس میں خُدا نے کیسے کیسے بزرگوں اُٹھا کھڑا کیا جنہوں نے علم اور جان نثاری دونوں طرح سے دین کی حمایت کی۔ علاوہ اِس کے مسیحیوں اور غیر مسیحیوں پر واضح ہوا ہے کہ بحث اب مسیحی دین اور دنیا کے دیگر مذاہب میں ہورہی ہے اِس کی اصلیّت سولہ سو(۱۶۰۰) برس ہوئے وُہی تھی مثلاً پیدایش دنیا کے جن مسائل کی تردید اثناسیس اِس رسالے میں کرتے ہیں کی دنیا یاتو خود بخود پیدا ہوگئی یا موجودہ مادے سے بنائی گئی۔ یہ دونوں خیال ہنُود (ہندو کی جمع)کے شاستروں(ہندو مذہب کی کتاب) میں موجود ہیں۔ یا اہلِ اسلام کی طرف سے جو دعویٰ ہے کہ گناہ کی معافی کے لئے اللہ تعالیٰ توبہ کو کافی دوافی سمجھتا ہے اسی کا جواب اِس کے ساتویں باب میں لکھا ہے۔ پھر مرزا قادیانی صاحب جو کہتے ہیں کہ مسیح کا صلیب پر مرنا اور مردوں میں سے جی اُٹھنا ہمارے زمانے کی سب سے بھاری غلطی ہے یہی اعتراض تین سو (۳۰۰)برس بعداز مسیح کیا جاتا تھا اور اثناسیس نے اِس کی تردید کی اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ رسالہ جس کا اثر اُس زمانے میں بہت بڑا تھا انجیل اور رسولوں کے اعمال کی طرح پہلے پہل ایک خاص شخص کے لئے تصنیف ہوا۔
اِس کا ترجمہ پادری ایس اے سی گھوس بی اے ایس پی جی مشن دہلی نے کیا اور نظرثانی پادری ایچ یو وایٹ بریٹ صاحب ڈی ڈی سی ایم ایس نے کی۔
کلام اللہ کے تجسّم کے بیا ن میں
دیباچہ (۱)
پہلے رسالہ میں ہم ذیل کے امور پر بحث کرچُکے ہیں۔ غیر قوموں کا بُتوں کی پرستش کرنا ایک غلطی ہے۔ اُنہوں نے اپنے تو ہمات سے بُت پرستی ایجاد کرلی ہے۔ بنی آدم نے اپنی گنہگاری کے سبب اپنے واسطے بُت ایجاد کئے اور اُن کو پوجنے لگے۔
خُدا کے فضل سے ہم اِس بات کا بیان بھی کرچُکے ہیں کہ باپ کا کلام الوہیت کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ کل مخلوقات کا منتظم اور سب پر قادر ہے کہ خُدا باپ اُس کے وسیلہ سے کل اشیاءکو ترتیب بخشتا ہے کلمہ ہر شے کا متحرک اور کل حیات کا سرچشمہ ہے۔
اب اے۔مکاریُس تو جو مسیح کا سچّا عاشق ہے ہم اپنے مذہب گی پہچان میں ترقی کریں۔اور کلمہ کے تجسّم اور الہٰی ظہور کا بیان شروع کریں۔ یہودی تو اِس تجسّم اور ظہور کو بُرا کہتے ہیں اور یُونانی اِس پر تمسخر کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس کی کمال تعظیم اور عزت کرتے ہیں۔اے مکاریُس جب تو کلمہ عجز و فروتنی کو دیکھے گا تو زیادہ سنجیدگی سے اُس کی پرستش کرے گا۔
کیونکہ جو لوگ اُس پر ایمان نہیں لائے وہ جِس قدر اس تمسخر کرتے ہیں۔ اُسی قدر وہ اپنی الوہیت کی زیادہ مضبوط شہادت دیتا ہے ۔جِن باتوں کو بنی آدم اپنی غلط فہمی سے ناممکن سمجھتے ہیں اُن کو وہ صریحاً(ظاہراً،صاف)ممکن کر دکھاتا ہے۔ جن باتوں پر بنی آدم نازیباسمجھ کر ہنستے ہیں اُن کو وہ اپنی خوبی سے زیبایش بخشتا ہے اور جِن چیزوں پر بنی آدم کی عقل ٹھٹھا کرتی ہے یہ سمجھ کر کہ وہ بشری ہیں اُن کو وہ خاص اپنی قدرت سے صریحاً الہٰی ثابت کر دیتا ہے۔ اپنی صلیب سے اُس نے بُتوں کے جھوٹے دعوے کو درہم برہم کردیا اور ٹھٹھا کرنے والوں اور بے ایمانوں پر پوشیدہ اثر کرکے اپنی قوت اور الُوہیّت کا قائل کردیا۔
اِس امر کے بیاں کرنے میں ایک بات کا یاد رکھنا مناسب ہے ۔وہ یہ ہے کہ باپ کا عظیم الشان اور بلند کلام مُجسّم ہونے پر مجبور تھا بلکہ اپنی ذات سے غیرمتجسّد کلمتہ اللہ ہونے کے باوجود وہ اپنے باپ کی شفقت اور رحمت کے سبب سے ہماری نجات کے لیے وہ جسم میں ہم پر ظاہر ہوا۔
پس اِس مضمون کے بیاں کرنے میں مناسب ہے کہ ہم جہان کی پیدایش اور جہان کے صانع (خالق، کاریگر)یعنی خُدا کے ذکر سے آغاز کریں۔ تاکہ ہمیں مناسب طور پر معلوم ہوجائے کی جہان کی نئی پیدایش اِسی کلمہ کے وسیلہ سے ہوئی جِس نے ابتدا میں اِسے خلق کیا تھاکیونکہ یہ بات قیاس(سوچ بچار) سے بعید(دور) نہیں کہ جِس کے وسیلہ سے باپ نے دُنیا (کو خلق ) کیا تھا۔ اُسی کے وسیلہ سے وہ دُنیا کے چھٹکارے کا انتظام بھی کرے۔
(۲)دُنیا کی پیدایش کے غلط خیالات کی تردید
جہان کی خلقت اور کل اشیاءکی پیدایش کی نسبت مختلف لوگوں نے مختلف خیالات باندھے ہیں اور جیسا کسی نے چاہا ویسا اُس نے فیصلہ کیا۔
بعض کہتے ہیں کہ کل اشیاء اپنے آپ اتفاقیہ طور پر موجود ہوگئیں۔ چنانچہ اپی کیوریس فیلسوف ناحق کہتے ہیں کہ جہاں پر کوئی منتظم نہیں ہے ۔ ان کا یہ قول امور واقعی کے بالکل اور صریحاً خلاف ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اگر سب اشیاء اپنے آپ بغیر کسی منتظم کی قدرت کے موجود ہوجاتیں تو بے شک ان کو وجود تو حاصل ہوتا لیکن وہ سب یکساں ہوتیں اور ایک شے دوسری سے کوئی فرق نہ رکھتی ۔کل جہان آفتاب یا مہتاب ہوتا۔ انسان کاجسم یا تو تمام ایک ہاتھ ہوتا یا آنکھ یا پیر۔ لیکن ہم یہ معاملہ نہیں دیکھتے ۔بلکہ آفتاب وماہتاب میں فرق ہے۔ زمین ان دونوں سے فرق رکھتی ہے۔ انسانی جسم میں پاؤں علیحدہ ہے ہاتھ علیحدہ اور سر علیحدہ۔ ایسے صاف اور صریح انتظام سے ثابت ہوتا ہے کہ کل اشیاء آپ سے آپ موجود نہیں ہوگئیں بلکہ ان کا کوئی مُسبّب (سبب پیداکرنے والا)تھا۔اس مرتب دُنیا کو دیکھ کر ہم اس خُدا کو پہچانتے ہیں جو اس کا خالق اور مرتب ہے۔ پھر اوروں نے جن میں افلاطون یونانیوں کا سب سے بڑا فیلسوف شامل ہے یوں کہا ہے کہ
’’ خُدا نے دُنیا کو خلق نہیں کیا بلکہ قدیم اور غیر مخلوق مادے میں سے ترتیب دے کر بنایا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ نیستی میں سے ہستی مستخرج نہیں ہوسکتی ۔اگر مادہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو خُدا کس چیز میں سے دُنیا کو بناتا ۔اگر لکڑی موجود نہ ہوتو بڑھئی کچھ بنا نہیں سکتا‘‘۔
لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسا خیال باندھنے سے وہ کمزوری کو خُدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔کیونکہ اگروہ مادہ کا جسے ہم دیکھتے ہیں خالق نہیں بلکہ پیشتر سے موجود مادہ کا محتاج ہے تو ثابت ہوا کہ وہ کمزور ہے ۔ اس میں قدرت نہیں کہ بغیر سامان کے کسی شے کو بنا سکے ۔بڑھئی جو بغیر لکڑی کے اپنا کام نہیں کر سکتا ۔ صریحاً کمزور ہے۔ چنانچہ اس خیال کے مطابق اگر مادہ نہ ہوتا تو خُدا کسی شے کو نہ بناسکتا ۔ پس ہم اُسے خالق اور صانع کیوں کر کہیں جب کہ وہ مادہ کا گویا قرض دار ہے۔ اگر یہی حالت ہےتو خُدا پیدا کرنے والا خالق نہیں بلکہ صرف ایک کاریگر ہے ۔کیونکہ وہ مادّہ کا خالق نہیں بلکہ صرف مادّہ کو لے کر اُس میں سے مختلف اشیاءبنا سکتا ہے ۔اِس حالت میں اُسے خالق کہنا ناجائز ہے۔ کیونکہ اُس نے وہ مادّہ خلق نہیں کیا۔ جِس میں سے ساری چیزیں بنیں۔
پھر بعض بدعتی یعنی گنوسٹک فرقے والے کہتے ہیں کہ دُنیا کا صانع ہمارے خُداوند یسوع مسیح کا باپ نہیں۔ بلکہ کوئی اور خُدا ہے۔ اِن الفاظ کے استعمال سے یہ لوگ اپنی جہالت ظاہر کرتے ہیں۔ کیونکہ خُداوند یہودیوں سے فرماتا ہے ”کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جِس نے اُنہیں بنایا اُس نے ابتداہی سے اُنہیں مرد و عورت بنا کر کہا کہ اِس سبب سے مرد باپ سے اور ماں سے جُدا ہوکر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جِسم ہوں گے“۔ پھر وہ خالق کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے۔ ” پس جِسے خُدا نے جوڑا ہے اُسے انسان جُدا نہ کرے“ ( متّی۱۹: ۴ )۔
اِن الفاظ کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ دُنیا کا خالق باپ سے علیحدہ کوئی اور خُدا ہے اور جِس حال میں کہ یوحنّا تمام اشیاءکو شامل کرکے کہتا ہے کہ ’’ساری چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی“ ( یوحنّا۱: ۳) تو کیوں کر ممکن ہے کہ دُنیا کا صانع مسیح کے باپ کے سوا اور کوئی ہو۔
(۳)دُنیا کی پیدایش کی سچّی تعلیم
اُن لوگوں کی جو بطلان کی پیروی کرتے ہیں ایسی بکواس ہے۔ لیکن دین داری کی تعلیم اور مسیحِی ایمان ایسے بیہودہ خیالات کو بے دینی بتاتا ہے کیونکہ دُنیا اتفاقیہ طور پر موجود نہیں ہوگئی۔ یہ اِس انتظام سے ثابت ہوتاہے جِس کو ہم بکثرت اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں۔ دُنیا پہلے سے موجود مادّہ میں سے نہیں بنائی گئی۔ کیونکہ خُدا کمزورنہیں ہے بلکہ محض نیستی سے خُدا نے اپنے کلام کے وسیلہ سے دُنیا کو ہست کیا ہے۔ اِس کی اُس نے خود موسیٰ کی معرفت خبر دی ہے۔ ” ابتدا میں خُدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا“ ( پیدایش ۱:۱ ) ۔
یہی خبر اُس نے ” پاسبان “ کی نہایت مفید کتاب میں بھی دی ہے ” سب سے اَوّل ایمان لا کہ خُدا ایک ہے جِس نے تمام اشیاءکو خلق اور مرتب کیا اور نیستی سے نکالا “۔ مُقّدس پولُس بھی یہی کہتا ہے۔ ” ایمان ہی کے سبب سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خُدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو “ ( عبرانیوں ۱۱: ۳ )۔
کیونکہ خُدا نیک ہے بلکہ نیکی کا سر چشمہ ۔ ممکن نہیں کہ جو نیک ہے وہ کِسی کے ساتھ بخیلانہ برتاؤکرے۔ پس اُس نے اپنی سخاوت سے ہرشے کو ہستی کی بخشش عنایت کی ہے اور یوں سب اشیاءکو بوسیلہ اپنے کلمہ یعنی ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے نیستی سے نکالا ہے اور مخلوقات میں سے بنی آدم پر زیادہ رحم کیا ہے، کیونکہ جب اُس نے دیکھا کہ بنی آدم اپنی قّوت سے ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے تو اُن کو ایک ایسا فضل بھی بخشا جو اور اشیاءکو نہ بخشا تھا۔ اُس نے انسان کو غیرذی عقل مخلوقات کی مانند محض پیدا ہی نہ کیا بلکہ اُس کو خاص اپنی صورت پر پیدا کیا یعنی اُس کو اپنے کلمہ کی قدرت کا ایک حصّہ بخشا۔ تاکہ اُس میں کلمتہ اللہ یا عقل الٰہی کا عکس پایا جائے۔ پس انسان معقول بنایا گیا ہے ۔اِس وجہ سے وہ خوشی کی حالت میں قائم رہ سکتا ہے ۔ اُس میں قابلیّت ہے کہ حقیقی اور سچّی زندگی بسر کرے ۔ ایسی زندگی جیسی کہ معّدمین جنت میں بسر کرتے ہیں۔
علاوہ اِس کے خُداکو معلوم تھا کہ مشیت (خواہش)بشری دو راستوں پر چل سکتی ہے خواہ نیکی کی پیروی کرے خواہ بدی کا راستہ پکڑے۔ پس اُس نے اپنی الہٰی پیش بینی سے اِس فضل کو جو انسان کو بخشا گیا تھا مضبوط کیا۔ یعنی بنی آدم کے لئے ایک قانون اور ایک محل مُقرر کیا۔ اُس نے اُن کو جنّت میں جگہ دی اور اُن کو ایک قانون کے تحت میں رکھاتا کہ اگر اِس فضل کو جو اُن کو دیا گیا تھا تھامے رہیں اور نیکی کی حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں تو جنّت میں ان کو ایسی زندگی نصیب ہو جِس میں رنج و الم درد اور تفکرات (فکر،اندیشہ، سوچ بچار)کا داغ نہ ہو ۔ اور ساتھ ہی اُس کے یہ وعدہ بھی بخشا کہ تم کوآسمان میں جگہ ملے گی جہاں موت اور انتشار تم پر غلبہ نہ پائیں گے لیکن اُن کو ایک ڈر بھی دکھایا اور کہا کہ اگر تم بغاوت کرکے راہِ راست سے انحراف کروگے اور نیکی کو چھوڑ کر بد ہو جاؤگے تو یادر کھو کہ موت کا انتشار تم پر غالب آئے گا۔ کیونکہ موت تو تمہاری فطرت کا حِصّہ ہے ۔ تم جنّت میں رہ نہ سکوگے بلکہ اِس سے باہر کردئے جاؤگے ۔ اور جب اس دار غیرفانی سے باہر ہوگئے تو موت اور انتشار کے پنجے میں پھنسے رہوگے۔
خُدا کی کتاب اِسی بات کی خبر دیتی ہے۔ خُدا خود فرماتا ہے کہ ” تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا۔ کیونکہ جِس دِن تو اِس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا ( پیدایش۲: ۱۶۔۱۷ )۔
(۴)انسان کا گناہ میں مُبتلا ہونا
مضمون تو ہمارا یہ تھا کہ کلمتہ اللہ کے تجسّم کا بیان کریں لیکن بیان ہم نے یہ کیا کہ بنی آدم کا آغاز کس طور پر ہوا۔ تم تعجب کرتے ہوگے کہ ان دو مضامین تعلق کیا ہے۔ فی الحقیقت یہ مضا مین آپس میں ایک بڑا نزدیکی رشتہ رکھتے ہیں۔جب نجات دہندہ ظہور کا ذکر کیا جاتا ہے تو ضرور ہے کہ نوع انسانی کے آغاز کی طرف بھی توجہ کی جائے۔ کیونکہ ہماری حالت کو دیکھ کر وہ نیچے اُترا ۔ہمارے گناہ نے کلمتہ اللہ کی محبّت کو کھینچا ایسا کہ وہ ہمارے پاس جلد آیا اور خُداوند بنی آدم کے درمیان ظاہر ہوا۔
ہمارے باعث سے وہ مُجسّم ہوا ہماری نجات کے لئے اُس نے ایسی محبّت دکھائی کہ اِس دُنیا میں آکر پیدا ہوا اور ایک جِسم بشری میں نمودار ہوا۔ خُدا نے انسان کو پیدا کیا اور چاہا کہ وہ غیرفانی رہے۔ لیکن انسان نے خُدا کا دھیان اور تصّور بالکل اپنے دِل سے بُھلا دیا اور اُس کا مطلق (بالکل)خیال نہ رکھا بلکہ اپنے واسطے بدی کی صورت پیداکرکے ( جِس کا بیان پہلے رسالہ میں ہوچُکا ہے ) موت کی اُس سزا میں گرفتار ہوا جِس کا ڈر خالق نے اُسے پہلے ہی سے دکھلا دیا تھا۔ بعدازاں اُس کی بُری حالت ہوئی۔ جیسا وہ بنایا گیا تھا ویسا نہ رہا۔ اپنی حکمت اور بندش کے پھندے میں پھنس کر وہ بالکل بگڑ گیا اور موت نے اُن پر بادشاہی کی ( رومیوں۱: ۲۱ ۔۲۲؛ ۵: ۱۴۔۲۱ )۔
حُکم کے عدول نے انسان کے رُخ کو اُس کی اصلی اور ابتدائی فطرت کی طرف راجع (رجوع کرنے والا)کیا۔ خالق نے اُس کو نیستی سے ہست کیا تھا لیکن گناہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ اُس نے پھر نیستی کا رستہ لیا کلمتہ اللہ اپنی محبّت اور رحمت سے ان کو عدم (نیستی)سے وجود میں لایا تھا۔ لیکن اُنہوں نے خُدا کی پہچان کو ترک کردیا اور عدم کی طرف راجع ہوئے ( کیونکہ گناہ اور عدم برابر ہیں اور نیکی اور وجود برابر ) اُن کے گناہ کا یہی ضروری نتیجہ تھا کہ وہ معدوم(ناپید) کردئے جائیں۔اُس خُدا نے جوہستی کا سرچشمہ ہے اُن کو وجود بخشا تھا۔ پس اُن کے گناہ کے سبب اُن کو یہ سزا دے گئی کہ وہ ہمیشہ کے لئے ہستی سے محروم عدم کے قبضہ میں رہیں۔ یعنی یہ کہ ہلاک ہوکر ہمیشہ موت اور بگاڑ کے تحت میں رہیں۔
کیونکہ آدمی اپنی فطرت سے فانی ہے کیونکہ وہ ہستی سے ہست ہوا ہے لیکن چونکہ وہ خُداحی القیوم کے ساتھ مشابہ کیا گیا ہے۔ اِس لئے اُس کے لئے ممکن ہے کہ اِس ہلاکت کے قبضہ سے بچا رہے جو کہ فطرت سے اُس کا حِصّہ ہے۔ بشرطیکہ اپنے خالق کی ذات کو بالاستقلال اپنے تصور میں رکھے۔ چنانچہ کتاب حکمت کہتی ہے” کہ اُس کے قوانین کو محفوظ رکھنا بقا کو قائم کرتا ہے“ ( حکمت۶: ۱۸ )۔
پس فنا سے چھوٹ کر وہ خُدا کی طرح بن جاتا۔ خُدا کی کتاب بھی کِسی جگہ پر یہی کہتی ہے ” میں نے تو کہا کہ تم اِلہٰ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔ پرتم بشر کی طرح مرو گے اور شاہزادوں میں سے ایک کی مانند گِر جاؤگے“ ( زبور۸۲: ۶ )۔
(۵)گناہ میں پڑنے کے بعد انسان کی بُری حالت
خُدا نے ہم کو عدم کی حالت سے نِکال کر فقط وجود ہی نہیں بخشا بلکہ اپنے کلمہ کے فضل کی وساطت سے ہم کو ایسی حیات بھی بخشی ہے جو حیات الٰہی کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن بنی آدم جب اشیاءغیرفانی کو چھوڑ بیٹھے اور شیطان کو اپنا مشیر بنا کر اُن چیزوں کی طرف راجع ہوئے جو فانی ہیں۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنی ہلاکت کے باعث بنے ۔پہلے ہی وہ اپنی فطرت سے فانی تھے، لیکن کلمہ اللہ کی روحانی شراکت نے اُن کو اِس لایق کردیا تھا کہ اگر عصمت کو تھامے رہیں تو اپنی فطرت کے نتائج سے بھی بچے رہیں۔
کیونکہ جب تک کلمہ اللہ انسانوں کے ساتھ تھا تو وہ ہلاکت جو اُن کی اپنی فطرت کا جزو تھی اُن کے نزدیک نہ آسکتی تھی۔ کتاب حکمت یوں کہتی ہے ” خُدا نے انسان کو بقا کے لئے خلق کیا۔ اُس نے اُسے اپنی بقا کا نمونہ بنایا لیکن شیطان کے حسد کے باعث موت دُنیا میں داخل ہوئی“ ( حکمت۲: ۲۳۔۲۴ ) ۔پس جب ایسا ہوا تو بنی آدم مرنے لگے۔ ابتری نے ان میں زور پکڑ کر کل نسل پر جتنا چاہئے تھا اس سے زیادہ غلبہ کیا۔ جب اُنہوں نے حکم کو عدول کیا تو جو دھمکی خالق نے اُن کو دی تھی اُس کا جاری ہونا لازم آیا۔ گویااِس دھمکی کے باعث موت اُن پر زبردست ہوگئی۔
پھر آدمی نے فقط ایک یا تھوڑا گناہ نہیں کیا بلکہ اُس بے تمام احاطوں اور شرائط کوتوڑ دیا اور رفتہ رفتہ ایسا بگڑ گیا اُس کی خطاکی کی کچھ حد نہ رہی۔ اَوّل تواُنہوں نے شرارت کو ایجا دہی کیا پھر موت اور بگاڑ کو اپنے اوپر غالب کر لیا۔ لیکن بعد میں بے دینی اور بے شرعی کی طرف ایسے رُجوع ہوئے کہ پھر انہیں کسی گناہ سے پرہیز نہ رہا۔ وہ ہر روز اپنے لئے نئے نئے گناہ ایجاد کرنے لگے اور گناہ کی حرص اُن میں ایسی بڑھی کہ کسِی طرح اُن کی تسلّی نہ ہوتی تھی۔ ہر جگہ زنا اور چوری کاچرچہ پھیلا اور کل زمین قتل اور رہزنی(لوٹ مار) سے بھر گئی۔ ظلم اور بگاڑنے ایسا زور پکڑا کہ شرع اور قانون کا ذکربھی اُڑگیا۔ تنہائی اور مجلسوں میں گناہ ہی گناہ ہونے لگا۔ شہر پر شہر نے چڑھائی کی ۔قوم کے خلاف قوم اُٹھی اور کل زمین سازشوں اور لڑائیوں سے درہم برہم ہوگئی۔ کوئی اپنے گناہ پر قناعت نہ کرتا تھا، بلکہ ہر شخص کی کوشش تھی کہ اپنے ہمسائے پر بے شرعی میں سبقت لے جائے۔
اِس سے بڑھ کر ایسے گناہ جو خلاف وضع فطری تھے اُن میں پائے جائے تھے جیسا کہ مسِیح کا شہید ررسُول کہتا ہے ” یہاں تک کہ اُن کی عورتوں نے اپنے طبعی کام کو خلاف طبع کام سے بدل ڈالا۔ اِسی طرح مرد بھی عورتوں سے طبعی کام چھوڑ کر آپس کی شہوت سے مست ہوگئے۔ یعنی مردوں نے مردوں کے ساتھ روسیاہی کے کام کرکے اپنے آپ میں اپنی گمراہی کے لائِق بدلہ پایا“ ( رومیوں۱: ۲۶۔۲۷ )۔
(۶)انسان کے گرنے کے علاج کی ضرورت
پس انہی وجوہات کے باعث موت روز بروز بنی آدم پر زیادہ مسلّط ہوتی جاتی تھی۔ بگاڑ ان کا دامن گیر تھا ۔نسل انسان تباہ ہورہی تھی۔ انسان جو کلمتہ اللہ یا عقل الہٰی سے معقول تھا اور خُدا کی صورت پر بنایا گیا تھا معدوم ہوتا جاتا تھا۔ خُدا کا کیا ہوا کام ضائع ہورہا تھا۔ کیونکہ جیسا ہم پہلے کہہ چکے ہیں۔ انسانیت کا یہ قانون ہوگیا کہ موت اس پر غالب آئے کیونکہ انسان کی خطا کے باعث خُدا نے یہ قانون ٹھہرایا تھا اور جو کچھ زمین پر ہو رہا تھا وہ فی الحقیقت مکروہ اور نامناسب تھا۔ (گلتیوں۳: ۱۹ )۔
کیا ممکن تھا کہ خُدا کا قول جھوٹا ہوجائے۔اُس نے فرما دیا تھا کہ اگر انسان گناہ کرے گا اور اب جو گناہ کرچُکا تو کیا زندہ رہ سکتا تھا؟ اگر ایسا ہوتا تو خالق کا قول باطل ثابت ہوتا۔
علاوہ بریں یہ بھی نامناسب تھا کہ وہ مخلوق جو ناطق یعنی نطق اللہ یا کلمتہ اللہ کے متعلق بنائے گئے تھے ہلاک ہویا پیچھے کو ایسے پلٹے کہ بگاڑ کے باعث معدوم ہی ہوجائے یہ امر خُدا کی نیکی سے بعید تھا کہ اُس کی مخلوق بالکل برباد ہوجائے اور شیطان کا فریب ایسا غالب ہو کہ خُدا کی کاریگری یعنی انسان اپنی غفلت یا شیاطین کے فریب سے معدوم ہوجائے۔
پس چونکہ ذی عقل مخلوق برباد ہو رہی تھی اور انسان جیسی عالیشان صنعت ہلاک ہورہی تھی۔ ایسی حالت میں خُدا جو نیک ہے کیا کرتا۔ کیا وہ اِس امر کی اجازت دیتا کہ فنا اُن پر غالب رہے اور موت اپنا قبضہ اُن پر قائم رکھے؟ اگر خُدا کی طرف سے اِس اجازت کا ملنا ممکن سمجھا جائے۔ تو یہ سوال لازم آئے گا کہ شروع میں اُس نے اُن کو خلق ہی کِس لئے کیا تھا۔یعنی ان نہ کو بنانا اِس سے بہتر تھا کہ بنانے کے اُن کا خالق اُن سے غافل ہوجائے اور اُن کو مرنے دے۔
غفلت سے کمزوری ثابت ہوتی ہے۔ خُدا نیک ہے اور اپنی مخلوق کی طرف سے غافل نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ غافل ہو جائے تو وہ کمزور ثابت ہوگا۔ بنی آدم کے نہ پیدا کرنے میں کِسی مکزوری کا اظہار نہ پایا جاتا ۔لیکن پیدا کرکے اپنی مخلوق کو موت کے حوالہ کر دینا صریحاًنامناسب تھا۔
پس ناممکن تھا کہ فنا انسان کو اپنے تحت میں رکھے۔ اگر خُدا اُس کو ایسی حالت میں چھوڑ دتیا تو یہ اُس کی خُدائی نیکی کے عین خلاف ہوتا۔
(۷)فقط گناہ سے توبہ کرنا انسان کی بُری حالت کا کافی علاج نہ تھا
لیکن ساتھ ہی اِس کے یہ ضرورتھا کہ خُدا اپنے قانون کو پورا کرے اُس کی خصلت سچّی ہے اور مناسب تھا کہ موت کی سزا جِس کی دھمکی انسان کو دکھلائی گئی تھی پوری کی جائے۔ کیونکہ انسان نے جب گناہ کیا تو کیاممکن تھا کہ خُدا گناہ کو سرسری طور سے معاف کرکے ہمارے فائدہ اور سلامتی کی خاطر اپنے تئیں جھوٹا بنائے۔
پس اِس حالت میں خالق کیا کرسکتا تھا۔ کیا وہ انسان سے کہتا کہ اپنے گناہ سے توبہ کر۔ بعض کا خیال ہے کہ خالق کو یہی کرنا چاہئے تھا، تاکہ جِس طرح بنی آدم گناہ کے باعث فنا کے تحت میں آگئے تھے اِسی طرح توبہ کے وسیلے سے دوبارہ بقا کی طرح راجع ہوجاتے۔
لیکن توبہ سے انسان کا گناہ معاف نہ ہوسکتا تھا۔ خُدا تو کہہ چُکا تھا کہ اگر تو گناہ کرے گاتو مر جائے گا۔ انسان کی توبہ کی خاطر خالق اس رہا نہ کرسکتا تھا۔ باوجود توبہ کے انسان موت کا مطیع رہتا۔ توبہ کا تو فقط یہ نتیجہ ہے کہ وہ انسان کو زیادہ گناہ کرنے سے روک دیتی ہے۔ توبہ میں یہ قدرت نہیں کہ انسان کو کسی ایسے قانون کے تحت سے نکال لے جو اُس کی فطرت کا حِصّہ ہے۔
علاوہ بریں (اس کے سوا، باوجود یہ کہ)یادر رکھنا چاہئے کہ انسان نے صرف ایک خطا نہ کی تھی بلکہ خطاسے بڑھ کر گناہ کیا تھا جِس کے باعث بگاڑ اور ہلاکت میں پڑ گیا تھا۔ خطا کے نتائج سے توبہ کرکے رہا ہو جانا ممکن ہے ۔لیکن گناہ کے نتیجہ سے جو ہلاکت ہے توبہ کسی کو رہا(آزاد) نہیں کرسکتی۔ جب گناہ چل پڑا تو بنی آدم اِس ہلاکت کے دام (جال)میں پھنسے جو اُن کی فطرت میں تھی۔ پس وہ فضل اُن سے چھین لیا گیا جو خُدا کی صورت میں مخلوق ہونے کے طاعث اُن کو دیا گیا تھا۔
پس بنی آدم کِس طرح سے اِس ابتدائی فضل کو دوبارہ حاصل کرتے۔ کون سازور اُن کر اُن کی بُری راہ سے واپس لاسکتا تھا۔ جواب یہ ہے کہ یہ قدرت فقط کلمتہ اللہ میں تھی جَس نے ابتدا میں ہرشے کو عدم میں سے نکال کر وجود بخشا تھا۔
اِس میں قدرت تھی کہ فانی کو بقا بخشے۔ اسی میں قدرت تھی کہ اپنے باپ کی سچّائی کو قائم و ثابت کر دکھلا ئے کیونکہ وہ باپ کا کلام اور ہرشے سے افضل ہے۔ وہی قادر تھا کہ ہرشے کو دوبارہ ازسر نو خلق کرے۔ وہی اِس لائق تھا کہ سب کے واسطے دُکھ سہے اور سب کی طرف سے باپ کے پاس سفیر ہو کر جائے۔
(۸)کلمتہ اللہ کا تجسّم
اِسی مقصد سے کلمتہ اللہ جو اپنی ذات سے غیر متجسداور غیرفانی غیرمادی تھا ہمارے علاقے میں آیا۔ لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے درمیان ظاہر ہونے سے پہلے وہ ہم سے دور تھا۔ مخلوقات کا کوئی حِصّہ ایسا نہیں جو اُس کی حضوری سے خالی ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر شے میں حاضر ہے اور باوجود اس کے بھی اپنے باپ کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ مہر و محبّت اور فروتنی کے باعث اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرنے کے لئے ہمارے پاس آیا ہے۔ اُس نے دیکھا کہ ذی عقل نوع انسان ہلاک ہورہی ہے اور موت سب پر تسلّط کرکے اُن کو فنا کررہی ہے۔ اُس نے دیکھا کہ خُدا کی دھمکی اِس فنا کے فتو یٰ پر گویا مُہر کررہی ہے اور نیز یہ کہ خُدا کا قانون باطل نہیں ہوسکتا۔ اس نے دیکھا کہ بنی آدم کا جو حال ہوا وہ بالکل نامناسب اور قا بل شرم تھا یعنی جِن چیزوں کا وہ صانع ہے وہی معدوم ہورہی ہیں۔ اُس نے دیکھا کہ بنی آدم گناہ میں بہت ہی ترقی کرگئے اور اُنہوں نے اپنی شرارت کو اِس قدر بڑھایا کہ خود اس میں غرق ہوئے جاتے ہیں۔ پھر اُس نے دیکھا کہ سب موت کے پنجے میں گرفتار ہیں۔ تب اُس نے ہماری جنس پر رحم کیا اور ہماری کمزوری پر ترس کھایا۔ اُس نے ہم کو ہلاک ہوتے دیکھناگوارا نہ کیا۔ اس کو اس کی تاب نہ ہوئی کہ ہم کو ہلاک ہوتے دیکھے۔ پس ہم کو جو اُس کے خلوق اور اُس کے باپ کی صنعت تھی کہ خرابی سے بچانے کے لئے مجسّم ہوا بلکہ عین بنی آدم کاساجِسم اختیار کیا۔
اُس نے یہ پسند نہ کیا کہ صرف جِسم اختیار کرے یا صرف دُنیا میں ظاہر ہو کیونکہ یہ اُس کی قدرت میں تھا کہ بغیر مجسّم ہوئے اپنے تئیں ظاہر کرے یاکسی اور بہتراور افضل طریقے سے اپنا ربّانی جلوہ دکھائے لیکن اس نے ہمارا جِسم لیا اور اِس جِسم کو اختیار کرنے کاوسیلہ اُس نے ایک بے داغ اور بے عیب کنواری عورت کو بنایا۔ جو مرد سے واقف نہ تھی اُس کا جِسم پاک اور مردوں کی صحبت سے مُبّرا تھا۔ کلمتہ اللہ گو خودقدرت والا اور عالم کا صانع تھا۔ تاہم اُس نے اس کنواری کے رحم کا اپنا مسکن بنایا اور پھر اُس میں داخل ہوکر رہا اور اپنے آپ کو ظاہر کرتارہا۔
کل بنی آدم کے اجسام(جسم کی جمع) فانی ہیں۔ پس ہمارے اجسام جیسے ایک جِسم کو اُس نے اختیار کیا اور سب کے بدلے اس کو موت کے حوالے کرکے باپ کے حضور قربان کر دیا۔ یہ اُس نے اپنی محبّت اور مہربانی کے باعث کیا ،تا کہ سب اِس میں موت کا مزہ چکھیں اور اِس طرح بنی آدم کے فانی ہونے کا قانون موقوف ہو جائے ۔ ( چونکہ اس قانون کا زور خُداوند کے جِسم پر پُورا ہوا اور اُسے اُس کے ہمجنسوں کے خلاف کچھ طاقت نہ رہی ) وہ بنی آدم جو فناکی طرف دوڑے جاتے تھے بقا کی طرف واپس پھیرے گئے۔ اُس کے جِسم کی شراکت کے باعث وہ جو مر چُکے تھے زندہ کئے گئے۔ قیامت کے فضل نے اُن کو دوبارہ حیات عنایت کی۔ وہ موت سے یوں بچے جیسے بھوسی (گھاس)جلنے سے بچے۔
(۹)کلمتہ اللہ کے تجسّم نے ہم کو موت سے خلاصی بخشی ہے
کلمتہ اللہ کو معلوم تھا کہ بنی آدم کوفنا سے بچانے کافقط ایک ہی وسیلہ ہے۔ یعنی موت ،لیکن چونکہ کلمتہ اللہ غیرفانی تھا اور باپ کا بیٹا تھا۔ اِس لئے اس کے واسطے مرنا ناممکن تھا۔ پس اُس نے ایک فانی جِسم اختیار کیا چونکہ یہ جِسم کلمتہ اللہ کا مسکن تھا۔اس کی صحبت نے اس پر دو اثر کئے۔ اَوّل وہ جِسم اِس قابل ہوا کہ سب کے عوض میں مرے۔ دوئم بوجہ کلام کی سکونت کے باوجود مرنے کے وہ انتشار اور سڑنے سے محفوظ رہا۔ اوراُس کی قیامت کے فضل سے آیندہ کو کل انسانی اجسام آخر کار فنا کے قبضے سے چھوٹ جائیں۔ اِس جِسم کو جِسے اُس نے اختیار کیا تھا۔ مطلق داغ موت کے آگے قربان کرکے اور اس طرح ایک مساوی شے ( یعنی اپنا جِسم پاک جو اکیلا مجموعی تمام انسانوں کے اجسام کے ہم قدر تھا ) دے کر اپنے سب ہم جنسوں کے سر سے موت کی بلا کو ٹال دیا۔
کلمتہ اللہ نے اپنے مسکن اور جِسم کو سب کی حیات کی خاطر قربان کردیا۔ وہ اپنی ذات میں سب سے برترو بالا تھا اور اُس کی موت سے وہ تمام نتائج برآمد ہوئے جِن کی توقع ہوسکتی تھی۔ خُدا کا غیرفانی کلمہ اِنسانی فطرت کو اختیار کرنے کے سبب سے نوع اِنسانی میں مِل گیا۔ اس کی صحبت نے کل بنی آدم کو قیامت کا وعدہ عطا کرکے بقا سے ملبّس کیا۔ کلمتہ اللہ اُس کے جِسم میں ساکن ہونے کے باعث کل نوعِ اِنسانی میں ساکن ہوا۔ پس موت کا انتشار ان کے اجسام پر کچھ زور نہیں رکھتا۔
اگر کوئی بڑا بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوکر اس کے کسی مکان میں رہائش اختیار کرئے تو وہ شہر بڑی عزّت کے لائق سمجھا جاتا ہے اور کوئی دشمن یا غارت گر اُس پر حملہ کرنے کی جرائت نہیں کرتا۔ بلکہ اِس خیال سے کہ بادشاہ اُس کے ایک مکان میں رہتا ہے سب اس شہر کو ممتاز سمجھتے ہیں ۔ پس چونکہ کل عالم کا سلطان دُنیا میں آیا اور ہمارا ہم جنس ہوکر ایک جِسم میں رہا۔ دشمن کے وہ تمام ارادے جو وہ ہمارے خلاف رکھتا تھا ٹوٹ گئے۔ اور موت جو سب پر غالب آتی تھی معدوم ہوگئی۔ اگر خُدا کابیٹا جو سب کا مالک اور مُنجی ہے نہ آتا اور یوں موت کا خاتمہ نہ کردیتا تو نسل اِنسانی بالضرور تباہ ہو جاتی۔
(۱۰)تجسّم کی مناسبت
درحقیقت یہ عظیم کام خُدا کی نیکی کے ساتھ ایک خاص رشتہ اور مناسبت رکھتا تھا۔ فرض کرو کہ کِسی بادشاہ نے کوئی شہر یا مکان بنایا ہو اور اس میں رہنے والے لوگ اُس کی حفاظت میں ایسے غافل ہو جائیں کہ غارت گر اُس کا محاصرہ کریں۔ تو کیا وہ بادشاہ اس شہر کی طرف سے بے پرواہ رہے گا۔ نہیں بلکہ فوراً اُسے اپنا کام سمجھ کر دشمنوں سے انتقام لے گا اور اپنے بنائے ہوئے شہر کی حفاظت کرے گا۔ اُس کو اِس بات کا خیال کم ہوگا کہ جِن لوگوں کومیں نے اپنے شہر میں بسایا ہے کیسے بے پرواہ ہیں لیکن اپنی شان کا خیال رکھے گا۔ پس کلمتہ اللہ نے بھی نوعِ اِنسانی کی طرف سے جِسے اُس پیدا کیا تھا اور جو بالکل بگڑتی جاتی تھی بے پرواہی نہیں کی۔ اُس نے اپنے جِسم کی قربانی سے اِس موت کو موقوف کیا جِس کے وہ سزاواربن گئے تھے۔ اُس نے اپنی تعلیم سے اُن کی غفلت کا علاج کیا اور اپنی قدرت سے اِنسان کی کل فطرت کو صحیح وسالم کردیا۔
نجات دہندہ کے شاگرد اپنی الہٰامی شہادت سے ہمیں اِس امر کا یقین دلاتے ہیں۔ ” چنانچہ کہتے ہیں کہ مسیح کی محبت ہم کو مجبور کردیتی ہے۔ اِس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ایک سب کے واسطے موا تو سب مر گئے۔ اور وہ اِس لئے سب کے واسطے ہوا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اُس کے لئے جو اُن کے واسطے مرا اور پھر جی اُٹھا“ ( ۲ ۔کرنتھیوں۵: ۱۴۔۱۵ )۔ یعنی اپنے خُداوند یسوع مسیح کے لئے۔ پھر لکھا ہے کہ ” البتہ اُس کو دیکھتے ہیں جو فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا ہے۔ یعنی یسُوع کو کہ مو ت کا دکھ سہنے کے سبب جلال اور عزت کا تاج اسے پہنایا گیا ہے تا کہ خُدا کے فضل سے ہر ایک آدم کے لئے موت کا مزہ چکھے “ ( عبرانیوں ۲: ۹ )۔
خُدا کے کلام میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ کیا ضرور تھا کہ فقط کلمتہ اللہ ہی مجسم ہو کر انسان بنے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ ” جس کے لئے سب چیزیں ہیں اور جس کے وسیلہ سے سب چیزیں ہیں اس کو یہی مناسب تھا کہ جب بہت سے بیٹوں کو جلال میں داخل کرے تو اُن کی نجات کے بانی کو دکھوں کے ذریعہ سے کامل کرے“ (عبرانیوں۲: ۱۰ )۔ اِن الفاظ سے یہ مراد ہے کہ بنی آدم کو اُس بگاڑ میں سے نکالنا جس میں وہ مبتلا تھے کلمتہ اللہ کے سوا اور کسی کے بس میں نہ تھا۔ کیونکہ وہی شروع میں اُن کا خالق تھا۔ اور پاک کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ کلمتہ اللہ نے اس لئے جسم قبول کیا کہ ان لوگوں کو نجات بخشے جو اُس کے سے جسم رکھتے تھے چنانچہ لکھا ہے۔ کہ ” جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا۔ تاکہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چُھڑالے“ ( عبرانیوں۲: ۱۴۔۱۵ )۔
اُس نے اپنے جسم کی قربانی سے دو کام لئے۔ اَوّلاس قانون کو موقوف کر دیا جو ہمارا مخالف تھا۔ دوئمہمیں ایک نئی حیات عطا کی اور جسم کے جی اُٹھنے کی امید دلائی۔ موت نے انسان کے ذریعہ سے انسان پر غلبہ پایا تھا۔ پس کلمتہ اللہ نے انسان بن کر موت کو موقوف کردیا اور زندگی کی قیامت کے سلسلہ کو شروع کیا۔ وہ شخص جو اپنے جسم پر یسوع کے لئے داغ لئے پھرتا تھا ( گلتیوں۶: ۱۷ )۔ یوں لکھا ہے کہ ” جب آدمی کے سبب سے موت آئی تو آدمی ہی کے سبب سے مردوں کی قیامت بھی آئی اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“ ( ۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۲۱۔۲۲ )۔
ہم اُن لوگوں کی مانند نہیں جن پر موت کا فتویٰ جاری ہوچکا ہے بلکہ اُن کی مانند ہیں جو اُٹھنے والے ہیں اور جو سب کی قیامت کے منتظر ہیں۔
اس قیامت کو خُدا جس نے اُس کو بنایا ہے اور ہمیں مُفت بخشا ہے۔ ” اپنے مناسب وقت پر ظاہر کرے گا “ ( ۱۔ تیمتھیس۶: ۱۵ )۔
نجات دہندہ کے انسان بننے کا یہی پہلا سبب تھا۔
لیکن ذیل کے وجوہات پر بھی غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اُس کا فیص بخش ظہور عین واجب و مناسب تھا۔
(۱۱)اِنسان کے لئے خُدا کا حسن انتظام اور اِنسان کی بدی
خُدا نے جو سب چیزوں پر قادر ہے اپنے کلمہ کے ذریعہ سے بنی آدم کو خلق کرتے وقت اُن کی فطرت کی کمزوری کو دیکھا۔ اُس نے معلوم کیا کہ انسان اپنے آپ نہ اپنے خالق کو جان سکتا ہے اور نہ خُدا کا کوئی لایق خیال و تصور اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔ پس اُس نے بنی آدم پر رحم کیا اور چونکہ وہ نیک تھا اس نے ان کو اپنی پہچان سے محروم نہ رکھا کہ مبادا اُن کی ہستی نکمی وبے فائدہ رہ جائے۔ پس اپنے آپ خُدا کو پہچاننا انسان کے لئے محال تھا۔ لیکن انسان کو ہستی سے کیا نفع ہوتا اگر وہ اپنے خالق کو نہ جانتا۔ اگر بنی آدم نطق اللہ یا کلمتہ اللہ کو جس سے انہوں نے حیات و ہستی حاصل کی تھی نہ جانتے تو کیوں کر ناطق یا ذی عقل کہلا سکتے۔ تب تو اُن میں اور حیوان مطلق یعنی غیرذی عقل حیوانوں میں کچھ بھی فرق نہ ہوتا۔ اگر زمینی امور کو چھوڑ کر ان کو آسمانی امور کے ساتھ ذرہ بھی تعلق نہ ہوتا تو فی الحقیقت وہ حیوان اُن سے کسی بات میں اعلیٰ نہ پائے جاتے۔ اگر خُدا کی یہ مرضی نہ تھی کہ بنی آدم مجھ کو پہچانیں تو اُس نے اُن کو پیدا ہی کس لئے کیا تھا۔
پس چو نکہ خُدا نیک ہے اِس لئے اُس نے اُنہیں خُداوند یسوع مسیح میں جو اُس کی ذات کا نقش ہے شراکت عنایت کی یعنی اُن کو اپنی ہی صورت پر اِس لئے پیدا کیا کہ وہ مجھ سے نا واقف نہ رہیں اور وہ جانتا تھا کہ اِس فضل کے انعام کے وسیلہ سے بنی آدم خُدا کی صورت یعنی کلمتہ اللہ کو پہچانیں اور اس کے سبب باپ کا تصور حاصل کریں۔ اور اپنے خالق کو پہچاننے کے سبب سے سرور اور سچی برکت میں زندگی بسر کریں۔
لیکن بنی آدم سچائی سے بھٹک گئے۔ اُنہوں نے خُدا کے فضل کو حقیر سمجھا۔ پس وہ خُدا سے منحرف ہوئے اور ان کی روحیں ایسی ناپاک ہوگئیں کہ اپنے خالق کا خیال بھی کھو بیٹھے اور ایسے بگڑے کہ اپنے لئے مختلف اقسام کے بت ایجاد کرنے لگے۔ بالعوض سچ کے انہوں نے بت بنا لئے اور اپنے اوہام باطلہ (جھوٹے خیالات)کو خُدا پر جو موجود ہے ترجیح دینے لگے۔ مخلوق کی پرستش کو اُنہوں نے خالق کی پرستش پر ترجیح دی ۔ ( رومیوں۱: ۲۵ ) اور اس بھی بدتر یہ کیا کہ جو عزت خُدا کا حق تھی اسے اُنہوں نے پتھر لکڑی یا اشیائے مادی یا آدمیوں کو دینی شروع کی بلکہ اپنی گمراہی میں اِس سے بھی بڑھ گئے۔ اُن کی بے دینی نے اس قدر ترقی کی کہ انہوں نے شیاطین کو پوجنا اور ان کو خُدا کہنا شروع کیا۔ اور اپنی شہوتوں کو پورا کرنے میں مصروف ہوئے۔ آدمیوں اور جانوروں کو قربان کرنا ان کی عادت ہوگئی اور وہ کہنے لگے کہ دیوتاؤں کا یہی حق ہے۔ پس بنی آدم اپنی دیوانگی کے خوب مطیع بنے۔ اُن کے درمیان جادوگر اور غیب بین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے ہم جنسوں کو گمراہ کیا۔ لوگ ظاہری چیزوں پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ اپنی پیدایش اور حالت کو ستاروں اور اجرام فلکی کی تاثیر کا نتیجہ سمجھنے لگے۔
حاصل کلام بے دینی اور خود سری نے ایسا زور پکڑا کہ خُدا اور کلمتہ اللہ کو سب بھول گئے۔ گو خالق کی پاک ذات کسی وقت اُن سے پوشیدہ نہ تھی۔ خُدا نے نہ فقط ایک طریقے سے بلکہ طرح طرح اپنے تئیں اپنی مخلوقات پر ظاہر کیا تھا۔
(۱۲)توریت اور نبیوں کے باوجود بنی آدم کی سر کشی
انسان کو یہ فض بخشا گیا تھا کہ وہ خُدا کی صورت پر خلق کیا گیا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلنا چاہئے تھا کہ وہ اَوّل کلمتہ اللہ کو پہچانتا اور اس کے وسیلہ سے خُدا باپ کی شناخت حاصل کرتا ،لیکن خُدا نے انسان کی کمزوری سے واقف ہوکر اس کی غفلت کا علاج کیا۔ ایسا کہ اگر ان کو اپنی عقل کے خُدا کے پہچاننے کی خواہش نہ ہوتی تاہم کائنات کو دیکھ کر خالق کی پہچان سے محروم نہ رہتے۔
لیکن چونکہ انسان کی غفلت روز بروز زیادہ ہوتی جاتی تھی خُدا نے ازسرنو اُن کی کمزوری کا چارہ کیا۔ اُس نے اُن کو ایک شرع بخشی اور ایسے شخصوں کو جن کو وہ جانتے تھے نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث(بھیجا ہوا) کیا۔ بنی آدم نے آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے خالق کو پہچاننا تو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ پس خُدا نے اُن کے درمیان ایسے آدمی بھیج دئے جن سے وہ تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ آسمانی باتوں کو آدمی زیادہ تر اس حال میں براہ راست سیکھ سکتا ہے جب کہ سکھانے والے اس کے ہم جنس انسان ہوں۔
اگر انسان اپنی آنکھیں اُٹھا کر آسمان کی وسعت اور خلقت کی اس کثرت کو دیکھتا جس میں یکجہتی اور اتفاق بھی ہے تو اُس کے لئے ممکن تھا کہ دنیا کے حاکم اور کلمتہ اللہ کو پہچانتا۔ جو کل اشیاءکا منتظم ہے اور اپنے انتظام سے آدمیوں کو ہدایت خُدا باپ کی طرف کرتا ہے۔ جو اسی غرض سے عالم کومتحرک کرتا ہے تا کہ سب بذریعہ اُس کے خُدا کو پہچانیں۔
یا اگر یہ مشکل تھا تو انسان کے لئے ممکن تھا کہ مُقّدس آدمیوں کی صحبت میں بیٹھتا اور بذریعہ اُن کے خُدا کو جو سب اشیاءکا صانع اور مسیح کا باپ ہے۔ پہچانتا نیک آدمیوں کی صحبت سے اس کو معلوم ہو جاتا کہ بُتوں کی پرستش بے دینی اور خُدا کا انکار ہے۔
یا وہ خُدا کے احکام کو سیکھ کر نا فرمانی سے بچ سکتا تھا۔ اُس کے لئے ممکن تھا کہ خُدا کے حکموں کی مدد سے دین داری کی زندگی بسر کرے۔ کیونکہ شریعت فقط یہودیوں کی خاطر ہی نہیں آتی اور نبی صرف اُنہی کی خاطر نہیں بھیجے گئے۔ ہاں یہودیوں کے پاس بھیجے توگئے اور اُن سے ظلم اٹھایا مگر نبی کل دُنیا کے لئے خُدا کے علم کا مدرسہ اور رُوح کی ہدایت کا مکتب تھے۔
خُدا کی نیکی اور مہربانی کی تو کچھ حد نہ تھی تاہم انسان چند روزہ خوشیوں پر عاشق ہوا اور شیاطین کے دعوؤں اور مکر کے بند میں پھنسا۔ اس نے اپنا سرحق کی طرف نہ اٹھایا۔ بلکہ بدی اور گناہ کا بوجہ اپنے کندھے پر اور بھی دھر لیا اور ایسا بگڑگیا کہ کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ناطق ذی عقل ہے ،بلکہ اُس کی حالت ایسی ہوگئی جیسی غیرذی عقل حیوان مطلق کی ہوتی ہے۔
(۱۳)نسل اِنسان کا نیا کیا جانا مناسب تھا
پس معلوم ہوا کی بنی آدم غیر ذی عقل ہوگئے۔ شیاطین کے فریب نے ہر جگہ خلقت میں تاریکی پھیلا دی۔ حقیقی خُدا کا علم پوشیدہ ہوگیا۔ اب کیا کرنا خُدا کی شان کے لائق تھا؟ کیا وہ ایسے ظلم کے مقابلہ میں خاموش رہتا اور بنی آدم کو شیاطین کا فریب کھا کر اپنی ذات پاک سے غافل رہنے دیتا۔
اگر ایسا ہی کرنا مناسب تھا تو ابتدا میں آدمی کو اپنی صورت پر پیدا کرنے سے کیا حاصل ہوتا۔ چنانچہ انسان کے لئے یہ اچھا ہوتا کہ شروع ہی سے حیوان مطلق اور غیر ذی عقل پیدا کیا جاتا بسبب اس کے کہ ذی عقل اور ناطق(ناطق ،صاحب عقل) ہونے کے بعد حیوان مطلق کی سچی زندگی گذارے۔
اور اس کا بھی کیا فائدہ تھا کہ آیندہ میں خُدا کی بابت کوئی علم حاصل کرتا اگر بعد میں اس علم کو بالکل ہاتھ چھوڑ دیتا۔ تو شروع ہی میں اُس کا نہ ملنا بہتر ہوتا کیا کوئی بادشاہ گو وہ بشر ہے۔اپنے آباد کئے ہوئے ممالک کو کسی دوسرے کہ ہاتھ میں سونپ دے۔ کیا وہ اس بات کا متحمل(برداشت کرنے والا،صابر) ہوسکتا ہے کہ اس کی رعایا کسی دوسرے بادشاہ کی خدمت اور دبدبہ میں رہے یا غیر کی اطاعت اختیار کرے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ برعکس اس کے وہ خطوط لکھئے گا اور وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں کو بھیجئے گا اور اگر ضرورت ہو تو خود اپنے آباد کئے ہوئے ملک کو دیکھنے جائے گا تا کہ وہاں کے لوگوں کو اپنی حضوری سے شرمندہ کرے اور اُن کو کسی دوسرے کی تابع داری سے روکے گا تاکہ اُس کا کیا ہوا کام برباد نہ ہو جائے۔ جب دنیوی بادشاہوں کو اتنی غیرت ہے تو کیا خُدا کی غیوری۔ اس سے بھی کم ہے؟ کیا خُدا اپنی مخلوقات کی طرف سے غافل رہے گا اور اُن کو بھٹکنے دے گا؟ کیا وہ اُنھیں خالق کو چھوڑ کر معدوم چیزوں کی عبادت کرنے دے گا؟ اور خا ص کر اس حالت میں جب کہ اُن کے ایسے فعل کا یہ نتیجہ ہو کہ وہ خود برباد ہو جائیں۔ کیا مناسب ہے کہ ایسی مخلوق تباہ ہو جو خالق کی مشابہت رکھتی ہے۔
پس خُدا کو کیا کرنا مناسب تھا؟ وہی جو اُس نے کیا۔ یعنی یہ کہ اُس نے اپنے اُس فضل کو دوبارہ بخشا جس کے باعث اُس نے انسان کو اپنی صورت پر خلق کیا تھا۔ تاکہ اُس کے ذریعہ سے بنی آدم پھر اپنے خالق کو پہچان سکیں لیکن اُس کا صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ کہ خُدا کی وہی صورت یعنی ہمارا خُداوند یسُوع مسیح پھر زمین پر آئے۔
آدمی سے یہ کام نہ ہوسکتا تھا۔ وہ توخالق کی صرف صورت پر بنائے گئے ہیں۔ فرشتوں سے یہ کام نہ ہوسکتا تھا ۔ کیونکہ وہ خُدا کی صورت پر بنائے نہیں گئے۔ پس کلمتہ اللہ خود آیا۔ جو باپ کی صورت ہے۔ تا کہ انسان کو ازسرِنو خُدا کی صورت پر لائے۔ اس کام کے لئے ضرور تھا کہ موت اور انتشار موقوف کردیا جائے۔ پس اس نے فانی جسم اختیار کیا تا کہ اس جسم میں موت کو کلیہ(مکمل) طور پر دُور کرئے۔ اور بنی آدم کو دوبارہ خُدا کی صورت پہ لائے۔ اس ضرورت کا رفع کرنا فقط باپ کی صورت کے بس میں تھا۔
(۱۴)کلمتہ اللہ کے تجسم کی مناسبت
فرض کرو کہ ایک تصویر کسی تختی پر نقش ہے جو داغوں اور دھبوں کے باعث تقریباً مٹ گئی ہے۔ اِس کے دوبارہ روشن کرنے کا انتظام کیوں کر ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ضرور ہوگا کہ وہ شخص پھر بُلایا جائے جس کی وہ تصویر ہے اگر وہ حاضر ہو جائے تو اُس کی تصویر کا دوبارہ اسی پہلی تختی پر کھینچنا ممکن ہوگا۔ چونکہ تصویر کسی قدر مٹ گئی ہے کوئی اس کاغذ کو جس پر کسی وقت میں وہ تصویر تھی پھینک نہ دے گا۔بلکہ کوشش کی جائے گی کہ اُسی تختی پر اسی پُرانی تصویر کو دوبارہ روشن کریں۔ اسی طرح باپ کا قدّوس بیٹا جو باپ کی صورت ہے ہمارے علاقے میں آیا تا کہ آدمی کو دوبارہ اپنی صورت پر لائے۔ اور اُس کو جو کھویا گیا تھا۔ بذریعہ گناہوں کی مغفرت کے تلاش کرے۔ چنانچہ اس کی وہ خود شہادت دیتا ہے۔ کہ ” ابنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے“ ( لوقا۱۹: ۱۰ )۔ اسی طرح اُس نے یہودیوں سے بھی کہا۔ ” جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو “ ( یُوحنّا ۳ :۳ )۔ اس جملہ سے اس کی یہ مُراد نہ تھی کہ آدمی کو دوبارہ کسی عورت کے وسیلہ سے جنم لینا ضرور ہے۔ جیسا وہ سمجھتے تھے بلکہ وہ نیا جنم مراد تھا جو رُوح کے نئے کئے جانے اور خُدا کی صُورت میں دوبارہ لائے جانے سے آدمی کو ملتا ہے۔
جب کہ دُنیا بُت پرستی کے دیوانہ پن اور بے دینی کے تصرف میں تھی اور خُدا کی پہچان جاتی تھی تو کس کا کام تھا کہ دُنیا کو باپ کی سچی تعلیم دے۔ کیا یہ کام آدمی کے بس کا تھا۔ آدمیوں کے لئے تو ممکن نہ تھا کہ دُنیا کے ہر موضعے(گاؤں، جگہ) میں جائیں۔ ان میں اتنا سفر کرنے کی طاقت نہیں اور کوئی ایسا معتبر نہیں کہ ہرجگہ لوگ اس کی بات کو تسلیم کرلیں۔ نہ انسان کو اتنی قدرت ہے کہ شیاطین کے حیلہ اور فریب کا کافی مقابلہ کرسکے۔
دُنیا کے سب لوگ شیطانی فریب اور بتوں کی باطل پرستی میں مبتلا اور سر گردان تھے۔ پس ان میں سے کسی سے کب ممکن تھا کہ دوسروں کو راستی کی ترغیب دے سکتا۔ اندھا اندھے کو کس طرح راہ دکھا سکتا ہے۔
شاید کوئی کہے کہ خُدا کی شناخت کے لئے محض دُنیا کی پیدایش ہی کافی تھی۔ لیکن اگر محض پیدایش ہی کافی ہوتی تو پھر اتنی قباحتیں اور خرابیاں کس طرح پیدا ہوسکتی ہیں۔ خُدا نے انسان کو پیدا تو کیا لیکن باوجود خُدا کی مخلوق ہونے کے بنی آدم غلطیوں کی کیچڑ میں لوٹ رہے تھے۔
پس کلمتہ اللہ کے سوا اور کس کی ضرورت تھی۔ وہی ایسی بصارت(دیکھنے کی قوت) رکھتاہے کہ انسان کی رُوح اور عقل کے بھید جانے ۔ وہی ہرشے کا متحرک ہے اور اُن کے ذریعے سے باپ کی پہچان بخشتا ہے۔ اس انتظام اور ترتیب کے ذریعہ سے جو وہ دینوی اشیا کو دیتا ہے ہم کو باپ کی شناخت حاصل ہوتی ہے۔پس یہ اسی کا حِصّہ تھا کہ اس شناخت کو ازسرنو پیدا کرے۔
لیکن یہ کیونکر کیا جاسکتا تھا۔ شاید کوئی کہے کہ خُدا کو چاہئے تھا کہ تمام خلقت کو ازسرنو پیدا کرے اور اپنی صنعت میں پھر اپنا ظہور وجلوہ بخشے۔ جس طرح اس نے پہلے کیا تھا۔ لیکن اس طریق پر چنداں (کچھ)اعتماد نہیں ہوسکتا تھا۔ یہی طریقہ خُدا نے پہلے برتا لیکن بنی آدم نے اس کی پروا نہ کی۔ بجائے آنکھیں اُوپر اُٹھانے کے اُنھوں نے اپنا رُخ نیچے کو کر لیا تھا۔
پس آدمیوں کے فائدے کے لئے وہ آدمی بن کر آیا۔ اور ایسا جسم اختیار کیا جیسا معمولی آدمیوں کا ہوتا ہے اور اس نے ادنیٰ چیزوں یعنی اپنے جسم کے لئے ہوئے کاموں سے تا کہ وہ جو دنیا کے الہٰی حسن انتظام سے اس کو پہچاننا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے جسمانی افعال کے ذریعہ سے اس کو جانیں۔ اور کلمتہ اللہ کو مجسم دیکھ کر باپ کی معرفت حاصل کریں۔
(۱۵)کلمتہ اللہ کی فروتنی
بعض طالب ایسے ہوتے ہیں کہ مشکل مضامین کا سمجھنا اُن کی طاقت سے بعید ہوتا ہے۔ پس عقلمند معلم ان کی کمزوری کا لحاظ کرکے ان کو کسی بڑے آسان طریقہ سے پڑھاتا ہے۔ کلمتہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ پولُس بھی ایسا ہی فرماتا ہے۔ ” اس لئے جب خُدا کی حکمت کے مطابق دنیا نے اپنی حکمت سے خُدا کو نہ پہچانا تو خُدا کو یہ پسند آیا کہ اُس منادی کی بیوقوفی سے ایمان لانے والوں کو نجات دے “ ( ۱۔ کرنتھیوں ۱: ۲۱ )۔
کلمتہ اللہ نے دیکھا کہ بنی آدم نے خُدا کا تصور چھوڑ دیا ہے۔ اور اپنی نظر کو نیچے لگا کر موجودات اور محسوسات میں خُدا کی تلاش کرتے ہیں۔ اور یوں فانی انسانوں اور شیاطین کو اپنا خُدا گردان رہے ہیں۔ تب اس نے جو سب کا منجی ہے اپنے لطف و مہر سے ایک جسم اختیار کیا۔ اور آدمیوں کے درمیان آدمی بن کر تمام آدمیوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا۔ آدمیوں کا خیال تھا کہ خُدا جسمانی چیزوں میں ہے۔ پس وہ جسم ہی میں آ موجود ہوا تا کہ اس کے جسمانی کاموں میں وہ حق کو معلوم کریں۔ اور اس کے ذریعے سے باپ کی شناخت تک پہنچ جائیں۔ وہ بشر تھے اور ان کی توجہ بالکل بشری معاملات میں لگی ہوئی تھی۔ پس کلمتہ اللہ نے بشریت کا جامہ پہن کر بشریت کی حالت کو بدل دیا۔ اب بشریت خُدا کی پہچان میں مدد دینے لگی اور ہر طرف سے انسان کو حق کی تعلیم ملنے لگی۔
کیا پہلے بنی آدم مخلوقات کو دیکھ کر متحیر (حواس باختہ، حیران ،ہکا بکا)نہ تھے۔ یہاں تک کہ اس کو معبودمان لیا تھا اب انھیں مسیح کو خُدا مانتے ہوئے دیکھتے ان کی عقل ایسی نہ بگڑگئی تھی کہ وہ آدمیوں کو خُدا مانتے تھے۔ اب نجات دہندہ نے ایسے کام دکھلائے کہ اگر ان کا مقابلہ انسانی کاموں کے ساتھ کیا جاتا تو ان سے ثابت ہوتا کہ بنی آدم مقابلہ نہیں کرسکتے۔ کیا بنی آدم شیاطین پرفریفتہ نہ ہوگئے تھے۔ اب انھوں نے دیکھا کہ خُداوند ان کو بھگاتا اور زک(شکست) دیتا ہے ۔ پس ان کو معلوم ہوا کہ فقط کلمتہ اللہ ہی خُدا ہے اور شیاطین خُدا نہیں ہیں۔ کیا بنی آدم گذشتہ ز مانوں کے بہادروں کی پر ستش نہ کرتے تھے اور ان پر عاشق نہ تھا جنہیں شاعروں نے دیوتا بنا دیا تھا۔ اب انہوں نے نجات دہندہ کی قیامت دیکھی اور اقرار کیا کہ ہمارے پہلے معبود جھوٹے تھے۔ ان کو معلوم ہوا کہ باپ کا کلمہ ہی فقط سچا خُداوند ہے۔ بلکہ وہ موت پر بھی اختیار رکھتا ہے۔
اس کے انسانی تولد (پیدائش)اور ظہور کی یہی وجہ تھی۔ اسی لئے وہ مرا اور پھر زندہ ہوا۔اس کے کاموں کی روشنی کے مقابلہ تمام انسانی کام دُھندلے ہو کر غائب ہوگئے۔ وہ تمام انسانوں کو ہرجگہ کھینچتا ہے اور اپنے سچے باپ کی پہچان بخشتا ہے۔ وہ خود فرماتا ہے ” میں اس لئے آیا ہوں کہ کھوئے ہووں کو ڈھونڈوں اور بچاؤں “ ( لوقا ۱۹: ۱۰ )۔
(۱۶)کلمتہ اللہ کی معموری
جب انسانی عقل نفس کی مطیع ہوگئی تو کلمتہ اللہ نے جسم کے ذریعہ سے ظاہر ہونا منظور فرمایا تا کہ انسان ہوکر آدمیوں کو اپنا بنالے۔ اور ان کے حواس کو اپنی طرف رجوع کرلے اور اس وقت سے اب تک بذریعہ ان کاموں کے جو اس نے کئے تھے۔ وہ بنی آدم کوسمجھاتا ہے کہ گو تم نے مجھے آدمی کی صورت میں دیکھا تاہم میں خُدا ہوں۔ میں کلمتہ اللہ اور سچے خُدا کی عقل و حکمت ہوں۔ پولُس بھی یہ کہہ کر اس بات کا اظہار کرتا ہے۔ ” تاکہ تم محبت میں جڑ پکڑ کر اور بنیاد قائم کرکے سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکو کہ اس کی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔ اور مسیح کی اس محبت کو جان سکو جو جاننے سے باہر تاکہ تم خُدا کی ساری معموری تک معمور ہو جاؤ‘‘( افسیوں۳: ۱۷۔۱۹ )۔
چونکہ کلمتہ اللہ نے اپنے تئیں ہر جگہ منکشف (ظاہر)کیا ہے اس لئے کل دُنیا خُدا کی پہچان سے معمور ہوگئی ہے۔ اس نے ہر جگہ اپنے آپ کو منکشف کیا ہے اوپر اور نیچے گہرائی اور چوڑائی میں۔ اوپر یعنی مخلوقات میں۔ نیچے یعنی اپنے تجسم میں۔ گہرائی یعنی عالم ارواح میں۔ چوڑائی یعنی کل عالم میں اس کی معموری ہوگئی۔
اس لئے اس نے آتے ہی اپنے تئیں قربان نہیں کردیا۔ دُنیا میں آتے ہی اس نے موت اور قیامت کا تجربہ حاصل نہ کیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو فوراً ہماری نظروں سے غائب ہوجاتا۔ بلکہ اس نے اپنے آپ کو بخوبی جسم میں ظاہر کیا۔ وہ جسم میں رہا اور ایسے کام کرتا اور نشان ظاہر کرتا رہا جن سے ثابت ہوا کہ وہ محض انسان نہیں ہے بلکہ کلمتہ اللہ اور خُدا ہے۔
نجات دہند نے اپنے تجسم سے بباعث اپنی محبت اور مہر کے یہ دونوں کام کئے۔ اس نے موت کو ہم سے دور کیا اور ہم کو نئی حیات بخشی۔ اور چونکہ وہ نادیدہ (دیکھائی نہ دینے والا)تھا اس لئے اپنے کاموں کے ذریعہ سے دکھائی دیا۔ اس کے کاموں کو دیکھ کر ہم نے پہچانا کہ وہ باپ کا کلمہ اور کل مخلوقات کا حاکم اور بادشاہ ہے۔
(۱۷)تجسم کے باعث کلمتہ اللہ محدود نہ ہوگیا
لیکن جسم نے اس کو محدود نہ کر دیا۔ اور جسم میں رہنے سے یہ نتیجہ نہ نکلا کہ اس کی حضوری اور جگہوں سے جاتی رہی۔ وہ جسم کو تو متحرک کرتا تھا اور ساتھ ہی اس کے کل عالم اس کے اثر عمل اور انتظام سے معمور تھا۔ اور کیسی عجیب یہ بات ہے کہ وہ کلمتہ اللہ ہونے کے باعث کے کسی شے سے محاط(گھیرا گیا، مشہور) نہ ہوا بلکہ اسی کا احاطہ ہرشے پر تھا۔ وہ مخلوقات کے اندر حاضر تھا تاہم مخلوقات سے بلحاظ ماہیت علیحدہ تھا۔ ہر شے نے اس سے زندگی حاصل کی۔ کسی شے نے اس پر احاط نہ کیا بلکہ وہ ہر شے پراپنا احاطہ رکھتا تھا۔ اس کی ہستی ہر طرح سے فقط اس کے باپ کی پاک ذات کے اندر تھی۔ وہ جسم کے اندر تھا اور اس جسم کو زندگی بخشتا تھا لیکن ساتھ ہی اس کے کل عالم کو زندہ رکھتا تھا۔ وہ عالم کے ہر حِصّہ میں حاضر تھا تا ہم اس کی کلیت سے باہر تھا۔ اس نے نہ فقط ان کاموں کے ذریعہ سے اپنے تئیں نمایاں کیا جو اس نے جسم میں ہوکر کئے بلکہ اپنے اس اثر و عمل کے ذریعہ سے بھی جو کل عالم میں ظاہر تھا۔
روح کی خاصیت ہے کہ وہ بذریعہ خیال کے ان اشیاءپر غور کرسکتی ہے جو جسم کے باہر ہیں۔ لیکن وہ جسم کے باہر عمل نہیں کرسکتی۔ نہ وہ ان اشیاءکو متحرک کرسکتی ہے جو اس سے فاصلہ پر ہیں۔ آدمی میں قوت نہیں کہ محض خیال کے زور سے ایسی اشیاءکو متحرک(حرکت کرنے والا، جاری) کرے جو اس سے دور ہیں۔ اپنے گھر بیٹھ کر آدمی اجسام سماوی کی نسبت سوچ سکتا ہے۔ لیکن اس سوچ میں یہ قوت نہیں کہ آفتاب کو حرکت یا آسمان کو گردش دے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آفتاب و ماہتاب اور ستارے گردش کرتے اور موجود ہیں لیکن ہم اپنا زور ان پر نہیں چلاسکتے۔
لیکن کلمتہ اللہ کی مجسم ہوکر یہ حالت نہ تھی۔ اس کا جسم اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھا بلکہ وہ کامل طور پر اس جسم پر حاوی تھا۔ وہ نہ فقط جسم کے اندر تھا بلکہ ہر جگہ حاضر و ناظر تھا۔ وہ کل مخلوقات کے باہر اپنے باپ میں رہتا تھا۔ عجوبہ اس میں ہے کہ جس حال میں وہ انسانی زندگی بسر کر رہا تھا۔ بباعث کلمتہ اللہ ہونے کے وہ ہر شے کو زندہ کرتا تھا۔ اور جبب بیٹا ہونے کے باپ کے ساتھ موموجو تھا ۔پس کنواری کے بطن سے پیدا ہونے کے باعث بھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی مجسم ہونے کے باعث اس کی ذات میں کوئی نقص یا ناپا کی داخل نہ ہوئی۔ بلکہ کے پرعکس اس نے جسم کو پاک مقدس کیا۔
گو وہ ہر شے کے اندر ہے تاہم اس کی ذات علیحدہ ہے اور مخلوقات کی ذات علیحدہ وہ ہر شے کا زندہ کرنے والا اور رزاق ہے۔ آفتاب جسے ہم دیکھتے ہیں اور جو گردش کرتا ہے اس کی صنعت ہے لیکن آفتاب زمینی اجسام کے تعلق سے ناپاک نہیں ہوجاتا۔ تاریکی اس پر غالب نہیں آتی۔ بلکہ وہ ہر شے کو روشن اور پاک کرتا ہے۔ پس خُدا کا پاک کلمہ جو آفتاب کا خالق اور مالک ہے جسم میں ظاہر ہونے سے ناپاک نہیں ہوا۔ برعکس اس کے چونکہ وہ غیرفانی ہے اس نے فانی جسم کو زندہ اور پاک کیا۔ پاک کلام بھی یہی کہتا ہے کہ” نہ اس نے گناہ کیا نہ اس کے مُنہ سے مکر کی کوئی بات نکلی“ ( ۱۔ پطرس ۲: ۲۲ ) ۔
(۱۸)کلام مجسم کے کام
مقدس کتابوں کے لکھنے والے جب کلمتہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو بیان کرتے ہیں کہ وہ کھاتا پیتا تھا۔ اور وہ عورت سے پیدا ہوا۔ پس سمجھ لو کہ ان محاورات کا اطلاق محض اِس کے جسم پر ہے یعنی اس کا جسم عورت سے پیدا ہوا اور غذا کھاتا تھا ۔ کلمتہ اللہ جو خُدا ہے جسم میں رہ کر عالم کا منتظم تھا۔ ان کاموں کے ذریعہ سے جو اس نے جسم میں ہوکر کئے اس نے اپنے آپ کو نہ انسان بلکہ کلمہ اور خُدا ظاہر کیا۔ جسمانی کوموں ( یعنی پیدا ہونے کھانے پینے دکھ سہنے ) کا اطلاق اس کی طرف اس لئے ہے کہ وہ جسم جو یہ سب کرتا تھا اسی کا جسم تھا مناسب تھا کہ جب وہ انسان بن گیا تو کام بھی ایسے ہی کرتا۔ تاکہ سب پر ثابت ہو جائے کہ وہ جسم جو اس نے اختیار کیا محض دھوکا نہ تھا بلکہ حقیقی تھا1-
جیسا کہ بوسیلہ ان چیزوں کے اس نے اپنی جسمانی حضوری کا ثابت کیا۔ اسی طرح بذریعہ ان کاموں کے جو جسم کی وساطت سے کئے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا ثابت کردیا اسی لئے اس نے بے اعتقاد یہودیوں سے فرمایا ” اگر میں اپنے باپ کا کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو ۔ لیکن کرتا ہو تو گو میرا یقین نہ کرو مگر ان کاموں کا تو یقین کرو تا ہم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں “ (یوحنا۱۰: ۳۷۔۳۸)۔
_____________________________
1۔ اثناسیس کے زمانے میں دُکیتی نام ایک بدعت تھی جس کی تعلیم کے بموجب مسیح کا جسم حقیقی نہیں تھا بلکہ محض صوری۔کیونکہ جس طرح وہ اندیکھا ہوکر مخلوقات پر غور کرنے سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح انسان بن کر اور جسم سے پوشیدہ ہوکر اپنے کاموں سے ثابت کرتا ہے کہ میں جویہ سب کچھ کرتا ہوں انسان نہیں بلکہ خُدا کی قدرت اوراُس کا کلمہ ہوں۔ شیاطین کو حکم سے دور کر دینا انسان کاکام نہیں بلکہ خُدا کا ہے۔ کون شخص ہے جو اس جسمانی امراض کو دور کرتا دیکھ کر کہے گا کہ یہ خُدا نہیں بلکہ انسان ہے۔ اس نے کوڑھیوں کو پاک صاف کیا لنگڑوں کو چلنے کی طاقت دی۔ بہروں کو سماعت بخشی۔ اندھوں کو بصارت دی۔ اور آدمیوں میں سے ہر قسم کے مرض اور صنعف کو دور کیا۔ ان کاموں کو دیکھ کر سرسری نظرسے دیکھنے والے بھی کہیں گے کہ اس میں بے شبہ الوہیت ہے اس نے ایک مادر زاد اندھے کو آنکھیں دے کر وہ شے عنایت کی جو ماں کے رحم سے اسے نہ ملی تھی پھر ایسے عظیم معجزہ کو دیکھ کر کون نہ کہے گا کہ انسان کی فطرت اس کے قبضہ میں ہے اور وہ فطرت انسان کا خالق اور صانع ہے کیونکہ جس نے وہ چیز عطا کی جو آدمی اپنی پیدائش سے نہ رکھتا تھا تو ضرور وہ آدمی کی پیدائش کا مالک ہے۔ ابتدا میں جب کہ وہ ہمارے پاس آنے کا قصد کرتا تھا تو اس نے کنورای کے رحم میں اپنے لئے ایک جسم تیار کیا۔ تاکہ دنیا کو اپنی خُدائی کا ایک بڑا بھاری ثبوت دے دے۔ کیونکہ جو انسانی جسم کو پیدا کرسکتا ہے وہ اور سب چیزیں بھی بناسکتا ہے۔ کون ہے جو کنواری کو بغیر صحبت مرد کے حاملہ ہوتے اور بچہ جنتے دیکھے اور نہ کہے کہ یہ جو جسم میں ظاہر ہوا ہے دُنیا کا خالق اور مالک ہے۔ کون ہے جو پانی کو مئے بنتے دیکھے اور نہ کہے کہ وہ جس نے یہ کام کیا ہے پانی کی ماہیت اور اصلیت کا مالک اور خالق ہے۔ اپنی الوہیت کو ثابت کرنے کی غرض سے وہ پانی پر یوں چلا جیسے خشکی پر۔ اس معجزے سے اس نے ثابت کیا کہ میں ہر شے پر قادر ہوں۔
اس نے جو کتنے ہی آدمیوں کو تھوڑی سی روٹی سے سیر کیا۔ اور قحط کو ارزانی (کثرت)سے بدل دیا۔ یہاں تک کہ پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار آدمی سیر ہوئے۔ اور ابتدائی ذخیرے سے پھر بھی بہت زیادہ روٹیاں باقی رہ گئیں۔ کیا ان کاموں سے ثابت نہ ہوا کہ وہ کل انتظام جہان کا مالک ہے۔
(۱۹)کلمتہ اللہ کے کام اور کائنات کی گواہی
نجات دہندہ نے ان سب کاموں کا کرناپسند کیا۔ بنی آدم اس سے بے خبر ہوگئے تھے کہ کل عالم کا وہی منتظم ہے۔ مخلوقات کے ذریعے سے وہ اس کی خُدائی کو نہ محسوس کرتے تھے۔ پس اس نے ایک جسم اختیار کیا تاکہ ان کاموں کو دیکھ کر جو اس نے جسم میں رہ کر کئے بنی آدم دوبارہ بصارت حاصل کریں اور اس کے وسیلہ سے باپ کا علم ان کو حاصل ہو۔ اور چند خاص حالتوں میں کلام ِمجسم کے اثر کو محسوس کرکے اس کی قدرت کو پہچانیں جو کل عالم کی منتظم ہے۔ جن لوگوں نے یہ دیکھ لیا کہ اسے شیاطین پر کیسا اختیار حاصل تھا اور شیاطین نے علانیہ اس کی خُداوندی کو تسلیم کرلیا۔ وہ کس طرح کہہ سکتے تھے ہمیں اس کے ابن اللہ یا کلمتہ اللہ یا قدرت اللہ ہونے میں ذرہ بھی شک باقی ہے۔
کائنات کو بھی اس نے نے مجبور کیا کہ اس پر گواہی دے۔ اور جائے تعجب(تعجب کی جگہ) ہے کہ اس کی موت کے وقت ( جس کو اس کی فتح کا وقت کہنا زیادہ مناسب ہے ) یعنی عین حالت تصلیب میں کل کائنات نے اقرار کیا کہ یہ جو جسم میں ظاہر ہوا اور اب دکھ اٹھا رہا ہے فقط انسان نہیں بلکہ ابن ِاللہ اور سب کا منجی ہے۔ کیونکہ آفتاب نے اپنا مُنہ پھیر لیا۔ اور زمین اور پہاڑ شق (پھٹ جانا)ہوگئے کل بنی آدم خوف زدہ ہوگئے۔ پس ان سب واقعات سے ثابت ہوا کہ مسیح صلیب پر خُدا تھا اور کل مخلوقات اس کے ماتحت ہونے کے باعث خوف کے مارے اس کی حضوری پر گواہی دے رہی تھی۔
پس اس طور پر کلمتہ اللہ نے بذریعہ اپنے کاموں کے اپنے تئیں بنی آدم پر نمایاں کیا۔ اب ہم یہ بیان کریں گے کہ اس کی جسمانی زندگی اور دور کا انجام و نتیجہ کیا ہوا۔ ہم اس کے جسم کی موت کی حقیقت کو بھی کھولیں گے۔ خاص کر اس وجہ سے کہ ہمارے ایمان کامرکزیہی ہے۔ اور ہر جگہ اس کا بہت چرچا ہوا کرتا ہے۔ اس بیان کے پڑھنے سے بھی تم کو معلوم ہوجائے گا کہ مسیح خُدا اور خُدا کا بیٹا ہے۔
(۲۰)گذشتہ دلائل کا خلاصہ
جہان تک ممکن تھا اور جہان تک ہماری سمجھ نے کام دیا ہم نے بیان کیا کہ کلمتہ اللہ کے جسم میں ظاہر ہونے کے اسباب کیا تھے۔ کسے قدرت تھی کہ فانی کو غیر فانی کردے مگر اسی منجی کو جس نے شروع میں ہر شے کو نیست سے ہست کیا تھا۔ کون بنی آدم کو دوبارہ خُدا کی صورت میں پیدا کرسکتا تھا مگر وہ جوخود باپ کی صورت تھا۔ کون مرنے والے کو اس قدر بدل سکتا تھا کہ پھر اس پر موت کا غلبہ نہ رہے مگر ہمارا خُداوند یسوع مسیح جو خود حیات و زندگی ہے۔ کون بنی آدم کو باپ کی سچی شناخت دے کر بتوں کی پرستش موقوف کرسکتا تھا مگر کلمتہ اللہ جو سب اشیاءکا منتظم اور اکیلا باپ کا بیٹا ہے۔
لیکن خاص کر چونکہ ضرور تھا وہ قرض جس کے سب دیندار تھا ادا کیا جائے ( اور سب موت کے تحت میں آچکے تھے ) وہ ہم میں آکر رہا۔ اسی وجہ سے اپنے کاموں کے ذریعے سے اپنی الوہیت کا ثبوت دے کر اس نے سب کی خاطر قربانی گذرانی۔ یعنی اپنی جسم کو سب کے بدلے موت کے حوالہ کیا۔ تا کہ بعد اس کے موت کا بنی آدم پر کچھ دعویٰ نہ ر ہے اور وہ پچھلی خطا سے بری اور آزاد ہو جائیں۔ اس نے اپنے تئیں موت سے زبردست ثابت کیا اور اپنے غیرفانی جسم کو سب کی قیامت کے پہلے پھل کے طور پر ظاہر کیا۔
اس پر تعجب نہ کرو کہ ہمیں اس مضمون کے بیان میں پہلے کہی ہوئی باتیں بار بار دہرانی پڑتی ہیں۔ ہم ایک ایسے کام کا مطلب کھول رہے ہیں جسے خُدا نے اپنی مہربانی و شفقت کے باعث کیا۔ پس ہم مجبور ہیں کہ ایک ہی خیال کو بہت سی صورتوں میں ادا کریں۔ کہ مبادا کوئی بات باقی رہ جائے اور ہم پر یہ الزام آئے کہ ہم نے کسی مسلہ کو نامکمل چھوڑ دیا طوالت(لمبائی، زیادتی) کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں ۔بہ نسبت اس کے کہ کوئی ضروری بات چھوڑدی جائے۔
اس کا جسم بباعث اور اجسام کی مانند مادی ہونے کے فانی تھا۔ گو وہ اعجازی طور پر باکرہ(کنواری لڑکی) کے رحم میں بنایا گیا تھا۔ تاہم وہ ایک انسان جسم ہی تھا۔ اس لئے ضرور تھا کہ مناسب وقت پر موت سے مغلوب ہو۔ لیکن چونکہ کلمتہ اللہ اس میں داخل ہوا تھا اس لئے وہ غیرفانی ہوگیا۔ کلمتہ اللہ کا مسکن ہونے کے باعث وہ جسم فنا کے بس کا نہ رہا۔اور دو عجیب باتیں ایک ہی ساتھ وقوع میں آئیں۔ اول سب کی موت خُداوند کے جسم میں پوری ہوئی۔ دوئم موت اور فنا کلمتہ اللہ کی حضوری کے باعث بالکل موقوف کردی گئی۔کیونکہ موت کی ضرورت تھی ضرور ہے کہ سب مریں تاکہ سب کا قرضہ ادا کیا جائے۔ پس کلمتہ اللہ نے جو مر نہ سکتا تھا ( بباعث غیرفانی ہونے کے ) ایک فانی جسم اختیار کیا تا کہ اسے سب کی خاطر قربان کرے اور سب کی خاطر دُکھ سہ کر اور جسم میں اُتر کر موت کے وسیلے سے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کردے اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے انہیں چھڑالے ( عبرانیوں ۲: ۱۴۔۱۵ )۔
(۲۱)مسیح نے کس لئے موت اختیار کی
ہم جو مسیح پر ایمان رکھتے ہیں۔ شریعت کی دھمکی کے مطابق قدیم زمانہ کی مانند موت کے تحت میں نہیں ہیں۔ کیونکہ مسیح جو سب کا منجی ہے۔ ہماری خاطر اپنی جان دے چکا ہے۔ وہ فتویٰ جو ہمارے خلاف تھا اب موقوف ہوگیا ہے ۔قیامت کے فضل نے فنا کو موقوف اور زائل کر دیا ہے۔ پس ایسے ہم جو مرتے ہیں تو اس کے فقط یہی معنی ہیں کہ ہمارے اجسام اپنی فانی فطرت کے قانون کے مطابق اس وقت پر جسے خُدا نے مقرر کیا ہے منتشر ہو جاتے ہیں۔ تاکہ ایک بہتر قیامت ہم کو حاصل ہو۔ موت ہمارے لئے ہلاکت نہیں بلکہ ہم بیجوں کی مانند بوئے جاتے ہیں تاکہ پھر اُگیں۔نجات دہندہ کے فضل نے موت کو بیکارکر دیا ہے۔ اس لئے پولُس جو سب کی قیامت کا ضامن بنایا گیا ہے کہتاہے ” کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے۔ اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہنے اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جولکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہوگئی ہے۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی اے موت تیرا ڈنگ کہاں رہا “ ( ۱ ۔کرنتھیوں۱۵: ۵۳سے۵۵تک ؛ یسعیاہ۲۵: ۸ ، ہو سیع۱۳: ۱۴ )۔
یہاں ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ پوچھے۔
بالفرض نجات دہندہ کے لئے ضرور تھا کہ اپنے جسم کو سب کے عوض میں موت کے حوالے کرے۔ تو کیوں اس نے تخلیہ میں اس کام کو نہ کیا۔ اور علانیہ مصلوب ہونا منظور فرمایا۔ عزت کے ساتھ جسم کو اپنے سے علیحدہ کر دینا بہتر ہوتا بہ نسبت ایسی شرمناک موت برداشت کرنے کے۔
لیکن دیکھو۔ ایسا اعتراض محض ایک انسانی اعتراض ہے۔ کیوں کہ جو کچھ نجات دہندہ نے کیا وہ ایک خُدائی فعل تھا اور کئی وجوہات سے اس کی الوہیت کے لائق تھا۔
اوّل۔ وہ موت جو آدمیوں کا حِصّہ ہے ان کی فطرت کی کمزوری کے باعث ان پر غالب آتی ہے۔ انسان ایک عرصہ سے زیادہ اپنی حالت پر قائم نہیں رہ سکتا بلکہ خاص میعاد پر اس کا جسم منتشر ہو جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس سے پیشتر انسان پر مختلف اقسام کی بیماریاں آتی ہیں یہاں تک کہ کمزور ہوتے ہوتے مر جاتا ہے۔ لیکن ہمارا خُداوند کمزور نہ تھا۔ وہ خُدا کی قدرت اور کلمہ اور خود حیات تھا۔ پس اگر وہ اپنے جسم کو تحلیہ میں کسی بسر مرگ پر اپنے سے علحدہ کر دیتا جیسا کہ بنی آدم کا قاعدہ ہے تو لوگ سمجھتے کہ اُس نے یہ اپنی فطرت کی کمزوری کے باعث سے کیا ہے۔ اور اُس میں اور اور آدمیوں میں کچھ فرق نہیں۔ لیکن چونکہ وہ حیات اور کلمتہ اللہ تھا اور ضرور تھا کہ سب کی خاطر مرے اس لئے اس کا جسم اس کی صحبت سے مضبوط اور طاقتور ہوگیا لیکن چونکہ موت ضرور تھی اس لئے اس نے جسما نی کمزوری کی راہ سے نہیں بلکہ اوروں کا ظُلم اٹھا کر اپنی قربانی کو چڑھانا پسند کیا۔ کلمہ کے کے لئے جو اوروں کی بیماریوں کو دور کرتا تھا مناسب نہ تھا کہ خود بیماری میں گرفتار ہو۔ مناسب نہ تھا کہ جسم کمزور ہوجائے جس میں ہوکر اس نے اوروں کمزوریوں کو زور سے بدل ڈالا۔
پھر اگر کوئی کہے کہ وہ بیماری کو روک سکتا تھا۔ پس کس لئے موت کو بھی نہ روکا۔ تو اس کا جواب یہ ہے موت سہنے ہی کی غرض سے تو اس نے جسم اختیار کیا تھا۔ پھر کیوں موت کو روکتا اور موت کو روکتا تو قیامت بھی رک جاتی۔اور علاوہ اس کے موت سے پیشتر بیمار ہونا بھی اس کے لئے نامناسب تھا، کیونکہ اگر وہ بیماری قبول کر لیتا تو لوگ اس کے جسم کے ساتھ کمزوری کو منسوب کرتے۔
لیکن کیا اسے بھوک نہ لگتی تھی۔ بیشک لگتی تھی کیونکہ بھوک جسم کی خاصیت ہے۔ لیکن وہ بھوک سے ہلاک نہیں ہوسکتا تھا بسبب اس خُداوند کے جو اس جسم کو پہنے تھا پس گو وہ سب کا فدیہ دینے کے لئے مرا تاہم اس کا جسم سڑنے نہ پایا۔ بلکہ کل اعضاءو اجزاءکو صحیح و سالم لے کر وہ زندہ ہوا۔ کیوں کہ وہ جسم اس کا جسم تھا جو خود حیات ہے۔
(۲۲)مسیح نے کس وجہ سے اوروں کے ہاتھ سے مرنا منظور کیا
شاید کوئی اور کہے کہ اگر وہ یہودیوں کی سازش و بندش سے بچ کر اپنے جسم کو مرنے سے محفوظ رکھتا۔ تو اچھا ہوتا۔ لیکن سنو اور سمجھو کہ ایسا کرنا بھی خُداوند کی شان کے لائق نہ ہوتا۔
کلمتہ اللہ چونکہ خود حیات تھا اس لئے اس کو مناسب نہ تھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنے جسم کو قتل کرتا۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مناسب نہ تھا کہ جب اور لوگ اس کو مارنا چاہتے تھے تو ان کے ہاتھ سے بچ نے کی کوشش کرتا۔ یہی بات اسی کی ذات کو شایان تھی کہ موت کی پیروی کرکے موت کو نیست کردے۔ پس اس نے نہ خودبخود جسم کو اتار دیا۔ اور نہ یہودیوں کی سازش سے بچ نے سعی (کوشش)کی۔ ان میں سے کسی کام سے بھی یہ ثابت نہ ہوا کہ وہ کمزور تھا۔ بلکہ برعکس اس کے یہ ثابت ہوا کہ وہ نجات دہندہ اور حیات کا مالک ہے۔ کیوں کہ وہ اس بات کا تو منتظر رہا کہ موت اپنے وقت پر آکر اس کے جسم کو تلف کرے اور جب وقت آگیا تو اس موت کے سہنے میں جلدی کی جس کے باعث کل دُنیا نے نجات پائی۔
علاوہ بریں نجات دہندہ اس لئے نہ آیا کہ اپنی طرف سے مرے بلکہ اس لئے کہ اس میں کل بنی آدم کی موت پوری ہو۔ پس اس وجہ سے اس نے تخلیہ (تنہائی) میں مر کر اپنے جسم کو نہ اتارا۔ وہ تو خود حیات تھا ۔پس اس وجہ سے ازخود موت کا مطیع نہ ہوسکتا تھا۔ لیکن اوروں کے ہاتھ سے موت کو لے لینا اس نے منظور فرمایا۔ تا کہ اپنے جسم میں موت کو لے کر اسے بالکل نیست نابود کردے۔
دوم۔ ذیل کی وجوہات سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کس لئے خُداوند کے جسم کا اس طور پر خاتمہ ہوا۔ جسم کی قیامت کا جسے وہ پورا کرنا چاہتا تھا خُداوند کو خاص خیال تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مردوں میں سے زندہ ہوکر ظاہر کرے کہ میں نے اپنی قیامت میں موت کو جیت لیا ہے۔ میری قیامت فتح کا ثبوت و نشان ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ ظاہر کرے کہ ہلاک و فنا مٹا دی گئی ہیں۔ اور آیندہ بنی آدم کے اجسام پر غالب نہ آئے گی۔ ہلاکت کے موقوف کئے جانے اور سب کی قیامت کے ثبوت میں اس نے اپنے جسم کو سڑنے سے بچایا۔
پس اگر اس کا جسم مریض ہو جاتا اور اس وجہ سے سب کے سامنے کلمتہ اللہ یُوں رحلت کرتا تو محض نامناسب ہوتا۔ کیا ممکن تھا کہ جس نے اوروں کے امراض کو دور کیا اپنی مرض کی طرف سے غافل ہو کر اپنے جسم کو برباد ہونے دیتا۔ ہمیں کیوں کر یقین ہوتا کہ اس شخض نے دوسروں کی کمزوریوں کو دور کیا۔ جب کہ اس کے اپنے جسم کو کمزوری میں مبتلا دیکھتے۔ ایسی حالت میں ضرور ہوتا کہ اسے بیماری کے مقابل میں کمزور دیکھ کر لوگ اس پر ہنستے۔ یاکہتے کہ یہ شخص اپنے جسم پر رحم نہیں کرتا تو کیوں کر دوسروں پر رحم کرے گا۔ یا اگر اس قابل تھا اور ایسا نہ کرتا تھا تو لوگ کہتے کہ یہ شخض نہ اپنے جسم سے محبت رکھتا ہے نہ اوروں سے۔
(۲۳)مسیح نے علانیہ موت کیوں گواراکی
پھر فرض کرو کہ بغیر کسی مرض یا درد کو سہے مسیح کا جسم تخلیہ میں مرنے کے بعدکسی جنگل یا مکان میں یا اور کہیں عرصہ تک پوشیدہ رہتا اور پھردفعتا ًظاہر ہو جاتا اور وہ کہتا کہ میں مردوں میں سے اٹھایاگیا ہوں تو کیا سب سننے والے نہ کہتے کہ یہ تو قصہ کہانی ہے۔
اگر اس کی موت کا کوئی گواہ نہ ہوتا تو کون اس کی قیامت کو باور کرتا۔
ضرور تھا کہ قیامت سے پیشتر وہ مرے۔ اگر موت پہلے نہ ہو تو قیامت کیوں کر ہوسکتی ہے۔ پس اگر اس کے جسم کی موت کہیں پوشیدگی میں ہوجاتی اور اس کا کوئی گواہ نہ ہوتاتو اس کی قیامت بھی مہمل(فضول، بیکار) اور محتاج شہادت رہتی۔
علاوہ اس کے جب کہ اس نے زندہ ہو کر اپنی قیامت کو مشہور کر دیا تو کیا ضرورت تھی کہ وہ پوشیدگی میں مرتا۔ اس نے شیاطین کو علانیہ نکالا۔ مادر زاد اندھے(پیدائشی اندھا) کو علانیہ بصارت(دیکھنے کی قوت) بخشی۔ پانی کو مَے سے تبدیل کردیا۔ ان سب کاموں کے علانیہ کرنے سے اس کی یہ غرض تھی کہ دُنیا اسے کلمتہ اللہ تسلیم کرے۔
جب کہ یہ سب اس نے علانیہ کیا تو کیا ضرورت تھی کہ وہ اپنے جسم کو سڑنے کے ناقابل ثابت نہ کرتا۔ تاکہ بنی آدم مان لیں کہ یہی حیات و زندگی ہے۔ اگر اس کے شاگرد پہلے یہ نہ کہہ سکتے کہ ہمارا خُداوند مر گیا تھا تو قیامت کے مسئلہ کی اشاعت کی ہمت اس کو کہاں سے حاصل ہوتی۔
جن لوگوں کے سامنے رسولوں نے دلیری سے منادی کی اگر وہ مسیح کی موت کے شاہد (گواہ)نہ ہوتے تو رسولوں کا یہ کلام کیوں کر مانا جاتا کہ مسیح مر کر جی اُٹھا ہے۔
گو اس کی موت اور قیامت سب کے سامنے ہوئی تھی تاہم اس زمانہ کے فریسی ایمان نہ لائے۔ بلکہ انہوں نے ان لوگوں کو بھی جو اس کی قیامت کو دیکھ چکے تھے اس کا انکار کرنے پر مجبور کیا۔ اس حالت میں اگر وہ پوشیدگی میں مرتا اور جی اُٹھتا تو فریسی ایمان نہ لانے کے لئے اور بھی کتنے ہی بہانے بنالیتے۔
موت کی شکست فقط ایک ہی طور پر ثابت ہوسکتی تھی۔ یعنے اس طور پر کہ سب کے روبرو موت مردہ دکھلائی جاتی۔ اور اپنے جسم کو سڑنے کے ناقابل ثابت کرکے وہ علانیہ دکھلا دیتا کہ موت بالکل بیکار ہوگئی ہے۔
(۲۴)کس وجہ سے مسیح نے اپنی موت کا طریق آپ نہ تجویز کیا
مناسب ہے کہ بعض اور اعتراضوں کے جواب بھی ہم پہلے سے تحریر کردیں۔ ایک اعتراض یہ ہے۔ بالفرض یہ ضرور تھا کہ مسیح سب کے سامنے مرے تا کہ اس کی قیامت پر سب ایمان لے آئیں۔ تاہم بہتر ہوتا اگر وہ اپنے لئے موت کا کوئی باعزت طریقہ تجویز کرتا اور صلیب کی بے عزتی اپنے اوپر نہ لاتا لیکن اگر وہ ایسا کرتا بھی تولوگ ضرور اس پر شک کرتے اور کہتے کہ وہ فقط ایک ہی قسم کی موت کے مقابلہ میں زبردست ہے۔ یعنے اس موت کے جس کو اس نے خود اپنے واسطے تجویز کیا۔ یوں بعضوں کو اس کی قیامت پر ایمان لانے کا عذر(بہانہ)مل جاتا۔ پس اس وجہ سے اس نے اپنی مرضی کے مطابق مرنا منظور نہ کیا بلکہ غیروں کی سازش اور بندش کو اپنے خلاف کامیاب ہونے دیا۔ تاکہ موت کو خواہ وہ کسی طریقہ اور صورت میں آئے بالکل موقوف کردے۔ ہمت والا پہلوان بباعث اپنی عقل اور جرات کے یہ کہنا پسند نہیں کرتا کہ میں فلاں شخص کے خلاف زور آزمائی کرؤں گا اور فلاں کے خلاف نہ کرؤں گا۔ اگر وہ ایسا کرے تو فوراً اس کی جرات پر لوگوں کو شک ہو جاتا ہے ۔ بلکہ وہ اپنے مخالف کا انتخاب ناظرین کے ( خاص کر جب وہ اس سے مخالفت رکھتے ہوں ) سپرد کر دیتا ہے اور جو کوئی اس کے سامنے لایا جائے اس کے ساتھ لڑ کر اور اس پر فتح پاکر ثابت کر دیتا ہے کہ میں سب سے زور آور ہوں۔ اسی طرح مسیح نے جو سب کی حیات اور ہمارا خُداوند اور منجی ہے اپنے لئے کوئی خاص موت پسند نہ کی مبادا لوگوں کو خیال گذرے کہ یہ کسی دوسری قسم کی موت سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہے۔ بلکہ اس نے صلیب پر مرنا منظور فرمایا اور دوسروں کے مارنے سے مرا۔ اس نے اپنے تئیں دشمنوں کے حوالہ کیا اور اس موت سے مرا جو بڑی خوفناک اور بے عزتی کی موت سمجھی جاتی تھی۔ اور جس سے سب بہت ہی ڈرتے اور بچتے تھے اور اس خوفناک موت پر غالب کراس نے ثابت کیا کہ میں حیات ہوں یوں اس نے موت کی طاقت کو آخر کار زائل کردیا۔
پس دُنیا میں ایک عجیب اور حیرت افزا معاملہ ہوا ہے۔ دشمنوں نے مسیح کو بے عزتی کی موت سے مارا لیکن وہ بے عزتی کی موت اس کے لئے فتح اور عزت کا نشان بن گئی۔ وہ یوحنا کی طرح نہ مرا جس کا سر قلم کیا گیا۔ وہ یشعیاہ کی طرح نہ مرا۔ جو آری سے چیرا گیا بلکہ موت میں بھی اس نے اپنے جسم کو تقسیم نہ ہونے دیا۔ تاکہ ان کو جو کلیسیا کو تقسیم کرناچاہتے ہیں کوئی بہانہ نہ ملے۔
(۲۵) کس وجہ سے مسیح صلیب پر مرا
مذکورہ بالابیانات اور جوابات ہم نے ان لوگوں کے واسطے تحریر کئے ہیں جو کلیسیا کے باہر ہیں اور مختلف قسم کے دلائل اور اعتراض ایجاد کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسیح بحث کی نہیں بلکہ تعلیم پانے کی غرض سے دریافت کرے کہ مسیح کیوں صلیب پر مرا اور کیوں اس نے مرنے کا کوئی دوسرا طریق پسند نہ کیا تو اس کو واضح ہوکہ ہماری خاطر۔ مسیح کو مناسب تھا کہ خاص اسی طور پر اپنی جان دے خُداوند نے بڑی عظمت کے ساتھ اس موت کو ہماری خاطر سہا۔ وہ اس لئے آیا کہ
(ا: ۲۱)اس لعنت کو اُٹھائے جو ہمارے اوپر تھی۔
پس اگر وہ اس موت کو نہ سہتا جو اس لعنت کا نتیجہ تھی تو کس طرح ہماری خاطر لعنتی بن سکتا ( گلتیوں ۳:۳۱ )اور وہ موت صلیبی موت تھی۔ کیوں کہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے ( استثنا ۱۲:۳۲ )۔
پھراگر خُداوند کی موت سب کا فدیہ ہے اور اس کی موت سے جدائی کی دیوار جو بیچ میں تھی ڈھائی گئی ہے ( افسیوں ۲:۴۱ ) اور غیر اقوام ایمان کی طرف بلائی گئی ہیں تو اگر وہ مصلوب نہ ہوتا تو کس طرح ہم کو بُلاسکتا۔ کیوں کہ فقط صلیب ہی پر آدمی اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے مر سکتا ہے۔ اس وجہ سے مناسب تھا کہ خُداوند صلیبی موت کو سہ کر ہاتھوں کو پھیلائے۔ ایک ہاتھ سے وہ اپنے قدیم لوگوں کو بُلاتا تھا اور دوسرے سے غیر اقوام کو تاکہ دونوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک کردے۔ یہ اس نے خود بتلاتا اور ظاہر کیا کہ کس موت سے میں سب کا فدیہ دونگا۔ ” میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا“ ( یوحنا ۳۴: ۱۱ )۔
(۲۶)مسیح کس لئے تیسرے روز مُردوں میں سے جی اُٹھا
پس بلحاظ ہمارے فائدے کے مسیح کا صلیب پر مرنا عین مناسب اور لائق تھا اس کا سبب بھی ہر طرح سے معقول تھا۔ اور ایسے دلائل بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر صلیبی موت کے سب کی بجات کا کام پورا نہ ہوسکتا تھا۔
وہ پوشیدگی میں نہ مرا ۔بلکہ صلیب پر علانیہ اور اس نے اپنے جسم کو بعد موت کے دیر تک مردہ حالت میں رہنے نہ دیا۔ بلکہ فوراًتیسرے دِن اُسے اُٹھایا۔ اور یوں اپنے جسم کو سڑے اور دکھ سہنے کے ناقابل بنا کر موت پر فتح یابی کی نشانی لے گیا۔
البتہ اس میں قدرت تھی کہ مرنے کے بعد فوراًزندہ ہوجائے۔ لیکن اس نے اپنی حُسن پیش بینی کے سبب ایسا نہ کیا۔ کیوں کہ اگر ایسا کرتا تو شائد بعض کہتے کہ وہ مرا ہی نہ تھا یا موت اس پر پوری طرح غالب نہ ہوئی تھی اس لئے موت کا وقوع ہوتے ہی قیامت کا وقوع میں آنا مناسب نہ تھا۔
اگر مو ت اور قیامت کے درمیان فقط دو دِن کا فاصلہ ہوتا تو بھی اس کے سڑنے کے ناقابل ہونے کا جلال پوری طرح ظہور نہ پاتا۔ پس یہ دکھلانے کے لئے کہ میرا جسم فی الحقیقت مر گیا ہے اس نے ایک پورے دن کا وقفہ ڈال دیا اور ٹھہرا رہا۔ اور تیسرے دِن سب کو دکھلا دیا کہ میرا جسم سڑنے کے ناقابل ہے۔ اپنی جسمانی موت کو ظاہر کرنے کے لئے اس نے اپنے جسم کو تیسرے روز اُٹھایا۔ اگر وہ اپنے جسم کو دیر تک قبر میں رہنے اور سڑنے دیتا اور بعد اس کے اسے قبر سے اُٹھاتا تو لوگ شک کرتے اور کہتے کہ یہ اصلی پُرانا جسم نہیں ہے بلکہ کوئی اور جسم ہے۔ اس کے دیر تک قبر میں رہنے سے لوگ اس کے ظہور کا یقین نہ کرتے اور پہلے کے واقعات کو بھول جاتے۔ پس وہ تین دِن سے زیادہ قبر میں نہ ٹھہرا۔ اور ان کو جنہوں نے اس کی قیامت کی پیش گوئی سنی تھی دیر تک انتظار کرناپڑا۔ برعکس اس کے جب کہ ہنوز(صرف) اس کا چرچا بند نہ ہوا تھا اور ان کی آنکھیں منتظر تھیں اور ان کے دل داغ دار تھے۔ جب کہ اس کے قاتل زندہ تھے اور نزدیک بھی ہونے کے سبب سے خُداوند کے جسم کی موت کے گواہ تھے۔ تو خُدا کے بیٹے نے تیسرے رزو اپنے جسم کو جو مر گیا تھا غیرفانی اور سڑنے کے ناقابل کردکھلایا۔ سب پر ظاہر ہوگیا کہ فطرت کی کمزوری کے باعث وہ جسم نہ مرا تھا۔ کیوں کہ کلمتہ اللہ اس میں رہتا تھا۔ وہ اس لئے مرا کہ نجات دہندہ کی قوت سے موت اس جسم میں نیست کی جائے۔
(۲۷)مسیح کی موت سے موت مغلوب ہوئی
اس کا کہ موت موقوف (ملتوی، منسوخ)ہوئی اور صلیب نے اس پر فتح پائی۔ اور اس کا کہ موت میں اب کوئی اصلی قوت نہیں رہتی بلکہ اب وہ بالکل مردہ ہے یہ ثبوت اور نشان ہے کہ مسیح کے شاگرد اس کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں۔ اور وہ اس پر حملے کرتے ہیں اور مطلق اس سےنہیں ڈرتے۔ بلکہ صلیب کے نشان اور مسیحی ایمان کی تاثیر اور قوت سے وہ اس کو مردہ ہی جان کر پامال کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں یعنے ہمارے منجی کے ظہور سے پیشتر مقدس لوگ بھی موت سے خوف کرتے تھے اور دستور تھا کہ مردوں کے لئے یوں غم کیا جاتا تھا کہ گو یا وہ بالکل ہلاک و معدوم ہوگئے ہیں( دیکھو ایوب۱۸: ۱۴؛ زبور ۵۵: ۴؛ زبور ۸۸: ۱۰؛ زبور ۸۹: ۴۷؛ یسعیاہ ۳۸: ۱۸ ) لیکن اب منجی کے جسم کے اُٹھنے کے بعد موت خوفناک نہیں رہی۔ مسیح پر ایمان لانے والے موت کو بالکل حقیر سمجھ کر پامال کرتے ہیں۔ وہ اپنے مسیحی ایمان سے انکار کرنے کی نسبت موت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ موت ہمیں ہلاک نہیں۔ بلکہ زندگی میں داخل کرتی ہے اور بذریعہ قیامت کے ہم سڑنے کے ناقابل ہوجاتے ہیں۔ اب چونکہ موت کے بند کھولے گئے ہیں ( اعمال ۲: ۲۴ )شیطان جو قدیم سے موت کو دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا اکیلا مُردہ اورموت کے بند میں گرفتار ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ بنی آدم مسیح پر ایمان لانے سے پیشتر موت کو ہیبت ناک سمجھتے اور اس سے بے دل ہوتے تھے۔ لیکن ایمان اور تعلیم کے دائرے کے اندر آکر وہ موت کو اس قدر حقیر گردانتے ہیں کہ جوش میں اس کی طرف جھپٹتے ہیں۔ یوں وہ اس امر کے گواہ بنتے ہیں کہ منجی نے موت کو قیامت سے فتح کر لیا ہے۔
بچپن میں بھی وہ مرنے کے لئے جلدی کرتے ہیں۔ اور نہ فقط مرد بلکہ عورتیں بھی بذریعہ ریاضت کے اپنے کو موت کے مقابلہ میں مضبوط بناتی ہیں۔ موت ایسی کمزور ہوگئی ہے کہ عورتیں بھی جو پہلے اس کے فریب میں آجاتی تھیں اب اسے مردہ اور قوت سے محروم سمجھ کر اس پر ٹھٹھا کرتی ہیں۔
فرض کرو کہ کوئی ظالم باغی ہے جس کو کسی حقدار اور سچے شہنشاہ نے مغلوب کر لیا ہے اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک جگہ ڈال دیا ہے جہان سب اسے دیکھنے والے اس پر ہنستے ہیں مارتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ کوئی اس کے غصہ اور ظلم سے آپ خوف نہیں کھاتا۔ کیوں کہ حق دار بادشاہ اس پر فتح پاچکا ہے۔ اسی طرح نجات دہندہ نے صلیب پر سے موت کو فتح کرکے اس پر شکست کا داغ لگا دیا ہے۔ اس نے اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیئے ہیں۔ پس اب مسیح کے سب پیرو اس کے پاس سے گذرتے ہوئے اس کو پامال کرتے ہیں۔ اور مسیح کے گواہ ہوکر موت پر ہنستے اور تمسخرکرتے ہیں۔ اور ان الفاظ کو زبان سے کہتے ہیں جو موت کے خلاف لکھے ہیں ”اے مو ت تیری فتح کہاں۔ اے برزخ تیرا ڈنک کہاں “ ( ہوسیع۱۳: ۱۴ )۔
(۲۸)موت پر مسیح کی فتح
پس موت کی کمزوری کا کیا یہ کوئی چھوٹا ثبوت ہے۔ یا اس فتح کا جو منجی نے موت کے خلاف حاصل کی ہے یہ کوئی ادنیٰ نشان ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مسیح میں ہونے کے باعث اِس زندگی کے بعد دوسری زندگی کی امید رکھتے ہیں اور بذریعہ ریاضت اپنے تئیں موت کے لئے تیار کرتے ہیں۔ موت سے خوف کھانا اور جسم کے انتشار سے ڈرنا انسان کی فطرت میں ہے لیکن تعجب اس میں ہے کہ جو کوئی صلیبی ایمان سے ملبس ہے وہ اُس طبعی حرکت کو بھی ناچیز جان کر بباعث مسیح کے موت کے مقابلہ میں بزدل نہیں رہتا۔
جس ظالم باغی کا ذکر ہم پچھلے باب میں کر چکے ہیں اگر کوئی اسے بندھا ہوا دیکھا چاہے تو اس کے فاتح کے علاقہ اور سلطنت میں جائے وہاں اسے جو پہلے خوف کاباعث تھا کمزور اور لاچار دیکھے گا اسی طرح اگرکوئی با وجود اتنے دلائل اور شہید وں کی شہادت کے اور مسیح کے مشہور شاگردوں کو ہر روز موت پر ہنستے دیکھنے کے بھی یقین نہیں لایا۔ اور ابھی تک اسے شک ہے کہ موت موقوف ہوئی یا نہیں ہوئی اور اس کا خاتمہ نہیں ہوا تو اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ اس بڑے معاملہ پر تعجب ہی کرتا رہے۔
لیکن مناسب نہیں کہ کوئی بے ایمانی میں ضدی ہوجائے۔ اور ایسے صریح (صاف)واقعات سے غافل(بے خبر) رہے۔ جو کوئی ظالم باغی کو دیکھا چاہے اس کے فاتح کے ملک میں جائے۔ اسی طر ح جو کوئی موت کو مغلوب دیکھا چاہے مسیح پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم کو قبول کرئے وہ ضرور موت کی کمزوری اور صلیب کو اس پر فتح مند دیکھے گا۔ کیوں کہ بہتوں نے جو پہلے ایمان نہ لائے اور ہنستے تھے جب ایمان کو قبول کر لیا تو موت کو ایسا حقیر سمجھا کہ خود مسیح کے نام پر جان دے دی۔
(۲۹)صلیب کے نشان اور مسیح کے ایمان کا موت پر غالب آنا
پس جب کہ صلیب کے نشان اور مسیح پر ایمان لانے سے موت پامال کی جاتی ہے تو عین حق و انصاف کی رو سے عیاں ہے کہ فقط مسیح ہی ہے جس نے موت پر فتح پائی ہے۔ اور اس کی طاقت کو ختم کردیا ہے۔ اور اگر موت پہلے قوی اور بوجہ اپنی قوت کے خوفناک تھی اور اب منجی کے اس دُنیا میں رہنے اور موت کے بعد جی اُٹھنے کے باعث حقیر ہوگئی ہے تو ظاہر ہے کہ اسی مسیح نے جو صلیب پر چڑھا موت کو نکمّا اور مغلوب کردیا ہے۔
جب رات کے بعد آفتاب نکلتا ہے او ر کل کرہ زمین روشن ہو جاتا ہے تو کوئی شک نہیں کرتا کہ یہ تمام روشنی آفتاب کی ہے۔ سب مان لیتے ہیں کہ آفتاب نے تاریکی کو دور کرکے کل اشیاءکو منور کر دیا ہے۔ اسی طرح چونکہ منجی کے نجات بخش جسمانی ظہور اور صلیب پر جان دینے کے بعد سے آج تک موت بالکل حقیر اور پست ہوگئی ہے تو یہ خوب ظاہر ہے کہ وہ نجات دہندہ ہی تھا جس نے جسم میں ظاہر ہو کر موت کو نیست و نابودکیا اور اپنی فتح کو اپنے مومنوں کے افعال و اقوال سے ہمیشہ ظاہر کرتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے آدمی جو اپنی فطرت سے کمزور ہیں موت کے اوپر خود پل پڑتے ہیں جسم کے اس انتشار اور سڑنے سے جو موت کا نتیجہ ہے مطلق نہیں ڈرتے برزخ (وہ عالم جس میں مرنے کے بعد دے قیامت تک روحیں رہیں گی)میں اتر نے سے ان کو خوف نہیں آتا اور موت کے عذاب سے بچنے کی کوشش تو کیسی برعکس ان کے روحانی جوش میں اسے آپ اپنے اوپر برانگیختہ (طیش میں بھرا ہوا،مشتعل)کرتے ہیں۔
مسیح کی خاطر اس زندگی کی نسبت موت ان کو زیادہ پسند ہے مرد عورتیں اور کم سن بچے مسیحی دین کی خاطر موت کا مقابلہ کرتے بلکہ موت پر جھپٹتے ہیں۔ باوجود ایسی شہادتوں کے کون ایسا سادہ لوح یا بے ایمان یا خفیف العقل (کم عقل)ہے کہ تسلیم نہ کرے کہ موت پر ایسی فتح فقط اس مسیح کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔ جس پر وہ گواہی دیتے ہیں وہی موت کو ان لوگوں کے حق میں جو اس پر ایمان لائے اور اس کی صلیب کے نشان کو اپنے اندر رکھتے ہیں کمزور کر دیتا ہے۔
سانپ ایک بڑا تند اور خوفناک جانور ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس کو بے خوف پامال کر رہے ہیں تو ہمیں فوراً یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بالکل کمزور ہوگیا ہے یا مرگیا ہے اگر کوئی لڑکوں کو شیر ببر پر ٹھٹھا کرتے ہوئے دیکھے تو ضرور کہے گا یا تو یہ شیر مردہ ہے بالکل کمزور ہے۔ پس جب ہم دیکھیں کہ مسیح کے پیرو موت کو حقیر جانتے اور اس کی کچھ پروا نہیں کرتے تو کیوں کر یقین نہ کریں کہ مسیح کہ موت میں موت مغلوب ہوئی وہ انتشار اور سڑنا جو موت کا نتیجہ تھا اب موقوف ہوگیا ہے۔
(۳۰)مسیح کی قدرت اور اس کے کام اس کی قیامت کا ثبوت ہیں
اس امر کا ثبوت کہ موت موقوف کی گئی اور خُداوند کی صلیب موت پر فتح کا نشان ہے گذشتہ بابوں میں دیا گیا ہے۔ لیکن خُداوند کے جسم کی جو سب کا منجی اور حقیقی زندگی ہے لازوال قیامت کا ثبوت بعض صریح واقعات سے نکلتا ہے جس کی شہادت روشن دماغ لوگوں کے لئے لفظوں کی شہادت سے قوی ہے۔
یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ موت موقوف ہوئی اور مسیح کی مدد سے سب اس کوپامال کرتے ہیں۔ پس ضرور ہے کہ خود مسیح نے اپنے جسم میں اس کو پامال اور نیست کیا ہو جب اس نے موت کو مارا تو فقط یہی باقی تھا کہ وہ اپنے جسم کواُٹھائے اور اسے اپنی فتح کانشان بنا کر سب کو دکھائے اگر خُداوند کا جسم اُٹھایا نہ جاتا تو کیوں کر معلوم ہوتا کہ موت مغلوب ہوئی ہے۔لیکن اگر اس کی قیامت کا یہ ثبوت کسی کے لئے کافی نہ ہو تو ذیل کے واقعات پر غور کرے۔
جب آدمی مر گیاتو بعد مرنے کے کچھ کر نہیں سکتا اس کا اثر قبر تک جاتا ہے۔ اور وہاں ختم ہو جاتا ہے ایسے کام اور افعال جن کا اثر آدمیوں پر ہو سکتا ہے فقط زندوں ہی کے بس میں ہیں اب جو کوئی چاہے دیکھے اور انصاف کرے اور جو کچھ نظر آتا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرے۔
ہمارا منجی بڑے بڑے کام کر رہا ہے۔ وہ ہر روز ہزاروں کو اپنی ظرف کھینچتا ہے۔ یونانی اور اجنبی سب کے سب اس پر ایمان لاتے اور اس کی تعلیم کو قبول کرتے جاتے ہیں۔ پس کیا کوئی اس میں شک کر سکتا ہے کہ منجی مردوں میں اُٹھا ہے۔ کون یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ مسیح زندہ نہیں یا یہ کہ وہ خود حیات کا سرچشمہ نہیں۔ کیا مردے میں قوت ہے کہ زندوں کے دلوں کو قابو کرے اور ان کو آمادہ کرے کہ اپنے آبائی قوانین کو ترک کرکے مسیح کی تعلیم کی تعظیم کریں۔ یا فرض کرو کہ اس کا کام اب بند ہوگیا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ موت انسان کے کام کو بند کر ہی دیتی ہے۔ تو یہ قوت اس میں کہاں سے آئی کی زندوں کے افعال کو روکے۔ کیوں کہ کچھ شک نہیں کہ وہ زانیوں کو زنا کرنے سے روکتا ہے۔ خونیوں کو خون کرنے سے باز رکھتا ہے۔ نا راستوں کو طمع(لالچ) سے بچاتا ہے اور بے دینوں کو دین دار بناتا ہے۔ اگر وہ زندہ نہیں ہوا بلکہ اب تک مردہ ہے تو کیوں کر جھوٹے معبودوں کو ان کے درجہ سے گرا کر تباہ کر دیتا ہے اور کس ذریعہ سے شیاطین کی پرستش کو نیست و نابود کر رہا ہے۔ کیوں کہ جہاں مسیح کا چرچا ہے اور اس کا ایمان پایا جاتا ہے وہاں سے بت پرستی دور ہو جاتی ہے۔شیاطین کے سب فریب ٹوٹ جاتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک اس کا زور ہے کہ شیاطین اس کا نام سننے کی تاب نہ لاکر بھاگ جاتے ہیں۔
یہ تو عجیب ہنسی کی بات ہوگی اگر کوئی کہے کہ وہ شیاطین جن پر وہ جبر کرتا ہے اور بت جن کو وہ نیست و نابود کرتا ہے زندہ ہیں۔ لیکن وہ جو ان کو نکالنے پر قادر اور اپنی قوت سے ان کو نابود کر سکتا ہے اور جس کو سب خُدا کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں مردہ ہے۔
(۳۱)مسیح کی قیامت کے سبب سے دیوتاؤں اور شیاطین کا مغلوب ہونا
جو لوگ مسیح کو قیامت کو نہیں مانتے وہ اپنے دعویٰ کو اس صورت میں خود باطل کرتے ہیں کہ جوجنّوں اور دیوتاؤں کو پوجتے ہیں اس کو اس مسیح کو زیر کرنے والا ثابت نہیں کرتے جو ان کے نزدیک مردہ ہے بلکہ برعکس اس کے کہہ سکتے ہیں کہ مسیح انہی کو مردہ ثابت کرتا ہے۔ مردہ سے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ مگر مسیح ہر روز بڑے بڑے کام کرتا ہے وہ آمیوں کو دین داری اور نیکی کی طرف راغب کرتا ہے۔ ان کو بقا کی تعلیم دیتا اور سکھاتا ہے کہ آسمانی چیزوں کی تلاش کریں۔ وہ باپ کی پہچان بخشتا اور موت کے بر خلاف آدمی کو مضبوط کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر مومن پر ظاہر کرکے بت پرستی کی بے دینی کو دُنیا سے زائل(دور ہونے والا، کم ہونے والا) کر رہا ہے۔ بے ایمانوں کے فرضی دیوتا اور جن ایسے کام نہیں کرسکتے۔ بلکہ وہ تو مسیح کے سامنے مردہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا سارا دکھلاوا اور سحر(جادو) باطل ہو جاتا ہے۔ اس کے زور کے مقابل بت پرستی بند ہو جاتی ہے۔ اور تمام ناروا اور خلافِ عقل عیش و عشرت موقوف ہو جاتی ہے۔ ہر شخص زمین سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔
پس اب ہم کس کو مردہ گِنیں۔ کیا مسیح کو جو یہ سب کچھ کرتا ہے۔ کام کرناتو نہ مُردوں کی خاصیت ہے نہ اس وجود کی جو جنّوں اور بُتوں کی طرح بے تاثیر اور بے جان پڑا رہتا ہے۔
ابن اللہ تو زندہ اور موثر ہے ( عبرانیوں ۴: ۱۲ ) وہ ہر زور کام کرتا اور سب کونجات بخشتا ہے۔ موت ہر روز کمزور ٹھہرائی جاتی ہے۔ بت اور شیاطین مرتے جاتے ہیں۔ اور بمشکل ہی اب کسی کو مسیح کے جسم کی قیامت پر شک باقی ہوگا۔
اب جو کوئی خُداوندکے جسمکی قیامت پر شک کرتا ہے کلمتہ اللہ اور کلمتہ اللہ کی قوت اور خُدا کی حکمت کو نہیں جانتا ہے۔ کیوں کہ جب اس نے جسم لیا اور جسم لینے کے نتائج کو بھی اختیار کر لیا تو اُس جسم کا کیا حال ہوناچاہئے تھا۔ اس جسم کی کیا حالت ہونی تھی بعد اس کے کہ کلمتہ اللہ نے اسے اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ مرنا تو اسے لازم تھا کیوں کہ وہ جسم فانی تھا اور سب کے بدلے موت کے حوالہ کیا گیا تھا۔ کہ اسی غرض سے منجی نے اس کو اپنے لئے تیار کیا تھا۔ لیکن برعکس اس کے وہ موت کی حالت میں ہمیشہ نہ رہ سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ حیات کا مسکن بن گیا تھا۔ پس فانی ہونے کے سبب سے تو وہ مرگیا لیکن اس حیات کے باعث جو اس میں تھی پھر زندہ بھی ہوگیا۔ اور اس کے کام اس کی قیامت کا ثبوت ہیں۔
(۳۲)مسیح کی قیامت کا ثبوت اس کی تاثیر سے
فرض کرو کوئی کہے کہ مسیح کو اب میں دیکھ نہیں سکتا اس لئے اس کی قیامت کو تھی تسلیم نہ کرؤں گا۔ تو اس دلیل کے مطابق لازم آئے گا کہ فطرت کی روش بھی تسلیم نہ کی جائے۔ خُداکی عین صفت یہی ہے کہ غیر مرئی (وہ چیز جو دیکھائی نہ دے)ہو مگر اپنے کاموں سے پہچانا جائے اگر مسیح کا کام ظاہر نہ ہوتا اسے اختیار تھا کہ اس کی قیامت کو بھی نہ مانتا۔ لیکن اب تو اس کے کام باآواز بلند پکار کر ثبوت اس کی قیامت کا دے رہے ہیں۔
پس اب مخالف کیوں جان بوجھ کر اس کی ایسی مسلم الثبوت (مستند دلائل)قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ اگر مخالفوں کی عقل جاتی بھی رہی ہو تاہم حواس خمسہ(پانچ حواس دیکھنے۔سُننے ۔ سونگھنے ۔چکھنے اور چھونے کی پانچ قوتیں ) کے ذریعہ مسیح کی خُدائی کی یقینی طاقت کا محسوس کرنا ممکن ہے۔
اندھا آدمی گو آفتاب(سورج) کو دیکھ نہیں سکتا تاہم بذریعہ اس کی جرارت کے جانتا ہے کہ آفتاب زمین کے اوپر ہے اسی طرح ہمارے مخالفوں کولازم ہے کہ گو وہ سچائی کی طرف سے نابینا ہونے کی وجہ سے ایمان نہ بھی لائیں تاہم اس کی تاثیر کو جو مومنوں میں ظاہر ہے دیکھ کر مسیح کی خُدائی کے انکار سے توبہ کریں اور اس کی قیامت کو تسلیم کرلیں۔
کیوں کر ظاہر ہے کہ اگر مسیح مردہ ہوتا تو نہ شیاطین کو نکال سکتا نہ بُتوں کو تباہ کرسکتا۔ کیا شیاطین مُردہ کے حکم کو مانتے؟پس جب کہ وہ اس کے نام کی تاثیر سے خارج کئے جاتے ہیں تو ظاہر ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ شیاطین تو غیبی معاملات سے بھی واقف ہیں اور اس لئے ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں جن تک آدمی کی بصارت کی پہنچ نہیں۔ پس ان کو خو ب معلوم ہے کہ آیا مسیح مُردہ ہے یا زندہ۔ اگر وہ اس کو مُردہ جانتے تو ہر گز اس کی اطاعت نہ کرتے۔ لیکن اب وہ باتیں جن کو بے دین آدمی تسلیم نہیں کرتے شیاطین تک تسلیم کر رہے ہیں۔ شیاطین جانتے ہیں کہ وہ خُدا ہے اِسی وجہ سے وہ اِس سے بھاگتے ہیں اور اس کے حضور گر پڑتے ہیں۔ جب کہ وہ ساتھ جسم کے اس دُنیا میں موجود تھا تو وہ یوں پکار کرتے تھے ” ہم جانتے ہیں کہ تو کون ہے۔ تو خُدا کا قدوس ہے “ ( لوقا۴: ۳۴ )۔اے خُدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام۔ میں تیری منت کرتا ہوں مجھے نہ ستا ‘‘( مرقس ۵: ۷ )۔
پس شیاطین کے اقرارات اور روز مرہ کے واقعات کی گواہی سے ظاہر ہے ( کون ایسا بے شرم ہے کہ اب بھی انکار کی جرات کرے ) کہ منجی نے اپنے جسم کو مرنے کے بعد زندہ کیا ہے کہ وہ فی الحقیقت ابن اللہ اور باپ کی ہستی میں سے ہستی رکھنے والا۔ یعنی اس کا اپنا کلمہ اور حکمت اور قوت ہے۔ اِن آخری دنوں میں اس نے سب کی نجات کے لئے جسم لیا اور باپ کی واقفیت دُنیا کو بخشی۔ اس نے موت کو نیست کرکے بذریعہ قیامت کے وعدہ کے سب کو بقا کا فضل مفت بخشا اس نے پہلے اپنے جسم کو زندہ کرکے قیامت کا پہلا پھل دکھلایا اور صلیب کو موت اور فنا کی شکست کا نشان اور اپنی فتح کا جھنڈا قرار دیا۔
(۳۳)کلمتہ اللہ کا جسم میں ظاہر ہونا خلاف عقل نہیں
ہمیں یونانیوں پر تعجب آتا ہے کہ وہ ان باتوں پر تمسخر کرتے ہیں جو قابلِ تمسخر نہیں اور اپنی بے شرمی کی خبر نہیں لیتے جس کا لکڑی اور پتھر کے بتوں کی صورتوں میں صریحاً اظہار کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارا عقیدہ دلائل سے خالی نہیں اس لئے ہم ان کو ایسی معقول دلیلوں سے قائل کریں گے جو بالخصوص دیکھی ہوئی چیزوں سے کی گئی ہیں۔پس اوّل ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارے مسئلہ میں ایسی کونسی بات ہے جس پر کوئی تمسخر کر سکے۔
کیا ہمارا یہ دعویٰ کہ کلمتہ اللہ جسم میں ظاہر ہوا ہے ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ حق سے محبت رکھتے ہیں تو انہیں ضرور ماننا پڑے گا کہ اس امر حق میں کوئی ایسی بات نہیں جو عقل کے خلاف ہو۔
اگر وہ کلمتہ اللہ کے وجود کاہی انکار کریں تویہ انکار بھی فضول اور غلط ہے اور وہ جس بات کو نہیں جانتے اس پر ہنستے ہیں۔ لیکن اگر وہ کلمتہ اللہ کے وجود کے قائل ہیں اور اس کو عالم کا حالم مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ خُدا باپ نے اسی کی معرفت مخلوقات کو خلق کیا اور وہی عالم کا نور ہے۔ اگر ان کو یہ ماننا منظور ہے کہ زندگی اس میں ہے اور سب چیزوں پر حکومت کرتا ہے اور وہ اپنے انتظام و قدرت کے کاموں کے ذریعہ سے پہچاناجاتا ہے اور باپ اس کے ذریعہ سے۔ تو اس کے تجسم کو جان لینا ان کے لئے چنداں (کچھ)مشکل نہ ہونا چاہئے۔
یونانی فیلسوف(عالم،دغاباز) کہتے ہیں کہ کل عالم ایک جسم ہے۔ ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے کیوں کہ اس جسم کے اجزا کو ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتے ہیں۔ پس اگر کلمتہ اللہ اس بڑے عالم میں جو ایک جسم ہے سکو نت رکھتا ہے اور اس کے کل اور ہر جزو میں بھی موجود ہے تو ہمارے اس دعویٰ میں کہ وہ ایک انسانی جسم میں آیا کون سی بات حیرت کی یا خلافِ عقل ہے۔ اگر اس کا ایک انسانی جسم میں سکونت کرنا محال ہے تویہ بھی محال ہے کہ وہ کل عالم میں ہوکر اس کو منور کرتا اور اپنے انتظام سے کل اشیاءکو حرکت دیتا ہے۔ کیوں کہ عالم یونانیوں کے اپنے ہی عقیدے کے موافق ایک جسم ہے۔ اگر عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے کہ کلمتہ اللہ کل عالم میں ہے اور کل عالم میں پہچانا جاتا ہے تو اس کو بھی تسلیم کرسکتی ہے کہ اس نے اپنا ظہور ایک ایسے انسانی جسم میں دیا جس کو اس نے اپنے نور و طاقت سے منور و قوی کیا۔ کیا نسل انسانی کل عالم کا ایک جزو نہیں ہے۔ پس اگر عالم کے ایک حصہ کے لئے اس کا مظہر بنانا مناسب ہے تو کل عالم اس کا مظہر سمجھنا اس سے زیادہ نامناسب ہے۔
(۳۴)کلمتہ اللہ کا ظہور کائنات میں اور جسم میں
آدمی کی قوت کل جسم میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی کہے کہ پاؤں کی انگلی میں اس قوت کا ذراسا حصہ بھی نہیں ہے تو ہم ضرور اس کو دیوانہ سمجھیں گے۔ کسی صفت کو کل کے ساتھ منسوب کرنا اور جزو کے ساتھ اس کومنسوب کرنے سے انکار کرنا خلافِ عقل ہے۔ اسی طرح کلمتہ اللہ کو کل عالم میں حاضر تسلیم کر لینا اور ساتھ ہی اس کے یہ کہنا کہ اس کا ایک انسانی جسم میں سکونت کرنا محال ہے عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ لیکن شائد کوئی کہے کہ انسان ایک مخلوق ہے اور اس وجہ سے نجات دہندہ انسانی جسم میں ظاہر نہ ہوسکتا تھا۔ اگر ہم اس اعتراض کو صحیح مان لیں تو یہ بھی مان لینا پڑے گا کہ کلمتہ اللہ کل عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ کل عالم بھی مخلوق ہے۔ کلمتہ اللہ عالم کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ جس شے کا اطلاق کل کے ساتھ ہے اس کا اطلاق جزو کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ عالم کا جو کل ہے انسان صرف ایک جزو ہے۔ پس کسی صورت سے کلمتہ اللہ کا انسانی جسم میں آنا محال نہیں ٹھہر سکتا۔ کیوں کہ ہر شے اسی سے حرکت پاتی اور منور ہوتی ہے۔ سب کی زندگی اس سے اور اس میں ہے۔ اور یہ کسی یونانی نے خود کہا ہے کیوں کہ اسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔
اگر وہ چاہتا تو اپنے آپ کو باپ کو آفتاب یا ماہتاب میں آسمان یا زمین مٹی پانی یا آگ میں ظاہر کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ ہر شے میں حاضر و ناظر اور ہر کل اور جزو میں موجود ہے۔ اور بن دیکھے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اس نے یہ پسند کیا کہ ایک جسم میں بصورت انسان ظاہر ہو اور اسی طرح باپ کے علم اور سچائی کو منکشف کرے۔ چنانچہ بشریت فی الحقیقت عالم کا ایک جزو ہے۔
قوت متخیلہ(سوچنے کی قوت) جس کا عمل تمام جسم انسان پر ہے فقط بذریعہ ایک خاص حصے یعنی زبان کے ظہور پاتی ہے۔ اسی طرح کلمتہ اللہ جو کل اشیاءمیں موجود ہے اگر ایک جسم کے ذریعہ سے ظاہر ہوا۔ تو اس کو کون خلاف عقل قرار دے سکتا ہے۔
(۳۵)کلمتہ اللہ نے جسم انسانی ہی کس لئے اختیار کیا
اگر کوئی پوچھے کہ اُس نے کس لئے اپنے آپ کو مخلوقات کے کسی بڑے اور اشرف حصہ میں ظاہر نہ کیا۔ یعنی آفتاب یا ماہتاب یا ستارہ یا آگ یا ہوا میں تو ہمارا جواب یہ ہے کہ وہ نمود کے لئے نہ آیا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ مظلوموں اور مصیبت زدوں کو صحت اور شفا اور ہدایت بخشے۔ جوکوئی نمود ہی چاہتا ہے وہ لوگوں کو اپنے نمود سے حیرت زدہ کرکے چل دیتا ہے۔ لیکن جو صحت اور ہدایت بخشنے آتا ہے وہ نہ صرف تھوڑاسا عرصہ ٹھیرتا ہے بلکہ محتاجوں کی مدد کرتا ہے اور ایسے طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس کی برداشت کرسکیں۔ اور وہ اپنی فیاضی سے محتاجوں کو گھبراہٹ میں ڈال کر خُدا کے انکشاف کو بے سود نہیں کرتا۔ خُدا کی کل مخلوقات میں فقط انسان ہی نے اپنے خالق کی پہچان میں غلطی کی تھی۔ اس غلطی اور گمراہی میں آفتاب ،ماہتاب ،ستارے اور سمندر اور ہوا شامِل نہ تھے۔ وہ کلمتہ اللہ اپنے خالق و بادشاہ کو جان کر اپنی مناسب حالت پر قائم رہے۔ فقط بنی آدم نے نیکی سے ہٹ کر اپنے لئے سچائی کے عوض فرضی معبود بنا لئے تھے۔ جو عزت خُدا کا حق تھی اسے انہوں نے جنوں اور پتھر پر کھدی ہوئی آدمیوں کی مورتوں کو دے دیا تھا۔ خُدا ایسی گمراہی اور ٹیڑھے پن سے قطع نظر نہ کر سکتا تھا۔ ایسا کرنا اس کی نیکی کے خلاف تھا۔ لیکن چونکہ بنی آدم اس کو محسوس نہ کر سکتے تھے اور اس کی حکومت کی پہچان سے محروم تھے اس نے اپنی مخلوقات کے ایک حصہ کو اپنا مظہر بنایا۔ اس نے انسانی جسم لیا اور نیچے اترا۔ کل میں تو وہ اس کوپہچان نہ سکتے تھے اس لئے اس نے اپنے آپ کو جزو میں ظاہر کیا۔ ایک مرئی صورت میں وہ ان پر ظاہر ہوا۔اُس نے ان کا جسم لیا تا کہ اس کی خُدائی کاموں سے جو اس نے جسم میں رہ کر کئے تھے وہ پہچانیں کہ یہ بشر کے کام نہیں۔ بلکہ خُدا کے ہیں۔
لیکن اگر یونانیوں کی رائے کے مطابق کلمتہ اللہ کا اپنے تئیں جسم کے کاموں کے ذریعہ سے ظاہر کرنا محال تھا تو عالم کے کاموں میں اس کا ظہور بھی محال ہونا چاہیے وہ عالم میں ہونے کے باعث مخلوق نہیں ہوجاتا۔ برعکس اس کے عالم اس کی قوت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اسی طرح جب اس نے جسم کو ایک آواز کے طورپر استعمال کیا تو جسم کی خواص اس کی ذات میں دخل نہ کرگئی۔ بلکہ اس نے جسم کو پاکیزگی اور سرافرازی بخشی۔
افلاطون جس کی یونانیوں میں بڑی تعظیم ہے یوں کہتا ہے:۔ عالم کے خالق نے دیکھا کہ دُنیا طوفان کی موجوں میں سرگردان اور ابتری کے سمندر میں غرق ہونے کے خطرے میں ہے یہ دیکھ کر اس نے دُنیا کی پتوار کو ( یعنی زندگی کے اصول کو ) پکڑا اور اپنی مدد سے اس کی تمام غلطیوں کو صحیح کیا۔
جب کہ افلاطون یہ کہتا ہے تو ہمارا دعویٰ کس طرح غلط ہے۔ وہ دعوے یہ ہے کہ جب نسل انسان گمراہ ہوگئی تو کلمتہ اللہ نازل ہوا۔ اس نے آدمی کی صورت میں ظاہر ہوکر دینی ہدایت اور مدر سے اس طوفان زدہ جہاز کو بچایا۔
(۳۶)خُدا نے محض حکم سے انسان کو بحال کیوں نہ کیا
معترض کا مونہ بند کرنا مشکل ہے۔ شائد کوئی کہے گا کہ اگر خُدا کی مرضی تھی کہ بنی آدم کو نجات و راستی بخشے تو کیوں اس نے فقط ایک حکم نہ دے دیا وہ تو سب کام فقط اپنی قدرت و حکم سے کرسکتا ہے۔ کیا ضرورت تھی کہ اس کا کلمہ ایک جسم کے ساتھ تعلق پیداکرے۔ خُداتو محض اپنے حکم سے موجودات کو عدم سے وجود میں لایا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ابتدا میں جب کچھ نہ تھا تو صرف اس بات کی ضرورت تھی کہ خالق اپنے حکم سے دُنیا کو وجود بخشے لیکن جب انسان پیدا ہوکر بگڑ گیا تو موجودہ اشیاءکے علاج کی حاجت تھی۔ نہ اس کی کہ کوئی نئی شے عدم سے وجود میں لائی جائے۔ اس لئے اس بگاڑ کی اصلاح کے واسطے کلمتہ اللہ انسان بنا۔ اسی وجہ سے اس نے جسم بشری کو ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اگر اس کو ایسا کرنا روا نہ تھا تو اور کون سا اوزار تھا جس کو وہ اپنے مقصد کے لئے برت (استعمال)سکتا تھا۔ موجودہ اوزاروں کو چھوڑ کر وہ کون سے اوزار کو لیتا۔ بنی آدم اسی بات کے محتاج تھے کہ اس کی الوہیت انسانی جسم میں اپنا جلوہ دکھا۔ اگر معدوم چیزوں کو معدومی کی حالت سے نکالنا تھا تو فقط ایک حکم کفایت کرتا لیکن انسان معدوم نہ تھا بلکہ موجود تھا اور اپنے گناہوں سے اپنے آپ کو تباہ کر رہا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ نے عین مناسب کام کیا جب ایک انسانی جسم کو اپنا اوزار بنا کر یا اپنے آپ کو منکشف کیا۔
پھر غور کرو کہ جو بگاڑ علاج کا محتاج تھا وہ جسم کے باہر نہ تھا بلکہ اس کے اندر جمع ہو رہا تھا۔ پس اِس بات کی ضرورت تھی کہ عین اس جگہ میں جہاں وہ بگاڑ تھا زندگی آکراپنا گھر کر لے۔تا کہ جس طرح موت بذریعہ جسم کے آئی تھی اسی طرح اب حیات اسی کے اندر رہے۔اگر موت جسم کے باہر ہوتی تو زندگی تھی باہر سے اس کے لئے مہیا ہوسکتی تھی۔
لیکن جب کہ موت جسم میں حلول(ایک چیز کا دوسری چیز میں اس طرح ہونا کہ دونوں میں تمیز نہ ہوسکے) کرکے اس کو مغلوب کر رہی تھی تو ضرور ہوا کہ زندگی بھی اس جسم میں حلول کرے اور اس کو لائق کر دے کہ زندہ ہو کر بگاڑ کو اپنے اندر سے خارج کرسکے۔
علاوہ اس کے اگر کلمتہ اللہ صرف جسم کے باہر آتا نہ اس کے اندر داخل ہوکر تو البتہ اپنی قدرت سے وہ موت کو مغلوب کر سکتا تھا۔ کیوں کہ حقیقی موت زندگی کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اس حالت میں وہ بگاڑ جو جسم میں دخل پاچکا تھااس کے اندر ہی رہ جاتا لیکن نجات دہندہ کا جسم کو پہن لینا عین مناسب تھا۔ تا کہ زندگی کے جسم میں حلول کرنے کی وجہ سے جسم باوجود فانی ہونے کے موت کے قبضہ میں نہ ر ہے۔ بلکہ بقا سے ملبس ہوکر قیامت اور بقا کا وارث بنے۔ کیوں کہ کلمتہ اللہ کا اختیار کیا ہوا جسم جب فانی تھا تو بغیر حلول زندگی کے مردوں میں سے اُٹھ نہیں سکتا تھا۔ علاوہ اس کے موت فقط جسم ہی میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس نے جسم پہنا۔ تاکہ جسم میں سے موت کو مٹا دے۔ فانی کو زندہ کر نے سے خُداوند نے اپنے آپ کو حیات کا مالک ثابت کیا۔
بھوسی ایک جلنے والی شے ہے۔ جس کو آگ سے محفوظ رکھ کر جلنے سے بچانا پڑتا ہے تاہم اس کی خاصیت وہی رہتی ہے۔ اور جب آگ اس کے نزدیک آئے گی وہ جل جائے گی۔ لیکن فرض کرو کہ ہم بھوسے کو کسی ایسی چیز کے اندر رکھ دیں جس پر آگ اثر نہیں کرسکتی۔ تب بھوسی بھی جلنے سے بچی رہے گی۔ جسم اور موت کے تعلق کی یہ ایک مثال ہے۔ اگر خُداوند موت کو فقط اپنے ایک حکم سے دور رکھتا تو باوجود اس کے بھی اس کا جسم فانی اور باقی کل اجسام کی خاصیت کے مطابق سڑنے کے قابل رہتا۔ لیکن اس فانی خاصیت کو دور کرنے کے لئے اس نے غیر مجسم کلمتہ اللہ کو پہن لیا۔ پس اب جسم موت یا سڑنے سے خوف نہیں کھاتا اور چونکہ اس کو زندگی کا لباس پہنایا گیا ہے بگاڑ ان میں سے دور ہوگیا ہے۔
(۳۷)کلمتہ اللہ نے خُدا کی شناخت کو کمال کے درجے تک پہنچا دیا
پس کلمتہ اللہ کا جسم کو اختیار کرنا بہت ہی مناسب تھا۔ اس نے اس جسم کو ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا اور اس کے ذریعے سے اور اجسام کو بھی زندگی بخشی۔ اور جس طرح کہ وہ کائنات میں اپنے کاموں کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح انسانی حالت میں بھی وہ بوسیلہ اپنے کاموں کے پہچانا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو ہر جگہ دکھلایا۔ کوئی حصہ اس کی خُدائی طاقت اور پہچان سے خالی نہ رہا۔
جہا ن کا ہر ایک حصہ اس کی حضوری سے بھر پور ہے۔ اس نے جسم کو لیا تا کہ ہر شے کو اپنی پہچان سے بھردے۔ پاک کلام کی بھی یہی تعلیم ہے کہ ” کل زمین خُداوند کی پہچان سے بھر گئی “ ( یسعیاہ ۱۱: ۹ )۔اگر کوئی آسمان کی طرف سے دیکھے تو وہاں عجیب ترتیب کو دیکھے گا۔ یا اگر وہ اپنے سر کو اوپر کی طرف اُٹھا نہیں سکتا تو صرف آدمیوں ہی دیکھے۔ تب اسے معلوم ہوگا کہ مسیح کی وہ طاقت جو اس کے کاموں میں دکھائی دیتی ہے ایسی بڑی ہے کہ انسان کی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اسے یہ بھی یقین ہو جائے گا کہ فقط مسیح بنی آدم میں کلمتہ اللہ ہے۔ یا اگر کوئی جنّوں کی طرف توجہ کرے اور ان کو دیکھ کر متحیر ہو تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ مسیح ان کو نکالتا ہے اور صریحاً ان کا مالک ہے یا اگر وہ پانی کو دیکھے اور مصریوں کی مانند ان کی پرستش کرنے لگے تو دیکھے گا کہ مسیح پانی کو تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا خالق ہے۔
کیونکہ خُداوند نے ہر شے کو چھوا ہے اور سب کو ہر طرح کے فریب سے رہا کیا ہے۔ پولُس کا قول ہے کہ اس نے حکومتوں اور اختیاروں کو اپنے اور سے اتار کر ان کا برملا تماشہ بنایا۔ اور صلیب کے سبب سے ان پر فتح یابی کا شادیانہ بجایا (کلسیوں۲: ۱۵) تا کہ اب سے کوئی فریب میں نہ رہے بلکہ ہر جگہ سچے کلمتہ اللہ کو پا سکے۔
پس آدمی کلمتہ اللہ کی خُدائی کو دیکھ کر اور اس سے محاط (مشہور، احاطہ کیاگیا،سمجھا گیا)ہو کر آسمان میں عالم ارواح میں۔ آدمی میں زمیں پر خُدا کی نسبت اب دھوکا نہیں کھا سکتا۔ بلکہ فقط کلمتہ اللہ کی پرستش کرتا اور بوسیلہ اس کے باپ کو سچے طور پر پہچانتا ہے۔
(۳۸)بت پرستی کا زوال
بت پرستی کو لوگوں نے کس وقت سے ترک کرنا شروع کیا؟۔ جب سے کہ خُدا جو سچا کلمتہ اللہ ہے دنیا میں آیا اور کب غیب بینی یونانیوں میں سے جاتی رہی اور ہر جگہ ختم ہوئی اور بیہودہ مانی گئی؟ جب کہ منجی نے اپنے آپ کو زمین پر ظاہر کیا۔ کب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ اشخاص جن کوقدیم زما نہ میں شعرا دیوتا اور ہیرو کہتے تھے محض انسان تھے؟ اس وقت جب کہ خُداوند نے موت پر فتح پائی اور اس جسم کو جسے اس نے پہنا تھا۔ سڑنے سے بچایا اور مُردوں میں سے اٹھایا کب بنی آدم شیاطین کے فریب سے چھوٹے؟ اسی وقت جب کلمہ جو خُدا کی طاقت اور شیاطین کا بھی مالک ہے بنی آدم کی کمزوری پر رحم کھاکر دُنیا میں ظاہر ہوا۔ کب جادو کے فن اور جادو گروں کے مدرسوں کے بھید فاش ہوئے؟ جب کہ کلمتہ اللہ نے بنی آدم کو اپنا خُدائی دیدار بخشا۔ یونانیوں کی عقل و حکمت کب نادانی سے مبدل (تبدیل) ہو گئی؟ جب کہ خُدا کی سچی حکمت بے اپنے آپ کو زمین پر ظاہر کیا۔ قدیم سے یہ حال ظاہر تھا کہ دُنیا بُتوں کی پرستش میں گمراہ ہے اور سوائے بُتوں کے اور کوئی خُدا نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن اب کل دنیا میں خلق خُدا بتوں کے وہم کو ترک کرکے مسیح کی طرف دوڑ رہی ہے اور اس کو خُدا مان کر پوجتی ہے اور بوسیلہ اس کے باپ کی شناخت حاصل کرتی ہے جسے آگے جانتی نہ تھی۔
اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ گو پہلے مختلف اقسام کے صدہا (سینکڑوں)معبود تھے اور ہر شہر اور گاؤں کا معبود نرالا تھا اور ایک موضع (گاؤں)کا خُدا دوسرے موضع پر کچھ اختیار نہ رکھتا تھا اور نہ دوسرے موضع کے لوگوں سے اپنی پرستش کرا سکتا تھا بلکہ بمشکل اپنے ہی گاؤں میں مانا جاتا تھا مگر اب سب کے سب مسیح کی پرستش کرتے ہیں اور وہ کام جو بُتوں سے نہ ہوسکا کہ غیر علاقے والوں کو اپنے تحت میں کرے اس بہت کچھ زیادہ مسیح سے ہوا کہ اس نے ایک عالم کو اپنی اور اپنے باپ کی پرستش کا قائل اور معتقد کر دیا۔
(۳۹)مسیح کے کام اس کی الوہیت پر شاہدہیں
ہمارے دعوے فقط ہماری باتوں پر منحصر نہیں بلکہ تجربہ ان کی صداقت پر گواہی دیتا ہے۔ جو چاہے آئے اور نیکی کا ثبوت ان باعصمت باکرہ عورتوں کی زندگی میں دیکھے جن کا خاص کام اپنے تئیں ضبط کرنا ہے اگر کوئی بقا کا یقین دیکھنا چاہے تو بے شمار شہیدوں کو دیکھے جنھوں نے اگلی زندگی کی امید میں اس زندگی کو قربان کر دیا ہے۔
پس یہ شخص مسیح کتنا بڑا ہے جس کانام ہی ایسی تاثیر رکھتا ہے اور جس کے سامنے تمام مخالف طاقتیں کمزور بلکہ زائل ہو جاتی ہیں۔ جو سب پر زبردست ہے اور جس نے اپنی تعلیم سے کل دنیا کو بھر دیا ہے۔ ٹھٹھا کرنے والے بے شرم یونانیوں کو اِس کا جواب دینا چاہئے۔اگر وہ فقط انسان ہے تو کس طرح ان کے اقتدار پر غالب آتا ہے جنہیں وہ الٰہ مانتے ہیں۔ بلکہ اسی نے انہیں ہستی سے معدوم ثابت کر دکھایا۔
(۴۰)مسیح کے کام بے مثل ہیں
بنی آدم میں کون ایسا ہوا ہے جس نے اپنے واسطے بذریعہ ایک کنواری عورت کا جسم تیار کیا؟ کون ایسا ہوا ہے جس نے اپنی بیماری وں کو دور کیا؟ جیساسب کے خُداوند نے کہا ہے۔ کس میں یہ طاقت تھی کہ کسی کو وہ شے بخشے جو اسے پیدائش سے حاصل نہ تھی اور مادر زاد اندھے کو بصارت بخشی۔
کس کی موت کے وقت آفتاب تاریک ہوگیا؟ موت ہمیشہ سے بنی آدم پر غالب ہے اور آج کل بھی لوگ مرتے ہیں۔لیکن کس کی موت کے وقت ایسا اچنبا(حیرت کی بات) دیکھا گیا؟ ۔
ان کاموں کو چھوڑ دو جو جسم میں ہوکر کئے اور ان پر غور کرو جو اس کی قیامت کے بعد دیکھئے گئے۔ کیا کبھی کوئی ایسا ہوا ہے جس کی تعلیم یکساں ایسی عالمگیر ثابت ہوئی ہو اور دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پھیل گئی ہو جس کو کل عالم نے بالاتفاق پوجنا قبول کر لیا ہو؟ اگر مسیح فقط ایک آدمی ہے اور خُدا اور کلمہ نہیں توبت کس لئے اس کی پرستش کو اپنے علاقوں میں آنے سے نہیں روکتے۔ پس یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کلمتہ اللہ نے دنیا میں آکر اپنی تعلیم سے دوسرے معبودوں کی پرستش بند کر دی ہے اور ان کے عابدوں کے جھوٹے دعوے توڑ کر انھیں شرمندہ کردیا ہے۔
(۴۱)مسیح کی فضیلت بمقابلہ حکام اور حکماءکے
اس شخص سے پہلے دنیا نے بے شمار بادشاہ اور جابر دیکھے ہیں کسدیوں مصریوں اور ہندیوں کی تواریخ میں کئی بڑے بڑے دانا اور جادوگروں کا ذکر ہے۔ لیکن ان میں کون ایسا ہو ا جس نے اپنی زندگی میں ( موت کے بعد کا یہاں ذکر نہیں) ایسے غلبے کے ساتھ دُنیا کو اپنی تعلیم سے بھر دیا ہو؟ کسی میں یہ طاقت تھی کہ اتنے آدمیوں کو بت پرستی کے وہم سے چھڑا کر اپنا معتقد (پیرو)بنالے جتنے ہمارے منجی نے بنائے؟ یونانی فیلسوفوں نے بڑی بڑی دلکش اور مدلل کتابیں لکھیں۔ لیکن مسیح کی صلیب کے مقابلہ میں ان کی عقل کی کیا وقعت ہے۔ ان کی دلیلیں ان کی زندگی میں زور رکھتی تھیں۔ بلکہ جب کہ وہ زندہ تھے ان کا منہ پر جن کی نسبت ان کا خیال تھا کہ ہم نے ان کو کمال تک پہنچایا ہے بحث رہی۔ ایک عالم دوسرے کے ساتھ بحث کرتا بلکہ اس کو برا کہتا تھا۔ لیکن تعجب کا مقام ہے کہ کلمتہ اللہ نے گو اس کے الفاظ بہت سیدھے تھے عالموں کے باریک خیالات کو حقیر کر دیا اور ان کی تعلیم کو سچ ٹھہرا کر سب آدمیوں کو اسی طرح اپنی طرف کھینچا ہے کہ اس کے گرجا اور عبادت گاہیں بالکل بھر گئی ہیں پھر اور تعجب کا مقام یہ ہے کہ اس نے حالت بشری میں موت کی وادی میں اتر کر ان بلند دعوؤں کو جو دنیا کے عقلمند بتوں کی نسبت کیا کرتے تھے باطل کردیا ہے کس کی موت سے کبھی دیو بھاگے یا کس کی موت سے کبھی شیاطین ایسے ڈرے جیسے کہ مسیح کی موت سے ڈرے تھے؟ جہاں کہیں منجی کا نام لیا جاتا ہے وہاں سے تمام شیاطین بھاگ جاتے ہیں۔ کسی میں یہ طاقت ہوئی کہ آدمیوں کی نفسانی خواہشوں کو اس طرح مغلوب کرتا کہ زانی معصوم ہوگئے۔ خونی تلوار کو چھوڑ بیٹھے۔ اور بزدل دلیر ہوگئے مسیح کے ایمان اور صلیب کے نشان کے سوا اور کسی میں یہ طاقت تھی کہ وحشی لوگوں اور مختلف قوموں سے دیوانگی ترک کراکر صلح کا خواہاں اور اتفاق پر مائل کر دے؟ مسیح کی صلیب اور اس کے بدن کی قیامت سے زیادہ کونسی بات نے بنی آدم کو بقا کا یقین دلایاہے۔ یونانی ہر شے کی نسبت جھوٹ بولنے کے عادی تھے لیکن یہ خیال ان کو کبھی نہ آیا کہ اپنے بتوں میں سے کسی کی نسبت دعوے کریں کہ وہ مردوں میں سے زندہ ہوا ہے۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ موت کے بعد جسم کا رہنا ممکن ہے۔
(۴۲)مسیح کی اخلاقی قوت
کس نے مسیح کے برابر اپنی موت کے بعد یا زندگی میں عصمت اور تجرد کی ایسی پرتاثیر تعلیم دی ہے۔ یا کس نے بتایا ہے کہ بنی آدم میں اس صفت کا ہونا درحقیقت ممکن ہے لیکن ہمارے منجی اور سب کے منجی اور بادشاہ مسیح کی تعلیم میں ایسی تاثیر ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں جو ابھی ازروئے قانون سن بلوغ کو نہیں پہنچیں اور شرعاً ان پر واجب نہیں پھر بھی مجرّدرہ کر اپنی زندگی خُدا کو دینے کا عہد کرتی ہیں۔ انسانوں میں کس کا اختیار تھا کہ اپنا کلام دور دور کے ملکوں تک پہنچا کر جادوگروں۔حد سے زیادہ وہمیوں۔ اور وحشیوں کو نیکی اور ضبط کی تعلیم دیتا اور ان کو سکھاتا کہ بت پرستی چھوڑ دیں؟ یہ سب اسی کے کام میں جسے ہم جہان کا خُداوند۔ خُدا کی قدرت اور خُداوند یسوع مسیح کہتے ہیں۔ اس نے نہ فقط اپنے حواریوں کے وسیلہ سے بشارت دی بلکہ آدمیوں کے ذہنوں پر ایسا اثر نہ ڈالا کہ ان کے اطوار کی وحشت دور ہوگئی اور انہوں نے اپنے موروثی بتوں کی پرستش کو ترک کرکے اس کا صاف علم حاصل کیا اور اس کے وسیلہ سے اس کے باپ کی پرستش کرنے لگے قدیم زمانے میں یونانی اور وحشی بتوں کو پوجتے۔ آپس میں جنگ کرتے اور اپنے رشتہ داروں پر بھی بے رحمیاں کرتے تھے اور ان کی اس متواتر جنگ و جدال کے سبب سے بغیر مسلح ہوئے کوئی خشکی یا تری کاسفر نہ کر سکتا تھا۔ کل زندگی لڑائیوں میں صرف ہوتی تھی۔ لکڑی کے بدلے لوگ تلوار ہاتھ میں رکھتے تھے اور ہر ضرورت کے موقع پر اسی پر اپنا بھروسہ کرتے تھے۔ گو وہ بتوں پوجتے اور دیوتاؤں کی ساتھ قربانیاں چڑھاتے تھے تا ہم اس بت پرستی کا وہم اس کے ماننے والوں کو اس سے بہتر تعلیم پانے سے روک رہا تھا لیکن جب سے وہ مسیح کی تعلیم میں آگئے ہیں ان کے دل ہی بدل گئے ہیں۔ بے رحمی اور خونریزی کو ترک کر دیا اور جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ مسیح نے ان کو اتفاق اتحاد کا گرویدہ بنا دیا ہے۔
(۴۳)مسیح کی آسمانی تعلیم اطمینان بخشتی ہے
پس وہ کون شخص ہے جس نے اتنا بڑا کام کیا ہے۔ وہ کون ہے جس نے پرانے دشمنوں کو صلح کے بند میں باندھا ہے۔ وہ باپ کا عزیز بیٹا یسوع مسیح ہے جو سب کا منجی ہے جس نے محبت کے باعث سب کی نجات کی خاطر ہر قسم کا دکھ سہا۔اس صلح کی نسبت جو اس کی معرفت دنیا میں آنے والی تھی پہلے سے پیش گوئی ہوچکی تھی کہ” وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھائیوں کو ہنسوے بنا ڈالیں گے۔ اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائیں گے اور وہ پھر کبھی جنگ نہ سیکھیں گے(یسعیاہ۲: ۴؛میکاہ۴: ۳)“ اس پیش گوئی کا یقین کر لینا کچھ دشوار نہیں۔ کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ وحشی اقوام جن کے اطوار طبعاً وحشیانہ ہیں۔جب تک اپنے بتوں کے آگے قربانیاں گذرانتے رہے ہیں غیظ و غضب میں بھر کر آپس کے کشت وخون (لڑائی)میں مصروف رہتے ہیں۔ اور تلوار کو ایک پل بھر بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے لیکن جب مسیح کی تعلیم ان کے کانوں میں پہنچتی ہے تو بجائے جنگ کے کا شتکاری کو اختیار کرتے ہیں اور بجائے تلوار پکڑنے کے دعا میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں۔ بجائے آپس کی جنگ کے وہ شیاطین کے مقابلہ کے لئے مصلح (اصلاح کرنے والا)ہوتے ہیں اور تحمل اور اعتدال (درمیانی درجہ)اور روحانی نیکی سے ان پر ظفر یاب ہوتے ہیں۔
منجی کی الو ہیت کا ایک یہ ثبوت ہے کہ جس شے کو بنی آدم بتوں سے سیکھ نہ سکتے تھے اسے اُنہوں نے منجی سے سیکھا ہے۔اس سے شیاطین اور بتوں کی کمزوری اور بطالت پوری طرح ثابت ہوتی ہے۔ شیاطین اپنی کمزوری سے آگاہ ہو کر آمیوں میں جنگ کراتے تھے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ بنی آدم ہماری کمزوری کو پہچان کر ہم سے جنگ کرنا شروع کریں۔ لیکن جو لوگ مسیح کے پیرو ہو جاتے ہیں وہ آپس میں نہیں لڑتے۔ بلکہ شیاطین کے مقابلہ میں صف بستہ ہوجاتے ہیں اور اپنی نیک چلنی اور اچھے کاموں کے ہتھیاروں کو پکڑ کر ان سے لڑتے ہیں۔ وہ شیاطین پر جبر کرتے اور ان کے سردار یعنی شیطان پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔ جوانی میں ان کو ضبط کی طاقت۔ آزمائش میں استقلال اور بے عزتی میں صبر حاصل ہوتا ہے۔ لُٹ جانے کی اُن کوکچھ پروا نہیں ہے۔ اور سب سے بڑا تعجب یہ ہے کہ وہ موت کو بھی حقیر سمجھ کر مسیح کے شہید ہو جاتے ہیں۔
(۴۴)مسیح کی الوہیت اس کے عظیم الشان کاموں سے ظاہر ہوئی
کون ایسا انسان یا جادوگر یا جبار یا شہنشاہ ہوا ہے جس میں اتنی طاقت ہوئی ہوکہ اکیلا اتنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے۔ اور تمام بت پرستی ۔ شیاطین کے لشکر جادو اور یونانیوں کی تمام حکمت کے خلاف جنگ کرے۔ کون ایسا مضبوط اور آدمیوں کو حیرت میں ڈالنے والا ہوا ہے اور کون ایسا بہادر ثابت ہوا ہے کہ پہلے ہی حملہ میں کامیاب ہوجائے ۔ہاں یہ تمام خوبیاں ہیں تو ہمارے خُداوند ہی میں ہیں۔ جوسچّا کلمتہ اللہ ہے۔ اس نے پوشیدگی میں سب کے فریب کوتوڑا اور بنی آدم کو ان کی طرف سے ہٹا رہا ہے۔ یہاں تک کہ جو پہلے بتوں کو پوجتے تھے وہی اب ان کو پامال کرتے ہیں اور وہ جو پیشتر اپنے جادو سے لوگوں کو حیرت میں ڈالتے تھے اب آپ اپنی جادو کی کتابوں کو جلا رہے ہیں۔
اور جو عقل مند ہیں وہ اب اناجیل کے معانی کو کھو لنا سب کاموں سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ جن کو وہ پہلے پوجتے تھے اب ان کو چھوڑتے جاتے ہیں اور مسیح جس پر وہ پہلے اس لئے ہنستے تھے کہ وہ ایک مصلوب شخص ہے اسے اب خُدا مان کر پوجتے ہیں۔ اور وہ جو ان کے درمیان خُدا مانے جاتے ہیں صلیب کے نشان سے بھاگتے ہیں۔ تمام دُنیا میں وہی مصلوب منجی خُدا اور ابن اللہ مشتہر(مشہور ،شہرت دینے والا) ہو رہا ہے۔ یونانیوں کے خُدا حقیر ٹھہر کر متروک (ترک کیا ہوا، رد کیا ہوا)ہورہے ہیں۔ اور مسیح کی تعلیم کے قبول کرنے والے ایسی پاکیزہ زندگی بسر کرتے ہیں کہ ویسی دیوتاؤں بھی نصیب نہیں ہوئی۔
اگر کوئی کہے کہ ایسے کام انسان کے بس کے ہیں تو ہم اس سے درخواست کرتے ہیں کہ کوئی ایسا آدمی پیش کرے جس نے کسی زمانے میں ایسے کام کئے ہوں۔ تو ہم قائل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر یہ سب بظاہر اور درحقیقت انسان کے نہیں بلکہ خُدا کے کام ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ مخالف کس لئے ایسی بے دینی سے ہمارے مالک کو جو ان کا پیدا کرنے والا ہے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
مسیح کوماننے سے انکار کرنے والے اس شخص کی مانند ہیں جو مخلوقات کو تو دیکھتا ہے لیکن خالق کو نہیں پہچانتا۔ کیونکہ اگر اس قدرت سے جو عالم میں دیکھی جاتی ہے خُدا پہچانا جاتا ہے۔ تو بذریعہ ان کاموں کے جو مسیح نے جسم میں ہو کر کئے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کام انسانی نہ تھے بلکہ سب کے منجی کے تھے جو کلمتہ اللہ ہے اگر ان کو یہ علم ہوتا تو مقدس پولُس کے قول کے بموجب وہ جلال کے خُداوند کوصلیب نہ دیتے۔
(۴۵)مسیح کے کاموں کی حقیقت اور عظمت
خُدا غیر مرئی ہے اس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن اس کی پہچان اس کے کاموں سے انسان کو حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی طر ح جس کسی کی عقل مسیح کو نہیں دیکھ سکتی ان کاموں کو دیکھے جو مسیح نے کئے اور ان کے کرنے والا کو پہچانے۔ اور انصاف کرنے کہ آیا یہ کام بشر کے ہیں یا خُدا کے۔ اگر وہ کام بشر کے معلوم ہوں تو دیکھنے والے کو اختیار ہے کہ ان پر ہنسی او ر تمسخرکرے۔ لیکن اگر وہ بشر کے نہیں بلکہ خُدا کے ثابت ہوں توکیوں نہ مسیح کی الوہیت کو مان کر اس ٹھٹھے بازی سے باز آئے۔ ایسے کاموں پر ہنسنا جو ہنسنے کے قابل نہیں عقل مند وں کاشیوہ نہیں بر عکس اس کے اسے تعجب کرنا چاہئے کہ کیسے سادہ و سائل سے خُدائی امور ہم پرمنکشف کئے گئے ہیں اور بوسیلہ موت کے بقا سب کو حاصل ہوئی۔ کلمتہ اللہ کے تجسم کی طفیل(وسیلہ،بدولت) سے اس کا عالمگیر انتظام سب کو معلوم ہوگیا۔ اسی تجسم کی طفیل سے دُنیا نے کلمتہ اللہ کو جو کل عالم کا منتظم اور صانع ہے پہچان لیا۔
وہ انسان بنا تا کہ ہم خُدابنیں۔اس نے اپنے آپ کو ذریعہ جسم کے ظاہر کیا تا کہ ہم غیرمرئی باپ کو پہچان سکیں۔ اس نے آدمیوں کے ہاتھوں سے بے عزتی اٹھائی تاکہ ہم بقا کے وارث بن جائیں۔ اور وہ چونکہ جو بذاتِ خود انفعال اور انتشار سے مبرا اور عین کلمتہ اللہ ہے اس کو ان باتوں سے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچا بلکہ جو آدمی دکھ درد میں مبتلا تھے ان کی وہ خبر لیتا اور حفاظت کرتا تھا بلکہ ان دشمنوں تک کی جن کے ہاتھ سے خود اس نے رنج و آزار اُٹھایاتھا۔ وہ فتوحات جو نجات دہندہ نے بذریعہ اپنے تجسم کے حاصل کیں اس قسم کی اور اتنی بڑی ہیں کہ اگر ہم ان سب کا شما ر کرنا چاہیں تو اس شخص کی مانند ہوں گے جو سمندر کی وسعت کو دیکھ کر اس کی موجوں کے شمار کرنے کا قصد کرے کیا کسی کی آنکھ میں یہ طاقت ہے کہ سمندر کی تمام لہروں کو معلوم کرسکے؟ ان کی کثرت تعداد اور ان کا تواتر حرکات ان کاشمار میں آنا ناممکن کردیتا ہے۔اسی طرح ان کل فتوحات کو معلوم کرنا جو مسیح نے جسم میں ہو کر حاصل کیں آدمی کے علم سے بعید ہے۔ کو ن ان کو شمار کے احاطے میں لاسکتا ہے؟ اس کی تو وہ فتوحات ہی جو آدمی کی عقل سے برتروبالا ہیں بہ نسبت ان کی جن کو انسان سمجھ سکتا ہے شمار میں کہیں زیادہ ہیں۔ پس یہی بہتر ہے کہ ہم ان سب کے ذکر کا قصد نہ کریں۔ کیونکہ ہمارے الفاظ ایسے قاصر اور کمزور ہیں کہ ان کے ایک عشر عشیر (بہت تھوڑا سا)کا پورا بیان بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نے فقط ایک حصہ کا بیان لکھا ہے اور بس جس سے تم کل کی حیرت افزا عظمت کا تصور خود کر سکتے ہو۔ اس کے سب کام حیرت افزا ہونے میں مساوی ہیں اور جد ھر آنکھ پھرتی ہے ادھر کلمتہ اللہ کی خُدائی کے کام دیکھ کر حدسے زیادہ متحیر ہوتی ہے۔
(۴۶)گذشتہ دلائل کا خلاصہ
جو کچھ کہا گیا اس کے بعد مناسب ہے کہ تم اس بات کو سمجھو اور گذشتہ دلائل کے خلاصے پر غور کر کے خیال کرو کہ کیسے عظیم القدر اور تعجب خیز یہ امور ہیں کہ نجات دہندہ کے ہم میں رہنے کے وقت سے بت پرستی کی ترقی صرف بند ہی نہیں ہوگئی بلکہ جتنی موجود ہے وہ بھی رفتہ رفتہ گھٹتی جاتی ہے۔ یونانی حکمت بھی مرجھاگئی بلکہ معدوم ہوتی جاتی ہے۔ شیاطین اپنے مکر اور جھوٹے الہام اور سحر سے اب کسی کو فریب نہیں دے سکتے۔ اگر کبھی قصد کرتے بھی ہیں تو صلیب کا نشان ان کو شرمندہ کردیتا ہے۔
پس دیکھو کس طرح منجی کی تعلیم ترقی کر رہی ہے۔ اور تمام بت پرستی اور ہر شے جو مسیحی ایمان کو روکنے والی ہے۔ کس طرح روز بروز گھٹتی اور کمزور ہو ہو کر مسمار ہوتی جاتی ہے۔ اب یہ سب کچھ دیکھ کر تو اس نجات دہندہ کی پرستش کر و جو سب سے برتر اور قاور اور کلمتہ اللہ ہے۔ اور ان مخالفوںکو ملزم ٹھہروں ا جو اس سے شکست کھاتے اور معدوم ہوتے جاتے ہیں۔
جب آفتاب نکلتا ہے تو تاریکی زائل ہوجاتی ہے اگر کہیں ذرہ بھی تاریکی رہ گئی ہو تو وہ بھی آفتاب کے نکلنے سے دور ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اب بھی جب کہ کلمتہ اللہ نے اپنا خُدائی جلوہ دکھایا تو بتوں کی تاریکی کا غلبہ دور ہوگیا اس کی تعلیم نے کل دنیا کو اور اس کے ہر حصہ کو منور کر دیا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ملک میں ایک شہنشاہ حکمران ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے محل میں رہتا ہے اس کی غیبت میں کوئی سرکش اپنے آپ کو بادشاہ بنا بیٹھتا ہے اور سلطنت کے ظاہری آثار دکھا کر بھولی رعیت کو فریب دیتا ہے۔ لوگ تو جانتے ہیں کہ ہمارا ایک بادشاہ ہے لیکن بباعث اس کو دیکھ نہ سکنے کے اور خاص کر اس سبب سے کہ محل کے اندر جانہیں سکتے وہ فریب میں آجاتے ہیں۔ لیکن جب اصل بادشاہ باہر نکل کر ظاہر ہوتا ہے تو وہ سرکش دھوکے باز اس کی حضوری کے باعث قائل و شرمند ہو جاتا ہے۔ جب رعایا حقیقی بادشاہ کو دیکھ لیتی ہے تو اس دھوکے باز کو ترک کردیتی ہے۔ اسی طرح پیشتر شیاطین نے آدمیوں کو فریب دے رکھاتھا۔ اور دعوے کرتے تھے کہ خُدا کی عزت کے ہم ہی حقدار ہیں۔ لیکن جب کلمتہ اللہ جسم میں ظاہر ہوا اور اپنے باپ کو ہم پر ظاہر کیا اس وقت شیاطین کا فریب غائب اور موقوف ہو گیا۔ آدمیوں نے سچے خُدا یعنی باپ کے کلمہ کو دیکھ لیا اور بتوں کو چھوڑ کراسی خُدائے برحق کا صحیح عرفان حاصل کر لیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ مسیح خُدا اور کلمہ اور خُدا کی قدرت ہے۔ انسانی بناوٹ تمام ہوتی جاتی ہے۔ مسیح کاکلام باقی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جو اشیاءتمام ہوتی جاتی ہیں وہ عارضی ہیں۔ لیکن وہ جوباقی رہتا ہے خُدا اور خُدا کا حقیقی بیٹا اور اکلوتا کلمہ ہے۔
(۴۷) خاتمہ۔ پاک نوشتوں میں ڈھونڈو
اے مسیح کے مخب یہ رسالہ ہماری طرف سے تیرے لیے ایک ہدیہ ہے اس میں ہم نے مسیحی ایمان اور مسیح کے ظہور خدائے کا مختصر بیان کرکے خاکہ کھینچا ہے ۔اگر تو اس رسالہ کے خیالات کو لے کر پاک کلام کو پڑھے اور سچائی سے اس میں دل لگائے تو تجھ کو کامل اور صاف طور پر ان باتو ں کی صداقت معلو م ہوجائے گی جن کو ہم نے یہاں بیان کیا ہے پاک کلام خداکاکلام اور خدا کی تصنیف ہے او ر اس کو ان لوگوں نے تحریر کیا جو علم الہٰی کے عالم تھے ۔ہم نے اس کی تعلیم ان لوگوں سے پائی ہے جن پر الہام نازل ہوا اور جنہوں نے نوشتوں کو پڑھ کر مسیح کی الوہیت کی خاطر اپنی جان نثار کردی ۔
جو تعلیم ہم نے ان سے پائی تھی تجھے اس کا عاشق سمجھ کر اب تیرے حوالہ کرتے ہیں ۔تجھے اس کی دوسری جلالی اور حقیقی آمد بھی معلوم ہوجائے گی جب کہ وہ نہ عاجزی میں بلکہ اپنے اصل جلال میں آئے گا ۔نہ فروتنی میں بلکہ مناسب شان میں ۔نہ کہ تکلیف اٹھانے کے لئے بلکہ سب کو اپنی صلیب کے پھل بانٹنے کے لئے یعنی قیامت اور بقا ۔پھر بنی آدم اس پر عدالت کرنے کو نہ بیٹھیں گے بلکہ و ہ سب کا منصف ہوگا۔مطابق ان کا موں کے جو ہر ایک نے جسم میں ہوکر کئے ہیں خوا ہ وہ بھلے ہوں یا بُرے ۔تب نیکوں کو آسمان کی سلطنت عنایت ہوگی ۔لیکن بدوں کو ہمیشہ کی آگ اور باہر کی تاریکی ۔خداوند نے خود بھی فرمایا ہے ”میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم ابن آدم کو قادرمطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے (متی۲۶: ۶۴)اس آمد کے لئے تیاری کرنے کو منجی کے الفاظ ہمارے پاس ہیں ۔پس جاگتے رہو۔کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس دن تمہارا خداوند آئے گا (متی ۴۲:۲۴) اور مبارک پولُس نے بھی فرمایا ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح کے تخت عدالت کے سامنے جاکر ہم سب کا حال ظاہر کیا جائے تاکہ ہر شخص اپنے ان کاموں کا بدلہ پائے جو اس نے جسم کے وسیلے سے کئے ہوں ۔خواہ بھلے ہوں یا بُرے (۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۰)۔
نوٹ:۔اس سے اتھناسیس اپنے ان استادوں کی طرف اشارہ کرتاہے جنہوں نے ۳۰۳ءسے ۳۱۳ ءتک کے بڑے ظلم میں شرف شہادت حاصل کیا ۔
(۴۸)خاتمہ۔مقدسوں کی پیروی کرو
لیکن پاک کلام کی تحقیق اور سچی شناخت کے لئے نیک زندگی پاک روح اور مسیحی خوبیوں کی حاجت ہے تاکہ اس کے ذریعے سے دل کی ہدائت ہواور آدمی کو ان باتوں تک رسائی حاصل ہو جن کو وہ لینا چاہتا ہے اور جہاں تک کلمتہ اللہ کی پاک ذات میں آدمی کو ادراک(سمجھ، فہم) حاصل ہوسکتا ہے وہاں تک وہ پہنچ سکے ۔بغیر پاک دلی اور مقدسوں کی زندگی کی پیروی کے ممکن نہیں کہ کوئی شخص انہیں مقدسوں کے الفاظ کو سمجھے۔
جب کوئی آفتاب کی روشنی کو دیکھناچاہتا ہے تو اپنی آنکھوں کو پونچ کر صاف کرلیتا ہے ۔جوکسی پاک شے کو ڈھونڈتا ہے ۔اسے لازم ہے کہ اپنے آپ کو پہلے پاک کرے اپنی آنکھ صاف کرے تاکہ آفتاب کی روشنی اسے پہنچے ۔اگر کوئی کسی شہر یا ملک کو دیکھنا چاہے تو اسے ضرور ہے کہ وہاں پہنچے اسی طرح جو کوئی عالموں کے خیالات کو سمجھنا چاہے تو اسے لازم ہے کہ ایسی زندگی بسر کرے جس سے اس کی روح شت اور پاک ہوجائے اورمقدسوں کے سے کام کرکے ان کا قرب حاصل کرے تاکہ روز مرہ کی زندگی میں ان کا شریک ہوکر ان باتوں کو سمجھے جو خدا نے ان پر کھولی تھیں اور یوں ان کے ساتھ متحد ہو کر گنہگاروں کی سزا یابی اور روز حشر کی آگ سے بچے اور ان چیزوں کا وارث ہوجو مقدسوں کے لئے آسمان کی سلطنت میں رکھی ہوئی ہیں جن کو نہ آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا نہ آدمی کے دل میں کبھی آئیں (۱۔کرنتھیوں ۲:۹)یعنی ایسی چیزیں جو ان کے لیے تیار کی گئی ہیں جو نیک زندگی بسر کرنے اور مسیح یسوع ہمارے خداوند میں خدااور باپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ابدالآباد اسی کے وسیلے سے اور اسی کے ساتھ باپ کی اور روح القدس کی عزت اور قدرت اور جلال ابدلآباد ہوتا ہے ۔
ختم شدہ
-------------