1891-1972
RALLAMA BARAKAT ULLAH, M.A.F.R.A.S
Fellow of the Royal Asiatic Socieity London
دیباچہ
اسلام اور نیچریت
اہل اسلام اپنے مذہب کی حقانیت کے ثبوت میں بسا اوقات (بعض دفعہ)یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اسلام فطرت کےعین مطابق ہے ۔لہٰذا وہ بر حق ہے ۔
اگر ہم غلطی پر نہیں تو غالباً سرسید مرحوم بالقابہ ہندوستانی مسلمانوں میں پہلے شخص تھے ۔ جنہوں نے اہل مغرب سے نیچری نظریہ کا سبق سیکھ کر اسلام میں نیچری مذہب کی بنیادڈالی۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ ’’اسلام دین فطرت ہے ‘‘۔ آپ نے ’’الاسلام ہوفطرة والفطرة ہی الاسلامہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ انیسویں(۱۹) صدی میں مغرب کے سائنس دان نیچریت(فطرت) کے حامی اور دلدادہ (عاشق)تھے۔ ہندوستان میں مغربی علوم کی روشنی نئی نئی آئی تھی لہٰذا تعلیم یافتہ مغرب زدہ مسلمان بقول شخصے ۔
درپس آئنہ طوطی صفتم داشتہ اند
آنچہ استاد ِ ازل گفت ہماں میگوئم
سائنس اور نیچریت کے عاشق ہوگئے ۔ انہوں نے خدا اور رسول سے منہ موڑلیا۔ مذہب کے نام سے بیزار ہوگئے ۔ اور دین کے اصول کو بالائے طاق رکھ دیا۔ سرسید مرحوم نے ہندی اسلام کی نبض پر ہاتھ رکھا مرض کی تشخیص کی اور علاج یہ ڈھونڈا کہ اسلام کو نیچری لباس سے آراستہ اور پیراستہ کیا جائے تاکہ تعلیم یافتہ مسلمان از سر ِ نو اسلام کے حلقہ بگوش (فرمانبردار،غلام)ہو جائیں ۔ مرحوم کی زیرِ قیادت ہر طرف سے یہ آواز آنے لگی کہ اسلام دین ِفطرت ہے ۔ معدودے چند (بہت تھوڑے)علمائے اسلام نے نیچریت کے خلاف آواز اٹھائی ۔ اورسر سید مرحوم پر کفر کا فتویٰ صادر کیا۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز(بہت شور وغُل میں کمزور آواز کوکوئی نہیں سُن سکتا،بڑے آدمیوں کی رائے کے مقابلہ میں چھوٹوں کی آواز ان سنی ہوکر رہ جاتی ہے) کون سنتا ہے ۔ رفتہ رفتہ نیچریت کا خمیر اپنا اثر کرتا گیا، یہاں تک کہ دقیانوسی (پرانے)ملا نے(عالم فاضل) بھی اب یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے لہٰذا سچا ہے ۔
نیچریت کے نظریہ کا حشر
لیکن اس اثنا مغرب کے خیالات نے پلٹا کھایا۔ علمائے مغرب جو انیسویں(۱۹) صدی میں نیچریت کے شیدائی تھی ۔ بیسویں (۲۰)صدی کے آغاز میں اس نظریہ کے بدنما داغوں سے مطلع ہونے لگے۔ نیچریت کے نظریہ کے حسن وقبح(عیب،برائی) کا چرچا عام ہوگیا۔ اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ گذشتہ صدی میں خالص نیچریت کے نظریہ کا ماننے والا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اب ’’نیچریت‘‘ کے معنی تک بدل گئے ہیں۔ فطرت اور مافوق الفطرت میں جو امتیاز اور حد فاصل مقر ر کی گئی تھی ۔ اب بیسویں (۲۰)صدی کے علم کی روشنی میں وہ دیوار گرگئی ہے ۔ چنانچہ علامہ سر محمد اقبال کہتے ہیں ۔
’’ علم طبعیات نے اپنے بنیادی اصول کی جانچ پڑتال کی ہے ۔ اور جس بُت کو اس نے نصب کر رکھا تھا ۔ اس نے خود توڑ ڈالا ہے ۔ اور اب سائنس نے مادیت کے خلاف بغاوت اختیار کرلی ہے ۔ بالخصوص پروفیسر انسٹائن(Prof Enstin) کے ہاتھوں سے ماد ہ کے تصور کو جو کاری ضرب پہنچی ہے ۔ اس سے مادیت جانبر(محفوظ،صحیح سلامت) نہیں ہوسکی ‘‘ ۔
لیکن ہمارے مسلم برادران بمصداق ’’ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد تاحال سرسید مرحوم کا سکھایا ہوا سبق رٹ رہے ہیں‘‘۔
لفظ فطرت کا مفہوم
ہم نے اوپر ذکرکیا ہے کہ نیچریت کے معنی بھی وہ نہیں رہے جو انیسویں(۱۹) صدی میں رائج تھے ۔ پس لازم ہے کہ اس مضمون پر بحث کرنے سے پہلے ہم لفظ نیچریت یافطرت کے مفہوم کو متعین کردیں تاکہ مبحث (بحث یا تفتیش کاکام)خلط (ملاوٹ)نہ ہوجائے۔ بعض اوقات لفظ ’’فطرت ‘‘ لفظ ’’خدا ‘‘ کا متراد ف ہوتا ہے۔ لیکن ہم اس رسالہ میں اس لفظ کو ان معنوں میں استعمال نہیں کریں گے ۔ بعض اوقات اس لفظ سے مراد ’’خلقت‘‘ یا ’’کائنات ‘‘ ہوتی ہے ۔ لیکن ہم یہاں لفظ فطرت کو ان معنوں میں بھی استعمال نہیں کریں گے ۔ بعض اوقات لفظ ’’ فطرت ‘‘ کو فلسفیانہ جامہ پہنایا جاتا ہے ۔ اور اس سے مراد وہ نظریہ ہوتاہے جس کو ’’فطرت ‘‘ یا’’نیچریت‘‘ یا مذہب عقلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ نظریہ اپنی خالص عریانی(ننگا ہونا،برہنگی) صورت میں خدا ، روح اور تمام روحانی امورا اور قویٰ کا انکار کرتا ہے ۔ اس نظریہ کا لازمی نتیجہ کفرا الحاد اور مادیت(جسمانیت) ہے ۔ ہم اس رسالہ میں لفظ ’’ فطرت ‘‘ کو ان معنوں میں بھی استعمال نہیں کریں گے ۔ کیونکہ یہ نظریہ سرے سے اس رشتہ اور تعلق کی نفی کرتا ہے ۔ جو خدا اور انسان میں ہے ۔ اور جس کو دین یا مذہب کہتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہم اس رسالہ میں ذیل کے قضایا (قضیہ کی جمع ،جھگڑے فساد،مباحثے)کو فرض کر لیں گے ۔
(۱)خدا ہست ہے۔ (۲)خدا نے انسان کو خلق کیا ہے ۔(3)خدا اور انسان میں تعلق اور رشتہ پیدا اور قائم ہوسکتا ہے ۔(4)خدا نے انسان اور انسانی قویٰ کو کسی خاص مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے ۔(5)گو انسان کے جبلّی قویٰ (فطری قوت،پیدائشی قوت)اور انسانی تاریخ معاشرت اور تمدن کا مجرد (اکیلا،غیرشادی شدہ،وہ شے جو مادہ سے پاک ہو)مطالعہ ہم کو اس مقصد کی خبر نہیں دیتا۔ جس کی خاطر انسان خلق کیا گیا ہے ۔ تاہم مطالعہ اس امر کی تائید ضرور کرتا ہے ۔ کہ خالق نے انسان کو بے وجہ پیدا نہیں کیا۔ بلکہ انسانی تاریخ ہم کو ان مختلف منازل سے آگاہ کرسکتی ہے ۔ جن میں سے بنی نوع انسان کو اس مقصد کے حصول کے لئے گزرنا ہے ( رومیوں۲: ۱۴) ۔ہم اس رسالہ میں ان مفروضات کو ثابت کرنے کی بے سود کوشش کرکے اپنے اور اپنے ناظرین کا قیمتی وقت ضائع نہیں کریں گے ۔ اور نہ اس رسالہ کو بلا ضرورت طو ل دیں گے ۔ کیونکہ کسی معقول شخص کو جو مغرب کے انیسویں(۱۹) صدی کے نظریہ نیچریت کے پنجہ سے آزاد ہوگیاہے مذکورہ بالا امور کے ماننے میں دقت نہیں ہوگی۔
اس رسالہ ہم لفظ ’’فطرت ‘‘ کو صرف ان جبلّی قویٰ کےلئے استعمال کریں گے ۔ جو انسان میں ودیعت (امانت،سپردگی)کئے گئے ہیں۔ یہ جبلّی قویٰ وہ طبعی میلانات(رُجحان) ہیں جو ہر انسان کی فطرت میں داخل ہیں اور جن کے جائز اور مناسب استعمال سے ہر انسان اس منزل تک پہنچ سکتا ہے ۔ جو اس کی ہستی کی علت غائی(نتیجہ ،حاصل،پھل،وجہ) ہے ۔اس رسالہ میں ہم مسیحیت اور اسلام کو صرف اس کسوٹی(وہ پتھر جس پر سونے کو پرکھا جائے) پر پرکھیں گے ۔ تاکہ معلوم کریں کہ ان دونوں مذاہب میں سے کس مذہب میں انسان کو اس کے منزل ِ مقصود تک پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے ۔ مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ صر ف سیدنا عیسیٰ مسیح انسان کے جبلّی قویٰ اور طبعی میلانات کو خدا کے ازلی ارادہ اور مقصد کے مطابق پائہ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں۔ صرف ابن الله ہی ان وسائل کو بہم پہنچا سکتے ہیں۔ جن کو اختیار کرنے سے انسانی فطرت کی تمام جائز ضروریات بدرجہ احسن پوری ہوسکتی ہیں۔ صرف کلمتہ الله ہی اس تعلق کو قائم استوار اور زندہ رکھ سکتے ہیں۔ جو خدا اور انسان میں ہوناچاہیے ۔ مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان معنوں میں صرف وہی اکیلا مذہب ہے جو دین فطرت کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے ۔
مخالفین کو مراعات
اس رسالہ میں ہم نے اس بات کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ کہ علم نفسیات کی بحث میں سند صرف ان ماہر علماکی لی جائے جو مسیحیت کے حلقہ بگوش نہیں ہیں۔ چنانچہ اسی خیال کو مد نظر رکھ کر ہم نے پروفیسر مکڈوگل کی کتب پر اپنی بحث کا انحصار رکھا ہے ۔ مسیحیت اپنے مخالفین کو ہر طرح کی رعایت دینے کوتیار ہے ،کیونکہ ان تمام مراعات (رعایت،مروت،لحاظ)کےباوجود اس میں اپنے سب حریفوں(دشمنوں ) پر غالب آنے کی صلاحیت موجود ہے ۔
ہم نے اس رسالہ میں اہل اسلام کو ایک اور رعایت دے دی ہے یعنی ہم نے اسلامی عقائد بیان کرتے وقت صرف قرآنی آیات ہی سے استد لال کیا ہے۔ اور اگر کہیں احادیث وغیرہ کے حوالے دیئے ہیں ۔ تو ان کو صرف قرآنی آیات کی تائید تشریح اور توضیح کی خاطر پیش کیا ہے ۔ اس بات کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ مجرد احادیث اور کتب فقہ پر استد لال کی بنیاد نہ رکھی جائے ۔پس بطورایک مستقل دلیل کے ہم نے حدیث اور فقہ کی کتب سے ایک اقتباس بھی پیش نہیں کیا۔ حالانکہ ہم کو اپنے خیالات اور دلائل کی تائید میں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے ۔ کیونکہ احادیث کے بغیر قرآن ایک عقدہ لایخل (وہ مشکل مسئلہ جو حل نہ ہو)ہے ۔ اور اسلام کی بقا کے لئے احادیث لازمی ہیں۔ لیکن ہم کو خوب معلوم ہے ۔ کہ جب ہمارے مسلمان بھائیوں کو کوئی چھٹکارا کی راہ نہیں سوجھتی تو احادیث صحیحہ کو موضوع اور صادق راویوں کو کاذب (جھوٹا)قرار دینے میں ان کو ذرا باک(ڈر،خوف) نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم نے اتمام حجت کی خاطر اپنے استدلال (ثبوت)کی بنیاد صرف قرآن پر رکھی ہے ۔ اور اہل اسلام کو اس راہ فرار کا موقعہ نہیں دیا۔
خاتمہ
ہم نے کوشش کی ہے کہ اس رسالہ کے مضمون پر نہایت متانت (سنجیدگی)سے بحث کی جائے۔ تاکہ ہمارے مسلمان برادران ٹھنڈے دل سے ان اہم امور پر غور کرکے مُنجی عالمین سیدنا عیسیٰ مسیح کے قدموں میں آ کر ابدی زندگی حاصل کریں۔
ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں آمین ا با د
میں ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں۔ جنہوں نے اس رسالہ کی تالیف میں میری مدد کی ہے۔ جزا ہم الله فی الله فی الدارین خیرا۔ لیکن میں ان کی کر مفرمائیوں کا ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا۔ پس میں نہ تو ان کو اور نہ ایس ۔ پی ۔ سی ۔ کے کو اس رسالہ کی ترتیب یادلائل یا خیالات کا ذمہ دار گردان سکتا ہے ۔ بلکہ میں اس رسالہ کا بطور مصنف خود ذمہ دار ہوں۔
ہولی ٹرنٹی چرچ ۔ لاہور
یکم جنوری ۱938ء
برکت الله
فصل ِ اوّل
جبلّی میلانات اور ان کی خصوصیات
جبلّی میلانات
جیسا ہم دیباچہ میں ذکر کرچکے ہیں اس رسالہ میں لفظ ’’ فطرت ‘‘ سے ہماری مراد انسان کے ان جبلّی قوی ٰ سے ہے جن کاتعلق نفسیات کے ساتھ ہے اور جو تمام دنیا کے انسانوں میں خواہ وہ کسی قوم ملک یا زمانہ کے ہوں مشترک پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہر شحص فطرتاً اکلاپے(تنہائی) سے گھبراتا ہے ۔ اور اپنے ہم جنسوں میں رہ کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہے ۔ ہر ایک انسان کی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ خوفناک اشیا سے ڈرتا ہے ۔ اپنے بیوی بچوں سے پیار کرتا ہے ۔اگر اس کو کوئی ایسی شئے نظر آجائے جو اس نے پہلے نہ دیکھی ہو تو اس کے متعلق متجسس ہوتا ہے ۔ یہ باتیں ہم کو سکھلائی نہیں جاتیں ،بلکہ ہماری پیدائش ہی سے ہمارے اندر موجود ہوتی ہیں۔ اور ہم کو ورثہ میں ملتی ہیں۔ خدا نے یہ جبلّی قویٰ انسانی سرشت میں ودیعت فرمائے ہیں تاکہ ان کی مناسب نشوونما اور ان کے جائز استعمال سے انسان اس درجہ او رکمالیت کو حاصل کرسکے ۔جو اس کی پیدائش کا اصلی منشا تھا۔ خالق نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پید ا کیا ہے ۔اور اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے اس نے انسانی سرشت میں یہ قواء ودیعت فرمائے ہیں۔ اگر یہ جبلّی قواء (قوت)مقصد الہٰی کے مطابق نشوونما پائیں گے۔ تو وہ اپنی فطرت کے مطابق زندگی کے مختلف مدراج کو طے کرکے انسان کو پاکیزگی کے اس کمال درجہ پر پہنچادیتے ہیں۔ جو خُدا کے منشا کے عین مطابق ہے ،لیکن اگر یہ جبلّی قویٰ خالق کے ارادہ کے مطابق نشوونما نہیں پاتے تو وہ انسانی فطرت کے خلاف زندگی کے مختلف مدارج میں انسان کو روز بروز بد سے بدتر بنا کر بلاآخر شیطان کا ہم شکل بنادیتے ہیں۔ چونکہ مذہب کا و احد مقصد یہ کہ خُدا او ر ا نسان کے د رمیان رشتہ او ر تعلق کو زندہ رکھے۔ لہٰذا وہ صرف وہی مذہب دین فطرت کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے ۔ جو اس تعلق کو بدرجہ احسن قائم اور استوار رکھ سکتا ہے ۔ اور یہ تعلق صرف اسی حالت میں قائم رہ سکتا ہے ۔ جب ہماری سرشت کےجبلّی قویٰ اپنی فطرت کے مطابق نشوونما پاکر الہٰی ارادہ اور منشا کے مطابق استعما ل ہوں۔پس دین فطرت وہ مذہب ہے جو ہمارے جبلّی قویٰ کو ان کی فطرت یعنی منشائے الہٰی کے مطابق نشوونما پانے میں راہ نما ہو۔ اور ان کے جائز اور مناسب استعمال کے وسائل کو اختیار کرنے میں ممدومعاون ہو۔ عالمگیر مذہب بھی صرف وہی ہوسکتا ہے ۔ جو اس معنی میں دین فطرت ہو۔ پس عالمگیر مذہب کا یہ کام ہے کہ ان جبلّی قویٰ کو جو انسانی فطرت میں ودیعت کئے گئے ہیں الہٰی منشا اور ارادہ کے مطابق کامل کرے اور انسانی فطرت کی ضروریات کو حل کرنے کے لئے ان وسائل کوبہم پہنچائے ۔ جن کے ذریعہ انسان کامل ہوسکتا ہے ۔ مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف سیدنا عیسیٰ مسیح ہمارے جبلّی قویٰ کو خدا کے ازلی ارادہ اور منشا کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اور ان وسائل کو بہم پہنچاتے ہیں۔ جن کو اختیار کرنے سے انسانی فطرت کے تمام تقاضے الہٰی ارادہ کے مطابق بدرجہ احسن پورے ہوسکتے ہیں۔ اس طرح منجی عالمین سیدنا مسیح حقیقی تعلق کو قائم استوار اور زندہ رکھتے ہیں۔ جو خدا اور انسان میں ہونا چاہیے ۔
جبلّی قویٰ کی اقسام
جبلّی قویٰ اور میلان مختلف انواع واقسام کے ہیں۔ ہم یہاں جبلّی رحجانات اور میلانات کی صرف ان اقسام کو لیں گے ۔ جونہایت اہم بسیط (وسیع)، اولیٰ(بہتر،اچھا) اورابتدائی ہیں۔ اور اس بحث کو صرف ان تک ہی محدود رکھیں گے ۔ کیونکہ دیگر انواع کے میلانات ان کے تابع اور ماتحت ہیں۔ لہٰذا جو کچھ ان اہم بسیط اور ابتدائی رحجانات پر صادق ہوگا۔ وہ ان تمام دیگر انواع کے میلانات پر بھی عائد ہوگا جو بسیط نہیں بلکہ مرکب ہیں۔ جبلّی رحجانات کی وہ بڑی قسمیں جو بسیط ۔ ابتدائی اور ناقابل تحلیل ہیں۔ حسب ذیل ہیں۔
(۱)خوف کی جبلّت (۲)جبلّت ِ جنسی یا جبلّت تولید مثل نوعی (3)ماں باپ کی جبلّت یا والدینی جبلّت (4)لڑاکاپن یا غصہ کی جبلّت(5)تجسس اور استفسار (دریافت کرنے)کی جبلّت (6)جبلّت اجتماع پسندی(7) جبلّت عجز واطاعت اور جبلّت ِ تحکم وخودنمائی (8)جبلّت ِ حصول واکتساب (ذاتی محنت سے حاصل کرنا)۔
جبلّی میلانات کی خصوصیات
مندرجہ بالا اقسام کے رحجانات ہر فرد بشر میں پائے جاتے ہیں۔ اور انسانی طبیعت کا خاصہ ہیں۔
(۱)
یہ رحجانات اور میلانات ابتدائی اور بسیط ہیں اور ہر انسان کی سرشت میں داخل ہیں۔مثلاً دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ وہ ڈراور خوف کو جانتا ہی نہیں یا جس کی پدری محبت (والد کی محبت)اپنے بچوں کی مصیبت دیکھ کر جوش میں نہیں آتی ۔ ہاں مختلف طبائع(طبیعت کی جمع) میں فرق ضرور ہوتا ہے ۔ اور ہر انسان میں یہ جبلّی قویٰ برابر طور پر نہیں پائے جاتے ۔ اگر ایک شخص میں ایک جبلّی میلان زیادہ غالب ہے ۔تو دوسرے شخص میں دوسرا میلان زیادہ زور دکھاتاہے ۔
جبلّی رحجانات مختلف اشخاص میں ان کی طبائع کے مطابق مختلف اوقات اور مختلف صورتوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ مثلاً خوف ہماری سرشت میں ایک جبلّی میلان ہے ۔لیکن ہر انسان میں خوف برابر طور پر ظاہر نہیں ہوتا۔ ایک شخص کسی دہشت انگیز شئے مثلاً سانپ یا شیر کو دیکھ کر خوف کے مارے سہم جاتا ہے ۔ لیکن دوسرا شخص اس سے خوف نہیں کھاتا۔ بلکہ وہ کسی اور شئے سے لرزہ براندام (جسم کا کانپنا)ہوجاتا ہے ۔ ہر شخص میں خوف ایک ہی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا۔ گو ہر شخص کی سرشت میں خوف موجود ضرور ہے ۔
(۲)
خالق نے یہ جبلّی رحجانات اور میلانات پیدائش ہی سے ہماری سرشت میں ڈال رکھے ہیں وہ اکتسابی نہیں ۔یعنی وہ انسان کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ ہر انسان کو ورثہ میں ملتے ہیں۔ اور زندگی کے مختلف مدارج اور منازل میں مختلف اوقات پر ظہور میں آتے ہیں۔ مثلاً بچپن کے زمانہ سے ہی جبلّت تجسس واستفسار ظہور میں آتی ہے، لیکن اس میں جبلّت جنسی یا تولید ِمثل اور والدینی جبلّت ظاہر ہوتی ہے جب وہ سن بلوغت کو پہنچتا ہے ۔ مرد اور عورت کی باہمی کشش اس سے پہلے ظہور میں نہیں آتی بلکہ خفتہ حالت میں رہتی ہے اور وقت ِ معینہ پر بیدا ر ہوتی ہے ۔
(3)
ہر جبلّی میلان کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے ۔ مثلاً تولید مثل کی جبلّت کا مقصد نسل کی افزائش ہے ۔ تحصیل واکتساب کی جبلّت کا مقصد زندگی کی مختلف ضروریات کو فراہم کرنا ہے ۔
لیکن جب بعض حالات میں کسی رحجان کا مقصد بآسانی حاصل ہو جاتا ہے تو ہم اس رحجان یا میلان کی طاقت یا فاضل قوت کو کسی دوسرے مقصد کے حاصل کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔مثلاً بدامنی کے زمانہ میں جب ملک کا حال ابتر ہوتاہے ۔ تو ہر انسان کا اولین مقصد یہ ہوتاہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرے۔لیکن صلح کے زمانہ میں مہذب ممالک میں اس میلان کی یعنی جان کی حفاظت کی چندان(کچھ بھی ) ضرورت نہیں رہتی۔ بیرونی حالات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اندریں حالات ہم اس میلان کی طاقت کو دیگر مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ۔ او رالہٰی منشا یہ ہے کہ جب ہم کسی ایک میلان کی طاقت کو اس کے خاص مقصد سے منتقل کرکے کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال کریں ۔ تو وہ مقصد اعلیٰ مقصد ہو مثلاً ایک شخص کی بیوی مرجاتی ہے اور اپنے پیچھے ننھے بچے چھوڑ جاتی ہے ۔ اب تقاضائے فطرت یا بالفاظ دیگر عقل سلیم یہ چاہتی ہے کہ خاوند اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی کرنے سے پرہیز کرے اور الہٰی منشا کے مطابق جبلّت تولید مثل کی طاقت کو ایک اور اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے یعنی بچوں کی پرورش اورتربیت وغیرہ کی جانب راغب کرے۔
پس ایک قسم کے طبعی میلان کی قوت کو دوسرے اعلیٰ مقصد کے حصول کی جانب راجع(رجوع،راغب) کرنا ایک قدرتی اور فطرتی بات ہے ۔ مثلاً تمام فنون لطیفہ ان جبلّی میلانات کے دیگر اعلیٰ مقاصد کی جانب منقلب(پلٹنے والا) ہونے کا ہی نتیجہ ہیں۔ اور یہ بات تقاضائے فطرت یا عین الہٰی منشا کے مطابق ہے ۔اور ان میلانات کی فطرت میں داخل ہے ۔ لیکن اگر ہم ان میلانات کی طاقت اور رحجانات کی فاضل قوت کو ان کی فطرت اور الہٰی ارادہ کے مطابق یعنی کسی اعلیٰ مقصد کی جانب راغب کرنے کی بجائے بُرے مقاصد کی طرف راغب کردیتے ہیں تو ہم سے ایسی لغو اور بے ہودہ حرکات سرزد ہوتی ہیں جو فطرت کے خلاف ہیں۔ مثلاً اگر ہم تولید مثل کی جبلّت کی وافر یا فاضل طاقت کو بنی نوع انسان کی بہبودی اور فلاح کےلئے استعمال کریں ۔ تو یہ عین فطرت کے مطابق اور الہٰی منشا کے مطابق ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس میلان کی فاضل طاقت کو غیر فطری حرکات کی جانب یا زناکاری کی طرف منقلب کریں گے ۔ تو یہ افعال خلاف فطرت یعنی خالق کے ارادہ کے خلاف ہوں گے ۔
لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے ۔ کہ جب ان جبلّی رحجانات اور میلانات کی طاقت کا رخ کسی دوسرے مقصد کے حصول کی جانب منقلب کیا جائے ۔ تو وہ دوسرا مقصد اعلیٰ ترین مقصد ہو۔ ان رحجانات اور میلانات کا استعمال تب ہی جائز قرار دیا جاسکے گا ۔ جب وہ اعلیٰ ترین تصورات اور مقاصد کے ماتحت ہوں گے۔ اس اہم نکتہ کو سمجھنا اشد ضروری ہے ۔ کیونکہ اس کا ذکر بار بار اس رسالہ میں کیا جائےگا۔
(4)
یہ جبلّی میلانات بذات خود نہ تو اچھے ہوتے ہیں او رنہ بُرے ۔ انسان پیدائش ہی سے نہ تو گنہگار ہوتا ہے اور نہ نیکوکار پیدا ہوتا ہے ۔بلکہ یہی ہماری جبلّی رحجانات اور میلانات ہماری خصلتوں کی اساس ہیں۔ جس طرح روئی سے کپڑا بنتا ہے اور جس شکل کا کپڑا ہم اس سے بنانا چاہیں ہم بناسکتے ہیں۔ اسی طرح ان میلانات سے ہماری عادات اور خصائل شکل پذیر ہوتے ہیں۔ا س حقیقت کو ہم ایک اور مثال سے واضح کرتے ہیں ۔ علم کیمیائی کی دریافتیں انسان کی بہبودی اور ترقی کا وسیلہ ہوتی ہیں۔ او ریہی دریافتیں انسانی نسل کی بربادی کا وسیلہ ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ابی سینیا کے ملک کو اطالوی فوجوں نے زہریلی گیس سے سے فنا کردیا تھا۔ اسی طرح ہماری میلانات کا استعمال بنی نوع انسان کی فلاح اور بہتری کا باعث یا اس کے تنزل اور بربادی کا باعث ہوجاتا ہے ۔ اگر ان نشوونما الہٰی منشاء اور ارادہ کے مطابق ہوتو انسان خدا کی صورت پر بن جاتا ہے ۔ لیکن اگر ان کا استعمال ناجائز طور پر کیا جائے ۔ تب انسان شیطان کا ہم شکل بن جاتا ہے ۔مثلاً اگر کسی شخص میں تولید مثل کی جبلّت یا جبلّت جنسی الہٰی منشا کے مطابق نشوونما پائے تو وہ شخص روحانی مدارج کو طے کرتا ہوا کاملیت کی طرف گامزن ہوکر فرشتہ سیرت بن جاتا ہے ۔ لیکن اگر یہی رحجانات غیر مناسب اور ناجائز طور پر اس میں نشوونما پائیں تو وہ ایسے افعال کا مرتکب ہوتاہے ۔ جو خلاف فطرت ہیں اور انسان شیطان خصلت ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر جبلّت حصول واکتساب جائز طور پر استعمال کی جائے تو انسان خدا کے منشا کے مطابق روحانی ترقی کرتاہے ۔ لیکن اگر اس کا ناجائز استعمال کیا جائے تو چوری ،لالچ، لوٹ مار ، ملک گیری وغیرہ کا ارتکاب کرتاہے اور یہ افعال خد ا کی نظر میں مقبول نہیں۔ کیونکہ خدا نے ان افعال کے لئے اس جبلّت کو ہماری فطرت میں ودیعت نہیں فرمایا تھا۔
(5)
اگر ہم غور سے مشاہدہ کریں ۔ تو ہم دیکھیں گے کہ انسان جس سوسائٹی میں چلتا پھرتا ہے ۔ اس کی صحبت کا اثر ان جبلّی قویٰ پر پڑتا ہے ۔ انسان کے گردو پیش کے حالات اور ماحول اس کو ایسا موثر کردیتے ہیں کہ اس کے جبلّی قویٰ کا رحجان اور میلان اور ان کا استعمال ان حالات کے مطابق ہوجاتاہے۔
صحبت ِ صالح ترصالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند
یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے ۔کہ اگر کسی صالح نیک مرد کا بچہ بری صحبت میں پڑ جائے ۔تو اس کے گردو پیش کے حالات اس کو رفتہ رفتہ ایسا متاثر کردیتے ہیں کہ وہ بد ترین خلائق ہوجاتاہے ۔
پسر نوح یا بداں بہ نشست
خاندان نبوتش گم شد
ان میلانات کا یہ خاصہ ہے ۔ کہ اگر کسی میلان کا رحجان کسی ایک طرف ہوجائے تو اس کی رغبت اس خاص طرف کو زیادہ مائل ہوجاتی ہے اور اس جبلّت کی اقتضا (خواہش کرنا،تقاضا)کی قوت کا اظہار اس خاص جانب ہونے لگتا ہے اور اگر اس رحجان کو شروع سے ہی نہ روکا جائے تو اس خاص بات کی عادت پڑجاتی ہے ۔ اور پھر اپنی عادت سے مجبور ہوکر اس جبلّت کی اقتضا کو صرف اسی خاص طریقہ سے ظاہر کرتاہے ۔اسی لئے ۔
سرچشمہ شاید گرفتن بمیل
چوپر شد نشا ئد گذشتن زیپل
ہر شخص اس حقیقت کو اپنے تلخ تجربہ سے جانتا ہے کہ جب ہم کو کسی چیز کی لت پڑجاتی ہے ۔ تو اس کو ترک کرنا کیسا مشکل ہوجاتا ہے ۔اور اگر ہماری کسی جبلّت کی طاقت اور قوت صرف ایک ہی جانب ناجائز طور پرمائل اور راغب رہی ہو۔ تو اس سے پیچھا چھڑانا جان جوکھوں کا کام ہوتاہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص بار بار چوری کرنے یا جوا کھیلنے یا زنا کرنے کا مرتکب ہوا ہو تو اس کو ان باتوں کی ایسی عادت پڑجاتی ہے کہ جب موقعہ ملتا ہے وہ ہربار ان مکروہ باتوں کا ارتکاب کرتا ہے ۔ وہ اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ یہ باتیں ناجائز ہیں۔ لیکن باوجود اس علم کے وہ اپنی عادت سے مجبور ہوکر چوری کرنے یا شراب پینے کے موقعہ کی تاک میں رہتا ہے ۔ ہر انسان اپنے تجربہ کی بناء پر جانتا ہے کہ ہم اپنی عادتوں کے غلام ہوتے ہیں۔ ہم کویہ علم ہوتاہے کہ فلاں کام سے ہم کو پرہیز کرنا چاہیے ۔ لیکن جب آزمائش آتی ہے تو ہماری اس خاص جبلّت کا میلان خود بخود اسی جانب مائل ہوجاتاہے ۔ اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہماری قوت ارادی کمزور ہوکر صلب(چھین جانا) ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حالی مرحوم نفس کے حملے اور عقل کی طاقت کی نسبت کہتے ہیں:
جب کیا حملہ دیئے سب عقل نہ ہتھیار ڈال
زور بازو پر ہمیشہ جس کے اتراتے تھے ہم
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم گناہ کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ کیونکہ جس شئے کا ہم ارادہ کرتے ہیں وہ نہیں کرتے لیکن جو نہیں کرنا چاہتے وہی کرتے ہیں ۔ اور کرنے کے بعد پچھتاتے ہیں۔ اور اپنےآپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ البتہ نیک ارادہ تو ہم میں موجود ہوتا ہے ۔ مگر نیک کام ہم سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا ہم ارادہ کرتے ہیں وہ تو نہیں کرتے ۔ مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتے ۔ وہ اپنی طبیعت سے مجبور ہوکر ہم کرلیتے ہیں۔ اوراپنےہاتھوں سے لاچار ہوکر پکار اٹھتے ہیں ۔ ’’ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں۔ اس بدعادت کی قید اور غلامی کی زنجیروں سے مجھے کون چھڑائےگا‘‘؟
دیکھ عادت کا تسلط میں نے عادت سے کہا
گھیرلی عقل ِ صواب اندیش کی تو نے جائے حالی
جبلّی میلانات اور دین فطرت
دین ِ فطرت کا یہ کام ہے کہ ہر انسان کو خواہ وہ بدترین خلائق(خلق کی جمع ،مخلوقات ) ہی کیوں نہ ہو۔ گناہ کی غلامی سے رہائی دے۔اور اس کو توفیق بخشے کہ وہ اپنی جبلّت کی قوت کے میلان کو بدی کی جانب راغب کرنے کی بجائے نیکی کی جانب راغب کرسکے ۔ یاد رہے کہ جتنی کسی جبلّت کی قوت شدید ہوگی ۔ اتنا ہی زیادہ انسان کے لئے اس کی قوت کے میلان کی رغبت کوبدلنا ہوگا۔ مثلاً ایک زانی کے لئے جبلّت ِ جنسی کی رغبت کا منقلب کرنا نا ممکن ہوجاتا ہے ۔لہٰذا ضرور ہے کہ جو توفیق دین ِفطرت عطاکرے اس کی قوت جبلّت کی قوت سے بہت زيادہ قوی (طاقت ور)ہو۔ تاکہ میلان کی اکتسابی قوت زائل ہوسکے ۔
ایسے شخص کو جو اپنے گناہ کے پنجہ میں گرفتار ہے ۔ محض یہ نصیحت کرنا کافی نہیں ہوتا کہ نیک بنو یا نیکوں کی صحبت اختیار کرو ۔ وہ برا فعل کرنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ جو فعل وہ عادت سے مجبور ہوکر کرتا ہے گناہ ہے اس کو علم کی ضرورت نہیں۔
حضرت ناصح اگر آئیں دیدہ ودل فرش راہ
پر کوئی یہ بتلادے کہ وہ فرمائیں گے کیا؟
(۲)
اسلام اور دیگر کل مذاہب اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کہ گنہگار کو نیکی کا درس دے دیں اور نصیحت کردیں۔اس سے زيادہ وہ نہیں کرتے اور نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ہر شخص تجربہ سے جانتا ہے کہ نصیحت کی قوت جبلّت کی زبردست طاقت کے سامنے ہیچ ہوتی ہے ۔ لہٰذا وہ کار گر نہیں ہوتی۔ اور نہ ہوسکتی ہے ۔پندونصیحت کی آواز نہایت دھیمی اور مدھم ہوتی ہے ۔ جو میلانات کے سیلاب کے جوش وخروش میں سنائی بھی نہیں دیتی ۔لہٰذا وہ طوفان بدتمیزی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے ۔اگر جبلّت کے میلان کی قوت کے رحجان کو ایک طرف سے ہٹا کر دوسری طرف راغب کرنا منظور ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ ایسی زبردست طاقت ہماری شامل حال ہو ۔ جس کی قوت کے سامنے جبلّت کی قوت ہیچ ہو اور یہ زبردست طاقت ہماری زندگی میں ایسے طور پر داخل ہو کہ اپنی قدرت کے کرشمے سے جبلّت کی قوت کے میلان کو ایک طرف سے ہٹادے اور دوسری جانب راغب کردے۔ اگر ہم اس طاقت کےلئے ’’ط‘‘ کا حرف استعمال کریں ۔ اور قوت ارادی کے لئے ’’الف‘‘ اور جبلّت کی قوت کے لئے ’’ج‘‘ اور عقل اور نصحیت کے لئے حرف ’’ن‘‘ استعمال کریں۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ج کی طاقت ا +ن سے زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن ا + ن + ط درجہ بدرجہ(آہستہ آہستہ) سے طاقتور ہوجاتے ہیں ۔ جب ہم اس زبردست طاقت کی مدد سے توفیق حاصل کرتے ہیں۔ تو ہماری قوت ارادی میں جو سلب ہوگئی تھی نئی جان پڑ جاتی ہے ۔ او رہم اپنی جبلّت کی رغبت پر غالب آجاتے ہیں۔ اور اس کی قوت کے میلان کو ایک نئی جانب راغب اور منقلب کرتے ہیں تو ہم گویا از سر نو پیدا ہوجاتے ہیں۔ ہم نئے مخلوق بن جاتے ہیں۔
(3)
مسیحیت ہی ایک واحد مذہب ہے ۔جو یہ نئی پیدائش ہم کو عطا کرتا ہے ۔ جناب مسیح ہی اکیلے ہادی ہیں جو نہ صرف ہم کو راہِ ہدایت بتاتے ہیں( یوحنا۱۴: ۶) بلکہ ہم کو وہ زبردست طاقت عطافرماتے ہیں ۔ جس کی مدد سے ہم اپنی جبلّت کی طاقت کو ایک جانب سے ہٹا کر دوسری طرف راغب کرسکتے ہیں۔ اس کے ہی فضل سے ہم کو یہ توفیق عطا ہوتی ہے ۔(یوحنا۱: ۱۶۔۱۷؛ متی ۱۱: ۲۸؛ یوحنا۷: ۳۷؛ ۴: ۱۴؛ رومیوں ۲: ۲۴؛ ۵: ۲۰؛ ۱۵: ۱۰؛ ۲۔کرنتھیوں ۹: ۸؛ گلتیوں ۲: ۲۱؛ افسیوں ۱: ۷؛ ۲: ۷۔۸؛ ۴: ۷؛ ۱۔تیمتھیس ۱: ۱۴؛ ۲۔تیمتھیس ۱: ۹؛ ۲: ۱؛ طیطس ۲: ۱۱؛ ۳: ۷؛ عبرانیوں ۴: ۱۶ وغیرہ وغیرہ)اور یہ محض انجیل کا دعویٰ ہی نہیں بلکہ تجربہ اس دعویٰ کی تصدیق بھی کرتا چلا آیا ہے ۔ چنانچہ دوہزار سال سے روئے زمین کے مختلف ممالک اور از منہ مختلف اقوام اور طبائع کے لوگ بیک زبان اقرار کرتے چلے آئے ہیں۔ کہ جناب مسیح نے ان کی شیطانی خصلتوں اور مذموم(خراب،وہ جس کی برائی کی جائے) عادتوں سے اپنے فضل کے وسیلے ان کو توفیق عطا کرکے نجات عطا فرمائی ہے ۔ہر مسیحی کا یہ تجربہ ہے کہ ’’جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اس سے بھی بہت نہایت زیادہ ہوا‘‘۔ گناہ کی مزدوری یا نتیجہ روحانی موت ہے ۔لیکن ہم مسیحی اپنے آقا ومولا سیدنا مسیح کے ذریعہ خدا کا شکر کرتے ہیں۔ کہ خدا کی بخشش ہمارے آقاو مولا میں ہمیشہ کی زندگی ہے ۔
پس ’’اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں ۔ دیکھو وہ نئی ہوگئیں‘‘(۲۔کرنتھیوں۵: ۱۷)۔
قرآن ان جبلّتوں کی قوت کے تقاضاؤں کے میلانوں کو ایک جانب سے ہٹا کر دوسری جانب راغب کرنے سے قاصر ہے ۔ وہ نیک اعمال کی دعوت تو دیتا ہے ۔ لیکن نہ تو نئی پیدائش کی تعلیم دیتا ہے ۔ نہ کسی شخص کو نیا مخلوق بنانے پر قادر ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین فطرت کے لوازم(لازم کی جمع ، ضروری چیزیں) اس میں سرے سےنہیں ہیں۔ لہٰذا وہ دین ِفطرت کہلانے کا مستحق بھی نہیں ہوسکتا ۔ تمام ادیانِ عالم میں مسیحی دین کو ہی یہ طغرائے امتیاز(وہ خصوصیت اور لیاقت جو کسی اور میں نہ ہو) حاصل ہے ۔ کہ وہ تمام ممالک وازمنہ میں بدترین خلائق کے میلانات کو چاہ ضلالت سے نکال کر صراط مستقیم پر چلاتا رہا ہے ۔ اور یوں عملاً ثابت کردیاہے کہ وہ ایسا کرنے پر قادر ہے ۔ لہٰذا مسیحیت ہی دین ِفطرت ہے ۔
فصل دوم
خوف کی جبلّت
خوف کی جبلّت کی خصُوصیات
خوف کی جبلّت تمام حیوانات کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔ انسانی سرشت میں یہ جبلّت قوی ترین جبلّتوں میں سے ہے ۔ دنیا میں ایسا کون شخص ہے جو خوف کو نہ جانتا ہو۔ اور اس کی طاقت سے واقف نہ ہو؟ خوف کی جبلّت کا یہ خاصہ ہے ۔ کہ ہم جس شے سے خوف کھاتے ہیں ہم اس سے یا بھاگتے ہیں یا پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور یا مدافعت (دفع کرنا،روک)کی خاطر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ پس اس جبلّت کےساتھ فراری یا پوشیدگی یا مدافعت ملزوم(لازم کیاگیا،جو جد ا نہ ہوسکے) ہے ۔
یہ بات تصریح(تشریح ،واضح کرنا) کی محتاج نہیں کہ بنی نوع انسان کی بقا کے لئے یہ جبلّت نہایت کار آمد اور مفید ہے ۔ مثلاً اگر ہم خوف کے مارے کسی شیر سے نہ بھاگیں ۔ یا اس سے روپوش نہ ہوں یا اس کا مقابلہ نہ کریں ۔تو ہم زندہ نہیں رہ سکتے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ اگر اس جبلّت پر غیر معمولی زور دیا جائے تو مفید ہونے کی بجائے یہ جبلّت وبال جان ہوجاتی ہے ۔ مثلا ً اگر ایک شخص ہر وقت خوف کا شکار رہے تو اس کی زندگی معرض خطر میں پڑ جائے گی۔ کیونکہ جب ہم کو خوف لاحق ہوتا ہے تو ہمارے جسم کے مختلف حصے نہایت سخت کوشش پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اور اگر خوف کا اثر ہمارے جسم پر لگاتار رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعضائے رئیسہ اس جسمانی شدت کی کوشش کو سنبھال نہیں سکتے ۔ اور بعض اوقات خوف کے مارے موت واقع ہوجاتی ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی سنسان جنگل میں اکیلا ہو اور اس کی نظر بار بار جنگلی درندوں پر پڑے تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس بات کا اثر اس کے جسم پر اور اعضائے رئیسہ پر کتنا ہوتا ہوگا۔ پس اگر خوف کی جبلّت متواتر تحریک میں رہے تو انسان کے دل میں ہول(ڈر) بیٹھ جاتا ہے ۔ جس کے ساتھ ایسا اعصا بی اضطراب(بے قراری) واقع ہوتا ہے کہ اعضائے رئیسہ مضمحل(کمزور،اداس) ہوجاتے ہیں۔
اس جبلّت کی غیر معتدل (اعتدال والا،درمیانی درجہ کا)برا نگیختگی (طیش میں بھرا ہوا)کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناواجب شدت اور تکرار عمل سے انسان ہر وقت خوف زدہ ہوکر سہما رہتا ہے ۔ اس کا اثر دل کی حرکت پر تنفس(سانس لینے) پر اور جسم کے مختلف اعضا پر ہوتاہے ۔ خوف کے مارے انسانی ذہن کام کرنے سے جواب دے دیتا ہے ۔ کیونکہ خوف کے مارے انسان کو اور کچھ نہیں سوجھتا اور خوف اس کی تمام توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور اس کا اثر بہت گہرا ہوتاہے ۔ اور بعض اوقات یہ اثر ذہن پر استوار اور محکم ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیداری اور خواب میں ہر لمحہ خوف (انسان) کا دامن گیر رہتا ہے ۔
خوف کی جبلّت اور دین ِ فطرت کے لوازمات
پس دین ِ فطرت کےلئے یہ شرط نہایت ضروری ہے کہ خوف کی جبلّت کاجائز اور معتدل استعمال کرے اور اس کو اعتدال کے ساتھ برقرار رکھے ۔ یہ لازم ہے کہ دین فطرت کے عقائد ایسے ہوں ۔ جن سے اس جبلّت کی غیر معتدل برانگیختگی واقع نہ ہو۔ تاکہ انسان ہول اور دہشت کا نشانہ نہ بنا رہے ۔ اور خوف کے بُرے نتائج سے انسان کی زندگی محفوظ رہے ۔
جبلّت ِ خوف اور اسلام
علم ِنفسیات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انسانی ترقی کی ابتدائی منازل میں خوف اور دہشت کا عنصر اقوام پر غالب رہتا ہے ۔ بدنی سزا اور جسمانی تعزیرو تعذیب (دکھ دینا،سرزنش کرنا)کا خوف ان اقوام اور جماعتوں کو ہمیشہ قابو میں رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی اور وحشی مذاہب اور مذاہب باطلہ(جھوٹے مذاہب،ناحق مذاہب) میں خوف دہشت اور ہول کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔ ان کے دیوی دیوتاؤں کا امتیازی نشان ظلم اور خونخواری ہوتاہے ۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس قدر کسی مذہب میں دہشت کا عنصر غالب ہوگا اسی نسبت سے و ہ مذہب ادیانِ عالم(دنیا کے دین) کی قطار میں ادنیٰ پایہ (کم حیثیت )کا شمار کیا جائے گا۔
اسلام میں خوف کا عنصر اسی طرح کار پرداز ہے ۔ جس طرح وحشی اقوام کے مذاہب باطلہ میں دیوتاؤں کا خوف کام کرتا ہے ۔ چنانچہ مشہور مستشرق(وہ فرنگی جو مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر ہو) سر ٹامس آرنلڈ کی کتاب میں ہے کہ
’’ زمانہ جاہلیت میں قبائل عرب کے دیوی دیوتا اپنے اپنے پرستاروں کے محافظ اور بادشاہ تصور کئے جاتے تھے۔ اسلام میں الله نے ان دیوتاؤں کی جگہ لے لی اور ان کی بجائے اب الله انہی معنوں میں ان قبائل کا بادشاہ اور محافظ قرار دے دیا گیا ہے ۔ الله دنیاوی بادشاہوں کی طرح مسلمانوں پر حکمران ہے ۔چنانچہ اسلامی افواج الله کی فوج ہے ۔ اسلامی خزانہ الله کا خزانہ ہے ‘‘۔
اسلام کے تمام محرکات کااصل خدا کا خوف اور وعید ِعقوبت و تعذیب(سزا دینے کا وعدہ ) ہے ۔ قرآن میں خدا کی ان صفات پر زور دیا گیا ہے ۔ جن سے خوف ٹپکتا ہے ۔ اور انسان مرعوب(ڈرنے والا) ،دہشت زدہ اور لرزہ براندام رہتا ہے ۔ الله کے چندا اسمائے حسنہ یہ ہیں:
خالق ،باری،عالی،رفیع ، عظیم ،کبیر ،متعالی ،جلیل ،قدیر ،مجید ،قوی،مقتدر،قادر ،والی ،مالک،عزیز ،حاکم،حسب،متکبر،مزمل، جبار،قابض ،خافض، ضار،قہار ،ممیت ،منتقم ،وغيرہ وغيرہ ۔ الله ذوالجلال والاکرام ہے (رحمنٰ آیت 78)اس کی مثال بلند ہے (نحل آیت 6۲)وہ رب العرش ہے (توبہ آیت ۱30 مومنون 88) وہ مشرق ومغرب آسمان وزمین کا مالک ہے ۔ جوگنہگاروں سے محبت نہیں رکھتا(بقر آیت ۱86)و ہ سرکشوں کو عذاب دیتا ہے (نحل ۲5 ،احقاف ۱9 ،جاشیہ 7و۲0 مومن37 و6۲و76 ،زمر 60 و6۱ و7۲ صافات 34 ۔ نحل 3۱ ۔لقمان 6 انعام 93 وغیرہ) یہ عذاب اٹل ہے (طور ع ۔ ا۱) وہ جلد حساب لینے والا ہے (مائدہ 6وغیرہ) جس کی پکڑ سخت تکلیف دہ ہے (ہود ع 9 ۔نحل ع 6) وہ سخت عذاب دینےوالا ہے (بقر آیت ۱9۲) وغیرہ وہ بجلی کےکڑاکے بھیجتا ہے اور جس پر چاہے گراتا ہے (رعد ۱3) جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے (مائدہ 44) وہ گنہگاروں فاسقوں کی ہدایت نہیں کرتا (توبہ آیت ۱۱0،مائدہ ۱07وغیرہ)۔حالانکہ اگر وہ چاہتاتو سب کو ہدایت پر کردیتا (انعام آیت ۱50)سب چاروناچار اسی کو سجدہ کرتے ہیں(رعد آیت ۱6)آسمان اور زمین میں کوئی نہیں ہے ۔ جو الله کے پاس غلام ہوکر حاضر نہ ہو۔ کیونکہ الله نے ان کوگھیر رکھا ہے۔اوران کا شمار کر رکھا ہے (مریم 93) چنانچہ آخری دن جب سب لوگ اپنی قبروں سے باہر نکلیں گے تو الله فخریہ ان سے پوچھے گا کہ اب بتاؤ آج کے دن کس کی بادشاہت ہے او رپھر فاتحانہ انداز میں خودہی جواب دیاگا کہ الله واحد قہار کی (مومن ۱6) الله کے ننانوے نام ہیں ۔ جن میں سے اکتالیس نام ایسے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ الله کی ذات میں وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو انسان کے دل میں دہشت اور ہول پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ کتب احادیث میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ ’’مشکواة باب الرقاق فے البکاؤ الخوف‘‘ میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ
’’آنحضرت نےفرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ اگر تم اس کی نسبت وہ بات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے ‘‘۔
اسی طرح ’’کتاب الفتن‘‘ میں ہے کہ
’’ آنحضرت نے فرمایا کہ اے لوگ خوب روؤ اور لوگوں کو رلاؤ ‘‘
پس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث کے مطابق الله اور انسان کا باہمی تعلق زبردست اورزیرِدست ہستیوں کا ہے ۔ ایک خالق ہے تو دوسری مخلوق ۔ ایک مالک ہے دوسری غلام ایک غالب ہے دوسری مغلوب ایک قہار ہے دوسری مقہورو مغضوب(جس پر غصہ ہو) ۔ ایک جبار ہے دوسری مجبور ۔الله کی ہستی ضرر پہنچانے والی ۔چھین لینے والی اور اپنے غضب سے گنہگاروں کو فنا کردینے والی ایسی ہستی ہے جس کے انتقام سے کوئی فرد بشر بچ نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس نے گنہگاروں کاٹھکانا جہنم مقرر کر رکھا ہے (بنی اسرائيل آیت ۱9) جس کے سات (۷)د روازے ہیں (حجر 44) او رجس پر انیس(۱۹) نگہبان مقرر ہیں (مدثر آیت 30) جہاں آگ کا ڈھیر سخت گرم ہوگا (مزمل آیت ۱۲) اوپر آگ کے سائبان اور نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے (زمر آیت ۱8) آگ کبھی نہ بجھے گی ۔ وہ منہ کو جھلس دے گی (مومنون ۱06) اور دلوں کو جھانکے گی ( ہمزه آیت 7) وہاں آگ کے کپڑے (حج ۲۱) اور گندھک کے کرتے ہو ں گے (ابراہیم آیت 5۱)گنہگاروں کا کھانا گلا اٹکو ہوگا(مزمل آیت ۱3) ان کے پینے کو کھولتا پانی اور پیپ ہوگی۔ (نباء آیت ۲6)ان کو پانی گلے ہوئے تانبے کی مانند پینا پڑے گا (کہف ۲8) گرم کھولتا پانی ان کی انتڑیاں کاٹ ڈالے گا (محمد آیت ۱7) وہ زنجیروں اور طوق میں گرفتار ہوں گے(دہر آیت 4 سبا آیت 3۲) او رہتھوڑوں سے پیٹے جائيں گے (حج آیت ۲۲) وہ منہ بند آگ میں دم پخت ہوں گے ۔ (بلد آیت ۲0) اور دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ وہ موت مانگیں گے (زخرف 77) لیکن وہاں نہ موت ہوگی اور نہ عذاب میں کسی طرح تخفیف(کمی) ہوگی(فاطر آیت 33) قرآن اور اسلام کےالله کی ذات وصفات ہی ایسی ہیں جن کے محض تصور ہی سے جسم پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے ۔
بقول مولانا ظفر علی خاں
ہے طبیعی یہ وہ ڈر جس سے نہیں کوئی مفر
یہ وہ خطرہ ہے جو کنجشک کو شاہین سے ہے
(۲)
حقیقت تو یہ ہے کہ عرب کے باشندے صرف اسی قسم کے الہٰی تصور سے متاثر اور مرعوب ہوسکتے تھے ۔ چنانچہ مرحوم مولانا شبلی فرماتے ہیں
’’انسان کے دل میں جب خدا کا خیال ایک شہنشاہ مطلق کی حیثیت سے آیا توضرور تھا کہ اُسی کے صفات بھی اسی شہنشاہی رتبہ کی حیثیت سے ذہن میں آئیں۔انسان کے شاہوں اور شہنشاہوں کے متعلق جو کچھ دیکھا یا سناتھا ۔ یہی تھا کہ اظہار اطاعت سے خوش ہوتے ہیں۔ جان نثاری، ادب ،عاجزی ، خشوع اور تعظیم پسند کرتے ہیں۔ اور جو شخص جس قدر زیادہ ان خدمات کو بجالاتا ہے وہ انعامِ سلطانی کا اسی قدر زيادہ مستحق ہوتا ہے ۔ انہی خیالات کے لحاظ سے خدا کی عبادت کا خیال پیدا ہوا‘‘
(الکلام حصہ دوم صفحہ ۱44)
چنانچہ ڈاکٹر عبدالله ایڈیٹر ترکی اخبار اجتہاد اگست ۱9۲4ء کی اشاعت میں یوں رقمطراز ہے
’’ توہمات کی ابتدائی منازل میں یہ کہ ایک قدرتی بات تھی کہ ہر قوم اپنے تصور کے مطابق خدا کو متصور کرے ۔ انتقام پسند عرب سے یہی امید ہوسکتی تھی کہ ان کا الله قادر مطلق اور انتقام پسند ہوتا۔ میں تو اس خدا کا قائل ہوں جو صرف نیک اور راستباز ہو۔ جو اگر کسی شخص پر سے آفت اور مصیبت ٹال نہ سکے تو مصیبت زدوں اور آفت رسیدوں کے ساتھ دکھ اور رنج کے وقت روئے ‘‘۔ الله قرآن میں کہتا ہے کہ ’’تحقیق ہم نے عربی زبان میں اس قرآن کو نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ قرآن صرف عرب کے لئے نازل ہوا ہے ۔اور ترکوں کا اس میں کوئی حصہ بخرہ نہیں ہوسکتا ۔ عربوں نے ہم پر یہ جبر یہ اپنے خود ساختہ الله کو ٹھونس کر ہم کو تباہ اور برباد کردیا ہے۔ اسلام کے الله میں بعض خوبیاں ہیں لیکن اس کی صفات ایسی ہیں جنہوں نے ہماری قومی نشوونما کو اپاہج اور ملی ترقی کو مفلوج کردیا ہے ۔۔۔سلطنت ایران کے زوال کا بھی یہی سبب ہے‘‘۔
ایک اور ترکی اخبار لکھتاہے کہ قرآن کا اسلام
’’ایک ایسا مذہب تھا جس سے ترکوں کےدل خو ف اور عذاب کے مارے دہل جاتے تھے ۔ مذہب اور ایمان پر جبر غالب تھا۔ جس سے حقیقی مذہب کمزور ہوگیا تھا۔ ترکی انقلاب نے جبر اور خوف کا خاتمہ کردیا ہے ‘‘
(حکیمیتی بابت 30 دسمبر ۱9۲5ء)
اسلام کے الله کی ذات وصفات کے محض تصور سے انسان کے بدن پر کپکپی لگ جاتی ہے ۔ دل میں ہول بیٹھ جاتا ہے خوف اور دہشت کے مارے انسان بے قرار ہوجاتا ہے ۔ اعصابی اضطراب کی وجہ سے اعضائے رئیسہ مضمحل ہوجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ اسلام خوف کی جبلّت کو نہایت غیر معتدل طور پر بے اندازہ برانگیختہ کردیتاہے ۔ جو فطرت کے قطعاً خلاف ہے ۔ دین فطرت کا تویہ کام تھا کہ وہ خوف کی جبلّت کو جائز اور معتدل استعمال کرے۔اور اس کی غیر معتدل برانگیختگی سے انسان کو محفوظ رکھے۔لیکن اسلام میں الله کا تصور ہی ایسا ہے ۔جس سے انسان کی زندگی وبال جان ہوجاتی ہے ۔ چہ جائيکہ وہ اس کو اوج اعلیٰ (عروج وبلندی)پر پہنچا سکے ۔ پس جب ہم اسلام کو اس کسوٹی پر پر کھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے اسلام دین فطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
جبلّت ِخوف اور مسیحیت
مسیحیت ہم کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ ’’خداوند کا خوف دانش کی ابتدا ہے‘‘ (امثال۱: ۷)۔’’خداوند کا خوف پاک ہے‘‘ (زبور۱۹: ۹)۔’’ خداوند تمہارا خدا تم سے سو ا ء اس کے اور کیا چاہتا ہے کہ تم خداوند اپنے خدا کا خوف مانو اور اس کی سب راہوں پر چلو اور اس سے محبت رکھو‘‘( استثنا ۱۰: ۱۲؛ یشوع ۲۴: ۱۴؛ ۱۔سموئیل ۱۲: ۱۴؛ ایوب ۲۸: ۲۸؛ زبور۲۵: ۱۴ وغیرہ)۔ ’’خداوند سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اس کا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے ۔ اور ان کو بچاتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں ان کو کچھ کمی نہیں‘‘ (زبور ۳۴: ۷؛ ۶۰: ۴؛ ۸۵: ۹ وغیرہ)۔’’ جیسے باپ اپنے بیٹو ں پر ترس کھاتا ہےویسے ہی خداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے ۔ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی شفقت ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ‘‘(زبور ۱۰۳: ۱۱ ؛ ۱۰۵: ۱۱؛ ۱۱۸: ۴؛ ۱۲۸: ۴؛ ۱۳۰: ۴؛۱۴۵: ۱۹؛ ۱۴۷: ۱۱)۔’’ خداوند کا خوف بدی سے عداوت ہے ‘‘(امثال ۸: ۱۲؛ ۱۴: ۲؛۱۴: ۲۷)۔’’خداوند کا خوف زندگی بخش ہے۔ خدا ترس سیر ہوگا اور بدی سے محفوظ رہے گا‘‘(امثال۱۹: ۲۳؛ یسعیاہ۵۰: ۱۰) ۔’’تیرا دل ڈرے گا اور کشادہ ہوگا‘‘ (یسعیاہ۶۰: ۵)۔’’تم پر جو میرے خدا کے نام سے ڈرتے ہو آفتاب صداقت طالع ہوگا۔ اور اس کی کرنوں میں شفا ہوگی‘‘ (ملاکی۴: ۲)۔’’ آؤہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں‘‘(۲۔کرنتھیوں ۷: ۱)۔’’خدا کے خوف میں ایک دوسرے کے تابع رہو‘‘ ( افسیوں ۵: ۲۱)۔
کتاب مقدس کے مذکورہ بالااقتباسات بطور مشتے نمونہ ازخردارے(ڈھیرمیں سے مٹھی بھر) دیئے گئے ہیں۔ ان سے واضح ہوگیا ہوگا کہ مسیحیت میں ’’خدا کا خوف ‘‘ کس قسم کا ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے ۔ یہ خوف ’’ دانش کی ابتدا‘‘ ہے ’’پاک ‘‘ہے ۔ اس سے ’’خدا کی محبت ‘‘پیدا ہوتی ہے ۔ اس کا نتیجہ ’’نیک نیتی اور صداقت ‘‘ ہے ۔ اور اس سے ’’دل کشادہ ‘‘ہوتاہے ۔ اس پر ’’آفتاب صداقت ‘‘ کی کرنیں چمکتی ہیں۔ جو ہم کو ’’شفا‘‘ بخشتی ہیں اور وہ ہر چیز سے ہم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ خوف اس قسم کا خوف ہے جو بیٹا اپنے باپ سے رکھتا ہے ۔اس تصور میں خدا کی محبت پر زور دیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آسمانی باپ کی محبت کو ٹھکرانے سے ڈرتا ہے ۔ اس خوف کا ہول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس قسم کے خوف کا جزو اعظم محبت ہے ۔ جس میں بالفاظ انجیل’’ دہشت نہیں ہوتی بلکہ کامل محبت دہشت کو دور کردیتی ہے کیونکہ دہشت سے عذاب پیدا ہوتا ہے ۔ اور کوئی دہشت کھانے والا محبت میں کامل نہیں ہوا‘‘(یوحنا۴: ۱۸)یہ مسیحی تصور اعضائے رئیسہ کو کمزور اور مضمحل کرنے کی بجائے ’’کشادہ ‘‘ کرتا ہے (یسعیاہ۶۰: ۵)۔’’اس کی کرنوں میں شفا ہے ‘‘ (ملاکی۴: ۲) ۔ایسے خوف سے ذہن کام کرنے سے جواب نہیں دیتا ۔ اور اس سے ذہنی فعلیت کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ محبت آمیز خو ف قوائے ذہنی کے لئے ’’ زندگی بخش ‘‘ ہے ۔ خدا کی محبت ہول کے تمام خطرناک نتائج سے ہم کو محفوظ رکھتی ہے ۔جو اشیاء پہلےہم کو دہشت ناک دکھائی دیتی تھیں اور جو واقعات ہم کو ہولناک نظر آتے تھے ۔ اب مسیحی ایمان کی روشنی میں ہم کو خدا کی محبت اور اس کی پروردگاری کے نظارے معلوم دیتے ہیں۔ وہی باتیں اب ہم کو خدا کی محبت کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں ۔کیونکہ وہ الہٰی محبت کی روشنی سے منور ہوجاتی ہیں۔ ہم کو اب خدا کی پروردگاری اور محبت کی جھلک ان واقعات میں نظرآتی ہے جو پہلے ہم کو خوفناک دکھائی دیتے تھے۔ اور جن سے دیوی دیوتاؤں کے پرستار ابھی تک خائف و ترساں ہیں۔ انسانی زندگی وبال ہوجانے کی بجائے محبت سے معمور ہوکر پر لطف کوائف کا ایک سلسلہ لا متناہی (جس کی کچھ انتہا نہ ہو)بن جاتی ہے اور آسمانی سرور دہشت کی جگہ لے لیتا ہے (یوحنا ۱۴ باب) اور جوں جوں الہٰی محبت کا احساس ہم میں بڑھتا جاتاہے ہماری زندگیوں میں عجیب تبدیلیاں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ اور ہم زبور نویس کے ہم نواہوکر پکار اٹھتے ہیں۔ ’’خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے ۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ (بند،وہ چمڑا یا کپڑا جس سے کتاب کی پُشت کے پٹھے جوڑے جاتے ہیں)ہے مجھے کس کی ہیبت؟ خداوند میری پناہ اور قوت ہے اس لئے مجھ کو کچھ خوف نہیں خواہ زمین کا تختہ الٹ جائے اور پہاڑ سمندر کی تہ میں ڈال دئيے جائیں خواہ اس کا پانی شور مچائے اور موج زن ہو ۔ او رپہاڑ اس کی طغیانی سے ہل جائيں‘‘ (زبور۲۷: ۱؛ ۴۶: ۱)۔
جبلّت ِ خوف اور اسلامی اور مسیحی تعلیم کا موازنہ
ممکن ہے کہ کوئی کوتاہ عقل (کم عقل)یہ اعتراض کرےکہ مسیحیت بھی خدا کو خالق ،باری ،عالی ،رفیع،عظیم،کبیر ، متعالی، جلیل ، قادر ، قدیر ، وغیرہ مانتی ہے ۔ لیکن معترض کو معلوم ہوناچا ہیے کہ مسیحیت اور اسلام میں خدا کے تصورات میں بعد المشرقین ہے ۔ مسیحیت خدا کو ان معنوں میں رفیع ،عظیم ، جلیل، قادر وغيرہ نہیں مانتی جن معنوں میں اسلام الله کو ایسا مانتا ہے ۔ اسلام کا اصل الاصول یہ ہے کہ خدا منزہ(عیبوں سے پاک) ہے ۔ اور وہ ایک ہیبت ناک ہستی ہےجو مندرجہ بالا تمام صفات سے متصف (جس کے ساتھ کوئی صفت لگی ہو)ہے ۔ اس کے برعکس مسیحیت کا اصل الاصول یہ ہے کہ خدا باپ ہے اور اس کی ذات محبت ہے ۔ محبت خدا کی محض صفت نہیں بلکہ محبت اس کی ذات ہے ۔ اور مندرجہ بالا تمام کی تمام صفات اس کی ذات یعنی محبت کی صفات ہیں۔ اور وہ ہم پر خدا کی محبت ظاہر کرتی ہیں۔ مثلاً اگر خدا قادر اور قوی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی محبت قادر ہے ۔ جو بدترین گنہگار کو بھی اپنے دست قدرت سے بچاسکتی ہے ۔ اگر خدا رفیع ،عالی اور عظیم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی محبت کی رفعت اور عظمت کو کوئی شخص نہیں جان سکتا ( افسیوں ۳: ۱۹) ۔لیکن اسلام میں ان اسمائے جلالیہ سے یہ مطلب مقصود نہیں ہوتا بلکہ وہاں یہ صفات ایک ایسی خوفناک زبردست اورہیبت ناک ہستی کی جانب اشارہ کرتی ہیں جسے چار وناچار (مجبوراً)انسانوں کوسجدہ کرنا لازمی اور لابدی اور ناگریز امر ہے ۔ ورنہ اس کے قہر وغضب کی انتہا نہیں۔لیکن مسیحیت کے مطابق خدا کا غصہ کسی جبار اور قہار ہستی کا قہرو غضب نہیں۔ بلکہ خدا باپ کی ازلی اور ابدی محبت کی آگ کی چنگاریاں ہیں جس کی علت غائی (حاصل،سبب) یہ ہے کہ انسان ہلاک نہ ہو۔ بلکہ بچہ کی طرح تربیت پاکر ہمیشہ کی زندگی پائے (امثال ۳: ۱۲؛ ۲۔تیمتھیس ۱: ۷؛ عبرانیوں ۲: ۶۔۷؛ یوحنا ۳: ۱۶ وغیرہ)۔
مسیحیت کے مطابق اگر خدا ذوالجلال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی محبت پُر جلال ہے۔ اگر خدا ازلی اور ابدی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی محبت ازلی اور ابدی ہے۔ لیکن اسلام کا الله اسمائے جمالیہ رکھتاہے تو محض اپنے جلال کی خاطر مثلاً اگر وہ رحمنٰ الرحیم ہے تو اس کا رحم ایک مطلق العنان قادر ،قہار وجبار ،مزیل ، اور ممیت سلطان کا رحم ہے جو وہ اپنے مغلوب ومقہور ومغضوب غلام پر کرتا ہے ۔ایسا رحم اخلاقی عنصر سے بالکل خالی اور معرا ہے ۔ کیونکہ الله جس مغضوب غلام پر چاہے رحم کرے اور جس پر چاہے قہر کرے ۔ جس کو چاہے بخشے اور جس کو چاہے عذاب دے (مائدہ آیت 44وغیرہ) وہ جو چاہے حکم دے (مائدہ آیت ۱و۲وغيرہ)بہر حال وہ گنہگاروں ،فاسقوں، فاجروں سے محبت نہیں رکھتا (بقر آیت 9۲وغیرہ) بلکہ وہ ان سے انتقام لیتا ہے (سجدہ ۲۲ ۔زخرف 40 دخان ۱5وغیرہ)۔
پس اسلام کے الله کی ہستی ایک ہیبت ناک ڈراؤنی ہستی ہے ۔ جو ڈرنے والوں کوہی جزادیتی ہے ۔ (ابراہیم ۱7 وغیرہ )اس کا رسول ڈرانے والا نذیر ہے (احزاب 44 نساء 96 مائدہ 57و58 بقرہ ۲تا 4وغیرہ) اس کی کتاب قرآن ڈرانے والی کتاب ہے (حم سجدہ آیت 3) اس خوف اور دہشت کی وجہ سے انسان اور الله میں حقیقی رفاقت ممکن نہیں ہوسکتی کیونکہ رفاقت محبت کا نتیجہ ہے ۔ مسیحیت کے مطابق خدا کی ذات محبت ہے ۔ جو اپنی محبت کی خوبی ہم پریوں ظاہر کرتا ہے کہ’’ جب ہم گنہگار ہی تھے تومسیح نے ہماری خاطر جان دی ‘‘ (رومیوں ۵: ۸؛ ۱۔یوحنا ۴: ۹ وغیرہ)۔’’اس کے رحم کی دولت اس بڑی محبت کے سبب ہے ۔ جو اس نےہم سے کی ‘‘( افسیوں ۲: ۴ )۔اسلام کے خدا کی ذات وصفات ایسی ہیں جن سے ہر لحظہ خوف اور دہشت ٹپکتی ہے۔ لیکن مسیحیت کے ’’خدا نے ہم کو دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تریبت کی روح دی ہے ‘‘(۲۔تیمتھیس ۱: ۷)۔ مسیحیت میں خدا کی لازوال محبت خدا کے خوف کا سرچشمہ اور منبع ہے ۔ اور اس کو تحریک میں لاتی ہے ۔( رومیوں۵: ۸؛ یوحنا ۴ باب) یہ کامل محبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خدا باپ کی مرضی پر چلے۔ یہ مجبوری کسی قہار وجبار خدا کے غضب سے ہول کھانے کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بلکہ کامل محبت کے دل میں شعلہ زن ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ بالفاظ انجیل’’ مسیح کی محبت ہم کومجبور کرتی ہے ‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۴)۔خدا کی ذات محبت ہے ۔ لہٰذاہم کو ’’ غلامی کی روح نہیں ملی ۔ جس سے ڈر پیدا ہو۔ بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی ہے ۔ جس سے ہم ابا یعنی اے باپ کہہ کر خدا کو پکارتے ہیں‘‘ ( رومیوں ۸: ۱۵)انجیل کی خوشخبری یہ ہے کہ ’’جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے ۔ ان کو چھڑادے ‘‘ ( عبرانیوں ۲: ۵ ) منجئ عالمین نے فرمایا: ’’ میں تم کو اطمینان دیتا ہوں۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے ۔ تم مجھ میں اطمینان پاؤ ۔میں تم کو غلام نہیں کہتا ۔ بلکہ میں نے تم کو دوست کہا ہے ‘‘ (یوحنا ۱۴ باب)آپ نے بار بار اپنے شاگردوں اور دوسرے لوگوں کو تاکید کرکے فرمایا کہ ’’ مت ڈرو‘‘(متی ۱۰: ۳۱؛ لوقا۵: ۱۰؛ ۸: ۵۰؛ ۱۲: ۳۲ وغیرہ)۔
جیسا ہم اپنے ’’رسالہ نوالہدیٰ ‘‘میں مفصل ذکر کرچکے ہیں ۔ یہ ایک تواريخی حقیقت ہے کہ ابتدا ہی سے مسیحیت نے مختلف ازمنہ میں اقوام عالم کے کروڑوں افراد کو مذاہب باطلہ کے دہشت اور ہول اور توہمات کے تباہ کن خوف سے نجات بخشی۔ اسی واسطے خداوند کے پیغام کا نام ’’انجیل ‘‘ یعنی خوشخبری پڑگیا۔ کیونکہ ابتدا ہی سے یہ پیغام حقیقی معنوں میں ’’ خوشخبری ‘‘ثابت ہوا۔ اس نے ہر فرد بشر کو ہر طرح کے ہول اور دہشت سے چھٹکارا دے دیا ۔ ادیان عالم میں مسیحیت ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خوف کی جبلّت کا جائز استعمال کرتا ہے ۔ اور اس کو غیر معتدل طور پر برانگیختہ نہیں کرتا۔ بلکہ رعب احترام اور محبت کے جذبات سے دہشت کے عنصر کو دور کرکے ہر طرح کا ہول ہمارے دلوں سے نکال دیتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم خدا کے ’’فضل کے تخت کے پاس دلیری سے ‘‘ آتے ہیں ( عبرانیوں ۴: ۱۶)۔ جس طرح بیٹا اپنے باپ کے پاس دلیری سے آتا ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ہمیں جو اس کے سامنے دلیری ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے ۔ کہ محبت ہم میں کامل ہوگئی ہے‘‘ (۱۔یوحنا۵: ۱۴؛ ۴: ۱۷)۔
پس مسیحیت میں خدا کاتصور محبت پر مبنی ہے ۔جناب ِ مسیح نے باپ کی محبت ہم پر ظاہر کی ۔ اس ازلی ابدی اور لازوال محبت کے ’’احترام ‘‘ نے خوف اور دہشت کے محرکات کی جگہ ہمارے دلوں میں لے لی ہے ۔ جس کا قدر تی نتیجہ یہ ہے ۔ کہ جو شخص خدا پر مسیح کےوسیلے ایمان لاتے ہیں و ہ الہٰی قہروغضب اور خداوندی عقوبت وتعذیب کے خوف سے مرعوب ہوکر خدا کے احکام پر نہیں چلتے ۔ بلکہ خدا کی ازلی محبت کے احترام کا پاس کرکے خدائے قدوس کی پاک مرضی پر چلنے کا مصمم ارادہ کرلیتے ہیں۔
اسلامی تصور تاریخ مذہب کی ابتدا ئی منازل کا تصور ہے لیکن مسیحی تصور انتہائی منزل کا تصور ہے اور دونوں تصورات میں بعد المشرقین ہے ۔
بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا
پس جہاں تک خوف کی جبلّت کا تعلق ہے مسیحیت ہی اکیلا واحد مذہب ہے ۔ جو ہماری سرشت کی اس جبلّت کےاقتضا کو بطرز احسن پورا کرتا ہے ۔
فصل سوم
جبلّت ِتولید ِ مثل ِنوعی یا جبلّت ِجنسی
جبلّت جنسی کی خصوصیات
جنسی جبلّت کے ذریعے ایک حیوان اپنی نوع کے حیوان پیدا کرتا ہے ۔ نر اور مادہ کے باہمی تعلقات اسی جنسی جبلّت کی وجہ سے ظہور میں آتے ہیں۔ انسانی معاشرت کے لئے یہ جبلّت نہایت ضروری ہے ۔ چونکہ اس جبلّت سے ہر جماعت خواہ چھوٹی ہو خواہ بڑی بحال سرسبز اور قائم رہتی ہے۔ لہٰذا اس جبلّت کے لئے بیاہ اور ازدواج کا وجود اور اس حالت کا قیام نہایت ضروری امور ہیں۔
(۱)
تاریخ اقوام کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کردیتاہے کہ وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جن میں ایسے قوانین ازدواج منضبط (مضبوط کیا ہوا،پیوستہ کیا گیا) ہوتے ہیں ۔ جو والدینی جبلّت یعنی ماں باپ کی جبلّت کی تائید کرتے ہیں۔ وہ قبائل اور اقوام جن میں رسم ازدواج منضبط نہیں ہوتی جلدی فنا ہوجاتے ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ اقوام کی شائستگی اور تہذیب کا معیار ان کے ازدواج کےقوانین وقواعد ہیں۔ جن اقوام میں وحدت ِ ازدواج ہے اور اس رشتہ کے قیام وبقاپر زور دیا جاتا ہے وہ اقوام شاہراہ ترقی پر گامزن ہوتی ہیں۔ لیکن جن اقوام میں وحدت ازدواج کی بجائے کثرت ِ ازدواج رائج ہے اور بیاہ کے رشتہ کی طرف سے لاپرواہی اختیار کی جاتی ہے ۔ اور طلاق عام روز مرہ کا واقعہ ہوجاتا ہے ۔ ان اقوام میں زوال پیدا ہو جاتا ہے ۔تاریخ معاشرت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ اقوام جن میں متعدد(کئی) بیویاں یا متعدد شوہر رکھنے کا رواج جاتا رہا ۔ وہ اپنی وحشیانہ حالت کو چھوڑ کر مہذب ہوگئیں۔ لیکن وہ اقوام ترقی کے زینہ سے گرگئیں۔ جن میں وحدت ازدواج کی بجائے تعداد ازدواج اور طلاق مروج ہوگیا یا جن میں مردو زن میں وفاداری اورباہمی اخلاص وغیرہ کے تعلقات مدت العمر(تمام زندگی) پائدار نہ رہے ۔ تاریخ دنیا کے صفحات اس اصول کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ مثلاً ملک یونان کے باشندوں میں پانچویں صدی قبل از مسیح تک وحدت ازدواج کی رسم جاری تھی ۔ اور اس زمانہ میں انہوں نے حیرت انگیز ترقی کی۔ لیکن جونہی ازدواج کے قوانین وقواعد ڈھیلے ہونے شروع ہوگئے ۔ یونان کے زوال کے زمانہ کی ابتدا ہوگئی۔ اس ملک کے اخلاقی انحطاط کا یہ حال ہوگیا کہ ڈیمستھینز(Demosthenes)کہتا ہے کہ
’’ ہم اپنی منکوحہ بیویوں کے ساتھ اس واسطے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ہمارے ہاں ایسے بچے پیدا ہوں ۔ جن کو قانون تسلیم کرسکے۔لیکن لذت حاصل کرنے کے لئے ہم دوسری عورتوں کو اپنے گھر وں میں رکھتے ‘‘۔
وہاں ازدواج کے قواعد کے نرم اور ڈھلے ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل یونان ایک محکوم قوم بن گئے ۔ اسی طرح روم میں جب تک ازدواج کے قوانین سخت تھے ۔ سلطنت ِ روم عروج پر رہی۔ لیکن جہاں ان قوانین کی جانب سے لاپرواہی اختیار کی گئی ۔ اور تعداد ازدواج اور طلاق ایک عام بات ہوگئی تو اس سلطنت کے زوال کازمانہ آگیا۔ اور اس اخلاقی انحطاط کا نتیجہ یہ ہوا کہ روم نے ایسی قوم یعنی جرمنوں کے ہاتھوں زبردست شکست کھائی جس میں وحدت ازدواج جاری تھی ۔ اسی طرح ملک ہسپانیہ میں اسلامی فتوحات کو سر انجام دینے والی قوم برؔبر تھی جس میں وحدت ازدواج رائج تھی ۔ لیکن جب فاتح قوم کی جڑوں کو اسلامی رسوم تعداد ازدواج اور طلاق نے کھوکھلا کردیا۔ تو اس کو ایسا زوال آیاکہ اسلام کا نشان تک مغرب سے مٹ گیا۔
پس ظاہر ہے کہ جن ممالک میں وحدتِ ازدواج جاری ہے اور اس رشتہ کے قوانین وقواعد منضبط اور سخت ہیں۔ وہ ملک ترقی کرتے ہیں اور مہذب ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن ممالک میں وحدت ازدواج نہیں اور اس رشتہ کے قوانین نرم اور ڈھیلے ہیں اور تعداد ازدواج اور طلاق رائج ہے ۔ وہ ملک جنسی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ پس یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ کہ جس ملک اور زمانہ میں ازدواج کے تعلقات مدت العمر پائدار ہوتے ہیں وہاں ترقی علم صنعت وحرفت اور تمدنی اور معاشرتی زندگی ظہور پذیر ہوجاتی ہے ۔ جس سے ثابت ہے کہ وحدتِ ازدواج اور ازدواجی تعلقات کی پائیداری اور قیام اور ان تعلقات کا استحکام بنی نوع انسان کی ترقی کےلئےنہ صرف ضروری ہیں بلکہ اس کی ترقی کی لازمی شرائط ہیں۔ کیونکہ بقائے نوع اس امر کی مقتضی ہے کہ ازدواج قائم رہے اور مدت العمر قائم رہے ۔ جنسی جبلّت ماں باپ کی جبلّت کے ساتھ مربوط (وابستہ) اور مخلوط (ملاجلا)ہے ۔ اور یہ قریبی تلازم معاشرت کے لئے نہ صرف از حد مفید بلکہ لازم اور ضروری ہے ۔ اس بات میں کچھ شک نہیں کہ یہ ربط مبد فطرت سے ہے ۔ علی العموم جو معروض جنسی اقتضا کا ہے ۔ وہ کسی حدتک جذبہ نازک کا بھی معروض ہے ۔ یہ ارتباط(میل ملاپ،دوستی) اس وفاداری اور باہمی اخلاص کی بنیاد ہے ۔ جس کی وجہ سے نر اور مادہ میں وفاداری اور باہمی اخلاص وغیرہ کے تعلقات مدت العمر پائدار استوار اور قائم رہتے ہیں۔
(۲)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے ۔ کہ کیوں وحدت ازدواج اور تہذیب کی ترقی لازم ملزوم ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو افراد اور اقوام جنسی جبلّت کی طرف ہی خیال رکھتے ہیں وہ شہوت کے غلام ہوجاتے ہیں ۔ ان میں نراور مادہ کے جذبات غیر معتدل طور پر برانگیختہ رہتے ہیں۔ چونکہ اس قسم کے انسانوں کا خیال ہمیشہ عورتوں کا جانب ہی لگا رہتا ہے اور وہ ان سے حظ اور لذت حاصل کرنے میں ہی اپنی قوتیں صرف کردیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اورکسی مصرف(کام) کے نہیں رہتے۔ ان کے اعضا ئے رئيسہ مضمحل ہوجاتے ہیں ۔ جنسی جبلّت کی ناواجب شدت اور تکرار عمل کے باعث ان کے ذہن کسی کام کے نہیں رہتے ۔ اور یوں رفتہ رفتہ ان کی ذہنی فعلیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ شہوانی خیالات کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ باقی تمام خیالات پر غلبہ پاکر انسان کی تمام توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
(3)
لیکن جو شخص جنسی جبلّت کو صرف جائز اور معتدل طور پر استعمال کرتاہے وہ اس جبلّت کی وافر طاقت کو دیگر اغراض اور مقاصد کے حصول میں لگا دیتا ہے ۔ ہر شخص اپنے تجربہ سے اس امر کی تائید کرسکتا ہے ۔ جب کوئی انسان جنسی جبلّت کو غیر معتدل طور پر برانگیختہ نہیں ہونے دیتا۔ اور اس پر قابو پالیتا ہے تو وہ اس جبلّت کی عظیم توانائی اور طاقت کو دیگر انسانی مشاغل اور اغراض ومقاصد کے حاصل کرنے میں صرف کرسکتا ہے ۔ اور کر بھی دیتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ انسانوں میں تمام جبلّتوں سے زیادہ جبلّت جنسی مختلف وجدانیات اور اقتضاؤں کو اپنے اقتضا کی عظیم طاقت ،قوت اور توانائی مستعار (چند روز،مانگا ہوا)دیتی ہے ۔ چونکہ انسان کی توجہ تمام تر اسی ایک جبلّت کے استعمال پر لگی نہیں رہتی، لہٰذا وہ دیگر امور کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے ۔ اور اس جبلّت کی توانائی کو دیگر اغراض ومقاصد کی تحصیل میں خرچ کرسکتا ہے ۔ اور یہ جیسا ہم فصل اول میں ذکر کرچکے ہیں عین فطرت کے مطابق ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے جس طرح کوئی انجنیئر کسی دریا کےوافر پانی کو نہروں میں نکال دے ان نہروں کے ذریعہ زمین سرسبز اور شاداب ہوکر اپنا پھل پیدا کرتی ہے اور انسان کی مرفہ الحالی(آسودگی) کا باعث ہوجاتی ہے اسی طرح جنسی جبلّت کی وافر طاقت اور فاضل توانائی کا رحجان ان اعلیٰ اغراض اور بہترین مقاصد کے حاصل کرنے کی طرف لگانا چاہیے جن سے بنی نوع انسان کی فلاح ترقی اور بہبودی مقصود ہوتی ہے ۔
جبلّت جنسی اور دین ِفطرت کے لوازمات
سطور بالا سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ دین ِ فطرت کا یہ کام ہے کہ (۱)وحدت ازدواج کی تعلیم دے (۲)نرا ور مادہ کے رشتہ کی پاکیزگی قیام، استواری اور پائیداری اور اس کی دوامی حالت کی تلقین کرے (3)طلاق کی ممانعت کرے اور (4)اس بات کا محرک ہوکہ جبلّت جنسی کی وافر اور فاضل طاقت اور عظیم توانائی اعلیٰ ترین مقاصد اور اغراض کو حاصل کرنے کی جانب راغب ہوجائے۔
جنسی جبلّت اور مسیحیت
کلمتہ الله (سیدنا مسیح) کی تعلیم نے آدمی اور عورت کے باہمی جنسی تعلقات کی کایا پلٹ دی جو نر اور مادہ کے تعلقات آپ کے زمانہ میں رائج تھے۔ وہ موسوی شریعت کے ماتحت تھے۔ آپ نے ان کے تمام غیر مکمل عناصر کو خارج کرکے اس رشتہ کو کامل طور پرپاکیزه بنادیا۔عورت بچے جننے کی مشین اور مرد کی شہوت کاآلہ کار نہ رہی۔ بلکہ مرد کی طرح ایک آزاد ذمہ وار ہستی ہوگئی ۔جس سے خدا لازوال محبت کرتا ہے ۔ اور جس کی روح کی خاطر ابن الله نے اپنی جان دے دی ۔ خدا کی نظر میں مرداور عورت کے حقوق مساوی ہیں۔ پس انجیل جلیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ جنسی جبلّت کے جائز استعمال کے لئے ’’ ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے۔ شوہر اپنی بیوی کا حق ادا کرے اور بیوی شوہر کا حق ادا کرے ‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۷: ۲)۔ کتاب ِمقدس کے مطابق یہ خدا کے عین منشا کے مطابق ہے کہ مرد اپنی زندگی ایک عورت کےساتھ رہ کر بسر کرے اور عورت اپنی زندگی ایک مرد کے ساتھ بسر کرے۔ انسانی زندگی دونوں صنفوں کےباہمی تعلقات میں استوار اور کامل ہوتی ہے ۔ (پیدائش ۲: ۱۸)۔چنانچہ لکھا ہے کہ مرد اور عورت ’’ایک جان ہوں گے ‘‘(پیدائش ۲: ۲۴)۔ پس انجیل جلیل نے یہ تعلیم دی ہے کہ ’’مرد اورعورت کے جنسی حقوق مساوی ہیں۔ اور ان کی واجبی ادائیگی کو ہر زن وشوہر پر فرض کردیا ہے جو ان بیوہ عورتوں کو حکم دیاکہ وہ بیاہ کریں۔ اولاد جنیں اور گھر کا انتظام کریں۔ اور کسی مخالف کو بدگوئی کا موقعہ نہ دیں‘‘ (۱۔تیمتھیس۵: ۱۴)۔ ’’بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے اور بستر بے داغ رہے‘‘ ( عبرانیوں ۱۳: ۴)جو لوگ ازدواج کے رشتہ کے خلاف ہیں اور شادی بیاہ کو برا جانتے ہیں ان کی نسبت انجیل مقدس میں وارد ہوا ہے کہ ’’بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیموں کی طرف متوجہ ہوکر بیاہ کرنے سے منع کریں گے (۱۔تیمتھیس ۴: ۱)۔
(۲)
مسیحیت وحدت ِ ازدواج پر زوردیتی ہے ۔ اور اس رشتہ کو مدت العمر پائدار قرار دے کر اس کو مستحکم اور مضبوط کرتی ہے ۔مسیحی تعلیم طلاق کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیتی ہے ۔ چنانچہ ایک دفعہ فریسیوں نے آکر کلمتہ الله سے پوچھا ’’کیا یہ روا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو چھوڑدے ‘‘؟ آپ نے فرمایا’’ خلقت کے شروع سے خدا نے ان کو مرد اور عورت بنایا۔ اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے ۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اس لئے جس کو خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے ۔ جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑدے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے خلاف زنا کرتا ہے ۔ اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے‘‘ (مرقس۱۰: ۲)۔’’کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بے وفائی نہ کرے ۔ کیونکہ خدا فرماتاہے کہ میں طلاق سے بیزار ہوں اور اس سے بھی جو اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے ۔اس لئے تم اپنے نفس سے خبردار رہو‘‘(ملاکی ۲: ۱۵) منجی عالمین کے صاف اور واضح الفاظ وحدت ازدواج کی پائیداری اور اس کے لطیف پاکیزہ اور مقدس تعلق کونہایت صراحت اور وضاحت سے بیان کردیتے ہیں۔ مقدس پولُس فرماتے ہیں کہ ’’خداوند میں نہ عورت مرد کے بغیر ہے اور نہ مرد عورت کے بغیر ۔ کیونکہ جیسے عورت مرد سے ہے ویسے ہی مرد بھی عورت کے وسیلے سے ہے مگر سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۱۱؛ رومیوں ۷: ۲ وغیرہ) ا ن الفاظ سے عیاں ہے کہ مسیحیت کے نزدیک عورت اور مرد کے تعلقات ’’خداوند ‘‘ میں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کی حالت پاک باعزت اور دائمی حالت ہے ۔ اور خدانسان کے باہمی تعلق کی زندہ مثال ہے (مرقس ۲: ۱۹؛ مکاشفہ ۲۱: ۹؛ ۱۔کرنتھیوں ۶: ۱۴۔۲۰)۔مسیحی تعلیم جنسی جبلّت کی پائیداری اور استواری کی تائید کرتی ہے ۔ اور اس وفاداری اوراخلاص کے قیام کی بنا ہے ۔ جو مسیحی خاندانوں کو اسی دنیا میں جنت بنادیتی ہے ۔ جس میں خاوند اور بیوی کے تعلقات میں خلل اور بدنظمی واقع ہونے کی بجائے محبت ،پیار اور ہمدردی کے لطیف اور نازک جذبات کی نشوونما اور تکمیل ہوتی ہے ۔
مسیحیت کے مطابق ازدواج کا رشتہ ایک ایسا تعلق ہے جس کا مقصد ہر گز پورا نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ یہ رشتہ مدت العمر پائیدار نہ ہو۔ فطرت نے ازدواجی تعلقات کا مقصد بچوں کی پیدائش رکھی ہے۔ تاکہ ایک سوسائٹی معرض وجود میں آجائے ۔ یا بالفاظ دیگر سوشل عمارت خاندان کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے ۔اور جنسی جبلّت نے سوشل تعلقات کی صورت اختیار کرلی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہ جبلّت اس قسم کے تعلقات کے علاوہ کسی اور صورت میں ظاہر ہو تو افراد اور سوسائٹی دونوں کےلئے وہ خطرے کا باعث بن جاتی ہے ۔
چونکہ ازدواجی تعلقات درحقیقت بچوں کی شخصیت کی نشوونما اور ترقی کا ذریعہ ہیں۔ لہٰذا لازم ہے کہ یہ تعلقات صرف ایک زوجہ سے متعلق ہوں اور مدت العمر پائیدار ہوں ۔ کیونکہ انسانی بچہ دیگر تمام حیوانات کی نسبت اپنے والدین کی مدد کا زیادہ مدت تک محتاج ہوتا ہے ۔ او ر جوسوسائٹی زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ ہوتی ہے ۔ اس میں یہ حاجت زیادہ دیرپا ہوتی ہے ۔ مسیحی تصور ازدواج کا سخت مخالف لارڈ رسل (Lord Russell)بھی اس امر کو چارونار چار تسلیم کرتاہے ۔
پس ازدواج کی نسبت جو تعلیم کلمتہ الله نے دی ہے۔ صرف وہی فطرت کے لوازمات کے مطابق ہے ۔کیونکہ صرف وحدتِ ازدواج اور اس تعلق کی مدت العمر پائیداری اور قیام ہی نوع انسانی کی ہستی بقا اور ترقی کا موجب ہوسکتی ہیں۔
(3)
چونکہ کلمتہ الله کی تعلیم تعداد ازدواج کو حرام اور طلاق کو ممنوع قرار دیتی ہے ۔ لہٰذا جنسی جبلّت کی قوت وحدت ازدواج کی وجہ سے صرف معتدل طور پر ہی استعمال ہوسکتی ہے ۔ پس اس جبلّت کی وافر اور فاضل طاقت اور عظیم توانائی بنی نوع انسان کی فلاح ترقی اور بہبودی کی خاطر صرف ہوسکتی ہیں۔ چونکہ نر اور مادہ کے جذبات تعدادوازدواج کی وجہ سے غیر معتدل طور پر برانگیختہ ہونے نہیں پاتے۔ لہٰذا نا واجب شدت اور تکرار عمل کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اور انسانی دماغ ہر وقت جنسی تعلقات کی جانب راغب رہنے کی بجائے نئی باتوں کی دریافت اور دیگر مشغلوں میں لگ جاتا ہے ۔ اور میاں بیوی دونوں کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ جنسی جبلّت کی وافر قوت کو بے کسوں ،لاچاروں ،مریضوں،غریبوں،محتاجوں،یتیموں،رانڈوں اور مصیبت زدوں وغیرہ کے ساتھ ہمدردی کے ذرائع معلوم کرنے میں صرف کریں۔ یا دیگر اعلیٰ ترین مقاصد مثلاً بنی آدم کی بہبودی یا سائنس کی دریافتوں وغیرہ کی جانب اس زبردست میلان کی طاقت کے رحجان کو راغب کریں۔
کلمتہ اللہ کیوں مجرد رہے
منجی عالمین نے خود اس جبلّت کی عظیم توانائی اور تمام کی تمام طاقت کو بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبودی میں صرف کردیا۔ ہم نے اوپر دیکھا ہے کہ یہ جبلّت تمام دیگر جبلّتوں سے زیادہ مختلف وجدانیات اور اقتضاؤں کو اپنے اقتضا کی عظیم قوت اور توانائی مستعاردے دیتی ہے اور یہ عین اس جبلّت کی فطرت کے اور الہٰی منشا کے مطابق ہے ۔ پس منجی کونین نے اس جبلّت کی تمام کی تمام توانائی اور عظیم طاقت کو راہ خدا میں خرچ کردیا ۔ اور اس جبلّت کی لذت اور حظ سے بہرور ہونے کی بجائے آپ نے اپنی تمام زندگی اس بات کے لئے وقف کردی کہ گنہگار مردوں اور عورتوں کو توبہ اور الہٰی مغفرت کا پیغام دیں اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیں اور اندھوں ، لنجوں ،کوڑھیوں اور مفلوجوں وغیرہ کو شفا عطاکریں ۔مردوں کو زندہ کریں ’’قیدیوں کو رہائی دیں ۔ کچلے ہوؤں کو آزاد کریں۔ اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کریں‘‘(لوقا ۴: ۱۸)۔آپ نے ’’آسمان کی بادشاہت کی خاطر اپنے آپ کو خوجہ بنایا‘‘ (متی ۱۹: ۱۲)۔آپ نے کمال ایثار کو کام میں لاکر تمام ’’عمر اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی ‘‘ پر عمل کیا (یوحنا ۵: ۳۰) اور فرمایا ’’ میں آسمان سے اترا ہوں نہ اس لئے کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں۔ بلکہ اس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں (یوحنا۳۸:۶) ۔منجی عالمین نے خدا کی رضا کو پورا کرنے کے لئے اور اس کی محبت کا ’’شہر شہر اور گاؤں گاؤں ‘‘(لوقا ۸: ۱؛ مرقس ۶:۶؛ متی ۹: ۳۵ وغیرہ) اعلان کرنے کے لئے اور اپنا جانفزا پیغام دینے کے لئے جبلّت جنسی کے جائز استعمال سے بھی پرہیز فرمایا اور اس جبلّت کی تمام طاقت قوت اور توانائی کو خلق خدا کی خدمت اور رضائے الہٰی کو پورا کرنے میں صرف کردیا۔ ابن الله کو خوب معلوم تھا۔ کہ آپ کی عمر اس دنیا میں چند سال کی ہوگی (لوقا۳۱:۱۳) ۔خدانے آسمان کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کی مبارک خدمت آپ کے سپرد کی تھی۔ پس آپ نے اپنی ساری عمر کو بے نظیر ایثار نفسی کے ساتھ فی سبیل الله وقف کردیا۔ حتیٰ کہ آپ نےتمام ضروری لذات کو بھی بخوشی ترک کردیا۔ آپ فرماتے تھے ’’میراکھانا پینا یہ ہے ۔ کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کو بجا لاؤں اور اس کام کو پورا کروں‘‘ (یوحنا ۴: ۳۴)۔ پس جس شخص کو ایسا بے مثل کام سرانجام دینا ہو اس کو یہ زیبا نہ تھا کہ وہ اپنے بیش بہا آسمانی مقدس اوقات کا معتدبہ (قابلِ اعتماد،بہت سا)حصہ گرہستی کے دھندوں اورجورو کے پھسلانے بچوں کو جنوانے اور خویش واقارب کی خاطر مدارات میں تلف کردے اور یوں اپنی زندگی کے مقصد اولین کو جس کی خاطر آپ دنیا میں آئے تھے برباد کردیتے ۔ یہ کام آدم کے زمانہ سے لوگ کرتے آتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ مگر جو کام ابن الله کرنے آئے تھے ۔ وہ پس انہیں کا حصہ تھا۔ پس آپ نے آسمان کی بادشاہت کی خاطر تجرد اختیار فرمایا۔ اور جبلّت جنسی کی عظیم طاقت قوت اور توانائی کو راہ خدا میں خرچ کردیا۔
(۲)
قرآن شریف نے آپ کے تجرد اختیار کرنے کے نکتہ کو ایک اور لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے ۔ قرآن میں الله کی ذات کی نسبت آیا ہے ۔ لم یلد ولم یولد اور لم یکن لہ صاحبۃ یعنی نہ وہ جنا گیا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے ۔ اور نہ اس کی کوئی جورو ہے ۔ چونکہ کلمتہ الله کو ہر طرح کی مناسبت صرف خدا کے ساتھ ہے لہٰذا دنیاوی اعتبار سے نہ آپ کا کوئی باپ ہوسکتا تھا۔ نہ کوئی اولاد اور نہ کوئی جورو۔
مسیحیت اور رہبانیت
بہر حال تجرّد کے اختیار کرنے میں ابن الله نے اپنی جبلّت جنسی کی تمام توانائی اور قوت کو خدا کی بادشاہت کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول میں صرف کردیا۔ اور ایثار نفسی کا کامل نمونہ بنے (یوحنا ۱۲: ۲۴)آپ نے اپنے تجربہ کی بنا پر فرمایا تھاکہ :
’’بعض خوجے ایسے ہیں ۔ جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کی خاطر اپنے آپ کو خوجہ بنایا‘‘ (متی ۱۹: ۱۲)جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض مبارک اشخاص ایسے بھی ہیں ۔ جن کو خدانے یہ توفیق عطا فرمائی ہے ۔ کہ جنسی جبلّت کی زبردست قوت اور عظیم توانائی کو انجیل کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں۔
مقدس پولُس نے بھی جناب مسیح کی خاطر اور انجیل کی تبلیغ کی خاطر جنسی جبلّت کے استعمال سے انکار کیا۔ اور اس کی طاقت کو انجیل کی اشاعت میں صرف کردیا اور وہ اپنے تجربہ سے یہ کہتے ہیں ’’میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جیسا میں ہوں ویسے ہی سب آدمی ہوں۔لیکن ہر ایک کو خدا کی طرف سے خاص خاص توفیق ملی ہے کسی کو کسی طرح کی ۔ کسی کو کسی طرح کی ۔ پس میں بے بیا ہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں۔کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے ۔ جیسا میں ہوں ۔ لیکن اگر ضبط نہ کرسکیں تو بیاہ کرلیں‘‘(۱۔کرنتھیوں ۷: ۷) منجی عالمین نے بھی یہی فرمایا تھا۔ کہ سب لوگ اس بات کے اہل نہیں کہ جبلّت جنسی کے اقتضا کو پورا نہ کریں اور اس جبلّت کی تمام کی تمام طاقت کو راہ خدا میں خرچ کردیں آپ کا ارشاد ہے کہ ’’سب اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ہے ۔ مگر وہی جن کو یہ قدرت دی گئی ہے جوقبول کرسکتا ہے وہ قبول کرے‘‘ (متی ۱۹: ۱۱)۔ پس وہ لوگ سراسر غلطی پر ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ مسیحی تعلیم میں بیاہ کی ممانعت ہے۔ یا اس حالت کو ایک مذموم شے قرار دیا گیا ہے ۔(سورہ حدید آیت ۲7) کلمتہ الله کی تعلیم ازدواج کے رشتہ کی پاکیزگی پر اصرار کرتی ہے (عبرانیوں ۱۳: ۴)۔ابن الله کے رسول ایسی تعلیم کو جو بیاہ کو مذموم قرار دیتی ہے ’’گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم‘‘(۱۔تیمتھیس ۴: ۱) قراردیتے ہیں۔
(۲)
مسیحیت رہبانیت کے اصول کی قائل نہیں ہوسکتی۔کیونکہ یہ اصول مسئلہ تجسم کے منافی ہے اور مسیحیت ابن الله کے تجسم کی قائل ہے ۔ تجسم کے عقیدہ کی بنیاد ہی یہ ہے ۔ کہ ہمارے بدن اور اس کی جبلّتیں بالخصوص جنسی جبلّت اور جنسی تعلقات فی نفسہ بُرے نہیں۔ اس کے برعکس تجسم کے عقیدے کی روشنی میں ہماری جبلّتوں کے تعلقات اور اقتضا ہم کو ان کی نہایت پاکیزه صورت میں نظر آتے ہیں۔ ابن الله کے تجسم کے عقیدے کی وجہ سے مسیحیت جنسی جبلّت اور والدینی جبلّت کی پاکیزگی اور خاندانی زندگی کو خوبصورتی پر بے حد اصرار کرتی ہے ۔اور یہ حقیقت ایسی واضح ہے کہ ایڈورڈ کارپینٹر(Edward Carpanter)جیسا کٹر مخالف مسیحیت کو بھی اس کا اعتراف ہے۔
(3)
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بطور مستثنیٰ بھی کسی شخص کو جنسی تعلقات کے بغیر نہیں رہنا چاہیے ۔ ان معترضین کے خیال میں ہر بالغ مرد کی صحت اور تندرستی کے لئے لازم ہے۔ کہ وہ جنسی جبلّت کو استعمال کرے۔ اور جنسی تعلقات سے بہرہ ور ہو ۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط اور صداقت سے دور ہے ۔ چنانچہ برطانیہ کی سوشل ہائی جین کونسل (British Social Hygienc Council) نے اپنے بیان مورخہ ۲۲ مارچ ۱936ء میں یہ شائع کیا ہے کہ
’’ ہم کو نہ تو علم الاجسام (Physiology)یہ بتاتاہے ۔ اور نہ یہ بات ہمارے تجربہ میں آئی ہے کہ مجرد اشخاص کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے جنسی تعلقات سے بہرہ ور ہونا لازم ہے ۔ علاوہ ازیں نہ تو علم نفسیات (Psychology) ہم کو یہ بتلاتا ہے اور نہ یہ بات ہمارے تجربہ میں آئی ہے کہ مجرد اشخاص کی ذہنی صحت کو قائم رکھنے کےلئے جنسی تعلقات سے بہرور ہونا لازم ہے ‘‘
(منقول از جرنل آ ف سوشل ہائی جین بابت دسمبر ۱9۲7ء)
پس اگر کوئی مسیحی اپنی تمام زندگی کسی خاص مقصد کی خاطر وقف کردینا چاہے ۔اور اس مقصد پر وہ اپنے جنسی تعلقات تک کو بھی قربان کردے تو وہ اپنی فطرت پر کسی قسم کا جبر روا نہیں رکھتا پروردگار عالم نے یہ توفیق ہر ایک کو عطا نہیں کی۔ لیکن جن کو یہ توفیق ملی ہے ۔ اگر وہ جنسی تعلقات سے قطعاً پرہیز کرتے ہیں تو وہ نہ خلاف ِ فطرت فعل کرتے ہیں اور نہ فطرت پر کسی قسم کا تشدد کرتے ہیں۔
(4)
پس انجیل جلیل کی صریح اور واضح تعلیم یہ ہے ۔کہ جبلّت جنسی کے واجب اور جائز استعمال کے لئے’’ ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے‘‘۔ ازدواج کے رشتہ کے قیام اور پائداری کی خاطر طلاق کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ جبلّت جنسی کے ناواجب شدت اور تکرار عمل کو رفع کرنے کے لئے تعداد ازدواج کو حرام گردانا گیاہے۔ اگر کسی شخص کو خالق کی طرف سے یہ تو فیق عطا کی گئی ہے کہ وہ جبلّت جنسی کے اقتضا کو پورا کرنے کی بجائے اس کی تمام طاقت قوت اور توانائی کو کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کی جانب موڑ دے تو بطور استثنیٰ کے ایسے شخص کو قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے ۔کیونکہ انسان محض جسم نہیں جس کے پنجرہ میں خالق نے ایک روح کو مقید کردیا ہے ۔ تاکہ وہ جسم کی خواہشات کو پورا کرے بلکہ وہ ایک روح ہے ۔ اور اس کی روح کو قدرت نےایک جسم عنایت کیاہے تاکہ وہ اس جسم کے ذریعہ اعلیٰ ترین روحانی مقاصد کو حاصل کرسکے ۔ انسان شادی بیاہ کی خاطر خلق نہیں کیا گیا ۔ بلکہ بیاہ انسان کے اقتضا کو پورا کرنے کے لئے ہے ۔ بعض اشخاص کو یہ توفیق بخشی گئی ہے ۔ کہ وہ اس جبلّت کا استعمال نہ کریں۔ لیکن جن لوگوں کو خداکی طرف سے یہ توفیق نہیں بخشی گئی ۔ مسیحی تعلیم کے مطابق ایسے اشخاص خواہ وہ مرد ہوں خواہ عورت جبلّت جنسی کا معتدل طور پر استعمال کرکے اس کی وافر قوت اور فاضل طاقت کو خدا کی راہ میں اپنی روحانی ترقی اور بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبود کے ذرائع مہیا کرنے میں صرف کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ انجیل جلیل میں شوہر اور بیوی کو یہ صلاح دی گئی ہے کہ ’’تم ایک دوسرے سے جدا نہ رہو۔ مگر تھوڑی مدت تک آپس کی رضا مندی سے تاکہ دعا میں مشغول رہ سکو اور اس مدت کے بعد پھر جدا نہ رہو۔مبادا غلبہ نفس کے سبب شیطان تم کو آزمائے ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۷: ۵)۔
ہر شخص جنسی جبلّت کی مندرجہ بالا خصوصیات کا مقابلہ مسیحی تعلیم کے ساتھ کرکے خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے مسیحیت کی تعلیم عین اس جبلّت کی فطرت اور اقتضا کے مطابق ہے ۔
جنسی جبلّت اور اسلام
جنسی جبلّت کی خصوصیات کا ذکر کرتے وقت ہم نے دیکھا تھا کہ وحدت ِ ازدواج اس جبلّت کے اقتضائے کے لئے نہایت لازمی ہے اور لابدی امر ہے ۔ اور نیز یہ کہ ازدواجی تعلقات کا قیام ،استحکام ،پائداری اور استواری اور طلاق کی ممانعت جبلّت جنسی کے لئے نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کی لازمی شرائط ہیں۔ یہ امر بیان کا محتاج نہیں کہ مسیحیت کے برعکس قرآن کی تعلیم تعدادازدواج کی اجازت دیتی ہے اور طلاق کو ممنوح قرار نہیں دیتی۔ چنانچہ قرآن میں لکھا ہے کہ ’’عورتوں میں سے جو تم کو پسند آئیں۔ دو دو ،تین تین اور چار چار نکاح میں لاؤ اور اگر یہ خوف ہو کہ عدل قائم نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی نکاح کرو۔ یا وہ (باندی) جو تمہارے ہاتھوں کا مال ہو ۔۔۔شوہر والی عورتوں کا نکاح میں لانا حرام ہے ۔سوائے ان (باندیوں ) کے جو تمہارے ہاتھ کی ملکیت ہوجائیں۔۔۔۔ ان کے سوا سب عورتیں تم کو حلال ہیں ۔ جن کو تم اپنا مال دے کر طلب کرو ۔ اور ان عورتوں میں جس سے تم نے فائدہ اٹھایا۔ان کی اجرت دے دو ۔ جو تم نے (فائدہ اٹھانے سے پہلے ان کے ساتھ) مقرر کی تھی (سورہ نساء ع ۱تا4)۔’’جو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال (یعنی لونڈیوں باندیوں )سے ۔ اس میں ان پر کچھ الزام نہیں‘‘ (مومنوں آیت 5)۔پس ان قرآنی آیات کے مطابق اگر کوئی شخص چاہے تو وہ چار منکوحہ عورتیں اور لاتعداد غیر منکوحہ لونڈیاں رکھ سکتا ہے ۔مزید برآں( سورہ نساء) مندرجہ بالا آیات کے مطابق متعہ بھی حلال اور مشروع ہے ۔ جس کے مطابق مسلمان عورتوں کو اجرت دے کر وقت معینہ کے لئے ان سے ’’فائدہ اٹھا ‘‘ سکتےہیں (سورہ نسا آیت ۲8)علاوہ ازیں چونکہ قرآن منکوحہ عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دیتاہے (بقر ع ۲6وغیرہ) پس قرآن کی تعلیم کا عدول کئے بغیر اور چار منکوحہ بیویوں کی حد سے تجاوز کئے بغیر ایک مسلمان لاتعداد عورتوں سے یکے بعد دیگرے نکاح پر نکاح کرسکتا ہے ۔ اور ان کو طلاق پر طلاق دے سکتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کے مطابق ’’عورتیں تمہارا کھیت ہیں ۔ سو تم اپنے کھیت میں جیسے چاہو جاؤ‘‘(بقر آیت ۲۲3)۔
(۲)
اب غبی (کم عقل)سے غبی شخص پر بھی ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم جنسی جبلّت کے اقتضاؤں کو پورا نہیں کرسکتی۔ اور نہ وہ ازدواجی تعلقات کو پائیدار یامستحکم کرسکتی ہے ۔ اس کے برعکس کثرت ازدواجی کی تعلیم عورتو ں کے مستقبل کو تاریک کردیتی ہے ۔بچوں کے نشوونما، تعلیم اور ترقی کے حق میں زہر قاتل کا حکم رکھتی ہے ۔ ازدواج کے رشتہ اور خاندان کے قواعد میں خلل اور بدنظمی پیدا کرتی ہے۔ اور اس باہمی اخلاص اور وفاداری کے کلیتہ ً منافی ہے ۔جس کی وجہ سے والد ینی جبلّت اور جبلّت جنسی کے تعلقات مدت العمر پائیدار رہتے ہیں۔ تعداد ازدواج جبلّت جنسی کو غیر معتدل طور برانگیختہ کرتی ہے اور مردو زن کے رشتہ کی پاکیزگی کے منافی ہے ۔
(3)
بعض مسلم برادران وحدت ِازدواج کو انسان کے لئے غیر فطرتی حالت قرار دیتے ہیں۔اور اس کے ثبوت میں یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ انسان اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل ومنازل میں وحدت ازدواج پر اکتفا نہیں کرتا ۔ لیکن اول یہ بات سرے سے غلط ہے ، کہ انسانی معاشرت کے ابتدائی مراحل میں مردوں اور عورتوں کے تعلقات گویا مرغا اور مرغیوں کے سے ہوتے ہیں ۔
چنانچہ علم الانسان کاماہر ڈاکٹر مالنوسکی (Dr. Malinouskis) (جو کسی طرح بھی مسیحیت کا خیر خواہ کہلایا نہیں جاسکتا) اس نظریہ کو مردود قرار دیتا ہے ۔ اور کہتاہے کہ
’’ یہ حقیقت پر مبنی نہیں‘‘۔
دوم بفرض محال اگر یہ درست بھی ہوتاہم کوئی صحیح العقل شخص وحشیانہ زندگی کو انسانی ترقی اور تہذیب کا معیار قرار نہیں دے گا۔ اور نہ کوئی روشن خیال شخص زندگی کے ابتدائی مراحل کے حالات کو انتہائی منازل کانصب العین قرار دےگا۔
(4)
تعداد ازدواج یہ موقعہ نہیں دیتی کہ جبلّت جنسی کی وافر قوت اور فاضل طاقت کو ایسے مقاصد اور اغراض کے حاصل کرنے میں صرف کیا جاسکے ۔جن سے انسان کی روحانی ترقی اور بنی آدم کی بہبودی مقصود ہے ۔ حالانکہ جیسا کہ سطور بالا میں مفصل طور پر ذکر ہوچکا ہے ۔ یہ جبلّت دیگر تمام جبلّتوں سے زیادہ مختلف وجدانیات اور اقتضاؤں کو اپنی عظیم توانائی مستعار دیتی ہے ۔ پس نتیجہ ظاہر ہے کہ جہاں تک جبلّت جنسی کا تعلق ہے ۔ اسلام کسی طرح بھی دین فطرت کہلانے کا مستحق نہیں۔
قرآن اور تعدد ازدواج
تعداد ازدواج کے متعلق قرآنی تعلیم ایسی واضح اور صریح ہے ۔ اور اس کے بدنتائج بنی نوع انسان کے لئے ایسے ضرر رساں ثابت ہوئے ہیں۔کہ مصلحین اسلام کو اس معاملہ میں بے اندازہ دقتوں(مشکلات ) کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بعض اوقات ان کو راہ فرار یہ سوجھتی ہے کہ قرآنی تعلیم کا سرے سے انکار کردیا جائے۔مثلاً جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ نکاح متعہ اور رنڈی بازی میں فرق نہیں ۔ تو وہ اس قسم کے نکاح کے جواز کا سرے سے انکار کردیتے ہیں۔ اورکہتے ہیں کہ اسلامی شرع میں جو یہ نکاح حرام ہے ۔ لیکن (سورہ نساء کی آیت بست وہشتم) اس نکاح پر نص صریح(قرآن پاک کی وہ آئتیں جو صاف اور صریح ہوں ) ہے ۔ اسلامی مصلحین کہتے ہیں کہ حدیث میں رسول ﷺ نے اس نکاح کو حرام قرار دے دیا ہے ۔ لیکن اول کوئی حدیث قرآنی احکام کو منسوخ نہیں کرسکتی ۔ قرآن نے متعہ کو حلال قرار دیا ہے ۔ اور قرآن کی کسی آیت نے اس کے جواز کومنسوخ نہیں کیا۔ پس قرآن کے مطابق متعہ حلال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالله بن مسعود سا قرآن دان جس کو خود رسول عربی نے قرآن کا مسلم الثبوت استاد گردانا تھا ۔ متعہ کے جواز پر اصرار کرتا تھا۔ دوم اگر فی الحقیقت حرمت متعہ والی حدیث صحیح حدیث ہے اور رسول عربی نے اپنی حین حیات میں متعہ کو حرام قرار دے دیا تھا تو خلیفہ اول کے عہد میں متعہ کس طرح حلال اور مروج ہوگیا۔کیونکہ خلیفہ عمر نے اپنی خلافت کے نصف عہد میں جاکر اس کو حکماً بند کیا تھا۔ خلیفہ مامون نے متعہ کو دوبارہ جاری کیسے کردیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ متعہ کے جواز کا انکار کرنا درحقیقت قرآن اور تاريخ اسلام کا انکار کرنا ہے ۔
(۲)
جب بیسویں (۲۰)صدی کے اسلامی مصلحین کے لئے انکار کی راہ فرار مسدود(بند ) ہوجاتی ہے تو وہ قرآن کی آیات کی تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح تعداد ازدواج اور طلاق کے بدنما دھبوں کو اسلام کے چہرے پر سے مٹا سکیں ۔ مبادا بیسویں (۲۰)صدی کے تعلیم یافتہ روشن خیال مسلمان اسلام کو ایسی تعلیم کی وجہ سے خیر باد نہ کہہ دیں ۔ چنانچہ وہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ قرآنی آیات کی اس طرح تاویل کریں ۔ کہ قرآن بیسویں صدی کے خیالات کا مجموعہ ہوجائے۔ وہ قرآن کے منہ سے وہ باتیں کہلوانا چاہتے ہیں جن کووہ خود ماننا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ سید امیر علی صاحب مرحوم (سورہ نساء) کی کثرت ازدواج والی آیت کی یوں تفسیر کرتے ہیں
’’ شارع اسلام نے ازدواج کی ایک تعداد مقرر کردی۔ اور ازدواج کے مواجب وحقوق ان کے شوہروں پر معین کردئیے اور شوہر پر فرض عین کردیا کہ سب ازدواج سے من جمیع الوجوہ برابر برتاؤ رکھے ۔۔۔۔ تعداد ازدواج میں عدل کی ایک ایسی قید لگادی ہے جس سے یہ فعل صرف محدود ہی نہیں ہوگیاہے ۔بلکہ جس آیت سے اذن مفہوم ہوتاہے اس آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں ۔ کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ زوجہ نہ کرے ‘‘۔
(Syed Amir Ali’s Spirit of Islam)
اب ظاہر ہے کہ قرآن چار عورتوں کو بشرط عدل جائز بتاتا ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ تم ہر گز عد ل نہ کرسکو گے ۔ عورتوں میں اگر چہ اس کا شوق کرو‘‘(نساء ۱۲9)۔بس یا تو یہاں بخیال سید مرحوم تعداد ازدواج حرام ہوا۔ کیونکہ عدل نا ممکن ہے ۔ اور تمام مومن مسلمان جو چودہ سو(۱۴۰۰) سال سے ایک سے زیادہ نکاح کرتے آئے ہیں۔ موافق اس تاویل کے نعوذ بالالله حرامکاری اور نواہی (ناجائز امور)کے مرتکب ہوئے ۔ یا یہ قول باطل ہے ۔ کہ تم ’’ عورتوں میں ہرگز عدل نہ کرسکو گے ‘‘ اور اگر یہ دونوں درست ہیں تو ’’ عدل‘‘ سے مراد چاروں عورتوں میں مساوات کا رکھنا ۔ چاروں سے برابرالفت اور محبت وغیرہ کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ ’’ عدل ‘‘ سے مراد کچھ اور ہی ہے۔ جس کا عمل میں لا نا ہر گز دشوار نہیں ۔ قرآن مجید خودہم کوبتاتا ہے کہ اس کی مراد ’’عدل ‘‘ سے کیاہے ۔ عدل سے مراد صرف ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے ’’ سونرے پھر بھی ایک کی طرف ہی نہ جھک جاؤ اور ایک کو ادھڑ میں لٹکتا نہ چھوڑدو‘‘(نسا ء ۱۲8)یعنی جب کوئی مسلمان ایک سے زيادہ عورتوں سے بیاہ کرے تو قرآن صرف ’’ یہ عدل ‘‘ طلب کرتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بالکل رانڈ کی طرح نہ ڈال رکھے۔
مولوی محمد علی ایم صاحب ایم ۔اے امیر جماعت احمدیہ لاہور ہماری اس تنقیح اور تنقید کےساتھ متفق ہیں۔ چنانچہ آپ عدل کی شرط کی نسبت فرماتے ہیں کہ
’’ ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ غلطی بھی کھائی ہے ۔ کہ یہاں (نساء آیت 3) عدل کی شرط رکھ کر اور دوسری جگہ (نساءآیت ۱۲8) عدل کو انسانی استطاعت (طاقت)سے باہر قرار دے کر تعلیق (ایک چیز کو دوسری چیز کے متعلق کرنا)بالمحال کردی ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں ایک امرکی اجازت دینا اور پھر اس کو ایک محال امر کے ساتھ مشروط کرنا قرآن جیسی حکیم کتاب کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔ اگر یہی منشا تھا۔ تو صاف یہی فرمادیا ہوتا کہ تعداد ازدواج کی تم کو اجازت ہی نہیں۔ یہ باتیں محض یورپ کی تقلید نے کہلوائی ہیں‘‘
(بیان القرآن جلد اول صفحہ 458 نوٹ 604)
پھر مولوی صاحب موصوف کہتے ہیں
’’ یہ خیال کہ تعداد ازدواج کی اجازت دے کر پھر اسے ایک محال شرط سے وابستہ کردیا ہے اور خود ہی شرط کو محال قرار دے دیا ہے ۔ صحیح نہیں۔ ۔۔۔خدا کے کلام کو یہ شایاں نہیں کہ خود ایک ضرورت کو بیان کرے پھر خود ہی اس کے پورا کرنے کوایک محال شرط سے وابستہ کردے ۔ اگر ضرورت تعداد ازدواج کی ہے ۔ تو پھر اس کا انکار اس بناء پر نہیں ہوسکتا ۔ کہ تم عدل نہیں کرسکتے ۔ کیا یہ خود خدا تعالیٰ پر اعتراض نہیں کہ ایک طرف تعداد ازدواج کی ضرورت کو بیان کرتا ہے اور دوسری طرف تعدادازدواج کو ایک محال شرط سے وابستہ کرتا ہے ۔ اس آیت کے معنی صاف ہیں کہ عدل ظاہری کا حکم تو ہم دے چکے ۔ محبت میں مساوات کے لئے ہم (خدا ) تم کو مجبور نہیں کرتے ۔ ہاں ایک عورت کی طرف اس قدربے رغبتی کرنا کہ وہ نہ خاوند والیوں میں داخل ہو نہ بغیر خاوند والیوں میں ۔ ادھڑ میں لٹکتی ہوئی ہو۔ اس سے منع فرمایا‘‘
(ایضاً صفحہ 566 نوٹ 743)
یقیناً اگر اس دنیا میں کوئی شخص گزرا ہے ۔ جو قرآنی آیات کے حقیقی مفہوم سے واقف تھا۔ تو وہ رسول عربی تھے۔ پس آ پ کے اقوال وافعال قرآنی آیات کی بہترین توضیح تشریح اور تفسیر ہیں۔ اگرسید امیر علی صاحب مرحوم کا قول درست ہے ۔ اور تعداد ازدواج کی اسلام میں فی الحقیقت اجازت نہیں۔ تو آنحضرت ضرور اس حکم ربانی پر عمل کرتے (سورہ انعام ۱06)لیکن آپ نے بیک وقت ایک سے زيادہ ازدواج سے نکاح کیا۔ پس ثابت ہوا کہ قرآن کا منشا ہر گز یہ نہ تھا کہ مومنین ایک ہی زوجہ پر قناعت کریں۔ پس اس نے چار کی اجازت دے دی ۔ اور آنحضرت کو چار کی قید سے مستثنیٰ کرکے اس روشن حقیقت پر مہر ثبت کردی کہ قرآن کا حقیقی منشایہ ہے کہ اسلام میں تعداد ازدواج کی رسم مروج رہے ۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ ’’اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں ۔ جن کا مہر تو دے چکا ہے ۔ اور وہ لونڈیاں بھی جو تیرے ہاتھ کا مال ہیں جوخدا نے تیرے ہاتھ لگوادیا ہے ۔اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹياں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے‘‘ (احزاب 49)۔ علاوہ ان عورتوں اورباندیوں کے الله نے حضرت رسول عربی کے ساتھ یہ رعایت ملحوظ رکھی۔ جو آپ کی ذات خاص تک محدود تھی۔ کہ آپ کے لئے وہ ’’مومن عورت بھی حلال ہے ۔ جو اپنی جان نبی کو بخش دے ۔ اگر نبی اس کو نکاح میں لینا چاہے یہ خاص تیرے ہی لئے ہے نہ اور ایمانداروں کے لئے۔ تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے ‘‘ (احزاب 49تا 50)۔
عدل کے قرآنی اصول کا صحیح مفہوم بھی ا س قرآنی آیت سے واضح ہے ’’ان عورتوں میں سے جس کو تو چاہے علیحدہ کردے ۔ اور جس کو چاہے تو اس کو اپنے پاس جگہ دے ۔ اور جن کو تو نے علیحدہ کردیا تھا۔ اگر ان میں سے توکسی کی خواہش کرے۔ تو تجھ پر گناہ نہیں۔ یہ اجازت اس کے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم نہ کریں ۔ اور سب اس پر جو تونے ان کو دیا راضی رہیں‘‘(احزاب 5۱)۔
پس یہ آیت بموجب اصول ’’ معنی قرآن زقرآن پرس وبس‘‘ اس تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ جو ہم اصول عدل کےمتعلق سطور بالا میں کی ہے ۔ اور جس کی تصدیق امیر جماعت احمدیہ لاہور نے اپنی کتاب ’’بیان القرآن ‘‘میں کی ہے ۔
پس ثابت ہوگیا کہ قرآن اور شارع (شریعت) اسلام کا حقیقی منشا یہی تھا کہ اگر کوئی شخص چاہے تو چار عورتوں تک نکاح کرسکتا ہے اور لا تعداد لونڈیاں اور کنیزیں رکھ سکتا ہے ۔ اور چونکہ طلاق جائز ہے لہٰذا اسلام میں درحقیقت منکوحہ عورتوں کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں ہوسکتی ۔ اور لونڈیوں کی تعداد تو پہلے ہی محدود نہ تھی۔ چونکہ لونڈیاں باندیاں بھی عورتوں کی جماعت میں شامل ہیں اور نکاح متعہ بھی قرآن کے مطابق حلال ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں سے فائدہ اٹھانے کی درحقیقت کوئی حد ہے نہیں۔
جبلّت جنسی اور اسلامی ممالک کی تاریخ
ہم نے جنسی جبلّت کی خصوصیت میں دیکھا تھا ۔ کہ اس جبلّت کے لازم ہے کہ وہ وحد ت ازدواج کے قانون کی جانب سے لاپرواہی اختیار نہ کی جائے۔ بلکہ اس رشتہ کے قیام وبقا پر زور دیا جائے تاکہ طلاق کے رواج کی گنجائش نہ رہے ۔ اور مردوزن میں وفاداری اور باہمی اخلاص کے تعلقات مدت العمر پائدار اور استوار رہ سکیں۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ جن اقوام میں وحدت ازدواج کی بجائے کثرت ازدواج رائج ہے اور رشتہ ازدواجی کی طرف سے بے پرواہی اختیار کی جاتی ہے اور طلاق کی اجازت اور کثرت مروج ہوجاتی ہے ان اقوام میں زوال پیدا ہوجاتا ہے ۔
اسلام کی تاریخ پر ایک اجمالی نظر ڈالو تو مذکورہ بالا حقیقت کا ایک ایک حرف اس پر صادق آتا ہے ۔ گویاا سلامی ممالک اس حقیقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ جس جس ملک کو اسلام نے فتح کیا اور وہاں اسلامی تعلیم کے مطابق کثرت ازدواج اور طلاق مروج ہوگئے ۔ اس ملک میں زوال اور انحطاط کے بیج بوئے گئے ۔ اس تعلیم کی بدولت ان کا اخلاقی معیار گرگیا ان کی قومی قوت اور طاقت کمزور ہوگئی۔ چنانچہ مشہور مسلمان مورخ مرحوم ایس خدا بحش مرحوم اپنی کتاب ’’ہندی اور اسلامی مضامین‘‘ (Indian & Islamic Essays)میں یو ں رقمطراز ہیں۔
’’تعداد ازدواج نے اسلامی ممالک کی سلطنتوں کو کھوکھلا کردیا۔ عورتوں اور باندیوں کی تعداد کی وجہ سے مسلمان بادشاہوں کےبال بچوں کی تعداد روز افزوں ہوتی ہوگئی ۔ مثلاً جب عباسیہ خاندان برسرا قتدار تھا۔ تو ان خلفاء کےبچوں کی تعداد بے شمار تھی۔ خلیفہ ماموں کے وقت میں اس خاندان کے افراد کی تعداد 33000ہزار تھی ۔ تعداد ازدواج اور باندیوں کے وجود کا اثر مسلمانوں کی حکومت کے اقتصادی اور سیاسی حالات کے حق میں بہت مضر ثابت ہوا ۔ اس کی وجہ سے نسل کی شرافت اور نجابت (شرافت ،عالی خاندان ) میں خلل واقع ہوگیا۔ او رایسے کمینہ ، نالائق اور نا خلف بچوں کی تعداد میں افزائش کا شمہ تک نہ تھا۔ تعداد ازدواج نے خاندانی زندگی کو تباہ اور برباد کردیا ۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہی بات بد ترین نتائج کے وقوع میں آنے کی ذمہ وار تھی۔ درحقیقت تمام اسلامی سلطنتوں کے زوال کا باعث ہی یہی ہوئی۔ اس نے مسلمانوں کی اخلاقی قوت کو پائمال کردیا۔ ان بے شمار افراد کی زندگیوں پر غور کرو جو حرم سراؤں میں رہتے تھے ۔ مختلف عورتیں اپنے لڑکوں ،لڑکیوں اور دیگر عزیز واقارب کے ساتھ ایک ہی جگہ رہتی تھیں۔ لیکن ان میں سے ہرایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتی تھی۔ اس زہریلی فضا میں ان عورتوں کے لڑکے اور لڑکیاں پرورش پاتی تھیں۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے نازک اور ناتجربہ کار ذہنوں اور دماغوں پر اس فضا کا کیا اثر پڑتا ہوگا۔ ہر لڑکا اپنے ہر دوسرے رشتہ دار بلکہ بھائی تک کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ اگر ایک تخت نشین ہوجاتا تو باقی اس کے خون کے پیاسے ہوجاتے اور اس کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ تعداد ازدواج اسلامی سلطنتوں کی باہمی آویزش ،خانہ جنگی ،پرخاش ،فساد ،جنگ وجدل اور قتال کا اصلی سبب ہے‘‘
(صفحہ 93تا95)
(۲)
جب تک ترک اسلامی تعلیم تعداد ازدواج اور قرآنی احکام طلاق کے پیرو رہے ۔ وہ براعظم یورپ میں ’’مرد بیمار‘‘ کے نام سے موسوم رہے ۔ لیکن جہاں ترکی نے اس تعلیم سے روگردانی اختیار کی وہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگئی۔چنانچہ اب ترکی میں تعداد ازدواج قانوناً جرم قرار دے دیاگیا ہے۔ اس کی تعزیرات کی دفعہ ۱۱۲ میں ہے ۔ کہ ’’اگر کسی نکاح کے وقت خاوند یا بیوی پہلے سے حبالہ عقد(شادی کے پھندے) میں آچکے ہوں ۔ تو ایسا نکاح منسوخ ہوگا‘‘ پھر دفعہ ۱۲9 میں ہے۔ کہ ’’ خاوند اور بیوی دونوں اس حالت میں طلاق کے جو یاں (خواہش مند)ہوسکتے ہیں۔ جب ان میں سے کسی نے زنا کا ارتکاب کیاہو‘‘ اب ترکی میں اسلامی شریعت کی بجائے دیوانی معاملا ت میں سویٹز ر لینڈ کی تعزیرات اور فوجداری معاملات میں اٹلی کی تعزیرات اور تجارتی معاملات میں جرمنی کے آئین مقرر ہوگئے ہیں۔ چنانچہ صبیحہ زکریا خانم لکھتی ہیں ۔
’’ مشرق کی پرانی تہذیب کے مطابق عورتیں اثاث البیت خیال کی جاتی تھیں۔ لیکن سوئٹزر لینڈ کے قوانین اختیار کرنے کی طفیل ہم نے اس ذہنیت کو خیر باد کہہ دیا ہے‘‘ ۔
(Resimli Ay Sept۱9۲7) ترکی اخبارات لکھتے ہیں
’’ تیس سال ہوئے عورت کا یہ حال تھا۔ کہ وہ ایک غلام تھی۔ خوف اور شرم اور جہالت کے مارے مردوں کے سامنے خائف لرزاں وترساں رہتی تھی۔عورت کی زندگی کا نصب العین مرد کو خوش کرنا تھا۔ اس کی تمام اُمیدوں کی انتہا بہشت تھی ۔ جو اس کے خاوند کے قدموں میں تھی ۔ عورت کا درجہ یہ تھا ۔ کہ وہ خریداور فروخت کی جاسکتی تھی ۔وہ ایک حیوا ن تھی جو بچوں کے پیدا ہونے کی آلہ کار تھی ۔ وہ ایک کھلونا تھی جس سے مرد بوقت ضرورت کھیلا کرتے تھے ۔ دس سال ہوئے وہ ایک مجرم کی طرف ہر وقت خائف رہتی تھی۔ اس شش وپنج میں رہتی تھی ۔ کہ وہ اپنا برقعہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ شیخ الاسلام اس کے تن کے کپڑے کی لمبائی اور چوڑائی کا فیصلہ کیا کرتا تھا ۔ لیکن اب قانون نے مرد اور عورت کی تمیز اڑادی ہے ۔ وہ اب کنیز نہیں رہی جو خریدو فروخت ہو سکے۔وہ خاندان میں اور قوم میں ایک آزاد خود مختار فرد کے طور پر زندگی بسر کرسکتی ہے ۔ اب مرد جاننے لگے گئے ہیں کہ عورتیں ان کی رفیق اور مونس ہیں اور مردوں اور عورتوں کے حقوق مساوی ہیں‘‘۔
( اقدام بابت ۱6 اپریل ۱9۲9ء وملیت 5 مئی ۱9۲9ء)
پس ترکی میں عورتیں حرم سرائے سے باہر نکل آئیں ہیں۔ اور اب ترکی میں تعدا د ازدواج ،طلاق ،حرم سراؤں کی قید۔پردہ کی پابندیاں خوجوں کی فوج وغیرہ زمانہ ماضی کی باتیں ہیں۔ جو ایک ڈرؤانے خواب کی طرح شب کی تاریکی کےساتھ گزرگئی ہیں۔
(3)
ترکی کے انقلاب نے دیگر اسلامی ممالک کی آنکھوں کو کھول دیا ہے ۔ مصر میں مرحوم قاسم امین بے نے قرآنی تعلیم دربارہ عورات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ وہ لکھتا ہے
’’اگر مصری چاہتے ہیں کہ ان کی حالت سدھر جائے تو لازم ہے کہ وہ اپنی حالت کو ابتدائی منازل سے سدھاریں ۔ ان کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ کوئی زندہ قوم دیگر مہذب اقوام کے ہمدوش (برابر کا)ہوکر نہیں چل سکتی تاوقتیکہ ان کے گھر اورا ن کے خاندان ایسے اشخاص کی تربیت کے مرکز نہ بن جائیں جن سے کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے ۔لیکن ان کے گھر اور خاندان تربیت کے مرکز نہیں بن سکتے ۔تاوقتیکہ ان کی عورتیں تعلیم حاصل کرکے اپنے خاوندوں کے خیالات کی اور ان کی امیدوں کی اور ان کے دکھ درد اور رنج کی شریک زندگی نہ ہوں۔ مرد اپنے گھر کا مالک ہوتا ہے ۔لیکن عورت اس کی غلام ہوتی ہے ۔و ہ ایک کھلونا تصور کی جاتی ہے ۔ جس سے مرد جب چاہے اپنا دل خوش کرلے۔ علم اور دانش مرد کے لئے ہے لیکن جہالت اور تاریکی عورت کا حصہ ہے ۔ آسمان دنیا اور روشنی مرد کے لئے ہے، لیکن پردہ زندان (قید خانہ)اورتاریکی عورت کا حصہ ہے‘‘ ۔
(Quoted by Zwemer in Disintepration of Islam)
میڈم رشدی پاشا نے اپنی کتابوں کے ذریعہ اور وزیر تعلیم کے انسپکٹر کی بیٹی نے ’’اخبار الجریدہ‘‘ کے ذریعہ کثرت ازدواج ،پردہ ۔صغرسنی کی شادی وغیرہ کے خلاف عورتوں کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ منصور فہمی نے فرنچ زبان میں ایک کتاب لکھی ہے۔
(A Condition de la femme dams la iraistion et evolntorn de la islamisma)
جس میں تعداد ازدواج پر اور اس قبیح حکم کے ماخذپر اور ابتدائی اسلام میں زیادہ بیویاں کرنے والوں عورتوں پر اعتراض کیا گیا ہے ۔ یہ مصنف اسلامی ممالک کی عورتوں کی پست حالت کے اسباب کو اسلامی تاریخ کی روشنی میں بیان کرکے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلامی علم اور ادب اور لٹریچر نے اپنی تاریخ میں عورتوں کا درجہ روز بروز گرادیا اور یوں اسلامی لٹریچر کی حالت گرگئی ‘‘ ۔
اس نتیجہ کی تائید میں وہ امام غزالی اورسیوطی کی تصنفیات سے اقتباس پیش کرکے کہتا ہے ۔ کہ
’’ عورتوں کےمتعلق ان علماء کے خیالات اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ وہ ناقابل ذکر ہیں‘‘
(Disinterption of Islam)۱9۲4 ء میں مصر کی شہزادی نے مصری عورتوں کی حالت کوسدھارنے کی خاطر ایک انجمن قائم کی اور اب جا بجا عورتوں کی کلب ،سوسائیٹیاں اور انجمنیں قائم ہیں۔ ان کی اخباریں عورتوں کے حقوق کی طلبگار ہیں۔ ان انجمنوں کی ممبر ملک کی خدمت اور عورتوں کی بہتری کی حلف اٹھاتی ہیں۔ ان عورتوں نے مصر کے وزیر اعظم کے سامنے نو مطالبات پیش کئے ۔ جن میں سے بعض یہ ہیں کہ عورتوں کو آدمیوں کے برابر حقوق ملیں۔ ہائی سکولوں میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی برابر موقعے دیئے جائیں ۔ شادیوں کے دستورات میں اور نکاح کے قوانین میں اصلاح کی جائے ۔شادی کے لئے لڑکی کی عمر قانوناً بڑھادی جائے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ ملک مصر نے بھی اسلامی قوانین ازدواج وطلاق کی نظر ثانی کی ہے۔ چنانچہ ۱9۲۲ء میں مصر میں ایک نیا قانون بنایا گیا ۔ جس کی رُو سے صر ف وہی شخص نکاح ثانی کرسکتا ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ وہ اپنی پہلی زوجہ اور اس کے بال بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا ۔ اس قانون کے مطابق بیوی کو بھی طلاق لینے کا حق حاصل ہوگیا ہے ۔ مصر کی عورتیں اس امر پر مُصر(اصرار کرنے والی) ہیں کہ نکاح ثانی کی اجازت صرف اس حالت میں ملنی چاہیے جب کہ پہلی بیوی دائم المریض ہو۔ یا اس سے کوئی بچہ نہ ہو۔ ان کے مقابلہ میں جامعہ الازہر کے اسلامی علماء قرآن وحدیث وسنت پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ جواب میں پوچھتی ہیں کہ کیا قرآن آدمیوں کی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اس بات کا حامی ہے ۔ کہ خاندانوں میں آئے دن جھگڑا ،فساد ، جوتی پیزار اور جنگ وجدل برپا رہے ۔ عورتوں کی زندگی دوبھر ہوجائے۔ اور بچوں کی نشوونما اور ترقی میں خلل آئے ؟
(مسلم ورلڈ بابت جنوری ۱9۲8ء)
(4)
تاریخ ایران میں ۱93۱ء ایک تاریخی سال ہے ۔ کیونکہ اس سال اسلامی قوانین ازدواج کی نظر ثانی کی گئی ۔ اور طلاق کے قواعد کو محدود کردیا گیا۔ ایران کی عورتیں اب اپنے حقوق کے لئےجدوجہد کرتی ہیں ۔ اور وہ یہ باتیں محض بحث ومباحثہ کی خاطر نہیں کرتیں ۔ بلکہ وہ اپنے حقوق کے مطالبات ماؤں اور بیویوں کی حیثیت سے کرتی ہیں ۔ وہ یہ چاہتی ہیں کہ مردوں کے خیالات اور جذبات میں جبلّت جنسی کے متعلق ایک عظیم انقلاب پیدا ہوجائے، لیکن یہ خوشگوار نتائج اسلام کے حدود میں رہ کر پیدا نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ قرآن اور حدیث نے عورتوں کے لئے خاص حدیں مقرر کرد ی ہیں۔ جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتیں ۔ اگر عورتوں کی حالت کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اسلامی احکام کو توڑ کر کی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام کوششیں اسلامی ممالک میں بارور نہیں ہوتیں۔
(5)
خودہندوستان میں آئے دن آل انڈیا ومنس کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان میں غریب عورتوں کی یہی چیخ پکار سنائی دیتی ہے ۔ تعداد ازدواج اور طلاق وغیرہ کے خلاف اور نسوانی حقوق کے لئے دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں اور ریزولیوشن ہوتےہیں۔ بقول مولانا ظفر علی خان
کانگرس میں بھی ہیں کچھ مگر حق ہے یہی
گرم ہنگامہ ہند اس کی خواتین سے ہے
لیکن مولوی صاحبان قرآن وحدیث کی سپر لگائے رکھتے ہیں۔وہ اس تحریک کو اسلامی شریعت اور سنت نبوی پر خوفناک حملے تصور کرتے ہیں۔ بصد مشکل صغر سنی(کم عمری) کی شادی کے خلاف ساردا ایکٹ پاس ہوا تھا۔ لیکن ہمارے مسلم اخبارات نے اس کومذہبی آزادی میں بے جا مداخلت قرار دے دیا۔ علمائے کرام نے بھی ان اخبارات کی حمایت ہی کی ۔ او رکہا کہ یہ سنت نبوی کے خلاف ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب ساردا ایکٹ کی قیمت صفر کے برابر بھی نہیں رہی۔ تعدا ازدواج طلاق اور صغر سنی کی شادی ہندوستانی قوم کی ترقی اور مفاد کے حق میں زہر قاتل کا اثر رکھتی ہیں۔
غرضيکہ اسلامی ممالک کی تاریخ اس حقیقت کو ظاہر کردیتی ہے کہ اسلام میں کوئی حکم قاعدہ یا قانون ایسا نہیں ۔ جس کے لئے دور حاضرہ کی عورت خدا کا شکر کرسکے۔ اگر اسلامی ممالک شاہراہ ترقی پر مہذب ممالک کےساتھ دوش بدوش ہوکر چلنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ اسلامی شریعت دربارہ قوانین ازدواج وطلاق کو بالائے طاق رکھ دیں۔ ورنہ ترقی کا منہ دیکھنا ان کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت ایسی واضح اورروشن ہے کہ قادیان جیسے ظلمت کدہ سے بھی یہی آواز بلند ہوئی ہے ۔ چنانچہ ’’ریویو آف ریلیمنس بابت ستمبر ۱9۱5ء ‘‘میں اسلامی ممالک کی حالت زار پر نوحہ کیا گیا ہے ۔ اور لکھا ہے
’’ آج کل اسلام کی حالت کیا ہے ؟ اسلام کے ہاتھوں سے ملک نکل رہے ہیں۔ گو یہ بات درست ہے کہ ہر ملک کو قدرتی طور پر زوال آتاہے ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہتوں کی ایک بڑی تعداد جن کا تعلق مختلف ممالک اور اقوام سے ہے ۔ اور جو دنیا کے مختلف گوشوں میں واقع ہوئے ہیں۔ ان میں ان کا مذہب اسلام ہی ایک مشترکہ بات ہے اور یہ بادشاہتیں یکے بعد دیگرے تباہ اور برباد ہو رہی ہیں۔ تو یہ ایک نہایت معنی خیر امر ہوجاتا ہے ۔ اگر ایک ہی سلطنت کے مختلف حصوں میں زوال آجاتاہے ۔ تو ہم سمجھ سکتے کہ کوئی ایسی بات ہوگی جو ان میں مشترکہ ہوگی۔ جس کی وجہ سے سلطنت کے مختلف حصوں میں زوال آگیا۔ لیکن جب یہ اسلامی بادشاہتیں دنیا کے مختلف کونوں میں واقع ہوں او رایک دوسرے سے اس قدر دوردراز ہوں ۔ جس طرح الجریا، مراکو،ٹرپولی،مصر ،ہندوستان ،ایران،افغانستان ،ترکستان، فلپائين جزائز ، سوڈان، ابی سینیا وغیرہ ایک دوسرے سےدور ہیں۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف اقوام سے متعلق ہوں اور یہ تمام اسلامی ممالک زوال پذیر ہوں ۔ تو یہ ظاہر ہے کہ ان کے زوال کے سبب معمولی نہیں‘‘
تاريخ اس قادیانی کے خیال کی تائید کرتی ہے ۔ ان تمام ممالک میں جو دنیا کے مختلف گوشوں میں واقع ہیں۔ اور جن میں مختلف اقوام بستی ہیں۔ سوائے ایک بات یعنی اسلامی تعلیم کے اور کوئی شے مشترکہ نہیں۔ لہٰذاقادیانی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اسلامی ممالک کے زوال وانحطاط کا حقیقی باعث اسلامی تعلیم ہی ہے ۔
(6)
پس جہاں تک جبلّت جنسی اور اس کے اقتضاؤں کاتعلق ہے ۔ اسلامی تعلیم اور قرآنی احکام دربارہ ازدواج وطلاق اس جبلّت کی فطرت کے خلاف ہیں اور تاريخ اسلام اس نتیجہ کی تائید کرتی ہے ۔ لہٰذا اسلام دین فطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اس کے برخلاف ناظرین پر واضح ہوگیا ہوگا ۔ کہ کلمتہ الله کی تعلیم جبلّت جنسی کے تمام اقتضاؤں کو بطر ز احسن پورا کرتی ہے ۔ لہٰذا مسیحیت ہی ایک ایسا مذہب ہے ۔ جو دین فطرت ہوسکتا ہے ۔
فصل چہارم
ماں باپ کی جبلّت یاوالدینی جبلّت
والدینی جبلّت کی خصوصیات
اس جبلّت کا تعلق براہ راست نوع کے قیام اور نوع کی خدمت بہبودی اور بقا کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کے جذبات وابستہ ہیں۔ اس جبلّت کا تقاضایہ ہے کہ بچے کی حفاظت اور پرورش ہو۔ اوراس مقصد کے حصول کے لئے ماں باپ بھوک پیاس تکلیف بلکہ موت بھی برداشت کرتےہیں۔ یہ جبلّت باقی تمام جبلّتوں سے قوی اور ان پر حتیٰ کے خوف پر بھی غالب آسکتی ہے ۔ اس جبلّت کی وجہ سے ماں اپنی انانیت (خود ی ، غرور) کو دباتی ہے ۔ اور اس کی زندگی ایثار نفسی کا ایک لامتناہی(جس کی کچھ انتہا نہ ہو) سلسلہ ہوجاتی ہے ۔ اور باپ کی زندگی محنت اور مشقت کی کوششوں کا مجموعہ ہوجاتی ہے۔
(۲)
ماں باپ کی جبلّت کےعمل میں جب ممانعت یا مزاحمت ہوتی ہے تو اس سے غصہ ظہور میں آتا ہے ۔ اوریہ انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے نہایت اہمیت رکھتاہے ۔ مثلاً جب کوئی ہمارے بچوں کے ساتھ مزاحمت کرتاہے تو ہم کو طیش آتاہے ۔ یہ غصہ ،غضب اور جوش درحقیقت تمام اخلاقی ناخوشنودی اور اخلاقی استحقار (حقارت،نفرت کرنا)کی جڑ ہے ۔ جو بچوں یابیکس لوگوں یا نادانوں کی تکلیف یا ان پر ظلم اور زیادتی دیکھ کر ہمارے دلوں میں پیدا ہوتی ہے ۔ دورحاضرہ میں انسان کی معاشرتی زندگی میں اس جبلّت کا میدان بہت وسیع ہوگیاہے ۔ اور لطیف اور نازک جذبے اسی جبلّت کی وجہ سے برانگیختہ ہوتےہیں۔ مثلاً غلامی کے خلاف تحریک ، بچوں ، حیوانوں، اچھوت اقوام پر ظلم کی بندش اور ممانعت کی انجمنوں کا قیام ۔ کاشتکاروں سے غلامانہ سلوک کا انسداد(روک تھام) وغیرہ وغیرہ ، اسی کی وجہ سے ہیں۔ یہ نازک جذبات ہم کو مصیبت زدوں کے رفیق بنادیتے ہیں۔ اور ہمدردی اس بات کا تقاضا کرتی ہے ۔ کہ ان کی مصیبت کو کم یاختم کریا جائے۔ پس ماں باپ کی جبلّت یاوالدینی جبلّت صرف والدین کی شفقت کی ہی ماخذ نہیں۔ بلکہ جملہ نازک جذبات کی ماخذ ہے ۔ چنانچہ خیرات اور سخاوت کا ظہور شفاخانوں کا اجرا اور زرِ خطیر(کثیر،بہت) کا خرچ وغیرہ بھی اسی جبلّت کی وجہ سے ہیں۔
والدینی جبلّت اور دینِ فطرت کے لوازمات
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہوگا کہ دین فطرت کا یہ کام ہے کہ بچوں کی پیدائش ،پرورش ، حفاظت ، بہبودی اور ترقی کی نسبت احکام صادر کرے ۔ والدینی جبلّت کے میدان استعمال کو وسعت دے ۔ انانیت اور خودی کے دبانے اور قربانی اور ایثار نفسی کو بڑھانے کی تعلیم دے ۔ ان تمام لطیف اور نازک جذبات کی تکمیل میں ممدو معاون ہو۔ جن کا ذکر سطور بالا میں کیاگیا ہے ۔ نیز یہ لازم ہے کہ دین فطرت ذات الہٰی اور بنی نوع انسان کے متعلق ایسی تعلیم دے ۔ جو اس جبلّت کے عین مطابق ہو۔
والدینی جبلّت اور طلاق
گزشتہ فصل میں جنسی جبلّت پربحث کرنے کے دوران میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا۔ کہ جبلّت جنسی والدینی جبلّت کے ساتھ مربوط اور مخلوط ہے۔ اوریہ ربط معاشرت کے لئےلازمی ہے ۔ اور مبدء فطرت سےہے ۔ پس مذہب فطرت کاکام یہ ہے کہ ایسے قوانین ازدواج منضبط کرے جو نہ صرف والدینی جبلّت کی تائید کریں۔ بلکہ ان تمام امور مثلاً طلاق وغیرہ کو ممنوع اور حرام قرار دیں جو والدینی جبلّت کے اقتضاؤں کی راہ میں حائل ہوتےہیں۔
مسیحیت اور طلاق
کلمتہ الله کی تعلیم نے طلاق کو قطعاً ممنوع اور حرام قرار دے دیا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ’’ ایک دفعہ فریسیوں نے آکر آپ سے پوچھا کہ کیا یہ روا ہے ۔ کہ مرد اپنی بیوی کو چھوڑ دے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا خلقت کی ابتدا سے خدا نے جوڑے کو مرد اور عورت بنایا۔ اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے ۔پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اس لئے جس کو خدا نے جوڑا ہے ۔ آدمی اسے جدا نہ کرے ۔ جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے خلاف زناکرتا ہے ۔ اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑدے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے‘‘(مرقس ۱۰: ۲)۔مرد اپنا یہ حق سمجھتا تھا کہ جب چاہے عورت کو جس بنا پر چاہے طلاق دے دے ۔ ابن الله کی تعلیم نے ہر مرد پر یہ ظاہر کردیا۔کہ اس کا یہ مزعومہ(گمان کیا ہوا) حق انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ فطرت کا حقیقی منشا یہی ہے کہ مرد اور عورت ایسے دائمی تعلقات میں باہم پیوستہ ہوجائیں ۔ کہ وہ دو نہیں بلکہ ایک تن اور یک جان ہوں۔ کوئی مرد یا عورت دوسرے شخص کو اپنا بدن دے کرا پنی مستقبل زندگی اس طرح بسر نہیں کرسکتی کہ گویا اس نے اپنے آپ کو جسم اور جان سمیت دوسرے کے حوالے نہیں کیا۔ یہ بات انسانی فطرت کے خلاف ہوگی جنسی تعلقات کی یکجائی اور یگانگت کا منطقیانہ نتیجہ یہی ہے ۔ کہ وہ جدا نہ ہوں۔پس فطرت اور عقل دونوں طلاق کے اصول کے خلاف ہیں۔ کیونکہ اس اصول کے مطابق جنسی تعلقات دائمی ہونے کی بجائے عارضی قرار دیئے جاتے ہیں۔ اور بیاہ پاکیزہ حالت ہونے کی بجائے ایک مضحکہ خیز امر ہوجاتاہے ۔ مسیحیت کی یہ تعلیم ہے کہ انسان کا جسم شہوت کا آلہ نہیں۔ بلکہ خدا کی روح القدس کا مسکن ہے (۱۔کرنتھیوں ۶: ۱۹)۔ پس عورت اور مرد کے جنسی تعلقات پاکیزہ تعلقات ہیں ۔ جن کا مقصد خدا کا جلال ظاہر کرنا ہے (۱۔کرنتھیوں ۶: ۲۰؛ عبرانیوں ۱۳: ۴؛ ۱۔تھسلنکیوں۵: ۲۳)مسیحیت میں نکاح ایک ایسی پاکیزہ حالت خیال کی جاتی ہے کہ وہ اس روحانی یگانگت کا نشان قرار دی گئی ہے جو مسیح اور اس کی کلیسیا کے درمیان ہے ۔ چنانچہ انجیل جلیل میں مسیح کو دولھا اور کلیسیا کو دلہن کہا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب مقدس میں طلاق کے لئے جو لفظ واردہواہے ۔ وہ ’’ارتداد‘‘(پھر جانا،مرتد ہوجانا)ہے ۔ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بائبل کی نگاہ میں طلاق اور ارتداد دونوں ایک ہی قسم کی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔
طلاق نہ صرف بیاہ کے پاکیزہ مفہوم کے خلاف ہے ۔بلکہ وہ عفو اور معانی کا دروازہ بھی بند کردیتا ہے ۔ فرض کیجئے کہ عورت سے کوئی قصور ہوگیا ہے ۔ خاوند کا یہ کام ہے کہ اس کو معاف کرے ۔ نہ کہ اس کو طلاق دے کر اپنی شریکِ زندگی کے مستقبل کو تاریک کردے ۔معاف کرنا محبت کا خاصہ ہے ۔ اور انسانی فطرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محبت کریں۔ اور اگر ان سے کوئی قصور سرز د ہوجائے تو ملائمت سے ان کو سمجھائیں تاکہ والدینی جبلّت کا تقاضا پورا ہو۔ لیکن طلاق کا اصول عفو اور معافی اور محبت کے عین نقیض (مخالف)ہے ۔لہٰذا وہ فطرت کے خلاف ہے اور مسیحیت میں ممنوع ہے۔
اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ انسان بے غیر ت ہوجائے اور اگر اس کی بیوی زناکار ہو۔ تو اس کی زناکاری کی طرف سے لاپرواہ ہوجائے ۔ کلمتہ الله نے صاف تعلیم دی ہے کہ زنا کاگناہ ازدواج کے پاک رشتہ کو خود بخود توڑ دیتاہے ۔ کیونکہ اس سے پاک رشتہ ناپاک ہوجاتاہے ۔ لیکن ہم طلاق کے رواج پر غور کریں۔ تو ہم پر ظاہر ہوجائے گا کہ اسلامی دنیا میں مقابلتہً بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔کہ خاوند نے بیوی کو زنا کی بنا پر طلاق دی ہو ۔ بالعموم طلاق کی بنا خاوند اور بیوی کی ناچاقی ہوتی ہے اور ان حالات میں عموماً خاوند کی بدمزاجی ناچاقی کا باعث ہوتی ہے ۔ مندرجہ ذیل مثال میں غریب بیوی کا کیا قصور تھا؟ طلاق کی خواہش تقریباً ہمیشہ خاوند کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ غریب بیوی کا نہ کوئی مستقل وجود ہوتا ہے اور نہ خاوند سے جدا اس کا کوئی مستقبل ہوتاہے۔ بلکہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ اگر خاوند زانی بھی ہو۔ تو غریب بیوی اس کے عیوب (عیب کی جمع،کمزوریوں)پر پردہ ہی ڈالتی ہے ۔اور اس کو معاف کرتی ہے اور معافی کی روح گھر کو اور بچوں کو یک جارکھتی ہے ۔ عام طور پر یہ ایک صحیح بات ہے کہ خاوند درحقیقت طلاق کا موجب ہوتا ہے۔ لیکن اگر بیوی خاوند کی بد مزاجی کی صبر سے برداشت کرسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خاوند بیوی کی بدمزاجی اور کم فہمی اور نادانی کو معاف نہ کرے۔خاندان کی بقا اور قیام اور بچوں کے لیے نیک نمونہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ خاوند بیوی کے اور بیوی خاوند کے نقائص اور عیوب کی صبر سے برداشت کریں۔ اور یوں ازراہ محبت ایک دوسرے کو معاف کرکے ایک اعلیٰ خاندان کے قیام کا سبب ہوں۔
اسلام اور اخلاق
اس کے برعکس دین اسلام نے طلاق کی نہ صرف اجازت دے رکھی ہے بلکہ اس کا باب (دروازہ)کھول دیا ہے۔ خاوند جب چاہے بغیر کسی معقول وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ لیکن غریب اور مظلوم بیوی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے خاوندوں کو کسی حالت میں بھی طلاق دے سکیں۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘۔(نساء 38) کسی مسلمان مرد کا بیوی کو طلاق دینے پر قادر ہوکر طلاق نہ دینا اس کو دوسروں کی نظروں میں گرادیتا ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے حضرت عمر سے جب وہ خلیفہ تھے پوچھا کہ
’’کیا آپ اپنے بعد عبدالله بن عمر کو خلیفہ نہ کریں گے ۔ آپ نے فرمایا والله میں نے کبھی خدا اپنے بیٹے کے خلیفہ ہونے کے لئے دعا نہیں مانگی بھلا میں ایسے آدمی کو خلیفہ مقرر کرسکتا ہوں جس کو اتنی بھی جرات نہ ہو۔ کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ‘‘
(تاریخ الخلفا صفحہ ۱3۱)
اسلامی ممالک میں طلاق ایک عام شے ہے ۔ خود ہندوستان کے تقریباً ہر شہر اور گاؤں میں یہ روز مرہ کا واقعہ ہے ۔ چنانچہ ہم ’’رسالہ المنیر حضرت کیلیا نوالہ بابت 8/۱6 دسمبر ۱933 کے صفحہ نمبر ۱0 ‘‘سے ذیل کا اقتباس بطور مشتے نمونہ ازخروارے (ڈھیر میں سے مٹھی بھر،بہت کم)کرتے ہیں۔
’’قریب چار ماہ کا عرصہ گذرا ہے ۔ کہ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے ایک شخص نے اپنی وفادار نیک چلن بیوی کو (جس نے کہ اپنے خاوند کی بیماری میں اسے مقروض ہوتے دیکھ کر بجائے اس کی زمین فروخت کرانے کے اپنے میکے کے تمام زیورات جو کہ اس کو جہیز میں ملے تھے۔ اور جو عام طور پر عورتوں کو پیارے ہوتے ہیں۔ گروی رکھ کر خرچ کردیئے ہیں) اس حیرت انگیز وجہ سے طلاق دی ہے کہ خداوند کریم نے اس کے ہاں لڑکے کے لڑکی پیدا کی جس معصوم بچی کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ تین سال کی ہے‘‘ ۔
چنانچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ بد قسمت بیوی مامتا کی محبت سے مجبور ہوکر اپنی لڑکی کے بالوں کو تیل لگا کر کنگھی کررہی تھی کہ اتنے میں خاوند گھر آیا۔ اور لڑکی کو سنورتی ہوئی دیکھ کر آ گ بگولا ہوکر زوجہ کو مارنا شروع کردیا ۔ اور کہا کہ لڑکی کوکیوں سنوارتی رہتی ہو۔ یہ کوئی لڑکا تو نہیں ہے ۔
اس پر بیوی نے جواب دیا کہ لڑکا لڑکی تو خدائے عزوجل کے اختیار مطلق میں ہے ۔ اس میں میرا قصور نہیں ہے ۔ تجھے خواہ مخواہ اس وجہ سے مارنے کا حق نہیں ہے۔ البتہ آئندہ تم غیر عورتوں سے حرامکاری کرنے سے توبہ کرو تو وہ ذات پاک مہربانی فرماکر ہمیں کوئی بچہ عنایت فرمادے گا۔ اور ہماری معصوم بچی کی عمر تو اس وقت تین سال کی بھی نہیں ہے ۔ اس کو سنوارنے میں کوئی حرج نہیں ۔ تمام جہان اپنے بچے بچیوں کو اسی طرح سنوارے رکھتے ہیں۔ شہروں میں جاکر دیکھو کہ وہ لوگ کس طرح اپنی ننھی بچیوں کو سنوارتے اور محبت کرتے ہیں۔وہ
خاوند نے جواب دیا کہ شہری لوگ کنجر ہوتے ہیں ۔ جو لڑکیوں کو سنوارتے ہیں اور اس تکرار سے غضنباک ہوکر فوراً حجام کو بلایا۔ اور ننھی معصومہ کے بال سرسے کٹوادیئے اور زوجہ کو مار کر گھر سے نکال دیا۔ اور ننھی بچی زبردستی روتی دھوتی اس کی گو دسے چھین لی ۔اس پر وہ مجبوراً اپنے میکے چلی آئی۔جہاں اس کے والدین پہلے ہی مرچکے ہیں۔ جن کے یہ نمک سے پلا تھا۔ جنہوں نے ہزارہا روپوں کے زیورات کپڑے اور برتنوں کے علاوہ گیا رہ عدد بھنیس ایک گھوڑی اور ایک ڈاچی جہیز میں دی تھی۔ اب خاوند کسی نئے رشتہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ کہ کہیں سے کوئی اور امیر گھرانے کا شکار ہاتھ آئے چنانچہ سنا گیا ہے کہ ایک شخص نے اس شرط پر رشتہ دینا منظور کیا کہ ہے اگر وہ پہلی بیوی کو طلاق دےدے ۔ اس لئے اس نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دینے کے چند روز بعد موضع گکھڑ تحصیل گوجرانوالہ میں جہاں کہ وہ اپنی ایک خاص بیماری کا علاج ایک حکیم سے کرواتا تھا سے بذریعہ رجسٹری طلاق نامہ عورت کے بھائی کے نام بھیج دیا‘‘۔
اگر چہ ایسے انسانیت سوز واقعات سے انسان کی طبیعت قدرتی طور پر متنفر ہوجاتی ہے لیکن اسلام میں شرعی دائرہ کے اندر رہے کر ایک مومن مسلمان ایسا شرمناک رویہ اختیار کرسکتاہے۔
طلاق عورتوں کے مستقبل کو تاریک کردیتاہے ۔ بچوں کی پرورش تعلیم اور ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما اور ترقی کے حق میں زہر قاتل کا اثر رکھتاہے ۔ خاندانی زندگی کی پاکیزہ حالت کو تباہ وبرباد کردیتاہے ۔ غرضیکہ جبلّت والدینی کی راہ میں طلاق کی اسلامی تعلیم ایک ناقابل گذر رکاوٹ ہے ۔ پس اسلام دین ِفطرت نہیں ہوسکتا۔
والدینی جبلّت اور بچوں کے فرائض
چونکہ والدینی جبلّت کا تعلق براہ راست نوع کے قیام اور نوع انسانی کی خدمت بہبودی اور بقا کے ساتھ ہے ۔ لہٰذا لازم ہے کہ دین فطرت والدین کو ان کے فرائض حقوق اور ذمہ داریوں پر مطلع کرے۔ اور بچوں کو ان کے حقوق ذمہ داریوں اور فرائض کی نسبت آگا ہ کرے ۔ چنانچہ انجیل جلیل میں وارد ہوا ہے ۔
’’اے فرزندوں ! خداوند خدا میں اپنے ماں باپ کے فرماں بردار رہو۔ کیونکہ یہ خداوند خدا میں پسندیدہ ہے‘‘ ۔ (کلسیوں ۳: ۲۰؛ امثال ۱۹: ۲۶؛ ۲۳: ۲۲؛ ۳۰: ۱۷؛ خروج ۲۱: ۲۷ وغیرہ)۔ قرآن میں بھی والدین کی اطاعت اور خدمت کی تعلیم موجود ہے ۔ مثلاً ’’والدین سے نیکی کرو ‘‘۔(انعام آیت ۱5۲ ، بنی اسرائيل 34 ۔لقمان ۱3 احقاف ۱4وغیرہ) پس انجیل وقرآن میں فرزندوں کےفرائض اور ذمہ داریوں کے متعلق احکام ہیں۔
والدینی جبلّت اور والدین کے فرائض
والدینی جبلّت کا تعلق خاص طور سے بچوں کے حقوق اور والدین کے فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ وابستہ ہے ۔ انجیل جلیل میں بچوں کے حقوق پر زور دیا گیا ہے ۔ کلمتہ الله نے فرمایا ’’خبردار! ان چھوٹے بچوں میں سے کسی کو ناچیز نہ جاننا۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ آسمان پر ان کے فرشتے میرےآسمانی باپ کا منہ ہر وقت دیکھتے ہیں۔ تمہارے با پ کی جو آسمان پر ہے یہ مرضی نہیں کہ ان چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو‘‘ (متی ۱۸: ۱۰؛ لوقا۱۸: ۱۵؛ مرقس ۱۰: ۱۶؛ ۹: ۳۶؛ لوقا ۱۷: ۳وغیرہ)۔مزید برآں والدین کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض سے آگاہ کیاگیاہے ’’اے بچے والو خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر ان کی پرورش کرو اور اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ‘‘ (افسیوں ۶: ۳)۔’’ اے بچے والو اپنے فرزنددوں کو دق نہ کروکہ وہ بیدل نہ ہوجائیں‘‘ ( کلسیوں ۳: ۳۰)۔’’وہ اپنے بیٹوں کو حکم دے کہ وہ خداوند کی راہ میں قائم رہ کر عدل وانصاف کریں‘‘ (پیدائش ۱۸: ۱۹) ۔’’خدا کے یہ حکم تو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا‘‘ (استثنا۶: ۷؛۴: ۹؛ ۱۱: ۱۹؛ زبور۷۸ : ۴وغیرہ) ۔’’جب تک امید ہے اپنے بیٹے کی تادیب کئے جا اور اس کی بربادی پر دل نہ لگا‘‘( امثال ۱۹: ۱۸) لڑکے کی اس راہ میں تربیت کر جس پر اسے جانا ہے ۔ وہ بڑا ہو کر بھی اس سے نہ مڑے گا(امثال ۲۲: ۶؛ ۲۹: ۱۷وغیرہ) ’’جوا ن عورتیں اپنے بچوں کو پیار کریں‘‘ (ططس ۲: ۴وغیرہ وغیرہ)۔
قرآن میں بچوں کے حقوق اور والدین کے فرائض اور ان کی ذمہ داریوں کی نسبت کہیں بھی ذکر نہیں ۔ اس کے برعکس صاف اور واضح الفاظ میں ہے کہ ’’ تم جان لو کہ تمہاری اولاد فتنہ ہے‘‘(انفال آیت ۲8۔ آل عمران ۱۲ کہف 43وغیرہ)۔ جب اولاد’’فتنہ ‘‘ٹھہری تو اس کے حقوق کیا اور ماں باپ کی ذمہ داری کیا؟ قرآن میں بچوں کے حقوق اور والدین کی ذمہ داریوں کا ذکر نہیں پا یا جاتا لیکن والدین جبلّت کا تعلق ان امور کے ساتھ خاص طور پر ہے ۔ انجیل جلیل میں بچوں کے حقوق اور والدین کی ذمہ داریوں کا تاکیداً حکم ہے ۔ پس جہاں تک والدینی جبلّت کے اقتضا ؤ ں کاتعلق ہے اسلام دین فطرت کہلانے کا مستحق ہو نہیں سکتا ۔لیکن مسیحیت اس جبلّت کے تمام اقتضاؤں کو پورا کرتی ہے ۔لہٰذا وہ دین فطرت ہے ۔
والدینی جبلت اور ذات الہٰی کا تصور
خالق نے والدینی جبلّت ہماری سرشت میں ودیعت فرمائی ہے ۔پس اس جبلّت کے تقاضاؤں کو انسان بخوبی جانتا ہے ۔ پس اگر کوئی مذہب ایسا ہو جو اس جبلّت کے ذریعہ خدا کی ذات کا علم ہم پر منکشف(کشف کرنا ،ظاہر کرنا) کرے۔ تو ہم اس علم کو جان سکیں گے ۔ کیونکہ علم نفسیات کا یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ ہم ایک نامعلوم اور غیر مانوس شے کو کسی معلوم شے کہ ذریعہ جان سکتے ہیں۔ پس ہم خدا کی ذات کا علم اپنی سرشت کے قواء اور طبعی رحجانات کے ذریعہ اور بالخصوص والدینی جبلّت کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ یہ جبلّت دیگر جبلّتوں سے قویٰ اور طاقت ور ہوتی ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی مذہب خدا کی ذات وصفات کا علم جبلّت والدینی کے ذریعہ ہم پر ظاہر کرے توہم کو اس جبلّت کے ذریعہ خدا کی ذات وصفات کاعلم زیادہ حاصل ہوسکتا ہے ۔
والدینی جبلّت اور مسیحی اور اسلامی تصور خدا
مسیحیت کے دین ِفطرت ہونے کا یہ بین ثبوت ہے کہ ہم خدا کی ذات کا علم اس طور پر حاصل کرسکتے ہیں ۔ مسیحیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا بنی نوع انسان کا باپ ہے ۔ پس ہر انسان اپنی والدینی جبلّت کے ذریعہ خدا کی ذات کا تصور قائم کرسکتا ہے ۔ اور اپنے تجربہ کی بنا پر خدا کی محبت اور اس کے ایثار کا اندازه کرسکتاہے ۔
کلمتہ الله نےہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے ۔ جس کی ذات محبت ہے ۔ خدا اور انسان کا باہمی تعلق باپ اور بیٹے کا تعلق ہے ۔ پس والدینی جبلّت گویا عالم روحانیت کے حقائق کی ایک جھلک ہے ۔ اس عالم میں بقائے نوع کا انحصار جبلّت والدینی پر ہے ۔ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ ہم سمجھ سکتے ہیں ۔ کہ روحانی عالم میں بنی نوع انسان کی روحانی بہبودی کا اور اس کی بقا کا انحصار اس بات پرہے کہ خدا ہمارا باپ ہے ۔ جو ہم سے ازلی اور ابدی محبت رکھتا ہے (متی ۷: ۱۱؛ لوقا ۱۱: ۱۳؛ افسیوں ۴: ۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۶ وغیرہ)’’ چونکہ تم بیٹے ہو ۔ اس لئے خدا نے اپنے بیٹے کا روح ہمارے دلوں میں بھیجا ہے جو ابا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتا ہے‘‘ ( گلتیوں ۴:۴ ) ۔’’دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم فرزند ہیں بھی ‘‘ (۱۔یوحنا۳: ۱) ۔ہم بخوف طوالت آیات کے اقتباس سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور صرف اس قول پر اکتفا کرتے ہیں کہ انجیل جلیل کی تمام کتب میں لفظ ’’باپ ‘‘ خدا کے لئے وارد ہوا ہے ۔ اور ان کتب کاکوئی باب نہیں ۔جس میں یہ خطاب ایک یا ایک سے زیادہ دفعہ صراحتاً یا کنایتہً وارد نہ ہوا ہو۔ کل ادیان عالم میں صرف مسیحیت ہی ایک مذہب ہے ۔جو خدا اور انسان کے باہمی رشتہ کے متعلق تعلیم دیتاہے کہ خدا ہمارا باپ ہے جس کی ذات محبت ہے او رہم اس کے بیٹے ہیں۔
اسلام میں اس قسم کا تصور نہیں پایا جاتا ۔ قرآ ن کے مطابق خدا کی ذات محبت نہیں۔ اس کے برعکس ’’الله بے نیاز ہے ‘‘ (سورہ اخلاص ۲۔ بقر ۲7 ۔ آل عمران 9۲۔ نساء ۱30۔ یونس 69 حج ۲65وغیرہ) پس الله اور انسان میں رفاقت نا ممکن ہے ۔ اسلام میں خدا کے ننانوے نام ہیں۔ لیکن ان اسمائے حسنہ میں ’’ اب ‘‘ یعنی باپ کا نام موجود نہیں۔ اور نہ اس خطاب کا پاکیزہ اور لطیف مفہوم کسی اور نام سے موجود ہے ۔ خدا کے مسیحی تصور اور الله کے اسلامی تصور میں بعد المشرقین ہے ۔ اگر اسلام کا الله مہربان غفار اور رحمن ٰ الرحیم ہے ۔ تو وہ اپنی پدرانہ شفقت اور ازلی محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنی خسروانہ (بادشاہی کے طریقے سے ) عنایات کی وجہ سے ہے ۔ وہ ایک قادر مطلق سلطان اور غیر ذمہ دارانہ ہستی ہے جس کی مطلق العنان مرضی پر موقوف ہے کہ جس کو چاہے معاف کرے اور جس کو چاہے عذاب دے اور جو چاہے حکم دے (بقر ۲84 ۔ آل عمران ۲5 و35 ۔ مائدہ آیت ۱و44 وغیرہ) غرض یہ کہ اسلامی تعلیم کا الہٰی ذات کے تصور کے بارے میں والدینی جبلّت کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے انسانی سرشت الہی ٰ ذات کے سمجھنے میں کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتی۔ قرآن کے مطابق الله کی ذات انسانی فطرت سے اس قدر بلند بالا اور ارفع اور منزہ ہے کہ دونوں میں ایسی خلیج حائل ہے جس کی وسعت بے اندازہ اور لامحدود ہے (سور ہ نحل 6۲وغیرہ)اس وسیع خلیج کے خلاف اہل شیعہ نے اور بھائی مذہب والوں نے اور صوفیا نے مختلف زمانوں اور ملکوں میں اپنی صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ کیونکہ یہ اصول ہی انسان کی فطرت کے خلاف ہےکہ خدا اور انسان میں ایک ایسی خلیج حائل کردی جائے جس کی وجہ سے ان دونوں میں تعلقات کاہونا محال ہو۔ انسانی فطرت اس قسم کی تعلیم کے خلاف علم بغاوت بلند کرتی ہے ۔ اگر کوئی مذہب اس بغاوت کو مختلف طریقوں سے فرو کرنے کی کوشش کرتاہے۔ تو وہ انسانی فطرت پر جبر کرتا ہے ۔انسانی فطرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا اور انسان کی ذات میں کسی قسم کابُعد (فاصلہ،دوری)نہ ہو۔ بلکہ دونوں کے باہمی تعلقات ایسے ہوں جن کا خاصہ محبت اور شفقت ہو۔ پس اس نکتہ نظر سے بھی اسلام دینِ فطرت نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس مسیحیت کی تعلیم عین فطرت کے تقاضاؤں کے مطابق ہے ۔
سطور بالا میں ذکر ہوچکا ہے کہ جبلّت والدینی کی وجہ سے انسان ہر طرح کی تکلیف ،دکھ، اذیت بلکہ موت تک برداشت کرنے کو تیار ہوجاتاہے ۔ کیونکہ اس جبلّت کا اقتضا اور محبت کا جوہر قربانی اور ایثار ہے ۔ کلمتہ الله نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ چونکہ خدا بنی نوع انسان کے ساتھ ابدی اور اٹل محبت رکھتا ہے ۔ لہٰذا اپنی پدارانہ محبت اور پیار کی وجہ سے خدا انسان کی خاطر ہر قسم کا دکھ اور رنج برداشت کرتاہے ۔ والدین کی محبت کا ظہور اسی میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر دکھ اٹھائیں ۔ ماں کی مامتا کا ظہور اسی میں ہے کہ وہ اپنے بچہ کی خاطر رات کو جاگتی اور دن کو بیقرار رہتی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ محبت اور ایثار ایک ہی حقیقت کےدو مختلف نام ہیں۔ اسی طرح خدا کی محبت کا ظہور اس رنج اور تڑپ میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ جو ہمارا آسمانی باپ ہر گنہگار انسان کے لئے محسوس کرتا ہے الہٰی محبت کا مل ہے ۔ لہٰذا وہ محبوب گنہگار کی خاطر ہر طرح کا دکھ اٹھانے کو تیار ہے ’’ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ‘‘(یوحنا ۳: ۱۶)۔صلیب ِ مسیح خدا کی محبت اور پیار کا بہترین مکاشفہ ہے ۔ یہ صداقت ابن الله کی زندگی اور موت کے ذریعہ دنیا پر مثل ِآفتاب نصف النہار روشن ہوگئی ہے اور یہ حقیقت والدینی جبلّت کاتقاضا ہے ’’ خدا نے اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کی جب ہم گہنگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا‘‘(رومیوں ۵: ۸؛ ۱۔یوحنا ۴: ۱۰وغیرہ)۔
اسلامی تعلیم کے مطابق ’’الله بے پرواہ ہے ‘‘ (اخلاص ۲)جو گنہگاروں سے محبت نہیں رکھتا(آل عمران 50وغیرہ) یہ امر تو ضیح (وضاحت)کا محتاج نہیں کہ بے پرواہی بے نیازی اور دیگر ایسی صفات جو قرآن اور اسلام کے الله میں بکثرت موجود ہیں محبت کے قطعاً منافی ہیں۔ ان میں اور والدینی جبلّت میں بعد المشرقین ہے ۔ماں کی مامتا اگر بچہ کی طرف سے بے پرواہ اور بے نیاز ہوجائے تو بچہ کا زندہ رہنا امر محال ہے ۔ اسی طرح اگر خدا بے نیاز ہو تو انسان کی روح کا زندہ رہنا محالات میں سے ہوگا۔ جب خدا ہی گنہگار کا دشمن ہے اور وہی انتقام لینے والا ٹھہرا تو گنہگار کا ٹھکانہ کہاں رہا؟ (فاطر 44 ۔ہود ۱04وغیره) اسی واسطے قرآن اس کا ٹھکانہ جہنم تجویز کرتا ہے ۔ لیکن کتاب مقدس کی تعلیم کے مطابق ’’ خدا گنہگار کی موت نہیں چاہتا ‘‘ (حزقی ایل۳۳: ۱۱) ۔بلکہ اس کی پدرانہ شفقت اس امر کی متقاضی ہوئی کہ ’’ جب ہم کمزورہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر موا‘‘ (رومیوں ۵: ۶وغیرہ)۔ خدا کا پیار اور اس کی پدرانہ محبت صلیب مسیح میں جلوہ گر ہوئی۔’’’خدا محبت ہے ۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے ۔ وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے سبب سے زندہ رہیں۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارے کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا؟ (یوحنا ۴: ۸۔۱۰)اس کے برعکس قر آن کہتا ہے کہ ’’ الله کو جہان کے لوگوں کی پرواہ نہیں (عنکبوت 5)۔
قرآنی تعلیم کے مطابق خدا کی ذات میں محبت اور ایثار نہیں۔ محبت اور ایثار والدینی جبلّت کا خاصہ ہیں۔ لہٰذا اسلام خدا کی ذات کے بارے میں ایسی تعلیم دیتاہے ۔ جو انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ پس اس نکتہ نگاہ سے بھی اسلام دینِ فطرت نہیں ہوسکتا۔ صرف مسیحیت کی تعلیم ہی فطرت کے مطابق ہے ۔
جبلّت والدینی اور مسیحی اور اسلامی اخوت انسانی
کلمتہ الله نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ چونکہ خدا ہماراباپ ہے لہٰذا کل بنی نوع انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔اخوت انسانی ابوت خداوندی کا لازمی اور منطقیانہ نتیجہ ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’میرا حکم یہ ہے کہ جیسا میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو‘‘ (یوحنا ۱۵: ۱۲؛ ۱۔یوحنا۴: ۷؛ ۳: ۱۱؛ ۲: ۱۰ وغیرہ) جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں۔ تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ اگر تم اپنے محبت کرنے والوں ہی سے محبت رکھو۔ تو تمہارا کیا احسان ہے؟ اور اگر تم صرف ان ہی کا بھلا کرو جو تمہارا بھلا کریں تو تمہارا کیا احسان ہے تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ اور ان کا بھلا کرو تو تم خدا تعالیٰ کے محبوب ٹھہروگے ‘‘ (لوقا۶: ۳۱)۔کلمتہ الله کے اصول ابوت الہٰی اور اخوت ومساوات انسانی مسیحیت کو تمام ادیان عالم سے ممتاز کردیتےہیں اور حقیقی معنوں میں اس کو عالمگیر مذہب اور دین ِفطرت بنادیتے ہیں ۔ کلمتہ الله نے دیدہ دانستہ اس اصول کو دیگر مذاہب اور اپنے دین قیم (قائم کرنے والا،نگران)میں حد ِفاصل(وہ حدجو دوچیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کردے) کے طور پر مقرر کیا۔ آپ کو اس امر کا احساس تھا کہ اصول اخوت انسانی عالم اخلاقیات میں ایک نیا نصب العین ہے ۔ جس سےپہلے مذاہب نا آشانا تھے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا’’ تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو تاکہ تم اپنے پروردگار کے جو آسمان پر ہے محبوب ٹھہرو (متی ۵ باب ؛ یوحنا۱۳: ۳۴؛ ۱۵: ۱۲)۔پس منجی عالمین نے اس والدینی جبلّت کے ذریعہ دنیائے اخلاق کے سامنے انسانی اخوت کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ آپ کے زمانہ میں مختلف اقوام میں بے شمار امتیازات تھے۔ اہل یہودبت پرست غیر اقوام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور تمام غير یہود کو لفظ ’’ پڑوسی ‘‘ کے دائرہ سے خارج کرکے ان سے شریعت کے حکم کے مطابق عداوت رکھتے تھے ۔ کلمتہ الله نے ایک تمثیل کے ذریعہ یہ تعلیم دی کہ لفظ ’’ پڑوسی ‘‘ میں کل نوع انسان شامل ہے (لوقا۱۰: ۲۵) لیکن یہود اس حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر نہ صرف بت پرست غیر اقوام سے بلکہ سامریوں سے بھی نفرت کرتے تھے (یوحنا۴: ۹)۔سامری بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر اہل یہود سے بغض اورعداوت رکھتے تھے (لوقا۴: ۵۴) ۔ رومی بھی یہود کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے خود اہل یہود میں صدوقی اور فریسی ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ فریسی عامتہ الناس (عام لوگوں)کو ملعون ہیچ اور اچھوت سمجھتے تھے لیکن کلمتہ الله نے اخوت انسانی کا نصب العین سب کے سامنے رکھا اورفرمایا کہ بنی نوع انسان ہر فرد بشر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس نصب العین کے ذریعہ آپ نے ہر طرح کا امتیاز اور فرقہ بندی کا قلع قمع کردیا۔ تاريخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہر زمانہ اور ملک اور قوم میں مسیحیت نے درجہ بندی ،مناقشت(جھگڑا،قصہ) ،منافرت (نفرت ،پرہیز)اور تمام مصنوعی اور عارضی امتیازات کو بیخ وبن (جڑ)سے اکھاڑ پھینکا (گلتیوں ۳: ۲۸)۔ خود ہندوستان میں مسیحیت نے ہمارے ہم وطنوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے اور برادرانہ الفت رکھنے کی تعلیم دی ۔ اور بالخصوص مسیحی کلیسیا نے سید ،برہمن ، انگریز ، ہندوستانی ہندو ،سکھ ،چوہڑہ اورمسلمان وغیرہ تمام امتیازات کو سرے سے مٹا دیا ہے ۔ کیونکہ انجیل جلیل کا ایک ایک ورق اخوت انسانی کے سنہرے اصول سے مزین (آراستہ)ہے (رومیوں ۱۳: ۸؛ متی ۱۸: ۱۰؛ رومیوں ۱۲: ۵؛ یوحنا۱۳: ۳۴؛ ۱۔یوحنا ۴: ۲۰؛ گلتیوں ۵: ۱۳؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۳ باب وغیرہ)۔کلمتہ الله نے فرمایا کہ تمام توریت اور صحائف انبیاء کا مدار الہٰی محبت اور انسانی اخوت ومساوات پر ہے (مرقس ۱۲: ۲۹؛ متی ۲۲: ۴۰) آپ نے تمثیلوں کے ذریعہ یہ سبق سکھایا کہ ہر شخص بلا امتیاز رنگ، نسل ، ذات ،درجہ اورقوم وغيرہ دوسرے سے اپنے برابر محبت رکھے (لوقا ۱۰ باب ،متی ۱۸ باب ،۲۵ باب وغیرہ)مولانا حالی کا یہ شعر انجیل اور صرف انجیل پر ہی صادق آتا ہے ۔
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہذا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
کلمتہ الله کی تعلیم نے والدینی جبلّت کے ذریعہ خاندانی اصطلاحات کے استعمال سے ابوت الہٰی اور اخوت انسانی کے اصول ہر ملک اور قوم کو سکھادیئے۔ آپ کی تعلیم کی اساس ہی یہی ہیں کہ خدا ہمارا باپ ہے او رکل بنی نوع انسان اس کے بیٹے ہیں۔ آپ کی تمثیلیں خاندانی تعلقات سےبھری پڑی ہیں جن کے ذریعہ آپ نے ازلی اصول کی تلقین کی (لوقا ۱۵ باب متی ۱۳ باب متی ۶: ۹وغیرہ) نو ع انسانی کے متعلق آپ کا نصب العین ایک خاندان کا نصب العین ہے جس میں کل اقوام عالم کے تمام افراد ایک ہی خاندان سے متعلق کئے گئے ہیں ۔ پس کلمتہ الله نے والدینی جبلّت کے ذریعہ خدا کی محبت اور ابوت اور انسانی اخوت ومساوات کےاصول کی حقیقت ہم پر منکشف کردی ہے ۔
اسلام میں اخوت انسانی کااصول ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتا ۔ قرآن میں ایک جگہ وارد ہے کہ ’’مسلمان آپس میں بھائی ہیں‘‘(حجرات آیت ۱0)اس آیت کے ذریعہ مسلمانوں پرفرض ہے کہ اہل اسلام کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں ۔ لیکن ان پر یہ فرض نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم سے محبت رکھیں۔ کیونکہ غیر مسلموں سے محبت کرنا قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا ۔ ان کے برعکس ان کے ساتھ دشمنی رکھنے اور لڑنے کے احکام قرآن میں بکثرت موجود ہیں (مائدہ آیت 56 و6۲ ممتحنہ آیت 9وغیرہ) اہل اسلام کو حکم ہے کہ یہودی شرع کی طرح ’’ اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت رکھو‘‘۔ یہاں تک کہ اسلام نے دنیا کو دوحصوں میں منقسم کردیا ہے ۔ ایک دارالاسلام اور دوسرا دار الحرب اور مسلمانوں پر فرض کردیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کو قتل کریں۔ خواہ یہ بات مسلمانوں کو بری لگے (بقرآیت ۲۱4۔ انفال 6۲و66۔ توبہ آیت ۱تا ۲9 ۔تحریم 9 محمد آیت 4و5 ۔ انفا ل آیت 40 وغیرہ وغیرہ) لیکن مسلمان کا قتل عمداً وسہواً (ارادای اور غیرارادی طور پر)ممنوع ہے (نساء آیت 94 و95)۔
چنانچہ مشکواة کتاب الجہاد باب الجزیہ میں ابن عباس سےر وایت ہے کہ
’’رسول خدا نے فرمایا کہ ایک ملک میں دو قبیلے روا نہیں اور مسلمان پر جزیہ روا نہیں ہے ‘‘۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی اسلامی ملک میں اسلام کے سواکوئی دوسرا دین بطریق مساوات نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی ذی مسلمان ہوجائے تو اس سے جزیہ لینا روا نہیں۔
پس ثابت ہوگیا کہ مسیحیت ہی ایک واحد مذہب ہے جو خدا اور انسان کے باہمی رشتہ اور بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کی نسبت ایسی تعلیم دیتاہے جو جبلّت والدینی کے تقاضاؤں کے مطابق ہے ۔ پس مسیحیت ہی دین ِفطرت کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے ۔ اسلام بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کے متعلق ایسی تعلیم کی تلقین کرتاہے ۔ جو اس جبلّت کے تقاضاؤں کو نہ صرف پورا نہیں کرتی بلکہ ان کے منافی ہے ۔ لہٰذا اسلام دین ِفطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔
جبلّت والدینی اور مسیحی اور اسلامی فضائل
والدینی جبلّت کے ساتھ وہ تمام لطیف جذبات وابستہ ہیں۔ جن پر مسیحی تعلیم زور دیتی ہے۔ چنانچہ کلمتہ الله کی تعلیم میں دل کی غریبی ،حلم ، رحم ،صبر ، صلح ،پاکیزگی ، محبت، ایثار نفسی اور خود فراموشی وغیرہ کو افضل جگہ دی گئی ہے ۔اور یہ نسوانی فضائل شمار کی جاتی ہے ۔لیکن اس کے برعکس اسلام نےہمیشہ مردانگی ،شجاعت ، جنگ ، جہاد، حکومت، سیاست ، غنیمت اور قصاص وغیرہ پر زور دیا ہے جو مردانہ فضائل ہیں۔ والدینی جبلّت کا تعلق نسوانی فضائل، نازک جذبات اور لطیف خیالات کے ساتھ ہے ۔ لیکن مردانہ فضائل نازک اورلطیف جذبات کو ٹھکراتی ہیں۔ پس اس پہلو سے بھی اسلام کی نسبت مسیحیت کا تعلق والدینی جبلّت اور انسانی فطرت کے ساتھ زیادہ قریب ہے ۔
جبلّت والدینی اور غصہ کا جذبہ
اس فصل کے شروع میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ جبلّت والدینی کا یہ خاصہ ہے کہ جب اس کے عمل میں مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے توغصہ اور طیش ظہور میں آتا ہے ۔ اسی طرح جب ہم کسی بیکس حیوان یا انسان پر زیادتی اور ظلم ہوتا دیکھتے ہیں ۔ تو ہم جوش میں آجاتے ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس بات کا مفصل ذکر ہم آگے چل کر کریں گے ۔ اس کی مثالیں ہم کو انجیل جلیل میں ملتی ہیں۔یہاں بخوف طوالت صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ انجیل جلیل میں وارد ہے کہ منجی عالمین ایک دفعہ عبادت خانہ میں گئے ۔ ’’ اور وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ اور وہ اس کی تاک میں رہے کہ اگر وہ اسے سبت کے دن اچھا کرے تو اس پر الزام لگائیں‘‘۔ اس ایک واقعہ سے ہم آنخداوند کے دشمنوں کی سخت دلی اور بے رحمی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو وہ اس غریب بیکس انسان پر روا رکھتے تھے جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ آپ کے رحم ومحبت نے جوش کھایا اور آپ نے ’’ ان کی سخت دلی کے سبب غمگین ہوکر چاروں طرف غصے سے نظر کر کے اس آدمی سے فرمایا کہ اپنا ہاتھ بڑھا۔ اس نے بڑھادیا اور اس کا ہاتھ درست ہوگیا‘‘ (مرقس۳: ۱)۔
جبلّت والدینی اور ایثار نفسی
اس فصل کے شروع میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا ۔ کہ دورحاضرہ میں ماں باپ کی جبلّت کا میدان عمل بہت وسیع ہوگیا ہے ۔فی زمانہ ہم کو ایسی تحریکات نظر آتی ہے ۔جن کاتعلق حیوانوں ،بچوں ،کمزوروں،لاچاروں،بیکسوں مظلوموں ،مصیبت زدوں ،مفلسوں وغیرہ کی امداد کے ساتھ ہے ۔ ان تمام تحریکوں اور کوششوں کا ماخذ ماں باپ کی جبلّت ہے ۔ اسی جبلّت کی وجہ سے ہمارے اندر ہمدردی اور نازک جذبے پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم بے اختیار ہوجاتے ہیں۔ اور ہم دنیا کے بیکسوں اور مظلوموں کی حمایت پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی جہالت کو دور کرنے کے لئے مدرسے جاری کرتے ہیں ا ن کی امراض کو رفع کرنے کی خاطر شفا خانے کھول دیتے ہیں۔ ان کی بھوک مٹانے کے لئے لنگر خانے کھل جاتے ہیں۔
مسیحی اور اسلامی ایثار
دین فطرت کا کام یہ ہے کہ والدینی جبلّت کے میدان عمل کو وسیع کردے اور اس باب میں مسیحیت کو کل ادیان عالم پر فوقیت حاصل ہے ۔ بچوں ، بیکسوں ، مظلوموں ، محتاجوں،بے یارومددگار لوگوں کی خاطر اپنی خودی اور انانیت کو دبانا اور ان کی خاطر ہر طرح کی ایثار نفسی کو کام میں لانا مسیحیت کا جزو اعظم ہے (مرقس ۸: ۳۵)’’ہم کو جو توانا ہیں چاہیے کہ نا توانوں کی کمزوریوں کا لحاظ رکھیں اور نہ کہ اپنی خوشی کریں۔ ہم میں سے ہر ایک شخص دوسرے کو اس کی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اس کی ترقی ہو۔ کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی‘‘ (رومیوں ۱۵: ۱)۔’’ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں ۔بلکہ دوسروں کے احوال پر نظر رکھے۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا سیدنا مسیح کا تھا۔ جس نے اپنے آپ کو خالی کردیا‘‘ ( فلپیوں۲: ۴۔۵) ’’مبارک ہے وہ جو غریب کا خیال رکھتا ہے‘‘ (زبور ۴۱: ۱)۔’’ مظلوموں کی مدد کرو۔ یتیموں کی فریاد رسی کرو بیواؤں کے حامی ہو‘‘ (یسعیاہ ۱: ۱۷) ’’تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلا اور مساکین کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لا ۔ جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنا ۔ اور اپنے ہم جنسوں سے روپوشی مت کر۔ تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی ‘‘(یسعیاہ ۵۸: ۷)۔ ’’ہر شخص اپنے بھائی پر کرم اور رحم کرے اور بیوہ اور یتیم اور مسافر اور مسکین پر ظلم نہ کر‘‘ (زکریاہ۷: ۱۰)۔ ’’خیرات بانٹنے والا سخاوت سے بانٹے رحم کرنے والا خوشی سے رحم کرے مسافر پروری میں لگے رہو۔ اگر تیرا دشمن بھوکا ہوتو اسے کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اسے پانی پلا‘‘ ( رومیوں ۱۲ باب)’’جس کے پاس دنیا کا مال ہواور وہ اپنے بھائی کو دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اس میں خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے‘‘ (۱۔یوحنا۳: ۱۷)۔ ’’ہمارے خدا اور باپ کے نزدیک خالص اور بے عیب دینداری یہ ہےکہ یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت ان کی خبر لیں‘‘( یعقوب ۱: ۲۷)۔
ایک دفعہ ایک دو لتمند شخص کلمتہ الله کے پاس آیا اور پوچھنے لگا۔ کہ ’’اے استاد میں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال واسباب بیچ کر غریبوں کو دے تجھ کو آسمان پرخزانہ ملےگا ‘‘(متی ۱۹: ۲۱)۔ کلمتہ الله نے فرمایا کہ عدالت کے روز ہر فرد بشر کا حساب رحم کے اصول پرلیا جائے گا ۔ اور آپ نیک لوگوں کو مخاطب کرکے فرمائيں گے ۔’’ اے میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہت بنائے عالم کے وقت سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اسے میراث میں لو کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تو تم نے مجھ کو پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا تو تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا ۔ میں ننگا تھا تو تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے ۔ تب راستباز اس کو جواب میں کہیں گے کہ اے مولا ہم نے کب آپ کو بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟ ہم نے کب آپ کو پردیسی دیکھ کر گھر میں اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب آپ بیمار یا قید میں دیکھ کر آپ کے پاس آئے ؟ بادشاہ جواب میں ان سے کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں چونکہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائيوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ کیا اس لئے میرے ہی ساتھ یہ کیا‘‘ (متی ۲۵: ۳۴)۔ اس قسم کے محرکات باقی تمام ادیان عالم میں مفقود(لاپتہ) ہیں۔ ان آیات میں اور انجیل کے دیگر مقامات میں منجی عالمین نے اپنے آپ کو فقرو مسکنت کا مجسمہ قرار دے دیا اور فرمایا کہ جو لوگ محتاجوں ،بیماروں ،یتیموں ، قیدیوں ،مظلوموں اور بیکسوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ ’’ میرے ہی ساتھ ‘‘کرتے ہیں۔ یہ محرکات اور مرغبات کسی دوسرے مذہب میں نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لطیف اور نازک جذبات جو والدینی جبلّت سے متعلق ہیں۔ مسیحیت کا جزو لاونیفک (وہ حصہ جو علیحدہ نہ ہوسکے)ہوگئے ہیں۔
خود منجی کونین کی زندگی پر ایک سطحی نگاہ ڈالو تو معلوم ہوجائےگا کہ جہاں میں آپ نے کسی مصیبت زدہ بیمار ،مفلوج ، اندھے ، لنجے ، کوڑھی کو دیکھا۔ آپ کی محبت جوش زن ہوئی اور آپ نے اس کو شفا بخشی۔ اس جبلّت کے میدان عمل کو آپ نے یہاں تک وسعت دی کہ آپ نے دعوت عام دے کر علی الاعلان فرمایا’’ اے سب محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دوں گا ‘‘( متی ۲۸: ۱۱)۔
(۲)
قرآن میں آیا ہے ’’ تم جو خیرات دیتے ہو یا نذر مانتے ہو ۔ الله اس کو جانتا ہے اور اگر تم خیرات کو ظاہر کرکے دو تو اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور فقیروں کو دو یہ تمہارے لئے اور بھی بہتر ہے اور اس سے تمہارے بعض گناہ دو ر ہوجائیں گے ‘‘ (بقر ۲73۔ نساء 40تا 43) ’’زکوٰة کا مال صرف محتاجوں اور فقیروں کے لئے ہے اور ان کے لئے جو اس کے وصول کرنے پر مقرر ہیں اور ان کے لئے ہے جن کے دل اسلام کی طرف راغب کرنے منظور ہیں۔ اور گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں اور خرچ جہاد اور مسافروں کے لئے ہے ‘‘( توبہ 60)۔ ’’جو مال الله اپنے رسول کو بستیوں والوں سے مفت دلوادے وہ رسول کا اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے ‘‘( حشر آیت 7) ’’ جو شے تم لوٹ کے لائے ہو اس کا پانچواں حصہ الله اور رسول اور رسول کے رشتہ داروں ،یتیموں،اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے ‘‘ (انفا ل 4۲)۔ ’’اے محمد تو یتیموں پر ظلم نہ کر اور نہ سائل کو جھڑک ‘‘(ضحیٰ 9۔ نیزدیکھو بقر آیت ۲46و۲65و۲74 ۔ بنی اسرائیل 3۱وغیرہ)۔
(3)
جبلّت والدینی کے میدان عمل کےوسعت کے مسئلہ پر غور کرتے وقت یہ لازم ہے کہ اس بات کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ کہ خیرات کا صحیح مصرف کیا ہے ؟ اور کون اس کے مستحق ہیں۔ قرآن اس معاملہ میں ایک نرالی تجویز پیش کرتا ہے کہ زکواة کا مال ان لوگوں کے لئے ہے جن کےدل لالچ دے کر’’ اسلام کی جانب راغب کرنے منظور ہیں‘‘ (سورہ توبہ آیت 60)۔ اور خیرات کا ما ل جہاد کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لئے ہے ۔ کیا لالچ دےکر مسلمان بنانا اور دشمنوں پر جہاد کرنے کے لئے خرچ کرنا خیرات کو صرف کرنے کا اچھا طریقہ ہے ؟ ہر صحیح العقل شخص اس کا جواب نفی میں دے گا ۔ اس کے برعکس انجیل میں وارد ہوا ہے ’’ اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اسے روٹی کھانے کو دے اگر پیا سا ہو تو اسے پانی پینے کو دو‘‘ (رومیوں ۱۲: ۲۰) قرآن کہتاہے کہ خیرات کے مال سے دشمنوں کا قلع قمع کردے ۔انجیل کہتی ہے کہ خیرات کے مال سے بھوکے پیاسے دشمن جان تک کا پیٹ پال ۔ ناظرین خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کون سا مذہب جبلّت والدینی کے میدان عمل کو وسعت دیتا ہے اور اس جبلّت کے لطیف اور نازک جذبات کا بھڑکاتاہے ۔ کونسا مذہب مصیبت زدوں کا رفیق ، بد نصیبوں کا شفیق اور کریمانہ اقتضاؤں کا سرچشمہ ہے ؟ اسلام یا مسیحیت ؟ مسیحیت ہر پہلو سے کریمانہ اور مشفقانہ اقتضاؤں کا منبع ہے ۔چنانچہ ا نجیل اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ جو خیرات رحم اور محبت کے جذبات کے بغیر کی جاتی ہے وہ بے کار اور بے سود ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اگر کوئی ’’ اپنا سارا مال غریبوں کا کھلادے اور ان کی خاطر اپنا بدن بھی جلانے کو دے دے ۔ لیکن محبت نہ رکھے ۔ تو اسے کچھ بھی فائدہ نہیں‘‘ (کرنتھیوں ۱۳: ۲۰)۔ قرآن میں اس قسم کی تعلیم مطلق نہیں۔ پس اس نکتہ نگاہ سے بھی اسلام دین فطرت کے معیار پر پورا نہیں اترتا صرف مسیحیت ہی دین ِفطرت کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے ۔
(4)
اگر ناظرین ایک دفعہ پھر ان انجیلی آیات کا ملاحظہ کریں ۔ جن کا اقتباس بطور مشے نمونہ ازخروارے اس فصل میں کیا گیا ہے ۔ تو ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ مسیحیت کے محرکات اور مرغبات اسلام میں مفقود ہیں۔ انجیل جلیل میں سیدنا مسیح نے اپنے آپ کو فقرو مسکنت کا مجسمہ قرار دےدیا اور فرمایا کہ جو لوگ محتاجوں ،بیماروں، یتیموں، قیدیوں، بھوکوں،پیاسوں، غریبوں، مظلوموں، بیکسوں، کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ خود مسیح کی خدمت کرتے ہیں۔ (متی ۲۵ باب ؛ مرقس ۹: ۳۶ وغیرہ)۔ یہ محرکات اسلام میں نہیں ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اسلام تقدیر کے مسئلہ کا قائل ہے ۔ تقدیر کا مسئلہ اسلامی عقیدہ کے جزولاینفک ہے ۔ (بنی اسرائیل ۱4، قمر 49، طلاق 3وغیرہ) نیکی اور بدی خوشحالی اور مصیبت خدا کی طرف سے آتے ہیں’’ ہم کو وہی پہنچےگا جو الله نے ہمارے لئے لکھا ہے ‘‘(توبہ آیت 5۱)۔چونکہ ہم نے مسئلہ تقدیر کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی رسالہ کی فصل پنجم میں کیا ہے ۔ لہٰذا ہم اس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ کہ علامہ اقبال جیسا شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ
’’ اس بات کا انکار نہیں کرسکتے کہ تقدیر کا عقیدہ قرآن کے تاروپود میں موجود ہے ‘‘۔
(Relegious Thought in Islam p.۱03)
اس قسم کے عقیدہ میں کوئی شے ہم کو مصیبت زدوں کی تکلیف دور کرنے لاچاروں کی مدد کرنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کی جانب راغب نہیں کرسکتی ۔ اس کے برعکس یہ عقیدہ ان بیکسوں کی جانب سے ہمارے دلوں کو سخت کردیتا ہے ۔ لیکن جو محرکات مسیحیت سے مخصوص ہیں وہ اس امر کے مقتاضی ہیں کہ ہم ہر ممکن طور سے ایسے لوگوں کی مدد کرنے پر ہر وقت آمادہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لطیف اور نازک جذبات جو والدینی جبلّت سے متعلق ہیں۔ مسیحیت کا جزو لانیفک ہوگئےہیں کہ منکرین تک کو انکار کی مجال نہیں۔ چنانچہ مشہور ملحد ہکسلے (Huxley)کہتا ہے کہ
’’ صرف بائبل ہی ابتدا سے دور حاضرہ تک غریبوں اور مظلوموں کے حقوق کے محافظ رہی ہے ‘‘۔
مسیحی کلیسیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تمام نازک اور لطیف جذبات جن کا ماخذ والدینی جبلّت ہے ۔مسیحیت کا طغرائے امتیاز رہے ہیں۔ مورخ لیکی ہم کوبتلاتا ہے کہ
’’غلاموں کو آزاد کرنا۔ قیدیوں کی خبر گیری کرنا۔ اسیروں کا فدیہ دینا۔ غربا پروری کرنا۔ سخاوت اور خیرات دینا ، خود کشی طفل کشی اور اسقاط حمل کا خاتمہ کرنا۔ حریت اور نفس انسانی کی وقعت کرنا ۔بچوں اور عورتوں کا احترام کرنا۔ اچھوت اقوام سے مساوات کرنا۔ اخوت انسانی کا سبق سکھانا۔ غلاظت اور امراض کی انسداد کے لئے ہسپتال کا کھولنا۔ ظلم بند ش بند کرنا۔ کاشتکاروں اور مزدور پیشہ لوگوں سے غلامانہ سلوک کا منع کرنا۔ جہالت کو رفع کرنے کےلئے تعلیم کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ مسیحیت کے روشن کارناموں میں سے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام باتیں کلمتہ الله کی تعلیم ،زندگی اور نمونہ کا نتیجہ ہیں‘‘۔
ہر زمانہ اور ہر ملک ہر قوم اور ہر ملت میں جہاں جہاں مسیحیت گئی ۔ وہاں کلیسیائے نے ان باتوں کو اپنے ذمے لے لیا اور تمام لطیف اور نازک جذبات کا بیج بوکر بنی نوع انسان کی بہبودی اور ترقی کی کوشاں رہی۔ بخلاف اس کے قیداور غلامی ۔عورتوں کی پست حالت بچوں کی جانب سے لاپرواہی اور غفلت تعصب اور جہالت ۔ لوٹ مار اور غارت وغیرہ مسئلہ تقدیر کی وجہ سے اسلام کے ہمدوش رہے ۔ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس سے کسی مورخ کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی ۔حتیٰ کہ علامہ سر اقبال کو بھی اس امر کا اقبال ہے کہ
’’ قسمت اور تقدیر کا بدترین پہلو صدیوں سے دنیائے اسلام پر غالب رہا ہے ‘‘
صفحہ ۱04تا۱05۔
نتیجہ
اس فصل میں ہم نے جبلّت والدینی کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ہے اور جس پہلو سے بھی اسلام پر نگاہ کی ہے ۔ وہ دین ِفطرت نظر نہیں آیا بخلاف اس کے ہم نے دیکھا کہ مسیحیت ہی ایک ایسا واحد مذہب ہے ۔ جو والدینی جبلّت کے ہر تقاضا کو بطر ز احسن پورا کرتاہے ۔ ماؤں اور بچوں کے حقوق کی نگہداشت کرتا ہے ۔ ان حقوق کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں۔ ان کا سدباب کرتا ہے ۔ بچوں اور والدین کو ان کی ذمہ داریوں اور ان کے فرائض سے آگاہ کرتا ہے ۔ خدا کی ذات اور خدا اور انسان کے باہمی رشتہ کے متعلق اور بنی نوع انسان کے متعلق ایسی تعلیم دیتا ہے ۔ جو جبلّت والدینی کے نہ صرف مطابق ہے بلکہ اس پر مبنی ہے ۔ یہی ایک مذہب ہے جو جبلّت والدینی کے میدان عمل کو بیس(۲۰) صدیوں سے مختلف ممالک واقوام میں وسعت دیتا چلا آیا ہے ۔ لہٰذا مسیحیت ہی ایک مذہب ہے جو ادیان عالم میں دینِ فطرت کہلانے کا مستحق ہے ۔
فصل پنجم
لڑاکا پن اور غصہ کی جبلّت
جنگ جوئی کی جبلّت کی خصوصیات
ہماری فطرت کی جبلّتوں کا یہ تقاضا ہے کہ ان کو پورا کیا جائے۔ اور ان کے پورا کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مثلاً ماں باپ کی جبلّت ا س بات کی خواہاں ہے کہ بچہ کی حفاظت اور پرورش ہو اور انسانی فطرت اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنے بچہ کی حفاظت کرے اور اس کی حفاظت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لیکن جب رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے ۔تو یہ ہماری فطرت میں داخل ہےکہ ہم میں غصہ پن اور لڑاکا پن پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور ہم اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ پس جب کسی فطرتی اقتضا کی مزاحمت ہوتی ہے ۔ تو اس مزاحمت کی وجہ سے غصہ اور لڑاکا پن کی جبلّت کا ظہور ہوتا ہے اور یہ جبلّت اس چیز کو دور اور ختم کردینا چاہتی ہے ۔ جس سے فطرتی اقتضا کے آزادانہ فصل میں رکاوٹ پڑی تھی۔ پس ظاہر ہے کہ اس جبلّت کی برانگیختگی دوسروں کی تحریک پر موقوف ہے ۔
(۲)
ایک اور بات قابل غور ہے کہ غصہ کی جبلّت اسی قدر اور اسی نسبت سے شدید ہوتی ہے جس قدر رو کے ہوئے اقتضا کی قوت شدیدہوتی ہے مثلاً اگر نر اور مادہ کے تعلقات میں کوئی شے رکاوٹ کا باعث ہے ۔ تو غصہ اور لڑاکا پن ہماری طبیعت میں شدت سے پیدا ہوگا۔ ایسی رکاوٹوں کی وجہ سے روز مرہ قتل اور خون کی وارد اتیں ہوتی ہیں۔ کم سن بچوں میں اس جبلّت کی برانگیختگی اپنی خالص صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔مثلاً جب چھوٹے بچوں کی کسی جبلّت کی آزادانہ فعل میں ہم مزاحم (روکنے والا)ہوتے ہیں اور ان کو چھیڑتے ہیں۔ تووہ برہم ہو کر منہ کھول کر کاٹنے کودوڑتے ہیں۔
(3)
مختلف افراد اور اقوام میں اس جبلّت کی طاقت کے اعتبار سے عظیم اختلاف ہے ۔ اور تہذیب ونشوونما سے اس جبلّت کے اظہار کے طریقوں میں تغیر ہوگیا ہے ۔ چنانچہ جو ں جو ں انسان اور اقوام ترقی کرتی ہیں۔ ان میں ضبط کی طاقت بڑھتی جاتی ہے ۔ ان کے خیالات وسیع ہوجاتے ہیں۔ اور جنگ جوئی کی جبلّت اپنی خالص عریانی صورت میں ظہور پذیر نہیں ہوتی ۔ کیونکہ مزاحمتوں پر غالب آنے کے وسائل زیادہ شائستہ ہوجاتے ہیں۔
(4)
علاوہ ازیں انسانوں اور جماعتوں کی زندگی میں معاشرتی امور کی تکمیل اور نظام جماعت کے لئے رقابت کا جذبہ اس جبلّت کی جگہ کو غضب کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ دنیا کے کاروبار کے دس حصوں میں سے نوحصوں کا کام اسی رقابت سے چلتا ہے ۔ مثلاً ہمارا نظام تعلیم رقابت کے جذبے پر مبنی ہے اس کی برکت سے ادبیات اور فنون میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ چونکہ رقابت کے جذبہ حوصلہ مندی کا اصلی جوہر ہے ۔ لہٰذا اس جذبہ کا ظہور جنگجوئی کی جبلّت میں مداخلت کرتاہے ۔ حتیٰ کہ مہذب اشخاص اور جماعتوں میں یہ جبلّت محرک اولیٰ نہیں رہی ۔ مبارزت (لڑائی ) کا جوش انسانوں اور قوموں کو تباہ وبرباد کردیتاہے ۔ لیکن رقابت کا جذبہ اضطراب کے ساتھ موافقت رکھتا ہے ۔اور اس کا طبعی رجحان فنا اور بربادی کی بجائے حفاظت کی جانب ہے رقابت کا جذبہ اعلیٰ درجہ کی مہذب جماعتوں کا طغرائے امتیاز ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنگ جوئی کے عوض محنت اور دانش کی رقابت ہوتی ہے اور سوسائٹی کا رحجان تجارت اور صنعت وحرفت کی رقابت کی طرف ہوجاتا ہے ۔
(5)
اگر جنگ جوئی کی جبلّت کا رحجان دیگر جبلّی میلانات کے اغراض کو حاصل کرنے کی جانب راغب کیا جائے ۔ تو یہ جبلّت نہایت توانائی کا موجب ہوجاتی ہے ۔ اس کے اقتضا کی طاقت دوسری جبلّتوں کی اقتضاؤں کو کمک دیتی ہے اور ان کے ساتھ شریک ہوکر ہم کو اس قدرطاقت دیتی ہے کہ ان اغراض کے حاصل کرنے میں ہم مشکلات پر غالب آجاتے ہیں۔
لڑاکاپن کی جبلّت اور دین ِفطرت کے لوازمات
مذکورہ بالا سطور سے ظاہر ہے کہ دین فطرت کا یہ کام ہے کہ جنگجوئی کی جبلّت کی تربیت کرے تاکہ انسانوں میں یہ جبلّت اپنی خالص عریاں صورت میں مغلوب ہوجائے اور انسانی امور میں ضبط کی طاقت بڑھ جائے تاکہ یہ جبلّت محرک اولیٰ نہ رہے ۔رقابت کا جذبہ اس کی جگہ غضب کرلے ۔ دینِ فطرت کا کا م ہے کہ اس جبلّت کا رحجان دیگر جبلّی میلانات کے اقتضاؤں کو حاصل کرنے کی جانب راغب کرے تاکہ اقوام اور افراد تباہ وبرباد ہونے کی بجائے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکیں۔
مسیحیت اور غصّہ
مسیحیت ہم کو تعلیم دیتی ہے ۔ کہ لڑاکا پن اور غصہ کی جبلّت کا اس کی عریانی میں مظاہرہ مت کرو۔ بلکہ ضبط کو کام میں لا کر اپنے جذبات پر قابوحاصل کرو ۔ چنانچہ کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ ’’غصہ سے باز آؤ اور غضب کو چھوڑدے‘‘(زبور۳۷: ۸)۔’’نرم جواب غصہ کو دور کردیتاہے ‘‘ (امثال ۱۵: ۱) ’’وہ جو قہر کرنے میں دھیما ہے پہلوان سے بہتر ہے اور وہ جو اپنی روح پر ضابط ہے اس سے بہتر ہے جو شہر کو فتح کرلیتا ہے ‘‘(امثال ۱۶: ۳۲) ۔کلمتہ الله نے فرمایا’’ تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا کہ خون نہ کر لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصہ ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا ۔ اگر تو قربان گاہ پر اپنی نذر گزرانتا ہے اور وہاں تجھے یاد آئےکہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے ۔ تو اپنی نذر قربان گاہ کے آگے چھوڑدے اور جاکر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر ‘‘(متی ۵: ۲۱)۔پولو س رسول فرماتے ہیں’’ ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ تم سےدو ر ہوجائیں ‘‘ ( افسیوں۴: ۳۱)۔’’انتقام نہ لو بلکہ غصہ کی راہ چھوڑ دو بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ بدی پر غالب آؤ‘‘(رومیوں ۱۲: ۱۹)۔مقدس یعقوب فرماتے ہیں ’’اے میرے پیارے بھا يئوں ہر آدمی غصے میں دھیما ہوکیونکہ انسان کا غصہ خداکی راستبازی کا کام نہیں کرتا ‘‘(یعقوب ۱: ۱۹)۔پس ظاہر ہے کہ مسیحیت غصہ اور جنگجوئی کی جبلّت کو اس کی عریاں حالت میں ظاہر ہونے سے روکتی ہے اور اس پر قابو پانے کی تلقین کرتی ہے ۔
(۲)
ہم اوپر بتلا چکے ہیں کہ ہماری طبیعت میں غصہ اس وقت پیدا ہوتاہے جب ہماری فطرت کی کسی جبلّت کے فطرتی اقتضا کے پورا ہونے میں مزاحمت اور رکاوٹ ہو اس غصہ کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس رکاوٹ کو دور کردے اور مزاحمت کا خاتمہ کردے ۔پس اگر غصہ کا مقصد نیک ہوگاتو غصہ جائزہوگا لیکن اگر ا س کا مقصد منشائے الہٰی کے خلاف ہوگا تو غصہ ناجائز اور ممنوع ہوگا۔ مسیحیت جائز غصہ کے خلاف نہیں۔ مثلاً جب کوئی کسی قابل رحم انسان کو دیکھ کر اس کی لاچاری سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے یا اس کی مظلومیت کو دیکھ کر محبت ،رحم ،ترس اور ہمدردی کی بجائے سخت دلی اور ظلم کا اظہار کرے ۔ تب ہم جائز طور پر اس سے غصہ ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً گذشتہ فصل میں ہم نے دیکھا تھا کہ منجی عالم کے دشمن ایک شخص کو جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا نہیں چاہتے تھے کہ وہ سبت کے روز شفا پائے تو آپ نے ’’ ان کی سخت دلی کے سبب غمگین ہوکر چاروں طرف ان پر غصہ سے نظر ‘‘ کی اور بیمار کو تندرست کردیا۔اگرچہ آ پ کے حق میں اس کا نتیجہ صلیبی موت ہی ہوا (مرقس ۳: ۶۶)۔آپ کی جبلّت والدینی کے استعمال میں آپ کے دشمنوں کی سخت دلی مزاحم تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ جب آپ کے رسولوں نے بچوں کی تحقیر کی تو آ پ یہ ’’ دیکھ کر خفا ہوئے ‘‘(مرقس ۱۰: ۱۴)۔کیونکہ وہ اسی جبلّت کے اقتضا کے پورا ہونے میں مزاحم ہوئے ۔ کسی بیمار کمزور اور لاچار ہستی کو دیکھ کر اس کے ساتھ ترس، رحم ،ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی بجائے اس سے لاپروائی ،تحکم ،سخت دلی اور بے رحمی سے پیش آنا خدا کے منشا کے مطابق نہیں ایسے حالات کی وجہ سے کلمتہ الله نے فرمایا ہے کہ ’’ ان چھوٹوں میں سے ایک کو ٹھوکر کھلانے کی نسبت یہ بہتر ہوتا ہے کہ ٹھوکر کھلانے والے کے گلے میں چکی کا پاٹ لٹکایا جاتا اور وہ سمندر میں پھینکا جاتا ‘‘ (لوقا۱۷: ۲) آپ نے فقہیوں اور فریسیوں کو بار بار متنبہ فرمایا کہ بیواؤں اور یتیموں پر ظلم کرنے سے احتراز کریں( لوقا۲۰: ۴۷)۔ آپ نے تمثیلوں کے ذریعہ غربا پروری پر زور دیا (لوقا۱۶ باب)۔جب آپ نے دیکھا کہ خدا کے گھر میں غریب عبادت گذاروں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں ۔ تو آپ ان سے جو آپ کی جان کے لیوا تھے نہایت خفا ہوئے اور اس برائی کا دور کرنے کی خاطر آپ نے اپنی جان عزیز کو خطرہ میں ڈال دیا ۔ (مرقس ۱۱: ۱۷۔۱۸)۔ آپ کا غصہ آپ کی محبت اور ہمدردی کا ظہور تھا۔ کیونکہ آپ کی محبت اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ کہ کمزور اور مظلوم ہستیوں کوتباہ اور برباد کیا جائے ۔ جب آپ کے دشمنوں نے آپ کی ذات مبارک پر ظلم کیا۔ تو آپ نے صبر اور محبت سے ان کے ظلم کی برداشت کی ۔ جب انہوں نے آپ کو مصلوب کیا تو آپ کے منہ سے ان کے لئے دعائے خیر ہی نکلی۔ لیکن آپ یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دوسروں پر ظلم اور جبرروا رکھا جائے جب آپ دوسروں پر ظلم ہوتا دیکھتے تو آپ کی محبت جوش زن ہوتی اور آپ ظالموں پر اپنا راست غصہ ظاہر کرتے۔بعض حالات مسیحیت نے غصہ کو جائز قرار دیا ہے لیکن یہاں بھی قید لگادی ہے ۔ چنانچہ مقدس پولُس رسول فرماتے ہیں کہ ’’غصہ تو کرو مگر غصہ کے دوران گناہ نہ کرو‘‘(افسیوں ۴: ۲۶)۔ ایسا غصہ جس میں گناہ کی آلائش نہیں مسیحیت نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ وہ دلی محبت کا اظہار ہے اور انسان کی بربادی اور تباہی کی بجائے حفاظت اور نگہبانی کاکام کرتاہے ۔ ایسے حالات میں ’’انسان کا غصہ خدا کی ستائش کا باعث ہوتا ہے ‘‘( زبور ۷۶: ۱۰)۔
غصّہ کی جبلّت اور قصاص
ا س قسم کے غصہ میں اور انتقام کے غصہ میں بعد المشرقین ہے ۔ انجیل جلیل میں بدلہ ، قصاص ، اور انتقام کی سخت ممانعت کی گئی ہے ۔کلمتہ الله نے فرمایا ’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے ‘‘(متی ۵: ۳۸)۔ ’’اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کروگے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا اور اگر تم آدمیوں کا قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے گناہ معاف نہ کرے گا‘‘(متی ۶: ۱۴؛ ۱۸: ۲۱؛ ۱۸: ۳۵؛ مرقس ۱۱: ۲۵؛ لوقا۱۷: ۴وغیرہ)۔ابن الله نے تمثیلوں کے ذریعہ یہ حقیقت اپنے مقلدین(پیروی کرنے والوں) کے ذہن نشین کی ۔ کہ حقیقی مذہب کا مطلب ہی یہ ہے کہ حقیقی اخوت کا اندرونی احساس ہو اور یہ کہ بیرونی باتیں مثلاً نماز کی ادائیگی ،خیرات کا دینا وغیرہ ،اس اندرونی عفو کے احساس اور محبت کے بغیر بے معنی باتیں ہیں(متی ۱۸: ۲۳)۔آپ نے اپنی زندگی اور نمونہ سے دشمنوں کو معاف کرنے کا سبق سکھایا۔ حتیٰ کہ جب آپ کے خون کے پیاسے آپ کو مصلوب کررہے تھے اور آپ ان کے دل کو پاش پاش کرنے والے تمسخر اور طعن وتشنیع کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے ۔ آپ نے ان کو اس جانکنی کی حالت میں بھی دعائے خیر دی اور کہا’’ اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیاکررہے ہیں‘‘(لوقا۲۳: ۳۴)۔ اس کے برعکس جب رسول عربی کے حقیقی چچا ابولہب اور اس کی بیوی نے آپ کو ستایا تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی (سورہ لہب) ۔جناب مسیح کے عفو اور محبت کے نمونے نے دنیا کو ایسا موہ لیا ہے کہ اب بنی نوع انسان کسی ایسے شخص کو حقیقی معنوں میں جلیل القدر ماننے کو تیار نہیں جو آپ کے عفو کے نمونہ کو اختیار نہیں کرتا۔ حق تو یہ ہےکہ کلمتہ الله نے عفو اور محبت کا نمونہ صلیب پرہی نہیں دکھایا ۔بلکہ آپ کی تمام زندگی کا ایک ایک دن دشمنوں کے طعنوں کو سننے اور ان کو معاف کرنے میں ٍٍگذرتا تھا (۱۔پطرس۴: ۱۳)۔ ایک آپ کو کافر اور دروغگو کہتا (مرقس ۲: ۷)۔ دوسرا آپ کو پاگل اور دیوانہ بتلاتا ۔ تیسرا کہتا کہ آپ پیٹو اور شرابی ہیں۔ کوئی کہتا تھاکہ آپ نے ناپاک شیطانی روح کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے ۔ کوئی آپ کو گنہگاروں کا یار کہہ کر پکارتا غرضیکہ آپ کو ہر طرح سے ’’بےعزت ‘‘کیا جاتا تھا۔ (مرقس ۶: ۴) لیکن آپ رحم اور محبت مجسم تھے۔ آپ نے انہی دشمنوں کو ہر طرح کی بیماری اور بلا سے شفا بخشی ۔ ان سے انتقام لینے کے بجائے ان کو اپنی جاودانی محبت کے کرشمے معجزات کی صورت میں دکھائے اور ان کے جسم اور روح دونوں کو نجات بخشی ۔کلمتہ الله کی نظر میں دشمنوں کے جگر خراش طعنے یہ ثابت کرتے تھے کہ ان کی روحیں اور ان کے ذہن شیطان کے قبضہ میں ہیں۔ جس کے پنجہ سے چھڑانے کی خاطر آپ اس دنیا میں آئے تھے ۔ پس آپ نے بدی کے عوض بدی نہ کی بلکہ ہر ایک سے نیکی کے ساتھ پیش آئے۔انجیل جلیل کی تعلیم آپ کے نمونہ کا عکس ہے ۔ چنانچہ وارد ہوا ہے کہ ’’ اے عزیزو ! انتقام نہ لو بلکہ اگر تیرا دشمن بھوکا ہے تو اس کو کھانا کھلا اگر پیاسا ہے تو اسے پانی پلا بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ بدی پر غالب آ‘‘ (رومیوں ۱۲: ۱۹؛ ۱۔تھسلنکیوں ۵: ۱۵؛امثال ۲۴: ۲۹وغیرہ)۔ کلمتہ الله نے قصاص کے معاملہ میں ایک زرین اصول بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا اور فرمایا۔ کہ جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی وہی ان کے ساتھ کرو ( متی ۷: ۱۲)۔ آ پ نے حکم دیا’’ اپنے دشمنوں سے محبت کرو اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو‘‘(متی ۵: ۴۴؛ لوقا ۶: ۲۷؛ ۱۔کرنتھیوں ۴: ۱۲؛ خروج ۲۳: ۴وغیرہ)۔
(۲)
اس تعلیم کے خلاف اسلام وقرآن قصاص اور انتقام کی تعلیم دیتاہے ۔ ’’مومنو۔ مقتولوں کا قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے ۔ آزاد کے بدلے آزاد ۔غلام کے بدلے غلام ۔ عورت کے بدلے عورت اے عقل مندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے ‘‘ (بقر آیت ۱73تا ۱75)۔ ’’جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو۔ جیسے اس نے تم پر زیادتی کی‘‘(بقر ۱90۔ مائدہ 49)۔’’جو تم بدلہ دو تو اتنا ہی بدلہ دو جس قدر تم کو تکلیف پہنچی ہے اور جو تم صبر کرو تو صبر صابروں کے لئے خوب ہے (نحل ۱۲7)’’جو الله کے پاس ہے ۔ وہ ایمانداروں اور ان کے لئے جو اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ "بہتر اور پائیدار ہے۔ اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ اور جب ان پر زیادتی ہوتی ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں اور بدی کا بدلہ اسی کی مانند بدی ہے ۔ پھر جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر الله پر ہے ۔ جو کوئی ظلم سہنے کے بعد بدلہ لے گا۔ تو ان پر کوئی راہ ملامت نہیں ہے ( شوریٰ 34تا 38)۔
(3)
بیسویں صدی کے آغاز میں قصاص کی تعلیم کی وجہ سے اسلام کو دین ِفطرت کہا جاتا تھا اور مسیحیت کی تعلیم کو خلاف ِفطرت قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن خود ہندوستان میں ہمارے غیر مسیحی ہم وطنوں نے گذشتہ بیس (۲۰)سالوں میں مسٹر گاندھی کی زیر قیادت ستیہ گرہ (حکومت کے خلاف پر امن تحریک ) کی تحریک کے دوران میں سیدنا مسیح کی اس تعلیم پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا جہان پر یہ ثابت کردیاکہ کلمتہ الله کی یہ تعلیم نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ یہی ایک واحد طریقہ ہے جس سے مغلوب غالب پر حقیقی فتح حاصل کرسکتا ہے ۔ چنانچہ لاہور کے مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اسی مضمون پر اپنے ایک مقالہ میں ذیل کے پر زور الفاظ رقم کئےہیں
’’ محکوموں کے پاس ضبط اور انضباط(پیوستگی ،ڈھنگ،ضابطہ) کے ساتھ ایثار وقربانی کی متحدہ طاقت کا مظاہرہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے آگے بڑی سے بڑی جاہ وجلال اور غرور والی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی ہے ۔ اور نیاز مندانہ دست بستہ محکوموں کے آگے کھڑی ہو کر ان کی آرزؤں کو پورا کرنا تخت وتاج کی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے‘‘
(۱7 نومبر ۱9۲9ء)
پس کٹر سے کٹر مخالفین مسیحیت بھی اب تجربہ کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ تعلیم عین ِفطرت کے مطابق ہے ۔کیونکہ جیسا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں ۔ فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ جوں جوں انسان اور اقوام ترقی کی طرف گامزن ہوتے جاتے ہیں ۔ ان میں ضبط کی قوت بڑھتی اور قصاص کا مادہ زائل ہوتاجاتا ہے ۔ اور مزاحمتوں پر غالب آنے کے وسائل زیادہ شائستہ ہوتے جاتے ہیں۔ پس قصاص کی خواہش یہ ثابت کرتی ہے کہ انتقام چاہنے والے کی طبیعت اس کی حقیقی فطرت سے کوسوں دور چلی گئی ہے او رکہ اس کی نشوونما الہٰی منشا کے مطابق نہیں ہوئی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ نیکی کے ذریعہ بدی پر غالب آنے کی اور برا کہنے والوں کو دعا دینے کی اور انتقام کے عوض معاف کرنے کی تعلیم ایسی طبیعت رکھنے والوں کے لئے مشکل ہے لیکن اس کا صحیح علاج یہ نہیں کہ تعلیم کو کوسا اور خواہ مخواہ خلاف فطرت کہا جائے ،بلکہ صحیح علاج یہ ہے کہ طبیعت کو سدھارا جائے تاکہ وہ اپنی اصلی فطرت پر آجائے ۔ خود قرآن عفو اور برداشت کو ’’احسن بات‘‘ قرار دیتا ہے ۔ او رہم کو بتلاتاہے کہ بہشت میں کینہ اور بغض ایمانداروں کے دلوں میں سے نکال دیئے جائیں گے ۔ (اعراف 4۱ ۔حجر 47)جس سے صاف ظاہر ہے کہ کینہ بغض اور قصاص کی خواہش بہشتی اوصاف نہیں۔ یعنی وہ الہٰی منشا اور انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔ لیکن عفو بخشش اور محبت کے اوصاف خدا کے ارادہ اور انسانی سرشت اور فطرت کے مطابق ہیں۔
پس قصاص کی قرآنی تعلیم ثابت کرتی ہےکہ اسلام درحقیقت دین فطرت نہیں۔ اور عفو اور محبت کی انجیلی تعلیم ہی دراصل فطرت کے مطابق ہے ۔
(۱)
لڑاکا پن کی جبلّت اور جہاد کی تعلیم
اسلام میں لڑاکا پن کی جبلّت اپنی خالص عریانی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن میں حکم ہے ’’مسلمانو! جنگ کفار کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے ۔ قوت اور گھوڑے باندھنے کی تیاری کرو ۔ تاکہ ایسا کرنے سے تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو ڈراؤ اور ان کے سوا تم اور لوگوں کو بھی ڈراؤ ‘‘ ( انفال آیت 6۲)۔ ’’اے نبی مسلمانوں کو لڑائی پر ابھارو۔ تم میں سو ہوں تو ہزارکافروں پر غالب ہوں کے‘‘ (انفال 66)۔ مسلمانو ہلکے اور بوجھل ہوکر نکلو اور اپنی جان ومال سے الله کی راہ میں جہاد کرو (توبہ 4۱)۔’’اے نبی کافروں اور منافقوں سے لڑائی کر اور ان پر سختی دکھلا۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ‘‘ (توبہ 74 ۔ تحریم 9)۔’’مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات کی جگہ میں ان کے لئے بیٹھو ‘‘( توبہ 5)۔’’ جب تم کافروں سے بھڑو۔ تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ تم ان میں خوب خونریزی کر چکو۔ تب ان کی مشکیں باندھو ‘‘(محمد 4، بقر ۲45،صف4،توبہ ۱9و۱۱۲، نسا ء 9۱،توبہ 5و۱۱،انبیاء ۱۱۲،حج 40تا 44و 54و77،توبہ ۲۱،۲4و۱۲۱،طور 47،سجدہ ۲۱، عنکبوت 5،نمل ۲05،مومنون 95و97،نسا 76،مائدہ 59،نساء 73تا 83 و96تا 97وغیرہ وغیرہ)۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ بعض مسلمانوں کو لڑاکا پن کی جبلّت کا مظاہرہ اس کی خالص صورت میں بہت برا معلوم ہوا ۔لہٰذا قرآن ایسے اشخاص کو تادیب دیتاہے او رکہتا ہے کہ قتال تم پر فرض ہوا۔ اور وہ تم کو برا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن شاید تم کسی چیز کو برا سمجھو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو۔ اور شاید تم کسی چیز (یعنی صلح اور محبت وغیرہ) کو پسند کرو۔ اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ خدا جانتاہے اور تم نہیں جانتے (بقر ۲۱۲)’’پس تم اے مسلمانو! ان کافروں کو یہاں تک قتل کرو کہ فتنہ (یعنی غلبہ کفر ) نہ رہے ۔ اور سراسر خدا کا دین ہوجائے ‘‘(انفا ل 40)۔
کوئی کہاں تک قرآنی آیات کا اقتباس کرتا جائے ۔ جن میں حکم ہے کہ لڑاکا پن اور غصہ کی جبلّت کا اس کی عریانی صورت میں مظاہرہ کیا جائے اسلام نے خدا اور مذہب کے نام پر جنگ وقتال کو جائز قرار دیا ہوا ہے ۔ آیا ت کی آیات اور سورتوں کی سورتیں جہاد کے آداب واحکام ،جنگ وجدل، اسیر عورتوں کی قسمت ، مال غنیمت کی تقسیم ، قتل وغارت کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں کو اس کام پر ابھارنے کے لئے جو بہترین محرکات ومرغبات قرآن کوملے۔ وہ اس جہان میں اسیر عورتیں اورمالِ غنیمت ہے اور اس جہان میں نعمائے بہشت یعنی شراب اور حور وغلمان ہیں۔
(۲)
جہاد کے متعلق قرآنی آیات اس قدر کثرت اور صراحت ووضاحت سے وارد ہوئی ہیں۔ کہ بیسویں (۲۰)صدی کے مصلحین اسلام کو بڑی دقت پیش آگئی ہے ۔ان مصلحین نے انجیل جلیل سے محبت کا سبق سیکھ لیا ہے ۔ اب ان کی یہ کوشش ہےکہ قرآن کی زبان سے بھی محبت کا سبق نکلوائیں۔ لہٰذا تمام قرآن کو تلاش کرنے کے بعد ایک آیت ان کے ہاتھ لگی ۔ جس میں مرقو ہے ’’ دین میں زبردستی نہیں‘‘ (بقر ۲57)۔ اس آیت کا سہار ا لے کر وہ اس بات کو پیش کرتے ہیں۔کہ اسلام دین کے معاملہ میں جبر کو روا نہیں رکھتا ۔ لیکن تاریخ اسلام ہم کو بتلاتی ہے کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے کی آیت ہے ۔جو مابعد کے قرآنی احکام دربارہ جہاد سے منسوخ ہوگئی۔ چنانچہ حسینی کہتا ہے کہ
’’حکم ایں آیت بآیت قتال منسوخ است ‘‘
شاہ ولی الله بھی حجتہ البالغا باب 73 میں یہی کہتے ہیں۔
’’بعض مصلحین یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی رو سے مخالفین اسلام کو منکر اسلام ہونے کی وجہ سے قتل کرنا جائز نہیں‘‘۔
اس خیال کے جواب میں ہم ان کو عنان توجہ مندرجہ بالا آیات قرآنی کی طرف منعطف(مُڑنے والا) کرتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ وہ ان کو خالی الذہن ہوکر پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ ان کا عذر کہاں تک معقول ہے ۔ بعض یہ عذر کرتے ہیں کہ آیات جہاد کا تعلق اپنی حفاظت کے ساتھ ہے ۔ لیکن قرآنی آیات کے الفاظ اور کتب احادیث وسیر اور اسلامی تاریخ سب کے سب اس کو عذر لنگ(غلط اور لغو عذر) قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ طبری اپنی کتاب میں ہم کو بتلاتا ہے کہ
’’جب محمدﷺ دیکھتے کہ آپ کے احکام کو کفار رد کرتے ہیں۔ اور وہ آپ کی نسبت بدظن ہیں اور برضادورغبت خود دین اسلام میں داخل ہوکر خدا کے فضل سے فیض یاب نہیں ہوتے ۔ تو آپ کو ان کی زبردستی دینِ حق میں داخل کرلیتے ‘‘
یہاں طبری وہی لفظ ’’اکراہ ‘‘استعمال کرتاہے جو آیت’’ لااکراہ فی الدین ‘‘میں آیا ہے ۔اسلامی شریعت دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے ۔ یعنی دارلاسلام اور داراالحرب ۔ دارا لاسلام ودارا الحرب سے اس وقت تک لڑے گاجب تک اس میں ایک شخص بھی زندہ رہے گا۔ اور ساری دنیا داراالاسلام میں داخل نہ ہوگی مصلحین اسلام کے لئے ایک ہی راہ فرار ہے کہ وہ مرزا قادیانی کی طرح قرآنی احکام جہاد وغیرہ کو منسوخ قراردے دیں۔ او ریہ کہہ دیں کہ یہ آیات ان وقتی احکام میں سے ہیں۔ جن کی اب ضرورت نہیں رہی ۔ ورنہ قرآن تو اس بات پر مصر(اصرار کرنے والا) ہے کہ ’’مسلمانوں سے الله نے ان کی جانیں اور مال بعوض بہشت خریدلی ہیں۔ وہ الله کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں‘‘(توبہ ۱۱۲)۔
انجیل میں بھی ہے کہ مسیح نے ہماری جانیں اپنا خون بہا کر اور اپنی بیش قیمت زندگی کو نثار کرکے خریدلی ہیں (اعمال ۲۰: ۲۸)۔ لیکن دونوں خریداروں کے مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔قرآن میں الله نے جانیں خریدی ہیں تاکہ مسلمان لڑیں ، ماریں اور مریں۔ لیکن مسیح نے اس مقصد سے خریدی ہیں تاکہ خون خریدہ’’ اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کرے ‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۶: ۲۰)۔ اور ’’ مسیح کا غلام ہوکر آدمیوں کا غلام نہ بنے ‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۷: ۲۳)۔ یہ جہاد بانفس ہے ۔ ’’ہم اگر چہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں مگر جسم کے طور پر لڑتے نہیں۔ اس لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں ۔ ہم ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنادیتے ہیں‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۳)۔
(3)
مسیحیت اس جبلّت کی اقتضا کو انسان کی روحانی ترقی کو تکمیل تک پہنچانے میں مدد لیتی ہے ۔ تاکہ بنی نوع انسان شیطان اور نفس کے ساتھ جنگ کرکے ان پر غالب آئیں۔ چنانچہ انجیل شریف میں واردہے ۔’’ ایمان کی اچھی کشتی لڑاور ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کرلے ‘‘ (۱۔تیمتھیس ۶: ۱۲؛ یعقوب ۴: ۷ وغیرہ)۔ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں۔ بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھادینے کے قابل ہیں۔ چنانچہ ہم تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے بر خلاف سر اٹھائے ہوئے ہے ڈھادیتے ہیں۔ اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرما نبردار بنا دیتے ہیں (۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۴؛ ۱۔پطرس ۵: ۸؛ افسیوں ۴: ۲۷؛ ۱۔تیمتھیس ۱: ۱۸وغیرہ)۔’’ خداوند میں اور اس کی قدرت کے زور میں مضبوط بنو۔ خدا کے سب ہتھیار باند ھ لو۔ تاکہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلے میں قائم رہ سکو ۔ کیونکہ ہم کو خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنی۔ بلکہ شرارت کی روحانی فوجو ں سے اس واسطے تم خدا کے سارے ہتھیار باندھ لو۔ پس سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راست بازی کا بکتر لگا کر اور پاؤں میں صلح کی خوش خبری کی تیاری کے جوتے پہن کر اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔ جس سے تم اس شریر کے سارے جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو ۔نجات کا خود اور روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو ‘‘(افسیوں ۶: ۱۰)۔ پس مسیحیت جنگ جوئی کی جبلّت کے اقتضا کو روحانی ترقی کے حصول کےلئے استعمال کرتی ہے ۔ امریکہ کا مشہور عالم نفسیات پروفیسر جیمس کیا خوب لکھتا ہے کہ
’’ دنیا کو جنگ کی ضرورت نہیں بلکہ جنگ کےاخلاقی مترادف کی ضرورت ہے ‘‘۔
پس مسیحیت اس جبلّت کی رحجان کو ایسے مقصد کی جانب راغب کرتی ہے جومنشائے الہٰی کے مطابق ہے ۔ اور اس جبلّت کی فطرت کا حقیقی تقاضا ہے ۔ اور یوں دین ِفطرت کی صلاحیت رکھنے کا ثبوت دیتی ہے ۔
مسیحیت اور رقابت کا جذبہ
انسانی معاشرت کی تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ جوں جوں اقوام ترقی کرتی ہیں ضبط کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ اور رقابت کا جذبہ انسانوں اور جماعتوں کی زندگی میں جنگ جوئی کی جبلّت کی جگہ غضب کرلیتا ہے ۔ مسیحیت نے رقابت کے جذبہ کو بھی انسان کی روحانی ترقی کے حصول کی خاطر استعمال کیا اور یوں دین فطرت ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ چنانچہ مقدس پولُس فرماتاہے ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ میدان میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں۔ مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے تم بھی ایسے ہی دوڑو کہ جیتو۔ ہر پہلو ان سب طرح کا پرہیز کرتا ہے ۔ وہ لوگ مرجھانے ولا سہرا پانے کے لئے یہ کرتے ہیں مگر ہم اس سہرے کے لئے کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۵)۔ ’’ آؤ ہم ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے ۔ دور کرکے صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے ‘‘ (عبرانیوں ۱۲: ۱؛ گلتیوں ۲: ۲؛ ۵: ۷؛ فلپیوں ۲: ۱۶وغیرہ)۔
لڑاکا پن کی جبلّت اور بنی نوع انسان کی بہبودی کے لیے مسیحی اور اسلامی مساعی
اس فصل کے شروع میں ہم لکھ آئے ہیں۔ کہ اگر غصہ اور جنگ جوئی کی جبلّت کا رحجان دیر جبلّی میلانات کے اغراض کے حصول کی جانب راغب کیا جائے۔ تو یہ جبلّت نہایت کار آمد ثابت ہوتی ہے ۔دینِ فطرت کا یہ کام ہے کہ اس جبلّت کی اقتضا کی توانائی کے ذریعہ دوسری اقتضاوں کے حاصل کرنے میں جو مشکلات سد راہ ہوتی ہیں۔ ان پر ہم غالب آجائیں۔ مسیحیت اس اقتضا کو بنی نو ع انسان کی فلاح وبہبودی کے لئے استعمال کرتی ہے ۔تاکہ انسانی ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں۔ وہ دو ر ہوجائیں اور خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوجائے۔ مسیحیت ہی کا یہ طغرائے امتیاز ہے کہ جہاں وہ غربت ،افلاس ، ناپاکی ، پلیدگی ، بدی ،شرارت ،غلاظت ،بیماری ،جہالت ، قبیح رسوم ، یا برے رواج وغیرہ کو دیکھتی ہے ۔ وہ اس جبلّت کی اقتضا کا استعمال کرکے ان برائيوں کے خلاف جنگ کا اعلان کردیتی ہے۔ مسیحی سکول ، ہسپتال، انجمنیں ، مجالس۔ بین الاقوامی مظاہرے ان کا قلع قمع کرنے کے لئے صف آرا ہوجاتے ہیں۔ اور منظم طور پر ان کو شکست دینے کے لئے جہاد کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی اچھوت ذاتوں میں چین وجاپان کے بھوت پریت ماننے والوں میں افریقہ کی خونخوار اور مردم خوروحشی اقوام میں غرضیکہ مسیحیت نے روئے زمین کی ادنیٰ ترین مفلس ترین ،حقیر ترین ، رذیل ترین اقوام کو ہر ممکن طور پر اور ہر پہلو سے بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ صرف مسیحیت کی مساعی جمیلہ کی وجہ سے دنیا اور بالخصوص ہندوستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس سے کسی صاحب کو انکار کی مجال نہیں ۔ چنانچہ مسٹر ایم سی راجہ نے گذشتہ سال اسمبلی میں اچھوت ادھار بل پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
’’ جنوبی ہند میں اول اول مسیحی کلیسیا کے مشن سکولوں نے اچھوت ذات کے طالب علموں کو مساعی اور برابر حقوق عطا کئے ‘‘۔
ہندو دھرم ہزاروں سالوں سے ہندوستان میں چلاآیا ہے ۔ لیکن اس نے اچھوتوں کو مساوی حقوق نہ دیئے ۔ چنانچہ مسٹر ایم کے منشی نے ہندو ینک مین ایسوسی ایشن کے خطبہ صدارت میں کہا
’’ اچھوت کا تعلق ایک خاص نظام سے متعلق ہے ۔چونکہ ہم اس نظام کی فضا میں رہتے ہیں۔ لہٰذا ہم اچھوت کے گھنونے پن کو بخوبی محسوس نہیں کرسکتے ۔ اس نظام کا تعلق سوسائٹی کی درجہ بندی کے ساتھ ہے ۔ جو صدیوں سے ہمارے ملک میں رائج ہے ۔ اس نظام کے مطابق کروڑوں آدمی اور عورتیں انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ یہ نظام انسانیت کے عین متضاد ہے ۔ اور اس مجرمانہ سلوک کا ذمہ دار ہے ۔ جو انسان اپنے بھائی انسان کےساتھ سالہاسال سے کرتا چلاآیا ہے۔ ایسے نظام کا تعلق وحشیانہ زمانہ کے ساتھ ہے ۔ لیکن ہم دورحاضرہ میں ایک نئی دنیا میں بستے ہیں۔ اب افراد کی قدر اور منزلت بہ حیثیت افراد کے ہوتی ہے۔ انسان کسی دوسرےمقصد کی خاطر آلہ کار نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان ایک توانا اور قومی قوم بن جائے ۔جو شخص اچھوت کا عامی ہے ۔ وہ قوم کا دشمن ہے ۔ اور دور حاضرہ میں رہنے کے لائق نہیں۔ اگرہندو دھرم چھوت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتاہے اور اگر اس کے شاستروں کے مطابق اچھوت دیوتاؤں کا درشن بھی نہیں کرسکتے ۔ تب ہندو دھرم کے زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ کیونکہ وہ مذہب جس کی بنیاد انسانوں کے امتیاز پر ہے۔ درحقیقت تمام مقدس پاکیزہ لطیف تصورات اور جذبات کے منافی ہے ‘‘۔
(Trilume Feb 26 ۱934)
مسٹر گاندھی نے جنوبی ہند میں دور ہ کرتے وقت کہا کہ
’’ کسی شخص کو مسیحی اچھوت کہنا اجتماع الضدین ہے‘‘۔
گذشتہ سال نواب ذوالقدر جنگ بہادر وزیر حضور نظام نے ایک تقریر کے دوران میں کہا
’’ حضور نظام کی سرکار نے اپنی تمام رعایا کو ایک ہی نظر سے دیکھا ہے اور اس بات کی ہمیشہ خواہشمند رہی ہے ۔ کہ ہر شخص کو یکساں طور پر موقعہ دیا جائے‘‘ ۔
لیکن آپ خیال کرسکتے ہیں کہ سرکار نظام کے لئے اچھوت ذاتوں کے حق میں ہندوؤں کے نکتہ نگاہ نے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ کیونکہ مذہبی امور میں مداخلت کرناسرکار کے اصول کے خلاف ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہےکہ اگر چہ ہم ان بیچاروں کی طرف سے لاپروا نہیں رہے۔ اور حتی الامکان ان کے خیر خواہ رہے ہیں۔ تاہم درحقیقت مسیحی مبلغین کی مساعی جمیلہ ان کی موجودہ ترقی کی ذمہ دار ہیں۔ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کے نکتہ نگاہ میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ وہ بھی مسیحیت کےمشنریوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔خواہ ہم اس حقیقت کو پسندیدگی سے دیکھیں یا نا پسند کریں ۔ ہم کو اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ اوراس میں رتی بھر شک نہیں۔ کہ مستقبل زمانہ کے مورخین مسیحیت کے مبشروں اور مبلغوں کے مساعی کا جو انہوں نے بنی نوع انسان کی ترقی کی خاطر کی ہیں۔ نہایت پرزور الفاظ میں ذکر کریں گے ۔ (Guardian Feb/8/1934)ہندو مذہب اس ملک میں ہزاروں سالوں سے چلا آیاہے ۔ اسلام صدیوں تک اس پر حکمران رہا ۔ لیکن جو کام مسیحیت نے گذشتہ پچاس سال کے اندر کر دکھایا ہے ۔ وہ ان مذاہب سے صدیوں میں نہ ہوسکا۔ اور نہ ان مذاہب کے دل میں اس کام کا بیڑا اٹھانے کا خیال تک آیا۔ مسیحی کلیسیا کی دیکھا دیکھی اسلامی انجمنیں اور ہندو سماجیں قائم ہوگئی ہیں۔ لیکن باوجود اپنی اکثریت اور سرمایہ داری کے کسی کام کو سر انجام نہیں دے سکتیں۔ کیونکہ ان میں مسیحیت کے محرکات مفقود ہیں۔ اسلام تقدیر کا قائل ہے تقدیر اس کے صف ایمان کا چھٹا جزو ہے ۔ امنت ب’’ا الله وملائکہ وکتبہ ورسلہ وبالیوم الاخرہ والقدر خیر بشرہ من الله تعالیٰ والبعث بعد الموت ‘‘۔لہٰذا یہ کام اس سے کسی طرح بھی سر انجام نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ تقدیر کی نسبت قرآن میں آیا ہے کہ ہمارا حال وہی ہوگا۔ جو الله نے ہمارے لئےلکھا ہے ‘‘ (توبہ 5۱)۔ ہر آدمی کا پرندہ (تقدیر ) الله نے اس کی گردن میں لٹکادیا ہوا ہے ۔(بنی اسرائیل ۱4)۔ ’’ہم نے ہر شے ایک اندازہ سے پیدا کی ہے ‘‘ (قمر 49)۔ ’’الله نے اندازہ کے مطابق پیدا کیا۔ اور ان کی تقدیر مقرر کی ‘‘ (اعلی ٰ ۲)۔ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ تو وہاں کے دولت مندوں کو حکم دیتے ہیں۔ تب وہ اس میں نا فرمانی کرتے ہیں۔ تب ان پر وعدہ عذاب ثابت ہوجاتا ہے ۔ پھر ہم ان کو اکھاڑ پھینکتے ہیں۔(بنی اسرائیل ۱7) خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت بخشی ہے ۔ تم اس کی تمنا نہ کرو۔(نساء 36، اعلیٰ ع ۱) تم کسی چیز کو نہ چاہو گے ۔ جب تک خدانہ چاہے ۔جس کو الله نے گمراہ کیا۔ اس کے لئے کوئی راہ نہیں (شعوریٰ 45) ’’تو اے (محمد) کہہ دے کہ سب کچھ خدا ہی کی طرف سے ہے ‘‘ ( اگر ان کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے توکہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے ۔ اور اگر ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ (اے محمد) یہ تیری طرف سے ہے ۔ تو کہہ سب بھلائی اور برائی الله کی طرف سے ہے ۔ اس قوم کو کیا ہوگیا ہے ۔ کہ یہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ (نسا آیت 80) مشکواة باب القدر میں حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا
’’ کوئی بندہ مومن نہیں ۔ جب تک وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے ۔ یعنی وہ گواہی دے کہ الله کے سوائے کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اس کا برحق رسول ہوں۔ اور وہ ایمان لائے ساتھ مرنے کے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کے اور تقدیر پر ایمان لائے ۔ یہ ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ ابن عمر سے راویت ہے کہ رسول خدا نےفرمایا کہ ہر چیز تقدیر کےساتھ ہے یہاں تک کہ نادانی اور دانائی بھی ۔ یہ مسلم نے روایت کی ہے ‘‘۔
(مشکواة باب القدر )
چونکہ اسلام تقدیر کے قرآنی مسئلہ کا قائل ہے لہٰذا وہ گمراہوں ۔مقہوروں، مغضوبوں ،بیماروں ،مظلوموں و غیرہ کو ان کی قسمت پر ہی چھوڑدیتا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ گو اسلام ہندوستان میں صدیوں تک حکمران رہا ۔ لیکن اس نے ہندوستان کے بدقسمتوں اور بد نصیبوں کے لئے کچھ نہ کیا۔ مسیحیت تقدیر کے مسئلہ کی قائل نہیں ۔لہٰذا وہ مخالف حالات کے سامنے نا امید ہوکر مایوسی کی حالت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی نہیں رہتی ۔ بلکہ ان کے خلاف لگاتار جنگ کرکے ان سفلی طاقتوں پر فتح حاصل کرلیتی ہے ۔ جو مذہب تقدیر کے مسئلہ کا قائل ہے ۔وہ سرے سے دین فطرت ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ۔ وہ جبلّت جنگجوئی کی اقتضا کو انسانی ترقی کے وسائل مہیا کرنے کی جانب راغب ہی نہیں کرسکتا ۔ حق تو یہ ہےکہ جس طور پر مسیحیت جنگجوئی کی جبلّت کی اقتضا کو بنی نوع انسان کی رفا ہ عام اور بہبودی کی خاطر استعمال کرسکتی ہے ۔ وہ کسی اور مذاہب سے نہیں ہوسکتا ۔ جناب مسیح کی زندگی پر غور کرو۔ آپ کا ہر معجزه ترس ، رحم اور محبت کے جذبات کے جو ش زن ہونے کانتیجہ تھا ۔ کلمتہ الله نے یہ معجزات اپنی نبوت اور رسالت یا ابنیت کو ثابت کرنے کے لئے نہیں کئے ( متی ۱۲: ۳۸) بلکہ آپ کے معجزات آپ کی محبت کا قدرتی اظہار تھے اگر کوئی بیمار کوڑھی ، مفلوج، اندھا ، بہرا ،گونگا وغیرہ آپ کے پاس سے گذرتا تو آپ کی محبت کا اقتضا یہ تھا کہ آپ اس کو شفا بخشیں۔ پس جب مسیحیت کی ’’ نجات کا کپتان (عبرانیوں۲: ۱۰) اور اس کے وفادار رسول ’’اچھی لڑائی لڑے ‘‘(۲۔تیمتھیس ۴: ۷) تو مسیحی کلیسیا ان کے نقش قدم پر چل کر اور ’’اپنے ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے مسیح‘‘ (عبرانیوں ۱۲: ۲) سے توفیق حاصل کرکے جہالت غلاظت بیماری ، افلاس ، لاچاری وغیرہ کی افواج پر حملہ کردیتی ہے ۔
نتیجہ
ہم نے اس فصل میں مسیحیت کی تعلیم پر اس جبلّت کے مختلف پہلوؤں کی روشنی میں نظر کی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جس پہلو سے بھی لڑاکا پن اور غصہ کی جبلّت ۔۔۔۔۔ پر نظر کی جائے۔ مسیحیت دین ِفطرت ہونے کا ثبوت دیتی ہے ۔ اور اسلام کسی پہلو سے بھی دین ِفطرت ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مسیحیت جنگجوئی کی جبلّت کی تربیت کرتی ہے اور ضبط کی طاقت کو بڑھاتی ہے ۔ تاکہ یہ جبلّت اپنی عریانی صورت میں محرک اولیٰ نہ رہے ۔ مسیحیت صرف جائز غصہ کی اجازت دیتی ہے ۔ اور وہ بھی جب وہ محبت کا ظہور ہو۔ لیکن اسلام انتقام اور قصاص کی تعلیم دیتا ہے جہاد کی طرف لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے ۔ اس کے برعکس مسیحیت جہاد بالنفس کی تلقین کرتی ہے ۔ جنگجوئی کے بجائے روحانی رقابت کے جذبہ کو ترقی دیتی ہے ۔ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کی فلاح اور بہبودی میں حددرجہ تک کوشاں ہوتی ہے ۔ لہٰذا جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ صرف مسیحیت میں ہی یہ صلاحیت ہے کہ وہ دین فطرت کہلائے ۔
فصل ششم
استفسار کی جبلّت
استفسار کی جبلّت کی خصوصیات
انسانی فطرت میں یہ ایک طبعی میلان ہے کہ جس چیز کو انسان نہیں جانتا یا جوشے اس کے لئے اجنبی یا غير مانوس اور غير معمولی ہوتی ہے ۔ اس کی نسبت وہ تجسس اور استفسار (دریافت کرنا،پوچھ گچھ) کرتاہے۔ اس جبلّت کا یہ اقتضا ہے کہ کسی غیر معلوم شے کی نسبت علم بہم پہنچایا جائے ۔اس جبلّت کے ساتھ تعجب اور حیرت کا جذبہ مخصوص ہے ۔ اور ہر ایسی چیز اس جبلّت کی محرک ہوسکتی ہے ۔ جو ان چیزوں سے جن سے انسان مانوس ہے ۔ مشابہت اور اختلاف دونوں رکھتی ہو۔ مثلاً اگر راہ چلتے کسی شخص کو ایسی چیز مل جائے ۔ جو اس کے لئے اجنبی ہو تو وہ فوراً اس کی نسبت تعجب اور استفسار کرتا ہے ۔ اپنی عقل کو دوڑاتا ہے تاکہ اس کو یہ علم ہوجائے کہ وہ شے کیا ہے ۔ نئی باتیں اور نئی چیزیں اس جبلّت کی خاص طور پر محرک ہوتی ہیں۔ اسی جبلّت کی وجہ سے بچے ہر غیر مانوس اور غیر معمولی بات کی نسبت اپنے بڑوں سے سوال پو چھ کر ان کا دم ناک میں کردیتے ہیں ۔ بعض اوقات جب وہ ان سوالوں کا جواب دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ تو ان کو جھڑک کر چپ کروادیتے ہیں۔ عدم استعمال کی وجہ سے یہ جبلّت بڑوں میں کمزور ہوجاتی ہے ۔ لیکن اگر ہم اس کا استعمال جاری رکھیں ۔ تو یہ جبلّت عقلی قوت اور ذہنی مساعی(کوشش) کا سرچشمہ ہوجاتی ہے ۔ اسی جبلّت کی طفیل ہماری عقل رسا آسمان اور زمین کی باتیں دریافت کرتی ہے ۔ نئے نظریہ جات قائم کرتی ہے ۔ اسی جبلّت کی وجہ سے سائنس نئی باتوں کو آئے دن دریافت کرتی رہتی ہے ۔جن کو سن کر اور دیکھ کر ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔ علم اور ہنر صنعت وحرفت کی ترقی اس جبلّت کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اسی جبلّت کی وجہ سے انسان اپنی زندگی کو معرض خطر میں ڈال کر کبھی کو ہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی قطب شمالی پر ڈیرا ڈالنے کی امنگ رکھتاہے ۔ تمام اعلیٰ ترین بے غرض عقلی کوششیں اسی جبلّت کی اقتضا کا نتیجہ ہیں۔
(۲)
جس طرح اس جبلّت کو سائنس کی ایک اصل اور جڑ تصور کرناچاہیے ۔ اسی طرح مذہب اور دینیات کے معاملہ میں بھی یہ جبلّت اصل اور جڑ کا کام دیتی ہے ۔ سائنس دیدنی اشیا کی نسبت یہ تجسس اور استفسار کرتی ہے کہ یہ بیرونی اشیا کس طرح ، کہاں ، اور کب وجود میں آئیں۔ اور مختلف جوابوں کو ایک نظام میں منسلک کرنا چاہتی ہے ۔مذہب اشیا کی نسبت اس امر کا متجسس ہے کہ یہ اشیا کیوں وجود میں آئیں ۔ان کا مبدا اور انتہا ان کی غرض اور غایت کیا ہے ۔ فطرت کا مافوفق الفطرت کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ اور اس تعلق کے کیا نتائج ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پس انسانی سرشت میں اس جبلّت کو سائنس اور مذہب دونوں کی ایک اصل اور جڑ تصور کرنا چاہیے ۔
پس ظاہر ہے کہ جس مذہب میں عقل کو یہ جابرانہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم ہمارے معاملا مات میں دخل نہ دو ۔ وہ ہر قسم کی تحقیقات اور اجتہادات سے مطمئن تو رہتا ہے ۔ لیکن ایسا مذہب فطرت کے خلاف ہوتاہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص منطق فلسفہ ،ریاضیات، سائنس وغیرہ میں عجیب وغریب ایجادات کرتا ہے ۔ لیکن جہاں مذہب کاتعلق آیا ۔ اس کی عقل کند اور نکتہ بینی بالکل بیکار پڑجاتی ہے ۔ عقل کی متواتر بیکاری کی وجہ سے وہ مذہب لغو عقاید توہمات اور عجائب پرستی اور ناممکنات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔
(3)
یہ ظاہر ہے کہ استفسار کی جبلّت کا رحجان ادنیٰ ، کم مایہ اور بے حقیقت امور کی جانب راغب نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہم کو اس جبلّت کو خواہ مخواہ دبانا اور روکنا بھی نہیں چاہیے ورنہ اس سے نقصان عظیم پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ واجب یہ ہے کہ جب ہمارے بچے ہم سے مختلف قسم کےسوالات پوچھیں۔ توہم ان کو حتی الامکان درست اور صحیح جواب دیں۔ ہم کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کی نسبت مستفسر ہوں اور ان کی جبلّت استفسار ایسی باتو ں کی طرف راغب ہو جو کم مایہ اور ہیچ نہ ہوں۔ بلکہ ان کے جسم ، ذہن اور روح کی ترقی کا باعث ہوں۔ تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ ان امور پر غور کریں ۔ جو انسان کی بہبودی کا باعث ہیں تاکہ ان کی بے غرض عقلی کوششوں نےنوع انسان ترقی پائے ۔ بچوں کو جواب دینے کی بجائے ان کو جھڑک دینا اور ان کو خاموش ہوجانے کا حکم دینا اوریوں استفسار کی جبلّت کو دبانا فطرت کے خلاف ہے۔
جبلّت تجسس اور دین فطرت کے لوازمات
پس دین فطرت کے لئے لازم ہے کہ استفسار کی جبلّت کو میدان عمل میں آنے کی اجازت دے ۔ اپنےاختیار کے رعب سے اس خداداد جبلّت کو نہ دبا جائے اور نہ روکے ۔ برعکس اس کے تجسس وتفحص(تلاش) استفسار ،تعجب اور حیرت کے جذبات کی نشو ونما اور ترقی میں کوشاں رہے ۔ اس کا یہ بھی کام ہے کہ جبلّت استفسار کا رحجان ادنیٰ ، کم مایہ اور ہیچ اور بے حقیقت اشیا کی طرف سے ہٹا کر اہم اور ضروری امور کی جانب راغب کرے ۔ اور چونکہ مذہب کا تعلق عالم روحانیا ت سے ہے ۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم دینِ فطرت کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کرسکیں ۔ پس دینِ فطرت کے اصول ایسے ہونے چاہئیں۔ جن کو عقل ِسلیم نہ صرف قبول کرسکے ۔ بلکہ جبلّت ِتجسس کوکام میں لاکر ان اصول کا اطلاق مختلف ممالک واقوام کےمختلف حالات پر کرسکے۔
(۱)
جبلّت تجسس اور مسیحیت
جناب مسیح کے زمانہ میں دینی معلموں کا طبقہ زیادہ تر فریسیوں اور فقہیوں پر مشتمل تھا۔ یہ طبقہ شریعت اور صحائف انبیا ء کے علاوہ کتب فقہ پر اس قدر زور دیتا تھا(متی ۱۵: ۲؛ مرقس ۷: ۳وغیرہ) کہ عوام الناس پر انہوں نے عرصہ حیات کو تنگ کردیا تھا (لوقا۱۱: ۴۶)۔ یہودی علما کا یہ طبقہ پرلے درجے کا رجعت (واپسی)پسند واقع ہوا تھا۔ اسلاف کے کے اقوال ان کو ازبریاد(زبانی یاد کر لینا) تھے۔ مروجہ عقائد سے باہر قدم رکھنا ان کے نزدیک گناہ کبیرہ سے کم نہ تھا۔بات بات پر وہ متقدمین کی سند مانگتے اور پیش کرتے تھے ۔جبلّت استفسار اور تجسس کو زائل(دور ہو نے والا،کم ہونے والا) کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ(معمولی بات،باریکی) باقی نہیں رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی مثالیں وہی تھی۔
درپس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند
آنچہ استاد ازل گفت ہماں میگویم
لیکن انجیل جلیل کا سرسری مطالعہ بھی غبی سے غبی شخص پر ظاہر کردیتاہے کہ کلمتہ الله کا طرز کلام اس قسم کا نہ تھا۔ آپ عوا م الناس کے سامنے جو اپنی زبان معجز بیان کھولتے تو لوگ بے ساختہ پکار اٹھتے کہ ان کو ’’فقہیوں کی طرح نہیں بلکہ صاحب اختیار لوگوں کی طرح تعلیم‘‘ دیتے تھے ( مرقس ۲: ۷) آپ نہ تو کسی مروجہ عقیدے کا اس کے رواج کی بنیاد پرلحا ظ کرتے ۔ اور نہ اسلاف کی سند کا خیال کرتے۔آپ کی نکتہ رس نگاہ جبلّت تجسس کو کام میں لاکر سطحی اور ظاہری امور کو نظر انداز کردیتی اور باطنی اور روحانی اصول کو مضبوطی سے تھام لیتی ۔ مثلاً سبت کےاحکام ، حرام ، حلال، خوراک ، اور اشیا کے احکام، رسمی پاکیزگی کے احکام عورت بیاہ اورطلاق کے احکام، وغیرہ یہود کے ساتھ تمدنی اور مذہبی تعلقات کےاحکام نماز، روزہ ، خیرات کے احکام وغیرہ وغیرہ پر نظر کرو ۔ تو ظاہر ہوجائے گا کہ کلمتہ الله نے دنیائے اخلاق کو ایک تنگ وتاریک چاہ سے نکالا جہاں اخلاقیات کے اصول زمان ومکان کی قیود میں جکڑے ہوئے تھے اور شریعت اور رسوم اور فقہ کے ’’بھاری بوجھ‘‘ تلے دب کر دم دے رہے تھے ۔ ابن الله نے اپنے مسیحائی دم سے اس نیم مردہ بدن میں روح پھونک دی اور ان کو اس قابل بنادیا کہ عالمگیر اصول ہوکر تمام دنیا پر تاابد حکمرانی کریں۔
(۲)
کلمتہ الله نہ صرف خود جبلّت تجسس واستفسار کوکام میں لاتے تھے۔ بلکہ آپ کی یہ عین خواہش تھی کہ آپ کے حوارئین اور سامعین بھی اس خدا داد جبلّت کوکام میں لائیں ۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے تھے۔ ا ن کی نسبت آپ نے افسوس ظاہر کرکے فرمایا’’ وہ دیکھتے ہیں لیکن تاہم نہیں دیکھتے ۔ وہ سنتے ہیں تاہم نہیں سنتے ۔ اور نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے اپنی آ نکھیں بند کرلی ہیں۔ اور کانوں سے اونچا سنتے ہیں۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کرلیں اور کانو ں سے سنیں ۔ اور دل سے سمجھیں ‘‘ (متی ۱۳ باب)۔آپ نے اپنے مخالفین کو مخاطب کرکے فرمایا ’’کتاب مقدس کو ڈھونڈو‘‘ (یوحنا ۵: ۳۹)۔ اورتلاش کرنےوالوں کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ ’’ ڈھونڈو تو پاؤ گے ۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا‘‘ (لوقا۱۱: ۹) ۔ او رکہا کہ ’’اگر کوئی خدا کی مرضی پر چلنا چاہے ۔ تو وہ تعلیم کی بابت جان جائے گا ‘‘(یوحنا ۷: ۱۷) منجی عالمین نے فرمایا کہ’’ راہ حق اور زندگی میں ہو ں‘‘(یوحنا ۱۴: ۶) ۔’’ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد برحق اور عیسی ٰمسیح کو جسے تونے بھیجا ہے جانیں۔ جو کلام تونے مجھےپہنچایا وہ میں نے ان کو پہنچادیا اور انہوں قبول کرلیا اور سچ جان لیا‘‘(یوحنا۱۷ باب)آپ نے شاگردوں کو فرمایا’’ اگر تم میرے کلام پر قائم رہوگے تو سچائی سے واقف ہوگے۔ اور سچائی تم کو آزاد کرے گی‘‘ (یوحنا ۸: ۳۱)۔پس اس تعلیم کے مطابق جبلّت تجسس واستفسار ’’تمام سچائی ‘‘ کی جستجو میں (یوحنا ۱۶: ۱۳) منجی عالمین کی روح کے عین منشا کے مطابق کار پرداز ہے ۔ آں خداوند کے وعدہ کے مطابق روح ِحق ہم کو تمام سچائی کی راہ دکھاتا ہے (یوحنا ۱۶: ۱۳) کیونکہ ’’فضل اور سچائی صرف مسیح کی معرفت ہم کو ملی‘‘ (یوحنا ۱: ۱۷)۔ منجی عالمین کی تعلیم ہماری جبلّت استفسار کو راہ صداقت میں چلا کر ہماری تعلیم وتربیت کرتی ہے ۔ (زبور ۲۵: ۵ ؛ ۸۶: ۱۱)۔کلمتہ الله کی روح نے ہر زمانہ میں ہر ملک وقوم اور ملت کو الہٰی معرفت بحشی اور ان اقوام کےسوالات کاان کی ضروریات کے مطابق جواب دیا (مرقس ۱۳: ۱۱؛ متی ۱۰: ۱۹وغیرہ)۔
(3)
کتاب مقدس جبلّت تجسس کے استعمال پر جا بجا زور دیتی ہے اور اس کے نیک نتائج سے ہم کو آگاہ کرتی ہے ۔مثلاً ہم خدا کے گھر میں داخل ہوں ۔ تو وہ اپنی راہیں ہم کو بتائے گا(یسعیاہ ۲: ۳) ۔ ’’جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے ۔ اسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمو رہوگی‘‘(یسعیاہ ۱۱: ۹) ۔ ’’خداوند فرماتا ہے کہ جو فخر کرتاہے اس پر فخر کرے کہ وہ سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ میں ہی خداوند ہوں جو دنیا میں شفقت وعدل اور راستبازی کو عمل میں لاتا ہوں‘‘(یرمیاہ ۹: ۲۴) ۔’’اہل دانش نور فلک کی مانند چمکیں گے اور وہ جن کی کوشش سے بہتیرے صادق ہوگئے ہیں۔ ستاروں کی مانند ابدالاآباد تک روشن ہوں گے ‘‘(دانی ۱۲: ۱۳)۔ ’’آؤ ہم دریافت کریں ۔۔۔اور خداوند کے عرفان میں ترقی کریں۔ اس کا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے ۔ خدا کا عرفان قربانیوں سے زیاد ہ پسندیدہ ہے ۔(ہوسیع ۶: ۳)۔ مقدس پولُس کہتاہے کہ ’’ہم کاملوں میں حکمت کی باتیں کہتے ہیں لیکن اس جہان کی اور اس جہان کے نیست ہونے والے سرداروں کی حکمت نہیں بلکہ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بیان کرتے ہیں جس کو اس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا ۔ ہم نے وہ روح پایاہے جو خد ا کی طرف سے ہے تاکہ ان باتوں کو جانیں۔جو خدا نے ہم کو عنایت کی ہیں۔ ہم روحانی باتوں کے ذریعہ روحانی باتوں کا بیان کرتےہیں۔ مگر نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا ۔ کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہے (۱۔کرنتھیوں ۲ باب)۔ پس ظاہر ہے کہ مسیحیت ہر ایک شخص کو حکم دیتی ہے ۔ وہ آزادانہ استفسار کیا کرے ۔ ’’اے عزیزو ہر ایک روح کا یقین نہ کرو۔ بلکہ روحوں کو آزماؤ اورپرکھو ‘‘(یوحنا ۴: ۱؛ ایوب ۳۴: ۴وغیرہ)۔’’سب باتوں کو پرکھو اور آزماؤ جو اچھی ہے ۔ اسے پکڑے رہو‘‘(۱۔تھسلنکیوں ۵: ۲۱؛ افسیوں ۵: ۱۰؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۱۰؛ ۱۴: ۲۹؛ مکاشفہ ۲:۲وغیرہ) حکمت سے گھر تعمیر کیا جاتا ہے ۔ فہم سے اس کو قیام ہوتا ہے ۔ علم سے لطیف ونفیس ہوتاہے۔ دانا آدمی زور آور ہے اور صاحب علم کا زور بڑھتا رہتا ہے (امثال ۲۴: ۳)۔’’دانائی اور تمیز کی حفاظت کر ۔ ان کو اپنی آنکھوں سے اوجھ نہ ہونے دے ۔ وہ تیری جان کی حیات اور تیرےگلے کی زینت ہوں گی ‘‘ ( امثال ۳: ۲۱)۔’’ تو حکمت کی طرف کان لگا فہم کی طرف دل لگا عقل کو پکار ۔ اور اس کو ایسا ڈھونڈ جیسے چاندی کو، اور اس کی ایسی تلاش کر جیسی پوشیدہ خزانوں کی ۔ تو تو خدا کی مرضی کو حاصل کرے گا۔ کیونکہ خدا وند حکمت بخشتا ہے ۔ علم وفہم اس کے منہ سے نکلتے ہیں‘‘ ( امثال ۲: ۳) ’’صاحب فہم کا دل علم کا طالب ہے ۔ پر احمقوں کی خوراک حماقت ہے (امثال ۱۵: ۱۴)۔’’ہوشیار کا دل علم حاصل کرتاہے ۔ اور دانا کے کان علم کے طالب ہیں‘‘( امثا ل ۱۸: ۱۵)۔’’ اے خدامجھے صحیح امتیاز اور دانش سکھلا ‘‘(زبور۱۱۹: ۶۶وغیرہ)۔’’ اے خدا مجھے سمجھنے والا دل عطا کر تاکہ میں برے اور بھلے میں امتیاز کرسکوں‘‘ (۱۔سلاطین ۳: ۹)۔’’ خداوند فرماتاہے کہ تونے معرفت کو رد کیا۔ اس لئے میں بھی تجھے رد کروں گا۔ میرے لوگ عدم معرفت سے ہلاک ہوئے‘‘ (ہوسیع ۴: ۶)۔’’ حکمت تیرے دل میں داخل ہو۔ علم تیری جان کو مرغوب ہو ۔ تمیز نگہبان ہو۔ فہم تیری حفاظت کرے (امثال ۲: ۱۰)۔’’ حکمت حاصل کر۔ فہم حاصل کر‘‘ (امثال ۴: ۵)۔ ’’تحقیق اور تفتیش کر۔ دانش افزوں ہوگی‘‘ (دانی ایل ۱۲: ۴)۔ خالق نے جبلّت استفسار ہمارے اندر اس غرض سے نہیں رکھی کہ اس کا گلا گھونٹ کردبادیا جائے ۔ مقدس پولُس علم اور تجسس واستفسار کو خدا کی بخشش اور نعمت قرار دیتا ہے (۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۶)۔ اور فرماتاہے ’’تجربہ سے علم حاصل کرتے رہو‘‘( افسیوں ۵: ۱۰)۔ ’’نبیوں کے کلام کو پرکھو‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۴: ۲۹)۔ علم کی شيخی کے خلاف خبردار کرکے فرماتاہے کہ’’ اگر کوئی گمان کرے کہ میں کچھ جانتا ہوں تو جیسا جاننا چاہیے ویسا اب تک نہیں جانتا۔ لیکن جو کوئی خدا سے محبت رکھتاہے ۔ اس کو وہ پہچانتاہے‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۸: ۲) ۔ ’’اے بھائیوں تم سمجھ میں بچے نہ بنو۔ بلکہ سمجھ میں جوان بنو‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۲۰)۔ ’’اس وقت خدا سے ناواقف ہو کر تم ان معبودوں کی غلامی میں تھے ۔ جو اپنی ذات سے خدا نہیں مگر تم نے خدا کو پہچانا اور خدا نے تم کو پہچانا ‘‘ (گلتیوں ۴: ۸) ۔ ’’تم نادان بے سمجھ مت بنو۔ بلکہ خداوند کی مرضی کو سمجھو کہ کیا ہے ‘‘( افسیوں ۵: ۱۷) ۔’’تم نے نئی انسانیت کو پہن لیا ہے اور جوالہٰی معرفت حاصل کرنے کےلئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے ‘‘( کلسیوں ۳: ۱۰)۔ ’’تم تاریکی میں نہیں ہو کیونکہ تم سب نور کے فرزند اور دن کے فرزند ہو اور خدا نے ہم کو مقرر کیا ہے کہ ہم اپنے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے نجات حاصل کریں‘‘ (۱۔تھسلنکیوں ۵: ۴)۔’’ ہمارا منجی خدا چاہتاہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور حق کی معرفت حاصل کریں ‘‘ (۱۔تیمتھیس ۲: ۴وغیرہ ) پاک نوشتے تم کو مسیح پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کی معرفت بخشتے ہیں۔ کیونکہ ’’ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہٰام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند ہے ۔ تاکہ مردِ خدا کامل بنے۔ اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہوجائے (۲۔تیمتھیس ۳: ۱۵وغیرہ وغیرہ)۔
(4)
تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جبلّت استفسار کلیسیا کی زندگی میں ایک زبردست قوت رہی ہے ۔ اس نے کلیسیا کی تاریخ میں تعجب کی صورت میں کام کیا ہے ۔ جو مسیحیت کی ترقی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ اس لحاظ سے تجسس واستفسار کی جبلّت کلیسیا کے نظام کی حفاظت کرنے والی قوتوں میں سے رہی ہے ۔ کلیسیا کی حیرت انگیز کامیابی کاراز اسی میں مضمر رہا ہے ۔ اور اس کے شاندار فلسفیانہ اور محققانہ کارنامے علمی رحجانات اور ذہنی مساعی اسی پر موقوف رہے ہیں۔ مسیحی کلیسیا نے ہر زمانہ میں ہر قوم کی ضروریات اور مسائل کو حل کرنے اور عقائد کو وضع کرنے کے لئے اسی جبلّت سے مدد لی ہے۔ یہاں تک کہ ہر ملک کے باشندے کلیسیا ئے جامع کو اپنا حقیقی روحانی گھر سمجھنے لگے۔اور سب ممالک نے خدا کے جلال کے علم کو اس نور کی جانب راغب کیا جس کا مظہر جناب مسیح ہے۔ روح حق کی زیر ہدایت کلیسیائے جامع ہر ملک اور قوم کے علم کے زیور سے ہر زمانہ میں آراستہ اور پیراستہ ہوتی ہوگئی ۔ تاریخ کلیسیا میں گذشتہ دو ہزار سال سے اب تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جب کلیسیائے جامع علمی ترقی کے کسی خاص زینہ پر ٹھہر گئی ہواور اس نے بزرگان سلف کے عقلی کارناموں پر نظر کرنا ہی غنیمت خیال کرکے اس بات پر قناعت کی ہو کہ متقدمین کے اکتسابات کو ایسا تصور کرلے کہ وہاں تک کسی کے ذہن کی رسائی محال ہے اور اگرکسی ایک ملک کی کلیسیا کے تاریک ترین زمانہ میں ایسی بات ہوئی بھی ہے تو تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کلیسیا ئے جامع کے حقیقی روحانی فرزندوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج بلند کرکے اس تاریک زمانہ کو علم کی روشنی سے منور کردیا ہے ۔
(5)
مسیحی عقائد پر نظر کرو ۔ تو ان کو عقل سلیم کے تقاضاؤں کے مطابق پاؤگے۔ مسیحیت کا اصل الاصول یہ ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے (متی ۶: ۹؛ ۵: ۴۵؛ ۶: ۲۶؛ ۶: ۳۲؛ ۲۳: ۹؛ لوقا ۶: ۳۶؛ ۱۲: ۳۲؛ رومیوں ۱: ۷؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۶؛ ۲۔ کرنتھیوں ۱: ۳؛ افسیوں ۲: ۱۸؛ ۲: ۶؛ عبرانیوں ۱: ۵؛ یعقوب ۱: ۱۷؛ ۱۔یوحنا ۱: ۳؛ ۳: ۱وغیرہ وغیرہ)۔ خدا کی ذات محبت ہے (۱۔یوحنا ۲: ۸؛۴: ۱۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۱۱؛ یوحنا ۳: ۱۶؛ ۱۴: ۲۳؛ ۲۔تھسلنکیوں ۲: ۱۶وغیرہ وغیرہ)۔ کل بنی نوع انسان خدا کا کنبہ ہے ۔ (یوحنا ۱: ۱۲؛ گلتیو ں ۳: ۲۶؛ رومیوں ۸: ۱۴۔۱۶)جن پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے مساوات اور محبت کاسلوک کریں (متی ۵: ۴۴۔۴۸؛ ۲۲: ۳۹؛ ۷: ۱۲؛ لوقا ۱۰: ۲۵۔ ۳۷؛ یوحنا ۱۳: ۳۴؛ ۱۵: ۱۷؛ ۱۳: ۸؛ افسیوں ۵: ۲؛ ۱۔پطرس ۱: ۲۲؛ ۱۔یوحنا ۲: ۱۰؛ ۳: ۱۱۔۲۳؛ ۴: ۷۔۱۲؛ ۴: ۲۰۔۲۱و غیرہ وغیرہ)۔چونکہ خدا محبت ہے ۔ اور اس کی محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا گنہگار فرزند اپنے گناہوں کو ترک کرکے اس کی طرف دوبارہ رجوع کرے ۔ پس جس طرح ایک باپ اپنے گم گشتہ فرزند کی تلاش میں رہتا ہے ۔ اسی طرح خدا کی محبت گنہگاروں کی تلاش کرتی ہے ۔ (حزقی ایل ۳۴: ۱۱؛ لوقا ۱۵: باب ؛ ۱۔پطرس ۲: ۲۵؛ لوقا ۱۹: ۱۰؛ متی ۹: ۱۳؛ یوحنا ۱۰: ۲۸وغیرہ)۔ کیونکہ ’’ باپ کی جو آسمان پر ہے یہ مرضی نہیں کہ ان میں سے ایک بھی ہلاک ہو‘‘(متی ۱۸: ۱۴)۔سیدنا مسیح کلمتہ الله ہے جو باپ کی ذات کو ہم پر ظاہر کرتاہے ۔ پس ابن الله کے ذریعے اور اس کے وسیلے ہم کو باپ کی محبت کاعلم ہوتا ہے (یوحنا ۱: ۱؛ ۱: ۱۸؛ متی ۱۱: ۲۷؛ یوحنا ۱۷: ۲۶؛ ۱۴: ۹؛ ۱۲: ۴۵؛ کلسیوں ۱: ۱۵؛ عبرانیوں ۱: ۳ وغیرہ)۔ پس ہم اس پر ایمان لاکر ابدی زندگی حاصل کرتے ہیں (یوحنا ۱۷: ۳؛ ۱: ۴؛ ۳: ۱۶؛ ۳: ۲۶؛ ۴: ۱۴؛ ۵: ۲۰؛ ۶: ۳۵؛ ۶: ۴۰؛ ۶: ۴۷۔۴۸؛ ۸: ۱۲؛ ۱۰: ۱۰؛ ۱۱: ۲۵؛ ۱۴: ۶؛ رومیوں ۶: ۲۳؛ ۱۔یوحنا ۱: ۲؛ ۳: ۱۴؛ ۵: ۱۱۔۱۳ وغیرہ)۔اس کے فضل سے توفیق حاصل کرکے ہم اپنے گناہوں کی غلامی سے نجات حاصل کرتے ہیں (متی ۱: ۲۱؛ یوحنا ۱۲: ۴۷؛ ۱۔تیمتھیس ۱: ۱۵؛ ططس ۳: ۵؛ عبرانیوں ۷: ۲۵؛ متی ۱۱: ۲۸؛ یوحنا ۷: ۳۷؛ رومیوں ۵: ۱۲؛ ۶: ۲۳وغیر ہ وغیرہ)۔
مذکورہ بالا عقاید مسیحیت کی اساس ہیں۔ کوئی سلیم ِالعقل شخص ان عقاید کو عقل کے خلاف قرار نہیں دے گا۔ مسیحی کلیسیا مختلف ممالک اور مختلف ازمنہ میں ان بنیادی اصولوں کی ہر ملک اور زمانہ کے علم کی روشنی میں توضیح اور تشریح کرتی آئی ہے ۔ جبلّت تجسس واستفسار نے مسیحی کلیسیا کی تاریخ میں ایک نہایت زبردست حصہ لیا ہے ۔ مسیحیت کے شان دار نظریہ جات اور فلسفیانہ خیالات اسی جبلّت کا نتیجہ ہیں۔
سطور بالا سے روشن ہوگیاہوگا کہ مسیحیت جبلّت استفسار کے اقتضاؤں کو بطرز احسن پورا کرتی ہے ۔ اس کا رحجان بے حقیقت اورہیچ امور سے ہٹاکر اس کی قوت اور توانائی کو اعلیٰ مقاصد کی جانب راغب کرتی ہے ۔ خدا کی محبت کا علم اور اس کی معرفت بخشتی ہے ۔ عالم روحانیت کے اصول کا کماحقہ طور پر علم دیتی ہے ۔ اس کے اصول اور عقاید ایسے ہیں۔ کہ جن کو عقل سلیم کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔پس جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ مسیحیت دین فطرت ہے ۔
جبلّت تجسس اور قرآن کی تعلیم
چونکہ اسلام میں تمام باتوں اور سوالوں کے فیصلوں کا دارو مدار قال الله اور قال الرسول پرہوتاہے۔ لہٰذا اسلام میں سر ے سے یہ صلاحیت ہی موجود نہیں کہ اس میں تجسس واستفسار کی جبلّت نشوونما پاسکے ۔یا اس کا میدان عمل وسیع ہوسکے۔چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ’’ جس بات کا تجھے علم نہیں ۔ اس کے درپے مت ہو۔ بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پرستش ہوگی۔ زمین پر اتراتا ہو نہ چل ۔ نہ تو زمین پھاڑ سکتا ہے ۔ اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے ۔ ان سب باتوں کی برائی تیرے رب کو ناپسند ہے‘‘ (بنی اسرائیل 38 تا 40)۔
پس قرآن جبلّت استفسار کے تقضاؤں کے خلاف ہے ۔ یہ باتیں رب کو نا پسند ہیں۔ لیکن بقول ڈاکٹر سر محمد اقبال
’’آزاد انہ تحقیق فلسفہ کی روح رواں ہے ۔ اور تحقیق ہر قسم کے اختیار کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔ سائنس سے زیادہ مذہب کو اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے عقائد کی بنیاد عقل پر رکھی جائے ‘‘۔
(Relegious Thought in Islam pp.102)
لیکن اسلام میں’’ اطیعوا لله وطیعوا الرسول ‘‘ہر طرح کے تجسس اور استفسار اور تعجب اور حیرت کے جذبات کا آخری اور قطعی جواب ہے ۔ (سورہ عمران ۲9و۱۲6، انفال 48، محمد 35وغیرہ) ’’اس کے بعد کسی مومون مرد کو دم مارنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ جو کوئی سچی راہ کھل جانے کے بعد پھر پیغمبر کے خلاف کرے ہم اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے ‘‘ (نسا ۱۱5و۱7و6۲ ۔ توبہ 64 انفال ۱3وغیرہ) ۔’’مومنو الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اور اس سے منہ نہ موڑو۔ حالانکہ تم سنتے ہو۔ اور ان کی مانند مت بنو جو کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نہیں سنتے ‘‘ (انفال ۲0)۔ ’’جو لوگ پیغمبر کا حکم نہیں مانتے اور ان کو ڈرنا چاہیے ۔ کہ دنیا میں ان پر مصیبت نہ آن پڑے۔ یا کوئی تکلیف کا عذاب ان پر پہنچے ‘‘ (نور آیت 63، حشر آیت 7۔ جن ۲4۔ انفال ۱و۲4 ۔اعراف ۱58وغیرہ)۔ ’’الله نے جو کتاب تجھ پر نازل کی ہے ۔ اس کی بعض آیات پکی ہیں اور دوسری آیات ایسی ہیں جو مشتبہ معنی کی ہیں۔ جن کے دل میں کجی ہے ۔ وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش ان مشتبہ معنی کی نسبت استفسار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی تاویل الله کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ لیکن جو پکے عالم ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان سب پر ایمان لائے ۔ جو ہمارے رب کی طرف سے ہے ‘‘( آل عمران 5)۔’’ ایمان والوں کی بات تو یہ ہے کہ جب وہ الله اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں۔ کہ وہ کسی بات کی نسبت فیصلہ کرے تو کہیں کہ ہم نے سنا اور حکم مانا ‘‘ ( نور 50)۔’’جب الله اور اس کارسول کوئی بات مقرر کردے تو کسی ایمان دار مرد یا عورت کا کام نہیں کہ (اس میں چون وچرا کرے یا۔ اس کی نسبت سوال کرے کیونکہ ( اس معاملہ میں )ان کا کوئی اختیارنہیں رہتا‘‘ (احزاب 36)۔پس قرآنی تعلیم کے مطابق ہر مسئلہ کا قطعی جواب قال الله اور قال الرسول ہے ۔ اگر کسی سوال کے جواب میں یہ معلوم ہوجائے ۔ کہ قرآن وحدیث اس کی نسبت کیا کہتے ہیں تو پھر چون وچرا کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہر کہ شک آروکافر گردو۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان جہاد کی نسبت یہ دریافت کرے ۔ کہ کفار کا قتال کیوں جائز ہے تو قرآن کے مطابق وہ اپنی جبلّت استفسار کوکام میں لا کر یہ پوچھنے کا مجاز نہیں کہ الله اور رسول نے ایسے احکام کیوں صادر کئے ۔ یہ کافی ہے کہ الله نے یہ حکم دیا ہے ۔چنانچہ قرآنی ارشاد ہے ’’قتال تم پر فرض کیا گیا ۔ اور وہ تم کو برا معلوم ہوتا ہے ۔ اور شاید تم کسی چیز کو برا سمجھو ۔ اور و ہ تمہارے لئے بہتر ہو اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘( بقر ۲۱۲)۔
مشکواة باب القدر میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ
’’ایک دن آنحضرت آئے ۔ جبکہ ہم تقدیر کے معاملہ میں بحث کررہے تھے۔ آپ کامنہ لال ہوگیا کہ گویا کسی نے آپ کے چہرہ پر انار نچوڑ دیا ہے ۔ آپ نے کہا کہ کیا تم نے اس معاملہ میں حکم دئیے گئےہو اور کیا میں تمہاری طرف اسی لئے رسول ہوکر آیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اسی لئےہلاک ہوئے۔ کہ وہ اس مسئلہ پر بحث کیا کرتے تھے۔ میں تم کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ خبردار اس معاملہ میں تم کبھی بحث نہ کرنا‘‘۔
اس کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیاہے ۔
پس کسی مومن مسلمان کا کا م نہیں ہے کہ وہ کسی دینی مسئلہ کے متعلق سوال پوچھے ۔ اس کا سر تسلیم خم کرنا ہے اور بس۔ اور اسلام تو نام ہے سر تسلیم خم کرنے کا ۔
مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را
ممکن ہے کہ ہمارے مسلمان برادران یہ خیال کریں کہ اجتہاد(فقہ اسلامی کی اصطلاح میں قرآن وحدیث اور اجماع پر قیاس کرکے شرعی مسائل کا اخذ کرنا ) اور مجتہدوں کاوجود یہ ثابت کرتاہے کہ اسلام میں جبلّت تجسس واستفسار کا ر فرمارہی ہے۔ لیکن ۔
اول ۔قرآن میں اجتہاد کا کوئی حکم نہیں ۔
دوم۔بفرض محال اگر کسی قرآنی آیت پر جبر کرکے اس سے اجتہاد کی سندلی بھی جائے ۔ تو مجتہد قرآن وحدیث کی حدود کے اند رہی اجتہاد کرسکتا ہے ۔ قرآنی احکام کا جائز یاناجائز ہونے کے متعلق وہ اپنی جبلّت استفسار کوکام میں نہیں لاسکتا۔
سوم۔ علاوہ ازیں اہل اسلام میں سنہ ہجری کے ڈھائی سو سال کے بعد یعنی گذشتہ گیارہ سو سال سے کوئی مجتہد(جدوجہد یا کوشش کرنے والا) پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ اس وقت سے اجتہاد کادروازہ بند ہوگیا ہوا ہے ۔چنانچہ علامہ سر محمد اقبال لکھتے ہیں ۔
’’ اہل سنت والجماعت میں مجتہدوں مطلق کے وجود کے امکان کا اقبال تو کیا جاتاہے ۔ لیکن درحقیقت جب سے مذاہب اربعہ قائم ہوگئے ہیں ایسے اجتہاد کا ہمیشہ انکار ہی کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اس قسم کے اجتہاد کے ساتھ ایسی نا ممکن شرائط چسپاں کردی گئی ہیں ۔ جن کاکسی ایک شخص میں اکٹھا ہونا امر محال ہے ‘‘۔
(Relegious Thought in Islam p.141)
پس لازم ہے کہ ہر مومن مسلمان مذکورہ بالا چار مذاہب میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیتا ہے ۔ تو پھر اس کو یہ اختیار نہیں رہتا ۔ کہ اس مذہب کے اصول وقواعد سے سر مو(ذراسابھی )انحراف کرے ۔ یہ رویہ صدیوں سے چلا آیا ہے ۔ اور اسی طرح چلتا رہے گا۔
پس بروئے قرآن کوئی مسلمان دین کے معاملات میں آزاد خیال کو جگہ نہیں دے سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تحقیق کی گنجائش نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوگیا ہے کہ با اختیار اشخاص کے احکام کو بے چون وچرا تسلیم کرنا ۔ تعصب اورہٹ دھرمی کو کام میں لانا۔ ہر شے کو دوسروں کی سند پر قبول کرلینا۔ اور یوں جبلّت تجسس واستفسار کو روکنا اور دبانا مسلمانان عالم کا طغرائے امتیاز ہے ۔ دقیانوسی تفاسیر اور کتب احادیث اور فقہ کورٹ لینا غنیمت خیال کیا جاتاہے ۔ متقدمین کی تصانیف سند کے لئے کافی سمجھی جاتی ہیں۔ علمائے سلف کے نقش قدم پر چلنا ۔ موجب فخر ہوتاہے۔ متقدمین ،محدثین اور مفسرین کے خیالات ومعتقدات کو ہر بات میں فوقیت حاصل ہے ۔ پس اسلام فوق الفطرت اعتقادات کے نظام کی قوت اور ان کی اجتماعی تاثیر اور احکام سے قیام پذیر ہوا اور ان کا متحمل رہا۔ اس نے تحقیق واستفسار کے میدان کو وسعت نہیں دی۔ اور نہ دے سکتا ہے ۔
جبلّت تجسس اور اسلامی تہذیب اور کلچر
عموماً اہل اسلام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علوم وفنون نے اسلام کے گہوارہ میں پرورش پائی۔ اور اسلام کی طفیل ہی اہل مغرب کو یونانی علم وفلسفہ کامنہ دیکھنا نصیب ہوا ۔ اگر تاریخ اس دعویٰ کی تصدیق کردے ۔ تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ اسلام نے جبلّت تجسس کو دبانے کے بجائے اس کے میدان عمل کو اس قدر وسیع کردیاہے ۔ کہ دنیا تاقیامت اس بار منت سے سبکدوش نہیں ہوسکتی۔
(۲)
اس امر کی تحقیق کے لئے علم ادب کی تاریخ کی ورق گردانی ضروری ہے ۔ تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ تیسری صدی مسیحی سے آرامی یا سریانی یونانی تہذیب کے علم بردار نسطوری مسیحی تھے ۔ جب افسس کی کونسل نے 43۱ء میں ان کو بدعتی قرار دے دیا۔ تو وہ ایڈیسہ میں نقل مکانی کرکے آگئے وہاں سے 489ء میں شہنشاہ زینو نے ان کو ملک بدر کردیا۔ اور وہ ایران میں آبسے جہاں ساسانی فرمانرواؤں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ انہو ں نے ایران کو مرکز بناکر ایشیائی ممالک میں بلکہ مغربی چین تک مسیحیت کی تبلیغ کردی۔ ان کی جلاوطنی کا ایک نتیجہ یہ ہوا۔ کہ ایڈیسہ کا دارا لعلوم مسوپاٹامیہ میں نسی بس(Nesibus)میں منتقل ہوگیا۔ اور وہاں سے ایران کے جنوب مغرب میں جتدے شاپور (Jandeshapur)میں چھٹی صدی کےاوائل میں منتقل ہوگیا۔ جہاں ساسانی خاندان کے بادشاہوں نےچوتھی صدی میں ایک دارالعلوم اور ایک ہسپتال قائم کیا ہوا تھا۔ خسرو ونوشیرواں 53۱تا 579ء کے عہد سلطنت میں یہ شہر علم وفضل کا مرکز تھا۔ جب رومی قیصر جسٹنین (Justinian)نے 5۲9ء میں شہر ایتھنز کے فلسفیانہ درسگاہوں کو بند کردیا ۔ تو یونان کے فضلا اس جگہ نقل مکانی کرکےآگئے۔ اور یوں سریانی ایرانی اورہندی فضلا ایک جگہ جمع ہوگئے۔ ان کے تبادلہ خیالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسے مخلوط مذہب کی بنیاد پڑگئی ۔ جو مختلف خیالات کا معجون تھا۔ جس کا اثر مابعد میں اسلامی خیالات پر بہت پڑا۔ خسرو نے اپنےطبیب کو طبی کتب کی تلاش میں ہندوستان بھیجا۔ اور ان کتب کا پہلوی زبان میں ترجمہ ہوا۔ اور دیگر بہت سی سائنس کی کتب کا یونانی زبان سے فارسی اور سریانی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ جنڈے شاپور کے دارا العلوم کا ایک طالب علم عرب کا باشندہ اور رسول عربی کا ہمعصر تھا۔ جس کا ذکر محدثوں نے بھی کیا ہے ۔سریانی زبان بولنے والے میں پہلا مشہور شخص ریش عینا (Reshaina)کا سرجیس تھا۔ جو 53۲ء میں فوت ہوا۔ یہ عالم نسطوری مسیحی نہیں تھا۔ بلکہ مونوفینرائٹ یعقوبی مسیحی تھا۔ اور مسوپوتامیہ کا طبیب اعلی ٰ تھا۔ اور اس نےکتب طب کا یونانی سے سریانی میں ترجمہ شروع کیا۔ جالینوس کی کتب کا ترجمہ بھی اسی سے منسوب کیاجاتاہے ۔ اسلام کی ابتدا سے چند سال پہلے پادری اہرون ((Ahronنے یونانی میں طب کی مشہور کتاب تصنیف کی ۔ جس کا سریانی میں اور بعد میں عربی میں بھی ترجمہ ہوگیا۔
(3)
جب مسلمانوں نے شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا پر قبضہ کرلیا۔ تو جنڈے شاپور کادارا لعلوم ان کی سلطنت میں علوم وفنون کا مرکزتھا۔ خلفائے بنو امیہ کے زمانہ میں حکومت میں (66۱ء 749ء)علماء دمشق میں آئے۔ یہ علما یا مسیحی تھے اور یا یہودی تھے۔ جن کے نام عربی تھے۔ خلفائے بنو امیہ نے اسلامی سلطنت کو وسعت دی ۔ اور عربی ہر جگہ رائج ہوگئی ۔ لیکن جائے تعجب ہے کہ پہلی صدی ہجری میں خلفائے بنو امیہ خالص نژراد عربوں پر اپنا مانی الضمیر ظاہر کرنے سے قاصر تھے۔(lagcay of Islam pv.111)جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قدیم عرب کی خالص زبان صرف زمانہ جاہلیت اور ابتدائی اسلامی زمانہ تک ہی محدود رہی۔
(4)
اسلامی حکومت کا زریں زمانہ خلفائے عباسیہ کا تھا ۔ لیکن خلفائے عباسیہ نے خالص عربوں اور کٹر مسلمانوں کی امیدوں کے خلاف جنگوں سے فراغت پاکر اپنی توجہ کو غیر عرب علوم وفنون۔ فلسفہ ،کلچر ،اور تہذیب کی جانب کیا۔ چنانچہ 750ء سے 900ء تک کا زمانہ تراجم کا زمانہ کہلاتا ہے خلیفہ المنصور کے زمانہ حکومت ۱74-75ء ) میں یونانی کتب کا ترجمہ جنڈے شاپور میں ہوتا تھا۔ یہاں جارجیس طبیب اعلیٰ تھا ۔جو بخت یسوع ( یعنی یسوع نے نجات دی ہے ) خاندان کا ممتاز فرد تھا۔ اس مسیحی خاندان کے طبیب خلیفہ الہادی (786ء) اور خلیفہ ہارون الرشید (809ء) کے طبیب تھے۔ اس خاندان کے سات افراد نہایت مشہور اور ممتاز طبیب تھے۔ اسی خاندان کی بدولت خلفائے عباسیہ نے یونانی علم طب کی کتب کو اپنی سلطنت میں مروج کیا۔
خلیفہ المنصور راسخ الاعتقاد کٹر مسلمان نہ تھا۔ چنانچہ اس نے امام ابو حنیفہ کو درے(کوڑے) لگوائے۔ قیدکیا اور مروا ڈالا۔ جلال الدین سیوطی بتاتا ہے کہ
’’سب سے پہلے منصور کے وقت میں سریانی اور دیگر عجمی زبانوں سے کتابوں کا ترجمہ کیا گیا ۔ مثلاً کلیلہ، دمنہ ، اقلیدس وغیرہ۔ سب سے پہلے اسی نے غیر ملکیوں کو اہل عرب پر حاکم کیا۔یہاں تک کہ عرب کے لوگوں میں سے حمال مقرر ہونے بند ہوگئے‘‘
(تاریخ الخلفا صفحہ ۱84)
غیر عرب لڑیچر کا رواج دیکھ کر خالص عرب جو حقیقی اسلام کے دلدادہ تھے۔ اس سے سخت نالاں تھے۔ چنانچہ " اصمعی کہتے ہیں کہ
’’منصور کو شام میں کوئی بدوی (خانہ بدوش عرب)ملا۔ منصور نے کہا شکر ہے کہ الله نے تم پر سے طاعون کو محض اس وجہ سے دفع کیا کہ تم ہماری زیر حکومت ہو ۔ جو اہل بیت سے ہیں۔ اس بدوی نے جواب دیا کہ تیری حکومت اور طاعون دونوں یکساں ہیں‘‘۔
(تاریخ الخلفا صفحہ ۱8۱)
خلیفہ ہارون الرشید علم دوست اور عالم پرور شخص تھا۔ خاندان برامکہ کے ممتاز افراد جو ایرانی النسل تھے۔ وہ اس کے وزیر تھے۔ ان کی صلاح پر عمل کرکے ہارون نے سلطنت کےخزانوں کو مفید امور کی خاطر خرچ کیا۔ اس نے جا بجا سکول اور کتب خانے کھول دیئے ۔ تاکہ لوگ علم کے خزانہ سے بہرور ہوسکیں ۔ یونانی اور آرامی زبانوں کی اصطلاحات کو عربی زبان کا جامہ پہنایا گیا۔ خلیفہ کی فیاضی کی وجہ سے یونانی ، شامی ، ایرانی ، اور ہندی علما اس کے دربار میں رہنے لگے ۔اور انہوں نے مسلمانوں کو مختلف علوم وفنون کا درس دینا شروع کیا۔
ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ نوویں(۹) صدی ترجموں کی صدی ہے ۔ اس زمانہ میں سر جیس کے سریانی ترجموں کی نظر ثانی کی گئی ۔ اور دیگر کتابوں کا بھی ترجمہ کیا گیا ۔ اورمترجم بالعموم نسطوری مسیحی تھے۔ جو یونانی ،سریانی ،عربی اور فارسی زبانوں میں ماہر تھے۔یوحنا ابن ماسوا(Ibn’masawyh)(سن وفات 857ء) نصف صدی تک ہارون الرشید کے جانشینوں کا شاہی طبیب تھا۔ اس نے عربی زبان میں علم طب کی کتب کو تصنیف کیا۔
خلیفہ ماموں الرشید کا زمانہ حکومت (33-8۱3ءتا ۲۱8-۱98 ھ) نئی روشنی کا سنہری زمانہ تھا۔ اس خلیفہ نے بغداد میں ترجموں کا مرکز اور کتب خانہ کھول دیا۔ مترجمین میں سے نسطوری مسیحی طبیب حنین ابن اسحاق (Hunayn)(از 809ء تا 873ء) کا اور اس کے خاندان کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ اس قابل مسیحی نے جالنیوس کی تقریباً تمام کتب کا ترجمہ ایک سو سریانی اور انتالیس عربی کتب میں کردیا ۔ اس کے بیٹے اسحاق اور بھتیجے جیش اور دیگر تلامذہ نےتیرہ سریانی اور ساٹھ عربی ترجمہ کر ڈالے۔ حنین نے نہ صرف یونانی علم کا طب کا ترجمہ کیا۔ بلکہ ارسطو کی تصنیفات او عہد عتیق کے یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ کا بھی عربی میں ترجمہ کردیا۔ اس کے قریباً ستر شاگرد تھے۔ جن کی اکثریت مسیحیوں کی تھی۔ اور یہ سب کے سب ترجموں کے کام میں مشغول تھے۔ حنین نے نہ صرف بغداد میں ہی کام کیا۔ بلکہ اس نے ملک شام ، عراق اور کنعان کا بھی سفر کیا اور سکندریہ تک پہنچا، تاکہ یونانی زبان کے علوم وفنون پر عبور حاصل کرے ۔ نوویں(۹) صدی کے اوائل میں یہ ترجمے زیادہ تعداد عربی زبان میں ہونے لگی ۔ ان تراجم کو یعقوبی مسیحیوں نے جاری رکھا۔ اسی زمانہ میں جنڈے شاپور کا مدرسہ بند ہوگیا۔ کیونکہ علما ء اور فضلا ئے روزگار خلفا کے دارا لحکومت بغداد اور سامرا (Samarra)کی جانب نقل مکانی کرگئے۔ بغداد میں فلسفہ کا باقاعدہ مطالعہ کیا جاتا تھا۔اور وہاں یونانی کتب کے تراجم اور مطالعہ کا بازار گرم ہوگیا۔ خود خلیفہ ماموں عالم شخص تھا۔ وہ شاعر تھا اور شاعر نواز تھا۔ وہ خود ایرانی خیالات سے متاثر تھا۔ لہٰذا مذہبی رواداری کا حامی تھا۔ اس کے دربار میں ہر خیال کے عالم موجود تھے۔ اسی کے زمانہ میں امام بخاری ،حنبل، اور شافعی تھے۔ہر قسم کے علم وفن کے استاد ،شاعر ، فلاسفر ، طبیب ، اس کے وظیفہ خوار تھے۔ اور کسی شخص کا مذہب اس کی ترقی کے راستہ میں حائل نہ تھا۔ یہودی اور عیسائی جو عبرانی اور یونانی اور عربی زبانوں کے عالم تھے۔ اس کے دربار کی زینت تھے۔ انہوں نے قسطنطنیہ ،شام ، ایشیا ئے کوچک ، آرمینیا، مصر اور لیوانٹ کی خانقاہوں اور کتب خانوں کو یونانی فلاسفروں مورخوں اور حساب دانوں کی تصنیفات کے نسخہ جات حاصل کرنے کی خاطر چھان مارا اور ماموں کے زمانہ حکومت میں مذہب اور نسل کی تمیز مٹ گئی۔ان علمی مرکزوں میں مسیحی طلبا بغیر کسی امتیاز کے مسلمان طلباء کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ ماموں نے لڑکیوں کے لئے مدرسہ کھولا ۔ جس میں قسطنطنیہ اور ایتھنز کی عورتیں تعلیم دیتی تھیں۔اس کے عہد حکومت میں مزوی مذہب نے خراسان میں زندقہ مذہب کی صورت اختیار کرلی ۔ لیکن اس نے زندقہ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ وہ خود قرآن کو مخلوق مانتا تھا۔ اس کے قائم کردہ سکولوں او رکالجوں میں یونانی علم ہندسہ کی بنیاد پر مختلف علوم نے ترقی کی ۔ کسور اعشاریہ کا استعمال ہوا۔ الجیرا نے جنم لیا۔
خلیفہ متوکل نے 856ء میں بغداد میں ایک کتب خانہ کھولا۔ اور ترجموں کا مدرسہ جاری کیا۔ اس دارا العلوم کا افسر اعلٰی حنین ہی تھا۔ خلیفہ اور اس کے عمائد سلطنت مسیحی علماء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دور ودراز مقامات کو یونانی نسخوں کی تلاش میں بھیجتے تھے۔ تاکہ وہ ان نسخوں کو بغداد لائیں۔اور ان ترجمہ کریں۔ چنانچہ حنین خود جالنیوس کے ایک نسخہ کی نسبت لکھتا ہے کہ
’’ میں نے اس کو مسوپوتامیہ ، سیریا ، کنعان، اور مصر میں تلاش کیا۔ یہاں تک کہ میں سکندریہ کو بھی گیا۔ لیکن دمشق میں مجھ کو اس کا صرف آدھا نسخہ ملا‘‘۔
اسی زمانہ میں اسلام میں پہلا اور آخری عرب نژاد فلاسفر گذرا ہے ۔ یعنی ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی جو کوفہ میں 850ء کے قریب پیدا ہوا تھا۔ اس ایک شخص کے علاوہ تمام اسلامی تاریخ میں کوئی دوسرا مسلمان فلاسفر پیدا نہیں ہوا۔ جو عرب نژاد ہو۔
(5)
پہلی مسلم یونیورسٹی بغداد کی نظامی یونیورسٹی تھی جس کو عمر خیام کے دوست نظام الملک نے 457ھ یا ۱07۲ء میں قائم کیا۔ یہ شخص ترک الپ ارسلان کا وزیر تھا۔ اس کی تھوڑی مدت بعد ہی نیشا پور ،دمشق ،یروشلیم، قاہرہ، سکندریہ ، اور دوسرے شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں لیکن ان میں سے بہترین یونیورسٹی مستنصریہ (Mustansiryah)تھی۔ جو ۱۲34ء میں بغداد میں قائم ہوئی۔
(6)
عموماً یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ممالک مغرب نے ارسطو کی کتابیں دوبارہ عربوں سے سیکھیں۔ لیکن تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ یہ دعویٰ مبالغہ سے خالی نہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ پادری گنڈسالوس (Dominic Gundisalvus) نے جو سگوویا (Segovia)کا آرچ ڈیکن تھا۔ بارھویں صدی مسیحی میں ابی سنیا ،فارابی ، اور الغزالی کی کتب کے مطالعہ کے بعد مغربی زبان میں ارسطو کی کتب کے تراجم کئے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہم کو ماننا پڑے گاکہ ابو الید ابن رشد (از 9۲-5۲0ھ یا ۱۱۲6ء) یونانی زبان سے کورا تھا۔ اور اس نے ارسطو کی تعلیمات اور نظریہ جات کو یونانی زبان کے نہ جاننے کی وجہ سے غلط ملط کردیا تھا۔ ارسطو کی یہی تعلیم جاری رہی ۔ جب تک سینٹ ٹامس نے ارسطو کی صحیح تعلیم اور ارسطو کے مفسرین کی راؤں کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا۔
(7)
ہم نے ذرا طوالت کوکام میں لا کر اس زمانہ کے علم وادب کی تاریخ کا ذکر کیا ہے ۔ تاکہ منصف مزاج ناظرین تاريخ کے صفحوں سے خود ہی اندازہ لگالیں۔کہ آیا مذکورہ بالا تہذیب اور کلچر کا سرچشمہ قرآن وحدیث اور عرب نژاد ومسلمان تھے یا نہیں۔ ہم تاریخ کے مطالعہ سے صرف اسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ کہ خلفائے عباسیہ کے زمانہ کے خیالات اور اعتقادات اور روشن کارنامے قرآن وحدیث کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہیں۔ ان علماء کی کثیر تعداد نہ تو عرب نژاد تھی اور نہ مسلمان تھی۔ اسلامی علم وفضل کےمرکز مکہ یا مدینہ نہیں تھے۔ بلکہ خراسان ، خوارزم ، ترکستان اور بکتیر یا تھے۔ مثلاً خوارزمی خیوہ کا باشندہ تھا۔ الفرغانی (Fargani)ٹرانس او رکینیا کا رہنے والا تھا۔ ابوالوفا اور البتانی (Albattani)ایرانی نژاد تھے فارابی ایک ترک تھا۔ اور ابی سینیا بلخ کا رہنے والا تھا۔ الغزالی اور نصیر الدین طوس کے رہنے والے تھے۔ عمر خیام جس نے عربی میں علم جبرو مقابلہ لکھا۔ ایرانی شاعر تھا۔ ابن رشد ، الرزقالی (Alzaruali)اور البطروجی (Albitruji)ہسپانیہ کے عرب تھے ۔ صرف تمام اسلامی تاریخ میں ایک فلاسفر الکندی عربی نژاد تھا۔ مذہب کے لحاظ سے حنین بن اسحاق اور اس کا بیٹا اسحاق اور قسطابن لوقا (Qusta bin Luka)اور دیگر مترجم مسیحی تھے۔ ثابت بن قرامشہور منجم تھا۔ وہ اور البشاقی دونو ستاروں کی پرستش کرنے والے تھے ۔ بعض ماشالله کی طرح یہودی تھے ۔ بصرہ کا الجاحظ (Aljahiz)صاف اقرار کرتا ہے کہ اسلام یونانی فلاسفر کا مرہون منت ہے ۔ اسلامی فلاسفروں نے اپنے نظریوں کے منبع اور سرچشمہ کو چھپانے کی کبھی بے سود کوشش نہیں کی۔ اور اگر وہ اس قسم کی کوشش کرتے تھے تو وہ اس امر کو کٹر مسلمانوں سے نہ چھپا سکتے۔جو قرآن وحدیث کے شیدائی تھے۔ راسخ الاعتقاد مسلمان ان تمام دماغی اور ذہنی مساعی کو جو رسول الله کے زمانہ میں نہ تھیں۔ ملعون ومطعون ہی گرادنتے رہے ۔ انہوں نے فلسفہ کا نام ہی ’’عقل وکفر کا مرکب‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ عربی فلسفہ درحقیقت ارسطوی اورنو فلاطونی خیالات کا معجون ہے جس کا مذہب اسلام سے دورکا واسطہ بھی نہیں۔اس کے معتقدین یا تو عموماً برائے نام مسلمان ہوتے تھے۔ اور یا وہ لوگ تھے۔ جو عباسیہ خاندان کی حکومت کے بعد اپنے خیالات کی خاطر مارے گئے ۔ یا قیدوزنداں میں رہے۔
جب خلفائے عباسیہ علم کی روشنی بغداد سے دیگر ممالک کو پہنچارہے تھے۔تو عرب کے قبائل خانہ جنگی میں مصروف تھے۔ حج کے متعلق ہمیشہ جھگڑا برپا ہوتا۔ اور امیر مکہ حاجیوں کے مال واسباب کو لوٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ بغداد اور قاہرہ نے بہتر زور مارا کہ اسلامی ممالک کے باشندے مزاحمت کے بغیر حج کرسکیں ۔ لیکن وہ ناکام رہے ۔ عرب قبائل ایک دوسرے سے بعینہ اسی طرح برسیر پیکار تھے۔ جس طرح رسول عربی کی بعثت سے پہلے تھے۔ عرب جمود کی حالت میں رہے ۔ اور غیر ممالک سے کچھ سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ علم وفن کی تحریک کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ۔ کٹر مسلمانو ں کی نگاہ میں خلفائے عباسیہ کے زمانہ کی نئی روشنی کی تحریک زبردست بدعت تھی۔ جو قرآن وحدیث اور سنت نبوی کے خلاف تھی ۔ پس سبلحوق نے قرآن وحدیث کی حمایت میں خاندان عباسیہ کا خاتمہ کردیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس سنہری زمانہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اور اسلامی سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ چنانچہ مشہور اسلامی مورخ ایس خدا بخش مرحوم کہتا ہے کہ
’’عباسیہ خاندان کے بعد مسلم سلطنت کے زوال کا سبب اس کا مذہب اور سیاسیات تھے ۔ چونکہ اسلام میں یہ دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہب جو ابتدا میں مسلمانوں کی کامیابی کا سبب تھا۔ ا ب ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگیا۔ اگرچہ ظاہری طور پر سلطنت ’’اسلامی ‘‘ تھی ۔ لیکن اندرونی طور پر مذہب بے معنی رسوم کا مجموعہ ہوگیا تھا اور تعصب ۔ مذہبی جنون، ترقی سے نفرت ، بے بصیرتی ، نئی روشنی اور نئی تعلیم کی مخالفت کا بول بالا تھا۔ روشنی کے عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ اور تاریکی کی حکومت کی ابتدا ہوگئی۔ وہ زمانہ چلا گیا۔ جب مسلم فلاسفر نظام کہاکرتا تھا کہ ’’علم کی پہلی شرط شک کرنا ہے ‘‘۔ اب اسلام کے نزدیک شک کرنا بے عزتی ،عقوبت ،اور موت کا مترادف تھا۔ مذہب کا روشنی علم اور ترقی کے ساتھ واسطہ نہ رہا۔ ہر واقعہ الله کی مرضی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ جس کے خلاف کسی قسم کی جدوجہد کرنا کفر اور پرلے درجہ کی حماقت خیال کی جاتی تھی۔ اسلامی سلطنت کا زوال نہ صرف شروع ہوگیا۔ بلکہ زوال نے جڑ پکڑلی۔ مسلمان مردہ اور لاپرواہ ہوگئے۔ اور دیگر ممالک کی علمی تحریکوں کی جانب سے غافل ہوکر یا بد اخلاقی کے گڑھے میں گرگئے۔ یا مذہبی جنون میں گرفتار ہوگئے ۔ اور ان کی دماغی اور ذہنی حالت تاریک ہوگئی‘‘۔
((Essays Islamic Indian p.۲3
پس خلفائے عباسیہ کے زمانہ کی تہذیب کو ہم قران وحدیث یا ’’عرب ‘‘ کی تہذیب نہیں کہہ سکتے ۔ کیونکہ یہ تہذیب ممالک مفتوحہ کے باشندوں کی تہذیب تھی۔ جو جبراً اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ان خلفاء کے زمانہ میں اسلامی سلطنت نے یونانی ،ایرانی ، شامی ، قبطی ، کلدانی اور ہندی تہذیب سے فائدہ اٹھایاتھا۔ ان مفتوحہ ممالک کی تہذیب کا قرآن وحدیث سے کچھ واسطہ نہیں۔ کیونکہ اسلام کی آمد سے پہلے یہ ان ممالک میں موجود تھی۔ اگر کلچر اور تہذیب سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد کا ذہن رسا اس قوم کو ترقی کی شاہراہ پر چلا رہا ہے ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونانی تہذیب کا وجود تھا۔ رومی تہذیب کا وجود تھا۔ اسلامی تہذیب کا وجود تھا۔ لیکن یہ تہذیب عرب کی تہذیب نہیں۔ کیونکہ وہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کی تہذیب تھی جو عربی نسل اور ملک کے نہ تھے۔ یہ اسلامی تہذیب قرآن وحدیث اور خالص عربی اسلام کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آئی تھی۔چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ
’’ ہم سب جانتے ہیں کہ یونانی فلسفہ نے اسلام کے تہذیب پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ لیکن اگر ہم قرآن کا اور اسلام کے ان مذاہب کا بغور مطالعہ کریں۔ جو یونانی فلسفہ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ تو یہ روشن حقیقت ہم پر واضح ہوجاتی ہے ۔ کہ اگر چہ یونانی فلسفہ نے اسلامی علما کے اذہان کوکشادہ کردیا تھا۔ لیکن اس نے قرآن کو دھندلا کر دیا۔ یہ لوگ قرآن کو یونانی فلسفہ کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ اور دو صدسال کے بعد ان کو یہ معلوم ہوا۔ کہ قرآن کی روح یونانی فلسفہ کے نقیض ہے غزالی نے دنییات کی بنیاد شک کے فلسفہ پر رکھی۔ اور یہ بات بھی قرآن کے خلاف ہے‘‘
(Religious Thought in Islam pp.3-4)
پس ثابت ہوگیا کہ اسلامی سلطنت کے علم وفضل کے زمانہ کے ذمہ دار قرآن وحدیث نہ تھے۔ غیر ممالک کے خیالات قرآن وحدیث سے متاثر نہیں ہورہے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس ان ممالک کے خیالات یعنی یونانی مسیحی ، یہودی ، ایرانی ، ہندی خیالات سے اسلام متاثر ہورہا تھا۔ ان غیر عرب ممالک میں کتب خانے کھل گئے ۔ جن میں غیر عرب کاتبوں کی فوج کی فوج نسخوں کی نقل میں مصروف تھی۔ بغداد علم کی روشنی کامرکز تھا۔ جس کی شعاعیں ہسپانیہ تک پہنچیں۔ او ریہ باتیں اس واسطے ممکن ہوگئی تھیں۔ کیونکہ خلفائے عباسیہ نے قرآن وحدیث کی تعلیم کو ترک کرکےمذہبی راواداری کی پالیسی اختیار کرلی تھی۔ پس اس تحریک کا سہرا اسلام پر نہیں بلکہ یہ نئے خیالات یونانی ، یہودی ، ترکی ، مسیحی ، قبطی ، کلدانی ، آرامی ،شامی ، ایرانی ، اور ہندی خیالات اور سنسکرت کی کتب کے ممنون احسان تھے۔(See Spengler’s Deeline of the West)۔
یہی وجہ ہے کہ سر ٹامس آرنلڈ جیسا متشرق کہتاہے کہ
’’اسلام نے جو ترکہ چھوڑا ہے ۔ وہ رسول عربی کے دین اسلام کے اصولوں کی وجہ سے نہیں ہے ۔اسلام کے ترکہ میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ۔ جس کا تعلق خاص اسلام کے ساتھ ہو۔ اس کے برعکس جب کبھی حضرت محمد کے خالص مذہب نے اپنا اقتدار جمایا۔ وہاں اسلام کے ترکہ اور وراثت کی قیمت صفر برابر ہوگئی‘‘۔
(Legacy of Islam edly Sir .T.Avroldalfred and Guillaume oxford1931p.v)
جبلّت تجسس اور اسلامی ممالک کی تاریخ
اس فصل کے شروع میں ہم ذکر کرچکے ہیں ۔ کہ علم نفسیات کے مطابق جب کسی بچے کی جبلّت تجسس اپنے اختیارات اور رعب سے دبایا جاتا ہے ۔تو بڑا ہونے پر یہ جبلّت اس میں نہایت کمزور ہوجاتی ہے اسی طرح اسلامی ممالک میں جبلّت تجسس عدم استعمال کی وجہ سے نہایت کمزور بلکہ مردہ پڑگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں علمی رحجانات اور ذہنی مساعی تقریباً مفقود ہیں۔ تجسس واستفسار کی جبلّت بنی نوع انسان کے تمام شان داراکتسابات کی تہ میں ہے ۔ ان رحجانات کا آزاد اور موثر عمل جماعتوں قوموں، ملتوں اور ملکوں کی تہذیب کا نہ صرف معیار ہے ۔ بلکہ ان کی تہذیب کی ترقی کی خاص شرط بھی ہے ۔ کیونکہ اگر ہم ان ممالک وازمنہ پر محققانہ نظر کریں۔ جن میں عقلی اکتسابات ہوئے ہیں۔ تو ہم دیکھیں گے کہ وہ زمانے بعینہ ان زمانوں پر منطبق (برابر)ہیں۔ جن میں اجتماعی ترقی ہوئی ہے ۔
(۲)
ملک عرب گذشتہ چودہ (۱۴)صدیوں سے اسلام کا حلقہ بگوش رہا ہے ۔لیکن عرب میں لطیف تخیلات کا نام نہیں ہے ۔ وہ فلسفہ سے نا آشنا ہے ۔خالص عربی علم ادب میں کوئی جدت نہیں پائی جاتی۔ ملک کی آب وہوا ہی ایسی ہے کہ دن کی دھوپ کی گرمی، آفتاب کی تپش ،صحرا کی جلتی ریت کی جدت وغیرہ ذہنی مساعی کے حق میں بادسموم کا اثر رکھتی ہیں ۔ خود مذہب اسلام میں جیسا صاحب رسالہ ینا بیع الاسلام نے ثابت کردیا ہے کوئی نیا عنصر نہیں جو مذاہب سابقہ میں نہ تھا۔ اس پر ’’قال الله ارلرسول اور اطیعوا الله واطعیوا الرسول‘‘ کے احکام نے علمی رحجانات کا باب مسدود کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں تمام مہذب ممالک عرب سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ عرب ترقی یافتہ ملک شمار نہیں ہوسکتا ۔ اس کی اخلاقی حالت اعلیٰ نہیں۔ تعداد ازدواج اور طلاق کا ہر جگہ دور دورہ ہے ۔ اس نے ’’زمانہ جاہلیت ‘‘سے آج تک علم وادب اور علوم وفنون میں ترقی نہیں کی بدوی ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ شہروں میں کتب کا علم قرآن حدیث اور فقہ کے مطالعہ تک محدود ہے ۔ تقدیر اور قسمت کے جان ستان عقیدہ نے ترقی کی راہ کو مسدود کررکھا ہے ۔ ظلم ، بے انصافی ، قتل اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔۱9۲5ء میں سلطان ابن مسعود کو طاقت حاصل ہوئی۔ اس کے زمانہ میں قرآن وحدیث کا دور دورہ رہے ۔ سیاسیات کی بنیاد دینیات پر ہے ۔ شریعت عرب کے ذہنوں اور مذہبی خیالات پر حکمران ہے ۔ اگر کوئی شخص قرآن وحدیث کے خلاف اپنی عقل اور آزادانہ رائے رکھتا ہے ۔ تو اس کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے ۔تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں ملک عرب میں استفسار ، تفحص، اور تجسس کا جواب ’’قال الله ارلرسول اور اطیعوا الله واطعیوا الرسول‘‘ ہی ہے ۔ بیسویں(۲۰) صدی میں عرب کو ایک تنگ ، محدود اور لاتبدیل شریعت پر اور ایک ایسی آسمان کتاب پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ جس کا تعلق ساتویں (۷)صدی کے ساتھ تھا۔ کیا آج کے دن ہندوستان یا مصر یا ترکی کے مسلمان عرب کے ملک میں وہابی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ آج ہندوستان میں کتنے مسلمان ہیں۔ خواہ وہ لکھے پڑھے ہوں خواہ ناخواندہ جاہل ہوں۔ جو وہابی خیالات کی حمایت اور قدر کرتے ہیں ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہابی خیالات خالص قرآن وحدیث پر مبنی ہیں ’’فاعتبروایا اولی الابصار ‘‘۔
خیالات کی آزادی عرب کے صحرا اور بادیہ میں پھل پھول نہیں سکتی ۔ یہ حالت اس ملک کی ہے جو خدا کا برگزیدہ ہے (سورہ حج آیت 77)۔جس کا ہر ایک شعبہ چودہ (۱۴)صدیوں سے مذہب اسلام کے ماتحت رہا ہے ۔ جب تک عرب اسلام کے زیر نگین رہے گا۔ وہ ترقی نہیں کرسکتا۔
(3)
ایک عرب پر ہی کیا موقوف ہے ۔ تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرو تو تم دیکھو گے۔ کہ جس ملک میں بھی اسلام گیا۔ اس نے استفسار کی جبلّت کو یہاں تک دبایا کہ ان ممالک واقوام میں جستجو کا مادہ زائل ہوگیا۔ ان کے علوم وفنون یکسر حرف غلط کی طرح مٹ گئے ۔ اسلام نے مصر کو 64۱ء میں فتح کیا ۔اور مصر کی قدیم تہذیب علوم وفنون ۔ صنعت وحرفت کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ ٹھنڈے پڑگئے۔ ان کا خاتمہ ہوگیا۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ جب شامی ، مصری ، اور برابری اقوام یونان اور روما کے ماتحت تھیں۔ تو وہ اپنی فہم وفراست اور ذہن رسا اور علم دفن کے لئے مشہور تھیں۔ لیکن جونہی وہ اسلام کی حلقہ بگوش ہوگئیں۔ وہ ترقی کی منازل میں بہت پیچھے رہ گئیں۔ اور جہالت اور عصبیت ان کا طغرائے امتیاز ہوگیا۔ ملک ہسپانیہ میں اسلامی تاریخ اسی صداقت کی گواہ ہے ۔ جب اس ملک پر خلفائے قرآن و حدیث کے مطابق حکمرانی کی ، تو ترقی کا دروازہ بند ہوگیا۔ اور تہذیب کا دور ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے برعکس جب کوئی خلیفہ مذہبی جنون سے خالی ہوتا تو اس قوم کو ترقی اور آزاد خیالی نصیب ہوتی ۔ پس ظاہر ہے کہ جب خالص اسلام کو غلبہ حاصل ہوتاہے تو اس ذہنیت کو غلبہ حاصل ہوتاہے ۔ جو قوت متخیلہ سے خالی اور جدت وافتراع کے خلاف ہے ۔ جونہی ہسپانیہ سے اسلام کا غلبہ ختم ہوگیا۔ اور وہ مسیحیت کا حلقہ بگوش ہوگیا۔ تو ملک نے اسلامی خیالات کے پنجہ سے رہائی حاصل کی اور اس کی ترقی اور تہذیب نصیب ہوئی ۔
قرآن وحدیث کےاحکام ان ممالک کے حالات پر ہرگز عاید نہیں ہوسکتے۔ جنہوں نے یونانی اور رومی تہذیب کے گہوارہ میں پرورش پائی ہے یا جو اقوام دورحاضرہ میں مغرب کے خیالات اور جذبات سے متاثر ہوچکی ہیں۔ چونکہ اسلام زندگی کے ہر شعبہ کی ادنیٰ ترین تفصیل پر بھی واحد حکمران ہونے کا مدعی ہے ۔ لہٰذا وہ ان ممالک کی فضا میں پھل پھول نہیں سکتا۔جن کے افراد آزادی خیالات کے عادی اور حامی ہوچکے ہوں اور جو ہر بات میں ہر طرح کی سند اور اختیار کو چیلنج کرتے رہے ہیں۔ہاں ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک جو تاحال ترقی یافتہ نہیں۔ جہاں آزاد خیالی کا دور دورہ نہیں۔ اور جو اقوام بزرگان سلف کے خیالات پر چلنا ہی موجب سعادت دارین سمجھتی ہیں۔ ایسے ممالک میں اسلام مروج ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی افغانستان ۔ صوبہ سرحد بلوچستان ،کشمیر ، ڈچ ایسٹ انڈیا وغیرہ میں ہے ۔ چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں۔ کہ
’’تاریخ اسلام میں ایسی بدعت کے ارتکاب کی مثال بہت ہی کم ملیگی ۔ جس نے معینہ حدود کے اندر رہے کر کسی دوسری توجہیہ کی جرات کی ہو‘‘۔
(اسلام اور احمدیت صفحہ ۱۲)
ایڈ یٹر زمیندار (9 ستمبر ۱936ء) کہتا ہے
’’الله تعالیٰ نے دین کو کامل کردیا۔۔۔۔۔ علمائے حق نے کبھی نئے شا خسانے کھڑے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے حق وصداقت قرآن وسنت اور توحید وحسن عمل کی طرف بلایا۔ان کی پکار وہی ایک پکار تھی۔ کوئی نئی پکار نہیں تھی ۔ جس کے حسن وقبح اور صدق وکذب معلوم کرنے کے لئے امت کا ذہن مبتلائے فتنہ ہوجاسکے‘‘۔
پس کیا مغرب اور کیا مشرق ۔ جہاں کہیں اسلام گیا۔ اس کی آمدواور غلبہ نے تجسس تفحص اور استفسار کا خاتمہ کردیا۔یہ حقیقت ایسی عیاں ہے کہ آزاد خیال اور منصف مزاج مسلمان بھی اس کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں دیکھتے ۔ چنانچہ ایران کے شہر تبریز کی اخبار آزاد نے اپنی اشاعت مورخہ یکم جنوری ۱92۲ء میں لکھا
’’تمام دنیا کے مسلمان ہرامر میں ادنیٰ ،مفلس ، غلیظ، غیر مہذب ، بیوقوف اور جاہل ہیں۔ اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں سے بلکہ زرتشتیوں سے بھی دو صد سال پیچھے ہیں۔ اگر اسلام کا یہ حال بعض ممالک میں ہی ہوتا۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بری حالت دیگر اسباب کا نتیجہ ہے ۔ لیکن دنیا کے ہر ملک میں اسلام کی حالت یہی ہے پس ہم سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ کہ یہ حالت اسلام ہی کا نتیجہ ہے‘‘ ۔
(Quoted in John’s Finality of Chirst .p.21)
(4)
پس اہل اسلام اس بات سے واقف ہوگئے ہیں کہ قرآن وحدیث نے استفسار کی جبلّت کو خلاف فطرت طور پر دبادیا ہے ۔ تاریخ اسلام سے ظاہر ہے کہ مفتوحہ ممالک نے اس حالت کے خلاف کئی دفعہ علم بغاوت بلند کیا ہے ۔اور یہ بغاوت تین اطراف سے ہوئی ہے ۔
اول ۔امام غزالی اور دیگر صوفیائے یہ کوشش کی ہے ۔کہ قرآن وحدیث کی تعلیم کو روحانی لباس پہنایا جائے۔ لیکن یہ مساعی بے سود ثابت ہوئیں۔
دوم۔ جب اسلام پر فلسفہ کا بیرونی اثر پڑا۔ تو جبلّت استفسار جنبش میں آئی ۔اور لوگوں نے دینی امور کی نسبت سوال پوچھنے شروع کئے۔ مذہبی امور کی اساس کی نسبت بحث وتمحیص شروع ہوگئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا۔کہ اسلام میں دوفرقے ہوگئے۔ ایک وہ جو بغیر چون وچرا قرآن کو کلام الله مانتے تھے۔ لیکن دوسرا فرقہ قرآن کے مطالعہ میں عقل کوراہ دیتا تھا۔ یوں فرقہ منزلہ کی ابتدا آٹھویں (۸)صدی مسیحی میں ہوئی لیکن معتزلہ بدعتی تصور کئے جاتے تھے ۔ گو ان میں صرف معدودے چند ہی ایسے تھے۔ جو یونانی اور فلسفیانہ خیالات کے ماتحت علم کو علم کی خاطر تلاش کرتے تھے۔زیادہ تعداد ایسوں کی تھی جو اپنا وقت عزيز صرف اسلام کے مطالعہ میں صرف کیا کرتے تھے۔
خلفائے عباسیہ کے دوران عہد میں اخوان الصفا نے بصرہ میں یہ کوشش کی کہ دینی معاملات میں اصول عقلیہ سے کام لیا جائے اور اسلام میں فلسفیانہ خیالات کا دوردورہ ہو۔ لیکن قرآن وحدیث کے ماننے والے ا ن کو کافر اور ملحد تصور کرتے رہے ۔ مثلاً ابو سلیمان المنطقی ان کی بابت کہتا ہے
’’شریعت کو الله تعالیٰ نے ایک ملہم نبی کے ذریعہ بھیجا۔ او رہم پر فرض ہے کہ ہم بے چون وچرا اس کی اطاعت کریں۔ منجموں کے خیالات اور علم طبیعات کی باتیں۔ مثلاً گرمی ، سردی ، سیال، خشک۔مختلف اجزا کی اجتماعی حالت وغیرہ کا یا منطق وہندسہ کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ امور جائز ہوتے ۔ تو الله تبارک وتعالیٰ ان کو جائز قرار دے کر شریعت کومکمل کردیتا ۔لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے ان امور کو منع فرمایا۔کیونکہ وہ نہیں چاہتا ۔ کہ انسان ضعیف البنیان (کمزور ،انسان)اس کے رازوں کی خواہ مخواہ تلاش میں سرگرداں ہو زمانہ ماضی میں مسلمانوں نے فلسفہ کی امداد کے بغیر اپنی مذہبی مشکلات کو حل کرلیا ہے ‘‘۔
امام غزالی جیسا عالم بھی صرف ایسے علم کو ضروری خیال کرتا ہے ۔ جو مومن مسلمان کو اس کے دینی فرائض کی ادائیگی میں مدد دے سکے۔ وہ پہلا کے طبقہ کو یہ اجازت نہیں دیتا۔ کہ وہ کسی شے کی نسبت استفسار کریں۔ کتاب الفضل میں ابن حزم کہتاہے
’’ہر ایک امر جو عقل سے ثابت ہوسکتا ہے ۔ وہ یا تو قرآن میں موجود ہے یا حدیث میں لکھا ہے لیکن چونکہ قرآن نے تمام مذاہب کومنسوخ کردیا۔ لہٰذا قرآن نے ان تمام علوم وفنون کو بھی باطل کردیا ہے ۔ جن کا تعلق ان مذاہب سے تھا‘‘۔
دور حاضرہ میں مصلحین نے یہ کوشش کی ہے کہ اسلام کے دقیانوسی لباس میں نئی روشنی کے خیالات کے کورے کپڑے کا پیوند لگادیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسلام میں نت نئے فرقے اور نئے مذہب جاری ہوگئے ہیں۔ مثلاً بابی مذہب ،بہائی مذہب ، سرسید احمد خان کا نیچری مذہب،قادیانی مذہب وغیرہ۔ اسلام کے مختلف فرقے اور مذاہب ایک دوسرے کے اصولوں پر قرآن وحدیث کی بنا پر نکتہ چینی کرکے ایک منصف مزاج غیر مسلم پر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ خواہ اسلام میں کتنی ہی اصلاح کی جائے۔ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ قرآن وحدیث کی خالص تعلیم پر عمل پیرا ہوکر کسی قوم اور ملک کو شاہراہ ترقی پر چلاسکے۔ دورحاضرہ کے اسلامی ممالک کو اس بات کا پختہ یقین ہوگیا ہے۔ کہ جب تک وہ اسلام کے زیرنگین رہیں گے۔اور قرآنی احکام اور اسلامی شرع کی قیود میں جکڑے رہیں گے ۔ وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا ان ممالک نے اسلام کا بھاری بوجھ جو اتارپھینکنے کی کوشش کی ہے ۔ ان مساعی کا ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کریں گے۔
(5)
جب سے عرب نے ترکی پر غلبہ حاصل کیا تھا اور قرآن اور حدیث ان پر حکمران رہے ۔ تو اسلام نے ان تمام ترقی کے خیالات کو جن کا تعلق قرآن اور فقہ سے نہ تھا۔ کفر سے منسوب کرکے ترکوں کو قرآن وحدیث کی حدود کے باہر نکلنے نہ دیا۔ جب مصطفیٰ کمال اور اس کے ہم خیالوں نے یہ احساس کیا کہ ترکی کا زوال اس کے مذہب اور دینیات کی وجہ سے ہے ۔ تو انہوں نے اسلامی شریعت اور اپنے ملک کی ترقی کے باہمی رشتہ کو بیک جنبش قلم توڑدیا۔ایک فاضل ترک ایبل آدم اپنی کتاب موسومہ کتاب’’ مصطفیٰ کمال ‘‘(قسطنطنیہ ۱9۲6ء) میں لکھتا ہے
’’ہمارے مدرسوں میں ایک ہی منطق اور ایک ہی ذہنیت ہے کہ دینی کتب سے سب امور کا استخراج کیا جائے۔ اسلامی مدرسے سلطنت ترکی کو بچا نہ سکے۔ کیونکہ ان کی یہ تعلیم تھی کہ حقیقت اور سچائی صر ف قرآن حدیث اور سنت نبوی میں ہی پائی جاتی ہے ۔ اسلامی متکلمین نے ضمیر اور خیالات کی آزادی لوگوں کو نہ دی۔ اور اسلامی شرع نے زندگی سے اس کا حق چھین لیا۔ ایشیائی اقوام قوانین اسلام کے ماتحت رہی ہیں۔ اور ان کے آئین کتب دینیات سے ہی اخذ کئے گئے ہیں۔ اور چونکہ یہ آئین لاتبدیل ہیں۔ لہٰذا وہ ترقی کی راہ کوبند کرتے رہے ہیں۔ کبھی کسی کو یہ خیال نہ آیا۔ کہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ آئین وقوانین کا بدلنا بھی لازم ہے ۔اس کے برعکس وہ سیاہ غلاف والی کتاب (قرآن)سے آئین اخذ کرتے رہے ۔ جوقسطنطنیہ سے پہلے بغداد میں تھی۔اور بغداد سے پہلے مکہ میں تھی۔ اور صحرا کے ابتدائی باشندوں کی کتاب تھی کیا ہم ایسے آئین وقوانین پر عمل کرسکتے ہیں ۔ جو نفسیات اور معاشرتی زندگی کے نشوونما اور ترقی کا خیال تک نہ کریں ۔ ترکی نے اپنی تمام آمدنی مدرسوں پر خرچ کردی۔لیکن ان کی تعلیم کا ترکی قوم ،ترکی زبان اور ترکی تہذیب کے ساتھ کچھ تعلق نہ تھا۔ ترکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ درسگاہوں نے الہیات کی بنیاد قرآن وحدیث پر رکھی ہے ۔ اور جو شخص اس محدود دائرہ سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اس کو مطعون وملعون قراردیدیا ۔ مسیحیت بھی اسلام کی طرح ایک ایشیائی مذہب تھا۔ لیکن اس نے کسی قوم کی معاشرت اور تمدنی زندگی پر جبر روانہ رکھا۔ مسیحیت شہر روما میں گئی۔ لیکن وہ اپنے ساتھ یہودکی معاشرتی زندگی نہ لے گئی ۔ اگر اسلام کی طرح مسیحیت بھی ایک لشکر جرار کے ساتھ یروشلیم سےچلتی۔ اور یورپ پر قابض ہوجاتی تو یورپ کا بھی اسلامی ممالک کا سا حال ہوجاتا۔ لیکن مسیحیت نے ایسا نہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ سلامت اور محفوظ ہے ۔ ترکی نے یہ کوشش کی کہ دور حاضرہ کے مطابق چلے۔ اور مسلمان بھی رہے۔ لیکن یہ نہ ہوسکا۔ ان قوانین کے جو اسلام سے اخذ کئے گئے تھے۔ برے نتائج ظاہر ہیں‘‘ ۔
(صفحہ 7تا ۱۲)(Muslim’s World July 19۲7
پھر یہی ترک کہتا ہے کہ
’’اسلام کے آہنی قفس (لوہے کے قید خانے)نے ایشیائی اقوام کی نجات کا کوئی امکان رہنےہی نہ دیا تھا‘‘۔
اسی طرح جلال نوری یہ کہتاہے۔ کہ
’’ اسلام میں ہم نے مسیحیت جیسی نشوونما اور اپنے گردوپیش کے حالات اور ماحول سے مطابق ہوجانے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں دیکھی۔ اسلام آج تک غیر متحرک حالت میں ساکن رہا ہے ۔ پرانے فتاویٰ کی زنجیروں میں جکڑے رہنا ترقی کےمنافی ہے ۔ ہم زمانہ قدیم کے ساکن تصورات اور غیر متحرک معاشرتی اقتصادی اور سیاسی تصورات میں بے بس ہوکر بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن زندگی کا یہ اصول ہے کہ جوشے ساکن اور غیر متحرک رہتی ہے وہ لازمی طور پر لازوال پذیر ہوجاتی ہے‘‘۔
(ترکی انقلاب صفحہ 58)
ترکوں کے اس احساس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱9۲۲ء میں مصفطی ٰ کمال اتاترک نے سلطان عبد الحمید کو جو دنیائے اسلام کا خلیفہ تھا۔ ترکی سے ملک بدر کردیا ۔ اور مارچ ۱9۲۲ء میں اس نے خلافت کا خاتمہ کردیا۔جب دیگر اسلامی ممالک نے خلافت کا خاتمہ دیکھا اور اسلام کے جلال کو غروب ہوتے دیکھا تو انہوں نے اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ لیکن مصطفیٰ کمال نے جواب دیاکہ ہندوستان کی تحریک خلافت کے وجود سے حاصل تھا۔ لیکن انہوں نے اسلامی اتحاد کو ترکی اتحاد پر قربان کردیا۔ کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ اسلامی خیالات اور دورحاضرہ کے خیالات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ایک ترک مصنف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
’’اگر ترکی قو م مسلمان نہ ہوتی۔ تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ‘‘۔
ترکی سلطنت جمہوریہ نے ان تمام اسلامی قیود کو اڑادیا جو ترکی کی ترقی کی راہ میں حامل تھیں۔ کمال اتاترک نے ملکی ضابطہ میں سب سےبڑی تبدیلی یہ کی کہ اسلام کو ترکی جمہوریہ سلطنت کا مذہب نہ بنایا اور یوں امور سلطنت کو قرآن وحدیث کی قیود سے آزاد کردیا۔اس کی تعزیرات کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ ’’ اسلام سلطنت ترکی کا مذہب نہیں ہے ‘‘۔ اور دفعہ 75 میں ہے ۔ کہ’’ کوئی شخص اپنے مذہب یا فرقہ یا رسوم یا فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے سزا اور تعذیب کا مستوجب نہ ہوگا‘‘۔ کہا ں یہ دفعہ او رکہاں قرآن وحدیث کی شریعت ارتداد جس کی روسے مرتد کا قتل جائز ہے ۔
دیگر اسلامی ممالک کی طرح ترک بھی اپنی مادری زبان کو فراموش کرچکے تھے۔ اور ان کی زبان عربی ہوچکی تھی۔ پس کمال اتاترک نے عربی کو سلطنت سے خارج کردیا۔ اب نماز آسمانی زبان عربی کے بجائے ترکی میں پڑھی جاتی ہے۔ اور یہ قدم ایسی پالیسی کا پیش خیمہ تھا کہ سلطنت ترکی پر قرآن وحدیث حکمران نہ رہیں۔ بلکہ ترکی کی قومی اور ملی نشوونما اور ترکی سیاسیات کی بنیاد اسلام کی بجائے ترکی قومیت پر قائم ہو۔ترکوں نے ترکی میں نماز پڑھنے اور مسجدوں میں ترنم سے گانے اور دلنواز باجا بجانے کا حکم دے دیا ہے ۔ خطبات عربی زبان کی بجائے ترکی میں ادا ہوتے ہیں۔ خواہ خواجہ حسن نظامی دھلوی مسجدوں کے اندر با جا بجانے کے حکم کو ’’دشمنوں‘‘ کی طرف ہی سے منسوب کریں کیونکہ آپ کے خیال کے مطابق ’’کوئی انسان خواہ کسی عقیدہ کا ہو یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ کافروں کی طرح مسجدوں میں با جا بجایاجائے۔ ترکی حکومت مذہب اسلام کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتی‘‘۔
(پرتاپ ۱۱ جولائی ۱9۲8ء)
ادھر ہندوستان میں خواجہ حسن نظامی یہ لکھتاہے۔ ادھر ترکی میں ڈاکٹر عبدالله مدیر اخبار اجتہاد اگست ۱9۲4ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ
’’اسلام ایک ایسا کرتہ ہے جو اہل عرب کے لئے کاٹا اور بنایاگیاہے ۔ اور جو ہم ترکوں کے گلے میں زبردستی جبر کے ساتھ پہنایا گیا ۔ اس نےہم کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ۔ اور ہماری قومی اور ملی نشوونما کی راہ میں حائل ہے ۔ ترکی نے اب تمام قیود سے نجات حاصل کرلی ہے ‘‘۔
فاعبر وایا اولی البصار ۔ترکی نے عربی رسم الخط کو سلطنت سے خارج کردیا ہے ۔ اور لاطینی رسم الخط اختیار کرلیا ہے ۔ مصطفیٰ شکیب بے جو قسطنطنیہ کی یونیورسٹی میں علم نفسیات کا پروفیسر ہے ۔ رسم الخط کی تبدیلی کی نسبت یوں رقمطراز ہے ۔
’’عربی حروف ترکی زبان کے لئے وضع نہیں کئے گئے تھے۔ جس طرح چینی لوہے کی جوتیاں چین کے باشندوں کے پاؤں کے نشوونما میں حائل ہوتی رہیں۔اسی طرح عربی رسم الخط نے ترکی زبان کو ترقی نہ کرنے دی۔ عربی حروف کا اختیار کرنا ہماری بدقسمتی تھی۔ دور حاضرہ میں مختلف علوم وفنون سائنس کی اصطلاحات ،تلغراف ، بنج بیوپار، تجارت ، مالیات اور جنگی ضروریات کے لئے نئی اصطلاحات کو وضع کرنے کے لئے عربی ناکافی ثابت ہوئی ہے ۔ پس ہمیں ایک نئے رسم الخط کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ کہ عربی حروف ہمارے بچوں کے ذہنوں اور روحوں کا گلا گھونٹ دیں۔ ہم کو ایک ایسے رسم الخط کی ضرورت ہے جو ہماری زبان کی ترقی اور تکمیل میں ممدومعاون ہو۔ اور یہ عربی رسم الخط سے نہیں ہوسکتا جو زمانہ قدیم کے قد آور حیوانوں کی طرح بھدی ہے ۔ ترکی قوم کی موجودہ جہالت عربی حروف اور رسم الخط کی وجہ سے ہے ۔ ان حروف کی بیقاعدگی کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم سے کوسوں دوربھاگتے ہیں ۔ ترکی رسم الخط ہم کو عربی حروف کے برے نتائج سےبچائے گا۔ او رہمارے بچوں کو تعلیم کا شوق عود کرآئے گا ۔ علاوہ ازیں یہ رسم الخط ترکی کو جو عربی اور فارسی صرف ونحو کے ماتحت مفلوج رہی ہے ۔ از سر نو علم وفنون کے سیکھنے میں ممدو معاون ہوگا‘‘
(Variet Aug/22/1928)
ترکی رسالہ اقدام اپنی اشاعت مئی ۱9۲8ء میں لکھتا ہے کہ
’’ ترکوں نے اسلام قبول کرتے وقت عربی رسم الخط ۔ عربی تہذیب دستورات اور قوانین اختیار کرلئے۔اور اس طرح عربیت کا قدم ترکی سوسائٹی میں جم گیا۔ یہ ترکوں کی بدقسمتی تھی کہ یہ حالات ایک ہزار سال تک رہے ۔ لیکن اسلامی دنیاسے عربی زبان کی وجہ سے سائنس اور علوم وفنون گم ہوگئے۔اسلامی تہذیب ٹوٹتے تارے کی طرح ہے جس کی چمک کا زمانہ نہایت محدود ہوتاہے۔ ترکی قوم میں ہر طرح کی ترقی کی صلاحیت موجود تھی۔ لیکن اسلامی تہذیب ساکن اور غیر متحرک تھی۔ اور اس کے اختیار کرنے کا نتیجہ ترکوں کے حق میں نہایت مضر ثابت ہوا‘‘۔
اسلام کی وجہ سے ترکوں کا یہ حا ل ہوگیاتھا کہ استفسار کی جبلّت بالکل ناکارہ ہوگئی تھی۔ ترکی کی سابقہ ذہنیت کی عمدہ مثال ایک خط ہے جو کسی ترکی افسر نے ایک انگریز محقق کو تحریر کیا تھا۔ انگریز محقق نے اس ترکی افسر سے اعداد وشمار طلب کئے تھے ۔ جس پر اس کو یہ جواب ملاکہ
’’ جو بات آپ نے مجھ سے دریافت کی ہے ۔وہ نہ صرف مشکل بلکہ غير مفید بھی ہے ۔ اگر چہ میں مدت طویل سے اس جگہ سکونت پذیر ہوں ۔ لیکن میں نے نہ تو گھروں کو شمار کیا ہے ۔ اور نہ یہاں کے باشندوں کی تعداد دریافت کی ہے ۔ یہ میرا کام نہیں کہ یہ معلوم کرتا پھروں کہ فلاں اپنے خچر پر کیالادتاہے اور فلاں کیا کیا اشیا جہاز کے ذریعہ بھیجتا ہے ۔ اس شہر کی ٍٍگذشتہ تاریخ کے متعلق صرف خدا کو ہی علم ہے ۔ کہ اسلام کی تلوار سے پہلے کفار نے کیا گوہ کھایا ہوگا ۔ہمارا ان باتوں کو دریافت کرنا محض بے سود ہے ۔ کوئی فلسفہ خدا کی وحدت پرایمان لانے سے بہتر نہیں۔ اسی نے دنیا ومافیہا کو پیدا کیا۔ کیا یہ بات سزاوار ہے کہ ہم اس کی خلقت کے رازوں کو دریافت کرتے پھریں۔ کیا یہ لائق ہے کہ ہم کہتے پھریں۔ کہ فلاں ستارہ فلاں ستارے سے گرد گردش کرتاہے ۔ اور فلاں دمدار ستارہ اتنے برسوں کے بعد آتا اور پھر جاتا ہے آپ ان باتوں کو رہنے دیں۔ اور ان کی طرف متوجہ نہ ہوں ۔ جس دست قدرت نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وہی ان کو سنبھالتاہے ۔ اور وہی ان کو ان کی مقررہ راہ پر چلائے گا‘‘۔
(Quoted by Prof W.James from Sir A.Layord Ninevah & Babylonia
الله !الله کہاں یہ اسلامی ذہنیت جو قرآنی آیات (بنی اسرائیل 38تا 40) کے عین مطابق ہے ۔ اور کہاں دور حاضرہ کے ترک ۔ ع۔ بہ ہیں تفاوت راز از کجاست تایکجا۔ گذشتہ تیرہ سال میں ترکی قرون وسطیٰ کے تاریک زمانہ سے نکل کر حیرت انگیز طور پر دور حاضرہ کی ترقی یافتہ قوم بن گئی ہے۔
(6)
اگرچہ افریقہ میں اسلام ایک ہزار (۱۰۰۰)سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے ۔ اور اس نے ایسے شہروں پر قبضہ کر رکھا ہے جو اس کے غلبہ حاصل کرنے میں ممدو معاون رہے ہیں ۔تاہم اسلام نے حبشی اقوام کی تعلیم کے لئے مسیحیت کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا۔ مصر اور سوڈان میں اسلام نے سب سے زيادہ ترقی کی ہے ۔ لیکن اس کا طریقہ تعلیم وہی دقیانوسی طریقہ سے جو صدیوں سے چلا آیا ہے۔ اور جس کا سب سے عالیشان نتیجہ قاہرہ میں جامع العلوم ازہر ہے یہ جامع قرآن وحدیث اور فقہ کا حصین قلعہ ہے ۔ اور دور حاضرہ کے علوم وفنون کا جانی دشمن ہے۔ جبلّت استفسار کو ہر وقت اور ہر حالت میں دبانا تفحص تجسس کے خلاف ہر وقت کارروائی کرنا اس دارالعلوم کا طغرہ امتیاز ہے ۔ اس کے علما زمانہ سلف کے نقش قدم پر چلنا اور قرآن وحدیث اور کتب فقہ سے سند لینا موجب سعادت دارین خیال کرتے ہیں۔
لیکن ترکوں کی دیکھا دیکھی ایران اور مصر کے مسلمان بھی اس محدود دائرہ میں رہنا نہیں چاہتے۔ جو خیالات کی وسعت اور آزادی کے خلاف ہے ۔ چنانچہ شیخ علی عبدالرزاق جو جامع ازہر کی فیکلٹی کا ممبر ہے ۔ اور منصور کی عدالت شرعیہ کا قاضی ہے ۔ اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ
’’قوانین شرعیہ سیاسی گورنمنٹ کی ہدایت کے لئے وضع نہیں کئے گئے تھے۔ بلکہ ان کا مقصد افراد کی عملی زندگی کی رہنمائی کرنا ہے ۔ محمدﷺ محض ایک رسول تھے۔ جو ایک مذہبی پیغام لے کر آئے تھے۔ آپ کے پیغام کا تعلق سیاسیات سے نہ تھا ۔ آپ نے کوئی سلطنت قائم نہ کی تھی ۔ آپ دیگر انبیاء کی طرح ایک نبی تھے‘‘ ۔
(Islam & Foundations of State)
ڈاکٹر طہ حسین آفندی پروفیسر عربی لٹریچر جامع از ہر نے لکھا ہے کہ
’’جامع ازہر کے علما چاہتے ہیں کہ سائنس مذہب اسلام کے ماتحت رہے ہم چاہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کو جدا کیا جائے۔ تاکہ سائنس بغیر کسی بے جا مداخلت کے ترقی کرے ‘‘۔
(Quoted by levoniont in Islam mentality p.120)
اسی پروفیسر نے ۱9۲6ء میں ایک کتاب زمانہ جاہلیت کی شاعری پر تصنیف کی۔ جس کے بعض نتائج راسخ الاعتقاد مسلمانوں کے خیالات کے خلاف تھے۔ مثلاًوہ کہتا ہے کہ
’’ زمانہ جاہلیت کے شعرا میں سے بعض کا کلام ایسا ہے جو فصاحت وبلاغت میں قرآن کےبرابر ہے ‘‘۔
حالانکہ کتاب کاتعلق مذہب کےساتھ نہیں تھا۔ بلکہ شاعری کے ساتھ تھا۔ لیکن اس کا چرچا یہاں تک ہوا کہ مصر کی پارلیمنٹ میں یہ تقاضا کیاگیا کہ پروفیسر طہ ٰ حسین کو جامع ازہر سے الگ کردیا جائے۔ ایک ممبر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسے جرم کی سزا قرآن کے مطابق سنگساری ہے ۔ چنانچہ اس کتاب کی تمام کاپیاں نذر آتش کردی گئیں۔
(7)
حقیقت تو یہ ہے کہ جبلّت استفسار کی نشوونما اور ترقی اسلامی ممالک میں نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قرآن وحدیث اس جبلّت کے خلاف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں خیالات کی آزادی کی ممانعت ہے ۔ اوریوں اسلامی ممالک پر ہی کیا منحصر ہے ۔ جس جگہ بھی اہل اسلام کی اکثریت ہے۔ وہاں خیالات کی آزادی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ خود ہندوستان میں جہاں قرآن وحدیث کے مطابق حکمرانی نہیں کی جاتی۔ آئے دن ایسی کتابیں بحق ملک معظم ضبط کی جاتی ہیں۔ جن میں اسلام کے خلاف آزاد انہ بحث ہو۔ ایسی کتابوں کے مصنفوں پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ اور جو مسلمان مذہبی جنون کی وجہ سے ایسے مصنفوں کو قتل کردیتے ہیں ۔ ان کو عوام الناس غازی اور شہید کا خطاب دے دیتے ہیں۔یہ حال اس ملک کا ہے جہاں قرآن وحدیث کے شرعی احکام کے مطابق حکومت نہیں کی جاتی۔ او رجہاں کے مسلمان صدیوں سے غیر مسلم تا ثرات سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ناظرین خود اندازه لگاسکتے ہیں کہ ان ممالک میں خیالات کی آزادی تفحص ، تجسس اور استفسار کا کیا حشر ہوگا۔ جہاں آئین ملک اور قوانین سلطنت قرآن وحدیث پر ہی مبنی ہیں۔
(8)
لیکن جبلّت استفسار ہماری سرشت کا ایک زبردست حصہ ہے ۔انسانی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے ۔ کہ ہم ہر بات میں تجسس، استفسار، تفحص اور جستجو کریں۔ پس دورِ حاضرہ کے مسلم نوجوان جن کے اذہان نئی روشنی سے منور ہوچکے ہیں۔ خواہ وہ شمالی افریقہ کے رہنے والے ہوں۔ خواہ مراکو ، ترپولی، مصر ، کنعان ، ایران ، عراق، ہندوستان ترکی چین کےباشندے ہوں۔فی زمانہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں۔ کہ ان کو خیالات کی آزادی نصیب ہو ۔چنانچہ علامہ ڈاکٹر اقبال کہتےہیں کہ
’’گذشتہ پانچ سو سال سے اسلامی خیالات ساکن رہے ہیں۔ ان تمام صدیوں میں جب ہمارے دماغ سورہے تھے۔ مغرب جاگتا رہا اور اس کاذہن کام کرتا رہا ۔ قرون وسطیٰ میں اسلامی دینیات مکمل ہوگئی۔ لیکن اس وقت سے زمانہ نے کروٹ لے لی ہے ۔ اور انسانی فلسفہ وغیرہ بہت آگے نکل گئے ہیں۔ نئے نظریہ جات قائم ہوگئے ہیں۔ اور پرانی باتیں نئے خیالات کی روشنی میں نظر آتی ہیں۔ اور نت نئے حل طلب مسائل اپنا منہ دکھارہے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ انسانی عقل زمان ومکان اور علت ومعلول کی قیود سے بالا ہوگئی ہے ۔ اور اب اسلام کی نئی پود جو ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں ہے یہ چاہتی ہے کہ نئے خیالات کی روشنی میں اسلامی عقیدہ نظر آئے‘‘۔
صفحہ 7۔
پھر علامہ موصوف کہتے ہیں کہ
’’جو دینیات مردہ فلسفہ کی اصطلاحات پر قائم ہو ۔ وہ ان اشخاص کے لئے کارآمد نہیں ہوسکتا جن کے خیالات دورجدید سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘
صفحہ 9۲۔
اسی طرح مشہور مصنف ایس خدا بحش مرحوم اپنی کتاب (Essays. Indian & Islamic) میں کہتا ہے کہ جو
’’شخص یہ خیال کرتا ہے کہ جو مذہبی اور سوشل احکام ہم کو تیرہ سو(۱۳۰۰)سال ہوئے ملے تھے۔ وہ اب بھی بغیر کسی تبدیلی کے تمام کے تمام دور حاضرہ پر عاید ہوسکتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور فریب خوردہ ہے ۔ پچاس (۵۰) سال سے اس ایک بات پر ہندوستان کی نئی پود اور پرانی نسل کے خیالات میں جنگ ہورہی ہے ۔ قدیم خیالات روز بروز زوال پذیر ہورہے ہیں ۔ اور بوسیدہ ہوکر طبعی موت مررہے ہیں ۔ اگر کوئی شخص ہو اکے طوفان کے ساتھ یا سمندر کی لہروں کے خلاف جنگ کرسکتا ہے تو وہ ترقی کے ساتھ بھی جنگ کرسکتا ہے ۔ تعلیم یافتہ مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے دینی عقائد وغیرہ کی اصلاح عقل ِسلیم کے مطابق ہوسکے۔ وہ بزرگان سلف کی سند اور اقوال کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو تیار نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ان کی سند کو وہ دلیرانہ چیلنج کرتے ہیں۔ وہ اس امر کا اقدام قومیت ،ترقی ، تہذیب ، اور کلچر کے نام سے کرتے ہیں ‘‘۔
چنانچہ ترکی مصنف جلال نوری بے اپنی کتاب ترکی انقلاب میں بے مثل جرات کو کام میں لا کر لکھتا ہے
’’میری رائے تو یہ ہے کہ قرآن کا کتابی صورت میں جمع ہونانہ تو قابل تعریف بات تھی اور نہ مفید تھی۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ رسول نے اس کے جمع کئے جانے کا کبھی حکم بھی دیا تھا۔ بہر حال خلیفہ عثمان کی یہ سعی اور کوشش چنداں ستائش کے قابل بھی نہیں۔ قرآن میں چند احکام اور ہدایات موجود ہیں۔ لیکن یہ احکام ضرورت کے مطابق نازل ہوتے تھے۔اور ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ قرآن کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ان احکام کو ایک جاترتیب دے کر کتابی صورت میں جمع کیا جائے ۔ نبی ﷺ نے ایسا حکم کبھی نہیں دیا تھااور نہ آپ کا یہ ارادہ اور مقصد تھا ۔ لیکن مولف قرآن نے اس بات کو نظر انداز کردیا۔ قرآن کا ایک ایک حکم کسی خاص وقت زمانہ اور موقعہ سے تعلق ہے ‘‘۔
( صفحہ ۱30)
پس اسلام کی تاریخ میں پہلی دفعہ دورِ حاضرہ میں مذہب کو قومیت اور سیاست سے جدا کیا جارہا ہے ۔ مذہبی عقاید کو انسان کی ضمیر سے متعلق کیا جارہاہے تاکہ قرآنی احکام انسانی زندگی کے ہر شعبہ کی ادنیٰ تفصیلات پر واحد حکمران نہ رہیں۔ اور جبلّت استفسار بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے اقتضا کو پورا کرنے کے لئے تفحص اور تجسس سے کام لے سکے۔
نتیجہ
سطور بالا سے یہ ظاہر ہوگیا ہوگا کہ اسلام جبلّت استفسار کو اپنے اختیار اور رعب سے دباتا ہے۔ اس کی نشوونما اور ترقی کی راہ میں روکاوٹیں پیدا کرتاہے۔ اسلامی تاریخ ہمارے اس نتیجہ کی موید ہے کہ اسلامی ممالک میں خیالات کی آزادی کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے اسلام دین فطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس مسیحیت اس بات پر مصر ہے کہ ’’سب باتوں کو پرکھا اور آزمایا جائے ۔ اور جو بہتر ہو اس کو اختیار کیا جائے‘‘۔ وہ تجسس تفحص، استفسار ، کی نشوونما اور علم کی ترقی کی خواہاں ہے ۔ مسیحیت کی تاریخ اس امر کو عیاں کردیتی ہے ۔ کہ اس کے زیر سایہ فلسفیانہ نظریئے ،محققانہ کارنامے علمی مباحثات وغیرہ پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ لہٰذا مسیحیت ایک واحد مذہب ہے جو حقیقی معنوں میں دین ِفطرت کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے ۔
فصل ہفتم
جبلّت اجتماع پسندی
جبلّت اجتماع پسندی کی خصوصیات
انسانی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب مختلف افراد طبعاً آپس میں مل جل کررہنا پسند کرتے ہیں۔ اور تنہائی سے نفرت رکھتے ہیں۔ جاندار اوربے جان اشیاء میں یہ امتیاز ہے کہ جانداروں میں تمدنی گروہ بندی ہے ۔ اس جبلّت کا اثر ہماری معاشرتی زندگی پر بے اندازہ ہوتا ہے ۔ ہم طبعی طور پر اپنے ہم جنسوں کی تلاش کرتے ہیں اور ان سے رفاقت رکھنا چاہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اکیلی کوٹھڑی میں بند ہوجانے کی سزا ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔
(۲)
انسانی تاریخ میں کوئی ایسا زمانہ نہیں ملتا ۔ جب مختلف افراد قبائل میں نہ رہے ہوں۔ انسانی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے ۔ کہ تہذیب اور ترقی کی ابتدائی منازل میں افراد کوکوئی اہمیت اور وقعت حاصل نہ تھی۔ ہر شخص قبیلہ کا محض ایک فرد تھا اور بس اس کی ہستی بذات خود کچھ قدر اور وقعت نہ رکھتی تھی ۔ قبیلے کی ہستی اور بقا اور قیام ہی اعلیٰ مقاصد خیال کئے جاتے تھے۔ اگر افراد کی کچھ ہستی تھی۔ تو محض قبیلے کی خاطر تھی۔ قبیلہ سے الگ کسی فرد کی صفر برابر بھی قدر نہ تھی۔ اس کی مثال ہمارے ملک کی ذاتوں کی درجہ بندی میں پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی اچھوت ذات کے گھر پیدا ہوا ہے ۔ تو وہ اچھوت تصور کیا جاتا ہے ۔ بطور ایک فرد کے وہ کچھ ہستی نہیں رکھتا۔ خواہ وہ بذات خود کیسا ہی پاک اور نیک انسان کیوں نہ ہو۔
(3)
ان ابتدائی منازل سے ترقی کرکے انسان اس منزل پر پہنچتا ہے جب قبیلہ کی جگہ قوم اور ملک کی ہستی اور بقا اعلیٰ ترین مقاصد خیال کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی فرد بشر قوم اور ملک کی بقا کے لئے مفید ہے ۔ تو وہ وقعت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی فرد قوم اور ملک کی زندگی سے جدا ہوکر زندگی بسر کرنا چاہے ۔ تو وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ اگر وہ جیتا ہے تو قوم اور ملک کی بقا کے لئے جیتا ہے اور اگر قومی اور ملکی مفاد اس کی موت سے حاصل ہو سکتے ہوں۔ تو وہ بے دریغ موت کا لقمہ کیا جاتا ہے ۔ اندریں حالات کسی انسان کو یہ آزادی حاصل نہیں ہوتی کہ قومی ، ملی، او رملکی رسوم ورواج کو ترک کردے یا نئے رسوم یا نئے آئین کو وضع کرے یاکسی نئے مذہب کو اختیار کرے۔ اگر کوئی فرد اس قسم کی بات کرنے کی جرات کرتا ہے ۔ تو وہ قوم و ملت اور ملک سے خارج کردیا جاتا ہے یا قتل کردیا جاتا ہے ۔
(4)
انسانی ترقی کی آخری اور انتہائی منزل پر افراد کی قدر اور وقعت افراد کے طور پر کی جاتی ہے اس منزل پر ہر ایک فرد بشر کو ایک آزاد اور ذمہ وار ہستی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جو بقائے نوع کی خاطر یا قبیلہ یا ملت یا قوم او رملک کی خاطر پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے برعکس قبیلہ اور قوم اور ملک اس کی روحانی ترقی کا وسیلہ اور ذریعہ خیال کئے جاتے ہیں۔
لیکن یہ امر ضروری ہے کہ اس انتہائی منزل میں انانیت اور جبلّت اجتماع پسندی میں باہم صلح ہو۔ اور دونوں پہلو افراط وتفریط سے خالی رہیں۔ جس طرح ابتدائی منازل میں جبلّت اجتماع پسندی انانیت کو دباتی رہی ہے ۔ اب ترقی کی اس انتہائی منزل پر انانیت اس جبلّت اجتماع پسندی کو دبانے نہ پائے ۔ بلکہ دونوں پہلو بہ پہلو اور دوش بدوش ہوکر افراد اور اقوام کو ان کی اعلیٰ ترین منازل کی جانب چلنے میں ممدو معاون ہوں۔
جبلّت اجتماع پسندی اور دین فطرت کے لوازمات
سطور بالا سے ظاہر ہوگیا ہوگا ۔کہ دین ِفطرت کا یہ کام ہے کہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس اجتما ع پسندی کی جبلّت افراد کی ہستی کو دبانے نہ پائے۔ بلکہ ہر فرد کو ذمہ دار آزاد واخلاقی ہستی قرار دے تاکہ ہر فرد اپنے قبیلے ، جماعت ، ملت ، قوم ، اور ملک کی خدمت ترقی اور بہبودی میں اپنی نجات کی تلاش کرے۔
دین ِفطرت کا یہ بھی کام ہے ۔ کہ ایسے جامع اصول وضع اور قائم کرے ۔ جن کا اطلاق ہر زمانہ ، قوم اور ملک کے انسانی تمدن اور معاشرت کےمختلف شعبوں پر ہوسکے ۔
دین ِفطرت کا یہ بھی کام ہے کہ خدا کی ذات کی نسبت ایسی تعلیم دے جو اس جبلّت کے اقتضا کے مطابق ہو۔ اور ایسے اصول بتلائے جس سے خدا اور انسان کے باہمی تعلقات میں رفاقت کا سلسلہ قائم اور جاری رہ سکے۔
مسیحیت اور افراد کی وقعت
یہ ایک تو۱ريخی حقیقت ہے کہ کلمتہ الله اس دنیا کے پہلے معلم تھے جنہوں نے کل عالم کو یہ سکھلایا کہ ہر فرد بشر ایک ذمہ دار اخلاقی ہستی ہے ۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ خدا باپ ہر فرد بشر سے لازوال محبت رکھتا ہے ۔ اور ہر ایک بشر کی زندگی کا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔ بچہ ہو یا بوڑھا، خفیف سے خفیف واقعہ بھی خدا کے علم اور محبت کا مظہر ہے (متی ۱۰: ۳۰)۔آپ نے فرمایا کہ حقیر ترین انسان کی روح کی قدر نہ صرف تمام دنیا سے زیادہ ہے (مرقس ۸: ۳۶)۔ بلکہ وہ ایسی قیمتی شے ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اس دنیا میں بھیجا۔ تاکہ کسی فرد بشر کی روح ہلاک نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا ۳: ۱۶)۔آپ نے یہ تعلیم دی کہ سب سے براوہ شخص ہے جو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی روحانی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے ۔ اور فرمایا’’جو کوئی ان چھوٹوں میں سے کسی کو ٹھوکر کھلاتا ہے ۔ اس کے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک بڑی چکی کا پاٹ اس کے گلے میں لٹکایا جائے ۔اور وہ گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔خبردار ان چھوٹوں میں سے کسی کو حقیر نہ جاننا ۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ اگر کسی آدمی کی سو (۱۰۰)بھیڑیں ہوں۔ اور ان میں سے ایک بھٹک جائے تو کیا وہ ننانوے(۹۹) کو چھوڑ کر اور پہاڑوں پر جاکر اس بھٹکی ہوئی کو نہ ڈھونڈنے گا؟ اور اگر ایسا ہو کہ اسے پائے تو میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ ان ننانوے(۹۹) کی نسبت جو بھٹکی نہیں۔ اس بھیڑ کی زيادہ خوشی کرےگا۔ اسی طرح تمہارےباپ (پروردگار ) کی جو آسمان پر ہے ۔ یہ مرضی نہیں کہ ان چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو‘‘ (متی ۱۸: ۴۸؛ لوقا ۹: ۴۸وغیرہ)۔ منجی عالمین اس دنیا میں اس لئے آئے تاکہ ہر زمانہ اور ہر ملک اور قوم کے ہر مرد اور ہر عورت ،ہر بچے ، اورہر جوان اور بوڑھے کو نجات دیں(۱۔یوحنا ۶: ۱۲۔۱۵)۔ جوکوئی بیٹے پر ایمان لاتا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے (یوحنا ۳: ۲۶؛ ۵: ۲۴؛ ۶: ۳۷؛ ۷: ۳۸؛ ۱۰: ۲۷وغیرہ)۔ انجیل جلیل ہم کو تعلیم دیتی ہے کہ’’ خدا کے ہاں کسی کی طرفداری نہیں ،جلال اور سلامتی ہر ایک نیکوکار کو ملے گی‘‘ ( رومیوں ۲: ۱۰)۔ہر فرد بشر خدا کے نزدیک قدر اور وقعت رکھتا ہے ۔ اور مسیح ہر ایک کا منجی ہے ( رومیوں۵: ۸؛ ۶: ۲۳؛ ۹: ۳۲؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۱۲وغیرہ)۔ مقدس پولُس فرماتاہے کہ خدا نے دنیا کے کمینوں اور حقیروں کو بلکہ بے وجودوں کو نجات کے واسطے چن لیا(۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۶)۔ پس ہر ایک شخص خواہ وہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ ۔ خواہ امیر ہو یا غریب ، خواہ بڑا ہو چھوٹا، خواہ مرد ہو خواہ عورت، جو مسیح میں ہے وہ نیا مخلوق ہے۔ اس میں سے پرانی چیزيں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہوگئیں (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۱۷وغیرہ وغیرہ)۔
جناب مسیح کا ایک درخشاں کارنامہ یہ ہے کہ جہاں آپ کسی انسان کی بری عادتوں کے انبار میں کسی نیک خصلت کا شمہ(قلیل مقدار) بھی دیکھ لیتے ۔ آپ اس کوشش میں رہتے کہ وہ نیک عادت روز بروز بڑھتی جائے اور یہاں تک ترقی کرجائے کہ رفتہ رفتہ اس کی انانیت اور ذات کے اظہار کا وسیلہ ہوجائے۔مثلاً حضرت پطرس جیسے جلد باز اور بزدل شخص ، حضرت یوحنا جیسے غصہ وار اور تند مزاج شخص۔ علی ٰ ہذا القیاس دیگر حواریوں کو آپ نے رسالت کے عہدہ پر ممتاز فرمایا’’ اور ان سے آپ نے اس قدر محبت کی‘‘ (یوحنا ۱۵: ۱۲۔۱۵؛ ۱۷: ۱۲) کہ ان کی تمام بدعادتیں ان سے دور ہوگئیں ۔ اور ان کی نیک خوبیاں ایسی ترقی کرگئیں ،کہ وہ ان کی ذات کا جوہر ہوگئیں۔اور ان کی بدولت تمام اکناف عالم میں مسیحیت پھیل گئی ۔ اسی طرح دیگر اشخاص کے ساتھ بھی آپ نے یہی سلوک کیا(مرقس ۱۲: ۴۱۔۴۴؛ ۱۴: ۳۔۹؛ ۱۰: ۱۷۔۲۲؛ متی ۲۶: ۳۶۔۴۱؛ لوقا ۲۳: ۳۴؛ ۱۵: ۱۱؛ ۱۹: ۸۔۹و غیرہ)۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی بدترین گنہگار شخص میں نیکی کااتنا شمہ باقی رہا ہو کہ اس نے ازراہ رحم اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی ترس کھاکر کسی پیا سے کو پانی کا پیالہ پلایا ہو۔ تو ایسے گنہگار کے لئے بھی اُمید باقی ہے کہ وہ کسی دن مقدسوں کی صف میں شمار ہوجائے(مرقس ۹: ۴۰۔۴۱وغیرہ) آپ نے ایک تمثیل کے ذریعہ یہ حقیقت منکشف فرمائی ۔ کہ اگر کسی شخص میں رتی بھر لیا قت نیکی کرنے کی موجود ہو اور وہ اس لیاقت کو استعمال کرے اور یوں اپنی انانیت کو ترقی دے ۔ تو وہ اپنی ذات کا اظہار اس رتی بھر لیاقت سے اسی طرح سے کرسکتا ہے جس طرح ایک دوسرا شخص جس کی ذات میں نیکی فراواں ہو (متی ۲۴: ۱۴، ۲۳)۔غرضیکہ مسیحیت کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر انسان کو موقعہ اور توفیق عطاکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ تاکہ دنیا کاہر فرد بشر اپنی انانیت کا جائز طور پر اظہار کرسکے۔ اور اپنی ذات کو ترقی اورتکمیل دے سکے۔ جس سے ظاہر ہے کہ مسیحیت دین ِفطرت ہے ۔
اسلا م اور افراد کی وقعت
قرآن غلامی کی قبیح رسم کو جائز قرار دیتا ہے ۔ قرآن خود کہتا ہے کہ’’ غلام پرائے کے پس میں ہوتاہے اور کسی شے پر اختیار نہیں رکھتا‘‘ (سورہ نحل آیت 77 ، سورہ روم ۲7)۔تاہم وہ نہ صرف غلامی کو مباح قرار دیتا ہے بلکہ اس کو جہاد وغیرہ کے مرغبات ومحرکات حسنہ میں شمار کرتا ہے ۔ مال غنیمت میں سے باندیوں کو حاصل کرنا (نسا۲9)اور ان میں سے لاتعداد کے ساتھ مباشرت کرنا(نسا آیت 3 احزاب 5وغیرہ)۔خواہ وہ منکوحہ عورتیں ہی کیوں نہ ہوں (نسا ۲8)قرآن کی رو سے جائز ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے کا حکم دیا ہے (نسا آیت 40)۔ اور اگر غلام زرفدیہ ادا کردے۔ تو وہ آزاد ہوسکتا ہے (نور 33)لیکن قرآنی بنا پر ہم کسی ایسے مستقبل زمانہ کا خیال نہیں کرسکتے ۔ اور (نہ قرآن نے ایسا خیال کیا ہے )جب غلامی بالکل بند ہوجائے گی اسلامی ممالک میں غلامی بند نہیں ہوسکتی۔کیونکہ قرآن وحدیث نے اس کو مباح قرار دیا ہے ۔ اور اسلامی شرع اس کو جائز قرار دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام خالص اسلامی ممالک میں اسلام کے تیرہ سو(۱۳۰۰) سال گذرنے پر بھی غلاموں کی منڈیاں ہر جگہ موجود ہیں۔
(۲)
اسلام نے انسان کو اخلاقی طور پر بھی آزاد ذمہ دار ہستی قرار نہیں دیا۔ چنانچہ قرآن کہتاہے ’’ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کاارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے دولتمند وں کو حکم دیتے ہیں ۔ پھر وہ اس میں نا فرمانی کرتے ہیں۔ تب ان پر وعدہ عذاب ثابت ہوجاتا ہے ۔ پھر ہم ان کو اکھاڑپھینکتے ہیں ‘‘ (بنی اسرائیل آیت ۱7)۔ ’’ہم نے (الله ) نے آدمیوں اور جنوں میں سے اکثروں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے‘‘ (اعراف ۱78)۔ ’’اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو راہ پر کردیتا ۔ اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرے رب کا رحم ہوا۔ الله نے ان کو اختلاف کرنے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ اور تیرے رب کی بات پوری ہوئی ۔ کہ البتہ میں جنوں اور آدمیوں سب سے دوزخ کو بھردوں گا‘‘ (ہود ۱۲0)۔ ’’اگر الله چاہتا تو سب کو ایک ہی دین پر کردیتا۔ لیکن وہ جس کو چاہے گمراہ کرے اور جس کو چاہے ہدایت دے‘‘ (نحل 38و55، مجادلہ ۲۲، نجم 44، انعام 36و39و۱05، قمر 49، آل عمران ۱39، اعلیٰ ۲،انفال ۱7،توبہ 5۱،رعد 30،ابراہیم 4 ،کہف ۱0۱، وغیرہ وغیرہ)۔
آیات مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کہ قرآن کے مطابق الله نے انسان کو ایک آزاد خود مختار اخلاقی ہستی کے طور پر خلق نہیں کیا۔ بے شمار احادیث صیحیہ ان قرآنی آیات کی مصدق وموید ہیں۔ یہ تمام کی تمام اس ایک آیت کی صدائے بازگشت ہیں کہ ’’ یہ نصیحت ہے کہ پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف سے راہ پکڑ ے ۔ لیکن تم چاہ نہیں سکتے ۔ جب تک الله نہ چاہے‘‘ (دہر ۲6و30)۔ الله نے تم کو اور تمہارے افعال اور کاموں کو پیدا کیا(صافات 94)۔جبریوں کا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کسی فعل کا فاعل خود مختار نہیں ہے ۔ اور انسان وہی کرتاہے جو الله کا حکم ہوتا ہے ۔ یہی عقیدہ قرآن اور احادیث کے مطابق ہے اور راسخ الاعتقاد مسلمانوں کا ہے ۔ اگر چہ فرقہ قدریوں نے اس بات کو عقل ِسلیم کے خلاف پایا۔ اور اس کے منکر ہوگئے ۔ لیکن وہ اسلام میں شروع ہی سے بدعتی متصور ہوتے رہے ۔ چنانچہ مشکواة باب القدر میں ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ
’’ قدر یہ اسلام میں ایک مجوسی فرقہ ہے ۔ اگر یہ بیمار ہوجائیں ۔ تو ان کی عبادت مت کرو۔ اگر یہ مرجائیں تو ان کا جنازہ مت پڑھو‘‘۔
(3)
اسلام فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے اصول امور سلطنت کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں کہ قرآن وحدیث کے اصول سلطنت کے ہرشعبہ پر تاابد عائد ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ
’’ہمارا مذہبی اصول یہ ہے کہ وہ سیاسی اور معاشرتی انتظام جو اسلام کے نام سے موسوم ہے مکمل اور ابدی ہے‘‘ ۔
(اسلام اور احمدیت صفحہ ۱5)
پس کوئی شخص جو ایک دفعہ اسلام کا حلقہ بگوش ہوچکا ہو۔ دائرہ اسلام سے باہر نہیں جاسکتا چنانچہ( سورہ بقر) میں ہے جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے خود مرتد ہوا اور کفر ہی میں مرگیا۔ تو ایسوں ہی کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوجاتےہیں۔ وہی دوزخی ہیں۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے (مایدہ 59وغیرہ)۔ حدیث اور شرع اسلام میں مرتد واجب القتل ہے ۔ پس بروئے قرآن کفار کو جبریہ اسلام میں داخل کرنا اور جب وہ اس میں داخل ہوجائے ۔ اس کو جبریہ اپنی حدود سے باہر نکلنے نہ دینا اسلام کا خاصہ ہے ۔ علامہ محمد اقبال جیسا شخص بھی اس نظریہ کا قائل ہے ۔آپ لکھتے ہیں کہ
’’اسلام کا یہ طرز عمل اصلاً علم الحیات پر مبنی ہے ۔ جہاں ایک گروہ کے افراد فطرتاً یا معقول استد لال کی بنا پر یہ محسوس کرتے ہیں۔ کہ اس معاشرتی نظام کی حیات خطرے میں ہے ۔جس کے وہ خود ایک رکن ہیں یہ مدافعانہ احساس علم الحیات کے معیار پر قابل قدر ہے ۔ اس ضمن میں ہر فکر اور ہر عمل کا فیصلہ اس بنا پر کرنا چاہیے کہ اس سے نظام کی زندگی کی ترقی ہوتی ہے یا تنزل ۔ زیر بحث مسئلہ یہ نہیں کہ آیا ایک شخص کو کافر قرار دینے والے فرد یا قوم کا طرز عمل اخلاقاً معیوب ہے ۔یا متحسن(نیک ،پسندیدہ ) بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ بات نظام کے حق میں زندگی بخش ہے یا زندگی کش ‘‘
(اسلام اور احمدیت صفحہ ۱0)
بالفاظ دیگر اسلام ابھی تک اس ابتدائی منزل سے آگے نہیں بڑھا۔ جس مرحلے پر (جیسا ہم اس فصل کی ابتدا میں لکھ چکے ہیں )قوم اور ملک کی زندگی اور بقا ہی اعلیٰ ترین مقصد خیال کیا جاتا ہے ۔ اور مختلف افراد کی زندگی کی وقعت کا معیار فقط یہ ہوتاہے کہ ’’آیا ان کا وجود نظام کے حق میں زندگی بخش ہے یا زندگی کش ہے ‘‘۔ اس منزل پر کسی شخص کو یہ آزادی حاصل نہیں ہوتی ۔ کہ قومی خیالات اور رسوم کو ترک کردے۔یا کسی نئے مذہب کو اختیار کرلے۔ اور مذہب اور حکومت دوجداگانہ باتیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ ایک ہی شے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں
’’اسلامی تاریخ کے دوران میں مذہب اور حکومت کی علیحدگی محض فرائض کی تقسیم تک ہی محدود ہے ۔ لیکن اس علیحدگی سے خیالات وافکار کا اختلاف مقصود نہیں ہوا۔ اسلامی ممالک میں حکومت اور مذہب کی علیحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان آئین سازوں کو یہ آزادی حاصل ہے ۔ کہ اہل اسلام کے ان خیالات کی پروانہ کریں۔ جن کی نشوونما روحانیت اسلام کے گہوارہ میں صدیوں تک تربیت پانے کا نتیجہ ہے ۔ صرف تجربہ ہی ثابت کرے گا۔ کہ یہ نظریہ ترکی جدید میں کہاں تک کامیاب ہوسکتا ہے ‘‘۔
( اسلام اور احمدیت صفحہ 39)
پھر علامہ موصوفہ کہتے ہیں ۔ کہ
’’مذہبی طور پر اسلام کے استحکام کی بنیاد اس وقت متزلزل ہوجاتی ہے جب مسلمان ارکان ِدین اور اس کے بنیادی اصول میں سے کسی ایک اصول یا رکن کے خلاف سرکشی کریں ۔ اسی ابدی استحکام کی خاطر ہی اسلام یہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ کہ کوئی سرکش گروہ اس کے اپنے دائرہ کے اندر پیدا ہو‘‘۔
(ایضا ً صفحہ 44)
مولانا ظفر علی خان مرزائے قادیانی کے بارے میں مسلمانان عالم کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’ ہندوستان میں اگر اسلامی حکومت ہوتی ، تو ممکن نہ تھا ، کہ ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اس قسم کا خطرناک ملحدہ جو نہ خدا کا قائل ہو نہ قرآن کا ۔ اور جو حطام (ٹوٹی پھوٹی چیز،کوڑا کرکٹ)دینوی کی خاطر اسلام کی سیز دہ(تیرہ) صد سالہ روشن حقیقتوں کو جھٹلانے میں ذرا باک نہ رکھتا ہو۔ یوں کھلے بندوں چھوڑ دیا جاتا ۔۔۔۔الخ‘‘۔
(ارمغان قادیان صفحہ ۱8۱)
ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی اس پر صادر کرتے اور کہتے ہیں کہ
’’ یہ صحیح ہے کہ جس صورت میں بدعتی عقائد رکھنے والے انسان کا وجود نظام معاشرت کے لئے باعث خطرہ بن جاتا ہے ۔ تو اس وقت ایک خود مختار اسلامی حکومت اس کے خلاف یقیناً کارروائی کرے گی‘‘۔
(اسلام اور احمدیت صفحہ ۱۱)
ایک اور جگہ علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ
’’اسلام ایک واحد نظام ہے جس کا تار پود سیاسیات اور دینیات ہے ۔ اسلام میں یہ دونوں جداگانہ نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں درحقیقت ایک ہی ہیں۔فرق صرف زاویہ نگاہ کا ہے ۔اگر کسی اسلامی مسئلہ کو ایک نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے گا تو وہ سیاسیات سے متعلق ہوگا۔ لیکن اگر اسی مسئلہ کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے گا تو اس کا تعلق دینیات سے ہوگا‘‘
(Religious Thought in Islam p.146)
اسلام اور سلطنت کا باہمی ارتباط اور اختلاط اور درحقیقت قرآن حدیث اور فقہ کا اصل الاصول ہے ۔ اور اس حقیقت کو واضح کردیتا ہے ۔ کہ اسلام اس منزل سے آگے قدم نہیں مارسکتا ۔ جس میں افراد کی قدر اور منزلت صرف اس بنا پر ہوتی ہے کہ وہ ایک خاص نظام کی قوت اور استحکام کا باعث ہوتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے اصول بنی نوع انسان کی ترقی کے اس انتہائی مرحلہ سے قطعاً ناواقف ہیں۔ جس منزل پر افراد کی قدر اور وقعت بطور ایک آزاد خود مختار ، اور ذمہ وار ہستی کے ہوتی ہے اور جس پر مسیحیت پہنچ چکی ہے ۔
فصل دوم میں ہم نے ذکر کیا تھا ، کہ اسلام میں خدا کی تنزیہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ انسان کی ہستی کی قدرو وقعت کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ فصل سوم میں نے دیکھا تھا۔ کہ اسلام میں عورت کی ہستی فرقہ اناث(اُنثی کی جمع عورتیں) کے لئے وبال جان ہے ۔ فصل چہارم میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اسلام کی نظر میں بچے کچھ حقوق نہیں رکھتے۔فصل پنجم میں ہم نے دیکھا تھا۔ کہ اسلام کی نظر میں غیر مسلم اقوام وافراد کی رتی بھر وقعت نہیں۔ اور فصل ششم میں ہم نے اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام نے کسی فرد کو خیالات کی آزادی کا اختیار نہیں دیا۔ اس فصل میں ہم نے دیکھا ہےکہ اسلام اس سطح پر پہنچا ہی نہیں۔ جس پر افراد کو آزاد خود مختار ہستی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ غرضیکہ اسلام کے جس پہلو سے بھی انسان کی ہستی پر نظر کرو۔ قرآنی تعلیم کے مطابق انسان کی زندگی کی قدر،وقعت اور منزلت سرے سے موجود ہی نہیں۔ لیکن دینِ فطرت کا یہ کام ہے کہ اس بات کا لحاظ رکھے۔ کہ جبلّت اجتماع پسندی افراد کی ہستی کو دبانے کی بجائے ہر فرد بشر کو آزاد ذمہ وار اور اخلاقی ہستی قراردے ۔ یہ کام مسیحیت بطرز احسن سر انجام دیتی ہے ۔ لیکن اسلام اس بات کے نزدیک بھی نہیں جاتا ۔لہٰذا مسیحیت ہی دینِ فطرت ہے ۔
جبلّت اجتماع پسندی اور انانیت
مسیحیت کی یہ خصوصیت ہے کہ جہاں وہ یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہر فرد بشر بذات خود قدر اور وقعت رکھتا ہے ۔وہاں یہ بھی تلقین کرتی ہے کہ ہر فرد بشر اپنی جماعت قوم اور ملک کےذریعہ ہی اپنی نجات حاصل کرسکتا ہے ( یعقوب ۱: ۲۷؛متی ۲۵: ۳۱)۔ ہر شخص پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ابنائے وطن کی خدمت کرے۔ اور تمدنی تعلقات معاشرتی معاملات اور ملک اور قومی اورملی امور کے ذریعہ اپنی انانیت اور شخصیت کی نشوونما اور تکمیل کرے (متی ۲۰: ۲۵۔۲۸)۔کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق انسان کی شخصیت تب ہی کاملیت کی طرف گامزن ہوسکتی ہے ۔ جب ہم سوشل تعلقات پر مسیحی اصول کا اطلاق کریں گے ( یعقوب ۲: ۱۶وغیرہ)۔ ہر فرد کی روحانی حالت صرف سوسائٹی اور جماعت کے ذریعہ عروج کے کمال تک پہنچ سکتی ہے ۔ جب ہم خلق خدا کی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں ( گلتیوں ۵: ۱۳۔۱۴؛ متی ۲۳: ۱۱؛۱۔یوحنا ۴: ۲۰)یا جماعتی ملی ، قومی ، سیاسی، تمدنی ، اقتصادی ، اور دیگر سوشل مقاصد امور اور تعلقات کو مسیحی اصول کے مطابق چلانے کا ذمہ لیتے ہیں۔ (متی ۲۵: ۱۵۔۳۰)۔ تب ہم اپنی شخصیت کی بھی نشوونما ترقی اور تکمیل کرتے ہیں (مرقس ۸: ۳۵؛متی ۱۶: ۲۶وغیرہ)۔ کوئی بشر جماعتی تعلقات کے بغیر خدا کی خدمت نہیں کرسکتا (متی ۲۵: ۴۰؛ ۱۰: ۴۰؛ لوقا۱۶: ۱۳؛ رومیوں ۱۴: ۱۸۔۱۹؛ ۱۔یوحنا ۳: ۱۵۔۱۸)۔ کلمتہ الله نے ہم کو سکھلایا ہے کہ اگر تم خدا کی محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہو۔ تو خلق خدا سے محبت کرو(متی ۲۲: ۳۸۔۳۹ ؛ لوقا ۱۰: ۲۵۔۳۷و غیرہ) اور اصول محبت واخوت ومساوات کا اطلاق تمام سوشل تعلقات پر کرو (لوقا ۱۶: ۱۹۔؛ متی ۷: ۱۲وغیرہ) یوں ہماری انانیت اور شخصیت جبلّت اجتماع پسندی کے ذریعہ کامل ہوتی ہے ۔ او رجبلّت اجتماع پسندی ہماری انانیت اور شخصیت کو دبا کر برباد کردیتی ہے ۔کلمتہ الله کی یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جماعتی تعلقات کا لحاظ رکھے بغیر اپنی انانیت اور شخصیت کو ترقی دینا چاہتا ہے ۔ وہ ایک خام خیال میں مبتلا ہے۔ اور ایسا فرد اپنی شخصیت کو ترقی دینے کے بجائے اس کو ضائع کردیتا ہے ۔لیکن جو شخص مسیحی اصول محبت ومساوات اور اخوت کے مطابق جماعتی تعلقات کے ذریعہ خلق خدا کی خدمت کرتا ہے ۔ اور اس میں ایسا منہمک (کسی کام میں بہت مصروف) ہوجاتاہے کہ وہ اپنی شخصیت کو الہٰی منشا کے مطابق ترقی دیتا ہے ۔ پس اس کی انانیت اور جماعتی تعلقات میں کوئی تصادم واقع نہیں ہوتا۔ منجی عالمین نے فرمایا ہے ’’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین پر گرکے مر نہیں جاتا، وہ اکیلا رہتا ہے ۔ لیکن جب مرجاتا ہے تو بہت سے پھل لاتا ہے ۔جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے ۔وہ اسے کھودیتا ہے ۔ اور جو دنیامیں اپنی جان کو کھودیتا ہے وہ اس کو ہمیشہ کی زندگی کے لئے محفوظ رکھے گا آدمی اگر ساری دنیاکو حاصل کرلے اور اپنی جان کا نقصان کرے تو اسے کیا فائدہ ہوگا‘‘ (یوحنا ۱۲: ۲۴؛ مرقس ۸: ۳۵وغیرہ)۔پس مسیحی تعلیم کے مطابق انانیت اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی ممدو معاون ہیں۔ یہ دونوں چیزیں جو بظاہر متضاد معلوم ہوتی ہیں اور کسی دوسرے مذہب میں یکجا نہیں ہوسکتیں ۔ مسیحی تعلیم میں باہم صلح کرکے پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔
(۲)
چونکہ قرآن اور اسلام افراد کو خود مختار ۔آزاد ذمہ وار ہستیاں تسلیم نہیں کرتے لہٰذا وہ اس تصور کا گرویدہ نہیں ہوسکتا۔ کہ فرد دیگر افراد کی خدمت کرنے میں ہی اپنی شخصیت کی ترقی اور نشوونما کرسکتا ہے ۔ قرآن کے مطابق افراد کی زندگی کا اعلیٰ ترین نصب العین اور بہترین مطمع نظر خلق خدا کی خدمت کرنا نہیں ہے ۔ لہٰذا وہ اخلاقیات کے اس پہلو کو چھوتا نہیں۔ اور اگر چھوتا بھی ہے تو اس پرزور نہیں دیتا ۔ جس طرح انجیل دیتی ہے ۔ لیکن دین فطرت کے لئے لازم ہے کہ وہ جبلّت اجتماع پسندی کے تقضاؤں کو پورا کرے۔ چونکہ قرآن واسلام میں تقاضا کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا اسلام دینِ فطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔ مسیحیت کی تعلیم ہی دین ِفطرت کا جزو ہوسکتی ہے ۔
جبلّت اجتماع پسندی اور نوع انسانی کی کاملیت
جو نصب العین کلمتہ الله نے ہماری نظروں کے سامنے رکھا ہے ۔ وہ محض افراد کی نجات اور کاملیت کا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ سوسائٹی کی کاملیت اور نجات کا بھی ہے ۔’’خدا نے ہر ایک انسان کو مختلف نعمتیں اور قابلیتیں عطا کرکے اس دنیا میں بھیجا ہے ‘‘(متی ۲۵: ۱۵)۔اور اس دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے کہ مختلف اشخاص کی مختلف نعمتوں کی تکمیل اور ترقی سے جماعت کی ترقی اور تکمیل ہوتی ہے ۔ (۱۔کرنتھیوں ۱۲ باب )۔ جس طرح ہمارے بد ن میں بہت سے اعضا ہوتے ہیں ۔ اور تمام اعضا کا کام یکساں نہیں اسی طرح ہم بھی بہت سے ہیں۔ مسیح میں شامل ہوکر ایک بدن اور آپس میں ایک دوسرے کےاعضا ہیں۔اس توفیق کے موافق جو ہم کو دی گئی ۔ ہمیں طرح طرح کی نعمتیں دی گئیں۔ تاکہ مقدس لوگ کامل بنیں۔ اور خدمت گزاری کا کام کیا جائے۔ اور مسیح کا بدن (یعنی جماعت ) ترقی پائے۔ جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اس کی پہچان میں ایک ہوجائیں اور کامل انسان بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازے تک پہنچ جائیں ۔ اور محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہے اور مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے بڑھتے جائیں جس سے سارا بدن ہر ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہوکر اور گٹھ کر اس تاثیر کے موافق جو بقدر ہر حصے کے ہوتی ہے ۔اپنے آپ کو بڑھاتا ہے تاکہ محبت میں ترقی کرتا جائے۔ (رومیوں ۱۲: ۴ ؛افسیوں ۴: ۱۳وغیرہ)۔ کل بنی نوع انسان خدا کے خاندان کے افراد ہیں۔ اور ہر فرد اس خاندان کی خدمت کے ذریعہ اپنی شخصیت اور قابلیت کی نشوونما ہے ۔ (مرقس ۹: ۳۵؛ ۱۔یوحنا ۳: ۱۵)۔’’یہ خاندان ان افراد کی کاملیت سے کامل ہوتاہے اور بنی نوع انسان کا سارا بدن جوڑوں اور پٹھوں کے وسیلے سے پرورش پاکر اور باہم پیوستہ ہوکر خدا کی طرف سے بڑھتا ہے ‘‘ ( کلسیوں ۲: ۱۹)۔
(۲)
اگر ناظرین نے گذشتہ فصلوں کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ تو ان پر یہ امر اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں )ہوگیا ہوگا۔ کہ اسلام میں بنی نوع انسان کی ترقی ایک موہوم شے ہے ۔ جس مذہب نے بنی نوع انسان کو تیرہ سو(۱۳۰۰)سال سے خوف ودہشت کی حالت میں رکھ کر ان کے اعضائے رئیسہ کو مضحمل کردیا ہو۔ کثرت ازدواج اور طلاق کو جائز قرار دے کر نوع انسانی کے نصف حصہ کی زندگی کوہراساں کر رکھا ہو۔اور دوسرے حصہ کی اخلاقی حالت کو گرا دیا ہو۔ اولاد کے حقوق کی طرف سے لاپروائی اختیار کر رکھی ہو۔ دنیا کے مصیبت زدوں ، مظلوموں اور بے کسوں کو ان کی قسمت پر چھوڑ رکھا ہو۔ دنیا کے قریباً چوبیس کروڑ افراد کو چھوڑ کر باقی ایک ارب اور ستر کروڑ افراد کو کافر یا ذمی کہہ کر ان کو گردن زدنی قرار دیتا ہو ۔ خیالات کی آزادی جرم عظیم گرادنتا ہو۔ اور علوم وفنون کی نشوونما اور ترقی کی راہ میں حائل ہو۔ غلامی کی قبیح رسم کو جائز قرار دیتاہو۔ہر فرد کی زندگی کی قدر اور وقعت کرنے کی بجائے اس کو ایک آزاد خود مختار اخلاقی ہستی بھی تسلیم نہ کرتا ہو۔ غرضیکہ جو مذہب انسانی فطرت کی تمام جبلّتوں کے اقتضاؤں کے پورا ہونے میں رکاوٹ کا باعث ہو‘‘۔ ایسے مذہب سے کیا امید ہو سکتی ہے ۔ کہ وہ بنی نوع انسان کی ترقی کے اصول کی تلقین کرے یا نوع انسان کو کاملیت کی شاہراہ پر گامزن ہونے میں ممدو معاون ہوسکے۔ مسیحیت ہی ایک ایسا واحد مذہب ہے جس سے نوع انسانی کی امیدیں وابستہ ہیں۔ کلمتہ الله ہی ایک ایسا یگانہ روزگار استاد ہے ۔ جس پر بنی نوع انسان کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں۔
جبلّت اجتماع پسند ی اور تصورذات الہٰی
کلمتہ الله نے ہم کو یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خدا محبت ہے ۔ اور وہ گنگار انسانوں کے ساتھ جو اس کے بیٹے ہیں رفاقت رکھنی چاہتا ہے ۔ اور ا س غرض کو حاصل کرنے کے لئے اس کی لازوال محبت گنہگارکی تلاش میں رہتی ہے۔ اور جب کسی گنہگار کا خدا کےساتھ میل ملاپ ہوجاتا ہے ۔ تو ننانوے (۹۹) راستبازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ۔ ایک توبہ کرنےو الے گنہگار کی بابت آسمان پر زیادہ خوشی ہوتی ہے ۔(لوقا ۱۵ باب)۔ مذہب کا مقصد یہی ہے کہ خدا اور انسان میں باہمی رفاقت قائم ہوجائے ۔ کلمتہ الله کی تعلیم انسان کے وجود کی علت غائی کو بدرجہ احسن پورا کرتی ہے۔ خدا ہماراباپ ہے اور جس طرح دنیاوی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ رفاقت رکھتا ہے۔ کلمتہ الله کی یہ تعلیم اسلام اور قرآن کے ان تمام تصورات کے خلاف ہے ۔ جو خدا کو بے نیاز اور لاپروابتلاتے ہیں ۔ منجی عالمین نے فرمایا کہ خدا محبت ہے ۔ اور وہ صرف گنہگاروں کی طرف سے بے نیازی ہی نہیں بلکہ ان کی جدائی اس پر شاق گذرتی ہے ۔ اور وہ ان کے ساتھ رفاقت کا رشتہ از سرنو قائم کرناچاہتا ہے۔ اور اس مقصد کے حاصل کرنے میں اس کی محبت ہر طرح کا ایثار کرنے کے لئے تیار ہے(متی ۲۳: ۳۷؛ یوحنا ۳: ۱۶؛ ۱۵: ۱۳ )۔ جس طرح ماں باپ کی محبت اپنے گم گشتہ فرزند کےلئے ہر طرح کی قربانی کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ پس جبلّت اجتماع پسندی کے ذریعہ ہم خدا کی ذات اور اس کی محبت کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔
(۲)
خدا کا تصور جو مسیحیت پیش کرتی ہے ۔ وہ جبلّت اجتماع پسندی کے تقاضا کے مطابق ہے۔ خدا کی ذات محبت ہے (۱۔یوحنا ۴: ۸وغیرہ)۔ چونکہ خدا ازل سے محبت ہے ۔ اور چونکہ اس کی ذات میں حدوث کا امکان نہیں۔ لہٰذا خدا کی ازلی محبت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی ذات میں ازل سے محب، محبوب ، اور محبت کا رشتہ موجود ہو۔ پس مسیحیت خدا کی وحدت میں ثالوث کی قائل ہے یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس خدا کی ذات محب ، محبوب اور محبت کے رشتہ کے طور پر ہیں(متی ۲۸: ۱۹؛ یوحنا ۱۲: ۲۶؛ ۱۵: ۲۶وغیرہ)۔ باپ ازل سے بیٹے کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اور بیٹا باپ کےساتھ محبت رکھتا ہے (یوحنا ۱۷: ۵؛۱۷: ۲۴؛۵: ۲۰؛ متی ۱۱: ۲۷وغیرہ)۔ پس ہم جبلّت اجتماع پسندی کے ذریعہ جو ہماری سرشت میں موجود ہے خدا کی ذات کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تین خداؤں کے ماننے والے ہیں۔ ہم خدا واحد کے قائل ہیں(مرقس ۱۲: ۲۹؛یوحنا ۱۷: ۳؛ ۱۔کرنتھیو ں ۸: ۶وغیرہ)۔ہم شرک سے متنفر اور بیزار ہیں (خروج ۲۰: ۳۔۵؛۱۔کرنتھیوں ۸: ۴؛اعمال ۱۴: ۱۵؛ ۱۔یوحنا ۵: ۲۱؛زبور ۱۱۵: ۴۔۸)۔ ہم ان تمام باتو ں سے پرہیز کرتے ہیں جن سے شرک کی بو آتی ہے (رومیوں ۱۴: ۲۱۔۲۳؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۰: ۱۹۔۲۱؛ گلتیوں ۵: ۱۳۔۱۴ وغیرہ)۔ ہم خدا کو اکیلا اور واحد خدا تسلیم کرتے ہیں۔ ہم قرآن کے ہم نوا ہوکر کہتے ہیں کہ ’’بے شک وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ الله تین میں سے ایک ہے‘‘ (مائدہ 77)۔ہم بھی کہتےہیں کہ ’’خدا کی نسبت حق بات بولو، اور تین نہ کہو ، باز آؤ تمہارا بھلا ہوگا، الله جو ہے وہ تو ایک ہی معبود ہے‘‘ (نسا ۱69)۔قرآن کہتا ہے ،الله کی کوئی جورو نہیں۔ اس کا بیٹا کیونکر ہوگیا (انعام ۱0۱)۔ ہم بھی اس پر صادکرتے(تصدیق کرنا)ہیں اور المسیح کی ابنیت کے تصور میں سے ہر طرح کے جسمانی اور دنیاوی عناصر کو خارج کرکےسورہ اخلاص کی آیت کو نہایت اخلاص سے پڑھتے ہیں کہ ’’الله نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ خود کسی سے جناگیا اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘ (اخلاص آیات 3و4)۔ اگر قرآن شریف کا ان آیات سے یہ مطلب تھا۔ کہ مسیحی عقیدہ پر اعتراض وارد کرے۔ تو اس نے مسیحی عقیدہ کے سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ’’سبحانک ہذا بھتان عظیم‘‘ دنیا کے کل مسیحی بغیر کسی استثنا کے ایسے عقیدہ کو مذموم ومطعون گرادنتے ہیں ، کلیسیائے جامع خدا کی واحدانیت کی قائل ہے ۔ تاریخ کلیسیا اس بات کی شاہد ہے کہ خدا کی توحید کے عقیدہ کو بحال اور مستحکم کرنے کی خاطر نقایا ہ کی کونسل نے تثلیث فی التوحید اور توحید فی التثلیث کا عقیدہ وضع کیا تھا۔
ہم خدا کی ذات میں تین ہستیوں کے قائل نہیں۔ خدا ایک واحد ہستی ہے ۔ ہم اس کی ہستی میں جمع اور تفریق کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کہ کوئی کہے کہ ایک جمع ایک جمع ایک تین ہوئے۔ کیونکہ خدا کی ذات میں اجزا نہیں۔ خدا روح ہے اور اس کی ذات ان باتوں سے پاک اور منزہ ہے ۔
لیکن جہاں انسان اپنی سرشت اور اپنی جبلّتوں کے میلان وتقاضا کے ذریعہ خدا کے اس تصور کا قیاس کرسکتا ہے ۔ جو مسیحیت پیش کرتی ہے وہاں وہ اسلام کے الله کی ذات کا تصور کرنے سے قاصر ہے ۔ اسلام خدا کی وحدت کی تلقین کرتا ہے ۔ لیکن جب انسان یہ پوچھتا ہے کہ اس وحدت کا مفہو م کیاہے تو جواب ملتا ہے ۔ کہ وحدت کا مطلب محض وحدت ہے ۔ جب انسان اپنی جبلّت استفسار سے مجبور ہوکر یہ جاننا چاہتا ہے کہ وحدت محضہ کیا شے ہے ۔ کیونکہ وہ اس قسم کی وحدت کو نہ تو عالم شہود میں اور نہ اپنی فطرت اور سرشت میں اور نہ اپنے روحانی تجربات میں پاتا ہے۔تو قرآن اس کو اپنے رب اور اختیار سے خاموش کردیتا ہے (حج 35، اخلاص ۱)۔ اسلام ذات الہٰی کی نسبت سوالوں کا پوچھنا کفر قرار دیتا ہے ۔ اسلام کے مطابق خدا ایک سلطان ہے ۔ جو بذریعہ پیغمبر اور وحی اپنے شاہانہ احکام اپنی رعایا کو پہنچاتا ہے (بقر ۱0۱وغیرہ)۔قرآن بذریعہ جبرائیل لفظ بہ لفظ نازل کیا گیا ہے (زخرف 3، یونس 38وغیرہ)۔ اس کی الہٰامی عبارت آسمانی الفاظ ہیں۔ جن میں انسانی عنصر کا رتی بھر دخل نہیں۔ اس کی وحی انسانوں کے روحانی تجربات اور ذہنی تفکرات سے بالکل مستغنی ہے ۔ انسانی فکر غور اورخوض کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
لیکن مسیحیت کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا محض سلطان ہی نہیں۔ جو اپنی رعایا کو احکام پہنچائے پر ہی اکتفا کرے اور بس ۔ بلکہ مسیحیت کے مطابق خدا ہمارا باپ ہے جس طرح دنیاوی باپ اپنے خیالات کو اپنے بیٹے پر ظاہر کرتاہے ۔ اور بیٹا اپنے تجربہ خیالات اور جذبات کے ذریعہ باپ کے تصور ات ، خیالات اور جذبات کو سمجھ سکتا ہے اور جان سکتا ہے ۔ اور یوں باپ اور بیٹے میں باہمی رفاقت قائم رہتی ہے ۔ اسی طرح خدا اور انسان میں باہمی قربت اور رفاقت قائم ہوجاتی ہے ۔بائبل شریف کی الہٰامی کتب ان تصورات جذبات اور تجربات کا مظہر ہیں۔ جو خدا اور انسان کی باہمی رفاقت وقربت کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ مسیحیت کے مطابق خدا ایسی ہستی نہیں۔ جو انسان کےساتھ حقیقی معنوں میں رفاقت نہ رکھے۔ اگر خدا انسان کے ساتھ رفاقت نہیں رکھتا۔ تو جہاں تک بنی نوع انسان کا تعلق ہے ۔ اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے ۔انسانی محاورہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ گفتگو اور رفاقت کےلئے کم از کم دو اشخاص کا ہونا لازمی امر ہے ۔اگر صرف ایک انسان ہی گفتگو کرتا جائے ۔ تو وہ مخبوط الحواس(پاگل) قرار دیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی دوسرا شخص اس سے بات چیت نہ کرے ۔ تو ہم اس شخص کے قال پر گفتگو کا لفظ چسپاں نہیں کرسکتے ۔ اور نہ دوسرے شخص کو پہلے کارفیق یا ساتھی قرار دے سکتے ہیں۔ جس طرح ہم کسی دیوار پر کی مورت کے ساتھ گفتگو نہیں کرسکتے یا سنگتراش کے بت کے ساتھ رفاقت نہیں رکھ سکتے ۔ اسی طرح ہم ایسے خدا کے ساتھ قرابت اور رفاقت نہیں رکھ سکتے جو بے پرواہ ہو۔ اور جس کی صفت بے نیازی ہو قرآن بار بار اصرار کے ساتھ کہتاہے کہ الله بے پرواہ ہے (بقر آیت ۲70)۔خدا جہان کے لوگوں کی طرف سے بے پرواہ ہے(آل عمران آیت 9۲، یونس 69، نساء۱30، حج 63وغیرہ)۔
خدا کے بے نیازی کا تصور انسان کی اس جبلّت پرزیر بحث کے عین نقیص ہے ۔اگر خدا بے نیاز ہے ۔ تو انسان اور خدا میں باہمی رفاقت وقربت نا ممکن ہے ۔ اور اگر انسانی فطرت اس بات کی متقاضی ہے ۔ کہ انسان اور خدا میں قربت اور رفاقت ہو تو خدا بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ پس اسلامی تعلیم اس بارے میں انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اسلام دین ِفطرت نہیں ہوسکتا ۔ برعکس اس کے مسیحیت اس بات پر اصرار کرتی ہے ۔ کہ خدا محبت ہے اور خدا انسان کے ساتھ قربت اور رفاقت رکھنے کا خواہاں ہے ۔ صرف یہی تعلیم انسان کی فطرت کے تقاضا کو پورا کرتی ہے ۔ لہٰذا مسیحیت دینِ فطرت ہے ۔
نتیجہ
سطور بالا میں ہم نے دیکھا کہ کلمتہ الله کی تعلیم ہر فرد وبشر کو ذمہ وار اخلاقی ہستی قراردیتی ہے جس کی ترقی اور تکمیل سوشل تعلقات کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ اور سوسائٹی کی ترقی اور بنی نوع انسان کی ترقی افراد کی کاملیت کے ذریعہ وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ مسیحیت نے ایسے اصول وضع کئے ہیں ۔ جن کے اطلاق سے ہر زمانہ اور ملک کی قوم اور ملت اور جماعت کامل ہوسکتی ہے ۔ منجی عالمین نے خدا کی ذات اور بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کی نسبت ایسی تعلیم دی ہے ۔ جو جبلّت اجتماع پسندی کے ذریعہ ہم پر روز روشن کی طر ح عیاں ہوجاتی ہے ۔ پس جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے مسیحیت ہی صرف دین فطرت ہوسکتا ہے۔
فصل ہشتم
جبلّت تحکم اور جبلّت عجز
جبلّت تحکم وعجز کی خصوصیات
تحکم کی جبلّت انسانی سرشت کے رحجانات اولیہ میں سے ہے ۔ ہر انسان بالطبع خود نماہوتا ہے ۔ ہر شخص میں یہ قدرتی خواہش موجود ہے کہ وہ اپنی ذات کا اظہار کرے۔ دنیا میں جس شخص کو دیکھو گے ۔ اس کی زبان پر لفظ ’’میں ‘‘اور اس کے جذبات اور افعال سے اس ’’میں ‘‘ ہیکڑی (شیخی ،سرکشی)ملے گی۔ نہ صرف تن آورزردار اور صاحب جاہ اشخاص میں خود نمائی اور تحکم (حکومت کرنا)ملتا ہے بلکہ کمزور ،بزدل اور زبردست ہستیوں میں بھی تحکم پایا جاتا ہے ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عالی نژاد ہستیاں تواضع اختیار کرتی ہیں ۔ اور ان میں خود نمائی اس قدر نہیں پائی جاتی ۔ جتنی فرو مایہ لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ کمینہ فرومایہ بزدل اشخاص کا یہ رویہ ہے کہ وہ بزدل کے سامنے تحکم اور خود نمائی سے کام لیتے ہیں۔ پس جبلّت تحکم اور جبلّت عجز انسانی سرشت کا حصہ ہیں۔ جانوروں میں گھوڑا اور مور نہایت خود نما جانور ہیں۔ ان کے برعکس عجز واطاعت کی مثال وہ کتا ہے ۔ جو مغلوب اور کمزور ہو لیکن جب وہ اپنی گلی میں ہوتا ہے توو ہ بھی شیر ہوتا ہے ۔
اسی طرح بعض اشخاص جب اپنے آقاؤں کے سامنے حاضر ہوتے ہیں ۔تو ان کے عجز اور اطاعت کی حد نہیں ہوتی۔ ہر وقت الفاظ حضور ، خداوند ان کے ورد زبان رہتے ہیں۔ لیکن جب یہی اصحاب گھر میں جاتے ہیں۔ تو بیوی بچوں پر حکمرانی کرتے اور ان کو مارتے پیٹتے ہیں۔ بعض اوقات وہی مالک جو اپنے دفتر میں اپنے ماتحتوں پر شیر ہوتے ہیں۔ جب گھر میں جاتے ہیں تو بیوی کے ڈر کے مارے کونے میں دبک کر پڑے رہتے ہیں۔
(۲)
یہ دونوں جبلّتیں خصوصاً اس موقعہ پر تحریک میں آتی ہیں ۔ جب دیکھنے والے موجود ہوں۔ جن کی موجودگی کی وجہ سے ہم کو اپنی ذات کسی طریقہ سے بہتر یا کہتر نظر آتی ہے ۔ تحکم اور خود نمائی کی جبلّت کے ساتھ عجب یا غرور فخر اور موقع کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔ ان دونوں جبلّتوں کی تحت میں تصنع ،دکھاوا، لاف وگزاف(شیخی ،بےہودہ گفتگو)، خودپسندی یا خجالت شرم اور خفت وغیرہ کے میلانات داخل ہیں۔ جو کم سن بچوں سے لےکر سن رسیدہ(عمررسیدہ ،بوڑھے) اشخاص تک سب میں پائے جاتے ہیں۔ نہ جبلّت تحکم چاہتی ہے کہ دنیا میری محکوم ہوجائے اور اس کی خواہش روز افزوں ہوجاتی ہے ۔
جبلّت تحکم وعجز اور دینِ فطرت کے لوازمات
سطور بالا سے ظاہر ہے کہ دین ِفطرت کا یہ کام ہے کہ تحکم اور خود نمائی کے جذبہ کو حد سے زیادہ بڑھنے نہ دے ، تاکہ غرور ناجائز، فخر ، لاف وگزاف، تصنع ،دکھا وا اور خودپسندی کا قلع قمع (خاتمہ)ہوجائے ۔ اس کے ساتھ ہی عجزو اطاعت کی جبلّت یہاں تک تجاوز نہ کر جائے ۔ کہ پست ہمتی، تذمل، اور شکست خوری انسان کے امتیازی نشان ہوجائیں۔ دونوں جبلّتیں باہم دوش بدوش ہوکرچلیں ۔ تاکہ انسانی تعلقات میں دونوں جبلّتیں اس مقصد کا اظہار ہوں جس کی وجہ سے خدا نے یہ جبلّتیں ہماری فطرت میں دویعت فرمائی ہیں۔
دین ِفطرت کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ انسان اپنی ذات کے اظہار اورانانیت کی ترقی اور تکمیل میں اس بات کا خاص لحاظ رکھے ۔ کہ یہ ترقی اور تکمیل دوسرے لوگوں کی انانیت کو پامال کرنے سے نہ ہو اس تکمیل پر خلق خدا کے حقوق کو قربان نہ کیا جائے۔ اور دوسرے لوگوں کی انانیت کودبایا اور پاؤں تلے رواند نہ جائے ۔ بلکہ اس کے برعکس ہر انسان اپنی اپنی انانیت کی ترقی علم اور عاجزی کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے ذریعہ کرے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذات کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کی فلاح بہبودی اور خدمت کے ذریعہ کرے۔ اور خلق خدا کی خدمت میں ادنیٰ ترین کام کرنا اپنا فرض اولین خیال کرے۔ یہاں تک کہ دوسروں کی خاطر خوشی سے اپنے جائز حقوق سے بھی دستبردار ہوجائے۔ اور اپنی جاوبیجا اغراض کی ہوس کو پورا کرنا ہی اپنی زندگی کا واحد مقصد خیال نہ کرے ۔بلکہ اپنے ہم جنسوں کی خاطر اپنی خودی سے انکار کرکے اپنی ذات کا اظہار بنی نوع انسان کی بہبودی کو سر انجام دینے کے ذریعہ کرے۔
ایک اور امر قابل غورہے کہ اگر انسان اس جبلّت خداداد کے ذریعہ اپنی ا نانیت کو درست طریقہ سےترقی دے گا۔ تو اس میں ہیکڑی نہیں آئے گی۔ بلکہ اس کے برعکس اس میں حلم اور فروتنی اور خدا کی شکر گزاری کے جذبے بڑھیں گے ۔مثلاً کسی زلزلہ یا ریل کے حادثہ کے وقت بعض انسان طبعاً جائے وقوع کی طرف امداد کرنے کی خاطر بھاگتے ہیں اور اس امداد کے ذریعہ اپنی ذات کا اظہار اور اپنی انانیت کی ترقی اور تکمیل کرتے ہیں۔ لیکن ایسے اشخاص لوگوں پر اپنے کارنامے نہیں جتائیں گے ۔ بلکہ اس طریقہ سے اپنی ذات کے اظہار کرنے میں فخر اور لاف وگزاف سے باز رہیں گے ۔ اور فروتنی سے خدا کا شکر کریں گے کہ وہ اس لائق خیال کئے گئے کہ اپنے ہم جنسوں کی مصیبت کے وقت وہ ان کی خدمت کرسکیں۔
عجزوتحکم کی جبلّت اور مسیحیت
کلمتہ الله نے یہ تعلیم دی ہے کہ’’ جوکوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا۔ اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائےگا وہ بڑا کیا جائےگا‘‘ (متی ۲۳: ۱۲)۔ ایک دفعہ جب آپ کے شاگردوں میں یہ تکرار ہوئی ۔ کہ ہم میں سے بڑا کون ہے ۔ تومنجی عالمین نے عظمت اور بڑائی کا معیار بنی نوع انسان کی خدمت قرار دیا۔ اور فرمایا۔’’ اقوام کے بادشاہ ان پر حکومت چلاتے ہیں۔ اور جو ان پر اختیار رکھتے ہیں۔ وہ خداوندان ِنعمت کہلاتے ہیں ۔ مگر تم ایسے نہ ہونا۔ بلکہ جو تم میں بڑا ہے ۔وہ چھوٹے کی مانند اور جوسردار ہے ۔ وہ خدمت کرنے والے کی مانند بنے۔ میں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں‘‘(لوقا ۲۲: ۲۵)۔ انجیل میں حضرت پولُس فرماتے ہیں کہ ’’ میں اس توفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے ۔ تم میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہیے ۔ اس سے زيادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازے کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے ۔ اعتدال کے ساتھ اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھے‘‘(رومیوں ۱۲: ۳؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۱۳ وغیرہ)۔ جناب مسیح نے فرمایا۔’’ مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب اور حلیم ہیں‘‘(متی ۵: ۴)۔انجیل میں وارد ہے ۔ کہ ہم ’’ بے جا فخر کرکے نہ ایک دوسرے کو چڑایئں، اور نہ ایک دوسرے سے جلیں‘‘( گلتیوں ۵: ۲۶)۔ مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو‘‘( افسیوں ۵: ۲۱)۔ ’’بے جا فخر کے باعث کچھ نہ کرو۔ بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے ۔ ہر ایک اپنی ہی احوال پر نہیں۔ بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ ویسا ہی مزاج رکھو۔ جیسا سیدنا مسیح کا تھا۔انہوں نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھے۔ اپنے آپ کو خالی کردیا۔ اور خادم کی صورت اختیار کی ۔ اور آپ انسانی شکل میں ظاہر ہوئے اور اپنے آپ کو پست کردیا۔ اور یہاں تک فرمانبردار ہے کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اسی واسطے خدا نے بھی انہیں سر بلند کیا۔ اور آپ کووہ نام بخشا۔ جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے ۔( فلپیوں ۲: ۳)۔ ’’ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمر بستہ رہو۔ اس لئے کہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتاہے ۔ مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے ۔ پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تم کو وقت پر سر بلند کرے ‘‘(۱۔پطرس ۵: ۶؛ ۲۔کرنتھیوں وغیرہ)۔
(۲)
منجی عالمین کی پیدائش ، واقعات ،زندگی اور موت سب کے سب علم اور فروتنی کا اظہار ہیں۔ ایک دفعہ جب شاگرد اس بات پر بحث کررہے تھے کہ ان میں بڑا کون ہے تو آپ نے ’’ اٹھ کر کپڑے اتارے اور رومال لے کر اپنی کمر پر باندھا۔ اس کے بعد برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھوئے اور جو رومال کمر میں بندھا تھا۔ اس سے پونچھنے شروع کئے ۔ ۔۔۔جب آپ ان کے پاؤں دھوچکے ۔ اور اپنے کپڑے پہن کر پھر بیٹھ گئے تو ان سے کہا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ تم مجھے استاد اور مولا کہتے ہو، اور خوب کہتے ہو، کیونکہ میں ہوں، پس جب میں نے استاد اور مولا ہوکر تمہارے پاؤں دھوئے، تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ کیونکہ میں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے۔ کہ جیسا میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ تم بھی کیاکرو( یوحنا ۱۳ باب)۔
(3)
انجیل جلیل کی تعلیم کی بنیاد یہ ہےکہ چونکہ جناب مسیح اپنی لازوال محبت کی وجہ سے فروتن ہوکر انسانی شکل میں آئے ( فلپیو ں ۲: ۶۔۹ وغیرہ)۔ تاکہ ایثار کے ذریعہ بنی نوع انسان کا اپنے ساتھ میل ملاپ کریں ( ۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۸وغیرہ)لہٰذا کوئی انسان اپنے اعمال پر نازل ہوکر ازراہ تحکم خدا کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا(زبور ۱۳۰: ۳)۔ بعض انسانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے ہیں۔ یا نماز،زکواة ، روزہ ،خیرات، وغيرہ کے پابند ہوتےہیں ۔ توہ اپنے اعمال پر فخر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں بے جاغرور اور ترفع کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور دوسروں کو جو شرعی امور کے پابند نہیں ہوتے ۔ بنظر حقارت دیکھتے ہیں ۔ اس قسم کا غرور ہماری روحوں کو برباد کردیتا ہے ۔کلمتہ الله نے ایسی باتوں کے خلاف تمام عمر جہاد کیا اور اپنے سامعین کو بار بار اس کے خلاف متنبہ کیا(متی ۶: ۵؛ ۶: ۱۶؛۷: ۱۔۵؛لوقا ۱۲: ۱ وغیرہ)۔آپ کے رسول نے بھی ان باتوں کے خلاف لوگوں کو خبردار کیا۔ اور فرمایا’’ کہ جو فخر کرے خداوند پر فخرکرے(۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۱۷)۔ کلمتہ الله نے ان لوگوں کو جو اپنے پر بھروسا رکھتے تھےکہ ہم متقی اور پرہیزگار ہیں۔ اور باقی آدمیوں کو ناچیز جانتے ہیں۔ یہ تمثیل فرمائی ’’ دو شخص بیت الله میں دعا مانگنے گئے۔ ایک فریسی اور دوسرا محصول لینے والا۔ فریسی کھڑا ہوکر اپنے جی میں یوں کہنے لگا کہ اے پروردگار میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ باقی آدمیوں کی طرح ظالم بے انصاف زناکار یا محصول لینے والے کی طرح نہیں ہوں۔ میں ہفتے میں دوبار روزہ رکھتا ہوں ۔ اور اپنی ساری آمدنی پر دسواں حصہ لگاتاہوں۔ لیکن محصول لینے والے نے دو ر کھڑے ہوکر اتنا بھی نہ چاہا ۔ کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے ۔ بلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا اے خدا مجھ گنہگار پر رحم کر۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ شخص دوسرے کی نسبت متقی اور پرہیزگار ٹھہر کر اپنے گھر گیا‘‘ (لواقا ۱۸: ۹)۔ہم اپنے اعمال کے سبب متقی اور پر ہیزگار نہیں ہوسکتے ۔یہ محض خدا کا فضل اور کرم ہے ۔ اور اس کی لازوال ابدی محبت کا نتیجہ ہے کہ ہم گناہ کی غلامی سے نجات پاگئے ہیں۔لہٰذا خدا کے حضور بے جافخر کی گنجائش ہی نہیں (افسیوں ۲: ۸۔۹؛ ۱: ۹؛ ۳: ۵؛ رومیوں ۳: ۲۰؛ ۳: ۲۸وغیرہ)۔
(4)
پس مسیحیت تحکم اور خود نمائی کو حد سے بڑھنے نہیں دیتی۔ اور ہر طرح کے ناجائز فخر اور غرور ، لاف وگزاف کا استیصال (جڑسے اکھاڑنا)کرتی ہے۔ جہاں وہ یہ تعلیم دیتی ہے کہ انسان خلق خدا کی خدمت کے ذریعہ اپنی انانیت کو ترقی اورتکمیل دے ۔وہاں وہ عجز اور اطاعت کی جبلّت کو حد سے تجاوز نہیں کرنے دیتی۔ بلکہ اس معاملہ میں اعتدال کی تلقین کرتی ہے ۔ اور افراط اور تفریط سے ہم کو بچاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسیحیت میں تحکم اور اطاعت کی دونوں جبلّتیں بغیر کسی تصادم کے ہمدوش چل کر ہماری انانیت کا الہٰی منشا کے مطابق اظہار کرتی ہیں۔ اور ثابت کردیتی ہیں کہ مسیحیت دین فطرت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جبلّت تحکم وعجز اور اسلام کی تعلیم
یہ حقیقت ایک مسلمہ امر ہے کہ جن اوصاف سے کسی قوم کا معبود ومتصف (تعریف کیا گیا )ہوتا ہے۔ اس قوم کے افراد کا مطمع نظر(مقصد اصلی) اور نصب العین یہی ہوتا ہے کہ ان معبود کے اوصاف ان کے اندر موجود ہوں۔ مثلاً اگر کسی قوم کا دیوتا خونخوار صفات سے متصف ہے تو وہ قوم بھی خونخوار ہی ہوگی۔ اور اس میں حلم اور رحم اور محبت عنقا (نایاب چیز)ہوں گے۔ ہم نے فصل دوم میں دیکھا ہے کہ قرآن میں الله تمام اسمائے جلالی سے متصف ہے اور اپنی صفات پر زیادہ زور بھی دیا گیا ہے۔ مثلاً قرآنی الله قدیر، قوی، مقتدر ، قادر ، غالب، مزیل، قہار ، جبار وغیرہ ہے ۔او ریہ ظاہر ہے کہ ان صفات کا تعلق تحکم اور خودنمائی کے ساتھ ہے ۔ چونکہ الله ان صفات سے متصف ہے ۔ جن کا تعلق تحکم اور خود نمائی کے ساتھ ہے ۔ لہٰذا ہر مومن مسلمان کا (زیر حکم تخلقو ابااخلاق الله۔ یعنی اپنے اندر الله کی صفات پید کرو )۔ یہ نصب العین ہے کہ اپنے اندر تحکم اور خود نمائی پیدا کرے۔ پس قرآن انجیل کی طرح اس بات پر زور نہیں دیتاکہ انسان حلم ،فروتنی اور صبر کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے ذریعہ اپنی انانیت کا اظہار کرے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تحکم پر حد سے زیادہ بلکہ بے اندازہ زور دیتا ہے۔چنانچہ قرآنی حکم ہےکہ ’’ جنگ کفار کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے قوت۔۔۔ سے تم اپنے اور خدا کے دشمنوں کو ڈراؤ۔اور ان کے سوا اور لوگوں کو بھی ڈراؤ(انفال 6۲)۔ مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ گھیرو۔ اور ہر گھاٹ کی جگہ میں ان کے لئے بیٹھو (توبہ آیت 5)۔ محمد کے ساتھی کافروں پر سخت ہیں(فتح آیت ۲9)۔آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی (انفال 48)۔ اگرچہ قرآن اس امر کی تسلیم کرتا ہے کہ عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ چنانچہ لکھا ہےکہ دوستی کے بارے میں مسلمانوں کے حق میں تو ان کو زیادہ قریب پائےگا۔ جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں۔ او ریہ لوگ تکبر نہیں کرتے (مائدہ 85)۔ تاہم قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ تم عیسائيوں کو نہ صرف دوست نہ بناؤ (مائدہ 56)۔ بلکہ ان سے مقابلہ کرو۔ یہاں تک کہ وہ اپنےہاتھوں سے جزیہ دیں اور ذلیل ہوکر رہیں(توبہ آیت ۲9)۔قرآن کی تعلیم ہےکہ مسلمان اپنے لوگوں کو ہی سلام کریں ۔ اور غیر مسلموں کو سلام کرنے میں پہل نہ کریں (نور 6۱)۔ لیکن اگروہ سلام کریں۔ تو ان کے سلام کا جواب دیں(نساء 88)۔ مسلمان مرد،عورتوں،پر حاکم ہیں(نسا 39) غرضیکہ قرآنی تعلیم بے جا غرور اور فخر اور جھوٹی عزت اور شان کی حمایت کرتی ہے ۔ لیکن انجیل جلیل کی تعلیم اس قسم کے جذبات کے منافی ہے (متی ۵: ۴۳۔ ۴۸؛ کلسیوں ۳: ۱۲۔۱۳؛ فلپیوں ۲: ۳۔۵؛ افسیوں ۴: ۳۱؛ ۴: ۱۔۴وغیرہ)۔
(۲)
دین ِفطرت کا یہ کام تھاکہ تحکم اور خود نمائی کے جذبہ کو ایک مقررہ اور معین حدسے تجاوز نہ ہونے دے۔ او رناجائز فخر کا قلع قمع کرے ۔اسلام اور قرآن کی تعلیم یہ نہیں کرتی۔اس میں یہ بات ہی نہیں کہ انسان اپنی ذات کا اظہار اور اپنی انانیت کی ترقی صرف خلق خدا کی علم اورعاجزی کے ساتھ خدمت کرنے میں ہی کرسکتا ہے ۔ قرآن اس بات کی برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ کوئی مسلمان غیر مسلموں کی خاطر اپنے جائز حقوق سے دست برداری اختیار کرے یا اپنی خودی کا انکار کرے۔ اس کے برعکس کفار کو قتل کرنا، ہر شخص کو اپنا مطیع کرنا بلکہ عیسائیوں تک جو اسلام کےدوست ہیں۔ ذلیل اور خوار کرنا یہ اسلام کی خصوصی تعلیم ہے ۔ چنانچہ علامہ اقبال جیسا شخص بھی ’’اسرارخودی‘‘ میں کہتاہے کہ
’’ ایثار نفسی اور خود انکاری دنیا کی محکوم اقوام کا مذہب ہے ۔ اور ان کے ہاتھ میں یہ آلات حاکم قوم کو اپنے اثر سے کمزور کردیتے ہیں ۔ روحانی خوف ان کی طاقت کو کمزور کردیتاہے ۔ اور جوں جوں ایثار نفسی بڑھتی ہے ۔ حکام کی جسمانی قوت میں فرق آتا جاتا ہے‘‘۔
علامہ موسوف اہل اسلام کو خبردار کرتا ہے ۔ کہ ایسے مذہب کے نزدیک نہ پھٹکیں ۔لیکن یہ تعلیم جیسا ہم اوپر ثابت کرآئے ہیں۔ ہماری شرست کی جبلّت زیر بحث کے قطعاً خلاف ہے ۔ لہٰذا جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ اسلام کے دین ِفطرت ہونے کی اپنے اندر صلاحیت نہیں رکھتا۔
تحکم کی جبلّت اور محمدعربی یا مسیح ناصری
قرآن الله اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ الله کی سطوت (قہر،رُعب ،شان وشوکت)اور جبروت(عظمت) کے منوانے پر نہایت غلو اور مبالغہ سے کام لیتا ہے (آل عمران ۲9،۱۲6،نساء 6۲، مائدہ 93وغیرہ)۔قرآن نہ صرف رسول عربی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ، بلکہ اس اطاعت کی تفصیل بھی کرتا ہے تاکہ آپ کی دینوی عزت ووقار بڑھے۔ مثلاً قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ ’’مومنو جب تم رسول کے کان میں بات کہنا چاہو تو کان میں بات کرنے سےپہلے کچھ خیرات آگے رکھ لیاکرو۔یہ تمہارے حق میں بہتر اور زیادہ صفائی کا موجب ہے‘‘ (مجادلہ آیت ۱3)۔ ’’تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔اور الله کے رسول کو قوت دو۔ اور اس کی تعظیم کرو‘‘ (فتح 9)۔ ’’الله کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور الله سے ڈرو۔ نبی کی آواز پر اپنی آوازیں بلند نہ کیا کرو۔اور اس کے ساتھ زور زور سے بات نہ کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں۔ جو لوگ رسول کےسامنے اپنی آوازیں پست کرتے ہیں وہی ہیں۔ جن کے دل الله نے تقویٰ کے لئے آزمائے ہیں۔ ان کےلئے مغفرت اور عظیم اجر ہے ۔ جولوگ گھر کی چار دیواری کے باہر تجھ کو پکارکر بلاتے ہیں۔ وہ اکثر بے عقل ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ صبر کریں ۔ یہاں تک کہ تو باہر نکلے۔ یہ ان کے لئے بہتر ہوتا ‘‘ (حجر۱تا 4)۔ ’’مومن وہی ہیں۔ جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ اور جب اس کے ساتھ کسی جمع ہونے کا کام میں ہوں۔ تواس سے اجازت حاصل کئے بغیر نہ چلے جایاکریں۔جو لوگ تجھ سے اجازت حاصل کرکے جاتے ہیں ۔ وہی ہیں جو الله اور رسول پر ایمان لاتے ہیں ۔ جب وہ اپنے کسی کام کے لئے تجھ سے جانے کی اجازت مانگیں ۔ تو ان میں سے جس کو چاہے تو اجازت دے ۔ الله ان کو جانتا ہے ۔ جو تم میں سے نظر بچا کر کھسک جاتے ہیں۔ سو جو لوگ اس کے حکم کی خالفت کرتے ہیں ۔ چاہیے کہ ڈریں کہ ان پر کوئی آفت نہ آجائے۔یا ان کو دکھ دینے والا عذاب پہنچے‘‘ (نور آیت 6۲و63)۔ ’’اپنے درمیان رسول کا بلانا ایسا نہ ٹھہراؤ۔ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہیں‘‘ (نور 63)۔ اے محمدجب تک یہ لوگ اپنے جھگڑوں میں تجھ کو منصف نہ بنائیں۔ یہ مسلمان ہو نہیں سکتے ۔ پھر جو فیصلہ دے ۔ اس پر اپنے دلوں میں تنگ نہ ہوں۔ بلکہ تابعدار بن کر تسلیم کریں‘‘ (نساء 68)۔’’ایمان والوں کو لازم ہے کہ جب وہ الله اور اس کے رسول کی طرف بلائیں جائیں۔ تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ تو کہیں کہ ہم نے سنا اور حکم مانا‘‘ (نور50)۔’’ جب الله اور اس کا رسول کوئی بات مقرر کرے ۔ تو کسی ایماندار مرد اور عورت کا کام نہیں کہ ان کو اپنے کام کا اختیار ہے‘‘ (احزاب 36)۔
مندرجہ بالا آیات کا مقصد یہ نہ تھا کہ عرب کی وحشی غیر مہذب قوم کو آداب مجلس سکھلائے جائیں۔ کیونکہ ان کا تعلق رسول کی ذات خاص سے ہے ۔ اور زمانہ جاہلیت کے عرب آداب ِمجلس سے ناواقف نہ تھے۔ ان آیات سے رسول کے وقار وافتخار کا استحکام اور آپ کی عظمت وشان کی استواری کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا۔
(۲)
اس کے برعکس اگرہم ابن الله کی زندگی پر سطحی نظر ڈالیں۔ تو ہم کو معلوم ہو جائےگا۔ کہ گو آپ علم اور فروتنی کا نمونہ تھے (متی ۱۱: ۱۹)۔ تاہم آپ کے حلم اور فروتنی کا یہ مطلب نہ تھا کہ آپ پست ہمت تھے یا اپنی ذات اور خودداری کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
انجیل اس پر گواہ ہے کہ جہاں سچائی اور حق گوئی ،فرض شناسی یا ضمیر وغیرہ کا تعلق ہے وہاں آپ نے بے مثال دلیری کے ساتھ اپنی شخصیت اور اختیار کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً آپ نے تمام جہان کی مخالفت کو سہیڑ لیا۔ لیکن گنہگاروں کو نجات کی خوشخبری دینے سے آپ دستبردار نہ ہوئے ۔ تمام فریسی آپ کے دشمن جان ہوگئے ۔ لیکن آپ نے ان کی بے قیود اور غلط اصول کو طشت ازبام (مشہور اور عام ہونا) کردیا۔ آپ کی صلیب اس امر کی گواہ ہے کہ دنیا کی طاقت آپ کو مصلوب توکرسکی لیکن آ پ کو مغلوب نہ کرسکی۔ آپ محسوس کرتے تھے کہ ’’ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے‘‘ (متی ۲۸: ۱۸)۔ ’’میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے‘‘ (متی ۱۱: ۲۷)۔آپ ہر طرح سے ’’صاحب اختیار‘‘ تھے (یوحنا ۳: ۳۵؛ ۱۳: ۳؛ ۱۷: ۲؛ اعمال ۲: ۳۶؛ رومیوں ۱۴: ۹؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۷؛ افسیوں ۱: ۱۰؛ ۱: ۲۰۔۲۲؛ فلپیوں ۲: ۶۔۱۰؛ کلسیوں ۲: ۱۰؛ عبرانیوں ۱: ۲؛ ۲: ۸؛ ۱۔پطرس ۲: ۲۲؛ مکاشفہ ۱۷: ۱۴ وغیرہ)۔ آپ نے ایسے دعوے کئے ۔ جو انسان نے کبھی نہ کئے ۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ آپ روز حشر دنیا کا انصاف کریں گے (متی ۱۶: ۲۷؛ ۲۵: ۳۱وغیرہ)۔ آپ جب دنیا میں تھے ۔ تو اس اختیار کے باعث ’’صاحب اختیار‘‘ کی طرح تعلیم دیتے تھے۔ (متی ۷: ۲۹؛ مرقس ۱: ۲۲ وغیرہ)۔ آپ کی گفتار ورفتار معجزات ۔ غرضیکہ ایک ایک ادا سے آپ کا اختیار ٹپکتا تھا(متی ۸: ۹؛ مرقس ۱: ۲۷؛ لوقا۹: ۱؛ یوحنا ۵: ۲۷وغیرہ)۔ یہ بات آپ کے دشمن بھی مانتے تھے(متی ۲۱: ۲۳؛ مرقس ۱۱: ۲۸؛ یوحنا ۷: ۴۶وغیرہ)۔ لیکن آپ باوجود صاحب اختیار ہونے کے پرلے درجے کے فروتن اور حلیم تھے(متی ۱۱: ۲۹)آ پ نے اپنی ذات کا اظہار خلق کی خدمت کے ذریعہ کیا۔ اور فرمایا’’ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے ‘‘(متی ۲۰: ۲۸)۔ چنانچہ آپ کو یہ احساس تھا کہ ’’باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کردیں ہیں ۔ اور میں خدا کے پاس سے آیا۔اور خدا ہی کے پاس جاتا ہوں‘‘(یوحنا ۱۳: ۳)۔لیکن آپ نے اس اختیار کا اظہار ’’دنیا کی ساری بادشاہتوں اور ان کی شان و شوکت ‘‘کو حاصل کرکے نہ کیا (متی۴باب )۔ بلکہ اس اختیار کے احساس کا اظہار یوں کیا۔ کہ’’ آپ نے دستر خوان سے اٹھ کر کپڑے اتارے۔ اور رومال لے کر اپنی کمر میں باندھا تھا۔ اس سے پونچھنے شروع کئے ۔ جب آپ ان کے پاؤں دھوچکے تو ان سے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ تم مجھے استاد اور مولا کہتے ہو اور خوب کہتے ہوں کیونکہ میں ہوں پس جب مجھ استاد اور مولا نے تمہارے پاؤں دھوئے ۔ تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ کیونکہ میں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے ۔کہ جیسا میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے تم بھی کیا کرو‘‘(یوحنا ۱۳: ۴)۔ آپ کی ذات نے ان دونوں جبلّتوں تحکم اور جبلّت عجز دونوں اپنی کمالیت میں جمع تھیں۔ اور آپ نے ان دونوں جبلّتوں کے ذریعہ اس محبت کا اظہار فرمایا۔ جو آپ کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے موجزن تھی۔ ’’حسنت جمیع خصالہ ‘‘ صرف آپ کی ذات پاک پر ہر پہلو سے صادق آسکتا ہے ۔
(3)
ابن الله نے اپنے نمونہ سے ہم کو سکھلایا ہے کہ ہم کو دوسروں کی خاطر اپنے حقوق سے دستبردار ہوجانا چاہیے ۔ انجیل شریف بہ مطابق(متی ۱۱: ۲۹) میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’’ حلیم ‘‘ ہوا ہے ۔ اس کے معنی ’’حقوق سے دستبردار ‘‘ہوجانا ہے ۔اور یہی بات (فلپیوں ۲: ۴) میں صریحاً وارد ہوئی ہے ۔ جناب مسیح کی زندگی ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جب آپ اپنے جائز حقوق سے ’’دست بردار ‘‘ ہوئے(متی ۳: ۱۳۔۱۷؛ ۱۷: ۲۴۔۲۷وغیرہ)۔ انجیل نے ہم کو تعلیم دی ہی کہ دوسروں کی خاطر ہم کو بخوشی خاطر اپنے جائز حقوق سے دست بردار ہوجانا چاہیے (رومیوں ۱۲: ۲۱؛ گلتیوں ۵: ۱۳؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۹؛ ۱۰: ۲۳ وغيرہ)۔ دوسرے لوگوں کی محبت کی خاطر کلمتہ الله ہر طرح کا ایثار اور قربانی کرنے کو تیار تھے۔ آپ کے نمونے اور آپ کی انجیل نے حلیمی اور محبت کا باہمی رشتہ دکھلایا۔’’ محبت شیخی نہیں مارتی ۔ اور پھولتی نہیں ۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی ‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۴)۔ محبت کے ساتھ دوسروں کی خدمت علم اور فروتنی سے کرنا اور اس قسم کی خدمت سر انجام دینے میں اپنی عین سعادت سمجھنا۔ یہ دونوں باتیں زیر بحث جبلّتوں کے تقاضاؤں کو احسن طور پر پورا کرتی ہیں۔ ابن الله نے دوسروں کی محبت کی خاطر اپنی خودی سے انکار کرنے پر اور ہر قسم کا ایثار کرنے پرزور دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے ۔ اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے ۔کیونکہ جوکوئی اپنی جان بچانی چاہے وہ اسے کھوئے گا۔ اور جوکوئی میرے واسطے اپنی جان کھوئے گا۔ وہ اسے پائے گا‘‘ (متی ۱۶: ۲۴)۔ فروتنی در حقیقت خود فراموشی ہے ۔ ہم اپنی عملی زندگی میں بنی نوع انسان کے ساتھ محبت کا اظہار صرف اس طرح کرسکتے ہیں کہ ان کی خاطر ادنیٰ ترین امور کو بھی فروتنی سے پورا کریں (متی ۲۵: ۳۵۔۴۵؛ یوحنا ۱۳: ۱۴وغیرہ)۔ جہاں محبت نہیں وہاں حقیقی فروتنی اور حلم نہیں۔ لیکن جہاں محبت ہے ۔ وہاں بے جا تحکم ، لاف گزاف، خود نمائی، غرور وفخر کی گنجائش نہیں(۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۱۴وغیرہ)۔ بلکہ محبت کی موجودگی نفس کشی ، حقیقی حلم اور اصلی فروتنی کا باعث ہوتی ہے ۔
نتیجہ
ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگاکہ مسیحیت ذات کے اظہار کی جبلّت کو الہٰی محبت اور انسانی اخوت کے اصول کے تحت کرکے اس جبلّت کی جائز اور مناسب نشوونما کرتی ہے ۔ انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبودی کی خاطر ادنیٰ ترین کام محبت کے جذبہ سے سرشار ہوکر کیا جائے ۔ منجی عالمین کا نمونہ ہمارے لئے سراج ہدایت ہے تاکہ اس خدمت کو سر انجام دینے کے لئے ہم ہر طرح کے ایثار اور قربانی کو عمل میں لاسکیں ۔خلق نے اس جبلّت کو اسی غرض کے لئے ہمارے سرشت میں ودیعت فرمایا ہے۔ لہٰذا جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ مسیحیت ہی دین ِفطرت ہوسکتا ہے ۔
فصل نہم
جبلّت حصول واکتساب
جبلّت حصول وخصوصیات اکتساب کی
ہر انسان میں اشیا کو فراہم کرنے اور ذخیرہ جمع کرنے کی اقتضا کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ یہ جبلّت اس کی سرشت میں داخل ہے ۔ اس دنیا میں کوئی بچہ ایسا نہیں جو بالغ ہونے تک اور اس کے بعد بھی کسی نہ کسی قسم کی اشیا کو جمع نہ کرے ۔ بچپن میں عموماً اس ذخیرہ کے جمع کرنے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ کیونکہ اکتساب وحصول کی جبلّت انسانی فطرت میں داخل ہے ۔
انسانی زندگی میں یہ جبلّت ان پیچیدہ تسویقات اور جذبات کا باعث ہوتی ہے ۔ جن کا تعلق ملکیت اور قبضہ کے ساتھ ہے ۔ یہی جبلّت سرمایہ اور دولت کے فراہم کرنے میں مدددیتی ہے ۔
(۲)
اس جبلّت کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی خواہش روز افزوں ہے ۔ دیگر خواہشات ایک خاص نقطہ پر پہنچ کر ساکن ہوجاتی ہیں۔ اور ان کی کامل تسکین ہوجاتی ہے ۔ مثلاً جب انسان ایک خاص عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔ تو اس میں نر اور مادہ کی خواہش باقی نہیں رہتی۔ لیکن اس جبلّت کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی خواہش روز بروز بڑھتی جاتی ہے ۔ گویا جمع کرنے کے جنون کو تسکین سے آگاہی نہیں۔ ایسے انسان بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ جو اپنی خواہشوں کی تسکین کے لئے صرف مایحتاج پر ہی قناعت کرتے ہیں۔ کسی دوسری جبلّت کے اقتضا کے حصول کے لئے اس قدر کدوکاوش نہیں کی جاتی ۔ جتنی دولت کو جائز اور ناجائز طریقوں مثلاً قمار بازی وغیرہ سے جمع کرنے یا سرمایہ کو فراہم کرنے یا زمین اور مکان کی ملکیت کو حاصل کرنے یا ملک گیری وغیرہ کے لئے کی جاتی ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ اس جبلّت میں فاسد (خراب)افراط(کثرت) کی صلاحیت موجود ہے ۔
جبلّت حصول اور دین ِ فطرت کے لوازمات
دینِ فطرت کا یہ کام ہے کہ اس جبلّت کے رحجان کو ہیچ ، کم مایہ بے حقیقت اور ادنیٰ اشیا کی طرف سے ہٹا کر ایسے اعلیٰ ترین مقاصد کو حاصل کرنے کی جانب راغب کرے ۔ جن سے انسان کی اپنی ذاتی ترقی اور بنی نوع انسان کی بہبودی مقصود ہے ۔ دین ِفطرت کا یہ بھی کام ہے کہ اس جبلّت میں جو فاسد افراط کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس کا علاج کرے تاکہ انسان اس جبلّت کی روز افزوں خواہش کو قابو میں رکھ سکے۔
جبلت حصول اور مسیحیت کی تعلیم
مسیحیت ہم کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ دولت ایک بے مایہ، ہیچ ،ادنیٰ اوربے حقیقت شے ہے ۔ اور ہماری زندگی کا یہ نصب العین ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔ کہ ہم اس کے جمع کرنے میں منہمک ہوجائیں۔ ’’مال دار ہونے کے لئے پریشان نہ ہو۔ کیا تو اس چیز پر آنکھ لگائے گا۔ جو بے حقیقت ہے ۔ کیونکہ دولت پر لگا کر اڑجاتی ہے‘‘ (امثال ۲۴: ۴)۔’’تم خداوند اپنے خدا کا شکر بجالا ؤ۔ خبردار کہیں ایسا نہ ہو کہ جب تم کھاکر سیر ہو۔ اور خوش نما گھر بنا کر ان میں رہنے لگو۔ اور تمہارے پاس چاندی ،سونا، اور مال بکثرت ہوجائے ۔ تو تم خداوند اپنے خدا کو بھول کر اس کے فرمانوں اوراحکام اور آئین کو ماننا چھوڑدو (استثنا ۹: ۱۱)۔ ’’صادق کا تھوڑا سا مال شریروں کی بہت سی دولت سے بہتر ہے‘‘ (زبور۳۷: ۱۶)۔’’جو کوئی اپنے آپ کو دولتمند بناتا ہے ۔ وہ نادار ہے ۔ اور جو کوئی اپنے آپ کو کنگال بناتا ہے وہ بڑا مالدار ہے‘‘ (امثال ۱۳: ۷)۔’’ تھوڑا جو خداوند کے خوف کے ساتھ ہو۔ بڑے گنج سے بہتر ہے‘‘ (امثال ۱۵: ۱۶)۔’’ درغگوئی سے خزانے حاصل کرنا بے ٹھکانہ نجات کی مانند ہے ۔ اور اس کے طالب موت کےطالب ہیں‘‘ (امثال ۲۱: ۶)۔ ’’ زر دوست روپیہ سے آسودہ نہ ہوگا۔ اور دولت کا چاہنے والا اس کے بڑھنے سے سیر نہ ہوگا۔ یہ بھی بطلان ہے ‘‘(واعظ ۵: ۱۰)۔ کلمتہ الله نے فرمایا کہ ’’ اس دنیا میں بہت آدمی ایسے ہیں۔ جو خدا کاکلام تو سنتے ہیں لیکن دنیا کافکر اور دولت کا فریب اس کلام کو دبا دیتا ہے ۔ اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے‘‘ (متی ۱۳: ۲۲)۔آپ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ۔’’جو لوگ دولت پربھروسا رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا نہایت مشکل ہے ۔ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو‘‘ (مرقس ۱۰: ۲۳)۔آپ نے لوگوں کو زر سے محبت کرنے کے خلاف خبردار فرمایا او رکہا کہ ’’اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرلے اور اپنی روح کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا ؟ آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟‘‘( متی ۱۶: ۲۶)۔ آپ نے فرمایا’’ کوئی نوکر دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت ، یا ایک سے ملارہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے ‘‘(لوقا ۱۶: ۱۳)۔ اور پھر فرمایا ’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو۔ جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے ۔ اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو۔ جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ ، اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔کیونکہ جہاں تیرا مال ہے ۔ وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا ‘‘(متی ۱۶: ۱۹)۔ آپ نے دولت کی کم مائیگی ۔ اور اس کے ساتھ محبت رکھنے کی ناعاقبت اندیشی کو ظاہر کرنے کے لئے ایک تمثیل فرمائی او رکہا کہ ’’ کسی دولت مند کی زمین پر بڑی فصل ہوئی۔ پس وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا کہ میں کیا کروں کہ میرے ہاں جگہ نہیں کہ جہاں اپنی پیداوار بھر رکھوں اس نے کہا میں یہ کروں گاکہ اپنی کوٹھیاں ڈھاکر ان سے بڑی بناؤں گا اور ان میں اپنا سارا اناج اورمال بھر رکھوں گا۔ اور اپنی جان سے کہوں گا اے جان تیرے پا س برسوں کے لئے بہت سال مال جمع ہے چین کر۔ کھاپی اور خوش رہ ۔ مگر خدا نے اس سے کہا اے نادان اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کرلی جائے گی ۔ پس جو تونے تیار کیا ہے وہ کس کا ہوگا۔ایسا ہی وہ شخص ہے ۔ جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے ۔ اور خدا کے نزدیک دولت مند نہیں۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرو۔ کہ ہم کیا کھائیں گے اور اپنے بدن کا کہ کیا پہنیں گے۔ کیونکہ جان خوراک سے بڑھ کر ہے ۔ اور بدن پوشاک سے ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں۔نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے ۔ کیا تم ان سے زيادہ قدر نہیں رکھتے ۔ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ؟ جنگلی سوسن کے پھولوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان وشوکت کے ان میں سے کسی کی مانند پوشاک پہنے ہوئے نہ تھا۔پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے۔ او رکل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقاد و ۔ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ پس تم اس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے اور کیا پہنیں گے ۔ اور نہ شاکی بنو، کیونکہ تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم ان کے محتاج ہوہاں خدا کی بادشاہت کی تلاش میں رہو ۔تو یہ چیزیں بھی تم کو مل جائيں گی‘‘ (لوقا ۱۲ باب؛ متی ۶ باب) آپ نے فرمایا ’’خبردار اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو۔ کیونکہ کسی شخص کی زندگی اس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں‘‘(لوقا۱۲: ۱۵) ’’فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو۔ بلکہ اس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک ٹھہرتی ہے ‘‘(یوحنا ۶: ۲۷)۔ سیدنا مسیح کے رسول بھی فرماتے ہیں ’’نہ دنیا سے محبت رکھو۔ نہ ان چیزوں سے جو دنیا میں ہیں۔ جو کوئی دنیا سے محبت رکھتا ہے ۔ اس میں باپ کی محبت نہیں‘‘ (۱۔یوحنا ۲: ۱۵)۔ ’’جس کے پاس دنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے ۔ تو اس میں خدا کی محبت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے ‘‘(یوحنا ۳: ۱۷)۔ حضرت یعقوب کہتے ہیں ’’ اے دولتمند تمہارا مال بگڑ گیا تمہاری پوشاکوں کو کیڑا کھاگیا۔تمہارے سونے چاندی کو زنگ لگ گیا ‘‘ (یعقوب ۵: ۱)۔’’زرکی محبت سے خالی رہو۔ اور تمہارے پاس ہے اس پر قناعت کرو۔کیونکہ خدانے خود فرمایا ہے کہ میں تجھ سے دستبردار نہ ہوں گا۔اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا‘‘ (عبرانیوں ۱۳: ۵)۔ حضرت پولُس فرماتے ہیں ’’بہتر ے ایسے ہیں جن کا خدا پیٹ ہے ۔ اور وہ دنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں۔وہ مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ اور ان کا انجام ہلاکت ہے ۔ مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے‘‘( فلپیوں ۳: ۱۹)۔ لالچ ،بت پرستی کے برابر ہے ( کلسیوں ۳: ۵)۔’’دینداری قناعت کےساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے ۔ کیونکہ نہ ہم دنیا میں کچھ لائے اور نہ کچھ اس میں سے لے جاسکتے ہیں ۔ پس اگر ہمارے پا س کھانے اور پہننے کو ہے ۔ تو اسی پر قناعت کریں۔ لیکن جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں۔ وہ ایسی آزمائش اور پھندے اور بہت سی بے ہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں۔ جوآدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کردیتی ہے ۔ کیونکہ زر کی محبت ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے ۔اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کر مغرور نہ ہوں اور نا پائیدار دولت پر نہیں۔ بلکہ خدا پر امید رکھیں۔ اور اچھے کاموں میں دولت مند بنیں‘‘(۱۔تیمتھیس ۶باب)۔
(۲)
سطور بالا سے ظاہرہے کہ مسیحیت جبلّت حصول واکتساب کو ناکارہ نہیں بتلاتی۔ یہ ہماری سرشت میں داخل ہے ۔ لہٰذا مسیحیت اس جبلّی فطرت کو ضائع نہیں کرتی۔ بلکہ اس جبلّت کے رحجان کو زور ومال جیسی بے حقیقت اشیا کے جمع کرنے کی طرف سے ہٹا کر اس کا رخ اعلیٰ مقاصد کی طرف کر دیتی ہے ۔ کلمتہ الله نے یہ سبق ذہن نشین کرنے کے لئے ایک تمثیل فرمائی کہ ’’ایک شخص نے بڑی ضیافت کی۔اور بہت سے لوگوں کو بلایا۔ اور کھانے کے وقت اپنے نوکر کو بھیجا۔ کہ بلائے ہوؤں سے کہو کہ آؤ۔ اب کھانا تیار ہے ۔ اس پر سب نے مل کر عذر کرنا شروع کیا پہلے نے اس سے کہا کہ میں نے کھیت خریدا ہے مجھے ضرور ہے کہ جاکر اسے دیکھوں میں تیری منت کرتا ہوں ۔ مجھے معذور رکھ۔ دوسرے نے کہا میں نے پانچ جوڑی بیل خریدے ہیں ۔ ان کو آزمانے جاتا ہوں۔ میں تیری منت کرتا ہوں ۔ مجھے معذور رکھ۔ ایک او رنے کہا میں نے بیاہ کیا ہے ۔ اس سبب سے نہیں آسکتا۔" (لوقا ۱۴: ۱۴۔۱۶)۔ اس تمثیل کے ذریعہ سیدنا مسیح ہم کو بتلاتے ہیں کہ جب لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی قبولیت کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اس مقدم اور اہم مقصد کو چھوڑ کر اپنی توجہ مقابلتہ ً ہیچ اور کم مایہ اشیا میں لگادیتے ہیں۔ جناب مسیح نے یہ مقصد نہیں کہ زر اور مال اور دیگر دنیاوی اشیا بذات خود بری ہیں۔ لیکن آپ کا مطلب یہ ہےکہ ہر ایک شے اپنی اپنی جگہ قدر اور وقعت رکھتی ہے ۔ اور کسی شے کو اس کی جائز اور مناسب قدر سے زیادہ وقعت دنیا فطرت کے خلاف ہے ایک کم قدر شے کو وقعت دے کر مقدم جاننا اور مقدم شے کو بے وقعت اور موخر شمار کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم جبلّت حصول واکتساب کے رحجان کو مقدم مقاصد سےہٹاکر بے حقیقت اشیا کی جانب راغب کررہے ہیں۔ اور غیر فطرتی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں۔دنیا کا زر ایک ایسی شے ہے ۔ جس سے ہم کو محبت نہیں رکھنی چاہیے دولت کے جمع کرنے کا جنون ایک کم مایہ ادنیٰ اور ہیچ شے ہے ۔ اور جب خالق نے جبلّت حصول واکتساب کو ہماری سرشت میں ودیعت فرمایا۔ تو اس کا ہرگز یہ مدعا نہ تھا کہ ہم ایسی جبلّت کی طاقت اور توانائی (جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ جس کی خواہش روز افزوں ہے) ایسی کم مایہ اور ہیچ شے کے حصول میں صرف کردیں۔
(3)
مسیحیت کی آمد نے اس دنیا کی مختلف اشیا کی وقعت کے تصورات میں عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کرکے دنیا کے اخلاق کی کا یاپلٹ دی۔کلمتہ الله کی بعثت سے پہلے اقوام عالم کے ممتاز ترین افراد وہ سمجھے جاتے تھے ۔ جو اکتساب زردولت ۔ حصول عزت ومرتبت ، جاہ اور شوکت ، ملک گیری اور شہنشاہیت وغیرہ میں سب سے زیادہ کوشاں ہوتے تھے۔ اقوام عالم کا یہ خیال تھاکہ ’’مبارک ہیں وہ جو دولتمند ہیں‘‘۔ کلمتہ الله نے فرمایا’’ مبارک ہو تم جو غریب ہو‘‘ (لوقا ۶: ۲۰)۔ اور ’’افسوس تم پر جو دولتمند ہو‘‘(لوقا ۶: ۲۴)۔ ا ن کا خیال تھاکہ ’’ بد نصیب ہیں وہ جو بھوکے ہیں‘‘۔ کلمتہ الله نے فرمایا ’’مبارک ہو تم جو بھوکے ہو‘‘(لوقا ۶: ۲۰)۔اور ’’افسوس تم پر جو سیر ہو‘‘ (لوقا۶: ۲۵)۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ’’ مبارک ہیں وہ جن کی زندگی عیش اور ہنسی میں گذرتی ہے ‘‘۔ کلمتہ الله نے فرمایا ’’مبارک ہو تم جو روتے ہو ‘‘۔ اور ’’افسوس تم پر جو ہنستے ہو‘‘(لوقا ۶: ۲۵)۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مبارک ہیں وہ لوگ جن کو تمام لوگ تحسین وآفرین کہیں۔ لیکن کلمتہ الله نے فرمایا’’ تم مبارک ہوگے۔ جب لوگ تم کو ستائیں گے اور ہر طرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے‘‘۔ (متی ۵: ۱۱)۔ اور’’افسوس تم پر جب سب لوگ تم کو بھلا کہیں‘‘(لوقا۶: ۲۶)۔ اقوام عالم کا یہ خیال تھا کہ جاہ اور عزت اور لوگوں پر حکومت چلانے کی طاقت کا حاصل کرنا ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے اس کے برعکس کلمتہ الله نے تعلیم دی کہ خلق خداکی خدمت ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ اورکہ حکومت اور اختیار جتانے کی روح اچھی نہیں اور فرمایا ’’تم جانتےہو کہ اقوام عالم کےسردار ان پر حکومت چلاتے اور امر ان پر اختیار جتاتے ہیں۔لیکن تم میں ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ جو تم میں بڑا ہوناچاہے ۔ وہ تمہارا خادم بنے ۔ اور جو تم میں اول ہوناچاہے۔ وہ تمہارا غلام بنے ۔ چنانچہ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیئے میں دے‘‘ (متی ۲۰: ۲۵)۔ پس جناب مسیح نے خلق خدا کی خدمت کو مقدم اور دولت جاہ عزت اور حکومت وغیرہ کے حصول کو خلق خدا کی خدمت کا محض ایک وسیلہ مقرر کردیا۔چنانچہ ایک دفعہ ایک ایسا شخص جناب مسیح کے پاس آیا ۔ جس نے حصول زر کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ اور آپ سے پوچھنے لگاکہ میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ آپ نے فرمایا’’ کہ جو مال تونے جمع کیا ہے اس کو خلق خدا کی خدمت میں صرف کر‘‘(مرقس ۱۰: ۲۱)۔ لیکن اس بات سے’’اس کے چہرے پر اداسی چھاگئی۔ اور وہ غمگین ہوکر چلا گیا۔ کیونکہ وہ بڑا مالدار تھا‘‘۔ پس سیدنا مسیح نے فرمایا ۔ جو لوگ اکتساب زر دوولت اور حصول عزت جاہ کی خاطر زندگی بسرکرتے ہیں۔ ان کے لئے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا نہایت مشکل ہے۔ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گذرجانا اس سے آسان ہے کہ ایسا دولتمند اس میں داخل ہو۔ جو اپنی دولت اور مرتبت کو خلق خداکی خدمت اور خدا کی بادشاہت کے قیام اور وسعت کی خاطر خرچ کرنے سےدريغ کرتا ہے۔جناب مسیح نے خدا کی بادشاہت کے تصور کو مقدم ٹھہرا کر تمام دیگر امور کو اس ایک نصب العین کے ماتحت کردیا۔ اور عالم اخلاقیات میں عظیم الشان تبدیلی پیدا کردی۔ منجی عالمین نے ہماری جبلّت حصول واکتساب کی جبلّت کے رخ کو کم مایہ۔ بے حقیقت اور ناکارہ اشیا کی طرف سے ہٹادیا ۔ اور حکم دیا کہ چند روزہ اور فانی امور کو نصب العین بنا کر ان کو حاصل کرنے کی بجائے ان کو اعلیٰ ترین غیر فانی مقاصد کے ماتحت اور ان کے حصول کا وسیلہ بنادیں(یوحنا ۶: ۲۷)۔ تاکہ جبلّت حصول کا حقیقی منشا جو خالق کے ارادہ کے مطابق ہے پورا ہوجائے۔ اور یوں ہماری فطرت کا اصلی تقاضا پورا ہوجائے۔
پس جناب ِ مسیح نے ایک نصب العین ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ د یا ہے کہ جس کے حاصل کرنے کےلئے ہم اس جبلّت کی پوری طاقت کو استعمال کرسکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔’’ مقدم بات یہ ہے کہ تم خدا کی بادشاہت اور ا س کی راستبازی کو حاصل کرو‘‘(متی ۶: ۲۳)۔ اس اعلیٰ ترین مقصد کے حاصل کرنے میں انسان اپنی جان اور روح کی ترقی اور بنی نوع انسان کی ترقی کا باعث ہوسکتاہے ۔
آپ نے تمثیلوں کے ذریعہ خدا کی بادشاہت کا مقدم ہونا لوگوں پر ظاہر کیا اور فرمایاکہ ’’ آسمان کی بادشاہت اس سوداگر کی مانند ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔ جب اسے ایک بیش قیمت موتی ملا تو اس نے جاکر جوکچھ اس کا تھا ۔ بیچ ڈالا ۔اور اسے مول لےلیا۔ آسمان کی بادشاہت ایک چھپے خزانہ کی مانند ہے ۔ جس کو کسی آدمی نے پاکر چھپادیا ۔ اور خوشی کے مارے جاکر جو کچھ اس کا تھا ۔ بیچ ڈالا۔ اور اس کھیت کومول لے لیا‘‘(متی ۱۳ باب)۔خدا کی بادشاہت ایک ایسا بیش بہا نصب العین ہے ۔ جس کو حاصل کرنے کی خاطر تمام وسائل استعمال کرنے چاہیں۔ اس کی وقعت اس قدر ہے کہ باقی ہر شے گو بظاہر قابل قدر معلوم ہوتی ہو۔ لیکن اس کے مقابلہ میں اس کی قدر ہیچ ہے ۔ جس طر ح بیش قیمت موتی کے مقابلے میں باقی تمام موتیوں کی وقعت ہیچ تھی۔اگر چہ وہ موتی بھی اپنی اپنی جگہ قابل قدر تھے۔ خدا کی بادشاہت کی قدر اور وقعت اتنی رفیع اور بلند ہے ۔ کہ اس کے قیام اور وسعت کی خاطر ابن الله نے اپنی جان دےدی۔
(4)
ہم اوپر ذکر کرچکےہیں کہ جبلّت واکتساب میں فاسد افراط کی صلاحیت موجو دہے ۔ دین ِفطرت کا یہ کام ہے کہ فاسد صلاحیت کی روک تھام کرے ۔ کلمتہ الله نے اس صلاحیت کو یوں زائل کیاکہ آپ نے اس صلاحیت کی روز افزوں خواہش کو خدا کی بادشاہت کی بنا ،قیام، پائیداری، اور استواری کے حصول کے ماتحت کردیا۔ یوں اس کے افراط میں جو فساد کا امکان تھا وہ جاتا رہا ۔ خدا کی بادشاہت کے قیام اور پائیداری میں ہم جتنی بھی کوشش کریں گے ۔ وہ کم ہوگی۔ اور اس سے کسی فرد بشر کو نقصان اور گزند پہنچنے کا اندیشہ نہیں۔ اگر ہم اس جبلّت کے رحجان کو اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول یعنی خدا کی بادشاہت اور اس کی راستبازی کو حاصل کرنے کی جانب راغب کریں گے۔ تو چونکہ اس جبلّت کا خاصہ ہے کہ اس کی تسکین کبھی نہیں ہوتی۔ اور اس کی خواہش روز افزوں ہے ۔ تو ہم اس نصب العین کو حاصل کرنے کی روز افزوں کوشش کریں گے اور اس نصب العین کے حصول کے افراط سے ہم کو اور بنی نوع انسان کو کسی قسم کا گزند (صدمہ)پہنچنے کا خدشہ بھی نہیں ہے ۔برعکس اس کے جب اس اعلیٰ نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے ہماری کوشش لگاتار جاری رہے گی تو جتنی اس کوشش کو تسکین نہیں ہوگی اسی قدر اس کی روز افزوں خواہش ہماری روح کی بہبودی اور انسانی ترقی اور فلاح کے لئے مبارک اور فائدہ مند ثابت ہوگی۔ہم ہر وقت اسی کوشش میں ہوں گے کہ خدا کی بادشاہت اس دنیا میں قائم ہوجائے(متی ۴: ۱۷وغیرہ)۔ اور دعا کریں گے کہ اس دنیا کا کاروبار خدا کی راستبازی کے اصولوں پر چلے (متی ۶: ۹)۔ پس کلمتہ الله نے جبلّت حصول واکتساب کی افراط میں جو فساد کی صلاحیت تھی۔ اس کاسد باب کردیا آپ کی تعلیم نے اس صلاحیت کو اعلیٰ ترین نصب العین کے ماتحت کرکے اس کی توانائی اور قوت کو خدا اور اس کی بادشاہت اور اس کی راستبازی کی تحصیل میں خرچ کردیا۔
جبلّت حصول واکتساب اور قرآنی تعلیم
قرآن میں ایسی آیات پائی جاتی ہیں ۔ جو زر اور دولت کے حصول کو ہیچ اور ادنیٰ بتلاتی ہیں۔ ’’جس نے مال جمع کیا ۔ اور گن گن کر رکھا سمجھتاہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہر گز نہیں ۔ وہ تو روندنے والی (دوزخ کی آگ ) میں پھینکا جائے گا‘‘ (ہمزہ آیت ۲و6، آل عمران ۱۲، انفال ۲8، کہف 43و44، انعام 3۲، حجر 88، طہٰ ۱3۱ وغیرہ)۔
(۲)
لیکن ایک طرف تو قرآن ان چیزوں کو کم مایہ قرار دیتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف انہی چیزوں کو بہترین مرغبات میں شمار کرکے مال غنیمت وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کو جہاد کے لئے ابھارتا ہے (سورہ انفال ۱و4۲ سورہ فتح ۱5)۔ ’’جو تم لوٹ کے لائے حلال پاک ہے تم کھاؤ‘‘(انفال70)۔ یوں قرآن اس دنیا کے مال واسباب (اور مال بھی ایسا جو لوٹ کے ذریعہ حاصل کیا ہو ) کی کم مائیگی کے اصول کو خود ہی زائل کردیتاہے ۔ علاوہ ازیں قرآن نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ روپیہ کےذریعہ لوگوں کے دل اسلام کی طرف راغب کرنا جائز ہے(توبہ آیت ۱60)۔یوں روپیہ کی محبت اور لالچ کی روز افزوں خواہش لوگوں کے دلوں میں جاگزین ہوجاتی ہے ۔ اس کی بجائے کہ دنیا اور زر کی محبت کا استیصال ہو جبلّت حصول واکتساب کا افراط میں جو فساد کی صلاحیت ہے ۔ اس کو تقویت ملتی ہے ۔ انسان کا یہی جی چاہتا ہے کہ لوٹ کے ذریعہ جبلّت حصول واکتساب کی خواہش کو پورا کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضرہ میں بھی عرب کے مسلمان بدوؤں کو دنیائے اسلام کے حاجیوں کو لوٹ لینے سے باز رکھنا ایک نہایت مشکل امر ہے ۔
(3)
علاوہ ازیں قرآن جبلّت حصول کی قوت کو کم مایہ اور ہیچ اشیاء کی جانب سے ہٹا کر اس کی رحجان کا رخ کسی دوسرے مقصد اعلیٰ کے ماتحت نہیں کرتا۔ قرآن میں کوئی تعمیری پروگرام یا نصب العین نہیں ۔ جس طرح انجیل جلیل میں ’’خدا کی بادشاہت ‘‘ کا نصب العین ہے ۔ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قرآن دولت دنیا کو ہیچ جانتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا ہے کہ جبلّت حصول کی طاقت زر کے حصول میں خرچ ہو۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ طاقت کس بات کے حصول میں خرچ کی جائے ۔ یہ ظاہرہے کہ جبلّت ہماری سرشت میں داخل ہے ۔ اور حضرت رسو ل عربی ﷺ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ اس جبلّت کی تسکین نہیں ہوتی۔ چنانچہ مشکواة کتاب الرقاق میں انس سے روایت ہے کہ
’’آنحضرت نے فرمایا کہ آدمی تو بوڑھا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس میں دو چیزیں جوان اور قوی رہتی ہیں۔ یعنی مال کی حرص اور درازی عمر کی خواہش ‘‘۔
پس ضرور ہے کہ انسان کے سامنے کوئی تعمیری پروگرام یا نصب العین ہو جس کی جانب اس جبلّت کی قوت کو راغب کرے اور جس کو حاصل کرنے کے لئے وہ دل وجان سے کوشش کرے ۔ لیکن قرآن اس بارے میں بالکل خاموش ہے ۔ اور اگر اس کے پاس مطمع نظر ہے ۔ تو بس نعمہائے بہشت ہیں۔ جن کے ذکر سے قرآن کے صفحوں کے صفحے بھرے پڑے ہیں(محمد ۱۲و۱7، صفت 39تا 47، نبا 30، دہر ۱3، طور ۲4، غاشیہ ۱5، واقعہ ۲۲و35، روم ۱4، کہف 30، رحمن46تا 7۲، دخان 5۱تا 55،وغیرہ وغیرہ)۔ لیکن کسی سلیم الطبع شخص کے نزدیک قرآنی نعمہائے بہشت صحیح مرغبات میں شمار نہیں ہوسکتے ۔
(4)
پس قرآن واسلام جبلّت حصول واکتساب کی قوت کو ہیچ اور کم مایہ بے حقیقت اور ادنیٰ اشیا کی طرف سے نہیں ہٹاتا۔ اس کی طاقت کے رحجان کو کسی اور بہتر مقصد اور نصب العین کی جانب نہیں کرسکتا ۔ جس سے بنی نوع انسان کی بہبودی مقصود ہے ۔ اس جبلّت میں جو فاسد افراط کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس کے روک تھام کا اسلام کے پاس کوئی علاج نہیں۔ غرضیکہ جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ اسلام دین ِفطرت نہیں ہوسکتا ۔
نتیجہ
مسیحیت جبلّت حصول واکتساب کے اقتضاء کو تسلیم کرکے اس رحجان کو زر جیسی بے حقیقت اشیاء سے ہٹا دیتی ہے ۔ اور اس کا رُخ بہتر اور اعلیٰ مقاصد کے حاصل کرنے کی جانب لگاتی ہے ۔جن سے انسان کی انانیت کی ترقی اور بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبودی مقصود ہے ۔ یوں مسیحیت نے مختلف مقاصد کی قدر اور منزلت کے تصورات میں عظیم الشان تبدیلی کرکے دنیائے اخلاق کی کایا پلٹ دی ہے ۔ انجیل ِجلیل نے اس جبلّت کی افراط میں جو فساد کی صلاحیت موجود تھی۔ اس کی روک تھام اس طرح سر انجام دی کہ خداکی بادشاہت کا نصب العین ہماری نظر کے سامنے رکھ دیا ،تاکہ اس تعمیری پروگرام پر عمل کرکے انسان اپنی انانیت کی اور بنی نوع انسان کی فلاح اوربہبودی کا باعث ہوجائے۔ پس جہاں تک جبلّت ِحصول واکتساب کا تعلق ہے ۔ مسیحیت اس کے تمام اقتضاؤں کو بوجہ احسن پورا کرکے اربابِ دانش پر ثابت کردیتی ہے کہ وہ دین ِفطرت ہے ۔
اشتراکیت اور مسیحیت
(۱)
فی زمانہ بے روزگاری کے مسئلہ نےہندوستان کی توجہ اپنی طرف ایسی جذب کرلی ہے کہ لوگ کسی اور مسئلہ کی جانب توجہ ہی نہیں دیتے ۔ جد ھر آنکھ اٹھاؤ بے روزگاروں اور بے کاروں کی قطار ورقطار نظر آتی ہے ۔ ہر طرف سے ایک ہی صدا کا نوں میں پڑتی ہے ۔ کہ ’’چور خورو بامدا فرزندم‘‘ ہائے روٹی‘‘ کی چیخ وپکار کے سامنے دنیا کا ہر قسم کا شور اور غل مدھم پڑگیا ہے ۔ دورِحاضرہ میں کسی شخص کے لئے اور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے کوئی ایسا امر دلچسپی کا باعث نہیں ہوتا جس کا تعلق روٹی کے ساتھ نہ ہو۔ ہندوستان کی موجودہ سیاسیات میں اقتصادیات کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مذہبی اصول اور دینیات تک کو اس کے تحت کردیا گیا ہے ۔ اور ان کو ذریعہ معاش بنادیا گیا ہے ۔ مختلف مذاہب کے پیرو اپنے اپنےمذہب کی آڑ میں اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو پورا کرکے اس مقولہ پر عمل کررہے ہیں کہ ’’ایمان برائے طاعت ومذہب برائے جنگ‘‘۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگیاہے کہ فرقہ وارانہ شعلوں نے کشمیر بے نظیر سے لے کر راس کماری تک ہندوستان بھر میں آگ لگادی ہے ۔ اور ہندوستان جو تیس (۳۰)سال پہلے دارالامان تھا۔ اب باہمی نزاع اور نفاق کی وجہ سے دارا الحرب بن گیا ہے ۔ اندرین حالات دور ِحاضرہ کے نوجوان جن کے آباؤ اجداد خدا اور مذہب کے نام پر مرمٹنا سعادت دارین کاموجب سمجھتے تھے۔ وہ مذہب کے نام سے نہ صرف بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ مذہبی مباحث اور دینی مشاغل سے متنفر ہوکر ان سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ ان کی نظریں مشرق کے انبیا اور ہندوستان کے اولیا کی طرف سے ہٹ کر روس کی جانب جا لگی ہیں۔جہاں بے روزگاری زمانہ ماضی کی داستان پارینہ ہوچکی ہے اور اشتراکیت نے مصنوعی درجہ بندیوں کو مٹا کرہر ایک شخص کے لئے روٹی ،تعلیم،رہائش اور آسائش کا انتظام کرکے مواسات(مدد،ٖغم خواری ،درگزر،صلح) کو عالم امکان سے عالم وجود میں لاکر پردہ شہود پر رونما کردیاہے ۔ اور اب ہر روشن خیال شخص یہ سوال پوچھتا ہے ۔ کہ اگر اشتراکیت (ساجھا،ایک اعتدال پسند فلسفہ یا نظریہ حیات جس کے مطابق ذرائع پیداوار پر عوام کی مشترکہ ملکیت ہونی چاہیے) نے روس جیسے پس ماندہ ملک میں بیس (۲۰)سال کے اندر اعجازی کرشمے دکھا کر انقلاب برپا کردیا ہے ۔ تو کیا ہندوستان کے لئے اشتراکیت کا قیام اس کے اقتصادی مسائل کے لئے نفع بحش نہیں ہوگا؟ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کے لئے یہ سوال زندگی اور موت کا سوال ہوگیا ہے ۔
(۲)
اگر بنظر تعمیق (دور اندیشی سے کام لینا،غور)دیکھا جائے ۔ تو اقتصادی معتقدات اور موجودہ حالات کے اندر فساد کی جڑ تقابل اور Competitionہے ۔ ہماری اقتصادی عمارت مقابلہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے ۔
پس۔۔۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا مے رود دیوار کج
مقابلہ کی روح کی یہ خصوصیت ہے کہ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ دوسروں کو جائز وناجائز طریقوں سے پچھاڑ کر خود آگے بڑھے۔ پس موجودہ اقتصادیات اس دوڑ کی مانند ہے۔ جس میں ہر شخص اسی سر توڑ کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ کہ میں کامیاب ہوکر دوسروں سے گوئے سبقت لے جاؤں ۔ اور باقی تمام حریف دیوالیہ ہوجائیں۔پس خودی اور طمع سرمایہ داری کی عمارت کے بنیادی پتھر ہیں۔ جوہر قسم کے اتفاق ، یگانگت اور محبت کے جانی دشمن ہیں۔ اب تلخ تجربہ نے ہم پر ظاہر کردیا ہے کہ مغرب کے زیر اثر مانچسٹر کے مدرسہ اقتصادیات (Manchester School of Ecnomics)نے جو سبز باغ ہم کو شروع شروع میں دکھائے تھے۔ ان کی حقیقت اور وقعت سراب (آنکھوں کا دھوکا)سے زیادہ نہیں ہے ۔ اور ہندوستانی قوم ہر گز ترقی نہیں کرسکتی ۔ اگر وہ معدودے چند خوشحال سرمایہ داروں پر اور پچانوے (۹۵)یا زیادہ فی صد بھوکوں پر مشتمل ہوگی۔ جہاں سرمایہ دار فاقہ مستوں کو مخاطب کرکے کہیں۔
غوغائے کارخانہ آہنگری زمن
گلبا نگ ارغنون کلیسا زآن تو
نخلے کہ شہ خراج برومی نہذمن
باغ بہشت وسدرہ وطوبی ٰز آن تو
تلخابہ کہ درد سر آروزآن من
صہبائے پاک آدم وحوا ازان تو
مرغابی وتدرود کبوتر ازآن من
ظل ہما دشہپر عنقا ازآن تو
ایں خاک وآنچہ از شکم ادزان من وز خاک تابہ عرش معلی ازآن تو
سرمایہ داری میں سرے سے یہ صلاحیت ہی نہیں۔ کہ دنیا کی اچھی چیزوں اور نعمتوں کو محبت اور انصاف کے اصول کے مطابق تقسیم کرے۔ لیکن خدا نے اس دنیا کی نعمتیں سب کے لئے رکھی ہیں۔ اور اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے ۔ کہ ان نعمتوں کی تقسیم موجودہ اقتصادی حالات کے مطابق خودی اور طمع کی بنا پر کی جائے ۔
(3)
فی زمانہ میں روس ایک ایسا ملک ہے جس میں اشتراکیت نے اپنی اقتصادیات کی بنیاد مقابلہ کی بجائے اتفاق ، موالات اور کوآپریشن پر رکھ کر بیس(۲۰) سال کے اندر عظیم پیمانے پر ایسا انقلاب پیدا کردیا ہے ۔ جس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پس ہمار ے ملک کے نوجوان خیال کرتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں بھی اشتراکیت کا بول بالا ہوجائے ۔ تو ہمارے کل اقتصادی مسائل حل ہوجائیں گے ۔ اس میں کچھ شک نہیں ۔ کہ اشتراکیت کا سب سے زیادہ دلکش اور روشن پہلو یہی ہے کہ اس نے اپنی اقتصادیات کی بنیاد کوآپریشن پر رکھی ہے ۔لیکن کوئی صحیح العقل شخص اشتراکیت کے بدنما داغوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ اشتراکیت سوسائٹی کے مختلف طبقوں میں منافرت کے جذبات پھیلاتی ہے ۔ اور مزدوروں کی جماعت کو یہ تلقین کرتی ہے کہ سرمایہ داروں کے وجود کو دنیا سے نابود کردیا جائے علاوہ ازیں اشتراکیت کے پاس ایسے محرکات اور معلات نہیں۔ جن کے ذریعہ وہ لوگوں کو سرمایہ داری کی جانب سے ہٹا سکے ۔ اور انسان کی خودی اور طمع پر غالب آسکے۔ پس وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کےلئے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کے پروگرام پر عمل کریں ۔پس اشتراکیت خودی اور طمع کا قلع قمع نہیں کرسکتی۔ کیونکہ ان کا تعلق غیر مادی امور کے ساتھ ہے ۔ جن کا اشتراکیت سرے سے انکار کرتی ہے ۔ اشتراکیت تعدی ، جبرو تشدد ، قتل اور خون کے ہتھیاروں سے اپنا کام نکالتی ہے ۔ اور آزادی کی دشمن ہے ، مادیت، المحاد، اور لا مذہبی اس کی بنیاد یں ہیں۔ وقت کو تاہ وقصہ طولانی ، ورنہ روس کی گذشتہ بیس (۲۰)سالہ تاریخ سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ کہ اس کا ایک ایک ورق ان باتوں کی زندہ مثال ہے ۔
(4)
پس لازم ہے کہ ہندوستان کسی ایسے سیاسی اور اقتصادی لائحہ عمل کی تلاش کرے۔ جس میں اشتراکیت کی تمام خوبیاں موجود ہوں۔ لیکن اس کی برائیاں مفقود ہوں۔ مسیحی مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا تعمیری پروگرام موجو دہے۔ جس کا نام مسیحی اصطلاح نے ’’خدا کی بادشاہت ‘‘ رکھا ہے ۔ اور وہ پروگرام روسی اشتراکیت کا جواب ہے ۔ مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ بادشاہت اٹل ہے ۔ اور اس کا بادشاہ ازلی اور ابدی بے نظیر شخصیت کا مالک ہے ۔ اور اس کا لائحہ عمل ایک ایسا پروگرام ہے۔ جو عالمگیر ہے ۔ یہ بادشاہت پروگرام کو مرتب کرتی ہے ۔ اور اس کا بادشاہ لوگوں کو اس کے پروگرام پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے ۔ آؤ ہم چند لمحوں کے لئے دیکھیں، کہ آیا مادہ پرست اور ملحدانہ اشتراکیت ہندوستان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرے گی یا اس مبارک کام میں ’’خدا کی بادشاہت ‘‘ کے اصول ہمارے راہنما ہوں گے ۔
(5)
خدا کی بادشاہت کے بنیادی اصول یہ ہیں۔ کہ خدا ہمارا باپ ہے ۔ جو ہر فرد بشر سے ازلی اور ابدی محبت کرتاہے۔ او رکل بنی نوع انسان بلا لحاظ ذات ، مذہب ، نسل ، رنگ ، قوم اور ملک وغیرہ ایک دوسرے کے بھائی اور خدا کی بادشاہت کے شریک ہیں۔ اس بادشاہت کے بانی کا ارشاد ہے کہ ’’تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمان پر ہے اور تم سب بھائی ہو‘‘(متی ۲۳: ۸)۔
یہ پہلا سبق ہے کتاب ہدا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
اس مواخات کی وجہ سے ہر شخص پر یہ فرض عائد کردیا گیا ہے کہ وہ دوسروں سے اس طرح محبت کرے جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتا ہے ۔ ہر ایک شخص کو جو خدا کی بادشاہت کا ممبر ہے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ پس خدا کی بادشاہت کا اصل الاصول محبت ہے ۔ اور اخوت ومساوات اس بادشاہت کے بنیادی اصول ہیں۔
محبت ،اخوت اور مساوات کےاصول کا یہ تقاضہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے ، جو ہر انسان اپنے لئے چاہتاہے ۔ سچ پوچھو، تو حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان محبت کے اصول پر عمل کرے تو یہ جان لو کہ اس نے تمام شریعت پر عمل کرلیا۔ چنانچہ انجیل جلیل میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’آپس کی محبت کے سوا کسی چیز میں کسی کے قرضدار نہ ہو۔کیونکہ جو شخص دوسرے سے محبت رکھتا ہے ۔ اس نے شریعت پر پورا عمل کرلیا۔ کیونکہ یہ احکام کہ زنانہ کر، خون نہ کر، چوری نہ کر، لالچ نہ کر، اور ان کےسوا اور جو کوئی حکم ہو ، ان سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے ابنائے جنس سے اپنی مانند محبت رکھ ۔ محبت اپنے ابنائے جنس سے بد ی نہیں کرتی ۔ اس واسطے محبت شریعت کی تعمیل وتکمیل ہے ‘‘(رومیوں۱۳ باب)۔تمام حقوق العباد اسی زمرہ میں آ جاتے ہیں۔ پس محبت کا اصل الاصول جامع اور مانع ہے ۔ جو تمام آئین وقوانین اور فقہ پر حاوی ہے۔
خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است
یہ اصل انسان کے روزمرہ کے فرائض کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے ۔ اور انسانی اخلاق کا نصب العین قرار دے دیا گیا ہے ۔ پس خدا کی بادشاہت کے اس اصل نے ہر قسم کی درجہ بندی تفریق اور تمیز کو مٹادیا۔ اور جس بات کو اشتراکیت نے آج جبر اور تشدد کے ذریعہ حاصل کیا ہے دوہزار سال ہوئے ، کلمتہ الله نے محبت کے زرین اصل کے ذریعہ اس کو حاصل کرنے کا راستہ دکھادیا تھا۔
محبت کا اصل خودی کا عین نقیض ہے ۔ محبت اور خودی اجتماع الضدین ہیں۔ جہاں محبت ہے وہاں خودی نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ محبت کا جوہر خود انکاری اور ایثارِ نفسی ہے ۔ اسی طرح طمع اور محبت دونوں ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں ۔کلمتہ الله نے سرمایہ داروں کو فرمایاکہ "’’کوئی شخص دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ یا تو وہ ایک سے عداوت رکھے گا ۔ اور دوسرے سے محبت ، اور یاایک سے ملارہے گا۔ اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے‘‘ (متی۶: ۲۴)۔ ابن الله نے طامع لوگوں کو فرمایا’’ خبردار ہر طرح کے لالچ سے اپنے آپ کو بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں‘‘ (لوقا ۱۲: ۱۵)۔کلمتہ الله کی نگاہ میں طمع گناہ کبیرہ میں سے تھا۔ چنانچہ انجیل مقدس میں وارد ہوا ہے کہ ’’ لالچ بت پرستی کے برابر ہے ‘‘ ( کلسیوں ۳: ۵)۔یہی وجہ تھی کہ مالدار اور سرمایہ دار اشخاص کلمتہ الله اور آپ کے حوارئین سے کنارہ کش رہتے تھے۔
(6)
پس کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق خدا کی بادشاہت کی بنیاد کسی ایسے اصل پر مبنی نہیں ہوسکتی ۔ جس کاتعلق خودی اور طمع کے ساتھ ہو۔ پس اس بادشاہت کے اقتصادی نظام اور اصول تقابل اور (Competition)پر قائم نہیں ہوسکتے ۔ بلکہ صرف کوآپریشن موالات اور محبت کے اصول پر ہی قائم ہوسکتے ہیں۔۔۔
ایسا کوآپریشن اشتراکیت کی طرح جبر وتشدد، قتل وخون کے ذریعہ معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ بلکہ الہٰی ، محبت ، اخوت اورمساوات اس بادشاہت کی سیاسیات اور اقتصادیات کی محرک اوربنیاد ہیں۔ پس خدا کی بادشاہت کے تصور میں وہ عنصر جو اشتراکیت کا روشن پہلو ہے ۔ بطرز احسن موجود ہے۔اور وہ تمام عناصر جو اشتراکیت پر بدنما دھبے ہیں۔ اس تصور سے نکیتہً غائب ہیں۔ اس بادشاہت میں ملوکیت اور اشتراکیت کے بدترین عناصر یعنی جوروظلم، تعدی (ناحق ،حدسے بڑھ جانا)اور استبداد (ظلم وجور سے حکومت کرنا،ضد) ،عقوبت(سزا) وتعذیب ، جدال وقتال کو دخل نہیں، کیونکہ اس کی اقتصادیات ،محبت ، وشفقت ، ہمدردی اور رحم ،حق اور عدل ،فروتنی انکساری اور خلق خدا کی خدمت پر قائم ہیں۔ پس اس بادشاہت کے ممبروں پر عداوت اور نزاع ۔ کینہ اور حسد، غصہ اور شقاق بغض، اور قتل ،مستی اور لہو ولعب ممنوع اور حرام ہیں۔ کیونکہ یہ سب باتیں اس کے اصول کے خلاف ہیں۔ کیونکہ محبت اور خوشی اطمینان اور تحمل، نیکی اور ایمانداری ۔تواضع اور پرہیزگاری اس بادشاہت کے اصول کے عملی نتائج ہیں( گلتیوں ۵: ۱۹ وغیرہ)۔
پس کلمتہ الله نے خدا کی بادشاہت کے قوانین کو ایک جامع اصل محبت کے ماتحت کردیا۔ اور مسیحیت نے اپنے اقتصادی لائحہ عمل کو اس جامع اصل کے ماتحت مرتب کیا ہے ۔ اگر ہم اپنے ابنائے جنس سے اپنے برابر محبت کریں گے۔تو افلاس اور غریبی کا خود بخود قلع قمع ہوجائے گا۔ چنانچہ عبرانیوں کی انجیل میں ایک واقعہ کاذکر ہے جو انجیل متی پر مبنی ہے کہ ’’ایک دولتمند نے جناب مسیح کو کہا اے آقا میں کیا کروں کہ زندگی حاصل کروں۔آپ نے جواب دیا ۔میاں شریعت اور صحائف انبیاء پر عمل کر۔ اس نے کہا کہ ان سب پر میں نے عمل کیا ہے۔ آپ نے جواب دیاکہ جا جو کچھ تیرا ہے بیچ کر غریبوں کو دے ۔ اور آکر میرے پیچھے ہولے ۔ اس پروہ سرمایہ دار برہم ہوگیا۔ کیونکہ یہ بات اس کی طبع پر ناگوار گذری ۔ جناب مسیح نے اس کو کہا ۔ تو کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں نے شریعت اور صحائف انبیا پر عمل کیا ہے۔ درآں حال یہ کہ شریعت میں لکھا ہے کہ اپنے ابنائے جنس سے اپنی مانند محبت رکھ۔ دیکھ تیرے بہت سے بھائی جو آل ابراہیم ہیں چیتھڑوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اور بھوکوں مررہے ہیں ۔ اور تیرا گھر مال ، اسباب اور سامان خوردونوش سے بھرا پڑا ہے۔ اور اس میں سے کچھ نہیں نکلتا‘‘۔
(7)
جب ابن الله معبوث ہوئے۔ اور آپ نے خلق خدا کو نجات کا پیغام دینا شروع کیا۔ تو ابتدا ہی میں پہلی بات جو آپ نے کی وہ یہ تھی ۔کہ آپ نے خدا کی بادشاہت کا پروگرام مرتب کیا۔ اور مرتے دم تک آپ اس لائحہ عمل پر کار فرما رہے ۔ آپ نے سبت کے روزجب خلق خدا ناصرت کے عبادت خانہ میں جمع تھی۔ بھرے مجمع میں کھڑے ہوکر اپنی زبان معجز بیان سے فرمایا’’ خدا نے مجھے مسح کیا ہے ۔ تاکہ غریبوں کو جن کو دولتمندوں نے پاؤ ں تلے روند رکھا ہے ۔ خوشخبری دوں۔ ان کو جو مجلسی اور سیاسی قیود کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ رستگاری بخشوں ۔ ان کو جن کے بدن چور اور شکستہ ہیں۔ اور جن کے ماحول ناگفتہ بہ ہیں۔ شفا اور طاقت دوں ۔کچلے ہوؤں کو آزاد کروں۔ اور سب کو خدا کی بادشاہت کی بشارت دوں‘‘(لوقا ۴باب)۔ اس پروگرام کاپہلا قدم غریبوں اور مفلسوں سے متعلق تھا۔ اور آپ نے ببانگ بلند فرمایا کہ ’’ مبارک ہیں وہ جو مفلس ہیں۔ کیونکہ خدا کی بادشاہت انہیں کی ہے‘‘ (متی ۵ باب)۔ابن الله اس دنیا میں معبوث ہو کر آئے تاکہ دنیا کی کایا پلٹ دیں۔ اور ایک نیا آسمان اور نئی زمین معرض وجود میں آئے ۔ اور یہ دنیا جو خدا اور اس کے مسیح کی ہوجائے ۔ بالفاظ دیگر خدا کی بادشاہت موجود ہ دور کی جگہ لے لے ۔ اس مقصد کو مد نظر رکھ کر جناب مسیح نے اپنا لائحہ عمل تجویز فرمایا۔ تاکہ خدا کی بادشاہت عالمگیر پیمانہ پر اس دنیا میں ہمیشہ کےلئے قائم ہوجائے ۔
(8)
ابن الله نے اس پروگرام کی تفصیل کو تمثیلوں کے ذریعہ دنیا کے ذہن نشین کردیا۔ اور سکھلایا کہ ہر شخص کی آمدنی اس کی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے۔ طوالت کے خوف کی وجہ سے میں صرف ایک تمثیل پر اکتفا کرتاہوں۔ آپ نے فرمایاکہ ’’ آسمان کی بادشاہت اس گھر کے مالک کی مانند ہے جو سویرے نکلا ، تاکہ اپنے انگوری باغ میں مزدور لگائے ۔اور اس نے مزدوروں سے ایک دینار روز ٹھہرا کر ان کو اپنے باغ میں بھیج دیا۔ پھر پہر دن چڑھے کے قریب نکل کر اس نے اوروں کو بازار میں بیکار کھڑے دیکھا۔ اور ان سے کہا تم بھی باغ میں چلے جاؤ۔ جو واجب ہے کہ تم کو دوں گا ۔ پس وہ چلے گئے۔پھر اس نے دوپہر اور تیسرے پہرکے قریب نکل کر ویسا ہی کیا۔ اور کوئی گھنٹہ دن رہے پھر نکل کر اوروں کو کھڑے پایا۔ اور ان سے کہا تم کیوں یہاں تمام دن بیکار کھڑے رہے ؟ انہوں نے اس سے کہا اس لئے کہ کسی نے ہم کو مزدوری پر نہیں لگایا ۔ اس نے ان سے کہا ۔ تم بھی باغ میں چلے جاؤ ۔ جب شام ہوئی تو باغ کے مالک نے اپنے کارندے سے کہا کہ مزدوروں کو بلا اور پچھلوں سے لے کر پہلوں تک ان کو مزدوری دے دے۔ جب وہ آئے۔جو گھنٹہ بھر دن رہے لگائے گئے تھے۔ تو ان کو ایک ایک دینار ملا۔ جب پہلے مزدور آئے ۔ تو انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم کوزیادہ ملے گا لیکن ان کو بھی ایک ہی دینار ملا۔ تب وہ گھر کے مالک سے یہ کہہ کر شکایت کرنے لگے کہ ان پچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کام کیا ہے ۔ اور تونے ان کو ہمارے برابر کردیا۔ جنہوں نے دن بھر کا بوجھ اٹھایا۔ اور سخت دھوپ سہی۔ اس نے جواب دیا۔ میاں میں تیرے ساتھ بے انصافی نہیں کرتا۔ کیا تیرا مجھ سے ایک دینار نہیں ٹھہرا تھا؟ جو تیرا ہے اٹھالے اور چلا جا ۔ میری مرضی یہ ہے کہ جتنا تجھے دیتا ہوں۔ اس پچھلے کو بھی ا تنا ہی دوں۔ کیا مجھے روا نہیں۔ کہ اپنے مال کے ساتھ جو چاہوں سوکروں؟ (متی ۲۰ باب)۔
اس تمثیل میں ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ مالک کو بیکاروں سے ہمدردی تھی۔ اور اس نے ان کو پوری مزدوری دے دی ۔ کیونکہ اگر وہ بیکار تھے ۔ تو وہ اپنے کسی قصور کی وجہ سے بیکار نہ تھے۔ بلکہ محض اس لئے بیکار تھے ۔ کہ ان کو کسی نے مزدوری پر نہ لگایاتھا۔ اوربیکاری کے زمانہ میں ان کی ضروریات بدستور سابق تھیں۔ اور مالک نے ان کی ضروریات کے مطاقب ان کو مزدوری دی۔ دوسری بات جو اس تمثیل سے عیاں ہے وہ یہ ہے کہ ہر مزدور کے حقوق مساویانہ ہیں۔ مالک نے کہا کہ میری مرضی یہ ہے کہ جتنا تجھے دیتا ہوں ۔ اس پچھلے کو بھی اتنا ہی دوں۔ پس خدا کی مرضی یہی ہے کہ اس دنیا کی نعمتوں کی تقسیم میں سب مزدوروں کے حقوق مساویانہ ہوں۔ اور ہر شخص کو ان کی ضروریات کے مطابق انصاف سے بانٹا جائے ۔لیکن جس طرح اس تمثیل میں دیگر مزدوروں نے مالک کی منصفانہ تقسیم پر اعتراض کیا۔ اسی طرح فی زمانہ سرمایہ دار غربا کے حقوق تلف کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کے مطابق ان کی آمدنی ہو ۔لیکن خدا کی مرضی یہ ہے کہ ہر طرح کا غیر مساویانہ سلوک جو فطرت پر مبنی نہیں۔ خدا کی بادشاہت میں سے خارج کردیا جائے کیونکہ یہ باتیں موجودہ طرز معاشرت نے سوسائٹی میں داخل کردی ہیں۔لیکن وہ فطرت کے خلاف ہیں۔ خدا کی بادشاہت کا طرز معاشرت ایسا ہے ۔ جس میں ہر انسانی بچے کے لئے جود نیا میں پیدا ہوتا ہے یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کی طرح اپنے فطری قواء کے استعمال سےا علیٰ ترین زینہ پر پہنچ سکے۔ پس خدا کی بادشاہت میں وہ دیواریں جو موجودہ سوسائٹی نے مختلف انسانوں کے درمیان حائل کر رکھی ہیں۔ مسمار کر دی جائیں گی ۔ اور ہر انسان کے بچے کو مساوی موقعہ دیا جائے گا۔ تاکہ اس کے مختلف فطری قواء مناسب ماحول میں نشوونما پاکر بنی نوع انسان کی ترقی کا موجب بنیں۔
ایک اور تمثیل کے ذریعہ(متی ۲۵ باب)۔کلمتہ الله نے ہم کو یہ سبق سکھلایا ہے کہ جس شخص کو خدا نے اعلیٰ پیمانہ پر فطری قواء عطا کئے ہیں۔ اس سے خدا کی بادشاہت میں یہ اُمید کی جائے گی کہ وہ ان قواء کو اس طور پر استعمال کرے ۔ کہ وہ قواء خدا کی بادشاہت کے قیام اور اس کے ممبروں کی ترقی کا باعث ہوں ۔ پس ان دونوں تمثیلوں سے ہم یہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیحیت کی اقتصادیات ان دو قوانین پر منحصر ہیں کہ اوّل مال کی فراوانی کے بہم پہنچانے میں ہر شخص اپنی اپنی لیاقت کے اندازے کے مطابق کام کرے ۔ تاکہ نوع انسانی مرفہ الحال ہوجائے ۔ اور دوم ۔ مال کی تقسیم کے وقت ہر شخص کو اس کی ضروریات کے مطابق بانٹا جائے ۔ ان اقتصادی قوانین پر عمل کرنے سے اعلیٰ لیاقت کے انسان اپنے قواء کو اپنی ذاتی اغراض اور منفعت کی تحصیل کی خاطر استعمال نہیں کریں گے ۔ بلکہ ان کے قواء نوع انسانی کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال ہوں گے۔ بلکہ ان کے قواء نوع انسانی کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال ہوں گے ۔ خدا کی بادشاہت میں اعلیٰ لیاقت کا شخص سیم وزر میں اور ادنیٰ لیاقت کا شخص خاک وخاشاک میں لیٹتا نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ اعلیٰ اور ادنیٰ لیاقت کے انسان اپنی اپنی قابلیتوں کو بنی نوع انسان کی مرفہ الحال میں خرچ کریں گے ۔ تاکہ ان لیاقتوں کے مجموعی نتائج اور ثمرات سے ہر شخص کا گھر پھلے اور پھولے۔
(9)
تاریخ کلیسیا میں ایسا زمانہ بھی گزراہے جب خدا کی بادشاہت کے مذکورہ بالا اقتصادی اصولوں پر عمل بھی کیا گیا۔ اور اس تجربہ نے یہ ثابت کردیا ۔ کہ یہ اصول محض کتابی اصول ہی نہیں بلکہ وہ عملی اصول بھی ہیں ۔ چنانچہ جب ابن الله نے اس دنیا سے صعود فرمایا۔ تو انجیل جلیل میں لکھا ہے کہ ’’سب ایماندار ایک جگہ رہتے تھے اور ساری چیزوں میں شریک تھے۔ اور اپنی جائیداد او راملاک وموال کو فروخت کرکے ہر ایک کی ضرورت کے موافق تقسیم کردیا کرتے تھے۔اور ہر روز یک دل ہوکر جمع ہوا کرتے تھے اور خدا کی حمد کرتے تھے اور سب لوگوں کو عزیز تھے۔اور مومنین کی جماعت ایک دل اور ایک جان تھی۔ یہاں تک کہ کوئی شخص بھی اپنے مال کو اپنی ملکیت نہ سمجھتا تھا۔ بلکہ ان کی سب چیزیں مشترک تھیں۔ اور ان سب پر فیض عظیم تھا۔ کیونکہ اس گروہ میں سے ایک شخص محتاج نہ تھا۔اس لئے کہ جو سرمایہ دار زمینوں یاگھروں کے مالک تھے۔ وہ ان کو بیچ بیچ کر فروخت کردہ چیزوں کی قیمت لاکر رسولو ں کے قدموں میں ڈال دیتے تھے۔ پھر ہر ایک کو اس کی ضرورت اور احتیاج کے مطابق بانٹ دیا جاتا تھا (اعمال ۲اور۴ باب)۔
یہ اشتراکیت مسیحی اصول اقتصادیات کا نتیجہ تھی۔لیکن ا س قسم کی اشتراکیت میں اور روسی اشتراکیت میں بعد المشرقین ہے ۔کیونکہ
اول۔اس اشتراکیت کی بنیاد مادیت، دہریت اور الحاد کی بجائے روحانیت اور خدا کی محبت پر قائم تھی۔
دوم۔ یہ اشتراکیت انسانی محبت پر مبنی تھی نہ کہ جبر اور تشدد پر ،کسی شخص کو مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ کہ وہ اپنے املاک وموال کو فروخت کرکے ہر ایک کی ضرورت کے مطابق سب میں تقسیم کردے ۔
سوم۔ اس اشتراکیت کے قیام کا طریقہ یہ نہیں تھا۔کہ سرمایہ داروں کے خلاف منافرت کےجذبات مشتعل کئے جائیں۔ تاکہ مزدوروں کی جماعت اور سرمایہ داروں کے طبقہ میں تصادم اور جنگ اشتراکیت کا پیش خیمہ ہوں۔ بلکہ سرمایہ داروں نے ازراہ محبت اپنے بھائیوں کی حاجتوں کو رفع کرنے کے لئے خود بخوشی خاطر اپنا مال واسباب فروخت کرکے سب چیزوں کو مشترک بنادیا تھا ۔
اس قسم کی اشتراکیت اوائل مسیحی صدیوں میں قائم رہی۔ چنانچہ برنباس کے خط (70تا ۱۱0ء) میں ہے ۔
’’تو اپنی تمام چیزیں اپنےہم جنسوں کے ساتھ مشترک رکھ اور اپنے کسی مال کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھ‘‘۔
جسٹن شہید اور ٹرٹولین (۱۱0ء تا ۱80ء) غیر مسیحی بت پرست سرمایہ داروں کو کہتے ہیں کہ
’’ ہم مسیحی سب چیزوں کو مشرک رکھتے ہیں‘‘۔
پطرس کے موعظت (دوسری صدی) میں مرقوم ہے کہ ’’ اے سرمایہ داروں ! یاد رکھو، کہ تمہارا فرض ہے کہ دوسروں کی خدمت کرو۔ کیونکہ تمہارے پاس تمہاری ضروریات سے کہیں زیادہ چیزيں موجود ہیں۔ یاد رکھو کہ جو چیزيں تمہارے پاس فراوانی سے موجود ہیں۔ وہ دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ پس وہ چیزیں ان کو دے دو۔ کیونکہ ان کا حق رکھنا تمہارے لئے شرم کا باعث ہے ۔ خدا کے انصاف اور محبت کی پیروی کرو۔ تو تمہاری جماعت میں ایک شخص بھی محتاج نہیں رہےگا‘‘۔ چوتھی صدی میں مقدس آگسٹین کہتا ہے کہ
’’ ذاتی ملکیت رکھنا۔ ایک غیر فطرتی حرکت ہے ۔ کیونکہ اس کی وجہ سے دنیا میں حسد ، کینہ ، بغض، عناد، جنگ وجدال ،گناہ اور کشت وخون واقع ہوتے ہیں‘‘۔
بشپ کلیمنس اول کہتا ہے کہ
’’تمام دنیاوی چیزيں سب کے استعمال کے لئے مشترک ہونی چاہئیں ۔ کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ شے میری ہے ۔ وہ چیزتیری ہے اور فلاں چیز اس کی ہے ۔کیونکہ اسی سے انسانوں میں جدائیاں اور عدواتیں پڑتی ہیں‘‘۔
(۱0)
پس ہندوستان کی پیچیدہ مالی مشکلات اور گنجیدہ اقتصادی مسائل کو سلجھانے کا واحد ذریعہ مسیحیت کے بانی کے پاس ہے ۔ کلمتہ الله نے خدا کی بادشاہت کے تصور کے ذریعہ ایک ایسا لائحہ عمل ہندوستان کے سامنے پیش کردیا ہے ۔ جس کا اصل الاصول محبت ہے ۔ اور اس کی علت غائی یہ ہے کہ ہر قسم کی خودی اور طمع کا استیصال کردیا جائے تاکہ ان کی بجائے ایثار نفسی او رہمدردی ،حق اور عدل کا بول بالا ہو۔ اور ہر طرح کی درجہ بندی تفریق اور تمیز کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا جائے۔تاکہ ان کی جگہ محبت اخوت اور مساوات قائم ہوں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مسیحیت کے پاس محرکات بھی موجود ہیں۔ اس بادشاہت کا لائحہ عمل اس بنا پر مرتب کیا گیا ہے کہ ہر شخص کوآپریشن (امداد باہمی) کے اصولوں کے ماتحت اپنی لیاقت کے اندازه کے مطابق کام کرے۔ تاکہ نوع انسانی مرفہ الحال ہوجائے اور ہر ایک شخص کے لئے اس کی حاجتوں کے مطابق ضروریات زندگی مہیاہوسکیں۔ اور اس دنیا میں کوئی فرد بشر محتاج نہ رہے ۔ اور موجودہ معاشرت کی جگہ خدا کی بادشاہت قائم ہوجائے ۔ جس کی نسبت ہر شخص کہہ سکے کہ ۔
ایں زمیں را آسمانے دیگر است
فصل دہم
خلاصہ ِکتاب
(۱)
اس رسالہ میں ہم نے انسانی فطرت کے چند اہم ابتدائی اور بسیط میلانات اور رحجانات پر بحث کی ہے ۔ تاکہ یہ معلوم کریں کہ ان میلانات کے اقتضاؤں کو مسیحیت اور اسلام میں سے کون سا مذہب بطرز احسن پورا کرسکتا ہے ۔
ہم نے دوران بحث میں دیکھا تھا کہ یہ میلانات جو فطرت نے ہماری سرشت میں پیدائش ہی سے ڈال رکھے ہیں۔ بذات خود نہ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اور نہ برے ۔بلکہ یہ قواء انسانی خصلت کی اساس ہیں۔ اور ان میلانات سے ہماری عادات شکل پذیر ہوتی ہیں۔ گردوپیش کے حالات او رہماری تعلیم وتربیت اور سوسائٹی کی صحبت کا اثر ہماری عادتوں کو اچھا یا برا بنادیتے ہیں۔اور جب یہ عادتیں پکی ہوجاتی ہیں۔ تو انسان اپنی بدعا دتوں کا غلام ہوجاتا ہے جن کے پنجہ سے وہ محض نصیحت اور نیک اعمال کی دعوت کے ذریعہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ عادت کی شدید قوت کے سامنے پندو نصائح کی بس اتنی پیش جاتی ہے ۔ جتنی سیلاب کے سامنے کسی تنکے کی ۔ بس اس زبردست قوت پر غالب آنے کے لئے ۔ انسان کو فضل اور توفیق درکار ہے ۔تاکہ وہ ایک نیا مخلوق بن جائے ۔ اسلام نیک اعمال کی دعوت دیتا ہے ۔ پندو نصیحت کرتا ہے ۔ لیکن وہ محض راہ ہدایت دکھانے پر ہی اکتفا کرتاہے ۔ مسیحیت نہ صرف صراط مستقیم دکھاتی ہے ۔ بلکہ اس پر چلنے کی فضل اور توفیق بھی عطا کرتی ہے ۔تاکہ انسان اپنی بدعادتوں پر غالب آکر اپنے خالق کے سامنے از سر نو زندگی بسر کرسکے۔ پس مسیحیت کو اسلام پر فوقیت حاصل ہے ۔ اور اسی میں یہ صلاحیت ہے کہ دین ِفطرت ہو۔
(۲)
فصل دوم میں ہم نے خوف کی جبلّت پر نظر کی تھی اور یہ دیکھا تھاکہ دین ِفطرت کے لئے لازم ہے کہ اس جبلّت کو غیر معتدل طور پر برانگیختہ ہونے نہ دے جس سے انسان کادل ڈر اور ہول کے مارے ہر وقت دہشت زدہ رہے ۔ لیکن اسلام میں خدا کا تصور ہی ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر وقت خائف اور ترساں رہتا ہے ۔ وہ ایک قہار اور جبار ہستی ہے ۔لیکن مسیحیت میں خدا کی ذات محبت ہے ۔ خدا ہمارا باپ ہے ۔ جو ہم سے لازوال محبت کرتاہے ۔ مسیحیت میں اس ازلی محبت کے احترام کے جذبہ نے اسلامی خوف اور دہشت کے محرکات کی جگہ لے لی ہے ۔ مسیحی جذبہ احترام میں جو خوف کا عنصر ہے وہ اس دہشت سے کوسوں دور ہے ۔ جو اسلامی تعلیم کا لازمی نتیجہ ہے ۔ پس مسیحیت کی تعلیم خوف کی جبلّت کا جائز استعمال کرکے ثابت کردیتی ہے کہ اس میں دین فطرت ہونے کی صلاحیت موجود ہے ۔ بخلاف اس کے اسلام اس جبلّت کو غیر معتدل طور پر برانگیختہ کرکے ارباب ودانش پر ظاہر کردیتاہے کہ وہ دین ِفطرت نہیں ہوسکتا ۔
(3)
جنسی جبلّت پر بحث کرتے وقت ہم نے دیکھا تھاکہ دینِ فطرت کا یہ کام ہے کہ وحدت ازدواج پر زور دے اور اس رشتہ کی پاکیزگی قیام ،استواری، اور پائیداری کی تلقین کرے ، عورت کو مرد کی شہوت پر آلہ کار ہونے کی بجائے اس کو ایک آزاد ذمہ وار ہستی قرار دے ۔ مرد اور عورت کے جنسی حقوق کی مساوات کی تعلیم دے۔ لیکن اسلام تعداد وازدواج کو جائز قرار دیتاہے ۔ طلاق کی کھلے بندوں اجازت دیتاہے ۔ جو جنسی تعلقات کی جڑ کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔ وہ عورت کو مرد کی کھیتی قرار دے کر طبقہ نسواں کو چاہ ذلت میں گرادیتا ہے ۔اس کے برعکس مسیحیت جنسی تعلقات کو پاکیزه قرار دے کر وحدت ازدواج پر اصرار کرتی ہے اور طلاق کی قطعی ممانعت کرکے اس رشتہ کو دائمی اور پائیدار قرار دیتی ہے ۔ جہاں اسلام نے عورتوں کو انسان کا غلام بنا کر ان کے مستقبل کو تاریک کرر کھا تھا۔ مسیحیت ان مردوں کے ساتھ مساویانہ حقوق عطا کرتی ہے ۔ اور عورت کو بجائے خود آزاد اخلاقی ہستی قرار دےکر ان کو ان کے جذبات او ر افعال کا ذمہ وار گردانتی ہے ۔
علاوہ ازیں اسلام میں تعداد ازدواج کی وجہ سے مرد کی جنسی جبلّت ہر وقت غیر معتدل طور پر برانگیختہ رہتی ہے اور اس ناواجب شدت اور تکرار عمل کی وجہ سے مر د کی جسمانی قوت پر برا اثر پڑتا ہے ۔ اس کی ذہنی فعلیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ اورو ہ بنی نوع انسان کی فلاح وبہبودی میں رتی بھر اضافہ بھی نہیں کرسکتا۔ اسلامی ممالک کی تاریخ اس حقیقت کی واضح ہے اور روشن تفسیر ہے لیکن مسیحیت میں جنسی جبلّت کی قوت وحدت ازدواج کی وجہ سے صرف اعتدال کے ساتھ استعمال ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان کی جسمانی قوت اور اس کے ذہنی قواء بحال رہتے ہیں ۔ جبلّت جنسی کی وافر اور فاضل قوت کو وہ بنی نوع انسان کی ترقی اور بہتری میں صرف کرسکتاہے۔ کیونکہ اس جبلّت کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے اقتضا کی عظیم قوت کو مختلف وجدانیات اور دیگر اقتضاؤں کو مستعار دےدیتی ہے ۔ پس اس لحاظ سے بھی اسلام دین ِفطرت ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے برعکس مسیحی ایمان اور عمل ثابت کردیتا ہے کہ مسیحیت ہی واحد دین ِفطرت ہے ۔
(4)
فصل چہارم میں والدینی جبلّت پربحث کرتے وقت ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے۔ دین ِفطرت کا کام ہے کہ طلاق اور دیگر تمام ایسی رکاوٹوں کو دور کرے ۔ جو بچوں کی پرورش ، حفاظت ، تربیت ، اور ان کےقواء کی نشوونما اور ترقی میں حائل ہوں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام ایسے قوانین ازدواج منضبط نہیں کرتا ۔ جو والدینی جبلّت کے مددگار ہوں۔ برعکس اس کے وہ طلاق وغیرہ کی اجازت دے کر اس جبلّت کی اقتضاؤں کی راہ میں بے اندازہ رکاوٹیں ڈالتاہے ۔ لیکن مسیحیت ان تمام امور کو حرام اور ممنوع قرار دیتی ہے ۔ جو جبلّت والدینی کے آزادانہ فعل میں خلل انداز ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں قرآن میں بچوں کے حقوق اور والدین کے فرائض اور ان کی بھاری ذمہ داریوں کا کہیں ذکر نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ والدینی جبلّت کا تعلق ان امور کے ساتھ خاص طورپر وابستہ ہے ۔ لہٰذا اسلام دین ِفطرت ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس باب میں مسیحی تعلیم ہر صاحب ہوش پر ثابت کردیتی ہے کہ صرف مسیحیت ہی دین ِفطرت ہے ۔
مسیحیت خدا کی ذات اور انسانی تعلقات کے ایسے تصورات کی تلقین کرتی ہے ۔ جو والدینی جبلّت کے عین مطابق ہیں۔ خدا ہمارا باپ ہے ۔ او رکل بنی نوع انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ چونکہ خدا بنی نوع انسان سے ابدی محبت رکھتا ہے ۔ پس وہ اپنے گمشدہ فرزندوں کو راہ ہدایت پر لانے کی خاطر ہر طرح کا ایثار کام میں لاتا ہے ۔ بعینہ جس طرح ما ں اپنی مامتا کی ماری اپنے بچے کی خاطر ہر طرح کا دکھ اٹھاتی ہے اور ہر طرح کی قربانی کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ لیکن اسلام میں اس قسم کی تعلیم کفر قرار دی جاتی ہے ۔ کیونکہ قرآن کے مطابق خدا بے نیاز ، اور بنی نوع انسان کی جانب سے لاپرواہ ہے ۔ پس اسلامی تصور خدا والدینی جبلّت کے عین نقیض ہے ۔ لہٰذا اسلام دین ِفطرت نہیں ہوسکتا ۔
دین ِفطرت کا یہ بھی کام تھا کہ والدینی جبلّت کے میدان عمل کو وسعت دے تاکہ انسان کی معاشرتی زندگی میں اس ظلم قیداور زیادتی کی بند ش ہوجائے ۔ جو زبردست ہستیاں زیر دستوں، بیکسوں ، لاچاروں، اورمصیبت زدوں پر روا رکھتی ہوں۔ ہم نے اس بارے میں مسیحی اور اسلامی تعلیم پر مبسوط(کشادہ) بحث کی تھی اوردیکھا تھا کہ مسیحی محرکات اور مرغبات نہ صرف اسلام میں مفقود ہیں بلکہ اسلام میں تقدیر کے مسئلہ پر ایمان رکھنے کی وجہ سے بنی نوع انسان کے مظلوم حصہ کی جانب سے ایک گونہ سخت دلی اختیار کرلیتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کی تعلیم ہے کہ ’’ خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت بخشی ہے ۔ تم اس کی تمنا نہ کرو‘‘ (نسا ء 36)۔ علامہ اقبال بھی اس امر کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں دیکھتے کہ
’’ قسمت اور تقدیر کا بدترین پہلو صدیوں سے دنیائے اسلام پر غالب رہا ہے ‘‘۔
پس والدینی جبلّت کے جس پہلو سے بھی ہم اسلام پر نظر کرتے ہیں وہ اس کے اقتضاؤں کو پورا کرنے سے قاصر نکلتا ہے ۔ لیکن مسیحیت اس جبلّت کی ہر اقتضا کو بطرز احسن پورا کرتی ہے ۔ لہٰذا وہی دین فطرت ہے ۔
(5)
لڑاکا پن اور غصہ کی جبلّت پر تبصرہ کرکے ہم نے دیکھا تھا کہ دین ِفطرت کے لیے لازم ہے کہ اس جبلّت کی تربیت کرے تاکہ انسانی امور میں ضبط کی طاقت بڑھے اور یہ جبلّت اپنی ننگی حالت میں انسان کی معاشرتی زندگی میں نظر نہ آئے ۔ لیکن اسلام قصاص اور جہاد کی تعلیم کی تلقین کرکے اس جبلّت کا مظاہرہ اس کی خاص صورت میں کرتا ہے ۔اس کے خلاف مسیحیت عفو اور محبت کا سبق دے کر اس جبلّت کی تربیت کرکے جہاد بالنفس پر زور دیتی ہے اور یوں ثابت کردیتی ہے کہ اس میں دین ِفطرت ہونے کی اہلیت موجو د ہے ۔
علاوہ ازیں اس جبلّت کی تحت میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ دین ِفطرت کا کام ہے کہ اس جبلّت کا رحجان دیگر جبلّی میلانات کے اقتضاؤں کو حاصل کرنے کی جانب راغب کرے تاکہ اس جبلّت کی عظیم طاقت کی مدد سے دیگر اقتضاؤں کو کمک (حمایت)حاصل ہو اور وہ ان تمام مشکلات پر غالب آجائیں جو ان کے آزادانہ فعل میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ مثلاً مسیحیت لڑاکا پن اور جنگ جوئی کی جبلّت کی شدید طاقت کو اس جانب راغب کرتی ہے تاکہ غربت افلاس ،بیماری، جہالت، گناہ، اور شیطان کا مقابلہ کرکے ان پر فتح حاصل کرے تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مسیحیت شیطانی طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ کرکے ان کو شکست دیتی ہے۔ لیکن اسلام تقدیر کے مسئلہ پر ایمان رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو ان کی قسمت پر چھوڑ دیتا ہے ۔
قرآن کہتاہے کہ بھلائی اور برائی الله کی جانب سے ہے ۔ پس اسلام میں صلاحیت ہی نہیں کہ اس جنگجوئی کی جبلّت کو برائی کے اکھاڑے کی جانب راغب کرے اوربنی نوع انسان کی فلاح اور بہبودی کا باعث ہوسکے۔ لیکن بخلاف اس کے مسیحیت کا یہ طغرائے امتیاز رہا ہے ۔ پس جہاں تک اس جبلّت کا تعلق ہے ۔ مسیحیت ہر پہلو سے دین ِفطرت ہے۔
(6)
تجسس اور استفسار کی جبلّت انسانی سرشت کا ایک لازمی حصہ ہے ۔ پس دینِ فطرت کے لئے لاز م ہے کہ اس جبلّت کو اپنے رعب اور اختیار سے نہ دبائے بلکہ اس کے میدان عمل کو وسیع کرنے میں کوشاں ہوتاکہ ہم نہ صرف اس دنیا کی اشیا کی نسبت مستفسر(تحقیق کرنے والا) ہوں بلکہ خدا کی معرفت او ر عالم روحانیت کے حقائق کو بھی جہاں تک انسانی عقل کا م کرسکتی ہے جان سکیں۔ لیکن جہاں جناب مسیح کا نمونہ اور تعلیم اس جبلّت کے اقتضاؤں کے پورا کرنے پر اصرار کرتی ہے وہاں قرآن کی تعلیم جابر انہ حکم صادر کرکے اس جبلّت کو دبانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ہم نے اس تحت میں اسلامی ممالک کی تاریخ پر ایک عمیق اور مبسوط بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ قرآن اسلامی ممالک کو خیالات کی آزادی کی اجازت نہیں دیتا اور تجسس ،تفحص اور استفسار کے خلاف ہے ۔ پس اسلام ہماری فطرت کی اس جبلّت کے اقتضاؤں کے ساتھ ایسا جابر انہ سلوک کرکے ثابت کردیتاہے کہ وہ دینِ فطرت کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس ہم نے اس موضوع پر مفصل بحث کرکے ثابت کردیا ہےکہ مسیحیت ہر پہلو سے انسانی ِفطرت کی جبلّت تجسس کے تمام اقتضاؤں کو بدرجہ احسن پورا کرتی ہے لہٰذا وہی دین ِفطرت بھی ہے ۔
(7)
جبلّت اجتماع پسندی کی بحث کے دوران میں ہم نے دیکھا تھا کہ ترقی کی ابتدائی منازل میں انسانی افراد کو بطور ایک فرد کے کسی قسم کی اہمیت اور وقعت حاصل نہ تھی۔ جماعت کی ہستی اور بقا بہترین نصب العین تھا اور اگر کسی فرد کی ہستی جماعت کے وجود میں خلل کا باعث ہوتی۔ تو وہ بے دريغ قتل کردیا جاتا تھا ۔ افراد کی قدر و قعت بطور ایک ذمہ دار فرد کے نہیں کی جاتی تھی۔ہم نے قرآنی احکام پر نظر کرکے دیکھا تھا کہ اسلام اس حد سے آگے نہیں گذرا ۔اسلام کا نصب العین اسلامی جماعت کی ہستی بقا اور ترقی ہے اگر کسی انسان مثلاً مرزائے قادیانی کا وجود اس جماعت کے لئے باعث خطرہ ہے تو قرآنی احکام کے مطابق وہ گردن زدنی ہے ۔ قرآن کے مطابق انسان ایک خود مختار آزادذمہ وار اخلاقی ہستی بھی نہیں ہے ۔ لیکن کلمتہ الله کی یہ تعلیم ہے کہ ہر فرد بشر خدا کے حضور ایک ذمہ دار اخلاقی ہستی ہے ۔ مسیحیت نے نفسِ انسانی کے احترام کا سبق سکھلا کر دنیائے اخلاق کی کایا پلٹ دی۔ اس کی نظر میں ہر مر د عورت اور بچہ کی ہستی قابل قدر اور وقعت ہے ۔ اور یہی فطرت کی تعلیم ہے ۔
علاوہ ازیں مسیحیت جہاں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہر فردِ بشر بذات خود قدر اور وقعت رکھتا ہے وہاں وہ یہ بھی تلقین کرتی ہے کہ ہر فرد اپنی جماعت قوم اور ملک کے ذریعہ ہی اپنی انانیت کو ترقی دے سکتا ہے ۔ اور ہر انسان خدا کی خلقت کی خدمت کے ذریعہ اپنی روحانی ترقی کو حاصل کرسکتا ہے۔ پس مسیحی تعلیم نہ انانیت کو دباتی ہے اور نہ سوشل تعلقات کو مقدم قرار دیتی ہے ،بلکہ اس تعلیم کے مطابق انانیت اور جماعت دونوں بنی نوع انسان کی فلاح بہبودی اور کاملیت کی منزل کی طرف دوش بدوش گامزن ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اسلام میں یہ دونوں باتیں جیسا ہم اس بحث میں ثابت کرے آئے ہیں ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔
جو تصور ِخدا مسیحیت پیش کرتی ہے وہ جبلّت اجتماع پسندی کے عین مطابق ہے لیکن اسلامی تصور خدا کو جاننے اور سمجھنے میں انسانی فطرت مدد نہیں دیتی اس لحاظ سے بھی مسیحیت کی تعلیم عین فطرت کے مطابق ہے لہٰذا وہی دین ِفطرت بھی ہے ۔
(8)
دینِ فطرت کے لئے لازم ہے کہ تحکم اور خود نمائی کے جذبات کو حد سے بڑھنے نہ دے تاکہ غرور اور بیجا فخر کا قلع قمع ہوجائے اور کوئی شخص اپنی ترقی کی خاطر دوسروں کے حقوق کو اپنے پاؤں تلے نہ روندے ،بلکہ اس کے برعکس دین ِفطرت ایسی تعلیم دے ۔ جس سے جبلّت تحکم وعجز کی افراط تفریط کا سدباب ہوجائے اور انسان فروتنی اور ایثار کو کام میں لے کر حلیمی کے ساتھ اپنی انانیت کی نشوونما اور ترقی اور اپنی ذات کا اظہار جائز طور پر خلق خدا کی خدمت کے ذریعہ کرے۔
قرآن کے احکام ہی ایسے ہیں کہ تحکم اور خود نمائی حد اعتدال سے خود بخود تجاوز کرجاتی ہے۔ قرآنی تعلیم کے مطابق ایک مسلم بے دریغ غیر مسلموں کے حقوق کو اسلامی سیاسیات وجماعت کی ترقی اور اپنی ذات کے اظہار کے خاطر پائمال کرسکتاہے او ریہ ہماری سرشت کی جبلّت کے خلاف ہے اس کے برعکس ابن الله نے اپنی زندگی نمونہ اور تعلیم سے ہر طرح کے غرور بیجا لاف وگزاف اور فخر کی ممانعت کرکے یہ سکھلایا ہے کہ ہر انسان اپنی ذات کا جائز اظہار محبت کے ذریعہ اپنے ہم جنسوں کی خدمت کے وسیلے فروتنی او رحلم کے ساتھ کرے اور خدا کا شکر کرے کہ اس کو ایسا کرنے کا شرف بخشا گیا ہے ۔ ارباب ِدانش پر مخفی نہیں کہ یہ تعلیم اس جبلّت کے اقتضاؤں کے عین مطابق ہے ۔لہٰذا مسیحیت ہی دین ِفطرت ہے ۔
(9)
جبلّت حصول اکتساب پر بحث کرتے وقت ہم نے یہ دیکھا تھاکہ دین ِفطرت کا یہ کام ہے کہ اس جبلّت کا رخ ادنیٰ اور بے حقیقت اشیا کی طرف سےہٹا کر بہترین مقاصد کے حصول کی جانب لگایا جائے ۔ لیکن اسلام میں کوئی ایسے محرکات ہم کو نہیں ملتے جو انسان کو اس مقصد کے سر انجام دینے کی جانب راغب کرسکیں ۔ بخلاف اس کے مسیحیت نہ صرف کم قدر اشیا کو ادنیٰ بتلاکر ان کی اصل حقیقت ہم پر ظاہر کردیتی ہے بلکہ اس جبلّت کی توانائی کو خلق خدا کی بہبودی کے حصول کی جانب راغب بھی کرتی ہے ۔
علاوہ ازیں مسیحیت ایک ایسا نصب العین انسانی تخیل کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ جس کے حاصل کرنے میں جتنی زیادہ کوشش کی جائے وہ کم ہے ۔ کلمتہ الله نے خدا کی بادشاہت کا نصب العین بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اس نصب العین کو حاصل کرنے کی خاطر انسان سعی ملیغ اور ازحد کوشش کرے ۔ جتنی کوشش اس مقصد کی خاطر کی جائےگی اتنا ہی نوع ِانسانی کا فائدہ ہوگا۔ پس جو فاسد افراط کی صلاحیت اس جبلّت میں موجود تھی وہ کلمتہ الله نے اس نصب العین کو قائم کرکے خارج کردی۔ لیکن قرآن اور اسلام نے بنی نوع انسان کے سامنے کوئی ایسا تعمیری پروگرام یا نصب العین نہیں رکھا ۔جس کی جانب اس جبلّت کا رخ بدلا جاسکے اور نہ قرآن انسانی فطرت کی اس جبلّت کے فاسد افراط کے عنصر کی روک تھام کا انتظام کرسکتا ہے۔ پس اسلام میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ دین ِفطرت کہلایا جاسکے ۔ اس کے برعکس مسیحیت نے ہر پہلو سے دین ِفطرت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
ختم شدہ