پہلے ایڈیشن کادیباچہ
گرو لیلت باید ازروے رو مہتاب
مسیحیت کی قطعیت اورعالم گیری ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ کوئی شخص جس نے تعصب کی پٹی عقل کی آنکھ پر نہیں باندھ لی، اس سے انکار نہیں کرسکتا۔یہ ایک تواریخی واقعہ ہے کہ گزشتہ دو ہزار سال سے روئے زمین کے ممالک واقوام کے کروڑوں افرا د مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوگئے ہیںاور مسیحیت نے ان کو قعرِ ضلالت(قعر:گہرائی۔بڑا گڑھا) سے نکال کر روحانیت کے اَوج (عروج)پر پہنچادیا ہے۔ہم کو یہ ماننے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ بعض اصحاب ایسے ہیں جو خلوصِ دل سے یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیحیت میں چند ایک باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ عالم گیر مذہب نہیں ہوسکتا ۔پس
اگر بینم کہ نابینا وچاہ است
وگر خاموش نبشینم گناہ است
ایسے اصحاب اور ان کے اعتراضات کو مد ِ نظر رکھ کر ہم نے مسیحیت کی قطعیت،جامعیت اورعالم گیری کے موضوع پر کئی پہلو ؤں سے بحث کی ہے۔
(۱)ہم نے اپنےرسالہ ’’نور الہدیٰ‘‘ میں تاریخی نقطۂ نگاہ سے اس موضوع پر بحث کی ہے۔علم تاریخ ،زمانہ ماضی کے واقعات اور ملل و اسباب(ملل:ملت کی جمع۔اقوام ۔مذاہب) کا ذکر کر کے یہ بتانا ہے کہ گزشتہ زمانہ سے موجودہ دَور کس طرح صفحہ ہستی پر آیا اور مسیحی اصول نے اس کی کایا پلٹ میں کیا کردار ادا کیا۔ہم نے اس کتاب میں اس مقصد کوثابت کیا ہے کہ ابتدا ہی سے مسیحیت اپنے اُصول اورکلمتہ اللہ کی شخصیت اور نجات کے تصور کی وجہ سے تمام مروجہ ادیان پر غالب آ ئی اور اس نے اپنے عالم گیر ہونے کا ثبوت دیا۔اس کتاب میں مرحوم خواجہ کمال الدین کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
(۲)ہم نے اپنی کتاب ’’دین فطرت اسلام یا مسیحیت ‘‘میں اس موضوع پر علم نفسیات کے نقطہ نظر سے ثابت کیا ہے کہ صرف مسیحیت میں ہی اس بات کی صلاحیت ہے کہ انسانی فطرت کے میلانات کی تمام اقضامؤں کو بوجہ احسن پورا کرکے عالم گیر مذہب ہونے کا ثبوت دے۔
(۳)ہم نے اپنی کتاب ’’کلمتہ اللہ کی تعلیم ‘‘ میں ان اصولوں پر مفصل بحث کی ہے جو انجیل جلیل کی بنیاد ہیں اور ثابت کیا ہے کہ خداوند عیسی ٰ مسیح کی تعلیم اور شخصیت جامع اور عالم گیر ہے او ر آپ کی قدوس ذات نے دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیاہے۔
(۴) ہم نے اپنی کتب’’قدامت و اصلیت اناجیل اربعہ‘‘ اور’’صحت کتب مقدسہ‘‘ میں تاریخی اور لسانی نقطہ نظر سے ثابت کیا ہے کہ جہاں تک انجیل جلیل کے یونانی متن کی صحت کا تعلق ہے،روئے زمین کی کوئی قدیم کتاب انجیل کی صحت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
(۵)ہم نے اپنی کتاب ’’اسرائیل کا نبی یا جہان کا منجی‘‘ میں معترضین کے ایک اعتراض پر غور کیا ہے جو وہ خداوند مسیح کے ا س قول کی بنا پر کرتے ہیں کہ ’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اَور کسی طرف نہیں بھیجا گیا‘‘(متی۲۴:۱۵)اور ثابت کردیا ہے کہ جو تاویل معترض اس آیہ شریف کی کرتا ہے ،وہ صحیح اصول تفسیر تاویل الکلام ’’بما لا یرضی بہٖ قائلہ باطل‘‘ کے خلاف ہے۔پس وہ باطل ہے، کیونکہ وہ خداوند عیسی ٰ مسیح کے خیالات وجذبات ،لائحہ عمل اور احکام کے کلیتہً خلاف ہے اور خداوند عیسی ٰ مسیح کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ اقوامِ عالم آپ کے وسیلہ نجات حاصل کریں۔اس کتاب میں جو نا ظرین کے سامنے ہے ،مسیحیت کی عالم گیری پر علم اخلاقیات اور فلسفہ کےنقطہ نگاہ سے نظر کی گئی ہےاوریہ ثابت کیا گیا ہے کہکلمتہ اللہ کی تعلیم ارفع اور جامع اصول پر مشتمل ہے۔خداوند عیسیٰ مسیح کا نمونہ کامل اور اکمل ہےاور آپ کی نجات کل دنیا کی اقوام کے لیے ہے۔اس کتاب میں ہم نے باب سوم میں دیدہ ودانستہ ان اعتراضات کو نظر انداز کردیا ہے جو عموماً انجیل شریف کی آیات کی بنا پر عصمتِ مسیح پر کئے جاتے ہیں ۔کیونکہ مسیحی متکلمین نے عموماً اور امام المناظرین مسٹراکبر مسیح صاحب مرحوم نے خصوصاًاپنی کتاب ’’ ضربتِ عیسوی ‘‘ میں ان اعتراضات کے دنداں شکن جواب دئےر ہیں جن کا جواب الجواب تاحال نہیں دیا گیا۔ پس ان اعتراضات کو رد کرنا، درحقیقت تحصیل حاصل ہے۔ لہٰذا ان کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
پس ہم نے مسیحیت کی عالم گیری پر اپنی مختلف کتابوں میں تاریخی ، مذہبی ،نفسیاتی اور اخلاقی پہلوؤں سے بحث کی ہے اور ان معترضین پر اتمام حجت کر دی ہے جو نیک نیتی سے مسیحیت کی قطعیت اور عالم گیری نہیں مانتے تھے ۔ہمیں واثق اُمید ہے کہ ایسے معترضین خالی الذہن ہوکر اس کتاب کا غور سے مطالعہ کریں گے اور مصنف کی طرح خداوند مسیح کے قدموں میں آکر ابدی نجات حاصل کریں گے ۔
سپاس وسنت وعزت خدائے راکہ نمود
رہ نجاتوشدم ازحیات بر خوردار
ہولی ٹرنٹی چرچ لاہوراحقر
علامہ برکت اللہ (مرحوم)
۱۶اگست ۱۹۴۸ء
باب اوّل
عالم گیر مذہب کی خصوصیات
۱۔عالم گیر مذہب کے اصول اعلیٰ ترین پایہ کے ہیں
انگلستان کا مشہور فلاسفر اور اخلاقیات کا استاد مرحوم ڈاکٹرریشڈال (Rashdall) کہتا ہے کہ:
’’عالم گیر مذہب کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ اس میں خدا کا تصور اعلیٰ ترین ہو، جس کو سب لوگوں کی ضمیریں مان سکیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا اخلاقی نصب العین اعلیٰ ترین ہو‘‘ ۔
پس عالم گیر مذہب کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے اُصول بلند، عالی وارفع اوراعلیٰ ترین ہوں۔ان اصولوں میں یہ صفت ہو کہ دنیا کے’’ سب لوگوں کی ضمیریں‘‘ ان کو مان سکیں۔ بالفاظ دیگر یہ اصول ایسے اعلیٰ اور ارفع ہوں کہ تمام دنیا کے لوگ بلا لحاظ رنگ ونسل وغیرہ ان کو قبول کرسکیں۔ اگر کسی مذہب کی تعلیم ایسی ہے کہ صرف کسی خاص قوم یا زمانہ یا قبیلہ کے لوگوں کی نظروں میں ہی مقبول ہو سکتی ہے، لیکن دیگر اقوام یا دیگر زمانہ کے افراد اس کے اصولوں کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کرسکتے تو وہ مذہب ہر گز عالم گیر مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔اگر کوئی مذہب ایسا ہے جو خدا کی نسبت ایسی تعلیم دے جو نوع انسانی کی ترقی کی ابتدائی منازل سے ہی متعلق ہو اورنوع انسانی تہذیب یافتہ ہوکر اس منزل سے آگے بڑھ گئی ہو ایسا کہ وہ اس کے پیش کردہ تصور الہٰی کی نکتہ چینی کرسکے تو وہ مذہب عالم گیر نہیں ہوسکتا۔ ۔ مثلاً اگر کسی مذہب کا معبود چوری یا زناکاری کا مرتکب ہو ا ہو تو ایسا معبود دور حاضرہ میں ہر گز قابل پرستش نہیں ہوسکتا ۔ ایسے معبود کی تظیمی نوع انسانی کی ترقی کی ابتدا ئی منازل سے ہی متعلق تھی، لیکن اب جونسل انسانی نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ وہ ایسے معبودکی تعظیم وتکریم تو درکنار اس کو حقارت کی نظرسے دیکھتی ہے تو ایسا مذہب عالم گیری نہیں ہو سکتا۔علیٰ ہذا القیاس اگر کسی مذہب کی تعلیم میں اس کا اخلاقی نصب العین ادنی ٰ پایہ کا ہے تو وہ مذہب اپنے اندر یہ اہلیت نہیں رکھ سکتا کہ عالم گیر ہوسکے۔ چونکہ نوع انسانی اس کے ادنیٰ نصب العین سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ لہٰذا وہ ادنیٰ اصولوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔مثلاً اگر کوئی مذہب ایسا ہے جو انسانوں میں درجہ بندی اور اچھوت کا سبق سکھاتا ہے یا زناکاری ،غلامی ،لوٹ مارکو درست اور جائز قرار دیتا ہے تو وہ مذہب اپنے اندر یہ اہلیت ہی نہیں رکھتا کہ عالم گیر ہو۔ ایسا مذہب صرف ایک خاص زمانہ یا قوم یا قبیلہ ہی کا مذہب ہوسکتا ہے۔ اس دائرہ کے باہر کے لوگ اس کی تعلیم کو ناقص قرار دیں گے اور اگروہ مذہب عالم گیر ہونے کا مدعی ہو تو ارباب دانش کےنزدیک بجا طور پر وہ تحقیر اور مضحکہ کانشانہ بن جائےگا۔پس لازم ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول نہایت اعلیٰ ارفع اور بلند پایہ کے ہوں۔یہ لازم ہے کہ عالم گیر مذہب خدا کی نسبت ایسی تعلیم دے جسکے سامنے ہر زمانہ ،ملک اور قوم کی گردنیں جُھک جائیں۔ عالم گیر مذہب کا تصور خدا ایسا ہونا چاہیئے کہ نوع انسانی اپنی ترقی کی انتہائی منازل میں بھی اس سے بالا تر تصور خیال میں نہ لاسکے۔ انسانی قوت متخیلہ اس سے زیادہ بلند پر واز ی نہ کرسکے ،بلکہ اس تصور کو کماحقہ‘(کما۔حَق۔قُ۔ہُو۔بخوبی)فہم میں لانے سے قاصر رہے اور چار وناچار اپنے عجز اور ناطاقتی کا اقرار کرے۔
اے ز خیال مابروں۔ در تو خیال کے رَسد
باصفت ِتو عقل را لاف ِکمال کے رَسد
کنگرِ کبریائے تو ہست فراز لامکاں
طائر ماور آں ہوا بے پَروبال کے رسد
(خسرو)
صرف ایسا ہی مذہب انسان کے سامنے بلند ترین اخلاقی نصب العین رکھ سکتا ہے۔کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کوئی قوم اپنے معبود کے اوصاف سے آگے نہیں بڑھ سکتی ۔جس مذہب میں خدا کا تصور اعلیٰ ترین پایہ کا ہوگا اس مذہب میں انسان کے متعلق بھی اعلیٰ ترین قسم کی تعلیم ہوگی۔ حقوق الله اور حقوق العباد میں نہایت گہرا رشتہ ہے۔حقوق العباد کا انحصار خدا کے تصور پر موقوف ہے۔چنانچہ اگر کسی مذہب میں خدا کا تصور ادنیٰ قسم کا ہے تو اس مذہب میں انسانوں کے باہمی سلوک کی نسبت جو تعلیم ہوگی وہ بھی نہایت ادنی ٰ پایہ کی ہوگی۔اگر کسی قوم کا معبود شرابی،چور یا زناکار ہوگا تو یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ا س مذہب کا اخلاقی نصب العین اعلیٰ قسم کا ہو۔ اس مذہب کی تعلیم میں شراب ،چوری ،زناکاری وغیرہ اعمال حسنہ شمار کئے جائیں گے ۔ لیکن اگر کسی مذہب میں خدا کا تصور اعلیٰ ترین پایہ کا ہوگا تو اس کااخلاقی نصب العین بھی اعلیٰ پایہ کاہوگا۔یہ امر محتاجبیان نہیں کہ اگر کوئی مذہب ایسی باتوں کی تعلیم دیتا ہے جو اخلاق کو سدھارنے کی بجائے ان کو بگاڑتی ہیں یا وہ ایسے اصول سکھاتا ہے جس سے ایسا نتیجہ اخذ ہوسکے جو مخرب اخلاق ہو تو ایسا مذہب دورِ حاضرہ میں مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ وہ عالم گیر مذہب ہو۔ مثلاً اگر کوئی مذہب یہ تعلیم دیتا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں کسی او ر مرد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھ سکتی ہے یا کوئی مرد اپنی زوجہ کی موجودگی میں کسی اور عورت کے ساتھ جنسی تعلقات رکھ سکتا ہے تو ایسا مذہب ہر گز عالم گیر نہیں ہوسکتا۔
عالم گیر مذہب کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف اس میں خدا کا تصور ہی ایسا ہوجس کے سامنے ہر زمانہ، قوم اور ملک کے افراد کی گردنیں جھک جائیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہےکہ اس کا اخلاقی نصب العین بھی ایسا ہو کہ نو ع انسانی اپنی ترقی کی دوڑمیں اس سے آگے نہ گز رسکے ۔بلکہ جو ں جو ں انسان ترقی کرتا جائے، یہ نصب العین اُفق کی طرح اس کی نظر کے آگے آگے چلتا جائے۔ یا جس طرح کوئی شخص جب ایک پہاڑی کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے آگے بلندی ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ ایک اَور پہاڑی کی بلندی اس کو نظر آتی ہے۔اسی طر ح جب نوع انسانی اخلاقی ترقی کے زینہ کی ایک بلندی کو حاصل کرلے تووہاں بھی اس کو اخلاقی نصب العین کی بلندی نظر آئے جو اس کےلئےراہنما کا فرض اداکرے۔ عالم گیر مذہب کا اخلاقی نصب العین ایسا بلند اور ارفع ہونا چاہیےکہ نوع انسانی اپنی ترقی کیمختلف منازل میں جس اَوج پر بھی پہنچے اس کی رفعت اور بلندی کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھ سکے۔پس عالم گیر مذہب کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں ذات الہٰی کی نسبت ایسی تعلیم ہو جس کے سامنے ہر ملک، قوم، نسل اور ہر زمانہ کے سر تسلیم خم ہوجائیں اور اس مذہب کا اخلاقی نصب العین ایسا اعلیٰ اور بلند پایہ کاہو کہ نوع انسانی اپنی ترقی کے اعلیٰ ترین زینہ پر بھی اس کو پیش نظر رکھ سکے ایسا کہ وہ اس کا دائمی راہنما ہو۔
۲ ۔عالم گیر مذہب کے اصول عالم گیر ہوتے ہیں
(۱)
اس پہلی شرط کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول عالم گیر ہوں۔ کوئی مذہب عالم گیر کہلانے کا متحقج نہیں ہوسکتا جس کے اصول عالم گیر نہ ہوں۔ جس مذہب کے اصولوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ہر ملک، قوم، زمانہ اور نسل کے لوگوں پر حاوی ہوسکیں ،وہ مذہب صرف ایک قوم یا ملک یا زمانہ یا پشت کے لوگوں کے لیے ہی مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے اصول کا اطلاق کسی دوسری قوم یا پشت کے لوگوں پر نہیں ہوسکے گا،کیونکہ قوموں اور پشتوں اور زمانہ کے حالات یکسا ں نہیں ہوتے ۔معاشرتی حالات ،ضروریات زندگی ،طریق حکومت وغیرہ زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ تغیر پذیر ہو جاتے ہیں ۔متعدد قوانین ناقابل عمل ہو کر منسوخ ہوجاتے ہیں ۔پس جو مذہب صرف ایک قسم کے حالات کے لیے مفید ہے، وہ دوسری قسم کے حالات کے لئے مفید نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ سے ظاہر ہے کہ بعض مذاہب ایسے ہیں جو گزشتہ زمانہ میں خاص حالات کے ماتحت نہایت کامیاب ثابت ہوئے ،لیکن جب وہ حالات بدل گئے اور زمانہ نے پلٹا کھایا تو وہ مذاہب جامد اور ٹھوس نئے حالات اور خیالات کے سامنے قائم نہ رہ سکے۔پس مابعد کے زمانہ اور پشت کے لئے وہ مذاہب کسی کام کے نہ رہے ۔ جس طرح پرانے سالوں کی جنتریاں بےکار ہوجاتی ہیں۔
بقول شخصے:ع کہ تقویم پارینہ نیا ید بکار
اسی طرح یہ مذاہب بھی بے سود ہوجاتے ہیں اور پرانے زمانہ کی داستانوں سے زیادہ قدروقعت نہیں رکھتے ۔ دورِ حاضرہ کے لیے ان کا وجود اگر ضرر رساں نہیں ہوتا تو کم از کم عد م وجود کے برابر ہوجاتا ہے۔پس لازم ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول ایسے ہوں جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں کہ ہر ملک ،قوم، نسل اور زمانہ پر حاوی ہوسکیں اورکسی ملک یا قوم یا زمانہ کے لئے اس مذہب کے اصول دقیانوسی ،بوسیدہ یا فرسودہ خیال نہ کئے جائیں ۔ مثلاً اگر کوئی مذہب ایسا ہے جو درجہ بندی یا ذات پات یا مناقشات(مناقشہ کی جمع۔جھگڑے)، جنگ وجدل ،عداوت وغیرہ کی تعلیم دیتا ہے تو یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایک ملک یاقوم کے خاص حالات کے اندر کسی خاص زمانہ میں کامیاب ثابت ہوا ہو۔ لیکن ایسا مذہب دنیا کی دیگر قوموں، نسلوں اور زمانوں کے لئے ہر گز راہنما کا کام نہیں دے سکتا ۔ یا اگر کوئی مذہب ایسا ہے جس میں بچوں ،عورتوں ،غلاموں ،مظلوموں وغیرہ سے بد سلوکی روا رکھی گئی ہے تو ایسے مذہب کے اصول کسی خاص پشت یا زمانہ یا ملک پر ہی حاوی ہوسکتے ہیں۔ ان میں یہ اہلیت ہر گز نہیں کہ اقوام عالم اور کل دنیا کے ممالک وازمنہ پر حاوی ہوں۔کوئی مذہب عالم گیر نہیں ہوسکتا ،تاوقتیکہ اس کے اصول اپنے اندر اقوام وممالک پر حاوی ہونے کی صلاحیت نہ رکھیں اور ہر زمانہ میں راست اور ناقابل تنسیخ و ترمیم اور لاتبدیل ہوں اور بنی نوع انسان کے تقاضائے روح اور تمنائے دل کو پورا اور ساکت کر سکیں ۔
(۲)
پس لازم ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول نہ صرف زمانہ ماضی کے لئے کسی خاص قوم یا پشت یاملک یا زمانہ کے صحیح راہ بر رہ چکے ہوں، بلکہ یہ بھی ضروری امر ہے کہ ان اصول کا اطلاق دورِ حاضرہ کے تمام ممالک وقبائل واقوام پر ہوسکے ۔موجودہ صدی میں اور گزشتہ صدی میں جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں ہیں، وہ سب پر عیاں ہیں اور ارباب ِ دانش سے یہ مخفی نہیں کہ موجودہ پشت مذہب کے اصول کو اس نکتہ نظر سے نہیں دیکھتی جس سے اس کے آباؤاجداد مذہب کو دیکھتے تھے۔عالم گیر مذہب کے لئے لازم ہے کہ اس کے اصول دورِ حاضرہ کے لوگوں کی اسی طرح کامیابی کے ساتھ راہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جس طرح کسی گزشتہ پشت کے لوگوں کی راہنمائی کرنے میں وہ کامیاب ہوئے تھے۔اگر ان اصولوں میں یہ اہلیت موجود نہیں تو وہ اصول عالم گیر نہیں ہوسکتےاور نہ وہ مذہب عالم گیر کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے۔پس اگر کوئی مذہب عالم گیر ہونے کا دعویٰ اس بنا پر کرے کہ کسی گزشتہ زمانہ میں وہ کسی ملک یا قوم کے مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب رہا ہے، لیکن دورِ حاضرہ پر اپنے اصول کا اطلا ق نہ کرسکے تو اس مذہب کا دعویٰ’’پدرم سلطان بود‘‘( میر اباپ بادشاہ تھا)سے زیادہ وقعت نہیں رکھ سکتا۔لہٰذا کوئی مذہب محض اپنی قدامت کی وجہ سے یا کوئی دھرم محض سناتنی(سناتن: قدیم) ہونے کی بنا پر عالم گیر نہیں ہوسکتا ،تاوقتیکہ وہ یہ ثابت نہ کرسکے کہ اس کے قدیم یا سناتنی اصول دور ِ حاضرہ کے تمام ممالک واقوام کے مختلف مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
(۳)
عالم گیر مذہب کے لئے یہ لازم ہے کہ نہ صرف اس کے اصول زمانہ گزشتہ اور دور حاضرہ کے ممالک واقوام کے راہ نما ہوسکیں ،بلکہ مستقبل زمانہ کے تمام ممالک واقوام وازمنہ کے لئے بھی مشعلِ ہدایت ہوسکیں۔یہ اشد ضروری امر ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول نہ صرف نوع انسانی کی گزشتہ دوڑ میں کام آئے ہوں یا موجودہ ترقی کی منزلوں میں کام آسکتے ہوں، بلکہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ آیندہ زمانہ میں بھی جوں جوں نسل انسانی ترقی کرتی جائے یہ اصول اس کی ترقی کی راہ کو اپنے نور سے روشن کرتے جائیں تاکہ نسل انسانی روز بروز ترقی پذیر ہوکر کامل ہوتی جائے اور خالق کے اس ارادہ کو پورا کرسکے جس کے واسطے خدا نے انسان کو پیداہے۔ انسان کا خلق ہونا اور نوع انسانی کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ ازل سے خدا نے کسی خاص مقصد کو مد نظر رکھ کر انسان کو پیدا کیا تھا۔عالم گیر مذہب کا یہ کام ہےکہ اس منشائے الہٰی کو پورا کرے اور نوع انسانی کو اس کی ترقی کی مختلف منازل میں ایسی شاہراہ پر چلا ئے جس پر چل کر وہ خدا کے خاص ازلی مقصد کو پورا کرے۔ پس لازم ہے کہ عالم گیر مذہب نہ صرف نوع انسانی کے ابتدائی مرحلوں میں اس کا ساتھ دے اور زمانہ گزشتہ میں اس کا صحیح راہ نما رہا ہو ،بلکہ اس سے زیادہضروری یہ ہےکہ دورِ حاضرہ میں اور آیندہ زمانوں میں بھی کل انسان اس مذہب کے ذریعہ اپنی نوع کی ترقی کی آخری منزلوں کو طے کرکے خدا کے ازلی ارادہ کو پورا کرسکیں۔اگر کوئی مذہب نوع انسانی کی مستقل منزلوں میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تو وہ مذہب یقینا ًعالم گیر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔بالفاظ ِ دیگر جو مذہب زمانہ ماضی میں ہی نوع انسانی کے کام آیا ہو یا صرف دور ِ حاضرہ کے سیاسی یا معاشرتی مسائل کو عارضی طور پر ہی حل کرسکے ،لیکن زمانہ مستقبل میں نوع انسانی کی آخری منزلوں میں اس کا ہادی اور راہ نما نہ ہوسکے، وہ مذہب کسی صورت میں عالم گیر مذہب نہیں ہوسکتا۔ ایسا مذہب تاریخ کے صفحوں میں اپنے لئے جگہ حاصل کرلے گا ۔کیونکہ نوع انسانی کی گزشتہ تواریخ میں وہ کسی زمانہ میں انسان کے کام آیا تھا، لیکن چونکہ وہ آیندہ زمانہ میں انسان کا ساتھ نہیں دے سکتا ،کوئی زمانہ ایسا آئے گا جب وہ زندہ مذہب نہیں رہے گا بلکہ مردرِ زمانہ کے سا تھ ہی وہ مذہب بھی مردہ ہوجائے گا۔ عالم گیر مذہب صرف وہی مذہب ہوسکتا ہے جس پر نوع انسانی کی بقا کا انحصار ہو اور آیندہ زمانہ میں بھی اس پر بنی نوع انسان کی حیات کا دارو مدار ہو تاکہ کل ممالک واقوام کی آیندہ نسلیں اس کی راہ نمائی کے ماتحت اپنی ہستی کے تمام مراحل کو طے کرکے منشا ئے الہٰی کو پورا کرسکیں۔
(۴)
اس میں کچھ شک نہیں کہعالم گیر مذہب کی شناخت کرنے میں نوع انسانی کی گزشتہ تاریخ ہماری مدد اور راہ نمائی کرسکتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی مذہب کا یہ دعویٰ کہ میں عالم گیر ہوں ،فی نفسہٖ کچھ وقعت نہیں رکھتا ۔ یہ ضروری امر ہے کہ اس کا دعویٰ دلائل وبراہین پر مبنی ہو اور اس کی پشت پر زبردست تاریخی شہادت ہو ۔ عالم گیر مذہب کے پہچاننے میں قدرتاً یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مذہب زمانہ گزشتہ میں کسی ملک یا قوم یا قبیلہ کا چراغ ہدایت رہا ہے ؟کیا اس نے کسی خاص زمانہ میں کسی خا ص ملک یاقوم کی ایسی کامیابی کے ساتھ راہ بری کی ہے کہ وہ ملک یا قوم چاہ ِ ضلالت سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگئی ؟کیا اس خاص زمانہ کے بعد بھی وہ مذہب اس ملک یا قوم کی دور ِ حاضرہ تک کامیابی سے راہ بری کرتا رہا ہے ۔کیا اس قوم یا ملک کی تاریخ میں ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب وہ مذہب اس کی راہ بر ی نہ کرسکا؟اور اگر کسی زمانہ میں وہ ناکام رہا تو اپنے اصول کے سبب سے ناکام رہا ہےیا خارجی حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے اس مذہب کا چراغ ٹمٹما نے لگا اور اس کی روشنی مدھم پڑ گئی ؟کیادنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس مذہب کے اصول اس خاص ملک یا قوم کے علاوہ دیگر ممالک واقوام عالم کے راہ نما رہ چکے ہیں اور دیگر ازمنہ اور اقوام کے لوگوں پر کامیابی سےحاوی ہوچکے ہیں یا نہیں؟اگر تاریخ یہ بتائے کہ اس کے اصول کااطلاق دیگر اقوام وازمنہ اور ممالک پر نہیں ہوسکا تو ظاہر ہے کہ وہ مذہب عالم گیر نہیں ہے۔لیکن اگر تاریخ یہ بتائے کہ اس کے اصول کا اطلاق کسی خاص ملک کے علاوہ دیگر اقوام، ممالک اور ازمنہ پر کامیابی سے ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ تاریخی شہادت اس کے عالم گیر ہونے کے حق میں ایک نہایت زبردست دلیل ہو گی۔کیونکہ دنیا کے مختلف ملکوں اور جہان کی مختلف قوموں اور نوع انسانی کی مختلف نسلوں کے لاکھوں اختلافات میں صرف ایک واحد امر یعنی وہ مذہب ہی ایسا ہوگا جو سب میں عام ہے۔ پس ازروئے اصول منطق وہی ایک شے ان مختلف ملکوں، قوموں، گروہوں اور نسلوں کی کامیابی کا سبب متصور ہوگی۔ اگر کوئی مذہب ایسا ہے جس نے زمانہ ماضی میں صدیوں تک دنیا کے بیسیوں ملکوں اور ہزاروں قوموں اور لاکھوں نسلوں کے کروڑوں افراد کی کامیابی کے سا تھ راہنمائی کی ہے اور اس کے اصول ان پر حاوی رہے ہیں تو یقینا ً یہ ثابت ہوجائے گا کہ اس مذہب میں عالم گیر ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ عقل اورقیاس یہی چاہتا ہے کہ جو مذہب زمانہ ماضی میں ایسی شاندار کامیابی حاصل کرچکا ہے اوردور ِ حاضر ہ میں اقوام عالم کی راہ بری کر رہا ہے ،وہ زمانہ مستقبل میں بھی نوع انسانی کی آیندہ نسلوں کو خدا کے ازلی ارادہ کے مطابق ڈھال کر منشا ئے الہٰی کو پورا کرسکتا ہے۔
۳ ۔عالم گیر مذہب کے اصول جامع ہوتے ہیں
چونکہ عالم گیر مذہب کا تعلق کل اقوامِ عالم کے ساتھ ہے اور وہ زمانہ ماضی ،دورِحاضرہ اور زمانہ مستقبل کے سا تھ وابستہ ہے اور اس کے اصول اعلیٰ ترین اور بلند ترین پایہ کے ہوتے ہیں ۔لہٰذا یہ ضروری امر ہے کہ عالم گیر مذہب کے اصول مذاہب ِ عالم کے اعلیٰ اصول کے جامع ہوں۔یہ ظاہر ہے کہ دنیا کے مذاہب میں صداقت کےعناصرموجود ہیں۔ دنیاکی تاریخ میںکوئی ایسا مذہب پیدا نہیں ہوا جو سراسر باطل ہو اور جس میں الف سےلے کر ی تک کذب ودجل( جھوٹ اورفریب) ہی ہو اور جس میں ذرہ بھر صداقت کا وجود بھی نہ ہو۔ ہر مذہب کسی ایک زمانہ میں کسی ایک قوم یاملک یا پشت کے لوگوں کی کسی حدتک راہ نمائی کرتا رہا ہے۔ جس حد تک وہ کسی قوم کے افراد کی راہ بری کرنے میں کامیاب رہا ہے ،اس حد تک وہ اپنے اصول کی وجہ سے کامیاب رہا ہےاور جس حد تک ا س کے اصول نے اس کو کامیاب کیاہے اس حد تک اس کے اصول میں صداقت کاعنصر موجود ہےاور جس حد تک وہ ناکام رہا ہے، اس حد تک اس کے اصول باطل ثابت ہوئے۔پس نا تمام مذاہب ِ عالم میں حتی ٰ کہ ان کے مذاہب میں بھی جن کو ہم’’مذاہب باطلہ‘‘ اور’’مشرکانہ مذاہب‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ،صداقت کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے زمانہ میں کسی حد تک اپنے مقلدوں کی راہ نمائی کرسکے اور کرتے بھی رہے۔لیکن جس حد تک وہ نہ کر سکے ،وہ ناکامل اور غیر مکمل ثابت ہوئے۔ ان میں سے بعض میں بطالت کے عناصر اس قدر زیادہ تھے کہ ان میں حق کی روشنی نہایت مدھم اور خفیف طور سے ہم کو اپنی جھلک کبھی کبھی دکھاتی ہے۔ جو شخص تاریخ مذہب کو تعصب کے بغیر بنظر ِ غور مطالعہ کرتاہے ،اس کو یہ مدھم سے مدھم جھلک ضرور نظر آجاتی ہے۔ ان مذاہب کے غیر مکمل اور ناکامل ہونے میں کسی صاحب ِ ہوش کو شک نہیں ہوسکتا اور اس کے لئے یہ کافی دلیل ہے کہ وہ مذاہب نوع انسانی کی ترقی کے بوجھ کے حامل نہ ہوسکے۔ ان میں صداقت کے عناصر اس قد رکمزور تھے کہ ان کے نازک کندھے اس بار گراں کو اٹھا نہ سکے۔
نوعِ انسانی ترقی کرکے بہت آگے نکل گئی اور ان مذاہب کو دقیا نوسی ،فرسودہ اور بوسیدہ سمجھ کر اپنی ترقی کی خاطر ان سے زیادہ کامل مذاہب کی تلاش کرنے میں سر گرداں رہی ،جن میں صداقت کے زیادہ عناصر موجود تھے۔ یہ مذاہب بھی کچھ زمانہ تک نوع انسانی کے کام آئے،لیکن پھر ایک وقت آیا جب نوع انسانی شاہراہِ ترقی کی ایسی منزل پر پہنچی جہاں یہ مذاہب بھی اس کو غیر مکمل اور دقیانوسی نظر آنے لگے اور وہ ان سے بھی زیادہ کامل مذہب کی جستجو اورتلاش میں مشغول ہوگئی۔ یوں ہر مذہب صداقت کے ان عناصرکی وجہ سے جو وہ اپنے اندر رکھتاتھا، نوع انسانی کی ترقی کی مختلف منازل میں اس کے کام آتا رہا ۔
عالم گیر مذہب کے لئے لازم ہے کہ وہ ان غیر مکمل مذاہب کی صداقتوں کے عناصرکاجامع ہواور جو صداقتیں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مذہب میں موجود ہوں(اور جنہوں نے انسانی ترقی میں مدد دی ہے۔ وہ سب کی سب اعلیٰ ترین حالت میں عالم گیر مذہب میں موجود ہوں)۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف ممالک کے مذاہب مختلف صداقتوں پر زور دیتےرہے ہیں۔ ہر مذہب اپنی قوم اور ملک کی ضروریات کے مطابق احکام جاری کرتارہا ہے۔ مثلاً جاپان میں شنتو مت مذہب ایک قسم کی صداقت کے عناصر اپنے اندر رکھتا ہے۔ چین کا مذہب دوسری قسم کے عناصر پر زور دیتا ہے۔ اگر ہندو مذہب کے اندر دوسری قسم کے عناصر صداقت موجود ہیں۔ عرب کے مذہب کے اندر دوسری قسم کے عناصر صداقت موجود ہیں جو زرتشت مذہب کے عناصر ِ صداقت سے مختلف ہیں۔ پس لازم ہےکہ عالم گیر مذہب ان تمام صداقتوں کا مجموعہ ہو او ردنیا کے کسی مذہب کی کوئی صداقت بھی ا س مذہب سے خار ج نہ ہو،بلکہ ہر مذہب کی صداقت کے عناصر صرف اپنی اعلیٰ ترین شکل میں اس عالم گیر مذہب میں موجود ہوں۔ مثلاً چین کا مذہب خاندان کی پاکیزگی کی صداقت پر زور دیتاہے ۔لازم ہے کہ عالم گیر مذہب نہ صرف خاندانی پاکیزگی کی تعلیم دے، بلکہ یہ صداقت اس میں بدرجہ احسن پائی جائے۔ عرب کا مذہب اللہ کی وحدانیت ،عظمت اور برتری پر زور دیتا ہے ۔پس لازم ہے کہ عالم گیر مذہب نہ صرف خدا کی عظمت ووحدانیت کی تعلیم دے ،بلکہ اس میں یہ صداقت اپنی اعلیٰ ترین حالت میں پائی جائے۔ ہندو مذہب کے ہمہ اوستی نظریہ میں یہ صداقت پائی جاتی ہے کہ پر ماتما ہر جگہ حاضر وناظر ہے ۔لہٰذا ضرور ہے کہ عالم گیر مذہب میں خدا کے ہر جا حاضر وناظر ہونے کی تعلیم اس کی پاک ترین شکل میں پائی جائے۔ پس یہ واحد عالم گیر مذہب، مذاہب ِعالم کی صداقتوں کا جامع ہونا چاہئے اور یہ صداقتیں جو مختلف مذاہب میں ٹمٹماتی روشنی کی طرح موجود ہیں، عالم گیر مذہب میں بدرجہ احسن پائی جائیں اور آفتاب نصف النہار کی طرح چمکیں تاکہ نوع انسانی ان کی روشنی میں از ابتدا تا انتہا ترقی کی تمام منازل کو طے کرسکے ۔
۴ ۔عالم گیر مذہب کے اصول کامل ہوتے ہیں
ہم نے سطور بالا میں یہ ذکر کیا ہے کہ دنیا کے مذاہبِ باطلہ میں بھی صداقت کے عناصر پائے جاتے ہیں ،جن کی روشنی ان کے باطل عناصر کی وجہ سے امتداد( طوالت۔مدت) زمانہ کے ساتھ نہایت دھیمی اور مدھم پڑ جاتی ہے۔ پس جہاں یہ ضروری امر ہے کہ عالم گیر مذہب میں تمام صداقت کے عناصر پائے جائیں ،وہاں یہ بھی اشد ضروری ہے کہ وہ ان مذاہبِ باطلہ کےباطل عناصر سے بالکل پاک ہو۔ ہم سطور بالا میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ یہ مذاہب باطلہ اپنے باطل عناصر کی وجہ ہی سے نوعِ انسانی کو ترقی کی شاہراہ پر چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ جب نوع انسانی نے ایک مرحلہ طےکرلیا تو اس کو ان مذاہب کے غیر مکمل اور کج اخلاق باطل پہلو نظر آنے لگے ،جن کی وجہ سے وہ آگے ترقی کرنے سے رک گئی۔ پس وہ ایسے مذاہب کی تلاش کرنے لگی جن میں صداقت کے عناصر زیادہ اور غیر مکمل عناصر کم ہوں،جن کی روشنی میں وہ اگلی منزل طے کرسکے۔ کسی مذہب کی ناکامی اس کے باطل او ر غیر مکمل عناصر کی وجہ سے ہے۔ پس جس مذہب میں باطل او ر نامکمل عناصر ہوں گے ،وہ مذہب عالم گیر نہیں ہوسکتا ۔ اس کی تاریخ میں ایک زمانہ ایسا آئے گا جب نوع انسانی اس مذہب کی اخلاقیات کے نصب العین سے کہیں زیادہ ترقی کرجائےگی اور اس کی نکتہ چینی کرکے اس میں باطل عناصر کو تشت ازبام( ظاہر۔رسوا ) کردے گی اور اس مذہب کو غیر مکمل قرار دے دے گی اور ایک ایسے مذہب کی تلاش اور جستجوکرے گی جس کی کامل اخلاقیات اور اخلاق فاضلہ کو وہ اپنا نصب العین بناسکے۔ مثلاً اگر کسی مذہب میں اوہام اور باطل پرستی کے عناصر موجود ہیں تو اس کی تاریخ میں ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب لوگ علم کی روشنی کی وجہ سے ان اوہام سےنجات حاصل کرکے اس مذہب کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور اس سے بہتر مذہب کی جستجو کرنے لگ جاتے ہیں۔ جوں جوں علم ترقی کرتا جاتا ہے اورلوگوں کی عقل اس کے نور سے منور ہوجاتی ہے، ان پر مذہب کے غیر مکمل پہلو روشن ہوتےجاتے ہیں اور وہ ایک ایسے مذہب کوتلاش کرتے ہیں جس میں تاریکی کا سایہ تک نہ ہو۔عالم گیر مذہب کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اخلاقیات غیر مکمل نہ ہوں، بلکہ ایسی کامل ،بلنداور اعلیٰ ہوں کہ انسانی فہم اور ادراک کسی مستقبل زمانہ میں بھی ان کو غیر مکمل قرار نہ دے سکے ۔ بلکہ اس کے برعکس نوعِ انسانی اپنی ترقی کی ہر منزل پر اس کامل اور اکمل مذہب کے نصب العین کو برابر پیش نظر رکھ کر اپنے وجود کی علت ِغائی کو پورا کرسکے۔
۵ ۔عالم گیر مذہب کے اصول اقوام کی نشوونما میں ممدومعاون ہوتے ہیں
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ہرقوم کی طرزِ رہائش اور معاشرت دوسری قوم سے الگ ہے۔ ان کے خیالات ،جذبات ،اعتقادات ،رسمیات وغیرہ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ہر قو م اپنے وجود کا اظہار اپنے خصوصی طرز سے کرتی ہے ۔مثلاً افریقہ کے وحشی اور نیم مہذب قبائل کی زندگی اور عرب کے تمدن اور جاپان کے طرزِِ معاشرت اور ہندوستان کے باشندوں کی طرزِ زندگی میں نمایاں فرق ہے۔ عرب کے باشندے اپنے وجود کا اظہار ایسے طریقہ سے کرتے ہیں جو انہی سے نمایاں مخصوص ہے اور یہ وہ طریقہ نہیں ہےجس سے جرمنی کی قوم اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے۔ اس لحاظ سے قوم قوم میں فرقِ عظیم ہے اور یہ خالق کےمنشا کے عین مطابق بھی ہے۔ خدا نے نظام عالم کو اس طور پر قائم کیا ہے کہ اس کے ہر ایک حصہ کا کام دوسرے حصے کے کام سے جدا گانہ ہے۔جس طرح جسم کے مختلف اعضا میں ہر ایک عضو کے سپرد جداگانہ کام ہے اور جس طرح ایک ہی سوسائٹی میں مختلف افراد ہیں اور خدا نےہر ایک فرد کے سپرد جداگانہ کام ہے ۔بقول شخصے:
ع ہر کسے رابہر کارے ساختند
اسی طرح نوع انسانی میں مختلف اقوام شامل ہیں اور ہر قوم اپنی ہستی کا اظہار جداگانہ طور پر کرتی ہے ۔علاوہ ازیں جس طرح ہمارے جسم کے اعضا ان کاموں کو جو ان کے سپرد ہیں سر انجام دے کر بدن کو مضبوط اور طاقت ور بناتے ہیں اور جس طرح ایک سوسائٹی کے افراد اپنے اپنے فرائض منصبی کو سر انجام دے کر اس سوسائٹی کی طاقت کا باعث ہوتے ہیں، اسی طرح کل دنیا کی قومیں اپنے اپنے جداگانہ خصوصی طرز کے مطابق اپنے اپنے وجود کااظہار کرکے نوع انسانی کو تقویت دیتی ہیں اور اس کی ترقی کا باعث ہوتی ہیں کیونکہ:
ع بنی آدم اعضائے یک د یگراند
عالم گیر مذہب کا یہ کام ہے کہ وہ ہر ایک قوم کی نشوونما میں ایسے طور سے مدد کرے کہ اس قوم کی خصوصیات زائل نہ ہوں، بلکہ اس کے برعکس ہر قوم اس عالم گیر مذہب کے ذریعہ ترقی کرکے اپنے خاص طریقہ معاشرت و تمدن وغیرہ کا یوں اظہار کرسکے کہ نوع انسانی ترقی اور تقویت حاصل کرے۔جس طرح ہمارے جسم کے قوانین ایسے ہیں کہ وہ ہمارے ایک ایک عضو کو اس کا جداگانہ فرض پورا کرنے میں ممدومعاون ہو تے ہیں تاکہ ہماراتمام جسم طاقت پکڑےاوراسی طرح سوسائٹی کے قوانین ایسے ہونے چاہیں کہ وہ ایک ایک فرد کی ترقی اور شخصیت کے اظہار میں ممدومعاون ہوں ۔اسی طرح عالم گیر مذہب کے اصول ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ دنیا کی ایک ایک قوم کی ترقی اور اس کی ہستی کے اظہار میں ممدومعاون ہوں۔ اگر ہم اپنے جسم کے اعضا پر ایسا جبرکرسکیں کہ ہر ایک عضوصرف ایک ہی قسم کا کام کرے تو یہ ایک ناممکن بات ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی سوسائٹی اپنے افراد پر جبر روا رکھ کر ہر ایک فرد کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنا چاہے تو یہ ایک غیر فطرتی حرکت ہوگی۔ علیٰ ہذا لقیاس اگر کوئی مذہب اقوام عالم کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے تو یہ ایک غیر فطرتی بات ہوگی ۔کیونکہ خدا نے جس طرح ہر ایک فرد کو مختلف قابلیتیں عطا کی ہیں، اسی طرح اس نے ہر ایک قوم کو مختلف نعمتیں عطا فرمائی ہیں ۔ چنانچہ حضرت ذوق فرماتے ہیں:
ع اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے
جو مذہب دنیا کی مختلف قوموں کی قابلیتوں اور نعمتوں کے اختلافات کو مٹا کر ان کی طر ز ِ رہائش ومعاشرت، ان کی اقتصادی ،مجلسی، تمدنی، سیاسی زندگی کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے یا ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔وہ مذہب منشائےالہٰی کے خلاف چلتا ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا پورا نہیں کرتا ۔ وہ ہر گز اس لائق نہیں ہو سکتا کہ عالم گیر مذہب کہلانے کامستحق ہو۔ اس کے برعکس عالم گیر مذہب کی یہ کوشش ہوگی کہ ہر ایک قوم اپنی جداگانہ طرزِ رہائش ،طریق معاشرت اور مختلف آداب تمدن کے ذریعہ اپنی ہستی کا اظہار خالق کے اس ازلی ارادہ کے مطابق کرے جس کے لئے رب العالمین نے اس قوم کو پیدا کیا ہے۔ عالم گیر مذہب ہر ایک قوم کی قومی نشوونما میں خلل انداز ہونے کی بجائے اس کو خصوصی قابلیتوں کو ترقی دیتا ہے ،تاکہ اقوام ِ عالم اپنی اپنی جداگانہ قومی نشوونما کے ذریعہ نوع انسانی کی قوت اور تقویت کا باعث ہوں اور نوع انسانی شاہراہ ِ ترقی کی تمام منزلوں کو طے کرکے اس نصب العین کو حاصل کرسکے جس کے واسطے خدا نےنوع انسانی کو پیدا کیا ہے ۔
۶۔عالم گیر مذہب کا بانی ایک کامل نمونہ ہونا چاہیے
سطوربالا میں ہم نے عالم گیر مذہب کے صرف اصول کا ہی ذکر کیا ہے کہ وہ کس قسم کے ہونے چاہئیں۔ لیکن مجرد اصول خواہ وہ کیسے ہی ارفع واعلیٰ اور افضل کیو ں نہ ہو ں ۔اپنے اندریہ طاقت نہیں رکھتے کہ کسی شخص یا جماعت یا قوم میں تبدیلی پیدا کرسکیں ۔ پس عالم گیر مذہب کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ اس کے اصول اعلیٰ و ارفع، جامع اور کامل ہوں ،بلکہ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اس میں ایک کامل نمونہ بھی موجود ہو، جس کی شخصیت اور زندگی میں وہ اعلیٰ اور افضل اصول پائے جائیں ۔ والدین اور استاد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اصول کی تلقین سے نیک نمونہ دکھانا بہتر او ر زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو نیک اصول کی جانب راغب کرنا ہو تو ہم ان کو صرف نیک اصول رٹانے سے ہی راغب نہیں کرسکتے ،بلکہ نیک اصول کو خوداپنی عملی زندگی میں دکھا کر ان کو متاثر کرسکتے ہیں۔ قابل والدین اور لائق استاد وہی ہوتے ہیں جو خوداپنے خیالات وجذبات اوراعمال و افعال کے ذریعہ اپنے بچوں کو نیک اصول پر چلنے کی ترغیب اور نمونہ دونوں دیتے ہیں ۔اس طرح ان کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لئے متاثر کردیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے نمونہ سے ان کو نیک اصول کی تعلیم دیتے ہیں۔اگر والدین یا استاد اپنے بچوں کو صرف نیک اصول رٹانے پر ہی قناعت کریں، لیکن ان کےسامنے اپنی زندگی کے ذریعہ ان نیک اصول کا نمونہ بن کر نہ دکھائیں تو بچوں کی زندگیوں پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوتا،بلکہ اکثر اوقات ان پر الٹا اثر پڑتا ہے۔ والدین اور استاد تجربہ سے جانتے ہیں کہ بچے طبعاًنقال ہوتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جو وہ دوسروں کو کرتے دیکھتے ہیں۔پس ان کو مکمل نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے ،نہ کہ اعلیٰ اور افضل اصول رٹنے کی۔اگر والدین یا استاد ان کو صرف نیک اصول کی تلقین کریں۔مثلاً شراب خوری اور چوری سے منع کریں، لیکن خود مےخور ہوں تو بچے مےخواری سے کبھی پرہیز نہ کریں گے، بلکہ ان کی وہی عادتیں ہوں گی جن کا نمونہ ان کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر والدین نہ صرف ان کو نیک اصول کی تلقین کریں بلکہ اپنے افعال کے ذریعہ ان نیک اصولوں کا نمونہ بھی اپنے بچوں کے سامنے پیش کریں تو بچے ان نیک اصولوں کی جانب راغب ہوں گے اور ان کی زندگی نیک اصولوں اور نیک نمونہ دونوں کے ذریعہ متاثر بھی ہوگی۔ اسی لئے قرآن مجید میں آیا ہے کہ یاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ’’یعنی اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے(سورۂ صف آیت۲)۔
پس نہایت ضروری ہے کہ عالم گیر مذہب بنی نوع انسان کے سامنے نہ صرف اعلیٰ اور ارفع اصول پیش کرے ،بلکہ ایک کامل اور اکمل نمونہ بھی پیش کرے۔ جہا ں یہ لازم ہے کہ عالم گیر مذہب کے اعلیٰ ترین اور افضل ترین اصول ہوں جو اقوام عالم پر حاوی ہو سکتے ہوں، وہاں یہ بھی لازم ہے کہ عالم گیر مذہب بنی نوع انسان کے سامنے ایک ایسا عالم گیر نمونہ بھی پیش کرے ۔جس کی شخصیت میں وہ اعلی ٰ اور ارفع اصول مجسم اور موجود ہوں اور جس کی دل آویز ذات و صفات تمام اقوامِ عالم کا نصب العین اور مطمع نظر ہوسکے، جس طرح عالم گیر مذہب کے اصول ہونے چاہئیں کے سب لوگوں کی ضمیریں ان کو مان سکیں ۔اسی طرح اس میں ایک ایسا عالم گیرنمونہ بھی ہونا چاہئے جس کے سامنے تمام دنیا بلا لحاظ رنگ، نسل، قوم اور ملک سر تسلیم خم کردے۔ عالم گیر مذہب میں نہ صرف عالم گیر اصو ل ہونے چاہئے بلکہ اس میں ایک ایسا عالم گیر نمونہ بھی ہو نا چاہیئےجس نے زمانہ ماضی میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہو اور دور ِحاضرہ میں وہ اقوام عالم کو کمالیت کے اوج کی طرف لے جاتا ہواور زمانہ مستقبل میں اپنے کامل نمونہ کے نور سے نوع انسانی کی راہ کو روشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
۷ ۔گناہ پر غالب آنے کی توفیق
عالم گیر مذہب کے لئے سب سے بڑی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کو گناہ اور بدی پر غالب آنے کی توفیق دے۔ عالم گیر مذہب کے لئے نہ صرف یہ لازم ہے کہ وہ اعلیٰ اور افضل اصول اور اخلاق حسنہ کی تعلیم دے اور ایک کامل نمونہ نوع انسانی کے پیش نظر رکھے، بلکہ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ وہ انسان کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ گناہ اور بدی کو مغلوب کرسکے ۔ خواہ وہ اس کے اند ر ہو یا اس کے ماحول میں ہو۔ہم نے سطور بالا میں یہ ذکر کیاہےکہ مجرد اصول خواہ وہ کتنے ہی بلند پایہ کےہوں ،اپنے اندر یہ قوت نہیں رکھتے کہ انسان میں ان پر چلنے کی ترغیب پیدا ہو۔ لازم ہے کہ ایک کامل اور نمونہ بھی ہو جو ان نیک اور اعلیٰ اصولوں پر خود چل کر دوسروں کو تحریص وترغیب دے سکے کہ وہ اس کے نقش قدم پر چلیں۔لیکن جولوگ گناہ کے غلام ہو کر بدی کے ہاتھوں بک چکے ہیں ،وہ اعلیٰ اصول اور کامل نمونہ کی تعریف وتوصیف میں رطب للسان توضرور ہوں گے، لیکن وہ خود گناہوں کی زنجیر میں ایسے جکڑے ہوتے ہیں اور ان کی قوت ِارادی اس قدرت سلب ہوجاتی ہے کہ نہ تومجرد اصول اور نہ کامل نمونہ ان کو اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے نفس امارہ کا مقابلہ کریں اور اپنی بدعا دتوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکیں۔بقول شخصے :
جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزہد
پر طبعیت اِ دھر نہیں آتی
مقدس پولس رسول کی طرح ان کی رات دن چیخ وپکا ریہی ہوتی ہے کہ ہائے میں گناہ کے ہاتھ بکاہوا ہو ں جس نیک اصول پر عمل کرنے کاارادہ کرتا ہوں وہ میں نہیں کرتا، لیکن جس بدی سے مجھے نفرت ہے میں وہی کرتا ہوں۔ مجھ میں کوئی نیکی موجود نہیں۔ البتہ نیکی کرنے کی خواہش مجھ میں موجود ہے، مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتا ۔چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اسےخود بخود بغیر شعوری ارادہ اور کوشش کے کرلیتا ہوں اور جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں بدی میرے پاس آموجود ہوتی ہے۔ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہو ں، اس گناہ کی قید سے مجھے کون چھڑائےگا؟(رومیوں ۱۴:۷۔۲۴)۔
عالم گیر مذہب کا کام ہے کہ ایسے شخص کو گناہ پر غالب آنے کی توفیق عطا کرکے اس کو بدی کی قید سے چھڑائے۔ اس کی قوت ِ ارادی میں جو سلب ہوگئی ہے، دوبارہ جان ڈالے اور اپنے مسیحائی دم سے اس مردہ کو ازسر ِ نوزندہ کردے۔ عالم گیر مذہب کا یہ کام ہےکہ گناہ گار شخص کے لئے ایسے مرغبات(مرغوبات:پسندہ چیزیں) اور محرکات مہیا اور پیداکرے کہ اس کی مردہ قوتِ ارادی تقویت حاصل کرکے از سر ِ نومضبوط اور طاقت ور ہوکر آزمائش کے وقت ان مرغبات او رمحرکات سے مدد پاکر کامل نمونہ کی طرف نظر کرکے گناہ اور بدی سے مردانہ وار مقابلہ کرسکے اور ان پر غالب آکر اعلیٰ اور افضل اصول پر عمل کرسکے۔ اگر کسی مذہب میں یہ طاقت نہیں کہ وہ گناہ گار کو گناہ پر غالب آنے کی توفیق دے سکے تو ایسا مذہب ہر گز عالم گیر نہیں ہوسکتا ۔ جس مذہب میں صرف اعلیٰ اصول ہی ہیں، وہ صرف اخلاقیات کا مجموعہ ہی ہوتا ہے اور وہ ایسے لوگو ں کے لئے ہی موزوں ہوسکتا ہے جن کی قوتِ ارادی ایسی زبردست ہوتی ہے کہ شیطان کا مقابلہ کرکے اس کو پچھاڑ لیں۔ وہ تندرست آدمیوں کی مانند ہیں، جن کو طبیب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈو آپ کو ایک کروڑانسانوں میں بصد مشکل ایک ایسا شخص ملے گا جس کی قوت ِ ارادی ایسی زبردست ہو کہ وہ ہر موقع پر آزمائش پر غالب آجائے ۔باقی ننانوے لاکھ ننانوے ہزارنوسو ننانوے اشخاص ایسے ہوں گے جو گناہ کی بیماری سے نحیف ،لا غر اور کمزور ہوگئے ہیں اور اپنی قوت ِ ارادی کو کھوکر لاچار اور بیزار بیٹھے ہیں۔ عالم گیر مذہب کا یہ کام ہے کہ ان لاکھوں اشخاص کی قوتِ ارادی میں از سرِِنو جان ڈال دے اور ان کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اپنے گناہوں پر غالب آسکیں۔
۸ ۔عالم گیر مذہب او رمسیحیت
ہم انشا اللہ اس رسالہ میں یہ ثابت کردیں گے کہ دنیا میں صرف مسیحیت ہی ایک ایسا واحدمذہب ہے جس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو عالم گیر مذہب میں ہونی چاہئیں۔ مسیحی مذہب اکیلا واحد مذہب ہے جو ان تمام شرائط کو جن کا ذکر اس باب میں کیا گیا ہے ،بدرجہ احسن پورا کرتا ہے۔ کلمتہ الله کی تعلیم تمام اعلیٰ ترین اور بلند ترین اصولوں پر مشتمل ہے۔ مسیحیت خدا اور انسان کی نسبت ایسی تعلیم دیتی ہے جس سے دیگر تمام مذاہب یکسر خالی ہیں۔ کلمتہ الله نے خدا کی ذات کی نسبت جو تعلیم دی ہے، وہ بے نظیر ،لا ثانی اور ابدی ہے۔ چونکہ حق اور صداقت ابدی حقیقتیں ہیں اور کلمتہ اللہ کی تعلیم حق ہے، لہٰذا وہ عالم گیر اور ابدی ہے۔ وہ نوع انسانی کے لئے تا قیامت قائم رہے گی، کیونکہ وہ حق پر قائم ہے (متی۲۵:۲۴)۔ چنانچہ فرانس کا نام وَر عقل پرست رینان(Renan) کہتا ہے کہ :
’’سقراط نے فلسفہ اور ارسطو نے سائنس کی بنیاد رکھی، لیکن مسیح نے بنی آدم کو ایسا مذہب دیا ہے کہ کسی کو تاحال یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس کے اصول میں کچھ کمی یا بیشی کرےاور مستقبل زمانہ میں بھی کوئی شخص ان میں کتر بیونت (جوڑ توڑ) نہیں کرسکےگا۔ کیونکہ اس کا مذہب ہر پہلو سے کامل اورہمہ گیر ہے ۔ خداوند مسیح کا پہاڑی وعظ تمام زمانوں کے واسطے ہے۔ایسا کہ خواہ دنیا میں کیسے ہی عظیم انقلابات برپا ہوں، دنیا کےانسان اس کےافضل، عقلی اور اخلاقی نصب العین سے منحرف اور رو گردان نہیں ہوسکتے ۔ ربنامسیح کی ذات پاک انسانیت کی عظمت وبرتری کی بلند ترین اونچائی پر ہے اور اس کی تعلیم زندگی اور نمونہ سے نوع انسانی کی ہمیشہ اصلاح او ر تجدید ہوتی رہے گی‘‘۔
کلمتہ اللہ کی شخصیت،نمونہ اور تعلیم ہمارے ملک کے ہمالیہ پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی ایورسٹ کی طرح ہے جس کی اونچائی تمام انسانی مساعی پر خندہ زن ہے۔یہ تعلیم نوع انسانی کی زندگی کی تمام منازل ومراحل میں ایسی راہ نما ہے جو ماورائے علم و تفکر اور منزہ عن الخطا( جو خطا نہ کرے) ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق جو تعلیم انجیل شریف میں پائی جاتی ہے ،وہ لاثانی اور لاجواب ہے ۔ اس کے اصول اقوام عالم پر حاوی ہیں او ر ان کا اطلاق کل ممالک و اقوام وازمنہ پر ہوتا رہا ہے۔ پس مسیحیت کے اصول عالم گیر ہیں۔ مسیحیت زمانہ ماضی میں تمام ممالک واقوام کے مذاہب پر فاتح رہی ہے۔دورِ حاضرہ میں تمام مذاہب اس کے جلالی اصول کی روشنی میں اپنی اصلاح میں مشغول رہتے ہیں۔ تاریخ عالم سے عیاں ہے کہ مسیحیت کے سوا کسی دوسرے مذہب کا مستقبل ہے ہی نہیں۔ اقوامِ عالم کے کل ادیان کی صداقتوں کے عناصر اس میں بدرجہ احسن موجود ہیں اور ادیان عالم کے باطل عناصر سے وہ سراسر پاک اور مبرا اور منزہ ہے۔ پس وہ اس لحاظ سے ایک جامع اور کامل مذہب ہے، جس کی نظیر صفحہ تاریخ میں نہیں ملتی ۔مسیحیت اقوام عالم کی قومی اور ملی نشوونما اور ترقی میں ممدومعاون رہی ہے اور اس نے ہر زمانہ اور ہر قوم وملک کی ضروریات کو بطرز ِ احسن پورا کیا ہے۔ابن الله کا کامل اور اکمل نمونہ صدیوں سے نوع انسانی کے پیش نظر رہا ہے اور اس نے کروڑہا انسانوں کو’’خدا کے فرزندبننے کا حق بخشا‘‘ ہے۔بقول عمر خیام:
آنہا کہ خلاصۂ جہاں انسان اند
ہر اوج ملک براق ہمت رانند
در معرفت ذات تو مانند فلک
سر گشتہ سر نگوں و سر گردانند
دورِ حاضرہ میں یہی کامل شخصیت دنیا کی راہ بر ہے اور مستقبل میں بھی ابن الله ہی روحانیت کی دنیا کاواحد تاج دار اور حکمران نظر آتا ہے۔ کلیسیائے جامع کے کروڑوں افراد کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ خداوند مسیح ان کو گناہوں سے نجات دے کر ان کو ایسا فضل عطا کرتے ہیں کہ وہ گناہ اور شیطان پر غالب آتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں’’کیونکہ اِبنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے‘‘(متی ۱۱:۱۸)۔’’ اَے محِنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کوآرام دُوں گا‘‘(متی۲۸:۱۱)۔
دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کے لوگ جو مختلف زمانوں میں آپ کے قدموں میں آئے بیک زبان اقرار کرتے ہیں کہ’’کیونکہ اُس کی معمُوری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل‘‘(یوحنا۱۶:۱)۔’’ مگر خُدا کا شکر ہے جو ہمارے جنابِ مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے‘‘ (۱۔کرنتھیوں۵۷:۱۵)۔’’ جو کوئی خُدا سے پَیدا ہُواہے وہ دُنیا پر غالِب آتا ہے اور وہ غلبہ جِس سےدُنیامغلُوب ہُوئی ہے ہمارا اِیمان ہے‘‘(۱۔یوحنا۴:۵)۔انشا اللہ ہم اس کتاب کے آئندہ ابواب میں اس حقیقت کو آشکار ا کردیں گے کہ تمام شرائط جن کا بیان اس باب میں کیا گیا ہے، بطرز ِ احسن مسیحیت میں پوری ہوتی ہیں اور مسیحیت اکیلا واحد اور فاتح حکمران اور عالم گیر مذہب ہے۔
باب دوم
مسیح کلمتہ اللہ
گوئی بغیر واسطہ درگوش خاکئے
رازے کزاں خبر بنوو جبرئیل را
(فصل اول)
مسیحیت کی تعلیم عالم گیر ہے
اس فصل میں ہم انشااللہ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیحیت کی تعلیم میں وہ کل خصوصیات بدرجہ احسن موجود ہیں جو عالم گیر مذہب میں ہونی چاہیئں۔ اس رسالہ کے باب اول کے شروع میں ہم نے یہ بیان کیا تھا کہ لازم ہے کہ عالم گیر مذہب میں خدا کا تصور اعلیٰ ترین قسم کاہو، جس کو تمام دنیا کے ممالک اور کل عالم کی اقوام قبول کر سکیں ۔علا وہ ازیں عالم گیر مذہب میں حقو ق العباد کا اخلاقی نصب العین ایسا ہونا چاہیئے جو جامع اور مانع ہو اور جس کے اصولوں کا اطلاق تمام نوع انسانی پر بغیر امتیاز ،نسل،قوم،رنگ،ملک،قبیلہ وغیر ہ ہو سکے۔بالفاظ دیگر عالم گیر مذہب کے اخلاقیت کا نصب زمان و مکان کی قیود سےا ٓزاد ہونا چاہیئے تا کہ اس کے اصولوں کا اطلاق تمام زمانوں ،ملکوں اور قوموں پر ہو اور ا س کے اصول سب عالم و عالمیان پر حاوی ہو ں۔
ہم نے اس موضوع پر ایک مبسوط رسالہ کلمتہ اللہ کی تعلیم لکھا ہے۔لہٰذا اس جگہ ہم نہایت مختصر طور پر فقط ان مسیحی اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جو مسیحی تعلیم کی اسا س ہیں۔ان کا سطحی مطالعہ بھی ناظرین پر ظاہر کر دیتا ہے کہ مسیحی تعلیم کے اصول جامع ہیں اور چونکہ وہ از سرتاپا اوراز ابتدا تا انتہا روحانی ہیں۔ لہٰذا وہ زمان و مکان کی قیود سے آزاد،عالم گیر اور کل اقوام و ممالک پر حاوی ہیں۔
۱ ۔خدا محبت ہے
کلمتہ اللہ کی تعلیم کا اصل الاصول یہ ہے کہ’’خدا محبت ہے‘‘(۱۔یوحنا۸:۴؛۱۶:۴)۔خدائے واحد ایک ایسی ہستی ہے جس کی ذات ہی قدوس محبت ہے ۔ آپ کی تعلیم کا تانا بانا صرف ا س ایک اصول سےبُنا ہے۔ اس تعلیم کے رگ وریشہ میں خدا کی اس پاکیزہ قدوس محبت کا تصور موجود ہے (۱۔یوحنا۱۶:۴؛ ۱۔کرنتھیوں۱۱:۳؛یوحنا۱۶:۳؛۲۳:۱۴۔۲۔ تھسلنیکیوں۱۶:۲)۔خدا کی تمام صفات (جو درحقیقت اس کی جو ہر ذات ہیں) فقط اس ایک اصول کے مختلف اور کامل ظہور ہیں۔ مسیحیت کے مطابق ان تمام صفات کا صحیح مفہوم صرف محبت کے اصول کی روشنی میں ہی معلوم ہوسکتا ہے۔مثلاً خدا قادر مطلق،ازلی ،لا محدود اور ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔ خدا کے حاضر و ناظر ہونے سے یہ مراد نہیں کہ خدا کسی مکان میں اس طور پر حاضر ہے جس طرح کوئی مادی اور دیدنی شے ہمارے مکان میں پڑی ہوتی ہے۔ باری تعالیٰ زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ،بالا،بر تر اور رفیع ہے۔ اس کی حضوری زمان و مکاں میں ظاہر ہوتی ہے، لیکن زمان و مکاں سے محدود نہیں ہوتی ۔چونکہ خدا کی ذات محبت ہے اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ وہ حاضر و ناظر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی محبت ہر جگہ اور ہر زمانہ میں حاضر وناظر ہے، جو زمان و مکاں سے محدود نہیں ہے۔ خدا ایک واجب الوجود ،ہمہ داں روح ہے۔ جس کی محبت ہر جگہ اور ہر زمانہ میں لامحدود طور پر موجود ہے، یعنی اس کی محبت کی قدرت کی کوئی حد نہیں۔ اس کی ازلی محبت ایسی قادر مطلق ہے کہ وہ ہر گناہ کو اسفل السافلین(دوزخ کا سب سے نیچا یعنی ساتواں طبقہ) سے بچانے پر قادر ہے(زبور۱۶:۱۸) ۔ اس کی محبت ہر جگہ اور ہر زمانہ میں حاضر وناظر ہے اور بد ترین گناہ گار کو دیکھ کر جوش میں آتی ہے اور بدترین خلائق کو روحانیت کے اوج بریں پر اپنی قدرت کاملہ سے پہنچا دیتی ہے۔اس ازلی محبت کی قدوسیت تمام نیک اخلاقیات کی سر چشمہ ،مرکز اور جلال ہے اور اخلاق کی ہستی کی بنا ہے جس طرح آفتاب عالم تاب تمام سیاروں کی نقل وحرکت کا مرکز ہے۔
خدا کی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا اپنی صفات حسنہ سے کل بنی نوع انسان کو متصف(موصوف۔وصف کیا گیا) کر دے، تا کہ نوع انسانی کے سب کے سب افراد اس کی محبت میں قائم رہ کر اس کے ساتھ روحانی رفاقت اور قرب حاصل کریں ۔ جس طرح ماں باپ کی محبت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے فرزندوں کی فلاح و بہبودی کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیں اور بچے ان کی محبت میں قائم رہیں ۔ خدا کا جوہر ذات محبت ہے جو خدا اور نوع انسانی کے باہمی تعلقات کی بنا پر ہے۔ خدا کی یہ محبت قدوس محبت ہے ۔اگر خدا محبت نہ ہوتا تو وہ قدوس بھی نہ ہوتا اوراگر وہ قدوس بھی نہ ہوتا تووہ محبت ہی نہ ہوتا۔خد ا کا جوہر ذات محبت ہے جو قدوس ہے۔قدوسیت اس کی محبت کا مرکز ہے۔پس خدا کی محبت اس بات کی خواہاں ہے کہ کل انسان پاک ہوں ۔پس انجیل جلیل خدا کی قدوس اور پاک محبت کو تمام انسانی اخلاقیات کا معیار قرار دیتی ہے۔
خدا کی ذات ہر قسم کے تناقض(ایک دوسر ے کے مخالف ہونا) اور تضاد سے پاک ہے ۔پس اس کی صفات کاملہ میں کسی باہمی تضاد و تناقض کا وجود ایک ناممکن امر ہے۔بعض کم فہم لوگ اس کے رحم ، قدوسیت اور عدل کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور اس مفروضہ تقابل سے بعض مسیحی مسائل کی تاویل کرتے ہیں ۔لیکن یہ تاویلات از سرتاپا باطل ہیں ،کیونکہ خدا ذات و صفات میں باہمی تضاد و تناقض کے وجود کا امکان سرے سے ہی نہیں۔ خدا کی قدوس محبت الہٰی صفت کو اپنے اندر جمع رکھتی ہے۔پس جہاں تک مخلوق کا ئنات کا تعلق ہے خالق کی محبت سے کوئی ایسی شے صادر نہیں ہو سکتی جو قدوس کے خلاف ہو اور اس کی قدوسیت کسی ایسی شے سے مطابقت نہیں رکھ سکتی جو محبت کے خلاف ہو۔ خدا قدوسیت اور محبت دو الگ الگ صفت نہیں بلکہ ایک واحد جو ہر ذات کے دو نام ہیں ۔خدا اپنی حکمت و قدرت سے تمام کائنات کا انتظام اپنی قدوس پرمحبت ذات کے مطابق سرانجام دیتا ہے۔اس کی حکمت ودانش کی صفت انتظام کائنات کی اصل ہے جو خلقت کی ترتیب میں موجود ہے اور خالق کا پتا دیتی ہے۔اس کی محبت ہر جگہ حاضر وناظر ہے جو کسی خاص قوم، ملت یا نسل یا فر د تک محدود نہیں ،بلکہ وہ تمام بنی نوع انسان اور اقوام عالم پر بلاامتیاز حاوی ہے۔ خدا اقوامِ عالم کے ہر فرد کے ساتھ’’ازلی اور ابدی محنت‘‘ رکھتا ہے (متی ۱۱:۷؛لوقا ۱۳:۱۱؛یرمیاہ۳:۳۱)۔خدا بلندو بالا ہے کیونکہ اس کی محبت انسانی قیاس سے کہیں زیادہ بلندو بالا ہے۔یہاں تک کہ ہر فرد بشر کے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں(متی۳۱:۱۰)۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی زندگی کا ہر واقعہ خواہ وہ اہم ہو یا معمولی ہو خدا کی بے زوال محبت کے دائرہ کے باہر نہیں ہے ۔
خدا کی قدوس’’ابدی محبت‘‘ کے اصل الاصول سے منجئ عالمین کی تعلیم کے تمام دیگر اصول کا استخراج ہوتا ہے۔ مسیحیت کے دیگر تمام اصول اسی ایک کلیہ قضیہ کے قدرتی اور منطقی نتائج ہیں۔ پس ایسے تمام تصورات جو خدا کی محبت کے نقیض ہیں ،انجیل جلیل کی اساسی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ مثلاً محبت کے کلیہ قضیہ سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا نیکی کا سرچشمہ ہے۔پس وہ بدی اور برائی کا سر چشمہ نہیں ہو سکتا،جیسا بعض مذاہب مانتے ہیں ۔ جس طرح نور اور تاریکی میں کوئی نسبت نہیں ہو سکتی ،اسی طرح ذات الہٰی جو قدوس ہے ایسے تمام تصورات سے پا ک ،منزہ ،اعلیٰ اوربالا ہے جو اصول محبت کے خلاف ہیں ۔علیٰ ہذا القیاس انجیلی تعلیم کے مطابق الہٰی صفت ’’قادر مطلق‘‘ سے مراد یہ نہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے، بلکہ اس کا یہ مطلب کہ وہ ان تمام امور کو اپنی قدرت کاملہ سے ظہور میں لا سکتا ہے جو اس کی ذات یعنی محبت کے خلاف نہیں ،بلکہ عین اس کے مطابق ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انجیل کے مطابق خدا کوئی جابر ،مطلق العنان،قہار ہستی نہیں ۔کیونکہ یہ اور اسی قسم کی دیگر صفات خدا کی محبت کے عین منافی ہیں۔ اگر ہم نے کسی مسیحی عقیدہ کےاصول کی صحیح واقفیت حاصل کرنی ہو تو فقط اس ایک اصول کی روشنی میں اس کو کماحقہ ‘سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اگرہم اس بنیادی اصول کو جو درحقیقت ایک کلید ہے ،نظر انداز کردیں گے تو کلمتہ اللہ کی تعلیم کو کسی صورت میں بھی نہیں سمجھ سکیں گے ۔
۲۔اہل یہود اور خدا کا تصور
خدا نے حضرت موسیٰ کو کوہ سینا پر یہ مکاشفہ عطا کیا تھا کہ جس خدا کی وہ عبادت کرتا ہے ،اس کا خاص نام ’’یہوواہ‘‘ ہے۔اہل یہود خدا کا یہ خاص نام زبان پر لانے کے خیا ل ہی سے کانپ اٹھتے تھے۔پس وہ اس خاص اسم اعظم کی بجائے خدا کے لئے دوسرے نام استعمال کرتے تھے۔ مثلاً ’’ادونائی‘‘بمعنی ’’آقا‘‘۔یہ نام بھی شاذو نادر ہی استعمال کیا جاتا تھا۔بعض اوقات خدا کے لئے لفظ ’’ایل‘‘ یا’’ایلوہیم‘‘ (جو توریت شریف کی پہلی کتاب پیدا ئش میں وارد ہوئے ہیں) استعمال کئے جاتے تھے۔ ایک ربی نے تو یہ فتویٰ صادر کیا تھا کہ جو شخص اپنی زبان پر خدا کا اسم اعظم یہوہ لائے وہ مستوجب قتل ہے۔ وہ خدا کے حکم(خروج۷:۲۰ ) کو توڑتا ہے ۔خدا کا یہ اسم اعظم ایسا مقدس سمجھا جاتا تھا کہ سردار کاہن تک اس کو زبان پر لانے سے خائف و ہراساں تھے ۔یہاں تک کہ یوم کفارہ کے روز بھی وہ دعا کے وقت دہشت کے مارے ’’یہوہ‘‘ کی بجائے کہتا تھا’’اے نام‘‘ میں نے تیرے حضور گناہ کیا ہے‘‘۔
دیگر اوقات میں خدا کے لئے لفظ’’آسمان اورقدوس ‘‘(یسعیاہ ۲۳:۲۹)،’’حق تعالیٰ (زبور ۱۳:۱۸)،’’ قدرت‘‘،’’قادر مطلق ‘‘(پیدائش ۱۱:۳۵)،’’ستودہ ‘‘(مرقس ۶۱:۱۴)،’’رحمان و رحیم ‘‘(نحمیاہ ۱۷:۹) استعمال کئے جاتے تھے۔ جہاں قوم یہود کی ہمسایہ مشرک بت پرست اقوام اپنے معبودوں اور دیوی دیوتاؤں کا نام جھجکے بغیر ’’جو پیٹر‘‘،’’ متھرا‘‘ وغیرہ عموماً زبان پر لاتی تھیں۔وہاں بنی اسرائیل کا اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ فرد جھجکے بغیرخدا کا خاص نام زبان پر نہیں لاتا تھا۔حقیقی اسرائیلی وہ تھا جو خدا سے ڈرتا تھا ۔
خدا نے اپنے رحم و کرم سے اقوام عالم میں سے قوم یہود کو چن کر بر گزیدہ کر لیا تھا۔ پس یہ قوم اپنے آپ کو خدا کی خاص منظور نظر خیال کرتی تھی۔ حالانکہ خدا نے توریت شریف میں ان کو نہایت صاف اور واضح الفاظ میں یہ جتا دیا تھا کہ اے میری خاص اور بر گزیدہ قوم خدا وندنے جو تجھ کو روئے زمین کی اور سب قوموں میں سے چن لیا ہے تا کہ تو اس کی خاص امت ٹھہرے۔خداوند نے جو تم سے محبت کی ہے اور تم کو چن لیا ہے،اس کا سبب یہ نہ تھا کہ تم شمار میں اور قوموں سے زیادہ تھے،بلکہ چونکہ تم سے خداوند کو محبت ہے۔تو اپنے دل میں ہر گز یہ نہ سو چنا کہ تیری نیکی کے سبب میں نے یہ کیا،کیونکہ تو ایک گردن کش قوم ہے اور خداوند سے بغاوت کرتی ہے(استثنا۷:۷؛۴:۹۔۷)۔ خداند خدا نے اہل یہود کی بار بار کی بغاوت کے باوجود اس بر گزیدگی کے تعلق کو قائم اور استوار رکھا ۔پس اس خاص قومی تعلق کی بنا پر اہل یہود کے بعض نبیوں اور زبور نویسوں نے بلند پروازی سے کام لے کر خدا کے کرم و فضل کو باپ کے کرم و فضل سے تشبیہ دی ہے(گنتی ۱۲:۱۱؛زبور۵:۶۸؛امثال۱۲:۳)۔ اس لحاظ سے خدا قوم اسرائیل کا صرف من حیث القوم ’’باپ ‘‘ تھا(یرمیاہ ۹:۳۱)۔لیکن قوم اسرائیل کی تمام تاریخ میں کسی ایک فرد نے بھی یہ جرأت نہیں کی تھی کہ وہ کہے کہ خدا بطور ایک فرد کے میرا باپ ہے۔بنی اسرائیل کی تمام تاریخ میں خدا کے لئے یہ خطاب نہ کبھی بولا گیا تھااور نہ سنا گیا تھا۔
۳۔ خدا بنی نوع انسان کا باپ ہے
بنی اسرائیل کی قوم کی تمام تاریخ میں حضرت کلمتہ اللہ اولین معلم تھے جنہوں نے پہلے پہل خدا کو ’’ابا‘‘یا’’اے میرے باپ ‘‘ کے کلمہ سےمخاطب کیا(مرقس ۳۶:۱۴) ۔ آپ نے ہمیشہ خدا کے لئے لفظ ’’باپ ‘‘استعمال کیا(لوقا۴۲:۲۲؛۴۶:۲۳) اور اپنے متبعین (پیروی کرنے والے )کو یہ خوشی کی خبر دی کہ خدا ان میں سے ہر فرد کا باپ ہے جو کل بنی نوع انسان سے ازلی اور ابدی محبت کرتا ہےاورفرمایا کہ جب تم دعا کرو تو کہو’’اے باپ‘‘(لوقا۲:۱۱؛ متی ۲۵:۱۱۔۲۷)،’’اے ہمارے باپ ‘‘(متی ۹:۶) ۔ پس کلمتہ اللہ نےہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ خدا اپنی’’ابدی محبت‘‘ کی وجہ سے بنی نوع انسان کا باپ ہے۔’’سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے‘‘( افسیوں ۶:۴)۔
’’ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے ساری چیزیں ہیں‘‘ (۱۔کرنتھیوں۶:۸)۔ اسی میں ہم جیتے چلتے پھرتے اور موجود ہیں (اعمال ۲۸:۱۷)۔’’ کیونکہ تم کو غُلامی کی رُوح نہیں مِلی جِس سے پھِر ڈر پَیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی رُوح مِلی جِس سے ہم اباّ یعنی اَے باپ کہہ کر پُکارتے ہیں‘‘(رومیوں ۱۵:۸؛گلتیوں ۴:۴) ۔کلمتہ اللہ نے ہم کوسکھایا ہے کہ دعا کے وقت خدا کو’’باپ‘‘ کہہ کر پکاریں (متی۹:۶)۔کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ اے بنی آدم’’میں تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہوگے‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۸:۶)۔’’ایک ہی روح میں باپ کے پاس ہماری رسائی ہو تی ہے‘‘(افسیوں ۱۸:۲)۔’’باپ نے ہم سے کیسی محبت کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم فرزند ہیں بھی‘‘(ا۔یوحنا۱:۳؛رومیوں ۱۵:۸ ) ۔ خدا ہر شخص سے محبت کرتاہے خواہ وہ کیسا ہی نالائق ہو ۔ چنانچہ کلمتہ اللہ نے فرمایا کہ ’’خدااپنے سورج کو بدوں اورنیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اورراستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے‘‘(متی۴۵:۵)۔’’وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے‘‘(لوقا۳۵:۶) ۔غرضیکہ’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت کی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا۱۶:۳)۔اس ابوت کی تہ تک ہم نہیں پہنچ سکتے ،کیونکہ وہ لا محدود ہے(ملاکی ۱۰:۲)۔
خدا کی محبت اور ابوت الہٰی کے دونوں تصور سند اور خبر ہیں۔’’خدا محبت ہے‘‘ کی خبر سے ہم کو یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ خدا اپنے مظہر سے بلند و بالا ہے اوراپنے مظہر کے اندر بھی موجود ہے۔خدا کی ابوت کی خبر سے ہم کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا اور انسان میں غیریت نہیں ہے،بلکہ انسان خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے(پیدائش ۲۷:۱)۔لفظ’’ابا،باپ‘‘ ہم کو اس اعلیٰ و ارفع اور بالاترین ہستی سے ملا دیتا ہے جس کی زندگی میں تمام کائنات کی زندگی ہے اورجس کی ذات سے محبت صادر ہو کر انسان تک پہنچتی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ لفظ ’’باپ ‘‘ایک انسانی محاورہ ہے۔پس اس لفظ سے خدا کی ذات میں تذکیر و تانیث کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔مراد یہ ہے کہ خدا کی نوع انسان کے لئے وہی درجہ رکھتا ہے جو انسانی تعلقات میں باپ یا ماں کو حاصل ہے اور کہ خدا ہر فرد بشر سے لامحدود ازلی محبت رکھتا ہے جس کا عکس دنیا میں ماں باپ کی محبت ہے۔
۴ ۔انسانی اخوت و مساوات کےاصول
جب کلمتہ اللہ اس دنیا میں آئے تو نو ع انسانی کی مختلف اقوام میں طرح طرح کی درجہ بندیاں موجود تھیں۔یونانی اپنی تہذیب پر فخر کرکے غیریونانیوں کو’’وحشی‘‘کے خطاب سے موسوم کرکے کہتے تھے کہ وہ یونانیوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔رومی اپنی سلطنت ،حشمت، قوت اور سطوت کی وجہ سے مغرور تھے اوریہود کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ یہود اس بات پر نازاں تھے کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم ہیں۔ لہٰذا وہ تمام غیر یہود کو جہنمی اور گمراہ شمار کرکے ان سے اس قدر پرہیز کرتے تھے کہ ان کی چھت تلے جانا بھی ناپاکی کا موجب سمجھتے تھے۔ یہود سامریوں ے ایسا کینہ اور عداوت رکھتے تھے کہ ان کے ساتھ میل جول رکھنا بھی خنزیر کے گوشت کی طرح حرام خیال کرتے تھے(عزر ا ۱۰،۳:۴؛یوحنا ۹:۴ ؛۴۸:۸ ؛ ۵۳:۹)۔
حضرت کلمتہ اللہ اس دنیا کے پہلے اور آخری معلم ہیں جنہو ں نے دنیا کی تمام اقوام کو خدا کی ابوت کا سبق سکھاکر انسانی اخوت ومساوات کے اصول کو چٹان کی طرح ایسا مضبوط قائم کیا کہ وہ تا ابد غیر متزلزل رہےگا۔ جو شخص خدا وند کی دعا(متی ۹:۶۔۱۳) کے ابتدائی الفاظ ’’اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے‘‘زبان پر لاتا ہے، اس کا ذہن خود بخود جملہ’’ ہمارے برادر جو زمین پر ہیں‘‘ کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مقدس یوحنا فرماتا ہے’’اگر کوئی کہے کہ مَیں خُدا سے محبّت رکھتا ہُوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھّے توجُھوٹا ہے کیونکہ جو اپنے بھائی سے جِسے اُس نے دیکھا ہے محبّت نہیں رکھتا وہ خُدا سے بھی جِسے اُس نے نہیں دیکھا محبّت نہیں رکھ سکتا۔اور ہم کو اُس کی طرف سے یہ حکم مِلا ہے کہ جو کوئی خُدا سے محبّت رکھتا ہے وہ اپنے بھائی سے بھی محبّت رکھّے‘‘(ا۔یوحنا۲۰:۴۔۲۱)۔ ہم اخوت انسانی کے اصول پر عمل کرنے ہی سے ابوت الہٰی کے تصورکو کماحقہ‘ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہم خدا کی ابوت کے اصول کو قبول کر سکتے ہیں ۔تاوقتیکہ ہم اخوت انسانی کے اصول کو قبول نہ کریں ۔دونوں اصول لازم و ملزوم اور اقلیم خیال میں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
چونکہ خدا کل بنی نوع انسان کا باپ ہے اور سب سے برابر اور مساوی طور پر محبت کرتا ہے ۔لہٰذا کل بنی نوع انسان اور اقوام عالم پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایسی محبت کریں جیسی وہ اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں( متی ۴۳:۵۔۴۷؛۳۹:۲۲؛۱۲:۷؛ لوقا۲۵:۱۰۔۳۷؛ یوحنا۳۴:۱۳؛ ۱۷:۱۵؛رومیوں۸:۱۳ ؛افسیوں۲:۵؛۱۔پطرس۲۲:۱؛۱۔یوحنا۱۰:۲؛۱۱:۳۔۲۳؛۷:۴۔۱۲؛۲۰:۴)۔
اس زریں جہاں گیری اصول اخوت و مساوات کو حضرت کلمتہ اللہ نے ایک لطیف تمثیل سے سمجھا یا۔چنانچہ انجیل مقدس میں وارد ہوا ہے کہ ایک دفعہ عالم شرع نے خداوند مسیح سے پوچھا کہ’’سب حکموں میں مقدم حکم کون سا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا کہ مقدم حکم یہ ہے کہ’’ اَے اِسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی سار ی جان اور اپنی ساری عقل اپنی ساری طاقت سے مُحبّت رکھ۔دُوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محُبّت ر کھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حکم نہیں۔‘‘(مرقس۲۹:۱۲۔۳۱)۔’’ اِنہی دو حکموں پرتمام توریت اور انبیا کےصحیفوں کا مدار ہے‘‘(متی ۳۶:۲۲۔۴۰)۔اس پر اس نے آپ سے دریافت کیاکہ میرا پڑوسی کون ہے؟منجی عالمین نے اس سوال کا جواب ایک تمثیل کے ذریعہ دیا اور فرمایا:
’’ایک آدمی یرُوشلیِم سے یریحُوکی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں میں گھِر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لِئے اور مارا بھی اور ادھمُؤا چھوڑ کر چلے گئے۔اِتفاقاًایک کاہِن اُسی راہ سے جارہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آنِکلااور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔اور اُس کے پاس آکر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اُس کی خبر گیری کی۔ دُوسرے دِن دو دِینار نِکال کر بھٹیارے کو دِئیے اور کہا اِس کی خبر گیری کرنا اور جو کُچھ اِس سے زیادہ خرچ ہو گا مَیں پِھر آکر تجھے ادا کردُوں گا۔اِن تیِنوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکُوؤں میں گھِر گیاتھاتیری دانِست میں کَون پڑوسی ٹھہرا۔اُس نے کہا وہ جِس نے اُس پر رحم کِیا۔ یِسُوع نے اُس سے کہا۔ جا تُو بھی اَیسا ہی کر‘‘(لوقا۳۰:۱۰۔۳۷)۔
اس تمثیل سے خداوند نے ایک سامری کو(جس سے یہود نفرت رکھتے تھے )حقیقی پڑوسی کا نمونہ دے کراخوتِ انسانی کی اس وقعت کو واضح کر دیا کہ بنی نوع انسان کا ہر فرد دوسرے کا بھائی ہے اور اس نوع کے سب افراد پر لازم ہے کہ وہ بلا امتیاز رنگ ،نسل،ذات ، درجہ ،ملت ،قوم وغیرہ ایک دوسرے سے اپنے برابر محبت کریں۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ اپنے ستانے والوں کے لئے دعا مانگو تاکہ تم اپنے پروردگار کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو۔ اگر تم اپنے بھائیوں ہی کو فقط سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو۔ چاہیئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہاراآسمانی باپ کامل ہے(متی۴۷:۵؛رومیوں ۲:۱۵؛خروج۴:۲۳؛احبار۱۷:۱۹)۔
ع پروانہ چراغ حرم ودیر نہ داند
۵ ۔انسانی مساوات کااصول
مرحوم حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رقم طراز ہیں :
’’حضرت مسیح کا ظہور ایسے عہد میں ہوا تھا جب یہودیوں کا اخلاقی تنزل انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا۔دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہری احکام و رسوم کی پرستش ہی دین داری اور خدا پرستی سمجھی جاتی تھی ۔یہودیوں کے علاوہ بھی جس قدر تمدن قومیں ان کے قرب وجوار میں تھیں ۔مثلاً رومی ، مصری،اسوری(آشوری) وغیرہ ۔ وہ بھی انسانی رحم و محبت کی رو سے یکسر نا آشنا تھیں۔ لوگوں نے یہ بات تو معلوم کر لی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہیئں ،لیکن وہ اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ رحم ،محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی روک تھام کرنی چاہیے۔انسانی قتل وہلاکت کا تماشا دیکھنا، طرح طرح کے ہولناک طریقوں (مثلاً صلیب) سے مجرموں کو ہلاک کرنا،زندہ انسانوں کودرندوں کے سامنے ڈال دینا، آبادشہر وں کو بلا وجہ جلا کر خاکستر کر دینا،اپنی قوم کے علاوہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بنا کر رکھنا،رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی فسادات،بے رحمی پر فخر کرنا،رومی تمدن کا اخلاق اور مصری اور اسوری دیوتاؤں کا پسندیدہ طریقہ تھا۔پس اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ نوع انسانی کی ہدایت کے لئے ایک ایسی ہستی مبعوث ہو جو سرتاپا رحمت و محبت کا پیام ہو اور جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کر کے صرف اس کی قلبی اور معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی تمام پیغمبرانہ ہمت مبذول کردے۔ چنانچہ حضرت مسیح کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہو گئی۔آپ نے جسم کی جگہ روح پر، زبان کی جگہ دل پراور ظاہر کی جگہ باطن پر نوع انسانی کی توجہ منعطف(مڑنے والا۔ متوجہ ہونے والا) کی اور اعلیٰ انسانیت کا فراموش شدہ سبق ازسر نو تازہ کردیا‘‘
(ترجمان القرآن ملخص) ۔
منجی عالمین نے ہم کویہ تعلیم دی کہ’’جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ سلوک کریں تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔‘‘(لوقا۳۱:۶)۔آپ نے فرمایا’’میرا حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت کی تم بھی ایک دوسرے سے محبت کرو‘‘(یوحنا۱۲:۱۵)۔’’جو پیغام تم نے شروع سے سنا وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کروجو محبت نہیں رکھتا وہ موت کی حالت میں رہتا ہے‘‘(۱۔یوحنا۱۱:۳)۔’’اے عزیز و آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت کریں کیونکہ محبت خدا کی طر ف سے ہے‘‘(۱۔یوحنا۷:۴) ۔’’آپس کی محبت کے سوا کسی چیز میں کسی شخص کے قرض دار نہ ہو ،کیونکہ جو دوسرے سے محبت کرتا ہے اس نے تمام شریعت پر پورا عمل کیا۔کیونکہ یہ باتیں کہ زنا نہ کر ،خون نہ کر ، چوری نہ کر،لالچ نہ کر اور ان کے سوا اور جو کوئی حکم ہو ان سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرو۔محبت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی ۔اس واسطے محبت شریعت کی تکمیل ہے‘‘(رومیوں ۸:۱۳)۔’’محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو‘‘(کلسیوں ۱۴:۳)۔’’تمہاری محبت آپس میں اور سب آدمیوں کے ساتھ زیادہ ہو اور بڑھے‘‘(۱۔تھسلنیکیوں۱۲:۳؛۹:۴؛عبرانیوں ۱:۱۳)۔’’جو کوئی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہے وہ نور میں رہتا ہے‘‘(۱۔یوحنا۱۰:۲؛۱۴:۳)۔
سطور بالا میں ہم نے جو تمثیل انجیل لوقا(۲۵:۱۰۔۳۷) سے نقل کی ہے اس کے الفاظ قابل غور ہیں ۔عالم شرع سے سوال ’’سب حکموں میں مقدم حکم کون سا ہے‘‘ کے جواب میں کلمتہ اللہ نے ’’(کلمہ )شماہ‘‘ کے الفاظ (استثنا۴:۶۔۵) کے ساتھ احبار کے الفاظ کو بھی یکجا کر کے شریعت کا خلاصہ شریعت کے الفاظ میں بتا دیا اور فرمایا کہ ان دو حکموں پر شریعت انبیا کا دارو مدار ہے(مرقس۲۸:۱۲۔۳۴؛ متی ۳۴:۲۲۔۴۰)۔ ان دونوں حکموں کو جو توریت شریف کی مختصر کتابوں میں منتشر تھے کلمتہ اللہ سے پہلے کسی ربی یا استاد نے یکجا نہ کیا۔آپ اس دنیا میں پہلے معلم تھے جنہوں نے خدا کی محبت اور انسانی اخوت و محبت و مساوات کے اصول کو یکجا کر کے دو حکموں کو ایک حکم کی لڑی میں منسلک کر کے اس کو شریعت اور صحائف انبیا کا نچوڑ قرار دے دیا۔ مشہور یہودی عالم او ر اناجیل کے مفسر مرحوم ڈ اکٹر مانٹی فیوری نے تمام یہودی لٹریچر کو چھان مارا ،لیکن اس نے کبھی یہ کہیں نہ پایا کہ ان دو احکام کو آں خداوند سے پہلے کسی نے یکجا کیا ہو۔ کلمتہ اللہ نے ان دو احکام کو ایسے محکم طور پر پیوستہ کر دیا کہ آپ کے وقت سے اب تک دنیائے اخلاق نے ان کو کبھی جد انہ کیا۔ابوت الہٰی اور اخوت و مساوات کے اصول نہ صرف ایک دوسرے سے منطقی طور پر وابستہ ہوگئے ہیں ،بلکہ دونوں احکام ایک دوسرے کی جان ہوکراور ہر ایک واحد اصول ہو کر علم الاخلاق کی بنیا د ہو گئے ہیں ۔
خدا کی ازلی محبت کے اصول اور خدا سے محبت رکھنے کے اصول میں علت و معلول کا رشتہ ہے ۔خدا کی محبت کا قدرتی اور منطقی نتیجہ انسان کا پیار ہے۔ خدا کی محبت مقدم ہے اور انسان کی خدا سے محبت موخر ہے۔ چنانچہ مقدس یوحنا لکھتا ہے ’’محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی ، بلکہ اس میں ہے کہ خدا نے پہلے ہم سے محبت کی ۔۔۔پس جب خدا نے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے‘‘(۱۔یوحنا۱۰:۴۔۱۱)۔ پس کلمتہ اللہ کی تعلیم کی اساس محبت کے اصول کے ہر سہ ظہور پر قائم ہے۔
اول ،خدا کی محبت انسان کے لئے جو مقدم ظہور ہے۔
دوم ،انسان کی محبت خدا سے ۔
سوم ،انسان کی محبت انسان سے۔
جس طرح خدائے قدوس کی محبت پاک ہے ،اسی طرح انسانی محبت پا ک ہے جس میں جنسی تصو ر کا سایہ بھی نہیں ۔انجیل جلیل کے اردو ترجمہ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’’محبت ‘‘ کیا گیا ہے،وہ’’ اگاپے‘‘(Agape) ہے جو یونانی زبان کے ادبی لٹریچر میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔اس لفظ ’’اگاپے‘‘ کے معنی ’’پاکیزہ محبت‘‘ ہیں۔ یہ لفظ یونانی بائبل کے علاوہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔یونانی ادبی کتب میں’’محبت‘‘ کے لیے لفظ’’ایروس‘‘(Eros) استعمال کیا جاتا تھا ،جس کے معنی ’’ناپاک عشق‘‘ ہے۔ لیکن یونانی انجیل میں لفظ ’’ایروس‘‘ کہیں بھی مستعمل نہیں ہے ، کیونکہ اس لفظ کے ساتھ جنسی ناپاک جذبات کا تلازم تھا جو کلمتہ اللہ کی تعلیم ،زندگی اور نمونہ کے کلی طور پر منافی تھا۔انجیل جلیل کا ایک ایک ورق اخوت و مساوات کے سنہری جہاں گیری اصول سے مزین ہے (متی۱۰:۱۸؛یوحنا۳۴:۱۳؛رومیوں۵:۱۲؛۸:۱۳؛ ا۔کرنتھیوں باب۱۳ ؛ گلتیوں ۱۳:۵؛۱۔یوحنا۲۰:۴؛مرقس۲۹:۱۲؛ متی۴۰:۲۲؛لوقا باب؛متی باب۱۸؛باب۲۵ وغیرہ وغیرہ ) ۔خدا کی ابوت اور انسانی اخوت کا تصور منجی عالمین کی تعلیم کی اساس ہے۔ مرحوم مولانا حالی کا یہ شعر انجیل شریف اور صرف انجیل شریف پر ہی صادق آتا ہے کہ :
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
اس عالم گیر محبت کے جہاں گیری اصول سے کوئی شخص یا طبقہ مستثنیٰ نہیں ہے ۔اس ایک اصول نے طرح طرح کی تفریق اور درجہ بندی کو مٹا دیا ۔ غلام اور آزاد ،غریب اور دولت مند،اعلیٰ اور ادنیٰ،عالم اور جاہل ،مرد اور عورت کا امتیاز ،غرضیکہ کلمتہ اللہ کے اس ایک اصول کے سبب ہر قسم کے امتیازات اس دنیا سے رخصت ہوگئے(رومیوں ۱۰:۲؛۸:۵؛۲۳:۶؛ا۔کرنتھیوں ۲۸:۱؛۲۔کرنتھیوں۱۷:۵؛ا۔یوحنا۱۲:۲۔۱۵ وغیرہ ) ۔ ناظرین پر ظاہر ہو گیا ہوگا کہ منجی عالمین کی تعلیم تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے جس میں یہود اور غیر یہود سب شامل ہیں ۔آپ نوع انسانی کے نجات دہندہ تھے۔پس آپ نے اپنے رسولوں کو الوداعی حکم دیتے وقت بھی نوع انسانی میں تفریق و تمیز نہ کی اور رسولوں کو فرمایا’’ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگِرد بناؤاور اُن کو باپ اور بیٹے رُوح اُلقدس کے نام سے بپتسمادو‘‘(متی۱۹:۲۸)۔آپ کے رسول دیگر یہود کی طرح غیر یہود سے نفرت رکھنے کی فضا میں بچپن سے پلے تھے ۔پس ا ن کے لئے یہ حکم سخت گراں تھا۔ خدا نے مقدس پطرس کو مکاشفہ کے ذریعہ انسانی اخوت و مساوات کا یہ سبق سکھایا کہ ’’۔۔۔ خُدا کِسی کا طرف دار نہیں۔ بلکہ ہر قَوم میں جو اُس سے ڈرتا اورراستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے‘‘(اعمال ۳۵،۳۴:۱۰)۔یہ حقیقت بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ کلمتہ اللہ نے بھی اسی نفرت کی فضا میں پرورش پائی تھی (استثنا۶:۲۳؛ عزرا۱۲:۹ ) جس میں آپ کے رسولوں اور ہم عصر یہود نے پرورش پائی تھی۔لیکن اناجیل اربعہ کا سطحی مطالعہ بھی ظاہر کر دیتا ہے کہ آپ نے کبھی یہود و غیر یہود،سامریوں ،رومیوں اور یونانیوں غرضیکہ کسی قوم کے افراد میں کبھی تمیز نہ کی ۔آپ خدا کی سب مخلوق سے آزادانہ نڈر ہو کر میل جول رکھتے تھے ۔سب کو بلا امتیاز نسل و قوم شفا بخشتے تھے اور خدا کی محبت کا پیغام سناتے تھے ۔خواہ وہ یہودی ہو یا غیر یہودی ،بڑا ہو یا چھوٹا،اعلیٰ ہو یا ادنیٰ،دولت مند ہو یا مفلس،عالم ہو یا جاہل،حاکم ہو یا محکوم ،ربی ہو یا سامری ،مرد ہو یا عورت ،فقیہ ہو یا فریسی ،راستباز ہو یا گنا ہ گار،مقتدر ہستی ہو یا محصول لینے والا اورمچھوا(ماہی گیر)۔ کلمتہ اللہ کی نظر ان ظاہری پردوں کو خاک کر کے ہمیشہ ہر فرد کےدل اور باطن پر پڑی اور آپ فوراً بھانپ جاتے کہ خدا کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔
۶۔نفس انسانی کی وقعت اوراحترام
جنابِ مسیح نے نہ صرف نفس انسانی کے احترام کا ہی حکم دیا، بلکہ آپ نے اپنے نمونہ اورکردار سے یہ حقیقت دنیا پر روشن کردی کہ خداوند کی نگاہ تمام ظاہری درجہ بندی سے پار ہوکر دل کی اندرونی حالت کو جان لیتی ہے اور ہر ذی روح شخص کی قدر اس کی روح کی وجہ سے کرتی تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ آپ سامریہ گئے(یوحنا۱:۴۔۴۲)۔آپ تھکے ماندے اور بھوکے تھے ۔ آپ کے حواریوں نےدرخواست کی کہ ’’اے ربی کچھ کھا لیجئے‘‘۔ آپ نے جواب دیا’’میرے پاس کھانے کے لئے ایساکھانا ہے جسے تم نہیں جانتے‘‘اور وہ کھانا کیا تھا ؟ایک بد چلن سامری عورت کی روح کو بچانا آپ کا کھانا تھا ۔چنانچہ آپ نے فرمایا’’میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اس کا کام پورا کروں‘‘۔یوں آپ نے ایک سامری کسبی کی روح کی قدر اور وقعت بھی دنیا پر ظاہر کر دی ۔ایک اَور دفعہ آپ نے طوفان میں اپنی او راپنے ساتھیوں کی جان کو خطرے میں ڈال کر جھیل کو پار کیا تاکہ ایک دیوانہ کی روح کو بچائیں ۔ آپ کی نظر میں سب سے بیوقوف وہ کاروباری شخص تھا جو اپنے مال کی فکر کرتا تھا، لیکن اپنی روح کی فکر نہیں کرتا تھا اور آپ نے فرمایا’’اگر آدمی ساری دنیا کو حاصل کرلے اور اپنی روح کو ضائع کردے تو اسے کیا فائدہ‘‘(مرقس ۳۶:۸)۔
جنابِ مسیح کے لئے کوئی شخص عام اور معمولی نہیں تھا ۔بھیک مانگنے والوں کی مالی اور سماجی حالت،کوڑھیوں کا کوڑھ ، دیوانوں کی دیوانگی ،بوڑھوں کا ضعف اور بیماری،گناہ گا رآدمیوں اور بدکار عورتوں کا سوسائٹی سے اخراج(لوقا۳۳:۷۔۳۵؛ متی ۱۹:۱۱؛مرقس۷:۲)، غرضیکہ کوئی بیرونی اور ظاہری شے کلمتہ اللہ کی نظر میں کسی انسان کی بیش قیمت روح کی قدر،وقعت اورنجات اخروی عطا کرنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث نہ ہوئی ۔آپ نے علیٰ الاعلان فرمایا کہ ہر انسان کی روح خدا کی نظر میں ایسی بیش قیمت ہے کہ’’ اس نےاپنا اکلوتابیٹا بخش دیا تاکہ جوکوئی اس پر(مسیح ) ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا۱۶:۳)۔آپ نے کہا کہ بد ترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کواچھوت،ادنی ٰاورہیچ سمجھتا ہے(لوقا۱۱:۱۸۔۱۴) اور فرمایا’’خبردار ان چھوٹوں میں سے کسی کوحقیر نہ جاننا‘‘(متی باب۱۸)۔آپ نے لوگوں کو متنبہ کرکے فرمایا کہ عدالت کے روز جب آپ منصف ِ حقیقی ہوں گے تو سب قومیں آپ کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ اپنی دہنی طرف والوں کو کہے گا کہ آؤمیرے باپ کے مبارک لوگوجو بادشاہت بنائے عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے ،اس کو میراث میں لو ۔کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا ، میں پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا ، ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا،بیمار تھا تم نے میری خبر لی ،قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔ تب راستباز جواب میں کہیں گے اے خداوندہم نے کب آپ کو بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا۔ ہم نے کب آپ کوپردیسی دیکھ کر گھر میں اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑ ا پہنایا ؟ہم کب آپ کو بیمار یا قید میں دیکھ کر آپ کے پاس آئے ؟ بادشاہ ان سے جواب میں کہے گا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ چونکہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا ،اس لیے میرے ہی ساتھ کیا۔پھر آپ بائیں طرف والوں سے کہیں گے کہ میں بھوکا تھاتم نے مجھے کھانا نہ کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا ، میں پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں نہ اتارا ، ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا،بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی۔ تب ناراست جواب میں کہیں گے اے خداوند ہم نے کب آپ کو بھوکا دیکھ کر کھانا نہ کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی نہ پلایا۔ ہم نے کب آپ کوپردیسی دیکھ کر گھر میں نہ اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑ ا نہ پہنایا ؟ہم نے کب آپ کو بیمار یا قیدمیں دیکھ کر آپ کی خدمت نہ کی ۔ اس وقت خداوندان سے جواب میں کہیں گےکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں چونکہ تم نے ان سب سے چھوٹوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ نہ کیا ،اس لیے میرے ساتھ نہ کیا(متی۳۱:۲۵۔۴۶)۔
ع ہر کہ بینی بداں کہ مظہر اوست
کہاں جنابِ مسیح کی تعلیم اور نمونہ اور کہاں مذاہب باطلہ اور یونانی فلاسفر افلاطون کا قول کہ بوڑھے مردوں اور بڑھیا عورتوں کو مار ڈالنا چاہیئے ، کیونکہ وہ ملک کے لئے بار گراں ثابت ہوتے ہیں ۔
ع بہ ہیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا
۷ ۔بچوں کی وقعت واحترام
بر ٹرنڈر سل جیسا مخالف مسیحیت اقبال کرتا ہے کہ مسیح کی آمد سے پہلے طفل کشی دنیا کے قریباً ہر کونے میں عمل میں آئی تھی ۔حتیٰ کہ فلاسفر افلاطون بھی اس قبیح رواج کی حمایت کرتا ہے،لیکن منجی عالمین نے دنیا جہاں کو بچوں کی وقعت و احترام کا سبق سکھایا اور فرمایا’’خبردار اِن چھوٹوں میں سے کسی کو نا چیز نہ جاننا کیونکہ مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ آسمان پر اُن کے فرشتے میرے آسمانی باپ کا مُنہ ہرو قت دیکھتے ہیں۔کیونکہ اِبنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔۔۔تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو‘‘(متی۱۰:۱۸۔۱۴)۔
ایک دفعہ آپ کے شاگردوں نے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے منع کیا۔آ پ یہ دیکھ کر خفا ہوئے اور فرمایا’’ بچّوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنہیں منع نہ کروکیونکہ خُدا کی بادشاہی اَیسوں ہی کی ہے۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی خُدا کی بادشاہی کو بچّے کی طرح قبُول نہ کرے وہ اُس میں ہرگِز داخِل نہ ہو گا‘‘(لوقا۱۶:۱۸۔۱۷)۔ آپ نے بچوں کو اپنی گود میں لیا اور ان پر ہاتھ رکھ کر برکت دی(مرقس۱۶:۱۰) اور فرمایا ’’ جو کوئی میرے نام پر اَیسے بچوں میں سے ایک کوقُبول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کرتا ہے اور جوکوئی مُجھے قبُول کرتا ہے وہ مُجھے نہیں بلکہ اُسے جِس نے مُجھے بھیجا ہے قبُول کرتا ہے‘‘(مرقس۳۷:۹)۔ پھر آ پ نے فرمایا’’جوکوئی اِن چھوٹوں میں سے جو مُجھ پر اِیمان لائے ہیں کسی کو ٹھوکر کھِلاتا ہے اُس کے لِئے یہ بِہتر ہے کہ بڑی چکّی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جائے اور وہ گہرے سُمندر میں ڈبودِیا جائے(متی۶:۱۸؛مرقس۴۲:۹؛لوقا۲:۱۷)۔ان الفاظ کی تہہ میں نہایت لطیف اور عمیق معانی ہیں جو ہر شخص کے حرز جا ن(بہت عزیز سمجھنا) ہو نے چاہیئں۔
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ آں خدا وند نے اپنے عالم گیر اصول محبت کا اطلاق بچوں پر کیا ۔ان کی قدرو منزلت کو بنی نوع انسان پر ظاہر کر دیا ،حتیٰ کہ فرمایا کہ جب تک ہم بچوں کی سی خو اور خصلت کو اختیار نہ کریں خدا کی بادشاہت میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے ۔ مسیحیت کے طفیل اب دنیا کی حالت کلتیہً بدل گئی ہے اور روز بروز تبدیل ہو رہی ہے۔ ایسا کہ گزشتہ ربع صدی میں اس کی کایا پلٹ گئی ہے۔چنانچہ شہرہ آفاق مورخ آرنلڈ ٹوئن بی(Toynbea) کہتا ہے کہ دور حاضرہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انسانی سماج کل بنی نوع انسان کی فلاح و بہبودی کی تدابیر و تجاویز میں کوشاں ہے۔مجلس اقوام متحدہ نے تو اس با ر گراں کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ لے لیا ہے۔ اس بیسویں صدی میں اس مجلس کی بین الا قوامی جماعت یونی سف(UNICEF)نے گزشتہ اٹھارہ سال میں بین الا قوامی بچوں کا فنڈ نہایت عظیم پیمانہ پر قائم کر دیا ہے تاکہ مختلف ممالک کے چھوٹے بچے جو عسرت اور افلاس کی وجہ سے زندگی کے لوازمات سے محروم ہیں ،وہ ان کی دیکھ بھال میں خرچ کیا جائے ۔اس جماعت کی شاخیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں جو ۴۸۵ منصوبوں اور پلانوں کے ذریعہ ان بچوں کی نگہداشت میں مصروف ہیں اور ان مختلف ممالک کے اسی کروڑ بچوں کو تنگی ،بیماری،افلاس اور جہالت سے نکال کر ان کی خوراک ،صحت ، رہائش،تعلیم وغیرہ کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں ۔
۸ ۔طبقہ نسواں اور مسیحیت
(۱)
جنابِ مسیح نے اپنے عالم گیر اصول محبت ،اخوت اور مساوات کا اطلاق طبقہ نسواں پر بھی کیا۔ آپ نے دنیا جہاں کو سکھایا کہ اس بد نصیب طبقہ کے ساتھ محبت و مساوات کا سلوک جائز رکھیں ۔کتاب مقدس کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے مردو عورت دونوں کو اپنی صورت پر بنایا اور کلمتہ اللہ نے اپنے نمونہ سے اپنی تعلیم پر عمل کر کے دکھا دیا کہ اس طبقہ کی واجبی عزت و تکریم اورقدر کرنی چاہیئے(یوحنا۱:۴۔۲۷)۔جس طرح گناہ گار مردوں کو آپ خدا کی محبت اور مغفرت کی خوشخبری کا پیغام دیتے تھے ، اسی طرح آپ نےگناہ گار عورتوں کو خدا کی ابدی محبت کا جاں فزا پیغام دیا اور وہ آں خداوندکے قدموں میں آکر ابدی نجات حاصل کرتی تھیں (لوقا۳۷:۷۔۳۹؛۳،۲:۸)۔یہ طبقہ آپ کے احسانات کا اس قدر شکر گزار تھا کہ عورتیں اپنی دولت خدا وند کے قدموں میں نثار کر دیتیں (لوقا۳،۲:۸) حتیٰ کہ آپ کے آخری لمحوں میں آپ کے لئے ماتم کرتی نکلیں اور صلیب کے موقع پر کھڑی گریہ و زاری کرتی رہی تھیں(لوقا۲۷:۲۳)۔
(۲)
کلمتہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے کہ مرد اور عورت کے جنسی تعلقات الہٰی انتظام اور منشا کے مطابق ہیں (متی۴:۱۹۔۶) اور فرمایا کہ ابتدا سے خدا کی منشا یہی تھی کہ مرد ایک عورت سے ہی بیاہ کرے(مرقس۲:۱۰۔۹)۔آپ نے شاد ی کی محفل میں جا کر بیاہ کو ایک قابل قدر اور معزز شے بنا دیا (یوحنا باب۲)۔آپ نے کثرت ازدواج اور طلاق کو جو ایک دوسرے کے ہم دوش(برابر ) ہیں ،قطعی ممنوع قرار دے دیا۔کیونکہ یہ دونوں آپ کے اصول محبت اور مساوات کے خلاف ہیں (متی۶،۵:۱۹) اور یوں آپ نے نفسانی خواہشات کا سد باب کر دیا(متی۴:۱۹؛ مرقس۲:۱۰)۔ منجی کونین کے رسولوں نے اپنے خداوند کے اصول کی روشنی میں شوہر اور زوجہ کے تعلقات کے حقوق کی مزید توضیح کی اور فرمایا اے شوہروں اپنی بیویوں سے محبت رکھو(افسیوں۲۵:۵)۔شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے محبت رکھیں اور ان سے تلخ مزاجی نہ کریں(کلسیوں ۱۹:۳) ۔ شوہر اپنی بیوی کا حق ادا کرے اور ویسا ہی بیوی شوہر کا۔بیوی اپنے بدن کی مختار نہیں بلکہ شوہر مختار ہے ۔ اسی طرح شوہر بھی اپنے بدن کا مختار نہیں بلکہ بیوی مختار ہے(۱۔کرنتھیوں۲:۷۔۴)۔اگر کوئی اپنے گھرانے کی خبر گیری نہ کرے تو وہ ایمان کا منکر اور بے ایمان سے بد تر ہے(۱۔تیم۸:۵)۔
’’ اَے بِیویو! تم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابِع رہو۔اِس لِئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تَو بھی تمہارے پاکیزہ چال چلن اور خَوف کو دیکھ کر بغَیر کلام کے اپنی اپنی بِیوی کے چال چلن سے خُدا کی طرف کِھنچ جائیں۔ اور تمہاراسِنگار ظاہِری نہ ہو یعنی سر گُوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا۔بلکہ تمہاری باطِنی اور پوشِیدہ اِنسانِیّت حِلم مِزاج کی غُربت کی غَیر فانی آرایش سے آراستہ رہے کیو نکہ خُدا کے نزدِیک اِس کی بڑی قدر ہے۔۔۔ اَے شَوہرو! تم بھی بِیویوں کے ساتھ عقل مندی سے بسر کرو اور عَور ت کو ناز ک ظرف جان کر اُس کی عِزت کرو اور یُوں سمجھو کہ ہم دونوں زِندگی کی نِعمت کے وارِث ہیں تاکہ تمہاری دُعائیں رُک نہ جائیں‘‘(۱۔پطرس۱:۳۔۷؛کلسیوں ۱۹،۱۸:۳)۔
(۳)
کہاں یہ انجیلی تعلیم اور کہاں دیگر مذاہب کی تعلیم کہ خالق نے سرشت سے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔اس کا وجود صرف نسل کی افزائش کے لئے ہے اور بذات خود وہ کوئی خود مختار ہستی نہیں رکھتی۔ وہ بچپن میں اپنے باپ کی ، جوانی میں اپنے خاوند اور خسر کی اور بڑھاپے میں اپنے بیٹوں کی محکوم ہو کر زندگی گزارے۔اگر کسی کی عورت بد خوہو،خاوند مار پیٹ سے کام لے ۔ منو( ہندوؤں کے مذہبی قانون دھرم شاستر کا مصنف) تنبیہ کر کے مردوں کو کہتے ہیں کہ جو شخص اپنا فرض ادا نہیں کرتا،وہ نئے جنم میں غلام یا حیوان یا عورت کاجنم لے گا۔انسانی معاشرت کی ابتدائی منازل میں مرد ایک عورت سے زیادہ عورتوں کو بیاہ لیتے تھے ،کیونکہ دشمنوں کے مقابلہ کے لئے بھیڑبکریاں چرانے اور کھیتی باڑی کے کام کے لئے مردوں کو زیادہ بچوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ ان کا مقولہ تھا’’ جوانی کے فرزند ایسے ہیں جیسے زبردست کے ہاتھ میں تیر۔ خوش نصیب ہےوہ آدمی جس کا ترکش ان سے بھرا ہے(زبور۴:۱۲۷۔۵)۔لیکن ذرائع معاش اور سیاسی و اقتصادی حالات کے بدلنے سے بیوی بچوں کی تعداد پر حد لگانے کی ضرورت لاحق ہو جاتی تھی۔علاوہ ازیں زیادہ لونڈیوں اور بیویوں کی کفالت،ا ن کی باہمی رقابت،حسد اور سوکن کا جلاپا،آئے دن گھریلو جھگڑے ،خانہ جنگیاں، وراثت کے مسئلے ،مقدمے،کثرت اخراجات اور اسی قسم کی بیسیوں دقتوں سے مجبور ہو کر مرد زیادہ نکاحوں سے پرہیز کرنے لگے۔رفتہ رفتہ کثرت ازدواجی اور طلاق کی رسم کم اور ایک ہی بیوی سے عمربھر نباہنے کی رسم ترقی کرنے لگی۔ مہذب ممالک کے قوانین اور سماج اس کی رسم کے معاون ہو گئے اور تعدد ازدواجی صر ف افسوس ناک عیش پسندوں کے لئے رہ گئی ۔
اہل یہود کی تاریخ میں عورتیں حکمران تھیں ( قضاۃ۴:۴)،شاعرہ تھیں( خروج۲۱:۱۵) ۔حتیٰ کہ ان میں سے بعض نبیہ بھی تھیں (خروج ۲۰:۱۵؛ میکاہ ۴:۶؛ ۲۔سلاطین۱۴:۲۲؛۲۔تواریخ ۲۲:۳۴؛ نحمیاہ۱۴:۶)۔لیکن بایں ہمہ عورتوں کی حیثیت عام سماجی زندگی میں مردو ں سے کم پایہ کی تھی۔ نکاح کا مقصد نسل کی افزائش تصور کی جاتی تھی اور اس حقیقت کو بھلا دیا گیا کہ خدا نے حوا کو اس غرض سے پیدا کیا تھا کہ وہ ہر بات میں اس کا ساتھ دے اور خدا نے دونوں کو ’’یک تن‘‘ قرار دیا تھا(پیدائش۲۴،۱۸:۲)۔
آں خداوند کے ایام میں عورت کے باپ کو واحد اختیار حاصل تھا کہ وہ اس کے لئے خاوند کو تجویز کرے ۔اس انتظام میں بیٹی کو چوں و چرا کرنے کا مطلق مجاز نہ تھا۔ کسی کاہن کے وسیلہ فریقین کا نکاح نہیں پڑھا جاتا تھا، بلکہ جب طرفین بیاہ کا انتظام کرلیتے تو دولہا اپنی دلہن کا ہاتھ پکڑ کر کہتا تھاکہ تو موسوی شریعت اور قوم اسرائیل کے رواج کے مطابق میری بیوی ہو گئی ۔منگنی اور بیاہ میں کوئی تمیز نہ تھی ،بلکہ دونوں ایک ہی تھے (متی۱۸:۱ )۔اس رسم کے بعد دولہن دولہا کے گھر چلی جاتی تھی جہاں وہ حسب توفیق ضیافت کرتا تھا (یوحنا۱:۲۔۲)۔اس ضیافت میں کم ازکم دس مہمانوں کی موجودگی بطور گواہ لازم تھی ۔آں خداوند کے زمانہ میں اہل یہود کے ربیوں نے چاربیویوں سے نکاح کرنے کی حد لگا دی تھی۔
(۴)
موسوی شریعت میں زنا کاری کی ممانعت ہے(خروج ۱۴:۲۰) اور منکوحہ زانیہ کی سزا سنگساری ہے ،کیونکہ ایسی سزا خاندان کے وجود اور بقا کا تحفظ کرتی ہے۔پس منکوحہ زانیہ کی سزا زناکار مرد سے زیادہ سخت ہے۔زناکار منکوحہ نہ صرف اپنے خاوند سے بے وفائی کرتی ہے ،بلکہ خاندان اور قوم میں ایسا بچہ لے آتی ہے جو اس کے خاوند کا نہیں ہوتا۔ایسے بچہ کی پیدائش سے خاندانی تعلقات بگڑ جاتے ہیں اور وراثت اور جائیداد پر اثر پڑتا ہے،لیکن خاوند کی بے وفائی سے یہ حالات پیدا نہیں ہوتے۔اگر خاوند کسی کی منگیتر اور منکوحہ عورت سے زنا کرے تو وہ مستوجب سزا ہو جاتا ہے۔ ان سزاؤں کا ذکر گنتی باب۵ اور استثناباب۲۲ میں مفصل طور پر پایا جاتا ہے۔زنا بالجبر کی حالت میں صرف مرد کو سزا ملتی ہے۔اگر کوئی مرد کسی کنواری سے زنا کرنے کے بعد اس سے نکاح کرے تو اس کا نکاح فسخ(توڑنا،منسوخ کرنا) نہیں ہو سکتا تھا۔
مرد عورت کو مختلف وجوہ کے باعث طلاق دے سکتا تھا ،کیونکہ وہ اس کا مال تصور کی جاتی تھی۔لیکن چونکہ شوہر بیوی کا مال نہ تھا ،پس عورت مرد کو طلاق نہیں دے سکتی تھی۔طلاق کے قوانین و قواعداستثنا۱:۲۴؛یسعیاہ ۱:۵۰؛یرمیاہ۸:۳؛متی۳۱:۵ میں درج ہیں ۔مطلقہ عورت کی زندگی دکھوں سے بھری ہوئی تھی۔ طلاق کے بعد عموماً وہ اپنے والدین کے گھر چلی جاتی تھی۔اگر طلاق کی وجہ زنا نہ ہوتی تو بچوں کی سپردگی عورت کو دی جاتی تھی۔ لڑکا ۶ سا ل کی عمر تک اور لڑکی جب تک اس کی شادی نہ ہو جائے مطلقہ ماں کے ساتھ رہتے تھے ۔طلاق کے وقت ہر خاوند کو زر مہر(کتوبہ) ادا کرنا پڑتا تھا اور یہ ہر مرد پر گراں گزرتا تھا۔پس یہودی قانون اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا کہ خاوند اپنی منکوحہ عورت کو ایک بار طلاق دے کر اس کو پھر اپنے نکاح میں بھی لے لے۔ حضرے کلمتہ اللہ نے سوائے زنا کی وجہ کے ہر دوسری حالت میں طلاق کو ممنوع فرما دیا(متی باب۱۹،مرقس باب۱۰، لوقا باب۱۶)اور یہ حکم دیا کہ مرد صرف ایک ہی بیوی پر قناعت کرے(مرقس۶:۱۰۔۹)۔
(۵)
کلمتہ نے موسوی شرع کی ایک نئی تفسیر کی۔موسوی شرع میں حکم تھا کہ’’تو زنا نہ کرنا‘‘(خروج۱۴:۲۰)،لیکن یہودی ربی اس حکم کی نرالی تفسیر کرتے تھے۔ایسا کہ اس حکم میں اور آ ٹھویں حکم’’تو چوری نہ کرنا‘‘(خروج۱۵:۲۰) میں فرق نہ رہا تھا۔ وہ زنا کی ممانعت کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ عورت کسی نہ کسی مرد کا مال ہوتی ہے(خروج۱۷:۲۰) ۔لہٰذا کسی عورت سے زنا کرنا پرائے مال پر ہاتھ ڈالنا ا اور پرائے شخص کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے برابر ہے۔
کلمتہ اللہ نے زنا کے حکم کو ناپاکی اور شہوت سے منسلک کیا اور فرمایا کہ اس حکم کا تعلق پرائے شخص کے مال سے نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اس کے ساتھ زنا کر چکا۔’’ اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھِلائے تو اُسے نِکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ کانا ہو کر زِندگی میں داخِل ہونا تیرے لِئے اِس سے بِہتر ہے کہ دو آنکھیں رکھتا ہُوا تُو آتش جہنّم میں ڈالا جائے‘‘ (متی۹:۱۸؛مرقس ۴۷:۹)۔ پس خداوند نے طبقہ نسواں کی حیثیت کلتیہً بدل دی۔وہ کسی انسان کی جائیداد منقولہ کی بجائے بذات خود ایک مستقل ہستی بن گئی جو مردوں کی طرح (لوقا۶:۱۳)غیر فانی روح رکھتی تھی اور خدا کی فرزند ہونے کا حق رکھتی تھی(یوحنا۱۲:۱)۔
(۶)
کلمتہ اللہ کے زمانہ میں جنسی تعلقات کا فیصلہ مردوں کے ہاتھوں میں تھا۔تمام روئے زمین کی عورتوں کی قسمت کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں تھی۔دیگر مذاہب عالم یہ فرض کر لیتے تھے کہ عورت ذات کو کسی نہ کسی کے قبضے میں ہونا ضروری ہے۔ منو سمرتی کی طرح ان مذاہب کے مطابق عورت کابچپن ،عالم شباب غرضیکہ اس کی زندگی کی تمام منزلیں آدمیوں کے ہاتھوں میں تھیں اور یہ ضروری خیال کیا جاتا تھا کہ جس طرف مرداُن کی باگ موڑیں ،وہ چلیں۔یہ کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا کہ عورت کا وجود کسی مرد کے حبالہ ٔ عقد(نکاح کا بندھن) میں آٓئے بغیر ممکن ہو سکتا ہے۔دنیا کے تمام غیرمسیحی مذاہب یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس دنیا میں عورت کے وجود کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہو کر اپنی زندگی بسر کرے۔اس کی وقعت قوم اور ملک کے لیے بچے پیدا کرنے کی مشین سے زیادہ نہیں۔مسیحیت ہی اکیلا واحد مذہب ہے جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ عورت بغیر نکاح کے اور بغیر مال منقولہ کے متصور ہوئے اپنی زندگی عزت کے ساتھ بسر کر سکتی ہے۔ایک مورخ کہتا ہے کہ’’ مسیحیت کا بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ایک کنواری عورت مدت العمر کنواری رہ سکتی ہے‘‘۔کلمتہ اللہ کے طفیل عورت بذات خود ایک مستقل ہستی ہو گئی ہے۔انسان کے جنسی تعلقات کو پورا کرنے اور اس کی شہوت کا آلہ کار نہیں رہی۔بلکہ وہ مرد کی طرح خدا کی فرزند بن گئی ہے او ر مرد کے ساتھ خدا کی بادشاہت کی ہم میراث ہو گئی ہے۔وہ مسیح کے ساتھ روحانی رفاقت رکھنے والی ہو گئی ہے۔مرد کے بدن کی طرح عورت کا بدن بھی روح القدس کا مسکن بن گیا ہے(۱۔کرنتھیوں۱۹:۶) اور مرد اور عورت دونوں پر واجب ہو گیا ہے کہ وہ اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کریں تاکہ ان کی روح اور جان اور بدن خداوند مسیح کی آمد ثانی تک کامل طور پر بے عیب رہ کر محفوظ رہیں (۱۔کرنتھیوں۲۰:۶؛ا۔تھسلنیکیوں ۲۳:۵)۔پس کلمتہ اللہ کے زریں اصول کے مطابق عورت اور مرد کا درجہ مساوی اور بر ابر ہو گیا ہے۔ چونکہ منجی کونین مرد اور عورت دونوں کے یکساں طور پر نجات دہندہ ہیں۔پس دونوں ایک ہی ایمان میں شریک اور ایک ہی وراثت کے ہم میراث ہو گئے ہیں(گلتیوں۲۸:۳؛۱۔پطرس۷:۳)۔مقدس لوقا کی انجیل اور کتاب اعمال الرسل سے ظاہر ہے کہ عورتیں کلیسیائی زندگی میں بڑا حصہ لیتی تھیں (اعمال ۱۴:۱)۔کرنتھیوں کے نام پہلے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتیں محبت کی ضیافت میں مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی تھیں اور دعا اور نبوت میں برابر حصہ لیتی تھیں ۔وہ رسولوں کی خدمت کرنے میں مشغول رہتی تھیں اور کلیسیائی عہدوں پر بھی مامور ہوا کرتی تھیں (رومیوں ۱:۱۶؛۱۔تیمتھیس ۱۱:۲؛۳:۵۔۱۶)۔جرمن نقاد ہارنیک کہتا ہے کہ ’’انجیل کی کتب میں سے ایک کتاب یعنی عبرانیوں کا خط ایک عورت پر سکلہ کا تحریر کیا ہوا ہے‘‘۔اگر یہ صحیح ہے تو ایک عورت کی زبر دست تصنیف کو انجیلی مجموعہ میں شامل ہونے کا شرف ملا۔
ہم سطور بالا میں بتا آئے ہیں کہ اہل یہود کی تاریخ میں عورتیں حکمران ہو چکی تھیں(قضاۃ۴:۴)۔لیکن چونکہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر حکومت اور فضیلت حاصل ہے۔لہٰذا ازروئے شرع کوئی عورت کسی اسلامی مملکت کی سربراہ حکومت نہیں ہو سکتی۔چنانچہ ۱۹۶۵ء کے انتخابات میں جب بی بی فاطمہ جناح کو پاکستان کی پریذیڈنٹ ہونے کے لئے نام زد کیا گیا تو دیوبند کے مفتی سید مہدی حسن صاحب نے لکھا کہ :
’’شریعت کی کتابوں کی ورک گردانی اور مطالعہ مفاہیم و صراحت نصوص سے یہی ثابت ہے کہ اسلامی نظریہ کے ماتحت عورت صدر مملکت اور سربراہ سلطنت نہیں ہو سکتی۔اس کا مردوں پر حاکم ہونا جائز نہیں ۔شرعاً عورت بااختیار حکمران نہیں ہوسکتی‘‘۔
(رسالہ الفرقان لکھنؤ،فروری ۶۵ء ،صفحہ۴)۔
۹۔ذات پات اور درجہ بندی
منجی عالمین کے زریں اصول ہر قسم کی تفریق ،درجہ بندی ،ذات پات اور دیگر تمام انسانوں کی بنائی ہوئی جدائیوں اور مصنوعی امتیازات کے خلاف ہیں ۔آپ کے اصول محبت،اخوت اور مساوات جمع ہیں اور اس میں ہر قوم ،ملت ،ملک اور زمانہ کے ہر طبقہ کے تمام افراد یکساں طور پر شامل ہیں۔وہ سب پر حاوی ہیں ۔کوئی فرد بشر ان سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا ۔چنانچہ مقدس پولس فرماتا ہے کہ خداوند کے ان اصول کی وجہ سے اب ’’ نہ کوئی یہُودی رہا نہ یُونانی۔ نہ کوئی غُلام نہ آزاد۔ نہ کوئی مر د نہ عَورت کیونکہ تم سب مسیح یِسُوع میں ایک ہو‘‘(گلتیوں ۲۸:۳)۔یعنی یہود کو اپنی بر گزیدگی پر، یونانیوں کو اپنی حکمت ا ور خر د پر،آزاد انسانوں کو غلام رکھنے پر ،فخر نہ رہا اور مرد کوعورت پر فوقیت نہ رہی ۔قومیت کی درجہ بندی، حشمت اور دولت کی درجہ بندی ، جنسی درجہ بندی غرضیکہ ہر قسم کی جدائی اور درجہ بندی کا قلع قمع ہو گیا ۔سب مصنوعی امتیازات مٹ گئے اور خداوند مسیح کے حلقہ بگوش ہو کر سب ’’مسیح یسوع میں ایک ہوگئے‘‘۔
ایک دفعہ خداوند کے دو از دہ رسولوں میں یہ تکرار ہو گئی کہ ہم میں سے کون بڑا ہے۔خداوند نے ان سے فرمایا کہ اقوام عالم کے بادشاہ ان پر حکومت چلاتے ہیں اور جوان پر اختیار رکھتے ہیں وہ خداوند ِنعمت کہلاتے ہیں ،لیکن تم ایسے نہ ہونا ،بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے اور جو تم میں اول ہونا چاہے وہ تمہاراغلام بنے۔میں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں ۔کیونکہ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خد مت لے بلکہ اس لئے آیا کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتوں کے لئے فدیہ میں دے(لوقا۲۴:۲۲۔۲۷؛متی۲۰:۲۰۔۲۷)۔آپ نے اپنی زندگی کی آخری شب میں اپنے اس حکم پر خود عمل فرما کر اپنے رسولوں کو نمونہ دیاجو وہ کبھی نہ بھولے ۔چنانچہ آپ نے آخری کھاناکھانے سے پہلے’’دستر خوان سے اُٹھ کر کپڑے اُتارے اور رُومال لے کر اپنی کمر میں باندھا۔اِس کے بعد برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور جو رُومال کمر میں بندھا تھا اُس سے پونچھنے شروع کئے۔۔۔ جب وہ اُن کے پاؤں دھو چُکا اور اپنے کپڑے پہن کر پھر بیٹھ گیا تو اُن سے کہاکیا تم جانتے ہوکہ مَیں نے تمہارے ساتھ کیا کِیا ؟تم مُجھے اُستاد اور خُداوند کہتے ہو اور خُوب کہتے ہوکیونکہ مَیں ہُوں۔ پس جب مجھ خُداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دُوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ کیونکہ مَیں نے تم کو ایک نمونہ دِکھایا ہے کہ جَیسا مَیں نے تمہارے ساتھ کِیا ہے تم بھی کِیا کرو۔مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ نوکر اپنے مالِک سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ بھیجا ہُؤا اپنے بھیجنے والے سے۔اگر تم اِن باتوں کو جانتے ہو تو مُبارک ہو بشرطیکہ اُن پر عمل بھی کرو‘‘(یوحنا۴:۱۳۔۱۷)۔عربی زبان میں مثل مشہور ہے’’سید القوم خادم ہم‘‘ یعنی قوم کا امیر جماعت وہی بنتا ہے جو قوم کی خدمت کرے۔کلمتہ اللہ نے یہ حکم دے کر اور اپنے حکم پرعمل کر کے ایک بے نظیر نمونہ دے دیا تا کہ آپ کے متبعین(متبع :اتباع کرنے والا۔پیروی کرنے والا) یہ سمجھ لیں کہ غربا اور پس ماندگان کی خدمت ہی حقیقی عظمت اور امارت ہے۔
انجیل مقدس میں کلیسیائے جامع کا تصور افسیوں کے نام خط میں پایا جاتا ہے۔اس کا سطحی مطالعہ بھی یہ ثابت کر دیتا ہے کہ کلیسیائے جامع کا نصب العین یہی ہے کہ اس میں ہر قسم کے امتیازات کلیتہً بٹ جائیں اور کلیسیا تمام قسم کے افراد اور اقوام عالم کو اپنے اندر جمع کرے(افسیوں۱۴:۲۔۱۶) اسی واسطے مسیحی کلیسیا کو ’’کیتھو لک کلیسیا‘‘ یا’’کلیسیائے جامع‘‘ کہا جاتا ہے اور تمام دنیا کے مسیحی خواہ وہ کسی جماعت و فرقہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں اپنے عقیدہ میں اقرار کر کے کہتے ہیں ’’میں ایک واحد کیتھولک(جامع) کلیسیا پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔
۱۰ ۔ مسیحیت اور نئی پیدائش
کلمتہ اللہ کی تعلیم محض اخلاقیات پر ہی مشتمل نہیں اور نہ یہ تعلیم سچے اور اعلیٰ ترین اصول کا محض ایک مجموعہ ہے،بلکہ آپ کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ آپ کی تعلیم اور نمونہ سے نوع انسانی کے دل بدل جائیں (یوحناباب۳) تا کہ انسانوں کے جذبات و خیالات اور افعال ایسے تبدیل ہو جائیں کہ جن اشخاص کو وہ پہلے نفرت ،حقارت یا عداوت کی نظر سے دیکھتے تھے ،اب ان کو برادرانہ محبت سے پیار کریں اور عزت کی رو سے ان کو اپنے سے بہتر سمجھیں(رومیوں۱۰:۱۲؛عبرانیوں ۱:۳۔۵؛۱۔پطرس ۸:۳؛۲۔پطرس۷:۱)۔یہی وجہ تھی کہ عوام الناس جن کو یہودکے ربی ان کی جہالت کی وجہ سے ملعون خیال کرتے تھے (یوحنا۴۹:۷) کلمتہ اللہ کی تعلیم اور دیگر لیڈروں کی تعلیم میں فرق پہچان سکتے تھے (مرقس۲۲:۲) اور آپ کی تعلیم کو سننے کے لئے دشت و بیابان میں کئی کئی دن ٹھہرے رہتے تھے اور بھوک اور پیاس کو بھول جاتے (مرقس۲:۸)۔عوام الناس آپ کے کلمات طیبات کو سننے کے اس قدر مشتاق ہوتے کہ ہجوم میں کھوے سے کھوا چھلتا (کندھے سے کندھا رگڑ کھاتا تھا)تھا ۔ایسے موقعوں پر آپ کشتی میں بیٹھ جاتے اور لوگ آپ کے پاس ساحل پر کھڑے گھنٹوں آ پ کی تعلیم سے بہرہ ور ہوتے (مرقس۲۰:۳؛۱:۴) اور کہتے کہ کسی دوسرے انسان کی تعلیم کے الفاظ نے ان کی زندگیوں کو ایسا متاثر نہ کیا(یوحنا۴۶:۷)۔
بیانے را کہ کس واقف نبا شد نکتہ پروازی
زمانے را کہ کس دانا نبا شد،ترجماں استی
کلمتہ اللہ کے پیغام کی یہ خصوصیت ہے کہ جو کسی دوسرے دین و مذہب میں نہیں کہ آپ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ آپ کی انجیل کے پیغام سے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل جائے گا اور دنیا کی کایا ایسی پلٹ جائے گی کہ وہ از سر نو پیدا ہوگی اور ہر قسم کے امتیازات ،تفریق اور درجہ بندی کا استیصال ہو جائے گا ۔اس مبارک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جنابِ مسیح کی تعلیم انسان کے لئے نئے شرعی قوانین کو مرتب نہیں کرتی، بلکہ انسانی زندگی میں ایک نئی روح پھونکتی ہے۔کلمتہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ہم زندگی کو ایک نئے زاویہ سے دیکھیں ۔چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک یہودی ربی آپ کے پاس آیا تاکہ آپ کی تعلیم میں کوئی نیا شرعی قانون دریافت کرے ۔آپ نے اس کوصاف فرمایا ’’جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا‘‘(یوحنا۳:۳)۔ہم پہاڑی وعظ کو سمجھ ہی نہیں سکتے تاوقتیکہ ہم خدا کی بادشاہت میں اس نئی رویا کو نہ دیکھیں ۔جو خداوند مسیح ہم کو دکھاتا ہے اور جس کو دیکھ کر انسان کی زندگی کلیتہً تبدیل ہو جاتی ہے ۔آپ نے خود فرمایا’’اگر کوئی خدا کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس تعلیم کی بابت جان جائے گا‘‘(یوحنا۱۷:۷)۔مقدم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذہنیت اور زندگی کو تبدیل کریں اور اپنی مرضی پر چلنے کی بجائے خدا کی مرضی پر چلنے کا مصمم ارادہ کریں ۔
۱۱ ۔بیرونی افعال اور مسیحیت
کلمتہ اللہ (مسیح ) کی اخلاقیات اور مذاہب ِ عالم کی اخلاقیات میں نمایاں فرق یہ ہے کہ دیگر ادیان کی نگاہ انسانیت کے ظاہری اعمال وافعال پر ہے، لیکن مسیحیت کی نگاہ انسان کے باطن پر ہے۔ دیگر مذاہب کی یہ کوشش ہے کہ انسانی زندگی کے بیرونی افعال کی نگہداشت کریں تاکہ وہ اعمال صالح کرنے والے ہوں اور بد اعمالیوں سے پرہیز کریں ۔ یہ مذاہب شرعی احکام مثلاً خون نہ کر ، چوری نہ کر ،زنا نہ کر، وغیرہ صادر کرتے ہیں تاکہ انسان کے ظاہری اعمال کو قابو میں رکھیں۔ لیکن کلمتہ اللہ کی نگاہ انسان کے باطن پر ہے۔ آپ کی یہ تعلیم ہے کہ خدا ہمارے ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا ،بلکہ اس کی نگاہ ہمارے باطن پر ہے ۔ایسا اکثر ہوتاہے کہ انسان خون، چوری اور زنا کے ظاہری اعمال سے پرہیز کرتا ہے ،لیکن اس پر بھی وہ خدا کی نظرمیں ان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ رضائے الہٰی کا تعلق صرف ظاہری اعمال کے ساتھ نہیں ہوتا،بلکہ ہمارے دلوں کے جذبات کےساتھ ہے۔ خدا کی مرضی تب پوری ہوتی ہے جب ہماری نیت صاف اور ہمارا باطن پاک ہو ۔اگر ہمارا دل صاف نہیں تو گو ہم ظاہری افعال کے ذریعہ چوری یا زنا وغیرہ کے مرتکب بھی نہ ہوئے ہوں ،تاہم خدا کی نظر میں ہم نے ان گناہوں کا ارتکاب کرلیا ۔
رضائے الہٰی کا اصلی تعلق ہمارے اندرونی خیالات ،احساسات اور جذبات کے ساتھ ہے ۔کلمتہ اللہ نے فرمایا’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خُون نہ کرنا اور جو کوئی خُون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائِق ہوگا۔لیکن میں تم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصّے ہو گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا ۔۔۔ پس اگر تُو قُربان گاہ پر اپنی نذر گُزرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرےبھائی کو مجھ سے کُچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربان گا ہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے مِلاپ کر تب آکر اپنی نذر گُزران۔۔۔ تم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زِنا نہ کرنا۔لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہُوں کہ جِس کسی نے بُری خواہش سے کِسی عورت پر نِگاہ کی وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا ‘‘(متی ۲۱:۵۔۲۸)۔دیگر مذاہب گناہ کے مرض کے بیرونی آثار یعنی اعمال کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں ،لیکن خداوندمسیح گناہ کے مرض کی تشخیص کرکے اس کے اندرونی او رپنہاں اسباب کا قلع قمع کرتےہیں تاکہ گناہ کا مریض کلیتہً صحت یاب ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ جنابِ مسیح کی نگاہ دولت پر نہیں بلکہ دولت کی محبت پر ہےاور آپ اس سے نوع انسانی کو خبردار کرتے ہیں(لوقا۱۵:۱۲)۔ آپ کی نظر زناکاری پر نہیں بلکہ بُری خواہش پر ہے جس کا آپ سدِ باب کرنا چاہتے ہیں (متی ۲۸:۵)۔آپ کی نظر خون ،قتل، جنگ اور تشدد پر نہیں بلکہ کینہ توزی(کینہ رکھنا۔حسد کرنا) اور عداوت پر ہے، جس کا آپ استیصال کرنا چاہتے ہیں (متی۴۳:۵۔۴۸)۔ جب انسان کے خیالات اور جذبات درست ہوں گے تو افعال خود بخود درست ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ انہی خیالات اور جذبات کے نتائج ہوتے ہیں۔
کلمتہ اللہ نے گناہ کی بیخ کنی کرنے کے لیے نیک اعمال اور بدافعال کے شرعی قوانین کو مرتب نہ کیا ،بلکہ اعمال کے لئے ایک نیا اصول قائم کردیا۔جس سے دنیا نا آشنا تھی یعنی آپ نے اصول ِ محبت کو وضع کیا ۔کیونکہ بالفاظ انجیل شریف’’جو دوسرے سے محبت رکھتا ہے اس نے شریعت پر پورا عمل کیا۔ کیونکہ یہ باتیں کہ زنا نہ کر ،خون نہ کر ، چوری نہ کر اور ان کے سوا اور جوکوئی حکم ہو ان سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھو محبت اپنےپڑوسی سے بدی نہیں کرتی اس واسطے محبت شریعت کی تکمیل ہے‘‘(رومیوں ۸:۱۳ ۔ ۱۰ )۔اس اصول کا تعلق قانونی نکتہ نگاہ سے نہیں ہے ۔کیونکہ شریعت اورقانون صرف ظاہری اعمال اور بیرونی افعال پر ہی حاوی ہوتے ہیں۔ لیکن محبت کا اصول اعمال کے بیرونی پردہ کو چاک کرکے انسان کے اصلی ارادہ او ر خفیہ رضائے پنہاں پر نگاہ کرتا ہے ۔لہٰذا وہ شریعت سے بالا اور کل روحانی زندگی پر حاوی ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔
۱۲ ۔نجات اور ابدی زندگی کا مفہوم
عام طور پر نجات کے تصور کو موت کے بعد کی زندگی سے متعلق سمجھا جاتا ہے اور موجودہ زندگی کو دارالعمل قرار دے کر اخروی زندگی کو ہی اصلی اور حقیقی زندگی تصور کیا جاتا ہے۔چنانچہ ایڈیٹر صاحب رسالہ الفرقان (ربو ہ) ماہ جولائی ۱۹۶۵ء کے شمارہ میں (سورہ ٔ عنکبوت کی آیت۶۴)’’وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ‘‘ زیر عنوان ’’اسلام کا معیار نجات‘‘ کو لکھ کر اس کا یوں ترجمہ کرتے ہیں’’یعنی آنے والی زندگی ہی حقیقی اور اصلی دائمی زندگی ہے‘‘۔ آیت کے اقتباس کے بعد وہ لکھتے ہیں ’’پس یہ دنیاتو آخرت کے لئے کھیتی ہے۔یہ تو امتحان کی جگہ ہے۔ اس جگہ کے اعمال کا پورا ثمرہ اگلے جہان میں ملے گا۔۔۔اسلام نے نجات کی اہلیت اور عدم اہلیت کا معیار یعنی پاس اور فیل ہونے کے لئے معیار آیات ذیل میں ذکر فرمایا ہے:
فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ۔ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ۔وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ۔ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ (سورہ القارعہ آیات۶۔۹) ترجمہ: ’’جن لوگوں کے(نیک اعمال کے )پلڑے بھاری ہوں گے ،وہ عافیت اور خوشی کی زندگی میں داخل ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ، ان کا ٹھکانا گڑھا یعنی جہنم ہوگا‘‘۔
فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فِیۡ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ (سور ہ المومنون آیات ۱۰۳،۱۰۲)۔
ترجمہ:’’ جن کے نیک اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے ،وہ عافیت او ر خوش حالی میں رہنے والے ہوں اور جن کے یہ پلڑے ہلکے ہوں گے، وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو خسارہ میں ڈالا۔وہ جہنم میں سدا رہنے والے ہوں گے‘‘۔
وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَظۡلِمُوۡنَ (سورہ اعراف آیات۸۔۹) ۔
ترجمہ:’’ اس دن وزن صحیح طور پر ہو گا جن کے تنگ اعمال والے پلڑے بھاری ہو ں گے ، وہ عافیت اور خوشی پائیں گے او ر جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے، وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہماری آیات پر ظلم کر کے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا‘‘۔
ان آیات کا اقتباس کر کے ایڈیٹر صاحب ان کا مطلب یوں واضح کرتے ہیں
’’قرآن مجید کی ان آیات میں اعلان فرمادیا گیا ہے کہ اس دنیا کے امتحان میں پاس ہونے کا اقل معیار یہ ہے کہ انسان کی نیکیاں اسکی بدیوں سے زیادہ ہوں ۔گویا اس مقابلہ میں جو شخص سو(۱۰۰) میں سے اکیاون (۵۱) فیصد نمبر لے گا وہ کا میاب ہوگا ۔البتہ زیادہ نمبر پانے والے اعلیٰ درجات حاصل کریں گے ۔۔۔۔اسلام کا یہ معیار نجات فطرت کے عین مطابق ہے اور نہایت معقول ہے ۔اس پر ذرا سا تدبر کرنے سے اسلام کی دیگر ادیان پر فضیلت وبرتر ی روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے ‘‘۔
(ص ۵۰۴)
مذکورہ بالا آیات اور ان کی وضاحت سے ظاہر ہے (۱) نجا ت کا تعلق موجودہ زندگی سے نہیں بلکہ حیات بعد الموت سے ہے (۲) یہ دنیادارالعمل ہے اور حیات بعد الممات حقیقی اصلی اور دائمی زندگی ہے (۳) ہر شخص کے نیک وبد اعمال پلڑوں وزن کئے جائیں گے جس شخص کے نیک اعمال کا پلڑا اعمال بد کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہوگا وہی جنت میں داخل ہوگا لیکن جس شخص کے نیک اعمال بد کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہوگا وہی جنت میں داخل ہوگا لیکن جس شخص کے نیک اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ جہنم میں داخل ہوگا (۴) نیک وبد اعمال گویا اناج کے دانوں کی طرح گنتی میں الگ الگ ہوں گے نجات یافتوں کے نیک اعمال کی تعداد کم ازکم( ۵۱ ) فیصد ہوگی اور جہنم واصل ہونے والوں کے نیک اعمال کی تعد اد(۴۹) فیصد یا اس سے زیادہ کم ہوگی ۔
(۲)
انجیل جلیل کی تعلیم میں نجات کا مفہوم مذکور بالا معیار اور قصور سے کلیتہ ً مختلف ہے ۔جیسا ہم سطور بالا میں ذکر کرچکے ہیں منجی عالمین کی تعلیم کے مطابق گناہ کا تعلق نہ صرف بیرونی افعال سے ہے (جو مرض گناہ کے صرف جسمانی اور ظاہری نشان ہیں ) بلکہ گناہ کا اصلی تعلق انسان کے اندرونی منشا ،ارادہ اور نیت سے ہے جو اس کے اصلی محرک اور سر چشمہ ہیں ۔حق تو یہ ہے کہ ہمارے کردہ گناہ کم ہوتے ہیں اور نا کردہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔انسانی نیت اور ارادہ کا تعلق انسان کی روح سے ہے جو مادی شے نہیں بلکہ باطنی جا سکتے ہیں اور نہ امتحان کے نمبروں کی طرح گنے جا سکتے ہیں اور نہ مقدارمیں تولے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ مختص بالکیفیت ہوتے ہیں ۔وہ نہ بیرونی اور ظاہری ہوتے ہیں اور نہ مادی ہوتے ہیں بلکہ باطنی نفسی اور ذہنی ہوتے ہیں اور بدی کی قلبی کیفیات نہ تو ایک دوسرے سے جدا کی جا سکتی ہیں اور نہ بھاری یا ہلکی قراردی جاسکتی ہیں ۔
بغرض محال کسی شخص کی نیکیاں (۵۱) فیصد یا زیادہ اور بدیاں (۴۹) فیصد یا کم وبیش ہوں تو کون شخص ہے جو اپنی نیکیوں پر اتراکرخدا کی قدوس نظر میں ان کا شمار وحساب کرسکتا ہے ۔حضرت داؤدخدا سے دعا کرتے ہیں ’’ اے خداوند اپنے بندے کو عدالت میں نہ لا کیونکہ کوئی انسان جیتی جان تیری نظر میں راستباز نہیں ٹھہر سکتا ‘‘(زبور ۲:۱۴۳)۔
’’اے خداوند ۔اگر تو بداعمالیوں کا حساب کرے تو کون تیرے حضور کھڑا رہ سکے گا ۔لیکن مغفرت تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘(زبور۳:۱۳۰)۔
حضرت ایوب کہتے ہیں ’’اگر میں گناہ کرو ں تو اے خداوند تو مجھ پر نگراں ہے اور مجھے بدکاری سے بری نہیں کرے گا ۔اگر میں بدی کروں تو مجھ پر افسوس ۔اگر میں صادق ہوں تو کبھی بھی اپنا سر تیرے حضور نہیں اٹھا سکتا کیونکہ میں رسوائی سے مبرا ہوں (۱۴:۱۰۔۱۵)
(۳)
منجی عالمین فرماتے ہیں ’’میں تم کو اصل حقیقت بتلاتا ہوں ۔جو کوئی گنا ہ کرتا ہے وہ گناہ کا غلام ہے ‘‘( یوحنا ۳۴:۸) گناہ کی گرفت ایک ایسی غلامی جس سے گناہ گار انسان نہ تو کسی مقام کی یاترا اور زیارت کر کے اور نہ کسی دریا کے پانی میں اشنان کر کے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔گنہگار انسان صرف خلوص دل سے خدا کی بے بہا اور بے پایا ں محبت پر ایمان لانے سے اور سچی توبہ کرنے سے گناہ کی عادت پر خدا کا فضل پاکر غالب آسکتا ہے ۔ہم سب اپنے تجربہ سے جانتے ہیں کہ یہ عادت ایسی زبردست ہوسکتی ہے کہ توبہ شکنی بھی گناہ کے غلام کی عادت ہوجاتی ہے ۔ع
ہست استغفار مامحتاج استغفار ما
خداباپ کی ازلی محبت اور بے پایا ں رحمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے گنہگار بندہ کو جو شیطانی خیالات وجذبات کا غلام ہوچکا ہے اپنے فضل کی قدرت کاملہ کے وسیلے قلبی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔اس کے سوا گناہ کا اور کو ئی چارہ نہیں ۔گناہ گار اپنے گناہوں کے ہاتھ بک جاتا ہے اور اس غلامی سے ایسا مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ہر چند کوشش کرتا ہے کہ اس سے آزاد ہوجائے ،لیکن جب وہ اپنے آپ کو خدا کی محبت کے حوالے کردیتاتو بقول مقدس پولس رسول خداکی محبت اس کے دل میں افراط سے موجزن ہوکر (رومیوں ۱۵:۵) اس کے اندر سچی توبہ پیداکردیتی ہے۔’’جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں خدا کا فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا(رومیوں ۲۰:۱۵) ۔جوانسان کو اطمینان اور سکون قلب بخشتا ہے (متی ۲۸:۱۱)
چند انکہ دست وپازدم آشفتہ تر شدم
ساکن شد م ،میانہ دریا کنار شد
گناہ گار شخص کو جنہم کا خوف اور سزا کا ہول اس کی بدعادات کے پنجہ سے نہیں چُھڑاتا اور نہ چھڑا سکتا ہے ۔ہر شخص جس کا قید خانوں سے سابقہ پڑتا ہے جانتا ہے کہ سزا کا خوف مجرم کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ مجرم قید خانہ سے چھوٹ کر آگے سے زیادہ نڈر ہوجاتا ہے اور شوق سے جرم کی طرف قدم بڑھاتا ہے ۔علاوہ ازیں گناہوں کے بدلے سزا اور عذاب دنیا بدی کا اضافہ کرنا ہے ۔چنانچہ عمر خیام کہتا ہے ۔
ناکردہ گناہ در جہان کیست ،بگو
آنکس کہ گناہ نکرد،چوں زیست بگو
من بدکنم وتوبد مکافات دہی
پس فرق میان من وتو چیست ،بگو
گناہ کے مرض کا واحد علاج خداکی بے پایاں ازلی محبت کا احساس ہے ۔ خدا کی محبت نہ صرف گنہگار کے گناہوں کو معاف کرتی ہے بلکہ اس کی روح کو اپنے چشمہ فیض سے توبہ کے آنسوؤں سے دھوکر ازسر نو بے گناہ بنا دیتی ہے ۔اسی محبت کا مظہر مسیح ہے اور یہی انجیل کی خوشخبر ی ہے جو ہم تمام گنہگاروں کو سناتے ہیں
نامائیم بلطف حق تو لاکردہ
وز طاعت ومعصیت مبرا کردہ
آنجاکہ عنایت تو باشد ،باشد
ناکردہ چوں کردہ ،کردہ چوں ناکردہ
ہر تائب گناہ گار کا یہ تجربہ ہے کہ جہاں گناہ زیادہ ہوتا ہے وہاں خدا کی مغفرت ومحبت کا فضل نہایت فراواں ہوتا ہے (رومیوں ۲۰:۵)۔عمرخیام کہتا ہے ۔
صدسال بامتحاں گناہ خوائم کرد
با جرم من است بیش یا رحمت تو
کسی گنہگار کے دل سے سزا کی ہیبت اور عقوبت کی دہشت گناہ کی بیخ کنی نہ کر سکی اور نہ کر سکتی ہے ۔صرف خدا کی ازلی محبت جس کا ظہور ابن اللہ کی زندگی اور موت میں ہوا اس کے دل میں سچی توبہ پیداکر سکتی ہے اور دوہزار سال سے کرتی چلی آئی ہے (اعمال ۱۲:۴؛ لوقا۵۶:۹؛ یوحنا ۱۶:۳ )۔
جیسا انجیل میں باربار ذکر آیا ہے کہ خدا کی ذات گنہگار کی طرف پیش قدمی کرتی ہے جس کے فضل سے گنہگارکو یہ تو فیق حاصل ہوتی ہے کہ گناہ پر غالب آئے ۔لیکن ہر حالت میں پہل ہمیشہ خدا کی محبت کرتی ہے ۔
بوئے گل خود بہ چمن راہ نما شدزنخست
ورنہ بلبل چہ خبر داشت کہ گلزار ے ہست
انجیل کی تعلیم کے مطابق نجات کا مطلب کسی دوسرے جہاں میں عیش وآرام میں رہنا نہیں ہے ۔بلکہ نجات کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اسی جہاں میں گناہ سے مخلصی اور گناہ کی نیت اور ارادہ کی غلامی کے پنجے سے چھٹکارہ حاصل کرنا اور گناہ کی عادت سے رہائی پاتا ہے ۔نجات یافتہ لوگ وہ ہیں جو اسی دنیا میں گناہ اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوکر خداکی قربت وفرزندیت اور پدرانہ محبت میں قائم رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں(لوقا۹:۱۹؛ طیطس۱۲:۲؛ یوحنا ۱۲:۱، ۱۳؛ ۳۴:۸ وغیرہ)۔
حضرت کلمتہ اللہ اور آپ کی انجیل کے مطابق نیک زندگی خودابدی زندگی ہے جو زمان ومکان کی قیود سے بلند وبالا ہے ۔چنانچہ آپ نے فرمایا ’’میں تم سے ایک حق بات کہتا ہوں کہ جو میراکلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ۔ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے اور وہ موت سے نکل کرزندگی میں داخل ہوگیا ہے (یوحنا ۲۴:۵) ہم جانتے ہیں کہ ہم موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگئے ہیں کیونکہ ہم بھائیوں (نوع انسانی ) سے محبت رکھتے ہیں ‘‘۔(۱۔یوحنا۱۴:۳) نیکی کی زندگی خود ابدی زندگی ہے ۔اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔جسمانی موت نئی زندگی کی ابتدا ہے جس سے موجودہ جسم میں تغیر اور تبدیلی وقوع میں آئی ہے اور یہ تبدیلی ایک بہتر زندگی کی پیش خیمہ ہے ۔ابدی زندگی کو فنا نہیں کیونکہ وہ غیر فا نی ہے اور جسمانی موت اس کا خاتمہ نہیں کردیتی ۔اس ابدی زندگی کو جس میں ہم گناہ کی موت سے نکل کر اسی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں دائمی بقا حاصل ہے کیونکہ خداکی معرفت اوراس کی محبت کا عرفان ہی ابدی زندگی ہے (یوحنا۲:۱۷، ۳ وغیرہ)
(۴)
ہم سطور بالا میں کہہ چکے ہیں کہ جسمانی موت سے محض ایک تبدیلی وقوع میں آتی ہے ۔جس طرح آنخداوند کا فانی جسم آپ کی صلیبی موت کے بعد روحانی اور غیر فانی ہوگیا تھا اسی طرح ہمارابدن بھی روحانی ہوجائے گا(۱۔کرنتھیوں ۱۵ باب) ۔ہمارے جسم ہماری روح کے اظہار کا وسیلہ اور ہماری شخصیت کے مظہر ہیں ۔جسم کی رفتار گفتار ،نشست وبرخاست ،افعال وکردار وعادات وغیرہ کے ذریعے سب لوگوں پر ہماری خصلت وخوآشکارا ہوجاتی ہے ۔انسانی روح اس کے خیالات وجذبات اور احساسات وغیرہ کے مطابق انسانی اعضا اور جسم کو ایک خاص ڈھانچہ اور شکل میں ڈھا لتی ہے جو ہمارے اس خاک کےپتلے کو بدل دیتے ہیں اور جس سے ہم ایک فرد کو دوسرے سے پہچان لیتے ہیں اور بعض اوقات کسی انسان کو دیکھ کر ہی ہم اس سے محبت یا نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ اس کی شکل سے ہم اس کے باطن کو جان لیتے ہیں ۔
بدن کی قیامت کا مطلب یہ ہے کہ حیات بعد ازممات میں ہر شخص کی شخصیت کی انفرادیت سالم وقائم رہے گی گواس کا بدن بدل جائے گا اور ہمارے اس بن کے اعضاروحانی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدل کر غیر فانی ہوتے چلے جائیں گے اور قربت الہٰی کے باعث ہمارے ’’بدن‘‘بالآخر خداوند مسیح کے ’’بدن‘‘ کی مانند جلالی ہوتے چلے جائیں گے (مرقس ۲:۹۔۴؛۱۔کرنتھیوں ۱۵ باب) بالفاظ انجیل ’’جب ہم سب کے بے نقاب چہروں سے خداوند کا جلال اس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینہ میں تو اس خداوند کے وسیلہ سے جو روح ہے ہم اس جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں (۲۔کرنتھیوں ۱۸:۳) ۔ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’توضیح العقائد ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے ۔
(۵)
ہمارے بعض ہندو برادراں گناہ کی مغفرت کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ گنگا جمنا وغیرہ دریاؤں کے پانی میں اشنان کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں ۔لیکن گناہ بیرونی اور ظاہری شے نہیں بلکہ باطنی ہے ۔اگر کوئی دھوبی میلے کپڑوں کو ایک صندوق میں بند کردے اور صندوق کو باہر سے خوب دھوئے توصندوق دھل کر صاف ہوجائے گا ۔لیکن اس کے اندر کے کپڑے ویسے کے ویسے میلے رہیں گے گنگا کے پانی سے پاپی کا جسم صاف ہوجائے تو ہو جائے ،لیکن اس کا دل حسب سابق ناپاک اور نجس ہی رہے گا ۔انسان کا دل خدا کامسکن ہے اور مقدس ہے ۔جس کو گناہ ناپاک اور تباہ کردیتا ہے ۔(۱۔کرنتھیوں ۱۶:۳) وہ سچی توبہ کے آنسوؤں اور خداکی باران مغفرت ہی سے دھل سکتا ہے (زبور۱:۵۱۔۱۷)۔
منکا پھیرت جنم گیا پرگیا نہ من کا پھیر
کرکا منکا ڈال دے تو من کا منکا پھیر
۱۳۔ مسیحیت کی تعلیم قابل عمل ہے
(۱)
کلمتہ اللہ کے اصول بلند اور ارفع ہونے میں کسی مخالف کو چون وچرا کی گنجائش نہیں۔ موالف ومخالف دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحیت کی اخلاقیات کے اصول اعلیٰ اور افضل ہیں۔ اس حقیقت کے قبول کرنے کے باوجود بعض مخالفین ان اصول کے اعلیٰ ہونے کی بنا پر ان کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں ۔مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ پہاڑی وعظ کی تعلیم ہمارے روز مرہ کے خیال سے اتنی بالا ہے کہ وہ ناقابل عمل ہے۔ مسیحیت کے اصول ایسے بلندپایہ کےہیں کہ انسانی فِطرت ان پر عمل پیر انہیں ہوسکتی ۔ لیکن کیا گالی کھا کر گالی نہ دینا ناقابل عمل ہے۔ہاں اس کے لئے بڑا دل اور گردہ درکار ہے(۱۔پطرس۲۱:۲۔۲۳)۔ہم نے اس مضمون پر ایک مبسوط رسالہ ’’دینِ فطرت اسلام یا مسیحیت ؟‘‘لکھا ہے پس ناظرین کی توجہ اس رسالہ کی جانب مبذول کرتے ہیں ۔ اس کتاب میں ہم نے علم نفسیات کی رو سے یہ ثابت کیا ہے کہ مسیحیت میں انسانی فطرت کے تمام اقتضا بدرجہ احسن پورے ہوتے ہیں۔
(۲)
الفاظ ’’قابل عمل ‘‘ کا کیا مطلب ہے۔تمام غیر مسیحی مذاہب انسان کے صرف بیرونی افعال پر قابوحاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس نقطہ نگاہ سے ان مذاہب کے قوانین اور کسی مہذب ملک کےملکی اور سیاسی قوانین میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا مقصد واحد ہے۔ کیونکہ ان قوانین کی تہ میں یہ قیاس ہوتاہے کہ عامتہ الناس سے فلاں حالات کے ماتحت فلاں موقع پر فلاں قسم کے افعال عموماً سرزد ہوتے ہیں یا ہوں گے اور قانون سازوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے قوانین وضع کئے جائیں جن پر لوگ آسانی سے عمل کرسکیں۔ بقو ل شخصے :
ع مصلحت ہیں وکار آسان کن۔
مثلاً ایک مذہب یہ کھلی اجازت دیتا ہے کہ مرد جتنی بیویاں چاہے، کرے اور اس کو ’’قابل عمل ‘‘ خیال کرے۔دوسرا مذہب بیویوں کی تعداد پر قید لگاتا ہے اور تیسرا مذہب اس کو ’’نا قابل عمل ‘‘ خیال کرکے صرف چا ربیویوں کی بیک وقت اجازت دے دیتا ہے اور اس کو قابل عمل خیال کرتا ہے ۔ایک مذہب چوری یا ڈاکاکی کھلی اجازت دیتا ہے۔ دوسرا خاص حالات کے اندر پرائے مال کو حلال قرار دے دیتا ہے اور اس کو’’قابل عمل‘‘ خیال کرتا ہے ۔یہ مذاہب اپنے اپنے ملک او راپنی اپنی قوم کے خاص حالات کو مد نظر رکھ کر کسی فعل کی کھلی اجازت دے دیتے ہیں اور کسی کی خاص حالات کے اندر اجازت دیتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ کسی فعل سے لوگ آسانی سے باز آسکتے ہیں تو اس کو ممنوع قرا دے دیتے ہیں۔ لیکن ایسے مذاہب بعض اقوام کے خاص عارضی حالات اور وقتی ضروریات کو ہی پورا کرتے ہیں ۔لیکن وہ ان خاص ممالک و اقوام کے عارضی حالات اور ضروریات کے باہر کسی مصرف(کام۔خرچ کرنے کی جگہ) کے نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان میں عالم گیر ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
(۳)
جیسا ہم سطور بالا میں ذکر کرچکے ہیں کہ خداوند مسیح نے کوئی شرعی احکام صادر نہ کئے، بلکہ نوع انسانی کو ایک نیا مکاشفہ عطا کیا( جس کا تعلق کسی خاص ملک ، قوم یا زمانہ کے ساتھ نہیں ) تاکہ نوع انسانی کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل جائے اور خلق خدا نئی زندگی بسرکرے۔ چونکہ اس مکاشفہ کا تعلق انسانی نوع کے ساتھ ہے۔لہٰذا اس مکاشفہ کے اصول زمان ومکان کی قیود سے آزاد اورہمہ گیر اوصاف رکھتے ہیں۔ کلمتہ اللہ (مسیح)نے نوع انسانی کے آگے یہ نصب العین رکھا کہ’’چاہیئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے‘‘(متی ۴۸:۵)۔مسیح چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں ایک نئی طرز اختیار کریں۔ ہم از سر نو پیدا ہوں تاکہ نوع انسانی کاملیت کے نصب العین کو پیش نظر رکھ کر ترقی کرتی چلی جائے ۔تاریخ عالم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسیح کے پہاڑی وعظ کے اصول نہ صرف قابل عمل ہیں، یہ بھی کہ اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو نوع انسانی پر ترقی کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔ یہ بات بھی صرف افراد پر بلکہ گروہوں اورقوموں کی زندگی پر بھی صادق آتی ہے کہ اگر بدی کا مقابلہ نہ کیا جائے اور بدی کا جواب نیکی ہو تو یہ پروگرام افراد اور اقوام کی زندگی اور بقا کا موجب ہوتاہے۔ لیکن اگر بدی کا جواب بدی سے او ر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو یہ لائحہ عمل افراد اور اقوام کے فناکا موجب ہوجاتا ہے ۔
خود برصغیر ہندوستان کی موجودہ صدی کی تاریخ پر نگاہ کرو تو اس صداقت کی اعلیٰ مثال پاؤگے۔بیسویں صدی کے شروع میں بنگال کے نوجوان قوم پرستوں نے انگلستان کی سخت گیر پالیسی کا جواب بم سازی اوردہشت انگیزی سے دینا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ رولٹ ایکٹ ہوا۔ شمالی ہند کے نوجوانوں کی طرف سے اس ایکٹ کا جواب تشدد کی صورت میں دیا گیا، جس کا نتیجہ پنجاب میں مارشل لاکی صورت میں نمودار ہوا۔ بیسیوں گھر تباہ ہوگئے اورہزاروں کی جان ومال کا نقصان ہوا۔ اس تشدد کے علت ومعلول سے ہندوستان کی قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔
ع شامتِ اعمالِ ماصورت ِنادِر گرفت
ہندوستان کے طول وعرض میں غم وغصہ کی لہر دوڑگئی ۔لیکن مسٹر گاندھی مرحوم کی سرکردگی میں تشدد کا جواب عدم تشدد سے دیا گیا۔ صبر کرنے اورتحمل ،ضبط اور بردبار ی کو کام میں لانے کی تلقین کی گئی۔ پنجاب میں سکھوں کی جری اور شجاح قوم نے گورو کے باغ امرتسر میں عدم تشدد پر عمل پیرا ہوکر ایسا نظارہ دکھا دیا کہ دنیا وَرطہ حیرت میں پڑگئی۔مسلمانوں نے اپنے اصول قصاص وغیرہ کو خیر باد کہہ دیا اور مرحوم مولانا محمد علی نے کانگریس کے اجلاس میں اپنے خطبہ میں انجیل جلیل کی آیت کا اقتباس کرکے تمام ملک کو یہی درس دیاکہ بدی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو تم کو ایک گال پر طمانچہ مارے ۔دوسرے کوبھی اس کی طرف پھیر دو۔ مرحوم مولانا ظفر علی خان نے بھی اپنے اخبار زمیندار کے ذریعہ یہی سبق اہل اسلام کو سکھا دیا کہ’’ محکوموں کے پاس ضبط وانضباط کے ساتھ ایثار وقربانی کی متحد ہ طاقت کا مظاہرہ ہی ایک چیز ہےجس کے آگے بڑی سے بڑی جاہ و جلال اور غرور ونخوت والی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور نیاز مندانہ دست بستہ محکوموں کے آگے کھڑی ہوکر ان کی آرزوؤں کو پورا کرنا تخت وتاج کی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے (۱۷۔نومبر۱۹۲۹ء) ۔مسٹرگاندھی کے پیش کردہ لائحہ عمل کا نتیجہ آج ہم کو نظر آرہا ہے ۔ہمارے ملک کی محکوم قوم نے عدم تشدد کو اختیار کرکے بقا اور زندگی حاصل کی اور آج خود مختار ہو کرشاہراہِ ترقی پر گامزن ہے۔ ہماری اپنی قوم کے بچوں ،جوانوں او ر عورتوں نے اس اعتراض کا منہ بند کردیا ہے کہ مسیحیت ناقابل عمل ہے اور یہ سبق سکھا دیا ہے کہ کلمتہ الله کے اصول کے سوا افراد اور اقوام کے لئے زندگی کی اور کوئی راہ ہے ہی نہیں ۔ جنابِ مسیح نے سچ کہاتھا کہ’’ بچوں اور شیر خواروں کے منہ سے خدا نے اپنی حمد کرائی‘‘(متی ۲۵:۱۱)۔ ہمارے ملک کےنونہالوں نے کل عالم وعالمیان پر ثابت کردیا ہے کہ عدم تشدد کو اختیار کرکے نہ صرف افراد اور گروہ بلکہ دنیا کے کل ممالک اوراقوام بھی تشدد اور جنگ وجدل پر غالب آسکتی ہیں۔
(۴)
اس سلسلہ میں مرحوم مولانا ابو الکلام آزاد ترجمان القرآن یو ں رقم طراز ہیں:
’’حضرت مسیح علیہ السلام نے یہودیوں کی ظاہر پرستیوں اور اخلاقی محرومیوں کی جگہ رحم اور محبت،عفو اور بخشش کی اخلاقی قربانیوں پر زور دیا اور ان کی دعوت کی اصلی روح یہی ہے‘‘۔
چنانچہ ہم انجیل مقدس کے مواعظ میں جابجا اس طرح کے خطابات پاتے ہیں ’’ تم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔لیکن مَیں(خداوند یسو ع مسیح) تم سے یہ کہتاہُوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے ‘‘(متی ۳۹،۳۸:۵)۔ افسوس ہے کہ نکتہ چینوں نے یہاں ایسی ٹھوکر کھائی اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ ناقابل عمل احکام ہیں ۔لیکن فی الحقیقت یہ بڑی ہی درد انگیز نا انصافی ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم الشان معلم کے ساتھ جائز رکھی گئی ہے۔ خداوند مسیح کی تعلیم کو فطرت انسانی کے خلاف سمجھنا تفریق بین الرسل ہے۔کیا کوئی انسان جو قرآن کی سچائی کا معترف ہو ایسا خیال کر سکتا ہے کہ خداوند مسیح کی تعلیم فطرت انسانی کے خلاف تھی اور اس لئے ناقابل عمل تھی ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کی تصدیق کے ساتھ ایسا منکرانہ خیال جمع نہیں ہو سکتا۔اگر ہم ایک لمحہ کے لئے اس کو تسلیم کر لیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم خداوند یسوع مسیح کی تعلیم کی سچائی اور ان کی رسالت سے انکار کرد یں ۔کیونکہ جو تعلیم اور فطرت انسانی کے خلاف ہو وہ نہ تو سچی ہو سکتی ہے اور نہ کسی خدا کے فرستادہ پیغمبر کی ہو سکتی ہے ۔لیکن ایسا اعتقاد نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ اس کی دعوت کی اصلی بنیاد ہی متزلزل ہو جاتی ہے۔قرآن کی دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ تمام راہ نماؤں کی یکساں طور تصدیق کرتا ہے۔ اور سب کو خدا کی ایک ہی سچائی کا پیامبر قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ پیروان مذہب کی سب سے بری گمراہی ’’تفریق بین الرسل‘‘ ہے یعنی ایمان اور تصدیق کے لحاظ سے خدا کے رسولوں میں تفریق کرنا۔کسی ایک کو ماننا اور دوسروں کو جھٹلانا۔یا سب کو ماننا کسی ایک کا انکار کر دینا۔اسی لئے جا بجا اسلام کی راہ یہ بتائی ہے کہ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ یعنی ’’ہم خد اکے رسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے( کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں )ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں (اس کی سچائی کہیں سے بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو۔ہمارا اس پر ایمان ہے) (سورہ آل عمران۸۴:۳)۔
علاوہ بریں خود قرآن کریم نے جنابِ مسیح کی دعوت کا یہی پہلو جا بجا نمایاں کیا ہےکہ وہ رحمت اور محبت کے پیامبر تھے اور یہودیوں کی اخلاقی خشونت(دشمنی ۔نفرت) وخساوت کے مقابلہ میں مسیحی اخلاق کی رقت (نرمی۔رحم)اور رفعت (بلندی ۔شان)کی بار بار مدح ہے۔چنانچہ ملاحظہ ہو: لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ’’تاکہ ہم ا س کو ( مسیح کے ظہور کو) لوگوں کے لئے ایک الہٰی نشانی اور اپنی رحمت کا فیضان بنائیں اور یہ بات(مشیت الہٰی میں) طے شدہ تھی‘‘( سورہ مریم ۲۱:۱۹)۔پھر لکھا ہے وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً’ ’ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں مسیح کی پیروی کی ہے شفقت، نرمی اور رحمت ڈال دی ‘‘ (سورہ الحدید۲۷:۵۷)۔ اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ قرآن نے جس قدر اوصاف خود اپنی نسبت بیان کئے ہیں، وہی اوصاف بار بار تاکید کے ساتھ توراۃ و انجیل کے لئے بھی بیان کئے ہیں ۔مثلاً جس طرح وہ اپنے آپ کو ہدایت کرنے والا ،روشنی رکھنے والا،نصیحت کرنے والا،قوموں کا امام،متقیوں کا را ہ نما قرار دیتا ہے۔ٹھیک اسی طرح پچھلے صحیفوں کو بھی ان تمام اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے۔چنانچہ انجیل کی نسبت ہم جا بجا پڑھتے ہیں وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (سورہ مائدہ ۴۶:۵)۔یہ ظاہر کہ جو تعلیم فطرت بشری کے خلاف ہو اور ناقابل عمل ہو،وہ کبھی ’’نور اور ہدایت‘‘ نہیں ہو سکتی۔
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مرحوم مسٹر گاندھی کا اصول عدم تشدد اثباتی کا اصول نہ تھا، بلکہ محض ایک منفی اصول تھا۔ لہٰذا اس اصول میں جنابِ مسیح کے اصول محبت کی صرف ایک ادنیٰ جھلک پائی جاتی ہے۔ گاندھی جی روس کے مرحوم ٹالسٹای(Count Tolstoy) کی تعلیم سے متاثر تھے، جو یہ چاہتا تھا کہ جنابِ مسیح کے اس اصول محبت پر عمل کرے جو آپ کے’’ پہاڑی وعظ‘‘ میں درج ہے۔ مسٹر گاندھی نے کلمتہ اللہ کے اصول محبت کے منفی پہلو عدم تشدد پر ہی زور دیا اور دنیاکو یہی تعلیم دی کہ شریر کا مقابلہ بدی سے نہ کرو۔ لیکن کلمتہ اللہ کی تعلیم صرف اس منفی پہلو پر ہی قناعت نہیں کرتی، بلکہ یہ حکم دیتی ہے کہ نہ صرف ہم بدی کا مقابلہ بدی سے نہ کریں، بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آئیں۔چنانچہ خداوند نے فرمایا ہے’’اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا مانگو جو تم سے عداوت رکھیں ان کا بھلا کرو، جو تم پر لعنت کریں ان کے لئے دعا ئے خیر مانگو او رجیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو‘‘(متی۴۴:۵؛لوقا۲۷:۶)۔’’اپنا انتقام نہ لو۔ اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اس کو کھانا کھلا ، اگر پیاسا ہو تو اسے پانی پلا ،کیونکہ ایسا کرنے سے تو اس کے سرپر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سے مغلوب نہ ہو ،بلکہ نیکی کے ذریعہ سےبدی پر غالب آؤ‘‘(رومیوں۱۹:۱۲)۔یہ ظاہر ہے کہ اگر منفی پہلو میں اس قدرطاقت ہے جو دور حاضرہ کی تاریخ اور ہمارے اپنے ملک کے تجربہ نے ثابت کردیا ہے کہ عدم تشدد کے اصول پر عمل پیرا ہوکر ہی افراد اور اقوام ترقی کرسکتی ہیں تو ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ اگر کلمتہ اللہ کے اصولِ محبت کے مثبت پہلو پر عمل کیا جائے تو دنیا کس قدر ترقی کر جائے گی ایسا کہ عالم وعالمیان کی کایا پلٹ جائے گی۔ اگر ظلم وتعدی کا جواب نہ صرف عدم تشدد سے دیا جائے، بلکہ ظالم کے لئے صدق قلب سے دعا مانگی جائے اور اس سے ایسی محبت رکھی جائے، جیسی مظلوم اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے اور ظالم سے ایسا سلوک کیا جائے،جیسا مظلوم چاہتا ہے کہ ظالم ا س کے ساتھ روا رکھے ،تو یہ رویہ ظالم کے لئے توبہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور مظلوم کے سینہ میں انتقام کے جذبہ کی بجائے محبت کی آگ شعلہ زن ہوجاتی ہے ،جو ظالم کے دل کو کلیتہً تبدیل کردیتی ہے ۔ یوں ظالم ومظلوم کے درمیان عداوت کےرشتہ کی بجائے آشتی، صلح، میل ملاپ اور محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔
وفا کینم وملامت کشیم وخوش باشیم
کہ در طریقت ِماہ کافری ست رنجیدن
(۵)
پس افرادواقوام کے باہمی میل ملاپ ، صلح اور امن کا ایک ہی واحدطریقہ ہے جو کلمتہ اللہ کے اصولِ محبت میں موجود ہے اور جس پر عمل کرکے نوع انسان ترقی کرسکتی ہے ۔ ہمارے ملک اور دنیا کی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ مسیحی اصولِ محبت پرایک بڑے اور وسیع پیمانہ پر عمل ہوسکتا ہے۔ ۔ تاریخ نے یہ بھی ثابت کردیاہے کہ اگر کلمتہ الله کے اصول پر عمل نہ کیا جائے تو نوع انسانی کو رسوائی،ذلت اور ناکامی کامنہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ نوع انسانی کا تجربہ اس بات کو ثابت کردیتاہے کہ مذہب اور فلسفہ دونوں میں جنابِ مسیح کا نصب العین ہی فاتح ہے ۔کیونکہ خدا سے اور انسان سے محبت رکھنے سے بڑا کوئی اور نصب العین ہو ہی نہیں سکتا اورمسیحی اخلاقیات کا انحصار انہی دو اصولوں پر ہے۔ اخلاقیات کا استاد جان سٹوارٹ مل(J.S.Mill) مسیحی نہیں تھا، لیکن وہ بھی اقرار کرتاہے کہ:
’’ایک منکر مسیحیت کے لئے یہ ایک نا ممکن امر ہے کہ عملی زندگی کےلئے اس سے بہتر کوئی اور قانون وضع کرسکے ۔ہم اپنی زندگیوں کوا س طور پر بسر کریں کہ مسیح ہمارے طرز زندگی کو وضع (پسند )کرے‘‘۔
یہودی عالم مونٹی فیوری مرحوم(Montifiori) کہتاہے :
’’مستقبل میں ایسا زمانہ قیاس میں بھی نہیں آسکتا، جب مسیح کی شخصیت درخشاں ستارے کی مانند نہ چمکےگی‘‘۔
یروشلیم کا موجودہ یہودی ربی ڈاکٹر جوزف کلاسنر(Klausner)کہتاہے کہ:
’’یسوع مسیح کی اخلاقی تعلیم تمام زمانوں کے لئے ایک نہایت بیش بہا موتی ہے‘‘ ۔
مرحوم جارج برنارڈشاہ(G.B.Shaw) جیسا شخص بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ:
’’گزشتہ جنگ عظیم سے صرف ایک ہی شخص ہے جو عزت اور شان سے بچ نکلا ہے اور وہ یسوع مسیح ہے‘‘ ۔
دورِ حاضرہ میں تمام اقتصادی ،معاشرتی اور سیاسی امور کلمتہ اللہ کے معیار سے ہی پر کھے جاتے ہیں۔ پروفیسر سکاٹ(Prof.Scot) بجا کہتا ہے کہ:
’’آج جب ہم دنیا کی حالت پر نظر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یسوع مسیح ہی نوع انسانی کا واحداخلاقی لیڈر ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کے تلخ تجربہ کی کسوٹی پر مسیح کے اصول پورے اترے ہیں ۔ تمام اربا ب دانش اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل زمانہ میں انسانی معاشر ت کی عمارت اس ایک بنیاد کے علاوہ کسی اور بنیاد پر رکھی نہیں جاسکتی‘‘۔
’’آج جب ہم دنیا کی حالت پر نظر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یسوع مسیح ہی نوع انسانی کا واحداخلاقی لیڈر ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کے تلخ تجربہ کی کسوٹی پر مسیح کے اصول پورے اترے ہیں ۔ تمام اربا ب دانش اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل زمانہ میں انسانی معاشر ت کی عمارت اس ایک بنیاد کے علاوہ کسی اور بنیاد پر رکھی نہیں جاسکتی‘‘۔
۱۴۔مسیحی تعلیم کی جِدت
کلمتہ اللہ کی تعلیم کے اصولوں کے مطالعہ سے ناظرین پر واضح ہوگیا ہوگاکہ آپ کی تعلیم عالم گیر ہے۔ اس تعلیم کے اصول کلمتہ الله کی جِدت طبع کا نتیجہ تھے۔ جب ہم دیگر مذاہب کے انبیا کی تعلیم کے اصولوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان مذاہب میں غالب اصول(عنصر) ایسا ہے جو ان انبیا کے گرد وپیش کے ماحول اور ان کے قومی مذہب کے اصول پر مشتمل ہے، جن میں وہ اصلاح کرتے ہیں۔ مثلا ً اسلامی تعلیم کے ماخذ عرب کے مذاہب ، مسیحی اور یہودی عقائد اور زرتشتی اور زمانہ جاہلیت کی رسوم ہیں۔ ان کی تفاصیل رسالہ’’ ینا بیع الاسلام‘‘ اور ’’ماخذ القرآن ‘‘ میں موجودہیں۔ حضرت محمد نے ان عقائد اور رسوم کی اصلاح کی اور اس کا نام اسلا م رکھا ۔ لیکن کلمتہ الله نے محض عہدِ عتیق کی تعلیم اور یہودیت کے عقائد کی اصلا ح نہیں کی ۔آپ کی تعلیم میں اور عہد عتیق کی تعلیم میں درحقیقت کوئی نسبت ہے ہی نہیں ۔ آپ صاحب اختیار کی طرح فرماتے تھے’’ تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا ۔۔۔۔لیکن میں تم سے کہتاہوں‘‘۔ آپ کے خیالات یہودی نظام اور یہودیت کے عین ضد تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل یہود نے اس کے سوا او رکوئی چارہ نہ دیکھا کہ آپ کے خلاف سازش کریں اور آپ کو مصلوب کروادیں۔ اخلاقیات کا مورخ لیکی(جو مسیحی نہیں تھا) کہتا ہے :
’’یقینا ً اس خیال سے زیادہ غلط کوئی اور دوسرا خیال نہیں کہ مسیحیت کی تعلیم کے اخلاقی عناصر میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔مسیحیت کی تعلیم اور دیگر مذاہب کی تعلیم میں ایسا بین فرق ہے کہ دونوں درحقیقت مختلف اقسام کی تعلیم ہیں اور ایک ہی نوع کے ماتحت نہیں کی جاسکتیں‘‘۔
کلمتہ اللہ کی زندگی کے پہلے تیس سال ملک ِکنعان جیسی تہذیب سے دور افتادہ ملک کے ایک صوبہ میں گزرے جو جہالت کی وجہ سے حقیر شمار کیا جاتا تھا(یوحنا۴۶:۱؛۵۲،۴۱:۷) ۔ آپ نے کسی فلاسفر کے سامنے زانوئے شاگردی تہ نہ کیا۔ آپ کے سامعین آپ کی تعلیم کو سن کر حیران رہ جاتے تھے(مرقس ۲۲:۱؛۱۸:۱۱؛متی ۲۲:۲۲)اور کہتے تھے’’۔۔۔ اِس میں یہ حِکمت اور معجزے کہاں سے آئے ؟ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ؟ اور اِس کی ماں کا نام مریم اور اِس کے بھائی یعقوب اور یُوسُف اور شمعُون اور یہُوداہ نہیں ؟اور کیا اِس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں ؟ پِھر یہ سب کُچھ اِس میں کہاں سے آیا ؟‘‘(متی ۵۴:۱۳۔۵۶)۔یہ باتیں اس کو کہاں سے آگئیں اور یہ کیا حکمت ہے جو اسے بخشی گئی ہے؟(مرقس ۲:۶؛ لوقا۳۶:۴)۔اس کا کلام اختیار کے ساتھ ہے(لوقا۳۲:۴)۔جب اہل یہود نے آپ کی تعلیم پر تعجب کیا او رکہا کہ’’اس کو بغیر پڑھے کیونکہ علم آگیا ؟‘‘توکلمتہ الله نے ان کو اپنے علم کے منبع اورسرچشمہ سے مطلع کرکے فرمایا’’ میری تعلیم میری نہیں، بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔ اگر کوئی ا س کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس تعلیم کی بابت جان جائے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتاہوں‘‘(یوحنا۱۶:۷)۔’’۔۔۔ مَیں وُہی ہُوں اور اپنی طرف سے کُچھ نہیں کرتا بلکہ جِس طرح باپ نے مُجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہُوں۔اور جِس نے مُجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مُجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وُہی کام کرتا ہُوں جو اُسے پسند آتے ہیں ‘‘(یوحنا۲۹،۲۸:۸)۔’’ کیونکہ مَیں نے کُچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جِس نے مُجھے بھیجا اُسی نے مجھ کو حکم دِیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔۔۔پس جو کُچھ مَیں کہتا ہُوں جِس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اُسی طرح کہتا ہُوں‘‘(یوحنا۵۰،۴۹:۱۲)۔’’۔۔۔یہ باتیں جو مَیں تُم سے کہتا ہُوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے‘‘(یوحنا۱۰:۱۴)۔’’۔۔۔جو کلام تُم سُنتے ہو وہ میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جِس نے مُجھے بھیجا ‘‘(یوحنا۲۴:۱۴)۔ روئے زمین کے کسی نبی یافلاسفر کی تعلیم آپ کی تعلیم کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
گزشتہ دو ہزا ر سال سے کسی شخص نے کسی زمانہ میں بھی ایسی تعلیم نہیں دی جو آپ کی تعلیم کی جگہ غصب کرسکے۔امتداد ِ زمانہ کے باوجود آپ کے اصول اب بھی ویسے ہی عجوبہ روزگار ہیں، جیسے پہلے تھے۔ کلمتہ اللہ کے الفاظ کی لطافت ،ندرت(عمدگی)، عظمت اور قدرت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ وہ صد ہاسال سے ہزاروں ملکو ں اور قوموں میں مروج رہے ہیں، لیکن ان کی تروتازگی اور شگفتگی مثل سابق قائم ہے اور تاقیامت قائم رہے گی۔کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کی سحر آفرینی ، بے نظیر متانت ،حلاوت(مٹھاس) اور لاثانی حکمت اور معقولیت صدیوں سے مختلف ملکوں اور زمانوں کے کروڑ ہا انسانوں کو متاثر کرتی چلی آ رہی ہے اور ان الفاظ کی برکت اور کرامت کے طفیل نوع انسانی شاہراہ ترقی پر گامزن ہوتی چلی آئی ہے۔آپ کا پیغام اپنی نظیر آپ ہی رہا ہے اور تا قیامت رہے گا۔
۱۵۔مسیحی تعلیم کی ہمہ گیری
(۱)
دیگر معلموں کے پیغام ان کے اپنے پیغام یا مختلف لوگوں کے خیالات کا مجموعہ ہیں، جو ان کی قوم اور ملک کے ساتھ مختص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیغام عالم گیر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ وہ ایک خاص ملک یا قوم یا زمانہ کے حالات یا مسائل کوجو ان کے بانیوں کےدرپیش تھے ،ایک خاص مدت تک ہی حل کرسکے ۔لیکن چونکہ ان کے اصول کا تعلق صرف خاص حالات کے ساتھ ہی تھا۔ لہٰذا وہ اس تعلق اور وابستگی کی وجہ سے عالم گیر نہ ہوسکے ۔ان میں سے بعض کو خود ان کے وضع کرنے والوں کو اپنی حین حیات میں ہی منسوخ کرنا پڑا تھا۔چنانچہ قرآن مجید میں بعض احکام مثلاً قبلہ کا تعین وغیرہ ،حضرت رسول عربی کی حین حیات میں ہی منسوخ ہو گئے ۔کیونکہ وہ وقتی احکام تھے اور حالات کے بدلنے سے ان کا نفاذ مفید نہ رہا تھا۔اسی واسطے اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (سورہ بقر رآیت۱۰۶)۔(ترجمہ)’’ جب ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی مثل کی آیات پہنچا دیتے ہیں ‘‘۔ حضرت شاہ ولی اللہ اسباب نسخ پر بحث کے دوران لکھتےہیں:
’’کسی شے میں ایک وقت کوئی مصلحت یا خرابی ہوتی ہے۔اس کے مطابق حکم متعین ہو جایا کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک زمانہ آتا ہے جس میں اس شے کی وہ حالت نہیں رہا کرتی۔اس لئے اس کا وہ حکم بھی نہیں کرتا‘‘
(آیات اللہ الکاملہ ترجمہ حجۃ البالغہ،باب۷۳،صفحات۱۹۲،۱۹۱)۔
اس کے بعد شاہ صاحب جہاد کی مثال دیتے ہیں (سورہ ہود آیت ۱۹ ،سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۴، سورہ ابراہیم آیت ۴،سورہ انعام آیت ۲۵ وغیرہ)۔ صحائف انبیا میں بھی جابجا ایسے وقتی احکام ملتے ہیں جن کو حضرت کلمتہ اللہ نے غیر مکمل یا ناقص قرار دے دیا(متی ۲۲:۲۲۔۳۳؛ ۳:۱۹۔۱۰)اور فرمایا’’ موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کے سبب سے تم کو اجازت دی تھی ‘‘(متی ۸:۱۹) او ر ایسے احکام کی بجائے آپ نے جہاں گیر اصول بتائے جو خالق کے ازلی ارادہ کے مطابق تھے(متی۹:۱۹؛۲۹:۲۲۔۳۳)۔لیکن کلمتہ اللہ کے احکام اور جہاں گیر اصولوں میں کوئی حکم بھی گزشتہ بیس صدیوں میں کسی زمانہ ،قوم ، نسل اور ملک میں منسوخ کئے جانے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔کیونکہ ان عالم گیر اصولوں میں نفس کی رعایت،سخت دلی ،جہالت وغیرہ ( جو نسخ کے اسباب ہوتے ہیں ) کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔علاوہ ازیں نسخ سے کتاب میں اختلاف معنوی پڑ جاتا ہے ،جو کتاب اللہ میں نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کلمۃاللہ کے اصول (جو اناجیل اربعہ میں ہیں) میں کسی جگہ اختلاف معنوی نہیں پایا جاتا۔لیکن کلمتہ اللہ کے اصول کسی خاص قوم یا ملک یا زمانہ کے ماحول کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ۔وہ کسی خاص جماعت کے حالات کے ساتھ وابستہ نہیں ۔لہٰذا وہ زمان ومکان کی قیود سے آزاد اور عالم گیر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ مکاشفہ جو خدا نے آپ کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کیا ،قطعی اور آخری ہے۔ کیونکہ اس سے بہتر مکاشفہ ہو نہیں سکتا ۔ آپ کا پیغام روحانیت کی انتہائی منزل ہے ۔ یہ آخری معراج ہے جس کے بعد کوئی عروج نہیں ۔کوئی شخص عالم خیال میں بھی ایسی تعلیم وضع نہیں کرسکتا جو ابن اللہ کی تعلیم سے اعلیٰ ہو۔ہر ایسی ناکام کوشش اور سعی باطل کلمۃ اللہ کے پیغام کے قطعی ہونے کا بین ثبوت ہے ۔ جنابِ مسیح کے ساتھ دنیا میں ایک نئی تعلیم آئی جو ابد تک غیر متزلزل ہے۔ اس میں وہ آخری اور قطعی اور بے مثال اور لازوال مکاشفہ ہے جو خدانے ایک لاثانی اور بے نظیر شخصیت کے ذریعہ عطا کیا ہے جو ہر پہلو سے بے عدیل ہے۔ انسانی تجربہ اور تاریخ اس بات کے شاہد ہیں کہ کلمتہ اللہ اخلاقیات کے واحد حکمران اور تاج دار ہیں۔
(۲)
ا س حقیقت کو مخالفین تک چارونا چار تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ یورپ کی انجمن کےملاحدہ نے ۱۹۱۹ء کے سالانہ اجلاس میں کف ِ افسوس مَل کر(ہاتھ مَل کر۔پچھتا کر) اقرار کیاکہ:
’’ مسیحیت کا وجود اور اس کی زندگی اور بقا بجائے خو دایک ایسا زبردست معجزہ ہے جس سے ہم کو مجال انکار نہیں۔ مادیت اور اخلاقیات نے ہر نکتہ نظر اور ہر پہلو سے اس پر ایسے زبردست حملے کئے ہیں جو اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ لیکن ہم کو اس مذہب میں مغلوب و مفتوح ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔اگر آج ہم کو مسیحیت اس دنیا سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے تو روز فردا مثل سابق ہماری ناکام مساعی پرنہایت سکون اور اطمینان سے مسکراتی نظر آتی ہے ۔ روئے زمین کے ادیان میں سے کسی دوسرے مذہب کو اس قدر سنگلاخ (دشوار۔مشکل)رکاوٹوں اور جاں کاہ(تکلیف دہ)آزمائشوں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے مغربی ممالک کی حقیقت شناس فضا میں مسیحیت کی بقا ایک ایسا عجیب وغریب واقعہ ہے جس نے ہم کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس کے پاس سامان تک نہیں جس سےوہ ہمارے حملو ں کی وجہ سے اپنی حفاظت بھی کرسکے۔گزشتہ پشت کے علما وفضلانے جو یگانہ روزگار تھے ۔مسیحیت کے گڑھ کو اپنے حملوں کی ٹکروں سے چکنا چور کر ڈالا تھا ،لیکن یہ مثل سابق اپنا سرو یسے ہی بلند کئے اطمینان خاطر سے ہمت باندھے متکبر انہ انداز سے کھڑی ہے ۔ یہ امر ہمارے لئے ایک عجوبہ اور اچنبھا ہے ،بلکہ ایک حیران کن معجزانہ بات ہے۔ ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیادنیا جہاں پر اس کی بے اعتباری کو تشت ازبام ( ظاہر۔رسوا ) کردیا ہے ا وراپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسیحیت کا اخلاقی، تواریخی اور عقلی پہلو سے دیوالہ نکل گیا ہے، لیکن باوجود ہماری مساعی کے مسیحیت پہلے کی طرح ویسی ہی بڑھتی ،پھلتی پھولتی اور ترقی کرتی نظر آتی ہے‘‘۔
ابتدا ہی سے مسیحیت کے مخالفین کا یہی تجربہ رہا ہے جو انجمن ملاحدہ یورپ کا ہے۔ مسیحیت کی ہر پہلو سے آزمائش کی گئی ہے ۔ دوہزا ر سال سے مخالفین ا س کی بیخ کنی کی کوشش کررہے ہیں ،لیکن ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے تمام مخالف روم کے بت پرست قیصر جولین کے ہم آواز ہو کر دم واپسین(حالت نزع) یہی کہتے ہیں کہ’’ اے گلیلی۔ توفاتح رہا‘‘۔
۱۶ ۔مسیحیت اور ادیانِ عالم کی اصلاح
جنابِ مسیح نے قطعی کامل اور اکمل طور پر خدا کی ذات اور صفات کو بنی نوع انسان پر ظاہر کردیا ہے اور ان معنوں میں آں خداوند خاتم الانبیا اور خاتم المرسلین ہیں۔آپ کی شخصیت لاثانی اور عالم گیر ہے ۔ آپ خدا کا مظہر اور منجی عالم ہیں۔ آپ کے پیغام کا تعلق زمین کے کسی خاص خطہ کے ساتھ نہیں ،بلکہ وہ کل بنی نوع انسان کے لئے ہے ۔ اس کا تعلق کل ممالک اور اقوام کے ساتھ ہے۔ اس کے اصول زمان ومکان کی قیود سے آزاد اور تمام عالم اور ازمنہ پر حاوی ہیں۔ اس تصور زا(تصور پیدا کرنے والا)پیغام کی روشنی میں دنیا کی کل اقوام دو ہزار سال سے اپنے خیالات، جذبات، معتقدات، رسمیات وغیرہ کی اصلا ح کرتی آئی ہیں اور تاابد کرتی رہیں گی ۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ آپ کے بے عدیل پیغام کو کسی دوسرے مذہب یا فلسفہ کے اصول کی روشنی میں اپنے روحانی اصول کی اصلاح کرنے کی ضرورت کبھی لاحق نہ ہوئی۔ اس کے برعکس اس کی قسمت میں روز ِاوّل سے ہی یہ لکھا ہے کہ کل ادیانِ عالم پر فاتح اور تمام دنیا اور اقوام پر حاوی ہو۔ اگر ہم دنیا کے مذاہب کی تاریخ پر ایک سطحی نظر ڈالیں تو ہم پر یہ ثابت ہوجائے گا کہ جس جس ملک اور قوم میں مسیحیت گئی اور جس زمانہ میں بھی کلمتہ الله کے اصول کی روشنی چمکی، ا س ملک اور قوم اور زمانہ کے مذاہب نے مسیحیت کی روشنی میں اپنے اپنے اصول کی نظر ثانی کرڈالی ۔ آفتاب ِصداقت کی پاک شعاعوں نے ان مذاہب کے پیروؤں پر ان کے بوسیدہ اصول کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے ان کو منور کر دیا۔ ان کے دینی پیشواؤں نے سر توڑ کوشش کی کہ اپنے مذہب کے اصول کی کلمتہ الله کے پیغام کے ساتھ مطابقت کرڈالیں او راپنے مذاہب کے اصول کے ان عناصر کو ترک کردیں جو اس پیغام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے حتی الوسع کوشش کی کہ اپنے مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں کے تاریک مقامات کی ( جو جنابِ مسیح کی مقدس زندگی کے اصول کے مطابق نہیں ) پادر ہوا (بے بنیاد۔خیالی)تاویلات کریں یاان کا سرے سے انکار کردیں۔
اس برصغیر کو دیکھ لو۔ ہمارے برادران( ہندو اور مسلم) جو آں خداوند مسیح کی مقدس زندگی اور محبت کےاصول سےمتاثر ہوچکے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مذاہب کے بانیوں کی زندگیاں بھی ابن اللہ کی سی ہوں۔ لہٰذا دورِحاضر ہ میں ان مذاہب کے راہ نما (پنڈت اور مولوی صاحبان) اس بات کو ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بانیوں ( حضرت محمد اور مہاراج کرشن وغیرہ)کی زندگیوں کے وہ واقعات جو انجیل جلیل کے اصول کے نقیض ہیں، سرے سے غلط اور افترا ہیں اور کہ ان کےمذاہب کے وہ اصول جو آں خداوند مسیح کے جاں فزا پیغام کے متضاد ہیں ،ان کے مذاہب کا جزو نہیں ۔ مثلاً ذات پات کی قیود،اچھوت ،بت پرستی ،اوہام پرستی ،دیوداسی ،مندروں میں زناکاری ،شرک ،جہاد ، تعدد ازدواج، (جنت ودوزخ کا نقشہ) وغیرہ۔ جہاں تک اس میں بر صغیر کا تعلق ہےمرحوم مولانا حالی کے مسدس میں ایک بند لکھا ہے جو ایک لفظ کی تبدیلی سے مسیحی تحریک پر پورا صادق آتا ہے ۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ِہادی
زمین ہندکی جس نے ساری ہلادی
نئی اِک لگن سب کے دل میں لگادی
اِک آواز سے سوتی بستی جگا دی
ہندوستان کو کلمتہ اللہ کی خوش خبری کے پیغام نے ایسا مسخر کرلیا ہے کہ ہر شخص اسی بات کا خواہاں ہے کہ کاش میرے مذہب کے بانی کی زندگی جنابِ مسیح کی زندگی کی مانند ہواور میرے مذہب کے اصول اس کے پیغام کی مانند ہوں ۔مسیحیت کی خصوصیت مخالف وموالف دونوں پر عیاں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر سر رادھا کرشن لکھتا ہے کہ:
’’ مسیحیت میں ہر جگہ یہ فاتحانہ انداز پایا جاتا ہے کہ مسیحیت ہی مذہب کا بہترین اور اعلیٰ ترین اظہار ہے اور کہ وہ بنی نوع انسان کے لئے قطعی اخلاقی معیار ہے ، جس کی کسوٹی پر ہر دوسرا مذہب جانچا جائے ‘‘ ۔
پس تاریخ شاہد ہےکہ جس ملک یا قوم یا ملت میں مسیحیت گئی، اس کے درود مسعود کے ساتھ ہی وہاں کے مذہب کی اصلاح شروع ہوگئی۔ لیکن انجام کا راصلاح کی تمام کوششیں بےکار اور بے سود ثابت ہوئیں۔
مصیبت میں پڑا ہے سینے والا چاک دامن کا
جو وہ ٹانکا تو یہ ادھڑا جو وہ ادھڑا تو یہ ٹانکا
دنیا کے ممالک اور اقوام مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوگئے اور جنابِ مسیح غالب اور فاتح ہوئے ۔ لیکن مسیحیت نے کسی زمانہ میں بھی کسی دوسرے مذہب کے اصول کی روشنی میں اپنے بنیادی اصول کی کبھی اصلاح نہ کی ۔ اس کی تمام تاریخ میں اس کو ایسا کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہ آئی۔ گزشتہ بیس صدیوں میں کلیسیائے جامع کے کسی ملک کی کلیسیا کے کسی دینی پیشوا کے وہم گمان میں بھی یہ بات نہ آئی جواس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ جنابِ مسیح کی تعلیم ادیان ِ عالم پر غیر مکمل ہونے کا فتویٰ لگاتی چلی آئی ہے اور اقوام عالم نے کلمتہ اللہ کی تعلیم کی روشنی میں اپنے مذاہب کی اصلاح کرکے اس فتویٰ کی صحت کا اقبال کرلیا ہے۔
۱۷۔مسیحیت اور اقوامِ عالم کی ترقی
مذکورہ بالا کوائف سے ناظرین ہوگیا ہوگا کہ کلمتہ اللہ کا پیغام عالم گیر اورجامع ہے۔ وہ زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اس کے اصول کسی خاص قوم یا زبان یا ملک یا تمدن کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ،بلکہ یہ اصول تمام اقوام عالم پر یکساں طور پر حاوی ہیں اور ہر قوم، ملک اور زبان کے افراد ان کی یکساں طور پر تعمیل کرسکتے ہیں اور ہرقسم کے دماغ اور سمجھ والے ان اصول کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ اس تعلیم کے اصول رسوم، عقائد اور قیود شرعیہ کے پابند نہیں ۔ان میں یہ اہلیت ہے کہ وہ روحانی اصول ہونے کے سبب عالم گیر ہوسکیں۔عالم گیر یت کا یہ دعویٰ یا تو غلط ہے یا صحیح ہے۔ لیکن تاریخ نے اپنی شہادت کی مہر اس کی ہمہ گیری پر ثبت کردی ہے ۔یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ منجی کونین کی تعلیم ہر آب وہوا اور ہر زمانہ میں پھلتی پھولتی رہی۔ وہ ہر زمانہ ،ہر ملک اور قوم اور ملت کے ساتھ ساز گاری کرسکی۔ جہاں جہاں یہ تعلیم گئی اس نے ہر قوم اور ہر ملک کے ماحول میں کامیابی کے ساتھ رائج ہونے کی قابلیت اور صلاحیت رکھنے کا پورا پورا ثبوت دے دیا ۔
تاریخ عالم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے اصول اور اس کے قوانین کلی تمام ممالک اور ازمنہ کے اصول وکلیاتِ تمدن ، معاشرت اقتصاداور ارتقائے ذہنی کا جامع ہوکر بہ آسانی تمام جزئیات کا استخراج کرسکنے کی استعداد اور قابلیت رکھتے ہیں۔ اس کی مکمل اور جامع تعلیم تمام ممالک وازمنہ کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہونے کی مدعی رہی ہےاور اس کا م کوبطرز احسن نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام بھی دیتی ہے۔وہ اقوام عالم کی نشوونما میں ممدو معاون اور ان کی ترقی کا باعث رہی ہے ۔ اس نے کبھی کسی قوم کو ایک ہی جامد سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش نہ کی۔ اس کی تاریخ کے تاریک ترین زمانوں میں بھی ایسا وقت کبھی نہ آیا جب اس نے یہ کوشش کی ہو کہ مختلف قوموں کے فطرتی اختلاف کو جو قدرت کی طرف سے ان کو ملے ہیں، مٹا کر ان کی طرز رہائش ،معاشرت وغیرہ کو ایک ہی قسم کے قانون فقہ کے ماتحت کردے۔ مسیحیت کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی کہ جس طرح قدرت نے بدن کے ہر ایک عضو کو الگ الگ کام سپرد کیا ہےا ور کل اعضااپنے مختلف کاموں کو پورا کرکے جسم کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں ۔اسی طرح ہر ملک اور ہر قوم اپنی اپنی جداگانہ خدا داد قابلیت کی نشوونما حاصل کرکے نوع انسانی کی ترقی کا باعث بنے۔ مسیحیت نے ہر ملک کو اور ہر قوم کو اس کی خصوصی نشوونما میں مدد دی۔ اس کی ترقی کا راز اسی بات میں مضمر ہےکہ ہر ملک اور قوم کا انسان اس کے حلقہ بگوش ہوکر بھی اپنی قومی اور ملی نشوونما اور ترقی میں کوشاں ہوتا رہے ۔ چین یا ایران یا عرب یا مغرب کا باشندہ مسیحی ہوکر اپنی قومی طرز معاشرت کو ترک نہیں کردیتا ۔ اس پر یہ لازم نہیں ہوتا کہ مسیحی ہوکر وہ اپنی ڈاڑھی خاص حد تک لمبی رکھے یا اپنی مونچھوں کو کسی خاص طرز سے کٹوائے یا اپنے پاجامہ کو ٹخنوں تک آنے دے یا کسی دوسری قوم کی زبان کو اپنی زبان بنا لے یا کسی خاص مقام کو حج،زیارت اور یاترا کے لئے جانا اس پر فرض ہوجائے ۔ جس طرح بعض مذاہب ہر ملک اور ہر قوم کو ایک ہی ٹھوس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرکے اس کی ترقی میں سد راہ ہو جاتے ہیں۔
مسیحیت نے کسی قوم پر اس قسم کا غیر فطری جبر روا نہیں رکھا۔ اگر کسی ہندوستانی نے مسیحیت کو قبول کرلیا ہے تو وہ اپنے ملک کے باہر ارض مقدس کے کسی مقام کو اپنائیت قرار نہیں دیتا ، اس کے لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم پہلے مسیحی ہیں اور پھراپنے ملک کے شہری ہیں۔ کیونکہ کلیسیائے جامع کے نزدیک کسی ملک کاکوئی مسیحی اچھا مسیحی نہیں ہوسکتا جو ا پنے ملک کااچھا شہری نہ ہو۔ مسیحیت کا یہ مقصد ہے کہ ہر ایک قوم کی نشوونما اور ترقی اس طور پر ہوکہ وہ اس خاص خداداد قابلیت کو جو فطرت نے خاص اس قوم میں ودیعت فرمائی ہے ، بطرز احسن انجام دے سکے۔ جس طرح بدن کا ہر ایک عضو اپنے اپنے کام کو کماحقُہ،(کما۔حَق۔قُ۔ہُو۔بخوبی)انجام دیتا ہے۔گزشتہ دو ہزارسال میں جس ملک میں بھی مسیحیت گئی اس نے وہاں کی اقوام کی قدرتی نشوونما میں مدد دی اور وہ اقوام ترقی کرکے نوع انسانی کی تقویت کا باعث ہوگئیں ۔ جس طرح ہمارے جسم کے مختلف اعضا نشوونما پا کر ہمارے بدن کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں ،اسی طرح مسیحیت گزشتہ بیس صدیوں سے ہزاروں ممالک واقوام کی نشوونما کا باعث بنی ہے اور ا ن ممالک واقوام کےتمدنی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی مسائل کو اپنے عالم گیر اصول کے ذریعہ حل کرکے نظام عالم کی شیرازہ بندی کرتی چلی آئی ہے ۔
مسیحیت کی عالم گیری کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ اقوام عالم کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکتی اور نہ ان کو ایک سانچہ میں ڈھالتی ہے ۔اس کی ہمہ گیر ی میں تمام اقوام عالم کی خصوصی نشوونما کے لئے جگہ ہے۔ تاریخ سے ظاہر ہے کہ مسیحیت کے عالم گیر اصول کے اطلاق میں ہر قوم کی نشوونما کی گنجائش ہے اور ان اصول کا اطلاق ہر ملک و قوم اور زمانہ کے مختلف حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ جو شے مسیحیت کو ایک عالم گیر مذہب بناتی ہے، وہ اس کی آزادی کی روح ہے جس کی وجہ سے ہر ملک وقوم اور زمانہ کے مختلف حالات پر اس کے اصول عائد ہوسکتے ہیں۔ مسیحیت کسی قوم و ملک کے لوگوں کو کسی خاص انتظام کا غلام نہیں بناتی۔ اس حقیقت کو مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔مثلا ً ایک فاضل ترک مصنف ایبل آدم اپنی تصنیف’’ کتاب ِ مصطفیٰ کمال‘‘(قسطنطنیہ ۱۹۲۶ء) میں یوں رقم طراز ہے:
’’ اسلام نے اپنے پیروؤ ں کو ضمیر اور خیالات کی آزادی عطا نہیں کی اور اسلامی شرع نے زندگی سے اس کا حق چھین لیا ہے۔ چونکہ اسلامی آئین لاتبدیل ہیں ،لہٰذا وہ ترقی کی راہ کو بند کرتے رہے ہیں۔ کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ آئین وقوانین کا بدلنا بھی لازم ہے۔ قرآن وحدیث صحرائے کے ان باشندوں کی کتابیں ہیں جو تہذیب و تمدن کی ابتدائی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ اسلامی آئین وشرعی قوانین میں نفسیات اور معاشرتی زندگی کی نشوونما اور ترقی کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔جائے غور ہے کہ مسیحیت بھی اسلام کی طرح ایک ایشیائی مذہب ہے، لیکن اس نے کسی قوم کی معاشرت اور تمدنی زندگی پر جبر روانہ رکھا ۔ مسیحیت شہر رومہ میں گئی، لیکن وہ اپنے ساتھ اہل یہود کی معاشرتی زندگی نہ لے گئی۔ اگر اسلام کی طرح مسیحیت بھی ایک لشکر جرار کے ساتھ یروشلیم سے چلتی اور یورپ پر قابض ہوکر ان پر یہودی معاشرتی زندگی جبر یہ لازم قرار دیتی تو یورپ کا بھی اسلامی ممالک سا حال ہوجاتا،لیکن مسیحیت نے ایسا نہ کیا ‘‘۔
ایک اور ترکی مصنف جلال نوری لکھتا ہے:
’’ اسلام میں ہم نے مسیحیت جیسی نشوونما او ر گردو پیش کے حالات اور ماحول سے مطابق ہوجانے کی صلاحیت او راہلیت نہیں پائی ۔ اسلام آج تک جمود کی غیر متحرک حالت میں جامدو ساکن رہا ہے۔ ہم پرانے زمانہ کے ساکن تصورات اور غیر متحرک معاشرتی ،اقتصادی اور سیاسی تصورات کی ٹھوس زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے بے بس پڑے ہیں ‘‘
(ترکی انقلاب ،صفحہ ۵۸)۔
۱۸۔مسیحی اصول اور فروعات
مسیحیت کی حیرت انگیز کامیابی کااصلی سبب جو مسیحیت کا کمال ہے اور جودیگر مذاہب میں نہیں پایا جاتا یہ ہے کہ مسیحیت نے جامع اصول اور فروعات میں تمیز کردی ہے ۔ تمام غیر مسیحی مذاہب میں اصولوں کے ساتھ فروعات ایسے وابستہ ہیں کہ ان کو بھی اصولوں کی سی وقعت حاصل ہے۔ جرمن عالم ڈاکٹر ہارنیک نے صحیح کہا ہے کہ’’ مسیح کا امتیازی نشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف جامع ہے، بلکہ مانع بھی ہے‘‘۔کلمتہ اللہ نے اپنے اصول میں سے تمام رسوم او رپابندیاں اور وقتی قوانین جن کا صرف کسی خاص زمانہ یا پشت یا ملک یا قوم کے ساتھ تعلق تھا، خارج کردیں۔ مثلاً حرام وحلال کا سوال(مرقس باب۷ ،رومیوں ۱۷:۱۴)،فقہ کے سوال(متی باب۲۲) ،بزرگوں کی سنتوں پر عمل کرنے کا سوال(متی۳:۱۵ ۔۹)،دونوں تہواروں ،سبتوں، موسموں وغیرہ کا ماننا(متی باب ۱۲،گلتیوں ۱۰:۴)،ظاہری افعال اور بیرونی اعمال پر بے حد زور دینا(متی باب ۶،لوقا۱۲:۸،متی باب۵)وغیرہ وغیرہ ۔یہی وجہ ہے کہ مسیحیت نے یہودیت سے سوائے ا س کی کتب مقدسہ کے او رکچھ نہ لیا اور ان کتب کی بھی حضرت کلمۃ اللہ سے آزادانہ تاویل کی (مرقس ۷:۲؛یوحنا۱۶:۵۔۱۸؛لوقا۵:۶۔۱۱؛۱۰:۱۳۔۱۷؛متی ۳:۱۹۔۱۲؛۲۳:۲۳؛۳:۹)۔یہاں ہم اہل یہود کے ربیوں کے فقہ کے احکام میں سے صرف سبت کو ماننے کا حکم مثال کے طور پر ناظرین کے پیش کرتے ہیں ۔ اہل یہود کی کتاب سبت میں سبت کے مفصل احکام درج ہیں ۔یہ کتاب ۳۹ انواع پر مشتمل ہے، جن میں چند احکام ملاحظہ ہوں۔سبت کے روز ذیل کے کام کرنےکی ممانعت تھی:
ہل چلانا،بیج کابونا، فصل کاٹنا ،گانٹھ دینا یا کھولنا،دو سے زیاد ہ حروف کا لکھنا،کسی شے کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنا، کاٹھ کی مصنوعی ٹانک (ٹانگ) استعمال کرنا،مصنوعی داموں(دانتوں) کو اکھاڑ کر منہ میں رکھنا،کسی شے میں سے بال نکالنا،لکڑی کا صرف اتنا بوجھ اٹھانا جائز تھا جس سے انڈا گرم ہو سکے۔ ایسے سوالوں پر بحث کی گئی جو مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔مثلاً اگر مرغی سبت کے روز انڈا دے تو کیا وہ انڈا کھانا جائز ہے،کیونکہ مرغی نے سبت کا حکم تو ڑ کر انڈا دیا ہے۔کیا کسی جوں کو سبت کے روز مارڈالنا جائز ہے۔بعض فقہا کہتے ہیں کہ صرف جوں کی ٹانگیں توڑنا ہی جائز ہے۔ اگر اناج کی کوٹھی میں قربانی کی غرض سے اناج جمع کیا گیا ہو تو کیا اس میں کھانے کی غرض سے اناج رکھنا جائز ہے۔ اگر کسی نے یہ منت مانی ہو کہ وہ کچلی ہوئی سبزی نہیں کھائے گا تو اس کے لئے یہ جائز ہے ایسا پیاز کھائے جوا س نے انجانے سب کے روز پاؤں کے تلے کچل دیا ہو۔ربی ہلیل اور شمعون جیسے زبر دست علما ایسے مضحکہ خیز مسائل پر فتویٰ صادر کیا کرتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیت کی شرع کی روح قوم کے بدن سے پرواز کر گئی او ر صرف رسوم کی پابندیوں کا ڈھانچہ حضرت کلمتہ اللہ کے زمانہ میں رہ گیا جو بالفاظ مقدس پطرس ایسا بھاری تھا جس کو نہ تو ا س کے ہم عصر یہودی اور نہ ان کے باپ دادا اٹھاسکتے تھے(متی۴:۲۳؛لوقا۴۶:۱۱؛اعمال ۱۰:۱۵؛گلتیوں ۱:۵)۔
جوں جوں زمانہ گزرتا گیا یہودیت کے ہر مسلک کے یہودی احکام سبت پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بیش از بیش(زیادہ سے زیادہ )زور دیتے گئے،کیونکہ اب قوم یہود کی نہ حکومت رہی تھی اور نہ ہیکل ۔ان کا مذہب صرف ایک واحد شے تھی جو ان کی آنکھوں میں قابل قدر شے تھی۔پس عبادت خانوں نے جابجا ہیکل کی جگہ لے لی تھی جن میں یہودی شریعت اور بزرگوں کی روایات پر درس دیئے جاتے تھے ۔وہاں تمام یہود سبت کے روز اکٹھے ہوتے ۔ اب سبت ہی ان کی قومی زندگی اور ماضی کی عظمت کا ایک واحد نشان باقی ر ہ گیا تھا ،جو قوم کی شیرازہ بندی اور اجتماعیت کا ایک واحد وسیلہ تھا۔پس ہر دس برس کے یہودی بچے پر لازم کر دیاگیا کہ وہ باپ دادا کی روایت کو زبانی حفظ کرے۔یہودی ربی علم روایت اور علم فقہ میں طاق تھے ۔ان کی قیود شرعیہ زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھیں، لیکن کلمتہ اللہ نے ان تمام قیود کو جن کا تعلق زمان ومکان کے ساتھ تھا بے تامل رد کردیا(متی باب۲۳)۔یہی وجہ ہے کہ مسیحی کلیسیا نے بنی اسرائیل سے ان کی صرف کتب ِ مقدسہ ہی کو لیا اور باقی تمام روایات ،تفاسیر، فقہ وغیرہ کی کتب کو رد کردیا ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیحیت میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ اقوام عالم کا مذہب ہوسکے ۔ دنیائے مذاہب میں اپنے اصول کے لحاظ سے صرف مسیحیت ہی ایک واحد جامع اور مانع مذہب ہے۔
۱۹۔انجیلی اصول کا اطلاق اور اقوام
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ تمام مذاہب سے زیادہ مسیحی کلیسیا میں دنیا کی مختلف اقوام ایک جگہ جمع ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسیحیوں کی ہے (اگرچہ یہ بھی ایک حق بات ہے )بلکہ ہمارا یہ مطلب ہے کہ دنیا کی اس قدر مختلف اقوام مسیحی جھنڈے تلے جمع ہیں اور کلیسیائے جامع میں برابر کی شریک ہیں جو کسی دوسرے مذاہب میں نہیں ہیں۔ جس سے کم از کم یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیحیت میں یہ صلاحیت پائی گئی ہے کہ اس نےاقوام عالم کے خصوصی اختلافات اور امتیازی نشانات جو کہ ان کی قومی نشوونما اور ملی ترقی کا باعث ہیں ،قائم رکھے ہیں اور ان کی روحانی اور قومی ضروریات کو پورا بھی کیا ہے۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ صرف مسیحی مذہب میں ہی مختلف زمانوں، ملکوں اورقوموں کی روحانی اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہٰذا وہ عالم گیر مذہب ہے جو ہمہ گیر رہا ہے اور رہے گا۔
علاوہ ازیں ان گزشتہ دو ہزار سالوں میں صفحہ ہستی پر کوئی ایسی قوم نہیں گزری جس نے اپنی قومی اور ملی زندگی کو مسیحی اصول کے مطابق نشوونما دینے کی کوشش کی ہو اور وہ اس کوشش میں ناکام رہی ہو۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ کسی زمانہ میں بھی اس قسم کی مساعی جمیلہ میں کسی ملک اور قوم کو ناکامی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔جس قوم اور ملک نے کلمتہ اللہ کے اصول پرچلنے کی کوشش کی، وہ ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہوگئی۔ پس اقوام عالم کی تاریخ مسیحیت کی عالم گیری پر مہر ِصداقت ثبت کرتی ہےاور یہ ثابت کردیتی ہے کہ کل ادیان عالم میں سے صرف مسیحیت ہر قوم وملک کو یہ توفیق عطا کرتی ہے کہ وہ اپنے قومی کیر یکٹر اور ملی خصائل کو سدھارے ۔دنیا کے نقشہ پر نظر ڈالو تو یہ حقیقت تم پر عیاں ہوجائےگی کہ جن ممالک نے اپنی باگ ڈور مسیحیت کے سپرد کردی ہے ،وہاں ہر قسم کے علوم وفنون رائج ہیں۔ خیالات کی آزادی ہے ۔ مردوں اور عورتو ں، بلکہ بچوں تک کو حقوق حاصل ہیں۔ ان ممالک کی کلیسیا کے افراد نہ صرف اپنی روحانی بہبودی کو مد ِ نظر رکھتے ہیں، بلکہ وہ مسیحی مبلغین کو دُور دراز مقامات میں بھیج کر دنیا کو بچانا چاہتے ہیں۔
مسیحیت نے ہزاروں وحشی اور مردم خوار اقوام کو چاہ ِ ذلت وضلالت سے نکالا اور ان کو بےہودہ رسمیات ،وحشیانہ دستورات اور توہمات کے پنجہ سے خلاصی بخشی۔ ان کے افراد کو حیوانوں سے انسان بنا کر ترقی اور تہذیب کی راہ پر چلا یا ۔ گزشتہ بیس صدیوں میں دنیا کاکوئی ملک ایسا نہیں جس کی اقوام نے دانستہ یا نا دانستہ کلمتہ الله کے اصول کو اپنی زندگی کا معیار نہ بنایا ہو۔ دورِ حاضر ہ میں روئے زمین پر کوئی ایسی قوم نہیں ہے کہ جس کے روحانی جذبات کا مرکز جنابِ مسیح کی ذات ستودہ صفات نہیں ہے۔ پس مسیحیت ہمہ گیر ہے اور عالم وعالمیان پر حاوی ہے۔
۲۰ ۔بائبل شریف کی عالم گیری
(۱)
دور حاضرہ کتابوں کی اشاعت اور پروپیگنڈا کا زمانہ ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے پریس ہزاروں کتابیں روز شائع کرتے ہیں۔ لیکن ان ہزاروں کتابوں میں معدودے چند کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی ملک میں ایک سال کے بعد اس ملک کے باشندوں کی نگاہ میں مثل سابق قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں اور ان خوش قسمت کتابوں میں سے کوئی کتاب ایسی ملے گی جو نہ صرف ایک خاص ملک کے باشندوں کی نگاہ میں قابل قدر ہو، بلکہ ایک بر اعظم کے تمام ممالک میں قدر اور وقعت کی نظر سے دیکھی جائے او رایک صدی کے گزرنے پر آپ کو شاید ہی کوئی کتاب ایسی ملے گی جو دنیا کے تمام ملکوں اور اقوام عالم کی نزدیک مقبول عام ہو۔
لیکن اس دنیا میں بائبل مقدس ہی ایک واحد کتاب ہے جو صدیوں سے ہزاروں ملکو ں اور قومو ں کے کروڑوں افراد کے نزدیک آج بھی ویسی ہی وقعت کے قابل ہے ،جیسی وہ اس زمانہ میں تھی جب وہ تحریر میں آئی ۔ حق تو یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اور دنیا میں علم و تہذیب کی روشنی پھیلتی جاتی ہے،یہ کتاب بیش از بیش قابل احترام خیال کی جاتی ہے ۔ کیونکہ اس کے سادہ الفاظ کی سطح کے نیچے روحانی رموز کے عمیق مطالب پنہاں ہیں جن کو معمولی عقل کا انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے۔اقوام عالم گھاس کی طرح مرجھاجاتی ہیں اور دنیا کی پشتیں اور نسلیں پھول کی طرح کملا جاتی ہیں ،لیکن ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے(یسعیاہ ۸:۴۰)۔مسیح نے سچ فرمایا تھا’’ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہر گز نہ ٹلیں گی‘‘(متی۳۵:۲۴؛۱۔پطرس۲۳:۱۔۲۵)۔اناجیل اربعہ میں جذبات نگاری،تصنع اور خیال آفرینی کا نام بھی نہیں ۔گووہ روحانیت کے ارتقائے کامل کی آخری منزل ہے،اس میں ندرت خیال کے ساتھ ساتھ لطافت زبان اور شستگی کلام عجیب لطف دیتی ہے۔یہ تمام اسباب اس کی مقبولیت کا راز ہیں۔
کلمتہ اللہ(مسیح ) کی تعلیم کی عالم گیری کا یہ کافی ثبوت ہے کہ جب سے انجیل جلیل احاطہ تحریر میں آئی ہے ،اس کا ترجمہ دنیا کی مختلف اقوام کی زبانوں ہوتا رہا ہے۔ہم نے اپنی کتاب’’صحت کتب مقدسہ‘‘ میں مفصل ذکر کیا ہے کہ آن خداوند کی صلیبی موت اور ظفریاب قیامت کے بعد کی پانچ صدیوں میں انجیل جلیل کا ترجمہ مشرق ومغرب کے مختلف مہذب ممالک کی زبانوں میں ہو گیا ۔تاریخ کلیسیائے جامع ہم کو بتاتی ہے کہ گزشتہ دو ہزار سالوں کے درمیان میں دنیا کے جس ملک میں بھی مشرق و مغرب کے مسیحی مبلغین گئے ،انہوں نے کتاب مقدس کا ترجمہ اس ملک کی زبان میں کر دیا اور انجیل جلیل کی تبلیغ و اشاعت کرتےرہے اور وہا ں کی کلیسیا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی۔
مثال کے طور پر ماضی قریب کا زمانہ لے لو۔قریباً ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزرا ہے کہ ۱۸۱۶ ء میں امریکن بائبل سو سائٹی نے چھ ہزار پانچ سو جلدیں مختلف زبانوں میں شائع کر کے فروخت کیں ۔ لیکن ۱۸۵۰ء میں اس سوسائٹی نے قریباً چھ لاکھ اور اس کے پچیس سال بعد ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ جلدیں فروخت کیں ۔گزشتہ صدی کے آخر میں یہ تعدادساڑھے پندرہ لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔۱۹۲۵ء میں اس سو سائٹی نے بانوے لاکھ پندرہ ہزار جلدیں فروخت کیں اور اس کے ۲۵ سال بعد یہ تعداد ایک کروڑ ساڑھے دس لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔دس سال کےبعد۱۹۶۰ء میں دو کروڑ بتیس لاکھ دس ہزار سے زائد جلدیں فروخت ہو گئیں ۔۱۹۶۲ء میں یہ تعداد تین کروڑ پندہ لاکھ دس ہزار تک پہنچ گئی۔اس ایک سو سائٹی نے اپنی ۱۴۸ سالہ زندگی میں تاحال باسٹھ کروڑ اکتالیس لاکھ اٹھارہ ہزار جلدیں فروخت کی ہیں ۔جب ہم اس حقیقت کو اپنی نظرو ں کے سامنے رکھتے ہیں کہ بعض ممالک میں انجیل جلیل اور اس کے مبلغین اور مبشرین کا داخلہ قانوناً ممنوع ہے اور دنیا کے بہتیرے ممالک کے بے شمار باشندے اپنے مذہبی،نسلی ،قومی اور ملکی تعصبات اور تعلیمی حالات کی وجہ سے انجیل جلیل اور اس کے حصص کو نہیں خریدتے تو ہم ان خارق عادت اعدادو شمار پر حیران رہ جاتے ہیں ۔مندرجہ بالا اعداد و شمار صرف ایک ملک یعنی امریکہ کی بائبل سوسائٹی کے ہیں ۔
لیکن انجیل جلیل کی اشاعت کسی ایک ملک کی کلیسیا کی مساعی جمیلہ پر منحصر نہیں ۔مثلاً برطانیہ کی برٹش اینڈ فارن بائبل سو سائٹی کے اعدادو شمار پر نظر کرو۔یہ سوسائٹی۱۸۰۴ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۳۷ء تک اس نے اپنی ۱۳۳ سالہ زندگی میں کتاب مقدس اور اس کے حصوں کی پچاس کروڑ سے زائد جلدیں فروخت کیں ۔۱۹۳۷ء میں اس نے ایک کروڑ ساڑھے تیرہ لاکھ جلدیں فروخت کیں ۔اپنی زندگی کے پہلے پانچ سالوں میں یہ سوسائٹی لندن سے ہر گھنٹےمیں نو جلدیں دیگر ممالک کو روانہ کرتی تھی۔پچاس سال کےبعد ۱۵۶ جلدیں فی گھنٹا روانہ کرنے لگی۔ایک سو سال کے بعد۶۵۰ جلدیں فی گھنٹا روانہ ہونے لگیں ۔۱۹۳۷ء میں اس سو سائٹی نے ایک ہزار تین سو جلدیں فی گھنٹا فروخت کیں ۔بالفاظ دیگر ہر منٹ میں قریباً ۲۲ جلدیں لندن سے مختلف زبانوں میں دیگر ممالک کو بھیجی گئیں ۔یہ اعداد شمار اس ایک سو سائٹی کی فقط ایک شاخ(لندن) کے ہیں۔ ان اعداد میں اس سو سائٹی کی ان شاخوں کے اعداد شامل نہیں ہیں جو روئے زمین کے تمام براعظم کے مختلف ملکوں کے ہر صوبہ کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔
برٹش اینڈ فارن بائبل سو سائٹی کی یہ شاخیں جو دنیا بھر کے ہر بڑے صوبہ میں ہیں ۔اب لندن کی شاخ سے الگ ہو کر خود انجیل کی اشاعت کا کام کرتی ہیں۔مثلاً عراق،اردن،لبنان، شام اور خلیج فارس کی ریاستوں میں ۱۹۵۹ء میں صرف ۹۶ ہزار کے قریب کتاب مقدس اور اس کے حصص کی جلدیں فروخت ہوئیں ،لیکن اس کے تین سال بعد ۱۹۶۲ء میں ان ممالک میں ایک لاکھ گیارہ ہزار کے قریب جلدیں فروخت ہوئیں ۔اسی سال ۱۹۶۲ء میں پانچ لاکھ سات ہزار سے زیادہ جلدیں افریقہ کی ۳۸ زبانوں میں فروخت ہوئیں ۔۱۹۶۱ء میں افریقہ کے صرف دو ممالک گانہ اور نائیجیریا میں دو لاکھ اکیس ہزار جلدیں فروخت ہوئیں ۔۱۹۶۳ء میں لندن کی شاخ نے کتاب مقدس کو تین سو بیالیس زبانوں میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
(۲)
برصغیر ہندوستان میں برٹش اینڈ فارن بائبل سو سائٹی نے ۱۸۱۱ء میں شہر کلکتہ میں اپنی شاخ کھولی۔اگرچہ اس سال سے ایک صدی پہلے جنوبی ہند کے اولین مبلغین میں سے ایک یعنی زیگن بالگ(Bartholomäus Ziegenbalg)نے ۱۷۱۱ء میں انجیل جلیل کا تامل زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا تھا اور ولیم کیری(William Carry)نے (جو ہندوستان کی چوالیس زبانوں سے واقف تھا اور اس نے بعض زبانوں کی لغات بھی تیار کر دی تھیں) ان زبانوں میں انجیل جلیل اور کتاب مقدس کے دیگر حصص کا ترجمہ کر دیا تھا۔ہنری مارٹن (Henry Martyn) اپریل ۱۸۰۶ء میں ہندوستان آیا اور صرف اکتیس سال کی عمر تک ۱۶ اکتوبر ۱۸۱۲ء کے روز ترکی میں فوت ہو گیا۔لیکن اس چھ سال کے عرصہ میں اس صلیب کے جاں نثار نے انجیل جلیل کا ترجمہ اردو،فارسی اور عربی زبانوں میں کر دیا۔
برصغیر ہندوستان میں تقسیم ملک کے بعد برٹش اینڈ فارن بائبل سو سائٹی کی بجائے دو شاخیں قائم ہو گئیں ۔یعنی ہندوستان و لنکا کی بائبل سو سائٹی اور پاکستان بائبل سو سائٹی جس کی دو شاخیں لاہوراور ڈھاکہ میں قائم ہیں ۔یہ دونوں سو سائٹیاں اب اپنے اپنے ملک میں کتاب مقدس اور اس کے حصص کو مختلف زبانوں میں شائع کرتی اور فروخت کرتی ہیں۔ ہندوستان اور لنکا بائبل سو سائٹی کی سالانہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۹۶۱ ء میں اس نے کتاب مقدس اور اس کے حصص کی ستائیس لاکھ اکانوے ہزار سے زائد جلدیں فروخت کیں جو ۱۲۹ زبانوں میں ملک کے ۴۴ کروڑ افراد کے لئے شائع ہوئی تھیں ۔ان میں سے اکانوے زبانیں خاص ہندوستان کے باشندوں کی تھیں ۔اس نے کتاب مقدس کے تامل،بنگالی، ہندی،مرہٹی،سنتالی،ملیالم اور گجراتی ترجموں کی نظر ثانی کر کے ان کو بھی شائع کیا۔مغربی پاکستان بائبل سو سائٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ۱۹۶۲ء میں کتاب مقدس اور ا س کے حصص کی قریباً پچھتر ہزار جلدیں ۴۵ زبانوں میں فروخت کیں ۔گزشتہ بانوے سالوں میں اس سو سائٹی نے ۶۳لاکھ ۳۲ ہزار سے زائد جلدیں فروخت کیں ۔تقسیم ملک کےبعد پچھلے چار سالوں میں چار لاکھ چالیس ہزار جلدیں فروخت ہوئیں۔مشرقی پاکستان کی بائبل سو سائٹی نے اپنی ایک سالہ زندگی میں ۱۹۶۳ء میں چھبیس ہزار سے زائد جلدیں فروخت کیں ۔پاکستان کے دونوں حصوں کی سو سائٹی نے کتاب مقدس کے مختلف حصوں کے بلوچی، مسلمانی،بنگالی،فارسی،سندھی ،اردو،پشتو وغیرہ زبانوں کے ترجموں کی نظر ثانی کر کے ان کو شائع کیا۔پس بر صغیر ہندوستان کے دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان میں ۱۹۶۲ء میں اٹھائیس لاکھ بانوے ہزار جلدیں ۱۸۲ زبانوں میں شائع ہو کر فروخت ہوئیں۔
سطور بالا میں ہم نے مغربی ممالک کی صرف دو سو سائٹیوں یعنی امریکن بائبل سو سائٹی اور برٹش اینڈ فارن بائبل سو سائٹی کا ذکر کیا ہے۔ ناظرین پر مخفی نہ رہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کی بائبل سو سائٹیوں نے بھی کار خیر کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے۔ مثلاً سکاٹ لینڈ کی نیشنل بائبل سو سائٹی وغیرہ مشرقی ممالک اور افریقہ کے آزاد شدہ ممالک کی کلیسیائیں بھی اس تبلیغ و اشاعت انجیل کے کام میں کوشاں ہیں۔اب دنیا کی تمام بائبل سوسائٹیوں نے از سر نو اپنی تنظیم کر لی ہے اور سب کی سب ایک یونائٹیڈ بائبل سو سائٹی کے ماتحت ہیں ۔ جس نے اس کام کا ذمہ اٹھایا ہے کہ متحدہ اور متفقہ سو سائٹی سے دنیا کے تمام ممالک میں کتاب مقدس کی تبلیغ و اشاعت کے وسیلے سے انجیل جلیل کا پیغام بنی نوع انسان کے ہر فرد بشر تک پہنچ جائے۔
یہ سوسائٹی ایک عالم گیر جماعت ہے ،جس کا کام دنیا کے تمام براعظموں میں ہے۔اس کی شاخوں کے صدر مقام ممالک میں ہیں اور اس کا صدر آرچ بشپ آف یارک ہے۔فی زمانہ دنیا کی آبادی میں ہر سال ۶ کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ہر بائبل سو سائٹی نے اپنے ذمہ یہ فر ض لےلیا ہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنی اپنی زبان میں خدا کا کلام پرھ سکے۔ تادم تحریر ۱۹۶۳ ء انجیل جلیل دنیا کی ایک ہزاردو سو بارہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اگر دنیا کے اعداد وشمار کا لحاظ رکھا جائے تو اس واضح حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں ایک سوآدمی زند ہ ہیں تو ان میں سے چھیانوےانجیل شریف کے نجات بخش پیغام کو اپنی مادری زبان میں پڑ ھ سکتے ہیں ۔ کیا یہ روشن حقیقت کلمتہ اللہ اور انجیل جلیل کی عالم گیری پردلالت نہیں کرتی ؟ کیا کسی دوسرے مذہب کی کتاب کو ایسی جہاں گیر شہرت اور حیرت انگیز کامیابی حاصل ہے؟ کیا یہ کامیابی کلمتہ اللہ کی اعجازی تعلیم کی قوت کو ظاہر نہیں کرتی؟
(۳)
ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے کہ کتاب مقدس اور اس کے حصص کا ترجمہ دنیا کی ایک ہزار دو سو بارہ سے زائد زبانوں میں ہوچکا ہے ۔ ہر سال یہ کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کی تمام معلوم زبانوں میں کتاب مقدس کا ترجمہ ہوجائے تاکہ انجیل شریف کے نجات بخش پیغام سے روئے زمین کے کسی ملک یا قوم کا کوئی فرد محروم نہ رہ جائے ۔ دنیا کی بہتیری زبانیں ایسی ہیں جن میں حروف تہجی تک معرض وجود میں نہیں تھے۔ پس مسیحی مبلغین کو ان کے حروف تہجی کو اختراع کرنا پڑا تاکہ وہ بائبل شریف کا اس زبان میں ترجمہ کرسکیں۔مسیحی مبلغین نے نا بیناؤں تک کو کتاب مقدس کے مطالعہ سے محروم نہیں رکھا اور ہر سال ان کے لئے کتاب مقدس کے ترجمے تیار کئے جاتے ہیں ۔چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی نے ۱۹۳۷ء کے آخر تک ۴۱ مختلف زبانوں میں کتاب ِمقدس کونا بیناؤں اور اندھوں کے لئے تیار کیا تھا۔ اب ۶۲ ء میں امریکن بائبل سو سائٹی نے کتاب مقدس کے قریباً تریسٹھ ہزار( تراجم)’’بریل ‘‘ کے چھاپہ میں نابیناؤں کے لئے شائع کئے ۔
ہم نے ذکر کیا ہے کہ بائبل سوسائٹیاں اسی کوشش میں ہیں کہ دنیا کی تمام زبانوں میں کتاب مقدس کا ترجمہ ہوجائے تاکہ روئے زمین کے ممالک واقوام پر اتمام حجت ہوجائے اور قیامت کے روز مبلغین سر خرو ہوں۔اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی گیارہ سے لے کر چودہ نئی زبانوں میں کتاب مقدس او راس کے حصص کاترجمہ کردیتی ہے جس کامطلب یہ ہے کہ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب اس دنیا میں کتاب مقدس یا اس کے حصص کا دنیا کی کسی نہ کسی نئی زبان میں ترجمہ نہیں ہوجاتا ہے ۔ کیا یہ بائبل شریف کی اعجازی طاقت پر دلالت نہیں کرتا ؟
(۴)
بائبل شریف کے ترجموں کے متعلق ایک اور بات قابل غور ہے۔ بائبل مقدس کی اصلی زبان اس قسم کی ہے کہ دنیا کی جس زبان میں بھی اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے، اس میں ترجمہ کا لطف اصلی زبان کا سا نظر آتا ہے ۔کلمتہ اللہ کا کلام بلاغت و وضاحت سے پُر ہے،جیسا ہم نے اپنی کتاب قدامت و اصلیت اناجیل کی جلد دوم میں ثابت کر دیا ہے۔ اس میں کوئی بات بھدی نظر نہیں آتی، بلکہ ترجمہ کی عبارت تک نہایت سلیس اور رواں ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کتاب مقدس کے انگریزی ترجمہ کو لیں۔ تمام انگریزی علم ادب کو چھان مار و زبان کے لحاظ سے آپ کو کوئی( کتاب) اس کے انگریزی ترجمے سے اعلیٰ پایہ کی نہیں ملے گی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا کتاب مقدس کے مصنفین نے اس کو انگریزی زبان میں لکھا تھا۔ انجیل شریف کے اردو ترجمہ کو لے لیجئے۔ (اس کی زبان )ایسی صاف ،سلیس اور رواں ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انجیل کے مصنفین نے اس کو اردو زبان میں لکھا تھا۔ مرحو م مولانا ابو الکلام آزاد نے بار بار اس اردو ترجمہ کو سراہا ہے جس میں کوئی سبک(بے تعلق) لفظ نہیں ہے۔یہی حال فارسی اور دیگر تراجم کا ہے۔
کتاب مقدس کی زبان، عبارت ،الفاظ اور محاورات ہی ایسے ہیں کہ دنیا کی ہر زبان میں باآسانی ترجمہ ہوسکتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہی زبان کتاب مقدس کی اصلی زبان ہے۔ کلام کی بلاغت ،بیان کی لطافت ، زبان کی سلاست ،بندش کی چستی ،موزوں الفاظ و محاورات ،تمثیلات وتشبیہات کی دلآویزی نے سونے پر سہاگے کا کام کر دیا ہے۔ دیگرمذاہب عالم کی مقدس کتابوں کا یہ حال نہیں۔ ان کی زبان اور عبارت ایسی ہے کہ وہ دوسری زبانوں میں بآسانی ترجمہ نہیں کی جاسکتیں اور اگر بصد مشکل ان کا ترجمہ ہوتابھی ہے توناظر کو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب پڑ ھ رہا ہے جو اس کے ملک اور قوم کی نہیں۔ ترجمہ بھدا اور عبارت مغلق(مشکل۔دوراز فہم) اور اسی قسم کی ہوتی ہے کہ اصلی زبان کا مدعا دوسری زبان میں کماحقہ ادا ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے انگریزی تراجم جو مسیحی علما نے کئے ایک سے ایک بڑھ کر موجودہیں ،لیکن کوئی ترجمہ بھی ایسا نہیں جس میں کتاب مقدس کے انگریزی ترجمے کی سی خوبیاں موجود ہوں ۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کو لیں۔ اس کے انگریزی تراجم جو مسیحی علما نے کئے ایک سے ایک بڑھ کر موجود ہیں۔ پامر کا ترجمہ بے مثل ہے۔ مسلمان علما نے بھی اس کے ترجمے انگریزی میں کئے ہیں ،لیکن کوئی ترجمہ بھی ایسا نہیں جس میں کتاب مقدس کے انگریزی ترجمہ کی سی خوبیاں موجود ہوں۔ قرآن کے ان انگریزی تراجم کی عبارت بھدی اور طرز تحریر کرخت ہے ۔ ناظر فوراً پڑھتے ہی بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک ترجمہ ہے جو غیر مانوس ہونےکی وجہ سے اس کو اپیل نہیں کرتا اور اس کے جذبات کو متاثر نہیں کرسکتا ۔ کوئی صحیح العقل شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ اگرکسی نے انگریزی علم ادب کا بہترین نمونہ دیکھنا ہو تو وہ انگریزی ترجموں کو پڑھے۔ان مذاہب کے علما نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ ان کتب کااردو میں اس قسم کا ترجمہ کریں جس طرح انجیل شریف کا اردو میں موجود ہے۔ بیسیوں علما نے اس میدان میں زور آزمائی کی اور ان مترجمین میں سے بعض( ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم کی مانند) نہ صرف اہل زبان ،بلکہ اردو علم و ادب کے فاضل استاد بھی تھے، لیکن سب ناکام رہے۔ انجیل کے ترجمہ کے مقابل یہ حال دیگر مذاہب کی کتب کا ہے۔مثلاً ویدوں،ژند و اُستا وغیرہ کاترجمہ ہوا ہی نہیں اور اگر ہوا بھی ہے تو ان کے الفاظ ،محاورات، عبارت وغیرہ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک خاص ملک اور قوم کے ساتھ ہی مختص ہے۔ اردو کے ناظرین ان تراجم کو دیکھ کر ان کے عیوب ونقائص سے فوراً واقف ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ البقرہ کی پہلی آیت کا ترجمہ لیں’’الم ،ا س کتاب میں کچھ شک نہیں ۔ ہدایت ہے پرہیز گاروں کے لئے (ترجمہ نواب محمد حسین قلی خان )۔"الم ، یہ کتاب نہیں شک بیچ اس کے راہ دکھاتی ہے واسطے پرہیز گاروں کے’’ (ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلوی )’’الم۔اس کتاب میں کچھ شک نہیں راہ بتاتی ہے ڈر والوں کو’’ (ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی )’’الم یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں راہ بتانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو’’ (ترجمہ اشرف علی تھانوی) ۔الم ،یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقیوں کے واسطے ہدایات ہے’’(ترجمہ ڈاکٹر عبدالحکیم )۔الم ، یہ وہ کتاب ہے جس (کے کلام الہٰی ہونے ) میں کچھ شک نہیں پرہیز گاروں کی راہ نما ہے ۔ (ترجمہ ڈاکٹر نذیر احمد ) الف ۔ لام ۔میم یہ کتاب الہٰی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں متقی انسانوں پر فلاح وسعادت کی ) راہ کھولنے والی’’ (ترجمہ مولانا ابو الکلام آزاد ) مذکورہ بالا تمام تراجم بے لطف اور زبان کے لحاظ سے ایک بھی ایسا نہیں جو مطلب خیز ہو۔ کسی میں لفظوں کا زیادہ لحاظ کسی میں معنوں پر زیادہ زور کسی میں محاورات کی بھر مار اصلی غیر مانوس عبارت ِقرآنی (الف ۔ لام۔ میم ) ہر ایک میں موجود ہے جس کا مطلب کوئی شخص نہیں جانتا ۔ ترجمہ کے عیوب ونقائص مترجمین کی نالیاقتی کی وجہ سے نہیں بلکہ قرآن کی اصل عبارت ہی ایسی ہے کہ اس کو دنیا کے ممالک کی اقوام اپنی مادری زبان میں پڑھ نہیں سکتیں کیونکہ اس کا دنیا کی زبانوں میں ترجمہ ہو نہیں سکتا اور اگر ہوتا ہے تو ان اقوام کے لوگوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری قوم کی دینی کتاب کو پڑ ھ رہے ہیں جو ان کی اپنی قوم کی نہیں ہوسکتی یہی حال دیگر مذاہب کی کتب کا ہے۔ان کے الفاظ محاورات ۔عبارت وغیرہ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک خاص ملک اور قوم کے ساتھ ہی مختص ہے۔مثلاً قرآن میں اگر فصاحت وبلاغت ہے تو صرف اہل عرب اس کی قدر کرسکتے ہیں۔ غیر مذہب کے لئے وہ زبان ایسی ہے کہ جب اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو وہ ان کے جذبات کو متاثر ہی نہیں کرسکتی ۔ اسی طرح سنسکرت کی کتاب میں اگر کوئی خوبی ہے تو صرف ہندو سنسکرت دان ہی اس کو جان سکتے ہیں۔ جب غیر ہنود اور غیر سنسکرت دان اس کے ایک دو فقروں کو پڑھ لیتے ہیں تو ان کی طبیعت اکتا جاتی ہے۔ یہی حال ژندو اُستا کا ہے۔ اس کا جوانگریزی ترجمہ ہوا بھی ہے اس کو پڑھ کر غیر پارسیوں کی طبیعت اچاٹ ہوجاتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ یہ دینی کتب(قرآن ،وید، ژند،استا وغیرہ) صرف ایک ملک یا قوم کے حالات کے ساتھ ایسی وابستہ ہیں کہ وہ دیگر ممالک واقوام وازمنہ کے لئے غیر موزوں ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کے ماننے والوں کے حلقہ کے باہر (اور اندر بھی ) ان کتب کے مضامین سے کوئی واقف نہیں ہوتا اور ان کا ترجمہ غیر زبانوں میں نہیں کیا جاتا ۔ صرف بائبل شریف ہی ایک ایسی کتاب ہے جو دنیا کی تقریباً تمام معلوم زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے اور جس ملک اور قوم کی زبان میں بھی اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے، اس ملک اور قوم کے افراد کے جذبات کو وہ متاثر کردیتی ہے ۔ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ روئے زمین پر بائبل شریف کے سوا اور کوئی کتاب عالم گیر نہیں ہے ۔ کیونکہ صرف یہی کتاب دنیا کی تمام اقوام کی زبانوں میں ان کی مادری زبان کی طرح ہی ’’اُم الکتاب ‘‘ ہو کر بولتی ہے اور دنیا کے تمام ملکوں میں چلتی پھرتی، جیتی جاگتی نظر آتی ہے ۔
حاصل کلام
ہم نے اس فصل میں بیان کیا ہے کہ کلمتہ اللہ (مسیح) نے جو تصور ِ خدابنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا ہے،وہ ایسا ہے کہ ہر زمانہ ،ملک اور قوم کاہر فرد بشر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس سے بہتر اور اعلیٰ تصور ناممکن ہے ۔ مسیحیت کا اصل الاصول یہ ہے کہ خدا محبت ہے اور وہ بنی نوع انسان سے ابدی محبت رکھتا ہے ۔ انسانی قوت ِ متخیلہ اس سے بہتر تصور پیش نہیں کرسکتی ۔ الہٰی محبت کا نتیجہ انسانی اخوت ، مساوات اور محبت ہے اور یہی مسیحیت کا اخلاقی نصب العین ہے جس سے بہتر مطمح نظر(مرکز نگاہ۔اصلی مقصد) کا ہونا محالات میں سے ہے ۔ یہ نصب العین کامل ہے جو روئے زمین کی اقوام کی دینی اور دنیاوی ضروریات کو پورا کرتاہے(کلسیوں۳:۲) اور اپنے اند ر تمام ممالک اور ازمنہ کے پیچدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو شاہراہ ترقی پر گامزن ہونے میں ممدو معاون ہے ۔ مسیحیت کا نصب العین کسی خاص مقام،ملک یا وقت یا قوم کا نصب العین نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے مسیحیت کا یہ مقصد رہا ہے کہ تمام زمانوں،تمام ملکوں اور تمام انسانوں غرضیکہ کل کائنات کو اپنے وسیع اور لامحدود دائرہ کے اندر لائے۔اس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا بانی رحمت اللعالمین اور منجی عالمین ہے جو کل انسانوں کو نجات دینے اور کامل کرنے کے لئے آیا ہے۔ مسیحیت تمام بنی نوع انسان کو ایک واحد کلیسیائے جامع میں اکٹھا کرتی ہے ۔ مسیحیت کے اصول دینی اور دنیاوی امور پر حاوی ہیں۔ وہ مادی عالم میں بھی ویسے ہی حکمران ہیں جیسے وہ اخلاقیات پر حکمران ہیں۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ مسیحیت بنی نوع انسان کو ہر زمانے میں یہ سبق دیتی آئی ہے کہ کائنات کی بنیاد روحانی اصول پر قائم ہے اور کہ اس مادی دنیا میں ہم حقیقی خوشی خاصل نہیں کرسکتے ،تاوقتیکہ ہم اپنے گردو پیش کے حالات اور دیگر تمام تعلقات میں ان روحانی اصولو ں پر کاربند نہ ہوں۔ چونکہ مادی دنیا کی بنیاد روحانیت پر قائم ہے، پس ہم کو تمام امور اخوت ومحبت اور مساوات کے اصولوں کے مطابق سر انجام دینے چاہئیں ۔ہماری تمدنی و معاشرتی زندگی، ہماری اقتصادی اور سیاسی زندگی غرضیکہ ہمارے تعلقات کی بنیاد روحانیت پر ہونی چاہیے۔ جب سے مسیحیت اس دنیا میں آئی دنیا کی ترقی کا راز اس ایک حقیقت میں مضمر رہا ہے ۔ تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ مسیحیت نے تمدنی ،معاشرتی ، اقتصادی،سیاسی اور اخلاقی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیا ہے اور کوئی مستند مورخ ایسا نہیں جو اس واضح تاریخی حقیقت میں اور مسیحیت کی تعلیم اوراشاعت میں علت و معلول کا رشتہ قائم نہیں کرتا۔مسیحیت اپنے اندر کل کائنات کو نئی مخلوق بنادینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جہاں مسیحیت جاتی ہے، وہاں ایک نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہوجاتی ہے اورپہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہتی ہے،کیونکہ ابن اللہ (مسیح ) جو تخت پر بیٹھے ہیں کہتے ہیں کہ دیکھ میں ساری چیزوں کو نیا بنادیتا ہوں(مکاشفہ۱:۲۱۔۵ )۔ جنابِ مسیح کل بنی نوع انسان کے واحد منجی ہیں، جن کے علاوہ’’۔۔۔آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جِس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں‘‘(اعمال۱۲:۴)۔یہی ایمان ہمیشہ ہےاور یہی ایمان مسیحیت اور مسیحی کلیسیاکی پشت پناہ رہا ہے او راسی ایمان کی قوت نے دنیا کے تمام مذاہب پر فتح پائی ہے(۱۔یوحنا۴:۵)۔تاریخ کے صفحات اس حقیقت کے روشن گواہ ہیں کہ دنیا میں کوئی مذہب یا فلسفہ ایسا نہیں ہوا جس کے پیروؤں کی دینی، ذہنی اور روحانی ضروریات کو کلمتہ اللہ (مسیح) نے کامل طور پر پورا نہ کیا ہو۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ مذاہب اور فلسفہ ان ضروریات کو کبھی اس احسن طور پر پورا نہ کرسکے جس طرح منجی کونین نے پورا کردیا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کی وجہ سے مسیحیت کے سامنے قائم نہ رہ سکے او رکلمتہ الله (مسیح) بالآخر غالب ہوئے ۔’’ وہ غلبہ جِس سے دُنیا مغلُوب ہُوئی ہے ہمارا اِیمان ہے ‘‘(ا۔یوحنا۴:۵)۔ابن اللہ بنی نوع انسان کی ضروریات کا’’اول اور آخر‘‘ہے اور وہ’’ابدالآباد زندہ’’ ہے(مکاشفہ۱۷:۱)۔ وہی دنیائے مذہب پر اکیلا واحد حکمران ہے۔
گوئی بغیر واسطہ در گوش خا کئے
راز ے گزاں خبر نبود جبرئیل را
فصل دوم
مسیحیت جامع مذہب ہے
اس رسالہ کے باب اول میں عالم گیر مذہب کی خصوصیات پر بحث کرتے وقت ہم نے ذکر کیا تھا کہ عالم گیر مذہب کے لئے لازم ہے کہ اس میں خدا کا تصور اعلیٰ وارفع اور اس کی اخلاقیات کا نصب العین بلند پایہ کا اور اس کے اصول عالم گیر ہوں ۔جو زمان ومکاں کی قیود سے آزاد ہوں اور اس قابل ہوں کہ ان کااطلاق تمام ممالک واقوام اورازمنہ پر ہوسکے۔ گزشتہ فصل میں ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف مسیحیت ہی ایک واحد مذہب ہے جو اس شرط کو پورا کرسکتا ہے ۔
۱۔مسیحیت اور دیگر مذاہب
مسیحیت کے عالم گیر ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ یہ مذہب ادیان عالم کے بہترین اصول کو اپنے اندر جمع کرلیتاہے۔ ہم نے باب اول میں یہ ذکر کیا تھا کہ خدا نے ہر قوم کوہدایت کا نور اس کے دل اور ضمیر میں عطا کیا ہے(اعمال باب۱۷؛رومیوں ۲۱:۱)۔قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ ہر امت میں خدا نے نذیر بھیجا ہے(سورہ فاطر رکوع ۳)۔پس دنیا کے تمام مذاہب میں کم وبیش صداقت کے عناصر موجود ہیں جوان کی کامیابی کاسبب رہے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ عناصر ان مذاہب میں باطل عناصر کے ساتھ خلط ملط تھے ،وہ ا س قابل نہ رہے کہ اقوا م عالم کے ہادی ہوسکیں ۔ وہ ایک خاص ملک یا قوم یا طبقہ یاپشت کی صرف خاص حالات کے اندر ہی راہ نمائی کرسکے۔ لیکن ان حالات کے باہر ان مذاہب کے اصول کا اطلاق نہ ہوسکا۔ چونکہ وہ اصول خاص حالات کے رونما ہونے کی وجہ سےوضع کئے گئے تھے ۔لہٰذا جب وہ صورت حالات بدل گئی، وہ اصول غیر مکمل ہونے کی وجہ سے ناکافی ثابت ہو ئے۔ ان مذاہب میں جو صداقت کے عناصر تھے وہ ٹمٹماتے چراغ کی مانند رات کی تاریکی میں کچھ مدت کے لئے کسی خاص قوم کوچند قدم تک راہ دکھانے کا کام دیتے رہے اور بس ۔جونہی آندھی چلی یا تیل بتی ختم ہوگئی چراغ بجھ گیا اور شب کی تاریکی نے دنیا کو مثل سابق گھیر لیا۔یوں یہ مذاہب اپنی عمر طبعی کو ختم کرکے دنیا کو اپنی حالت پر چھوڑ کر رخصت ہوگئے ۔ مسیحیت کا یہ عقیدہ ہے کہ کل ادیان عالم میں جو صداقت کے عناصر ہیں وہ اس’’حقیقی نور‘‘یعنی جنابِ مسیح کے نور کی شعاعیں ہیں ،جوہر ایک آدمی روشن کرتا ہے(یوحنا۹:۱)۔دنیا کی کل اقوام میں سے کسی کوخدا نے بغیر گواہ کے نہیں چھوڑا تاکہ وہ خدا کو ڈھونڈیں اور اس کو ٹٹول کر پائیں(اعمال۱۷:۱۴؛۲۷:۱۷)۔ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ قدرت کی طرف سے یہ روشنی موجود ہے(رومیوں۱۹:۱؛۱۴:۲؛یرمیاہ ۳۳:۳۱)۔کیونکہ’’خدا کسی کا طرف دار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اس ڈرتا اور نیک عمل کرتا ہے وہ اس کو پسند آتا ہے‘‘(اعمال۳۴:۱۰؛ رومیوں۲۹:۳)۔یہ مذاہب اقوام عالم کومسیح تک پہنچانے میں ان کے راہبر کا فرض ادا کرتے ہیں( گلتیوں۲۴:۳؛متی۱۷:۵؛رومیوں۴:۱۰؛ عبرانیوں۱۰،۹:۹)۔
ہر قوم راست راہے دینے وقبلہ گا ہے
حق تو یہ ہے کہ مقابلہ مذاہب کا علم اس حقیقت کو آشکارا کر دیتا ہے کہ کل اقوام کے مذاہب’’آنے والی‘‘ مسیحیت کا پیش خیمہ اور’’سایہ‘‘ ہیں، مگر اصل چیز مسیح میں ہے(کلسیوں ۱۷:۲)۔وہ آسمانی مذہب کی نقل اور عکس کی خدمت کا کام سر انجام دیتے ہیں( عبرانیوں ۵:۸)۔جوان سے’’بزرگ تر او رکامل تر‘‘ ہے(عبرانیوں ۱۱:۹)۔مسیحیت ان تمام غیر مکمل صداقتوں کو اپنے اندر جمع رکھتی ہے ،کیونکہ وہ ان سے زیادہ کامل ہے۔ مختلف ممالک اور مختلف اقوام کے مذاہب میں صداقت کے مختلف پہلو موجود ہیں ،لیکن مسیحیت ہی اکیلا واحد مذہب ہے جو تمام دنیا کے ممالک واقوام کے مذاہب کی صداقتوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے۔ کیونکہ مسیح شریعت وانبیا کا کامل کرنے والا ہے(متی ۱۷:۵؛یوحنا۳۹:۱۰)۔ انجیل مقدس میں ارشاد ہے کہ ان غیر مکمل مذاہب میں’’ جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دل کش ہیں۔ غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں‘‘ ہم ان کو نظر انداز نہ کریں (فلپیوں۸:۴)۔کیونکہ جو نور مسیحیت میں اپنی ساری شان وشوکت کے ساتھ چمکتا ہے ،اس کی شعاعیں اقوام ومذاہب عالم کی حق اور سچائی کی طرف راہ نما ئی بھی کرتی ہیں(یوحنا۱۳:۱۶)۔تمام رسولوں کی اور بالخصوص مقدس پطرس او ر مقدس پولس کی تحریرات اور تقریرات (اعمال باب۲؛باب۷؛۳۰:۸؛۳۴:۱۰؛باب۱۱؛باب۱۵؛باب۱۷) سے ظاہر ہے کہ جنابِ مسیح کے رسولوں نے اپنے سامعین کے مذاہب میں ’’دل کش اور پسندیدہ‘‘ باتیں پائیں ۔جن کے ذریعہ وہ لوگوں کو جنابِ مسیح کے قدموں میں لے آئے۔خود کلمتہ اللہ نے اس قسم کے استدلال سے کام لیا تھا(یوحنا۳۴:۱۰۔۳۶)۔
عبرانیوں کے خط کا مصنف یہ ثابت کردیتا ہے کہ یہودیت ایک ابتدائی منزل تھی۔ جس کی انتہائی کڑی مسیحیت ہے۔ اسی طرح مقدس یوحنا نے یونانی فلسفہ میں لوگوس (کلام ) کی تعلیم میں صداقت کے عناصر دیکھے ۔ اس نے اپنی انجیل میں ثابت کیاکہ یہ صداقت اعلیٰ ترین اور افضل ترین حالت میں صرف مسیح کلمتہ اللہ میں پائی جاتی ہے ۔اس نے لوگوس کی اصطلاح کو گویا بپتسما دے کر تمام ناقص تصورات سے جدا اور پاک کر کے مسیحی علم کلام کا حصہ بنادیا۔پولس رسول نے ثابت کیاکہ مسیحیت یہودیت کی تکمیل ہے(رومیوں ۱۰:۱۳)۔ مہاتما بدھ کو خود اس بات کا احسا س تھا کہ اس کامشن محدود اور غیر مکمل ہے۔چنانچہ موت سے پہلے اس نے آنند کو کہا:
’’ اس دنیا میں مَیں آخری بدھ نہیں ہوں۔ وقت مقررہ پر ایک اور بدھ ظاہر ہوگا جو قدوس ہستی ہوگا اور نیر اعظم ہو گا۔ جس کی گفتار صادق ہو گی اور جس کا نمونہ کامل ہو گا۔وہ بنی نوع انسان کا قائدا عظم ہو گا اور تم پر تمام ابدی صداقتیں ظاہر کرے گا۔وہ کامل انسان ہو گا جس کی زندگی میں تمام صداقتوں کا ظہور ہوگا۔ اس کے پیرو لاکھوں ہوں گے،گو میرے پیرو ہزار ہی ہیں ۔اس کا نام ہی ’’محبت ِمجسم ‘‘ ہوگا۔۔۔۔‘‘ ۔
مقدس یوحنا رسول نے ثابت کردیا کہ یونانی فلسفہ اور مذہب کی تکمیل مسیح میں ہے(افسیوں۱۰:۱؛کلسیوں۱۷:۱)۔ آبائے کلیسیا اس صداقت پر زور دیتے ہیں کہ مسیح راہ حق اور زندگی ہے۔ پس جہاں حق کا عنصر ہے وہاں کلام حق موجود ہے جو اس قوم کی مسیح کی طرف ہدایت کررہا ہے۔ جسٹن شہید اور سکندریہ کے کلیمنٹ نے یونان کے مذہب و فلسفہ میں ایسی باتیں پائیں جو ان کو مسیحیت کے قدموں میں لے آئیں۔ چنانچہ موخر الذکر کہتا ہے:
’’ جس طرح شریعت یہود کو مسیح تک لانے میں ان کی استاد بنی، اسی طرح فلسفہ یونانیوں کا استاد بنا ‘‘ ۔
طرطلیان(Tertullian) ( ۲۰۰ء)غیر یہودی مذاہب کی نسبت کہتا ہے کہ:
’’ ان میں ایسی صداقتیں موجود ہیں جو اپنے کمال میں صرف مسیحیت میں پائی جاتی ہیں‘‘۔
کلیسیائے انگلستان کے اساقف نے ۱۹۰۸ء کی لیمبتھ (Lambeth)کانفرنس میں یہ ہدایت کی تھی کہ:
مسیحیوں پر واجب ہے کہ بغیر کسی تامل کے غیر مسیحی مذاہب کی صداقتوں کو قبول کرلیں اور اس بات کو تسلیم کرلیں کہ رب العالمین کی منشا کے مطابق صداقت کے عناصر دنیا کی تمام اقوام کے مذاہب میں موجود ہیں۔ لازم ہے کہ مسیحی ان صداقتوں کے ذریعہ غیر مسیحی مذاہب والوں کو مسیح کے قدموں میں لے آئیں، کیونکہ وہی راہ اور حق (اور زندگی) ہے ۔
۲۔ کل مذاہب کے اصول مسیحیت میں شامل ہیں
(۱)
جب ہم مسیحیت اور دیگر مذاہب کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ اعلیٰ اصول اور اچھی تعلیم جو اِن مذاہب میں موجود ہے، وہ بدرجہ احسن مسیحیت میں پائی جاتی ہے ۔ اقوام عالم کی ایک بھی روحانی ضرورت ایسی نہیں جس کو مسیحیت پورا نہیں کرتی ۔ہم ثابت کر آئے ہیں کہ انسانی فطرت کی تمام ضروریات اور تقاضے مسیحیت میں احسن طور پر پورے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ضروریات دیگر مذاہب میں ادھورے طور پر ہی پوری ہوتی ہیں۔ جب مسیحیت کے اصول اور دیگر مذاہب کے اصول کو پیش نظر رکھ کر دونوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو اس موازنہ سے مسیحی اصول کی روشنی زیادہ چمکتی ہے۔ یہ درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا آفتاب کو چراغ دکھانا۔ دنیا کے مختلف کونوں کی تاریکی میں دیگر مذاہب کےاصول ٹمٹاتے چراغ کی طرح کام میں آئے ۔ لیکن آفتاب نصف النہار کے سامنے یہ چراغ بےکار ہوجاتے ہیں ۔پھر سورج اور چاند کی روشنی کی کچھ حاجت نہیں، کیونکہ خدا کے جلال نے اس کو روشن کر رکھا ہے (مکاشفہ۲۳:۲۱)۔
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو راز مہ واختر کھلا
(غالب )
ہر صداقت پسند شخص خوشی سے قبول کرنے کو تیار ہوگا کہ ایک زمانہ تھا جب ان مذاہب کی روشنی متلاشیان حق کو خدا کی طرف لانے میں راہ نما کا کام دیتی رہی ۔لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جوصداقت کے عناصر ان مذاہب میں موجود ہیں ،وہ اپنی پاکیزہ ترین شکل میں مسیحیت میں موجود ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب میں بھی صداقت کا کوئی ایسا عنصر نہیں جو بدرجہ احسن مسیحیت میں موجود نہ ہو۔ جنابِ مسیح وہ آفتاب صداقت ہے جس کی شعاعوں نے ان عناصر کو ایسا منور کر رکھا ہے کہ انسان کی نگاہ خیر ہ ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’ قومیں اس کی روشنی میں چلیں پھر یں گی’’(مکاشفہ ۲۴:۲۱)۔ یہ تمام مذاہب چھو ٹی چھوٹی پہاڑی دھاریوں کی طرح ہیں اور مسیحیت سمندر کی طرح ہے۔
سالک را توئی رہبر ممالک را توئی زیور
محامدرا توئی مظہر معارفرا توئی منشا
جس طرح مسیحیت ایک جامع مذہب ہے اور اس میں تمام دیگر مذاہب کی صداقتیں پائی جاتی ہیں ۔اسی طرح جنابِ مسیح کی شخصیت ایک جامع شخصیت ہے جس میں کل بانیان مذاہب کی اعلیٰ ترین صفات بدرجہ احسن پائی جاتی ہیں۔ پس تمام دنیا کے اولیا ،انبیا اور مصلحین کے اصول، تعلیم و زندگی، مسیحیت اور مسیح میں موجود ہیں۔ مسیحیت ایک ایسا جامع مذہب ہے جس میں ہم کل ادیان عالم کی تمام صداقتوں کو اعلیٰ ترین صورت میں پاتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کی مختلف صداقتیں مسیحیت میں جمع ہیں اور ابن اللہ کی قدوس ذات روحانیت کا بحر ناپید اکٹھ ہے ۔ مسیح میں حکمت اور معرفت کے سارے خزانے چھپے ہیں(کلسیوں۳:۲)۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب صرف چند ایک صداقتوں پر زور دینے پر اکتفا کرتے ہیں ۔پر وہ صداقت کے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔لیکن مسیحیت کا یہ جلال ہے کہ وہ تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع کرتی ہے اور سچائی کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتی۔مثلا ً ہندو دھرم اس صداقت پر زور دیتا ہے کہ خدا ہمارے اندر ہے، لیکن گناہ کی حقیقت اور وجود کو قطعی طور پر نظر انداز کر کےاس صداقت کو فراموش کردیتاہے کہ خدا کی ذات پاک اور قدوس ہے۔ اسلام خدا کو خدائے واحد اوربرتر وتعالیٰ مانتا ہے، لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کردیتا ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے۔ وہ اس کو سلطان السلاطین مانتا ہے ،لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ ہمارا باپ ہے جو ہرگناہ گار سے ابدی محبت رکھتا ہے اور اس کو بچانے کے لئے بے قرار ہے۔
مسیحیت میں وہ تمام صداقتیں پائی جاتی ہیں جن کو دیگر مذاہب نظر انداز کردیتے ہیں یا جن سے وہ کلیتہً ناواقف ہے۔ کلمتہ الله کی تعلیم میں صداقت کے وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جن کو مختلف مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو ان مذاہب میں موجود نہیں ،اگرچہ وہ بھی حقیقی روحانی حقائق ہیں۔ مثلاً ہندو دھرم کی یہ تعلیم ہےکہ خدا اپنی کائنات کےاندر موجود ہے۔ یہودیت اور اسلام اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ خدا کائنات سے بلند وبالا اوربرتر وارفع ہے ۔ بدھ مت تعلیم دیتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے او رہماری چند روزہ زندگی ایک نہایت اہم شئے ہے۔ چین کا مذہب دنیاوی تعلقات اور معاشرت کے اصول کو واضح کرتا ہے ۔ اب جو شخص کلمتہ الله کی تعلیم سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ یہ تمام اصول نہایت اعلیٰ ،ارفع اورپاکیزہ ترین شکل میں مسیحیت میں موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر روحانی حقائق بھی موجود ہیں جن کو یہ مذاہب نظر انداز کردیتے ہیں۔
(۲)
ہمیں اس امر کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ دیگر ادیا ن عالم میں جہاں چند صداقتیں پائی جاتی ہیں، وہاں ان میں ایسی متعددباتیں بھی پائی جاتی ہیں جو روحانیت کے منافی اور مخرب اخلاق ہیں۔ یہ مذاہب اس گھنے جنگل کی مانند ہیں جہاں دن میں بھی تاریکی ہوتی ہے ،گو وہاں آفتاب کی شعاعیں کہیں کہیں داخل ہو ہی جاتی ہیں۔ صرف مسیحیت ہی اکیلا ایسا مذہب ہے جس میں مخرب اخلاق باتیں تو درکنار ناپاکی اور بدی کا سایہ تک نہیں ملتا۔ اس کا بانی ایک ایسی قدوس ہستی ہے جس کی زندگی اور تعلیم نے کروڑہا شیطان صفت انسانوں کو قدوسیوں کے درجہ تک پہنچادیا ہے۔ دیگر مذاہب میں صداقت کاایک عنصر بطالت کے بےشمار عناصر کے ساتھ ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم ان تاریک پہلوؤں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں تو ہم ایک روشن حقیقت کو جھٹلائیں گے اور نہ صرف خود گمراہ ہوں گے، بلکہ حق کے متلاشیوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ ان مذاہب کی قوت ان کے عنصر صداقت کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان کے مخرب اخلاق عناصر ان مذاہب کی کمزوری اور ناکامی کا باعث ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک ان مذاہب میں بطالت کی آمیزش کر کے عناصر موجود ہیں، اس حد تک وہ مذاہب باطل ہیں ۔ اگر خدا کے متعلق ان کے تصورات غلط ہیں یا اگر گناہ اور نجات کی نسبت ان کے خیالات باطل ہیں یا اگر ان کے اصول مخرب اخلاق او ران کی رسمیات بد ہیں۔ اگر ا ن کی تعلیم میں شرک یا بت پرستی، تعداد ازدواج یا ذات پا ت کی قیود ہیں یا ان کی عبادت بگڑی ہوئی ہے اور دیوداسی وغیرہ ان کی عبادت کا جز وہیں ۔جس حد تک ان میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں،اس حد تک وہ یقیناً باطل ہیں اور کوئی استد لال باطل کو حق نہیں بنا سکتا ۔ دیانت داری اور حق شناسی ہم کو مجبور کرتی ہے کہ ہم ان باطل عناصر کو فی الحقیقت باطل جانیں او رباطل مانیں اور ان کو رد کریں ۔
یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ ان غیر مسیحی مذاہب میں جو کلمتہ اللہ کی بعثت کے وقت دنیا میں مروج تھے، ہر قسم کی بدی نے پناہ لے رکھی تھی۔ پس مسیحیت نے تمام دنیاکو ان مذاہب باطلہ کے باطل عناصر کی طرف سے خبردار کیا ہے۔ ہم نے اپنے رسالہ نور الہدیٰ میں ان مذاہب کی مفصل طور پر توضیح، تنقیح اور تنقید کی ہے او رناظرین کی توجہ ا س رسالہ کی جانب مبذول کرتے ہیں۔ مقدس پولس نےان مشرکانہ مذاہب کی رسوم بد کو’’شیطانی’’قرار دے دیا تھا(۱۔کرنتھیوں ۱۴:۱۰۔۲۲)۔آغاز مسیحیت میں آبائے کلیسیا کی تحریرات بھی ان مذاہب باطلہ کی بطالت کو تشت ازبام کردیتی ہیں۔ مقدس اگنیتیس (Ignatious) جو ۱۰۷ءمیں شہید ہوا اورجسٹن شہید (Justin) ۱۰۵ء میں ان کی تحریرات مقدس پولوس کی ہم نوا ہیں۔ شیئن (Tation) (۱۷۰ء) گو بدعتی تھا تاہم مذاہب باطلہ کی نسبت لکھتا ہے کہ:
’’ ان مذاہب میں کفر اور فسق وفجور پایا جاتا ہے جس سے انسان کی روح کو صدمہ پہنچتا ہے۔ یونانی اور رومی معبود بدی کے مجسمے ہیں۔ ان کی دیویاں کسبیاں ہیں، جن کی تمام عمر بد چلنی اور بدکاری میں گزری ۔اس قسم کے دیوی دیوتاؤں پر ایمان رکھنے کی بجائے جو دغا باز ہیں ہم نے ایک خداوند پر ایمان رکھنا سیکھا ہے جومحب صادق ہے‘‘۔
تھیوفلس (Theophilus) (۱۵۰ء) کہتاہے کہ:
’’بت پرستوں کو مخاطب کر کے جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو ،وہ مردے ہیں اور جب وہ زندہ تھے تو ان سے بدترین افعال سرزد ہوتے تھے۔ زحل (Saturn) مردم خوار تھا جس نے اپنے بچوں تک کو نگل لیا۔ مشتری (Jupiter) زناکاری اور شہوت پرستی کے لئے چار دانگ عالم میں مشہور تھا۔ تمہارے معبودوں کے قصص عقل مندوں کے نزدیک مضحکہ خیز ہیں۔ ان کے اقوال وافعال ارباب دانش کے نذدیک رد کرنے کے قابل ہیں‘‘۔
مسیحیت نے اپنے روحانی اور جامع اصول کی اندرونی طاقت کی وجہ سے اپنے عالم گیر اصول اور اعلیٰ تصورات کی وجہ سے ،اپنے ایمان کی قوت کی وجہ سے ،اپنی کتب مقدسہ کی دل آویزی کی وجہ سے، غم اور دکھ اور رنج کے مسئلہ کو حل کرنے کی وجہ سے ،اعلیٰ ترین تصور خدا کی وجہ سے او رکل بنی نوع انسان کو نجات کاعلم اور نئی زندگی بخشنے کی وجہ سے تمام مشرکانہ اور باطل مذاہب پر فتح پائی ۔ان امور کا مفصل ذکر ہم اپنے رسالہ نور الہد یٰ میں کرچکے ہیں ۔
بڑی سے بڑی بات جو مسیحیت نے ان مشرکانہ مذاہب اور دیگر ادیان عالم اور فلسفہ کے حق میں کہی یہ تھی کہ ان میں بھی صداقت کا عنصر موجودہے اور کہ یہ عنصر آفتاب صداقت یعنی کلمتہ اللہ کی شعاعوں کا عکس ہے ۔ مقدس یوحنا کے الفاظ میں کلمتہ اللہ’’ حقیقی نور‘‘ ہے جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے(یوحنا۹:۱)۔اس نور کی روشنی ہر مذہب میں کم وبیش چمکتی ہے تاکہ ان کے پرستار اس روشنی کے ذریعہ’’حقیقی نور‘‘ کے پاس آسکیں۔ان مذاہب کی ٹمٹماتی روشنی لوگوں کو خداوند کے قدموں تک لانے میں راہ نما کا فرض ادا کرسکتی ہے ۔ ان میں سے ہر ایک مذہب گواہی کے لئے آیا تاکہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اس کے وسیلے سے ایمان لائیں ۔ وہ خود تو نور نہ تھا ،مگر نور کی گواہی دینے کے لئے آیا تھا(یوحنا۸،۷:۱)۔یہ نور مختلف مذاہب کی تاریکی میں چمکتا ہے۔
جس طرح ان مذاہب باطلہ میں تاریکی اور بطالت کے عناصر موجود ہیں، اسی طرح دورِ حاضرہ کے غیر مسیحی مذاہب میں ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق تاریکی اور بطالت کے ساتھ ہے ۔ یہ حالت کسی ایک مذہب کی نہیں، بلکہ ان تمام غیر مسیحی مذاہب کی ہے جو فی زمانہ مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ ان مذاہب میں مختلف اقسام کی برائیوں نے پناہ پائی ہوئی ہے جو روا اور جائز خیال کی گئی ہے ۔کنفیوشس (Confucius)اور ٹاو(Tao) کے مذاہب میں شرک اور بت پرستی اور مدخولہ عورات کا رکھنا جائز ہے۔ہندو دھرم میں ہمہ اوستی خیالات ،شرک ،بت پرستی ،ذات پات،دیوداس تعداد ازدواجی وغیرہ جائز ہیں۔ چنانچہ مشہور جرمن فلاسفر ڈاکٹر البرٹ سویٹزر(Schweitzer)کہتاہے کہ:
’’ہندو دھرم میں شرک او ر وحدانیت ،ہمہ اوستی اور ملحدانہ خیالات ،ترس اور رحم کی تعلیم ،ہر طرح کے اخلاقی افعال سے پر ہیز رکھنے کی تعلیم، دیوتا پرستی ،اوہام پرستی غرضیکہ مختلف قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ا س بات کا لحاظ نہیں کیا جاتا کہ یہ تصورات او ر خیالات ایک دوسرے کے متضاد ہیں او ر دنیا کی کوئی طاقت ان مختلف ا و ر متضاد اصولوں کو یکجا نہیں کرسکتی ۔ یہ صداقت او ر بطالت کے عناصر ملے جلے ایک کجکول(بھیک کی جھولی) میں پڑے ہیں‘‘۔
گویا صداقت کا عنصر بطالت کے عناصر کے جال میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے۔ان غیرمسیحی مذاہب کے اچھے اصول اس بیج کی مانند ہیں جو جھاڑیوں میں گرا اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اس کو دبا لیا اور بے پھل رہ گیا(متی۲۲:۱۳)۔ یہاں تک کہ یہ مذاہب جھاڑیاں ہی رہ گئیں جنہوں نے اپنے پیروؤں کو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن نہ ہونے دیا۔ لیکن یہی اچھے اصول او رنیک جذبات مسیحیت میں نشوونما پا کر اس بیج کی مانند ہوجاتے ہیں جو اچھی زمین میں بویاگیا اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی (اصول ) سو گنا پھل لاتا ہے ،کوئی ساٹھ گنا(متی۲۳:۱۳)۔
تو جسم شرع راجانی تودرسل کافی تو گنج کا یزدانی ۔توراَ نی
(۳)
چونکہ اس رسالہ میں ہم تمام ادیان عالم کا ذکر نہیں کرسکتے او رہمارا روئے سخن صرف شمال کے باشندوں(شمالی ہندوستان) کی جانب ہے۔لہٰذا ہم یہاں مختصر طور پر صرف ان مذاہب کا ذکر کریں گے جو شمال میں رائج ہیں یعنی ہندو دھرم اور اسلام ، تاکہ ناظرین پر ظاہر ہوجائے کہ ان مذاہب میں بعض صداقتیں موجود ہیں جو ہم کو ان میں صرف دھندلی سی نظر آتی ہیں ۔لیکن مسیحیت میں یہی صداقتیں بدرجہ احسن موجود ہیں۔ یہ مذاہب کسی ایک صداقت پر زوردیتے ہیں ،لیکن مسیحیت کی تعلیم میں ان تمام مذاہب کی صداقتیں ایک جگہ جمع ہیں اورمسیحی تعلیم ان مذاہب کے ناقص ،غیر مکمل اور باطل عناصر سے سراسرپاک ہے۔
۳ ۔ہندودھرم کے اصول اور مسیحیت
(۱)
ہندو دھرم نے اپنی سوسائٹی کا انحصار چار ذاتوں پر رکھا ہے یعنی برہمن ،چھتری ،ویش او ر شودر ۔اچھوت لوگ جو شمار میں کروڑوں ہیں ان ذاتوں میں شامل نہیں ہیں۔ہمارے بعض ہندو بھائی کہتے ہیں کہ ذاتیں تنظیم کی خاطر کی گئی ہیں۔ممکن ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسا زمانہ آیا ہو جب تنظیم کی خاطر ذات کا وچار مفید تھا۔ لیکن دور حاضر ہ میں ذات پات کی قیود کی زنجیریں ہندو مذہب اور ملک کے لئے لعنت اور غلامی کا طوق ہوگئی ہیں۔جس طرح کسی خنزیرکے دماغ میں یہ خیال نہیں آسکتا کہ وہ اپنے آقا کے دیوان خانے میں جاکر استراحت کرے۔اسی طرح ہندوسوسائٹی میں کسی اچھوت ذات کے آدمی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آسکتا کہ وہ اپنا گھر کسی برہمن کی گلی میں جا بنائے۔ جس طرح کالا کتا سفید نہیں ہوسکتا، اسی طرح کوئی شخص برہمن نہیں ہوسکتا ۔منو نے کہا ہے کہ نیچ ذات کے لوگ پیدا ہی اس غرض کے لئے ہوئے ہیں کہ وہ برہمنوں کے غلام ہوکر رہیں ۔اس نے حکم دیا ہے کہ:
’’چنڈال (ادنیٰ ذات کا)اور سوا پک کے گھر قصبہ کے باہر ہوں۔ ان کے برتن ٹوٹے پھوٹے ہوں۔ان کی دولت صرف کتو ں او ر گدھوں پر مشتمل ہو۔ ان کے کپڑے صرف وہ ہوں جو مردوں کے بدنوں پر سے اتارے جائیں ۔ان کے زیورات زنگ خوردہ لوہے کے ہوں۔ ان کی مستقل جائے رہائش کہیں نہ ہوں۔ کوئی شخص جس کو اپنے مذہب او ر سماج کا ذرا بھی پاس ہے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہ رکھے۔ ان کو مٹی کے برتن میں خوراک دی جائے او ر دینے والے کا ہاتھ برتن کو لگنے نہ پائے ۔ وہ قصبوں او ر شہروں میں صرف رات کو باہر نکلا کریں‘‘ ۔
ستیارتھ پرکاش میں سوامی دیا نند جی بھی لکھتے ہیں ’’چنڈال وغیرہ نیچ لوگوں کا کھانا نہیں کھانا چاہیئے‘‘(ستیارتھ پرکاش اردو مطبوعہ،۱۹۰۸، صفحہ ۳۵۴)۔منو شاستر میں آیاہے کہ :
عیب دار بدخصلت آدمی،محنت،دھوکے وغیرہ کا او ر شودر کا جھوٹا(جھوٹھا) نہیں کھانا چاہیئے(۴۱۱:۴) حور گانے والا،بڑھئی،سود خور،چغل خور، نٹ(بازی گر۔ایک نیچ قوم)،د رزی او ر احسان نہ ماننے والے کی روٹی نہیں کھانی چاہیئے۔لوہار،دھوبی،رنگ ریز(کپڑے رنگنے والا،نیلاری)،جلاد او ر جس عورت کے گھر میں دوسرا شوہر ہو ان کی روٹی نہیں کھانی چاہیئے(منو شاستر۴)۔ شودر صرف اپنی ذات کی لڑکی سے او ر ویش اپنی ذات او ر شودر کی لڑکی سے او ر کشتری(کھتری) اپنی ذات او ر ویش و شودر کی لڑکی سے بیاہ کرے،لیکن برہمن چاروں ذاتوں کی لڑکیوں سے بیاہ کر سکتا ہے(باب۲)۔
ہم فصل اول میں ذکر کر چکے ہیں کہ مسیحیت کا اصل الاصول یہ ہے کہ خدا کل نوع انسانی کا باپ ہے جوبلا کسی امتیازکے سب سے یکساں محبت کرتا ہے او رکل بنی نوع انسان ایک دوسرے کے بھائی اور جنابِ مسیح میں ایک ہیں ۔ پس ذات پات کی قیود ان اصول کی عین ضدہیں۔ ازروئے منطق دو متضاد قضایا میں سے ا گرایک صحیح اور درست ہوتو دوسرا غلط ہوتا ہے۔ چونکہ مسیحیت کے اصول ابو ت الہٰی اور اخوت انسانی صحیح ہیں۔ لہٰذا ذات پات کا وجود غلط اور باطل ہے ۔ پس مسیحی کلیسیائے جامع ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان اس کی پیدائش کی بنا پرکسی قسم کی تفریق کو جائز قرار نہیں دیتی۔ کلمتہ اللہ جسمانی پیدائش پر نہیں ،بلکہ روحانی پیدائش پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’۔۔۔ جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پَیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی میں داخِل نہیں ہوسکتا۔جو جِسم سے پَیدا ہُؤا ہے جِسم ہے اور جو رُوح سے پَیدا ہُؤا ہےرُوح ہے۔۔۔ ‘‘(یوحنا۵:۳۔۱۲؛۱۳:۱؛ ۲۔کرنتھیوں۱۷:۵؛افسیوں۱۵:۲)۔ حق تو یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں مسیحی کلیسیا ہی ایک واحد جماعت ہے جس میں ہر ذات کے انسان مساوی طور پر شامل ہیں۔
نہ افغا نیم ونے ترک وتتاریم
چمن زاد یم ازیک شاخسار یم
تمیز رنگ وبوبرما حرام است
کہ ماپرور دہ یک نو بہار یم
ہندوستان(کے برصغیر) میں مسیحی کلیسیا ایک واحد جماعت ہے جس میں برہمن ،شیخ ،سید ،چوہڑے ،چمار ،چھتری ،سکھ ،ویش غرضیکہ ہر قسم کے لوگ برابر طور پر شامل ہیں، لیکن ایک دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ ان لوگوں کی لڑکیاں جو برہمنوں سے مسیحی ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے بیٹوں کو بیاہ دی جاتی ہیں جو چوہڑوں میں سے جنابِ مسیح کے قدموں میں آئے ہیں۔ یہ بات کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی ۔ اسلام کو اسلامی اخوت پر ناز ہے ،پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی سید اپنی لڑکی کو کسی ایسے شخص کو نکاح میں دےدے جو’’دین دار‘‘یعنی چوہڑوں میں سے مسلمان ہوا ہو۔ مسیحیت کسی شخص کو اس کی پیدائش کی وجہ سے ناپاک یا اچھوت قرار نہیں دیتی ،کیونکہ مسیحیت میں داخل ہوکر ہر شخص یکساں طور پرمسیح کا عضو،خدا کا فرزند اور آسمان کی بادشاہت کا وارث بن جاتا ہے۔
امتیازات نسل راپاک سوخت
آتش اوایں خس وخاشاک سوخت
پس ذات کے تصور میں جوصداقت کا یہ عنصر موجود تھا کہ سوسائٹی کی تنظیم ہو، مسیحیت میں یہ صداقت بطرز احسن پوری ہوتی ہے۔ کیونکہ سوسائٹی کی تنظیم آزادی،مساوات ،انصاف اور محبت واخوت کی بناپر ہوتی ہے(افسیوں ۱:۴۔۱۶)۔ اہل ہنود کے خیال میں ذات کا یہ فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ پاکیزگی، شستہ (پاک۔خالص) اطوار اور تہذیب وکلچر قائم رہتے ہیں ۔ان کے خیال میں یہ خصوصیات نیچ ذات کے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں۔ لیکن مسیحیت نے ہم کو یہ تعلیم دی ہےکہ پاکیزگی ،کلچر اورشستہ اطوار کل نوع انسانی کے لئے ہیں اور کسی ایک قوم یا ذات سے مخصوص نہیں ۔صرف برہمنوں نہیں ،بلکہ سب کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ پاکیزہ اطوار کے لوگ ہوں اور ان کی روحیں خدا کے حضور پاک ہوں ۔ہندو مذہب اس صداقت کو صرف ایک خاص طبقہ تک محدود رکھتا ہے ۔مسیحیت اس کو سب انسانوں کے لئے عام کردیتی ہے ۔ یوں ہندو مذہب کی یہ صداقت مسیحیت میں بطرز احسن پوری ہوتی ہے۔ہندو دھرم میں برہمن ایک ایسا شخص تصور کیا جاتاہے جو دعا اور قربانی کے ذریعہ خدا کے حضور حاضر ہوسکتا ہے۔مسیحیت کے مطابق یہ نہ صرف ایک طبقہ کا بلکہ ہر شخص کا پیدائشی حق ہے کہ وہ آسمانی باپ کے حضور دعا کے ذریعہ حاضر ہو۔ شودر کا یہ کام تھا کہ وہ باقی تین ذاتوں کی خدمت کرے ۔جنابِ مسیح نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ یہ ہر مرد اور عورت کا حق ہے کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے ۔ اس میں اپنی سرفرازی سمجھ کر اس قسم کی خدمت کے ذریعہ اپنی انانیت کو ترقی دے (متی ۲۸:۲۰)۔ہندوؤں کا یہ خیال ہے کہ برہمن ،کشتری اور ویش کے لئے ضرو ری ہے کہ وہ اپنے حقوق کو استعمال کرنے سے پہلے دوسرا جنم لیں۔ لیکن کلمتہ اللہ نے ہم کویہ تعلیم دی ہے کہ ہر مرد اور عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لئے از سر نو پیدا ہو(یوحناباب۳)اور توبہ اورمعافی کے ذریعہ خدا سے توفیق حاصل کرکے ایسی زندگی بسر کرے جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔پس ذات کے تصور میں جو صداقت کے عناصر ہیں وہ مسیحیت میں بطراز احسن موجود ہیں۔لیکن ذات کی قیود کی برائیوں سے مسیحیت سراسر خالی ہے۔ مسیحیت میں ذات کی صداقت کے عناصر قائم رہتے ہیں ،لیکن بطالت کے عناصر زائل ہوجاتے ہیں۔
(۲)
ہندومت کے ہمہ اوستی خیالات عوام الناس کو گرویدہ نہیں کرسکتے ۔ مجرد فلسفیانہ تصورات میں سرے سےیہ طاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ جذبات کو مشتعل کرسکیں یا افعال کے محرک ہوسکیں۔ لہٰذا عوام ہندو شرک کو اختیار کرکے لا تعداد معبودوں ا ور دیوی دیوتاؤں کو مانتے ہیں۔ ہندوؤں کے دیوتاؤں کا شمار ان کی اپنی مردم شماری کی طرح کروڑوں پر مشتمل ہے۔ ان کروڑوں معبودوں میں سے وشنو کی شو اور اس کی بیوی کالی کی ،کرشن کی اور رام اور اس کی بیوی سیتا کی خاص طور پر پوجا کی جاتی ہے ۔یہ حق ہے کہ تلسی داس ،کبیر ،رامانند وغیرہ کے خیالات دلوں کو موہ لیتے ہیں، لیکن عام طور پر یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ان دیوی دیوتاؤں کی پوجا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو گھنو نے، نفرت انگیز اور مخرب اخلاق ہیں اور دور حاضر ہ میں روشن خیال ہندو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ یہ دیوی دیوتا ہرگز پوجا کے لائق نہیں ۔ان کے اٹھارہ پرانوں کا مطالعہ عیاں کر دیتا ہے کہ وہ سب کے سب گناہوں کے پنجہ میں گرفتار ہیں ۔
چنانچہ سورگیہ لیکھرام جی’’کلیات آریہ مسافر‘‘(صفحہ۱۸۸) میں اورمہاشہ دھرم پال’’کفر توڑ‘‘(صفحہ۲۸،۲۷) میں لکھتے ہیں کہ
’’برہما نے اپنی بیٹی سے مجامعت کی اور جھوٹ بولنے کا مرتکب ہوا۔کرشن ،گوپی اور رادھکان سے اور گوپیوں سے بد فعلی کرتا اور دودھ،دہی،مکھن چراتا تھا ۔وشنو کو جلندھر کی بیوی سے عشق تھا۔مہا دیو کو رشیوں کی استریوں سے ناجائز محبت تھی اور اس نے ایک فاحشہ عورت سے بدکاری کی ۔ وہ ہمیشہ بھنگ اور دھتورا پیا کرتا تھا۔سورج کو کنتی سے چند رماں کو اپنے گرو بر ہستیی کی بیوی تارا سے مابو دیوتا کو کیسری کی عورت انچنی سے،ورون دیوتا کو اگست دیوتا کی ماں اروشی سے ناجائز عشق تھا۔بر ہسپتی کو اپنے بھائی کی بیوی انتھا سے وشوامتر کو اروشی ،پاراشر کو زود سے،بامن کو چھل سے ناجائز پیار تھا۔بلدیو شراب کا متوالا تھا۔رام چندر نے دھوکا دے کر بامی کو مار ڈالا۔رام نے اپنی بیوی سیتا کو زنا کے شک میں گھر سے نکال دیا۔حالانکہ وہ اس کوبے الزام سمجھتاتھا‘‘۔
قصہ مختصر پرانوں کا مطالعہ اور دیوی دیوتاؤں کے افعال ہر سلیم الطبع شخص پر گراں گزرتے ہیں ۔ عموماً یہ جواب دیا جاتا ہے کہ سامرتھی(زور آور) کو دوش نہیں ،لیکن یہ دیوی دیوتا سامرتھی نہ تھے۔کیونکہ وہ نفس امارہ کی خواہشوں کے قابو میں آکر خود بے قابو ہو کر بد عادات کے غلام تھے۔ان میں یہ ساتھ (شراکت)نہ تھا کہ وہ اپنے گناہوں سے بچ سکیں ۔
ع او خود گمراہ است کرارہبری کند
ہندو دھرم میں بت پرستی کا عام رواج ہے اور اس کی تعلیم پائی جاتی ہے۔ نہ صرف عامتہ الناس ہندو بت پرست ہیں ،بلکہ بڑے بڑے ہندو فلاسفر اور بھگت بت پرستی کے شیدائی تھے ۔مثلا ً شینکر ،مانکا واچکر ، راما نجو ، راما نند ،تلسی داس ،ٹکا رام جیسے مہا تما پرش زمانہ ماضی میں اور گاندھی جیسے دورحاضرہ میں بتوں کی پوجا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہندو برادران بت پرستی کے جواز میں کہتے ہیں کہ ہم اس طریقہ سے اپنے معبود حضوری کو محسوس کر سکتے ہیں اور یہ مان سکتے ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ اپنا مکاشفہ لوگوں کو دیا ہے۔ اگر یہ وجوہ صحیح ہیں تو بت پرستی میں یہ صداقت کے عناصر تھے جو دیگر توہمات کے ساتھ اس قدر خلط ملط ہو گئے کہ ان عناصر کی ٹمٹماتی روشنی بجھ گئی ۔مسیحیت میں صداقت کے ان عناصر پر زور دیا گیا ہے۔
مسیحیت ہم کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ ’’ اگلے زمانہ میں خُدا نے باپ دادا سے حِصّہ بہ حِصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے۔ اِ س زمانہ کے آخِر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کِیا جِسے اُس نے سب چِیزوں کا وارِث ٹھہرایا اور جِس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پَیدا کئے۔ وہ اُس کے جلا ل کا پر تَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چِیزوں کوا پنی قُدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گُناہوں کو دھوکر عالم بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا‘‘(عبرانیوں۱:۱۔۳)۔ابن اللہ(جنابِ مسیح ) نے کامل طور پر خدا کی ذات کو ہم پر ظاہر کردیا ہے ۔ ایسا کہ آپ نے فرمایا’’میں باپ (پروردگار ) میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے‘‘(یوحنا۱۰:۱۴)اور’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ (پروردگار ) کو دیکھا‘‘(یوحنا۴۵:۱۲)۔جنابِ مسیح اندیکھے خدا کی صورت ہے(کلسیوں ۱۵:۱)جس میں الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے(کلسیوں ۱۹:۱)۔پس ہندو دھرم کی بت پرستی میں جس صداقت کاوجود بتایا جاتاہے وہ بطرز احسن جنابِ مسیح کی شخصیت میں پائی جاتی ہے۔ لیکن بت پرستی کا باطل پہلو یعنی شرک وغیرہ کا مسیحیت میں دخل تک نہیں ۔
کیونکہ کلمتہ اللہ کی تعلیم خدا کی وحدانیت پر اصرار کرتی ہے (مرقس۲۹:۱۲؛ رومیوں۳۰:۳؛۱۔کرنتھیوں۶،۴:۸؛گلتیوں۲۰:۳؛افسیوں۶:۴؛ ۱۔تیمتھیس۱۷:۱؛۵:۲)۔
(۳)
شرک کا عنصر ہندو دھرم میں غالب ہے۔ لیکن وہ ایک ایسا مشرکانہ مذہب ہے جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک اخلاقی موحدانہ مذہب ہو جائے۔ لیکن اس کے مصلحین کو اس بات میں ارمان اور حسرت ہی نصیب ہوتی ہے،کیونکہ ان میں یہ جرأت نہیں کہ شرک کی طاقت کو مٹادیں ۔ اس مذہب کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے بےشمار معبودوں میں سے ایک دیوتا کو مہا دیو بنادیتا ہے۔ عموماً یہ دیوتا وشنو (کرشن ) ہوتا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہندو مت موحدانہ مذاہب کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے اور دیگر اوقات وہ مشرکانہ مذاہب کی صف میں کھڑا دکھائی دیتا ہے ۔ اہل ہنود اس غلط دلیل سے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں کہ جن معبودوں کی عامتہ الناس پرستش کرتے ہیں ،و ہ درحقیقت خدائے بزرگ کے مختلف روپ ہیں اور کہ وہ درحقیقت ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں ۔لیکن اس قسم کی دلیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شرک توحید کے خیال کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور وحدت الہٰی کا تصور غائب ہوجاتا ہے۔ہندو مذہب کی ان تمام اصلاحی کوششوں میں ہم صداقت کا یہ عنصر پاتے ہیں کہ خدا ایک اخلاقی ہستی ہے جس کی محبت کے سپرد انسان اپنے آپ کو کرسکتا ہے ۔ بعض اوقات اس صداقت کے عنصر کی وجہ سے ہندو مذہب ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے جن سے مسیحیت کی بو ٹپکتی ہے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ جس شخص نے انجیل جلیل کا سطحی نظر سے بھی مطالعہ کیا ہے، وہ جانتا ہے کہ صداقت کا یہ عنصر کامل طور پر صرف مسیحیت میں ہی پایا جاتا ہے۔ ہندو دھرم ایک اخلاقی مَت (مذہب)نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس میں شرک اور بت پرستی کے باطل عناصر غالب ہیں اور جن کی وجہ سے ہندو مذہب میں یہ صلاحیت نہیں رہتی کہ وہ خدا کو ایک واحد ،کامل، حقیقی، اخلاقی ہستی مان سکے ۔ لیکن مسیحیت ان باطل عناصر سے پاک ہے۔ لہٰذا اس میں خدا کے واحد، کامل اور بے مثل اخلاق ہستی ہونے کا اعلیٰ ترین تصور پایا جاتا ہے۔
(۴)
ہندو دھرم میں کرم کے عقیدے میں صداقت کا یہ عنصر پایا جاتا ہے کہ دنیا کے پروردگار نے اس عالم کو عدل وانصاف پر قائم کیا ہے او رکہ نیک و بد افعال دونوں کی جزا اور سزا ہوگی۔ مسیحیت نے صداقت کے اس پہلو کو بطر ز احسن اپنے اصول عدل میں محفوظ رکھا ہے (متی۳۱:۲۵۔۴۶؛ ۲۔کرنتھیوں۱۰:۵؛گلتیوں۸:۶)۔چنانچہ انجیل جلیل میں ارشاد ہے’’فریب نہ کھاؤ۔ خُدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کُچھ بوتا ہے وُہی کاٹے گا۔ جو کوئی اپنے جِسم کے لِئے بوتا ہے وہ جِسم سے ہلاکت کی فصل کا ٹے گا اور جو رُوح کے لِئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زِندگی کی فصل کاٹے گا‘‘(گلتیوں۸،۷:۶؛رومیوں۲۱:۶) ۔کلمتہ اللہ نے فرمایا’’۔۔۔ کیاجھاڑیوں سے انگُور یا اُونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں ؟ اِسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتاہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے۔ اچھادرخت بُرا پھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے۔جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔پس اُن کے پھلوں سے تُم اُن کو پہچان لو گے‘‘(متی ۱۶:۷۔۲۰؛۳۳:۱۲؛۱۹،۱۸:۱۵؛لوقا۴۵:۶)۔ پس انجیل جلیل نے بطر ز احسن اس صداقت کی تلقین کی ہے کہ دنیا اور کا ئنات کا سلسلہ علت ومعلول ،الہٰی انصاف اور عدل کے قوانین پر مبنی ہے، جو اٹل ہیں۔ کیونکہ وہ خدا کے مقصد اور ارادہ کے عین مطابق ہیں۔
لیکن جہاں مسیحیت نے مسئلہ کرم کی صداقت کے عنصر کو اپنے اندر محفوظ رکھا ہے ،وہاں اس نے بے تامل اس مسئلہ کے باطل پہلو اور اس کے غلط نظریہ یعنی تناسخ اور آ واگون کو رد کردیا ہے (یوحنا۲:۹؛لوقا۴،۲:۱۲؛اعمال۴:۲۸)۔ کرم کی تعلیم کے باطل عناصر نے ہندوستان کی زندگی کو تباہ کردیا ہے اور اس کے کروڑوں بد نصیبوں کو ان کی ناگفتہ بہ حالت پر چھوڑ رکھا ہے جو اپنی قسمت پر رورہے ہیں اور اب مسیحیت نے ان بدقسمتوں کو چاہ ضلالت سے نکالنے کا ذمہ اٹھالیا ہے ۔
ویدوں میں ایک وید کا نام اتھرو وید ہے جو بعض اوقات’’سراپ وید‘‘ کہلاتا ہے۔کیونکہ اس میں ایسے منتر بکثرت موجود ہیں جو دشمنوں کی تباہی کی خاطر پڑھے جاتے ہیں۔انجیل جلیل کی تعلیم اس قسم کی باتوں سے پاک ہے،کیونکہ جیسا ہم بتاآئے ہیں کلمتہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’۔۔۔اپنے دشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو۔تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے ‘‘(متی۴۵،۴۴:۵) ۔ ویدوں اور سوتروں کے بعد منو کے قوانین(منو سمرتی) مقدس شمار کیے جاتے ہے جو مسیح سے پانچ سو سال پہلے لکھی گئی تھی ۔ان قوانین سے بعض اعلیٰ ترین اخلاقی پایہ کے اصول ہیں ، لیکن اکثر قوانین ایسے ہیں جو فرسودہ و قیاسی، بوسیدہ اور سماج کے حق میں مضر ہیں ۔مثلاً طبقہ نسواں (جو سماج کا کم از کم نصف حصہ ہے) کی نسبت حکم ہے کہ عورت بچپن میں اپنے باپ کی ،عالم شباب میں اپنے خاوند کی اور رنڈاپے میں اپنے بیٹوں کی تابع فرمان رہے۔کوئی عورت کسی حالت میں اور اپنی عمر کی کسی منزل میں بھی مستقل طور پر خود مختار اور آزاد ہستی نہیں ہو سکتی اور نہ وہ رشتہ داروں سے الگ بے تعلق ہو کر زندگی بسر کر سکتی ہے۔وہ ہر منزل میں کسی نہ کسی مرد کی محتاج ہوتی ہے۔خاوند جب چاہے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔اس کو زودکوب کر سکتا ہے۔اگر بد نصیب بیوی بے اولاد ہو یا اس کے بیٹے مر جائیں یا وہ صرف بیٹیا ں ہی جنے یا خاوند کے حکم سے رو گردانی کرے تو خاوند کو اختیار ہے کہ وہ اس کو چھوڑ دے اور دیگر متعدد نکاح کرے۔
منو سمرتی میں خدا کا تصور سا نکھیہ فلسفہ (علم الراوح )پر مبنی ہے۔یہ تصور ایسا ہے کہ جہاں تک انسان کا تعلق ہے خدا کا وجودعدم وجود ہونے کے برابر ہے ،کیونکہ اس کے وجود(کو) کائنات سے اور بنی نوع انسان سے کوئی تعلق نہیں ۔پس یہ تصور ناقص اور غیر مکمل ہے۔ہم خدا کے انجیلی تصور کا ذکر باب دوم کی فصل اول میں کر آئے ہیں ۔ناظرین خود بنظر انصاف دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ انجیلی تصور بلند اور اعلیٰ ہے۔اس غیر مکمل اور ناقص تصور کو انجیل خدا کی ابوت کے اصول سے مکمل کرتی ہے۔
منو کے شاستر میں انسانی اعمال کے لئے کوئی مستند معیار اور قاعدہ کلیہ یا اصول نہیں پایا جاتا۔جس کو مد نظر رکھ کر ہر زمانہ کے انسان مختلف حالات میں عمل کر سکیں ۔یہ کتاب صرف ایسے معین احکام اور قطعی ہدایات پر مشتمل ہے جو امتداد زمانہ سے بے کار ہو چکے ہیں ۔خصوصاً اب اڑھائی ہزار سال کی مدت طویل گزرنے کے بعد حالات تغیر وتبدل ہوجانے کی وجہ سے وہ نہ صرف ناکارہ ہو گئے ہیں ،بلکہ سماج کے لئے مضر ثابت ہو رہے ہیں اور افراد اور ملک کی ترقی کی راہ میں سنگ گراں کی طرح حائل ہیں ۔اس کے ذات پات کی قیود کی زنجیروں نے کروڑوں افراد کو صدیوں سے آہنی شکنجہ میں جکڑ رکھا ہے اور لطف یہ ہے کہ ویدوں میں ذات پات کی تعلیم کا وجود سرے سے نہیں ہے۔
(۵)
اپنشدوں(ہندووں کی مذہبی کتابیں جن میں ویدوں کا انتخاب درج ہے۔)میں ذات الہٰی کی نسبت یہ تعلیم ہے کہ وہ بلنداور وحانی ہے ۔ ہم صداقت کے اس عنصر کو انجیل جلیل میں بدرجہ احسن پاتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’خدا روح ہے اور ضرورہے کہ اس کے پرستار روح اور سچائی سے اس کی پرستش کریں‘‘(یوحنا۲۴:۴)’’خداوند ساری امتوں پر بلند وبالا ہے اس کا جلال آسمانوں سے بھی پر ے ہے ‘‘ (زبور۴:۱۱۳،۹:۹۷ ، ۲:۹۹،وغیرہ ) ’’خداتمام کائنات پر واحد حکمران ہے۔خداوند فرماتا ہے’’میں اول اور میں آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں‘‘(یسعیاہ۶:۴۴ ، ۴:۴۱،مکاشفہ۱۷،۸:۱)۔خدا ازلی او رابدی ہے’’ازل سے ابد تک تو ہی خدا ہے (زبور۲:۹۰)وہ عالی اور بلند ہے اور ابدالاآباد سکونت کرتا ہے اس کا نام قدوس ہے’’(یسعیاہ۱۵:۵۷)۔اس پاک ذات میں تغیر وتبدیلی واقع نہیں ہوتی’’میں خداوند ہوں میں بدلتا نہیں ہوں‘‘( ملاکی ۶:۳ ،رومیوں ۲۹:۱۱،یعقوب۱۷:۱)وہ نا دیدنی غیر مرئی(جس کو دیکھ نہ سکیں) ہستی ہے(عبرانیوں۲۷:۱۱ ( جو فہم وادراک سے بالا ہے (ایوب۷:۱۱)وہ عالم کل ہے (عبرانیوں۱۳:۴) قادر مطلق (مکاشفہ ۶:۱۹) ہمہ جا حاضر وناظر ہے (یرمیاہ۲۳:۳) گو وہ کائنات اور انسان کے اندر موجود ہے (افسیوں۶:۴ ) تاہم ان سے بلندو بالا ہے ( ۱۔سلاطین۲۷:۸)۔پس اپنشدوں میں جو تعلیم خدا کے متعلق موجود ہے وہ اعلیٰ ترین حالت میں کتاب مقدس میں موجود ہے، لیکن کتب اہل ِہنود میں کرم کے عقیدہ اور آواگون(ہندووں کے اعتقاد کے مطابق مرنے اور جنم لینے کاسلسلہ) کے باطل عناصر کی وجہ سے دنیا ایک ایسی مشین یاکل قرار دی گئی ہے۔ جو خود بخود قوانین علت معلول (سبب ومسبب )کے مطابق چلتی ہے اور جس کے ساتھ خدا کا کسی قسم کا تعلق نہیں۔ اس نظریہ میں کائنات کے اخلاقی قوانین میں جن کے ذریعہ دنیا کا کا رخانہ چلتا ہے خدا کا ہاتھ نہیں رہتا۔ اس باطل عقیدہ کو مسیحیت نے مردود قرار دے دیا ہے ۔بائبل مقدس کی یہ تعلیم ہے کہ خدا ایک اخلاقی ہستی ہے اور اس کی ذات نیک ہے وہ نیکی اور راستی کا خدا ہے اور اس میں بدی کا سا یہ تک نہیں۔ وہ سراسر نور ،حق او رنیکی ہے ۔ وہ کائنات اور انسان کا پروردگار ہے اور اخلاقی قوانین کا جو کائنات میں اور انسان کی ضمیر میں ہیں خالق سرچشمہ اورمنبع ہے۔ جس طرح کا ئنا ت، فطرت کے قوانین علت ومعلول کی ذات کے مظہر ہیں اسی طرح اخلاقی قوانین بھی اس کی پاک اور قدوس ذات کے مظہر ہیں ( یسعیاہ ۶:۵۱؛۱۵:۵۷؛استثنا۴:۳۲ ؛زبور۷:۱۱؛ ۴:۳۳۔۵؛ ۱:۹۷۔۲؛ ۵:۳۶؛ ۱۴۲:۱۱۹؛۱۴:۳۳۔۱۵؛ایوب ۵:۱؛پیدائش۲۶:۱وغیرہ)۔
پس ذات الہٰی کی نسبت جو صداقت کے عناصر ہندو مذہب میں ہیں و ہ بدرجہ احسن اصول کے طور پر موجود ہیں لیکن وہ تمام باطل عناصر سے پاک اور مبرا ہے۔
(۶)
ویدانت (ہندووں کے فلسفے اور دینیات کا ایک نظام جس میں ذات الٰہی پر بحث کی گئ ہے)کی تعلیم کے مطابق انسانی روح اور خدا میں کوئی تمیز نہیں۔ اس تعلیم میں صداقت کا عنصر یہ ہے کہ انسانی روح نہایت بیش قیمت شئے ہے اور انسانیت کےوجودکے اعلیٰ ترین پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ یہ صداقت کلمتہ الله کی تعلیم میں بطر ز احسن موجود ہے۔ جنابِ مسیح نے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر شخص خدا کا فرزند ہے اور خدا کی صورت پر خلق کیا گیا ہے پس جس طرح بیٹا باپ کے ساتھ رفاقت رکھتا ہے اسی طرح ہر انسان خدا کے ساتھ رفاقت رکھ سکتا ہے پس ویدانت میں جو صداقت کا عنصر ہے وہ مسیحیت میں محفوظ ہے لیکن مسیحیت اس کے باطل عناصر کو رد کردیتی ہے اور وہ اس میں جگہ نہیں پاتے مثلا ً مسیحیت کے مطابق یہ عقیدہ غلط ہے کہ خدا اور انسان میں تفریق وتمیز نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسیحیت نے انسان کو اعلیٰ ترین مرتبہ عطا کیا ہے لیکن ساتھ ہی خدا اور انسان میں حفظ ِ مراتب (مرتبے کالحاظ ،پاس ِادب)موجود ہے ۔ اگر خدا اور انسان میں کوئی تمیز نہیں تو انسان کا گناہ اور بد اخلاقی کوئی معنی نہیں رکھتے اور نیکی اور بدی محض الفاظ ہی رہ جاتے ہیں۔ ایک ہندو مصنف لکھتا ہے کہ
’’کسی انسان کو گنہگار کہناہی سب سے بڑا گناہ ہے‘‘۔
اس لحاظ سے دعا ، عبادت اور رفاقت الہٰی وغیرہ ناممکن اور بے معنی ہو جاتے ہیں ،پس یہ باطل اجزا مسیحیت کی تعلیم سے خارج ہیں۔
(۷)
ہندو دھرم میں اوتاروں (ہندووں کے عقیدے میں خدا کا کسی جنم میں داخل ہوکر مخلوق کی اصلاح کے لیے دُنیا میں آنا)کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اس عقیدہ میں صداقت کا یہ عنصر ہے کہ انسانی فطرت کسی غیر شخص خدا کے مجرد تصور پر قناعت نہیں کرسکتی بلکہ خدا کی صفات کو زمان ومکان کی قیود(قید کی جمع،پابندیاں ) کے اندر دیکھنا چاہتی ہے ۔ خدا کی ذات ہے ۔
لامکانے فوق وہم سالکان
لیکن انسان کی فطرت اس بات کاتقاضا کرتی ہے کہ یہ کامل ذات زمان ومکان کی قیود میں اس کو دکھائی دے جس کے خیالات جذبات اورکردار کے نمونے وہ اپنے پیش نظر رکھ سکے ۔ مسیحی مذہب میں صداقت کا یہ عنصر اپنی کاملیت میں موجود ہے ۔ چنانچہ انجیل شریف میں وارد ہے’’ ابتدا میں کلام میں تھا ۔کلام خدا کے ساتھ تھا۔ اور کلام خدا تھا۔ کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایساجلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال ۔ اس کی معموری میں سے ہم سب نے فضل پر فضل پایا۔ خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا (یعنی جنابِ مسیح ) جو باپ کی گود میں ہے اسی نے ظاہر کیا‘‘۔( یوحنا پہلاباب؛ ۱۔یوحنا۱:۱؛۴:۴؛ کلسیوں۱۶:۱۔۱۷؛ مکاشفہ۴:۱، ۸، ۱۷؛ ۱۴:۳؛ ۶:۲۱؛ ۱۳:۲۲؛ رومیوں ۳:۱؛۳:۸؛ گلتیوں ۴:۴؛ فلپیوں۷:۲؛ ا۔تیمتھیس۱۶:۳؛ عبرانیوں۱۴:۲؛ متی۲۷:۱۱ وغیرہ) لیکن مسیحیت میں رام اور کرشن جیسے اوتار اور مجسم خدا نہیں پائے جاتے ہیں۔ جن کی کہانیاں تاریخ پر مبنی نہیں ہیں۔ وہ شاعرانہ تخیل اور قصص سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں ۔وہ اوتار جنگجو بادشاہ تھے ،وہ مذہبی لیڈر تک بھی نہیں تھے ان کے مرنے کے تین سو سال بعد ان کو اوتار دیا گیا۔ بعض ہندو گوتم بدھ کو اوتار مانتے ہیں اگرچہ گوتم ہندوستان کا مذہبی لیڈر تھا لیکن وہ خودتجسمکے عقیدے کا مخالف تھا۔ اس کی موت کے پانچ سو سال تک اس کی پیروؤں کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ گوتم بدھ کے نام کے ساتھ ایک خدا کا تصور متعلق کریں اور اس کواوتار بنائیں ۔ پس ہندو مذہب کے تمام اوتار کوئی تاریخی حیثیت نہیں رکھتے جس طرح مسیحیت کا بانی رکھتا ہے ۔
یہ اوتار نہ صرف کوئی تواریخی حیثیت نہیں رکھتے اور ان کے افسانے (جیساہم لکھ چکے ہیں)مخرب(بگڑاہوا)اخلاق ہیں ،بلکہ وہ حقیقی اوتار بھی نہیں ہوسکتے ۔چنانچہ شاستر پرانوں سے ظاہر ہے کہ مچھ(مگر مچھ) ،کچھ(کچھوا)،نرسنگھ ،رام کرشن وغیرہ ہ، اوتار بنی نوع انسان کی بہبودی اور ترقی کے کام کے نہیں ہوسکتے۔حق تو یہ ہے کہ ان کے اوتار بننے کی یہ غرض ہی نہ تھی کہ نوع انسانی کا بھلا ہو۔چنانچہ مچھ(مگرمچھ) کے اوتار بننے کی یہ غرض تھی کہ چاروں ویدوں کو سمندر سے ڈھونڈھ نکالے کچھ(کچھوا)براہ ڈگمگاتی دھرتی کو تھامنے کے لئے اوتار ہے ۔نرسنگھ نے ہرناکشب کا پیٹ پھاڑنے کے لئے اوتارلیا۔دامن اوتار بناتاکہ راجا بل کو فریب دینے کے لئے ۔پرسرام اوتاربناتا کہ چھتریوں کو ہلاک کرے۔رام راون کو اور کرشن کنس کو ہلاک کرنے کے لئے اوتار بنے۔دسواں اوتارکلجگی اوتار کل جگ میں ہو گا جو گنہگار وں کو ہلاک وبرباد کرنے کو آئے گا۔تب ہر گنہگار اپنے گناہوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کے بجائے ہلاک کردیا جائےگا۔
علاوہ ازیں جیسا ہم سطور بالا میں لکھ چکے ہیں ان نام نہاداوتاروں کے چلن اور خصائل ایسی ہیں کہ وہ اوتار کہلانےکے مستحق ہی نہیں ہو سکتے ،کیونکہ وہ ہرقسم کی بدی ،زنا کا ری، جھوٹ اوردغا وغیرہ سےمتصف(صفت رکھنے والا)ہیں۔ حقیقی اوتار کے اوصاف ان نا م نہاد اوتاروں میں سے کسی میں بھی نہیں پائے جاتے ۔ان پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ’’لوبھ گرولالچی چیلا‘‘ دونوں نرک میں ٹھیلم ٹھیلا‘‘ان اوتاروں کے گناہوں کا نمونہ دیکھ کر اور ان کے احوال کو دیکھ کر انسان بھی دیدہ دلیری سے گناہ پر گناہ کرنے کی زندگی پر آمادہ ہو جاتا ہے ،چنانچہ یہ دوہا(دو مصرعوں کا ہندی شعر ) مشہور ہے :۔مورکھ کیا سمجھائیے،گیان گانٹھے کا جائے۔کوئلہ نہ ہووے اجلا،نو من صابن لائے۔
چونکہ ہم آئندہ باب میں اس عقیدہ پر شرح اور بسط (وضاحت)کے ساتھ بحث کریں گے ہم اس جگہ صرف اس قول پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہندو مذہب کے اس عقیدہ میں جو صداقت کا عنصر ہے وہ بدرجہ احسن ابن اللہ (یعنی جنابِ مسیح ) کی شخصیت میں موجود ہے لیکن یہ قدوس ہستی تمام باطل عناصر سے پاک ہے۔
(۸)
ہندوؤں کے تعلیم یافتہ طبقہ کا مذہب وہ فلسفیانہ نظریہ جات ہیں جو اپنشدوں اور بھگوت گیتا اور ویدک لٹریچر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا لب لباب یہ ہے کہ’’ اوم‘‘ نام کا جپنا زندگی کا اعلی ٰ ترین مقصد ہے ۔ بھگوت گیتا قریبا ً دو ہزا ر سال ہوئے لکھی گئی اور اپنشدوغیرہ کی کتابیں سن ایک ہزا ر قبل از مسیح سے آٹھ سو سال قبل از مسیح لکھی گئیں۔ سنسکرت کا فاضل میکس ملر اپنشد وں کے متعلق اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جہاں ان میں اعلیٰ اور پاکیزہ خیال پائے جاتے ہیں وہاں بیسیوں ایسی باتیں بھی ملتی ہیں جو طفلانہ ہیں اور جن کو پڑ ھ کر انسان کی طبیعت نہ صرف اکتا جاتی ہے بلکہ نفرت کرنے لگ جاتی ہے (Sacred Books of The East Vol.1.p.1 xviii)
بھاگوت گیتا ہندوؤں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں وہی جگہ رکھتی ہے جو مسیحیت میں انجیل شریف کو حاصل ہے ۔ اس کتاب کے بعض حصص میں اعلی ٰ تعلیم موجود ہے اور دھیان کی حالت کو افضل قرار دیا گیا ہے ۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ مجرد فلسفیانہ تصورات جذبات کومتاثر نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ راما نجو نے شنکر آچاریہ کے فلسفیانہ خیالات کے خلاف آواز بلند کی اور تعلیم دی کہ خدا شخصیت رکھتا ہے اور بھگتی کے ذریعہ اس کاعلم ہم کو حاصل ہے ۔ سولہیویں صدی میں کبیر اور گورو نانک نے اور ان کے بعد چیتا نیانے اور برہمو سماج نے ہندو فلسفیانہ خیالات کے خلاف اپنی آواز بلند کی لیکن ہمہ اوستی نقار خانے میں ان طوطیوں کی آواز کون سنتا ہے ؟
(۹)
ہندو مذہب کی تاریخ پر غور کرو تو تم پاؤگے کہ ہندو مذہب میں جتنے پسند یدہ دلکش عناصر ہیں وہ سب کے سب اپنی پاکیزہ اور خوبصورت ترین حالات میں مسیحیت میں پائے جاتے ہیں مثلا ً بھگتی مارگ کے تمام روشن پہلو مسیحی ایمان اور انجیل میں موجود ہیں ،لیکن اس کی خامیاں مسیحیت میں زائل ہوجاتی ہیں ۔ جن صحیح اصولوں پر گورونانک یا کبیر یا راجہ رام موہن راے یا سوامی دیانند نے اصلاح کی خاطر زور دیا ہے وہ سب کے سب اصول اپنی بہترین اور درخشاں صورت میں کلمتہ الله کی تعلیم میں موجود ہیں۔ جن باتوں کو ان مصلحین نے رد کیا ہے وہ مسیحیت کی روشنی میں ہی رد کی گئی ہیں کیونکہ وہ مسیحیت کے نزدیک مردود اور نا قابل قبول ہیں۔
مسیحیت کے مطابق خدا مجرد تصور نہیں ہے بلکہ شخصیت رکھتا ہے۔ خدا کی ذات کوئی خلا نہیں جس میں روح نروان حاصل کرے بلکہ اس کی ذات محبت ہے جس کی وجہ سے وہ کل نوع انسانی کا باپ ہے پس کرشن مت میں جو صداقت کا عنصر ہے وہ بطرز احسن مسیحیت میں موجود ہے ۔
(۱۰)
علی ہذاالقیاس(اسی طرح) مادہ کا فانی ہونا ایک ایسا عقیدہ ہے جس کا مسیحیت ببانگ دہل اعلان کرتی ہے (۲۔کرنتھیوں۸:۱۴ ؛ ۷:۵وغیرہ)۔ ہم کو تعلیم دیتی ہے کہ بقا صرف روح کو حاصل ہے۔ لیکن مایا کے عقیدہ کا غلط پہلو مسیحیت میں دخل نہیں پاتا، کیونکہ مسیحیت کی یہ تعلیم ہے کہ ہر شئے کے وجود کی علت نمائی ہے اور مادہ وجود رکھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسیحیت تجسم کی قائل ہے اور مانتی ہے کہ جنابِ مسیح کلمتہ اللہ خدا ئے مجسم تھا’’جو ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال ‘‘۔(یوحنا۱۸:۱)
(۱۱)
ہندوؤں کے فلسفیانہ عقائد کے مقابلہ میں مسیحیت کا پیغام نہایت سادہ ہے ۔ ہندو فلسفہ کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ اس کے پاس انسانی زندگی اور دنیا اور کائنات کے مسائل کا عقلی حل موجود ہے لیکن یہ خام خیالی ہے ۔ ہندو فلسفیانہ نظریوں کا یہ حال ہے کہ ع
چوں ندید ند حقیقت رہ افسانہ زوند۔
حق تو یہ ہے کہ کائنات کے مسائل کے حل عقل کے ذریعہ نہیں ہوتے اور نہ عقل مذہب کی بنیاد ہے ، کیونکہ’’علم ناقص اور نا تمام’’ہوتا ہے (۱۔کرنتھیوں ۹:۱۳) تاریخ ِ فلسفیانہ یہ بتلاتی ہے کہ ع
نکشود ونکشاید بحکمت ایں معمارا
عقل کا زندہ اخلاقیات کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا ۔ ہندوفلسفہ محض مذہب عقلی ہے جس کا تمام انحصار ازابتداتاانتہا خالص عقل پر ہے ۔ اس میں صداقت کا یہ عنصر موجود ہے کہ ہم کو انسان ،دنیا اور کائنات کے مسائل حل کرنے میں اپنی خداداد عقل استعمال کرنی چاہئیے۔مسیحیت میں یہ صداقت بہترین حالت میں پائی جاتی ہے ۔(یوحنا۱۷:۷؛ ۳۱:۸؛ ۱۲:۱۶؛ یرمیاہ۲۴:۹؛ دانی ایل۱۳:۱۲؛ ہوسیع۳:۶؛ ۱۔تھسلینکوں۲۱:۵؛ افسیوں۱۰:۵؛ ۱۔کرنتھیوں۱۰:۱۲؛۲۹:۱۴؛ امثال۳:۲۴؛ ۲۱:۳؛ ۳:۲؛ ۱۴:۱۵؛ زبور۶۶:۱۱۹؛ امثال۱۰:۲؛ ۱۔کرنتھیوں۲:۸؛ ۲۰:۱۴ وغیرہ) چونکہ مسیحیت میں صداقت کا یہ عنصر موجود ہے لہٰذا بعض لوگ اور بالخصوص تھیوسوفٹ یاتھیوسوفی(یہ عقیدہ یا اصول کہ ہر شخص بلاواسطہ خداکی معرفت وجدان سے حاصل کر سکتا ہے) یہ گمان کرتے ہیں کہ ہندو فلسفہ اور مسیحیت میں کوئی حقیقی فرق نہیں۔ لیکن جہاں مسیحیت عقل کے استعمال کرنے کا حکم دیتی ہے وہاں وہ ہندو فلسفہ کے باطل عناصر کو اپنے اندر جگہ نہیں دیتی اور یہ تعلیم دیتی ہے کہ خدا ایک زندہ اخلاقی ہستی ہے جس میں قوت ارادی ہے جو ہماری اخلاقی قوت ِ ارادی کو نئی راہ پر چلانا چاہتی ہے ۔ مسیحیت ایسا مذہب نہیں جس کا دارو مدار صرف عقل پر ہی ہو اور وہ انسان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کو فراموش کرکے نظر انداز کردے ۔ وہ ایک اخلاقی مذہب ہے جس کا نصب العین رضائے الہٰی کو حاصل کرنا ہے۔ جہاں ہندو مت کی اخلاقیات صرف الفاظ وتصورات پر ہی مبنی ہیں وہاں مسیحی مذہب کی اخلاقیات کی بنیاد ارادہ اور عمل پر ہے ۔
حکمت وفلسفہ کارے ست کہ پایا نش نیست
سیلی عشق ومحبت بہ دبستانش نیست
(۱۲)
ہندو فلسفہ مذہب ِ محبت نہیں۔ اس کی بنا عقلیات پر ہے۔اس کے فلسفہ کے مطابق روح کا خدا میں فنا ہوجانا محبت کی وجہ سے نہیں ہے۔ لیکن مسیحیت کی تعلیم میں خدا اور انسان کا باہمی رشتہ کامل محبت پر مبنی ہے ۔ ہندو فلسفہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں ہر جاندار کے ساتھ رحم کے ساتھ پیش آنا چاہئیے۔لیکن ساتھ ہی یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو ہر طرح کے جذبات سے خالی ہونا چاہئیے۔یہاں تک کہ نیکی کرنے کے جذبہ پر بھی ہم کو غالب آنا چاہئیے۔ اس میں جو صداقت کا عنصر ہے وہ مسیحیت میں کامل طور پر موجود ہے ،کیونکہ اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ’’اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ" لیکن اس تعلیم کے باطل عناصر کہ انسان کو نیکی کے جذبہ سے خالی ہونا چاہئیے مسیحیت میں جگہ نہیں پاتے کیونکہ ع۔
زندگی درجستجو پوشید ہ است
اصل اور در آرزو پوشید ہ است
حق تو یہ ہے کہ جس طرح بعض اوقات بادل برسنے کی بجائے گرم ہوا میں زائل ہوجاتا ہے اسی طرح ہندو فلسفہ میں اخلاقی عنصر عقلیت کی فضا میں گم ہوجاتا ہے ۔ مسیحیت میں محبت کی تعلیم ایسی نہیں کہ اس سے بنی نوع انسان سے محبت رکھنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے ۔ اس کی علت ِ غائی(حاصل،فائدہ) ہی یہ ہے ،کہ وہ ایسی صورتِ حالات پیدا کردے جس سے بنی نوع انسان سے محبت کرنے کا جذبہ ہمیشہ مشتعل(بھڑکتا ہوا) رہے ۔ ہندومت میں اس کے نظر یہ کی وجہ سے اس مذہب میں رحم ترس ہمدردی وغیرہ کے جذبات محض زبانی جمع خرچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پس ان کا اثر روز مرہ کی زندگی پر رتی بھر نہیں پڑتا ۔ایسا مذہب کسی طرح بھی محبت کا مذہب نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں’’ عالم روحانیت’’ محبت کے جذبہ کے ساتھ متعلق نہیں ہے، لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ روحانیت کا اصلی تعلق اخلاقیات کے ساتھ ہے اور روحانی نصب العین اخلاقی زندگی کے ذریعہ ظہور میں آتا ہے ۔یہ نظریہ کہتا ہے کہ تم دنیا میں اسی طرح زندگی بسر کرو کہ گویا تم مر گئے ہو اور اس کے ساتھ تمہارا کسی قسم کا واسطہ نہیں رہا۔ لیکن کلمتہ اللہ کی انجیل کہتی ہے کہ ’’دنیا میں تم اپنے نفس پر قابو پاکر ایسی زندگی بسر کرو جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو ‘‘۔ہندو فلسفہ اپنے اس باطل نظریہ کی وجہ سے افلاس زدہ مذہب ہےلیکن مسیحیت محبت کے اصول کی تعلیم کی وجہ سے ایک بحر نا پیدا کنار ہے ۔
اسلام کے اصول اور مسیحیت
جب ہم قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ہم پر ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس میں جتنی خوبیاں موجود ہیں وہ سب کی سب بائبل مقدس میں اعلیٰ ترین شکل میں پائی جاتی ہیں۔ اس فصل میں ہم احادیث کو نظر انداز کرکے صرف قرآن شریف کی تعلیم پر نظر کریں گے اس مطالعہ سے ہمارے اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے کہ کل ادیان ِ عالم میں صداقتوں کے جتنے عناصر ہیں وہ تمام کے تمام اپنی اعلی ٰ ترین اور پاکیزہ ترین صورت میں کلمتہ اللہ کی تعلیم میں پائے جاتے ہیں۔ قرآن کو خود کہتاہے کہ اس کی تعلیم میں جو صداقت ہے وہ سابقہ کتب مقدسہ سے ماخوذ ہے چنانچہ لکھا ہے کہ’’بیشک یہ قرآن جہان کے رب کا اتارا ہوا ہے تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں ہوجائے ۔ فصیح عربی زبان میں ہے اور بے شک یہ قرآن اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ کیا اہل مکہ کے لئے یہ ( اس کی صداقت کی ) نشانی نہیں کہ اس قرآن کو علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں (شعرا آیت ۱۹۲)۔قرآن بار بار صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہے کہ جو صداقت اس میں پائی جاتی ہے وہ محض کتب ِسابقہ سے ماخوذ ہے اور اس حقیقت کو اپنی صداقت کی دلیل میں پیش کرتا ہے او رکہتا ہے کہ قرآن عربی میں صرف اس واسطے آیا ہے تاکہ سابقہ کتب مقدس کی صداقتوں کو اہل عرب کے لئے سلیس عربی زبان میں پیش کرے تاکہ اہل عرب پر اتمام حجت(آخری دلیل) ہوجائے ۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ’’قرآن ہم نے نازل کیا اس لئے کہ تم نہ کہو کہ ہم سے پہلے صرف دوہی فرقوں ( یعنی یہود اور عیسائیوں ) پر کتاب نازل ہوئی تھی اور ہم ان کتابوں کی عبرانی اور یونانی زبانوں کی وجہ سے ان کے پڑھنے سے غافل تھے ۔ یاکہو کہ اگر ہم پر کتاب ( عربی میں )نازل ہوتی تو ہم یہودیوں اور عیسائیوں سے زیادہ ہدایت پر ہوتے ۔ سو اب تمہارے رب سے تمہارے پاس ( عربی میں ) حجت آگئی ہے اور ہدایات اور رحمت ہے سو اس سے زیادہ ظالم کون جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا یا‘‘ (سوره انعام آیت ۱۵۶ )پھر قرآن تاکیداًفرماتا ہے’’تم کہو کہ ہم مانتے ہیں جو اترا ہم پر اور جواترا تم پر ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے‘‘ (عنکبوت)نیز دیکھو سورہ نحل آیت ۱۰۵،سورہ حم سجدہ ۴۴،۲۰ ؛ یوسف آیت۳،سورہ رعد آیت۳۷ ،سورہ طہٰ آیت۱۱۲،سورہ زمرہ آیت ۲۹،سورہ شوریٰ آیت ۵،سورہ زخرف آیت ۲،سورہ احقاف آیت ۱۱وغیرہ ) ۔ دورہِ حاضر کے مسلم علما اس حقیقت کے معترف ہیں چنانچہ مرحوم مولوی خدا بخش اس مضمون پر بحث کرکے کہتے ہیں
’’اسلام درحقیت یہودیت اور مسیحیت کی محض ریوائزڈ (نظر ثانی ) ایڈیشن ہے۔حضرت محمد نےکبھی جدت کا دعویٰ نہیں کیا۔ آپ کا مذہب دیگر ادیان کا انتخاب تھا‘‘
(A Mohammedan View of Islam and Christianity Muslim World For Oct 1926)
سرسید احمد مرحوم بھی فرماتے ہیں کہ
’’ اسلام اصول اور عقائد متفرقہ اور منتشرہ مذاہب سابق کی محض ایک ترتیب اور اجتماع کا نام ہے۔ہر ذی فہم شخص پر یہ بات ظاہر ہوگی کہ یہ مشابہت اور مماثلت اصول اور عقائد مذہب اسلام کی دیگر مذاہب الہامی کے اصول وعقائد سے مذہب اسلام کے پاک اور الہامی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے‘‘
(خطبات احمد یہ ص ۲۲۳)
پس قرآن اور علمائے اسلام اس بات کے معترف ہیں کہ قرآن کی تمام صداقتیں کلمتہ اللہ کی تعلیم میں پائی جاتی ہیں۔ ہم انشا اللہ یہاں یہ ثابت کریں گے کہ وہ صداقتیں قرآن میں صرف غیر مکمل حالت میں موجود ہیں وہ انجیل جلیل میں وہ کامل ترین اور پاکیزہ ترین شکل میں موجود ہیں۔
(۲)
سب سے بڑا دعویٰ جو اسلام کا ہے وہ شرک کی مذمت اور وحدت ِ الہٰی کی دعوت ہے (سورہ بقر ہ ۱۵۸، سورہ نحل ۱۳،سورہ نسا ء۴۰ اور۱۱۶وغیرہ )۔لیکن کتاب مقدس کے ناظرین جانتے ہیں کہ جیسا اوپر چکا ہے یہ صداقتیں حضرت رسول عربی نے یہودیت اور مسیحیت سے حاصل کیں۔ (مرقس ۲۹:۱۲؛یوحنا۳:۱۷؛ ۱۔کرنتھیوں ۴:۸۔۶؛ یسعیاہ۶:۴۴؛ خروج ۳:۲۰۔۵؛ حزقی ایل ۳:۱۴؛ ۱۔یوحنا۲۱:۵؛ اعمال ۲۹:۷؛ ۴:۱۱۵۔۸؛رومیوں ۲۱:۱۔۲۳وغیرہ وغیرہ)
لیکن اسلامی مجردتوحید کا تصور خلاف ِقیاس اور ہر قسم کی محتویات(گھیرلینا،شامل)سےخالی اور ازروئے منطق وفلسفہ یہ تصور خاص ہے۔ لہٰذا توحید کے اس تصور کو مسیحیت میں دخل نہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے، جو اس رسالہ کے حقیقی موضوع سے خارج ہے۔ ہم ناظرین کی توجہ پادری عمادالدین صاحب مرحوم وپادری عبدالحق صاحب مرحوم ،پادری فنڈر صاحب اور ڈاکٹر برخور دار خان صاحب کی کتب کی جانب دلا کر یہاں اس قول پر اکتفا کرتے ہیں کہ اسلام کا یہ عقیدہ اپنی پاکیزہ ترین حالت میں بائبل مقدس میں موجود ہے ۔
(۳)
خدا اور انسان کے باہمی رشتہ اور تعلقات کے متعلق جو تعلیم قرآن اور اسلام میں ہے ان میں جو صداقت کے پہلو ہیں وہ تمام کے تمام مسیحیت میں بوجہ احسن موجود ہیں۔ مثلا ً قرآن کی تعلیم ہے کہ خدا خالق ہے ۔ مالک ہے ،پروردگار ہے وغیرہ وغیرہ (سورہ انعام آیت ۱۰۱اور ۱۰۲،سورہ نحل آیت ۳اور ۱۷وغیرہ )یہ تمام باتیں بائبل مقدس میں بطرز احسن موجود ہیں۔ (پیدائش ۱:۱؛ نحمیاہ ۶:۹؛ اعمال ۱۵:۴؛ زبور۵:۱۴۸؛ اعمال۲۴:۲۷وغیرہ۔)لیکن قرآنی تعلیم میں بعض ایسے پہلو ہیں جو انجیل میں پائے جاتے’’ کہ خدا ایسی جابر ہستی ہے جو اپنے قہر سے گناہ گار انسان کو فنا کردیتی ہے اور دوزخ میں ڈال کر خوش ہوتی ہے ‘‘(سورہ نحل ۲۵،سورہ احقاف ۱۹ ،سورہ جاثیہ۷ اور۲۰۔سورہ مومن ۳۷،سورہ یسین ۸؛سوراانعام ۱۳۸وغیرہ )۔ان مقامات کی سی تعلیم انجیل میں نہیں ملتی کلمتہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے اور وہ گناہ گار کی خاطر ہر قسم کا ایثار اور قربانی کرتا ہے (یوحنا ۱۶:۳؛ ۱۔یوحنا۱۰:۴؛ رومیوں ۶:۵وغیرہ )۔خدا اور انسان کے باہمی تعلق کی بنا خوف اور دہشت نہیں بلکہ محبت ہے ۔ انجیل جلیل میں ارشاد ہے کہ’’کامل محبت خوف کو دور کردیتی ہے‘‘(رومیوں ۱۵:۸؛ ۱۔یوحنا۱۴:۵؛۱۷:۴ وغیرہ)۔
پس مسیحیت میں یہ تمام اصول اپنی پاکیزہ ترین اور اعلیٰ ترین شکل میں موجود ہیں جو قرآن میں صرف غیر مکمل طور پر ہی پائے جاتے ہیں۔
(۴)
اسلام نے خدا کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ خدا اپنی مخلوقات سے بلند وبالا ہے (سورہ نحل۶۲،سورہ نساء۳۸وغیرہ )اور اس صداقت کے عنصر پر اس قدر زور دیا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کردی ہے۔ مسیحیت میں بھی یہ تعلیم موجود ہے کہ خدا کائنات سے بلند وبالا ہے (زبور۱۸:۸۳؛ اعمال۴۹:۷ وغیرہ) لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے خدا اور انسان میں کوئی خلیج پیدا نہیں کی،چنانچہ لکھا ہے کہ’’ وہ جو عالی اور ارفع ہے اور ابدالا آباد تک قائم ہے جس کا نام قدوس ہے فرماتا ہے کہ میں بلند اور مقدس مقام میں رہتا ہوں اور اس کے ساتھ بھی جو شکستہ دل اور فروتن ہے تا کہ فروتنوں کی روح کو اور شکستہ دلوں کو زندگی بخشوں (یسعیاہ۱۵:۵۷؛ زبور ۲:۱۱۳۔۷) خداکے بلند وبالا ہونے اور اس کے حاضر وناضر ہونے میں جو صداقت کے پہلو ہیں وہ مسیحیت میں نہایت دلکش ہیں اور پسندیدہ حالت میں موجود ہیں ۔
اسلام نے خدا اور انسان کے درمیان خلیج پیدا کرکے یہ تعلیم دی ہے کہ خدا فرشتوں کے ذریعہ انسان سے کلام کرتا ہے۔ او ریو ں اپنی مرضی انسان پر ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن جبرائیل فرشتہ کے ذریعہ رسول عربی پر نازل ہوا۔ لیکن مسیحیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے جس کی ذات محبت ہے لہٰذا اس میں اور انسان میں کوئی خلیج واقع نہیں اور خدا کا کلام خود مجسم ہوا اور اس نے مسیح میں ہوکر اپنے آپ کو بنی نوع انسان پر ظاہر کیا۔ (یوحناپہلا باب؛عبرانیوں ۱:۱۔۸ )۔ اسلام میں انسان خدا کے ساتھ حقیقی رفاقت نہیں رکھ سکتا کیونکہ قرآن کے مطابق خدا’’بے نیاز‘‘ہے (سورہ اخلاص وغیرہ ) بے نیازی اور محبت دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو نہیں سکتے ۔ محبت ایک رشتہ ہے جو محب اور محبوب کے درمیان ہوتا ہے ، لیکن جہاں بے نیازی ہو وہاں نہ کوئی محب ہوسکتا ہے اور نہ محبوب نہ محبت کی رفاقت کا امکان ہوسکتا ہے۔اس
پس خدا کے بلند وبالا ہونے اور اس کے حاضر وناظر ہونے کے متعلق جو تعلیم قرآن میں پائی جاتی ہے وہ کامل طور پر انجیل جلیل میں موجود ہے ۔
(۵)
قرآن کے مطابق خدا رحمان اور رحیم ہے جو ہمارے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے (سورہ مائدہ ۴۴وغیرہ )۔صداقت کا یہ پہلو اپنی بہترین شکل اور پاکیزہ ترین صورت میں انجیل جلیل کی تعلیم میں پایا جاتا ہے۔(مرقس ۲۵:۱۱؛ افسیوں ۳۲:۴؛ کلسیوں ۱۳:۳وغیرہ )لیکن اسلامی تعلیم میں خدا کی رحمت کا اخلاقیات سے تعلق نہیں، کیونکہ اس رحمت میں اخلاقی عنصر موجود نہیں ،خدا کا رحم کرنا اور گناہوں کا بخشنا اس کی مطلق العنان مرضی پر موقوف ہے ،لیکن مسیحیت میں اس تصور کو جگہ نہیں ملتی۔ کلمتہ اللہ نے خدا کی رحمت کے تصور کواخلاقیات کے ساتھ ایسا وابستہ کردیا ہوا ہے ،کہ خدا کی رحمت اور مغفرت اس کی ذات کا (جس کا جوہر محبت ہے ) قدرتی نتیجہ ہے ۔ چونکہ خدا بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے لہٰذا اس کی ذات اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ گناہوں کو معاف کرے اور تائب گناہ گار کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے (لوقا ۱۵باب وغیرہ )۔
پس کلمتہ الله کی تعلیم قرآنی تعلیم کے صادق پہلو کو کامل طور پر پیش کرتی ہے ایسا کہ اس کا غیر مکمل پہلو انجیل میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔
(۶)
قرآن کے مطابق ’’خدا گناہ کا بانی ہے‘‘ (سورہ اعراف آیت ۱۷۸،بنی اسرائیل ۱۷،سورہ شوریٰ۴۵،سورہ ہود ۳۶اور ۱۲۰وغیرہ )کلمتہ اللہ کی تعلیم اس عقیدہ سے پاک ہے۔
(۷)
قرآن میں نماز اور دعا کا حکم ہے لیکن یہ احکام زمان ومکان کی قیود سے آزاد نہیں (سورہ نساء ۴۶،سورہ روم ۱۷اور ۱۸،سورہ ہود ۱۱۶،سورہ بنی اسرائیل ۸۰،سورہ طہ ٰ۱۳۰،سورہ بقرہ ۱۲۹)چنانچہ حکم ہے کہ نماز خا ص اوقات پر اور ایک خاص جگہ کی طرف رخ کرکے پڑھی جائے لیکن مسیحیت میں یہ حکم زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے ۔ کلمتہ اللہ نے فرمایا کہ ہر وقت دعا مانگتے رہنا چاہیے ۔(لوقا۱:۱۸؛ افسیوں۱۸:۶؛ ۱۔تھسلینکیوں۱۷:۵؛ ۱۔تیمتھیس ۸:۲وغیرہ ) آپ نے کسی خاص جگہ کو قبلہ نہ بنایا(یوحنا۲۰:۴۔۲۵)۔اسلام میں دعا سے پہلے وضو اورظاہری رسمی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے (سورہ مائدہ۸اور ۹ ،سورہ بقرہ۱۸۳وغیرہ) لیکن کلمتہ اللہ کی تعلیم میں ظاہری تکلفات کا پہلو دور کردیا ہے ۔
دل کہ پاکیزہ بود جامہ ناپاک چہ سود
سرکہ بے مغرز بود نغزی دستار چہ سود
کلمتہ اللہ (یعنی جنابِ مسیح ) نے ارشاد فرمایا’’خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کےپرستار روح اور سچائی سے اس کی پرستش کریں‘‘(یوحنا۲۳:۴۔۲۴)پس کلمتہ اللہ کی تعلیم میں دعا اور عبادت کے اصول درخشاں ہوکر چمکتے ہیں (متی ۷:۷۔۱۱؛۲۲:۲۱؛ مرقس۲۴:۱۱؛ متی۵:۶۔۸؛ یوحنا۵:۹۔۹؛۱۰:۱۸۔۱۴ وغیرہ)۔ مسیحیت کے اصول زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہیں لہٰذا عالم گیر ہیں۔
(۸)
قرآن میں روزہ کا حکم ہے اور اس کے لئے مفصل احکام اور تفصیلات موجود ہیں جو زمان ومکان کی قیود میں ہیں ( سورہ بقرہ ۱۷۹ الخ)لیکن کلمتہ اللہ کی تعلیم میں روزہ ظاہری تکلفات پر مبنی نہیں او رنہ محض رسم پرستی ہے (متی ۱۶:۶۔۱۸؛یسعیاہ ۵:۵۸۔۸؛متی ۱۴:۹۔۱۷ وغیرہ )۔
(۹)
قرآن میں حج کا حکم ہے جو زمان ومکان کی قیود سے متعلق ہے (سورہ آل عمران۹۰،سورہ بقرہ ،۱۹۳،۱۹۲،۹۵،۹۴وغیرہ )یہودیت اور اسلام میں یہ مماثلت ہے کہ جو جگہ اہل یہود کے مذہب میں یروشلیم کو دی گئی ہے وہی جگہ اسلام میں مکہ کو حاصل ہے۔جس طرح یروشیلم خدا کا شہر تھا اسی طرح مکہ ام القریٰ ہے جس طرح یہوواہ (پروردگار کا خاص نام)یروشیلم کی ہیکل میں رہتا تھا اسی طرح اسلام کا رب ِ کعبہ ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ انبیائے یہود ایسی تعلیم بھی دیتے تھے جو اس تصور سے بلند وبالا تھی (یسعیاہ۱:۶۶۔۲؛ ۱۔سلاطین۲۷:۸؛ ۲۔تواریخ۱۸:۶؛ یرمیاہ۲۴:۲۳؛ ۲۔تواریخ۶:۲ وغیرہ)اور اسلام میں خدا رب العالمین ہے،لیکن اسلام کی تعلیم ہمیشہ زمان ومکان کی حدود میں رہی۔ انجیل جلیل کی تعلیم اس قسم کی حدود سے بالاہے (یوحنا۶:۴؛ اعمال۴۸:۷؛ ۲۴:۱۷؛ متی۳۴:۵۔۳۵ وغیرہ)۔
(۱۰)
اسلام میں قربانی کا حکم پایا جاتا ہے (سورہ حج ۲۸تا ۳۸وغیرہ) ہندو مذہب میں بھی کالی کے سامنے بکریاں قربان کی جاتی ہیں ۔ کلمتہ اللہ کی تعلیم اور نمونہ نے ان مذاہب کے قربانی کے تصور کو ایسا کامل کردیا ہے کہ لفظ قربانی کے وہ معنی ہی نہیں رہے جو دیگر مذاہب میں تھے(زبور۹:۵۔۱۵؛۱۶:۵۱۔۱۷)۔ اب قربانی کا مطلب ایثار نفسی اور خود فراموشی اور دوسرے کے فائدہ کو مقدم جانناہوا(افسیوں ۱:۵۔؛عبرانیوں ۲۷:۷؛ ۱۴:۹؛ خروج ۱۰:۱۰۔۱۲) کلمتہ اللہ کے کامل قربانی کے تصور کی وجہ سے ادیا نِ عالم کے تصورات جو ان مذاہب میں خدا اور انسان کے متعلق اس لفظ سے وابستہ تھے و ہ یاتو دنیا جہان کے لوگوں کے ذہنوں سے کلیتہ ً(مکمل طور پر) مٹ گئے ہیں یا ان تصورات کے معنی مسیحیت کی روشنی میں بدل گئے ہیں(زبور۶:۴۰)۔
بعض مذاہب میں یہ خیال کیا جاتا تھاکہ قربانیاں چڑھانے سے ہم خدا کے ار اد وں کو بدل سکتے ہیں۔ قربانیاں گویا ایک رشوت خیال کی جاتی تھیں۔ یہ گمان تھا کہ جس طرح دنیاوی حکام رشوت سے قابو آجاتے ہیں اسی طرح ہم قربانیوں کے وسیلے خدا پر قابو پالیتے ہیں اور اس کو خوش کرکے جو چاہیں حاصل کرسکتے ہیں ۔ لیکن کلمتہ اللہ کی تعلیم اور زندگی نے ایک طرف قربانی کے تصور کو کامل کردیا اور دوسری طرف اس لفظ کے ناقص اور باطل مفہوم کونوع انسانی کے اذہان سے خارج کردیا۔
(۱۱)
قرآن میں حرام اورحلال خوراک میں تمیز کی گئی ہے (سورہ مائدہ ۹۷،۹۰،۹،سورہ انعام ۱۴۶،وغیرہ) اس قسم کی تعلیم ہم پر عیاں کردیتی ہے کہ قرآن صرف خاص ممالک واقوام پر ہی حاوی ہوسکتا ہے ۔ لیکن کلمتہ اللہ نے ا س قسم کی تعلیم کے نقص کو رفع کردیا اور فرمایا کہ کوئی شئے بذاتہ حرام نہیں ( متی ۱۱:۱۵۔۱۹؛رومیوں ۱۴:۱۴؛۱۔تیمتھیس ۴:۴وغیرہ) انجیل میں ارشاد ہے کہ’’خدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی ،محبت اور اتفاق اور اس خوشی پر موقوف ہے جو روح القدس کی طرف سے ہوتی ہے ۔’’ مسیحیت اس قسم کے خیالات سے یکسر خالی ہے۔
(۱۲)
اسلام میں نعمائے(برکات) بہشت اور عذاب ہائے دوزخ کی تعلیم موجود ہے اس تعلیم میں صداقت کا جو عنصر ہے وہ مسیحیت میں اپنی پاکیزہ ترین صورت میں پایا جاتا ہے (یوحنا۲:۱۴۔۳؛مکاشفہ ۷:۲؛لوقا۲۷:۲۰۔۳۶؛ متی ۳۰:۲۲؛۲۵ باب وغیر ہ) قرآن میں بہشت کی تصویر شراب اورنہروں ،عورتوں،غلاموں ،وغیرہ پر مشتمل ہے جس سے مسلم سلیم الطبع (دانش مند)اشخاص بھی قبول نہیں کر سکتے ، لیکن مسیحیت کے مطابق یہ تمام باتیں ناقص اور غلط ہیں ( مرقس ۲۵:۱۲ وغیرہ)۔یہ تعلیم صرف ان لوگوں کو ہی بھلی معلوم ہوسکتی ہیں جو ترقی کی ابتدا ئی منازل پر ہوں ،لیکن اس طبقہ کے باہر یہ تعلیم دیگر ممالک واقوام کی راہبری نہیں کرسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے غلط خیالات کو مسیحیت میں جگہ حاصل نہیں۔
(۱۳)
اسلام میں جہاد کی تعلیم موجو دہے (سورہ توبہ ۱۱۲،۲۹،اور ۱۱تا ۱۵،سورہ محمد ۴وغیرہ ) جو صرف خاص حالات قوم او رملک سے ہی متعلق ہوسکتی ہے۔بذریعہ جنگ وجدل لوگوں کو کسی مذہب میں جبر یہ داخل کرنے اور لوٹ کا مال قبضہ میں رکھنے (سورہ انفال ۷۰وغیرہ)کی تعلیم ہر گز اس قسم کی نہیں جس کا اطلاق کل اقوام اور ممالک عالم پر ہوسکے ۔ یہ تعلیم سراسر باطل ہے لہٰذا کلمتہ الله کی تعلیم میں دخل نہیں پاتی۔ علیٰ ہذا القیاس قرآن قصاص وانتقام کی تعلیم دیتا ہے۔(سورہ بقرہ ۱۹،سورہ مائدہ ۴۹،سورہ شوریٰ۳۴تا ۳۸،سورہ نحل۱۷۲وغیرہ ) لیکن کلمتہ اللہ نے جیساہم گزشتہ فصل میں بیان کرچکے ہیں اس قسم کی تعلیم کو غلط قرار دے کر دشمن سے محبت کرنے کی تعلیم دی ہے ۔
(۱۴)
عورات کی حیثیت کے متعلق احکام قرآن میں پائے جاتے ہیں (سورہ نسا ء۲۳تا ۲۸،سورہ بقرہ ۲۲۳وغیرہ)۔یہ احکام عرب جاہلیت کو سدھارنے کی خاطر وضع کئے گئے تھے ۔ ان میں جو صداقت کے پہلو ہیں وہ بدرجہ احسن انجیل جلیل میں موجود ہیں جیسا کہ ہم اس باب کی فصل اول میں ذکر کرچکے ہیں ۔لیکن قرآنی تعلیم کے ناقص پہلو مثلا ً تعداد ازدواجی ،طلاق وغیرہ (سورہ نسا ء آیت ۳،سورہ بقرہ ۲۳۰،۲۳۱وغیرہ) صرف خاص ملک قوم اور طبقہ کے ساتھ ہی تعلق رکھ سکتے ہیں اور ان کے اصول کا اطلاق کل دنیا کے ممالک واقوام پر نہیں ہوسکتا لہٰذا یہ تعلیم عالم گیر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی او ریہی وجہ ہے کہ مسیحیت ان تمام ناقص غیر مکمل اور باطل عناصر سے پاک ہے۔
(۱۵)
قرآن میں اصول مواخات (بھائی چارہ)صرف مسلمانوں کے دائرہ تک محدود کیا گیا ہے (سورہ حجرات ۱۰)مسیحیت میں اخوت کا اصول بدرجہ احسن موجود ہے (متی ۸:۲۳۔۹؛۴۰:۲۲وغیرہ ) اس مضمون پر ہم گزشتہ فصل میں مفصل بحث کرچکے ہیں ۔ صداقت کا وہ عنصر جو قرآن کی تعلیم اخوت میں ہے اپنی اعلیٰ ترین صورت میں انجیل شریف میں موجود ہے (یوحنا۳۴:۱۲۔۳۵؛۱۲:۱۵۔۱۴ وغیرہ)لیکن قرآنی تعلیم میں نقص یہ ہے کہ اخوت کو ایک طبقہ تک ہی محدود کردیا گیا ہے (سورہ حجرات ۱۰) اور دوسروں سے دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ (سورہ فتح ۲۹،سورہ انفال۷۴،سورہ مائدہ۶۲،سورہ ممتحنہ۸تا۹وغیرہ) کلمتہ اللہ کی تعلیم نے اس ناقص اور غیر مکمل حد کو توڑ کر نوع انسانی کی اخوت کا سبق دیا ہے ۔ (متی۴۳:۵)۔
(۱۶)
ہم نے اسلام اور قرآن کے اہم اصول پر نظر کرکے دیکھا ہے کہ ان اصول میں جو صداقت کے پہلو ہیں وہ سب کے سب مسیحیت میں پاکیزہ ترین صورت میں پائے جاتے ہیں لیکن قرآنی تعلیم کے ناقص ،غیر مکمل اور باطل پہلوؤں کو مسیحیت میں کہیں دخل نہیں۔ لہٰذا مسیحیت ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع رکھتی ہے جو اسلام کی کامیابی کا باعث ہیں لیکن ان تمام اباطیل سے پاک ہے جو اسلام کی ناکامی کا باعث ہیں۔ ہم نے اس مضمون پر ایک اور کتاب میں مفصل بحث کی اور ثابت کیا ہے کہ اسلام ان ناقص اور غیر مکمل عناصر کی وجہ سے عالم گیر مذہب نہیں ہوسکتا ۔ لیکن چونکہ مسیحی مذہب تمام صداقتوں کا مجموعہ ہے اور اس میں باطل اصول ہر گز نہیں پاتے لہٰذا صرف وہی عالم گیر مذہب ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
مسیحیت کی جامعیت
مختلف مذاہب کے اصول کے مطالعہ سے ناظرین پر واضح ہوگیا ہوگا کہ مختلف مذاہب حق اور صداقت کے صرف مختلف پہلوؤں پر ہی زودیتے ہیں اور باقی پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مثلا ً ہندو مذہب ہمہ اوستی عقیدہ کا قائل ہوکر خدا کے رفیع اور بلند وبالا ہونے کی حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے ۔اسلام میں خدا کے بلند وبالا ہونے پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ خدا اور انسان میں ایک وسیع خلیج حائل کر دی گئی ہے۔علی ہذاالقیاس اگر اسلام ایک صداقت پر زور دیتا ہے تو دوسری کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ اگرہند و مذہب ایک قسم کی صداقت کی تعلیم دیتا ہے تو و ہ دوسری قسم کی صداقت کونظر انداز کر دیتا ہے ،لیکن مسیحیت میں صداقت کے مذکورہ بالا دونوں عناصر پہلو بہ پہلو ایک ہی نظام میں منظم پائے جاتے ہیں۔ کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق خدائے قدوس محبت کا خدا ہے جو بنی آدم سے بلندو بالا بھی ہے اور اپنی ازلی محبت کی وجہ سے ہر فرد بشر کے ساتھ رفاقت رکھتا ہے۔ بدھ مت میں عدل اور انصاف پر بے حد زور دیا گیا ہے، لیکن اس مذہب میں محبت کو جو انسان کے دل کو فی الحقیقت بد ل دیتی ہے نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ مسیحیت میں خدا کی محبت اور خدا کا عدل دونوں پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیں ۔ چین کے کنفوشیس کا مذہب دینوی تعلقات کی پاکیزگی پر زور دیتا ہے، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ یہ تعلقات ان ازلی تعلقات کا عکس ہیں، جو خدا اور انسان کی ذات سے متعلق ہیں۔ مسیحیت میں ازلی اور دنیاوی تعلقات دونوں پر زور دیا گیا ہے ۔ جاپان کا شنٹو مذہب حب الوطنی کا سبق سکھلاتا ہے ،لیکن اس مذہب کے نزدیک ملک کی محبت صرف ایک ملک یعنی جاپان تک محدود ہے ،لیکن مسیحیت صداقت کے اس عنصر کو کامل کرکے یہ تعلیم دیتی ہے، کہ ہم نہ صرف اپنے ملک اور قوم کے ساتھ بلکہ تمام ممالک واقوام کے ساتھ محبت کریں۔
بستہ رنگ ِ خصوصیت نہ ہو میری زبان
نو ع انسان قوم ہو میری،وطن میرا جہاں (اقبال )
پس صداقت کے مختلف عناصر مختلف مذاہب میں یہاں اور وہاں اور جگہ بہ جگہ اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں لیکن یہ تمام کے تمام عناصر مسیحیت میں اپنی نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ صورت میں ایک جگہ جمع ہیں۔ یہ سب کے سب عناصر مختلف شعاعوں کی طرح ہیں جن کے ذریعہ’’عالم ِبالا کا آفتاب لوگوں پر طلوع ہو‘‘(لوقا۷۸:۱)اورمسیح’’ آفتاب صداقت ‘‘ہے۔ (ملاکی ۲:۴؛افسیوں۱۴:۵وغیرہ)۔جس کے بانی نے فرمایا ہے کہ’’ دنیا کا نور میں ہوں ،جومیری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا ۔(یوحنا۱۲:۸ )حکیم قانی کا شعر آپ پر لفظ بلفظ صادق آتاہے:۔
توجسم شرع راجانی تودرّ عقل راکانی
توگنج کان یزدانی ۔تو رانی سرّما اوما۱
(۲)
حق تو یہ ہے کہ ادیان ِ عالم کی مختلف صداقتیں صرف مسیحیت میں ہی جمع ہوکر محفوظ رہ سکتی ہیں۔ کیونکہ ان مذاہب میں صداقت کا عنصر بطالت کے عناصر کے ساتھ اس قدر ملا جلا ہوتا ہے ،کہ صداقت کے عنصر کی ہستی ہمیشہ معرض خطر میں رہتی ہے ۔ان مذاہب میں صداقت اور بطالت کے عناصر ایک جگہ باہم خلط ملط پائے ہیں ،مثلاً اگر کسی الہامی کتاب میں ایک صفحہ پر خدا کی قدوسیت کی تعلیم دی گئی ہو اس کے اگلے صفحہ پر ایسی باتیں ہوں جو مخرب ِ اخلاق (بگڑا ہوا رویہ)ہیں ،تو صداقت کا عنصر انسان کی زندگی کو کس طرح متاثر کرسکے گا ؟ان مذاہب میں غلط تصورات کے بادل اور کالی گھٹا ئیں صداقت کے عناصر کی شعاعوں کو چھپا لیتی ہیں اور صداقت کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہیں اور روحانی تاریکی چھا جاتی ہے ۔ مثلا ً ہندوؤں کا تعلیم یافتہ طبقہ اور بت پرستی اور دیگر اوہام(وہم کی جمع،ذہنی تصور) سے بیزار ہے ۔ لیکن اس مت (مذہب)میں کروڑوں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بت پرستی پر قائم ہیں۔ ہندودھرم کے اندر خدا پرست بھی ہیں ،ملحد اور دہریہ بھی ہیں۔ ہمہ اوستی اور مادہ پرست دونوں اس کے حلقہ بگوش ہیں۔ ہندو دھرم مختلف قسم کے عقائد اور متضاد خیالات کا مجموعہ ہے اور کوئی طاقت ان مختلف متضاد خیالات اور اعتقادات کو جو منتشر صورت میں ہندو دھرم میں پائے جاتے ہیں ،باہم ایک جگہ نہیں کرسکتی ۔ کوئی انسان ہندو دھرم کی صداقتوں پر مضبوطی سے قائم نہیں رکھ سکتا ،کیونکہ وہ اسی دھرم کے باطل عقائد کے ساتھ ایک ہی نظام میں منظم ہیں اور صداقت اور بطالت کے عناصر اس مذہب کے جزو لانیفک (وہ حصہ جو علیحدہ نہ ہوسکے)ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ کی روز مرہ کی زندگی کے معاملات پر صداقت کے عناصر کا اثر نہیں ہوتا اور عملی زندگی میں اچھے اور برے حصص (حصہ کی جمع)کی تمیز نہیں ہوسکتی ۔صداقت کے عناصر بذات ِ خود قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ باطل عنصروں کے ساتھ بے حد خلط ملط ہوچکے ہیں۔ یہی حال دیگر مذاہب کا ہے ۔ ان کے بطالت کے عناصر کی آندھیاں صداقت کے عناصر کے ٹمٹاتے چراغ کو بجھا دیتی ہیں۔
دیگرتمام صداقتیں مسیحیت میں قائم اور محفوظ رہتی ہیں، کیونکہ مسیحیت میں حق اور باطل کا تانا بانا نہیں اور نہ اس میں تاریکی کا کوئی نشان ہے ( یوحنا۵:۱)مسیحیت ایک ایسا جامع مذہب ہے ،جس میں مختلف مذاہب کی تمام صداقتیں جمع ہوکر زور اور قوت حاصل کرتی ہیں۔ چونکہ اس میں بطالت کا نام تک نہیں ،لہٰذا کمزوری اور ناکامی اس کی قسمت میں روز اول ہی سے نہیں۔تاریخ ممالک مشرق ومغرب ہم کو بتاتی ہے ، وہ جس ملک میں گئی غالب آئی اور ادیان ِ عالم کو ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود صرف اپنی صداقت کی قوت سے فتح کرتی چلی آئی ہے ۔ مسیحیت میں صداقت کے تمام اصول زندہ قائم اور استوار ہوجاتے ہیں اور بنی آدم کو ابدی زندگی کو پہنچاتے ہیں۔ مسیحیت مختلف مذاہب کی صداقتوں کو ان مذاہب کے باطل عنصروں سے مخلصی دلا کر ان کی تمام بیماریوں سے شفا دے کر ان کی مخصوص صداقتوں کو ہلاک ہونے سے بچاتی ہے۔یہ صداقتیں عقاب کی مانند از سر ِنو جوان ہوجاتی ہیں اور مسیحیت کی آغوش میں پرورش پاکر بنی نوع انسان کو اس قابل بنادیتی ہیں، کہ وہ خدا کی صورت پر ہوجائیں۔
(۳)
علاوہ ازیں ادیان ِ عالم میں ہم حق اور باطل کے عناصر کی جو امتیاز کرتے ہیں وہ مسیحیت کی طفیل اور مسیحیت کی روشنی میں ہی کرسکتے ہیں۔ یہ مذاہب خود اس قسم کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ حق اور باطل کے عناصر میں تمیز کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مذاہب کے پیرو ان کے اچھے اور برے حصص دونوں پر عمل کرتے ہیں۔ مثلا ً ہندو دھرم کے اصول کی روشنی میں ذات پات کی قیود اور اچھوت کو برا نہیں کہا جاتا جس طرح اہل ہنود اپنے دھرم کے اچھے اصول پر عمل پیرا ہیں اسی طرح وہ اچھوت کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ہندو دھرم اس بات کا اہل نہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے ۔ گاندھی جی نے مسیحیت کی روشنی میں ہی اچھوت کے خیال کو مذموم بات قرار دے کر اس کے خلاف جہاد شروع کیا ہے۔لیکن خود گاندھی جی بت پرستی کے خلاف نہیں اور ذات پات کے قائل ہیں۔ اسلامی دنیا تعداد ازدواج پر ہمیشہ عمل کرتی آئی ہے اور زمانہ ماضی میں اسلام کی روشنی میں اس کو کبھی مذموم (بُرا)قرار نہیں دیاگیا لیکن مسیحیت کی ضیا پاشی (روشنی پھیلانا)کی وجہ سے اب یہ رسم مذموم خیال کی جانےہے ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیت کے اصول کی ضیاپاشی میں ہی ہم ان مذاہب کے اچھے اور برے پہلوؤں میں تمیز کرسکتے ہیں اور نہ صرف یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ ان میں کیا کچھ ہے بلکہ یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ ان میں کیا کچھ نہیں ہے ۔
کلمتہ الله کے اصول کی روشنی میں کل دنیا کے مذاہب اس بات کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اصولوں کی اصلاح کریں۔ ہندو دھرم اب وہ نہیں رہا جو دوسو(۲۰۰)سال پہلے تھا۔ اسلامی تعلیم اب وہ نہیں رہی جو پچھلی صدی میں مکتبوں اور مسجدوں میں اور منبروں پر سے دی جاتی تھی۔ دقیانوسی ملانوں کے وعظوں پر اسلامی ممالک مثلاً مصر ،ایران ،ترکی وغیرہ میں کوئی صحیح العقل شخص دھیان نہیں دیتا۔ چین اورجاپان کے مذاہب کا بھی یہی حال ہے ۔ مسیحی تصورات نے ان کے عقائد اور رسوم کی بطالت کو ایسا ظاہر کردیا ہے، کہ ان کے پیر ومسیحیت سے متاثر ہوکر ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں اور انجیل جلیل کے زندہ اصول سے زندگی کا دم لے کر اپنے مذاہب کی بوسیدہ ہڈیوں میں پھونکنے کی بےسود کوشش کرتے ہیں۔ چین کی نئی پود (نسل)اپنے دیوتاؤ ں کے مندروں کے اندر قدم نہیں رکھتی۔ کنفوشیس اور ٹاؤ مذاہب لاچار کھڑے زمانہ کی نیرنگیاں دیکھ رہے ہیں او ریہ بے دست وپا صلاحیت نہیں رکھتے کہ وہ نئی نسل اور نئی قوم کو شاہراہ ترقی پر چلا سکیں۔
کلمتہ الله کی تعلیم نے ہندوستان کو اس قدر متاثر کر رکھا ہے، کہ بیدار مغز ہندو اور مسلمان اپنے مذاہب کی کاٹ چھانٹ کرکے ان کو مسیحی تصورات کے مطابق کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ اس پر طرہ (انوکھی بات)یہ کہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تصورات تو ہمارے مذاہب کا اصلی حصہ ہیں اور مسیحیت کو’’بدیشی‘‘مذہب قرار دے کر اپنے ہم وطنوں کے قومی جذبات کو بھڑکاتے ہیں تاکہ کہیں مسیحیت غالب نہ ہوجائے ۔
کس نیا موخت علم تیرا از من
کہ عاقبت مرا نشانہ نکرد
لیکن یہ چال کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ جس ملک میں مسیحیت گئی، وہاں کے مذاہب نے یہی وطیرہ (رویہ)اختیار کیا،لیکن چونکہ وہ اپنے اندر زندگی نہ رکھتے تھے بالاآخر مغلوب ہوئے اور مسیح فاتح ہوا۔
مسیحیت واحدجہانگیر مذہب ہے
بعض اصحاب کہتے ہیں کہ مسیحیت دیگرادیان عالم کی طرح ایک مذہب ہے اور وہ واحد ہمہ گیر اور عالم گیر دین نہیں ہے اور کوئی ایک مذہب عالم گیر نہیں ہو سکتا ۔ہم ان کی توجہ مسیحیت کی خصوصیات کی طرف منعطف(متوجہ ہونا)کرتے ہیں۔
۱۔مسیحیت کی ایک خصوصیت ہے جو اس کوعالم گیر بنا دیتی ہے اور وہ یہ کہ دیگر ادیان کے اصول وکلام کی قیود سے بالا نہیں ہیں ۔وہ ہر ملک وقوم ونسل اور زمانہ کے انسانوں پر عائد نہیں ہوسکتے ۔وہ نوع انسانی کی تاریخ میں صرف کسی خاص زمانہ ،ملک یاقوم ونسل کے لئے ہی وضع کئے گئے تھے اور وہ خاص اسی زمانہ نسل قوم اور ملک تک ہی محدود رہے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔لیکن جیساہم باب دوم میں مفصل طور پر بتا چکے ہیں ۔انجیلی اصول کااطلاق گزشتہ دوہزارسال سے نوع انسانی کی ہر نسل و قوم ملک پر ہوتاچلاآیاہے اور آئندہ زمانہ میں بھی ان کااطلاق ہوتارہے گا۔پس مسیحیت ہی ایک واحد عالم گیر مذہب ہے اور ادیان عالم میں ایک دین نہیں ہے۔صرف اس کے اصول ہی اعلٰی ترین ،جامع اور مانع اور کامل واکمل عالم گیر اصول ہیں، جو اقوام عالم کی نشوونما میں ممدومعاون رہے ہیں ۔
۲۔اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے، کہ مسیحیت کا بانی کلمتہ اللہ اور روح اللہ خداکاکامل مظہر ہو کر اس دُنیا والوں کے سامنے زندگی کاایک ایسانمونہ رکھا جوہر پہلو سے کامل اور اکمل ہے ۔صرف وہی ایک واحد بے مثال عدیم النظیر کامل انسان ہے انشاءاللہ اس نکتہ پر ہم آئندہ ابواب میں مفصل بحث کریں گے۔
۳۔مسیحیت کی تیسری خصوصیت جو اس کو ادیان عالم سے ممیزکرتی ہے ،یہ ہے کہ دیگر ادیام عالم کے بانی اپنے مذہب کے جزولانیفک نہیں ہے۔وہ محض احکام پندونصائح(نیک مشورے)کامجموعہ ہیں ۔جن کاتعلق ان کے بانیوں کی شخصیت کے ساتھ محض عارضی ،وقتی اور اتفاقی ہے ۔یہ تعلق عوارض(عارضہ کی جمع،پیش آنے والی چیزیں ،مرض،دکھ ،بیماریاں )میں سے ہے۔مثلاً چین کامذہب کنفیوشس کامذہب ہے جو اس کے اصول پر مشتمل ہے ،لیکن کنفیوشس کی ذات وشخصیت اس کے مذہب کی جزولانیفک نہیں ہے ۔اسی طرح بدھ مت چند اصولوں پر مشتمل ہے جن کی ہستی اور بقا کاتعلق قطعاً بدھ مت کی ذات سے نہیں ہے ۔اسی طرح بدھ مت ہے یہی حال دیگر مذاہب کاہے ،لیکن کلمتہ اللہ دیگر مذاہب کے بانیوں کی طرح مسیحی مذہب کے بانی نہیں ہیں ۔اور ہستی اور بقا خداوند مسیح کی قدوس ذات سے ایسی وابستہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جاسکتے ۔خداوند مسیح کی شخصیت کی چٹان پر مسیحیت قائم ہے اور دونوں کا تعلق عارضی اور اتفاقی نہیں بلکہ دائمی اور دوامی ہے ۔دیگرادیان کسی ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں ،لیکن مسیحی کلیسیا کسی کتاب پر ایمان نہیں رکھتی ،بلکہ خداوند مسیح کی قدوس ذات اور شخصیت پر ایمان رکھتی ہے۔وہ انجیل ِجلیل کو اس لئے مانتی ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ وابن اللہ کی تعلیم ،زندگی اور موت اور قیامت کے واقعات کا نہ صرف ذکر ہے، بلکہ وہ ان واقعات کی صحیح مفسر اور مستند ترجمان ہے ۔بالفاظ دیگر مسیح مسیحیت ہے اور مسیحیت مسیح ہے۔انشاء اللہ اگلے باب کی فصل اول میں اس نکتہ پرمفصل بحث کریں گے ۔
مسیح کی زندگی کے بغیر انجیل ایک بے حقیقت کتاب ہو جا تی ہے۔کیونکہ اس کے اصول مسیح کی زندگی کے تحت ہیں اور یہ قدوس پر محبت زندگی ہے ان اصولوں کی بے مثال مثال ہے۔اناجیل ِ اربعہ ابن اللہ کی تعلیم اور ذات وصفات کے نقوش ہیں ،جو’’خدا کے جلال کا پرتو اور اس کی ذات کے نقش ہیں (عبرانیوں۳:۱) ۔انشاء اللہ ہم اس نکتہ کی اگلے باب کی فصل اول میں توضیح کریں گے۔
باب سوم
جنابِ مسیح ابن الله
فصل اول
کلمتہ اللہ بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ ہیں
کامل نمونے کی ضرورت
ہم نے اس رسالہ کے بابِ اول میں لکھا تھاکہ عالم گیر مذہب کے لئے لازم ہے، کہ اس کا بانی ایک عالم گیر نمونہ ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مجرد تصورات اور اصول اپنے اندر سرے سے یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ انسانی زندگی کو تبدیل کرسکیں دورِ حاضرہ میں علم التعلیم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ بچے نمونہ سے سیکھتے ہیں۔ محض اصولوں کے صرف سبق سکھانے کارگر نہیں ہوتے ۔
ہر بچہ کے والدین اور استاد اس واضح حقیقت کو جانتے ہیں کہ بچے نقال ہوتے ہیں اور ان سے وہی افعال سرزد ہوتے ہیں جو دوسروں سے سرزد ہوتے ہیں۔ اگر باپ شرابی ہے تو وہ خواہ اپنے بچے کو شراب پینے سے کتنا ہی منع کرے بچہ شراب پینے سے ہر گز باز نہ رہے گا۔ کیونکہ شرابی باپ کا نمونہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔پس عالم گیر مذہب کے اصول خواہ کتنے ہی اعلیٰ اور ارفع ہوں وہ اپنے اندر یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ بذات خود نیک افعال کے محرک ہوسکیں۔ اگر مجرد اصول اپنے اندر یہ قوت رکھتے اور کسی شخص کی زندگی کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔تو علما کا شمار مقدسین کے گروہ میں ہوتا ۔چنانچہ یقولون مایفعلونقرآن میں آیا ہے اور ہر شخص’’عالم بے عمل’’ سے واقف ہے۔ پس جب نیک اصول کسی ایک شخص کی زندگی کو تبدیل کرنے سے عاجز ہیں ۔تو وہ نو ع انسان کی کایا پلٹ دینے میں کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں؟نوع انسانی کی زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے ایک کامل انسانی نمونہ کی ضرورت ہے ۔ جہاں عالم گیر مذہب میں اعلیٰ اور ارفع اخلاقی اصول کا ہونا ایک لازمی امر ہے وہاں اس سے بھی زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ عالم گیر مذہب ایک عالم گیر نمونہ پیش کرے جو تمام اقوام وممالک اور ازمنہ کے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کرسکے اور ان کو اوج فلک (آسمان کی بلندی)پر پہنچاسکے۔
مسیحیت کے اصول اور جنابِ مسیح کی شخصیت کا تعلق
(۱)
کل ادیانِ عالم میں مسیحیت اکیلا واحد مذہب ہے جو اس صداقت پر زور دیتا ہے کہ عالم گیر مذہب میں ایک کامل نمونہ کا ہونا ازحد لازمی اور لابدی امر ہے ۔اسلام اور ہندو مذہب کی کتابوں میں جیسا ہم گزشتہ باب میں ذکر کرچکے ہیں صداقت کے عناصر پائے جاتےہیں لیکن اصول خواہ کیسے سنہرے ہوں بذات ِ خود ایک خوبصورت خواب کی مانند ہی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ بذاتِ خود کسی گناہ گار انسان کو نیک زندگی بسر کرنے کی قدرت عطا کرسکیں مسیحیت میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے، کہ جب ابن الله اس دنیا سے آسمان پر صعود فرماگئے ،تو آپ ورثہ کے طور پر اپنے پیچھے کوئی کتاب نہ چھوڑگئے جو اصول پر مشتمل ہو۔ بلکہ آپ نے مسیحی کلیسیا کو ورثہ کے طور پر اپنا کامل اور اکمل نمونہ دیا۔ ابن اللہ کی شخصیت ایک زندہ صحیفہ اور کتاب ہے جس کو ہر شخص پڑ ھ سکتا ہے ۔ ہر زمانہ ملک اور قوم کے افراداس جیتی جاگتی چلتی پھرتی ہنستی بولتی تصویر کو دیکھ کر کہتے آئے ہیں کہ جس نے اس کو دیکھا اس نے خدا کو دیکھا۔ ابن اللہ کا ترس ،رحم ،ہمدردی اور محبت بھری زندگی اور مثال دیکھ کر گناہ گار دنیا خدا کی ازلی محبت کا یقین کرسکتی ہے۔ کیونکہ آپ کے خیالات ،تصورات ،احساسات ،جذبات ،اقوال اور افعال وغیرہ سب کے سب اس الہٰی محبت کا زندہ ثبوت ہیں۔ ہر معنی میں آپ کی زندگی حقیقی طور پر خدا کا مکاشفہ تھی۔
دیگر مذاہب کسی نہ کسی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اس پر ایمان لائیں ۔لیکن مسیحی کلیسیا کسی کتاب پرایمان نہیں رکھتی اور نہ لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے وہ زندہ مسیح پر ایمان رکھتی ہےاور انجیل کی کتاب کواس واسطے مانتی ہے کیونکہ ا س میں خدا کی محبت کے اس مکاشفہ کا تذکرہ پایا جاتا ہے ۔جو کلمتہ اللہ وسیلے دنیا پر ظاہر ہوا۔کلیسیا لوگوں کو زندہ مسیح پر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے۔ جس نے اپنے کلام وعمل زندگی ،موت اور ظفر یاب قیامت سے خداکی لازوال پدرانہ محبت کوعالم وعالمیان پر ظاہر کردیا ۔وہ انجیل جلیل کو دنیا والوں کے سامنے اس واسطے پیش کرتی ہے ،تاکہ وہ اس کو پڑھ کرخدا کی محبت کو اس مکاشفہ سے واقف ہوسکیں۔مسیحیت میں اور دیگر ادیان میں یہ بین اور بنیادی فرق ہے ۔جو کبھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔مسیحیت کسی کتاب پر ایمان نہیں رکھتی ،بلکہوہ ایک زندہ منجی مسیح کی شخصیت پر ایمان رکھتی ،بلکہ وہ ایک زندہ منجی مسیح کی شخصیت پرایمان رکھتی ہے۔دیگر مذاہب کتابوں پرایمان رکھتےہیں مثلاً اہل اسلام ایک کتاب(قرآن)پر ایمان رکھتے ہیں ۔وہ رسول عربی کو اس واسطے مانتے ہیں کہ وہ قرآن لائے۔قران مجید کے مطابق حضرت محمد دیگر انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔لیکن مسیحی کتاب انجیل پر ایمان نہیں رکھتے ،بلکہ اسکو اس لئے تسلیم کرتے ہیں۔کیونکہ اس میں خدا کا مکاشفہ درج ہے۔جو مسیح ہے وہ مسیح پر رکھتے ہیں۔ جودیگر خاطی اور گنہگار انسانوں کی طرح ایک انسان نہیں تھا۔بلکہ ہر قسم کی آزمائشوں پر غالب آکر بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اور اکمل نمونہ بنا۔ باقی تمام مذاہب اپنی دینی کتب کو پیش کرتے ہیں۔ جو مختلف اصولوں کا مجموعہ ہیں لیکن مسیحیت کسی کتاب یا اصول پر مشتمل نہیں اگر چہ جیسا ہم نے باب دوم میں ثابت کردیا ہے اس کے اصول اعلیٰ ارفع اور ہمہ گیر ہیں۔ مسیحیت کا تمام دارومدار کلمتہ اللہ کی زندہ شخصیت پر ہے جو مسیحیت کی روح ِرواں ہے
(۲)
ابن اللہ کی زندگی کا انجیل شریف کی اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ابن الله کا جو تعلق خدا کے ساتھ تھا وہ لاثانی تھا۔ آپ کی کامل زندگی کو دیکھ کر آپ کے حوارئین پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ خدا کا جو مکاشفہ آپ نے ظاہر کیا ہے، وہ محض آپ کی تعلیم اور الفاظ میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی کامل زندگی اوراکمل نمونہ میں بھی ہے۔ آپ کی تعلیم لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتی تھی ( یوحنا۴۶:۷ وغیرہ)۔کیونکہ وہ تعلیم ایک ایسے باقدرت اور با اختیار شخص کے منہ سے نکلتی تھی ( مرقس۲۲:۱؛متی۲۸:۷۔۲۹ وغیرہ)جس کی زندگی کامل تھی (۲۔کرنتھیوں۴:۴؛کلسیوں ۲۹:۱؛عبرانیوں۳:۱؛۱۰:۲وغیرہ) آپ کی زندگی آپ کی تعلیم کی طرح بے نظیر تھی ۔آپ کی تعلیم کی زندہ بے مثال مثال تھی ۔ آپ کی تعلیم میں خدا کی محبت اور انسان کی محبت باہم پیوستہ تھی تو آپ کی عملی زندگی میں بھی لوگوں کو خدا کی محبت اور انسان کی محبت یک جا نظر آتی تھی۔ آپکی زندگی سے یہ سب پرعیاں ہوگیا تھا کہ باپ (پروردگار ) کی محبت آپ کے تمام اعمال وافعال کی محرک تھی اور یہ محبت آپ نے بنی نوع انسان کے ساتھ محبت کرنے اور ان کی خدمت کرنے سے ظاہر کی۔ مسیحیت میں جو نرالی بات ہے وہ محض کلمتہ اللہ کی تعلیم ہی نہیں بلکہ جس طریقہ سے آپ نے زندگی بسر کی وہ دنیا جہاں سے نرالا ہے ۔ آپ کی تعلیم کے ہر لفظ کی پشت پر آپ کی مثال اور نمونہ ہے جس نے دنیا کو وِرطہ(بھنور،گرداب) حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
(۳)
دیگر مذاہب کے بانی عمر رسیدہ ہوکر اس فانی دنیا سے رحلت کر گئے ۔جب وہ زندہ تھے مدت ِ مدید تک لوگوں کو تعلیم دیتے رہے چنانچہ رسول عربی نے 22سال اور مہاتما بدھ نے 45سال تک تعلیم دی۔ لیکن کلمتہ اللہ نے صرف 33سال کی عمر پائی جس میں آپ نے صرف تین سال کے قریب تعلیم دی۔ان تین سال میں جو کچھ آپ نے کیا اور کہا وہ زیادہ سے زیادہ سے چالیس صفحوں کے اندر لکھا گیا ہے جس کو ایک معمولی سمجھ کا انسان دو تین گھنٹوں میں باآسانی تمام پڑ ھ سکتا ہے لیکن آپ کی اس مختصر تعلیم اور زندگی نے دنیا کی کایا پلٹ دی ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ آپ کی تعلیم زندگی اور نمونہ نے کسی ایک ملک یا قوم یا پشت یا زمانہ کوہی متاثر نہیں کیا بلکہ دو ہزار سال سے دنیا کے ہر ملک کے گوشے گوشے اور ہر قوم کے ہر زمانہ کے کروڑوں افراد کے دلوں کو مسخر کرلیا ہے۔ چنانچہ مورخ لیکی (Lecky)رقمطراز ہے کہ
’’اگر چہ مسیح نے صرف قریباً تین سال تک تعلیم دی اور خلق خدا کی خدمت کی تاہم اس قلیل مدت میں اس کے پاکیزہ نمونہ اور خصلت کے بے نظیر کرشمہ نے دنیا کو ایسا متاثر کردیا کہ انسان کی فطرت میں جو وحشت اور سنگدلی تھی اس کی اصلاح ہوگئی اور دنیا میں محبت کا ایسا دور دورہ ہوگیا کہ فلاسفروں کی سینکڑوں سالوں کی تعلیم اور اخلاقیات کے استادوں کی ہزاروں نیک مساعی سے اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔"
دیگر مذاہب کے بانیوں کے برعکس آپ کی پشت پر نہ قوت تھی نہ سطوت (شان وشوکت)نہ سلطنت ۔آپ کے حوارئین نہ صاحب علم و جاہ تھے نہ صاحب ثروت ودولت تھے۔بلکہ معمولی مچھوؤں اور محصول لینے والے جاہل گنوار اور بے سلیقہ اشخاص تھے ۔( یوحنا۵۲:۷؛ ۴۶:۱؛۴۹:۷؛متی۹:۹؛مرقس۲۰:۱ وغیرہ)اس قسم کے محدود وسائل کے ذریعہ ابن اللہ نے اپنی غیر فانی بادشاہت کو قائم کیا، جس کا وجود بجائے خود اعجازی ہے۔ روئے زمین پر کسی شخص کی سیرت پر بے شمار زبانوں میں اس کثرت سے کتابیں نہیں لکھی گئیں جتنی ابن الله کی زندگی پر لکھی گئیں ہیں۔ کلمتہ اللہ کی زندگی میں یہ اعجاز ہے کہ ہر شخص جو آپ کے کلام اور زندگی سے واقف ہوجاتا ہے ،آپ کا شیفتہ (عاشق) اور گرویدہ ہوجاتا ہے ۔ خداوند مسیح کا وجود ایک مقبول ِ عام ہستی ہے ۔ آپ کی مقبولیت مسیحی کلیسیا کے پروپگنڈا پر موقوف نہیں ہے بلکہ آپ کی مقبولیت کا راز آ پ کی ہمہ گیر شخصیت میں مضمر ہے ۔
خوباں شکستہ رنگ خجل ایستادہ اند
ہر جا تو آفتاب شمائل نشستہ
دیگر مذاہب کے پیرو ہر ممکن طور پر کوشاں ہیں کہ اپنے مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں میں سے وہ تمام واقعات کسی نہ کسی طرح سے خارج کردیں جو ابن اللہ کی زندگی او رنمونہ کے خلاف ہیں۔ او ران کی زندگیوں میں جو عیوب ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ہنر ظاہر ہوجائیں۔
بقول مولانا حالی :
پوچھا جو کل انجام ترقی بشر
یاروں سے کہا پیر مغاں نے ہنس کر
باقی نہ رہے گا کوئی انسان میں عیب
ہوجائیں گے چھل چھلا کے سب عیب ہنر
غیر مسیحی مذاہب کے پیرو بڑی جدوجہد کرکے اپنے ہادیوں اور نبیوں کی زندگیوں کی دلکش تصویر کھینچتے ہیں (جو عموماً حقیقت کی بجائے ان کی اپنی قوت متخیلہ پر مبنی ہوتی ہے )تاکہ عوام الناس کی نظروں میں ان کے دینی راہنماؤں کی ہستی ایک قابل ِ قدر شخصیت متصور ہوسکے لیکن کلمتہ اللہ کی ذات انسان کی قوت متخیلہ اور قلمی مساعی(تحریری کوشش) اورمسحور کر لینے والی تقریروں سے مستغنی (آزاد)ہے۔کیونکہ
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
حقیقت تو یہی ہے کہ
زعشق ناکمال ماجمال یار مستغنی است
باب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبارا
بلکہ ہمارے ملک کے غیر مسیحی احباب کی الٹی شکایت یہ ہوتی ہے کہ مبلغین اس بات کے اہل نہیں ہوتے کہ ہندوستانیوں کے سامنے مسیح کی دلاآویز تصویر کو ایسے پیرائے میں پیش کریں جو اس کا حق ہے تاکہ ان کے خیالات وجذبات کو کما حصہ متاثر کرے۔
(۴)
مسیحیت کی فتح کا راز ہی یہ ہے کہ مسیحیت مسیح ہے اور مسیح مسیحیت ہے ۔ ابن اللہ کی شخصیت اور عالم گیر پیغام میں ایک ایسا بے نظیر تعلق ہے جو کسی دوسرے مذہب میں موجود نہیں ۔یہ تعلق اس قسم کا نہیں جیسا حضرت محمد صاحب کا اسلام کے مذہب کے ساتھ ہے۔ یا مہاتما بدھ کا ہندوستان کے قدیم مذہب کے ساتھ یا حضرت زرتشت کا ایران کے مذہب کے ساتھ ہے۔ان مذاہب کے بانیوں کی زندگی ان کے پیغام کا حصہ نہیں۔ وہ محض پیغام بر ہیں اور بس۔ لیکن مسیحیت کی یہ حالت نہیں ہے ۔کلمتہ الله کی ذات بابرکات آپ کے پیغام یا خوشخبری یا انجیل شریف کا جزولاینفک ہے ۔جس سے وہ جدا نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ۔ یہ نمایاں حقیقت خودہمارے مقدس مذہب کے نام یعنی’’مسیحیت’’ سے عیاں ہیں کسی دوسرے مذہب میں یہ بات نہیں پائی جاتی کہ اس کے بانی کی شخصیت اس کا جزو ہو ۔مثلاً حضرت محمد کے مذہب کا نام’’محمدیت’’ نہیں بلکہ اسلام ہے ۔ بدھ مت کی مقدس کتابوں میں اس مت کا نام"بدھ مت’’ نہیں۔ حضرت محمد نے اہل ِ عرب کو اسلام کے اصول کی تلقین کی، لیکن جنابِ مسیح نےتعلیم دینے کے علاوہ ہر شخص کو یہی فرمایا’’میرے پیچھے چلے آؤ‘‘(متی۱۹:۴)’’تو میرے پیچھے چل‘‘(متی۲۲:۴)’’میرے پیچھے ہولے‘‘(متی۹:۹)’’اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکا ر کرے او راپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘(مرقس۳۴:۸)’’اپنا سب کچھ غریبوں کو بانٹ دے اور میرے پیچھے ہولے‘‘(لوقا۲۲:۱۸)’’میرے پیچھے ہولے‘‘(یوحنا۴۳:۱)’’میرے پیچھے ہولے‘‘(یوحنا۲۲:۲۱)’’میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور میں ان کو ہمیشہ کی زندگی دیتا ہوں‘‘(یوحنا۲۷:۱۰ )’’اگر کوئی شخص میری خدمت کرنا چاہے تو میرے پیچھے ہولے‘‘(یوحنا۲۶:۱۲)’’دنیا کا نور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا‘‘(یوحنا۱۲:۸)جنابِ مسیح کا تعلق مسیحیت کے ساتھ گہرا او ربے بنیادی لاثانی ہے ۔ دیگر مذاہب کی خصوصیت ان کی تعلیم میں ہے ،لیکن مسیحیت کی ابتدا امتیازی خصوصیت اس کی صرف تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ اس طغرائے امتیاز(بزرگی کی نشانی) یہ ہے کہ اس کی زندگی اور ہستی اس کے بانی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے ۔اس کے پیرو اس کے بانی کی تعلیم پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اس کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں۔لیکن مسیحی خداوند مسیح پر ایمان رکھتے ہیں۔وہ خدا پر اس لئے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ مسیح کی مانندہے۔ وہ انجیل شریف پر اس لئے ایمان رکھتے ہیں کہ اس میں وہ مکاشفہ ہےموجود ہے۔ جس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ جنابِ مسیح کی ذات کے وسیلے ہم پر ظاہر کیا۔ وہ قیامت پر اس لئے ایمان رکھتے ہیں کہ جنابِ مسیح نے مردوں میں زندہ ہوکر ثابت کردیاکہ’’قیامت اور زندگی میں ہوں(یوحنا۱۱:۵۲ )۔مسیحیت کی بنا وہ رشتہ ہے جو جنابِ مسیح اور آپ کے پیروؤں کے درمیان ہے اور رشتہ لاثانی اور بے نظیر ہے ۔ مہاتما بدھ کی شخصیت کا بدھ مت کے ساتھ مطلق تعلق نہیں۔ چنانچہ اپنی موت سے پہلے اس نے انند کو کہا’’ اے انند جو تعلیم اور قوانین میں تم کو سکھلائے ہیں وہ میری موت کے بعد تمہارے آقا ہوں گے‘‘۔اسی طرح حضرت محمد اسلام نہیں پیغمبر السلام ہے لیکن مسیحیت مسیح ہے اور اس کے بغیر مسیحیت کچھ چیز نہیں۔ رسول ِ عرب کی شخصیت سے ذات اسلام کی تعلیم کا کچھ واسطہ نہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ’’محمد اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں کہ وہ ایک رسول ہے اور بس ۔ اس سے پہلے اور بھی رسول ہو گذر ہیں پس اگر محمد مرجائے یاقتل ہوجائے تو کہا تم اپنے الٹے پیروں کفر کی جانب پھر لوٹ جاؤ گے’’(سورہ آل عمران ۱۳۸) ۔ اس ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیم حضرت محمد کی ذات سے جدا ہے۔ لیکن مسیحیت کی تعلیم منجی عالمین کی ذات بابرکات سے جدا نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ آپ کی ذات آپ کے پیام کا جزو لاینفک ہے اور جز حقیقی ہے۔مسیحیت کا پیغام جنابِ مسیح کی ذات کو نوع انسانی کے سامنے پیش کرتا ہے اور بس’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ابدی زندگی پائے‘‘(یوحنا۱۶:۳)۔ خدا کی محبت اورہمیشہ کی زندگی جنابِ مسیح پر ایمان لانا ہے۔ نجات آپ کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہے ۔ دیگر مذاہب مثلا ً اسلام وغیرہ کا پیغام ان کے خصوصی عقائد پر مشتمل ہے ،لیکن مسیحیت عقائد یا اخلاقی قوانین پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی علت غائی یہی ہے بنی نوع انسان کو جنابِ مسیح کے پاس لائے ۔
کیونکہ انجیل کے’’جلال کی روشنی ‘‘ابن اللہ خود ہے ۔جو’’خدا کی صورت ہے‘‘(۲۔کرنتھیوں۴:۴)۔اور جلال کاپرتواور اس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کاملہ کے کلام سے سنبھالتاہے(عبرانیوں۳:۱) ۔چنانچہ انجیل جلیل میں وارد ہوا کہ کلمتہ اللہ اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے ۔اسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں ۔وہی کلیسیاکاسر ہے۔وہی ابتداسے مردوں میں سے جی اٹھنے والوں میں پہلوٹھاہے۔تاکہ سب باتوں میں اس کا درجہ اول ہو کیونکہ خداکویہ پسند ہے کہ الوہیت کی ساری معموری اس میں سکونت کرے اور اس کے خون کے سبب سے جوصلیب پر بہا،صلح کرکے سب چیزوں کا اسی کے وسیلے سے اپنے ساتھ میل کرے خواہ وہ زمیں کی ہوں خواہ آسمان کی (کلسیوں۱۵:۱۔۲۰؛۲:۲؛رومیوں۲۵:۳؛۲۹:۸؛۳۶:۱۱؛۱۔کرنتھیوں۶:۸؛۲۔کرنتھیوں۱۸:۵؛افسیوں۱۰:۱؛۱۳:۲؛عبرانیوں۲۷:۱۱؛ ۱۔پطرس۲۳:۳؛یوحنا۱۶:۱؛۱:۱۷۔۵؛متی۳۰:۲۵ وغیرہ)۔
جو اقوام یا افراد کسی زمانہ میں بھی جنابِ مسیح کے قدموں میں آگئے ان کے اخلاق خداوند کی روح کے ذریعہ سدھر گئے ۔ آپ نے فرمایا’’راہ حق اور زندگی میں ہو ں‘‘(یوحنا۶:۱۴ )۔کیا کسی دوسرے مذہب کے بانی نے اپنی ذات کو کبھی’’صراط مستقیم ،حق اور زندگی’’قرار دیا ؟وہ رسول عربی کے ہم آواز ہوکر یہی کہتے رہے کہ’’اھدنا الصراط المستقیم’’اے خدا ہم کو سیدھی راہ پر ہدایت کر ۔لیکن خداوند مسیح خودزندہ راہ ہے(عبرانیوں۲۰:۱۰)
جناب ِمسیح کی انجیلی تصویر صحیح اور تواریخی ہے
سطور بالا سے ظاہر ہے کہ مسیحیت اور دیگر مذاہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس کے بانی کی زندگی اس کاجزو لاینفک ہے، لیکن دیگر مذاہب کے بانیوں کی زندگیاں ان مذاہب کے پیغام کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے جدا کی جاسکتی ہیں بالفاظ دیگر اگر ان کی زندگیاں بے لوث نہیں تو ان کے پیغام میں کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا لیکن مسیح کی زندگی اور موت اور ظفر یاب قیامت مسیحیت کاحقیقی جزو ہے۔ مسیحیت مسیح ہے اور اس سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتی اور نہ رکھ سکتی ہے۔ پس لازم ہے کہ کلمتہ اللہ کی زندگی (جو آپ کے اصولوں کی صحیح تفسیر ہے ) نہ صرف بے لوث گناہ سے مبرا اور خطا سے پاک ہو بلکہ روحانیت کے ہر پہلو سے کامل ہو۔ مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا بانی ایک کامل انسان ہے جو کل بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اور اکمل نمونہ ہے ۔ مسیحیت اپنے خداوند کے ہم آواز ہوکر دوہزار سال سے ہر زمانہ ملک اور قوم کو چیلنج کرتی چلی آئی ہے کہ’’تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کرسکتا ہے ؟‘‘(یوحنا۴۶:۸)۔ابن اللہ کی عصمت مسیحی ایمان کے’’کونے کا پتھر’’ہے۔
پس سوال اٹھتا ہے کہ کیا جنابِ مسیح کی تصویر جو ہم کو انجیل جلیل کی کتب میں نظر آتی ہے صحیح ہے ؟ہم اپنے رسالہ’’صحت کتب مقدسہ اور قدامت صحت اناجیل اربعہ کی دو جلدوں ‘‘میں ثابت کرچکے ہیں کہ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ صفحہ ہستی پر کوئی دوسری کتاب انجیل شریف کی صحت کے معیار کو نہیں پہنچ سکتی اور جو کہ انجیل کی کتابیں ہمارے ہاتھوں میں ہیں وہ درحقیقت وہی ہیں جو ان کے مصنفین نے لکھی تھیں۔
مثلاًیونانی رومی دنیاکے مصنفوں کی تصنیفات کی حالت ملاحظہ کرو۔یونان کافلاسفر افلاطون خداوند مسیح سے چارصدیاں پہلے زندہ تھا۔لیکن اس کی مختلف تصنیفات میں سے کسی تصنیف کانسخہ ۸۹۵ء سے زیادہ قدیم نہیں ہے یعنی تمام نسخے اس کی موت کے ایک ہزار دوصد سال بعد کے ہیں ۔یونانی شاعر ہومرکی تصنیفات کے نسخے اس کی وفات کے ایک ہزار ایک سوسال بعد کے ہیں یہی حال دیگر قدیم مصنفین اور مورخین مثلاًہیرودوتس ،درجل میسی بس اور یونانی رومی دنیاکے وہم وگمان میں بھی نہیں آتا کہ ان کی تصنیفات کو جوفی زمانہ مروج ہیں شک کی نظر سے دیکھئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انجیل جلیل کے مصنفوں نے جنابِ مسیح کی زندگی کا نقشہ صحیح طور پر بیان کیا ہے یا کہ نہیں ؟ازروئے منطق یا تو جنابِ مسیح کی انجیلی تصو یر حقیقت پر مبنی ہے یا وہ حوارئین کے تخیل کی شرمندہ احسان ہے اور اس کی وقعت ایک افسانہ سے زیادہ نہیں۔ شقِ اول میں اگر یہ تصویر حقیقت پر مبنی ہے تو وہ ایک کامل انسان کی زندگی کا خاکہ ہے۔ شقِ دوم میں اگر جنابِ مسیح کا احوال جو انجیل میں درج ہے محض ایک خیالی افسانہ ہے تو انجیل نویس اعلیٰ درجہ کی افسانہ نویس ،مصور اور نقاش تھے ۔جن کے قوت متخیلہ کا پرواز وہم وگمان سے بھی دارلوری(گفتگو میں میٹھے سُر) تھا۔ جن لوگوں نے حوارئین کے ماحول کا اور ان کی ذہنیت اور ان کے ذہنی ارتقا کا سطحی مطالعہ بھی کیا ہے وہ دوسری شق کو بے تامل رد کردیں گے ۔حوارئین کی قوت متخیلہ توایک طرف رہی جناب مسیح کے اقوال اور افعال کوسمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے اور وہ بار بار اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں (متی۸:۱۶۔۱۱؛۱۵:۱۵۔۱۶؛ مرقس۱۳:۴؛ یوحنا۱۶:۱۶۔۱۸؛۲۲:۱۸۔۲۳؛۲:۳؛۱۶:۱۲؛ وغیرہ۔ حق تو یہ ہے کہ وہ ایماندار اور دیانتدار مورخوں کی طرح آپ کے اقوال اور افعال کو کماحقہ سمجھنے کے لئےبغیر احاطہ تحریر میں لے آتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انجیل میں ایک ایسی شخصیت کا ذکر ہے جو ہر پہلو سے کامل ہے ۔ انجیل نویس خود گناہ گار تھے اور ان کی قوت ِ متخیلہ ایک کامل شخص کا نقشہ پیش کرنے سے عاجز تھی جس طرح پانی اپنے منبع اور سرچشمہ کی سطح سے اونچا نہیں ہوسکتا ۔ بفرض محال اگر انجیل نویسو ں کی قوت متخیلہ پرواز کرکے ایک کامل انسان کا تصور باندھ سکی تو ایسے انسان کو وہ روز مرہ کی زندگی کے واقعات او راپنے گردو پیش کے ماحول میں رکھ کر اور مختلف قسم کے واقعات اور حوادث میں اس زندگی کو ڈال کر ہر پہلو سے اس کو کامل بنانے میں کس طرح کامیاب ہوگئے او رکامیاب بھی ایسے ہوئےکہ اس تصویر میں دوہزارسال سے کسی شخص کو تصنع(بناوٹ) کے نشان تک نظر نہیں آئے ؟جنابِ مسیح جیسی شخصیت گھڑنے کے لئے شیکسپئر ہے۔پایہ کےڈرامانویس سے بھی اعلیٰ دماغ کی ضرورت ہے ۔ انجیل شریف میں جس سیرت کا خاکہ کھینچا گیا ہے اگر وہ حقیقت پر مبنی نہیں تو اس قسم کی سیرت کا ذہنی اختراع ہونا بجائے خود اس دنیا کا عظیم ترین معجزہ ہوگا اور اناجیل کی مرقع نگاری اعجازی شے ہوگی ۔لیکن انجیل جلیل کا سطحی مطالعہ بھی اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ کلمتہ الله کی انجیلی تصویر ایک عکسی تصویر ہے، جس میں تخیل کی قوت کو رتی بھر دخل نہیں۔ اناجیل اربعہ میں نہایت سادہ اور عام فہم الفاظ اور سلیس عبارت میں جنابِ مسیح کے خیالات وتصورات،احساسات وجذبات اور افعال وکرداروغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے اور انجیل نویس کہیں اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ مبالغہ آمیز الفاظ میں ایک ایسی مصنوعی ہستی کوپیش کریں جو حقیقی اور تواریخی نہ ہو۔ ان کی تحریرات سے عیاں ہے کہ وہ اپنے آقا کی تعلیم اوراپنے مولا کی زندگی کے چند واقعات بیان کرکے اس کی عظیم الشان شخصیت کا خاکہ کھینچتے ہیں (لوقا۱:۱۔۴؛۱۔یوحنا۱:۱۔۴؛ یوحنا ۲۴:۲۱۔۲۵ )۔ انگلستان کا مشہور فلاسفر جان سٹوارٹ مل(مسیحی نہیں تھا) کہتا ہے
’’یہ کہنا خرافات (فضول بکواس) میں شامل ہے کہ جس مسیح کا ذکر اناجیل میں ہے وہ تواریخی شخص نہ تھا۔ ذرا خیال کرو کہ مسیح کے شاگردو ں میں کون اس قابل تھا جو مسیح کے اقوال اختراع کرسکتا یا اسکی طرح کی زندگی اور کیر یکٹر(کردار) کو اپنے دماغ سے پیدا کرسکتا۔یہی فلاسفر ایک اور مقام میں لکھتاہے ’’مسیحیت نے اخلاق کا معیار مسیح کی زندگی کوٹھہرا کر اور ایک قدوس شخص کانمونہ بنی آدم کے سامنے پیش کرکے اس امر کولازم کر دیا ہے کہ تمام دنیاکے انسان (خواہ وہ مسیح پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں )اس کے نمونہ پرچل کر اپنے اخلاق کوسدھاریں مسیحی کلیسیاخداکونہیں بلکہ اس کے مظہرمسیح کوبنی نوع انسانی کے سامنے پیش کرتی بلکہ مسیح کی صورت ،خصائل،عادات واخلاق کونوع انسانی کے سامنے پیش کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگیاہے کہ خواہ ہم خدا کی ہستی کے قائل ہوں یادہریہ ہوں مسیح کانمونہ ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہتا ہے اور یہ بے نظیر نمونہ ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی مانند ہے جومسیح کے بعد پیدا ہوا یامسیح کارسول اور جانشین ہوا تھا۔اس کی بے مثال اور لاثانی زندگی ایسی ہے کہ بنی آدم کو یہ یقین ہی نہیں آتا تھاکہ مسیح کی انجیلی تصویر کوئی تواریخی تصویر ہوسکتی ہے !لیکن کوئی یہ تو بتاے کہ مسیح کے رسولوں اور متبعین یاابتدائی مریدوں میں سے کس شخص میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ ایسی تصویرکوقوت متخیلہ پر زور لگاکر ایجاد کر لیتا یااس کی سی تعلیم کی تلقین کرسکتا یااس کی سی زندگی کانمونہ پیش کرسکتا جواناجیل میں مسیح سے منسوب ہیں ۔کیاگلیل کے مچھوے اس بات کے اہل تھے ؟ کیاپولوس میں یہ اہلیت تھی ؟ پولوس کے خطوط سے ظاہر ہے کہ اس کی سیرت وخصلت مسیح کی سیرت اور خصلت سے مختلف قسم کی تھی ۔ان رسولوں اور مریدوں میں سے ہر شخص یہی اقبال کرتاہے کہ اگر ان میں کوئی نیکی ہے تو مسیح کے طفیل ہے مسیح کی زندگی اور تعلیم اور نمونہ سے اس کی طبع زاد جدت اور بالغ نظری ہر عاقل پر عیاں ہے ۔
ہم جوناصرت کے نبی پر ایمان نہیں رکھتے یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کو بنی نوع انسان میں وہ درجہ دیں جو کسی دوسرے فرزند آدم کو حاصل نہیں ۔جب ہم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ایسی بلند اخلاق اور ارفع زندگی رکھنے والا انسان روئے زمین پر سب سے بڑا اخلاقیات کااستاد ،معلم،مصلح اور شہیدہو گزرا ہے ،توہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ بنی نوع انسان کااعلٰی ترین راہنماہے جس کی قیادت کا ہم کو چار وناچار اقبال کئے بغیر چارہ نہیں رہتا ۔ہم کو (جواس پر ایمان نہیں رکھتے)مسیح سےبہتر نمونہ چاروانگ عالم میں نہیں ملتا۔یہ نمونہ اس شخص کا ہے جس نے خود اپنی اعلی تعلیم پر چل کر اور اس پر عمل کر کے بنی نوع انسان کو زبردست اور بے نظیر نمونہ دیا ہے ۔حق تو یہ ہے کہ اس کانمونہ ہم کو اس بات پر چاروناچار مجبور کر دیتاہے کہ ہم ایسی زندگی بسر کریں جومسیح کی نظروں میں مقبول ہو‘‘
فرانس کے نامور عقل پرست غیر مسیحی مصنف روسو (Rousseau)نے درست کہا ہے کہ
’’اگر مسیح کی انجیلی تصویر حقیقت پر مبنی نہیں تو اس تصویر کا مصور مسیح سے بھی بڑی اور زیادہ حیرت انگیز شخصیت ہے‘‘۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح کی زندگی کا جو خاکہ اناجیل اربعہ میں موجود ہے وہ ایسا اعلیٰ اور ارفع ہے جو انسانی تخیل اور انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا ۔ یہی اٹھارھویں صدی کانامور مصنف ایک اور جگہ ملتاہے ’’سقراط کی زندگی اور موت ایک اچھے فلاسفر کی زندگی اور موت تھی، لیکن مسیح کی زندگی اور موت خداکی شان کے شایاں تھی ۔جب کبھی میں کسی سے یہ سنتا ہوں کہ اس کو انجیل کی صحت پر شک ہے تو میں اس شخص کی عقل پر حیران رہ جاتا ہوں ۔اگر مسیح کی انجیلی تصویر کسی انسانی دماغ کی اختراع ہوتی تو وہ اناجیل اربعہ کی تصویرسے کلیتہً مختلف ہوتی ۔مجھے اس بات پر تعجب آتاہے کہ کوئی شخص بھی سقراط کی زندگی اور تعلیم سے شک نہیں کرتاحالانکہ اس کی زندگی کی خارجی شہادت اناجیل اربعہ کی خارجی شہادت کی طرح زبردست شہادت نہیں ہے ۔یہ ناممکن امر ہے کہ چار مختلف مصنفوں نے مختلف مقامات واوقات میں اس قسم کی زندگی کامحض قیاس وتخیل کی بناپر خاکہ کھینچاہو ۔یہودی مصنفین کی طرزتحریر اناجیل کی سی نہ تھی اور نہ ان کے اخلاق انجیلی پایہ کے بلند اور افضل اخلاق تھے۔انجیل کاسطحی مطالعہ بھی یہ صاف ظاہر کردیتاہے کہ مسیح ایک حقیقی زندہ انسان تھا۔جس کی چلتی پھرتی جیتی جاگتی بولتی تصویر چاروں انجیلوں میں پائی جاتی ہے ۔اگر یہ انجیلی بیانات کسی انسان کوقوت متخیلہ کے مرہون منت ہوتے تو ایسا انسان مسیح سے بھی زیادہ عظیم ہستی ہوتا۔
اناجیل ِ موضوعہ ہم پر ظاہر کردیتے ہیں کہ اناجیل اربعہ کے لکھنے والے اپنے دماغ سے کام لیتے تو کس قسم کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتے اور انسانی تخیل کا رحجان کس طرف ہوتا۔ ان موضوعہ اناجیل میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ جنابِ مسیح کی نسبت ایسی کہانیاں بیان کی جائیں جو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے دلچسپی کا موجب ہوسکتی تھیں۔ لیکن وہ پشت گذر گئی اور اس پشت کے ساتھ ہی وہ مذاق بھی جاتا رہا اور اب جو شخص بھی ان قصےکہانیوں کو پڑھتا ہے ،وہ طفلانہ باتیں سمجھ کر ان کو چھوڑ دیتا ہے ۔مثلاً ان میں لکھاہے کہ ایک گائے اور گدھی نے جونہی خداوند مسیح کو دیکھاانہوں نے آپ کوسجدہ کیا۔شیر اور چیتے تک آپ کوحضور سر نگوں ہو کر سجدہ کرتے تھے ۔جب آپ کے والدین آپ کومصر لے گئے تو آپ طفل ہی تھے ،لیکن جس طرف بھی آپ چلتے وہاں آپ کے قدموں کے نیچے گلاب ہی گلاب پیداہو جاتے ۔مصر کےبُت آپ کو دیکھ کر دھڑام سے گر پڑتے۔ جب آپ واپس ناصرت آئے تو ایک دفعہ آپ گلی میں جا رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکابھاگتا بھاگتا آپ سے ٹکراگیا۔آپ نے اس کے حق میں بد دعا کی تو وہ وہیں مر گیا۔آپ نے مٹی سے ایک درجن پرندے خلق کئے جوآسمان کی جانب اڑگئے ۔ایک استاد کی جو شامت آئی تو اس نے آپ کوبر ا بھلاکہا اس کی سزا وہیں اس کومل گئی او ر ملک الموت نے اس کو آدبوچا۔گاوں گاوں آپ کی اعجازی قدرت سے خائف و لرزاں تھے ۔آپ نے ایک مردے کوزندہ کیا۔زندہ ہوتے ہی اس کا قد اتنابڑا ہوگیا کہ اس کا سر بادلوں کے ساتھ جا ٹکرایا وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے قصے تیسری اور چوتھی صدی کے ہیں جب اناجیل موضوعہ لکھی گئی تھیں ۔ ان کہانیوں میں سے چند ایک نے قرآن میں بھی دخل حاصل کرلیا ہوا ہے مثلا ً جنابِ مسیح کا مٹی کے پرندوں کا بنا کر ان کو اڑانا وغیرہ۔ یہ افسانے اساطیر الاولین ہیں اور اسی قسم کے ہیں جو دیگر اقوام کے مذاہب میں بھی ملتے ہیں ۔ چنانچہ مختلف صدیوں میں محتلف اقوام نے کوشش کی ہے کہ اپنے مذاہب کے بانیوں کی ایسی دلکش تصویر پیش کریں جو لوگوں کے لئے دلچسپی کا موجب ہوجائے مثلا ً پرانوں میں کرشن کے قصص وغیرہ لیکن جو تصویر ایک قوم یا ملک یا پشت کے لئے دلآویز ہوتی ہے وہ آنے والی پشتوں اور دیگر ممالک وازمنہ اوراقوام کی نظر میں معیوب ہوجاتی ہے ،لیکن کلمتہ اللہ کی زندگی کا جو خاکہ اناجیل اربعہ میں موجود ہے وہ ایسا قدرتی اور نیچرل ہے کہ اس کے اصلی ہونے میں کسی صاحب عقل کو شک نہیں ہوسکتا۔ جرمن نقاد ڈاکٹر آٹو بورفرٹ (Borchert)نے اپنی کتاب (The Original Jesus)اور فرنچ عالم ڈاکٹر گوگل (Goguel)نے اپنی کتاب (Jesus The Nazarene Myth or History) میں اس موضوع پر فاضلانہ بحث کی ہے کہ
’’ اب تمام مسیحی اور غیر مسیحی علما ئےمغرب اور نقاد اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کلمتہ اللہ کی انجیلی تصویر حقیقت پر مبنی ہے ‘‘۔
چنانچہ سٹراس (Strauss)جو راس الملاحدہ(بے دین لوگوں کی میراث) تھا یہ اقبال کرتا ہے کہ
’’مسیح کی ہستی قوت ِ متخیلہ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی انجیلی تصویر گوشت پوست رکھتی ہے اور ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ وہ مذہب کا اعلی ٰ ترین معلم اور افضل ترین نمونہ ہے ۔ اگر مذہب کوئی حقیقت رکھتا ہے تو حلقہ مذہب میں مسیح سے بڑھ کر کسی ہستی کا تصور نا ممکنا ت میں سے ہے ۔ عالم مذاہب میں کمالات کی جس طرح بلند منزل پر مسیح پہنچا ہے وہاں تک کسی فرد بشر کی رسائی نا ممکن ہے ۔‘‘
ابن اللہ کی تصویر خود اپنی بہترین اور صادق ترین گواہ ہے اور آپ کی زندگی کا جلال اپنی صداقت کی خود ہی گارنٹی ہے ۔
تجلی ہاست حق را درنقاب ِ ذات انسانی
شہود ِ غیب اگر خواہی وجوب این جاست امکانی
انسان ِکامل کا تصور
مختلف ممالک واقوام کے فلاسفروں اور ہادیوں نے انسان ِ کامل کے تصور پر بحث کی ہے۔ مثلاً ارسطو کہتا ہے کہ
’’ کامل انسان وہ ہے جو افراط اور تفریط(کوتاہی،کسی چیز میں کمی) سے پر ہیز کرے اور اعتدال اور میانہ روی پر اپنی روش کو قائم رکھے‘‘۔
ستویقی فلاسفر کہتے ہیں کہ
’’ کامل انسان وہ ہے جو اپنے اوپر ضبط رکھے‘‘ ۔
چین کا کنفوشیس اس مضمون پر بحث کے دوران میں کہتا ہے کہ
’’کامل انسان وہ ہے جو خاندانی تعلقات میں پاکیزگی کو اختیار کرے ‘‘۔
ہندو مذہب کے مطابق’’ کامل انسان وہ ہے جو دنیا سے الگ تھلگ رہ کر خدا کا نام جپتا رہے اور بھگتی میں مشغول رہے ‘‘۔ لیکن امتداد ِ زمانہ(طویل مدت) نے ان تصورات کو غیر مکمل ثابت کردیا ہے ۔ ہر شخص یہ بات قبول کرنے کو تیار ہوگا کہ ارسطو کا معیار محض ایک مجرد تصور ہے لہٰذا وہ ناکام ثابت ہوا ہے ۔ ستویقی فلاسفہ کا خیال جو انہوں نے انسان ِ کامل کی نسبت پیش کیا ناقص ثابت ہوا ۔کیونکہ انسانی جذبات اور احساسات کو دبانا ایسا ہی ہے جس طرح ایک چشمہ جس کے پانی سے انسان اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں دبا دیا جائے ۔ کنفو شیس کا تصور ایک گھریلو تصور ہے جو قدیم زمانہ کے لئے موزوں تھا ۔جب حالات ِ زندگی سادہ تھے اور دورہ حاضرہ کی زندگی کے پیچیدہ تعلقات معرض وجود میں نہ آئے تھے ۔ پس دورہ حاضرہ کی زندگی پر قدیم چین کے معیار ِ زندگی کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔ ہندو مذہب کا تصور غلط ثابت ہوا ہے اور کلمتہ اللہ کی تعلیم وزندگی کے نمونہ نے تقدس کے معیار کو بدل دیا ہے ۔ اب وہ شخص مقدس شمار نہیں کئے جاتےجو پہاڑوں کی غاروں میں الگ تھلگ زندگی بسر کریں۔ بلکہ وہ ہستیاں مقدس شمار کی جاتی ہیں جو اس دنیا میں رہ کر خلق خدا کی خدمت کرنا سعادت ِ دارین کا موجب خیال کرتی ہیں۔
اسلامی فلسفہ اور انسان ِ کامل کا تصور
جب ہم اسلامی کتب ِ فلسفہ پر نظر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں فلاسفہ نے انسان کامل کے لئے چند شرائط مقرر کئے ہیں۔ چنانچہ مولانا جامی علیہ الرحمتہ فصوص الحکم کی شرح میں فرماتے ہیں کہ’’شیخ الکبیر کتاب الفلوک میں لکھتے ہیں کہ
’’حقیقی انسان کامل وہ ہے جو وجوب (ضروری ہونا) اور امکان میں بزرخ ہو اور صفات ِ قدیمہ اور حادثہ کا آئینہ ہو یہی حق اور خلق کے درمیان واسطہ ہے ۔اسی لئے اور اسی کے آئینہ سے خدا کا فیض تمام مخلوقات پر علوی(اعلٰی درجہ کا) ہو یا سفلی(پستی کا) پہنچتا ہے اور یہی جز ذات حق کے تمام مخلوقات کی بقا کا سبب ہے اگر یہ برزخ جو وجوب اور امکان کا مغایر(ناموافق) نہیں ہے نہ ہوتا تود نیا کی مدد حاصل نہ ہوتی بہ سبب نہ ہونے مناسبت اور ارتباط (آشنائی)کے ‘‘۔
پھر صوفی عبدالکریم جیلانی اپنی کتاب الاانسان الکامل کے حصہ دوئم میں یوں لکھتے ہیں
’’جاننا چاہیے کہ انسان کامل وہ ہے جو اسماء ذاتیہ اور صفات الہیٰہ کا اصلی اور ملک (قبضہ)کے طور پر مقتضائے ذاتی(حقیقی وجہ) کے حکم سے مستحق ہو ۔کیونکہ وہ ان عبارات کے ساتھ اپنی حقیقت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان اشارات کے ساتھ اپنے لطیفہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس کے وجود میں سوائے انسان کامل کے کوئی مستند(سہاراٹیکنے کی جگہ) نہیں۔ پس اس کی مثال حق کے لئے ایسی ہی جیسے ایک آئینہ کہ اس میں کوئی شخص اپنی صورت بغیر اس آئینہ کے نہیں دیکھ سکتا اور نہ بغیر اللہ کے اسم کے اپنے نفس کی صورت دیکھنا اس کو غیر ممکن ہے پس وہ اس کاآئینہ ہے اور انسان کامل بھی حق کا آئینہ (مظہر )ہے کیونکہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ امر واجب کرلیا ہے کہ اپنے اسما وصفات کو بغیر انسان کامل کے نہیں دکھاتا‘‘۔
پس برزخ کبریٰ اور انسان ِ کامل اور مظہر جامع صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو کہ کامل خدا اور کامل انسان ہو صفات ِ قدیمہ الہٰیہ اور صفات ِ ممکنہ انسانیہ کے ساتھ متصف(موصوف :جس کے ساتھ کوئی صفت لگی ہو) ہو۔ کیا اہلِ اسلام آنحضرت میں ان صفات کا وجود مانتے ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ نبی اسلام کو مظہر ذات خدا قرار دینا اصول ِ اسلام کو بدلنا ہے۔ لیکن ربنا المسیح ان تمام اوصاف سے متصف ہیں اور وہ آپ میں انسب او راکمل طور پر موجود ہیں (یوحنا۳۰:۱۰؛۱۱:۱۷۔۲۲؛۱۴:۱؛۱۱:۱۴ ؛۱:۱؛کلسیوں۱۵:۱؛۹:۲وغیرہ وغیرہ)۔
ہم اہل اسلام کی توجہ شیخ الاکبر امام محی الدین ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم بالخصوص فص عیسوی اور باب انجیل اور مولوی انور علی صاحب پانی پتی کی کتاب شرح سائیں بلھے شاہ اور سید عبدالکریم جیلانی کی کتاب انسان کامل کی طرف مبذول کرتے ہیں تاکہ آپ دیکھیں کہ حقیقت عیسوی کے متعلق ان مسلمان فلاسفہ اور صوفیاء نے کیا فرمایا ہے ۔ حقیقت عیسوی ایک ایسی حقیقت ہے جس کہ کنہ تک پہنچنے میں عقل ِ انسانی ورطہ حیرت میں پڑی رہی ہے بقول امام محی الدین ابن العرب’’عیسی پر نظر کرنے والے کے نزدیک اسی گمان کے موافق ہوں گے جو اس کے ذہن میں غالب ہے‘‘۔چنانچہ’’جب عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ عیسٰی بشر ہیں اور بشر نہیں ہیں اور ہر عاقل کو ان کی طرف نظر کرنے میں حیرت واقع ہوتی تھی جس وقت ناظر دیکھتا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ حالانکہ مردوں کو زندہ کرنا خصوصیت الہیٰہ میں سے ہے ۔کیونکہ آپ مردوں کو اس طرح زندہ نہیں کرتے تھے کہ صرف حیوان متحرک ہوں بلکہ مردے زندہ ہوکر کلام بھی کرتے تھے ۔ پس ناظر اس معاملہ میں حیران رہ جاتا ہے ۔کیونکہ وہ صورت بشری کو اثر الہٰی کے ساتھ ملبس دیکھتا ہے ۔ پس بعض اہل عقل کی نظر فکر ی نے ان کو عیسیٰ کے حق میں کچھ سمجھایا اور وہ حق تعالیٰ کے آپ میں حلول ہونے کے قائل ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ عیسیٰ خود ہی اللہ تعالیٰ ہیں‘‘۔
پس مسیحیوں نے فرداً فرداً اور کونسلوں کے ذریعہ اور مسلمانوں نے قرآن وفلسفہ کے ذریعہ حقیقت ِ عیسوی کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن
کسی کی چلتی نہیں یہاں کچھ
پکارتے سب ہیں ماعر فناوہ
فخر رازی ہوں یا فلاطوں ،جلال رومی ہوں یاغزالی۔آخر سب نے یک زبان ہو کر یہی اقرار کیا کہ
ماعر فناک حق معرفتک
کلمتہ الله کامل انسا ن ہیں
(۱)
اگرچہ کامل انسان ہونے کے لئے معصوم ہونا ایک لازمی اور ضروری شرط ہے تاہم ’’عصمت‘‘ کمالیت کے مفہوم کو کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔’’ عصمت ‘‘یا بے گناہی محض ایک منفی صفت ہے۔ لیکن کامل انسان نہ صرف بے گناہ ہوتاہے بلکہ وہ کامل طور پر راستباز ہوتا ہے (فلیپوں۱۳:۳ )۔ مسیحیت کے نزدیک کامل انسان کا معیار نہایت بلند ہے ۔ ہم کو نہ صرف یہ حکم ہے کہ’’تم پاک ہو اس لئے کہ خدا ئے قدوس پاک ہے’’(۱۔پطرس۱۵:۱ ) بلکہ کلمتہ اللہ نے فرمایا ہے’’تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے ‘‘(متی ۴۸:۵) ۔خدا محبت ہے پس کامل طور پر راستباز وہ شخص ہے جو’’ خدا وند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھے‘‘ اورکل بنی نوع انسان سے’’اپنے برابر محبت رکھے (متی۳۷:۲۲) کامل انسان محبت مجسم ہوتا ہے (متی ۴۵:۵) ۔ اس کی زندگی محبت کے افعال پر مشتمل اور محبت کے جذبات اور خیالات میں سر شار ہوتی ہے ۔ کامل زندگی محبت اور اس کے ظہور یعنی ایثار کی زندگی ہے (متی۲۱:۱۹ ) کامل انسان فنافی الله اور فنافی الانسان ہوتا ہے جو شخص ایسی زندگی بسر کرتا ہے وہ اس دنیا کو فردوس بنادیتا ہے اورا یسے شخص کے وجودکے طفیل خدا کی مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہوتی ہے ۔
یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ جنابِ مسیح اس دنیا میں پہلے اور اکیلے معلم ہیں۔ جنہوں نے دنیا کو یہ تعلیم دی کہ خدا محبت ہے اور یہ بتایا کہ محبت مذہب کا اصل الاصول ہے ۔آپ نے یہ سکھایا کہ محبت اصول ایک واحد کلید ہے ،جس سے ہم (۱)خدا کی ذات اور(۲) خدا اور انسان کے باہمی تعلقات اور(۳) انسان اور انسان کے باہمی تعلقات کے تمام پیچیدہ اور مشکل مسائل اور سوالات کو حل کرسکتے ہیں(مرقس۲۸:۱۲)۔ آپ نے نہ صرف یہ تعلیم دی بلکہ اپنی زندگی سے اس نصب العین کو ظاہر کردیا۔ آپ کی بے مثال شخصیت نے اس اصول کو بنی نوع انسان کے دلوں پر بٹھادیا ۔ آپ کی زندگی محض اعلیٰ ترین اصولوں کی تلقین کرنے پر ہی مشتمل نہ تھی بلکہ آپ نے اس تعلیم پر عمل پیراہوکر دنیاجہان کے انسانوں کو ایک کامل نمونہ دیا ہے۔کلمتہ الله کے تمام تعلقات کامل تھے ،جو آپ خدا کے ساتھ ،اپنے جسم وروح کے ساتھ ۔اپنے ہم جنسوں کے ساتھ اور موجودات کی دیگر اشیاء کے ساتھ رکھتے تھے ۔ چونکہ آپ کا ایمان کامل تھا (عبرانیوں۱۰:۲؛۲۸:۷)اور آ پ کامل طور پر خدا باپ کے فرمانبردار (عبرانیوں۸:۵۔۱۰)اور رضائے الہٰی کے جویاں تھے (یوحنا۳۴:۴؛۳:۵)لہٰذا آپ کے تعلقات جو خدا کے ساتھ تھے کامل تھے(یوحنا۲۱،۵،۲،۱:۱۷)۔ آپ کے ان تعلقات سے جو آپ دیگر انسانوں کے ساتھ رکھتے تھے محبت کا ظہور دکھائی دیتا ہے ۔ آپ نے اپنے ماحول کو اپنی شخصیت کے اظہار کے لئے اس طور پر استعمال کیا ،کہ آپ کی شخصیت جامع شخصیت ہوگئی جو ہر دنیا کے فرد بشر کے لئے ایک کامل نمونہ ہے ابن اللہ کی تعلیم اور زندگی نے ایک ایسا معیار قائم کردیا ہے جو دوہزار سال سے ہر زمانہ ،قوم ملت او رملک کی مطمع نظر(اصلی مقصد) اور نصب العین رہا ہے ۔ دورہ حاضرہ میں تم کو اس دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو یہ چاہتا ہو کہ ابن الله کا مطمع نظر دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائے ۔ اگر اس کو کوئی شکایت ہوگی تو یہ ہوگی کہ دنیا کے اشخاص کماحقہ ا س کامل انسان کی پیروی نہیں کرتے ۔اپنے
(۲)
کامل انسان کی سیرت کے مختلف پہلو ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کامل انسان کے خیالات ،تصورات ،جذبات اقوال افعال وغیرہ، غرضیکہ اس کی زندگی کے جتنے مختلف پہلو ہیں۔ وہ تمام کے تمام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں باہم اختلاف اور تضاد نہیں ہوتا ۔ ہم کو اس تعلیم کے اصول اس کی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتے ہیں اور اس کی زندگی کا ہر پہلو اس کے اصول کی اعلیٰ ترین مثال دکھائی دیتی ہے ۔ جو انسان کامل نہیں ہوتا اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے ۔ اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہیں ہوتی۔ وہ عالم اور بے عمل ہوتا ہے۔اس کے تصورات وخیالات، جذبات اور اقوال وافعال میں تفاوت (دوری)پائی جاتی ہے۔اگر ایک پہلو سے وہ قابل ِ تقلید ہے تو دوسرے پہلو سے وہ قابل ِ نفرین ہوتا ہے ۔ ایسے شخص کی نسبت ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہر پہلو سے راستباز ہے ۔ مثلا ً اگر وہ کامل طور پر دیانتدار اور امین ہے ،تو ہم یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ عورتوں کے معاملہ میں بھی پاکیزہ ہوگا۔ یا وہ طاقت کا بیجا مظاہرہ نہیں کرے گا ۔ ایساشخص کامل نمونہ نہیں ہوسکتا ۔ بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ نہ صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اختلاف ،تفاوت اور تضاد نہ ہو اور جس کی زندگی کے سب پہلو کامل ہوں۔
کلمتہ اللہ کی زندگی کا مطالعہ ہم پر یہ ثابت کردیتا ہے کہ آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کسی قسم کی تفاوت نہیں تھی۔ آپ کے تصورات جذبات اقوال اور افعال میں باہم مطابقت پائی جاتی ہے۔ آپ کی زندگی آپ کے اصولوں کی زندہ مثال ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جیسا ہم تعریف ذکر کر آئے ہیں کہ مسیحیت مسیح ہے اور مسیح مسیحیت ہے ۔ کلمتہ اللہ کی تعلیم آپ کی زندہ شخصیت سے جدا نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کامل مطابقت کی وجہ سے فی الحقیقت دو نہیں بلکہ ایک ہیں۔ چونکہ آپ کے خیالات اور جذبات ،اقوال اور افعال میں کسی طرح کا بھی تضاد نہیں ،لہٰذا ہم آپ کی نسبت یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ جیسے انسان سے فلاں فلاں حالات کے اندر فلاں فلاں قسم کے خیالات جذبات یا افعال صاد ر ہوں گے اور انجیل شریف کا مطالعہ ہمارے قیاس کی تصدیق کردیتا ہے اور اس بات پر مہر کردیتا ہے ،کہ آپ فی الحقیقت ایک کامل انسان ہیں۔ روئے زمین کی کسی دوسری ہستی کی نسبت ہم کامل وثوق کے ساتھ یہ قیاس نہیں کرسکتے کہ فلاں فلاں حالات کے اندر اس سے فلاں فلاں قسم کے جذبات ،خیالات اور افعال صادر ہوں گے کیونکہ گو اس کی زندگی کا ایک پہلو تعریف اور تحسین کے لائق ہوتا ہے، لیکن اس کادوسرا پہلو مذمت کے قابل ہوتا ہے ۔ لیکن کلمتہ اللہ کی زندگی کو بیس صدیوں سے ہر قوم ،ملک اور زمانہ نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھ کر کامل پایا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک واقوام نے آپ کی پاکیزہ زندگی کو اپنا معیار بنایا ہے اوراپنی قومی ،ملی اور انفرادی زندگی کی اصلاح اس معیار کے مطابق کی ہے۔
ہر قوم وملک کی آنے والی پشت نے صدیوں سے آپ کی زندگی کو اپنے خصوصی زاویہ نگاہ سے دیکھا لیکن آپ کی زندگی ہر پہلو سے کامل نکلی۔ چنانچہ تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے خصوصی مسائل آپ کی زندگی کی روشنی میں حل ہوگئے ۔ آپ کے ارفع اصول اورکامل نمونہ کی روشنی میں ہر زمانہ ملک اور قوم کا انسان خیال کرسکتا ہے کہ اگر ابن اللہ میری جگہ ہو تے تو اندریں حالات وہ کیا خیال کرتے یا کیا فرماتے یا کرتے؟ چونکہ جناب ِ مسیح کی تعلیم جامع اورمانع ہے اور آپ کا نمونہ عالم گیر ہے لہٰذا ان کا اطلاق ہر زمانہ کے افراد کی زندگی اور ہرقوم وملک کی تاریخ اور ہر شخص پر آپ کا نمونہ عالم گیر ہے۔لہٰذا ان کا اطلاق ہر زمانہ کے افراد پر ہو سکتا ہے ۔دنیا کے ہر انسان کے لئے آپ کی ارفع تعلیم اور کامل نمونہ معیار کا نام ہے۔
مثلا ًاگر کسی شخص کا کوئی جانی دشمن ہو اور وہ یہ جاننا چاہتا ہو کہ میں اپنے خون کے پیاسے کے ساتھ کیا سلوک کرو تو وہ یہ خیال کرسکتا ہے کہ اگر ابن اللہ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ اگر وہ میری جگہ ہوتے تو میرے جانی دشمن سے اس طریقہ سے پیار کرتے کہ اس کی بدی محبت کے ذریعہ مغلوب ہوجاتی(متی ۴۴:۵؛لوقا۳۴:۲۳)۔پس مجھ پر فرض ہے کہ میں بھی ایسا طریقہ اختیار کروں جس سے میرا دشمن محبت کے ذریعہ پیار کرنے والا شخص بن جائے ۔
(۳)
کامل نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کامل انسان ہر زمانہ ،ملک اور قوم کے ہر فرد بشر کی زندگی کی ہر ادنی ٰ تفصیل میں سے خود گزر چکا ہو۔ کوئی انسان زمان ومکان کی قیود سے آزاد نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ یہ ایک نا ممکن امر ہے ۔ پس وہ ان قیود کے اندر ہی ایک کامل زندگی بسر کرسکتا ہے ۔ لیکن ہمارے بعض مسلمان بھائی اسی قسم کی اہم غلطی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً آنجہانی خواجہ کمال الدین قادیانی کلمتہ اللہ کے مجرد رہنے کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ مسیحیت میں’’زن ومرد کے متعلق کم وبیش تعلیمات تو ہیں لیکن اس کے بانی کی زندگی ہمارے لئے اس معاملہ میں راہ ہدایت نہیں ہوسکتی‘‘ (ینابیع المسیحیت صفحہ ۱۶۰)۔جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ حضرت کلمتہ اللہ اپنی تمام عمر مجرد رہے ،لہٰذا آپ کی زندگی ایک شادی شدہ شخص کے لئے نمونہ نہیں ہوسکتی ۔ ہم اپنی کتاب(’’دین ِ فطرت اسلام یا مسیحیت‘‘ کی فصل سوم صفحہ۴۹ )پر وجہ بتا چکے ہیں کہ کلمتہ الله نے تجرد کیوں اختیار کیا اور کہ آپ نے تجرد اختیار کرکے محبت، ایثارو نفسی اور خود فراموشی کا اعلیٰ ترین نمونہ بنی نوع انسان کو دیا۔
سطور بالا میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ کامل نمونہ ہونے کے لئے صرف یہ ضروری ہے کہ کامل انسان اعلیٰ ترین روحانی اصول پر اپنی زندگی کی ہر حالت اور ہر ماحول میں کاربند رہا ہو اور اس کی زندگی کے مختلف پہلو ایک دوسرے کے متضاد نہ ہوں۔ جیسا ہم کہہ چکے ہیں یہ امر نا ممکنات میں سے ہے کہ ایک واحد شخص مختلف ممالک وازمنہ اور اقوام اور مختلف خیالات اور طبائع (طبیعت کی جمع) کے لوگوں کے لئے ان کی زندگی کی ہر ادنی ٰ تفصیل کے لئے اپنی فانی زندگی کے مسودےچند سالوں کے اندر آنے والی نسلوں کے ہر فرد کے واقعات زندگی میں نمونہ ہوسکے۔مثلاً بفرض محال اگر ہم اس غیر ممکن معیار اور مفہوم کو تسلیم کرلیں پھر بھی رسول عربی اس مفروضہ معیار پر پورے نہیں اتر سکتے ۔ مثلا ً متاہل(سوچنے والا) زندگی کے لئے بھی آپ نمونہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام قیود سے آزاد کردیا تھا، جو عورتوں کے حقوق ،تعداد اور مساوات کے متعلق تھیں( سورہ احزاب ۴۹۔۵۱وغیرہ) پھر چونکہ آپ شادی شدہ شخص تھے آپ مجرد اشخاص کے لئے نمونہ نہیں ہوسکتے ۔ چونکہ آپ بچپن ہی سے یتیم ہوگئے تھے اور والدین کا سایہ سر پر سے اٹھ گیا تھا اور والدین کی خدمت کا موقعہ کا آپ کو نہیں ملا تھا۔ لہٰذا دنیا کے انسانوں کے لئے جن کے سر پر بچپن میں ہی والدین کا سایہ نہیں اٹھا والدین کے اطاعت کا نمونہ نہیں ہوسکتے ۔ علیٰ ہذا القیاس چونکہ آپ کا کوئی بیٹا نہیں تھا لہٰذا کسی والد کے لئے اس کے بیٹے کے معاملہ میں نمونہ نہیں ہوسکتے وغیرہ وغیرہ۔ اس ایک مثال سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ معترضین کے ذہن میں کامل نمونہ کا جو مفہوم ہے وہ سراسر غلط ہے کامل نمونہ کا صرف وہی مفہوم درست ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ ِ کعناں کا
بعض اشخاص کا مل نمونہ کے امکان کا انکار کرکے کہتے ہیں کہ کوئی انسان مکان وزمان کی قیود میں خدا کو کامل طور پر ظاہر نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خدا ایک لامحدود ہستی ہے لیکن انسان ایک محدود ہستی ہے جو محدود زمانہ میں ایک مدت تک اپنی زندگی گزارتا ہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اعتراض کی بنا غلط ہے ۔ جب ہم لفظ’’لامحدود’’اطلاق خدا کی ذات پر کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں لیتے کہ خدا ایک ایسی ہستی ہے جو زمان ومکان میں نہیں آسکتا ۔ اگر لا محدود سے یہ مراد ہوسکتی تب اعتراض صحیح ہوسکتا کہ کسی شئے کا کوئی جز کامل طور پر کل کو ظاہر نہیں کرسکتا۔ لیکن خدا روح ہےاور زمان و مکان اور مادہ کی تمام قیود سے بلند وبالا ہے (یوحنا۲۳:۴۔۲۴) ۔پس خدا کی ذات میں جزاور کل کا سوال ہی پیدا نہیں نہیں ہوتا ۔خدا کی لا محدودیت کا وہ مطلب ہی نہیں جو معترض کے خیال میں ہے چونکہ خداروح ہےاور روح ان معنوں میں لامحدود کہتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گووہ مکان وزمان کی قیود سے بلند وبالاہے تاہم کی صفات یعنی محبت ،پاکیزگی ،رحم وغیرہ زمان ومکان کی قیود اور حدودمیں ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اور رضائے الہٰی پر کامل طور پر چلنے والا انسان ان صفات الہٰی کو کامل طور پر اپنی محدود زندگی کے دائرے کے ذریعہ ظاہر کرسکتا ہے ۔ اور مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ کلمتہ اللہ نے کماحقہ طور پر ذات الہٰی کو فی الحقیقت اپنی ذات کے ذریعہ دنیا جہان پر ظاہر کردیا اور آپ نے فرمایا’’جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ(یعنی پروردگار ) کو دیکھا ‘‘(یوحنا۹:۱۴ )۔
عصمتِ مسیح کا مفہوم
(۱)
اس بات میں کسی صحیح العقل شخص کو کلام نہیں کہ منجی عالمین کی آمد نے دنیا کی کایا کو پلٹ دیا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر علت کا معلول ہوتا ہے اورجتنا عظیم واقعہ ہو اتنا ہی بڑا اور عالی قدر اس واقعہ کا سبب ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ واقعہ تو عظیم الشان ہو، لیکن اس کا سبب نہایت خفیف ہو۔ پس اگر دنیا کی کایاپلٹ گئی ہے تو ظاہر ہے کہ جس چیز نے دنیا کی کایا پلٹ دی ہے وہ شخصیت خود نہایت عظیم القدر اور بے نظیر ہوگی۔جاہل سے جاہل شخص بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ جنابِ مسیح کی آمد نے دنیا کی تاریخ کو دو حصوں میں بانٹ دیاہے ۔یعنی دنیاکا وہ زمانہ جو قبل از مسیح گزرا اور دوسرا وہ زمانہ جو آپ کی بعثت (رسالت)کے بعد آیا۔ ہرشخص جو دنیا کی اخلاقیات سے واقف ہے جانتا ہے کہ کلمتہ اللہ کی شخصیت نے اخلاقیات میں ایک ایسی عظیم اور زبردست تبدیلی پید ا کردی ہے جس کی نظیر روئے زمین کی کسی اور شخصیت میں نہیں ملتی اور جس کی وجہ سے دنیا کی تاریخ دو حصوں میں بٹ گئی ۔ آپ کی تعلیم اور آپ کی زندگی سے نمونہ نے دنیا کے پہلے دور کو ختم کردیا اور دوسرا دور آپ کے اصول آپ کی زندگی کے روح رواں تھے اور ان دونوں میں کوئی خلیج حائل نہ تھی۔ آپ کی زندگی آپ کے اصولوں کی زندہ مثال ہے (یوحنا۳۶:۵؛۳۷:۱۰)۔پس دنیائے اخلاقیات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے، کہ جس طرح آپ کی تعلیم بے نظیر ہے اسی طرح آپ کی شخصیت بے گناہ معصوم لاثانی اور یکتا ہے ۔
(۲)
جب ہم زبردست اس شخصیت پر نظر کرتے ہیں کہ جس کا خاکہ اناجیل ِ اربعہ میں پایا جاتا ہے تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ آنخدواند ایک معصوم اور بے گناہ ہستی تھے۔ عصمت ِ مسیح سے ہماری مراد یہ ہے کہ منجی عالمین’’ساری باتوں میں ہماری طرح آزمائے گئے تاہم بے گناہ رہے‘‘(عبرانیوں ۱۵:۴ ) آپ کی ذات’’پاک‘‘ تھی اور آپ تمام عمر’’بے ریا اور بے داغ’’ رہے ۔ آپ گناہ گار وں کے رفیق تھے ،لیکن ان کے ساتھ رفاقت رکھنے کے باوجود آپ ایسی پاکیزہ زندگی بسر کرتے تھے جو’’گناہ گاروں سے جدا‘‘ تھی (عبرانیوں ۲۶:۷ )۔ابن اللہ’’گناہ سے واقف‘‘ نہ تھے (۲۔کرنتھیوں ۲۱:۵)۔آپ کی’’ذات میں گناہ نہیں تھا (۱۔یوحنا۵:۳ )۔آ پ نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا‘‘(۱۔پطرس۲۲:۲)۔اس حقیقت کاآپ کے دشمنوں اور جان لیواوں تک کواعتراف تھا(لوقا۴:۲۳)۔
(۳)
اگر چہ آ پ مریم بتول کے بطن اطہر سے پیدا ہوئے ،لیکن آپ کی معجزانہ پیدائش آپ کی عصمت اور بے گناہی کا باعث نہ تھی۔بلکہ آپ فاعل خود مختار ہونے کی وجہ سے معصوم تھے۔کلمتہ اللہ کا تجسمآپ کے معصوم ہونے کا باعث نہ تھا بلکہ آپ خود اپنی ذات کے معصوم ہونے کا باعث تھے۔ جیساہم آگے چل کر بتائیں گے ۔ آپ کے سامنے دیگر انسانوں کی طرح عالم ِ طفولیت اور عالمِ شباب میں آزمائشیں آئیں۔ لیکن آپ ان پر غالب آکر’’حکمت اور قدوقامت میں اور خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتے گئے‘‘(لوقا۵۲:۲)۔
(۴)
جب ہم دیگر اولیا ،اتقیا (تقی کی جمع:پرہیز گار لوگ)اور مقدسین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی زندگیوں میں اور کلمتہ الله کی زندگی میں ایک عظیم اور حیرت انگیز فرق پاتے ہیں ۔ دیگر صالحین اپنی نفس کشی کی خاطر اپنے بدنوں کو ہر قسم کا آزار(دکھ) دیتے ہیں اوراپنی خواہشات کو مغلوب کرنے کے لئے اور تزکیہ نفس کی خاطر ہر قسم کے وسائل اور آلات استعمال کرتے ہیں ،تاکہ ان کو اپنے نفس پر فتح حاصل ہوسکے اور ان کی جسمانی خواہشات ان کے قابو میں آجائیں۔ لیکن کلمتہ الله کی زندگی میں ہم ان باتوں کو کہیں نہیں پاتے ۔ آپ ہم کو ہمیشہ’’خدا کی گود‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ (یوحنا۱۸:۱)خدا کی حضوری ابن اللہ کے چارو ں طرف خیمہ زن رہی۔ آپ کو خدا کی رفاقت کا ہر وقت احساس تھا۔ آپ کی تعلیم آپ کی زندگی کے افعال وکردار سے یہ عیاں ہے ،کہ خدا نے ایک انسان کی زندگی کے ذریعہ اپنی ذات کو ہم پر منکشف کیا ہے۔ آپ کے ذریعہ ہم کو یہ علم حاصل ہوگیاہے کہ خدا کس قسم کا خدا ہے کیونکہ’’الویت کی ساری معموری اس میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے‘‘(کلسیوں ۹:۲ )۔الوہیت کا کمال انسانیت کے کمال میں ظاہر ہے ۔ الوہیت اور کامل انسانیت آنخدواند کی شخصیت میں یک جا نظر آتی ہیں ۔جب ہم آپ کی شخصیت پر ایک پہلو سے نظر کرتے ہیں تو ہم جان سکتے ہیں، کہ خدا کس کو کہتے ہیں ؟اور جب دوسرے پہلو سے نظر کرتے ہیں تو ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ کامل انسان کس کو کہتے ہیں؟
جنابِ مسیح کی آزمائشیں
ابن اللہ (خداوند مسیح ) اپنے کامل ایمان اور کامل فرمانبرداری کی وجہ سے ان تمام آزمائشوں پر غالب آئے جو وقتا ً فوقتاً آپ کے سامنے آتی تھیں۔انجیل مقدس کے متعدد مقامات میں ان آزمائشوں کا کنا یتہً (اشارہً)ذکر ہے (لوقا۱۳:۴؛۵۰:۱۲؛یوحنا۲۷:۱۲؛لوقا۲۸:۲۲؛ عبرانیوں۱۸:۲ وغیرہ)۔لیکن وضاحت کے ساتھ تین آزمائیشوں کا ذکر کیا گیا ہے (متی۱:۴۔۱۲ )۔
(۱)
جب ہم ان آزمائشوں پر غو ر کرتے ہیں کہ تو پہلی بات جو ہم کو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان آزمائشوں کا جسمانی لذات ،جنسی جذبات اور نفسانی خواہشات کے ساتھ (جن کو ہم عموما ً گناہ سے تعبیر کرتے ہیں ) کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان آزمائشوں کو مختلف قسم کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ہر شخص کی آزمائش اس کے چال چلن خود خصلت اور کیرکٹرپر منحصر ہوتی ہے ۔ ایک شخص کے سامنے چوری کرنے کی آزمائش آتی ہے، وہ اس قسم کی آزمائشوں پر غالب آتا ہے اور اس کی خصلت اس قسم کی ہوجاتی ہے کہ چوری کی خواہش اس کے لئے آزمائش نہیں رہتی۔لیکن اب اسی شخص کے سامنے زناکاری کی آزمائش آتی ہے تووہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور گرجاتا ہے ۔ دوسرے شخص کے سامنے جھوٹ بولنے کی آزمائش آتی ہے اور وہ اس قسم کی آزمائشوں پر غالب آکر راست گفتار ہوجاتا ہے ۔لیکن کسی اور قسم کی آزمائش میں گرفتار ہوجاتاہے ۔ابن اللہ اپنی جسمانی اور نفسانی خواہشوں پر غالب آچکے تھے اور آپ کی خصلت اس قسم کی بلند ہوچکی تھی کہ نفسانی خواہشوں کی آزمائشیں آپ کے سامنے اپنی طاقت کھوچکی تھیں۔ پس ابن اللہ کے لئے روحانی جنگ کا محاذ بدل چکا تھا۔ آپ کی آزمائشیں اندرونی عادات و حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ بیرونی اور خارجی حالات کی وجہ سے آپ کے سامنے آتی ہیں، جن کا تعلق آپ کے اعجازی قواء،روحانی پیغام زندگی کے مقصد کے ساتھ ہے ۔جس کی خاطر باپ نے آپ کو دنیا میں بھیجا تھا۔
(۲)
پہلی آزمائش ایسی ہے جس میں دنیا کی نامور ہستیاں گرگئی ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی خدا داد قابلیتوں کو اپنی ذاتی اغراض کے حصول کی خاطر استعمال کیا۔ ابن اللہ کو یہ احساس تھا، کہ آپ میں اعجازی قوت ہے ۔ پس آزمائش آتی ہے کہ اس اعجازی قوت کو اپنی ذاتی اغراض اور فوائد کی خاطر استعمال کر۔یہ ایک ایسی آزمائش ہے جس نے تاریخ کے اوراق کو خونین(خون آلود) بنادیا ہے ۔ دیگر مذاہب کے نامور اشخاص نے اپنی ذاتی ہوس کو پورا کرنے کی خاطر ہزاروں انسانوں کو میدان جنگ میں قربان کردیا ہے ۔تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ جس زمانہ میں ابن اللہ کی بعثت ہوئی ،وہ خاص طور پر خود غرضی کا زمانہ تھا۔ قیاصرہ روم سے لے کر ادنیٰ انسانوں تک لوگ اپنی ذاتی اغراض پر قومی اور ملکی مفاد کو بے دریغ قربان کردیتے تھے۔ اہل یہود کے سردار کاہن اور صدوقی ہر بات میں ملی مفاد(قومی مفاد) کو اپنی ذاتی اغراض پر قربان کردیتے تھے (یوحنا۴۸:۱۱)۔ اس قسم کی فضا میں جناب ِ مسیح خداوندنے پرورش پائی۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے اس آزمائش کو ٹھکرادیا اور فرمایا کہ اس قسم کا لائحہ عمل خدا کی پاک مرضی کے خلاف ہے ۔ ’’آدمی صرف روٹی ہی سے نہیں بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے جیتا ہے‘‘(متی۴:۴)۔آپ نے شاگردو ں کوفرمایا کہ’’دنیا کی اقوام اس قسم کی باتوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ تم پہلے خداکی بادشاہت اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو‘‘(متی۲۲:۷)۔اس فیصلہ نے جنابِ مسیح کی مبارک زندگی کے مستقبل کو کلیتہً بدل دیا ۔ آپ کے قبضہ میں اعجازی قوت تھی لیکن آپ نے اس کو’’قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور اپنے آپ کو پست کردیا او ریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی‘‘(فلپیوں۶:۲ )۔ آپ نے صلیب جیسی ہولناک موت کو قبول کیا لیکن اس اعجازی قوت کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال نہ کیا ( متی ۵۲:۲۶۔۵۳)۔جس طو ر پر آپ نے اس اعجازی قوت کو استعمال کیا وہ بذات ِ خود اعجازی ہے اور ایک ایسا عظیم الشان معجزہ ہے جس کا ثانی روئے زمین کی تاریخ میں ہم کو نہیں ملتا۔
(۳)
پہلی آزمائش پر غالب آکر جنابِ مسیح نے فیصلہ کرلیاکہ آپ کی زندگی میں خود ی کا اظہار نہیں ہوگا، بلکہ صرف خدا کی مرضی کا اظہار ہوگا۔ اب آزمائش آتی ہے کہ دنیا کس طرح معلوم کرے گی کہ ایسی زندگی جو تونے اختیار کی ہے خدا کی طرف سے ہے؟ تو کوئی ایسا نشان دکھلا جو تیرے متعلق ہر طرح کی غلط فہمی کو دور کردے اور دنیا تجھ کو فی الواقع مسیح موعود مان لے ۔ تو ہیکل (بیت اللہ ) کے کنگرے پر کھڑا ہوکر اپنی قوم کی آنکھوں کے سامنے اپنے آپ کو نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ ’’خدا تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا جو تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھالیں گے ۔ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر کی ٹھیس لگے (متی۶:۴ )ابن اللہ نے اس آزمائش کو بھی ٹھکرادیا اور فرمایا کہ حقیقی ایمان خدا پر بھروسہ رکھنے کا نام ہے ۔ خدا کو ازارہ ِ تحکم کسی خاص بات کے لئے مجبور کرنا اور اس کی آزمائش کرنا درحقیقت ا س کی محبت پر شک کرنا ہے۔حقیقی ایماندار خدا کو یہ نہیں کہتا کہ جس طرح میں چاہتا ہو ں میرے ذریعہ تو اپنی قدرت دکھلا۔ بلکہ وہ کامل طور پر بھروسا رکھ کر انتظار کی آنکھوں سے اس بات کی جانب ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہتا ہے کہ پردہ ِغیب سے رضائے الہٰی کس طرح ظاہر ہوتی ہے۔ وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ دنیا پر میرا اثر کس طرح قائم رہے گا بلکہ وہ ہر دلعزیزی کو پس پشت پھینک کر خدا کی مرضی پر عمل کرتا ہے ۔ اَدیان ِ عالم کی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ دنیا کے بہترین انسان اس قسم کی آزمائش میں گرفتار ہو کر گر پڑے۔ لیکن ابن اللہ ایسی سخت آزمائیش پر بھی غالب آئے ۔
اس آزمائش کی طاقت کو وہ شخص خوب سمجھ سکتا ہے جو اہل یہود کے مجنونانہ جوش سے واقف ہے ۔ اہل یہود جو قیصر روم کے مطیع تھے۔ یہ خیال کرتے تھے، کہ جب مسیح موعود آئے گا تو قوم اسرائیل کو رومی قیاصرہ کی غلامی سے رہائی دے کر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی بنیاد ڈالے گا ۔ جب جنابِ مسیح کی بعثت ہوئی تو اسرائیل میں ا یسے سرفروشوں کی ایک پارٹی تھی جو’’زیلوتیس‘‘یعنی’’غیور‘‘ یہود پر مشتمل تھی۔ اگر جنابِ مسیح اپنی قوم پر اپنا اثرقائم کرنا چاہتے تو شمالی کنعان اور گلیل کا صوبہ بغاوت اختیار کرلیتا۔ (اعمال۳۶:۵۔۳۷ )اور آپ پر جانیں نثار کرنے کو تیار ہوجاتا۔ آپ خود گلیلی تھے اور حضرت داؤد کی شاہی نسل سے تھے۔ آپ کی شہرت ابتدا ہی سے گلیل میں اس قدر پھیل گئی تھی کہ یروشلیم تک قوم کے سرداروں کو اطلاع ہوچکی تھی (لوقا۱۷:۵ )۔اگر ابن اللہ ہر دلعزیز ہونا چاہتے اور عوام الناس پر اپنا اثر ورسوخ قائم کرنا چاہتے ،تو آپ کو ہر طرح کی آسانی مہیا تھی۔ لیکن آپ نے باپ (پروردگار)کی مرضی پرچلنا اپنا مقدم فرض سمجھا ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہی ہجوم جو آپ پر اپنی جانیں نثار کرنے کو تیار تھی (متی۸:۲۱) اور آپ کو بادشاہ بنانا چاہتی تھی (یوحنا۱۵:۶)آپ کی دشمن ِ جان ہوگئی (مرقس۱۱:۱۵ )کیونکہ آپ نے ان کے اشاروں اور ان کی مرضی پر چلنے کا نہیں بلکہ رضائے الٰہی پر چلنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
(۴)
ایک اور آزمائش آتی ہے کہ تونے اچھا کیا جو اپنی اعجازی قو ت کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال نہیں کیا۔ تو صرف خدا کی بادشاہت کا قیام چاہتا ہے اور تو اس مقصدکو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہونا چاہتا ہے۔ لیکن جو طریقہ تو استعمال کرنا چاہتا ہے وہ درست نہیں ،کیونکہ تو چاہتا ہے کہ محبت ،خدمت ،ایثار اور قربانی کے ذریعہ یہ بادشاہت قائم ہو (متی۲۱:۱۶؛۲۸:۲۰؛یوحنا۱۳:۱۵)۔لیکن یہ طریقہ کبھی کار گار ثابت نہ ہوگا۔ لاتو ں کے بھوت باتوں سے بھلا کب مانتے ہیں؟بہتر یہی ہے کہ تو دنیا کے سامنے اپنی اعجازی قوت اور طاقت کا مظاہرہ کر کےتو ان پر جبر کراور تلوار کے ذریعہ دنیا میں خدا کی بادشاہت کو قائم کردے۔ اہلِ یہودایک خونین جنگجومسیح اور فاتح کی آمد کے منتظر بھی ہیں۔ زیلوتیس پارٹی کے شریک تیرے شاگرد بھی ہیں (لوقا۱۵:۶ ) خدا تیری مدد کرے گا۔کیونکہ لکھاہے’’اے پہلوان اپنی تلوار کو جو تیری حشمت اور بزرگواری ہے حمائل کرکے اپنی ران پر لٹکا ۔ تیرا دہنا ہاتھ تجھے مہیب کام سکھلائے گا ۔ تیرے تیر تیز ہیں لوگ تیرے نیچے گرے پڑتے ہیں تو صداقت کا دوست اورشرارت کا دشمن ہے او ریوں سارے لوگ ابدالاآباد خدا کی ستائیش کریں گے(زبور ۳:۴۵۔۶)۔لیکن کلمتہ اللہ اس سخت آزمائش پر بھی غالب آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا خیال محبت کرنے والے خدا کی طرف سے نہیں بلکہ دنیاداروں کا ہے (متی۲۳:۱۶) ۔پس آپ فرماتے ہیں کہ میں صرف خدا اور اس کی رضا کو ہی اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا اور صرف اسی کو سجدہ کروں گا (متی ۱۰:۴ )۔ تلوار کا استعمال اور جبروطاقت کا مظاہرہ شیطانی اوزار ہیں۔ میں ایسے وسائل کا ہر گز استعمال نہ کروں گا۔ اگر ایسی نوبت آئے کہ مجھے اپنی جان بھی فی سبیل اللہ خدا کی بادشاہت کے قیام کی خاطر دینی پڑے تو میں بخوشی خاطر منظور کروں گا۔ لیکن نیکی کو قائم کرنے کے لئے بدی کی طاقتو ں کوہرگزاستعمال نہیں کروں گا اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت نہ کروں گا۔
ابن اللہ کے سامنے جو آزمائش آئی ہے، وہ دنیا کے مصلحین اور انبیائے کے سامنے بھی آئی۔ لیکن جس آزمائش پر منجی عالمین غالب آئے دیگر مصلحین اور انبیائے اس میں گر پڑے۔ جب ان ہادیانِ دین نے دیکھا کہ محبت اور صلح کے ساتھ ان کا پیغام نہیں مانا جاتا تو انہوں تلوار کے ذریعہ اپنے مذہب کے اصول کی اشاعت کی۔ جو شخص ان کے مذہب میں داخل نہ ہوا وہ تہ تیغ کردیا گیا اور جو ایک دفعہ داخل ہوکر پھر مرتد ہوگیا وہ بے دریغ قتل کردیا گیا ۔ بظاہر یہ لوگ کامیاب بھی ہوگئے، لیکن اس طریقہ کار نے ان کی زندگیوں کو داغدار اور ان کے مذاہب کے اصولوں کو کھوکھلا کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے مشن میں درحقیقت کامیاب نہ ہوئے اور نہ ان کے مذاہب عالم گیر ہونے کے اور کل دنیا میں اشاعت پانے کے قابل رہے ۔ یوں ان انبیاء اور مصلحین کی آمد کی علت ِ غائی فوت ہوگئی۔
(۵)
کلمتہ اللہ نے تین سال تک اپنی اعجازی قوت کا استعمال بنی نوع انسان کی بہبودی کی خاطر کیا۔ جہاں آپ نے کسی اندھے، گونگے، بہرے ،کوڑھی یا کسی قسم کے بیمار کو دیکھا آپ کی محبت جوش میں آئی اور وہ شفایاب ہوگئے۔آپ نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے جو اپنی ماں کے بڑھاپے کا آسرا تھا اور لعزر کو جو اپنی بہنوں کی روزی کا وسیلہ تھا، اپنی لازوال محبت کی وجہ سے مردوں میں سے زندہ کیا ۔آپ نے ہمیشہ اپنے خیال ،قول اور فعل میں الہٰی محبت کا ظہور دکھلادیا ۔جو تمام انسانوں کے لئے ایک نمونہ ہے (۱۔پطرس۲۱:۲)۔لیکن اعجازی قوت کابے جا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے آپ کی قوم اور قوم کے رؤسااور علمائے دین آپ کی جان کے پیاسے ہوگئے اور آپ کے قتل کے درپے تھے ( لوقا۱۷:۹؛۱:۱۴وغیرہ)۔ صلیب آپ کو سامنے دکھائی دیتی تھی (مرقس ۲۱:۸ ) آپ کو اس بات کا علم تھا کہ آپ کے محبت کرنے والے آپ کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔آپ کا ایک حواری آپ کو پکڑ وا ئےگا۔ آپ اس دنیا میں اکیلے بے یارو مدد گار رہ جائیں گے (متی۳۱:۲۶؛یوحنا۲۱:۱۳ ) ۔ایسے آڑے وقت میں یونانی کلمتہ اللہ کے پاس آئے (یوحنا۲۱:۱۲ ) کہتے ہیں کہ انہوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ہجرت کرکے کنعان چھوڑ کر ہمارے ہاں یونان میں آجائیں تاکہ صلیب جیسی خوفناک موت سے بچ جائے (یوحنا۳۷:۵)۔جناب ِمسیح کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کے لئے یہ آزمائش بڑی زبردست آزمائش تھی ۔آپ نے فرمایا’’ میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کہوں؟اے با پ (پروردگار ) مجھے اس گھڑی سے بچا؟لیکن میں اسی سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔ پس میں کہوں گا اے باپ اپنے نام کو جلال دے ۔ وہ وقت آگیا ہے کہ ابنِ آدم جلال پائے (یوحنا۲۷:۱۲۔۲۸)۔ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ ہجرت کی آزمائش سخت آزمائش تھی۔ ایک طرف دردناک موت کھڑی تھی اور دوسری طرف آرام حفاظت اور عزت کی زندگی نظر آتی تھی ۔لیکن آپ جانتے تھے کہ ’’جب تک گیہوں کا دانہ زمین پر گرکے مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے لیکن جب مرجاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔ جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اسے کھو دیتا ہے او رجو دنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتا ہے وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کے لئے محفوظ رکھے گا‘‘(یوحنا۲۴:۱۲۔۲۵ )۔جنابِ مسیح صلیب کو اذیت کی شکل میں نہیں دیکھتے بلکہ اس کو’’جلال‘‘ کا وسیلہ خیال فرماتے ہیں (یوحنا۲۵:۱۲؛۱۶:۱۲؛۳۹:۷) آپ نے صلیب کے نورانی اورجلالی پہلو کو دیکھا اور ہجرت کرنے سے انکار کردیا۔ کلمتہ اللہ رضا ے الہٰی کے یہاں تک فرمانبردار رہے کہ موت بلکہ صلیبی موت بھی گوارا کی(فلپیوں۸:۲) یہاں نہ صرف فرمانبرداری ہے بلکہ ’’خدا کے خیالوں‘‘ کے ساتھ (متی ۲۳:۱۶) کامل تعاون ہے ،تاکہ خدا کی مرضی پوری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے صلیب پر اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ’’ پورا ہوا‘‘(یوحنا۳۰:۱۹) ۔
دیگر مذاہب کے نامور اشخاص کی زندگیوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے کہ لوگ ان کے پیغام کی وجہ سے ان کی جان کے پیاسے ہوگئے اور ان کے سامنے بھی ہجرت کرنے کی آزمائش آئی، لیکن جب موت ان کی نظروں کے سامنے آئی تو وہ اس آزمائش کا مقابلہ نہ کرسکے اور گِر گئے ۔ انہوں نے چند سالہ زندگی او راپنے مستقبل کا خیال کیا ۔لیکن ابن اللہ کی مانند رضائے الہٰی کے جویاں نہ ہوئے۔
(۶)
انجیل نویسوں نے مذکورہ بالا آزمائشیں بطور مشتے نمونہ ازخروارے (تھوڑے سے نمونے سے کل چیز کی اصلیت معلوم ہو جاتی ہے )بیان کی ہیں۔ انجیل جلیل سے یہ ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جس کا کامل انحصار خدا پر ہے ۔ آپ کی زندگی کا مرکز خود ی نہ تھی بلکہ رضائے الہٰی تھی۔ آپ ہمیشہ ہر بات میں خدا کے فرمانبردار بیٹے تھے ۔ آپ کا ہر قول اور فعل باپ کی مرضی کا ظہور تھا۔
آپ کی خدا سے ہمیشہ یہی دعا تھی’’میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو‘‘(لوقا۴۲:۲۲ )۔خودی کا عنصر آپ کی زندگی میں مفقود ہے اور عالم ِ خیال میں بھی آپ کبھی خدا سے جدا نہ ہوئے ۔ آپ کی تمام زندگی میں ہم کو اس قسم کی جدائی نظر نہیں آتی۔ آپ نے فرمایا’’میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ نہ تم مجھ کو جانتے ہو نہ میرے باپ کو ۔ اگر مجھے جانتے تو میرے باپ کو بھی جانتے’’(یوحنا ۱۶:۸۔۱۹؛۳۲:۱۶)۔
(۷)
مذکورہ بالا آزمائشوں سے ناظرین پر ظاہر ہوا ہوگا،کہ حضرت کلمتہ اللہ اپنی خارق (کرامت ) عادت پیدائش کی وجہ سے بے گناہ نہ تھے ۔آپ کی ’’بے گناہی ‘‘سے یہ مراد نہیں کہ آپ گناہ کرہی نہیں سکتے تھے ،بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ گو دیگر انسانوں کی طرح آپ میں بھی گناہ کرنے کی اہلیت موجود تھی ،لیکن اس اہلیت کے باوجود آپ بے داغ رہے ۔آپ کی کاملیت کسی بھی خواہ ہم آپ کی زندگی کو کسی زاویہ سے بھی دیکھیں ہم پر یہ عیاں ہو جائے گا،کہ جن نامساعد ( غیرمعاون )حالات میں بھی آپ گزرے ۔بعینہ جب ان حالات میں دنیا کو اور مذا ہب عالم کی ہستیاں گزریں توو ہ داغ دار ہوگئیں ۔لیکن آپ تاریخ میں واحد انسان ہیں جو کسی حالت میں بھی داغ دار نہ ہوئے اور ہمیشہ بے داغ رہے۔
یہ درست ہے کہ کوئی انسان اپنی محدود زندگی میں ہر ممکن آزمائش میں سے نہیں گزرسکتا ۔لیکن یہ امر غور طلب ہے کہ جب ہم کسی شخص کو مثلاًدیانت دار کہتے ہیں تو ہمارایہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اس کے سامنے ہر قسم کی بددیانتی کی آزمائش پیش آئی تھیں پروہ ان پر غالب ہوکر دیانت دار رہا۔بلکہ ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی زندگی میں ایسے حالات پیش آئے تھے ،جن میں خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ آزمائش میں گر کر بددیانت ہو جائے گا۔لیکن وہ دیانت دار ثابت ہوا۔پس ہم اس کو دیانت دار کہتے ہیں ۔اسی طرح جب انجیل ہم کو بتاتی ہے کہ حضرت ابن اللہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمائے گئے تو بھی بے گناہ رہے(عبرانیوں۱۵:۴)۔تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ شیطان نے آپ پر بہتری قسم کے حملے بار بار کئے ۔لیکن وہ ہر قسم کے حملے میں شکست کھاتا رہا اور حضرت روح اللہ فاتح اور بےداغ رہے ۔ابلیس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ابن اللہ اس کی زد میں آجائیں اور وہ آپ پر کوئی فاتح ضرب لگا سکے ۔لیکن وہ ہر دفعہ ناکام ونامرادی رہا۔آنخداوند کی تما م زندگی میں اس کی ضربوں کے کہیں نشان نظر نہیں آتے ۔ہر آزمائش پر غالب آکر ابن اللہ کی زندگی روحانیت کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچ چکی ہیں ۔جن کو دیکھ کر انسان کی نظر وغیرہ اور چکا چوند ہو جاتی ہے۔
در تو باجہتا رو نظر کئے تواں رسید
صد شبہ در ہست قیاس ودلیل را (نظیری)
چنانچہ خداوند نے خود فرمایاہے ’’جو اوپر سے آتا ہے وہ سب سے اوپر ہے۔جوزمیں سے ہے وہ زمیں ہی سے ہے اور زمیں ہی کی کہتا ہے‘‘۔تم نیچے کے ہو میں اوپر کا ہو ں ۔تم دنیا کے ہو میں دنیا کا نہیں ہوں اسی لئے میں نے تم سے کہا ہے کہ تم اپنے گناہوں میں مروگے‘‘ (یوحنا۳۱:۳؛۲۲:۸۔۲۴)۔آپ نے تمام عمر گنہگار مردوں اور عورتوں کے درمیان گزاری ۔لیکن گناہ کی آلائش نے آپ کے دامن کو بھی تر تر نہ کیا۔آپ ان گنہگاروں کو بےبانگ وہل دعوت دیتے رہے کہ ’’ابن آدم ‘‘کھوئے ہوئے گنہگاروں کوڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے ۔اے محنت اٹھانے والو اور شیطان سے ہزیمت(شکست کھانا)خوردہ لوگو اور گناہ کے بوجھ سے دبے ہوئے لوگو،تم سب میر ے پاس آو میں تم کو اطمینان قلب عطا کروں گا اور بخشوں گا کہ ابن آدم کو گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے میں راستباز وں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں (متی۲۸:۱۱؛لوقا۱۰:۱۹؛مرقس۱۷:۲) گزشتہ وہ دو ہزارسال سے ہر اقلیم وملک ونسل اور زمانہ کے گنہگار منجی عالمین کے پاس آتے رہے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت حاصل کرکے اور قربت الٰہی پاکر نئی زندگیاں بسر کر کے کلمتہ اللہ کے ان دعووں کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں ۔
غیر مسیحی آپ کی الوہیت کے منکرہوں توہوں لیکن کسی کی یہ مجال نہ ہوئی کہ آپ کی روحانیت کا اوج انسانیت کی اونچائی اور گہرائی کاپتہ دیتا ہے۔ انسان کی حیرت زدہ عقل چکرا جاتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ انسانیت کا اوج کمال اکتسابی تھا۔ابن اللہ دکھ اٹھا کر اور آزمائشوں پر غالب آکر کمال ہوئے اور ہماری نجات کے بانی بنے ۔آپ کی زندگی میں ایک طرف انسانیت کاکمال پایا جاتا ہے اور دوسری طرف الوہیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کامل انسان تھے ۔آپ میں الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے (کلسیوں ۹:۲)۔
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
(۱)
سطور بالامیں ہم یہ لکھ آئے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ اپنی خارق عادت پیدائش کی وجہ سے بے گناہ اور معصوم نہ تھے اور کہ آپ کی معصومیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ گناہ کرہی نہیں سکتے تھے ۔اس کے برعکس آپ دیگر انسانوں کی طرح ایک انسان تھے ۔لیکن آپ نے گناہ کی اہلیت رکھنے کے باوجود کبھی گناہ نہ کیا۔
(۲)
ہم اس حقیقت کو بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ کی معصومیت ابوالبشر آدم کی سی نہ تھی ۔آدم باغ عدن میں پہلے پہل بے گناہ تھے۔ لیکن تب بھی کامل نہ تھے ۔کیونکہ آپ کے سامنے کوئی آزمائش نہ آئی تھی ۔لیکن شیطان نے ان کو آزمایا تو وہ پہلی آزمائش نہ تھی ۔مقابلہ کی تاب نہ لاسکااور گر گیا ۔لیکن منجی عالمین نے شیطان کو کچل کر (پیدائش ۱۵:۳) اور یوں کامل بن کر اپنے تمام فرمانبردار لوگوں کے لئے ابدی نجات کا باعث ہوا (عبرانیوں۱۰:۵) ابن اللہ کی اس قدوس زندگی کی وجہ سے مقدس پولس حضرت ابن اللہ کو’’آدم ثانی ‘‘کانام دیتا ہے۔
(۳)
ہم نےسطور بالامیں لکھاہے کہ خداوند مسیح میں ایک طرف انسانیت کامعراج پایاجاتاہے اور دوسری طرف ’’الوہیت کی ساری معموری آپ میں سکونت کرتی تھی۔اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے،کہ خداوند مسیح انسانی قدوسیت کا درجہ کرنے کی وجہ سے الوہیت کے درجہ پر نہیں پہنچے تھے بلکہ وہ دنیامیں آنے سے پہلے الوہیت کا درجہ رکھتے تھے(عبرانیوں ۲:۱۔۴؛۹:۵؛۵:۱۰۔۷) اور بالفاظ مقدس پولوس آپ نے اپنے آپ کوخالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا ۔اس نے انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور فرمانبردار رہا(فلپیوں ۷:۲) ۔چنانچہ آپ نے فرمایا ’’میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں ‘‘(یوحنا۳۰:۵) ۔’’میں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ہے میں ویسا ہی کرتا ہوں‘‘ (یوحنا۳۴:۴؛۴۹:۱۲)
رضا ئے حق اور رضائے حق قضائے اوقضائےحق
دلش ازماسو ا ئے حق گزیدہ عزلت عنقا
ابن اللہ کی قدوسیت کاسر چشمہ ’’قدوس باپ ‘‘تھا۔انجیل جلیل میں یہ تعلیم نہیں دیتا کہ کوئی انسان ضعیف البنیان اخلاقی کاملیت کادرجہ کفر ہے اور کلیسیائے جامع نےبھی ہمیشہ ایسے خیالات کو کفر ،بدعت قراردے کر رد کر دیا ۔ابن اللہ نہ تو خداہونے کی وجہ کامل انسان تھے اورنہ کامل انسان ہونے کی وجہ سے خداتھے۔آپ کا مل انسان تھے کیونکہ انسانیت کاکمال (جو الوہیت کی صورت پر تھا (پیدائش۲۷:۱)۔آپ کی قدوس ذات میں پایا ۔آپ کامل خدا تھےکیونکہ ’’ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا تھا اور کلام مجسم ہوا ‘‘ اور اس نے کامل انسا نیت کادرجہ حاصل کیا اور سب خاص وعام نے اس کا جلال دیکھا جو ابن اللہ ہی کے شاں ہوسکتا تھا(یوحنا۱:۱۔۱۸)
(۴)
اس مقام پر ہم ناظرین پر یہ تاریخی حقیقت بھی آشکاراکر دیناچاہتے ہیں کہ معصوم بے گناہ انسان کاتصور نہ توبت پرست یونانی رومی دنیا کا مذہبی یافلسفیانہ کتب میں موجود تھا اور نہ ایسا تصور یہودی قوم کی کتب میں اور صحائف انبیامیں پایا جاتا تھا۔اہل یہود کی کسی کتاب میں کسی نبی کو بے گناہ معصوم ہستی نہیں کہا گیا ہے اور نہ عصمت کو نبوت کا لازمی جزامانا گیا ہے ۔وہ عصمت انبیاکے قائل ہی نہ تھے ۔ان کے خواب وخیال میں بھی کسی بے گناہ انسان یامعصوم نبی کے وجودکا تصور نہ آتا تھا۔وہ تمام انبیا کو دیگر انسانوں کی طرح خاطی اور گنہگار مانے چلے آئے تھے۔کلمتہ اللہ کے ہم عصر یہود بھی کسی انسان ضعیف البنیان کو معصوم اور بے گناہ نہیں جانتے تھے۔
بنی اسرائیل کی تاریخ میں پہلی دفعہ اہل یہود نے ایک ایسے انسان کو دیکھا جو ان کی طرح آزمایاگیا مگر بے گناہ تھا ۔کلمتہ اللہ کے رسولوں نے پہلی دفعہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ایک ایسے عجوبہ روزگار کا ذکر کیا جو گناہ سے واقف نہ تھا ۔پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوران حالانکہ نہ یونانی رومی دنیا اور نہ اہل یہود ایک بے گناہ انسان کے وجود کے قابل عمل تھے ۔تو اناجیل اربعہ کے مصنفوں اور دیگر انجیلی تحریرات کے لکھنے والوں کو ایسے معصوم اور انسان کامل نہ تھے تو آپ کے تبعین کو ایسے شخص کی ہستی اور وجود کا پتہ کیسے لگا؟ اس سوال کاایک ہی جواب ہو سکتا ہے،کہ انجیلی تحریرت کے لکھنے والوں کو ایک حقیقی زندگی تواریخی معصوم اور کامل ہستی کا ذاتی تجربہ تھا ۔جس کو انہوں نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنےہاتھوں سےچھوا ۔(یوحنا۱:۱؛اعمال۲۰:۴؛یوحنا۴۵:۱۹؛۱۴:۱؛۲۷:۲۰؛۱۔ یوحنا۱۴:۴؛لوقا۸:۲۲؛ وغیرہ)۔
اور جو ابن اللہ کی آزمائشوں میں بر ابر آپ کے ساتھ رہے (لوقا۸:۲۲؛عبرانیوں۱۸:۲؛۲۵:۴وغیرہ) اور و ہ خوب دیکھ بھال کر اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ابن اللہ اس لئے ظاہر ہوا تھا کہ وہ گناہوں کو دور کرے ۔اس کی ذات میں گناہ نہ تھا جو کوئی اس کی مانند ہونے کی امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو ایسا ہی پاک کرتا ہے جیساوہ پاک ہے (۱۔یوحنا۳:۳۔۵)۔مقدس پطرس آپ کی روحانی عظمت اور عصمت کی شہادت دیتا ہے (۱۔پطرس ۲۱:۲۔۲۲)اور کہتا ہے ’’اگر تم نیکی کرکے دکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خداکے نزدیک پسندیدہ ہے ۔اور تم اسی لئے بلائے گئے ہوکیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دکھ اٹھا کر تم کو ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اس کے نقش قدم پر چلو ۔نہ اس نے کبھی گناہ کیانہ اس کے منہ سے کبھی مکر کی کوئی بات نکلی ۔نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا ۔بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا(۱۔پطرس۱۹:۲۔۲۵)۔
عبرانیوں کے خط کا مصنف بھی لکھتا ہے کہ وہ’’پاک بے ریا۔بےداغ اور گنہگار وں سے جدا تھا (عبرانیوں۲۶:۷)۔ہم مذکورہ بالااقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں ۔جن کاایک ایک لفظ اس بات کا شاید ہے کہ لکھنے والے ایک ایسی بلند اور ارفع روحانی ہستی کا ذکر کرتے ہیں جس کا ان کوذاتی تجربہ حاصل تھا ۔انہوں نے خود اس حقیقت کا مشاہدہ کیا تھا کہ ابن اللہ کی زندگی خدا کی فرمانبرداری کے کمال کا نمونہ ہے ۔آپ کی زندگی کا لائحہ عمل اسی فرمانبرداری پر ہی مبنی تھا۔آپ کے تصورات جذبات اور افعال اسی فرمانبرداری کانتیجہ تھے ۔یہی ایک اصول آپ کے اقوال وافعال اور تمام زندگی پر حاوی تھا۔آپ کی شخصیت میں کوئی شے نہ تھی جو اس انحصار کا نتیجہ نہ تھی ۔آپ کا کوئی خیال یاقول وفعل ایسا نہ تھا،جو خداسے الگ ہو کر عمل میں آیا ہو(یوحنا۷:۵)۔آپ نے فرمایا ’’میں تم سے اصلی اور حقیقی بات کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا سوااس کے جو باپ کوکرتے دیکھتا ہے ۔کیونکہ جن کا موں کو وہ کرتا ہے ان کو بیٹا بھی اسی طرح کرتا ہے (یوحنا۱۹:۵) ۔اگرچہ آپ نے فضا میں صبر کر جہاں یہ ہمیشہ ایسی آزمائشوں پر غالب آئے اور منشائے الٰہی میں تصادم واقع موجد کے لیکن آپ ہمیشہ ایسی آزمائشوں پر غالب آئے اور رضائے الٰہی کے جو یاں رہے۔ جس کا نتیجہ یہ کہ آپ کے ارادے میں اور رضائے الٰہی میں کبھی تازیست تصادم واقع نہ ہوا اور آپ انسان کامل بنے۔
ابن الله (جنابِ مسیح ) کی عصمت
(۱)
انجیل جلیل کا مطالعہ ہم پر ظاہر کردیتا ہے کہ کلمتہ اللہ خلوت کی زندگی بسر نہیں کرتے تھے ۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ لوگوں کی نظروں کے سامنے گزرتا تھا (یوحنا۲۰:۱۸؛متی۳۲:۱۵؛مرقس۳۱:۵؛لوقا۱:۱۲ )۔ آپ کے حوارئین شب وروزآپ کی رفاقت میں رہتے تھے (متی۱:۱۷ ) ان کے باہمی تعلقات ایسے تھے جس طرح ایک خاندان کے شرکاء کے تعلقات ہوتے ہیں (یوحنا۱۲:۱۵؛لوقا۱۴:۲۲ وغیرہ)۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے جو روز مرہ کے مشاہدہ میں آتی ہے کہ جو اشخاص ایک دوسرے کے ساتھ شب روز نشست وبرخاست رکھیں وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوجاتے ہیں ۔ آپ کے حواری آپ کی’’آزمائشوں میں برابر کے آپ کے ساتھ رہے’’(لوقا۲۸:۲۲) وہ آپ کی رفتار وگفتار ،مذاق طبعیت ،انداز ِ گفتگو ،طرز زندگی ،طریق رہائش ،کھانے پینے ،چلنے پھرنے ،اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، ہنسنے رونے غرضیکہ آپ کی زندگی کی ایک ایک ادا سے بخوبی واقف تھے ( ۱۔یوحنا۱:۱ )۔ لیکن حیرت کی یہ بات ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کی خصلت کو’’غور سے دیکھا‘‘ وہی آپ کی تعریف میں رطب اللسان (مدح)ہیں اور بے اختیار کہتے ہیں کہ’’ اس کی ذات میں گناہ نہ تھا’’ (۱۔یوحنا۵:۳) ۔ وہ اس کو بے گناہ اور کامل سمجھتے ہیں اور بے تامل کہتے ہیں کہ’’ویسا ہی مزاج رکھو جیسا خداوند یسوع مسیح کا تھا‘‘(فلپیوں۵:۲ )۔’’مسیح تم کو ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اس کے نقش قدم پر چلو۔ نہ اس نے گناہ کیا اور نہ اس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا‘‘(۱۔پطرس۲۱:۲ )۔’’ہماراایسا سردار کاہن (یعنی امام ِ اعظم ) نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہوسکے بلکہ ساری باتوں میں وہ ہماری طر ح آزمایاگیا تاہم بے گناہ رہا‘‘(عبرانیوں۱۵:۴)’’ہمارا سردار کاہن پاک،بے ریا اور بے داغ گناہ گاروں سے جدا اور آسمانوں سے بلند تھا‘‘(عبرانیوں۲۶:۷ )’’صرف خداوند ہی قدوس ہے اور ساری قومیں آکر اس کے سامنے سجدہ کریں گی‘‘(مکاشفہ ۴:۱۵ )’’ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال(یوحنا۱۴:۱) وہ خدا کے جلال کا پرتو اور اس کی ذات کا نقش ہے’’(عبرانیوں۳:۱)۔
(۲)
حوارئین کاکلام پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی ابتدا ہی سے اپنے منجی اور آقا کو بے گناہ مانتے تھے۔ انجیل کے تمام مصنفین میں سب سے زیادہ مقدس پولوس گناہ کی عالم گیری اور اس کے خوفناک نتائج اور نجات کی ضرورت او راہمیت کے متعلق لکھتے ہیں۔ لیکن وہ کسی جگہ بھی جنابِ مسیح کی عصمت اور بے گناہی کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ۔عصمت مسیح کا تصور دوازدہ رسولوں کی اولین تقریروں کا جزولانیفک تھا ۔جس کا مفصل ذکر ہم اپنی کتاب ’’قدامت اصلیت اناجیل اربعہ کی پہلی جلد میں کرچکے ہیں ۔پس یہ عقیدہ ایسا تھا جوپولوس رسول کے مسیحی ہونے سے پہلے کلیسیا میں موجود اور مروج تھا ۔ تمام مسیحی شروع سے اس بات پر متفق ہیں۔ خواہ وہ اہل یہود میں سے تھے یا غیر یہود سے مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوئے تھے ۔پس پولوس رسول کی تحریرات اس کے زمانہ کے عقائد کا آئینہ ہیں۔ جس میں ہم کو ان لوگوں کے خیالات نظر آتے ہیں۔ جو منجی عالمین کے حواریئن اور تابعین تھے (۱۔کرنتھیوں ۱۵:۳ ) ۔چنانچہ حضر ت پولوس فرماتے ہیں کہ ابن اللہ میں’’الوہیت کی ساری معموری مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے‘‘(کلسیوں۹:۲)۔’’وہ غیرمرئی خدا کی صورت ہے‘‘(کلسیوں۱۵:۱)۔وہ گناہ سے واقف نہ تھا (۲۔کرنتھیوں۴:۴)’’مسیح نے اپنی خوشی نہ کی‘‘(رومیوں۳:۱۵) رسول مقبول آپ کی کامل فرمانبرداری کاباربار ذکر کرتا ہے (رومیوں ۱۹:۵؛۲۔کرنتھیوں۶:۱۰وغیرہ)او رکہتا ہے کہ’’ویسا ہی مزاج رکھو جیسا یسوع مسیح کا تھا۔ اس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو غنیمت خیال نہ کیا بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا ۔ اس نے انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت بھی گوارا کی ۔ اسی واسطے خدا نے بھی اسے بہت سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے ،تاکہ مسیح کے نام پر ایک گھٹنا ٹکے خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا خواہ ان کا جو زمین کے نیچے ہیں اور خداباپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ خداوند یسوع مسیح خداوند ہے‘‘(فلپیوں۵:۲۔۱۱)۔
(۳)
ابن اللہ کی عصمت کے قائل صرف آپ کے حوارئین اور تابعین ہی نہ تھے بلکہ آپ کے معاصرین اور مخالفین تک آپ کی بےگناہی کا اقرار کرتے تھے۔ جس غدار شاگرد نے آپ کو پکڑوادیا وہ اپنی موت اور خون سے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آپ’’بے قصور تھے (متی۴:۲۷ )۔جس شاگرد نے آپ کا انکار کیا وہ آپ کی پاکیزہ زندگی کے آئینہ میں اپنے گناہوں کو دیکھ کر اقرار کرکے کہتا ہے’’اے خدواند میں گناہ گار انسان ہوں‘‘(لوقا۸:۵ ) مصلوب ڈاکو تائب ہوکر اقرار کرتا ہے کہ’’اس نے کوئی بے جا کام نہیں کیا‘‘اور گووہ منجی عالمین کو مصلوب اور بظاہر مغلوب اور مفتوح دیکھتا ہے تاہم صلیب پر اس کو آپ کی محبت بھری زندگی یاد آتی ہے ۔اس کا ایمان متزلزل نہیں ہوتا اور وہ یہ منت کہتا ہے’’اے یسوع جب آپ اپنی بادشاہت میں آئے تو مجھے یاد کرنا‘‘(لوقا۴۱:۲۳ )جب رومی صوبہ دار(جس کو بیسوں گنہگار مصلوبوں کا تجربہ تھا) نے جو صلیب کے پاس نگہبان کھڑا تھا دیکھا کہ منجی کونین دم واپسین اپنے خون کے پیاسوں کے لئے دعا مانگ رہے ہیں تو’’ اس کو یوں دم دیتے ہوئے دیکھ کر کہا بیشک یہ خدا کا بیٹا تھا’’(مرقس۳۹:۱۵ ) آپ کے دشمن جان جو روسائے قوم تھے آپ کی راستبازی کے قائل تھے۔ وہ آپ کی اعلیٰ زندگی کا اقبال طعنہ کی شکل میں کیا کرتے ہیں اور مصلوب کرکے آپ کو کہتے ہیں کہ’’اس نے اوروں کو بچایا تھا ۔اس نے خدا پر بھروسہ رکھا تھا’’ (متی ۴۳:۲۷ ) آپ کے خون کے پیاسے اقرار کرکے کہتے ہیں کہ’’اے استاد ہم جانتے ہیں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتے ہیں اور کسی کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ آپ کسی آدمی کے طرفدار نہیں ہے‘‘(متی ۱۶:۲۲ )۔آپ نے ا ن جانی دشمنوں کو للکار کر چیلنج دیا تھا کہ’’تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کرسکتا ہے‘‘ ؟(یوحنا۴۶:۲۲ ) لیکن گناہ یا خطا ثابت کرنے کی بجائے وہ’’ صم بکم‘‘(بہر ے گونگے ہو کر) کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ’’آپ سچے ہیں‘‘(متی۱۶:۲۲ ) تو آپ پھر سوال کرتے ہیں کہ’’اگر میں سچ بولتا ہوں تومیرا یقین کیوں نہیں کرتے‘‘(یوحنا۴۶:۸ )۔پلاطوس مجسٹریٹ ہے ۔ وہ مقدمہ کی مثل کو دیکھ کر کلمتہ اللہ کو’’راستباز‘‘ قرار دیتا ہے (متی ۲۴:۲۷؛لوقا۲۲:۲۳) او رکہتا ہے کہ’’میں اس میں کچھ جرم نہیں پاتا ہے‘‘(یوحنا۶:۱۹ ) اس مجسٹریٹ کی بیوی بھی مصداق’’آواز ہ(نامواری) خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ لوگوں سے آپ کی عصمت کا حال سن کر آپ کو’’ راستباز ‘‘کہتی ہے (متی۱۹:۲۷)۔
(۴)
نہ صرف جنابِ مسیح کے حوارئین اور مخالفین آپ کی عصمت کے قائل ہیں آپ کے معاصرین بھی آپ کی بے گناہی کی شہادت دیتے ہیں۔حضرت یوحنا بپتسہ دینے والا آپ کا نزدیکی رشتہ دار تھا اور بچپن سے آپ سے واقف تھا۔ وہ کھلے بندوں ہر ایک شخص پر اس کے گناہ جتلا دیتا تھا (متی ۷:۳ ) اور اس بات کو ایک فرض سمجھ کر بادشاہ تک کوملامت کرتا تھا۔ لیکن ایسا بے باک شخصی جو نبی سے بڑا ہے(متی۹:۱۱) آپ کی اعلیٰ روحانیت کے سامنے سر ِ تسلیم خم کرکے کہتاہے’’میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تو میرے پاس آیا ہے ‘‘’’میں اس کی جوتی کاتسمہ کھولنے کے لائق نہیں ‘‘ (متی۱۴:۳؛لوقا۱۶:۳؛یوحنا۱۵:۳، ۲۷؛۳۰:۳۔۳۱ ) آپ کے وقت کی گناہ گار عورتیں اور مرد آپ کی عصمت کا اقرار کرتے ہیں اور آپ سے مغفرت حاصل کرکے راستباز ٹھہرتے( مرقس ۵:۲؛لوقا۴۸:۷؛۴۸:۸ وغیرہ )۔
شیاطین آپ کی عصمت کااقرار کرتے ہیں (مرقس ۲۴:۱؛لوقا۳۴:۴)۔ آپ جس جگہ بھی جاتے تھے شیطانی طاقتیں زائل ہوجاتی تھیں۔ آسمان کے فرشتے تک آپ کی عصمت پر گواہ ہیں (لوقا۳۵:۱ ) ۔خود اللہ تعالیٰ آپ کی عصمت کی گواہی دیتا ہے (مرقس۱۱:۱؛۷:۹؛یوحنا۲۸:۱۲ وغیرہ)۔
(۵)
ابن اللہ اپنی بے گناہی کے لئے چاروں عالم میں مشہور ہے ۔ یہاں تک کہ آپ کی موت اور ظفریاب قیامت کے پانچ سوسال بعد صحرائے عرب سے رسولِ عربی نے پکار کر آپ کی عصمت کا اقرار کیا۔ قرآن آپ کی عصمت پر شاہد ہے اور اقرار کرتا ہے کہ اللہ نے آپ کو شیطان ِ مردود سے اپنی پناہ میں رکھا (سورہ آل عمران آیت ۳۱ع ۴) ۔تمام قرآن کو چھان مارو سوائے کلمتہ اللہ کے تم کو کوئی دوسری معصوم ہستی نہیں ملے گی۔ قرآن میں اسلام کے باقی الوالعزم نبی یعنی حضرت آدم ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت محمد اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اللہ سے مغفرت کے طالب نظر آتے ہیں(ہود۴۶؛ابراہیم۴۰۔۴۱؛قصص۱۶؛مومن۱۵ اعراف) لیکن کلمتہ اللہ کی طرف نہ صرف کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ یا گناہ کا اقرار یا استغفار منسوب نہیں کیا ۔بلکہ استثنائی معصومیت کو صریح اور واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
مسلمانوں میں کلام اللہ کے بعد صحیح حدیث کا درجہ ہے ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول ِ عربی کا قول ہے کہ
’’ کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر اس کو پیدا ہوتے وقت شیطان چھولیتا ہے ۔پس شیطان کے چھونے کی وجہ سے پیدائش کے وقت چیخ کر چلاتا ہے ۔ مگر مریم اور اسکا بیٹامسِ شیطان سے محفوظ رہے ہیں‘‘
(مشارق الانوار صفحہ ۱۲۹)۔
یہ حدیث گویا قرآنی سورہ آل عمران کی مندرجہ بالا آیت کی تفسیر ہے اور اس پر صاد کرتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح میں موجود ہے اور شاہ ولی اللہ ہم کو حجتہ البالغہ میں بتلاتے ہیں کہ
’’صیحین کی بابت محدثین اس امر پر متفق ہیں کہ ان دونوں میں جو حدیث متصل مرفوع(وہ حدیث جس کے راویوں کا سلسلہ رسول اکرم تک پہنچے) ہے وہ قطعاً’’صحیح‘‘ ہے
( جلد اول صفحہ ۱۳۳مطبوعہ مصر )
اب یہ حدیث مرفوع ہے اور اس کی سند متصل ہے یعنی اس کی بغیر کسی انقطاع کے خاص رسول ِ عربی تک پہنچتی ہے لہٰذا یہ قطعا ً صحیح ہے۔
قرآنی آیہ میں جس’’پناہ‘‘ کا ذکر ہے اس میں نہ اغوا کا ذکر ہے نہ مس کا نہ وسوسہ کا۔ کیونکہ یہ سب باتیں جزوی ہیں۔ جو گناہ اور شیطان میں شامل ہیں۔ استعاذہ (یعنی پناہ) مطلق شیطان سے تھا جو اس قدر جامع او رمانع ہے کہ گناہ اور اس کی تمام شاخیں کٹ جاتی ہیں۔کلمتہ اللہ قرآن اور حدیث کے مطابق حقیقی معنوں میں معصوم تھے۔ آپ کے وجود مبارک کے گرد رحمت الہٰی کا قلعہ بندھ گیا جس کی دیواریں شیطان لعین کے ہر حملہ کو روکنے والی تھیں(سورہ۵۱:۲۲؛۱۱:۱۴؛۴:۳۳۔۶۶وغیرہ)۔
پس کلمتہ اللہ کے حوارئین ،تابعین ، مرسلین ، مخالفین ،معاصرین ،ندنبین ، بلکہ شیاطین تک متفق آواز سے پکار کر کہتے ہیں کہ کلمتہ اللہ ایک بے گناہ اور معصوم ہستی ہیں۔ قرآن اور کتب ِ احادیث بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔ آسمان سے ملائکہ اور خدا بھی اسی ایک حقیقت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر زمانہ ،ملک اور قوم کے لوگ دیگر مذاہب کے بانیوں اور رسولوں کی عصمت کے متعلق اختلاف کرتے چلے آئے ہیں لیکن کلمتہ اللہ ایک واحد ہستی ہے جس کے بے گناہی اور عصمت پر ہر زمانہ، ملک اور قوم کا اتفاق ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ شمال او رجنوب، مشرق اور مغرب آسمان اور زمین کے باشندے اسی کے رطب اللسان ہیں۔
(۶)
کسی شخص نے کیا خوب کہا ہے کہ من آنم کہ من وانم۔ جب ہم اس اصول کی روشنی میں کلمتہ اللہ کی روحانی زندگی کو پرکھتے ہیں کہ تو ہم دیکھتے ہیں ،کہ نہ صرف دیگر اشخاص جنابِ مسیح کو بے گناہ جانتے تھے بلکہ آپ کو خود یہ احساس تھاکہ آپ بے گناہ ہیں۔ آپ کے کلمات طیبات آپ کے اندر ونی خیالات اورپنہانی جذبات کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ آپ خدا سے کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی جدا نہ ہوئے۔ آپ میں اور خدا میں مغائرت (ناموافقت،اجنبیت) نظر نہیں آتی ۔ دیگر انبیاء کے سوانح حیات میں ہم کو ایک ایسا وقت نظر آتا ہے جب انہوں نے خدا ئے قدوس کا نظارہ پاکر اپنے گناہوں کو محسوس کیا۔ حضرت یسعیاہ نے کہا کہ’’ہائے مجھ پر میں ناپاک ہو نٹ والا آدمی ہوں‘‘(یسعیاہ۵:۶)۔ حضرت یرمیاہ نے کہا کہ’’ مجھ پر واویلا ۔ اے میری ماں کہ تو مجھے جنی‘‘(یرمیاہ۱۰:۱۵ )۔حضرت داؤد نے اقرار کیا کہ’’ میں اپنے گناہوں کو مان لیتا ہوں اور میری خطا ہمیشہ میرے سامنے ہے ۔ میں نے تیرا ہی گناہ کیا ہے اور تیرے ہی حضور بدی کی ہے‘‘(زبور۳:۵۱۔۴ ) ۔کنفوشیس جو چین کا نبی کا ہے کہتا ہے کہ’’مجھے اس بات کا غم ہے کہ میں نیکی پر عمل پیرا نہیں رہاہوں۔ جو علم میں نے حاصل کیا ہے اس کی میں اپنی زندگی میں صحیح طور پر ترجمانی نہیں کرسکا۔ میں اس کو جو غلط راہ پر تھا صراطِ مستقیم پر نہ لا سکا ۔ میں اپنے نیک خیالات کو نیک افعال میں تبدیل نہیں کرسکا ‘‘۔
رسول ِ عربی کو قرآن میں بار بار حکم ہوا ہے کہ’’ اے محمد تو اپنے گناہ کے لئے مغفرت مانگ‘‘(سورہ محمد ۲۱؛مومن ۵۷؛نساء۱۶۰وغیرہ) چنانچہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے کہا’’ خدا کی قسم میں ایک دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کرتا ہوں‘‘(تلخیص الصحاح جلد دوئم صفحہ ۲۱۸بخاری جلد سوئم صفحہ ۱۶۵، مترجمہ مرزا حیرت )۔لیکن جنابِ مسیح کی زندگی میں گناہوں کا اقرار یا گناہوں کی مغفرت کے لئے شکر گزاری کا نشان تک نہیں ملتا۔ آپ جانتے ہی نہ تھے کہ گناہ کی وجہ سے خدا اور انسان کے باہمی تعلقات کا ٹوٹنا کس شئے کو کہتے ہیں ۔ ہم کو آپ کی رورحانی زندگی میں کسی قسم کے طوفان دکھائی نہیں دیتے۔شیطان کے ساتھ جنگ کرنے میں آپ نے کبھی زخم نہ کھایا اناجیل اربعہ میں ایسے زخموں کا نشان تک ہم کو نظر نہیں آتا’’شقِ صدر’’ کا سا کوئی واقعہ ہم کو آپ کے سوانح حیات میں نہیں ملتا۔ خدا نے دیگر انبیاء مثلا ً رسول ِ عربی کو’’بھٹکتا پایا پھر راہ ِ ہدایت دکھائی‘‘(سورہ ضحیٰ ۷) ۔لیکن کلمتہ اللہ کی زندگی میں کبھی ایسا موقعہ پیش نہ آیا جب آپ کے دل کی تبدیلی پیش آئی ہو یا آپ کی زندگی میں روحانی انقلاب واقع ہوا ہو اور آپ نے گناہ کو ترک کرکے خدا کی طرف رجوع کیا ہو۔ آپ کو خدا کے ساتھ گناہ کے بعد دوبارہ میل ملاپ کرنے کا شخصی اور ذاتی تجربہ کبھی نہ ہوا۔ دیگر ابنیاء کی زندگی کی انتہائی منزل یہ تھی کہ ان کی زندگی میں منشائے الہٰی میں موافقت پیدا ہوجائے ۔لیکن کلمتہ اللہ کی زندگی کی یہ ابتدائی منزل تھی۔ آپ لوگوں کو توبہ کی دعوت دے کر فرماتے تھے’’توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے (متی۱۷:۴)۔ لیکن آپ نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہ کی کہ خدا کے سامنے گریہ وزاری ، بےکسی، لاچاری اور توبہ کا اظہار کریں۔ آپ کے جذبات اور افعال سے ظاہر ہے کہ آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ کو خود توبہ کی مطلق ضرورت نہیں۔آپ کو رفاقت ِ الہٰی اور قربت خداوندی اس درجہ تک نصیب تھی کہ آپ ایسی باتیں فرماتے جو دوسرا انسان کفر کا ارتکاب کئے بغیر زبان پر نہیں لاسکتا (یوحنا۵۸:۸؛۲۰:۵؛۱۶:۸؛۴۵:۶؛۵۸:۸؛۱۵:۱۰؛۹:۱۴۔۱۳ وغیرہ)۔ دیگر انسان اور نبی جانتےہیں کہ اگر خدا ان کے گناہوں کو معاف نہ کرتا تو وہ کہیں کے نہیں رہتے اور وہ خدا کے رحم اور فضل کے لئے اس کا شکریہ کرتے ہیں (۱۔تیمتھیس۱۶:۱)۔ لیکن جنابِ مسیح کے منہ سے ہم اس قسم کی شکر گزاری کے الفاظ نہیں سنتے ۔ ابن اللہ ہر وقت گناہ گاروں کی تلاش میں سر گرداں رہتے تھے۔ گناہ گار مرد اور بدل چلن عورتیں ہر قسم کے شیطان خصلت انسان جو خدا سے سرکش ہوکر آوارہ بھٹکتے پھرتے تھے۔ آپ کے پاس آتے تھے ۔ایک صحیح حدیث میں لکھا ہے کہ لوگوں نے ایک دفعہ حضرت روح اللہ کو ایک بد چلن عورت کے گھر سے نکلتے دیکھا ۔ایک شخص نے آگے بڑھ کر پوچھا یا روح اللہ حضور ادھر کیسے گئے تھے‘‘حضرت نے جواب دیاکہ طبیب مریضوں کے پاس جایا کرتے ہیں ۔انجیل میں آپ نے تعلیم دی کہ خدا محبت وفضل اور رحم کا خدا ہے ۔آپ تمام عمر گنہگار وں کو ان کے گناہوں کی مغفرت دیتے رہے(مرقس۵:۴وغیرہ) آپ نے تمام عمر گراں مایہ ان کو خدا کی بادشاہت میں داخل کرنے میں صرف کردی (لوقا۱۶:۱۵ )۔آپ نے فرمایا کہ ’’میں گناہ گاروں کو بلانے آیاہوں‘‘(مرقس۱۷:۲ )۔ لیکن آپ نے کبھی اپنے آپ کو گناہ گاروں کے زمرہ میں شمار نہ کیا ۔ آپ نے ہر قسم کے گناہ اور گناہ کے سرچشمہ کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کی (متی ۵تا۸باب )۔لیکن خود گناہ سے نا واقف رہے۔آپ نے تمام عمر ان لوگوں کو جو’’اپنے پر بھروسا رکھتے تھے کہ ہم راستباز ہیں‘‘(لوقا۹:۱۸؛متی۱۳:۹) ملامت کا نشانہ بنایا لیکن آپ کو خود یہ احساس تھاکہ آپ حقیقی معنوں میں بے گناہ معصوم اور راستباز ہیں (یوحنا۲۱:۵؛۲۸:۵ ) او ر کوئی شخص انجیل جلیل کا مطالعہ کرکے آپ کے اس احساس کو قابل مذمت خیال نہیں کرتا اورنہ اس کو فریسیانہ ریاکاری اور بے جا فخر یا لاف وگراف پر محمول کرتا ہے۔
کلمتہ اللہ میں انسانیت کے کمال نے ظہور پکڑا۔ آپ کی کاملیت کا بھید یہ تھا کہ آپ اپنی مرضی نہیں بلکہ خدا کی مرضی پر چلنا چاہتے تھے۔ آپ میں’’ناراستی‘‘ نہ تھی۔ کیونکہ اپنے ہر خیال و قول اور فعل میں آپ اپنے باپ کی عزت وجلال چاہتے تھے (یوحنا۱۷:۷۔۱۸)۔ دیگر انبیاء کو یہ احساس تھاکہ جس کام کے لئے خدا نے ان کوبھیجا ہے وہ اس کے لائق نہیں ( خروج ۱۱:۳؛یرمیاہ۶:۱) ۔ لیکن ابن اللہ کو اس قسم کا احساس کبھی نہ ہوا۔ اس کے برعکس آپ نے بار بار فرمایا’’میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں‘‘(یوحنا۳۰:۵ )۔’’جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اس کو پسند آتے ہیں‘‘(یوحنا۴۸:۸)۔ میں باپ کو جانتا ہوں اور اس کے کلام پر عمل کرتا ہوں‘‘(یوحنا۳۴:۴؛۵:۱۹ ؛۳۸:۶وغیرہ)۔ ’’میں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا میں ویسا ہی کرتا ہوں‘‘(یوحنا۳۱:۴؛۴۹:۱۲) ۔مذکورہ بالاآیت سے ظاہر ہے کہ ابن اللہ اور باپ کی رضا میں کامل ہم آہنگی تھی ۔ کلمتہ اللہ واپسیں بھی اپنی زندگی کو ’’ہرا درخت ‘‘ کہتے ہیں ( لوقا۳۱:۲۳) ۔یعنی راستباز جو اپنے وقت پر میوہ لاتا ہے جس کے پتے مرجھاتے نہیں اور اپنے ہر کام میں پھولتا پھلتا ہے (زبور ۴:۱) آپ نے شاگردوں کو مخاطب کرکے فرمایا’’دنیا کا سردار (یعنی شیطان) آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ حصہ نہیں‘‘(یوحنا۳۰:۱۴) یعنی گناہ گاروں کا سردار ابلیس جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔خداوندیسوع مسیح کو یہ احساس تھا کہ’’ میں دنیا کا نہیں‘‘(یوحنا۱۶:۱۷ ) اور فرماتے ہیں کہ’’میں اوپر کا ہوں‘‘(یوحنا۲۳:۸ ) اور’’آسمان سے اترا ہوں‘‘نہ اس لئے کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں‘‘(یوحنا۳۸:۶ ) آپ نے فرمایا کہ’’میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والےکی مرضی کے موافق عمل کروں اور اس کا کام پورا کروں‘‘(یوحنا۳۴:۴ ) ۔جب آپ کے سامنے موت کھڑی تھی آپ نے تب بھی رضائے الہٰی کا خیال کیا اور دعا میں خدا سے کہا’’ جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو‘‘(متی ۳۹:۲۶ ) اور دم واپسین صلیب سے اعلان کیاکہ خدا کا مقصد آپ کی تعلیم ،زندگی اور موت سے’’پورا ہوا‘‘ (یوحنا۳۰:۱۹ ) ۔خدائے قدوس میں اور آپ میں کسی قسم کی اخلاقی یاروحانی جدائی نہ تھی ۔اس کے بر عکس دونوں میں کامل رفاقت تھی (۱۔پطرس۲۲:۲؛۱۔یوحنا۵:۳) آپ کو یہ احساس تھاکہ آپ کے اصول زندگی اور موت غرضیکہ آپ کی زندگی کی ادنی ٰ ترین تفصیل اور واقعہ رضائے الہٰی کا ظہور ہے ۔ہم کو نہ صرف آپ کی شعوری زندگی میں بلکہ آپ کی تحت الشعور زندگی میں بھی گناہ کا شائبہ نہیں ملتا۔گو آپ گنہگاروں کی دنیا میں چلتے پھرتے تھے ۔لیکن آپ کی روح مثل آئینہ شفاف تھی ۔ پس آپ نے حوارئین سے فرمایا’’جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا‘‘(یوحنا۹:۱۴)۔ ’’جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے‘‘ (یوحنا۴۵:۱۲ )’’ابن آدم (خداوند یسوع مسیح )نے جلال پایا اور خدا نے اس میں جلال پایا‘‘(یوحنا۳۱:۱۳ )میرے مخالفوں نے’’ مجھے اور میرے باپ دونوں کو دیکھا ہے اور دونوں سے عداوت رکھی ہے‘‘(یوحنا۲۴:۱۵ )۔’’میں اپنے باپ میں ہوں‘‘(یوحنا۲۰:۱۴) باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو جانتا ہوں(یوحنا۲۴:۱۰ )’’ میں اور باپ ایک ہیں(یوحنا۳۰:۱۰) ۔کیا اس قسم کے دعوے اورکلمے کسی ایسے شخص کے منہ سے نکل سکتے ہیں جس کو اپنے گناہ گار ہونے کا احساس ہو؟۔یوحنا۱۷باب کی دعا کے الفاظ ثابت کر دیتے ہیں کہ گناہ کا خیال بھی ابن اللہ کے نزدیک کبھی بھٹکانہ تھا۔
چنانچہ جب جانکنی کا وقت نزدیک آیا تو آپ نے اپنی زندگی کی آخری شب میں دعا کے وقت خدا کو اپنی زندگی کا حساب ان الفاظ میں دیا’’اے باپ وہ گھڑی آپہنچی، میں تیرے پاس آتاہوں،میں نے تیرا کلام ان کو پہنچادیا ہے ۔ جو کام تو نے مجھے کرنے کو دیا تھا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر میں نےزمین پر تیرا جلال ظاہر کیا ہے (یوحنا۱۷باب)۔اس کے بعد آپ نے اس آخری شب میں دوسرے لوگوں کی نجات ،مغفرت اور حفاظت کے لئے دعا مانگی لیکن اپنی نجات اور مغفرت کے لئے ایک لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ نکلا۔جب آپ مصلوب کر دئے گئے آپ نے پکار کر اعلان فرمایا کہ آپ نے سب کچھ پورا کردیا ۔ اپنے آخری لمحوں میں آپ کو یقین تھا کہ آپ باپ کے پاس جارہے ہیں ( یوحنا۱۱:۱۷ ) اور آپ کی جگہ فردوس ہے (لوقا۴۳:۲۳) ۔
بفرض ِ محال اگر ایسے کلمات انسانوں کے سامنے نکل بھی سکیں لیکن خدا کے سامنے جو ہر انسان کے اندرونی جذبات اور دل کے پنہانی رازوں سے واقف ہے (زبور۲۱:۴۴؛۱:۱۳۹)اس قسم کے کلمات کسی انسان کے منہ سے نہیں نکل سکتے جس طرح کے کلمتہ اللہ کی زبان مبارک سے نکلے۔ آپ اپنی زندگی کی آخری شب خدائے قدوس کو مخاطب کرکے کہتے ہیں’’اے باپ تومجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں۔ جو کام تونے مجھے کرنے کو دیا تھا اس کو پورا کرکے میں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنالے۔ تونے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی ( یوحنا ۱۷ باب) کسی انسان ضعیف البنیان کو یہ جرات نہیں کہ خدائے قدوس کے حضور اس قسم کے الفاظ اپنے منہ سے نکالے لیکن جب ہم کلمتہ اللہ کے منہ سے ایسے الفاظ سنتے ہیں تو ایک قدرتی بات معلوم ہوتی ہے اور کوئی صحیح العقل شخص ان کو کفر پر محلول نہیں کرتا۔
پس اناجیل کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ نہ صرف کلمتہ اللہ کے اقوال وافعال میں ہم کو گناہ کا شائبہ تک نہیں ملتا بلکہ اس کے برعکس آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ کامل طور پر رضائے الہٰی کو پورا کرتے ہیں۔ ابن اللہ کے تصورات ،جذبات ،اقوال اور افعال سے ظاہر ہے کہ رضائے الہٰی ہمیشہ آپ کی مطمح نظر(اصلی مقصد) تھی (یوحنا۳۱:۱۴ )۔ آپ نے انسانی قالب میں رہ کر اپنے خیالات ،احساسات اور جذبات کو خدا کی ذات اور مرضی کا مظہر بنا رکھا تھا۔ آپ نے ایک ایسی زندگی بسر کی جس میں انسانیت اپنے کمال تک پہنچ گئی اور آپ کے معاصرین نے’’ اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا خدا کے اکلوتے بیٹے کا جلال (یوحنا۱۴:۱ )۔ آپ کے تصورات اور جذبات، اقوال اور افعال میں ہم انسانیت کا کمال دیکھتے ہیں، جو درحقیقت رضائے الہٰی پر کامل طور چلنے کا عکس ہے ۔ پس الوہیت کا کمال انسانی جسم میں ظاہر ہوا۔مقدس پولوس رسو ل ’’الوہیت کی ساری معموری اسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے ‘‘(کلسیوں ۹:۲؛۱۹:۱؛یوحنا۱۶:۱) ۔ جب ہم اس کاملیت کو انسانی پہلو سے دیکھتے ہیں تو ہم انسانیت کے کمال کو دیکھتے ہیں اور ہم جان سکتے ہیں کہ کامل انسان کس قسم کا انسان ہوسکتا ہے او رہماری انسانیت کمال کے کس درجہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔کلمتہ اللہ کی قدوس ذات میں الوہیت اور انسانیت کا کمال یک جا ہیں ۔جب ہم آپ کی زندگی پر الٰہی پہلو سے نظر کرتے ہیں ۔تواس میں ’’الوہیت کی ساری معموری ‘‘پاتے ہیں اور جب ہم اسی زندگی پر انسانی زاویہ نگاہ سے نظر کرتے ہیں تو اس میں انسانیت کا کمال پاتے ہیں (یوحنا۱:۱۔۱۷؛۳۰:۱۰؛۱۔یوحنا۱:۱۔۳) ابن اللہ بشر تھے اور فوق البشر بھی تھے(افسیوں۲۱:۱۔۲۳) انسان کی قوت متخیلہ مسیح کی انجیلی تصویر میں کچھ ایزاد(اضافہ) نہیں کرسکتی ۔ دیگر مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں پر نظر کرکے ہر ملک اور قوم کے انسان کہتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں بات ہوتی تو اس کی زندگی قابلِ تقلید ہوئی۔ لیکن مسیح کی شخصیت کی کاملیت کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ کسی شخص کے وہم گمان میں بھی نہیں آتا کہ وہ کہے کہ کاش مسیح میں فلاں خصوصیت بھی موجود ہوتی۔ جنابِ مسیح کی روشن ضمیر وقلب پر کسی کو میں ایسے حملوں اور زخموں کے نشان نظر نہیں آتے جو آپ نے کبھی شیطان کے ہاتھوں سہے ہوں ۔آپ کی ذات ہر نقطہ خیال سے جامع صفات ہے۔ ابن اللہ میں انسانیت کا کمال موجود ہے آپ نے اپنی انسانیت کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کردیاکہ خدا کی ذات کیسی ہے اور اس نے انسان کو کس مقصد کی خاطر پیدا کیا تھا اور وہ مقصد کس طرح اعلیٰ ترین پیمانہ پر حاصل ہوسکتا ہے۔
(۷)
منجی عالمین نے دیگر انبیاء کی طرح گناہ گاروں کو توبہ کی دعوت دینے پر ہی قناعت نہیں کی۔ آپ نے گناہ گاروں کے گناہوں کو معاف بھی کردیا (مرقس ۵:۲؛لوقا۴۸:۷وغیرہ) دنیا کے لوگوں کا اور دیگر مذاہب کے انبیاء کا یہی خیال تھاکہ’’گناہ کون معاف کرسکتا ہے سوا ایک یعنی خدا کے ؟‘‘(مرقس۷:۲ ) گناہ خدا کے خلاف بغاوت کا نام ہے ۔لہٰذا صرف خدا ہی گناہ کو معاف کرسکتا ہے لیکن منجی عالمین نے فرمایا’’ابن ِ آدم کو زمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے‘‘(مرقس۱۰:۲ )چونکہ دیگر انبیاء ہماری طرح خاکی اور خاطی انسان تھے وہ اس بات کی جرات ہی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ گناہ کو معاف کرنے کا خیال بھی دل میں لائیں۔اس کے برعکس کلمتہ اللہ کی قدو س اورپاک ذات کے دل میں گناہوں کے معاف نہ کرنے کا خیال کبھی نہ آیا۔ جہاں آپ نے گناہ اور توبہ کے آثار دیکھے آپ نے گناہ گاروں کے گناہ معاف کئے اور فرمایا’’ بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے’’(متی۳:۹) ’’اے عورت تیرے گناہ معاف ہوئے‘‘(لوقا۴۸:۷ )۔ آج کے دن تومیرے ساتھ فردوس میں ہوگا (لوقا ۴۳:۲۳؛یوحنا۱۴:۵ ) جائے غور ہے کہ منجی کونین تمام گناہ گاروں کو معاف کرتے ہیں (مرقس۵:۲؛متی۲۸:۱۱؛یوحنا۱۱:۸؛۲۵:۱۱؛۲۷:۱۴ وغیرہ) لیکن آپ کو یہ احساس ہے کہ آپ کو خود مغفرت کی مطلق حاجت نہیں ۔آپ کے مخالف ازراہ ِ طعنہ آپ کو’’گناہ گاروں کا یار‘‘ (متی۱۹:۱۱؛ لوقا۳۴:۷)کہتے تھے۔ کیونکہ آپ ان کے رفیق، مونس اور ہمدرد تھے ۔ ان کے ساتھ محبت رکھتے تھے اور ا س الہٰی محبت کے ظہور سے ان کو شیطان کی غلامی سے چھڑا کر ان کا میل ملاپ دوبارہ خدا کے ساتھ کردیتے تھے۔ لیکن اگرچہ آپ کی نشست وبرخاست گنہگاروں کے درمیان بھی آپ گناہ سے مبرا اور خطا سے منزہ رہے ۔ فریسی گناہ گاروں سے کنارہ کش رہتے تھے تاکہ وہ بھی ان کی مانند گنہگار نہ ہوجائیں۔ لیکن تمام انجیل چھا ن مارو،تم کہیں یہ نہ دیکھو گے کہ اس قسم کا خدشہ ابن اللہ کو کبھی دامن گیر ہواہو۔ آپ کی نیکی اور راستبازی کو کسی مصنوعی حفاظت اور چار دیواری کی ضرورت نہ تھی۔ بد ترین گنہگاروں سے ملنے سے آپ کو آلائش کا اندیشہ نہ تھا۔ آپ کو گناہ گاروں کی حالت دیکھ کر’’ ترس‘‘ آتا تھا ۔کیونکہ’’وہ ان بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ تھا خستہ حال اور پراگندہ تھے (متی۳۶:۹ ) ان کے چرواہے یعنی فریسی اورکاہن’’بھیڑئیے (شیطان ) کو آتے دیکھ کر بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور بھیڑئیے نے ان کو پکڑ کر پراگندہ کردیا تھا(یوحنا۱۲:۱۰) لیکن مسیح خداوند نے فرمایا’’اچھا چرواہا میں ہوں اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لئے جان دیتا ہے‘‘(یوحنا۱۱:۱۰ ) آپ نے اپنے کلام اوراپنی زندگی اور موت سے گناہ گاروں کو ان کے گناہوں سے مغفرت عطا کی۔
(۸)
ابن اللہ نہ صرف گناہوں کے معاف کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، بلکہ گناہ گاروں کے عادل منصف ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں (متی ۴۱:۱۳اور ۲۵ باب وغیرہ) آپ نے فرمایا’’باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے (حضرت یوحنا 5باب 22آیت ) باپ نے بیٹے کو عدالت کرنے کا اختیار بھی بخشا ہے(یوحنا۲۲:۵)۔باپ نے بیٹے کو عدالت کرنے کااختیار بھی بخشا ہے (یوحنا۲۷:۵)’’میں دنیا کی عدالت کرنے آیاہوں‘‘(یوحنا۳۹:۹ )۔’’ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے اور وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ نیکوں کو گنہگاروں سے جدا کرئے گا۔جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے (متی ۳۱:۲۵؛۲۸:۱۹؛لوقا۱۷:۳؛اعمال۴۲:۱۰؛۳۱:۱۷ وغیرہ)اس دعویٰ سے ظاہر ہے کہ آپ خود معصوم اور بے گناہ تھے۔ آپ جیساضمیر اور کانشنس(وہ انسانی قوت جو انسان کو بھلائی کی طرف متوجہ کرے) رکھنے والا انسان گناہ گار ہو کر دوسروں کی عدالت کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ آپ نے فرمایا’’ میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں ‘‘(یوحنا۳۰:۵ ) ۔جس شخص کا اپنا دل گناہوں سے تاریک ہو اس میں عدالت کرنے کی روشن ضمیری نہیں آسکتی ۔صرف ایک بے گناہ شخص ہی بنی نوع انسان کی ابدی زندگی اور ابدی موت کا فیصلہ کرسکتا ہے (متی۴۶:۲۵؛۲۴:۵۔۲۹ ) ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کلمتہ اللہ کی زندگی اور موت ہر ایک شخص کی زندگی کی عدالت کرتی ہے (یوحنا۱۱:۱۶ ) ۔جب آپ دنیا میں تھے تو آپ کی بے گناہ اور معصوم زندگی ایک آئینہ تھی جس میں بدکار اپنی بدکرداری کو اس کی عریانی کی حالت میں دیکھتے تھے (یوحنا۹:۸؛لوقا۸:۵وغیرہ) آپ نے فرمایا تھا’’ میں نور ہوکر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے(یوحنا۴۶:۱۲ )۔آپ کی زندگی کی روشنی میں ہر شخص اپنے تاریک خیالات ،ناپاک جذبات ،پلید اقوال اور گندے افعال کو دیکھ سکتا ہے ۔ آپ کی طفولیت اور شباب کو دیکھ کر ہر ایک شخص اپنی طفولیت اور شباب کی زندگی سے شرماتا ہے ۔ آپ کا کلام’’دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہراتا ہے (یوحنا۸:۱۶ ) ۔اس تاریک دنیا میں صرف آپ کی زندگی ہر پہلو سے کامل ہے اور انسانیت کے تمام روحانی مدارج کو روشن کردیتی ہے ۔ آپ کی قدوسیت کے سامنے ہر شخص کا سر ِ تسلیم خم ہے۔ آپ کی زندگی انسانی تاریخ میں ایک معجزہ ہے،جوبے نظیر اور عدیل ہے ۔
دنیا ئے اخلاق میں آپ کا کئی ہمسر نہیں۔ ہر دیگر مذہب کے بانی کی اخلاقی زندگی کو اس زمرہ میں شمارکرتےہیں ،جس میں ہماری اخلاقی زندگیاں ہیں۔ ان کی زندگیاں ہماری زندگیوں کی عدالت نہیں کرسکتیں۔ بلکہ بعض بانیوں کی زندگیاں ایسی ہیں جن کی عدالت ہماری زندگیاں کرتی ہیں۔ اور ان کو ملزم گردانتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ گو وہ مذاہب کے بانی اور مصلح تھے۔ تاہم وہ ہماری طرح خاکی اور خاطی ضعیف البنیان (جس کی بنیاد کمزور ہو ) تھے ۔لیکن ابن اللہ کی زندگی ہماری زندگیوں کی عدالت کرتی ہے اور ان کو ملزم قرار دیتی ہے ۔ ابن اللہ کی زندگی ایک آئینہ کی مانند ہے (یعقوب۲۳:۱ )۔ جو شخص اس میں اپنا منہ دیکھتا ہے شرمسار ہوجاتا ہے۔ آپ کی پاکیزہ زندگی ہماری گناہ آلودہ زندگیوں پر ہمیشہ فتویٰ صادر کرتی ہے اور ہم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ فتویٰ سچا ہے ۔ جو شخص بھی ایک دفعہ مسیح کو دیکھ لیتا ہے وہ اپنی اخلاقی اور روحانی زندگی کی طرف سے ایسا بے چین ہوجاتا ہے کہ اس کو پھر اطمینان ِ قلب نصیب نہیں ہوتا اور وہ حضرت پطرس کی طرح چلا اٹھتا ہے کہ’’ اے خداوند میں ناپاک آدمی ہوں‘‘(لوقا۸:۵)۔پس آپ کی مقدس زندگی کو ہم دیگر ضعیف البنیان انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ ایک ہی صف میں شمار نہیں کرسکتے اور نہ کرتے ہیں ۔کیونکہ دونوں قسم کی زندگیوں میں بعد المشرقین ہے ۔ آپ کی پاک ذات کی روشنی ہر زمانہ ملک اور قوم کے کروڑوں افراد کے لئے اعلیٰ ترین معیار رہی ہے ،جس سے انہوں نے اپنے گناہوں اور تاریک مقاموں کو دیکھا ہے اور انکی اصلاح کی ہے ۔ پس آپ ابتدا ہی سے عالم روحانیت کے واحد استاد او رحکمران اور دنیائے اخلاق کے واحد تاجدار رہے ہیں۔
(۹)
حق تو یہ ہے کہ کلمتہ اللہ کی ذات ایسی ہے جو دنیا کی پیدائش سے تاقیامت ایک ہی بار واقع ہوئی ہے یعنی ایک ایسا شخص جو اس دنیا میں آیا جو’’ خو دگناہ سے ناواقف تھا’’ لیکن اس نے گناہ کی حقیقت کو دنیا پر واضح کردیا۔ (متی۲۷:۵؛۱۱:۱۵وغیرہ) وہ دوسروں کو توبہ کی دعوت دیتے تھے (متی ۱۷:۴)۔لیکن اس کو خود توبہ کی مطلق (بے قید)حاجت نہ تھی ۔ وہ ریاکاری کے جانی دشمن تھے ۔لیکن خود راستباز ہونے کے مدعی تھے ( یوحنا۳۰:۵)۔ وہ دوسروں کو نجات دینے آئے تھے لیکن خود ان کو نجات کی مطلق ضرورت نہ تھی۔وہ خدا کی طرح گناہ گاروں کو معاف کرتے ہیں لیکن وہ گناہ گاروں کو خدا کے نام سے معاف نہیں کرتے بلکہ اپنے نام اور اختیار سے معاف کرتے ہیں ( مرقس۱۰:۲؛لوقا۴۳:۲۳) اور خدا کا ذکر تک درمیان میں نہیں لائے ۔ دیگر انبیاء مثلا ً حضرت سموئیل وغیرہ کہتے تھے کہ’’خدا نے تیرے گناہ معاف کردئیے‘‘(۲۔سموئیل۱۳:۱۲ ) اور ان کی تعلیم یہ تھی کہ صرف خدا ہی گناہوں کو معاف کرسکتا ہے (متی۳:۹؛یسعیاہ۴۵:۴۳؛یرمیاہ۳۴:۳۱؛حزقی ایل۳۵:۳۶ )۔کلمتہ اللہ کامل انسان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (متی۲۵:۱۱۔۲۸ )لیکن یہ کمال ان کو پیدائش کے وقت عطیہ کے طور نہیں ملا تھا ۔بلکہ آپ نے خود حاصل کیا تھا۔ دیگر انسانوں کی روحانی ترقی بدی سے نیکی کی جانب ہوتی ہے لیکن خودابن اللہ کی روحانی ترقی کاملیت کی ایک منزل سے دوسری منزل کی جانب ہوئی (لوقا۴۰:۱ )۔پس آپ کی ہستی اخلاقیات اور مذاہب کی دنیا میں بے نظیر ہے ۔
جنابِ مسیح کی عالم گیر شخصیت
ابن اللہ کی زندگی کا خاکہ ایک جامع ہستی کا خاکہ ہے ۔ آپ کی پاک اور قدوس ذات میں کوئی بات نہیں پائی جاتی جومقامی ہو اور امتدادِ زمانہ کے باعث منسوخ ہونے کے لائق ہو یا قابل ِ تقلید نہ رہی ہو آپ کی شخصیت اور آپ کی ستودہ قدوس صفات کا کسی خاص جگہ وقت مکان زمان ،قوم ،پشت وغیرہ کے ساتھ تعلق نہیں۔بلکہ آپ کی تعلیم کے اصول کی طرح آپ کی ذات بھی عالم گیر ہے ۔ آپ اہل یہود میں سے تھے لیکن ہٹلر جیسے دشمن یہود کو بھی آپ کی زندگی میں یہودی خصائل کا شمہ تک نظر نہیں آتا۔ جہاں ہٹلر ہر شئے کو جس سے یہودیت کی بو بھی آتی ہے نیست ونابود کرنے کو تیار رہتا ہے وہاں جنابِ مسیح کی شخصیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتا ہے کیونکہ آپ کا نصب العین اور آپ کی ذات کسی خاص قوم اور ملک سے وابستہ نہیں بلکہ آپ کی ہستی جامع اور عالم گیر ہے ۔
مختلف ممالک اور اقوام کا مطمع(نظر پڑنے کی جگہ ،مقصود ) نظر ایک نہیں ہوتا۔ جو شخص عرب کی نظر میں ہیرو ہے وہ اٹلی کی نظر میں قابل ِ قدر نہیں ہوتا۔ جو شخص مثلا ً ہٹلر جرمنی کی نظر میں قابل ِ قدر ہستی ہے وہ امریکہ یا ہندوستان کی نظروں میں وقعت(عزت ) نہیں رکھتا ۔ مثلاً اہل ِ مغرب ہندوستان کے گاندھی جی کو ایک عظیم ہستی مانیں گے ۔لیکن اس کو نجات دہندہ مان کو ہر گز اس کی پیروی نہ کریں گے ۔ ہندوستان کے باشندے مغرب کے کسی فلاسفر کو قابل ِ قدر ہستی مان لیں گے لیکن اس کو اپنا گورواور مکتی داتا ماننے کو ہر گز تیار نہ ہوں گے۔ لیکن مشرق ومغرب کے رہنے والے سب کے سب یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی جنابِ مسیح کی زندگی کی طرح ہوجائے ۔ وہ آپ کے کامل نمونہ پر چلنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ آپ خداوند کی زندگی لیں مثالیہ شی ہے۔ کیونکہ یہ بات کسی اور دین کے ہادی کو نصیب ہے ۔مثلا ً کیا غیر مسلم اصحاب ایسے شخص کو مرحبا کہیں گے جو اپنی زندگی کو رسول ِ عربی کی مانند بنانے کی کوشش کرتا ہے ؟کیا غیر ہنود (اور ہنود بھی ) ایسے اشخاص کی دل سے وقعت کریں گے جو اپنی زندگی کو کرشن کی زندگی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہاتما بدھ دنیا کی عظیم الشان ہستیوں میں سے ہے۔ لیکن کتنے اشخاص ہیں جو اپنی زندگی کو بدھ کے نقش ِ قدم پر چلانا چاہتے ہیں؟ لیکن اگر کوئی شخص یہ تہیہ کرلیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جنابِ مسیح کی زندگی کے مطابق کرے گا اور اپنے خیالات وجذبات وافعال کو آپ خدواند کے خیالات وجذبات وافعال کے نمونہ پر چلائے گا تو جس نسبت سے وہ اپنی ساعی(کوشش کرنے والا) میں کامیاب ہوتا ہے اسی نسبت سے روئے زمین کے تمام ممالک واقوام اس کی دل سے قدر، وقعت اور تعظیم کرتی ہیں اور اس کے وجود کو دنیا کے لئے باعث ِ غنیمت خیال کرتی ہیں۔ رینان جیسا آزاد خیال اور عقل پرست یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ
’’مسیح کی ذات نوع انسانی کی حقیقی فلاح کی مضبوط پشت وپناہ ہے ۔ اگر اس دنیا سے مسیح کا نام مٹ جائے تو دنیا کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں گی ۔ وہ ایسی بے نظیر ہستی ہے جس کے ہاتھ میں دنیاکی باگ ڈور ہے اور جس کے ذریعہ انسان خدا کے پاس پہنچ سکتا ہے ۔ نوع انسانی کے لئے اس کی زندگی ایک زبردست نمونہ ہے ۔ جب تک ہمارے سینوں میں مسکن گزیں نہیں ہوتا ہم کو حقیقی راستبازی او رپاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی ‘‘۔
کلمتہ اللہ کی شخصیت ہی ایک ایسی واحد شخصیت ہے جس کی تعلیم اور نمونہ کو ہر زمانہ ملک اور قوم کے کروڑوں افراد اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔کیا مشرق مغرب اور کیا شمال جنوب ۔ سب کا سر آپ کی ذات کے سامنے جھکا ہوا ہے ۔ جناب ِ مسیح اکیلے واحد مشرقی شخص ہیں جن کے سامنے اہل ِ مغرب اور اہل ِ مشرق سب کے سب سر بسجود(سجدہ ریز ہونا) ہیں۔ ابن اللہ کی ذات کامل ہے۔ آپ کی صفات جامع ہیں اور آپ کا نمونہ کل بنی نوع انسان کے لئے کامل اور اکمل ہے۔
کلمتہ اللہ کی آمد نے خداکی ذات کو انسان پر ظاہر کردیا ۔خدائے قدیم کا جلال ابن اللہ کاجلال کے ذریعہ بنی نوع انسان پر پرتو فگن ہوا ۔ خدانے مسیح میں مجسم ہوکر اپنی ذات کی ضیا پاشی کی ۔خدااور انسان میں ،خالق اور مخلوق میں ،عابد اور معبود میں گو فرق اور تمیز برقرار رہتی لیکن دونوں کے درمیان کوئی خلیج حائل نہ رہی ۔
در بشر روپوش کردہ است آفتاب
فہم کن اللہ اعلم بالصواب
صورتش برخاک وجان برلامکان
لامکانے فوقِ وہم سالکان
(مولانا روم )
فصل دوئم
مسیح کی فضیلت کی شان
اور
شہادت انجیل وقرآن
ہمارے مخاطب اور انداز خطاب
(۱)
اس فصل میں ہماراروئے سخن مسلمان برادران کی طرف ہے جن کا ایمان تمام کتب منزل من اللہ پرہے ۔چنانچہ قرآن میں وارد ہوا ہے۔
(۱)وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ (سورۃ آل عمران آیت ۱۱۹)
یعنی جوایمان رکھتے ہیں خداکی ساری الکتاب (بائبل )پر۔
کیونکہ قرآن مطابق آیت شریف
(۲) (وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ ) (سورۃالانعام آیت ۹۲)
یعنی یہ (قران بھی )کتاب (آسمانی )ہے جس کو ہم نے اتاراہے ۔برکت والی (کتاب )ہے اور جو(کتابیں ) اس (کے زمانہ نزول )سے پہلے ( کی موجود ) ہیں ان کی (بھی ) تصدیق کرتی ہے۔(ترجمہ نزیر احمد)
(۳) (وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ) (سورۃ بقرۃ آیت ۹۱)
یعنی قرآن حق ہے اور تصدیق کرنے والا ہے اس کتا ب کی جوان کے پاس موجود ہے ۔
(۴) (وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ) (سورۃ المائدہ آیت۴۶)
یعنی ہم نے عیسٰی کو انجیل دی اور اس کے اندر ہدایت ہے اور نور اور وہ تصدیق کرتی ہے تورات کی ،جواس کے آگے تھی اور وہ ہدایت ہے اور نصیحت ہے پر ہیز گاروں کے لئے۔
(نیز دیکھو نسا ء ع ۶ ۔بقرع ۵۔ع ۱۱ ۔ مائدہ ۷ ،۹ ۔۱۰۔ انعام ع ۱۱۔ ع۱۹۔مومن ع۶۔وغیرہ)
مندرجہ بالا آیات سے دو باتیں صاف ہو جاتی ہیں اول کہ کتب بائبل میں یا زمانہ قرآن تحریف واقع نہیں ہوئی ۔پس وہ تلاوت اور اسلامی ایمان کا جز ہیں ۔دوم ۔کہ سچا مسلمان وہی ہے جو بائبل وقرآن دونوں کو کتب سماوی سمجھ کر دونوں پر ایمان لائے اور دونوں کی غور وتدبر (انجام پر غور کرنا)سے تلاوت کرکے ان پر عمل کرے جس طرح نصاریٰ انبیاءیہود کی کتب پر ایمان رکھتے ہیں اور انجیل جلیل کے ساتھ ان کی بھی تلاوت کرتے ہیں۔
جومسلمان برادران قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ایمان کی بنیاد بناتے ہیں ۔ان کے لئے مسئلہ تحریف کی غلطی ثابت کرنے کے لئے مندرجہ بالا آیت کافی اور وافی (مکمل )ہیں۔لیکن جو عقل کو بھی دخل دیتے ہیں اور ادبیات کے تنقیدی اصولوں کے مطابق کتاب مقدس اور انجیل جلیل کی صحت کو پرکھناچاہتے ہیں ہم ان کی توجہ اپنی کتب ’’صحت کتب مقدسہ ‘‘اور ’’قدامت واصلیت اناجیل اربعہ(۲جلد) ‘‘ کی جانبمبذول کرتے ہیں اور ان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قرآن کو بھی موجودہ علم تنقید کے اصولوں پر پرکھیں تاکہ اس کی صحت سے بھی واقف ہوسکیں ۔
(۲)
پھر قرآن میں ارشاد ہوا ہے :۔
(تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ) (سورۃ آل عمران آیت ۶۴)
یعنی (اے اہل کتا ب ) ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مسلم ہے۔
اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے ۔
(وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ) (سورۃ عنکبوت آیت ۴۶)
یعنی تم اہل کتاب سے جھگڑا (بحث) کرو تو ایسے طور پر کرو جو سب سے اچھا ہواور ان سے یوں کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں قرآن پر جو ہم پر نازل ہوا اور بائبل پر جو تم پر اتری ۔ہمارا خدااور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے محکوم ہیں ۔
انجیل میں بھی وارد ہو ا ہے کہ :۔
• حق بات کو محبت کے ساتھ زبان سے نکالو۔(افسیوں ۱۵:۴)
• تمہارا کلام ہمیشہ پر فضل اور نمکین ہوتا کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آجائے۔(کلسیوں ۶:۴)
• جو کوئی تم سے تمہاری امید کی وجہ اور دلیل دریافت کرے اس کو جواب دینے کے لئے ہر وقت حلم اور خوف کے ساتھ مستعد رہو اور نیت بھی نیک رکھو۔(۱۔پطرس ۱۵:۳ وغیرہ)
مذکورہ بالاقرآنی اور انجیلی ارشادات کے مطابقرراقم السطور (جس نے یہ سطریں تحریر کی ہیں )اسلامی دنیا کو دعوت دیتا ہے کہ ایک ایسے کلمے کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مسلم ہے ۔انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں کا ایمان ایک واحد اللہ پر ہے جس کے ہم سب محکوم ہیں اور ہر کتب سماوی حضرت کلمتہ اللہ کی ثنا خواں ہیں ۔پس اس فصل میں ہم کلمتہ اللہ کی افضل خصوصیات کا ذکر کریں گے ۔جو اسلام اور مسیحیت میں مسلم ہیں ۔
مقام مریم و ابن مریم
(۱)
قرآن اور اناجیل سے یہ حقیقت واضح ہے کہ حضرت مریم صدیقہ حضرت کلمتہ اللہ کی پیدائش کے وقت پاکیزہ تھیں ۔ اناجیل ہمیں بتا تی ہیں کہ آپ کی منگنی حضرت یوسف سے ہو گئی تھی لیکن ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے (متی ۱۸:۱)جبرئیل فرشتہ اللہ کی طرف سے آپ کے پاس آیا ۔ اور اس نے کہا ’’سلام ۔خدانے تجھ کو اپنے فضل سے سر فراز فرمایا ہے کیونکہ خداتیرے ساتھ ہے ‘‘۔
حضرت مریم عفیفہ (پرہیز گار عورت ،باعصمت عورت )تھیں ۔آپ فرشتہ کو دیکھ کر اور اس کا کلام سن کر گبھرا اُٹھیں فرشتے نے آپ کی حالت دیکھ کر کہا۔
’’بی بی ۔خوف نہ کر ،کیوں کہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے ۔دیکھ تو حاملہ ہوگی اور تیرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا ۔اس کا نام یسوع رکھنا اپنے لوگوں کو ا ن کے گناہوں سے نجات دے گا ۔وہ ایک عظیم شخصیت کا مالک ہوگااور خداتعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا ۔مریم مقدسہ نے فرشتے سے پوچھا کہ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ میں اب تک مرد کو نہیں جانتی ۔جبرئیل نے جواب د یا میں کہ خداکا روح القد س تجھ پر نازل ہوگا اور خداکی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی ۔اس سبب سے وہ مولودمقدس اور ابن اللہ ہوگا ‘‘۔
حضرت مریم نے جواب دیا ’’میں تو خداکی بندی ہوں ۔اگر رضائے الہٰی یہی ہےتو مجھے منظور ہے میرے تیرے قول کے موافق ہو ۔تب فرشتہ آپ کے پاس سے چلاگیا‘‘۔(لوقا۲۶:۱۔۳۸؛متی ۱۸:۱ تاآخر ۔سورۃمریم ۱۶ تا ۳۳ آیات)
یہ خاتون کون تھیں ؟قرآن مجید ہم کو مفصل طور پر بتلاتا ہے کہ حضرت بی بی مریم اپنی پیدائش پہلے جب وہ ابھی بطن ِمادر (ماں کا پیٹ) تھیں تو آپ کی والدہ مکرمہ نے آپ کو خداکی نذر کرکے دُعا کی تھی کہ :۔
’’اے میرے رب جوکچھ میرے بطن میں ہے اس کو میں نے تیری نذر کیا ہے ،تو اس کو میری طرف سے قبول فرما‘‘(آل عمران آیت ۳۱)
جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو آپ کی والدہ نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو خداکے حفظ واماں میں دے کر کہا ۔
’’اے میر ے رب میں اس کو اور اس کی اولاد کو الشیطان الرجیم سے تیر ی پناہ میں دیتی ہوں ‘‘۔(آل عمران آیت ۳۱)
ایسی خدارسیدہ ماں کی دعا اپنا اثر دیکھائے بغیر نہ رہی پس :۔
’’اس کے رب نے بی بی مریم کو اچھی طرح قبول فرمایا‘‘۔(سورہ آل عمران آیت ۳۲)
اس آیہ شریفہ سے ظاہر ہے کہ خدا نے مریم کو بالفاظ انجیل اپنے ’’فضل ‘‘کے سایہ میں لے لیا اور آپ کو ’’شیطان مردود سے پناہ ‘‘میں رکھا اور آپ کے رشتہ دار حضرت زکریاہ جیسے صالح کا ہن (لوقا ۸:۱)کو آپ کا کفیل اور ذمہ دار بنایا۔(آل عمران ۳۲)
چونکہ حضرت زکریاہ کاہن تھے مریم بتولہ کی طفولیت کا زمانہ حضرت سموئیل نبی کی طرح خدا کے مقدس میں گذرا اور خدا خود آپ کی پرورش آسمانی خوراک سے کرتا رہا (قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ) (سورۃ آل عمران آیت۳۷)
اس تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب آپ جوان ہوئیں تو آپ ایک ایسی خاتون تھیں جس پر بالفاظ انجیل ’’اور خداکی طرف سے فضل ہوا ،اور بالفاظ اور قرآن‘‘۔
جس کو اللہ نے پسند فرمایا اور پاک کیا اور تمام جہاں کی عورتوں سے برگزیدہ فرمایا۔ (وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ) (سورۃآل عمران آیت ۴۲)۔
پس وہ اس قابل تھیں کہ آپ کے بطن اطہر سے ابن اللہ وکلمتہ اللہ پیدا ہو قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضرت بی بی مریم ایک ایسی پاک دامن اور مقدس ہستی تھیں جو صفت اور پرہیزگاری کے لحاظ سے تمام دنیاکے طائفہ نسواں پر فضیلت رکھتی تھیں ۔ جن کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ خاص کے خاص کے ہاتھ آپ کے پاس پیغام بھیجا ۔ یہی ہے کہ قرآن میں خدانے آپ کو ’’صدیقہ‘‘کا خطاب مستطاب(خوش گوار،نیک) عطافرمایا۔(مائدہ آیت ۷۹)
مسیح کی خارق عادت پید ائش
قرآن شریف میں وارد ہوا ہے :۔
یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت ۴۵)۔
یعنی اے مریم ،خدا تجھ کو اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام المسیح عیسیٰ بن مریم ہے وہ دنیا اور آخرت میں خوشنمابارونق چہرے والا ہوگا اور خدا کی قربت میں رہنے والا ہوگا ۔
انجیل جلیل کا پہلاورق ہمیں بتلاتا ہے کہ کلمتہ اللہ کی پیدائش میں اور مذہب عالم کے بانیوں کی پیدائش میں فرق ہے ۔ جب سے ابو البشر آدم خلق کیا گیا اس و قت سے لے کر دور حاضرہ تک کوئی شخص خواہ وہ کیساہی عظیم الشان ہو گزرا ہو حضرت روح اللہ کی طرح باکرہ (کنواری لڑکی )کے باطن اطہر سے خدا تعالیٰ کی قدرت خاص سے پیدا نہیں ہوا۔(متی ۲۰:۱؛لوقا۳۴:۱۔۳۵)
اس قسم کی پیدائش صرف ابن اللہ کی ذات سے ہی مخصوص ہے اور یہ خصوصیت ہے جس کو ہر دو کتب سماوی قرآن وانجیل تسلیم کرتی ہیں (عمران ۴۰تا۴۲۔مائدہ ۱۰۹ ۔مریم ۱۶ تا ۳۲ ۔وغیرہ)
پس ابن مریم کی خارق(پھاڑنے والا ،کرامت) عادت پیدائش پر خدا اس کے ملائک اور ہر دو کتب سماوی کے ماننے والے یعنی کل دنیا کے مسیحی اور مسلمان متعلق ہو کر سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔اس نقطہ نظر سے ابن مریم کو دنیا کے کل انسانوں ،ہادیوں ،نبیوں پر فوقیت اور تقدم حاصل ہے اور ابن اللہ فوق البشر انسان اور افضل الناس ہستی ٹھہرتے ہیں ۔
’’مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم‘‘کا مطلب
بعض عقل پرست آیہ قرآنی ’’عیسیٰ کی مثل اللہ کے نزدیک آدم کی مثال ہے ۔اس کو مٹی سے خلق کیا ۔پھر اس کو کہا ’’ہوجا ‘‘پس وہ گیا (سورۃ آل عمران آیت ۵۹) کو اس واقعہ کے انکا ر سے پیش کرتے ہیں ۔پس ہم اس آیت شریف کامفہوم بھی صاف کئے دیتے ہیں ۔تورات شریف میں آیا ہے کہ :۔
’’خدانے آدم کو مٹی سے انسان بنایا اور اس کے نتھنوں میں کا دم پھونکا ‘‘۔(پیدائش۷:۲)
انجیل میں وارد ہوا ہے کہ :ـ
’’خدا نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمیں پر پیدا کیا‘‘۔(اعمال ۳۶:۱۷)
قرآن مجید میں بھی آدم اور نسل آدم کی آفرنیش کی نسبت یہی آیا ہے ۔(سجدہ ،آل عمران ،دہر)
ابوالبشرآدم اور حوا کی پیدائش الہٰی تخلیق کے طور پر ماں باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی جس طرح دیگر حیوانات کے پہلے جوڑے نر اور مادہ کے بغیر پیدا ہوئے (پیدائش۱۹:۲) اس وقت کے بعد آج کے دن تک ہر حیوان اور ہر فرد بشر طبعی قانون فطرت کے مطابق نر اور مادہ سے پیدا ہوتا چلا آیا ہے۔لیکن اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک واحد فرد یعنی مسیح ابن مریم کی پیدائش مستثنیٰ (وہ شخص یا چیز جسے علیحدہ کیا گیایا چُنا گیا)اور یعنی فوق الفطرت طور پر ہوئی ۔بالفاظ مقدس پولوس :ـ
’’ابوالبشر آدم اول مٹی سے تھا اور خاکی تھا لیکن آدم ثانی مسیح زندگی بخشنے والی روح بنا اور آسمانی ہے ‘‘۔(۱۔کرنتھیوں۴۵:۱۵۔۴۷)
امراً مقضیاً
کا مفہوم
قرآن مجید میں مسیح عیسیٰ کا ذکر ہر جگہ صرف آپ کی کنیت ’’ابن مریم‘‘سے ہی کیا گیا ہے ( سورۃ آل عمران) آپ کے کسی زمینی باپ کا ذکر تو درکنار نام تک موجود نہیں ہے ۔قرآن نے بقا ئے جنس کے فطری جنس کے طریق کو منسوخ کرنے اور آفرنیش کا مقررہ سلسلہ توڑنے کی وجہ بھی اس کو بتلادی ہے :ـ
وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا (سورۃ مریم آیت ۲۱)
’’ہم (یعنی خدا)اس کو(مسیح کو )اپنی طرف سے دنیا کے آدمیوں کے لئے رحمت اور نشان بنانا چاہتے ہیں اور یہ امر ازل سے معین اور مقر ر ہو چکا ہے‘‘۔
اللہ نے یہ پسند نہ کیا کہ اپنے کلمہ اور روح کو اسی حقیر صلصال (گندھی ہوئی مٹی جس سے برتن بنتے ہیں ۔سوکھی مٹی جو بجانے پر آواز دے ۔)سے بنائے جس سےآدم اول اور اس کی نسل کی افزائش ہوئی ۔ایسی عظیم الشان خارق عادت پیدائش بغیر کسی خاص الہٰی مقصد ’’ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ‘‘کے نہ ہوسکتی تھی ۔دونوں کتب سماوی (انجیل وقرآن )کے مطابق یہ مقصد تھا کہ دنیا میں ایک ایساآیت اللہ اور رحمت اللہ پیدا ہو جو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے حجت اللہ ثابت ہو (یوحنا۳۹:۹۔۴۱)اسی واسطے ابن اللہ کی زبان معجز بیان نے فرمایا کہ:ـ
’’راہ حق اور زندگی میں ہوں ۔کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا ۔قیامت اور زندگی میں ہوں جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے توبھی زندہ رہے گا۔دنیا کا نور میں ہوں جو کوئی میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔ (یوحنا۶:۱۴؛۲۵:۱۲؛۱۲:۸)
کَانَ اَمُرًا مَّقضِیًّا
کی انجیلی تفسیر
قرآن حضرت کلمتہ اللہ کی بے نظیر پیدائش کو ’’ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ‘‘ قرار دیتا ہے یعنی ایک ایساامر جو خدا کے خاص اہل ارادہ کے مطابق ہوا ہے ۔ لیکن وہ اس قضائے الہٰی کی وجہ نہیں بتلاتا اور اس حقیقت کے مقصد کو پردہ اخفامیں رکھتا ہے ۔انجیل جلیل میں بھی اس لاثانی کلمہ کے جسم اختیار کرنے کی اصل غرض اور مدعا کو ’’راز ‘‘کہا گیا ہے جو ازل سے پوشیدہ رہا (رومیوں ۲۵:۱۶) اور کلمتہ اللہ کے رسولوں پر جو صاحب وحی تھے (سورۃ آل عمران آیت۴۵،سورۃ صف آیت ۱۴،سورۃمائدہ آیت۱۱۱؛۱۔کرنتھیوں ۳۷:۱۴؛لوقا۱۳:۶؛عبرانیوں ۴:۵؛متی ۲:۱۰؛مرقس ۳۰:۶ ؛ رومیوں ۱:۱ وغیرہ)۔
بذریعہ کشف ومکاشفہ خدا سے ازلی کے حکم کے مطابق ظاہر کیا گیا ۔(۱۔کرنتھیوں ۷:۲؛ ۱۔تیمتھیس ۱۶:۳؛افسیوں ۸:۱۔۹، ۹:۳۔۱۲ وغیرہ)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قضائے الہٰی کی غایت کیا تھی ؟ قرآن اس بارے میں خاموش ہے لیکن اس نے ایک اصول بتلا دیا ہے۔جس کے ذریعہ ہم ’’ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ‘‘ کو سمجھ سکتے ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول عربی کو مخاطب کرکے فرمایاہے ۔
(فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ) (سورۃیونس آیت ۹۴)یعنی (اے محمد )اگر تجھ کو اس چیز میں جو ہم نے تیری طرف اتاری کچھ شک ہو (یعنی پتہ نہ چلے )تو ان لوگوں سے پوچھ لیا کرجو تجھ سے پہلے الکتاب (بائبل )پڑھتے ہیں۔
(انعام ع۱۰؛قصص ۴۹)
امام رازی اس آیت شریفہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ
اس میں خطاب رسول سے ہے ۔چونکہ آپ انسان تھے بعض اوقات آپ کے دل میں مختلف قسم کے پریشان خیال اور شہبات وتفکرات پیداہوتے تھے ۔جودلائل اور تشریح کے بغیر رفع نہ ہوتے تھے پس خدا تعالیٰ نے بہ آیت نازل فرمائی
(تفسیرجلد ۵ صفحہ ۲۸، ۲۹)
تفسیر جلالین میں بھی لکھا ہے کہ
لفظ ’’تو‘‘کامخاطب رسول اللہ ہیں ۔
(جلد اول ص ۲۰۵)
آنحضرت اس حکم پر عمل بھی کرتے رہے ۔پھر اللہ نے جو حکم آنحضرت کو دیا اس کو عام کرکے سب مسلمانوں کو دیا اور فرمایا
(فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ)(سورۃنحل آیت۴۳)
یعنی اے مسلمانو ،اگر تم کو کسی شے کا علم نہ ہو توبائبل والوں سے دریافت کرلیاکرو۔
جب ہم اس قرآنی ارشاد کے مطابق انجیل جلیل کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں اس ’’امر مقدر‘‘ اور عظیم ’’راز ‘‘کو سمجھنے کی صحیح کلید مل جاتی ہے ۔چنانچہ انجیل میں وارد ہو ا ہے کہ :۔
جبرئیل فرشتہ نے حضرت مریم سے ملاقات کرنے کے بعد حضرت یوسف کو ’’خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داؤد۔اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے مت ڈر کیوں کہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے ۔اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیوں کہ وہی اپنی قوم کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ‘‘۔(متی ۲۰:۱۔۲۱)
اس لاثانی مولود مقدس کی پیدائش کے بعد فرشتہ شب کی تاریکی میں چرواہوں کے پاس ’’آکھڑا ہوا۔اور خداوند کا جلال ان کے گردچمکا اور وہ نہایت ڈر گئے ۔مگر فرشتہ نے ان سے کہا ۔
ڈرو مت کیوں کہ میں تم کو خوشی کی بشارت دینے آیا ہوں جو ساری امت کے لئے ہے ۔آج داؤد کے شہر میں تمہارےلئے نجات دہندہ پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند اور یکایک اس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کا ایک گروہ خدا کی حمد کرتا اور یہ کہتا ظاہر ہوا کہ عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمیں پر ان آدمیوں میں جن سے وہ خوش ہے صلح‘‘۔(لوقا۸:۲۔۱۴)
صاحب وحی مقدس پطرس رسول نے روسائے یہود کے سامنے فرشتہ کے پیغام کی توضیح کرکے فرمایا۔
’’کسی دوسرے کے وسیلے سے نجات نہیں ۔کیوں کہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں ‘‘۔
آپ نے سردار کاہن اور صدر عدالت والوں کے سامنے ہی علی الاعلان کہا۔
’’خدانے یسوع مالک اور نجات دہندہ مقر ر کر کے اپنے داہنے ہاتھ سر بلند فرمایا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے‘‘۔(اعمال ۱۲:۴؛۳۱:۵ وغیرہ)
مذکور ہ بالا انجیلی مقامات سے ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کی بے نظیر پیدائش سے خدائے عزوجل (بزرگ)کا ازلی ارادہ یہ تھا کہ مسیح جیسی لاثانی شخصیت کا مالک (یاانجیلی اصطلاح میں ’’اکلوتا بیٹا جو با پ کی گود میں ہے ‘‘) خداکا رسول بن کر (یوحنا۱۸:۱)دنیا کے لوگوں کو ازلی ابدی اور لازوال محبت کا پیغام دے اور گناہگار دنیا کو گناہوں سے نجات دے کر اور شیطان کی غلامی سے چھڑاکر ان کو نئی پیدائش عطا کر کے ازسر نو خدا کا فرزند بنائے یہ تھی اس راز کی حقیقت جس کی وجہ سے کلمتہ اللہ کا اس دنیا میں آنا مقرر ومعین ہوچکا تھا جو تمام عالم و عالیمان کے لئے معجزہ یعنی عاجز کر دینے والا نشان بنا۔
امام رازی لفظ’’امر ‘‘ سے مراد عالم بسیط(کشادہ) ومجرد ہیں ۔قرآن مجید المسیح کے لئے ’’ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ‘‘ جو آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ عالم بسیط ومجرد تھے اور ازلی وابدی ہستی ہیں اور آسمان یا اوپر کی دنیا سے تعلق ر کھتے تھے لیکن لفظ ’’ مَّقۡضِیًّا‘‘ نے اس حقیقت کی توضیح کردی کہ آپ کا لاتعین سے تعین میں آنا اور عالم رنگ وبو میں جلوہ پیرا سونا ازل سے ہی آپ کے لئے مقررو متعین ہوگیا ۔بالفاظ دیگر کلمتہ اللہ کا تجسم ہونا ازل سےہی مقررو متعین ہوگیا تھا۔
کلمتہ اللہ اور روح اللہ کا مفہوم
انجیل یوحنا میں وارد ہوا ہے کہ :ـ
ابتدامیں کلمہ تھا کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا سب چیزیں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں ۔اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی بنی نوع انسان کا نور تھی ۔کلمہ مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان خیمہ زن ہوا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال(باب اول)
قرآن میں بھی آیا ہے کہ فر شتے نے ام المومنین حضرت مریم صدیقہ کو کہا
(یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ) (سورۃآل عمران آیت ۴۵)
یعنی اے مریم تجھ کو اللہ اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے ۔
پھر لکھا ہے:ـ
(اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ)(سورۃالنساء آیت ۱۷۱)
یعنی مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا رسول ہے اور اس کا کلمہ ہے جو مریم کی طرف ڈال دیا اور وہ اللہ کا روح ہے ۔
مذکورہ بالا آیتوں میں عیسیٰ مسیح کو کلمتہ اللہ یعنی خداکا کلمہ یا کلام (کلمہ منہ )اور خداکا روح یا روح اللہ (رُوۡحٌ مِّنۡہُ) کہا گیا ہے ۔تمام قرآن کو تلاش کرکے دیکھ لو ۔ابن مریم کے سوا کسی دوسرے انسان یانبی کے واسطے الفاظ کلمہ منہ اور روح منہ وارد نہیں ہوئے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوع انسانی مخلوق ہے اور غیر اللہ ہے ۔ان دونوں آیتوں میں لفظ ’’منہ ‘‘آیا ہے۔ جو اضافت توصیحی ہے ۔یعنی غیر حضرت کلمتہ اللہ وروح اللہ مسیح عیسیٰ ابن مریم ایک ہی ذات کے ہیں اور ایک ہی واحد ذات سے نسبت رکھتے ہیں قرآن میں یہ اضافت اور نسبت غیر اللہ اور مخلوق انسان یا شے کے لئے استعمال نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی۔
علیٰ ہذا القیاس مذکورہ بالا دوسری آیت میں الفاظ ’’ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ‘‘ میں بھی اضافت توضیحی ہے ۔یعنی حضرت روح اللہ مسیح عیسیٰ ابن مریم وہی ذات اور جوہر ہیں جوہر ذات کا اللہ ہے ۔پس اس اضافت توضیحی سےثابت ہے کہ وحی الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور روح اللہ ایک واحد ہستی اور ذات الہٰی کے جوہر کے دو مختلف نام ہیں ۔قرآنی آیت کلمہ کی شخصیت جوہر اور ذاتیت ظاہر کرتی ہے اور ثابت کرتی ہیں کہ جو ام المومنین حضرت مریم صدیقہ سے مولود ہوا ۔وہ خدا ئے عز وجل کی ذات اور جوہر سے تھا۔دونوں کتب سماوی انجیل وقرآن کے ان الفاظ سے ثابت ہے کہ جو کلمہ مجسم ہو کر دنیا میں ظاہرہوا وہ ازلی ہے اور اس کی ذات خدا کی ذات میں سے ہے اور اس کا جوہر خدا کے جوہر میں سے ہے۔
معاًبہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی اور کلمتہ اللہ سے مراد کلمتہ من کلمات اللہ نہیں بلکہ ایسا کلمہ مراد ہے جو اپنی ذات وصفات میں واحد لا شریک اور لاثانی ہے کلمتہ اللہ اس افضلیت کے لحاظ سے تمام صفات پر حاوی اور محیط ہونے کے علاوہ ذات حق کا اکمل اور اشرف مظہر ہے اور خدا کا علم وحکمت اور ارادہ اور مقصد ہے ۔علیٰ ہذالقیاس روح منہ سے قرآن کی مراد متعدد روحوں میں سے ایک روح نہیں ہے بلکہ خدا کی اپنی روح کا عصا رہ نچوڑ اور جان مراد ہے آنخداوند کے القاب کلمتہ اللہ اور روح اللہ باطنی ،داخلی اور اندرونی نسبت پر دلالت کرتے ہیں اور کلمہ منہ اور روح منہ ذ ات حق تعالیٰ سے حدود و بروز ازلی ظہور کی وضاحت کرتے ہیں ۔بعض فلاسفر کے نزدیک علم ذات حق کا باطن ہے اور کلام اس کا ظہور ہے۔چنانچہ صوفی عبدالکریم کہتے ہیں۔ان الکلام ھوا لوجود الظاھر
نہانی از نظر اے بے نظیر از بس عیانستی
عیاں شد سرایں معنی کہ میگفتم نہانستی
گہے گویم عیانستی ۔گہے گویم نہانستی
زانیستی نہ آنستی ہم انیستی ہم آنستی
(تآنی )
انجیل جلیل میں مقدس پولوس کے الفاظ قرآن کی مذکورہ بالا اضافت کی وضاحت کردیتے ہیں ۔
’’انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سواانسان کی اپنی روح کے اسی طرح خدا کے روح کے سواکوئی خدا کی باتیں نہیں جانتا ۔روح خدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے‘‘۔(۱۔کرنتھیوں ۱۰:۲۔۱۱)
کیوں کہ خدا اور روح ایک ہی واحد خدا ہیں اور تینوں جوہر وذات کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ہاں ان تینوں میں امتیاز ضروری موجود ہے اور یہ امتیا ز دو کتب سماوی انجیل وقرآن میں موجود ہے چنانچہ قرآنی اصطلاح میں ایک کا نام اللہ ہے اور دوسرے کا نام مسیح عیسیٰ کلمتہ اللہ ہے اور تیسرے کا روح اللہ ہے انجیلی اصطلاح میں ایک کا نام باپ ہے اور دوسرے کا نام کلمہ اور ابن ہے اور تیسرے کا روح القدس ہے۔دونوں میں ذات وجوہر نہیں ہے۔
جناں باحق شدہ ملحق کہ استثنا بہ مستثنیٰ
حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں
من زقراں مغز را برداشتم
استخوان پیش سگاں انداختم
اس سلسلہ میں یہ حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ لفظ کلمہ تانیث کا صیغہ ہے ۔دونوں کتابوں میں یہ لفظ صیغہ مذکر میں وارد ہوا ہے۔جس سے کہ کلمہ کی شخصیت عرضی نہیں تھی،بلکہ جوہری تھی ۔جوخدا کے ساتھ ازل سے مستقل طور پر قائم تھی ۔دونوں الہامی کتابوں میں کوئی لفظ اس سلسلہ میں ذومعنی نہیں ہے۔ دونوں کتابوں کا مفہوم صاف اور واضح ہے ۔جس میں تصرف وتحریف اور من مانی تاویل کو دخل نہیں ۔دونوں کے الفاظ ہر کہ دمہ پر صاف طور پر واضح کردیتے ہیں ،کہ کلمتہ اللہ نہ صرف رسول خدا تھے (یوحنا ۱۳:۱۷ وغیرہ) بلکہ آپ الہٰی الاصل تھے اور خدا میں خدا ۔نور میں سے نور ۔خداکے واحد برحق کے کلمہ تھے جوپیکر انسانی میں جلوہ گر ہوئے ۔دونوں الہامی کتابوں میں آیا ہے کہ کائنات ایں کلمہ کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور وجود میں آئی ۔(یوحنا۱:۱۱۔۴؛بقر۱۱۱،عمران ۴۳)
یہ انجیلی آیات قرآنی الفاظ و آیات کی تفصیلی وتفسیر ہیں اور کلمہ کو ابن مریم سے مختص کرتی ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان میں عقل ادراک اور فہم ودانش موجود ہے ۔جس کے ذریعہ وہ غوروفکر کر کے اپنے تصورات وخیالات قائم کرتا ہے جن میں تخلیقی قوت ہوتی ہے اسی طر ح خلاق عالم کے کلمہ کی تخلیقی قوت سے کائنات وجودمیں آئی اور جس طرح غیر مادی تصورات مادی الفاظ وحروف تحریر وتقریر کے ذریعہ ظاہر ہو کر کسی شخص کے بانی الضمیر کو ادا کرتے ہیں اور سب لوگوں پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ کلام کرنے والا شخص کس قسم کا انسان ہے ۔اسی طرح الہٰی عقل کل کا پتہ حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم ،زندگی ،صلیبی موت اور ظفر یاب قیامت وغیرہ کے ذریعہ چل جاتا ہے ۔کیونکہ آپ کی قدوس شخصیت خداکی ذات کو منکشف کردیتی ہے اور ہر انسان کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ خدا کی قسم کا خدا ہے اور نوع انسانی کو یقین ہو جاتا ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے ۔
مذکورہ بالا اضافت توضیحی سے صاف ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ وروح اللہ کا صدور خدا کی ذات میں سے ہے ۔یاالفاظ عقائد کلیسیا کلمتہ اللہ خدا میں ہے خدانور میں سے نور حقیقی خدامیں سے حقیقی خدا ہے ۔کلمہ نے مجسم ہو کر انسانیت کے ساتھ حادث مگر حقیقی اتحاد اختیار کر لیا اور یوں کلمتہ اللہ ’’ابن مریم ‘‘ہوگئے ۔
لایا ہے میرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں (میرؔ)
اس کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔روح اور جسم دو جدا گانہ ماہیتیں ہیں جو ہر انسان موجود ہیں ۔کیونکہ ہر انسان ذی روح اور ذی جسم ہستی ہے اسی طرح ابن مریم میں الوہیت اور انسانیت دونوں موجود ہیں اور وہ کامل انسان تھے ۔لیکن آپ میں الوہیت او ر انسانیت کا اتحاد تحلیل(علیٰحدہ علیٰحدہ ہونا) ہوکر ترکیب کے طور پر نہ تھا بلکہ ’’ظاہر‘‘اور ’’مظہر‘‘کے طور پر تھا ۔قرآن مجید میں اللہ کا ایک نام ’’الظاہر ‘‘ہے اور انجیل میں کلمتہ اللہ کا نام ’’مظہر‘‘ باربار آتا ہے (یوحنا ۱۸:۱ وغیرہ )انشاء اللہ ہم آگے چل کر اس نکتہ پر مفصل بحث کریں گے۔
اسلامی علماء کی تاویل
(۱)مسلم علماء اور فلاسفہ بھی قرآنی الفاظ ’’روح منہ ‘‘سے مذکورہ بالا نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔چنانچہ شیخ الاسلام ابن قیم جوزی ’’خدا کی طرف روح کی اضافت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ـ
’’اب دو امر باقی رہ گئے ہیں ۔اول یہ کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فرشتہ نے مریم میں نفخ(پھونکنا،ہواسے بھرنا) کیا تھا جس طرح وہ دیگر انسانوں میں کرتا ہے تو مسیح کو روح اللہ کیوں کہا گیا ؟ جب تما ارواح اسی فرشتہ کے نفخ سے حادث ہوتی ہیں تو مسیح کی اس میں کیا خصوصیت رہی؟ دوم یہ کہ کیا حضرت آدم میں بھی اسی فرشتہ نے روح پھونکی تھی ؟ یا خود خداتعالیٰ نے جس طرح آدم کو اپنے ہاتھو ں سے بنایا تھا اسی طرح اس میں روح پھونکی تھی در حقیقت یہ دونوں سوال قابل غور ہیں ۔
امرا ول کا جواب یہ ہے کہ جس روح کو مریم کی طرف نفخ کیا گیا یہ وہی روح ہے جو خداکی طرف مضاف ہے اور جس کو خدا نے اپنے نفس کے لئے مخصوص کیا ہے اور یہ روح تمام ارواح میں ایک خاص روح ہے یہ روح فرشتہ نہیں ہے جو خداکی طرف سے ما ں کے پیٹ میں ہی مومن اور کافر کے بچوں کی روح پھونکتا ہے ۔بلکہ یہ روح جو مریم میں نفخ کی گئی وہ خاص روح ہے جس کو خدا نے اپنی ذات کے لئے مخصوص کیاہے ‘‘۔
(کتاب الروح مطبوعہ دائرہ المعارف ص۲۴۷)
(۲)امام رازی علیہ الرحمہ آیہ کریمہ
(اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ) (سورۃآل عمران آیت ۴۵)
کی نسبت سے لکھتے ہیں کہ
’’ اسۡمُہُ ‘‘ میں جو ضمیر ہے وہ مذکر ہے اور کلمہ کی طرف راجع (رجوع کرنے والا)ہے ۔حالانکہ وہ مونث ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو شخص کلمہ سے مراد ہے وہ مذکر ہے۔
(جلد ۳ ص۲۷۶)
لیکن امام صاحب نےاس بات پر غور نہیں کیا کہ جب اسمہ کی ضمیر کلمہ پر عائد ہوتی ہے تو کلمہ ایک ذات ٹھہرتا ہے اور یہ بشارت کلمہ کی ذاتیت کو ظاہر کرتی ہے ۔دران حا لیکہ جس کلمہ کی خوشخبر ی دی گئی وہ خداکی طرف سے ذات ہے تو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ اس صورت میں یہ ذات کیا ٹھہری ؟انجیل جلیل کے تمام صحائف بیک زبان اس سوال کاجواب یہ دیتے ہیں کہ وہ ذات الوہیت ہے جو اس ذات میں اپنی تمام معموری کے ساتھ موجود تھی ۔جس کو قرآن مجید میں کلمہ منہ اور روح منہ کا نام دے کر ممتاز کیا گیا ہے ۔تاکہ وہ اس ذات کا امتیازی نشان ہو۔ پس یسوع المسیح نبی ہیں مگر دیگر انبیاء کی مانند نہیں ہیں ۔آپ مسیح ہیں مگر دوسرے ممسوحوں کی مانند نہیں بلکہ آپ بالخصوص المسیح ہیں جن کا نسب کل نسل انسانی سے اعلیٰ اور بالا ہے جودونوں جہانوں میں مرتبہ عزت اور جلال والے ہیں ۔جنھوں نے مہد (ماں کی گود) ہی سے اپنی رسالت کا اعلان کردیا اور فرمایا (قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا)(سورۃمریم آیت ۳۰)
میں خداکا ہوں جس نے مجھے کتاب انجیل دی اور نبی بنایا ہے ۔
اس حقیقت کا امام رازی کوبھی اقبال ہے کہ
یہ ایک ایسی شریف فضیلت ہے جو صرف آپ کو ہی حاصل ہوئی اور کسی دوسرے نبی کو نہ توآپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد حاصل ہوئی ۔
(جلد ۳ ص ۶۹۱)
بعض معترض امام رازی کی تقلید کرکے کلمتہ اللہ کی جو تاویل کرتے ہیں وہ بعید ازحقیقت ہے دراصل اس کو تاویل نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ پہلو تہی ہے ۔فر ق صرف یہ ہے کہ معترضین (اعتراض کرنے والے) کی زبان بھونڈی لیکن امام صاحب کو نہایت لطیف ہے امام صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کلمتہ اللہ بغیر نطفہ کے یا کسی دوسرے وسیلہ کے حکم قدرت خداسے پیدا ہوئے اسی طرح ابو البشر آدم اور دیگر مخلوقات بھی ابتدا میں وجود میں آئے ۔پس المسیح میں کوئی فضیلت یا خصوصیت نہیں رہتی ۔اس قسم کے معترضین بھی حقیقت بالائے طاق رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ قرآن مجید نہ توحضرت ابوالبشر کے اور نہ کسی دوسرے مخلوق کے حق میں کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں ۔یہ درست ہے کہ آدم اور عیسیٰ ناصری دونوں بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن اس کے باوجود مسیح ناصری آدم سے اس نسبت کے سبب کہ وہ خاص کلمہ منہ اور روح منہ ہیں ،ممتاز کئے گئے ہیں امام صاحب کی تاویل کے مطابق آدم بھی کلمہ منہ اور روح منہ ٹھہرتا ہے لیکن قرآن آدم کو کلمہ منہ بھی نہیں ٹھہراتا ۔پس امام صاحب کے لئے یہ بہتر ہوتا کہ آپ ولادت مسیح کی بابت اس بھید کے لحاظ سے(جو اس الہٰی نسبت کلمہ منہ وروح منہ میں پوشیدہ ہے) اس طور سے استدلال کرتے کہ یہ الہٰی نسبت عیسیٰ مسیح ناصری کے بن باپ پیدا ہونے کے باعث ہے اس کے برعکس آپ نے یہ دلیل دی کہ آپ کی صادق عادت پیدائش اس نام یعنی کلمتہ اللہ کا سبب ہے لیکن آنخدا وند نے بغیر باپ کا پیدا ہونا یہ لازم نہیں ٹھہرتا ان کو یہ نام دیا جائے جیسا کہ خلق آدم کے موقعے پر ابوالبشر کے یہ نام نہیں دیا گیا تھا ۔کم ازکم ہر مومن ایماندار مسلمان پر یہ بات عیاں ہوجانی واجب ہے کہ قرآن مجید میں المسیح کو جو اللہ کی طرف بطور کلمہ منہ اور روح منہ نسبت دی گئی ہے ۔وہی آپ کے خلاف قاعدہ طبعی پیدا ہونے کا حقیقی سبب اور علت ہے ۔
(۳)قرآن مجید میں جیسا متذکرہ بالاآیہ شریفہ میں لکھا ہے ۔حضرت عیسیٰ مسیح کو روح من اللہ کانام بھی دیا گیا ہے ۔امام رازی اس کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ وہ روح ہے دیگر ارواح شریفہ ،عالی اور قد س میں سے ہے جس کو خدا نے اپنی طرف شریف وتعظیم کے لئے نسبت کی ہے اور اس آیہ کے باقی الفاظ ابدتک بروح القدس سے مراد یہی ہے ۔روح عالیہ ہے لیکن نہ تو امام صاحب نے اور نہ ان کےمقلدوں (تقلید کرنے والا ،پیرو) نے اس بات پر غور کیا کہ یہ تاویل ان کو مشکل میں ڈالے گی ۔کیونکہ اگر مسیح روح ہے خدا سے یعنی ’’ارواح شریفہ قدسیہ اور عالیہ میں سے ‘‘ جس کو خدا نے ایسی شرف وعزت وعظمت بخشی ہے کہ اس کو اپنے نفس کی جانب منسوب کر لیا ہے تو وہ روح القدس کو ن سی تھی جس کی نسبت لکھا ہے کہ ’’مدد کی ہم نے تجھ کو روح پاک سے ‘‘؟ کیا وہ روح القدس سے مدد دیتا ہے ؟اور کیا مسیح جو یہی روح سے مدد دی جائے ،جو اس کو نشانی اور معجزات کرنے کی قدرت دے ؟ہر صاحب عقل اس سوال کا جواب نفی میں دے گا کیونکہ یہ امداد فقظ اس شخص کے لیے ہی جائز ٹھہرتی ہے جو خدا کی روح میں سے نہ ہو یعنی جو روح منہ نہ ہو لیکن قرآن مجید صاف الفاظ میں المسیح کو روح منہ کہتا ہے پس یہ تاویل غلط ہے اور روح منہ وہ ہے جو کہ خدا سے صادر ہے ۔نہ کہ جو’’دیگر ارواح شریف اور قدس سے ہے ۔اس سلسلہ میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے یہ روح جس سے خدا نے اپنے مسیح کو مخصوص کیا جو دیگر انبیاء اور مرسلین کو بھی عطا ہوئی اور قرآن کا قول روح منہ عبث ہوجاتاہے ۔لیکن قرآن کاقول عبث نہیں ہوسکتا پس اس وجہ سے مراد ہرگز نہیں نعمت نہیں ہوسکتی لہٰذا اس سے مراد ذات ہے اور روح منہ کا الہٰی ذات سے صادر ہونا ثابت ہوگیا اور یہی جیسا ہم سطور بالا میں کہہ آئے ہیں ۔انجیل جلیل فرماتی ہے ۔انجیل کی اصطلاح میں آنخداوند کلمتہ اللہ ابن اللہ ہیں ۔قرآن کی اصطلاح میں آپ کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہیں اور دونوں کتب سماوی اس امر پر متفق ہیں کہ آپ خداکی ذات میں سے صادر ہیں ۔
بعض احباب لفظ ’’ابن ‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں ۔کہ ان اعتراضات کا جواب رسالہ ابوت خداوندی اور ابنیت مسیح میں دے چکے ہیں اور معترض کی توجہ اس کتاب کی جانب مبذول کرتے ہیں دیگر احباب بار بار یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح کو رسول کہو ۔ان کو ابن نہ کہو۔جواباً عرض ہے کہ آنخداوند نہ صرف رسول اللہ ہیں بلکہ کلمتہ اللہ اور ابن اللہ بھی ہیں اور یہ دونوں کتب سماوی انجیل وقرآن کی متفقہ (اتفاق کیاہوا)آواز ہے (لوقا۲۵:۱) انجیل جلیل میں باربار آتا ہے کہ آپ خدا کے رسول ہیں ۔(یوحنا۳:۱۷؛ ۱۷:۳وغیرہ )اور بار بار یہ بھی آیا ہے کہ آپ ابن اللہ ہیں (لوقا۳۳:۱۴ ؛ مرقس ۱:۱؛لوقا ۲۵:۱ وغیرہ)کیا ایک واحد شخص بیک وقت رسول اللہ اور ابن اللہ نہیں ہوسکتا ؟ مثال کے طور پر کیا کوئی بادشاہ یا ملک کا حاکم اپنے بیٹے کو بطور سفیر کسی دوسرے حاکم ملک کے پاس نہیں بھیج سکتا؟کیا وہ بیک وقت رسول اور ابن ملک نہیں ہوتا ۔اسی طرح ایک مثال سے ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ بدرجہ احسن خدا باپ کی رضا اور ارادہ کو جانتے تھے ،کیوں کہ آپ خدا سے نکلے تھے اور رسولوں اور نبیوں سے بڑھ چڑھ کر الہٰی پیغام محبت ونجات کو بنی نوع انسان پر واضح کر سکتے تھے ۔دیگر نبی صرف مرسل اور فرستادے (قاصد ،ایلچی)تھے۔ لیکن آپ خداکے ابن وحید تھے۔انجیل جلیل سے ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ کی حساس طبعیت کو اس فرق کا کا مل احساس تھا (مرقس ۱:۱۲۔۱۲؛متی ۲۳:۲۱۔۴۶؛لوقا ۹:۲۰۔۱۹)۔
ہم کو امید واثق سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ اہل کتا ب لاتغلوافی دینکم اپنے دین میں مبالغہ نہیں کرتے بلکہ وہی بات کہتے ہیں جو قرآن وانجیل دونوں کتب سماوی کہتی ہیں ۔مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے گو قدر تا الفاظ اور اصطلاح میں فرق ہے ۔اہل انجیل اپنے دین میں مبالغہ کے مرتکب نہیں ہیں ۔بیضاوی بھی کہتا ہے کہ
مسیح صاحب روح ہیں جو خدا سے صادر ہوئی نہ بوسیلہ اور نہ قاعدہ طبعی سے اور نہ مادہ سے ۔
اور یہی عقیدہ مسیحی کلیسیا کا عقیدہ ہے کہ روح القدس کی ذات میں سے ہے صادر ہوا جو انجیلی اصطلاح ہے اور خود کلمتہ اللہ کی زبان حقیقت ترجمان کی ترجمان ہے (یوحنا۴۶:۱۵) ۔کلمتہ اللہ نے اپنی نسبت آخری شب خدا سے دعا مانگتے وقت فرمایا ’’اے باپ تو اس جلال سے جومیں دنیا کی پیدائش سےپیشتر تیرے سے رکھتا تھا ۔مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے ۔۔۔۔تونے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی (یوحنا ۵:۱۷ ، ۲۴؛ افسیوں ۴:۱ ؛۱۔ پطرس ۲۰:۱) پھر آپ نے فرمایا’’میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے اور کو ئی بیٹے کو نہیں جانتا سوائے باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوابیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرے۔(متی ۲۷:۱۱ ؛یوحنا۸:۱؛ ۴۶:۶ ؛ ۳۹:۷ ؛ ۱۷:۸ ؛ ۲۵:۱۷ ؛۱۵:۱۰ وغیرہ)یہ ان آیات بینات(روشن دلائل ) میں القاب کلمہ منہ وروح منہ کی صحیح تفسیر ہے جو خود کلمتہ اللہ اور روح اللہ نے فرمائی ہے ۔لہٰذا یہ تفسیر آپ کا فرمودہ ہونے کی وجہ سے قطعی صحیح ہے ۔جس کو قرآنی آیہ نسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون کے مطابق ہر مومن مسلمان کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔
وجھافی الدنیا والاخرۃ کی انجیلی تفسیر
(اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ)(سورۃ آل عمران آیت ۴۵)
سورۃ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل فرشتہ ام المومنین حضرت بی بی مریم صدیقہ کو بشارت دیتا ہے کہ آپ کا مولود قدوس نہ صرف خدا کا کلمہ اور خدا کا روح ہوگا بلکہ وہ :ـ ’’دنیا اور آخرت میں خوشنما ،خوش روا ور رونق دار چہرے والا ہوگا اور وہ خدا کے مقربین میں سے ہوگا جس کو خدا کی خاص قربت حاصل ہوگی ۔
قرآن کا یہ خطاب کلمتہ اللہ کے خصائل وشمائل (عادتیں )کے اعلیٰ ترین مدارج اور حضرت روح اللہ کی روحانیت کے اوج (بلندی)کا مظہر ہے ۔ آپ کا مبارک چہرہ رونق دار اور خوش نما تھا اس حقیقت کا ذکر اناجیل میں پایا جاتا ہے ،چنانچہ لکھا ہے کہ :ـ
’’یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور ان کو لے کر ایک اونچے پہاڑپر دعا کرنے گیا ۔جب وہ دعا کر رہا تھا تو ایسا ہوا کہ تو ایسا ہوا کہ اس کے چہرہ کی صورت بدل گئی اور اس کا چہرہ آفتا ب کی مانند چمکا اور اس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہوگئی۔(لوقا۲۸:۹۔ ۳۶)
قارئین کو یاد ہوگا کہ حضرت موسیٰ نے خدا سے کوہ سینا پر منت ِعرض کی تھی کہ مجھے اپنا جلال دکھا ۔لیکن خدانے اس کو فرمایا تھا تومیرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا (خروج ۱۸:۲۳۔۲۰)۔لیکن ارض مقدس کے پہاڑپر خداوند کے رسولوں کی آنکھوں نے آپ کا پرنور ’’جلال دیکھا اور بادل نے آکر ان پر سایہ کیا اور جب وہ بادل میں گھرنے لگے تو ڈر گئے اور بادل میں سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا برگزیدہ بیٹا ہے ۔اس کی سنو‘‘(لوقا۳۲:۹۔۳۵)۔
تب کلمتہ اللہ کا چہرہ ایسا چمکتا تھا جیسے تیزی کے وقت آفتاب (مکاشفہ ۱۶:۱)
تو بدیں جمال وخوبی بر طور گو خرامی
ارنی بگوید آنکس کہ بگفت لن ترانی
کلمتہ اللہ کے چہرے کی یہ رونق قربت الہٰی اور روحانی خوشی کا مظہر (یوحنا ۱۱:۱۵؛ ۱۲:۱۷؛ ۱۴:۱ وغیرہ)ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خوشنما اور دلکش تھی (یوحنا ۱۱:۱۵؛ لوقا ۱:۴)کیونکہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ قربت خداوندی میں گزرتا تھا (لوقا ۱:۱۱؛ ۲۸:۹؛ یوحنا۱۶:۸؛ ۲۹:۸؛ ۱:۱۷۔۵؛ ۳۲:۱۶ ؛ مرقس ۱۸:۹ وغیرہ)
چنانچہ مقدس پطرس اس چشم دید واقعہ کے سالہا سال بعد لکھتا ہے کہ :ـ
’’جب ہم نے تم کو اپنے جنابِ مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا کہ دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اس کے جلا ل کی شوکت کی عظمت وشوکت کو دیکھا تھا کہ اس نے خدا باپ سےاس وقت عزت اور جلال پایا جب اس افضل جلال میں سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اور جب ہم اس کے ساتھ مقدس پہاڑ پر تھے توآسمان سے یہی آواز سنی‘‘(۲۔پطرس ۱۶:۱۔۱۸)
اور چشم دیدگواہ مقدس یوحنا فرماتا ہے ۔کلام فضل اور سچائی سے معمور ہوکر انسانوں کے درمیان خیمہ زن رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا ،جو صرف باپ کے ابن وحید کی شان کے ہی شایاں ہے (یوحنا۱۴:۱)
کلمتہ اللہ ’’دنیا کی پیدائش سے پیشتر خداکے جلال میں تھے ‘‘۔رفع آسمانی کے بعد خدا نے اپنے کلمہ کو اپنی قربت سے جلالی بناکر (یوحنا۵:۱۷) اس ذی شان کو مالک اور منجی ٹھہراکر اپنی قدرت کے دہنے ہاتھ پر سر بلند کیا تاکہ بنی نوع انسان کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے۔ (اعمال۳۱:۵ ) یہ ہے قرآنی آیہ بالا کی انجیلی تفسیر جس میں کلمتہ اللہ ،روح اللہ وابن اللہ کے دنیا اور آخرت کے روحانی کمالات اور اعلیٰ مدارج ومراتب درج ہیں ۔ایک معترض نے لکھا ہے کہ قرآن مجید حضرت موسیٰ کے لئے عند اللہ وجہیہ آیا ہے پس آنخداوند کی اس سے کوئی کمال وخوبی ثابت نہیں ہوتی ۔جواباً عرض ہے کہ امام رازی نے تفسیر کبیر میں وجاہت (چہرے کی رونق ،عزت ) سے مراد معرفت اور عرفان لیا ہے ۔لیکن بیضاوی نے المسیح کے لئےلکھا ہے کہ اس دنیا میں وجاہت کا مفہوم نبوت اور دوسری دنیا میں شفاعت کیا ہے ۔رازی بھی اس تفسیر کی حمایت کرتا ہے اور زمحشری کشاف میں لکھتا ہے کہ اس دنیا میں وجاہت سے مراد نبوت اور تقدم وتفوق (برتری )ہے ۔بالفاظ دیگر خداوند مسیح کو اس دنیا میں بنی نوع انسان پر تفوق اور کل انبیا پر فضیلت حاصل ہے اور اس دنیا میں وہی شفیع عاصیاں ہوں گے اور یہ تاویل وتفسیر انجیل جلیل کے مطابق بھی ہے (عبرانیوں ۲۵:۷ وغیرہ)
ایک اور امر غور ہے کہ جس طرح القاب کلمتہ اللہ اور روح اللہ قرآن مجید میں کسی دوسرے انسان اور نبی کے لئے واردنہیں ہوئے اسی طرح وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ سوائے المسیح کی ذات کے کسی دوسرے شخص کے لئے وارد نہیں ہوئے ۔ناظرین کو یاد ہوگا کہ قرآن میں آیا ہے کہ ’’تم جدھر منہ کروادھر ہی اللہ کا چہرہ ،شکل یا نور ہے ’’وجھہِ ‘‘لفظ ’’وجہ‘‘سے مشتق ہے ۔جس کے معنی ہیں چہرہ ،صورت۔پس جب آنخداوند کو ’’ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ‘‘ کہا گیا ہے تو قرآن کا مطلب ہے کہ ’’آپ کی صورت کو خدا نے اپنی صورت پر آدم کی طرح پیدا کیا (پیدائش ۲۷:۱ ؛لوقا ۳۵:۱) اور آپ خدا کی صورت ہیں (۲۔کرنتھیوں ۴:۴) اور اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولود ‘‘ہیں (کلسیوں ۵:۱)۔لفظ ’’وجھہ ‘‘وجہ سے مشتق اور صفت مشبہ ہے ۔ یہ جو معترض صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن میں حضرت موسیٰ کی نسبت بھی ’’ وجہیہ ‘‘ آیا ہے صحیح ہے لیکن وہ اس بات کونظر انداز کرگیا ہے کہ المسیح کے متعلق ’’ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ‘‘آیا جو آنخداوند کا امتیازی نشان ہے اور نہ موسیٰ کے لئے اور نہ کسی دوسرے انسان کے لئے قرآن میں آیا ہے ۔
مسیح ابن اللہ
(۱)
سطور بالا میں ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگاکہ ’’کوہ مقدس کے افضل جلال ‘‘میں سے اللہ جل شانہ کی آواز نے خداوند کے تین رسولوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا :ـ
’’یہ میرا برگزیدہ ابن ہے جو میرا محبوب ہے جس سے میں خوش ہوں ۔اس کی سنو‘‘(لوقا۳۵:۹؛ ۲۔پطرس ۱۷:۱)
بعنیہ یہی آواز اور خطابات (یعنی برگزیدہ ابن اور محبوب ربانی ) خداوند مسیح کے بپتسمہ کے وقت سنائی دیتے تھے (متی ۱۷:۳) جب ’’آسمان کھل گیا اور ’’روح القدس جسمانی صورت میں ‘‘آپ پر نازل ہوا(لوقا۳۲:۳)
پس خود خدا ئے عزوجل نے مسیح کو خطاب ’’برگزیدہ بیٹا‘‘ عطا فرمایا ۔اس لقب کا وہی مطلب ہے جو قرآن میں ’’روح اللہ ‘‘کے لقب سے مراد ہے۔ جہاں قرآن میں آیا ہے کہ فرشتے نے صدیقہ کو بشارت دی کہ خدا اس کو روح اللہ عطا کرے گا ۔وہا ں انجیل میں آیا ہے کہ فرشتہ نے بشارت دیتے وقت مقدسہ کو کہا تھا کہ اس کا مولود مسعود(خوش نصیب ،مبارک ) عظیم المرتبت (درجہ ،مرتبہ) ہوگا اور خدا تعالیٰ کابیٹا کہلائے گا (لوقا۳۲:۱ )۔آپ کے پیش رو یوحنااصطباغی (یحییٰ)نے قوم یہود کو کہاکہ :۔
’’یہ خدا کا بیٹا ‘‘(یوحنا۳۴:۱)۔
اصطباغ کے وقت خدانے فرمایا:۔
’’تومیرا بیٹا ہے جو میرامحبوب ہے تجھ سے میں خوش ہوں ‘‘۔
مقد س یوحنا انجیل نویس کہتا ہے کہ آپ ’’خدا کے ابن وحید اور باپ کے مقرب ترین ہیں ‘‘(یوحنا ۱۸:۱)۔
خود کلمتہ اللہ کی زبان صداقت بیان نے فرمایا کہ آپ کہ آپ’’خداکے ابن ہیں (یوحنا۳۵:۳۔۳۶؛ متی ۲۷:۱۱ وغیرہ)
کلمتہ اللہ تمام لوگوں کو دعوت عام دیتےہیں کہ وہ ’’خدا کے بیٹے پر ایمان لائیں (یوحنا۲۶:۱۰) ۔
آپ کے حوارئین اور دوازدہ رسول جوصاحب وحی والہام تھے (سورۃ المائدہ ۱۱۱)خداکے خاص الہام سے آپ کو’’زندہ خدا کا بیٹا مسیح‘‘مانتے ہیں (یوحنا ۱۶:۱۶۔۱۹)۔
مقدس پولوس لکھتے ہیں کہ ’’آپ قدرت کے ساتھ خدا کے بیٹے تھے‘‘(رومیوں ۴:۱وغیرہ)
غیر یہود رومی اقرار کرتے ہیں کہ آپ خداکے بیٹے تھے (مرقس ۳۹:۱۵) خود ابلیس لعین (لعنتی) اور اس کے چیلے چانٹے تک اقبال کرتے ہیں کہ آپ خدا کا بیٹا ہیں (متی ۳:۴؛ ۲۹:۸ وغیرہ)
مسیحی کلیسیائے جامع نزول قرآن سے صدیوں پہلے ابتداہی سے اقرار کرتی چلی آتی ہے آپ خداکا بیٹا ہیں اوررسول عربی کی بعثت کے زمانہ میں قبائل عرب جو مسیحی تھے یہی شہادت دیتے تھے کہ ’’آپ المسیح ابن اللہ ‘‘ہیں ۔چنانچہ قرآن اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ’’آپ المسیح ابن اللہ ‘‘ہیں۔
(وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ)(سورۃالتوبہ آیت ۳۰)
’’یعنی عیسائی دنیا یہی کہتی ہے کہ مسیح خداکا بیٹا ہے ‘‘۔
(۲)
مذکورہ آیات سے ظاہر ہوگیا کہ اہل یہود میں (جوکٹر موحد تھے ) خطاب ’’ابن اللہ‘‘کفر وشرک تصور نہیں کیا جاتا تھا ۔اس خطاب سے نہ تو شرک ٹپکتا تھا اور نہ کفر کی بو آتی تھی ،لیکن قرآن اس یہودی اور مسیحی اصطلاح کو استعمال نہیں کرتا کیونکہ عرب کے مشرکین اوربت پرست اپنے معبودوں اور دیوی دیوتاؤں کی نسبت سے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ جسمانی طور پراللہ کے اور دیگر کے اور دیگرمعبودوں کے بیٹے بیٹیاں ہیں (سورۃ مریم۹۱۔۹۲) ۔وہ فرشتوں کو بھی خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں اور عرفی معنوں میں اپنے دیوتاؤں کو خدا کے بیٹے مانتے تھے ۔اندریں حالات خدشہ تھا کہ عرب مسلمان جوان مشرکوں میں سے نکل کر خدااوررسول پر ایمان لاتے تھے ،وہ شرک وکفر کے خیالات کو مومنین کی جماعت میں نہ لے آئیں۔ پس قرآن نے اس خطاب کو استعمال نہ کیا ،بلکہ اس کی جگہ ’’روح اللہ ‘‘کا خطاب مستعمل کیا بکس کا قرآنی مفہوم وہی ہے جو انجیل میں ’’ابن اللہ ‘‘کا ہے (متی۱۷:۳)۔
پس گو قرآن نےلفظ’’ابن ‘‘کا استعمال ترک کر دیا ،لیکن اس نے اسکے معنی اور مفہوم کو برقرار رکھا ۔ہم سطور بالا میں بتلا آئے ہیں کہ دونوں کتب سماوی انجیل وقرآن کا مطلب واحد ہے صرف اصطلاحات دو ہیں ۔دونوں اصطلاحوں سے یہ مترشح(ٹپکنے والا) ہے کہ ابن اللہ کا وہ مقام ہے جوفوق البشری ہے گودونوں کتب ربانی مسیح کوبشر مانتی ہیں ۔(سورۃمائدہ ۷۹؛ ۱۔تیمتھیس ۵:۲ ) لیکن کودونوں آسمانی کتابیں مسیح کو مانتی ہیں وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ کوئی دوسرا خاکی انسان ضعیف البنیان (جس کی بنیاد کمزور ہو)اس مقام پر نہیں پہنچا اور نہ پہنچ سکتاہے ۔
دنیا کے مشرکوں کی طرح انجیل کسی کو بھی اللہ کی صاحبہ اور ’’جورو‘‘نہیں مانتی اور نہ کلمتہ اللہ کو ولد اللہ اور اللہ تعالیٰ کو کسی کا والد مانتی ہے۔اللہ کی ذات پاک اس قسم کے رشتہ اور تعلق سے منزہ ہے ۔قرآن کی طرح انجیل بھی کہتی ہے ۔
’’اللہ ایک ہے جو واجب الوجود ہے نہ اس نے کسی کوجنا ہے اور نہ وہ خود کسی سے جنا گیا ہے اس کے جوڑ کا کوئی نہیں ‘‘(سورہ اخلاص)۔
دونوں کتب سماوی اللہ کی کوئی بیوی تجویز نہیں کرتیں اور دونوں ایسے مشرکانہ تصور کو کفر قرار دیتی ہیں ۔کلیسیا ئے جامع نے گذشتہ دوہزار سالوں میں ہر قسم کے مشرکاتصورات اور الفاظ سے قطعی اجتناب کیا ہے اور لفظ’’ابن ‘‘کو اللہ کے ساتھ بعینہ اسی طرح ترکیب دی ہے جس طرح قرآن میں لفظ ابن کو مختلف الفاظ کے ساتھ استعمال کیاگیاہے ۔مثلاً ابن السبیل بمعنی مسافر (بقر۷۲)ام الکتاب (عمران ۵؛ انعام ۹۲) امالقریٰ وغیرہ الفاظ ابن الوقت ابن الارض ابن سحاب وغیرہ میں لفظ’’ابن ‘‘مجازی اور غیر حقیقی مناسبت کو مدنظر رکھ کر استعمال کیا گیا ہے ۔بعینہ اس طرح خطاب ’’ابن اللہ ‘‘استعارہ کے طور پر انجیل جلیل میں مستعمل ہوا ہے ۔چنانچہ مولوی ثناء اللہ مرحوم تک کو اس حقیقت کا اقبال ہے اور وہ لکھتے ہیں۔
’’لفظ ابن اللہ انجیل کے خاص محاورہ میں عبداللہ کے معنی میں آیا ہے ‘‘
(اہل حدیث ۱۰ جولا ئی ۱۹۴۲ء )ص۴
مرحوم مرگئے لیکن انجیل کے خاص محاورہ کو آپ نے کبھی سمجھنے کی زحمت گوار از کی انجیل جلیل میں المسیح کو حقیقی اور اصلی وداخلی اور باطنی فقید المثال نسبت واضافت کی جہت سے ابن اللہ کہا گیا ہے ۔آپ علم اور کلمتہ اللہ کی جہت سے ابن اللہ ہیں ۔تو افلاطونی فلاسفر فائلو نے علم اللہ یاکلمتہ اللہ کو ابن اللہ کہا ہے امام غزالی کسی مصنف کی کتابوں کر اس کی باطنی اولاد کہتے ہیں ۔اہل عرب خود خیال کو بنت الفوادیعنی دل کی بیٹی کہتے ہیں۔توکس قدر افضل طور پر المسیح خدا کی حکمت وشعور ،عقل ودانش اور علم وکلام کی حیثیت سے ابن اللہ اور ابن وحید کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔المسیح کلمتہ اللہ ذات حق سے ازلی ظہور وبروز وصدور کے اعتبار سے ابن اللہ ہیں ۔علم اللہ اور کلمتہ اللہ میں ازل سے سب کلمات اور تمام موجودات موجود تھیں اور موجود ہیں یعنی وجودذہنی کے لحاظ سے انجیلی اصطلاح’’ابن اللہ‘‘ ایک نہایت لطیف محاورہ ہے ۔ایں خطاب سے مراد ہے کہ کلمتہ اللہ نے ہر امر میں اپنی مرضی کو زندگی کی ادنیٰ ترین تفاصیل میں رضائے الہٰی کے ایساتابع کردیاتھاکہ دونوں کی رضا ایک اور واحد رضا اور دونوں کی مرضی ایک اور مرضی تھی ۔آپ کی انفرد ی رضا فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے بلند اور رفیع مقام پر پہنچ چکی تھی (یوحنا۳۶:۵؛ ۴:۹ ؛فلپیوں ۶:۲ وغیرہ)۔
خود قرآن کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ فی نفسہ کسی کو ’’ابن اللہ ‘‘کہنا غلط نہیں ہے ۔چنانچہ ملاحظہ ہو :ـ
(لَوۡ اَرَادَ اللّٰہُ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰی مِمَّا یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ)(سورۃ زمر آیت۴)
یعنی اگر خداکو یہ پسند آیا کہ کسی کو فرزندی میں قبول فرمائے تو اپنے مخلوق میں سے جس کو چاہتا جن لیتا ۔وہی پاک اور اکیلا ہے ۔
صرف کلمتہ اللہ کی ہستی اسی واحد فوق البشری معصوم انسانی ہستی سے جو بالمتخصیص اس شرف کے لائق ہے چنانچہ مقدس لو قا انجیل نویس ہم کو بتلانا ہے کہ :ـ
اللہ تعالیٰ کو یہ پسند آیا کہ ابن مریم جیسے قدوس مولود کے ہیں ’’باپ کی نسبت سوائے اپنی ذات پاک کے کسی مخلو ق شے سے نسبت نہ دے لہٰذا خدا نے خود نے فرشتہ کی معرفت مسیح کو ’’ابن اللہ کے خطاب سے سر فراز فرمایا۔ابن اللہ کی ذات منبع موجودہوئی ایساکہ ’’جتنوں نے اس کو قبول کیا اس نےان کو خدا کے فرزند بننے کا حق عنایت فرمایا۔(یوحنا۱۶:۱)
پس کل عالم کے ایماندار حضرت ابن اللہ کی ذات پاک کی طفیل رعایتہ ’’خداکے فرزند‘‘ ٹھہرے ۔صرف کلمتہ اللہ ہی بنی نوع انسان میں ایک واحد فرد ہیں جو استحقاقاً ابن اللہ ہیں اور خداکی گود میں ہیں (یوحنا۱۸:۱)
جیسا کہ مقدس پولوس لکھتے ہیں :ـ
’’باپ کو پسند آیا کہ اس کی ساری معموری ابن اللہ ہی میں سکونت کرئے‘‘(کلسیوں۱۹:۱)۔
(۳)
جو مسلمان سلوک کی اعلیٰ منازل پر پہنچ چکے ہیں وہ یہودی اور مسیحی اصطلاح ’’ابن اللہ ‘‘ سے فائدہ اُٹھا کر نڈر ہو کر کہتے ہیں اولیا اطفال حق انداے سپر اور
ابو بکر شبلی فرماتے ہیں ۔
الصوفیہ اطفال فی حجرالحق یعنی صوفیا خدا کی گود میں ہیں
(رسالہ قشیریہ )
یہ اصطلاح انجیل (یوحنا ۱۸:۱) سے اخذ کی گئی ہے ۔قرآن میں بھی آیا ہے ۔
(فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا)(سورۃ البقرۃ آیت ۲۰۰)
یعنی خدا کی یاد اس طرح کرو جیسے اپنے باپوں کی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کرو۔
دونوں کتب سماوی کے پڑھنے والوں پریہ ظاہر ہے کہ ابن اللہ کا تمام وجود جن ،انس ،ملائکہ اور مخلوقات میں افضل ترین ہے صرف ابن اللہ ہی خدا کا کلمہ اور روح ہیں اور ’’ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ‘‘ ہیں لہٰذا وہی صرف اس شرف کے سزاوار ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص اکلوتے بیٹے ہوں کیونکہ
عدیم است عدیش جوخداوند کریم
چونکہ ہم نے اس موضوع پر اپنے رسالہ ’’ابوت الہٰی اور ابنیت مسیح میں مفصل بحث کی ہے ہم یہاں صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل کتاب اور اہل قرآن میں جونزاع (تکرار)’’ابن اللہ ‘‘ کی اصطلاع پر ہے وہ محض لفظی اختلاف پر مبنی ہے ۔
کلمتہ اللہ خداکی قدرت اور حکمت
(۱)
انجیل جلیل میں کلمتہ اللہ سے چند اور خطابات منسوب ہیں جن میں سے ہم بعض کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں :ـ
اول لکھا ہے کہ کلمتہ اللہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اور دوم کہ کلمتہ اللہ خداتعالیٰ کی حکمت ہے چنانچہ مقدس پولوس رسول لکھتے ہیں ۔
’’مسیح خداکی قدرت اور خداکی حکمت ہے‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۲۴:۱)۔
اس انجیلی آیہ شریفہ میں اسی قسم کی اضافت توضیحی موجود ہے جو قرآنی آیات میں پائی جاتی ہے ۔جن میں کلمتہ اللہ کو منہ اور روح منہ لکھا ہے۔ہم اس اضافت پر سطور بالا میں مفصل بحث کر آئے ہیں ،پس انجیلی آیات بالا میں خطابات ’’خداکی قدرت اور خداکی حکمت ‘‘ سے مراد وہ قدرت مطلق اور حکمت مطلق مراد ہے ۔جوخدا سے اور صرف خدا کی ذات سے منسوب ہے دونوں کتب سماوی انجیل وقرآن میں باربار خدا تعالیٰ کی قدرت مطلق اور حکمت مطلق کا ذکر آیا ہے ۔پس ان مقامات کے حوالے دینا تحصیل حاصل ہے ،یہ قدرت مطلق اور حکمت مطلق اس ذات سے ہی منسوب ہے جو قادر مطلق اور حکیم مطلق ہے اور جس کی شان میں یس کمثلہ شی آیا ہے۔ پس سوائے کلمتہ اللہ کے اور کو ئی غیر اللہ اور کوئی دوسرا مخلوق خدا کی قدرت وحکمت میں شریک نہیں کیاگیا اور یہ ہر دوکتب سماوی انجیل وقرآن پر صادق آتی ہے انجیل جلیل میں کلمتہ اللہ اور صرف کلمتہ اللہ اس صفت اولیٰ سے موصوف کئے گئے ہیں ۔دوسرا کوئی نفس اس میں شریک نہیں کیا گیا کیونکہ صرف المسیح خداکی حکمت ودانش ہیں (امثال باب ۸)۔پس آپ حکمت اللہ ودانش خدااور علم اللہ کی جہت سے کلمتہ اللہ ہیں آپ کلیتہ خدا کی حکمت ودانش اورذات حق کا علم نہیں در حقیقت علم اور کلمہ ایک ہی شے کے دورخ اور دونام ہیں ۔ذات کے بطون (بطن کی جمع،کسی شے کا اندرونی حصہ)میں مخفی ہونے کے پہلو سے جو علم اللہ ہے وہی ظہور ہے دبروزہونے کے پہلو سے کلمتہ اللہ ہے ۔پس خداوند المسیح علم اللہ اور کلمتہ اللہ ہونے کی بنا پر الہٰی ذات کے باطن وظاہر ،اول وآخر اور الفااور امیگا ہیں ۔کلمتہ اللہ کائنات علم اور تجسم میں علی فرق مراتب بقدر حیثیت انسانی ہر دو ظاہر ہیں پس مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح خدا باپ قادر مطلق اور حکیم مطلق ہے ۔کیونکہ دونوں کی ذات اور جوہر واحد ہے۔
(۲)
مذکورہ بالا قدرت مطلق قرآن وبائبل میں صرف خدا سے ہی منسوب ہے ۔کوئی غیر اللہ اس صفت میں بھی خدا کا شریک نہیں ہوسکتا (متی ۱۳:۶) کیوں کہ خدا کی یہ صفت ازلی ہے (رومیوں۲۰:۱)۔
اہل یہود خوف اور بہشت کے مارے خدا کے مارے خدا کا اسم اعظم ’’یہوہ ‘‘زبان پر نہیں لاتے تھے اور اکثر اوقات جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے یا اس سے دعا کرتے تھے تو خداکو دوسرے ناموں سے مخاطب کیا کرتے تھے ۔یہودی کتب مقدسہ میں لفظ ’’نام ‘‘سے مراد ’’خدا کی ذات ‘‘ہے ۔پس یہود اسم اعظم ’’یہوہ ‘‘کہ قدرت کو یہی منظور تھا اور زبور کی کتاب میں آیا ہے ۔
’’خدا نے ایک بار فرمایا اور میں نے دوبار سنا کہ قدرت صرف خدا ہی سے منسوب ہے‘‘(زبور۱۲:۶۲)۔کیوں کہ صرف اسی ایک صاحب قدرت وصاحب حکمت نے کلام (کلمہ) کے ذریعہ کائنات کو خلق کیا (یرمیاہ ۴:۵۱؛ زبور۳۲:۶؛ یوحنا۳:۱)۔
پھر خاص قدرت ابن اللہ کو حاصل تھی ۔چنانچہ انجیل میں عبرانیوں کے خط کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’ ابن اللہ خدا کے جلال کا پرتو اور اس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو جو اس کے ذریعہ پیدا ہوئیں تو اپنی قدرت کے کلمہ سے سنبھالتا ہے ‘‘ (عبرانیوں۳:۱)کیو ں کہ ابن اللہ مردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خداکا بیٹا ٹھہرا ‘‘(رومیوں۴:۱)۔
یہ مطلق قدرت اور مطلق اختیار باپ کی طرف سے بیٹے کو بخشاگیا ہے اسی نے اس کو :ـ
’’ہربشر پر اختیار بخشا ہے تاکہ وہ سب کو زندگی عطا فرمائے ‘‘(یوحنا۲:۱۷)۔
ابن اللہ کو یہ قدرت اور اختیار مطلق نہ صرف بشر پر حاصل ہے بلکہ آپ کو کل کائنات اور ’’آسمان وزمین کا اختیار دے دیا گیا ہے‘‘(متی ۱۸:۲۸)لیکن فرق یہ ہے کہ آپ کو خداداد اختیار مطلق حاصل تھا لیکن رسولوں کااختیار مطلق نہیں بلکہ نسبتی اختیار تھا جو اضافی اور مشروط تھا (۱۹:۱۰؛۸:۹؛متی۱:۱۰ وغیرہ ) ابن اللہ کے مسیحائی نفس اور اختیار مطلق کی وجہ سے جو آپ کے قبضہ قدرت میں تھا۔رسولوں سے ایسے معجزات اور حیران کن نشانات صادر ہوتے تھے کہ ’’سب لوگ خداکی شان اور عظمت کو دیکھ کر ہکا بکا اور ششدر رہ جاتے تھے (لوقا۴۳:۹)۔کیوں کہ ’’ابن اللہ کا پیغام بھی نجات پانے والوں کے لئے خدا کی قدرت تھا ‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۸:۱) ۔جب سردار کاہن نے آپ کی زندگی کی آخری رات آپ سے سوال کیا کہ :ـ
’’کیاتو اس ستودہ خدا کا سا مسیح کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے طرف بیٹھے ہے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے‘‘(مرقس ۶۲:۱۴) آپ نے متبعین کو فرمایا کہ دنیا کے آخر میں جب ’’ابن آدم‘‘(مسیح) کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا تم اس کو بڑی قدرت اور جلا ل کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر دیکھو گے‘‘(متی ۳۰:۲۴)۔
ابن اللہ کی یہ قدرت قدرت مطلق ہے جب ہی انجیل میں وارد ہوا ہے کہ مسیح مصلوب ذبح کیا ہوا برہ ہی قدرت اور حکمت ۔عزت اور حمد وتمجید کے شایاں ہے ۔۔۔خدااور برہ کی حمد وعزت تمجید وسلطنت ابدالاباد قائم رہے (مکاشفات ۱۳:۵)
ہر چند کہ جان عارف آگاہ بود
کے در حرم قدس تواش راہ بود
دست ہمہ اہل کشف دار باب شہود
از داو ادرک تو کوتاہ بود
(جامی)
(۳)
بائبل مقدس اور قرآن مجید دونوں کے مطابق خدا حکمت مطلق ہے اور اس ذولجلال کے علاوہ کوئی حکیم مطلق نہیں ہے (مکاشفہ ۱۲:۷)۔خدا اپنی حکمت مطلق کو کام میں لاکر نبیوں اور رسولوں کو اقوام کی طرف بھیجتا ہے (لوقا۲۵:۷)۔مقدس پولوس رسول لکھتا ہے کہ ’’مسیح خدا کی قدرت اور حکمت ہے ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۲۴:۱) ۔
جس طرح ہم سطور بالا میں بتلا چکے ہیں ۔یہاں بھی جو اضافت استعمال کی گئی ہے و ہ اضافت تو کھینچی ہے جس کا مطلب یہ ہے وہ حکمت مطلق جو انجیل میں خداسے منسوب ہوسکتی ہے وہ مسیح ہے چنانچہ یہی رسول ایک اور مقام میں لکھتا ہے کہ ’’مسیح ہمارے لئے خدا کی حکمت ٹھہرا جوراستی اور پاکیزگی ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۳۰:۱ )۔’’مسیح خدا کی پوشیدہ حکمت ہے جو جہاں کے شروع سے نوع انسانی کو جلال دینے کے واسطے ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۳۰:۱ )۔مسیح کے وسیلے سے جو ’’خداکی حکمت ہے‘‘ سب چیزوں کو پیدا کیاگیا ’’آسمان کی ہوں یا زمین کی ،مرئی ہوں یا غیر مرئی۔تخت ہوں یا ریاستیں ،حکومتیں ہوں یا اختیار ات سب چیزیں اس کے وسیلے سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئیں۔وہ سب چیزوں سے پہلے ہے (ہوالاول)اور اسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں ‘‘(کلسیوں ۱۶:۱۔۱۷) ۔کلمتہ اللہ میں جو خدا کی حکمت ہے ’’حکمت اور معرفت کے سب خزانے پوشیدہ ہیں ‘‘(کلسیوں ۳:۲) ایں حکمت کی معرفت کلمتہ اللہ کے وجود باجود میں ابتدا ہی سے ہے (لوقا ۵۲:۲) یہ حکمت جو مسیح میں ہے ’’دنیا ‘‘کی حکمت نہیں ہے ،کیونکہ کائنات کی خلقت سے پہلے خدا میں تھی (امثال کی کتاب ۸ باب)۔
چنانچہ خدا فرماتا ہے ’’میں حکمت ہوں اور قدرت بالذات ہوں ‘‘(امثال ۱۴:۸)اور جب مقدس پولوس لکھتا ہے کہ مسیح خدا کی قدرت اور حکمت ہے تو وہ اضافت توضیحی استعمال کرتا ہے ۔خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا (کلمتہ اللہ )جو باپ کی گود (ذات حق تعالیٰ )میں ہے ،اسی نے ظاہر کیا ‘‘(یوحنا ۱۸:۱)۔
حضرت ابن اللہ بھی فرماتے ہیں کہ :ـ
آپ خداکی حکمت ہیں (لوقا۴۹:۱۸) اور دنیا کے لاکھوں ایمانداروں کا تجربہ آپ کے اس دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے ۔
مسیح ابن آدم
چونکہ ابن اللہ صاحب قدرت وحکمت تھے لہٰذا آپ نے خود اپنی ذات خاص کی توضیح کرنے کے لئے ایک لقب تجویز فرمایا جو ہر چہار اناجیل میں خداوند مسیح کی زبان حقیقت ترجمان کے الفاظ مبارک میں پایا جاتا ہے اور صرف آپ کی زبان معجز بیان سے ہی نکلاہے ۔یہ لقب ’’ابن آدم‘‘ ہے جس کو کوئی دوسرا شخص اناجیل میں آپ کے لئے استعمال نہیں کرتا ۔
یہ لقب کتب انبیائے سلف میں سے خداوند نے چنا تا کہ اہل یہود آپ کی قدوس ذات کا علم حاصل کرسکیں ۔منجملہ دیگر کتب کے یہ لقب حضرت دانی ایل کے صحیفہ کے ساتویں باب میں وارد ہوا ہے۔کلمتہ اللہ نے فرمایا کہ ’’چونکہ آپ ’’ابن آدم‘‘ہیں لہٰذاآپ کو اس حادث دنیا میں تمام کائنات پر (جو آپ کے ذریعہ مخلوق ہوئی تھی )کامل اختیار حاصل ہے (دانی ایل ۱۳:۷ تا آخر یوحنا ۲۵:۵ وغیرہ)
علاوہ اس کلی اختیار کے جو اس دنیا میں آپ کو حاصل ہے ،آپ آخرت میں دنیا کی عدالت راستی سے کریں گے (متی ۳۱:۲۵۔۴۶؛ مرقس ۳۷:۹، ۴۱؛لوقا۱۰:۱۰۔۱۶؛ یوحنا ۵۱:۸؛ ۲۶:۱۲؛۲۳:۱۵۔تا آخر وغیرہ)
ان مقامات سے غبی (کم عقل ،بیوقوف)سے غبی شخص پر بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ کو اس حقیقت کا کامل احساس تھا کہ آپ انبیائے سلف کی مانند محض فرستادہ پیامبر نہیں تھے بلکہ آپ کو ’’ابن آدم ‘‘ہونے کی حیثیت سے آسمان وزمین کا کل اختیار دیا گیا ہے (متی ۲۷:۱۱؛۱۸:۲۸۔۲۰؛ لوقا۲۲:۱۰ ؛مرقس ۶:۱۲؛یوحنا ۳۴:۳۔۳۶؛۱۷:۵۔۲۷؛ ۵۸:۸؛۳۰:۱۰ وغیرہ)
مذکورہ بالا آیات اور دیگر انجیلی مقامات (مرقس ۳۸:۸ ؛۲۶:۱۳؛۶۲:۱۴؛لوقا۲۴:۱۷؛۳۷:۲۱ وغیرہ)ہم پر یہ حقیقت واضح کردیتے ہیں کہ کلمتہ اللہ اپنی رسالت کے حقیقی اور اصلی مفہوم کی تاویل حضرت دانی ایل کے صحیفہ (۱۳:۷ تاآخر )کے الفاظ کی روشنی میں کرتے تھے ۔
کلمتہ اللہ نے اپنی ذات پاک میں اور دانی ایل کے تصور ’’ابن آدم ‘‘میں کامل مماثلت پائی جس کو اقوام عالم پر ابدی حکومت کرنے کا اختیار حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کا یہ یقین اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ جس صلیب کی ہولناک اور بھیانک موت کا سماں آپ کی مبارک آنکھوں کے سامنے تھا، تب بھی آ پ کا یہ ایمان متزلزل ہونے نہ پایا ۔آپ کو ایسی جانکنی کی حالت میں بھی یہ کامل احساس تھا کہ تمام ظاہری مخالف حالات کے باوجود فتح کا سہرہ آپ کے سر پر ہی ہوگا اور شیطانی طاقتوں کے ساتھ جنگ کرکے بالآخر آپ ہی فاتح ہوں گے اور ابن آدم مسیح کو ہی ’’قدرت اور اختیار اور جلال حاصل ہو گا (متی ۳۰:۲۴؛۶۴:۲۶؛۲۷:۱۶؛۳۱:۲۵ وغیرہ اور دانی ایل ۱۳:۷ وغیرہ)
مسیح خالق باذن اللہ
انجیل جلیل اور قرآن مجید میں ابن اللہ مسیح کے لئے جولفظ ’’کلمہ ‘‘ وارد ہوا ہے وہ کلمہ تکوینی ہے ۔یعنی وہ ’’کلمہ ‘‘ کائنات اور موجودات کو وجود میں لاتا ہے اور ان کو پیدا کرتا ہے ۔(سورہ بقر ۱۱۱ زبور ۹:۳۳؛یوحنا ۱:۱۔۴ وغیرہ )کلمتہ اللہ کے وسیلے سے خدا نے عالم پیدا کئے (عبرانیوں ۲:۱) ۔چونکہ پولوس فرماتا ہے :ـ
’’ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور ہم اسی کے لیے ہیں اور ایک ہی خداوند ہے ۔یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے سب چیزیں وجود میں آئیں اور ہم بھی اس کے وسیلے سے ہیں ‘‘۔
قرآن میں بھی وارد ہوا ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ خالق باذن اللہ ہیں قرآن میں کلمتہ اللہ فرماتے ہیں :ـ
(اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ)(سورۃ آل عمران آیت ۴۹)
یعنی مجھ کو خدانے یہ قدرت دی ہے کہ میں تمہارے اطمینان کی خاطر کے لیے مٹی سے پرندہ کی شکل کی مانند ایک جانور خلق کروں پھر اس میں اپنا دم پھونکوں تو وہ اللہ کے اذن (اجازت )سے پرندہ ہوکراڑنے لگے ۔
پھر وار دہواہے :ـ
(وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ)(سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰)
(اے مسیح )جب تم ہمارے خداکے اذن سے مٹی سے پرندہ کی شکل کی مانند خلق کرتے تھے اور اس میں اپنا دم پھونکتے تھے تو وہ ہمارے اذن سے پرندہ ہو کر اڑ جاتاتھا۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ کلمہ جوتخلیق عالم کا موجب اور وسیلہ تھا خود کوئی حادث اور مخلوق شے نہیں ہوسکتا ۔ اس وسیلہ کی تخلیق کے لیے ایک اور وسیلہ کی ضرورت لاحق ہوجاتی اور پھر اس کے لیے ایک تیسرے وسیلہ کی ضرورت پڑتی اور یہ ایک لامتناہی(بے حد)سلسلہ ہوجاتا اور مسلسل ازروئے منطق باطل ہے۔جائے غور ہے کہ کلمتہ اللہ کے خلق کرنے میں اور خداکے خلق کرنے میں کس قدر باہمی مناسبت پائی جاتی ہے۔دونوں کتب سماوی بائبل شریف اور قرآن مجید کے مطابق خدا نے آدم کو مٹی سے خلق کیا اور اس خاکی کالبد(جسم) میں اپنا دم پھونکا چنانچہ قرآنی الفاظ اور صحائف سلف کے الفاظ ملاخطہ کریں ۔تورات میں لکھا ہے ’’خداوندخدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور پھر اس میں زندگی کا دم پھونکا تب انسان جیتی جان ہوا ۔قارئین قرآنی الفاظ میں ملاحظہ کریں۔
(وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ )(سورۃ الحجرآیت ۲۹)
یعنی میں اپنی زندگی کا دم پھونکا ۔پھرآدم جاندار انسان بن گیا۔
انجیل میں آیا ہے کہ کلمتہ اللہ کے وسیلے سے سب چیزیں پیدا ہوئیں ۔ایں میں زندگی تھی اور یہ زندگی آدمیو ں کا نور تھی (یوحنا۴:۱؛عبرانیوں ۲:۱) قرآن کے مطابق حضرت کلمتہ اللہ نے پرندہ کی شکل کو مٹی سے خلق کیا پھر فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا میں اپنا دم پھونکا اور وہ جاندار ہوگیا ۔پس خدا نے اپنے ابن محبوب کو اس صفت سے موصوف کیا جو خاص خدا سے مختص ہے یعنی آپ کو خلق کرنے کی صفت سے متصف کیا۔دونوں کتب سماوی خلق کرنے کی صفت کو خدا سے (اور صرف خدا)سے منسوب کرتی ہیں صرف خدا ہی تنہا خالق ہے اور باقی تمام کائنات مخلوق ہے ۔
پھر لکھا ہے۔
(قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ)(سورۃ الرعد آیت ۱۷)
یعنی خدا تمام اشیا کا خالق ہے۔
لیکن تمام مخلوقات میں خدا نے صرف اپنے کلمہ اور روح کو یہ فضیلت بخشی کہ وہ باذن اللہ خلق کرے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ تو خدا کے اذن سے تھا تو ہم جواب دیں گے کہ بے شک یہ خدا کے اذن سے تھا لیکن خدا کسی انسان کو ایسا اذن نہیں دیتا جو خاکی انسان کے پتلے کو ایں(یہ)کی خالقیت کی صفت میں شریک کردے ۔تمام قرآن میں اور انجیل میں بھی کلمتہ اللہ کے علاوہ کو ئی نہیں جسکو خدا نے یہ اذن عطا کیا ہوکہ وہ ادنیٰ ترین شے کو خلق کرے اور اس میں زندگی کا مسیحائی دم پھونکے قرآن مجید ایسے معترض ہی کو مخاطب کرتا ہے ۔
(اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ)(سورۃ النحل آیت ۱۷)
توکیا جو خلق کرے وہ اس کے برابر ہے ہوسکتا ہے جو کچھ بھی خلق نہیں کرسکتے؟ اے لوگو تم سوچتے کیوں نہیں ؟
تمام محض مخلوق انسان اور انبیا ء اللہ خلق کرنے کی صفت اور فضیلت سے یکسرمحروم ہیں کیونکہ نہ صرف شان الوہیت کاہی خاصہ ہے اور انجیل کے مطابق اس امر میں کلمتہ اللہ باپ کے نام سے باذن اللہ وہی کا م کرتا ہے جو باپ کرتا ہے (یوحنا ۳۶:۵؛ ۲۵:۱۰ وغیرہ )ایں قسم کے کام سوائے اللہ کی ذات کے اور کلمتہ اللہ کے جو عین ذات الہٰی ہے ۔
مسیح کی صلیبی موت
تاریخ دنیا ،انجیل جلیل اور قرآن مجید تینوں متفق اللفظ ہوکر اعلان کرتے ہیں کہ خداوند مسیح کو رومی گورنر پنطوس پلاطوس کے زمانہ میں شقی یہود کی شکایت اور اصرار مر مصلوب کیا گیا تھا ۔ہم نے تاریخ کی شہادت کا مفصل ذکر رسالہ توضیح العقائد میں کیا ہے ۔
کہ وہ اپنے لوگوں کی ان کے گناہوں کو نجات دیں (متی ۲۱:۱)۔کلام اللہ کلمات طیبات اور حدوث پراز محبت زندگی کے نمونے نے گناہگاروں کو جو تاریخی اور موت کے سائے میں بیٹھے تھے خدا کی محبت کا جلو ہ دکھا دیا اور اس سے بھی زیادہ آپ کی صلیبی موت کا دن نوع انسانی کے لئے نجات وسعادت وارین سلامتی عطا کرنے کا دن ثابت ہوا ،اور آپ کی ظفر یابی قیامت نے موت اور گناہ کی تاریک طاقتوں پر فتح حاصل کرکے ثابت کردیا کہ آپ کی موت میں ابدی بقا کا راز مضمر (پوشیدہ)تھا۔یہی وہ سلامتی ہے جس کا ذکر قرآنی آیت میں ہے اسی قسم کے نہائی(وہ اوزار جس پر لوہا کوٹتے ہیں ،اہرن ) رموزو حقائق کو جاننے کے لئے قرآن میں حضرت رسول کو اور تمام ایمانداروں کو اللہ کا حکم ہے کہ اگر تم کو کسی شے کا پتہ نہ چلے تو بائبل پڑھنے والوں سے پوچھ لیا کرو(یونس ع ۱۰۔ انبیاآیت ۷ ۔ نحل ع ۴ وغیرہ ) ایں (یہ) رمز اور راز کو ایک صاحب دل اور صاحب نظر ہی کما حقہ سمجھ سکتا ہے جس کے دل کی ہر حرکت میں اہل دنیا کے لئے تڑپ ہے ’’جس کے کا ن سننے کے ہوں وہ سنے ‘‘۔ جن کے دل دار درس (تسلی وتشفی کاسبق)کےفلسفہ سے مانوس ہیں وہ کان سے اونچا نہیں سنتے اور نہ وہ صلیب کی راہ سے آنکھیں بند کر سکتے ہیں لیکن بالفاظ نبی ’’ جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے ان کے حقوق میں قرآن مجید کہتاہے ۔
(خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ) (سورۃ البقرۃ آیت ۷) یعنی خدا نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ ہے ۔ایسوں کے لیے بڑا عذاب ہے ۔
منجی عالمین نے شیطان کو کچل کر کل دنیا کی اقوام کو گنا ہ کے پنجہ سے تا ابد خلاصی عطا کرکے ان کو ازسر نو زندگی بخش کر خدا کے فرزند اور آسمان کی بادشاہی کے وارث بنادیا ۔
دوسری قرآنی آیت میں خدا تاکیداًمنجی جہاں کی مبارک موت کا ذکر کرکےفرماتا ہے کہ ’’اےعیسیٰ ،میں تجھ کو کفار نابکار وگنہ گار سے جدا کرکے اپنی طرف اٹھالوں گا ۔انجیل جلیل میں عبرانیوں کے خط میں بھی یہی الفاظ وار د ہوئے ہیں ۔چنانچہ خط کا ملہم مصنف لکھتا ہے کہ ’’ہمارا سردار کاہن (مسیح )پاک ،بے ریا اور بے داغ تھا جو گنہ گاروں سے جدا اور آسمانوں سے بلند اور آسمانوں سے بھی گذر کر عرش پر کبریا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا ‘‘(عبرانیوں ۳۶:۷؛۱۴:۴؛ ۱:۸)۔
مذکورہ بالاتیسری قرآنی آیہ میں خداوند مسیح کی وفات کا نہایت مختصرلیکن صریح اور واضح الفاظ فلماتوفیتنی (جب تو نے مجھے موت دی ) میں ذکر کیا گیا ہے ان سے زیا دہ مختصر مگر صاف پر معنی اور واضح آیات تمام قرآن میں بمشکل ملیں گی۔
مَا قَتَلُوہُ وَ مَا صَلَبُوہ ُ کا صحیح مفہوم
ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگاکہ مذکورہ بالا قرآنی آیات میں کلمتہ اللہ کی ولادت ،موت ،قیامت اور رفع آسمانی کا بالترتیب ذکر وارد ہوا ہے ،جس سے ظاہر ہے کہ ان واقعات میں سے ہر واقعہ دوسرے کا مستلزم (کوئی کام اپنے اوپر لازم کرنےوالا)ہے۔منجی عالمین کی صلیبی موت سےپہلے آپ کی ولادت مسعود لازم ہے اور آپ کی ظفر یاب قیامت سے پہلے آپ کی صلیبی موت لازم تھی اور آپ کے رفع آسمانی سے پہلے آپ کی ولادت ،مبارک موت اور ظفر مند ہو کر جی اٹھنے کا واقعہ لازم تھا ۔آپ کی پیدائش ،موت قیامت اور صعود آسمانی کا اقرار لازم وملزوم اور مقدم وموخر میں ایں (یہ) سلسلہ واقعات میں ایک واقعہ کے سے ہر واقعہ کا اقرار لازم ہو جاتا ہے کہ ہم آپ کی صلیبی موت، ظفر یاب قیامت اور صعود آسمانی کا بھی اقرار کریں اور ان سب پر ایمان رکھیں ۔
اناجیل اربعہ کا سطحی مطالعہ بھی ظاہر کردیتاہے کہ کلمتہ اللہ کا مسلک اور منصب ہی یہ تھا کہ افراداور سماج کی اوربالخصوص مذہبی ظلم وتاریکی کی طاقتوں کے خلاف جہاد کریں ۔آپ خد اکے لوگوں کو شیطانی طاقتوں سے اور شروبدی کی روح سے آزادی اور حریت (غلامی کے بعد آزادی)کے پیغام کے علمبردار ہو کر آئے تھے ۔آپ کی تمام زندگی میں انسانیت کے اجتماعی دکھ کا احساس ہر شخص کو نظر آتا ہے۔اس روحانی کرب کا ذکر باربار اناجیل میں آتا ہے (لوقا۴۱:۱۹۔۴۴؛ متی ۱۲:۲۴۔۳۹؛لوقا ۲۷:۲۳۔۳۱ وغیرہ )اس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا کہ ’’فریسی باہر جا کر ہیردیوں کے ساتھ اس کے خلاف مشورہ کرنے لگے کہ اسے کس طرح ہلاک کریں (مرقس ۶:۳؛ متی ۱۵:۲۲ وغیرہ) ۔لیکن کلمتہ اللہ کی کار زار حیات میں مرمٹنے کا جذبہ موجود ہے اور وہ حوارئین کو بھی وارد رسن کے فلسفہ کی تعلیم دیتے ہیں (یوحنا ۲۴:۱۲۔۳۴؛ متی ۳۴:۱۰۔۳۹ وغیرہ )
ہرکلی مصلوب ہوکر شاخ کی زینت بنی
دار پر کھینچاگیا جو پھول گلشن ہوگیا (حسن بخت)
کلمتہ اللہ کے لیے زنجیر کی جھنکار الہٰی آواز کا نغمہ بن گئی تھی اور کا نٹوں کا تاج ابن اللہ کے فرق مبارک کا نشان اور صلیب دوار آپ کا پرچم ہوگئی ۔لیکن دنیا میں ایسے اصحاب کثر ت سے موجود ہیں جو واردرسن کے انجیلی سبق سے ناآشنا ہیں کیونکہ ان کے دل درد سے ناواقف ہوتے ہیں۔بالفاظ انجیل ’’وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے ‘‘(متی ۱۳:۱۳۔۱۶ وغیرہ )اور بالفاظ قرآن
(صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ)(سورۃالبقرۃ آیت ۱۸)
یعنی وہ بہرے ہیں گونگے ہیں ،اندھے ہیں وہ کلام حق کی جانب نہیں پھرتے۔
پس وہ منجی جہاں کی صلیبی موت کا انکار کرتے ہیں اور قرآنی آیات بنیات کے صاف صریح اور واضح مطالب کا سرے سے انکار کردیتے ہیں۔ حالانکہ مذکورہ بالا تینوں کی تینوں آیات میں مسیح کےحق میں الفاظ ’’موت ‘‘اور ’’وفات ‘‘صریحاًوارد ہوئے ہیں ۔ایسے اصحاب پر قرآنی آیہ
(اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ)(سورۃ البقرۃ آیت ۸۵)
صادق آتی ہے کیونکہ وہ کتب سماوی کی جس کتاب کےجس حصے کو چاہتے ہیں اس کو مانتے ہیں اور جس کو نہیں ماننا چاہتے اس کا بے دریغ انکار کردیتے ہیں حالانکہ بالا تینوں کی تینوں آیات کے الفاظ صاف اور واضح ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاویل یاشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔
صلیبی واقعہ کے سنکر اپنی پاور ہواتاویلات کو ایک قرآنی آیہ سے سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ قرآن کا دعویٰ صاف ہے کہ ’’وہ کھلی آیتوں میں اترا ہے اور آسان کیاگیا ہے (حج ۔۱۶) ’’ہم نے سمجھنے کے لئے قرآن کو آسان کردیا گیا ہے ۔سو کیا کوئی ہے جو نصیحت پکڑے ‘‘؟ (قمر۔۲۲) یہ نام نہاد مفسرین بالفاظ قرآن ’’قرآن میں غور نہیں کرتے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اگر قرآن خدا کے پاس سے نہ آیا ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف پاتے ‘‘(نساآیت ۸۴) یہ اصحاب اپنے نام نہاد علم وفضل پر فخر کرکے قرآن کے ایسے مقامات میں اختلاف ڈال دیتے ہیں جہاں اختلاف نہیں ہوتا ۔اور یہ نہیں سوچتے کہ دشمناں قرآن اس اختلاف کی وجہ سے اس کو من دون اللہ ثابت کردیں گے !پس یہ علماءصلیبی واقعہ کے انکار کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیہ میں آیا ہے کہ
(وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ) (سورۃ النساآیت۱۵۷)
یعنی یہود نے کہا کہ ہم ہی نے توعیسیٰ ابن مریم تمہارے اللہ کے رسول کو قتل کردیا تھا ۔حالانکہ (یہود نے ) نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ انہوں نے اس کو مصلوب کیا ۔
لیکن اول اس آیہ شریفہ میں مسیح کے مصلوب ہونے کے واقعہ کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ جس قول کی تر دید کی گئی ہے وہ نابکار (بے فائدہ ،شریر) یہود کا تول ہے جو اس آیت کے پہلے حصہ میں درج ہے ۔پس اس آیہ میں قرآن کہتا ہے کہ یہود کا یہ فخر کہ ہم نے تمہارے اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا ’’غلط اور بے بنیاد ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ مسیح کو مصلوب کرنے والے یہودی تھے ہی نہیں ۔یہود نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ مصلوب کیا۔
انجیل متی میں بھی اس قسم کے ایک واقعہ کا ذکر ہے جب خداوند مسیح نے اپنے ہم عصر اہل یہود کو متنبہ کرکے کہا تھا کہ تم شیخی مار کر کہتے ہو اور ’’اپنی نسبت گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو تم جہنم کی سزاسے کیونکر بچوگے‘‘؟(متی ۲۹:۲۳۔۳۳)
پس مختلف زاویہ نگاہ سےمذکورہ بالاقرآنی آیہ انجیل جلیل کے صلیبی واقعہ اور مسیح کی صلیبی موت کی تصدیق کرتی ہے جس کے مصدق ہونے کا قرآن باربار دعویٰ کرتا ہے ۔
دوم قرآنی آیہ کا یہ مطلب نہ صرف انجیل جلیل کے بیانات کے مطابق ہے بلکہ تاریخ عالم کے واقعات کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے اور یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کے صاف اور غیر مبہم الفاظ انجیل جلیل کے اور اق تاریخ عالم کے مطابق ہیں ۔لیکن اگر منکرین صلیب کی باطل تاویل کو بفرض محال صحیح مان لیا جائے تو اس سے قرآنی آیت بالا میں اور دیگر تین متذکرہ آیات زیر بحث ہیں باہمی تضاد لازم آتا ہے اور ایک تاریخی واقعہ کی تکذیب بھی لازم ہوجاتی ہے اور قرآن اور تاریخ عالم میں اختلاف بلکہ خود مقامات قرآن میں اختلاف کا وجود اس کو ’’من دون اللہ‘‘ ثابت کردے گا۔
مَا قَتَلُوہُ یاَ مَا صَلَبُوہُ
ہم کہہ چکے ہیں کہ آیہ شریفہ کا مطلب صاف اور واضح ہے جس کی تاویل کی ضرورت نہیں لیکن بعض مسلم اصحاب نے صلیبی موت کو قبول کرکے قرآن کو اختلاف اور تکذیب سے بچانے کے لیے ایک تاویل کی راہ نکالی ہے ۔چنانچہ قادیانیت کے بانی ’’حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں ایک مستند عالم مولوی محمد احسن صاحب امر دہی تھے ۔اس جگہ ہم مرحوم کی فارسی کتاب ’’التاویل المحکم فے متشابہ فصوص الحکم ‘‘کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جن کا اردو خواں ناظرین کی خاطر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے :ـ
’’آنجناب (حضرت مسیح )کو صلیب پر کھینچ دیا گیا ۔۔۔باوجود یہ کہ مسیح علیہ السلام نوجوان تھے ۔آپ نے خوشی سے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی کسی دوسرے شخص نے آپ کو قتل نہ کیا ۔۔۔آنجناب کے ساتھ دو چور بھی صلیب پر لٹکائے گئے تھے ۔چونکہ دوسری روز صبح کو سبت کا روز تھا یہود چاہتے تھے کہ تینوں کی ہڈیا ں توڑدی جائیں اور ان کو مار ڈالا جائے پس رومی سپاہیوں نے دونوں ڈاکووں کی ہڈیا ں توڑ کر ان کو ما ر ڈالا جائے لیکن جب وہ مسیح کے نزدیک آئے تو انہوں نے آپ کو مردہ پایا پھر بھی احتیاط کی خاطر انہوں نے ایک برچھی آپ کے پہلو میں ماری جس سے خون نکل پڑا۔ پس ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے مسیح کو مصلوب کر دیا جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم نے اس کی ہڈیاں توڑ کر اس کو مار ڈالا کیونکہ لفظ مصلوب ’’اگرچہ لفظ صلب (بالضم)سے موخوذ ہے جس کے معنی ’’ہڈی نکالنا ‘‘ہیں چنانچہ الفاظ لیکن اس مقام میں یہ لفظ صلب سےنہیں نکلا بلکہ اس جگہ یہ لفظ’’صلب بالفتح ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’ہڈی نکالنا ‘‘ ہیں چنانچہ الفاظ ’’اصحاب صلب ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہڈیاں نکال نکال کر جمع کرتے ہیں پس قرآن کی اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ یہودیوں نے حضرت مسیح کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ آپ نے خود اپنی جان حق کے سپرد کردی تھی اور کہ اہل یہود نےآپ کو صلب نہیں کیا یعنی آپ کی ہڈیاں نہ نکالیں ۔لیکن آنجناب مصلوبوں یعنی ہڈیاں توڑئے ہوؤں کے مشابہ اور ان کی مانند بن گئے ۔انہوں نے آپ کو قتل نہیں کیا بلکہ آنجناب کو سبت کی شب کو قبر میں رکھ دیا گیا یہ جمعہ کی شام تھی اور اس سے اگلا روز شنبہ (ہفتہ)کا دن سبت تھا ۔آنجنا ب اتوار کی صبح کتب سابقہ کی اور اپنی پیس گوئیوں کے مطابق اپنے حواریوں پرظاہر ہوے ۔۔۔بعض نے کہا یہواہ مسیح کی صورت پر آگیا تھا حالانکہ وہ مردودایک دن پہلے پھانسی لے کر مرچکا تھا ۔۔۔ قرآن مجید کے مفسرین بھی چونکہ مفصل واقعات سے واقف نہ تھے انہوں نے بھی اس قول کو قبول کرلیا جو قرآن مجید میں مردود ٹھہرایا گیا ہے کہ یہود امسیح کے عوض مارا گیا ۔۔۔قرآنی آیات ’’فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي مُتَوَفِّيكَ ‘‘ حضرت مسیح کی موت پر صریح دلالت کرتی ہیں جیسا اناجیل میں لکھا ہے علاوہ ازیں طلحہ بن علی کی رویت جو ابن عباس سے ہے اور وہب کی روایت جو تفسیر معالم میں ہے ۔اس امر کی شاہد ہیں ۔۔۔پس اب معلوم ہوگیا کہ آیت ’’ماصلبوہ‘‘میں لفظ صلب زبر کے ساتھ ہے جس طرح زبور کی پیس گوئی میں درج ہے اور جس کی تصدیق انجیل بھی کرتی ہے ۔صحیح لفظ پیش کے ساتھ لفظ’’صلب ‘‘بمعنی دار نہیں بلکہ صلب ہے جس کے معنی اخراج استخوان ہے ۔۔۔‘‘
بہر حال اب ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ تصلیب مسیح کا واقعہ حق ہے جس کی شہادت تاریخ کے اوراق ،اناجیل اربعہ دشمنان دین یعنی اہل یہود اور بت پرست حکام اور فوجی افسر جو واقعہ کے چشم دید گواہ تھے ،سب متفق اللفظ ہوکر دیتے ہیں اور قرآن بھی یہی گواہی دیتا ہے (مریم ۳۴؛ عمران ۴۸؛ مائدہ ۱۱۷)
بایں ہمہ (ان تمام باتوں کے باوجود) مسلمان مناظرین یہی کہتے ہیں کہ قرآن میں یوں لکھا ہے ’’ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ ‘‘ (انہوں نے مسیح ابن مریم کو قتل نہیں کیا اور انہوں نے اس کو صلیب نہیں دی )پس یہ بات صاف ہے کہ جس واقعہ کا انجیل نے اثبات کیا ،اسی کا قرآن نے انکار کیاہے ۔
اب ان صاحبان کے لئے مشکل یہ آن پڑی کہ مسیح کا مصلوب ہونا ایک ایساواقعہ ہے جو نہ صرف انجیل میں مذکور ہے بلکہ تاریخ دنیا میں درج ہے اور رومیوں نے جن کے حکم سے آپ کو مصلوب کیا گیا ، اس واقعہ کو قلم بند کر رکھا ہے ۔اگر انجیل نہ بھی ہوتی تو تاریخ دنیا اس پر شاہد رہتی اور کو ئی واقعہ سے انکار نہ کرسکتا ۔لیکن یہاں تو ایک چھوڑ دوشہادتیں ہیں جو عینی ہیں جن کو کوئی صحیح العقل (دانش مند)نامقبول نہیں کرسکتا ۔پس اگر قرآن واقعہ کے چھ سو سال بعد آکر ایسے مسلمہ وقوعہ کا انکار کرے تو اس کے انکار میں صرف اس کو خطرہ ہوگا اگر بالفرض یہ مان لیاجائے کہ قرآن شریف نے فی الحقیقت تصلیب اور موت مسیح کا انکار کیا ہے تو لاریب بہ قول انجیل کے خلاف ہوگا جس کی صحت صداقت کو اس نے متعدد مقامات میں تسلیم کیا ہے ۔اس مشکل کو ہر فہمیدہ مسلمان محسوس کرسکتا ہے بالخصوص ایسا مسلمان جو قرآن کی صداقت کے لئے غیرت مند ہے ۔
ان فہمیدہ اور غیور مسلمانوں میں سے بعض نے اپنی وسعت سے مجبور ہو کر آیہ مذکورہ کی ایسی تاویلیں کی ہیں جو قرآنی آیت اور انجیلی واقعہ میں مطابقت دکھاتی ہیں ۔وہ حسب ارشاد قرآن انجیل کو بھی برحق مانتے ہیں اور قرآنی مقولے کو بھی حق جانتے ہیں ۔پس وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن نے واقعہ صلیب کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اس واقعہ کے انکار کا اثبات ممکن نہیں ۔ایسے مسلمانوں میں علی گڑھ مشہور محقق(و ہ شخص جو بات کو دلیل سے ثابت کرے ) سید احمد مرحوم کو خاص مقام حاصل ہے ۔انہوں نے تفسیر القرآن میں لکھا ہے کہ
’’جس آیت سے لوگ انکار صلیب سمجھتے ہیں ،اس کے سمجھنے میں ان کو دھوکا ہو اہے ‘‘
سید مرحوم نے واقعہ صلیب کی حقیقت کو تسلم کرکے آیت قرآن کی ایسی تاویل (بچاؤ کی دلیل ) کی جس سے قرآن مجید کے اوپر سے ناواقفیت کا یہ الزام رفع ہوکہ اس نے حقیقت الامر سے انکار کیاہے ۔
ایک اور صاحب کا نام چراغ دین تھا وہ جموں کے رہنے والے تھے اور ایک وقت مرزائے قادیانی کے مرید تھے پر بعد میں انہوں نے توبہ کرلی تھی۔ انہوں نے تائب ہونے کے بعد کتاب ’’منارۃ المسیح‘‘لکھی جو راقم الحروف کے پاس ریٹائر ہونے تک رہی ۔انہوں نے بھی آیہ مذکورہ کی ایسی تفسیر کی جو انجیل جلیل کے بیان سے مخالف نہیں تھی۔ ان کی کتاب میں اس آیت پر مفصل بحث ہے۔وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ قرآن شریف کے بیان کو خدا کے کلام سابق کے موافق کریں کیونکہ ا ن کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ خدا کا ایک کلام اس کے دوسرے کلام کے مخالف ہوسکتا ہے۔
ایک دوسرے مولوی صاحب تھے محمد احسن امروہوی جوقادیان کے نبی کے ’’صحابہ ‘‘میں سے تھے وہ پرانی وضع کے مسلمان تھے۔منقول پر فدا تھے اور معقول میں کم دخل دیتے تھے ۔انہوں نے فارسی زبان میں عربی کی مشہور کتا ب ’’فصوص الحکم‘‘پر ایک مبسوط شرح لکھی جس کا ہم اس سلسلہ میں اقتباس کر آئے ہیں ۔مذکورہ بالاعلماء مسلمان تھے مگر ان سے پیشتر ایک مسیحی بزرگ خرسطغورس جبارہ الدمشقی گزرے ہیں ۔جوکتاب مقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو بھی الہامی مانتے تھے انہوں نے قرآن کی حمایت میں آیہ مذکورہ کی ایسی بھی تشریح کی جس سے دونوں کتب میں تضاد نہ رہا ۔مسلمانوں میں جتنے علمائے مسیح ابن مریم کی تصلیب اور موت کے انجیلی اور قرآنی بیانات کو موافق کرنے کی کوشش کی ہے ،وہ سب اس مسیحی فاضل کے مرہون منت ہیں۔
قرآنی آیہ میں مسیحی مخاطب نہیں
قرآن کے (سورہ نسا ع ۲۲)میں جو آیا ت اس مضمون سےمتعلق ہیں ،ان میں مخاطب یہوداور صرف یہود ہیں اور ان کے سوائے کو ئی اور مخاطب نہیں ہے اس بیان میں نہ توانجیل جلیل کا نام آیا ہے اور نہ مسیحیوں کا کہیں ذکر یا اشارہ پایا جاتا ہے ۔اس آیہ میں دو امور غور طلب ہیں اول صلیب کا واقعہ اور دوسرا کہ کس نے مصلوب کیا ۔یہ دونوں امور ایک دوسرے جدا ہیں اگر کوئی پہلے امر واقعہ صلیب کاانکار کرے تو دوسرے امر کا انکار کرے تو دوسرے امر کا انکار لازم ہوجاتا ہے ۔لیکن اس کے برخلاف اگر کوئی دوسرے امر کا انکار کرے تو پہلے واقعہ صلیب کا انکار لازم ہوجاتا ہے۔لیکن اس کے برخلاف اگر کوئی دوسرے امر کا انکار کرے تو پہلے واقعہ صلیب کا انکار لازم نہیں آتا۔قرآنی بیان میں دوسرے امر کا انکار کیا گیا ہے اور وہ بھی صریحاً (کھلم کھلا )یہ مخالفت یہود ! مسلمان علماء نے غلطی سے اس انکار کو اصل واقعہ صلیب کا انکار تصور کرلیا گیا ہے اور وہ بھی صریحاً جدارکھتا ہے اور ایک کا انکار کرتا ہے۔ لیکن علما ءہردو امور کو یک جا کرکے دونوں کا انکار کردیتے ہیں ! قرآن واقعی صلیب کا انکار نہیں کرتا بلکہ اہل یہود کے قول کا انکار کرتا ہے اور یہ انکار واقعہ صلیب کا انکار لازم نہیں کرتا ! پہلا امر ایک ایسا واقعہ ہے جس پر یہود اور مسیحی کلیسیا اور انجیل جلیل سب کے سب اتفاق کرتے چلے آئے ہیں ۔ اس واقعہ کا قرآن شریف نے بھی انکار نہیں کیا ۔اس نے صرف یہودیوں کے قول کاانکار کیا ہے ،جس میں اہل یہود کے دعویٰ اور انجیلی بیان میں اختلاف ہے ۔قرآن نے اہل یہود کے قول اور دعویٰ کی تکذیب کی ہے پس اس نے انجیل اور مسیحیوں کے دعویٰ کی تصدیق کردی کیونکہ اگر اس کو انجیلی واقعہ کی تصدیق منظور نہ ہوتی تو وہ یہودیوں کے ساتھ مسیحیوں کو بھی مخاطب بنا کردونوں کی صاف الفاظ میں تکذیب کردیتا ۔کیونکہ یہود سے مسیحی مخاطبت کے زیادہ سزاوار تھے ۔کیونکہ وہ مسیح کی صلیب کو نجات کا ذریعہ مانتے تھے ۔اگر مسیحیوں کی تکذیب منظور ہوتی تو قرآن صاف کہہ سکتا تھا کہ نہ مسیح مرے اور نہ مصلوب ہوئے عیسائی غلطی پر ہیں ۔جومسیح کی صلیب کو نجات کا ذریعہ مانتے ہیں ۔لیکن اس مقام میں نہ تو مسیحیوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور نہ ان کے اعتقاد سے تعرض (مزاحمت کرنا)کیا گیا ہے بلکہ یہاں یہود کو مخاطب بنا کر ان کے زعم (غرور)فساد کو روکیا گیا ہے اور انجیل جلیل کے اعتقاد کو بجائے خودرہنے دیا ہے۔
قرآن مصدق انجیل
اگر ہم اس آیت میں یہودیوں کی طرف سے توجہ ہٹا کر اس حقیقت پر غور کریں کہ کیسے بر جستہ الفاظ میں قرآن مجید نے انجیل کی تصدیق بار بار کی ہے اور اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر ان آیات پر کریں
(اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا)(سورۃ آل عمران آیت ۵۵)
یعنی اے عیسیٰ میں ضرور تجھ کو وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھ کو پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر اور انکار کیا۔
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (یعنی عیسیٰ نے کہا کہ اے خدا جب تونے مجھ کو وفات دی)
توکون صحیح العقل شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ان الفاظ کے بجنسہ وہی معنی ہیں جو انجیل میں ہیں کہ مسیح ابن مریم نے وفات پاکر آسمان پرصعود فرمایا جب کو مسیحی یا مسلمان (جو قرآن کی تصدیق انجیل پر شبہ نہیں کرتا)ان آیات بنیات کو خالی الذہن ہوکر پڑھتا ہے تو اس کو نہ لفظ توفی کے معنوں کو حقیقت سے پھیرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے اور نہ کسی تاویل کو بعید کی تلاش اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔لفظ توفی کے معنی موت جس پر انجیل شاہد ہے ۔ قرآن نے وفات مسیح کو کو ئی تفصیل نہیں کی کہ آپ کس موت مرے ۔قرآن کو اس بات کی مطلق ضرورت بھی نہ تھی کہ وہ ابن مریم کی موت کے طریقہ کا ذکر کرتا کیوں کہ اس واقعہ کے موت کے طریقہ کی تفصیل انجیل میں موجود تھی جس کی وہ بار بار تصدیق کرتا ہے۔پس وفات مسیح کے اقرار کے ساتھ واقعہ تصلیب کا اقرار لازم آتا ہے ۔اگر یہ اقرار قرآن کومنظور نہ ہوتا تو وہ مسیحیوں کو مخاطب کرکے ان کے اعتقاد کی تردید کرسکتا تھا ۔لیکن اس نے جیسا ہم سطور بالا میں لکھ آئے ہیں اس بیان میں نہ تو مسیحیو ں کو مخاطب کرنا ضروری سمجھا اور نہ ان کے عقیدہ سے تعرض کیا اور انجیلی اعتقاد کو بجائے خود رہنے دیا۔
اس سیدھی اور سچی بات کے نہ سمجھنے سے اہل اسلام کے بعض علماء نے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں چنانچہ نواب صدیق حسن خاں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’ابن کثیر نے کہا کہ مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ’’ اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ‘‘ سے کیامراد ہے قتادہ نے کہا کہ تقدم وتاخیر سے عبارت یوں ہے ’’ الیٰ رافعک وانی متوفیک‘‘یعنی پہلے آپ کی رفع اور پھر وفات ہوئی۔ ابن عباس نے متوفی کے قیمت کئے ۔وہب بن عتبہ نے کہاکہ یہ وفات دی اللہ نے عیسیٰ کو تین ساعت (گھڑی ،معین وقت) اول روز میں جس وقت کہ ان کو اپنی طرف اٹھایا ۔ابن اسحاق نے کہا کہ انصاریٰ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سات ساعت مرے رہے پھر زند ہ ہوگئے ۔وہب کا دوسرا قول یہ ہے کہ تین دن مرے رہے پھرمرفوع (بلند کیاگیا)ہوگئے ۔ مطہر وراق نے کہا کہ وفات سے مراد دنیا کی وفات ہے نہ کہ وفات کی موت ۔ابن جریر نے کہا توفیٰ سےمراد رفع ہے ۔مطہر وراق نے کہا کہ وفات سے مراد دنیا کی وفات ہے نہ کہ وفات موت ۔ابن جرر نے کہاتوفیٰ سے مراد رفع ہے اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ اس جگہ وفات سے مراد خواب ہے !!!
غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں اور جتنی نظریں اتنے نظرئیے !! لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ نہ توفیٰ کہ معنی بگاڑنے کی ضرورت ہے اور نہ وفات کو قیامت تک ملتوی رکھنے کی ضرورت ہے اور نہ قرآنی آیت کے الفاظ کی ترتیب بگاڑنے کی ضرورت ہے انجیلی بیا ن کے مطابق پہلے وفات ہوئی ،قرآن نے پہلے وفات کا ذکر کیا اور وفات کے طریقہ اور تفصیل کا ذکر ضروری نہ سمجھا اور نہ کیا کیونکہ امر مسلمہ فریقین نے از اول تا آخر تسلیم کرلیا تھا ۔پھر واقعہ وفات کے بعد رفع سماوی کا واقعہ ہوا ۔قرآن نے اس کا بھی ذکر کردیا ۔لیکن رفع سماوی کا بھی طرز اور تفصیل بیان نہ کی کیونکہ اس امر کو بھی فریقین نے سر تاپاتسلیم کرلیا تھا ۔
مزید ثبوت
پس قرآنی آیا ت ’’انی متوفیک ورافعک اور فلماتوفیتنی ‘‘مسیح ابن مریم کی موت پر صریح دلالت کرتی ہیں طلحہ ابن علی کی روایت جو ابن عباس سے ہے اور وہب کی روایت جو تفسیر معالم میں ہے ،سب اس امر کی شاہد ہیں کہ بعد نزول سورۃ نساء (جس میں آیت ماصلبوہ وارد ہوئی ہے ) حضرت حاطب (جو بد ری صحابہ ) رسول عربی کے قاصد ہوکر مقوقش والی سکندریہ کے پاس (جومسیحی تھا )گئے اور رسول کا خط اس کو دیا۔مقوقش نے ان سے سوال کیا کہ اگر تمہاراصاحب فی الواقع نبی تھا تو اس نے کیوں خدا سے دعا نہ کی کہ اس کو مکہ سے ہجرت نہ کرنی پڑے ۔اس پر حاطب نے کہا کہ حضرت عیسیٰ بھی تو نبی تھے ۔انہوں نے کیوں دعا نہ کی کہ صلیب پر کھینچے نہ جاتے ۔چنانچہ کتاب استیعاب (کسی کتا ب یا مضمون وغیرہ کو شروع سے آخر تک پڑھنا ،تمام) سے مدارج النبوۃ میں یہ واقع نقل کیا ہے ۔
نہ صرف حضرت حاطب نے شاہ مقوقش کے سامنے طریقہ صلیب کو تسلیم کیا بلکہ حضرت عمر خلیفہ الرسول کے ایک قول سے یہی ظاہر ہے کہ وہ ابن مریم کی وفات کے قائل تھے ۔چنانچہ کتا ب ملل ونحل کے شروع میں (ص ۹ مصری )لکھا ہے کہ
’’ حضرت عمر نے وفات رسول کے بعد یہ کہا تھا کہ اگر کو ئی کہے گا کہ محمد مرگیا تو میں تلوار سے اس کو قتل کردوں گا ۔وہ تو آسمان کی طرف اٹھالیے گئے ہیں ۔جس طرح عیسیٰ بن مریم اٹھالیے گئے ‘‘۔
اس روایت کو ابوالغدا نے بھی بیان کیا ہےکہ
’’قاضی شہاب الدین ابی الدم اپنی تاریخ میں یہ لکھتے ہیں کہ بعد وفات پیغمبر خدا ،ایک گروہ پیغمبرپر ہجوم کرکے مجتمع (جمع کیا ہوا)ہوا ۔ سب لوگ حضرت کو دیکھتے اور مضطرب وپریشان ہوکر یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ فوت نہیں ہوئے بلکہ مثل عیسیٰ مسیح آسمان پر چلے گئے ہیں اور دروازے پر یہ منادی کردی کہ حضرت کو دفن نہ کرنا کیونکہ آپ فوت نہیں ہوئے ۔چنانچہ آپ کا جنازہ ویسے ہی رکھا رہااور اس کو دفن کرنے نہ دیا ‘‘۔
شمائل ترمذی میں ہے کہ
’’رسول اللہ شنبہ(ہفتہ ) کو فوت ہوئے اور اس روز آپ کی لاش رکھی رہی اور پھرمنگل کی رات کو اور منگل کے دن رکھی رہی اور آپ منگل کی رات کودفن ہوئے ‘‘۔
جب ہم یہ واقعہ مدنظر رکھتے ہیں کہ خداوند مسیح کی موت جمعہ کے روز ہوئی اور ہفتہ کی رات بھر اور ہفتہ کا دن اور اتوار کی رات آپ قبر میں رکھے رہے اور اتوار کی صبح کو آپ مردوں میں سے زندہ ہوگئے تو ظاہر ہے کہ صحابہ رسول عربی کو اس حقیقت کاعلم تھا کہ آپ تیسرے روز مردوں میں سے جی اٹھے تھے اور کہ وہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح ابن مریم وفات کے بعد تیسرے روز زندہ ہوکر اس کے بعد آسمان پر اُٹھالئے گئے تھے اسی طرح رسول بھی تیسرے روز زندہ ہوکر آسمان پر اٹھالیے جائیں گئے ۔لیکن جب یہ مدت گزر گئی اور لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ دوبارہ زندہ نہ ہوں گے تب آپ کو دفن کیا گیا ۔
چنانچہ ابو الغدالکھتا ہے کہ
’’صحیح روایت یہی ہے کہ حضرت رسول چوتھے روز مدفون ہوئے ‘‘۔
مذکورہ بالا واقعات سے ظاہر ہے کہ رسو ل عربی کے صحابہ کے خیالات کسی طرح بھی مسیحی عقیدہ موت ورفع مسیح کے خلاف نہ تھے ۔مولوی محمد احسن صاحب اپنی کتاب (جس کا ہم نے سطور بالا میں اقتباس کیا ہے ) میں لکھتے ہیں کہ
’’مسیح نے اپنی جان خود بخود دے دی تھی ‘‘
بالکل انجیل شریف کےبیان کے مطابق ہے چنانچہ انجیل یوحنا میں وارد ہوا ہے کہ منجی جہاں نے فرمایا’’اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان بھی قربان کردیتا ہے ۔باپ مجھ سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ اسے پھر لے لوں ۔تا کہ اسے پھر لے لوں ۔کوئی اسے مجھ سے نہیں چھینتا بلکہ میں اسے آپ ہی دیتا ہوں مجھے اس کے دینے کا اختیار ہے اور اسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے ‘‘(یوحنا۱۱:۱۰۔۱۸) اور پلاطوس نے آپ سے کہا’’ کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے اختیار ہے کہ چاہوں تجھے صلیب دوں ،چاہوں تو تجھے چھوڑدوں ؟‘‘آپ نے فوراً اس کو جواب دیا کہ ’’اگر یہ اختیار تجھے قیصر سے نہ دیاجاتاتو مجھ پر تیرا کچھ اختیار نہ ہوتا ‘‘۔(یوحنا۱۰:۱۹۔۱۱) اسی کے موافق (متی ۲۴:۲۶)میں آپ کا قول ہے کہ ’’ابن آدم تو جاتا ہے جیسا اس کے حق میں لکھا ہے لیکن اس آدمی پر افسوس جس کے وسیلے وہ حوالے کیا جاتا ہے‘‘۔بجنسہ اسی پہلو سےکہ یہود غلط کہتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کیا ۔مسیح کی موت تو خدائے عزوجل کے مقصد کے مطابق ہے اور مسیح کی اپنی رضا وخوشی سے وقوع میں آئی تھی۔
مسلمان علماء مذکورہ بالا نکات کو نہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی ۔وہ کچھ کا کچھ سمجھتے پھرے اور بھٹک گئے ۔ایسا کہ ان کو کہنا پڑا ’’لایعلم تاویلہ الا اللہ‘‘۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ ان کی تاویلیں صحیح نہیں ہیں کیونکہ وہ خداکے پہلے کلام ،انجیل کی ضد ہیں ۔انہوں نے خدا کے حکم (فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ) (سورۃ النحل آیت ۴۳)
(مسلمانو! اگر تم کوکسی بات کاعلم نہ ہو تو اہل کتا ب (بائبل والوں ) سے پوچھ لیا کرو ۔
کوبالاطاق رکھ دیا اور راہ راست سے بھٹک گئے ۔اگر وہ اس الہٰی حکم پر عمل کرتے تو من مانی تاویلیں نہ کرتے ۔ان کو اصل واقعات کا علم ہوجاتا اور اپنے خیالوں سے دست بردار ہوکر ایسی تاویلیں کرتے جو خدا کے کلام کے مطابق ہوتیں ۔
قرآنی لفظ رفع کاصحیح مفہوم
بعض مسلمانوں معترض ابن اللہ کے رفع آسمانی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآنی آیات کے الفاظ ورافعک انی اور رفعہ اللہ الیہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم برجسد عنصری آسمان پر زندہ موجود ہیں ان قرآنی الفاظ سے صرف آپ کی رفعت منزلت ظاہر ہوتی ہے ۔
یہ تاویل کوئی نئی تاویل نہیں ہے بلکہ صدیوں پرانی ہے جس کا مسیحی علماء نے باربار پول کھول دیا ہے چنانچہ ہم مرحوم قدوۃ المتکلمین نے امام المناظرین الحاج مولانا پادری سلطان محمد خاں افغان کابلی کاقاطع اور ساطع جواب معترضین کی تسلی کے لئے ذیل میں درج کئے دیتے ہیں سلطان القلم لکھتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ بہ جسد عنصری آسمان پرزندہ ہیں
مخالفین فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سوال ان کے آسمان پراُٹھائے جانے کا ہے جس کے ثبوت میں رافعک انی اور رفعہ اللہ الیہ کے الفاظ یہ پیش کئے جاتے ہیں لیکن یہاں رفع (اٹھانے )سے مراد رفع جسم (جسم کا اٹھانا )نہیں بلکہ رفعت مرتبت مراد ہے ۔جیسا کہ مفردات امام راغب اور تفسیر کبیر میں بھی صراحتاً مذکورہے ۔عربی میں رفع کے معنی قدرکے بھی آتے ہیں اور رفیع اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو معزز بلند ومرتبت والاہو‘‘۔جو سراسر غلط اور قرآن مجید کے ساتھ کھیلنا ہے ۔صراح (کھلی اور صاف بات چیت ،ایک عربی لغت )میں جو عربی لغات میں ایک ممتاز لغت ہے ’’رفع ‘‘کے معنی اوپر اُٹھانے کے ہیں او ر اس کے بالمقابل لفظ وضع ہے جس کے معنی نیچے رکھنے کے ہیں مصباح منیر میں لکھا ہے کہ رفعتہ رفعا خلاف خفضۃ یعنی عرب جب کسی چیز کو اوپر اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’خفضۃ‘‘میں نے اس کو نیچے رکھا ۔یعنی رفع اور خفض دو متقابل الفاظ میں جو ایک دوسرے کے برخلاف استعمال ہوتے ہیں ۔
صراح میں لفظ ’’رفع ‘‘ کے نیچے ایک محاورہ بھی لکھا ہے کہ ’’ومن ذلک قو لھم رفعہ الی السلطان ‘‘جس سے بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ جب لفظ رفع کا صلہ الیٰ آتا ہے تو اس سے مراد ’’رفت مرتبت ‘‘ہوتی ہے جب اس محاورہ کی بنا پر حضرت عیسیٰ کے رفع جسمی سے انکار کرنا نہ صرف عربی سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے بلکہ فارسی تک نہ جاننے کا ثبوت ہے کیونکہ اس عربی محاورہ کے شروع میں یہ فارسی عبارت موجود ہے ’’ونزدیک گردانیدن کسے رابہ کسے ومن ذلک ‘‘الخ(جب کوئی بات ادھوری چھوڑ دی جائےتاکہ بات طوالت کی وجہ سے لمبی نہ ہو)یعنی رفع کے دوسرے معنی کو کسی کوکسی کے قریب کرنے کے ہیں اور اسی قبیل (جنس ،خاندان )سے عربوں کایہ محاورہ ہے کہ میں اس کو بادشاہ کے نزدیک لے گیا ‘‘اب کوئی ان مدعیان عربیت سے پوچھے کہ’’ نزدیک گردانیدن کسے رابہ کسے‘‘ کے معنی کس طرح رفعت ومرتبت کے ہو سکتے ہیں کسی کوکسی کے نزدیک کرنے میں قرب جسمی ملحوظ ہوتا ہے نہ یہ کہ کسی شخص کو گھر میں بیٹھے بٹھائے عزت ومنزلت دلانا۔پس رفعتہ الی السلطان کے یہ معنی ہیں کہ ’’میں اس کو بادشاہ کے پاس لے گیا ۔ عزت اور ذلت کا اس میں کوئی لحاظ نہیں کیونکہ یہی محاورہ عین اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کسی کو شکایتاً بادشاہ کے پاس لے جاتے ہیں منتہی الارب میں اس محاورہ کے نیچے کہ رفعہ الی الحاکم لکھا ہے کہ ’’شکایت بردپیش حاکم ونزدیک آں شد باخصم ‘‘۔فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بھی اس محاورہ کے نیچے کہ ’’ رفعہ الی الحاکم ‘‘احضرہ للشکوہ لکھاہے ۔’’یعنی شکایت کے لیے اس کو حاکم کے پاس لے گیا(جزء ۹)
نکتہ
یہ نکتہ یادرکھنے کے قابل ہے کہ صراح کی عبارت زیر بحث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ’’رفع جسمی ‘‘ کے ساتھ مرتبت ومنزلت کابھی ارادہ ہوتب رفع کا صلہ الیٰ لانامناسب ہے کیونکہ رفعت منزلت رفع جسمی کے منافی نہیں ۔لیکن اس صورت میں لانا قرینہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ ارادہ اعزازی پر دلالت کرے کیونکہ جب رفع کا صلہ الیٰ آتا ہے تو اکثر اس کے معنی صرف رفع جسمی کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ امثلہ ذیل اس کی شاہد ہیں۔
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وکالہ کا بیان ۔ حدیث ۲۲۱۴
مَا هُوَ قَالَ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنْ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ مَا هِيَ قُلْتُ قَالَ لِي إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَقَالَ لِي لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنْ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الْخَيْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ لَا قَالَ ذَاكَ شَيْطَانٌ
ترجمہ: عثمان بن ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے عوف نے حدیث بیان کی کہ وہ محمد بن سرین سے وہ ابوہریرہ سے روا یت ہے کہ مجھ کو آنحضرت نے صدقہ عید فطر کی نگہبانی پر مقرر کیا تھا کہ ایک شخص آکر اس میں سے لب بھر کر جانے لگا میں نے اسے پکڑ لیاپھر میں نے کہا کہ تجھ کو رسول کے پاس ضرور لے جاؤں گا اور پوری حدیث بیان کی اس نے بتایا کہ جب تو اپنے بستر پر آرام کرے ۔تو آیتہ الکرسی پڑھ لیا کر ۔ہمیشہ تیرے ہمراہ اللہ نگہبان رہے گا اور صبح تک شیطان تیرے پاس بھٹکنے نہ پائے گا۔آنحضرت نے فرمایا اس نے سچ کہا حالانکہ وہ جھوٹا ہے وہ شیطان تھا۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ’’جملہ لارفعتک الی رسول اللہ ‘‘کی شرح میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے کہ ای ذہبن بک ادذکوک بقال رفعہ الی الحاکم اذا حاضرہ للشکویٰ یعنی میں بالضرور تجھ کو رسول اللہ کی جناب میں تیری شرارت کے سبب لے جاؤں گا اور تیری شکایت بجا ہے ۔
بیچارے مخالفین اور ان کے ہمنوا ذرا غور توکریں کہ کیا حضرت ابو ہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی (معاذاللہ) شیطان کو عزت دلانے کی غرض سےآنحضرت کے پاس لے جانا چاہتے تھے ۔
(۲) مصباح منیر میں لفظ ’’رفع ‘‘ کی تحت میں لکھا ہے کہ
’’رفعت ازرع الی الیہود جس کا ترجمہ صراح ۔منتہی الارب ومنتخب اللغات میں یہ لکھا ہے کہ برداشتم غلہ دور ودہ وبجز من گاہ آور دم یعنی ’’کھیت کو کاٹنا اور غلہ اُٹھا کر خرمن گاہ (کھلیان،انبار )میں لے آیا ‘‘۔
قاموس اور اساس البلاغہ میں بھی لکھاہے ۔
(۳)صحیح بخاری اور مسلم اور مشکوۃالمصابیح باب البکاء علی المیت کے (صفحہ ۱۵۰) مجتبائی میں آنحضرت کی بیٹی زینب کے فرزند ارجمند کے فوت ہونے کی حدیث میں یہ جملہ ہے کہ
فرفع الیٰ رسول اللہ الصبیی
’’یعنی وہ لڑکا آپ کے پاس اٹھا کر لایا گیا ‘‘
کیا اس محاورہ کو پڑھ کر پھر بھی آپ رفع جسمی کے قائل نہ ہوں گے ۔
(۴) مجمع البخار جلد ثانی میں لفظ رفع کے نیچے لکھا ہے کہ
فرفعہ الےٰ یدہ ای رفعہ الیٰ غلیۃ طول یدہ لیراہ الناس فیفطرون ۔
’’یعنی آنحضرت نے پیالہ کو دست مبارک کی لمبائی کے برابر اوپر کواٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں اور روزہ افطار کریں‘‘ ۔
غرض ہمیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں اس قسم کی مثالیں معلوم ہیں جن سے بہ صراحت ظاہر ہوتا ہے کہ جب رفع کا صلہ الیٰ آتا ہے تو اس قسم کے معنی شے مذکور کو مد خول الیٰ کی طرف اُٹھانے کے ہوتے ہیں ۔
بہر کیف نعمت میں ’’رفع‘‘کے حقیقی اور وضعی معنی ’’اوپر کو اُٹھانے کے ہیں پس جہا ں نہیں کا مفعول مادی ہووہاں اس سے مراد اوپر کو حرکت کرنا ہوگی اور اگر اس کامتعلق اور معمول کوئی غیر مادی شے ہوتو اقتضائے مقام پر مجمول ہوگا چنانچہ مصباح منیر میں لکھا ہے ۔کہ
فی الاجسام حقیقۃ فی المحرلۃ والانتقال وفی المعانی علیٰ مایقیضیہ المقام۔
یعنی رفع کا تعلق جب اجسام کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کے حقیقی معنی حرکت اور انتقال کے ہوتے ہیں اور جب معنی کے متعلق ہوتا ہے تو جیسا موقع ہوویسی ہی مراد ہوتی ہے ۔
مصباح کی اس تصریح سے صاف ظاہر ہے کہ ’’رفع ‘‘کے حقیقی معنی و انتقال اور حرکت کے ہوتے ہیں اور امثلہ مافوق سے ثابت ہوگیا ہے کہ رفع کے حقیقی ووضعی معنی انتقال اور حرکت کے ہوتے ہیں اور امثلہ مافوق سے ثابت ہوگیا کہ ’’رفع کا صلہ جب ’’الیٰ‘‘آئے تو اس کے معنی شے مذکور کے مدخول الیٰ کی طرف مرفوع ہونے کے ہوتے ہیں ’’پس ورافعک الی کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ حضرت عیسیٰ بہ جسد عنصری آسمان پر زندہ اور موجود ہیں ۔
دوسرا نکتہ
چونکہ ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس بحث کا کامل طور پر یقینی تجزیہ کریں ۔لہذٰ ا یہاں پر ایک اور نکتہ لکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کنایہ (رمز ،اشارہ )اور مجاز میں یہ فرق ہے کہ کنایات میں اصلی اور حقیقی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں اور مجازات میں نہیں چنانچہ مختصر معانی میں جواس فن میں ایک اعلیٰ پایہ کی درسی کتا ب ہے لکھا ہے کہ
الکنایۃ فی اللغتہ مصدر کنیت بکذاعن کذاوکنوت اذا ترکت التصریح بہ وفی الاصطلاح لفظ اوبد بہ لازم معناہ مع جوازادادتہ معہ ای ارادۃ ذلک المعنی مع لاذمہ کلفظ طویل التجاوالمر الدبہ طویل القامۃ مع جواذان یرادحقیقۃطول التجا دایضا تظہر انہا تخالف الجارمع ارادۃطول القامہ مخلاف المجازفانہ لایجوزفیہ ارادۃ المعنی الحقیقی الزوم القرینۃ والمانعۃ عن ارادۃ المعنی الحقیقی ۔
یعنی کنایہ معتل (کمزور،اصطلاح علم صرف میں وہ فعل یا اسم جس میں حرف علت ہو)یا ئی یا وادی ہے اور اس کے لغوی معنی مبہم بات کہنے کے ہیں لیکن اصطلاح میں اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے معنی کا لازم مراد ہو اور اس کے ساتھ اس لفظ کے اصلی معنی کا ارادہ بھی جائز ہو ۔مثلاً طویل التجاد یہ ایک محاورہ ہے جس کے لازمی معنی ’’درازقامت ‘‘ کے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کے حقیقی معنی ایسے پرتلہ والا مراد لینا بھی جائز ہے پس ظاہر ہے کہ کفایہ اور مجاز میں یہی فرق ہے کہ کنایہ میں لازمی اورحقیقی دونوں معنی جمع ہوسکتے ہیں او ر مجاز حقیقی معنی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا ہے۔
پس’’رافعک الیٰ ‘‘کے معنی کنائی (بشرطیکہ )ایسا ہی ہو بھی ہمارے لیے مضر نہیں بلکہ مفید ہے کیونکہ یہ دونوں معنی ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ۔رفع جسمی کے ساتھ مرتبت کا ہونا ایک نبی برحق کے لیے نور ہے جیسا کہ آیت ذیل میں بھی یہ دونوں باتیں ثابت ہیں کہ ’’ ورفع والدیہ علی العرش ‘‘’’یعنی یوسف ؑنے اپنے والدین کو تخت پر چڑھاکر بٹھایا ‘‘۔اس رفع جسمی کے ساتھ عزت واکرام بھی ملحوظ ہے ۔
جاہلوں سے کچھ بعید نہیں اگر یہ کہیں کہ ہم تو اس کے مجازی معنی مراد لیتے ہیں لہٰذا مناسب ہے کہ ان کو بھی یہ بتلائیں کہ آیت ’’ورافعک الیٰ ‘‘کے مجازی معنی بھی مراد نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ مجاز کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی معنی لینے سے اگر قباحت(خرابی ) لازم آ جائے یاکوئی قرینہ ایسا ہو کہ حقیقی معنی لینے سے منع کریں۔ چنانچہ مختصر معانی میں لکھا ہے کہ
’’ المجاز مفرد ومرکب اماالمفرد فہوالکمۃ المستعملہ فی غیر یا وصنعت فی اصطلاح بہ التخاطب علیٰ وجہ یصح مع قرینہ عدم ارادۃ ای ارادۃ الموضوع لہ‘‘
’’یعنی مجاز وہ کلمہ ہے جو اپنے حقیقی معنی میں مستعمل نہ ہواور کو ئی قرینہ بھی قائم ہو جس سے یہ بات معلوم ہو جائے کہ کلمہ کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں ‘‘۔
چونکہ آیت زیر بحث ہے حقیقی معنی لینے میں نہ تو کوئی قباحت لازم آتی ہے اور نہ اس میں کو ئی قرینہ اس قسم کا ہے جو حقیقی معنی کے اختیار کرنے کو روکے لہٰذا آیت مافوق کے مجازی معنی لینا سراسر باطل ہے ۔
اسی اصل زریں کو مدنظر رکھ کر قرآن مجید نے جہاں کہیں لفظ ’’رفع ‘‘کو بہ معنائے ’’رفعت مرتبت ‘‘استعمال کیا ہے ۔ا ن کل مقامات میں کو ئی نہ کوئی قرینہ اس قسم کا قائم ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معنی موضوع لہ (حقیقی )مراد نہیں ہے مثلاً
(وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا)(سورۃ مریم آیت ۵۷)
(نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ)(سورۃ یوسف آیت۷۶)
(وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ)(سورۃ الانعام آیت ۱۶۵)
(رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ) (سورۃالزخرف آیت ۳۲)ان تمام آیات میں الفاظ ’’مکاناً علیاودرجات ‘‘قرینے (ڈھنگ ترتیب) ہیں اس بات کے کہ لفظ ’’رفع ‘‘ اپنے اصلی معنی میں مستعمل نہیں ہے ۔
امام راغب اور امام رازی پرتہمت
ہمارے مخالفین کایہ کہناکہ یہاں رفع (اُٹھانا)سے مراد ہے جیسا کہ مفردات امام راغب اور تفسیر کبیر میں بھی صراحتاً موجود ہے ۔امام راغب اور تفسیر کبیر میں بھی صراحتا مذکور ہے ۔امام راغب اور امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہما پر بہتان باندھنا اور سفید چشمی کی تہمت لگاناہے کسی امر کی تحقیق کے لئے قابل وثوق اشخاص کا صرف نام لے لینا کا فی نہیں ہوسکتا ہے تاوقتیکہ ان کے تحریری بیان بھی پیش نہ کئے جائیں چونکہ ان کی کتابیں مخالفین کی نظر سے نہیں گزری ہیں اس لئے سماعی طور پر ان کا نام لکھ دیا جائے ۔مخالفین کی خاطر ہم ان دونوں کی عبارات نقل کئے دیتے ہیں۔
(۱)امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کے تحت میں لکھتے ہیں کہ
وقد ثبت بالہ لیل انہ حی ویں دالخبر عن النبی انہ سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ تیوفاہ بعد ذلک
یعنی بے شک یہ بات دلیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور اس بارے میں رسول عربی سے حدیث بھی آچکی ہے کہ آپ اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کو وفات دے گا (تفسیر کبیر جلد دوم)(ماہنامہ اخوت اپریل ۱۹۴۶ ء) ۔
مشبہ لہم کی اسلامی تاویل
مذکورہ بالا الفاظ ماقتلوہ وماصلبوہ کی دو تاویلیں (جو سطور بالامیں لکھی گئی ہیں )ہم محض قرآن واسلام پیش کررہے ہیں تاکہ قرآن مجید پراس معاملہ میں حرف آنے نہ پائے اور اہل اسلام کے علماکو اس مخمصہ سے نکلنے کی کو ئی راہ سوجھے جائے غور ہے کہ انجیل متی کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ یہوداہ غدار جمعہ کی صبح کو یہود کی صدر عدالت کے فیصلہ کے عیں بعد خود پھانسی لے کر مرچکا تھا (متی ۱:۲۷۔۱۰) ۔
دریں حال وہ مرد ود آنخداوند کی شباہت میں صدر عدالت کے سامنے فیصلہ سے پہلے دوران مقدمہ میں کس طرح حاضر کیا جاسکتا تھا ؟ سردار کاہن المسیح اور یہود اہ غدار دونوں سے بخوبی واقف تھے کیونکہ وہ آپ کو قتل کروانے پر تلے ہوئے تھے (یوحنا۴۸:۱۱۔۵۲)۔اور یہوداہ سے سودابازی کرچکے تھے پس وہ اور صدر عدالت کے دیگر شرکا کس طرح دھوکا کھا سکتے تھے ؟ علاوہ ازیں صدر عدالت کے ’’سرداروں میں سے بھی بہتیرے آنخداوند پر ایمان لاچکے تھے مگر خوف کے مارے علانیہ اقرار نہ کرتے تھے ‘‘(۴۲:۱۲؛ ۱:۳؛ ۱۳:۷ وغیرہ)وہ کس طرح دھوکا کھا گئے۔ارمیتہ کا ’’سردار ‘‘مشیر یوسف جس نے پلا طوس سے مصلوب کی لاش مانگی اور اس کو قبر میں رکھا (لوقا۵:۲۳۔۵۳) کس طرح دھوکا کھاسکتاتھا ؟ اور لوگوں کی بڑی بھیڑ اور بہت سی عورتیں جوخداوند کے واسطے روتی پیٹتی آپ کےپیچھے چلیں ‘‘(لوقا ۲۷:۲۳ )یہ سب کس طرح دھوکا کھاگئے ؟ ام المومنین حضرت بی بی مریم جن کاقراۃ العین(جس سے آنکھوں کوٹھنڈک پہنچے،نور چشم ،بیٹا)مصلوب ہوا اور آپ کے دوازدہ (بارہ ۱۲) رسول اور ہزاروں متبعین جوعید کے لیے آئے تھے اور اس واقعہ ہائلہ(ہائل کی جمع ،ہولناک)کے چشم دید گواہ تھے وہ کس طرح دھوکا کھاسکتے تھے۔ ’’کیونکہ یہ ماجرا کہیں کونے میں تو ہوا نہیں تھا ‘‘(اعمال ۲۶:۲۶) ۔بلکہ دن دہاڑے دوپہر کے وقت ان کے سامنے ہوا تھا جو زیارت اور عید کی خاطر ارض مقدس کے کونہ کونہ سے آئے تھے ۔جن کے اندھے بہروں ،لنگروں ،کوڑھیوں مفلوجوں ،لنجوں ،گونگوں ،مردوں عورتوں اور بچوں کو آپ نے اپنے مسیحائی دم سے شفا بخشی تھی ،جن کے مردوں کو آپ نے زندہ کیا تھا اور جوتین سالوں تک آپ کا پیام سنتے اور معجزات بینات دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے رہے تھے اور پاپیدل کشتیوں پر سفر کرکے آپ کے دیدار کی خاطر دوڑتے آتے تھے (مرقس ۳۴:۶)۔کیا یہ ہزاروں اشخاص سب کے سب دھوکا کھاگئے ؟ قرآنی الفاظ ’شبہ لہم ‘‘کی تاویل صریحاً باطل ہے جس پر عاقل قرآنی الفاظ’’مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ‘‘کااطلاق کرکے اس نظریہ کو رد کرے گا ۔
(۲)کیا یہ با ت کسی سلیم العقل (عقل رکھنے والادانا) شخص کے قبول کرنے کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف تو قرآن مجید دل کھول کر بار بار انجیل جلیل کی تصدیق کرے اور اس کو (ھدی الناس )قرار دے اور دوسری طرف ایک ایسے واقعہ کا انکار کردے جو اس کتاب کے ہر صحیفہ کا مرکز ہے ؟مزید براں قرآن اس صلیبی واقعہ کاذکر تین مختلف مقامات میں اور مختلف سیاق وسباق میں اثبات میں کرے:اگر قرآنی تصدیق اور قرآنی آیات (جن کاگذشتہ صفحات میں ذکر کیا گیا ہے )صحیح ہیں تو جو نظریہ انکے خلاف ہوگا وہ ان کی تکذیب (جھوٹ بولنے کا الزام لگانا)کرے گا۔ لہٰذاوہ غلط اور باطل تصور ہوگا کیونکہ اس قسم کے درنقیض(اُلٹ،مخالف)دعوے جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ازروئے منطق محال امر ہے۔
اس آیت کی نسبت امام رازی چند مشکلات کا ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ
’’ مشکل یہ ہے کہ درآنحال یہ کہ خداتعالیٰ حضرت عیسیٰ کو آپ کے دشمنوں کے ہاتھ سے خلاصی دینے پر قادر تھا اور آپ کو آسمان کی طرف اٹھا سکتا تھا پھر آپ کی صورت غیر پر ڈالنے سے کیا فائدہ ہوا ؟ کیا ایک غریب مظلوم بے گنا ہ آدمی کی شکل بدل کر اس کو قتل کے لیے بغیر کسی فائدہ کے حوالے کرنا انصاف سے بعید نہیں ہے ؟ایک اور مشکل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی صورت محیر بدل گئی اور اس کے بعد آپ کو آسمان پر اٹھایاگیا اور قوم نے یہ یقین کرلیا کہ وہ عیسی ٰ تھا جو مارا گیا ،حالانکہ وہ عیسیٰ نہ تھا ۔یہ گویا خلقت کو جہالت اور فریب میں ڈالنا ہے جو خداکی شان کے لائق نہیں ۔علاوہ ازیں نصاریٰ کثرت سے مشرق سے لے کر مغرب تک باوجود یہ کہ وہ مسیح عیسیٰ علیہ السلام سے سخت محبت رکھتے اور آپ کی شان میں سخت مبالغہ کرتے ہیں ،پھر بھی وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ آپ کے مقتول ومصلوب ہونے کے گواہ ہیں ۔پس اگر ہم اس سے انکار کریں تو یہ گویا ایسی بات کا جوتواتر کے ساتھ پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے،انکار کرناہو گا اور تواتر سے انکار کرنا نبوت محمد،موت عیسیٰؑ ، بلکہ ان دونوں کے وجود اور تمام انبیا ء علیہ الصلوۃ والسلام کے وجودسے احتمالات پیدا کرتے ہیں۔لیکن اس قسم کے احتمال پیدا کرنے والے سوال جونص قاطع کے مخالف ہوں ،منع ہیں اور خدا ہدایت کو دوست رکھنے والا ہے ‘‘۔
(رازی جلد دوم صفحہ ۶۹۰ تا ۶۹۲)
ناظرین۔دیکھا آپ نے ،ملہم رسولوں کے چشم دید واقعہ کا انکار اور قرآن مجید کی صریح نص کا انکار کس طرح ایک مستند مفسر کو ایک مشکل سے نکالنے کی اس کی بجا ئے مشکلات میں اضافہ کردیتا ہے اور مجبور ہوکر شکوک کو رفع کرنے کے بجائے خدا کی آڑ لیتا ہے ۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثر یامی ردد دیوار کج
ابن اللہ کی صلیبی موت کا مقصد
ہم سطور بالا میں لکھ چکے ہیں کہ خداوند مسیح کی پیدائش کی بشارت دیتے وقت خدا کے فرشتے نے بتلا یا تھا کہ آنجناب کی آمد کا اصلی مقصد دنیا کے گنہگاروں کو ان کے گناہوں کی غلامی سے آزاد کرنا ہے ۔چنانچہ مقدس یوحنا انجیل نویس جو صاحب الہام تھے لکھتے ہیں کہ ’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا ابن وحید دنیا میں بھیجا تا کہ جوکوئی اس پر ایمان لائے وہ تباہ وبرباد نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ‘‘(یوحنا۱۶:۳) ۔کلمتہ اللہ تمام زندگی بھر خداکی لازوال محبت کو اپنی گفتار اور کردار سے گنہگاروں پر ظاہر کرتے رہے اور فانی زندگی کے تمام ہونے کے بعد آخر میں اپنی صلیبی موت سے آپ نے خدا کی محبت کے جلال کے انوار (نور کی جمع)ضیا پاشوں (روشنی پھیلانے والا)اس گناہ بھری دنیا کے تاریک تریں مقاموں کو روشن کردیا۔صلیب نے ثابت کردیا کہ خدا بنی آدم سے ازلی اور ابدی پیار کرتا ہے اولاد آدم میں کلمتہ اللہ (اور فقط کلمتہ اللہ ) ایک واحد انسان ہے جس نے اپنی موت سے نوع انسانی کو خدا کی محبت اور گناہوں کی مغفرت کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ ان کو نئی پیدائش کی بشارت دے کر از سر نو خدا کے فرزند بنا دیا یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ محبت کا جو ہر ایثار اور قربانی ہے منجی عالمین کے بے عدیل ایثار اور بے نظیر قربانی ہے یہ حقیقت اظہرمن الشمس کر دی ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے جس کا کامل اور اکمل ظہور اس کے مظہر ابن وحید کی تعلیم ،زندگی ،کردار اور سب سے زیادہ صلیبی موت پر ہوا ؎
داد دیتے ہیں ظرف کی اس کے
جس نے دشمن گلے لگایا ہے
(بخت)
کلمتہ اللہ کی صلیب نے دنیا کو داردرسن کا فلسفہ سکھا دیا ہے ۔گذشتہ پچاس سال میں ہمارے ملک کے ہم وطنوں نے خداوند مسیح کی تقلید کرکے کل دنیاکے ممالک واقوام پریہ روشن کردیا ہے کہ ؎
جوبھی زیب صلیب ودار ہوئے
دونوں عالم کے شاہکار ہوئے
(رفعت سلطان)
ابن اللہ نے صلیب پر سے عالم وعالمیان کو خدا کی محبت وایثار کاایسا سبق سکھایا ہے جو گناہگار انسان کبھی فراموش نہیں کرسکتا ؎
مریم کی آبرو کا یوں جاگا ہے اب نصیب
ہرداغ دل چراغ ،تو ہر شاخ گل صلیب
(بخت)
کلمتہ اللہ سے پہلے کسی ماں جائے نے نہ یہ سبق سیکھا اور نہ کسی کو سکھایا ۔اسی واسطے ان کی یاد تک محو ہوگئی ۔نہ ان کی یاد تک محو ہوگی نہ ان کے نام زندہ رہے اور نہ ان کے مذاہب اور نہ ان کے پیرو ؎
از ہستی باز بروے زمیں تک نشاں نماید
سچ ہے ؎
بجھے چراغ پہ آتے نہیں ہیں پروانے
یہ فضیلت خداوند مسیح اور صرف خداوند مسیح ہی کو حاصل ہے ؎
بن گئے جب چراغ محفل ہم
اک جہان کوملی ضیا ہم سے
(بخت)
کلمتہ اللہ نے نہ صرف اپنی زندگی سے خدا کی محبت لوگو ں پر ظاہر کی بلکہ آپ نے اپنی صلیبی موت سے تما م دنیا پرظاہرکردیا کہ بنی آدم سے ازلی اور ابدی محبت رکھتا ہے ۔مذاہب عالم میں سے کسی مذہب کے بانی نے اپنی موت سے خدا کی محبت رکھتا ہے ۔مذاہب عالم میں سے کسی مذہب کے بانی نے اپنی موت سےخدا کی محبت کا جلال ظاہر نہ کیا ۔بنی آدم میں سے صرف ابن اللہ کی شخصیت ہی ایک ایسی واحد شخصیت ہے جس نے اپنی موت سے بنی نوع انسان کو خدا کی محبت اور مغفرت کا یقین دلایا یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ محبت کا جوہر ایثار اور قربانی ہے اور خداوند مسیح کے بے عدیل ایثار اور بے نظیر قربانی نے یہ حقیقت اظہر من الشمس کردی ہے کہ خدا محبت ہے جس کا وہ خود مظہر ہے ۔انشاء اللہ ہم باب چہارم میں اس موضوع پر مفصل بحث کریں گے ۔
ابن اللہ کی ظفر یاب قیامت
انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں صحف سماوی اس حقیقت پر اتفاق ہیں کہ خداوند مسیح اپنی موت کے بعد اور قبر پر فتح پاکر پھر خدا کی قدرت سے زندہ ہوگئے ۔ہر چہاراناجیل میں واقعہ قیامت مسیح کو مفصل طور پر لکھا گیا ہے (متی ۶۲:۲۷؛ ۱۵:۲۸؛ مرقس ۱۶ باب ؛لوقا ۲۴ باب؛یوحنا۲۰۔۲۱ باب ) انجیلی بیانات کی تفصیل سے ہر روشن دماغ شخص پر عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ افسانے نہیں بلکہ تاریخی بیانات کی تفصیلات ہیں ۔انجیل جلیل کے دیگر مقامات میں اس اہم ترین تاریخی واقعہ کے ثبوت دئے گئے ہیں ۔چنانچہ مقدس پولوس رسول کرنتھیوں کے پہلے خط کے پندرھویں طویل باب میں آنخداوند کی قیامت چشم دید شہادت اور دیگر دلائل پیش کرتے ہیں ۔خود کلمتہ اللہ کی زبا ن حقیقت ترجمان پر اس واقعہ کا بار بار ذکر آتا ہے مثلاً لکھا ہے کہ جب آپ آخری بار یروشلیم کو جارہے تھے تو آپ نے اپنے رسولوں کو جو آپ کے ہمراہ تھے فرمایا ’’ہم یروشلیم کو جانتے ہیں وہاں ابن آدم سر دار کاہنوں اور فقہیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اس کے قتل کا حکم دیں گے اور اسے رومیوں کے حوالہ کریں گے ۔جواس کو ٹھٹھوں میں اڑائیں گے ۔اس پر تھوکیں گے اور اس کو کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے پر وہ تیسرے روز مردوں میں جی اٹھے گا لیکن وہ اس بات کو نہ سمجھے اور اس سے پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے(مرقس ۳۳:۱۰۔۳۴؛ ۳۱:۹۔۳۲ وغیرہ)
قرآن مجید میں کلمتہ اللہ کی قیامت کا واقعہ صرف مجملاً وارد ہوا ہے چنانچہ ایک آیہ میں ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ نے فرمایا والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا۔یعنی مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا ۔
جس دن میں مروں گا اور
ہر چہار اناجیل قیامت مسیح کے واقعہ کو مفصل طور پر لکھتی ہیں (متی۶۲:۲۷؛۱۵:۲۸؛مرقس ۱۶ باب ؛لوقا ۲۴باب ؛یوحنا ۲۰۔۲۱ باب)ان بیانات کی تفصیل ہر عاقل شخص پریہ حقیقت روشن کردیتی ہے کہ یہ بیانات افسانے نہیں بلکہ تاریخی بیانات ہیں ۔جس دن میں پھر جی کر اُٹھ کھڑا ہوں گا (سورہ مریم آیت۳۴) قرآن میں ایک اور آیت ہے جو نہایت معنی خیز ہے ۔
(وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ) (سورۃ الزخرف آیت ۶۱)
یعنی عیسیٰ تو قیامت کی نشانی ہے ۔پس تم مردوں کی قیامت کے بارے میں کو ئی شک نہ کرو ۔
اس آیہ شریفہ کا مطلب ظاہر ہے کہ چونکہ یہ ایک تواریخی حقیقت اور امر واقعہ ہوگذرا ہے کہ حضرت عیسیٰ مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور اس نے موت اور قبر کے بندوں کو توڑ دیا ہے پس وہ قیامت کی نشانی ہے اور چونکہ اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا یقینی اور بر حق ہے پس مردوں کی قیامت بھی برحق امر ہے ۔تم اس معاملے میں کسی قسم کا شک وشبہ دل میں نہ لاؤ۔
اس قرآنی آیہ کی مفصل تفسیر انجیل جلیل میں موجود ہے چنانچہ مقدس پولوس رسول جوصاحب وحی والہام تھےشہر کرنتھس کی کلیسیا کولکھتے ہیں :ـ ’’میں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچادی جومجھے ملی تھی کہ مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا ۔اور تیسرے روز کتاب مقدس کے مطابق جی اٹھا اور پطرس کو اور اس کے بعد بارہ(۱۲) رسولوں کو دیکھا ئی دیا ۔پھر پانچ سو(۵۰۰)سے زیادہ ایمانداروں کو دکھائی دیا جن میں سے اکثر اب بھی زندہ موجود ہیں پھر سب سے پیچھے مجھ کودیکھائی دیا۔۔۔۔پس جب مسیح کی یہ منادی کی جاتی ہے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا تو تم میں سے بعض کس طرح کہتے ہیں کہ مردوں کی قیامت ہے ہی نہیں
(وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا)(سورہ الزخرف آیت ۶۱)
اگر مردوں کی قیامت نہیں تو مسیح بھی نہیں جی اُٹھا اور اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے اور تم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو۔ لیکن مسیح فی الواقع مردوں میں سے جی اُٹھا اور جو مر گئے ہیں ان سب میں وہ پہلا ہے جوجی اٹھا ہے ۔جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے پہلا پھل مسیح ہے ۔پھر مسیح کے آنے میں اس کے ایماندار ۔اس کے بعد آخرت ہے۔ اس وقت وہ تمام حکومت اور سارا اختیار اور سب قدرت نیست کرکے بادشاہی کو خدا باپ کے حوالہ کردے گا جب سب کچھ اس کے تابع ہوجائے گا تو ابن اللہ خود باپ کے تابع ہوجائے گا جس نے سب چیزیں اپنے ابن کے تابع کردیں تاکہ سب میں خدا ہی سب کچھ ہو ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵ باب) ۔
اب ناظرین پر انجیلی بیانات کی روشنی میں قرآنی آیہ (سورۃ مریم آیت ۳۴) کا صحیح مفہوم بھی ظاہر ہوگیا ہوگا ۔کلمتہ اللہ کی پیدائش صلیبی موت اور ظفر یاب قیامت فرداً فرداً اور مجموعی طور پر کلمتہ اللہ کے لئے اور بنی نوع انسان کے لیے سلامتی کے دن تھے جب کلمتہ اللہ پیدا ہوئے تو گنہگار دنیا کے لیے سلامتی اور نجات کا سامان ہوگیا ۔جب تک کلمتہ اللہ زندہ رہے آپ گنہگاروں کو خداکی مغفرت اور ابدی محبت کا جان فزا اور سلامتی بخش پیغام دیتے رہے ۔جب رومی حکومت نے آپ کو مصلوب کیا تو آپ نے صلیب پرسے آخری دم پکار کرفرمایا کہ سلامتی اور نجات کا کام ،میں نے تمام کاتمام پورا کردیا (یوحنا۳۰:۱۹) جب آپ مردوں میں سے زندہ ہوکر جی اٹھے تو آپ نے دنیا جہاں کے گنہ گاروں کو سلامتی اور نجات عطافرمائی ۔اور تب سے لے کر آج تک جو گناہ میں گرفتار ہیں ان سب کو وہ سلامتی اور آرام جان بخشا ہے ۔
قیامت مسیح بے نظیر اور لاثانی واقعہ
نسل انسانی کی ابتداسے دور حاضرہ تک اور اب سے لے کر ابدتک کوئی فرزند آدم ایک دفعہ مر کے دوبارہ مردوں میں سے سوائے کلمتہ اللہ کے نہیں جی اُٹھا ۔ابوالبشر آدم سے لے کر اب تک کسی فرد بشر نے کبھی موت اور قبر پر فتح نہیں پائی ۔اس قاعدہ کلیہ سے طبقہ انبیا بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر بنی نوع انسان میں کوئی فرد مستثنیٰ ہوا ہے تو انجیل و قرآن کی متفقہ شہادت کے مطابق کلمتہ اللہ اور صرف کلمتہ اللہ کی واحد ہستی ہی مستثنیٰ ہے ۔یہ حقیقت غوروتدبر کے قول ہے ۔
کتا ب مقدس اور قرآن مجید دونوں صحف سماوی کل کائنات اور اولاد آدم کو فانی بتلاتے ہیں ۔کتاب مقدس اور انجیل جلیل کے ہر صحیفہ میں اس حقیقت کا صریحاً ارشاتاًذکر پایا جاتا ہے ۔قرآن شریف میں بھی وارد ہے (کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ) (سورۃ آل عمران ۱۸۵)
یعنی ضرور ہے کہ ہرشخص ایک دن موت کا مزہ چکھے ۔
لیکن ایک دوسری آیت کے مطابق اس قاعدہ کلیہ سے خداکی ذات کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے کیونکہ صرف اسی واجب الوجود کو بقاحاصل ہے اور اس کا وجود بقا کا اصل ہے چنانچہ لکھا ہے ۔ (کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ)(سورۃ قصص آیت ۸۸)
یعنی خداکی ذات کے سوا سب فانی ہیں ۔
جب ہم ان آیات کا مقابلہ ان انجیلی مقامات سے کرتے ہیں جن میں وفات اور قیامت مسیح کے بیانات لکھے ہیں اور قرآنی آیہ والسلام علی یوم ولدت وبوم اموت ویوم ابعث حیاسے بھی گرتے ہیں تو انجیلی بیانات کی روشنی میں سطور بالا کی ہر سہ آیات کے صحیح معانی اور اصلی صحیح مطالب ہم پر روشن کرتے ہیں ۔چنانچہ آیت ثانی میں آیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے حصہ میں فنا ہے اور کہ بقا صرف خدا کی ذات کو ہی حاصل ہے ۔چونکہ بردے ہردوکتب سماوی بقا صرف خدا کی ذات کا حاصل ہے اور دونوں کتب کے مطابق ابن اللہ کو بقا حاصل ہے ۔پس ابن اللہ نے موت اور فنا کو فنا کرکے ثابت کردیا کہ فقط آپ ہی ابن اللہ ہیں اور آپ کی ذات پاک خدا کی ذات میں سے ہے کیونکہ بقا صرف آپ کو ہی حاصل ہے (۲۔کرنتھیوں ۴:۱۳) چنانچہ انجیل میں وارد ہوا ہے کہ ’’ہمارے جنابِ مسیح نے مردوں میں سے جی اٹھ کر کل عالم پر بغیر کسی شک وشبہ کے اس حقیقت کو ثابت کردیا کہ ابن اللہ ہیں‘‘(رومیوں ۴:۱؛ افسیوں ۱۹:۱۔۲۲)قرآنی اصطلاح میں روح اللہ کے ابعث حیا نے تما م عالم وعالمیان پر اس حقیقت کو آفتاب عالم تاب کی طرح روشن کردیا کہ کلمہ منہ اور روح منہ اسی ایک حقیقت ہستی کے جوہر ہیں اور ذات سے صادر ہے جوبقا کا سر چشمہ اور منبع ہے ۔ وہ ازل سے خدا کا کلمہ اور خدا کا روح ہے کیونکہ وہ ازل سے خدا کے ساتھ ہے اور ابدتک خدا کے ساتھ رہے گا اسی نکتہ کو ادا کرنے کے لیے قرآن و انجیل میں مسیح کی پیدائش ،وفات اور قیامت کے واقعات کو مذکورہ بالا آیت میں یک جا کر دیا گیا ہے(سورۃ مریم آیت ۳۴) اور ہر ایک واقعہ کے معانی ومطالب کے ساتھ منسلک اور پیوستہ کردیا گیا ہے ۔
ابن اللہ کی ظفر یاب قیامت آپ کو تمام مخلوقات سے مراد سب سے اعلیٰ بالا اور افضل ثابت کردیتی ہے (کلسیوں ۱۸:۱) پس آپ اور دیگر انبیائے عظام (عظیم کی جمع،بزرگ )ایک ہی قطار میں شمار نہیں ہوسکتے ؎
یقیں ہر چند می گوئد گماں ہر چند پوید
نہ محصور یقیں استی نہ مغلوب کمانستی
بنی نوع انسان میں فقط ابن اللہ ایک ایسی واحد ہستی ہیں جو زندہ جاوید ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک اور قرآنی آیت قابل غور ہے کیونکہ خود قرآن اس آیہ کے نکتہ پر غور کرنے کے لئے حکم دیتا ہے ۔ (وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ) (سورۃفاطر آیت ۲۲)
یعنی زندے اور مردے برابر نہیں ہوسکتے ۔
انجیل جلیل وقرآن دونوں کے روسے کلمتہ اللہ دیگر مردہ انسانوں کی طرح اب مردہ نہیں بلکہ زندہ جاوید ہیں زندگی اور بقا صرف کلمتہ اللہ وروح اللہ کی ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے ۔اسی واسطے وہ موت اور گناہ پر غالب آکر فاتح ہوئے ۔جس طرح زندہ مردہ سے افضل ہے اسی نسبت سے ابن اللہ کل بنی نوع انسان سے افضل ہے ۔آپ کے سوا تمام کائنات میں کوئی دوسری ہستی ہے ہی نہیں جس کو خدائے الحی القیوم نے خود اپنی الہٰی صرف ابن اللہ ہی ابدالا باد زندہ ہے (مکاشفہ ۹:۴؛۱۴:۵؛ ۶:۱۰؛۷:۱۵ وغیرہ)۔وہی ہے جو ’’یہ کہہ کر اپنا دہنا ہاتھ ہر گنہگار مرد اور عورت پر رکھ کر کہتا ہے کہ خوف نہ کر میں آخر ہوں (ھو الاول والاخر ) فقط میں زندہ ہوں ۔میں مرگیا تھا اور دیکھ ابدالآ باد زندہ رہوں گا موت اور عالم ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں (مکاشفات ۱۸:۱)۔
پس صرف وہی ایک واحد شخص ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’قیامت اور زندگی میں ہوں ۔جومجھ پرایمان لاتا ہے گووہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابدتک کبھی نہ مرے گا(یوحنا۲۵:۱۱) چونکہ ابن اللہ فاتح اور زندہ ہے پس ’’باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اس پر ایمان لائے وہ ہمیشہ کی زندگی پائے ‘‘(یوحنا۳۹:۶) کیونکہ اس نے موت کو نیست کردیا ہے اور انجیل کے وسیلے زندگی اور بقاکو روشن کردیاہے (۲۔تیمتھیس ۱۰:۱) ۔
ابن اللہ نے نہ صرف موت اور قبرپر فتح حاصل کی بلکہ اس کی زندہ شخصیت نوع انسانی کی ’’ابدتک ‘‘رفیق اور مونس ہے (یوحنا۱۶:۱۴۔۱۹) وہ ہم میں ہمیشہ قائم رہتا ہے (۱۔یوحنا ۲۷:۲؛یوحنا۲۱:۱۷) جس طرح انگور کے درخت میں قائم رہتی ہیں (یوحنا۱۵ باب) یاجس طرح بدن کے اعضا بدن میں قائم رہتے ہیں اور تقویت حاصل کرتے ہیں (رومیوں ۵:۱۲؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۲:۱۲؛ افسیوں ۳۰:۵) مسیح کے ساتھ مومنین کا تعلق ہے اس قسم کا ہوجاتا ہے کہ ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ’’میں جو جسم میں زندگی گزارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی پس اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندگی ہے ‘‘(گلتیوں ۲۰:۲؛ایوب ۶:۳؛ ۱۳:۴؛۱۲:۵ وغیرہ )
من تو شدم تومن شدی من جاں شدم توتن شدی
تاکہ کس نگوید بعد ازیں من دیگرتودیگری
اس قسم کا رشتہ اور تعلق کسی دوسرے مذہب کا ہادی یا نبی اپنے پیروؤں کے ساتھ نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ خود مرگیا ہے اور روز حشر دیگر انسانوں کی طرح اپنے اعمال کاحساب دے گا ۔لیکن خداوند مسیح زندہ اور فاتح ہے جو قیامت کے روز دنیاکی عدالت کرے گا لیکن خداوند مسیح زندہ اور فاتح ہے جو قیامت کے روز دنیا کی عدالت کرے گا(متی ۳۱:۲۵ تا آخر )
مذکوربالاوجوہ(وجہ کی جمع ،دلائل) کے سبب مسیحیت اپنے بانی کو خدا کا مظہر مانتی ہے اور دنیا کے کسی نبی کو بھی خواہ وہ کیسا ہی عظیم الشان ہو اس کا ہمسر نہیں گردانتی ابن اللہ کی خصوصیات ایسی ہیں جو روئے زمیں کے کسی دوسرے مذہب کے بانی ہادی یا مصلح میں موجود نہیں ۔پس مسیحیت کا یہ ایمان ہے کہ جس طرح خداکا کوئی ہمسر نہیں اسی طرح خدا کے بیٹے کا بھی کوئی ہمسر نہیں ۔
آں کس است اہل بشارت کہ اشارت داند
نکتہ ہاہست بسے محرم اسرار کجاست ؟
مسیح مردوں کو زندہ کرنے والاہے
انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں اس حقیقت کو نہایت صاف اور واضح الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ گو انجیل میں بالتفصیل مختلف مردوں کو زندہ کرنے کا بیان ہے اور قربآ ن میں مجمل طور پر یہ بیان موجود ہے لیکن دونوں الہامی کتابیں اس حقیقت الامر کی شہادت دیتی ہیں کہ ابن اللہ مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔چنانچہ ہر چہار اناجیل میں مردوں کے زندہ کرنے کے متعدد واقعات تفصیل کے ساتھ درج ہیں (یوحنا ۱۱باب ؛متی ۱۸:۹۔۲۶؛ مرقس۲۱:۵۔۴۸؛ لوقا ۱۱:۷ ۔۱۷ وغیرہ)قرآن میں بھی آیا ہے کہ کلمتہ اللہ نے اہل یہود کو مخاطب کرکے فرمایا (اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ)(سورۃ آل عمران آیت ۴۹)
یعنی میں تمہارے پاس تمہارے رب سے ایک نشان لے کر آیا ہوں ۔میں مٹی سے تمہارے لیے پرندہ کی صورت پیدا کرکے اس میں دم پھونکتا ہوں تو وہ خدا کے اذن سے اڑنے لگے جاتا ہے میں مردوں کو زندہ کرتا ہوں ۔
انجیل میں بھی مختصر اًوارد ہوا ہے کہ کلمتہ اللہ نے حضرت یوحنا اصطباغی کے پیامبر یہودیوں سے فرمایا ’’جوکچھ تم سنتے ہو اور دیکھتے ہو،جاکر یوحنا سے بیان کردو کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں ۔کوڑھی پاک صاف کئے جا تے ہیں بہرے سنتے ہیں اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں۔ غریبوں کوخوشی کی خبر سنائی جا رہی ہے ۔ مبارک ہیں وہ جو میرے بارے میں ٹھوکر نہ کھائیں‘‘ (متی ۴:۱۱۔۶)۔
ہم سطور بالا میں بتاآئے کہ قرآن میں آیا ہے (وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ) (سورۃ الزخرف آیت ۶۱)یعنی عیسیٰ تو قیامت کی نشانی ہے ۔پس تم مردوں کی قیامت کے بارے میں کو ئی شک نہ کرو ۔قرآن فرماتا ہے (وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ) (سورۃ مومنوں آیت ۸۰)یعنی صرف خداہی زندہ کرتا ہے اور مارتاہے ۔
لیکن فطرت کے اس قاعدہ کلیہ سے اللہ جل شانہ نے کلمتہ اللہ کو مستثنیٰ کر دیا ہے وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ بالفاظ قرآن اور ’’مردے زندہ کئے جاتے ہیں ‘‘بالفاظ انجیل جس سے ظاہر ہے کہ خاکی انسانوں میں ایک بشر بھی حضرت کلمتہ اللہ وروح اللہ وابن اللہ کا ہم پایہ ہم رتبہ یا ثانی نہیں ہو ا اور نہ کبھی ہوگا ۔بنی آدم میں صرف ابن اللہ کی ہی شخصیت بے نظیر ،بے عدیل اور بے مثال ہے ۔چنانچہ ابن اللہ نے خود ہی زبان حقیقت ترجمان سے ارشاد فرمایا (اور یہ ارشاد قرآن و ہ انجیل کی آیات کے الفاظ کو روشن کردیتا ہے) کہ ’’میں تم سے ایک بات حق کہتا ہوں بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا سوا اس کے جووہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے (بِاِذۡنِ اللّٰہِ)کیونکہ جن جن کاموں کو باپ کرتا ہے بیٹا بھی ان کو اسی طرح کررہا ہے اس لیے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہےاور جتنے کام وہ خود کرتا ہے اسے دکھاتا ہے جس طرح مردوں کو اٹھاتا ہے اور زندہ کرتا ہے (وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ) اسی طرح بیٹا بھی جن کو چاہتا ہے ان کو زندہ کرتاہے (وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ) ’’باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کاتمام کام بیٹے کے سپرد کیا ہے تاکہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں ‘‘(یوحنا ۱۹:۵۔۲۳؛۳۳:۶ ؛ ۲۵:۱۱؛ متی ۳۱:۲۵۔۴۶ وغیرہ)
بعض قادیاں کے مسلمان قرآن وانجیل کی متفقہ شہادت کو در اء ظہورہم پس پشت پھینک کر قرآن مجید کی عین ضد میں سیدھے سادھے مومن مسلمانوں کوبہکاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام مردے زندہ کیا کرتے تھے ۔وہ اسلام کی تعلیم سے کس قدر بیگانا ہیں اور مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہیں ۔اس قسم کے عقائد رکھنے والے مسلمان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر مسیح ناصری کی طرف جسمانی مردوں کے احیاء کا معجزہ منسوب کیا جائے تو اس میں رسول کریم کی کھلی ہتک (بے حرمتی )ہے ۔ہمارا آقا جو افضل الرسل تھا وہ اپنی تمام زندگی میں ایک جسمانی مردہ بھی زندہ نہ کرسکے اور پرندہ کیا ،پرندے کا ایک پر بھی پیدا نہ کرسکے اور مسیح ناصری جو آپ سے درجہ میں بہت کم تھے ۔ان کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ مردے زندہ کیا کرتے تھے اور پرندے پیداکرتے تھے ۔اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے ؟قرآن تو بتلاتا ہے کہ رسول کریم جب اپنے معجزات کفار کے سامنے پیش کرتے تو وہ جواب میں کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے معجزات کو نہیں مانتے ۔
(ائۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ)(سورۃ جاشیہ آیت ۲۵)
یعنی اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھا دو ۔
اس کا جواب رسول یہی دیتے ہیں کہ ’’اللہ ہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے ‘‘۔(سورۃ مومنوں آیت ۸۲)مگر مسلمانوں کی حالت پر افسوس کہ وہ کہتے ہوئے ذرانہیں شرماتے کہ حضرت مسیح نے جسمانی مردے زندہ کئے اور اس طرح عیسائیت کی تقویت اور اسلام کے ضعف کا باعث بنتے ہیں ۔
(الفضل قادیان ۴ ،ستمبر ۱۹۴۲ ء)
ہماراروئے سخن اس قسم کے نام نہاد مسلمان قادیانیت کے شیدائیوں کی طرف نہیں جو نہ خدا پر ،نہ اس کے فرستادہ (قاصد)رسول پر ،نہ اس کے قرآن پر صحیح ایمان رکھتے ہیں اور کتب سماوی کی کھلی اور واضح آیات بینات کاانکار کرکے خدا اور اس کے انبیاء اور اس کی کتب کی بےعزتی اور ہتک کرنے سے ذرا نہیں جھجکتے ۔اس قسم کے مسلمانوں کے ایمان کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے ۔
(قُلۡ بِئۡسَمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِہٖۤ اِیۡمَانُکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ)(سورۃالبقرۃ آیت ۹۳)
ضربت علیہم الذلتہ والمسکنۃ۔
حقیقی ایماندار مذکورہ بالا قرآنی ارشادات اور انجیلی بیانات کو پڑھ کر آمناوصدقنا کہہ کر تسلیم کرکے کہتے ہیں ۔سبحٰنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم یعنی تیری ذات پاک ہے ہم کو کچھ علم نہیں مگر اتنا ہی ہے جو تونے ہم کو سکھلادیا توہی دانا پختہ کار ہے ۔
مسیح مرد ہ روحوں کوزندہ کرتا ہے
انجیل جلیل سے ظاہر ہے کہ ابن اللہ نہ صرف جسمانی طور پر مردوں کو جلاتے اور زندگی بخشتے تھے ۔بلکہ آپ ان تمام مردوں اور عورتوں کی روحوں کو بھی اپنے مسیحائی دم سے ازسر نو زندگی عطا فرمایاکرتے تھے جوگناہ کے لاعلاج اور زہریلی مرض سے مردہ ہوچکی تھی ۔مسیحی اصطلاح میں اس حقیقت کو لفظ ’’نجات ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے ۔چنانچہ حضرت ابن اللہ نے فرمایا ہے ’’میں تم کو ایک حق بات بتلاتا ہوں ،جو میرے کلام کو سنتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسی کی ہے ۔اس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا کیونکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ اب آگیا ہےمردے ابن اللہ کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ زندہ ہوجائیں گے کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اسی طرح اس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا ہے کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے بلکہ باپ نے بیٹے کو عدالت کرنے کا بھی اختیار بخشا ہے‘‘۔(یوحنا ۲۴:۵۔۲۷؛۱۔یوحنا۱۴:۳؛ ۲۱:۵؛ یوحنا۹:۵۔۱۳؛ ۲۱:۴۔۲۳؛۱۶:۱۰؛۴:۱؛۲۰:۱۷؛ رومیوں ۱:۵، ۸ تا ۱۱، ۱۵ تا ۲۱؛ ۱۱:۶ تا ۱۴ وغیرہ)
ابن اللہ نے گذشتہ دو ہزار سالوں میں دنیا کے کل ممالک واقوام کی کروڑوں مردہ روحوں کو ازسر نو زندگی بخشی ہے جن مردہ دلوں نے خدا کے بیٹے کی آواز ’’تم‘‘کو سنا ہے وہ’’ موت سے نکل کر زندگی میں اسی دنیا میں داخل ہوگئے ‘‘ انہوں نے اپنے ملک وقوم اور سماج کی کایا پلٹ دی اور مردہ روحوں کو بچانے کا وسیلہ بن گئے ۔اور ابدی نام پاکر زندہ جاوید ہوگئے ۔خداوند مسیح نے خود فرمایا ہے ۔’’میں تم سے ایک حق بات کہتاہوں ،جو میرے کلام پر عمل کرے گا وہ ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا (یوحنا۵۱:۸ ؛افسیوں ۱۴:۵؛ یسعیاہ۱۹:۳۶ وغیرہ) ابن اللہ اپنی حین حیات میں ان کو جو گناہ میں پڑے کراہتے تھے ،اپنے لطف ومحبت سے گناہوں کی مغفرت کا کلمہ سناتے تھے (مرقس ۵:۲؛لوقا ۴۷:۷۔۴۹؛ یوحنا۱۴:۵؛ ۱:۸۔۱۱ ) بنی نوع انسان کے کروڑو ں گنہگار دوہزار سال سے اپنے گنا ہوں کے ہاتھوں لاچار ہوکر اقرار کرتے چلے آئے ہیں کہ ’’نیکی کرنے کاارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کا م مجھ سے عمل بن نہیں پڑتے ۔جس نیکی کا میں ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا۔میں اس کو کرلیتا ہوں ہا ئے میں کیسا کمبخت انسان ہوں ۔اس گناہ کی موت سے مجھے کون چھڑائے گا؟میں اپنے جنابِ مسیح کے وسیلہ خداکا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے گناہ کی زنجیروں سے اور شیطان کی غلامی سے نجات سے نجات بخشی ‘‘(رومیوں ۷باب) ہر گنہگار جس نے ابن اللہ سےخداکی لا زوال محبت اور مغفرت کا پیغام سن کر نئی روحانی زندگی حاصل کی ہے وہ اپنی نئی پیدائش کے تجربہ سے اس حقیقت سے کما حقہ واقف ہے کہ گنا ہ کی مزدور ی موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے ‘‘۔ ؎
آدم سے ملی موت ،حیات ابن خد ا سے
آغاز سے بہتر ہوا انجام ہمارا
(واعظ)
انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں کتب سماوی میں مسیحی نجات یافتگاں کی برکت و عظمت کا ذکر آیا ہے ۔انجیلی مجموعہ کے ہرصحیفہ میں باربار مفصل طور پر وضاحتاًاور صراحتاً ان کی مبارک حالی اور روحانی اوج کا بیان موجود ہے ۔چنانچہ ایک شخص جو اپنے آپ کو بد ترین خلائق(خلق کی جمع ، مخلوقات ) کہتا تھا نجات حا صل کرکے پکاراٹھتا ہے کہ ’’اب میں زندہ نہیں رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے ‘‘۔قرآن میں مجمل طور پر ان گنہگاروں کی روحانی تبدیلی ۔۔۔۔ کاذکر پایا جاتاہے جو ابن اللہ پر ایمان لاکر شیطان اور نفس امارہ کی غلامی سے آزاد ہوگئے تھے ۔چنانچہ ان کی نسبت وارد ہوا ہے کہ (وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً) (سورۃ حدید آیت۲۷)
یعنی جو لوگ عیسیٰ کے تابع ہوگئے اللہ نے ان کے دلوں کو تبدیل کرکے ان میں شفقت اور رحمت ڈال دی ہے ۔
چنانچہ مفسرین بیضاوی لکھتا ہے کہ
’’حضرت عیسیٰ مسیح روح اللہ مردوں کو اور مردہ دلوں کو زندہ کرتے تھے اور اسی لئے ان کو روح منہ کہا گیا ہے‘‘۔ (جلد اول صفحہ ۲۱۹)
آپ کے سوا قرآن میں کسی دوسرے شخص کو روح اللہ کا لقب نہیں دیا گیا جس سے ظاہر ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی انسان خواہ وہ کیسا ہی عظیم الشان نبی ہو بنی نوع انسان کو روحانی موت سے زندہ نہیں کرسکتا ۔پھر لکھا ہے ۔
(وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ)(سورۃ آل عمران آیت ۵۵)
خدافرماتا ہے کہ اے عیسیٰ میں تیرے ماننے والوں کو ا ن پر جو تیرا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن تک غلبہ عطاکروں گا ۔
رسول عربی کی بعثت کے زمانہ سے سالہا سال پہلے مسیحی کلیسیا میں ہزاروں کی تعداد میں مغربی ایشیا کے ممالک کے گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوئی تھیں اوردن بدن روحانی ترقی کرتی چلی جارہی ہے عرب کے متعدد قبائل مشرف بہ مسیحیت ہوچکے تھے ۔اور ’’مونوفی زائٹ ‘‘فرقہ سے متعلق تھے جس کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح کی ذات واحد تھی اور اس مشیت (مرضی)کا فعل بھی واحد تھا (طبیعۃ واحدۃ ومشیۃ واحدۃ وفعل واحد) چنانچہ مغربی عربوں کا بادشاہ الملک الحارث البدوی اس فرقہ کا زبردست حامی تھا نجراں اور ہرمس جیسے دور دراز مقامات اور بادیہ عرب کے قبائل مسیحی تھے ۔غسان کا تمام قبیلہ مسیحی تھا ۔مصر اور ایران اور شام کے گوشہ گوشہ میں مسیحی گرجے کھڑے تھے طے کا قبیلہ اور نبو حیرہ کا قبیلہ مسیحی تھے حضرت رسول عربی نجات یافتہ مسیحیوں کی روزمرہ کی روحانی زندگیوں اور ان کی شفقت ورافت اور علم و حلم سے ایسے متاثر تھے کہ قرآن میں آیا ہے ۔
(وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ)(سورۃ مائدہ آیت ۸۲)
یعنی مسلمانوں کے لئے دوستی کے لحاظ سے تو ان کو زیادہ قریب پائے گا جو کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں ۔یہ اس لیے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔
محمد عربی ان عالموں اور رہبانیت سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے کہ قرآن میں ان کے علم کی وجہ سے رسول کو حکم ہوا
(فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ)(سورۃ یونس آیت ۹۴)
یعنی اے محمد اگر تجھ کو اس میں جو ہم نے تیری طرف اتاری ہے کسی چیزکا پتہ نہ لگے تو ان لوگو ں سے پوچھ جو تجھ سے پہلے بائبل (الکتاب ) پڑھتے ہیں۔
پھر یہی حکم تمام اسلامی دنیا کو ہوا کہ
(فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ)(سورۃ النحل آیت ۴۳)
اے مسلمانو،اگر تم کو کسی بات کا علم نہ ہوا کرے تو تم اہل ذکر (بائبل والوں )سے پوچھ لیا کرو۔
پھر یہی حکم مکرر قرآن میں وارد ہواہے (انبیا۔۷) رسول عربی نے مسیحیوں کی روحانی زندگی اور ان کے اونچے اخلاق کو دیکھ کر مسلمانوں کو تاکیداًحکم دیا ،(وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ) (سورۃ عنکبوت آیت ۴۶)
یعنی مسلمانو ۔تم اہل کتاب سے جھگڑا مت کرو پر جو سب سے اچھا ہے ۔
(وَ قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ)(سورۃ عنکبوت آیت ۴۶)
اور اہل کتاب سے یہ کہو کہ اے بائبل والو ہم ایمان رکھتے ہیں ۔اس قرآن پر جو ہم پر اترا اور اس بائبل پر جوتم پر اتری اور ہمارا اور تمہار ا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے محکوم ہیں۔
صحیح مسلم میں عیاض بن حمار کی حدیث ہے کہ آنحضرت نے ایک خطبہ میں عیسائیوں کی نسبت یہ شہادت دی کہ نظر انی اھل الارض فہقتھم عربھم وعجھم الابقایامن اھل الکتاب ۔یعنی اللہ نے زمین پر رہنے والوں پر نظر کی تو سب سے متنفر ہوا ۔عربوں سے اور عجموں سے بھی۔سواان کے جو اہل کتاب سے باقی تھے (کتاب صفات المنافقیں اہل الجنہ واہل المناد )۔
ہم دیگر متعدد حدیثوں کا اقتباس بخوف طوالت نہیں کرتے ۔لیکن ہمیں امید ہے کہ اہل انصاف پر واضح ہوگیا ہو گا کہ قرآن اور صحیح حدیث کی بھی یہی شہادت ہے کہ منجی عالمین ابن اللہ ایمانداروں کو گناہ پر اور نفس امارہ پر اور بدی کی طاقتوں پر اور دوزخ کی قوتوں پر غالب آنے کی روحانی قوت اورتوفیق عطا فرماتا ہے اور انجیل جلیل کے تما م صحیفے بیک زبان یہی شہادت دیتے ہیں؎
ہم کو ظلمت بدوش کہتے ہو
ہم نے لاکھوں روپے جلائے ہیں
(بخت)
انبیائے سابقین اور مسیح کے معجزات
جنابِ مسیح کے معجزات اور دیگر انبیاء کے معجزات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔دیگر انبیاء اپنی اعجازی (کرامت ،کرشمہ )طاقت کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کرنے سے کبھی ہچکچاتے نہیں تھے ۔مثلاً ایلیاہ نے صارف (صارپت)کی بیوہ سے کہا کہ پہلے میرے لیے روٹی بنا اور پھر اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے (ا۔سلاطین ۱۳:۱۷) ۔لیکن جیسا گزشتہ فصل میں ہم ذکر کرچکے ہیں کلمتہ اللہ نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قوت اعجازی کا کبھی استعمال نہ کیا (متی ۴باب )آپ نے اس طاقت کو عامتہ الناس کو مرغوب کرکے اپنا تسلط قائم کرنے کی غرض سے کبھی استعمال نہ فرمایا حالانکہ یہ بات آپ کے قبضہ قدرت میں تھی (متی ۵۳:۲۶)آپ نے اپنی معجزانہ طاقت سے دیگر انبیا کی طرح (۲۔سلاطین ۹:۱) لوگوں کو سزانہ دی (لوقا۵۵:۹) بلکہ آپ نے قوت اور طاقت رکھنے کے باوجود کسی پرجبر وتشدد روانہ رکھا ۔کلمتہ اللہ کی اعجازی طاقت کا سب سےبڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ اس طاقت کا صحیح اور جائز استعمال کیا اور اپنے ذاتی مفاد حتی کہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر بھی اس کو استعمال نہ فرمایا (متی ۵۳:۲۶ ؛یوحنا۱۰:۷؛ ۵۹:۸؛۱۸:۱۰؛۳۷:۱۲ ) اگر ہم اس حقیقت کا دیگر انبیا (۲۔سلاطین ۹:۱) اور دیگر مذاہب کے بانیوں کی زندگی کے ساتھ مقابلہ کریں تو ہم پر فرق عیاں ہوجاتاہے ۔آپ نے بے شمار لوگوں کو شفا بخشی اور ساتھ ہی تاکید بھی فرمائی کہ کسی کو نہ بتانا (مرقس ۴۰:۱؛ ۴۳:۵؛ ۳۶:۷؛ ۲۶:۸؛ متی ۳۰:۹؛ ۹:۱۷ وغیرہ) جس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنی شہرت کو بڑھانے کی خاطر اس اعجازی قوت کو استعمال نہیں کرتے تھے ۔ آپ یہاں تک محبت جسم واقع ہوتے تھے کہ اپنی جان کے دشمن اور خون کے پیاسے تک کو آپ نے اعجازی قوت سے شفا عطا کی (لوقا ۲۲: ۵۱) حقیقت تو یہ ہے کہ آپ خدا کی معجزانہ طاقت کے استعمال کی شان اعجازی سے اور خدا باپ کی جلال کاعکس ہے (یوحنا ۲۸:۱؛ متی ۴۵:۵ وغیرہ)۔
اگرچہ کلمتہ اللہ کے معجزات اس امر کے گواہ تھے کہ آپ خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ۔تاہم ان معجزات سے آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ آپ اپنی رسالت کو ثابت کریں ۔(متی ۱۶: ۳؛ ۱۱: ۴ ؛۲۰:۱۱ ؛۳۳:۹ ؛ یوحنا ۴:۳؛ ۳۲:۹؛ ۲۴:۱۵؛ ۳۷:۱۰ ؛۱۱:۱۴ وغیرہ) ان معجزات کی گواہی وہی شخص رد کر سکتا تھا جس نے حق کے خلاف اپنے دل کو سخت کرلیا ہو(متی ۳۷:۲۳؛ یوحنا ۴۰:۵ وغیرہ ) لیکن کلمتہ اللہ کی نظر میں ایسا ایمان جس کی بنامحض معجزات پرہونہایت کمزور قسم کا ایمان تھا (یوحنا ۲۳:۲؛ ۴۸:۴ ؛۲۹:۲۰ وغیرہ) اسی واسطے آپ نے نشان مانگنے والوں کو یقین دلانے کے لیے بھی معجزانہ طاقت کا استعمال نہ کیا (متی ۳۸:۱۲ ؛ ۱:۱۶؛ لوقا ۸:۲۳؛ مرقس ۳۰:۱۵) دیگر مذاہب کے ہادی اور انبیائے سابقین اپنے دشمنوں کی مخالفت پر غالب آنے کی خاطر معجزانہ طاقت استعمال کرتے تھے لیکن آپ نے یہ وطرہ کبھی استعمال نہ کیا (یوحنا ۳۰:۶) آپ کا دلی منشا اور خواہش یہ تھی کہ لوگ آپ کی قوت اعجازی پر نہیں بلکہ آپ کی شخصیت اور آپ کے پیغام پر ایمان لائیں (یوحنا ۶۸:۶) اور خداکی محبت کا جلوہ دیکھ کراس کی طرف رجوع کریں ۔انبیائے سابقین دیگر انسانوں کی طرح گنہگار اور خاطی انسان تھے لہٰذا ان کو یہ ضرورت تھی کہ وہ خداکی مدد پا کر اپنی رسالت کے ثبوت میں خارجی معجزات کو پیش کریں ۔لیکن خداوند ایک کامل انسان تھے لہٰذا یہ اعجازی طاقت آپ کے اندر سے خود بخود نکلتی تھی (مرقس ۳۰:۵ ؛ لوقا ۵۱:۲۲ وغیرہ ) کلمتہ اللہ کی کامل شخصیت خود ایسی قائل کرنے والی شے تھی کہ اس کے مقابل میں خارجی معجزات کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتے تھے ۔
انبیائے سابقین معجزانہ لیاقت کے ذریعہ خدا کا جلال ظاہر کرنا چاہتے تھے (خروج ۳:۷۔۵ ؛۷:۱۶ ؛۲۔سلاطین ۱۵:۵۔۱۷ وغیرہ)۔ لیکن کلمتہ اللہ کے معجزات سے آپ کا اپنا جلال ظاہر ہوتا تھا (یوحنا ۴:۱۱؛ ۱۱:۲ وغیرہ )تمام لوگوں پر آپ کے معجزات سے یہ عیاں ہو جاتا تھا کہ آپ خدا میں ہیں اور خدا آپ میں ہے (یوحنا ۳۸:۱۰؛ ۲:۳؛ ۱۱:۱۴) ۔دیگر انبیاسے معجزات کبھی کبھی ظہور پذیر ہوتے تھے لیکن کلمتہ اللہ کی شخصیت معجزات کا ایک سمندر تھی جو آپ کی زندگی کے بحر ذخاروبے کنار کی طرح ہمیشہ رواں رہتا تھا (لوقا۴۶:۸ وغیرہ ) آپ کی شخصیت کا اندرونی جلال اورآپ کے معجزات کا بیرونی جلال دونوں ایک ہی قسم کے تھے اور دونوں لاثانی تھے (یوحنا ۱۱:۲ ؛۵:۹؛ ۴:۱۱؛ ۴۰:۱۱ وغیرہ )۔
انبیائے سابقین اعجازی قوت کو استعمال کرنے سے پہلے خدا سے دعا مانگا کرتے تھے (۱۔سلاطین ۲۰:۱۷؛ ۲۔سلاطین ۳۳:۴ وغیرہ )۔لیکن حیرت کی یہ بات ہے کہ کلمتہ اللہ کے معجزات میں یہ خصوصیت ہے کہ آپ نے رسولوں کو ہدایت کی کہ اعجازی قوت استعمال کرنے سے پہلے دعا کیا کریں (مرقس ۲۲:۱۱؛ ۲۸:۹) لیکن آپ نے خود اس بات کی ضرورت محسوس نہ کی ۔
انبیائے سابقین اپنے معجزات کو خدا کا نام لے کر کیا کرتے تھے (۱۔سلاطین ۱۳: ۲۱ ؛۱۴:۱۷ ؛۲ ۔سلاطین ۱۶:۱ ؛ ۴۳:۴ مقابلہ یسعیاہ ۱۱:۷ )۔لیکن کلمتہ اللہ نے کبھی ایسا نہ کیا اور آپ کے بعد آپ کے رسول خدا کا نام لینے کی بجائے ’’یسوع کے نام ‘‘سے معجزات کیا کرتے تھے (اعمال ۶:۳ وغیرہ)۔وہ خدا کی بجائے ابن اللہ کو پیش کرتے تھے (اعمال ۱۲:۳) کیونکہ ان کو یہ علم تھا کہ کلمتہ اللہ لوگوں کے سامنے خدا کی بجائے اپنی شخصیت کو پیش کرتے تھے ۔کیونکہ آپ کی ذات خداکا کامل مظہر اور اکمل مکاشفہ تھی (متی ۳:۸؛لوقا۲۴:۵ ؛۱۴:۷ ؛مرقس ۲۵:۹ ؛۵۱:۱۰ ؛ لوقا ۲۴:۵ وغیرہ )اور جس طرح خداتعالیٰ نے بحیرہ قلزم کو جھڑکا تھا (زبور۹:۱۰۶ ؛ نحوم ۴:۱) اسی طرح ابن اللہ نے بحیرہ گلیل کو جھڑکا (متی ۳۶:۸)۔
انبیائے سابقین لوگوں کو کہتے تھے کہ معجزات کے لئے خداکا شکر کریں لیکن کلمتہ اللہ کا یہ رویہ نہ تھا اس کے برعکس آپ کا یہ رویہ تھا کہ لوگ درخواست اور عرض کریں تو آپ سے عرض کریں ۔ایمان رکھیں تو آپ پر ایمان رکھیں (متی ۲۸:۹؛ یوحنا ۵۰:۴ وغیرہ) اور شکر کریں تو آپ کا شکر ادا کریں (لوقا۱۶:۱۷) آپ کو اس بات کا احساس تھا کہ آپ کادست قدرت خداکا ہاتھ ہے (یوحنا ۲۸:۱۰ تا آخر )اور ایسی قدرت رکھنے کا سبب بھی بتلادیا (یوحنا ۳۰:۵) آپ کے قبضہ قدرت میں اعجازی طاقت کا یہ حال تھا کہ آپ نےیہ طاقت رسولوں کو بھی عطا کردی (مرقس ۲۰:۱۶؛ لوقا ۵۴:۹ ؛۱۷:۱۰؛ اعمال ۶:۳ ؛۳۴:۹ وغیرہ) ۔یہاں تک کہ بدروحوں اور شیاطین پر بھی ان کو اختیار بخش دیا (مرقس ۷:۶؛ متی۸:۱۰؛ لوقا ۱۸:۱۰ تاآخر) ۔لیکن کلمتہ اللہ نے ان کو یہ حکم نہ دیا کہ اعجازی طاقت کو استعمال کرتے وقت خدا سے دعا کریں یا خدا کا نام لیں بلکہ حکم یہ دیا کہ وہ آپ کے تابع رہیں (لوقا ۱۷:۷؛ یوحنا ۱۴: ۱۲ تا آخر ) اور فرمایا جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ایسا ہی کریں (یوحنا ۱۲:۱۴ تاآخر ) کیونکہ آپ نے فرمایا ’’میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے (متی ۱۱: ۲۷) آسمان اور زمیں کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے (متی۱۸:۲۸؛ ۵:۹؛ یوحنا ۲۰:۱۷؛ ۱۵:۱۶؛ ۲:۱۷؛ ۳۰:۱۰ ؛۵۱:۱؛ ۳۵:۳ وغیرہ)
معجزات مسیح
ابن اللہ کے معجزات کا ذکر انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں میں جا بجا آیا ہے ہر چہار اناجیل میں آپ کے معجزات کا مفصل اور قرآنی سورتوں میں مجمل طور پرآیا ہے ۔
چنانچہ درج ہے (وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ) (سورۃ البقرۃ آیت ۸۷)
یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلے معجزے عطا کئے ۔
سورہ مائدہ میں آسمانی خوراک کے معجزہ کاذکر زیادہ تفصیل سے موجود ہے ۔’’جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم ۔کیا تیرے خدا میں ایسی قدرت ہے کہ ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان (تھال،طبق)اتارے عیسیٰ نے جواب دیا ۔اگر تم ایمان رکھتے ہوتم اللہ سے ڈرو ۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے آسمانی خواں میں سے کھائیں اور ہمارے دل کو اطمینان نصیب ہو اور ہم سب پر عیاں ہوجائے کہ آپ صادق القول ہیں اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔پس عیسیٰ بن مریم نے کہا اے ہمارے رب آسمان پر سے ہم پرایک خوان نازل کرکہ ہمارے لیے عید ہو ۔ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لئے اور وہ تیری طرف سے ایک نشان ہو اور ہمیں یہ رزق عطا کرکیونکہ توہی بہتر رزق دینے والا ہے (سورۃ مائدہ آیات۱۱۲ تا ۱۱۴ )۔اس قسم کے آسمانی کھانے اور پانی کے معجزات کا ذکر ہرچہار اناجیل میں بھی موجود ہے (یوحنا ۱:۲۔۱۱؛ ۱:۶۔۱۴؛ ۳۰۔۴۲؛مرقس ۱:۸۔۱۰؛ ۱۸۔۲۱؛ متی ۱۷:۱۴۔۲۱؛ لوقا ۱:۵۔۱۰؛ ۱۰:۹۔۱۷ وغیرہ) ایک اور قرآنی آیت میں مختلف اقسام کے معجزات کا ذکر ہے چنانچہ لکھا ہے کہ عیسیٰ نے کہا ’’میں تمہارے پاس تمہارے رب سے ایک نشان لے کر آیا ہوں تو وہ بحکم خدا یک پرندہ ہوجاتا ہے ۔میں مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو چنگا کرتا ہوں اور باذن اللہ مردوں کو زندہ کرتاہوں ‘‘( سورۃ آل عمران آیت ۴۳)۔چہار اناجیل کے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ابن اللہ نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اور بہت سی بدروحوں کو نکالا ‘‘ (لوقا۱۸:۷؛مرقس ۳۴:۱؛متی ۲۴:۴؛ ۵۳:۶؛ ۲۰:۱۵۔۲۱)۔آپ کے جانی دشمن بھی مانتے تھے کہ آپ معجزات کرتے ہیں لیکن وہ کہتے تھے کہ آپ ان معجزات کو شیاطین کی مدد سے کرتے ہیں (مرقس ۶:۳ ؛ ۲۲:۳)۔ خداوند نے خود اپنی زبان مبارکہ سے فرمایا ’’دیکھو اندھے دیکھتے ہیں لنگڑے چلتے پھرتے ہیں ۔ کوڑھی پاک صاف کیے جاتے ہیں ۔بہرے سنتے ہیں ۔مردے زندہ کئے جاتے ہیں ۔غریبوں کو انجیل کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔وہ شخص مبارک ہے جوٹھوکر نہیں کھاتا (لوقا ۷: ۱۸۔۲۳ )ابن اللہ سے نہ صرف خود معجزات صادر ہوتے تھے بلکہ آپ نے اپنے رسولوں اور مبلغوں کو بھی قدرت بخشی کہ وہ بھی ناپاک روحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کریں ‘‘(متی ۱:۱۰؛ لوقا۱۷:۱۰)چاروں اناجیل کے مصنف مختلف ابواب میں ابن اللہ کے مختلف معجزات کا بالتفصیل ذکر کرتے ہیں ہم مشتے نمونہ ازخردارے چند ایک فرائض کے حوالہ جات دئے جاتے ہیں ۔ناپاک اور بدارواح وشیاطین کو نکالنے کے معجزے (مرقس ۲۱:۱۔۲۸؛ ۱:۵۔۱۵؛ لوقا ۳۲:۴۔۳۶) بخار سے شفا یابی (مرقس ۲۹:۱)سوکھے ہاتھ میں جان ڈالنے کا معجزہ (مرقس۱:۳۔۶ )قریب المرگ کا شفاپانا(یوحنا ۴۶:۴۔۵۴)سمندر کے طوفان کو بند کرنا(مر قس ۲۵:۴۔۴۱)مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ (مرقس ۳۵:۵۔۴۳؛لوقا ۱۱:۷۔۱۶؛ ۴۹:۸۔۵۶؛ یوحنا ۱۱ باب)بہروں گونگوں کو شفا بخشنا (مرقس ۳۱:۷۔۳۷) اندھوں کو بینائی بخشنا (۲۲:۸۔۲۶ ؛ ۴۶:۱۰ ۔۵۲) کوڑھیوں کے کوڑھ صاف کرنا (لوقا ۱۲:۵۔۱۶) مفلوجوں کو شفا عطا کرنا (لوقا ۱۷:۵۔۲۶،متی ۹: ۱۔۸) جلندھر کے مریض کو چنگا کرنا (لوقا۱:۱۴ ۔۶) مادر زاد اندھوں کو بصارت عطا کرنا (یوحنا ۹ باب )پرانے اڑتیس برس کے لاعلاج مریض کے مرض کو رفع کر نا (یوحنا ۱:۵۔۹) مرگی والے مصروع(جس کو مرگی کا مرض ہو) کوشفاعطا کرنا ۔ابن اللہ نہ صرف مردوں کو چنگا کرتے تھے بلکہ آپ کی بخشش عام تھی ۔آپ بچوں ،لڑکیوں اورعورتو ں کو بھی شفا عطا کرتے تھے اور مردہ لڑکیوں کو بھی دوبار ہ زندہ کرتے تھے (مرقس ۲۵:۵۔۳۴؛ ۲۵:۷۔۳۰؛ لوقا ۱:۸۔۲ وغیرہ)۔
معجزات مسیح آیات اللہ ہیں
ہم نے گذشتہ صفحات میں کئی جگہ معجزات مسیح کا اشارتاً یا مجملاً ذکر کرکے بتایا ہے کہ ابن اللہ کا ہر معجزہ آیت اللہ تھا اور نشان دیتاتھا کہ کلمتہ اللہ کی ذات پاک کاجو زندہ جاوید اور زندگی بخش ہستی ہے اور بالفاظ قرآن ’’اٰیتہ للعالمین دنیا جہاں کے تمام لوگوں کے لیے نشانی قرار دیا گیا ہے ‘‘ (انبیاءآیت ۹۱ ؛ مریم آیت ۲۱) ۔قرآن خداوندمسیح کے معجزات کو آیات بینات ’’یعنی کھلی اورصاف نشانیاں قرار دیتا ہے (بقر ۸۱؛۲۵۴؛ آل عمران ۴۳؛ مائدہ۱۱۰ وغیرہ)جوروشن دلیلیں ‘‘(سورہ زخرف ۶۳)تھیں ۔انجیل وقرآن دونوں صحف سماوی کہتے ہیں کہ یہ معجزات اور نشانیاں روح القدس کی قدرت اور پائید سے ظہور میں آتی تھیں (سورہ بقر۲۵۴وغیرہ ۔متی ۲۸:۱۲ وغیرہ) قرآن مجمل طور پر چند ایک کا ذکر کرتا ہے۔ مثلاً مردوں کو زندہ کرنا،مادر زاد اندھوں کو بینائی عطاکرنا ،کوڑھیوں کو شفا بخشنا (آل عمران ۴۳) خوان کانازل کرنا(مائدہ ۱۱۲ وغیرہ )قرآن مجید کہتا ہے کہ ان روشن دلیلوں کے باوجود شقی یہودان کا انکار کرتے اور کہتے تھے ۔
(فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ)(سورۃالمائدہ آیت۱۱۰)
کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔
انجیل جلیل میں بھی وارد ہواہے کہ جب ابن اللہ سے حیران کن نشانیاں اور معجزے ظاہر ہوتے تھے تو اہل یہود کے فقیہہ جویروشلیم سے آئے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعلز بول ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے ‘‘(مرقس ۲۳:۳ ؛ متی ۲۵:۱۰ وغیرہ)۔ جس کے جواب میں کلمتہ اللہ نے فرمایا ’’جو کو ئی روح القدس کے حق میں کفر بکے وہ ابدتک معافی نہ پائے گا‘‘(مرقس ۲۳:۳۔۳۰؛ لوقا۱۷:۱۱۔۲۲؛ متی ۲۵:۱۲۔۲۹ وغیرہ)۔
اناجیل اربعہ میں ابن اللہ کے اعجازی کاموں اور معجزات کے لئے الفاظ ’’نشانی ‘‘۔ ’’نشانیاں ‘‘استعمال ہوئے ہیں اور قرآن کی مختلف سورتوں میں بھی کلمتہ اللہ کے مختلف معجزات کے لیے الفاظ ’’نشانی ‘‘کھلی نشانیا ں ‘‘استعمال ہوئے ہیں ۔انجیل چہارم میں الفاظ ’’نشان‘‘اور’’نشانی‘‘خصوصیت کے ساتھ کلمتہ اللہ کے معجزات اور قدرت والے کاموں کے لیے استعمال ہوئے ہیں اناجیل اربعہ سے ظاہر ہے کہ آپ نہ صرف قادر الکلام تھے ( یوحنا۴۶:۸؛ ۲۹:۷؛ ۵۴:۱۳؛۳۳:۲۲؛مرقس ۲۲:۱؛۲:۱؛۱۸:۱۱؛ لوقا۳۲:۴) بلکہ آپ جس مقام میں بھی ہوتے آپ کے مسیحائی دم سے ’’قدرت کے کام ’’معجزات ‘‘اور نشان ‘‘صادر ہوتے تھے (متی ۱۶:۸)۔آپ کی قدوس شخصیت کی حضوری میں شیطانی طاقتیں اور ارواح بد کھڑی نہ رہ سکتیں (متی ۲۸:۸؛ ۲۸:۱۵؛۱۸:۱۷؛ مرقس ۲۵:۱)آپ کا مسیحائی نفس ہر قسم کے بیماروں کو شفا عطاکرتا تھا ۔مفلوج ،گونگے بہرے ،اندھے ،کوڑھی وغیرہ کے قوائے جسمانی اور روحانی بحال کردیے جاتے تھے (متی ۱۳:۸؛ ۶:۹؛ یوحنا۹:۵؛ متی ۱۳:۱۲؛ لوقا ۱۲:۱۳؛ ۲:۱۴؛متی ۳۳:۹؛ ۲۲:۱۲؛ مرقس ۳۵:۷؛ متی ۲۹:۹ ؛ ۳۴:۳۰؛ مرقس ۲۵:۸؛ یوحنا۷:۹ ؛ لوقا۱۹:۱۷ وغیرہ) ۔آپ خود قیامت اور زندگی تھے ۔پس آپ مردوں کو ’’قم‘‘کہہ کر قبر وں میں سے زندہ کرتے تھے (یوحنا ۴۴:۱۱؛ متی۲۵:۹؛ لوقا ۱۵:۷) ۔ابن اللہ ایسے صاحب قدرت تھے کہ آپ سے ہروقت قوت نکلتی تھی (لوقا ۴۶:۸) ایسا کہ ’’سب لوگ اسے چھونے کی کو شش کرتے تھے کیونکہ قوت اس سے نکلتی تھی اور سب کو شفا بخشتی تھی (لوقا ۱۹:۶) اور جو ہجوم کی وجہ سے آپ کے مبارک ہاتھوں کو چھونہ سکتے تھے وہ آپ کی پوشاک کے کنارے ہی چھولیتے اور ’’جتنے چھوتے تھے شفایاب ہوجاتے تھے (متی ۳۴:۱۴۔۳۶)۔جونہی ابن اللہ کسی بیمار کو دیکھتے آپ کو اس پر ترس آتا اور آپ اس کو شفا بخشتے (مرقس ۱:۳۔۶ وغیرہ) جب آپ شہر نائین کو گئے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ ایک مردہ کو شہر کے پھاٹک کے باہر لئے جارہے تھے جو اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ماں کی حالت زار کو دیکھ کر آپ سے نہ رہا گیا ۔’’خداوند کو ترس آیا اور اس سے فرمایا مت رو ۔آپ نے جنازہ کو چھوا اور کہا’’اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ اور مردہ اُٹھ بیٹھا اور اس نے اس کی ماں کو سونپ دیا‘‘(لوقا۱۱:۷۔۱۷)۔علی ہذاالقیاس جب بیت عنیاہ کا لعزر مرگیا تو اس کی بہنوں کی حالت کو دیکھ کر آپ کے دل کو سخت رنج پہنچااور آپ کے آنسو بہنے لگے ‘‘۔اور قبر پر آکر ’’چار دن کے مردے کو بلند آواز سےپکارا۔اے لعزر نکل آجو مر گیا تھا وہ کفن سمیت نکل آیا(یوحنا ۱۱: ۱۔ ۵۳)۔
ابن اللہ کے یہ قدرت کے کام لوگوں کو اعجازی قوت دکھانے کی خاطر نہیں تھے ۔اس کے برعکس جولوگ محض اعجازی قوت کو دیکھنے کی خاطر معجزہ کرنے کو کہتے آپ صاف انکار کرکے ان کو سخت ملامت کرتے تاکہ وہ آپ کی الہٰی طاقت اور انسانوں کے کرشموں شعبدوں وغیرہ میں چشم بصیرت کو استعمال کرکے تمیز کرنا سیکھیں اور توبہ کریں (متی ۳۸:۱۲۔۴۳؛ مرقس ۱۱:۸۔۱۳؛ لوقا ۱۶:۱۱؛۱۲:۱۰۔۱۶؛۸:۲۳؛ یوحنا ۸:۲؛ ۴۸:۴؛ ۳۰:۶ وغیرہ) اسی واسطے اناجیل اربعہ اور بالخصوص مقدس یوحنا کی انجیل میں معجزات کو ’’نشانات ‘‘ کہا گیا ہے تاکہ ان کا اعجازی عنصر لوگوں کے لیے نشان دہی کا کام سر انجام دے ۔ان نشانات کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ ان کا ذریعہ ہر خاص وعام پر خدای محبت آفتاب کی طرح ظاہر ہوجائے کیونکہ وہ ابن اللہ کی شخصیت کے مظہر تھے ۔
چنانچہ صرف ایک انجیل (یوحنا کی انجیل ) کے سات نشانات کو لیں ہر معجزہ پر معنی ہے اور کسی خاص حقیقت کا نشان دیتا ہے جو ابن اللہ کی شخصیت کے وسیلے خدا کی محبت کے کسی پہلو کا نشان دیتا ہے چنانچہ ملاحظہ ہو :ـ
(۱ )باب ۱:۲۔۱۱ اس واقعہ کے نشان سے عالم وعالمیاں پرظاہر ہوجا ئے کہ منجی جہاں گنہگار انسان کی فطرت وطبیعت کو بالکل تبدیل کرتا ہے
(۲) ۴۶:۴ ۔۵۴ یہ نشان خداکی محبت پر ایمان رکھنے کی ضرورت کا اعلان کرتا ہے ۔
(۳) ۲:۵۔۹ اس واقعہ اور نشان سے دنیا کے گنہگاروں کو جو برسو ں سے شیطان کی غلامی میں گرفتار ہوکر بے کس ولاچار پڑے ہیں ۔یہ واثق یقین ہو جاتا ہے کہ خدا کی محبت مسیح کے ذریعہ ان کی قوت ارادی کو جو سلب ہوگئی تھی دوبارہ زندہ کردیتا ہے اور ہرگنہگارشیطان دنیا اور نفس امارہ (انسان کی خواہش جوبری کی طرف مائل کرتی ہے ) پر قابو حاصل کرکے ازسر نوخداکا فرزند اور نجات کا وارث ہوجاتا ہے ۔
(۴) ۴:۶۔۱۳ اس نشان کاذکر قرآن کی سورہ مائدہ آیا ت ۱۱۲ تا ۱۱۵ میں بھی ہے او ر یہ اس حقیقت کا نشان ہے کہ جس طرح خدا کی محبت ورضا ابن اللہ کی خوراک تھی (یوحنا ۳۶:۴) اسی طرح کلمتہ اللہ کی تعلیم زندگی موت وقیامت ہر ایماندار کی روٹی ہے (یوحنا ۵:۴۔۲۶؛ ۲۷:۶۔۳۵)۔
(۵)۱۶:۶۔۲۱یہ معجزہ اس سچائی کا نشان دیتا ہے کہ اس دو روزہ فانی زندگی میں ابن اللہ ہماری زندگیوں کا راہنما ہے اور اس کی ذات ہماری روحانی زندگی کا سہارا ہے ۔
(۶)۱:۹۔۷ یہ اس حقیقت کا نشان دیتا ہے کہ آنخداوند جو دنیا کا نور ہے ہر ایمان دار کی روح اور زندگانی کا آفتاب ہے جو شخص آ پ کی پیروی کرتا ہے وہ گناہ کی تاریکی میں نہیں بھٹکتا پھرتا کیونکہ زندگی کا نور اس کو حاصل ہے (یوحنا ۱۲:۸؛ ۵:۹؛ ۴:۱؛ ۹:۱ وغیرہ)۔
(۷)۱:۱۱۔۴۴ ۔اس ابدی صداقت کا نشان ہے کہ فقط ابن اللہ ہماری زندگی کاسر چشمہ ہے اور مبداوانتہاہے ۔کیونکہ وہی ’’قیامت اور زندگی ہے۔ جو اس پر ایمان لاتا ہے گووہ مرجائے تو ،بھی زندہ رہے گا اور جوکوئی زندہ ہے اور اس پر ایمان لاتاہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا‘‘(یوحنا۲۵:۱۱)۔
اب ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ کن معنوں میں ابن اللہ کے معجزے بالفاظ انجیل وقرآن’’ آیات بینات ‘‘ کھلے اور واضح روشن نشانات تھے۔ خداوند مسیح کے تمام معجزات خداکی محبت اور ابن اللہ کی ذات جواس محبت کی مظہر ہی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ابن اللہ کی ذات بابرکات گنہگارانسان کے روحانی قوائے مردہ کو اپنے مسیحائی دم سے زندہ کرکے اس کو ایک نیا مخلوق بنا دیتا ہے ،ابن اللہ ہماری روحوں کی خوراک بن کر ہم کو یہ طاقت بخشتا ہے کہ اپنے ایمان کے بانی اور رہبر کے نقش قدم پر چل کر اس دنیا کے طوفانوں سے محفوظ رہ کر دنیا کے نور یعنی مسیح کی سی زندگی بسر کر سکیں تاکہ آئندہ کو ہم نہیں بلکہ مسیح ہم میں زندہ رہے (گلتیوں ۳۰:۲) ۔
یہ خصوصیت ایسی ہے جو کسی دوسرے نبی کے معجزات میں نہیں پائی جاتی اور صرف ابن اللہ کی ذات پاک سے ہے ایسے نشانات مخصوص ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رسول عربی کو مخاطب کرکے فرماتا ہے ۔
(تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلُوۡا ۟ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ)(سورۃالبقرۃ آیت ۲۵۲ تا۲۵۳)
یعنی اےمحمد ۔یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو بر حق ہیں جو ہم تم کو پڑھ کر سناتے ہیں اور بے شک تم رسولوں میں سے ایک ہو ۔ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری دی ہے چنانچہ ان میں سے کو ئی تو ایسا ہے جس سے خدا نے کلام کیا اور کسی کے درجے بلند کئے اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلے کھلے نشانات دیے اور ان کی روح القدس سے مدد کی ۔۔۔۔اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔
ابن مریم کی برتری درجہ کی بلندی اور فضیلت آپ کے نشانات کی خصوصیات اور دیگر خصوصیات میں ہے جن کا ذکر ہم اوپر کے عنوانات میں کرآئے ہیں ۔
عصمت مسیح
اس موضوع پر ہم گذشتہ باب میں مفصل لکھ کر آئے یہاں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انجیل جلیل ،قرآن مجید اور حدیث سب کے سب اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ کلمتہ اللہ خطا،گنا ہ اور بدی سے پاک تھے ۔چنانچہ ہم زیر عنوان ’’مقامات مریم وابن مریم ‘‘قرآن کی آیات نقل کر آئے ۔ جن میں لکھا ہے کہ ’’خدا نے اپنی مسیح کو ’’شیطان مردود سے اپنی پناہ میں رکھا (آل عمران ع ۴ آیت ۳۱)تمام کے تمام قرآن مجید میں سوائے کلمتہ میں سوائے کلمتہ اللہ کےکوئی دوسری معصوم ہستی نہیں ملتی ۔اس کے برعکس قرآن میں تما م اولوالعزم انبیا اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اللہ سے معافی کے خواستگا ر ہ ہیں (سورۃیہود آیت ۴۶) (ابراہیم آیت ۴۰، ۴۱ ؛قصص آیت ۱۶؛ مومن ۱۵؛ اعراف۲۲:وغیرہ)لیکن کلمتہ اللہ کی طرف کبیر ہ تو الگ رہا کبھی کو ئی گناہ صغیرہ کا خیال تک بھی کہیں منسوب نہیں کیا گیا ہے تمام قرآن میں نہ صرف آپ کی طرف نہ صرف کوئی گنا ہ یا اقرار گناہ یا استغفار منسو ب ہے اور ان سے آپ کو مستغنی (بری ،آزاد)کیا گیاہے ۔ بلکہ آپ کی معصومیت کا صریح کھلے اور واضح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے اور آپ کو وجیھا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین کہا گیا ہے ۔قرآن نے اسی پر قناعت نہیں کی بلکہ آپ کو کلمتہ اللہ اور روح اللہ قرار دے کر آپ کی زندگی کو انسانیت اور بنی نوع انسان کا معیار مقر ر کردیا ہے ۔
خدا کی رحمت وفضل نے آپ کے مبارک وجود کے چاروں طرف سایہ کررکھا ہے (سورہ ۵۱:۲۲؛ ۱۱:۲۴؛ ۴:۳۳؛ ۱:۶۶) ایسا کہ پیدائش سے لے کر صلیبی موت تک آپ ابلیس کی ہر آزمائش پر غالب آئے اور صلیب پر آپ نے شیطان کے سر کو کچل دیا جس پر آپ کی ظفر مند قیامت گواہ ہے ۔
پس انجیل وقرآن دونوں کتب سماوی کے مطابق کلمتہ اللہ میں انسانیت کے کمال نے ظہور پکڑا اور یہ انسانیت آدم کی اولین صورت کا مبدا تھی جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا تھا ۔ چنانچہ تورات شریف میں آیا ہے ’’خدانے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۔خدا کی صورت پر اس کو پیداکیا ‘‘ (پیدائش ۲۷:۱) ۔پس کلمتہ اللہ کی انسانیت الوہیت کی صورت پرتھی اور ذات باری تعالیٰ کا عکس تھی ایساکہ آپ نے اپنے رسولوں کو فرمایا کہ ’’جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا ‘‘(یوحنا۹:۱۴) میں اور باپ ایک ہیں (یوحنا ۲۰:۱۴) آپ کا وجود مبارک ’’خداکی ذات کا نقش ‘‘ تھا کیونکہ آپ مظہر ذات الہٰی تھے ۔اس وجود میں دنیا کے خاکی اور خاطی انسانوں نے خدا کے جلال کا پرتودیکھا(عبرانیوں ۳:۱)۔کلمتہ اللہ کی قدوس اور پر محبت انسانی ذات میں الوہیت کے کمال کا ظہور تھا اور آپ کے وجود میں الوہیت اور انسانیت دونوں موجود تھیں ۔کیونکہ کامل انسانیت الوہیت کی ’’صورت‘‘تھی ۔جب ہم کلمتہ اللہ کی قدوس زندگی پر الہٰی پہلو سے نظر کرتے ہیں تو اس میں ہم کو ’’الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی (کلسیوں ۱۹:۱)نظر آتی ہے اور ہم کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ خدا کس قسم کا خدا ہے اور جب ہم اس قدوس زندگی پر انسانی زاویہ نگاہ سے نظر کرتے ہیں تو ہم اس میں انسانیت کا کمال دیکھتے ہیں اور ہم کو علم ہو جاتا ہے کہ کامل انسان کس قسم کا انسان ہوتا ہے ہم کو انجیلی خطاب ’’ابن اللہ اور قرآنی خطاب کلمتہ اللہ وروح اللہ ‘‘کے حقیقی اور اصلی معنوں کا علم ہوجاتا ہے ؎
وجووز باقضاتوام زجودش ماسواخرم
حدوثش باقدم ہمدم حیاتش باابدہمتا
حوارینِ مسیح صاحبِ وحی و الہام اور رسول تھے
انجیل جلیل اور قرآ ن مجید دونوں الہامی صحیفے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہیں کہ ابن اللہ کے شاگرد رسول اور صاحب وحی تھے ۔چنانچہ انجیلی مقامات (متی ۳:۱۰؛ مرقس ۳۰:۶؛ رومیوں ۱:۱ وغیرہ)سے ظاہر ہے کہ انجیلی مجموعہ تحریرات کے لکھنے والے خدا سے الہام پاکر نوشتوں کو لکھتے تھے (۱۔کرنتھیوں ۳۷:۱۴ وغیرہ)۔ابن اللہ نے خود اپنی زبان مبارک سے اپنے بارہ رسولوں کو ’’رسول ‘‘ کالقب دیا (لوقا ۱۳:۶؛ عبرانیوں ۴:۵)۔ قرآن میں بھی آیا ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے یہ دوازدہ (بارہ )رسول مسلم یعنی اطاعت میں گردن رکھنے والے ،مومن ،انصار اللہ اور صاحب وحی اور الہام تھے (سورہ آل عمران آیت ۵، ۴۵؛ سورۃ صف آیت ۱۴؛ سورۃ المائدہ آیت ۱۱۱ وغیرہ) ۔ان رسولوں پر خداکی طرف وحی نازل ہوئی تھی (اعمال ۴:۲ ؛۱۹:۱۰؛ ۲۲:۱۱) اور وہ خداکی طرف سے رسول ہو کر ارض مقدس اور بیرو نجات کے مختلف مقامات کو جاتے تھے تاکہ ان کو نجات کی خوشخبر کا پیغا م دیں (اعمال ۲۶:۸ ؛ ۲:۱۳ وغیرہ )اور جہاں ان کو لے جاتا وہ جاتے (اعمال ۲۶:۸؛ ۲:۱۳ وغیرہ ) جہاں ان کو جانے سے منع کیا جاتا وہ نہ جاتے (اعمال ۶:۱۶ وغیرہ ) قرآن مجید میں غالباً اعمال الرسل کے (۳۲:۱۵) اور (۱۸ باب ) کے واقعات کا مختصر بیان بھی آیا ہے ۔
(وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ)(سورۃ یسؔ آیت ۱۳۔۱۴)
یعنی تو ان کےلیے مثال کے طور پر ایک بستی والوں کا حال بیان کر ۔جب اس بستی میں رسول آئے ۔جب ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے تو ان کو بستی والوں نے جھٹلایا اور پھر ہم نے تیسرا رسول بھیج کر ان کی مدد کی ۔تب اس نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن نہ صرف ابن اللہ کے دوازدہ رسولوں کو ہی ’’رسول ‘‘بتلاتا ہے بلکہ ان سب کو بھی رسول کے لقب سے ملقب کرتا ہے ۔جوانجیلی نجات کے پیامبر ہوکر ارض مقدس کے اندر اور باہر اقصائے عالم تک پہنچ گئے تھے (متی ۱۹:۲۸؛ اعمال ۸:۱ وغیرہ) یہ پیامبر بھی اپنے آ پ کو رسول کہتے تھے کیونکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ان کو ابن اللہ اور خداباپ کی طرف سے رسالت کا درجہ عطا ہواہے (رومیوں ۱:۱؛ ۱۔کرنتھیوں ۱:۹؛ افسیوں ۱:۱؛۴:۱؛ اعمال ۲۷:۱۱؛ ۱:۳؛ ۲۲:۱۵؛ ۱۔کرنتھیوں ۲۸:۱۲ وغیرہ )
مذکور ہ بالا حقائق میں ظاہر ہے کہ ابن اللہ نہ صرف خود نبی اور رسول تھے (متی ۵۷:۱۳؛ یوحنا ۴۴:۴؛ مرقس ۳۲:۱۱ ؛ لوقا۱۶:۷؛ یوحنا ۲:۱۷) ۔ بلکہ آپ رسول گر بھی تھے ۔کلمتہ اللہ نے نبوت کادروازہ جوبنی اسرائیل میں سالہاسال سے بند اور مقفل (تالالگا ہونا ) تھا کھول دیا (متی ۱۰ باب ؛ لوقا ۱۰ باب ؛ ۱۔کرنتھیوں ۱:۱۴۔۶ وغیرہ) اور آپ کی ظفریاب قیامت اور رفع آسمانی کے بعد آپ کے پیامبر اور نبی ہر جانب آپ کی نجات کی اشاعت کرنے گئے ۔اور انہوں نے نبوت کا درجہ حاصل کرکے دنیا کے مختلف گوشوں میں آپ کا جان فزا پیغام دیا (۱۔کرنتھیوں ۲۸:۱۲؛ ۲۹:۱۴، ۳۲؛ اعمال۲۷:۱۱؛۱:۱۳؛۳۲:۱۵ ؛ افسیوں ۲۰:۲؛ ۵:۳؛۱۱:۴؛ متی ۲۴:۳؛ لوقا ۴۹:۱۱؛ اعمال ۹:۲۱۔۱۰؛ ۲۸: ۱۶، ۲۸۔۳۱ وغیرہ) نبوت کا یہ دروازہ جو کلمتہ اللہ نے کھولاوہ دو ہزار سال سے تا حال کھلا ہے اور مختلف ممالک واقوام میں بیسوں ناموافق اور مخالف حالات میں کھلا رہا ہے اور اس دروازہ کو تا قیامت کوئی بند نہیں کر سکتا (مکاشفات ۷:۳)۔
مسیح کی رفع آسمانی
انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں کلمتہ اللہ کی ظفر یاب قیامت کے بعد آپ کے رفع آسمانی کا ذکر کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآن میں واردہوا ہے ۔
(يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ)(سورۃ آل عمران آیت ۵۵)
یعنی اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں ۔
سورہ مریم میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا
(وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا)(سورۃ مریم آیت ۳۳)
یعنی مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیداہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن میں پھر جی کر اٹھ کھڑا ہوں گا ۔
انجیل میں بھی ابن اللہ کی ظفر یاب قیامت کے واقعہ کے بعد رفع آسمانی کے واقعہ کا ذکر آیا ہے چنانچہ کلمتہ اللہ کی زبان حقیقت ترجمان نے خود فرمایا ہے ’’تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا ‘‘(یوحنا ۶۲:۶)۔ مقدس مرقس لکھتا ہے’’جنابِ مسیح اپنی قیامت کے بعد رسولوں سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا ‘‘(مرقس ۱۹:۱۶ )مقدس لوقا لکھتا ہے ’’پھر یسوع رسولوں کو بیت عنیاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اس نے اپنے ہاتھ اُٹھا کر ان کو برکت دی جب وہ ان کو برکت دے رہا تھا تو وہ ان سے جدا ہوگیا اور آسما ن پر اٹھایا گیا اور وہ اس کو سجدہ کرکے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹ گئے اور ہر وقت ہیکل میں حاضر ہوکر خداکی حمد کرتے تھے‘‘(لوقا ۵:۲۴۔۵۳) ۔ انجیل جلیل کے مجموعہ کے دیگر مصنف بھی کلمتہ اللہ کے جلالی رفع آسمانی کا اکثر ذکر کرتے ہیں (اعمال ۷: ۵۵۔۵۶؛ رومیوں ۳۴:۸؛ افسیوں ۲۰:۱؛ کلسیوں ۱:۳؛ عبرانیوں ۳:۱؛ ۱:۸؛ ۱۲:۱۰ ؛ ۲:۱۲؛ ۱۔پطرس ۲۲:۳ ؛ مکاشفات ۲۱:۳ وغیرہ)۔
قرآ ن مجید میں حضرت کلمتہ اللہ کے رفع سماوی کا ذکر ہے لیکن کسی دوسرے نبی یا انسان کے لئے یہ وارد نہیں ہوا کہ خدا نے اس کو اپنی طرف اُٹھالیا تھا ابن اللہ کارفع آسمانی اس لیے ہوا کہ ’’آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوااس کے جو آسمان پر سے اتر ا۔یعنی ابن آدم جو آسمان میں ہے ‘‘ (یوحنا ۱۳:۳) ابن اللہ آسمان پر سے اترے تاکہ اپنے آسمانی باپ کی رضا پر عمل کریں (یوحنا۳۸:۶) ۔ ابوالبشر حضرت آدم اور تمام فرزند آدم یعنی بنی نوع انسان ’’خاکی ‘‘تھے لیکن ’’آدم ثانی ‘‘’’ابن اللہ‘‘آسمانی تھے (۱۔کرنتھیوں ۴۷:۱۵) جو اپنے آسمانی باپ کے محبوب ابن وحید تھے (متی ۱۷:۳) جس کے آپ کامل اور اکمل مظہر تھے (یوحنا ۱۸:۱)۔آپ دنیا کو آسمانی باپ کی ازلی محبت کی حقیقت اورآسمان کی باتیں بتلا کر ’’آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ اور باپ کی دہنی طرف جا بیٹھے (یو حنا ۳: ۱۲ ، ۱۶؛ مرقس ۱۹:۱۶)۔
مسیح کی آمد ثانی
انجیل اور قرآن مجید کے ماننے والے سب کے سب ابن اللہ کی ا ٓمد ثانی کے چشم براہ ہیں ۔آپ نے قائدین یہود جو آپ کے خون کے پیاسے تھے فرمایا ’’تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے ‘‘(مرقس ۱۶:۱۴)۔ آپ نے اپنے متبعین سے فرمایا تھا ’’ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے ‘‘(متی ۳۰:۲۴؛ ۲۵: ۳۱)۔
کسی دوسرے رسول وپیغمبر کی نسبت سے ایسادعویٰ نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی اورمسیحی دنیا کے لوگ صرف کلمتہ اللہ کی آمد ثانی کا اس شد ومد سے انتظار کررہے ہیں ۔
ابن اللہ منصف وعادل
(۱)
انجیل جلیل میں وارد ہوا ہے کہ کلمتہ اللہ کی زبان حقیقت ترجمان نے فرمایا کہ عدالت کے روز اقوام عالم ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے (متی ۲۴:۳۰) ۔جب ابن آدم اپنے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا اور اس وقت ہر ایک کو اس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا ‘‘(متی ۱۶: ۲۷)۔ جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے ۔تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی ‘‘۔
’’کیونکہ باپ کسی کی عدالت نہیں کر تا بلکہ اس کے لیے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کردیا ہے ‘‘اور ’’اسے عدالت کرنے کا اختیاربخشا ہے ‘‘۔ (متی ۳۱:۲۵؛ یوحنا۲۲:۵؛ ۲۷:۵ وغیرہ )
(۲)
ابن اللہ نے وہ بنیادی اصول بھی بتلادئیے ہیں جن کی بنا پر آپ قوموں کی عدالت کریں گے جب کلمتہ اللہ خدا کی ذات پاک کامظہر ہے اس دنیا میں آئے تھے آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ خداکی ذات محبت ہے اور وہ مخلوق کا ازلی اور ابدی باپ ہے کیونکہ وہ بنی نوع انسان سے لازوال محبت کرتا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ ’’تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ اور ہرانسان سے اپنے بر ابر محبت رکھ ۔انہی دو حکموں پر تمام تورات اور صحائف انبیاء کامدار ہے ‘‘(متی ۳۴:۲۲۔۴۰؛ لوقا ۲۵:۱۰۔۳۷ وغیرہ)۔
پس روز عدالت ابن اللہ ان دو اصولوں کی بنا پر اقوام وافراد کی عدالت کریں گے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ بادشاہ (ابن اللہ خود ) اس روز اقوام عالم کے افراد کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تخت عدالت کے دہنی اور بائیں طرف والوں سے کہے گا ،آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جوبادشاہت بنائے عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے ۔اسے میراث میں لو۔کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا ۔میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا ۔میں پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں اتارا۔ننگاتھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا ۔بیمار تھا تم نے میری خبرگیری کی ۔قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔تب راستباز جواب میں اس سے کہیں گے اے خداوند ۔ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا ؟ یاپیاسا دیکھ کر پانی پلایا ؟ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا ؟ہم کب تجھے بیمار یاقید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے ؟بادشاہ جواب میں ان سے کہے گا میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا پھر بادشاہ بائیں طرف والوں سے کہے گاکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا ۔پیاساتھا پرتم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا۔میں ننگا تھا پرتم نے مجھے کپڑے نہ پہنائے ۔بیمار اور قید میں تھا پرتم نے میری خبر نہ لی ۔تب وہ بھی جواب میں کہیں گے اے خداوندہم نے کب تجھے بھوکا یا پیاسا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قید میں دیکھا اور ہم نے تیری خدمت نہ کی ؟ اس وقت وہ ان سے جواب میں کہے گا کہجب تم نے ان سب سے چھوٹوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا تو میرے ساتھ نہ کیا (متی ۳۱:۲۵۔۴۶)۔
پس جو شخص خدا کی رضا پر چل کر بنی نوع انسان کے ساتھ رنگ ذات ،مذہب قوم وغیرہ کی تمیز کئے بغیر محبت ،اخوت اور مساوات کا سلوک کرے گاوہی مبارک ہوگا اور عدالت کے روز ابن اللہ کی عدالت میں دائیں ہاتھ کھڑا ہوگا ۔لیکن جو شخص خدااور انسان کے ساتھ زبانی جمع خرچ کا سلوک کرے گا اور نہ خدا کی محبت کا جواب اس کے دل میں ہوگا اور نہ انسان کی محبت واخوت ومساوات کے اصول اس کے دل میں ہوں گے وہ ابن اللہ کی نظر میں’’ ملعون ‘‘ہوگا (متی ۴۱:۵)۔کیونکہ جب ابن اللہ اس دنیا میں خدا کا مظہر ہوکر آئے نور رضائے الہٰی اور محبت خداوندی آپ کا ’’کھانا پینا تھا‘‘(یوحنا۳۴:۴) ۔آپ یہی چاہتے ہیں کہ جو آپ کی پیروی کرتا ہے وہ زبانی جمع خرچ کے ایمان کی ’’تاریکی میں نہ چلے ‘‘بلکہ خداکی محبت بھری رضا پرچلے اور ’’نور کی پیروی ‘‘کرے اور آپ کے سے کام کرے ۔اسی واسطے کلمتہ اللہ نے فرمایا ’’تم ان کے پھلوں سے ان کو پہچان لوگے ۔جو مجھ کو اے خداوند ،اے خداوند کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں دخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتاہے۔ اس روز عدالت کے وقت بہترے مجھ سے کہیں گے اے خداوند ،اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے معجزے نہیں کئے؟ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دو ں گا کہ میری تم سے کبھی واقفیت ہی نہ تھی ۔اے بد کردار لوگو ! میرے پاس سے چلے جاؤ(متی ۲۰:۷۔۲۳)۔
(۳)
پس انجیل جلیل کے مطابق ابن اللہ ’’زندوں اور مردوں کی عدالت کریں گے (۲۔تیمتھیس۱:۴؛ ۱۔پطرس ۵:۴ وغیرہ) آپ کی زبان معجز بیان نے فرمایا ’’میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا ۔میں جیسا سنتا ہوں ویسی عدالت کرتاہوں ۔میری عدالت راست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں ۔میں آسمان سے اس لئے نہیں اترا ہوں کہ اپنی مرضی کروں بلکہ اس لیے آیا ہوں کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں یہ اس لئے ہے تاکہ دنیا جان لے کہ میں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ہے میں ویسا ہی کرتا ہوں (یوحنا ۵: ۳۰؛ ۳۸:۶ ؛ ۳۱:۱۴ وغیرہ)’’پس میری عدالت درست ہے اور میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ فیصلہ کرنے والا میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جو میری گواہی دیتا ہے ‘‘(یوحنا۱۸:۸ وغیرہ)۔
آنخداوند کو قیامت کا علم کلی طور پر ہے کیونکہ بالفاظ قرآن آپ ’’علم للساتمہ‘‘ہیں اور ’’علم اللہ ‘‘ہیں کلمتہ اللہ روح اللہ ہیں اب ظاہر ہے کہ علم ملت سے علم معلول لازم ہے پس آپ کو جمیع حوادثات (حادثہ کی جمع،مصیبتیں)وواقعات عالم کا علم ہے اور ہربشر کے ظاہر وباطن سے آپ واقف ہیں پس قیامت کے روز سبحانہ تعالیٰ نے عدالت کا کام المسیح ابن اللہ کے سپرد کردیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آپ مالک یوم الدین ہیں اور آپ ہی ملک اور بادشاہ ہیں اور یہی انجیل جلیل کے الفاظ ہیں (متی۳۰:۲۴؛ ۲۷:۱۶ ؛ ۳۱:۲۵؛ یوحنا۲۲:۵؛ ۲۷:۵؛۲۔تیمتھیس ۸:۴ وغیرہ)۔
زماں راعدل اوزیور جہاں راذات اومفخر
زماں رااوزماں پرور جہاں رااوجہاں پیرا
جہاں رااوبعد آمر چہ درباطن چہ در ظاہر
بآمر اوشودصادر زد یوان قضا طغرا
(قآنی)
خدا نے عدالت کاسارا کا م ابن اللہ کے سپرد کردیا ہے ۔لیکن یہ سرفرازی خدانے کسی اور انسان یانبی کو عطا نہیں فرمائی ۔پس اس لحاظ سے بھی کلمتہ اللہ دیگر انبیاء کی قطار میں شمار نہیں کئے جا سکتے ۔حق تو یہ ہے کہ جس زاویہ سے بھی کلمتہ اللہ کی پیدائش ، زندگی ،تعلیم،صلیبی موت ، ظفر مند قیامت ،رفع سماوی کو دیکھ جائے وہ کتب سماوی کے مطابق بے عدیل ،بے نظیر اور لاثانی نظر آتی ہے ۔آپ بشر ہوتے ہوئے بھی فوق البشر تھے۔ ایسا کہ ’’الوہیت کی ساری معموری کلمتہ اللہ میں موجود تھی اور آپ کی کامل انسانیت کے پردے میں الوہیت کا مل اور اکمل ظہور جلوہ گر تھا ۔کامل الوہیت کا ظہور آپ کی کامل انسانیت میں پایا جاتاہے اور آپ کی انسانیت کے کمال میں خاکی اور خاطی انسان کو الوہیت کی جھلک نظر آتی ہے ۔
در بشر روپوش کردہ است آفتاب
فہم کن اللہ اعلم بالصواب
صورتش برخاک وجاں بر لامکاں
لامکا نے فوق وہم سالکاں
(مولانا روم)
اگر کوئی شخص یہ سوال پوچھے کہ قدیم اور حادث کس طرح باہم پیوند ہوسکتے ہیں تو ہم اس کی توجہ قرآن مجید کی (سورہ قصص کی آیت ۳۰) کی جانب مبذول کریں گے ۔جہاں یہ لکھا ہے کہ’’ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچا تومیدان کے دائیں کنارے مقدس جگہ میں جھاڑی سے یہ آواز آئی کہ اے موسیٰ میں رب العالمین ہوں ‘‘ پھر وارد ہوا ہے کہ ’’یہ آواز دی گئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے اور اس کے آس پاس ہے ‘‘ (سورہ نحل آیت ۸) تورات مقدس میں بھی یہی لکھاہے کہ’’ خداایک جھاڑی میں آگ کے شعلہ کی صورت میں حضرت موسیٰ کو نظر آیا اور اس میں سے آواز آئی کہ میں تیرے باپ کاخداہوں ‘‘(خروج۱:۳۔۶) جب لامحدود خدامادی اشیاء کے ذریعہ اپنے جلال کا جلوہ خاطی انسان پر ظاہر کرسکتا ہے تو وہ اپنی ذات کا کامل ظہور(کلمۃ اللہ وروح اللہ وجھافی الدنیاوالاخرۃ ومن المقربین )کی اعلیٰ ،برتر ،پاک اور قدوس انسانیت کے وسیلے بدرجہ احسن دکھلاسکتا ہے کیونکہ ابن اللہ خداکی ذات کا نقش ’’اور اس کے جلال کاپرتو ہے الوہیت کا جلوہ مظہر یزدانی ابن اللہ کی نورانی زندگی کے انوار کی ضیاپاشیوں میں ظہور پذیر ہوا۔
پدر نوروپسرنور یست مشہور
ازیں جافہم کن نورعلیٰ نور
مسیح کی ہمہ گیری
ہم نے ان سطور میں ناظرین پرکلمتہ اللہ مسیح ابن مریم کی عظمت وجلالت اور تورات وانجیل وقرآن کی شہادت کی بنا پر آپ کے صحیح مقام کا مختصر طور پر ذکر کیا ہے ۔یہ کتب سماوی ہم کو بتلاتی ہیں کہ دیگر انبیاءمختلف اقوام عالم کی جانب اللہ کے مرسل ہوکر آئے تھے اور ہر رسول کا پیغام اس کی خاص قوم اور اس کی بعثت کے وقت کے خاص حالات سے وابستہ تھا ۔امتداد زمانہ کے ساتھ دیگر حالات پیدا ہوگئے اور اس رسول کا خاص پیغام خود اس کی قوم کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی مشعل ہدائت نہ رہا ۔کیونکہ وہ قوم کے خاص حالا ت سے ہی مختص تھا اس کی قوم کی آنے والی نسلوں نے اس کے قوانین اور اصول وآئین کو جا مداور ٹھوس پایا جن کا اطلاق ان کے زمانہ کے حالات پر نہیں ہوسکتا تھا ۔پس وہ پیغام اس قوم کے مصرف کابھی نہ رہا دیگر ممالک واقوام نے بھی اس کے پیغام کو اپنے خصوصی حالات سے ناساز گار پاکر اس کو خیر باد کہہ دیا ۔
اس کے برعکس کلمتہ اللہ دنیا کے لئے ایسا پیغام لائے جو نہ تو کسی خاص قوم وملک سے وابستہ تھا اور نہ کسی خاص زمانہ اور حالات زمانہ سے متعلق تھا۔ ابن اللہ نے دنیا کے ہر بشر کوخداکی ازلی اور ابدی محبت کا ابوت الہٰی کا اور اخوت ومساوات انسانی کا سبق دیا جو زمان ومکان کی قیود سے بلند وبالااور ان سے آزاد ہونے کی وجہ سے عالمگیر اور ہمہ گیر تھا ۔یہ سنہرے جہانگیر نتیجہ خیز اصول اور کلمتہ اللہ کے کلمات طیبات دنیا کے ہر ملک وقوم کے کروڑوں انسانوں کی زندگی کو دو ہزارسال سے متاثر کرتے چلے آئے ہیں ۔تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ کا پیغام آخری ،قطعی اور بے مثال ولازوال مکاشفہ ہے جو ہر پہلوسے بے نظیر اور بے عدیل ہے ۔ہرقوم وملک کی تاریخ کے اوراق (سورہ مریم کی آیت ۲۱) پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں ۔
(وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا )(سورۃ مریم آیت ۲۱)
ہم (خدا ) اپنے کلمہ اورروح عیسیٰ مسیح ابن مریم کو اپنی طرف سے دنیا کے آدمیوں کے لیے رحمت اور نشان بناناچاہتے ہیں اور یہ امر مقدر ہوچکا ہے۔
کلمتہ اللہ نے اپنے بے مثال پیغام پر خود عمل کرکے بنی نوع انسان کو ایسا کامل اور اکمل نمونہ دیا ہے جو ہر پہلو سے خداکی اس لازوال اور ازلی محبت کا مظہر ہے جو وہ ہر فردبشر سے اور بدترین گنہگاروں سے کرتا ہے ۔ابن اللہ کی زندگی اور موت ایک صاف اور شفاف آئینہ ہے جس میں خداکی ذات اور اس کی محبت کی جھلک ہر صاحب بصیرت کو دکھائی دیتی ہے حضرت روح اللہ کی قدوس ذات میں ایک بات بھی ایسی نہیں پائی جاتی جو مقامی ہو اور امتداد زمانہ کے ساتھ قابل تقلید نہ رہی ہو ۔کلمتہ اللہ کے کلام کے اصولوں کی طرح آپ کی پاک ذات بھی عالمگیر اور ہمہ گیر ہے کیونکہ آپ کی کامل انسانیت میں ’’الوہیت کی ساری معموری ‘‘کاظہور ہے ۔ابن اللہ الہٰی الاصل تھے اور خدائے واحد وبرحق کے کلمہ تھے جو پیکر انسانی میں ظاہر ہوئے ؎
وجودش باقضاتوام ، زجودش ماسوا خرم
حدوثش باقدم ہمدم ،عیاتش باابدہمتا
(حکیم قآنی)
ہم نے اس فصل میں کلمتہ اللہ کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو انجیل وقرآن میں مشترکہ ہیں ۔ہم نے ناظرین کو بتلایا ہے کہ آنخداوند کی فوق العادت اور اعجازی پیدائش میں کو ئی دوسراانسان یا نبی آپ کا ہمسر نہیں ہوا کیونکہ کوئی دوسرا فرزند آدم خدا کی خاص قدر ت سے پید ا نہیں ہوا ۔آنخداوند مادرزاد نبی تھے جن کو خدانے خود کلمتہ اللہ ،روح اللہ اور ابن اللہ کے القاب سے معزز فرمایا۔ان خطابات سے ظاہر ہے کہ ابن اللہ’’خدامیں سے خدا ‘‘ہیں اور آپ کو وہ مقام حاصل ہے جو کسی دوسرے انسان کو کبھی حاصل نہ ہوا ۔کلمتہ اللہ خدا کی قدرت اور خداکی وہ حکمت ہیں ان صفات سے کسی انسان ضعیف البنیان(جس کی بنیاد کمزور ہو )کو خدا نے متصف (صفت رکھنے والا) نہیں کیا ۔آپ کی جانب وہ قدرت وحکمت اور جلال وعظمت منسوب کی گئی جو کسی بشر کے حصہ میں نہ آسکتی ہے اور نہ آئی ۔آپ خالق باذن اللہ ہیں اور خدا کا وہ کلام ہے جس کے وسیلہ سے کل موجودات اور کائنات وجود میں آئی ۔آپ نہ صرف جسمانی مردوں کو ہی زندہ کرتے تھے بلکہ آپ گنہگاروں کی مردہ روحوں کو ابلیس کے پنجہ سے رہا کر تے تھے اور ان کو از سر نو زندگی عطا کر کے خداکے فرزند بنا دیا اور گذشتہ دو ہزار سال سے ہر قوم نسل ملک کے کروڑوں روحانی مردوں کو زندہ کرتے چلے آئے ہیں ۔ان تمام باتوں میں دنیا کا کوئی انسان یا نبی آپ کا ہمسر نہیں ہوا۔
کہ عدیم است عدیلش جو خداوند کریم
آپ نہ صرف خود رسول تھے بلکہ آپ رسول گر تھے اوررسول گر ہیں ۔آپ کے رسول صاحب وحی والہام ہیں ۔آپ کے معجزات خدا کےوہ نشانات ہیں جو خدا کے قدوس اور محبت بھرے دل کا اظہار ہیں ۔آپ کی صلیبی موت بھی آپ کی زندگی کی طرح خدا کی ذات کا کامل اور اکمل مکاشفہ ہے ۔آپ کی ظفر یا ب قیامت نے عالم و عالمیان پر اس حقیقت کو آفتاب نصف النہار کی طرح روشن کر دیا ہے کہ ’’موت فتح کا لقمہ ہوگئی‘‘۔اور آپ نے ابلیس اور اس کی تمام طاقتوں کو کچل کر رکھ دیا اور موت کے ڈنک کو نکال دیا ۔ایساکہ اب تمام مومنین اور مومنات موت اور شیطان کو للکار کرکہتے ہیں ’’اے موت تیری فتح کہاں رہی ؟اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا ؟ موت کو ڈنک گناہ ہے مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے جنابِ مسیح کے وسیلے سے ہم کو فتح بخشتا ہے ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۵۴:۱۵۔۵۷) کیا کسی دوسرے انسان یا نبی نے ان امور کو ایسی نمایا ں کامیابی سے سر انجام دیا ہے ؟ کیا کسی دوسرے فرزند آدم کا رفع آسمانی ہوا ہے کہ وہ عرش معلیٰ پر ’’خداکے دہنے ہاتھ جا بیٹھا‘‘ہو؟کیا کسی شخص نے اس دنیا میں کسی گنہگار کو اپنے اختیار سے اس کے گناہوں کی مغفر ت بخشی ہے ؟ کیا کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہ بات آئی ہے کہ خدا نے قیامت دن بنی نوع انسان کی عدالت کا سارا کام اس کے سپرد کردیا ہے؟ یہ عزت ،رتبہ ،درجہ اور سرفرازی ابن اللہ اور صرف ابن اللہ کو ہی حاصل ہوئی ہے جس نے بنی آدم پر اپنی ذات میں انسانیت کا کمال اور ذات الوہیت کی محبت ازلی کا جلال دکھلا دیا ۔
خدانے اپنے محبوب ابن کو دنیا اور مافیہا(جوکچھ اس میں ہے ) پر قدرت اورو مخلوق فردبشر پراور ہر مرسل ،نبی اور رسول پر فضیلت بخشی ابن اللہ کی اعجازی پیدائش خارق (پھاڑنے والا،کرامت )عادت تھی آچکا مسیحی نفس مردوں کو زندگی بخشتا تھا اور زندوں کی زندگی کا اصل تھا۔آپ کی صلیبی موت نے تمام دنیا کو دادورسن کے فلسفہ کا سبق سکھا دیا آپ کی ظفر یا ب قیامت نے تاریکی کے تمام قوتوں اور شیطانی طاقتوں پر فتح حاصل کرکے دنیا جہان کے گنہگاروں کو ابلیسی لعین کی غلامی سے نجا ت بخش کرازسر نو خدا کے فرزند اور آسمان کی بادشاہی کے وارث بنادیا اور ان کو نیا مخلوق بنا کر اس قابل کردیا کہ وہ دنیا کی کایا پلٹ دیں؎
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می گیرم
کرشمہ دامن دل کشدکہ جااینجاست
اب کیا ہر گنہگار شخص کا فرض نہیں کہ وہ کلمتہ اللہ کی پاک اور پراز محبت ہستی پر نظرکرے اور اس کے فضل سے توفیق پاکر دلی توبہ کرے اور’’ دنیا کے منجی ‘‘ پر ایمان لاکر نجات ابدی اورسعادت سرمدی حاصل کرے؎
چسیت یاران طریقت بعد ازیں تدبیرما
فصل سوئم
المسیح کی خصوصیات معجزات اور دعاوی
خصوصیاتِ مسیح
مسیحیت کا ابتدا ہی سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ جنابِ مسیح خدا کے بے عدیل مظہر اور کل دنیا کے منجی ہیں۔مسیحیت نے اپنی تاریخ کے کسی زمانہ میں بھی آنخداوند کو دیگر انبیاء،اولیا،صالحین، مصلحین یا مرسلین کی قطار میں شمار نہ کیا ۔ اس کے کبھی وہم وگمان میں بھی نہ آیا کہ کلمتہ اللہ کو محض ایک رسول قرار دے دے جس کی زندگی دیگر ابنیاء کی زندگیوں سے بہتر تھی اور جو انسانی کمزوریوں میں دیگر انسانوں سے کم مبتلا تھا اور جس کا کام دیگر اقوام کے انبیاء او رمصلحین کی طرح یہودی قوم اور مذہب کی محض اصلاح کرنا تھا۔ چنانچہ مورخ لیکی (Lecky)کہتا ہے
’’مسیحیت نے عصبیت(طرف داری) کے زو ر سے اپنے نظام کو جس قدر مضبوط اور مستحکم بنالیا تھا یہ بات کسی اور مذہب کو نصیب نہ تھی۔ مسیحیت کے سے انضباط وعصبیت سے اس کے حریف یکسر معریٰ(بلکل پاک صاف) تھے۔اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کے سوا دنیا کے تمام مذاہب باطل ہیں۔ نجات صرف اس کے پیروؤں کے لئے ہیں اور بد نصیب ہیں وہ جو اس کے حلقہ کے باہر ہیں‘‘۔
انجیل جلیل میں کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ تمام مذاہب یکسا ں ہیں او رکہ مسیحیت دیگر مذاہب میں سے ایک مذہب ہے جس کا بانی دیگر مذاہب کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے واحد ادیان کے عقیدہ کے برعکس انجیل شریف کا ایک ایک صفحہ اس بات کا گواہ ہے کہ مسیحیت اور دیگر مذاہب کے درمیان بعد المشرقین کا فرق ہے۔
مسیحیت کا دعویٰ
جب ہم انجیل شریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ خداوند مسیح خود اس عقیدہ کے منبع اور سر چشمہ تھے کہ آپ انبیاء کی قطار میں شمار شمار نہیں ہوسکتے گو آپ کی روحانی نشوونما عہد عتیق کی کتب کے ذریعہ ہوئی ۔حتیٰ کہ یہودی انبیاء کی کتب مقدسہ آپ کو زبانی یادتھیں ۔لیکن آپ کو یہ احساس اور علم تھا کہ آپ کے اختیارمیں اور عہد عتیق کے دیگر انبیاءعظام کے اختیار میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔دیگر انبیا ء کہتے تھے ’’خداوند یوں فرماتا ہے ‘‘(یسعیاہ ۵:۴۲؛ ۲۔تواریخ ۱۳:۱۸ وغیرہ)۔لیکن آپ کہتے تھے ’’میں تم سے کہتا ہوں ‘‘(متی ۵باب)آپ رسول کی طرف نہیں بلکہ بھیجنے والے کی طرح کلام کرتے تھے کیونکہ آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ خدا کی باتیں کہتے ہیں (یوحنا۲۴:۳) ۔دیگر انبیاء کہتے تھے کہ ’’خداکا کلام ابدتک رہتا ہے (یسعیاہ ۴: ۶، ۸) لیکن آپ نے فرمایا ’’آسمان اور زمیں ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی (لوقا۳۳:۲۱) ۔آپ کے زمانہ میں انبیاء یہود کی کتب چٹان کی مانند مضبوط اور استوار خیال کی جاتی تھیں لیکن آپ کے عظیم الشان پیغام کے ایک لفظ سے ان کو تبدیل کردیا (توبت ۳:۵؛ لوقا ۵۹:۹ الخ؛ توبت ۱۶:۵؛ متی ۱۲:۷؛ توبت ۱۸:۵؛ متی ۱۰:۹) آپ کو یہ احساس تھا کہ موسوی شریعت کے احکا م صادر کررہے ہیں لیکن جائے حیرت یہ ہے کہ جب آپ اس قسم کی تبدیلیاں کرتے اور اپنے اصول کی تلقین کرتے ہیں تو آپ یہ نہیں فرماتے کہ خداکافرمان یہ ہے ۔ان معاملات میں آپ خداکے نام کا ذکر تک نہیں کرتے بلکہ شریعت کے اختیار کے مقابلہ میں آپ اپنا اختیار پیش کرکے فرماتے ہیں ’’میں تم سے کہتا ہوں ‘‘(متی ۲۲:۵، ۲۸، ۳۳، ۳۴، ۳۹، ۴۴) ادیان عالم کے انبیاءمیں سے کسی کے وہم وگمان میں بھی کبھی نہ آیا کہ وہ ابن اللہ کی مانند کہے ’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہاگیا ہے ۔۔۔۔لیکن’’ میں تم سے کہتا ہوں ‘‘ تمام جہاں کے مذاہب کی کتب چھان مارو تم کہیں اس قسم کا اختیار نہ پاؤ گے لیکن کلمتہ اللہ ان احکامات کو اس طرح صادر فرماتے ہیں کہ وہ آپ کے ذہن کی قدرتی باتیں ہیں ۔حضرت موسیٰ کے خواب وخیال میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی (خروج ۱:۲۰) لیکن ابن اللہ کو یہ احساس تھا کہ آپ بنی نوع انسان کے سامنے ایک الہٰی مقنن(قانون بنانے والا) کے طور پر خداباپ کی طرح حکم دے سکتے ہیں (یوحنا ۳۴:۱۳؛ ۱۵:۱۴؛ ۱۰:۱۵ وغیرہ ) آپ نے اپنے پیغام کو انبیائے سابقین کے پیغام سے اعلیٰ اور ارفع اور اپنی زندہ شخصیت کو کتب متدادلہ (ایک دوسرے سے باری باری لیا گیا ) کے الفاظ سے بلند وبالا قرار دے دیا (متی ۴۱:۱۲۔۴۲) آپ کو یہ احساس تھا کہ انبیائے سابقین نے خدا کاپیغام غیر مکمل طور پر ادا کیا ہے ۔پس آپ نے فرمایا ’’میں شریعت اور صحف انبیاء کو کامل کرنے آیا ہوں (متی ۱۷:۵) آپ نے ان کتب مقدسہ اور انبیاکے کلام کی تنقیح اور تنقید بھی کی (لوقا۵۴:۹؛ متی ۲۲:۱۸؛ ۱۳:۹)۔آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ کی ذات بابرکات خود کتب عہد عتیق کا حقیقی مطمح نظر اور نصب العین ہے(یسعیاہ ۲:۴۲۔۳؛ ۱:۴۱۔۲ ؛ یوحنا ۱۴:۳، متی ۴۰:۱۲؛ ۴۲:۲۲) ۔پس آپ اپنے پیغام کو ان سے اعلیٰ اور ارفع (متی ۳۹:۵؛ ۴۵:۵؛۴۱:۶۔۴۲؛ مرقس ۲۲:۱ وغیرہ)اور اپنی زندہ شخصیت کو ان کتب کے الفاظ سے بلند وبالا قرار دیتے تھے (یوحنا ۳۵:۹؛ ۳۸:۷ ؛ ۵۸:۶ وغیرہ )کہاں آپ کی تعلیم اور کہاں یہودی ربی حلیل اور ربی شمعون اور ربی نقودیمس اور ربی گملی ایل کی تعلیم ! یہی وجہ ہے کہ سامعین بے اختیار بول اٹھتے تھے کہ آپ ’’صاحب اختیار کی طرح ‘‘تعلیم دیتے تھے (مرقس ۱: ۲۲؛ متی ۲۸:۷ وغیرہ)۔
یہ بین تفاوت راہ از کجاست تا یکجا
کلمتہ اللہ کی تعلیم میں ایسے عناصر تھے جن کو اہل یہود نے کبھی نہ سنا تھا اور جو مروجہ یہودیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھے۔چنانچہ یہودی عالم ڈاکٹر مانٹی فیوری کہتا ہے
’’اسرائیل کی مذہبی تاریخ میں یہ ایک نئی بات تھی جو ناصرت کے ربی نے سکھائی کہ محبت سے لوگوں کو خداکی طرف لایا جائے ‘‘۔
خداکے مسیحی تصور کی نسبت یہ یہودی نقاد لکھتا ہے کہ
’’عبرانی کتب مقدسہ میں کسی نبی کی زبان سے خداکی نسبت یہ الفاظ نہ نکلے ’’باپ ‘‘’’تمہارا باپ ‘‘’’ہمارا باپ‘‘جس طرح متی کی انجیل میں یسوع کی زبان سے نکلے ‘‘
یہودی عالم ڈاکٹر کلاسز (Klusner) کہتا ہے کہ
’’اخلاقیات اور الہٰیات کے معاملہ میں یسوع کے خیالات ایسے عجیب اور نرالے تھے کہ اہل یہود کے لئے ان کو تسلیم کرنا غیر ممکن تھا ۔ان حالات میں یہود اور یسوع کا کسی بات پر اتفاق کرناممکن نہ تھا یسوع کی تعلیم نہ صرف فریسیوں کی تعلیم کے خلاف تھی بلکہ وہ یہودی کتب مقدسہ کے بھی خلاف تھی ‘‘۔
مسیح اور علم غیب
انجیل جلیل اور قرآن مجید دونوں اس حقیقت پر اصرار کرتے ہیں کہ کلمتہ اللہ ایک بشر تھے (رومیوں ۳۰:۱؛ ۱۔تیمتھیس ۵:۲) (سورہ مائدہ آیت ۷۹ وغیرہ ) لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں صحف سماوی کلمتہ اللہ کو بشر ماننے کے باوجود ان سے غیب کا علم منسوب کرتے ہیں حالانکہ دونوں آسمانی کتابوں کے مطا بق غیب کا علم صرف علیم وخبیر کو ہی حاصل ہے (متی ۳۶:۲۴؛ سورۃ جن آیت ۲۶ وغیرہ ) دونوں صحائف سماوی کہتے ہیں کہ نوع انسانی میں سوائے مسیح کے کوئی دوسرا انسان غیب کا علم نہیں رکھتا (سورۃ ہود آیت ۳۳)چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ کلمتہ اللہ لوگوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ’’جو کچھ تم لکھا کے آؤ اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں رکھ کر آؤ وہ سب میں تم کو بتلا دیتا ہوں (سورۃ آل عمران آیت ۴۳)۔انجیل میں بھی آیا ہے کہ ابن اللہ لوگوں کے دلوں کے خیالات تک سے واقف تھے(متی ۴:۹؛ ۲۵:۱۲؛ لوقا ۸:۶؛۱۷:۱۱ وغیرہ )آپ کے حواری اور رسول باربار لکھتے ہیں کہ سب کے دل کے باطنی اور اندرونی پوشیدہ خیالات کو جانتے تھے (یوحنا۲۴:۲۔۲۵؛ ۴۷:۱؛ ۱۵:۶،متی ۲۱:۲۶ وغیرہ )۔ پس اس لحاظ سے بھی حضرت روح اللہ ایک عدیم النظیر اور یکتا ہستی تھے ۔اگر آپ کو کسی سے نسبت دی جا سکتی ہے تو فقط خدائے واحد لاشریک سے نسبت دی جا سکتی ہے باقی تمام انبیاء دیگر انسانوں کی مانند ہیں ان میں اور دوسرے انسانوں میں فرق صرف یہی ہے کہ ان پر وحی آتی ہے (سورۃ کہف آیت ۱۱۰) لیکن علم غیب کی خصوصیت کسی نبی میں بھی نہیں پائی جاتی ۔آپ کی مختلف خصوصیات کی وجہ سے قرآن میں آپ کو آیہ للعالمین قرار دیا گیا ہے ۔آپ کی ذات پاک کل انبیاکی جامع صفات ہے ۔کسی ایک نبی کو بھی کو ئی ایسی صفت خدا کی طرف سے عطانہیں کی گی ۔جوکلمتہ اللہ میں بوجہ احسن موجود نہیں ۔
انجیل شریف سے ظاہر ہے کہ ابن اللہ لوگوں کے دلوں کے خیالات اور بھیدوں تک سے واقف تھے ۔دیگر انبیا اپنے ہم جنسوں کی طرح لوگوں کے خیالات کااپنے فہم اور ذکادت (ذہن کی تیزی )کی طرف سے قیاس کرسکتے تھے ۔لیکن ابن اللہ انسانوں کے دلوں کے پوشیدہ رازوں تک سے واقف تھے ۔مثلاً ایسے لوگ آپ کے پاس آئے جن کو آپ نے پہلے نہ دیکھا تھالیکن آپ ان کے خفیہ خیالوں سے واقف تھے (یوحنا۴۸:۱۔۴۹؛ مرقس ۲۱:۱۰؛۳:۹) ۔آپ نے فریسیوں کو ان کے پنہانی خیالات کی وجہ سے ملامت کی (لوقا ۳۹:۷؛ مرقس ۸:۲؛ یوحنا۸:۸؛ ۲۵:۱۲ وغیرہ)۔
آ پ گنہگار لوگوں کے دلوں کے خفیہ رازوں سے واقف تھے (یوحنا ۳۹:۴ وغیرہ ) لہٰذا آپ گناہوں کو معاف کرتے وقت ان کوجتلادیتے تھے کہ وہ توبہ کریں اور اپنے گناہوں سے آئندہ پرہیز کریں (متی ۲:۹؛ یوحنا ۱۴:۵؛ ۸:۸، ۱۱ وغیرہ) ۔آپ اپنے حواریوں کے اندرونی خیالات کو جانتے تھے (مرقس ۳۳:۹ ؛ یوحنا ۶:۱۱، ۱۱، ۱۴ وغیرہ)آپ کواپنے مخالفوں کی پنہانی سازشوں اور ارادوں کی واقفیت تھی (مرقس ۸:۲؛ متی ۶۴:۶؛ ۲۵:۱۲؛ یوحنا ۲۱:۱۳ وغیرہ )آپ کے حوارئین ،تابعین اور مخالفین تک حیران تھے کہ آپ کو یہ علم کہاں سے آیا (یوحنا ۴۸:۱؛ ۴۲:۵؛ ۳۰:۱۶ وغیرہ)۔لیکن یہ سب جانتے تھے کہ ’’وہ آپ چاہتا تھا کہ انسانی فطرت کیسی ہے اورکہ انسان کے دل میں کیا ہے (یوحنا ۲: ۲۵)۔
لیکن سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ گو آپ سب کچھ جانتے تھے اور اس کی حاجت نہ رکھتے تھے کہ کوئی آپ کو کچھ بتلائے (یوحنا ۲: ۲۴) تاہم آپ نے اس غیبی علم کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کبھی استعمال نہ فرمایا ۔دیگر انبیاء اور ہادیان دین نے لوگوں سے صورت حالات معلوم کرکے اس علم کو اپنے اقتدار اور حشمت اور جاہ وعزت بڑھانے کے لیے استعمال کیا لیکن ابن اللہ نے غیب کا علم رکھتے ہوئے بھی اپنے علم کو اس قسم کے استعمال سے پرہیز فرمایا بلکہ اس کے برعکس آپ نے اس علم کو صرف خدا کی بادشاہت اور استواری کی خاطر اور بنی نوع انسان کے اخلاق سدھار نے کی خاطر استعمال فرمایا(یوحنا ۳۹:۴؛ لوقا۱۰:۵ وغیرہ)۔
مسیح کے مشن کی فضیلت
جب ہم دیگر مذاہب عالم کے انبیاء کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے اخلاق سدھارے اور اپنی اصلاح کے مشن کی ناکامی کو محسوس کرکے اپنی قوم کی طرف سے اکثر مایوس ہوجاتے تھے ۔مثلاًحضرت موسیٰ بارباربنی اسرائیل کی جانب سے مایوس ہوئے۔ حضرت ایلیاہ بھی مایوس ہوئے (۱۔سلاطین ۴:۱۹) یرمیاہ نبی کا بھی یہی حال تھا (یرمیاہ۱۰:۱۵؛ ۱۴:۲۰ ۔الخ)یوحنا بپتسمہ دینے والا بھی مایوس ہوا (متی۲:۱۱)۔لیکن ابن اللہ کبھی اپنی قوم کی طرف سے مایوس نہ ہوئے اور نہ آپ کے دل میں کبھی اپنے مشن اور رسالت کے متعلق شکوک پیدا ہوئے ۔ مہاتمابدھ کو اپنے مشن کے متعلق شک تھا ۔ رسول عربی کے شکوک مسیحی عالم ورقہ بن نوفل نے دورکئے ۔لیکن ابن اللہ کو اپنے مشن اور اس کی کامیابی کا پورا یقین تھا ۔حتیٰ کہ جب حالات کلیتہ ً(مکمل ) ناموافق تھے آپ نے د م واپسیں صلیب پر سے پکارکر اعلان کیا اور فرمایا کہ ’’ آپ نے سب باتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے‘‘ (یوحنا ۲۸:۱۹۔۳۰؛۴:۱۷ )آپ کو اول سے لے کر آخر تک اپنی رسالت اور ابنیت کااحساس اور کامل یقین رہا (یوحنا۳۸:۶، ۴۶،۶۲؛ ۲۳:۸، ۴۲؛ ۱۲:۱۴، ۲۸؛ ۱۰:۱۶ وغیرہ)۔
انبیائے سابقین اور مسیح کے معجزات
ہم نے گذشتہ فصل میں معجزات مسیح کا مجمل طور پر ذکر کرکے بتلایا تھا کہ آپ کا ہر معجزہ ’’آیت اللہ ‘‘(سورۃ انبیا آیت ۹۱) اور نشان دیتا تھا اس ذات پاک کا جو زندہ جاوید ہستی ہے اور عالم وعالمیان کے لیے آیتہ ًللعالمین ہے ۔
مسیح کے دعاوی اور اناجیل اربعہ
اگر کو ئی شخص ابن اللہ کے اقوال کا سطحی مطالعہ بھی کرئے تو اس کو معلوم ہوجا ئے گا کہ جہاں دیگر انبیا لوگوں کو خد ا کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں وہاں ابن اللہ لوگوں کو اپنی ذات کی جانب رجوع کرنے کی دعوت دیتاہے (متی ۲۸:۱۱؛ ۳۷:۲۳؛ ۱۱:۵ وغیرہ) ۔آپ نے علانیہ لوگوں کو فرمایا کہ وہ آپ کی باتوں پر کان لگائیں (متی ۲۴:۷؛ یوحنا ۲۷:۱۸ وغیرہ ) جہاں دیگر انبیا نے اپنے پیروؤں کو کہا تم خدا پر ایمان لاؤ وہاں آپ نے حکم دیا کہ لوگ آپ کی شخصیت پر ایمان لائیں (یوحنا۱:۱۴؛ ۳۵:۹؛ ۲:۱۴ وغیرہ)۔آپ یہ نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ کی رسالت پر یا معجزات پر یا تعلیم پر ایمان کبھی کسی دوسرے نبی نے طلب نہ کیا ۔آپ نے صاف صاف کہا کہ روز محشر انسان کی قسمت کا فیصلہ اس پرہوگا کہ آیا وہ آپ کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں یا کہ نہیں (متی ۳۲:۱۰؛ مرقس ۳۸:۸ وغیرہ) اور لطف یہ ہے کہ یہ ایمان بعینہ اس قسم کا ہے جو خداہم سے طلب کرتا ہے ۔
توبدیں جمال وخوبی بر طور گر خرامی
ارنی بگوید آنکس کہ بگفت لن ترانی
ابن اللہ کی عین یہ خواہش ہے کہ بنی نوع انسا ن آپ کی زیر حفاظت آجائیں (متی ۳۷:۲۳) کیونکہ صرف آپ ہی ان کے دلو ں کی بے قراری اور بے چینی کو دور کرکے اطمینان قلب عطا کرتے ہیں (متی ۲۸:۱۱؛ یوحنا۲۷:۱۴؛ ۱۹:۲۰؛ لوقا ۳۲:۲۶ وغیرہ) ۔اگرہم رفاقت الہٰی چاہتے ہیں تو آپ کی بے چوں وچرا خدمت کریں (مرقس ۴۵:۱۰؛ یوحنا۴:۱۳۔تاآخر وغیرہ ) ابن اللہ ہر انسان کا دل طلب کرتے ہیں جس طرح خداطلب کرتا ہے اور حکم دیتے ہیں کہ کل بنی نوع انسان آپ کی تابعداری کریں آپ کی رہنمائی میں زندگی بسر کریں اور اپنے آپ کو کلیتہً ابن اللہ کے سپرد کریں (متی ۲۹:۱۱؛ ۳۸:۱۰؛ ۲۴:۱۶؛ یوحنا ۱۲:۸؛ ۲۶:۱۲ وغیرہ )۔کیونکہ صرف آپ ہی نوع انسانی کے اکیلے واحد ہادی اور برحق استاد ہیں (متی ۸:۲۳۔ تا آخر ) ابن اللہ نے حکم دیا کہ تمام قوموں کو آپ کے نام سے بپتسمہ دیا جائے جس کا یہ مطلب ہے کہ اقوام عالم آپ کی مقبوضہ ملکیت ہوجائیں گی اور آیندہ آپ اور صرف آپ ہی ان پر حکمران ہوں گے جن پر ’’مخلصی کے دن آپ کے مہر لگی ہے ‘‘(افسیوں ۳۰:۴) ابن اللہ ہر شخص سے یہ طلب کرتے ہیں کہ وہ آپ کی ذات کے ساتھ اسی قسم کی محبت کرے (یوحنا۱۵:۲۱۔۱۷؛ ۱۵: ۹ وغیرہ) جوعہد عتیق کی کتب میں خدا کے ساتھ کی جاتی تھی (استثنا۲۹:۳۳؛ متی ۳۷:۱۰۔تاآخر؛ لوقا ۲۶:۱۴ وغیرہ)۔
غرض یہ کہ منجی عالمین کے اپنے اقوال کی بنا پر مسیحیت میں آپ کی ذات کو مرکزی جگہ دی گئی ہے ۔ابن اللہ ہمارے سا تھ ابدتک ہے (متی ۲۰:۱۸؛ یوحنا ۲۳:۱۴) آپ کی حشمت وجلال تا ابد ہے (مرقس ۳۶:۱۲؛ ۶۲:۱۴ ) آپ خود ’’راہ حق اور زندگی ‘‘ہیں (یوحنا ۱۶:۱۴؛ متی ۲۷:۱۱) آپ زندگی کاوسیلہ ہیں (یوحنا ۶:۱۴)۔آپ نجات کا دروازہ ہیں (یوحنا۹:۱۰)۔ آپ وہ حقیقی روٹی ہیں جو آسمان پر سے اتری جوروح کی بھوک کو دور کرسکتی ہے (یوحنا۵۱:۶)۔آپ زندگی کا پانی ہیں (یوحنا ۳۷:۷) ۔آپ دنیا کے نور ہیں (یوحنا۱۲:۸) ۔کل نوع انسانی آپ میں پیوند ہے ۔آپ کا دیگر انسانوں کے ساتھ درخت اور شاخو ں کا ساتعلق ہے (یوحنا۴:۱۵) اور اپنی زندگی اورقدرت کاملہ سے بنی نوع انسان کو نئی مخلوق بناتے ہیں (لوقا۵:۱۹۔تاآخر) اور ان کو نئی زندگی بخشتے ہیں۔
ہست بہ تخت گاہ دل جلوہ قرب روز وشب
لیک بجلوہ چناں چشم خیال کے رسدہ
’’ابن آدم کو زمیں پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے ‘‘(متی۶:۹ )آپ نے فرمایا کہ ’’آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے ‘‘(متی ۱۸:۲۸)۔’’ اب سے ابن آدم قادر مطلق خداکی دہنی طرف بیٹھا رہے گا‘‘(لوقا۶۹:۲۲)۔ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا (متی ۱۹ : ۲۸) یہاں وہ ہے جو ہیکل سے بھی بڑا ہے ‘‘(متی ۱۲: ۶)۔ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا(متی ۴۱:۱۳)۔جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے تو وہ اس وقت اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ‘‘اور عدالت کرے گا(متی ۳۱:۲۵) ’’میر ے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپاگیا ہے اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوائےبیٹے کے اوراس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہے ‘‘(متی ۲۷:۱۱)۔جیسے میرے باپ نے میرے لیے ایک بادشاہت مقرر کی ہے میں بھی تمہارے لیے مقرر کرتاہوں (لوقا۲۲:۲۹) ’’جہاں دو یاتین میرے نام پراکٹھے ہیں وہاں میں ان کے بیچ میں ہوں ‘‘(متی ۱۸: ۲۰) ۔’’یہ میرا(خداکا )پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ‘‘(متی ۵:۱۷)۔’’میں خداکا بیٹا ہوں ‘‘ (متی ۳۳:۱۴) آپ نے ایک تمثیل میں اپنے آپ کو ’’ابن ‘‘ایسے معنوں میں قرار دیا جن معنوں میں دیگر انسا ن خداکے بیٹے نہیں ہوسکتے (یوحنا ۱۲:۱۔۱۴؛ ۲۰: ۱۷؛ یوحنا ۱:۵ وغیرہ) جس کا مطلب ہے کہ آپ کو علم تھا کہ آپ کی ابنیت بے نظیر اور لاثانی ہے اور آپ کا پیغام دیگر انبیا سے جداہے جن کو آپ نے ’’خادموں ‘‘ کادرجہ دیا (مرقس ۶:۱۲۔۷)۔
مذکورہ بالاآیات سے صاف ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ کا یہ مطلب تھا کہ اس ابوت اور ابنیت کے وجود میں صرف خدااور مسیح واحد طور پر موجود ہیں اور دیگر انسان اس خاص الخاص رشتہ کے باہر ہیں ۔کلمتہ اللہ کی ہستی کل بنی نوع انسان سے جداگانہ اور الگ ہے کیونکہ وہ اور خدادونوں ایک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ذات کا کامل طور پر علم رکھتے ہیں (یوحنا۲۲:۱۰؛ ۵:۱۷؛ متی ۲۷:۱۱) اور ان کی زندگی ایک دوسرے سے چھپی نہیں (یوحنا ۱۸:۱) ابن اللہ کے حواری آپ کو ’’خداوند‘‘ کہتے ہیں اور جب آپ کے رسول اپنی تقریرات وتحریرات میں عہد عتیق کی کتب کے اقتباسات پیش کرتے ہیں تو وہ خداوند یہواہ کی بجائے آپ کے مبارک وجود کا ذکر کرتے ہیں اور خدا کے خاص نام ’’یہواہ کی بجائے نام ‘‘لیتے ہیں ۔ابن اللہ نے یہود کو مخاطب کرکے فرمایا ’’میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے اور کو ئی بیٹے کو نہیں جانتا سوائے باپ کے اور کو ئی باپ کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اس کو ظاہر کرنا چاہے ‘‘(متی ۲۷:۱۱)۔خداکے متعلق آپ کا علم الیقین اس درجہ تک یقینی تھا کہ آپ نے یہود کو فرمایا کہ میں خدا کو کامل طور پر جانتا ہوں (یوحنا ۱۹:۸) اور ’’اگر میں کہوں کہ اس کو نہیں جانتا تو تمہاری طرح جھوٹا ہوں گا مگر میں اسے جانتا ہوں اور اس کے کلام پر عمل کرتا ہوں‘‘(یوحنا ۵۵:۸)۔دیگر انبیاء کہتے تھے کہ خداہم سب انسانوں کا خالق اور باپ ہے (ملاکی ۱۰:۲ وغیرہ) لیکن ابن اللہ کا خدا باپ کے ساتھ لاثانی بے نظیر او ر بے عدیل رشتہ ہے ؎
پدر نور وپسرنور بست مشہور
ازیں جافہم کن نور علیٰ نور
آپ نے دیگر انسانو ں کو اس رشتہ میں شامل کرکے یہ کبھی نہ فرمایا کہ ’’ہمارا باپ ‘‘بلکہ اس رشتہ میں تمیز کرکے ہمیشہ فرمایا ’’میرا باپ اور ’’تمہاراباپ‘‘(متی ۲۱:۷؛ ۱۴:۸؛ یوحنا۱۷:۲۰ وغیرہ)۔
میرا باپ اب تک کام کرتاہے اورمیں بھی کام کرتا ہوں ۔اس سبب سے یہودی اس کے قتل کی کو شش کرنے لگے کیونکہ وہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا (یوحنا ۱۷:۵)’’میں اور باپ ایک ہیں ‘‘(یوحنا ۳۰:۱۰)جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔ میں نور ہوکر آیا ہوں تا کہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے ‘‘(یوحنا ۴۵:۱۲)’’پیشتر اس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا میں ہوں‘‘ (یوحنا۵۸:۸) ۔اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیر ے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا ۔۔۔تو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی (یو حنا ۵:۱۷، ۲۴)۔راہ حق اور زندگی میں ہوں کو ئی میرے وسیلے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا (یوحنا۶:۱۴ )۔ پس اس باہمی تعلق ورفاقت کی بنا پر آپ نے فرمایا زندگی کی روٹی میں ہوں اگر کو ئی اس روٹی میں سے کھا ئے تو ابدتک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی میں جہاں کی زندگی کے لیے دوں گا وہ میرا گوشت ہے ‘‘(یوحنا ۵۱:۶) اگر کو ئی پیاسا ہوتو میرے پاس آکر پئے جو مجھ پر ایمان لائے گا اس کے اندر سے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی (یوحنا۳۸:۷) دروازہ میں ہوں اگر کو ئی مجھ سے داخل ہوتو نجات پائے گا (یوحنا ۹:۱۰)۔ جس طرح باپ مردوں کو اٹھا تا اور زندہ کرتا ہے اسی طرح بیٹا بھی جن کو چاہتا ہے زندہ کرتا ہے ۔۔۔وہ وقت اب ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اسی طرح اس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے بلکہ اسے عدالت کرنے کااختیار بھی بخشاہ ے‘‘(یوحنا۵باب)۔پس نوع انسانی کے مستقبل اور قوموں کی قسمت کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔’’دنیا کا نور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا‘‘(یوحنا ۱۲:۸) ۔قیامت اور زندگی میں ہوں جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ ررہے گا اور جو کوئی زندہ ہے وہ ابدتک کبھی نہ مرے گا(یوحنا۲۵:۱۱)۔
خداوند کے کلمات طیبات میں سے مذکورہ بالا چند اقتباسات جو کسی ایک انجیل میں سے نہیں بلکہ ہر چہاراناجیل میں سے لیے گئے ہیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ آنخداوند کے خیال مبارک میں آپ کی ذات آپ کے دین کی اساس ہے اور آپ کی شخصیت بے نظیر اور آپ کا پیغام عالمگیر ہے (یوحنا ۱۳: ۲) کسی اور مذہب کے بانی کے وہم وگمان میں بھی نہ آیا کہ اس قسم کے الفاظ اپنی ذات اور پیغام کی نسبت اپنے منہ سےنکالے ۔
جب ہم ان اہم ترین دعوؤں کو دیکھتے ہیں اور ان کے اندرونی معانی پر غور کرتے ہیں تو ورطہ (بھُلبلیاں،ایسی سر زمیں جس میں راستہ نہ ہو ) حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔قدرتی طور پر یہ سوال ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی محض انسان ضعیف البنیان (کمزور بنیاد) اس قسم کے دعوے کرسکتا ہے او راگر وہ محض انسان ہے تو کیا اس کے دماغ میں کوئی خلل واقع ہوگیا ہے ؟ اس قسم کے دعوے کوئی محض انسان نہیں کرسکتا اور اگر وہ کرتا ہے تو وہ صحیح الدماغ شخص نہیں ہے۔پس اس قسم کے دعوے کرنے والاانسان یا صحیح العقل شخص نہیں یاوہ محض انسان نہیں ہے ۔کوئی شخص جس کے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل ہے تو نہیں کہہ سکتا کہ کلمتہ اللہ نعوذباللہ پاگل تھے ۔پس نتیجہ ظاہر ہے کہ کلمتہ اللہ محض انسان نہ تھے بلکہ آپ کی ہستی انسانیت کی حدود میں رہ کر بھی انسانیت سے اعلیٰ ارفعٰ اور بلند وبالاتھی اور ذات خداوندی کا مظہر اور الہٰی ذات کا نقش تھی (عبرانیوں ۳:۱؛ ۲۔کرنتھیوں ۴:۴ وغیرہ)۔
جنابِ مسیح کے دعوے اور حوارئین کی تحریرات
(۱)
جنابِ مسیح کے دعووں کی بنا پر حضرت یوحنافرماتے ہیں کہ’’ابتدا میں کلمتہ الله تھااور یہی کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا ۔ یہی کلمہ ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ ساری چیزیں اس کے وسیلےسے پیدا ہوئیں۔ اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھا۔ جنہو ں نے اس کو قبول کیا اس نے ان کو خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا۔۔۔کلمہ مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جو صرف باپ کے اکلوتے کو ہی شایاں ہوسکتا ہے۔۔۔اس معموری میں سے ہم سب نے فضل پر فضل پایا۔ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی لیکن فضل اور سچائی مسیح کی معرفت پہنچی ۔ خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اسی نے ظاہر کیا‘‘(یوحنا۱:۱۔۱۸)۔ اس زندگی کے کلمہ کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جس کو ہم نے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ اسی ہمیشہ کی زندگی کی نسبت تم کو خبر دیتے ہیں جوباپ کے ساتھ تھی تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اورہماری شراکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے مسیح کے ساتھ ہے (۱۔یوحنا۱:۱) ’’خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مطلق فرماتا ہے کہ میں ہی ہوں‘‘(مکاشفہ۸:۱) ’’ذبح کیا ہوا برہ ہی قدرت اور دولت اور حکمت اور طاقت اور عزت اور تمجید کے لائق ہے ۔ جو تخت پر بیٹھا ہے اس کی اور برے کی حمد اور عزت اور تمجید اور سلطنت ابدالاآباد رہے‘‘(مکاشفہ ۱۳:۵) ’’برہ خداوندوں کا خداوند اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے‘‘(مکاشفہ۱۴:۱۷)’’ خدا کے روح کو تم اس طرح پہچان سکتے ہوکہ جو روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہوکر آیا ہے وہ روح خدا کی طرف سے ہے اور جوکوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں اوریہی دجال(مخالف ِ مسیح) کی روح ہے(۱۔یوحنا۲:۴) اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک شفیع موجود ہے یعنی یسوع مسیح جو نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کاکفارہ ہے بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی کفارہ ہے (۱۔یوحنا۲:۲) مسیح اس لئے ظاہر ہوا کہ گناہوں کو اٹھالے جائے اور اس کی ذات میں کوئی گناہ نہیں۔ جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ کوئی گناہ نہیں کرتا‘‘(۱۔یوحنا۵:۳) ’’خدا نے ہم کو ہمیشہ کی زندگی بخشی ہے اور یہ زندگی اس کے بیٹے میں ہے۔ جس کے پاس بیٹا ہے اس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس بیٹا نہیں اس کے پاس زندگی بھی نہیں (۱۔یوحنا۱۲:۵)۔
(۲)
یہی خیالات ہم کو باقی دوازدہ رسل(رسول کی جمع) کی تقریرات اور تحریرات میں ملتے ہیں۔ مثلاً ’’خدا کے اورجنابِ مسیح کے عبدیعقوب کی طرف سے ۔۔۔ہمارے خداوند ذوالجلال یسوع مسیح کا دین‘‘(یعقوب ۱:۱؛۲: ۱)’’ہمارے خدا اور منجی یسوع مسیح کی ابدی بادشاہت‘‘روح القدس میں دعا مانگ کے ۔۔۔خدا کی محبت میں قائم اورہمیشہ کی زندگی کے لئے جنابِ مسیح کی رحمت کے منتظر رہو‘‘( خط یہوداہ)۔اسی طرح جناب ِ مسیح کو خدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنےہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے‘‘(اعمال۳۱:۵) اس نے خدا کا جلال اور مسیح کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا‘‘(اعمال۵۵:۷) ۔’’ہمارے خدا اور منجی خداوند مسیح کی راستبازی‘‘(۲۔پطرس۱:۱)’’ بیٹا خدا کے جلال کا پرتو اور اس کی ذات کا نقش ہوکر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے وہ گناہوں کو دھوکر عالم بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔۔۔بیٹے کی بابت کہتا ہے کہ اے خدا تیرا تخت ابد الاآباد رہے گا اور تیری بادشاہت کا عصا راستی کا عصا ہے۔اے خداوند تونے ابتدا میں زمین کی نیو ڈالی اور آسمان تیرے ہاتھ کی کاریگری ہیں۔ وہ نیست ہوجائیں گے پر تو باقی رہے گا‘‘(عبرانیوں پہلا باب)۔ ’’بیٹے نے موت کے وسیلے سے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کردیا اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے ان کو چھڑالیا۔ ۔۔ اس نے آزمائش کی حالت میں دکھ اٹھایا۔ پس وہ ان کی بھی مدد کرسکتا ہے جن کی آزمائش ہوتی ہے‘‘(عبرانیوں ۱۴:۲۔۱۵) ۔’’ ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے خداوند مسیح کے نام پر بپتسہمہ لے‘‘(عبرانیوں ۲۸:۲) اس’’زندگی کے مالک’’ کے نام سے معجزات وقوع میں آتے تھے’’مسیح کے سوا کسی دوسرے کے وسیلے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے نیچے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں‘‘(اعمال۱۲:۴)۔ ’’یسوع کامل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے ابدی نجات کا باعث ہوا‘‘(عبرانیوں ۹:۵)۔ جو اس(یسوع) کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں وہ ان کوپوری اورکامل نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ ان کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے‘‘(عبرانیوں ۲۵:۷)۔
(۳)
حضرت پولوس کی تقریریں اور تحریریں انہی خیالات کا عکس ہیں جو ہم کو منجی عالمین کے کلمات طیبات اور آپ کے دوازدہ (۱۲)رسولوں کے کلام میں ملتے ہیں جن کا ذکرمشتے نمونہ ازخروارے(ڈھیر میں سے مُٹھی بھر،تھوڑے سے نمونے سے کل چیز کی اصلیت معلوم ہوجا تی ہے ۔) سطور ِبالا میں کیا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول مقبول فرماتا ہے’’ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ او رایک ہی خداوند ہے یعنی یسوع مسیح جس کے وسیلے سے ساری چیزیں موجود ہوئیں اور ہم بھی اسی کے وسیلے سے ہیں‘‘(۱۔کرنتھیوں ۶:۸)۔’’ مسیح یسوع وہ ہے جو مرگیا بلکہ مردوں میں سے جھی اٹھا اور خدا کی دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے‘‘(رومیوں ۳۴:۸)۔’’ مسیح یسوع اگر چہ خدا کی صورت پر تھا تاہم اس نے خدا کے برابر ہونے کو غنیمت نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔ خدا نے بھی اسے بہت سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھنٹا جھکے خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا خواہ ان کا جو زمین کے نیچے ہیں اور خدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے‘‘(فلپیوں ۶:۲۔۱۱)۔’’ بیٹے میں ہم کو گناہوں کی معافی حاصل ہے ۔وہ اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے موجود ہے کیونکہ اسی میں ساری چیزیں پیدا کی گئیں آسمان کی ہوں یا زمین کی، دیکھی ہوں یا اندیکھی، تخت ہوں یا ریاستیں ،حکومتیں یا اختیارات ساری چیزیں اسی کے وسیلے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں۔ وہ سب چیزوں سے پہلے ہے اور اسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں۔ وہی مبدا ہے ۔ اور باپ کو پسند آیا کہ ساری معموری اسی میں سکونت کرے‘‘(کلسیوں ۱۴:۱)’’ خداوند مسیح کے وسیلے سے ایمان کے سبب اس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی امیدپر فخر کریں‘‘(رومیوں۵:۲)۔ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی نعمت اور بخشش ہمارے خداوند مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے‘‘(رومیوں ۲۳:۶)۔’’ تم خداوند مسیح کے نام سے ہمارے خدا کی روح سے دھل گئے اور پاک ہوئے اور راستبازی بھی ٹھہرے‘‘(۱۔کرنتھیوں۱۱:۶)۔ ’’خدا کاشکر ہے جو ہمارے خداوند مسیح کے وسیلے سے ہم کو گناہ اور موت پر فتح بخشتا ہے‘‘ (۱۔کرنتھیوں۵۷:۱۵)۔’’مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہوجائے خواہ وہ آسمان کی ہوں۔خواہ زمین کی ،تمہارے دل کی آنکھیں روشن ہوجائیں تاکہ تم کو معلوم ہوکہ ایمان لانے والوں کے لئے اس کی قدرت کیا ہی بے حد ہے ۔اس کی بڑی قوت کی تاثیر کے موافق جو اس نے مسیح میں کی ‘‘۔’’خدا نے اپنے رحم کی دولت سے اس بڑی محبت کے سبب جو اس نے ہم سے کی جب ہم قصوروں کے سبب مردہ ہی تھے تو ہم مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔ تم کو فضل ہی سے نجات ملی ہے مسیح نے تم کو جو دور تھے اور ان کو جو نزدیک تھے دونوں کو صلح کی خوشخبری دی کیونکہ اس ہی کے وسیلے سے ہم دونوں کی ایک ہی روح میں باپ کے پاس رسائی ہوتی ہے۔ پس اب تم پردیسی اور مسافر نہیں رہے بلکہ مقدسوں کے ہم وطن اور خدا کے گھرانے کے ہوگئے ‘‘(افسیوں ۱۹:۲)’’ یہ بات حق اور قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح گناہ گاروں کے بچانے کے لئے اس دنیا میں آیا‘‘(۱۔تیمتھیس۱۵:۱)۔’’ اس نیو کے سوا جو پڑی ہوئی ہے اور وہ خداوند مسیح ہے کوئی شخص دوسری نیو نہیں رکھ سکتا‘‘(۱۔کرنتھیوں۱۱:۳)’’ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے پرانی چیزیں جاتی رہیں دیکھو وہ نئی ہوگئیں اور خدا نے مسیح کے وسیلے اپنے ساتھ دنیا کا میل میلاپ کرلیا اور ان کی تقصیروں کو ان کے ذمہ نہ لگایا‘‘(۲۔کرنتھیوں ۱۸:۵)۔’’ میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور میں جو اب جسم کی زندگی گزارتاہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گًذارتا ہوں‘‘(گلتیوں۲۰:۲)’’ مسیح جو جلال کی امید ہے تم میں رہتا ہے‘‘(کلسیوں۲۷:۱)’’ الوہیت کی ساری معموری مسیح میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے اور تم اسی میں معمور ہو گئے ہو جو ساری حکومت اور اختیار کا سر ہے‘‘(کلسیوں۹:۲)۔’’ تمہاری زندگی مسیح کے ساتھ چھپی ہوئی ہے جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گا تو تم بھی اس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جاؤگے۔۔۔مسیح سب کچھ اور سب میں ہے‘‘(کلسیوں۳:۳)۔’’ جس پر میں نے بھروسہ رکھا ہے میں اس کو جانتا ہو ں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی اس دن تک حفاظت کرسکتا ہے‘‘(۲۔تیمتھیس۱۲:۱)۔
مندرجہ بالا اقتباسات کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ پولوس رسول کے خیال میں جنابِ مسیح کی شخصیت لاثانی ،بے عدیل ،عالم گیر اور جامع شخصیت ہے ۔ جنابِ مسیح کا ئنات کا مرکز ،ابن اللہ اور خدا ہے جو ہماری خاطر انسان بنا تاکہ ہمارا ملاپ خدا کے ساتھ ہوجائے ۔آپ کی ذات پاک آپ کی پیدائش دنیا جہاں سے نرالی ،آپ کا پیغام سب سے اعلیٰ ہے ۔ روحانیت کے مدارج ومنازل میں آپ کو وہ درجہ حاصل ہے جو کسی دوسرے انسان ضعیف البینان(کمزور بنیاد) کو حاصل نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے ۔ آپ آدم ثانی اور نئی انسانیت کے بانی ہیں۔آپ کی موت اور ظفریاب قیامت نے بنی نوع انسان کو زندہ کردیا۔ آپ کا جلال الوہیت کاعکس اورانسانیت کا کمال اور آپ کی معموری ہر طرح سے سب کو معمور کردینے والی ہےاور الہٰی ارادہ کے مطابق اس کائنات کا’’انتظام ایسا ہوا کہ‘‘ مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہوجائے ۔خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی’’ اور آپ کو’’وہ نام بخشا گیا جو سب نامو ں سے اعلیٰ ہے تاکہ آپ کے نام پر ہر گھٹنا ٹکے اور ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے ‘‘(اعمال ۱۲:۴)۔
(۴)
سطور بالا سے ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ انجیل جلیل کی تمام کتب کی یہ متفقہ شہادت ہے ( جس کے خلاف تمام انجیل میں کوئی صدا نہیں اٹھتی )کہ جناب ِ مسیح کی شخصیت ایک جامع ،بے نظیر اور عالم گیر ہستی ہے۔ آپ کے دوازدہ رسولوں کی شہادت نہایت اہم ہے کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے مولا کی بابت لکھتے ہیں’’زندگی کلام تھا ۔ جس کو ہم نے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوآ۔ جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے تم کو بھی اس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو‘‘(۱۔یوحنا۱:۱)۔ یہ ان لوگوں کی گواہی ہے جنہو ں نے’’شروع ہی سے‘‘(لوقا۲:۱)’’ آپ اقوال وافعال ،رفتار وگفتار ،نشست وبرخاست ،مذاق طبعیت ،طر ز زندگی ،انداز گفتگو ،طریق معاشرت ،کھانا پینا ، سونا جاگنا،ہنسنا بولنا وغیرہ دیکھا تھا جو آپ کی آزمائیش میں برابر آپ کے ساتھ رہے‘‘(لوقا۲۸:۲۲)’’ جب ایسے لوگ آپ کی نسبت ہم آواز ہوکر کہیں کہ’’ جس نے آپ کو دیکھا اس نے خدا کو دیکھا۔ کہ آپ کی شخصیت کو انسانوں کےد رمیان وہ درجہ حاصل ہے جو لاثانی ہے اور ایسا اعلیٰ اور ارفع ہے کہ کوئی خاکی انسان وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو ہم کو سر ِ تسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا۔
جنابِ عیسیٰ مسیح نو ع انسانی کےدرمیانی ہیں
مسیحیت کا یہ عقیدہ ہے کہ ابن اللہ خدا اور نوع انسانی کے بیچ میں ایک درمیانی ہے۔ چنانچہ مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ’’ خدا ایک ہے اور خدا اور بنی نوع انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک ہی ہے یعنی خداوند مسیح جو انسان ہے‘‘(۱۔تیمتھیس۵:۲؛ رومیوں ۸:۱؛ ۲۳:۶؛ ۳۴:۸؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۱:۶؛ ۵۷:۱۵؛ افسیوں ۱۳:۲۔۱۸؛ ۱۲:۳؛ ۲۰:۵؛ کلسیوں۱۷:۳ وغیرہ)۔
(۱)
لفظ"درمیانی’’ایک ذومعنی (دو معنوں والا،وہ بات جس میں کئی معنی نکلتے ہیں)لفظ ہے اور مختلف مذاہب اور خیالات کے اشخاص اس کا مطلب مختلف طور پر سمجھتے ہیں۔
اگر اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ خدا ایک ایسی بلندوبالا اور برترہستی ہے جس تک انسان کی رسائی نا ممکن ہے پس خدا اور انسان کے درمیان ایک’’درمیانی‘‘ کے وجود کاہونا لازم ہے تو مسیحیت اس معنی میں’’درمیانی’’کی ہر گز قائل نہیں۔ کیونکہ اس مفہوم کے مطابق خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی وسیع خلیج حائل ہے جس کو عبور کرنا ایک ناممکن امر ہے ۔مسیحیت نے ابتدا ہی سے اس قسم کے خیالات کو بدعت قرار دے کر مردود ٹھہرایا۔
جو لوگ مثلا ً مسلمان اس قسم کے خیالات کے پابند ہیں وہ اپنے اپنے خیال کے مطابق خدا کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خدا ایک مطلق العنان بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے اور جس طرح ایک دنیاوی شہنشاہ کے دربار میں کسی غریب کی رسائی بجز کسی درمیانی کے نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خدائے بلند وبرتر کا مقام ایسا رفیع اور عالی ہے کہ اس کے حضور تک کسی محض انسان کی رسائی بغیر کسی درمیانی کے نہیں ہوسکتی لیکن مسیحیت خدا کے ایسے تصور کے کلتیہً خلاف ہے ۔ اس کا مقولہ بالفاظِ حافظ شیرازی یہ ہے ۔
ہر کہ خواہد گوبیاوہر کہ خواہد گوبرو
گیر دوار وحاجب ودرباں دریں درگا ونیست
مسیحیت کا بنیادی اصول جس پر اس کے تمام معتقدات کاانحصار ہے یہ ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے (متی۴۵:۵)۔ جس کی ذات محبت ہے (۱۔یوحنا۸:۴) پس خدا کی ذات میں اور انسان کی ذات میں کوئی خلیج حائل نہیں ہوسکتی اور نہ ان میں کسی قسم کی مغائرت (اجنبیت)ہے ۔ کتاب مقدس کا ابتدائی سبق یہ ہے کہ’’خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا (پیدائش۲۷:۱) اور اس کا انتہائی سبق یہ ہے کہ’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی‘‘(یوحنا۱۶:۳)کہ قوت متخیلہ اس الہٰی محبت کی لمبائی او ر چوڑائی ،اونچائی اور گہرائی کاتصور باندھنے سے عاجز ہے(افسیوں ۱۸:۳)۔ ایسی تعلیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان اجنبیت اور مغائرت کی بجائے محبت کا رشتہ تعلق اور رفاقت ہو سکتاہے(۱۔یوحنا۴باب) اس اصول کی روشنی میں یہ ظاہر ہے کہ مسیحیت کسی ایسے درمیانی کی قائل نہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ دو کلیتہ ً مختلف اور متضاد ہستیوں کو یکجا کرنے کا وسیلہ بنے(گلتیوں ۱۹:۳؛ رومیوں ۲۴:۳؛۸:۵)۔
(۲)
لیکن اگر لفظ’’درمیانی’’ کا مطلب’’وسیلہ ‘’ ہو تو مسیحیت صرف مکاشفہ کے مطلب میں قائل ہے ۔ میں اپنے مطلب کو ایک عام فہم مثال سے سمجھاتا ہوں۔ناظرین کتاب کو میرے خیالات کا جو میرے ذہن میں ہیں کس طرح پتہ چل سکتا ہے ؟یہ ظاہر ہے کہ میں خاموش رہوں تو وہ میرے خیالات سے واقف نہیں ہوسکتے ۔چنانچہ شیخ سعدی شیرازی کہہ گئے ہیں۔
چومرد سخن نگفتہ باشد
عیب وہنر ش نہفتہ باشد
پس الفاظ ہی ایک واحد وسیلہ ہے جن کے ذریعہ میرے خیالات کا اظہار ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے پوشیدہ جذبات کا اظہار صرف ہمارے افعال کے وسیلے سے ہوسکتا ہے ۔ اگر ہم حرکات پر کامل طور پر ضبط رکھ سکیں اور اپنے چہرے کی جنبش، لبوں کی حرکت اور اپنے جسم کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔ تو کوئی شخص ہمارے دل کے اندرونی جذبات سے واقف نہیں ہوسکتا ۔ پس ہماری نشست وبرخاست حرکات وسکنات ہماری رفتار وگفتار ہمارے الفاظ وکلمات ہمارے اعمال وکردار ہی ایک اکیلا وسیلہ ہیں جن کے ذریعہ ہمارے خیالات واحساسات اور جذبات کا غرضیکہ ہمارے اندرونی دنیا کا اظہار بیرونی دنیا کے چلنے پھرنے والوں پر ہوسکتا ہے ۔ ہمارے الفاظ اور افعال ایک’’درمیانی’’ کا فرض انجام دیتے ہیں۔ جو ہمارے اندرونی خیالات جذبات کی دنیا کو بیرونی دنیا پر ظاہر کردیتے ہیں۔
بعینہ ان معنوں میں مسیحیت یہ مانتی ہے کہ جنابِ مسیح ایک واحد وسیلہ ہیں جن کے ذریعہ ہم خدا کے خیالات جذبات اور اس کی ذات سے واقف ہوسکتے ہیں۔جس طرح کلام کے ذریعہ ہم کسی شخص کے دل کے خیالات سے واقف ہوسکتے ہیں اسی طرح ہم جنابِ مسیح کے وسیلے خدا کے دل کے خیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو کلمتہ اللہ کہا گیا ہے(یوحنا۱:۱؛ مکاشفہ۱۳:۱۹)۔ جس طرح ہمارے افعال ہماری ذات کو ظاہر کرتے ہیں اسی طرح خداوند مسیح کے افعال خدا کی ذات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو خدا کا مظہر کہا گیا ہے(عبرانیوں۳:۱)۔ جس طرح الفاظ اورکلام کے بغیر ہم کسی انسان کے خیالات سے واقف نہیں ہوسکتے اسی طرح مسیح کلمتہ اللہ کے بغیر ہم خدا کے خیالات سے بھی واقف نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح انسان کے افعال کے بغیر ہم اس کی مرضی کو نہیں جان سکتے اسی طرح مسیح مظہر الله کے بغیر ہم خدا کی مرضی کو بھی نہیں جان سکتے ۔مسیحیت کہتی ہے کہ اے لوگوکیا تم خدا کی ذات وصفات اور اس کی محبت سے واقف ہونا چاہتے ہو؟ جناب ِ مسیح کے اقوال وافعال آپ کے احساسات وجذبات آپ کی نشست وبرخاست آپ کی رفتار وگفتار غرض یہ کہ آپ کی ایک ایک ادا کو دیکھ لوتو تم نے خدا کی ذات وصفات کو دیکھ لیا ۔ خداوند مسیح کی ذات ایک آئینہ ہے جس میں ہم کو خدا کی ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے ۔ وہ’’ خدا کے جلال کا پر تو اور اس کی ذات کا نقش ہے‘‘(عبرانیوں۳:۱) خدا کو کسی نہ نہیں دیکھا‘‘۔کیونکہ ظاہری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں لیکن اگر کوئی انسان خدا کو دیکھنے کا خواہش مند ہے تووہ مسیح کلمتہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے(یوحنا۱۸:۱؛۹:۱۴)۔ کیونکہ خداوند مسیح میں انسانیت کا کمال ظہور پذیر ہوا اور الوہیت کی ساری معموری اس انسان ِکامل میں ہم کو نظر آتی ہے(کلسیوں۹:۲)۔
لایا ہے مرا شوق مجھے پردہ سے باہر میں
ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
(میر)
الوہیت کی صفات کو ہم کامل انسانیت اور صرف کامل انسانیت کے ذریعہ ہی جان سکتے ہیں(۱۔تیمتھیس۵:۲)سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ کامل انسان نہ ہوتا تو ہم خدا کو بھی نہ جان سکتے ۔ پس مسیحیت ایک اور صرف ایک واحد وسیلہ یعنی خداوند مسیح کی قائل ہے۔ جس کے وسیلہ بنی نوع انسان خدا کو جان سکتے ہیں(اعمال۱۲:۴)۔
(۳)
پس اگر کوئی یہ سوال کرے کہ خداوند مسیح نے خدا کو کس طرح ظاہر کیا ہے ؟تو مسیحیت اس کا یہ جواب دیتی ہے کہ جنابِ مسیح نے اپنی تعلیم ،زندگی اور موت اور قیامت کے ذریعہ خدا کی ذات اور ابوت کو اس کی محبت اور اس محبت کے ایثار کو بنی نوع انسان پر ظاہر کیا ہے ۔
اول۔جنابِ مسیح کی تعلیم نے لاثانی طور پر ہم کو خدا کا عرفان اور علم بخشا ہے۔یہ تعلیم صرف چند ہزار الفاظ پر مشتمل ہے جو معمولی پڑھا لکھا شخص دوتین گھنٹوں کے اندر بخوبی پڑ ھ سکتا ہے ۔لیکن ان چند ہزار الفاظ نے دنیا کی کایا پلٹ دی ہے اور دو ہزار سال سے مشرق ومغرب کے صدہا ممالک کی ہزار ہا اقوام کے لاکھوں کروڑوں انسان خدا کی محبت کو جان گئے ہیں۔
دوم۔خداوند مسیح نے نہ صرف اپنی تعلیم سے خدا کو ہم پر ظاہر کیا ہے بلکہ آپ نے اپنی تعلیم پر عمل کرکے بے عدیل زندگی اور ایثار سے خدا کی محبت کو بنی نوع انسان پر ظاہر کیا ہے ۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کے لئے وقف کردیا تھاکہ گناہ گاروں کونہ صرف پندو نصیحت کی جائے بلکہ ان کی تلاش کی جائے (لوقا۱۰:۹)۔ جس طرح خدا گناہ گاروں کی تلاش کرتا ہے (لوقا۴:۱۵)۔ ان کے مذہبی پیشوا ان کو ان کے پیشہ اور افعال کے وجہ سے اچھوت گرادنتے تھے(لوقا۲:۱۵) اور خداوند مسیح کو ازروئے طعنہ کہتے تھے کہ وہ’’گناہ گاروں کا یار‘‘ ہے(متی۱۹:۱۱) لیکن دشمنوں کا یہ طعنہ در حقیقت جناب ِ مسیح کا بہترین خطاب ہے کیونکہ خدا گناہ گاروں سے محبت رکھتا ہے(یوحنا۱۶:۳) اور آپ کی زندگی خدا کے دل کے جذبات کی بہترین ترجمان تھی۔ پس آ پ نے اپنی زندگی کو گناہ گاروں پر خدا کی ازلی محبت کے ظاہر کرنے کی خاطر وقف کردیا۔
ہے خدا نور ِ محبت مظہر اس کا ہے مسیح
ہم کو حق نے اپنی صورت اور دکھلائی نہیں
(واعظ)
جنابِ مسیح کی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو تم کو معلوم ہوجائے گاکہ آپ کی زندگی کے تمام کے تمام واقعات خدا کی محبت اور اس کے رحم اور ترس کا اظہار ہیں۔ اگر جنابِ مسیح کو راہ میں کوڑھی مل گئے تو اہل یہود کے مذہبی پیشواؤں کی طرح ان اچھوت قرار دے کر آپ نے ان سے کنارہ کشی نہ کی بلکہ ان کو چھوکر شفا بخشی (مرقس ۴۰:۱) ۔اگر کوئی مفلوج ،اندھے ،گونگے ،بہرے ،اپاہج ، دیوانے بیمار لاچار گناہ گار مل گئے تو آپ نے خدا کی محبت کو ان پر ظاہر کیا اور ان کو شفا بخشی(مرقس۳۴:۱؛ متی ۱۵:۱۲؛ ۵۴:۱۱) آپ کمزوروں کے حامی ، بیکسوں کے ہمدرد لاچاروں کے مدد گار گناہ گاروں کے یار غمزدوں کے غمخوار ۔مصیبت زدوں کے غم گسار(ہمدرد) تھے۔ غرض یہ کہ آپ الہٰی محبت کا مجسمہ تھے اور ہر درجے اور ہر حالت کے انسانوں پر ہر وقت خدا کی لازوال محبت کو ظاہر کرنے کا وسیلہ تھے(مرقس ۲۸:۱)۔
سوم۔ جناب ِ مسیح نے نہ صرف اپنی لاثانی تعلیم اور بےعدیل زندگی کے ذریعہ خدا کی محبت کو ظاہر کرنے کا وسیلہ بنے بلکہ آپ نے اپنی بے نظیر موت سے خدا کی محبت کو بنی نوع انسان پر ظاہر کردیا۔ آپ کی زندگی خدمت ، ایثار اور قربانی کی زندگی تھی ۔ آپ نے اس حقیقت کو (جو آپ کی تعلیم کالب لبا ب ہے )اپنی زندگی سے ظاہر کردیاکہ دوسروں کی خاطر دکھ اٹھانا درحقیقت محبت کا بہترین اظہار ہے(متی۲۸:۲۰) آپ نے دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کردیاکہ قربانی اور محبت ایک ہی شئے کہ دو مختلف پہلو ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کی خاطر ہر طرح کی اذیت اور دکھ جھیلنے کو تیا رہوتا ہے(یوحنا۱۳:۱۵) جس طرح ماں اپنے بچے کی خاطر یا ایک صادق محبِ وطن اپنے وطن کی خاطر محبت کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے اور اپنے آپ کو قربان کردیتا ہے ۔ابن اللہ کی صلیبی موت خدا کی محبت کا بہترین مکاشفہ ہے کیونکہ اس موت نے دنیا پر اس حقیقت کو اعلیٰ ترین طریقہ پر ظاہر کردیا ہے کہ محبت کا تاج اپنی جان کی قربانی اور ایثارِ نفس ہے(افسیوں۲:۵؛ ۲۵:۵) ۔پس کوہ ِکلوری پرخداوند مسیح کی صلیبی موت کے وسیلے ہم انسانی محبت کے کمال اور الہٰی محبت کی تڑپ اور ایثار کی جھلک کا نظارہ دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ قربانی اور ایثار کا ایک مقصد ضرور ہوتا ہے ۔ قربانی اور ایثار کے ذریعہ ہم اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو محبت کی علت غائی ہوتی ہے ۔مثلاً ایک صادق محب وطن بے عزتی ،اذیت ،تشدد ،قید وغیرہ کی برداشت کرتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کے وسیلے اس کا وطن غیروں کی غلامی سے نجات اور مخلصی پائے اور آزادی حاصل کرکے ایک نئی زندگی کا دور شروع کرے۔اسی طرح خداوند مسیح کی قربانی اور ایثار اور صلیبی موت کی اذیت کا مقصد یہ ہے کہ اس قربانی کے وسیلے نوع انسانی شیطان اور گناہ کی غلامی سے نجات اور مخلصی پائے اور آزادی حاصل کرکے ایک نئی زندگی کا دور شروع کرے ۔ میں اس نکتہ کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں (لوقا ۱۵باب) کی تمثیل سے ظاہر ہے ۔کہ اگر کسی نیک ماں یا صالح باپ کا بیٹا بُری صحبتوں میں پڑجائے اور اپنی زندگی اور دولت شراب خواری ،بد چلنی اور عیاشی میں ضائع کردے تو جتنی زیادہ محبت ماں باپ اپنے بیٹے سے کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ دکھ اور صدمہ ان کے دلوں کو ہوگا۔ اسی طرح خداباپ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے اس کوبے حد دکھ اور صدمہ ان کے دلوں کو ہوتا ہے ۔اسی طرح خد ا باپ ہم سے لامحدود محبت رکھتا ہے اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے اس کو بے حد دکھ اور رنج وصدمہ ہوتا ہے ۔ جس طرح ماں کی مامتا چاہتی ہے اس کا بد چلن بیٹا تائب ہوکر نئی زندگی بسر کرے ۔ اسی طرح خدا کی محبت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ گناہ گار انسان تائب ہوکر نئی زندگی بسر کرے۔ جس طرح بیٹا یہ محسوس کرکے کہ اس کی بد چلنی کی وجہ سے باپ کے محبت بھرےدل کو صدمہ پہنچا ہے ۔اپنی بدی سے پشیمان ہوکر باپ کے پاس واپس آتا ہے اسی طرح گناہ گار یہ محسوس کرتا ہے کہ انسان کے تکبر، خود غرضی ،دشمنی، عناد اور گناہ نے مسیح کو مصلوب کیا تھا اور وہ خود اپنے اندر بعینہ وہی گناہ دیکھتا ہے جن کی وجہ سے مسیح مصلوب کیا گیا ۔ پس وہ جنابِ مسیح کی قربانی اور اذیت کو دیکھ کر اپنی بدی سے پشیمان ہوکر کہتا ہے کہ’’ میں اٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس کو کہوں گا کہ اے باپ میں نے تیری نظر میں گناہ کیا ہے اور اب اس لائق نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلاؤں‘‘(لوقا۱۸:۱۵)۔ جس طرح باپ اپنی محبت کی وجہ سے اپنے تائب بیٹے کو قبول کرکے شادمان ہوتا ہے اسی طرح’’ایک توبہ کرنے والے گناہ گار کی بابت آسمان پر خوشی ہوتی‘‘(لوقا۱۷:۱۵)۔ جس طرح باپ کے تعلقات اپنے تائب بیٹے سے از سر نو ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ اس کی گزشتہ بد چلنی کو دل سے مٹا دیتا ہے اور اپنے سرمایہ کی دولت سے اس کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے اسی طرح خدا باپ کے تعلقات تائب انسان سے از سر نوایسے ہوجاتے ہیں کہ خدا اس کی گناہ گاری کو مٹا دیتا ہے(رومیوں۲۵:۳) اور اپنے بے قیاس فضل کی دولت سے اس کو قابل کردیتا ہے کہ وہ روحانی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور نئی زندگی بسر کرسکے(رومیوں ۲۰:۵۔۲۱) غرض یہ کہ جس طر ح ماں یاباپ کے دل کا دکھ بیٹے کی بحالی کا وسیلہ ہوتا ہے اسی طرح خداوند مسیح کی ایثار بھری زندگی اور صلیبی موت گناہ گار انسان کی بحالی کا وسیلہ ہوجاتی ہے(۲۔کرنتھیوں۱۸:۵؛ عبرانیوں ۱۴:۹)۔
چہارم۔ نہ صرف خداوند مسیح کی بے نظیر تعلیم ، لاثانی زندگی اور صلیبی موت خدا کی محبت کے اظہار کا وسیلہ ہیں بلکہ آپ کی ظفریاب قیامت بھی خدا کی ذات کو ہم پر ظاہر کرتی ہے ۔ انسانی تکبر ،خود غرضی ، دشمنی اور گناہ نے جنابِ مسیح کو مصلوب کروایا تھا ۔لیکن آپ کی ظفر مند قیامت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بدی کی طاقتیں نیکی کو کبھی مغلوب نہیں کرسکتیں ۔ کہ نیکی بالا آخر تمام رکاوٹوں اور شیطانی قوتوں پر غالب ہوکر رہے گی ۔ گناہ کا غلبہ اور بدی کا تسلط عارضی اور چند روزہ ہے۔ خواہ یہ تسلط ہمارے دل پر ہو ، خواہ بیرونی دنیا پر ہو اور کہ خدا کی محبت اس بات قادر ہے کہ وہ بدی اور گناہ کو زائل کردے(یسعیاہ۱۱:۴۶؛ رومیوں۶ باب)۔
(۴)
پس مسیحیت کے مطابق جناب ِ مسیح صرف اس معنی میں درمیانی ہیں۔ آپ کے ذریعے نوع انسان کو خدا کا حقیقی عرفان اور اس کی ذات کا صحیح علم حاصل ہوا ہے ۔ کلمتہ الله کی تعلیم آپ کی لاثانی زندگی ، آپ کی بے نظیر قربانی اور موت اور آپ کی ظفر یاب قیامت آپ کی لازوال محبت اوراس کے ازلی مقصد کو بعینہ اسی طرح ظاہر کردیتی ہیں جس طرح اقوال وافعال ہمارے دلوں کے خیالات وجذبات کوظاہر کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک تواریخی حقیقت ہےکہ خداوندمسیح کی تعلیم ، زندگی موت اور قیامت کے بغیر خدا کی ذات اور اس کی محبت کو جس طور پر ہم اب جانتے ہیں ہر گز نہ جان سکتے کہ تائب ہوکر اپنے گناہوں سے اس طور پر پشیمان ہوسکتے کیونکہ خداوند مسیح کی ایثار محبت اور صلیبی موت توبہ کی بہترین محرک ہیں۔ آپ کی موت کے بغیر نہ تو ہم کو اپنے گناہوں کا یقین ہوتا ۔ نہ ہم کواس طور پر پشیمان ہوسکتے ۔کیونکہ خداوند مسیح کی ایثار بھری زندگی اور قربانی اور صلیبی موت توبہ کی بہترین محرک ہیں ۔ آپ کی موت کے بغیر نہ تو ہم کو خداکی اتھا ہ محبت کا علم ہوتا ۔نہ ہم کو اس محبت کی غایت اور مقصد کا پتہ چلتا اور نہ ہم کو اپنے گناہوں کی مغفرت کا یقین آتااور نہ آپ کی ظفر یا ب قیامت کے بغیر اس بات کا یقینی علم ہوتا کہ نیکی بدی کی طاقتوں پر ضر ور بالضرور غالب ہوکر رہتی ہے اور کہ انسان اس ابدی زندگی کو حاصل کرسکتا ہے جو زماں ومکان کی قیود سے بالا ہے اور خداکی رفاقت کا دوسرانام ہے ۔
مسیح خدا کا مظہر
خداکل کائنات کا خالق ہے ۔مخلوقات پر نظر کرکے ہم کو کسی حد تک خالق کی ذات وصفات کا پتہ چلتا ہے پس خدا نے فطرت اور مادی دنیا کے ذریعہ نوع انسانی کو ایک حد تک اپنا علم اور مکاشفہ کا ظہور عطا کیا ہے ۔ چنانچہ ایک صاحب نے کہاکہ ’’عالم ہمہ مرات جمال ازلی است ‘‘یعنی دنیا ازلی جمالی کا نظارہ ہے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ بھی کہہ گئے ہیں ؎
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورق دفتر یست ازمعرفت کردگار
کتب سماوی سے بھی ہم کو یہ پتہ چلتا ہے ۔کہ بعض اوقات خداخاص طور پر مادی اشیا کو اپنے ظہور کا وسیلہ بناتا ہے ۔چنانچہ خروج کی کتاب میں لکھا ہے کہ خدا ایک جھاڑی میں آگ کے شعلہ کی صور ت میں حضرت موسیٰ پر ظاہر ہوا اور خدانے اس کو جھاڑی میں سے پکار ا اور کہا اپنے پاؤں سے جوتا اتار کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ (ظہور خاص کے سبب سے )پاک اور مقدس زمیں ہے ۔میں تیرے باپ ابراہام کا خدا ہوں (خروج۱:۳۔۶)۔ قرآن میں بھی تورات کے الفاظ وارد ہوئےہیں ’’جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچا تو میدان کے دائیں کنارے مقدس جگہ میں جھاڑی سے یہ آواز آئی کہ اے موسیٰ میں رب العالمین ہوں (قصص آیت۳۰ ) پر لکھا ہے ’’یہ آواز دی گئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے اور اس کے آس پاس ہے ‘‘(سورہ نحل آیت ۳)۔
خدانے نہ صرف جھاڑی کے شعلہ میں اپنا ظہور اور جلوہ دکھایا بلکہ اس نے اپنا جلال موسیٰ اور بنی اسرائیل پر ’’دن کے وقت بادل کے ستون میں ‘‘اور رات کے وقت آگ کے ستون میں ‘‘ظاہر کیا (خروج ۲۱:۱۳۔۲۲؛ ۹:۱۹) خدا نے موسیٰ کو اور بنی اسرائیل کو کوہ سینا پر اپنا جلال دکھایا ’’جب صبح ہوتے ہی بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کانپ گئے ۔کوہ سینا اور سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہوکر اترا اور سارا پہاڑ ہل گیا ‘‘(خروج۱۶:۱۹۔۲۰) جب حضرت موسیٰ نے خیمہ کھڑا کیا تو ’’ ابر کا ستون اتر کر خیمہ کے دروازہ پر ٹھہر ا رہتا اور خداوند موسیٰ سے باتیں کرنے لگتا اور سب لوگ اپنے ڈیروں کے دروازے پر خداکو سجدہ کرتے جیسے کو ئی شخص اپنے دوست سے باتیں کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہوکر موسیٰ سےباتیں کرتا تھا (خروج ۱۰:۳۳۔۱۱) جب موسیٰ نے کہا تو مجھے اپنا جلال دکھا تو خدا نے کہا تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان میرا چہرہ دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا ۔تب خداوند اس کے آگے سے یہ پکارتا ہوا گذرا ’’خداوندخدائے رحیم اور مہربان ہے ۔قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی ہے ۔ہزاروں پر فضل کرنے والا گناہ اور تقصیر وخطا کا بخشنے والاہے (خروج۱۷:۳۳تا ۳۴: ۹)۔
خدانے نہ صرف مادی اشیا کے ذریعہ اپنے جلال کا جلوہ دکھایا بلکہ اس نے اپنے انبیا کے ذریعہ اور انبیا کی روشن شرائع کے ذریعہ بھی اپنی ذات پاک کا اظہار کیا چنانچہ عبرانیوں کے خط کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اس زمانہ کے آخر میں ہم سے اپنے بیٹے کی معرفت کلام کیا ۔اس نے اپنے ابن کو سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور اس کے وسیلے اس نے عالم بھی خلق کئے ‘‘(عبرانیوں۱:۱۔۲)۔پس خدا کا نہ صرف اشیا ئے فطرت میں اور صحائف انبیا میں ظہور ہوا بلکہ اس کے ظہور کا جلال کا آخری معراج ابن اللہ میں ہوا جو ’’خدا کے جلال کا پر تو اور اس کی ذات کا نقش ہو کر اپنی قدرت کے کلام سے سب چیزوں کو سنبھالتا ہے ‘‘(عبرانیوں۱: ۳)۔
کلام مجسم ہوا
(۱)
ہم نے سطور بالا میں بتلایا ہے کہ اشیا نے فطرت میں خدا کا ظہور ہے اور ہر قدرتی شے خدا کا جلال ظاہر کرتی ہے۔چنانچہ زبور شریف میں ہے آسمان خداکا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اس کی دستکاری دکھاتی ہے۔ دن دن سے باتیں کرتا ہے اور رات رات کو حکمت سکھاتی ہے گو ان کی آواز سنائی دیتی ہے تاہم ان کا سر ساری زمین پر اور ان کا کلام دنیا کی انتہاتک پہنچتا ہے۔خداجلوہ گر ہوا ہے ۔آسمان اس کی صداقت بیان کرتا ہے خدانور کو پوشاک کی طرح پہنتا ہے اور آسمان کو سائبان کی طرح تانتا ہے ۔وہ بادلوں کو رتھ بناتا ہے اور ہواؤں اور آگ کے شعلوں کو اپنا خادم بناتا ہے۔ اس نے زمین کو قائم کیا اور اس کو سمندر سے چھپایا پہاڑ بھر آئے ۔وادیا ں بیٹھ گئیں ۔وہ وادیوں میں چشمے جاری کرتا ہے ۔اس کی صنعتوں کے پھل سے زمین آسودہ ہے وہ زمین سے خوراک پیدا کرتا ہے ۔اس نے چاند اور سورج کو وقت اور زمانوں کے امتیاز کے لئے مقر ر کیا ۔موسم بہار میں وہ روئے زمین کو نیا بنا دیتا ہے ۔اے خداوند تیری صنعتیں کیسی بے شمار ہیں ۔تونے سب کچھ حکمت سے بنایا ۔خداوند کا جلال ابدتک رہے (زبور۱۰۴:۱۹)۔مقدس پولوس بھی لکھتا ہے ’’خد ا کی اندیکھی صفات اس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہے ‘‘(رومیوں۲۰:۱)۔پس خداکی قدرت اور الوہیت کا اشیائے فطرت اور اجرام فلکی وغیر ہ کے ذریعہ علم اور معرفت حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں الوہیت کاظہور ہے ۔
لیکن خدا کی معرفت کا اور اس کی الوہیت کا ظہور اشیائے فطرت اور اجرام فلکی سے بھی بڑھ کر خدا کے نبیوں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہم پر ہوتا ہے کیونکہ انبیا اور صحائف انبیا ہم کو نہ صرف کائنات کے خالق کا پتہ دیتے ہیں بلکہ خدا کی بادشاہی اور حکمرانی کا اور رضائے الہٰی کا بھی پتہ دیتے ہیں اور ہم کو بتلاتے ہیں کہ رضائے الہٰی اٹل ہے اور اس کے قوانین نہ صرف فطرت میں جاری ہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی دنیا میں بھی ساری ہیں اور کوئی شخص یا قوم یا ملک ان اٹل فطری اخلاقی اور روحانی قوانین کو بغیر نتائج بھگتے نہیں توڑ سکتا جس قوم نے اپنی راہوں کو ان قوانین کے مطابق درست کیا وہ عروج کو پہنچ گئی لیکن جس قوم کی راستبازی کے قوانین کو توڑا اور خود سری کرکے اپنی راہ پر چلی وہ قعر مذلت(انتہائی ذلت) و ضلالت میں کھو گئی ۔صحف انبیا کا پیغام ہی یہ ہے کہ جس طرح فطرت میں خدا کی حکمت ودانش کا ظہور موجو د ہے اسی طرح انسان کی زندگی میں اور ہر قوم کی زندگی میں اس کا ظہور موجود ہے اور اہل دانش اقوام وملل (ملت کی جمع ،مذاہب ،ادیان )کی تاریخ میں رضائے الہٰی کا ظہور کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ دنیا اور دنیا کی تاریخ میں خلاق کا ئنات کا ظہور ہے ۔خدا کے ظہور کا جلال اور اق تاریخ میں روشن ہوکر چمکتا ہے اور خالق کی رضا اور خالق کی ذات وصفات کا صاف پتہ دیتا ہے ۔
(۲)
پس خدا کا ظہور اوراق فطرت اوراق صحائف انبیااوراوراق تاریخ میں ہر بالغ نظر کو نظر آجاتا ہے ۔لیکن خدا کے ان مختلف ظہوروں میں فرق ہے اور یہ فرق صرف ظرف یا وسیلہ یا واسطہ کا ہی فرق نہیں یہ فرق صرف حد کا یا کم وبیش درجہ کا بھی فرق نہیں بلکہ یہ فرق ظہوروں کی نوعیت کا فرق ہے۔درختوں کے برگ سبز میں جو خدا کا ظہور نظر آتا ہے وہ اس ظہور سےنوعیت میں فرق رکھتا ہے جو اجرام فلکی میں ہے بلکہ اجرام فلکی کے ظہوروں میں بھی فرق ہے ’’آفتاب کا جلال اور ہے مہتاب کا جلال اور ستاروں کا جلال اور ہے بلکہ ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے۔ زمینوں کاجلال اور ہے ‘‘۔اجرام فلکی میں جو الہٰی ظہور سے نوعیت میں فرق رکھتا ہے جو ابن اللہ کے ذریعہ ہوا اس نوعی فرق کی بنیاد وہ صفات ہیں جو صرف مسیح کلمتہ اللہ روح اللہ وجہیا فی الدنیا والا آخرت کی قدوس ذات میں پائی جاتی ہیں اور کسی دوسرے فرزند آدم میں نہیں پائی جاتیں جس نسبت سے ابن اللہ کی کامل انسانیت اور اس کی ذات پاک کی شخصیت دیگر فانی انسانوں سے بالا اور برتر ہے۔اسی نسبت سے خدا کا یہ مظہر دیگر ظہوروں سے مختلف اور اسی نسبت سے خدا کے ظہور کا نور اور نور کے جلال صاف اور واضح نظر آئے گا ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے خدا کے چہرے کا نور نہ دیکھا جا سکا لیکن ابن اللہ خود ’’خدا کے جلال کا پر تو اور اس کی ذات کا نقش ہے اور اپنی قدرت سے کائنا ت کی سب چیزوں کو سنبھالتا ہے ‘‘پس ابن اللہ خدا کا کامل اور اکمل مظہر ہے حضرت روح اللہ کی ذات وصفات الہٰی ذا ت وصفات ہیں جن کے ذریعہ نوع انسانی کو پورا پورا علم ہو جا تا ہے کہ رب العالمین خدا کس قسم کا خدا ہے اور اس کی ذات وصفات کس قسم کی ہیں ۔کلمتہ اللہ ایک پہلو سے کا مل انسانیت کا کامل مظہر ہے اور دوسرے پہلو سے ذات الہٰی کا اکمل مظہر ہے ۔آپ کی ذات پاک میں الوہیت اور کامل انسانیت یکجا آپ کے جسم اطہر میں نوع انسانی کو نظر آئیں ۔’’خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ۔اس کے ابن وحید نے جو محبوب الہٰی ہے (لوقا ۲۲:۴) خدا کو احسن اور اکمل طور پر ظاہر کر دیا۔ آپ کی انسانی ذات پاک میں الہٰی ظہور کا معراج اور الہٰی جلال کا پر تو اور الہٰی ذات کا نقش ایسا مکمل اور جامع ہے کہ حضرت روح اللہ اپنی زبان مبارک سے فرماتے ہیں ’’جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا ‘‘(یوحنا۹:۱۴) آیہ شریفہ ’’کلام مجسم ہوا (یوحنا ۱۴:۱) سے مراد صرف الوہیت کا کامل ظہورہی نہیں بلکہ انسانیت کمال کا ظہور بھی مراد ہے ۔یعنی وہ انسانیت جو ’’خدا کی صورت پر پیدا ‘‘کی گئی تھی (پیدائش ۲۷:۱) اس ابن وحید کی واحد اور غیر منقسم ذات میں الوہیت کا ظہور اور اصلی خلقی ابتدائی انسانیت کے کمال کا ظہور دونوں صاف نظر آتے ہیں ۔کیونکہ آپ کی کامل انسانیت میں ’’الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے‘‘ (کلسیوں ۱۹:۱؛ ۹:۲؛ یوحنا۱۴:۱ ؛۱۶:۱؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۹:۵ وغیرہ)۔
(۳)
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ واجب الوجود الوہیت کا ظہور محدود اور حادث مسیح کی انسانیت میں کسی طرح ہوسکتا ہے ؟ تو ہم اس کو حکیم قآنی کے اشعار یاد دلاتے ہیں :ـ
یکے گفتا قدیم ازاصل باحادث نہ پیوند و
سپش پیوند ماباذات بے ہمتا چنانستی
بگفتم راست می گوئی دراہ راست می پوئی
ولیکن آنچہ می جوئی عیاں ازیں ببانستی
لیکن ہم حکیم قآ نی کی مثال کی بجائے معترض کی توجہ الہٰی اور قرآنی سورہ قصص کی مذکورہ بالاآیت (۱۳۰) کی جانب منعطف (متوجہ ہونے والا)کرتے ہیں ۔جس طرح جھاڑی میں محدود اور حادث شعلہ الفاظ اور آواز میں واجب الوجود ’’رب العالمین ‘‘موجود تھا اور حضرت باری تعالیٰ کی حضور ی کی وجہ سے ’’آگ اور آس پاس ‘‘ کی اشیا ءمبارک ہوگئیں اسی طرح کلمتہ اللہ کے کلام ،روح اللہ کی زندگی اور ابن اللہ کی موت اور ظفریاب قیامت میں بدرجہ احسن ’’الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے ۔حضرت روح اللہ کی رو ح خداکا مظہر ہے اور آپ کا ’’نورانی ‘‘ جسم (متی ۲۳:۱۷)’’مبارک‘‘تھا۔کیونکہ وہ ہر لحظہ خداکا مظہر تھا پس آپ کی ذات پاک کے واسطے میں وجوب (لازم ہونا)وامکان دونوں موجود ہیں اور واجب اور ممکن میں ربط کا وجود ہے ۔
بحمد اللہ کہ ربطے ہست بامطلق مقیدرا
چنانچہ ہم باب سوم کی فصل اول زیرعنوا ن ’’کلمتہ اللہ انسان ہے ‘‘ مولاناجامی علیہ الرحمتہ کی کتا ب فصوص الحکم سے اقتباس کر آئے ہیں کہ
’’حقیقی کامل انسان وہ ہے جو دجوب وا مکان میں برزخ ہو اور صفات قدیمہ اور حادثہ دونوں کا آئینہ ہو ۔یہی حق اور خلق کے درمیان واسطہ ہے اسی کے ذریعہ خدا کا فیض تمام مخلوقات کو پہنچتا ہے اور وہی بجز ذات حق کے تمام مخلوقات کی بقا کا سبب ہے یہ برزخ وجود وامکان کا مغائر نہیں ۔اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کو خدا کی مدد حاصل نہ ہوتی کیونکہ خدا اور دنیا میں کو ئی مناسبت اور ازتباط نہ ہوتا ‘‘۔
(ص ۲۲ مطبوعہ فیض بخش پریس)
بمعنی ہست پایندہ بصورت ہست زائندہ
بوجھے ازمکان بیروں بوجھے درمکانستی
(قآنی)
پس کلمتہ اللہ اور ابن اللہ کی اس ’’مناسبت اور ارتباط (ملاپ ،دوستی)‘‘سے اس جدائی کی خلیج کو (جو انسان کے گناہ کی وجہ سےخدا اور نوع انسان میں حائل ہوگئی تھی )دور کرکے ازسر نو ایسا تعلق پیدا کردیا کہ انسان فیضان الہٰی (روح القدس ) سے ہمیشہ مستفیض ہو کر خد ا کی قربت میں رہ سکتا ہے۔
ابن اللہ کی قدوس ذات خدا کا مظہر ہے’’خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اسی نے ظاہر کیا‘‘(یوحنا۱۸:۱) ۔جنابِ مسیح نے خدا کو ایسے اور اکمل طور پر ظاہر کیاکہ آپ نے سامعین کو فرمایا’’اگر تم مجھے جانتے تو میرے باپ کو بھی جان سکتے‘‘(یوحنا۱۹:۸)جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا‘‘(یوحنا۴۵:۱۲) کیونکہ’’میں اور باپ ایک ہیں‘‘(یوحنا۳۰:۱۰)۔ اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کس قسم کا خدا ہے تو ہم جنابِ مسیح کو دیکھ کر یہ جان سکتے ہیں کہ خدا کس قسم کا خدا ہے۔الہٰی زندگی اسی طرح کی زمان ومکان کی قیود میں بسر ہوئی جن میں دیگر انسانوں کی زندگیا ں بسر ہوتی ہیں اور ایسے حالات کے بسر ہوئی جن سے نوع انسانی مانوس ہے(۱۔تیمتھیس۱۶:۳)۔ کلمتہ اللہ کے خیالات کو دیکھ کرجان سکتے ہیں کہ خدا کے کیا خیالات ہیں(متی۲۳:۱۶) آپ کے جذبات کو ہم دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے جذبات کس قسم کے ہیں(یوحنا۲۲:۵) ۔آپ کا نقطہ نگاہ خدا کا نقطہ نگاہ ہے۔ جو نجات کی تدبیر آپ نے پیش کی وہ الہٰی تدبیر ہے(متی ۱۶باب) اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ کلمتہ اللہ نوع انسانی سے کس قسم کی محبت کرتا ہے(یوحنا۱۶:۳) اگر اس دنیا میں کلمتہ اللہ کی سیرت خدا کا عکس نہیں اور وہ خدا کی ذات کی نسبت ہم کو کچھ نہیں بتلاسکتی تو دنیا کی کوئی اور شئے یا ہستی اس کام کو سر انجام نہیں دے سکتی۔ لیکن کلمتہ اللہ کے ذریعہ خدا کی اصلی صورت ہم پر ظاہر ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس کو ہم جان سکتے ہیں اور جس سے ہم محبت کرسکتے ہیں۔
(۴)
ہم یہ کہہ سکتے ہیں خدا مسیح کی مانند ہے لیکن ہمارے وہ وہم وگمان میں بھی نہیں آتا کہ ہم کہیں کہ خدا کسی اور نبی یا رسول یا بدھ یا کرشن کی مانند ہے۔ یہ کیوں؟اس واسطے کہ ہم کو خدا اور مسیح کے درمیان کو ئی خلیج نظر نہیں آتی لیکن خدا اور دیگر مذہبی راہ نماؤ ں اور نبیوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے جوناقابل ِ عبور ہے۔ جن مذہبی پیشواؤں کو دیوتا بنایا گیا مثلاً گوتم بدھ یا کرشن وغیرہ ان کی دیوتاؤں کا درجہ دینے والے وہ لوگ تھے جو شرک اور دیوتا پرستی میں مبتلا تھے۔ لیکن ابن اللہ کی الوہیت کو ماننے والے مشرک نہیں تھے بلکہ ایسے موحد(خداکو ایک ماننے والا) یہودی تھے ۔جنہوں نے کل دنیا کو وحدت الہٰی کا سبق پڑھایا تھا وہ خود شرک اور بت پرستی سے کوسوں دور بھاگتے تھے اور ان باتوں کے خلاف اپنی تقریروں اور تحریروں میں لوگوں کو ہوشیار اور خبردار کرتے تھے(اعمال۲۲:۱۷؛ رومیوں ۲۳:۱۔۲۵؛ ۱۔کرنتھیوں۹:۶۔۱۰؛ ایوب۲۱:۵؛ مکاشفہ۲۱:۸ وغیرہ) ۔یہود کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قوم یہود نہایت متعصب موحد تھی۔ یہود اپنے دین اور عقائدکی خاطر ہر وقت لڑنے مرنے کو تیار رہتے تھے ۔ کتاب اعمالرسل سے ظاہر ہے کہ ابتدائی کلیسیا صرف ان موحد یہودیوں پر ہی مشتمل تھی۔ کیا یہ بات کسی صحیح العقل شخص کے خیال میں آسکتی ہے کہ کلیسیا کے چند غیر معروف اشخاص کلمتہ اللہ کے موحد یہودی حواریئن اور تابعین کے ہوتے ہوئے ایک شخص کو جو محض نبی اور انسان تھا الوہیت کا درجہ دیتے اور یہ کٹر موحدیہودی مسیحی کلیسیا صم’’بکم‘‘ خاموش بیٹھی دیکھا کرتی اور بقول شخصے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی مصداق بنتی ؟اعماالرسل سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ خاموش بیٹھنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے ختنہ جیسی معمولی رسم کے ادانہ ہونے پر ہنگامہ مچادیا تھا(اعمال۱۵ باب)۔ کیا اس قماش(انداز) کے اشخاص سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر مسیح کی الوہیت جیسا بنیادی اصول متنازعہ امر ہوتا تو وہ حرف ِشکایت تک زبان پر نہ لاتے اور صدائے احتجاج تک بلندنہ کرتے بلکہ الٹا اس کا پر چار کرتے ۔ابتدائی کلیسیا اپنے روحانی تجربہ سے جانتی تھی کہ گو ابن اللہ جسم میں مومنین کے ساتھ نہ تھے تاہم آپ کی روح ان کے اندر بستی ہے(اعمال ۲:۲تا آخر؛۸:۴، ۳۱؛ ۳۲:۵؛ رومیوں ۱:۹؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۰:۲؛ ۱۶:۳؛۲۔کرنتھیوں۲۲:۱؛ افسیوں ۱۳:۱؛ عبرانیوں۱۵:۱۰ وغیرہ) اور ان سب یہودی اور غیر یہودی مسیحیوں کا معیار ایک ہی تھا ’’خدا کے روح کو تم اس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ جنابِ مسیح مجسم ہوکر آیا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے‘‘(۱۔یوحنا۲:۴؛ ۱۔کرنتھیوں۳:۱۲)۔ مسیح کی زندہ روح مسیحی کلیسیا کے شرکا کے ساتھ زندہ رفاقت رکھتی تھی اور ابن اللہ میں اور ایمانداروں میں باہمی تعلقات اس قسم کا تھا کہ ایماندار کی روح کا اس کے بغیر زندہ رہنا نا ممکن ہے(یوحنا۴:۱۵) ۔
معشوق وعشق وعاشق ہر سہ یکے ست ایں جا
دیگر مذاہب ِ عالم کے ہادی اپنے پیروؤں کے ساتھ اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے اور نہ رکھ سکتے ہیں۔ مثلا ً کیا گوتم بدھ یامحمد عربی یا کرشن انسانی روح کے ساتھ ایسا تعلق رکھ سکتے ہے کہ ایماندار کہے’’ گوتم بدھ یا محمد یا کرشن مجھ میں زندہ ہے اور میں جو زندگی اب جسم میں گزارتا ہوں گوتم یا محمد یا کرشن پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کردیا پس اب میں زندہ نہ رہا بلکہ گوتم یا محمد یا کرشن مجھ میں زندہ ہے‘‘یا’’ میں گوتم بدھ یا محمد یا کرشن کے ذریعہ جو مجھ کو طاقت بخشتا ہے سب کرسکتا ہوں ‘‘۔لیکن یہ الفاظ اور اس قسم کے ہزاروں فقرات انجیل جلیل کی کتب میں ایمانداروں کے دردِ زبان ہیں(فلپیوں ۱۳:۴) دورہ حاضرہ میں بھی غیر مسیحی مذاہب کے پیروؤں میں سے کوئی شخص اس قسم کے الفاظ اپنے دینی پیشوا یا ہادی کے منہ سے نہیں نکالتا مثلا ً اے شینکر اچاریہ ،اے رامانج یا اے افلاطوں تو میری جان کو پیار کرتا ہے‘‘۔لیکن ابن اللہ اور ایماندار کا باہمی تعلق ایسا ہے کہ دورِ حاضرہ میں تمام جہان کے کلیسیا ئے جامع اس دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس قسم کے گیت اور الفاظ روزانہ حرز جان بنائے رکھتی ہے ۔
اتصال ِ بے تخیل بے قیاس
ہست رب الناس رابا جان ِ ناس
(۵)
یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ ابتدا سے لے کردور ِ حاضرہ تک دو ہزار سال سے ہر زمانہ اور ملک اور قوم کے سامنے کلیسیائے جامع نے منجی عالمین کی یہی تصویر پیش کی ہے ۔اس انجیلی تصویر کے علاوہ خداوند یسوع مسیح کی اور کوئی تصویر موجود نہیں اور اگر ہے تو ایسی تصویر کا انجیلِ جلیل کی تصویر کے ساتھ دور کاواسطہ بھی نہیں اور چونکہ ایسی تصویر ابن اللہ کی تواریخی تصویر کے عین نقیض(مخالف ،عداوت) ہوگی اور لہٰذا وہ مستند اور قابل ِاعتبار نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنا تواریخی حقیقت نہیں بلکہ محض انسانی تخیل ہے۔ اجتماع الضدین عقلی طور پر محال ہے ۔ضدین میں سے اگر ایک غلط ہو تو دوسرا ضرور صحیح ہوتا ہے اور چونکہ جنابِ مسیح کی وہ تصویر جو انجیل جلیل کی کتب میں ہے صحیح ہے لہٰذا ہر دوسری تصویر جو اس کی ضد ہے غلط اور ناقابل قبول ہے ۔ پس جنابِ مسیح دیگرانبیاء کی طرح ایک نبی نہیں تھے اور نہ وہ خدا کا ایک مکاشفہ اور مظہر تھے بلکہ آپ کا مکاشفہ آخری او ر قطعی ہے اور آپ خدا کے کامل اور اکمل مظہر ہیں۔ دیگر تمام مکاشفے غیر مکمل ناقص اورزمان ومکان کی قیود میں جکڑے ہوئے ہیں۔
بعض مذاہب اور مذہبی لیڈروں نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ جنابِ مسیح کی عظمت کو بر قرار رکھیں لیکن آپ کی الوہیت ،بادشاہت، واحد حکمرانی ،جامعیت ،قطعیت اور عالم گیریت کا انکار کریں۔ اسلام نے آپ کو’’روح اللہ’’ کلمتہ اللہ ، وجیھاً فی الدنیا والا آخر’’مس ِ شیطان سے منزہ‘‘اورمریم بتول کی جائزاولادماناہے۔آپ کی آمدثانی اوردجال مردودپرفتحیابی کوبرقراررکھاہے۔آپ کی تعلیم کو ’’ہدایت‘‘ ، ’’امام‘‘، ’’نور‘‘ وغیرہ قرار دیا ہے ۔غرض یہ کہ اسلام نے اور دیگر مذاہب کے مصلحین نے اسلام کے ہم نوا ہوکر آپ کو عظمت دی ہے۔ لیکن آ پ کو وہ درجہ نہیں دیا جو انجیل شریف کی تواریخی تصویر میں دیا گیا ہے ۔ انہوں نے آپ کی شخصیت اورنبوت کو دیگر انبیاء کی شخصیت اور نبوت کی مانند قرار دے کر آپ کو نبیوں میں سے ایک گردانا ہے۔ لیکن آپ کے مکاشفہ کو قطعی اور آخری نہیں مانا۔ آپ کی تعلیم ، زندگی ،موت اور ظفریاب قیامت کو بنی نوع انسان کی نجات کا باعث نہیں جانا۔لیکن یہ تصویر وہ نہیں جو ہم کو انجیل جلیل کی کتب میں نظر آتی ہے وہ تصویر واقعات پر مبنی ہے لیکن یہ تصویر محض انسانی نظریوں اور خیالوں پر مبنی ہے ۔لہٰذا یہ تصویر غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمتہ اللہ کی اور انجیل کی وہ قدر اور وقعت نہیں کی جاتی جو قرآن کی رو سے بھی ا ن کا حق ہے۔ گو اسلام انجیل کو من ِ جانب اللہ مانتا ہے لیکن چونکہ اس کو بے عدیل پیغام قرار نہیں دیتا لہٰذا اس کا اقرار محض زبانی جمع خرچ ہے ۔ مسلمان انجیل جلیل کے جانفزا پیغام کو پس پشت پھینک دیتے ہیں اور مسیحی کتب مقدسہ کا مطالعہ تک روا نہیں رکھتے۔جس مذہبی مصلح نے خداوند مسیح اور آپ کے پیغام کی اسی حد تک عظمت نہ کی جس تو چونکہ یہ عظمت تواریخی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی اس مصلح کے مقلدین (مقلد کی جمع،پیرو کار)نے کلمتہ اللہ کو اپنے دل میں وہ جگہ نہ دی جو انہوں نے حضرت محمد کو یا مہاتما بدھ کو یا کرشن مہاراج کو دی ۔چونکہ ایسا غلط نظریہ اور خیال اپنے اندر زندگی نہیں رکھتا لہٰذا زبانی جمع خرچ کے اقرار کے علاوہ انہوں نے عملی پیرایہ میں یہ نہ دکھایا کہ خداوند مسیح ان کے دلوں پر حکمران ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اصلاح چند روز ہی رہی اور پھر حرف ِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ مثلا ً ہندوستان میں راجہ رام موہن رائے اور ان کے چیلوں نے اسی بنیاد پرہندومت کی اصلاح کی لیکن آج ہندوستان میں برہمو سماج کے پیرو لعدودے چند ہیں۔ جن کی آواز کا کوئی شنوا نہیں۔ اس اصلاح میں زندگی نہ تھی انہوں نے’’ زندگی کے ما لک‘‘(اعمال۱۵:۳)۔کو اپنے دلو ں پر حکمران نہ کیا اور صرف آپ کے اصول کی روشنی میں اپنے فرسودہ مذہب کی اصلاح کرنی چاہی۔ انہوں نے’’ نئی مے’’ کو پرانی مشکوں میں بھرا‘‘(متی ۱۷:۹)۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشکیں پھٹ گئیں اوران کے مذہب کی اصلاح کی تمام کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔ہندو مذہب کے مصلحین کا یہ خیال تھا کہ مسیحی اصول دیگر مذاہب کے اصول ساتھ ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں لیکن یہ امر محال ہے۔ خداوند مسیح کے اصول دیگر مذاہب کے اصول کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے نہیں ہوسکتے اور نہ منجی عالمین دیگر مذاہب کے بانیوں کا ہم پلہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ آپ کی تعلیم آپ کی لاثانی شخصیت سے جدا نہیں کی جاسکتی ۔لہٰذا آپ کی لاثانی تعلیم دیگر مذاہب کی تعلیم کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ کسی ملک یا جماعت میں دخل پائے گی تو واحد حکمران ہوکر رہے گی۔
اہل ِ اسلام نے دیکھاکہ منجی عالمین کی انجیلی تصویر میں اور حضرت عیسیٰ کی قرآنی تصویر میں فرق عظیم ہے اور تصویر کے یہ دونوں رخ مساوی طور پر درست اور صحیح نہیں ہوسکتے تو ان کو بجز اس کے اور کوئی چارنہ سوجھا کہ آنخداوند کی انجیلی تصویر کی صحت کا انکار کردیں ۔چونکہ مسلمان برادران کلمتہ اللہ کو صرف افضل نبیوں میں سے محض ایک نبی گرادنتے ہیں۔ لیکن انجیل جلیل آپ کی شخصیت کو جامع ، بے نظیر ، بے عدیل ، اور عالم گیر ہستی قرار دیتی ہے جس میں الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے اور چونکہ یہ دونوں دعوے ایک ہی ہستی کی طرف مساوی طور پر منسوب نہیں کئے جاسکتے لہٰذا اہل ِ اسلام نے بمصداق ؎
من نیز حاضر مے شوم تفسیر قرآں دربغل ۔
انجیل جلیل کی کتب محرف (ٹیڑھا ،مذہب کو اپنے مفاد کا ذریعہ بنانے والا)قرار دے دیا اور ابن اللہ کی انجیلی تصویر کو مصنوعی اور غلط قرار دے دیا چنانچہ مولانا ثنا ءاللہ صاحب امرتسری فرماتے ہیں کہ
’’انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور مسیح کو کارخانہ قدرت میں مالک ومختار بنایا گیا ہے او ریہ بھی لکھا ہے کہ مسیح انسانوں کے لئے کفارہ ہوا ہے ۔۔۔۔عیسائی مذہب کی بنیادی باتیں یہی ہیں(یوحنا۲۸:۱۰؛ ۵۸:۸؛۱۷:۵؛ ۳۵:۶۔۵۱؛ ۱۳:۱۴) پس انجیل الہامی نوشتہ اور مذہبی کتاب پڑھنے کے قابل نہیں‘‘۔
(اہلحدیث ۱۴ ستمبر۱۹۳۶، صفحہ ۳تا۴)۔
مولانا مرحوم کی تفسیر ان قرآنی آیا ت کی جن میں انجیل کو نور اور ہدایت قرار دیا گیا ہے اور جس کی صحت کی تصدیق قرآن باربار کرتا ہے اور مومنین پر اس کی تلاوت فرض کردیتا ہے !
مولانا مرحوم موصوف کا مطلب یہ ہے کہ از بسکہ کلمتہ اللہ کے وہ دعوے جو ہم نے اس فصل میں لکھے ہیں انجیل میں پائے جاتے ہیں ۔لہٰذا انجیل محرف (تحریف کیا گیا ہے )ہے اور الہامی نوشتہ نہیں ہے ۔ ہم نے اپنے رسالہ’’قدامت واصلیت اناجیل اربعہ ‘‘اور رسالہ ’’صحت ِ کتب ِ مقدسہ ‘‘میں یہ ثابت کردیا ہےکہ اہل اسلام کا یہ دعویٰ باطل بے بنیاد اور قرآن کی تاریخ کے سراسر خلاف ہے اور کتب ِ مقدسہ میں تحریف نہیں ہوئی جو مدعی کے ذہن میں ہے بلکہ اس کے برعکس روئے زمین کی تمام کتب ِ مقدسہ میں صرف انجیل جلیل ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی صحت کا پایہ لاجواب ہے ۔
پس ثابت ہوگیا کہ ابن اللہ کی وہ تصویر جو انجیل جلیل پیش کرتی ہے صحیح ہے ۔چونکہ ازروئے اصول منطق اجتماع الضدین محال ہے۔ لہٰذا وہ تمام بیانات اور خیالات جو اس تصویر کے نقیص ہیں سراسر غلط اور بے بنیاد ظن ہیں۔ ابن اللہ کے کام اور پیغام زندگی اور شخصیت کے لاثانی بے نظیر ہونے سے انکار نہیں ہوسکتا۔
(۶)
دنیائے مذاہب میں جناب ِ مسیح اکیلا فاتح ہیں۔ جب سے منجی عالمین اس دنیا میں آئے دنیا کی قسمت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی’’قبل از مسیح‘‘ اور’’بعد از مسیح’’ ۔ آپ کی ہستی نے دنیا کی کایا ایسی پلٹ دی کہ تاریخ عالم کے مورخ کے لئے دونوں حصص (حصہ کی جمع)میں امتیاز کرنا امرِناگزیر ہوگیا۔ ذرا ایک لمحہ کے لئے توسن خیال کو دوڑا ؤ اور عالم ِ خیال میں یہ تصور کروکہ آنخدواند اس دنیا میں کبھی پید ا نہ ہوئے تھے ۔ ذرا اندازہ کروکہ دنیا کے خیالات اور جذبات کیا ہوتے ؟ممالک ِ عالم کی تاریخ کے صفحات کس سیاہی سے لکھے جاتے ؟انسانی زندگی کے اخلاقی معیار کیا ہوتے؟اقوام ِ عالم کا کیا حال ہوتا ؟معاشرت اور تمدن پر اس کا کیا اثر پڑتا ؟بنی نوع انسان کا کیا حشر ہوتا ؟اس کے خیال سے ہی ہر صحیح العقل شخص کے بدن میں کپکپی اور رعشہ پڑجاتا ہے ۔ اگر ہندو مذہب دنیا سے مٹ جاتا۔ اگر اسلام کے خصوصی عقائد ( جو یہودیت اور مسیحیت سے اخذ نہیں کئے گئے )دنیا سے رخصت ہوجاتے یا اگر بدھ مت کے اصول ناپید ہوجائیں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا کی حالت ابتر ہوجائے گی۔ لیکن اگر منجی عالمین کی شخصیت او رکلمتہ اللہ کے اصول دنیا سے رخصت ہوجائیں تو دنیا دوزح کا نمونہ جائے گی اور جہان ایک ایسا ظلمت کدہ بن جائے گا جس میں بد نظمی ، تاریکی اور گھپ اندھیرے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا؎
اگر لطف تواے داورنگر دوخلق رارہبر
زآہ خلق در محشر صامت ہا شود برپا
اس حقیقت کوموالف ومخالف سب مانتے ہیں۔ چنانچہ فرانس کا مشہور عقل پرست عالم رینان(Renan)کہتا ہے
’’اگر مسیح کی ہستی کو نظر انداز کردیا جائے توتاریخ جہان لایعنی او رمہمل ہوجاتی ہے ‘‘۔
برنارڈشا (G.B.Shaw)کہتا ہے
’’دنیا کے اونچ نیچ اور فطرت انسانی کو دیکھ کر میں بے تاامل کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے دکھ ، درد اور رنج وتکلیف کا اعلیٰ ترین علاج صرف مسیح ہے ‘‘۔
جنابِ مسیح کی پاک ذات اور مقدس اصولوں کی طفیل دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔آپ کی شخصیت نے دنیا کی رذیل ترین اقوام کو چاہ ِضلالت (گمراہی کے کنواں)سے نکال کر اَوجِ بریں (آسمانی عروج)پر کھڑا کردیا۔ آپ کی ذات نے اس دنیا کی اندھیر نگری میں اجالا کردیا اور اس کو بقعہ (زمین کا وہ حصہ جو دوسری جگہ سے ممتاز ہو)نور بنادیا۔آپ کی ذات دنیا کا نور ہے (یوحنا ۱۲:۸ )۔ جس طرح سیارےستارے آفتاب کی روشنی سے درخشاں ہیں اسی طرح دنیا جہان کا نظام اسی ایک نیر کے کا شرمندہ احسان ہیں اور یہ بات کسی ایک قوم یاملک یا زمانہ سے مختص نہیں بلکہ ہر ملک قوم زمانہ اور جماعت کا یہی تجربہ رہا ہے۔ منجی عالمین روحانیت کی بلندیوں کے واحد تاجدار رہے ہیں۔ اگر کسی قوم نے خداکی حقیقی پہچان حاصل کی تو صرف آپ کی طفیل حاصل کی’’خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ۔’’اکلوتا بیٹا جو باپ (پروردگار )کی گود میں ہے اسی نے اس کو ظاہر کیا‘‘(یوحنا۱۸:۱)۔
پس جب خداوند مسیح اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ ایک قائد اعظم کی حیثیت سے نہ آئے اور نہ آپ محض نبی کی حیثیت میں اس دنیا پر ظاہر ہوئے بلکہ آپ کے وجود میں الوہیت کی صفات نے ظہور پکڑا۔ زمان ومکان کی قیود کے اندر بنی نوع انسان پر یہ عقدہ(بھید) کھل گیا کہ خدا کی ذات درحقیقت کیا ہے ۔’’الوہیت کی ساری معموری اسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے‘‘(کلسیوں ۹:۲ )۔ مشہور فلاسفر اور علم اخلاق کا استاد ٹی۔ایچ ۔گرین (T.H.Green)کہتا ہے
’’یسوع مسیح نے محدود دائرہ کے اندر زمان ومکان کی قیود میں ایک ایسی زندگی بسر کی جس کے اصول ان قیود کے پابند نہ تھے اور خاص حالات کے اندر ایسے اصول کا اعلان کیا جو تمام حالات پر عائد ہوسکتے ہیں لہٰذا ہم اس کو ایک حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ اس کی زندگی اور اس کے اصول آخری ،قطعی ،اور عالم گیرہیں ‘‘۔
دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ زمانہ اور صدیوں کے تمام تواریخی اشخاص میں سے صرف ابن اللہ ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو در حقیقت زندہ ہے ۔ دیگر مذاہب کے بانی اور مصلحین پیدا ہوئے اور مٹ گئے۔ ان کے خیالات اور جذبات اور اعتقادات حرف ِ غلط کی طرح محو ہوگئے یا اوراق پارینہ(پُرانا) کی طرح کسی کام کے نہ رہے ۔صرف مسیح اور اس کی تعلیم زندہ جاوید اور عالمگیر ہے ۔
لیکن ان گزشتہ زمانہ کی یادگاروں میں صرف خداوند مسیح کی شخصیت ایسی ہے جن کی نسبت دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ آپ کا ایجاب (قبول کرنا ، منظور کرنا )وانکار زندگی اور موت کا سوال ہے۔آپ کی شخصیت محض ایک تواریخی حقیقت ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق بنی نوع انسان کی ضمیر کا اور کانشنس (وہ انسانی قوت جو انسان کو بھلائی کی طرف متوجہ کرے ۔) اور قسمت کے ساتھ ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کی نسبت ہم کو چیلنج کرتی ہے۔ کیونکہ آپ کی شخصیت جامع ہے ۔ مشرق ومغرب آپ کے آگے خم ہے ۔ صرف جنابِ مسیح ہی اکیلے واحد مشرقی شخص ہیں جن کے نام کا پرچار مغربی ممالک کے باشندوں نے مشرق کے کونہ کونہ میں کردیا ہے ۔ مغرب اس کو سجدہ کرتا ہے ۔ مشرق اس کو ہر پہلو سے قابل ِ تحسین وستائش وتمجید قرار دیتا ہے ۔ منجی عالمین کی شخصیت ہی ایک واحد شخصیت ہے جو ایسی کامل اور جامع ہے کہ ہر زمانہ ملک قوم اور ملت کاانسان بلاتفریق وامتیاز اس کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے ۔ اس شخصیت کے بغیر کائنات ایسا دھڑ ہےجس کا سر نہ ہو ۔کیونکہ صرف وہی کائنات کا مرکز اور اس کی زندگی اور اس کا نور ہے (یوحنا۳:۱)۔ ابن اللہ زمان ومکان کی قیود میں ظاہر ہوئے لیکن ان قیود سے بالارہے ۔ آپ نے زمان ومکان کی قیود میں ظاہر ہوکر دنیا اور مافیہا کو خاک سے اٹھا کر عرش بریں پر پہنچا دیا تاکہ انسانیت خدا کے’’بیٹے کی ہم شکل’’ ہوجائے (رومیوں ۲۹:۸) ۔ ابن اللہ کا ئنات کی زندگی کااصول ہیں کیونکہ’’اس میں ساری چیزیں پیدا کی گئیں۔آسمان کی ہوں یا زمین کی ۔ مرئی ہوں یا غیر مرئی ۔تخت ہوں یا ریاستیں یاحکومتیں یا اختیارات ۔ ساری چیزیں اسی کے وسیلے سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئیں اور وہ سب چیزوں سے پہلے ہے اور اسی میں ساری چیزیں قیام رکھتی ہیں۔ وہی مبدا ہے۔ وہی انتہا ہے ۔ سب باتوں کا وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ۔ وہ ابدالاآباد زندہ ہے ۔ خدا باپ کو یہ پسند آیاکہ ساری معموری اس میں سکونت کرے اور سب چیزوں کا اس کے وسیلے سے اپنے ساتھ میل کرے خواہ و ہ زمین کی ہوں خواہ آسمان کی ہوں (کلسیوں ۱۵:۱؛ ۱۔کرنتھیوں ۹:۸) ۔
بابِ چہارم
مسیح منجی جہان
اس رسالہ کے بابِ اول میں عالم گیر مذہب کی خصوصیات پر بحث کرتے وقت ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ عالم گیر مذہب کے لئے یہ لازم ہے کہ نہ صرف اس کے اصول اعلیٰ اور ارفع ہوں ۔مزید براں اس کا بانی ایک کامل نمونہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرسکے بلکہ یہ ضروری امر ہے کہ عالم گیر مذہب نوع انسانی کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس کے اصول نمونہ پر گامزن ہوسکے ۔ اگر کوئی مذہب صرف اعلی ٰ ترین اصولوں کا مجموعہ ہی ہے اور نوع انسانی کے لئے نمونہ بھی پیش کرسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ توفیق دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ بنی نوع انسان کو اپنے اصولوں پر اور کامل نمونہ پر چلا سکے تو وہ مذہب عالم گیر کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ گناہ ایک عالم گیر مرض ہے جو کسی خاص قوم یا ملک زمانہ سے مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ ملک قوم وملت کے افراد’’سب کے سب گناہ کے ماتحت ہیں (رومیوں ۱۰:۳)۔ پس عالم گیر مذہب کا یہ کام ہے کہ وہ نہ صرف ارفع اصول اور اعلیٰ نمونہ پیش کرے بلکہ اس عالم گیر مرض کا ایک ایسا عالم گیر علاج پیش کرے جس سے کل دنیا کے فرد بشر اپنے گناہوں پر غالب آسکیں۔
اصول اور احکام نجات نہیں دے سکتے
روئے زمین کے تمام مذاہب اس بات پر اکتفا کرتے ہیں کہ لوگوں کو شرعی احکام بتلادیں اور ساتھ ہی نصیحت کردیں کہ اگر ان پر تم عمل کروگے تو نجات حاصل کروگے۔ مثلاً یہودیت اور اسلام شریعت پر اور شرعی احکام پر زور دیتے ہیں اور یہ تلقین کرتے ہیں کہ بنی نوع انسان ان الہٰی احکام کو اپنا نصب العین بنا کر ان پر عمل کریں (استثنا۲۵: ۱۳ ؛ حزقی ایل ۴:۱۴ سورۃ توبہ آیت۱۰۶؛ سورۃ کہف ۱۱۰ وغیرہ )۔ اگر کوئی انسان صالح اعمال کرے گا تو اس کا اجر پائے گا(حزقی ایل ۱۸:۵؛ سورۃ بقر ۲۳، ۱۷۲ )۔ اگر وہ اعمال بد کا مرتکب ہوگا تو اس کو سزا ملے گی(۱یوب ۲۰:۱۱؛ سورۃ طہ۷۶؛ قمر۱۷۲ وغیرہ)۔ لیکن یہ مذاہب اور دیگر مذاہب عالم گناہ گار شخص کو کوئی موثر طریقہ نہیں بتلاتے جس سے وہ اپنے گناہوں پر فتح حاصل کرسکے ۔ یہ مذاہب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اور روحانیت کی دنیا میں مغائرت (اجنبیت) ہے، لیکن کوئی ایسی راہ نہیں بتلاتے جس سے یہ مغائرت دور ہوسکے ۔ وہ روحانی دنیا کے قوانین اور احکام کی تلقین کرتے ہیں لیکن کوئی وسیلہ نہیں بتلاتے جس سے انسان گناہ اور بدی کو ترک کرکے نیکی کی راہ کو اختیار کرنے کے قابل ہوجائے۔ وہ صرف یہ تاکید کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ایک کو ترک کرو اور دوسرے کو اختیار کرو۔لیکن ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ گناہ گار انسان کو قوت عطا کریں اور انسان ضعیف البنیان (کمزور بنیاد) کو طاقت عطا کرکے اس قابل بنادیں کہ وہ اپنی اعلیٰ ترین آرزوؤں اور امنگوں پر عمل کرسکے ۔ وہ نجات کے راستہ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہیں لیکن تھکے ماندے کمزور نڈھال راہ رو ( رہگیر)کو یہ طاقت اورتوفیق عطا نہیں کرتے کہ وہ اس شاہراہ پر چل سکے ۔
باہیچ کس نشانے زاں دلستاں ندیدم
یا من خبر ندارم یا اونشاں ندارد
سطور بالا سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ مجرد اصول اس قابل نہیں ہوتے کہ کسی گناہ گار انسان کی قوتِ ارادی کو از سر نو بحال کرسکیں۔ ہر فرد بشر کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ ؎
ہے بے صدا وہ چینی جس میں کہ بال آیا
اصول بظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں لیکن وہ اپنے اندر یہ طاقت نہیں رکھتے کہ جس شخص کی قوت ِ ارادی سلب ہوچکی ہے میں نئی جان ڈال دیں۔مثلاًسگریٹ کے شیدائیوں کی مثال لیں ۔ڈاکٹر اور محکمہ حفظان صحت ان کو لاکھ سمجھاتے ہیں کہ یہ بدعادت اس کی صحت کے لئے مضر ہے ۔ان کو خود اس بات کا علم اور احساس ہوتا ہے کہ ان کی صحت کے لئے سگریٹ زہر قاتل کا اثر رکھتے ہیں وہ باربار مصمم ارادے بھی کرتے ہیں کہ وہ سگریٹ پینا قطعی ترک کریں گے لیکن شراب کی طرح
چھٹتی نہیں کمبخت یہ منہ سے لگی ہوئی
ترک کرنے کی بجائے وہ ’’چین سموکر (Chain Smoker) ہوجا تے ہیں ۔ممالک متحدہ امریکہ کی سرکار کے حکم مطابق سگریٹ کی ڈبیاپر پینے والوں کو خطرہ سے آگاہ کیاجاتا ہے ۔لیکن سب بے سود ! نتیجہ یہ ہوگیا ہے کہ صرف ایک ملک امریکہ میں گذشتہ سال ۵،۳۲۰۰۰۰۰۰۰۰۰ سگریٹ فروخت ہوئے ۔یعنی ۱۹۶۳ ء کی فروختگی سے بھی آٹھ ارب زیادہ سگریٹ پیے گئے ۔ یہ نامراد مرض ہرسال ہرملک وقوم کے اربوں افراد کی صحت کو بگاڑتا چلاجا رہا ہے اور ان کی قوت ارادی سلب ہوگئی ہے ۔
اگر کسی شخص کی حادثہ کی وجہ سے ٹانگ ٹوٹ گئی ہو اور وہ نیم جان ہوکر سڑک کے درمیان مجبوری اور لاچاری کی حالت میں پڑا یا کسی پر راہ چلتے فالج گرا ہواور سڑک پر ایک موٹر بے تحاشہ اس کی جانب چلی آتی ہو تو اگر تماشائی برلب سڑک کھڑی ہوکر اس کو چلا چلا کر آنے والے خطرہ سے آگاہ کرنے پر ہی اکتفا کریں تو اس غریب کا کیا فائدہ ہوگا؟اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے وہ چل پھر تو درکنار ہل نہیں سکتا ۔ اس بیکس شخص کی آنکھیں تیز رفتار موٹر کو دیکھ رہی ہے ،لیکن وہ لاچار پڑا ہے ۔ اپنی جگہ سے کھسک بھی نہیں سکتا موت اس کو سامنے نظر آرہی ہے اس کو تماشائیوں کی آگاہی کی ضرورت نہیں۔ وہ آنے والے خطرہ سے خود آگاہ ہے اس کو کسی نذیر کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو بات کی ضرورت ہے کہ تماشائیوں میں کوئی شخص اس سے ایسی محبت رکھے کہ وہ اس کی خاطر اپنی جان کر پروانہ کرے اور موٹر کے پہنچنے سے پہلے اس کو سڑک پر سے اٹھا کر سلامتی کی جگہ پر لے جائے ۔اسی طرح ہر گناہ گار جو گناہ کی غلامی میں لاچار اور گرفتار ہے(یوحنا۳۴:۸۔۳۶) جانتا ہے کہ اس کا حشر کیا ہوگا۔ بقول غالب۔
مفت کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے کہ ہاں
رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس کو آگاہی کی ضرورت نہیں کیونکہ گناہ کے مرض نے اس کے قلب ودماغ پر ایسا غلبہ حاصل کرلیا اس کو یہ علم ہوتا ہے کہ جو افعال میں کررہا ہوں جن بدعا دات میں گرفتار ہوں ان کا انجام کیا ہوگا۔ وہ زبان حال سے پکار کرکہتا ہے ۔
شب تاریک وبیم موج وگرداب چنیں حائل
کجا دانند حال ما سبکساران ساحل ہا
اس گناہ کے غلام کو کسی ناصح یا نذیر کی ضرورت نہیں وہ کہتا ؎
کوئی ناصح ہے کوئی دوست ہے کو ئی غمخوار
سب نے مل کر مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے !
بلکہ اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی اس کی مدد کرے اور اس کی قوتِ ارادی کو جو سلب ہوگئی ہے از سر نو تقویت دے دیگر ادیان عالم اسی بات پر اکتفا کرتے ہیں کہ گناہ گاروں کو تنبیہ کی جائے اور ان کو ان کے انجام سے واقف کروایا جائے ۔ چنانچہ قرآن خود کہتا ہے کہ وہ ایک نصیحت کی کتاب ہے جس میں پندو نصائح واضح طو ر پر موجود ہیں (سورہ حجر آیت ۱،سورہ نمل آیت ۱،سورہ یسٰ آیت۶۹، سورہ ص آیت ۱،سورہ زمر آیت ۲۸وغیرہ)۔جو لوگوں کو ڈرانے کے لئے نازل ہوا ہے (سورہ انعام آیت ۱۹،سورہ شوریٰ آیت۵وغیرہ)۔ حضرت محمد عرب کے لوگوں کو ڈرانے کی خاطر بھیجے گئے ۔(سورہ احزاب آیت۴۴وغیرہ) لیکن ہمارا تجربہ ہم کو بتلاسکتا ہے کہ جزا اور سزا کے وعدے کسی انسان کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتے کہ وہ نیک عمل کرے ۔دیگر مذاہب میں یہ اہلیت ہی نہیں ہوتی کہ گناہ گار انسان کو پندو نصیحت کے علاوہ اعمال ِ صالح کی تحریک وترغیب دے سکیں۔ اس سے پیشتر کہ وہ اعلیٰ اصول پر عمل کرسکے یہ لازم ہے کہ اس کے اندر اس قسم کی تحریک پیدا ہوجائے جو ان اصول پر چلنے کی خواہش مند ہو۔ عالم گیر مذہب کے لئے ضروری امر ہے کہ وہ گنگار انسان کی مردہ قوت ارادی میں ازسر نو زندگی کی روح پھونک دے اور اپنی قدرت سے اس کو قوت عطا کرے ۔ گناہ گار انسان اپنی عادت سے مجبور ہوتا ہے اور عادت کا غلام ہوکر مقابلہ کرکے چور اور لاچار ہوجاتا ہے اور ایسا تھک جاتا ہے کہ اس کی کمر ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ و ہ کہتاہے ۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
ایسے اشخاص کے سامنے جناب ِ مسیح نہ صرف اعلیٰ اور ارفع اصول اور اپنا کامل اور اکمل نمونہ پیش کرتا ہے بلکہ علیٰ الاعلان (باآواز بلندعلانیہ طور پر ،بے روک ٹوک )دعوت دیتا ہے ۔’’اے زحمت کشو اور ہزیمت خوردہ (شکست خوردہ،پسپا ہونا) لوگو گناہ کے بوجھ سے دبے ہوئے ہو تم سب میرے پاس آؤ۔میں تم کو آرام دونگا‘‘(متی ۲۸:۱۱؛ یوحنا۳۷:۷ ) ۔ کل مذاہب ِ عالم کے ہادیوں اور پیشواؤں میں صرف خداوند مسیح اکیلے واحدہادی ہیں جو تھکے ماندے ،کمزور، نڈھال گناہ گاروں کی روحوں کو’’آرام‘‘ دیتا ہےاور نئی زندگی بخشتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیغام کا نام ہی’’انجیل‘‘ یعنی خوشی کی خبر ہے(متی ۲۱:۱؛ لوقا ۱۰:۲؛ ۱۸:۴) کیونکہ وہ تمام گناہ گاروں کے لئے جو گناہ کا مقابلہ کرکے بار بار ہزیمت اور شکست کھا کھا کر اپنی بدعادتوں سے لاچار ہوکر اپنی زندگی سے تنگ آگئے ہیں یہ خوشی کی خبر دیتاہے کہ وہ اپنے گناہوں کی مغلوب کرکے از سرِ نو ایسی زندگی بسر کرسکتے ہیں جو منشائے الہٰی کے مطابق ہو۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے غلبہ نے دنیا کو مغلوب کردیا ہے (۱۔یوحنا۴:۵)۔
گناہ کے عمل اور عامل گنہگار میں امتیاز
خداوند مسیح کے زمانہ میں اہل یہود فریسیوں کی جماعت بڑی مقتدر اور بارسوخ جماعت تھی اس جماعت کے لیڈر یہ چاہتے تھے کہ موسوی شریعت کے احکام اور زمانہ ِ جلاوطنی کے بعد کے زمانہ کی ’’بزرگوں کی روایات ‘‘دونوں اہل یہود کی زندگی کے ہر شعبہ میں سرائت کریں تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہوجائے اس جماعت کو عوام میں بڑا اثر اور اقتدار حاصل تھا۔ پس مذہبی غرور اور جماعت کی قوت کا تکبر ان کے سروں میں سماگیا تھا اور وہ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم اسرائیل کی خاص الخاص جماعت کے افراد ہیں ۔وہ اپنی ضرورت کے مطابق حاجت کے وقت ’’بزرگوں کی روایا ت ‘‘ کی پابندیوں کا اطلاق قیاس اور اجتہاد (جد وجہد ) سے کام لے کر نئے حالات پر کرتے ۔تمام فریسی ’’گنہگاروں اور محصول لینے والوں‘‘ کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں اور ان سے کنارہ کش رہتے تھے ۔وہ گناہ اور گناہگاردونوں سے نفرت کرتے تھے اور عمل بد میں گناہ کرنے والے بدکار انسان میں کسی قسم کا فرق یا تمیز روا نہیں رکھتے تھے۔
اس جماعت کے برعکس کلمتہ اللہ گناہ اور گنہگار یعنی عمل اور عامل میں تمیز کر کے اپنی تعلیم میں یہ سکھلاتے تھے کہ خدا ہر گنہگار سے محبت کرتا ہے لیکن گناہ سے نفرت کرتا ہے اور خدا کی محبت ہر گنہگار کو تلاش کرتی ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ ’’شریر اپنی شرارت سے توبہ کرے اور باز آئے ‘‘۔اور وہ ازسر نو خدا کا فرزند اور آسمان کی بادشاہی کا وارث بن جائے ۔کلمتہ اللہ گناہ سے نفرت لیکن گنہگار سے محبت رکھتے تھے اور بدترین گنہگاروں کو تلاش کرکے ان سے میل جول رکھ ان کو خدا کی لازوال محبت کا پیغام دیتے تھے ۔آپ فرماتے تھے کہ ’’تند رستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیماروں کو ضرورت ہوتی ہے ۔میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو خدا کی طرف بلانے کے لئےدنیا میں آیا ہوں‘‘(مرقس ۱۷:۲) ۔طبیب کاکام یہ ہے کہ لوگوں کو امراض سے آگاہ کرے لیکن وہ مریضوں سے نفرت نہیں کرتا بلکہ ان سے نہایت شفقت ،محبت سے پیش آکر اپنی تمام توجہ اس کی مرض پر مرکوز کردیتا ہے جو انسان جتنا زیادہ بیمار یا خطر ناک بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اتنا ہی زیا دہ وہ اپنے طبیب کی توجہ اور محبت کا مستحق ہوتا ہے (لوقا۳۱:۵)۔ ابن اللہ بد ترین گنہگاروں کے لیے سر تا پارحمت تھے اور ان کو تلاش کرکے خدا کی محبت کی خوشخبر ی کا پیغام دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ خدا ئے قدوس محبت کا خدا ہے جو گناہوں سے نفرت کر تا ہے لیکن ’’ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے لئے آسمان پر زیادہ خوشی ہوتی ہے ‘‘اور اس حقیقت کو ان کے ذہن نشین کرنے کے لئے آپ تمثیلوں سے کا م لیتے تھے تا کہ گنہگار کو خدا کو خدا کی محبت کا یقین آجائے اور وہ خلوص دل سے توبہ کرے (لوقا ۱۵ باب)۔
اس سلسلہ میں مرحوم حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔مرحوم لکھتے ہیں
’’حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم سراسر اس حقیقت کی دعوت تھی کہ گناہوں سے نفرت کرو مگر ان انسانوں سے جو گناہوں میں مبتلا ہیں نفرت نہ کرو۔اگر ایک انسان گنہگار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی روح اور دل کی تندرستی باقی نہیں رہی ۔لیکن اگر اس نے بد بختانہ اپنی تندرستی ضائع کردی ہے توتم اس سے نفرت کیوں کرو؟ وہ تو اپنی تندرستی کھو کر تمہارے رحم وشفقت کا اور زیا دہ مستحق ہوگیا ہے ۔وہ موقعہ یاد کرو جس کی تفصیل ہمیں مقدس لوقا کی زبانی معلوم ہوئی ہے جب ایک گنہگار عورت حضرت مسیح کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے بالوں کی لٹوں سے اس کے پاؤں پونچھے تو اس موقعہ پر ریاکار فریسیوں کو سخت تعجب ہوا۔ لیکن مسیح علیہ السلام نے کہاکہ طبیب بیماروں کے لیے ہوتا ہے نہ کہ تند رستوں کے لیے ۔پھر خدااور اس کے گنہگار بندوں کا رشتہ رحمت واضح کرنے کے لیے ایک نہایت ہی موثر اور دل نشین مثال بیا ن کی اور فرمایا کہ فرض کرو ایک ساہوکار کے دو قرض دار تھے ایک پچاس کا اور ایک ہزار روپیہ کا ۔ساہوکار نے دونوں کا قرض معاف کردیا ۔بتاؤ کس قرض دار پر اس کا زیادہ احسان ہوا اور کو ن اس سے زیادہ محبت کرے گا ؟ وہ جسے پچاس معاف کردیے یا جسے ہزار
نصیب ماست بہشت اے خدا شناس برد
کہ مستحق کرامت گناہ گار انند
(ترجمان القرآن ص۱۰۶۔۱۰۸)
(۲)
مسیحی کلیسیا کےجن مبشروں نے اپنے منجی اور مولا کے نقش قدم پر چل کر بدکا ر شرابیوں زانی مردوں اور فاحشہ عورتوں کو گناہوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا پیغام دینے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے تاکہ ہر قسم کا گنہگار خدا کی فرزند یت کی عزت پاکر الہٰی زندگی کے راستہ پر چلیں ۔وہ اپنی زندگی کے مقصد کو مبارک سمجھ کر خدا کاشکر کرتے ہیں جس نے ان کو یہ عزت بخشی کہ وہ اپنے آقا کے نقش قدم پر چل کر ان بدنصیب گرے ہوئے لوگوں کی روحوں کو بچانے کا وسیلہ ہونے کے لائق سمجھے گئے ۔وہ اپنے آقا کا نمونہ لے کر ان کے درمیان محسن ،مربی اور واعظ بن کر نہیں رہتے بلکہ ’’گنہگاروں کے یار ‘‘ اور ان کی روحوں کے حقیقی خیر خواہ بن کر ’’خادم کی طرح ‘‘ ان کی خدمت کرتے ہیں ۔وہ گناہ کی گہرائیوں میں اتر تے ہیں تاکہ ان کا ہاتھ پکڑکر ان کو غلاظت سے نکالنے اور روحانیت کا معراج حاصل کرنے کا وسیلہ بنیں ۔
بدکار مرد اور عورتیں زندگی کی شاہراہ پر ٹھوکریں کھا کھا کر گر جاتی ہیں اور اپنی شرم کو چھپانے کی خاطر دیدہ دلیری سے کام لیتی ہیں لیکن وہ اپنے منجی خدا کی نظروں سے اپنی چوٹوں کو نہیں چھپا سکتیں ۔جب خداکی محبت ان کے دلوں کے دروازوں کو کھٹکٹاتی ہے تو وہ یہ خیال کرتی ہیں کہ اب وہ سماج اور دنیا میں باعزت وقار کی زندگی بسر نہیں کر سکتیں اور بدی کے دلدل میں زیادہ پھنس کر اس شخص کی مانند ہوجاتی ہیں جس کے اندر درجنوں بدروحیں تھیں اور خدا کو کہتی ہیں ’’مجھے عذاب میں نہ ڈال ‘‘(مرقس ۷:۵؛ لوقا ۲۸:۸ ؛ متی ۲۹:۸) عبادت نما پارساؤں کی مفروضہ دکھاوے کی پاکبازی ان کو ’’گنہگار ‘‘ٹھہراتی ہے ۔لیکن خدا کے تر س ومحبت کلمہ ِ مغفرت ان کو سنا کر کہتی ہے ’’جس نے زیا دہ محبت کی ۔اس کے بہت گناہ معاف ہوئے ۔سلامت چلی جا‘‘جب یہ بدکار مرد اور عورتیں دیکھتی ہیں کہ انجیل کے مبشر ان کو بچانے کی خاطر گہرائیوں میں اترنے سے دریغ نہیں کرتے لیکن خود نیک اور پاک دامن رہتے ہیں تو ان کے دل بیقرار ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ ہماری زندگی کی اصلاح کی خاطر ان کٹھن منزلوں میں سے خدا کی محبت سے معمور ہوکر گزرتے ہیں تو ایسے خدا کی محبت کی قدرت کیسی عجیب ہوگی وہ منجی کی محبت سے مجبور ہوکر اور تائب ہوکر اس کے قدموں میں آجاتے ہیں لیکن وہ آسمانی باپ کی محبت بھری دعوت قبول کرکے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرتے ہیں ۔
حق تویہ ہے کہ خدا کی نظر میں معزز زندگی بسر کرنے والا گنہگار اور فاحشہ عورت دونوں برابر ہیں ۔یہ عبادت نما پارسا اپنے آپ کو اور دوسروں کو فر یب اور دھوکا دیتے ہیں پس خدا وند مسیح نے اپنے ہم عصر پارسا فریسیوں کو فرمایا ’’میں تم سے ایک حق بات کہتا ہوں کہ محصول لینے والے گنہگار اور کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں ‘‘(متی ۳۱:۲۱)۔
شخصے بزن فاحشہ گفتا مستی
ہر لحظہ بدام دیگر ے پابستی
گفتا۔ ہر آنچہ گوئی ہستم
اماتوچنا نچہ نمائی ہستی
(عمر خیام )
یہ عبادت نما پارسا فریسی جو ابن اللہ کے خون کے پیاسے تھے ۔آپ کو از روئے طعنہ ’’اچھوت محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا یا ر ‘‘کہتے تھے (متی ۱۹:۱۱) اور بیچارے نہیں جانتے تھے کہ بالفاظ یہودی عالم ڈاکٹر مونٹی فیوری
’’یہ خطاب درحقیقت یسوع کا تاج ہے ‘‘۔
منجی جہاں کی صلیب کے نیچےکی زمین ہموار ہے جہاں دنیا کے بڑے او ر چھوٹے گنہگار ایک ہی سطح پر کھڑے ہوتے ہیں ۔اس جگہ کو ئی گنا ہ ’’معمولی ‘‘گناہ نہیں ہے ،بلکہ ہر گنا ہ گھنونا ہے ۔جو خدا کو انسان سے جدا کر دیتا ہے اور خداکی محبت کو ٹھکراتا ہے ۔وہاں غرور ،تکبر ،حسد وغیرہ ویسے ہی گھنونے گناہ ہیں جیسے جنسی گناہ اور سب گنہگار صلیب مسیح پر سے مغفرت کا کلمہ سن کر داخل فردوس ہوتے ہیں (لوقا ۴۳:۲۳)۔ ہر گنہگار ایماندار فرزند ہوجاتا ہے ۔وہاں ناامیدوں کو سچی امید اور ناقابل معافی گنہگار وں کو خدا کی محبت کا ازلی اور ابدی پیغام ملتا ہے جن کو دنیا اور دیگر مذاہب کسی طرح بھی محبت کرنے کے قابل نہیں سمجھتے ۔
خدا کی محبت اور گناہوں کی مغفرت
منجی عالمین کی تعلیم کے مطابق گناہ اس رفاقت کے قطع (ڈھنگ،کاٹ)ہونے کا نام ہے جو انسان خدا کے ساتھ رکھتا ہے ۔خدا انسان سے اپنی محبت کی وجہ سے رفاقت رکھتا ہے (یرمیاہ ۳:۳۱؛ ملاکی ۲:۱؛ یوحنا ۱۶:۳ وغیرہ)۔ وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے دلوں میں سکونت کرتا ہے ( یوحنا ۲۳:۱۴؛ ۱۔یوحنا۲۴:۲؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۹:۶ وغیرہ) لیکن انسان فاعل خود مختار ہونے کی وجہ سے گناہ کرکے اس رفاقت کے تعلق کو آپ توڑ دیتا ہے ۔ چنانچہ کتاب ِ مقدس میں پروردگار فرماتے ہیں کہ’’دیکھو خدا کا ہاتھ چھوٹا نہیں کہ وہ بچانہ سکے اور اس کا کان بھاری نہیں کہ وہ سن نہ سکے ۔ بلکہ تمہاری بدکاریاں تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جدائی پیدا کرتی ہیں اور تمہارے گناہوں نے اس کو تم سے روپوش کیا ہے (یسعیاہ۱:۵۹)۔ پس گناہ کا وجود انسان کی محبت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے ۔ چنانچہ انجیل میں ارشاد ہوا ہے’’ اگر کوئی کہے کہ میں خدا سے محبت رکھتا ہوں اور اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو وہ جھوٹا ہے جو کوئی خدا میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ ۔۔جب ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں‘‘(۱۔یوحنا ۲۰:۴)۔ پس گناہ کا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ گناہ گار خدا کی ابدی محبت کو ٹھکرادیتاہے اور خود رائی کرکے اسکی طرف سے منہ موڑ لیتا ہے ۔
کتاب مقدس نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ اگرچہ گناہ گار انسان خدا کی محبت سے اپنی بغاوت کی وجہ سے منہ موڑلیتا ہے تاہم خدا کی محبت اٹل ہے (یسعیاہ۱۰:۵۴؛ ۵۱: ۶)۔ خدا کی محبت یہ نہیں چاہتی کہ اس کا گناہ گار فرزند ہلاک ہو(متی ۱۴:۱۸؛ یوحنا ۳۹:۶؛ ۲۸:۱۰؛ رومیوں ۱۲:۲؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۸:۱؛ ۲۔پطرس ۹:۳ وغیرہ)۔بلکہ اس بات کی متمنی اور خواہاں ہے کہ بد ترین گناہ گار ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا ۱۶:۳) ۔خداکی محبت ہمیشہ اس انتظار میں رہتی ہے کہ گناہ گار اس کی طرف رجوع کرے(لوقا ۱۵ باب) اور اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو وہ گناہ گار کی تلاش میں نکلتی ہے(لوقا ۱۰:۱۹؛ ۴:۱۵، ۸؛ متی ۶:۱۰؛ ۱۲:۱۸ وغیرہ)۔ جس طرح ایک باپ اپنے گم گشتہ فرزند کو تلاش کرتا ہے ۔خدا کی محبت گناہ گار کو تلاش کرتی ہے(حزقی ایل ۱۰:۳۴؛ لوقا ۲۰:۱۵؛ متی ۳:۹؛ یوحنا۲۸:۱۰؛ ۱۔پطرس ۲۵:۲ وغیرہ)۔
اے واقف اسرار ضمیر ہمہ کس درحالت عجز دستگیر ہمہ کس
یا رب تو مرا توبہ وہ عذر پذیر اے توبہ وہ دعذر پزیر ہمہ کس
(خیام )
جس طرح ماں کی ماممتا اپنے ناخلف(بدکار لڑکا) بیٹے کے لئے بے چین رہتی ہے اور اس کا دل اپنے بچے کے لئے تڑپتا رہتاہے جب تک وہ بچہ اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اس کی طرف رجوع نہیں کرتا ۔اسی طرح خدا کی محبت بے قرار اور بے چین رہتی ہے(یسعیاہ۱۵:۴۹) جب تک اس کا گہنگار بیٹا اس کی لازوال محبت کو دیکھ کر توبہ کرکے (زبور ۲۶:۸۹ )یہ نہیں کہتا’’اے باپ میں تیری نظر میں گناہ گار ہوا اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں (لوقا ۲۲:۱۵)۔ جب گناہ گار تائب ہوکر رجوع کرتا ہے تو منجی عالمین فرماتے ہیں کہ’’ایک توبہ کرنے والے گناہ گار کی بابت آسمان کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے(لوقا ۱۰:۱۵)۔
(۲)
پس خدا کی محبت گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے(یوحنا۱۶:۳) ۔چونکہ خدا محبت ہے اس کی محبت اس پر قادر ہے کہ دنیا کے بدترین شیطان خصلت انسان کو بھی فرشتہ خصلت اور خدا کی صورت پر بنادے ۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں ابن اللہ اکیلا شخص ہے جس نے گناہ گار دنیا پر خدا کی لازوال اور ابدی محبت کی حقیقت کومنکشف کیا۔ انجیل جلیل کا سطحی مطالعہ بھی اس بات کو ظاہر کردیتاہے کہ آنخدواند نے نہ صرف اپنی تعلیم اور اصول کی تلقین سے خدا کی اٹل محبت کو ظاہر کیا (یوحنا ۱۸:۱)۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ موثر طریقہ پر آپ نے اپنی زندگی سے خدا کی محبت کو ظاہر کیا۔ آپ محبت مجسم تھے۔ الہٰی محبت آپ کے ایک ایک کام ایک ایک لفظ اور ایک ا یک اداسے ٹپکتی تھی۔ بالخصوص گناہ گاروں کو تلاش کرنے کی تڑپ آپ کے دل میں ہر وقت موجود تھی۔ آپ نے فرمایا’’ابن آدم اس مقصد کے لئے دنیا میں آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈے اور نجات دے‘‘(لوقا۱۰:۱۹؛ متی ۱۳:۹؛ ۶:۱۰؛ ۲۴:۱۵؛ ۱۲:۱۸؛ مرقس ۱۷:۲؛ یوحنا ۱۴:۵ وغیرہ)’’ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلے سے نجات پائے ‘‘(یوحنا۱۷:۳)۔ چونکہ صرف منجی عالمین ہی الہٰی محبت کا کامل اور اکمل مظہر ہیں۔ لہٰذا الہٰی محبت آپ کے وسیلے سے گناہ گاروں کو از سر نو صراط مستقیم پر لا کر ان کو نجات بخشتی ہے(یوحنا ۶:۱۴؛ عبرانیوں ۸:۹؛ ۲۰:۱۰ وغیرہ)۔بالفاظ ِ دیگر آپ کے سوا’’ کسی دوسرے کے وسیلے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے بنی آدم کوکوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلے سے نجات پاسکیں‘‘(اعمال۱۲:۴)۔
اس الہٰی محبت کا عظیم الشان مظاہرہ منجی جہان کی صلیب پر ہوا۔ جس طرح کسی کھوئے ہوئے بیٹے کی ماں کی محبت کا مظاہرہ ماں کے دکھ رنج وغم میں ہوتا ہے ۔جس طرح یہ دکھ الم اور رنج کھوئے ہوئے بیٹے کے گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے ۔اسی طرح منجی کونین کی صلیب دنیا کے گناہ گاروں کےگناہوں کا نتیجہ ہے ۔ جس طرح گناہ گار بیٹا اپنی ماں کا غم اور الم دیکھ کر اپنے گناہوں سے تائب ہوتا ہے ۔اسی طرح گناہ گار انسان منجی عالمین کی صلیب پر دھیان کرکے اپنے گناہوں سے تائب ہوتا ہے ۔ کامل محبت ہر طرح کا دکھ اٹھا نے کو تیار ہوتی ہے ۔ عرفی نے کیا خوب کہا ہے ؎
کسے بہ زمرہ ارباب دل نداردرہ کہ تحفہ زنسیم بلا نمی آرد
محبت کرنا اورمحبوب کی خاطر دکھ اٹھانا دونوں باتیں درحقیقت ایک ہی شئے کےدور خ اور تصویر یں ہیں۔ پس الہٰی محبت جو کا مل ہے محبوب گناہ گار انسان کے لئے ہر طرح کا دکھ اٹھانے کو تیار ہے۔ لہٰذا منجی عالمین گناہ گار انسان کی خاطر اپنی جان دریغ نہ کی(یوحنا۱۳:۱۵) اور’’ موت بلکہ صلیبی موت بھی گوارا کی‘‘(فلپیوں ۹:۲)’’ جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دنیوں کی خاطر موا کسی راستباز کی خاطر بھی کوئی مشکل سے اپنی جان دے گا۔ مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے اپنی جان تک دینے کی جرات کرے ۔ لیکن خدا نے اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کی کہ جب ہم گناہ گار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلے سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اس کی زندگی کے سبب ضرور ہی بچیں گے ۔ جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں الہٰی فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا تاکہ جس طرح گناہ نے ہمارے اوپر بادشاہی کی اسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند مسیح کے وسیلے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ بادشاہی کرے ۔ تم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح میں زندہ سمجھو(رومیوں ۵ باب)۔ پس الہٰی محبت نے’’ مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کرلیا۔ اس نے میل ملاپ کا پیغام ہمارے سپرد کیا ہے۔ پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں گویا ہمارے وسیلے سے خدا التماس کرتا ہے ۔ ہم مسیح کی طرف سے منت کرتے ہیں کہ خدا سے میل ملاپ کرلو(۲۔کرنتھیوں ۱۶:۵)’’ پس محبت میں چلو جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور اپنے آپ کو قربان کردیا‘‘(افسیوں ۲:۵ )’’ خدا نے ہم کو غضب کے لئے مقرر نہیں کیا بلکہ اس لئے کیا کہ ہم اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے نجات حاصل کریں‘‘(تھسلینکیوں۹:۵)۔ پس ’’یہ بات حق اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح گناہ گاروں کو نجات دینے کے لئے دنیا میں آیا جن میں سے سب سے بڑا گناہ گار میں ہوں ۔ مجھ پر رحم اس لئے ہواکہ مسیح نے مجھ بڑے گناہ گار میں اپنی نجات کا کمال تحمل ظاہر کرے‘‘(۱۔تیمتھیس ۱۵:۱)’’ خدا محبت ہے ۔ جومحبت خدا کو ہم سے ہے وہ اس لئے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے سبب سے زندہ رہیں ‘‘(۱۔یوحنا ۹:۴)۔ گنہگار کی آنسو بھری توبہ اور اس کے گناہوں کی مغفرت ،سب خدا کی اس محبت کا نتیجہ ہیں جس کا کامل ظہور ابن اللہ کی صلیب پر ہوا (مرقس ۷۲:۱۴؛ متی ۷۵:۲۶ ؛ لوقا ۶۲:۲۲ )۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق ِ انفعال کے
ہم صلیب پر خدا کا مظاہرہ دیکھ کر اس کی محبت پر ایمان لاکر راستباز ٹھہرتے ہیں خدا کی محبت ہمارے دلو ں میں موجزن ہوکر ہماری مردہ قوت ارادی میں ازسر نو جان ڈال دیتی ہے ہم کو نہ صرف نصوح(پکی توبہ ) توبہ حاصل ہوتی ہے بلکہ ہمارا خدا کے سا تھ میل ملاپ ہوجا تا ہے (رومیوں۵باب)۔
(۳)
منجی عالمین کے ذریعہ دنیا کے ہر ملک قوم اور زمانہ کے ہر فرد بشر کو نجات ملتی ہے کیونکہ ؎
ہرچند کہ نیست رنگ وبویم
آخر نہ گیا ہ باغ اویم !
یہ نجات ہمارے اعمال پر منحصر نہیں۔ ہم گناہ گاروں کے’’گناہ کی مزدوری موت مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح میں ہمیشہ کی زندگی‘‘ (رومیوں ۲۳:۶) جس طرح ماں کا گم گشتہ بیٹا اپنے اعمال کے باعث ما ں کی معافی حاصل نہیں کرسکتا بلکہ ماں کی محبت اس معافی کی محرک ہوتی ہے ۔اسی طرح خدا کی محبت ہمارے گناہوں کی معافی کی محرک ہے ۔’’محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا‘‘(۱۔یوحنا۴: ۱۰) ’’تم کو ایمان کے وسیلے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب ‘‘(افسیوں ۸:۲)۔جس طرح قرآن کی سورتوں کے شروع میں خدا کے رحم پر نمایاں زور دیا گیا ہے اسی طرح انجیل کے ہر ورق میں خدا کے فضل پر زور دیا گیا ہے جو اس کی محبت کا فعل ہے ’’اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو یسوع مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں(رومیوں ۱۶:۳)؎
ماراتو بہشت اگر بطاعت بخشی
ایں مزدبودو لطف وعطائے تو کجاست
(۴)
ہم نے دنیا وی ماں کی محبت کی مثال سے منجی کونین کی عالم گیر نجات کو واضح کیا ہے۔ کیونکہ ہم کو انسانی تعلقات میں الہٰی محبت کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور ہم اس طور پر خدا کی محبت کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ہم ان تعلقات کے ذریعہ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کس طرح گناہ گار انسان کی انتظار اور تلاش میں رہتا ہے اور اس کے ساتھ از سر نومیل ملاپ کرنے کے لئے ہر طرح کا رنج اوردکھ درد اور تڑپ محسوس کرتا ہے(لوقا ۱۵ باب )۔ اس بے بہا اور لازوال محبت کے کمال کو دیکھ کر گناہ گار کے دل میں توبہ کا خیال پیدا ہوتا ہے (رومیوں ۴:۲)اور وہ مصمم ارادہ کرلیتاہے کہ خدا سے فضل اور توفیق حاصل کرکے وہ آئندہ ’’نئی زندگی کی راہ‘‘ پر چلے گا(رومیوں ۴:۶) ۔نجات کے کام میں پیش قدمی خدا کی محبت کرتی ہے ؎
بوے گل خود بہ چمن راہ نماشد زنخست
ورنہ بلبل چہ خبر داشت کہ گلزار ے ہست
چونکہ خداوند مسیح خدا کی محبت کا کامل اور اکمل مظہر ہے ۔لہٰذا آپ کی زندگی اور موت خدا کی محبت کے اعلیٰ ترین مظہر ہیں۔ اگر کوئی شخص ہم سے اس قدر محبت رکھے کہ وہ اپنی جان ہماری خاطر دے دے تو اس کی زندگی اور موت کی شکر گزاری کا جذبہ(یوحنا۳:۱۵؛ ۱۔کرنتھیوں ۲۶:۱۱)۔ ہمارے دلوں میں ایک ایسی قوت پیدا کردیتا ہے اور ہماری قوتِ ارادی کو ایسی تقویت عطا کردیتاہے جس کا مقابلہ دنیا اور شیطان کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی(رومیوں ۳۵:۸۔۳۷؛ ۶:۵) یہ جذبہ از سر نو خدا کے ساتھ ہماری رفاقت قائم کردیتا ہے اور یوں گناہ کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ گناہ جیسا ہم کہہ چکے ہیں اس رفاقت کے ٹوٹنے کا نام ہے جو شیطانی خیا لات وجذبات اور افعال کرنے کا نتیجہ تھا۔ لیکن’’خدا کا بیٹا اسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹا دے‘‘(یوحنا۸:۳)۔ اس نئی قوت کی طاقت اتنی ہی زیادہ زبردست ہوگی جتنا زیادہ محبت کا مظاہرہ ہوگا(لوقا ۲۶:۷۔۵۰)۔ پس جب منجی کونین کی زندگی اور موت الہٰی محبت کاکامل اور اکمل مظاہرہ ہے تو اس نئی قوت کی طاقت بھی جو ہماری قوت ارادی میں پھونکی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ کامل اورمکمل ہوگی۔ چونکہ یہ ایک تورایخی حقیقت ہے کہ روئے زمین پر منجی کونین کے سوا کسی اور شخص نے اپنی زندگی اور موت سے الہٰی محبت کو اس کامل پایہ تک ظاہر نہیں کیا(یوحنا ۱۸:۱؛ متی ۲۷:۱۱؛ یوحنا۲۶:۱۷؛ ۹:۱۴؛ ۴۵:۱۲؛ کلسیوں ۱۵:۱؛ عبرانیوں ۳:۱ وغیرہ)۔ لہٰذا یسوع مسیح کے نام کے سوا کوئی’’دوسرا نام نہیں دیا گیا جس کے وسیلے سے نجات ہوسکے‘‘(اعمال ۱۲:۴) جو نئی قوت کلمتہ الله کے وسیلے ہر زمانہ ملک اور قوم غرض یہ کہ دنیا جہان کے افراد کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے وہ اس قدر طاقت اور قدرت رکھتی ہے کہ انکے تمام گناہوں سےان کی مخلصی اور نجات دلا کر ان کی خدا کے ساتھ از سر نو دائمی رفاقت قائم کردیتی ہے(متی۲۱:۱؛ یوحنا۴۷:۱۲؛ ۱۔تیمتھیس۱۵:۱؛ طیطس۵:۳؛ عبرانیوں ۳۵:۷؛ یوحنا۳۷:۷ وغیرہ) اور انسان کی قوتِ ارادی تقویت حاصل کرکے اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ از سر نو شیطان اور گناہ کا مقابلہ کرسکے اور خداوند مسیح سے توفیق حاصل کر کے اس پر غالب آسکے اور اگر وہ پھر بھی جا تا ہے تو وہ مغلوب نہیں ہوتا ۔کیونکہ خداوند اس کو اپنے ہاتھ سے پھر سنبھالتا ہے (زبور۲۴:۳۷؛ یوحنا۱۶:۱۔۱۷؛ متی۲۸:۱۱؛ یوحنا۳۷:۷؛ ۱۴:۴؛ رومیوں ۲۴:۳؛ ۲۰:۵؛ ۱۰:۱۵؛ ۲۔کرنتھیوں ۸:۹؛ گلتیوں ۲۱:۲؛ افسیوں ۷:۱؛ ۷:۲۔۸؛ ۷:۴؛ ۱۔تیمتھیس۱۴:۱؛ ۲۔تیمتھیس ۹:۱؛۱:۲؛طیطس۱۱:۲؛ ۷:۳؛ عبرانیوں ۱۶:۴ وغیرہ)۔’’پس اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے ۔پرانی باتیں اور عادتیں جاتی رہیں دیکھو وہ نئی ہوگئیں‘‘(۲۔کرنتھیوں ۱۷:۵)۔چنانچہ خداوند فرماتا ہے ’’دیکھو میں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کرتا ہوں ۔گذشتہ زمانہ کی باتیں بھولی بسری ہوگئیں ۔وہ خیا ل میں بھی نہ آئیں گی ۔بنی نوانسان میری اس نئی خلقت سے ابدی خوشی اور شادمانی کریں گے ‘‘(یسعیاہ۱۷:۶۵۔۱۸)۔
پس اس دنیا میں مسیحیت ہی اکیلا مذہب ہے جو صرف ارفع اصول کو بیان کرنے اور اعلیٰ نمونہ دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ ان اصولوں پر عمل کرنے کی اور اس نمونہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بھی بخشتا ہے ۔ خداوند مسیح دنیا میں واحد شخص ہیں جن کی زندگی اور موت کے ذریعہ گناہ گار انسان اعلیٰ ترین اخلاقی معیار پر چلنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مقدس یوحنا فرماتاہے کہ’’شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر توفیق اور فضل اور حقیقت مسیح کی معرفت ملی‘‘(یوحنا۱۷:۱) اسی لئے خداوند مسیح کی شخصیت کے ساتھ انجیل جلیل میں لفظ’’قدرت‘‘ بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ مورخ لیکی (Lecky)اس پر صاد (اقرار)کرکے کہتا ہے کہ
’’ مسیحیت نے دنیا کو ایک اعلیٰ ترین معیار ایک شخص کی زندگی میں دکھادیا۔ مسیحیت میں نہ صرف نیکی کا اعلیٰ ترین نمونہ پایا جاتا ہے بلکہ اس میں تمام دیگر انسانوں کے لئے تحریک اور ترغیب بھی موجود ہے کہ وہ اس نمونہ کے نقش ِ قدم پر چل سکیں۔ کیونکہ مسیحیت زندگی کا راستہ ہے‘‘
(History of European Morals, vol 2)
فرانس کاعقل پرست رینان (Renan) کہتا ہے
’’مسیحیت نے شرعی قوانین وقواعد وضع نہ کئے بلکہ عالم گیر اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ۔ اور ساتھ ہی اس نے دنیا میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ جس نے دنیا کی بدکاریوں اور سیہ کاریوں کی بیخ کنی کرکے دنیا کی کایا پلٹ دی ہے ‘‘۔
زمین از کوکب ِ تقدیر ماگردوں شود روزے
فروغ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے
مسیحی تجربہ کی حقیقت
چونکہ منجی عالمین کی زندگی اور موت کےو سیلے بنی نوع انسان کی سلب شدہ قوت ارادی از سر نو تقویت پاکر زندہ ہوجاتی ہے لہٰذا صلیب مسیحیت کامرکز ہے ۔ ابن الله کی صلیبی موت محض ایک تواریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ خدا کی ازلی محبت کی حقیقت کی ایک نہایت اہم جھلک ہے ۔ صلیب ایک مایوس دنیا کے لئے نجات کا فرحت افز ا پیغام ہے کیونکہ وہ خدا کی ازلی اور ابدی محبت کا اعلی ٰ ترین مکاشفہ ہے ۔ جس طرح تائب بیٹا اپنے باپ کے دکھ اور الم کی روشنی میں اپنی سیاہ کاریوں کو دیکھ کر پچھتاتا ہے اسی طرح تائب گناہ گار مسیح کی صلیب کی روشنی میں اپنے گناہوں کی گھنونی حالت دیکھ کر پشیمان ہوتا ہے پس مسیح کی صلیب بنی آدم کی نجات کے ساتھ وابستہ ہے اور منجی عالمین کی موت اور دنیا بھر کے شہدا کی موت میں یہی عظیم فرق ہے ۔ صلیب کے بغیر گناہوں کی معافی کا عقیدہ بے معنی ہوجاتا ہے ۔کیونکہ وہ اس اخلاقی عنصر سے سراسر خالی ہوجاتاہے جو الہٰی محبت کی وجہ سے مسیحی نجات کے تصور میں موجودہے۔ صلیب کے ذریعہ ہر گناہ گار کو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ خدا اس کو معاف کرتا ہے کیونکہ خدا اس سے محبت رکھتا ہے ۔ الہٰی محبت کی وجہ سے’’جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا تاکہ جس طرح گناہ نے بادشاہی کی اسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند مسیح کے وسیلے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ بادشاہی کرے ‘‘(رومیوں ۲۰:۵)۔
(۲)
لیکن کیا گناہ گار کو گناہ کرنے میں اسی طرح دلیری نہیں ہوجاتی ہے ؟یہ سوال قابل ِ غور ہے ہم انسانی مثال کے پر ذرا خیال کریں۔ کیاتائب بیٹے کودلیری ہوجاتی ہے جب اس کا باپ اپنی محبت کی وجہ سے اس کا خطا کاریوں کو معاف کرتا ہے ؟ہم تجربہ سے جانتے ہیں کہ تائب بیٹے کو يہ خیال نہیں آتا کہ چونکہ میرے باپ نے مجھے معاف کردیا ہے ۔چلو چھٹی ہوئی آؤ گناہ کرلیں۔ اگر اس قسم کا خیال اس کے دل میں آئے گا تو یہ ظاہر ہوجائے گا کہ اس نے اپنے باپ کے دکھ اور رنج کا احساس نہیں کیا اور اس کی محبت کی قدر نہیں کی بالفاظ دیگر وہ درحقیقت تائب ہی نہیں ہوا۔ اس کی توبہ نصوح نہیں بلکہ محض زبانی جمع خرچ ہے ۔ اسی طرح جس تائب گناہ گار نے مسیح کی صلیب پر خدا کی محبت کا جلوہ دیکھا ہے اور اس کی قدر کی ہے اور اس کا احساس کیا ہے اس کا دل دوبارہ گناہ کرکے خدا کی محبت ٹھکرانے کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ۔ خدا کی محبت اس کو رضائے الہٰی کی پابند کردیتی ہے۔
در پے بیٹھے ہیں تیرے بے زنجیر
ہائے کس طرح کی پابندی ہے
پس انجیل شریف میں اس سوال کے متعلق’’کیا ہم گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو‘‘؟ ارشاد ہے’’ ہر گز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مرگئے کیوں کر اس میں آئندہ کو زندگی گزاریں ۔ ہم جتنوں نے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اسکی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا ،تاکہ ہم نئی زندگی کی راہ چلیں اور گناہ کا بدن بیکار ہوجائے اور ہم آئندہ گناہ کی غلامی میں نہ رہیں۔ پس تم اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح میں زندہ سمجھو ‘‘۔
یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقد ِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح ؟
’’پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے او راپنے اعضا نا راستی کے ہتھیار ہونے کے لئے گناہ کے حوالے نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں سے زندہ جان کر اپنے اعضا راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خدا کے حوالے کرو اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار نہ ہوگا۔ کیونکہ تم پہلے گناہ کے غلام تھے لیکن ان باتوں سے اب شرمندہ ہو اور اب گناہ سے آزاد ہوکر راستبازی کے غلام ہوگئے ہو اور اس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے‘‘کیونکہ گناہ کا لازمی نتیجہ روحانی موت ہے مگر خدا کی بخشش ہما رے خدا وند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے (رومیوں ۶ باب)۔
اس طرح طے کی ہم نے منزلیں
گر پڑے ۔گر کر اُٹھے ۔اُ ٹھ کرچلے
(۳)
صلیب کے ذریعہ ہر ایماندار از سر نوزندہ ہوکر مسیح میں پیوند ہوجاتا ہے کلمتہ اللہ نے فرمایا تھا کہ’’ انگور کی حقیقی درخت میں ہوں۔۔۔۔ تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کی درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لاسکتی اسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لاسکتے۔ میں انگور کی درخت ہوں۔تم ڈالیاں ہو۔ جومجھ میں قائم رہتاہے اور میں اس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہوکر تم کچھ نہیں کرسکتے‘‘(یوحنا۱۵ باب)۔ پس رسول اپنا تجربہ بیان کرکے کہتے ہیں’’ میں مسیح کےساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور میں جو زندگی اب جسم میں گزارتا ہوں وہ ابن اللہ پرایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی‘‘ (گلتیوں ۲۰:۲)۔’’زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے‘‘(فلپیوں ۲۱:۱)’’مسیح ہمارے لئے زندگی ہے‘‘(کلسیوں ۴:۳) خدا کا جو روحانی تجربہ مسیحیوں کے دلوں میں ہے اس کا جزو لاینفک آنخداوند کی صلیب اور قیامت ہے ۔ اگر ان کوالگ کردیں تو مسیحی تجربہ صفر کے برابر رہ جاتا ہے۔ اس روحانی تجربہ کا سر چشمہ اور مرکز ابن اللہ کی شخصیت ہے ۔اس کاتجربہ ا وّل مسیح ہے اور اس کا آخر بھی مسیح ہے۔اس تجربہ سےہم جانتے ہیں کہ ہمارا خداوند ہمارے’’اندر‘‘ موجو دہے(یوحنا۱۳:۱۴، ۲۷) اور’’ہمیشہ دنیا کے آخر تک‘‘ ہمارے ساتھ ہے (متی ۲۰:۲۸) جس طرح رگ میں خون اور تن میں جان ہے اسی طرح مسیح کی روح ہم میں رواں ہے۔
دیگر مذاہب کےتجربات میں مسیحی تجربہ کی یہ خصوصیت مفقود(نامعلوم) ہے۔ تصوف میں وجد وغیرہ ہے ۔ لیکن مسیحی تجربہ کے امتیازی نشان نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی تصوف اور اسلامی تصوف اور ہندو فلسفہ میں آسمان زمین کا فرق ہے چنانچہ یہودی ربی عالم سلیمان فری ہوف (S.Frehof)کہتا ہے
’’یہ بات ہم کو طوعاً وکر ہاً(جبراً،خواہ مخواہ ) ماننی پڑتی ہے کہ کروڑ ہا مردوں اور عورتوں کے دلوں میں خدا کی حضوری کا احساس مسیح کےذریعہ ہوتا ہے۔ مسیحی علم ادب کا ہر طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ مسیح کی قوت کاراز اس کی شخصیت کے اندر مضمر(پوشیدہ )ہے ۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ زمانہ نے اس تصویر کو اب تک کیوں محو نہیں کردیا۔یسوع مسیح اب بھی بے شمار انسانوں کا زندہ ساتھی ہے۔ کسی مسلمان کے منہ سے ایسا گیت نہ نکلا۔’’محمد میری روح کے عاشق ۔ تیرے پاس میں بھاگتا ہوں۔ میری آڑ ہو یا محمد’’ کسی یہودی نے ایسا گیت کبھی نہ گایا۔اے موسیٰ مجھے ہرساعت تیری ضرورت ہے ۔تو مجھے درکار ہے ۔دے برکت اے موسیٰ میں تیرے پاس آیا ہوں ‘‘۔مسیح کی خصوصیت اس کی تعلیم یا اس کی کلیسیا کی تنظیم میں نہیں بلکہ اس اثر میں ہے جس سے وہ اپنے پیروؤں کے دلوں کومتاثر کردیتا ہے ‘‘۔
(Stormers of Heaven)
مسیحی روحانی تجربہ دیگر مذاہب کے روحانی تجربوں سے اس جہت سے مختلف ہے کیونکہ ہر دیگر مذہب کا بانی مرگیا اور اس کی دنیاوی زندگی کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا ۔لیکن گو خداوند مسیح مصلوب ہوا اور مرگیا لیکن موت نے آپ کی زندگی کا خاتمہ نہ کیا۔ آپ مردوں میں سے جی اٹھے اور اپنی ظفریاب قیامت کے ذریعہ آپ نے موت اور قبر پر فتح پائی اور اب آپ کی زندہ روح مومنین کے دلوں کے اندر بستی ہے۔ قرآن میں کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں کہ رسول عربی کی روح وفات کے بعد مسلمانو ں کی روحوں کے ساتھ زندہ رفاقت رکھے گی ۔کیا قرآن یا کسی اور مذہب کی کتاب میں اس قسم کی بات اس کے بانی کی نسبت منسوب کی گئی ہے ۔’’جس طرح اے باپ تو مجھ (مسیح ) میں ہے اور میں تجھ میں ہوں و ہ (تمام دنیا کے مسیحی )بھی ہم میں ہوں۔ وہ جلال جو تونے مجھے دیا ہے میں نے ان کو دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔اگر کوئی مجھ (مسیح) سے محبت رکھے تو میرا باپ اس سے محبت رکھے گا اور ہم اس کے پاس آئیں گے اور اس کے ساتھ سکونت کریں گے(یوحنا۲۱:۱۷؛ ۲۳:۱۴)۔ یہ تجربہ مسیحی علما ءفضلااور صوفیا تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر ایک نادان سے نادان مسیحی کا ہے ۔جو آپ پر زندہ ایمان رکھتا ہے خواہ وہ کسی قوم ملک یا نسل کا ہو۔ مسیحی تجربہ ایک عالم گیر تجربہ ہے ۔گذشتہ بیس (۲۰)صدیوں میں دنیا کا کوئی ملک قوم یا قبیلہ ایسا نہیں جس کے لاکھوں افراد اس عالم گیر تجربہ سے بہرہ ورنہ ہوئے ہوں۔یہ تجربہ مسیح کی عالمگیر ہستی کا زندہ ثبوت ہے۔
(۴)
تاریخ عالم ہم کو بتلاتی ہے کہ بنی نوع انسان کے تمام روحانی تجربوں میں صرف ان لوگوں کا تجربہ ہی اعلیٰ ترین قسم کا ہے جو منجی عالمین کے حقیقی پیرو ہیں۔ دیگر مذاہب عالم کے پیروروحانیت کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے۔ ان مذاہب میں نیک انسان ہوئے ہیں، کیونکہ جیسا ہم بابِ دوم کی دوسری فصل میں کہہ چکے ہیں کوئی مذہب ایسا نہیں جو صداقت کے عنصر سے خالی ہو۔ لیکن جب مسیحیت کے روحانی تجربہ اور دیگر مذاہب کے مقلدین کے روحانی تجربہ کا مقابلہ کیا جاتا ہے، تو یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ جس طور سے مسیحیت نے دنیا کے بد ترین خلائق کو مقدس ہستیوں میں تبدیل کردیا ہے اس کی نظیر روئے زمین کے مذاہب میں نہیں ملتی۔ چنانچہ مشہور مورخ سیلی (J.R.Seeley)اس امر پر تاریخ نقطہ نگاہ سے نظر کرکے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ
’’جو روحانی پاکیزگی مسیحی صدیوں میں ظہور پذیر ہوئی ہے اس کا مسیحیت سے قبل وجود بھی نہ تھا۔مسیحیت میں یہ صلاحیت ہے کہ بنی نوع انسان کو از سر نو خلق کردے اور اس نے ایسا کرکے دکھا بھی دیا ہے اور پاکیزگی کا ایسا اعلیٰ معیار قائم کردیا ہے کہ دوسرے مذاہب اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے ‘‘۔
مسیح کی زندہ شخصیت ایسی لاثانی ہے کہ اس کے ذریعہ خدا کے بیٹے وجود میں آتے ہیں(رومیوں ۱۴:۸۔ ۱۷) منجی عالم کا اثر ایسا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو خدا کے بیٹے بنانے کی قدرت رکھتا ہے(یوحنا۱۲:۱)۔ وہ ایک کامل ہستی ہے اور اس کا کمال اس بات کا متقاضی ہے کہ نوع انسان کامل ہوجائے ۔ اس کے مقابل میں تمام دیگر ادیان عالم بے بس اور لاچار ہیں ،لیکن مسیح فاتح ہے ۔وہ تمام بنی نوع انسان کا واحد حکمران ہے اور تاابد تاجدار رہے گا کیونکہ وہی الفا اور اومیگا ،اول اور آخر ،ابتدا اور انتہا ہے(مکاشفہ ۲۷:۲۱) ۔
بالفاظ قرآن (ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ)(سورۃ حدید آیت ۳)
برکت اللہ