دیباچہ ناشر
ہندوستان کی مشہوراسلامی ریاست بھوپال کے داراسلطنت سے مولانا نیؔاز صاحب کی زیر ادارت ’’نگار‘‘ نامی ایک ماہوار رسالہ کئی سالوں سے نہایت آب وتاب سے شائع ہورہا ہے ۔ ملک کے ممتاز جراید ادبی میں اس کو نمایاں خصوصیت حاصل ہے۔ مدیر رسالہ ہذا نہ صرف ایک اعلیٰ پایہ کے عالم اور تجربہ کار صحیفہ نگارہی ہیں بلکہ نئی روشنی نے آپ کے دل ودماغ پر یہاں تک اثر کیا ہے کہ آپ کی شابہ روز مساعی (کوشش) کارُخ اس طرف ہے کہ اسلام کے ہر کھلے مسئلے کی کوئی نہ کوئی توجیہ وتاویل نکالیں اور گذشتہ تیرہ(۱۳) صدیوں کی صورت ِاسلام کو مسخ کرکے نئے زمانہ کےموافق رنگ دینے میں کمال کر دکھائیں۔اس فن میں آپ نے جو ممتاز خصوصیت حاصل کی وہ یہ ہے کہ آپ سرسید احؔمد خاں صاحب کی نیچریت (فطرت)اور تقدس مآب مولوی محمد علی صاحب ایم اے امیر جماعت احمدیہ لاہور کی احمدیت کو باہم مخلوط کرکے اسلام کی ایسی صورت وشکل بنار ہے ہیں کہ عصر ِ حاضرہ کی تنقید اعلیٰ کے حملوں سے بزعم(گمان کے ساتھ) خود اسے مصئون ومامون(محفوظ نگہبانی کیا گیا) کردیں۔ مگر اصلی اسلام کے پیروؤں کوآپ سے بے حد اختلاف ہے جیساکہ اس کتاب کی تمہید ِ مصنف سے ظاہر ہے۔
گذشتہ سال ’’نگار‘‘ میں آپ نے عیسیٰ ابن ِ مریم کی ولادت ِ بے پدر(بغیرباپ کے) معجزات اور رفعِ آسمانی اور مریم بتولہ (کنواری )کے روح القدس سے حاملہ ہونے کا انکار کیا اورایک طویل وبسیط(وسیع) عالمانہ مضمون لکھ کر اپنے انکار یعنی ’’نیچری اور احمدی اسلام‘‘ کو حق ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی ۔ جب اس مضمون کو ہمارے محترم دوست جناب پادری برکؔت الله صاحب ایم ۔ اے نے مطالعہ کیا تو فی الفور مجھے لکھا کہ اس کا جواب مسیحیوں کی طرف سے ضرور دینا چاہیے ۔ چونکہ مولانا نیاؔز صاحب نے ان تمام تاویلات توجیہات کو جو سرسید اؔحمد خاں صاحب اور مولوی محمد علؔی صاحب کی ایجادات خاص ہیں۔ ایک جگہ نہایت خوبی اور قابلیت سے مرتب کیا ۔ اس لئے بلاریب(بے شک) آپ کے خیالات موجودہ زمانہ کے اعلیٰ طبقہ کے تعلیم یافتہ اہل ِاسلام کے معتقدات(اعتقاد رکھنے والے) کا آئینہ کہے جاسکتے ہیں۔ پس لازم آیا کہ ایسے اعلیٰ پایہ کے علمی اعتراضات کی تردید کے لئےہندوستان بھر کا بہترین مسیحی فاضل جو اسلامیات سے اعلیٰ وجہ الکمال واقف ہو تلاش کیا جائے ۔ ہر چہار اطراف نظر دوڑانے کے بعد میری نظر انتخاب پادری مولوی سلؔطان محمد خاں صاحب افغان کابلی (ملا) پر پڑی۔ آپ کی ذہنی قابلیت ، علمی لیاقت اور ادبی فضیلت ہندوستان بھر میں مشہور ومسلم ہوچکی ہے۔ آپ ملک بھر کے زبردست ترین علماء فضلائے اسلام سے اکثر مباحثے کرچکے ہیں اور ہر جگہ آپ کو خدائے عزیز الحکیم نے ایسی فتح وظفر عطا فرمائی کہ آج تمام مذہبی طبقوں میں آپ کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔
جب اس صدی میں علم وفضل کو بے انداز ترقی حاصل ہوئی تو خدائے غیور نے پادری سلؔطان محمد خاں صاحب کو اپنی خاص قوت عطا کرکے اس ملک میں مبعوث کیا (بھیجاگیا)وہ تعلیمافتہ مسلمانوں کو دین ِحق کی طرف رہنمائی کریں۔ آپ نے نہ صرف تقریری مناظروں ہی میں مسیحی دین کی عظمت کاعلمَ بلند کیا بلکہ متعدد تصانیف کی بدولت ہزاروں لاکھوں بندگان خدا کو روحانی فائدہ پہنچایا ہے۔ اب آپ نے یہ کتاب تصنیف فرما کر ان مسلمانوں کے دلوں کو خداوند کبیر کی حقیقی منشا کی جانب رجوع کرانے کا قابلِ تحسین وآفرین کا م کیا ہے ۔ جو آج کل کے اعلیٰ علوم وفنون سے بہرہ اندوز چکے ہیں۔
اگر برادران ِ اسلام پادری صاحب ممدوح الصدر کی دیگر تصانیف کا جو اپنے مناظرانہ رنگ میں یکتا اور ہندوستان بھر میں مشہور ومعروف ہیں۔ مطالعہ کریں تو ان کے شکوک وشبہات جو وہ مسیحیت ومسیح کی نسبت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں یقیناً دورہوجائیں گے۔ آپ کی تصانیف میں خاص خوبی یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے آپ اس قدر استدلال(دلیل دینا) فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے نام کے ساتھ " پادری" کالفظ چسپاں نہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ کسی مسلمان عالم نے ہی کتاب تصنیف فرمائی ہے ۔آپ مسیحی ہونے سے پیشتر اسلامی تعلیم کے مطالعہ میں زندگی کاا یک حصہ غالب گزار چکے تھے۔ بمبئی میں ضیاء الاسلام کی آپ ہی نے بنیاد ڈالی تھی جوآج تک جاری ہے ۔ فارسی آپ کی مادری زبان ہے۔ عربی کے یکتا عالم ہیں۔ قرآن شریف ، احادیث، سیرت ، منطق ، فلسفہ میں مہارت تامہ (تمام)حاصل ہے۔اورجب ہم ان بے انداز خوبیوں کی جانب گہری نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارا ذہن فوراً اس قادرِ مطلق خدا کی طرف منتقل ہوجاتاہے جو ہر صدی میں اس قسم کی ممتاز ہستیاں اپنے نام کو جلال دینے کی خاطر برپا کرتاہے۔ مسیحیت کے معجزات میں سے بلاشبہ یہ بھی ایک معجزہ ہے ۔ کابلی افغان ہونے کے باوجود سلیس اور بامحاورہ اردو میں ایسی روانی سے کلام کرسکتے ہیں کہ اہل ِدہلی ولکھنئو پر سبقت لے گئے ہیں۔ یہ رسالہ بھی آپ نے چند ہی ایام میں مرتب کرکے بھیج دیا۔ ہاں مولانا مولوی مؔحمد علی صاحب کے’’ نکات القرآن ‘‘کے حوالجات اور حصہ اول کے آخر میں" خارج از اسلام" خاکسار کے مرتب کردہ ہیں۔ خدا اپنے نام کی خاطر اہل ِہند کو توفیق بخشے کہ وہ تعصب سے خالی الذہن ہوکر راہ ِحق کی پیروی کریں۔
(خان)
حصہ اوّل
وِلادتِ حضرت عیسیٰ
تمہید
حضرت نیاز کی بے نیازی
جولائی ۱۹۲۶ء کے رسالہ ’’نگار‘‘ میں اور اس کے بعد اگست ۱۹۲۶ء کے نگارانہ ملاحظات میں حضرت ِ نیاؔز نے ان تمام معتقدات سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیا ہے جو حضرت ِ خضر اور علی الخصوص حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة والسلام کے متعلق اسلام میں جزولاینفک (وہ حصہ جو علیحدہ نہ ہوسکے)سمجھے جاتے ہیں۔’’ نگار‘‘ کی اس بے باکانہ حرکت کو دیکھ کر " جناب محمد اکؔبر خاں صاحب " نے حضرت نیاؔز کی خدمت میں ذیل کا مکتوب ارسال کیا:
"جولائی کے مہینے میں آپ وجود ِ خضر سے تو انکار ہی کرچکے تھے ۔ لیکن اگست کے ملاحظات میں کسی عیسائی جے ۔ ماؔرٹن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حضرت عیسیٰ پر بھی ہاتھ صاف کردیا ۔ مرادں چنیں کنندُ۔ ان کا بن باپ پیدا ہونا، اندھوں ، کوڑھیوں کو اچھا کرنا، مردوں کو جلانا۔ مصلوب ہونے کے بعد آسمان پر چلاجانا، اور اب تک زندہ رہنا یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کے آپ منکر معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن کلام ِمجید میں صریح آیات ان کے متعلق پائی جاتی ہیں ان کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ میں بہت مشتاق ہوں کہ ان کی بابت بھی آپ کے خیالات کا علم حاصل کروں ۔ میں ان آیات کو اس جگہ درج نہیں کرتا۔ کیونکہ یقیناً وہ آپ کے سامنے ہوں گی اور آپ اپنی عادت کے موافق ان کا استقصا(پوری کوشش کرنا) کرکے بحث فرمائیں گے"۔
یزداں یا دزداں
آپ مکتوب مافوق کاجواب ستمبر ۱۹۲۶ء کے’’ نگار‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
"میں نے وجود خضر سے انکار تو نہیں کیا ۔ لیکن یہ ضرور بیان کیا ہے کہ ان کے متعلق جو روایات عوام میں مشہور ہیں وہ قابل وثوق نہیں ہیں اورجن احادیث سے استدلال کیا(دلیل دینا) جاتاہے وہ ساقط الاعتبار ہیں۔ اب آپ حضرت عیسیٰ کے متعلق مجھ پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ میں نے ان پر بھی اگست کے ملاحظات میں ہاتھ صاف کردیا۔ سو بندہ نواز ! یہ صفائی میرے ہاتھ کی نہیں ہے بلکہ خود اس قوتِ برتر واعلیٰ کی ہے جس نے انہیں سولی سے بچالیا۔ اوریہ معاملہ"مرداں چنیں کنند" سے متعلق ہے بلکہ " یزداں چنیں کنند" سے وابستہ ہے۔
اگر حضرت نیاؔز کی خاطر نازک پر گراں نہ گذرے تو میں عرض کروں گا کہ " یہ ہاتھ کی صفائی " اس ذات برتر واعلیٰ کی نہیں ہے جس نے انہیں مردوں میں جلایا۔ بلکہ سرسیؔد مرحوم کی ہے جس کوجناب نے سارقانہ انداز سے دوبارہ نقل کیا ہے۔ پس یہ معاملہ "یزداں چنیں کنند" سے وابستہ نہیں ہے۔" بلکہ دزداں 1چنیں کنند سے وابستہ ہے۔
انجیل کی روایات اور تواریخ
اس کے بعد آپ تاریخ کامل ابن اثؔیر اور ابن خلؔدون کے چند دُم بریدہ(دُم کٹا ہوا) اقتباسات حوالہ قلم کرکے فرماتے ہیں کہ:
"چونکہ تاریخ کی کتابوں اورانجیل کی روائیتوں میں باہم اس قدر اختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کے متعلق کسی واقعہ کی صحیح تحقیق ان کی مدد سے نہیں ہوسکتی ۔ اور خود رسول الله کے زمانہ میں مسیح کے متعلق عجیب وغریب اعتقاد لوگوں میں رائج تھے۔ یہاں تک کہ بعض ان کو خدا کا بیٹا اور بعض ناجائز مولود ( پیدا ہونے والا)کہتے تھے، اس لئے ظاہر ہے کہ ہم کو قرآن پاک پر غور کرنے سے حقیقت کا علم ہوسکتاہے جس میں تمام لغو(بیہودہ)اعتقادات ِ رائجہ کے خلاف صحیح واقعات کی خبردی گئی ہے"۔
قبلہ !کاش آپ " قرآن پاک" پر غور کرتے !لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ قرآن ِپاک کا نام لے کر آپ نے سرسؔید مرحوم کی کاسہ لیس(خوشامدی) کو کافی سمجھا۔ آپ کے دو ایک عربی جملوں کو دیکھ کر مجھ کو تو یہاں تک شبہ ہوتا ہے کہ شاید آپ اس کی عبارت بھی روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ چاہیے یہ کہ آپ اس کے مطالب پر غورکریں۔ قرآن مجید پر غور نہ کرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آپ " تاریخ کی کتابوں اورانجیل کی روائیتوں میں " اس قدر اختلاف معلوم ہوتاہے کہ " حضرت عیسیٰ کی زندگی کے متعلق کسی واقعہ کی صحیح تحقیق نہیں کرسکتے۔
میں نے آپ کے تاریخی اقتباسات کا ایک سے زیادہ بار اعادہ کیا ۔ مجھ کو تو ایک بات بھی ایسی معلوم نہیں ہوئی جو " انجیل کی روائیتوں " کے برخلاف ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اصطلاحات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ نے اجمال اور تفصیل کو غلطی سے اختلاف سمجھ لیا ہے یعنی جن امور کو انجیل مقدس نے اجمالاً بیان کیا ہے ۔ انہی امور کو ابن اثؔیر اور ابن خلؔدون رحمتہ الله علیہا نے قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، لیکن لطف کی بات یہ ہےکہ واقعہ ولادت مسیح کے متعلق جن باتوں کا بیان ابن اثؔیر اور ابن خلؔدون نے کیاہے ان میں سے ایک کا بھی بیان اناجیل میں نہیں ہے بلکہ ان میں سے بہت سے واقعات کا ذکر قران پاک میں ہے۔ پس اگرکچھ اختلاف ہے تو قرآن پاک کی روائیتوں اور تاریخ کی کتابوں میں ہے نہ کہ انجیل کی روائیتوں اور تاریخ کی کتابوں میں ۔
البتہ انجیل کی روائیتوں اور تاریخ کی کتابوں" میں اس وقت اختلاف ہوتا جب آپ کسی تاریخ کی کتاب سے یہ ثابت کرسکتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة والسلام کی پیدائش باپ کی وساطت سے ہوئی تھی۔ لیکن ہم تحدّی(للکارنا) کے ساتھ گذارش کرتے ہیں کہ آپ ہر گز یہ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ تمام مورخین اسلام نے بالاتفاق اس کو تسلیم کرلیاہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بلاوالد ہوئی تھی۔
1 قارئین کرام ذرا تکلیف اٹھاکر سر سید ؔمرحوم کی تفسیر سورہ آل عمران اور سورہ مائدہ کو’’ نگار‘‘ کے اس مضمون سے مقابلہ کر دیکھیں اور حضرت نیاؔز کی سا قانہ ادا کی داددیں۔(سلطان)
حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا نسب نامہ
آپ لکھتے ہیں کہ :
"حضرت عیسیٰ کا ذکر یوں تو کلا م مجید میں کثرت سے پایاجاتاہے لیکن امور زیر بحث پر غور کرنے کے لئے ہم کو سورہ آل عمران ، سورہ مائدہ ، اور سورہ مریم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سورہ مریم میں صرف ان کی پیدائش کے واقعات درج ہیں اور سورہ مائدہ میں صرف ان کے معجزات کا ذکرہے (جن میں اندھوں، کوڑھیوں کو اچھا کرنا مردوں کو جلانا وغیرہ شامل ہے) اور سورہ آل عمران میں پیدائش سے لے کر آخر تک تمام واقعات کا بیان ہے اس لئے ہم سب سے پہلے سورہ آل عمران اور سورہ مریم کی ان آیات کو درج کرتے ہیں جن میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا حال درج ہے "۔
(سورہ آل عمران ۴۵تا ۴۷)
اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ
ترجمہ:۔’’جب کہا فرشتوں نے اے مریم الله خوشخبری دیتا ہے تجھ کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی اس کی بابت جس کا نام مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا ہوگا۔ جو دنیا وآخرت میں صاحب وجاہت ہوگا۔ خدا کے مقربین میں سے ہوگا۔
لوگوں سے کلام کرئے گا گہوارہ( گود) میں اوربڑھاپے میں اور ہوگا نیکوں میں سے ۔
مریم نے کہا اے پروردگار میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے دراں حالیکہ مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا۔ خدا نے کہا یہی ہوگا الله پیدا کرتا ہے جو چاہتاہے ۔ جب وہ کسی کام کا کرنا ٹھہرالیتا ہے توکہہ دتیا ہے ہوجا۔ اور وہ کام ہوجاتاہے‘‘ ۔
(سورہ مریم آیت ۱۶تا ۳۶)
وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّافَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا قَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیۡ وَ اشۡرَبِیۡ وَ قَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ وَ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ
ترجمہ:۔’’ اور ذکر کرکتاب میں مریم کا جب وہ علیحدہ ہوئی اپنے لوگوں سے ایک مشرقی مکان میں۔
پھر کرلیا اس نے ان کی طرف سے پردہ پس بھیجا ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو جو بن گئی اس کے سامنے ایک پورا آدمی ۔
پھر کرلیا اس نے ان کی طرف سے پردہ پس بھیجا ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو جو بن گئی اس کے سامنے ایک پورا آدمی ۔
اس نے کہا میں تو تیرے پروردگار کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں کہ میں تجھے ایک پاکیزه بیٹا دوں گا۔
مریم نے کہا میرے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے درآنحالیکہ مجھے کسی انسان نے نہیں چھوا اور نہ میں نے کبھی بدکاری کی ۔
فرشتہ نے کہا ایسا ہی ہوگا تیرے رب نےکہا کہ یہ میرے لئے آسان ہے اور ہم بنائیں گے ۔ اس کو نشانی لوگوں کے لئے اور رحمت اپنی طرف سے اوریہ امر ٹھہرایا ہوا ہے۔
پھر حمل ٹھہرا مریم کو اور وہ دور چلی گئی ۔
پھر دردزہ اس کو ایک کھجور کی جڑ میں لے گیا۔ مریم نے کہا کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور مٹ جاتی ۔
پھر اس کو پکارا کسی نے نیچے سے کہ رنجیدہ نہ ہو۔ جاری کیا ہے تیرے پروردگار نے نیچے ایک چشمہ۔
تو کھجور کو ہلاوہ تجھ پر تروتازہ پھل گرائیگا۔
تو اسے کھا اور پی اور ٹھنڈی کر اپنی آنکھ، اگر تو کسی آدمی کو دیکھے توکہہ میں نے الله کے نام پر روزہ رکھا ہے اور میں آج کسی سے بات نہ کروں گی۔
پھر مریم اپنے لڑکے کو قوم کے پاس لائی۔ انہوں نے کہا اے مریم تو عجیب چیز لائی ہے۔
اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ خراب آدمی تھا۔ اورنہ تیری ماں خراب تھی ۔
پھر اشارہ کیا مریم نے لڑکے کی طرف۔لوگوں نے کہا ہم کیا بات کریں اس سے جو تھا ایک لڑکا گہوارہ میں۔
عیسیٰ نے کہا میں خدا کا بندہ ہوں۔ دی ہے اس نے مجھے کتاب اور بنایا ہے مجھے نبی۔
اورمجھ کو کیا ہے برکت والا جہاں کہیں میں ہوں اور مجھ کو ہدایت کی ہے نماز وروزه کی جب تک میں زندہ رہوں ۔
اوربنایا ہے مجھ کو نیکی کرنے والا اپنی ماں کے ساتھ اورنہیں بنایا مجھے سرکش بدبخت ۔
اور سلام ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا جس دن میں مرونگا اور جس دن میں زندہ ہوکر اُٹھوں گا۔
یہ ہے سچا واقعہ عیسیٰ بن مریم کا جس میں لوگ اختلاف کرتےہیں۔
خدا کے لئے موزوں نہیں ہے کہ اس کے کوئی بیٹا ہو ۔ وہ اس سے پاک ہے وہ جب کسی کام کو کرنا چاہتاہے تو کہہ دیتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتاہے۔
اور بے شک خُدا ہی میرا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔
قبل اس کے کہ ہم کلام مجید کی مذکورہ بالا آیتوں پر غور کریں۔ یہ معلوم کرلینا ضروری ہے کہ خدا نے حضرت عیسیٰ کے نسب کے متعلق کیا فرمایا ہے۔( سورہ انعام) میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کردی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ آل ابراہیم سے ہوں گے ۔
(سورہ انعام آیات ۸۳تا ۸۵)
وَ تِلۡکَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیۡنٰہَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ عَلٰی قَوۡمِہٖ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ وَ زَکَرِیَّا وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ
ترجمہ:۔ اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اُنکی قوم کے مقابلہ میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے ۔
اور ہم نے اُنکو اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام بخشے (اور) سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح علیہ السلام کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہ السلام اور ایوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو بھی۔ یہ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔
اور زکریا علیہ السلام اور یحیٰی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام کو بھی۔ یہ سب نیکو کار تھے ‘‘۔
’’اب اگر حضرت ِ عیسیٰ کی ولادت بغیرباپ کے تسلیم کی جائے اور صرف مادری سلسلہ نسب پر لحاظ کیا جائے تو دیکھنا چاہیے کہ مریم آل ِ ابراہیم یا آل ِ داؤد سے تھیں یا نہیں؟ کلام مجید میں ایک جگہ مریم کو بنت ِ عمران (عمران کی بیٹی) کہہ کر پکارا گیا ہے اور دوسری جگہ اُخت ِہارون (ہارون کی بہن) کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ گویا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مریم کے باپ کا نام عمران تھا اورہارون ان کے بھائی تھے۔ اس پر عیسائی علماء نے اعتراض بھی کیا ہے کہ ہارون کے زمانہ سے مریم کو کیا نسبت ہوسکتی ہے ۔ لیکن وہ اس رمز کو نہیں سمجھے کہ مریم کو ہارون کی بہن کہنا کسی حقیقی رشتہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ صرف اس مماثلت کی بنا پر ہے کہ جس طرح ہارون حفاظت وخدمت ہیکل کے لئے مامور تھے اسی طرح مریم کی بھی زندگی شروع ہوئی۔ یہ صحیح ہے کہ موسیٰ کی بہن کا نام بھی مریم تھا لیکن اس جگہ مریم کو اُخت ہارون کہنے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن میں عیسیٰ کی ماں مریم اور موسیٰ کی بہن مریم کو ایک ہی ہستی قرار دیا ہے درست نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اُخت ہارون کے الفاظ سے مریم کے سلسلہ ِنسب پر تو کچھ روشنی نہیں پڑسکتی ۔ اب رہ گیا ان کو عمران کی بیٹی کہنا سویقیناً یہ بھی اسی لحاظ سے کہا گیا ہے جس طرح اُخت ہارون کے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے ۔ کلام مجید میں’’ آل ۔ اُخت ، ابن یا بنت ‘‘وغیرہ کا استعمال بہت وسیع معنی میں ہواہے۔ اوران الفاظ سے وہ قریب کا رشتہ مراد نہیں لیا گیا ہے جوان کے معنی سے متبادر ہوتاہے۔ اس لئے مریم کو بنت ِ عمران کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ واقعی عمران کی بیٹی تھیں بلکہ اس سے مقصود یہ ظاہر کرناہے کہ وہ آل عمران میں سے تھیں جن کی بزرگی کے متعلق کلام مجید میں یہ آیت آئی ہے۔
(سورۃ آل عمران)
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ
ترجمہ:۔’’خُدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہاں کے لوگوں میں منتخب فریایا تھا‘‘۔
مریم کے والدکون تھا؟ یہ امر بالکل تاریکی میں ہے۔ اور اسی لئے عیسیٰ کا سلسلہ نسب داؤد تک متعین نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر مؔریم کی ولادت بھی بغیر باپ کے تسلیم کرلی جائے تو جیسا کہ بعض عیسائی جماعتوں کا خیال ہے کہ توپھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ مؔریم کے ناناکون تھے؟ اوران کا سلسلہ نسب آل ِ داؔؤد سے ملتا ہے یا نہیں۔ اور اگر مؔریم کے باپ کا نام واقعی عؔمران صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کے نسب نامے کے متعلق اس قدر اختلاف ہے کہ خو د عیسائيوں کو اکثر جگہ تاویل کی ضرورت محسوس ہوئی اور یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس سلسلہ سے آل ِ داؔؤد میں شمار ہوسکتا ہے ۔ بعض نے اسے ماؔتان کی اولاد میں شامل کیا ہے۔ اؔبن اسحاؔق اسے یاؔشیم بن امؔون کی اولاد بتاتا ہے ۔ ابنِ عؔسا کرنے زریافیل کے سلسلہ سے آل ِ ماؔتان ہونا ثابت کیا ہے اوراناجیل میں باہم سخت اختلاف ہے۔ یہاں تک کہ بعض جگہ مریؔم کابھی بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ اور بعض بیانات سے بجائے عمؔران کے مریؔم کے باپ کا نام یؔواقیم درج ہے۔ بہر حال مریؔم کے والد حال چونکہ بالکل تاریکی میں ہے اس لئے اس پر اعتماد کرکے حضرت عیسیٰ کو مادری سلسلہ سے آل ِ ابراہیم میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ قرآن پاک سے صراحتہً ان کا دریافت ابراؔہیم یا آلِ داؔؤد میں ہونا ثابت ہے۔البتہ اگر مؔریم کے نسبتی شوہر یوؔسف نجار کو عیسیٰ کا باپ تسلیم کرلیا جائے تو آسانی سے حضرت عیسیٰ کا آلِ داؔؤد میں ہونا ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یوسف یقیناً آل ِ ماؔتان میں سے تھا اورماؔتان کا سلسلہ نسب داؤد تک پہنچتا ہے ۔ جیساکہ مؔتی کی انجیل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے باپ کا نام یؔوسف تھااور وہ بیٹے تھے یؔعقوب کے ۔
اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یؔوسف حضرت عیسیٰ کے باپ نہ تھے اور واقعی بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو پھر انجیل وقرآن کی یہ صراحت کہ وہ آل داؔؤد میں سے ہوں گے بالکل لغو ہوجاتی ہے۔کیونکہ اول تو مؔریم کا سلسلہ نسب داؤد تک پہنچتا نہیں اوراگر وہ پہنچے بھی تو ساقط الاعتبار ہے ۔کیونکہ یہود میں ہمیشہ سلسلہ نسب باپ کا قابل ِ لحاظ تسلیم کیا جاتا تھا اور مادری سلسلہ نسب کو کوئی نہ پوچھتا تھا ۔ یہاں تک تو گفتگو سلسلہ نسب کے لحاظ سے ہوئی اوراس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اگر عیسیٰ کی ولادت بغیر باپ کے تسلیم کی جائے تو نصِ (ظاہر)قطعی اس کی معارضہ(جھگڑا) واقع ہوتی ہے"۔
آپ نے عبارت مافوق میں امور ذیل پر نگارانہ نگاہ ڈالی ہے۔
(الف)۔’’ اگر حضرت عیسیٰ کی ولادت بغير باپ کے تسلیم کی جائے تو پھر انجیل 2 وقرآن کی یہ صراحت کہ وہ آل ِ داؤد میں سے ہوں گے بالکل لغو ہوجاتی ہے ‘‘۔
(ب)۔’’مریم کو بنت ِ عمران اور اُخت ہارون کہنے کی رمز‘‘۔
(ج) ۔’’انجیلوں میں باہم سخت اختلاف ہے یہاں تک کہ بعض جگہ مریم کا بھی بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر کیا ہے‘‘۔
شق اوّل کے متعلق یہ عرض ہے کہ " انجیل میں یہ صراحت کہ وہ آل ِ داؤد میں سے ہوں گے "۔ اس وقت "لغو" ہوجاتی ہے جب انجیل میں یہ صراحت بھی ہوتی کہ وہ دیگر انسانوں کی طرح نطفہ سے پیدا ہوں گے۔ حالانکہ صحف ِمطہرہ میں بالوضاحت اس کا ذکر ہے کہ مسیح موعودِ آل ِداؤد میں سے بغیر باپ کے محض بطن مادر سے ہوں گے۔ چونکہ ان تمام پیشینگوئیوں کا یہاں درج کرنا طوالت سے خالی نہیں ہے اس لئے ہم صرف ایک پر اکتفا کرتے ہیں۔
2 غالباً آپ کا مطلب عہد عتیق سے ہے ۔(سلطان)
"خداوند نے سچائی سے داؤد کے لئے قسم کھائی جس سے وہ نہ پھرے گا کہ میں تیرے پیٹ کے پھل میں سے کسی کو تیرے لئے تیرے تخت پر بٹھاؤں گا"(زبور ۱۳۲: ۱۱)۔ اس پیشینگوئی سے وہ باتیں ثابت ہوتی ہیں اوّل یہ کہ مریم صدیقہ داؤد کی نسل سے ہیں۔ کیونکہ مریم ہی کےبطن سے حضرت مسیح علیہ اسلام پیدا ہوئے ۔دوئم یہ کہ مسیح علیہ اسلام عورت سے پیدا ہوں گے اس لئے داؤد علیہ اسلام کوخُدانے کہا "تیرے پیٹ کے پھل " سے "اگر مسیح کی پیدائش باپ کی وساطت سے ہونے کو ہوتی تو "تیری پیٹھ " یعنی صلب سے کہنا لازم تھا۔
پس ظاہر ہےکہ انجیلِ مقدس میں ہر گز یہ صراحت نہیں ہے کہ مسیح کی پیدائش داؤد کے نطفہ سے ہوگی۔ اور نہ قرآن مجید میں یہ صراحت موجود ہے جس کو آگے ہم تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔ بلکہ دونوں پاک کتابوں کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام خُدا کی قدرت سے معجزانہ طور پر صرف مریم صدیقہ کےبطن سے پیدا ہوئے ۔ نیز خود حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے داؤد علیہ اسلام کے مادی انتساب سے بدیں الفاظ انکار فرمایا ہے کہ " پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہےتووہ اس کا بیٹا کیوں کر ٹھہرا " (متی ۲۲: ۴۱تا ۴۵)۔ گویاکہ حضرت عیسیٰ نے ایک لطیف بلکہ لطف پیرایہ میں اس اشتباہ (شک)کو رفع فرمایاکہ مسیح محض اور محض ابن ِ داؤد ہوں گے۔ یہ نہ صرف انجیل ہی کی صراحت ہے بلکہ قرآن مجید نے بھی اس صراحت کا اعادہ کیا ہے۔
لفظ آل پر بحث
لفظ " آل " سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مسیح ابراہیم یا داؤد کے نطفہ عتتقلہ تھے سراسر غلط اوربنائے فاسد علی الفاسد ہے جس آیت سے آپ نے یہ استد لال کیا ہے خود اسی آیت میں اس کی تردید موجود ہے۔ جن کی تفصیل یہ ہے کہ آیت مستدلہ میں حضرت ایوب علیہ اسلام اور حضرت الیاس علیہ اسلام کوبھی آل ابراہیم اور داؤد کہاہے جو حقیقتاً ان کی ذریت میں شامل نہیں ہیں اورنہ ان کے نطفہ منتقلہ ہیں۔ نیز آپ خود ہی فرمارہے ہیں کہ " کلام مجید میں آل ، اُخت ، ابن ، یا بنت وغیرہ کا استعمال نہایت وسیع معنی میں ہوا ہے"۔ اگر یہ درست ہے تو پھر اس وسعت کو تنگ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
یہودیوں میں سلسلہ نسب
آپ کایہ فرماناکہ " یہود میں ہمیشہ سلسلہ نسب باپ کا قابل لحاظ تسلیم کیا جاتا تھا اور مادری سلسلہ نسب کو کوئی نہ پوچھتا تھا" سراسر غلط اور سرسید مرحوم ومولوی ممتاؔز علی مرحوم کی کورانہ تقلید(پیروی) ہے۔ کاشکہ خود بدولت ہی تکلیف اٹھا کر الکتاب کا مطالعہ فرماتے اس وقت معلوم ہوجاتا کہ سرسیدؔ مرحوم نے آپ کو کس طرح مغالطہ میں ڈال دیا ہے۔یہ سچ ہے کہ ’’اس صورت مادری سلسلہ نسب کو کوئی نہ پوچھتا تھا‘‘ ۔ مگر جب ایک یہودی عورت ایک غير یہودی مرد کے ساتھ عقد کرتی ۔ لیکن یہ کہنا کہ اگر وہ دونوں یہودی بھی ہوتے تب بھی " مادر ی سلسلہ نسب کو کوئی نہ پوچھتا تھا"۔ اور وہ ہمیشہ ایسا کرتے تھے بالکل لغو اورپوچ ہے۔ کیونکہ بائبل مقدس میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں عورتوں کے نام نسب ناموں میں مندرج ہیں ۔ جن میں سے دو ایک مقام ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
(۱۔) اور ان کی بہنیں ضرویاہ اور ابی جیل تھیں ۔اور ابی شے اور یواب اور عساہیل یہ تینوں ضُرویاہ کے بیٹے ہیں۔ اور ابی جیل سے عماسا پیدا اور عماسا کا باپ یترا اسماعیلی تھا (۱۔تواریخ ۲: ۱۶تا ۱۷)۔
(۲۔) "تقوع کے باپ اشور کی دو جورواں تھیں حیلا ہ او رنعراہ اور نعراہ اس کے لئے اخوسام اور حضراورتیمنی اورہخستری جنی ۔یہ بنی نعراہ ہیں۔ اور بنی حیلاہ ضرت اور یضوا اور اِتنان(۱۔تواریخ ۴: ۵تا ۷)۔
بفرض محال اگرمدیر صاحب ’’نگار‘‘ کا "ہمیشہ " صحیح اور درست بھی ہوتا اس وقت بھی محض اس لئے کہ مریم صدیقہ عورت تھیں اور یہودیت یا آل ابراہیمی سے خارج نہیں ہوسکتی تھیں تاوقت یہ کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ وہ یہودی نہیں بلکہ ایک اجنبی عورت تھیں کیونکہ عورت کے نام کا نسب نامہ نہ ہونا اس کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ وہ یہودی یا ابراہیمی نسل کی نہیں ہے۔ تاوقت یہ کہ ایک علیحدہ دلیل اس پر قائم نہ کی جائے۔
قرآن شریف سے مریم صدیقہ کے یہودی ہونے کا ثبوت
یہاں تک تو ہم نے اس سے بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آل ابراہیم یا آل داؤد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ماں کی جانب سے آل ابراہیم یا آل داؤد ہوں گے ۔ اور صحف مطہرہ کے شواہد سے ہم نےیہ ثابت کیاکہ سلسلہ مادری یہودی نقطہ نگاہ میں ایک امر مستند ہے۔اب اگر ہم قرآن شریف سے بھی یہ ثابت کرسکیں کہ مریم صدیقہ ابراہیمی نسل میں سے تھیں توپھرمدیر صاحب نگار کا یہ اعتراض کہ " اگر عیسیٰ کی ولادت بغیر باپ کے تسلیم کی جائے تو نصِ قطعی اس کی معارض واقع ہوتی ہے " بے وقعت اورباطل ٹھہرے گا"۔اور " نص ِقطعی " اس کی معارض نہیں بلکہ معاضد وموید واقع ہوگی۔
اگر چہ قرآن مجید مریم صدیقہ کا کوئی طول وطویل نسب نامہ پیش تو نہیں کرتا لیکن چند ایسے واقعات بیان کرتاہے جن سے لاریب یہ ثابت ہوتاہے کہ مریم صدیقہ خالص ابراہیمی نسب یہودی حسب تھیں ۔ مثلاً یہ کہ
(۱۔) ان کی ماں کا ان کو ہیکل کی خدمت کے لئے نذر کرنا (آل عمران رکوع ۴)
(۲۔) حضرت زکریا ہ کا ان کا کفیل ہوجانا (آل عمران رکوع ۴)
(۳۔) مریم کا مسیح کو اپنی قوم (یہودیوں) کے پاس لانا ۔ (سورہ مریم رکوع ۲)
(۴۔) مریم کا اُخت ہارون کہلانا وغيرہ ذالک ۔ (سورہ مریم رکوع ۲)
یہ ایسے واقعات ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مریم صدیقہ ابراہیمی نسب تھیں۔ کیونکہ غیر کا ہیکل کی خدمت کرنا تو درکنار اس کے پاس تک نہیں پھٹک سکتا تھا(اعمال ۲۱: ۲۷تا ۲۸)۔ اور حضرت زکریا کا مریم صدیقہ کو اپنی کفالت میں لے لینا مریم کے یہودی ہونے کی ایک ایسی زبردست دلیل ہے جس سے کوئی "شخص تاوقت یہ کہ پراگندہ وخیال نہ ہو انکار نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ حضرت زکریا ہ مریم کے خالو تھے ۔ یعنی حضرت مریم کی ماں اور حضرت الیشبع جو حضرت زکریاہ کی بیوی تھیں دونوں بہنیں تھیں (ابن خلؔدون3 ) اور حضرت الیشبع یہودا کے فرقہ میں سے تھیں۔ لہٰذا مریم کی ماں بھی یہودا کے فرقہ میں سے اورابراہیمی نسل تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زکریاہ نے مریم صدیقہ کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ یہودیوں کو مریم کی قوم کہنا اور مریم کا اُخت ہارون کہلانا نامزید ثبوت ہے اس بات کا کہ مریم صدیقہ فی الحقیقت یہودی حسب تھیں۔
مریم کو بنت ِ عمران اور اُخت ِہارون کہنے کی رمز
شق ثانی میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ " کلام مجید میں ایک جگہ مریم کو بنت ِ عمران (عمران کی بیٹی) کہہ کر پکارا گیا ہے اور دوسری جگہ اُخت ہارون( ہارون کی بہن ) کے لقب سے یاد گیا ہے ۔گویا اس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مریم کے باپ کا نام عمران تھا اورہارون ان کے بھائی تھے۔ اس پر عیسائی علماء نے اعتراض بھی کیا ہے کہ ہارون کے زمانہ سے مریم کو کیا نسبت ہوسکتی ہے لیکن وہ اس رمز کو نہیں سمجھے کہ مریم کو ہارون کی بہن کہنا کسی حقیقی رشتہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ صرف اس مماثلت کی بنا پر ہے جس طرح ہارون حفاظت وخدمت ہیکل کے لئے مامور تھے ۔ اسی طرح مریم کی بھی زندگی شروع ہوئی ۔۔۔۔ اب رہ گیا ان کو عمران کی بیٹی کہنا سو یقیناً یہ بھی اسی لحاظ سے کہا گیا ہے جس طرح اُخت ہارون کے الفاط کو استعمال کیا گیا ہے ۔ کلام مجید میں’’ آل ، اُخت ، ابن یابنت ‘‘وغیرہ کا استعمال بہت وسیع معنی میں ہوا ہے اور ان الفاظ سے وہ قریب رشتہ مرا د نہیں کیا گیا ہے جو ان کے معنی سے متباور ہوتاہے اس لئے مریم کو بنت عمران کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ واقعی عمران کی بیٹی تھیں۔"
محترمی ! عیسائی " اس رمز کو " سمجھے یا " نہیں سمجھے" یہاں اس سے بحث نہیں ہے۔ لیکن حیرت تو یہ ہے خود بدولت نے اس رمز کو نہیں سمجھا اور قطا ً نہیں سمجھا۔ آپ کا یہ فرمانا کہ " مریم کو ہارون کی بہن کہنا کسی حقیقی رشتہ کا اظہار نہیں ہےبلکہ صرف اس مماثلت کی بنا پر ہے کہ جس طرح ہارون حفاظت وخدمت ہیکل کے لئے مامور تھے اسی طرح مریم کی بھی زندگی شروع ہوئی ' غلط بلکہ اغلاط ہے ۔توریت مقدس کی رو سے ہارون علیہ اسلام کی خدمت میں ایک عورت کی خدمت میں بعد المشرقین سے بھی زیادہ بعد تھا۔ بلکہ کوئی عورت ان خدمات میں سے ایک کو بھی بجا نہیں لاسکتی تھی جن کے بجالانے کے لئے ہارون مامور تھے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید میں مریم صدیقہ کی والد ہ محترمہ کہہ رہی ہیں کہ (سورہ آل عمران آیت ۳۶)
وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی ۚ
جس کی تفسیر میں آپ کی مقتد ا سرسید علیہ الرحمتہ لکھتے ہیں کہ "بیٹی اس طرح پر مبعد کی خدمت گذاری پر مومور نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لئے جب لڑکی پیدا ہوئی تو حضرت مریم کی ماں نے افسوس کیا کہ اورکہا کہ(وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی ۚ)
3 "قال الطبری ۔ وکانت حنة مریم الانجیل فنذرت الله ان حملت لتجلعن ولد بھا جباً بیت المقدس علی خدمت علی عاد اتہم فی نذر مثلہ فلما حملت ووضعتھا الفہقا فی خر قتھا وجائت بھا الی المسجد فد فتطا الی عبادہ وھی ابنہ نے اسا مہم فتنا زعوانی کفالتھا ۔ واراد ذکریا ان یستبد بھا لان زوجہ ایشاع (الیصبات ) خالتھا ۔" (ابن خلدون وبروایت طبری) سلطان
پس صاف ظاہرہے کہ مریم اورہارون میں "مماثلت" نہیں بلکہ مخالفت ہے جنسیت کے لحاظ سے بھی اور خدمت کے لحاظ سے بھی۔ اس لئے میں نے عرض کیا تھاکہ خود بدولت نے اس رمز کو نہیں سمجھا۔
اسی طرح آپ کا یہ فرمانا بھی سراسر غلط ہے کہ مریم کو بنت عمران کہنا یہ معنی نہیں رکھتا ہے کہ وہ واقعی عمران کی بیٹی تھیں" میں کہتا ہوں کہ وہ واقعی عمران کی بیٹی تھیں" کیونکہ قرآن مجید مریم کو صرف بنت عمران ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کی والدہ محترمہ کو " عمران کی 4بیوی بھی بتلاتاہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مریم صدیقہ حقیقتہً اور صلباً عمران کی بیٹی تھیں۔ چنانچہ آپ کے صاحب ِ ماخذ سرسیدؔ مرحوم بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھتے ہیں کہ " یہ نام حضرت مریم کے باپ کا ہے" پھر نہ معلوم کس بنا پر آپ لکھتے ہیں کہ وہ واقعی عمران کی بیٹی نہیں تھیں۔
انجیلوں میں باہم اختلاف
شقِ ثالث میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ " انجیلوں میں باہم سخت اختلاف ہے یہاں تک کہ بعض جگہ مریم کا بھی بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر کیا گیا ہے ۔ اور بعض بیانات سے بجائے عمران کے مریم کے باپ کا نام یواقیم درج ہے۔مدیر صاحب نگار کی قرآن دانی تو آپ دیکھ چکے اب آپ ذرا ان کی انجیل دانی کی مہارت بھی ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کے اس مضمون کی بنا پر میں تو قسم کھا کر کہہ سکتاہوں کہ آپ نے انجیل دیکھی ہی نہیں ۔ کاشکہ خدا آپ کو یہ توفیق دیتاکہ کم از کم ایک بار ہی آپ اس کو دیکھ لیتے ۔ قبلہ ! میں آپ سے بالتحدی مطالبہ کرتا ہوں کہ کچھ نہیں توایک جملہ یاایک لفظ ہی آپ " انجیلوں" میں سے اقتباساً پیش کریں جس سے اگر بالوضاحت نہیں تو بلاشارہ یا بالکنایہ سمجھا جاسکے کہ مریم صدیقہ "بغیر باپ" کے پیدا ہوئی تھیں ۔ تاسیہ روی شودہر کہ دردغش باشد ۔
آپ کا یہ فرمانا بھی کہ ’’بعض بیانات سے بجائے عمران کے مریم باپ کا نام یواقیم درج ہے‘‘۔ مافوق کذب اور بہتان ہے ۔ انجیلوں میں نہ تو مریم صدیقہ کے والد کا نام عمران لکھاہے اور نہ یواقیم لکھا انجیل میں جو نسب نامہ درج ہے بعض مفسرین کا یہ خیال ہے ہ وہ مریم کا نسب نامہ ہے ! اگر یہ خیال درست بھی ہو تب بھی انجیلوں میں باہم سخت اختلاف نہیں بلکہ قرآن مجید او رانجیلوں میں اختلاف ہوسکتاہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں مریم صدیقہ کے باپ کا نام عمران لکھاہوا ہے۔ اور لوقا کی انجیل میں عیلی لکھا ہوا ہے۔ لیکن درحقیقت قرآن مجید اورانجیل مقدس بھی حقیقی اختلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص کے دو نام ہوں۔ صحف ِ مطہرہ میں بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک شخص کے کئی کئی نام ہوتے تھے۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ الصلواة و السلام کے دو نام تھے۔ ابرام ، ابراہام خود حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة السلام کے چار مشہور نام تھے۔ یسوع (عیسیٰ) ، مسیح ، عمانوائیل و ابن آدم ، مقدس پطرس کے دو نام تھے شمعون وپطرس وغیرہ۔ سرسید مرحوم بھی یہی لکھتے ہیں کہ " عیسائی مذہب کی کتابوں سے ٹھیک طورپر یہ معلوم نہیں ہوتاکہ حضرت مریم کے باپ کا کیا نام تھا۔ بعضے گمان کرتے ہیں کہ ہیلی یا عیلی ان کے باپ کا نام تھا۔ اگر وہ صحیح بھی ہو تو ممکن ہے کہ ایک شخص کے دو نام ہوں (عمران ۳۵)
4 إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
ترجمہ: جس وقت عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو میرے پیٹ میں ہے میں نے اس کو خالصاً تیری نذر کردیا پھر میری طرف سے قبول کر بیشک تو ہی سننے والا ہے جاننے والا پھر جب بیٹی پیدا ہوئی تواس نے کہا اے پروردگار میں نے تو بیٹی جنی اور خدا خوب جانتا ہے جو اس نے جنا اور بیٹا بیٹی کی مانند نہیں ہوتا اورہاں میں نے اس کا نام مریم رکھا اور بیشک میں اس کو اوراس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں مردود شیطان سے (سلطان)
مسئلہ ولادت ِ مسیح وآیات وانجیل وقرآن
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ :
"اب دوسری صورت بحث کی یہ ہےکہ نفس ِ مسئلہ ودلات مسیح کے متعلق انجیل وقرآن کی آیات پر غور کیا جائے۔ انجیلیں چار ہیں۔
(۱۔) متی کی انجیل جو حضرت عیسیٰ کے دو سال بعد لکھی گئی اورتمام انجیلوں میں بہت قدیم ہے۔
(۲۔) لوقا کی انجیل جو ۳۰۔ ۳۱ سال بعد تحریر میں آئی ۔
(۳۔) یوحنا کی انجیل جو ۶۳ ، ۶۴ سال بعد لکھی گئی ۔
(۴۔) مرقس کی انجیل جو اس کے بہت بعد کی ہے۔
ان چاروں انجیلوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ یوسف مریم کے شوہر اور عیسیٰ کے باپ تھے متعدد مقامات پر اسی نسبت کا اظہار کیا گیا ہے (دیکھو انجیل متی باب ۱درس ۱۶۔لوقا کی انجیل باب ۲ورس ۳۳۔ یوحنا کی انجیل با ب ۶ درس ۴۲)۔
دیانتدار نقال
اختلاف آرا کی بنا پر ہم کسی شخص کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔اگرہم ایسا کریں تو یقیناً اخلاقی مجرم ہوں گے ۔’’ نگار‘‘ میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ کسی مضمون کی نقل اتارنےمیں نہایت دیانتداری سے کام لیتے ہیں ۔ حتی ٰ کہ مکھی پر مکھی مارنے کے گویا آپ مجسم مصداق بنتے ہیں۔ مضمون صحیح ہو یا غلط ان کی بلا سے۔ صرف نقل کرنے سے ان کا مطلب ہوتا ہےچنانچہ فقرہ مافوق اس کا شاہد ہے ۔ فقرہ مافوق کو آپ نے سرسیدؔ علیہ الرحمتہ کی ’’تفسیر قرآن‘‘ کے (سورہ عمران کے صفحہ ۲۱ )سے بلفظ نقل کیا ہے۔ اوراس کی صحت اور عدم صحت کا قطعاً لحاظ نہیں کیا۔ حالانکہ سرسیدؔ مرحوم کا یہ خیال کہ " مرقس کی انجیل اس کے بہت بعد کی ہے۔" بالکل صحت سے خالی ہے ۔حالانکہ مرقس کی انجیل تمام تر انجیلوں میں قدیم تر ہے ۔ (ڈمیلو کی ایک جلد تفسیر بائبل)۔
(The One Volume Bible Commentary Edited By J.R. Dummelow. M.A)
خیر! یہ توایک تاریخی مسئلہ تھا جس کی تحقیق ’’نگار‘‘ کی نازک طبیعت برداشت نہیں کرسکتی تھی اب آپ کی انجیل فہمی ملاحظہ ہو۔ آپ ( درحقیقت سرسید مرحوم ) لکھتے ہیں کہ :
مدیر صاحب نگؔار کی انجیل فہمی
ان چاروں انجیلوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ یوسف مریم کے شوہر اورعیسیٰ کے باپ تھے۔ متعدد مقامات پر اسی نسبت کا اظہار کیا گیا ہے۔(دیکھو انجیل متی ۱: ۱۶۔ لوقا کی انجیل ۲ : ۳۳۔ یوحنا کی انجیل ۶: ۴۲)۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف انہیں مقامات ِبالا میں بلکہ اور مقامات میں بھی یوسف کو مریم کا شوہر اورعیسیٰ کا باپ کہا گیا ہے۔ لیکن جب ان مقامات کو اناجیل کے دیگر مقامات کےساتھ مقابلہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتاہے کہ " شوہر اور باپ" کے وہ معنے نہیں ہیں جو مدیر صاحب نگؔار اور سرسیدؔ مرحوم سمجھتے ہیں۔ ہم ذیل میں ان آیات کولکھتے ہیں جن سے الفاظ بالا پر روشنی پڑتی ہے:
" اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طر ح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی توان کے اکٹھے ہونے سےپہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی ۔ پس اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا چپکے سے اس کو چھوڑدینے کا ارادہ کیا۔وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا ۔ اے یوسف ابن داؤد ۔ اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے"۔(متی ۱: ۱۸تا ۲۱) نیز ملاحظہ ہو( لوقا ۱: ۲۶تا ۲۸)۔
آیاتِ مافوق میں چند نہایت غور طلب امور کا بیان ہے۔ مثلاً:
(۱۔)مریم صدیقہ کی منگنی یوسف کے ساتھ۔
(۲۔) منگنی کی حالت میں مریم صدیقہ کا حاملہ پایا جانا۔
(۳۔) یوسف کو جب معلوم ہواکہ مریم صدیقہ حاملہ ہیں تو ان کو چھوڑدینے کاارادہ کرنا۔
(۴۔) جب مریم صدیقہ حاملہ پائی گئیں تو اس وقت تک وہ یوسف کے گھر میں نہیں رہتی تھیں ۔
(۵۔) فرشتہ کا یوسف کو خواب میں یہ کہنا کہ یہ حمل انسانی نطفہ سے نہیں بلکہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔
امر اول پر ہم دونوں کا اتفاق ہے اس لئے اس پر مزید بحث کرنا فضول ہے ۔ البتہ امر دوم قابل ِ غور ہے۔ سرسید ؔمرحوم اپنی ’’تفسیر القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’مسیح کی ولادت منگنی کی حالت میں یوسف کےنطفہ سے ہوئی تھی۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہودیوں میں منگنی اور نکاح میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا‘‘۔
(تفسیر القرآن ۔ عمران آیت ۴۲)
یہ سراسر غلط اور بالکل لغو ہے۔ مجھ کو بے حد تعجب ہے کہ سرسیؔد جیسے محقق کے قلم سے کس طرح یہ لغزش (بھول چوک،خطا)واقع ہوئی اورہمارے کرم فرما آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :
" مریم کا تعلق ازدواج تو یقیناً اس سے ثابت ہوتاہے کہ ان کی اور اولادیں بھی تھیں پھر جس طرح اور اولادیں تعلق ازدواج کے بعد ہوئیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی ہوگئی۔"
کسی دو شخصوں میں ایک بات پر اختلاف پایا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں میں سے ایک حق بجانب ہوگا۔ یعنی یا تو سرسیؔد حق بجانب ہوں گے جو مسیح کی ولادت کو اثنائے منگنی میں تسلیم کرتے ہیں یا ہمارے کرم فرماحق بجانب ہوں گے جو مسیح کی ولاد ت کو نکاح کے بعد تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن انجیلِ مقدس مقتدی اور مقتداد دونو کی تکذیب کرتی ہے۔چنانچہ امر سوم سے ظاہر ہے ۔ اگردرحقیقت مسیح کی ولادت یوسف کے نطفہ سے منگنی کی حالت میں یا اس کے بعد نکاح کی حالت میں ہوتی تو یوسف کا چپکے سے مریم کو چھوڑدینے کا ارادہ کرنا نہ صرف بے معنی بلکہ شرارت ہوتی ۔ کیونکہ بقول سرسید مرحوم اگر یہودیوں کے دستور کے موافق منگنی اورنکاح میں کوئی فرق نہیں تھا تو مریم صدیقہ کے چھوڑدینے کی کوئی وجہ نہ تھی اوریوسف علی الاعلان (باآواز ِبلند)کہہ سکتا تھا کہ یہ میرا نطفہ ہے ۔ اور بقول ہمارے کرم فرما کے اگرتعلق ازدواج کے بعد مسیح کی ولادت ہوئی ہوتی تب تو مطلق ان کو مریم صدیقہ کے چھوڑدینے کا خیال تک نہ کرنا چاہیے تھا۔ وہ کون شخص ہے کہ اپنی منکوحہ بیوی کو جو اسی کے نطفہ سے حاملہ ہوئی ہو چھوڑدینے کا ارادہ کرے تاوقت یہ کہ وہ بدذات اور شریر النفس ثابت نہ ہو۔کیاہمارے کرم فرمایہ ثابت کرسکیں گے ؟ پس یوسف کا مریم صدیقہ کے چھوڑدینے کاارادہ کرنا اس بات کی کافی اور شافی دلیل ہے کہ مسیح کی ولاد ت میں یوسف کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ مریم صدیقہ اس وقت تک یوسف کے گھر میں بھی نہیں آئی تھیں جیساکہ امر چہارم سے ثابت ہے۔ورنہ فرشتے کا یہ کہنا کہ اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر" مہمل(بیکار) ٹھہرتا تھا۔
امر پنجم تو صاف طور پر اور بالوضاحت بتلارہا ہے کہ مریم صدیقہ کا یہ حمل نہ تو یوسف سے تھا اور نہ کسی اور بشر سے تھابلکہ محض" روح القدس کی قدرت " سے تھا۔ پس جہاں کہیں اناجیل میں یوسف اور مسیح کے تعلق کو باپ یا بیٹے یا اسی قسم کے دیگر الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے وہ سب مجاز پر محمول ہیں نہ کہ حقیقت پر ۔ اب آپ سمجھ گئے ؟
قرآن مجید سے ولادت ِ مسیح پر بحث
آگے چل آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :
کلام مجید کی آیات میں کسی جگہ اس کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آپ کی ولادت بغیرباپ کے ہوئی ہے لیکن بعض الفاظ ایسے ہیں جن سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتاہے اس لئے آئيے اب ان الفاظ پر غور کریں کہ اصلی بحث یہی ہے اور اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے۔
" اب آپ عمران کی ان آیتوں کو دیکھئے جنہیں ہم درج کرچکے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلا وہ لفظ جس کو ولاد ت مسیح سے متعلق سمجھا جاتا ہے ’’کلمہ ‘‘کا لفظ ہے۔ یعنی ملائکہ کا مریم سے یہ کہنا کہ ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں خدا کی طرف سے ایک’’ کلمہ‘‘ کی جس کا نام ابن مریم ہوگا اس بات کو ظاہر کرتاہے کہ مسیح واقعی خدا کے صرف ایک کلمہ تھے اور یہی کلام مسیح کی ولادت کا باعث ہوا ۔لیکن کسی شخص کا یہ خیال کرنا نا فہمی کی دلیل ہےکیونکہ اول تو اس کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ جس کلمہ کی خوشخبری دی جاتی ہے اس کا نام مسیح ہوگا ۔ کیونکہ لفظ کلمہ مونث ہے اور اسمہ میں ضمیر مذکر کی ہے اگر وہ مقصود ہوتا تو اسم ھا ہونا چاہیے تھا ۔ دوسرے یہ کہ اگر مسیح کو کلمہ الہٰی سمجھ لیا جائے تو بھی اس سے ان کی ولادت بے باپ کے کیسے ثابت ہوسکتی ہے ؟
کلمہ کا لفظ کلا م مجید میں اکثر جگہ آیا ہے لیکن کسی جگہ اس کےمعنی لفظ یاکلام کے نہیں لئے گئے۔ اکثر جگہ تو اس سے مراد پیشینگوئی لی گئی ہے لیکن کہیں کہیں احکام ربانی کتاب الہیٰ اور مخلوقات مراد ہیں مثلاً(سورہ آل عمران آیت ۳۹)
اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ
کہ یہاں کلمہ سے مراد پیشینگوئی ہے۔(سورہ یونس آیت ۶۴)
لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ
کہ اس جگہ بھی پیشینگوئیاں یا مقادیر الہیہٰ مراد ہیں۔(سورہ انعام آیت ۳۴)
وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ
یہاں بھی کلمات سے پیشینگوئیاں مراد ہیں۔(سورہ الکہف آیت ۱۰۹)
قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا
یہاں کلمات سے مخلوقات مراد ہیں۔
پھر جب قرآن پاک میں کسی جگہ کلمہ کے معنی لفظ کے نہیں آئے تو آل ِ عمران کی اس آیت میں کیوں کر وہ معنی مراد ہوسکتے ہیں ظاہرہے کہ یہاں بھی کلمہ کے معنی پیشینگوئی کے ہیں۔ جیساکہ امام راؔزی نے بھی ظاہر کیا ہے۔ یا صرف مخلوق کے اوراس لحاظ سے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ’’فرشتوں نے مریم سے کہا الله تجھے ایک بیٹے کی پیش گوئی کی خوشخبری دیتا ہے جس کانام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا‘‘ لفظ (ولد یبشرک) کے بعد مخذوف سے جیساکہ (سورہ حجر کی آیت ۵۵ )میں (قالو البشرک) کے بعد لفظ ولد محذوف(حذف کیاگیا،الگ کیاگیا) ہے اور اس طرح محذوفات پرُ کرنے کے بعد آیت یوں ہوگی:
" اِبنِ الله یبشرک بکلمتہ منہ ( بولد) اسمہ مسیح الخ ۔’’یعنی الله خوشخبری دیتا ہے تجھے اپنی طرف سے ایک پیش گوئی کی (اور وہ پیشینگوئی ایک لڑکے کی ہے) جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا‘‘۔ لفظ ولد کو حذف کرکے اس کا مفہوم مراد لینا بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم لوگ کنایتہً کسی کو حاملہ کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ فلاں عورت اُمید سے ہے یا ولادت کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ خدا جلد کوئی خوشخبری سنائے بالکل یہی انداز بیان اس جگہ کلام مجید کا ہے۔ بہر حال اس آیت میں لفظ کلمہ سے کوئی مفہوم ایسا اخذ نہیں ہوسکتا جس سے عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہو۔ (سورہ مریم) میں بجائے لفظ کلمہ کے صراحتہً الفاظ غلازً کیا (پاکیزہ لڑکا) استعمال کئے گئے ہیں اور یہ مزید ثبوت اس امر کا ہے کہ یہاں بھی لفظ کلمہ کا مفہوم وہی ہے نہ کہ کام خداوندی"۔
عبارت بالا میں آپ کے خیالات وقرار ذیل مندرج ہیں:۔
(ا)۔ " کلام مجید کی آیات میں کسی جگہ اس کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آپ( مسیح) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی ہے"۔
(ب)۔"لفظ کلمہ مونث ہے اور اسمہ میں ضمیر مذکر کی ہے اگر وہ مقصود ہوتا تو اسم ہا ہونا چاہیے تھا"۔
(ج) ۔" کلام مجید میں کسی جگہ کلمہ کے معنی لفظ یاکلام کے نہیں لئے گئے "۔
(د)۔" اکثر جگہ کلمہ سے مراد پیش گوئی لی گئی ہے لیکن کہیں کہیں احکام ربانی ۔ کتاب الہیٰ اور مخلوقات مراد ہیں"۔
(ه) ۔" اوراس طرح محذوفات پرُ کرنے کے بعد آیت یوں ہوگی"۔
قرآن مجید میں مسیح کی ولادت بغیر باپ کے بالوضاحت موجود ہے۔
شق الف کے متعلق یہ عرض ہے کہ جو شخص ایک سرسری نگاہ سے ہی ہمارے اس رسالہ کو ایک بار دیکھے گا وہ یقیناً تسلیم کرے گا کہ قرآن مجید میں مسیح کی ولادت بغیر باپ کے بالوضاحت موجود ہے اورجمہور مسلمان کا اس پر نہ صرف اتفاق ہے بلکہ ایمان ہے۔ آگے چل کر جہاں قرآن مجید کی آیات پر بحث کریں گے وہاں ہم اس کو ثابت بھی کریں گے۔
لفظ کلمہ اور مدیر صاحب نگؔار کی عربی دانی
آپ کے اس مضمون کی بہ تنقیح(کسی چیز کو زوائد اورعیوب سے پاک کرنا) کرتے کرتے جب میں فقرہ مافوق تک پہنچ گیا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اب تک تو سرسیؔد مرحوم کی تفسیر کی نقل ہورہی تھی اُنہی کے خیالات کا منتج(نتیجہ ) ہورہا تھا ،لیکن یہاں سے رنگ کچھ بدلا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ آپ کے شق " ب ۔ہ" تک کی بحث نہ تو سرسید مرحوم کی تفسیر میں ہے اور نہ سر سید مرحوم کوئی اوّلی درجہ کے عربی دان تھے جو اس طرھ کی غلط بحث کرکے اپنی لیاقت پر داغ لگاتے ۔لہذا مناسب معلوم ہوا کہ میں ان شقوق کے ماخذ کا بھی پتہ لگاؤں ۔ چنانچہ میں نے فی الفور پتہ لگا لیا کہ یہ پوری بحث مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے ترجمہ القرآن سے منقول ہے ۔ چنانچہ مولیٰنا لکھتے ہیں کہ :۔
’’ایسی کی موید یہ بات ہے کہ کلمتہ منہ کے بعد فرمایا اسمہ ۔حالانکہ کلمتہ مونث ہے۔تو پس اسمہ میں ضمیر مبشر بہ کی طرف جائے گی یعنی اس کا نام جس کی بشارت دی جاتی ہے۔ کلمہ کی ضمیر دوسری جگہ صاف موئنث ہے۔ (کلمتہ القاھا الی مریمہ) تو پس جب ضمیر کے لئے )المبشربہ( کی تاویل کرنی پڑی تو(کلمة منہ کو یبشرک )کا مفعول ثانی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
(نکات القرآن صفحہ ۲۳۱ ، نوٹ ۴۳۷ اور بیان القرآن نوٹ نمبر ۴۲۳ صفحہ ۳۱۰ اور ترجمتہ القرآن انگریزی نوٹ نمبر ۴۲۳)۔
مقابلہ کرو شق" ب" کے ساتھ:
’’کلمتہ ایک تو نحویوں کی اصطلاح ہے اور صرف ایسے لفظ پر بولاجاتاہے ۔ جو مفروضی کے لئے وضع کیا گیا ہو۔ مگر قرآن کریم میں او ر عام محاورہ میں کلمہ سے مراد کلام لیا گیا ہے جیسا کاف کے اس قول پر کہ(سورہ المومنون آیت ۹۹۔۱۰۰) رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ فرمایا (سورہ المومنون آیت ۱۰۰)اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕجس میں اس طاری کلام کو کلمہ فرمایا ہے۔ ایسا ہی فرمایا(سورہ اعراف آیت ۱۳۷) وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ الۡحُسۡنٰی عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ بِمَا صَبَرُوۡا ؕ اس کلمہ سے مراد الله تعالیٰ کا یہ وعدہ لیا گیا ہے(سورہ القصص آیت۵) وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ پس(سورہ آل عمران ۳۹)بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ سے مراد الله تعالیٰ کا کلام ہے۔۔۔۔ اب الله کے والکلام مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ جس کی تصدیق حضرت یحییٰ علیہ اسلام نے کی وہ صرف ان کی پیدائش کاذکر ہے۔اور درحقیقت یہاں مراد صرف اسی قدر ہے کہ وہ الله تعالیٰ کے اس کلام کو جو پیش گوئی کے رنگ میں حضرت زکریاہ پر ظاہر ہوا پورا کر دکھائیں گے۔ کلمة من الله کے یہی معنی یعنی الله تعالیٰ کا کلام برنگ پیش گوئی حضرت مسیح کے متعلق بھی ہے۔( سورہ تحریم آیت ۱۲)میں حضرت مریم کے متعلق ہے وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا۔ اس نے اپنے رب کے کلمات کو سچ کر دکھایا یہ بھی اسی حال میں درست ہوسکتا ہے کہ کلمات سے مراد پیش گوئیاں لی جائیں۔ نہ( کلمات ربھا) سے مراد مسیح ہیں اور نہ( کلمة من الله) سے مراد مسیح ہے۔ (نوٹ ۴۳۱) اپنے کلمات کے متعلق الله تعالیٰ فرماتا ہےکہ " اگر میرے رب کے کلمات کے لئے سمندر بھی سیاہی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات اس قدر لاتعداد ولاتحصیٰ ہیں کہ سمندر ختم ہوجائیں مگر وہ کلمات ختم نہ ہوں "۔ (نوٹ نمبر ۴۳۷ نکات القرآن )
مقابلہ کرو شق" ج ،د " کے ساتھ (سورہ آل عمران آیت۴۵)
اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ
ترجمہ:۔’’الله تعالیٰ تجھے بشارت دیتا ہے بذریعہ اپنے ایک کلام کے (ایک لڑکے کی ) جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے‘‘۔
عام طور پر اس کے معنی یوں کئے جاتے ہیں۔ الله تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام مسیح ابنِ مریم ہے۔ اس لحاظ سے مسیح کو الله تعالیٰ کاایک کلمہ کہا گیا ہے۔ ۔۔۔مگر میں کہتا ہوں کہ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ میں باذریعہ کے لئے ہے۔ یعنی معنی یہ ہیں کہ ’’اے مریم الله تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمہ کےذریعہ بشارت دیتا ہے‘‘۔ جیساکہ حضرت ابراہیم کو اسحاق کی بشارت ملی یبشرک بالحق ہم تجھے حق کےذریعہ بشارت دیتے ہیں ۔ یہ مراد نہیں کہ الحق کی بشارت دیتے ہیں ۔ اس صورت میں مفعول کو محذوف کرکے اس کی بجائے فرما دیا اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ ۔ وہ جس کی بشارت ہم دیتے ہیں اس کانام مسیح ہے۔ تو کَلِمَۃٍ مِّنۡہُ سے مراد صرف الله تعالیٰ کی پیش گوئی ہے‘‘
(نوٹ نمبر صفحہ ۴۳۷ نکات القرآن اورترجمہ القرآن انگریزی نوٹ نمبر ۴۳۷)۔
مقابلہ کرو شق " ه" کےساتھ۔
اب ان شقوق کے ماخذوں کے معلوم ہونے کے بعد ہر ایک کے متعلق جداگانہ جداگانہ بحث کریں گے ۔ شق " ب " سے ہماری اس رائے کی جو ہم مدیر صاحب کی عربی دانی کی نسبت کہیں اگلے صفحوں میں ظاہر کرچکے ہیں۔ ایسی تصدیق ہوتی ہے جس کو کوئی شخص کسی حالت میں رد نہیں کرسکتا ہے ۔ میں اس کو تسلیم کرتا ہوں کہ " کلمہ " لفظ مونث ہے۔ اور اس کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ " اسمہ " میں ضمیر مذکر کی ہے۔ لیکن آپ کے اس جملہ کو کہ " اگر وہ مقصود ہوتا تو (اسمھا )ہونا چاہیے تھا " سراسر لغو سمجھتا ہوں ۔ قبلہ آپ نے نقل کرنے کی خوبی تو خوب دکھائی لیکن اس پر غور نہ کیاکہ مولانا محمد علی صاحب نے جو کچھ لکھاہے وہ قوانین نحویہ کے اعتبار سے صحیح بھی ہے یا نہیں ۔ اب سنئے ! علم ِنحو (وہ علم جس سے کلمات کو جوڑنا توڑنا اور اُن کا باہمی تعلق معلوم ہو)کا یہ ایک بین قانون ہے کہ ایسے الفاظ کو جو کہ لفظاً مونث میں جب کسی مذکر کے لئے بطور اسم کے مستعمل ہوجائیں تو اس حالت میں ان کے لئے فعل یاضمیر لانے میں ان کی ثانیث لفظی ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے ۔اوران کے مفہوم اور مسمیٰ کا لحاظ واجب ہوجاتاہے۔ اب اس کی دلیل بھی سن لیجئے ۔ طلحہ ایک لفظ ہے جو بعینہ کلمہ کی طرح مونث ہے ۔ اورآنحضرت کے ایک نہایت ممتاز صحابی کا نام ہے۔ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر طلحہ کے لئے عربی میں کوئی فعل یا ضمیر لائی جائے تواس کی جنسیت کیا ہونی چاہیے؟ آیا مذکر یا مونث ؟ آپ کہیں گے کہ مونث ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے مان لیا ہے کہ ’’چونکہ کلمہ مونث ہے لہذا اس کے لئے ضمیر بھی مونث ہونی چاہیے‘‘۔ بسیار خوب۔ اب میں طلؔحہ کے لئے عربی میں ایک فعل مونث اور ایک ضمیر مونث لاکر آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا ۔ یہ جملے صحیح اور درست ہیں؟ کہ قامت طلحہ ، طلحہ قائمتہ وطلحة قائم ابوھا ۔ آپ تو ضرور کہیں گے کہ درست ہیں لیکن جن کو عربیت سے ذرا بھی مس ہے وہ آپ پر قہقہ لگائیں گے۔ قبلہ ! مافوق کے جملوں کی صحیح سورتیں یوں ہیں۔ قائم طلحہ صلحة قائم وطلحة قائم ابوہ۔ پس اس قاعدہ کی رو سے " اسمہ میں جو ضمیر مذکر ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔ میں سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو اس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے جس طرح اپنے شاگردوں کوسمجھاتا ہوں اگر اس پر بھی آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو بہتر ہے کہ آپ اپنے استاد مولانا محمد علی صاحب سے استصواب کریں۔
کرم فرمائے من ! یہ قاعدہ عربیت ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ اردو میں بھی رائج ہے۔ آپ تو چشم بددور نہ صرف ایک اعلیٰ شاعر ہیں بلکہ ایک ممتاز اردو انشاء پرداز بھی ہیں۔ پھر نہ معلوم آپ سے کس طرح یہ بات پوشیدہ رہی ؟ اُردو زبان میں وفا، جفا ، اگر غلطی نہیں کرتا تو نیاز (ورنہ بتاویل نذرتو) ضرور مونث ہیں۔ اب اگر کوئی شاعران الفاظ کو بطور تخلص کے استعمال کرے تو آپ کے قاعدہ کی رو سے یوں کہنا چاہیے کہ "وفا اچھی شاعر ہے " جفا صاحبہ مشاعرہ میں تشریف ملائیں " اورنیاز (بتاویل نذر) اچھی طبیعت رکھتی ہے"۔ اب آپ ہی انصاف سے فرمائیں کہ اردو دان اصحاب ان جملوں کو سن کر کیا فتویٰ لگائیں گے یہی ناکہ " ان کا اردو سب سے اچھا ہے" ۔!!!
قبلہ ! آپ کو شق" ج" میں ہمچو مافوق سخت مغالطہ دیا گیا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ خود جناب نے کلام مجید پر غور نہیں فرمایا اور مولانا مولوی محمدؔ علی صاحب کے اعتبار پر لکھ دیا کہ " کلام مجید کسی جگہ کلمہ کے معنی لفظ یاکلام کے نہیں لئے گئے " اگر میں صرف ایک ہی آیت ایسی پیش کروں جس میں " کلمہ " بمعنی " لفظ " یا کلام" کے ہو تو آپ کے اس قاعدہ کلیہ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لئے کافی ہے ۔لیکن میں ایسی چند آیتیں پیش کروں گا"۔پہلی آیت (سورہ کہف آیت۵)
مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا
ترجمہ۔" نہ تو ان کو اس بات کا کچھ علم ہے اورنہ ان کے باپ دادوں کے کو اس کا علم تھا۔ کیسی بڑی بات ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ سراسر جھوٹ کہتے ہیں " ۔
دوسری آیت ملاحظہ فرمائیں(سورہ مومنون آیت ۹۹۔۱۰۰)
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ
ترجمہ:۔ "جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو کہے گا کہ اے رب مجھ کو پھربھیجو۔
شاید میں کچھ بھلام کام کروں جو پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ یہ صرف بات ہی بات ہے جو وہ کہتا ہے " ۔
مزیدبراں تیسری آیت پیش خدمت ہے(سورہ توبہ آیت ۷۴)
یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوۡا ؕ وَ لَقَدۡ قَالُوۡا کَلِمَۃَ الۡکُفۡرِ وَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِہِمۡ
میں خود اس آیت کا ترجمہ نہیں کروں گا بلکہ مولانا مولوی اشؔرف علی صاحب تھانوی کا ترجمہ لکھوں گا جو زمانہ حاضر کے ایک مستند عالم ہیں ۔ وہ ترجمہ یہ ہے:۔
ترجمہ:’’ قسمیں کھاتے ہیں الله کی اور ہم نے نہیں کہا ۔ اوربیشک کہا ہے کہ انہوں نے لفظ کفر کا اورمنکر ہوگئے ہیں مسلمان ہوکر‘‘۔
آیت نمبر اول میں نہ فقط کلمہ بہ معنائے بات(لفظ)کے مذکور ہے بلکہ کلمہ کی تعریف بھی اس کے ساتھ مندرج ہے تاکہ اس کے لفظ ہونے میں کسی قسم کاشک باقی نہ رہے۔ علمِ نحو میں کلمہ کی تعریف یہ لکھی ہوئی ہے کہ (کَلِمَۃَ)لفظ وضع بمعنی مفرداً یعنی کلمہ لفظ مفرد ومعنی دار ہے۔ اور لفظ کی تعریف شرح حامی میں یہ لکھی ہے کہ( اللفظ فی الغتہ دی الشی من الفمہ یقال اکلمت التمرة ولفظت النواة )یعنی لغت میں لفظ کے معنی کسی چیز کو منہ سے پھینکنا ہے ۔ عرب کے لوگ کہا ں کرتے ہیں کہ میں نے کھجو ر کھالی اور اس کی گٹھلی منہ سے پھینک دی۔ اب اس تعریف کو آیت نمبر اول سے مقابلہ کرکے داد دیجئے کہ کس معنی خیز اختصار کے ساتھ اس میں لکھاہے کہ(کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ )۔ اسی طرح آیت نمبر دوم میں کلمہ کے بعد (قَآئِلُہَا)کو لاکر اس کے لفظ ہونے پر مہرکردی کیونکہ عربی میں کوئی شخص قائل (کہنے والا) نہیں کہا جاسکتا ہے تاوقت یہ کہ وہ اپنے منہ سے کچھ نہ کہے ۔ اور تعریف بالاسے ثابت ہے کہ جو کچھ منہ سے نکلتاہے وہ لفظ ہوتاہے یا الفاظ ۔ آیت نمبرسوم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کے ایک چوٹی کے عالم نے کلمہ کا ترجمہ" لفظ " کیا ہے۔
اس قدر لکھنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کو شق " د " کی طرف متوجہ ہوجاؤں کیونکہ میں سطور بالا میں ثابت کرچکا ہوں کہ قرآن مجید میں کلمہ کے معنی ’’لفظ ‘‘کے بھی آئے ہیں ۔ چونکہ آپ نے دوتین آیتیں اپنے ثبوت میں پیش کی ہیں لہٰذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان پر بھی سرسری نظر ڈالوں۔
سب سے پہلی آیت جس سے آپ نے استد لال(دلیل دینا) کیا ہے کہ کلمہ بہ معنائے پیش گوئی ہے یہ ہے کہ ’’ مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ ‘‘ ۔ اگر کچھ دیر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ اس آیت میں کلمہ سے مراد پیش گوئی ہے تو اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ۔ کہ " الله تجھ کو یحیٰی کی خوشخبری دیتا ہے جو پیش گوئی کی تصدیق کرنے والا ہے "۔ یہ ظاہر ہے کہ تصدیق اس چیز کی جاتی ہے جو معین ہو یعنی وہ ایسی کھلی ہوئی بات ہو کہ بروقت تصدیق مصدق کی سچائی او دروغ بانی صاف طورپر عیاں ہوجائے ۔ حالانکہ اس آیت میں کسی قسم کی تخصیص تعئین نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ " یہاں کلمہ سے مراد پیش گوئی ہے"۔ یہی سبب ہے کہ سرسیدؔ مرحوم بھی اس اس آیت میں کلمہ کا ترجمہ " پیش گوئی " نہیں کرتے بلکہ اس سے مراد" الله کا حکم " یا " الله کی کتاب" لیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ(مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ) (تفسیرالقرآن آل عمران صفحہ ۱۴) حالانکہ سرسیدؔ مرحوم بھی غلطی پر ہیں لیکن آپ سے کمتر ۔ آیت زیر بحث کے صحیح معنی جس کو تمام مفسرین نے بھی تسلیم کیا ہے یہ ہیں کہ ’’یہاں پر کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں‘‘۔ جو انجیلِ مقدس کے بھی عین موافق ہے ۔ انجیلِ مقدس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ حضرت یحییٰ حضرت عیسیٰ کے مصدق تھے(متی ۳: ۱۱تا ۱۲؛مرقس ۱: ۷تا ۸؛ لوقا ۳: ۱۵تا ۱۷؛یوحنا ۳: ۲۶تا ۲۹)۔باقی رہیں وہ تین آیتیں جن میں لفظ کلمات آیا ہے ۔وہاں بھی ان کے معنی ہر گز" پیش گوئیاں " کے نہیں ہیں بلکہ الفاظ ربانی یا کتُب ربانی کے ہیں ۔ لیکن یہ کہنا کہ قرآن مجید میں "کلمہ یا کلمات " ایک ہی معنی میں مستعمل ہوئے سراسر نادانی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید " کلمہ" یا" کلمات " مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں تو ان کے معنوں کی تعین اور تحدید کسی طرح ہوسکتی ہے؟ سوال کا جواب یہ ہے کہ قرینہ اور سیاق وسباق سے مثلاً "کلمات" بقرینہ مداد (سیاہی ) الفاظ کے معنوں میں ہے یا بمعنائے مجموعہ الفاظ یعنی کتاب وقس علیٰ ھذا۔
مدیر صاحب نگار کی عربی دانی کا مزید ثبوت
آپ کی شق" ھ" کو پڑھ کر جی میں آیا کہ اس کو کاٹ کر " زمیندار کے دفتر میں مدیر صاحب فکاہات اور انقلاب لاہور میں" مدیر صاحب افکار وحوادث کی خدمت میں بھیج دوں۔ لیکن یہ سوچ کر باز رہا کہ مولانا ظؔفر علی اور حضرت ساؔلک جیسے غیور مسلمانوں سے یہ بعید ہے کہ وہ ایک عیسائی اور افغان عیسائی کے مضمون کو اپنے مخصوص میں کالم میں جگہ دیں اور مضمون بھی جب کہ آپ کے ایک ہم پیشہ کے متعلق ہو۔ لہٰذا عربی دان طبقہ کی ضیافت طبع کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے آپ لکھتے ہیں کہ:۔
" اور اس طرح محذوفات پُر کرنے کے بعد (سورہ آل عمران آیت۴۵) یوں ہوگی ۔( اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ (بولد)اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ )۔ اس عبارت کے شروع میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ " لفظ ولد یُبَشِّرُکِ کے بعد محذوف ہے جیساکہ (سورہ حجر کی آیت ۵۵ )میں (قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ )کے بعد لفظ ولد محذوف ہے"۔
الله اکبر !ہندوستان میں عربیت کے فقدان پر جس قدر ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے ! اگر حضرت نیاؔز کو اس کا یقین ہوتا کہ اس کس مپرسی کے باوجود ہندوستان میں ہزاروں عربی دان موجود ہیں تو کیا ان کو " محذوفات" پر کرنے کی جرات ہوتی ؟ اور اس بیباکی کے ساتھ قرآن مجید کی آیتوں کو مجروح کرتے ؟ قرآن مجید کو بازیچہ اطفال بنانا۔ اپنی رائے اور مرضی پر اس کی آیات کی تفسیر کرنا اگر کچھ بھی حقیقت رکھتاہے تو نیاؔز صاحب سے جاکر پوچھو۔
گر تو قرآن بدین نمط خوانی
ببری رونق مسلمانی
محترمی ! آیت(اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ) کو( سورہ حجر کی آیت ۵۵) پر قیاس کرنا یا قیاس میں الفارق اور عربی نہ جاننا ہے۔( سورہ حجر کی آیت ۵۵ )میں اس وجہ سے لفظ" بغلام" جسے آپ "ولد " کہتے ہیں کہ محذوف مانا جاسکتا ہے کہ فعل (یُبَشِّرُکِ)دو مفعول چاہتا ہے اوریہاں صرف ایک مفعول " ک " ہے۔ اس لئے اس کے معنی پورے کرنے کے لئے بقرینہ (آیت ۵۴ ) یُبَشِّرُکِ کے بعد" بغلام" کو جو( آیت ۵۴ )میں مذکور ہے محذوف مانتے ہیں۔لیکن آیت (اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ)پر یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس آیت میں دونو مفعولین موجود ہیں۔ مفعول اول " ک " اور مفعول" ثانی " بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ " جو صفت موصوف ہے۔
دوسری غلطی آپ کی یہ ہے کہ جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ " لفظ ولد یُبَشِّرُکِ " کے بعد محذوف ہے۔" تو مناسب تھاکہ ولد "یُبَشِّرُکِ " کے بعد رکھ کر یوں لکھتے ۔( اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بولد بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ) جو ایک مہمل جملہ بنتا ہے۔ حالانکہ آپ نے " بولد کو " بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ " کے بعد رکھ کر یوں لکھاہے کہ " (اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ (بولد)اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ) گویا کہ آپ اپنی عبارت سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ " کلمہ" بدل ہے لفظ" ولد" کا جوبالکل غلط ہے کیونکہ کلمہ مونث ہے اور ولد مذکر ہے ۔یہ ایک دوسرے کے بدل نہیں ہوسکتے ۔
تیسری غلطی آپ کی یہ ہےکہ آپ نے " اسۡمُہُ مَسِیۡحُ " میں سے " مسیح" کے شروع سے الف لام کو حذف کرکے آیت کو بے زینت کردیا۔ اگر آپ کو الف لام کے استعمال کے قوانین معلوم نہ تھے تو آپ اس کو حکائی صورت میں " اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ " لکھ سکتے تھے۔ لیکن بے خبری کا کیا علاج !
نیاز صاحب کا اپنے منہ سے اقرار کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے
اب میں ان تمام نحوی نکات سے قطع نظر کرکے کہتا ہوں کہ یہ تمام اصول غلط ہیں بلکہ نیاؔز صاحب صحیح اور درست فرماتے ہیں کہ یُبَشِّرُکِ کے بعد" بولد" محذوف ہے ۔ پس آیت زیرِ غور کی صحیح صورت یہ ہوگی کہ " اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بولد مِّنۡہُ " یعنی اے مریم خدا تجھ کو اپنے بیٹے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ہوگا اور لقب ابن مریم " ۔ د رحقیقت ہم مسیحیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ مسیح کو جو انجیل مقدس میں " کلام "کہا گیا ہے اس کے معنی"ابن الله " کےہیں۔ انجیل شریف میں اس کے سینکڑوں شواہد موجود ہیں یہ ہے " اس قوت برتر واعلیٰ" کی حکمت جس نے آپ ہی کے منہ سے کہہ دیا کہ " مسیح خدا کا بیٹا ہے"
فالحمد الله علی ذالک
ترجمہ:۔’’شکر الله کہ میاں من وتو صلح فتاد‘‘۔
وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ پر بحث
اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
" آل عمران کی دوسری آیت جو اس امر کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے یہ ہے(سورہ آل عمران آیت ۴۷)
قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ
ترجمہ:۔’’مریم نے کہا اے پروردگار میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے دراں حالیکہ مجھے کسی مرد نے نہیں چُھوا ۔ خدا نے یہی ہو گا ۔ الله پید ا کرتا ہے جووہ چاہتا ہے ۔جب وہ کسی کام کاکرنا ٹھہرالیتا ہے تو کہہ دیتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے‘‘۔
مریم کا یہ کہنا کہ مجھے کسی مرد نے نہیں چُھوا ۔اس بات کا ثبوت نہیں کہ عیسیٰ کے کوئی باپ نہ تھا کیونکہ مریم کا تعلق ازدواج تو یقیناً اس سے ثابت ہے کہ ان کے اور اولادیں بھی تھیں پھر جس طرح اوراولادیں تعلق ازدواج کے بعد ہوئیں اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی ہوگی ۔البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جس وقت مریم کو بشارت دی گئی اس وقت تک اس کا نکاح نہ ہوا ہوگا۔ اور اسی لئے انہوں نے کہا کہ مجھے تو اب تک مرد نے نہیں چُھوا ہے لیکن بعد کو تعلق ازدواج قائم ہوا اور حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے "۔
ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں شروع ہی سے کہتا آیا ہوں کہ جو کچھ حضرت نیاؔز نے لکھا ہے وہ ان کی دماغ سوزی اور عرقریزی کا نتیجہ اوران کے ذہن رسا کا خلاصہ نہیں بلکہ سرسیدؔ مرحوم اور مولانا محمد علؔی صاحب کی عبارات کی نقلیں ہیں جن کو وہ اپنی طرف نسبت دیتے ہیں۔ عبارت بالا بھی انہی سنگلاخوں میں سے ایک سنگ ریزہ ہے جس کو حضرت نیاؔز نے غلطی سے دُر شہورا سمجھ کر نقل کیا ہے۔ مولانا مولوی محمد علؔی صاحب آیت ِ مافوق کی تحت میں لکھتے ہیں کہ
(لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ) سے یہ استد لال نہیں ہوسکتا کہ آئندہ بھی مریم کو بشر نے نہیں چُھونا تھا۔ کیونکہ حضرت عیسی ٰ کی ولادت کے مسئلہ کو اگر متنازع بھی مانا جائے کہ و ہ بغیر مس بشر کے پیدا ہوئے تھے یا مس بشر سے یہ امر بہر حال مسلم ہے کہ حضرت عیسیٰ کے اوربھی بھائی اور بہنیں تھیں وہ تو آخر مس بشر سے ہی پیدا ہوئے تھے ۔ پس (ولَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ)صرف گذشتہ کے متعلق ہے اور آئندہ کے لئے نہیں "
(نوٹ نمبر ۴۴۱ نکات القرآن اردو ترجمہ القرآن نوٹ ۴۲۷)
میں اس مضمون پر کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کب ہوئی ۔ آیا نکاح کے قبل یا اس کے بعد ۔ اس کتاب میں اوپر مفصل بحث کرچکا ہوں یہاں اس کے اعادہ (دوہرائی)کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں مجھے یہ دکھانا ہے کہ حضرت نیاؔز کو نہ صرف سرسیدؔ مرحوم سے اختلاف ہے بلکہ ان کے دوسرے صاحب ماخذ مولانا محمد علؔی صاحب کے قبلہ وکعبہ حضرت مرزؔا صاحب آنجہانی غفر الله ذنوبہ سے بھی سخت اختلاف ہے ۔جن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن دانی میں ان کی ہمسری کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا ہے ۔ مرزا صاحب آنجہانی غفر الله ذنوبہ اپنی کتاب (کشتی نوح کے صفحہ ۱۶) میں لکھتے ہیں کہ
" اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سےبوجہ حمل کے نکاح کرلیا۔ گولوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تو رات میں عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول(کنواری) ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا ہے ؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں"۔
آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ جناب کے صاحب ِ ماخذ کے مرشد کس صفائی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ حضرت مریم صدیقہ نے’’ بوجہ حمل کے نکاح کرلیا‘‘۔ یعنی ان کے نکاح کرنے کاسبب " حمل " ہے جو " نکاح" پر مقدم ہے۔ اب سوال یہ باقی رہے گا کہ ان کو یہ حمل کس طرح ہوا ؟
آریہ سماجی علیہم ماعلیھم یہ کہتے ہیں کہ معاذ الله
" ناجائز طور پر ہوا"۔
(ستیارتھ پرکاش صفحہ ۶۲۹ باب ۱۳)
سرسیدؔ مرحوم کہتے ہیں کہ
’’ منگنی کی حالت میں یوسف سے ہوا ‘‘۔
(تفسیرالقرآن )
آپ اور آپ کے صاحب ِ ماخذ مولوی محمد علؔی صاحب فرماتےہیں کہ "نکاح کے بعد ہوا ہوگا "۔ جس کی مرزا صاحب آنجہانی غفر الله ذنوبہ تردید کرتے ہیں۔ اور تمام مفسرین عظام وتمام محدثین کرام وکل متکلمین علامہ اور تمام کتُب سماویہ ذی المجد والا احترام یہ کہہ رہے ہیں کہ " خدا کی قدرت سے ہوا " انجیل مقدس کے بعض حوالجات تو ہم اس کتاب میں لکھ چکے ہیں ۔ مفسرین ومحدثین ومتکلمین اسلام کے اقوال اس لئے پیش نہیں کرسکتے کہ کتاب کی ضخامت بہت بڑھ جائے گی ۔ اگر ہمارے کرم فرما مطالبہ کریں تو ایک جداگانہ رسالہ کی صورت میں پیش کئے جاسکیں گے۔ اب صرف قرآن کریم کی آیت مافوق پر بحث کرنا اور حضرت نیاؔز کی غلطی کا اظہار کرنا باقی رہ گیا ہے سووہ بھی سن لیجئے ۔
مسیح کی ولادت بے پدر کے پانچ ثبوت
حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ پیدا ہونے کا پہلا ثبوت لفظ کذالک
یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک عصمت مآب وعفت انتساب کنواری لڑکی سے اگر یکایک یہ کہا جائے کہ "تیرے لڑکا ہوگا" تو اس عفیفہ کی حیرت اور استعجاب (حیرانی)کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ یہی واقعہ حضرت مریم کو اس وقت درپیش آیا" جبکہ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم الله تجھ کو خوشخبری دیتا ہے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی "۔ تو مریم صدیقہ بے حد متحیر ہوئیں اوراپنی حیرت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا " کس طرح میرے لڑکا ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے چُھوا تک بھی نہیں ہے"۔ اب اگر خداکو یہ منظور ہوتاکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة والسلام کی ولادت تعلق ازدواج کے قائم ہونے کے بعد مساس بشری سے ہو تو مریم صدیقہ کو جواب میں یہ کہنا چاہیے تھا " ویمسسک " یا نہایت واضح سورت میں " بشر" پر الف لام عہد ذہن بڑھا کر یوں کہنا چاہیے تھاکہ " ویمسسک البشر " یعنی تیرا خاوند تجھے چُھوئے گا" لیکن فرشتہ اس قسم کے تمام جملوں سے جن سے مریم صدیقہ کا تعلق ازدواج ثابت ہو اعراض (روگردانی،منہ پھیرنا)کرتا ہے ۔اور یہ بات نہ تو میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ دنیا کے کسی عقلمند شخص کی سمجھ میں آسکے گی کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت " تعلق ازدواج" کے ذریعہ سے ہونے والی تھی تو فرشتہ نے اس سے کیوں اعراض کیا او رکیوں صاف صاف نہ بتلایا؟ لیکن خدا کو تو یہ منظور تھاکہ حضرت عیسیٰ کی ولادت مواصلت وموافعت بشری کے بغیر محض اس کی قدرت کے اظہار کے طورپر ہو۔ چنانچہ فرشتہ نے اسی امر کا اظہار مریم صدیقہ پر بدیں الفاظ کیاکہ "کذالک" ہمارے فاضل مخاطب نے جو عربی دانی پر بہت ہی نازاں معلوم ہوتے ہیں کہ "کذالک" کے متعلق جو کچھ سپردِقلم فرمایا ہے وہ عربی دان اصحاب کے لئے من لطائف الادب سے کمترتحسین آفرین نہیں ہے آپ لکھتے ہیں کہ
" یہاں پر ایک اورنکتہ قابل ِ غور ہے وہ یہ کہ " قَالَ کَذٰلِکَ " آگے کی عبارت" اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ "(سورہ آل عمران آیت ۴۰) سے متعلق ہے یا نہیں۔ (سورہ مریم آیت۹) میں بھی یہی الفاظ آئے ہیں لیکن اس طرح " قَالَ کَذٰلِکَ ۚ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ " اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جس طرح سورہ مریم میں قال کذلک علیحدہ ہے اسی طرح سورہ آل عمران میں بھی اور اس صورت میں اس کا مطلب ہوگا کہ جب مریم نے کہا کہ میرے کیسے بیٹا ہوگا جبکہ مجھے کسی مرد نے نہیں چُھوا تو فرشتہ نے کہا " " کَذٰلِکَ " (ایسا ہوگا) یعنی تمہیں مرد چُھوئےگا اور تمہارے اولاد ہوگی"۔
جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ " قَالَ کَذٰلِکَ علیحدہ ہے" اورپھر " کَذٰلِکَ " کا ترجمہ " ایسا ہوگا " کرے ۔ عربیت کی مٹی پلید کرنا اگر مقصود نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ ہمارے کرم فرما کوتو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کَذٰلِکَ " کیا بلا ہے ۔ اسم ہے فعل ہے۔ حرف یا مفرد ہے یا مرکب ہے ۔ کیا ہے یا کیا نہیں ہے۔ آپ نے قرآن مجید کے کسی اردو ترجمہ میں کَذٰلِکَ " کے نیچے " ایساہوگا" دیکھ لیا ہوگا صحیح یاغلط برگردن مترجم کہہ کر یہاں لکھ دیا۔ بس آپ عربی دانوں میں شامل ہوگئے ۔
قبلہ ! " کَذٰلِکَ " بنظر تفصیل مرکب ہے ان اجزا سے :( ک) حرف تشبیہ (ذا) اسم اشارہ قریب" (ل ) حرف تبعید" (ک ) حرف خطاب سے وبنظر جمال( ک) حرف تشبیہ و(ذالک) اسم اشارہ بعید سے ۔ ان دونوں صورتوں میں " کَذٰلِکَ " کے ترجمہ میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا واجب ہے یعنی (۱) مشبہ بہ اور (۲) مشارالیہ کا ۔ پس " کَذٰلِکَ " کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ " جیسا میں نے کہا ہے اسی حالت عدمِ مساس بشری میں تیرے لڑکا ہوگا"۔ اوراگر حالت عدم مساس بشری مشارالیہ نہیں ہے تو جملہ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ و کُنۡ فَیَکُوۡنُ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ دونوجملے امرفوق العادة کے واقعہ ہونے پر استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً جب حضرت زکریا نے کہا کہ " اے پروردگار کس طرح میرے لڑکا ہوگاحالانکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے" تب الله نے فرمایا اسی حالت 5 میں لڑکا ہوجائے گا کیونکہ الله جو کچھ ارادہ کرتا ہے اس کو کر گزرتا ہے "۔ (عمران آیت ۴۰ ترجمہ از مولانا اشرف علی صاحب تھانوی) اسی طرح قرآن مجید میں جتنی دفعہ جملہ (کُنۡ فَیَکُوۡنُ )استعمال ہوا ہے اتنی دفعہ امر خرق العادة کے واقع ہونے کا اظہار کرتاہے ۔ میں قارئین کی سہولت کے لئے ذیل میں ان مقامات کے نشان لکھوں گا جہاں جہاں یہ جملہ واقع ہوا ہے ۔ اورالتماس کرتا ہوں کہ ہر ایک مقام کو غور سے پڑھ کر تصفیہ کریں کہ میں حق بجانب ہوں یا حضرت نیاؔز ۔ وہ مقامات یہ ہیں :
قرآن مجید سورہ ۲آیت ۱۱۱، سورہ ۱۱۳آیات ۴۲، ۵۲۔ سورہ ۶آیت ۷۶۔ سورہ ۱۶آیت ۴۲۔ سورہ ۱۹آیت ۳۶۔ سورہ ۳۶آیت ۸۲۔ سورہ ۴۰آیت ۷۰۔
حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ پیدا ہونے کا دوسر ا ثبوت لفظ "ہَیِّنٌ "
اگرچہ ایک حق گو اور حق پسند شخص کے لئے ثبوت ِمافوق کافی سے زیادہ تشفی وہ امر ہے ۔ لیکن میں نے یہ التزام کیا ہے کہ چند ایسی موٹی موٹی باتیں جن کو حضرت نیاؔز کا ذہن بخوبی قبول کرسکے ولادت مسیح کے متعلق مسلسل پیش کروں۔ چنانچہ لفظ" ہَیِّنٌ " اس سلسلہ کی دوسری کڑی ہے۔ فرشتہ مریم صدیقہ کے پاس آکر کہتا ہےکہ " اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا (میں بھیجا ہوں تیرے رب کہ دے جاؤں تجھ کو ایک لڑکا ستھرا"(سورہ مریم آیت۱۹)۔ اس کو سن کر مریم صدیقہ کہتی ہیں کہ(سورہ مریم آیت۲۰) (اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا)’’کہاں سے ہوگا میرے لڑکا اورچُھوا نہیں مجھ کو آدمی نے اور میں بدکار بھی نہ تھی‘‘۔ اس کے جواب میں فرشتہ کہتا ہےکہ (قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ) ’’اسی حالت میں جیسا میں نے کہا تیرے لڑکا ہوگا۔ فرمایا تیرے رب نے وہ مجھ پر آسان ہے‘‘۔ لفظ(ہَیِّنٌ )اس مقام پر خدا کی عظمت اور اقتدار کے اظہار کے لئے واقع ہوا ہے ۔ یعنی جس بات کو مریم صدیقہ محال تصور کرتی تھیں، اسی بات کے متعلق خداکہتا ہے کہ میں اس کے کرنے پر قادر ہوں کیونکہ " وہ مجھ پر آسان ہے"۔ اگر اس پیش گوئی کا تعلق " تعلق ازدواج" کے بعد سے ہوتا تو اس قول سے کہ " وہ مجھ پر آسان ہے" خدا کی فضیلت اور تفوق ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ " آسان" کو " آسان " کہنا نہ صرف خدا کا کام ہے بلکہ انسانوں کا بھی کام ہے۔ پس اگر ہم آپ کے قول کو صحیح مان لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا کی مجبوری اور عاجزی کا اقرار کریں۔
حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ پیداہونے کاتیسرا ثبوت" وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا "
ہر ایک وہ شخص جس کو خدا نے دیدہ حق بین عنایت کیا ہے سورہ مریم کی اس آیت کو کہ(قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا ﴿۲۳﴾) جب غور سے پڑھے گا تو یقیناً اس سے یہی سمجھے گا کہ مریم صدیقہ کے یہ رنج اور حزن کے کلمے وضع حمل کی تکلیف کی وجہ سے سرزد نہیں ہوئے بلکہ محض بدنامی کے ڈر سے ۔ کیونکہ خدا نے عورت کی سرشت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ اولاد کے پیداہونے میں اس قدر خوشی محسوس کرتی ہے کہ اس کے بالمقابل تمام تکالیف کو نہایت صبر واستقلال کے ساتھ برداشت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نازک سے نازک عورت بھی بوقت وضع حمل یہ نہیں کہتی ہے کہ " کاش اس تکلیف سے پہلے میں مرچکی ہوتی"۔ میں نے چند مستند اورنہایت تجربہ کار لیڈی ڈاکٹروں سے اس معاملہ کے متعلق دریافت کیا کہ آیا ان میں سے کسی نے بوقت وضع حمل کسی عورت کے منہ سے اس قسم کے کلمے سُنے ہیں۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ بلکہ ان میں سے ایک نے تو یہاں تک کہا کہ میں ایسی حاملہ عورتوں کے پاس رات دن رہی ہوں جن کودو دو تین تین دن تک بے حد تکلیف ہوتی رہی ،لیکن کسی کے منہ سے میں نے ایسے کلمے نہیں سنے ۔ ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے مجھ سے کہا کہ بوقت وضع حمل عورتوں کو بیشک تکلیف ہوتی ہے ،لیکن ان عورتوں کو جو محنت کی عادی ہوتی ہیں بہت کم تکلیف ہوتی ہے یہاں تک کہ دھاتی عورتیں وضع حمل کے بعد فی الفور اپنے کام کاج میں لگ جاتی ہیں ۔
مختصر مریم صدیقہ کے یہ کلمے کہ " اے کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی " وضع ِحمل کی تکلیف پر نہیں بلکہ بدنامی کے خوف پر دلالت کرتے ہیں۔ اور الفاظ "بھولی بسری ہوگئی ہوتی " اس کی مزید تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم مریم صدیقہ وضع حمل کی تکلیف کی وجہ سے یہ کہتیں تو ان کا کہنا کافی ہوتاکہ’’ اے کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی ‘‘لیکن یہ کہ میرا نام دنیا کے ذہن سے محو ہوجائے اور تاریخ کے صفحات سے مٹ جائے۔ ایسے الفاط ہیں جو خاص بدنامی کے خوف پر دلالت کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ پیدا ہونے کا چوتھا ثبوت " وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ "
ہمارے کرم فرمانے (سورہ انبیاء آیت۹۱) کہ( وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۱﴾)سرسیؔد مرحوم کی تفسیر سے نقل کرکے کسی قدر کم وبیشی کے ساتھ انہی کے الفاط میں اس کے دو لفظوں (نفخ روح واحصنت ) پر یوں بحث کی ہے کہ :
" ان آیات یا اسی مفہوم کی دوسری آیتوں میں جو جدید لفظ قابل ِ غور ہے وہ " نفخ روح" ہے بعض کا خیال ہے کہ خدا کا یہ کہنا کہ ہم نے "روح پھونکی"اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عیسیٰ صرف روح الله تھے اور ان کے کوئی باپ نہ تھا۔ لیکن یہ استد لال حد درجہ ضعیف ہے کیونکہ خدا نےہر انسان کی پیدائش کا باعث نفح روح قرار دیا ہےجیسا(سورہ سجدہ آیت ۷۔۹) درج ہے۔
خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ۚ ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ
علاوہ ازیں اس کے (سورہ انبیاء کی آیت ۹۱ )سے بھی جو اوپر درج کی گئی ہے۔ یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مریم شوہر والی تھیں۔ کیونکہ اس میں لفظ (اَحۡصَنَتۡ )استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی آپ کو محصنہبیان کیا گیا ہے اور محصنہ اس عفیفہ کو کہتے ہیں ۔’’جو شوہر رکھتی ہو‘‘۔ کنواری کو عربی زبان میں محصنہ نہیں کہتے ہیں۔ اس آیت میں جو مریم کے متعلق ظاہر کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو اس سے یہ مقصود ہے کہ انہوں نے سوائے اپنے شوہر کے اور مردوں سے احتراز کیا نہ یہ کہ اپنے شوہر سے بھی۔ چونکہ بعض یہودی آپ پر زنا کی تہمت رکھتے تھے اس لئے خدا نے کلام مجید میں ان کی عفت کی شہادت دی ۔یہاں ایک نکتہ اور قابل ِ غور ہے وہ یہ کہ یہودیوں نے زنا کی تہمت یوسف نجار(بڑھئی) کے ساتھ کبھی نہیں لگائی بلکہ ای ایک اور شخص پنتھرانالی(؟) کے ساتھ منسوب کی تھی۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یوسف نجار کا شوہر ہونا اس وقت سب کو معلوم تھا اوراس کے ساتھ تہمت نہیں لگاسکتے تھے"۔
آیت ِمافوق میں جو جملہ سب سے زیادہ قابل ِ غور ولائق بحث تھا وہ یہ ہے کہ وَجَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ" لیکن افسوس ہے کہ نہ تو سرسیدؔ مرحوم کو اس پر بحث کرنے کی جرات ہوئی اورنہ ہمارے کرم فرما کو اورنہ ان کے دیگر ذوی المواخذ کو ۔قبل اس کے کہ میں اس پر بحث کروں مناسب معلوم ہوتاہےکہ حضرت نیاؔز کی دو غلطیاں جو عبارت بالا میں ظاہر کی گئی ہیں بے نقاب کروں۔
پہلی غلطی
آپ کی پہلی غلطی یہ ہے کہ " آپ انسان کی پیدائش کا باعث نفخ روح" بتلاتے ہیں۔ اور آیت (خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ )الخ سے اس پر دلیل پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں " انسان کی پیدا ئش " کی علت " طِیۡنٍ " (مٹی) اوراس کی نسل " کی پیدائش کی علت " مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ " (نطفہ) بیان کی گئی ہے ۔ اور" نَفَخَ رُّوۡحِہٖ" کا واقعہ اس کے تسویہ(برابر کرنا،سدھا کرنا،ٹھیک کرنا) کے بعد بیان کیا گیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ آپ عربی نہیں جانتے ہیں اس لئے آپ سے بار بار لغزش ہوتی ہے۔ اس آیت میں " ثُمَّ" حرف عطف ہے جو تراضی(رضامندی، خوش ہونا) اور مہلت کے لئے مخصوص ہے۔ یعنی انسان کی تخلیق کے کچھ دیر بعد " اس میں اپنی روح پھونکی " ۔ سرسیدؔ مرحوم چونکہ عربی دان اور اس نکتہ سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اس آیت سے اس پر استد لال کیا ہے کہ " تمام انسانوں کی نسبت خدائے تعالیٰ نے نفخ روح کہا ہے " (تفسیر القرآن سورہ عمران صفحہ ۴۳)۔ کاش کہ آپ سرسیدؔ مرحوم کی اس عبارت کو بلفظہ نقل کرنے پر اکتفا کرتے ۔ زیراکہ پیدائش چیزے دیگراست ونفخ روح چیز ے دیگر یعنی پیدا ہونا اور ہے اور روح کا پھونکنا اور۔
دوسری غلطی
آپ کی دوسری غلطی لفظ " محصنہ " کی تعریف ہے آپ لکھتے ہیں کہ ’’محصنہ اس عفیفہ کو کہتے ہیں جو شوہر رکھتی ہو ‘‘الخ ۔ جو سراسر غلط بلکہ الغلط ہے۔ میں بار بار گذارش کرچکا ہوں کہ آپ عربی نہیں جانتے ہیں ناحق اس وادی پُر خار(کانٹوں سے بھری) میں پابرہنہ(ننگے پاؤں) سرگردان پھرتے ہیں۔ آپ کے استاد ِ ازل یعنی سرسیدؔ مرحوم بھی بحوالہ (تفسیر کبیر) اس کا اطلاق زن ِ شوہر داروزن بے شوہر دونو تسلیم کرتے ہیں (دیکھو تفسیر القرآن سورہ آل عمران صفحہ ۲۳، ۲۴ )۔ نیز (قاموس منتہی الارب وصراح )میں بھی اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ " زن پارسا یا شوہردار"۔ وامراة حصان کسحاب عفیفتہ اومتزوجہ" یعنی حصان اس عورت کی صفت ہوتی ہے جو پارسا ہوا یا شادی شدہ ہو"۔ یہ توتو صیفی معنی ہوئے ۔ اور اس کے فعلی معنی حفاظت کرنے کو ہوتے ہیں۔ مثلاً (اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا) " مریم نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی " ۔ پس فعلی معنی میں بھی اس کا اسناوزن ِ شوہردار بے شوہردار وبے شوہر دونو کی طرف ہوتا ہے ۔ پس آپ کا یہ کہنا کہ کنواری کو عربی زبان میں محصنہ نہیں کہتے ہیں " بالکل غلط ہے۔ باقی رہا یہ کہ مریم صدیقہ شوہر دار تھیں یا نہیں اس پر ہم اوراق گذشتہ میں بالتفصیل بحث کرچکے ہیں ،جس کے اعادہ کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ ہاں جناب کا یہ کہنا کہ " بعض یہودی آپ پر زنا کی تہمت رکھتے تھے۔ الی۔ بلکہ ایک اور شخص پنتؔھرانالی کے ساتھ منسوب کی تھی" گوزِشتر (بے بنیاد،بے اثر،بیہودہ)سے کم نہیں ہے۔ جب آپ اس کو کسی مستند تاریخی حوالہ سے ثابت کریں گے اس وقت میں اس حقیقت کو بھی بے نقاب کرنے کے لئے تیار ہوں گا۔
اب میں اپنے محترم مخاطب اور آپ کے مجملہ ہم خیال سے پوچھتا ہوں کہ آیت مافوق میں(وَجَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ)’’اور کیا اس کو اور اس کے بیٹے کو ہم نے نشانی جہان والوں کے لئے ‘‘۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة والسلام تو بیشک بوجہ رسالت وتعلیم معجزات آیتہ للعالمین ہوسکتے ہیں ۔لیکن مریم صدیقہ کے آیتہ للعالمین ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ بجز اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ خدا کی قدرت سے آپ بلا مساسِ بشری حاملہ ہوئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے بطن مبارک سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ۔ یہ ایک ایسی " نشانی " ہے جس کی مثل دنیا میں نہیں مل سکتی ہے۔
حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا پانچواں ثبوت" وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ"
ہمارے مہربان حضرت نیاز تحریر فرمانے ہیں کہ :
" بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کلام مجید میں ہر جگہ عیسیٰ کو ابن ِ مریم کہا گیا ہے ان کےباپ کا نام کسی جگہ درج نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ۔ لیکن یہ استد لال غلط ہے کیونکہ کلام مجید جب نازل ہوا تو عیسیٰ اس وقت ابنِ مریم ہی کی کنیت سے مشہور تھے اور اسی لئے مخاطبت میں اس لفظ کو قائم رکھا علاوہ اس کے مگر کلام مجید میں کسی کے باپ کے ذکر کا نہ ہونا اس امر کی دلیل ہو کہ اُس کے باپ ہی نہ تھا تو موسیٰ کو بھی بن باپ کے ماننا پڑے گا کیونکہ اُن کی پیدائش کے ذکرمیں بھی اُن کے باپ کا نام نہیں لیاگیا"
یوں تو ہر ایک شخص کو اختیار ہے کہ جو چاہے سو لکھے لیکن آپ جیسے محقق اور قرآن فہم شخص کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے سب کچھ قلم کے حوالہ کرے۔آپ کا یہ کہنا کہ ’’کلام مجید جب نازل ہوا تو عیسیٰ اُس وقت ابن ِمریم ہی کی کنیت سے مشہور تھے‘‘ بالکل بے بنیاد ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلواة والسلام بجز" ابنِ آدم" کے اور کسی کنیت سے مشہور نہ تھے۔ (دیکھو اناجیل اربعہ) نیز آپ کا یہ فرمانا بھی غلط ہے کہ " موسیٰ کی پیدائش کے ذکر میں بھی ان کے باپ کا نام نہیں لیا گیا"۔ کیونکہ قرآن مجید میں صرف حضرت موسیٰ کے " باپ کا نام" موجود ہے دیکھئے آپ کے مقتد ء ا سرسیدؔ مرحوم اپنی تفسیر میں کیا لکھتے ہیں کہ
" تو کچھ شبہ نہیں رہتا کہ اس مقام پر عمران سے موسیٰ وہارون کے باپ مراد ہیں"
(تفسیرالقرآن آیت ۳۰ سورہ آل عمران)
لیکن حضرت عیسیٰ کے باپ کا نام نہ تو ان کی پیدائش کے ذکر میں اور نہ پیدائش کے بعد کے اذکار(ذکرکی جمع) میں لیا گیاہے جس سے صاف ثابت ہے کہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔
خیر ! جانےدیجئے کہ حضرت موسیٰ کےباپ کا نام قرآن مجید میں موجود ہے یا نہیں ۔ لیکن اس آیت کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا (سورہ مریم آیت۳۲)۔ حضرت عیسیٰ کا اگر باپ ہوتا تو ان کو یہ کہنا چاہیے تھاکہ " وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ" چنانچہ قرآن مجید میں یہی الفاظ حضرت یحییٰ کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن اس طرح کہ (وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ کےوالد بھی تھے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ کاباپ ہوتا تو ضرور تھا کہ وہ آیت مافوق میں ان کا بھی ذکر کرتے کیونکہ عدم ذکر سے یہ لازم آتاہے کہ حضرت عیسیٰ کا سلوک اپنے والد کے ساتھ اچھا نہ تھا اوریہ ان کی شان ِ رسالت کے برخلاف ہے، لیکن چونکہ وہ بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے اس لئے ان کاذکر نہیں کیا۔
چونکہ حضرت نیاؔز کے متعلق میرا یہ گمان ہے کہ آپ نہایت لائق اور فائق ہیں اس لئے ثبوت ہائے مافوق کو ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ورنہ قرآن مجید کی ان آیات میں جن میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کاذ کر ہے وہ حقائق ومعارف بھرے ہوئے ہیں جن کی تفصیل کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔
حرف" ف" ولفظ" کان "پر بحث اور حضرت نیاز کے متضاد اقوال
سلسلہ مضمون کو جاری رکھتے ہوئے حضرت نیاز تحریر فرماتے ہیں کہ :
"آپ سورہ مریم کی آیتوں پر غور کیجئے ۔
(سورہ مریم آیت۱۶)اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا مکان شرقی سے مراد حضرت مریم کی خواب گاہ ہے یاان کی عبادت کی جگہ جہاں بحالت ِخواب ان کو فرشتہ نظر آیا اوراس سے وہی گفتگو ہوئی جس کا ذکرسورہ آل عمران میں بھی موجود ہے۔تاہم ایک اور حوالہ قابلِ ذکرہے( سورہ مریم آیت ۲۱) (وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ لیکن ان کا تعلق حضرت عیسیٰ کی آئندہ زندگی اورنبوت سے ہے نہ کہ ولادت وطریقِ ولاد ت سے۔
اس کے بعد مریم کے حاملہ ہونے کا اور ان کے چلے جانے کا ذکر ان الفاظ میں ہے(سورہ مریم آیت ۲۲) فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ۔جب قرآن مجید میں کوئی قصہ یا واقعہ بیان کیا جاتاہے تو درمیان کی غیر ضروری کڑیاں چھوڑ کر خاص خاص باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، لیکن بعض لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح واقعات بیان ہوئے ہیں وہ سب مسلسل اور فوراً وقوع میں آئے ہیں۔ (سورہ مریم) میں پہلے مریم کا فرشتہ کو دیکھنا ۔ بیان ہوا ہے اور اس کے بعدہی حاملہ ہونے، وضع حمل کی تکالیف میں مبتلا ہونے ، عیسیٰ کو اپنی قوم کے پاس لانے اورعیسیٰ کا لوگوں سے گفتگو کرنے کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تمام جملے’’ ف‘‘ سے شروع کئےگئے ہیں جس سے ترتیب واقعات تو ضرور ظاہر ہوتی ہے لیکن قُرب زمانی سے اس کوکوئی واسطہ نہیں ہے ۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام واقعات فوراً ہوگئے یعنی فرشتہ کا آنا، مریم کا حاملہ ہونا، وضع حمل ہوجانا اور مسیح کا بولنا یہ سب ایک ہی ساعت یا دن میں ہوگیا۔ حالانکہ مقصود وصرف واقعات کو اس ترتیب سے ظاہر کرنا ہے نہ یہ کہ وہ فوراً وقوع میں آگئے۔
(سورہ مریم) کی آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ مریم حاملہ ہونے کے بعد کسی دور جگہ چلی گئیں اور تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جگہ ناصؔرہ تھی یا مؔصر جہاں وہ اپنے نسبتی شوہر یوسف نجار کے ساتھ تشریف لے گئیں۔ اس کے بعد آیت " فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ" سے شروع ہوتی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہےکہ وضع حمل جنگل میں کسی بلند مقام پر ہوا۔ جب کہ مریم حالت ِ سفر میں تھیں اور وضع حمل کی تمام وہ تکالیف آپ پر طاری ہوئیں جو عام طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ گویا دوسرا ثبوت اس امر کا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت اسی طرح ہوئی جس طرح عام طورپر تمام بچوں کی ہوتی ہے ۔پھر دو آیتیں جن میں حضرت مریم کا عیسیٰ کو اپنی قوم کے پاس لانا وغیرہ بیان ہواہے۔ اوران میں بعض لفظ تو ضرور غور طلب ہیں۔ ہم ان کو مکرر درج کرتے ہیں۔(سورہ مریم ۲۷تا ۳۰)
فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ۔
ان آیات کا مفہوم یہ ہےکہ جب مریم حضرت عیسیٰ کو لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا اے مریم یہ تم عجیب چیز لے کر آئی ہو حالانکہ نہ تمہارا باپ براتھا۔ اورنہ تمہاری ماں خراب تھی۔ یہ سن کر انہوں نے حضرت عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارہ کا بچہ تھا۔ اس پر عیسیٰ نے کہا میں الله کا بندہ ہوں مجھے کتاب دی گئی ہے اور میں نبی بنایا گیا ہوں وغيرہ وغیرہ۔
غور طلب امر یہ ہے کہ قوم نے کیوں کہا کہ تم عجیب چیز لے کرآئی ہو۔ اور کیوں مریم کے باپ کے متعلق یہ کہا کہ وہ خراب نہ تھے اسی کےساتھ مریم کا عیسیٰ کی طرف اشارہ کرنا اور قوم کا یہ کہنا کہ ہم بچہ سے کیا بات کریں اورپھر حضرت عیسیٰ کا گفتگو کرنا ان تمام باتوں کی کیا اصلیت ہے؟ عام طور پر ان آیات کا مفہوم یہ لیا جاتاہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی مریم اس کو قوم کے پاس لے آئیں اورچونکہ مریم کی شادی کسی سے نہ ہوئی تھی۔ اس لئے ان کو بچہ پیداہونے پر تعجب ہوا اور انہوں نے مریم پر یہ الزام لگایاکہ تمہارے ماں باپ تو ایسے نہ تھے۔ یہ تم نے کیا حرکت کی کہ ناجائز بچہ پیدا ہوا۔ لیکن حضرت عیسیٰ نے وہیں گودیا گہوارہ سے قوم کو مخاطب کیا جو ان کا ایک معجزہ تھا۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ خود انہیں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب اپنی قوم کے پاس لائے گئے تو بچہ نہ تھے اورنہ مریم پر لوگوں نے ناجائز مولود پیدا کرنے کا الزام لگایا تھا۔
وہ لوگ جو یہ بیان کرتے ہیں کہ کہ مریم ان کوبالکل حالتِ طفلی یا شیر خوارگی میں لائیں وہ ثبوت میں لفظ (تَحۡمِلُہٗ) کو پیش کرتے ہیں یعنی مریم حضرت عیسیٰ کو لائیں اس حال میں کہ وہ انہیں اٹھائے ہوئے تھیں یا گود میں لئے ہوئے تھیں۔ ایسا سمجھناغلطی ہے کیونکہ خود کلام مجید میں دوسری جگہ یہی لفظ ہے اور وہاں گود میں لینے کی معنی نہیں ہیں بلکہ کسی سواری پر لے جانے کے ہیں۔ ملاحظہ ہو( سورہ توبہ آیت ۹۳)۔
وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ
اس لئے یہاں بھی یہ معنی ہوئے کہ مریم حضرت عیسیٰ کو سواری پر لائیں۔ علاوہ اس کے جو گفتگو حضرت عیسیٰ نے کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت عیسیٰ پیغمبر ہوچکے تھے اوران کو کتاب الہٰی مل چکی تھی۔اور یہ امر ظاہر ہے آپ کو نبوت تیس(۳۰) سال کی عمرمیں ملی ہے۔ اسی کے ساتھ قوم کا یہ کہنا کہ اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں بچہ تھا (یعنی انہوں نے لفظ (کَانَ) کا استعمال کیا ہے جس سے زمانہ ماضی ظاہر ہوتا ہے ۔نہ یہ کہ وہ فی الحال گہوارہ کے بچے ہیں۔ اس سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ اس وقت حضرت عیسیٰ بچہ نہ تھے۔
اب رہا یہ امر کہ قوم کا مریم سے کہنا کہ تم عجیب چیز لائی ہو ۔اوریہ کہ تمہارے ماں باپ خراب نہ تھے سو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کہ ان پر ناجائز مولود پیدا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اوران کا کوئی شوہر نہ تھا۔چونکہ حضرت عیسیٰ یہودیوں کے عقائد کے خلاف تلقین کرتے تھے اس لئے انہوں نے لفظ (فَرِیًّا)استعمال کیا جس کے معنی ایسے شخص کے ہیں جو عجیب وغریب باتیں کرے یا دکھائے ۔یعنی انہوں نے کہا کہ اے مریم یہ کیسا بیٹا تم نے جنا ہے جو ہمارے معتقدات کی اس قدر توہین کرتا ہے حالانکہ تمہارے ماں باپ تو ایسے نہ تھے۔
یہ سن کر مریم نے کہا کہ اسی سے پوچھو جس پر اہلِ قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل گہوارہ میں کھیلتا تھا۔ اس سے مقصود گویا عیسیٰ کی توہین تھی اوران کی ناتجربہ کاری کو ظاہر کرنا۔ اس کے جواب میں جو کچھ عیسیٰ نے کہا وہ قطعی ثبوت اس امر کا ہے کہ لوگوں نے مریم پر زنا کی تہمت نہیں لگائی اور نہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ نے جوکچھ جواب میں کہا ہے اس میں کہیں اپنی ماں کی برات کاذکر نہیں ہے۔ ورنہ یہ الزام لگایا گیا ہوتا اور قوم یہ تہمت مریؔم پر رکھتی تو اس کے متعلق بھی آپ کچھ کہتے ۔لیکن آپ نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سب کو عیسیٰ کی ولدیت کا پورا علم تھا۔ اوریوؔسف نجار کے ساتھ مریؔم کے منسوب ہونے کو سب جانتے تھے اس لئے وہ تہمت رکھ ہی نہیں سکتے تھے اوراسی بنا ءپر حضرت عیسیٰ کو اپنی ماں کی برات اوراپنی ولادت کے متعلق کسی بیان کے پیش کرنے کی ضرورت لاحق ہی نہیں ہوئی "۔
اگرچہ عبارت بالا میں کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے جس کا جواب ہم نہ دے چکے ہوں لیکن اس میں دو ایک باتیں ایسی ہیں کہ اگر ہم ان پر کچھ نہ لکھیں تو ممکن ہے کہ کچھ غلط فہمی پیدا ہوجائے ۔ آپ سب سے پہلے سرسیدؔ مرحوم کی تبعیت میں حرف" ف" پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے ترتیب واقعات تو ضرور ظاہرہوتی ہے لیکن قُرب ِ زمانی سے اس کوکوئی واسطہ نہیں ہے"۔اس سے آپ کو یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ فرشتہ کے بشارت دیتے ہی مریم صدیقہ حاملہ نہیں ہوئیں بلکہ اس کے بعد نکاح ہوا اور نکاح کے بعد حاملہ ہوئیں۔ ہمارے دوست کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ اگر یہ " ف" ترتیبی وتعصبی ہے تو اس میں "قربِ زمانی" کا ہونا فرض ہے۔ علامہِ رضؔی شرح کافیہ میں اس پر بحث کرتے ہوئے صاف لکھتے ہیں کہ
" فائے ترتیبی میں اتصالِ زمانی کا ہونا بے حد ضروری ہے"۔
چنانچہ لکھتے ہیں کہ
" فمعنی قولک قام زید فعمرو حصل قیا مہ عمرو عقیب قیامہ زید بلافصل ومعنی ضربت زیداً فعمراً وقع المضرب علی عمر وعلیب وقوعہ علی زید کذالک "
ترجمہ:۔’’ یعنی جب کوئی شخص یہ کہتا ہےکہ قامہ زید فعمرو ۔ وضربت زیداً فعمراً تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ زید کے کھڑے ہونے کے بعد ہی بلافصل عمرو کا کھڑا ہونا حاصل ہوا۔اسی طرح زید کے مارنے کے بعد ہی بلافصل عمروپر مار پڑی"۔ قبلہ !جیسے بار بار عرض کرچکاہوں پھر عرض کرتا ہوں کہ درحقیقت آپ کو عربی سے کچھ بھی مس نہیں ہے۔ مگر آپ عربی سے واقف ہوتے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عربی میں ایک اور حرف عطف (ثُمَّ) ہے جو ترتیب بالتراخی کے لئے مخصوص ہے۔ پس اگر قربِ زمانی کا لحاظ نہ ہو تاتو بجائے "ف" کے ہر جملہ کے شروع میں " ثُمَّ " لانا واجب تھا اور آیات ِ زیر بحث کی صورت یوں ہوجاتی کہ(سورہ مریم آیت ۲۲)
ثُمَّ فَحَمَلَتۡہُ ثُمَّ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا الخ
اب دوسرا امر جس پر بحث کرنا باقی ہے وہ لفظ" کَانَ " ہے جس کے متعلق ہمارے محترم فرماتے ہیں کہ " انہوں نے لفظ" کَانَ " استعمال کیا ہے جس سے زمانہ ماضی ظاہر ہوتا ہے نہ یہ کہ فی الحال گہوارہ کے بچے ہیں۔ قبل اسکے کہ میں اپنے کرم فرما کو یہ بتلادوں کہ اس آیت میں لفظ " کَانَ " ماضی کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ یہ بتلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ کلامِ عرب میں اور نیز خود قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہواہے۔ مثلاً وقولہ تعالیٰ(۱)(سورہ بقرہ آیت ۱۷۲) (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ)۔وقولہ تعالیٰ(۲)(سورہ بقرہ آیت ۲۸۰)(وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ)۔وقولہ تعالیٰ (۳) لمن کان لہ قلب ۔ وغیرہ ذالک ۔ اب اگر ان آیات میں (کَانَ) کا ترجمہ بصیغہ ماضی کیا جائے تو ان کے ترجمے بالترتیب یوں ہوں گے (۱)خدا غفور ورحیم تھا(۲) اگرایک شخص تنگی میں تھا تو کشائش (کشادگی)تک اس کو فرصت دینی چاہیے ۔(۳) سوچنے کی جگہ ہے واسطے اس کے جس کے اندر دل تھا۔ دیکھئے (کَانَ)کا ترجمہ ماضی میں کرنے سے قرآن مجید کے مطالب کچھ سے کچھ ہوگئے۔نہیں جناب بلکہ مضحکہ خیز بن گئے ۔پس آیات بالا میں لفظ (کَانَ) کا صحیح ترجمہ "ہے " ہے۔ ’’(۱)خدا غفور ورحیم ہے۔(۲) ایک شخص تنگی میں ہے تو کشائش تک اس کو فرصت دینی چاہیے ۔(۳) سوچنے کی جگہ ہے واسطے اس کے جس کے اندر دل ہے‘‘۔ بعینہ یہی حال ہے(سورہ مریم۲۹ آیت)( مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا) کا ۔ اگر اس آیت میں(کَانَ)کا ترجمہ " تھا" سے کریں تو ایک احمقانہ جملہ بنتا ہے۔ مثلاً ایک شخص آکر زید سے یہ کہتا ہے کہ عمر و سے جاکر پوچھو ۔ زید کہتا ہےکہ میں کیوں کر عمرو سے پوچھوں" ۔ وہ تو گہوارہ میں بچہ تھا"۔ اب وہ شخص زید کو کیا جواب د ے گا ۔ آخر یہی ناکہ تو بڑا احمق ہے ۔ عمرو جب بچہ تھا تب تھا اب تووہ بچہ نہیں ہے۔
اب میں آپ کو بتلاتاہوں کہ " کَانَ " کیا ہے اورکتنے معنوں میں مستعمل ہوتاہے اور آیت زیر بحث میں اس کی کیا حیثیت ہے ۔ ( کَانَ )افعال ناقصہ میں سے ایک فعل ہے جو اپنے اسم کی خبر کوزمانہ ماضی میں ثابت کرتاہے۔ یہ خبر کبھی دائمی ہوتی ہےاور کبھی غیر دائمی۔اورکبھی صرف فاعل پر تمام ہوتاہے اس صورت میں اس کو تامہ (تمام)کہتے ہیں ۔ اورکبھی زمانہ ہوتا ہے بقول شاعر ! سراة بنی ابی بکر تساطی۔ علی کان الموسومتہ العراب ۔ علامہ رضی نے( کَانَ) زائدو کے لئے اسی آیت میں زیر بحث (مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا)کو بطور دلیل کے پیش کیا ہے۔ اورمیرے نزدیک بھی اس آیت میں لفظ(کَانَ)زائد ہے جو صرف تاکید کے لئےآیا ہے۔
ہمارے دوست نے عبارت ِبالا میں بار بار اس کا اعادہ کیا ہے کہ " سو اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ ان پر ناجائز مولود پیدا کرنے کا الزام لگایا گیا "۔ لیکن اس سے قبل یہ لکھ چکے ہیں کہ
" بعض یہودی آپ پر زنا کی تہمت رکھتے تھے۔۔۔۔بلکہ ایک اور شخص( پنتھراتالی) کے ساتھ منسوب کی تھی"۔
(تفسیرالقرآن)
اب نہ معلوم آپ کے ان متضاد اقوال میں سے کس کو صحیح تسلیم کریں۔
اسلام اور ولادت ِ مسیح کا مسئلہ
تقدس مآب جناب امیر جماعت احمدیہ لاہور جن کی پیروی میں حضرت نیاؔز صاحب قرآن شریف کی کھلی تعلیم سے سراسر بے نیاز ہوگئے ہیں اپنے اُردو ترجمہ قرآن یعنی ’’بیان القرآن کا فائدہ نمبر ۴۳۷ ‘‘میں فرماتے ہیں کہ
" عیسائی حضرت مسیح کو بن باپ مانتے ہیں اور مسلمان بھی عموماً ایسا ہی مانتے ہیں۔۔۔۔ اگر فی الواقع حضرت مسیح بن باپ پیدا ہوئے تو اس سے مسلمانوں کے عقیدہ میں ذرہ بھر فرق نہیں آتا کیونکہ ان کو بن باپ پیدا شدہ ماننا ان کے عقائد میں داخل نہیں۔ لیکن عیسائیت کی بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے کہ اگر یہ ثابت نہ ہوسکے کہ وہ بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ حضرت مسیح کا بن باپ پیدا نہ ہونا عیسائیت کو بیخ وبن(جڑ ) سے اکھاڑدیتا ہے اور اسلام کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ۔ ایک مسلمان حضرت مسیح کی نبوت کا اس صورت میں بھی قائل ہے کہ وہ بن باپ پیدا ہوئے ہوں اور اس سورت میں بھی کہ بن باپ پیدا نہ ہوئے ہوں۔ حضرت عیسیٰ کو باپ والا یا بن باپ ماننے سے ہمارے دینی اعتقادات یا ہمارے عمل پر قطعاً کوئی اثر نہیں ہوتا" ۔
(بیان القرآن کا فائدہ صفحہ ۱۴۔ ۳۱۳)
دائرہ اسلام سے خارج
تقدس مآب اورآپ کے ہم مشربوں کوتو عیسائیت سے یہاں تک ضد ہے کہ اسے بیخ وبن سے اکھاڑنے کی دھن میں اسلام پر بھی ہاتھ صاف کئے دیتے ہیں او رنیچری اسلام کی حمایت کا یہاں تک پاس ہے کہ بنابر فتویٰ مرزا ؔغلام احمد صاحب قادیانی دائرہ اسلام سےبھی خارج ہونے کو تیار ہیں۔ سنئے وہ فرماتے ہیں کہ
" جو یہ دعویٰ کرتاہے کہ مسیح کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر ہے۔ ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے"۔
" جو یہ دعویٰ کرتاہے کہ مسیح کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر ہے۔ ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے"۔
اب آئیے کہ میں آپ کو آپ کے امام الامام حضرت مرزا ؔغلام احمد صاحب غفر الله ذنوبہ کا عقیدہ اس بارے میں سناؤں۔ (تشحیذ الاذہان جلد دہم )نمبر اول مجریہ جنوری ۱۹۱۵ء میں ایک مسلمان کے اس اعتراض کے جواب میں جو’’ازالہ اوہام کے صفحہ ۳۰۳ ‘‘پر کیا ہے اس کے ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’میں نے صفحہ ۳۰۳ بغور دیکھا ہے اس میں مطلقاً یہ الفاظ نہیں جو اس سے دیانت دار مفتی نے نقل کئے ہیں البتہ یہ الفاظ ہیں ( کیونکہ حضرت مسیح بن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس(۲۲) برس کی مدت تک نجاری کا کام کرتے رہے)‘‘۔
اس عبارت میں باپ کا لفظ بطور مجاذ عرف عام استعمال ہوا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہےکہ حضرت مسیح موعود نے مسیح کا بے باپ پیدا ہونا اپنے عقائد میں لکھا ہے۔ پس وہ محکم ہے اور جو اس کے خلاف کہیں سے اشارہ ملے۔وہ متشابہ کے حکم میں ہے اور اہل ِحق کا یہ قاعدہ ہے کہ مشابہ کو حکم کےتابع کرتے ہیں ہاں جن کےد لوں میں زیغ ہے وہ متشابہ کواڑا لیتے ہیں ۔ اورمحکم کو پس ِپشت ڈال دیتے ہیں۔
فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ (سورہ آل عمران ۷) اب حضر ت مسیح موعود کا محکم بیان پڑھئے جو( مواہب الرحمنٰ صفحہ ۷۰ )سے نقل کیا جاتاہے ۔
ومن عقائد نان عیسیٰ ویحییٰ قد ولد علی طریق خرق العادت ۔ ’’اور ہمارے عقائد میں سے یہ بھی ہےکہ عیسیٰ ویحییٰ خرق العادت طورپرپیدا ہوئے‘‘۔ پھر ارشاد ہوتاہے۔
فادل مافعل لھذہ الارادة ھو خلق عیسیٰ من غیراب بقد رة الجرة " پس پہلا کام جو الله نے اس ارادہ کے لئے کیا ہے وہ یہ ہے کہ عیسیٰ کو بغیرباپ کے اپنی یکتا قدرت سے پیدا کیا ۔" پھر لکھتے ہیں :
وکون عیسیٰ من غیراب وبرووالد ولیل علیٰ ماقر پالدلالتہ القاطعتہً "اورعیسیٰ کا بغیرباپ کے پیدا ہونا نشان ہے اس پر جودلالت فاطعہ سے گذرا "۔ پھر فرماتے ہیں۔
"کان تولد یحییٰ من دون ممن قویٰ البشریہ وکذالک تولد عیسیٰ من دون لابً یحییٰ یدون "قویٰ بشریہ کے مس کے پیدا ہوئے اور اسی طرح عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ۔
پھر تنبیہ کی ہے:
یقولون ان عیسیٰ تولد من نطفتہ من یوسف ابیہ ولا یفمون امقیفة من الحہلات " کہتے ہیں کہ عیسیٰ یوسف اپنے سے باپ سے پیدا ہوا اور حقیقت کو جہالت سےنہیں سمجھتے ہیں (کیا اس فقرہ کو پڑھ کر بھی یہ خیال دل میں رہ سکتا ہے کہ جہاں حضور نے اس کتاب کی تحریر سے دس بارہ سال قبل فرمایاکہ اپنے باپ یوسف وہاں باپ سے یہ مراد ہے کہ عیسیٰ یوسف کے نطفہ سےتھے اورباپ نہیں تھے )پھر اخیر میں بڑے زور سے بیان کیاہے۔
"اقانحن فنومن بکمال قدعوالله الاعلیٰ۔۔۔۔۔ فای عجب یاخذ کمہ من خلق عیسیٰ یا فتیان ۔" ہم الله کی کمال قدرت پر ایمان لاتے ہیں یعنی عیسیٰ کا بغیر باپ کے پیدا کیا۔ پس عیسیٰ کےبےباپ پیدا ہونے سے تمہیں اے جوانو کیا تعجب ہے ؟ پھرعیسیٰ کا باپ ماننے والوں سے سخت بیزاری کا اظہار فرماتے ہوئے لکھاہے :
"والذین یحکرون ھا فما قدر والله حق قدرہ" جو لوگ اس کے بے باپ پیدائش سے انکار کرتے ہیں انہوں نے الله کے قدر کو جیساکہ اس کاحق ہے نہیں جانا۔"
" ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح بن باپ تھے اور الله تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں۔ نیچری جو یہ دعویٰ کرتاہے کہ ان کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر ہے ایسے لوگوں کا خدا مردہ خدا ہے ایسے لوگوں کی دعاقبول نہیں ہوتی جو یہ خیال کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ کسی کوبے باپ پیدا نہیں کرسکتا ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں"۔
(تشحیذ الاذہان)
یہ فتویٰ ہے ان کے حق میں جو مسیح کی بن باپ پیدائش کے منکر ہیں۔ بتائیے اب اس کے مطابق آپ دائرہ اسلام سےخارج ہوتے ہیں یا عیسائیت بیخ وبن سے اکھڑتی ہے۔
حصہ دوم
ورَافعک اِلیَ
حضرت نیاؔز اس مضمون کے دوسرے حصے میں حضرت عیسیٰ کی وفات یا مصلوب ہونے پربحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :
" جس طرح حضر ت عیسیٰ کی ولادت کا مسئلہ اہم ہے اسی طرح ان کی وفات یا مصلوب ہونے کا بھی واقعہ بہت غور طلب ہے۔
اس مسئلہ میں یہودیوں ، عیسائيوں اور مسلمانوں کے خیالات مختلف ہیں۔ یہودیوں کاعقیدہ ہے کہ وہ صلیب پر چڑھا کر قتل کئے گئے ۔عیسائی کہتے ہیں کہ وہ مصلوب ہونے کے بعد پھر زندہ کرکے آسمان پر اٹھا لئے گئے ۔ اورمسلمان کہتے ہیں کہ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے۔ بلکہ کوئی اور شخص ان کی جگہ مصلوب ہوا لیکن آسمان پر چلے جانے کے یہ بھی قائل ہیں ۔ کلام مجید کی جن آیتوں سے اس پر استد لال کیا جاتا ہے یہ ہیں:
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا (سورہ آل عمران ۵۵)
ترجمہ:۔’’جب الله نے کہا اے عیسیٰ میں بیشک تجھے مارنے والا ہوں۔ اور اٹھانے والا ہوں اپنی طرف او رپاک کرنے والا ہوں تجھے ان سے جو کافر ہوئے‘‘۔
وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا (سورہ نسا آیت ۱۵۷تا ۱۵۸)
ترجمہ:’’۔ اور الله نے مہر کردی ہے ان کے دلوں پر بہ سبب ان کے یہ کہنے کے ہم نے قتل کردیا ہے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے الله کے رسول کو اورانہوں نے نہیں قتل کیا اس کو نہ صلیب دی اس کو ۔ لیکن ان کو اس کا دھوکا ہوا اور جو لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں وہ بیشک شک میں ہیں ان کا علم جوکچھ ہے صرف ظن وقیاس ہے اور یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیابلکہ الله نے اٹھالیا اس کو اپنی طرف اور الله غالب ہے حکمت والا ‘‘۔
سب سے پہلے ہم آپ کے واقعہ صلیب کو لیتے ہیں ۔ جس کا ذکر نہایت صراحت کے ساتھ (سورہ نساء )میں آیا ہے۔( سورہ نساء) کی ان آیتوں میں ذکر ہے یہود کا جو کہتے تھے کہ ہم نے مسیح کوصلیب پر چڑھا کر قتل کر ڈالا ۔ کلامِ مجید میں اس کا صاف انکار کیا گیا ہے کہ نہ انہوں نے مسیح کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا۔ لیکن بحث طلب الفاظ شبہ لہم کے ہیں۔ جس سے بعض نے یہ استد لال(ثبوت، دلیل) کیا ہے کہ کوئی دوسرا شخص مسیح کی صورت میں تبدیل ہوگیا تھا اوراسی کو سولی پر چڑھایا گیا ۔ لیکن ان الفاظ سے یہ مفہوم اخذ کرنا نہایت نارواجسارت ہے۔ کلامِ مجید کے الفاظ کا مفہوم صرف ا س قدر ہے کہ یہودی مسیح کی موت یا ان کے قتل کئے جانے کے مسئلہ میں دھوکے میں مبتلا ہوگئے، یعنی وہ ہلاک ہوئے نہیں اورانہیں مردہ سمجھ لیا گیا۔ عربی زبان میں یہ لفظ کثرت سے التباس یا دھوکا کے معنی میں مستعمل ہے چنانچہ عام طورپر جب کسی شخص کو کسی بات میں دھوکا ہوجاتاہے تو کہتے ہیں کہ شبہ علیہ الامھر (فلاں امر میں اس کو التباس یا دھوکا ہوگیا)اس لئے اس کے یہ معنی لینا کہ کوئی اور شخص مسیح کی شبیہ بن گیا تھا درست نہیں ہوسکتا۔
اب رہا یہ امر کہ اگر وہ صلیب پر چڑھائے گئے تھے تو کلام ِمجید میں اس کی نفی (مَا صَلَبُوۡہُ)کہہ کر کی گئی ہے۔ اس کا جواب نہایت آسان ہے قرآن پاک میں قتل وصلیب دونوں کی نفی ساتھ ساتھ کی گئی ہے اوریوں ارشاد ہوا ہے (مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ) جس کے صاف ظاہرہے کہ (مَا صَلَبُوۡہُ) کا مفہوم بھی وہی ہے جو(مَا قَتَلُوۡہُ)کا ہے، یعنی ان کو صلیب پرچڑھانے کے بعد جو اصل مقصود تھا حاصل نہیں ہوا۔ اور وہ ہلاک نہیں ہوئے۔ اس لئے جب صلیب دینے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو یہ کہنا عام محاورہ کے بالکل مطابق ہے کہ انہیں صلیب بھی نہیں دی گئی ۔ جس کی تصدیق (شُبِّہَ لَہُمۡ)سے اور زیادہ ہوتی ہے ۔ اور(شُبِّہَ لَہُمۡ)کا مفہوم جو ہم نے بیان کیا آگے کے الفاظ(مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ) سے اور زیادہ موثق ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد سوال ہے ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا اورجس کےثبوت میں (رَافِعُکَ اِلَیَّ ) اور (رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ) کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں رفع (اٹھانے) سے مراد رفع جسم (جسم کا اٹھانا) نہیں ہے بلکہ رفعت مرتبت مراد ہے۔ جیساکہ مفردات اماؔم راغب وتفسیر کبیر میں صراحتاً مذکور ہے۔ عربی میں رفع کے معنی رفع قدر کے بھی آتے ہیں اور رفیع اس شحص کہتے ہیں جو معزز وبلند مرتبت والا ہو۔
اس خیال کی مزید تقویت (سورہ آل عمران کی آیت ۵۵ )سے بھی ہوتی ہے جہاں (رَافِعُکَ اِلَیَّ) کے بعد حرف ِ عطف کےذریعہ سے اس فقرہ کو بھی ملالیا گیا ہے : وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا
کہا جاتاہے کہ جب مسیح صلیب پر چڑھائے گئے تو انہیں آسمان پر اٹھالیا گیا اوران کی شبیہ صلیب پر قائم کردی گئی۔ بعض کا خیال ہے کہ صلیب تو انہیں کو دی گئی تھی لیکن وہ صلیب سے مردہ سمجھ کر اتارے گئے تو خدا نے انہیں اُوپر اٹھالیا۔ الغرض آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ صلیب ہی کے واقعہ سے متعلق ظاہر کیا جاتا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں صراحتہ(اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ) کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ رفع آسمان کا واقعہ آپ کی وفات کے بعدہوا ہے۔اور آپ کی وفات صلیب پر ہوئی نہیں جیسا کہ ہم ابھی کلام ِمجید سے ثابت کرچکے ہیں ۔ اس لئے انحصار فیصلہ کا اس امر پر ہواکہ آپ کی وفات ہوئی یا نہیں ۔ یعنی آپ نے عمر طبعی کوپہنچ کر انتقال کیا یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے تو پھر زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور مفہوم رفع کی بھی وضاحت آسانی سے ہوجائے گی۔
لفظ متوفی کا مصدر توفی ہے اور جو مفسرین حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کے قائل ہیں انہوں نے توفی کے معنی استکمال یا وفائی عہد کے لئے ہیں یعنی خدا نے عیسیٰ سے کہا کہ میں تجھ سے وفائی عہد کرنے والا ہوں۔ ہر چند توفی کے یہ معنی بھی آتے ہیں ،لیکن کوئی وجہ نہیں کہ توفی کے معنی مارنے کے نہ لئے جائیں جبکہ توفاہ الله کے معنی اماتہ الله نے موت طاری کی کے بھی آتے ہیں۔ اماؔم بخاری نے بھی ابن عباؔس کی روایت سے (مُتَوَفِّیۡکَ) کے معنی ممیتک (تجھ پر موت طاری کرنے والے) ظاہر کئے ہیں خود کلام مجید بھی اور مقامات پر لفظ توفی مارنے کے معنی میں آیا ہے (ملاحظہ سورہ نساآیت ۹۷)
اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ۔الخ
(سورہ انعام آیت ۶۰) وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ ۔الخ
علاوہ اس کےیوں بھی جب کلام مجید سے نہایت صراحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی موت سے مرے اور وہ عمر طبعی کو پہنچے تووہ(مُتَوَفِّیۡکَ)کے معنی سوائے(ممیتک) کے کوئی اور اختیار کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
یوں تو کلام مجید کی مختلف آیتوں سے حضرت عیسیٰ کی وفات اور ان کی صلیبی موت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ہم صرف دو آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں نہایت صراحت کے ساتھ اس کا امر کا اظہارہے اورجس سےکسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے۔ (سورہ مائدہ آیت ۱۱۶ تا ۱۱۷)
وَ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۱۶﴾مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ۚ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۱۷﴾
ترجمہ:’’۔ جب کہے گا الله (قیامت کے دن ) اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تونے کہا تھا لوگوں سے کے مجھے اورمیری ماں کو خدا ٹھہراؤ علاوہ الله کے عیسیٰ جواب دے گا۔ پاک ہے تیری ذات کہ میں کیوں کر ایسی بات کہہ سکتا تھا جو حق نہ تھی ۔اور اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھے خبر ہوگی کیونکہ جو میرے جی میں ہے اس کا علم تجھے ہے اور جو تیرے جی میں ہے اُسے میں نہیں جانتا تو غیب کی چیزوں کا جاننے والا ہے۔ میں نے تو ان سے وہی کہا جو تونے حکم دیا تھا ،یعنی یہ کہ الله کی پرستش کرو جو میرا تمہارا سب کا پروردگار ہے اوراس بات پر میں ان کاگواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان رہاپھر جب تونے مجھ پر موت طاری کی تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر چیز کا گواہ ہے‘‘۔
آخیر کی آیت میں(تَوَفَّیۡتَنِیۡ)کے معنی سوائے مارنے کے اور کوئی لئے ہی نہیں جاسکتے ،کیونکہ اگر کوئی اورمعنی لئے جائيں گے تو مفہوم بالکل غلط ہوجائے گا اور یہ امر اس قدر ظاہر ہے کہ کسی مزید تصریح کی ضرورت نہیں ۔
دوسری آیت جس سے معلوم ہوتاہےکہ حضرت عیسیٰ عمر طبعی تک پہنچنے کے بعد بوڑھے ہوکر مرے یہ ہے :۔
وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا (سورہ آل عمران ۴۶)
ترجمہ: ’’۔اور (مسیح) بات کرے گا گہوارہ میں اور عالم ِضعیفی میں‘‘۔
یہ آیت اس سلسلہ کی ہے جب فرشتے نے مریم کو بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اس قدرتندرست پیدا ہوں گے کہ گہوارہ ہی میں دوسرے توانا بچوں کی طرح باتیں کرنے لگیں گے اور ضعیفی میں پہنچنے کے بعد بھی ان کا یہی عالم رہے گا۔ اس آیت میں لفظ(کَہۡلًا)سے صاف طورپر یہ امر واضح ہوجاتاہے کہ کلامِ مجید میں مسیح کی عمر طبعی تک پہنچنے کی پیش گوئی موجود ہے۔
پھر جب مسیح کا عمر طبعی تک پہنچنا اس طرح ثابت ہوتا ہے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ آپ صلیب سے نہیں مرے ۔ کیونکہ جس وقت آپ کو صلیب دی گئی آپ کی عمر (۳۲ )سال کچھ دن کی تھی اورا س عمر کے انسان کو (کَہۡلًا)(ضعیف) نہیں کہہ سکتے ۔ اور اس صورت میں (مُتَوَفِّیۡکَ)کے معنی وہی لئے جائيں گے جو ہم نے بیان کئے ہیں۔
بعض مفسرین نے(یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ) سے آپ کا یہ معجزہ ثابت کیا ہے کہ آپ گہوارہ ہی میں باتیں کرنے لگے اوّل تو گہوارہ یعنی عالمِ طفلی میں بچوں کا باتیں کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ بہت سے تندرست بچے شیر خوارگی ہی کے زمانہ میں بولنے لگتے ہیں اور اگر واقعی اس سے اظہار معجز ہ کا ہے تو(کَہۡلًا)بیکار ہوجاتا ہے اوراس کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہم صلیب دئیے جانے کے واقعہ کو مربوط صورت میں بیان کردیں تاکہ واقعات یکجائی طورپر سامنے آجائیں اورآیات قرآن کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
عام طور پر خیال کیا جاتاہے کہ صلیب پر چڑھانا یہ معنی رکھتاتھاکہ انسان یقیناً اور فوراً مرجاتا تھا۔ حالانکہ یہ غلط ہے ۔ صلیب پر چڑھائے جانے کی یہ صورت ہوا کرتی تھی کہ انسان کو ایک لمبے تختے کے ساتھ ملا کر کھڑا کرتے تھے اوراس کے ہاتھوں کو دوسرے تختہ پر جو پہلے تختہ پر متقاطع صورت میں جڑا ہوتا تھاپھیلادیتے تھے اور کس کر باندھد دیتے تھے اسی طرح پاؤں رکھ کر تختہ کے ساتھ کیل جڑدیتے تھے یا باندھ دیتے تھے تاکہ آدمی نیچے کو نہ سرک سکے۔ بس اس کا نام صلیب دیا جانا تھا۔ مصلوب انسان کو اسی حال میں بھوکا پیاسہ چھوڑدیتے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ دھوپ ، بھوک اور ہاتھ پاؤں کے زخموں کی تکلیف سے دو چاردن میں ہلاک ہوجاتا تھا۔
جمعہ کے دن دوپہر کو مسیح صلیب پر چڑھائے گئے۔ چونکہ اسی دن شام سے یوم سبت شروع ہونے والا تھا اس لئے یہودیوں کے اعتقاد کے بموجب شام سے پہلے مسیح کو دفن بھی ہوجانا چاہیے تھا ۔لیکن اس خیال سے کہ اس قدر رجلہ کوئی شخص صلیب پر نہیں مرسکتا یہ رائے قرار پائی کہ مسیح کی ٹانگیں توڑدی جائیں تاکہ وہ جلد ہلاک ہوجائیں۔ لیکن جب آپ کو جاکر دیکھا تو آپ پر شدت ِ تکلیف سے غشی کی سی حالت طاری تھی اور سب نے غلطی سے یہ سمجھ لیاکہ آپ مرگئے ہیں ۔ چنانچہ آپ کے دفن کئے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اوررات ہی کو آپ کے ایک حواری نے لے جا کر دفن کردیا یا کسی غار میں چھپادیا۔ اور پھر وہاں سے آپ کو نکال کر لے گیا۔ اس کے تیسرے دن بعد جب آپ کی قبر کودیکھا گیا تو پتھر سرکا ہوا تھا اور لاش موجود نہ تھی۔ اس واقعہ پر حواریوں نے مشہور کردیاکہ آپ آسمان پر اٹھالئے گئے تاکہ یہودی تلاش نہ کریں اوراس کو معجزہ سمجھ کر آپ کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔ اس کے بعد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ اپنے حواریوں کے ساتھ کہاں گئے ۔ کب تک زندہ رہے اور کہاں مدفون ہیں۔انجیل کی روایت سے معلوم ہوتاہےکہ آپ معہ حواریوں کے گلیل چلے گئے تھے۔ احمد ی جماعت کا بیان ہے کہ وہ وادی ِ کشمیر میں آئے۔ چنانچہ سری نگر میں ان کا مزار موجود ہے جو نبی صاحب کا مزار کہلاتا ہے ۔
جو واقعات انجیل کی روایات سے معلو م ہوئے ہیں ان سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ آپ نے مصلوب ہونے کی حالت میں جان نہیں دی ۔مثلاً چند گھنٹے صلیب پر رہنا جبکہ کئی دن میں معمولاً مصلوب کی جان نکلتی ہے مسیح کے ساتھ جو دو شخص اور مصلوب ہوئے تھے اور وہ بھی شام کو اتارلئے گئے تھے زندہ رہے ۔ مگر خدا آپ کے جسم کو آسمان پر اٹھالیتا تو جہاں آپ غار یا قبر میں مدفون تھے وہاں کا پتھر سرکنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ کیونکہ خدا کو اوپر اٹھانے کے لئے پتھر ہٹا نا ضروری نہ تھا۔ جب آپ واقعہ صلیب کے بعد اپنی ماں سے ملے توجسم پر زخموں کے نشان موجود تھے۔ اور آپ بھیس بدلے ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی آپ مصلوب ہوئے اور زندہ اتار لئے گئے اور اسی ڈر سے کہ یہودیوں کو پتہ نہ چل جائے بھیس بدل کر اپنی ماں سے ملے"۔
بحث ِ مافوق کا خلاصہ
بحث ِ مافوق کا خلاصہ ان تین باتوں میں ہے کہ :
(۱۔) حضرت عیسیٰ کو صلیب تو دی گئی لیکن صلیب سے نہیں مرے ۔ بلکہ عمر طبعی پہنچ کر کسی نامعلوم جگہ میں فوت ہوکر مدفون ہوئے ۔
(۲۔) آیات (ورَافِعُکَ اِلَیَّ)اور(رفعہ الله الیہ )سے یہ معلوم نہیں ہوتاکہ آپ بہ جسد عنصری آسمان پر زندہ موجود ہیں بلکہ ان سے آپ کی رفعت ِ منزلت ظاہرہوتی ہے ۔
(۳۔) جوواقعات انجیل کی روایات سے معلوم ہوئے ہیں ان سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ آپ نے مصلوب ہونے کی حالت میں جان نہیں دی ۔
جیسی میری عادت ہے ارادہ تھا کہ اس حصہ کا بھی فقرہ وارجواب لکھتا جاؤں، لیکن کتاب کی ضخامت کا مجھے بے حد خیال ہے۔ لہٰذا اس حصہ پر بحث کرنے کے لئے ایک نئی طرز اختیار کروں گا تاکہ حضرت نیاؔز کو فقرہ وار جواب بھی ملتا جائے اورکتاب بھی طوالت سے محفوظ رہے۔ وہ یہ کہ میں شق نمبر ۲ کی تردید کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ (ا) یا تو آپ نے اس قول سے کہ " مسیح فوت ہوچکے ہیں اور کہیں مدفون ہیں" رجوع کریں گے اور یا(ب) آپ مسیحیوں کا عقیدہ جو (اقرب الی الصواب )ہے اختیار کریں گے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت ہوگئے اور پھر خدا کی قدرت سے زندہ ہوکر یہ جسد عنصری آسمان پر چلے گئے ۔
حضرت عیسیٰ بہ جسد ِ عنصری آسمان پر زندہ ہیں
آپ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سوال ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے جس کے ثبوت میں (ورَافِعُکَ اِلَیَّ)اور(رفعہ الله الیہ )کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں لیکن یہاں رفع(اٹھانے)سے مراد رفع جسم (جسم کا اٹھانا) نہیں بلکہ رفعتِ مرتبت مرادہے ۔ جیساکہ مفردات امام راغب اور تفسیر کؔبیر میں بھی صراحتاً مذکور ہے ۔ عربی میں رفع کے معنی رفع قدر کے بھی آتے ہیں اور رفیع اس شخص کو کہتے ہیں "جو معزز وبلند مرتبت والا ہو"۔
ہمیں پھر افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حضرت نیاؔز کی یہ کورانہ تقلید ان کے دامنِ شہرت پر ایک بدنما داغ ہوکر چمکے گی۔آپ لکھنے کو تو سب کچھ لکھ گئے لیکن اس طرح کہ ایک جملہ بھی نہیں ایسا ملتا جس کو آپ کے قلم محنت رقم کی تراوش کہہ سکیں۔ آپ کو سرسیدؔ مرحوم کی تفسیر پر یہاں تک اعتماد ہے کہ اس کے بالمقابل دوسری کتابوں کی طرف رجوع کرنا کفر سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ سرسیدؔ مرحوم لفظ" رفع" کےمعنی یہ کرتے ہیں کہ " اس سے حضرت عیسیٰ کی قدرو منزلت مراد ہے نہ یہ کہ ان کےجسم اُٹھالینے کا "۔ اور آپ اس عبارت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ "یہاں رفع (اٹھانے ) سے مراد رفع جسم (جسم کا اٹھانا) نہیں ہے بلکہ رفعتِ مرتبت مراد ہے" جو سراسر غلط اور قرآن مجید کےساتھ کھیلنا ہے۔ ’’صراح‘‘ میں جو عربی لغات میں ایک ممتاز لغت ہے" رفع" کے معنی برادشتن لکھاہے ۔ اس کی عبارت یہ ہے" رفع برداشتن وہو خلاف الوضع " یعنی رفع کے معنی اوپر اٹھانے کے ہیں اور اس کے بالمقابل لفظ وضع ہے جس کے معنی نیچے رکھنے کے ہیں۔ ’’مصباح منیر‘‘ میں لکھا ہے کہ (رفعتہ رفعاً خلاف خفضتہ) یعنی عرب جب کسی چیز کواوپر اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ " رفعتہ" (میں نے اس کو اوپر اٹھایا) اورجب کسی چیز کو نیچے رکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ "حفضتہ" (میں نے اس کو نیچے رکھا) یعنی رفع اور خفض دو متقابل الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کے برخلاف استعمال ہوتے ہیں۔
’’صراح‘‘ میں لفظ " رفع" کے نیچے ایک محاورہ بھی لکھاہوا ہے کہ " ومن ذالک قولہم رفعتہ الی السلطان" جس سے بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ جب لفظ رفع کا صلہ الیٰ اسماہے تو اس سے مراد" رفعتِ مرتبت " ہوتی ہے۔ اس محاورہ کی بنا پر حضرت عیسیٰ کے رفع جسمی سے انکار کرنا نہ صرف عربی سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے بلکہ فارسی تک نہ جاننے کا ثبوت ہے ۔ کیونکہ اس عربی محاورہ کے شروع میں یہ فارسی عبادت موجود ہے " ونزدیک گرد انیدن کسے رابہ کسی ذالک الخ"۔ یعنی رفع کے دوسرے معنی’’ کسی کو کسی کے قریب کرنے کے ہیں‘‘ اوراسی قبیل سے عربوں کا یہ محاورہ ہے کہ میں اس کو بادشاہ کے نزدیک لے گیا"۔ اب کوئی ان مدعیان عربیت سے تو پوچھے کہ " نزدیک گردایندن کسے رابہ کسے" کےمعنی کس طرح " رفعت مرتبت " کے ہوسکتے ہیں ۔ قبلہ ! کسی کوکسی کے نزدیک کرنے میں قرب جمی ملحوظ ہوتا ہے نہ یہ کہ کسی شخص کوگھر میں بیٹھے بٹھائے عزت ومنزلت دلانا۔پس (رفعتہ الی السلطان) کے یہ معنی ہیں کہ " میں اس کو بادشاہ کے پاس لے گیا " عزت اور ذلت کا اس میں کوئی لحاظ نہیں ۔ کیونکہ یہی محاورہ عین اس وقت بھی بولا جاتاہے جب کسی کو شکایتاً بادشاہ کے پاس لے جاتے ہیں۔ ’’منتہی الارب‘‘ میں اس محاورہ کے نیچے کہ" رفعہ الیٰ الحاکم" لکھاہے کہ ’’شکایت برُد پیش حاکم ونزدیک آن شد باخصم‘‘ فتح الؔباری شرح صحیح بخاری میں بھی اس محاورہ کے نیچے کہ " رفعہ الیٰ الحاکم" لکھاہے کہ "یعنی شکایت کے لئے اس کو حاکم کے پاس لے گیا"(جزء ۹)
نکتہ
یہ نکتہ یادر کھنے کے قابل ہے کہ ’’صراح‘‘ کی عبارت زیر بحث کا مطلب یہ ہے کہ اگر" رافع جسمی" کے ساتھ مرتبت ومنزلت کا بھی ارادہ ہوتب " رفع" کا صلہ " الی" لانا مناسب ہے کیونکہ رفعت ِمنزلت رفع جسمی کی منافی نہیں۔ لیکن اس صورت میں قربت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ارادہ اعزازی پر دلالت کرے ۔کیونکہ جب " رفع" کا صلہ" الیٰ" ہے تواکثر اس کے معنی صرف رفعِ جسمی ہی کے ہوتے ہیں چنانچہ امثلہ(مثال) ذیل اس کی شاہد ہیں ۔
قال عثمان بن الھیثم حدثنا عرف عن محمد بن سیرین عن ابی ھریرة قال کلنی رسول الله بحفظ زکواة رمضان فاتانی ایة فجعل یحثومن الطعام فاخذتہ فقلت لا رفعنک عالی رسول الله فِقص الحدیث فقال اذاویت الی فرشک فاقراء آیتہ الکرسی لن یزال من الله حافظ ولایقربک شیطان حتی تصبح وقال النبی صدقک وھوکذوب ذاک شیطان
ترجمہ: ’’۔عثمان بن یثیم کہتے ہیں کہ ہم سے عوف نے حدیث بیان کی وہ محمد بن سیرین سے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو آنحضرت ﷺ نے صدقہ عید فطر کی نگہبانی پر مقرر کیا تھا ایک شخص آکر اس میں سے لب بھر کر لے جانے لگا میں نے اس پکڑلیا۔ پھر میں نےکہا میں تجھ کو رسول کے پاس ضرور لے جاؤں گا اور پوری حدیث بیان کی ۔ اس نے بتایا کہ جب تو اپنے بستر پر آرام کرے تو آیتہ الکرسی پڑھ لیا کر۔ ہمیشہ تیرے ہمراہ الله نگہبان رہے گا اور صبح تک شیطان تیرے پاس پھٹکنے نہ پائے گا۔ آنحضرت نے فرمایا میں نے سچ کہا حالانکہ وہ جھوٹا ہے وہ شخص شیطان تھا"۔( بخاری جُز۲۱)
فتح الؔباری شرح صحیح بخاری میں جملہ (لا رفعنک الی الرسول کی شرح میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے کہ " ای لا ذھبن بک شکوک یقال رفعہ الی الحاکم اذا حضر ہ للشکریٰ" ترجمہ:۔’’یعنی میں بالضرور تجھ کو رسول الله کی جناب میں تیری شرارت کےسبب لے جاوں گا اور تیری شکایت کروں گا‘‘۔ اب ہمارے کرم فرما اور ان کے ہمنوا ذرا غور کریں کہ کیا حضرت ابوہؔریرہ جیسے جلیل القدر صحابی (معاذ الله ) شیطان لعین کو عزت دلانے کی غرض سے آنحضرت کے پاس لے جانا چاہتے تھے؟
(۲۔) ’’مصباح منیر ‘‘میں لفظ " رفع" کی تحت میں لکھاہے کہ " رفعت المزرع الی البیرد" جس کا ترجمہ ’’صراح ، منتہی الارب ومنتخب اللغات‘‘ میں یہ لکھاہے کہ برادشتم غلہ درودہ ومنجر من گا آوردم یعنی" کھیت کو کاٹ کر او رغلہ اٹھا کر خرمن گاہ میں لے آیا"۔ قاموس اور اساس البلاغہ میں بھی لکھاہوا ہے۔
(۳۔) ’’صحیؔح بخاری اورمُسلم اورمشکواؔة المصابیح‘‘ کے (باب البکاء علی المیت کے صفحہ ۱۵۰ مجتبائی) میں آنحضرت کی بیٹی زینب کے فرزند ارجمند کے فوت ہونے کی حدیث میں یہ جملہ ہے کہ (فرفع الیٰ سول الله الصبیتی)ترجمہ:۔’’ یعنی وہ لڑکا آپ کے پاس اٹھا کر لایا گیا‘‘۔
)ترجمہ:۔’’ یعنی وہ لڑکا آپ کے پاس اٹھا کر لایا گیا‘‘۔
(۴۔) ’’مجمع البحار جلد ثانی‘‘ میں لفظ رفع کے نیچے لکھا ہے کہ (فرفعہ الی یدہ ای رفعہ الی غایتہ طول یدہ لیر اہ الناس فیفطرون)ترجمہ:۔’’ یعنی آنحضرت نے پیالہ کو درست مبارک کی لمبائی کے برابر اوپر اٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں اور روزہ افطار کریں"۔
غرض یہ کہ ہمیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں اس قسم کی مثالیں معلوم ہیں جن سے بہ صراحت ظاہر ہوتاہے کہ جب رفع کا صلہ الی آتا ہے تو اس کے معنی شئے مذکورہ کو بدخول الیٰ کی طرف اٹھانے کے کہتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے محترم عربیت کے مدعی نہیں اس لئے ان چند مثالوں پر اکتفاء کیا جاتاہے۔
بہر کیف(ہرحالت میں ،ہر صورت میں) نعت میں" رفع" کے حقیقی اور وضعی معنی" اوپر کو اٹھانے" کے ہیں۔ پس جہاں کہیں رفع کا مفعول کوئی مادی ہو وہاں۔ اس سے مراد نیچے سے اوپر کو حرکت کرنا ہوگا اور اگر اس کا متعلق اور معمول کوئی غیر مادی شئے ہو تو اقتضائے (تقاضا)مقام پر محمول (اُٹھایاگیا)ہوگا۔ چنانچہ ’’مصباح منیر‘‘ میں لکھاہے کہ (فالرفع الاجسام حقیقیة فی الحرکتہ و الانتقال وفی المعانی علی ٰ ما یقتضیہ المقام)ترجمہ:۔’’یعنی رفع کا تعلق جب اجسام کےساتھ ہوتاہے تو اس کے حقیقی معنی حرکت اور انتقال کے ہوتے ہیں اورجب معانی کے متعلق ہوتا ہے تو جیسا موقع ہوویسی ہی مراد ہوتی ہے"۔
’’مصباح ‘‘کی اِس تصریح سے صاف ظاہرہے کہ "رفع " کے حقیقی وضعی معنی ’’انتقال اور حرکت ‘‘کے ہوتے ہیں اور امثلاءمافوق سے ثابت ہوگیا ہے کہ " رفع " کا صلہ جب" الیٰ "آئے تو اس کے معنی شئ مذکور کے مدخول الیٰ کی طرف مرفوع (اُٹھایاگیا،بلندکیاگیا)ہونے کے ہوتے ہیں۔ پس(ورَافِعُکَ اِلَیَّ) کے معنی بجز اس اورکچھ نہیں کہ حضرت عیسیٰ بہ جسد عنصری آسمان پر زندہ اورموجود ہیں۔
دوسرا نکتہ
چونکہ ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ اس بحث کا کامل طورپرتصفیہ (فیصلہ)کریں لہٰذا یہاں اوپر ایک اورنکتہ لکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کنایہ (اشارہ) اورمجاز میں یہ فرق ہے کہ کنایات میں اصلی اور حقیقی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں اور مجازات میں نہیں چنانچہ مختصر معانی میں جو اس فن میں ایک اعلیٰ پایہ کی درسی کتاب ہے لکھاہے کہ :۔
"الکنایة فی الغة مصدر کنیت بکذاعن کذا وکنوت اذا ترکت التصریح بہ وفی الاصطلاح لفظ ارید بہ لازم معنا ومع جواز اراحقہ محہ ای اراوة ذالک المعنی مع لازمہ کلفظ طویل النجاد المرادبہ طویل بل القامة مع جواذان یراد حقیقتہ طول النجاد ایضاً فظھر انہا تخالف المجاذ من جہتہ ارادة المعنی الحقیقی مع ارادة لازمہ کا رادتہ طول النجار مع ارادة طول القامة بخلاف المازفانہ لایجر زفیہ ارادة المعنی الحقیقی للزوم القرینة المافعتہ عن ارادة المعنی الحقیقی
ترجمہ :۔’’یعنی کنایہ معتل یائی یا وادی ہے اوراس کے لغوی معنی مُبہم بات کہنے کے ہیں۔ لیکن اصطلاح میں اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے معنی کالازم مراد ہو اوراس کے ساتھ اس لفظ کے اصلی معنی کاارادہ بھی جائز ہو۔ مثلاً طویل النجار۔ یہ ایک محاورہ ہے جس کے لازمی معنی " دراز قامت" کے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کے حقیقی بمعنی (لمبے پر تلہ والا) مراد لینا بھی جائز ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ کنایہ اورمجاز میں یہی فرق ہے کہ کنایہ میں لازمی اور حقیقی دونوں معنی جمع ہوسکتے ہیں ۔ اورمجاز حقیقی معنی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتاہے "۔
پس(رَافِعُکَ اِلَیَّ) کے معنی کنائی (بشرطیکہ ایسا ہی ہو) بھی ہمارے لئے مضر نہیں بلکہ مفید ہے کیونکہ یہ دونو(معنی ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ رفعِ جسمی کے ساتھ رفعت ِ مرتبت کا ہونا ایک نبی ِبرحق کے لئے نور علی نور ہے۔ جیساکہ آیت ذیل میں بھی یہ دونوباتیں ثابت ہیں کہ " رفع ابویہ علی ٰ العرش " یعنی یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر چڑھا کر بٹھایا"۔ اس میں رفعِ جسمی کےساتھ عزت واکرام بھی ملحوظ ہے۔
جاہلوں سے کچھ بعید نہیں اگر یہ کہیں کہ ہم تو اس کے مجازی معنی مراد لیتے ہیں ۔ لہٰذا مناسب ہے کہ ہم ان کو بھی یہ بتلائیں کہ آیت (ورَافِعُکَ اِلَیَّ) کے مجازی معنی بھی مراد نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ مجاز کے لئے یہ شرط ہے کہ حقیقی معنی کے لینے سے اگر قباحت لازم آجائےیا کوئی قرینہ ایسا ہو کہ حقیقی معنی لینے سے منع کریں ۔ چنانچہ مختصر معانی میں لکھاہے کہ:۔
المجاز مفرد مرکب اما المفرد فھوا الکلمة المستعملہ فی غیر ماوضعت لدفی اصطلاح بہ التخاطب علی وجہ یصح مع قرینة عدم ارادتہ ایٰ ارادة الموضوع لہ
ترجمہ:۔’’ یعنی " مجاز وہ کلمہ ہے جو اپنے حقیقی معنی میں مستعمل نہ ہو اورکوئی قرینہ بھی قائم ہو جس سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ کلمہ کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں"۔
چونکہ آیت زیر بحث کے حقیقی معنی لینے میں نہ تو کوئی قباحت لازم آتی ہے اور نہ اس میں کوئی قرینہ اس قسم کا ہے جو حقیقی معنی کے اختیار کرنے کو روکے لہٰذا آیتِ مافوق کے مجاز معنی لینا سراسر باطل ہے۔
اسی اصل زرین (بیش قیمت)کو مدنظر رکھ کر قرآن مجید نے جہاں کہیں لفظ " رفع" کو بہ معنائے " رفعت ِمرتبت" استعمال کیا ہے ان کل مقامات میں کوئی نہ کوئی قرینہ اس قسم کا قائم کیا ہے جس سے صاف طورپر معلوم ہوتاہےکہ یہاں معنائے موضوع لہ(حقیقی) مراد نہیں ہے مثلاً:۔
وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿۵۷﴾ (سورہ مریم آیت ۵۷)۔رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ (سورہ بقرہ آیت ۲۵۳) ۔ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ (سورہ انعام آیت ۸۳)۔ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ (سورہ مریم آیت ۱۶۵)۔ وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ (سورہ الزخرف آیت ۳۲) ان تمام آیات میں الفاظ" مَکَانًا عَلِیًّا " و" دَرَجٰتٍ " قرینے ہیں اس بات کے کہ لفظ" رَفَعَ " اپنے اصلی معنی میں مستعمل نہیں ہے ۔
امام راغؔب اورامام راؔزی پر تہمت
ہمارے کرم فرما کا یہ لکھنا کہ " یہاں رَفَعَ (اٹھانا) سے مراد رفعِ جسم (جسم کا اٹھانا)نہیں بلکہ رفعتِ مرتبت مراد ہے ۔ جیساکہ مفرودات امام راؔغب اور تفسیر کؔبیر میں بھی صراحتاً مذکور ہے"۔ امام راغب اورامام فخر الدین رازی رحمتہ الله علیہ پر بہتان باندھنا اور سفید چشمی کی تہمت لگانا ہے ۔ کسی امر کی تحقیق کے لئے قابل ِ وثوق اشخاص کا صرف نام لینا کافی نہیں ہو سکتا ہے تاوقتیکہ ان کے تحریری بیان بھی پیش نہ کئے جائیں۔ چونکہ ان کی کتابیں آپ کی نظر سے نہیں گذری ہیں اس لئے سماعی طورپر آپ نے ان کا نام لکھ د یا۔ لیجئے آپ کی خاطرہم ان دونوکتابوں کی عبارات نقل کئے دیتے ہیں ۔
(۱۔) امام فخر الدین راؔزی رحمتہ الله علیہ اسی آیت کی تحت میں لکھتے ہیں کہ
" وقدثبت بالہ لیل انہ وحی ورد الخبر عن النبی اند سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ یتوفاہ بعد ذالک "
ترجمہ :۔’’یعنی بیشک یہ بات دلیل سے ثابت ہے کہ حضر ت عیسیٰ زندہ ہیں اوراس بارے میں نبی سے حدیث بھی آچکی ہے کہ آپ اُتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اورپھر اس کے بعد الله تعالیٰ آپ کو وفات دے گا ‘‘ (تفسیر کؔبیر جلد دوم)۔
(۲۔) پھر اسی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
" روی انہ علیہ الصلواة والسلامہ لما اظہر ھذاالمعجزات العجیبة قصد الیھود قتلہ فخلصبہ الله منہم حدیث رفعہ الی السماء "
" روی انہ علیہ الصلواة والسلامہ لما اظہر ھذاالمعجزات العجیبة قصد الیھود قتلہ فخلصبہ الله منہم حدیث رفعہ الی السماء "
(۳۔) حضر ت امام فخر اؔلدین راز رحمتہ الله علیہ کو حضرت عیسیٰ کے رفع جسم پر یہاں تک وثوق ہے کہ آپ نے اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے جو اس پر وارد ہوتا ہے کہ رفع جسمانی عند العقل متعذر ہے۔ چنانچہ آپ اس آیت کی تفسیر میں کہ
"بل رافعہ الله الیہ وکان الله عزیزاً حکیما لکھتے ہیں کہ" والمراد من العزة کمال القدرة ومن الحلمتہ العلم فنبہ ہذا علیٰ ان رفع عیسیٰ من الدنیاالی السموات وان کان المتعدرعلیٰ البشر الکتہ لاتعذرفیہ بالنسبتہ الی قدرتی ولی حکمتی وھو نظیر قولہ تعالیٰ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً فان الاسراء وان کان متعذراً بالنسبتہ الی قدرة محمد الا انہ سھل بالنسبتہ الی قدرة الحو سجان"
ترجمہ:۔’’یعنی اس آیت میں عزت سے کمال ِ قدرت حکمت سے کمال علم مراد ہے۔ پس اس آیت سے خدا نے اس پرآگاہ کیاکہ حضرت عیسیٰ کا آسمان پر اٹھایا جانا اگرچہ انسان کی طاقت سے باہر ہے لیکن میری قدرت اورحکمت کی نسبت کوئی چیز نہیں ہے ۔ اور یہ آیت سبحان الذی اسریٰ بعبدہ اس کی نظیر ہے کہ اسراء اگرچہ آنحضرت کی قدرت کی نسبت متعذر تھا مگر حق سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت کے آگے بالکل سہل تھا‘‘۔
(۴۔) پھر حضرت امام رحمتہ الله فرماتے ہیں کہ
" ولمنا علم الله ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ الله ھورو حہ لاجسدہ ذکر ھذا الکلام لیدل علی ٰ انہ علیہ الصلواة والسلام رفع بتما مہ الیٰ السما ء بروحہ وجسدہ"
(تفسیر کبیر جلد دوم تفسیر خازن)
ترجمہ:۔’’یعنی چونکہ الله کو معلوم تھاکہ کسی کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوگا کہ الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی روح کواٹھایا تھا۔ اس لئے الله نے متوفیک فرمایا تاکہ اس بات پر دلالت کرے کہ الله تعالیٰ نے آپ کو بتمامہ مع جسم اور روح کے آسمان پر اٹھالیا ‘‘۔
میری دانست میں تفسیر کبیؔر کے حوالجات مافوق ایک باحیاشخص کے لئے اس بات کو باور کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حضرت امام فخر اؔلدین رازی رحمتہ الله ہر گز حضرت عیسیٰ کے رفع جسمی کے منکر نہیں ہیں۔ اب ہم مفردات امام راؔغب رحمتہ الله علیہ کی عبارت نقل کرتے ہیں ۔ امام صاحب لفظ " رفع" پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
" الرفع یقال تاوة فی الاجسام الموطرعتہ اذا علیتھا عن مقرھا۔۔۔۔وتازة البناء اذا طولتہ ۔۔۔۔ وتارة فی الذکر اذا فوھتہ ۔۔۔۔۔ وتارة فی المنزلتہ اذا شہر فتھا"
ترجمہ:۔’’یعنی لفظ رفع کا استعمال چار طرح پر ہے کبھی ان اجسام پر جوایک خاص جگہ پر رکھے گئے ہیں۔جب ان کو ان کی جائے قرار سے اُونچا کردیا جائے ۔ اور کبھی عمارت پر جب اس کو بلند کردیا جائے ۔ اورکبھی ذکر پر جب اس کو شہر ت دی جائے ۔ اور مرتبہ پر جب اسے شرف یا بزرگی دی جائے ‘‘۔
اس اقتباس اوراس کے ترجمہ کو دیکھ کر ہمارے کر م فرمادل ہی دل میں ہماری سراغ رسانی کے قائل ضرور ہوگئے ہوں گے ! کیونکہ اقتباس مافوق اس کے ترجمہ کے ساتھ مولوی محؔمد علی صاحب کے اس رسالہ 6سے لیا گیا ہے جس کا نام لے لینا ہمارے کرم فرماکو منظور نہیں ہے (خدا جانے کیوں؟)۔ جب ہم قارئین کرام سے انصاف چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ عبارت ِ مافوق کے کس جملہ یا لفظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں رفع سے مراد رفع جسم نہیں بلکہ ’’رفعتِ مرتبت ‘‘ہے۔ امام راؔغب بھی وہی کہہ رہے ہیں جو ہم کہہ چکے ہیں کہ لفظ رفع کے حقیقی معنی "اوپر اٹھانے کے " ہیں اور باقی معانی میں حسب القرآن مستعمل ہے جس سے ہمیں ہر گز انکار نہیں ہے۔
6 دیکھو رسالہ عیسویت کا آخر ی سہارا " صفحہ ۲۲۔ مصنفہ مولوی محمد علی صاحب (سلطان)
بحث ِ مافوق کانتیجہ
یہاں تک تو لفظ رفع پر بحث ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیات (رافعک الی )اور( رفعہ الله الیہ) میں لفظ رفع اپنے حقیقی معنی نہ معنائے بالا برداشتن میں مستعمل ہے ۔ نیز مزید انکشاف کے لئے ہم نے یہ بھی ثابت کردیا کہ آیات ِ مافوق میں رفع کے معنی نہ تو کنائی کے لئے جاسکتے ہیں اور نہ مجازی کے ۔ اور نہ امام فخر الدین راؔزی اورنہ امام راؔغب حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہیں ۔ اب حضرت نیاؔز کے لئے بجز (بغیر) اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ذیل کے دو امروں میں سے ایک کو اختیار کریں یعنی یا تو آپ (۱) یہ تسلیم کریں کہ حضرت عیسیٰ مطلق فوت ہی نہیں ہوئے(جیسا کہ اہل ِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے ) اوربہ جسد ِ عنصری زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور یا (۲) یہ تسلیم کریں کہ حضرت عیسیٰ عارضی طورپر فوت ہوئے (جیسا کہ ہم مسیحیوں کا عقیدہ ہے ) اورپھر خدا نے آپ کو زندہ کرکے بہ جسد عنصری آسمان پر اٹھا لیا۔ لیکن حضرت نؔیاز امر اول کو تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ آپ لفط" متوفیک" کو بہ معنائے" ممیتک" قبول کرچکے ہیں اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فی الحقیقت آیت "مشار الیہا" میں " متوفیک" بہ معنائے" ممیتک" ہیں۔ اس لئے اس پر بحث کرنا ہم نے تحصیل حاصل سمجھا۔ لیکن چونکہ ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حضرت عیسیٰ بہ جسد ِ عنصری آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں لہٰذا حضرت نیاز کو مجبوراً دوسرا امر اختیار کرنا پڑے گا تاکہ "متوفیک"ا ور"رافعک الی" میں تعارض(آپس میں جھگڑنا،برابری کرنا) واقع نہ ہوجائے ۔ چنانچہ یہی عین صواب اور قرآن کریم وانجیلِ جلیل کے مطابق ہے ۔ قرآن ِپاک سےتوہم اس پر روشنی ڈال چکے ہیں صرف انجیل جلیل سے اس پر بحث کرنا باقی ہے جو حسب ِ ذیل ہے۔
انجیل جلیل اور حضرت عیسیٰ کی موت ورفع
حضرت نیاؔز تحریر فرماتے ہیں کہ
" جو واقعات انجیل کی روایات سے معلوم ہوئے ہیں ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے مصلوب ہونے کی حالت میں جان نہیں دی"۔
ہر چند (کتنا ہی)ہمارے کرم فرما کی غلطی اور انجیل نہ واقفیت کے اظہار کے لئے صرف یہی ایک جملہ کافی تھاکہ " سرجھکا کر جان دی " (یوحنا ۱۹: ۳۰)۔ لیکن از بسکہ آپ اپنے کتبین (سرسیدؔ مرحوم اور مولوی محؔمد صاحب ) کے اقتدار پر " واقعات " پر بازی لگارہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم حضرت مسیح کے صلیبی " واقعات " کو اناجیل کے الفاظ میں پیش کریں تاکہ قمارخانہ(جُواکھیلنے کا مکان) تقلید میں حضرت نیاؔز کے دل ودین کا ماجرا معلوم ہوسکے ۔ وہ واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ (یسوع )کا پکڑا جانا
(متی ۲۶: ۴۷تا ۵۶؛ لوقا ۲۲: ۴۷تا ۵۳؛ یوحنا ۱۸: ۳تا ۱۱)
’’وہ یہ کہی ہی رہا تھا کہ فی الفور یہوداہ جو ان بارہ(۱۲) میں سے تھا اوراس کے ساتھ ایک بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لئے ہوئے سردار کاہنوں اور فقیہوں اور بزرگوں کی طرف سے آپہنچی۔ اوراس کے پکڑوانے والے نے انہیں یہ پتہ دیا تھاکہ جس کا میں بوسہ لوں وہی ہے۔ اسے پکڑ کر حفاظت سے لے جانا۔ وہ آکر فی الفور اس کے پاس گیا اورکہا۔ اے ربی ۔اوراس کے بوسے لئے۔ انہوں اس پرہاتھ ڈال کر اسے پکڑلیا۔ ان میں سے جو پاس کھڑے تھے ایک نے تلوار کھینچ کر سردار کاہن کے نوکر پر چلائی اوراس کاکان اڑادیا۔ یسوع نے ان سے کہا ۔ کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟ میں ہر روز تمہارے پاس ہیکل میں تعلیم دیتا تھا اور تم نے مجھے نہیں پکڑا ۔ لیکن یہ اس لئے ہواکہ نوشتے پورے ہوں۔ اس کے سارے شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔مگر ایک جوان اپنے ننگے بدن پر مہین چادر اوڑھے ہوئے اس کے پیچھے ہولیا۔ اسے لوگوں نے پکڑا مگر وہ چادر چھوڑ کر ننگا بھاگ گیا‘‘۔
یہودیوں کی صدر عدالت میں سیدنا عیسیٰ کے مقدمے کی پیشی
(متی ۲۶: ۵۷تا ۶۸؛ لوقا ۲۲: ۶۳تا ۷۱؛ یوحنا ۱۸: ۱۲تا ۱۴اور ۱۹تا ۲۴)
’’پھر وہ یسوع کو سردار کاہن کے پاس لے گئے ۔ اورسب سردار کاہن اور بزرگ اور فقیہ اس کے ہاں جمع ہوگئے ۔ اورپطرس فاصلے پر اس کے پیچھے پیچھے سردار کاہن کےدیوان خانے کے اندر تک گیا۔ اورپیادوں کے ساتھ بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔اور سردار کاہن اور سارے صدرِ عدالت والے یسوع کے مار ڈالنے کےواسطے اس کے خلاف گواہی ڈھونڈھنے لگے ۔ مگر نہ پائی کیونکہ بہتیروں نے اس پر جھوٹی گواہیاں تو دیں لیکن ان کی گواہیاں متفق نہ تھیں ۔ پھر بعض نے اُٹھ کر اس پر یہ جھوٹی گواہی دی کہ ہم نے اسے یہ کہتے سنا ہے کہ میں اس مقدس کو جو ہاتھ سے بنا ہے ڈھاؤں گا اور میں تین دن میں دوسرا بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنا ہو۔ لیکن اس پر بھی ان کی گواہی متفق نہ نکلی۔ پھر سردار کاہن نے بیچ میں کھڑے ہوکر یسوع سے پوچھا کہ تو کچھ جواب نہیں دیتا ؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں ؟ مگر وہ چپکا ہی رہا اور کچھ نہ جواب دیا۔ سردار کاہن نے اس سے پھر سوال کیا اورکہا۔ کیا تو اس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے۔ یسوع نے کہا ہاں میں ہوں۔ اور تم ابن ِ آدم کو قادر ِ مطلق کے دہنی طرف بیٹھے اورآسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے ۔ سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کے کہا اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی۔ تم نے یہ کفر سنا۔ تمہاری کیارائے ہے؟ ان سب نے فتویٰ دیاکہ وہ قتل کے لائق ہے۔ تب بعض نے اس پر تھوکنے اور اس کا منہ ڈھانپنے اوراس کے مُکّے مارنے اوراس سے کہنے لگے ۔ نبوت کی باتیں سُنا ! اورپیادوں نے اسے طمانچے مار مار کےاپنےقبضے میں لیا‘‘(مرقس باب ۱۴: آیات ۴۳تا ۶۵)۔
پنطس پیلاطُس کی کچہری میں سیدنا عیسیٰ کے مقدمے کی پیشی
(متی ۲۷: ۱تا ۲ اور ۱۱تا ۲۶؛ لوقا ۲۳: ۱تا ۲۵؛ یوحنا ۱۸: ۲۸۔ ۱۹: ۱۹)
’’اورفی الفور صبح ہوتے ہی امامِ اعظم نے بزرگوں اور فقیہوں اور سب صدر عدالت والوں سمیت صلاح کرکے سیدنا عیسیٰ کو بندھوایا اور لے جاکر پیلاطُس کے حوالہ کیا۔پیلاطُس نے آپ سے پوچھا ’’کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو‘‘؟ آپ نے جواب میں اس سے فرمایا تم خود کہتے ہو۔اور امامِ اعظم آپ پر بہت الزام لگاتے رہے ۔ پیلاطُس نے آپ سے دوبارہ سوال کرکے یہ کہا تم کچھ جواب نہیں دیتے ؟ دیکھو یہ تم پر کتنی باتوں کا الزام لگاتے ہیں ؟سیدنا عیسیٰ نے پھر بھی کچھ جواب نہ دیا یہاں تک کہ پیلاطس نے تعجب کیا‘‘۔
’’پیلاطس عید پر ایک قیدی کو جس کے لئے لوگ عرض کرتے تھے ان کی خاطر چھوڑدیا کرتا تھا۔ اور براؔبا نام ایک آدمی ان باغیوں کے ساتھ قید میں پڑا تھا جنہوں نے بغاوت میں خون کیا تھا۔ بھیڑ اوپر چڑھ کر اس سے عرض کرنے لگی کہ جو تمہارا دستور ہے وہ ہمارے لئے کرو۔ پیلاطُس نے انہیں یہ جواب دیا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری خاطر یہودیوں کے بادشاہ کو چھوڑدوں؟ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ امامِ اعظم نے آپ کو حسد سے میرے حوالہ کیا ہے۔ مگر امامِ اعظم نے بھیڑ کو ابھارا تاکہ پیلاطُس ان کی خاطر براؔبا ہی کو چھوڑدے۔ پیلاطُس نے دوبارہ ان سے کہا پھر جسے تم یہودیوں کا بادشاہ کہتے ہو اس سے میں کیا کروں؟وہ پھر چلائے کہ آپ مصلوب ہوں۔ پیلاطُس نے ان سے فرمایا کیوں اُس نے کیا برائی کی ہے؟ وہ اور بھی چلائے کہ وہ مصلوب ہو۔ پیلاطُس نے لوگوں کو خوش کرنے کے ارادہ سے ان کے لئے براؔبا کو چھوڑ دیا اور سیدناعیسیٰ کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا تاکہ مصلوب کئے جائیں‘‘ (مرقس ۱۵: ۱تا ۱۵)۔
رومی سپاہیوں کا سیدنا عیسیٰ کو ٹھٹھے میں اڑانا
(متی ۲۷: ۲۷تا ۳۱)
’’ اس پر حاکم کے سپاہیوں نے سیدنا عیسیٰ کو قلعہ میں لے جاکر ساری پلٹن آپ کے گرد جمع کی اور آپ کے کپڑے اتار کر آپ کو قرمزی چوغہ پہنایا۔اور کانٹوں کا تاج بنا کر آپ کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا آپ کے دہنے ہاتھ میں دیا آپ کے آگے گھٹنے ٹیک کر آپ کو ٹھٹھوں میں اڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب ! اور آپ پر تھوکا اور وہی سر کنڈا لے کر آ پ کے سر پر مارنے لگے ۔ اور جب آ پ کا ٹھٹھا کرچکے تو چوغہ کو آپ پر سے اتار کر پھر آپ ہی کے کپڑے پہنائے اور مصلوب کرنے کولے گئے ‘‘۔
سیدنا عیسیٰ کا صلیب دیا جانا اور لعن طعن اٹھانا
(متی ۲۷: ۳۲تا ۳۴؛ لوقا ۲۳: ۲۶تا ۴۳؛ یوحنا ۱۹: ۱۷تا ۲۴)
’’شمعون نام ایک کرینی آدمی سکندر اور روفس کاوالد دیہات سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا۔ انہوں نے اسے بیگار میں پکڑا کہ آپ کی صلیب اٹھائے۔اور وہ آپ کو مقام گلگتا پر لائے جس کا ترجمہ ’’کھوپڑی کی جگہ‘‘ ہے۔ اور مُر ملی ہوئی مے آپ کو دینے لگے مگر آپ نے نہ لی۔ انہوں نے آپ کو مصلوب کیا اور آپ کے کپڑوں پر قرعہ ڈال کر کہ کس کو کیا ملے انہیں بانٹ لیااور پہردن چڑھا تھا جب انہوں نے آپ کو مصلوب کیا۔آپ کا الزام لکھ کر آپ کے اوپر لگادیا گیاکہ یہودیوں کا بادشا انہوں نے آپ کے ساتھ دو ڈاکوؤں کو ایک کو دہنی اور ایک آپ کی بائیں طرف مصلوب کئے ۔ (تب اس مضمون کا وہ نوشتہ کہ آپ بدکاروں میں گنے گئے پورا ہوا )۔ اور راہ چلنے والے سر ہلا ہلا کر آپ پر لعن طعن کرتے او رکہتے تھے کہ واہ ! بیت الله کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے صلیب سے اُتر کر اپنے تیئں بچاؤ۔ اسی طرح امام ِاعظم بھی فقہیوں کے ساتھ مل کر آپس میں ٹھٹھے سے کہتے تھے آپ نے اوروں کو بچایا۔ اپنے تئیں نہیں بچاسکتے ۔ اسرائیل کا بادشاہ مسیح اب صلیب پر سے اتر آئیں تاکہ ہم دیکھ کر ایمان لائیں اور جو آپ کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے وہ آپ پر لعن طعن کرتے تھے‘‘(مرقس ۱۵: ۲۱تا ۳۲)۔
سیدنا عیسیٰ کا مرنا
(متی ۲۷: ۴۵تا ۵۶۔ لوقا ۲۳: ۴۴تا ۴۹۔ یوحنا ۱۹: ۲۸تا ۳۰)
’’جب دوپہر ہوئی تو تمام ملک میں اندھیرا چھا گیا اور تیسرے پہر تک رہا تیسرے پہر کو سیدنا عیسیٰ بڑی آواز سے چلائے کہ الوہی الوہی لما شبقتنی ؟ جس کا ترجمہ ہے ۔اے میرے خدا اےمیرے خدا آپ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ جو پاس کھڑے تھے ان میں سے بعض نے یہ سن کر کہا دیکھو وہ الیاس کو بلاتے ہیں۔ ایک نے دوڑ کر سپنج کو سرکہ میں ڈبویا اور سر کنڈے پر رکھ کر آپ کو چسایا اور کہا ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو الیاس انہیں اتارنے آتا ہیں یا نہیں ۔پھر سیدنا عیسیٰ نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا۔بیت الله کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ صوبہ دار آپ کے سامنے کھڑا تھا اس نے آپ کو یوں دم دیتے ہوئے دیکھ کر کہا بے شک یہ آدمی ابن الله ہے‘‘(مرقس ۱۵: ۳۳تا ۳۹)۔
’’پس چونکہ تیاری کا دن تھا یہودیوں نے پیلاطُس سے درخواست کی کہ ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اتارلی جائیں تکہ سبت کے دن صلیب پر نہ رہیں۔ کیونکہ وہ سبت ایک خاص دن تھا۔ پس سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے شخص کی ٹانگیں توڑیں جو آپ کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے۔ لیکن جب انہوں نے سیدنا عیسیٰ کے پاس آکر دیکھاکہ آپ مرچکے ہیں تو آ پ کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ مگر ان میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے آپ کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون او رپانی بہ نکلا‘‘(یوحنا ۱۹: ۳۱تا ۳۴)۔
سیدنا عیسیٰ کا دفن ہونا
(متی ۲۷: ۵۷تا ۶۱؛ لوقا ۲۳: ۵۰تا ۵۶؛ یوحنا ۱۹: ۳۸تا ۴۲)
’’ جب شام ہوگئی تو اس کے لئے تیاری کا دن تھا جو سبت سے ایک دن پہلے ہوتا ہے ۔ ارمتیہ کا رہنے والا یوسف آیا جو عزت دار مشیر اور خود بھی پروردگار کی بادشاہی کا منتظر تھا اس نے جرات سے پیلاطُس کے پاس جاکر آپ کی جسم ِ مبارک مانگا۔ پیلاطُس نے تعجب کیا کہ آپ ایسے جلد وفات پاگئے اور صوبہ دار کوبلا کر آپ سے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے ہوئے دیر ہوگئی ؟ جب صوبہ دار سے حال معلوم کرلیا تو جسم ِ مبارک یوسف کو دلادی ۔ آپ نے ایک مہین چادر مول لی اور جسم ِ مبارک کواتار کر چادر میں کفنایا اور ایک قبر کے اندر جو چٹان میں کھودی گئی تھی رکھا اور قبر کے منہ پر ایک پتھر لڑھکا دیا ۔ بی بی مریم مگدلینی اور یوسیس کی والدہ بی بی مریم دیکھ رہی تھیں کہ آپ کہاں رکھے گئے ہیں‘‘(مرقس ۱۵: ۴۲تا ۴۷)۔
سیدنا عیسیٰ کاجی اٹھنا
(متی ۲۸: ۱تا ۸۔ لوقا ۲۴: ۱تا ۲۰۔ یوحنا ۲۰: ۱)
’’جب سبت کا دن گذرگیا تو بی بی مریم مگدلینی اور حضرت یعقوب کی والدہ ماجدہ بی بی مریم اور بی بی سلومی نے خوشبودار چیزیں مول لیں تاکہ آکر آپ پر ملیں۔وہ ہفتہ کے پہلے دن بہت سویرے جب سورج نکلا ہی تھا قبر پر آئیں۔اور آپس میں کہتی تھیں کہ ہمارے لئے پتھر کو قبر کےمنہ پرسے کون لڑھکائے گا؟ جب انہوں نے نگاہ کی تو دیکھا کہ پتھر لڑھکا ہوا ہے کیونکہ وہ بہت ہی بڑا تھا۔ قبر کے اندر جاکر انہوں نے ایک جوان کو سفید جامہ پہنے ہوئے دہنی طرف بیٹھے دیکھا اور نہایت حیران ہوئیں۔ اُس نے اُن سے کہا ایسی حیران نہ ہو۔ تم عیسیٰ ناصری کو جو مصلوب ہوا تھا ڈھونڈتی ہو۔ وہ جی اٹھے ہیں ۔ وہ یہاں نہیں ہیں۔ دیکھو یہ وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے عیسیٰ ناصری کو رکھا تھا۔ لیکن تم جاکر اس کے صحابہ کرام اور پطرس سے کہو کہ وہ تم سے پہلے گلیل کو جائیں گے ۔تم وہیں اسے دیکھو گے جیسا اس نے تم سے کہاوہ نکل کر قبر سے بھاگیں کیونکہ لرزش اور ہیبت ان پر غالب آگئی تھی اور انہوں نے کسی سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں‘‘۔
سیدنا عیسیٰ کا جی اٹھ کر شاگردوں کو دکھائی دینا
’’ہفتہ کے پہلے روز جب آپ سویرے جی اٹھے تو پہلے بی بی مریم مگدلینی کو جس میں سے آپ نے سات بدروحیں نکالی تھیں دکھائی دئیے۔ اس نے جاکر آپ کے ساتھیوں کوجو ماتم کرتے اور روتے تھےخبردی۔ انہوں نے یہ سن کر کہ آپ جیتے ہیں اور اُس نے آپ کو دیکھا ہے یقین نہ کیا۔
اس کے بعد آپ دوسری صورت میں ان میں سے دو کو جب وہ دیہات کی طرف پیدل جارہے تھے دکھائی دیئے۔ انہوں نے بھی جاکر باقی لوگوں کو خبردی مگر انہوں نے ان کا بھی یقین نہ کیا۔
پھر آپ ان گیارہ(۱۱) کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیئے اور آپ نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے آپ کے جی اٹھنے کے بعد آپ کو دیکھا تھا انہوں نے ان کا یقین نہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا تم تمام دنیا میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی تبلیغ کرو۔جو ایمان لائے اور اصطباغ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا‘‘(مرقس ۱۶: ۱تا ۱۶)۔
سیدنا عیسیٰ کا آسمان پر جانا
’’پھر آپ انہیں بیت عنّیاہ کے سا منے تک باہر لے گئے اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انہیں برکت دی۔ جب آپ انہیں برکت دے رہے تھے تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہوگئے اور آسمان پر اٹھائے گئے ۔ اور صحابہ کرام آپ کو سجدہ کرکے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹ گئے۔ اور ہر وقت بیت الله میں حاضر ہوکر پروردگار کی حمد کیا کرتے تھے‘‘(لوقا ۲۴: ۵۰تا ۵۳)۔
انجیل کے صلیبی واقعات وقرآن
یہ ہیں انجیلی " واقعات " جن کو قرآن ِ پاک نے اپنے طرزپُرمغز میں ان دوجملوں میں بیان کیا ہے کہ " یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ "(سورہ آل عمران آیت۵۵)۔ لیکن ہمارے کر م فرما نے چونکہ انجیل جلیل کو بچشم خود ملاحظہ نہیں فرمایا ہے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ " عام طورپر یہ خیال کیا جاتاہے کہ صلیب پر چڑھانا یہ معنی رکھتا ہے کہ انسان یقیناً اور فوراً مرجاتا ہے "۔ آپ کا یہ کہنا تو صریحاً کم فہمی کا نتیجہ ہے کہ انسان " یقیناً" نہیں مرتا تھا۔ کیونکہ اگر وہ " یقینا" نہیں مرتا تھا تو صلیب دینا ہی فعل عبث تھا۔ البتہ آپ کا یہ کہنا کہ " فورا" نہیں مرتا تھا" اس حد تک صحیح ہے جہاں تک " واقعات کا اقتضا (تقاضا)ہو۔از بس کہ نقالی جناب کی طبیعت ثانی بن چکی ہے آپ وہی کچھ لکھتے ہیں جو آپ کے استاد ِ ازل سرسیدؔ مرحوم لکھ چکے ہیں ۔ کاش آپ خود تحقیقات کی زحمت برداشت کرتے تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ صلیب کی صرف وہی ہیئت نہیں ہے جس کو آپ نے سرسیدؔ مرحوم کی’’ تفسیر القرآن‘‘ سے نقل کیا ہے بلکہ اس کی تین مختلف ہیتئیں تھیں جن کی رسوم یہ ہیں ۔
اسی طرح شخص مصلوب کی بھی تین صورتیں ہوتی تھیں (۱۔) شخص مصلوب کو صلیب کی نشست پر لٹکا کر اس کے ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو علیحدہ علیحدہ ایک پاؤں کود وسرے پر رکھ کر رسیوں سے خوب مضبوط باندھ دیتے تھے۔ اس صورت میں شخص مصلوب کی موت تمازت ِ آفتاب یا دیگر موسمی اثرات اور گرسنگی وتشنگی کی وجہ سے چند یوم کے بعد واقع ہوتی تھی(۲۔) شخص مصلوب کے دو نوں ہاتھوں کو صلیب کے دونو بازوؤں پر پھیلا کر بڑے بڑے کیلوں سے جڑ دیتے تھے او رپاؤں کو رسی سے باندھ دیتے تھے۔ چونکہ اس صورت میں زخموں کی تکلیف کےعلاوہ خون بھی جاری رہتا تھا شخص مصلوب کی موت نسبت اول جلد واقع ہوتی تھی۔(۳۔) شخص مصلوب کے ہاتھوں کے علاوہ اس کے پاؤں بھی گاہے علیحدہ علیحدہ اورگاہے ایک ساتھ کیلوں سے جڑدیتے تھے ۔ اس صورت میں جریان خون کی شدت ،زخموں کی عفونت، اور مسموم الدم (زہردیا گیا،سانس کی دشواری)ہونے کی وجہ سے شخص مصلوب بہت جلد ہی مرتا تھا(حضرت عیسیٰ کی صلیب کی آخری صورت تھی اور پردہ دل کا شگاف اس پر اضافہ تھا)۔(لغات بائبل از تصنیف جان۔ ڈی ڈیوس صاحب انگریزی وانڈین چرچ کامنٹری انجیل متی انگریزی)۔خود اس واقعہ سے بھی جس کو سرسیدؔ مرحوم نے اپنی’’ تفسیر القرآن ‘‘میں نقل کیا ہے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ صلیبی زخم نہایت خطرناک ہوتے تھے اور فی الفور اُتارنے اور باقاعدہ علاج معالجہ کرنے کے باوجود مشکل سے کسی کی جان بچتی تھی۔ چنانچہ یوسی بیس سے تین رفیقوں میں سے جن کو اس نے صلیب سے اتروایا دو مرگئے اوربہ مشکل جانبر ہوسکا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ کی تکالیف میں اور ان کی تکالیف میں کوئی نسبت نہ تھی۔
حضرت روح الله کی تکالیف
اناجیل کی ان " روایات" سے جن کو ہم نے اُوپر نقل کیا ہے اور نیز دیگر مقامات سے صاف ظاہرہے کہ حضرت عیسیٰ کو( ۳)شبانہ روز تک نہ سونے کے لئے وقت دیا گیا اورنہ کھانے پینے کے لئے فرصت دی گئی اور نہ سانس لینے کے لئے مہلت دی گئی ۔ بلکہ اس اثناءمیں چار بار نہایت بے دردی کے ساتھ آپ کو پٹوایا گیا ۔جس کا خاتمہ رومی تازیانہ پر ہوا۔ جس کی ساخت کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ
’’وہ چمڑے کی ایک لمبی تھیلی ہوتی تھی جس کے اندر لوہے کی نوکدار کیلیں۔ اور سیسے کے ناہموار ٹکڑے ، اور هڈیوں کے ریزے اور اس قسم کی دیگر اشیاء بھردی جاتی تھیں۔ انسان کو برہنہ کرکے اس سے درُے لگواتے تھے۔ انسان کے جسم پر جہاں کہیں یہ پڑتا تھا وہاں کا گوشت علیحدہ ہوکر ہڈی دکھائی دیتی تھی۔ اور بعض اوقات صرف اسی کی ضرب سے موت واقع ہوتی تھی‘‘
(ماڈرن سٹوڈنٹس لائف آف کرائسٹ ، ازتصنیف والمر صاحب صفحہ ۲۵۵)
ڈین فؔرر صاحب اپنی مشہور ِ آفاق کتاب ’’لائف آف کرائسٹ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ
’’ اس وحشت زاتازیانہ کانمونہ اس تہذیب کے زمانہ میں سطح زمین پر کہیں نہیں مل سکتا ہے ۔بجز روسی گرہ دار تازیانہ کے ۔ اس کے علاوہ آپ کے سرِ مبارک پر جو پہلے بہت کچھ زخمی ہوچکا تھا کانٹوں کا تاج باندھاگیا۔ ضعف وناتوانی کی یہ حالت تھی کہ اپنی صلیب تک نہیں اُٹھاسکتے تھے جس کو ایک معمولی طاقت والا شخص بہ آسانی اُٹھاسکتا تھا ۔ صلیب پر آپ کے دونو ں ہاتھوں اورپاؤں میں بڑے بڑے کیل ٹھونکے گئے ۔ بارہ(۱۲)یا نو(۹) گھنٹوں تک آپ صلیب پر آویزاں رہے اوربالآخر آپ کی پسلی عین دل پر بھالے سے شق کردی گئی ۔ یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کی موت نو (۹)یا بارہ (۱۲)گھنٹوں کے بعد واقع ہوئی‘‘ ۔
ان واقعات کےپڑھنے کے بعد بجز اُس شخص کے جو بیدرد بے رحم، ظالم، اور اقسی القلوب واقع ہو اہو اور کوئی شخص حضرت روح الله کی عجالی(جلدی) موت پر تعجب نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ وہ اس پر تعجب کرے گا کہ اس قدر آلام اور مصائب کے جھیلنے کے بعد کس طرح( ۹ یا ۱۲) گھنٹوں تک صلیب پر زندہ رہے۔
آپ کا یہ فرمانا کہ " آپ پر شدت تکلیف سے غشی کی سی کیفیت طاری تھی اور سب نے غلطی سے یہ سمجھ لیاکہ آ پ مرگئے "۔ رومی سلطنت کے قوانین سے ناواقف ہونا اوریہودیوں کی سنگدلی سے بے خبر ہونے کا نتیجہ ہے۔ بھلا کسی کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہودیوں کے سے دشمن جو مسیح کا خون پینے کے لئے ماہی بےآب(پانی کے بغیرمچھلی) کی طرح تڑپ رہے تھے۔ یہ غفلت کریں کہ مسیح زندہ اتارلئے جائیں۔ بھلا رومی سپاہی جو اس قانون سے خوب واقف تھے کہ شخص مصلوب کے زندہ اُتارنے میں کیسی سخت سزا ملے گی۔یہ غلطی کرسکتے تھے؟ حضرت ! اسی غلطی " سے بچنے کی خاطر ایک سپاہی نے بجائے ٹانگ توڑنے کے مسیح کی پسلی پر کاری زخم لگایا تاکہ حضرت عیسیٰ کی موہوم" غشی کی سی کیفیت " فی الفور موت سے تبدیل ہوجائے ۔
چند جلیل القدر مسلمان بھی ہم سے متفق ہیں
بالجملہ قرآنِ پاک اورانجیلِ جلیل دونوں اس پر متفق ہیں کہ فی الحقیقت خدا نے مسیح کو پہلے موت دی اور اس کے بعد ان کو زندہ کرکے بہ جسد عنصری آسمان پراٹھا لیا۔چنانچہ جلیل القدر اور مایہ ناز مسلمان بھی ہم سے متفق ہیں۔ چنانچہ وہؔب کا یہ قول ہے کہ
’’ حضرت عیسیٰ تین گھنٹے تک مردہ رہے اور پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلےگئے‘‘۔
اور محمد ابن اؔسحاق کاقول ہے کہ
’’ آپ سات(۷) گھنٹے تک مردہ رہے ۔ پھر زندہ ہوئے اور آسمان پر چلے گئے ‘‘۔
اور ربیع ابن اؔنس کا قول ہے کہ
’’الله تعالیٰ نے آسمان پر اٹھاتے وقت آپ کو موت دی ‘‘۔
(سرسید مرحوم کی تفسیر القرآن بحوالہ تفسیر کبیر سورہ آل عمران)
آیت وَمَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُکی مسیحیانہ تفسیر
اب اس سوال کا جواب دینا باقی رہ گیا کہ اگر ہمارے خیالات درست ہیں تو(سورہ النساء آیت ۱۵۷)( مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ) کی کیا تفسیر ہوسکتی ہے جس میں مصلوبیت کی مطلق نفی کی گئی ہے اس کا جواب نہایت سہل ہے وہ یہ کہ ہم حضرت نیاؔز (اور درحقیقت سرسیدؔ مرحوم ) کے اس قول کے ساتھ بالکل متفق ہیں کہ اس آیت میں اصل مقصود یا نتیجہ صلیب کی نفی کی گئی ہے نہ کہ صلیب پر چڑھانے کی ۔ لیکن نتیجہ کے تعین کرنے میں ہم کو حضرت نیاؔز سے اختلاف ہے۔ حضرت نیاؔز سرسیدؔ مرحوم کی تقلید میں فرماتے ہیں کہ صلیب کا نتیجہ موت تھا۔ اورہم کہتے ہیں کہ نہیں جناب۔ اگر یہودیوں کو حضرت مسیح کو صرف مار ڈالنا ہی " مقصود" ہوتا تو آپ کو مارڈالنے کے اور بہت سے طریقے تھے اورنہایت سہولت کے ساتھ ان طریقوں کو استعمال کرسکتے تھے۔ لیکن صلیب دینے پر ان کو کیوں اس قدر اصرار تھاکہ " اس کو صلیب دے صلیب دے"۔ جس سے یہودیوں کا " اصل مقصود یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح کو تورات مقدس کی اس آیت کا کہ " اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اوروہ مارا جائے اور تواسے درخت پر لٹکائے ۔ تو اس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے بلکہ تو اسی دن اسے گاڑدے کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتاہے خدا کا ملعون ہے"(استثنا باب ۲۱آیات ۲۲تا ۲۳)۔
مصداق بناکے آپ کی نبوی عظمت اور وقار کو صدمہ پہنچا کر آپ کا معاذ الله " ملعون " ثابت کریں تاکہ آپ کا مرفوع الی اللہ ہونا متعذر(دشوار) سمجھا جائے ۔ پس یہودیوں کے نزدیک صلیب کا " نتیجہ " صرف قتل ہی نہیں تھا بلکہ قتل باللغت تھا۔ اسی نتیجہ کی تردید میں الله فرماتا ہے کہ
" مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ﴿۱۵۷﴾ۙبَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ(سورہ نساء ۱۵۷۔۱۵۸)۔
ترجمہ :۔’’یعنی یہودیوں کا مسیح کے متعلق یہ کہناکہ ہم نے اس کو لعنت کی موت مارا یہ اُن کی خام خیالی ہے کیونکہ درحقیقت اُنہوں نے اُس کو لعنت کی موت نہیں مارا بلکہ خدا نے اس کو زندہ کرکے اپنی طرف اٹھالیا‘‘۔
صرف قرآن مجید ہی نے یہودیوں کے اس کفر آمیز قول کی تردید نہیں ہے کہ بلکہ مقدس پولُس نے بھی ان کے اس ناپاک قول کی تردید کی کہ ’’پس میں تمہیں جتاتا ہوں کہ جوکوئی خدا کی روح کی ہدایت سے بولتا ہے وہ نہیں کہتاکہ یسوع معلون ہے اورنہ کوئی روح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خداوند ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۳)۔
پس آیت بالا کا صحیح ترجمہ یہ ہےکہ ’’یہودیوں نے جس نتیجہ کو مدِ نظر رکھ کر مسیح کو مصلوب کیا اس نتیجہ کے اعتبار سے نہ تو انہوں نے اس کومصلوب کیا اور نہ متقول کیا بلکہ خدا نے اس کو بہ جسد عنصری نہایت عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھالیا‘‘۔
علمائے اہل ِسنت والجماعت سے خطاب
مسلمان بزرگواور قابل ِ تعظیم عالمو ! اگر آپ ہماری تفسیر مافوق کو جو قرآنِ مجید اور انجیلِ جلیل کے عین مطابق ہے قبول نہ کریں تو یاد رکھیں کہ قرآنِ مجید پر ایسا سنگین اعتراض وارد ہوتا ہے جو آپ کے اٹھائے نہ اُٹھ سکے گا۔ ہم اس اعتراض کو مولوی محؔمد علی صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی ایک بات سے اُنہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ
’’ قرآن کریم کے الفاظ کےہم کو ایسے معنی نہیں کرنے چاہئیں جو بالبداہت تاریخ کو باطل کرتے ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص صرف اسی قدر الفاظ (مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ )سے یہ نتیجہ نکال کر قتل کی مانند یا صلیب کی مانند بھی کوئی فعل حضرت مسیح پروارد نہیں ہوا۔ لیکن یہ نتیجہ لازمی نہیں۔ اورجب ہم تاریخ میں اس امر کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف یہودی مدعی ہیں کہ ہم نے مسیح کو پکڑ کر صلیب پر چڑھایا ۔ اور دوسری طرف عیسائی جو حضرت مسیح کے پیرو ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ واقعی صلیب پر حضرت مسیح کو لٹکایا اورکوئی تاریخ اس وقت کی ایسی نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں چڑھائے گئے ۔ اب اگر ایک شخص چھ سو (۶۰۰) سال کے بعد یہ کہہ دے کہ نہیں وہ صلیب پر نہیں لٹکائے گئے تھے تو اس بات کو کون مانے گا؟ قرآن کریم کے معنی کرنے میں یہ امر ملحوظ رکھا جائے گا کہ اگرایک لفظ کے دو طرح معنی ہوسکتے ہیں توہم وہی معنی اختیار کریں گے جو تاریخ کے خلاف نہیں ‘‘۔
(عیسویت کا آخری سہارا صفحہ ۱۷)
جماعت احمدیہ اور ان کے ہم خیالوں سے خطاب
میرے محترم بزرگو ! یہی اعتراض بالا آپ پربھی وارد ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے تو آپ قائل ہیں لیکن آپ کی صلیبی موت کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ’’ جب ہم تاریخ میں اس امر کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف یہودی مدعی ہیں کہ ہم نے مسیح کو پکڑ کر صلیب پر چڑھا کر مارڈالا اور دوسری طرف ہم عیسائی جو حضرت مسیح کے پیرو ہیں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ واقعی صلیب پر آپ فوت ہوئے‘‘ اورکوئی تاریخ اس وقت کی ایسی نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔اب اگر ایک شخص چھ سو(۶۰۰) سال بعد یہ کہہ دے کہ نہیں وہ صلیب پر نہیں فوت ہوئے تو اس بات کوکون مانے گا؟ پس حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کی صحیح تسلیم کرکے آپ کے صلیبی موت سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا مینہ سے بچنے کی خاطر پر نالہ کے نیچے کھڑا ہوجانا۔ فتفکرویا اولیٰ الالباب۔
حصہ سوم
اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ
آپ اپنے مضمون زیرِ تنقید کے تیسرے حصے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
تیسرا حصہ اس بحث کا مسیح کے معجزات سےمتعلق ہے ۔ سب سے پہلا معجزہ تو یہ ہے کہ آپ نے گہوارہ میں گفتگو کی ۔ اس کے متعلق ہم کوئی مزید بحث نہ کریں گے ۔ کیونکہ گذشتہ صفحات میں ہم اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں۔ اور گہوارہ سے بات کرنے کا مفہوم صغر سنی میں بات کرنے کا ہے اور یہ کوئی معجزہ نہیں۔ باقی اور معجزات وہ ہیں جن کا ذکر (سورہ مائدہ اور آل عمران )میں ہے ۔ وہ آیتیں یہ ہیں:
اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورہ آل عمران ۴۹)۔
ترجمہ:۔’’ میں لایا ہوں نشانی تمہارے رب کی طرف سے ۔ میں بناتا ہوں تمہارے لئے مٹی سے طائر کی صورت میں۔ پھر پھونکتا ہوں اس میں ۔ بس وہ ہوجاتا ہے طائر الله سے حکم سے ۔ اور اچھا کرتا ہوں اندھے کو، کوڑھی کواور جلاتا ہوں مردہ کو الله کے حکم سے اورخبر دار کرتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں بچاتے ہو۔ تحقیق کہ اس میں نشانی ہے تمہارے لئے اگر تم ایمان لانے والے ہو‘‘۔
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَ تُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورہ مائدہ آیت ۱۱۰)
ترجمہ:۔’’ جب کہے گا الله اے عیسیٰ ابن مریم یاد کر میری نعمت کو اپنے اوپر اوراپنی ماں کے اوپر جب میں نے مدد کی تیری روح القدس کے ذریعہ سے ۔ تونے بات کی اور لوگوں سے گہوراہ میں اوربڑھاپے میں جب میں نے سکھائی تجھ کو کتاب ۔ حکمت ، توریت اور انجیل، اورجب بنایا تونے مٹی سے طائر کی صورت میں میرے حکم سے اور اچھا کیا تونے اندھے کو کوڑھی کو میرے حکم سے اورجب تونے نکالا مردے کو میرے حاکم سے اورجب میں نے باز رکھا بنی اسرائیل کو تجھ سے جب کہ تو ان کے پاس کھلی ہوئی دلیلیں لایا۔ لیکن وہ کافروں نے کہا یہ کھلا ہوا جادو ہے‘‘۔
اِذۡ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ قَالُوۡا نُرِیۡدُ اَنۡ نَّاۡکُلَ مِنۡہَا وَ تَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُنَا وَ نَعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ صَدَقۡتَنَا وَ نَکُوۡنَ عَلَیۡہَا مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَ ارۡزُقۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورہ مائدہ آیت ۱۱۲تا ۱۱۵)۔
ترجمہ:۔’’ جب کہا حواریوں نے اے عیسیٰ ابنِ مریم کیا تیرا رب ایسا کرے گا کہ وہ اتارے دستر خوان آسمان سے ۔ کہا اس نے ڈرو الله سے اگر تم ایمان والے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھائیں اس ۔ اس دسترخوان سے اور مطمئن ہوجائیں ہمارے قلو ب اور ہم جان لیں کہ بیشک تونے سچ کہا ہے اورہم اس پر گواہ ہوجائیں۔ کہا عیسیٰ ابنِ مریم نے اے میرے پروردگار اتار ہم پر دستر خوان آسمان سے تاکہ ہوجائے ہمارے لئے مسرت ہمارے اگلوں کے لئے اورپچھلوں کے لئے اور نشانی تیری طرف سے اور ہمیں روزی دے اور تو بہتر روزی دینے والا ہے ۔ کہا الله نے میں اتارنے والا ہوں دسترخوان تمہارے اُوپر ۔ لیکن اگر کوئی نافرمانی کرے گا اس کے بعد تم میں سے ۔ تو اس کو میں ایسا عذاب دوں گا کہ عالم کے لوگوں میں سے کسی ایک کو ویسا عذاب نہ دیا ہوگا‘‘۔
" سوائے معجزہ نزول مائدہ کے اورجتنے معجزات بیان کئے جاتے ہیں وہ سب (آل عمران اور سورہ مائدہ) کی آیتوں میں مشترک ہیں یعنی جو معجزات (سورہ آل ِ عمران) میں بیان کئے گئے ہیں اُنہیں کا ذکر (سورہ مائدہ) میں بھی ہے۔ لیکن فرق اندازِ بیان کا ضرور ہے ۔( آل ِعمران) میں خود حضرت عیسیٰ اپنی زبان سےان کا اظہار کررہے ہیں کہ میں ایسا کرتا ہوں ۔ ایسا کرسکتاہوں۔ اور( سورہ مائدہ )میں خدا اپنی نعمتوں کے سلسلہ بیان میں حضرت عیسیٰ پر ظاہر کرتا ہے کہ یاد کرواس وقت کو جب تم ہمارے حکم سے ایسا اورایسا کرسکتے تھے۔ لیکن چونکہ باتیں دونوں جگہ ایک ہی ہیں اس لئے علیحدہ علیحدہ بحث کرنے کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی ۔ ان آیتوں سے جن معجزات کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہیں:
(۱۔) مٹی کی چڑیا بنا کر حضرت عیسیٰ اس کےاندر پھونک مارنا اور اس کا اڑجانا۔
(۲۔)اندھے کو ڑھیوں کو اچھا کرنا۔
(۳۔)مردہ کو زندہ کرنا ۔
(۴۔)غیب کی خبر دینا اس قبیل سے کہ لوگ کیا کھاتے ہیں اور گھروں میں کیا رکھتے ہیں۔
(۵۔)عیسیٰ کی دعا پر آسمان سے دستر خوان کھانے کا نازل ہونا۔
معجزہ اول کے متعلق بعض مفسرین کا بیان ہے کہ واقعی وہ مٹی کی چڑیا بناتے تھے اور ان میں جان ڈال دیتے تھے ۔بعض کا خیال یہ ہے کہ جن میں سرسیدؔ مرحوم بھی شامل ہیں کہ یہ واقعی حضرت عیسیٰ کی عہد ِ طفلی کا ہے او ربچپن میں لڑکے اس قسم کی باتیں کیا ہی کرتے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک یہ دو نوں باتیں سمجھ سے باہر ہیں۔ وہ اس لئے کہ کسی جاندار شے کو پیدا کرنا یاکسی چیز میں جان ڈالنا صرف ا لله کا کام ہے اوریہ اس لئے کہ اگرمٹی کی چڑیاں بنا کر ان میں جان ڈال دینے کا واقعہ صرف ان کے عہد ِطفلی کے متعلق ہوتا تو خدا اپنی نعمتوں کے سلسلہ بیان میں اس کا ذکر کرتا جیساکہ (سورہ مائدہ )کی آیتوں سے ظاہرہوتاہے۔
انجیل کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے جہاں جہاں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ سب قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اور معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ کے لٹریچر کی یہی شان تھی اس لئے غور کرنا چاہیے کہ لفظ خلق سے یہاں کیا مراد ہے اور نفخ کے بعد طائر کی طرح اڑنا کی کیا معنی رکھتاہے۔
یہ امر ظاہر ہے کہ لفظ خلق پیدا کرنے کے معنی میں توہوہی نہیں سکتا کیونکہ متعدد آیات قرآنی سے معلوم ہوتاہےکہ خلق( پیدا کرنا ) صرف خدا کا کلام ہے اوریہ صفت صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لئے اس جگہ لفظ خلق کے معنی صرف اندازہ کرنے یا عزم کرنے کے ہیں (اس لفظ کے یہ معنی بھی عربی زبان میں آتے ہیں )طین (مٹی سے )انسان کی ضعیف پید ائش کی طرف اشارہ ہے ۔ نفخ سے مقصود احکام الہیٰہ کی تعلیم ہے۔ اور طیر سے وہ انسان مراد ہیں جو عام سطح انسانی سے بلند ہوجائیں۔
کلام ِمجید میں انسانوں کو داتبہ اور طائر سے تشبیہ دی گئی ہے اور (ملاحظہ سورہ انعام آیت ۳۸ )( وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ الخ) اسی طرح نا سمجھ لوگوں کو جانوروں (سورہ انعام ) سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ تم لوگوں کو جو مٹی سے بنے ہو یعنی اپنی پیدائش کے لحاظ سے بہت حقیر ہو میں طائر کی سی ہئیت دینے کا عزم کرتا ہوں اور پھر تعلیم الہٰی دے کر واقعی بلند پرواز اور بلند خیال انسان بناتا ہوں۔
اندھے ،کوڑھی اور مردہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی روحیں بیمار اور مردہ ہیں۔ انجیل میں اکثر جگہ بیمار بول کر گنہگار مراد لیا گیا ہے اور وہ خود کلام مجید میں بھی (اندھوں اور مردوں) سے گنہگار اورکافر مراد ہیں ۔ مثلاً( وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ)(سورہ فاطر آیات ۲۲)۔ اس لئے اندھے کوڑھیوں کو اچھاکرنے اور مردوں کو زندہ کرنے سے مراد یہی ہے کہ میں گنہگاروں سے ان کے گناہ چھڑاتا ہوں اور جو روحیں معصیت سے مردہ ہیں ان کو اخلاق کی تعلیم دے کر زندہ کرتا ہوں۔
مسیح کی خاص تعلیم یہ تھی کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے الله کی راہ میں صرف کردو اورکل کے لئے کچھ نہ رکھو۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں لوگ کثرت سے سود خوار تھے اورگھروں میں دو لت جمع رکھتے تھے ۔خواہ قوم پر کوئی آفت آجائے ۔ اسی امر کی طرف اشارہ ہے ان الفاظ سے (وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ)ترجمہ:۔’’ یعنی میں تم کو بتاتا ہوں یا تنبیہ کرتا ہوں کہ تم کتنا اور کیا کھاتے ہو اور کیا جمع کرتے ہو‘‘۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے اخبار عن الغیب کیونکر سمجھ لیاگیا۔
اب رہا مایدہ کا آسمان سے نازل ہونا۔ سو کلام مجید سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مایدہ نازل کیا گیا ہے ۔ البتہ عیسیٰ سے حواریوں نے اس کی خواہش کی تھی۔ اور آپ نے دعا بھی کی تھی لیکن اس کے بعد اس کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ مایدہ اتاراگیا۔ علاوہ اس کے مایدہ سے یہاں مراد واقعی کھانے کا دستر خوان نہیں ہے۔ بلکہ مقصود صرف روزی ہے اورعیسیٰ کی یہ دعا اسی قبیل سے تھی جیسی کہ انجیل میں پائی جاتی ہے کہ " اے خدا آج کے دن کی ہماری خوراک دے"۔
مایدہ کی ان آیتوں سے صرف یہ ثابت ہوتاہےکہ حواریوں نے وسعت ِ رزق طلب کی تھی اوراسی کی دعا حضرت عیسیٰ نے کی تھی۔ سو اس کے مقبول ہونے کا ثبوت آج کل عیسايئوں کی دنیاوی ترقی سے مل سکتا ہے "۔
بحث ِ مافوق کا ملحض
بحثِ مافوق کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے اس کا ملحض پیش کرنا نامناسب نہ ہوگا جو قرار ذیل ہے ۔
(۱۔) حضرت ِ عیسیٰ نے جہاں جہاں جو کچھ ارشادفرمایا ہے وہ سب قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت میں بیان کیا ہے ۔لہذا"۔
(۲۔)لفظ خلق سے مراد اندازہ کرنے یا عزم کرنے کے ہیں۔ طین سے انسان کی ضیف پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔ نفخ سے مقصود احکام الہیہٰ کی تعلیم ہے ۔ اور طیر سے وہ انسان مراد ہیں جو عام سطح انسانی سے بلند ہوجائیں۔
(۳۔)( وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ)سے اخبار عن الغیب مراد نہیں۔
(۴۔) مایدہ سے مراد طلبِ رزق ہے جس کے مقبول ہونے کا ثبوت آج کل عیسائيوں کی دنیاوی ترقی سے مل سکتا ہے ۔
(۵۔)اندھے کوڑھی اورمُردہ سے مُراد وہ لوگ ہیں جن کی روحیں بیمار اورمردہ ہیں۔
(۶۔) ہمیں پھر وہی کہناپڑا جو اس سے قبل چند بار دُہرا چکے ہیں۔ یعنی آپ کے مضمون کا یہ حصہ بھی جنا ب کی تراوش قلم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ابتدا سے لے کر انتہا تک جب مولوی محمؔد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے ’’نکات القرآن‘‘ سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ
’’علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ حضرت مسیح کے کلام میں مجازو استعارہ کا استعمال بہت پایا جاتا ہے اور آپ کے کلام کا ایک بڑا حصہ تمثیلات میں ہے‘‘۔
(نکات القرآن حصہ سوم صفحہ ۲۳۷)
البتہ اس عبارت میں آپ نے یہ جدت ِ طرازی کی ہے کہ جہاں مولوی صاحب مذکورہ الصدری نے ایک " بڑا حصہ " لکھاہے وہاں آپ نے یہ لکھا ہے کہ ’’ حضرت عیسیٰ نے جہاں جہاں جوکچھ ارشاد فرمایا ہے۔ سب قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت میں بیان کیاہے‘‘۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے انجیل ِجلیل دیکھی نہیں ہے۔آپ کی شان میں سرسیدؔ مرحوم کی یہ تمثیل کیا ہی صادق آتی ہے کہ
" ان کی (حضرت نیاؔز (جیسے لوگوں ) مثال اندھے آدمی کی سی ہے کہ وہ اس رستہ پر جو اس کو کسی نے بتلادیاہے چلا جاتا ہے اوراس کے ٹھیک ہونے پر یقین رکھتاہے اور خود نہیں جانتا ہےکہ درحقیقت یہ رستہ اسی جگہ جاتاہے جہاں اس کو جانا ہے یا نہیں ۔ پھر اگر کسی نے کہہ دیا کہ میاں اندھے آگے گڑھا ہے یادیوار ہے تووہ بغیر کسی شک کئے اس پریقین کرلیتاہے اورٹھہر جاتا ہے۔ پھر جس نے راہ بتائی اس طرف ہولیا" ۔
(تفسیر القرآن آل عمران صفحہ ۴۶)
چاروں انجیلیں زیادہ سے زیادہ چار پیسوں کے معاوضہ میں آپ کومل سکتی تھیں اگر احمدیت کی اس کورانہ تقلید کو چھوڑ کر آپ خود ان کا مطالعہ کرتے تو آپ کو اس قدرفضیحت اور رسوائی سے سابقہ نہ پڑتا، لیکن جس نےکہا ہے بجا کہاہے کہ "اندھوں کی اگر آنکھیں ہوتیں تو ان کو شرم بھی معلوم ہوتی ہے"۔
لیجئے جناب ! اب میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ " جہاں جہاں" حضرت عیسیٰ نے جوکچھ بھی قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت میں بیان کیا ہے " ان سب کی تعداد( ۲۶)سے زیادہ نہیں ہے جس کو ہم آپ کی خوشنودی کی خاطر( ۳۰ )بلکہ( ۴۰) فرض کرلیتے ہیں۔اب اگر آپ ان تیس یا چالیس " امثال وتشبیہات" کو اناجیل کی باقی تعلیمات سے مقابلہ کریں تو آپ پر روشن ہوجائے گا کہ ان میں وہ نسبت بھی نہیں ہے جو نمک کو آٹے کے ساتھ ہے۔ پس جس طرح آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ " حضرت عیسیٰ نے جہاں جہاں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ سب قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت میں بیان کیا ہے"۔اسی طرح آپ کے امامِ الہٰام کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ " آپ کے (حضرت عیسیٰ) کے کلام کا ایک بڑا حصہ تمثیلات میں ہے"۔
اب میں اس پر ایک اور نقطہِ نظر سے بحث کروں گا اوریہ کہ میں تقد مآب اور ان کےشاگرد رشید حضرت نؔیاز سے یہ پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے یہ بتلائیں کہ اگر میں یہ فرض کروں کہ "حضرت عیسیٰ کے کلام کا ایک بڑا حصہ تمثیلات میں ہے"۔ اورآپ کے کلام میں مجاز اوستعار کا استعمال بہت پایا جاتا ہے " تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہےکہ حضرت عیسیٰ نے جہا ں جہاں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے" وہ سب قصص وحکایات اور امثال وتشبیہات کی صورت" میں بیان کیا ہے ۔ اگر آپ اس سوال کاجواب اثبات(ہاں) کی صورت میں دیں تو پھر وہ قرآن کی نسبت آپ کیا کہیں گے؟ کیونکہ قرآن مجید میں جس قدر قصص وحکایات اورامثال تشبیہات ومجازواستعارہ بھرے پڑےہیں جن کا عشر عشیر (کم حصہ)بھی اناجیل میں موجود نہیں ہے۔ اور اگر آپ اس کا جواب نفی میں دیں تو گویاکہ خود آپ بھی اپنی اس تعبیر کے غلط ہونے پر مہرکردی کہ حضرت عیسیٰ کا معجزہ "خلق الطیر " استعارہ کے رنگ کا کلام ہے۔
اگرچہ اصولی اوراجمالی طورپر آپ کے مضمون کے اس تیسرے حصہ کا مکمل جواب ہوچکامزید بحث کی مطلق ضرورت نہیں رہی لیکن صرف اس لئے کہ آپ کے دل میں کوئی ارمان باقی نہ رہ جائے ہم آپ کی باقی شقوں پر بھی بحث کریں گے ۔
(ب۔) اس شق میں آپ نے تقدس مآب مولوی محؔمد علی صاحب کے خیالات کا جو خاکہ اتارا ہے اس سے معلوم ہوتاہےکہ آپ نہ صرف عربیت سے بے بہرہ ہیں بلکہ قرآن پاک کی عزت وعظمت سےبھی محروم ہیں۔آپ کی دیانت اورامانت کی یہ کیفیت ہے کہ بغیر اس کے کہ آپ قرآن پاک کامنشا دریافت کریں۔ سیاق وسباق کا خیال رکھیں۔ علم اصول ِتفاسیر، اور عربی علم اللسان کی طرف رجو ع کریں ۔ یا کسی ماہر زبان دان سے مشورہ لیں جوکچھ تقدس مآب کے قلم سے نکلتا ہے اس پر آپ کاایسا ایم مستحکم ہوجاتاہے کہ پھر وہ کسی صورت سے متزلزل نہیں ہوسکتا ہے خواہ اس سے قرآن پاک کی کتنی بےعزتی ہی کیوں نہ ہو۔درحقیقت آپ کے مقتدی جناب تقدس مآب نے قرآنِ مجید کے ساتھ وہی کیا ہے جو دیاؔنند جی نے ویدوں کے ساتھ کیا تھا۔ کاش خدا آپ کو قرآن فہمی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
قبلہ ! کسی لفظ کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے " یہ مراد ، " وہ مراد " ہے نہایت آسان ہے جس طرح میرے لئے یہ کہنا نہایت سہل ہےکہ " نیاؔز7" سے مراد" پیاؔز" ہے ۔ لیکن اس کو ثابت کرنا بے حد مشکل ہے اوراس سے بھی زیادہ تر مشکل اس کا ثابت کرنا ہے کہ "طین" سے انسان کی ضعیف پیدائش کی طرف اشارہ ہے"۔ اور نفخ سے مقصود احکام الہٰیہ کی تعلیم ہے ۔اور" طیر" سے وہ انسان مراد ہے " جو عام سطح انسانی سے بلند ہوجائیں " اگر آیت زیرِ بحث میں یہی تین الفاظ ہوتے تو آپ کی تاویل کی گنجائش کا امکان ہوتا لیکن اس میں ایسے جملے ہیں جو آپ کی کشتی مراد کو نا مرادی کے ساحل پر پاش پاش کردینے کےلئے کافی ہیں وہ یہ ہیں ۔ (۱) اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ (۲) کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ (۳) بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۔
جملہ اول میں لفظ آیت موجود ہے جس کو تمام بڑے بڑے مفسرین نے بالا اتفاق بمعنائے معجزہ تسلیم کیا ہے۔ اور درحقیقت یہاں پر اس کے معنی بجز معجزہ کے اور کچھ نہیں ہوسکتے ہیں۔
اگرجناب کا یہ فرمانا صحیح ہوتا کہ ’’طیر‘‘ سے مراد ’’انسان کی بلند پروازی‘‘ ہے تو جملہ دویم کاہونا حشو بلکہ مہمل ٹھہرتاہے اور صحیح طورپر خدا کو حضرت عیسیٰ کی زبانی یوں بیان کرنا چاہیے تھا کہ " اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ لا نۡفُخُ فِیۡکم فَتکُوۡنُ طَیۡرًۢا "۔
جملہ سوئم اس معجزہ کی اہمیت اور عظمت پر دلالت کررہا ہے ۔کیونکہ اگر اس میں یہ الفاظ (بِاِذۡنِ اللّٰہِ ) نہ ہوتے تو خدا کی صفت ِ خالقیت میں مسیح کا شریک ہونالازم آتا اس لئے خدا نے اس کو اپنی طرف نسبت دے کر اس مشرکانہ خیال کی تردید فرمائی ۔ اور اگر یہ کوئی معمولی بات ہوتی تو جملہ(بِاِذۡنِ اللّٰہِ ) لانا بالکل عبث تھا۔
آیت مافوق کی تفسیر حضرت مرزاغلام احمد قادیانی کی طرف سے
مجھ کو یقین ہے اُمت ِ قادیانی کےدونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ قرآن ِمجید کی تفسیر کرنے اور اس کے نکات اور معارف کے بیان کرنے میں جو فضیلت 8 اورمرتبہ خدا کی طرف سے مرزا صاحب غفر الله ذنوبہ کو ملاتھا کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوسکا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم آیت مافوق کے متعلق مرزا صاحب غفر الله ذنوبہ کی طرف رجوع کریں کہ وہ اس آیت کی کیا تفسیر کرتے ہیں اور پیرومرید کا قضیہ قاریئن کے تصفیہ پر چھوڑتے ہیں۔
7 نیاز اور پیاز میں صنعت تبادلہ الراسین ہے۔ یعنی اگر نیاز کے نون کو پیاز کے پے کی جگہ رکھ دیں تو پیاز نیاز ہوگا اور اگر پیاز کی پے کو نیاز کے نون کی جگہ رکھ د یں تو نیاز پیاز ہوجائے گا۔ (سلطان) 8مرزا صاحب کے یہ الہامات ملاحظہ غلب ہیں" اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی " قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں (سلسلہ تصنیفات احمد یہ جلد اول صفحہ ۴۸۲ ) (سلطان)
تشخیذ الاذہان کے ایڈیٹر صاحب ایک مسلما ن مولوی کے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :
الجواب: حوالہ میں سخت بددیانتی سے کام لیا گیا ہے اصل بات یو ں ہے کہ حضرت اقدس نے خلق طیر کے مسئلہ کو اس رنگ میں تو نہیں مانا جس سے شرک ِ لازم آئے یعنی یوں نہیں ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایسے چمگادڑ بنائے ہوں جن میں گوشت پوست سلسلہ توالد وتناسل ہو ۔ کیونکہ اس امر کو یہ روایات روکتی ہیں۔
(۱۔) قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ
(ترجمہ) :۔’’ہے کوئی تمہارے معبودوں میں سے جو خلق کرے؟(سورہ یونس آیت ۳۴)
(۲۔) اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ خَلَقُوۡا کَخَلۡقِہٖ فَتَشَابَہَ الۡخَلۡقُ عَلَیۡہِمۡ ؕ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ
ترجمہ :۔’’کیا یہ ایسے شرکا کے قائل ہیں جنہوں نے الله کی طرح خلق کیا ہو اور پھر دونوں کی مخلوق مشتبہ ہوگئی ہو۔ کہدے الله ہر چیز کا خالق ہے‘‘(سورہ الرعدآیت ۱۶)
(۳۔) اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ
ترجمہ:۔’’جن کو یہ پکارتے ہیں تو وہ سب کے سب مل کر ایک مکھی بھی نہیں بناسکتے ‘‘۔
ہاں معجزہ کی حد تک ان الفاظ میں مان لیا ہے۔
" ان پرندوں میں واقعی اورحقیقی حیات نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بلکہ صرف عقلی اورمجازی اور جھوٹی حیات جو عمل الترب کے ذریعہ سے پیدا ہوسکتی ہے " (صفحہ ۲۱۸)۔
اوراسے بھی معجزہ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ معجزہ کی تعریف میں لکھاہے :
واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا جیسے شق القمر ۔۔۔۔۔ دوسرے عقلی معجزات جو اس خارق عادت(عادت اور قدرتی قاعدے کو توڑنے والا،انبیاء کے معجزے اولیا کی کرامات) عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جو الہٰام الہٰی سے ملتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اب جاننا چاہیے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہےکہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزے کی طرح صرف عقلی تھا یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دونوں میں جیسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکےہوئے تھے( ۳۰۲)۔ یہ ہے اصل" حوالہ" بظاہر ایسا معلوم ہوتاہےکہ آپ نے حذف کردیا پھر اوپر کی عبارت نہ لکھی جس سے یہ ظاہر ہوتاہےکہ حضرت اقدس جسے عقلی فرمارہے ہیں ۔ اس کی نسبت یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ عقل خارق عادت طورپر بذریعہ الہٰام الہٰی ملتی ہے۔ اور معجزه خارق عادت اور الہٰام ہی کا نام ہے۔ پس جب حضرت اقدس خلق طیر کو معجزہ تسلیم کررہےہیں تو پھر اعتراض کیسا ؟" (نمبر جلد ۱۰ صفحہ ۲۵)۔
لفظ اخلق پر بحث
چونکہ میں نے اس کتاب میں اس بات کا التزام کیاہے کہ حتیٰ الامکان صرف قرآن مجید ہی کے نقطہ سے بحث جاری رہے لہٰذا میں اپنے ذاتی خیال اور مسیحیانہ عقیدہ کو محفوظ رکھ کر اپنے کر م فرما کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ خواہ آپ لفظ ’’خلق ‘‘کے معنی" اندازہ کرنے" کے لیں یا عزم کرنے یا کچھ اور ہر صورت میں مجھ کو آپ سے اتفاق ہے کیونکہ (اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ)میں کوئی معجزانہ رنگ نہیں ہے۔ یہ تو صرف تمہید اور توجیہ ہے (فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا)کی پس لفظ (نۡفُخُ)میں اعجاز ہے نہ ’’اخلق ‘‘میں۔ آپ اس پر جس قدر چاہیں طبع آزمائی فرمائیں۔
(ج۔) آپ کی اور شقوں کی طرح یہ شق بھی سراسر غلط ہے۔ اس کاصحیح ترجمہ یہ ہے کہ " اور میں تم کو بتلادیتا ہوں کہ جو کچھ کھاتے ہو اور جو کچھ رکھتے ہو"۔ اور آپ کے تقدس مآب کا یہ کہنا بھی بالکل لغو ہے کہ
" گویا حلال وحرام کے متعلق بھی کچھ احکام دیتے تھے "۔
(نکات القرآن حصہ سوم آل عمران صفحہ ۲۴۵)
کیونکہ اسی آیت کی تحت میں ایک دوسری آیت(سورہ آل عمران ۵۰) (وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ) ہے جس میں حلال وحرام کا حکم ہے ۔ پس آیت مافوق میں بجز" اخبارعن الغیب " کے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے۔
(د۔) ہمیں بے حد افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ نے عربی کو بھی اردو پر قیاس فرمایاہےکہ بلاروک ٹوک جس لفظ کو جہاں چاہا وہاں رکھ دیا خواہ اس لفظ کو اس جگہ سے مناسبت ہو یا نہ ہو۔ لیکن عربی کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔عربی میں کثرت کےساتھ ایسے الفاظ ہیں جو خاص خاص مواقع کے لئے خصوصی معنوں کےساتھ مخصوص ہیں۔ چنانچہ ’’فقہ اللغت‘‘ میں جو اس فن میں ایک اعلیٰ پایہ کی کتاب ہے اس قسم کے الفاظ کےلئے ایک علیحدہ با ب مخصوص ہے ۔ اوراسی باب میں علامہ ابن فاؔرس لکھتے ہیں کہ
" (ومن ذالک المائدہ) لایقال لہا مائدہ حتی یکون علیھا طعام لان المائدہ من مادنی یمیدنی انا اعطا ک والا سمہا خوان " ترجمہ :۔’’یعنی مائدہ اس وقت تک مائدہ نہیں کہا جاسکتا ہے جب تک اس پر طعام نہ ہو کیونکہ مائدہ مادنی یمیدنی سے ماخوذ ہے ۔جس کے معنی عطا کرنے کے ہیں۔ اور جس پر طعام نہ ہو اس کو خوان کہتے ہیں "۔
امام ثقالؔبی فرماتے ہیں کہ
" ولا یقال مائدة الااذاکان علیھا الطعام والا فہمی خوان" ترجمہ:۔’’یعنی مائدہ کو مائدہ نہیں کہتے ہیں جب تک اس پر طعام نہ ہو اور اگر اس پر طعام نہیں ہے تو اس کے خوان کہتے ہیں "۔
(المزھر از امام سیوطؔی رحمتہ الله مطبوعہ مصر حصہ اول صفحہ ۲۲۵)
اسی طرح امام راؔغب رحمتہ الله نے اپنے مفردات میں لکھتے ہیں کہ
" والمائدہ قطبق الذی علیہ الطعام "یعنی مائدہ اس طبق کو کہتے ہیں جس پر طعام ہو"۔
پس آپ کا یہ فرمانا کہ " مائدہ سے یہاں مراد واقعی کھانے کا دستر خوان نہیں ہے"۔ کس قدروحشت انگیز غلطی ہے۔ قبلہ ! اسی لئے میں بار بار عرض کررہا ہوں کہ آپ عربی کا علم حاصل کریں۔
(ھ۔) شروع میں میرا ارادہ تھا کہ میں اس شق پر علمِ بیان کی رو سے بحث کروں کیونکہ اس کاتعلق زيادہ تر علم بیان کے ساتھ ہے۔ لیکن آپ کے مضمون کو غور کے ساتھ دیکھ کر میں اپنے ارادہ کے بدلنے پر مجبور ہوا کیونکہ آپ کےمضمون سے صاف معلوم ہوتاہےکہ آپ اس علم سے بالکل عاری ہیں، اس لئے میں ایک عام فہم پیرا یہ میں اس پر نظر ڈالوں گا ۔یعنی اگرایک لفظ جو کئی معنوں میں مستعمل ہے قرآن شریف میں کثرت کے ساتھ ایک ہی معنی میں مستعمل ہوجائے تو اس سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ دیگر مقامات میں بھی اس کے وہی معنی ہوں گے۔قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ ایسی نظیریں(مثالیں) موجو دہیں جن سے صاف ثابت ہوتاہے کہ ایک لفظ ایک ہی معنی میں کثرت کےساتھ مستعمل ہونے کے باوجود دوسرے مقام میں اور معنوں میں بھی مستعمل ہواہے۔ یہاں صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے۔
(۱۔) قرآن مجید میں لفظ " اصحاب النار" کا اطلاق ہمیشہ کافروں اوراس قسم کے دوسرے لوگوں پرہوا ہے لیکن (سورہ مدثر) میں اس کا اطلاق فرشتوں پر ہوا ہے۔
(۲۔) لفظ " بعل" کا اطلاق (سورہ بقرہ ونساء )میں شوہر پر ہوا ہے۔ اور( سورہ صافات) میں بُت پر ۔
(۳۔) لفظ " عَود" اور "عادہ" کا اطلاق تمام قرآن مجید میں تکرار فعل پر ہواہے اس آیت میں کہ( والذین یظاھرون من نسا ئہم ثم یعدون لماقالو)(مجادلہ) توبہ یہاں پیشمانی پر ہوا ہے۔
(۴۔) لفظ "ریب" کا اطلاق قرآن مجید میں شک پر ہوا ہے مگر آیت " ریب المنون(الطور) میں حوادث زمانہ پر ہوا ہے۔
(۴۔) لفظ " بروج" کا اطلاق ہر جگہ کواکب پر ہوا ہے مگر" فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ"(سورہ النساء آیت۷۸) میں اونچے مضبوط محل پرہوا ہے ۔ (مزید ایضاح کے لئے تفسیر اتقان ملاحظہ ہو)۔
پس اگر لفظ " اندھے " کا اور" کوڑھی " کا اور " مردہ" کا اطلاق صرف ایک ہی معنی یعنی " روحانی بیماری اور روحانی موت" پر بھی ہوا۔ اور کثرت کے ساتھ بھی ہوا ہو توبھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ کل قرآن میں از ابتداءتا انتہا ان کے یہی معنی ہیں۔ مثلاً ایک آیت یہ ہے کہ " اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ " (سورہ زمرآیت ۳۰) اے محمد ﷺ تو بھی مُردہ ہے اوریہ کافر بھی مُردے ہیں"۔ آپ کے نظریہ کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ " اے محمد(معاذ الله ) تو بھی رُوحانی طور پر مُردہ ہے اور یہ کافر بھی روحانی طور پر مُردے ہیں"۔
چو کفر از کعبہ برخیز دکجا ماند مسلمانی !
" اب میں اس بحث کو قرآن ِمجید کی ایک دوسری آیت پر ختم کرتا ہوں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ "اندھے" کو بینا کرنا۔ "کوڑھی" کو شفا دینا اور " مردہ" کو زندہ کرنا حقیقی معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلواۃ و السلام کےمعجزے تھے نہ کچھ اور وہ آیت یہ ہے۔
وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَ تُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورہ مائدہ آیت ۱۱۰)۔
میں اپنے فاضل مخاطب سے پوچھتا ہوں کہ اگر وہ باتیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے معجزہ نہ تھیں تو کافروں کا یہ کہنا کہ " یہ صریح جادو ہے" کیا معنی رکھتاہے ؟ یہی وجہ ہے کہ تمام مفسرین نے امورِ مافوق کو بالا تفاق معجزہ مان لیا ہے۔
اگر ان واقعات کا تاریخی ثبوت موجود نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ آپ کی تاویل کو درست تسلیم کرلیا جاتا لیکن جب اناجیل میں ان واقعات کی تفصیل موجود ہے تو اس تاریخی ثبوت کی موجودگی میں ان باتوں کو استعارہ کے رنگ میں ماننا صریح غلطی ہے۔ والسلام ۔