آسمان اور زمِین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگِز نہ ٹلیں گی۔(متی 24باب 35)
خداوند کا کلام ابد تک قائم رہیگا۔(1پطرس 1باب 25آیت)
جِس بات کا مَیں تُم کو حُکم دیتا ہُوں اُس میں نہ تو کُچھ بڑھانا اور نہ کُچھ گھٹانا(استشنا 4باب 2آیت)
براہین نیرہ
درباب صحت واصلیت بائبل
ابطالِ دعویٰ تحریف بائبل
مصنفہ
ڈاکٹر مولوی حشمت اللہ
ایچ ۔پی۔ایل۔ایل(مُنشی فاضل)اینڈایل۔بی۔ایم
قصور کوٹ پیرانوالہ ضلع لاہور پنجاب
1927
دیباچہ
جب برادرانِ اسلام کوکہا جاتاہے کہ قرآنِ عربی میں جابجا کتابِ مقدس (بائبل) کی بیحد تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔ اوروہ صاف اورمشرح طور سے شہادتِ کامل دیتا اورتصدیق کرتاہے۔ کہ ُکل کتابِ المقدس (بائبل ) کلام اللہ ہے۔ اور وہ امامِ الکتب اوررحمت ہے۔ کتاب واضح ، صاف اورروشن ہدایت اورصاحبانِ عقل کے لئے بصیرت ہے۔ اورہدایتِ خلائق اورتعلیم راہِ خدا اوردین کی بابت سب سے عمدہ، افضل اوراحسن ا مروں میں اکمل واتم ومفصل ومشرح ہے۔ اورہرشئے کی اُس میں تفصیل ہے۔ وہ ہدایت ورحمت ہے تاکہ لوگ اپنے پروردگار کے ملاقی ہونے پر ایمان لائيں۔ وہ بصیرت اورروشن ضمیری آدم زاد کو بخشتی ہے۔ وہ فرقان اورروشنی اورنصیحت خدا پرستوں اورمومنین کے لئے ہے اوروہ نہایت عزت والی رفیع وبلند وقدر اورنہایت مقدس کتاب ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
الغرض قرآنِ عربی اُس کتاب المقدس(بائبل ) کوبہمہ جہت ومن کل الوجوہ خدا پرستی ودینداری وایمانداری اورہدایت وشرائع میں کامل اورجامع بتاتاہے۔ جس میں کسی ایماندار مسلمان کوحجت کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
پھر قرآن عربی میں توریت وانجیل کی پیروی اوراُ سکی جملہ ہدایات واحکامات پر عمل کرنے کی یہود ونصاریٰ کوبزور ترغیب دی ہے۔ بلکہ یہاں تک کہتاہے کہ اگراس پرعمل نہ کریں ۔ تواُن کا دین ناقص اورناکارہ اورمحض فضول ہوگا۔ جیساکہ سورہ مائدہ آیت ۶۸ میں مرقوم ہے کہ:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّىَ تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ
ترجمہ: توکہہ اہل کتاب تم کسی شے پر نہیں ہوجب تک کہ توریت وانجیل کوقائم(عمل وتلقین) نہ کرو۔ اوراُس کوجوکچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پرنازل ہواہے۔
پھر مسلمانوں کو بھی سخت ترین کی تاکید کی گئي ہے کہ وہ تمام وکمال کتاب المقدس پر ایمان لائیں ۔ اورجوایمان لائے اُس کو رحمت الہٰی اورجزائے عظیم کا وعدہ کیا گیاہے۔ اوراگر کوئی مسلمان ہوکر کل الہامی کتابوں میں سے کسی ایک خاص کتاب پر یا اُس کے کسی جزو پریا اُس کے کسی حصہ ہی پر ایمان لائے تووہ کافر اورمنکر ہے اورمستحق وسزاوار عذابِ شدید ہے۔ جیساکہ سورہ بقرہ کی ۸۴آیت میں مسطور ہے کہ:
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ
ترجمہ:کیاتم الکتاب(بائبل ) کے کچھ حصے کومانتے ہو اور اُس کے کچھ حصے کا انکار کرتے ہو۔ جوشخص تم میں سے ایسا کرے۔ تواس کا بدلہ بجز اُس کے اورکیا ہے کہ اس دنیا میں اُس کورسوائی ہو اورقیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی طرف لوٹا یا جائے۔
پھر خود حضرت محمد صاحب کو حکم ہواہے کہ کتاب مقدس (بائبل ) پر ایمان لائیں اوراُس کی ہدایت کی پیروی کرکے مسلمان کہلائیں۔ جیساکہ سورہ انعام کی ۹۱آیت میں لکھاہے ۔
أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ
ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں (خدا کے نبی اور بنی اسرائیل اوریہود ونصاریٰ ) کہ جن کوخدا نےہدایت کی پس اےمحمد توبھی اُن کی ہدایت کی پیروی کر۔
وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ
ترجمہ: اوراے محمد توکہہ کہ میں ہرایک کتاب پرجواللہ نے نازل کی ہے ایمان لایا(سورہ الشوریٰ آیت ۱۴)۔
وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ
ترجمہ:اورمجھ کو حکم ملاہے کہ میں پہلا مسلمان بنوں۔(سورہ الزمر آیت ۱۲(
یادرہے کہ ایمان بلاعمل کسی کو خدا کے غضب سے بچانہیں سکتا۔ بلکہ بچانے والا اور زندہ ایمان وہی ہے جوکہ باعمل ہو۔ چنانچہ جوشخص قرآنِ عربی کا مطالعہ بڑے غوروفکر کے ساتھ سوچ سمجھ کر کرتاہے۔ وہ اُن تمام اُمورات سے کماحقہ، وکما بینغی واقف آگاہ ہے ۔ اس لئے یہاں زیادہ تر تشریح وتفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
الغرض جس طرح اُن الہٰی کتابوں پر مسیحیوں اوریہود کو ایمان لانا فرض ہے۔ اُسی طرح تمام مسلمانوں پر بھی کتبِ سماوی سابقہ پر ایمان باعمل لانا فرض وواجب ہے۔ اورکتاب المقدس (بائبل ) اُن کے دین وایمان کا جُزو لازمی ہے اورجواس کتاب المقدس کامنکر ہے وہ بے ایمان اورخدا کے عذابِ ابدی کا مستحق اورسزاوار ہے۔ جیسا کہ سورہ مومن ۶۹، ۷۰ آیت میں مندرج ہے کہ:
الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ
ترجمہ: جنہوں نے اس کتاب کی اورجوکچھ ہم نے اپنے رسولوں کودیکر بھیجا تھا۔ اُس کی تکذیب کی اورجھٹلایا۔ پس وہی جلدی ہی معلوم کرلینگے کہ جب طوق اُن کی گردنوں میں ہونگے اورزنجیریں اورکھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹے جائینگے اورپھر آگ میں جھونک دئیے جائینگے۔
پھرسورہ نساء کی ۱۳۵۔آیت میں یوں لکھا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَع ِيدًا
ترجمہ: اے ایمان لانے والو!ایمان لاؤ اللہ پر اوراُسکے رسول پر اوراُس کتاب پرجو اُس نے اُتاری اپنے رسول پر اورالکتاب (بائبل ) پر جو اُس نے اتاری اس سے پہلے اورجوکوئی منکر ہو اللہ سے اوراُسکے فرشتوں سے اوراُس کی کتابوں سے اوراُس کے رسولوں سے اورآخری روز(قیامت) سے پس تحقیق وُدور کی گمراہی میں جا پڑا۔
اب صاف ظاہر ہے کہ ان آیات میں مسلمانوں کوحکمِ ناطق دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف قرآنِ عربی پر ہی ایمان رکھیں۔ بالکل کل آسمانی کتابوں(بائبل) پربھی ویسا ہی سچا ایمان رکھیں۔ اورجوشخص صرف قرآنِ عربی ہی پر ایمان لاتا ہواکتاب المقدس کا منکر ہوگا اوراُس پر ایمان باعمل نہ رکھیگا وہ دنیا میں رسوا اورذلیل ہوگا اوریوم النشور میں سخت عذاب جہنم میں اٹھائيگا۔اُس دن یہ کہنا ہرگز بچا نہ سکیگا۔ کہ فلاں مولوی، مجتہد ، عالم نے بتادیا تھاکہ کتاب المقدس (بائبل ) پر عمل نہ کرو۔ کیونکہ وہ محرف کتاب ہے اورممنوع التلاوۃ والعمل ہے۔ بلکہ یہ پوچھا جائيگا۔ کہ تم نے میرے حکم کے مطابق کتاب المقدس (بائبل ) پر ایمان لاکرعمل کیا ہےیا نہیں ؟ کیونکہ سورہ اعراف ۱۷۰ آیت میں یوں لکھا ہے کہ جو کل کلامِ اللہ پر ایمان لائیگا۔ اوراُس پر عمل کریگا وہی اجر پائيگا۔
وَالَّذِينَ يُمَسَّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ
ترجمہ : اورجولوگ کتاب المقدس (بائبل ) کوپکڑے ہوئے ہیں اورنماز کوقائم رکھتے ہیں۔ ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہ کرینگے۔
غرضیکہ قرآنِ عربی نے بالکل صاف طورسے بتادیاہے۔ کہ جملہ مسلمانوں کو تمام وکمال کتاب المقدس(بائبل ) پریکساں ایمان باعمل رکھنا فرض ہے۔ اُن میں سے کسی خاص صحیفہ کوماننا اورباقی صحیفوں کونہ ماننا حد درجہ کی بے ایمانی، گمراہی اورکفر بتایا گیا ہے ایسے منکرین بائبل دائرہ دینِ اسلام سے قطعی خارج کردئیے گئے ہیں۔ اورصاف طورسے بتایا گیا کہ ایسے لوگ مومن نہیں ہیں۔ بلکہ کافر، فاسق اورظالم ہیں۔ اورسیدھے راستہ سے گمراہ ہیں۔ اوردُور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں۔ یادرہے کہ مندرجہ بالاآیات میں مسلمانوں ہی سے خطاب کیا گیا ہے (دیکھو تفسیر مظہری) اورصرف اُنہی سے تمام وکمال کتاب المقدس (بائبل ) پر ایمان باعمل لانے کا مطالبہ بہ تاکید وتہدید کیاگیاہے۔
لیکن افسوس صدا افسوس کہ باوجود ایسے تاکیدی وتہدیدی احکام کے ہوتے ہوئے بھی اہل اسلام بڑی بیباکی۔ دریدہ دہنی اورشوخ چشمی سے یہ کہتے ہیں۔ کہ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ کتاب المقدس یعنی توریت، زبور، انجیل وجملہ صحف الانبیاء آسمانی کتابیں تو ہیں لیکن ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ کتابیں محرف ہیں اس لئے قابل اعتبار واعتماد اورواجب الاتباع والعمل نہیں رہیں۔ اوریہی وجہ ہے کہ ہم اُن کونہیں پڑھتے اورنہ اُن پر عمل کرتے ہیں(دیکھو عقائد اسلامیہ وتہذیب العقائد شرح عقائد نسفی) لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اُن کے دل میں ایسا غلط اوربالکل فاسد اوربیہودہ خیال کس طرح پیدا ہوگیا؟کیا قرآنِ عربی یا احادیث نبوی اُن کے ایسے فاسد، باطل خیالات کی تائید کرتی ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ تمام قرآنِ عربی واحادیث نبوی میں ایک آیت بھی اس قسم کی نہیں پائی جاتی۔ کہ جس سے یہ بات ثابت ہوسکے کہ کتاب المقدس (بائبل )محرف ہے۔ اس لئے واجب الاتباع نہیں ہے۔ جبکہ مسئلہ تحریف قرآن عربی اوراحادیث نبوی سے ثابت نہیں ہوتا توپھر کتاب مقدس کومحرف اورناقابلِ اعتبار کہنے اور بتانے کا خاص سبب کیا ہے؟ میری دانست میں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ زمانہ سلف کے مسلمانوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ قرآنِ عربی کے احکام پر نہیں بلکہ صرف اپنے مولویوں کے اقوال پرعملدرآمد کیا کرتے تھے۔ اورآج کل بھی شومئی قسمت سے یہی حال ہے۔ جومسئلہ کسی باب میں کسی عالم شخص یا کسی مجتہد یاکسی مولوی صاحب کے قلم سے ایک بارنکل گیا۔ خواہ وہ صحیح ہویاغلط وہ سراسر قرآنِ عربی کےمنشاہی کے برخلاف کیوں نہ ہوبلاحیل وحجت واکراہ تسلیم کرلیا جاتاتھا۔ اورپھر جب وہی مسئلہ کسی دوسرے عالم یا مجتہد یامولوی کی نظر سے گذرتا تھا تووہ بھی بجائے اس کے کہ اُس غلط اورخلافِ قرآن مسئلہ کی بزور تردید کردیتا۔ بلاتحقیق اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسکی تائید کردیتا تھا۔ مزیدبرآں تیرہ بختی سے زیادہ عوام الناس میں تحقیقات کرنے کا مادہ ہی سلب ہوچکا تھا۔ علما ہی اراکین سلطنت تھے۔ اور وہ بادشاہوں پر پورا اقتدار رکھتے تھے۔ اورلطف یہ تھا۔ کہ مفتی اورقاضی بھی اُنہی کے ہمنوا تھے۔ اوراُنکا رعُب ودبدبہ وتسلط واثر اور زوربےحد تھا۔ اوراُن کی فتاویٰ ِ کفر سے قتل ہونے کا ہردم کھٹکا لگا رہتا تھا۔ کسی کوذرا بھی چوُن وچرا کرنے کی مجال اورہمت نہ تھی۔ عوام الناس بیچارے اُن کے سخت آہنی پنجہ میں گرفتار تھے۔ تحقیقات کون کرتا۔ چنانچہ اُس پر آشوب زمانہ میں جب کوئی بندہ خدا ذرا بھی تحقیق وتدقیق سے کام لینے کا ارادہ کرتا تھا۔ اوراصل حقیقت دریافت کرنا چاہتا تھا۔ توذرا سی بات کا بتنگڑا بناکر اُن کو قتل کردیا جاتا تھا۔تاریخِ اسلامی اس امر کی شاہد ناطق ہے۔ یہی خالص وجہ ہے کہ اگرایسی باتوں کی نقل درنقل کتب اسلامی میں دیکھی جاتی ہے کہ جن کو آج کل ایک معمولی عقل کا آدمی بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہی قسم کے مسائل میں سے ایک مسئلہ کتاب المقدس یعنی بائبل کی تحریف وتصحیف کا ہے۔ کہ جس کی تردید وتکذیب مفصل ومشرح طور سے خود قرآنِ عربی واحادیث نبوی میں پائی جاتی ہے۔ لیکن پھربھی تمام مسلمان قرآن واحادیث کے برخلاف اپنا یہی عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ کتب سماوی سابقہ (بائبل ) محرف ہے اس لئے وہ ناقابل اعتبار اورناواجب العمل ہے۔ حالانکہ ظاہر بات ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اُس کی تائید مذہبی کتاب نہ کرے۔ کسی مذہبی اور دینی مسئلہ کواپنی ذہانت طبع سے ایجاد کرلینا کسی مجتہدیا عالم یا مولوی کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ محض خدا ہی کا کام ہے۔ کہ جو حکم چاہے نافذ کرے ۔ لہذا ثابت ہے کہ کسی اسلامی سلطنت کے ایام میں یہ مسئلہ کسی مولوی صاحب نے خدا کے مسلمہ دین مسیحی کی مخالف کرنے کے خیال سے اپنی ہی روشنی طبع اورذہانت انیقہ سے گھڑلیا اوریوں عقائد اسلامیہ میں ایک بالکل جدید اورنادر اورخلافِ قرآن مسئلہ کا اضافہ کردیا۔ گویا مولوی صاحبان نےا پنی اس کارروائی سے خدا کا درجہ بھی چھین لیا۔ خوب !!! اورپھر اپنے تمام زیرواثر ماتحت مسلمانوں میں اپنے اس اختراعی اورطبع زاد مسئلہ کو بڑے زورشور سے مروج کربویا۔اورعوام الناس نے بھی بخوفِ جان صدقنا امنا کہکر اس کو قبول کرلیا اور آج تک تمام مسلمانوں میں یہی مہلک اورنہایت ہی خطرناک خیال پھیلا ہواہے کہ جس کی کوئی اصلیت ہی نہیں ہے۔
لہذا اسی غلط ۔ مہلک ۔ خطرناک ، بے اساس اورسا ختہ پر داختہ خیال کی تردید میں یہ رسالہ بڑی نیک نیتی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔ تاکہ جملہ برادرانِ اہل اسلام اس کو بڑے غوروخوص وفکر اورژرف نگاہی سے بلاتعصب وطرفداری احدے بلالوث نفسانیت وبلاشائبہ انانیت خدا سے ہدایت اوردعامانگ کر مطالعہ فرمائيں۔ اور پھر اس بارے میں کامل تحقیقات کرکے حق الامر کوبے خوف وخطر ہوکر بڑی جرات۔ جوانمردی اورجسارت کے ساتھ تسلیم کرکے کتاب المقدس (بائبل ) کے بطوعِ خاطر وبدلجمعی تمام مطیع ومنقاد ہوجائیں (کیونکہ دراصل قرآنِ عربی کی سرخروئی بھی اسی میں ہے) اورقرآنِ عربی کی واضح تعلیمات اورخاص احکام ہی کی (جوکتاب المقدس کی متابعت وپیروی کرنے کے بارے میں ہیں) ضدومخالفت میں اپنی ناواقفیت سے آئندہ ہرگز ہرگز قبیح ومذموم اورحقارت آمیز کلمات زبان پر نہ لائیں ۔ اورحرف چکشی وقالبی اور گلوسوزسے قطعی اجتناب کریں۔ تاکہ وہ خود دینِ اسلام کے حقیقی دشمن اورخدا کے پاک کلام (بائبل ) کے مخالف وحاسد اوراُس کی تذلیل کرنے والے قرار نہ پائیں۔ اورخدا کے غضب سے ڈریں۔ تاکہ عاقبت کا بھلا ہو۔
قرآنِ عربی نے خود ببانگ دہل کہہ دیا ہے۔ کہ میں بائبل کا مصدق ومحافظ ہوں۔ اگرآپ کی تُرہات کے مطابق بائبل کومحرف تسلیم کرلیا جائے ۔ توخودقرآن عربی ہی پر حرف آتاہے۔ اوروہی قصور وار ٹھہرتا ہے۔ کہ اُس نے باوجود دعائے محافظت کے کماحقہ اس کی نگہبانی نہیں کی اوراُس کو محرف ہونے دیا۔ پس اگر قرآن عربی بائبل کا محافظ ہے۔ اورقرآن عربی کا قول سچا ہے تویقیناً بائبل غیر محرف ٹھہرتی ہے۔ اوراگربائبل واقعی محرف ہے توقرآن عربی کا یہ قول درباب محافظت بائبل غلط ٹھہرتاہے۔
علاوہ ازیں قرآن عربی نے یہ بھی صاف صاف بتادیا ہے کہ:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ سورہ حجر آیت ۹
ترجمہ: ہم ہی نے الذکر اُتارا اورہم ہی اُس کے محافظ ہیں۔ الذکر سے مُراد صرف قرآن عربی ہی نہیں ہے بلکہ توریت وزبور وصحف الانبیاء واناجیل بھی ہیں۔ کیونکہ قرآن عربی میں بائبل کانام الذکر کئی بارآیا ہے۔ اوراہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کواہل الذکر کہا گیا ہے۔ سورہ نحل آیت ۴۲ ۔
اورپھر لکھا ہے لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ سورہ انعام آیت ۱۱۶
ترجمہ: خدا کے کلام کوکوئی بدل ہی نہیں سکتا ۔ یعنی خدا کے کلام کوکوئی بدلنے والا ہے ہی نہیں ۔ پھر لکھا ہے کہ:
لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ سورہ یونس آیت ۶۴۔
ترجمہ: خدا کا کلام بدل ہی نہیں سکتا۔
اب ظاہر ہے کہ بائبل بھی قرآن عربی کے مطابق خدا ہی کا کلام ہے۔ پس قرآن کی ان تینوں آیات کے مطابق کیا بائبل بدل سکتی ہے یا وہ محرف ہوسکتی ہے۔ یا کوئی اُس کی تحریف کرسکتا ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔
پس خوب سمجھ لیں کہ جوشخص اپنی قساوت قلبی حسد اورکینہ اورتعصب سے خدا کے پاک کلام(بائبل ) کی تکذیب کرتاہے اوراُس کومحرف بتاتا ہے اوراُس کے برخلاف تزریق بیانی سے کام لیتاہے اورلوگوں کو بہکاتا پھرتاہے۔ درحقیقت میں قرآن عربی ہی کی تکذیب وتردید کرتا اوراُس کو جھوٹا ٹھیراتاہے۔ اوروہ ہرگز مسلمان اورمومن نہیں ہے لیکن مجھے یقین واثق اوراُمید کامل ہے کہ خدا ترس ۔ دیندار اہل اسلام اس رسلہ کو بلاتعصب مذہبی بنظرِ تعق مطالعہ فرماکر اس سے بے حد روحانی فیوضات و تمتعات حاصل کرینگے۔ اورآئندہ ومتنہ ہوکر ہرگز ہرگز تحریفِ بائبل کا مسئلہ زبان پر نہ لائینگے۔ اوراس خیالِ خام وبے اساس سے سچی توبہ کریں گے۔
اب اُس ذوالمنن خدا کا خاص فضل اوربرکت اوررحمت آپ صاحبان کے ساتھ ہمیشہ تک رہے۔ امین ثم آمین۔
آپ صاحبان کا خيراندیش خاکسار ڈاکٹر مولوی حشمت اللہ مصنف رسالہ ہذا۔
بَراہینِ نَیرہ دَرباب صحتِ واَصلیتِ بائبل
اِبطَالِ دَعویٰ تَحرِیفِ بائبل
تمام مجموعہ کلام اللہ کا نام بائبل ہے۔ اوربائبل کے معنی ہیں الکتاب ۔ دراصل یہ لفظ یونانی ہے۔ جواول ہی اول یونانی سے لاطینی میں اورپھر لاطینی سے انگریزی میں استعمال ہوا۔اس کی لاطینی صورت ببلیا تھی۔ جس کا تلفظ وہی رہا جویونانی کا تھا۔ مگریہ لفظ آخرکار خودلاطینی حروف کے پیرایہ میں نظر آنے لگا۔ یونانی صورت τοβιβυον تھی۔ جوجمع کا صیغہ ہے۔ مگر بطورواحد بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں یہ لفظ واحد معنوں کے ساتھ داخل ہوا۔ یونانی لفظ τοβιβυον یا ηβιβλο بمعنی کتاب کی وجہ تسمیہ یہ ہے ۔ کہ جس چیز پر اُن دنوں کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ وہ Byblus ببلس یا Papyrus پاپائریس کہلاتی تھی۔ یہ ایک قسم کا مصری سرکنڈا تھا۔ کہ جس سے ابتدا میں کاغذ بنایا گیا تھا۔ اس مناسبت سے قدیم زمانہ میں یہودی اپنی متبرک اورمقدس کتابوں کو ہے ببلاس یا ٹاببلان کہنے لگ گئے۔ شروع میں کوئی نہ کوئی کلمہِ صفت برائے تخصیص اس لفظ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلاً اُن کتابوں کومقدس کتابیں کہا کرتے تھے۔ پھر اُن کو وزڈم آف سیرخ کے دیباچہ میں توراہ اورانبیا ء اوردیگرمو روثی کتابیں کہا گیا ہے۔ اس بیان سے ظاہرہے کہ صیغہ جمع کے استعمال نے اس خیال کو مدت تک تروتازہ رکھا۔ کہ اس مجموعہ میں محض ایک ہی کتاب نہیں پائی جاتی ۔ بلکہ ایک سے زیادہ کتابیں ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہ تمام صفتی کلمات جواس مجموعہ کتاب کے ساتھ استعمال کئے جاتے تھے۔ ساقط ہوگئے۔ اورلفظ بائبل بصورت واحد استعمال ہونے لگا۔ تاہم قدیم آبا اورمتوسطین نے اس خیال کوکبھی نظر انداز نہیں کیا۔ کہ اس کتاب میں بہت سی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ وہ اکثر اس کو "الہٰی کتب خانہ" کہا کرتے تھے۔ پھرجب وہ وقت آیا کہ کل نبیوں اوررسولوں کی کل کتابیں ایک ہی جلد میں جمع کی جائیں۔ توضرور تھا۔ کہ اس پاک مجموعہ کوکوئی خاص نام دیا جائے۔ اس لئے پانچویں صدی مسیحی میں دیندار اشخاص نے کلام اللہ کے مجموعہ کانام بائبل رکھ دیا۔ اوریہی نام تب سے تمام دنیا میں مشہور ہے۔ اورعربی میں اس کا ٹھیٹھ ترجمہ الکتاب کیا گیاہے۔
بائبل شریف دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ کوعہد عتیق اوردوسرے حصہ کو عہد جدید کہتے ہیں۔ پیدائش کی کتاب سے ملاکی نبی تک عہدعتیق ہے۔ اُس میں ۳۹ کتابیں ہیں۔ عبرانی تقسیم ایک خاص طریق پر کی گئی ہے۔ پہلی پانچ کتابیں توراہ یعنی شریعت کہلاتی ہیں۔ بعد ازاں نبی ایم یعنی انبیا کی کتابیں اورپھر تیسرا حصہ کتوبیم یعنی نوشتے یا کتابیں کہلاتاہے۔
(۱۔) توراہ میں پیدائش ۔ خروج ۔ احبار ۔ گنتی اوراستشنا کی کتابیں ہیں۔
(۲۔) نبی ایم میں ( ماقبل ) یشوع۔ قضات۔ سیموئیل۔ سلاطین ۔ (مابعد)یسعیاہ ۔ یرمیاہ ۔ حزقی ایل ۔ بارہ انبیائے اصغر کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔
(۳۔) کتوبیم میں۔ زبور۔ امثال ۔ ایوب ۔ دانی ایل عزرا۔ نحمیاہ ۔ تاریخ ۔ اورغزل الغزلات ۔ روت۔ نوحہ۔ واعظ ۔ آستر ۔ یہ پانچ طومار یا نگاتھ کہلاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ پانچ طوماروں میں علیحدٰ علیحدہٰ لکھی گئی تھیں۔ غزل الغزلات عیدِ فسح کے وقت۔ روت کی کتاب ۔ عیدِ پنتی کوست کے وقت ۔ اورواعظ عیدِ خیام کے وقت۔ آستر عید پوریم کے وقت ۔ نوحہ کی کتاب یروشلیم کی بربادی کی سالگرہ پر پڑھی جاتی تھی۔
اس کے بعد یوسیفس نے اِن تمام شمار ۲۲ پر محدود کردیا۔ تاکہ عبرانی کے ۲۲ حروفِ تہجی کے مطابق ہو۔ اس لئے اُس نے روت کوقاضی کی کتاب سے اورنوحہ کویرمیاہ کی کتاب سے ملحق کردیا۔
عہدِجدید۔انجیل متی سے لے کر مکاشفہ تک عہدجدید ہے۔ اس میں ۲۷ کتابیں ہیں۔
(۱۔) اناجیل اربعہ (۲۔) رسولوں کے اعمال (۳۔) مقدس پولوس رسول کے خطوط (۴۔) خط بنام عبرانیاں (۵۔) خطوطِ عام (۶۔) مکاشفہ کی کتاب۔
بائبل کے یہ دوبڑے حصے ایک دوسرے سے ایک عجیب اورقریبی تعلق رکھتےہیں۔ گویا نیا عہدنامہ پرانے عہدنامہ میں پنہاں ہے اور پُرانا عہدنامہ نئے عہدنامہ میں کھلا ہواہے ۔
اس مقدس کتاب کے سب صحیفے جیسے کہ اُن الہامی شخصوں نے لکھ دئیے تھے۔آج تک بلا کسی قسم کی کمی یا بیشی کے یہودیوں میں اورمسیحیوں میں نسلاً بعد نسل محفوظ ومامون چلے آتے ہیں۔ اُن میں کبھی تغیر وتبدل نہیں کیا گیا۔ ہرزمانہ کے اہل ایمان لوگوں نے اُس کواپنے ایمان کی کتاب اورخدا کی امانت سمجھ کر اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت سے رکھاہے۔اورپشت درپشت اُس کو ہم تک صحیح وسلامت پہنچایا ہے۔ اوراسی طرح دنیا کے آخر ہونے تک یہ خدا کی امانت بسلامت پہنچیگی۔ کیونکہ خدا اپنے پاک کلام کا آپ ہی محافظ اورحامی ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے۔ توریت اورنیبوں کی کتاب کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ ہرگز نہ ٹلیگا۔(متی ۵: ۱۷، ۱۸)۔ اورپھر لکھاہے کہ جس طرح آسمان سے بارش ہوتی اوربرف پڑتی ہے۔ اورپھر وہ وہاں نہیں جاتے بلکہ زمین کوبھگوتے ہیں۔ اوراس کی شادابی اورروئیدگی کے باعث ہوتے تابونے والے کو بیج اور کھانے والے کی روٹی دے۔ اسی طرح میرا کلام جومیرے منہ سے نکلتاہے ہوگا۔وہ مجھ پاس بے انجام نہ پھریگا۔ بلکہ جوکچھ میری خواہش ہوگی۔ وہ اُسے پورا کریگا۔ اوراُس کام میں جس کے لئے میں نے اُسے بھیجا موثر ہوگا۔ یسعیاہ ۵۵: ۱۰، ۱۱ ۔ اور اُس میں کسی قسم کا تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ وَدھبَرا لوھینویا قوم لعولام۔ یعنی ہمارے خداوند کا کلام ابد تک قائم رہیگا یسعیاہ ۴۰: ۸۔
لیکن پھربھی ہم اس تھوڑے سے مقررہ وقت میں اس وسیع مضمون پر غورکرینگے۔ کہ بائبل کی اصلیت واعتبار اوراس کی عدم تحریف کے دلالئل کون سے ہیں؟
سب سے پہلے ہمیں خوب یادرکھنا چاہیے ۔ کہ زمانہ حاضرہ کی ہرایک موجود شے گواپنی ہستی اوروجود کی خودہی شاہد اور گواہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے وہ اپنی اصلیت اوراعتبار کے خارجی گواہ بھی رکھتی ہے۔ مثلاً ایک شخص زیدنام ہمارے زمانے میں اپنی ہستی اوراصلیت اور اعتبار کا خود مُدعی اورشاہد ہے۔ مگروہ اپنے ساتھ خارجی گواہ بھی رکھتاہے۔ اسی طرح بائبل اگرچہ اپنی اصلیت واعتبار کی خود مُدعی اورشاہد ہے۔ توبھی وہ اپنے ساتھ اپنی اصلیت اوراعتبارکے شاہدوں کی ایک بڑی فوج رکھتی ہے۔
زمانہ قدیم سے بائبل کی اصلیت واعتبار اورغیر محرف ہونے کے شاہدوں کی فہرست جوہمارے زمانے تک پہنچی ہے وہ حسبِ ذیل ہے۔
(۱۔) یہودی قوم
(۱۔) یہودی قوم کی تاریخی کتابیں مثلاً یوسیفس مشہور یہودی موُرخ کی تاریخِ یوسیفی (قدامتِ یہود اوراُن کی فضلیت)۔
(۲۔) یہودی قوم کی احادیث اورروائیتوں کی کتابیں جیسے طالمود ۔ جومثناہ وجمرا ہ کا مجموعہ ہے۔
(۳۔) پُرانے عہدنامہ کی اپاکرفل کتابیں جو۴۱ کے قریب ہیں۔
(۴۔) یہودی قوم کے بزرگوں کی دیگر تصنیفات جواُنیسویں صدی میں دریافت ہوئی ہیں۔
(۲۔) مصرکی تاریخ اورتحقیقاتِ جدید کے وہ نتائج جواُنیسویں صدی سے آج تک پیدا ہوچکے ہیں۔ جوبائبل کے بیان کی سچائی اوراُس کے بے مثل صداقت ظاہر کررہے ہیں۔
(۳۔) بابل، نینوہ ، فینکی، عرب اور کعنانی سات اقوام کے تاریخی حالات جواُنیسویں صدی سے آج تک تحریر کئے جاچکے ہیں۔
(۴۔) مسیحی قوم کی تاریخ
(۵۔) خود بائبل مقدس کی تاریخ
(۱۔) بائبل کا عبرانی اوریونانی زبانوں میں تواتر۔
(۲۔) توریت کے متن کی سامری زبان کی نقل
(۳۔) بائبل کا پہلا یونانی ترجمہ جسے سپٹواجنٹ کہتے ہیں۔
(۴۔) بائبل کے قدیم ترین ترجمے۔
(۵۔) بائبل کے دیگر مختلف زبانوں کے ترجمے جن کا شمار آج تک ۸۷۵ ہے۔
(۶۔) نئے عہدنامہ کی اپاکرفل کتابیں ۔ جوبجائے خودایک بڑا کتب خانہ ہیں۔
(۷۔) مسیحی بزرگوں کی قدیم تصنیفات جوایک بڑے کتب خانے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(۸۔) بائبل اورمسیحیت کے بُت پرست فلسفہ دان مخالفین کی تصنیفات ۔ جنہوں نے اپنی بُت پرستی اورفلسفہ کی حمایت میں بائبل اورمسیحیت کے عقائد کی تردید میں کتابیں لکھیں۔ اورجنہوں نے اپنی تصنیفات میں کتُبِ مقدسہ کی بیشمار آیات اقتباس کرکے اُن کواپنے فلسفہ کے برخلاف ثابت کرنا چاہاہے۔
(۹۔) مسیحی مصدقین کی تصنفیات جن میں مسیحی علماء نے اُن کے فلسفہ کوردکرکے مسیحی دین کی حقانیت کوثابت کردکھایا ہے۔ اوربیشمار آیاتِ کلام اللہ کا اُن میں اقتباس کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا فہرست اُن شاہدوں کی ہے جوزمانہ قدیم سے چوتھی صدی عیسوی تک اورپھر ۶۲۶ء تک گزرے ہیں۔ بائبل اورانجیل کے یہ تمام شاہد اورگواہ بصورت تحریر اب تک زندہ موجود ہیں۔ جن سے مہذب اورمحققِ اقوام کے کتُب خانے درحقیقت عجائب خانے بن رہے ہیں۔
اب اِن شواہد کے مقابل ہم سوال کرسکتے ہیں۔ کہ کیا یہ بائبل جیسے قدیم زمانوں میں تھی۔ وہی اب بلحاظ تاریخ کے ہمارے پاس موجود ہے؟ یا اُس میں کسی قسم کی کمی بیشی یاتحریف اورردوبدل ہواہے۔
ظاہر ہے کہ اس امر کے لئے تاریخی شہادت ہی سب سے اعلیٰ ثبوت ہوسکتی ہے ۔ اور تاریخی شہادت میں تواتر کا درجہ سب سے اعلیٰ تسلیم کیا جاتاہے ۔ اوراسی کو ہم پہلے پیش کرتے ہیں۔
(۱۔) واضح ہو کہ توریت کوحضرت موسیٰ نے مسیح سے ایک ہزار پانچ سواکہتر برس پیشتر لکھا تھا۔ استشنا ۳۱: ۹۔ ۲۴۔ خروج ۱۷: ۱۴، ۲۴: ۴۔ ۷، ۳۴: ۲۷، ۲۸ وگنتی ۳۳: ۲ واستشنا۲۸: ۵۸۔ ۶۱۔ اوراُسی وقت اُس کی نقل ہونے کے بعد وہ اصل نسخہ توریت قدس الاقدس میں جہاں خدا کی حضوری تھی اورسال بھر میں صرف ایک بار امام اعظم وہاں جاسکتا تھا۔ رکھا گیا تھا۔ استشنا ۳۱: ۲۴تا ۲۶۔ واحبار ۱۶: ۲۔ پس اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ توریت کا نسخہ کہ جس کوحضرت موسیٰ نے خود لکھا تھا قادرمطلق خدا کے سا یہ تلے بحفاظت تمام رکھا گیا تھا۔ اورکسی انسانی ہاتھ کی وہاں رسائی نہ تھی ۔ لیکن اُس کی نقلیں لوگوں کی ہدایت ۔ رہنمائی اورتعلیم وتدریس کے لئے کاہنوں ، لاویوں اورلوگوں کے پاس موجود رہتی تھیں۔ اورجس کے بارے میں کاہنوں کوحکم تھا۔ کہ کل بنی اسرائیل کوسکھاتے رہیں۔ احبار ۱۰: ۱۱۔ استشنا ۳۱: ۹تا ۱۳۔ یشوع ۸: ۳۴، ۳۵۔ نحمیاہ ۸: ۱تا ۸۔ اورحضرت موسیٰ کی وفات کے بعد وہ اصل توریت موسیٰ کے جانشین یشوع کی حفاظت میں رہی۔ یشوع ۱: ۷، ۸۔ اورپھر توریت کا آخری حصہ یشوع بن نون جانشینِ موسیٰ نے لکھا ۔ یشوع ۲۴: ۲۶۔ پھرقاضیوں کے زمانہ سے لے کر حضرت سیموئیل نبی تک بنی اسرائیل کاکل انتظام موسیٰ کی شریعت کے زیرہدایت رہا۔ جہاں کسی قسم کی بدگمانی کا گذرہی نہیں سکتا ہے۔
پھرجب ساؤل بادشاہ کے بعد داؤد بادشاہ ہوا۔ تووہ بادشاہ اورنبی بھی تھا اورصاحبِ الہام تھا۔ زبور کی کتاب اُسی سے منسوب ہے۔ اورجب حضرت داؤد اس دنیا سے رحلت کرنے لگے۔ تواُنہوں نے حضرت سلیمان کوموسیٰ کی توریت پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ ۱سلاطین ۲: ۳۔ اورحضرت سلیمان خود بادشاہ اورنبی تھے۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہودی سلطنت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ کہ جن میں سے ایک سلطنت یہوداہ اوردوسری اسرائيلی سلطنت کہلاتی تھی۔ لیکن باوجود اس تقسیم سلطنت کے توریت اِن دومخالف فریق کے ہاتھ میں رہی۔ اوردونو سلطنتوں میں انبیاء برابر مبعوث ہوتے رہے۔ پس اگر ان میں سے ایک فریق توریت اورصحف انبیاء میں ذرا بھی تحریف کرتا۔ تودوسرا مخالف فریق ایسی تحریف کرنے والوں کوسخت ملامت کرتا۔ بالفرض اگریہ دونو اس ناجائز کوظاہر نہ کرتے اورکسی حکمت سے دبادیتے ۔ توکیا خدا کے انبیاء بھی جواُس وقت دونوں سلطنتوں میں برابر موجود چلے آتے تھ اوراُن کے گناہوں پر ہمیشہ سختی کے ساتھ ملامت کرتے رہتے تھے۔ اس تحریف کے سخت ترین گناہ سے اعراضِ اورچشم پوشی کرکے اُنہیں ملامت کرنے سے باز رہتے ؟ ہرگز نہیں۔
علاوہ اس کے جب بنی اسرائیل اپنے گناہوں کے باعث شاہ اِسور کی قید میں آگئے۔ اور دیگر اقوام کے لوگ اُن کی جگہ بسادئیے گئے۔ تواُن کی درخواست پر شاہ اِسور کی طرف سے ایک کاہن(امام) بھی تعلیم کے لئے اُنہیں دیا گیا تھا۔ اوراُس کاہن نے اُن کے ساتھ قیام کرکے اُن کوتوریت کے مطابق آدابِ دینی سیکھائے۔ اوراس طرح دیگر اقوام کے لوگ بھی اُن پاک نوشتوں کے محافظ ہوگئے۔
گمانِ غالب ہے کہ یہ نوشتے یا سامریوں نے اُس یہودی کاہن سے جوبادشاہ کی طرف سے اُن کے پاس بھیجا گیا تھا حاصل کئے ۔ ۲سلاطین ۱۷: ۲۶تا ۲۸۔ یااِس کے کچھ عرصہ بعد اُنہوں نے الیا سب سردار کاہن کے ہاتھ سے حاصل کئے۔ کہ جس کونحمیاہ نے ملکِ سامریہ کے ناظم کی بیٹی کے ساتھ بیاہ کرنے کے باعث کہانت کے عہدہ سے خارج کرکے اپنے پاس سے نکال دیا تھا۔ نحمیاہ ۱۳: ۳۴۔ ۳۸۔ اورجس کوناظم مذکور نے گرازیم کی ہیکل کا پہلا سردار کاہن مقرر کیا تھا۔ غرضیکہ اس طرح سامری بھی یہودیوں کی طرح حضرت موسیٰ کی توریت کے محافظ ہوگئے۔ اوریوں توریت کے یہودی اورسامری دوایسے گواہ بن گئے ۔ کہ جوآپس میں کسی قسم کا سروکار نہ رکھتے تھے۔ بلکہ یہودی اُن سے ایسی نفرت کرتے تھے کہ اُن کے ہاتھ کا پانی تک نہ پیتے تھے ۔ اورنہ کسی قسم کا لین دین کرتے تھے۔ پس ایسی حالت میں کون کہہ سکتا ہے کہ پاک نوشتوں میں تحریف کا ہونا ممکن ہے۔ دونوں نسخوں کا اب مقابلہ کرکے اپنا اطمینان کرسکتے ہیں۔
حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی توریت قبل از مسیح ۶۳۴ برس یوسیاہ بادشاہ کے وقت میں موجود تھی۔ ۲سلاطین ۳۴: ۴، ۳۰۔ ۲تاریخ ۳۴: ۸، ۳۳۔
پھرجب قوم یہود ستر سال کی اسیری کے بعد زوربابل کی ماتحتی میں ۵۳۷ قبل ازمسیح اپنے ملک میں ایران کے بادشاہ خورس کے حکم سے واپس آئی۔ توبادشاہ نے اُس کو وہ تمام مال واسباب واپس دیدیا جوکہ نبوکدنظر شاہِ بابل یروشلیم اورہیکل سے لوٹ کر لے آیا تھا۔ اورپھر اُسی موسیٰ کی توریت کو عزرا فقہیہ نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ نحمیاہ ۸: ۱، ۸۔ ۱۳: ۱ پس صاف ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد ۱۱۱۵ برس تک کتابِ مقدس کی اصلیت کی نسبت ذرا بھی شک نہیں ہوا۔ اورنہ کسی نبی نے ایسا اشارہ کیا ہے۔ عزرا فقیہ کے وقت کی موسیٰ کی توریت کی صحت وصداقت کے لئے دیکھو معالم التنزیل، خازن، حسینی ، موضح القرآن۔ جامع البیان۔ عمدہ البیان ۔ تفسیر ابوسعود ، جمل ، سرا ج المنیر ، جن میں لکھا ہے۔ کہ عزرا کے پاس موسیٰ کی توریت کا اصل نسخہ بھی تھا۔ اوراس کی بہت سی نقلیں بھی تھیں۔ عزیز یعنی عزرا نے توریت کی جملہ نقلوں کا اصل توریت سے مقابلہ کیا اوراُن کو لفظ بہ لفظ صحیح پایا۔
اگربنی اسرائیل ارادتاً اورعمداً پاک نوشتوں میں کچھ کمی بیشی کرتے۔ توکیا وہ کل انبیاء جو سیموئیل سے لے کر ملاکی نبی تک جونہایت طول طویل زمانہ ہے بنی اسرائیل کے درمیان وقتاً فوقتاً مبعوث ہوتے رہے۔ اورجن کے الہامی نوشتے توریت کے ساتھ ایک جلد میں جمع کرکے رکھے گئے۔اورجنہوں نے ادنیٰ شخص سے لے کر بڑے ذی اقتدار اشخاص تک کواُن کی مختلف بدیوں اور گناہوں کے لئے ملامت اورسرزنش کی۔ توکیا وہ اُن کو پاک نوشتوں میں سے گھٹانے یا بڑھانے کی سخت ناواجب اورقابلِ گرفت حرکت اور فعلِ ناشائستہ ونابائستہ کے لئے کچھ بھی ملامت نہ کرتے؟ ضرور کرتے ۔ مگر اس امر کا تمام کتُبِ مقدسہ میں اشارہ تک نہیں پایا جاتا ۔ ملاکی نبی مسیح سے ۴۰۰ برس پیشتر اس دنیا میں موجود تھا۔ لیکن اُس نے اس بارے میں کہ یہودی پاک نوشتوں میں تحریف وتصحیف کرتے ہیں کچھ بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ اُن کو بتاکید فرمایا ہے کہ تم میرے بندے موسیٰ کی شریعت کویادرکھو جسے میں نے سارے بنی اسرائیل کے لئے حوریب میں اپنے قوانین اوراحکام سمیت فرمادیا۔ ملاکی ۴: ۴۔
پھرملاکی نبی اورمسیح کے درمیانی زمانہ کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے ۔ کہ جب یہوداہ مکابی نے ہیکل یعنی بیت المقدس کوجسے انٹی اوکس اپی فانیس نے شکستہ اورناپاک کردیا تھا ازسرِ نو مرمت کرکے پاک کیا۔ تواُس نے توریت کوہیکل میں بڑی حفاظت سے رکھا۔ اوریہی توریت سیدنا مسیح کے وقت اور۷۰ء تک ہیکل میں رہی۔ پھرجب طیطس رومی نے یروشلیم کوفتح کرکے مسیح کی اٹل پیشنگوئی کے مطابق ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ تووہ اُسے ہیکل سے نکال کر خود اپنے ہمراہ بڑی عزت وتعظیم کے ساتھ روم کو لے گیا تھا۔ اورپھر اُس نے یوسفیس مشہور مورخ کے سپرد کردی تھی۔ دیکھو تاریخ یوسفی اوراسی توریت کی اوردیگر تمام صحف الانبیاء کی ہزارہا ہزار نقلیں بنی اسرائیل اورمسیحیوں کے پاس موجود تھیں۔ جویہودیوں کے عبادت خانوں میں جہاں جہاں وہ پائے جاتے تھے بڑی تعظیم اورادب کے ساتھ ہرصبح وشام پڑھی جاتی تھیں۔ اوراُنہی نوشتوں کے مطابق لوگوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اعمال ۱۳: ۱۴، ۱۵، ۲۷۔ لوقا ۴: ۱۷تا ۲۰ اوریہی اُن پاک نوشتوں کی صحت واصلیت کا زبردست ثبوت ہے۔
پھر ہی ایک بنی اسرائیل کے نزدیک عہدعتیق کے نوشتوں کی بڑی قدرومنزلت تھی کیوں؟ اس لئے کہ:
(۱۔) وہ پاک نوشتے اُنکی میراث کی تقسیم کا قانون تھے۔
(۲۔) اورہی پاک نوشتے بنی اسرائيل اورغیر اقوام میں تمیز وتفریق کا خاص باعث تھے۔
(۳۔) اوروہی پاک نوشتے وقتِ مقررہ پر کل بنی اسرائیل کے سامنے پڑھے جاتے تھے۔ استشنا ۳۱: ۹تا ۱۳۔ یشوع ۸: ۳۴، ۳۵۔ نحمیاہ ۱: ۱، ۸۔
(۴۔) بنی اسرائیل کے بادشاہوں کواپنے ہاتھ سے اُس نسخہ کی جولاویوں اورکاہنوں کی حفاظت میں رہتا تھا اپنے لئے ایک نقل کرنے کا حکم تھا۔ تاکہ وہ اُس کوہمیشہ پڑھتے ہیں اوراُس پر عمل کریں (استشنا ۱۷: ۱۸، ۱۹)۔
(۵۔) اوربنی اسرائیل کوسخت حکم تھا۔ کہ وہ اپنے لڑکوں کوپاک نوشتوں کی تعلیم دیں ۔ جس کے سبب سے پاک نوشتوں کا ہرایک گھر میں موجود رہنا اشد ضروری امر تھا۔ استشنا ۶: ۷، ۸، ۹۔
(۶۔) پھربنی اسرائیل کے کاہنوں کوپاک نوشتوں کے سکھانے اوراُن کے مطابق تعلیم دینے کا سخت تاکیدی حکم تھا۔ اس لئے اُن کے پاس بھی پاک نوشتوں کا ہونا ازبس ضروری تھا۔ احبار ۱۰: ۱۱۔
(۷۔) پھرکل قوم کوشریعت حفظِ رکھنے کی سخت تاکید تھی ۔ جس سے ثابت ہے کہ نہ صرف بادشاہ اورکاہن لاوی بلکہ کُل قوم پاک نوشتوں کی اَمین تھی۔ احبار ۲۰: ۸، واستشنا۴: ۴۰۔ زبور ۹۹: ۷ ۔ یشوع ۱: ۸ ۔ پس جبکہ یہ حال تھا۔ توایسی حالت میں تحریف کا امکان ہی نہیں ہوسکتا۔
(۸۔)جوافعالِ بد بنی اسرائیل کے بزرگوں اوراُنہوں نے خود کئے۔ اُن کا صاف بیان بلاطرفداری وپردہ پوشی کے پاک نوشتوں میں موجود ہے۔ اگروہ تحریف یا تغیر وتبدل کرنے یا گھٹائے بڑھانے کی کچھ بھی معذرت اوراختیار رکھتے۔ توعقل سلیم تقاضا کرتی ہے کہ سب سے پہلے اورلگے ہاتھوں وہ اپنی اوراپنے بزرگوں کی بداعمالیوں کونکالنے کی کوشش کرتے۔ لیکن آفتاب نیمروز کی طرح ظاہر ہے۔ کہ وہ اتنا بھی نہ کرسکے۔ پھراس امر سے بڑھ کر اورکو اعلیٰ مقصد تھا۔ کہ جس کے لئے وہ اپنی مقدس کتابوں کی خواہ مخواہ تحریف کرتے؟
(۹۔) پھرسب سے بڑی یہ دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کوپاک نوشتوں میں سے کچھ گھٹانے یا کچھ بڑھانے کی سخت ممانعت تھی دیکھو استشنا ۴: ۲۔ تم اس کلام میں جومیں تمہیں فرماتاہوں۔ کچھ زیادہ نہ کیجئو اورنہ اُس میں کم کیجئیو۔ تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے حکموں کوجومیں نے تم تک پہنچائے حفظ کرو۔ پھر استشنا ۱۲: ۳۲ میں لکھاہے۔ کہ توہرایک بات پر جس کا میں تمہیں حکم دیتاہوں دھیان رکھ کے عمل کیجئو ۔ تواُس سے زیادہ نہ کرنا نہ اُس سے کم کرنا۔پھرامثال ۳۰: ۶ میں تاکیدی حکم ہے کہ تواُس کے کلام میں کچھ نہ ملا۔ نہ ہو کہ وہ تجھ کو سرزنش کرے۔ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ یہودیوں نے مسیحیوں کی ضد کے سبب سے پاک نوشتوں میں تحریف کردی ہے۔ تو اس کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ امر بھی قطعی ناممکن ہے۔ کیونکہ
(۱۔) سیدنا مسیح نے خود اُن پاک نوشتوں کوصحیح تسلیم کیا۔ اُن کی صداقت پر اپنی مہر لگادی۔ اوراپنے عمل اورکلام سے اُن کتابوں کااصلی اورحقیقی ہونا پائہ ثبوت کوپہنچادیا۔ دیکھو لوقا ۲۴: ۴۴، یوحنا ۵: ۳۶، یوحنا ۷: ۱۹، اوریوحنا ۱۰: ۳۴، ۳۵۔ متی ۲۳: ۲۹، ۵: ۱۷، ۱۸۔ اُس نے تحریف کا کوئی الزام یہودیوں پر نہیں لگایا۔ اسی طرح رسولوں نے صحفِ زبانی کی تصدیق کی دیکھو اعمال ۲۶: ۲۲، ۲۳۔ رومیوں ۱: ۳، ۳: ۲ ۔ ۲تمطاؤس ۳: ۱۵، ۱۶۔ ۱پطرس ۱: ۱۰تا ۱۲۔ ۲پطرس ۱: ۱۹، ۲۰، ۲۱۔ اوروہ خود یہودی تھے اورمسیحی ہونے کے باعث یہودی اُن سے دشمنی کرتے تھے۔ اگرکہیں بھی ذرا سی بھی تحریف ہوئی ہوتی وہ فوراً ظاہر کردیتے۔ اورجودلائل مسیح کے رسولوں نے سیدنا مسیح کی نسبت یہودیوں کے سامنے پیش کئے وہ سب عہدِ عتیق میں سے تھے ۔ جن کو وہ کسی صورت سے رد نہ کرسکے پس اس سے بھی بخوبی ثابت ہوتاہے کہ عہد عتیق کے نوشتوں میں نہ تومسیح سے پیشتر اورنہ بعد میں تحریف ہوئی ۔کیونکر ایسا کرنا قطعی ناممکن امر تھا۔ اورہے۔
پھریہودیوں کوسیدنا مسیح سے سخت دشمنی تھی۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے اُس کوپنطوس پلاطوس رُومی گورنر کے حوالے کرکے صلیب پر مرواڈالا۔ اوریہ سب کچھ جواُنہوں نے سیدنا مسیح کے ساتھ کیا۔ نبیوں کی پیشینگوئیوں اوراُنہی کی کتابوں میں آج تک مرقوم ہے کی جن کی رُو سے اُن پر سخت بے ایمانی کا الزام عائد ہوتاہے ۔ لیکن وہ اس الزام سے بچنے کے لئے اُن پیشینگوئیوں میں کچھ بھی تغیر وتبدل نہ کرسکے۔ اگروہ تحریف کرنے پر قادر ہوتے تووہ ضرور سیدنا مسیح کے حق میں جو پیشینگوئیاں اُن کی کتابوں میں ہیں۔ اُن میں ردوبدل کرتے۔ مگراُنہوں نے نہ کبھی ایساکیا اورنہ کرسکتے ہیں۔
پھراس کے سوا عہدِ جدید میں جا بجا قریباً چھ سومقامات کے ہیں۔ کہ جہاں عہدِ عتیق کے صحیفوں کی آئیتوں کی نقل کی گئی ہے ۔ اوربطور اقتباس یا صرف اُن کا مطلب بیان کیا ہے یا اُن کا حوالہ دیا ہے۔ اوروہ سب باہم دگرملتی ہیں۔
الغرض مندرجہ بالا براہین ودلائل سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ توریت اوردیگر صحفِ انبیاء میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔ ہرزمانہ میں اِمکانِ تحریف مشیت ایزادی سے ناپیدرہاہے۔ کیوں نہ ہو۔ خدا کاکلام کامل ہے۔ اوراُس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اس کا ایک نقطہ یا شوشہ ٹل نہیں سکتا۔ قرآن میں بھی لکھا ہے کہ:
لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ سورہ مائدہ آیت ۱۱۶، اور لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ سورہ یونس آیت ۶۴ ۔
اب میں دلائلِ تاریخی سے فراخت پاکر دوسری دلیل پیش کرتاہوں۔ اوروہ کتبِ مقدسہ کے مختلف ترجموں پر مبنی ہے۔ کہ جس سے ازخود ثابت ہوجائیگا کہ کتُب مقدسہ میں کبھی تحریف وتصحیف نہیں ہوئی۔
(۲۔) مختلف تراجم کتُبِ مقدسہ۔ بائبل شریف کے قدیم سے قدیم مختلف ترجموں کی باہمی موافقت اورمطابقت سے ثابت ہوتاہے۔ کہ عہدِ عتیق غیر محرف ہے۔
جب ستر برس کی اسیری کے بعد یہودی لوگ بابل سے پھر اپنے ملک کنعان میں آگئے۔ تواُن کی زبان خالص عبرانی نہ رہی تھی۔ بلکہ کلدِی زبان کی بہت آمیزش ہوگئی تھی۔ اس لئے خود یہودیوں ہی کو کلام اللہ کے ترجمے کی کلدی زبان میں حاجت ہوئی ۔ اس سبب سے تین ترجمے توریت کے کئے گئے۔ (۱۔) جن کو اُنکلیوس کا ترجمہ اور (۲۔) یوناتن کا ترجمہ اور(۳۔) یروشلیم کا ترجمہ کہتے ہیں۔ (۴۔)اس کے بعد ہی یوناتن بن عزی ایل نے باقی نبیوں کی کتابوں کا ایک ترجمہ کیا۔ اور(۵۔)پھرابی یوسف نے کتابِ زبور کا ترجمہ کیا۔ اور(۶۔) ایک اورشخص نے کتابِ رُوت ، آستر ، واعظ ، غزل الغزلات اورنوحہ یرمیاہ کا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد تواریخ کی دونوں کتابوں کا ترجمہ کیا گیا ، غرضیکہ اب دانی ایل عزرا اورنحمیاہ کی کتابوں کے سوا کلدی زبان میں عہدِ عتیق کے دس ترجمے ہوگئے چونکہ دانی ایل عزرا اورنحمیاہ کسدی زمانے میں موجود تھے۔ اِس نے اُن کے صحیفوں کے ترجموں کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ دس ترجمے اب تک موجود ہیں۔ اور یہودی اُن کی بہت ہی عزت وتعظیم کرتے ہیں۔ کیونکہ جب یہ ترجمے ہورہے تھے۔ تواُس وقت بعض نبی حاضر تھے۔
پھرجب سکندراعظم یونانی نے ایشیا ئے کوچک کوفتح کیا۔ تواُس وقت سے یونانی زبان کا رواج ہوگیا۔ اوریونانی ایک عالمگیر زبان بن گئی ۔ پس لازمی امر تھا کہ بائبل کا ترجمہ اس عالمگیر زبان میں بھی ہو۔ لہذا مسیح سے ۲۵۰ برس پیشتر مصر میں بحکم شاہِ مصر طالمی ۷۰ چیدہ یہودی عالموں نے عہد عتیق کا عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ سیپٹواجنٹ کہلاتاہے۔ اوراس ترجمہ کی بڑی بھاری عزت کی جاتی ہے۔ اس کی مطبوعہ نقلیں آج تک موجود چلی آتی ہیں۔
پھراسی ترجمہ سے زبان عربی اورگروزنجی اورآرمینی یا جوجی اورقدیم لاطینی میں ترجمے کئے گئے۔ اورتمام دنیا کے مختلف ملکوں میں یہ ترجمے پھیل گئے۔
پھراس کے بعد اِقولاایک یہودی عالم نے ۱۲۸ء میں عہد عتیق کا ایک لفظی ترجمہ کیا۔
اورپھر اس کے بعد تھیوڈوشن نے ۱۶۰ میں کل کلام اللہ کا یونانی زبان میں بامحاورہ ترجمہ کیا۔ بعد ازاں ایک اورشخص سموخوس نے ۲۰۰ ء میں تھیوڈوشن سے زیادہ محاورہ ترجمہ کیا۔ پھراس کے بعد تین اورترجمے کئے گئے۔ ان ترجموں کے علاوہ مختلف آرامی ترجمے دوسری اورتیسری صدی مسیحی میں یہودیوں نے کئے۔ ان میں انکورس تارگم سب سے زيادہ مشہور ہے۔
پھرچوتھی صدی کے آخر میں جیروم مشہور عالم شخص نے عبرانی سے لاطینی میں ترجمہ کیا۔
غرضیکہ یہ کل مندرجہ بالا ترجمے عہد عتیق کے نہایت ہی قدیم ترجمے کہلاتے ہیں۔ اور یہ سب ترجمے حضرت محمد صاحب کی پیدائش سے صدہا سال پیشتر ہوکرتمام دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکے تھے ۔
اب اِن ترجموں کا باہمی مقابلہ کرکے دیکھ لیں۔ کہ وہ یکساں ہیں یا نہیں؟ اورپھر اُن کا مقابلہ موجودہ ترجموں کے ساتھ کریں۔ تب آپ لوگوں کو ازحد معلوم ہوجائيگا کہ بائبل میں کہیں بھی تحریف وتصحیف نہیں ہوئی۔ یہ ترجمے بائبل کےاصل متن کے محافظ ہیں۔ علماء نے جواعلیٰ درجہ کے محقق ہیں۔ ان سب کا اصل متن سے مقابلہ کرکے نتیجہ نکالا ہے کہ بائبل کا متن شروع سے آج تک غیر محرف ہے۔
(۳۔) بائبل کے غیر محرف ہونے کا تیسرا ثبوت یہ ہے کہ علاوہ ان قدیم ترجموں کے پُرانے عہدنامہ کی قدیم فہرستیں موجود ہیں۔ کہ جن سے ظاہر ہوتاہے کہ کتب عہدِ عتیق وہی ہیں۔ جوقدیم زمانہ میں مروج تھیں۔ اور صرف وہی مستند مانی جاکر قانون میں داخل تھیں۔ اوراُن میں کوئی کمی پیشی نہیں ہوئی۔
(۱۔) قانون یوسیفس ۳۷ء سے ۱۰۳ء تک یہ شخص یہودی قوم کا تھا اورجید عالم اورنہایت مشہور ومعروف مورخ ہواہے۔ اُس نے ۹۳ء میں ایک لاجواب کتاب قدامتِ یہود لکھی۔ کہ جس میں قومِ یہود کی تاریخ اوراُن کتب مقدسہ کا مفصل بیان کیا ہے جوکہ ازحد دلچسپ اوربالکل صحیح ہے۔ علماء کے لئے یہ سندی کتاب ہے۔
(۲۔) قانونِ ملیتوں ۱۴۰ء سے ۱۹۰ء تک ۔ یہ ساردیس کے اسقوف تھے۔
(۳۔) قانونِ آریجن ۱۸۵ء سے ۲۵۴ء تک ۔ یہ بڑے فاضل اورجید عالم اوربڑے محقق شخص تھے۔
(۴۔) قانون ہلاری اُس ۳۰۰ء سے ۳۳۶ء تک ۔ یہ تواتیرا کے اسقوف تھے۔
(۵۔)قانونِ اپی فائینس ۳۱۵ء سے ۴۰۳ء تک یہ کپرس کے صدراسقوف تھے۔
پس ان نہایت ہی قدیم فہرستوں سے ظاہر ہوتاہے کہ عہد عتیق کی ۳۹کتابیں جواب ہمارے پاس موجود ہیں۔ وہ قدیم زمانہ میں بھی موجود تھیں۔ یہ وہ فہرستیں ہیں جوحضرت محمد صاحب کے زمانہ سے کئی سوبرس قبل مرتب ہوچکی تھیں۔ اوران فہرستوں میں وہی سب نام پائے جاتے ہیں ۔ جواس وقت ہماری بائبل میں موجود ہیں۔
سب سے قدیم مسوری ٹورین نسخہ جوفہرست میں درج ہے۔ اُس میں بھی وہی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ جواِس وقت ہماری بائبل میں ہیں۔ اوراس کی تاریخِ تحریردوسری صدی عیسوی کے آغاز کی ہے۔
(۴۔) علاوہ ان شاہدوں کے یہودی روایات اوراحادیث کی اس قدرکتابیں ہیں۔ کہ جن کا مختصر بیان کرنے کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے۔ اوربیشمار شرحیں اور تفاسیر ہیں کہ جن میں کثرت سے آئیتوں کا اقتباس کیا گیا ہے ۔ اوراُن کی تفسیر کی گئی ہے۔ اور اپاکرفل کتب بھی تعداد میں ۴۱ ہیں۔ اوربہت سی کتُب قدیم جواُنیسویں صدی میں دریافت ہوئی ہیں۔ اس امر کی شہادت دیتی ہیں۔ کہ موجودہ بائبل کا متن لفظ بہ لفظ صحیح اور درست ہے۔ اُس میں کسی قسم کا تغیر وتبدل نہیں ہوا۔ یہ سب کتابیں درُستی اخلاق کے لئے پڑھی جاتی ہیں ۔ لیکن اُن سے کسی مسئلہ کی نسبت سند نہیں لی جاتی۔
(۵۔) ان حقیقتوں کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے ۔ کہ یہودی اپنے ملک نوشتوں کی بڑی قدروتعظیم اورحفاظت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ عہد عتیق کا متن عبرانی ہے۔ اوروہ لاتبدیل ہے۔ جوقدیم زمانوں سے معجزانہ طورپر من وعن محفوظ چلا آتاہے۔ الحق یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔ کہ بائبل اتنی مدُت بعید وعرصہ مدید سے محفوظ اوربلا تحریف وتصحیف چلی آتی ہے۔ اول ہی اول یہ مقدس نوشتے مگاتھ یعنی طوماروں کی صورت میں رق پرلکھے گئے۔ اورقدیم زمانوں سے لے کر چھاپہ کے زمانہ تک ہزارہا ہزارسال تک اُن کی نقلیں ہی ہوتی رہیں۔ اوربہت صدیوں تک اعراب کا استعمال نہیں ہوا۔ اورحرف صحیح بھی ایسے طور سے لکھے جاتے تھے ۔ کہ اُن کے مابین برائ نام فاصلہ ہوتا تھا۔ اورجوفقیہہ نقل کرتے تھے وہ بڑی ہوشیاری اورخبرداری سے کام لیتے تھے۔ چھٹی صدی کے وسط میں جب یہودی بہت پراگندہ ہوگئے۔ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں عبرانی صحیح تلفظ اور لب ولہجہ گم نہ ہوجائے۔ اس لئے مسورے تیز یا محدث فقیہوں نے اُن عبرانی الفاظ پر یہودی اصل لب ولہجہ کے مطابق اعراب لگائے۔ تاکہ وہی تلفظ قائم رہے ۔ جوقدیم زمانوں سے مروج چلا آتاہے۔ یہ نص حروف صحیح کی یہودیوں کے نزدیک اُس کے ہرایک شوشہ اورنقطہ کے لحاظ سے نہایت مقدس مانی گئی تھی۔ کہ ذرا ذرا شوشہ کی بھی نقل کی جاتی تھی۔ یا جسے کہتے ہیں کہ مکھی پر مکھی ماری جاتی تھی۔ جوحروف بڑے تھے۔ وہ بڑے ہی لکھے جاتے تھے۔ اورجوچھوٹے تھے وہ چھوٹے ہی لکھے جاتے تھے۔ بعض نشانات جوغیر معلوم تھے وہ بھی من وعن نقل کئے جاتے تھے۔ اسی طرح عبرانی نوشتوں کی ہزارہا نقلیں پہلے پہل رق پر لکھی گئیں۔ اوربعدازاں دُوسری اشیاء یعنی قرطاس پر۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ یہودی فقیوں نے کس صحت اوردُرستی کے ساتھ نقلیں کیں۔ اوریہ کل پاک نوشتے زمانوں کے نشیب وفراز اورسینکڑوں انقلابات دنیا اور ریب المنون میں سے گذرتے ہوئے کیسے عجیب طور سےمحفوظ رہے ہیں۔
یوسیفس مشہور ومعروف یہودی مورخ اورمشہور یہودی فلاسفر فائیلو کا قول ہے۔ کہ یہودی اپنے پاک نوشتوں میں ایک شوشہ یا ایک نقطہ گھٹا نے یا بڑھانے کے بجائے ہر طرح کی تکلیف اورمصیبت بلکہ موت تک کو بھی گوارا کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ اوراُن کے درمیان مقدس نوشتوں کی اصلیت محفوظ رکھنے کے لئے یہ نہایت ہی سخت قانون جاری تھا۔ کہ اگرکوئی شخص پاک کلام میں ایک نقطہ یا ایک شوشہ گھٹاتے یا بڑھانے کا ارادہ کرے۔ تووہ ایسا سخت گناہ کرتاہے کہ جوکسی کفارہ سے بھی معاف نہیں ہوسکتا ۔ اوریہی خاص سبب تھا ۔ کہ جس کے باعث یہودی علماء اپنے کلام کو پاک کلام سے علیحدہٰ پیش کیا کرتے تھے۔ کہ جس کی بابت اُنہوں نے سیدنا عیسیٰ مسیح اوراُن کے صحابہ اکرام سے بہت ملامتیں اٹھائیں۔ لیکن وہ جملہ پاک نوشتوں کے بڑی دیانتداری کے ساتھ امانت دار رہے اورکبھی بھی کسی نبی سے پاک نوشتوں میں کمی بیشی کرنے کی نسبت ملامت نہیں کئے گئے ۔ بلکہ برعکس اس کے اُن کے پاک نوشتوں کوہروقت بالکل مستند اور صحیح سمجھا۔ اوراُنکی تصدیق کی۔
اس کے علاوہ یہودیوں نے اپنے پاک نوشتوں کے حروف اورلفظ بھی گن کر لکھ رکھ ہوئے تھے۔ پس یہ قطعی غیرممکن تھا۔ کہ پاک نوشتوں میں سے کسی کتاب کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی کم یا زیادہ ہوسکے نقل کرنے کے بعد وہ لفظوں کو گن لیا کرتے تھے۔ اوربڑی توجہ کے ساتھ مقابلہ کرلیا کرتے تھے۔ اب بتائیے غلطی کا امکان کہاں رہا؟
پھرسیدنا مسیح کے عہد میں قوم یہود کے درمیان تین فرقے موجود تھے۔ جوایک دوسرے سے کئی ایک مسائلِ دین میں اتفاق نہ کرکے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ یعنی اسینی ، فریسی اورصدوقی باوجود باہمی مخالف کے اُن کے پاک نوشتے مطابق باہم وگرتھے۔ اوریہ کبھی ممکن ہی نہ تھا۔ کہ کوئی فرقہ پاک نوشتوں میں اپنے خیال یا قیاس کی تائید میں کچھ گھٹایا بڑھادے۔پھرسیدنا مسیح کے زمانہ سے لے کر آج تک کل یہودی بدستور سابق اورنیز مسیحی بھی عہد عتیق کی بڑی قدروعظیم کرتے چلے آئے ہیں۔ بلکہ اس عرصہ میں یہودیوں اور اکثر مسیحیوں نے اپنے پاک آسمانی نوشتوں کی خاطر سخت سے سخت تکلیفیں اورشرمناک ذلتیں اٹھائیں۔ حتیٰ کہ اُن میں سے اکثر کتب ربانی کی حفاظت کی خاطر شہید بھی ہوگئے۔ بالخصوص انٹی اوکس اپی فائینس اور ڈایوکلیشین شہنشاہ روم کے عہدوں میں ایسا واقعہ ہوا۔ اُنہوں نے یہودیوں اورمسیحیوں کے پاک نوشتوں کوتلف کرنے کی بے انتہا مگرناکام کوششیں کیں۔ پس اگروہ اپنے پاک نوشتوں میں کچھ بڑھائے یا گھٹائے سے اُن کی بے قدری کرنے والے ہوتے۔ تو وہ کیوں پاک نوشتوں کی خاطر اُن کو دشمنوں کے حوالے نہ کرنے کے سبب سے بڑی بڑی سختیوں اورتکلیفوں کواپنے اُوپر گورا کرتے ؟ اور اُن کومحفوظ رکھنے کی خاطر اپنی جانوں کوقربان کردیتے؟ اورجبکہ یہودی اورمسیحی دومخالف فریق حضرت محمد سے صدہا برس پیشتر سے عہد عتیق کی کتابوں کے نگران ومحفاظ چلتے آتے تھے۔ توکیونکر ممکن تھا کہ کوئی فریق اُس میں تحریف وتصحیف اور تغیر وتبدل کرسکتا؟
علاو ازیں عہد عتیق کے ماننے والے یہودی اور مسیحی مدُت دراز سے دنیا کے اکثر ممالک مثلاً تمام یورپ کے ملکوں اورہندوستان، فارس ، مسوپتامیہ ، ارمنی ، رُوم ، ایشیا کوچک سوریا، کنعان، عرب، افریقہ، حبش، مصر وغیرہ وغیرہ میں منتشر تھے۔ اوراُن جداگانہ دور دراز ملکوں میں بُودوباش رکھتے تھے۔ اورمختلف زبانیں بولتے۔ اورمختلف زبانوں کے نسخے اُن کے پاس موجود تھے۔ پس ایسی حالت میں تمام مختلف ملکوں کے لاکھوں لاکھ نسخوں کوجمع کرلینا اورکل مختلف زبانوں کے نسخوں میں یکساں تغیر وتبدل کرلینا بالکل ہی محال اور غیر ممکن اورانسانی طاقت سے باہر تھا۔ اب بجز مخبوطلحواس اورفاق العقل شخص کے کون تحریف وتصحیف کا مدعی ہوسکتاہے۔
پس مندرجہ بالا کُل بیان سے بخوبی ثابت ہوگیا کہ توریت شریف کے کل صحیفے بلاتبدیل وتحریف اورتصحیف رہے۔ اُن میں کسی قسم کی بھی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ اسی سبب سے سیدنا مسیح نےاپنے وقت کی مروج ومتداول کتب عہد عتیق کومعتبر اورصحیح تسلیم کیا۔ اور ان سب کتابوں کا کلام اللہ بتایا۔ اوراُن کے پڑھنے اوراُن پر عمل کرنے کاحکم دیا اوراُن کا حوالہ بھی دیا ۔ اوراُن کی تفسیر بھی کی۔
اورسیدنا عیسیٰ مسیح کے بعد بیشمار علمائے یہود وفضلائے مسیحی کے تاریخی بیان کے مطابق کتاب المقدس بالکل صحیح۔ اصلی معتبر ومستند رہی۔ کیونکہ توریت اورکل نبیبوں کے صحیفے نہ صرف یہودیوں بلکہ بیشمار مسیحی جماعتوں کے پاس رہے ۔ جن کو وہ صبح وشام کوپڑھتے اوراپنے اپنے عبادتخانوں میں استعمال کرتے تھے۔ اوراسی طرح اُن صحیفوں کے مختلف ترجمے بھی تمام مختلف ملکوں میں برابر مروج رہے۔ اب اُن نسخوں اوراُن کے مختلف ترجموں کاباہمی مقابلہ کرکے دیکھ لو۔ کہ اُن سب نسخوں اورمختلف ترجموں کی نقلیں خواہ وہ قدیم ہوں یا جدید۔ ہدایات وتعلیمات واصول ایمانیہ وارکانِ دین واخبار وقصص اورجملہ مقاصد ومطالب میں موافق ومطابق ہمہ گر ہیں۔ لہذا یہ پختہ دلیل اس امر کی ہے۔ کہ کتاب المقدس عہد عتیق ساڑھے تین ہزار برس کے بعد بھی ویسی ہی اصلی اورصحیح اورمعتبر اورمستند ہے۔ اوراُس میں کسی قسم کی بھی تحریف وتصحیف نہیں ہوئی۔ نہ اس طویل مُدت میں یہودیوں اورمسیحیوں پرکسی تاریخ دان اور ذی علم اورواقفکار شخص نے کبھی تحریف اورتصحیف کا الزام ہی لگایا۔ دنیا کی مستند تاریخی کتابوں میں کتُب ربانی کی تحریف وتصحیف کی نسبت کہیں اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ کہ جس سے اس بارے میں ادنیٰ شبہ بھی پیدا ہوسکے۔ تاریخِ فارس، مصر، بابل ونینوہ اور روم اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ تحریف وتصحیف کی تائید کسی دینی اوردینوی تاریخ سے نہیں ہوتی۔ پس تاریخاً کتُب مقدسہ تحریف وتصحیف سے مبرا اورمنزہ ہیں۔
اب میں اس سے فراغت پاکر دوسرے امر کو پیش کرنا چاہتاہوں۔ اوروہ یہ ہے کہ جس طرح کتب عہد عتیق کا متن بالکل صحیح اورمعتبر ہے۔ اُسی طرح عہد جدید یعنی انجیل مقدس کا متن بھی نہایت صحیح، اصلی اورمعتبر ومستند اوربلاتحریف وتصحیف ہے۔
واضح ہو کہ عہد جدید میں ۲۷ صحیفے ہیں۔ جن میں سے پہلے چارصحیفے اناجیل اربعہ کہلاتے ہیں۔ جن میں مسیح کلمتہ اللہ کے جسم انسانی میں ظاہر ہونے سے صعود فرماجانے تک کا حال قلمبند ہے۔ اوراُن کے بعد کتاب اعمال الرسل ہے۔ جس میں سیدنا مسیح کے جی اٹھنے اور آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد کلیسیا یعنی جماعتِ مومنین اورمسیحی مذہب کے دُور دراز علاقوں میں پھیل جانے کا حال مندرج ہے۔ اس کے بعد اکیس ۲۱ نامجات ہیں۔ جومسیح کے حواریوں نے اپنے وقت کی جماعتوں اورشاگردوں کے نام پر بشرح عقائد ومطالب وحصول ایمانیہ وارکانِ دین وہدایات وتعلیمات ارقام کئے ہیں۔ اُن کے بعد کتاب مکاشفات ہے۔ جس میں سات کلیسیاؤں کا حال قلمبند کرکے پھر بطور رویا اورمکاشفہ ظاہر کردیا گیا ہے۔ کہ کس طرح مسیح کے تابعین پر دنیا کے کافروں اور فاسقوں اورظالموں کی طرف سے سختی پر سختی اورمصیبت پر مصیبت نازل ہوگی اوردنیا کوبھی اس سبب سے اس ظلم وستم کا مزہ پانا ہوگا۔ اوروہ مری کال بھونچال سے سخت مصیبت اٹھائیگی۔ لیکن باوجود غضب الہٰی کودیکھتے ہوئے شیطان اور شیطان کے فرزند اپنا سارا زورمسیح اوراُس کے دین اوراُسکے تابعین کے برخلاف خرچ کرینگے۔ اورپھر جُوج ماجوج اورجھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی برگزیدگانِ خدا کوگمراہ کرنے کے لئے پے درپے برپا ہوتے رہینگے۔ اورپھر ان سب کے بعد ایک زبردست جھوٹا نبی اٹھیگا جوبڑی بڑی حیران کرنے والی کرامتیں دکھاکر خدا کے لوگوں کوگمراہ کرکے اپنی طرف ملالیگا۔ اورخدا بن بیٹھیگا۔ اوردعویٰ الوہیت کریگا۔ اوراُس پتھر کی مورت کی پوجا کرائيگا۔ جوبولنے والی ہوگی۔ اورپھر اس کے بعد دجالِ اکبر (مخالف مسیح) کا فتنہ عظیم برپا ہوگا۔ جوسیدنا مسیح کی حدرجہ کی مخالفت کریگا۔ لیکن اس کا انجام ہولناک ہوگا۔ آخرکار مسیح آسمان سے نزول فرمائیگا جس طرح بجلی چمکتی ہے۔ اورسب آنکھیں اُس کو آسمان سے اُترتے ہوئے دیکھینگی۔ اوروہ شیطان اوراپنے کل مخالفوں یعنی دجال اوراُسکے بیشمار لشکر کواپنے منہ کے دم سے ہلاک کردیگا۔اورپھر وہ ابدآلاباد تک بادشاہت کرتا رہیگا۔ اوراُس کی بادشاہت کا آخر نہ ہوگا۔ اوروہی اکیلا مسجود خلائق وملائک ہوگا۔ پھر دنیا کا خاتمہ ہوجائيگا۔
یہ خلاصہ کل مضائین انجیل مقدس کا ہے۔ اب میں صحفِ انجیل کے اصلی ومعتبر ومستند ہونے پر بحث کرتاہوں۔
واضح ہوکہ صحفِ مذکورہ کے اعتبارواعتماد اوراُنکی اصلیت وصحت کے بیان میں دوامر قابل دریافت ہیں:
اول یہ کہ یہی صحیفے حواریانِ مسیح اوراُس کے مقدس رسولوں کے عہد سے اب تک متواتر جاری اوررائج رہے ہیں؟ یعنی جتنے صحیفے اب ہمارے مجموعہ میں شامل ہیں۔ وہ شروع سے آج تک برابر کلام اللہ تسلیم کئے گئے ہیں۔
(۲۔) دوم یہ کہ سب صحیفے بلاتحریف وتصحیف بالکل صحیح اوراصلی ہیں؟
اولاً واضح ہو کہ ان صحیفوں کے لکھنے والے یعنی متی، مرقس، لوقا، یوحنا، پولوس ، یعقوب ، یہوداہ، پطرس اپنی اپنی کتابوں اورخطوں میں اپنے زمانہ کے حالات بیان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس اگر فی الحقیقت ایسا نہ ہوتا۔ یعنی وہ اپنے زمانہ سے کسی گذشتہ زمانہ کے حالات لکھتے تواُن کا دعویٰ اوربیان یقیناً صحیح نہ ہوتا۔اوربہت سے لوگ اُن کے دعویٰ کی تکذیب کرتے۔ لیکن کوئی تحریر ایسی نہیں ہے۔ کہ جس رُو سے اُن کا دعویٰ باطل کیا جاسکے۔ رسولی زمانہ ہی میں سب کلیسیاؤں اورمومنین نے اُنہی مصنفوں کے نوشتوں کوتسلیم کیا ہےکہ جن سے وہ منسوب ہیں۔ وہ لوگ ہمیشہ رسولوں سے ملتے اوراُن کے دستخط پہنچانتے تھے۔ اوراس بارے میں کبھی دھوکا نہ کھاسکتے تھے۔
پس آج کے دن سے رسولوں کے عہد تک معتبر تصنیفات میں صحفِ مذکورہ کی شہادت کا ایسا کامل اورمتواتر اورمسلسل سلسلہ ہوتاہے۔کہ جس سے کامل یقین ہوجاتا ہے کہ جوصحیفے اِن دنوں عہدجدید کے مجموعہ میں شامل ہیں وہ بجنسہ اب سے حواریوں کے زمانہ تک ہروقت برابر مسیحیوں میں جاری اورائج ہے۔ اورمعتبر اورمستند تسلیم کئے گئے ہیں۔ اوریہی انجیل مقدس کے متن کے صحت کی اعلیٰ دلیل ہے ۔(۱) کیونکہ ہم آج انجیلِ مقدس کے اصلی متن کے سلسلہ کورسولی زمانہ تک پہنچاسکتے ہیں۔
(۲۔) اورانجیل کے بیشمار ترجموں سے جومتفرق زبانوں میں ہوتے چلے آئے ہیں اُس کے متن کی صحت کودریافت کرسکتے ہیں۔
(۳۔) اورمسیحی مذہب کے مخالفین کی تحریرات سے موجودہ انجیل کے متن کی صحت ثابت ہوسکتی ہے۔
(۴۔) اورحامیان دینِ مسیحی کی زبردست تحاریر سے جوہرزمانہ میں مخالفوں کے دانت کھٹے کرتے چلے آئے ہیں ثابت کرسکتے ہیں۔ کہ وہ موجودہ انجیل ہی کواستعمال کرتے رہے ہیں۔نہ کہ کسی اوردوسری انجیل کو۔
(۵۔) مسیحی اقوام کے عقائد کے تواتر سے انجیل مقدس کا معتبر ہونا ثابت ہوسکتاہے۔
(۶۔) انجیل کے ۲۷ صحیفے ایک ہی مصنف کی تصنیف نہیں بلکہ کئی ایک مصنفوں کی تصنیف منیف ہیں۔ اس لئے وہ خود ایک دوسرے کے وجود اوریکتائی پرشاہد ہیں۔
پس انجیلِ مقدس کے اعتباروصحت کوثابت کرنے کے لئے دلائل کے یہ چھ سلسلے ہمارے پاس موجود ہیں۔ جوانجیل کے متن کو رسولی زمانہ تک پہنچادیتے ہیں۔ ان چھ دلائل سے انجیل مقدس کے متن کا اعتبار ایسے طور سے قائم اورثابت ہوجاتاہے کہ جس پر کوئی منصف مزاج شخص شک وشبہ کرہی نہیں سکتا۔ اورانجیل مقدس وجوہات مذکورہ بالا کی بنا پر ایسی معتبر تحریر ثابت ہوچکی ہے کہ جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی مذہب کتاب نہیں کرسکتی۔ اورانجیل مقدس کے اعتبار اوراُس کی صحت ودرستی کوثابت کرنے کی جووجوہات اُوپر بیان کی گئی ہیں۔ وہ نہایت زبردست اورلاردہیں۔ کیونکہ یہ بات بالکل سچ اورحق ہے کہ موجودہ انجیل کے کل نوشتے پہلی صدی عیسوی میں حیطہ تحریر میں آچکے تھے۔ اورکچھ عرصہ تک یہ کتابیں ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ جس جگہ کی کلیسیا کورسولوں کی کوئی کتاب دی۔ وہاں کی کلیسیانے اُس کو استعمال کیا۔ اوروہاں کے مسیحی اُس کودیگر دینوی کتابوں سے علیحدہ کرکے اورتوریت اور صحائفِ انبیاء کے ہم پلہ اورمساوی سمجھ کے عبادت کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ کتابیں چند مجموعوں میں جمع کی گئیں۔ مثلاً اناجیل اوراعمال کی کتاب کا ایک مجموعہ بنایا گیا۔ اورپولوس رسول کے خطوط کا دوسرا مجموعہ ، اور خطوطِ عام اور مکاشفات کی کتاب کا تیسرا مجموعہ، چنانچہ پطرس رسول اپنے دوسرے خط کے ۳: ۱۵، ۱۶، میں پولوس رسول کے خطوط کا ذکرکرتاہے ۔ جس سے یہ بات صاف معلوم ہوجاتی ہے۔ کہ اُس وقت کلیسیائیں پولوس رسول کے خطوں سے خوب واقف تھیں۔ اوراُن کو الہامی سمجھتی تھیں۔
۱۶۰ء میں ٹشی آن نے ایک کتاب بنام اتحاد الاناجیل یا اناجیل اربعہ کی تطبیق بنائی۔ جوتمام کلیسیاؤں میں مروج رہی۔ حال ہی میں یہ کتاب عربی زبان میں دستیاب ہوگئی ہے۔ اس کتاب سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ۱۶۰ء میں جواناجیل وخطوط مروج تھے۔ وہی آجکل ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ اورجوتعلیمات اُس وقت مانی جاتی تھیں آجکل بھی وہی مانی جاتی ہیں۔
اس کے بعد کل الہامی کتابوں کی فہرست بنائی گئی۔ اورکل صحیفے ایک ہی جلد میں مجلد کئے گئے۔ اورتمام مسیحی مجالس نے اُن کو معتبر اسناد کی بناپرالہٰامی تسلیم کیا۔ غرضیکہ اس طرح نئے عہدنامہ کا قانون وجود میں آیا۔
اگرکوئی دریافت کرے کہ کلیسیاؤں نے ان کتابوں کوالہامی کیوں ٹھہرایا؟ تواس کے جواب میں ہم کہینگے کہ رسولوں نے اس امر کا دعویٰ کیا۔ کہ ہم الہامی معلم ہیں۔ اوریہ کلام ہم کو خدا سے ملا ہے۔اعمال ۲: ۳۲، ۳۳۔ وگلتیوں ۱: ۱۱، ۱۲۔ ۱کرنتھیوں ۱۱: ۲۳۔ ۲پطرس ۱: ۱۹تا ۲۰ ۔ ومکاشفات ۱: ۱، ۹سے ۱۱۔ وغیرہ وغیرہ آیات۔
پس ان الہامی مصنفوں کے اس دعویٰ کے مطابق پہلی صدی کے مسیحیوں نے صرف اُن کتابوں کوالہامی تسلیم کیا۔ جورسولوں اوررسولی ہدایت سے لکھی گئی تھیں۔ اوراُسی صدی کے کلیسیائی بزرگ یا خاص رسولوں کے شاگرد یعنی کلیمنٹ رومی ۹۵ء میں اورپولی کارب اوراگناشئیس ۱۱۵ء میں اورستی دیس ۱۱۷ء میں اورہرماس ۹۸ء میں بار بار اس بات پر گواہی دیتے ہیں۔ اوراُن کی تحریات اس بارے میں آج تک ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ جن سے صاف ثابت ہوتاہے کہ مسیحیوں نے شروع ہی سے صرف اُن کتابوں کوالہامی ٹھہرایا۔ جورسولوں اور رسولوں کی ہدایت سے لکھی گئی تھیں۔
علاوہ بریں دوسری صدی کے وسط ہی میں ایسی الہامی کتابوں کی فہرست بلکہ کئی فہرستیں بنائی گئیں ۔ چنانچہ آج تک ایسی کئی فہرستیں اُسی زمانہ کی تحریر شدہ ہمارے پاس موجود ہیں۔ اُن میں سے سب قدیم فہرست مرا توری ہے۔ جس کو میلن شہر کے ایک شخص مراتوری نے ۱۷۴۰ء میں ایمبروز کے کتب خانہ میں پایا۔ یہ فہرست ۱۷۰ء سے پیشتر لکھی گئی تھی۔ اوروہ ہماری موجودہ فہرست کتب الہامی کے مطابق ہے۔ اس فہرست کا بیان کرتے وقت مصنف اس بات پرزوردیتا ہے ۔ کہ یہ کل کلیسیاؤں کی مسلمہ وتحقیقی کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ جوتمام جہان میں پھیلی ہوئی ہیں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتاہے۔ کہ اتنی صدیوں کے بعدہم کس طرح یقین کرسکتے ہیں۔ کہ فی الحقیقت یہ وہی کتابیں ہیں۔ جورسولوں اوراُن کے رفیقوں نے لکھیں؟ اورکہ اُن میں کسی قسم کی تحریف وتصحیف نہیں ہوئی؟ اس کے جواب میں ہم ذیل کے دلائل پیش کرتے ہیں ۔
(۱۔) قدیم نسخے: ہمارے پاس کلام کے اصل یونانی نسخے کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ اوراُن نسخوں میں سے بیشمار حضرت محمد کی پیدائش سے صدہا برس قبل کی نقل ہیں۔ اُنہی قدیم قلمی نسخوں سے پُرانے اورنئے عہدنامہ کے متن کو شائع کیا گیا ہے۔ اوراس اسے ہم کو اس بات کا اطمینان ہوجاتاہے۔ کہ بائبل کا اصل متن حضرت محمد کے پہلے اورخود اُن کے زمانہ میں کیا تھا۔اورنیز یہ کہ اُس زمانہ اوراس زمانہ کے مسیحی ایک ہی طرح کے متن کومانتے چلے آئے ہیں۔
خوب یادرکھئے کہ دنیا کے قدیم صحائف میں سے کوئی اورصحیفہ نہیں۔ کہ جس کے اصلی نسخے شمار اور قدامت کے لحاظ سے اُن نسخوں کے برابر ہوں۔ جن سے نئے عہدنامہ کے صحیفوں کی اصلیت اوراُن کے متن کی غیر تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ نئے عہدنامہ کے کل نسخے اس وقت تک جوہمارے پاس موجود ہیں پانچ ہزار کے قریب ہیں۔اوراُن میں سے چند توبہت ہی قدیم ہیں۔ پندرھویں صدی سے لے کر جبکہ چھاپے کا فن ایجاد ہوا ۔ ۱۰۳ء تک اُن کا زمانہ ہے۔ اور وہ دوبڑے حصوں میں منقسم ہیں۔ یعنی جلی نسخ اورخفی نسخ۔ جلی وہ نسخے ہیں جواَن شئیل کہلاتے ہیں۔ یعنی وہ نسخے جوبڑے حروف میں لکھے گئے ۔ اورخفی وہ نُسخے ہیں۔ جو کرسیوس کہلاتے ہیں یعنی وہ نسخے جوچھوٹے حروف میں لکھے گئے ۔ اب یادرکھنا چاہیے کہ بڑے حروف کے نسخے پہلی صدی سے نویں صدی کے آخر تک لکھے گئے۔ اورچھوٹے حروف کے نسخے دسویں صدی کے شروع سے لکھے جانے لگے۔ بڑے حروف کے نسخے بڑی قدومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہی نسخے صحیح طور سے ہم کو مسیحی کے زمانہ کے قریب پہنچادیتے ہیں۔
اگرآپ یہ کہیں ۔ کہ یہ کیونکر معلوم ہوا۔ کہ یہ تمام قدیمی قلمی نسخے اتنے ہی قدیم ہیں جیساکہ بیان کیا گیا ہے؟ اوراس کا کیا ثبوت ہے۔ کہ یہ فی الحقیقت اُسی زمانہ کی تحریرہیں؟ تواس کے جواب میں ہم یہ کہینگے ۔ کہ تمام نسخے رق پر لکھے گئے تھے۔ نہ کہ قرطاس پر۔ اوراُن کی قدامت اُن پر نگاہ کرتے ہی معلوم ہوجاتی ہے۔ اورپھر اُن کی تجنیس خطی نہایت ہی قدیم یونانی املاء کے مطابق ہے۔ رسولی زمانہ میں بڑے حروف ہی تمام جگہ مروج تھے۔ چنانچہ پولوس رسول خود فرماتے ہیں کہ دیکھو میں نے بڑے حرفوں میں تم کو اپنے ہاتھ سے لکھاہے گلتیوں ۶: ۱۱ پس اس سے اوریونانی زبان کی قدیم ترین تحریرات سے معلوم ہوتاہے ۔ کہ اُس زمانہ میں یونانی زبان کے لکھنے میں بڑے حروف ہی استعمال کئے جاتے تھے۔ اوریہ حال نویں صدی کے آخر تک رہا۔ پھر اس کے بعد چھوٹے حروف ایجاد ہوئے اوراُن میں کتابت ہونے لگی۔ پس ہم بڑی آسانی سے اُس زمانہ کی دیگر یونانی کتابوں کی طرز تحریر سے مقابلہ کرکے معلوم کرسکتے ہیں۔ کہ یہ تحریر کس زمانے کی ہے۔ موجودہ طرز تحریر یعنی چھوٹے حروف کی تحریر بھی حضرت محمد کے زمانے سے صدہا سال بعد کی ہے۔ مسیحی اور غیر مسیحی علمائے یورپ اس بات پر متفق ہیں کہ جوزمانہ اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ وہی زمانہ ان نسخوں کا قائم ہوسکتاہے۔ بلکہ بعض نسخے قدامت میں اُن سے بھی بہت پہلے کے ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت محمد کے زمانہ سے لے کر پندرھویں صدی تک کے بیشمار قلمی نسخے موجود ہیں۔ جومذکورہ بالا نسخوں سے طرز تحریر میں بالکل جداگانہ ہیں۔ جوصاحب اس امر کی تحقیقات کرنا چاہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے اب ابھی اُن قلمی نسخوں کودیکھ کر صحیح فیصلہ کرسکتے ہیں۔
بڑے حروف کے نسخے تعداد میں اب ۱۳۰ ہیں۔ اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں کہ تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ مشہور اور قابل قدر ہیں۔
(۱۔) نسخہ سی۔ یا افرائیمی: یہ نسخہ ۴۵۰ء کے قریب لکھا گیا یعنی سن ہجری سے قریباً ۳۰۰ برس پیشتر، اب یہ نسخہ پیر س کی نیشنل لائبریری میں موجود ہے۔ یہ نسخہ کل نئے عہدنامہ کا ہے۔
(۲۔) نسخہ الف۔ یا سکندریہ کا نسخہ: یہ نسخہ پانچویں صدی کے شروع میں لکھا گیا۔ یعنی سن ہجری سے ۲۰۰ برس پیشتر۔ اُس میں دونوں عہدناموں کے کل صحیفے مندرج ہیں۔ یہ برٹش میوزیئم میں محفوظ ہے۔
(۳۔) نسخہ بی یا ویٹیکن کا نسخہ: اس کے ۷۰۰ ورق ہیں۔ اس کا رق بہت عمدہ اور باریک ہے۔ اس میں پرانے اورنئے عہدنامے کے کل صحیفے مندرج ہیں۔ یہ نسخہ ۳۲۵ء کے قریب لکھا گیا ۔ یعنی سن ہجری سے قریباً۳۴۵برس پیشتر۔ اس نسخہ کی نقلیں یورپ وامریکہ کے تمام بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود ہیں۔
(۴۔) سیناکا نسخہ الف۔ یہ نسخہ ۳۲۵ء اورنئے ۳۵۰ء کے درمیان لکھا گیا۔یعنی سن ہجری سے قریباً۳۰۰ برس پہلے۔ اس میں پرانے عہدنامے اورنئے عہدنامے کے کل صحیفے مندرج ہیں۔ یہ اصل نسخہ سابق شہنشاہ رُوس مرحوم کے شاہی کتب خانہ میں موجود ہے یعنی پیڈرو گراؤڈ جس کا نام پہلے سینٹ پیٹرزبرگ تھا۔
(۵۔) فریر کا نسخہ۔ ۱۹۰۶ء میں مصرسے دستیاب ہوا۔ یہ نہایت ہی قدیم ہے اور اُوپر کے کل نسخوں سے قدیم ہے۔ یہ واشنگٹن کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ یہ ۲۴۰ء کا ہے۔ اورآٹھ نسخے ایک ہی سن کے ہیں۔ اب ان نسخوں کے بارے میں یہ بات خاص قابلِ لحاظ ہے کہ جیمس اول شاہ انگلستان کے عہد میں بائبل کا وہ انگریزی ترجم ہوا۔ جومستند ترجمہ (اوتھورائزڈورشن) کے نام سے مشہور ہے۔ اورجو ۱۶۱۱ء میں شائع ہوا۔ جس کو آج تقریباً۳۱۶سال کا عرصہ گذرچکا ہے۔ اس کے ۲۰۰ سال کے بعد تک بھی جس نسخہ سے ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اور ۴۷۰ء کا تھا۔ اس کے بعد نسخہ نمبر ۴ ملا۔ یہ نسخہ اس سے ۱۲۰ برس پہلے کا تھا۔ جوان سب سے نہایت ہی قدیم ہے۔ یعنی ۲۴۰ء کا۔ الغرض ۱۸۱۰ء سے لے کر ۱۹۱۰ء یعنی گذشتہ سوسال کے اندرایسے نسخے ملے ہیں۔ جواُن نسخوں سے ۲۳۰ سال پہلے کے ہیں ۱۸۱۰ء میں جوسب سے قدیم نسخہ معلوم تھا۔ وہ ۴۷۰ء کی تحریر تھا۔ اوراب ہمارے پاس کئی نسخے موجود ہیں۔ جو۲۴۰ء کی تحریر ہیں۔ یعنی اُس پہلے نسخہ سے ۲۳۰سال پہلے کے۔ اورنیز یوحنا رسول کی وفات کے بعد کے نسخے موجود ہیں۔
(۶۔) نسخے نمبر ۶: یہ بہت سے نسخے ہیں جومصر کے علاقہ فیوم کے جنوب میں بمقام تبتی مس کے چٹانی غار میں سے مگر مچھوں کی کھالوں میں سے ملے ہیں۔ واقعہ یوں ہے۔ کہ گرین فیل اور ہنٹ دوشخص مقام مذکورہ بالا میں قدیم نسخوں کی جستجو کے لئے زمین کوکھودرہے تھے۔ اچانک مگرمچھوں کا ایک قبرستان ملا۔ایک شخص نے ایک کھال کوچٹان پردے مارا۔ کھال کے پھٹتے ہی اُس کے اندر سے قلمی نسخوں کا انبار نکل آیا۔ اسی طرح اُن تمام مگرچھوں کی کھالوں میں سے قدیم قلمی نسخے برآمد ہوئے۔جوہ یوحنا رسول کی وفات کے وقت کے ہیں۔ اورتعداد میں بیشمار ہیں۔ ان نسخوں کے مل جانے سے نسخوں کا تواتر رسولی زمانہ تک قائم ہوگیاہے۔ پس ہم بڑے فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں ۔ کہ ہمارے پاس وہ قلمی نسخے بھی موجود ہیں ۔ جورسولوں کے وقت کلیسیامیں رائج تھے۔ اوریہی پاک نوشتوں کی صحت اورمعتبری کی پختہ دلیل ہیں۔ ان مگرمچھوں کی کھالوں میں سے بعض نسخے ایسے بھی دستیاب ہوئے ہیں ۔ کہ جن سے تاریخی اہم واقعات بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اوران کے علاوہ سینکڑوں سرکاری خطوط تمسکات، شخصی خطوط ملے ہیں۔ جو۶۰ ء قبل از مسیح سے لے کر۷۵ء بعد از مسیح تک کے ہیں۔ ان تمام سے نئے عہدنامہ کے نص پربہت روشنی پڑتی ہے۔
اب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک جس قدر نسخے دستیاب ہوئے ہیں۔ اُن میں وہی تعلیم پائی جاتی ہے۔ جوکلیسیا قدیم سے سکھاتی چلی آئی ہے۔ ان میں تعلیم کا کوئی فرق پایا نہیں جاتا۔ اورنہ کسی فقرہ یا لفظ کی کمی بیشی ہے۔ خواہ وہ نسخہ روم میں ملا ہو۔ خواہ مصر ، سکندریہ یا کوہ سینا میں۔ پس یہ امر انجیل کی اورعہد عتیق کی صداقت پر مہر ہے۔ یہ سب نسخے پانچ ہزار کے قریب ہیں۔ ہرایک شخص ان قدیمی نسخوں کودیکھ سکتاہے ۔ اورباہمی مقابلہ کرکے خوب معلوم کرسکتاہے۔ کہ بائبل کا کل متن باوجود امتدادِ زمانہ کے کیسا صحیح اورقابل اعتماد اوربلا تحریف ہے۔
(۲۔) قدیم ترجمے: مذکورہ بالا تاریخی بیان سے صاف ظاہر ہے کہ دوسری صدی کے شروع میں نئے عہدنامہ کی کتابیں وہی تھیں۔ جواب ہماری بائبل میں پائی جاتی ہیں۔ اوراُن نسخوں کے باہمی مقابلہ کرنے سے صاف معلوم ہوجاتاہے کہ اُس زمانہ سے لے کر آج تک اُن میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ سب نسخے مختلف زمانوں کے ہمارے پاس موجود ہیں۔
اب ہم ایک اوردلیل پیش کرینگے۔ جوہم کو اُس زمانہ تک پہنچادیتی ہے کہ جس میں نئے عہدنامہ کی کتابیں تحریر ہوئیں۔ یعنی قدیم ترجمے۔ اُن بیشمار ترجموں میں سے ذلیل کے ترجمے زیادہ مشہور ہیں۔
(۱۔) قدیم سریانی ترجمہ: اس ترجمے کی زبان عین وہ زبان ہے۔ جوہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح کے زمانہ میں ملک فلسطین میں مروج تھی۔ یہ ترجمہ پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے شروع میں کیا گیا تھا۔ یعنی نئے عہدنامہ کے کل صحیفوں کے لکھے جانے کے صرف چند ہی سال کے بعد یعنی ۹۸ء سے ۱۱۰ ء تک۔ یہ ترجمہ کیوری ٹوئین کہلاتاہے۔ اوراسی ترجمہ کا دوسرا نسخہ پانچویں صدی میں تحریر کیا گیا۔ پھر تیسری صدی مسیحی میں ایک اور ترجمہ کیا گیا جو کہ پشٹیو یعنی سادہ اور لفظی ترجمہ کہلاتاہے ۔ اوراسی لفظی ترجمہ کی ایک نقل پانچویں صدی مسیحی میں کی گئی۔ اورپھر ایک اورنسخہ ہے جوفلمونین کہلاتاہے۔ یہ ترجمہ حضرت محمد سے پہلے یعنی ۵۰۸ء میں کیا گیا تھا۔
(۲۔) ان ترجموں کے علاوہ تین نہایت قدیم قبطی نسخے ہیں۔ جن کے نام بحارق۔ سہیدق اوربشمورق ہیں۔ بحارق دوسری صدی کے عین آغاز میں۔ اورسہدیق اور بشمورق کا ترجمہ پہلے ترجمہ بحارق سے چند سال کے بعد کیا گیا ۔ یہ بھی دوسری صدی کے نسخے کہلاتے ہیں۔ اورپھر اُن کی بیشمار بھی ہوتی رہیں۔ چنانچہ انہی ترجموں کے نقل شدہ نسخے چوتھی اورپانچویں صدی کے بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ یہ تینوں قدیم قبطی ترجمے جو ملک مصر کی قدیم خالص زبان میں کئے گئے تھے آج تک موجود ہیں۔
(۳۔) لاطینی کے قدیم ترجمے: ۱۳۰ء سے پہلے افریقہ کے شمال میں نئے عہدنامہ کا ترجمہ لاطینی زبان میں مکمل ہوچکا تھا۔ طرطولیاں اورکپریان اسی ترجمہ کواستعمال کرتے رہے۔ یہ ترجمہ نہایت ہی قدیم لاطینی ترجمہ کہلاتاہے۔ پھرچوتھی صدی مسیحی میں عینی ۳۸۳ء اور ۳۸۵ء کے مابین ایک اورعالم شخص جیروم نے اُس وقت کی مروجہ لاطینی زبان میں بائبل کا ترجمہ کیا۔لاطینی زبان میں اُس کو ولگیٹ یعنی عوام الناس کی عام بولی کا ترجمہ کہتے ہیں۔
(۴۔) اُن کے علاوہ نئے عہدنامہ کا ترجمہ اوربہت سی مختلف زبانوں میں کیا گیا مثلاً:
• چوتھی صدی میں کوُشی زبان میں جومصر کے جنوب میں مروج تھے۔ اور
• پانچویں صدی میں مصروب نے ارمنی زبان میں ترجمہ کیا۔ جوملک آرمینا میں مستعل رہا۔ اورجوکہ ۴۳۶ء میں تیار ہوا۔ یعنی سن ہجری سے ۱۸۶ء برس پہلے۔
• پھر نئے عہدنامہ کا ترجمہ گاتھ زبان میں ہوا۔ یہ ترجمہ بھی چوتھی صدی میں کیا گیا۔
جس کو الفلاس نے تیا رکیا۔ الفلاس ۳۸۱ء میں فوت ہوا۔ گاتھ زبان کے ترجمہ کا نسخہ سویڈن کی یونیورسٹی " اپسالا" میں موجو دہے۔
• اتھیایک ترجمہ کے فرومینش نے چوتھی صدی مسیحی میں کیا۔
الغرض یہ تمام ترجمے آجکل کے مستند علماء کی تحقیقات کی رُو سے مطابق باہمد گر ثابت ہوچکے ہیں۔ اوراُن میں کسی طرح کا تغیروتبدل اورکمی بیشی ثابت نہیں ہوئی۔ اوریہ کل ترجمے ہم کو ۱۰۳ء تک پہنچادیتے ہیں۔ جن سے انجیل کے اصلی متن کا تواتر رسولی عہد تک صحیح طور سے ثابت ہوجاتاہے۔ اورجس کی تردید علمی یاتاریخی طور سے توکیا کسی صورت سے بھی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قدیم اصل متن یونانی اوراُس کے بیشمار ترجمے اورپانچ ہزار کے قریب قلمی نسخے آج تک موجود اورمحفوظ ہیں۔ جومقابلہ کرنے سے مطابق باہمد گرثابت ہوچکے ہیں۔ اورہمارے پاس اصل یونانی اناجیل موجود ہیں جوچاہے دیکھ سکتا ہے۔
(۳۔) آخری دلیل۔ قدیم بزرگوں کے اقتباسات ، مقدس یوحنا رسول کی وفات سے لے کر آج تک کلیسیاء کے بزرگ اپنی تصنیفات میں نئے اورپرانے عہدنامہ کا اقتباس کرتے چلے آئے ہیں۔لیکن صرف قدیم رسولی بزرگوں کی کتابوں کودیکھنے سے معلوم ہوجاتاہے ۔ کہ اُنہوں نے بڑی کثرت سے بائبل کی آئیتوں کاحوالہ اپنی یونانی، لاطینی اوران کے متبعین نے بھی سریانی اورارمنی زبانوں کی تصنیفات میں دیاہے۔ اورانجیل مقدس کی بیشمار آیتیں لفظ بہ لفظ اُن کی تصنیفات میں پائی جاتی ہیں۔ اوریہ سب وہ مصنفین ہیں جو حضرت محمد کی پیدائش سے صدہا برس پہلے ہو گذرے ہیں۔ اوراُن کی تاریخ ولادت، اورحالاتِ حیات ووفات ہرتاریخ دان شخص پر ظاہر وباہر ہیں۔ اوریہ حوالہ جات اس کثرت سے ہیں۔ کہ علماء نے بڑی تحقیقات کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے۔ کہ اگرہمارے پاس انجیل مقدس کے کل قلمی نسخے اوراصل نوشتے نہ بھی ہوں۔ توبھی ان مصنفوں کی تحریرات ہی سے انجیل کا اصلی متن حاصل ہوسکتاہے۔ اوراس کے علاوہ ایک بڑا حصہ عہد عتیق کا بھی مرُتب ہوسکتاہے۔ اوریہ ایک لاثانی اورعدیم النظیر شہادت اس امر کی ہے کہ عہد جدید کا موجودہ متن بالکل صحیح اور قابل اعتماد اورغیر محرف ہے۔ ذیل کے ایک معمولی سے نقشہ سے ظاہر ہوسکتاہے کہ ان اقتباسات کا شمار کس قدر زیادہ ہے۔
نوٹ: اِن کے علاوہ کلیمنس رومی، اگنا شی اُس ، پولیکارب، پاپیاس ، ہرس، ٹے شیان، طرطولیان، ہیراکلاس ، کپریان ، کریساسٹم ، جیروم، اگسٹین وغیرہ صدہا بزرگوں کی شہادت بھی ہے۔
(۴۔) مخالفانِ دین مسیحی کی تحریرات: مسیحی دین کے ابتدائی زمانہ سے کلیسیاؤں کومختلف قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں جوالزام مسیحیوں پر لگائے جاتے تھے وہ محض قیاسی بے بنیاد، بے سروپا اورمحض سوقیانہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب سب کو معلوم ہوگیا۔ کہ یہ کل الزامات تراشیدہ طبع مخالفین اورمحض غلط ہیں۔ اوراُن کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ توپھر لوگوں نے ہوائیاں چھوڑنے کا کام ترک کرکے اس کے برخلاف کتابیں لکھنی شروع کیں۔ چنانچہ سب سے پہلا مصنف لوشیان ہے۔ جس نے مسیحیوں اوراُن کے مذہب کی مذمت کی۔ یہ شخص فن ہجا میں بڑا نامور تھا۔ جیسا کہ فارس میں انوری مگریہ شخص محض ہجا نویس ہی تھا۔ اس کے بعد سیلیس اورپورفری دونامور مخالف مصنف پیدا ہوئے۔ جنہوں نے لکھا ۔ کہ مذہب صرف فلاسفروں ، بے گناہوں اور زہاد اورعالموں کے لئے ہے۔ نہ کہ جاہلوں، گنہگاروں اور غریبوں کے لئے۔ چونکہ مسیحی مذہب کل اشخاص کواپنے میں جذب کرنے کا دعویٰ کرتاہے۔ اس لئے حق نہیں ہے۔ ہرشخص کواپنے ملکی دستور کے مطابق عبادت کرنی چاہیے۔ بت پرستی جائز ہے۔ اورنادیدہ خدا کی عبادت درست نہیں ہے۔ یہ جاہلوں کا شیوہ ہے۔ ان کے بعد ہیروکلیز نے کئی کتابیں مسیحی مذہب کے خلاف لکھیں۔ اُن میں سے" الفاظ حق" بہت مشہور ہے جس میں وہ زوردیتاہے۔ کہ ہمارے بُت اور دیوی دیوتا تمام نبیوں سے افضل ہیں۔ عیسائی مذہب نادیدہ واحد خدا کی تلقین کرتاہے اس لئے وہ بالکل جھوٹا مذہب ہے۔ پرستش ہمیشہ دیدنی بتوں کی کرنی چاہیے جس کو کبھی دیکھا نہیں اُس کی عبادت کیونکر کریں؟
ان مخالفینِ دین مسیحی نے اپنی تصنیفات میں مسیحیوں کی کتب مقدسہ مروجہ سے ہزارہا ہزار حوالے دئيے ہیں۔ جن کے مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اُن کے زمانہ میں بھی وہی انجیل مستعل تھی جوکہ اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ مقابلہ کرکے دیکھ لیجئے کہ ایک ایک لفظ مروجہ انجیل سے ملتاہے۔
(۵۔) حامیانِ دین مسیحی کی تحریرات ۔ جبکہ مخالفانِ دین مسیحی نے مسیحیوں اورمسیحی دین پر جھوٹے اورخود تراشیدہ الزام لگائے۔ اور بُت پرستی کی حمائت کی اور مذہب کوصرف عالموں اورزاہدوں تک محدود کردیا۔ توضرور تھاکہ اُن کا جواب باصواب دیا جائے۔ پس چند نہایت ہی زبردست مصدقین مذہب مسیحی پیدا ہوئے۔ کہ جنہوں نے مخالفوں کوتُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔ اورمسیحی مذہب کو الہٰی مذہب ثابت کیا۔ یہ مصنف دوقسم کے تھے۔ اول وہ جویونانی زبان میں لکھتے تھے۔ اوراُن کا طرزبیان نہایت عالمانہ اورفاضلانہ تھا۔ سب سے قدیم مصنف دوسری صدی میں کواڈریٹس اور یرسٹائیڈیز تھے پھر جسٹن اوراُس کے بعد اتھینا گورس، اورمیلیتو ہوئے۔ اورپھر ٹاشیان اورتھیوفلس ہوئے۔ اوران سب کے بعد کلیمنس اورآریجن ہوئے جوکہ سکندریہ کے افضل الفضلاء اوراکمل الکلملاء تھے۔ تیسری صدی میں چند لاطینی مصنف پیدا ہوئے۔ اُن میں سب سے پہلا لاطینی مصنف منوشی اس فیلکس تھا۔ جوٹرٹولین کا ہمعصر تھا۔ اوراس کے بعد کپریان بڑا نامور مصنف گذرا ہے۔ پھرچوتھی صدی کے آغاز ہی میں ارنوبی اُس نے اوراس کے بعد لیکٹیشی اُس نے ایک لاجواب کتاب لکھی۔ یہ سب افریقہ کے باشندے تھے۔ اورروما کی کلیسیا میں ہپولیٹس ایک نامور مصنف تھا۔ ان سب مصنفوں نے انجیل مقدس کے ہزارہا حوالے اپنے تصنیفات میں دئے ہیں۔ جوباہم مقابلہ کرنے سے ازمنہ سابقہ وعہد حاضرہ کے نسخوں کے عین مطابق ہیں۔
اب یہ وقت تھا ۔ کہ جبکہ عظیم الشان اورعالمگیر سلطنت روم کا مذہب بُت پرستی اوروہم پرستی نہ رہ گیا تھا۔ بلکہ اُس کا بادشاہ قسطنطین اعظم خود مسیحی ہوگیا تھا۔ یہ ۳۳۴ء کا ذکر ہے۔ اوردین مسیحی سلطنت روم کا سرکاری جائز مذہب قرار دیا جاچکا تھا۔ اس زمانہ میں سلطنت روم ۱۱۶ مختلف صوبوں میں منقسم تھی۔ جن میں متفرق زبانیں بولی جاتی تھیں۔ لیکن یونانی زبان ہرکہیں یکساں سمجھی جاتی تھی۔ ان ۱۱۶ صوبوں میں دین مسیحی مدت سے دراز سے جاری تھا۔ اوران تمام مختلف صوبوں کی مسیحی جماعتوں کے پاس کتب مقدسہ اُن کی اپنی اپنی زبانوں میں بکثرت موجود تھیں۔ جن کووہ کلام اللہ مان کر اپنی اپنی جماعتوں اورعبادتخانوں میں متواتر پڑھتے اورسناتے تھے۔ اوردوسرے بُت پرست منکر ان دین مسیحی کے اعتراضات کی تردید میں آیات کتب مقدسہ بطور اقتباس اپنی کتب ورسائیل اورخطوط اورتحریرات بحث ومباحثہ میں درج کرتے تھے۔ پس اگر اُس وقت سے پیشتر ۳۲۴ء کے مقدس نوشتے باہمد گرموافق ومطابق نہ ہوتے۔ توکبھی یہ ممکن نہ تھا۔ کہ اُن مختلف دوردراز ملکوں اورمختلف فرقوں اور متفرق زبانوں کی بیشمار کتابوں، رسالوں ، خطوں اوردیگر مناظرانہ تحریرات کے مطالب ومقاصد اور اقتباسی آیات باہمد گرموافق ومطابق ہوتیں۔ مگرچونکہ وہ مطابق وموافق باہمد گرمیں۔ اس لئے نتیجہ نکلتاہے ۔ کہ کل پاک نوشتے شروع ہی سے بلاتحریف اُن میں مستعمل رہے۔ اسی طرح ۴۰۰ء اوراُس کے بعد کی نامحصور تحریرات وتصنیفات کی متفقہ شہادت سے یہی نتیجہ نکلتاہے۔ کہ بلاشبہ اُس سے پیشتر بھی وہی صحف معتبر تھے کہ جواُن کے درمیان ہرملک اورہرزبان میں مروج تھے۔ کیونکہ ۴۰۰ء سے ۱۴۰۰ء تک مشرقی اورمغربی ممالک میں مسیحی مذہب بکثرت پھیل گیا تھا۔ اوراکثر علماء اورنامور مصنف مسیحی ہوگئے تھے۔ اس وجہ سے عہد جدید کے صحیفوں پر بیشمار شہادتیں ملتی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ صحف انجیل بالکل صحیح ومعتبر اورمستند ومعتمد ہیں۔ اوریہ کہ وہ بلا شبہ اُنہیں حواریوں کی تصنیفات ہیں جن کی طرف وہ مسنوب ہیں۔
۱۴۰۰ء سے ۱۹۲۷ء تک ظاہرہے کہ ۱۴۳۶ء میں چھاپے کا فن ایجاد ہوا۔اُس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بائبل کے نسخے چھاپے گئے۔ اُس وقت سے لے کر آُ جتک ہزاروں ، لاکھوں کتابیں رسالے خطوط اورتحریرات موجود ہیں۔ کہ جن میں کثرت سے بائبل کی آیات اقتباس کی گئی ہیں ۔ جوکہ ایسی موافق ومطابق باہمد گرمیں کہ اُن کی نسبت کسی کوکسی قسم کا شک وشبہ ہوہی نہیں سکتا ۔ بلکہ کامل یقین ہوجاتاہے۔ کہ جوصحیفے ان دنوں مروج ہیں وہی سب ۱۴۰۰ء تک جاری تھے۔ فی الجملہ ۵۰ء سے ۹۸ء اور ۹۸ء سے ۱۷۰ء اور ۱۷۰ء سے ۳۰۰ ء ۴۰۰ء اور ۴۰۰ء سے ۱۴۳۶ء اور ۱۴۳۶ء سے ۱۹۲۷ء تک کلام اللہ کے نہ بدلنے کا بیان ہم نے تاریخی طور سے کردیا ہے جس سے ظاہر ہوتاہے ۔ کہ آج کے دن سے لے کر رسولوں کے عہد تک معتبر تصنیفات میں صحف مذکورہ کی شہادت کاملہ کا مسلسل سلسلہ ملتاہے کہ جس سے یہ امر پایہ ثبوت کوپہنچ جاتاہے۔ کہ جوصحیفے ان دنوں عہد جدید کے مجموعہ میں شامل ہیں۔ وہی بجنسہ حواریانِ مسیح کے زمانہ تک ہروقت برابر مسیحیوں میں جاری اور رائج اورمشہور ومعروف رہے۔ اور صرف وہی معتبر ومستند کلام الہٰی تسلیم کئے گئے۔اورنیز رسولی زمانے اوروسطی زمانہ کے اورعہد حاضرہ کے کل نسخوں کا باہمی مقابلہ کرکے بخوبی معلوم ہوسکتاہے۔ کہ انجیل مقدس اورعہد عتیق کا متن کبھی نہیں بدلا۔ بلکہ برعکس اس کے دنیا کی کل کتب کے مقابلہ میں بالکل غیر محرف وبلاتبدیل وتصحیف ہے۔ بڑی تحقیق وتدقیق کے بعد کل علمائے یورپ وامریکہ کی یہی رائے قررار پائی ہے۔
اگرعلماء کی نظر میں کتب مقدسہ محرف یا غیر معتبر ثابت ہوجاتیں۔ تووہ ان محرف اورغیر معتبر کتابوں پر اپنا ایمان رکھ کر اپنی عاقبت کو کیوں خراب کرتے؟
ہم اس جگہ اس امر کے گذارش کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے ۔ کہ گذشتہ صدی میں عہد جدید کے متن کی صحت وصداقت پر یورپ وامریکہ کے چند دہریہ اورملحد علماء نے بڑے بڑے قیاسی اور محض فرضی اعتراضات کئے تھے۔ اوراُس کے مستند اورقدیم ہونے کواپنی قیاسی اور فرضی دلائل سے باطل ٹھہرانے کی بیحد کوششیں کی تھیں۔ اورجن کی ناقابلِ اعتبارتحریروں کی پیروی اورخوشہ چینی ہندوستان کے مولوی رحمت اللہ کریانوی مصنف اعجاز عیسوی اور ڈاکٹر وزیر خاں اسسٹنٹ سرجن آگرہ اورمولوی سید آل حسن موہانی وکیل آگرہ مصنف کتاب استفسار نے کی تھی۔ اورپھر ان سب کی تحریروں کی کاسہ لیسی وخوشہ چینی مرزا غلام احمد قادیانی نے خوب کی۔اگرچہ یہ امر سراسر خلافِ مسلمات ومقبولات قرآن عربی تھا۔ لیکن توبھی اُنہوں نے یورپ کے دہریوں اورملحدوں کی پُرتعصب اور زہر سے لبریز قیاسی اورمصنوعی تحریروں سے تقویت پاکر اوراُن کوبمنزلہ الہام الہٰی اورنوشتہ جبرئیل جان کر مسیحیت پر بڑے زور شور سے حملے کئے تھے۔ مگرموجودہ صدی کی جدید تحقیقات نے یورپ وامریکہ کے تمام ملحدوں اوردہریوں کے اُن تمام قیاسی اور خود ساختہ اعتراضات کا قرار واقعی قلع قمع کردیا ہے۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے۔ کہ جو لوگ پہلے عہدجدید کے متن پر شک وشبہ کرتے تھے۔ وہ شہبات اب کالعدم ہوگئے ہیں اور ملحدوں کے قیاسی اعتراضات بالکل غلط اوربے بنیاد ثابت ہوگئے ہیں۔ اب سائنس اور تحقیقات جدید کے ہر پہلو سے نئے عہد نامہ کا متن بعمہ دیگر واقعات مندرجہ انجیل کے بالکل صحیح اور درست ثابت ہوچکاہے۔
چنانچہ امریکہ کے ایک جید اور عالم معتبر ڈاکٹر کیمڈن ایف کوبرن صاحب نے ایک عدیم النظیر کتاب تصنیف کی ہے۔ جس کا نام دی نیوٹسٹمنٹ ان اٹس سیٹنگ ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے صحت متن انجیل ونیز قدامت انجیل پر نہایت عالمانہ اور فاضلانہ بحث کرتے ہوئے ہر باب میں آرکیالوجی (علمِ آثارِ قدیمہ) کی زبردست شہادتیں پیش کی ہیں۔ جوکہ علماء کی نظر میں نہایت درجہ معتبر اورمستند قرار پاچکی ہیں۔ اوراُنہوں نے اس کل بحث کا نتیجہ یہ نکالا ہے۔ کہ علم آرکیالوجی کی رُو سے نئے عہدنامہ کامتن کسی دیگر قدیمی کتاب کے متن کی بہ نسبت زیادہ صحت اورصفائی اوریقین کے ساتھ قائم ثابت ہوتا ہے ۔ اورانجیلی متن کی قدامت کی بیشمار اور پُرزورشہادتوں کے برخلاف ایک دریافت بھی ایسی دستیاب نہیں ہوئی۔ کہ جس سے انجیلی متن کی بابت کچھ بھی شبہ پیدا ہوسکے"۔
پس انجیلی متن کے خالص اور بے لوث ہونے کا مسئلہ علم آثار قدیمہ کی بے شمار شہادتوں سے بھی ایسے عمدہ طور سے قائم اورثابت ہوچکاہے۔ کہ اُس کے مقابل کسی اور قدیم اصل زبان کی کتاب کے متن کے خالص اوربے لوث ہونے کا مسئلہ قائم نہیں ہوسکتا"۔ اس کتاب پر امریکہ ویورپ کے تمام علماء وفضلائے باکمال نے یہ شہادت دی ہے کہ مصنف نامدار کی کتاب مذکورہ کا نتیجہ ازروئے علم آثارِ قدیمہ بالکل صحیح اور قبولیت کے لائق ہے۔ اوراس میں کسی سخت سے سخت مخالف کوبھی چُون وچرا کرنے کی جگہ باقی نہیں رہتی"۔ یہ کتاب حال ہی کی مطبوعہ ہے۔ جودیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ محققین اس نادرالوجود علمی کتاب کو ضرور ملاحظہ کرکے اپنے کل شہبات کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ اوراس کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابیں بھی مطالعہ کریں۔ جواسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہیں۔ کینوی ٹرسٹ دی بائبل؟(۲) آردی کریٹکس رائٹ(۳) ببلونئین اینڈاوری اینٹل ایکسکاونشیسن اینڈ ارلی بائبل ہسٹری (۴) دی ویٹنس آف پیلسٹائن ٹودی بائبل (۵) ٹین میئرس ڈگنگ ان اجپٹ(۶) دی بائبل اینڈدی برٹش میوزئم۔
اب جو شخص اس روشنی کے زمانہ میں بائبل کی تحریف وتصحیف کے فرضی اور قیاسی راگ الاپے تووہ سائنس کی جدید تحقیقات سے قطعی بے بہرہ ثابت ہوگا۔ اوراُس کے اقوال مردود ہونگے۔
(۱۔) کس سن میں تحریف ہوئی؟
(۲۔) کس خاص مقام میں یہ فعلِ ناشائستہ عمل میں آیا تھا؟ ایک ہی جگہ یا کل دنیا کے ممالک میں یکدم ایسا فعل وقوع میں آیا تھا؟
(۳۔) کس شخص نے تحریف کی تھی؟
(۴۔) تحریف کا خاص مقصد کیا تھا؟
(۵۔) اس امر کے گوا کون کون سے معتبر اشخاص ہیں۔ یہودی ہیں یا مسیحی یا مسلمان؟
(۶۔) دنیا کی تاریخ اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ آیا کسی تاریخ سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ سکتاہے؟
(۷۔) ایسے تحریف کے مُدعی کواصل انجیل کا نسخہ بھی پیش کرنا چاہیے؟ تاکہ ہم اُس اصل انجیل کا مقابلہ اپنی موجودہ انجیل سے کرکے تحریف وعدم تحریف کا حکم لگاسکیں۔ اگر مُدعی کے پاس اس قسم کی کوئی انجیل نہیں ہے توپھر اُس کا دعوےٰ بلادلیل ہے۔ اورظاہر ہے کہ دعویٰ بلادلیل خارج ہوا کرتاہے۔ صرف دعویٰ ہی سے کوئی ثابت نہیں ہوجاتی۔ اورمحض مصادرہ علیٰ المطلوب کی محققین اورمدققین کی نظر میں کوئی قدرومنزلت اوروقعت نہیں ہے۔پس آپ یا عدم تحریف کے فراخدلی سے قائل ہوجائیے۔ یا اگر قائل نہیں ہوتے۔ توپھر اصل انجیل لاکر دکھادیجئے۔ اگرہمارے پاس محرف اورجعلی انجیل ہے توآپ لوگوں کے پاس کوئی غیر محرف اوراصل انجیل بھی ضرور ہوگی۔کہ جس کی رُو سے ایسا دعویٰ کیا جاتاہے۔ بس پھر ہمارا اورآپ کا مناقشہ ہی ختم ہوجائيگا۔ اگرکوئی اصل انجیل آپ کے پاس نہیں ہے۔ توپھرہمارا دعویٰ اصلیت انجیل تاریخی طور سے ثابت ہے۔ اورآپ کا دعویٰ تحریف بائبل بلادلیل خارج ہے۔
اکثر مسلمان اورخصوصاً مولوی صاحبان یہ بھی کہا کرتے ہیں۔ کہ پادری صاحبان نے انجیل میں ضرور تحریف کردی ہے۔ کیونکہ قدیم مترجم انجیل میں چند ایسی آیتیں پائی جاتی ہیں۔ جوکہ اب نئے ترجمہ والی انجیل میں نہیں ہیں۔ اوراس میں سے نکال دی گئی ہیں"۔
ہم اس کے جواب میں مختصر طور سے یہ کہتے ہیں کہ بیشک وہ آئیتیں ۴۷۰ء کے یونانی قلمی نسخہ کے مطابق آتھورائزڈورشن میں موجود تھیں۔ مگراب ریوائزڈورشن یعنی ترجمہ جدید میں سے خارج کردی گئی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے جس قدم یونانی نسخہ سے ترجمہ کیا گیا تھا۔ وہ ۴۷۰ء کا قلمی نسخہ تھا۔ اوراُس قلمی نسخہ کے حاشیہ پر وہ خارج شدہ عبارتیں بھی مندرج تھیں۔ جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے۔ جن کا مترجمین نے یہ سمجھا کہ یہ متن ہی کی چھٹی ہوئی عبارتیں یا آئیتیں ہیں۔ اس لئے اُنہوں نے ترجمہ کرتے وقت اُس حاشیہ کی عبارتوں یا آئیتوں کوبھی بلاامتیاز غلطی سے متن ہی کا جزوسمجھ کرترجمہ میں شامل کردیا ۔ کیونکہ متن اوراُن میں امتیاز کرنا محال تھا۔ لیکن اب جبکہ بڑی تلاش اورجستجو سے علمائے یورپ کواُس نسخہ سے بھی نہایت ہی قدیم یونانی متعدد قلمی نسخے مل گئے۔ جو۲۴۰ء اورخصوصاً یوحنا رسول کی وفات کے کچھ عرصہ بعد کے ہیں۔ تواُنہوں نے ۴۷۰ء والے نسخہ سے اُن کا مقابلہ کیا۔ مقابلہ کرنے سے معلوم ہوا ۔ کہ" اُن نہایت ہی قدیم نسخوں کے حاشیہ یا متن میں ۴۷۰ء والے نسخہ کے حاشیہ کی عبارتیں نہیں ہیں۔ اوروہ متن کا جزونہیں ہیں۔ اوروہ عبارتیں کاتب سے لکھتے وقت چھوٹ نہیں گئی تھیں کہ جس کے باعث حاشیہ میں اُن کو لکھنا پڑا تھا بلکہ یہ تومالکانِ نسخہ جات کے اپنے تفسیری وتشریحی نوٹ تھے جوکہ اُنہوں نے اپنے افہام وتفہیم کے لئے حاشیہ پر لکھ دئیے تھے۔ اورغلطی سے اُن کو متن کی اصل عبارت سمجھ لیا گیا تھا"۔ پس اُنہوں نے حددرجہ کی تحقیق وتدفیق کرنے اور صدہا باقدیمی نسخوں کا باہم مقابلہ کرنے کے بعد اُن حاشیہ کی عبارتوں کومتن سے خارج کردیا۔علمائے یورپ کی اس کارروائی سے پاک نوشتوں کی تحریف وتصحیف کا الزام اُن پر عائد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے اُن کی پرلے درجہ کی جسارت، صداقت، ایمانداری اوردیانتداری ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بھی خوب دیا رکھئے۔ کہ اگرحاشیہ کی ان عبارتوں کومتن میں داخل رہنے دیا جائے۔ یا اُن کو نکال دیا جائے۔ تواس سے کسی قسم کی بھی مشکل درپیش نہیں ہوتی۔ نہ کوئی تعلیم بدلتی ہے۔ اورنہ کوئی عقیدہ یا مسئلہ ہی غلط ثابت ہوتاہے اورنہ کوئی اختلاف پڑتاہے۔ بلکہ اُن عبارتوں سے تفسیر وتشریح کا کام نکلتاہے ۔ پس ان آئیتوں کونکالنے کی وجہ نقصِ تعلیم ومسائل نہیں ۔ بلکہ صرف یہ ہے ۔ کہ ازروئے تحقیقات جدید عبارتیں انجیل کے قدیم ترین نسخوں کے متن کا جزوثابت نہیں ہوئیں۔ بلکہ محض مالکانِ نسخہ جات کے تفسیری وتشریحی نوٹ۔ ہاں اگر کسی تحریف ثابت کرنے والے میں یہ ہمت اورحوصلہ ہوکہ وہ یہ ثابت کرکے دکھادے۔ کہ یہ خارج شدہ عبارتیں نہایت ہی قدیم نسخوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔توپھر ہمیں بھی اُن کومتن ہی کا حصہ قبول کرلینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی یہ ثابت نہ کرسکے۔ توپھر ہمارا دعویٰ سچا ہے کہ مسیحی علماء نے انجیل کی اس قدر تحقیقات اورچھان بین کی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے۔ کہ یونانی اصل متن میں کسی قسم کی بھی تحریف وتصحیف نہیں ہوئی ہے۔بلکہ متن انجیل کو قدیم سے قدیم نسخوں کے ساتھ مقابلہ کرکے صحیح اور مستند اور قابل اعتبار ثابت کردیا ہے۔ پس جو لوگ انجیل میں تحریف لفظی کے قائل ہیں وہ سخت ترین غلطی میں مبتلا ہیں اُن کا دعویٰ بلادلیل قابل تسلیم نہیں۔ اور اُن کا یہ دعویٰ ازروئے قرآن بھی بالکل مہمل اورغلط ہے۔ وہ صرف مسیحیو ں کی ضد پر تلے ہوئے ہیں۔ خواہ اُن کے اس اعتقاد سے اُن کا اپنا ہی ایمان برباد ہوجائے۔ لیکن اُن کو اس امر کی پرواہ نہیں ۔ وہ کسی کی بھی نہیں سنتے۔ افسوس ہے ایسے مسلمانوں پر ۔ لیکن مجھے ہرگز یہ توقع نہیں ہے کہ آپ سمجھدار اوربیدار ہوکر ایسے نام نہاد ضدی مسلمانوں کے ہم خیال وہنموا ہو کے اپنا ہی دین وایمان غارت کرلینگے۔ کیونکہ یہ وہ کتابیں ہیں ۔ کہ جن کی صداقت اورربانی ہونے پر خود حضرت محمد نے ۲۳ برس تک ملک عرب میں بڑے زور شور سے شہادت دی۔ اور یہ کتابیں مسلمانوں کی دین وایمان میں داخل کردیں۔ جوشے کہ جزوایمان ہو اُس پر ایسا الزام لگانا کہاں کی دینداری اورمسلمانی ہے؟
الغرض کتُب مقدسہ کی تحریف وتصحیف کا دعویٰ عقل ونقل اورتاریخ کے قطعی برخلاف ہے۔ کوئی شخص اس کو ثابت کرکے دکھانہیں سکتا۔ اورجولوگ کاتبوں کے سہو کوپیش کرکے دعویٰ تحریف کی دلیل گرادانتے ہیں وہ بالکل بے انصاف ہیں۔ کیونکہ اس امر کو تحریف عمدی (تصحیف) سے علاقہ ہی کیا ہے۔ سہو تواکثر ناقلوں سے ہرایک کتاب میں ہوا ہی کرتاہےلیکن وہ مقابلہ کرنے سے درُست کرلیا جاتاہے۔ خوب یادرہے کہ متن توریت وانجیل مقدس مختلف زمانوں کے ہزارہا ہزار قلمی نسخوں کا باہمی مقابلہ کرنے سے بھی بالکل درست وصحیح ثابت ہوچکاہے۔
پھرچند ترجموں کے اختلاف کے سبب سے جودعویٰ تحریف کتب مقدسہ سماوی کیا جاتاہے یہ بھی بالکل بیجا ہے۔ کیونکہ ترجموں کے اختلاف کا ہونا مترجموں کی کم علمی یا کم فہمی کے سبب سے ہوتاہے ۔ مثلاً چار شخص کسی کتاب کومختلف جگہوں یا مختلف زبانوں میں ترجمہ کریں تو ضرور اُن میں کسی قدر اختلاف الفاظ اورمحاورہ کا ہوگا۔ اورجبکہ مختلف استعداد لیاقت کے لوگ مترجم ہوتے ہیں۔ تواختلاف کا ہونا ناممکن نہیں ہے۔ لیکن ان کے اختلاف کا اثر اصل کتاب کے متن پر نہیں پڑتا۔ اس لئے واجب ہے کہ جوترجمہ اصل کے مطابق ہو اُس کوقبول کرلیا جائے اور بس۔
کیا مولانا شاہ عبدالقادر صاحب مولانا عاشق الہٰی صاحب مولانا مرزا حیرت صاحب دہلوی۔ مولوی شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی۔ مولانا نذیر احمد صاحب دہلوی۔ مولانا اشرف اعلی صاحب تھانوی اورمولانا نجم الدین صاحب سیوہاری اورمولانا محمود الحسن صاحب مولوی فتح محمد صاحب اورمولانا محمد علی صاحب ایم اے امیر جماعت احمدیہ لاہور کے تراجم باہم ملتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ بلکہ اُن میں زمین وآسمان کا فرق ہے اوران میں سے کسی کوبھی مستند ترجمہ نہیں کہہ سکتے ۔ کہ ان اختلافاتِ ترجمہ سے متن قرآن بھی بدل جاتاہے؟ ہرگز نہیں پس اسی طرح انجیل وتوریت کے مختلف ترجموں کا قیاس بھی کرلیں۔ اورآئندہ کلمہ تحریف درکتب مقدسہ زبان پر ہرگز ہرگز نہ لائیں۔ کیونکہ یہ دراصل مسیحیوں ہی دل آزادی نہیں۔ بلکہ کتب مقدسہ کی توہین اورخود خداتعالیٰ کی اہانت ہے۔
ممانعتِ تحریف وتصحیف درکتابِ المقدس
(۱۔) تم اس کلام میں جو میں تمہیں فرماتاہوں کچھ زیادہ نہ کیجیو نہ اُس میں سے کم کیجئو(استشنا ۴: ۲)
(۲۔) توہرایک بات پرجس کا میں تمہیں حکم دیتاہوں دھیان رکھ کے عمل کیجئو تواس سے زیادہ نہ کرنا۔ نہ اُس سے کم کرنا۔اسشنا ۱۲: ۳۲۔
(۳۔)تواُسکے کلام میں کچھ نہ بڑھانا۔(امثال ۳۰با ب ۶آیت)۔
(۴۔) میں ہرایک آدمی کے آگے جواس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتاہے گواہی دیتا ہوں۔ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے ۔ تو خدا اس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں نازل کریگا۔ اوراگرکوئی اس نبوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے۔ توخدا اُس زندگی کے درخت اورمقدس شہر میں سے جن کا اس کتاب میں ذکر ہے اُس کا حصہ نکال ڈالیگا(مکاشفات ۲۲باب کی ۱۸ سے ۱۹آیت۔
خاتمہ
معزز ناظرین ! آپ صاحبان کومندرجہ بالا تمام دلائل وبراہین کے ملاحظہ سے بخوبی واضح وآشکارا ہوگیا ہوگا۔ کہ کتاب مقدس کے صحیفے (عہد عتیق وعہد جدید) سب کے سب معتبر ومستند وصحیح واصلی اہل کتاب میں مروج ومتداول رہے ہیں۔ ہر طرح سے اُن کی شہادت کامل ملتی ہے۔ اورہرگونہ اُن کی صداقت اورمعتبری کا یقین حاصل ہوتاہے۔ اوریہ بھی کہ جس قدر اعتراضات کہ بعض علمائے اہل اسلام نے بادعائے تحریف کئے ہیں۔اول تواکثر اُن میں سے ایسے ہیں کہ جن کا کچھ تعلق بھی تحریف سے نہیں۔ اورجواس سے تعلق رکھتے ہیں اُن سے ہرگز ثبوت تحریف نہیں ہوتا۔ علاوہ برآں یہ امر خود قرآنی عربی ہی کی تصدیق اورشہادت کے برخلاف ہے۔ جوصاف صاف گواہی دیتاہے۔ کہ کتاب المقدس مروجہ یہود ونصاریٰ صحیح اوراصلی ہے۔ جوشخص حق پسندی اورعقل وانصاف کے ساتھ قرآن عربی کو پڑھے۔ اوراُس کے تمام مطالب ومقاصد کوجودربارہ کتاب مقدس اوراُس کے صحیفوں یا یہود ونصاریٰ کے باب میں وارد ہیں۔ ملاحظہ کرے۔ تواُس کو ہرگز یہ شبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ کہ گویا قرآن عربی کا دعویٰ ہے۔ یا اُس سے یہ مستنبط یا مترشح ہے۔ کہ گویا اہل کتاب نے کتاب اللہ کو محرف کردیا ہے۔ اوربدل ڈالا ہے۔ اوراب کتاب مذکور قابل اعتماد ولائق اعتماد نہیں ہے۔ اوراگر بالفرض کوئی شخص ان آیات بینات قرآنی کو جودربارہ صحت واصلیت ومعتبری کتاب المقدس کے ہیں قصداً یا سہواً پیش نظر نہ رکھ کر صر ف اُنہی دوچار آئیتوں کے ظاہری الفاظ پر نگاہ کرکے جواہل یہود کے زبان مروڑ کر (تحریف زبانی ) پڑھنے کےباب میں ہیں(اس بات کی مفصل تحقیق کے لئے دیکھو اسی کتاب کا دوسرا صیغم حصہ )کھینچ تان کر اسی بات کو مان لے کہ قرآن عربی میں اہل یہود کوتحریف کرنے کا الزام دیاہے۔ تواس بہتان اورتہمت کوجہاں تک چاہو بڑھاؤ۔وہ صرف چند اشخاص یہودیان مدینہ کی نسبت عائد ہوسکتی ہیں ۔ مگر وہاں کے باقی یہودیوں کی نسبت (جن کی دینداری ، نیکوکاری کی ازحد تعریف کی ہے۔ اوراُن کے بارے میں اس بات کی گواہی دی ہے۔ کہ وہ خدا کے کلام کواچھی طرح پڑھتے ہیں۔ اوروہی اس کتاب کے مومن بھی ہیں۔ اوروہ خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ اورقیامت کومانتے ہیں اورامربا المعروف ونہی عن المنکر کرتے اورنیک کام کے کرنے میں دوڑتے ہیں۔ اوروہ لوگ نکوکارہیں)۔ توہرگز ہرگز خیال میں بھی نہیں آسکتاہے۔ کہ قرآن عربی جن کی ایسی تعریف وتوصیف کرے۔ پھر اُنہی کوتحریف کنندہ کلام اللہ قرار دے اوراس گناہ عظیم کامرتکب ومجرم ٹھہرائے۔
پھر اگربفرضِ محال مان لیا جائے کہ سب یہودیان مدینہ نے ایسا ہی کام کیا ۔ توکیا وہاں کے نصاریٰ بھی اُن کے ساتھی ہوگئے ۔ جن کی نسبت تمام قرآنی عربی میں تحریف کا ذرا اشارہ تک بھی نہیں کیا گیا۔ پھر محال برمحال اورخلاف برخلاف فرض کرلو۔ کہ مدینہ کے تمام اہل کتاب باوجود آپس کی مخالفت ومبائنت کے اُس بے ایمانی کے کام میں شریک ہوگئے۔ توکیا تمام جہان کے یہود ونصاریٰ نے بھی اُن کا ساتھ دیا۔ اورتمام دنیا کے صحف مقدسہ یکساں محرف ومتغیر کردئیے گئے؟ ایسی جھوٹی بات پر کون یقین اوراعتبار کرسکتاہے۔ اور کس کا دل ایسے غلط اورناممکن امر کو تسلیم کرسکتاہے۔
دوُم یہ کہ علاوہ اس کے جائے غور ومقام فکر ہے کہ اہل کتاب کوتحریف کرنے سے کیا غرض تھی؟ اُن کا کونسا مطلب نکلتا تھا؟ اورکیا فائدہ دین یا دنیا کا حاصل ہوتا تھا؟
اگردینداری کا لحاظ کروتوظاہر ہے کہ جودیندار ہے اورخدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اُس سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اُسی کے کلام کو جس کو وہ سرچشمہ ہدایت جانتا اورمانتاہے بدل ڈالے ۔ اور اپنے خداوند خدا کے حکموں کومٹاڈالے اوربدل دے۔ اورجس کی رضامندی کا خواہاں اور جویاں ہو۔ اُسی کے غضب وقہر کوخود آپ ہی اپنے اُوپر بھڑکائے۔ اورجہنم کا وارث بنے۔
الغرض اہل کتاب کوکوئی غرض دینی نہ تھی کہ کلام اللہ کوجواُن کے پاس تھا بدل ڈالتے۔ بلکہ تحریف کرنا بلاشبہ بے ایمانی اورخدا تعالیٰ کے قہر وغضب کا باعث تھا۔ کیونکہ کلام اللہ میں اس بات کی سخت تاکید وتہدید کردی گئی تھی۔ کہ تم اس بات میں جو میں تمہیں کہتاہوں نہ کچھ زیادہ کیجئیو اورنہ کم۔ (استشنا ۴: ۲۔ ۱۲: ۳۲۔ امثال ۳۰: ۶۔ مکاشفات ۲۲: ۱۸، ۱۹۔
باقی رہے دینوی فوائد جیسا کہ اہل اسلام گمان کرتے ہیں۔ کہ اہل کتاب نے دنیا میں اپنی کتاب بدل ڈالی ۔ چنانچہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی نے مدارج النبوتہ میں لکھا ہے کہ اہل کتاب نے بہ سبب بعض وعدات اورحسد وحب جاہ وعزت کے اپنی مقدس کتاب میں تحریف کی۔ اوراسی طرح دوسرے مسلمانوں نے بھی اُن کی تقلید کرتے ہوئے ارقام کیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ کوئی سبب دینوی بھی نہیں تھا۔ کہ اہل کتاب کلام خدا کو بدل کرمحمدی دین کے مخالف بنتے۔ اورقرآن عربی کے خلاف صحف مقدسہ بنالیتے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کونہ حضرت محمد نے اُن کے خلفاء اورصحابہ یادیگر مسلمان بادشاہوں اورامیروں کے رُوبرُو عزت حاصل ہوسکتی تھی۔ نہ یہ متصور تھاکہ تحریف کرنے سے اُن کو مسلمانوں کی مانند دولت وحشمت وریاست وحکومت واختیارات اورخلق اللہ کی لوٹ اورغنیمت ملیگی۔ بلکہ ہر شخص خوب جانتا ہے کہ اگراہل کتاب حضرت محمد اورقرآن عربی کومان لیتے۔تواُن کی تالیف قلوب اورتہ غیب وتحریص توحضرت محمد کو یہاں تک منظور تھی۔ کہ قبل اس کے کہ اُن کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حال بخوبی معلوم ہو۔ اُن کی قرآن عربی میں جوبجا تعریف وتوسیف بیان کی گئی تھی۔ اورمکہ چھوڑ کر بیت المقدس کی جانب سجدہ ہونے لگا تھا۔ اوربہت سے دستور وطریق شرعی وغیر شرعی دینی اوردینوی مسلمانوں پر واجب وفرض وسنت ومستجب کئے گئے تھے۔ اوراہل کتاب کوجا بجا بڑے بڑے وعدے کثرت سے دنیا ودین کے دئیے گئے تھے۔پس اگرمسلمان ہوجاتے ۔ تویہ بیچارے کس لئے ملک عرب سے جلاوطن کئے جاتے۔ اورکیوں جرئیے دیتے۔ اورکاہیکواُن کے ملک غضب کرلئے جاتے۔ اوراُن میں سے بیشمار لوگ کیوں تہ تیغ بیدریغ ہوتے اوراُن کے خون سے کیوں روئے زمین سرخ ہوتی۔ اورکیوں ہزارہا ہزارعورتیں اوربچے اسیر ہوکر مسلمانوں کو لونڈیاں اورغلام بن کر بکتے پھرتے۔ اور اُن کے تمام شہر وقصبات وقریٰ کیوں تباہ وبرباد اوربے چراغ ہوجاتے۔ بلکہ صاف ظاہر ہے کہ اگروہ قرآن عربی اور حضرت محمد کومان لیتے تو(علاوہ اس کے کہ اُن سب آفات وبلیاتِ گونا گوں سے بچ جاتے۔ جونہ ماننے سے اُن پر نازل ہوئیں)۔ یہ بھی ضرور تھاکہ مسلمان ہوجانے سے عبدا للہ بن سلام کی مانند اُن کی اس دنیا میں بڑی عزت وقدرت ومنزلت ہوتی۔ اوربہت سے دیگر مسلمانوں سے بہت ہی بڑھ کر دولت حشمت وحکومت ملتی۔ اور متواتر مال ومتاعِ غنیمت پاتے۔ اوراُن کے مناقب ومحامد بھی قرآن عربی واحادیث میں مذکور ومسطور ہوتے۔ پس اہل کتاب کے لئے کون سے بواعث تھے۔ کہ جن کے سبب سے اُنہوں نے اُن سب دینوی عزت ودولت وحشمت اور عیش وطرب وخواہشہائے گونا گوں کو ترک کردیا۔ جو صرف قرآنِ عربی اور حضرت محمد کے ماننے سے بڑی آسانی کے ساتھ حاصل ہوسکتی تھیں۔ اوراُن کے بجائے انواع واقسام کی تکالیف اورقصد یعے جن کے سننے سے انسان کے ہوش گم ہوتے اوربدن پر لرزہ طاری ہوتاہے اپنے اُوپر گوارا کئے۔ اور اُف تک نہیں کیا۔ یہ محض اُن کی سچی دینداری، خدا ترسی، مذہبی غیرت اورکتب مقدسہ کا بے انتہا عشق ہی تھا۔ کہ جس نے اُن کو قرآنِ عربی اورحضرت محمد کی اطاعت سے بازرکھا۔ اوراُنہوں نے تمام دینوی سامانِ عیش وعشرت اوردولت وعزت اورحکومت کواپنے دین وعقائد کے مقابلہ میں بالکل ہی ہیچ سمجھا۔
ان باتوں پر جوشخص غورکریگا۔ بلا شبہ یقین کریگا۔ کہ اہل کتاب کے واسطے کوئی ایسا قوی سبب نہیں تھا۔ کہ وہ اپنی کتابوں کو بدل ڈالتے اوراُن میں تحریف کرتے۔
پھر اس سے بھی قطع نظر کرکے یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اگربالفرض والتقدیر کوئی شخص یا کوئی قوم بلاسبب اوربغیر علت ناحق تحریف وتبدیل کتاب المقدس کا ارادہ بھی کرتی۔ تاہم اُس کے ایسے ارادے کی تکمیل قطعی محال وناممکن تھی۔ اس واسطے کہ حضرت محمد سے پہلے ہی دین مسیحی ممالک دور دراز میں پھیل چکا تھا۔ چنانچہ ممالک روم وشام ویونان وافریقہ مصر کے اکثر لوگ مسیحی تھے۔ اوربُت پرست لوگ خال خال پائے جاتے تھے۔ اسی طرح اطالیہ وفرانس وہسپانیہ وانگلستان وغیرہ وغیرہ ملکوں کے باشندے اورنیز ملک جرمنی کے اکثر حصوں کے رہنے والے دین مسیحی قبول کرچکے تھے۔ اسی طرح عرب وایران وہندوستان اورچین میں بھی مسیحی اشخاص رہتے تھے۔ پس جو شخص ان ملکوں کی وسعت اوراُن کے شہروں اور آبادی اوراُن کے باہمد گرفاصلوں سے واقف ہے وہ بخوبی جان سکتاہے۔ کہ یہ کس طرح ممکن تھا۔ کہ ان ممالکِ کثیرہ وبعید کے ہزارہا مسیحی ایسی بے ایمانی کے کام میں ایک ہی وقت شریک ہوکر کلام اللہ کومتفق ہوکر بدل ڈالتے۔ ایں خیال است ومحالست وجنوں۔
اورپھر نہ صرف مسیحیوں کے پاس کتاب مقدس رائج ومشہور تھی۔ بلکہ اُس زمانہ میں بھی یہودی فرقے کے فرقے جا بجا ملکوں میں کتاب المقدس کا ایک بڑا حصہ یعنی عہد عتیق رکھتے اوراُس کی تلاوت کرتے اوراُس کو کلامِ خدا جانتے اورمانتے تھے۔ اوراُن صحیفوں کی ازحد قدرومنزلت کرتے تھے۔ پس کسی طرح سے بھی یہ ممکن نہ تھا۔ کہ حضرت محمد کے زمانہ میں یا اُس کے بعد تمام جہان کے بیشمار یہودونصاریٰ شرق سے غرب تک متفق ہوکر کلام اللہ کوبدل ڈالتے اورقرآن عربی کے مخالف بنالیتے اوردنیا وعقبیٰ کوبرباد کرلیتے۔
پھر اس کے سوا یہ بھی قابلِ یادداشت ہے کہ حضرت محمد کے زمانہ اوراس کے بعد بلکہ اس سے پیشتر بھی نہ صرف یہی اُمور تھے کہ دین مسیحی بہت سے دُور ودراز ملکوں میں جاری تھا۔جن کی زبانیں بھی جدا جدا تھیں اورہرایک ملک کے لوگ کتاب مقدس کواپنی اپنی زبان میں پڑھتے تھے۔ اور عبادت خانوں میں سناتے اورتعلیم وتلقین کرتے تھے۔ بلکہ ان سب موانع کثیرکے سوایہ امر بھی تھا۔کہ اس زمانہ میں اوراُس سے پہلے بھی مسیحیوں کے کئی فرقے تھے۔ جویاہمد گر بڑے غیرت مند اورمسائل جزیہ کے مباحثہ ومناظر میں سرگرم رہتے تھے۔ پس ممکن نہ تھا۔ کہ اگرایک فرقہ ایسی بے ایمانی کا کام کرتا۔اوراپنی کتاب کوبدل ڈالتا۔ توباقی سب فرقے والے بھی اُن کا ساتھ دیتے۔ اوراس بے ایمانی اورشیطنت کے کام میں بالکل متفق ہوجاتے بلکہ نہایت ضرور تھا۔ کہ اگرکوئی ایسا ناواجب کام کرتا تودوسرے لوگ فوراً اُس کوظاہر کردیتے۔ لیکن آج تک کتاب المقدس کی تحریف وتصحیف کی نسبت کبھی بھی کوئی تکرار یا کوئی مباحثہ نہیں ہوا۔اورنہ کسی تاریخ میں ایسے عظیم الشان واقع کا کوئی ذکر ہے۔
بجنسہ ایسا ہی حال سمجھئے کہ جیسا ان دنوں دین محمدی عرب، ایران، مصر اور ہندوستان وغیرہ وغیرہ ملکوں میں جاری ہے۔ اورمسلمانوں کے پا س قرآن ہے۔ اورمسلمانوں کے فرقے بھی مختلف اورسب ہی غیرت مند ہیں۔ پس اگرکسی جگہ کے لوگ یا کوئی فرقہ متفق ہو کر موجودہ قرآن کو بدل ڈالے۔ توممکن نہیں ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمان بھی اُس کا ساتھ دیں۔ اوربڑی خاموشی کے ساتھ کل دنیا بھر کے قرآن محرف ہوجائیں۔ پس اگر اس طرح قرآن محرف نہیں ہوسکتا۔ توکتاب المقدس کا بدل جانا اس سے بھی زیادہ ناممکن اورقطعی محال تھا۔
فی الجملہ اس باب میں جس قدر تلاش وتحقیقات اورچھان بین کروگے۔ اُسی قدر یقین پر یقین ہوتا چلا جائيگا۔ کہ کتاب المقدس (بائبل ) کی صحت واصلیت پرذرا بھی شک وشبہ کرنا گویا آفتاب پر خاک ڈالناہے۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ یہ دعویٰ کہ گویا کتاب المقدس محرف ہے اور اس میں تحریف واقع ہوئی ہے صرف بلا دلیل ہی نہیں بلکہ سراسرا باطل ہے۔ اورجوشخص قرآن عربی وحدیث کومنجانب اللہ جانتا اورمانتاہے اُس کو لازم نہیں کہ ایسا باطل اوربے اصل دعویٰ کرے۔ جوبالکل ہی قرآن وحدیث اورتاریخ کے قطعی برخلاف ہو۔اورجس سے قرآن عربی کے اقوال کی تکذیب لازم آئے۔ بلکہ ایک حقیقی مسلمان کو واجب وفرض ہے کہ جس طرح وہ شہادت وتصدیق قرآنی سے کتاب المقدس کوخدائے حی القیوم واصدق الصادقین وعالم الغیب والشہادتہ ومنزہ عین السہو والنسیان کا سچا اوربرحق کلام مانتاہے۔ اسی طرح اس بات کا بھی یقین کرے کہ بلاریب کتاب المقدس اصلی اورصحیح ہے۔ اورجواس کتاب کومحرف کہتاہے وہ فی الحقیقت دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
چونکہ قرآن عربی نے کتاب المقدس کی بڑے شدومد کے ساتھ تصدیق کی ہے اوراُس کومنزل من اللہ تعالیٰ تسلیم کیا ہے اوراس پر تمام مسلمانو ں کو ایمان لانے کی تاکید کی ہے۔ اس لئے قرآن عربی کے قول ہی کے مطابق تمام مسلمانوں پر فرض وواجب ہے کہ کتاب المقدس کا مطالعہ بدل وجان کریں جورحیم ومہربان خدا نے خلق اللہ کی ہدایت کے واسطے مرحمت فرمائی ہے۔ اورجس میں نہایت واضح طور سے طریق نجات اورابدی حیات کی راہ بتادی ہے۔تاکہ کل بنی آدم اُس ہولناک روزعظیم میں غضب وقہر الہٰی سے مخلصی حاصل کرکے اُس لازوال اوردائمی فارغ البالی اورخوشحالی وخرمندی وارجمندی کوحاصل کریں کہ جس کا وعدہ اُس نے یقینی طور سے اپنے سچے طالبوں سے فرمایاہے۔
خداوند کریم ورحیم اپنے لاانتہا فضل عمیم سے میرے تمام دوستوں آشناؤں ، عزیزوں بزرگوں کوایسی ہی نیک توفیق اورہدایت بخشے کہ وہ بے ریادل سے سچی توبہ کریں اوراُس کے حقیقی کلام کے ذریعہ سے اُس نجات ومغفرت تک جو اُس نے تمام بنی آدم کے واسطے بوسیلہ سیدنا عیسیٰ مسیح تیارکی ہے پہنچیں۔ اوراُس کی بے انتہا شفقت اورمکرمت میں شامل ہوں۔ امین یارب العالمین ۔