CHRIST IN ISLAM

By Rev.W.Goldsack
1871–1957

اسلام میں مسیح

از

علامہ پادری ڈبلیو۔ گولڈ سیک صاحب

پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی

انکار کلی –لاہور

1945

The Punjab Religious Book Soceity,

Anarkali, Lahore.

اسلام میں سیدنا مسیح

دیباچہ

حمدلامحدود خدائے عزوجل وحدہ لاشریک رؤف الرحیم ورب العالمین کے لئے ہے ۔ جس نے انبیاء ومرسلین کو مبعوث فرما کر انسان ضعیف البنیان پر اپنی پاک مرضی کا اظہار کیا اوراپنے کلام کے وسیلہ سے راہِ حیات دوام کی ہدایت فرمائی ۔

ہماراارادہ ہے کہ اس رسالہ میں تمام انبیاء میں سے عیسیٰ مسیح کو منتخب کرکے قرآن اوراحادیث سے دکھائیں کہ نبی ناصری اسلام میں کیا رتبہ رکھتے تھے ۔ہمارے مسلمان بھائی اکثر اوقات "عیسیٰ روح اللہ " کا ذکرکرتے ہیں۔لیکن جورتبہ اُنہیں قرآن اوراحادیث میں دیا گیا ہے۔ بہت ہی تھوڑوں کو اس کا کچھ خیال ہے۔ لہذا اب ہم دیکھیں گے کہ کتب اسلام مسیح کے حق میں کیا شہادت دیتی ہیں اور اس شہادت کو بناء پراسلام پر کیا فرض ٹھہرا ہے۔ قرآن میں مسیح کے القاب ومعجزات اورکام ایسے اوراس قدر درج ہیں اوراس میں ایسی بڑی بڑی پیشین گوئیاں پائی جاتی ہیں کہ وہ نہایت صفا ئی اور صراحت کے ساتھ تمام انبیاء سے افضل وبرتر ٹھہرتاہے۔ کیونکہ ایسے القاب ومعجزات کسی اورنبی سے کہیں منسوب نہیں ہیں۔ مثلاً عیسیٰ مسیح قرآن میں کلمتہ اللہ اورروح منہ اور المسیح وغيرہ کے القاب سے ملقب ہے ۔ کوئی اور نبی ان القاب سے ممتاز نہیں ہوا۔ پس ان باتوں سے ہم پر فرض ٹھہرتاہے کہ مسیح کی ذات کے بارہ میں تحقیقات کریں ہر طرح کے پرُانے تعصب اوربے بنیاد یونہی مانے ہوئے خیالات کو چھوڑ کر ہم قرآن اوراحادیث کی شہادت پر غورکریں اوردیکھیں کہ اس ازحد ضروری اوراہم مسئلہ پر قرآن اوراحادیث سے کیا روشنی پڑتی ہے۔

اسلام میں مسیح

پہلا باب

مسیح اسرائیلی

پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودی قوم جس میں عیسیٰ مسیح پیدا ہوا ازروئے قرآن روئے زمین کی تمام دیگر اقوام پر فضیلت رکھتی ہے ۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی ۴۶آیت میں مرقوم َا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ یعنی اے بنی اسرائیل میری نعمت کویادکرو جومیں نے تم پر بھیجی اورتحقیق میں نے تم کو تمام عالمین پر فضیلت بخشی)اس آیت سے صاف ظاہرہوتاہے کہ سرور انبیاء کے لقب کا حقدار ضرور بنی اسرائیل میں سے ہوناچاہیے ۔ کیونکہ امام رازی صاحب فرماتے ہیں کہ " لفظ عالمین" کے مفہوم میں خدا کی ذات کے سواتمام مخلوقات شامل ہے پس اب مقامِ غور ہے کہ عیسیٰ ابن مریم اسرائیل کی مانند اس لقب کا مستحق کون ہے؟قرآن صرف اسی کو کلمتہ اللہ اور روح منہ کہتاہے۔

پھرسورہ عنکبوت کی ۲۶آیت میں مرقوم ہے وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ یعنی ہم نے اس کو اسحاق ویعقوب دئیے اورنبوت وکتاب کا انعام ہم نے اس کی نسل میں رکھا) اس میں توذرا بھی شک نہیں کہ قرآن میں انبیاء کی جس جماعت کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ زیادہ تراسحاق کی اولاد میں سے تھے۔ اسماعیل کی اولاد میں سے ایک بھی نہیں تھا اوراس کا سبب بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ بائبل اور قرآن دونوں کے بیان کے مطابق خداکا انعام اور وعدہ کا فرزند اسحاق ہی تھا اسماعیل توابراہیم کی کنیزہ ہاجرہ کا بیٹا تھا اور قرآن اس کو انعام الہٰی بیان نہیں کرتا بلکہ بخلاف اس کے مندرجہ بالا آیات نہایت صفائی اور صراحت سے ثابت کرتی ہے کہ خدا نے نبوت وکتاب کے انعام کو اسحاق کی نسل کے لئے مخصوص کیا۔ لہذا قرآن توریت کے بیان سے بالکل مطابقت رکھتاہے۔ پیدائش کی کتاب کے ۲۶ویں باب کی چوتھی آیت میں مرقوم ہے کہ" تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پائینگی"۔ ہم اپنے مسلمان احباب سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بائبل یا قرآن میں کہیں یہ لکھادکھاسکتے ہیں کہ خدا نے اسماعیل کی نسل کی طرف اشارہ کرکے ابراہیم سے کہا کہ میں نبوت وکتاب کا انعام تیری اولاد کو دوں گا؟ کیا قرآن کی مذکورہ بالا آیات سے معلوم نہیں ہوتا کہ بنی اسرائیل اسحاق کی نسل سے ہیں اورکیا یہ اظہر من الشمس نہیں کہ عیسیٰ مسیح ابنِ مریم بنی اسرائیل میں سے ہے ؟ پس مسیح کی قومیت ہی اُسے حضرت محمد یا اسماعیل کے کسی اور فرزند سے کہیں بزرگ وبرتر قراردیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب ہم مسیح کے ان القاب کاجوقرآن میں مندرج ہیں خیال کرتے ہیں تواس کی شان دیگر انبیاسے نہایت ہی اعلیٰ وارفع نظر آتی ہے۔

دوسرا باب

مسیح کی پیدائش

اب ہم دوسری بات یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں مسیح کا سب سے عام نام " عیسی ابن مریم "ہے۔ دیکھو سورہ عمران آیت ۴۶ ۔ ۵اگر قرآن کا بغور مطالعہ کیا جائے تو نہ صرف یہی ثابت ہوتاہے کہ قوم بنی اسرائيل جس میں مسیح پیدا ہوا روئےزمین کی تمام دیگراقوام پر فضیلت رکھتی ہے بلکہ یہ بھی کہ خدائے تعالیٰ نے عیسیٰ کی ماں مریم مطہرہ کو بھی تمام خاتونانِ جہان سے برگزیدہ کیا اوراُن پر فضیلت بخشی چنانچہ سورہ عمران کی ۴۲آیت میں مرقوم ہے

يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ یعنی اے مریم بیشک اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اورپاک کیا اورتجھے تمام جہان کی مستورات میں سے چن لیا)کیا اس سے یہ بات بخوبی ظاہر نہیں ہوتی کہ اس کا بیٹا عیسیٰ سب سے بڑا نبی ہونے والا تھا؟ کیسی خوبصورتی سے اس کی اس وعدہ سے تطبیق ہوتی ہے جوخدا نے اسحاق سےکیاکہ " تیری نسل سے دنیا کی ساری قومیں برکت پائیں گی" جیساکہ ہمارے مسلمان احباب اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر آخری اورسب سے بڑے نبی حضرت محمد ہو توں کیا" خدا نے تجھ کو تمام جہان کی مستورات میں سے چن لیا" ۔ کا جملہ بجائے مریم کے حضرت محمد کی ماں آمنہ کے حق میں نہیں ہونا چاہیے ؟ اب ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن میں لفظ عیسیٰ کیا معنی رکھتاہے ؟ اس سوال کا جوا ب انجیل شریف میں تومل سکتا ہے ۔ کیونکہ انجیل متی کے پہلے باب کی اکیسویں آیت میں عیسیٰ کا ترجمہ " بچانے والا " ہے۔ چنانچہ مرقوم ہے" تو اس کا نام یسوع(عیسیٰ) رکھیگا کیونکہ وہ خدا اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچائے گا" جب مسلمان بھائیوں کے سامنے مسیح کے دعاوی کوزور سے پیش کیا جاتاہے تواکثر یوکہتے ہیں کہ" ہم بھی مسیح پر ایمان رکھتےہیں " لیکن کیا وہ کبھی اس کے اس نام کے معانی پر غور کرتے ہیں ؟ جب مسلمان قرآن میں مسیح کی معجزانہ پیدائش کا بیان پڑھتے ہیں کہ وہ کیونکہ خدا کی قدرت کا ملہ سے کنواری مریم سے پیدا ہوا توکیا اُنہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ اس معجزانہ پیدائش کا کیا مطلب ہے؟ سورہ مریم کی ۱۹آیت سے ۲۲آیت تک یوں مرقوم ہے قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّافَحَمَلَتْهُ یعنی جبرائيل نے کہا میں یقیناً تیرے خدا کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ بیٹا بخشنے کے لئے بھیجا گیاہوں۔ مریم نے کہا میرے ہاں بیٹا کیونکہ ہوسکتاہے جبکہ کسی مرد نے مجھے نہیں جانا اورمیں بدکار نہیں ہوں؟ فرشتہ نے کہا تیرا خدا ایسا فرماتاہے کہ یہ بات مجھ پرآسان ہے ہم اس کے لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت باوینگے یہ بات مقدر ہوچکی ہے ۔ پس وہ حاملہ ہوگئي)۔

تمام جہان میں کوئی اورنبی ایسے معجزانہ طورسے پیدا نہیں ہوا۔ بیشک حضرت آدم کوخدا نے بے ماں باپ پیدا کیا لیکن ابتدا میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ عیسیٰ کی پیدائش ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے اپنے مقرر کردہ قانونِ قدرت کے برخلاف اوراس سے بڑھ کر عمل کیا تاکہ مسیح کنواری سے پیدا ہو۔ خدا کا یہ فعل ہرگز بے معنی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے مسیح کے اس خاص رشتہ کی طرف اشارہ ہوتاہے جواس کے سواکوئی دوسرا نبی خدا سے نہیں رکھتا۔ انجیل شریف میں جو مسیح کی پیدائش کا بیان مندرج ہے اس کے مطالعہ سے اس رشتہ کی حقیقت صاف معلوم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ انجیل لوقا کے پہلے با ب کی ۳۱، ۳۲آیت میں مرقوم ہے کہ جبرائیل فرشتہ نے آکر مریم سے کہا دیکھ توحاملہ ہوگی اوربیٹا جنے گی اس کا نام یسوع(عیسیٰ) رکھنا وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اُس مقام سے معلوم ہوتاہے کہ عیسیٰ کو اس کی معجزانہ پیدائش کے سبب سے " ابن اللہ" کا بڑا لقب ملاہے۔ یہ ایک معقول اصطلاح ہے جس سے ایک خاص رشتہ ظاہرہوتاہے اورکلمتہ اللہ بھی ایسی ہی اصطلاح ہے جوقرآن میں عیسیٰ کے حق میں استعمال کی گئی ہے۔ ان دونوں اصطلاحوں میں سے ایک بھی محض لفظی ولغوی معنوں میں نہیں لی جاسکتی جسمانی ابنیت کے خیال کیلئے ہرگز گنجائش نہیں ہے لیکن حضرت محمد خود اوربہت سے ان کی پیروی کرنے والے اس سخت غلطی کے گڑھے میں گرتے ہیں اگر غور سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ حضرت محمد نے مسیح کی الہٰی ابنیت کی مسیحی تعلیم کو جسمانی رشتہ پر محمول کیا چنانچہ سورہ انعام کی ۱۰۱آیت میں لکھاہےبَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ یعنی وہ زمین وآسمان کا خالق ہے اس کی اولاد کیونکہ ہوسکتی ہے جبکہ اس کی کوئی بیوی ہی نہیں" اورپھرسورہ مومن کی بانولویں آیت میں مندرج ہے مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ (خدا کے لئے کوئی بیٹا بیٹی نہیں ) ایک بنگالی مسلمان نے اسی قسم کی غلط فہمی کی بنیاد پرایک کتاب لکھی اوراس میں بڑی کوشش سے ثابت کرنا چاہا ہے کہ مسیح خدا کا (جسمانی ) بیٹا نہیں ہوسکتا۔ لیکن کوئی مسیحی بھی اس کو جسمانی بیٹا نہیں کہتا کیونکہ جسمانی انبیت کی تعلیم مسیحیوں کے نزدیک بھی ایسی ہی گھناؤنی اورنفرت انگیز وکفر آمیز ہے ۔ جیسے کہ کسی اہل اسلام کیلئے ہو سکتی ہے ۔ مسیح کی ابنیت پر حضرت محمد کا اعتراض یقیناً اس بنا پر تھا کہ ابنیت کا اقرار خدا کی توحید کی تعلیم کے برخلاف ہے لیکن اگر اس مسئلہ کو ٹھیک طورسے سمجھ لیا جائے تواس سے توحید پر مطلق حرف نہیں آتا۔ اہل اسلام کی طرح مسیحی بھی خدا کو وحدہ ولاشریک مانتے ہیں خدا کے بیٹے بیٹیاں ماننا جاہلوں اور بے دینوں کا اعتقاد ہے قرآن میں اسکا اس موقعہ پر ذکر ہے جہاں لکھاہے کہ بعض اہل عرب خدا سے بیٹیاں منسوت کرتےتھے"۔

یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ مسیح کی ابنیت پر لکھتےوقت مسیحی مصنفین نے کہیں بھی لفظ" ولد" کا استعمال نہیں کیا کیونکہ" ولد" جسمانی رشتہ کی طرف اشارہ کرتاہے ۔ بلکہ اُنہوں نے ہرجگہ لفظ" ابن " لکھاہے جوعربی زبان میں غیر جسمانی اور روحانی معنوں میں بھی اکثر استعمال کیا جاتاہے ۔ حضرت محمد نے مندرجہ بالاآیات میں اس بات پر زور دیاہے کہ خدا کا کوئی بیٹا یعنی" ولد" نہیں ہوسکتا ہے لیکن مسیحی اعتقاد کو پیش کرتے وقت خاص مستثنیٰ دیانتداری سے لفظ" ابن" استعمال کیا ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ کی ۳۰ آیت میں مرقوم ہے۔وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ کہتے ہیں) اس مقام پر مسیحیوں کو یہ سوال کرنے کا حق حاصل ہے کہ اگراُسے روح اللہ " کہنا جائز ہے تو" ابن اللہ" کہنا کیوں گناہ ہے؟

قرآن نہ صرف مسیح کی پیدائش کو معجزانہ بیان کرتاہے بلکہ مسیح کو تمام مخلوقات کیلئے ایک نشان قرار دیتاہے۔ چنانچہ سورہ انبیاء کی ۹۱ویں آیت میں مندرج ہے"وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ (ہم نے اس کو (مریم کو) اوراس کے بیٹے کو تمام مخلوقات کے لئے نشان بنایا) اگرہمارے مسلمان بھائی مسیح کے بارہ میں جسمانی ابنیت کا خیال اپنے دلوں سے دورکردیں تواصطلاح " ابن اللہ" کے متعلق ان کی مشکل بہت کچھ آسان ہوجائے گی۔جومسلمان قرآن اوراحادیث کواچھی طرح سے پڑھتے اور بخوبی سمجھتے ہیں وہ اتنا توضرور مانینگے کہ ان کتابوں میں مسیح اورخدا باپ کے ایک ایسے باہمی خاص رشتہ کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں جوکسی اورنبی اورخدا کے درمیان پایا نہیں جاتا مثلاً مشکوات المصابیح میں لکھاہے کہ" ہرایک انسان کو اس کی پیدائش کے وقت شیطان چھولیتاہے ۔لیکن مریم اوراُس کا بیٹا اس سے محفوظ ہیں کیا اس حدیث سے مسیح کا مرتبہ دیگر تمام انبیاء سے اعلیٰ نہیں ٹھہرتا؟ اور اگریہ حدیث سچی ہے توکیا اس سے اس امر کی بخوبی تشریح نہیں ہوتی کہ مریم اوراس کا بیٹا کیوں تمام مخلوقات کے لئے نشان مقرر کئے گئے ؟"

بعض مسلمان مسیح کو "ابن اللہ" مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام مقدس لوگ" ابن اللہ" یا خدا کے بیٹے ہیں۔ اس میں بیشک کچھ سچائی پائی جاتی ہے لیکن یہ سچائی پوری نہیں ہے۔ کیونکہ بائبل نہایت صفائی اورصراحت سے بتاتی ہے کہ مسیح کی ابنیت دیگر مومنین کی سی نہیں ہے چنانچہ انجیل شریف میں عیسیٰ خدا کا اکلوتا بیٹا کہلاتاہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ خدا باپ کے ساتھ اس کا ایسا خاص رشتہ ہے جوکسی اور کا نہیں ہے۔ اگرکوئی تعصب سے خالی ہوکر انجیل شریف کوپڑھے توضرور اس حقیقت کا قائل ہوجائے گا۔چنانچہ عیسیٰ مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا تم مجھے کیا کہتے ہو؟ شمعون پطرس نے جواب میں کہا " توزندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے" عیسیٰ نے جواب میں اس سے کہا "مبارک ہے توشمعون بریونس کیونکہ یہ بات جسم اورخون سے نہیں بلکہ میرے باپ نے جوآسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے"(انجیل متی ۱۶: ۱۵تا ۱۷)۔اگرمسیح بھی ایسا ہی" ابن اللہ" ہوتا اور مومنین" ابن اللہ" ہیں توپھر ہم پوچھتے ہیں کہ مسیح کے اس جواب کا کیا مطلب ہوسکتاہے؟ علاوہ ازیں ہم جانتے ہیں کہ یہودی لوگ عیسیٰ کو اسی لئے قتل کرنا چاہتے تھے کہ"وہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کےبرابر بناتا تھا" (یوحنا ۵: ۱۸)۔پس اظہر من الشمس ہے کہ " اکلوتے بیٹے" کی اصطلاح عیسیٰ کی ابنیت کو دیگر مومنین کی ابنیت سےمختلف اوربالا تر قراردیتی ہے کیسی عجیب بات ہے کہ باوجود انجیل شریف کی صاف شہادت کے بہت سے مسلمان مصنفین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسیح کی ابنیت دیگر مومنین کی ابنیت کی سی ہے لیکن مسیح کی معجزانہ پیدائش کا بیان جو قرآن میں مندرج ہے کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیح کا خدا باپ سے ایسا رشتہ ہے جوکسی اورکانہیں ہوسکتا !اس حقیقت پرقرآن میں تو صرف اشارات پائے جاتے ہیں لیکن انجیل شریف میں اس کی تعلیم بالکل صاف ہے جہاں مسیح خدا کا " اکلوتا بیٹا " کہلاتاہے۔ قرآن کسی اور کی ایسی معجزانہ پیدائش کا ذکر نہیں کرتا۔ لہذا بلحاظِ پیدائش قرآن بھی مسیح کو تمام دیگر انبیاء اللہ پر فضیلت اور برتری دینے میں انجیل شریف سے متفق ہے۔

تیسرا باب

عیسیٰ مسیح موعود

پھرتیسری بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم قرآن میں المسیح بھی کہلاتاہے ۔ چنانچہ سورہ عمران کی ۴۶ویں آیت میں مرقوم ہے اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یعنی اس کا نام المسیح عیسیٰ ابن مریم ہے) مسلمان اس جملہ کواکثر بار بار پڑھتے ہیں لہذا ہم اُن سے بھرپور پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا کیا باعث ہے کہ تمام قرآن میں صرف عیسیٰ کے حق میں ایسے وزنی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کہ صر ف وہی اکیلا " المسیح" کہلاتاہے؟ مسیح کی مطلب ہے " مسح کیا گیا" اورہم دیکھ چکے ہیں کہ " عیسی" کا ترجمہ" بچانے والا" ہے پس " عیسی المسیح" کا ترجمہ ہوا مسح کیا گیا " بچانے والا یا ممسوح" نجات دہندہ" خود حضرت محمد کے حق میں بھی قرآن میں کوئی ایسا بڑا لقب پایا نہیں جاتا۔ حضرت محمد اپنی نسبت خود کہتے ہیں کہ" میں محض ایک واعظ ہوں" (سورہ عنکبوت کی ۵۰ویں آیت ) اگر اس رسالہ کا پڑھنے والا کچھ تکلیف گوارا کرکے توریت اور زبور کو غور سے پڑھے تواسے ان کتابوں میں دنیا کے نجات دہندہ مسیح کے حق میں بہت سی پیشین گوئیاں ملیں گی۔ ان پیشین گوئيوں میں سے بہت سی ظاہر کرتی ہیں کہ مسیح تمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرتر ہوگا یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اس کی ذات الہٰی ہوگی۔ مثلاً ایک ۱۱۰ زبور کی پہلی آیت میں داؤد نبی مسیح کے بارہ میں پیشین گوئی کرتے وقت کہتاہے کہ" خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ بنادؤں" یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ داؤد نبی زبور میں مسیح کو اپنا خداوند کہتاہے اوراس سے صاف ظاہر کرتاہے کہ مسیح انسان سے بڑھ کر اورالہٰی تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سیدنا عیسیٰ نے خود زبور کی مذکورہ بالا آیات کو مسیح کے حق میں استعمال کیا اوراس سے اپنی الوہیت کا ثبوت دیا۔ چنانچہ انجیل متی کے ۲۲ویں باب کی ۴۱سے ۴۵آیت تک میں مرقوم ہے" اور جب فریسی جمع ہوئے تو سیدنا عیسیٰ نے ان سے یہ پوچھا کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹاہے ؟ انہوں نے آپ سے کہا داؤد کا ۔ (۴۳) آپ نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ ۔

خداوند نے میرے خداوند سے کہا

میری دہنی طرف بیٹھ

جب تک میں تمہارے دشمنوں کو تمہارے پاؤں کے نیچے نہ کردوں؟

پس جب داؤد اس کو مولا کہتاہے کہ تو وہ ا سکا بیٹا کیونکر ٹھہرا ؟

پھر یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۷ویں باب کی ۱۴ویں آیت میں مسیح کے حق میں یوں مرقوم ہے کہ خداوند تم کوایک نشان دیگادیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی۔ اور اس کا نام عمانیوئیل (خداوند ہمارے ساتھ)رکھیں گے" زبور اوردیگر کتب انبیاء کے بہت سے مقامات سے نہایت صفائی اورصراحت کےساتھ معلوم ہوتاہے کہ مسیح نبی ،کاہن (امام)،اوربادشاہ ہوگا اورایک عجیب بعید الفہم طورسے لوگوں کے گناہوں کےلئے اپنی جان دے گا۔ چنانچہ یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۵۳ویں باب میں مندرج ہے" وہ ہمارے گناہوں کے لئے گھائل کیا گیا اورہماری بدکاریوں کے باعث کچلا گیا۔ ہماری سلامتی کےلئے اس پر سیاست ہوئی اوراس اس کے مار کھانے سے ہم نے شفا پائی ۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے اورہم میں سے ہرایک اپنی اپنی راہ کو پھرا خداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اس پرلادی"۔

اب مقامِ غور ہے کہ باوجود یکہ یہودیوں نے عیسیٰ کو مسیح موعود نہ جانا۔مسیح کے حق میں یہ پیشین گوئیاں ان کی کتب مقدسہ میں پائی جاتی ہیں ۔لہذاہمارے پاس اس بات کا نہایت پختہ ثبوت ہے کہ یہ مقامات جواس کی الوہیت ثابت کرتے ہیں۔ اُن کتابوں میں مسیحیوں نے داخل کردئیے ہیں اوریہ بات بالکل ناممکن ہے کہ یہودیوں نے ان مقامات کو داخل کیا پس لازم ہے جیسےوہ فی الحقیقت ہیں۔ خدا کا کلام تسلیم کرلئے جائیں جواس حی القیوم نے اپنے برگزیدہ بندگان انبیاءکی معرفت ظاہر فرمایا۔ حق تویہ ہے کہ یہودیوں نے خود اپنی کتابوں میں مندرجہ بالا مقامات اورایسے ہی اوربیانات کو دیکھ کر مسیح کی بزرگی وعظمت کے بڑے بڑے خیالات قائم کئے اوراُسے تمام دیگر انبیاء پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہودی احادیث، وروایات کی کتابوں میں مسیح کو"آسمان سے بھیجا ہوا بادشاہ " موسیٰ سے بزرگ تر اورفرشتگان سے " بلند پایہ" لکھاہے۔ کتاب اخنوع میں مسیح" خداکا بیٹا " بیان کیا گیا ہے ۔حضرت سلیمان کے مزامیر میں اُسے " گناہ سے آزاد" ،"خداوند" اورراست بادشاہ وغيرہ بڑے بڑے القاب سے لقب کیا ہے ۔یہودیوں کی ایسی غیر معتبر کتابیں مسیح کے وجود کو ابتدائے عالم سے قدیم ترمانتی ہیں اوراُسے انجام کار آکر دنیا کا انصاف کرنے والا قرار دیتی ہیں ۔ پس اُن باتوں سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہودی لوگ اپنی کتب مقدسہ کو بخوبی سمجھتے تھے اورآنے والے مسیح کی بے نظیربزرگی وعظمت سے ناواقف نہیں تھے۔ قرآن بار بار عیسیٰ کو مسیح بیان کرتاہے اورپورے طور سے اسےتمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرترتعلیم کرتاہے اسے یہ القاب دیتاہے مگریہ نہیں بتاتاکہ عیسیٰ کی ایسی عزت وعظمت کیوں ہے لیکن بخلاف اس کے بائبل میں اس کا پورا بیان ملتاہے کہ یہ کون ہے جس کو خدا نے اس قدر معزز وممتاز فرمایا۔

مسلمان مفسرین قرآن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا بڑا لقب کسی اور کو نہیں دیا گیا۔ لیکن وہ طرح طرح سے کوشش کرتے ہیں کہ اس لقب کے صاف اورلازم نتیجہ سے بچیں۔ مثلاً امام رازی صاحب فرماتے ہیں ۔ کہ " عیسیٰ کو مسیح کا لقب اس لئے دیا گیا کہ وہ گناہ کے داغ سے پاک وصاف رکھاگیا" (جبکہ دیگر انبیاء میں سے کسی کویہ لقب نہیں دیا گیا توکیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سب گنہگار تھے)پھرایک اور مفسر ابوعمروابن العلا کہتاہے کہ لفظ" مسیح" سے " بادشاہ" مراد ہے بیضاوی کہتاہے " وہ اس لئے مسیح کہلاتاہے کہ اس میں بلاواسطہ خدائے تعالیٰ کی روح ہے جوذات وماہیت میں خدا کے ساتھ ایک ہے" پس ہم مہاف دیکھتے ہیں کہ قابل اعتماد ومسلمان مفسرین عیسیٰ کی بزرگی اور فضیلت کے قائل ہیں اورصرف اسی ایک نبی کو" مسیح" کے عالی لقب کا مستحق مانتے ہیں جس اعلیٰ رتبہ پر قرآن سیدنا عیسیٰ کوبٹھاتا ہے اوراس پر انجیل شریف سے بھی شہادت ملتی ہے چنانچہ مرقوم ہے۔ اس لئے خدا نے بھی اسے (مسیح کو سرفراز کیا اوراسے ایک ایسا نام دیا جوسب ناموں سے بلند ہے"۔

چوتھا باب

مسیح کلمتہ اللہ

چوتھی بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح قرآن میں کلمتہ اللہ کہلاتاہے ۔ چنانچہ سورہ نساء کی ۱۶۹ویں آیت میں مرقوم ہے إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ (یقیناً مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا رسول ہے اوراس کا کلمہ جو اس نے مریم کی طرف ڈال دیا)۔ یہ آیت بہت صفائی سے عیسیٰ مسیح کو تمام دیگر انبیاء سے کہیں بزرگ وبرتر ثابت کرتی ہے اورمسلمان مفسرین اس کی تفسیر کرنے میں بہت عاجز ہیں۔ ہم اس لقب مسیح کا ان القاب سےمقابلہ کرینگے جومسلمانوں نے دیگر انبیاء کو دیئے ہیں اس سے صاف نظر آجائے گا کہ مسیح دوسروں نبیوں سے کس قدر اعلیٰ وبالا ہے مثلاً " ادم صفی اللہ " یعنی خدا کا برگزیدہ ۔ نوح نبی اللہ یعنی خدا کا نبی ابراہیم خلیل اللہ یعنی خدا کا دوست ،موسیٰ کلیم اللہ یعنی خدا سے کلام کرنے والا اورمحمد رسول اللہ یعنی خدا کا پیغام لانے والا کہلاتاہے۔ یہ تمام القاب ہمارے جیسے کمزو اورخاطی آدمیوں کودئیے جاسکتے ہیں لیکن مسیح قرآن میں" کلمتہ اللہ" کہلاتاہے یہ ایسا لقب ہے جو از حد صفائی اورصراحت کے ساتھ مسیح اورخدا باپ میں ایک خاص رشتہ پردلالت کرتاہے۔

مسلمان مصنفین نے کئی طرح سے کوشش کی ہےکہ" کلمتہ اللہ" سے جوسیدنا عیسیٰ کی الوہیت کا صاف نتیجہ نکلتاہے اس پر دھول ڈالیں مثلاً امام رازي اورحال کے چند مصنفین ہم کو یہ منوانا چاہتے ہیں کہ " کلمتہ اللہ " سے صرف یہ مراد ہے کہ عیسیٰ خدا کے حکم یا" کلمتہ اللہ " یعنی کلام سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن آدم بھی تو خدا کےحکم سے پیدا کیا گیا تھا کیا کوئی مسلمان آدم کو" کلمتہ اللہ" کہنے کی جرات کرے گا؟ علاوہ بریں قرآن کی مذکورہ بالا آیات میں یہ صاف بیان کیا گیاہے کہ عیسیٰ کلمتہ اللہ " تھا جوخدا نے مریم میں ڈال دیا اورامام رازی کے بے بنیاد بیان اور تفسیر کی تردید کےلئے یہ ایک ہی کافی ہے۔ کیونکہ اس سے صاف عیاں ہے کہ کلمہ مریم میں ڈالا جانے سے پیشتر بھی موجود تھا حقیقت یوں ہے کہ سیدنا عیسیٰ کا یہ لقب صرف انجیل شریف ہی کے مطالعہ سے سمجھ میں آسکتاہے۔کیونکہ اس میں بڑی صفائی سے بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰ "کلمتہ اللہ" الہٰی ہے اورمجسم ہوکر دنیا میں آنے سے پیشتر خدا کے ساتھ موجود تھا۔ چنانچہ انجیل یوحناکے ۱باب کی پہلی آیت میں مرقوم ہے" ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اورکلام خدا تھا اورکلام مجسم ہوا اوراس نے فضل اورسچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان خیمہ کیا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسے باپ کے اکلوتے کا جلال" مسلمانوں کی احادیث میں بھی اس کی شہادت موجو دہے۔ چنانچہ مشکوات المصابیح کے دفتر اول کے چوتھے باب کی تیسری فصل میں مندرج ہے " و ہ(عیسیٰ) ارواح میں تھا۔ ہم نے اس کو مریم میں بھیجدیا۔ اسی کتاب میں ابی سے مروی ہے کہ مسیح کی روح مریم کے منہ سے داخل ہوئی اگرچہ ہم کو ایسی احادیث وروایات کی چنداں ضرورت نہیں توبھی ان سے اس قدر ظاہر ہوتاہے کہ معتقدات اسلام میں مسیح اس دنیا میں مجسم ہوکر آنے سے پیشتر موجود مانا گیا ہے ۔ بائبل اور قرآن دونوں عیسیٰ کو کلمتہ اللہ کہتے ہیں اوراس طرح سے اسے تمام دیگر انبیاء سے منتخب اورممتاز کرکے اس رشتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جواس میں اورخدا باپ میں ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قرآن میں بائبل کےلئے جو واعظ استعمال ہواہے وہ وہی نہیں ہے جوعیسیٰ مسیح کے حق میں استعمال کیا گیا ہے چنانچہ سورہ بقرہ کی ۷۴ویں آیت میں لکھاہے وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ یعنی اوران میں سے ایک فریق خدا کا کلام سنتا تھا) یہاں پر لفظ کلام کتب الہامی کےلئے استعمال کیا گیا ہے وہ " کلمتہ " ہے اس کے حق میں " کلام" کبھی استعمال نہیں ہوا۔ چنانچہ سورہ عمران کی ۴۵ویں آیت میں مرقوم ہے"يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ یعنی اے مریم اللہ تجھے خوشخبری بھیجتاہے ،کلمتہ ہے جواس سے ہے) باایں ہمہ مفسرین ہم سے یہ ماننے کو کہتے ہیں کہ کلمتہ اللہ کا اعلیٰ لقب صرف یہ معنی رکھتاہے۔ کہ مسیح خدا کے حکم یاکلام سے پیدا کیا گیا تھا۔ پھر مندرجہ بالا آیت قرآن میں مسیح کا کلمہ یعنی" خدا کا کلمہ" کہلاتا ہے۔ عربی سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے "الکلمتہ اللہ" مراد ہے نہ صرف کلمہِ خدا " کلمتہ اللہ" نہ محض کلمہ من کلمات اللہ پس صاف ظاہر ہے کہ عیسی" الکلمتہ اللہ یا خدا کا خاص اظہار صرف اسی کے وسیلے سے ہم خدا کی مرضی کو معلوم کرسکتے ہیں کسی اورنبی کو یہ لقب نہیں دیا گیا۔ کیونکہ کوئی اوراس طور سے خدا کیمرضی کوظاہر کرنے والا نہیں ہے اسی لئے عیسیٰ انجیل شریف میں فرماتاہے" راہ اورحق اور زندگی میں ہوں۔ کوئي باپ کے پاس نہیں آسکتا کہ میرے وسیلہ سے " میرے باپ کی طرف سے رب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے سواباپ کے اورکوئی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے سوا بیٹے کے اوراس شخص کے جس پر بیٹا ظاہر کرنا چاہے(لوقا ۱: ۲۲)۔

ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم مسیح کی الوہیت کا مسئلہ پورے طور سے سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے اسرار تثلیث کا تعلق ہے لیکن اس قدر بخوبی صفائی سے دیکھتے ہیں کہ خدا کے " کلمہ" کی ذات الہٰی ہونی چاہیے ۔کیونکہ سوائے الہٰی ذات کے کسی اور چیز سے مسیح کی معجزانہ پیدائش کا راز ہرگز نہیں کھلتا۔ انجیل شریف سےہم کو یہ معلوم ہوتاہے کہ خدا کے ازلی کلام نے کامل انسانی ذات اختیار کی لیکن ساتھ ہی الہٰی ذات سے عاری نہیں ہوا اس میں انسانی ذات اور الہٰی ذات باہم موجود تھیں جیساکسی درخت پر پیوند لگانے سے پیوند اور پیوند شدہ درخت کی شاخیں اپنی اپنی ذات میں جدا جدا جدا ہیں لیکن پھر بھی ایک ہی درخت ہے ایسا ہی انجیل شریف میں مرقوم ہے کہ کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا" اور قرآن میں لکھاہے کہ" خدا نے اپنا کلمہ مریم میں ڈالا" پس خدا نے جوخودعیسیٰ مسیح میں ہوکر بنی آدم میں بودوباش کی۔ اسلام کے بعض فرقے مانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں انسانیت والوہیت جمع ہوسکتی ہے۔ چنانچہ شہرستانی ۲: ۷۹۔ ۷۷ میں مرقوم ہے کہ فرقہ المشتبہ کا ایسا اعتقاد تھا یہ کہنا کہ " چونکہ ہم مسیح کے مجسم ہونے کو ایا اس کی الوہیت کو سمجھ نہیں سکتے لہذا ہم اس کو نہیں مانتے کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ کیونکہ ہم قیامت کوبھی نہیں سمجھتے لیکن اس پر ایمان رکھتے ہیں جوکوئی دانا ہے۔ وہ ضرور اس سنجیدہ مسئلہ پر بائبل مقدس کی صاف تعلیم کوقبول کرے گا بیشک تثلیث کا مسئلہ نہایت مشکل اور سرمکتوم ہے لیکن گوعقل سے بالا ہوا ورعقل میں نہ آسکے توبھی خلاف عقل تونہیں ہے ہمارے مسلمان بھائی خود صفات الہٰی کی کثرت کو مانتے ہیں۔ مثلاً اس کا رحم ،انصاف ، اور قدرت وغیرہ اوربڑی درستی سے اسے الصفات الحسنہ محموع یعنی تمام نیک صفات کا مجموعہ کہتے ہیں ۔ اگرخدا کی صفات میں کثرت ممکن ہے تواس کی ذات میں کیوں ناممکن ہے ؟ ان دونوں صورتوں میں سے ایک میں بھی اس کی وحدت پر حرف نہیں آتا۔

علی کی زبانی روایت کی گئی ہے " من عرف نفسہ ،فقد عرف برہ " یعنی جو اپنے آپ کو جانتا ہے وہ اپنے خدا کو جانتاہے توریت میں لکھا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا اب جائے غور ہے کہ ہم سب اپنی " روح عقل" اور "نفس" کو" میں " کہتے ہیں۔ یہ چیزیں مختلف ہیں لیکن شخصیت ایک ہی راستہ ہے جبکہ ہم اپنے آپ کو بھی پورے طور سے نہیں سمجھ سکتے توکس طرح ممکن ہوسکتاہے کہ لامحدود خدا کی ذات ہماری سمجھ میں آجائے؟

علاوہ بریں قرآن میں خدا" الودود" یعنی محب کہلاتاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا کی ذات میں " الودود" یعنی حب کی صفت موجود ہے اور چونکہ خدا کی ذات لاتبدیل وغیر متغیر ہے اس لئے یہ صفت ازلی ہے لیکن جب کے لئے محبوب کا وجود لابدی ہے پس ہم پوچھتے ہیں کہ جہان وفرشتگان کی پیدائش سے پیشتر خدا کی حب کا محبوب کیا تھا؟ کیاان خیالات سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ خدا کی ذات واحد میں کثرت موجود ہے اورواحد میں کثرت کے افراد باہم محب ومحبوب ہیں؟ کیا مسلمان یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کی صفات مندرجہ قرآن سے ذات باری تعالیٰ کی وحدت میں کثرت کا کچھ نہ کچھ خیال پایا جاتاہے جومسیحیوں کی تعلیم تثلیث کی مانند ہے۔

بائبل سیکھلاتی ہے کہ خدا کی وحدت میں تثلیث موجود ہے اورعیسیٰ اقانیم ثلاثہ میں سے ایک اقنوم ہے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی قرآن کی پیروی کرکے تثلیث کی تعلیم کو ردکرتے اورکہتے ہیں کہ یہ تعلیم توحید کے برخلاف ہے لیکن اگر غور سے قرآن کو پڑھیں توصاف معلوم ہوجائے گا کہ حضرت محمد نے جس بات کی بڑے زور سے تردید کی وہ شرک یا خداؤں کی کثرت کی تعلیم تھی چنانچہ سورہ نساکی ۱۶۹ ویں آیت میں مرقوم ہے ثَلاَثَةٌ انتَهُواْ خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللّهُ إِلَـهٌ یعنی مت کہو تین خدا ہیں اس سے باز رہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا خدا صرف ایک ہی ہے )مشہور مفسرین جلالین نے سمجھا کہ یہ آیت شرک یا بہت سے خدا ماننے کی طرف اشارہ کرتی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں " اے اہل بائبل تم اپنے دین میں کفر کی پیروی مت کرو اور خداکی بابت سوائے حق بات کے کچھ اورمت کہو شرک اورقادرمطلق کا بیٹا بیان کرنے سے باز آؤ"۔ پس اس سے صاف نظر آتاہے کہ قرآن شرک اور ایک سے زيادہ خدا ماننے کی تعلیم کی تریدد کرتاہے جوتعلیم مسیحی لوگ نہ مانتے ہیں اور نہ اوروں کو سکھاتے ہیں ۔ عیسیٰ مسیح گویا ہر طرح کی غلط فہمی کو دورکرنے کی غرض سے خدا کی توحید کا یوں بیان فرماتاہے" میں اور باپ(خدا) ایک ہیں" (یوحنا ۱۰: ۳۰)۔ سورہ مائدہ سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت محمد تثلیث کی تعلیم کو مطلق نہ سمجھ سکے چنانچہ ۱۱۶ ویں آیت میں مرقوم ہے"يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ(اے عیسیٰ ابن مریم کیا تونے لوگوں سے کہا کہ خدا کے سوا مجھ کو اورمیری ماں کو دوخدا مانو؟"سورہ مائدہ میں حضرت محمد بڑی کوشش سے اس بات کو ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مریم عیسیٰ کی ماں خدا نہیں اوردلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ کھانا کھاتی تھی !تاہم بیضاوی اوردیگر اچھے اچھے مسلمان مفسرین مانتے ہیں کہ کہ مسیحی تثلیث اقانیم ثلاثہ باپ،بیٹا اورروح القدس ہیں تثلیث کے بارہ میں جوغلط خیال حضرت کا تھا وہی اس زمانہ کے بہت سے مسلمانوں کا ہے وہ سخت غلط فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ مسیحی لوگ تین خدا مانتے ہیں اور اس غلط فہمی کے سبب سے وہ مسیحیوں کی تعلیم کی کبھی تحقیقات نہیں کرتے لیکن بعض مسلمان کچھ کچھ درست خیال رکھتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر عماد الدین صاحب ہدایت المسلمین میں لکھتے ہیں " کہ فرقہ صلحیہ کے مسلمان مانتے ہیں کہ خدا کی ذاتِ واحد کے اندر تثلیث کی تعلیم دینا کفر نہیں ہے اگر ٹھیک طور سے سمجھ لی جائے توتثلیث کی تعلیم سے خدا کی توحید کی مخالفت نہیں ہوتی بلکہ" ابن اللہ" کے مجسم ہونے کا راز بخوبی سمجھ میں آتاہے اور کلمتہ اللہ اورروح اللہ کے مشکل القاب کی (جومسلمان مسیح کے حق میں استعمال کرتے ہیں )تشریح ہوتی ہے۔ کلمتہ اللہ خدا کا سخن ہے اورسخن خدا ایسا ہی قدیم وازلی ہے جیسا خود خدا۔اسی کلمہ نے کنواری مریم کے رحم میں مجسم ہوکر کامل انسانی ذات اختیار کی ۔ چنانچہ لکھاہے کہ" یسوع(عیسیٰ) ناصری دیگر آدمیو ں کی طرح کھاتا پیتا اور غمگین اورتھکاماندہ ہوتا تھا۔ کیونکہ انسانی حیثیت میں سوائے گناہ کے اورجو جو خواہشیں ہم میں ہیں اس میں بھی تھیں " کلمتہ اللہ" جوخدا نے مریم میں ڈالا اس کے بارے میں یہی تعلیم ہے اورہر ایک سچے مسلمان پر ازروئء کلام خدا اس کو ماننا لازم ٹھہرتاہے "کلام اللہ" کی شہادت کو نہ ماننا اورخدا کی ذات وماہیت کی نسبت چھان بین بیہودگی اوربے دینی ہے حضرت محمد نے بھی کہا ہے کہ" خدا کی بخششوں کا خیال کرو اور اس کی ذات کے بارہ میں مت سوچو۔ یقیناً تم اس کو نہیں سمجھ سکتے اورپھر یہ بھی مروی ہے کہ" ہم نے تیری حقیقت کو نہیں جاناایک اورحدیث میں یہ دہشت ناک الفاظ پائے جاتے ہیں کہ"البحث من ذات اللہ کفر" (خدا کی ذات پر بحث کرنا کفر ہے) کوئی سچی تعلیم عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ جوباتیں خدا کی ذات سے علاقہ رکھتی ہیں وہ ہماری کمزورانسانی عقل سے ماہر اوربالا ہوسکتی ہیں۔ مسلمان خودمانتے ہیں کہ قرآن کے بعض فقرے متشابہ ہیں اوران کے معنی انسان سے پوشیدہ ہیں اور قیامت کے دن تک ویسے ہی پوشیدہ رہیں گے چنانچہ حروف الف ولام ومیم (المہ) اورخدا کے منہ اورہاتھوں وغيرہ کے بیان میں جوفقرات قرآن میں پائے جاتے ہیں پس جس آزادی کو مسلمان اپنے لئے جائز قرار دیتے ہیں اُسے مسیحیوں کےلئے کیوں ناجائز سمجھتے ہیں ؟ ہم بھی تعلیم تثلیث اورمسیح کی الوہیت کو متشابہ کہہ سکتے ہیں۔ لہذا ان تعلیمات کوپورے طور سے سمجھ نہ سکنے کے سبب سے رد کرنا مسلمانوں کے لئے معقول بات نہیں ہے۔

مسیحی لوگ بائبل شریف کی سند پر عیسیٰ مسیح کی الوہیت کو مانتے ہیں اور اس امر میں وہ اکیلے نہیں بلکہ تمام انبیاورسل بھی اُن کے ساتھ یہی ایمان رکھتے تھے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ مسیح کے حق میں بہت سی پیشین گوئیاں ایسی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کا جلال الہٰی جلال سے کم نہیں ہے چنانچہ ہم ایک دوایسی پیشین گوئیوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔ یسیعاہ نبی کی کتاب کے نوویں باب کی چھٹی آیت میں مرقوم ہے" ہمارے لئے ایک بیٹا تولد ہوا۔ ہمیں ایک بیٹا بخشا گیا سلطنت اسکے کندھے پر ہوگی اور اس کا نام عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ اس کی بادشاہت کی ترقی اورسلامتی کا انجام ابدالاباد تک ہے"۔مسیح کے حواری جن کو قرآن " انصار اللہ" کے لقب سے ممتاز کرتاہے عیسیٰ کی الوہیت پر ایمان رکھتے تھے اوریہ انجیل شریف کے بہت سے مقامات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ مسیح کے شاگردوں میں سے ایک توما نامی نے اس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کو پہلے نہ مانا لیکن جب اس نے محشور مسیح کو روبرو دیکھا توتازہ ایمان اورخوشی سے معمور ہوکر اس نے کہا" اے میرے خداوند اے میرے خدا! عیسیٰ نے جواب دیا توتومجھے دیکھ کر ایمان لایاہے۔ مبارک وہ ہیں جوبغير دیکھے ایمان لائے (یوحنا ۲۰: ۲۹)۔ مسلمان دوستو! اس الہی" ابن اللہ" پر ایمان لانا اسکے نام کے طفیل سے آپ کوحیات ابدی کا وارث بنائے گا۔ کیونکہ لکھاہے کہ سیدنا عیسیٰ پر ایمان لا اورنجات پائے گا"۔

پانچواں باب

مسیح روح اللہ

مسلمان سیدنا مسیح کوایک اور بڑے لقب یعنی" روح اللہ " سے ملقب کرتے ہیں چنانچہ سورہ نسا کی ۱۶۹ ویں میں مرقوم ہے إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ یعنی بے شک مسیح عیسیٰ ابن مریم خدا کا رسول ہے اوراس کا کلمہ ہے جسے اس نے مریم میں ڈالا اور اُس کی روح ہے) اس بڑے لقب " کلمتہ اللہ" کی طرح مسلمان مفسرین کو اس لازم نتیجہ یعنی عیسیٰ مسیح کی الوہیت سے انکار کی مختلف راہیں ڈھونڈھتے ہیں نہایت مشکل میں ڈال رکھاہے ۔ خلیل اللہ ،صفی اللہ اورنبی اللہ وغیرہ القاب جو دوسرے انبیاء کو دئے گئے ہیں ہماری مانند کمزور انسانوں کو دئے جاسکتے ہیں لیکن " روح اللہ" جو مسلمانوں نے سیدنا مسیح کو دیاہے نہایت صفائی سے اس کی بزرگی وبرتری پر دلالت کرتاہے اورازحد یقینی طور سے اسے تمام دیگر انبیاء سے اعلیٰ وبالا ٹھہراتاہے۔ ایسے شخص کو بخوبی " ابن اللہ" کہہ سکتے ہیں لیکن مسیحیوں کواکثر اس سے حیرت ہوتی ہے کہ مسلمان برادران " ابن اللہ " پر کیوں اعتراض کرتے ہیں درحالیکہ وہ خود اسے روح اللہ کہتے ہیں اورروح اللہ ابن اللہ سے کم نہیں ہے۔ راسخ مسلمان مصنفین مانتے ہیں کہ " روح اللہ" ایک ایسی خصوصیت رکھتاہے جوکسی اورنبی سے منسوب نہیں ہوسکیت۔ چنانچہ امام رازی کہتے ہیں کہ وہ (مسیح) اس لئے " روح اللہ کہلاتاہے کہ وہ اہل دنیا کو ان کے ادیان میں زندگی بخشنے والا ہے" اور بیضاوی تحریر فرماتے ہیں " وہ ایسی روح رکھتاہے جو ذات اوراصل کے لحاظ سے بلا واسطہ خدا سے صادر ہے " اوریہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتاہے اوربنی آدم کے دلوں کو حیات بخشتا ہے" ہاں یہ " روح اللہ" اب بھی صاحب الوہیت ہونے کے سبب سے دنیا کو زندہ کرتا اور قلوب انسانی کو حیات بخشتا ہے اورآج کل غیر معمولی طور سے شمال وجنوب اورمشرق ومغرب کے لوگ وہ نئی پیدائش اور زندگی حاصل کررہے ہیں جو فقط سیدنا عیسیٰ ہی سے ملتی ہے امام صاحب نے یہ لکھتے وقت ضرور انجیل شریف سے سیدنا عیسیٰ کا یہ فرمان پڑھا ہوگا کہ" قیامت اور زندگی میں ہوں اورجومجھ پر ایمان لاتاہے اگرچہ وہ مرگیا ہوتوبھی جئے گا (یوحنا ۱۱: ۲۵) پھریہ بھی مرقوم ہے کہ پہلا آدم جیتی جان ہوا اورودوسرا آدم (سیدنا مسیح) زندگی بخشنے والی روح " بیضاوی کی تفسیر مسیح کے الفاظ سے کسی مطابقت رکھتی ہے کیونکہ بیضاوی اورمسیح کے الفاظ میں فرق صرف یہ ہے کہ مسیح فرماتاہے" میں آیاہوں کہ وہ زندگی پائیں اوراُسے کثرت سے حاصل کریں"۔ یہ معلوم کرکے کہ زمانہ حال کے بعض مسلمان مسیح کی آسمانی اصل کومانتے ہیں ہمیں بہت خوشی ہے چنانچہ ایک بنگالی اسلامی اخبار مسمیٰ بہ پرچارک" پوس ۱۳۰۷ہجری میں مرقوم ہے " عیسیٰ محض زمینی شخص نہ تھا وہ جسمانی شہوت سے پیدا نہیں ہوا وہ آسمانی روح ہے۔۔۔۔۔ عیسیٰ آسمان کے بلند تخت سے آیا اورخدا کے احکام دنیا میں لاکر اُس نے نجات کی راہ دکھائی "۔

خدا کی " روح " ضرور خدا کی طرح ازلی ہے اور جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ وہ یہ" روح مرمم میں پھونکی گئی " (سورہ انبیاء ۹۱ آیت) اور بیضاوی کے بیان کے موافق " خدا سے نکلی تو ضرور یہ نتیجہ نکالنا پڑتاہے کہ یہ بزرگ ہستی الوہیت سے خالی نہیں اورمریم میں داخل ہونے سے پیشتر موجود تھی۔ قرآن میں عیسیٰ خدا کا " ازلی کلمہ" ہے اوریہ سبا باتیں باہم پوری مطابقت رکھتی ہیں۔ کسی محض انسان نبی کے حق میں ایسے الفاظ اورایسے بڑے بڑے القاب استعمال نہیں کئے جاسکتے ان سے نہایت صاف طور سے بائبل شریف کی اس کی پوری تعلیم کی طرف اشارہ ملتاہے۔جس میں سیدنا عیسیٰ خود اس جلال کا ذکر کرتے ہیں جو وہ ابتدائے عالم سے پیشتر پروردگار کے ساتھ رکھتے تھے۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰ نے دعا کی اورفرمایا" اے باپ (خدا تعالیٰ) تومجھے اپنے ساتھ اس جلال سے جومیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا جلالی بنادے"(یوحنا ۱۷: ۵)۔ لیکن سیدنا عیسیٰ کے ازلی وجود پر فقط انجیل ہی گواہ نہیں ہے بلکہ صحفِ انبیاء سے بھی یہی شہادت ملتی ہے ۔ چنانچہ میکاہ نبی آنے والے مسیح کا ذکر کرتے وقت یوں کہتاہے " اے بیت الحم افراتاہ اگرچہ تویہوداہ کے ہزاروں میں چھوٹی ہے توبھی وہ شخص جومیرے لئے بنی اسرائیل پرسلطنت کرے گا اورجس کا نکلنا ایام ازلی سے ہے تجھ سے نکلیگا "(میکاہ ۵: ۳)۔ پس صاف ظاہر ہے کہ مسیح کی ازلیت پرکتب مقدس یہود بھی شاہد ہیں اگرچہ یہودیوں نے بحیثیتِ قوم محض ضد اور ہٹ دھرمی سے سیدنا عیسیٰ کوایک نبی نہیں مانا۔

" روح اللہ" سے جوسیدنا مسیح کی الوہیت کا نتیجہ نکلتاہے اس سے انکار کرنے کی غرص سے بعض مسلمان مصنفین بہت ہی عجیب اوربیچ پوچ دلائل پیش کرتے ہیں مثلاً ایک حال کا بنگالی مسلمان لکھتا ہے مسیح اس لئے روح اللہ کہلاتاہے کہ وہ خدا سے پیدا کیا گیا" اس قسم کے دلائل کی کسی ذی ہوش کے سامنے کچھ حقیقت نہیں ہے کیاہم سب کو خدا نے پیدا نہیں کیا؟ ہم میں سے کون اپنے آپ کو " روح اللہ" کہنے کی جرات کرسکتا ہے ؟ اگرروح اللہ کا مفہوم خدا کی مخلوق روح ہو تو انسانی روح کی انسان کی روح انسانی کی مخلوق ٹھہرے گی کہ جو لغو محض ہے۔ جب مسلمان صرف عیسیٰ ہی کو " روح اللہ" کے لقب سے ملقب کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتاہےکہ اس کا کچھ خاص مطلب ہے اور وہ خاص معنوں میں " روح اللہ" ہے اوراس سے انجیل شریف کی پوری تعلیم تک صرف ایک قدم باقی ہے یعنی یہ کہ وہ خدا کا ازلی بیٹا ہے۔

پھریہ کہا جاتاہے کہ اگر" روح اللہ"سیدنا عیسیٰ کی الوہیت پر دلالت کرتاہے توقرآن کریم کی تعلیم کے موافق آدم اور دیگر انبیاء کو صاحب الوہیت ماننا پڑیگا کیونکہ قرآن میں مرقوم ہے کہ خدا نے فرشتوں سے آدم کے حق میں فرمایاکہ " جب میں اس کو پورے طور سےبنا چکوں اوراس میں اپنی روح پھونک دوں توتم اس کے سامنے گرکر اسے سجدہ کرو"ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کی اس آیت سے کس طرح آدم کی الوہیت کا اقرار ہم پر لازم ٹھہرتا ہے کیونکہ آدم کو اس جگہ " روح اللہ" نہیں کہا گیا۔ بلکہ محض انسان جس میں خدا نے اپنی روح پھونکی جو کہ معاملہ ہی دیگر ہے۔ قرآن میں عیسیٰ کی نسبت کہیں بھی ایسا نہیں لکھا اس قسم کی زبان عیسیٰ کی ماں مریم کے حق میں بیشک استعمال کی گئی ہے۔لہذا مسیحیوں پر فرض ہے کہ آدم کو صاحب الوہیت تسلیم کریں۔ لیکن نہ تومسیحی لوگ مریم کو صاحب الوہیت مانتے ہیں اورنہ ہی قرآن میں صرف یہ لکھا ہے کہ خدا نے مسیح میں اپنی روح پھونکی۔ بلکہ بخلاف اس کے مسلمان خود سیدنا مسیح کو ہی روح اللہ کہتے ہیں اسی طرح سے بائبل شریف میں بھی لکھاہے کہ خدا نے بعض آدمیوں کو اپنی روح عنایت کی لیکن اس سے ان کوالوہیت نہیں مل گئی اور نہ وہ روح اللہ بن گئے ۔ اگرہم کہیں کہ زید نے ایک فقیر کو پانچ روپے دئيے توکیا کوئی استدلال کرکے یہ کہہ سکتاہے کہ " وہ فقیر پانچ روپے ہے؟"

چھٹا باب

مسیح اکیلا شفاعت کنندہ

ہم دیکھ چکے ہیں کہ مسیح کے حق میں اسلام کیسی بڑی شہادت دیتاہے۔ لیکن انجیل شریف کی پوری تعلیم کے بغیر ہم اس کو ٹھیک طورسے سمجھ نہیں سکتے کیونکہ انجیل ہی میں خدا کے ازلی بیٹے کا جلال کامل طورسے ظاہر کیا گیا ہے۔ قرآن سیدنا عیسیٰ کو ایک اور بڑے لقب سے ملقب کرتاہے یعنی " ہر دوجہاں میں معزز" کہتاہے۔ چنانچہ سورہ عمران کی ۴۶ویں آیت میں مرقوم ہے"يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ یعنی اے مریم یقیناً خدا تجھے خوشخبری دیتاہے کلمہ کی جواس سے ہے اورجس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے وہ دنیا وآخرت میں وجیہہ ہے) ایسے بڑے بڑے القاب قرآن میں کسی اورنبی کونہیں دئیے گئے ۔ ان سے ایک ایسی خاص نسبت اور تعلق ظاہر ہوتاہے جوخدا کوکسی دوسرے سے نہیں بڑے بڑے مشہور اسلامی مفسرینِ قرآن نے اس حقیقت کو پہچانا ہے وہ مذکورہ بالا آیت سے معلوم کرتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح گنہگاروں کی شفاعت کرے گا۔ چنانچہ بیضاوی اس آیت کی تفسیر میں کہتاہے الوجا ھتہ فی الدنیا النبوتہ وفی الاخرتہ الشفاعتہ (دنیا میں نبوت اور آخرت میں شفاعت وجاہت ہے) ایک اور مفسر زمحشری الکشاف میں لکھتاہے " اس دنیامیں نبوت اورتمام لوگوں پر تقدم اورآخرت میں شفاعت وبہشت میں اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کا نام" وجاہت" ہے دیگر انبیاء پر مسیح کی فضیلت کی تعلیم بھی بائبل شریف میں دی گئي ہے چنانچہ عبرانیوں کے تسیرے باب کی تیسری آیت میں مرقوم ہے بلکہ وہ (مسیح) موسیٰ سے اس قدر زیادہ عزت کے لائق سمجھا گیا جس قدر گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتاہے۔۔۔۔۔ اورموسیٰ تواس کے سارے گھر میں خادم کی طرح دیانتدار رہا تاکہ آئندہ بیان ہونے والی باتوں کی گواہی دے لیکن مسیح بیٹے کی طرح اس کے گھر کا مختار ہے" بیضاوی اور زمحشری لکھتے ہیں کہ قرآن یہ تعلیم دیتاہے کہ آخرت میں مسیح گنہگاروں کا شفیع ہوگا۔ کیا کوئی مسمان تمام قرآن میں ایک آیت بھی بتاسکتا ہے کہ جس میں یہ صاف بات مرقوم ہو کہ قیامت کے روز حضرت محمد یاکوئی اورنبی شفاعت کرینگے اورسورہ بنی اسرائیل کی ۸۰ویں آیت کواس کی دلیل پیش کرتے ہیں اس میں مرقوم ہے " شائد تیرا خدا تجھے ایک اعلیٰ رتبہ پر سرفراز کرئے گا" اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ کچھ صاف مطلب نہیں نکل سکتا اوربہت سے معتبر مسلمان لکھتے ہیں کہ اس میں شفاعت کی طرف کچھ بھی اشارہ نہیں ہے۔ حنبلی اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد کو تختِ الہٰی سے قریب مقام کا وعدہ دیا گیا ہے ۔ لیکن قرآن خود تمام شکوک کو رفع کرتاہے کیونکہ قرآن میں صاف لکھاہے کہ حضرت محمد گنہگاروں کی شفاعت نہیں کرسکتے ۔ سورہ توبہ کی ۸۱ویں آیت میں مرقوم ہے اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّهُ لَهُمْ (تو اُن کیلئے مغفرت مانگ یا نہ مانگ اگر تو( اے محمد) اُن کیلئے ستر بار مغفرت مانگے توبھی اللہ اُن کو ہرگز معاف نہیں کرے گا )۔ پھر قرآن میں یہ بھی لکھاہے کہ جب عربوں نے لڑائي کےلئے حضرت محمد کے ساتھ جانے سے انکار کیا اور بعداس کے پاس آکر کہا کہ ہمارے لئے " مغفرت مانگ " تواس نے قرآن کے موافق یوں جواب دیاکہ" فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا (يعنی کون تمہارے لئے خدا سے کچھ حاصل کرسکتاہے؟ خواہ وہ تم کو دکھ میں ڈالے یا نفع پہنچانے پررضا مند ہو(سورہ فتح آیت ۱۱)۔مندرجہ بالا آیتوں میں سے پہلی میں ریاکاروں کا ذکر ہے اوردوسری میں مسلمان مخاطب ہیں۔ لہذا صاف ظاہر ہے کہ حضرت محمد نہ مومنوں کے شفیع ہوسکتے ہیں نہ کافروں کے بہت سے مسلمان اس بات کو مانتے ہیں کہ مثلاً فرقہ خارجیہ کے مسلمان حضرت محمد کی شفاعت سے صاف انکاری ہیں۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ حضرت محمد بڑے بڑے گناہوں والوں کی شفاعت نہیں کرسکیں گے (دیکھو ہدایت المسلمین ۲۰۹ وغیرہ) پس یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان حضرت محمد سے ہرگز شفاعت کی امید نہیں رکھ سکتے۔ بخلاف اس کے قرآن یہ تعلیم دیتاہے کہ سیدنا عیسیٰ شفات کرے گا اور یہ تعلیم انجیل شریف میں تشریحاً مندرج ہے اور صاف لکھاہے کہ سیدنا عیسیٰ گنہگاروں کا بڑا شفاعت کنندہ ہے۔

پھرقرآن سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ شفاعت کی ضرورت اب ہے قیامت کے روز تو" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں" کی سی مثال ہوگی چنانچہ سورہ مریم کی ۹۰ویں آیت میں مرقوم ہےلَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا یعنی اگر کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا سوائے اس کے جس نے خدا سے عہد لیا ہے)۔

علاوہ بریں سورہ نساء کی ۱۷ویں آیت میں مرقوم ہے کہ " ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جوبُرے کام کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب کسی ایسے کی موت آجاتی ہے توکہتاہے اب میں نے توبہ کی اورنہ ان کی جوکفر میں مرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔

سورہ زمر میں لکھاہے جس پر عذاب کا فتویٰ لگ چکا اورجوگ آگ میں پڑگیا کیا تو(اے محمد) اس کو چھڑالیگا؟"

قرآن کی یہ تعلیم ایسی ہے کہ ہرایک ذی فہم اورباہوش آدمی اس کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ بالکل صاف بات ہے کہ اگرکوئی شخص مرنے تک یعنی اپنی ساری عمرگناہ ہی کرتا رہا ہے یادوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خدا سے عہد نہ کرے توقیامت کے روز کوئی شفاعت اس کو گناہ کی واجبی سزا سے بچانہ سکیگی۔ پس انسان اس امر کا محتاج ہے کہ اسی زندگی میں اس کا کوئی زندہ شفاعت کنندہ ہو جس کی مدداورقدرت سے طاقت وفضل حاصل کرکے ابھی سے راستبازی اورنیکوکاری کی راہوں میں چلنے لگے پس ہم پوچھتے ہیں کہ وہ زندہ شفاعت کنندہ کون ہیں جس سے مدد پاکر ہم گناہ سے محفوظ رہیں اورخدا کی مرضی کے موافق زندگی بسر کریں؟ حضرت محمد تواپنی قبر میں پڑے ہیں اورروزِقیامت تک وہیں پڑے رہینگے حتیٰ کہ نرسنگا پھونکا جائے گا اورمرُدے اٹھائے جائیں گے لہذا اگرمان بھی لیا جائے کہ وہ اس وقت شفاعت کرسکیں گے توکیا حاصل کیونکہ شفاعت کا تو موقع ہی نہیں رہے گا۔ قرآن اورانجیل کی شہادت عیسیٰ کے حق میں کیسی مختلف ہے" وہ عالم آحرت میں معزز ہے" قرآن اس کے حق میں یوں کہتاہے " بل رفعہ اللہ الیہ" (خدا نے اُسے اپنے پاس اوپر اٹھالیا) تمام مسلمان یہ مانتے ہیں کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے اس آیت سے یہ بھی صاف ظاہرہے کہ سیدنا مسیح حضرت محمد سے بہت ہی بڑھ کر اور بزرگ وبرتر ہے کیونکہ آسمان پر زندہ ہے۔

بڑے بڑے مفسرین قرآن نے اس حقیقت پر شہادت دی کہ سیدنا مسیح آسمان پر زندہ اوراپنے لوگوں کے لئے شفاعت کرتاہے۔ چنانچہ سورہ یسین میں حبیب نجار کی حکایت پائی جاتی ہے ۔بیضاوی اس کے بارہ میں لکھتاہے کہ"پطرس نے ایک سات دن کے مُردہ لڑکے کو زندہ کیا جب اس سے پوچھا گیاکہ تو نے آسمان پر کیا دیکھا تولڑے نے جواب دیا کہ میں نے عیسیٰ مسیح کوآسمان پر اپنے تین شاگردوں کے لئے (یعنی پطرس اوراس ساتھی جوقید میں تھے) سفارش کرتے دیکھاہے"۔

اس اہم مضمون پر انجیل شریف کی تعلیم بہت ہی صاف ہے اوراس امر میں ذرا بھی شک نہیں چھوڑتی کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے اوران سب کی جواس پر بھروسہ رکھتے ہیں سفارش کرتاہے چنانچہ لکھاہے عیسیٰ جوخدا کی دہنی طرف ہے اورہماری شفاعت بھی کرتاہے " (رومیوں ۸: ۳۴) اورکہ وہ (عیسیٰ) ان کی شفاعت کے لئے ہمیشہ جیتا رہیگا" (عبرانیوں(۷: ۲۴)۔ پس اس سےہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ گنہگاروں کی امید کا لنگر صرف مسیح ہی ہے یعنی وہی زندہ شفاعت کنندہ ہے جوہم کو ہماری اس بیکسی اورلاچاری کی حالت میں مدد دے سکتاہے۔ اے عزیز برادران اہل اسلام آپ کیوں ایک مُردہ شخص پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں اورکیوں بے فائدہ یہ خیال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن وہ شفاعت کرے گا؟ اس سے پیشتر آپ کا انجام مقرر ہوچکیگا اوراس وقت کوئی شفاعت کچھ کام نہ آئے گی ہمیں تو شفاعت کی اب ضرورت ہے۔ اورجب بائبل وقرآن دونوں سے صرف سیدنا عیسیٰ مسیح ہی شفاعت کرنے والا ثابت ہوتاہے توکیا یہ دانائی کی بات نہیں ہوگی کہ ہم بھی اسی پر بھروسہ کریں؟

شفاعت کے متعلق ایک اور قابلِ ذکربات یہ باقی ہے کہ شفاعت کنندہ بے گناہ ہونا چاہیے کیونکہ کوئی گنہگار کسی دوسرے گنہگار کی شفاعت نہیں کرسکتا ہم یہ ثابت کرینگے کہ ازورئے بائبل وقرآن سیدنا عیسیٰ مسیح کامل طور سے بے گناہ تھا لہذا وہ شفاعت کرسکتا ہے۔ چنانچہ انجیل شریف میں مرقوم ہے " اگرکوئی گناہ کرے توباپ کے پاس ہمارا وکیل موجود ہے"یعنی عیسیٰ مسیح راستباز(۱۔یوحنا ۲: ۱)۔ اس آیت میں وہ دوبڑی باتیں جن پر سچی شفاعت کا دارومدار ہونا چاہیے نہایت صاف طور سے دکھائی گئی ہیں یعنی(۱۔) مسیح ہمارا زندہ وکیل ہے اور (۲۔) وہ بالکل بے گناہ ہے بخلاف اس کے ازروئے قرآن واحادیث حضرت محمد اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب ہم صاف دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ کا" دنیا ء آخرت میں صاحبِ عزت ہونا کیسا اظہر من الشمس ہے کیا یہ بات بالکل صاف نہیں کہ عیسیٰ اس لحاظ سے بھی تمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرتر نظر آتاہے ؟ کیونکہ وہ زندہ اوربے گناہ شفاعت کنندہ ہے اورجواس پر بھروسہ کرتے ہیں اب ان کیلئے آسمان پر بیٹھا شفاعت کرتاہے۔

ساتواں باب

اسلام کا بے گناہ نبی

جیسا ہم پہلے بھی اشارتاً ذکر آئے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ مسیح کو اسلام نے النبی معصوم کی حیثیت میں نوح، ابراہیم، موسیٰ ،داؤد اورتمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرتر پیش کیاہے۔ اسلام نے ابن مریم کو جوجومعز القاب دئیے ہیں اُن کا خلاصہ اس کی شان کے بیان میں اس کے " معصوم نبی" ہونے میں ملتاہے۔قرآن میں لکھاہے جبرائیل فرشتہ نے آکر مریم سے یوں کہا إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّامیں تیرے خدا کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ بیٹا دینے آیا ہوں) دیکھو سورہ مریم ۲۰ویں آیت۔پھر سورہ عمران کی ۳۶ویں آیت میں مرقوم ہے وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اوراس کی اولاد کو خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ کہ وہ شیطان رجیم سے محفوظ ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقتبسات کے مطابق عیسیٰ مسیح کتب اسلام میں ہرجگہ بالکل بے گناہ بتایا گیاہے۔ قرآن واحادیث میں کہیں بھی اس کا کوئی گناہ مذکورنہیں ہے۔ حالانکہ بخلاف اس کے بائبل اورقرآن دونوں میں دیگر انبیاء کے گناہوں پر بکثرت اشارات پائے جاتے ہیں اورقرآن میں خود حضرت محمد کو بار بار اپنے گناہوں کی مغفرت مانگنے کا حکم ملتاہے۔

چنانچہ ذیل میں ہم مثال کے طورپر قرآن سے چند آیتیں نقل کرتے ہیں سورہ اعراف کی ۲۳ویں آیت اور ۲۴ویں آیت میں آدم کے گناہ اوراس کی معافی مانگنے کا ذکریوں مندرج ہے " قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ پس شیطان نے فریب دے کر اُن کو گرادیا۔۔اور انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اگر تو ہم کو معاف نہ کرے اورہم پر رحم نہ فرمادے تو البتہ ہم حاضرین میں سے ہوجائینگے) اسی طرح سے سورہ انبیاء میں ابراہیم کا گناہ مذکور ہے لکھاہے کہ ابراہیم نے بُت پرستوں کے بہت سے بت توڑڈالے لیکن سب سے بڑے کو ثابت رہنے دیا۔ بعد میں جب بُت پرستوں نے ابراہیم کو اس فعل کا مرتکب قرار دیا تواس نے صاف انکار کیا اورکہاکہ سب سے بڑے بت نے چھوٹوں کو توڑڈالا دیگر مقامات میں اس کی مغفرت کی دعائیں درج ہیں۔ موسیٰ بھی قرآن میں گنہگار کی حیثیت میں پیش کیا گیا چنانچہ سورہ قصص میں مرقوم ہے کہ ایک مصری کو مارڈالنے کے بعدموسیٰ نے یوں دعا کی" رب انی ظلمت نفسی فاغفر لی فاغفر لہً (اے میرے رب تحقیق میں نے اپنی جان پر ظلم کیا مجھے معاف کردے پس اس نے اُسے معاف کردیا) داؤد نے گناہ کیا اور اپنے گناہ کی معافی چاہی۔ چنانچہ سورہ ص کی ۲۳اور ۲۴ویں آیت میں مرقوم ہے وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ فَغَفَرْنَا لَهُ اور داؤد نے معلوم کیاکہ ہم نے اسکو آزمایا اوراس نے اپنے رب سے مغفرت مانگی اور گرکر سجدہ کیا اور توبہ کی پس ہم نے اسکو معاف کردیا۔

حضرت محمد کو بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کےلئے قرآن میں بار بار حکم آیاہے۔ چنانچہ سورہ محمد کی ۲۱ویں آیت میں یوں مرقوم ہے وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ اے محمد اپنے گناہوں کے لئے مغفرت مانگ اور مومن مردوزن کے لئے بھی دعائے مغفرت کر پھرسورہ فتح کی پہلی اور دوسری آیات میں یوں لکھاہے لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ (تاکہ خدا تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے) پھرسورہ احزاب کی ۳۷ویں آیت میں حضرت محمد وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ (اوراے محمد تواپنے دل میں چھپاتا تھا وہ بات جس کو خدا ظاہر کرنا چاہتا تھا اور تولوگوں سے ڈرتا تھا۔ حالانکہ تجھے خدا سے زیادہ ڈرنا چاہیے تھا)۔

ہم دکھاچکے ہیں کہ ازروئے قرآن آدم، موسیٰ، داؤد اور حضرت محمد سب کے سب گنہگار تھے اور مزید تحقیقات سے معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے منصب، رسالت پر مامور ہونے کے بعد گناہ کئے لیکن یہ ایک حیرت افزا حقیقت ہے کہ بائبل یا قرآن میں کہیں بھی عیسیٰ " کلمتہ اللہ" کا کوئی گناہ مذکورہ نہیں اس لحاظ سے بھی تمام انبیاء پر عیسیٰ کی فضیلت صاف نظر آتی ہے احادیث کی شہادت بھی ایسی ہی ہے۔ کیونکہ اگرچہ ان میں بار بار مذکور ہے کہ حضرت محمد اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتا تھا توبھی بے گناہ عیسیٰ کے حق میں کہیں ایسے ۔۔۔۔الفاظ نہیں پائے جاتے بلکہ بخلاف اس کے مشکوات اوردیگر کتب احادیث میں جوحدیثیں اس کی پیدائش کے متعلق ہیں ان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ پیدائش ہی سے معصوم اوربے گناہ رکھا گیا۔ مسیح کی بے عیب پیدائش کے بارہ میں مسلم کی ایک حدیث میں یوں لکھاہے کہ" سوائے مریم اوراس کے بیٹے کے ہرایک ابن آدم کو پیدائش کے وقت شیطان چھولیتاہے " امام غزالی سے ایک حدیث یوں مروی ہے کہ جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام تولد ہوا توشیطان کے تمام کارگزاروں نے آکر شیطان سے کہا کہ صبح کے وقت تمام بت سرنگوں تھے۔شیطان اس کا سبب بالکل نہ سمجھ سکا جب تک کہ اس نے دنیا میں پھر کر یہ معلوم نہ کرلیا کہ ابھی عیسیٰ پیدا ہواہے اورفرشتگان اس کے گرد اس کی پیدائش پر خوشیاں منارہے ہیں پس اس نے واپس آکر اپنے شیاطین کوبتایا کہ کل ایک نبی پیدا ہوا تھا۔ اس سے پیشتر ہرایک انسان پر میں حاضرہوتا تھا لیکن اس کی پیدائش کے موقعہ میں حاضر نہ تھا"۔

مسیح کی بیگناہی پر قرآن اوراحادیث کی شہادت انجیل شریف سے بالکل مطابقت رکھتی ہے کیونکہ انجیل اس سے بھی صاف الفاظ میں" مسیح کو معصوم اور بے گناہ کرتی ہے چنانچہ مرقوم ہے" اس میں گناہ نہ تھا"(۱یوحنا ۳: ۵)۔ اس نے بالکل کوئی گناہ نہ کیا"(پطرس)۔ مسیح نے خود اپنے چلن کی پاکیزگی پر زوردے کر اپنے دشمنوں سے کہا کہ" تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کرتاہے؟"(یوحنا ۸: ۴۶)۔

اس مضمون کی مزید تحقیقات کی اشد ضرورت پر ہم بہت کچھ کہہ چکے ہیں اور ناظرین سے التماس ہے کہ آپ ایک ایسے نتیجہ پر پہنچنے کی حتی المقدر پوری کوشش کریں جس سے اس زندگی میں آپ کو دلی اطمینان اورآئندہ زندی کے بارہ میں کامل امید حاصل ہو۔ اگرآپ مسلمان ہیں تو ضرور آپ شفاعت کنندہ کی ضرورت کو سمجھتے ہیں اورغالباً آپ خیال کرتے ہیں کہ حضرت محمد آپ کی شفات کرکے آپ کے گناہوں کو گناہوں کی سزا سے بچالیں گے لیکن عزیز من کیا گنہگار دوسرے گنہگار کی شفاعت کرسکتاہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا پس اس حالت میں کیا اس پر بھروسہ کرنا عقلمندی نہیں ہے جس کو بائبل اور قرآن واحادیث کامل طورپربے گناہ قراردیتے ہیں ؟ پھر ہم یہ بھی معلوم کرچکے ہیں کہ شفاعت کی ابھی ضرورت ہے عیسیٰ چونکہ آسمان پر زندہ ہے اس لئے وہ شفاعت کرسکتاہے۔ اورچونکہ وہ بیگناہ ہے اس لئے وہ شفاعت کرنے کا اختیار رکھتاہے۔

آٹھواں باب

مسیح معجزکار

ختم کرنے سے پہلے ایک امرتوجہ طلب معلوم ہوتاہے یہ امروہ اعلیٰ رتبہ ہے جو قرآن نے بلحاظ معجزاتِ عیسیٰ کودیاہے قرآن کے کئی مقامات پر عیسیٰ کے معجزات مذکور ہیں۔ چنانچہ سورہ مائدہ کی ۱۰۹ ویں اور۱۱۰ویں آیت میں مرقوم ہے ِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي(جب کہا اللہ نے اے عیسیٰ مریم کے بیٹے یادکرمیرا احسان اپنے اوپر اوراپنی ماں پر جب مدد دی میں نے روح پاک سے توکلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اورادھیڑ عمر میں اورسکھائی میں نے تجھ کو کتاب اورپختہ باتیں اورتورات اورانجیل اورجب تومٹی سے جانور کی صورت بناتا تھا میرے حکم سے اورپھر اس میں دم پھونکتا تھا پس وہ میرے حکم سے جانور ہوجاتا تھا اور مادہ زاد اندھے کوچنگا کرتا تھا اورکوڑھی کومیرے حکم سے (شفا دیتا تھا) اورجب مُردے کومیرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا ۔(1)

قرآن کی مندرجہ بالاآیات میں عیسیٰ مسیح کے معجزات کا بیان از بس حیرت افزاہے۔کیونکہ ان میں نہ صرف یہی لکھاہے کہ وہ طرح طرح کی بیماریوں کو دورکرتا اورمردوں کو زندہ کرتا تھا۔ بلکہ یہ بھی صاف لکھاہے کہ اس نےایک پرندہ خلق کیا ابابیل اورقرآن میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ کسی اورنبی نے خلق کرنے کے کام میں حصہ لیا۔ اگرچہ دونوں کتابوں میں بہت سے نبیوں کے طرح طرح کے معجزات بیان کئے گئے ہیں عیسیٰ کے اس معجز ہ کے بیان میں قرآن لفظ" خلق " استعمال کرتاہے جوکہ خدا کے دنیا کو پیدا کرنے کے بیان میں استعمال کیا گیا ہے کہ قرآن کے ہرایک صاحب فہم پڑھنے والے کو یہ پڑھ کرحیرت ہونی چاہیے کیونکہ اس بیان سے تمام انبیاء پر عیسیٰ کی لاانتہا فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

شائد کوئی یہ کہے کہ قرآن کی مندرجہ بالا آیات میں صرف یہ لکھاہے کہ عیسیٰ نے خدا کے حکم سے ایک پرندہ خلق کیا پس خلق کرنے کی طاقت مسیح کی اپنی طاقت نہ تھی۔ بالفرض اگرہم اس بات کو یونہی مان بھی لیں توتوبھی یہ بات بالکل سچ ہے کہ کسی اورنبی کے حق میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے گئے عیسیٰ کی بزرگی وبرتری اورسب انبیاء پر فضیلت بدستور قائم رہتی ہے علاوہ بریں ایک طرح سے قرآن کی یہ شہادت انجیل سے مطابقت رکھتی ہے۔ انجیل میں مرقوم ہے کہ عیسیٰ سب کچھ خدا کی مرضی کے موافق کرتاہے چنانچہ عیسیٰ نے خود کہا " میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا" اسی طرح یہ باتیں کہتاہوں"(یوحنا ۸: ۲۸) ساتھ ہی انجیل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عیسیٰ اپنے آپ میں معجزات کی طاقت رکھتا تھا۔ لہذا وہ تمام دیگر انبیاء سے نرالا اوراعلیٰ وبالا ہے وہ فرماتاہے " میں اپنی جان دیتاہوں تاکہ اسے پھر لے لوں۔ کوئی اسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اسے آپ دیتاہوں مجھے اس کے دینے کا بھی اختیار ہے اوراس کے پھر لینے کا بھی اختیار ہے" (یوحنا ۱۰: ۱۷تا ۱۸)۔

انجیل شریف میں عیسیٰ کے اوربھی بہت سے معجزے مندرج ہیں مثلاًبیماروں کو چنگا کرنا۔پانی پر چلنا اور مُردوں کو زندہ کرنا وغیرہ اور ان سے ان کے عمل میں لانے کا مقصد بھی معلوم ہوتاہے ۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰ خود فرماتے ہیں کہ اس کے معجزات کا ایک خاص مقصد یہ تھاکہ وہ اس کے منجانب اللہ ہونے پر مہر ہوں۔ ایک موقعہ پر وہ اپنے معجزات کی طرف اشارہ کرکے لوگوں سے کہتاہےکہ" جوکام باپ نے مجھے پورے کرنے کودئیے یعنی یہ کام جومیں کرتاہوں وہ میرے گواہ ہیں"۔ (یوحنا ۵: ۳۶)۔ حضرت محمد نے بھی اسی بھاری حقیقت کی تعلیم دی۔ چنانچہ علم کی ایک حدیث میں جس کا راوی ابوہریرہ ہے لکھاہے کہ حضرت محمد نے کہا " مامن الا بنیاوالااعطی من الایات مامثلہ امن علیہ" ہرایک نبی کو معجزے دئیے گئے ہیں تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں) اسلامی فقہ کی کتابوں میں بھی یہی سچائی سکھائی جاتی ہے چنانچہ امام غزالی صاف کہتاہے۔ کہ نبی کی رسالت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ معجزے دکھاسکتاہو۔ یعرف صدق النبی بالمجزہ"۔


(1) قبر سے نکال کھڑا کرتا تھا۔

عقل اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ نئے عہدنامہ کے لئے جو نیا الہام یانئی شریعت لے کر آتاہے کہ ایسے شواہد کی ضرورت ہے اوراگر عیسیٰ مسیح ایسے نشان اورثبوت نہ دکھاتا تولوگ طبعاً اس کی رسالت پر شک لاتے ۔ اسی طرح سے جب موسیٰ کو تورات ملی تو اس نے بھی بہت سے معجزے دکھائے تاکہ اس کی رسالت پر بین دلیل ہوں ان میں سے بعض قرآن میں مندرج ہیں۔ بیشک بعض نبیوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا مثلاًیوحنا بپتمسہ دینے والا لیکن اس کا سبب صاف یہ ہے کہ یوحنا بپتمسہ دینے والا موسیٰ اورمسیح کی طرح کوئی نئی شریعت نہیں لایا۔ وہ صرف مسیح کا پیشرو اورراہ درست کرنے والا تھا۔ چنانچہ جب یہودیوں نے یوحنا سے پوچھا توکون ہے تواس کا جواب انجیل میں یوں مرقوم ہے" میں تو مسیح نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو۔۔۔۔تمہارے درمیان ایک ایسا شخص کھڑا ہے۔ جسے تم نہیں جانتے یعنی میرے بعد کا آنے والا جس کی جوتی کا تسمہ بھی میں کھولنے کےلائق نہیں ہوں۔۔۔۔۔ دیکھو خدا کا برہ جو جہان کا گناہ اٹھالے جاتاہے " (یوحنا ۱: ۲۰۔ ۳۰)۔ یوحنا کوئی نئی شریعت نہیں لایا تھا۔ لہذا کو اس معجزات کی شہادت کی ضرورت نہ تھی۔لیکن مسیح نے آکر انجیل سنائی اوربہت سے حیرت خيز معجزے دکھائے تاکہ لوگ اس پرایمان لائیں" انہی کاموں کی خاطر" ۔

اس امر پر سوچنے سے ایک اور قابل غوربات پیش آتی ہے کہ اگرحضرت محمد خدا کی طرف سے نئی شریعت اورنئے الہام کےساتھ آئے اورجس سے بعض مسلمانوں کے خیال کے مطابق سابقہ الہام اور شریعت کی تنسیخ ہوگئی تو از حد ضروری تھا کہ معجزے دکھاتے تاکہ ان کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ملتا۔ بیشک احادیث میں تو بہت سے معجزے مندرج ہیں لیکن یہ حدیثیں حضرت محمد کی موت سے بہت عرصہ بعد کی لکھی ہوئی ہیں اور باہم متضاد اور غیر معتبر ہیں۔ حضرت محمد نے یوں کہا تھا کہ جب کبھی تم میرے حق میں کچھ نہ سنو۔ تواس کتاب کو دیکھو جومیں تمہارے ساتھ چھوڑےجاتاہوں۔ اگرجو کچھ تم نے میرے کرنے یاکہنے کی نسبت سناہے۔ اس میں مذکور ہوا اور اس کے مطابق ہوتوسچ ورنہ وہ بات جو میرے کرنے یاکہنے کی نسبت بیان کی گئی ہے۔ جھوٹ ہے میں اس سے بری ہوں نہ میں نے کبھی اسے کہا اورنہ کیا۔اب مناسب ہے کہ حضرت محمد کے اس فرمان کے مطابق قرآن دیکھیں کہ آیا وہ حضرت محمد کے معجزات پر شہادت دیتاہے یا نہیں۔ قرآن کی شہادت بالکل صاف اوراس سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت محمد نے ہمیشہ معجزہ دکھانے سے انکار اوراپنے عجز کا اقرار کیا۔قرآن میں اس عجز وانکار کے ثبوت میں بہت سی آیات مندرج ہیں لیکن ہم صرف دوتین سے اس امر کی تشریح کرینگے کہ اس سے نہ صرف یہی بات پورے طور سے ثابت ہوگی کہ معجزات کے لحاظ سے حضرت محمد مسیح سے ازحد کمتر ہیں بلکہ ان کا مرسل من اللہ ہونے اورنیا الہام وآخری شریعت لانے کا دعویٰ بھی ازبس مشکوک ٹھہرے گی۔ قرآن سے تھوڑی سی واقفیت یہ بتادے گی کہ عربوں نے باربار حضرت محمدسے اُن کی نبوت کے ثبوت میں معجزہ طلب کیا لیکن آپ کا جواب ہمیشہ یہی تھاکہ میں محض ایک واعظ ہوں اورتمہاری خواہش کے موافق معجزہ دکھانے کی قدرت نہیں رکھتا چنانچہ سورہ رعد کی آٹھویں آیت میں مرقوم ہے" وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلآ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ (کافر کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی نشان اس کے پاس کیوں نہیں بھیجا گیا؟ تو تو محض ایک واعظ ہے۔ پھر سورہ عنکبو ت کی ۵۰ ویں آیت میں یوں لکھاہے وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ (انہوں نے کہا اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان اس کے پاس کیوں نہیں بھیجا گیا ؟ توکہہ نشان صرف اللہ کے پاس ہیں اور میں محض ایک صاف گوواعظ ہوں)۔ پھر سورہ بنی اسرائیل میں اوربھی صاف صاف بتلایا گیاہے کہ حضرت محمد نے معجزات کیوں نہ دکھائے ۔ چنانچہ ۶۱ویں آیت میں مرقوم ہے وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآيَاتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الأَوَّلُونَ (کسی چیز نے ہم کو اس سے نہیں روکا کہ تجھ کو نشانوں کے ساتھ بھیجتے سوائے اس کے کہ پہلی قوموں نے ان کو جھٹلایا)۔

ان آیات سے بالکل اظہر من الشمس ہے کہ حضرت محمد نے معجزہ دکھانے سے صاف انکار کیا اور اپنے عجز کا اقرار کیا۔ آپ نے ہمیشہ یہ فرمایاکہ قرآن ہی ایک کافی معجزہ ہے چنانچہ سورہ عنکبوت کی ۵۰ویں آیت میں مرقوم ہے کہأَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ (کیا ان کو یہ کفایت نہیں کہ کرتا کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی ہے؟)قرآن کے بڑے بڑے مفسرین مثلاً امام رازي اور بیضاوی وغیرہ صاف مانتے ہیں کہ قرآن سے حضرت محمد کے معجزات کی نفی ثابت ہوتی ہے چنانچہ سورہ بنی اسرائيل کی مذکورہ بالا آيت کی تفسیر میں بیضاوی یوں لکھتاہے" مطلب یہ ہے کہ قریش کی درخواست کے موافق ہم نے اس لئے تجھ کو معجزات کے ساتھ نہیں بھیجا کہ پہلی اقوام یعنی عادثمود نے اُن کوجھٹلایا ویسے ہی اہل مکہ بھی جھٹلائیں گے اورہماری سنت کے مطابق برباد کئے جائیں گے پس جب ہم نے دیکھاکہ ان میں بعض ایمان والے یاایمان کا بیج رکھنے والے ہیں توہم نے ان کو ہلاک کرنہ نہ چاہا" کیا بیضاوی حضرت محمد کے بغیر معجزات آنے کا صاف طور سے ازروئے قرآن یہ سبب نہیں بتاتا کہ خدا جانتا تھاکہ اگر معجزات بھیجے بھی تواہل مکہ ان کو جھٹلائیں گے اورنتیجہ " ہلاک ہونگے لہذا اس نے رحم فرما کر حضرت محمد کو معجزات سے خالی بھیجا؟ حسین بھی اپنی مشہور تفسیر میں یہ بات لکھتاہے کہ" خدا کہتا ہے کہ پہلے زمانے کے لوگوں نے معجزات طلب کئے ۔اگر حضرت محمد صاحبِ معجزات کے ساتھ آتے تواہل مکہ بھی عادوثمود کی طرح معجزات کو جھٹلاتے اورہلاک ہوجاتے۔پتھر سے اونٹنی نکالی اوردیگر اقوام کے لئے بھی طرح طرح کے معجزے کئے گئے۔ لیکن اُنہوں نے اُن کو جھٹلایا اورنتیجہً ہلاک ہوگئے۔ اب اگر ان لوگوں کو بھی جیساکہ طلب کرتے ہیں معجزے دکھاؤں توہرگز مطمئن نہ ہوں گے اور ایمان نہیں لائیں گے اورسزا کے طورپر ان کوبھی ہلاک کروں گا۔ لیکن میں نے یہ ارادہ کررکھاہے کہ ان کوہلاک نہیں کروں گا کیونکہ ان کی اولاد سے بہت سے نیک اور راستباز لوگ پیدا ہونگے "۔ امام رازی کہتاہے کہ خدا نے اپنے انبیاء کو ایسے معجزات کے ساتھ بھیجا جو وقت اورحالت کے لحاظ سے ان لوگوں کے لئے مناسب تھے جن کے پاس نبی بھیجے گئے۔ مثلاً حضرت موسیٰ کے ایام میں جادوگری کا بہت زور تھا لہذا اس کو اسی قسم کے مناسب حال معجزے دئے گئے حضرت عیسیٰ کے وقت میں سائنس اور ادویات میں لوگ بہت ترقی کررہے تھے لہذا حضرت عیسیٰ بیماروں کو شفا بخشنے اور مُردوں کو زندہ کرنے کے لئے بھیجے گئے ۔ اسی طرح چونکہ حضرت محمد کے ایام میں انشا پردازی کو بڑا زور تھا اُن کو فصاحت قرآن بطور معجزہ عطاکی گئی ۔ امام صاحب کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بھی نہایت صفائی سے مانتاہے کہ حضرت محمد نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔ قرآن ہی کافی معجزہ تھا۔

اس موقعہ پر ایک نئے مفسر کے خیالات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ہندوستان کے مسلمان اکثر ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں اورسلطان روم سے وہ کئی خطاب بھی حاصل کرچکے ہیں یہ حال کے مفسر لورپول قولیم صاحب ہیں۔

اب ہم دیکھیں کہ مسٹرقولیم حضرت محمد کی معجزہ دکھانے کی قدرت پر کیاکہتے ہیں ہم لورپول ہی کے الفاظ کودیکھیں گے وہ اپنی کتاب" فیتھ آواسلام" کے بیالیسویں صحفہ پر لکھتے ہیں " حضرت محمد کے دشمنوں نے اس کے جواب میں ان کی نبوت کے ثبوت میں معجزہ طلب کیا۔ لیکن اُنہوں نے معجزہ دکھانے سے انکار کیا اورکہا کہ میں سچائی پھیلانے کےلئے آیاہوں نہ کہ معجزے دکھانے کے لئے ۔۔۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ حضرت محمد ۔۔۔۔ نے اپنے منجانب اللہ یا اپنی تعلیم کو منوانے اورانبیاء اللہ میں سے ہونے کے ثبوت میں کبھی کوئی معجزہ دکھایا بلکہ بخلاف اس کے عقل وفصاحت پر کامل بھروسہ کیا"۔

پس جب قرآن کی تعلیم اوراس پر بڑے بڑے مسلمان مفسرین کی شہادت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت محمد نے کوئی معجزہ نہیں کیا توہرایک ذی ہوش اورذی فہم آدمی معجزات مندرجہ احادیث کو رد کرے گا کیونکہ وہ محض مصنوعی حکایات اورخلاف واقعہ ٹھہرتے ہیں اس صورت میں صرف قرآن باقی رہتاہے۔

کئی طرح سے یہ امر روشن ہے کہ قرآن معجزہ تصور نہیں ہوسکتا جب قرآن ہمارے پاس موجود ہے تواس کے معجزہ نہ ہونے کودلائل سے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ قرآن میں لکھا ہے کہ عربوں نے بار بار حضرت محمد سے معجزہ طلب کیا۔ کیا اسی سے یہ بات صاف ثابت نہیں ہوتی کہ ان کی نظر میں قرآن معجزہ نہ تھا؟ فی الحقیقت قرآن کی عبارت اورعرب کے شعرا اوردیگر مصنفین کی تصانیف میں بہت ہی کم فرق تھا۔ مثلاً امراء القیس ،متنبیٰ اورحریری وغیرہ کی تصانیف ایسی ہیں بہت سے مسلمان خیال کرتے ہیں کہ طرز بیان اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے قرآن کے ہم پایہ تصانیف ہوسکتی ہیں اور قرآن کی فصاحت بمنزلہ معجزہ نہیں مانی جاسکتی۔ چنانچہ فرقہ معتزلہ کے مسلمان کہتے ہیں " ان الناس قادرون علی مثل ھذا لقرآن فصاحتہ ونظماً بلاغتہ (فصاحت وبلاغت اورنظم کے لحاظ سے قرآن کی ہمپایہ کتاب تصنیف کرنے پر انسان قادر ہے) پھرشہرستانی اپنی کتاب دربار ہ مجدد میں لکھتاہے" البطالتہ اعجاز القرآن من جہت الفاصحتہ والابلاغتہ (وہ فصاحت وبلاغت کی بنا پر قرآن کو معجزہ قرار دینے کے خیال کو باطل سمجھتا تھا)۔

کتاب المواقف میں مرقوم ہے کہ حضرت محمد کے بعض اصحاب کو قرآن کی بعض آیات کے حصہ قرآن ہونے پر شک تھامثلاً ابن مسعود کہتا تھاکہ " سورہ فاتحہ قرآن میں نہیں ہے لیکن اگر قرآن کی فصاحت وبلاغت اس درجہ کی ہوتی کہ اس کا مقابلہ نہ ہوسکتا اور معجزہ قرار دی جاسکتی تواس کے بارہ میں اس طرح کے مختلف خیالات نہ پائے جاتے ۔ قرآن کے بعض حصوں کے بارہ میں اس قسم کے مختلف خیالات کا پایا جانا ہی اس حقیقت کا کافی ثبوت ہے کہ حضرت محمد کے زمانہ میں قرآن کی ہمپایہ تصانیف عربی زبان میں موجود تھیں۔

قرآن کو جمع کرنے کے وقت جن مشکلات کا سامنا ہواان سے بھی نہایت صاف طور سے مذکورہ بالا نتیجہ حاصل ہوتاہے کتاب المواقف میں لکھا ہے کہ جب قرآن کی آیات جمع کی جارہی تھیں اگرجمع کرنے والوں کے پاس کوئی ایسی آیت لانا جس سے وہ واقف نہ تھے تو بڑی تحقیقات کے بعد ( کہ کب اورکیسے موقعہ پر نازل ہوئی )۔ قرآن میں دخل کی جاتی تھی۔ پس اس سے بھی ہرایک صاحب ہوش بخوشی سمجھ سکتا ہے کہ اگر آیات قرآن کی فصاحت وبلاغت معجزہ ہوتی تواس قسم کی رب تحقیقات بالکل فضول اوربے فائدہ تھی۔ قرآن کی ہرایک آیت اپنی فصاحت وبلاغت کی خوبی سے فوراً پہچانی جاتی ہے۔

بالفرض اگرتسلیم بھی کرلیا جائے کہ عربی زبان میں قرآن فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے لاثانی کتاب ہے تواس سے بھی قرآن معجزہ نہیں ٹھہرتا یہ محض خیالی پلاؤ ہےاور بس کیونکہ نازک خیالی اور فصاحت کا بسا اوقات معمولی خاکسار اور عاجز لوگوں میں بھی جلوہ دیکھاگیا ہے۔ معجزہ اورہی شے ہے۔ معجزہ ہماری محدود عقل اورہمارے محدود حواس کے لئے معمولی قانونِ قدرت سے اعلیٰ وبالا ہے لیکن کوئی کتاب خواہ وہ کیسی ہی فصاحت وبلاغت سے پُر ہومعجزہ نہیں مانی جاسکتی ہندوستان میں کالی داس اپنے طرز کا لاثانی مصنف ہے کیا ہمارے مسلمان بھائی کالید اس کافر کی تصانیف کو الہامی مانیں گے۔

یہ واقعی بڑے تعجب کی بات ہے کہ جس نے آخر النبین ہونے کا دعویٰ کیا اور جس کی شریعت نے تمام پہلے شرائع کو منسوخ کردیا وہ کوئی معجزہ نہ دکھاسکا ۔ بلکہ اس نے اپنے عجز کا صاف اقرار کیا اس سے نہایت صفائی اورصراحت کے ساتھ اس کتاب کا یہ دعویٰ ثابت ہوتاہے کہ خود قرآن کی شہادت سے عیسیٰ مسیح تمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرتر ہے منصف مزاج پڑھنے والے کوچاہیے کہ نہایت دانائی اورسرگرمی سے ان حقیقتوں کا باہم موازانہ کرے اوراپنے آپ کو اس کے سپرد وتابع کرے جس کا نام سب ناموں سے بلند ہے۔

عیسیٰ مسیح ابن مریم کی فضیلت اور بزرگی وبرتری کے ثبوت میں اوربہت کچھ لکھا جاسکتاہے لیکن اب ہم صرف ایک ہی اقتباس پر قناعت کرتے ہیں۔

حضرت محمد کی احادیث میں جومسلمانوں ہی نے جمع کی ہیں عیسیٰ مسیح کے حق میں یوں مرقوم ہے" لیکوشکن ان ینزل فیکمہ ابن مریمہ علیہ الصلواتہ والسلام حکماً مقسطاً(بیشک ابن مریم علیہ الصلواتہ والسلام راستکار مصنف کی حیثیت میں تمہارے درمیان نازل ہوگا) ہم نے بائبل اور قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے اور حضرت محمد کو بہت سی احادیث کو بھی پڑھا ہے لیکن سیدنا عیسیٰ کے سوا کسی اور کے حق میں ایسے الفاظ کہیں نہیں دیکھے حضرت محمد کے ان الفاظ کی انجیل شریف سے بہت اچھی طرح سے تائید وتصدیق ہوتی ہے چنانچہ لکھاہے" جب ابن آدم (عیسیٰ) اپنے جلال میں آئے گا اورسب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے۔ تو اس وقت وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اورسب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اوروہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیساگلہ بان بھتیروں کو بکریوں سے جدا کرتاہے اور بھيڑوں کو اپنے دہنے اوربکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا "(متی ۲۵: ۳۱۔ ۳۳)۔

جس شخص کو انجیل شریف اور حضرت محمد دونوں تمام بنی آدم کا منصف قرار دیتے ہیں اس میں پناہ گزیں ہونا ہمارے لئے یقیناً بڑی دانائی کی بات ہوگی۔

اب ہم بخوبی ثابت کرچکےہیں کہ بائبل کی طرح قرآن بھی عیسیٰ مسیح کو تمام دیگر انبیاء سے بزرگ وبرتر قرار دیتاہے اوراس کو ایسے القاب سے ملقب کرتا ہے جن کا کوئی دوسرا شخص دعویدار نہیں ہے۔ مسیح کے خاندان یعنی بنی اسرائیل سے تمام اقوام کے لئے برکت کا وعدہ ہے۔ مسیح کی ماں ہی ایک ایسی خاتون تھی جس کو خدا نے تمام خاتونِ جہاں پر ترجیح اورفضیلت دی اور صرف اسکو اوراس کے بیٹے کو تمام مخلوقات کے لئے نشان مقرر کیا۔ صرف مسیح کے حق میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ معجزانہ طورسے پیدا ہوا کیونکہ وہ کلمتہ اللہ تھا جو کنواری مریم میں مجسم ہوا ۔مسلمان سوائے عیسیٰ کے کسی اور کو روح اللہ کے معزز لقب سے ملقب نہیں کرتے اورقرآن کسی دوسرے کو المسیح کے لقب سے ممتاز نہیں کرتا۔ صرف سیدنا عیسیٰ ہی قرآن اوراحادیث میں کامل طورپر بے گناہ بیان کیا گیا ہے سوائے اس کے کسی دوسرے کو قرآن ہردوجہان میں صاحبِ عزت قرار نہیں دیتا۔ تواریخ اسلام میں عیسیٰ مسیح کے معجزات بے نظیر ہیں اور حضرت محمد نے بھی اسکے سوائے کسی دوسرے کو بنی آدم کے منصف کےلقب ہےیادنہیں کیا۔

قرآن مسیح کی بزرگی اور برتری کی خوب جھلک دکھاتاہے لیکن اسکےالہٰی کمال وجلال کو ظاہر نہیں کرتا۔ دروازہ تک لے جاتاہے لیکن کھول کر داخل نہیں ہوتا ۔ اشتیاق کی آگ تودل میں مشتعل کرتاہے لیکن مطلوب تک پہنچا کردلی آرام نہیں دیتا۔اب اے مسلمان برادران پڑھنے والو کیا اس بڑے اہم مسئلہ کو جس پر آپ کے ابدی منفع ونقصان کا انحصار ہے بے حل کئے ہی چھوڑدوگے؟ خدا نہ کرے کہ آپ سے ایسا ہوبلکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تورات اورانجیل کودیکھیں جن میں سیدنا مسیح اپنے جلال کے کمال کے ساتھ خدا کے"اکلوتے بیٹے" کی صورت میں نظر آتاہے ۔ کیا دیندار مسلمان ہر روز یہ دعا نہیں کرتا کہ" اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (ہدایت کرہم کو سیدھی راہ کی ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا نہ ان کی جن پر تو غضبناک ہوا اور نہ گمراہوں کی ؟ وہ کون ہیں جن پر خدا نے انعام کیا؟کیا زمانہ قدیم کے انبیاء مثلاًابراہیم، موسیٰ اورداؤد وغيرہ نہیں ہیں؟ یہ بزرگ ایمان کی آنکھ سے مسیح موعود کی آمد کاانتظار کرتے تھے اوربنی آدم کی امید کا دارومدار اسی میں دیکھتے تھے چنانچہ لکھا ہے کہ یہ سب ایمان کی حالت میں مرے اور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں مگر دوررہی سے اُنہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور اقرار کیاکہ ہم زمین پرپردیسی اورمسافر ہیں" پس ہم کو تورات وزبور اوردیگر صحف انبیاء کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ وہیں ہم کو ایمان کی راہ ملیگی جس پر یہ بزرگ چلتے تھے اوروہیں ہم اسکو پائینگے جس کا وہ ذکر کرتے تھے علاوہ بریں جس مسیح کو قرآن ایسا عالیشان بیان کرتاہے اس کا پورا مکاشفہ انجیل شریف میں ہے پس انجیل کی تلاوت بھی ہم پر فرض ہے کیونکہ اسی طرح سے پیشینگوئیوں کے کامل کنندہ اور راہ حیات کو پالینگے ہم خود مسیح کے سنجیدہ ،الفاظ کوکبھی نہ بھولیں وہ انجیل شریف میں فرماتاہے کہ" راہ ،حق اور زندگی میں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(خدا) کے پاس نہیں آتا"(یوحنا ۱۴: ۶)۔

تمام شد