Ayat-ul-Rajm

The Verse of Stoning

IN THE BIBLE AND THE QURAN

W. H. T. GAIRDNER, B.A., ISKANDAR 'ABDU'L-MASIH, AND SALI 'ABDU'L-AHAD

Demonstrates beyond doubt that in one particular, at any rate, the Quran has been corrupted, for this verse was once actually incorporated

اسلام میں زانی کی سنگساری کے مسئلہ کا بیان

آیت الرجم

مصنفین

ڈبلیو۔ ایچ۔ٹی۔گیرڈنر۔ بی۔ اے

سکندر عبدالمسیح

صالح عبدالاحد

1927

دیباچہ

یہ رسالہ جناب علامہ ڈبلیو۔گولڈ سیک کے رسالہ "اسلام میں قرآن" کی اس دلیل کی تشریح ہے جس کی واحد اور قطعی نظیر میں آپ نے آیت الرجم یاآیت سنگساری پیش کی ہے ۔

یہ واقعہ نہایت ہی عجیب ہے کہ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اس سے واقف نہیں ہیں یا جو تفاسیر کا مطالعہ بے سوچے سمجھے کرتےہیں اورایسے بیانات کو سرسری طور سے پڑھتے ہیں جن کے متعلق دعویٰ بڑے وثوق کے ساتھ کیا گیا ہے ان کو سخت تعجب ہوگا۔

یہ رسالہ ان عربی مضامین کا ترجمہ کرکے مرتب کیا گیا ہے جو قاہرہ میں ایک مجلہ مسمی بہ مشرق ومغرب میں شائع ہوئے تھے۔ اس کا عربی نسخہ قاہرہ میں شائع ہوچکا ہے ۔ اور وہاں کے مطبع سے مل سکتا ہے ۔

خدا ان صفحوں کےذریعہ سے ہمارے مسلمان دوستوں کی رہنمائی کرے ، کہ وہ توریت اور انجیل کی روشنی کو حاصل کریں۔ یہ رسالہ بالکل نیک نیتی کے ساتھ لکھا گیا ہے ۔ اور امید ہے کہ اسی نظر سے پڑھا بھی جائیگا ۔ ایسے معاملہ میں صاف صاف کہہ دینا ضروری ہے ۔ لیکن جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اسے صفائی اور نیک دل کے ساتھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہمارا مدعا اپنے مسلمان دوستوں سے زیادہ دوستی بڑھانا ہے اور ہماری غرض نہ صرف ان کو اپنے دوست بلکہ سیدنا عیسیٰ مسیح میں اپنے بھائی بنانا ہے۔(مصنفین )۔

آیت الرجمہ

تمہید

ہم کو یقین ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے مسیحیوں کے خلاف اس اعتراض کو جو اکثر بیان کیا جاتا ہے ۔ نہ سنا ہو کہ مسیحیوں نے کتاب ِ مقدس میں کمی بیشی کرکے اس کو بگاڑ ڈالا ہے۔ اگر چہ ایسے الزامات قابل توجہ نہیں تو بھی مسیحیوں کی طرف سے بارہا اس کی تردید کی گئی ہے ۔ اور ہم کو یقین نہیں کہ جو الزام ہم پر لگایا جاتا ہے کوئی مسلم عالم اس کی صداقت کادل سے قائل ہو۔ درحقیقت مسلم عالم کتاب ِ مقدس اور قرآن میں موافقت نہ پیدا کرسکنے کے سبب سے مجبوراً ہم پر تحریف کا الزام لگاتے ہیں۔ قرآن مجید کتاب مقدس کے الہامی ہونے پر گواہی دیتا ہے مگر پھر ان دونوں میں صریح اختلاف کیوں ہے ؟ کیاوہ کتاب مقدس پر قرآن مجید کی شہادت مان نے اور خود اپنی کتاب کا انکار کرے ؟ یا قرآن مجید کی شہادت کا انکار کرکے خود قرآن مجید کا منکر بنے ؟ پس اس (1)عقدہ لایخل سے بچنے کے لئے وہ مسیحیوں پر کتاب مقدس کی تحریف کا الزام لگاتاہے ۔

اس الزام کے اعتبار سے مسلمان تین جماعتوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔اول وہ جو جانتے ہیں کہ یہ الزام بالکل غلط ہے ۔ دوسرے وہ جو اس کے قائل ہیں کہ یہ سچ ہے ۔ تیسرے وہ جو اس الزام کی راستی وناراستی سے ناواقف ہیں۔ پہلی قسم کے مسلمان حقیقت سے آگاہ ہیں۔ دوسری قسم و الے تجاہل (2)کرتے ہیں۔ اور تیسری قسم کے مسلمان عادتاً یا رواجاًبلا غور وخوص یہ الزام لگاتے ہیں۔ ان سے پیشتر کے لوگ یہ الزام لگاتے چلے آئے ہیں او ریہ صرف ان کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کو اس الزام کے تحقیقی یا الزامی ہونے سے کچھ واسطہ نہیں اور ہمارا خطاب ان ہی آخری دو قسم کے لوگوں سے ہے ۔اس لئے کہ پہلی قسم کے لوگوں پر سچائی روشن تو ہے۔ مگر صرف بحث کی غرض سے وہ حجت کرتے ہیں۔ اس مسئلہ پر مفصل بحث کرنے سے پیشتر مسلمان بھائیوں سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دیں۔

(1)کیا محمد صاحب کے زمانہ میں کتاب مقدس صحیح اور درست تھی؟

(2)اگر درست تھی اور اس سے انکار ممکن نہیں توکیا آپ کے زمانہ کے بعداس میں تحریف ہوئی؟


1 عقدہ لایخل کامطلب ہے وہ مشکل بات جو حل نہ کی جاسکے۔ 2 تجاہل ۔ عمداً انجان بننا۔ ٹالنا۔

(3) کیا مسلمان کتاب مقدس کا کوئی ایسا نسخہ پیش کرسکتے ہیں جو آپ کے زمانہ کا یا اس سے پیشتر کا ہو اور اس مروجہ کتاب مقدس سے مختلف ہو؟

(4) اس بات کو جانتے ہوئے کہ یہودیوں اور مسیحیوں میں آسمان وزمین کافرق ہے ۔ کیا یہ بات قیاس میں آسکتی ہے کہ ان دونوں فریقوں نے مل کر کتاب مقدس میں تحریف کی؟

ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔

اس رسالہ کی اشاعت سے ہماری غرض سہ گانا ہے۔ اول ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ (اگرچہ یہ امر بدیہی محتاج ثبوت نہیں )کہ آیت الرجم کتاب مقدس سے نہیں۔ بلکہ قرآن مجید سے نکال ڈالی گئی ہے ۔ اور یوں ہمارے مسلمان دوستوں کا الزام خود ان ہی پر عائد ہوتاہے۔ دوم۔ یہ ثابت کرنا (اور یہ امر بدیہی بھی محتاج ثبوت نہیں ) کہ یہ آیت توریت میں موجود ہے ۔ سوم اسی آیت کے متعلق اس واقعہ کو بیان کرنا ہے۔ جو حضرت محمد کے ایام میں ہوا او رجس سے ثابت ہوتا ہے کہ توریت جس طرح آپ کے زمانہ میں ہر طرح کی تحریف (1) سے بری تھی اسی طرح اب بھی ہے۔

باب اول

قرآن میں آیت الرجم

تفاسیر قرآن کے مطالعہ کرنے والوں نے ضرور اکثر غور سے دیکھا ہوگا کہ مفسرین بارہاکتاب مقدس تحریف کی نظیر پیش کرنے کی خواہش میں لاپروائی کے ساتھ کنعت النبی وآیة الرجم (جیسے نعت نبی اور آیت سنگساری )کے جملے پرمطلب ختم کردیتے ہیں اور یہ بہت جلد ایک رسمی فقرہ کے طور پر استعمال ہونے لگتے ہے۔

"نعت نبی" کےمتعلق یہ بات قابل غور ہے کہ اگر یہ واقعی توریت میں ہوتی تو یہودی جو کلام الہیٰ کی بہت تعظیم کرتے ہیں کبھی ان کو اس میں تحریف کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ یسعیاہ نبی کی کتاب کا 53 رکوع اور دوسرے مقامات میں ربنا المسیح کا ذکر موجود ہے ۔ اوران میں صریح طور پر لکھا ہے کہ مسیح دنیا کے گناہ کے کفارہ میں اپنی جان قربان کرے گا۔ یہ باتیں اہل یہود کی کتب میں اب تک موجود ہیں۔ اور یہ دلیل اس بات کا کافی اور دانی ثبوت ہے ۔ کہ یہودی کلام الہیٰ کی تعظیم بے حد کرتے تھے۔ اور جب کوئی ایسی آیت توریت میں پائی جاتی تھی جو انکے خلاف ہو تو وہ اس میں تحریف کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

ہم ایک دوسرے باب میں دکھائیں گے کہ آیت الرجم کتاب مقدس میں سے نہیں نکال ڈالی گئی ۔ اس باب میں ہم یہ حیرت انگیز انکشافات کرنا چاہتے ہیں ۔ کہ یہ آیت کتاب مقدس سے نہیں بلکہ قرآن مجید سے خارج کی گئی ہے ۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے زانی عورتوں کے لئے اس آیت مندرجہ کے مطابق یہ سزا تھی کہ وہ تمام عمر کے لئے قید کردی جائیں۔

" فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا"

ترجمہ: تم ان کو بندرکھو گھروں میں جب تک رہائی دے ان کو موت یا الله ان کے لئے کوئی راہ نکالے (سورہ نسا ء آیت 19)۔

پھر اس سزا کے عوض میں دوسری سزا یعنی 100 درے لگانے کا حکم صادر ہوا اور پھر بعد میں سنگسارکرنے کے حکم سے یہ بھی بدل دی گئی لیکن سنگساری کی آیت قرآن مجید سے خارج کردی گئی ہے ۔


(1) تحریف ۔ایک حرف کی جگہ دوسرے حروف کو رکھنا ۔ کسی بات کو اس کے موضوع کے خلاف بتانا۔

اب اگر یہ دلیل پیش کی جائے کہ آیت الرجم اس لئے نہیں لکھی گئی کہ جب قرآن مجید جمع کیا جارہا تھا تو اس آیت پر دو (یا زیادہ ) گواہوں کی تصدیق نہیں ہوئی تو ہمارا جواب یہ ہےکہ بہتیرے صحابیوں (1) کو یہ آیت معلوم تھی، جو اس کی اصلیت کی تصدیق کرسکتے تھے۔ علاوہ ازیں ذیل کی چند حدیثیں اس بات پر شاہد ہیں۔

(1) ابوعبید نے ایک حدیث (2) (2)نقل کی ہے ۔ جو ابن حبش سےمروی ہے ۔ "ابی نے کہا سورة الاحزاب میں کتنی آیتیں ہیں؟ میں نے کہا کہ 72یا 73 اس نے کہا کہ یہ سورة البقر کے برابر تھی اور ہم اس میں آیت الرجم پڑھا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آیت الرجم کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا الشیخ والشیخة اذاز نا فار جموھا الیہ یعنی جب بالغ مرد اور بالغ عورت زنا کریں تو بلاشک وہ سنگسار کئے جائیں۔بطور سزائے الہی ٰ کے ۔

(2) "کتاب البرہان " میں پڑھتے ہیں کہ عمر نے کہا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ میں نے قرآن میں بڑھایا ہے تو میں اس کو (یعنی آیت الرجم ) قرآن مجید میں لکھ دیتا ۔

(3) ایک دوسری حدیث جس کاسلسلہ ابوامامہ ابن سہل تک پہنچتا ہے کہ اس کی خالہ نے کہا " نبی پڑھتے تھے ہم لوگوں کے پاس آیت الرجم کو ان الفاظ میں کہ اگر کوئی سن رسید مرد اور سن رسید عورت زنا کریں تو وہ دونوں سنگسار کئے جائیں۔ "

(4) الحاکم نے ابن صیت کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب زید بن ثابت اور سعید ابن العاص قرآن مجید لکھ رہے تھے اور اس آیت پر (یعنی آیت الرجم)پر پہنچے تو زید نے کہا کہ میں نے نبی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی سن رسید آدمی اور سن رسیدہ عورت زناکریں تو دونوں کو سنگسار کرو۔

(5) اس حدیث کے مطابق عمر نے کہا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں رسول کے پاس گیا اور کہا کیا میں اس آیت کو لکھ لوں ؟ مگر ایسا معلوم پڑا کہ ان کو ناگوار گزرا۔

(6) النسائی نے ایک اور حدیث ، حدیث مذکور کی مانند عمر سے بیان کی ہے ۔

(7) اتقان میں (فضائل القرآن پر ) ابن خریس نے ایک حدیث نقل کی ہے جو ابن اسلم سے مروی ہے کہ عمر نے ایک مرتبہ ایک بڑے مجمع کو خطاب کرکے کہا " سنگسار کرنے کے متعلق شبہ مت کرو۔کیونکہ یہ جائز ہے ۔ میں قرآن میں آیت الرجم کو لکھتا لیکن ابی ابن کعب نے مجھ سے کہاکہ کیا تجھے یاد نہیں کہ جب تو ایک مرتبہ میرے پاس آیا اور میں رسول سے اس آیت کو پڑھنے کی درخواست کررہا تھا۔ تو انہوں نے میرے سینے میں ایک دھکا مارا اور تونے مجھ سے کہا کیا تو رسول سے وہ آ یت پڑھنے کو کہتا ہے حالانکہ لوگ جانوروں کی طرح زنا کرتے ہیں۔"


1 صحابی ۔ رسول عربی کے ساتھی ۔ ہم مجللس یا وہ مسلمان جنہوں نے آپ کو دیکھا ۔ (2) حدیثیں یا احادیث جمع ہے حدیث کی اور اصطلاحاً رسول عربی کے قول وفعل کی خبر

(8) حضرت عائشہ جن کی گواہی باوجود عورت ہونے کے پوری گواہی کا مرتبہ رکھتی ہے اس آیت کو رسول عربی کی موت سے پیشتر اور بعد جانتی تھیں۔ جیساکہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے ۔

پس صاف ظاہر ہے کہ آیت الرجم کے گواہوں میں بڑے بڑے صحابیوں کا شمار ہے۔ مثلاً حضرت عائشہ جو رسول کی بیوی تھیں۔ جناب عمر ابن الخطاب جو آپ کے جانشینوں میں سے تھے۔ زید ابن ثابت جو آپ کے مہتمم اور محرر تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کا شمار دو سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو تصدیق کے لئے ضروری تھے۔ قیاس یہ کیا گیا ہے کہ یہ آیت بھلا دی گئی تھی۔

بعض مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت خدا نے لوگوں کے دل سے بھلا دی ہے ۔ کیونکہ خدا کو اختیار ہے کہ کسی آیت کو فسخ یا منسوخ کرے۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ " مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا"ترجمہ: جب موقوف کرتے ہیں ہم کوئی آیت یابھلا دیتے ہیں تو پہنچاتے ہیں ہم اس سے بہتر یا اس کے برابر (سورہ بقرہ آیت 100)۔

مسلمان صاحبان یہ دو دلائل پیش کرتے ہیں:

(1) کتاب الیبنوع میں ابن ظفر اس سے انکار کرتا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ صرف ایک شخص (یعنی حضرت عمر )کی گواہی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ آیت اصلی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت بھلائی ہوئی آیات میں سے ہے ۔ منسوخ آیات میں اس کا شمار نہیں ہے ۔ ان دوقسموں میں فرق یہ ہے کہ جو آیت بھلادی جاتی ہے باعتبار اپنے مدعا کے قائم رہتی ہے ۔

لیکن یہ بیان اس واقعہ کےموافق نہیں کیونکہ آیت الرجم لوگوں کو یاد رہی او رایسے صحابیوں کا شمار ایک سے زیاد ہ ہے۔

(2)اگر خدا واقعی چاہتا تھا کہ یہ آیت بھلادی جائے تو البتہ وہ اس کو باعتبار اس کے مدعا کے منسوخ کردیتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ آیت ترک کردی گئی تھی تو بھی اس کا فتویٰ رہا اور متواتر زانیوں کے حق میں استعمال ہوتا رہا ۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمد کو یہ آیت بھلا نہیں دی گئی تھی۔ بلکہ صرف ان کو اس کا لکھنا ناگوار تھا۔ اور اس لئے حضرت عمر کو اس کے لکھنے سے باز رکھا۔ اور جب ابی نے پڑھنے کو کہا تو اس کی چھاتی میں دھکا دے کر اسے ہٹادیا۔ابن ماجہ کا بیان ہے کہ سورة الاحزاب کا باقی حصہ ایک چمڑے پر لکھا ہوا ، تو حضرت عائشہ جنازے کے ہمراہ قبر پر گئیں۔ اور واپس آکر دیکھا کہ ایک بکری اس چمڑے کے طومار کو الہامی آیات سمیت جن میں آیت الرجم بھی شامل تھی کھاگئی ہے۔ اس بیان میں تو انوکھے پن کے علاوہ اس بات کا صاف ثبوت پایا جاتا ہے کہ یہ آیت حضرت محمد کی وفات تک فی الحقیقت تحریر میں موجود تھی۔ پس یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو بھلا دی گئی۔ اصل واقعہ تو یہ ہےکہ آپ کو یہ آیت اچھی طرح یاد تھی اور اسی طرح آپ کے بہتیرے صحابیوں کو بھی معلوم تھی۔

باب دوم

آیت الرجم اور صحابہ کبار

اس آیت کی عدم موجودگی کی تشریح کے لئے مسلمان صاحبان مندرجہ ذیل تین بیانات پیش کرتے ہیں۔

(1)ہ آیت منسوخ شدہ ہے۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں اس آیت کو منسوخ کرنے والی آیت ناسخ کہاں ہے ؟ برعکس اس کے ہم دیکھ چکے ہیں کہ زنا کے متعلق دوسری آیات اس آیت سےمنسوخ ہیں۔

(2)یہ آیت بھلادی گئی ہے۔ لیکن جناب ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس آیت کو نہ آنحضرت بھول گئے تھے اور نہ صحابی ۔ اورپھر سوال یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک آیت کو نازل کرکے پھر اسے بھلا دینے میں کونسی مصلحت ہے ؟اور خاص کر جب اس کااثر باقی رہتاہے ۔

(3)اس آیت سے لاپروائی کی گئی۔ ابن حجر اپنی کتاب شرح المناج میں بیان کرتا ہے کہ اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے یہ آیت منسوخ کردی گئی اور اس کا اثر قائم رکھا کیونکہ مسلمانوں کے لئے نہ صرف بوجھ بلکہ سب سے بھاری بوجھ تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس خیال کو یوں ظاہر کرسکتے ہیں۔ کہ مومن کو اس گناہ سے باز رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ وہ اس واقعہ سے کہ خدا نے ایک ایسی آیت نازل کی ہے جو زانیوں کے لئے نہایت سخت فیصلہ کرتی ہے بے خبر کردیتا ہے ۔ہم اس تشریح میں رحم ودانائی اور انصاف نہیں پاتے۔ اس لئے اس کی صحیح تشریح صرف یہ ہے کہ یہ آیت نامقبول ہونے کے سبب سے متردک ہوگئی۔ اور پھر قرآن شریف سے خارج کردی گئی تھی۔

گذشتہ بیانات سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ صرف زمانہ رسول عربی میں پڑھی جاتی تھی ، بلکہ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بھی لوگ اسے پڑھتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر کی آرزو تھی کہ یہ آیت قرآن شریف میں لکھی جاتی اور صرف اس خیال سے کہ مبادا کلام الہیٰ میں اضافہ کرنے کا الزام نہ لگایا جائے ، حضرت عمر اس سے باز رہے ۔بہر حال ہم کو تعجب ہے کہ حضرت عمر اس آیت کے اکیلے گواہ ہونے کے دعویدار نہیں ، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کے علاوہ بہتیرے دیگر صحابیوں کو بھی آیت معلوم تھی۔ پس یا تو اس اہم معاملہ میں حضرت عمر نے یا دوسرے صحابیوں نے صحیح واقعات کو پیش نہیں کیا اور یہ معاملہ ایسا ہے جس سے قرآن شریف کو ترتیب دینے والوں کی عقیدت مندی پر اثر پڑتا ہے۔

مگر اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر چہ یہ آیت اب موجود نہیں ہے توبھی اس آیت کا مقصد اب تک نافذ ہے ۔ اور سنت نبوی اس کی تائید کرتی ہے ۔ چنانچہ یہ حقیقت ذیل کی ہے ۔ اور عمر نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں ایسا زمانہ نہ آجائے کہ لوگ یہ کہیں کہ ہم سنگساری کا حکم قرآن میں نہیں پاتے اور یوں اس حکم سے جو خدا نے نازل کیا ہے لاپروائی کرکے غلطی میں پڑیں گے کہ اگر بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان کو سنگسار کرو۔ رسول نے سنگسار کیا اورہم آپ کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔

بیشک یہ جملہ کہ رسول نے سنگسار کیا اورہم آپ کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ سنگسار کرنا احکام (1) سنت میں سےہے۔زانیہ اور زانی کے لئے یہ ایک شرعی فیصلہ ہے ۔

(2)الرازی نے سورہ نور کی تفسیر میں عبادو سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ جو سنگسار کرنے کے حد شرعی ہونے کی تائید کرتی ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ میری اس بات کو مان لو کہ خدا نے ان کے لئے راہ کھول دی ہے ۔اگر کوئی کنواری عورت زنا کرے تو اس کی سزا (اور اس کے شریک کے بھی تھی )سودرے اور سال بھر کی جلاوطنی ہے اور اگر شادی شدہ ہو تو اس کے لئے سو درے اورسنگسار کرنے کی سزا ہے ۔

(3) ایک مرتبہ ایک شخص نے آنحضرت سے شکایت کی کہ میری بیوی زانیہ ہے ۔ آنحضرت نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ اس عورت کے پاس جاؤ اور اگر وہ اقرار کرے تو اسے سنگسار کرو۔

(4) تمام مفسرین کا اتفاق ہے ( او ریہ اتفاق اجماع (2) یعنی سنت ہے ۔) کہ مجرم کا صحیح الحواس اور بالغ ہونا تغریر کے لئے ضروری شرائط ہیں۔ اس لئے نابالغ اور پاگل پر زنا کے سبب سے جد شرع جاری نہیں ہوسکتی ۔

(5) الشافعی اور ابو یوسف کا دعویٰ ہے کہ سنگسار کرنے کے لئے ضروری شرط اسلام نہیں ہے۔ (یعنی یہ ضروری نہیں کہ مجرم مسلمان ہو )الشافعی نے ابن عمر سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ آنحضرت نے ایک یہودی اور یہود ن کو جنہو ں نے زنا کیا تھا سنگسار کیا۔

(6) امام ابوحنیفہ نے برید الاسلمی سے ایک اور حدیث بیان کی ہے کہ ہم لوگوں نے یعنی (اصحاب نے ) آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اگر معائذ چار مرتبہ جرم کا اقرار نہ کرتا تو آنحضرت اسے سنگسار نہ کرتے ۔

(7و8) امام شافعی اور امام مالک کا بیان ہے کہ امام اگرچاہے تو زانی پر پتھراؤ کے وقت حاضر ہو اور اگر نہ چاہے تو نہ ہو ۔ اسی طرح گواہوں کو بھی آزادی ہے ۔

(9) ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ کہ اگر زنا گواہوں کے ذریعہ سے ثابت ہو تو گواہ پہلے پتھراؤ کرنا شروع کریں۔ او رپھر امام اور تب دوسرے حاضرین۔ لیکن اگر جرم مجرم کے اپنے اقرار سے ثابت ہوتو چاہیے کہ پہلے امام او رپھر دوسر لوگ پتھراؤ کریں۔ ابو حنیفہ ا س کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت نے معائذ اور غمیدہ کے پتھراؤ کا حکم دیا۔ لیکن آپ خود موجود نہیں تھے ۔ مذکورہ بالا بیانات اس ثبوت کا ایک حصہ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ سنت اجماع (اجماع صحابہ ) اور امام سنگسار کرنے کو زانی اور زانیہ کے لئے قطعی فیصلہ مانتے ہیں۔ پس وہ آیت کہاں ہے اس فیصلہ کی تائید کرتی ہے ؟ اگر واقعی آنحضرت آیت الرجم کو لوگوں پر آسان کرنا چاہتے تھے (جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ) تو اس آیت کو قائم رکھ کر اس کے مقصد کو منسوخ کرنا زیادہ پر مطلب ہوتا کیونکہ تب آنے والی پشتیں بخوبی سمجھ سکتیں کہ خدا نے ایسی بڑی سزا کو منسوخ کرکے لوگوں سے کس قدر رحم کا سلوک کیا ہے لیکن اب تو لوگوں کو ایسے جرم کے لئے سزا دی جاتی ہے جس کی ممانعت میں کوئی صریح آیت موجود نہیں اور یوں یہ ایک ایسی بات بن جاتی ہے جو نہ صرف رحم ہی سے بہت بعید ہے بلکہ جس میں بے انصافی اور سختی بھی پائی جاتی ہے ۔


(1) احکام سنت ۔احکام جمع ہے حکم سنت کا مطلب ہے دستور ۔ رسم وہ طریقہ جس پر حضرت محمد اور خلفاء صحابہ نے عمل کیا ہے۔ (2) اجماع۔ جمع ہونا ،اکٹھا ہونا ، اتفاق

اب اس کی صحیح تشریح صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت ابتدا ہی سے مسلمانوں میں آنحضرت سے لے کر سوائے حضرت عمر ادنیٰ سے ادنیٰ صحابہ تک نا مقبول تھی۔ حضرت محمد کو یہ آیت کس طرح ناگوار تھی اس قیل وقال (1) سے صاف ظاہرہے کہ جو آنحضرت اور ابی بن کعب کے مابین ہوئی۔ اور صحابیوں کو یہ آیت کس قدر ناپسند نہ تھی۔ اس امر سے صاف ظاہر ہے کہ کم از کم آٹھ ایسے صحابی تھے (یقیناً اور بھی بہتیرے دوسرے صحابی ہونگے )جن کو یہ آیت معلوم تھی ۔ لیکن ایک نے بھی حضرت ابوبکر کے قرآن کے نسخہ میں اس آیت کو شامل کرلینے کے لئے حضرت عمر کی تائید نہ کی ۔

اب اگر مسلمان ہم پر کتاب مقدس کی تحریف کا الزام صرف اس لئے لگاتے ہیں کہ کسی یہودی نے سنگسار کی آیت پر اپنا ہاتھ اسے رسول کی نظر سے چھپانے کے لئے رکھ دیا تھا۔ (دیکھو باب آئند) تو اسی بنا پر ہم کس قدر زیادہ ان پر آیت زیر بحث کو قرآن میں سے قصداً عملاً خارج کرکے تحریف کا الزام عائد کرسکتے ہیں؟

باب سوم

حضرت محمد کے عہد میں آیت الرجم توریت میں موجود تھی

سورہ مائدہ میں ایک آیت قابل غور ہے جس کا تعلق ایک مشہور اور بڑی پر مطلب داستان سے ہے ۔(سورہ مائدہ آیت 47و48)اس آیت اور داستان کاتعلق ہمارے مضمون سے ہے کیونکہ اس سے آنحضرت کے زمانہ حیات میں ایک اصلی توریت کی موجودگی کا مع آیت زیربحث کے پتہ لگتا ہے۔ اگر زمانہ حال کی توریت کے نسخوں میں یہ آیت نہ پائی جاتی تو ہمارے لئے معاملہ بے شک نہایت مشکل ہوتا ۔ کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ان ایام سےہی کتاب مقدس میں تحریف شروع ہوئی ہے ۔ مگر چونکہ صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ جیساکہ چوتھے باب میں ہم دیکھیں گے ۔ اس لئے اس آیت اور داستان میں جن کا ہم اب مطالعہ کرنے والے ہیں۔ آج کی موجودہ غیر محرف توریت اور آنحضرت کے ایام کی غیر محرف توریت کےد رمیان ایک بیش قیمت سلسلہ وابستگی پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس سے بھی پیشتر زمانہ سابق تک پہنچتا ہے ۔ چنانچہ وہ آیت حسب ذیل ہے ۔

وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ

ترجمہ:" اور کس طرح وہ تجھ کو منصف کریں گے ۔ اور ان کے پاس توریت ہے جس میں الله کا حکم ہے ۔ اور اس سے وہ پیچھے پھر جاتے ہیں اور وہ ماننے والے نہیں۔ تحقیق ہم نے توریت اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ اور اس سے فیصلہ کرتے تھے پیغمبر جو حکم برادر تھے جو یہودتھے اور درویش اور عالم فیصلہ کرتے تھے۔ اس واسطے کہ نگہبان ٹھہرائے تھے، الله کی کتاب پر اور اس کی خبر داری پر تھے"۔ اس آیت کے اعلان کا واقعہ یقینی طور پر معلوم ہے۔ تمام مفسرین نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور ان کا بیان نہایت واضح ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ اس واقعہ کو پیش کرتے ہیں۔ "


(1) قیل وقال۔ بحث وتکرار

عرب کے دوشادی شدہ یہودیوں نے ساتویں حکم کو توڑا تھا۔ موسوی شریعت کے مطابق چاہیے تھا کہ وہ سنگسار کئے جاتے۔ لیکن یہ دونوں مجرم بہ سبب صاحب ثروت ہونے کے سزائے موت سے بچ گئے ۔ اور ان کے لئے صرف درے لگائے جانے کی ہلکی سزا تجویز کی گئی اور یہ معاملہ اس امید پر رسول کے سامنے پیش کیا گیا کہ چونکہ آپ توریت سے ناواقف ہیں یا چونکہ آپ ایک نئی شریعت جاری کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس ہلکی سزا کی تائید کریں گے۔ بیان یہ ہے کہ آنحضرت نے سوریا کے دو بیٹوں کو جو یہودیوں میں بڑے عالم تھے اور عبرانی سے اچھی طرح واقف تھے بلوا بھیجا۔ اور ان سے قسمیہ دریافت کیا کہ موسوی شریعت اس معاملہ میں کیا کہتی ہے۔ اگر چہ یہودی ان کے چاروں طرف کھڑے غیظ وغضب کی نگاہوں سے اشارے کررہے تھے۔ تو بھی انہوں نے پروانہ کی اور توریت میں آیت الرجم دکھادی۔

ابن اسحاق نے اپنی کتاب سیر ت النبی میں یہ اور اضافہ کیا ہے کہ ایک یہودی قاری نے اس ملزم ٹھہرانے والی آیت پر واقعی اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ جس پر ایک اصحابی نے جس کا نام عبدالله بن سلام تھا۔ اس پڑھنے والے کوہاتھ جھٹک کر کہا ۔ " دیکھئے یا رسو الله آیت الرجم موجو دہے۔ جس کو پڑھنے سے یہ انکار کرتا ہے ۔ تب آپ نے فرمایا" اے یہودیو! تم پر افسوس ہے کہ خدا کے فیصلہ کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جب کہ وہ تمہارے ہی ہاتھوں میں ہے۔آخر انجام اس واقعہ کا یہ ہوا کہ دونوں گنہگار مرد اور عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا اورآیت مذکورہ ترجمہ ہوکر شائع ہوئی۔ جس میں آنحضرت نے نے اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں نبی ، ربی اور کاہن جو اسلامی مفسرین کے خیال کے مطابق سوریا کے دونوں بیٹوں کے القاب ہیں۔ خدا کی طرف سے کلام الہیٰ (توریت ) پر نگہبان اور اس کی خبرداری پر تھے۔

یہ ایک واقعہ ہے او رہم اس سے مندرجہ ذیل نتائج نکالتے ہیں۔

اول۔ یہ واقعہ اس بات کا ایک عجیب ثبوت ہے کہ کسی بھی یہودی کو پاک کتاب میں دست اندازی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہاں ایک ہی آیت کا ذکر ہے ۔ جسے یہودی جماعت اور خاص کر ذی اختیار یہودی بہت ناپسند کرتے تھے۔ ان کی ناپسندیدگی اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے آپس میں اس کو نہ ماننے پر اتفاق کرلیا تھا ۔اب اگر یہودی اور مسیحی پیشواؤں کے لئے نہ صرف ایک آیت بلکہ سینکڑوں آیات بلکہ کتاب کی کتاب بدل ڈالنا آسان تھا۔ (جیساکہ مسلمان برابر یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں)تو اس سے بڑھ کر ان کے لئے اور کون سی بات آسان ہوسکتی تھی کہ اس آیت کو مٹا ڈالتے یا بدل ڈالتے ۔مگر ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اس ایک چھوٹی سی نا مقبول آیت میں بھی دست اندازی کرنے کی ان کو ہمت نہیں ہوئی۔انہوں نے اس آیت کو جہاں تھی وہیں رہنے دیا۔ اور زیادہ سے زیادہ وہ صرف اتنا کرسکے کہ اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس آیت کو چھپانے کی کوشش کی (ابن اسحاق ) کے بیان کے مطابق یا عبرانی الفاظ کے معانی غلط بیان کئے یا آیت کو نکال کر ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔ یا اس کی موجودگی ہی کو نہ مانا وغیرہ وغیرہ۔

اس لئے اگر زمانہ آنحضرت میں ایک چھوٹی سی آیت کا کسی معاملہ میں بدل ڈالنا غیر ممکن تھا تو اب ہم ان لوگوں کے باطل دعویٰ کے متعلق کیا کہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کتاب مقدس حضرت محمد کے زمانہ سے پہلے یا آپ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد بدل ڈالی گئی۔

دوم ۔ ہم اس واقعہ میں ایک تحریری توریت کا نظارہ دیکھتے ہیں جو جزیرہ نما عرب کے یہودیوں میں معروف اور رائج تھی اور ایک ایسی جماعت پاتے ہیں جو ایک اعلیٰ حد تک تعلیم یافتہ تھی اور توریت پڑھ سکتی تھی اور اس کے مطلب کو جن سے وہ بخوبی واقف تھی۔ ماننے یا نہ ماننے کا اختیار رکھتی تھی۔ اگر عرب کی یہ حالت تھی تو ہر جگہ جہاں کہیں یہودی ہوں گے ۔ وہاں بھی یہی حالت رہی ہوگی۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ دوسری جگہوں میں مثلاً مصر ، شام ، قسطنطنیہ یا مغرب میں یہودیوں نے اپنی شریعت کو بے لوث رکھنے میں غفلت یا تساہل سے کام لیا ہو ۔ بلکہ اسکے برعکس آیت قرآنی اس بات پر شاہد ہے کہ ربی اور کاہن عام طور پر جماعتی حیثیت سے خدا کی طرف سے توریت کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے۔ لہذا متن توریت تمام دنیائے یہود میں ویسا ہی بے لوث اور صاف تھا جیسا سرزمین عرب میں حضرت محمد کے ایام میں تھا۔

سوم ۔ علاوہ ازیں آیت قرآنی اور مفسرین کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف یہودی پیشوا مثل سوریا کے بیٹوں کے بلکہ تمام انبیاء بھی جن میں (ان کے بیان کے مطابق ) آنحضرت بھی شامل ہیں خاص طور پر توریت کو بے لوث اور صحیح رکھنے کے لئے خدا کی طرف سے مقر ر ہوئے ہیں۔ ان کا کام توریت کی اس طرح حفاظت کرنا تھا کہ نہ وہ غائب ہو اور نہ اس میں کوئی تغیر وتبدل ہونے پائے ۔ نہ کسی دوسری کتاب سے بدلی جائے او رنہ اس میں کسی قسم کی تحریف ہو نہ وہ فراموش کی جائے اور نہ وہ گم ہونے پائے (مفسرین نے اسی قسم کے الفاظ استعمال کئے ہیں) اب کیا ہمیں یہ کہنے کا مجاز ہے کہ مذکورہ بالا اصحاب جن میں آنحضرت بھی شامل ہیں اس الہیٰ کام میں ناکام ہوئے یا ناکام ہوتے رہے یاناکام ہوں گے؟

چہارم ۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس صریح صداقت کا اس قسم کی باتوں سے انکار کرے کہ کتاب مقدس کا صرف ایک حصہ ان دنوں میں صحیح تھا اور ربی او رکاہن او رانبیاء اور آنحضرت صرف اس صحیح حصے کے محافظ مقرر کئے گئے تھے۔ یہ رائے واقعہ کے خلاف ہے ۔ اول تو اس لئے کہ آنحضرت نےہمیشہ کتاب مقدس کے ایک حصے کا نہیں بلکہ تمام کتاب کا ذکر کیا ہے ۔ آپ نے کبھی اشارتاً بھی ذکر نہیں کیاکہ اس زمانہ میں یا کسی دوسرے زمانہ میں توریت میں بحیثیت کتاب کے تحریف ہوئی ہے یا آپ صرف اس کے ایک جزو کو مانتے ہیں۔ اگر واقعی یہ بات ہوئی ہے تو آنحضرت نے بڑی غفلت او ربے پروائی کی کہ اس واقعہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایسی بات صاف اور صریح الفاظ میں جن کے سمجھنے میں کوئی غلط فہمی نہ ہوظاہر کردیتے۔ علاوہ ازیں کسی ایک مفسر نے بھی اس خیال کی تائید نہیں کی ہے ۔

بیضاوی کا بیان ہے کہ "چونکہ خدا کا حکم تھا کہ اس کی کتاب کو گم ہوجانے سے محفوظ رکھیں" اور زمخشری کی تحریر کے مطابق (وہ لوگ ) محافظ تھے کہ مبادا یہ (کتاب) بدل جائے اور جلال الدین لکھتے ہیں کہ "کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ (کتاب) بدل جائے ۔ اور طبری نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کلام الہیٰ کی سند پر جو موسیٰ نبی پر نازل ہوا تھا ان کو مجرم ٹھہرایا۔ اور رازی نے سب سے زبردست الفاظ میں یو ں لکھا ہے کہ کہ یہ الہیٰ محافظ (ربی ، کاہن ، انبیاء اور آنحضرت ) گواہ تھے کہ توریت کی ہر بات سچی اور خدا کی طرف سے ہے ۔ "رازی کا مطلب بے شک اسی کتاب سے ہے جواس زمانہ کے یہودیوں میں رائج تھی اور پھر اسی مفسر کا بیان ہے کہ گویا خدا لوگوں سے کہتا ہے " خبردار کہیں ایسا نہ ہو کہ خوف سے تم میری کتاب کو بدل ڈالو۔

پنجم ۔ اس عبارت سے تحریف اور تبدیل جہاں کہیں استعمال ہوں ان کے معنی معین ہوتے ہیں۔ ان سے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ متن کو غلط کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کو چھپانا یا اس کے بارے میں جھوٹ بولنا یا الٹ پھیر کرکے جھوٹی تاویل کرناہے۔ اس بات پر تمام مفسرین متفق الرائے ہیں۔ رازی کا بیان ہے کہ " خدا کی کتاب کی حفاظت دو طرح پر ہوتی ہے ۔ اس بات کی نگہبانی سے کہ لوگ اسے بھول نہ جائیں اور اس بات کی نگہداشت کے ذریعہ سے کہ وہ کھو نہ جائے ۔ اب خدا نے ہر دو طرح کی حفاظت علما کے سپرد کی ہے ۔ یعنی (1) یہ کہ وہ دلوں میں محفوظ رہیں اور زبان سے یاد کریں۔ اور (2) یہ کہ وہ اس کے فتوےٰ کو نہ کھو بیٹھیں۔ اور اس کے قوانین سے بے پروائی نہ کریں۔

اس سے بھی زیادہ غور وحدث ہے جو رازی نے ابن عباس سے جو آنحضرت کے چچا تھے بیان کی ہے ۔چنانچہ اس میں یوں مرقوم ہے ۔ توریت اور انجیل وہ کتابیں ہیں جن کی شہرت اور عالمگیر اشاعت اور تواتر نے وہ درجہ حاصل کرلیا ہے کہ ان میں تحریف ہونا نا ممکن ہے ۔" نا ممکن ! ہم اس لفظ کے لئے ابن عباس کے شکر گزار ہیں اور خدا کا شکر کرتے ہیں ۔ کیونکہ اگر آنحضرت کے زمانہ میں یاا س سے پیشتر توریت اور انجیل میں تحریف ہونا ناممکن تھا ۔ تو اب اور بھی زیادہ ناممکن ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس کتاب کی اشاعت کا رقبہ اب بہت وسیع ہوچکا ہے۔ اور ان تمام فرقوں میں جو توریت کو مانتے ہیں سخت دشمنی ہے ۔ علاوہ ازیں اس عجیب سازش کا تواریخ میں کہیں ذکر تک بھی نہیں جن میں دنیا کے تمام یہودی اور مسیحی پیشواؤں نے یاد رہے کہ نہ صرف ایک آیت بدلنے کے لئے بلکہ کتاب کی کتاب بدل ڈالنے کے لئے بندش باندھی تھی۔ ان باتوں پر غور کرکے ہم ابن عباس کی آواز دہراتے ہیں کہ "نا ممکن ۔"

پس یہ صداقت چٹان کی مانند قائم ہے کہ جو توریت آج فروخت ہورہی ہے ۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی طرف حضرت محمد نے مدینہ میں اشارہ کیا تھا اور جس کی آپ سے ابن سوریا نے تشریح کی تھی۔ لہذا ہم اس ثبوت اور اس گواہی کے لئے خدا کا شکر کرتے ہیں اور اسی توریت میں سنگسار کرنے کی یہ آیت موجودہے۔ جیساکہ آخری بات میں ہم دیکھیں گے۔

باب چہارم

توریت میں آیت الرجم

گذشتہ باب سے یہ ظاہر ہے کہ آیت الرجم قرآن شریف میں موجود تھی لیکن بعد کو اس سے خارج کردی گئی ہے ۔ قرآن نے اپنے ایام میں اس آیت کو توریت میں موجود پایا اور اس وقت سے اب تک یہ کتاب مقدس سے نکالی نہیں گئی۔ کیونکہ مسلمانوں کے الزام تحریف کے باوجود یہ آیت اب تک کتاب مقدس میں موجود ہے ۔ بلکہ جب سےموسیٰ نے لکھا تب سے یہ ویسی ہے مرقوم ہے۔ یہ آیت استشنا کی کتاب کے 22 رکوع کی 22سے 24 آیت تک پائی جاتی ہے ۔

چنانچہ یو ں لکھا ہے :

اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پایا جائے تو وہ دونو مار ڈالے جائیں ۔یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔ یوں تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔

اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی۔ اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنے ہمسایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔

یہ ہے آیت الرجم بلکہ آیات الرجم جس کے متعلق مسلمان ِ صاحبان مسیحیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اسے کتاب مقدس سے خارج کردیا ہے ۔ لیکن کتاب مقدس میں یہ آیت درست اور سالم موجود ہے۔ اور اگرآسمان وزمین فنا بھی ہوجائیں ، تو بھی یہ آیت کتاب مقدس میں اسی طرح موجود رہے گی۔ لیکن واقعہ اس وجہ سے اور بھی عجیب بن جاتا ہے کہ جس بات کا وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں وہ خود اس کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہم نے ان کامقابلہ ان ہی کی دلیل سے کیا ہے۔ او رہم منصف مزاج اور ذی فہم مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اس پر غور کریں اور اس سے جو صریح نتیجہ نکلتا ہے ۔ اس پر عمل کریں۔

-------------

نوٹ : انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا کے آٹھویں رکوع کی پہلی آیت سے گیارہویں آیت تک ہم اس بات کا ثبوت پاتے ہیں کہ توریت میں یہ آیات ہمارے سیدنا عیسیٰ مسیح کے زمانہ میں موجود تھیں اور اس عبارت سے یہ بھی عیاں ہے کہ مسیحی اس قسم کے گنہگاروں کے ساتھ اپنے پیشوا کی تعلیم اور فیصلہ کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔