1891-1972

The Venerable Archdeacon

Rev. Barkat Ullah

M.A.F.R.A.S

Fellow of the Royal Asiatic Society London

یادگار

برادر خورد نعمت الله مینیجر اخبار اخوت۔ لاہور کی یادگار میں

آپ نے اپنی عمر گرانمایہ حق اور خدمت خلق خاطر وقف کردی

اور ۲۴ فروی ۱۹۰۷ ء خداوند کے دن علے الصبح

خداوند میں آرام سے سوگئے ۔

برکت الله

دیباچہ طبع اول

آیہ شریفہ ایلی ایلی لما شبقتنی (اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ ) انجیل جلیل کی ان معدودے چند(بہت تھوڑی تعداد میں ) آیات میں سے ہے جن پر مخالفین عموماً اعتراض کیا کرتے تھے ۔ پس ہم نے اس رسالہ میں اس آیت پر مفصل بحث کی ہے تاکہ ان معترضین (اعتراض کرنے والے)کی تشفی خاطر ہوجائے جو صدق ِ نیت سے اس کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصرہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایسے ناظرین غور سے اس رسالہ کوپڑھ کر ان تمام حوالہ جات کا مطالعہ کریں گے جن کا ذکر دورانِ بحث میں کیا گیا ہے۔

ہم نے مولوی ثناء الله صاحب امر تسری کو اس رسالہ میں اپنا مخاطب بنایا ہے کیونکہ آپ کو شمالی ہند کے مسلمانوں میں خاص شہرت حاصل ہے اور پچاس سال سےزائد عرصہ سے میدان ِ مناظرہ میں نبردآزمائی(مقابلہ ) کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں ۔" کہ میری عمر پچیس سال سے متجاوز(اپنی حد سے زیادہ بڑھنے والا) تھی جب میں تحصیل علم سے فارغ ہوکر بالغ العلم ہوا اور ۱۸۹۲ء میں میری دستار بندی ہوئی تھی"۔ (اہل ِ حدیث ۲۹ جنوری ۱۹۲۴ء)۔ ہم نے ایک شخص کو اپنا مخاطب بنایا ہے۔ جس کو مسلمان اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں ۔ ہمیں افسوس سےکہناپڑتا ہے کہ ہم مولوی صاحب موصوف کو متلاشیان ِحق کے زمرہ میں نہیں پاتے کیونکہ ان کی کتاب " اسلام اور مسیحیت" میں جس کا اس رسالہ میں جا بجا حوالہ دیا گیا ہے) ہم کو تلاش ِحق کی تڑپ نظر نہیں آتی ۔ پس اگرچہ وہ متلاشیانِ حق کی صحیح معنی میں ترجمانی نہیں کرتے اورنہ کرسکتے ہیں تاہم وہ مناظرانہ رنگ میں آیہ کریمہ پر مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہیں اوران کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب حق کے متلاشی کے لئے کارآمد ہوسکتاہے۔ پس گو ظاہر ا ًطور پر ہمارے مخاطب مولوی صاحب موصوف ہیں تاہم ہمارا روئے سخن درحقیقت ایسے احباب کی طرف ہے جو جستجو ئے حق میں سرگرداں ہیں۔

ہم دست بدُعا (دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہوئے )ہیں کہ مولوی صاحب بھی اس زمرہ میں شامل ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دردِ دل سے باربار ان کو توبہ کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ع

زاں پیشتر کہ بانگ برآید ثنا نماند

مولوی صاحب حق کی جانب رجوع کریں اورمنجی عالمین کے قدموں میں آئیں جو"راہ حق اور زندگی ہے اور خاکسار کی طرح نجات ِ ابدی سے بہر مند ہوں۔

انارر کلی ۔بٹالہ

احقرالعباد برکت الله ۱۵نومبر ۱۹۴۵ء

دیباچہ طبع ثانی

مولوی ثناء الله صاحب کی کتاب " اسلام اور مسیحیت " ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی ۔ ہم نے اخبار اخوت لاہور میں اس کا جواب ۱۹۴۱ ء میں لکھا اور اس کے جواب الجواب کا انتظار کرتے رہے لیکن مولوی صاحب نے مرتے دم تک چپ سادھ لی(خاموش رہنا) ۔

چار سال تک انتظار کرنے کے بعد ہم نے اس رسالہ میں وہ تمام مضامین شائع کردئیے جن کا تعلق (مرقس ۱۵: ۳۴ ) یعنی ’’اورتِیسرے پہر کو یِسُوؔع بڑی آواز سے چِلّایا کہ اِلوہی اِلوہی لما شَبقتَنی ؟ جِس کا ترجمہ ہے اِے میرے خُدا ! اے میرے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑدیا؟‘‘ سے تھا۔ مولوی صاحب ابھی زندہ تھے لیکن ان سے اس رسالہ کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اب ۱۹۵۷ء میں اس کی دوسری ایڈیشن شائع کی جاتی ہے ۔ اس ايڈیشن سے وہ تمام مقامات خارج کردئے گئے ہیں جن کا تعلق مرحوم کی شخصیت سے تھا۔

میری دعا ہے کہ یہ رسالہ ان سب کو ابن ِ الله کی صلیب کے نزدیک لے آئے جو حق کی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ وہ بھی میری طرح نجات ِ ابدی سے بہرور ہوجائیں۔

ہنری مارٹن اسکول ۔ علی گڑھ

۲۵مارچ ۱۹۵۷ء

برکت الله

باب اول

مخالفین کے اعتراضات

مقدس مرقس کی انجیل میں وارد ہے :

’’جب دوپہر ہوئی تو تمام ملک میں اندھیرا چھا گیا اور تیسرے پہر تک رہا تیسرے پہر کو سیدنا عیسیٰ بڑی آواز سے چلائے کہ الوہی الوہی لما شبقتنی ؟ جس کا ترجمہ ہے اے میرے خدا اےمیرے خدا آپ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ جو پاس کھڑے تھے ان میں سے بعض نے یہ سن کر کہا دیکھو وہ الیاس (ایلیاہ)کو بلاتے ہیں۔ ایک نے دوڑ کر سپنچ کو سرکہ میں ڈبویا اور سر کنڈے پر رکھ کر آپ کو چسایا اور کہا ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو الیاس انہیں اتارنے آتا ہیں یا نہیں۔پھر سیدنا عیسیٰ نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا۔بیت الله (ہیکل)کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔صوبہ دار آپ کے سامنے کھڑا تھا اس نے آپ کو یوں دم دیتے ہوئے دیکھ کر کہا بے شک یہ آدمی خدا کا بیٹا ہے‘‘۔

( مرقس ۱۵: ۳۳تا ۳۹)

مذکورہ بالا آیات کی بنا پر انجیل جلیل کے بعض مخالفین اعتراض کرکے ان آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نعوذ بالله سیدنا مسیح کو خدا نے صلیب پر چھوڑ دیا تھا اورآپ جانکنی کی حالت ((جان نکلنے کی حالت))میں الہٰی رفاقت سے محروم تھے۔

ایک اور اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ چونکہ منجی کونین کوخود آخری دم قرُبت ِ خداوندی حاصل نہ تھی ۔آپ کی مبارک موت بنی آدم کی نجات کا وسیلہ نہیں ہوسکتی اور نہ آپ خدا کا مظہر ہوسکتے ہیں ۔ پس مسیحی مسئلہ نجات اور مسئلہ تجسم باطل ہیں۔

مولوی ثناء الله صاحب مرحوم نے مذکورہ بالا اعتراضات اپنی کتاب" اسلام اور مسیحیت" میں نہایت گستاخانہ الفاظ میں بڑی بے باکی سے کئے ہیں۔ بمصداق " نقل ِ کفُر کفُر نہ باشند" ہم ان کے عامیانہ اور سوقیانہ الفاظ کو ذیل میں نقل کرتے ہیں :

"ایک طرف تو مسیح کی شخصیت کو خدائے ِ مجسم بتایا جاتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سب قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے اُدھر اس کو دشمنوں کے ہاتھوں چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح سولی پر چڑھایاجاتا ہے جس پر یہ صادق آتا ہے کہ سپنے اندر راجہ بھئو جاگت بھئو کنگال۔ مسیح اس عاجزانہ حالت میں صلیب پر لٹکے گویا یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔

ضعف نے غالب نکما کردیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے"(صفحہ ۱۰۳)

" غالب علی الکل ہونا خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے اور غیر منفک(جدائی کے بغیر) ہے یعنی کسی وقت یا کسی آن میں یہ غلبہ اس کی ذات سے علیحدہ نہیں ہوسکتا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں مغلوب ہوکر اسیر ہوا۔ کانٹوں کا تاج پہنایا گیا ۔ اس کی پسلی میں بھالا ماراگیا۔ آخر اس نے ایلی ایلی لما شبقتنی کہتے ہوئے سولی پر چلاکر جان دی۔" (صفحہ ۶۸)۔

" دنیا کی تاریخی کتُب اور مسیحی اناجیل بالاتفاق شہادت دیتی ہیں کہ یہود مسیح کےساتھ بڑی سختی سے پیش آتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر آپ کو صلیب پر چڑھادیا اور ہاتھوں میں میخیں گاڑدیں۔ اس حالت میں یسوع مسیح کی یہ فریا کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا آپ کا صحیح مقام عبودیت(بندگی ،عباد ت) متعین کرنے کے لئے ایک فیصلہ کن جملہ ہے"۔

" مسیحیت نے دنیا کے بہت بڑے معزز اور خدا کے مقرب اور معصوم ناکردہ گنا ہ بندے کو پھانسی پر چڑھا کر گنہگاروں کی نجات کا ذ ر یعہ سمجھا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کو نہ تو عدل و انصاف کا اصول مانع آیا اورنہ خدا کے رحم نے اس کو اس ظلم سے باز رکھا۔"

ہمارے دل میں یہ بات آئی ہے کہ ہم یسوع مسیح کے الہٰی اوصاف کا نمونہ تصویر کی شکل میں دکھائیں ۔ شاعر لوگ اپنے دلی جذبہ اور محبت اکثر اوقات لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ مگر گاہے گاہے (کبھی کبھار)مصوروں سے تصویر کشی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں :۔

مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ رسائی ہو

ادھر تلوار کھینچی ہو ادھر گردن جھکائی ہو

اسی بنا پر ہم بادل ناخواستہ بقول نصاریٰ مسیح کی شخصیت الہٰی کا خوفناک انجام تصویر میں دکھاتے ہیں۔ مسلمان ناظرین ہمیں معاف رکھیں کیونکہ مکروہ فعل کا ارتکاب کررہے ہیں۔ انجیل متی میں لکھاہے کہ یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھایاگیا۔ اس کے ہاتھوں کو تختے کے بالائی حصہ کے ساتھ ملا کر میخیں گاڑی گئیں اوراس کے سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ اس حالت میں اس نے نہایت عاجزی وزاری کے ساتھ چلا کر جان دی ۔ جس کا نقشہ اگلے صفحے کی تصویر دیکھنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے۔

اس عبارت کے بعد مولوی صاحب نے ایک نہایت کریہہ (قابل ِنفرت)النظر تصویر کھینچ کر اس کے اوپرلکھاہے" اے میرے خدا ! اے میرے خدا ! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا (مقولہ درانجیل) " اور تصویر کے نیچے مصرعہ لکھاہے ۔ ع

دیکھے مجھے جو دیدہ عبرت ِ نگاہ ہے

اور پھر لکھتے ہیں کہ

" با انصاف ناظرین اگراس تصویر کو غور سے ملاحظہ فرمائیں گے تو ہماری اس آواز سے متفق ہوں گے کہ ہم حسب ِمضمون آیہ کریمہ لااحب الا افلین ایسی کمزور شخصیت کو خدائی کے لئے پسند نہیں کرسکتے بلکہ ہمارا یقین ہے کہ کوئی بھی اہل ِ بصیرت اس کو پسند نہیں کرے گا ۔"

(اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۳۱، ۱۳۵، ۱۰۷، تا ۱۱۰)۔

" ہم نے اپنی کتاب اسلام اور مسیحیت میں مسیح کی تصویر کے اُوپر جو فقرہ نقل کیا تھا اس سے ہماری جو غرض تھی اسے ہم منطقی اصلاح میں بتاتے ہیں ۔ عیسائیوں کا مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ خدا اور مسیح میں غیر منفک اِتصال چلا آیا ہے۔یہ مفہوم قضیہ(تکرار) دائمہ مطلقہ ہے ۔ ہم نے یہ فقرہ نقل کرکے قضیہ دائمہ مطلقہ عامہ کا ثبوت دیا تھا جو دائمہ مطلقہ کی نقیض (مخالف)ہے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ذاتِ الوہیت سے مسیح کا اِتصال دائمہ مطلقہ کی صورت میں ثابت نہیں ہے اس کے برعکس قضیہ مطلقہ عامہ کی شکل میں ثابت ہے جو پہلے قضیہ کی نقیض ہے"

(اہل ِ حدیث بابت ماہ جون ۱۹۴۲ء)

مسیح کے اس مقولہ سے صاف ثابت ہوتاہے کہ الوہیت اور ذات ِ مسیح میں لزوم (لازم)کی نسبت نہ تھی بلکہ ذاتِ الوہیت معاذ الله اس شعر کی مصداق تھی۔

سیاہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتاہے انسان

(اہل ِحدیث ۶ فروری ۱۹۴۲ء)

مولوی ثناء الله توہین مسیح کے مرُتکب

مولوی صاحب کے مندرجہ بالا الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُن کے زعم میں اس آیہ شریفہ سے ابن ِ الله کی " عاجزی وزاری" (اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۰۸ وغيرہ) ثابت ہوتی ہے ۔ اس آیت کی آڑ میں آپ آنخداوند مسیح کی توہین اور تضحیک کرنے سے ذرا نہیں جھجکے ۔ (صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۳)۔ آپ کے اس اوچھے(کم ظرف) ہتھیار پر مرزائی تک ( جن کو مولوی صاحب ہمیشہ گمران کن اور گمراہ شدہ مانتے رہے) انگشت بدنداں (دانتوں میں انگلی دینا، افسوس یاحسرت کا اظہار کرنا)ہیں۔ چنانچہ ایڈیٹر صاحب اُردو ریویو آف ریلجنس قادیان آپ کی کتاب پر ریویو کرکے لکھتے ہیں :

" حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام (یعنی آنجہانی مرزا صاحب قادیانی ) نے دریدہ دہن پادریوں اور عیسائی مناظرین کے اسلام اور آنحضرت ﷺ پرناپاک اعتراضات کا الزامی جواب دینے کے لئے جو بائبل اور عیسائيوں کی دیگر تصانیف سے سیدنا عیسی ٰ مسیح کی سخت قابل اعتراض شخصیت کو پیش کیا تو مولوی ثناء الله صاحب اوران کی قماش کے دیگر مولویوں نے آسمان پر اٹھا لیا کہ دیکھو مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی توہین کردی۔ لیکن آج مولوی صاحب ایک عیسائی کی کتابوں کا جواب لکھنا پڑا تو آپ نے وہی رنگ اختیار کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوا السلام(یعنی مرزا صاحب) نے اختیار فرمایا تھا۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰ مسیح کے اوصاف کا نمونہ الفاظ کی شکل میں آپ نے (کتاب کےصفحہ ۵۵ سے صفحہ ۱۱۳ )تک خوب دکھایا ہے ۔پھر اسی پر بس نہ کرتے ہوئے آپ نے اسے تصویر کی شکل میں دکھانا بھی ضروری سمجھا۔ اور صفحہ ۱۰۹ پر حضرت سیدنا عیسیٰ مسیح کو صلیب پر لٹکتا ہو ا دکھایا ہے اور نیچے کسی قدرتصرف کرکے غالب کا یہ مصرعہ لکھا ہے ۔

دیکھے مجھے دیدہ عبرت نگاہ ہو

اور اس طرح بقول خود" ایک مکروہ فعل کا ارتکاب کیا"۔ (صفحہ ۵۵ بابت فروری ۱۹۴۲ء)

ہم ان کریہہ النظر شت رو تصویر بنانے والے وہابی مولوی صاحب کی ذہینیت پر حیران ہیں۔ آپ اپنی کتاب پر نازاں ہوکر کہتے ہیں"۔ میں اپنے دلی خیال کا اظہار کرتا ہوں کہ اپنی جملہ تصنیفات میں سے دو کتابوں کی نسبت مجھے زیادہ یقین ہے کہ خدا ان کو میری نجات کا ذریعہ بنائے گا۔ ان میں سے ایک کتاب" مقدس رسول" ہے جو رنگیلا رسول" کے جواب میں ہے۔ دوسری کتاب یہی " اسلام اور مسیحیت " ہے۔ اس لئے میں کہہ سکتا ہوں۔

روزِ قیامت ہر کسے دردست گیرد نامہ

من نیز حاضرمے شوم تائید قرآں دربغل

(صفحہ الف)

لیکن جہاں تک توہین ، تضحیک اور تمسخر کا تعلق ہے مرحوم کی کتاب اس رسوائے عالم کتاب" رنگیلا رسول" سے کم نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مولویوں نے ایک مصنف پر " شاتم رسول" کا فتویٰ دے کر مسلمانوں کو اس قدر برافردختہ کردیا کہ وہ قتل کردیا گیا۔ لیکن مسیحی کلیسیا کلمتہ الله کی تعلیم اور نمونہ پر چل کر اس قسم کا وطیرہ(چلن) اختیار نہیں کرتی۔ آپ جیسے مولویوں کی ناپاک کوششوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں میں (جن کی بموجب آیہ قرآنی ولتجدن اقرب ھمہ مودة للذین آمنوا الذین قالو انا نصاریٰ ۔ دوستی کے لحاظ سے قریب ترین ہونا چاہیے تھا۔ ( سورہ مائدہ صفحہ ۸۵)۔ ایسا افتراق (جدائی ،اختلاف)پیدا کردیا ہے کہ مسلمان حضرت روح الله کی شان کے خلاف توہین وتمسخر کے کلمات سن کر نہ صرف ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ الٹا خوش ہوکر ایسے ایمان فروش مولویوں کو قائد مانتے ہیں۔ اس قسم کے حضرات دعوےٰ کرتے ہیں " تائید قرآن" کا جو فرماتاہے ۔" اے مسلمانو! تم کہو کہ ہم تو الله پر ایمان لائے ہیں اور قرآن جو ہم پر اترا ۔ اوراس پر جو ابراہیم اورا سماعیل اور اسحاق اور یعقوب اوراس کے بارہ بیٹوں پر نازل ہوا اوراس کتاب پر جو موسیٰ اور عیسیٰ کوملی اور جو دوسرے نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملا۔ ہم ان کے درمیان کسی بھی کسی طرح کا فرق نہیں کرتے اورہم اسی ایک خدا کے مطیع ہیں۔"(بقرہ ۱۳۰، ۲۵۸، عمران ۷۸)۔ ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ مسیح کی توہین کرنے سے محمد کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ اس کی ، اس کے الله کی اور اس کی کتاب کی بھی توہین کرتے ہیں؟ مرحوم اپنی کتاب کے سرورق کو قرآنی آیت لا تجادلو اھل الکتاب الابالتی احسن سے مزین کرکے اپنی تمہید میں لکھتے ہیں کہ

" خدا نے ہدایت فرمائی ہے کہ ا ہل کتاب کے ساتھ بہترین طریق سے مناظرہ کیا کرو"

(صفحہ ۱۲)

لیکن ان کے توہین وتضحیک آمیز الفاظ اس قرآنی آیہ کے ضد ہیں۔ اس قسم کے علماء حضرت روح الله کی توہین کرکےقرآن اور اسوہ حسنہ کو ترک کرنے اور اہل ِ یہود کی جمعیت العلما کے زمرہ میں شامل ہونے کے جرُم کے مرتکب ہوتے ہیں (متی ۲۷: ۳۹تا ۴۵)۔ حق تو یہ ہےکہ آنخداوند کا تمسخر اور مضحکہ کرکے وہ مومنین کے گروہ سے نکل کر یہودی کاہنوں ، فقیہوں ، مجرم مصلوبوں بلکہ بُت پرست رومی سپاہیوں کے زمرہ میں جاشامل ہوتے ہیں۔ فاعتبرو یا الوالالباب

ع پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

اس قسم کے بے باک معترض بھول جاتے ہیں کہ " اہل یہود پر اُن کے کفُر کی وجہ سے خدا کی پھٹکار اور لعنت ہے"۔ (نساء آیت ۲۴) اورکہ " الله نے ان پر لعنت کی اور ان پر اپنا غضب نازل کیا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنادیا"۔(مائدہ ۶۵) وہ ایسوں کی پیروی کرکے " قسی القلب " (مائدہ آیت ۱۲) ہوجاتے ہیں۔ اوران "ناحلف " (مریم ۶۰، اعراف ۱۶۸) یہود کے زمرہ میں داخل ہوکر وجیھا ً فی الدنیا والاخرة کی توہین کرکے اپنی آخرت کو خراب کرلیتے ہیں۔ اس قماش کے لوگ حشر کے روز اس قسم کی توہین آمیز کتاب بغل میں لے کر ایک عادل اور کے حضور حاضر ہونے کی جرات کس طرح کرسکیں گے ؟

مولوی ثناء الله صاحب کا مناظرانہ رنگ

مولوی صاحب کی کتاب" اسلام اور مسیحیت " کا مطالعہ ثابت کردیتا ہے کہ آپ مناظرہ کو تلاش حق کا وسیلہ خیال نہیں فرماتے تھے۔ ہاں چند اعتراضات اوردلائل آپ نے رٹ رکھے تھے۔ جو وقت بے وقت ، جا اوربے جا آپ اپنی تقریروتحریر میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ مرحوم کو اقبال بھی ہے کہ خاکسار کتابوں میں بحث " نرالے طرز" پر " بصورت جدید" کی گئی ہے بقول حضرت خوش

ع نرالی بحث چھڑی تھی نیا مقابلہ تھا

لیکن جب آپ جواب لکھنے بیٹھے تو وہی پرانے ملانوں کے دقیانوسی(قدیم) اعتراضات جو آپ نے ایام ِ جوانی میں سیکھے تھے طوطے کی طرح پڑھ سنائے ۔ چنانچہ قادیانی ریویو بھی اس بات کا شاکی(شکایت کرنے والا) ہےاور کہتا ہے کہ

" پادری صاحب انداز ِ بیان مختلف تھا اس لئے ضروری تھا کہ ان کے جواب میں بھی اسی انداز کو اختیار کیا جاتا۔ لیکن مولوی صاحب کا انداز وہی قدیم مناظرانہ ہے جس کے بیان میں کوئی ندرت(عمدگی ،انوکھاپن ) نہیں"۔

(فروری ۱۹۴۲ء صفحہ ۵۲)۔

درپس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند

آنچہ استاد ِ ازل گفت ہماں میگوئم

واقعہ صلیب ِ مسیح اور قرآن

لیکن اس سے قبل کہ ہم مولوی صاحب کے اعتراضات کا جواب دیں ہم مولوی صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں جس کے جواب پران کے اپنے دین وایمان کا مدار ہے۔ آپ نے بالکل سچ فرمایا ہےکہ

" دنیا کی تاریخی کتب اور مسیحی اناجیل بالاتفاق شہادت دیتی ہیں کہ یہود مسیح کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر آپ کو صلیب پر چڑھادیا"

(اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۳۱)۔

یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کو اس بات کا اقبال ہے کہ مسیح کاصلیب پر چڑھایا جانا ایک حقیقی اور سچا تاریخی واقعہ ہے کیونکہ بالفا ظ ِ شما" دنیا کی تاریخی کتُب اور مسیحی اناجیل بالاتفاق شہادت دیتی ہیں " کہ یہ واقعہ کوئی من گھڑت افسانہ نہیں اور اس امر میں ان لوگوں کو جو واقعہ صلیب کے موقعہ پر حاضر تھے نہ تو قوت ِ متخیلہ (خیال پیدا کرنے والی قوت،سوچنے کی قوت)نے فریب دیا تھا اورنہ کوئی شخص وہم اورشبہ میں گرفتار ہوا تھا۔بلکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کو ماننے والے گمان اورظن (شبہ،بہتان،بدگمانی) کی پیروی نہیں کرتے بلکہ حق بات کہتے ہیں ۔لیکن قرآن " دنیا کی تاریخی " کتُب اورمسیحی اناجیل کی متفقہ شہادت " کے خلاف کہتاہے " یہود کہتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم رسول الله کو قتل کردیا حالانکہ نہ اسے قتل کیا اور نہ اسےصلیب دی۔ لیکن وہ شبہ میں پڑگئے اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ان کی نسبت شک میں ہیں کہ ان کو اس کا علم نہیں لیکن وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اوریقیناً اس کوقتل نہیں بلکہ اسے خدا نے اپنی طرف اٹھالیا اور الله غالب ِحکمت والاہے "۔(سورہ نساء آیت ۱۵۶)۔

پس قرآن " دنیا کی تاریخی اور مسیحی اناجیل کی متفقہ شہادت" کے عین ضدواقعہ صلیب کا انکار کرتا ہے ۔ چونکہ علم منطق کے رو سے اجتماع الضدین محالات میں سے ہے۔ پس یا تو " دنیا کی تاریخی کتُب اور مسیحی اناجیل کی متفقہ شہادت سچی ہے یا قرآن کی شہادت سچی ہے۔ بصورت اول آپ قرآن اور اپنے ایمان کا انکار کریں گے اور بصورت دوم دنیا کی تاریخی کتُب کی شہادت کو کاذب (جھوٹا)سمجھیں گے ۔

مصیبت میں پڑا ہے سینے والا چاک داماں کا

جو یہ ٹانکا تو وہ ادھڑا جو وہ ٹانکا تو یہ ادھڑا

دیکھیں مرحوم مولوی صاحب کے ہم خیال اصحاب کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اورکون سی راہ ِ فرار تجویز فرماتے ہیں۔

باب دوم

مولوی ثناء الله صاحب کے اعتراضات کی خامی

مولوی ثناء الله صاحب کی تفسیر

مرحوم مولوی صاحب آیت زیر بحث کو ابن ِ الله سے منسوب کرکے اپنا خاص الخاص اعتراض اپنے مخصوص انداز میں بایں الفاظ کرتے ہیں:

مسیح کے اس مقولہ سے صاف ثابت ہوتاہے کہ الوہیت اور ذات مسیح میں لزوم کی نسبت نہ تھی۔ بلکہ ذاتِ الوہیت معاذ الله اس شعر کی مصداق تھی۔

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انسان سے

(اہل ِ حدیث ۶ فروری ۱۹۴۲ء)

اس تمام مضمون کا اور مندرجہ بالا اعتراض کا جو بہ تکرار پیش کیا گیاہے ماحصل یہ ہےکہ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ خدا اور مسیح میں انفکاک(جداہونا) اورعلیحدگی تھی۔ یعنی خدامسیح سے جدا تھا اور اس نے مسیح کو ترک کردیا تھا۔

مولوی صاحب کی اخفائے حق کی کوشش

ہمیں افسوس ہے کہ مولوی ثناء الله صاحب کا یہ اعتراض نہ صرف ان کی مناظرانہ حیثیت کوبٹہ(کمی) لگاتاہے بلکہ اخلاقی پہلو سے بھی قابل ِ گرفت ہے۔ آپ نے اپنی کتاب اور اپنے اخبار اہل ِ حدیث کےمضمون میں جس جس جگہ زیر بحث آیت کا ذکر کیا ہے آپ نے اپنے ناظرین پر یہ ظاہر کیا ہے۔کہ یہ کلمہ (اے میرے خد ا ، اے میرے خدا تونے مجھےکیوں چھوڑ دیا؟) ابن الله کا اپنا " مقولہ " ہے جو آپ کے مانی (مان کرنے والا)الضمیر کا اظہار کرتاہے۔ حالانکہ یہ کلمہ آنخداوند کااپنا مقولہ نہیں۔ بلکہ یہ آیت بائیسویں(۲۲) زبور کی پہلی آیت ہے جس کو آپ نے صلیب پر سے اس مزمور کاعبرانی زبان میں اقتباس کرکے تلاوت فرمایا۔ پس مولوی صاحب مرحوم اس مقام پراخفائے حق (حق کو چھپانے)کے مرُتکب ہوئے ہیں اور یہ حرکت آپ سے سہواً صادر نہیں ہوئی بلکہ آپ نے دیدیہ دانستہ(جان بوجھ کر) کی ہے کیونکہ :

اول۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ صحفِ مقدسہ سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا آپ کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ جو کلمہ اس آیہ شریفہ میں ہے وہ ابن ِ الله کا اپنا مقولہ نہیں بلکہ بائیسویں(۲۲) زبور کی پہلی آیت ہے۔

دوم۔ بفرض ِمحال اگر آپ کو یہ علم نہیں تھا تو جس انجیل کے صفحہ پر سے آپ نے اس آیت کو نقل کیا تھا اس صفحہ کے حاشیہ نے آپ کو بتلادیا ہوگا کہ یہ آیت محض ایک اقتباس ہے جو بائیسویں(۲۲) زبور کی پہلی آیت ہے۔

سوم۔ آپ کو انجیل جلیل کے متعلق ہمہ دانی کا دعویٰ ہے (کتاب اسلام اور مسیحیت صفحہ ۳۸)۔ پس آپ کم از کم اس امر سے (جس کو مسیحی کلیسیا کابچہ بچہ جانتا ہے ) ضرور واقف ہو ں گے کہ ابن ِ الله نے خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کبھی خدا " یا اے میرے خدا " نہیں کہا ۔ بلکہ آپ ہمیشہ خدا کو " ابا " ۔ (مرقس۱۴: ۳۶)۔ " اے میرے باپ" ، "میرا باپ "، " میرا آسمانی باپ"، (متی ۱۱: ۲۵۔ مرقس ۱۳: ۳۲، متی ۷: ۲۱۔ ۱۰: ۳۲۔ لوقا ۲: ۴۹، متی ۱۶: ۱۷ ، ۱۸: ۱۰۔ متی ۱۸: ۳۵ وغیرہ وغیرہ)۔ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اپنی زندگی کی آخری رات آپ نے جو دعا مانگی اس میں بھی خدا کو" اے باپ" ہی کہا (یوحنا ۱۷:باب) بلکہ صلیب پر سے آپ نے جو سات کلمات اپنی مبارک زبان سے فرمائے ان میں سے پہلے اور آخری کلمے(جس کے بعد ہی آپ نے دم دے دیا ) میں آپ نے خدا کو مخاطب کرکے" اے باپ" ہی کہا (لوقا ۲۳: ۳۴)۔ پس مولوی صاحب نے انجیل متی میں ایلی ایلی لما شبقتنی " پڑھا تو آپ جیسے نکتہ رس(تیز فہم) شخص کیوں نہ چونک پڑے کہ اس خاص مقام میں سیدنا مسیح " ابا" کے بجائے "ایلی ایلی " کیوں کہتے ہیں ؟ اگر آپ نے دریافت کرنے کی زحمت گوارا کی ہوتی تو آپ پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ مقولہ ابن ِ الله کا نہیں بلکہ آپ زبور شریف کی آیت کی تلاوت فرمارہے تھے۔

سیدنا مسیح کے صلیب پر کے پہلے اور آخری کلمات کے الفاظ (لوقا ۲۳: ۳۴، ۴۶) ہی ایسے چونکادینے والے ہیں کہ ہر صاحب ِ عقل پر یہ فوراً ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ مقولے سیدنا مسیح کے ہیں۔ لیکن آیہ زیر بحث اس قسم کی طبعیت رکھنے والے انسان کی روحانی حالت کی ترجمان نہیں ہوسکتی اوریہ کہ حضرت کلمتہ الله کا " مقولہ" نہیں بلکہ زبور کی آیت ہے جو آپ تلاوت فرمارہے تھے۔

چہارم۔آپ جیسے انجیل دان سے یہ مخفی نہ ہوگا کہ ابن ِ الله کی مادری زبان عبرانی نہیں بلکہ ارامی زبان تھی۔(مرقس ۵: ۴۱ ؛ ۷: ۳۴، ۱۴: ۳۶ وغیرہ) پس جب آپ نے انجیل متی میں پڑھا کہ ابن ِ الله نے صلیب پر سے عبرانی زبان میں ایک کلمہ فرمایا تو اگرآپ نے وجہ دریافت کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ جس طرح ہندوستان کا کوئی مومن مسلمان حالت ِ نزع میں قرآنی سورہ یسیٰن کی آیات عربی زبان میں تلاوت کرتا ہے اسی طرح ابن الله نے بھی جانکنی کی حالت میں بايئسویں(۲۲) زبور کی پہلی آیت زبور شریف کی اصل زبان عبرانی میں تلاوت فرمائی تھی۔

پنجم۔ ممکن ہے کہ باوجود دعویٰ ہمہ دانی (صفحہ ۳۸) آپ یہ عذر لنگ پیش کریں کہ آپ کو یہ علم ہی نہ تھا کہ ابن الله کی مادری زبان آرامی تھی ،لیکن آپ کو کم از کم زبان عربی کی تاریخ اوراسلامی تاریخ سے تو واقفیت تھی۔کیونکہ آپ بڑے مولوی اور " مولوی فاضل " بھی تھے۔ آپ کی کتاب نے تو یہ ظاہر کردیا کہ مسیحی کلیسیا کی تاریخ کے متعلق آپ کے ماخذ صرف بچوں کے ابتدائی مدارج کی کتُب ہی ہیں(صفحہ ۴۵، ۴۶) لیکن عربی دانی کا تو یہ حال نہیں ہوناچا ہیے تھا کہ ارض مقدس میں عربی زبان کی آمد سے پہلے ارامی زبان رائج تھی جس کی جگہ عربی نے لے لی تھی۔

یہ زبان بابل کی زبان تھی جو کنعان میں اہل ِیہود کےساتھ آئی تھی۔ اہل ِیہود کی کتُب ِمقدسہ کے تراجم اور تفاسیر جن کو " تارگم" کہتے ہیں ۔ اسی زبان میں منجی عالمین کی بعثت (رسالت)سے ایک صدی پہلے اورایک صدی بعد کے دوران لکھے گئے تھے۔ یہی زبان حضرت کلمتہ الله اور آپ کے رسولوں کی مادری زبان تھی۔ دسویں صدی مسیحی تک اہل یہود اسی زبان میں کتابیں لکھا کرتے تھے۔ یہ زبان تمام پارتھی سلطنت میں بولی جاتی تھی جس کی حدود دریائے سندھ سے دریائے فرات تک اوربحر ہند سے بحر کیسپین اور کوہ ہندوکش تک تھیں۔ یہ زبان اس قدر وسیع رقبہ اور دور درازکے ممالک میں بولی جاتی تھیں کہ مورخ یوسیفس نے اپنی کتاب پہلے ارامی زبان میں تصنیف کی تھی تاکہ " بابل کے ملک کے رہنے والے اور عرب کے دور افتادہ باشندے اور فرات کے پار رہنے والے یہودی اور پارتھی" اس کی کتاب کو پڑھ سکیں ۔ بعد میں یوسیفس نےاس کتاب کو یونانی زبان میں " ان لوگوں کی خاطر جو رومی سلطنت میں رہتے ہیں" ترجمہ کیا تھا ۔

عرب کی فتوحات سے ایک ہزا ر سال پہلے مشرق میں یہی ارامی زبان مہذب دنیا کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ حتیٰ کے ایران جیسے دور دراز ملک میں بھی ایرانی زبان کی بجائے ارامی زبان ہی تصنیف وتالیف کا ذریعہ تھی۔ لیکن اسلامی فتوحات نے یہ نقشہ بدل دیا اور عربی نے ارامی زبان پر غلبہ حاصل کرلیا۔ پس آپ کو اس بات سے ناواقف نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ابن الله کی مادری زبان ارامی تھی اور عبرانی فقرہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ زبور شریف کی اصل زبان عبرانی کا اقتباس تھا۔

وجوہ ِبالا (اوپر بیان کی گئی وجوہات)کی بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اخفائے حق کے عمداً مرُتکب ہوئے ہیں۔ کیونکہ گوآپ کو خود معلوم تھاکہ یہ عبرانی کلمہ بایئسویں(۲۲) زبور کا حصہ ہے۔ لیکن آپ نے ہر جگہ اپنے ناظرین پر یہی ظاہر کیاہے کہ کلمہ خود ابن الله کا اپنا" مقولہ" ہے جو ان کے خیالات وجذبات کا مظہرہے اوریوں آپ نے لوگوں کودیدہ ودانستہ گمراہ کیا۔ہر صحیح العقل شخص ایک قائل کے اپنے قول اور کسی دوسرے کے کلام میں جس کا اس نے اقتباس کیا ہوتمیز کرسکتا ہے اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں تمیز کرتاہے۔ مثلاً اگر زید کسی کو بتلائے کہ بکر نے حالت ِ نزع میں سورہ یسٰین کی آیت پڑھی إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلاَلاً فَهِيَ إِلَى الأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَترجمہ: یعنی ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک پھنسے ہوئے ہیں تو ان کے سرافل کر رہ گئے ہیں"(سورہ یسین ۷ ترجمہ نذیر احمد ) تو کوئی عقل اور سمجھ رکھنے والا شخص اس عربی کلام کو بکر سے منسوب کرکے نہیں کہے گا کہ یہ کلام بکر کااپنا کلام ہے۔ بلکہ ہر شخص جس کے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل ہے یہی کہے گا کہ یہ عربی کلام قرآنی آیت ہے جس کو بکر بحالت ِ نزع تلاوت کررہا تھا۔ ایک اورمثال سے ہم اس امر کو واضح کردیتے ہیں۔ قریش قرآن جو جھٹلاکر کہتےتھے کہ قرآن " پریشان خوابوں کا مجموعہ" ہے(انبیاء ۵آیت) اوروہ " پہلے لوگوں کی کہانیاں" ہے۔ تب حضرت نے بارگاہ الہیٰ میں فریاد کرکے کہا تھا۔ " یا الله میری قوم نے قرآن کو ٹھہرایا جھک جھک " (فرقان آیت ۳۲) اب معترض کی سی عقل کے مالک ہی یہ کہیں گے کہ رسول عربی کا یہ مقولہ ہے کہ قرآن محض جھک جھک (تکرار،بک بک)ہے۔ لیکن ہر صاحب ِ ہوش یہی کہے گا کہ

ع بریں عقل ودانش بباید گریست

پس آپ نے اپنے مفروضہ (کہ آیت زیر بحث ابن الله کا اپنا مقولہ ہے) کی بناء پر جو منطقیانہ استد لال کی عمارت کھڑی کی ہے (اسلام اور مسیحیت صفحہ ۶۸۔ اہل حدیث بابت ۶ فروری ۱۹۴۲ء صفحہ ۳، ۴ وغیرہ) وہ از سر تا پا بے بنیاد ہے۔ معترض سے تو یہودی ربی کلاسنر (Klaussner) ہی اچھے رہے جو اپنی ضیغم کتاب " یسوع ناصری" میں اس کلمہ کی نسبت فرماتے ہیں کہ " یسوع صحف ِ مقدسہ کی روح سے اس قدر معمور تھا کہ اس نے صلیب پر اپنی جان دیتے وقت بھی کتابِ مقدس کی آیت کی تلاوت کی "(Jesus of Nazareth) کاش کہ معترض ان یہودہی سے جن کو قرآن " ناحلف" اور" قسی القلب " وغیرہ کہتا ہے ۔ حق اور صداقت کا سبق سیکھ لیتے ۔ مرحوم ڈاکٹر اقبال ایسے مومن مسلمان کی نسبت ہی فرماگئے ہیں ۔

ع یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

کاش کہ مرحوم مولوی صاحب اخفائے حق سے یہ کام نہ لیتے اورجیتے جی خود اپنے فتویٰ کویاد رکھتے کہ " مذہبی مناظرات میں جو خدا کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں واقعات صحیحہ کا اخفا کسی طرح جائر نہیں ہے"۔صفحہ ۱۲ اورکہ منصف مزاج لوگ مذہبی مباحثات میں خاص کر اخفائے واقعات کرنا جرُم عظیم سمجھتے ہیں (صفحہ ۲۳) آپ نے اخفائے واقعات سے" کام لے کر ایک " جرم عظیم " کا ارتکاب کیا۔

مولوی صاحب کی تفسیر صحیح اُصول کے خلاف

مرحوم مولوی صاحب کو تفسیر نویسی پرناز تھا۔ اسی لئے بچارے خلیفہ قادیان کو آئے دن تفسیر نویسی کے لئے چیلنج بھی دیا کرتے تھے۔آپ نے ایک رسالہ " تفسیر بالرائے" لکھ کر اپنے مخالف " قادیانیوں، شیعوں، لاہوری مرزائیوں ، نیچری مسلمانوں " وغيرہ کو اُصول ِ تفسیر کی تعلیم بھی دی ہے ۔ پس ہمیں تعجب آتا ہے کہ انجیل جلیل کی آیات کی تفسیر کرتے وقت انہوں نے صحیح اُصول ِ تفسیر کو پس ِ پشُت کیوں پھینک دیا؟

صحیح تفسیر کے لئے لازم ہے کہ (۱) کہ وہ کتاب الله کی آیات بینات کے خلاف نہ ہو اور کہ (۲) وہ قائل کے اصل مفہوم اور حقیقی منشا کے خلاف نہ ہو اوراس کے خیالات ، جذبات اور افعال کے منافی نہ ہو۔ ورنہ وہ تفسیر القول بما لایرضیٰ قائلہ متصور ہوگی۔اس کے برعکس لازم ہے کہ صحیح تاویل کہنے والے کے خیالات کاآئینہ ہو اور اس کے جذبات کی درست ترجمانی کرے اور اس کے اقوال وافعال کے مطابق ہو اور(۳) کتاب الله کی آیات اس تاویل کی مصدق ہوں۔

اگر مرحوم کی زیر بحث آیت کی تاویل درست ہے تو لازم تھاکہ وہ یہ ثابت کرتے کہ ان کی تاویل حضرت کلمتہ الله کے اصلی مفہوم اور حقیقی منشاء اور مانی الضمیر کی صحیح ترجمانی کرتی ہے۔(۲) کہ ابن ِ الله کے خیالات، جذبات، اقوال وافعال جو اناجیل اربعہ میں پائے جاتےہیں (بالخصوص وہ جن کا تعلق خداوند کی زندگی کے آخری ہفتہ کے ساتھ ہے)سب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا نے مسیح کو ترک کردیا تھا اور(۳)انجیل جلیل کی آیات اس بات کی بین شاہد ہیں کہ خدا مسیح سے جُدا تھا۔ کیونکہ اس نے آپ کو معاذ الله رد کردیا تھا۔ اگر وہ یہ ثابت کرسکتے تو ہم بھی مان لیتے کہ تفسیر نویسی میں آپ بال کی کھال اتارنے والے ہیں"(صفحہ ۵۱) لیکن انجیل کی آیات بینات اور کلمتہ الله کے کلمات ِطیبات سے تو معترضین تاقیامت یہ ثابت نہیں کرسکتے ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ۔ پس اگر یہ نہ کرسکو اورہر گز نہ کرسکوگے تودوزخ کی آگ سےڈرو جس کے ایندھن آدمی اورپتھر ہوں گے اور وہ منکروں کےلئے تیارہے (بقرہ آیت ۲۳)۔

مولوی ثناء الله صاحب کی تفسیر اناجیل کے نقیض ہے

اناجیل اربعہ کا ایک ایک صفحہ اور ابن الله کی مبارک زندگی کاایک ایک ورق مولوی صاحب مرحوم کی تفسیر کو غلط ثابت کرتاہے۔چاروں انجیلوں کی ایک ایک آیت کی " بال کی کھال اتار" لو ۔ حضرت کلمتہ الله کے ارشادات اورکلمات طیبات کو ایک ایک کرکے چھان مارو۔ آپ کے خیالات جذبات اور افعال کوایک ایک کرکے دیکھ لو تم کو کسی مقام پر یہ نہ ملیگا کہ خدا نے ابن الله کو ترک کردیا تھا۔ اس کے برعکس انجیل جلیل کی آیات بینات سے یہی ظاہرہوتاہے کہ اَب اَور اِبن میں " انفکاک (الگ ہونا) اورجدائی " اور مغائرت(بے گانگی، اجنبیت) کا نام ونشان بھی نہیں۔ اس کے برعکس ہر وقت اور ہر جگہ کامل اتصال رفاقت قرُبت اوراتحاد نظرآتا ہے ۔

سیدنا مسیح کے اقوال

کسی نے خوب کہا ہے کہ من آنم کہ من دانم۔ اس معیار سے جب ہم ابن الله کے اقوال پر نظر کرتےہیں تو ہم کو یہی دکھائی دیتا ہے کہ خدا میں اور آپ میں رفاقت ، قرُبت ، اتحاد اورمحبت کا رشتہ شروع سے آخری دم تک ہمیشہ قائم رہا۔ چنانچہ ابن الله فرماتے ہیں کہ باپ بیٹے سے محبت کرتا ہے ۔ اوراس کی عزت کرتاہے ۔(یوحنا ۳: ۳۵، ۱۴: ۲۱، ۵: ۲۰، ۸: ۵۴، ۱۰: ۱۷، ۱۵: ۱۹، ۱۷: ۲۶ )اور " بیٹا باپ سے محبت کرتا ہے"۔ (یوحنا ۱۵: ۱۰) " جو کچھ میرا ہے وہ باپ کا ہے ۔ اور وہ سب میرا ہے "(یوحنا ۱۶: ۱۵، ۱۷: ۱۰)۔ " میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے اور کوئی بیٹے کونہیں جانتا سوا باپ کے اور کوئی باپ کونہیں جانتا سوا بیٹے کہ اوراس کے جس پر بیٹا ظاہر کرنا چاہے"( متی ۱۱: ۲۷، لوقا ۱۰: ۲۲۔ یوحنا ۸: ۵۵، ۱۰: ۱۵)۔ آنخداوند فرماتے ہیں کہ " جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا۔" (یوحنا ۱۴: ۹) کیونکہ " میں اورباپ ایک ہیں"(یوحنا ۱۰: ۳۰)۔ آپ نے فرمایا کہ باپ کی رفاقت اوراس کے کام کوپورا کرنا آپ کا " کھانا پینا" ہے (یوحنا ۴: ۳۲، ۵: ۳۰۔ ۶: ۳۸ ) اور کہ آپ خدا کی طرف سے آئے ہیں اورخدا کے پاس واپس لوٹ جائيں گے (یوحنا ۷: ۲۹، ۷: ۳۳۔ ۸: ۲۳۔ ۱۶: ۲۸۔ ۲۰: ۱۷ وغيرہ)۔ کیا یہ الفاظ ( جن میں اکثر آپ نے اپنی زندگی کے آخری ہفتہ میں بلکہ آخری رات فرمائے تھے )کسی ایسے شخص کی زبان سے نکل سکتے ہیں جس کو یہ خیال ہو کہ خدا اس سے ناراض ہے یا وہ مغضوب ِ (جس پر غصہ ہو)قہر الہٰی ہے یا کہ خدا نے اس کوترک کردیاہے؟

الله تعالیٰ کی شہادت

اگر مولوی ثنا ء الله صاحب کےخیال میں ابن الله کے مندرجہ بالا کلمات ان کی تاویل کو مردہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تووہ چونکہ قال الله اور اطیعوا الله کے ماننے والےہیں اور اتمام حجت کی خاطر ان کی پاس خاطر ہمیں منطور ہے لہذا ہم ان کو بتلاتے ہیں کہ خود ارشادِ خداوندی ثابت کرتاہےکہ خدا نے ابن ِ الله کو تمام عمر کبھی ترک نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس خدا نے " بنائے عالم سے پیشتر بیٹے سے محبت رکھی"( یوحنا ۱۷: ۲۴) جب کلمتہ الله مبعوث ہوئے تو الہیٰ ارشاد ہوا "۔ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں"( متی ۳: ۱۷)اس آیہ شریفہ کی بہترین تفسیر( یسعیاہ ۴۲: ۱۔۴) میں ہے۔ صلیبی واقعہ سےچند ہفتے پہلے پھرالہٰی ارشاد ہوتا ہے " یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔ اس کی سنو"( متی ۱۷: ۵) صلیب دئیے جانے سے چند ساعت پہلے ابنِ الله نے کہا " اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کہوں؟اے باپ !مجھے اس گھڑی سے بچا؟ لیکن میں تو اسی سبب سے اس گھڑی کو پہنچا ہوں ۔ اے باپ ! اپنے نام کو جلال دے ۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ میں نے اس کو جلال دیا ہے اورپھر بھی دوں گا"( يوحنا ۱۲: ۲۷ تا ۲۸)۔ جن شاگردوں نے ان الہٰی کلمات کو سنا وہ شہادت دیتےہیں کہ دوسروں کے ساتھ انہوں نے خدا کی یہ گواہی سنی تھی(۲۔پطرس ۱: ۱۷)۔ اور مقدس یوحنا کہتا ہے کہ " خدا کی گواہی یہ ہےکہ اس نے اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دی ہے " (یوحنا ۵: ۹)خود ابن ِ الله فرماتاہے کہ " باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے میری گواہی دی ہے"(یوحنا ۵: ۳۷) مولوی صاحب ۔ خدا سے بڑا تو کوئی گواہ نہیں ہے اورخدا کی گواہی آپ کی تاویل کو(کہ اس نے ابن ِ الله کو ترک کردیا تھا) مردود قرار دیتی ہے۔

ابن ِ الله کا طرز ِ عمل

ابن ِ الله فرماتے ہیں کہ آپ کی آمد کا واحد مقصد یہ ہے کہ آپ نے اپنے باپ کی مرضی کو پورا کریں اوراس کا کام سر انجام دیں جو باپ نے آپ کے سپرد کیا ہے ۔(یوحنا ۴: ۳۴، ۵: ۳۰۔ ۶: ۳۸، ۱۲: ۴۹۔ ۱۵: ۱۰۔ مرقس ۱۴: ۳۶۔ متی ۲۶: ۳۹ تا ۴۲۔ لوقا ۲۲: ۴۲ )۔ آپ ہمیشہ اسی کام کو سر انجام دینے کی دھن میں رہتے تھے (یوحنا ۴: ۳۲تا ۳۴ ، ۹: ۴۔ ۱۴: ۳۱) اوراس کو پورا کرنے پر تلے تھے اوراس کی تکمیل میں کسی قسم کے خطرے کی پرواہ نہیں کرتے تھے( لوقا ۹: ۵۱۔ ۱۲: ۵۰) یہاں تک کہ آپ نے اس کام کو پورا کرکے چھوڑا (یوحنا ۷: ۲۱۔ ۸: ۲۹۔ ۹: ۴۔ ۱۷: ۴ ۔ ۱۹: ۳۰) ابن الله کو خوب معلوم تھاکہ اس کو سر انجام دینے کی راہ میں اہل یہود کی روز افزوں بے ایمانی اور برگشتگی کی وجہ سے آپ کو انواع واقسام کی دقتوں اور دشواریوں کا جان توڑ مقابلہ کرنا ہوگا۔ آپ کے تجربہ نے آپ کو بتلایا دیا تھا کیا آپ کی قوم کے قائدوں اور سردار کاہنوں کی خصومت دن بدن ترقی کررہی ہے۔آپ نے انبیائے سلف اوراپنے ہم عصر نبی یوحنا بپتسمہ دینے والے کے انجام میں ( متی ۲۳: ۲۹۔ ۲۳: ۳۷۔ ۲۱: ۳۲۔ وغیرہ ) دیکھ لیا تھا کہ آپ کا اپنا حشر کیا ہوگا (متی ۱۷: ۱۲تا ۱۳) صحفِ مقدسہ کے مطالعہ سے (جیسا ہم اپنی کتاب" کلمتہ الله کی تعلیم" میں لکھ چکے ہیں ) کلمتہ الله کو یقین ہوگیا تھا کہ یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے " خادم ِ یہوواہ" کے تصور کے مصداق آپ ہی ہیں (لوقا ۲۲: ۳۷۔ ۴: ۲۱)لیکن یہ سب باتیں آپ کے پہاڑ جیسے زبردست اور مصمم ارادہ کو نہ بدل سکیں اورآپ نے یہ ٹھان لی کہ ہرچہ باداباد آپ اس کام کو پورا کرکے چھوڑیں گے جس کے واسطے باپ نے آپ کو دنیا میں بھیجا تھا(متی ۲۰: ۲۸۔ مرقس ۱۰: ۴۵)خواہ ایسا کرنے میں آپ کو اپنی جان ِ عزیز بھی قربان کرنی پڑے (یوحنا ۱۰باب) پس آپ نے اپنی اذیت اور مصلوب ہونے کی بابت اپنے شاگردوں کو اطلاع دی (متی ۱۶: ۲۱۔ ۱۷: ۹، ۲۱، ۲۲، ۲۳و ۴۰۔ ۲۰: ۱۹۔ ۲۶: ۲، ۱۲، ۱۳، ۳۲۔ مرقس ۹: ۸تا ۱۳ ، ۳۱۔ ۱۰: ۳۳، ۳۴۔ ۱۴: ۲۴، ۶۲۔ ۱۵: ۱۶تا ۲۰۔ لوقا ۹: ۲۲، ۴۴ ۔ ۱۲: ۵۰۔ ۱۳: ۳۲۔ ۱۷: ۲۵۔ ۱۸: ۳۱تا ۳۴ ۲۲: ۶۳تا ۶۶۔ ۲۳: ۱تا ۳۳۔ ۲۴: ۲۱۔ یوحنا ۱۰: ۱۵تا ۱۸۔ ۱۶: ۱۶۔ ۲۰: ۹ وغیرہ)اس کے ساتھ ہی ابن ِ الله نے اپنے شاگردوں کو یہ بھی بتلادیاکہ اہل ِیہود آپ کی خاطر ان کو بھی طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں گے اوران کو قتل کریں گے (متی ۲۴: ۹تا ۱۳۔ ۵: ۱۰تا ۱۱۔ ۱۰: ۱۶تا ۳۲۔ ۲۳: ۳۴تا ۳۶۔ ۲۴: ۸تا۱۲ ، مرقس ۱۳: ۹، ۱۲، ۱۳ ۔لوقا ۱۰: ۳ ۔ ۱۱: ۴۹۔ ۱۷: ۳۳۔ ۲۱: ۱۲، ۱۶، ۱۷۔ یوحنا ۱۵: ۲۰، ۲۱۔ ۱۶: ۲تا ۴ وغیرہ)۔ لیکن جس طرح قرآن اور دورِحاضرہ کے مسلمان یہ بات گوارہ نہیں کرسکتے کہ خدا کا پیارا نبی مقتول ومصلوب ہو اورکہتے ہیں کہ وما قتلو ہ وما صلبو اسی طرح شاگرد بھی یہ بات گواراہ نہ کرسکے اور اُن میں سے ایک نے کہا ۔" اے خداوند ، خدا نہ کرے ۔ یہ تجھ پر ہر گز نہیں ہونے کا "۔ پر ابن الله نے اسے سمجھایا کہ صلیب کی راہ درحقیقت حدا کی راہ ہے اورفرمایاکہ " تو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے"۔ اور علی الاعلان فرمایا " اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خود سی انکار کرے اوراپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانی چاہے وہ اسے کھوئے گا اورجو کوئی میرے واسطے اپنی جان کھوئے گا وہ اسے پائے گا۔وہ وقت آگیا ہے کہ ابن آدم جلال پائے میں تم سے سچ سچ کہتاہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین پر گر کے مر نہیں جاتا وہ اکیلا رہتا ہے لیکن جب مرجاتاہے تو بہت سا پھل لاتا ہے ۔ ابن آدم کا اونچے پر چڑھایا جانا ضرور ہے اورجب میں اونچے پر چڑھایا جاؤں گا ۔ تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا"۔(متی ۱۶: ۱۲تا ۲۷۔ یوحنا ۱۲: ۲۳و ۲۴۔ ۳۲تا ۳۴) آپ نے شاگردوں کو خبردار کرکے فرمایا " لوگ تم کو ایذا دینے کے لئے پکڑوائیں گے اور تم کو قتل کریں گے ۔ مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا "(متی ۲۴: ۸تا ۱۲)۔

مولوی صاحب کو یہ خیال نہ آیا کہ جو شخص اپنے شاگردوں کو " مرتےدم تک وفادار" رہنے کی تلقین کرتا ہے ( متی ۱۰: ۲۲)وہ خود بھی "آخر تک برداشت " کریگا۔ کلمتہ الله نے اپنے حواریوں کو فرمایا تھاکہ ایذا اور مصیبت کے وقت وہ خدا پر بھروسہ رکھیں۔ (متی ۱۰: ۱۹و ۲۹۔ مرقس ۱۳: ۱۱) اور ایذا پہنچانے والوں کے لئے دعا ئے خیر کریں(متی ۵: ۴۴) آپ نے کیوں نہ سوچا کہ جو شخص اپنی تعلیم پر چل کر صلیب پر سے اپنے دشمنوں کے لئے دعائے مغفرت مانگتاہے وہ خود اسی صلیب پر ضرور خدا پر بھروسہ رکھے گا؟ وہ جو دوسروں کو کہتا ہے " خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ میں اپنا اطمینان تم کو دیتا ہوں"(یوحنا ۱۶: ۳۳) خود قلبی اطمینان سے کس طرح محروم ہوسکتا ہے؟ ناظرین ہی انصاف سے بتلائیں کہ حضرت ابن ِ الله باپ کی رفاقت اور اطمینان پائے بغیر کس طرح ایسے کلمات اپنے منہ سے نکال سکتے ہیں؟ اگر خدا نے مسیح کو ترک کردیا ہو تا تو وہ کس طرح خود مطمئن ہوکر ایسے تسلی بخش کلمے فرما سکتے ہیں ؟ ناظرین نے حضرت ایوب کا نام ضرورسنا ہوگا۔ جب اس پر مصائب وآلام کاپہاڑ ٹو ٹ پڑا تو وہ خدا سے بحث کرتا ہے اورخدا کو موردِ الزام گردان کر اس کواپنا دشمن اوراپنےآپ کو بے گناہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا جانتا ہے کہ میں بے گناہوں تاہم وہ بے انصافی سے مجھ کو تر ک کرتا ہے اور خواہ مخواہ مجھ کو مجرم قرار دینے پر تلا ہے۔ ایوب کہتا ہے کہ خدا گویا صُم بکم(گونگا بہرہ)"۔ آسمان پر بیٹھا ہے نہ سنتا ہے نہ جواب دیتا ہے اورنہ میری واویلا کی پروا کرتا ہے ۔ ناظرین خدارا انصاف سے کہنا کیا آپ کو مسیح مصلوب کا وطیرہ ایوب کا سا نظر آتا ہے ؟ کیا صلیب پر ابن ِ الله کے کسی قول یا فعل سے کسی صاحب ہوش کے دماغ میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ منجی عالمین کا ایمان آخری وقت میں ایک لمحہ یا لمحہ کے کسی حصہ کے لئے بھی متزلزل ہوگیا تھا؟

مولانا نے ذرا غور وفکر کرکے یہ خیال تو کیا ہوتاکہ ہر قسم کی اذیت ، مصیبت اور عذاب کو صبر اور محبت کے ساتھ برداشت کرلینے کے بعد جب ان تمام مصائب عقوبت (دُکھ)اور عذاب کا خاتمہ ہونے والا تھا تو کیا دم واپسیں(آخرکار) مسیح مصلوب کا ایمان متزلزل ہوسکتا تھا؟ کیا ایسے وقت یاس اور نا اُمیدی ابن ِ الله پر اس قدر غالب آسکتی تھی کہ وہ خیال کرتے کہ خدا نے ان کو ترک کردیا ہے؟ ان کی تو یہ تعلیم تھی کہ " خدا پر ایمان رکھو" (مرقس ۱۱: ۲۲) او ر وہ اپنے اسی ایمان کے باعث مصلوب بھی کئے گئے تھے تو کیا خدا ایسے ایمان دار کو چھوڑ سکتا تھا ؟ کیا خدا کا وطیرہ ہے کہ وہ اپنے ایماندار بندوں کو عین ان کی حاجت کے وقت ترک کردیا کرتا ہے اوروہ بھی ایسے ایمان دار کو جو کروڑوں کے " ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا " ہو۔ (عبرانیوں ۱۲: ۲) ایسے ایمان دار کا ایمان کس طرح متزلزل ہوسکتا تھا؟ فرانسیسی عالم ڈاکٹر ایلفرڈ لوازی (جو راسخ الاعتقاد میعی نہیں تھا) ان الفاظ کی نسبت کہتا ہے

" یہ الفاظ خدا سے دُوری اور نا اُمیدی کو ظاہر نہیں کرتے ۔ یہ ایک راستباز شخص کو چیخ وپکار ہے جو درد وکرب میں مبتلا ہے لیکن اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدائے قدوس کی محبت اور حفاظت موت میں بھی اس کو چاروں طرف گھیرے ہوئے ہے"۔

ڈاکٹر ونسنٹ ٹیلر کے الفاظ

" یہ نظر یہ کہ خدا نے یسوع کو چھوڑدیا تھا۔ اب اس قابل نہیں رہا کہ اس کا ذکر بھی کیا جائے "۔

جرمن عالم ڈیپلس کہتا ہے کہ

’’اس فقرہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خدا نے مسیح کو چھوڑدیا تھا یا مسیح کو ایسا معلوم دیتا تھاکہ خدا نے اس کوچھوڑدیا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ کوئی بھی دیندار یہودی مرتے دم اس آیت کو پڑھتے وقت یہ خیا ل بھی دل میں نہیں لاسکتا تھا کہ خدا نے اس کو چھوڑدیا ہے ‘‘۔

ناظرین ۔ للا لله، ذرا نصاف کریں ۔ کیا خدا کا انصاف اس بات کا متقاضی ہوسکتا تھا کہ وہ ابن الله کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو وہ انجیل جلیل کے مطابق بدترین گنہگاروں سے بھی نہیں کرنا چاہتا (یوحنا ۳:۱۶۔ لوقا ۱۵: ۷)؟ خدا کی محبت کس طرح اس بات کی متقاضی ہوسکتی تھی کہ وہ ایسے تاریک وقت میں اپنی روشنی کو اس سے باز رکھتی ؟ منجی عالمین گناہ اور شیطان پر غالب آئے لیکن آپ نے آخری دم ان سے شکست کھا کر فتح حاصل نہیں کی تھی۔ اس کے برعکس دم واپسیں کے وقت بھی خدا کی حضوری اور قربت کے احساس کی وجہ سے آپ شیطان پر موت کی تلخی کے وقت غالب آئے اورآپ نے آسمان کی بادشاہت سارے مومنین کے لئے کھول دی ۔

انجیل جلیل سے یہ ثابت ہے کہ ابن الله نے مصلوب ہونے سے پیشتر ایک ایک با قی پیش گوئی کے طور پر پہلے سے اپنے شاگردوں کو خبرد ی تھی۔ چنانچہ اس مخبر صادق نے فرمایا تھا " تم سب اسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے ۔ لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا" اور مقدس پطرس کو مخاطب کرکے فرمایا تھا" اسی رات مرُغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا"۔ تم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے مجھے پکڑوائے گا"۔ دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابن ِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالے کیا جائے گا اور وہ اس کےقتل کا حکم دیں گے اوراسے غیر قوموں کے حوالے کریں گے اور وہ اسے ٹھٹھوں میں اڑائیں گے اور اس پھر تھوکیں گے اوراسے کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور تین دن کے بعد وہ جی اٹھے گا"۔ (مرقس ۱۰باب ۔ متی ۲۰باب وغيرہ) لیکن آپ نے ان کو یہ خبر کبھی نہ دی کہ خدا باپ بھی مجھے ترک کردے گا۔ انجیل جلیل کے کسی لفظ سے ہم کو یہ پتہ نہیں مل سکتا کہ خداوند کے نزدیک کبھی یہ خیال بھی پھٹکا (لمحہ)ہوکہ خدا آپ کو چھوڑدے گا۔ اس کے برعکس گتسمنی باغ میں جانکنی(نزع کی حالت،اذیت) کی حالت کا ایک ایک لفظ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو کامل یقین تھاکہ خدا کی قربت اکمل طور پر اس عذاب کے وقت آپ کا ساتھ دے گی ۔

ناظرین آپ کوہِ کلوری پر نگاہ کریں اور تینوں مصلوبوں کو دیکھیں۔ کیا آپ کو تینوں کے تینوں مصلوب خدا کے ردکئے ہوئے نظر آتے ہیں؟ کیا مسیح مصلوب کا وطیرہ وہی ہے جو باقی دو ڈاکوؤں کا ہے؟ یہ ڈاکوتو مانتے ہیں کہ وہ " اپنے کاموں کا بدلہ پارہے ہیں اور ان کی سزا واجبی ہے"(لوقا ۲۳: ۴۱) کیا معترض ابن ِالله کی دشمنی میں ان ڈاکوؤں سے بھی زیادہ قسی القلب (سنگدل) ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ڈاکو تائب ہوا تو ابن ِ الله نے فرمایا " آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا"(لوقا ۲۳: ۴۳)۔ کیا ایک شخص جو خود خدا کی رفاقت سے جدا ہوچکا ہو دمِ واپسیں کسی دوسرے گنہگار کے گناہ معاف کرکے اس کو اسی روز اپنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی بشارت دے سکتا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ خدا کی پدرانہ محبت ابن ِالله کی تمام زندگی بھر آپ کا واحد سہارا تھی۔ آپ کو اس لازوال ابدی محبت کا احساس اس قدرتھا کہ دنیا کی کوئی آفت آپ کے جیتے جی اس کو محو نہ کرسکی بلکہ صلیب پر سے آپ نے آخری لفظ جو اپنی زبان ِ مبارک سے بیان فرمائے یہ تھے" ۔ اے باپ ! میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اوریہ کہہ کر دم دے دیا"(لوقا ۲۳: ۴۲)۔ معترض نے کچھ تو غور کیا ہوتا ۔ کیا یہ الفاظ مرتے دم کسی ایسے شخص کے منہ سے نکل سکتے ہیں جس کو یہ خیال ہو کہ خدا نے اس کو چھوڑ دیا ہے؟ اگر خدا نے ابن ِالله کو فی الواقع ترک کردیا تھا اورصلیب پر سے ان کی تمام زندگی کا کام ملیا میٹ(ختم) ہوگیا تھا تو وہ اپنے آخری دم فاتحانہ انداز سے " بڑی آواز سے پکار کے " کیوں اعلان کرتے ہیں کہ خداکا وہ کام جو اس نے ابن ِ الله کے سپرد کیا تھا" پورا ہوا " (یوحنا ۱۹: ۳۰) اوریہ تمام الفاظ کچھ ایسے انداز سے بآواز بلند فرمائے گئے کہ سخت دلِ رومی صوبہ دار تک متاثر ہوگئے (لوقا ۲۳: ۴۷) ،لیکن معترض حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کرکے حضرت کلمتہ الله کی شان میں بے ا دبی کرنے سے ذرا نہیں جھجکتے او رکہتے ہیں کہ " مسیح اس عاجز انہ حالت میں صلیب پر لٹکتے ہوئے گویا یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔

ضعف نے غالب نکما کردیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

(صفحہ ۱۰۳)

ہر انجیل خوان حضرت ابن ِ الله کی زندگی کی آخری ساعتوں کا حال پڑھ کردیکھ سکتا ہے کہ " عاجزانہ حالت " اور " ضعف " آنخداوند کے پاس پھٹکے بھی نہ تھے۔ آپ فاتحانہ انداز میں سردار کاہن کو فرماتے ہیں " اب سے ابن آدم قادر مطلق خدا کی دہنی طرف بیٹھا رہےگا" (لوقا ۲۲: ۶۹) اور میں اس ستودہ (خدا ) کا بیٹا مسیح ہوں اور" تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے " (مرقس ۱۴: ۶۲) اور گورنر پلاطوس کو مخاطب کرکے کہتے ہیں میں حق کا بادشاہ ہوں ۔" میں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔ جو کوئی حقانی (حق سے نسبت رکھنے والا)ہے وہ میری آواز سنتا ہے"(یوحنا ۱۸: ۳۷تا ۳۸)۔

ابن ِ الله فرماتے ہیں کہ آپ کا اس دنیا میں آنے کا واحد مقصد یہ تھاکہ آپ خدا کی مرضی کو پورا کریں۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ باپ کی مرضی کو پورا کرنے میں صرف کیا (یوحنا ۵: ۲۰۔ ۵: ۳۰۔ ۶: ۳۷۔ ۷: ۱۶۔ ۱۲: ۱۰۔ ۱۹: ۳۲ وغیرہ) اپنی زندگی کی آخری شب آپ نے خدا سے التجاکرکے کہا تھا" اے باپ ۔ میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو"۔ اب جب وہ خدا کے ارادے اور منشاء اور مرضی کے مطابق فرمانبرداری سے موت بلکہ صلیبی موت کو برداشت کرکے خدا کی مرضی کو پورا کررہے ہیں تو خدا ان سے کس طرح جدا ہوسکتا ہے ؟ ان کی دعا کے الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ ابن الله کی نظروں کے سامنے صلیب تھی اور مولوی صاحب کے قیاس (صفحہ ۱۹۰) کے خلاف ابن ِ الله کے خواب وخیال میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ خدا کسی خوارق ِ (خارج کی جمع ،خلاف عادت،کرامتیں)عادت طور پر آپ کو صلیبی موت سے بچائے گا۔ کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ صلیب کی راہ عین خدا کی مرضی کے مطابق ہے(متی ۱۶: ۲۱تا ۲۸)۔ پس اگر مولوی صاحب کی تفسیر صحیح ہے تو ہمارا یہ حق ہے کہ ہم ان سے پوچھیں کہ ان باتوں کے پیش ِ نظر ہونے کے باوجود ابن ِ الله نے کیوں ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالا جس سے بقول آپ کے یا س ونا امید ی ٹپکتی تھی؟ ان کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بتلائیں کہ یاس اورنا امیدی کس چیز کی نسبت تھی؟ وہ کیا اُمید تھی جوبرنہ آئی اورجس کے پورا نہ ہونے کے باعث یہ یاس انگيز کلمہ بقول معترض ابن ِ الله کے منہ سے نکلا؟ ابن الله تو اپنے تجربےسے جانتے تھے کہ آپ دنیا اور شیطان پر غالب آگئے ہیں ( متی ۴: ۱۱ ۔ یوحنا ۱۶: ۳۳ وغیرہ) دریں حال (اس صورت میں ) دم واپسیں نا امیدی اوریاس(مایوسی ) کی کیا وجہ تھی ؟ قیاس تو یہ چاہتا ہےکہ ایک شخص پر جوبقول مولوی صاحب " زاری لاچاری" کی عاجزانہ حالت میں صلیب پر لٹکا" ہومایوسی اسی قدرغالب ہوگی کہ اس کی یاس اورنا امیدی کی آواز دھیمی نکلے گی۔ لیکن ابن ِ الله کی بلندو اور " بڑی آواز کی پکار" (لوقا ۲۳: ۴۲ ۔ متی ۲۷: ۵۰۔ مرقس ۱۵: ۳۷) یہ ثابت کرتی ہے کہ نا امیدی ، مایوسی اور یاس صلیب کے نزدیک پھٹکنے بھی نہ پائی تھی۔ بلکہ یہ " بڑی آواز کی پکار" ایک فاتحانہ آواز تھی جو جسم کی کمزوری اور اذیت کے باوجود الہیٰ رفاقت اور قربت کی وجہ سے بلند تھی جس کو سن کر صوبہ دار بھی مرعوب ہوکر مان گیاکہ " بے شک یہ آدمی راست باز تھا"(لوقا ۲۳: ۴۷)۔

سطور بالا میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آخری شب گتسمنی باغ میں ابن الله نے اپنے آپ کو خدا کے ہاتھوں میں سپرد کردیا تھا اورکہا تھا" اے باپ! میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو"۔ جس سے آپ کا مطلب محض" گردن برضائے الٰہی کو محض سر تسلیم خم کرنے سے پورا نہیں کرسکتا بلکہ الہٰی ارادہ اور منشا ء کے ساتھ خیال قول اور فعل سے بدل وجان عملی تعاون کرنے سے پورا کرتا ہے (یوحنا ۱۲: ۲۷تا ۲۸)۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے دعا ختم کرنے کے بعد ہی شاگردوں کو ارشاد فرمایا" اٹھو چلیں" (مرقس ۱۴: ۴۲) تاکہ خدا کی مرضی کو پورا کریں اور موت کو خدا کی محبت اوراس کے جلال کا وسیلہ بنائیں (لوقا ۲۴: ۲۶) آپ مُدت سے اس موت کے پیالہ کے منتظر تھے۔ اورجامِ شہادت کو پینے کے خواہش مند تھے( متی ۲۱: ۲۲) آپ نے علیٰ الاعلان (گواہوں کے روبرو،علانیہ طور پر)فرمایا تھا کہ " مجھے (صلیبی موت کا بپتسمہ لینا ہے۔ اور جب تک وہ نہ ہولے میں بہت ہی تنگ رہوں گا "(لوقا ۱۲: ۵۰)کیونکہ آپ کو یہ علم تھاکہ آپ کی موت بھی آپ کی زندگی کی طرح " بہتوں کے فدیہ" کے لئے ضروری اور لازمی ہے (مرقس ۱۰: ۴۵)۔ آپ نے اپنی موت کی وجہ بتلا کر فرمایا " وہ وقت آگیا کہ ابن ِ آدم جلال پائے ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے۔ لیکن جب مرجاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔ جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اسے کھودیتا ہے اورجو دنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتا ہے وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کے لئے محفوظ رکھے گا۔۔۔۔ پس میں کیا کہوں کہ اے باپ مجھے اس گھڑی سے بچا؟ لیکن میں اسی سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔ اے باپ ! اپنے نام کو جلال دے ۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ میں نے اس کو جلال دیا ہے اورپھر بھی دوں گا‘‘ ( یوحنا ۱۲: ۲۳تا ۲۸) معترض کو ذرا خیال نہ آیا کہ اس قسم کے شخص کے منہ سے کس طرح دم واپسیں کوئی یا س انگیز کلمہ نکل سکتا ہے؟

انجیل کی قطعی نص

مولوی صاحب ۔ آئیے ہم آپ کو ابن ِ الله کے وہ کلمات طیبات سنائیں جو آپ کے وہم کے خلاف ایک قاطع اورقطعی دلیل ہیں۔ آپ تو بغیر کسی دلیل کے دعوےٰ کرتے ہیں کہ خدا نے ابن ِ الله کو ترک کردیا تھا ،لیکن سنئے ابن ِ الله کو ترک کردیا تھا لیکن سنئے ابن ِ الله خود یہود کو کیا فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا" میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اورباپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے "(یوحنا ۸: ۱۶) ۔پھر بتاکید فرمایا" جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ وہ میرے ساتھ ہے۔ اس نے مجھےاکیلا نہیں چھوڑا "۔ اور ساتھ ہی وجہ بھی بتلادی۔" کیونکہ ہمیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند ہیں"( یوحنا ۹: ۲۹)پھر آپ نے اپنی زندگی کی آخری شب شاگردوں کوفرمایا ۔" تم سب پراگندہ ہوکراپنے اپنے گھر کی راہ لوگے اورمجھے اکیلا چھوڑ دوگے ۔ توبھی میں اکیلا نہیں ہوں کیونکہ باپ میرے ساتھ ہے"(یوحنا ۱۶: ۳۲) کیا یہ انجیلی نقص قطعی طورپر آپ کے اعتراض کامنہ بند نہیں کردیتی ؟ باپ کی محبت آپ کو ہر لحظہ چاروں طرف زندگی میں ہرلمحہ موت میں گھیرے رہی۔آپ خدا کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ " اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تونے میری سن لی اورمجھے تو معلوم ہے کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے "(یوحنا ۱۱: ۴۱)اور عبرانیوں کے خط کا مصنف اس پر صادر کرکے کہتاہےکہ ۔ خدانے زندگی اور موت دونوں حالتوں میں ابن ِ الله کی سنی(عبرانیوں ۵: ۷تا۸) اوراس کا رفیق رہا۔

مقدس پولوس رسول بھی فرماتاہے کہ "خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے۔ کہ جب ہم گنہگارہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔ پس ہم اپنے سیدنا مسیح کے سبب جس کے وسیلے سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہوگیا خدا پر فخر کرتے ہیں "(رومیوں ۵: ۸تا۱۱)۔ اب مولوی صاحب ہی فرمائیں کہ اگر خدا نے عین صلیب کے موقع پر مسیح مصلوب کو چھوڑدیا تھا تو اس نے " اپنی محبت کی خوبی" کا اظہار کس طرح کیا؟ اورہم کس بات پر اورکس طرح فخر " کرسکتے ہیں؟

اس سلسلہ میں ڈاکٹر بٹرک کے الفاظ قابل غورہیں وہ کہتا ہے

’’ ہم جانتے ہیں کہ دیندار یہودی مصیبت کے وقت اس زبور کو پڑھ کر تسلی حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ امر یقینی ہے کہ ان الفاظ کی تلاوت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سیدنا مسیح اپنا ایمان کھوبیٹھے تھے اورکہ خدا کی رفاقت آپ کونصیب نہ تھی۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ اگرچہ سب آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن خدا آپ کے ساتھ تھا۔ اوراس سے پہلے آپ کو خدا کی ایسی قربت کبھی حاصل نہ ہوئی تھی جیسی اس لمحہ میں حاصل تھی۔جب آپ خدا کی کامل فرمانبرداری کرکے اپنی جان قربان کررہے تھے۔ خدا باپ نے اپنے بیٹے کو اس لمحہ میں ایسی قربت عطا کی تھی کہ وہ مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کررہا تھا‘‘ (۲ ۔کرنتھیوں ۵: ۱۳)۔

مقدس پولوس کو مسیح مصلوب کے ایثار، موت اور قربانی میں خدا کا مقصد نظر آتا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہےکہ " خدا نے مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کرلیا"(۲۔کرنتھیوں ۵: ۸) دیکھئے الفاظ " خدا نے مسیح میں ہوکر " کیسے صاف واضح اور غیر مبہم ہیں۔ خدا نے مسیح سے جدا ہوکر اور اس کو تر ک کرکے نہیں بلکہ " مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کرلیا"۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صلیبی موت کے وقت باپ ابن ِ الله کےذریعے اور اس میں ہوکر نجات کا کا م کرتا ہے۔ کیونکہ بیٹا باپ کا مظہر ہے(افسیوں ۲: ۴تا ۵۔ گلتیوں ۴: ۳تا ۶ وغیرہ)۔

حق تو یہ ہے کہ خدا اپنے بیٹے سے صلیب کے موقع پر خاص طور پر" خوش " تھا۔ کیونکہ خدا کی محبت کا نظارہ ہم کو اعلیٰ ترین جلالی صورت میں صلیب پر ہی ملتا ہے ۔ خدا محبت اور سیدنا مسیح کی زندگی اور موت اس محبت کے جلال کا کامل اور اکمل ظہور ہیں۔ ابن ِ الله مجسم محبت تھے۔ آپ نے اپنی محبت کا اظہار ِخلق کی خدمت ، ایثار ِ نفس اور کامل قربانی کے ذریعہ کیا (متی ۲۰: ۲۸۔ مرقس ۱۰: ۴۵۔ ۱۰: ۱۷تا ۱۸۔ ۱۳: ۱تا ۷۔ ۳: ۱۳۔ ۲۱ ۴: ۳۴ ۔ ۵: ۱۷، ۴۴۔ ۸باب ۱۷: ۱۔ وغیرہ)۔ جس طرح ابن ِالله کی زندگی ایثار کے ذریعہ خداکی محبت کاظہور تھی جس کے وسیلے سب پر عیاں ہوگیا تھاکہ " خدا اس کے ساتھ ہے"(اعمال ۱۰: ۳۸) اسی طرح آپ کی موت ایثار ومحبت کاثبوت تھی اور موت کے وقت بھی خدا آپ کےساتھ تھا کیونکہ آپ محبوب ِ کبریا تھے(متی ۳: ۱۷۔ ۱۷: ۵) ۔چنانچہ آپ نے فرمایا کہ " باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتاہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں۔ کوئی اسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اسے آپ ہی دیتا ہوں "(یوحنا ۱: ۱۷تا ۱۸) آپ کی مبارک موت آپ کی زندگی کا کمال اور تاج تھی۔ جب خدا نے آپ کی زندگی میں آپ کا ساتھ نہ چھوڑا تو وہ آپ کی موت میں آپ کو کیسے چھوڑ سکتا تھا؟بالخصوص جب یہ مبارک موت آپ کی زندگی کا کمال تھی؟ آپ نے زندگی اور موت دونوں میں اپنی جان دوسروں کے لئے نثار کردی( ۱۔یوحنا ۳: ۱۶ ؛ متی ۲۰: ۲۸) جس طرح بنی اسرائیل کو کوہِ سینا پر پرانے عہد نامہ کا جلوہ نظر آیا اسی طرح کوہِ کلوری پر الہٰی محبت کے کمال کے لئے عہد کا جلوہ نظر آتا ہے۔ صلیب پر کا تجربہ ابن ِ الله کے ایمان اورکاملیت کا ظہور ہے(فلپیوں ۲: ۸تا۱۱)۔ عبرانیوں کے خط کا مصنف ہم کو بتلاتا ہے کہ ابن ِ الله کی نظروں کےسامنے نا امیدی اوریاس نہیں بلکہ ایک عجیب خوشی تھی اورکہتا ہےکہ " ہمارے ایمان کے بانی اورکامل کرنے والے یسوع نے اس خوشی کے لئے جو اس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کرکے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طر ف جا بیٹھا (عبرانیوں ۱۲: ۲) ابن الله کی نگاہ اس "خوشی " پر ٹکی ہوئی تھی (زبور ۱۱۹: ۳۵) جس کی وجہ سے آپ نے صلیب کی انتہائی " شرمندگی " کی پرواہ نہ کی ۔ یہ " خوشی " کیا تھی ؟ ابن الله اپنی ظفریاب (فتح مند) قیامت کے بعد اپنی زبان ِ معجز بیان سے اپنے شاگردوں کواور مرحوم کے ہم خیالوں کو اس خوشی کی نسبت بتلاتے ہیں ۔" اے نادانو اور نبیوں کی ساری باتوں کے ماننے میں سست اعتقادو، کیا مسیح کو یہ دکھ اٹھاکر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟(لوقا ۲۴: ۲۵) آپ کامل اورمجسم محبت تھے اورمحبت ایثار کادوسرانام ہے۔ ایثار تب ہی کامل ہوتا ہے جب اس میں خوشی ہو اوریہ خوشی ایثار کا جلال ہوتی ہے۔ کسی ماں سے پوچھو کہ وہ اپنے بیمار بچہ کو کسی دایہ یا نرس کے سپرد کرنے کے بجائے اس کی خدمت میں قربانی اور ایثار نفس سے کام لے کر رات دن ایک کیوں کردیتی ہے؟ ماں کی مامتا کی خوشی ایسے ایثار اور قربانی میں ہی پوری ہوتی ہے اور یہ خوشی ماں کی محبت ایثار کا جلال ہے۔ چنانچہ ابن ِ الله نے بھی آخری شب اپنے شاگردوں کو فرمایا" میں نے یہ باتیں اس لئے تم سے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہو اور تمہاری خوشی پوری ہوجائے۔ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرسکتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دے دے "(یوحنا ۱۵: ۱۳؛ یسعیاہ ۵۳ : ۱۱) ابن ِ الله نے جو دعا آخری شب کی تھی اس میں آپ نے خدا کو مخاطب کرکے کہا " ا ے باپ ۔ وہ گھڑی آپہنچی اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کرتا کہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔ جو کام تونے مجھے کرنے کو دیا تھا اس کوپورا کرکے میں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا اور اب اے باپ تو اس جلال سے جومیں دنیا کے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنالے"(یوحنا ۱۷: ۱۵)۔

مولوی صاحب کی تفسیر قرآن کے مخالف

پس انجیل جلیل کے مطالعہ سےثابت ہوجاتا ہے کہ مرحوم مولوی صاحب کی تفسیر غلط ہے۔ الله تعالیٰ کی شہادت ، کلمتہ الله کی شہادت ۔ حوارئین کی گواہی، ابن الله کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات ۔ آپ کی صلیب اور اذیت کا ایک ایک لمحہ اورانجیل جلیل کی ایک ایک آیت ان کی تفسیر کاغلط ثابت کرتی ہے۔ اگر معترض ان سے قائل نہیں ہوئے تو کم از کم قرآن وحدیث کے تو آپ قائل ہیں۔ اور یہ دونوں عصمت ِ مسیح پر شاہد ہیں (سورہ عمران آیت ۳۱وغیرہ مشارق الانوار صفحہ ۹۲۹)۔ جس حال کہ کلمتہ الله بے گناہ اور معصوم تھے تو خدا آپ کو کیسے چھوڑ سکتا تھا؟ کیا خدا بے گناہ ایمان دار بندوں اوراپنے معصوم رسولوں کو جانکنی کی حالت میں ترک کردیا کرتا ہے۔ بالخصوص جب وہ اپنے پیغام کی وجہ سے مصائب وآلام میں مبتلا ہوں؟ معترض نے بائیسویں(۲۲) زبور کی آیت کی تاویل کرتے وقت قرآن وحدیث کا ہی پاس اور لحاظ کیاہوتا۔ کیا اسلامی عقائد کے مطابق خدا ان رسولوں کو جو رضائے الہٰی کو پورا کرتے ہیں ان کی موت کے وقت مایوسی اورنا امیدی کی حالت میں چھوڑ کر ان کو ترک کردیا کرتاہے ۔ قرآن وحدیث کے مطابق مسیح کی شان ایسی ہے کہ موت کے وقت خدا آپ کو مایوسی کی حالت چھوڑ دیتا ؟ وہ جو خدا کا معصوم نبی اورکلمہ ہے اور روح الله ہے اور خدا کا رسول اور فرمانبردار بندہ ہے اورجس پر الله تعالیٰ نے احسان کئے کیا اس کا انجام ایسا حسرت ناک ہوسکتا ہے؟ قرآن صاف طورپر کہتا ہےکہ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت۴۵)کہ عیسیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں رودار اور خدا کے مقربوں میں سے ہے "۔ کیا " مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ " کی یہی تفسیر ہے کہ موت کے وقت اس کو خدا کی قربت اور رفاقت بھی نصیب نہ ہو؟

اگر معترض آنجہانی مرزائے قادیانی کی پیروی کرکے یہ کہیں کہ ہم حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ نہیں مانتے لیکن عیسائيوں کی انجیل یسوع مسیح کی نسبت یہ کہتی ہے تو وہ گویا دنیا پر روشن کردیتے ہیں کہ وہ ایک ایسی بات پیش کرتے ہیں جس کو وہ نہ تو خود مانتے ہیں اور نہ ان کے مخاطب مانتے ہیں اوریہ ایک ایسی شرمناک پوزیشن ہے جس کو کوئی حق پسند جائز نہیں رکھ سکتا ۔

مرحوم مولوی صاحب پر واجب تھا کہ اگر وہ کلمتہ الله کے متعلق قرآن کی شہادت سے کوئی ایسی بات مانتے ہیں جس کا ذکر انجیل میں ان کے زعم (غرور،گمان)میں اس کے خلاف ہے اوراگر انجیل جلیل کے کسی قول سے کوئی وسوسہ(اندیشہ) ان کےدل میں پیدا ہوا تھا تو ان کو اس کی تاویل اس طورسے کرنا چاہیے تھی جو اس کو قرآن کے مطابق کردے ۔ کیونکہ قرآن کے مطابق انجیل کلامِ الہٰی ہے جس کا وہ خود محافظ اور مصدق ہے(سورہ مائدہ ع ۶۔ آیات ۴۸تا ۵۲و ۹۱ وغیرہ) جس کے مفہوم کو اہل ِ عرب پر ظاہر کرنے کی خاطر وہ عربی زبان میں نازل کیاگیا(شعراآیت ۱۹۷۔ انعام ع ۲۰آیات ۱۵۶ تا ۱۵۸ وغیرہ)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے مطابق سچا مسلمان صرف وہی ہوسکتا ہے جو انجیل پر بھی ایمان رکھے(سورہ بقرہ آیت ۳ وغیرہ) اور چونکہ خدا کے کلام میں تضاد وتناقص نہیں ہوتا (سورہ نساء آیت ۸۴) لہٰذا قرآن وانجیل کی تاویل کا اصول بھی ایک ہی ہے(سورہ یونس آیت ۹۴) ۔ یہ قرآنی اصول صحیح اُصول تفسیر ہے جس کی مفصل تشریح ہم اپنے رسالہ ’’توضیح البیان فی اصول القرآن‘‘ میں کرچکے ہیں ۔ لیکن مولوی صاحب نے صحیح تاویل کرنے کی بجائے ایسی تاویل کی جو نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ انجیل جلیل کے ایک ایک لفظ کے خلاف ہے اور قرآن وانجیل دونوں اس کو متفقہ طورپر باطل اور مردود قرار دیتے ہیں۔

گر تو قرآں بریں غلط خوانی

ببری رونق ِ مسلمانی

اگر معترضین کے ایمان نے ان کوغلط تاویل کرنا ہی سکھلایا ہے تو قرآن ان کو مخاطب کرکے کہتا ہے قل بئسما یا مرکمہ بہ ایمانکمہ وان کنتمہ مومنین تو کہہ اگر تمہارا ایمان یہی ہے اور تم ہی ایمان دار ہو تو تمہارا ایمان تم کو برُا سکھاتا ہے۔

اس باب میں ہم نے یہ ثابت کیاہے:

(۱۔) مولوی ثناء الله صاحب نے دیدہ ودانستہ واقعات صحیحہ کا اخفا (پوشیدہ کرنا)" کرکے عامتہ الناس کو یہ مغالطہ دینا چاہاہے کہ آیہ زیر بحث ابن الله کا اپنا" مقولہ "ہے۔ حالانکہ یہ کلمہ آنخداوند کا اپنا "مقولہ " نہیں ہے۔ بلکہ بائیسویں (۲۲)زبور کی پہلی آیت ہے جس کی منجی کونین نے صلیب پر سے تلاوت فرمائی ۔ اس بحث کے دوران میں مولوی صاحب نے حضرت کلمتہ الله کی شان میں اس قدر سو ادبی کا ارتکاب کیاہے کہ الامان ۔چنانچہ

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

(۲۔)ہم نے انجیل جلیل سے ثابت کیاہے کہ مولوی ثناء الله کا استد لال کہ یہ کلمہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا میں اور مسیح میں جدائی اور دوری تھی اورکہ خدا نے آپ کو معاذ الله چھوڑدیا تھا صریحاً غلط ہے۔ یہ تاویل تفسیر بالرائے کی عمدہ مثال ہے جس کے خلاف مرحوم خود جہادکرتے رہے۔ یہ تفسیر حضرت کلمتہ الله کے کلمات، طیبات، خیالات ، جذبات اور افعال کی ضد ہے اور انجیل جلیل کی آیات بینات کی عین نقیض ہے۔ مولوی صاحب نے آیہ زیر بحث کو اس طرح مایل کردیا ہے اور آپ کی تاویل ایسے درجہ پر پہنچ گئی ہے کہ اس تاویل " کا لفظ " بھی صادق نہیں آسکتا ۔مولوی صاحب کی تاویل القول بما لایرضیٰ بہ قایلہ کے غلط اصل کے مطابق ہے۔ لہٰذا مردود ہے۔

باب سوم

آیہ زیرِ بحث کا مفہوم

فصل اوّل

بائیسواں زبور

بائیسویں(۲۲) زبور کی شان ِ نزول

زبور کی کتاب ایک مجموعہ ہے جو قوم ِیہود کے بہترین شعراء کے ملی اور مذہبی کلام کا انتخاب ہے۔ یہ یہودی شاعر حضرت داؤد سے لے کر مختلف زمانوں میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنے اپنے وقت کے کوائف وحالات کو پیش نظر رکھ کر ان مزامیر کو منظوم کیا۔ بعض مزامیر قوم یہود کی خوشحالی کےزمانہ میں لکھے گئے اور بعض اس قوم کے زوال کے زمانہ میں منظوم کئے گئے ۔ بائیسواں زبور اور چند دیگر مزامیر (مثلاً : ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۳۱، ۳۵، ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۱، ۶۹، ۷۱ وغیرہ) کی طرح قوم اسرائیل کی پستی، ذلت ، مصیبت اور زوال کے زمانہ میں لکھا گیا۔ اس زبور کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ مزمور نویس کے ارد گرد کے حالات اس قدر تاریک ہیں کہ قوم یہود پڑی سسک (ہچکی،سبکی )رہی ہے۔ دم توڑ رہی ہے اور فنا ہونے کے قریب ہے۔ بُت پرست اقوام نے خدا کی اپنی قوم کو جو اقوام عالم کے لئے ایک نور تھی(یسعیاہ ۴۲: ۷) چاروں طرف نرغہ میں گھیر رکھا ہے(آیت ۶، ۱۲، ۲۱) مزمور نویس کے دل میں بیم ورجا کی کشمکش ہے۔ اور اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی برگزیدہ قوم کو ترک کردیا ہے(آیت ۱)" صیون کہتی ہے یہواہ نے مجھے ترک کیا ہے اور خداوند مجھے بھول گیا ہے "( یسعیاہ ۴۹: ۱۴ ، زبور ۱۳: ۱ ؛ ۸۸: ۱۴) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ( ۲۲زبور )حضرت نحمیاہ کے زمانے کے حالات کا آئینہ ہے ۔ جب قوم اسرائیل " نہایت مصیبت اور ذلت " کی حالت میں گرفتار تھی(نحمیاہ ۱: ۳) وہ اس زبور کی ساتویں آیت کی (نحمیاہ ۴: ۲ )کے ذریعہ اور چھٹی آیت کی (نحمیاہ ۲: ۱۹ )کے ذریعہ تعبیر کرتے ہیں ۔ ان مفسرین کا خیال ہے کہ آیت ۱۲ سے مراد عمونی ہیں۔( صفنیاہ ۲: ۸۔ یرمیاہ ۴۹: ۱) اور تیرھویں آیت سے مراد قبائل عرب ہیں اور آیت(۲۲: ۱۶ و ۱۷ )سے مراد سکم کےرہنے والے ہیں۔

اس زبور کا مطلب

بائیسویں (۲۲)زبور کا مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ اس کا مصنف شاعر (جوخودایک ایمان دار شخص ہے) ناموافق حالات کی تاریکی میں اپنے ایمان کے ذریعہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ایک قوم جو اقوام ِ عالم میں سے خدا کی واحد پرستار ہے کیوں فنا ہورہی ہے ؟ پہلی آیت میں لفظ" کیوں" خدا کی پروردگاری پر شک نہیں کرتا بلکہ اس سے مراد تعجب کا سوال اور حیرانگی کا اظہار ہے ۔ وہ پوچھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ خدا کی برگزیدہ قوم فنا ہورہی ہے ؟ مزمور نویس متعجب ہوکر سوال کرتا ہےکہ خدا نے قوم اسرائیل کو کیوں ترک کردیا ہے ؟ اوراس قوم کی پکار اس کے نجات دینے والے خدا سے کیوں دور ہے؟ وہ کیوں نہیں سنتا ؟ قوم کی حالت ایسی ہے کہ وہشب وروز بے قراری کی حالت میں پڑی کراہتی ہے(زبور۲۲: ۱، ۲) خدا تو قوم اسرائيل کا قدوس خدا ہے جو زمانہ ماضی میں اس کے دشمنوں کےہاتھوں سے رہائی دیتا رہا ہے (زبور ۲۲: ۴) اورجس کا وعدہ ہے کہ وہ ایام مستقبل میں بھی اپنی قوم کو چھڑائے گا۔ (استثنا ۳۰: ۳تا ۴ وغيرہ)قوم اسرائیل کی زبونی کا اَب یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ ایک کیڑے کی مانند ہوگئ ہے (زبور۲۲: ۶ ؛ یسعیاہ ۴۱: ۱۴) جس کو بُت پرست اقوام حقیر جان کر انگشت نمائی کرتی ہیں(زبور۲۲: ۶، ۷ ؛ یسعیاہ ۴۹: ۷؛ ۵۳: ۱۳) یہ بُت پرست اقوام ازروئے تمسخر اسرائیل کا ٹھٹھا کرکے کہتی ہیں کہ اس قوم نے خدا پر توکل کیا تھا۔ اب اس کو چھڑانے والا خدا آئے ۔ اور اپنی برگزیدہ قوم کو ہمارے ہاتھوں سے چھڑالے ( زبور۲۲: ۸ ؛یسعیاہ ۴۱: ۱۴؛ ۴۳: ۱۴؛ ۴۴: ۶، ۲۴؛ ۴۷: ۴؛ ۴۸: ۷ ؛ ۴۹: ۷، ۲۶؛ ۵۴: ۵، ۸)قوم پر ہلاکت آپڑی ہے (زبور۲۲: ۱۱) اور بُت پرست اقوام جنگی درندوں، کتُوں اور سانڈوں کی طرح اُس پر پے درپے حملے کررہی ہیں(زبور۲۲: ۱۲ تا ۱۹)۔ قوم کی زندگی معرض خطر میں ہے اوراس کے دشمن شادیانے بجارہے ہیں ۔ ایسے نازک ایام میں اسرائیل کی قوم اپنے خدا سے فریاد کرکے کہتی ہے کہ اے خدا اپنی برگزیدہ قوم اسرائیل کو بُت پرست اقوام کے ہلاکت آفرین ہاتھوں سے بچا(زبور ۲۲: ۱۹، ۲۰) پھر مزمور نویس شاعر کہتا ہےکہ بلاآخر خدا نے اس تنگی کی حالت میں قوم اسرائیل کی گریہ وزاری کی آواز اور دعاسن کر اس کو رہائی بخشی (زبور۲۲: ۲۱، ۲۴) پس قوم اس نجات کو کبھی فراموش نہ کرے گی۔ بلکہ خدا کی ثنا خواں ہوکر اس کی ستائش اور مدح سرائی کرے گی (زبور ۲۲: ۲۲تا ۲۶) اور شکر گزار ہوکر بُت پرست اقوام کو خدا کے علم اورا س کی نجات کی بشارت دے گی۔ تاکہ کل اقوام عالم یہ جان لیں کہ سلطنت خداوند کی ہے اور وہی اقوام عالم کا واحد خدا ہے(زبور۲۲: ۲۷تا آخر)۔

پس یہ زبور ایک قوم کی چیخ وپکار کی آواز ہے جو وہ اپنی ملی زندگی اورقومی ہستی کی معرض ِ خطر میں پڑا دیکھ کر خدا کے حضور کرتی ہے۔لیکن غور طلب بات یہ ہےکہ ایسے آڑے وقت میں بھی جب قوم ہلاک اور فنا ہوتی نظر آتی ہے مزمور نویس کا ایمان متزلزل نہیں ہوتا۔ اور گو حالات بظاہر ایسے یاس انگیز ہیں کہ نا اُمیدی کی تاریک گھٹائیں ہر طرف سے اس قوم کو گھیرے ہوئے ہیں ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اس قوم کو چھوڑ دیا ہے۔ تاہم مزمور نویس کے ایمان کا نور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی چمکتا ہے جس کی ضیا پاشیوں سے یاس کی پکار نجات اوررہائی کے نعروں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

سطور بالا میں حوالہ جات دئیے گئے ہیں ان میں ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا۔کہ ۲۲واں زبور اور حضر ت یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے دوسرے حصے (ابواب ۴۰تا آخر ) میں مشابہت اور مطابقت پائی جاتی ہے ۔ " خادمِ یہوواہ" ایک " کیڑا " ہے (یسعیاہ۴۱: ۱۴) اور قوم اسرائیل ایک ایسی جماعت ہے۔ جس کو لوگ حقیر سمجھ کر (یسعیاہ۴۹: ۷؛ ۵۳: ۳) اس سے کنارہ کش ہوتے ہیں گویاکہ وہ جنس انسانی میں شمار ہونے کے قابل ہی نہیں۔ (یسعیاہ۵۲: ۱۴؛ ۵۳: ۲، ۱۳؛ ۵۱: ۷ ) لیکن اس کی امید گاہ اس کا رہائی دینے والا خدا اسرائیل کا قدوس اور واحد خدا ہے جس کی وہ واحد پرستار ہے (یسعیاہ ۴۱: ۱۴؛ ۴۳: ۱۴؛ ۴۴: ۶، ۱۴۔ ۴۷: ۴؛ ۴۸: ۱۷؛ ۴۹: ۷ ، ۲۶؛ ۵۴: ۵، ۸) اس مختصر مقابلہ سے ظاہر ہے کہ( ۲۲)ویں زبور کا تعلق صحیفہ مذکور کے اس حصہ سے (جس میں " خادم یہوداہ" کا بار ہا ذکر آتاہے) کس قد ر گہرا ہے۔

صیغہ واحد کا استعمال

مذکورہ بالا تفسیر سے ظاہر ہے کہ بائیسویں (۲۲)زبورمیں صیغہ واحد متکلم اور واحد غائب قوم بنی اسرائیل کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور تمام زبور میں اس صیغہ کا اطلاق کسی خاص فرد پر نہیں ہے۔ جو حضرات اہل یہود کی کتُب سماوی کی زبان اور محاورات سے ناواقف ہیں وہ مظالعہ میں پڑ کر خیال کرتے ہیں کہ صیغہ واحد کسی خاص فرد کے لئے استعمال ہوا ہے۔لیکن انبیائے عہد ِ عتیق کی صحف ِ مقدسہ کا مطالعہ ظاہر کردیتا ہے کہ واحد کا صیغہ نہ صرف افراد کے لئے استعمال ہوا ہے بلکہ قوموں، گروہوں اور جماعتوں کے لئے بھی عام طور پر کثیر التعداد مقامات میں مستعمل ہواہے۔

تورات شریف اورصحائف انبیاء کے بے شمار مقامات میں قوم بنی اسرائیل کے لئے صیغہ واحد حاضر وارد ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مشتے نمونہ ازخروارے (مٹھی بھر نمونے کے طور پر )ملاحظہ ہو(خروج ۴: ۲۲، استثنا ۶: ۴ ؛ ۹: ۱؛ ۲۳: ۲۹؛ یسعیاہ ۴: ۲۷؛ ۴۱: ۸؛ ۴۳: ۱تا ۷؛ ۴۳: ۲۲؛ ۴۴: ۲۱تا ۲۲؛ یرمیاہ ۲: ۲؛ ۴۶: ۲۷؛ حزقی ایل ۱۳: ۴؛ ہوسیع ۴: ۱۵؛ ۹: ۱؛ عاموس ۴: ۱۲؛ ۶: ۶ ؛ ۷: ۱۵تا ۱۷؛ صفنیاہ ۳: ۱۴تا ۱۵۔ وغيرہ وغيرہ) زبور کی کتاب میں (۸۰) مزامیر یعنی آدھے سے زیادہ مزامیر ایسے ہیں جن میں مزمور نویس شعراء واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ۔ ان زبوروں میں بے شمار مقامات میں ایسے مصرعے اور اشعار ہیں جن میں مزمور نویس شعراء واحد حاضر اور واحد متکلم کے صیغے قوم بنی اسرائیل کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ ( زبور ۱۲۹ )اس کی ایک بین مثال ہے۔ کتاب یرمیاہ کا نوحہ میں قوم اسرائیل صیغہ واحد متکلم میں کلام کرتی ہے۔

کتُب عہد عتیق میں واحد کا صیغہ نہ صرف قوم بنی اسرائیل کے لئے وارد ہوا ہےبلکہ دیگر اقوام کےلئے بھی آیاہے ۔ (یشوع ۹: ۷،گنتی ۲: ۱۲تا ۲۱؛ ۲۱: ۲۲؛ استثنا ۲: ۲۷تا ۲۹؛ قضاة ۱۱: ۱۹ وغیرہ) بعض اوقات کسی شہر کی آبادی کا ذکر من حیث القوم صیغہ واحد میں آیا ہے(۱۔سیموئیل ۵: ۱۰)۔ بعض مقامات میں صیغہ واحد بنی اسرائيل کے خاص قبائل کے لئے استعمال ہوا ہے۔(یشوع ۱۷باب آیات ۱۴تاآخر ۔ قضاة ۱: ۳؛ زکریا ۸: ۲۱ وغیرہ) یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے دوسرے حصے میں بالخصوص جہاں" خادم یہوواہ" کا ذکر آتا ہے کہ اور صیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے ان مقامات میں صیغہ واحد کسی فرد واحد کے لئے وارد نہیں ہوا بلکہ اس سےقوم بنی اسرائیل کی برگزیدہ جماعت مراد ہے۔ مثلاً (یسعیاہ ۴۲: ۱تا ۴؛ ۴۹: ۱تا ۶؛ ۵۰: ۴تا ۹؛ ۵۲: ۱۳؛ ۵۳: ۱۳)۔ میں صیغہ واحد سے مراد قوم اسرائیل کی خاص جماعت ہے۔ چنانچہ اسی صیغہ کے ۴۹ باب کی پہلی چھ آیات میں واضح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے کہ صیغہ واحد سے مردا کوئی خاص فرد نہیں۔ بلکہ اسرائیل کی برگزیدہ جماعت مراد ہے۔ امثال کی کتاب کے آٹھویں باب میں شاعر نے حکمت اور خرد اوردانش کو شخص ِ واحد قرار دیا ہے۔

پس تورات ، زبور اور صحائف انبیاء کی زبان اور محاورات سے ظاہرہے کہ ( ۲۲) زبور میں واحد کا صیغہ قوم اسرائیل کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ مستند یہودی مفسرین بائیسویں(۲۲) زبور کی اسی طرح تفسیر کرکے کہتے ہیں کہ اس زبور میں صیغہ متکلم سے مُراد قوم بنی اسرائیل ہے جو مصائب وآلام میں مبتلا ہوکر خدا کو پکارتی ہے اور اس کا رہائی دینے والا خدا اس کی گریہ وزاری کو سن کر اس کی مدد کرتاہے اور قوم کی پستی اور زبونی سے نجات بخشتاہے۔

ایلی ۔ ایلی ۔ لما شبقتنی کا مفہوم

پس اس مزمور شریف کی پہلی آیت ۔" اے میرے خدا ! اے میرے خدا ! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا" سے مراد یہ ہے ۔" اے قوم اسرائیل کے خدا، اے قوم اسرائیل کے خدا تونے بنی اسرائيل کو کیوں چھوڑ دیا ؟ تو اپنی برگزیدہ قوم کی فریاد کی آواز سے اور اس کی آہ فغاں سے کیوں دو رہا ؟" ۔

ناظرین نے مرحوم علامہ اقبال کا شکوہ ضرور پڑھا ہوگا۔ آپ بس یہ سمجھ لیجئے کہ آیہ زیر بحث میں بنی اسرائیل کا شاعر قوم بنی اسرائیل کی طرف سے بعینہ اسی طرح شکوہ کرتاہے جس طرح علامہ مرحوم نے مسلمانان عالم کی طرف سے بارگاہِ خداوندی میں شکوہ کیا تھا۔ یہ مزمور نویس شاعر دیکھتا ہےکہ بنی اسرائيل کی ملی زندگی معرض خطر میں ہے اور وہ سوال کرتاہے کہ ایک قوم جو خدائے واحد کی پرستار ہے کیوں فنا ہورہی ہے ؟ واجب تو یہ تھا کہ بُت پرست اقوام پست اور زبون حال ہوتیں۔ زوال اور پستی ایک ایسی قوم کی جزا نہیں ہونی چاہیے جو کل اقوام عالم میں سے خدا کی واحد پرستش کرنے والی ہے ۔ ہم مرحوم ڈاکٹر اقبال کی نظم" شکوہ" کے بعض اشعار نقل کرتے ہیں اور ناظرین سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کا ۲۲ویں زبور کے یہودی " شکوہ" کے اشعار کے ساتھ مقابلہ کریں اور دیکھیں کہ دونوں میں کس قد ر موافقت ومناسبت ہے:۔

جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ الله سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

اے خدا شکوہِ ارباب وفا بھی سن لے خوگرحمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سن لے

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی؟ اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کامنتظر کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر

خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر ؟

تجھ کو معلوم ہے لیتا نہ تھا کوئی نام تیرا قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

نقش توحید کاہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر ِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایت نہیں بات کیاہے پہلی اسی مدارات نہیں؟

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟

طعنِ اغیار ہے۔ رسوائی وناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے ؟

جوئے خوں مے چکدازحسرت دیرینہ ما مے تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما

مندرجہ بالا اشعار میں سے پہلے تین کا مقابلہ( ۲۲) زبور کی پہلی دو آیات سے کریں اور ملاحظہ فرمائیں کہ اشعار نمبر ۴، ۵ کی روشنی میں تیسری آیت کا مطلب کس طرح واضح ہوجاتا ہے ۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ علامہ مرحوم نے شاعرانہ مبالغہ سے کام لیا ہے لیکن مزمور نویس ایک سچی اور واضح حقیقت کو بیان کرتا ہے کیونکہ یہ امر ایک تاریخی واقعہ ہے اس کے زمانہ میں صرف قوم بنی اسرائیل ہی دنیا بھر میں ایک ایسی قوم تھی جو خدا کی واحد پرستار تھی اور دنیا کی باقی کل امم بُت پرستی میں مبتلا تھیں ۔ شعرنمبر ۶ آیات نمبر ۴، ۵، ۶ کو واضح کرتا ہے اور شعر نمبر ۷، ۸ کی مدد سے ہم آیات ۶تا ۱۳ کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور آخری شعر آیات ۱۴، ۱۵ کا سماں ہماری آنکھوں کے سامنے باندھ دیتا ہے۔

پس( ۲۲) زبور ایک " شکوہ" اور شکایت ہے جو کسی زبردست ایمان دار یہودی شاعر نے لکھاہے۔ اس شاعر کے دل میں قوم کا درد ہے۔ اس کے سینہ میں ملی غیرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ شکوہ اسی قسم کاہے جس قسم کا حضرت یسعیاہ نبی نے کیا تھا(باب ۶۳ آیات ۱۵تا آخر باب ۶۴)۔جس کا جواب بھی خدا نے اس نبی کو دے دیا تھا(یسعیاہ ۴۹: ۱۳تا ۱۵) اسی قسم کا شکوہ حضرت یرمیاہ نے کیا تھا"۔اے خداوند میں تیرے ساتھ حجت کروں گا۔شریر اپنی روش میں کیوں کامیاب ہوتے ہیں؟ انہوں نے جڑ پکڑلی وہ بڑھ گئے بلکہ برومند ہوئے۔ اے اسرائیل کی اُمید اور مصیبت کے وقت میں اس کے بچانے والے ! توملک میں پردیسی کی مانند بنا اوراس مسافر کی طرح جو رات کاٹنے کے لئے ڈیرہ ڈالے۔ اے خداوند تو ہمارے درمیان ہے تو ہم کو ترک نہ کر"۔(یرمیاہ باب ۱۲، ۱۴) یہ " شکوہ" اسی قسم کا ہے جس قسم کا حضرت حبقوق نے کیا۔" اے خداوند میں کب تک نالہ کروں گا اور تو نہ سنے گا ؟ میں تیرے حضور کب تک چلاؤں گا۔ظلم ! ظلم اور تو نہ بچائے گا؟ ۔۔۔۔ تیری آنکھیں تو ایسی پاک ہیں کہ تو بدی کو نہیں دیکھ سکتا ۔ پھر تو دغابازوں پر کیوں نظر کرتا ہے اورجب شریر صادق کونگل جاتاہے تب تو کیوں خاموش رہتا ہے ؟(حبقوق پہلا با ب ) یہ اسی قسم کا"شکوہ" ہے جس قسم کا محمد عربی نے کیا تھا۔ قرآن ایسے ہی انبیاء الله کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ (سورہ یوسف ع ۱۲) "پہلے لوگ بھی پیغمبروں کو جھٹلاتے رہے)یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہوگئے اوران کو یہ گمان ہواکہ ان کے ساتھ خدا نے جھوٹے وعدے کئے ہیں تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی ۔۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ ان قصوں میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔ یہ کچھ بناوٹی بات نہیں ہے لیکن اس کلام (کتب ِ آسمانی) کی تصدیق کرتی ہے جو اس کے پہلے ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے جوایمان والے ہیں ہر چیز کی ، تفصیل ، ہدایت اور رحمت ہے"(آیات ۱۱۰، ۱۱۱)۔ اُمید ہے کہ اب معترض اس نکتہ کو ان آیات کی مدد سے سمجھ سکے گا۔ قرآنی سورت سورہ نوح حضرت نوح کے شکوہ سے بھری ہے جو وہ درگاہ ِ الہٰی میں کرتا ہے۔

بائیسویں (۲۲)زبور کاشکوہ اسی قسم کا " شکوہ" ہے جس قسم کا محمد عربی نے کیا تھا۔جب قریش قرآن کو جھٹلاتے اور کہتے تھے کہ " قرآن ایک جھوٹ بات ہے جومحمد نے گھڑی ہے"(فرقان آیت ۵، ۶)" اور وہ پریشان خوابوں کا مجموعہ ہے"(انبیاء آیت ۵)اور " پہلے لوگوں کی کہانیاں " ہے۔ تب آپ نے درگاہِ الہٰی میں شکایت کی کہ " یا الله میری قوم نے قرآن کو ٹھہرایا جھک جھک "(فرقان آیت ۲۲) پھرجب حضرت محمد نے باشندگان ِ طائف کو دعوت ِاسلام دی اور وہاں کے غنڈوں نے آپ پر پتھر برسائے جن کے ہاتھوں سے ایک عیسائی نے آپ کو بچایا تو آپ نے شکوہ کرکے کہا ۔ اے الله میں تیرے حضور اپنی ضعفِ قوت اور لاچاری کی نسبت عرض کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین توہی بے چاروں کا چارہ اور میرا کار ساز ہے۔ مجھ کو تو کس کے سپرد کرتاہے؟ کیا تُرش رواجنبیوں کے اوردشمنوں کے"؟ جنگ ِ بدر کے روز آپ پر سخت خضوع (عاجزی ،گڑگڑانا)کی حالت طاری تھی اور آپ الله سے کہتے تھے ۔" یا الله اگر کافر فتح مند ہوگئے تو کفر پھیل جائے گا۔ اگر مسلمانوں کی یہ قلیل جماعت ہلا ک ہوگئی توپھر کون تیری پرستش کرے گا؟ اے الله میں تیری رحمت سے فریاد چاہتا ہوں "۔

بعینہ اسی طرح بائیسواں(۲۲) زبور ایک شکوہ ہے جو ایک پرُدرد دل سے نکلتا ہے۔ مزمور نویس اپنی قوم اسرائیل کی زندگی کو چاروں طرف سے بُت پرست اقوام کے ہلاکت آفرین ہاتھوں میں پڑا دیکھ کر خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ اے قوم بنی اسرائیل کےخدا تونے اپنی قوم بنی اسرائیل کو کیوں چھوڑ دیا ہے؟ اس کے نالہ اور فریاد سے تو کیوں دوُر رہتاہے ؟ اے اسرائیل کے خدا تیری قوم شب وروز تیرے حضور گریہ وزاری کرتی ہے تو اس کی مدد کیوں نہیں کرتا ؟ تو اس قوم کا واحد خدائے قدوس ہے اور اس قوم کی حمدو ثنا تیرا تخت ہے۔ جس پر تو تخت نشین ہے۔ اگر یہ حمد وثنا کی آواز خاموش ہوگئی تو تو کس تخت پر بیٹھے گا اور تیری پرستش کون کرے گا؟اے اسرائیل کی قوم کے چارہ ساز اپنی قوم کی مدد کے لئے جلدی کر"(زبور۲۲: ۱، ۳، ۱۹)۔

پس یہ آیت " شکوہ ارباب ِ وفا" ہے۔ یہ رازو نیاز کی باتیں ہیں۔ جو محب صادق اورمحبوب کے درمیان اور " قید دستور سے بالا" ہوتی ہیں۔ یہ عاشق کا گِلہ ہے جو وہ معشوق سے کرتا ہے۔کیونکہ عاشق صادق اور معشوق حقیقی میں عشق ومحبت کا رشتہ ہے ان راز ونیاز کی باتوں کو معترض کی سی ذہنیت رکھنے والا کیا جانیں جن کی الٹی سمجھ اس عشق ومحبت کے رشتہ کو " جدائی اور انفاک" سے تعبیر کرتی ہے ؟ ان بچاروں کو کیا معلوم کہ یہ جدائی " منطقیانہ انفکاک" کی جدائی نہیں بلکہ نے کی جدائی ہے ۔ جس کی نسبت مولانائے روم فرماتے ہیں ۔

بشنواز نے چُوں حکایت میکند

وزجدائی ہاشکایت میکند

حضرت مولانا مرحوم سچ فرماتے ہیں کہ

محرم ایں ہوش جُز بے ہوش نیست

مرزباں رامشتری چوُں گوش نیست

عاشق کے گلہ کی آواز معشوق حقیقی کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے ۔

بالفاظ مرحوم اقبال :

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔

قُدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گذررکھتی ہے

اڑکے آواز مری تابفلک جاپہنچی

یعنی اس گل کی مہک عرش تلک جا پہنچی

جب عاشق کی یہ " فریاد" عرش معلے ٰ تک جاپہنچی تو الله کی رحمت نے اپنی قوم اسرائیل کی " سن لی " اوراس کو " رہائی بخشی ۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی قوم اس کی مداح خواں ہوکریہ مصمم ارادہ کرلیتی ہے کہ وہ اقوام عالم کو اپنے معبود حقیقی کی بشارت دے کر رہے گی۔(زبور۲۲: ۲۱تا ۳۱) پس زبور کا دوسرا حصہ معشوق ِحقیقی کی حمدو ستائش پر مشتمل ہے۔

ہم معترضین کو تفسیر کاوہی سبق یاد دلاتے ہیں جو مرحوم مولوی صاحب نے مرزائیوں ، نیچری مسلمانوں وغیرہ کو پڑھایا تھا۔ آپ نے ان کو یہ سبق دیا تھا" قرآن مجید عربی زبان میں آیا ہے اس لئے اس کے صحیح معنے اور صحیح تفسیر وہی ہوگی جو عربی زبان میں آیا ہے اس لئے اس کے صحیح معنی اور صحیح تفسیر وہی ہوگی جو عربی زبان (صرف ونحو، لغت وغیرہ) کے موافق ہو۔ یہ قرآن مجید کی خصوصیت نہیں۔ ہر زبان کا صحیح ترجمہ اور صحیح مطلب وہی ہوتا ہے جو اس زبان کے صحیح محاورات کے مطابق ہو۔ اس اصول میں عربی، فارسی ، انگریزی وغیرہ سب مساوی ہیں۔ اس کے خلاف کا نام ہے تفسیر بالرائے یعنی جس تفسیر میں محض اٹکل پچو باتیں کی جائیں۔ایسی تفسیر غلط اور بالرائے کہلاتی ہے "(تفسیر بالرائے صفحہ ۲)۔ تفسیر بالرائے نہ صرف غیر صحیح بلکہ حرام ہے۔(صفحہ ۵) ناظرین سے درخواست ہے کہ وہ مرحوم مولوی صاحب کا یہ فتویٰ یاد رکھیں۔

ناظرین نے دیکھ لیا ہوگا کہ ہماری تفسیر کی بنیاد عہد ِ عتیق اور انبیائے سابقین کی زبان اور محاورات پر قائم ہے لہٰذا وہ صحیح ہے۔ لیکن مرحوم مولوی صاحب کی تفسیر محض تفسیر بالرائے ہے۔ پس وہ " اٹکل پچو باتیں" کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اپنے فتوے کے مطابق مرحوم کی تفسیر " نہ صرف صحیح بلکہ حرام ہے"

فصل دوم

آیہ زیرِ بحث اورابنِ الله

سیدنا مسیح نےاس آیت کی تلاوت کیوں کی؟

سطور بالا میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ( ۲۲) زبور میں ایک ایسے شخص کا شکوہ ہے جو یہ خیال کرتا ہےکہ ہمارے اعمال کی سزا اور جزا ہم کو اسی دنیا میں ملتی ہے۔ پس وہ متعجب ہوکر یہ پوچھتا ہے کہ ایک قوم جو راستباز اور خدائے واحد کی اکیلی پرستش کرنے والی ہے کیوں پستی اور ذلت کی حالت میں مبتلا ہے اور بُت پرست اقوام کیوں خوشحال ہیں۔ حالانکہ پستی اور زبونی (کمزوری) بُت پرستی کی سزا ہونی چاہیے اور عروج اوراقبال خدا پرستی کی جزا ہونی چاہیے۔

یہ ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ الله اس قسم کے اعتقادات کے قائل نہیں تھے ہمارے نیک وبد اعمال کی جزا اور سزاہم کو فقط اسی دنیا میں مل جاتی ہے (یوحنا ۹: ۳ وغیرہ) پس جیسا ہم اوپر ثابت بھی کرچکے ہیں ۔( ۲۲) زبور آپ کے اپنے روحانی تجربہ اور ذاتی روحانی حالت کا اظہار نہیں کرتا پس سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آنخدواند نے صلیب پر سے آیہ زیرِ بحث کی تلاوت کیوں فرمائی؟

مولوی ثناء الله صاحب بھی اپنی اخبار اہل ِ حدیث میں یہی سوال پوچھتے ہیں اور فرماتے ہیں

" سوال یہ ہےکہ مسیح نے صلیب پر جان دیتے ہوئے اسے کیوں پڑھا؟ قاعدہ یہ ہے کہ کوئی کلام ِ سابق اس وقت پڑھا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنی حالت کو اس کے مطابق سمجھے۔ جب تک کسی واقعہ کو گذشتہ واقعہ کے مماثل نہ قرار دیا جائے پہلے واقعہ پر بولا ہواکلام دوسرے واقعہ میں نقل نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسیح کا تکلیف کے وقت زیر بحث انجیلی فقرہ اپنے حال پر چسپاں کئے بغیر پڑھنا بالکل غیر موزوں ہوگا"۔

(اہل حدیث ۵ جون ۱۹۴۲ء)

جواباً عرض ہےکہ :

ہم اپنے رسالہ " اسرائیل کا نبی یا جہان کا منجی"؟ میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ اہل ِیہود کی صحف ِمقدسہ کے مطالعہ سے ہم پر عیاں ہوجاتاہےکہ خدا نے قوم اسرائیل کو اس غرض سے چن لیا تھاکہ وہ اقوام ِ عالم میں خدا کےعلم اورنجات کی تبلیغ کرے۔

قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نے

جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا

پس خدا نے قوم ِ یہود میں اس اصول کے تحت خاص طور پر اپنا علم ودیعت کر رکھا تھا اوراس کے سپرد یہ خدمت کی تھی کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو خدا کی معرفت بخشنے اور نجات کا پیغام دینے کا وسیلہ ہو۔ تاکہ تمام دنیا کی جملہ اقوام اہل ِیہود کے ذریعہ ایک حقیقی واحد خدا کے نور سے منور ہوجائیں (یسعیاہ ۴۲: ۶ وغیرہ) قوم اسرائیل کے اس نصب العین کی وجہ سے منجی عالمین نے اپنے کام اور پیغام کو ایک حد تک اہل ِیہود میں ہی محدود رکھا ۔ آنخداوند کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اس خفتہ (سوئی ہوئی)قوم کو بیدار کریں تاکہ اس کو اپنی ملی حیات کے اصلی نصب العین کا احساس ہو جائے اور وہ آپ کی انجیل پر ایمان لا کر دیگر اقوام عالم کو آپ کی نجات کی خوش خبری دینے کا وسیلہ بنے۔اناجیل اربعہ کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ شروع شروع میں آنخداوند کو بڑی امید تھی کہ قوم اسرائیل آپ پر ایمان لے آئے گی( لوقا ۱۰باب ، یوحنا ۶: ۱، ۵ وغیرہ)لیکن تلخ تجربہ نے آپ کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔(مرقس ۲: ۲۰۔ ۸: ۲۷ تا ۲۸۔ ۹: ۳۰ ، ۳۲ ۔۱۰: ۳۲تا ۳۴ ۔ متی ۲۳: ۲۹تا ۳۶ وغيرہ) آپ محسوس کرتے تھے کہ بنی اسرائیل آپ کے حقیقی شاگرد ہوسکتے ہیں(یوحنا ۸: ۳۱ تا ۳۲)اور خود سچائی سے واقف ہوکر اورنجات حاصل کرکے اقوام عالم کی نجات کا باعث بن سکتے ہیں (یوحنا ۴: ۲۲) لیکن اس نجات سے فیض یاب ہونے کے بجائے اہل یہود کی بے اعتقادی اور بے ایمانگی روز بروز ترقی کرتی گئی (یوحنا ۸: ۲۷، ۴۶ ۱۰: ۲۵، ۲۶ وغیرہ) اورچونکہ خدا کی محبت ان میں نہیں تھی( یوحنا ۵: ۴۲ )وہ خدا کے فرزند ہونے کے بجائے شیطان کے فرزند ہوگئے ( یوحنا ۸: ۴۲) منجی عالمین کی قوم نے آپ کو رد کردیا(متی ۲۱: ۳۳، ۴۵۔ ۲۲: ۵تا ۸۔ مرقس ۱۲: ۱تا ۱۰۔ لوقا ۱۴: ۱۶، ۲۴۔ ۲۰: ۹، ۱۷ ۔ یوحنا ۱: ۱۱۔ ۸: ۱۹، ۱۸: ۴۵تا ۴۷ وغيرہ) اور وہ آنخداوند کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے (یوحنا ۵: ۱۶تا ۱۸۔ ۸: ۳۷ ۔ ۱۱: ۴۷تا ۵۳)۔

کلمتہ الله کے دل میں اپنی قوم کے لئے تڑپ تھی۔ کیونکہ آپ کی محبت اہل یہود کے لئے غیر فانی تھی( متی ۲۳: ۳۷۔ لوقا ۱۳: ۳۴) آپ کےدل میں اس گردن کش قوم کے لئے جو خدا سے باغی تھے ایک درد تھا جو آپ کو چین لینے نہیں دیتا تھا۔ آپ اس قوم کی بے ایمانی پر بار بار نوحہ خواں ہوئے (متی ۱۷: ۱۷۔ ۸: ۱۲۔ ۱: ۱۵۔ ۱۲: ۴۱ ، ۴۳ لوقا ۱۱باب وغیرہ)۔آ پ کی نگاہ ہمیشہ بنی اسرائيل کے ان گمراہ لوگوں پر تھی جو آپ کے خیال میں" ان بھیڑوں کی مانند جن کا کوئی چرواہا نہ ہو خستہ حال اور پراگندہ تھے"(متی ۹: ۳۶ )بالخصوص اپنی زندگی کے آخر میں یہودی قوم کا خیال آپ کو ہر وقت ستاتا تھا(متی ۲۰: ۳۲۔ ۲۱: ۱۲تا ۱۴۔ ۲۱: ۲۸تا ۳۲۔ ۲۱: ۳۳، ۴۶۔ ۲۲: ۱۔ ۱۲۔ ۲۳: ۱۳، ۳۶، ۲۳: ۳۷ تا ۳۹ اور ۲۴باب وغیرہ) ذرا خیال کرو کہ روئے زمین کی تاریخ میں ذیل کے حسرت ناک الفاظ اپنا ثانی کہیں رکھتے ہیں؟ منجی عالمین یہودی قوم کومخاطب کرکے فرماتے ہیں ۔" اے یروشلیم ۔ اے یروشلیم ، تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کوسنگسار کرتا ہے۔ کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں۔ مگر تم نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہر گز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے "(متی ۲۳: ۳۷تا ۳۹)۔ " جب وہ (مسیح) ہیکل (بیت الله ) سے باہر جارہا تھا تو اس کے شاگردوں میں سے ایک نے اس سے کہا۔ اے استاد ۔ دیکھ یہ کیسے کیسے پتھر او رکیسی کیسی عمارتیں ہیں۔ یسوع نے اس سے کہا تو ان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھتا ہے ؟ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا ۔ جو گرایا نہ جائے "(مرقس ۱۳: ۱تا ۲) " جب اس (یسوع ) نے نزدیک آکر شہر کو دیکھا تو اس پر رویا اورکہا کاش کہ تو اپنے اسی دن میں سلامتی کی باتیں جانتا۔ مگر اب وہ تیری آنکھوں سے چھپ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ دن تجھ پر آئيں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اورہر طرف سے تنگ کریں گے اورتجھ میں کسی پتھر پر پتھر نہ چھوڑیں گے اس لئے کہ تونے اس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگاہ کی گئی "(لوقا ۱۹: ۴۱تا ۴۴)۔

خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

منجی عالمین اپنی زندگی کے آخری ہفتے میں اہل یہود کی برگشتگی پر بار بار اظہارِ تاسف کرتے (متی ۲۳باب) اور قوم اسرائيل کی قسمت پر روتے تھے۔ اس آخری ہفتہ کے شروع میں جب آپ یروشلیم تشریف لے گئے تو آپ نے ہیکل کو دیکھا جو یہود کی عبادت گاہ ہونی چاہیے تھی لیکن اس بد بخت قوم کےقائدین کی روحانیت کا یہ عالم تھاکہ :

ترک دنیا بمرود آموزند

خویشتن سیم وغلہ اندوزند

ان نام نہادر وحانی پیشواؤں کی حرص وآز (لالچ)نے بیت الله کو دعا کا گھر ہونے کے بجائے ڈاکوؤں کی کھوہ" بنا رکھا تھا(مرقس ۱۱: ۱۵تا ۱۸) منجی عالمین کی غيرت کی آگ شعلہ زن ہوئی اور آپ نے "ہیکل میں داخل ہوکر ان سب کو نکال دیا جو ہیکل میں خریدوفروخت کررہے تھے اور صرافوں کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں الٹ دیں اور ان سے کہا لکھاہے کہ میرا گھرا اقوام عالم کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم اسے ڈاکوؤں کی کھو بناتےہو"( مرقس ۱۱: ۱۵) قسی القلب سردار کاہن خدا سے اس قدر باغی ہوگئے تھے کہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے الٹا ابن ا لله کو " ہلاک کرنے کا موقعہ ڈھونڈنے لگے"( مرقس ۱۱: ۱۸) قوم یہود اوراس کے باغی پیشواؤں کی روحانیت اس قدر گرچکی تھی کہ وہ چوروں ، ڈاکوؤں اور بھیڑیوں کی طرح ہوگئے تھے( یوحنا ۱۰باب) ان کی حالت بےپھل انجیر کے درخت کی مانند ہوگئی تھی( متی ۲۱: ۱۹) جس کا مقابلہ حضرت میکاہ نے اپنے زمانہ کے قوم یہود کے روحانی افلاس سے کرکے فرمایا تھا۔ کہ اس قوم میں راست باز شخص شاذو نادر ہی ملتا ہے جس طرح بے پھل انجیر میں کوئی " گچھا نہیں ہوتا" (۷: ۱تا ۶۔ متی ۲۳باب) آپ اپنی قوم کی بڑی بھیڑ دیکھتے تھے اور آپ کو لوگوں پر ترس آتا تھا" کیونکہ وہ ان بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ حال اور پراگندہ تھے" (متی ۹: ۳۶) اسی قسم کے خیالات ابن الله کے آخری ایام میں آپ کے دل میں مکذب اور مکفر قوم یہود کے روساکی بابت لگا تار آرہے تھے جب آپ کو ہ کلوری کو مصلوب ہونے کے لئے جارہے تھے تو" لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ اور بہت سی عورتیں جو اس کے واسطے روتی پیٹتی تھیں اس کے پیچھے پیچھے چلیں " منجی عالمین نے جو الفاظ اپنی زبان صداقت بیان سے فرمائے وہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ گویہ سب گریہ وزاری ۔ آہ ونالہ ، بکاہ وفغاں آپ کی خاطر ہورہا تھا تاہم اس نازک وقت میں بھی جب آپ صلیب کے بوجھ کے نیچے لڑک کھڑا رہے تھے آپ کو اپنا خیال مطلق نہیں تھا بلکہ قوم اسرائیل کے حشر کا خیال آپ کو ستا رہا تھا چنانچہ آپ نے ان عورتوں کو ارشاد فرمایا " اے یروشلیم کی بیٹیو ! میرے لئے نہ روؤ بلکہ اپنے اوراپنے بچوں کے لئے روؤ ۔ کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جن میں کہیں گے مبارک ہیں وہ بانجھیں اور وہ رحم جو بار ور نہ ہوئے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے ۔ کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپالو۔ کیونکہ جب ہرے درخت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو سوکھے کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جائے گا"( لوقا ۲۳: ۲۷تا ۳۱)۔ منجی عالمین کے یہ الفاظ حضرت ہوسیع نبی کے صحیفہ میں وارد ہوئے ہیں۔ جہاں یہ رسول ِ قوم یہود کی روحانی پستی اور ذلت کا حال بیان کرکے اسرائیل کی قوم کی حالت پر واویلا کرتا ہے( ۱۲: ۱تا ۸) ۔یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ ایسے نازک وقت میں بھی جب لوگوں کی نظر ان کے اپنے دکھوں اور مصیبتوں پر قدرتی طور پر لگی ہوتی ہے ابن الله کی نگاہ اپنے مصائب اور اذیت پر نہیں بلکہ اپنی قوم کے روحانی افلاس اور پستی پر تھی۔ اورآپ قوم کی حالت دیکھ کر متاسف (افسوس کرنے والا)تھے۔

جب ہم کوہ کلوری کے باقی دو مصلوبوں کی حالت کا منجی عالمین کی حالت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں تو یہ نمایاں فرق ہم پر فوراً ظاہر ہوجاتا ہے۔ ان کی نظر ان کے جسمانی عذاب اور سزا کی جانب لگی ہے لہٰذا وہ صلیب پر کراہ کراہ کر اور دوسروں پر لعنت کرکے جان توڑ رہے ہیں(متی ۲۷: ۲۴) لیکن منجی عالمین کی نظر آپ کے جسمانی دکھوں پر نہیں تھی بلکہ قوم اسرائیل کی سرکشی اور برگشتگی پر لگی تھی۔ جب آپ کے ہاتھوں میں کیل ٹھونکے جارہے تھے۔ آپ نے قوم اسرائیل کے لئے دعا ئے مغفرت مانگی( لوقا ۲۳: ۳۴) جب آپ مصلوب ہوئے تو آپ کو صلیب کے جسمانی عذاب اور شرم کی پروانہ تھی (عبرانیوں ۱۲: ۲) بلکہ صلیب پر آپ کی نگاہ اپنی قوم بنی اسرائیل کے حسرت ناک انجام اوراس کے خوفناک مستقبل پر لگی تھی۔ آپ نے اپنے دل میں خیال فرمارہے تھے کہ اس قوم کا کیا حشر ہوگا جو خدا کے " انبیاء کو کوڑے مارتی ۔ شہر بشہر ستاتی، سنگسار کرتی اور مصلوب اور قتل کرتی چلی آئی ہے( متی ۲۳: ۲۹تا ۳۷) قوم اس کی روحانی پستی ، اور زبونی کی حالت کو دیکھ کر ابن الله کو بائیسواں (۲۲)زبور یاد آیا۔ کیونکہ قوم یہود کی موجودہ حالت مزمور نویس کے زمانہ کی حالت جیسی ہوگئی تھی ۔ پس آپ نے دونوں زمانوں کے قومی زوال میں مماثلت دیکھ کر اپنی زبان ِ صداقت بیان سے بڑی آواز سے چلا کرکہا۔ ایلی ۔ ایلی ۔ لما شبقتنی یعنی اے قوم اسرائیل کے خدا۔ اے قوم اسرائیل کے خدا تونے اپنی قوم کو کیوں چھوڑدیا؟ تونے اس قوم کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ تیرے نام اورنجات کو دنیا کی کل اقوام تک پہنچائے۔لیکن یہ قوم نہ صرف اپنے فرض ادا نہیں کرتی بلکہ تیرے مسیح کو بھی مصلوب کررہی ہے۔ اے باپ تو اس قوم کو معاف کر کیونکہ اس قوم کے لوگ نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں (لوقا ۲۳: ۳۴۔ متی ۲۷: ۴۶ وغیرہ)۔

اناجیل اربعہ کا مطالعہ ظاہر کردیتا ہے کہ آنحداوند کو مزامیر حفظ تھے۔ اگر آپ کو اپنے دکھوں اور اذیتوں ہی کا خیال ہوتا تو آپ دیگر زبوروں کی تلاوت فرماسکتے تھے۔ جو جسمانی اذیت اور عقوبت کے وقت ان کی اپنی تسلی کا باعث ہوسکتے تھے۔ مثلاً آپ جانکنی کے موقعہ پر زبور ۲۳: کے الفاط کو دہرا سکتے تھے۔"خداوند میراچوپان ہے۔۔۔۔مجھے کمی نہ ہوگی ۔۔۔۔بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تو (اے خداوند ) میرے ساتھ ہے۔۔۔۔ میں ہمیشہ خداوند کےگھر میں سکونت کروں گا"۔ لیکن حضرت ابن الله نے نہ تو اس زبور کی اور نہ اس قسم کے کسی دوسرے زبور کی صلیب پر سے تلاوت فرمائی کیونکہ منجی عالمین کو صلیب پر اپنے جسمانی عذاب کا خیال تک نہ تھا بلکہ آپ کو اپنی قوم کے عبرت ناک حشر کا خیال دامنگیر تھا۔ چونکہ ابن الله مجسم محبت تھے اور محبت اپنی خودی پر دھیان نہیں کرتی (۱ کرنتھیوں ۱۳: ۵) پس ابن ِ الله صلیب پر اپنے دکھوں پر نہیں ۔ بلکہ قوم اسرائيل کے حسرت ناک انجام کا خیال فرمارہے تھے۔ مقدس پولوس رسول اس عجیب ماجرے سے متاثر ہوکر فلپیوں کی کلیسیا کو نصیحت کرکے فرماتا ہے۔" ہر ایک اپنے اہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسرے کے احوال پر بھی نظر رکھے ۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا"(فلپیوں ۲: ۴تا ۵)منجی عالمین نے موت کی تلخی اور جان کنی کی حالت میں اپنا خیال نہ کیا( رومیوں ۱۵: ۳) اور" اپنے احوال پر نظر " نہ کی بلکہ قوم اسرائیل کا حشر اور مستقبل آپ کی نظروں کے سامنے تھا( جس طرح گزشتہ زمانہ میں وہ مزمور نویس کے سامنے تھا) پس مزمور نویس کے ہم خیال ہوکر آپ نے اس کے الفاظ کو دہرایا اور آیہ زیربحث کی تلاوت کرکے فرمایا " ایلی ۔ ایلی ۔ لما شبقتنی " چنانچہ آبائے کلیسیا ء میں سے ایک بزرگ لکھتا ہے ۔

’’اس کا مطلب یہ تھا کہ تونے قوم اسرائیل کو کیوں چھوڑ دیا کہ وہ تجھ سے اس حد تک برگشتہ ہوگئی ہے کہ تیرے بیٹے کو مصلوب کررہی ہے‘‘۔

ادھر منجی عالمین کو اہل یہود کی برگشتگی کی وجہ سے( زبور ۲۲ : ۱) یاد آئی ۔ اور ادھر یہودی قوم کے زعماء اور قائدین اسی زبور کے الفاظ (زبور۲۲: ۷، ۸) میں ابن الله کا مضحکہ کررہے تھے۔ چنانچہ انجیل متی میں وارد ہے کہ" سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کے ٹھٹھے سے کہتے تھے۔اس نے اوروں کو بچایا ۔ اپنے تئیں نہیں بچاسکتا ۔ اس نےخدا پر بھروسہ کیاہے۔اگر وہ اسے چاہتا ہے تو اب اس کو چھڑالے"(زبور ۳۷: ۴۱تا۴۳، لوقا ۲۳: ۳۵) ابن ِا لله کا دل اہل یہود کی بے اعتقادی کے باعث پہلے ہی چھنا پڑا تھا۔ ان الفاظ نے دل کےزخم پر نمک پاشی(نمک چھڑکنا ،تکلیف دینا) کا کام کیا۔کیونکہ اب اس قوم کے سردارکاہن تک خدا پر بھروسہ رکھنے کو الٹا ایک طعنہ کا امر قرار دے رہے تھے۔ حالانکہ ان کا فرض منصبی یہ تھاکہ ایسی حالت میں لوگوں کو خدا پر بھروسہ رکھنے کی تلقین کرتے۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست

پس آنخداوند نے " بڑی آواز سے چلا کر فرمایا" اے بنی اسرائيل کے خدا ۔ اے بنی اسرائیل کے خدا تونے قوم اسرائیل کو کیوں چھوڑ دیا ہے کہ ا س کے سردار کاہن تک تجھ سے اس قدر باغی ہوگئے ہیں کہ تجھ پر بھروسہ رکھنا بھی معیوب بات خیال کرتے ہیں اور تیرے مسیح کو ملعون گرادنتے ہیں؟( مقابلہ کرو زبور ۶۹: ۹وغیرہ)۔

سردار کاہنوں نے صرف طعنے دینے پر ہی اکتفا نہ کی بلکہ انہوں نے (زبور ۲۲) کی مختلف آیات میں جن مصائب وآلام کا ذکر ہے ان کا آپ کو نشانہ بنا کر چھوڑاتا کہ حدیکہ صلب پر آپ کی بیرونی اور خارجی حالت عین اس زبور کے مصداق ہوگئی۔ مثلاً صلیب پر آپ کے مبارک ہاتھوں اور پاؤں کو چھیدا گیا(زبور ۲۲آیت ۱۶۔مرقس ۱۵: ۱۳، ۱۴، ۲۴) صلیب پر آپ کے جسم اطہر اور ہڈیوں کو کھینچا اورتانا گیا۔ (آیت ۱۴، متی ۲۷: ۳۵) آپ کے کپڑوں پر قرعہ ڈالا گیا۔ (زبور ۲۲ : ۱۸، ومرقس ۱۵: ۲۴ ؛ یوحنا ۱۹: ۲۳، ۲۴) آپ کی اذیت کی حالت میں آپ کو تاکا اور گھورا گیا۔ (زبور۲۲: ۱۷ ؛ متی۲۷: ۴۳۔ لوقا ۲۳: ۳۴، ۳۵) آپ کے دشمنوں نے آپ کو دلخراش طعنے سنائے (زبور ۲۲: ۷، ۸ ؛ متی ۲۷: ۳۹تا ۴۴)۔ وغیرہ وغيرہ۔ یہ سب باتیں ایسی تھیں کہ قدرتی طور پر آنخداوند کے ذہن میں(زبور ۲۲: ۱) آئی اورآپ نے اس کی تلاوت فرما کر قوم یہود کی برگشتگی پر اظہارِ تاسف فرمایا اورکہا ۔ اے قوم اسرائیل کے خدا۔ اے قوم اسرائیل کے خدا۔ تونے قوم اسرائیل کو کیوں چھوڑ دیا؟"۔

منجی عالمین کی جو بیرونی حالت صلیب پر تھی اس کی مطابقت اس زبور کے ساتھ اس حد تک ہے کہ آبائے کلیسیاء میں سے ایک بزرگ ٹرٹولین کہتا ہے کہ

" یہ زبور مسیح کے دکھوں پر مشتمل ہے"۔

دورِ حاضرہ میں بھی مسیحی کلیسیا اس کو مبارک جمعہ کے روز پڑھتی ہے جب وہ منجی عالمین کی مبارک موت کی یادگاری کرتی ہے اور عبرانیوں کے خط کا مصنف آیات ۲۲تاآخر کا اطلاق ابن الله پر کرتاہے۔ کیونکہ یہ زبور امید اورمحبت کے الفاظ پر ختم ہوتاہے(۲باب )۔

یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ اس زبور کی کسی آیت میں بھی (زبور ۵۱ )کی طرح گناہ کا اقرار موجود نہیں۔ اورنہ اس کی کسی آیت میں دشمنوں پر لعنت کی گئی ہے پس اگر حضرت کلمتہ الله نے اپنی جانکنی کی حالت میں تمام کے تمام مزمور کی تلاوت کی بھی ہو تو جائے تعجب نہیں ۔ کیونکہ آپ کو یہ احساس تھاکہ اس مزمور اور یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے " خادم یہوواہ" اور کتاب( حکمت ۱۲: ۱۲ تا ۲۰ )آیات میں راستباز کے جن دکھوں کا ذکر ہے وہ آپ کی ذات ِ قدسی صفات میں بدرجہ احسن پورے ہورہے ہیں۔

ہم نے مرحوم مولوی صاحب کے سوال کا تشفی بخش جواب صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام متلاشیان ِحق پر اب واضح ہوگیا ہوگا کہ منجی کونین نے صلیب پر جان دیتے ہوئے آیہ زیر بحث کو کیوں پڑھا؟ اس آیہ شریفہ کی مندرجہ بالا تاویل صرف صحیح اصول تفسیر پر مبنی ہے۔ یہ تفسیر مزمور نویس کے خیالات کا صحیح نقشہ ہے اور ۲۲ویں زبور کے قرائن اور سباق وسیاق اس کے حامی ہیں۔ یہ تفسیر آنخداوند کے خیالات ، کلمات اور جذبات اور معتقدات کے مطابق ہے اور آپ کی روحانی حالت اورتجربہ۔آپ کا حقیقی منشا اور مطلب آپ کا پروگرام اور طرز ِعمل سب اس تفسیر کی تصدیق کرتے ہیں۔ کتب مقدسہ کی زبان، الفاظ اور محاورات سے اس کی تائید ہوتی ہے اورانجیل جلیل کی آیات محکمات جن کا فکر باب دوم میں کیا گیا ہے اس تفسیر کی موید(معاون ،مدد کرنے والا) ہیں۔ پس ہماری مرحوم کی تاویل کی طرح تفسیر بالرائے نہیں ہے ۔ بلکہ صحیح تفسیر ہے جو صرف صحیح اصول پر مبنی ہے۔

اختلافِ قرات

مولوی ثناء الله صاحب باوجود دعویٰ ہمہ دانی (صفحہ ۳۸) مسیحیت کی کتُب مقدسہ سے اس درجہ نابلد(ناواقف) ہیں کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کتُب کس زبان میں لکھی گئیں تھیں۔اور مناظر ہونے کے باوجود وہ بچارے ان زبانوں سے بھی آشنا نہیں۔ پس ہم ان سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ وہ انجیل کی مختلف قراتوں اور ترجموں سے واقف ہوں۔ ہم ناظرین کی واقفیت کی خاطر آیت زیر ِ بحث کی مختلف قراتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔

(الف۔) آرامی قرات۔ ہم باب دوم میں بتلاچکے ہیں ۔ کہ آنخداوند کی مادری زبان آرامی تھی۔ پس اصل انجیل جو اس زبان میں لکھی گئی تھی وہ کلمتہ الله کے کلمات طیبات پر خاص طور پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس انجیل میں یہ آیہ شریفہ یوں ہے ۔

" اے میرے خدا۔اے میرے خدا ۔ میں اس گھڑی کے لئے پیدا ہوا تھا"۔

یہ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب کا اعتراض اس قرات پر سرے سے وارد نہیں ہوسکتا ۔ اس قرات کے ساتھ (یوحنا ۱۲: ۲۷)کے الفاظ کا مقابلہ کرو:

(ب۔)" اے میرے خدا ۔ اے میرے خدا ۔ تونے مجھے کیسا جلال بخشا ۔"

(ج۔) " اے میرے خدا۔ اے میرے خدا ۔ تونے مجھے کیوں رسوا ہونے دیا۔"

مذکورہ بالا دو نو قرائیتں کتاب Mission and Message of Jesus کے صفحہ ۱۹۶ پر درج ہیں آپ کا اعتراض ان دونوں قراتوں پر بھی وارد نہیں ہوسکتا۔

(د۔) ایک اور قرات ہے جو یہودی عالم ڈاکٹر مونٹی فیوری مرحوم (Montefiore) نے اپنی تفسیر اناجیل ثلاثہ پر لکھی ہے اور وہ یہ ہے ۔

" اے میرے خدا ۔ اے میرے خدا تونے مجھے کیوں طعن اور تشنیع کا نشانہ ہونے دیا"۔

مرحوم لکھتے ہیں کہ اس قرات کو جرمن نقاد ڈاکٹر ہارنیک درست تسلیم کرتا ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب کا اعتراض اس قرات پر وار دنہیں ہوتا۔

(ہ۔) " اے میرے خدا ۔ اے میرے خدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا "؟ ہم نے سطور بالا میں ثابت کردیا ہےکہ مولوی صاحب کا اعتراض جو آپ نے اس قرات پر کرتے ہیں باطل ہے کیوں کہ آپ نے اس اعتراض کرنے میں ہر صحیح اصول ِ تفسیر کو طاق ِ نسیاں (بھول جانا)پر رکھ دیا ہے۔۔۔۔

چوں بشنوی سخن اہل ِ دل مگوکہ خطاست

سخن شناس نہ دلبرا خطا ایں جاست

آیہ زیرِ بحث اور مسئلہ کفارہ

مرحوم ثنا ء الله نے اپنے اعتراض میں جو اس رسالہ کے باب اول میں نقل کیا گیا ہے۔ آیہ زیر بحث " ایلی ۔ ایلی ۔ لماشبقتنی کو مسئلہ کفارہ سے متعلق کیا ہے۔

ہمیں اس بات پر تعجب آتا ہےکہ آپ جیسے کہُنہ مشق اور سال خوردہ مصنف نے کس منطق کی رو سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ آیت مسئلہ کفارہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس آیت میں بلکہ سیاق وسباق کی پوری عبارت اور باب میں گناہ یا گناہ کے بوجھ کا یا کفارہ کا ذکر تک نہیں ملتا۔ اگر یابالفرض محال مولوی صاحب کے اعتراض کو ایک لمحہ کے لئے تسلیم بھی کرلیا جائے کہ " خدا نے مسیح کو ترک کردیا تھا"۔ تو بھی ہم کو کہیں اس بات کا نام ونشان نظر نہیں آتا کہ اس کے ترک کردینے کا باعث دنیا کی نافرمانی اورگناہ تھا اورکہ خدا باپ نے اپنے بیٹے کو جہان کے گناہ کی سزایوں دی کہ اس کو " چھوڑ دیا" ۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے تو آپ مسیحی کفارہ کا مفہوم سرے سے نہیں سمجھے ۔ مسیحی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ مسیح کو صلیب پر دنیا کے گناہوں کی سزا ملی بلکہ کفارہ کا عقیدہ یہ ہے کہ " مسیح ہمارے گناہوں کے لئے موا" (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔ " مسیح بے دینوں کی خاطر موا"۔ جب ہم گنہگار ہی تھے۔ مسیح ہماری خاطر" موا" ۔ " خدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلے سے ہمارا میل ہوگیا" (رومیوں ۵: ۶، ۸، ۱۰ وغیرہ)۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن معترض " دنیا کے نور" کی دشمنی میں روشنی سے دور جا پڑے ہیں ۔

اگر اس آیہ شریفہ کا تعلق مسئلہ کفارہ سے ہوتا تو مقدس پولوس یا مقدس پطرس یا مقدس یوحنا یا انجیلی مجموعہ میں سے کوئی مصنف تو اس کو اپنی مختلف تحریروں یا تقریروں میں مسئلہ کفارہ کے ثبوت میں پیش کرتا ۔ انجیل جلیل کی کتُب مقدسہ میں سے کتاب اعمال الرسل اور مکتوبات کی ایک ایک سطر پڑھ لو تم کو اس قسم کا کوئی فقرہ یا کلمہ نہیں ملے گا۔ جس سے اس باطل نتیجہ کو تقویت مل سکے۔ ان سب کی معنی خیز خاموشی یہ ثابت کررہی ہے کہ آ یہ زیر بحث کا مسئلہ کفارہ کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ جب معترض کے استد لال کی بنیاد انجیل جلیل کی کسی ایک آیت پر بھی نہیں تو ان کی ضد اور ہٹ دھرمی میں کیا شک رہ گیا۔ ھاتو برھا نکمہ ان کنتمہ صادقین۔

آیہ زیر بحث اور مسئلہ تجسم

ہم نے باب اول میں مولوی صاحب کے اعتراضات کو نقل کیا ہے کہ جو آپ نے اس آیہ شریفہ پر کئے ہیں۔ آپ اپنی کتاب" اسلام اور مسیحیت " میں بڑے طمطراق (شان وشوکت،غرور)کے ساتھ کہتے ہیں۔

"ہم پادری برکت الله صاحب اینڈ پارٹی اوران کی معرفت کل مسیحی دنیا سے سوال کرتے ہیں کہ انجیل متی کا یہ فقرہ کہ " مسیح نے صلیب پر چلا کر جان دی"۔ اس چلا کرجان دینے کے وقت بھی مسیح مجسم خدا تھا یا نہیں اوراس میں اور خدا میں کوئی مغائرت تو نہ تھی پھر چلا کر جان کس نے دی؟ یہاں پہنچ کر ہم تو رک جاتے ہیں آپ ہی بتائيے کہ وہ کون تھا؟

ع " اگر تم زبان سوز "

(صفحہ ۶۶)

ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیحی عقیدہ یہ ہےکہ نعوذ باالله خدا مصلوب کیا گیا۔ اعتراض ظاہر کرتا ہےکہ یہ بیچارے نرے مولوی ہی ہیں اور مسیحی عقائد کے علم اور تاریخ سے بالکل کورے ہیں۔ان کو کیا معلوم کہ انیس سو سال سے جمہور کلیسیائے جامع نے اس قسم کے نظریہ کو کفر قرار دے دیا ہوا ہے۔ مولانا نے مسئلہ تجسم اور الوہیت مسیح کو سمجھا ہی نہیں۔ہم نے ماناکہ آپ ان مسائل کو نہیں مانتے لیکن آپ کو ان مسائل (جن پر آپ اعتراض کرتے ہیں) کے سمجھنے کی کم از کم کوشش تو کرنی چاہیے ۔ آپ میری کتابوں کو جہاں اس مسائل کا ذکر کیا گیا ہے غور سے دوبارہ پڑھیں تب آپ پر واضح ہوجائے گا کہ یہ اعتراض مسیحیت پر سرے سے وارد ہی نہیں ہوتا ۔ اس سلسلہ میں ہم معترضین کی توجہ بالخصوص اپنی کتاب توضیح العقائد کے پہلے چند ابوب کی جانب مبذول کرتے ہیں۔

اگر مرحوم نے میری کتاب" دین فطرت ۔ اسلام یا مسیحیت " اور رسالہ مسیحیت کی عالمگیری "(جن کا جواب وہ لکھنے بیٹھے تھے) بغور مطالعہ کیا ہوتا تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم کس معنی میں خدا کو " غالب علی الکل یا قدرتوں اور طاقتوں کا مالک مانتے ہیں۔ وہ خود دیکھ لیتے کہ ان کا یہ مایہ ناز اعتراض (جس کا بتکرار اعادہ کیا جاتا ہے) بالکل بے معنی رہ جاتاہے لہٰذا ہم آپ کی توجہ پھر اول الذکر کتاب کے صفحہ ۳۴ اور موخر الذکر کتاب کے صفحہ ۳۱ کی طرف مبذول کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ عاقل را اشارہ کافی است۔ ہم نے ان کی کتاب میں بہتیرا ڈھونڈا کہ کہیں انہوں نے ان صفحوں کے مضمون پر کچھ لکھا ہو۔ لیکن آپ نے ہر جگہ اس اہم اور بنیادی نکتہ کو نظر انداز کردیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہےکہ ان سے اس کا کوئی جواب بن نہیں پڑا اور یا "طبعیت کی کمزوری اور عوارض(عارضہ کی جمع ،بیماریاں ،دکھ ،مرض) کی کثرت" نے ان کو اپنے مخاطب کے نظریہ کو یہ سمجھنے کی فرصت نہیں دی تھی۔

اگر کتاب" اسلام اور مسیحیت " خاکسار کی کتابوں کے جواب میں لکھی گئی تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ مولوی صاحب نے ان اہم مسائل کفارہ اور تجسم کا ذکر کرتے وقت ہماری تصنیف کردہ کتابوں کو نظر انداز کرکے دیگر مناظرین کی کتُب کو لے کر ان پر مفصل بحث کی ہے؟ مثلاً الوہیت مسیح کی بحث میں آپ نے ایک قدیم مسیحی گیت پر (جو ڈیڑھ ہزار سال ہوئے لکھا گیا تھا اور جس کا ذکر تک میری کتُب میں نہیں آتا ) بحث کی ہے ۔ (صفحہ ۵۶تا ۵۷) اور پادری فنڈر کی کتاب میزا ن الحق مطبوعہ ۱۸۹۲ء کا (صفحہ ۵۹) پادری ہیئر س کی کتاب کا (صفحہ ۵۶تا ۵۷) ریئس المناظرین پادری عبد الحق صاحب کے رسالہ اثبات التثلیث کا (صفحہ ۶۱تا ۶۳ ، ۲۰۱ وغیرہ) رسالہ اخوت کا (صفحہ ۶۵) مرحوم ڈپٹی عبدالله آتھم صاحب کی جنگ مقدس کا (صفحہ ۶۷) اقتباس کرکے ان کی عبارتوں پر اعترض کئے ہیں۔ اسی طرح کفارہ کی بحث میں آپ نے پادری گولڈ سیک کی کتاب (صفحہ ۱۲۰تا ۱۲۱) رسالہ المائدہ کا صفحہ ( ۱۲۳) مرحوم پادری ٹامس ہاول کی کتاب کا (صفحہ ۱۲۳تا ۱۲۴) کا ذکرکے ان پر اعتراض کئے ہیں اورپھر خاکسار سے ان کے جواب کا مطالبہ کرتے اور مجھے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ

"پادری برکت الله صاحب ۔ بقول گونگے کی بولی گونگے کی ماں سمجھے آپ ہی بتلائیے وغیرہ وغیرہ "

’’ صفحہ ۱۲۴‘‘

پادری گولڈ سیک کا یہ قول پادری برکت الله صاحب کو بھی مسلم ہونا چاہیے ۔ اس لئے اب پادری صاحب ہمارے سوالات ٹھنڈے دل سے سن کر ان پر غور کریں وغیرہ وغیرہ " صفحہ ۱۲۰" پادری عبدالحق صاحب چونکہ منطقی تقریر کیا کرتے ہیں۔اس لئے ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ " (صفحہ ۶۱)۔

ناظرین خدارا آپ ہی بتلائیے مولوی صاحب ان اصحاب کا جواب لکھنے بیٹھے تھے یا خاکسار کی کتابوں کا جن کو آپ نے کفارہ اور تجسم کی بحث کے دوران میں بالکل نظر انداز کردیا ہے؟ آپ تو ہم کو آدابِ مناظرہ سکھانے چلے تھے(صفحہ ۱۲، ۱۴، ۱۵)کیا مناظرہ اور مباحثہ کے آداب یہی ہیں ؟ اگر آپ ہماری کتُب کو نظر انداز نہ کرتے تو ہم کو آپ سے ان کو دوبارہ بغور مطالعہ کرنے کی ناگوار درخواست نہ کرنا پڑتی ۔ اور اگر آپ نے میری دیگر کتُب کو بھی دیکھ لیا ہوتا تو آپ کو اپنی" عمر کی آخری منزل" میں چند ایک بوسیدہ اعتراضات کو اپنی کتاب میں بار بار دہرانے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ مثلاً اگرآپ نے میرا رسالہ" اسرائیل کا نبی یا جہان کا منجی "؟ (جس کا ذکر میں نے " مسیحیت کی عالمگیری " کے دیباچہ میں کیا تھا)دیکھا ہوتا تو آپ (مرقس ۷: ۲۴ تا ۳۰ اور متی ۱۵: ۲۱تا ۲۸ )پر اعتراض کرنے کی بار بار زحمت نہ اٹھاتے (صفحہ ۲۲، ۱۵۷ و ۲۰۵ وغیرہ) پھر اگر آپ نے میری کتاب " کلمتہ الله کی تعلیم" (جس کا ذکر " مسیحیت عالمگیری " کے دیباچہ (صفحہ ۶) میں کیا گیا ہے )پڑھا ہوتا۔ تو آپ کو مسیحیت اور شریعت پر بار بار بحث نہ کرنا پڑتی (صفحہ ۱۳، ۸۸ تا ۹۲، ۱۳۷ وغیرہ)۔

مولوی صاحبان سے اپیل

ہم نے مولوی ثناء الله صاحب اوران کے ہم خیالوں کو آیہ زیر بحث کی صحیح تفسیر سنا کر ان پر اتمام حجت کردی ہے پس ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے پھر ایک بار اپیل کریں کہ وہ اس ادبی ، تضحیک اور توہین کے لئے اور ان ناسزا کلمات کے لئے جوانہوں نے حضرت کلمتہ الله وروح الله کے حق میں اپنی من گھڑت تاویل کے زیر اثر روا رکھتے ہیں بارگاہِ ایزوی میں خشوع وخضوع (عاجزی )کے ساتھ توبہ کرکے خدا سے معافی کے طلبگارہوں۔ روزِ حشر جس خدا کے سامنے وہ جائیں گے وہ ان کو مخاطب کرکے تنبیہ کرتا ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ

ترجمہ: یعنی کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں کدھر کوبہکے چلے جارہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب جو جھٹلاتے ہیں اور ان کتابوں اور صحیفوں کو بھی جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں اورنبیوں کی معرفت بھیجے ہیں۔ سو آخر کار ان کو اس جھٹلانے کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔ جب کہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے ۔اور طوق کے علاوہ زنجیریں۔ پانی پلانے کے لئے گھسیٹتے ہوئے ان کو جلتے پانی میں لے جائیں گے ۔ پھر آگ میں جھونکنے جائیں گے۔ (سورہ مومن آیات ۷۳تا ۷۵)۔

مولوی صاحب نے فرمایا ہے " یہودی مسیح کے حق میں اپنی ناراضگی کااظہار ایسے سنگین لفظوں میں کرتے تھے کہ ع

" اگر گوئم زباں سوزہ "

صفحہ ۳۹۔

لیکن اس پر بھی آپ نے ناشائستہ الفاظ اپنے قلم سے نکالے۔آپ نہ صرف یہود کے " سنگین لفظوں " کوبلکہ مرزائے قادیانی کو بھی (جو بقول آپ کے " دُرشت کلامی میں مہارت نامہ رکھتے تھے"۔اہل ِحدیث ۱۵ مئی ۱۹۴۲ء مات کرگئے۔ کیونکہ جہاں تک ہم کو ان کی تصنیفات پڑھنے کا ناگوار اتفاق ہوا ہے سب نے اپنے اعتراضات کو" الفاظ کی شکل" (صفحہ ۱۰۷) تک ہی محدود رکھا تھا۔ کسی کے ہذیان نے آپ کی طرح اس سے تجاوز کرکے ایک گھنونی "تصویر کی شکل" (صفحہ ۱۰۷) اختیار نہ کی تھی۔

ہم پیروی قیس نہ فرہاد کریں گے

ہم طرزِ جنوں اور ہی ایجاد کریں گے

مولوی صاحب نے اپنی کتاب" اسلام اور مسیحیت " میں مسیح مصلوب کی ایک نہایت بھونڈی او ردل آزار تصویر شائع کی تھی(صفحہ ۱۰۹) جس پر ہم نے اخبار اُخوت لاہور میں میں صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ لیکن مولوی ثناء الله صاحب اپنے شرمناک فعل پر نادم ہونے کے بجائے

" عذر گناہ اور بدتر ازگنا" نہایت بے باکی سے فخر یہ کہتے ہیں " اس تصویر میں مسیح کو مولویانہ شکل میں دکھایا گیا ہے۔مثلاً داڑھی گھنی ، مونچھیں شرعی اور سر پر بال رکھے ہوئے اچھی صالحانہ شکل نظر آتی ہے ۔"

(اہل حدیث ۲۶ فروری جون ۱۹۴۲ء)

قادیانیوں نے بدیں خیال کہ مبادا مولوی ثناء الله مسیح کی توہین میں ہم سے سبقت لے جائے قادیان کے سرکاری گزٹ الفضل میں اس کو شائع کردیا کیونکہ بحکم اھل بیت اعرف فی البیت (گھر والے گھر کی بات جانتے ہیں ) یہ دونوں ایک دوسرے کے باطن سےواقف ہیں۔ اس طرز عمل سےدونوں اخباروں کے ایڈیٹروں نے اس مکروہ حرکت سے اپنا اور دیگر نام نہاد مسلمانوں کا د ل خوش کرکے حضرت روح الله سےقساوت(بے رحمی) قلبی کاثبوت دے دیا۔

مولوی ثناء الله صاحب بھول گئے کہ انگریزی ہفتہ وار اخبار پیرسن نےاپنی ۱۰ فروری ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں رسول عربی، بی بی عائشہ اوربلال کی تصاویر شائع کی تھیں جس پر ہندوستان کے طول وعرض میں کہرام مچ گیا تھا۔تمام اسلامی جرائد نے(جس میں آپ بھی شامل تھے)۔ قیامت صغریٰ برپا کردی تھی۔ اس واویلا کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ گورنمنٹ نے اس اخبار کے مضمون کو ضبط کرلیا تھا۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے تھے۔ لیکن مسیحی کلیسیا عوام الناس میں زبردست ہیجان اور بے چینی پیدا کرکے گورنمنٹ سےسزا کا مطالبہ کرنے کا وطیرہ اختیار نہیں کرتی۔

لطیف طبع کو لازم ہے سوزغم بھی لطیف

بلند آتش کل کا کبھی دھوآں نہ رہا

ہم اپنے آقا اور مولا ربنا المسیح کے اسوہ حسنہ پر چل کرمرحوم مولوی ثناء الله صاحب اور آنجہانی مرزائے قادیانی کی زیارت کے حق میں خدائے غفور الرحیم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ خدا ان سب کو معاف فرمائے اور وہ قعر ِ مذلت سے نکل کر نجات ابدی حاصل کریں۔ آمین ثم آمین۔

مرحوم مولوی ثناء الله صاحب حدیث کی حجیت کے قائل اور امام بخاری کے پجاری تھے۔ امام صاحب کی صح الکتب بعد از کتاب الله کے چوبیسویں پارہ کتاب اللباس میں چودہ حدیثیں موجو دہیں جن میں تصویروں کی مذمت اور تصویر بنانے والوں کی سخت سزا کا ذکر ہے جس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔لکھاہے کہ رسول الله نے ارشاد فرمایا کہ " جس گھر میں کتا ہو یا تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے "۔ اورکہ " جو لوگ تصویریں بناتے ہیں قیامت کے روز ان کو عذاب دیا جائے گا "۔ عبد الله بن مسعود سے روایت ہے کہ " میں نے رسول الله سے سنا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن تصویریں بنانے والوں کو دیا جائے گا "۔ مولوی صاحب نے تو یہ خیال کیا تھا کہ یہ مکروہ تصویر ان کی " نجات کا ذریعہ" ہوگی (صفحہ الف) لیکن مندرجہ بالا احادیث کی رو سے وہ جہنم کے شدید ترین عذاب کے مستحق ہوگئے ۔ اس قسم کے ذووالجہین قرآن وحدیث سے منحرف ہوکر یہ خیال نہ کریں کہ وہ مواخذہ خداوندی سے چھوٹ جائیں گے ۔ چنانچہ عبدالله بن عمر روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ جبرائیل نے حضرت سے آنے کا وعدہ کیا اوربہت دیر ہوگئی۔ رسو ل خدا کوبڑا انتظار ہوا۔ آخر کار آپ گھر سے باہر نکلے تو وہاں جبرائیل ملے۔ آپ نے دیر سے آنے کی شکایت کی۔ جبرائیل نے کہا مجھے اس لئے گھر میں آنے کا تامل ہواکہ جہاں تصویر ہو یا کتا ہو وہاں ہم نہیں آتے‘‘۔ جب رحمت کے فرشتے رسول الله کے گھر میں نہ گئے تو ان لوگوں کی کیا حقیقت ہے کہ ان کو جہنم کا شدید ترین عذاب نہ ملے گا؟ مولوی صاحب " اسلام اور قرآن مجید سے مدافعت "۔ (صفحہ الف) کا عاقبت نا اندیشی سے نرالہ طریقہ ایجاد کیا۔(صفحہ ۱۰۷) اور دوسروں کا شگون بگاڑنے کی خاطر اپنے لئے عاقبت کا عذاب مول لے لیا۔ اس میں وہ آنجہانی مرزائے قادیانی (غفر الله ذنوبہ) کے نقش قدم پر چلے ۔ (ریویو آف ریلجینس ۔ قادیان بابت فروری ۱۹۴۲ء صفحہ ۵۵) اور قرآن کو بھول گئے ۔ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔ وہ خدا کو بھول گئے ۔ پس خدا بھی ان کو بھول گیا۔ بے شک وہ فاسق ہوگئے۔ (سورہ توبہ آیت ۶۸)۔

سمجھائیں جائیں گے تمہیں ہر لحظہ ہر گھڑی

مانو نہ مانو اس کا تمہارا اختیار ہے

مولوی ثناء الله اور مسیح کی دعائے مغفرت

مولوی ثناء الله صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں

’’ مسیح کو دشمنوں نے ستایا اور آپ نے ایسے وقت میں معاف کیا جب کہ آپ بدلہ نہ لے سکتے تھے۔ مگر رسول عربی نے اپنے ظالم دشمنوں کو ایسی حالت میں معاف کیا جب کہ آپ ابروئے چشم کے ایک اشارے سے سب کا قتل عام کراسکتے تھے‘‘۔

تواضع زگردن فرازاں نکوست

گداگر تواضع کند خوئے اوست

(صفحہ ۱۶۵)

ہم اس بات سے قطع نظر کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت روح الله کی شان میں یہاں اور (صفحہ ۴۸ )اور دیگر مقامات میں مرزائے قادیانی کی طرح سب وشتم روا رکھا ہے۔ مولانا کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسی شخص کی دعائے مغفرت خدا کے حضور قابل قبول اورانسان کے نزدیک قابل تحسین ہے جس میں بدلہ لینے کی خواہش اور طاقت ہو۔ اوراس کے باوجود وہ بدلہ نہ لے کلمتہ الله میں جذبہ انتقام تو نہیں تھا۔ کیونکہ آپ اس کو نہ صرف مکروہ بلکہ حرام سمجھتے تھے( متی ۵باب ۔۱۸باب ، مرقس ۱۱: ۲۵ وغیرہ) گو آپ بدلہ لینے پر قدرت او راختیار رکھتے تھے(متی ۲۶: ۵۳ ۔ یوحنا ۱۰: ۱۷۔ فلبیوں ۲: ۸ وغيرہ)۔پس آپ کی یہ شرط بھی پوری ہوگئی لیکن آپ کا مفروضہ جو اس اعتراض کی بنا ہے غلط ہے۔ دیکھئے جب رسول عربی اور مسلمانوں پر مکی زمانہ میں طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تو آپ ان کو منجی عالمین کا نمونہ دکھلا کر تسلی دیتے اور فرماتے " تم سے پہلے ایک نبی تھے۔ ان کی قوم نے اس کو اس قدر مارا کہ خون آلود کردیا اور وہ نبی اپنے منہ پر سے خون پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے۔ اے الله میر ی قوم کی خطاؤں کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے "۔(بخاری جلد سوم صفحہ ۲۴۹) جب آپ کو جنگ ِ اُحد میں کفار کے ہاتھوں شکست ملی اور آپ کا سر اور چہرہ زخمی کیا گیا اور آپ کے دانت توڑدئے گئے کیا آپ کا صبرو برداشت اس زمانہ میں آپ کے فارسی شعر کے مصداق تھا اور آپ کی تواضع " گدایانہ " تھی؟

مولوی صاحب غلط فرماتے ہیں کہ رسول عربی نے فتح مکہ کے روز اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔ اس روز آپ نے سیاسی تدبیر اور دور اندیشی سے کام لے کر ساکنین مکہ کو پناہ دی تھی۔ حقیقت یہ ہےکہ آپ نے بدترین دشمنوں کو معاف نہیں کیا تھا بلکہ ان خون ہدر کردیا اورحکم دیا تھا کہ ان کو جہاں پاؤ مار ڈالو۔ ان دشمنوں میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھیں ۔ کیاآنحضرت نے جنگ بدر کی فتح کے بعد ابوجہل، نضر بن حارث، عقبہ بن معیط، وغیرہ بد ترین دشمنوں کو معاف کردیا تھا؟ کیا کعب بن اشرف، حئی بن اخطب ، سلام بن ابی الحقیق وغیرہ معاف کئے گئے تھے؟ کیا یہود کے قبیلہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل نہیں کئے گئے تھے ؟ اگر مولوی صاحب تاریخ محمدی سے اس درجہ ناواقف ہیں تو ہم ان کی توجہ مشارق الانوار کی احادیث نمبری ۸۷۸، ۸۷۹، ۱۸۱۴، ۱۸۹۱، ۱۸۹۲، وغیرہ کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ مولوی صاحب ضروران واقعات سے واقف ہیں۔ لیکن اپنے فتویٰ کو بھول گئے کہ " منصف مزاج لوگ مذہبی مباحث میں خاص کر اخفائے واقعات کرنا جرم عظیم سمجھتے ہیں"(صفحہ ۲۳)۔

انجیل جلیل اور بخاری شریف دونوں حضرت ابن الله کی دعائے مغفرت کا ذکر کرتی ہیں جو آپ نے اپنےدشمنوں کے حق میں کی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اب بھی آسمان پر مرحوم مولوی صاحب جیسے دشمنوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ ہماری بھی یہی دعاہے کہ خدا مرحوم کے گناہوں کو معاف فرمائے اور اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔

اللھمہ المفتح علیہ ابواب رحمتکہ

ہنری مارٹن اسکول

علی گڑھ

۲۵ارچ ۱۹۵۷ء

(برکت الله )