THE BIBLE IN ISLAM
BEING
A Study of the Place and Value of the Bible in Islam
BY THE
REV. WILLIAM GOLDSACK
کلام اللہ
ازروئے اِسلام
مصنف
پادری ڈبلیو۔گولڈ سَیک صاحب
مترجم
پادری جے۔علی بخش صاحب لاہور
APPROVED BY THE C.L.M.C. AND PRINTED BY KIND PERMISSION OF THE C.L.S.
۱۹۲۴ء
William Goldsack
(1871–1957)
کلام اللہ
ازروئے اسلام
باب اوّل
کلام اللہ کے بارےمیں محمد صاحب کا علم
جو شخص توجہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہےوہ یہ معلوم کئے بغیر نہیں رِہ سکتا کہ قرآن مجید میں بار بار توریت اور انجیل کا ذکر آیا ہے۔ کم ازکم ایک سو تیس(۱۳۰) دفعہ اِن کا ذکر ہے۔اِن کے علاوہ احادیث اور تفاسیرقرآن مجید میں بہت سےایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ہم کو کافی آگاہی مل سکتی ہے کہ اِسلام میں کلام اللہ کی قدرو منزلت کیا ہے۔
اِس میں تو شک کو کچھ گنجائش نہیں کہ توریت و انجیل کا بہت اثرمحمد صاحب پر ہوا۔بعض اوقات یہودیوں اور مسیحیوں سے اُن کا بہت گہر ا تعلق پڑااور قرآن مجید میں اُن کی طرف ایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے بخوبی واضح ہے کہ محمد صاحب نے اُن کوعربوں بُت پرستوں کے زمرے سے بالکل الگ سمجھا۔وہ لوگ خاص طور سے اہل کتاب اور الہٰی مکاشفے کے محافظ کہلاتے ہیں۔بُت پرستوں کو تو یہ دعوت تھی کہ یا تو اِسلام کو قبول کر و یا تلوار کے گھاٹ اُترو،لیکن اہل کتاب کو ایسی دعوت سے مستثنیٰ رکھا۔
محمد صاحب کی حین حیات میں اُن کا برتاؤ یہودیوں سے بدلتا رہا۔جب محمد صاحب مدینے میں پہنچے تو اُنہوں نے بعض یہودی فرقوں کے ساتھ دشمنوں کے حملے روکنے کے لئے عہد و پیمان کئے اور اِتحاد باندھا اور یروشلیم کو اپنا قبلہ قرار دیا تاکہ یہودیوں کی تالیف ِقلوب (دلوں کو ہاتھ میں لینا۔دل جوئی کرنا) کر کے اپنے ساتھ ملالے،لیکن جب یہ اُمید جاتی رہی اور بنی اسرائیل اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر قائم رہے تو اُنہوں نے یہودیوں کو سخت لعنت وملامت کی اور اِس کے بعد اُن کا برتاؤ یہودیوں سے سخت مخالفانہ تھا۔لیکن پیشتر اِ س سے کہ جدائی ہو قرآن مجید مجید کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صاحب کا تعلق بعض یہودی فرقوں سے بہت دوستانہ تھا۔چنانچہ یہودی تاریخ کی طرف جو اشارے اُنہوں نے کئے اور اُن کے بزرگوں اور نبیوں کے جو طول طویل (بہت لمبا)قصے بار بار آئے وہ اُنہوں نے ضرور بعض عبرانیوں سے سُنے اور سیکھے ہوں گےاور قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ محمد صاحب پر یہ الزام بار بار لگایا گیا کہ بعض گُمنام اشخاص یہ اسا طیر الاولین(اگلے لوگوں کے قصے کہانیاں) اُن کو سکھایا کرتے تھے۔نہ صرف ان نبیوں اور بزرگوں کے احوال جو توریت میں مذکور تھےمحمد صاحب نے یہودیوں سےسیکھے بلکہ اُن کی غیر ملہم کتابوں سے کئی قصے اور اُن کی کتاب تالمود سے کئی بیانات جو قرآن مجید میں مذکور ہیں حاصل کئے ہوں گے۔ناظرین اِس مضمون کے لئے’’ینابیع القرآن مجید‘‘کو پڑھیں جوہم شائع کر چکے ہیں(THE ORIGINS OF QURAN)۔یہاں صرف اتنا بیان کافی ہوگا جو اُنہوں نے اپنی یادداشت سے لکھا،اگر بلا تعصب اس کا مطالعہ کیا جائے تو اُس کے چشمے اور وجہ کے بارے میں کچھ شک باقی نہ رہے گا۔
عرب کے مسیحیوں کے ساتھ محمد صاحب کا جو رشتہ تھا وہ اُس رشتہ سے بھی گہرا تھا جومحمد صاحب اور یہودیوں کے درمیان تھا۔ایک تو وہ رشتہ ایسا قریب اور دوستانہ تھا کہ محمد صاحب کو یہ اقرار کرنا پڑا’’مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوںمیں ان کو قریب تر پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔یہ اِ س سبب ہے کہ اُن میں علما اور مشائخ ہیں اور یہ کہ یہ لوگ تکبر نہیں کرتے‘‘(سورۃمائدہ۸۲:۵)۔قرآن مجید سے ثابت ہے کہ محمد صاحب کی مسیحی لونڈی کو اُن سے خاص رسوخ (ربط ۔اعتبار)تھا اور غالباً اِسی کی وجہ سے محمد صاحب اور اُن کی دیگر بیویوں کے درمیان کشیدگی ہو گئی تھی ۔ اِس لونڈی سےمحمد صاحب نے نئے عہد نامہ کے قصّے اور اس انجیل کا بیان سُنا ہو گا جس کا ذکر اُنہوں نے ہمیشہ تعریف کے ساتھ کیا۔محمد صاحب کی پہلی اور محبوب بیوی خدیجہؓ بھی مسیحی دین سے واقف تھی اور اُس کا چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بقول ابن ہشام مسیحی ہو گیا تھا۔
قرآن مجید کی تفسیروں سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ توریت و انجیل کو سُنا کرتے تھے۔چنانچہ اِس آیت کی تفسیر میں ’’وہ کہتے ہیں کہ ہو نہ ہو اِس شخص کو (فلاں) آدمی سکھایا کرتا تھا‘‘۔ بیضاوی یہ لکھتا ہے۔
يَعْنُونَ جَبْرًا الرُّومِيَّ غُلَامَ عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِيِّ. وَقِيلَ جَبْرًا وَيَسَارًا كَانَا يَصْنَعَانِ السُّيُوفَ بِمَكَّةَ وَيَقْرَآنِ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، وَكَانَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُرُّ عَلَيْهِمَا وَيَسْمَعُ مَا يَقْرَءَانِهِ.
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبراؔ اور یسّار مکہ کے دو تلواریں بنانے والے توریت و انجیل محمد صاحب کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے اورمحمد صاحب جب اُن کے پاس سے ہو کر گزرتے تو جو کچھ وہ پڑھتے تھےاُس کو سنا کرتے تھے اورمحمد صاحب اُن کےپاس‘‘۔ تفسیر مدراک اور تفسیر جلا لین میں بھی یہی قصہ آیا ہے۔اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صاحب کی یہ عادت تھی کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی مقدس کتابوں کوسن کر اِ ن سے واقف ہو جائیں۔
علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محمد صاحب اہلِ کتاب سے اُن مقدس کتابوں کی تعلیم کے بارے پو چھا کرتے تھے۔چنانچہ ایک حدیث اس مضمون کے متعلق آتی ہے۔
مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 837وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا قَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ
ترجمہ:’’ابنِ عباس سے روایت ہے کہ جب نبی اہلِ کتاب سے کوئی سوال پوچھتے تو وہ لوگ اُ س مضمون کو دبا لیتے اور اُس کی جگہ کچھ اَور ہی کہہ دیتے اور اِس خیال میں چلے جاتے تھے کہ محمد صاحب سمجھیں گے کہ جو کچھ اُنہوں نے پوچھا تھا وہی اُن سے بیان کیا گیا‘‘۔
غالباًمحمد صاحب نے بائبل مقدس کو خود کبھی نہیں پڑھااوربے شک بعض مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد صاحب کو پڑھنا نہیں آتا تھا لیکن یہ مشتبہ امر ہے۔بعض مستند مثالیں احادیث میں بھی اورمحمد صاحب کی مروج سوانح عمریوں میں بھی پائی جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پڑھ بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔جن سے انکار ناممکن ہے۔کلام اللہ کی جو واقفیت اُن کو ہوئی وہ صرف سن کر ہی ہوئی۔عہد عتیق اور عہد جدید کے قصّے سیکھنے کے بہت موقعے اُن کو حاصل تھے۔
ہم یہ بھی ذکر کر آئے ہیں کہ محمد صاحب نے یہودیوں سے تالمودکے قصےبھی سُنے۔اِن قصوں کو اُنہوں نے توریت ہی کا جُز سمجھا ۔کیونکہ ایسے بعض قصے قرآن مجید میں بھی داخل ہو گئے۔اسی طرح محمد صاحب کوعرب کے بدعتی مسیحی فرقوں سے بھی ملنے کااتفاق ہوااور اُن بدعتیوں سے اُنہوں نے بعض جعلی کتابوں کے قصے بھی سُنے۔اِس طریقے سے بہت سے افسانے اور جھوٹے قصّے ایسی جعلی کتابوں کے اُن کو معلوم ہو گئےمثلاً ’’مقدس کنواری کی قبطی تاریخ‘‘ ،’’طفولیت کی انجیل‘‘،’’توما اسرائیلی کی انجیل ‘‘وغیرہ وغیرہ کا حال محمد صاحب نے اپنے مسیحی آشناؤں سے سنا ہو گا اورمحمد صاحب نے اُن کو بھی انجیل کا جُز قرار دیا اور قرآن مجید میں اُن کو جگہ دی ۔اِس بیان کےمفصل ثبوت کے لئے مصنف کی کتاب بنام’’چشمہ قرآن مجید‘‘ کودیکھو۔ہم یہاں یہ امر صرف اِس بات کو ظاہر کرنے کے لئے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب کوبائبل مقدس کا کس قدر محدود علم حاصل تھااور قرآن مجید میں ایسے غلط قصوں کے مندرج ہونے کی کیا وجہ تھی؟
مسیحیوں کے بعض مسائل کے بارے میں غلط رائے پیدا ہونے کی یہ وجہ تھی کہ محمد صاحب کو بعض مسیحی بدعتی فرقوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور اُن کے غلط مسائل کو سنا۔مثلاًمحمد صاحب کے زمانے میں عرب کے بعض حصوں میں بعض مسیحی بدعتی فرقے آباد تھے جنہوں نے کنواری مریم کی تعظیم میں اِس حد تک مبالغہ کیا جس سےمحمد صاحب کو یہ خیال گزرا کہ مسیحیوں کے مسئلہ ثالوث میں باپ،بیٹا اور کنواری مریم داخل تھے اور اِ س کی مخالفت اِس آیت میں آتی ہے:
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ’’جب خدا کہے گا کہ اَے مسیح ابنِ مریم کیا تُو نے بنی آدم کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا دو معبود مانو‘‘؟(سورۃ مائدہ۱۱۶:۵)۔
محمدصاحب کو جو علم توریت وانجیل کے بارے میں تھا اُس کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں کوئی کچھ کہہ سکتا ہے لیکن اِس کے متعلق تو شک کی گنجائش نہیں کہ ان آرا کا چشمہ کیا تھا اور اُن کی قدرو قیمت کیا تھی؟اُن کے بارے میں بہت صاف و صریح آیات آئی ہیں۔محمد صاحب نے ہر جگہ اور ہر وقت توریت و انجیل کو خدا کا مکاشفہ سمجھا جو خدا کے مقدس نبیوں کے وسیلے آدمیو ں کو دیا گیا تھااور اسی وجہ سے اُن کی عزت و تعظیم پر اُنہوں نے زور دیا۔اگلے باب میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہم اس امر کی تحقیق کی کوشش کریں گے کہ محمد صاحب کی رائے اُن کے بارے میں کیا تھی اور اُنہوں نے اُن کو کس نگاہ سے دیکھا؟
دوسرا باب
کلام اللہ کی قدرمحمد صاحب کی نگاہ میں
غور سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت سب سے پہلے یہ نظر آتا ہے کہ محمد صاحب نے کلام اللہ یعنی توریت، زبور و انجیل کا ذکر کیسے ادب و تعظیم کے ساتھ کیا۔باربار اس کا ذکر کیا کہ توریت ،زبور اور انجیل من جانب ِاللہ ہیں اور اُن کی اعلیٰ درجے کی تعریف کی۔بار ہا وہ ’’کلام اللہ‘‘،’’کتاب اللہ‘‘،’’ہدایت ورحمت‘‘،’’آدمیوں کے لئے نور اور ہدایت‘‘،’’خدا کی شہادت‘‘،’’ہدایت اور نور‘‘ وغیرہ کے نا م سے موسوم ہیں۔
محمد صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جیسا الہام قرآن مجید میں ہے ، ٹھیک ویسا ہی اُن میں ہے۔چنانچہ یہ لکھا ہے
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
’’ہم نے تیری طرف وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نے نوح اور دوسرے پیغمبروں کی طرف جو اُن کے بعد ہوئے وحی بھیجی تھی اور جس طرح ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھیجی تھی‘‘(سورۃ نسا۱۶۳:۴)۔
ایک دوسرے مقام میں محمد صاحب نے اس امر سے متنبہ کیا کہ قرآن مجید اور دیگر کتب سماوی کے درمیان جو اُس سے پیشتر نازل ہوئیں ہیں فرق نہ کریں۔
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
’’(مسلمانو ں تُم یہودو نصاریٰ کو یہ)جواب دو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر اترا اور جو ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب پر اُترا اور موسیٰ اور عیسیٰ کو جو (کِتاب) ملیں اُس پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو اُن کے پروردگار سے ملا اس پر ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی کسی طرح کا فرق نہیں سمجھتے اور ہم اسی ایک خدا کے فرمانبردار ہیں‘‘ (سورۃ بقرہ۱۳۶:۲)۔
محمدصاحب نے کلام اللہ کا ذکر صرف گہری تعظیم و عزت سے کیا بلکہ ہمیشہ اسے قابل اعتبار اور اپنے زمانے کے لو گو ں کے لئے اسے ’’نور وہدایت‘‘ کہا جیسا کہ وہ ان سے ماقبل لوگوں کے لئے تھا ۔اسی وجہ سے انہوں نے ایک دفعہ جب اس کے اور یہودیوں کے درمیان کھانوں کے بارے میں کچھ تنازعہ ہوا تو اس کا فیصلہ کرنے کے لئے اُنہوں نے توریت کو پیش کیا۔ایسی ایک مثال اس آیت میں پائی جاتی ہے
قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
’’اگر تم سچے ہوتو توریت لے آؤ اور اس کو پڑھو‘‘(سورۃ آل عمران۹۳:۳)۔
ایک دفعہ یہ بحث اُٹھی کہ فلاں یہودیوں کو کیا سزا دی جائے جو زنا کے مرتکب ہوئے تھے ۔اس کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے۔
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 883فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ
رسول ِخُدا نے اُن سے کہا ’’پتھراؤ کے بارے میں توریت میں تم کیا پاتے ہو‘‘۔اس پر توریت لائی گئی اور جو کچھ اُس کتاب میں لکھا تھا اُس کے مطابق اُن پر فتویٰ دیا ۔محمد صاحب کے زمانہ میں جو کلام اللہ تھا اُس کے متعلق ایسے واقعات سے بہت روشنی ملتی ہے۔ ان سے کم از کم اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ اُس وقت تک تحریف کا کچھ ذکر نہ تھا کیونکہ یہودیوں کے سا تھ تکراروں میں اُنہوں نے توریت کے فیصلے کو منظور کر لیا۔علاوہ ازیں اُن سے یہ بھی واضح ہے کہ اُس وقت تک تحریف کے مسئلے کا اُن کو کچھ علم نہ تھا کیونکہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ ان کے ہم عصر یہودیوں کے لئے موسیٰ کی شریعت کی پابندی لازمی تھی۔
یہودیوں اور مسیحیوں کی مقدس کتابوں کی نسبت بار بار قرآٓن میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ وہ ’’نور اور ہدایت‘‘ہیں۔ جب صورت حا ل یہ ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں کہ محمد صاحب نے اپنے پیروؤں کو یہ نصیحت دی کہ جب اُن کو کوئی مذہبی شک ہو تو اہل کتاب سے صلاح لیں ۔ایسی صلاح قابلِ لحاظ ہے اور اس سے عیاں ہے کہ اسلام کے نبی صاحب بائبل مقدس کی کیا قدر کرتے تھے ؟جس آیت میں اس کا ذکر ہوا وہ یہ ہے’’ہم نے تم سے پہلے بھی ایسے آدمی بھیجے تھے جن کی طرف ہم نے وحی کی تھی۔اگر تم کو خود معلوم نہیں تو پچھلی کتابوں کے پڑھنے پڑھانے والوں سے پوچھ دیکھو‘‘ (سورۃنحل۴۳:۱۶)۔اس آیت میں جو لفظ’’ أَهْلَ الذِّكْرِ ‘‘آیا ہے جس کا ترجمہ ’’پڑھنے پڑھانے والے‘‘ کیا گیا ۔جلالین میں اُس کی تفسیر یہ ہے ’’توریت اور انجیل کے عالم ‘‘۔عباس نے بھی یہی معنی سمجھے ’’اہل توریت و انجیل‘‘مزید تفسیر فضول ہو گی۔
کہاں تک محمد صاحب بائبل مقدس کی قدرکرتے تھے،وہ اس امر سےبھی ظاہر ہے کہ محمد صاحب نے اپنے زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں کو اُن پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ چنانچہ قرآن مجید کی کئی آیتوں میں اس کی شہادت ملتی ہےمثلاً سورۃ مائدہ ۶۸:۵میں یہ لکھا ہے
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ
’’اے اہل کتاب جب تک تم توریت اور انجیل اور ان (صحیفوں) کو جو تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئے ہیں قائم نہ رکھو گے تو کچھ بہرہ نہیں‘‘۔
ایک دوسرا مقام جس میں ذکر ہے کہ بائبل مقدس نہ محرف ہے اور نہ منسوخ یہ ہے
وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ
’’اوربعد کو ان کے قدم بہ قدم ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو چلایا کہ وہ تورات کی جو اُن کے وقت میں پہلے سے موجود تھی تصدیق کرتے تھےاور اُن کو ہم نے انجیل بھی دی جس میں ہر طرح کی ہدایت اور نور موجود ہےاور توریت جو اُس کے نزول کے زمانے میں پہلے سے موجود تھی، یہ انجیل اُس کی تصدیق بھی کرتی اور خود بھی پرہیزگاروں کےلئے ہدایت اور نصیحت ہے اور اہل انجیل کو چاہیئے تھا کہ جو حکم اُس میں خُدا نے اُتارے ہیں اُسی کے مطابق حکم دیا کریں‘‘(سورۃ مائدہ۴۶:۵۔۴۷)۔
یہاں انجیل من جانب اللہ ہدایت کہلاتی ہے ،نہ ایسی کتاب جو قرآن مجید سے منسوخ ہوگئی ہو بلکہ وہ ایسا معیار تھا جس کے ذریعے سےمحمد صاحب کے ہم عصر مسیحی حق ونا حق کے مابین امتیاز کر سکتے تھےاورجو لوگ اُس سے یہ فائدہ نہ اٹھائیں وہ خدا کی نظر میں گنہگار تھے کیونکہ اِس آیت میں آگے چل کر یہ لکھا تھا
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
’’اور جو خداکے اُتارے ہوئے حکموں کے مطابق حکم نہ دے تویہی لوگ نافرمان ہیں‘‘(سورۃ مائدہ۴۷:۵)۔
ایک دوسری آیت میں بائبل مقدس کے احکام کی پابندی پر زور دیا گیا ہے
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ
’’اور اگر یہ لوگ (اہل کتاب)تورات اور انجیل اور اُن (صحیفوں) کو جو اُن پر اُن کے پروردگار کی طرف سے اُترے ہیں قائم رکھتے تو ضرور ہم اُن کو ایسی برکت دیتے کہ اُن کے اُوپر سے رزق برستا اور پاؤں کے تلے سے اُبلتا اور یہ فراغت سے کھاتے ‘‘(سورۃ مائد ہ۶۶:۵)۔
جن تین آیا ت کا پہلے ذکر ہوا اُن سے شک کی گنجایش نہیں رہتی کہ محمد صاحب کی رائے بائبل مقدس کے بارے میں کیا تھی ۔نہ صرف اپنی خدمت کے شروع میں بلکہ مدینہ کو ہجرت کرنے کے چند سال بعد بھی اُنہوں نے اپنے زمانے کے یہودیوںاور مسیحیوں کو توریت وانجیل پر چلنے کی تاکید ایسے الفاظ میں کی جن میں شک کو جگہ نہیں۔اُن کو یہ حکم تھا کہ بائبل مقدس کے مطابق عمل کریں ،اُسی کے مطابق فیصلہ کریں ۔اگر اُن کے دین کا حصر(احاطہ) اُن مقدس کتابوں پر نہ ہو تو اُن کا دین بے سودورائیگاں تھا اور اگر وہ موسیٰ اور عیسیٰ کی معرفت ملی ہوئی شریعتوں پر نہ چلیں تو اُن کا دعویٰ دین کا باطل تھا اور جو اُن شریعتوں پر عمل کرتے ہیں اُن سے خدا کی مقبولیت اور برکت کا وعدہ تھا ۔کیا اس سے زیادہ صاف بیان ہو سکتا ہے جس سے یہ امر ثابت ہو کہ محمد صاحب کی رائے میں اُن کے زمانہ کی مروجہ توریت وانجیل غیر محرف اور نا منسوخ تھیں؟
یہ تو سچ ہے کہ محمد صاحب نے یہودیوں کے ساتھ بحث کرتے وقت اُن پر یہ الزام تو لگایا کہ وہ اپنی کتب مقدسہ کی غلط تفسیر کرتے اور ایسے اقتباس کرتے تھے جن کا قرینے کے ساتھ کچھ تعلق نہ تھا اور صداقت کو چھپاتے تھے ۔اہل اسلام کا آج کل یہی دستور ہے جب وہ جناب مسیح کے دَعاوِی (دعویٰ کی جمع) کے متعلق مسیحیوں سے بحث کرتے ہیں۔قرآن مجید کی ایسی آیات کی غلط تفسیر کےباعث آج بہت سےمسلمان یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ محمد صاحب نے یہودیوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے دانستہ اپنی مقدس کتابوں میں تحریف کی۔احتیاط سے ایسی آیات کا مطالعہ کرنے سےیہ بخوبی واضح ہو جائے گا کہ اصل بات یہ نہ تھی، جیسا کہ یہ محمدی صاحبان الزام لگاتے ہیں۔اگر یہودیوں نے ایسا کیا ہوتا تومحمد صاحب ایسے الفاظ استعمال نہ کرتے جن کو ہم نے پیش کیا ہے۔اس لئے ہم اگلے باب میں قرآن مجید کے اُن خاص مقاموں پر بالتفصیل غور کریں گے جن کو محمدی صاحبان بائبل مقدس کی تحریف ثابت کرنے کے لئے پیش کیا کرتے ہیں۔ہر جگہ یہی ظاہر ہو گا کہ اُنہوں نے عین نص(قطعی حکم۔وہ کلام جو واضح اور صاف ہو) میں کوئی تبدیلی نہ کی تھی۔صرف اُس کے معنی کو بگاڑا تھا یعنی اُس آیت کی غلط تفسیر کی تھی ۔اِس سے زیادہ وہاں اَور کچھ نہیں ملتا۔
تیسرا باب
ازروئے قرآن مجید تحریف کا الزام زمانہ حال میں
سر سید احمد خان مرحوم نے لفظ’’ تحریف‘‘ کی یہ تعریف کی’’امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں یہ بیان کیا کہ لفظ تحریف کے معنی ہیں بدلنا تبدیل کرنا،راہ صداقت سے پھیر نا‘‘۔اس لفظ کے یہ عام معنی ہیں لیکن جہاں کہیں یہ لفظ مقدس نوشتوں کے بارے میں مستعمل ہواوہاں اتفاق رائے سے اس کے یہ معنی سمجھے گئے ’’خُدا کے کلام کو اُس کی صداقت اور اصل معنی ومقصد سے عمداًبگاڑنا‘‘۔
عموماً تحریف دو قسم کی ہوتی ہے۔
ایک کو ’’تحریف لفظی ‘‘کہتے ہیں یعنی جہاں نص عبارت میں تبدیلی ہوئی ہو ۔
دوسری ’’تحریف معنوی ‘‘ہے جہاں غلط تفسیر و تشر یح کے ذریعے معنی کو بگاڑا ہو ۔
یہودیوں اور مسیحیوں کی مقدس کتابوں کی تحریف کی بحث کا دار و مدارا نہی دو قسموں پر ہے۔ خود محمد صاحب نے قرآن مجید کے اکثر قدیم مفسروں کی طرح یہودیوں پر تحر یف معنوی کا الزام لگایا۔انہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ جب توریت کی تعلیم یا بعض امور کی نسبت اُن سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ غلط تفسیر کے ذریعے یا صداقت کو چھپانے کے ذریعے سے اُن کے معنی بدل ڈالتے تھے ۔زمانہ حال کے اکثر مسلمان بائبل مقدس کو قبول نہ کرنے کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں دونوں نے جان بوجھ کر بائبل مقدس کی نص میں تبدیلی کی۔اُن کا یہ دعویٰ ہے کہ محمد صاحب کے آنے کی پیشین گوئیاں تھیں وہ اُنہوں نے نکال دیں اور مسیح کی اُلوہیت کے بارے میں بہت آیات ڈال دیں۔وہ اپنے اس دعویٰ کے اثبات کے لئے چند مقامات قرآن مجید سے پیش کرتے ہیں جن میں اُن کے خیال میں یہودیوں پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی مقدس کتابوں کی نص کو بدل ڈالا۔ اب ہمارا فرض یہ ہے کہ اِن سارے مقامات کی تحقیق کریں اور ہم آسانی سےیہ دکھا سکیں گے کہ اُن میں سے کسی مقام میں بھی محمد صاحب کا یہ منشا نہ تھا۔
تحریف کی تصدیق میں عموماً یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ
ترجمہ:’’لفظوں کو اُن کی جگہ سے پھیر تے ہیں‘‘(سورۃ مائدہ۱۳:۵)۔
بخاری نے اِس کی یہ تفسیر کی:
يُحَرِّفُونَ يُزِيلُونَ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُزِيلُ لَفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ يَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ
ترجمہ:’’وہ بدلتے یعنی ہٹاتے ہیں لیکن کوئی ایسا شخص نہیں جو کتاب اللہ میں سے ایک لفظ بھی ہٹا سکے‘‘ ۔ اس لئے اس لفظ’’وہ بدلتے ہیں ‘‘ سے مراد ہے ’’وہ اس کے معنی بدلتے ہیں‘‘۔سید صاحب نے خود اپنی واثق رائے اِن الفاظ میں ظاہر کی’’جو جملہ اِن الفاظ کے بعد آتا ہے یعنی یہ کہ جو نصیحت اُن کو ملی تھی وہ بھول گئے ۔اُس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اُنہوں نے ان الفاظ کے معنی و مقصد کو بدل ڈالا نہ یہ کہ انہوں نے خود لفظوں کو بدل ڈالا‘‘۔
اسی قسم کا الزام کہ یہودیوں نے الفاظ کو اُن کی جگہ سے بدل ڈالاسورۃ نسا ء۴۶:۴میں آیا ہے ۔وہاں یہ لکھا ہے:
مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ
ترجمہ:’’یہود میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو الفاظ کو اُن کی جگہ (یعنی اصلی معنوں )سے پھیرتے ہیں اور زبان کو مروڑ مروڑ کر اور دین میں ، سَ مِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا کہہ کر خطاب کرتے ہیں ‘‘۔قرآن مجید کی مستند تفسیروں کے دیکھنے سے بخوبی واضح ہو جائے گا کہ نہ اس آیت میں اور نہ اس سے ماقبل آیت میں یہودی توریت کی لفظی تحریف کا کوئی ثبوت ہے ،بلکہ برعکس اس کے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو الفاظ مذکورہیں وہ محمد صاحب کے الفاظ ہیں مثلاً جلالین میں یہ مذکور ہے کہ محمد صاحب کی ہنسی اُڑانے کے لئے بعض یہودی مروجہ سلام کو کچھ کچھ بدل کر سلام کرتے تھے مثلاً ’’السلام علیک‘‘ کی جگہ وہ ’’السام علیک‘‘(یعنی تجھ پر آفت آئے)کہا کرتے تھے۔یوں وہ اپنی زبان اور بولی سے اُن کو حیران کرتے تھے۔امام فخر الدین رازی کہتے ہیں کہ بعض یہودمحمد صاحب کے پاس آ کر اُن سے کچھ سوال پوچھاکرتے تھےلیکن اُن سے رخصت ہوتے وقت جو الفاظ محمد صاحب نے سکھائے تھے اُن کو بدل ڈالتے تھے۔لفظ رَاعِنَاکی تفسیر عبد القادر نے یہ کی ہے:
’’یہ لفظ یہودیوں کی زبان میں بُری بات تھی یا گالی تھی۔مسلمانوں کو دیکھ کر یہودی بھی معنی بد اپنے دل میں رکھ کر حضرت کوکہتے کہ رَاعِنَا۔اس واسطے مسلمانوں کو حکم ہوا کہ لفظ رَاعِنَانہ کہو‘‘۔
حسین نے یہ لکھا:
’’یہود رَاعِنَاکے عین کے زیر کو بڑھا کر راعیناکہتے تھے یعنی اے ہمارے چرواہےیعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر گائے بکری چرانے کے ساتھ طعن و تعیض کرتے تھے‘‘۔
اِسی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اِس کے معنی یہ تھے کہ خدا نےمحمد صاحب کو مخاطب کر کے یہ کہا۔’’اے میرے حبیب تیرے دشمن یہودتیری باتیں اپنے محل اور موقعے سے بدل ڈالتے ہیں‘‘۔مفسروں کے ان بیانات سے یہ عیاں ہے کہ بائبل مقدس کی تحریف ثابت کرنے کے لئے جو آیت پیش کی گئی ،اُس میں اُس کی طرف اشارہ تک نہیں بلکہ یہ ذکر ہے کہ یہودی محمد صاحب کے الفاظ کو توڑ موڑ کیا کرتے تھے۔یہ اس امر کی مثا ل ہے کہ بعض جاہل مسلمان قرآن مجید کی تعلیم کے بارے میں کیسی غلطی میں پڑ جاتے ہیں۔
اسی قسم کے لوگ قرآن مجید کی اس ا ٓیت کا حوالہ بھی دیا کرتے ہیں:
وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ:’’اور اُن کا حال یہ ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہو گزرےہیں کہ کلام خدا سنتے تھے پھر اُس کے سمجھے پیچھے دیدہ ودانستہ اُس کو کچھ کا کچھ کر دیتے تھے‘‘(سورۃ بقرہ۷۵:۲)۔
قاضی بیضاوی نے اس مقام کی یہ تفسیرکی ہے:
كَنَعْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَآيَةِ الرَّجْمِ أَوْ تَأْوِيلَهُ فَيُفَسِّرُونَهُ بِمَا يَشْتَهُونَ
ترجمہ:’’مثلاًً رسول اللہ کا حلیہ یاپتھراؤ کی آیت یا اُس کی تفسیرکیونکہ وہ ان کی تشریح اپنی خواہش کے مطابق کیاکرتے تھے‘‘۔
سر سید احمد خان مرحو م نے بھی اس مقام کی یہ تفسیر کی:
’’یہ جملہ کہ وہ کلام خدا سنتے تھے پھر اُس کے سمجھے پیچھے ’’کچھ کا کچھ کر دیتے تھے‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ الزام یہ تھا کہ وہ پڑھتے وقت کچھ کا کچھ پڑھ دیتے تھے نہ یہ کہ تحریری کتاب کے الفاظ بدل دیتے تھے‘‘۔
خودمحمد صاحب کے الفاظ سے یہ واضح ہے کہ اس مقام کے معنی فی الحقیقت کیا ہیں؟کیونکہ اگر یہودی اپنے کلام اللہ کی نص عبارت کو بدل ڈالتے تو وہ ایسے محرف نوشتوں کو اُن کے اور اپنے درمیان تنازعے فیصلہ کرنے کے لئے پیش نہ کرتے۔بخاری کے اس بیان سے پتہ لگتا ہے کہ یہودیوں کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور فریب دینا آسان تھا۔
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1665
راوی: محمد بن بشار , عثمان بن عمر , علی بن مبارک , یحیی بن ابی کثیر , ابی سلمہ , ابوہریرہ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ أَهْلُ الْکِتَابِ يَقْرَئُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ
ترجمہ:’’ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اُس نے کہا کہ اہل کتاب عبرانی میں تورات پڑھا کرتے تھے اور عربی میں مسلمانوں سے اُس کی تشریح کیا کرتے تھے‘‘۔ ایسی حالت میں پیش کردہ عبارت کے غلط معنی بتانا یہودیوں کے لئے کیسا آسان تھا۔
اہل اسلام تحریف کے ثبوت میں ایک مقام یہ بھی پیش کیا کرتےہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ
ترجمہ:’’وہ جو ہم نے کھُلے ہوئے احکام اور ہدایت کی باتیں اتاریں اور کتاب(توریت) میں ہم نےلوگوں کو صاف صاف سمجھا دیں۔اس کے بعد بھی جو اُن کو چھپائیں تو یہی لوگ ہیں جن پر خدا لعنت کرتا ہے اور دنیا بھر کے لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت کرتے ہیں‘‘۔(سورہ بقرہ۲: ۱۵۹(۔
جس چھپانے کی طرف یہاں اشارہ ہے اُس کا مطلب بعض جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے بعض عبارات اپنی کتاب مقدس سے نکال ڈالیں لیکن قرآن مجید کے مشہور مفسروں سے پتہ لگتا ہے کہ یہ معنی ہر گز نہیں۔ چنانچہ رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں یہ لکھا۔
قال ابن عباس إن جماعة من الأنصار سألوا نفراً من اليهود عمّا في التوراةِ من صفته صلى الله عليه وسلم ومن الأحكام فكتموا فنزلت الآية
ترجمہ:’’ابن عباس نے کہا کہ انصار کی ایک جماعت نے ایک یہودی گروہ سے پوچھا کہ محمدصاحب کے بارے میں توریت میں کیا لکھا تھا۔اور بعض دیگر احکام کے بارے میں کیا آیا تھا لیکن اُنہوں نے اس بات کو چھپا لیااور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔
محمد صاحب کے سوانح نویس ابن ہشام نے بھی اس مقام کی یہی تفسیر کی ۔اُس نے بیان کیا کہ بعض لوگوں نے
سأل اليهود عن بعض ما في التوراة فاكتموه إياهم وأبوا أن يخبروهم عنه فأنزل الله عزّ وجلّ إن الذينَ يكتمون
’’یہودیوں سے توریت کی بعض باتوں کے بارے میں پوچھالیکن اُنہوں نے یہ بات چھپا لی اور اُن کو مطلع کرنے سے انکار کیا۔تب خدا ئےعزّوجل نے یہ الفاظ نازل کئے اِن الذین یکتمون‘‘وغیرہ۔فی الحقیقت یہودیوں کا سچائی کو اس طرح سے چھپانا قرآن مجید میں کئی با ر مذ کور ہوا ہے،لیکن کسی جگہ اُس کے یہ معنی نہیں کہ انہوں نے اپنے کلام اللہ میں سے کسی عبارت کو نکال دیا یا کسی عبارت کو بدل ڈالا۔مشکوۃ المصابیح میں ایک مشہور حدیث آئی ہے جس سے اس معاملے پر بڑی روشنی پڑتی ہے اور اُس سے بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا کےکلام کے ’’چھپانے ‘‘ کے کیا معنی ہیں۔یہ حدیث اُس کتاب کی فصل کتاب الحدود میں ہے۔اُس کا ترجمہ یہ ہے’’عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ یہود رسول اللہ صاحب کے پاس آئے اور اُنہیں خبر دی کہ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت زنا کے مرتکب ہوئے۔رسول خدا نے اُنہیں کہا’’ پتھراؤ کے بارے میں توریت میں کیا لکھا ہے‘‘؟اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’اُن کو بے عزت کر کے کوڑے مارو‘‘۔عبداللہ بن سلام نے جواب دیا ’’تم جھوٹ بولتے ہو اُن کو پتھراؤ کرنے کا حکم اس میں موجود ہے‘‘ ۔تب اُنہوں نے توریت لا کر اُن کے سامنے کھولی او ر جو کچھ اُس کے ماقبل یا مابعد عبارت تھی وہ پڑھی،لیکن عبد اللہ بن سلام نے کہا’’ اپنے ہاتھ اُٹھاؤ‘‘۔تب اُس نے اپنے ہاتھ اُٹھائے تو وہ پتھراؤ کی آیت وہاں تھی۔تب اُنہوں نے کہا ’’اُس نے سچ کہا ہے،اس میں اَے محمد پتھراؤ کی آیت ہے‘‘۔تب رسول اللہصاحب نے حکم دیا کہ’’ اُن دونوں کو پتھراؤکرو اور ایسا ہی کیا گیا‘‘۔
اس حدیث میں اس امر کی دلچسپ مثال ہے کہ یہودی کلام اللہ کو کس طرح چھپایا کرتے تھے اور اس سے اُن کی تکذیب ہوتی ہے جو بائبل مقدس کی نص میں تحریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ توریت میں تحریف ثابت کرنے کے لئے یہ آیت بھی پیش کی جاتی ہے۔
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
ترجمہ:’’اے اہلِ کتاب کیوں حق وباطل کو گڈ مڈ کرتے اور حق کو چھپاتے ہو‘‘۔
محمد صاحب کے سوانح نویس ابن ہشام نے اس آیت کے شان نزول کے موقع کا ذکر کیا اور اُن لوگوں کی رائے کو رد کیا جو یہ کہتے ہیں کہ بائبل مقدس محرف ہے۔اُ س نے یہ لکھا۔
قال عبد الله بن الصيِّف، وعدي بن زيد، والحارث بن عوف، بعضهم لبعض: تعالوا نؤمن بما أنزل على محمد وأصحابه غُدْوةً ونكفُر به عشيةً، حتى نلبس عليهم دينهم، لعلهم يصنعون كما نصنعُ، فيرجعوا عن دينهم! فأنـزل الله عز وجل فيهم: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ:’’ابو عبداللہ بن ضعیف وحدی بن زید اور الحارث بن عوف نے آپس میں کہا’’آؤ ہم صبح کے وقت جو کچھ محمدپر نازل ہوا اور اُس کے اصحاب پر ایمان لائیں لیکن شام کو اُس کا انکار کردیں تاکہ وہ اپنے دین میں پریشان ہوں اور وہ بھی ایساہی کریں جیسا ہم کرتے ہیں اور اُن کے دین سے اُن کو پھیر دیں‘‘۔پھر خدائے عزوجل نے اُن کے بارے میں یہ آیت نازل کی ’’اے اہل کتاب کیوں حق و باطل کو گڈ مڈ کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو‘‘۔
ابن ہشام کے اِن الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس مقام زیر بحث میں بائبل مقدس کی طرف کوئی اشارہ نہیں۔اِس میں چند دروغ گو یہودیوں کا ذکر ہے جو مسلمانوں کو اُن کے دین سے گمراہ کرنے کی غرض سے صبح کو تو محمدصاحب اور قرآن مجید پر ایمان لانے کا اقرار کرتے تھے اور حق کو چھپاتے تھے اور اپنے اصلی ارادے کو باطل سے ملبس کرتے تھے لیکن شام کے وقت وہ برملا اُس کا انکار کرتے تھے۔
توریت میں تحریف ثابت کرنے کی خاطر یہ آیت بھی پیش کیا کرتے ہیں۔
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ
ترجمہ:’’ان ہی میں ایک فرقہ ہے جو کتاب (توریت)پڑھتے وقت اپنی زبان کو مروڑتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ وہ کتاب کا جز ہے۔حالانکہ وہ کتاب کا جزو نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جوہم پڑھ رہے ہیں اللہ کے ہاں سے اُترا ہے۔حالانکہ وہ اللہ کے ہاں سے نہیں اُترا‘‘(سورۃ آل عمران۷۸:۳)۔
خیال تو یہ گزرتا تھا کہ اس مقام کا غور سے مطالعہ کرنے ہی سے متعصب سے متعصب شخص کو یقین ہو جائے گا کہ توریت کے نص کی تحریف کا یہاں کچھ ذکر نہیں ۔زبان کے توڑنے مروڑنے سے مراد یہ ہے کہ کتاب کو پڑھتے وقت یہ تبدیلی کردیاکرتے تھے۔اس امرکو سر سید احمد خان نے تفسیر بائبل مقدس میں تسلیم کر لیا اور یہ کہا’’یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ کتاب مقدس کے پڑھنے والے نص عبارت کی جگہ اپنے لفظ پڑھ دیا کرتے تھے لیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خود کتابی عبارت میں کچھ بڑھا گھٹا دیتے تھے‘‘۔
مشہور مفسر ابن عباس نے اِس آیت کی یہ تفسیر کی:
يقولون على الله الكذب وهم يعلمون أنه ليس ذلك في كتابهم
ترجمہ:’’وہ خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے وہ کتاب میں نہیں ہے‘‘۔
ابن عباس نے اِسے بخوبی واضح کر دیا کہ بعض یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ توریت کو پڑھتے وقت بعض لفظ یا جملے زائد پڑھ دیا کرتے تھے جو اُس کتاب میں نہ تھے جو اُن کے سامنے کھلی ہوئی تھی۔اِس سے روشن ہےکہ نص عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
جَلالین میں بھی اس مقام کی یہی تفسیر کی گئی ہے:
يعطفونها بقراءته عن الْمُنْزَل
ترجمہ:’’وہ پڑھنے میں اس کو اپنی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں‘‘۔
تفسیردُرّ منشورکے مصنف کی رائے کو قلم بند کرنا بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا۔وہ کہتے ہیں:
وأخرج اِبْنُ الْمُنْذِرِ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ: إِنَّ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ كَمَا أَنْزَلَهُمَا اللَّهُ لَمْ يُغَيَّرْ مِنْهُمَا حَرْفٌ وَلَكِنَّهُمْ يَضِلُّونَ بِالتَّحْرِيفِ وَالتَّأْوِيلِ وَالكُتُبٍ كَانُوا يَكْتُبُونَهَا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ، وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، فَأَمَّا كُتُبُ اللَّهِ تَعَالَى فَإِنَّهَا مَحْفُوظَةٌ لَا تُحَوَّلُ
ترجمہ:’’ابن منذر اورابن حاتم نے وہب ابن منبہ سے روایت کی کہ توریت و انجیل سے ایک حرف بھی بدلہ نہیں کیا۔جیسی وہ خدا سے نازل ہوئی تھی وہ ویسی ہی ہے لیکن وہ(یہودی) اُن کے معنی بدلنے اور اُلٹ پلٹ کرنے کے وسیلے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔پھر وہ اپنی طرف سے کتابیں لکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ وہ منجانب اللہ تھیں حالانکہ وہ منجانب اللہ نہ تھیں ،لیکن خدا کی اصلی کتابیں تحریف سے محفوظ تھیں اور اُن میں کچھ تبدیلی نہیں ہوئی‘‘۔(تفسیر دُرمنشور جلد دوئم صفحہ ۲۶۹ ۔ پبلشر دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)
بڑے بڑے مسلمان مفسروں کے مذکورہ بالا بیانات سے یہ بخوبی واضح ہے کہ قرآن مجید نے تحریف ِ لفظی کا کوئی الزام نہیں لگایا۔صرف یہ ثابت ہوا کہ عرب کے بعض یہودی اپنے مسلمان سامعین کی بےعلمی سے فائدہ اٹھا کر کلام اللہ کے بعض مقامات کی غلط تفسیر کے ذریعے سے اُن کو گمراہ کیاکرتے تھے۔وہ مقدس کتابیں عبرانی میں لکھی ہوئی تھیں اور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے ان کا ترجمہ عربی میں کرنا پڑتا تھا ،اِ س لئے ان کتابوں کے غلط معنی بتانے کا اُن کو بہت موقعہ حاصل تھا۔چنانچہ ایک مثال کا ذکر آچکا ہے کہ دو شخصوں کو پتھراؤ کی موت کی سزا سے بچانے کے لئے بعض یہودیوں نے یہ کہہ دیا کہ توریت میں زنا کی سزا صرف کوڑے لگانا تھا اور یہ الزام کبھی نہ لگایا گیا کہ یہودیوں نے پتھراؤ کی آیت کو توریت سے نکال ڈالا تھا۔ اس امر کی کافی شہادت آج تک ملتی ہے کہ یہودیوں نے اپنی مقدس کتابوں کی حفاظت کیسی احتیاط سے کی۔
دوسرے مضمون پر جانے سے پہلے ایک یا دو اورآیات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔بعض اوقات بائبل مقدس کی تحریف ثا بت کرنے کے لئے یہ آیت بھی پیش کی جاتی ہے۔
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ:’’اور حق کو باطل سے نہ ملبس کرو اور نہ حق کو چھپاؤ جیسا کہ تم جانتے ہو‘‘(سورۃ بقرہ۴۲:۲)۔
اس آیت کی تفسیر میں سر سید احمد خان نے یہ کہا:
’’امام فخر الدین رازی کی تفسیر سے ہم کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ اس آیت کی یہ تشریح کی جاتی تھی۔ پُرانے اور نئے عہد ناموں میں محمد رسول اللہ صاحب کی آمد کے بارے میں بعض پیش گوئیاں ذو معنی تھیں اور اعلیٰ درجے کے غور وفکر اور شرح کی مدد بغیر ان کے معنی سمجھ میں نہ آتےتھے۔اب یہ یہودی ان پیش گوئیوں کی صحیح تفسیر نہیں کرتے تھے بلکہ فضول بحث وتکرار میں وقت ضائع کرتے تھے اور کھینچی تانی دلائل سے اور غیر منطقی بُرہان سے اُن کے اصلی معنی زائل کر دیتے تھے ۔اس وجہ سے یہ آیت آسمان سے نازل ہوئی اور ان کو تاکید ہوئی کہ حق میں باطل نہ ملاؤ اور ایسے شہبات سے جو وہ کتاب مقدس کے اُن زیر بحث مقاموں پر صحیح معنوں کو چھپانے کے لئے ڈالا کرتے تھے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے‘‘۔
اس اقتباس سے اس امر کی تشریح ہوتی ہے کہ الفاظ کے غلط معنی کرنے کا الزام ان یہودیوں پر لگایا گیا نہ کہ ا س امر کا کہ انہوں نےکتاب میں الفاظ کو بدل ڈالا۔رازی کی مشہور تفسیر میں سے مفصلہ ذیل اقتباس اس مضمون کے بارے میں اُس مفسر کی عام رائے کو ظاہر کر دے گا۔
عن ابن عباس أنهم كانوا يحرفون ظاهر التوراة والإنجيل، وعند المتكلمين هذا ممتنع، لأنهما كانا كتابين بلغا في الشهرة والتواتر إلى حيث يتعذر ذلك فيهما، بل كانوا يكتمون التأويل
ترجمہ:’’ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ توریت اور انجیل کے متن کو تبدیل کر رہے تھے لیکن عالموں کی رائے میں یہ ناممکن تھا کیونکہ وہ مقدس کتابیں مشہور اور بہت ملکوں میں پھیل چُکی تھیں کیونکہ پشت در پشت چلی آئیں۔اس لئے ان میں تبدیلی کرنا نا ممکن تھا بلکہ وہ لوگ ان کے معنی چھپاتے تھے‘‘۔
مذکورہ بالا بیان سے یہ بخوبی ثابت ہے کہ عمداً بائبل مقدس کے متن کی تحریف کا الزام یہودیوں کے خلاف قرآن مجید میں کبھی نہیں لگایا گیا ۔ البتہ یہ الزام لگایا گیا کہ وہ جھوٹی تفسیروں کے ذریعے سے معنی کو بدلتے یا بعض مقامات کے چھپانے کے ذریعے حق کو چھپاتے تھے ،لیکن مسیحیوں کے بارے میں سارے قرآن مجید میں اشارہ تک نہیں کہ اُنہوں نے معنوی تحریف بھی کی ہو۔لوگ اس امر کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اہل ِاسلام سے ہماری یہ درخواست ہے کہ اس پر ضرور غور کریں، کیونکہ اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ مدینہ کے چند یہودیوں نے توریت کی بعض جلدوں میں تحریف کی تو بھی کون اسے ممکن خیال کرے گا کہ کل دُنیا کے سارے یہودیوں نے اتفاق کرکے وہی تبدیلیاں ساری جلدوں میں کر دیں ! جو ایسا الزام لگاتے ہیں وہ اپنی نادانی اس سے ظاہر کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں بالفرض اگر یہودیوں نے توریت کی اپنی جلدوں میں سےمحمد صاحب کی آمد کے بارے میں چند پیش گوئیاں نکال دی ہوں۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ پیش گوئیاں ان نسخوں میں پا ئی نہیں جاتیں جو مسیحیوں کے پاس تھے؟ یہ تو مشہور بات ہے کہ مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان ابتدا سے ہی سخت دشمنی چلی آئی ہے ۔ اس لئے کِتاب ِ مقدس کی تحریف میں ان کے درمیان اتفاق کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
باب چہارم
ازروئے کلام اللہ تحریف کا الزام زمانہ حال میں
جو مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں نے بائبل مقدس میں تحریف کی وہ اِس کے ثبوت کے لئے نہ صرف قرآن مجید سے مدد ڈھونڈتے ہیں بلکہ وہ یہودی اور مسیحی مقدس کتابوں سے ایسی مثالیں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے اُن کے دعویٰ کی تائید ہو۔اس باب میں اُن کے ایسے اعتراضوں پر ہم غور کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ حملے کا یہ طریقہ دو دھاری تلوار کی مانند ہے جس سے نہ صرف مخالف کو ضرب پہنچتی ہے بلکہ خود حملہ کرنے والے کو بھی۔
اس چھوٹے رسالے میں سلسلہ وار بائبل مقدس کے اُن مقامات پر غور کرنا ناممکن ہے جن کو مسلمان مصنفوں نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ہم صرف مشتے نمونہ از خروارے(ڈھیر میں سے مٹھی بھر) چند مقامات کو لے لیں گے جن سے وہ مختلف طریقے معلوم ہو جائیں گے جو انہوں نے بائبل مقدس کی صحت کے خلاف استعمال کئے ہیں اور یہ ظاہر کرنا مشکل ہو گا کہ اگر وہی اصول ٹھیک طور سے قرآن مجید پر عائد کریں تو وہ کتاب بھی مسلمان ایمان داروں کو چھوڑنی پڑے گی۔
جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں نے عمداً بائبل مقدس میں تحریف کی ہے اُن کا ایک مشہور طریقہ یہ ہے کہ بائبل مقدس کے قدیم نسخوں میں جو قراتیں(Readings) پائی جاتی ہیں اُن کو پیش کرتے یا پُرانے اور نئے تراجم میں جو اختلاف ملتے ہیں اُن کا حوالہ دے کر فتح کا نعرہ لگاتے ہیں کہ لو ہمارا اعتراض ثابت ہو گیا۔اِس لئے ہم ناظرین سے درخواست کرتے ہیں کہ لفظ ’’تحریف‘‘ کی جو تعریف سر سید احمد نے کی اُس پر غور سے توجہ کریں۔وہ یہ ہے’’کلام اللہ کے صحیح اور اصلی مقصد و معنی کو عمداً بگاڑنا‘‘۔
اب یہ تو صاف ظاہر ہے کہ کتاب مقدس کے کسی لفظ یا جملے کو عمداً بگاڑنا کسی خاص مقصد سے ہوگا ۔محض تبدیلی کی خاطر کوئی شخص کتاب ِ مقدس کی عبارت کو کچھ یہاں کچھ وہاں نہ بدلے گا۔حالانکہ جو الفاظ مسلمان معترضوں نے بائبل مقدس کے نسخوں کی قراتوں میں سے پیش کئے ہیں وہ اکثر اس قسم کے ہیں۔وہ سہو کاتب ہیں یا شرحیں (شرح کی جمع۔ تفسیر )ہیں جو نادانستہ متن میں آگئیں،لیکن خواہ وہ کچھ ہی ہوں اُنہیں عمداً تحریف نہیں کہہ سکتے۔یہ برائے نام تحریفیں بائبل مقدس کے ایک مسئلہ میں بھی فرق نہیں ڈالتیں اور اُن میں سے اکثروں میں کوئی خاص غرض بھی تبدیلی کی نہیں پائی جاتی۔
اگر ان مختلف قراتوں کی وجہ سے بائبل مقدس کو رد کرنا چاہیے تو انہیں وجوہات سے قرآن مجید کو بھی رد کرنا پڑے گا،کیونکہ قرآن مجید میں بھی سینکڑوں ایسی مختلف قراتیں پائی جاتی ہیں۔ناظرین سے درخواست ہے کہ مصنف کا رسالہ’’ قرآن مجید در اسلام‘‘ کا مطالعہ اس مضمون کی مفصل بحث کے لئے کریں۔یہاں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ جب خلیفہ ابو بکرؓ کے حکم سے قرآن مجید جمع کیا گیا تو اس کتاب میں مختلف قراتیں داخل ہو گئیں۔اس لئے عثمان ؓنے مجبور ہو کر یہ حکم صادر کیا کہ قرآن مجید کی ایک جلد تیار کی جائے اور باقی ساری جلدیں جلا دی جائیں۔
اعراب کی عدم موجودگی مدت تک تکلیف و جھگڑے کا باعث رہی جس سے قرآن مجید کے پڑھنے اور تفسیر کرنےمیں بہت اختلاف پیداہو گیا۔جلال الدین سیوطی لکھتا ہے کہ ’’جو قرآن مجید عثمان نے جمع کرایا اُ س کی پانچ ہزار جلدیں لکھی گئیں اور وہ جلدیں مکہ،مدینہ،دمشق،بصرہ اور کوفہ کو بھیجی گئیں ۔جہاں دوسری صدی ہجری میں سات قاریوں نے شہرت حاصل کی جو قرآن مجید کو سات مختلف طریقوں سے پڑھا کرتے تھے۔اِن قاریوں میں سے ہر ایک کے دو دو راوی (روایت کرنے والا۔سُن کر کہنے والا)ہیں۔اِ ن قاریوں کے یہ نام ہیں۔نافی مدینہ کا رہنے والا،ابن کثیر مکہ کا رہنے والا،ابو عامر بصرہ کا، ابن عامر دمشق کا،عاصم کوفہ کا،حمزہ کوفہ کا اور الکسائی کوفہ کا۔
مسلمان عالموں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں قرآن مجید کی مختلف قراتوں کو جمع کیا۔اِن میں سے سب سے مشہور ’’تبدیر الدعنا‘‘ ہے۔ اس مصنف نے نہ صرف مختلف قاریوں کی قراتوں کو جمع کیا بلکہ اُس نے اُن قاریوں کے نام بھی بتائے جن کے ذریعے سے سات قاریوں میں سے ہر ایک نے اس امر کی خبر حاصل کی تھی۔رازی نے اپنی تفسیر میں کئی دلائل دیئے ہیں جو اِ ن مختلف قراتوں کی تردید یا تائید کرتی ہیں۔اِس لئے یہ ظاہر ہے کہ دیگر قدیم کتابوں کی طرح قرآن مجید میں بھی مختلف قراتیں ہیں اور جنہوں نے تفسیر کے ساتھ جرح کے قوانین کے مطابق قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے ،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسی مختلف قراتوں کا شمار کئی سو ہے۔مثال کے طور پر ہم سورۃ فاتحہ کی آٹھ آیتوں میں جو مختلف قراتیں آئی ہیں اُن کو لکھتے ہیں۔یہ سورۃ قرآن مجید کے شروع میں ہے۔اس کو پڑھ کر امید ہے کہ اہل اسلام بائبل مقدس کی مختلف قراتوں پر الزام نہ لگائیں گے۔
تفسیر بیضاوی سے پتہ لگتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت ۳ میں جو یہ لفظ ہیں مالِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ وہ عاصم اور الکسائی اور یعقوب کی قرات ہے۔بعض نے ملک پڑھا۔اہل مکہ اور مدینہ کی یہ قرات ہے اس لئے قابل ترجیح ہے۔اگر چہ بیضاوی نے قرات ملک کو ترجیح دی ،پھر بھی مروجہ قراتوں میں م مالک کی قرات ہے۔قرات کے اس اختلاف کا ذکر جلالین نے بھی کیا ہے۔اس کے دوسرے جملے میں بیضاوی نے ایک اور مختلف قرات کا ذکر کیا ہے:
قرئ ایاک بفتح الھمزۃ
ترجمہ:’’بعض ہمزہ کو کسر کی بجائے فتح سے پڑھتے ہیں‘‘۔
پھر امام صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں بعض لوگ نون کو فتح کی بجائے کسر سے پڑھتے ہیں اور اس کی آیت ۶ میں موجود ہ قرآن مجید سے ایک مختلف قرات کا اُس نے ذکر کیا ۔چنانچہ امام صاحب نے یہ لکھا:
قرئ صراط من انعمت علیہم
حالانکہ مروجہ قراتوں میں یہ جملہ یوں ہے صراط الذین انعمت علیہم۔اِس اختلاف نے امام صاحب کو بھی گھبرا دیا۔اس کتاب کے مسلمان ناظرین خود ہی بتائیں کہ اصلی قرات جومحمد صاحب نے بتائی وہ کیا تھی؟ اور اس میں بھی بہت شک ہے کہ اُنہوں نے شاید دونوں قراتیں بتائیں کیونکہ صحابہ کرام میں سے ایک نے جو خود مشہور قاری تھے یعنی ابن مسعود نے اس ساری سورت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ قرآن مجید کا جز نہیں!
جلال الدین کے ذریعے یہ اطلاع پہنچی ہے:
قال ابن حجر فی شرح البخاری قد صح عن ابن مسعود انکار ذلک فا خرج الحمد
ترجمہ:’’ابن حجر نے شرح بخاری میں کہا کہ ابن مسعود نے الحمد کا انکار کیا اور اُس کو رد کر دیا(یعنی سورۃ فاتحہ کو قرآن مجید سے)‘‘۔
اِس سورۃ کی آٹھویں آیت میں بیضاوی نے ایک اَور مختلف قرات کا ذکر کیا۔وہ کہتا ہے کہ اِن الفاظ والضّآ لین کی جگہ بعض غیر الضّآ لین پڑھتے تھے اور اُسی مفسر نے یہاں ایک اَور قرات کا بھی ذکر کیا کہ اس میں ہمزہ بھی ہے لا الضأ لین۔
یہ تو مسلّم ہے کہ قرات کے اِ س اختلاف سے اُس آیت کے معنی میں کوئی فرق نہیں آتا۔لیکن امر زیر بحث یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ قراتوں کے اختلاف سے جو الزام بائبل مقدس پر آتا ہے وہی الزام قرآن مجید پر بھی عائد ہوتا ہے۔علاوہ ازیں قرآن مجید کی پچھلی سورتوں میں قرات کے ایسے اختلافات بھی ہیں جن سےمعنی میں بھی بہت فرق پڑتا جاتا ہے۔اِ ن میں سے بعض کا ذکر رسالہ’’ قرآن در اسلام‘‘ میں کیا گیا ہے۔اِن امور کے باوجود بھی بعض تعلیم یافتہ مسلمان ایسے پائے جاتے ہیں جو بائبل مقدس پر برابر حملہ کرتے رہتے ہیں اورا ن اختلافات کی بنا پر جو مختلف قدیم نسخوں میں ملتے ہیں بائبل مقدس کی صحت کو رد کرنا چاہتے ہیں۔کیا عدم خلو ص قلبی اور تلون مزاجی اس سے زیادہ ہو سکتی ہے؟
اگر اختلافات قرات کے بارے میں بائبل مقدس اور قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ بائبل مقدس کا پلہ بھاری ہے۔اس میں اس قدر اختلاف نہیں جس قدر کہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ عثمانؓ نے یہ ضروری سمجھا کہ قرآن مجید کے اختلافات قرات کو مٹائے اور باقی سای جلدوں کو جلا کر صرف ایک ہی جلد رکھ لے اور اُس ایک کی نقلیں جا بجا روانہ کرے۔اِس لئے مسلمان اِس ایک نسخے کے پڑھنے پر مجبور ہیں،لیکن جیسا ہم بتا چکے ہیں اِ س پر بہت شکوک عائد ہوتے ہیں۔جب صورت حال یہ ہو تو مسلمان عالموں کے لئے یہ ناممکن ہے کہ قرآن مجید کے مختلف قدیم نسخوں کا مقابلہ کریں اور صحیح متن کو قائم کریں۔لیکن مسیحیوں کے لئے مختلف معاملہ ہے کیونکہ اُنہوں نے بائبل مقدس کے قدیم نسخوں کو بہت احتیاط اور جان نثاری سے محفوظ رکھا اور اِس لئے وہ اُن کا مقابلہ کر کے ردّو کَدّ(بحث۔حجت) کے عمل سے صحیح متن کو دریافت کر سکتے ہیں۔ہم نےمختلف اور متفرق نسخوں کی قیاسی قراتوں کو ذیل میں دیا ہے تاکہ ناظرین اِس دلیل کا زور معلوم کر سکیں۔تشریح کی غرض سے اِن اختلافات کو عمداً مبالغے سے بیان کیا ہے۔مختلف آیات کا احتیاط کے ساتھ مقابلہ کرنے سے ظاہر ہو جائے گا کہ اول فی الحقیقت تقریباًٍ صحیح ہے۔لیکن قرآن مجید کے بارے میں ایسا مقابلہ کرناناممکن ہے کیونکہ اُن کے پاس تو ایک کے سوا کوئی دوسرا نسخہ باقی ہی نہیں رہااور اُن کے پاس اُس کی صحت دریافت کرنے کا کوئی وسیلہ نہیں۔ایک سو(۱۰۰)آیات کا مقا بلہ کرنے سے یہ نتیجہ اور بھی یقینی ہو گا۔
۱۔یسوع کفر نحوم کو اُترگیا اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۲۔ یسوع کفر نحوم کو چڑھ گیا اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۳۔ یسوع کفر نحوم کو اُتر گیا اور یہودیوں کی ہیکل میں داخل ہوا۔
۴۔ یسوع کفر نحوم کو گیا اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۵۔ اس لئےیسوع کفر نحوم کواُتر گیا اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۶۔ یسوع کفر نحوم کو اُتر گیا اور سامریوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۷۔ یسوع ناصرت کو اُتر گیا اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوا۔
۸۔ یسوع اور اُس کے شاگرد کفر نحوم کو اُترگئے اور یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوئے۔
دوسری قسم کی آیات جن کو مسلمان بائبل مقدس میں تحریف ثابت کرنے کے لئے پیش کرتےہیں، ایسی ہیں جن میں بعض نبیوں کے گناہوں کا ذکر ہے۔چنانچہ بنگالی زبان میں ایک کتاب بنام ’’ردّ عیسائی ‘‘شائع ہوئی جس کے ایک سارے باب میں یہی ذکر ہے کہ’’خدا کے مقدسوں کی بدنامی‘‘۔اُس نے اور دیگر ویسے مصنفوں نے یہ بےبنیاد قیاس فرض کر لیا جس کا ذکر قرآن مجید میں مطلق پایا نہیں جاتا کہ سارے انبیا بے گناہ تھے۔اِس لئے یہودی اور مسیحی مقدس کتابوں میں جہاں کہیں انبیا کے گناہوں کا ذکر آتا ہے اُس کو غلط اور محرف ٹھہرایا۔پس اُن کے نزدیک بائبل مقدس محرف ٹھہری۔بعض مسلمان معترضوں کا منطق اور فخر یہی ہے۔
جس کتاب بنام’’ ردّ عیسائی‘‘ کا ذکر اُوپر ہوا ایسی لا ثانی بُر ہان کا اہل ہونے میں واحد نہیں بلکہ ایک شخص جس نے اپنے تئیں ’’مولانا‘‘ ظاہر کیاجیٹھ ۱۳۲۷ کے بنگالی پرچے بنا نور میں بائبل مقدس پر اعتراض کرتے ہوئے ایسے چند مقامات کو نقل کیا جن میں لوط،یعقوب،ہارون،داؤد، سلیمان اور دوسروں کے گناہوں کا ذکر تھا اور بڑے غصے سے یہ سوال کیا کہ کیا ایسے مقامات اصلی توریت اور انجیل کا جز ہو سکتے ہیں؟ پھر اُس نے یہ لکھا ’’ازروئے قرآن مجید یہ ثابت ہے کہ یہ مقامات جعلی اور محرف ہیں‘‘۔
ایسے اشخاص اور ایسے دلائل کی مصیبت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بھی ٹھیک ایسی ہی تعلیم پائی جاتی ہے اور چند ایک نبیوں کے گناہوں کا ذکر صاف طور سے قرآن مجید میں آیا ہے۔جب صورت حال یہ ہو تو اُن کی دلیل کے مطابق یہ دشوار ہو گا کہ بائبل مقدس کو تو ردّ کردیں اور قرآن مجید کو مانتے رہیں۔اگر بائبل مقدس کو اس بنا پر رد کیا جاتا ہے کہ اُس میں مقدس نبیوں کے گناہوں کا ذکر آیا ہے تو اُسی دلیل سے قرآن مجید کو بھی ردّ کرنا پڑے گا۔
آگے قدم بڑھانے سے پیشتر قرآن مجید کی چند آیات کوپیش کرنا مناسب ہوگا جن میں نبیوں کے گناہوں،اُن کی توبہ اور معافی کے لئے مناجات کا صاف ذکر آیا ہے۔
حضرت ابراہیم کے بارے میں قرآن مجید میں یہ لکھا ہے کہ خدا کو مخاطب کرکے اُس نے یہ کہا تھا۔
وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ
ترجمہ:’’مجھے امید ہے کہ روز حساب کو وہ میرے گناہ مجھے معاف کر دے گا‘‘(سورۃ شعر۱ ۸۲:۲۶)۔
بعض گناہوں مثلاً جھوٹ وغیرہ کا صاف ذکر قرآن مجید اور احادیث میں ہوا۔حضرت موسیٰ کے بارے میں قرآن مجید میں یہ لکھا ہے کہ اُس نے ایک مصری کو قتل کیا تھا۔
فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ ٭۫ قَالَ ہٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیۡنٌ قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ فَاغۡفِرۡ لِیۡ
ترجمہ:’’اور موسیٰ نے اُسے مُکاّ مار کر قتل کیا۔اُس نے کہا کہ’’یہ شیطان کا کام تھاکیونکہ وہ دشمن اور صاف گمراہ کرنے والا ہے‘‘۔اُس نے کہا’’اے میرے خداوند میں نے گناہ کر کے اپنا نقصان کیا مجھے معاف کر دے‘‘(سورۃ قصص۱۵:۲۸۔۱۶)۔
حضرت داؤد کے زنا کے گناہ کا ذکر سورۃ سعد۲۴:۳۸ میں ہوا ہے اور اُس کی توبہ اور معافی کی دعا کا ذکر آیا ہے۔
فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ
ترجمہ:’’ سو اُس نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی اور گھٹنے ٹیک کر سجدہ کیا اور توبہ کی‘‘۔
اُسی سورۃ میں سلیمان گنہگار بیان ہوا۔
فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَیۡرِ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّیۡ ثُمَّ اَنَابَ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ
ترجمہ:’’اور اُس نے کہا اپنے پروردگار کو یاد کرنے کی نسبت سے مَیں نے دنیا کی چیزوں کو زیادہ پیار کیا۔۔۔ پھر اُس نے توبہ کی طرف رجوع کی اور کہا اے میرے پروردگارمجھے معاف کر‘‘(سورہ سعد۳۲:۳۸۔۳۵)۔
مذکورہ بالا مثالیں اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں گی کہ بائبل مقدس کی طرح قرآن مجید نے بھی انبیا کو کمزور اور خطا کار بیان کیا اور وہ بار بار اپنے گناہوں کی معافی ما نگا کرتے تھے۔پھر بائبل مقدس پر یہ مضحکہ اُڑایا جاتا ہے کہ وہ محرف اور نا قابل اعتبار ہے ۔جو کچھ ہم اُوپر لکھ آئے ہیں اُس کے لحاظ سے تو ایسے اعتراضات بند ہو جانے چاہیئں۔اگر مسلمان معترض صاحبان کے پاس یہی کچھ ہے تو یہ نہ صرف اُن کی متلون مزاجی بلکہ اُن کی عدم خلوص قلبی کا افسوسناک اظہار ہےکیونکہ جولوگ ایسے اعتراضات کرتے ہیں وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ قرآن مجید پر بھی یہی الزام اور اعتراض عائد ہوتے ہیں۔امر واقعی یہ ہے کہ انبیائے سلف بھی ہمارے جیسے جذبات رکھنے والے تھے اور بائبل مقدس نے اُن کی خوبیوں اور نقائص ،اِن کی فتح و شکست دونوں کو دکھا دیا۔
مسلمان معترضین کا ایک دوسرا طریقہ بائبل مقدس کو ردّ کرنے اور اُس کی صحت پر شک ڈالنے کا یہ ہے کہ وہ بائبل مقدس مقدس کی چند آیات جن میں ایک ہی واقعہ کا ذکر ہے نقل کر کے اُن کے اختلاف دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔چاروں اناجیل میں جو مسیح کی سوانح عمری پائی جاتی ہے اُس میں سے وہ ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اِن مختلف بیانات میں لفظی اختلافات اِس امر کا ثبوت ہیں کہ یہ کتاب محرف ہے۔جب ہم اِن ظاہرا اختلافات کا امتحان کرتے ہیں تو عموماً یہ ظاہر ہو گا کہ ان میں عموماً کوئی بھی مشکل پائی نہیں جاتی بلکہ معترض کی نادانی کو ظاہر کرتی ہیں۔علاوہ ازیں ہم یہ ظاہر کریں گے کہ قرآن مجید کے ورقوں میں بھی اسی قسم کی مشکل پیش آتی ہے۔
مفصلہ بالا اعتراض کی ایک مثال مسلم ریویو سے پیش کی جاتی ہے۔یہ رسالہ احمدیہ مسلمانوں کی طرف سے انگلستان میں ووکنگ(WOKING) شہر سے شائع ہو تا ہے۔آرٹیکل کے لکھنے والے نے اناجیل میں مسیح کی صلیب کے اوپر جوکتبہ لکھا ہوا تھا اُس کو لے کر چاروں اناجیل کے مختلف الفاظ کی دلیل پر یہ دعویٰ کیا کہ یہ کتاب محرف ہے۔متی کی انجیل میں یہ کتبہ ان الفاظ میں آیا ہے’’یہ یہودیوں کا بادشاہ یسوع ہے‘‘۔مرقس کی انجیل میں اختصار کے ساتھ یہ ہے’’یہودیوں کا بادشاہ‘‘۔لوقا کی انجیل میں یہ ہے’’یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے‘‘ اور یوحنا کی انجیل میں یہ لفظ آئے ہیں’’یسوع ناصری یہودیوں کا بادشاہ‘‘۔
جو تعریف تحریف کی سر سید احمد خان صاحب نے کی اگر ہم اُس کو اِن مقامات پر لگائیں تو ہم کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ یہ ماننا کیسا ناممکن ہے کہ جن اختلافات کا یہاں ذکر ہے وہ عمداً کئے گئے ۔دیگر الفاظ میں علی گڑھ کالج کے اس بڑے بانی کے مطابق ان مقامات میں تحریف کی کوئی مثال پائی نہیں جاتی بلکہ برعکس اس کے اگر خلوص قلبی سے اِ ن مقامات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بے شک یہ واضح ہو جائے گا کہ انجیل کے مصنف اُس الزام نامہ کا مضمون درج کر رہے تھے،نہ لفظ بہ لفظ اُس کو نقل کر رہے تھے۔علاوہ ازیں مقد س یوحنا کی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہ الزام نامہ عبرانی،لاطینی اور یونانی زبانوں میں لکھا ہوا تھا اور یہ ناممکن نہیں کہ شاید اِن اصل کتبوں میں بھی اختلاف ہو۔بہر حال جو تشریح ہم نے کی ہے وہ صاف دل آدمیو ں کے لئے کافی ہے اور جو لوگ ایسے لفظی اختلافات کو بائبل مقدس کے غیر معتبر ثابت کرنے کی دلیل گردانتے ہیں تو اُن کو واضح ہو کہ ایسے لفظی اختلافات قرآن مجید میں بھی بکثرت آئے ہیں۔اس لئے اگر یہ لوگ اپنی د لیل پر اڑے رہے تو بائبل مقدس کی طرح اُنہیں قرآن مجید کو بھی ردّ کرنا پڑے گا۔
مسلمان معترضین متی۹:۲۷ کو بھی بائبل مقدس کی تحریف کے ثبوت میں اکثر پیش کیا کرتے ہیں۔وہاں یہ لکھا ہے’’اُس وقت وہ پوراہوا جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا کہ جس کی قیمت ٹھہرائی گئی تھی اُنہوں نے اُس کی قیمت کےوہ تیس روپے لے لئے(اُس کی قیمت بعض بنی اسرائیل نے ٹھہرائی تھی)اور اُن کو کمہار کے کھیت کے لئے دیاجیسا خداوند نے مجھے حکم دیا‘‘۔
معترضین یہ کہتے ہیں کہ یہاں یہ الفاظ یرمیاہ نبی سے منسوب ہیں لیکن جو کتاب اُن کے نام سے مشہور ہے اُس میں وہ الفا ظ پائے نہیں جاتے بلکہ زکریاہ کی کتاب میں پائے جاتے ہیں اور زکریاہ کی کتاب میں جو لفظ آتے ہیں متی نے اُن کو بھی لفظ بہ لفظ نقل نہیں کیا۔ اس لئے معترضین یہ دلیل نکالتے ہیں کہ بائبل مقدس محرف ہے۔ اب اگر ناظرین کو وہ بیان یا د ہوگا جو ہم نے صلیب کے وقت الزام نامے کی چار صورتوں کے بارے میں کہا تھا تو وہ یہ ماننے کو تیار ہو ں گے کہ متی نے یہاں اُس نبوت کا خلاصہ دیا ہے اور اُس کا لفظی اقتباس نہیں کیا۔
یہ مشہور بات ہے کہ عبرانی بائبل مقدس میں یرمیاہ کی کتاب انبیا کی کتابوں کے شروع میں تھی اور اِس لئے اِ س حصہ کا نام اکثر یرمیاہ آیا جیسے کہ عام بول چال میں توریت جو عہد عتیق کے شروع میں رکھی گئی،وہ اکثر سارے عہد عتیق کے لئے آتی ہے۔اگرچہ ٹھیک طور پر وہ نام صرف موسیٰ کی کتابوں ہی کا ہے۔
ناظرین کی اطلاع کے لئے سر سید احمد کی کتاب(بائبل مقدس کی تفسیرجلد دوم صفحہ۳۲) کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں یہ لکھا ہے:’’اگرچہ ٹھیک طور پر یہ نام توریت موسیٰ کی کتابوں کو دیا گیا تو بھی مسلمانوں کی اصطلاح میں اِس نام سے کبھی تو موسیٰ کی کتاب مراد ہے اور کبھی عہد عتیق کی ساری کتابوں کا یہ نام آیا ہے‘‘۔اِس لئے اگر نبیوں کی کتابوں سے حوالہ دے کر وہ یہ کہے کہ یہ توریت میں لکھا ہے تو کون اُسے مجرم ٹھہرا سکتا ہے۔اِسی طرح متی نے یہ نام یرمیاہ عہدعتیق کے سارے مجموعہ انبیا کے لئے استعمال کیا۔یہ الزام لگانا کیسا فضول ہو گا کہ اُسے معلوم نہ تھا کہ وہ کس کتاب میں سے لکھ رہا تھایا یہ کہ مابعد لوگوں نے اُن لفظوں میں تحریف کی جو اُس نے اصل میں لکھے تھے۔یہ زیر بحث مقام اس امر کی بہت عمدہ مثا ل ہے کہ بلا علم اعتراض کرنا کیسا خطرناک ہے۔
اب قرآن مجید کے سینکڑوں ایسے مقامات سے مشتے نمونہ از خروارے ہم دو یا تین مثالیں پیش کرتےہیں جہاں قرآن مجید میں ویسا ہی لفظی اختلاف موجود ہے جو بعض مسلمان مقدس بائبل مقدس کے خلاف پیش کیاکرتے ہیں۔سورہ طہٰ۲۰ کی دسویں آیت میں یہ بیان ہے کہ جب بیابان میں موسیٰ نے جلتی جھاڑی کو دیکھا تو بعض الفاظ میں اپنی امت سے خطاب کیا۔پھر سورۃ نمل کی ساتویں آیت میں وہی واقعہ قلم بند ہوا اور وہ خطاب بھی جوموسیٰ نے اپنی اُمت سے کیا۔اِن دونوں بیانوں میں اختلاف ہے۔ہم نے اُن کو بلمقابل رکھ کر اختلاف کو واضح طور سے دکھا دیا ہے۔
سورۃ نمل۷:۲۷
(تو لوگوں کو یہ واقعہ یاد دلاؤ) جب کہ موسیٰ نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ مجھ کو آگ سی دکھائی دی ہے ذرا ٹھہرو تو میں وہاں سے تمہارے پاس رستے کی کچھ خبر لاؤں یا ہوسکے تو ایک سُلگتا ہوا انگارا تمہارے پاس لے آؤں تاکہ تم تاپو۔
سورۃ طہٰ۹:۲۰۔۱۰
بھلا تم کو موسیٰ کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب اُن کو آگ دکھائی دی تو اُنہوں نے اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ ذرا ٹھہر مجھ کو ایک آگ دکھائی دی ہے تو عجب نہیں کہ میں اُس آگ سے تمہارے لئے ایک چنگاری لے آؤں یا آگ کے الاؤ پر راہ کا پتہ معلوم ہو۔
اِن دونوں سورتوں میں یہ بیان درج ہے اور اُس کے بعد اُن الفاظ کا ذکر ہے جن میں خدا موسیٰ سے مخاطب ہو کر بو لا ۔اس لئے ان دومقاموں کو بھی ہم بالمقابل پیش کرتے ہیں تا کہ ناظرین خود اُن اختلافات کو ملا خطہ کر لیں جو ان دونوں بیانوں میں پائے جاتے ہیں۔
سورۃ نمل۸:۲۷۔۱۰
پھر جب موسیٰ آگ پاس آئے تو اُن کو آواز آئی کہ مبارک ہے وہ ذات جو اس نورانی آگ میں جلوہ فرما ہے اور۔۔۔اے موسیٰ یہ تو ہم اللہ ہیں زبردست حکمت والے اور اپنی لاٹھی نیچے ڈال دو۔
سورۃ طہٰ۱۱:۲۰۔۱۲
پھر جب موسیٰ وہاں آئے تو اُن کو آواز آئی کہ موسیٰ ہم ہیں تمہارے پروردگار تو اپنی جوتیاں اُتار ڈالو۔کیونکہ اِس وقت تم طویٰ (نام) کے میدان پاک میں ہو۔
خدا اور موسیٰ کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ بخوف طوالت پورے طور سے یہاں درج نہیں ہو سکتی ،لیکن جن آیات کا ترجمہ ہم نے اُوپر قلم بندکیا وہ اِس مقصد کے لئے کافی ہے۔جب تک قرآن مجید میں ایسے لفظی اختلاف باقی ہیں تب تک اہل اسلام کے لئے مسیح کی قیامت کے بیانات کے اختلافات کوجو چاروں اناجیل میں مندرج ہیں ،اس غرض کے لئے پیش کرنا فضول ہو گا کہ وہ کتابیں محرف ہیں۔
موسیٰ نے جو جواب دیا اور جو قرآن مجید کے مختلف مقاموں میں درج ہے اس کوبھی نقل کرنا خالی از فائد ہ نہ ہو گا۔
سسورۃ الشعرا ۱۲:۲۶۔۱۴
موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھے جھٹلائیں اور بات کرنے میں میرا د م رُکتا ہے اور میری زبان اچھی طرح نہیں چلتی ۔تو ہارون کو کہلا بھیج کہ وہ میرا ساتھ دیں اور میرے ذمے قبطیوں کا ایک تاوان بھی ہے کہ میں نے ایک قبطی کو مار دیا تھا تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اُ س کے بدلے میں مجھ کو مارنہ ڈالیں۔
سورۃ طہٰ۲۵:۲۰۔۳۵
موسیٰ نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میراہیاؤ(جرأت) کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر اور میری زبان کی گِرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھیں اور میرے کُنبےوالوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا بوجھ بٹانے والا بنا کر اُن سے میری ڈھارس بندھوا اور میرے کام میں اُن کو شریک کر تاکہ ہم دونوں ایک د ل ہو کر کثرت سے تیر ی تسبیح کریں اور کثرت سے تیری یادگاری میں لگے رہیں کہ تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے۔
(ترجمہ نذیر احمد)
یہ قابل لحاظ ہے کہ سورۃ طہٰ میں موسیٰ نے یہ درخواست کی کہ ہارون کو مدد گار بنا کے اس کے ساتھ بھیجے ۔حالانکہ سورۃ الشعرا میں یہ ذکر ہے کہ اس کی جگہ ہارون بھیجا جائے کیونکہ اُس قتل کے باعث جس کا ذکر قرآن مجید میں کسی دوسری جگہ آیا ہے اُسے سزا ئے موت کا خوف تھا ۔یہاں نہ صرف ایک ہی قصہ کا بیان مختلف الفاظ میں ہوا ہے بلکہ خود قصے میں اختلاف ہے اور امر واقعہ کی نسبت جو سوال ہیں وہ بہت مختلف ہیں۔جو مسلمان صاحبان بائبل مقدس پر اعتراض کیا کرتے ہیں وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟
قرآن مجید میں قصوں کے ایسے اختلاف کی ایک دوسری مثال وہ الفاظ ہیں جو خدا نے ہمارے جدامجد کو باغ عدن میں فرمائے ۔ہم یہاں تین مختلف بیانات جو قرآن مجید کی تین مختلف سورتوںمیں آئے ہیں یہاں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ان تینوںمیں خدا کی ایک ہی تقریر کا بیان مندرج ہے۔ناظرین اپنے لئے خود نتیجہ نکالیں۔
سورۃ طہٰ۱۲۳:۲۰۔۱۲۴
خدا نے حکم دیا کہ تم دونوں بہشت سے نیچے اُتر جاؤ۔ایک کا دشمن ایک پھر اگر تمہارے پاس ہماری طرف سے ہدایت آئے تو جو ہماری ہدایت پر چلے گا نہ بھٹکے گا اور نہ ہلاکت میں پڑے گا اور جس نے ہماری یاد سے رو گردانی کی تو اُس کی زندگی ضیق(تنگی۔ دُشواری) میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اُس کو اندھا اُٹھائیں گے۔
سورۃ اعراف۲۴:۷۔۲۵
خدا نے فرمایا کہ نیچے اُتر جاؤ تم میں سے ایک کا دشمن ایک اور تم کو ایک وقت خاص تک زمین پر رہنا ہو گا اور سامان زیست بھی وہیں مہیا ہے ۔خدا نے یہ بھی فرمایا کہ زمین ہی میں زندگی بسر کرو گے اور اُسی میں مرو گے اور اُسی میں سے نکال کھڑے کئے جاؤ گے۔
سورۃ بقرہ ۳۶:۲۔۳۹
ہم نے حکم دیا کہ تم سب اُتر جاؤ۔تم ایک کے دشمن ایک اور زمین میں تمہارے لئے ایک وقت خاص تک ٹھکانا اور زندگی بسر کرنے کا سازو سامان ہو گا۔۔۔جب ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب یہاں سے اُتر جاؤ۔اگر ہماری طرف سے تم لوگوں کے پاس کوئی ہدایت پہنچے تو اُس پر چلو کیونکہ جو ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے اُن پر نہ تو خوف ہوگا اور نہ آزردہ خاطر ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے اور وہ ہمیشہ دوزخ ہی میں رہیں گے۔
مذکور ہ بالا مثال کی طرح ہم درجنوں دیگر مثالیں قرآن مجید سے پیش کر سکتے ہیں جن سے بخوبی واضح ہے کہ جن اختلافات کے باعث وہ بائبل مقدس پر الزام لگاتے ہیں ویسے ہی اختلافات خود قرآن مجید میں موجود ہیں ۔مخفی نہ رہے کہ جو لوگ ایسے اعتراضات کرتے ہیں اُنہیں کسی قدر تعلیم یافتہ ہونے کا بھی دعویٰ ہے ۔اِس لئے اُن کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ایسے اختلافات اور فرق کثرت سے موجود ہیں۔اس لئے ایسے اعتراضات صدق دلی سے صادر نہیں ہو سکتے۔اگر یہ صاحبان اپنی رائے کے اظہار میں صدق دلی سے کام لیں یا کم از کم انصاف پر چلیں تو نہ صرف بائبل مقدس کو بلکہ قرآن مجید کو بھی وہ ردّ کریں گے۔ہمارا یہ کام نہیں کہ قرآن مجید کے اِن اختلافات کی تشریح کریں۔ لیکن بائبل مقدس میں جو ایسے لفظی اختلافات ہیں وہ ہمارے عقیدے کو جنبش نہیں دے سکتے۔جو بیان ایک انجیل نویس نے کیا وہ اکثر دوسرے انجیل نویس کے بیان کی تکمیل کر دیتا ہے۔کبھی ایک کے مجمل بیان کو دوسرے انجیل نویس سے زیادہ مفصل کر دیا جاتا ہے۔یا اگر کسی اختصار کی وجہ سے غلطی کا اندیشہ معلوم ہوا تو اُس کوواضح کر دیا۔لیکن اس کو ہم تحریف نہیں کہہ سکتے اور نہ اناجیل کے بیان کے اعتبار پر کوئی حرف آسکتا ہے۔انجیل نویسو ں نے عہد عتیق کے انبیا کے الفاظ کو نقل نہیں کیا بلکہ اُن کا مضمون درج کیا۔اِسی طرح نئے عہد نامے میں مسیح یا رسولوں اور شاگردوں کی تقریروں کو لفظاً قلم بند نہیں کیا بلکہ اُن کا خلاصہ دیا ہے۔ایسے امور میں لفظی مطابقت کے نہ ہونے کی بنا پر بائبل مقدس کو تو محرف کہنا اور قرآن مجید کو قبول کر لینا مچھر کو چھا ننے اور ہاتھی کو نگلنے کی مثا ل رکھتا ہے۔
بائبل مقدس پر تحریف کا الزام بعض اوقات اِس وجہ سے بھی لگایا جاتا ہے کیونکہ معترض بائبل مقدس اور یہودی دستورات سے نا واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ’’ رد ِعیسائی‘‘ کے مصنف نے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور اُس کے مقلدین(مُقلّد کی جمع ۔تقلید کرنے والا)نے مرقس ۲۶:۲ کا حوالہ اس لئے دیا کہ داؤد خدا کے گھر میں ابیاتر سردار کاہن کے دنوں میں داخل ہوا اور نذر کی روٹیاں کھائیں۔معتر ض کہتا ہے کہ یہ غلط ہے کیونکہ ۱۔سموئیل ۲۱ویں باب سے معلوم ہوتا ہے کہ اخیملک سردار کاہن تھا۔
اب یہ اعتراض مصنف کے دیگر ایسے اعتراضات کی طرح اس غلط قیاس پر مبنی ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی سردار کاہن ہوا کرتا تھا۔ لیکن اگر وہ لوقا کی انجیل کامطالعہ کرتے تو ان کو فوراًیہ معلوم ہو جاتا کہ بعض اوقات دوسردار کاہن بھی ہوتے تھے ۔چنانچہ یہ ذکر ہے کہ ’’ تبِریُس قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس جب۔۔۔حناہ اور کائفا سردار کاہن تھے۔۔۔ خدا کا کلام ۔۔۔ یوحنا پر نازل ہوا‘‘(لوقا۱:۳۔۲)۔اِسی طرح ۱۔سموئیل۶:۲۳۔۹ سے اُن کو بخوبی معلوم ہو سکتا تھا کہ جیسا مقدس مرقس نے بیان کیا ابیاتر کاہن بھی اس وقت سردار کاہن تھا۔ چنانچہ وہاں یہ لکھا ہے ’’اور داؤد کو معلوم ہوگیا کہ ساؤل اُس کے خلاف بدی کی تدبیریں کر رہا ہے ۔سو اُس نے ابیاتر کاہن سے کہا کہ افود یہاں لے آ ‘‘۔یہ ابیاتر داؤد کی وفات تک سردار کاہن رہا۔ اس وقت داؤد کے بیٹے سلیمان نے اس کی بدکرداریوں کے سبب اسے معزول کر دیا۔چنانچہ یہ لکھا ہے ’’پھربادشاہ نے ابیاتر کاہن سےکہا تو عنتوت کو اپنے کھیتوں میں چلاجاکیونکہ تو واجب ُالقتل ہے پر میں اس وقت تجھ کو قتل نہیں کرتاکیونکہ تو میرے باپ داؤد کےسامنے خداوندیہوواہ کا صندوق اُٹھایا کرتا تھااور جو جو مصیبت میرے باپ پر آئی وہ تجھ پر بھی آئی۔سو سلیمان نے ابیاتر کو خداوند کے کاہن کے عہدہ سے بر طرف کیا تاکہ وہ خداوند کے اُس قول کوپُورا کرے جواُس نے سیلا میں عیلی کے گھرانے کے حق میں کہا تھا‘‘(ا۔سلاطین۲۶:۲۔۲۷)۔
اس کتاب ’’ردِ عیسائی‘‘ میں بائبل مقدس کی تحریف کا ایک ثبوت یہ دیا ہےکہ مقدس متی کی انجیل میں یہ لکھا ہے کہ یسوع نے’’ جھیل گلیل‘‘ کے کنارے چلتے ہوئے اپنے پہلے شاگردوں کو بُلاکر کہا ’’میرے پیچھے چلے آؤ۔تو میں تمہیں آدمیوں کا پکڑنے والا بناؤں گا‘‘ (متی۱۸:۴۔۲۲)۔حالانکہ لوقاکی انجیل میں لکھا ہے کہ ’’گنیسرت کی جھیل ‘‘کے کنارے چلتے وقت اُس نے ان شاگردوں کو بلایا تھا(لوقا۲:۵۔۱۱)اور بڑے زور سے چلّا اُٹھے کہ دیکھو بائبل مقدس میں یہ نقیض (برعکس۔اُلٹ) بیانات ہیں۔
ایسے بے علم لوگ جب بائبل مقدس پر اعتراض کرنے لگتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ سکول کے عام لڑکے بھی جنہوں نے جغرافیہ پڑھا ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ جھیل کبھی تو ’’گلیل کی جھیل ‘‘کبھی ’’تبریس کی جھیل ‘‘اور کبھی’’ گنیسرت کی جھیل‘‘ کہلاتی ہے ۔خود قرآن مجید میں ایک شہر ایک جگہ تو ’’بکّا‘‘ اور دوسری جگہ’’ مکہ‘‘ کہلاتا ہے۔ لیکن اس وجہ سے کوئی شخص قرآن مجید کے ان مقامات کو نقیض اور محرف نہیں ٹھہراتا۔یہ معترض عقل مند ایک اَور مقام پر بھی ہنسی اُڑایا کرتے ہیں۔ اُس مقام میں یہ لکھا ہے ’’اُس وقت یسوع سبت کے دن کھیتوں میں ہو کر گیا اور اُس کے شاگردوں کو بُھوک لگی اور بالیں توڑ توڑ کر کھانے لگے‘‘(متی۱:۱۲)۔اس مقام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یسوع نے جان بوجھ کر اور رضامندی سے اپنے شاگردوں کو اس چوری اور مداخلت بے جا کی اجازت دی اور چونکہ اُن کا یہ اعتراض اور قیاس عصمت انبیا کے مسلمہ مسئلہ اسلام کے خلاف ہے اس لئے اس کو تحریف کا نام دے دیا۔
اس اعتراض سے بھی معترض کی نادانی اور بے علمی ظاہر ہے کیونکہ موسیٰ کی توریت سے یہ بخوبی واضح ہے کہ یسوع مسیح کے شاگردوں کا یہ فعل بالیں توڑنے کا یہودی شریعت اور مروج دستور کے عین مطابق تھا۔چنانچہ توریت میں لکھا ہے ’’جب تو اپنے ہمسایہ کےکھڑےکھیت میں جائے تو اپنے ہاتھ سے بالیں توڑسکتاہےپر اپنے ہمسایہ کے کھڑے کھیت کوہنسوانہ لگانا‘‘(استثنا۲۵:۲۳)۔’’جب تو اپنے ہمسایہ کے تاکستان میں جائے تو جتنے انگور چاہے پیٹ بھر کرکھانا پر کچھ اپنے برتن میں نہ رکھ لینا‘‘(استثنا۲۴:۲۳)۔
جائے تعجب ہے کہ بائبل مقدس کی جس تعلیم پر یہ سخت اعتراض کیا جاتا ہے وہی تعلیم خود اسلام میں بھی پائی جاتی ہے!جب محمد صاحب سے درختوں میں لگے ہوئےپھلوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صاحب نے یہ جواب دیا:
مَنْ اَصَابَ مِنْہُ مِن ذی حاجِۃٍ غَیرَ مُتَّجذٍ جُنبَۃً فَلا شئ عَلَیہِ ومَن خَرج بشئِ فعلیہِ عَزَمَۃُ مثلہ والعقوبَۃ
ترجمہ:’’جوکوئی ضرورت(یعنی بھوک) کے باعث اِ س میں سے لے ،بِلا اس کے کہ جس قدر وہ لے جاسکتا ہے لےجائے ،وہ بے قصور ہے۔لیکن اگر وہ اُس میں سے کچھ لے جائے تو اُس کا فرض ہے کہ اُس کی دُگنی قیمت ادا کرے اور وہ مستوجب سزا‘‘(مشکوٰۃ المصابیح۔کتاب البیعات)۔
اِسی طرح محمد صاحب نے یہ اجازت دی کہ اگر وہ پیاس کی شدت بجھانے کو کسی دوسرے کی گائے کا دودھ دوہ لے تو روا ہے،لیکن وہ دودھ کسی حالت میں لے نہ جائے۔اس سے ظاہر ہے کہ جس تعلیم پر بعض مسلمان اعتراض کرتے ہیں اس کی اجازت توریت میں بھی ہے اورمحمد صاحب نے بھی دی ہے۔اس کی مزید تشریح فضول ہو گی۔
مسلمان معترضوں کی نادانی زیادہ صاف طور سے واضح ہو جاتی ہے جب اناجیل میں قلم بند یسوع مسیح کے نسب ناموں پر وہ اعتراض کرتے ہیں۔یہ نسب نامے متی اور لوقا کی انجیلوں میں مندرج ہیں۔اِن اعتراضات کے بالتفصیل ذکر کرنے کی توگنجائش نہیں،لیکن یہودی دستورات کی طرف سے اُن کی بے علمی ظاہر کرنے کی ایک دو مثالیں دی جاتی ہیں۔
متی۱۶:۱ میں لکھا ہے کہ مریم کے خاوند یوسف کے باپ کا نام یعقوب تھا،حالانکہ لوقا۲۲:۳ میں یوسف کے باپ کا نام عیلی تھا۔ناموں کی اِن دو فہرستوں میں دیگر فرق بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ایک نسب نامہ تو ’’شرعی نسل‘‘ کا ذکر کرتا ہے اور دوسرا نسب نامہ’’ طبعی نسل ‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔اِس امر کو واضح کرنے کی خاطر ناظرین کو وہ یہودی قانون یاد دلانا ہے جس کی رُو سے اگر کوئی شخص بے اولاد مر جاتا ہے تو اُس کے بھائی کو حکم تھا کہ اُس کی بیوہ سے شادی کر کے اپنے بھائی کے لئے اولاد پیدا کرے تا کہ اُس بھائی کے خاندان کا نام قائم رہے۔اِس طرح سے جو اولاد پیدا ہوتی وہ شریعت کی نگاہ میں اُس متوفی کی اولاد سمجھی جاتی تھی۔گو طبعی طور سے وہ اولاد اپنے حقیقی باپ کی تھی یعنی متوفی کے بھائی کی۔اس قانون کا ذکر توریت میں اس طرح سے آیا ہے’’اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک اُن میں سے بے اولاد مر جائے تو اُس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے بلکہ اُس کے شوہر کا بھائی اُس کے پاس جا کراُسے اپنی بیوی بنا لےاور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اُس کے ساتھ ادا کرے ۔اوراُس عورت کہ جو پہلا بچہ ہو اُس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کا کہلائے تا کہ اُ س کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے‘‘(استثنا۶،۵:۲۵)۔
پس اگرعیلی بے اولاد مر گیا اور اُس کے سگے یا سوتیلے بھائی نے شریعت کے مطابق عیلی کی بیوہ سے شادی کر لی تو اُس کی اولاد یعنی یوسف شرعی طور پر عیلی کا بیٹا ہو گا لیکن طبعی طور پر یعقوب کا۔پس جو بادی ُالنظر(سرسری نظر سے) میں ایک بڑ انقص معلوم ہوتا تھا وہ بالکل نقص نہیں رہتا۔
اِس قرینے میں اہلِ اسلام سے التماس ہے کہ وہ خود قرآن مجید کی طرف ہی متوجہ ہوں کیونکہ قرآن مجید میں اسحٰق اور یعقوب دونوں ابراہیم کے بیٹے کہلاتے ہیں۔حالانکہ یہ بخوبی معلوم ہے کہ یعقوب اسحٰق کا بیٹا تھا۔چنانچہ سورۃ انعام۸۴:۶ میں مندرج ہے’’اور ہم نے اُس (ابراہیم) کو اسحٰق اور یعقوب دیئے‘‘۔چنانچہ نعیم الدین نے اپنی تفسیر قرآن مجید کے صفحہ۱۱۵ پر یہ لکھا’’یعنی خدا کہہ رہا ہے کہ اے محمد میں نے ابراہیم کو دو بیٹے دیئے اسحٰق اور یعقوب اور میں نے دونوں کی ہدایت کی‘‘۔
امر واقعی تو یہ ہے کہ یہودی اور مسیحی مقدس کتابوں کو محرف ثابت کرنے کی جو کوشش ہوئی۔خواہ وہ قرآن مجید سے ہو یا خود بائبل مقدس سے وہ ناکام ثابت ہوئی۔رہا لفظی اور قرات کا اختلاف وہ تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور اُن سے نہ قرآن مجید کی صحت و اعتبار پر حرف آتا ہے نہ بائبل مقدس کی صحت و اعتبار پر۔اگر ہمارے مسلمان بھائی اپنے رسول کی شہادت پر ہی اتنا وقت صرف کرتے جو اُنہوں نے بائبل مقدس کی صحت و معتبر ہونے کے بارے میں دی ہے،جتنا کہ وہ بائبل مقدس میں تحریف ثابت کرنے پر دیتے ہیں تو نتیجہ بالکل مختلف ہو تا۔
باب پنجم
تنسیخ کے بارے میں زمانہ حال کے الزام
ہم اس سے ماقبل باب میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ محمد صاحب نے بائبل مقدس کو نہ صرف غیر محرف کلام اللہ تسلیم کیا بلکہ انہوں نے اپنے زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں کو ہدایت کی کہ اُس کے احکام کی تعمیل کریں اور انہوں نے خود خوراک اور زناکارکی سزا کے سوال کو توریت کے مطابق حل کرنا چاہا اور اس کے ذریعہ اس امر کا صریح و واضح ثبوت دیا کہ قرآن مجید کی اشاعت کے ذریعہ یہودی مقدس کتابیں منسوخ نہیں ہوئیں۔لیکن باوجود اِن واقعی امور کے بعض ایسے مسلمان صاحبان پائے جاتے ہیں کہ جب وہ بائبل مقدس کی تحریف ثابت کرنے میں قاصر رہتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر اُن کتابوں کو ردّ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کے آنے سے منسوخ ہو گئی ہیں اور جب ہم اُن سے پوچھتے ہیں کہ کس دلیل کے زور پر وہ محمد صاحب کی تعلیم کے خلاف ایسے دعویٰ کرتے ہیں، تو وہ قرآن مجید کی تین آیات کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ ان کی رو سے بائبل مقدس منسوخ ثابت ہوتی ہے۔
پس اب ہمارا یہ فرض ہے کہ قرآن مجید کے مفسروں کی مدد سے ہم ان مقامات پر غور کریں اور یہ ظاہر کرنے میں کچھ مشکل پیش نہ آئے گی کہ تحریف کے الزام کی طرح یہ الزام بھی بالکل بے بنیاد ہے۔
اِن میں سے پہلا مقام سورۃ نحل۱۰۱:۱۶ ہے جس میں سے وہ بائبل مقدس کے منسوخ ہونے کی دلیل لاتے ہیں۔اُس آیت کا ترجمہ یہ ہے’’جب ہم ایک آیت کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ جو(احکام) نازل فرماتا ہے اُس کی مصلحتوں کو وہی خوب جانتا ہے تو(کافر تم سے) کہنے لگتے ہیں کہ بَس توتو اپنے دل سے بنایا کرتا ہے۔اُن کا یہ شبہ غلط ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر وقت کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے‘‘۔مستند تفسیروں کے دیکھنے سے یہ ظاہر ہو جائے گا کہ اِ س آیت میں بائبل مقدس کی طرف کوئی اشارہ نہیں بلکہ برعکس اس کے اِس کا تعلق قرآن مجید ہی سے ہے کہ قرآن مجید کے بعض احکام مابعد احکام کے ذریعے سے منسوخ ہو گئے۔چنانچہ تفسیر جلالین میں یہ لکھا ہے:
قالوای الکفار للنبی صلے اللہ علیہ وسلم انما انت مفتر کذاب تقولہ من عندک بل اکثر ھم لا یعلمون حقیقۃ القران وفائدۃ النسخ
ترجمہ:’’اُنہوں یعنی کافروں نے نبی سےکہا(صاحب) تو تو جھوٹا مفتری ہے تو(یہ باتیں) اپنے آپ سے بنا لیتا ہے۔لیکن اُن میں سے اکثر قرآن مجید کی حقیقت اور نسخ کے فائدے کا علم نہیں رکھتے‘‘۔
جلالین کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی تو بے ایمانوں نے طنزاً یہ کہا کہ اس نئی شریعت کا بانی خودمحمد صاحب ہے۔
تفسیر قادری (جلد دوم۔صفحہ۵۸۱) اور تفسیر مداح القرآن مجید(صفحہ ۲۸۰) میں بھی یہی تشریح پائی جاتی ہے اور بیضاوی نے تو اس آیت کی تفسیر اور بھی واضح کر دی ہے۔وہاں یہ لکھا ہے:
قالوا أي الكفار إنما أنت مفتر متقّول على الله تأمر بشيء ثم يبدو لك فتنهى عنه
ترجمہ:’’’اُنہوں نے یعنی کافروں نے کہا توتو مفتری ہے تو اپنے کلمات کو خدا سے منسوب کرتا ہے۔تو پہلے ایک بات کا حکم دیتا ہے پھر پیچھے تو اُس کی ممانعت کرتا ہے‘‘۔بیضاوی نے یہ بالکل واضح کر دیا کہ اس مقام میں قرآن مجید کے احکام کا ذکر ہے۔توریت اور انجیل سے اس کا کچھ واسطہ نہیں۔
بائبل مقدس کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے سورۃ بقرہ کی ۱۰۰ ویں آیت بھی پیش کی جاتی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے’’ہم کوئی آیت منسوخ کر دیں یا تمہارے ذہن سے اس کو اتار دیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی نازل بھی کر دیتے ہیں‘‘۔ پہلی آیت کی طرح اس آیت میں بھی قرآن مجید کی طرف اشارہ ہے نہ بائبل مقدس کی طرف۔مستند تفاسیر کے چند اقتباسات سے یہ واضح ہو جائے گامثلاً تفسیر جلالین میں یہ لکھا ہے:
ولما طعن الكفار في النسخ وقالوا إنّ محمداً يأمر أصحابه اليوم بأمر وينهى عنه غداً فنزل مَا نَنسَخْ
ترجمہ:’’نسخ کے بارے میں بے ایمانوں نے جب محمد صاحب پر طعنہ کیا اور کہا سچ مچ محمدصاحب اپنے اصحاب کو آج ایک حکم دیتا ہے اور کل اُس کو منع کر دیتا ہے تب یہ الفاظ نازل ہوئے‘‘۔’ہم کوئی آیت منسوخ کر دیں‘۔اِن الفاظ کے بارے میں’’یا تمہارے ذہن سے اُس کو اتار دیں‘‘۔اُسی مفسر نے یہ تشریح کی:
أي نُنْسِكها ونمحيها من قلبك
ترجمہ:’’یعنی اے محمد تجھے بھُلوا دے اور تیرے دل سے اُڑا دے‘‘۔
جلالین کے اِن الفاظ سے بخوبی ظاہر ہے کہ اس آیت زیر بحث کے الفاظ کا تعلق توریت یا انجیل سے نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ سے ہے۔خدا منسوخ کرے یامحمد صاحب کو بھُلوا دےجو اِس سے پیشتر اُس پر منکشف ہو ا تھاجیسا کہ جلالین نے تفسیر کی یہ سارا معاملہ بالکل آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔محمد صاحب کو اکثر ضرورت پڑی کہ بعض احکام کو جو اُس نے مسلمانوں کو جہاد،قبلہ وغیرہ کے بارے میں دیئے تھے، اُن کو بدل ڈالے۔ اِن تبدیلیوں کی وجہ سے بے ایمانوں کو ٹھٹھا کرنے کا موقع ملا جیسا کہ جلالین نے ذکر کیا ہے۔اِس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ خدا منسوخ شدہ آیت سے بہتر نازل کر دیتا ہے۔مسلمان مفسروں کی یہ متفق علیہ رائے ہے۔چنانچہ مفصلہ ذیل اقتباسات سے یہ ثابت ہے۔
بیضاوی نے یہ تفسیر کی:
نزلت لما قال المشركون أو اليهود ألا ترون إلى محمد يأمر أصحابه بأمر ثم ينهاهم عنه ويأمر بخلافه
ترجمہ:’’یہ آیت نازل ہوئی جب مشرکوں اور یہودیوں نے یہ کہا تھا کہ تم محمد کو دیکھتے ہو وہ اپنے پیروؤں کو ایک حکم دیتا ہے اور پھر اُس کو منع کر کے اُس کے برعکس حکم دیتا ہے‘‘۔
تفسیر قادری صفحہ ۲۶ پر یہ لکھا ہےکہ اس آیت کے یہ معنی ہیں:
’’جوکچھ منسوخ کر دیا ہم نے آیات قرآن مجید سے۔۔۔ لاتے ہیں ہم بہتر اُس منسوخ کی ہوئی آیت سے جیسے دس کا فروں کے ساتھ ایک غازی کا مقابلہ منسوخ کر دیا اور دو کافروں کے ساتھ مقرر کیا۔۔۔ اور جیسے قبلۃ کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا‘‘۔
تفسیر رؤفی کے صفحہ ۱۱۴ پر لکھا ہے:
’’جوکچھ موقوف کرتے ہیں ہم آیتوں سے قرآن شریف کے‘‘
عبد القادر نے یہ تفسیر کی:
’’جو موقوف کرتے ہیں ہم کوئی آیت قرآن مجید کی موافق مصلحت وقت کے یا بھُلا دیتے ہیں، اُس آیت کو دلوں سے ،تو لاتے ہم یعنی بھیج دیتے ہیں ہم اُس سے اچھی ،جیسے کہ لڑائی میں اول حکم تھا کہ دس کافروں سے ایک مسلمان لڑے ،پھر حکم ہو ا کہ دو کافروں سے ایک مسلمان لڑے۔یہ آسانی ہوئی مسلمانوں پر۔برابر اس کے آیت بھیجتے ہیں جیسے کہ پہلے حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف سجدہ کرو پھر مکے کی طرف نماز کا حکم ہوا‘‘(صفحہ۱۷)۔
اِن مشہور محمدی علما کی تفاسیر سے یہ روشن ہے کہ آیت زیر بحث میں قرآن مجید ہی کی آیات کی طرف اشارہ ہے، نہ کسی اورکتاب کی آیات کی طرف اور بائبل مقدس کی طرف اس میں مطلق کوئی اشارہ نہیں۔سارے قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں جہاں یہ تعلیم ہو کہ قرآن مجید نے بائبل مقدس کو منسوخ کر دیا لیکن مسلمان علما کہتے ہیں کہ کم ازکم ۲۲۵ مختلف آیات کو مابعد آیات نے منسوخ کر دیا ہے تو بھی مسلمان سارے قرآن مجید کو پڑھتے ہیں یعنی منسوخ شدہ آیات کو بھی قرآن مجید میں پڑھتے رہتے ہیں ۔ا س لئے اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ بائبل مقدس کے احکام منسوخ ہو گئے ہیں تو بھی یہ کوئی عذر نہ ہو گا کہ مسلمان اس کتاب کو نظر انداز کریں کیونکہ یہ تو تسلیم کر لیا گیا کہ وہ الہٰی مکاشفہ ہے اور باوجود منسوخ ہونے کے بھی وہ بیش بہا اور اہم تاریخی بیان ہے۔
اس مضمون کو چھوڑنے سے پیشتر ناظرین کی توجہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں جس میں کہ نسخ کے مضمون کا ذکر آیا ہے۔وہاں یہ لکھا ہے’’ہم نے تم سے پہلے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا اور نہ کوئی ایسا نبی کہ اُس کو یہ معاملہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اُس نے اپنی طرف سے کسی بات کی تمنا کی، شیطان نے اُس کی تمنا میں وسوسہ ڈالا۔پھر آخرکار خدا نے وسوسہ شیطانی کو دور اور اپنی آیتوں کو مضبوط کر دیا‘‘۔ (سورۃالحج۵۱:۲۲)۔اس آیت میں کتاب مقدس کے اُن حصوں پر نسخ کا حکم صادر ہوا جو وسوسہ شیطانی سے اُس میں داخل ہو گئی تھیں اور اس کی تشریح میں مسلمان مفسروں نے ایک عجیب قصہ سنایا ہے کہ محمد صاحب کو شیطان نےدھوکا دے کر اُس سے کفر کہلوادیا۔اس کے بعدمحمد صاحب کو اس کا بڑا رنج ہوا۔آخر کار یہ آیت نازل کر کے خدا نے اُس کی تشفی کی۔
قاضی بیضاوی نے اس کی یہ تفسیر کی ہے(صفحہ۴۴۷)۔’’وہ کہتے ہیں کہ محمد صاحب یہ چاہتے تھے کہ اُس قوم کے لوگوں کو ایمان کی طرف لانے کے لئے اُس پر کوئی ایسی آیت نازل ہو جس کے ذریعہ اُس کے اور اُس کی قوم کے مابین دوستی کا رشتہ قائم ہو جائے اور وہ برابر یہی چاہتا رہا حتٰی کہ وہ ایک رو ز بُت پرستوں کی مجلس میں حاضر تھا اور اُس نے یہ سورۃ پڑھنی شروع کی اور جب وہ ان الفاظ پر پہنچا وَمَنٰوۃً الثّا لِثَۃَ الاُخری تو شیطان نے اُس کے کان میں پھونکا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دیئے اور اُس نے کہا’’یہ (عربی دیویاں) ممتاز ہنس ہیں اور یقیناً ان کی سفارش کی امید رکھنی چاہیئے‘‘۔اس پر بے ایمان لوگ تو خوش ہو گئے اور جب محمد صاحب سجدے میں جھکا تو یہ لوگ بھی اُس کے ساتھ سجدے میں جھکے، یہاں تک کہ مسجد میں کوئی ایماندار یا بُت پرست ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔اس کے بعد جبرائیل نے حضرت کو متنبہ کیا اور وہ بہت رنجیدہ ہوا اور خدا نے اس آیت کے ذریعہ اس کی تسلی کی۔یہ عجیب قصہ جس کا ذکر بہت مسلمانی کتابوں میں آیا ہے کم از کم ایسی مثال ہے کہ جن الفاظ کو خدا نے منسوخ کیا وہ محمد صاحب کے ایسے الفاظ تھے جو وسوسہ شیطانی کے ذریعہ داخل ہو گئے تھے۔
جن آیات کو بائبل مقدس کی تنسیخ کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔توریت اور انجیل کے منسوخ ہونے کے دعویٰ کی بجائےمحمد صاحب نے بار بار بیان کیا کہ قرآن مجید مصد قا لما بین یدیہ کہ وہ انہی کتابوں کا مصدق تھا۔مگر یہ توعیاں ہے کہ جب قرآن مجید بائبل مقدس کا مصدق ہوا تو وہ اُس کا ناسخ نہیں ہو سکتا۔چونکہ محمد صاحب نے اپنے زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنے مقدس نوشتوں پر عمل کریں تو یہ دریافت کرنا مشکل نہیں کہ اِن دونوں باتوں میں سے قرآن مجید کی صحیح تعلیم کون سی ہے۔
جن آیات کو بائبل مقدس کی تنسیخ کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔توریت اور انجیل کے منسوخ ہونے کے دعویٰ کی بجائےمحمد صاحب نے بار بار بیان کیا کہ قرآن مجید مصد قا لما بین یدیہ کہ وہ انہی کتابوں کا مصدق تھا۔مگر یہ توعیاں ہے کہ جب قرآن مجید بائبل مقدس کا مصدق ہوا تو وہ اُس کا ناسخ نہیں ہو سکتا۔چونکہ محمد صاحب نے اپنے زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنے مقدس نوشتوں پر عمل کریں تو یہ دریافت کرنا مشکل نہیں کہ اِن دونوں باتوں میں سے قرآن مجید کی صحیح تعلیم کون سی ہے۔
’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محمدی عقیدے کا یہ جز ہے کہ ایک شریعت نے دوسری شریعت کو بالکل منسوخ کر دیا وہ سرا سر غلطی پر ہیں۔ہمارا عقیدہ یہ نہیں کہ زبور نے توریت کو منسوخ کر دیا اور انجیل نے زبور کو اور قرآن مجید نے انجیل کو۔ہماری تعلیم ہر گز یہ نہیں۔اگر کوئی جاہل محمدی اس کے خلاف کہے وہ عقیدے کے ارکان اور تعلیم سے بالکل بے بہرہ ہے‘‘۔
اس باب کو ختم کرنے سے پیشتر ہم اس مسئلہ کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔وہ یہ ہےکہ نسخ امور واقعی پر عائد نہیں ہو سکتا ممکن ہے کہ کوئی حکم منسوخ ہو جائے لیکن ایک تاریخی واقعہ ہمیشہ واقعہ ہی رہے گا۔مشہور مسلمان مفسر جلال الدین سیوطی نے اس امر کو تسلیم کر لیا۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
لا يقع النسخ إلا في الأمر والنهي
ترجمہ:’’نسخ صرف اوامر ونواہی پر ہی عائد ہو سکتا ہے‘‘۔
مظہری نے بھی یہ لکھا :
النسخ انما یعترض علی الا و امروالنواھی دون الاخبار
ترجمہ:’’نسخ صرف اوامرو نواہی کے بارے میں ہی ہو سکتاہے‘‘۔اگر انجیل میں یہ صاف بیان ہو(چنانچہ ایسا ہی ہے) کہ یسوع مسیح نے اپنی جان صلیب پر گناہوں کی قربانی کی خاطر نذر گزرانی اور تیسرے دن پھر جی اُٹھا تو ایسا تاریخی واقعہ کبھی منسوخ نہیں ہو سکتا۔ہمیشہ یہ راست ہی رہے گا کہ یسوع مر گیا اور پھر جی اٹھا۔
ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ بائبل مقدس کے منسوخ ہونے کے بارے میں قرآن مجید میں اشارہ تک نہیں۔انجیل میں تو یہ صاف بیان ہے کہ انجیل کا عہد زمانہ کے آخر تک رہے گا۔چنانچہ یہ لکھا ہے’’گھا س مُرجھاتی ہے۔ پھول کملاتاہے پرہمارے خدا کاکلام ابد تک قائم ہے‘‘(یسعیاہ۸:۴۰)۔ اور خود مسیح نے فرمایا ’’آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہر گز نہ ٹلیں گی‘‘(متی۳۵:۲۴) اور زمین پر جس سلطنت کو قائم کرنے کے لئے مسیح آیا تھا اُس کی نسبت انجیل میں یہ لکھا ہے کہ ’’اُس کی بادشاہی کا کبھی آخر نہ ہوگا‘‘(لوقا۳۳:۱)۔پس یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اسلام کے آنے سے مسیحی عہد منسوخ ہو جائے۔ایسا خیال قرآن مجید اور انجیل دونوں کے خلاف ہے۔
باب ششم
ازروئے اسلام مسئلہ کلام اللہ
اور نہ منسوخ ہوئیں ۔جیسی وہ محمد صاحب کے ایام میں تھیں ویسی ہی وہ اب موجود ہیں۔’’ہدایت اور نور‘‘جو کچھ احسن ہے وہ کامل طور سے اُن میں موجود ہے اور ہر سوال کا حل اور ہدایت اور رحمت اُن میں ہے۔وہ متقیوں کے لئے نصیحت ہیں اور اس حیثیت میں جو لوگ اعلیٰ نیکی کے متلاشی ہیں اُن کا فرض ہے کہ اُن کتابوں کو پڑھیں اور اُن پر عمل کریں۔اب ہم یہ دریافت کریں گے کہ اسلام میں بائبل مقدس کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کہاں تک پائی جاتی ہے؟قرآن مجید نے جوبار بار اِن کتابوں کے مصدق ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہاں تک قرآن مجید کے مطالعہ سے اُس کے اِس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے؟
مسئلہ خدا ازروئے بائبل مقدس
بائبل مقدس میں یہ تعلیم ہے اللہ واحد ذو الحیات اور برحق ہے۔وہ ازلی وابدی ہے ہے۔وہ غیر متجسد، غیر منقسم اور غیر متاثر ہے۔اُس کی قدرت اور حکمت اور خوبی بے حد ہے۔وہ سب مرئی(دیکھی) اور غیر مرئی(ان دیکھی) چیزوں کا خالق اور حافظ ہے۔یہاں تک تو اسلام کو پورا اتفاق ہے۔لیکن جب الہٰی وجود کے طریقے پر غور کرنے لگتے ہیں،وہاں تعلیم میں اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔بائبل مقدس میں یہ مکاشفہ پایا جاتا ہے کہ اُس ایک اور واحد خدا میں تین اقانیم یعنی باپ،بیٹا اور روح القدس ہیں جن کا جوہر، قدرت اور ازلیت ایک ہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی ازلی ذات میں رشتے پائے جاتے ہیں۔تین متفق مرضیاں باہمی محبت اور اتحاد کے ساتھ ازل سے موجود ہیں،ایسا کہ الوہیت کی وحدت میں اقانیم ثلاثہ موجود ہیں۔تقریباً ویسے ہی جیسے کہ انسانی شخصیت کی وحدت میں عقل،نفس اور روح کا ثالوث موجود ہےتو بھی انسان کی شخصیت واحد ہے نہ تین،ویسے ہی مسیحی علم الہٰیات میں ثالوث خدا لاثانی اور مطلق واحد ہے۔مقدس ثالوث کا یہ بڑا راز منکشف حقیقت ہے اور یہ اُس بائبل مقدس میں پایا جاتا ہے جس کا ذکرمحمد صاحب نے ایسی تعریف کے ساتھ کیا اور جس کی تعظیم و تعمیل کرنے کی اُنہوں نےآدمیوں کو تعلیم دی ۔اِس لئے یہ دریافت کرنا اہم امر ہے کہ مسیحی دین کی اس اصولی تعلیم کے بارے میں محمد صاحب کی رائے کیا تھی؟اور الہٰی ذات کے اس تہرے اظہار کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی؟مگر اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر پھر یہ دُہرانا اور زور دینا ضرور ہے کہ سوال یہ نہیں کہ خدا ایک ہے یا تین۔قرآن مجید کی طرح بائبل مقدس نے بھی خدا کی وحدت پر یکساں زور دیا ہے۔’’سن اے اسرائیل۔خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا وند ہے ‘‘ ۔ (استثنا ۴:۶)۔یہ اصولی تعلیم ہے جس پر بائبل مقدس نے مسئلہ خدا کی بنیاد رکھی۔جو سوال زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ الہٰی ہستی اور الہٰی ذات کے اظہار کا طریقہ کیا ہے۔
جب اِس سوال کے جواب کے لئے ہم قرآن مجید اور احادیث کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ اس الہٰی وحدت میں تہری ذات کی منکشف تعلیم کے بارے میں محمد صاحب کی کیا رائے تھی تو ہم کو مسیحی کلیسیا کی اس تعلیم کے متعلق کچھ پتہ نہیں لگتا،بلکہ بر عکس اس کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین خداؤں کے ایک قیاسی مسئلہ کی تردید میں باربار کوشش کی گئی۔قرآن مجید میں بار بار اس کا ذکر ایسے طریقے سے ہوا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب مارشیان کے بدعتی مقلدوں سے نہ جھگڑ رہے تھے(بالفرض اگر اُس زمانے میں ایسے لوگ عرب میں موجود ہوں)جو تین خداؤں کو مانتے تھےیعنی عدل کا خدا ،رحمت کا خدااور بدی کا خدا ۔بلکہ محمد صاحب کو یہ غلط خیال پیدا ہوگیا کہ مسیحیوں کے درمیان جو مسئلہ ثالوث تھاوہ تین خداؤں کا مسئلہ تھا۔جن الفاظ میں محمد صاحب نے اس فرضی مسئلہ تثلیث کا ذکر کیا اُس سے اس رائے کی تائید ہوئی ہے۔چنانچہ سورۃ مائدہ۷۶:۵ میں یہ آیا ہے’’جو لوگ کہتے ہیں کہ خدا تو یہی تین میں کا تیسرا ہے۔کیونکہ ایک کے سو اکوئی خدا نہیں‘‘۔پھر دوسرے مقام میں یہ آیا ہے’’اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نےلوگوں سے یہ بات کہی تھی کہ خدا کے علاوہ مجھ کو اور میری والدہ کو بھی دو خدا مانو‘‘(سورۃ مائدہ۱۱۶:۵)۔
محمد صاحب کو یہاں دُہری غلطی لگی۔اول تو یہ کہ اُنہوں نے خیال کیا کہ مسیحیوں کا مسئلہ ثالوث تین خداؤں کو تسلیم کرنا ہے اور دوم یہ کہ ثالوث باپ ،بیٹے اور کنواری مریم پر مشتمل تھا۔مسیحیوں کی اس تعلیم کے بارے میں محمد صاحب ہی کو غلطی نہیں لگی بلکہ قرآن مجید کے مسلمان مفسروں نے بھی یہ غلطی کھائی۔چنانچہ جلالین نے ایسی ہی رائے ظاہر کی۔جس آیت کا اقتباس ہم اوپر کر آئے ہیں اُس کی تفسیر میں اُنہوں نے یہ لکھا:
ان اللّٰہ ثالث ثلٰثۃ ھوا حدھا والا خران عیسیٰ و امّہ
ترجمہ:’’تحقیق خدا تین میں کا تیسرا ہے ۔وہ اُن میں سے ایک ہے۔باقی دو عیسیٰ اور اُس کی ماں ہیں‘‘۔
یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ایسی فضول تعلیم کبھی کسی مسیحی فرقے کی نہ تھی۔خدا کی ذات کے بارے میں بحث مباحثے تو ہوتے رہے ، لیکن سارے زمانوں او ر ملکوں میں خدا کی وحدت کی اصولی تعلیم ہمیشہ مسیحی کلیسیا مانتی رہی۔اب ہم مسلمان ناظرین ہی سے پوچھتے ہیں کہ جب قرآن مجید نے مسیحی عقیدے کے اس امر واقعی کے متعلق ایسی بڑی غلطی کھائی تو اُن گہرے امور کے بارے میں جو ہماری ازلی جنگ سے علاقہ رکھتےہیں، ہم اُس کو کس طرح سے اپنا ہادی مان لیں۔اگر مسیحی مسئلہ خدا کی حقیقت سےمحمد صاحب ناواقف تھے تو ہم اُن دیگر باتوں کا اعتبار کیسے کریں جو خدا کا رستہ دکھانے کے متعلق اُنہوں نے بیان کیں؟
بعضوں نے نادانی سے یہ سوال اُٹھایا کہ مسئلہ ثالوث بعد کی اختراع ہے اور ابتدا میں مسیحیوں کے درمیان خدا کا ایسا تصور نہ تھا۔لیکن عہد جدید کو جو ذرا غور سے پڑھتے ہیں وہ یہ معلوم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس قدر زور و تاکید خدا کی ذات واحد پر ہوئی، اُسی قدر زورو تاکید یسوع او ر روح القدس کی الوہیت پر دی گئی۔مسیح نے جب یہ حکم دیا کہ ساری دنیا میں جا کر انجیل کی منادی کرو تو ساتھ ہی اُس نے یہ صریح ہدایت کی کہ اُن نومریدوں کو باپ،بیٹے اور روح القدس کے نام( نہ ناموں) میں بپتسمہ دینا۔پولس رسول کے بعض خطوں کے آخر میں جو کلمہ تمجید پایا جاتا ہےاُس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔وہ اپنے شاگردوں کے لئے یہ دعا کرتا ہے’’خداوند یسوع مسیح کا فضل،خدا کی محبت اور روح القدس کی شراکت تمہارے ساتھ ہو‘‘۔مسیح کلیسیا کی قدیم نماز کی کتابوں میں بھی الہٰی ذات کے بطون میں تثلیث کا ثبوت پایا جاتا ہے۔چنانچہ اسکندریہ کی کلیسیا کی قدیم کتاب ِنماز جو ۲۰۰ء کے قریب مروج تھی ،لوگوں کو یہ تلقین کرتی تھی’’ایک ہی واحد قدوس ہے،باپ۔ایک ہی واحد قدوس ہے،بیٹا۔ایک ہی واحد قدوس ہے،روح القدس‘‘۔تاریخ کلیسیا میں لکھا ہے کہ جب سمرنا کے بزرگ پولی کارپ نے جو ۶۹ء میں پیدا ہوا تھا اور جو خود یوحنا رسول کا شاگرد تھا، ایمان کی خاطر اپنی جان دی تو اپنے مقتل میں اپنی دُعا کو ان الفاظ پر ختم کیا’’اِ س کے لئے اور ساری باتوں کے لئے میں تیر ی حمد کرتا ، تجھے مبارک کہتا ،میں تیرا جلال ظاہر کرتا معہ ازلی آسمانی یسوع کے جو تیرا پیار ا بیٹا ہے۔اُس کے ساتھ تجھ کو اور روح القدس کو جلال ہو ا ب اور سارے زمانوں تک۔آمین‘‘۔اس امر کی ایک اور عجیب شہادت مشہور مصنف اور ظریف لوشیان کی تصنیفات میں پائی جاتی ہے۔ یہ شخص ۱۲۵ء میں پیدا ہوا۔اُس کی تصنیف بنام فِلو پطرس(PHILOPATRIS) میں مسیحی یہ اقرار کرتا ہے ’’خدا تعالیٰ۔۔۔باپ کا بیٹا۔روح جو باپ سے صادر ہے تین کا ایک اور ایک کا تین‘‘۔یہ اقتباسات اس امر کے ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ خود مسیح کے زمانہ سے لے کر مسیحی کلیسیا کی یہ تعلیم چلی آئی ہے کہ ایک خدا تین اقانیم میں ہے۔یہ مسئلہ مابعد زمانوں میں رفتہ رفتہ پیدا نہ ہوا بلکہ اس کی تعلیم کی بنیاد خود مقدس کتاب میں پائی جاتی ہے۔
مسلمانوں کا یہ کہنا کہ چونکہ وہ مسئلہ ثالوث کو سمجھ نہیں سکتے، اس لئے وہ اس کو مان بھی نہیں سکتے، دور تسلسل کے مغالطے کی طرف لے جاتا ہے ۔ آخری روز کی قیامت کے راز کو کون سمجھ سکتا ہے؟تو بھی ہزارہا اس کو مانتے ہیں۔ قرآن مجید میں بہت باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن کو مسلمان نہیں سمجھتے تو بھی اُس کتاب کی واحد سند پر اُس کو مان لیتے ہیں۔چنانچہ قرآن مجید کی جس آیت میں خدا کے عرش پر بیٹھنے کا ذکر آیا ہے، تفسیر الروفی نے اُس کی یہ شرح کی ہے:
’’متشا بہات قرآنی سے۔ ایمان ہمارا ہے اس پر اور حقیقت اُس کی اللہ ہی جانتا ہے۔ جیسا وہ بے کیف ہے استوا اُس کا عرش پر بلا کیف ہے‘‘۔اسی طرح مسیحی لوگ کتاب مقدس کی واحد سند پر مسئلہ ثالوث کے راز کے آگے سر نگوں کرتے اوراُس کو قبول کرتے ہیں۔اُن کو معلوم ہے کہ محدود کبھی غیر محدود کو پورے طور سے سمجھ نہیں سکتا۔کیونکہ خدا کا سمجھنا خود خدا ہونے پر دال (کھرنڈ۔آتشی شیشے کا عکس جس سے آگ لگتی ہے)ہے۔اگر مسلمان صاحبان بھی یہی وطیرہ اختیار کریں تو دانائی سے خالی نہ ہوگا۔وہ قرآن مجید کی واحد سند پر جسے وہ الہامی کتاب سمجھتے ہیں قیامت اور آئندہ عدالت کے مسائل کو مانتے ہیں پھر کیوں خدا کے پاک کلام کی شہادت پر خدا کی شخصیت کے مسئلہ کو قبول نہیں کر لیتے؟
مسئلہ مسیح ازروئے بائبل مقدس
بائبل مقدس میں یہ تعلیم پائی جاتی ہے کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا ،باپ کا کلمہ تھا جو ازل سے باپ سے مولود، حقیقی اور ازلی خدا ہے۔اُس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔اس کلمہ یا کلام نے انسانی ذات مبارک کنواری کے پیٹ میں اِس کے جوہر سے قبول کی۔ چنانچہ دو پوری اور کامل ذاتیں یعنی الوہیت اور انسانیت ایک ہی شخص میں ایسی متوصل ہو گئیں کہ پھر کبھی دونوں کی جدائی نہیں ہونے کی اور اُن سے ایک مسیح ہوا جو حقیقی خدا اور حقیقی انسان ہے۔اُس نے فی الحقیقت اذیت اٹھائی،مصلوب ہوااور دفن ہوا تا کہ اپنے باپ کو ہم سے ملائے ۔نہ صرف آدمیوں کی موروثی قصور واری کے لئے بلکہ اُن کے سب فعلی گناہوں کے لئے بھی قربان ہو۔بائبل مقدس کی مزید تعلیم یہ بھی ہے کہ تیسرے دن یہ مسیح مردوں میں سے فی الواقع جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا ۔جہاں وہ اب خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہے اور جوا ُس پر بھروسہ رکھتے ہیں اُن سب کی سفارش کے لئے ہمیشہ تک زندہ ہے۔
بائبل مقدس نے یہ منکشف کیا کہ خداوند یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے۔مقدس ثالوث کے مسئلہ کی طرح یہ بڑا مسئلہ سراسر مقدس کتابوں کا کشف شدہ مسئلہ ہے۔ جس ابنیت کا یہاں ذکر ہے وہ ثالوث کے پہلے اور دوسرے اقانیم کے مابین روحانی اور ازلی رشتہ ہے۔مسیح ہمیشہ بیٹا تھا ۔بنائے عالم سے پیشتر خدا کا محبوب ،وہ زمانہ میں بیٹا نہیں بنا،وہ لازمی او ر ا زلی بیٹا ہے ۔اس تعریف کے ساتھ اس لفظ کی دلالت الوہیت پر ہے اور مقدس بائبل مقدس میں ایسے مقامات کثرت سے ہیں جن مین صراحتاً یا کنایتاً اس تعلیم و صداقت کا ذکر ہے ۔پس جب مسیحی یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو وہ انہی مقدس نوشتوں کی سند پر کہتے ہیں، جن کی ایسی اعلیٰ تعریف محمد صاحب نے کی مثلاً اُس کے بپتسمے کے وقت یہ ذکر آیا ہے کہ آسمان سے ایک آواز یہ کہتے سنائی دی’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں‘‘(متی۱۷:۳)۔اس سے بہت عرصے بعد جب ایک یہودی سردار کاہن کی عدالت میں یسوع کو قسم دے کر سردار کاہن نے پوچھا’’کیا تو اُس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نےکہا’’ہاں میں ہوں اور تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے‘‘(مرقس۶۲،۶۱:۱۴)۔اس کے دشمن یہودیوں کی یہ عام شکایت تھی کہ وہ’’ خدا کو خا ص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا ‘‘(یوحنا۱۸:۵)۔انجیل مقدس میں یسوع کی جن دعاؤں کا ذکر ہے اُن میں سے ایک میں اُس کی ازلی ہستی کی طرف ان الفاظ میں بیان ہوا ہے’’اب اے باپ تو اُس جلال سے جومیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا۔مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے‘‘(یوحنا۵:۱۷)۔
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ مسیح کی ذات کو قرآن مجید نے کہاں تک تسلیم کیا اور اُس کی تصدیق کی ؟جیسا انجیل میں منکشف ہو اکہ خداوند یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہےمحمد صاحب اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟قرآن مجید کے مطالعے سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ اُن کو اس کے بارے میں مطلق کچھ خبر نہ تھی۔البتہ قرآن مجید کے اوراق میں بار بار ایک قیاسی فرضی طبعی ابنیت کی تردید کی گئی ہے کیونکہ ایسی طبعی جسمانی ابنیت جسمانی پیدائش پر دلالت کرتی ہے،جیسا کہ طبعی عالم میں چاروں طرف نظر آتا ہے۔حالانکہ مسیحیوں نے کسی زمانے میں نہ ایسی تعلیم مانی اور نہ اس کی تلقین دوسروں کو کی۔محمد صاحب کے نزدیک مسیح کی ابنیت خدا باپ سے ایک طبعی جسمانی رشتے پر دال تھی جس میں جسمانی مباشرت کی کفر آمیز تعلیم کی طرف اشارہ تھا۔اسی وجہ سے قرآن مجید میں یہ ذکر آیا۔
ترجمہ:’’ان لوگوں نے بے جا نے بوجھے خدا کے لئے بیٹے اوربیٹیاں تراش لیں۔جیسی جیسی باتیں یہ لوگ بیان کرتے ہیں وہ اُن سے پاک اور بالا تر ہے۔وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور اُس کے اولاد کیوں ہونے لگی جب کہ کبھی اُس کی کوئی جورو ہی نہیں رہی‘‘(سورۃ انعام۱۰۱،۱۰۰:۶)۔
ناظرین کو یہ جتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مسیح کی ابنیت کا یہ بھدّا خیال اُس روحانی تعلیم سے کس قدر بعید ہے جس کا مکاشفہ بائبل مقدس میں ہوا اور جس کی تشریح اوپر کی گئی۔ جسمانی ابنیت کا یہ تصور جس قدر مسلمانوں کے نزدیک نفرت انگیز ہے، ویسا ہی مسیحیوں کے نزدیک اور مسیحی علم الہٰیات میں اس نے کبھی دخل نہیں پایا۔بد قسمتی سے کسی نے مسیح کی ابنیت کی صحیح تعلیم محمد صاحب سے بیان نہیں کی۔بُت پرست عرب خدا سے بیٹیاں منسوب کرتے تھے اور جب محمد صاحب نے سنا کہ لوگ مسیح کو ’’بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں تو اُنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ خیال ویسا ہی جسمانی تھا جیسے بت پرست عرب لوگ ادنی ٰدیوی دیوتاؤں کو خدا کے بیٹے بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ایسی صریح غلطی کے سامنے جو ایک عام امر واقعی مسئلہ کے بارے میں محمد صاحب کو ہوئی، ہم یہ پوچھتے ہیں کہ ہم کیسے دین کے اُن اصولوں کے بارے میں اعتبار کریں جوانہوں نے سکھائے؟
مسیح کی وفات کامسئلہ
مسیحیوں کا ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح نے صلیب پر جان دی تاکہ دنیا کے گناہوں کا کفارہ دے۔اُس نے خود یہ فرمایا’’ابن آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلےفدیہ میں دے‘‘(متی۲۸:۲۰)۔نہ صرف انجیل مقدس میں یسوع کی موت کا مفصل ذکر ہے بلکہ یہودیوں کی مقدس کتابوں میں بھی اس کی پیشین گوئی پائی جاتی ہے۔یہودی لوگ جیسا کہ سب کو معلوم ہے یسوع کو موعود مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے تو بھی اُن کی مقدس کتابوں میں اُس کی موت کی صاف پیشین گوئی پائی جاتی ہےمثلاً یسعیاہ نبی نے مسیح کی موت کی پیشین گوئی ان حیرت انگیز الفاظ میں کی’’ ۔۔۔وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب اس پر مار پڑی۔اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی تھی اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ مؤا‘‘(یسعیاہ۹،۸:۵۳)۔
داؤد نبی نے بھی مسیح کے بارے میں یہ خبر دی۔’’بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرےہوئےہے ۔وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں ۔میں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں ۔وہ مجھے تاکتے ہیں اور گھورتے ہیں۔وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پو شاک پر قرعہ ڈالتے ہیں‘‘(زبور۱۶:۲۲۔۱۸)۔ یسوع کے مرنے پر یہ عجیب پیشین گوئی پوری ہوئی،نہ یہودیوں کے پتھراؤ کے طریقے سے بلکہ مصلوب ہونے کے ذریعہ سے جو رومیوں کا سزائے موت کا طریقہ تھا۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھیں کہ یسوع کی زندگی اور موت رومی تاریخ کا ایک جُز ہیں کیونکہ صلیب کا یہ واقعہ رومی گورنر کے عہد حکومت میں گزرا اور تاریخی کا غذات سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ایسی صورت میں یہ جائے تعجب نہیں کہ اُس زمانے کی تاریخ میں مسیح کے موت کے انجیلی بیان کی عجیب توضیح پائی جاتی ہے مثلاً رومی مشہور مورخ ٹے سی۔ٹس(TACITUS) نامی نے جو ۵۵ء کے قریب پیدا ہوا اپنی رومی سلطنت کی تاریخ میں (یعنی۱۴ء سے ۶۸ء تک) مسیحیت کا یہ ذکر کیا۔’’وہ اپنے تئیں مسیحی کہتے ہیں ۔مسیح جس سے یہ نام انہوں نے اختیار کیا وہ تبریس کے عہد سلطنت میں گورنر پنطس پیلاطس کے حکم سے مارا گیا تھا‘‘۔اُن زمانوں کا ایک اور مشہور مصنف لوشیان یونانی تھا جس نے اپنی کتاب میں مسیحیوں کا یہ ذکر کیا۔’’وہ اب تک اُس بڑے آدمی کی پر ستش کرتے ہیں جو فلسطین میں مصلوب ہوا تھا کیونکہ اُس نے دنیا میں ایک نئے مذہب کو جاری کیا تھا‘‘۔ دیگر غیر مسیحی مورخوں کی شہادت بھی پیش کر سکتے ہیں ،لیکن جن اقتباسات کا حوالہ دیا گیا وہ اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جب انجیل مقدس نے یہ بیان کیا کہ یسوع مسیح نے صلیب پر جان دی تو اُس نے پیشین گوئی کی تکمیل کے لحاظ سے اِس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اِس لحاظ سے کہ یہ ایک تاریخی تکمیل شدہ امر واقعی تھا۔
اب ہم پھر پوچھتے ہیں کہ مسیحی دین کے اس مرکزی اصول کے بارے میں اسلام کیا سکھاتا ہے؟ قرآن مجید کے اوراق میں محمد صاحب نے اس کا کیا ذکر کیا؟قرآن مجید کے سب پڑھنے والوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ بائبل مقدس کے اس بیان کی تصدیق کی بجائے کہ مسیح مر گیا ،اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مر نہیں گیا بلکہ زندہ آسمان پر چلا گیا۔ قرآن مجید میں یہ مندرج ہے ’’ ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو رسول خدا تھے قتل کرڈالا۔نہ تو انہوں نے اُن کو قتل کیا اور نہ اُن کو سُولی چڑھایا۔مگراُن کو ایسا ہی معلوم ہوا‘‘(سورۃ نساء۱۵۸:۴)۔یہاں ہمارے ہاتھ میں ایک کسوٹی آجاتی ہے جس سے ہم قرآن مجید کی قدروقیمت پر کھ سکتے ہیں۔ایک طرف تو وہ انبیائے کبیر ہیں جنہوں نے مسیح کی موت کی پیشین گوئی کی۔ایک طرف انجیل میں بہت سے گواہوں کی چشم دید شہادت مندرج ہے جن میں سے بعضوں نے اپنے ایمان کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں اور ان کے ساتھ ساتھ غیر مسیحی مورخوں کی آزادانہ تاریخی شہادت ہے۔یہ سب اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ یسوع مصلوب ہوا لیکن دوسری طرف اس کے برعکس محمد صاحب کی شہادت ہے جو کئی صدیاں پیچھے ہوئے۔وہ یسوع کے مرنے کا انکار کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھایا گیا ۔ ہمیں یقین ہے کہ کسی غیر متعصب شخص کو اس امر میں کچھ مشکل نہ ہو گی کہ ان میں سے کس کے بیان کو مانیں۔
جیسا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ غالباًمحمد صاحب نے خود بائبل مقدس کو کبھی نہیں پڑھا۔ممکن ہے کہ مانی کے بدعتی پیروؤں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہو جو یہ کہا کرتے تھے کہ یسوع موا نہیں اور اس سے شایدمحمد صاحب کو یہ خیال گزرا ہو کہ شاید ان کی یہ رائے بائبل مقدس کے بیان کے مطابق ہو گی۔بہر حال جب قرآن مجید میں ایک صریح تاریخی واقعہ کے بارے میں ایسا مختلف بیان ہو تو گناہوں کی معافی کے بارے میں قرآن مجید کی تعلیم کو مان کر کون اپنی نجات کو جوکھوں میں ڈالے گا؟اس موخر الذکر مضمون کا مختصر ذکر آگے چل کر ہو گا۔
گناہوں کی معافی کا مسئلہ
بائبل مقدس کی تعلیم یہ ہے کہ مسیح کی کفارہ بخش موت کے وسیلے گناہ کی کافی اور کامل تلافی جب ہو چکی تومجرم گنہگار تائب ہو کر پوری اور غیر مشروط معافی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے وسیلے خدا کے ساتھ ملاپ حاصل کر کے اُس کی آسمانی بادشاہت میں مقبولیت حاصل کر سکتا ہے۔پس صلیب الہٰی محبت کا اعلیٰ مکاشفہ ہے۔کتاب مقدس کے محاورے میں خدا نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا،تاکہ وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو۔’’نہ صرف ہمارے گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی‘‘(۱۔یوحنا۲:۲)۔اس طریقے سے خدا نے انسان کی افتادگی (عاجزی ۔خاکساری)کا علاج کیا کہ اُس نے مخلصی کا ایک بے حد عظیم و عجیب انعام ہمیں عطا کیا۔یہ انعام اُن سب کو حاصل ہو سکتا ہے جو گناہ کو ترک کر کے سارے دل سے اپنے تئیں یسوع کی مرضی پر چھوڑ دیں اور اُسی پر سارا توکل رکھیں۔بائبل مقدس میں خدا کی یہ تصویر دکھائی گئی ہے کہ ’’وہ چاہتا ہےکہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں‘‘(۱۔تیمتھیس۴:۲)۔وہ ’’کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے‘‘(۱۔پطرس۹:۳) اور کتاب مقدس میں یہ بھی لکھا ہے کہ’’شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے‘‘(حزقی ایل۱۱:۳۳)۔اس طرح سے خدا کو ایک پر محبت باپ کی صورت میں ظاہر کیاجو اپنے گمراہ بچوں کے لئے فکر کرتا اور یہ آرزو رکھتا ہے کہ اُس کے بچے اُس کی دعوت کو قبول کر کے اپنے باپ کے گھر کو واپس آئیں۔یہ دعوت سب کو دی گئی’’جو پیاسا ہو‘‘۔’’جو کوئی چاہے آب حیات مفت لے‘‘(مکاشفہ۱۷:۲۲)۔پس الہٰی تجویز یہ ہے۔گناہوں کی معافی اور خدا کے ساتھ ملاپ کا انتظام سب کے لئے ہے اور ساتھ ہی یہ دعوت سب کو دی گئی کہ وہ توبہ کر کے مسیح میں اس پیش کر دہ انعام کو قبول کر لیں۔
لیکن جو قبول نہیں کرتے اُن کےلئے بائبل مقدس میں ایک دوسری خوفناک آگاہی دی گئی کہ ایسا عمل ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔ایسی خطرناک راہ کا اختیار کرنا بھی انسان کے ارادے پر موقوف ہے کیونکہ بائبل مقدس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ بدی کے لئے کوئی مجبور ہے۔خدا کا یہ حکم ہے ’’چن لو‘‘ اور سارے انسانی معاملات میں بائبل مقدس نے شخصی ذمہ داری پر زور دیا ہے۔ایسا انتظام اُس خدا کے شایاں ہے جو محبت ہے کیونکہ اس میں سارے انسانوں کے لئے نجات کا امکان ہےاور ا س کے ذریعے سے خدا کی غیر محدود رحمت اور فضل کی بزرگی ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کے ذریعے سے تائب گنہگار کے دل میں شکر گزاری اور محبت کی زبردست تحریک پیدا ہوتی ہے ۔
اب ایسی تجویز نجات کی نسبت اسلام کیا کہتا ہے؟قرآن مجید کے صفحات میں گناہ اور نجات کا ذکرمحمد صاحب نے کیا کیا؟کیا یہ کتاب قرآن مجید ،کیا دین اسلام بائبل مقدس کی اس مذکورہ بالا تعلیم کی تصدیق کرتے ہیں اور جو لوگ گناہ سے ہٹ کر راستبازی کی طرف عود کرتے ہیں اُن کے سامنے پوری اور مفت نجات پیش کرتے ہیں؟ہم چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث خود اس کا جواب دیں۔اُن کی شہادت یہ ملتی ہے کہ سارے آدمیوں کی نجات کے متعلق ،خدا کے فضل کے انتظام کی بجائے، اسلام نے ایک بے ترس تقدیر کا ذکر کیا جس کے ذریعے ہزار ہا اُن کی پیدائش سے پیشتر ہی نار جہنم کے لئے مخصوص ہو گئے۔ازروئے قرآن مجید انسان کا ہر فعل خدا کے خاص حکم سے صادر ہوتا ہے اور انسان اپنے مقدّر طریقے پر ہی چلتا ہے۔خواہ وہ طریقہ بہشت میں جانے کاہو،خواہ دوزخ میں جانے کا۔وہ نجات کی اُس فرحت بخش امید سے محروم ہے جو ہر مسیحی کی میراث ہے۔ہمارے اس بیان کو کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم نے اُسے ٹیڑھا ترچھا کر کے پیش کیا ہے ۔اس لئے ہم قرآن مجید اور احادیث سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔
اہل اسلام میں تقدیر کے مسئلے کا بہت ذکر قرآن مجید اوراحادیث میں آیا ہے، اس لئے اُس کے مطلب و مقصد سمجھنے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔عموماً اس کا یہ ذکر ہے کہ سارے نیک و بد افعال کو خدا نے پہلے ہی سے مقرر کر دیا ہے اور خلقت عالم سے پیشتر ہی اس کو کتاب میں لکھ دیا۔چنانچہ یہ بیان ہے:
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا
ترجمہ:’’جتنی مصیبتیں روئے زمین پر نازل ہوتی ہیں اور جو خود تم پر نازل ہوتی ہیں۔وہ سب اُن کےپیدا کرنے سے پہلے ہم نےکتاب میں لکھ رکھی ہیں‘‘(سورۃ الحدید۲۲:۵۷)۔
اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍوَ کُلُّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ فِی الزُّبُرِوَ کُلُّ صَغِیۡرٍ وَّ کَبِیۡرٍ مُّسۡتَطَرٌ
ترجمہ:یہ لوگ جو کچھ بھی کرچکے ہیں اعمال ناموں میں لکھا ہوا موجود ہے اور کوئی کام بھی ہو چھوٹا یا بڑا سب لکھا ہواہے۔
(سورۃالقمر۵۳،۵۲،۴۹:۵۴)
یہ بیان احادیث میں زیادہ مفصل ہے۔اُن میں محمد صاحب کی یہ تعلیم پائی جاتی ہے۔
اِنّ اَوَّلَ مَا خَلَفَ اللّٰہُ الْقَلَم فَقَالَ لَہُ اکُتُب قَالَ مَا اَکتُبُ قَالَ اکتُبً القَدَرَ فَکتَبَ مَا کانَ وَمَا ھُوَ کائِنُ الَی الاَ بَدِ
ترجمہ:’’تحقیق اول شے جو خدا نے پیدا کی وہ قلم تھا اور اُس نے اُسے کہا لکھ۔اُس (قلم )نے کہا میں کیا لکھوں؟اُس نے کہا خدا کے فتاویٰ(فتویٰ کی جمع) لکھ۔ سو ُاس (قلم )نے سب کچھ جو تھا اور جو ابد تک ہونے والا تھا‘‘(مشکوۃ المصابیح کتاب ایمان)۔
خدا کا یہ فتویٰ آدمیوں کے سارے اعمال پر حاوی ہے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔اس لئے بعض تو گمراہ ہو جاتے ہیں اور بعض راہِ راست کی ہدایت پاتے ہیں۔ اس بنا پر انسان فعل مختار نہیں رہتا اور اِس لئے وہ ذمہ دار بھی نہیں کیونکہ جب تک انتخاب کا اختیار نہ ہو تب تک کوئی ذمہ داری نہیں ہو سکتی۔قرآن مجید میں ایک جملہ باربار آیا ہے اور اہل اسلام سے ہماری یہ درخواست ہے کہ اُس پر غور کریں۔وہ یہ ہے۔
یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ
ترجمہ:’’جس کو چاہتا ہے وہ گمراہ کرتا ہے اورجس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے‘‘(سورۃٔ نحل ۹۳:۱۶)۔
منطقی طور پر یہ ہمیں اس مزید تعلیم کی طرف لے جا تا ہے کہ بعضوں کو خدا نے پیشتر سے بہشت کے لئے مقرر کر دیا اور بعضوں کو دوزخ کے لئے۔چنانچہ یہ لکھا ہے۔
وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ
ترجمہ:’’علاوہ ازیں جنّوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو ہم نے دوزخ کے لئے پیدا کیا‘‘(سورۃ الاعراف۱۷۹:۷)۔
اس کی وجہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بتائی گئی ہے ۔وہ یہ ہے۔
وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ
ترجمہ:’’اگر ہم چاہتے تو (دنیا ہی میں ) ہر شخص کو ایسی سوجھ عنایت کرتے کہ وہ سیدھے رستے پر آجاتا مگر ہماری وہ بات جو ہم روز از ل میں فرما چکے تھے پوری ہونی ہی تھی اور پوری ہو کر رہی کہ جنّات اور آدمی ان ہی سب سے ہم دوزخ کوبھر کر رہیں گے‘‘(سورۃ السجدہ ۱۳:۳۲)۔
مسلمان صاحبان سے یہ درخواست ہے کہ اس خوفناک تصویر کا مقابلہ بائبل مقدس کی پر محبت دعوت سے کریں کیا کوئی ایک لحظے کے لئے بھی یہ مان سکتا ہے کہ یہ دونوں اُسی اعلیٰ وجود کی طرف سے ہیں جو رحمان کہلاتا ہے؟کیا ہم یہ مان لیں کہ خود خدا گناہ کا بانی ہے؟ کہ دینداروں کی دینداری اور شریروں کا کُفر دونوں کو خدا ہی نے مقرر کیا؟ کیا اس چھوٹی کتاب کے مسلمان ناظرین یہ فی الحقیقت ما ن سکتے ہیں کہ تقدیر کا یہ اسلامی مسئلہ رحمان خدا سے مکاشفہ ہے؟ مسلمان ناظرین سے ہماری یہ التماس ہے کہ اس پر غور کرتے وقت تعصب کے پردے کو ہٹا دیں اور یسوع کی اس پر محبت دعوت پر سوچیں’’اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔میں تمہیں آرام دو ں گا‘‘۔
باب ہفتم
ازروئے اسلام۔تاریخ کلام اللہ
قرآن مجید کا ہر پڑھنے والا یہ جانتا ہے کہ قرآن مجید میں بائبل مقدس کے طول طویل حوالے بار بار آئے ہیں۔قدیم پتری (چٹھی۔خط)آرکوں کا احوال قرآن مجید کے بہت اوراق میں مذکور ہے اور موسیٰ ،داؤد،سلیمان وغیرہ کا ذکر اُس میں بار ہا ہوا۔اگر قرآن مجید اپنے دعوی ٰکے مطابق پرانے اور نئے عہد ناموں کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے تو یہ عیاں ہے کہ ان بزرگوں کا جو احوال اُس میں قلم بند ہے وہ توریت اور انجیل میں قلم بند احوال کےمطابق ہو گا۔مگر صورت حال یہ نہیں بلکہ محمد صاحب نے جن بزرگوں کا ذکر کیا اُن کا احوال بہت سےامور میں مختلف ہے ۔اس اختلاف کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اول تو ہمیں اسلامی تصانیف سے صریح شہادت ملتی ہے کہ محمد صاحب یہودیوں سے اُن کے عقیدے کے بارے میں اکثر پو چھا کرتے تھے اور یہ چالاک بنی اسرائیل اکثر دانستہ غلط بیانی کرتے تھے اور اُن کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ جو کچھ اُنہوں نےمحمد صاحب کو جواب دیا وہ اُن کی مقدس کتاب کے عین مطابق تھا۔محمد صاحب کے ایک خاص صحابی عباس نامی نے اس کی روایت کی ہے۔مسلم میں یہ حدیث مذکور ہے۔اُس میں یہ لکھا ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فلما سَأَلَهُمُ النَّبِيُّ صلعم عَنْ شَىْءٍ من أهل الكتاب فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا قَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا سَأَلَهُمْ
ترجمہ:’’ابن عباس نے کہا کہ جب نبی صلعم اہل کتاب سے کوئی سوال پوچھتے تو وہ اُس مضمون کو دبا دیتے اور اُس کی جگہ کچھ اَور ہی اُن کو بتا دیتے اور یہ یقین کر کے چلے جاتے کہ وہ خیال کریں گے کہ ہم نے اُن کو اُن کے سوال کا ہی جواب دیا تھا‘‘۔
پس اس امر کی اس سے کافی تشریح ہو جاتی ہے کہ جو بہت سے یہودی قصے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں وہ توریت و انجیل کے الہامی بیانوں سے کیوں مختلف ہیں۔ اِس تاریخی اختلاف کی دوسری وجہ لاکلام یہ ہو گی کہ محمد صاحب کے ایام میں عرب کے یہودیوں میں توریت کی جگہ تالمود کی تلاوت ہوتی تھی۔ اِس تالمود میں یہودیوں کی احادیث اور ربیوں کے توہمات کا مجموعہ تھا اور تقریباً ہر مضمون کے متعلق اس میں کوئی نہ کوئی روایت یا قصہ درج تھا۔قدیم پتری آرکوں کے جعلی قصے اور قدیم مقدس کتابوں کی روایتی تفسیریں اور تشریحیں تالمود کا جز واعظم ہیں۔ توریت کی تلاوت کی جگہ اسی تالمود کی تلاوت و تعلیم سکولوں اور تہواروں وغیرہ کے موقعوں پر ہوتی تھی۔پھر یہ جائے تعجب نہیں کہ محمد صاحب نے یہ خیال کر لیا ہو کہ یہ کتاب مقدس ہی کے الفاظ تھے اور اسی خیال سے اُن کو قرآن مجید میں جگہ دی ہو۔ سر امیر علی جیسے فاضل شخص کی یہی رائے ہے وہ یہ مانتے ہیں کہ محمد صاحب نے زردشتیوں(زرتشتیوں)،صائبین اور تالمود یہودیوں کے جولانی خیالات کو مستعا ر لیا۔ان مستعار خیالات کی وجہ سے قرآن مجید میں وہ تاریخی غلطیاں داخل ہو گئیں۔فاضل موصوف نے اُن احادیث کے بارے میں جومحمد صاحب کے ایام میں عرب کے مسیحیوں کے درمیان مروج تھیں یہ اظہار رائے کیا’’محمد صاحب کی بعثت سے پیشتر یہ ساری روایات جو امر واقعی پر مبنی تھیں ،وہ جولانی خیالات میں رنگی جا کر عوام الناس کے عقیدے کا جُز بن گئی تھیں اور اُس ملک میں مروج تھیں۔اس لئےمحمد صاحب نے اپنے عقیدے اور شریعتوں کی اشاعت شروع کی تو انہوں نے لوگوں کے درمیان ان روایتوں کا رواج دیکھا۔اس لئے انہوں نے ان کو بھی لے لیا تا کہ اُن کے ذریعے سے اہل عرب کو اور گردو نواح کی قوموں کو تمدنی اور اخلاقی پستی کے گڑھے سے جس میں کہ وہ گر پڑے تھے نکال کر سرفراز کرے (1) گر بقول سید صاحب محمد صاحب نے ان روایتوں کو لیا جو امر واقعی پر مبنی تھیں گو وہ جولانی طبع میں رنگی گئی تھیں تو کیا تعجب کہ امور واقعی کے متعلق کئی تاریخی غلطیاں اُس کی تعلیم میں داخل ہو گئی ہوں۔ہمارا منشا اس جگہ یہ دکھا نا نہیں کہ محمد صاحب نے کہاں تک یہودی اور مسیحی روایتوں سے اخذ کیا (2) ۔ لیکن ہم یہاں اُن تاریخی غلطیوں کی چند مثالیں دینا چاہتےہیں جو قرآن مجید میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ہم بے شمار مثالیں دے سکتےتھے لیکن بخوف طوالت ہم نے یہ چند مثالیں مشتے نمون از خروارے کے طور پر پیش کی ہیں۔
توریت میں موسیٰ پر یہ منکشف ہوا کہ ہمارے پہلے والدین باغ عدن میں رہتے تھے جہاں سے دو دریا دجلہ اور فرات نکل کر زمین کو سیراب کرتے تھے ۔وہاں یہ بھی ذکر ہے کہ سر زمین اسور وہاں کے نزدیک تھی۔اس سے یہ ظاہر ہےکہ باغ عدن اس زمین پر واقع تھالیکن قرآن مجید میں ا س کے خلاف یہ بیان ہے کہ باغ عدن آسمان میں تھا۔چنانچہ وہاں یہ لکھا ہے’’اے آدم تم اور تمہاری بی بی بہشت میں رہو۔اور جہاں سے چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا۔اگر ایسا کرو گے تو تم آپ اپنا نقصان کر لو گے‘‘(سورۃ الاعراف ۱۹:۷)۔ خیال غالب ہے کہ محمد صاحب نے اہل یہود سے پوچھا ہو گا کہ تمہاری مقدس کتابوں میں اس کا کیا ذکر ہے تو انہوں یہی غلط بیانی کی ہو گی۔ایسے ہی ایک دوسرے موقعہ پر جب محمد صاحب نے اُن سے دریافت کیا کہ توریت میں زناکار کی سزا کیا تھی تو انہوں نے یہ جھوٹا جواب دیا کہ کوڑے مارنے کی سزا تھی ،حالانکہ بذریعہ سنگساری موت کی سزا مقرر تھی۔
اِسی قسم کی ایک غلطی یہ ہے کہ ہامان فرعون کے بڑے افسروں میں سے تھا(مفسر تو اُس کو فرعون کا وزیر سمجھتے ہیں)۔چنانچہ یہ لکھا ہے’’اور فرعون نے (اپنے وزیر ہامان سے) کہا کہ اے ہامان ہمارے لئے ایک محل بنوا تا کہ جو آسمان(پر چڑھنے) کے راستے ہیں ہم اُن راستوں پر جا پہنچیں۔ پھر ہم موسیٰ کے خدا تک (آسانی سے) پہنچ جائیں گے اور ہم تو موسیٰ کو(اس بیان میں) جھوٹا ہی سمجھتے ہیں‘‘(سورۃ المومن ۳۶:۴۰) ۔یہ تو مشہور امر ہے کہ ہامان موسیٰ سے سینکڑوں برس بعد گزرا۔وہ تو بائبل مقدس کے بادشاہ اخسویرس کا وزیر تھا اور آستر کی کتاب میں اُس کا ذکر آیا ہے۔’’اِن باتوں کے بعد اخسویرس بادشاہ نے اجاجی ہمداتا کے بیٹے ہامان کوممتاز اور سرفراز کیا اور اس کی کُرسی کو سب امرا سے جو اُس کے ساتھ تھے بر تر کیا‘‘(آستر۱:۳)۔نہ صرف آستر کی کتاب میں اُس کا یہ ذکر ہے بلکہ یو سیفس یہودی مورخ نے بھی یہ صاف بیان کیا کہ ہامان بابل میں اخسویرس کے ماتحت افسر تھا اور اس کی زندگی کے بارے میں کئی باتوں کا ذکر اُس نے کیا ہے (3) ۔ پس قرآن مجید کا یہ بیان کہ ہامان موسیٰ کے زمانے میں مصر میں تھا صریح غلطی ہے۔
جس آیت قرآنی کاہم اوپر ذکر کر آئے ہیں اُس میں دُہری غلطی پائی جاتی ہے کیونکہ اس میں بابل کے بُرج کی تعمیر فرعو ن سے منسوب ہوئی،حالانکہ فی الواقعہ موسیٰ سے بہت سال پہلے یہ بُرج بن چکا تھا۔اگر ناظرین پیدائش کی کتاب کے گیارھویں باب کو نکال کر دیکھیں تو اُن کو معلوم ہو جائے گا کہ اِ س بُرج کی تعمیر اور موسیٰ کے زمانے کے فرعون کے درمیان کس قدر دراز عرصے کا فاصلہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ بُرج سنعار (بابل) کی سر زمین میں تھا نہ کہ مصر کی سر زمین میں۔
1) محمد ﷺ کی زندگی کا حال مصنف امیر علی صفحہ۲۵
2) دیکھو گولڈ سیک صاحب کی تصنیف چشمہ قرآن۔باب دوم،سوم
3) یہودیوں کی قدیم تاریخ مصنف یوسیفس صفحہ۲۸۳
توریت میں یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ’’تارح ‘‘تھا۔یہودیوں کے بڑے مورخ یوسیفس کابھی یہی بیا ن ہےکیونکہ اُس کی کتاب (۳۵صفحہ پر) میں یہ ذکر ہے کہ’’تارہ (تارح)ابراہیم کا باپ تھا‘‘۔اِس لئے اس میں کچھ شک نہیں کہ’’ تارح ‘‘صحیح نام ہے،لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قرآن مجید میں یہ نام’’ آذر‘‘ آیا ہے ۔چنانچہ یہ لکھا ہے۔
وَاِذ قَالَ اِبراھیِمُ لاَ بِیہِ اَذَرَ
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا‘‘۔ ا س کا کوئی تسلی بخش جواب اب تک نہیں ملا۔گو مابعد مسلمان علما نے یہ غلطی دیکھ کر اس سے بچنے کی بہت سعی کی۔جلالین نے اِس آیت کی تفسیرکرتے وقت یہ کہا۔
ھو لَقَبہُ واسمہ تارخ
یہ (یعنی لفظ آذر) اُس کا لقب تھا اور تارخ اُ س کا نام تھا‘‘۔مفسر بیضاوی نے ایک دوسری رائے ظاہر کی کہ ابراہیم کے باپ کے دو نام تھے آذر اور تارخ۔یہ محض اس غلطی کو مٹانے کی سعی تھی۔
سورۃ القصص۹:۲۸ میں یہ ذکر ہے کہ فرعون کی بیوی نے ترس کھا کر اُس شیر خوار بچے موسیٰ کو لے کر اُس کی پرورش کی ،جب کہ اُس نے موسیٰ کو دریا سے نکالا جہاں اُس کی ماں نے اُس کو چھپایا تھا۔وہاں یہ لکھا ہے’’فرعون کی عورت اپنے شوہر سے بولی کہ یہ میری اور تمہاری دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔تو تم لوگ اس کو مارو نہیں۔عجب نہیں کہ ہم کو کوئی فائد پہنچائے یا اس کو اپنا بیٹا ہی بنالیں‘‘۔یہ بھی ایک واقعی امر کے بارے میں غلطی ہے کیونکہ توریت میں یہ صا ف بیان ہے کہ یہ عورت فرعون کی بیوی نہ تھی بلکہ اُس کی بیٹی تھی جسے یہ بچہ ملا اور جس نے اُس کو متبنیٰ بنایا۔’’اور فرعون کی بیٹی دریا پر غسل کرنے آئی اور اُس کی سہیلیاں دریا کے کنارے کنارےٹہلنے لگیں۔تب اُس نے جھاؤ میں وہ ٹوکرا دیکھ کر اپنی سہیلی کو بھیجا کہ اُسے اُٹھا لائے۔جب اُس نے اُسے کھولا تو لڑکے کو دیکھا۔۔۔۔جب بچہ بڑا ہو اتووہ اُسے فرعون کی بیٹی کے پاس لےگئی اور وہ اُس کا بیٹا ٹھہرا‘‘(خروج۵:۲۔۱۰)۔بائبل مقدس کے اس بیان کی یو سیفس مورخ نے صاف تصدیق کی اور یہ لکھا’’بادشاہ کی بیٹی کانام تھر موتھس تھا۔اِس وقت وہ دریا کے کنارے تفریح طبع کے لئے گئی ہوئی تھی ۔اُس نے ایک مہد کو دریا میں بہتے جاتے دیکھا۔چند تیراک شخصوں کو اُس کے پکڑنے کے لئے اُس نے بھیجا تاکہ وہ اُسے پکڑ کر اُس کے پاس لائیں۔۔۔اِس لئے تھر موتھِس نے اُسے ایسا عجیب بچہ دیکھ کر اپنا بیٹا بنا لیا‘‘
(4)بائبل مقدس میں اسرائیلی بڑے پیشوا اور قاضی جدعون کا مفصل بیان ہے جسے خدا نے ہدایت کی کہ لڑائی کے لئے چند ایسے شخصوں کو چُن لو جو دریا سے چُلُّو میں پانی لے کر پئیں اور گھٹنے ٹیک کر چپڑ چپڑ نہ پئیں(قضاۃباب۷)۔یوسیفس نے بھی اس قصے کا بیان کیا اور بتایا کہ یہ واقعہ جدعون کے زمانے میں ہوا،لیکن قرآن مجید میں اس کا بیان اور طرح سے ہوا ہے کہ یہ واقعہ بہت سال پیچھے ساؤل کے زمانے میں ہوا۔وہ بیان یہ ہے۔
4) م۔یوسیفس کی تاریخ یہود صفحہ۶۳
’’پھر جب طالوت فوجوں سمیت اپنے مقام سے روانہ ہوا تو اُس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ رستے میں ایک نہر پڑے گی اللہ اُس نہر سے تمہاری یعنی تمہارے صبر کی جانچ کرنے والا ہے توجو سیر ہو کر اُس کا پانی پی لے گا وہ ہمارا نہیں اور جو اُس کو نہیں پئے گا وہ ہمارا ہے۔مگر ہاں اپنے ہاتھ سے کوئی ایک آدھ چُلّو بھر لے اور پی لے تومضائقہ نہیں۔اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کس کا یقین کریں؟کیااُن ملہم لوگوں کا جو فلسطین کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے اس واقعہ کو وقوع سے تھوڑے عرصے بعد ہی قلم بند کیا اور جن کو اُس واقعہ کی تصدیق کا بہت موقعہ تھا یامحمد صاحب کی بات مانیں جو عرب کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے اس واقعہ سے ایک ہزار برس کے بعد اس واقعہ کا بیان کیا اور یہ بیان نہ صرف بائبل مقدس کے بیان کے خلاف ہے بلکہ یہودی مورخ یوسیفس کے بیان کے بھی؟
قرآن مجید کے بیان میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ وہاں مریم والدہ یسوع کو موسیٰ اور ہارون کی بہن مریم سمجھ لیا ۔یہ اختلاف سورۃ مریم۲۸،۲۷:۱۹ میں پایا جاتا ہے۔وہاں یہ لکھا ہے’’وہ دیکھ کر لگے کہنے کہ مریم ! یہ تو نے بہت ہی نالائق کام کیا۔اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی‘‘۔قرآن مجید کے ایک دوسر ےمقام میں مریم عمران کی بیٹی کہلاتی ہے۔محمد صاحب نے موسیٰ کو بھی عمران کا بیٹا سمجھا۔اِس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ نبی صاحب نے دونوں مر یموں کو ایک ہی شخص سمجھا۔یہ تو مشہور بات ہے کہ یسوع کی والدہ مریم موسیٰ اور ہارون سے کئی صدیاں بعد ہوئی اور اُن میں کوئی تعلق نہ تھا، سوائے اس کے کہ دونوں کی قومیت ایک ہی تھی اور دونوں کا نام ایک ہی تھا۔بائبل مقدس سے ثابت ہے کہ موسیٰ،ہارون اور مریم کے باپ کانام عمرام تھا۔اس سے اور بھی واضح ہو گیا کہ محمد صاحب نے اسی مریم کو یسوع کی والدہ سمجھا۔
اِس بات کو ختم کرنے سے پیشتر ایک اور مثال پیش کرنا کافی ہوگا۔سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں یہ پایا جاتا ہے’’وہ خدا پا ک ہے جو اپنے بندے (محمد) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا‘‘۔مفسروں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ سے یروشلیم کی مقدس ہیکل مراد ہے اور احادیث میں اِس قیاسی سفر کی بہت تفصیل آئی ہے۔مشکوۃ میں ایک حدیث مذکور ہے جس میں محمد صاحب نے یہ کہا:
ترجمہ:’’اِ س لئے میں اُس پر سوار ہوا(یعنی براق )پھر یعنی کہ میں بیت المقدس میں پہنچا(یعنی یروشلیم کی مسجد میں) پھر میں نے اُس کو اُس حلقے سے باندھ دیا جس سے کہ انبیا باندھا کرتے تھے(یعنی اپنی سواری کے جانوروں کو) ۔اُس نے کہا۔اس کے بعد میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی‘‘۔اس قصے کی صداقت ثابت کرنا مشکل ہوگا کیونکہ بد قسمتی سے یروشلیم کی مشہور یہودی ہیکل کو رومیوں نےمحمد صاحب کی پیدائش سے صدیوں پیشتر بالکل برباد کر دیا تھا اور اُس کی تعمیر از سرِ نو نہ ہوئی تھی۔اس لئے یہ سارا قصہ معہ قرآنی حوالے کے بالکل غلط ہے۔یہ رائے یا تفسیر کی بات نہیں بلکہ یہ ایک صریح تاریخی واقعہ ہے جس کی تصدیق ہر ذی فہم مسلم اپنے لئے کر سکتا ہے۔پس نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن مجید کے ایسے بیانات پر یقین نہیں کر سکتے۔
ہم نے کلام اللہ یعنی بائبل مقدس کے معاملے میں احادیث کو نہیں چھؤا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مفصل بیان’’اسلامی احادیث‘‘(مصنف گولڈ سیک صاحب )میں ہو چکا ہے(دیکھو اس کا چوتھا باب)۔
پس اب ہم کلام اللہ ازروئے اسلام کے مختصر بیان کو ختم کرتے ہیں۔ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ محمد صاحب نے برابر بائبل مقدس کو خدا کا غیر محرف کلام تسلیم کیا، اُسے نور اور ہدایت مانااور یہودیوں اور مسیحیوں کو اُس پر عمل کرنے کی تلقین کی۔انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ منسوخ نہیں۔ہم نے یہ بھی ظاہر کیا کہ محمدصاحب کو بائبل مقدس کا علم دوسروں سے سُنی سنائی باتوں سے حاصل ہوا تھا،اس لئے اس کی تعلیم اور تاریخ کے بارےمیں غلطیاں بھی داخل ہو گئیں۔اگر ان کو مسیحیت سے واسطہ پڑتا اور بدعتی مسیحی فرقوں کی تاثیربچتے تو غالباً مسیحی ہوتے۔
ہم ناظرین سے یہ التما س کرتے ہیں کہ وہ خود بائبل مقدس کو پڑھیں تو اُن پر ثابت ہو جائے گا کہ زندگی،مشکلات اور مسائل میں وہ نور ہے اور اس دنیا سے عاقبت تک وہ ہدایت ہے۔