Existence of God
خُدا کی ہستی
پادری طالب الدین صاحب بی-اے
پاسٹر پرسٹیزین چرچ نو لکھّا لاہور
ٹوبف نے اس کتاب انگلستان اورامریکہ کے مشہور
مالمان علم الہی کی نادر ارو مستند کتابوں سے تیار کیا ہے۔
پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی
انار کلی۔ لاہور
1908ء
(مفید عام پریس لاہور)
اِلتماس مِؤلف
خدا کی ہستی کا یقین مذہب کی جان اور علوم الہیہ(الہی علم ) کی بنیاد ہے۔یہ بات مسیحی مذہب پر جو اوّل سے آخر تک فوق العادت (عادت یا بساط سے بڑھ کر)سے پُر ہے ۔ بالتخصیص صادق(سچی) آتی ہے۔ یورپ کے ملاحدہ (ملحد کی جمع، بے دین لوگ) نے بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کئے ہیں۔ تاکہ اپنے ملحدانہ خیالات کے وسیلے سے خدا کے پرستارو ں کےامن اور سلامتی کو صدمہ پہنچائیں۔ اور وہ اپنے مقصد کے پورا کرنے میں اس درجہ تک کامیاب ہوئے ہیں کہ انہوں نے سم الہاد کی تاثیروں کو جا بجا پھیلا دیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس زہرقاتل نے کئی ایک کو نقصان پہنچایا ہے۔ شروع شروع میں تو لوگ ایسی کتابوں کو اس غرض سے پڑھتےہیں کہ وہ ان اعتراضات سے واقف ہو جائیں جو یورپ کے ملحدوں نے مسیح مذہب پر کئے ہیں۔ مگر اس کانتیجہ رفتہ رفتہ یہ ہوتاہے کہ وہ خدا اور فوق العادت (عادت یا بساط سے بڑھ کر)کے قطعی منکر ہو جاتے ہیں۔ پر اگر غور کیا جائے ۔ تو ظاہر ہو جاتاہے کہ زندگی کا لطف اسی بات میں ہے کہ اس کا توکل اور بھروسہ ایک ایسی ہستی پر ہو جس کی حضوری کا یقین اس کے دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں اس کی تسلی کا باعث ہو۔ اور اس کی اقبالمندی (دانشمندی،عقلمندی) اور فارغ البالی(خوشحالی، بے فکری) کےوقت اسے حد اعتدال(درمیانہ درجہ، میانہ روی) سے تجاوز(حد سے بڑھ جانا، بے راہ ہو جانا) نہ کرنے دے۔ میں نہیں جانتا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ان ملحدوں کےجواب میں کون کون سی کتابیں لکھی ہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ نہ ان کے مذہبی لڑیچر میں اور نہ مسیحی اُردو لٹریچر میں کوئی ایسی مبسوطہ اور جامع کتاب میری نظر سے گزری ہے ۔ جس میں اس عظیم الشان مضمون کے ہر پہلو پر سائنٹفک صورت کی بحث موجود ہو۔ بےشک بہت سے رسالے اور جداگانہ آرٹیکل(اپنی رائے بیان کرتے ہوئے اپنے الفاظ میں تحریر لکھنا) پائے جاتے ہیں ۔ مگر کوئی کتاب خاص کر مسیحی اردو لڑیچر میں ایسی نہیں ہے جو جامع تصور کی جائے۔ اور چونکہ خدا کی ہستی کے بغیرنہ مسیحی مذہب اور نہ محمدی مذہب اور نہ ہندومذہب کچھ چیز ہے اس لیے اس احقر نے اپنے خداوند اور اپنے ملکی بھائیوں کی خدمت کے لیے اس تالیف(دو چیزوں کا باہم ملانا، دوستی پیدا کرنا) کا بار اپنے اوپر لیا اور ان خدا پرست علماء کے خیالات سے فائدہ پہنچانا چاہا جنہوں نے اپنے ہر جستہ(جست ایک دھات کانام) جوابوں کے ذریعے سے یورپین ملحدوں کا منہ بند کیا ہے ۔ کتاب موسومہ"خدا کی ہستی" کے تالیف (دو چیزوں کا باہم ملانا، دوستی پیدا کرنا)کرنے میں ذیل کی کتابوں سے بہت مدد لی گئی ہے۔
• فلنٹ صاحب کی مشہور کتاب "تھی ازم"۔
• نائٹ صاحب کی کتاب "انسپیکٹس آف تھی ازم"۔
• سبیری صاحب کی کتاب " واٹ از نیچرل تھیولوجی"۔
• ہاج صاحب کی "سِس ٹے ببٹک تھییو لوجی"۔
• جبٹلنڈ صاحب کی کتاب " پکیٹسزم اینڈ فیتھ"۔
• ہاج صاحب کے" چالیس لیکچرز ان تھیولوجیکل تھیمز"۔
• بیکن صاحب کی کتاب" دی اپالوجیٹکس"۔
"خدا کی ہستی " میں انہیں مشہور و معروف دلائل پر جو اس مضمون پر پیش کی جاتی ہیں بحث کی گئی ہے۔ جو اعتراض مخالفوں نے کئے ہیں وہ پہلے پیش کئے گئے ہیں اور پھر ان کی تردید(رد کرنا ، جواب دینا) کی گئی ہے۔ مجھ امید ہے کہ میری دوسری کتاب طبعی جس میں ملحدانہ خیالات پر الگ بحث کی ہے۔ جلد ہدیہ ناظرین کی جائے گی۔ فی الحال خدا کی ہستی پیشکش احباب کا شکہ اس کے وسیلہ سے ہزار ہا بنی آدم خدائے واجب الوجود کی ۔۔۔۔ کے قائل ہوں۔
احقر
طالب الدین
پاسٹر نو لکھا چرچ لاہور
خدا کی ہستی
پہلا باب
(خدا کی ہستی پر اِٹیوشن کی گواہی)
لفظ اِن ٹیوشن 1کے لغوری معنی دیکھنے کے ہیں۔ لیکن اصطلاح میں اس سے ہماری نیچر کی وہ خداداد روشنی مراد ہے جس کے بغیر ہم کسی شے کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتے ۔ بلکہ بعض باتوں کے ثبوت کےلیے دلائل خارجی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ خدا داد روشنی خود بخود ان کی ماہیت (کیفیت،حقیقت)سے واقف ہو جاتی ہے ۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کی ہستی کے بارے میں ہماری ذات ہی میں ان ٹیوشنل گواہی موجود ہے تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتاہے کہ ہماری نیچر میں خدا کی ہستی اور وجود کے متعلق ایسا ذاتی علم پایا جاتا ہے جو کسی نہیں یعنی حقائق موجودات کے مشاہدے یا تجربے سے اکتساب(حساب لگانا) نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہ وہ عرف قابی ہے جو مرکوز فی الروح ہے۔ بعض اہل الرا ئے کے نزدیک یہ باطنی شہادت ایسی مضبوط اور ایسی کافی دوانی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اور دلائل کوضروری ہی نہیں سمجھتے ۔ اب گو ہم ان لوگوں کے خیال سے متفق ہوں یا نہ ہوں بہر حال ہمیں یہ ضرور ماننا پڑتا ہے کہ اگر یہ باطنی گواہی موجود نہ ہو تو ہم ان خارجی شہادتوں کو جو ہمیں صفحہ موجودات پر لکھی ہوئی ملتی ہیں ہرگز ہرگز نہ جان سکیں گے۔ اگر ہم مشہودات نیچر کو خارجی نور فرض کریں تو ان ٹیوشن بمنزلہ آنکھ کے ہوگا۔ جس طرح خارجی روشنی نور بصارت (دیکھنے کی سکت یا صلاحیت) کے بغیر کسی کام کی نہیں ۔ اسی طرح وہ عجائبات جو کار خانہ فطرت میں جلوہ نما ہیں ہمارے نزدیک بے معنی اور بے مطلب ہوتے اگر ان ٹیوشن کی باطنی آنکھ چشم خانہ بصیرت میں نہ رکھی جاتی ۔
انسان "خدا کی صورت" پر بنا ہے لہذا اس کی صورت کا عکس اس کے آئینہ ِ دل پر منطبع (چھپنے ولا، منقوش ہونے ولا)ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ خدا کی معرفت کا چراغ کم و بیش اس کے دل میں برابر روشن رہتا ہے ۔ اور جب ہم اس چراغ کی روشنی میں نیچر کی صنعتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی ماہیت(کیفیت،حقیقت) ہم پر ظاہر ہو جاتی اور ہم ان میں اسی خدا کی حکم اور صنعت کو معائنہ کرتے جس کی ذات اور وجود پر ہماراان ٹیوشن گواہی دیتا ہے۔ داکٹر برؔوس صاحب اپنی نادر کتاب موسومہ (دی اپالوجیٹکس THE APOLOGETICS) میں (گناسٹزم GNOSTICISM ) پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں (اسی کو اگناسٹزم کہتے ہیں) وہ اس زہریلے عقیدے میں اس لیے مبتلا ہوئے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں ان کی دلیلوں میں جو خدا کی ہستی کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یعنی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جس دلیل سے زید خدا کی ہستی کو ثابت کرتاہے بؔکر اسے تو لغو سمجھ کر پاش پاش (ٹکڑے
ٹکڑے ، ریزہ ریزہ) کر دیتا ہے ۔ اگر خود ایک نئی دلیل سے اسی دعوے کو (یعنی خدا کی ہستی کو) ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ اور پھر اس کے بعد عمرؔو اُٹھتا ہے جو زید اور بکر دونوں کی دلیلوں کو رد کرتا ہے اور اپنی برہان(دلیل جس میں شک و شبہ نہ ہو) کو زیادہ مضبوط سمجھتا ہے ۔ تو انہوں نے اس افسوس ناک نا اتفاقی سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ نا اتفاقی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم خدا کی نسبت کچھ نہیں جان سکتے۔ بیدار(باہوش) مغز پروفیسر بروؔس ان معترضوں کو بہت عمدہ جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ خدا کے ماننے والے ان سب دلیلوں کو جو خدا کی ہستی کے ثبوت میں لائی جاتی ہیں یکساں زور آور نہیں سمجھتے ۔ تاہم وہ اس کے وجود اور س کے وجود کے علم کے قائل ہیں خواہ کسی دلیل کے زور پر ہوں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض علما علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کی دلیل پر اور بعض اس تجویز اور ترتیب پر جو موجودات میں عیاں (واضح، ظاہر)ہے زور دیتے ہیں۔ اور بعض اس بات پر کہ ہماری ضرورت ذاتی جو سوائے خدا کے رفع نہیں ہو سکتی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خدا ہے غرض یہ کہ طرح بہ طرح لوگوں نے اپنے اطمینان کے لیے خدا کی ہستی کو اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ لیکن باوجود اختلاف دلائل کے وہ سب خدا کی ہستی کے قائل ہیں۔ اب سوال برپا ہوتاہے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ باوجود اس قسم کے اختلاف کے لوگ پھر بھی خدا کی ہستی کے قائل ہیں؟ اس کایہ جواب ہےکہ دلیل خدا کی ہستی کے اعتقاد پر مقّدم نہیں بلکہ خدا کی ہستی خدا کی کا اعتقاد دلیل پر مقدّم ہے۔پس خد اکی ہستی کا عقیدہ دلائل کے ثبوت سے پہلے ہمارے د ل میں جاگزین ہے ۔ اور وہ کبھی کسی دلیل کے زور سے اور کبھی کسی دلیل کے زورسے تقویت (مضبوط کرنا، طاقت دینا)پاتا ہے پس جس بات پر ہمیں زیادہ غور کرنا چاہیے وہ خدا کی ہستی کے معتقدوں کی دلیلوں کا اختلاف نہیں بلکہ ان کے اعتقاد کا اتفاق ہے۔
اب ان باتوں سے بخوبی روشن ہے کہ خدا نے ہماری طبیعت ہی میں اپناتصور ڈال رکھا ہے جو اس کی حکمت کی خارجی روشنی پا کر یوں کہیں کہ اس کی قدرت اور خدائی کی باتوں کو دیکھ کر خود بخود جاگ اٹھتا ہے اور کبھی کسی طرح سے اور کبھی کسی طرح سے یہ جان لیتا ہے کہ جس کے ہاتھ نے ان چیزوں کو بنایا ہے وہی میرابنانے والا ہے۔ یہی گواہی ان ٹیوشنل گواہی کہلاتی ہے۔
یہ طبعی گواہی نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ پروفیسر نائٹ صاحب اپنی مشہور کتاب (دی اس پیکٹس آف تھی ازم THE ASPCOTS OF THEISM) میں کہتے ہیں کہ گو خدا کی ہستی کے ثبوت کے متعلق جو شہادت پیش کی جاتی ہے اس کے سلسلے میں ان ٹیوشن پہلی کڑی ہے یا یوں کہیں کہ یہ اس نردبان کا سب سے نچلا زینہ(سیڑھی) ہے۔پر اگر بخوبی غور کیا جائے تو روشن ہو جائے گا کہ یہ سب سے اونچا بھی ہے کیونکہ جب ہم کسی اعتقاد کی پیروی کرتے کرتے اسے اس کا آخری کڑی تک لے جاتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہو جاتاہے کہ اس سے آگے اس کی تصدیق اور تائید میں ہم اور کچھ نہیں کہہ سکتے سوائے اس کے وہ اپنا شاہد آپ ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب ۔ اب اگر ہم ان ٹیوشن کا انکار کریں اور اس کی گواہی کو رد کر دیں تو یہ سوال برپا ہو گا کہ ہم عقلی دلائل کی گواہی کو کس بنا پر واجب التسلیم جانیں اور جو اس اور حافظے کی شہادت کو کیونکر قبول کریں۔ ان ٹیوشن ہر قسم کی شہادت اور گواہی کی جڑ ہے۔
مثلاًاشیائے محسوسہ کے لیے لیے بھی یعنی ان کی حقیقت سے واقف ہونے کےلیے بھی ایک قسم کے ان ٹیوشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یایوں کہیں کہ ان ٹیوشن قسم قسم کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم میں حسّی ان ٹیوشن بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو کچھ ہم اپنے حواس سے ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)کرتے ہیں اس کی صداقت(سچائی،خلوص) کو قبول کرنا بھی ان ٹیوشنل گواہی پر مبنی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جو کچھ ہم محسوس کرتے ہیں اس سے غلط نتائج استنباط(نکالنا ، چننا، نتیجہ اخذ کرنا) کئے جائیں۔ پر ہمارے حواس ہم کو صور محسوسہ کی نسبت دھو کا نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص کسی شے کو دیکھتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ اس شے کی ماہیت (کیفیت،حقیقت) اور خاصیت کو پورے پورے طور پر نہ سمجھے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اس شے کو دیکھتا ہے اور ان ٹیوشن سے یہ جانتاہے کہ اسی شے نے جسے میں نے دیکھا میرے حواس میں دیکھنے کا احساس پیدا کیا ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص درد محسوس کرتاہے تو یہ ہو سکتا ہے کہ اس جگہ کی نسبت غلطی کرے جہاں درد ہوتاہے یا اس سبب کےبارے میں مظالطہ کھائے جو اس درد کا موجد (ایجاد کرنے ولا)ہے۔ لیکن درد کے محسوس کرنے میں غلطی نہیں ہوتی۔
اسی طرح عقلی ان ٹیوشن بھی ہوتے ہیں جن کی شہاد ت پر بہت سی باتیں تجربے کی شہادت یا عقلی دلائل کے ثبوت کے بغیر صحیح اور درست مانی جاتی ہیں مثلاً اقلیدس (خواص ہندسہ کا کھولنے ولا)کے اصول متعارفہ ثبوت کے محتاج نہیں ہیں۔ کوئی شخص اس بات کی ضرورت نہیں رکھتا کہ اس کے روبرو یہ ثابت کیا جائے کہ جزوکل سے چھوٹا ہے وغیرہ ۔ پھر اگر اخلاقی عالم میں نظر کی جائے تو بھلے اور برے گا امتیاز(فرق)۔ نیکی کی فطرتی خواہش ۔ خصلت(عادت، سیرت، مزاج) کی ذمہ داری اور گناہ کی سزا کا یقین ایسی باتیں ہیں جو ان ٹیوشن کی شہادت پر سچ مانی جاتی ہیں۔ یعنی ان کی سچائی کا یقین ہماری فطرت کا وہ خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے جو اس کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔
اسی طرح عقلی ان ٹیوشن بھی ہوتے ہیں جن کی شہاد ت پر بہت سی باتیں تجربے کی شہادت یا عقلی دلائل کے ثبوت کے بغیر صحیح اور درست مانی جاتی ہیں مثلاً اقلیدس (خواص ہندسہ کا کھولنے ولا)کے اصول متعارفہ ثبوت کے محتاج نہیں ہیں۔ کوئی شخص اس بات کی ضرورت نہیں رکھتا کہ اس کے روبرو یہ ثابت کیا جائے کہ جزوکل سے چھوٹا ہے وغیرہ ۔ پھر اگر اخلاقی عالم میں نظر کی جائے تو بھلے اور برے گا امتیاز(فرق)۔ نیکی کی فطرتی خواہش ۔ خصلت(عادت، سیرت، مزاج) کی ذمہ داری اور گناہ کی سزا کا یقین ایسی باتیں ہیں جو ان ٹیوشن کی شہادت پر سچ مانی جاتی ہیں۔ یعنی ان کی سچائی کا یقین ہماری فطرت کا وہ خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے جو اس کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔
البتہ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتاہے اس میں یہ ادراکات (بات کی تہہ تک پہنچنا)شروع ہی سے مکمل موجود ہوتے ہیں۔ مطلب فقط یہ ہے کہ جس طرح ہماری حسّات اس وقت نشونما پاتی ہیں جب وہ اشیا جو ان سے نسبت اور علاقہ رکھتی ہیں ان کے سامنے آتی ہیں اور انہیں ان کے ساتھ واسطہ پڑتاہے ۔ اسی طرح ہمارے ان ٹیوشن بھی اسی وقت اپنا عمل جاری کرتے ہیں۔ جب وہ چیزیں جو ان سے علاقہ رکھتی ہیں ان کےسامنے آتی ہیں اوران کا ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ اب اعتقاد الہی کی نسبت جو ان ٹیوشن ہمارے باطن میں پائے جاتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔
لیکن معترضوں نے ان ٹیوشن گواہی پر یہ اعتراض کیا ہے۔ کہ چونکہ یہ گواہی سب میں یکساں نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ بعض لوگوں اور فرقوں میں اس کا سراغ تک بھی نہیں ملتااس لیے یہ گواہی ماننے کے قابل نہیں مگر یہ اعتراض بہت معقول (مناسب) نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ سننے کی حس سے بالکل بے بہرہ(محروم، بے نصیب، بے ادب) ہیں اور بعض کو کم سنائی دیتاہے۔ اور پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بخوبی سن تو سکتے ہیں مگر ان کے سامنے گانا گویا بھینس کے آگے بین بجانا ہوتاہے۔ لیکن انکے مقابلے میں بہت ایسے بھی ہیں جو گانے کے نام پر فدا ہوجاتے ہیں ۔ اب کیا اس تفاوت(فاصلہ ، دوری) کے سبب سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قوت سمع (سننےکی طاقت، گوش) کوئی شے ہی نہیں اور کہ اس لیے اس کی گواہی ماننے کے
قابل نہیں ہے۔ نائٹ صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ان ٹیوشن کی گواہی بعض افراد یابعض فرقوں میں بحالت خواب ہو۔یا شاید بعض میں اس کا پتہ ہی نہ ملتا ہو۔ جس طرح کہ رنگوں کے پہنچانے کاملکہ یا موسیقی سے خط اُٹھانے کی لیاقت بعض اشخاص میں بالکل معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہوتی ہے اور اگر ہوتی ہے تو صحیح یا نارمل حال میں نہیں ہوتی ۔ مگر اس سے حواس کی نارمل گواہی ناقص (بےکار) نہیں ٹھہرتی۔ اور کوئی شخص اس سبب سے کہ بعض کے حواس مختلف انداز سے کام کرتے ہیں اس کو باطل نہیں ٹھہراتا ۔ اور اس سے وہ اعتراض بھی حل ہو جاتا ہے۔ جو اس صورت میں پیش کیا جاتاہے کہ ان ٹیوشن کی گواہی عالمگیر نہیں۔ بلکہ معدودے(گناگیا، شمار کیا گیا) چند کے اقوال پر مبنی ہے۔ اب اگر بفرض محال ہم یہ مان لیں کہ درحقیقت یہ گواہی تھوڑے لوگوں کی طرف سے مسیر ہوتی ہے۔ تو بھی یہ لازم نہیں آتا کہ وہ قبول نہ کی جائے ۔ بلکہ برعکس اس کے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں میں چند ہی ایسے ملتے ہیں جو گونے کی باریکیوں اور مصوری(تصویر کشی کرنا، تصوری بنانا) کی رنگ آمیز یوں سے واقف ہوتے ہیں۔ پر کیا ان کے حواس کی گواہی اس لیے رد کی جاتی ہے کہ وہ چند اشخاص کی طرف سے آتی ہے ۔ یا اس گواہی کی زیادہ قدر کی جاتی ہے اس لیے کہ وہ ایسے شخصوں کی جانت سے آئی ہے۔ جن کی طاقتیں جو غنا اور تصویر کی خوبیوں کی پیچانتی ہیں درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہیں؟ ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ لوگ ان کی گواہی کو غیر معتبر(اعتبار کیا گیا، بھروسے کے قابل) جاننے کی بجائے مستند (تصدیق کیا گیا)ہو گئی ہے خدا کی ہستی کو زیادہ صاف طور سے دیکھتے ہیں ۔ اور ہماری رائے میں مناسب ہے کہ ان کی شہادت اعتبار کے لائق سمجھی جائے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اعلی درجے کی نازک طاقتیں جلد بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ پس جس قدر کوئی طاقت اعلیٰ رتبے کی ہوتی ہے۔ اسی قدر اس کی خبرداری زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ بڑی کوشش سے اس کی نشونما کی جاتی اور بڑی توجہ سے اس کی نارمل حالت محفوظ رکھی جاتی ہے۔ پس اگر ہماری نیچر میں کوئی ایسی طاقت ہے جو لامحدود خدا کو پہچانتی ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں کہ اس میں بے پروائی اور غفلت کے سبب سے بہت جلد فرق آجائے۔دیکھئے وہ آلات جو دیکھنے میں آنکھ کی مددکرتے ہیں ذرا اسی بے پراوہی سے خراب ہو جاتے ہیں۔ یہی حال ان آلوں کا ہےجو عقلی اور روحانی بصیرت میں ہماری مدد کرتے ہیں۔
پھر ایک اور بات غور کے لائق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہاعلیٰ درجے کی لیاقتیں (قابلیت،استعداد)اپنا عمل ایسے تواتر سے نہیں کرتی ہیں جیسے ادنیٰ درجے کی طاقتیں کیا کرتی ہیں۔ موخر الذکر کر اپنا کام برابر جاری رکھتی ہیں۔ لہذا ان کی گواہی بلا حجت تسلیم کی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم باربار ان کے اظہارت کو دیکھ کر ان سے واقف اور مانوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ طاقتوں کی گواہی اس قدر دستیاب نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا گاہے ماہے دستیاب ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مانی ہی نہ جائے۔ پس خدائے لا محدود کی نسبت ان ٹیوشن گواہی جو تمام علوم الہیات کی جڑ ہے اگر چہ اور محدود اشیا کے علم اور ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) کی مانند کثرت سے نہیں ملتی تاہم اس قابل نہیں کہ اس کامیابی کے سبب سے رد کی جائے۔ بلکہ اس کی قلت(کمی) اس بات کی مقتضی(تقاضا کرنے والا،خواہش کرنے ولا) ہے کہ ہم اسے بڑے ذوق (خوشی اور شوق)سے قبول کریں۔
یہ طبعی شہادت جس کا بیان ہم کرتے آئے ہیں۔ اور جسے ہم علم الہی کا ماخذ سمجھتے ہیں پہلے پہل روح کے اندر ایک دھندلے سے شعلے کی طرح نمودار (ظاہر) ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ زیادہ روشن ہوتی جاتی ہے ۔ کبھی مذہب کا روغن اس کے شعلےکو دوبالا کرتاہے اور کبھی اس کو تواریخی(قصے،
واقعات، تذکرے) روایات سے تقویت (مضبوط کرنا، طاقت دینا) ملتی ہے۔لیکن یاد رہے کہ یہ چیزیں اس کو زیادہ روشن اور لائح (کوئی چمکیلی یا واضح چیز) کرتی ہیں۔ مگر اس کو خلق نہیں کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ گواہی ان سے پہلے موجود ہوتی ہے۔ البتہ ان کی مدد سے ان ٹیوشن کی روشنی بڑھتی اور صاف ہوتی جاتی ہے یا یوں کہیں کہ اس سونے میں جو میل اور آلائش(آلودگی ، غلاظت، میل کچیل) ہوتی ہے اسے دور کر دیتی ہیں۔ نائٹ صاحب خوب فرماتے ہیں کہ یہ لیاقت بھی ہماری دیگرنیچرل(فطرتی) طاقتوں کی مانند نوزاد بچے کی طرح ہوتی ہے۔ اور جب ہمیں اپنی ہستی سے آگاہ کرنے لگتی ہے تو پہلے بچوں کی طرح تُتلا تُتلا کر بولتی ہے اور شروع ہی سے جوانوں کی مانند مسلسل تقریر نہیں کرنے لگ جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کا دماغ نشوونما پائی ہوئی طاقتوں کے ساتھ پیدا ہوتا بلکہ ان کا بیج اس میں موجود ہوتا ہے۔ یہ طاقتیں شباب (جوانی ،شروع، آغاز) کی حالت میں پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان کے تخم(اولاد، نسل ، بیج) میں عقلی اور اخلاقی زندگی کے امکانات (ممکن ہونا، اختیار)اورلیاقتیں (قابلیت،استعداد) چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ جو رفتہ رفتہ ترقی کرتی ہیں اور جب وہ اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں تو ان کی ابتدائی حالت اور کمال کی حالت میں ایسا فرق نظر آتا ہے جیسا کہ کسی بیج اور اس درخت میں دکھائی دیتا جو اس بیج سے نکلا ہے۔ پس یہ کہنا کہ ان ٹیوشن کی گواہی یکساں نہیں ہوتی ہے اور اس کے اظہارات علم النفس کی انبار2مل حالتوں میں مختلف درجوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اور کہ بعض حالتوں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا موجود ہی نہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ان ٹیوشن کوئی شے نہیں اور اس لیے اس کی گواہی قبول کرنے کے لائق نہیں ہے۔ لیکن یاد رہے کہ جب ان ٹیوشن اعلی ٰ حالت کو پہنچ جاتاہے تو اس کی گواہی عقل اور ایمان کے عین مطابق ہوتی ہے پس اسے یعنی ان ٹیوشن کو ہم روح کی وہ باطنی آنکھ کہہ سکتے جو اکیلی بلاوساطت(وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ) دیگر وسائل کے اس احاطے کے اندر تک دیکھ سکتی ہے جس پر لا علمی کے دھوئیں کا تاریک سا پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ روحانی حقیقت جسے یہ آنکھ اس تاریک سے دائرے میں دیکھتی ہے وہ وہ ہستی ہے جو مادی ماہیات (بھید، پوشیدہ باتیں) کے پرے موجود ہے۔ اب گو یہ آنکھ بہت دور تک اس ہستی کے اسرار کو نہ دیکھ سکے تاہم اسے دیکھتی اور محسوس کرتی ہے کریں۔ وہ ہستی ہے جو تمام عالم کی جڑ اور بنیاد ہے۔ پس ذات باری کی نسبت جو ان ٹیوشن ہماری نیچر میں موجود ہے۔اور اس کا یہی خاصّہ(عادت،صفت،خصلت) ہے کہ وہ ایک روحانی ہستی کو دیکھتا یعنی صور موجودات میں میں ایک حضوری کو محسوس کرتاہے جس کی نسبت گو وہ بہت کچھ نہیں جانتا تاہم کسی قدر ضرور جانتا ہے اور اس کی پیروی مطلق(بےقید) اندھیرے میں نہیں کرتااور نہ اس کے اثبات (ثبوت، حقیقت)وجود کا نتیجہ اس کے مٹے ہوئے نقش پا (پیروں کے نشانات،نقش قدم)سے نکالتا ہے۔یہاں یہ نکتہ غور ِ طلب ہے کہ ہمارا یہ فطری ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) خود اس ہستی کی حضوری کے انوار (نور ) سے منور(روشن ) ہوتاہے۔ فی نفسہ ان ٹیوشن ایک مجہول(غیر معمول،وہ فعل جس کا فاعل معلوم نہ ہو) سا آلہ ہے۔ پر جب اس نور سے جو اس حضوری سے برآمد ہوتاہے منور ہوجاتاہے تواس جلوہء ذات الہی گواہی دینے لگ جاتاہے۔
نائٹ صاحب فرماتے ہیں کہ اس ان ٹیوشن میں چار خاصیتیں پائی جاتی ہیں جو ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اس کی شہاد ت کو قبول کریں:۔
1۔ اس میں یہ قابل غور خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بار بار اپنے دعوؤں کو ہمارے سامنے رکھتا ہے ۔ اگر ہم اس کی روشنی کو اپنی بے اعتنائی(اچھی طرح پیش آنا) سے بجھا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پھر بھی ایسے اصرار(ضد، تاکید) سے ہمارے پیچھے پڑتاہے کہ اس کے تقاضے سے رہا ہونا مشکل ہو
جاتاہے۔ اگر ملحدوں کی سوانح عمر یاں پڑھیں توہم کو معلوم ہو جائےگا کہ گو وہ اپنے زعم میں اس الہی ان ٹیوشن کی جان کو روپیٹ بیٹھے تھے تاہم ان کے دوران ِ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آئے جب اس ان ٹیوشن نے اپنا جوہر ان کو دکھا ہی دیا۔
2۔ اس ان ٹیوشن کی تواریخی(قصے، واقعات، تذکرے) مداومت (ہمیشگی)اور اس کی گواہی کے بارے میں پشتوں اور زمانوں کی شہادت اور اس کی وہ گرفت جو وہ تمام بنی آد م رکھتاایسی باتیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ انسان کے مرزعہ دل میں اس کا تخم(اولاد، نسل ، بیج) بویا ہواہے۔
3۔ اس ان ٹیوشن کا ہماری فطرت کےدوسرے ان ٹیوشنوں سے مطابقت رکھنا اس کی گواہی کی صداقت (سچائی) پر دال(اناج جو سالن کے طور پر بناتے ہیں، آتشی شیشہ کا عکس جس سے آگ لتی ہیں) ہے۔اگر ایک علمی انٹیوشن دوسرے ان ٹیوشنوں کی مخالفت کرے تو ان میں سے کم از کم ایک تو ضرور تردید (رد کرنا ، جواب دینا)کے لائق ہوگا۔ اور اس حالت میں یہ اصول کام میں لانا پڑتا ہے کہ وہ جوادنیٰ اور ضعیف ان ٹیوشن ہے اور جس کی اصلیت کی کافی گواہی موجود نہیں ہے چھوڑ دیا جاتاہے اور وہ جو اعلیٰ اور افضل ہے اور جس کی اصلیت کا کافی ثبوت ملتا ہے راست سمجھا جاتاہے ۔ اگر کوئی ان ٹیوشن کو جو خدا کی ہستی کی نسبت ہماری ذات میں مرکوز سے لیکر ہماری نیچر کے کل دائرہ علم کے اردگردگھومے اور اسے باقی سب ان ٹیوشنوں کے مقابل رکھ کر اس میں اور ان میں کسی طرح کا تخالف(باہم مخالف ہونا، مخالفت) اور تبائن (فرق، اختلاف) نہ پائے تو اس انٹیوشن کو صادق ماننا چاہیے۔ اور اس ان ٹیوشن کا فی الواقع یہ حال ہے کہ دیگر اس ان ٹیوشنوں کی مخالفت نہیں کرتاہے۔
4۔ اگر اس کی گواہی کی عملی تاثیرات اس قسم کی ہیں کہ ان سے انسان کی فطرت کو فوقیت اور فضیلت کا امتیاز نصیب ہوتاہے تو اسے برحق سمجھنا چاہیے البتہ یہ بات اکیلی تو کسی امر کی صحت یا نا درستی کا ثبوت نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ بعض اوقات غلط اعتقاد بھی کچھ عرصہ اور کچھ درجہ تک دماغ کو ایک قسم کی ترقی دے سکتا ہے۔ مثلاً پچھلے زمانے میں بعض دینی اور علمی مسائل نے جو پورے پورے طور پر صحیح نہ تھے عقل کو کچھ مدت تک سہارا دیا۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ کوئی غلط اور باطل خیال انسان پر دائمی اثر نہیں رکھ سکتا ہے۔ پس کوئی عقیدہ ہمیشہ تک قائم نہیں رہ سکتا اگر اس میں یہ صفت جس کی طرف اشارہ کیا گیا پائی نہ جائے۔ اور اسکی غلطی اس وقت عموماً ظاہر ہو جاتی ہے۔جب ہم اسے عمل میں لاتے ہیں ۔ مثلاً بہت سے سائنٹفک اور فلسفانہ خیالات جو ایک مدت تک بکارآمدرہے آخر کار ترک کئے گئے کیونکہ ان کے سُقم(خرابی،عیب،نقص) عملی تجربے نے فاش(افشاں) کروائے۔ اسی طرح ان ٹیوشن کا نقص بھی۔ بشرطیکہ اس میں کوئی نقص ہو ظاہر ہو جائے گا۔ جب ہم اسے اپنے افعال و اعما ل کا دستور العمل (قاعدہ ، قانون ) بنانے کی کوشش کرے گے۔
اب کیا یہ انٹیوشن جو حق تعالیٰ کی ہستی کی نسبت ہمارے اندر موجود ہے۔ اور جس میں سب صفات مذکورہ بالا پائی جاتی ہیں ہماری نیچر کو بزرگی اور فضیلت کے شرف سے مالا مال کرتاہے یا اس کے سبب سے اس کی تذلیل ہوتی ہے تاریخ کا جواب اس بارے میں فیصلہ کن۔ اور تجربے کی گواہی قاطع (قطع کرنے
والا،کاٹنے ولا)ہے ۔ اس انٹیوشن کی گواہی کو تسلیم کرنے کی تاثیر انسان پر ایسی ہوتی ہےکہ اس سے اس کی تمام طاقتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اور اشیا کی خوبی اور رونق کو محسوس کرنے کی لیاقتیں(قابلیت،استعداد) صیقل(صفائی، آب، چمک) ہو جاتی ہیں۔
___________________
دوسرا باب
(خدا کی ہستی کے دلائل اور ان کا تعلق ان ٹیوشن سے)
ہم نے پچھلے باب میں اس بات کو دکھانے کی کوشش کی تھی کہ ان ٹیوشن یعنی عرف وہی خدا کی ہستی کے ثبوت میں کیا جگہ رکھتاہے۔ ہم اس پر اور بہت کچھ لکھ سکتے ہیں مگر بخوف طوالت دوسرے دلائل کی طرف رجوع کرنا چاہتےہیں۔ سلسلہ دلائل میں وہ دلیل جو اصول علیت سے پیدا ہوتی ہے عموماً پہلے آتی ہے۔ مگر اس کی سلسلہ جذباتی کرنے سے پہلے ہم دو ایک اور باتوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو اس بحث سے خاص علاقہ رکھتی ہیں۔
خدا کی ہستی کے متعلق بار ثبوت ان لوگوں پر گرتاہے جو اس کے وجود اور ہستی کے قائل ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص جو خدا کی ہستی کا قائل ہے یہ دعوے کرتاہے کہ خداہے تو ہنکر ہنسکر کہتاہے کہ اگر وہ ہے تو آپ ثابت کر دیجئے۔ اس موقع پر ہمیں میٹلنڈ صاحب کا قول یاد آتا ہے۔ جو ان کی کتاب ( تھی اِزم آراگناسٹسزم THEISM OR AGNOSTICISM) میں درج ہے۔ جو کچھ وہ اس بحث کے متعلق وہاں بیان فرماتے ہیں اس کالب لباب یہ ہے کہ ۔ اگر دنیا میں الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) کے پیروزیادہ ہوتے ۔ یا یوں کہیں کہ اگر الحاد غور وفکر کی دنیا میں ہر جگہ مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) ہوتا۔ اور خدا کی ہستی کا خیال ایک نئی تعلیم یا اجنبی مسئلے کی صورت میں سامنے آتا اور الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) کی عالمگیر حکومت کو درہم برہم کرکے اپنا سکہ جمانے کی کوشش کرتا تو ا س حالت میں یہ بات قرین انصاف ہوتی کہ معتقد ان ذات باری پر ہستی خدا کا بار ثبوت ڈال دیا جاتاہے۔ پر جب غورکیا جاتاہے تو معلوم ہوتاہے کہ خدا کی ہستی کا اعتقاد کوئی نئی تعلیم نہیں ہے۔ جہاں تک تاریخ کا سلسلہ پہنچتا وہاں تک اس اعتقاد کا سلسلہ بھی جاتاہے بلکہ اس سے بھی پر ے۔ پس الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) نہیں بلکہ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کے دل اور ذہن پر ہمیشہ سے مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) چلا آیا ہے۔ اب اگر کوئی مخالف عقیدہ برپا ہو کر اس کے اختیارات کو غصب کرنا چاہے تو لازم ہے کہ اس کےمعاون اس کے دعا دی کی صحت اور سچائی کو ثابت کریں۔ پس یہ عقیدہ جو اپنی قدامت میں یکتا ہے اور ایک عالمگیر صورت میں بنی نوع انسان کے اقلیم دل پر حکمران چلا آیا ہے۔ اور جس کی طفیل(وسیلہ ، بدولت، سبب) سے انسان کی عقل اور عمل کو فروغ حاصل ہوا اور ہو رہا ہے اپنی سچائی کا ایک ثبوت ہے۔ اس کی قدامت ، اس کی عالمگیری، اس کی و ہ خاص طاقت جس کے سبب سے یہ انسان کی ذات کی اشرف سے اشرف جگہ میں جڑھ پکڑ لیتا ہے ۔ اور جس کے سبب سے یہ
انسان کی ان کوششوں میں مددگار ثابت ہوتاہے جو تہذیب اور اخلاقی ترقی کی راہ میں کی جاتی ہیں اس امر کی مقتضی(تقاضا کرنے والا،خواہش کرنے ولا) ہیں کہ جب ہم خدا کی ہستی کو ثابت کرنے بیٹھیں تو ان باتوں کے وزن اور زور کو خوب محسوس کریں۔
اب ا س عقیدے پر جس کے معتقد تمام بنی آدم چلے آئے ہیں اورجس کو خصوصاً وہ لوگ جو سب سے دانا اور سب سے نیک گزرے ہیں مانتے رہے ہیں اگر کوئی شخص حملہ کرنا چاہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ قاطع(قطع کرنے والا،کاٹنے ولا) اور لاجواب وجوہات اپنے اعتراض یا مخالفت کی تائید میں پیش کرے ورنہ اپنا منہ بندرکھے۔ اب گو یہ بات بالکل صحیح ہے کہ سبب اس عقیدے کی قدامت او رعالمگیری اور نیک تاثیروں کے حامیان الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) پر فرض ہے کہ وہ بجائے خدا ک ہستی کا ثبوت طلب کرنے کے الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) کا ثبوت پیش کریں۔ تاہم بقول فلنٹ صاحب جن کی نادر کتاب (تھی ازم THEISM ) اس مضمون پر سند سمجھی جاتی ہے خدا کی ہستی کے معتقد اپنے اعتقاد کی وجوہات رکھتے ہیں او روہی وجوہات ان کی دلائل اور براہین (برہان کی جمع ، دلیل)ہیں۔
ہم اپنے پچھلے آرٹیکل میں ایک جگہ اس بات کا ذکر کیا تھا کہ وہ جو خداکی ہستی کے قائل ہیں ان کے دلائل کو جو خدا کی ہستی کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں یکساں قاطع(قطع کرنے والا،کاٹنے ولا) اور ساطع(اونچا، بلند، چمکتا ہوا) نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان میں بعض بعض صر ف ایک ہی دلیل کو کافی سمجھ کر یا قبول کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ ان میں کسی کسی جگہ ان کو ضعف یا نقص نظر آتاہے۔ پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی ہستی کےمتعلق جو دلائل پیش کی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی یہ بیڑا (ذمہ)نہیں اُٹھاتی کہ اقلیدس (خواص ہندسہ کا کھولنے ولا) کی طرح پہلے اپنا دعوی بیان کرے اور پھر دعوے کا ثبوت پیش کرے اور اس کے بعد نتیجہ اخذکرے۔ نہیں۔ اس بحث میں طرز استدلال(طور طریقہ ، دلیل)کی یہ صورت نہیں ہے ۔ تاہم جو دلیلیں خدا کی ہستی کے ماننے والے پیش کرتے ہیں وہ ایک دوسری کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ایک سے دوسری پیدا ہوتی اور ایک کو دوسری زور بخشتی ہے۔ اور جب محقق اس کل سلسلے کو دیکھتا اور اس پر غور کرتاہے تو اسے وہ مسلسل دلیلیں ایسی پختہ اور مضبوط معلوم ہوتی ہیں کہ وہ خدا کی ہستی پر یقین لاتابلکہ اس کا یقین علم القین کے درجے تک پہنچ جاتاہے۔
مگر قبل ازیں(اس سے پہلے) کہ ہم ا س سلسلے کو شروع کریں ہم ایک اور بات کا ذکرکرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان دلیلوں کے زور کو محسوس کرنے کےلیے اس بات کو کبھی نظر انداز نہ کریں کہ ہمارے تمام منطقیانہ (علم ِ منطق جاننے ولا، جھگڑالو) طرز استدلال (طور طریقہ ، دلیل)کی سطح کے نیچے وہ معتقدات نہاں ہوتے ہیں جوہمارے علم النفس کے وسیلے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں اور جو ہمارے لیے ہر طرح کے علم و عرفان(شناخت، پہچان) کا چشمہ اور منبع(پانی جاری ہونے کا مقام) ہیں یا یوں کہیں کہ وہ بد یہی صداقتیں(سچائی،خلوص) ہم کو بالکل راست اور برحق معلوم ہوتی ہیں گو ہمان کا کوئی منطقی ثبوت پیش نہیں کر سکتے ۔ ہم ان کو راست او ر برحق اس لیے مانتے ہیں کہ ان کی صحت اور درستی پر ہمارا علم النفس گواہی دیتاہے۔ ہم انہیں پر اپنی زندگی کی مختلف تعلقات اور معاملات کی عمارت قائم کرتے ہیں۔ انہیں کی بنا پر اور باتوں کی درستی یا نا درستی کا فیصلہ کرتےہیں۔ انہیں کی روشنی میں منطق کے زور یا
ضعف کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر چاہیں تو ہم انہیں عقل کے اصول اول کہہ سکتے ہیں کیونکہ عقل انسانی انہیں لابد(بے شک، یقینی) سمجھ کر قبول کر تی اور ان کی اساس پر اپنے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) کے پیچ در پیچ(نہایت پیچیدہ، بل پر بل پڑاہوا) مکان کو تعمیر کرتی ہے۔ ہم ان ٹیوشنل گواہی پر لکھتے ہوئے اس نکتہ کی طرف ذرا سا اشارہ کر آئے ہیں۔ مگر چونکہ اب اور دلیلوں کے لیے ہمیں راہ تیار کرتاہے اور چونکہ ان ٹیوشنل روشنی خارجی دلائل کے ساتھ گہراتعلق رکھتی ہےاس لیے ہم مجبور ہیں کہ جس بات کی طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں اسے پھر کسی قدر طول(پھیلاؤ، وسعت) کے ساتھ بیان کریں تاکہ جو خیال ہم پیش کرنا چاہتے ہیں اس کے گرفت کرنے میں کسی قسم کی مشکل محسوس نہ ہو۔ ہم اس جگہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بعض باتیں یا بعض عقیدے ایسے ہیں جو بوسیلہ ہمارے علم النفس کے ظاہر ہوتے ہیں اور ہم انہیں بغیر چون و چر ا(کسی عذر کے بغیر، بے دلیل)قبول کر لیتے ہیں۔ اور پھر آگے انہیں کی امداد سے علم اکتساب کرتے ہیں۔ اب ان صداقتوں(سچائی،خلوص) میں سے جو نفس انسانی پر منقوش(نقش) ہیں بعض ایسی ہیں جو حوا س سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ ساوہ اور ناگزیر اور عالمگیر ہوتی ہیں۔ اور ہر انسان میں جو عقل رکھتا ہے موجود ہوتی ہیں ۔ مثلاً کوئی شخص خواہ وہ کیسا ہی وحشی کیوں نہ ہو۔ اور کیسا ہی کم عقل کیوں نہ ہو خارجی دنیا کی ہستی کا منکر نہیں ہو سکتا۔ اور ایسا ہی حال ان دیگر صداقتوں(سچائی،خلوص) کا ہے جو حواس سے متعلق نہیں بلکہ راہ راست علم الفس کے وسیلے اپنے آپ کو پہچاننا کہ میں وہی ہوں جو تھا یک ایسا یقین ہے جو علم النفس کے وسیلے پیدا ہوتاہے اور ہر فرد بشر میں یکساں موجود ہے۔ ہم بچپن سے جوانی کی حالت کو پہنچتے اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف قدم اُٹھاتے ہیں۔ دانت گر جاتے ، بال سفید ہو جاتے ہیں اور جھریاں بدن کے ہر حصے پر نمودار ہوتی ہیں۔ لیکن یہ یقین کہ میں میں ہی ہوں باوجود ان تمام تبدلات و انقلاب کے بد ستور قائم رہتا ہے۔
لیکن اخلاقی اور روحانی صداقتیں(سچائی،خلوص) جو اعلیٰ قسم کی صداقتیں(سچائی،خلوص) ہیں جو اعلیٰ قسم کی صداقتیں(سچائی،خلوص) ہیں وہ سب میں یکساں نہیں ہوتی ہیں کیونکہ گو وہ بھی روح انسانی پرمنقوش(نقش) تو ہوتی ہیں مگر ان کی حقیقت رفتہ رفتہ یا خاص حالتوں کو پہنچکر کھلتی ہے جیسا کہ ہم اوپر دکھاآئے ہیں۔ نہ صرف جاہلوں اور وحشیوں کے درمیان ان کی کمی نظر آتی ہے بلکہ مہذب اور علم دار لوگوں میں بھی اکثر اوقات ان کی قلت (کمی)مشاہدے سے گزرتی ہے۔ پر جب ایک مرتبہ پردہ اُٹھ جاتاہے تو کیا وحشی اور کیا مہذب ،کیا جاہل اور کیا علم دار سب ان روحانی حقیقتوں کے ایسے قائل ہو جاتے کہ ان کے مخلوط(ملاجلا، گڈمڈ) بالطبع ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رہتا۔
اب ہم نے دیکھا کہ انسانی علم النفس کے وسیلے سےجو علم کی بنیادی باتیں انسان پر منکشف (عیاں، ظاہر) ہوتی ہیں ان کی سچائی پر شک و شبہ لاناگویا تمام عرف کسی کی بنیاد کو ہلاڈالنا ہے۔ اب جیسا کہ ہم ان ٹیوشن کے ضمن میں دکھاچکے ہیں علما نے خدا کی ہستی کے عقیدے کو انہیں باتوں میں شامل کیا ہے جو علم انفس کے وسیلے ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو لازم ہے کہ صداقت(سچائی،خلوص) بھی اور صداقتوں(سچائی،خلوص) کی طرح انسان علم النفس کے ہر حصے میں اپنی جھلک دکھائے اور اس کے ہر پہلو سے تائید پائے۔ مثال کے لیے کشش ثقل کے قانون پر غور کریں۔ یہ قانون تمام مادی دنیا پر حاوی ہے۔ مادے کی یہ عالمگیر خاصیت ہے کہ خواہ وہ کوہ ہویا کاہ ہو ہر دوسری مادی چیز کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور یہ باہمی کشش ہر جگہ اپنا عمل جاری رکھتی
ہے۔ جہاں کہیں مادہ موجود ہے خواہ ستاروں اور مہتابوں اور آفتابوں کی صورت میں چمکتا ہو۔ خواہ مدّور(دائرہ نما گول) کروں کی صورت میں گھومتا ہو۔ خواہ ہوا میں معلق ہو۔ خواہ بحروں اور سمندروں میں غوطہ زن ہو۔ خواہ حیوانات و نباتات کے اجسام کا حصہ ہو۔ خواہ ٹھوس ہو مائع ہو یا گیس(ہوا) ہو۔ ہر صورت میں وہ قانون ثقل کے عمل کو ظاہر کرے گا۔"اجسام کے زمین کی طرف گرنے۔ اور ان کے ادزان میں خط استوا اور شمالی و جنوبی اقطا ب پر فرق آجانے اور کسی کا ن کی تہ میں پنڈولم کی حرکت کے بدل جانے ۔ اونچی جگہوں میں ہوا کے رقیق(نرم، لطیف، پتلا) اور حدت کے کم ہو جانے اور سمندر کی تہ میں دباؤ کے بڑھ جانے بیرا میٹرمیں پارے کے اُٹھنے اور پمپ میں پانی کے چڑھ جانے میں اور اسی طرح کے اور کئی اظہاروں میں یہ قانون اپنا رنگ دکھاتاہے"۔
اب وہ تعلق جو علم النفس کی گواہی اور دلائل خارجی میں پایا جاتا ہے وہ صرف یہ یہی نہیں کہ ہمارے علم النفس کے وسیلے سے ہمیں وہ ان ٹیوشنل شہادت ملتی ہے جو ان شہادتوں یا دلیلوں میں سے جو خدا کی ہستی کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں ایک ہے۔ بلکہ اس کا یہ تعلق ہے کہ وہی علم النفس جو ان ٹیوشنل گواہی کا مصدر(مادر ہونے کی جگہ،جڑ، بنیاد) اور مخرج(جڑ، بنیاد) ہے اور جس کی روشنی اور شہادت کی بناپر ہم اور سب خارجی چیزوں کی ہستی اور حقیقت کا علم جمع کرتے ہیں ان دیگر دلائل کی صحت اور زور کو واضح کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہستی ثابت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
جب ہم اپنے صحیفہ(کتابِ رسالت، لکھا ہوا صفحہ) دل کا یا یوں کہیں کہ اپنے علم النفس کا ملاحظہ کرتے ہیں تو پہلی بات جس کا علم ہم کو حاصل ہوتاہے یہ ہے کہ ہم میں ایک قوت پائی جاتی ہے جسے قوت ارادی کہتے ہیں۔ ہم ارادہ ٹھانتے اور اسے اس قوت کے وسیلے سے برلاتے ہیں۔ پس ہم یہ ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) رکھتے ہیں کہ جب ہم اس قوت کو کام میں لاتے ہیں تو کئی نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ہمارا ارادہ یا ہماری مرضی ایک ایسا سبب یا موجد(ایجاد کرنے ولا) ہے جس سے نئے نتائج وقوع میں آتے ہیں اور کہ قسم قسم کے نتائج پیدا کرنے والی طاقت ہماری شخصیت کا ایک لازمی خاصہّ(عادت،صفت،خصلت) ہے۔
دوسری بات جو ہمارے علم النفس کے وسیلے ہمارے متعلق ہم پر ظاہر ہوتی ہے یہ ہے کہ ہم میں وہ قوت پائی جاتی ہے جسے ہم حکمت یا عقل کہتے ہیں۔ اسی کی مدد سےہم ترتیب اور عدم ترتیب ۔ انتظام اور بد انتظامی میں امتیاز (فرق)کرتے ہیں۔ اسی طاقت کی طفیل(وسیلہ، بدولت،سبب) سے جب ہم کسی کام کو حسن تدبیرسے کرتے ہیں تو اسے پسند کرتے ہیں اور جب چیز وں کو بد نظمی کے سبب سے گڈمڈ دیکھتے ہیں تو اس حالت کو برا سمجھتے ہیں ۔ ہم تجویزیں(تراکیب) سوچتے اور ان کو وجود میں لانے کے لیے حسب موقع طریقے اور وسیلے استعمال میں لاتے ہیں ایک خاص مقصد ہمیں مد نظر ہوتااور ہم اسے پورا کرنے کے لیے وہ اسباب تلاش کرتے ہیں جو اس مقصد کی بر آوری کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ ہم اشیا کے مناسب حصص(حصہ کی جمع،حصے) کی باہمی ترتیب کی خوبی کو محسوس کرتے اور ان کی ظاہری صورت اور رنگ میں جو مناسبت پائی جاتی ہے اس کی خوبصورتی کے لطف سے خط اٹھاتے ہیں۔ ہمایشا
کے مشاہدے سے نتائج مستنبط کرتے۔ ان کے تعلقات کی شرح کرتے اور اپنی عقل کے مطابق اپنے کاروبار کو انجام دیتے ہیں۔ ان ساری باتوں کےوسیلے یہ بات ہم پر ظاہر ہوتی ہے کہ حکمت یا عقل ہماری ذات اور شخصیت کا ایک حصہ ہے۔
پھر اسی طرح ایک اور بات ہم پر ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں وہ صفت بھی پائی جاتی ہے جسے ہم اخلاقی صفت کہتے ہیں۔ واجب اور غیر واجب میں تمیز کرنا ہماری ذات کا ایک خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے فرض کا قانون شاہانہ دبدبے کے ساتھ اپنا اختیار جماتا۔ اور جب ہم اس کے حکم کی فرنبرداری نہیں کرتے تو اس حالت میں بھی وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا جب ہم ان باتوں کو جوضمیر کو جائز معلوم ہوتی انجام دیتے ہیں تو ہم خوش ہوتے اور جب اس راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو ندامت(شرمندگی ) اور شرمگاہ اور افسردگی ہمارے پلے پڑتی ہیں۔ اور احساس جرم کا کانٹا برابر کھٹکتا رہتاہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ جب تک انسان آدمیت کے پائے سے گر کر حیوانی طبقے میں میں نہ مل جائے اس وقت تک ذمہ داری کا خیال اس کے دل سے دور نہیں ہوتا۔ مختلف اقسام کے جذبات کے بیچوں بیچ تخت بچھا ہوا ہے جس پر ضمیر اپنے جاہ و جلال (عظمت،رعب) کے ساتھ کسی ملکہ کی طرح متمکن(جاہ گزین، قائم ،جگہ پکڑنے والا) ہے۔ اور اس کی خدمت میں ایک باندی(لونڈی، غلام) کھڑی ہے جس کا نام ندامت (شرمندگی)ہے جو ان کو جو اس ملکہ کےحکم کو رد کرتے ہیں۔ پچھتاوے اور تاسف(افسوس، حیرت، پچھتاوا) کی زنجیروں سے جکڑ دیتی ہے ۔ ہم سچائی اور نیکی کی تعریف کرنے سے باز نہیں رہ سکتے اور نہ کمینہ پن اور جھوٹ اور بے انصافی پر فتوئے لگانے سے رک سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم پر یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہم صاحب اخلاقی اور ذمہ دار مخلوق ہیں اور کہ ہماری شخصیت پراخلاقی خاصیت کی مہر لگی ہوئے ہے۔ جس کے قانون سے خلاف ورزی کرنا ہم خود ناز یبا (غیر مناسب، بُرا) سمجھتےہیں۔
علاوہ بریں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی ذات میں ایک اور عنصر موجود ہے جو اخلاقی وصف(اچھائی،عمدگی،خوبی ) پر بھی فائق(برتر،ممتاز،فوقیت) ہے۔ اسے انسانی ذات کا روحانی خاصہ(عادت،صفت،خصلت) کہنا چاہیے ۔ یہ وہ خاصہ ہے جو عقاب کی طرح ایک اعلیٰ کُرے میں بلند پروازی(عالی ٰ خیالی ، خود ستائی) کرتاہے۔ یا یوں کہیں کہ یہی خاصہ انسانیت کا وہ پہلو ہے جو محدود اورگزشتی اشیا میں تسلی نہیں پاتا بلکہ ایک غیر محدود اور کامل اور ازلی و ابدی ہستی میں پناہ گزین ہونا چاہتاہے۔ یہی ہمیں جسم اور گوشت کے حلقے سے نکال کر روحانی عالم کی سیر کراتا ہے۔ اسی کی طفیل (وسیلہ ، بدولت، سبب) سے ہمارے وہ جذبات جو بیم درجا ، صدق و صفا اور عشق و وفا سے متعلق ہیں نفس امارہ(کثرت سے حکم دینے والا) کی خرابیوں کےدلدل سے نکل کر روحانی طاقتوں کی صورت اختیار کرتے اور ہمارےاعمال و افعال کو پاکیزگی کا لباس پہنچاتے ہیں۔ اسی میں سے خدا کا تصور جلوہ نما ہوتا اور ہم گرکر سر بسجود ہوتے اور اسی میں اپنی ہستی کا کمال اور آرام تلاش کرتے ہیں اگرچہ ہماری ذات کے اس خاصے پر کہیں پردہ بھی پڑا ہوتا ہے اور گوہم اسے پورے پورے طور پر کسی تعریف کے حدود کے اندر قید نہیں کر سکتے تاہم یہ دیکھا جاتاہے کہ یہ ہمارے طبعی تصورات پر چھایا ہواہے۔ ہماری عقلی طاقتوں کو اس سے ایک عجیب رنگ حاصل ہوتاہے اور ہمارے اخلاقی اوصاف میں مذہبی نور اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے جو ہمارے قلب(دل) میں یہ روشنی پیدا کرتا کہ ایک الہی ہستی ہے جو بہت باتوں میں ہم سے مشابہت رکھتی ہے اور کہ چند روز تک جینا اور پھر نسیاً منسیاً(ذہن سے اترا ہوا، بھولا ہوا) ہو
جانا انسانی طبعیت کو ہرگز ہرگز نہیں بھاتا۔ بلکہ وہ ابدالآباد(ہمیشہ) علم اور پاکیزگی میں ترقی کرنے کےلیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ ان باتوں کو دیکھ کر ہم یہ ماننے لگ جاتے ہیں کہ ہم میں ایک وہ عنصر پایا جاتاہے۔ جسے روحانیت کہتے ہیں۔
اب جب ہم اپنے ذاتی علم کو جسے ہم نے اوپر علم النفس کہا ہے دیکھتے اور اس کی تشریح کرتے ہیں تو اس میں یہی چار باتیں پاتے ہیں:۔
1۔ ایسا ارادہ اور ایسی مرضی ہم میں موجود ہے جس کی طاقت سے ہم کسی فعل کے کرنے کاارادہ ٹھانتے اور اسے وقوع میں لاتے ہیں۔
۔ 2۔ حکمت یا عقل جس کی طاقت سے ہم چیزوں کےتعلقات کو سمجھتے طرح طرح کی تجویزیں سوچتے اور جو کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور اس کے مطلب اور غرض کو بیا ن کرتے ہیں۔
3۔ اخلاقی طاقت جس کی وجہ سے نیک و بد میں امتیاز(فرق) کرتے ہیں ضمیر کے اختیار کو مانتے اور ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں۔
4۔ روحانی لیاقت جو ایک لامحدود ہستی کا تصور ہمارے اندر پیدا کرتی ۔ ہمارے خیالات اور جذبات کو ادنیٰ درجے سے اٹھا کر اعلیٰ درجے تک پہنچاتی اور ہماری آنکھیں اس کی طرف پھیرتی جو جامع جمیع(تمام، سب) کمالات ہے۔
پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان باتوں کی پڑتال کےلیےہمیں وحشیوں کی حالت پر غور نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ہم پر یہ لازم ہےکہ ان باتوں کی تحقیق کےلیے انسان کی اعلیٰ مکمل حالت لیں۔ اور اس پر غور کریں۔ کیونکہ اگر واقع یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسان کی نیچر(فطرت) میں کیا کچھ پایا جاتاہے تو انصاف یہ طلب کرتاہے کہ تحقیق کےلیے ہم ایسے نمونے ہاتھ میں لیں جن میں انسانی نیچر نشوونما پا کر اپنے اصل قد کے اندازے تک پہنچتی جاتی ہے۔ اگر ہم کسی دراز قددرخت کےتنے کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو ہم اس کے اس پودے کا پاس نہیں جاتے جسے کانٹوں اور جھاڑیوں نے دبا کربڑھنے سے روک رکھا ہے۔ بلکہ اس پیڑ کو دیکھتے ہیں جو ہر روک سے رہا۔ ہر قید سے آزاد اور ہر بوجھ سے بری ہو کر اور عمدہ زمین سے غذ اپاکر اور پانی کی بہتات سے سیراب ہو کر اٹھتا اور آسمان سے باتیں کرتا ہے۔
ان سب باتوں کا تعلق خدا کی ہستی کےثبوت سے یہ ہےکہ جو کچھ انسان کی نیچر میں پایا جاتاہے وہ سب خدا کی ہستی کے ثبوت میں کام آتاہے۔ ہم اپنے علم النفس کے وسیلے اور چیزوں کی حقیقت اور ماہیت(کیفیت،حقیقت) کو پہچانتے اور سوائے اس کے ہمارے پاس اور کوئی چراغ نہیں ہے جس کی روشنی میں ہم موجودات کی اصلیت اور ماہیت(کیفیت،حقیقت) کو دریافت کریں اور جو گواہی اس جانب سے ہم کو ملتی ہم سے درست بھی سمجھتے ہیں۔ اب ہمارا علم النفس جو مذکورہ بالا ہم کو ملتی ہم اسے درست بھی سمجھتے ہیں۔ اب ہمارا علم النفس و مذکورہ بالا(اوپر ذکر کی گئی) چار باتوں کو ہمارے متعلق ہمارے سامنے لاتاہے خدا کی ہستی پر کیا گواہی دیتاہے ؟ یہ اگر خدا ہےتو وہ بھی ایک ایسا شخص ہے جس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی ارادہ ، حکمت، نیکی اور ایک لا محدود روح جس میں سب افضل صفات روحانی موجود ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ موجد(ایجاد کرنے ولا) بعض نتائج کے ہیں اور اس یقین کے بالمقابل
جب ہم عالم موجودات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک سلسلہ اسباب و نتائج نظر آتاہے اور ہمارا علم النفس جو اکیلا ہمارے تمام علم کی جڑ اور بنیاد ہے ہم پر یہ آشکار کرتاہے کہ جس طرح ہماری قوت ارادی اسباب و نتائج کاتسلسل قائم کر دیتی ہے اسی طرح موجودات کے اسباب و نجائج کے وسیع سلسلے میں بھی کسی صاحب ارادہ ہستی کی قدرت کام کرتی ہے۔ اسی طرح ترتیب و تجویز کو معائنہ کر کے ہم اس ہستی سے حکمت منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرتے ہیں ۔ علیٰ ہذا جب ہم مختلف دلائل کی بحث چھیڑےگے تو ہم ان مختلف اعراضوں پر بھی غور کرے گے جو ان دلائل پر کئے جاتے ہیں مگر بالفعل ہم صرف ایک اعراض کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو اس طریق استدال پر عموماً کیا جاتاہے۔
اور وہ یہ ہےکہ مخالف اکثر کہا کرتے ہیں کہ اس طریق استدلال سے اگر کچھ ثابت ہوتاہے تو یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا معمولی آدمیوں سے کسی قدربڑا آدمی ہے یا ایسا آدمی ہے جس میں سے تم اپنے نقصوں کوخارج کر دیتے ہو اور کہ اپنی خوبیوں کو ایک بے خدااندازے سے بھر دیتے ہو۔ اس کو اصطلاح علوم الہیہ میں "انتروپومارفزم "کہتے ہیں۔ یہ لفظ یونانی زبان کا ایک لفظ ہے اور اس کا مطلب خدا کی طرف صفات انسانی منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرنا ہے۔ اسکے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا میں ان صفات میں سے جو انسان میں پائی جاتی ہیں۔ کوئی صفت بھی نہ ہو تا خدا کا تصور ہمارے لیے ایک بالکل خالی از معنی تصور ہوگا۔ کیونکہ اگر اس کی صفات میں سے کوئی صفت بھی ہم میں اور اس میں مشترک نہ ہو تو ہم کس طرح کہہ سکیں کہ اس میں فلاں صفت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ اس صفت کا احساس یا عرفان(شناخت، پہچان) انہیں صفات معلومہ کے وسیلے ہو سکتا ہے جن کا تجربہ ہم خود رکھتے ہیں پس صفات انسانی کا خدا کی ذات میں پایا جانا اس بات کے لیے لازمی امر ہے کہ ہم الہی تصور کو گرفت کر سکیں۔ ہم اپنے حواس کے تجربے کی بنا پر دیگر مخلوق سے کم و بیش وہی حواس منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کر سکتے ہیں جن کا تجربہ ہمیں خود حاصل ہے۔ لیکن کوئی حس جو ہمارے سلک تجربہ میں منسلک نہیں کسی مخلوق پر چسپاں نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہم وہ عقلی اور دماغی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں جو خود رکھتے ہیں اوروں میں مختلف اندازوں اور دروں میں تسلیم کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا مخلوق یا کوئی ایسی ہستی ہمارے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) میں نہیں آسکتی جو اپنی سرشت(عادت، مزاج) اور ساخت اور فطرت میں ایسی قسم کی ہو کہ وہ ہمارے تجربے کی حدود سے بالکل باہر ہو اور اس کی صفات اور ہماری صفات میں کسی طرح کا اشتراک(شرکت، حصہ داری) نہ ہو۔ہماری قوت متخیلہ(جہاں خیال پیداہوا) ایسی ایسی ہستیوں کا تصور جو ہمارے تجربے سے بلند و بالا ہوں قیاس میں تو لاسکتی ہے پر وہ ہمیشہ اسی سرمایہ سے کام لیتی ہے جو ہمارے مخزن(خزانہ کی جگہ، گودام ، ذخیرہ) علم میں جمع ہے جو باتیں اس ذخیرے میں موجود ہیں قوت متخیلہ (جہاں خیال پیداہوا) انہی کو لیتی ہے انہی میں سے بعض کو بعض نسبتوں اور اندازوں کے ساتھ ترکیب دے کر ایک اور ہستی کی تصویرآئینہ دل پر کھینچ دیتی ہے۔ لیکن ایک نیا سرمایہ جو کبھی اس کےتجربے میں نہیں آیا پیدا کرنا اس کےلیے ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ ناممکن کو احاطہ امکان میں لانا محال ہے۔ پس اگر ہم کسی حالت میں اور کسی طرح خدا کے تصور کو گرفت کر سکتے ہیں تو وہ ضرور انہیں صفات کے وسیلےسے ممکن ہوگا جو ہم میں اور اس میں مشترک(ملتا جلتا) ہیں۔ اور کلام الہی نے اس بات کو بڑی خوبصورتی اور صحت سے ادا کیا جب یہ کشف(ظاہر کرنا، پردہ اٹھانا) ہم کو مرحمت(مہربانی، رحم و
کرم) فرمایا کہ "انسان خدا کی صورت پر بنا ہے۔ یعنی اس میں اور انسان میں کئی صفتیں مشترک ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسیحی نوشتوں کے مطابق خدا کو جاننا انسان کے لیے ممکن ہے۔
اور یہ اعتراض کہ ہم صرف انسان کی نیک صفتوں کو ایک لامحدودطور پر کسی اندیکھی ہستی سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرتے ہیں اور بس اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ہستی ہے ہی نہیں۔ ہم حسن کا تصور رکھتے ہیں۔ ایک شاعر تمام لوازمات حسن کو ایک قیاسی شخص میں بھی دیتاہے اور ایک جمال عدیم المثال اس سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرتاہے۔ کہ کوئی خاصہ(عادت،صفت،خصلت) یا رعایت حسن کی باقی نہیں رکھتا۔ اب یہ تصویر ایک طرح محض ذہنی ہے ۔ تاہم کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس شاعر کا تصور کسی شخص میں بھی پورا نہیں ہوتا۔ کیا معترض نے تمام بنی آدم کو دیکھ لیا ہے؟ انسانیت کے تمام شریف اوصاف کو ایکجا جمع کرتا۔ اور ہر نقص سے انہیں صاف اور جہاں تک مرغ دہم پرواز کر سکتا ہے وہاں تک انہیں بلند کرنا اور پھر انہیں ایک کامل شخصیت میں بھرنا اوریوں اس روحانی کمالیت کا جسے ہم خدا کہتے ہیں۔ تصور پیدا کرنا جس قدر معتقدان (تھی ازم THEISM ) کے لیے اعتراض کا باعث ہے۔ اسی قدر ان حامیان الحاد (سیدھے راستے سے کتراجانا)کےلیے بھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کسی ہستی میں بھی پوری نہیں ہوتی ہیں۔
___________________
تیسراباب
سبب اوّل
اس دلیل کو مفصّلہ ذیل صورت میں پیش کر سکتے ہیں۔ ہم اس دنیا میں علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کا سلسلہ دیکھتے ہیں۔ او ر اس سلسلے پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہےکہ ہر معلوم کی کوئی نہ کوئی علت ہوتی ہے۔ یہ تمام عالم بہ ہیئت مجموعی ایک معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) ہے۔ لہذا اس معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)کی بھی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے۔
لیکن قبل ازیں کہ ہم آگے بڑھیں اس بات کا سمجھ لینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ علت اور معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) سے ہماری کیا مرادہے ۔ کیونکہ ہاج صاحب کے قول کے مطابق اس دلیل کا سارا دارومدار اسی بات پر منحصر ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ اس بحث میں یہ الفاظ کن معنی میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب ہم کسی شے کو دوسری شے کے علت یا سبب بتاتے ہیں توہم تین باتیں اسکی نسبت مانتے ہیں۔
1۔ کہ وہ ایک قیاسی شے نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی وجود ہے۔
2۔ کہ وہ کسی خاص نتیجہ یا معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کو پیدا کرنے کی طا قت رکھتی ہے۔
3۔ اور کہ وہ طاقت نتیجہ زیر بحث کو وجود میں لانے کےلیے کافی دوافی ہے۔اور اس کا ثبوت یہ ہےکہ ہمارا علم النفس اس پر گواہی دیتاہے ۔
کیونہ ہم خود موجد(ایجاد کرنے ولا) ہیں بعض نتائج کے اور ہماراتجربہ اس خصوص میں یہ ہےکہ :
1۔ جب ہم بعض نتائج کو پیدا کرتے ہیں تو ہر سہ صفات مذکورہ بالا ہم میں پائی جاتی ہیں۔
2۔ کہ اس امر پر تمام بنی آدم کی عالمگیر شہادت یہی ہے کہ یہ الفاظ انہیں معنوں میں استعمال کئے جاتے ہیں۔
پس اگر معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)سے وہ واقعہ یا حادثہ مراد ہے جو اپنا موجد(ایجاد کرنے ولا) آپ نہیں بلکہ اسے ایک علت یا سبب سے ظاہر کیا ہے۔ اگر علت سے وہ شے مرادہے جو صفات مذکورہ بالا سے موصوف ہے۔ اور جس کی طاقت نے اس واقعہ کو پیدا کیا تو یہ نتیجہ لازمی اور لابدی ہے کہ اس عالم محسوسات کا سبب اول موجود ہے جس نے اپنی قدرت سے موجودات کو پیدا کیا۔
ہم اس نتیجے تک اس طرح پہنچتے ہیں کہ جب ہم ایک طرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اورہمارے ابنائےجنس اپنی قوت ارادی سے مختلف قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ جب ہم ایک طرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری قوت ارادی موجد(ایجاد کرنے ولا) کئی نتائج کی ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ دیکھتے ہیں کہ اس عالم میں بہت سے ایسے نتائج ہیں جن کا سبب علت انسان کی قوت ارادی تو ہم خواہ مخواہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ نتائج بھی کسی ہستی کی مرضی یا ارادے کی طاقت سے وقوع میں آئے ہیں۔ بات غور کےلائق یہ ہے کہ ہمارا علم النفس ہم پر یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ جس نے ان نتائج کو پیدا کیا ہے وہ ایک مرضی اور ارادے والی ہستی ہے۔ ہم سلسلہ علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کو پکڑے پکڑے کڑی در کڑی کتنے ہی پیچھے کیوں نہ چلے جائیں۔ ہماری عقل کسی فزیکل یعنی مادی سبب پر ٹھہر کر کبھی مطمئن نہیں ہوگی۔بلکہ وہ ایک ایسے سبب کی محتاج اور متلاشی(تلاش میں رہنا) رہے گی جو مادے سے جدا ہے۔ اور کیوں مادے کو سبب اولاً نہیں ماننا چاہتی؟ اس لیے کہ اس میں ارادہ یا مرضی نہیں ہے۔ اب کسی مادی شے کو سبب اول ماننے سے انکار کرنا اور کسی صاحب ارادہ ہستی کا جو یاں ہونا ہماری عقل کا ایک ضروری خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے۔ میٹلینڈ صاحب نے جن کی ملدلل کتاب سے ہم نے اس آرٹیکل کے تیار کرنے میں بہت مدد لی ہے ایک عمدہ مثال نے اس دعوے کی توضیح کی ہے۔ ایک شخص بندوق کی گولی سے مارا گیا ہے۔ سوال برپا ہوتاہے کہ کس نے اس شخص کو مارا؟ جواب ہے گولی نے۔ اب کیا ہم گولی کو سزا دیں؟ ایسا کرنا سراسر حماقت(بے وقوفی) ہوگا۔ اسمیں شک نہیں کہ گولی اس شخص کی موت کا ایک سبب تھی مگرمحض ایک فزیکل سبب تھی۔ پس سزا کےلیے ہم گولی کو نہیں پکڑتے بلکہ کسی اور ہی مجرم کی تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح نہ ہم بارود کو نہ گھوڑے کو نہ کُندے کو اور نہ کسی اور چیز کو سزا دیتے ہیں بلکہ اس کو جس کی
مرضی نے بندوق کے سارے ٹکڑوں کو حرکت دی۔ ذمہ داری جو انسان کی ذات کا لازمی خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے مرضی یا ارادے ہی کو ہر نتیجے کا اصل سبب ٹھہراتی ہے۔
اب جب ہم نیچر کے کارخانے پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں عجیب قسم کے اظہاروں سے پر نظر آتاہے۔ اور ہم پوچھتے ہیں کہ یہ چیزیں کہاں سے پیدا ہوئیں؟ کیا سائنس کوئی جواب دیتی ہے؟ ہاں وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو نتائج تم دیکھتے ہو وہ فلاں اسباب کا نتیجہ ہیں وہ فلاں اسباب کا حتیٰ کہ ہم گزشتہ زمانوں کے دوروں میں سے گزرتے گزرتے اس جگہ جا پہنچتے ہیں جہاں ہم کو مادہ بصورت بخار یا بھاپ کی حالت میں دکھائی دیتاہے (اس پر ہم آگے چل کر تحریر کرینگے)۔ یہاں پہنچ کر سائنس ٹھہر جاتی ہے اور جب ہم اس سے کہتے ہیں کہ آگے چل تو وہ کچھ جواب نہیں دیتی ۔ لیکن ہم کو اس سے تسلی نہیں ملتی ۔ چنانچہ ہم پھر یہ پوچھتے ہیں کہ چیز جسے سائنس (کاسمک وپیرس COSMIC VAPOURS ) کہتی ہے کہاں سے آئی ۔ جب سائنس اس کا کچھ جواب نہیں دیتی تو ہم اپنی عقل کے طبعی اصولوںپر غور کرتے ہیں تا دیکھیں کہ اس معاملے میں وہ بھی ہماری مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ اب دو باتیں ہمارے سامنےآتی ہیں۔ ایک یہ کہ یا تو ہیولا(ہر چیز کا مادہ،ماہیت، اصل) کا بخار کی صرت میں ہونا ازل سے ہے یا کسی ہستی کی قوت نے اسے خلق کیا ہے۔ اگر ہم اسے ازلی مانیں تو یہ اعتراض پیدا ہوتاہے کہ اگر یہ بخا ر ازل سے تھا تو کسی طرح بغیر خارجی ملداخلت کے اپنی صورت کو تبدیل نہیں کر سکتاتھا۔ کیونکہ جس نے ازل سے اس وقت تک خود بخود اپن شکل کو تبدیل نہ کیا یا نہ کر سکا اس سے آئندہ میں کہاں امید ہو سکتی تھی کہ وہ دخانی حالت کو چھوڑ کر نئی شکلیں اختیار کرے گا۔پر ہم یہ جانتے ہیں کہ مادہ ہمیشہ اس بخار کی سی حالت میں نہیں رہا بلکہ ایک وقت ایسا آیا جب اس نے اپنےتئیں اس عجیب عالم جو ہم دیکھ رہے ہیں تبدیل کیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اس وقت ایک خارجی طاقت نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہا ویسا بنایا ۔ اس سے لوّہ کی لزلیت کا انکار لازم نہیں آتا تاہم اتنا ضرورثابت ہوتاہےکہ مادے کو موجودہ صورتوں میں لانے کے لیے خارجی طاقت کا وجود لازمی امر ہے۔ اور اگر ہم دوسری بات کو مانیں یعنی یہ کہ اسے کسی اور ہستی نے خلق کیا ہے تو نتیجہ صاف ہے۔ اب وہ طاقت جس نے مادے کو موجودہ صورتیں عطا کیں یا اسے ایسا خلق کیا ہے وہ وہی صاحب ارادہ اور قادرمطلق (بےقید)سبب اول ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
ا سپر معترضوں نے یہ حملہ کیا ہے علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کا مسئلہ صرف تجربہ انسانی سے مستنبط کیا گیا ہے۔ لہذاجس طرح تجربہ محدود ہے۔ اسی طرح ا س مسئلے کو بھی محدود سمجھنا چاہیے ۔ معترض کہتاہے کہ ہمیں صرف ان باتوں کا تجربہ ہے جو ہمارے کرے پر واقع ہوتی ہیں۔ پس جو کچھ ہمارے تجربے اور مشاہدے کی حدود سے باہر ہے اس کی نسبت ہم کچھ نہیں جانتے ۔ پس یہ کہنا کہ جو کچھ ہمارے کرے پر گزرتا ہے وہی تمام یونیورس(دنیا) میں گزرتا ہے ۔ چھوٹا منہ بڑی بات مصداق(وہ چیز جو کسی کی صفائی ثابت کریں) بنناہے لہذا اس بنا پر کہ اس دنیا میں ہر نتیجے کا یاک سبب ہوتاہے یہ نتیجہ عامہ مستنبط کرنا کہ اسی طرح تما م یونیورس کا بھی کوئی نہ کوئی ہوگا درست نہیں۔ ہم آگے چل کے دیکھے گے کہ موجودات کی ترکیب اور ترتیب ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسباب و نتائج کے سلسلے سے گزر کر ایسے سبب کی تلاش کریں جس کی بناپر انتظام و ترتیب کا مئسلہ حل ہو جائے۔ مگر اس موقع پر یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ اصول کہ ہر معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کی ایک علت ہوتی ہے تجربے سے اخذ
نہیں کیا گیا۔ گو تجربے نے اس کی تائیدار تصدیق کی ہے۔ یہ اصول مرکوز فے الروح ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں۔ کہ سلسلہ علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کو دیکھ کر یہ اصول دل میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس اصول مخلوط(ملاجلا، گڈمڈ) بالطبع نے اسباب و مسببات(مسبب کی جمع، سبب کیا گیا) کے راز کو ہم پر روشن کردیا ہے۔ افلاطون اور ارسطو نے اس دلیل کے زور کو پہچانا اور اس کے نتیجے کو قبول کیا۔ باستنتائے معدودے(گناگیا، شمار کیا گیا)چند تمام علمائے متقدمین اور حکمائے متوسطین اور فضلائے متاخرین اس مئسلے کو جیسا کہ ہم نے پیش کیا ہے مانتے آئے ہیں۔ پس چند اشخاص کے انکار سے ان صداقتوں(سچائی،خلوص) کی صحت اور ہدایت پر نقص نہیں آتا۔
ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اصول علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) سے خدا کی ہستی کو ثابت کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ نہیں کہ ہر ہستی یا وجود کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتاہے۔ ان کا صرف یہ دعویٰ ہے کہ جو شے تغیر پذیر ہے۔ جس میں تبدیلی نظر آتی ہے جو مستقل بالذات نہیں ہے وہی محتاج ایک سبب کی ہے اور اسی کو اس کی ہستی اور وجود کا موجد (ایجاد کرنے ولا)کہنا چاہیے۔ ہر وجود جو آغاز رکھتاہے اور جس کی ابتدا سراغ لگانے سے معلوم ہوجائے معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)ہے اورمحتاج اپنی علت کا ہے۔ ہماری لائے میں یہ بات ایسی بد یہی اور بین ہے کہ اس کا انکار کرنا چشمہ آفتاب کو شب دیجو ربتانا ہے۔ انگلستان کے مشہور فلاسفر ہنیومؔ نے اس دلیل پر اعتراض کئے ہیں۔ مگر انہوں نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ ا معنی میں ہر معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کی علت ہوتی ہے ان کی وقت یہ تھی کہ انہوں نے تجربے کی حدود کے باہر سلسلہ اسباب و نتائج کی کڑیوں کو کس سبب اولیٰ تک پہنچتے نہ دیکھا اور نہ اس بات کو مانا کہ علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کی بنا پر سبب اول کو ماننا ایک اصول مرکوز فے الروح ہے۔
اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یونیورس ایک حادث وجود(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہے کہ وہ ازل سے نہیں ۔ تو یہ نتیجہ صاف ہے کہ وہ معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) ہے اور محتاج اپنی علت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ ثابت ہو سکتاہے یا نہیں کہ یونیورس ایک معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) ہے کہ اس پر جا بجا حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہونے کی مہر لگی ہوئی ہے؟ اس سوال کاجواب ہم یونیورس سے مانگےگے اور اس کے جواب کو اس اہم سوال کا فیصلہ سمجھے گے ۔ پروفیسر فلنٹ صاحب فرماتے ہیں (اور ان کی کتاب میں سے ہم آگے بہت کچھ اہل مذاق کی نذر کرے گے) کہ جتنی چیزیں حواس سے محسوس کی جاتی ہیں وہ سب ابتدا رکھتی ہیں اور کوئی الہ آج تک ایسا تیار نہیں ہوا جس نے یہ ثابت کیا ہو کہ جن اشیا کا علم ہم کو حواس خمسہ کے وسیلے حاصل ہوتاہے وہ کسی سبب کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس طرح سائنس نے یہ ثابت کر دیا کہ دنیا کی عمر چھ ہزار برس کی نہیں بلکہ وہ بہت مدت سے ایسی چلی آرہی ہے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی ثابت کر دیاکہ وہ ازل سے نہیں بلکہ حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) شے ہے۔
اب اس دعوے کے ثبوت میں کئی شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں اول جو تاریخ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور دوئم و ہ جو علوم جدیدہ سے ماخوذ کی جاتی ہیں۔ بخوف طوالت ہم سب دلائل کا مفصل بیان نہیں کر سکتے ۔ صرف ایک آدھ کا مفصل بیان کرے گے اور باقیوں کا مختصراً۔
1۔ تاریخ ا س بات پر شاہد ہے کہ یہ دنیا اور خصوصا ً بنی نوع انسان ہمیشہ سے یعنی ازل سے اس دنیا پر موجود نہیں۔ البتہ جیالوجیاور تھیوری آف ایولیوشن نے ہزاروں کی جگہ لاکھوں سال ثابت کردئے۔ تاہم اس بات کو ثابت نہیں کیا اور نہ کر سکتی ہے کہ انسان ازل سے ہے۔ ڈارون صاحب کا وہ کرم جس سے رفتہ رفتہ کئی صورتوں میں سے گزر کر آخر کار انسان برآمد ہوا اسی طرح اور اسی درجے تک ایک سبب قائم بالذات کا محتاج ہے جس قدر عیسائیوں کا آدم جو پہلے پہل تمام انسانی قائےکے کملل کے ساتھ پیدا ہوا۔
2۔ علوم طبیعات کے ماہر باوجود یہ کہ اپنے تجربوں کے وسیلے سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ زندگی خود بخود پیدا ہو جاتی ہےقائل ہو گئے کہ یہ دعوئے صحیح نہیں ۔ چنانچہ وہ اسے پائہ ثبوت تک پہنچانے میں قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) نکلے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ زندگی آپ ہی آپ وجود میں آجاتی ہے۔
3۔ سائنس کی شہادت جس کا بیان کسی قدر مفصل صورت میں کیا جائےگا۔
مثلاً جیالوجی (علم طبقات الرض کو لو اور دیکھو کہ وہ کیا کہتاہے۔اس سائنس کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتاتھا کہ پہاڑ زمین کے ہم عمر ہیں یاپیچھے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت کوئی یہ دعوے کرتا کہ پہاڑ ازل سے ہیں تو کون اس کے دعوے کی تردید (رد کرنا ، جواب دینا)کرتا۔ لیکن اب جیالوجی ہم کو صاف صاف طورپر بتا رہی ہے کہ وہ کیسی کیسی حالتوں میں اور کون کون سے زمانوں میں پیداہوئے ۔ وہ جاندار جو قدیم زمانوں میں پیدا ہوئے اور صفحہء عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اب پھر سائنس کی مسیحائی کے طفیل(وسیلہ ، بدولت، سبب) سے مردوں میں سے جی اُٹھے ہیں اور اپنا حساب دے رہے ہیں۔ لیکن سائنس اسی جگہ تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ان جانداروں کے زمانے سے پرے نکل جاتی او رعقاب کی طرح اڑتی ہوئی ان زمانوں میں جا گھستی ہے جبکہ ہنوز(ابھی تک، اس وقت تک) سورج اور زمین اور ہوا میں کوئی امتیاز(فرق) نہیں کیا جاتاتھا ۔جبکہ مادہ ٹھوس صورت میں موجود تھا۔ یعنی یارقیق(نرم، لطیف، پتلا) سیال یا بھاپ کی صورت میں پایا جاتاتھا۔ اور بڑھتے بڑھتے ان ایام میں قدم جادھرتی ہے جب آفتاب اور مہتاب ۔ ستارے اور سیارے اپنے مدارج پر مامور ہو کر سلک انتظام میں منسلک نہ ہوئے تھے۔ اب جب کہ سائنس یہ گواہی دیتی ہے کہ موجودات کی مختلف صورتیں ازلی نہیں بلکہ تغیر و تبدل کے سانچے نے ان کو ایسا بنایا ہے تو یہ نتیجہ لازمی معلوم ہوتاہے کہ وہ جو ازلی ہے اور مستقل بالذات ہے وہ سلسلہ محسوسات سے باہر ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تمام اشیا ایک دور دراز عرصے میں ایسی بنیں تاہم وہ زمانہ اس قدر دور نہیں کہ انسان کا قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) اس تک نہ پہنچے۔ اس موقع پر یہ کہا جا سکتاہے کہ ممکن ہے کہ مادے کی تبدیلیاں نیچر کے کسی ذاتی یا طبعی خاصے پر منحصر ہوں۔ اس کا ذکر ہم کسی قدر اوپر کر آئے ہیں مگر یہاں اعتراض کو ذرا مفصل صورت میں پیش کرتے ہیں۔ مثلا انگلستان کے مشہور فلاسفر جان سٹوراٹ مل نے یہ اعتراض کیا ہے
کہ نیچر میں دو عنصر ELEMENTSپائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک غیر متغیر ہے اوردوسرا تغیر پذیر۔ لہذا جس قدر تغیرات اور تبدلات نظر آتے ہیں وہ دوسرے عنصر سے وابستہ ہیں۔ لیکن وہ عنصر جو غیر متبدل ہے جہاں تک ہم کو علم ہےکسی سبب کا نتیجہ نہیں۔ پس کسی شے کا وہ عنصر جو تبدیل ہوتارہتاہے اس کی ظاہری شکل اور اس کی وہ خاصیتیں ہیں جو مختلف اجزا کی کیمیائی ترکیب سے پیدا ہوئی ہیں ۔ لیکن اس میں وہ عنصر بھی پایا جاتاہے جو غیر متغیر ہے یعنی وہ مجردات(غیر جسمانی وجود) مع اپنی ذاتی خصائص کے ہیں جن سے وہ مشتمل ہے۔ ان مجردات(غیر جسمانی وجود) کی ابتداکا علم ہم کو نہیں ہے اور چونکہ وہ انسانی علم کی حدود کے اندر وجود میں نہیں آئے لہذا تجربے میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی۔ اور نہ مشاہدے میں کوئی ایسی نظیر دیکھائی دیتی ہے جس کی بناپر ہم وہ خاصیتیں جو ہمارا مشاہدہ تبدیل پذیر پر عنصر سے ملحق(لگایا ہوا، جُڑا ہوا) دیکھتا ہے غیر متغیر عنصر پر چسپاں کریں۔
یہ ان کے اعتراض کا مطلب ہے ۔ اس کے جواب میں کئی باتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
ا۔ کہ جس کو غیر متبدل (تبدیل) عنصر کہا ہے ہمیں اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ہمارا علم اب تک جدید آلات کے وسیلے صرف عناصر مفردہ تک پہنچا ہے۔ لیکن نا ممکن نہیں کہ جن کو ہم مجرد(اکیلا، تنہا) یا بسیط(کشادہ،وسیع) عنصر سمجھتے ہیں۔ وہ بھی بجائےخود تبدیل شدہ صورتیں ہوں ۔ جو ایسی حالتوں میں پیدا ہوئیں کہ اب ان کی تشریح کرنا ہمارے موجودہ آلات کی طاقت سے بعید ہے۔ پر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ مفرد ہیں تو بھی یہ دعوے نہیں ہو سکتا کہ ان کی موجودہ صورت آخری اور بے تبدیل صورت ہے مانا کہ آکسیجن میں صرف آکسیجن کے ذرے پائے جاتے ہیں تاہم کسی نے ان کے اس حصے کو جو غیر متبدل ہے محسوس نہیں کیا۔ کسی نے ذرات کی آخری صورت کو نہ اب تک دیکھا نہ سنا نہ چھُوا اور نہ چکھا ہے ۔ اب اگر نیچر سے باہر ایک خارجی سبب کا ماننا دائرہ تجربہ سے باہر بنایا جاتاہے تو نیچر میں ایک غیر متبدل عنصر کا ماننا بھی کچھ کم تجربہ کے خلاف نہیں۔
2۔ پر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ نیچر میں ایک غیر متبدل(تبدیل نہ ہونے والا) عنصر پایا جاتاہے تو بھی مادے کا یہ بے تبدیل عنصر موجودات کی کافی شرح نہیں کر سکتا۔ کیونکہ موجودات میں عقل و حکمت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ انتظام کس نے قائم کیا؟ مادے کے ذرات ایسے بے شمار ہیں۔ کہ ان کا گننا محال (ناممکن ، مشکل) ہے ۔ اور وہ فضائے عالم میں بکھرے پڑے ہیں۔ مگر یونیورس جوان ذرات سے بنا ہے ایک قسم کی وحدت ظاہر کرتا ہے۔ یعنی اس کی بو قلمونی میں یکتائی کا رشتہ پھرا ہواہے۔ اس کا نگا رنگ صنعتوں میں ایک ہی صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) کی حکمت کی شہادتیں ملتی ہیں۔ ان ذرات کوکون سلک نظام میں پروگیا؟ کیا ان ذروں نے مل کر کونسل کی تھی کہ ہم ایک یونیورس تیار کریں؟ ایسا کہنا حماقت ہے ۔ تاہم اس دعوے کی نسبت ہزار درجہ بہتر ہے جو تکوین عالم کی نسبت یہ شرح پیش کرتاہے کہ موجودات کا کل انتظام اتفاق (CHANCE)کا نتیجہ ہے۔ اگر کڑوڑ مرتبہ کوشش کی جاتی کہ اتفاق سے یہ نتیجہ پیدا ہوا ہو تو کڑوڑ مرتبہ میں سے ایک مرتبہ بھی اس نظم ترکیب کا پیدا ہونا ممکن نہ تھا۔ اب شاید کوئی یہ اعتراض کرے کہ تمہاری دلیل سے اگر کچھ ثابت ہوتاہےتو یہ ہوتا ہےکہ مادے کے ساتھ ساتھ ایک اور ہستی بھی ہے جو زیور عقل اور حکمت سے بہرہ ور ہے اور جس کے تصرف سے مادے کو موجودہ صورتیں نصیب ہوئیں یعنی دو وجود قائم ہو گئے ایک مادہ اور دوسرا وہ
جس نے مادے کو مختلف صورتیں عطا کیں۔ پر اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہستیوں کو ازلی ماننا صرف اس وقت زیبا ہوتاہے جبکہ ان میں سے ایک ہستی دوسری کے وجود کو پیدا کرنے کے لیے کافی نہ ہوتی ۔ علما کہتے ہیں کہ انتظام موجودات میں استعمال اسباب کی نسبت ایک قسم کی کفایت شعاری پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں نیچر ایک سبب سے اپنا کام نکال سکتی ہے۔ وہاں زیادہ اسباب کام میں نہیں لاتی ۔ خواہ یہ قانون ہماری بحث سے تعلق رکھے یا نہ رکھے ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیوں دو ہستیوں کو ازلی مانیں تاکہ وقت کہ یہ بات ثابت نہ ہو کہ ان میں سے ایک دوسری کے ایجاد کا کافی سبب نہیں۔ اب ان دونوں ہستیوں میں سے وہ کونسی ہستی ہے جو موجد(ایجاد کرنے ولا) دوسری کی ہوسکتی ہے۔ مادے کے حق میں یہ بات بخوبی ثابت کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ہستی ۔ اور دنیا کی ترتیب اور انسان کی عقل کا موجد (ایجاد کرنے ولا)نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب ہم اس کے بے ترتیب اور منتشر(بکھرنے والا، پھیلنے والا) ذّروں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ مشکل بلکہ محال معلوم ہوتاہے کہ وہ خود بخود نظام موجودات کو پیدا کرتے ۔ لیکن اگر ایک ازلی عقل والی ہستی مان لی جائے جو غیر محدود قدرت سے بھرپور ہوتو پھر اس بات کا ماننا نا ممکن نہ ہو گا کہ اسی عقل اول نے نہ صرف تمام مختلف صورتوں کو اپنی حکمت کے سانچے میں ڈھالا بلکہ ان کے ہیولا(ہر چیز کا مادہ،ماہیت، اصل) کو بھی خلق کیا۔ اگر یہ ماننا مشکل نہیں کہ سورج اور چاند ستاروں اور سیاروں کو اس عقل نے مختلف صورتیں اور مختلف قد۔ مختلف حرکات اور سکنات عطا کئے۔ تو اس بات کے ماننے میں کونسی مشکل ہے کہ ان کو ہست بھی اسی نے کیا۔ البتہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نے کس طرح ان کو خلق کیا۔ لیکن ہماری لاعلمی اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ انہیں پیدا ہی نہیں کر سکتی تھی۔ جو شخص لاکھ ذرات کو جو خلا میں ہماری حسات کے دائرے سے باہر منتشر(بکھرنے والا، پھیلنے والا) پڑے ہیں جداگانہ اور مستقل بالذات اور ازلی ہستیاں مانتا ہے ۔ وہ ہمیں ایسی بات ماننےکو کہتا ہے جو ایک واجب الوجود ہستی کو قبول کرنے کی نسبت ہزار ہا درجہ پرراز اور مشکل ہے۔
3۔ جتنے گمان مادے کی نسبت حکما نے پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہٰں جو اس کی ازلیت کو ایسے طور پر ثابت کرے کہ شک وشبہ کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ بلکہ بر عکس اس کے ہر گمان اور ہر تھیوری اس کے حدوث کی تائید کرتی ہے۔ جگہ نہیں کہ ہم اس بحث کو رقم کریں جو اس خصوص میں مختلف عالمانہ خیالات سے وابستہ ہے۔ فقط یہ کہنا کافی ہے کہ وہ مادے کے حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہونے کی مخالفت نہیں کرتے ۔ بلکہ سائنس کے جدید نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ہرذرہ مصنوع(صنعت کیا گیا، بنایا ہوا) ہے اور صنعت الہی پر دلالت(علامت، سراغ) کرتاہے۔ مثلاً سرجان ہر شل صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب سے نیچر کا بازار گرم ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اس کے کسی عمل اور کسی انتظام نے مادے کے کسی ذرے میں کسی طرح کا فرق پیدا نہیں کیا۔ پس نہ ہم ان ذرات کے وجود کو اور نہ ان کی خاصیتوں کو جو ہمیشہ یکساں نظر آتی ہیں کسی نیچرل سبب سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کر سکتے ہیں۔ بلکہ ہر ذرے کا اپنی قسم کے دیگر ذرات کی مانند ہونا یہ ثابت کرتاہے کہ اس کو کسی صانع حکمت(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) نے ایسا بنایا ہے جیسا کہ وہ ہے اور اس سے یہ خیال کا فور ہو جاتاہے کہ وہ ایک ازلی ہستی ہے ۔ اب یہ فیصلہ کن بیان اہل سائنس کا دو باتیں پیش کرتاہے ایک یہ کہ ذرات کی موجودہ صورتیں فطرت کے ذاتی عمل کا نتیجہ نہیں۔ اور دوسری یہ کہ جہاں تک امتحان کیاگیا ہے وہاں تک یہی ثابت ہوا ہےکہ وہ حکمت الہی کے کارخانے میں تیار کی گئی ہیں۔ کیونکہ ہر ذرہ دوسے ذرات سے بلکہ تمام یونیورس سے ایک عجیب
رشتہ رکھتا ہے ۔ یعنی اس میں وہ قابلیت اور وصف(اچھائی،عمدگی،خوبی ) پایا جاتاہے جس کے سبب سے وہ دوسرے ذرات سے مل کر یونیورس ک موجودہ اشیاء کو بناتاہے پر یہ قابلیت اس میں کہاں سے آئی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ قابلیت اس کو اس صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) بے چون وچرانے(کسی عذر کے بغیر، بے دلیل) دی جس نے اسے خلق کیا ہے۔ اب ہم دکھائے گے کہ یہ سبب اوّل واحد سبب ہے۔
1۔ ہم نے علت و معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)کے مسئلے کے ضمن میں خدا کی حکمت کا کسی اور تذکرہ کر دیا ہے ۔ گو وہ بجائے خود ایک دلیل علیحدہ اس امر کی ہے اور اس کا زیادہ تذکرہ آئندہ کیا جائے گا۔ لیکن سطور مذکورہ بالا میں الہی حکمت کے متعلق اس بات کا ذکر کیاگیا تھا کہ تمام عالم محسوسات سے تدبیر کی وحدت ٹپکتی ہے۔ یعنی معلوم ہوتاہے کہ ایک ہی شخص نے اس سے بنانے کی تجویز کی کیونکہ اگر مختلف اشخاص کی تجویز ہوتی تو اس میں تخالف(باہم مخالف ہونا، مخالفت) اور تبائن (فرق، اختلاف) کسی نہ کسی حصے میں راہ پاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یونیورس کے تمام اجزاا میں ایک ایسی تطبیق(مطابق کرنا، مقابل کرنا) اور اتحاد موجود ہے جس سے صاف صاف معلوم ہوتاہے کہ تمام اشیاء مل کر ایک ہی مدّبر کے ارادے اور تدبیر کو پورا کر رہی ہیں۔ تمام اسباب ثانیہ میں اسی مدبر کی قدرت کام کرتی ہے۔ اگر سچ پوچھو تو اسباب ثانیہ نفسہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اسی سبب اول کی قدرت ہر مادی طاقت اور ہر مادسی حرکت میں موجود ہو کر اسباب ثانیہ کو طاقت بخشتی ہے۔ جو لوگ خدا کو صرف موجودہ صورتیں بنانے والا تصور کرتے اور س کی خالقیت کا انکار کرتے ہیں وہ شاید اس بات سے واقف نہیں کہ جب ہم کسی کو سبب اول کہتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے۔ سبب اول وہ ہے جس کے وجود پر تمام دیگر اسباب کی قوتیں اور خاصیتیں منحصر ہیں۔ اور ان کا یہ دعویٰ کہ خدا صرف مادے کو مختلف سانچوں میں ڈھالتاہے یہ ظاہر کرتاہے کہاس کی طاقت صرف مادے کی سطح تک محدود رہتی ہے پر وہ نہیں جانتے کہ مادے کا کوئی حصہ ایسا نہیں کوئی ذرہ ایسا نہیں جس کے اندر باہر وہ قدرت کام نہیں کرتی۔ اس نکتے کی آگے چل کر مفصل تشریح کی جائے گی۔ یہاں صرف اس مطلب کےروشن کرنے کے لیے اس کی طرف اشارہ کیاگیا کہ اگر کوئی اور سبب یا وجود خدا کا ہمسر ہوتاتو ترتیب و انتظام کی وہ وحدت اور یکتائی جو ہر جگہ مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہے قائم نہ رہتی۔ پس وہی اکیلا وہ سبب ہے جس کے وجوہات یا برکات پر تمام خلقت منحصر اور قائم ہے۔
لیکن کئی لوگ مثلاً ہمارے آریہ بھائی مادے کو ازلی مانتے ہیں اور خدا کو خالق ماننے میں جو قباحت(برائی، نقص) وہ محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مادہ نیست سے ہست نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ جہاں کچھ نہیں وہاں سے کوئی چیز برآمد نہیں کی جا سکتی ۔ہم بھی اس اصول کو دل و جان سے مانتےہیں کہ جہاں کچھ نہیں وہاں سے کچھ برآمد نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم اس اصول کو مخلوق موجدوں(ایجاد کرنے ولا) پر چسپاں کرتے ہیں۔ اورہماری رائے میں یہ اصول بھی مخلوق ہے۔ جب ہم نے ایک سبب اول کو جو لا محدود قدرت سے متحلی ہے شروع میں مان لیا تو پھر حالت مطلق (بےقید)نفی کی نہ رہی ۔ اگر وہ نہ ہوتا او رہم کہتے کہ ماخوذبخود مطلق (بےقید)نیستی(ناپید ہونا، فنا ہونا) سے ہست ہو گیا تو ہمارا دعویٰ قابل ِ اعتراض ٹھہرتا۔ پر جب ایک وجود مستقل بالذات اور قادر مطلق(بےقید) موجود ہے تو پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مادہ مطلق (بےقید)نیستی(ناپید ہونا، فنا ہونا) سے ہست ہوا۔ کیونکہ اس کے حدوث سے پہلے ایک وجود ہست تھا۔ ان کے دعوے کا صنعف اس بات سے ٹپکتاہے کہ وہ خدا کی قدرت کاملہ کو محدود کر دیتے ہیں چنانچہ ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ق
قادر مطلق ہے تو وہ نیستی(ناپید ہونا، فنا ہونا) سے ہست کر سکتا ہے تو وہ اس کے جواب میں اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ خدا دناہ بھی تو نہیں کر سکتا کا اس کی یہ نا قابلیت اس کی قدرت کانقص ہے؟ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو صفات خدا کی ذات سےمنسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کی جاتی ہیں اور جن کا علم ہم رکھتے ہیں ان کی فہرست میں وہ صفت داخل نہیں جو موجدار اور منبع گناہ(گناہ جاری ہونے کا مقام) کی ہے۔ لیکن اس کی صفات اس کی ذات کی خاصیت کا پتہ دیتی ہیں۔ پس اس کی ذات میں گناہ کی خواہش کا ملکہ ہی موجود نہیں تو گناہ کرنے کی طاقت کے اظہار کےلیے کوئی موقع نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اگر وہ گناہ کرے تو وہ خدا نہ رہے گا کیونکہ اس حالت میں اس کی ذات میں ایک ایسا اجنبی اور غیر جنس عنصر داخل ہوگا جو اب موجود نہیں۔ گناہ کرنے سے تو اس کی ذات ہی بدل جاتی ہے اب ہمارے آریہ بھائی اسی طرح یہ بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ اگر وہ مادے کو خلق کرتاتو اس کی ذات بدل جاتی اور جس صورت میں ہم اسے اب خدا مانتے ہیں وہ اس معنی میں خدا نہ رہتا۔ جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے تب تک ہمارا یہ عتراض قائم ہے کہ تخلیق عالم کا انکار خدا کی قدرت کے نقص کا اقرار ہے ۔ پھر ایک اور دلیل ہے جس کی بنا پر ہم سبب اوّل کو واحد مانتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سبب اول کو آزاد مطلق(بےقید) ہونا چاہیے۔ یعنی اس کی مرضی ایسی آزاد ہو کہ وہ جو چاہے سو کرے۔ اور وہ ایسا اُسی وقت کر سکتا ہے جب سب واحد ہو کیونکہ اگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اور اسباب بھی اول سے موجود ہوں تو اس بات کا کیا ثبوت ہے۔ کہ وہ کسی بات میں بھی اس کی مرضی سے انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) نہ کرینگے ۔ کیا ثبوت ہے کہ مادے میں کوئی حصہ یا کوئی صفت ایسی نہیں ہوگی جو مزاحمت نہ کرے گی یا ان ارواح میں جو ازلی مانی جاتی ہیں (اور آریہ ان کو ازلی مانتے ہیں)۔ جو اپنی مرضی اور اپنا ارادہ رکھتی ہیں کوئی مقابلہ کرنےوالی روح نہ تھی۔ تجربہ تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ارواح انسانی طرح طرح سے بغاوت کاعلم اُٹھاتی ہیں۔ اور ان احکام الہی کو جنہیں سب من جانب اللہ مانتے ہیں توڑتی ہیں ۔ اگر ان روحوں کو ازلی مانیں تو خواہ مخواہ یہ نتیجہ بر آمد ہو گا کہ خدا کی مرضی اور خدا کی قدرت محدود ہے۔ اور وہ آزاد مطلق(بےقید) نہیں کیونکہ چند ازلی ہستیاں ایسی ہیں جو اس کے ارادوں کو فسخ(منسوخ کرنا) اور اس کی قدرت کو چکنا چور کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر برعکس اس کے ایک ہی سبب کو موجد (ایجاد کرنے ولا)تمام اشیا کا قرار دیں تو یہ مشکل حل ہو جائے گی۔ کیونکہ اس حالت میں انسان کی آزادی غیر مخلوق آزادی نہ ہوگی بلکہ اسی موجد (ایجاد کرنے ولا)اول کو خلق ہوئی سمجھی جائے گی۔ اور انسانی مرضی کی بے اعتدالیوں کی نسبت باآسانی یہ قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) کیا جائے گا کہ اسی حکیم نے اپنی حکمت سے اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے انسان کی مرضی کو آزاد بنایا۔
علاوہ بریں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بہت سے خالی دماغ اہل ِ سائنس جن کی طبع(فطرت، مزاج) سلیم اور رائے صاحب کا زمانہ معتقد ہے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ذرات مادہ کی ساخت و پر داخت سے اگر کچھ ظاہر ہوتاہے تو یہ ظاہر ہوتا ہےکہ انہیں کسی صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) نے اپنی حکمت کےسانچے میں ڈھال کر ایسا بنایا ہے جیسے کہ وہ ہیں تاکہ ان سے اپنے ارادوں کو پورا کرے۔
پھر ان لوگوں کو بھی جو مادہ کو موجد(ایجاد کرنے ولا) تمام اشیا کا مانتے ہیں غور کرنا چاہیے کہ سبب اول کو مادیات کے تسلسل میں ڈھونڈنا بے سود ہے۔ عقل۔ ارادہ اور مرضی اور علم النفس یعنی وہ ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) جو ہم اپنی ذات کے معتلق رکھتے ہیں ۔ ایسی حقیقتیں ہیں جو ہم کو مجبور کرتی
ہیں کہ ہم ایک اعلیٰ کرہ میں پر داز کریں اور وہاں سبب اول کی تلاش کریں۔ اور وہ کرہ روحانیت کا کرہ ہے کیونکہ گو وہ سبب اول جس کا ذکر ہم کرتے آئے ہیں عالم محسوسات میں ہر جگہ موجود ہے ۔ اور اس کے ایک حصے اور ٹکڑے میں اس کی قدرت اور حکمت عیاں ہے۔ تاہم وہ اس سے برتر ہے ۔ وہ مختار کل اور آزاز مطلق (بےقید)ہے۔
1۔ بعض اشخاص نے اس دلیل پر یہ حجت کی ہے کہ تم اس دلیل کے وسیلے ایک سبب قائم بالذات تک جا پہنچتے ہو۔ اور کہتے ہو کہ اس کا کوئی سبب نہیں ۔ پر ایسا کرنا اصل دعوے سے تجاوز(حد سے بڑھ جانا، بے راہ ہو جانا) کرنا ہے۔
بےشک ہم یہی مانتے ہیں کہ وہ جو سبب اول ہے وہ واجب الوجود اور قائم بالذات ہے۔ اور اسباب نہ نتائج کے قانون کا محکوم نہیں ۔ اب اگر یہ قابوب ئا اصول ہم کو یہ نہ بنائے کہ وہ جو قائم بالذات ہے کیوں خود اس قانون کے تابع نہیں تو اس عجز سے اس کی نفی ثابت نہیں ہوتی ۔ ہم سبب او ل کو اس کے نتائج سے پہچانتے ہیں۔ اور علت و معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)کی دلیل کا کام صرف اتنا ہے کہ ہمیں اس ہستی تک پہنچائے جو مستقل بالذات ہے۔ اس کا یہ کام نہیں کہ ہم تو یہ بھی بتائے کہ وہ کیوں مستقل بالذات ہے۔ عقل کا یہ فیصلہ کہ سبب اول کا قائم بالذات ہونا لازی امر ہے اس کے کسی دیگر اصول پر مبنی ہے جس کی وجہ سے وہ سلسلہ اسباب و نتائج کی ناتمامی کو قبول نہیں کر سکتی۔ اور یہ کہنا کہ ا س دلیل کی بنا پر یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہم ایسی علت کو مانیں جو کسی اور علت کی معلول (علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو)نہیں غلط ہے۔ کیونکہ ہماری عقل کو کبھی تسلی حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ ایسے سبب تک نہیں پہنچتی جہاں سلسلہ اسباب و نتائج کا ختم ہو جاتاہے۔ عقل اس سلسلہ سے گزر کر سبب اول پر جا ٹھہرتی ہے اور اسے اپنی مسافت کی آخری منزل سمجھ کر خوش ہوتی اور آرام پاتی ہے۔
2۔ پھر بعض یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ تمہیں اس سلسلہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں ۔ کیونکہ یہ تسلسل اسی عالم محسوسہ میں پایا جاتاہے اور علت و معلول(علت کیا گیا، وہ شے جس کا کوئی باعث یا سبب ہو) کا اصول ہم کر عالم محسوسات کے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور نہ ہمارا یہ کام ہے کہ ہم باہر جانے کی کوشش کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اشائے محسوسہ میں قانون اور ترتیب کی خاصیتں نہ پائی جاتیں تو یہ اعتراض پُر زور اور صحیح ہوتا۔ لیکن سائنس روز بروز ثابت کرتی جاتی ہے کہ کوئی ایسی اشیا یا ایسے واقعات نہیں ہیں جن سے قانون اور ترتیب مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) نہ ہو۔ وہ بتاتی ہے کہ مادہ اور اس کی خصائص بھی ایسی باتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو کسی نے اپنی حکمت سے مقرر کیا ہے ۔ اور انہیں ان کے مختلف موقعوں اور محلوں پر عجیب حسن انتظام سے مرتب کیا ہے جس ایسی کیفیتیں ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں تو یہ اعتراض کہ عقل مجاز نہیں کہ محسوسات کو چھوڑ کر کسی خارجی موجد (ایجاد کرنے ولا)اول کی تلاش کرتی پھر صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
پھر یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس اصول سے اگر کچھ ثابت ہوتاہے تو صرف اسباب و نتائج کا تسلسل ثابت ہوتا ہے مگر سبب اول ثابت نہیں ہوتا۔ اس کےجواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ سب لوگ سبب اول کو مانتے ہیں ۔ بحث اس بات پر کبھی نہیں ہوئی کہ آیا سبب اول ہے یا نہیں ہے۔ بحث ہمیشہ اس بات پر رہی ہے
کہ وہ کیا ہے۔ آیا عقل ہے یا مادہ ۔ اب اسے خواہ عقل کہو خواہ مادہ۔ بہرکیف یہ ضرور ماننا پڑےگا کہ ایک سبب اول ہے کیونکہ اسباب و نتائج کا سلسلہ غیر متناہی ناممکن اور عقل کے خلاف ہے جیسا کہ ہم اوپر دیکھا چکے ہیں۔ پس ہمیں صرف ان دو چیزوں میں سے ایک کو چن لینا ہے ۔ یعنی یا تو ہم مادے کو سبب اول گردانیں یا عقل کو موجد(ایجاد کرنے ولا) واحد تمام اشیا کو قرار دیں۔
___________________
چوتھا باب
ترتیب و تجویز
اس دلیل کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ ترتیب دینے والے پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہے ۔ نظام عالم میں ایک قسم کی ترتیب پائی جاتی ہے لہذالازم ہے کہ اس ترتیب کو مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کرنے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہو۔
تجویز مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) پر دلالت(نشان) کرتی ہے۔ انتظام موجودات سے مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہے کہ اس میں کسی مقصد یا مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تجویز پائی جاتی ہے لہذا لازم ہے کہ اس تجویز کا سوچنے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر طرح کی تجویز میں تین باتیں شامل ہوتی ہیں۔
1۔ وہ مقصد یا غرض جس کا پورا کرنا ملحوظ خاطر ہوتاہے۔
2۔ وہ وسائل جن کے ذریعے سے وہ مقصد پورا کیا جاتاہے۔
3۔ ان وسائل کا استعمال تاکہ مقصد مطلوبہ پورا ہو۔
ایک اور بات غور طلب یہ ہے کہ علما نے ترتیب اور تجویز میں امتیاز کیا ہے ترتیب سے وہ حکمت مراد لی ہے جو دنیا کے عام انتظام میں نظر آتی ہے۔ لیکن تجویز سے وہ حکمت تصور کی ہے جو اس کے خاص حصوں سے مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہے۔مثلاً اعضا دار مخلوق کی ساخت سے ظاہر ہوتاہے کہ کس طرح ہر عضو اپنے کام کو ادا کر رہا ہے اور کیونکر ایک عضو دوسرے اعضا کے ساتھ مل کر کل جسم کو مدد پہنچاتاہے تاکہ وہ علت غائی جو اس کی ہستی سے مقصود ہے برآئے ۔ لیکن ترتیب ہو یا تجویز ہر دوحالتوں میں ایک ہی حکیم حقیقی کی حکمت کام کرتی ہے اور اس دلیل سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سبب اول جس کا ہم ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں ایک ایسی ہستی واجب الوجود ہے جو عقل اور مرضی اور قدرت رکھنے والی ہستی ہے۔
اب اگر تجویز کی یہ تعریف درست ہے تو صاف ظاہر ہے کہ حکمت کا مرکز تجویز کی ہوئی شے میں نہیں پایا جاتا۔ بلکہ اس کا چشمہ تجویز کرنے والے میں موجود ہوتا ہے۔ مثلا ایک خوبصورت تصویر سے جو حکمت ٹپکتی ہے ۔ وہ تصویر میں داخل نہیں۔ تصویر صرف اس حکمت کا مظہر ہے۔ حکمت اس مصور میں پائی جاتی ہے جس نے اس دلکش تصویر کو بنایا ۔ اسی طرح موجودات سے جو حکمت عیاں ہے وہ موجودات کا حصہ نہیں بلکہ اس کا منبع وہ سبب اول ہے جو اس سے علیحدہ ہے۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ خدا کے کام میں اور انسان کے کام میں ایک قسم کا فرق بھی پایا جاتاہے ۔ اور وہ یہ کہ انسان اپنے مقاصد کوپورا کرنے کے لیے مادی اشیا کو گھڑتا اور انہیں آپس میں جوڑتااور باہم ترکیب دیتاہے لیکن خدا ایسا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ زندہ مخلوق کے متعلق زندگی کے اصول سے کام لیتاہے یعنی وہ انہیں زندگی بخشتا جس کی طفیل(وسیلہ ، بدولت، سبب) سے وہ اگتے بڑھتے اور نشوونما پاتے ہیں ۔ تو بھی دونوں حالتوںمیں یعنی انسانی اور الہی کاموں میں حکمت ہی کام کرتی ہے یعنی انسان اپنی محدود حکمت سے تصویر کھینچتا ہے ۔ اور خدا اپنی بے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) حکمت سے انسانی اور حیوانی اجسام تیار کرتاہے ۔ اور یہ حکمت صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) میں ہوتی ہے نہ کہ صنعت میں۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ مقصد کا تصور اس چیز سے جو مقصد کو پورا کرتی ہے پہلے ہوتاہے ۔ پس جس طرح مشین کا تصور مشین کے وجود پر مقدم ہوتاہے ۔ اسی طرح آنکھ کی ساخت کا تصور آنکھ کی ساخت سے پہلے ہونا چاہیے۔ ایک جرمن عالم خوب کہتاہے کہ یہ بات ایک سادہ اور پر مطلب نتیجہ ہے کہ جس درجے تک دنیا کے کاموں سے تجویز کا وجود ثابت ہوتاہے اسی درجے تک یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عقل جو اس تجویز کی جڑ ہے اس سے پہلے موجود تھی اور کہ اس میں مرضی اور قدرت پائی جاتی تھی۔ اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مقاصد اور ان کے وسائل میں جو ربط پایا جاتاہے وہ مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) کی عقل اور ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)کو تسلیم کرنے کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا ۔
یہ خیال کہ عقل کا وجود اس شے کے وجود سے جو عقل کے مقاصد کو ظاہر کرتی ہے پہلے ہوتاہے دو یا دو سے زیادہ ازلی ہستیوں کا مخالف ہے۔ کیونکہ اگر ہم خدا اور مادہ دونوں کو ازلی مانیں تو یہ سوال برپا ہوگا کہ اگر یہ دعوے صحیح ہے تو کیونکر ہو سکتاہے کہ جو مقصد خدا کو اس خلقت سے مقصود تھا اس کا تصور اور اس مقصد کو پورا کرنے کے وسائل ایک ہی وقت میں موجود ہوں کیونکہ خدا اور مادہ دونوں کی الیت یہ دلالت (علامت، سراغ)کرتی ہے کہ خدا جو اپنے مقصد کا سوچنے والا تھا اور مادہ جس کے وسیلے سے اس نے اپنے اس مقصد کو پورا کرنا تھا۔ دونوں برابر برابر ازل سے چلے آئے ہیں۔ پر ہم اوپر دکھا چکے ہیں کہ مقصد کا خیال وسائل پر ہمیشہ مقدم ہوتاہے۔ لہذا وہ جو کسی مقصد کو سوچتا ہے اس کی ہستی ان وسیلوں سے جو اس کے مقصد کوپورا رتے ہیں پہلے ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خدا کا وجود مادے کے وجود سے پہلے ہے ۔
اب ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ دکھائے گے کہ عالم محسوسات میں خداوند کی حکمت کی گواہیان اس درجہ تک موجود ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان کی عقل حیران ہوتی ہے۔ پہلے ہم اس عام ترتیب کی مثالیں پیش کرے گے جو موجودات کے عام حصوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس تجویز کی مثالیں رقم کرینگے جو اشیائے خاص سے ہوا یدا ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ خدا ئے تعالیٰ نے ان اشیاء کو اس لیے مخلوق کیا کہ وہ ان مقاصد کو پور کریں جو اسے منظور تھے۔
ترتیب موجودات
ہم اس موقع پر یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مشہور فلنٹ صاحب نے اس مضمون پر کہا ہے کہ اس کا خلاصہ ہدیہ یہ ظاہرین کریں۔ صاحب موصوف کے خیالات ایسے نادر اور تاثیر بخش ہیں کہ دل چاہتاہے کہ پورے پورے طور پر ان کو کاغذ کے حوالے کریں لیکن بخوف طوالت ایسا کرنا مشکل معلوم ہوتاہے لہذا ہم خلاصے پر اکتفا کرے گے لیکن ان کے مطلب کو اختصار میں فوت نہ ہونگے دے گے۔
پہلی بات جس کی طرف ہم ناظرین کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ جن قوانین پر انتظام موجودات قائم ہے ان کی خاصیتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سب ریاضی کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ مثلاً کشش ثقل کا وہ قانون جو تمام اجسام و اجرام پر خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ۔ دور ہوں یا نزدیک ۔بھاری ہوں یا ہلکے ایک قسم کی حکمرانی کر رہا ہے کیا ہے؟ کیا اس میں علم ریاضی کے بے تبدیل اصول نہیں پائے جاتے ہیں جن کے سبب سے اجرام فلکی آسمان پر اپنی حرکتوں سے وہ شکلیں بناتے جو کانک سگشن سے علاقہ رکھتی ہیں۔اسی قانون یا اصول کی بنا پر اجرام سمادی کی گردشوں کا پتہ ملتا ہے سیارے ہمیشہ بیضری اشکال کے مداروں میں حرکت کرتے۔ اور مشتری کے چاند اپنے حرکتوں سے دائرے بناتے ہیں اور دم دار ستارے کبھی بیضوی شکلوں کےمداروں میں حرکت کرتے ہیں ۔ اور کبھی ان کی حرکت ان شکلوںمیں ہوتی ہے۔ جنہیں ریاضی دان پیرے بلا اور ہائی پیرے بلا کہتے ہیں۔ اسی طرح علم ِ کیمیا میں ایسا حساب پایا جاتاہے جس سے علم ریاضی کے اصول سراسر ٹپکتے ہیں چنانچہ علم کیمیا سے ظاہر ہوتاہے کہ ریاضی کے اصولوں کے مطابق تمام مرکبات جن سے عالم محسوسات مشتمل ہے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) ہیں اور یہی حال حدت اور ثقل کے باہمی تعلق کا ہے (ان کی تشریح آگے چل کر کی جائے گی) اسی طرح قوس قزح کا ہر رنگ چمکیلے میڈیم کی حرکتوں کے مقرری شمار سے پیدا ہوتا ہے۔ موسیقی کا ہر سُر فی سیکنڈ کی گنی ہوئی ضربوں سے برآمد ہوتاہے ہر کرسٹل میں اقلیدس (خواص ہندسہ کا کھولنے ولا)کے اصول نمایاں ہیں ۔ ہر ایک پھول کی پتیاں اور ہر ایک طائر کے پر گنے ہوئے ہیں پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں اصولوں کی بنا پر ایک اہل سائنس کی تحقیقات نے کامیابی کا تاج پہنا ۔ کیونکہ اگر ان اصولوں میں استقلال اور مداومت(ہمیشگی) کی خاصیتیں نہ ہوتیں۔ اگر یہ اصول پکے نہ ہوتے ۔یعنی اگر ایک جسم دوسرے جسم کو ایک مقرری انداز سے اپنی طرف نہ کھینچتا۔ اور مجردات(غیر جسمانی وجود) ایک مفرری نسبت کے مطابق ترکیب پا کر مرکبات کی صورت اختیار نہ کرتے ۔ تو سائنس کب ایسے یقینی طور پر اپنے نتائج کو ہمارے سامنے رکھتی جیسے کہ اب رکھ رہی ہے۔ کلام اللہ کی یہ شہادت بالکل صحیح ہے کہ اس نے "پانیوں کو اپنے ہاتھ کے چلو سے ناپا۔اور آسمان کو بالشت سے پیمائش کیا اور زمین کی گرد کوپیمانے سے بھرا اورپہاڑوں کو پلڑے میں ڈال کر وزن کی۔ اور ٹیلوں کو ترازو میں تولا"۔ اب اگر لوگ چاہیں تویہ کہہ سکتے ہیں کہ ان چیزوں کو کسی خدا نے نہ تو لا اور نہ ناپا ہے۔ مگر وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ جہاں تک سائنس نے دریافت کیا ہے وہاں تک یہی ثابت ہوا ہے کہ عالم میزان حکمت میں تلا کھڑا ہے لیکن یہ دیکھ کر کون روشن ضمیر کہہ سکتاہے کہ ریاضی کی یہ پیمائش اور ناپ اور شمار اور مقرری نسبتیں اور مقداریں بغیر عقل کے وجود میں آسکتی تھیں۔
علم اسڑانومی (ستاروں وغیرہ کا علم ) بتاتاہے کہ جو اعد اور اصول کشش ثقل اور روشنی اور گرمی کیمیائی مرکبات کے متعلق اس دنیا میں ثابت ہوئے ہیں وہی اجرام فلکی میں کام کرتے ہیں۔ مثلاً نظام شمشی جس میں ہماری زمیں بھی شامل ہے ۔ ایک وسیع اور بو قلموں(رنگا رنگ، مختلف رنگوں کا) اور بالترتیب نظام اجرام فلکی کا ہے ۔ تمام سیارے اور چاند جن سے وہ مشتمل ہے۔ اور ان کی مقداریں اور جسامتیں ۔ ان کا فاصلہ اور باہمی تناسب ۔ ہر ایک کی رفتار اور رخ کو ایسے طور پر منتظم نے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیا ہے کہ کل انتظام بہ حیثیت مجموعی نہایت محکم اور مظبوط ہے اور پھر ہر جُزودوسرے جُزو کو ایسی مدد پہنچاتاہےجیسےجاندار چیزوں کے بدن میں ایک عضو دوسرے عضو کو پہنچاتاہے۔ ہماری زمین سورج اور چاند سے ایسا رشتہ رکھتی ہے کہ بونے اور کاٹنے کے وقت میں کبھی سرمو فرق نہیں آتا۔ مدوجزر ہم کو کبھی دھو کا نہیں دیتے۔ لیکن اس عالم بے کنار میں ایک ہی نظام شمسی نہیں پایا جاتا بلکہ اس قسم کے کڑوڑوں اور کئی نظام موجود ہیں۔ اور بعض اس سے بدرجہا بڑے بھی ہیں۔ تاہم یہ لاکھا لاکھ سورج اور ستارے جو نیلگوں آسمان پر موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں آپس میں ایسا رشتہ اور رابطہ رکھتے ہیں اور ریاضی کے مقرری اصول کے مطابق اس طرح کام کر رہے ہیں کہ نہ وہ سب کے سب اور نہ ان میں سے کوئی خاص سورج یا ستارہ برباد ہو سکتاہے ۔ بلکہ ہر جگہ باہمی اتحاد اور خوبصورتی جلوہ گر ہے۔ یوں تو ہر ستارہ باقی ستاروں پر کچھ نہ کچھ اثر رکھتاہے اور اگر وہ اثر کا نہ جائے تو بڑی بربادی کا باعث ہو۔ لیکن اس مصدر (جڑ، بنیاد)حکمت نے ایسے عجیب طور پر کل کو نظم دیا ہے کہ سب رخنے (چھید، سوراخ، شگاف) جو بظاہر خطرناک معلوم ہوتے ہیں ۔ در حقیقت بربادی کو روکتےاور سب چیزوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اور س کا سبب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پراثر ڈالتے اور یوں کل کو ترازو کے تول تلا رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیاہم یہ مانیں کہ ان باتوں کا دریافت کرنا یہ ثابت کرتاہے کہ انسان میں عقل ہے جس نے ان باتوں کو دریافت کیا۔ پر یہ نہ مانیں کہ وہ سبب اول جس نے ان کو بنایا اور ترتیب دی ہے خودبھی عقل رکھتاہے۔
یہی شہادت علم کیمیائی کی ہے۔ یعنی یہ علم بھی یہی بتاتا ہے کہ تمام عالم میں یک اعلی ٰ درجے کا انتظام پایا جاتاہے ۔ چنانچہ اس کے اصول بھی شاید ہیں کہ ہر مرکب میں مقرری نسبتوں کے مطابق مفرد عناصر ترکیب پاتے ہیں۔ پانی اور زمین ، نباتات اور حیوانات کا بھی یہی حال ہے۔ جتنی اشیا دیکھنے میں آتی ہیں وہ سب قریباً چوسٹھ عناصر میں منقسم ہو سکتی ہیں۔ پر ان میں سے ہر ایک نہ فقط اپنی اپنی جدا گانہ خصوصیتیں رکھتاہے بلکہ خاص خاص نسبتوں کے مطابق دیگر عناصر سے ترکیب پاتاہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود یہ کہ اس دنیا میں ہزارہا قسم کے مرکبات پائے جاتے ہیں تاہم ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی تشریح یہ ظاہر کرے کہ اس کے اجزا کی مقرری نسبتوں میں کسی طرح کا فرق آگیا ہے۔ لیکن یہ خاص ترکیبیں کبھی پیدا نہ ہوتیں اگر ان کی نسبتیں اور مقدار یں دائمی نہ ہوتیں۔ اگر کوئی عنصر دوسرے عناصر کے ساتھ ملنے میں مزاحمت کرتا تو دنیا میں رنگا رنگ خوبصورت اشیا نظر نہ آتیں جواب ہماری آنکھوں کی طراوت بخشتی ہیں۔ اور اگر ان کی ترکیب پابندقانون نہ ہوتی تو سخت بد انتظامی برپا ہوتی۔ اب اس کا کیا سبب ہے کہ ان میں ایسا باہمی رابطہ پایا جاتاہے کہ جتنے مرکبات دیکھنے میں آتے ہیں وہ ہمیشہ قاعدے کے مطابق کام کرتے اور بےشمار اقسام اور تعداد کی اشیا وجود میں لاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب عناصر کی نسبتیں بدل جاتی ہیں۔ تو مختلف قسم کی اشیاء پیدا ہوتی ہیں اور ان کے خواص بھی بالکل بدل جاتے ہیں ۔ اگر مقرری قوانین میں ذرا بھی اختلاف آجائے تو کیا جانے کیا قیامت برپا ہو۔ یہی ہوا جو ہم روز روز کھاتے ہیں گو کیمیائی مرکب تو نہیں تاہم ایک ایسی مکسچر ہے جس میں مختلف اجزا
مقرری نسبتوں اور مقداروں میں ملےہوئے ہیں اور یہ مکسچر انسانی اور حیوانی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے ۔ گو طرح طرح کے خارجی اسباب طرح طرح کی تبدیلیاں پیدا کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں تاہم اس مکسچر میں ایسی خاصیت پائی جاتی ہے کہ آپ ہی آپ اپنی مقادیر متناسبہ کو پھر قائم کر لیتی ہے۔ ایک قابل کیمسٹ کہتاہے کہ زمین میں ایسی خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ ان اشیا میں سے جو اس کی زرخیزی کے لی ضرور ہیں( مثلاً پوؔٹاش، ایؔسڈ اور اموؔنیا وغیرہ ) ایک کو بھی جانے نہیں دیتی خواہ بارش کیسی شدت سے کیوں نہ ہو۔ بلکہ بارش کے پانی میں جہاں تک یہ چیزیں پائی جاتی ہیں ان کو اس میں سے بھی اخذ کر لیتی ہےاور جو چیزیں کاشت کے لیے مفید نہیں ان کو پانی میں کھلی ہوئی چھوڑ دیتی ہے۔ غرض یہ کہ وہ تمام کیمیائی قوانین جو روشنی اور گرمی اور بجلی اور مقناطیس کی تہ میں پائے جاتے ہیں اسی صداقت(سچائی،خلوص) پر شہادت دیتے ہیں کہ ان تمام قوانین کی جڑ حکمت ہے۔ گنتی کے عناصر سے جن کی خاصیتیں بھی گنی منی ہوئی ہیں ہوا اور سمندر ،پہاڑوں اور وادیوں نباتاتی اجسام اور حیوانی ابدان کابنایا جانا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تمام موجودات کا بنایا جانا اور پھر ان کا ایک ایسی کیمیائی ترکیب کے ساتھ جاری رہنا جو بے شمار زمانوں سے چلی آتی ہے ۔ اور ایسی شرائط کے ساتھ جو مناسبت اور مطابقت کو قائم رکھتے ہیں ایسی باتیں ہیں جو عقل اول پر پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں اہل سائنس اپنے نادر آلات اور بے نظیر اوزاروں سے ان عجوبوں کا ایک تسمہ بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ کیا ان باتوں سے صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) کی عقل ثابت نہیں ہوتی ؟
جیؔالوجی کی کمی شہادت یہی ہے۔ جیالوجی گویا زمین کی جمادانی اور نباتاتی اور حیوانی حالتوں کی ایک تاریخ ہے۔ اس سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے کہ بے شمار زمانوں سے ۔ ہاں ایسے دور دراز زمانوں سے جن کا فاصلہ پیمانہ قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) سے ناپا نہیں جا سکتا یعنی ان زمانوں سے لے کر کہ جب لارنیشین چٹان قائم ہوئے روشنی اور گرمی ہوا اور رطوبت۔ زمین اور سمندر اور دیگر فزیکل طاقتیں ایسے طور پر مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) چلی آئی ہیں اور انہوں نے ان بے شمار زمانوں میں اس حالتکو بے شمار اقسام کے جانداروں کی زندگی اور صحت اور خوشی کے لیے ضروری ہے برقرار رکھا ہے ۔ پھر جب ہم سمندر پر نظرڈالتے ہیں تو اس سے بھی خشکی کی نسبت کم شہادتیں نہیں ملتی ہیں۔ اس کے طوفان اور اس موجیں۔ اس کے ندی نالے اور س کے پانی کی روانیاں۔ اس کا نمک اور اس کے پودے ۔اس کے جاندار مخلوق اور ان کی ساخت اسی قسم کی ترکیب اور ترتیب پیش کرتی ہیں۔ جیسی خشکی کی اشیاء سے ظاہرہوتی ہے۔ علاوہ بریں جیاؔلوجی یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ جب زندگی کا سراغ لگتاہے اس وقت سے لے کر آج تک ترقی ہوتی آئی ہے اور ہر منزل میں زمین کی حالت اور جاندار چیزوں کی زندگی کی حالت میں ایک مطابقت پائی گئی ہے۔ یعنی جس قسم کی زندگی اس کی سطح پر پائی جاتی تھی۔ اسی قسم کی حالت اس کو مسیسرہوتی رہی تاکہ اس زندگی کو برقرار رکھے۔ گزشتہ زمانہ آنے والے زمانے کے لیے زمین کو تیار کرتارہا ہے۔ لیکن یہ ترقی جس کا ذکر ہم نے کیا عقل پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہے۔ کیونکہ اس ترقی کا تصور ذہن میں نہیں آتاجب تک یہ نہ مانا جائے کہ ترقی سے پہلے کمال کا نشان مقرر کیا گیا تھا۔ جس کی طرف دنیا بڑھتی آئی ہے۔ اس امر پر کہ خارجی نیچر نباتاتی اور حیوانی زندگی کی احتیاج کے ساتھ ایک عجیب رابطہ رکھتی ہے اور کہ نباتاتی اور حیوانی زندگی میں عجیب باہمی تعلق پایا جاتاہے اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا مگر ہم طوالت کے خوف سے زیادہ نہیں لکھ سکتے ۔
تجویز اور اعضا دار اجسام
اب ہم تھو ڑی دیر کے لیے اعضا دار اجسام کی طرف متوجہ ہونگے۔ ان کے ملاحظے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک ایک عضو ا س حکمت پردال (اناج جو سالن کے طور پر بناتے ہیں، آتشی شیشہ کا عکس جس سے آگ لتی ہیں)ہے جوسبب اول میں پائی جاتی ہے۔ہر جسم کے اعضا خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں یا یوں کہیں کہ ہر عضو سے ایک تجویز ظاہر ہوتی ہے ۔ لیکن تجویز مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہے۔ اس مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) پر جس نے ایک خاص مقصد کو مد نظر رکھ کر اس تجویز کو سوچا اور ضروری وسائل مقرر کئے تاکہ اپنےارادے کو پوراکرے۔
اس جگہ یہ کہنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ علما نے عموماً دو انگریزی الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک آرڈر ہے اور دوسرا ڈیزین ۔ پہلے کے معنی ترتیب اور دوسرے کے تجویز ہیں۔ اور ان میں وہی فرق مانا گیا ہے جو ترتیب اور تجویز میں ہوتاہے ۔ تاہم یہ دونوں باتیں ایک دوسری کی ایسی محتاج ہیں کہ ترتیب بغیر تجویز ک او ر تجویز بغیر ترتیب کے وجود میں نہیں آسکتی ۔پس جس قدر تجویز اعضاء دار اجسام کے ہر عضو کی ساخت سے مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہوتی ہے اسی قدر اجرام فلکی اور دیگر اجسام کے وجود اور ان کے باہمی تعلقات سے صادر(نافذ ہونے والا، کھلنے والا) ہوتی ہے۔ مگر چونکہ اعضادار اجسام اجرام فلکی کی نسبت ہم سے بہت نزدیک ہیں اور ہم ان کا امتحان بخوبی کر سکتے ہیں اور جو اغراض ان کے مختلف اعضا سے پوری ہوتی ہیں ان کو اچھی طرح دیکھ کر ان ک نشیب و فراز سےواقف ہو سکتے ہیں لہذا ایسےاجسام کا ملاحظہ ہمارے لیے نہایت مفید ہے۔
سو جب ہم اعضا دار اجسام پر غور کرتے ہیں کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں کیونکہ ان میں سے اسی قسم کے دیگر اجسام پیدا ہوجاتے ہیں۔ کس طرح وہ پھولتے اور پھلتے ہیں تو یہ بات اور بھی زیادہ ثابت ہوجاتی ہے کہ اس سارے سلسلے کی تہ میں عقل کام کر رہی ہے جس نے گوٹا گون اجسام کو اپنی مرضی سے خاص مقاصد پورا کرنے کے لیے ایسا بنایا ہے جیسے کہ وہ ہیں۔ یہ باتیں خصوصاً نباتات و حیوانات کے متعلق مشاہدے سے گزرتی ہیں ۔ اور حیوانات کے متعلق علاوہ ان خصوصیات کے یہ بھی دیکھنے میں آتاہے کہ ان میں حرکت کرنے خوراک ڈھونڈنے ۔ رہنے کی جگہ تلاش کرنے دیکھنے اور سننے کی قابلیت بھی پائی جاتی ہے۔ عالموں نے دفتر کے دفتر ہاتھ کی ساخت کے بیان میں لکھ ڈالے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ جس قدر ہاتھ کی خاصیتوں کے معائنے سے تعجب آتا ہے اسی قدرایک درندے کے پنجے یا کسی طائر کے کُندے کی ہڈیوں اور پٹھوں اور جوڑوں کی باہمی ترکیب اور تعلق کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے ۔لیکن اس کے اجسام میں جو اعضا غایت(عرض) درجے کی نزاکت اور خوبی رکھتے ہیں وہ آنکھ اور کان ہیں۔ اور جو حکمت اور دانائی ان کی ساخت سے ہویدا(ظاہر ، عیاں، آشکار، واضح) ہے بعض علما نے فقط اسی پر اپنے اس دعوے کو قائم کیا ہے کہ عالم موجودات تجویز کرنے والی عقل کا نتیجہ ہے۔ جس طرح دور بین کے وسیلے سے اجرام فلکی کی ترتیب سے حکمت عیاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح احاطہ فطر ت ک ےاند اسی عجیب حکمت کے کام خردبین کے وسیلے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
پھر جب ہم اعضائے جسم کو چھوڑ کر عقل انسانی پر غور کرتے ہیں تو ہر طرح کا شک دُور ہو جاتااور ہم قائل ہو جاتے ہیں کہ اس یونیورس میں ایک ایسی بے ابتدا اور بے انتہا عقل پائی جاتی ہے جو عقل انسانی کا منبع اور چشمہ ہے کسی نے خوب کہاہے کہ ایک اندھی اور لایعنی طاقت کو ذی عقل مخلوق کا ماجد سمجھنا بڑی نادانی کی بات ہے۔ عقل اور جسم میں جو باہمی تعلقات پائےجاتے ہیں وہ ایسے کثیر اور دلچسپ ہیں کہ اہل سائنس کی ایک جماعت ایسی خاص علم کی چھان بین میں اپنا وقت صرف کر رہی ہے ۔ دماغ میں اگر ذرا سابھی فتور آجائے ۔ ایسا قلیل اور ایسا خفیف(اچھا، کم ظرف، تھوڑا) کہ پوسٹ مارٹم کے وقت خردبین بھی اس کا پتہ نہ لگا سکے تو تو بھی حواس میں ایسا فرق آجاتاہے کہ وہ اپنا کام بخوبی نہیں کر سکتے عقل بےکار ہو جاتی ، قوت ارادی میں ابتری(خرابی، بے حالی) راہ پاتی، صحیح خیالات اور مناسب جذبات کی عنان(باگ، لگام،دوڑ) درست اختیار سے نکل جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ معزز اور عقل میں کیسا گہرا رشتہ پایا جاتاہے ۔ کون اس حکمت پر شک لا سکتاہے جو اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ دماغ ذرا سا اشارہ کرتاہے تو جسم کا ہر رنگ اور جوڑ اور پٹھا حرکت میں آجاتاہے وہ جو چاہتا ہے ان سے کرواتاہے اور کبھی نا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہاں ہماری خواہشات ارو جذبات کے قوانین اور وہ تعلقات جو ہماری خواہشوں اور خواہش کی ہوئی چیزوں کے دمیان پائے جاتے ہیں اور ہماری دماغی قوتیں جو عقل اور ضمیر کے تابع ہیں ایسی باتیں ہیں جن سے الہی حکمت بکثرت ٹپکتی ہے ۔
اسی طرح اس حکمت کی گواہی ان اصولوں سے بھی مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہے جو انسانی سوسائٹی کی بنیاد اور جان ہیں اور جن کی امداد سے انسانیت ایک منزل سے دوسری منزل تک ترقی کرتی ہے۔پولیٹکل اکانومی (علم ِتمدن) سوشل سائنس کی ایک شاخ ہے اور بڑی کامیابی سے عالموں نے اس علم کو فروغ دیا ہے اب دیکھئے کہ یہ علم اس خصوص میں کیا کہتاہے یہ کہ گو اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے شخصی فائدے کو مد نظر رکھ کر سب کام کرتے ہیں۔ اور بہت تھوڑے ایسےلوگ ہیں جو دوسروں کی بھلائی اور بہبود ی کا خیال زیر نظر رکھ کر اپنی قوتوں کو کام میں لاتے ہیں لیکن باوجود اس خود غرضی کے ان کی حرکات اور افعال کا یہ نتیجہ ہوتاہے (بشرطیکہ وہ انساف کی حدود سے تجاوز(حد سے بڑھ جانا، بے راہ ہو جانا) نہ کریں) کہ ان کی خود غرض آزادی کل سوسائٹی کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ انجام کار اس کے فائدے کا باعث ٹھہرتی ہے ۔ اگر کوئی آدمی کوئی تجویز قائدہ عامہ کےلیے ایجاد کرتاہے اور پھر سب بنی آدم کو مجبور کرتاہے کہ اسے قبول کریں اور اس کے مطابق چلیں تو اس سے اتنا فائدہ متصور نہ ہوتاجتنا اب انسانی آزادگی سے کل سوسائٹی کو پہنچ رہا ہے ۔ کیونکہ حکمت الہی نے انسانی فطرت اور انسانی زندگی کے رشتوں میں ایسے مختلف اور متیائن اصول بھر دئے ہیں کہ ان کے سبب سے انسانی تدبیریں اور انسانی جذبات ایک دوسرے کے زور کو ایسا روکتے اورتوڑتے اور ایک دوسرے پر ایسا اثر ڈالتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایسا ترازو کے تول تلا رکھتے ہیں کہ سوسائٹی کی بہتری اور بہبودی معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) نہیں ہونے پاتی اور سوشل ترقی کے عام اصول شخصی خود غرضیوں پر حاوی ہو کر اپنا کام کرتے جاتے ہیں۔
اب اس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ عقول انسانی پر ایک نہایت اعلیٰ عقل مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) ہے اور انہیں اپنے کام میں لاتی ہے تاکہ ان کے وسیلے سے ایسے ایسے اعلیٰ مقاصد بر آئیں جو انسان کی محدود عقل کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر علم تاریخی کو دیکھو کہ اس سے بھی یہی نتیجہ بر آمد
ہوتاہے ۔ چنانچہ جب ہم اس کا امتحان کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ انسانی تاریخ کے پیچ در پیچ(نہایت پیچیدہ، بل پر بل پڑاہوا) معاملات میں ایک خاص تجویز پائی جاتی ہے جو انسانی تاریخ کی ابتدا سے لیکر آج تک اپنا کام کرتی آئی ہے۔ اس میں ایک قسم کی ترقی نظر آتی ہے جو مطابق ان قوانین کے جو ابھی تک پورے پورے طور پر سمجھ میں نہیں آئے اپنا قدم آگے ہی آگے دھرتی چلی آئی ہے۔ سینکڑوں پشتیں زندگی کی سٹیج پر آئیں اور پھر غائب ہو گئیں۔ اور تھوڑے لوگوں نے اس سلسلہ ترتیب کو محسوس کیا جو ان کو ان کے ابنائے جنس سے مربوط(بندھا ہوا، ربط کیا گیا) کرتا اور ان کے ہر فعل کو اپنی لڑی میں پرو لیتاہے۔ اور ایسے لوگ تو بہت ہی کم گزرے ہیں جنہوں نے اس سلسلہ سے مطابقت اور موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) پیدا کرنے کی کوشش کی ہیں کیونکہ ہزارہا بنی آدم اپنی ذاتی منفعت کےلیے کمینہ اور محدود قسم کی چالاکیوں سے کام لیتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی اپنی باری پر طرح طرح کی نا مناسب تحریکیں اور برائیاں نمودار ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ بد انتظامیاں اور لڑائیاں امن میں خلل اندازی کرتی رہی ہیں۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے وہ ترتیب وہ ترقی وہ تجویز جس کا ذکر ہم اس وقت کر رہے ہیں آہستہ آہستہ اپنے کمال کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ اب جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف انسان اپنی اپنی مرضٰ اور ارادے کے مطابق اپنی خوشی اور بہبودی کےلیے آپس میں برابر جھگڑتے رہتے ہیں لیکن باوجود اس بد نظمی کے ایک قسم کا نطام تاریخی انسانی میں برابر قائم رہا اور ترقی کرتا چلا آیا ہے تو ہمیں اس انتظام میں الہی حکمت کا ایسا ثبوت ملتاہے کہ ویسا آسمان کے بے شمار ستاروں کی ترتیب کے وجود میں آنے اور قائم رہنے میں بھی نہیں ملتا۔وہ جو علم تاریخ کے عالم ہیں یعنی تاریخ کے فلسفے کو خوب سمجھتے ہیں وہ اس بات کے شاید ہیں کہ وہ ترقی کرنے والی تجویز جو تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) انسانی کے مسلسل واقعات میں طلائی رشتے کی طرح ایک سرے سے دوسرے تک نظر آتی ہے اس کا منبع نہ انسان نہ مادہ اور نہ اتفاق ہے بلکہ خدا ۔ مثلاً ان میں سے ایک یوں کہتاہے ۔" اب ہم وہ تمام خیالات دیکھ چکے جو اہل فلسفہ اور اہل تاریخ نے اس پر راز بات کو حل کرنے کے لیے پیش کئے ہیں کہ انسان کی زندگی کے متعلق تاریخ میں ایک قسم کا تواتر ایک قسم کی تجویز ایک قسم کی ترقی ظاہر ہوتی ہے جس کامنبع یا موجد(ایجاد کرنے ولا) انسان آپ نہیں ہو سکتا ۔ بعض لوگ جو شروع ہی سے اس عُقدے(گلوبند) کے حل ہونے کے بارے میں ناامید ہیں اپنی نادانی سے ایک قسم کی اندھی طاقت کو جسے وہ اتفاق کہتے ہیں اس کا موجد(ایجاد کرنے ولا) قراردیتے ہیں۔ لیکن یہ حل تسلی بخش نہیں ۔ کیونکہ اتفاق محض ایک لفظ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ بھیدوالی طاقت نیچر کا نام ہے جو مختلف صورتوں میں اپنا کام کرتی ہے ۔ مثلاً آب و ہوا کے وسیلے یا مختلف قوموں یا دیگر طبعی تاثیرات کے وسیلے جو اخلاقی دنیا کو موثر کرتی ہیں۔ لیکن نیچر کیا ہے؟ اور اس نے وہ طاقت اور دور بینی اور حکمت کہا سے پائی جو انسانی تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) کے دوروں میں ایسی واضح اور لائح (کوئی چمکیلی یا واضح چیز) ہے ؟ اگر نیچر فقط مادہ ہے اور مادہ کے سوا اور کچھ نہیں تو نیچر بھی اصل سوال کا کافی جواب نہیں۔ کون اس بات کو مانے گا کہ مادہ حکمت رکھتاہے۔ اور حکمت سے کام کرتاہے ؟ جہاں عقل کا فعل موجود ہے وہاں عقل رکھنے والی ہستی بھی موجودہوگی۔ لہذا نیچر ہم کو خداکی طرف لے جاتی ہے۔ پھر بعض لوگ ایسے ہیں جو نیچرکی جگہ عام قوانین کو اس حکمت کا منبع(پانی جاری ہونے کا مقام) سمجھتے ہیں جو تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) کے مقاصدسے عیاں ہوتی ہے۔ پر کیا قوانین مقنن پر دلالت(علامت، سراغ) نہیں کرتے ؟ اور سوائے خدا کے اور کون ان قوانین کا مقنن ہو سکتاہے۔
مرقومہ بالا سطور سے جو اس بات کے ثابت کرنے کےلیے تحریر کی گئی ہیں کہ دنیامیں ہر جگہ آسمان اور زمین پر ذی روح اور غیر ذی روح اشیا میں ترتیب و تجویز ۔ مناسب اور مطابقت کے آثار ہویدا(ظاہر ، عیاں، آشکار، واضح) ہیں جو اس صداقت(سچائی،خلوص) کو روشن کرتے ہیں کہ وہ جو سبب اول ہے چشمہ علم و حکمت بھی ہے ۔ یایوں کہیں کہ جس حال عالم موجودات میں ترتیب و تجویز کے کثیر نشانات موجود ہیں کیا ہماری عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ یہ عقل و حکمت کا سلسلہ بغیر کسی عقیل اور حکیم ہستی کے وجود میں آیا؟ وہ جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں ۔ نہیں ۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ بڑی وضاحت کے ساتھ ایک با حکمت سبب اول کی ہستی پر دلالت(نشان) کرتاہے ۔ اور کہ یہ کہنا کہ اس کا کوئی موجد(ایجاد کرنے ولا) نہیں ہے۔ یا اگر ہے تو یہ ضروری امر نہیں کہ وہ حکمت اور عقل والا ہو سراسرحماقت کی بات ہے۔ اگر ہم اس ترتیب کا انکار کرتے ہیں جو بوسیلہ ان سطور ےکے ہدیہ ناظرین کی گئی ہے توہم تمام سائنسوں کی گواہی کو باطل ٹھہراتے ہیں۔ گویا ہم یہ کہتے ہیں کہ سائنس ایک سرے سے دوسرے سرتک ایک فریب ہے ایک بھاری جھوٹ ہے۔ اس زمانے میں کوئی شخص ترتیب عالم کا انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ تاہم لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لازمی امر نہیں کہ اس ترتیب کو مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کرنے والی ایک ایسی ہستی ہو جو زیور عقل سے آراستہ ہے کیونکہ اس سے کسی سائنس کے اصول کی مخالفت نہیں ہوتی پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ترتیب کاانکار کرنا (جس کا انکار کوئی سائنس نہیں کر سکتی) زیادہ قرین قیاس (اندازہ لگانا، رائے دینا)ہے بہ نسبت اس بات کے کہ ہم ترتیب کو تو تسلیم کریں پر اس بات کو نہ مانیں کہ وہ جو ترتیب دینے والا ہے وہ عقل و حکمت سے مالا مال ہے ۔ اس جگہ یہ بات بتانی ضروری معلوم ہے کہ یہ لازمی امر نہیں کہ کسی عضو واحد کی ساخت فقط ایک ہی مقصد پورا کرے۔ممکن ہے کہ کئی مقاصد مطلوب ہوں۔ اس بات کو نظر انداز کرنے سے کئی اعتراض اور کئی حجتیں(دلیل، ثبوت، بحث، تکرار) پیدا ہوئی ہیں ان میں سے بعض کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا ۔ اس جگہ صرف اتنا بتانا مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہر عضو کی آفریش سے تین طرح کے مقاصد مطلوب ہو سکتے ہیں ۔ اوّلؔ۔ وہ علت غائی جسے علمائے انٹرنزک کہا ہے ۔ لفظ انڑنزک کے معنی باطنی یا اندرونی کے ہیں ۔ پس انٹر نزک مقصد سے وہ مقصد مراد ہے جس کا علاقہ دوسرے اعضاسے نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اسی خاص عضو پر ختم ہو جاتاہے ۔ دوئم ؔ۔ وہ مقصد جو اکسڑنزک کہلاتا ہے۔ لفظ اکسٹرنزک کے معنی خارجی یا بیرونی کے ہیں اور اس سے مراد وہ مقصد ہے جو عضو خاص بہ تعلق دوسرے اعضا کو پورا کرتاہے ۔ سوؔئم۔ وہ مقصد جو الٹسمیٹ کہلاتا ہے اور اس سے مراد وہ مقصدہے جو وہ خاص عضو تمام یونیورس کے متعلق پورا کرتاہے۔ شاید مثال کے وسیلے ہمارا مطلب زیادہ صاف ہو جائےگا۔ ہمارے جسم میں ایک عضو آنکھ ہے۔ اس کا پہلا مقصد بصارت ہے ۔ وہ اسی لیے بنی کہ اس کی ساخت کا ماحصل بصارت ہو۔ اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ جسم کے باقی اعضا کے متعلق ایک خدمت بہم پہنچائے اور اس کا تیسرا مقصدوہ ہے جو تمام یونیورس کے متعلق پورا کرتی ہے۔ ملحدوں نے عضووں اور عضووں کے ٹکڑوں کا متحان کیا ہے۔ تاکہ وہ ان میں سے ایسی باتیں نکالیں جن سے یہ ثابت ہوا کہ اعضا کسی طرح علت غائی کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائے گئے اور اگر وہ کسی غرض کےلیے نہیں بنائے گئے تو ان سے یہ دلیل نکالنا کہ وہ کسی کے سوچ و فکر کا نتیجہ ہیں غلط ہے اور انہوں نے ایسے اعضا یا اعضا کے حصے پیش بھی کئے ہیں جن کی نسبت انہو ں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان سے کوئی غرض اور مطلب ظاہر نہیں ہوتا لہذا وہ محض بے کار ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ کوئی ان کا بنانے والا نہیں ہے۔ پر اگر مذکورہ بالا ریمارکس پر نظر کی جائے تو روشن ہو جائے گا کہ
ہم نہیں جانتے کہ وہ حصے یا ٹکڑے جو بظاہر بے کار معلوم ہوتے ہیں کونسا مطلب کل مشین کے یا تمام یونیورس کے متعلق پورا کررہے ہیں ۔ گو آنکھ یا کان کی طرح واضح مقصد فی الحال ہم کو نظر نہیں آتا۔
تجویز سے جودلیل مستنبط کی جاتی ہے اس پر ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے ۔کہ وہ اس مشابہت پر مبنی ہے جو فطرت کے کاموں او ر انسانوں کی حکمت کے کاموں میں پائی جاتی ہے۔ معترض کہتا ہے کہ چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض چیزیں مثلا گھر اور جہاز اور گھڑیال(پیتل کا وہ گھنٹہ جو مندروں یا میروں کے دروازے پر بجایا جاتاہے) وغیرہ بغیر عقل اور حکمت کے نہیں بنتی ہیں اور چونکہ آسمانوں کی ساخت ۔ خون کے دوران اور آنکھ کی بناوٹ میں بھی ترکیب و تجویز نظر آتی ہے لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان اشیا کا بنانے والا بھی عقل رکھتاہے اور انسانوں سے اسی قدر بلند وبالا ہے جس قدر آدمی کے کاموں سے فطرت کے کام بلند و بالا میں کیونکہ نتائج اپنے اسباب سے ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔یعنی جتنے بڑے نتائج ہوتے ہیں اتنے ہی بڑے ان کے اسباب بھی ہوتے ہیں۔
اس اعتراض کے جوا ب میں یہ کہا جاتاہے کہ جو دلیل تجویز کے خیال پر مبنی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پہلے تجویز فرض کرتے ہیں اور پھر اس سے مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) کے وجود پر دلیل لاتے ہیں۔ بلکہ اس برہان(دلیل جس میں شک و شبہ نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے وسیلے تجویز کے خیال تک جو مرکوزبالطبع ہے پہنچ جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جس وقت ہم اس دلیل کو کام میں لاتے ہیں تو ہم ضرور اس مشابہت پر غور کرتے ہیں جو انسان کے کاموں اور نیچر کے کاموں میں پائی جاتی ہے اور ہم ان کے موجدوں(ایجاد کرنے ولا) کا مقابلہ بھی آپس میں کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ دلیل اس مشابہت یا مقابلے پر منحصر ہے۔ مشابہت اور مقابلہ دونوں اس دلیل میں شامل ہو کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن فقط مثال یا نظیر کا کام دیتے ہیں نہ کہ وجہ دلیل کا۔ مثلاً جب ہم آنکھ کی بناوٹ کا اور کان کی ساخت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس ہستی نے انہیں تجویز کیا ہے وہ صاحب عقل ہے تو اس وقت ہمارا یہ نتیجہ نکالنا ہمارے اس علم پر موقوف (ٹھہرایا گیا، کھڑا کیا گیا)نہیں ہوتا کہ گھڑی یا دور بین کو صاحب عقل اشخاص بنایا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ جس طرح گھڑی اور دور بین کے دیکھنے سے ہمارا یہ نتیجہ کہ وہ بغیر عقل کے بن نہیں سکتی تھیں اس بات سے کچھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا کہ آنکھ اور کان بغیر عقل کے بن نہیں سکتے اسی طرح آنکھ اور کان کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ کسی صاحب حکمت کی صنعت اسی طرح آنکھ اور کان کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ کسی صاحب حکمت کی صنعت میں اس بات سے کچھ واسطہ نہیں رکھتا کہ گھڑی یا دور بین کو کوئی بغیر عقل کے نہیں بنا سکتا تھا۔ دونوں حالتوں میں ایک ہی طرز پر نتیجہ نکالا جاتاہے ۔ اور جس طرح ایک حالت میں اسی طرح دوسری حالت میں وہی نتیجہ اخذ کیا جاتاہے۔ لیکن ایک حالت میں ہم اپنےاپنائے جنس کے کاموں سے ان کے موجدوں(ایجاد کرنے ولا) تک پہنچتے ہیں۔
دوسری حالت میں خدا کے کاموں سے خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن دونوں حالتوں میں کوئی حالت دوسری حالت پر اخذ نتائج کےلیے انحصار نہیں رکھتی ہے۔ یہ خیال کرنا کہ ہم ان لوگوں کی حکمت اور عقل کا علم جو گھڑیاں اور جہاز بناتے اور مکانات تعمیر کرتے ہیں بلا وساطت (وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ)ان کی
حکمت آمیز صنعتوں کےحاصل کر لیتے ہیں ایک سخت غلطی ہے ۔ ہم ان کو صاحبِ حکمت اسی لیے مانتے ہیں کہ یہ باتیں بغیر حکمت کے وجود میں نہیں آسکتی ہیں۔ ہاںہم اپنے ابنائے جنس کو اسی واسطے ارباب عقل و حکمت گردانتے ہیں کہ وہ بذریعہ گفتار اظہار ِ خیالات کرتے ہیں۔ ایسے انتظام و انتساق سے اپنی حرکات کو ضبط میں لاتے کہ ان سے مقاصد مطلوبہ برآمد ہوتے۔ ایسے کام کرتے اور ایسی کلیں بناتے ہیںکہ ان سے ان کی اغراض پوری ہوتی ہیں۔ اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو جس طرح خداکی حکمت کا تصور ہمیں کسی شخصی تجربے سے حاصل نہیں ہو سکتا اسی طرح بنی آدم کی حکمت کا تصور بھی کسی شخصی تجربے سے بے وساطت(وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ) دیگر وسائل کے حاصل نہ ہوتا۔ پس جس طرح ہو عقل جس نے گھڑی کے پرزوں کو ترتیب دی ہمارے حواس کی پہچان سے باہر نہیں اسی طرح وہ عقل بھی ہمارے احساس سے باہر نہیں جس نے عالم موجودات کے پرزوں کو ترتیب دی ہے۔ پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو دلیل تجویز کے خیال پر مبنی ہے وہ محض مشابہت پر مبنی ہے۔ وہ اس ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)ذاتی پر منحصر ہے جس کے وسیلے سے ہم بےوساطت(وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ) وسائل خارجی کے اس حکمت سے آگاہ ہیں جو خود ہم میں پائی جاتی ہے۔اسی سے ہم آدمیوں کے کاموں کو دیکھ کر ان کی حکمت کے قائل ہوتے ہیں۔ اور خدا کے کاموں کو دیکھ کر خدا کی حکمت کے قائل ہوجاتے ہیں۔
پھر ایک یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس دلیل سے اگر کچھ ثابت ہوتاہے کہ خدا اس یونیور س کا بنانے والا ہے نہ کہ پیدا کرنےوالا ہم آگے بھی اس اعتراض پر کچھ لکھ چکے ہیں ۔ لہذا اسی بات کو پھر طور دنیا مناسب نہیں سمجھتے۔ صرف اتناکہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی ہستی اور خالقیت کو مانتے ہیں وہ ان باتوں کا ثبوت فقط اسی ایک دلیل میں نہیں پاتے ہیں۔ پس اگر معترض اس بات میں کہ یہ دلیل خدا کو دنیا کا محض بنانے ولاثابت کرتی ہے جیت بھی جائے تو اس سے ہمیں بہت نقصان نہیں پہنچتا۔ کیونک دلیل کا اصل زور مخالف کے اعتراض سے سرِ موکم نہیں ہوتا۔ اس کا زور اس بات میں ہے ک مادے کےاندے عقل اور حکمت نہیں پائی جاتی ۔ لیکن موجودات کی ترتیب و ترکیب میں آثار عقل ہویدا(ظاہر ، عیاں، آشکار، واضح) ہیں پس وہ جس نے موجودات کو مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیا ایک صاحب خیال اور صاحب عقل ہستی ہے۔
پر جب ہم اہل سائنس کے اقوال پر غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ نہ صرف اجسام مادی کی ظاہری ترتیب اور تجویز سے کسی حکیم کی حکمت ٹپکتی ہے بلکہ ہر ذرے کی ساخت سے صنعت اور حکمت کے آثار نمایاں ہیں اور اس سے کم از کم اتنا خیال ضرور گزرتا ہے کہ جس نے ذرات مادہ کو اپنی حکمت سے ایسا بنایا جیسے کہ وہ ہیں ناممکن نہیں کہ وہی ان کا خالق بھی ہو۔ اگر یہ نہ مانا جائے تو ضرور دو ہستیوں یعنی خدا اور مادے کو ازلی ماننا پڑے گا۔ لیکن دو ازلی ہستیوں کے ماننے کی ضرورت نہیں ہے تاوقت یہ کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان میں سے وہ ہستی و عقل اور حکمت رکھنے والی ہے دوسری کوخلق نہیں کر سکتی ۔ کیا کوئی شخص یہ مان سکتاہے کہ وہ جو عقل رکھنے والی ہستی ہے اور جسے ہم سبب اول کہتے ہیں وہ تمام چیزوں کے پیدا کرنے اور بنانے کے لیے کافی حکمت اور قدرت نہیں رکھتی؟ کیا کوئی اس دعوے کو ثابت کر سکتاہے ؟
پھر اسی طرح ایک یہ اعتراض بھی پیش کیا جاتاہے کہ اس دلیل سے یہ ظاہر نہیں ہو تا کہ الہی حکمت لا محدود ہے۔ مخالف کو دعوع ہے کہ سلسلہ موجودات محدود سلسلہ ہے اور ہمیں اختیار نہیں کہ ہم اس سبب کو جو اس کا موجد (ایجاد کرنے ولا)ہے حکمت میں یا کسی اور صفت میں لامحدود قرار دیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہم بھی ٹھیک یہی دعوے کرتے ہیں۔ دلیل زیر نظر یہ بات ثابت کرنے کو پیش نہیں کی جاتی ک الہی حکمت لامحدود ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ جو انتظام اور ترتیب سلسلہ موجودات سے عیاں ہے اس بات پر دال(اناج جو سالن کے طور پر بناتے ہیں، آتشی شیشہ کا عکس جس سے آگ لتی ہیں) ہے کہ جس ہستی نے موجودات کو بنایا اور مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیا ہے وہ کم از کم اتنی حکمت رکھتی ہےجو اس سلسلے کو وجودمیں لانے کےلیے کافی ہے۔ بعض عالموں نے مثلاً سپنؔسر اور مسٹر نوؔٹس اور پروفیسر ٹڈل نے یہ کہا ہے کہ وہ جو اس دنیا کا موجد(ایجاد کرنے ولا) ہے ہم اس کی حکمت کو نہیں جان سکتے ۔ کیونکہ عقل انسانی محدود ہونے کی وجہ سے اسکو جو لامحدود ہے کما حقہ نہیں سمجھ سکتی۔ پر وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عقل انسانی کےلیے یہ لابدی امر نہیں کہ وہ لامحدود کے ان اظہارات کے سمجھنے کے لیے جو ہر جا(ہر جگہ ) موجود ہیں لامحدود کو پورے پورے طور پر سمجھے ۔ ایک ادنیٰ لیاقت کا آ دمی بڑے بڑے عالموں کی تصانیف کا مطالعہ کرتاہے ۔ اور جانتا ہے کہ یہ کتابیں بغیر عالموں کے اور کوئی نہیں لکھ سکتا حالانکہ وہ ان عالموں کی پوری حکمت اور علم سے واقف نہیں ہو تا ہے ۔ اسی طرح جو شخص فطرت کی کتاب اور تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) کے صحیفے کو دیکھتا ہے گو وہ خدا کی لامحدود حکمت سے پورے پورے طور پر واقف نہیں ہوتاتاہم اس کے لیے اتنا جاننا مشکل نہیں ہوتا کہ جوان کتابوں کا منصف ہے وہ بڑا علیم اور حکیم ہے۔
اب گو معترض کے قول کے مطابق اس دلیل سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جس نے اس سلسلے کو مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیا ہے اس کی حکمت لامحدود ہے تاہم اتنا ضرور ثابت ہوتاہے کہ اس کی حکمت عجیب و غریب بلکہ لاثانی ہے۔ جس قدر کارخانہ فطر ت پر زیادہ غور کیا جاتاہے ۔ جس قدر انسانی دماغ کے کام کو نظر تعمق(غور کرنا، کسی چیز کی تہہ تک پہنچنا) سے دیکھا جاتا ہے۔جس قدر علم تاریخ کا مطالعہ گہری فکر سے کیا جاتاہے اسی قدر کثرت اور وسعت کے ساتھ الہی حکمت کی گہرائی محسوس کی جاتی ہے ۔ جو شخص اس بات کو محسوس کرتاہے کہ الہی حکمت ہی بے شمار اجرام فلکی کی رہنمائی ان کے بے حد مداروں میں کرتی ۔ اسی کی حکمت ان لالکھا لاکھ چھوٹےچھوٹے جانداروں کو جو ایک برگ کل یا قطرہ آب میں موجود ہوتے اور جو خردبین کی وساطت(وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ) کے بغیر نظر نہیں آتے ہیں پیدا کرنی اور ان کی پرورش کے سامان بہم پہنچاتی ہے۔ کہ اسی کی حکمت بعض اوقات چند سادے وسائل سے کئی طرح کے بے شمار مقاصد کو انجام دیتی اور بعض حالتوں میں کئی پیچ در پیچ(نہایت پیچیدہ، بل پر بل پڑاہوا) تدبیروں اور طریقوں سے ایک مقصد کو پورا کرتی ہے۔ وہ شخص جو حکمت الہی کو اس طرح دیکھتا ہے وہ اس دعوے کو کہ خدا کی حکمت لامحدود نہیں کو تہ بینی پر بھول کرتاہے۔ بے شک وہ حکمت اور وہ دانائی جو خلقت کے کاموں سے عیاں ہوتی ہے۔ ایسی بے کنار اور بے پایاں ہے کہ انسان کے اندازہ وہم وگمان میں ہرگز سمانہیں سکتی۔ ایک پتہ تو درختوں کےسارے وسیع جنگل سے کچھ نسبت رکھتاہے لیکن جتناحصہ خداکے کاموں کا ہمیں نظر آتاہے وہ اس حصے سے جو ہماری نظروں سے غائب ہے کچھ نسبت نہیں رکھتا۔ کون کہہ سکتاہے کہ خدا کی عقل محدود ہے؟
چند اور اعتراضات
تعجب ہےکہ جو باتیں خدا کی حکمت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں بعض لوگ انہیں کواس کی کمزوری کی دلیل ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب یوں فرماتے ہیں۔ "ہمارا یہ کہنا کہ دنیا میں جو آثار تجویز کے پائے جاتے ہیں وہ مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) کی قدرت کے نقص پر گواہی دیتے ہیں بےجا نہیں۔ تجویز کسے کہتے ہیں؟ کسی مقصد کی انجام دہی کے لیے موزوں وسائل کے استعمال کو تجویز کہتے ہیں۔ لیکن وسائل کی ضرورت قدرت کے نقص سے لاحق ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص فقط اپنے کلمے سے کسی کام کو انجام دے سکتاہے تو وہ وسائل کو کبھی استعمال نہیں کرے گا۔ پس لفظ وسائل کے تصور ہی میں یہ خیال نہال ہے کہ جو بات وسائل میں پائی جاتی ہے وہ ان کے استعمال کرنے والے میں نہیں پائی جاتی۔ اور اگر یہ قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) صحیح نہیں ہے تو وسائل وسائل نہ رہے بلکہ نرا بوجھ بن گئے۔ کوئی شخص اپنا ہاتھ ملاتے وقت کسی کل سے مدد نہیں لیتا۔ اگر لیتا ہے تو اسی وقت لیتاہے جب اس کا ہاتھ فالج کے سبب سے اس کی مرضی کے مطابق حرکت کرنے کی طاقت کھو دیتاہے ۔ اب اگر استعمال وسائل نقص قدرت کی دلیل ہے تو عمدہ اور موزوں وسائل کا انتخاب اور بھی زیادہ اس نقص پر دا ل ہے۔ پس ہم پوچھتے ہیں کہ وسائل کے انتخاب و استعمال میں کون سی عقلمندی ہے جبکہ وہ تاثیریں جو ان میں پائی جاتی ہیں بذات ان کی نہیں ہیں بلکہ ان کے استعمال کرنے والے نے ان میں بھر دی ہیں۔ اور جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر وہ چاہتا ہے تو انہیں تاثیروں کو اور وسائل میں پیدا کر دیتاہے ؟ اب اگرچہ دانائی اور تدبیر مشکلات پر غلبہ پانے میں کام آتی ہیں۔ لیکن جس شخص کی ذات میں مشکلات کو دخل ہی نہیں اسے ایسی چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ پس نیچرل تھیالوجی (وہ علم الہیٰ جو مشہودات فطرت سے مترشح ہے)۔ شاید ہے کہ صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) عالم کے کاموں سے نقص قدرت عیاں ہے"۔ یہ الفاظ مشہور جاؔن سٹوارٹ ملِ کے ہیں اور فؔلنٹ صاحب ان کےجواب میں فرماتے ہیں کہ یہ طریق استدلال بڑا عجیب لیکن نہایت بودا(بزدل، کم ہمت، کمزور) اور کمزور ہے کیونکراس کے مطابق خدا کی وہ قابلیت جس سے وہ ایک غرض کا تصور باندھتا اور اسے پورا کرتاہے اس کی طاقت کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اب یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ کس طرح خدا کی وہ قابلیت جس سے وہ ایک تدبیر کو سوچتاہے اور اسے کام میں لاتاہے مساوی کمزوری کے ہو سکتی ہے یا اس کی نا قابلیت مساوی طاقت کے۔ بیکؔن صاحب فرماتے ہیں کہ "علم طاقت ہے"۔ اگر اس مشہوعر فلاسفر کا یہ خیال صحیح ہے تو ہم یہ نہیں مان سکتے کہ حکمت کمزوری ہوتی ہے۔ ہم اس اعتراض کے جواب میں کہ اگر خدا قادر مطلق (قدرت رکھنے والابےقیدخدا)ہے تو اسے استعمال وسائل کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ کسی مقصد کو پورا کرنے کےلیے اس کا کلام ہی کافی تھا یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ اس کا فقط ایک کلمہ یا یوں کہیں کہ اس کا محض ارادہ ہی تمام وسائل مطلوبہ کو وجود میں لانے کے لیے کافی تھا اور کہ اسی سے وہ سب وجود میں آئے۔ اپنی قدرت کے کلام سے ضروری وسائل کو پیدا کرنا خدا کےنزدیک کسی طرح شکل یا نا ممکن نہ تھا۔ اور جولوگ اس دلیل کے موید (تائید کرنے والا) ہیں جو تجویز کے تصور سے مستنبط ہوتی ہے وہ اس بات پر کسی طرح کا شک نہیں لاتے بلکہ دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں کہ اسی نے اپنے کلام کی قدرت سے ضروری وسائل کو وجود کی صورت دکھائی اور جو طاقت ان میں پائی جاتی ہے ان میں بھردی ۔ پر جس بات پر وہ زور دیتے ہیں یہ ہے کہ خدا کی قدرت کو خدا کے ارادے یا مرضی سے جدا نہیں کر سکتے ۔ دوسرے لفظوں میں
یوں کہیں کہ جہاں تک اور جس طرح خدا چاہتا ہے اسی حد تک اور اسی صورت میں اس کی قدرت بالغہ اور حکمت کاملہ کام کرتی ہیں۔ پس اگر وہ یہ چاہے کہ بعض باتوں کو وجودمیں لائے تو یہ کیونکر ہو سکتاہے ۔ کہ وہ ان کو وجود میں لانےکا اراد ہ کرے پر ان چیزوں کو جو اس کے ارادے کو وجود میں لانے کےلیے ضروری ہیں پیدا نہ کرے۔ مثلاً اگر وہ یہ ارادہ کرے کہ بنی آدم حقیقی خوشی سے مالا مال ہوں تو کیا یہ ضروری امر نہیں کہ وہ پہلے بنی آدم کو بنائے ۔ ان کے اجسام اور دماغ کو ترتیب دے اور پھر وہ سامان بھی وجود میں لائے جن سے ان کی خوشی پیدا ہو۔ اور یہ کہنا کہ وہ وہی تاثیر مختلف قسم کے وسائل میں بھی پیدا کر سکتاتھا۔ ہمارے فیصلے کی طاقت سے باہر ہے۔ بلکہ یوں کہنا ایسا ہی نا درست ہے جیسا یہ کہنا کہ جزوکل سے بڑا ہوتاہے۔ یا یوں کہیں کہ یہ بات اسی دنیامیں واقع ہو سکتی ہے جہاں دو اور دو مل کر پانچ ہو جاتے ہیں۔یا جہاں سورج کی کرن وہی کام کرتی ہو جو ایک پتھر کا پیلپایہ یا سٹیم انجم کرتاہے ۔ اور بہت لوگ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ خدا بھی اس قسم کی دنیا پیدا نہیں کر سکتا۔
پس یہ لازمی امر ہے کہ محدود اشیا کو پیدا کرے اور سنبھالنے میں غیر محدود حکمت اور غیر محدود قدرت محدود صورت میں کام کریں۔ لیکن یہ محدودیت قدرت یا لامحدود حکمت میں نہیں پائی جاتی بلکہ فقط ان کے محدود کاموں اور نتائج میں بہ سبب ان کی محدودیت کے نظر آتی ہے۔
مسڑؔ مل کی دلیل سے یہ نتیجہ نکلنا ہے کہ غیر محدودیت محدود دنیا پیدا نہیں کر سکتی بلکہ محدود دنیا کو پیدا کرنے کے لیے محدود قدرت کی ضرورت ہے ۔ پر اس سے کیا ظاہر ہوتاہے؟ یہ کہ محدود قدرت غیر محدود قدرت سے بڑی ہوتی ہے ۔ کون اس نتیجے کو قبول کرے گا؟
یہ اعتراض کو تجویز کی دلیل کو ماننے والے اشخاص فقط انسان کی کاریگری کو دیکھ کر خدا کو بھی ایک بڑا کاریگر مان لیتے ہیں پہلے بھی قید کتابت میں آچکا ہے۔ یہاں اس کے جواب میں ایک اور بات یہ عرض کی جاتی ہے کہ انسان کے بڑے سے بڑے کام بھی خدا کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو نہیں پہنچتے کیونکہ خداخلق کرتاہے ۔انسان خلق نہیں کر سکتا۔ یہ تو ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ خدا اور انسان کی صنعت میں اگر مشابہت پائی جاتی ہے تو فقط ا س بات میں پائی جاتی ہے کہ دونوں کے کاموں سے حکمت ظاہرہوتی ہے۔لیکن ان کےکاموں کا طریقہ یکساں نہیں ہے۔ خدا اپنی قوت خالقیت سے کام کرتاہے۔ اشیا کو نیست سے ہستی میں لاتاہے۔ انسان فقط موجودہ مادے کو لیکر مختلف شکلوں میں تبدیل کرتاہے اوروہ بھی محدود درجے تک ۔
اب ہم ایک اور بات کا ذکر کر کے اس دلیل کو ختم کرینگے۔ اور وہ اس سوال کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے کہ کیا ملحدوں اور دہریوں نے بھی اس بات کا کوئی جواب دیاہے کہ یونیورس میں جو ترتیب اور تجویز نظر آتی ہے وہ کس طرح وجود میں آئی؟ ہاں انہوں نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لیے ان کے جوابوں پر غور کرینگے کہ آیا وہ ماننے کے قابل ہیں یا نہیں ۔
ایک یہ جواب ہے کہ خود مادہ موجود ترتیب کا منبع ہے۔ اب اگر ہم بفرض محال ان کی یہ بات مان بھی لیں تو تو بھی یہ سوال برپاہوتاہے کہ مادے کا موجد (ایجاد کرنے ولا)کون ہے؟ اور ہم یہ سوال پوچھنے سے کسی صورت باز نہیں رہ سکتے ۔ کیونکہ ہم جا بجا اوپر دیکھ آئے ہیں کہ بڑی مضبوط وجوہات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ مادہ حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہے ۔ اور اس بات کی کوئی تسلی بخش دلیل نہیں پائی جاتی کہ وہ قائم بالذات اور
ازلی ہے۔ سلسلہ موجودات میں ترتیب اور انتظام کا پایا جانا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ مادہ آغاز رکھتاہے۔ اگر مادی اجسام سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان میں تجویز پائی جاتی ہے اور کہ ان کی موجودہ صورتیں آغاز رکھتی ہیں تو اس کےساتھ یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ ان کے حِصص(حصہ کی جمع،حصے) سے بھی یعنی ذرات مادہ کی بناوٹ سے بھی جن کے مجموعے سے وہ اجسام بنے ہیں تو تجویز مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہوتی اور ذرات کی ابتدا ٹپکتی ہے۔ یعنی ان ذروں کو بھی حکمت الہیہ نے کسی وقت ایسا بنایا جیسے کہ وہ ہیں تاکہ ان کے باہمی ارتباط سے وہ اجسام پیدا ہوں پس مادہ ترتیب کا موجد(ایجاد کرنے ولا) نہ ہوا بلکہ وہ جس نے اجسام اور اجسام کے ذروں کو بنایا۔ اب اگریہ کہاجائے کہ اس مشین کا موجد(ایجاد کرنے ولا) اتفاق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب تک مادہ اور عقل موجود نہ ہوں تب تک اتفاق پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جسے ہم اتفاق کہتے ہیں وہ اس اتصال(میل ملاپ،قرب) کا نام ہےجو دو مختلف قسم کے بے تعلق واقعات کے باہم مل جانے سے پیدا ہوتا اور جس کے وجودمیں لانے کےلیے اس کے وقوع سے پہلے کوئی تدبیر یا تجویز نہیں کی جاتی ۔ مثلاً اگر کوئی شخص بعض اسباب کے سبب سے کسی دن کسی وقت کسی گھر ک ےپاس سے گزرے ۔ اور اگر اسی دن اور اسی وقت دیگر قسم کے اسباب کے سبب جن کا تعلق ان اسباب سے جن کی وجہ سے وہ اس گھر کے پاس سے گزرا مطلق(بےقید) کچھ نہیں ایک بھاری پتھر اس گھر کی چھت سے گرے اور اس آدمی کا تمام کردے تو اس کی موت کی نسبت ہم کہہ سکے گے کہ وہ اتفاق سے وجود میں آئی گو وہ لوگ جو خدا کے علم اور ازلی ارادے اور حکومت کے قائل ہیں وہ اسے بھی اتفاق نہیں کہتے ۔ لیکن اگر کوئی اسے اتفاق کہے تو ہم اسے منع نہیں کرینگے ۔پر ہم پوچھتے ہیں کہ اتفاق کی اس تعریف اور مثال سے جو سطور مرقومہ بالا میں ہدیہ ناظرین کی گئی ہے کیا ظاہر ہوتاہے؟۔ یہ کہ اگر مختلف اقسام کے اسباب یعنی مادی اور عقلی اسباب یا مادی اور عقلی قوانین پہلے ہی سے موجود نہ ہوں تو جسے ہم اتفاق کہتے ہیں دنیا سے معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہو جائے۔ پر اگر مادی اور عقلی اسباب یاقوانین اتفاق کے وجود سے مقدم ہیں ۔ تو اتفاق جو موخر ہے اپنے مقدم کا مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) یا مو جد نہ ہوا۔
اوریہی حال اس قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) کا ہے جویہ دعویٰ کرتاہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں لازمی امرکے سبب سے ایسا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ۔ اس خیال کو ادا کرنے کے لیے انگریزی لفظ (نسیسٹی NECESSITY )بمعنی ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں بھی یہی کہاجا سکتاہے کہ اگر عقل اور مادہ موجود ہوں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کا باہمی طور پر عمل کرنا ایک لازمی امر ہے ۔ پر اگر مادہ اور عقل موجود ہی نہ ہو ں تو نسیسٹی کہاں رہی ۔ اور کیا کام کرےگی۔ ہم جہاں تک غور کرتے ہیں ہمیں یہی معلوم ہوتاہے کہ جو کچھ علمائے مسیحی نے کہا ہے وہ صحیح ہے کہ نہ مادہ قائم بالذات اور ازلی ہے اور نہ وہ اس تجویز کا مجوز(تجویز کرنے والا، رائے دینے والا) جو موجودات میں نمایاں ہے۔ یہ کہنا کہ انگریزی کے حروف تہجی سے خود بخود شیکسپئیر کے ڈرامے پیدا ہو گئے زیادہ صحیح ہے بہ نسبت اس دعوے کے کہ ذرات مادی کے انفاقیہ اتصال(میل ملاپ،قرب) سے تمام دنیا کی ترتیب و تجویز وجود میں آگئی۔ یہ تو البتہ ہو سکتاتھا کہ ان ذرات سے کہیں کہیں بعض عجیب مرکب مادی مجموعے پیدا ہوتے جو زیادہ فاصلوں پر واقع ہوتے ۔ پر یہ نہیں ہو سکتاتھا کہ ایک تلےہوئی انتظام کے مطابق ہمیشہ قائم رہنےوالی ترتیب یا تجویز ان سے پیدا ہوجاتی۔ پ سیہ ماننا کہ جو نظام موجودات میں نظر آتاہے۔ جو خوبصورتی اس سے ٹپکتی ہے۔جو اغراض اس سے بہم پہنچتی ہیں وہ ذرات مادہ کے اتفاق اتصال(میل ملاپ،قرب) و جتماع کا نتیجہ ہے بڑی
زوداعتقادی کا کام ہے۔ لیکن جتنے دہرے ہیں وہ درحقیقت یہی مانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ضروری امر ہے کہ ازلی ذرے آپ ہی آپ آپس میں مل کر بےشما راجسام پیدا کرتے رہیں۔انہیں اجسام میں سے ایک وہ ہے جسے ہم زمین کہتے ہیں ان کا یہ دعوی ایسا ہے جیس یہ دعوی کہ اگر یونانی حروف کو گڈمڈ اور خلط ملط کر کے ہوامیں پھینک دیں تو تھوڑے عرصے کے بعد خودبخود ہومر کی مشہور نظم الیڈ پیداہوجائےگی۔ ہم پر اس کے جواب میں پھر یہی کہتے ہیں کہاگر لاکھوں برس تک ہم یونانی حروف کو پھینکتے رہیں تو تو بھی ایسڈؔ کا پہلا مصرع بھی کبھی مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) نہ ہوگا۔
پھر بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ موجودات میں جو ترتیب نظر آتی ہے اسے کسی مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ تو کسی قانون LAW کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ پر اس پر یہ سوال کیا جاتہاے کہ قانون میں عقل کا دخل ہاتوتاہےیا وہ بغیر عقل کے وضع ہو جاتا ہے؟ روشن ضمیر لوگ ایک کےلیے یہ بات مان سکتے کہ قانون بغیر مقنن کے بھی وجودمیں آسکتاہے۔ ایک فاضل کا قول ہے کہ "جب کوئی قانون کسی خاص قسم کے اظہاروں کو آپس میں ربط دیتاہے اور ان پر حکومت کرتاہے تو اس سے یہ بات آپ ہی آپ ثابت ہوتی ہے کہ اس سلسلے پر عقل حکمران ہے جس نے اس قانون کو بنایا قائم کیا ہے واقعات کا وقت اور فاصلے کو قواعد اور تعداد اور پیمانے کےقوانین کے مطابق سرزد ہونا خیال اور دماغ کے وجود پر گواہی دیتا ہے"۔ اور جو کچھ ہم دنیا میں ترتیب وتجویز کی قسم سے معائنہ کرتے ہیں اس سے اس قول کی بخوبی تائید ہوتی ہے ۔ واضح ہو کہ قوانین LAWS ترتیب کے بواعث نہیں بلکہ مظاہر ہیں۔ وہ تو انہیں باہمی رابطوں کا نام ہیں جن سے اور جن میں حکمت الہی درخشاں (چمکتاہوا، روشن ، تابع) ہے۔ مثلا ً ہم دنیا میں کیمیائی قوانین مشاہدہ کرتے ہیں۔ لیکن ان قوانین کاوجود ان کیمیائی عناصر کے سبب سے ہے جن میں یا توں آپس میں مل جانے کی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں یابالکل برعکس قسم کی طاقتیں موجود ہو تی ہیں تاہم وہ خصوصیتیں یا طاقیتیں ایسی تُلی ہوئی ہیں اور ایسی باہمی مناسبت سے کام کرتی ہیں کہ دنیا کے نظام میں ان کےسب سے فرق نہیں آتا۔ اگر کیمیائی عناصر نہ ہوتے تو کیمیائی قوانین کہاں ہوتے ۔ علاوہ بریں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قوانین خود بخود کسی طرح کا کام نہیں کرتے ہیں۔ کوئی قانون آپ ہی آپ کسی طرح کا نتیجہ پیدانہیں کرتا۔ نتائج ان اسباب سے جو قانون کے مطابق کام کرتے ہیں پیدا ہوتے ہیں اور جو نتائج ان اسباب سے پیداہوتے ہیں ان کی خاصیت انہیں اسباب کے شمار اور خاصیت پر منحصر ہوتی ہے اور نیز اس بات پر کہ ہر سبب دوسرےاسباب سے کیا نسبت رکھتاہےاب اگراسباب ایک دوسرے کے مخالف ہوں اور ان کی تعداد و مقدار درست نہ ہوتو اسی قانون کی رو سے جس کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں ترتیب کے عوض بے ترتیبی اور امن کے عوض بے امنی پیدا ہوگی جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ قانون ترتیب کا موجد(ایجاد کرنے ولا) نہیں ہے بلکہ وہ بڑے نقصان کا موجب ہو سکتاہے اگر وہ اسباب جو اس کے تابع ہیں مقرری انداز اور نسبت سے کم یا بیش ہوجائیں۔ دنیامیں جو ابتری(خرابی، بے حالی) برپاہوتی ہے۔ وہ اسی سبب سے وجود میں آتی ہے کہ اس کے اسباب پورے پورے طور پر اپنے قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ مثلاًقانون ثقل کے مطابق یہ لازمی امرہے کہ جو چیزآسمان کی طرف پھینکی جائے وہ زمین کی طرف لوٹآئے۔ اب اگر بعض اسباب مل کر کسی پہاڑ کے سلسلے کو آسمان کی طرف کی طرف پھینک دیں تو اس وقت کشش ثقل کا قانون امن اور سلامتی کو قائم نہیں رکھے گا بلکہ امن و سلامتی کو تباہ کرے گا۔ کیونکہ اس قانون کے تقاضے سے پہاڑ زمین کی طرف آئےگا اور سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کو تباہ کرے گا۔ پس
ظاہرہے کہ قانون ثقل جو مادے کے ہر ذرے پر حاوی ہے ترتیب پیدا نہیں کرتا بلکہ اگر خاص انتظاموں سے باہمی موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) پائیداری اور زندگی بر قرار نہ رکھی جائے تو اسی قانون کے سبب سے ابتری(خرابی، بے حالی) بربادی اور تباہی تمام نظام شمسی میں پھیل جائے۔ اب اگر بفرض محال ہم یہ بھی مان لیں کہ مادے میں بعض ذاتی قوانین پائے جاتے ہیں تو تو بھی ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان کو ترتیب دینے اور مناسب مقداروں اور فاصلوں میں قائم رکھنے کے لیے کسی مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کی قادر عقل کی ضرورت ہے ورنہ ترتیب کے عوض بے ترتیبی اور ابتری(خرابی، بے حالی) ظہور میں آئےگی۔
لیکن بہت لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم یہ دکھادیں کہ کارخانہ فطرت فلاں فلاں منزلوں سے گزر کر فلاں فلاں اسباب و نتائج کے پیچ درپیچ (نہایت پچیدہ، بل پر بل پڑا ہوا)عمل کے وسیلےسے موجودہ ترتیب کو پہنچا ہے تو پھر اس بات کے ماننے کی ضرورت نہ رہے گی کہ اسے کسی حکمت والی ہستی نے خلق کیا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ موجودات کے سلسلے میں جو نظام محسوس ہوتاہے اگر اس کی نسبت یہ بتادیا جائے کہ وہ کون سے اسباب سے پیدا ہواہے تو وہ دلیل جو ترتیب عالم سے نکلتی ہے پاش پاش (ٹکڑے ٹکڑے ، ریزہ ریزہ) ہوجائے گی۔ ارؔسطاطالیس کے وقت سے لیکر آج تک خداکی ہستی کے قائل علما ان لوگوں کی دلیلوں کی سُبکی(ذلت، رسوائی) کو فاش کرنے آئے ہیں۔ مگر وہ نہیں مانتے پر نہیں مانتے۔
لیکن کوئی صاحب عقلی اس طرز (طریقہ،چال چلن،)استدلال (ثبوت، دلیل) کو قبول نہیں کرسکتا کہ چونکہ فلاں شے اپنی ہستی اوروجود کے لیے بعض اور اشیا پر انحصار رکھتی ہے لہذا اس کی کوئی علت غائی نہیں۔
مثلاً اگر کوئی شخص ہم کو یہ دکھائی کہ آنکھ کی پتلی اس طرح بنی ہے اور جھلی اس طرح اور سفیدی اور سیاہی اس طرح اور کہ آنکھ اس طرح اشیا کو دیکھتی اور اسطرح اشیا کی تصویر اس پر جم جاتی اورپھر اس طرح برین (مغز)کو اس کی خبر پہنچتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہمیں یہ سب باتیں بتائے اورپھر یہ کہے کہ بھائیوں آنکھ دیکھنے کی خاص علت غائی کے لیے نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اتفاق سے ایسی بن گئی کہ دیکھا کرے تو کیا ہم اس کے اس طرح کے استدلال کو صحیح سمجھےگے؟ جن اسباب کے وسیلے سے کوئی چیز بنتی ہے ان کے طریق عمل کو ظاہر کرنے سے اس چیز کی علت غائی کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن بہت لوگوں نے اسی طرح کی دلیلوں کےوسیلے نیبولر تھیوری سے جس کا ذکر ہم اوپر ایک جگہ پر کر چکے ہیں۔ اور ایوولیوش تھیوری سے اور اسی قسم کی اور تھیوریوں سے(جو ی دعوےکرتی ہیں کہ شروع میں متعدد(تھوڑی، کم) اشیاء تھیں اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ انہیں کا پھیلاؤ ہے) ہر طرح کی علت غائی کی نفی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس لیے کی ہے کہ جو دلیل خدائے تعالیٰ کی ہستی کی تائید میں دنیا کی ترتیب و تجویز سے پیدا ہوتی ہے وہ زائل(کم ہونا) ہوجائے کیونکہ تجویز کے ساتھ علت غائی کا خیال ہمیشہ وابستہ ہوتاہے۔ تجویز کرنےوالا کسی نہ کسی علت غائی کو مد نظر رکھ کر کسی کام کی تجویز کرتاہے۔ پس خدا کی ہستی کے مخالف یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہ ثابت کر دیں کہ کوئی شے کسی علت غائی کے پورا کرنے کو پیدا نہیں ہوئی تو وہ دلیل جو تجویز کےتصور سے اخذ کی جاتی ہے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ لیکن جس طریق سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ ہرگز ہرگز قابل اطمینان نہیں۔ مثلاً ایم
۔کاؔمٹی نے جو ملک فرانس کا رہنے والا تھا اور (پازیٹیو فلاسفیPOSITIVE PHOLOSPHY ) کا بانی سمجھا جاتا ہے اسی قسم کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس نے یہ دکھاکر فلاں فلاں طریقے سے نطام شمشی کی ترتیب اور پائیداری وجود میں آئی اور فلاں فلاں طبعی اسباب کے وسیلے سے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے یہ سوچ لیا کہ اب تو اس دلیل کا ستیا ناس ہو گیا جو نظام شمسی کی ترتیب وتجویز سے خدا کی ہستی کے ثبوت میں پیش کی جاتی تھی۔
اب اس دلیل کا صنعف جیسا ہم اوپر عرض کر چکے ہیں اس بات میں پایا جاتاہے کہ اس کے مطابق یہ فرض کیا جاتاہے کہ جب کوئی شخص یہ ثابت کر دیتا ہے کہ فلاں چیز یا واقعہ اس طرح وجود میں آیا تو اس سے یہ بھی ثابت ہو جاتاہے کہ وہ طریقہ PROCESS جس کے مطابق وہ چیز یا واقعہ ظہور میں آیا کسی مطلب یا غرض سے وابستہ نہ تھا ۔ اب اگریہ طرز استدلال(طور طریقہ ، دلیل) صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کے مطابق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان کے وہ بڑے بڑے کام جو عقل اور حکمت کے وسیلے وجود میں آتے ہیں بغیر عقل اور فکر کے کئےجاتے ہیں۔ بطور مثال اس بات پر غور کریں کہ جب ہم کوئی مکان بناتے تو بڑی سوچ و فکر کے ساتھ اور کسی غرض کے لیے بناتے ہیں لیکن ہو غرض جو بد نظر ہوتی ہے کئی اور چیزوں کے وجود اور مختلف شرائط کے باہمی عمل پر منحصر ہوتی ہے۔ اب اگر کسی گھر کے تمام ہوجانےپر کوئی شخص اُٹھ کر یہ ہے کہ دیکھو اس گھر کی پائیدار ی اور عمدگی ان شرائط پر موقوف(ٹھہرایا گیا، کھڑا کیا گیا) ہے۔ اسکی بنیادوں اور دیواروں اور چھتوں میں یہ یہ خصوصیتیں رکھی گئی ہیں۔ اس اس طرح سے مصالح بنایا اور استعمال کیاگیا ہے۔ اس اس طرح معماروں نے کام کیا اور اسکو بنایا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر یہ باتیں بتادی جائیں تو کیا اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ اس مکان کی تعمیر سے کوئی غرض مد نظر نہ تھی یا اس کی ساخت میں کسی طرح کی تجویز کو کچھ دخل نہ تھا۔ ہمارے رائے میں اسکی خصوصیتیں ۔ اس کا مصالح اور معماروں کا کام جدا جدا اپنی اپنی جگہ تجویز اور عقل پر گواہی دیتاہے ۔ لیکن کاؔمٹی کے طرز استدلال(طور طریقہ ، دلیل) سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ اگر مختلف حصص(حصہ کی جمع،حصے) کی کیفیتیں بیان کر دی جائیں تو علت غائی کا خیال مفقود(کھویا ہوا، غائب ہوا) ہوجاتاہے ۔ چنانچہ وہ کہتاہے کہ چونکہ سیاروں کے ہیولا(ہر چیز کا مادہ،ماہیت، اصل) کا حجم بمقابلہ نیبولا باقی مادی اجسام کے بہت تھوڑا ہے۔ اور ان کے مدار اپنے مرکزوں سے باہر نکلنے کی بہت کم قابلیت رکھتے ہیں اور ان کے مداروں کی سطحوں کا باہمی میلان(توجہ، رجحان) بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ اور ان کے اجزا میں رقیق(نرم، لطیف، پتلا) حصے کی نسبت ٹھوس حصہ زیادہ پایا جاتاہے اس لیے نظام شمسی اپنی جگہ پر قائم اور اسی لیے بعض سیارے رہنے کے قابل بن گئے ہیں۔ا ورکہ یہ سب باتیں نیبوؔلر میڑ کے مختلف حصص(حصہ کی جمع،حصے) کی باہمی کشش کا لازمی نتیجہ ہیں۔ یہ دکھا کر وہ یہ نتیجہ نکالتاہے کہ موجودات کو کسی ذی حکمت شخص نے کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا۔ اب کیا اس کی اس دلیل سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ چونکہ گھر کی دیواروں اور فرشوں اور چھتوں کا جداگانہ کام اور جال بیان کردیا گیاہے۔ اس لی گھر کوئی علت غائی نہیں رکھتا۔ مانا کہ نیبؔولر تھیوری بالکل صحیح ہے اور سائنس نے اسے قبول کر لیا ہے پر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس سے وہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے جو کامٹی نکالنا چاہتاہے؟ فرض کیجئے کہ ہماری زمین اور تمام سلسلہ سیاروں کا جس سے زمین وابستہ ہے کسی زمانے میں نیبوکس حالت میں پایا جاتاتھا۔ اور رفتہ رفتہ قوانین طبعیہ کے مطابق اس حالت سے موجودہ حالت میں آیا ہے ۔ اب کیا ہم مجبور ہیں کہ اس بات کو مان کر یہ بھی مانیں کہ جو کچھ کاؔمٹی کہتاہے صحیح ہے؟ جو شخص یہ مانتا ہےکہ قانون ثقل یا کسی اور قانون طبعی نے آپ ہی آپ بدون مداخلت عقل کے دنیا کو پیدا کر دیا وہ غیر منطقی طور
پر استدلال کرنے کے نقص سے بری نہیں ہے ۔کیونکہ یہ ضروری امر ہے کہ جس نیبولا سے نظام شمسی موجودہ حالت میں منتقل ہوا۔ وہ اپنی نیبولر حالت میں کوئی قد کوئی مقدار کوئی شکل کوئی خاصیت جسمی رکھتا ہو کہ وہ نہ حد سے زیادہ رقیق(نرم، لطیف، پتلا) اور نہ حد سے زیادہ گھنا۔ نہ حد سے زیادہ سیال اور نہ حد سے زیادہ ٹھوس ہو۔ اور کہ اس کے ذرے گنے ہوئے اور اسکے عناصر تلے ہوئے ہوں اور اس کے اجزا مناسب مقداروں اور رشتوں کے ساتھ آپس میں مل جانے کے قابل ہوں یہ باتیں ضروری ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتو نہ نظام شمسی اور نہ کوئی اور چیز پیدا ہو۔ اب اگر نیبولا کے متعلق یہ باتیں درست ہیں(اور انہیں باطل ٹھہرانا آسان کام نہیں) تو نیبولا بجائے خود ایک مرتبہ اور مجوزہ شے ٹھہری جس کی حقیقت اور اصل کا حل اسی قدر غور طلب ہے جس قدر سیاروں کی حقیقت اور مبداء کا حل غور طلب ہے ۔پس اگر نیبوؔلا والی تھیوری صحیح ہے تو نیبؔولا بھی حکمت الہی سے ظہور میں آیا۔
اب جس طرح اس بات سے کہ دنیا نیبولا میں سے پیدا ہوئی ہے اس دلیل کو جو صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) اور منتوع کے رشتے سے پیداہوتی ہے زک(ہار، ذلت، شرمندگی) نہیں پہنچتی اسیطرح اسے اس دعوے سے بھی کوئی صدمہ نہیں پہنچتا کہ وہ بےشمار قسم کے اعضا دار جاندار حواس زمین کے طبقے پر اب پائے جاتے ہیں سادہ قسم کی متعدد(تھوڑی، کم) چیزوں سے رفتہ رفتہ پیداہوئے ہیں اور اس طرح پیداہوئے ہیں کہ الؔف میں سے پہلے بؔ نکلی اورپھر کچھ عرصے کے بعد بؔ سے پؔ اور تؔ سے جؔ اور خؔ اور سؔ اور ضؔ اور ظؔ اور قؔ برآمد ہوئے ۔ حتی کہ اسی طرح ایک جسم سے دوسری قسم کے اعضا اور اجسام پیداہوتے ہوتے ہماری دنیا ایسی بن گئی جیسی کہ اب دکھائی دیتی ہے ۔ اسے اصطلاح میں (ایوولیوشن EVELUTION یا ڈی ویلپمنٹ DEVELOPMENT ) کہتے ہیں۔ ان لفظوں کے معنی ہیں ایک چیز کا دوسری چیز سے نکلنا یا بڑھنا۔
اب ہم ی عرض کرتے ہیں کہ اگر موجودات کی یہ تشریح بھی قبول کرلی جائے توتو بھی اس عقل یاحکمت کا جو موجد (ایجاد کرنے ولا)اس سلسلے کی ہے انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہم یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ اگر کسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوجائے کہ جسے (سپانٹؔے نی اس جنریشن SPONTANEOUS GENERATION )کہتے ہیں ۔ صحیح ہے تو تو بھی ہمارا دعویٰ رد نہیں ہوگا۔ سپانٹےنی اس جنریشن کا یہ مطلب ہے کہ زندگی آپ ہی آپ پیداہوجاتی ہے کہ یہ لازمی امر نہیں کہ اس کے اخراج کے لیے کوئی زندہ چیز اس سے پہلے موجود ہو جو اس کا مخرج(خارج ہونے کی جگہ) اور مصدر(جڑ، بنیاد) سمجھی جائے۔ اب اس بات کے ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے عالموں نے طرح طرح کی کوششیں اور قسم قسم کے تجربے کئے ہیں ۔ لیکن وہ اس بات کے ثابت کرنے میں ہنوز(ابھی تک، اس وقت تک) قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) نکلے ہیں کیونکہ اب تک یہی بات مانی جاتی ہے کہ زندگی کا منبع زندگی ہی ہوتی ہے اور کہ وہ کبھی از خود پیدا نہیں ہوتی ۔ پر ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ رخنہ(چھید، سوراخ، شگاف) بھی جو ایوؔولیشن تھیوری میں ابتک پایا جاتاہے کسی طرح مٹ جائے تو تو بھی یہ سوال باقی رہے گا کہ زندگی اور زندگی کی حرکات و سکنات اور تعلقات و خصوصیات کو یا تو کسی صاحب تجویز نے ایسا بنایا جیسی کہ وہ دنیا میں نظر آتی ہیں یا اتفاق نے انہیں ایسا بنا دیا۔ کہ یا عقل نے انہیں ایسی ترتیب دی ہے ۔ یا غیر عقل نے انہیں اس طرح مرتب (ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا)کیا ہے ۔ لیکن اتفاق والی تھیوری کا صنعف اور نقص ہم اوپر دیکھ آئے ہیں۔
مگر جو بات اس بحث کے متلق یاد رکھنے کے قابل ہے یہ ہے کہ ایوؔولیوشن سبب نہیں بلکہ محض ایک طریق عمل ہے ۔ یعنی اس سے صرف یہ ظاہر ہوتاہے کہ اجسام اس طریقے سے پیدا ہوئے ہیں۔لیکن طریق عمل محتاج اس سبب کا ہوتاہے جس نے اسے ایسا بنایا جیسا کہ وہ ہے ہکؔسلی صاحب نے ایک مرتبہ یہ تصور کر کے کہ تجویز کی دلیل کو جوہر چیز سے کسی نہ کسی علت غائیہ کو مربوط(بندھا ہوا، ربط کیا گیا) کرتی ہے ڈؔارون صاحب کی تھیوری آف ایوولیشن سے مہلک صدمہ پہنچا ہے کچھ کچھ اس طرح لکھاتھا۔"جو دلیل اس خیال پر مبنی ہے کہ جو چیزیں اس دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ کسی نہ کسی علت غائی کے لیے بنائی گئی ہیں اس طرح بیان کی جا سکتی ہے۔ چونکہ عضو۔اؔ ۔غرض بؔ کو پوراکرتاہے لہذا وہ اسی غرض کی انجام دہی کےلیے پیدا کیا گیا ہے پیلیؔ صاحب نے گھڑی کی مشہور کے وسیلے یہ دکھایا ہے کہ گھڑی کے مختلف پرزوں اور اظہار وقت کی غرض میں جو موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) و مناسبت پائی جاتی ہے ۔ وہ اس بات کاثبوت ہےکہ گھڑی اظہار وقت کی ٖغرض کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اور انہوں نے اس طرح استدلال کیا ہے کہ گھڑی کے سے نتیجے کو جس سے وقت کی رفتار معلوم ہوتی ہے صرف ایک ہی سبب پیداکر سکتاتھا اور وہ سبب عقل ہے کیونکہ عقل ہی ویسے وسائل کام میں لاتی ہے جیسے مقاصد مطلوبہ کی برآری کے لیے موزوں ہوتے ہیں ۔لیکن فرض کیجئے کہ کوئی شخص ہمیں یہ دکھائے کہ اس گھڑی کو کسی شخص نے نہیں بنایا بلکہ وہ ایک ایسی گھڑی سے جو اچھا وقت نہیں دیتی تھی ذرا اسی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ اور کہ یہ گھڑی بھی جو اچھا وقت نہیں دیتی تھی خود ایک ایسی گھڑی سے نکلی تھی جسے مشکل سے گھڑی کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ نہ تو اس کے ڈائل پر ہندسے پائے جاتے تھے۔ اور نہ سوئیاں ہی عمدہ حالت کو پہنچی ہوئی تھیں اور اگر اسی طرح پیچھے لوٹتے لوٹتے ہم ایک گھومنےوالے بیلن تک جاپہنچیں جو اس سارے سلسلے کی اصلی جڑ ہے اور اگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی دکھایا جائے کہ یہ تمام تبدیلیاں اس سبب سے پیداہوئیں کہ اس چیز میں باربار تبدیلی اختیار کرنے کا میلان(توجہ، رجحان) پایا جاتاتھا۔ اور کہ نیز اس کے اردگرد کی چیزوں نے ایسا اثر کیا جس نے ان تبدیلیوں کی مدد کی جو اسے اس رخ پر لے جارہی تھیں جدھر ایک عمدہ وقت دینے والی گھڑی پیدا ہو سکتی تھی لیکن ان تغیرات کو روکا جو اسے دوسرے رخ پر لےجانا چاہتی تھیں۔ اب اگر یہ باتیں دکھا دی جائیں تو روشن ہے کہ پیلی صاحب کی دلیل پُرزے پُرزے ہو جائے گی۔ کیونکہ اس حالت میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ جس طرح یہ ممکن ہے کہ وہ چیزیں جو ایک خاص مقصد کو پورا کر رہی ہیں کسی باحکمت شخص کے مناسب وسائل کے استعمال سے یکدم پیداہوئی ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایک ایسے طریقے سے برآمد ہوئی ہوں جسے وہ اسباب وجود میں لائے ہوں۔ جو ذی عقل نہ تھے"۔ لیکن ہکسلے صاحب نے بعد میں اپنی اس رائے کو کسی قدر بدل دیا ہے۔ اور شاید یہ ماننے لگ گئے تھے کہ کوئی عضو یا جسم شروع ہی سے اس صورت کے ساتھ پیدا نہیں ہوا جو صورت وہ اس علت غائی کوپورا کرنے کے لیے رکھتاہے جسے اب پورا کر رہا ہے ۔ گویا وہ خاص تجاویز کی جگہ کو ماننے لگے۔ چنانچہ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جو شخص ایوولیوشن تھیوری کو پٌورے پورے طور پر مانتاہے۔ اسکے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ "ذرات کے ایک ایسے ابتدائی انتظام کو جس میں سے موجودات کے تمام اظہارات بر آمد ہوئے ہیں"۔ مانےلیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ "ایسا کرنے سے وہ ہمیشہ علت غائی کے ماننے والوں کے ہتھے چڑھاہوا ہے ۔ جو ہمیشہ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سے طلب کر سکتے ہیں کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ذرات کا ابتدائی انتظام جس کا دعویٰ وہ کرتاہے اس غرض پر مبنی نہ تھا۔ کہ اس سے موجودات کے تمام اظہارات برآمد ہوں"۔ لیکن ہکسلی
صاحب جب اتنی بات تسلیم کرتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ منطیقیانہ اصول کے مطابق اس سے زیادہ تسلیم کریں۔ یعنی یہ بھی تسلیم کریں کہ نہ صرف کل بلکہ کل کے مختلف حصے بھی مجوزہ غرض میں شامل تھے۔ پس جن آنکھوں سے ہم دیکھتے اور جن کانوں سے ہم سنتے ہیں وہ انہیں اغراض کی انجام دہی کے لیے بنےجن کانوں سے ہم سنتے ہیں وہ انہیں اغراض کی انجام دہی کے لیے بنے ہیں۔ جن اغراض کو وہ اب پورا کر رہے ہیں ۔ خواہ وہ کسی اور ہی طرح کی آنکھوں اور کانوں سے نکلے ہوں اور خواہ آگے چل کر پھر ان سے اور کسی طرح کی نئی آنکھیں اور نئے کان پیدا ہوجائیں۔ پروفیسر ہکسلی کی وہمی گھڑی کے رفتہ رفتہ پیداہونے سے زیادہ حکمت کے آثار منکشف ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے فرضی گھومنے والے ابتدائی بیلن میں ایسی قابلتیں نظر آتی ہیں جو بجز عقل کی مداخلت کے کسی طرح اس میں آنہیں سکتی تھیں ۔ غالب ہے کہ وہ مختلف حالتیں جن میں سے اسے گزرنا تھا ۔ پہلے ہی سے معلوم ہوں اور اسی طرح وہ تاثیریں بھی جنہوں نے اس پر اثر ڈالنا تھا۔ شروع ہی سے شمار کی گئی ہوں۔ اور کہ وہی چیزیں کام میں لائی گئی ہوں جو اسے ایک عمد ہ گھڑی میں مبدل کرنے والی تھیں اور جو اس نتیجے کے مخالف تھیں وہ شروع ہی سے پہچانی اور ردکی گئی ہوں۔ لیکن غیر ذی عقل اشیا ان باتوں کا موجد (ایجاد کرنے ولا)نہیں ہو سکتی ہیں۔ وہ فقط بطور اسباب و وسائل کے کسی ذی عقل شخص سے استعمال کی جاسکتی ہیں پس اس دلیل سے پیلی صاحب کی دلیل کی تردید(رد کرنا ، جواب دینا) نہیں ہوتی بلکہ یہ ثابت ہوتاہے کہ جس قدر بیلن اور گھڑی کے درمیان بعد ہوگا۔ یایوں کہیں کہ جس قدر زیادہ شمار ان متفرق( نفرت کرنے والا) کا ہوگا جو ابتدائی بیلن آخری گھڑی کے درمیان واقع ہیں ۔ اسی قدر زیادہ ضرورت اسبات کے ماننے کی ہوگی کہ اس سلسلے کی کوئی بھی نئی عقل شخص نے تجویز کیا ہے۔
جو لوگ ڈاؔرون صاحب کے مقلد ہیں یعنی ان کی تھیوری آف ایوولیوشن کو مانتے ہیں وہ یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ قدرتی طاقتوں نے خود بخود اپنے عمل سے سلسلہ موجودات کو بدوں دخل قوائے ذہنیہ کے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کر دیا ہے وہ یہ نتیجہ موہومہ چند قوانین فطری سے نکالتے ہیں۔ ہم اوپر عرض کر چکے یہ ہیں کہ نفس قانون سے ہمیشہ یہ ظاہر ہوتاہے کہ ایک ذی عقل مقنن کا وجود اس پر مقدم ہے ۔ پر اس جگہ ہم ڈارونئین تھیوری کے قوانین پر جداگانہ نظر ڈالینگے۔تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کے قانون کہاں تک خدا کی ہستی اور خدا کی حکمت کے مخالف ہیں۔ قوانین زیر بحث یہ ہیں :۔
1۔ وہ قانون جس کے مطابق ہر جاندار اپنی ہی قسم کا جاندار پیدا کرتاہے ۔ اسے (لا آف ہریڈیٹی LAW OF HEREDITY )کہتے ہیں۔
2۔ وہ قانون جس کے مطابق کون ذیجان مخلوق معمولی شرائط زندگی کے عمل سے مخرف ہو کر تغیرو تبدل قبول کرنے کی طرف مائل ہوتاہے ۔ اسے (لا آف ویری اے بیلٹی LAW OF VARIABILITY ) کہتے ہیں ۔ اسے موٹے اور عام فہم لفظوں میں تغیر پذیری کا قانون کہہ سکتے ہیں۔ اور اسی قانون کی بدولت بندر آدمی بن جاتا ہے ۔
3۔ پھر ایک قانون ہے جس کے مطابق کوئی شے یانوع حد سے زیادہ بڑھنے کا میلان(توجہ، رجحان) رکھتی ہے۔ اسی لیے اسے اپنی حیات کو قائم رکھنے کے لیے جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ اسے (لا آف اوور پروڈکشن LAW OF PRODUCTION) حد سے زیادہ بڑ جانے کا قانون کہتے ہیں۔
4۔ وہ قانون جس کے مطابق فقط وہ جو سب سے زیادہ قوی اور طاقتور ہوتاہے باقی رہتاہے اور وہ جو اپنے ارد گرد کی اشیا سے موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) نہیں رکھتا اور مقابلہ کرنے والے اسباب یا افراد غلبہ نہیں پاتا۔ فنا ہو جاتا ہے اسے (لاآف نیچرل سلیکشن LAW OF SELECTION ) یعنی انتخاب کرنے کا فطری قانون کہتے ہیں۔
5۔ وہ قانون جس کے عمل سے جانداروں کے درمیان مجامعت برائے ابقائے نوع وقوع میں آتی ہے اس کو (لا آف سکشیوال سلیکشن LAW OF SEXUAL SELECTION ) کہتے ہیں۔
حامیان الحاد (سیدھے راستے سے کتراجانا)یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں قوانین کے عمل سے تمام نباتات و حیوانات کا سلسلہ متعد د ابتدائی اشیا سے برآمد ہوا ہے۔ وہ ان قوانین کو تجویز ترتیب کی نفی ثابت کرنےکےلیے پیش کرتے ہیں لیکن ذرا سی توجہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ قوانین بجائے خود ہستی خدا اور حکمت خدا کے موید(تائید کرنے والا) و معاون(مددگار) ہیں۔
1۔ قانون ہریڈیٹی یہ کہتا ہے کہ کسی ذیجان مخلوق سے جو مخلوق پیدا ہوتا ہے وہ مثل اسی کے ہوتاہے ۔ پر سوال برپا ہوتاہے کہ کیوں ایسا ہوتاہے؟ کیوں والد اور مولود میں ، کیوں پیدا کرنے والے اور پیدا کی ہوئی شے میں مشابہت اور مماثلت پائی جائے؟۔ جب مادے کا مضغہ(لوتھڑا، گوشت کا ٹکڑا) بے شکل اور بے ترتیب حالت میں بطن(رحم) خاک یا رحم مادر میں ہوتاہے اسی وقت اس کی صورت اور اس کے موجد (ایجاد کرنے ولا)کی صورت میں کسی طرح کی مشابہت نہیں پائی جاتی ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کیونکر ہوتاہے کہ وہی مضغہ(لوتھڑا، گوشت کا ٹکڑا) آخر کار اپنے موجد کی شکل میں مبدل(تبدیل) ہو جاتاہے؟ سائنس سے اسکا کوئی جواب نہیں ملتا۔ سوائے اسکے کہ یہ ایک قانون ہے۔ پر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ قانون کہاں سے آیا؟ گو سائنس اس کا جواب نہیں دیتی پر ہماری عقل اس سوال کا جواب طلب کرتے ہے ۔کیا اس کا یہ جواب تسلی بخش نہیں ہے کہ وہ جو گوناگوں موجودات کا خالق ہے اسی نے اس عالم کی رنگینیوں میں یہ قانون بھی قائم کر دیا تاکہ تغیرات (تبدیلیاں) حد سے نہ بڑھنے پائیں۔ اور نظام عالم میں ابتری(خرابی، بے حالی) نہ آئے ہاں اسی نے یہ قانون بنایا کہ درخت اپنے اپنے بیج اور حیوان اپنی اپنی قسم کے مابق بڑھیں اور پھلیں۔
2۔ پھر اسی طرح وہ قانون بھی جس کے مطابق اشکال نباتات و حیوانات میں تبدلات و تغیرات پیدا ہوتے ہیں عقل اور ذہن پر دلالت (علامت، سراغ)کرتاہے۔ ہم دو باتوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اول ۔یہ کہ کسی جاندار شے میں سے زیادہ بدلنے کی قابلیت یامیلان(توجہ، رجحان) نہیں پایا جاتا۔ خود ہکسلی ؔ صاحب اس بات کے مقرہین۔ کہ کوئی وؔھیل (ایک قسم کی مچھلی) پر پیداکرنے کی طرف مائل نہیں اور نہ کوئی طائر ایسی تبدیلی اختیار کرنے کا م
میلان(توجہ، رجحان) رکھتاہے کہ اس میں وھیل کی ہڈی پیداہوجاتی۔ دوئم۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تبدیل اشکال کی وہ قابلیت جو جاندار مخلوق میں پائی جاتی ہے۔ تنزل کے رخ پر کبھی نہیں گئی۔ بلکہ ہمیشہ تمیتم کمال کی سمت راجع(رجوع کرنے والا) رہی ہے۔اس کو سب ایوؔولیوشنٹ مانتے ہیں۔ ڈاؔرون خود مانتاہے کہ اس ضروری ترقی کا کوئی قانون نہیں پایا جاتاہے۔ اب ہم سوال کرتے ہیں اسکا کیا سبب ہے کہ تنزل کبھی نہیں ہوا اور ترقی ہمیشہ ہوتی رہی ہے ۔ یعنی آدمی سے بندرکبھی نہیں بنا ۔ بندر ہی سے آدمی بنا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایوولیوشنٹس کا خیال بہ متعلق ڈیویؔلپ منٹ درست ہے۔ تو اس متواتر (لگاتار)تبدل پذیر ترقی کا یہ سبب ہے کہ جانداوں کے درمیان اور ان اسباب کے درمیان جو ان پر اپنا اثر ڈالتے ہیں ایسا تناسب اور تطابق(میل جول، لگاؤ) پایا جاتا ہے ۔ جو آثار حکمت پر گواہی دیتاہے ۔ اگر ایسانہ ہوتاتو بارہا ابتر تبدیلیاں پیدا ہوتیں ۔ یا ایسی بے ڈھب تبدیلیاں وجود میں آتیں جن سے پھر اور کوئی چیز پیدانہ ہوتی۔
3۔ حد سے زیادہ بڑھ جانے کا قانون ۔ اس کے متعلق کہا جاتاہے کہ اس قانون کے مطابق زندگی کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد پیداہوتی ہے۔ مطلب اس کایہ ہے کہ جو خوراک کسی قسم کے جانداروں کے لیے مہیا کی گئی ہے اس کی مقدار سے ان جانداروں کی تعداد بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس سبب سے ان میں اپنی زندگانی قائم رکھنے کے لے جدو جہد پائی جاتی ہے اس قانون کے ماننے سے بھی خدا اور اسکی حکمت کا انکار کرنا لازمی امر نہیں ٹھہرتا۔
اوّل۔ کوئی نوع جانداروں کی فقط اپنے ہی لیے موجود نہیں۔ اس کا تعلق اور جانداروں کے ساتھ بھی ہے۔ ان کی حاجت روائی اس سے ہوتی ہے۔ زندگی زندگی کی خوراک ہے پس کوئی جاندار اس جدوجہد میں رائیگاں(ضائع) نہیں جاتا۔ بلکہ ایک اعلیٰ غرض کو پورا کرتاہے۔ دوئم۔ یہ جدوجہد اعلیٰ مقصدوں کو پورا کرتی ہے۔ خود ڈارؔوی نئین تھیوری کو ماننے والے معترف(اعتراف یا اقرارکرنے والا) ہیں کہ اسی کے سبب سے جاندار مخلوق کمال کو پہنچتے ہیں۔ ہاں اسی جدوجہد سے جلب منفعت(نفع حاصل کرنے والا) اور دفع ضر ر کی قوتوں اور خواض کا تعلق ہے۔ شیر اپنی طاقت اور طراری(زبان کی شوخی،تیزی، چالاکی)، ہرن اپنی باد(ہوا کی طرح)رفتاری اور گئربہ مسکیں اپنی چالاکی اور آہستہ کاری اسی سے پاتی ہے۔ ان باتوں کا اعتراف ڈارون کے پیرو خود کرتے ہیں۔ پر ا س سے کیا نتیجہ نکلتاہے؟ کیا یہ کہ اس قانون کا کوئی مقنن نہیں؟ یا یہ کہ اوؔدر پر وڈکشن کا قانون بھی خدا ہی کی حکمت نے بنایا تاکہ جب تک یہ موجودہ سلسلہ اس کی مرضی کے مطابق قائم ہے تب تک زندگی کثرت سے پیدا ہوتاکہ مخلوقات کی ایک دوسرے سے پرورش ہواکرے اور وہ جدوجہد جو اس نے حیات کےلیے ان کی سرشت(عادت، مزاج) میں پیدا کر دی اس کی بھی ایک عرض تھی اور وہ یہ کہ جانداروں کے خواص و اوصاف اپنے طبعی اور ذاتی کمال کو پہنچیں۔ کیا ان باتوںمیں حکمت اور عقل کا دخل نہیں ہے؟
4۔ لا آف نیچرل سیلکشن۔ جیسا ہم اوپر عرض کر چکے ہیں۔ اس قانون کی نسبت یہ مانا جاتاہے کہ اس کے مطابق وہ جو سب سے زور آور ہے۔ قائم رہتاہے اور جو کمزور ہے وہ معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہوجاتاہے اور وہ اس طرح کہ جب حیات کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا موقع آن پڑتاہے تو وہ تبدیلی جو کسی فطرتی سبب سے اس جدوجہد میں حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہوتی ہے اور اس نوع کے افرادکےلیے مفید ہوتی ہے ۔ ان افراد
کو قائم رکھتی ہے اور ان کی نسل میں جاری ہو کر اسے بھی وہی فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ وہ نسل قائم رہتی اور بڑھتی ہے اور جو افراد ان کے ساتھ مقبلہ کرتے تھے پر جن میں وہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ بہ سبب اپنی نا قابلیت کے معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہوجاتے ہیں۔ ہم اس قانونی کی درستی یا نادرستی کے نسبت اس جگہ کچھ نہیں کہینگے۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگریہ قانون حقیقت میں ایسا ہی ہو جیسا کہ بیان کیاگیا ہے توتو بھی اس سے حکمت الہیٰ کا انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ بلکہ یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ ایک عمدہ طریقہ ہے جس کے وسیلے سے تجویز کی ہوئی چیزوں کی منزلیں بخوبی ظاہر ہوں۔ کیونکہ اس سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتاہے کہ یہ قانون یا جو مادی طاقتیں اس قانون کے ماتحت کام کرتی ہیں وہ خودبخود یہ تبدیلیاں پیدا کردیتی ہیں۔ اگر کرتی ہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے ؟ یاد رہے کہ دعوے بہت کئے جاتے ہیں۔ پر ثبوت ایک بھی نہیں دیا جاتا۔ پس نیچرل سیلکشن کی جتنی مثالیں ڈؔارون کے مقلدوں کی طرف سے دی گئی ہیں۔ یا دی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو تجویزیا غایات کے مخالف ہو۔ انجن میں آگ اور پانی کو دیکھ کر یہ کہنا کہ سب کچھ آگ اور پانی سے ہوتاہے۔ نہ اس بات کی نفی ثابت کرتاہے کہ آگ اور پانی کو خدا نے ایسا بنایا جیسے کہ وہ ہیں اور نہ یہ ثابت کرتاہے کہ آگ اور پانی اور انجن آپ ہی آپ مل کر مقاصد غیر مطلوبہ یا غیر مجوزہ کو انجام دے رہے ہیں۔
5۔ سیکشوال سیلکشن۔ ا سکی تعریف ہم اوپر کر آئے ہیں ۔ لہذا اس جگہ اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر یہ قانون بھی مثل دیگر قوانین کے تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بھی کچھ ہرج نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بھی حکمت الہی کے عمل اور دخل کا مخالف نہیں۔
واضح ہو کہ ہم ڈارون اور اس کے مقلدوں کی تھیوریوں اور سائنس کے ساتھ کچھ جھگڑا کرنا نہیں چاہتے۔ اور نہ اس پر کسی طرح کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ ہماری بحث صرف ان باتوں سے ہے جو ان کے اقوال و ابحاث (بحث) میں علم الہی سے متعلق ہیں۔ ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ جو کچھ ان صاحبوں نے فطری قوانین کے عمل کی نسبت کہا ہے اس سے خدا اور خدا کی حکمت اور قدرت معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) نہیں ہوتے ۔ بلکہ من کل الوجود یہ ثابت ہوتاہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو خود تو معلل بہ اغراض نہیں ہے تاہم اسی کی مرضی نے تمام چیزوں کو ان کے مقاصدوٖغایات کے لیے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیاہے۔
___________________
پانچواں باب
ضمیر کی گواہی یا اخلاقی دلیل
بزؔرگ ہاج صاحب فرماتے ہیں کہ جس طرح آفتاب کا وہ عکس جو ائینہ یا کسی صاف جھیل کی سطح سے اُٹھتااور اس بات کی خبر دیتا ہے کہ آفتاب ہے اورکیسا ہے اسی طرح انسان کی روح بڑی وضاحت اور صفائی سے ا س بات پر گواہی دیتی ہے کہ خدا ہے اور کچھ درجے تک یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ کیساہے۔ آفتاب کے عکس سے آفتاب کی ساری باتوں کا پتہ نہیں ملتا۔ مثلاً وہ یہ نہیں بتاتا کہ سورج کی اندرونی کیفیات کیا اور کیسی ہیں۔ اور اس کی روشنی اور گرمی زمانہ بزمانہ کیونکر قائم رہتی ہے۔ تاہم اسی ایک عکس سے حیات آفتاب کے متعلق بہت کچھ معلوم ہوجاتاہے۔ اسی طرح انسان کی روح سے تمام اسرار اللیہ توحل نہیں ہوتے۔ تاہم بہت درجےتک معلوم ہوجاتاہے کہ خداکیا اور کیسا ہے۔ آفتاب کا عکس آفتاب کی ہستی پر یہ گواہی دیتاہے۔ کہ وہ ہے اور ایسا ہے اور ہم اس کی گواہی کو قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری روحیں اس بات پر گواہی دیتی ہیں کہ خدا ہے اور ایسا ہے اور ہم مجبور ہیں۔ کہ ان کی گواہی بھی اسی طرح قبول کریں جس طرح آفتابی عکس کی گواہی متعلق آفتاب کی ہستی اور صفات کے قبول کرتے ہیں۔
ہم اب اس دلیل کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو انسان کی اخلاقی صفات سے مستنبط ہوتی ہے۔دنیا میں نہ صرف ترتیب اور تجویز کے آثار نظر آتے ہیں۔ بلکہ ایسی طاقتیں بھی کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو اخلاقی طاقتیں کہلاتی ہیں۔ مثلاً ہم اس دنیا میں اخلاقی قوانین اخلاقی جذبات اخلاقی خیالات اور اخلاقی اعمال کو دیکھتے ہیں جن میں وہ قدرت اور وہ ترتیب دکھائی دیتی ہے جو نیکی اور بھلائی پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سے خدا کی ہستی ثابت کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
واضح ہوکہ زمانہ حال کے بہت سے علما نے اس دلیل کو جو اخلاقی باتوں سے مستنبط ہتی ہے۔ تمام دلیلوں سے زیادہ زور آور مانا ہے۔ مثلاً مشہور فلاسفر کاؔنٹ کی رائے میں یہ دلیل خدا کی ہستی اور حکومت کے ثبوت میں اور سب دلائل پر فائق(برتر،ممتاز،فوقیت) ہے۔ اور ان کے خیال میں کوئی ملحد اس کا پورا پورا جواب نہیں دے سکتا۔ اسی طرح سروؔلیم ہیملٹن صاحب جو بڑے مشہور فلاسفر گزرے ہیں یہ کہتے ہیں کہ "خدا کی ہستی اور انسان کی غیر فانیت کے متعلق فقط وہی دلائل سچی اور لاجواب ہیں جو انسان کی مارلؔ نیچر پر مبنی ہیں"۔ ایک اور عالم یہ کہتاہے کہ "ضمیر ہی وہ جڑ ہے جس سے مذہب کا خیال پیدا ہوتاہے ۔اور چاہیے کہ وہ ثبوت جو نیچر سے خدا کے وجودیا مذہب کی ہستی کے متعلق پیش کئے جاتے ہیں۔ ہمیشہ اس دلیل کے ضمن میں پیش کئے جائیں"۔ اسی طرح کئی اور اہل الریٰ کے خیالات ہدیہ ناظرین کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن بخوف طوالت ہم انہیں درج نہیں کر سکتے ۔ گو ہم ان بزرگوں کے ساتھ اس بات میں متفق نہیں کہ ماسوائے اس دلیل کے اور کوئی دلیل زور آور نہیں۔ تو بھی ہمیں ماننا پڑتاہے کہ اگر یہ دلیل بہت ہی زور آور نہ ہوتی تو کانٹ اورہیملٹین جیسے لوگوں کو ایسا موثر نہ کرتی جیسا کہ اس نے کیا۔ اور کون اس بات پر شک لا سکتاہے کہ اگر ہم میں اخلاقی صفات نہ ہوتی ۔ تو ہم خدا کی
صفات اخلاقیہ کو کبھی نہ پہچانتے فلؔنٹ صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ نہ سبب اول کی بحث سے اور نہ اس حکمت واسعہ کے اظہار سے جو خدا کے کاموں سے ٹپکتی ہے خدا کاتصور ایسے موثر طور پر ہمارے دل میں پیدا ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ایک زندہ اور روشن ضمیر کے وسیلے سے پیداہوتاہے ۔ اسی کے وسیلے سے ہم پہچانتے ہیں کہ خدا ہر دم ہمارے قریب ہے۔ اور کہ وہ ہم سے اور ہم اس سے ایک عجیب طرح کی دلچسپی اور دلبستگی رکھتے ہیں۔ بےشک اگر ہم میں مارل نیچر نہ ہوتی توہم اس کی مارل نیچر اور مارل حکومت کو ہرگز ہرگز نہ پہچانتے ۔ممکن ہے کہ ہم اس کی قدرت کے کاموں کو دیکھ کر کانپ اُٹھتے۔ یا اس کی حکمت کو ملاحظہ کر کے اس کی تعریف کرتے پر اس کی اخلاقی خوبیاں ہم سے ہمیشہ چھپی رہتیں۔
لیکن ہم یہ بھی عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ گویہ دلیل نہایت قاطع (قطع کرنے والا،کاٹنے ولا)اور ساطع(اونچا، بلند، چمکتا ہوا) ہے تاہم اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ دلائل جو پہلے ہماری نظر سے گذرچکی ہیں بےفائدہ اور فضول ہیں۔ وہ اپنے اپنے موقع پر اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ مثلاً اس دلیل سے جو اصول علیت پر قائم ہے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سبب اول تمام موجودات کا موجد(ایجاد کرنے ولا) ہے۔ اور اس دلیل سے جو صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) اور مصنوع(صنعت کیا گیا، بنایا ہوا) کے باہمی رشتے پر مبنی ہے۔ یہ صادر(نافذ ہونے والا، کھلنے والا) ہوتاہے کہ سبب اول حکمت اور دانائی کی صفات سے متصف(وصف کیا گیا، تعریف کیا گیا) ہے ۔ اور دلیل زیر بحث یہ ثابت کرتی ہے اس میں اخلاقی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔
اب ہم اپنی فطرت کے اخلاقی عنصر پر غور کرینگے اور دیکھےگے کہ آیا وہ اس حق تعالیٰ پر جو تمام اخلاقی قوانین کا دینے والا ہے گواہی دیتاہے یا نہیں جن لوگوں کو قضایا ئے معلومہ سے منطقی صورت میں نتائج استنباط (نکالنا ، چننا، نتیجہ اخذ کرنا) کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔شاید انہیں اخلاقی تصورات کے مقابل میں کوئی ایسا حقیقی وجود نظر نہ آئے جو ہمارے اخلاقی حواس و خواص سے رشتہ رکھتا ہو اور ان کا موجد(ایجاد کرنے ولا) ہو۔ لیکن ہمیں جو ان اینٹوٹو (طبعی) علوم اور اعتقادات(یقین، بھروسہ) کے قائل ہیں جن پر ہر قسم کا منطقی ثبوت بھی مبنی ہے صاف معلوم ہوتاہے۔ اور تجربہ ہمارے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) کی تائید کرتاہے کہ جو احساس اخلاقی نیچر کے متعلق ہماری سرشت(عادت، مزاج) میں پایا جاتاہے ۔ وہ اس بات پر دلالت(علامت، سراغ) کرتاہے کہ نہ صرف اس دنیامیں اخلاقی قوانین ہی پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کا مقنن بھی موجود ہے جو ہماری اخلاقی صفات سے الگ اور جدا ہے۔
سوال غور طلب یہ ہے کہ کیا نیکی اور بدی ایسی دو مختلف اور متفاوت(فرق کیا گیا، دور کیا گیا) چیزیں ہیں جن میں کبھی میل نہیں ہوسکتا؟ کیاان میں ازل سے ایسا تضاد اور بعد پایا جاتاہے کہ کوئی طاقت ان کو باہم ربط نہیں دے سکتی؟ باستشنائے معدودے(گناگیا، شمار کیا گیا) چند تمام بنی آدم ہم خیال اور ہم زبان ہو کر اس سوال کا یہی جواب دیتے آئے ہیں اور دیتے ہیں کہ نیکی اپنی ماہیت(کیفیت،حقیقت) و خاصیت میں بدی سے متفرق( نفرت کرنے والا) ہے۔ دنیامیں کوئی زبان ایسی نہیں جس میں الفاظ"واجب"، "جائز"، "مناسب"، "لازم" ،"چاہیے" اور ان کے مراد فات سنجیدہ معنی نہ رکھتے ہوں یا لفظ "فرض" اپنے متبرک زور کو کھو بیٹھا ہو۔ آج تک کوئی ایسی سوسائٹی برپا نہیں ہوئی جس نے یہ دعویٰ کیا ہو۔ کہ نیک و بد کا امتیاز(فرق) محض و اہمہ سے پیدا ہوا ہے یالوگوں کے رسم و رواج سے نکلا ہے اور نہ کوئی ایسا مذہب دیکھنے میں آیا جس نے نیکی اور بدی کے فرق کو نطر انداز کر دیا ہے۔ اگر کبھی کہیں
کہیں کوئی ایسا شخص پیدا ہوا جس نے اس لازمی فرق کو مٹانا چاہا تو اس کے ماتھے پر بنی آدم نے ہمیشہ پر بنی آدم نے ہمیشہ گالگ کاٹیکا لگایا۔ اور اسے تمام انسانی خوبیوں سے محروم سمجھا۔
لیکن اس جگہ اس بات کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری اخلاقی صفات اور اخلاقی قوتیں خدا کی ہستی پر یہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ ان کا موجد(ایجاد کرنے ولا) اور سرچشمہ ہے تو اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ بدی کا منبع بھی وہی ہے۔ اگر نیکی خدا سے ہے تو بدی اس سے ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اور اس کا ثبوت وہ دائمی(ابدی) اور قسمی اختلاف ہے جو نیکی اور بدی کے درمیان پایا جاتاہے ۔ جن چیزوں میں ایسا ازلی اور ابدی تخالف(باہم مخالف ہونا، مخالفت) ایسی ذاتی اور طبعی مغائرت پائی جاتی ہے کب ایک ہی چشمے سے نکلی ہوئی مانی جاسکتی ہیں؟ اگر ہماری ضمیر کچھ ثابت کرتی ہے تو یہ کرتی ہے کہ خدا بدی کا بانی نہیں۔ بلکہ اس کا مخالف ہے۔ اس دنیا میں بدی اور دکھ کے اظہارات کو دیکھ کر خواہ کیسی ہی بےچینی ہمارے دل میں پیدا کیوں نہ ہو اور اس کے حل کرنے میں ہم کیسے ہی عاجز اور قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) کیوں نہ نکلیں تاہم خدا کو بدی کا موجد(ایجاد کرنے ولا) نہیں مان سکتے ۔
دوسری بات اس قوت تمیز یا ضمیر کے متلق یاد رکھنے کے لائق یہ ہے کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ کہ ہماری قوت تمیز ہم کو عین خدا کے حضور لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے اور ہم وہاں خدا کو روبرو دیکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے بالا متشا اور دلائل کے اسی ایک دلیل پر زور دیا ہے ان میں سے بعض بعض نے ضمیر ہی کو روح کا مذہبی آلہ قرار دیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ سوائے اس کے عرفان(شناخت، پہچان) الہی کا اور کوئی وسیلہ نہیں۔ لیکن علما کا یہ خیال ہے اور انکا خیال صحیح معلوم ہوتاہے کہ ہماری ذات کا کوئی واحد حصہ عرفان (شناخت، پہچان)الہی کا اکیلا مصدر(جڑ، بنیاد) نہیں مانا جاسکتا۔ بلکہ ہماری پوری انسانیت یعنی تمام قوائے و خواص جن میں عقل ۔ارادہ ۔محبت اور ضمیر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بہ ہئیت مجموعی مذہب اور عرفان الہی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
باری تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں جو دلیل ضمیر سے اخذ کی جاتی ہے وہ بھی دیگر دلائل کی طرح ایک سیدھے سادھی سی دلیل ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ایک لازمی نتیجہ ہے ان اخلاقی قوائے اور صفات کا جو ہم میں پائی جاتی ہیں ۔ اس نتیجے کے استنباط(نکالنا ، چننا، نتیجہ اخذ کرنا) کے لیے اس بات کی ضرورت نہیں کہ ضمیر کی تشریح کی جائے۔ یا اس بات کے تحقیق کرنے میں وقت کھویا جائے کہ ضمیر کی اصل اور ابتدا کیا ہے؟کیونکہ استدلال ان حقائق نفس الامری سے کیا جاتا ہے جن کے وجود اور اثبات(ثبوت ، حقیقت) کا انکار کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ضمیر کچھ چیز نہیں۔ یا اخلاقی حسات اور اخلاقی فیصلجات لایعنی باتیں ہیں۔ ضمیر ہے۔ اور اپنے تئیں تین صورتوں میں ظاہر کرتی ہے۔ اوّل۔ ہم اس سے ایک اخلاقی قانون کی ہستی کومحسوس کرتے ہیں۔ دوئم۔ یہ ہمارے لیے ہمارے فرائض کی میزان ہے۔ سوئم۔ اس کے وسیلے ہمیں ذمہ داری کا احساس حاصل ہوتاہے ۔ بادی النظر میں یہ باتیں بہت مختلف ہیں تو وہ باریک سے فرق جوان میں پائے جاتے ہیں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اب ہم تھوڑی سی دیر کے لیے ان باتوں پر غور کرینگے۔
1۔ ضمیر اخلاقی قانون پر گواہی دیتی ہے ۔ جب وہ کسی فعل کو راست قراردیتی ہے ۔ تو گویا وہ یہ شہادت دیتی ہے کہ یہ فعل اخلاقی قانون سے مطابقت رکھتاہے اور جب وہ کسی فعل کوناراست گردانتی ہے تو فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اس قانون سے توفیق وتطبیق(مطابق کرنا، مقابل کرنا) نہیں رکھتا بلکہ اس سے گواہوا ہے۔ دوسری صورت میں یوں کہیں کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں ضمیر اس کے متعلق منصف کا کام کرتی ہے۔ اس پرالزام لگاتی ہے یا اسے راست قرار دیتی ہے۔ اس پر فتوےٰ لگاتی ہے یا اس کو تحسین کرتی ہے۔ سزا دیتی ہے یا جزا دیتی ہے اور اس محاکہ میں منصفانہ بلکہ شاہانہ اختیار سے کام لیتی ہے ۔ اس کے اختیار سے ہم انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) کر سکتے ہیں پر اس کے جواز سے منکر نہیں ہوسکتے ۔ وہ ہمارے اجسام پر اور ہماری ارواح پر۔ہمارے دل پر اورہمارے دماغ پر ۔ہماری خواہشات پر اور ہمارے جذبات پر۔ ہمارے عقلی لیاقتوں پر اور ہماری روحانی طاقتوں پر مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) ہے۔ اور اس کے دعوؤں کو وہ بھی قبول کرتے ہیں جو قبول کرنا نہیں چاہتے یا جن کو انکار کرنے میں فائدہ ہے۔
پر ضمیر کی اس حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خودہمارے لیے ایک قانون ہے یا کہ وہ ہمیں ایک قانون بنا کر دے دیتی ہے جس کی تعمیل ہم پر فرض ٹھہرتی ہے۔ بلکہ اس کی حکومت ایک قانون خارجی پر دلالت(نشان) کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہم پر اور ہم میں حکومت کرتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کے اختیار کا ماخذ وہ قانون ہے جس کی وہ(ضمیر) شرح کرتی اور جسے وہ ہماری افعال و اقوال پر چسپاں کرتی ہے۔ پر اسے خود تجویز نہیں کرتی ۔ پس وہ جو کچھ کہتی ہے اپنی طرف سے نہیں کہتی بلکہ کسی دوسرے کی طرف سے قاصد یا نائب بن کر کہتی ہے ۔ اس کی ہر ایک حرکت سے یہی ظاہر ہوتاہے ۔ کہ اس کا اختیار ذاتی اختیار نہیں بلکہ کسی کا دیا ہواہے۔
شاید کوئی یہ کہے کہ جسے تم ضمیر کا قانون کہتے ہو وہ آدمی کی مرضی کا گھڑا ہواقانون ہے۔ ہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ضمیر انسان کا گھڑا ہواقانون نہیں۔ مخالف کا یہ دعویٰ قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ انسان مرضی بدوں عقل اور ضمیر کے ایک ٹھنٹناتا پیتل اور جھنجھناتی جھانج ہے۔ اگر ہماری مرضی کوئی عقلی قانون رکھتی ہے تو وہ اس کو اس تعلق کے سبب سے حاصل ہے جو اسمیں اورعقل میں پایا جاتاہے اسی طرح اگر وہ کوئی اخلاقی قانون رکھتی ہے تو وہ اسے رشتے کے باعث حاصل ہے جو وہ ضمیر سے رکھتی ہے ۔ہمارا اخلاقی تجربہ اس بات کا شاید ہے کہ ہماری مرضی اور اخلاقی قانون دو جداجدا چیزیں میں ایک ہی چیز نہیں ہیں کہ ہماری مرضی مقنن نہیں بلکہ تابع قانون اب اگر یہ فرق اخلاقی قانون اور انسانی مرضی کے درمیان پایا جاتاہے تو ہماری مرضی اپنےلیے آپ ہی ایک قانون نہیں ہو سکتی کیونکہ اس حالت میں یہ قباحت(برائی، نقص) لاحق ہوگی کہ مرضی مرضی پر حکومت کرتی ہے کہ جو چیز حاکم ہے وہی محکوم ہے جو آزاد ہے وہی غلام ہے جو غالب ہے وہی مغلوب(غلبہ کیا گیا، ہاراہوا) ہے پس یہ کہنا کہ انسان کی مرضی اپنے لیے آپ ہی ایک قانون ہے برابر اس بات کے ہے کہ اس کےلیے کوئی قانون نہیں ہے جس قانون کے سبب سے ضمیر ہماری مرضی پر حکمرانی کرتی ہے وہ ہماری مرضی سے کچھ نسبت نہیں رکھتا۔ تاہم یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ قانون کسی غیر کی مرضی سے نسبت رکھتاہے ۔جس مرضی کا مظہر ضمیر ہے وہ اکثر اوقات ہماری مرضیوں اور ارادوں کی مخالفت کرتی ہے۔ تاہم ان سے بہتر اور افضل ہوتی ہے۔ اور ہم سے کامل فرمانبرداری اور اطاعت طلب کرتی ہے وہ ضمیر کے وسیلے ہم سے بولتی اور حکم کرتی ہے حالانکہ ہماری مرضی سراسر اس کے خلاف ہوتی ہے جب ہماری مرضی اس کی اواز سننا
پسند نہیں کرتی۔ اس کی اطاعت سے انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) کرتی اور اس کی آواز کو روکنا اور تھمانا چاہتی ہے عین اس وقت وہ مرضی جو ضمیر کے قانون میں جلوہ گر ہے اپنا رنگ دکھاتی ہے ۔ وہ ہمیں آگاہ اور خبردار کردیتی ہے ۔ وہ ہمیں دھمکاتی اور مستوجب(واجب کرنے والا) سزا ٹھہراتی ہے۔ اور سزا دیتی ہے۔حالانکہ اس کا یہ فعل ہماری مرضی کو کسی طرح پسند نہیں ہوتا۔ اور ایسے اختیار اور اقتدار کے ساتھ جس سے یہ بخوبی ظاہر ہوتاہے ۔ کہ ضمیر اس مرضی کا مادہ پیادہ ہے جو ہر نقص سے پاک اور ہر لوث سے مبرا ہے۔ اور جو میرے خیالات اور جذبات پر پوراپورا قبضہ رکھنے کا حق رکھتی ہے اب وہ مرضی کونسی یا کس کی مرضی ہے جس کی طرف ہر فرد بشر کی ضمیر خواہ وہ کیسی ہی کمزور کیوں نہ ہو اشارہ کرتی ہے؟ اگر وہ خدا کی مرضی نہیں تو کس کی مرضی ہے؟
بعض لوگ شاید یہ کہینگے ۔ کہ ضمیر کو ایک قانون قرار دیناایک ایسا نتیجہ ہے جو محض لفظوں سے اخذ کیاجاتاہے ۔ ہم کہتے ہیں۔ کہ یہ نتیجہ لفظوں سے نہیں بلکہ اس حقیقت سے نکالا جاتاہے کہ ہر فرد بشر محسوس کرتاہے کہ میں اخلاقی معاملات میں ایک اور شخص پر انحصار رکھتاہوں۔ اس احساس سے کوئی اخلاقی مخلوق بری نہیں ہو سکتا۔ پس اسی احساس سے جو ہزار ہابلکہ لاکھا اشخاص کے دلوں اور زندگیوں میں جادوگر ہے۔ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایک ایسا شخص ہے جو پاک اور ہر نقص سے مبرا ہے۔ جو خالق اور منصف عام اخلاقی مخلوقات کا ہے۔ ہاں ہم پھر کہتے ہیں کہ ہماری عقل یہ نتیجہ محض بناوٹی لفظوں سے نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت سے نکالتی ہے جس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے تئیں فرض کا محکوم اور ضمیر کے قانون کا پابند جانتاہے۔ کہ وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتا۔ کہ ضمیر نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا حکم کرتی ہے ۔ اب اگرہم خد کو جو اخلاقی منصف ہے ۔ نہ مانیں تواخلاقی ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) ایک دھو کا اور ضمیر کی گواہی غیر معتبر (اعتبار کیا گیا، بھروسے کے قابل)ٹھہرے گی۔
2۔ ضمیر جس طرح ایک اخلاقی قانون پر شہادت دیتی ہے اسی طرح ایک اخلاقی غرض یا مقصد پر بھی گواہی دیتی ہے ۔ اگر آنکھ اس لیے دی گئی ہے کہ ہم اس کے وسیلے مختلف اشیا کو دیکھیں تو ضمیر اس لیے دی گئی ہے ۔ کہ ہم اسکے وسیلے اپنے تمام قولے کو ایک نیک اور درست صورت میں استعمال کریں۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ضمیر کے مقصد اور ہمارے مقصد میں اکثر بڑا فرق ہوتاہے ۔ چنانچہ ہم اکثر اوقات اس بات کو محسوس کیا کرتےہیں۔ کہ ضمیر تو کچھ چاہتا ہے اور ہم کچھ اور ہی چاہتے ہیں۔ بلکہ بعض بعض وقت اس مقسد میں جو ضمیر کو مد نظر ہوتاہے۔ اور اس مقصد میں جو ہمیں مد نظر ہوتاہے بڑی جدوجہد ہوتی ہے۔ توبھی ہمارے دل یہ گواہی دیتے ہیں کہ گو ہم ضمیر کے مقصد کو پسند نہیں کرتے ۔تاہم وہی بات جو ضمیر ہے راست ہے اور اسی کو اختیار کرنا چاہیے یہی مقصد وہ شے ہے جسے فرض کہتے ہیں۔ اب ضمیر کا اس طرح خدا کی طرف سے قاصد ہو کر بولنا گویا ایک راست خدا کی ہستی پر گواہی دینا ہے۔ جس طرح صنعت کو دیکھر ک صانع(کاریگر بنانے والا، پیدا کرنے والا) کے وجود پر استدلال کیاجاتاہے ۔ اسی طرح اخلاقی
مخلوق کے مشاہدے سے ایک اخلاقی خالق کا پتہ ملتاہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اگرنتائج سے اسباب کا وجود ثابت ہوتاہے ۔ تو ضمیر بھی پورے پورے طور پر اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ ضمیر کا سبب اوّل ہے ۔ وہ ایک پاک اور راست وجود ہے۔
3۔ ہماری تمام طاقتیں تمام حسات جن کا تعلق ضمیر کے ساتھ ۔ جو نیک وبد کی شناخت سے علاقہ رکھتی ہیں اور جن سے فرض کی پہچان پیدا ہوتی ہے اس نتیجے کی صداقت(سچائی،خلوص) پر شاید ہیں اور ہم پر یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ ہم اس راست خدا کے حضور جو ابدہ ہیں۔ ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) گناہ سے نادم(شرمندہ) ۔ نیکی کے عمل سے خوش۔ بدی کے نتائج سے خائف ۔ اور اعمال حسنہ کی جزا کی امید سے شاد ہونا۔ یہ سب باتیں مل کر اس بات پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہیں۔ کہ انسان سے شادہونا۔ یہ سب باتیں مل کر اس بات پر دلالت(نشان) کرتی ہیں۔ کہ انسان کا تعلق صرف غیر ذی روح اشیا اور بے جان قوانین ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے ساتھ بھی ہے جو اس کے ہر قسم کے عمل اور کردار کو راستباز ٹھہرانے یا قابل فتویٰ قرار دینے کا پوراپورا اختیار رکھتاہے ۔ ملحد بھی اس احساس سے بری نہیں۔ وہ بھی اگر اس کے اعمال اور اقوال اور خیال ضمیر کے احکام کے مطابق نہیں ہوتے تو ان پر گریہ گناں ہوتاہے۔ اور اگر ہوتے ہیں ۔ تو اپنے دل میں شاد اور بشاش ہوتاہے۔ اب اگر بےجان قانون اور دیدنی اشیا کے سوائے کوئی اخلاقی شخص موجود نہیں تو ملحدوں کا نیکی سے خوش اور بدی سے رنجیدہ ہونا لایعنی ہے۔
اگرہم اپنے اقوال و اعمال کے متعلق سوائے اپنے ابنائے جنس کے اور کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہوتے تو بنی آدم کی تاریخ میں کبھی جرم کا ایسا احساس اور سزا کا خوف پایا نہ جاتا۔ جیسا اب اس کے ہر ورق سے ظاہر ہوتاہے ۔ اگر نیک و بد کے قانون کے ٹوٹ جانے کے ساتھ یہ ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)وابستہ نہ ہوتا کہ اس قانون کے پیچھے ایک مقنن بھی موجود ہے جس کی راستی کے تقاضے کو پورا کرنا قانون توڑنے والے پر فرض ہے تو وہ دعائیں۔ وہ ایذائیں(دکھ، تکلیف) اور وہ قربانیاں کہاں دکھائی دیتیں جواب دنیا میں ہر جگہ نظر آرہی ہیں۔ اگر خدا نہیں ہے تو خدا کے خوف کی کیا ضرورت ہے۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) جرم سے جو ڈر جو اضطراب(بے چینی، بے قراری، بے تابی) جو خوف پیدا ہوتاہے اس سے بچنے کی پناہ الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) میں بھی نہیں ملتی۔ بسا اوقات مجرم انسان کے موخذائے اور سزا سے اتنا نہیں ڈرتا ۔ جتنا اس غیر مرئی عادل کے فتوئے سے ڈرتا ہے جس کی ہستی اور وجود پر اس کی ضمیر گواہی دیتی ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں۔ کہ اس کا کیا سبب ہے کہ گو ہم صریحاً(واضح، صاف) دیکھتے ہیں کہ بعض اعمال کے متعلق سوسائٹی ہمیں کچھ نہیں کہ سکتی تاہم ہمارے دلوں کو(بشرطیکہ ہمارا ضمیر مردہ نہیں ہو گیا) چین نہیں ملتا۔ ہاں ہم پوچھتے ہیں کہ ہم کیوں ڈرتے ہیں۔ اور کیو ں بےچین ہوتے ہی جبکہ ہمیں سوسائٹی کے فتوے کا ڈر نہیں ہوتاہے۔ ایک بزرگ نے خوب کہا ہے ۔ "اگر کوئ شریر کا پیچھا کرتاہے تو وہ کیوں بھاگا پھرتا ہے؟ اسے کس کی دہشت کھائے جاتی ہے؟ وہ تنہائی میں کس کو دیکھتا ہے؟اندھیرے میں کس کو مشاہدہ کرتاہے ؟ کون اس کے دل کی چھپی ہوی کوٹھریوں میں اس پر ظاہر ہوتاہے؟ اگرچہ ان جذبات کا موجد اور بانی ظاہری دنیا میں نہیں پایا جاتا"۔ (جیسا کہ ہم اوپر دکھا چکےہیں کہ ہمارے بہت سے کام اور بہت سی حرکات ایسی ہیں جن کے متعلق ہم نہ سوسائٹی کے اور نہ نیچر کے جوابدہ ہیں)" تو ضرور اس کے تصورات ا س شخص کی طرف مائل ہیں جو اپنی ذات و صفات میں الہی اور فوق العادت (عادت سے یا بساط سے بڑھ کر)ہے"۔ یہی وہ طریق ہے جس سے ضمیر کے اظہارات ہماری
قوت(طاقت) متخیلہ(جہاں خیال پیداہوا) پر ایک اخلاقی حاکم اور عادل خدا کی تصویر طبع کرتے ہیں اور ہمیں یہ عرفان(شناخت، پہچان) حاصل ہوتاہے کہ وہ پاک اور منصف(انصاف کرنے والا) اور قادر(قدرت والا) اور ہمہ دان(ہر بات سے واقف، ہر ہنر جاننے والے) اور سزا اور جزا (بدلہ)دینے والا خدا ہے۔
اس سے یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ لوگ جسے ضمیر کہتے ہیں اس کا خیال اس کا خیال خوشی اور رنج ۔ نفع اور نقصان کے تجربے سے جو بنی آدم کو زمانہ بزمانہ حاصل ہوتا رہا ہے۔ پیدا ہواہے۔ اور نیکی اور بدی کا احساس جو ضمیر سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کیا جاتاہے ان اسباب اور حالات سے برآمد ہوا ہے۔ جنہوں نے مل کر اس احساس کو پیدا کیاہے۔میؔٹلنڈ صاحب نے اس دعوے کے جواب میں بہت عمدہ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حقیقت کو نکتہ چینی(بات بات پر نوک ٹوک کرنا) کی تشریح کی کٹھالی میں ڈالنا اور اجزائے موہومہ میں تقسیم کرنے کے لیے آنچ پر آنچ دیتے رہنا حتی کہ وہ سب باتیں جو قابل غور اور قابل قدر ہیں کافور(کپور، ایک نہایت تیز خوشبو ) ہوجوئیں اور فقط نا چیز فضلہ باقی رہ جائے ۔ بڑا آسان کام ہے کوئی اخلاقی اور روحانی صداقتیں(سچائی،خلوص) ایسی نہیں جنہیں ہم اس طرح عدم کی راہ نہ دکھاسکیں اور اگر یہی طرز استدلال(طور طریقہ ، دلیل) کچھ عرصے کےلیے جاری رکھا جائے توکوئی ایسی بات باقی نہیں رہے گی کہ جس کی بنا پر ہم میں بہائم(چوپائے، مویشی، حیوان) میں تفریق ہوسکے۔ مخالف ک نزدیک ضمیر کی اصل اور ابتدا کا پتہ لگانے کےلے فقط اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم قیاس(اندازہ لگانا، اپنی رائے) کی عینک سے بنی آدم کو ایک قدیمی(پُرانی ) حالت میں دیکھیں۔ اور یہ فرض کریں کہ وہ ابھی ابھی حیوانات مطلق (بےقید)کی حالت سے نکلے ہیں۔ اور ابھی ابھی انہوں نے غیر مہذب جماعتوں میں رہنا شروع کیا ہے۔ اور سوائے جسمانی زندگانی کی چند ضروریات کے مہیا کرنے کے انہیں اور کچھ نہیں آتا۔چنانچہ اخلاقی امتیازات(فرق) سے وہ ایسے ہی نا آشنا(اجنبی، نامحرم) ہیں ۔ جیسے افعی (سانپ) اور چیتے ہوتے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد چند افعال ایسے سر زد ہوتے ہیں جو یا تو ان کے نفع کا باعث ہوتے ہیں۔ یا نقصان کا۔ جو نفع(فائدہ ) کاباعث ٹھہرتے ہیں وہ اچھے سمجھے جاتے ہیں اور جن سے نقصان ہوتاہے وہ برے تصور کئے جاتے ہیں۔ پھر تھوڑےعرصے کے بعد مفید(فائدہ مند) افعال(کام) کے لیے لفظ نیک وضع کیاجاتاہے اور نقصان دہ افعال کے لیے لفظ بد تر(بُری ترین) اشیا جاتاہے ۔ یوں ایک مدت (عرصہ)کےبعد آنے والی پشتیں اپنے آباواجداد (باپ دادا، پُرکھوں) کے تجربے سے متمتع ہوتی ہیں۔ نیکی اور بدی (بُرائی) کے تصورات مستقل (مسلسل) اور مکمل ہو جاتے ہٰیں نیکی اسے کہتے ہیں۔ جو سوسائٹی کے نفعے کا باعث(وجہ)ہو۔ اور بدی اسے جس سے ااسکا نقصان ہو اب اس استدلال سے اخلاق اور ضمیر اور ذمہ داری اور خدائے تعالیٰ کی اخلاقی حکومت کے خوف اور دبدبے(رعب، ڈر) کا مئسلہ عین اسی طرح حل ہو جاتاہے جس طرح فن و تعمیر کا مئسلہ حل ہوجاتاہے۔
لیکن جب ہم اس قیاسی پرواز کو ختم کرتے اور ان نتائج کو جو قوت متخیلہ(جہاں خیال پیداہوا) کی بلند پروازی(عالی ٰ خیالی ، خود ستائی) کے وسیلے جمع کئے تھے اخلاقی شناخت (پہچان)کی خاموش کوٹھری میں لا کر رکھ دیتے اور ذرا غور کرتے ہیں تو ہمیں نیک و بد میں ایسا فرق معلوم ہوتاہے جسے کوئی تھیوری رفع نہیں کر سکتی ۔ وہ دھیمی سی آواز جو یہ کہتی ہے " تجھے فلاں کام نہیں کرنا چاہیے"۔ یقیناً کسی سوسائٹی کے خوف کی آوز نہیں۔ جب ایک خالی کمرے میں شرم
اور ندامت(شرمندگی ) سے ہمارے چہرے کا رنگ بدل جاتاہے۔ اور وہ دھیمی آواز ہم کو بار بار کہتی ہے "تو واقع مجرم ہے"۔ تو اس وقت ہرگز یہ خیا ل وبال ِ جان (جان پر بن آنا، جان خطرے میں ہونا،) نہیں ہوتاکہ ہماری قوم یا جماعت کے لوگ ہم پر یہ الزام لگائے گے کہ ہم نے ان کے فوائد کو مدنظر نہیں رکھا۔ جب انسان کا دل راستی (سچائی)کے خیال سے محلوہو کر اور نیکی کے ازلی اور ابدی (ابتدائی اور اختتامی)قانون سے موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) رکھ کر پاکیزگی میں ترقی کر جاتاہے تو وقت یہ خیال زور پر نہیں رہتا۔ کہ سوسائٹی ہماری رفتار وگفتا ر(چال چلن، طور طریقہ) کی نست کیا کہے گی۔ جب انسان اپنے فرض کے سبب سے اپنی پیاری امیدوں کو صبرو قناعت(میانہ روی) کے ساتھ ترک کر دیتا۔ جب شہید شہادت کے خون میں غوطہ لگانے کے لیے تلوار اور تبر(کلہاڑی، ایک قسم کا فولادی آلہ جس سے لکڑیاں چیرتے ہیں) کے نیچے خوشی سے اپنا سر رکھ دیتاہے اور بے وفائی اور بے ایمانی کے داغ سے داغدار ہونا پسند نہیں کرتا۔ اس وقت کوئی سوشل قانون ہماری فطری خواہشات پر غالب (قابو پانا)آکر حاکمانہ جبر(ظلم ) سے نقصان اُٹھانے کے لیے ہمیں مجبور نہیں کرتا۔
جب انسان کی روح اس نادیدہ ہستی کے سامنے جسے ہم راستی اور صداقت(سچائی) کا چشمہ سمجھتے ہیں خاک میں لوٹ کر سر بسجود (سرنگوں، سجدہ میں سر جھکانا) ہوتی ہے۔ اس وقت یقیناً ہم کسی سوسائٹی کی پسندیدہ رائے کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ تجربے اور تہذیب ان پردوں وجساخلاقی قوت کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اٹھائیں ۔ اور ممکن ہےکہ انہوں نے گزشتہ زمانوں میں ایسا کیاہو۔ جیسا کہ اب بھی دیکھنےمیں آتاہے کہ ہر چھوٹے بچے میں یہ طاقت نہایت کمزور اور مکتوم(پوشیدہ ، مخفی) ہوتی ہے لیکن جوں جوں وہ بڑھتاجاتاہے یہ طاقت تجربہ اور تہذیب کی مدد سے روشن ہوتی جاتی ہے۔ پر ہم تجربہ یا تہذیب کو اس قوت کا ماخذ اور منبع(پانی جاری ہونے کا مقام) نہیں مان سکتے ۔تجربہ اور تہذیب البتہ ضمیر کے تخم(اولاد، نسل ، بیج) کو ظاہر کردیتے ہیں۔ پر وہ اسے خلق کرتے۔اگر تخم (اولاد، نسل ، بیج)موجود نہہو تو بہ تجربہ اور نہ تہذیب او ر نہ علم کچھ کر سکیں۔
اگر ہم اپنی اخلاقی صفت کی حقیقت سے واقف ہوا چاہیں تو ہمیں اس فرق پر غو ر کرنا چاہیے ۔ جو اخلاقی کیفیتوں اور دیگر اقسام کی کیفیتوں میں پایا جاتاہے۔ پہلے ان باتوں پر غور کریں جو ہماری خوشی اور انبساط کا باعث ہوتی ہیں۔ آپ وہ تمام چیزیں جن سے ہمارے جسم کو لطف یا مزہ حاصل ہوتا ہےلیں۔ مثلاً وہ خوشی جو علم دانی اور سخن گوئی(شاعری) اور ہنروری سے پیداہوتی ہے۔ وہ شادمانی(مسرت) جو خواہشات کے پورا ہونے ۔یا کامیابی کے حاصل کرنے یا اقبالمندی کے اعلیٰ معراج تک پہنچنے سے نصیب ہوتی ہے۔ وہ دلی آرام جو وصال(ملاقات) محبوب سے یا خاندانی امن و امان سے دستیاب ہوتاہے۔ ہاں آپ ان تمام خوشیوں کولیں اور اس خوشی کے بالمقابل رکھیں جو اخلاقی فرائض کے ادا کرنےسے پیدا ہوتی ہے۔ اور آپ کو دونوں طر ح کی خوشیوں میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئےگا ۔ پہلی قسم کی چیزوں سے خوشی اور مزہ اور لطف حاصل تو ہوتاہے لیکن فقط اسی وقت تک قائم رہتاہے۔ جب تک کہ وہ چیزیں قائم رہتی ہیں۔ بعد میں سوائے اس بوباس(جسم یا پھول کی خوشبو، کھوج لگانا) کے جو کچھ دیر کے لیے یادداشت کے کناروں سے لگی لپٹی رہ جاتی ہے اور کچھ نہیں رہتا۔ ان کے معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہونے کے ساتھ ان کی خوشی بھی معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ہوجاتی ہے۔ لیکن وہ خوشی جو نیک کام کرنے یا کسی جذبے پر فتح پانے یا بے ریا محبت کی وجہ سے خودک و تصدیق کرنے سے پیداہوتی ہے۔ وہ اسی قدر دوسری خوشیوں سے بلند ہوتی
ہے۔ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے۔ وہ ہماری فطرت کو پاک اورصاف اور ہمارے دلوں کو آسودہ کرتی ہے ۔ وہ ابدی خوشی ہے۔ وہ وقت او ر قیامت دونوں سے پرے گزر جاتی ہے۔
سی طرح برعکس حالتوں پر بھی تھوڑی دیر کے لیےغور کیجئے مثلاً جسمانی بے آرامیوں اور دکھوں پر نظر ڈالیے ۔ افلاس(بھوک، غربت) اور مایوسی پر غور کریں۔ ان سے جو درد پیدا ہوتاہے وہ آٹھ آٹھ آنسو (بہت زیادہ دُکھ یا تکلیف ہونا)رلاتاہے۔ اس کا سہنا اور برداشت کرنا بعض اوقات جیطئہ امکاں سے باہر معلوم ہوتا ہے تاہم وہ دکھ یا وہ درد جو ان باتوں سے پیدا ہوتاہے وہ اس بے چینی اور اضطراب(بے چینی، بے قراری، بے تابی) کو کب پہنچتا ہے جو ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) گناہ اور بدی سے ملحق(لگایا ہوا، جُڑا ہوا) ہوتاہے جب ہم جان بوجھ کر گناہ کر بیٹھتے ہیں اس وقت ہمارا ضمیر جو ڈنک(چوٹ، زخم دینا) لگاتی ہے۔ ا سوقت جو مذامت اور شرم کے زخم ہمارے دل پر لگتے ہیں او رہم آپ اپنی ہی نظروں میں گرجاتے ہیں اور ہائے ہائے کہہ کر ہر دم چلاتے ہیں ۔ بتائیے اس وقت کونسا اور دکھ اس دکھ کا ہم پلہ سمجھا جاسکتاہے۔ اس دکھ کے لیے زمین پر کوئی دوا نہیں۔ اور نہ وقت کا گذرنا اس کو شفا دے سکتاہے۔
پس اس بات کا انکار کوئی شخص نہیں کر سکتاکہ ہماری فطرت میں ایک ایسی طاقت و دیعت کی گئی ہے جو اپنے تئیں اخلاقی فیصلوں میں ظاہر کرتی ۔ ضمیر کے وسیلے اپنی حاکمانہ آواز ہمیں سناتی ۔ ہمارے دلوں پر ہمارے افعال و اقوال کی ذمہ داری کا خیال نقش کرتی ۔ہماری نافرمانی کو شرم اور ندامت(شرمندگی ) کے کوڑوں سے پیٹتی اور سزا کی بھیانک(خوفناک) شکل کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے وہ ہمارے تمام وجود پر حکمران ہے۔ ہماری تمام خواہشات اور جذبات اورقوےٰ کے درمیان مسندا(دوسرے کے منہ سے بیا کیا گیا، ہمارا دیا گیا) اختیار پر متمکن(جاہ گزین، قائم ،جگہ پکڑنے والا) ہو کر اپنے احکام اور فرامین(فرمان کی جمع، شاہی ) جاری کرتی ہے۔ ہم فؔلنٹ صاحب کے خیال سے متفق(راضی)ہیں کہ کوئی شخص آج تک اس بات کے ثابت کرنےمیں کامیاب نہیں نکلا کہ ضمیر محض خیالوں اور رسموں کانتیجہ ہے نہ جان سٹوؔارٹ مل اور نہ پروفیسر بیؔن اور نہ مسٹؔر سپنسر اور نہ مسؔٹر ڈارون یہ دکھا سکے کہ ضمیر میں اصلی بات کوئی نہیں پائی جاتی او رکہ وہ فقط لوگوں کی بناوٹ ہے۔ پر اگربفرض محال یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ اور باتوں سے پیدا ہوئی ہے ۔تو بھی کچھ ہرج نہیں ۔ کیونکہ وہ ہمارے سامنےموجود ہے ۔ وہ ایک قسم کی گواہی دیتی ہے ان خیالوں اور جذبوں کوپیدا کرتی ہے۔جن کا ذکر ہم اوپر کر آئےہیں۔
1۔ اس قوت کی ہستی اور وجود کا کوئی تسلی بخش حل سوائے اس کے نہیں ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ایک راست خدا ہے ۔ جس نے اس طاقت کو ہمارے اندر ودیعت کیا ہے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ وہ آپ ہی آپ پیدا ہو گئی یا مغز کے ذرات کے خاص طور پر جمع ہونے اور کام کرنے سے وجود میں آئی ہے۔ فضول باتیں بنانا ہے۔ کوئی چیز آپ ہی آپ پیدا نہیں ہو تی۔ اگر کوئی یہ ماننا چاہے کہ وہ مغز کی خاص ساخت یا خاص ترکیب سے برآمد ہوئی ہے۔ تو اس کی
مرضی ۔ ایسا مانے ہم اسے اس انوکھی رائے سے منع نہیں کرتے ۔ پر ہمارے خیال میں یہ بات نہیں آتی۔ کہ ذرات مادی سے راستبازی اورصداقت(سچائی،خلوص) اور پاکیزگی اور محبت خود بخود کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔
اور نہ (جیسا ہم اوپر دکھا چکے ہیں ) یہ قوت اس تجربے سے پیدا ہوئی ہے کہ فلاں بات جماعت کے لیے مفید ہے اور فلاں غیر مفید۔
نہ ایووکیوشن تھیوری اس معمے کو حل کر سکتی ہے۔ ہم دیکھ چکےہیں کہ یہ تھیوری نباتات و حیوانات کی اصل کا تسلی بخش سراغ نہیں لگاسکتی۔ اب جب وہ زندگی کی اصل کا پتہ نہیں لگا سکتی۔ تو یہ کب بتا سکتی ہے کہ ادائے فرائض کے متعلق جان پر کھیل جانا۔ پاکیزگی کی چاہ (شوق) میں خود مفتون(فتنے میں ڈالا ہوا) ہونا اور صداقت(سچائی،خلوص) کی تلاش میں سرگردان(حیران و پریشان، آوارہ) ہو جانا کہاں سے پیدا ہوا ہے؟
لیکن ہم ایک راست اور پاک خداکو مان لیں۔ تو ضمیر کی آواز اسکی آواز ۔ اخلاقی قانون اس کا قانون ۔ اورہماری ذمہ داری اس کے اختیار کا ایک سایہ سا معلوم ہوگی۔ اور سب دقتیں حل ہو جائے گی۔ اب ہمارے سامنے یہ باتیں موجود ہیں۔
ا۔ کہ اخلاقی قوت ہماری فطرت کا جبلی(فطرتی) خاصہ (عادت،صفت،خصلت)ہے۔
ب۔ کہ اس کی اصل اور ابتدا کا ایک ہی تسلی بخش حل ہے اور وہ یہ کہ اس کا موجد (ایجاد کرنے ولا)اور منبع(پانی جاری ہونے کا مقام) خدا ہے۔
ج۔ کہ عموماً اسی حل کر بنی آدم نے واجب التسلیم مانا ہے ۔ ان عالمگیر باتوں کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتاہے کہ ضمیر کا کام خدا کا کام ہے۔
د۔ پھر یہی نتیجہ اس بات سے پیدا ہوتاہے کہ ہم ذمہ داری کے احساس کا کوئی تسلی بخش حل پیش نہیں کر سکتے ۔ سوائے اس کے کہ ہم ایک منصف خدا کے حضور جوابدہ ہیں ۔ اس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا کہ ذمہ داری کا خیال ہم میں موجود ہے۔ پ ر سوال یہ ہے کہ ہم کس کے حضور جوابدہ ہیں؟ ہم اس کا ذکر اوپر کسی قدر کر چکے ہیں۔ پر اس جگہ بہ تفصیل دکھانا چاہتے ہیں کہ نہ ہم خودکے سامنے اور نہ پورے پورے طور پر اپنے ابنائے جنس کے روبرو جوابدہ ہیں۔
ا۔ اگر ہم اپنے ہی روبرو آپ جوابدہ ہیں تو یہ لازم آتاہے کہ ہم میں دوخؔود پائے جاتے ہیں ایک وہ جوجوابدہ ہے۔ اور دوسرا وہ جس کے سامنے پہلا خود جوابدہ ہے۔ کون اس بات کو مانے گا۔ایسا دعویٰ قیاس (اندازہ لگانا، رائے دینا)اور زبان دونوں کی برباد ی کا باعث ہے۔ یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسا یہ کہنا کہ میں اپنا قرضدار آپ ہوں۔ فرض کیجئے کہ میں بیس روپے سے اپنا قرضائی ہوں اگر میں یہ روپیہ ادا نہ کروں تو کیا زیادہ غریب ہوجاؤں کا۔ یا گر کردوں تو کیا اس کےادا کرنے سے امیر بن جاؤنگا؟
ب۔ پھر کیا ہم اپنےابنائے جنس کے سامنےجوابدہ ہیں؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بہت باتوں میں ہم ان کے جوابدہ ہیں۔ مگر ہماری یہ جوابدہ ہی ہماری ہی رضامندی سے پیدا ہوئی ہے۔ یعنی ہم نے ایک سوسائٹی کے قوانین و قواعد کو ماننا اپنی رضا مندی سے منظور کیا۔ پس جب ہم ان قواعد کو توڑتے ہیں تو ہم اس سوسائٹی کے سامنے جوابدہ ٹھہرتے ہیں۔ پر وہ بات جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ابنائے جنس کے حضور بھی پورے پورے طور پر جوابدہ نہیں ہیں یہ ہے کہ جب ہم اس تقاضے کو جو سوشل قواعد کے توڑنے سے عائد ہوتاہے پورا کر دیتے ہیں تو تو بھی جرم کا احساس پیچھا نہیں چھوڑتا۔ مثلاً جب چور چوری کی سزا بھگت لیتا ہے تو وہ حق جو سوسائٹی اس پر رکھتی ہے ادا ہوجاتاہے ۔ پس چاہیے کہ وہ سزا بھگتنے کے بعد خوش و خرم ہو اور محسوس کرے کہ میں اب بےداغ ہوں کیونکہ میں نے سوسائٹی کے قواعد کو توڑنے کا ڈنڈ(ایک قسم کی ورزش) ادا کر دیا ہے۔ اب مجھے کسی کی شرم نہیں۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوتا۔ چوری کی ندامت(شرمندگی ) تلافی(بھرپائی) سے دور نہیں ہوتی بلکہ اسکا داغ اور خصوصاً اس کی بدی کا احساس قبر تک ساتھ جاتاہے ۔ اگر تسلی ملتی ہے تو فقط اس وقت ملتی ہے جب مجرم کو یہ یقین آجاتا ہے کہ اب مجھے اس نے جس کے حکم کو میں میں نے توڑا تھا بخش دیا ہے۔
ج۔ اور نہ ہم کسی غیر ذی روح قانون کے حضور جوابدہ ہیں۔ ذمہ داری اور جوابدہ ہی عقل اور جان اور ارادے کے ساتھ خاص ہیں۔ ایک شخص نے خوب کہا ہے کہ "جب کوئی بنیاکم تول تولتاہے تو وہ تمہارا گناہ کرتاہے ۔ ترازو کا گناہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ترازو محض ایک آلہ ہے جس کےوسیلے سے یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ آتا فلاں شے وزن میں پوری ہے یا کم"۔ اسی طرح جب آدمی گناہ کرتاہے تو خدا کے قانون یا شرع کا گناہ نہیں کرتا بلکہ خدا کا گناہ کرتاہے قانون جو خارج میں پایا جاتاہے وہ خدا کی اس مرضی کا اظہار ہے جو اس کے دل کے اندر پائی جاتی ہے۔
د۔ اب اگر ہم ان مذکورہ بالا اشیا میں سے کسی کے جوابدہ نہیں تو پھر ایک ہی اور ہستی رہ جاتی ہے جس کے حضور ہم اپنے تمام اعمال و اقوال کے متعلق جوابدہ ہیں ۔ اور وہ دہی راست خدا ہے جو ہمارےضمیر اور دیگر طاقتوں کا خالق اور مالک ہے۔
3۔ پھر یہی نتیجہ اس خیال سے دستیاب ہوتاہے کہ اس قوت کے عمل کا کوئی کافی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم اسے ایک راست اور عادل خد ا کی پاک مرضی سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کریں۔ کوئی اس اخلاقی طاقت کے عمل کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اگر یہ طاقت اپنا کام بند کر دے تو انسان قلیل(کم)عرصے میں وحشی بن جائے اور انسانی زندگی کی تمام خوبصورتی اور شیر ینی (مٹھاس ) ایک پل میں کافور(کپور، ایک نہایت تیز خوشبو ) ہو جائے ۔ انسان کی زندگی میں جو کچھ دیانت(ایمانداری، راستی) اور صداقت(سچائی،خلوص) اور محبت کی قسم سے پایا جاتاہے وہ اسی قوت کے عمل کا پھل ہے ۔ اور جب یہ قوت مذہب کے ساتھ مل کر اپنا کام کرتی ہے تو ایسی بلندی اور جلال کو پہنچ جاتی کہ ہم اس کی حشمت(نوکر چاکر، خدمت گاروں کا انبوہ) اور رونق کو دیکھ کر عش عش(نہایت خوشی اور تحسین وآفرین کے موقع پر بولا جاتاہے) کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا پرست مرد اور عورت اپنی حرمت (عزت اور آبرو)اور عصمت (پارسائی، پاک دامنی) کے دامن کی طرح طرح کی دلفریب(دل کو لبھانے والا، من موہن) آزمائشوں کے درمیان بے داغ رکھتے ہیں۔ ہوا و ہوس (حرس اور لالچ) کے میدان میں جذبے کے عنان (باگ، دوڑ، لگام) کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ دکھ اور مصیبت
کو سہتے ہوئے فرض کی راہ پر وفاداری سے چلتے ہیں۔ اپنے آرام اور خوشی اور امید کو بلکہ جان کو بھی تصدیق کر دیتے ہیں تاکہ اوروں کی مصیبتیں کم ہوں۔ اور وہ ہلاکت سے بچائے اور ضلالت کے دلدل سے اُٹھائے جائیں۔ بار بار دیکھا جاتاہے کہ روحانی کا راز کے میدان میں خودی اور خود غرضی مغلوب (غلبہ کیا گیا، ہاراہوا) اور محبت سر پر اختیار پر سرفراز کی جاتی ہے۔ پر یہ کس قوت کا۔ کس خاصیت کا نتیجہ ہے؟ کیا اسی قوت کا نتیجہ نہیں جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں؟
اب سوال یہ ہےکہ وہ موٹو(مقصد) وہ محرک(حرکت دینے ولا، تحریک دینے والا) جس کی وجہ سے یہ قوت ایسے کام کرتی ہے کیا ہے او ر کہاں سے پیدا ہوتاہے علم اخلاق کے متعلق تین طرح کے خیالات مروج(رائج کیا گیا) ہیں۔
1۔ وہ جسے ہیڈونزم (HEDONISM ) کہتے ہیں۔
2۔ وہ جسے یوٹلی ٹیرین ازم (UTILI TARINISM) اور کبھی کبھی آلڑووازم (ALLTRUISM ) بھی کہتے ہیں۔
3۔ وہ جسے انٹیوشنل (INTITIONAL) کہتے ہیں۔ اب ہم دکھائینگے کہ ان میں سے کوئی خیال بھی موٹوزیر بحث کو پیدانہیں کرسکتا۔
(1)ہیڈونزم سے لذت حاصل کرنے کا علم مراد ہے۔ اس کے مطابق وہ باتیں جو ہماری خواہشوں کو زیادہ پورا کرتی ہیں اور ہم کو زیادہ لذت بخشتی ہیں ہماری زندگی کا دستور العمل (قاعدہ ، قانون ) ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ہمارے چال چلن کا موٹو ہماری ذاتی لذت ہے۔ اس اصول سے اخلاقی خود انکاری اور قربانی کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسا اونٹ کٹاروں(ایک خار دار جھاڑی جو زمین پر پھیلتی ہے اور اسے اونٹ بہت شوق سے کھاتا ہے) سے ان چیزوں کی امید رکھنا ۔ پس یہ اصول اخلاقی قوت کے عمل کا موٹو نہیں ہو سکتا۔
(2)یوٹلی ٹیرین ازم سے یہ مراد ہے کہ ہمارا اصول یہ ہو کہ ہم ایسی چال چلیں جس سے بہت سے لوگوں کو بہت سی خوشی حاصل ہے۔ یہ اصول تو بہت اچھا ہے کیونکہ اس میں سے خود غرضی کی بو نہیں آتی۔ پر سوال یہ ہے کہ کیا اس میں بذات خود کوئی ایسی طاقت پائی جاتی ہے جو محرک(حرکت دینے ولا، تحریک دینے والا) ان افعال و اعمال کی ہو جن کاذکر اوپر ہوا۔ یہ اصول کہتا ہےکہ تم لذات نفسانی کو اوروں کی بھلائی کےلیے ترک کردو اور دوسروں کو آرام پہنچانے کے لیے اپنی بے آرامی کو ارا کرو۔پر ہم کہتے ہیں کہ اگر اس اصول کے پیچھے کوئی اور چیز موجود نہیں جو ہماری ہمت بڑھائے اور اپنے تبسم اور دلاسے سے ہمارے دلوں کو تروتازہ کرے تو کون ایسا کر سکتاہے ؟ کیونکہ اس حالت میں انسان کی عقل اس کو ضر کہیگی کہ تو صرف ایک اصو ل کی خاطر جس کی تعمیل سے بجز نقصان کے اور کچھ تیرے پہلے نہیں پڑےگاکیوں اپنی خوشی اور آرام کو آوروں کے لیے کھوئے دیتاہے۔ اور جہاں یہ خیال جو جو ش کو ٹھنڈا کر دیتاہے پیدا ہوگا وہاں خود انکاری اور نفس کشی کی روح کو فور ہو جائے گی۔ پس یہ اصول زندگی کےلیے اچھا دستورالعمل ہے۔ لیکن طاقت پیدا کرنے والا موٹو نہیں ہے۔
(3)انٹیوشنل اس کا یہ مطلب ہے کہ نیکی کی وہ طبعی شناخت جو ہمارے باطن میں مرکوز ہے ہماری زندگی کا دستورالعمل ہونا چاہیے ۔ یہ اصول بھی نہایت نفیس اور جلیل(برگ، اعلیٰ ، افضل) ہے۔ لیکن یہ بھی از خود نفس کشی اور خود انگاری کےلیے کافی موٹو نہیں ہو سکتا۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کے سامنے ایک آزمائش آن پڑی ہے۔ جو یہ صدا دیتی ہے۔ "تم یا تو یہ گناہ کر کے اس کے نتیجے سے خط اُٹھاؤ۔ یا اسے رد (ترک) کر کے اپنا نقصان اُٹھاؤ"۔ ہر فرد بشر کو اس قسم کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔یعنی یا تو وہ گناہ آلودہ افعال کے ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) سے دنیوی فائدہ اُٹھاتا ہے اور یا اس سے انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) کرکے نقصان کا تجربہ کرتاہے۔ اب فرض کریں کہ ایک شخص کی مڈ بھیڑ(آمنا سامنا، ملاقات) اسی قسم کی آزمائش سے ہوتی ہے۔ نفس کہتاہے کہ تو اس کام کو کر اورضمیر کہتا ہے کہ اسے نہ کر۔سوال یہ ہےکہ کیا نیکی کی طبعی شناخت آپ ہی آپ ایسی طاقت انسان میں بھر دیتی ہے جس سے وہ ضمیر کی آواز کی تعمیل کرتاہے؟ ہم کہتے ہیں نہیں۔ اور وجہ یہ ہےکہ اگر اس شناخت کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو انسان ضرور اپنے دل میں سوچنے لگ گیا کہ اگر میں نیکی کی پہچان کی خاطر اپنے آپ کو تصدیق کردوں تو مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ مجھے اس کا صلہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ مرنے کے بعد ضمیر کی فرمانبرداری مجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ پس کوئی ضرورت نہیں کہ میں ضمیر کی بات سن کر اپنے تئیں قربان کردوں۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ خیال ایک کمینہ سا خیال ہے۔ پر ہم اس بات کا انکار بھی نہیں ہے تو اس سے خود غرضی کو مارنے والی عملی قوت پیدا نہیں ہو سکتی۔
اب ہم نے دیکھا کہ اخلاق کی جو تھیوریاں مروج (رائج کیا گیا)ہیں ان میں سے بعض بہت اچھی اور عمدہ ہیں مگر ان میں سے ایک بھی وہ قوت اپنے میں نہیں رکھتی جو اخلاقی کاموں کے حق میں موٹوؔ کا حکم رکھتی ہو۔
اب اگر یہ قوت ان اصولوں میں سے کسی اصول سے نہیں نکلتی تو پھر کہاں سے آتی ہے؟اس کے وجود کا انکار کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہم خود اسے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہ قوت زمین سے نہیں آتی ۔ آسمان سے آتی ہے۔اور وہ اس طرح کہ انسان کی روح اس اخلاقی ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) سے جو اس کی طبیعت میں مخلوط(ملاجلا، گڈمڈ) ہے اُٹھتی اور ایک لامحدود اور پاک خدا کے تصور تک جا پہنچتی ہے جو تمام اشیا کا مالک اور بادشاہ ہے اور نیک عمل میں نیک پھل پیدا کرتاہے ۔ یہی اعتقاد جو ہم ایک عادل اور راست خدا کی ہستی اور ارادے کی نسبت رکھتے ہیں ہمارے اخلاقی کاموں اور حرکتوں کا کافی اور سچا موٹو ہے۔ ہاں اگر آپ ایک دفعہ خدا کی ہستی فرض کر لیں تو آپ دیکھے گے کہ یہ نتیجہ ناگزیر ہے کہ وہ جو راستباز ہیں ان کےلیے سب چیزیں مل کر نیک پھل پیدا کرتی ہیں کیونکہ وہ جو ضمیر کی خاطر دکھ اٹھاتے ہیں ان کی طرف وہ خدا ہے جو تمام عالم کا مالک اور مختار ہے ممکن ہے کہ اس دنیا میں بے عزتی ، تنگدستی ، مصیبت اور موت ان کے حصے میں آئے ۔پر وہ ان چیزوں سے شکستہ خاطر نہیں ہونگے بلکہ اپنے نقصانوں سے ہنسےگے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس خدا کے ہاتھ میں ہم نے اپنے تئیں سونپ دیا ہے وہ وفادار اور صادق خدا ہے اور ہمیں ہمارے کاموں کا بدلہ دے گا۔
ایک اور بات غور طلب یہ ہے کہ اکثر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ ضمیر کی گواہی معتبر (اعتبار کیا گیا، بھروسے کے قابل)نہیں کیونکہ لوگوں کی ضمیروں کی شہادت میں اختلاف پایا جاتاہے یا یوں کہیں کہ ان کی گواہی ایک ہی قسم کی نہیں ہوتی۔ ہم مانتے ہیں کہ ضمیر ترقی کرتی ہے۔ اور کہ جس طرح ہماری
دیگر ذاتی لیاقتیں (قابلیت،استعداد)اور طاقتیں مختلف لوگوں میں مختلف انداز سے کام کرتی اور متفرق( نفرت کرنے والا) مدارج کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اسی طرح ضمیر کے اظہارات بھی متفاوت(فرق کیا گیا، دور کیا گیا) صورتوں میں نظر آتے ہیں۔ اور جس طرح عقلی طاقتیں نشوونما پا کر ترقی کرتی جاتی ہیں اور اپنے کمال کی طرف بڑھتی جاتی ہیں اسی طرح یہ طاقت بھی ترقی پذیر ہے ۔ اور نہ ہم اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ خاص حالتیں ، خاص قسم کی تعلیم، خاص طرح کے تعلقات ، خاص نوع کے اعتقادات(یقین، بھروسہ) بھی ضمیر پر اپنا اثر ڈالتے ہیں بلکہ ہم یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ اسی اختلاف کے سبب سے ضمیر کی ڈیویلپمنٹ (بالیدگی) میں سچے مکاشفے(انکشاف،امورِ غیبی) کی مدد اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ مگر با ایں ہمہ(ان باتوں کے باوجود) ہمارا وہ دعویٰ جو ہم اوپر کر آئے ہیں صحیح ہے۔ کیونکہ خدا کی ہستی کا ثبوت جو ضمیر کے کام سے استنباط(نکالنا ، چننا، نتیجہ اخذ کرنا) کیا جاتا ہے وہ اس بات پر منحصر نہیں کہ تمام ضمیروں کی شہادت یکساں ہو بلکہ اس بات پر قائم ہے کہ بلحاظ خواص عامہ اور خصائص ذاتی کے سب کی ضمیر یکساں ہے اور نیک وبد کی شناخت اور ذمہ داری کے احساس کے وسیلے اپنے تئیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور ظاہر کرتی اور راست خدا کی ہستی پر اشارہ کرتی ہے ۔ جو کچھ ہم انٹیوشن کے بارے میں کہہ آئے ہیں وہی ضمیر کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی کم سنے یا کم دیکھے تو اس سے قوت سمع(سننے کی طاقت، کان گوش) و بصر(دیکھنے کی طاقت) کا عدم ثابت نہیں ہوتا۔ ان حصوں کی خوبی اس وقت نظر آتی ہے جس وقت یہ اپنے کمال کے ساتھ ہمارے روبرو آتی ہیں۔ یہی حال ضمیر کا ہے ۔ یعنی اس کی حقیقت اور کام کا موازنہ بھی اس کے کمال سے کرنا چاہیے۔
___________________
چھٹاباب
ضمیر کی گواہی ۔ خاص اعتراضات کے جواب
جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی باتیں ہم کو ایسی معلوم ہوتی ہیں جن کا سمجھنا ہماری طاقت سے بعید (چھپا ہوا) ہے۔ ہاں جا بجا اس دنیا میں تاریکی کا پردہ پڑا ہوا دکھائی دیتاہے۔ایسی مشکلات پیش آتی ہیں جن کا حل کرنا مشکل ہے ایسے معمے سامنے آتے ہیں جن کی عقدہ کشائی ہماری بساط (طاقت، حیثیت)سے باہر ہے ۔ مثلاً دنیا میں گناہ کا بازار گرم ہے۔ اول تو یہی بات تعجب خیز ہے کہ قادر مطلق خدا کی حکومت کے ہوتے ہوئے گناہ بھی موجود ہو۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ گناہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اقبالمندی کے ساتھ موجود ہے اور اسکے بالمقابل نیکی کے ساتھ دکھ لگا ہوا نظر آتاہے۔ یعنی بد کردار آدمی گلچھڑے (ایاشی،مستیاں) اُڑاتے ہیں۔ اور نیکو کار ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ بات بالکل اُلٹی ہونے چاہیے تھی۔ اب ان باتوں کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا وہ گواہی جو ہماری ضمیر خدا کی ہستی اور سیرت پر دیتی ہے واجب التسلیم ہے جبکہ اخلاقی دنیا کی حالت ایسی نظر آتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ سوال ہے کہ کیا کوئی انصاف پسند آدمی باوجود یہ کہ وہ تمام دنیا کو گناہ آلودہ پاتا ہے اور اپنے تئیں اس مشکل کے حل کرنے میں بالکل قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) دیکھتا ہے۔ یہ کہہ سکتاہے کہ اخلاقی دنیا کی عام گواہی جو خدا کی ہستی اور راستی پر ملتی ہے کافی اور دافی نہیں اور کہ اس کی پختگی اور راستی پر شک کیا جا سکتا ہے؟ اگرچہ اس دنیا میں بظاہر گناہ کے ساتھ اقبالمندی ، فارغ البالی(خوشحالی، بے فکری) اور عشرت وابستہ نظر آتی ہیں۔ اور نیکی کے ساتھ بسا اوقات ذلت، افلاس(غربت) اور تنگدستی لگی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوگا کہ نیکی کا پھل خوشی اور بدی کا پھل غم ہے ۔ یا یوں کہیں کہ ایسے باطنی اخلاقی قوانین ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں جن کا خاصہ(عادت،صفت) یہ ہے کہ ہر فعل میں اس کی قسم کے مطابق پھل پیدا کریں۔ اور کہ ان کے عمل سے یہ بات آپ ہی صاف کھل جاری ہے کہ خدا سیرت اور چلن کے متعلق کیا فیصلہ کرتاہے نیکی فی نفسہ جزا پیدا کرتی ہے۔ اور بدی سزا۔ نیکی عزت وار زندگی کا پھل لاتی ہے ۔ اور بدی بے عزتی اور موت کا پھل پیدا کرتی ہے ۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ نیکی اور خوشی میں ۔ بدی اور دکھ میں ایسے ظاہری تعلقات بھی پائے جاتے ہیں جو قطع کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان ایسا ذاتی اور اندرونی رشتہ بھی پایا جاتاہے جسے کوئی مقراض(قینچی،کترتی) کاٹ نہیں سکتی ۔ جیسا کسی اور سبب اور اس کے نتیجے میں بے بدل اور اٹل علاقہ پایا جاتاہے ویسا ہی نیکی اور خوشی۔ اور بدی اور غم میں موجود ہے۔ یہ ممکن ہے کہ نیکی ظاہر میں دولت۔ عزت اور شہرت سے مربوط(بندھا ہوا، ربط کیا گیا) نہیں۔ تاہم اس کا انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمیشہ انسان کی روح کی حقیقی شرافت اور عزت کی دولت سے مالا مال کرتی اور حقیقی بزرگی کے زینے پر اس کا پاؤں رکھتی اور اخلاقی نجاست (گندگی) کی میل سے اسے پاک کرتی ہے۔ اور یوں رفتہ رفتہ اور زیادہ زیادہ اس کو وہ سلامتی عطاکرتی جو دنیا کی تمام عزت اور رتبے پر فضیلت رکھتی ہے ۔ اسی طرح بدی اگرچہ ظاہر میں عش و عشرت کے مزے ٹوٹتی ہے تاہم اندرونی طور پر اپنی سزا برابر اٹھاتی جاتی ہے کیونکہ اس کے سبب سے روح
کمزور اور گھائل اور ناپاک ہوتی جاتی ہے یہ نتیجہ وہ ہمیشہ پیدا کرتی رہتی ہے اور یہ پھل ان لوگوں میں بکثرت نظر آتا ہے جن کی ضمیر کی آواز خاموش ہو گئی ہے۔ پس یاد رہے کہ یہ اخلاقی قانون کی بدی میں برا پھل لگتا ہے کبھی اپنا عمل بند نہیں کرتا گو بدی کے بیچ کے اگنے اور اس کے پھل کے پکنے میں دیر ہی لگے۔ ہاں ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) گناہ کے سبب سے روح کی بہبود کی شرائط زائل(کم ہونا) ہو جاتی ہیں اس کی عمدہ سے عمدہ حِسیّن سُن ہوجاتی ہیں اور اس کی طاقتیں معدوم(مٹایا گیا، نیست کیا گیا) ۔ اور آخر کار وہ ہلاک ہو جاتی ہے۔
اب جو حال بدی کے سبب سے ایک فرد کا ہوتاہے وہی تمام سوسائٹی کاہوتاہے۔ بلکہ اس میں بدی کے پھل اور بھی زیادہ صفائی سے نظر آتے ہیں سوشل دنیا میں بھی بُرائی کی امداد سے کامیابی حاصل کی جاتی اور فتح کے نقارے پر چوب لگائی جاتی ہے۔ وہاں نیکی بدی پر بار بار شکست کھا کر غالب آتی ہے۔ تاہم یہ سچ ہے کہ سوسائٹی کی ترقی سوسائٹی کی اقبالمندی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں کے زور کو نہ صرف محسوس کرے بلکہ ان کی خوبی کو تسلیم کر کے ان کے مطابق عمل بھی کرے۔ اصول استقراء(تلاش کرنا،ڈھونڈنا، پیروی کرنا) کی بنا پر اگر کوئی صداقت(سچائی،خلوص) پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے تو یہ پہنچتی ہے کہ راستبازی قوم کی بلندی کی چوٹی پر پہنچاتی ہے لیکن گناہ اس کی ذلت اور خواری اور ہلاکت کا باعث ہوتاہے ۔ وہ نیک خیالات اور حمیدہ ملکات(عادتیں، صفات) جو ایک واحدوں میں خوشی اور سلامتی بھرتے ہیں بڑی سی بڑی جماعت یا سوسائٹی کو بھی اتحاد اور اقبالمندی سے مالا مال کر سکتے ہیں۔ اسی سے سوشل زندگی کا یہ عام اصول ظاہر ہوتاہے کہ خدا نیکی کو پسند کرتا اور بدی سے نفرت رکھتا ہے۔
پھر اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھینگے کہ تاریخ بھی اپنی مجموعی صورت میں اخلاق ترقی کی شاہد (گواہ) ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ آج کل گناہ نہیں کرتے ۔ یا کہ وہ بری طبیعت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ جس طرح تین یا چار ہزار برس کا عرصہ گزار آدمی گناہ آلود طبیعت ک ساتھ اس دنیا میں برپا ہوتا تھا سی طرح بھی گناہ کے تخم (اولاد، نسل ، بیج)کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے ۔نیکی آدمی کی جدی وراثت میں نہیں آتی بلکہ ہر شخص کو خود اخلاقی مشکلات کے اکھاڑے (میدان) میں اتر کر نیک چلنی کی ورزش کرنی پڑتی ہے۔ مگر باایں ہمہ(باوجود ان باتوں کے) یہ بات بھی سچ ہے کہ بنی آدم کے خیالات و تصورات آزادی اور پاک دامنی اور انصاف اور سخاوت اور دینداری کے متعلق زیادہ سچ ہوتے جاتے ہیں۔ اور ان تصورات کےسبب سے ان کے اوضاع و اطوار(ڈھنگ، طریقہ، چال چلن) میں فرق آتا جاتاہے اور ان کے قوانین اور دستورات میں ایک عجیب خوبی اور نفاست(خوبی، عمدگی،صفائی) پیدا ہوگئی ہے۔ اب وہ اسباب جن کی وجہ سے یہ اخلاقی ترقی آگے آگے قدم اُٹھاتی جاتی ہے خواہ کچھ ہی ہوں اس میں شک نہیں کہ وہ گواہی جو کہ اس اخلاقی ترقی سے خدا کی اخلاقی سیرت پر ملتی ہے مختتم(خیمہ کھڑا کرنے کی جگہ) ہے۔
اب ہم ان اعتراضوں اور ان کے جوابوں کو بالتفصیل پیش کرینگے جو خدا کی حکمت اور رحم اور انصاف پر کئے جاتے ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکالاجاتا ہےکہ اس دنیا پر کوئی ایسا خدا جس کی اخلاقی صفات میں حکؔمت اور رؔحم اور انؔصاف شامل ہیں حکومت نہیں کرتا۔ اس کی حکمت پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ "عالم موجودات کی ساخت سے کامل حکمت مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) نہیں ہوتی کیونکہ کئی ایسی چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں جو اپنی موجودہ صورت میں
ناقص ہیں۔ اگر وہ اس طرح پر بنی ہوئی ہوتیں تو ان سے بہتر نتائج پیدا ہوتے ۔ لہذا کسی حکمت والے خدا نے ان کو خلق نہیں کیا۔ بلکہ وہ آپ ہی آپ وجود میں آگئیں"۔ مثلاً کاؔمٹی صاحب فرماتے ہیں کہ نظام شمسی میں کوئی ثبوت حکمت اور تجویز کا نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے عناصر اور سیارے اور چاند بہترین صورت میں مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے چاند کی نسبت فرماتے ہیں کہ اسے ایسی جگہ معلق ہونا چاہیے تھا جہاں وہ زمین کے اردگرد اتنے ہی عرصے میں گھومتا جتنے عرصے میں زمین سورج کے اردگرد حرکت کرتی ہے۔ اگر ایساہوتا تو وہ ہر روز بدرکمال کی صورت میں سطح زمین کو منور کرتاہے۔ اسی طرح طوفان، آتش خیز پہاڑ، زلزلے اور صحرا بھی خلقت کی خوبصورتی اور عمل کے نقص تصور کئے جاتے ہیں۔ اور نیز یہ کہا جاتاہے کہ اگر ان مقاموں میں جو شمالی اور جنوبی اقطاب(زمین کے محور کے دونوں سرے ) کے نزدیک واقع ہیں۔ اور افریقہ کی طبعی حالت میں اور ایشیائی براعظم اور بحرالکاہل کی جائے وقوع میں یہ یہ تبدیلیاں پیدا ہوجاتیں تو خلقت کی حالت بہت ہی سدھر جاتی ۔ اور یہ دعویٰ بھی کیا جاتاہے کہ موجودہ قوانین قدرت کے ماتحت مختلف ممالک کی آب و ہوا جیسی متعدل ہو سکتی ہے ویسی نہیں ہے۔
ذرا سے غور سے ایسے فضول اعتراضوں کی سُبکی(ذلت، رسوائی) فاش(ظاہر ہونا) ہوجاتی ہے۔ اب آپ ذیل کے خیالات پر تھوڑی دیر کےلیے غور فرمائیں:۔
1۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انتظام موجودات سے حکمت مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہوتی ہے وہ پہلے ہی سے یہ دعوے نہیں کرتے کہ اس سے کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر مخالف یہ ثابت کر دے کہ مادی دنیا کی ساخت اور ترتیب میں بے شمار نقص دکھائی دیتے ہیں تو بھی خالق کی وسیع حکمت کا انکار نہیں ہو سکےگا۔ اگر سائنس دِکھا سے کہ آسمانوں کے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کرنےمیں نقص رہ گئے ہیں اور کہ خشکی اور تری۔ گرمی اور سردی کی تقسیم بہترین صورت میں نہیں ہوئی تو بھی یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ دنیا سے کسی طرح کی حکمت اور تجویز ظاہر نہیں ہوتی۔ اس سوال میں کہ "کیا زمین اور نظام شمسی حکمت سے مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کئے گئے ہیں"؟ اور اس سوال میں کہ " کیا وہ حکمت جس نے ان چیزوں کو ترتیب دی کامل ہے"؟ بڑا فرق ہے ۔ ممکن ہے کہ پہلے سوال کا جواب اثبات (ثبوت، حقیقت)میں اور دوسرے کا نفی میں ہو۔ پس مناسب ہے کہ پہلے سوال کاجواب دوسرے سوال سے علیحدہ اور پہلے دیا جائے۔ البتہ وہ جو خدا کو مانتا ہے وہ آخر کار یہ بھی ضرور ثابت کرے گا کہ ایک کامل حکمت بھی پائی جاتی ہے ۔ لیکن وہ مجبور نہیں کہ شروع ہی سے یہ مانے کہ موجودات ایک کامل حکمت پر مبنی ہے۔
2۔ دوسری بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ سلسلہ موجودات جیسے وسیع بلکہ لا محدود سلسلے کی نکتہ چینی کرنا گویا چھوٹا منہ بڑی بات کا مصداق(ثبوت، صداقت) بننا ہے۔ اول تو ہم اس سلسلے کا بہت تھوڑا حصہ دیکھتے ہیں اور پھر جتنا دیکھتے ہیں اسےبھی پورے پورے طور پر نہین سمجھتے ۔ ہمار ی آنکھ آئندہ کی باتوں کو بہت تھوڑی دور تک دیکھ سکتی ہے لہذا اس مقصد کو جس کی طرف خلقت راجع(رجوع کرنے والا) ہے ہم دھندلا سا دیکھتے ہیں۔ گو اس کوتاہی علم کے سبب سے ہم اس درجہ تک ناقابل نہیں کہ آثار حکمت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں پہچان ہی نہ سکیں۔ پر تاہم یہ بات
ہماری طاقت سے بعید ہے کہ ہم کسی خصوصیت کو جو ہمیں نقص کی صورت میں نظر آتی ہے دیکھ کر یہ کہنے لگ جائیں کہ اس کے نقص ہونے میں کچھ شبہ ہی نہیں۔ اگر ہم کسی آدمی کی صنعت سے بخوبی واقف نہیں ہوتے تو اس کے کاموں پر جا ناناقص معلوم ہوتے ہیں رائے زنی(کسی امر کے بارے میں اظہار رائے) کرنے سے دم چراتے ہیں کیونکہ ہم اس کی صنعت کے ہر حصے سے پوری پوری واقفیت نہیں رکھتے۔ اب جب ہم انسانی صنعتوں کے متعلق ایسی احتیاط کو کام میں لاتے ہیں تو کیا یہ ضروری امر(کام) نہیں کہ ہم یونیورس کی ساخت اور ترتیب کی عیب گیری(عیب نکالنا، نقص ڈھونڈنا) کرتے وقت بھی بہت احتیاط سے کام لیں بٹؔلر صاحب کا یہ قول یا د رکھنے کے قابل ہے کہ جتنا کسی انسانی صنعت کا خفیف(اچھا، کم ظرف، تھوڑا) اور سطحی سا علم اس کے پورے پورے علم کے نزدیک پہنچتا ہے اتنا دنیا کی حکومت کے کسی حصے کا علم اس کے عام انتظام اور بندوبست کے پارے پورے علم کے نزدیک نہیں پہنچتا۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر ہم کسی آدمی کی کسی صنعت سے ذرا بھی واقف ہو جائیں تو ہم جانیں کہ م نے اس کل صنعت کو بہت درجہ تک جان لیا ہے لیکن اگر موجودات کے کسی حصہ سے واقف ہوجائیں تو یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے موجودات کے کل مطلب یا مقصد کو پالیا ہے۔ اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ فطرت کا سلسلہ مختلف اشیاء پر مشتمل ہے۔ ہر ایک شے طرح طرح کے مقصد رکھتی ہے اور طرح طرح کے رشتے دوسری اشیاء اور کل سلسلہ کے ساتھ رکھتی ہے۔ جب تک ان کو ہم کماحقہ(ٹھیک ٹھاک، جیسا کہ اس کا حق ہے) طور پر نہ سمجھ لیں ہم کسی طرح نقص گیری کر سکتے ہیں؟ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ان لوگوں نے جو حکمت الہی کے نکتہ چینی پر جھکے ہوئے ہیں انتظام موجودات کی غائیت اور اشیائے موجودہ مختلف کے متفاوت(فرق کیا گیا، دور کیا گیا) مقاصد اور اغراض کو کما ینبغی طور پر جان لیا ہے؟ اب اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ چاند کا کام سوائے زمین کو روشنی دینے کے اور کچھ نہیں تو تو بھی خدا کی حکمت کا نہیں بلکہ کا ؔمٹی کی عقل کا نقص ثابت ہوگا۔ کیونکہ علما کا خیال ہے کہ اگر چاند کی جائے وقوع میں وہ فرق پیدا ہو جائے جو کاؔمٹی نے تجویز کیا ہے تو وہ موجودہ روشنی کی مقدار کا فقط سولھواں حصہ روشنی دے سکے گا ۔ اور ماسوائے اس کے ہمیشہ بالکل تاریک ہوجانے کے خطرے میں پڑا رہےگا۔ اس سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟ یہ کہ نکتہ چینوں کی عقل خدا کی حکمت کے سامنے ایسی ہیچ(نکما ، ناکارہ، قابل نفرت) ہے کہ وہ اس کی حکمت کے کاموں کا شمہ(تھوڑی کم، قلیل) بھی نہیں سمجھ سکتے۔ چاند اور زمین کا باہمی تعلق باقی سیاروں اور ستاروں کے نظام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ جب ہمارے نکتہ چین علم نجوم کے ایک چھوٹے سے مئسلے کو بخوبی نہیں سمجھ سکتے تو ہ کل انتظام موجودات کے حسن و قبح پر کب رائے زنی(کسی امر کے بارے میں اظہار رائے) کر سکتے ہیں؟
پر اگر بفرض محال مخالف کے کہنے کے مطابق چاند اپنی جگہ بدلنے سے واقع زمین کے لیے ایک عمدہ لمپ بن جاتاہے تو اس حالت میں بھی یہ نتیجہ درست نہ ہوتا کہ جس جگہ وہ اس وقت قائم ہے وہاں اس کا ہونا خدا کی غلطی پر دلالت(پہچان) کرتا ہے ۔ کیونکہ اگر یہ دعوے کیا جائے تو مدعی پر یہ لازم آئے گا کہ یہ بھی ثابت کرے کہ چاند کا کام سوائے زمین کو روشنی دینے کے اور کچھ نہیں۔ پر کوئی ایسا دعوے نہیں کر سکتا۔ زمین کو روشن کرنا چاند کی ہستی کا ایک مقصد ہے ۔ پر یہی ایک مقصد نہیں ہے اور بھی ہیں۔ مثلاً مّدو جذر کو پیدا کرنا ۔ اور نیز کئی اور مقصد بھی ہونگے جن سے ہم بالکل واقف نہیں ہیں۔ یہی بات آتش فشاں پہاڑوں اور بھونچالوں کی نسبت کہی جا سکتی ہے ۔ ممکن ہے کہ کسی ایک پشت کےلیے ان کی ضرورت نہ ہو۔ پر یہ کوئی نہیں کہہ سکتاکہ ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرورت کبھی نہیں پڑتی ۔بلکہ برعکس اس کے ہو سکتاہے کہ وہ ترتیب اور سلامتی کوقائم رکھنے کےلیے ایسے کارگر اور موثر آلے ہوں کہ ان کا وجود لازمی امر ہو۔ پس ان کے متعلق رائے زنی(کسی امر کے بارے میں اظہار رائے) کرتے وقت صرف اسی تعلق کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیے جو وہ اس وقت موجودات کے کسی خفیف(اچھا، کم ظرف، تھوڑا) سے حصے کے ساتھ رکھتے ہیں۔ بلکہ اس علاقے پر نظر ڈالنی چاہیے جو وہ کل سلسلہ کےساتھ ہرزمانہ (ماضی اور حال اور مستقبل) میں رکھتے ہیں۔ اگر گرینلینڈؔ آج تہ آب(پانی کی سطح یا نچلا حصہ) ہو جائے اور ایشیا اور شمالی امریکہ کے براعظم ایسے منقلب (پلٹنے ولا، اُلٹنے والا) ہوجائیں کہ کوئی بڑا دریا ان میں سے یہہ کر قطبی سمندر میں نہ گرے تو اس سے البتہ آئسلؔینڈ اور کنیؔڈا کی آب و ہوابہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہ کون کہہ سکتاہے کہ اس تبدیلی سے تمام دنیا بحالت مجموعی بہتر صورت میں آجائے گی اور آئندہ ہمیشہ اسی صورت میں رہےگی؟
ہماری رائے میں جو شخص یہ کہتا ہےکہ ہاں اس سے ضرور دنیا کی دائمی بہتری ہوگی وہ یا تو پر لے درجے کا دانا (حکمت والا، عقلمند)ہے یا اعلیٰ درجے کا احمق(بےوقوف)۔ پر اگر کوئی شخص ایسا پختہ جواب نہیں دے سکتا تو وہ کوئی حق نہیں رکھتا کہ اپنا منہ کھول کر یہ کہے کہ جو تبدیلیاں اوپر بیان کی گئی ہیں ان کےوجود میں آنے سے فی الواقع دنیا بہتر بن جائےگی۔ علاوہ بریں یہ بھی یادرکھنے چاہیے کہ ممکن ہے کہ بعض بعض تبدیلیاں بظاہر آدمی کے لیے مفید (فائدہ مند) ہوں مگر در حقیقت وہ اس کے فائدے کا باعث نہ ہوں۔ فلؔنٹ فرماتے ہیں کہ اگر انسان ایک کامل دنیا میں رکھا جاتا تو وہ مکامل دنیا اسکےلیے ناکامل ہوتی ۔ کیونکہ انسان جیسے ترقی کرنے والے مخلوق کے لیے ناکامل دنیا ہی سب سے اچھی دنیا تھی۔ وہ اس لیے اس دنیا میں نہیں آیا کہ دنیا کا مغلوب(غلبہ کیا گیا، ہاراہوا) ہو بلکہ اسلیے کہ دنیا پر غالب آئے۔ وہ اس لیے دنیا میں نہیں رکھا گیا کہ دنیا کی نقل کرے بلکہ اس لیے اس لیے کہ دنیا کی چیزوں کو تکمیل دے۔ کلام الہیٰ اس کے برخلاف نہیں۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ خدا نے اپنی خلق کی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر یہ کہا کہ وہ کامل ہیں۔ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ خدا نے کہا۔ "بہت اچھا ہے"۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے چاہیے کہ ہر مخلوق شے محدود ہے اور اگر محدود ہے تویہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس سے اچھی نہیں بن سکتی تھی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جو شے محدود ہے وہ زیادہ اچھی صورت میں تبدیل ہو سکتی ہے اور کہ اگر خدا چاہتا تو اسے موجودہ صورت سے زیادہ بہتر صورت دے سکتا تھا۔ سوائے خدا کے اور کوئی کامل نہیں ہے۔
ماسوائے اس کے یہ بھی یاد رہے کہ کاؔمٹی تو جیسا ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ دنیا کسی علت(بیماری) غائی کے منکر(انکاری) ہیں تو پھر کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ یا وہ چیز اس طرح بنی ہوئی ہوتی تو فلاں غرض کو بہترین صورت میں انجام دیتی ۔ یہ کہنا اور علت غائی کا انکار کرنا درست نہیں۔
واضح ہو کہ اسی قسم کے اعتراض حیوانات کی ساخت پر بھی کئے گئے ہیں۔ مثلاً یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بعض بعض اعضاء جومکمل ہیں مثلاً پلی(تیل یا گھی نکالنے کا آلہ، ٹیڑھی چمچ) اور بعض اعضا جو نامکمل ہیں کوئی غرض پوری نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اعلیٰ قسم کے اعضا میں بھی نقص نکالے گئے ہیں ۔ مثلاً آنکھ
کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ بصارت کا کامل عضو نہیں ہے ۔ ایک شخص نے تو یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ وہ کہتاہے کہ جو غلطی آنکھ کے خالق نے کی ہے اگر ویسی کسی آپئیشین ( ماہر علم بصارت) سے ہو جاتی ہے تو لوگ لات مار کر اسے اس کے پیشے کی دکان سے نکال دیتے۔ پھر اس بات پر بھی زور دیاگیا ہے کہ حمل ساقط ہوجاتے ہیں اور عجیب الخلقت بچے پیدا ہوتے ہیں کیا ان سے حکمت ظاہر ہوتی ہے؟
جو خیالات ہم اوپر پیش کر آئے ہیں وہی ان اعتراضوں کے جواب میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ہم کسی عضو کی نسبت جس کے مقاصد ہم پر ہنوز(ابھی تک، اس وقت تک) ظاہر نہیں ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کردو بالکل بے فائدہ ہے۔ جس درجہ تک مئسلہ ایوولیوشن درست پایا جا سکتاہے ۔ اسی درجہ تک بےکار اعضا کی مشکل حل ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اگر وہ اعضا ابھی نا مکمل ہیں یا کام میں نہیں آتے ہیں تو کچھ مضائقہ (حرج) نہیں۔ کیونکہ وہ وقت آئے گا جب وہ وقت آئے گا جب وہ رفتہ رفتہ ایوولیوشن کے اصول کے مطابق نشوونما پا کر کام میں آنے لگے گی۔ آنکھ کی نسبت ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہ ان باتوں سے نہیں ڈرتے کہ انسانی آنکھ کی بصارت کامل نہیں ہے یا بعض آدمی بہت کم دیکھتے ہیں۔ بلکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ خواہ آنکھ میں کیسے ہی نقص کیوں نہ ہوں تو بھی اگر ان مقاصد پر نظر کی جائے جو وہ انجام دیتی ہے تو ہر صنف مزاج کو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ سب مصنوعی(صنعت کیا گیا، بنایا ہوا) آلوں پر فائق(برتر،ممتاز،فوقیت) ہے۔ اگر سچ پوچھو تو ہی اکیلی دیکھنے کا اصلی آلہ ہے۔ باقی سب دیکھنے کے آلے اُ س کو مدد دینے والے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتی تو مصنوعی آلے کہاں ہوتے ؟ اگر وہ نہ ہوتی تو وہ تمام تعلقات جو ہم خلقت سے رکھتے ہیں بالکل بدل جاتے۔ آنکھ جیسی اب بنی ہوئی ہے ویسی بنانے والے نے اپنی حکمت سے بتائی ہے۔ اس کے نقص سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بنانے والے کی حکمت بھی قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) اور ناقص ہے۔ کیونکہ یہ دعویٰ صرف اسی وقت کیا جاسکتا تھا جب یہ ثابت کر کے دکھادیا جاتا کہ وہ اسے موجود ہ حالت سے بہتر بنانا چاہتاتھا پر نہ بنا سکا۔ اگر کسی شخص میں پانچ من بوجھ اُٹھانے کی طاقت ہو پردہ صرف ایک سیراُٹھائے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ وہ پانچ من بوجھ اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ایک آدمی اپنی حکمت سے بڑی بڑی مشینیں اور گھڑیاں تیار کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایک عام قسم کی سوئی تیار کرے تو کیا اس سے یہ خیال گزرےگا کہ وہ گھڑی کے کل پُرزے تیار نہیں کر سکتا؟
پھر اسقاط حمل (حمل کا گر جانا ، ضائع ہو جانا) اور عجیب الخلقت بچوں کے پیدا ہونے پر بھی چشمک زنی (طعنہ زنی، طنز کرنا)کی گئی ہے۔ مثلاً بعض لوگوں نے ٹھٹھے سے کہا ہے کہ کوئی خدا خلقت کا بنانے والا نہیں ۔ بلکہ نیچر اپنے گولے اندھا دھند پھینکتی رہتی ہے ان میں سے کوئی کوئی تو نشانےپر جا لگتا ہے۔ باقی ہزاروں رائیگاں جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ قول درست نہیں ہے۔ کیونکہ اگر نیچر اندھا دھند اس چاند ماری کی منطق کرتی تو اس کی ناکامی کی مثالیں اور نظریں جتنی اب ملتی ہیں ان سے کہیں زیادہ ملتیں۔ اور ہم دیکھتے کہ نیچر کوئی قانون نہیں رکھتی اور اس کے استحکام ہر کسی طرح کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دیکھنے میں کیا آتاہے؟ یہ ہ ادنیٰ درجہ کے حیوانات اور بیرونی حالات کے درمیان ایسی ہی مطابقت اور موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) پائی جاتی ہے جیسی اعلیٰ درجے کے حیوانات اور بیرونی حالات میں پائی جاتی ہے۔ کہ موت اور زندگی نہ حداعتدال(نہ کمی نہ زیادتی، میانہ روی) سے کم اور نہ زیادہ ہے۔ اسقاط واقع تو ہوتے ہیں مگر بہت کم اور کہیں کہیں۔ زیادہ تر عام قانون ہر جگہ حکمران نظرآتا ہے۔ رہی بات عجیب الخلقت بچوں کے پیدا ہونےکی۔ اس کا
جواب اس معنی پر موقوف(ٹھہرایا گیا، کھڑا کیا گیا) ہے جو ہم لفظ عجیب الخلقت کو منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کرتے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ کیا وہ شخص جس کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے کم عجیب الخلقت ہوتا ہے؟ عجیب الخلقت بچے میں اور اس میں جسکی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے فقط یہ فرق کہ ایک پر ایک عجیب حادثہ رحم مادر میں واقع ہوا اور دوسرے پر اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد اس سوال یہ ہے کہ اگر دنیا میں پیدا ہونے کے بعد حولوث ہماری اصل ہئیت کو بگاڑ سکتے تو کیا دلیل ہے کہ اسی قسم کے حولوث رحم میں واقع نہ ہوں؟ جو عام قوانین رحم کے باہر کام کرتے ہیں وہ رحم کے اندر بھی کام کر سکتے ہیں۔کون خدا کے کاموں کی نکتہ چینی کر سکتا ہے؟
اعتراض جو عموماً رحم پر کیا جاتاہے یہ ہے کہ اگر خدا ہے۔ اور اگر وہ رحیم خدا ہے تو وہ دُکھ کیوں اس دنیا میں پایا جاتاہے؟ معترض کےدکھ کی موجودگی خدا کے وجود کی نفی کی دلیل ہے اس کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں۔ کہ اگر دکھ اور درد کے وجود سے کوئی غرض یا مقصد پورا نہ ہوتا تو ہم بھی معترض کے ساتھ متفق ہو کر ضرور کہتے کہ دنیا کی مصیبتیں اور تکلیفیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ خدا نہیں ہے ۔ لیکن اگر ان کے وجود سے نہ صرف حکمت بلکہ خدا کا رحم بھی ظاہر ہوتاہے تو ہم کس طرح مخالف کی باتیں مانیں اور کہیں کہ خدا کی ہستی کا خیال بے بنیاد ہے ۔ اس سے تو الٹا یہ ثابت ہوگا کہ خد ا ہے کہ اور اسی نے اپنی حکمت سے دکھ کو سلسلہ موجودات میں منسلک کیا ہے تاکہ وہ مقاصد جو اسے مد ِنظر ہیں اس سے بر آئیں ۔ واضح ہو کہ دکھ گناہ کے وقوع سے بہت پہلے اس دنیا میں پایا جاتا تھا۔ انسان کے پیدا ہونے سے کئی زمانہ پیشتر(پہلے) فساد اور ہلاکت اس دنیا میں موجود تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب سے ہوا اور خشکی اور تری موجود ہوئے ہیں تب ہی سے بھوک اور خوف اور ظلم اور بیماری اورجان کنی اور موت بھی موجود ہیں انسان کی تکلیفوں کی نسبت حیوانات کی تکلیفیں زیادہ پُرراز ہیں کیونکہ انسان کی تکلیفیں گناہ سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کی جا سکتی ہیں۔ لیکن حیوانات کی تکلیفیں کسی ظاہری سبب سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) نہیں کی جا سکتی۔ تاہم دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہر حیوان کچھ نہ کچھ دکھ میں مبتلا ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حیوانی خواہش ضرورت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر حیوان کے قوائے حاسہ(محسوس کرنے کی قوت) ایسے بنے ہوئے ہیں کہ وہی احساس درد کا موجب ہیں۔ ہزار ہا جانور ایسے ہیں جو بغیر دوسرے جانوروں کو کھانے کے جی نہیں سکتے۔ سینکڑوں جانور ایسے جسیم(تنومن، جسم ولا) ہیں کہ وہ ایک ایک قدم پر سینکڑوں اور جانوروں کو پاؤں کو نیچے بچا ڈالتے ہیں کیا ان باتوں سے حکمت اور رحم ظاہر ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
1۔ درد ابقائے زندگی کا باعث ہے۔ ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ دکھ کا وجود ایک پُرراز مئسلہ ہے ۔ پس اس کا تسلی بخش حل پیش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ تاہم اس کے اظہاروں اور نتیجوں سے جو کچھ معلوم ہوتاہے اس سے کئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں جن سے بخوبی ظاہر ہوجاتا ہے کہ دکھ خالی از فائدہ نہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہی ہے جو ہم ابھی رقم کر چکے ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر موجود دنیا میں دکھ نہ ہوتاتو جانداروں کے اجسام اور اعضا قائم نہ رہتے۔ ایک شخص نے خوب کہا ہے کہ دکھ کو محسوس کرنےوالی خاصیتیں جو ہم میں پائی جاتی ہیں وہ گویا ہماری محافظت کے دروازوں پر سنتریوں (فوج یا پولیس کس پہرہ دینے ولا سپاہی) کا کام کرتی ہیں تاکہ ہمیں آنے والے خطروں سے مطلع کریں ۔ اگر یہ نہ ہوں تو مخالف ہماری حیات کے قلعے پر نا گہاں(اچانک، یکا یک) حملہ آور ہو کر اسے اپنے قبضے میں لے آئے۔اب جبکہ دکھ ایسا بڑا کام کہتا ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حالت میں اس کی ضرورت نہیں ؟ بلکہ ہمیں یہ
کہنا پرتاہے کہ اس کا وجود مضرت(ضر، نقصان) کاموجب نہیں بلکہ محافظت کا باعث ہے۔ دکھ بذات خود ایک انجام نہیں بلکہ وسیلہ ہے جو ایک خاص انجام کو پیدا کرتاہے اور اس سے خدا کی ذات کی نسبت یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے انہیں اپنی خوشی کے لیے نہیں بلکہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے پیدا کیا ہے۔
2۔ ایک اور بات ہے جس سے ہمارے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) کی اور بھی تائید ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دکھ کے سبب سے حرکت فعلی پیدا ہوتی ہے جو تکمیل قوائے کےلیے نہایت ضروری ہے۔ صرج اسی حرکت سے حیوانی خواہشوں اور طاقتوں کی اصلاح اور تکمیل ہوتی ہے ۔ ہر خواہش ضرورت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ پر ضرورت ہی کے احساس کا نام دکھ ہے۔ اگر حیوانات میں خواہشات اور خواہشات کو پورا کرنے والی فعلی طاقت موجود نہ ہوتی تو وہ کیا ہوتے؟ ہمارے خیال میں وہ کسی طرح بے جان پتھروں سے بڑھ کر نہ ہوتے۔ ضرورت خواہش کو پیدا کرتی ہے ۔اور خواہش جانداروں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اسباب بہم پہنچائیں جو اس خواہش کو رفع کر سکتے ہیں۔ اس جدو جہد سے تلاش معاش، جلب منفعت،دفع مضرت(ضر، نقصان) جیسی باتیں وجود میں آتی ہیں اور ہماری طاقتیں اپنے کمال کی طرف بڑھتی جاتی ہیں۔ کمالیت بذات خود ایک ایسا انجاؔم ہے جو خوشی سے کسی طرح کم نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دکھ کے وسیلے سے فقط حیوانی طاقتیں ہی اپنے کمال کی طرف راجع(رجوع کرنے والا) ہوتیں اور اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوتا تو تو بھی دکھ کا وجود خالی ازفائدہ نہ ہوتا کیونکہ کمال بجائے خود ایک اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ دکھ ہر جاندار کو اس کے کمال کی طرف لےجاتا ہے ۔ اگر خرگوش کو کسی کا ڈر نہ ہوتا تو اس میں وہ تیز رفتاری کبھی پیدا نہ ہوتی جس سے وہ اب بہرہ ور ہے۔ شیر کو اگر بھوک نہ لگتی تو اس میں وہ تندی اور طاقت نہ آتی جواب اس میں موجود ہے۔ غرضیکہ جیسا دکھ کسی حیوان کی طاقتوں کی تکمیل کے لیے ضروری تھا ویسا ہی اس کو دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر دکھ سے صرف جسمانی طاقتوں کی کمالیت ہی پیدا ہوتی توتو بھی اس کا وجود خدا کے رحم کے بر خلاف نہ ہوتا۔ پر ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ بھی ثابت کرتاہے کہ دکھ نہ صرف کمالیت کا باعث ہے بلکہ خوشی کا منبع(پانی جاری ہونے کا مقام) بھی ہے اور وہ اس طرح کہ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ حالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ خوشی کو محسوس کرنے کے لیے دکھ کو محسوس کرنے کی قابلیت کا ہونا ایک لازمی امر ہے یعنی ممکن ہے کہ اگر ہمارے اجسام میں دکھ اور درد کو محسوس کرنے والی قابلیت نہ ہوتی تو اس کے متقابل خوشی اور راحت کو محسوس کرنے والی قابلیت بھی موجود نہ ہوتی۔ خیر یہ خیال درست ہو یا نہ ہو۔ اسمیں شک نہیں کہ دکھ کے سبب سے جو حرکتیں اور کوششیں پیدا ہوتی ہیں وہی ہماری خوشی اور راحت، چین اور آرام کا باعث اور منبع ہیں۔ اب اس خیال کی بنا پر ی دعویٰ نادرست نہیں کہ دکھ خدا کے رحم کے بر خلاف نہیں بلکہ اس کا موید(تائید کرنے والا) ہے۔
یہ خیال کہ دکھ جانداروں کی طاقتوں کو کامل کرتا ہے اور بھی زیادہ روشن ہو جاتاہے ۔ جب ہم انسانی دکھ پر غور کرتے ہیں یعنی اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس کا اثر اس کی روح پر کیسا پڑتا ہے ۔ وہ سخت دل کو ملائم ۔ متکبر دل کو حلیم۔ زودرنج طبائع کو صابر اور بزدل لوگوں کو دلیر بناتا ہے۔ وہ ہمدردی کو وسیع اور مذہبی خوبیوں کو زندہ کرتا ہے۔ وہ روح کو بدی کی آلائشوں (آلودگی ، غلاظت، میل کچیل)سے آزاد اور اخلاقی طاقتوں سے بھرپور کر کے کل انسانی طبیعت
کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ خالص سونا بننے کےلیے اس بات کی ضرورت ہے کہ انسانی سیرت مصیبت کی بھٹی میں سے گزرے۔ اور جنہوں نے راست دلی سے دکھ اُٹھائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا آنا بے معنی نہ تھا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ دکھ لعنت نہیں بلکہ خدا کی برکت ہے۔
ایوولیوشن تھیوری بھی دکھ کی اس نیک خدمت کے خلاف نہیں بلکہ اسکی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ اس تھیوری کے مطابق جیسا ہم اوپر دکھا چکے ہیں حیات کو قائم رکھنے کی ضرورت کے سبب سے جدو جہد کا برپا ہونا اور اس جدو جہد سے دکھ اور موت کا پیدا ہونا انواع حیوانی کی بقا اور ترقی اور زیبائش(سجاوٹ، آلائش) کا وسیلہ ہے۔ اس سے سائنٹفک (علمی) طور پر ثابت ہوتاہے کہ ایک فرد کا دکھ اُٹھانا نہ صرف اس واحد کے لیے مفید ہے بلکہ تمام نوع کےلیے اب اور آنے والے زمانے میں کسی وقت مفید ہو سکتا ہے ۔ نیز اس سے اس اصول کی تائید بھی ہوتی ہے کہ کوئی شے اس دنیا میں ایسی نہیں جو فقط اپنے لیے جیتی یا مرتی ہے ۔ اور یہ اصول ایسا اصول ہے جو کئی باتوں پر جو تاریک اور غمناک سی معلوم ہوتی ہیں بشاشت(خوشی، مسرت،تازگی) کی روشنی ڈالتا ہے۔ مثلاً اگر ہم جسمانی موت کو لیں اور اس اصول کی روشنی میں اسے دیکھیں تو ہمیں کیا نظرآئے گا؟ یہ کہ جسمانی موت بھی خدا کی رحمت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ حیوانی خوشی کی کثرت کےلیے یہ لازمی امر ہے کہ حیوانی زندگی کی پیدائش کے قانون کے مقابلے میں حیوانی زندگی کی موت کا قانون بھی موجود ہو۔ اگر دنیا میں موت کم ہوتی تو زندگی بھی اسی نسبت سےکم ہوتی اور جوزندگی موجود ہوتی وہ کمزور اور ادنیٰ قسم کی ہوتی۔ پس موت نیچر کی ثمروری اور انواع حیوانی کے پھیلنے اور ان کی پشتوں کے تواتر اور بڈھوں اور جوانوں کے ایک ہی وقت میں موجود ہونے کی ضروری شرط ہے۔ اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان باتوں سے جانداروں کی خوشی نہیں بڑھتی۔
اب یہ خیالات جو ہم ہدیہ ناطرین کر چکے ہیں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ دکھ ان نیک مقاصد کے پورا کرنے کے وسیلہ ہے جو ایک رحیم خدا نے تجویز کئے ہیں کہ دکھ اور موت میں ایسی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو محبت اور رحم پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہیں۔ اور یہ یاد رہے کہ ہمیں اپنی روحانی بہتری اور فائدے کےلیے اس سے زیادہ جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ممکن ہے کہ مخالف کئی طرح کی حجتیں(دلیل، ثبوت، بحث، تکرار) پیش کرے مثلاً ممکن ہے کہ وہ کہے کہ"اگر یہ درست ہے کہ خدا کو دور کرنا چاہتا ہے پر کر نہیں سکتا۔ تو اس حالت میں وہ قادر خدا نہیں۔ یا وہ دکھ کو دور کر سکتا ہے پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس صورت میں وہ رحیم ثابت نہیں ہوتا۔ یا وہ نہ دکھ کو دور کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے ۔ اس حالت میں اس کی تمام اخلاقی کما لیتیں(کمال) زائل(کم ہونا) ہو جاتی ہیں"۔ ممکن ہے کہ اس قسم کی حجتیں(دلیل، ثبوت، بحث، تکرار) پیش کی جائیں۔ پر صرف کو تہ اندیش(سوچنے والے، فکر کرنے والے) لوگ ہی ایسی مفسدانہ(کسی چیز کو عیب اور نقص سے پاک کرنا) کج بحثی کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو ذرا بھی اصول استقراء(تلاش کرنا،ڈھونڈنا، پیروی کرنا) سے مس ہو تو اس پر یہ بات چھپی نہ رہےگی کہ یہ کہنا کہ خدا ایسا کر سکتا تھا اور ایسا نہیں کر سکتا تھا دنیا ایسی ہو سکتی تھی اور ایسی نہیں ہوسکتی تھی حقیقی واقعات اور نیچر کی اصل کاروائی کی تحقیقات سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ جو کچھ اب موجود ہے۔ جو کچھ اب ہورہاہے ۔ جو کچھ اب ہماری نظر سے گزرتا ہے ہم اس کے اوپر غور کریں اور دیکھیں کہ اس میں حکمت اور رحم کے آثار نظر آتے ہیں یا
نہیں۔ اگر آتے ہیں توہمارا دوسرافرض یہ ہے کہ ہم اس بات کونہیں مانیں کہ جس نے اخلاقی نیچر کو پیدا کیا اس میں خود حکمت اور رحم کی صفات پائی جاتی ہیں۔
دنیا میں جو دکھ(ہمارا مطلب اس دکھ سے ہے جو انسان پر وارد ہوتاہے)پایا جاتاہے۔ اس کا بہت سا حصہ اس علاقہ پر غور کرنے سے حل ہوجاتاہے جو وہ انسان کے گناہ کے ساتھ رکھتا ہے ۔ دوسری صورت میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا بہت سادکھ اس کے گناہ یا گناہوں سے پیدا ہوتاہے۔ اب وہ دکھ جو اخلاقی برائی کے انساد یا سزا یا اصلاح یا تربیت کےلیے حادث(قدیم کی ضد ، نئی چیز جو پہلے نہ ہو) ہوتا ہے وہ خواہ کیسا ہی سخت کیوں نہ ہو بے فائدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کو فائدہ بخش چیزوں کے سلسلے میں شمار کرنا چاہیے ۔ پس ہمیں یہ دیکھ کر کہ گناہ کے سبب سے بنی آدم کے درمیان بہت سادکھ پایا جاتاہے تعجب نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ تعجب اس میں ہے کہ اتنا گناہ موجود ہے اور پھر بھی دکھ اتناکم پایا جاتاہے ۔ اگر اخلاقی حکومت موجود ہوتی لیکن اخلاقی بدی کی اصلاح اور تنبیہ کے لیے تکلیف نہ ہوتی تو یہ بات اخلاقی حکومت کے برخلاف ہوتی۔
لیکن اخلاقی بدی کا وجود بذات خود ایک تنقیح(جھگڑےکا فیصلہ کرنا) طلب امر ہے۔ بے شک اس کی بنا پر بنی آدم کی جسمانی تکلیفوں کا مئسلہ تو بہت درجہ تک حل ہوجاتاہے ۔ پر یہ مئسلہ آپ ایسا دقیق(باریک، نازک) ہے کہ ہمیں فکر کی الجھن میں ڈال دیتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ گناہ جو اس قدر جسمانی دکھ کا باعث ہے کس طرح دنیا میں داخل ہوا؟ کیا خدا کے ارادے سے وہ دنیا میں آیا؟ کیا اس نے خود اسے پیدا کیا؟ ان سوالوں کا جواب دینا واقعی انسان کے حیطئہ امکان سے باہر ہے۔ تاہم بہت درجہ تک واقعاتِ نفس الامری کی مدد سے ہم ان کا کچھ کچھ جواب دے سکتے ہیں اور یقینی طور پر دے سکتے ہیں۔
جتنا اور جس طرح اور گناہ اس دنیا میں پایا جاتاہے اس کی نسبت ہم جانتے ہیں کہ وہ انسان کے ارادے سے وقوع میں آتا ہے ۔ اور اسی طرح وہ گناہ بھی جو دوسرے کُروں میں پایا جاتاہے باغی روحو ں سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کیا جاتاہے ۔ پس نہ نیچر اور نہ کوئی الہامی نوشتہ(لکھاہوا، تحریر کی گئی سند) ہمیں یہ خبر دیتا ہے کہ گناہ کے ارادے سے وجود میں آیا ۔ یا یوں کہیں کہ ہمارے پاس کوئی فیکٹس ایسے نہیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ خدا گناہ کا موجد (ایجاد کرنے ولا)ہے۔ اب فیکٹس کی عدم موجودگی میں ہم فقط اپنا اپنا قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) دوڑا سکتے ہیں کہ " خدا گناہ کرنے والے مخلوق کس طرح پیدا کر سکتاتھا؟ اس نے انہیں گناہ کرنے سے کیوں نہ روکا؟ اس نے گناہ کو اتنی مدت تک کیوں رہنے اور پھیلنے دیا"؟ لیکن سمجھدار اشخاص اس قسم کے سوالوں کی طرف بہت توجہ نہیں کرتے کیونکہ وہ قیاسی باتوں کو ایسا قابل وقعت(عزت، اعتبار، قدر) نہیں سمجھتے جیساکہ فیکٹس کو سمجھتے ہیں۔
گناہ نیچرل نہیں بلکہ اَن نیچرل ہے۔ فطرت کی منشا(مرضی) کے مطابق نہیں بلکہ اس کے برخلاف ہے ۔ قانون نہیں بلکہ قانون کی تخریب(برائی، بربادی ،تباہی) ہے۔خدا کی کامل اور پاک مرضی خدا کی پاکیزگی کے اصل اور کامل انداز سے بال برابر بھی کبھی ادھر اُدھر نہیں سر کی۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو گناہ کہاں سے آیا؟ واضح ہو کہ خدا کی پاک مرضی اور گناہ کے درمیان مخلوق مرضیاں حائل ہیں اور وہ اس بات سے واقف ہیں کہ ہم میں یہ طاقت پائی جاتی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو نیکی کریں۔ اور اگر ہم چاہیں تو بدی کو اپنے لیے چن لیں ۔ اگر چاہیں تو خدا کے قانون کی فرمانبرداری کریں اور اگر چاہیں تو اس
مخرف ہو جائیں ۔ یہی مخلوق مرضیاں یا وہ اشخاص جو اس قسم کی مرضیوں سے بہرہ ور ہیں گناہ کے موجد (ایجاد کرنے ولا)ہیں نہ کہ خدا لیکن اصل مشکل ابھی حل نہیں ہوئی کیونہ یہ سوال ابھی باقی ہےکہ کس طرح مخلوق اشخاص گناہ کے موجد ہیں؟ جوا ب یہ ہے کہ خدا اپنے لوگوں کو اچھی برکتیں دیتا ہے لیکن ان برکتوں میں ایک یہ برکت بھی شامل ہے کہ وہ وہ طاقت انہیں دیتا ہے جو اگر چاہے تو اپنے آپ کو بھی اور نیز دوسری برکتوں کو بھی خراب کرے۔ اب اس طاقت کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کیوں دی گئی کہ اس کی کچھ ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ یہ طاقت فعل مختاری کی طاقت ہے جو اخلاقی صفات کےلیے لازمی شرط ہے۔ کیونکہ اگر اخلاقی آزادی نہ ہوگی تو نیکی ایک مہمل شے بن جائے گی۔ نیک مخلوق وہی مخلوق ہے جو اپنی مرضی سے راستی کو چن لیتا اور اپنے ہی ارادے سے بدی کو ترک کردیتاہے ۔اب اگر خدا کی یہ مرضی تھی کہ دنیا میں اخلاقی ہستیاں موجود ہوں تو لازم تھاکہ وہ انہیں آزاد مرضیاں عطا کرتا۔ یعنی ان کو یہ قابلیت دیتا کہ اگر چاہیں تو اس کی مرضی کو قبول کریں اور اگر چاہیں تو اسے رد کریں۔ پس اخلاقی مخلوقات کا پیدا کرنا گویا یہ ارادہ کرنا تھا کہ ایسے مخلوق پیدا کئے جائیں جو اپنے اپنے افعال و اعمال کے آپ موجد(ایجاد کرنے ولا) ہوں۔ اگر چاہیں تو فرمانبردار ہوں اور اگر چاہیں تو الہیٰ مرضی ےس مخرف ہوں۔ جب اس نے اخلاقی ہستیوں کو مخلوق کیا اور جب ان ہستیوں نے اپنی طاقت کے آزاد عمل سے اس کے قانون کوتوڑ ڈالا تو گناہ دنیا میں داخل ہوا ۔ لیکن خدا کی مرضی سے نہیں بلکہ وہ اس طاقت کے عمل سے جو خدا نے شروع میں اپنے بعض مخلوقوں کو عطا فرمائی تھی ۔ وہ اس طاقت کو خراب کرنے کی طاقت کو خراب کرنا ان کا اپنا کام تھا اور اس ناسزا کا م کو وجود میں آنا خدا کی مرضی کے مطابق نہ تھا بلکہ اس کے برعکس تھا لہذا خدا کے بندوں کے گناہوں کے سبب سے خدا کی سیرت پر داغ نہیں لگتا۔ پر شاید اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ " کیا خدا ایسے مخلوق نہیں پیدا کر سکتا تھا جو ہمیشہ راستی ہی کو اپنے لیے انتخاب کرتے اور ہمیشہ خدا کی مرضی سے اتفاق کرتے ؟ اور اگر وہ ایسا کرسکتا تھا تو اس نے کیوں ایسا نہ کیا؟ اس نے کیوں ایسے لوگ بنائے جن کی نسبت وہ پہلے ہی سے جانتا تھا کہ وہ اس طاقت کو جس پر خدا کے قانون کی اطاعت یا انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) منحصر تھا بُرے طور پر استعمال کرینگے؟ اب ہم ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتے کہ خدا کوئی بےگناہ اخلاقی انتظام پیدا ہی نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے کئی اخلاقی مخلوق ایسے پیدا کئے ہیں جو کبھی اس کی مرضی سے انحراف( پھِر جان، بر خلاف ہونا) نہیں کرتے ۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اگر چاہتا تو فقط ایسے فرشتے ہی پیدا کرسکتا تھا جو اپنی حالت سے کبھی نہ گرتے ۔ لیکن اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ اس نے ایسا کیوں نہ کیا تو ہم اپنی لاعلمی کا اقرار کرنے سے نہیں شرماتے ۔ پر اتنا ضرور کہینگے کہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے ایسا یونیورس کیوں نہ بنایا جس میں ادنیٰ درجے کے اخلاقی مخلوق بھی اعلی فرشتوں کی طرح بے بد ی ہوتے تو وہ ہمارے سامنے ایک ایسا مئسلہ پیش کرتا ہے جو دلائل سے حل نہیں ہو سکتا اور نہ وہ ہماری رائے میں ہمارے لیے ہماری رائے میں کوئی علمی فائدہ ہی رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس قسم کے سوالوں سے اسی قسم کے کئی او ر سوال پیدا ہو سکتے ہیں مثلا ً ہم پوچھ سکتے ہیں کہ خدا نے ایسے مخلوق کیوں نہ بنائے جو اعلیٰ فرشتوں سے اسی قدر اونچے ہوتے جس قدر فرشتے افریقہ کے وحشیوں سے بزرگ ہیں ؟ اور اگر ہم اسی طرح سوالات کرتے جائیں تو ایسا سلسلہ سوالات کا پیدا ہوجائے گاجس کا آخر کبھی نہیں ہوگا۔ علاوہ بریں نہ ہمارے پاس ایسے فیکٹس موجود ہیں اور نہ ہم ایسی لیاقتیں(قابلیت،استعداد) ہی رکھتے ہیں کہ ان سوالوں کاکافی جواب دے سکیں۔ ہم قیاسی دنیا پر رائےزنی نہیں کرسکتے۔ جب کہ ہم موجودہ انتظام کو اچھی طرح نہیں سمجھتے حالانکہ اس
پر غور کرنے کے کئی موقعے ہمارےپاس موجود ہیں۔ کیونکہ دنیا کی چیزوں اور ہمارے اعضا و قوائے میں بڑی مناسبت پائی جاتی ہے۔ تو پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو دنیا اور دنیا کا انتطام ہمارے واہمہ(قوتِ تصور، جن کا تعلق محسوسات سے ہو) پر نقش ہو رہا ہے وہ موجود اخلاقی دنیا سے بہتر ہوتا۔ خواہ موجود دنیا میں کیسے ہی نقص نظر کیوں نہ آئیں تو بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے واہمہ(قوتِ تصور، جن کا تعلق محسوسات سے ہو) کی دنیا سے خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا کہیں بہتر اور افضل ہےہمارا فرض یہ ہے کہ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جو کچھ خدا نے بنایا ہے وہ حکمت اور راستی پر مبنی ہے کہ نہیں۔اگر اس کی حکمت اور راستی اس سے ظاہر ہوتی ہے توہم کو اسی پر قناعت کرنی چاہیے اور وہمی باتوں کو چھوڑ دینا چاہیے پس ہم یہ نہی کہیں کہ اس نے یہ چیز ایسی کیوں نہ بنائی؟ یا وہ کام اس طرح کیوں نہ کیا ؟ کیونکہ جو باتیں ہم تجویز کرتے ہیں ان کی درستی کا صحیح صحیح تخمینہ (اندازہ )لگانا ہمارے لیے ناممکن ہے۔
اب یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ جہاں تک ہم سوچ سکتے ہیں ہمیں یہی معلوم ہوتاہے کہ گناہ کا موجد خدا نہیں بلکہ فعل مختار انسان اس کا بانی ہے۔ اب ہم اس بات پر غور کریں گے کہ کیا ہم گناہوں کی موجودگی سے کوئی اور بات بھی سیکھ سکتے ہیں ؟ ہاں سیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً کہ گناہ کے دنیا میں گھس آنے سے کئی بڑے بڑے مقاصد بر آئے۔ اگر انسان گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو خدا اس پر حاوی اور غالب ہونے کی طاقت رکھتا ہے ۔ بےشک وہ اسے شکست دینے اور ذلیل کرنے کی طاقت رکھتا تاکہ اسی کے وسیلے اس حالت کو ترقی دے جسکی بربادی پیدا کرنے کی طرف مائل تھا۔ اور تجربہ اورتاریخ شاہد(گواہ) ہیں کہ خدا ایسا ہی کرتاہے ۔ چنانچہ خدا کے بندوں میں گناہ کے ساتھ لڑنے کے سبب سے ایک ایسی اعلیٰ نیکی نشوونما پاتی ہے جو ایک محض بے بدی کی حالت سے کہیں برتر ہے۔ یہ خوبی صرف دکھ اور جنگ اور فتح کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو لڑائی بدی کے ساتھ کی جاتی ہے وہ جسمانی تفکرات اور عقلی مشکلات کے مقابلے سے بھی زیادہ روحانی قوتوں کی ورزش کا باعث ہوتی ہے۔ وہ رو ح کو آزماتی ۔ وہ اس کی کمزوری اس پر ظاہر کرتی اور اس خدا کی قدرت پر تکیہ کرنا سکھاتی ہے ۔ اور یوں روحانی طاقتوں کو بڑھاتی اور ان کی تربیت کرتی ہے ۔ دوسرے آدم میں جو کامل انسانیت کا اندازہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اسکا فقط یہی مطلب نہیں کہ جو کچھ ہم نے پہلے آدم میں کھو دیا تھا صرف وہی ہم کو پھر ملے گا۔ بلکہ یہ کہ ہم اس سے بھی کہیں زیادہ کامل بنیں گے ۔ پس اب ہم جس کامل پاکیزگی کے اندازے کے عاشق ہیں وہ اس بے گناہی سے جو کبھی آزمائش کے ۔۔۔ پرکسی نہیں گئی۔ بدر جہاں جلیل(برگ، اعلیٰ ، افضل) اور تکمیل ہے کیا یہ بات واہمی باتوں کی نسبت ہزار چند زیادہ خدا کی کامل حکمت اور پاکیزگی کی دلیل نہیں ہے؟
پھر اس بات پر بھی لحاط کرنا لازم ہے کہ خدا کی اخلاقی حکومت رو بہ ترقی ہے۔ ہم اس وقت اس کا صرف تھوڑا سا حصہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ اس کا باقی حصہ ابھی نشوونما پا کر نمودار(ظاہر) نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ تاریخ کو اس اخلاقی عمل کی جو متواتر(لگاتار) جاری ہے ایک تمہید(کسی مضمون کی اُٹھان، کسی بات کا آغاز) سمجھنا چاہیے۔ناممکن نہیں کہ اس عمل کا نتیجہ اس سے جو گزر گیا ہے ہر طرح اکمل اور فضل ہو۔
پر اس اخلاقی عمل کا جتنا حصہ اب تک وقوع میں آچکا ہے وہ اتناضرور ظاہر کر رہا ہے کہ اس عمل کارخ کی طرف ہے اس کا رخ صداقت(سچائی،خلوص) اور آزادی اور راستی کی جانب ہے۔ اب یہ کہنا کہ ایسا نہیں ہوگا عقل کے مطابق نہیں؟ مادی دنیا کی طبعی تاریخ یہ ظاہر کرتی کہ گو اس میں پیچ در پیچ(نہایت پیچیدہ، بل پر بل پڑاہوا) تدابیر اور تجاویز کا سلسلہ موجودہے تاہم طبعی اصولوں نے ناکامی کا منہ کبھی نہیں دیکھا بلکہ دنیا اپنے طبعی اصول کے مطابق اپنے کمال کی طرف بڑھتی چلی آئی ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ لازم ہے کہ اخلاقی دنیا کا حال بھی ایسا ہی ہو۔ خدا کے ارادوں کو کون باطل کر سکتاہے؟ پر جب اخلاقی اور روحانی سلسلہ اپنے کمال کو پہنچ جائے گا اس وقت آئندہ ماضٰ کو روشن کرے گا۔ اور تمام عقدے(گلوبند) حل ہو جائے گے۔ اور ہم دیکھیں گے کہ گناہ کو خدا نے اپنی حکمت اور قدرت سے شکست دے کر اپنے فضل اور محبت اور پاکیزگی کوہم پر ظاہر فرمایا اور یوں ہمیں ایک اعلیٰ پاکیزگی کا وارث کیا۔
علاوہ بریں وہ جو مسیحی مکاشفے(انکشاف،امورِ غیبی) کا قائل بین وہ جانتے ہیں کہ گو خدا گناہ کا موجد(ایجاد کرنے ولا) نہٰیں تاہم اس کے دنیا میں گھس آنے سے خدا کی صفات ایسی واضح ہو گئیں کہ آسمان اور زمین کے خلق کرنے سے بھی ایسی روشن نہیں ہوئی تھیں چنانچہ اس کی موجودگی کے سبب سے خدا کا انصاف ، خدا کی محبت اور خدا کا رحم ستارو ں کی روشنی سے زیادہ جلالی روشنی کے ساتھ نمودار ہوا۔ یہ صفتیں اخلاقی آسمان کے وہ ستارے ہیں جن کی تنویر(روشنی ، نور، چمک) طاقت بیان سے باہر ہے۔جس کے سامنے تمام اخلاقی مخلوقات کو اور خصوص انسان کو گرنا اور تمحید اور تمحید میں زمزمہ پر داز(راگ کانے والا) ہونا چاہیے۔اگر یہ بات برحق ہے (جیسا کہ ہم دل و جان سے مانتے بھی ہیں) کہ خدا اپنی بیان محبت سے اپنے کو مسیح میں ظاہر فرماتا تاکہ گنہگار انسان کواپنے ساتھ ملانے تو گناہ کو اس دنیا میں آنے کی اجازت دنیا اس کی حکمت اور محبت کے خلاف نہ تھا بلکہ عین مطابق۔ اب آخر میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ یہ ماننا کہ ضمیر ہے۔ اور یہ ماننا کہ خدا ہے ایسی دو باتیں ہیں کہ ایک کو دوسری سے جدا نہیں کر سکتے ۔ اگر اس دنیا میں اخلاقی حکومت پائی جاتی ہے تو ایک اخلاقی حاکم بھی موجود ہے ۔لوگ اکثر موریلٹیی ۔ موریلٹیی MORALITY)) پکارتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ موریلٹیی یعنی اخلاقی اصول کی پابندی ایک بے مزہ اور پھیکی چیز ہوگی اگر اس میں خدا کی محبت اور راستی اور پاکیز گی کی حلاوت(مٹھاس، شرینی، ذائقہ،سُکھ) ملی ہوئی نہ ہو۔ اکیلا فرض آدھی صداقت(سچائی،خلوص) ہے۔ خدا اور فرض پوری سچائی ہے۔
انسان کی رُوحانی خاصِیّت کی گواہی
چونکہ ہم پچھلے باب میں اخلاقی گواہی کا ذکر کر چکے ہیں۔ اس لیے تعجّب نہیں کہ عنوان مسطورہ بالا کو دیکھ کر پڑھنے والا یہ کہے کہ اب روحانی خاصیت کی گواہی کی ضرورت کیا ہے جبکہ اتنا کچھ اخلاقی خاصیت کے متعلق رقم ہو چکا ہے ۔ کیا اخلاقی خاصیت اور روحانی خاصیت میں فرق ہے ؟ ہاں ہے اور اس دیل کے زور کو جو خدا کی ہستی کے متعلق روحانی عنصر سے اخذ کی جاتی ہے محسوس کرنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انسان اس امتیاز کو جواِن دونوں(یعنی اخلاقی اور روحانی) جو ہروں میں پایا جاتاہےاچھی طرح سمجھ لے۔ اگر وہ اس بات کونہیں سمجھےگا کہ روحانیت اس کی نیچر کا سب سے اعلیٰ عنصر ہے اور اس کے وجود کا انکار کرنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا اپنے ہیولا(ہر چیز کا مادہ،ماہیت، اصل) اکا انکار کرنا غیر ممکن ہے تو وہ برہان(دلیل جس میں شک و شبہ نہ ہو) جو اس خاصّہ(عادت،صفت،خصلت) سے مستنبط کی جاتی ہے اس کی نظر میں کچھ وقعت(عزت، اعتبار، قدر) نہیں رکھےگی۔البتہ یہ ہم مانتے ہیں کہ تہذیب اخلاق اور روحانی مذاق میں گہرا تعلق پایاجاتاہے ایسا کہ جو کچھ اخلاقی خاصیت کے متعلق کہا گیا ہے وہ ضرور بداہتہً یا دلاللہً روحانی بیان کے ضمن میں نظر سے گزرے گا۔
اس روحانی عنصر کا پتہ ان تصورات ان جذبات اور ان خواہشات میں ملتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہیں اور اپنی بلند پروازی(عالی ٰ خیالی ، خود ستائی) کے سبب سے مادی حدود سے اُڑ کر اس کرہ کی سیر کرتی ہیں جو لامحدود خدا کا مسکن ہے۔ ہاں انسان کے اندر وہ مذہبی جذبات موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے دل کو ایک ایسے شخص کے سامنے انڈیلنا چاہتاہے جو تمام اشیائے دیدنی اور غیر دیدنی سے بلند و بالا ہے۔ گو انسان اسے دیکھتا نہیں تاہم اس پر بھروسہ رکھنے کو تیار اور اس پر سے اپنے آپ کو تصدیق کر دینے کو آمادہ ہے ۔ اس کی محبت کا شعلہ اس کے دل کے مذبح پر چلتارہتا ہے۔ وہ اس کے حضور میں اپنا سر خاک پر رکھنے کو اپنی سعادت تصور کرتاہے ۔اور اس کی عبادت کو اپنی مسرت کا باعث سمجھتا ہے ۔ یہ باتیں ہمارے روحانی جو ہر یا عنصر کے نشانات ہیں اور انہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر روحانیت کا ایک خاصہ (عادت،صفت،خصلت)موجود ہے۔ یا یوں کہیں کہ روحانیت انسان کی شخصیت کا لازمی عنصر ہے۔
ہم ان صفتوں کو اخلاقی صفات نہیں کہہ سکتے ہیں کیونہ گو یہ صحیح ہے کہ ہماری اخلاقی کیفیتیں مثل نیک و بد کی پہچان ، اور ضمیر کے اختیار،اور ذمہ داری کے احساس اور فرض کے ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)کے ہمارے روحانی ملکات(روحانی صفات) سے ایسی ملی ہوئی ہوتی ہیں کہ انہیں روحانیت سے علیحدہ کرنا بڑا مشکل کام معلوم ہوتاہے تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اخلاقی کیفیتیں ان باتوں سے فرق رکھتی ہیں جن میں خاص روحانی کیفیتیں اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ مثلاً ہم اس خالص احساس کو کہ اخلاقی نیکی و بدی سے فرق رکھتی ہے اس پر جوش جذبے سے فوراً امتیاز کر سکتے ہیں جو نیکی کا عاشق اور بدی کا مخالف ہوتاہے ۔ یہ اصول کہ "جیساتم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کردیں ویسا ہی تم ان کے ساتھ کرو"۔ ایک سنہرااصول ہے۔ لیکن اس میں اور اس محبت میں بہت فرق ہے جو تمام حدوداور رکاوٹوں کو پھاند کر خودی کر کھو دیتی اور اسی بات کی دُھن میں لگی رہتی ہے کہ محبوب کی خاطر اپنے سارے سرمائے کو
تصدیق کر کے خود نسیاً منسیاً (ذہن سے اترا ہوا، بھولا ہوا)ہوجائے۔خدائے تعالیٰ کو احکم الحاکمین سمجھ کر اپنی مرضی اور ارادے کو بڑی تعظیم اور ادب سے اسکی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرنا ایک نہایت اعلیٰ اخلاقی اصول ہے جس میں روحانیت بھی جلوہ نما ہے بلکہ جو بغیر روحانیت کے پیدا نہیں ہوتا لیکن خدا کے عشق میں محو ہو کر اس پر فدا ہونا اور شکر گزاری اور محبت اور عبادت کی صورتوں میں وجد کے ساتھ اپنے عشق کو ظاہر کرنا ایک اورہی بات ہے ۔ جہاں یہ عشق الہیٰ موجود ہوتاہے وہاں شخصی مرضی ہمیشہ الہی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔ ہاں روحانیت ہی وہ خاصّہ (عادت،صفت،خصلت)ہے جو اخلاقی خاصیت کو رونق دیتا جو بےداغ پاکیزگی اور بے نقص کمال کا شوق پیدا کرتا۔ جو روح کو لامحدود اور ازلی خدا کی طرف مائل کرتا اور اسی میں اپنی محبت کا حقیقی محبوب پاتا۔ اسی کو اپنی خوشی کا مرکز اور اپنی ہستی کا ابدی بخرہ سمجھتا ہے ۔ کیاان باتوں سے ظاہر نہیں ہوتا کہ انسان کی فطرت میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جسے روحانی عنصر کہتے ہیں اور اخلاقی خاصیت عقلی طاقت اور حیوانی خواص سے ممتاز ہے؟
لیکن جس طرح ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ لوگوں نے طرح طرح کی تھیوریاں گھڑ لی ہیں تاکہ ان کی بنا پر یہ دکھا سکیں کہ ضمیر تو کچھ چیز نہیں ہے اسی طرح مخالفوں نے قسم قسم کی من گھڑت(خود سی بنائی ہوئی) تاویلیں(شرح ، بچاؤ کی دلیل) پیش کر کے روحانی عنصر کو بھی اڑا دینا چاہا ہے ۔ بعض لوگوں کی نظر میں یہ تاویلیں(شرح ، بچاؤ کی دلیل) پیش کر کے روحانی عنصر کو بھی اڑا دینا چاہا ہے۔ بعض لوگوں کی نظر میں یہ تاویلیں بہت وقعت(عزت، اعتبار، قدر) رکھتی ہیں۔ پر اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا دل قادر مطلق خدا کے عشق میں تڑپنے کا تجربہ نہیں رکھتا ہے لہذا وہ ہر ایک بات اور ہر ایک تاویل(شرح ، بچاؤ کی دلیل) کو جو روحانی عنصر کے خلاف ہے شوق سے قبول کر لیتے ہیں ۔ الہی مذاق ان کے دل میں مردہ اور روحانی احساس طرح طرح کےپردوں میں چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ تووہ نور الہی ٰ کو دیکھ نہیں سکتے ۔ اس لیے یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ روحانی ملکات(صفات، عادتیں) کچھ چیز نہیں ہیں۔ صبح صادق کے وقت آفتاب کی جلالی کرنیں جو لطف دیتی میں اسے کو رچشم(انھا،نابنیا) کب محسوس کر سکتاہے ؟۔ خوش لحن(اچھی اور سُریلی آواز) آوازوں سے جو بے بیاں مزہ پیدا ہوتا ہے اس سے کوئی بہرہ آدمی کیا خط اُٹھا سکتاہے؟ جس شخص کا دل فریب اور دغا سے بگڑ گیا ہے وہ عزت اور نیک نامی کی پر لُطف نزاکت کی کیا پرواہ کرتا ہے؟ جو خود غرضی کے داغوں سے بھرا ہواہے اسے خود انکاری کی پاک خوشی سے کیا واسطہ ہے؟ اگر آنکھیں اس انتظار کو جو خدا کے دیدار کے اشتیاق(شوق، آرزو، تمنا) میں کھینچنا پڑتا ہے تجربہ نہیں رکھتی ہیں۔ اگر کان تنہائی کے عالم میں اس کی دھیمی آواز کے سننے کے شوق میں کبھی کھولے نہیں گئے۔ اگر دل سے کھبی یہ آہ نہیں نکلی۔ کاش میری ناپاکیاں اس کے فضل کے پانی سے دھو ئی جائیں۔ اگر دل میں کبھی یہ خواہش پیدانہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو اُس کے حضور زندہ قربانی چڑھائے تو یہ بات مشکل نہیں کہ وہ لوگ جنہیں یہ تجربے حاصل نہیں ہوئے انہیں جن کو حاصل ہوئے ہیں کو تہ بین اور جاہل اور نادان سمجھ کر ہنسی میں اُڑا ئیں۔
لیکن جو لوگ بہ سبب اپنی تجربہ کاری کے جانتے ہیں کہ مذہب کیا شے ہے۔ جن کی روحیں اپنے محبوب کے اشتیاق(شوق، آرزو، تمنا) دیدار میں ہر دم چشم براہ (نظریں انتظار میں راہوں پر لگی رہنا) ہیں۔ اور جو اسکی رحمت اور محبت کے وصل(ملاقات) سے بہرہ ور بھی ہو چکے ہیں ہو جانتے ہیں کہ ہمارے تجربوں کو وہم کا ڈھکو سلا بتانا درست نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تو صریحاً(واضح، صاف) دیکھ رہے ہیں کہ خدا کی حضوری ہماری قوت اور سلامتی اور امید کا چشمہ
ہے۔ بھلاجن کی چشم بصیرت(نظر، دیکھنے کی صلاحیت) اس کو اسی طرح دیکھ رہی ہے جس طرح وہ اپنی ظاہری آنکھوں سے آفتاب(چاند) کی چمک کو محسوس کرتے یا جسم کے کانوں سے بادل کی گرج اور رعد کی کڑک کو سُنتے ہیں۔جن کے نزدیک اسکا وجود دوست اور فرزند اور بیوی کی ہستی سے زیادہ یقینی امر ہے جن کی تمام ہستی ایسے یقینی عرفان (شناخت، پہچان)اور پہچان کے ساتھ خدا میں مرکوز ہے کہ خدا کو ان سےچھین لینا گویا ان کے نخلستان کو ریگسان بنانا اور تمام دنیا کو ان کی نظریں خشک اورویران کر دینا ہے بھلا اگر ایسے لوگوں کو جو خدا سے بھرے ہوئے اور خدا کو دیکھنے والے ہیں یہ کہا جائے کہ تمہارے خیالات حباب برسر آب سے بڑھ کر نہیں۔ تمہارے دعوے بے بنیاد خواب اور لایعنی توہمات کی خاصیت رکھتے ہیں تو وہ کب اس بات کو مانیں گے ؟ وہ کبھی نہیں مانے گے بلکہ یہ جواب دینگے کہ اگر یہ باتیں جنہیں ہم محسوس کررہے ہیں ۔ جنہیں ہماری روحانی حسّیں اور ہمارے فطری انٹیوشن دیکھ اور مان رہے ہیں بے بنیاد ہیں تو آپ کی بھی کوئی بات ماننے کے قابل نہیں۔ آپ بھی ہوا سے بھرے ہوئے بلبلوں کی طرح سطح وقت پر ناچ رہے ہیں یا سایہ کی طرح لامحدود خلا میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ اور ہر طرح کی ہستی ایک خواب ہے اور ہر چیز ناچیز ہے۔
ا ب سوال یہ ہے کہ جن روحانی حقیقتوں کا ذکر اس وقت ہورہا ہے کیا وہ انسانی تجربہ کی واقعی ایسی مسلمہ حقیقتیں ہیں کہ ہم ان سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ روحانی عنصر بھی ہماری ذات کا ایک لازمی اور علیحدہ خاصہ (عادت،صفت،خصلت)ہے ؟َ ۔ اس سوال کے جواب کے تحقیق کے لیے شاید یہ بہتر ہے کہ ہم مذہب کی تواریخی ترقی پر غور کریں۔ کیونکہ مذہب ہماری روحانی قوتوں کا مظہر ہے یا یوں کہیں کہ مذہب کا وہ طبعی احساس جو ہم میں پایا جاتاہے اس روحانی عنصر کا دوسرا نام ہے پس مذہب کی تواریخی ڈیویلپمنٹ (ترقی) کی پیروی کرنا گویا سوال مرقومہ بالا کےجواب تک پہنچنا ہے۔
اب جب ہم اس راہ پر چلتے ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مذہب انسانی فطرت کا ایک ذاتی خاصہ(عادت،صفت،خصلت) ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسانیت کی قدرتیں اور عناصر کھلتے اور کھلتے جاتی ہیں) اسی نسبت سے اس میں نیچرل ترقی کے قواعد کےمطابق مذہب کا پھل لگتا ہے۔اب یہ نتیجہ نکالنا حد اعتدال (درمیانہ درجہ، میانہ روی) سے تجاوز(حد سے بڑھ جانا، بے راہ ہو جانا) کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر مذہب کا خیال انسانی ذات کا حصہ نہیں اور اسی میں سے نہیں پھوٹا ہے بلکہ ایک غیر اور خارجی شے ہےتو پھر ہم انسان کی کسی طاقت اور لیاقت کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کی ذات کا حصہ ہے۔ اورل تو دنیا میں کوئی ایسا فرقہ ملے گا نہیں جو کسی نہ کسی طرح کے مذہب کا پابند نہ ہو ( اس بات پر ہم زرا آگے بڑھ کر کچھ زیادہ تحریر کریں گے) پر اگر بفرض محال کوئی ایسا ہو بھی کہ جس کا مذہبی اعتقاد مہذب دنیا کو پورے پرے طور پر معلوم نہیں ہوا تو تو بھی اس بات پر کوئی شک نہیں لا سکتاہے کہ جہاں مذہب نہیں ہوتا وہاں وہ صفات انسانی جن کے سبب سے انسان اور حیوان اور امتیاز کیا جاتا ہے کبھی اس اعلی ترقی تک نہیں پہنچتیں جس تک پہنچ سکتی ہیں۔ جہاں تک ہم تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) کے وسیلے سراغ لگا سکتی ہیں ہمیں کوئی ایسی مہذب ایسی قوم نظر نہیں آتی جو مذہب نہٰیں رکھتی۔ بلکہ جب ہم ان قوموں پر نظر ڈالتے ہیں جو حد سے زیادہ وحشی ہیں تو ان کے معائنہ سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ جوں ہی تہذیب سے مس پیدا کرنے کے سبب سے ان کی عقل کو فروغ حاصل ہونے لگتاہے یوں ہی مذہبی احساس کا ٹمٹاتا ہوا چراغ بھی مشعل کی طرح روشن ہو جاتاہے اور ان کی
انسانی صفا ت ان کے حیوانی خواص پر غالب روشن ہو جاتا ہے اور ان کی انسانی صفات ان کے حیوانی خواص پر غالب آجاتی ہیں ۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتاہے ؟ یہ کہ انسانیت کے ادنیٰ سے ادنیٰ فرقوں میں بھی مذہب کا تخم (اولاد، نسل ، بیج)موجود ہے جو موقع پا کر پھوٹ نکلتا ہے اور اپنے تئیں ظاہر کر دیتاہے۔
دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ مذہب کی جان یا عطر وہ رشتہ ہے جو انسان اپنے اور ایک (عادت یا بساط سے بڑھ کر) شخص کے درمیان محسوس کرتا ہے اور یہ بات مذہب کے وجود ہی سے بخوبی عیاں ہے ۔ مذہب عبادت اور بھروسے اور تعظیم اور دعا اور محبت پر دلالت(پہچان) کرتا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ کوئی شخص ایسا ضرور ہو جس پر یہ سب باتیں منتہی ہوں۔ بعض بعض لوگوں نے (جیتا ہم اوپر ایک جگہ عرض کر آئے ہیں) بعض بعض وقت اپنے آپ کو محض ایک خالی از تشخص قوت یا قسمت کے تابع سمجھا ہے ۔ لیکن ان کے دل کبھی مذہبی جذبات کے ذوق (خوشی ،)و شوق کے ساتھ اس قوت یا قسمت کی طرف مائل نہیں ہوئے۔
اس کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ان تمام مذاہب کی طاقت جو انسان کے دل پر کچھ نہ کچھ گرفت رکھتے آئے ہیں اسی بات پر منحصر ہے کہ وہ انسان کی رہنمائی ایک معبود یا شخصیت کی طرف کرتے رہے ہیں۔ یا شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو کہ جس قدر زیادہ کوئی مذہب انسان کو یہ شناخت کہ اس کا تعلق ایک فوق العادت (عادت یا بساط سے بڑھ کر) شخص کے ساتھ بخشتا ہے اسی قدر وہ بنی آدم کے دل پر زیادہ مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) اور حکمران ہوتاہے ہاں تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) کے مطالعہ سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ جس قدر کوئی مذہب شاعرانہ توہم یا فلسفانہ خیال پر مبنی ہوتاہے اسی قدر وہ طاقت میں کم ثمروری میں قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) ہوتاہے ۔ ہاں یہی بات وہ طاقت ہے جس کے سبب سے مذاہب لوگوں کی ضمیر پر سکہ جمائے چلے آئے ہیں۔ یہی وہ قدرت ہے جو انسان کی زندگی میں اخلاقی خوبیوں کے پھل لگاتی آئی ہے۔
قدیم زمانے میں لاحد مذہب کے وجود کی یہ وجہ بتایا کرتے تھے کہ "ڈر دیوتاؤں کا موجد (ایجاد کرنے ولا)ہے "۔ لیکن یہ دلیل تسلی بخش معلوم نہیں ہوتی۔ ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ نیچر کی طاقتوں کے نقصان دہ زور اور زندگی کی تکالیف مصائب کو دیکھ کر نا ممکن نہیں کہ انسان کے دل پر خوف غالب آیا ہو اور جرور آتا ہے۔ پر یہ ہم نہیں سمجھتے کہ کس طرح اور کیوں اس کے خوف نے اسے مجبور کیا کہ وہ آسمان کو اپنے وہی دیوتاؤں کی بے شمار فوجوں سے بھر دے۔ اگر انسان کی ذات کا یہ خاصہ(عادت،صفت،خصلت) نہ تھا کہ وہ اپنے اور ایک فوق العادت (عادت یا بساط سے بڑھ کر) شخص کے درمیان ایک قسم کا رشتہ محسوس کرے اور اگر اس احساس کی تخریب(برائی، بربادی ،تباہی) کے سبب سے وہ ہر طاقت کو جو اس کی طاقت سے بڑھ کر تھی اپنی جہالت کی وجہ سے ایک دیوتا ماننے لگ گیا تھا۔ بلکہ صرف خوف نے اس کے لیے مذہب اور دیوتا پید کر دئے تھے تو کیا سبب ہے کہ حیوانوں نے اپنے لیے کوئی جماعت دیوتاؤں کی پیدا نہ کی؟ ۔ کیونکہ وہ بھی تو فطرت کی طاقتوں سے ایسے ہی خائف ہیں جس طرح انسان خائف ہے۔ پس اس کا کیا سبب ہے کہ انسان حیوان سے اس خصوص میں بڑھ گیا اور محض خوف کے سبب سے طرح طرح کے دیوتا اپنے لیے ایجاد کر بیٹھا؟ اس کا تسلی بخش جواب یہی ہے کہ حیوان نے اس لیے خوف کے سبب سے دیوتا نہ بنائے کہ وہ عقلی اور روحانی طاقتوں سے محروم تھا اور انسان نے اسلیے کہ اس میں مذہب اور ایک فوق العاد ت
شخص سے رشتہ رکھنے کے احساس و ادراک(بات کی تہہ تک پہنچنا) کا تخم (اولاد، نسل ، بیج)بالطبع موجود تھا جس کی ابھی نشوونما نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ پر غور کرنے سے یہی کہنا پڑتا ہے کہ دیوتاؤں کو گھڑنے والی قابلیت یا وہ میلان(توجہ، رجحان) جس سے انسان اپنے اور ایک الہیٰ شخص کے درمیان عجیب تعلق محسوس کرتاہے۔ انسان ہی کے اندر پائی جاتی ہے۔اور قدیم زمانے میں یہ قابلیت ڈر کے گُد گُدا نے سے جاگ اُٹھی اور فوراً اعلیٰ قسم کی ہستیوں کی شناخت جن کی عبادت کرنا اس کافرض تھا۔ اس کے اندر وشن کردی۔ لیکن محض ڈر سے علم الہی کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ بغیر اس ذاتی قابلیت کے ڈر دیوتا اور خدا پیدا نہیں کر سکتاہے۔
اب ہم اس بات کی نظر پیش کرینگے کہ خدا کی شناخت کی قابلیت کس طرح موافق حالتوں کے ماتحت ترقی کرتی جاتی ہے۔ اسکے متعلق ہم دو مذہبوں کا ذکر کریں گے جو آپس میں وابستہ اور طاقت اور بر آوری میں اور مذاہب پربڑی فوقیت رکھتے ہیں۔ وہ یہودی اور مسیحی مذہب ہیں۔
واضح ہوکہ غیر قوموں کے سب مذاہب جنہوں نے بنی آدم پر اپنا سکہ جمایا ہے انسان کی روحانیت پر کچھ نہ کچھ گواہی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اس صداقت(سچائی،خلوص) پر گواہی نہ دے بلکہ ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تعلیمات لا محدود خدا کی طرف مائل ہونے ۔ اور اس کے وصل(ملاقات) کی تمنا میں تڑپنے اور اس سے ایک زندہ رشتہ محسوس کرنے اور اسے تمام آرام اور راحت کا مرکز اور مبارک حالی کا منبع سمجھنے کے سراغ (ثبوت ، اشارے) ملتے ہیں۔ لیکن جو گواہی اس معاملے میں اسرائیل اور مسیحیوں کے نوشتوں اور تواریخ(قصے، واقعات، تذکرے) سے ملتی ہے لاثانی ہے۔ ہم اسے مختصر اً ہدیہ ناظرین کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس عنصر نے ان مذاہب کے پیروؤں میں کیونکہ ترقی کی اور نشوونما پائی ہے۔
جب ہم یہودیوں کے نوشتوں کو کھول کر دیکھتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کا ایک ایک جملہ خداکی گہری شناخت اور عرفان(شناخت، پہچان) سے بھرا ہوا ہے مصنف مختلف مدارج اور اسرائیل کے مختلف اسباط سے علاقہ رکھتے تھے اور ان میں سینکٹروں بلکہ ہزاروں برسوں کا فرق اور ۔۔۔ پایا جاتاہے۔ پھر بھی ان سب کی تصنیفات(کتاب لکھنا، مضمون بنانا) کی یہ ابھری ہوئی خاصیت ہے کہ ہر ایک کتاب سے یہی ظاہر ہوتا ہےکہ مصنفوں کے نزدیک تمام ہستیو ں کی نسبت خدا کی ہستی زیادہ حقیقی اور یقینی ہے۔ اس کے مقابلے میں اور سب چیزیں کم یقینی بلکہ سراسر سر گُزاشتنی(چھوڑ دینے یا ترک کر دینے کے لائق) ہیں۔ وہی اکیلا خدا ہے ۔ اس کے سوائے اور کوئی اللہ نہیں ہے۔زمین اور آسمان اور بنی آدم کی پشتیں اس کےسامنے سایہ کی طرح ڈھلتی جاتی ہیں۔لیکن وہ آج اور کل اور ہمیشہ یکساں ہے۔ اور وہی اکیلا حقیقی واجب الوجود ازلی اور ابدی ۔حیّ القیوم۔ لامحدود خدا تعالی ٰ ہے ۔ مزید بر آں (اس کے علاوہ ) ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسے ایک شخص سمجھتے ہیں جو سوچتا ہے۔ ارادہ کرتا ہے ۔ حکومت کرتا ہے ۔ محبت کرتا ہے۔ بعض چیزوں سے نفرت کرتاہے ۔ رحم کرتاہے اور درستی سے انصاف کر کے سزا دیتاہے ۔ گو اس بات کی نسبت کوئی کچھ ہی کہے تاہم یہ سچ ہےکہ یہ انتھرو پامارفزم (اس لفظ کا مطلب ہم اوپر بیا ن کر چکے ہیں) جس سے وہ تمام شخصی خصائص جو ہم اپنے علم النفس کی روشنی میں اپنے اندر پاتے ہیں ازلی خدا سے منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا)
کی جاتی ہیں سب مصنفوں میں برابر پائی جاتی ہے ۔ وہ ایسے خدا کو نہیں جانتے جو ایک شخص نہیں ہے یا جو محض ایک غیر تشخص قانون یا غیر تشخص طاقت ہے۔ وہی ان کے دلوں کو بھرتا ہے ۔ وی ان کا محبوب ہے ۔ جن لفظوں سے وہ اس کی طرف خطاب کرتے ہیں ان سے ایسی تعظیم ایسا بھروسہ ، ایسی امید اور ایسی شکر گزاری مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہوتی ہے کہ اور الفاظ سے نہیں ہوتی۔ وہ اس اندیکھے خدا کے حضور سر بسجود ہ(سجدہ نگوں) ہیں۔ خاک پر لوٹتے ہیں۔ اسکے اشتیاق(شوق، آرزو، تمنا) وصل(ملاقات) میں تڑپتے ہیں۔ اس کی امداد کا ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اگر تمام دنیا مخالف ہو جائے تو تو بھی ان کے سکون دلی میں فرق نہ آئے وہ ان کی پناہ گاہ ۔ ان کا قلعہ ۔ ان کو نور اور ان کی نجات ہے۔ وہی ان کے دلوں کی قوت اور ان کا ابدی بخرہ ہے۔ اس کے منہ کی باتیں ان کےلیےسونے اور روپے سے مہنگ مولی ہیں ۔ وہ مہربان باپ ہے جو یہ جانتا ہے کہ وہ کس چیز سے بنے ہوئے ہیں۔ وہ مہربان دوست ہے ۔ وہی ان کو سکھاتا اور تسلی دیتاہے ۔ وہ ایسا رحیم بادشاہ ہے جو اپنے تئیں پست کرتا ہے تاکہ خاکساروں کو اُٹھائے کہ وہ اس کے ساتھ بودوباش کریں۔ اس کامل اور پاک اور نیک خدا کے سامنے ان کی روحیں شکر گزاری اور حمد اور محبت سے پر جوش ہو کر اڑی چلی آتی ہیں۔ اور یہ صد ا(آواز) ان سے پیدا ہے۔ " اے میری جان خداوند کو مبارک کہہ ار وہ سب جو مجھ میں ہو اس کے مبارک نام کو"۔
اب ہم ان جذبات مذہبی میں جو بائبل کے پرانے نوشتوں کے ہر صفحے میں جلوہ گر ی کر رہے ہیں اسی بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ان میں خدا کا گہرا علم جا بجا نمودار ہے ۔ کہ وہ خدا کی ہستی پر شک نہیں لاتے بلکہ اسے حقیقی وجود سمجھتے اور اس بات کے قائل ہیں کہ وہ بنی آدم سے ایک خاص اور گہرا رشتہ رکھتا ہے ۔ اگنا سٹکس ( وہ لوگ جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم خدا کو کسی طرح نہیں جان سکتے) کہتے ہیں کہ علم الہی ناممکن ہے۔ اور انسانی اعتقادوں کا خدا محض ایک قیاسی تصورات اور قوت و اہمہ(وہ طاقت جس سے انسان سوچتا ہے) کا سایہ ہے یا ایک وہم ہے جو حقیقت سے خالی ہے۔ اگر ہم اس دعوے کو قبول کریں توہمیں یہ کہنا پڑے گا۔ایسی قوم جو دنیا کی قوموں کی تہذیب اورترقی کی نشوونما میں بہت سا حصہ لینے والی سمجھی جاتی ہے فقط ایک قیاسی تصور اور قوت و اہمہ کے خالی از حقیقت وہم کے سائے کو مانتی تھی مگر وہ وہم ۔ وہ قیاس بے اساس دنیا کی ساری حقیقتوں سے زیادہ حقیقی تھا۔ کیونکہ وہ قوم اس کی قربت کو ایسا محسوس کرتی تھی ۔ کہ اس کی حضوری اس قوم کے لوگوں کے خیالوں کو دن رات جانچتی تھی۔ ان کے دلوں کو دہشت انگیز خوف اور تعظیم سے بھرتی تھی۔ ارتکاب(اختیا ر کرنا، گناہ کرنا، جرم کرنا) بدی سے بچاتی اور تقدیم خیر(پیش کرنا، مقدم،سمجھنا) پر آمادہ کرتی تھی ۔دیکھئے ان مصنفوں میں سے ایک کیا کہتاہے ۔" اے خداوند تو مجھے جانچتا اور پہچانتا ہے ۔ تومیرا اُٹھنا جانتا ہے ۔ تو میرے اندیشے (دور کی نظر، مستقبل کی نظر)کو دور سے دریافت کرتاہے ۔ تومیرا چلنا اور لیٹنا خوب جانتا ہے۔ بلکہ تومیری ساری روشوں (کاموں، فعلوں، ارادوں) سے واقف ہے ۔ کہ دیکھ میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے تو اے خداوند بالکل آگہ نہیں۔ تو اگے پیچھے میر اگھیرنے والا ہے اور تونے اپنا ہاتھ مجھ پر رکھا ہے ۔ تیری روح سے میں کدھر جاؤں اور تیری حضوری سے کدھر بھاگوں۔ اگر میں آسمان کے اوپر چڑھ جاؤں تو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال(دوزخ، گھڑا، غار) میں اپنا بستر بچھاؤں تو دیکھ تو وہاں بھی ہے ۔ اگر صبح کے پنکھ (پر) لے کے میں سمندر کی انتہا(گہرائی، آخر) میں جارہا ہوں تو ہاں بھی تیرا ہتھ مجھے لے چلے گا۔ اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھالے گا۔ اگر میں کہوں کہ تاریکی تو مجھے چھپا لےگی تب رات میرے گرد روشنی ہو جائے گی۔ یقیناً تاریکی میرے سامنے تیرگی نہیں پیدا کرتی پر راتیں دن کی مانند
روشن ہیں۔ تاریکی اور روشنی دونوں یکساں ہیں اے خدا مجھے جانچ اور میرے دل کو جان مجھے آزما اور میرے اندیشوں (مستقبل میں کچھ ہونے کا اندازہ )کو پہچان ۔ دیکھ کیا مجھ میں کوئی درد انگیز عادت ہے کہ نہیں اور مجھ کر ابدی راہ میں چلا"۔ (زبور 139)۔
اس صدا کو سن کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایک زندہ خدا جو صفات شخصیّت سے متصف(وصف کیا گیا، تعریف کیا گیا) ہے اُور جو پاک اور رحیم بھی ہے یہودی مذہب کا مرکز جس کے سر پر ہے قومی تعظیم اور تحسین اور تعریف کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں۔ اب یہی تصور یہودی مذہب سے مسیحی مذہب میں داخل ہوا اور وہاں اور بھی زیادہ کامل طور پر شگفتہ ہوا۔
مذہب عیسوی یسوع مسیح کی شخصیت پر مبنی ہے ۔ اور اس کی انسانی سیرت کو انسانیت کا کمال اور بے نقص نمونہ سمجھتا اور یہ مانتا ہے کہ بنی آدم کو اسی کامل انسان کے قد کے انداز تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اب یسوع مسیح کی سیرت کی جو تصویر اناجیل میں پائی جاتی ہے اس کے مشاہدے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس کا سب سے زیادہ چمکیلا اور زریں رنگ یہ ہے کہ وہ خداکے عرفان(شناخت، پہچان) سے جسے یسوع اپنا باپ کہتا تھا مملو(بھرا ہوا، لبریز) ہے۔ مثلاً اس کے باپ کی مرضٰ اس کی زندگی کا دستور العمل (قاعدہ ، قانون ) تھا۔اس کے باپ کا کام اس کی زندگی کا کام تھا ۔ باپ اور بیٹے کے باہمی مکالمہ میں اس کی قدرت کا راز نہاں تھا۔ باپ کی یگانگت اس کی کامل بےگناہی کا باعث تھی۔ وہ اپنی باتیں نہیں بلکہ باپ کی باتیں کہا کرتا تھا۔ وہ اپنے جلال کا نہیں بلکہ باپ کے جلال کاجویاں تھا۔ وہ با اعتبار اپنی انسانی ذات کے کوئی کام اپنے نام اور اپنے اختیار سے نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ باپ کا بھیجا ہوا ہے۔ غرض یہ کہ اس کی زندگی خدا کے عرفان(شناخت، پہچان) پر مبنی تھی۔ وہی عرفان اس کی رہنمائی کرتا تھا۔ وہ خدا حضوری کے احساس کے ساتھ جس میں کبھی رخنہ(چھید، سوراخ، شگاف) نہیں پڑتا تھا چلتا پھرتا تھا۔ اس کی روح خدا کے ساتھ ہر وقت مکالمہ کی حالت میں رہتی تھی۔ وہ ہر گھڑی خدا سے کشف(ظاہر کرنا، پردہ اٹھانا) اور حکمت اور قدرت پاتا تھا۔ غرضیکہ اس کے اور اس کے باپ کے درمیان ایسا گہرا ایسا نزدیکی ایسا کامل رشتہ پایا جاتا تھا کہ کوئی الفاظ اسے بیان نہیں کر سکتے سوائے ان کے جو اسی کی زبان حقائق ترجمان سے نکلے اور جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت باپ کی شخصیت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اور وہ یہ ہیں " میں اور میرا باپ ایک ہیں"۔
مطابق اس کے انسان کے نسبت مسیحی تصور ( اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مسیحی تصور ان قوموں اور لوگوں کا تصور ہے جو آج بنی آدم کی رہنمائی قریباً ہرامر میں کر رہے ہیں)۔ یہ ہے کہ آدمی خدا کے علم و عرفان(شناخت، پہچان) سے بہرہ ور ہو سکتاہے اور اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ آسمانی باپ سے خاص رشتہ پیدا کر کے اپنی ساری زندگی کو عرفان الہی ٰ کی روشنی میں بسر کرے۔ مسیحی قوموں کے نزدیک وہ شخص جو خدا کے عرفان(شناخت، پہچان) سے بے بہرہ (محروم، بے نصیب، بے ادب) ہے وہ اصل انسانیت کے قد سے اسی قدر دور ہے جس قدر وہ شخصی جس کی حرکات اور سکنات کو عقل نہیں بلکہ سبعی ملکات(صفات، عادتیں) حرکت میں لاتے ہیں جیسا مسیح کی سیرت کے ملاحظے سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا ایک نا معلوم ہستی نہیں بلکہ وہ اپنی روح کے وسیلے انسان کے دل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح اس کی تعلیم سے یہ بھی مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہے کہ خدا دور نہیں۔ کہ مسیحٰ مذہب
خدا کی الوہیت کا مکاشفہ ہے اور انجیل اس خوشخبری کی منادی ہے کہ خدا باپ تک پہنچنے کی "راہ" مسیح ہے۔ کہ انسان کی زندگی کا محرک (حرکت دینے ولا، تحریک دینے والا)وہ ایمان ہے جو خدا کی ہستی کا قائل ہے کہ انسان کی زندگی کی خوبی اس میں ہے کہ وہ خدا کو پیار کرے اور خدا کوپیارکرتا ہوا اپنے ابنائے جنس کو بھی پیار کرے کہ جو آدمی نیکی اور پاکیزگی کی پیروی کرتا ہے اسے اس کے حصے میں یہ نعام ملے گا کہ وہ خدا کو دیکھے گا۔ "مبارک وہ جو پاک دل ہیں کیونہ وہ خدا کو دیکھینگے"۔
اب ہم نے دیکھا کہ مسیحی مذہب ایک ایسا مذہب ہے جس میں وہ رشتہ جو خدا اور انسان کے درمیان پایا جاتاہے۔ایسی اعلیٰ اور یقینی صورت میں پہچانا گیا ہےکہ ویسا کسی اور مذہب میں ہیں پہچانا گیا۔ اب ایک ہی اور سوال باقی ہے کہ وہ یہ کہ کیا یہ تعلیم جو انسان اور اندیکھے خدا کے درمیان ایسا گہرا اور پر محبت رشتہ بتاتی ہے۔ محض ایک دلکش تصور اور عمدہ خیال ہی کی صورت رکھتی ہے یا حقیقت میں انسان کی زندگی کےلیے ایک محرک(حرکت دینے ولا، تحریک دینے والا) ثابت ہوئی ہے؟اس سوال کا جواب مسیحی کلیسیاہ دے گی۔ اس کے رسول، اسکے شہید اس سوال کا جواب دیں گے۔ وہ لوگ جو بادشاہوں کے سامنے اس کا اقرار کرنے سے شرمائے اور نہ ڈرے اور جنہوں نے اپنی جانیں مسیح کے نقش قدم پر چل کر جب انسانی کی تحریک سے تصدیق کردیں اس سوال کا جواب دیں گے ۔ ہاں ان لاکھوں بلکہ کڑوڑوں بندگان خدا کوجنہوں نے اسے " اے ابا"کہہ کر پکارنا سیکھ لیا ہے اور جو خدا پر ایمان لا کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور اپنی تکلیفیں ایسے طور پر برداشت کرتے ہیں کہ گویا "اندھیکے کو دیکھ "رہے ہیں۔ جن کے دل عشق الہیٰ کی آگ سے جل رہے ہیں۔ جو جیتے جی ہر روز اپنے تئیں اس کےسامنے قربان کرتے ہیں۔ اور مرتے دم اپنے آپ کو اس کےسپرد کر دیتے ہیں۔ اس سوال کاجواب دینے دو۔ عالم اور جاہل، امیر اور غریب، بڈھے اور جوان، مشہور اور نامعلوم غرضیکہ ہر ایک شخص جس کے دل میں مسیح کی روح سکونت کرتی ہے یہی صدا دیتا ہے ۔ "ہماری شراکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کےساتھ ہے ۔ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے۔ اور اس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اس کو جو حقیقی ہے پہچانیں۔ اورہم اس میں جو حقیقی ہے۔ یعنی اس کے بیٹے یسوع مسیح میں رہتے ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے"۔
اب یہ دیکھ کر کہ اس روحانی یا مذہبی خاصیت نے دنیا کی بڑی بڑی قوموں میں ایسی وضاحت اور بداہت کے ساتھ اپنے آپ کو ظاہر کیاہےاور ان کی سوشل اور عقلی اور اخلاقی تہذیب کی نشوونما اور ترقی کو ایسا فروغ بخشا ہے ہم کب اس بات کا انکار کرسکتے ہیں کہ خاصہ(عادت،صفت،خصلت) انسان کی ہستی کا ایک جزو اعلیٰ ہے؟ بےشک جو کوئی یہودی اور مسیحی دین کے پھیلنے اور قوموں کو موثر کرنے کے عمل پر غور کرے گا وہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا سوائے اس کے کہ وہ روحانی ادراک (بات کی تہہ تک پہنچنا)یا روحانی رجحان یا روحانی عرفان (شناخت، پہچان)جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں ہماری ذات انسانی کا ایک ضروری عنصر یا جوہر ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کئی ایسے فرقے گزرے ہیں جن کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اس روحانی عرفان(شناخت، پہچان) سے بالکل بے بہرہ (محروم، بے نصیب، بے ادب)تھے۔ یا یہ کہے کہ انسانی ترقی کی راہ میں ایک منزل ایسی بھی تھی جس سے پہلے انسان اس عرفان سے مطلق واقف نہ تھا
اس کایہ کہنا ہمارے دعوئے کو کمزور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ پکے سے پکا ریوولیوشنسٹ جو یہ مانتا ہے کہ آدمی بندر میں سے نکلا ہے مطابق اپنی تھیوری کے اس بات کےماننے کے لیے مجبور ہےکہ جو باتیں انسان کی ایوولیوشن کی ابتدائی منزلوں میں نظر نہیں آتی تھیں وہ اگر اس کے ترقی کرنے پر کسی وقت شگفتہ ہو کر ظاہر ہو جائیں تو یہ ناممکن نہیں کیونکہ وہ اس کی تھیوری کے مطابق اس میں موجود تو تھیں گو ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں کیونکہ ابھی ان کے اظہار کا موقع نہیں آیا تھا۔ جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب انسانی نیچر جہالت کے پنجے میں گرفتار نہیں ہوتی ۔ یا جب کوئی اور ناموافق بات اسے نہیں دباتی تو اس وقت یہ خاصیت ضرور اپنے آپ کو کم و بیش ظاہر کر دیتی ہے۔ انسان کبھی اندیکھے خدا کے اشتیاق(شوق، آرزو، تمنا) ِ دیدار کے لیے تڑپتا ہے۔ کبھی اس کی حضوری کے احساس سے محفوظ ومسرور ہتاہے ۔ کبھی اس مسجود حقیقی کے سامنے گر کر سجدہ کرتاہے کبھی اس کی نعمتوں کو یا د کرکے اس کا شکریہ ادا کرتاہے ۔ ہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس کی نسبت سے انسان کی نیچر اپنی اعلیٰ صفات کو ظاہر کرتی جاتی ہے۔ یا اپنے کمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے اسی نسبت سے یہ عرفان الہی یہ روحانی علم بھی روشن ہو تا جاتاہے ۔ اور انسانی زندگی کو اپنے اثر اور عمل موثر کرتاہے۔
اب یہ وہ حقیقتیں ہیں جن سے اصول استقراء(تلاش کرنا،ڈھونڈنا، پیروی کرنا) کے مطابق یہی نتیجہ نکلتاہےکہ جس طرح عقلی اور اخلاقی خواص ہماری نیچر کے اصلی اور لازی خواص ہیں اسی طرح روحانیت بھی ہماری انسانی ذات کا ایک اصلی جوہر ہے۔ جو خدا کا تصور قائم کرتا۔ اس کے دیدار کا خواہشمند ہوتاہے اور اس کی پدرانہ رحمت اور افضل کی پناہ گاہ میں ڈھونڈتا ہے۔ اب آخر میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ یہ کہنا کہ اس تصور سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اس کے بالمقابل اور اس کے ساتھ علاقہ رکھتا ہوا ایک (رئیل REAL )وجود بھی موجود ہے۔ ایک فضول اعتراض ہے۔
ہم باربار اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارا عملی علم جس پر ہماری زندگی کا دارو مدار ہے منطقی دلائل اور خارجی اشیاء پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہماری ذاتی پہچان اور انٹیوٹو روشنی پر منحصر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خارجی اشیاء لاکھ موجود ہوں ہم کبھی ان کے وجود اور ہستی سے واقف نہ ہوں۔ لیکن یہ روشنی ہماری ذات میں موجود ہے۔ ہم اس کی گواہی کو باربار تسلیم کرتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کی گواہی کی معتبری (اعتبار کیا گیا، بھروسے کے قابل)کے سبب سے با من و امان بسر کرتے ہیں۔ اور کوئی بنا نہیں جس کے زور پر ہم فزیکل دنیا یا اپنے ابنائے جنس کی ہستی یا اپنی ہی مستقل اور دائمی شخصیت کو مان سکیں۔ خانگی اور سوشل اور قومی زندگی۔ انصاف گُستری تحصیل علوم ، اکتسابِ فنون غرضیکہ تمام سلسلہ تہذیب کا ہمارے ذاری اور طبعی انٹیوشنوں پر حصر(باپ کی طرح، باپ سے منسوب ہونا) رکھتا ہے۔ اب یہ مناسب نہیں کہ ہم ان انٹیوشنوں کی گواہی کی چند باتوں میں معتبر (اعتبار کیا گیا، بھروسے کے قابل)سمجھیں اور بعض میں غیر معتبر۔ یعنی اس گواہی کو وہ خدا کی نسبت دیتے ہیں رد کردیں۔ اگر ہماری روحیں خداکو محسوس کرتی ہیں توہم کیوں اسی طرح اس کی ہستی کو نہ مانیں جس طرح کہ اپنے علم النفس کی بنا پر او راشخاص اور اشیا کے وجود کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ تجربہ شاہد ہے کہ جس طرح آنکھ نیچر کے خوبصورت چہرے کم دیکھتی ہے اسی طرح روح کی آنکھ جو توتبائے کرامت سے صاف ہوگئی ہے جلوہ نور الہیٰ کو دیکھتی ہے۔
فقط یہ ماننا کہ خدا ہے نجات کے لیے کافی نہیں
ہمیں امید ہے کہ جو دلائل ہم ہدیہ ناظرین کرچکے ہیں ا ن سے یہ بات ثات ہوگئی ہے کہ خدا ہے اور اس میں نیکی اور حکمت اور قدرت کی صفتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ہم اس مضمون کو ابھی چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ ہماری رائے میں نظام موجودات سے جو علم خداکی ہستی اور وجود کے متعلق دستیاب ہوتاہے وہ خدا کی مرضی یا ارادے کا کامل مکاشفہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یایوں کہیں کہ وہ علم نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہم ۔ اس جگہ یہ دکھانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ انسان کو نجات کی ضرورت ہے کیونکہ اس مضمون پر خاصہ(عادت،صفت،خصلت) فرسائی کرنا گویامضمون زیر نفر سے دور چلے جانا ہے اور اس پر بہت کچھ لکھنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب کا وجود بذات خود ایک عالمگیر گواہی اس امر کی ہے کہ انسان نجات کی ضرورت کو محسوس کرتاہے۔ بعض اشخاص جو نیچر ی یا ڈیاسٹ کہلاتے ہیں اس بات کو مانتے ہیں کہ جو علم الہی نیچر کی کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتاہے وہ ہماری موجودہ مذہبی اور روحانی ضرورتوں کےلے کافی دوافی ہے۔ اب ہم اس باب میں یہی دکھانا چاہتے ہیں کہ نیچرل تھیالوجی یعنی وہ علمالہی جو کار خانہ فطرت سے حاصل کیاجاتاہے ہماری اعلیٰ ضرورتو ں کے لیے کفایت نہیں کر سکتا۔
یہ ہم مانتے ہیں کہ عقل اور فطرت سے علم الہیٰ کی جو کرنیں نکلتی ہیں وہ جس درجے تک پہنچتی ہیں اس درجے تک برحق ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی شہادت کو بدل وجان قبول کریں ۔لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی روشنی انسانی نیچرکی اعلیٰ ضررتوں کی مرافقت(باہمی میل جول) کے لے کافی نہیں پس اس بات کی اشدضرورت ہے یہ کمی کسی خاص مکاشفے(انکشاف،امورِ غیبی) کے وسیلے سے پوری کی جائے۔ نیچر جو کچھ خدا کی ہستی اور ذات و صفات کے بارے میں مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہوتاہے وہ ہم کو یہ نہیں بتاتا کہ خدا ہم سے وہ رشتہ رکھتاہے جو باپ بیٹے سے رکھتا ہے۔ اور نہ اس سے یہ ہی ظاہرہوتاہے کہ وہ گناہ کی قدرت کو جو انسان کے اندر اور باہر کام کر رہی ہے دور کرکے اسے اخلاقی یا روحانی زندگی میں قائم رکھ سکتاہے۔ غرضیکہ وہ علم جونیچر کے وسیلے سے حاصل ہوتاہے اس علم کو جو نجات کے لیے ضروری ہے نہیں پہنچتا۔
لیکن بہت لوگ جیسا کہ ہم اوپر عرض کر آئے ہیں فقط اسی علم کوانسان کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ ہمیں ان کی سرگرمی اور سیرت کی صفائی پرکسی طرح کا شُبہ نہیں۔ کیونکہ ان لوگوںمیں بہت سے لوگ نیک اور با اخلاق بھی ہیں۔تاہم اتنا ضرور ہمیں کہنا پڑتاہے کہ وہ تاریخ کی گواہی سے جو اس امر پر دستیاب ہوتی ہے۔ بہت گہری واقفیت نہیں رکھتے۔ اور نہ اس مئسلے پر غور کرتے ہیں۔جس قدر غورکرنی مناسب ہے۔ وہ انسانی ذات کا علم تو رکھتے ہیں لیکن ان کا علم سطحی سا ہوتاہے ۔یعنی انسانیت کی بالائی کیفیتوں سے تو واقف ہیں لیکن اسکی ضرورتوں اور حاجتوں کی تہ تک نہیں پہنچتے۔
تاریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ خالی (تھی ازم THEISM ) کے مقابلے میں الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) اور بت پرستی اور عقیدہ ہمہ اوست ہمیشہ زیادہ زور آور ثابت ہوئے ہیں یعنی انسان کے دل پر ان خرابیوں نے بہ نسبت فطری تھی ازم کے زیادہ اثر کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہو کہ نراتھی ازم عوام کے دلوں پر کبھی ایسا مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) نہیں ہوا جیسے یہ خراب اور ناقص اور غلط عقائد ہوتے آئے ہیں ۔ اگر تھی ازم نےکبھی ان
دشمنوں پر فتح پائی ہے تو خاص مکاشفات ذات الہی کے ساتھ مل کر پائی ہے۔ عقلی اور فطری تھی ازم کو ہر ملک اور ہر زمانہ میں بہت تھوڑے لوگوں نے مانا ہے ۔ بے شک ہند اور فارس اور یونان اور روما میں کئی ایسے حکیم گزرے ہیں جو اپنی عقل کی روشنی کی پیروی کرتے کرتے خدائے تعالیٰکی ہستی کے یقین کے قریب پہنچ گئے ۔ لیکن ان ممالک کے قدیم عوام الناس پر نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ بجائے تھی ازم کی طرف جھکنے کے اس سے زیادہ زیادہ دور ہی ہوتے گئے۔ متھیالوجی (علم الاصنام) یعنی جھوٹے بتوں اور وہی دیوتاؤں کے قصے اور کہانیاں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ وہ فلسفانہ خدا جس کا تصور محض عقلی قیاسوں سے پیدا ہوا ہے اور جس کی طرف سے کوئی رویہ یاکشف(ظاہر کرنا، پردہ اٹھانا) کبھی کسی کو مسیر نہیں ہوا عام لوگوں کے دلوں پر مسلط( فتح کیا گیا، مغلوب کیا گیا) ہو کر اپنی حکمرانی کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ یا یوں کہیں کہ ممکن ہے کہ بعض اہل فکر اپنے غور و فکر سے خداکے وجود اور ہستی کا تصور اپنے لیے قائم کرلیں اور اس تصور سے کسی قدر مطمئن خاطربھی ہو جائیں۔ لیکن اس کےساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ ان بےشمار (ہزاروں لاکھوں) بنائے جنس اس قسم کے تصور سے تسلی نہیں پاتے بلکہ اس کے عوض میں ایسے دیوتاؤں اپنے لیے تجویز کر لیتے ہیں جن کو دیدنی صورتوں میں لاکر یعنی بت بناکر انہیں وقت اور فاصلہ کی قیود سے مقید کر لیتے ہیں ۔پنتھی ازم (مئسلہ ہمہ اوست) کی طرف دیکھو کہ وہ کس طرح نرے تھی ازم پر سبقت لے جاتاہے ۔وہ ایک طرف اس کو جو دراصل الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) سے کچھ کم نہیں ایک عجیب قسم کا جامہ پہنچاکر مذہب کی صورت میں لاتاہے اور دوسری طرف بت پرستی پر ایک نیا رنگ چڑھا کر اسے ایسے سانچے میں ڈھال دیتاہے کہ عقل کو بھی نا مرغوب نہیں معلوم ہوتی۔
یہ ہم مانتے ہیں کہ لازمی امر نہیں کہ وہ تھی ازم جو محض فطرت کے مشاہدات پر مبنی ہے۔ضرور الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) کی طرف مائل ہو۔ پر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسباب جو انسان کو الحاد(سیدھے راستے سے کتراجانا) کی طرف کھینچتے ہیں و ہ ایسے زبر دست ہیں کہ ان کے عمل کو روکنے اور زائل(کم ہونا) کرنے کے لیے نرے تھی ازم میں کوئی اندرونی طاقت موجود نہیں ۔ اور یہی سبب ہے کہ نراتھی زم ہمیشہ بلکہ مسیحی روشنی کے زمانے میں بھی دہریہ پن(ملحد، لامذہب، خدا کو نہ ماننے والا) کے پنجے میں گرفتار ہوجاتاہے ۔ پس خدا کی ہستی کے یقین کو انسانی زندگی کا دستو العمل بنانے کے لیے اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ ہمیں خدا کی ذات اور سیرت کا مکاشفہ اس اظہار کی نسبت جو سطح فطرت سے عکس افگن (عکس ڈانے والی)ہے زیادہ روشن اور زیادہ کامل صورت میں ملے۔ اگر ہماری عقل اپنی کاملیت کے پائے سے گری ہوئی نہ ہوتی۔ اگر ہم مرض معصّیت(گناہ،قصور ، خطا، پاپ) میں گرفتار نہ ہوتے تو شائد نراتھی ازم ہمارے لیے کافی ہوتا۔ لیکن موجودہ حالت کے لیے اس قسم کا علم الہیٰ کافی نہیں اور جو یہ کہتا ہے وہ نہیں جانتا کہ انسان اپنی گری ہوئی حالت میں کیا ہے۔ اس گری ہوئی حالت میں ہمیں اس نور کی ضرورت ہے جو اس روشنی سے جو بحرو بر میں چمکتی ہے زیادہ درخشاں(چمکتاہوا، روشن ، تابع) ہے۔ہاں ہمیں اس نور کی ضرورت ہے جو مسیح کے چہرہ پُر ضیا سے ٹپکتا ہے ۔پولوؔس رسول فرماتا ہے کہ "دنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ پہچانا"۔ تمام تاریخ رسول کے اس قول پر صادر(نافذ ہونے والا، کھلنے والا) لکھتی ہے۔کوئ شخص اس تواریخی(قصے، واقعات، تذکرے) گواہی پر شک نہیں لا سکتا کہ جیسا علم خدا کا انسان جیسے ذمہ دار اور با مذہب مخلوق کو درکار ہے ویسا علم اسے خاص خاص مکاشفات(راز، بھید) الہیہ کے دائرے کے بارہ کبھی نصیب نہیں ہوتا اور نہ کبھی ہوا ہے۔ دنیا کی حکمت اس وقت بھی جبکہ اس کا لوہا ہر جگہ مانا جاتا(ہر جگہ پر مرضی چلنا) تھا کئی باتوں کی انجام دہی میں قاصر ( ناقابل )
نکلی مثلاً وہ انسان کے دل میں گناہ کی وہ نفرت پیدا نہ کرسکی جو پیدا ہونی چاہیے تھی ۔ نہ وہ کبھی انسانی خواہشات و جذبات کے منہ میں لگام دے سکی ۔ نہ اس سے باطنی تزکیہ اور نہ ظاہری چال کا رویہ درست ہو سکا۔ کوئی مذہب انسان کا ساختہ ایسا نہیں ہے جو خدا کی سیرت کے بے نقص تصور پر مبنی ہو یا جس نے زندہ اور سچے خدا کی جگہ ناپاک اور بےجان بتوں کو جگہ نہ دی ہویا جس نے خدا کی شان کو گھٹا کر اسے ایک ادنی اور کمینہ سا خدا نہ بنایا ہو۔ جو لوگ مغربی براعظم کے قدیم ممالک کی تہذیب اور علوم سے واقف ہیں وہ عموماً یونان اور وم کے بعض مشہور حکما کے مذہبی فلسفہ کو ان کے معاصرین(معاصر کی جمع، ہم زمانہ لوگ) کے مذہب اور ملت سے ملا دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ان کے ہمعصروں(ہم زمانہ ، ایک وقت کا) کا مذہب اور تھا اور ان کا مذہبی فلسفہ اور وہ اپنے زمانے کے مذہب پر بوسیلہ اپنی تحقیقات کے کسی قدر فائق(برتر،ممتاز،فوقیت) ہو گئےتھے۔ لیکن جو مذاہب ان کے زمانوں میں مروج(رائج کیا گیا) تھے وہ واہمہ(قوتِ تصور، جن کا تعلق محسوسات سے ہو) سے پیداہوئے تھے اور بہت سی باتوں میں بجائے مہذب الاخلاق ہونے کے مخرب(ویران اور برباد کرنے والا) الاخلاق ثابت ہو چکے تھے۔ جو پیؔٹر اور جو ؔنو مارؔس اور وینؔس اور دیگر دیوتاؤں کے پرمتا۔ ایسے معبودوں کی عبادت سے پاکیزگی کی منازل میں ترقی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایسے معبودوں میں جو متلون مزاج اور ناراست اور ناپاک تھے کب پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ یا اخلاقی زندگی کا کوئی صحیح اور بے نقص دستور العمل(قاعدہ ، قانون ) پا سکتے تھے۔ ان قدیم زمانوں میں بت پرستی کا مذہب انسان کی روح میں روحانی احساس اور جوش کا دم نہیں پھونکتا تھا بلکہ فلسفہ ان فطری صداقتوں(سچائی،خلوص) کو محسوس کر کے جنہیں مروجہ مذہب نے چھپا دیا تھا یا بد ہئیت بنا دیاتھا یا جڑ ہی سے کاٹ ڈالا تھا بعض بعض لوگوں میں روحانیت کا احساس پیدا کرتا تھا۔ پس اگر نجات سے یہ مراد ہے کہ نجات یافتہ شخص اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آتا ہے ۔ گناہ سے نکل کر پاکیزگی میں داخل ہوتاہے۔ اور دنیا کی محبت سے نکل کر خدا کی محبت میں قدم رکھتا ہے تو یقیناً کوئی بافراست شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ رومی یا یونانی مذہب اس قسم کی نجات کی طرف رہنمائی کرتاتھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اہل فلسفہ نے نجات کی اصل راہ کو دریافت کیاتھا ؟ ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر گئے اس کی قیمت میں سے ایک کوڑھی بھی کم کرنےکی ضرورت نہیں۔ جو ان کی کتابوں کو پڑھتے اور ان کے اعلیٰ خیالات سے واقفیت رکھتے ہیں۔وہ بڑی خوشی سے اس بات کومانتے ہیں کہ سقؔراط اور افلؔاطون اور ارسطو جیسے حکمائے یونان اور سسؔرو اور اپکٹیٹس اور نٹوؔنیٹس جیسے فضلائے روم کو الہی صداقتوں(سچائی،خلوص) کے کئی عجیب عجیب نظارے نصیب ہوئے اور وہ ایسی اخلاقی ہدایتیں اپنے پیچھے چھوڑ گئے جو آج تک پیش قیمت سمجھی جاتی ہیں ۔ تاہم با ایں ہمہ(باوجود ان باتوں کے) وہ کوئی دائمی (ابدی) اخلاقی اصلاح وجود میں نہ لا سکے وہ اپنےمعاصرین(معاصر کی جمع، ہم زمانہ لوگ) کو بت پرستی اور باطل پرستی سے ہٹا کر سچے خدا کی پرستش کی طرف نہ مائل کر سکے۔ وہ زود اعتقادی اور بدیوں کو روک نہ سکے۔ وہ آپ ہی اپنے دل میں اپنی باتوں کا پوراپورا یقین نہیں کرتے تھے لہذا کبھی نبیوں کے سے اختیار کےساتھ نہیں بولتے تھے۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ موجودہ مذہب تقلید کے لائق نہیں ہے پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ موجودہ مذہب تقلید (پیروی) کے لائق نہیں ہے پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ہم اسکی جگہ کیا رکھیں اور دنیاکو اس کے عوض میں کیا دیں۔ جوسب سے بڑے سمجھے جاتے ہیں انہی کی زندگیوں اور فلسفوں کے طریقوں میں نقص موجود ہیں ۔ سو نہ وہ اور نہ ان کی تعلیم اور نہ ان کے پیرو سوسائٹی کی کچھ اصلاح کر سکے ۔ اس میں شک
نہیں کہ فلسفے نے کئی صداقتیں(سچائی،خلوص) دریافت کیں۔ مگر اصل صداقت(سچائی،خلوص) کو دریافت نہ کرسکا یعنی اس نے خدا کی پاکیزگی اور محبت کو معلوم نہ کیا اور نہ مار ِ گناہ کے ڈسے ہوؤں کے لیے کوئی تریاق(زہر کی دوائی،افیون(غمو رنج مٹانے کی وجہ)) اس کے ہاتھ آیا اور نہ اس نے روح کی صفائی اور شفا کے لیے کوئی چشمہ آبِ حیات ہی پایا۔ ایک مشہور عالم علم الہیٰ نے قدیم زمانے کے فلسفانہ تھی ازم کی اصل حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے ۔ "لوگ تھی ازم کو ایک فلسفانہ سوال سمجھ کر نہ کہ مذہبی سوال جان کر اس پر بحث کیا کرتے تھے۔ وہ دنیا کی پیدائش کی وجوہات میں سے اسے بھی ایک وجہ خیال کرتے تھے۔ (یعنی جب یہ سوال کیا جاتا تھا کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی تو اس سوال کے کئی جواب دئے جاتے تھے ۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ شائد خدا نے اسے پیدا کیا ہے) لیکن جس طرح آج کوئی سائنس کا مئسلہ آدمی کے چال وچلن پر کوئی اثر پیدا نہیں کرتا اسی طرح فلسفانہ تھی ازم کا خیال بھی ان دنوں انسان کی خصلت(عادت ،مزاج) اور سیرت کو کسی طرح موثر نہٰیں کرتا تھا۔ تھی ازم اہل فلسفہ کے خیالات کی درستی یا نادرستی کا معیار نہ تھا اور نہ اس کے وسیلے سے ایمان اور بے ایمانی میں تمیز کی جاتی تھی۔ وہ مختلف خیال کے آدمیوں کے خیالات میں فرق کرنے کےلیے تھی ازم حدا فاصل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اس پر اپنے اپنے خیالوں کے مطابق آزادانہ بحث کیا کرتے تھے۔ اور ایسا کام با آسانی کر سکتے تھے کیونکہ خدا کی ہستی کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ فلاسفر کی عملی زندگی پر کچھ اثر پڑتاتھا اور نہ کسی او ر شخص کی زندگی پر۔ اگر کسی لکچر ہال میں کوئی فلاسفر خداکی ہستی کو ثابت کرتا اور کوئی شخص اس سے یہ کہتا کہ آپ بھی اس خدا کی عبادت کیا کریں تو اس سے بڑھ کر او ر کوئی بات اس کے لیے حیرت انگیز نہ ہوتی ۔ عجب نہیں کہ وہ چلا کر یہ پوچھتا ۔ کس کی عبادت کروں ؟ کیا عبادت کروں؟ کسطرح عبادت کروں کہ اگر آپ یہ سوچنے بیٹھے ہیں کہ جس طرح پولوس تمام شہرکو بت پرستی میں مبتلا دیکھر کر آگ بگولا ہو گیا تھا اسی طرح یہ فلاسفر بھی بت پرستی اور زوداعتقادی کو دیکھ کر آگ بگولا ہو جاتاتھا تو آپ سخت غلطی میں گرفتار ہیں۔ اور اگر آپ اس سے یہ دریافت کرتے کہ آپ کیوں اس کی عبادت نہیں کرتے تو ہ ویہ جواب دیتا۔ تم اس فرق کو نہیں دیکھتے ہوجو ان باتوں میں پایا جاتاہے ۔ مذہبی پہلو پر غور کیا جائے تو عوام کا خیال (بت پرستی کے معتلق) صحیح ہے۔ اگر فلسفانہ پہلو پر نظر کی جائے تو فلاسفر حق پر ہے ۔ و ہ آپ سے کہتا کہ یہ ممکن ہے کہ لوگ بحث کرتے ہوئے ایک لامحدود ہستی کے تصور کو دلیلوں سے قائم کریں۔ لیکن وہ اس تصور کی عبادت نہیں کرسکتے اس کے زعم میں ایک بہادر شخص سبب اول کی نسبت زیادہ پرستش کے لائق تھا۔ اور اس کے لائق ہونے کا سبب یہ تھا کہ اس میں الوہیت نہیں پائی جاتی تھی۔ ہند کے قدیم ہرہمنو ں کے فلسفہ میں بھی یہ سوال اسی صورت میں حل کیا جاتاتھا۔ ان کے یہاں بھی پرم آتما ایک بے سیرت اور بے تشخص ہستی تھا۔ عقلی تشریخ و تقطیع سے جو کچھ بچ رہاتھا۔ وہی پرماتما(بالاشخصیت، وشنو، پرمیشور) مانا گیا تھا۔ وہ خالص وحدت اور خالص بندگی ۔ کوئی مندر اس کے لیے نہیں بنایا جاتاتھا۔ کوئی گھٹا اس کے سامنے نہیں ٹیکا جاتاتھا۔ وہ بغیر فعل ، بغیر ارادے ، بغیر محبت اور بغیر سوچ و فکر کے تھا۔ وہ ساری چیزوں کی تہ میں تھا۔ لیکن خود کچھ نہیں تھا۔ وہ "سرب بیاپک آتما " ہر جگہ حاضروناظر ہو کر تمام دنیاکو دیکھتا تو تھا لیکن کسی چیز کو نہیں کرتاتھا۔ جہاں تک نیچر کا عالمگیر ظہور تھا وہاں وہاں وہ بھی دیکھنے والے کی طرح حاضر ہو کر اس کی کمی کو پورا کرتاتھا۔ گویا ایک بے حس و حرکت آئینہ کی طرح تھا جس کی سطح پر نیچر کی بے شمار حرکتیں مختلف پہلو اور بے قیاس(اندازہ لگانا، رائے دینا) اظہار جلوہ نما تھے ۔ لیکن اسی طرح جلوہ نما تھے لیکن اسی طرح جلوہ نما تھے جس طرح کسی خاموش اورساکن جھیل کی سطح پر
آسمان کی سطح پر کی تبدیلیاں عکس ا فگن(عکس ڈانے والی) ہوتی ہیں ۔ اب ان باتوں سے ظاہر ہے کہ قدیم زمانے میں جو خدا کا فلسفانہ تصور پایا جاتاتھا وہ بجائے اس کی عبادت کو وجود میں لانے کے بیشتر اس کے برخلاف تھا۔ بت کی پوجااس لیے کی جاتی تھی کہ وہ خدا نہ تھا اور خدا کی عبادت اس لیے نہیں کی جاتی تھی کہ وہ خدا تھا۔ تمام قدیم اقوام میں سے فقط ایک ہی چھوٹی سی قوم ایسی تھی جو خدا کی عبادت کیا کرتی تھی ۔اور اس حاضر و ناظر کو ایک ہستی بالتشخص مانتی تھی۔ لیکن لوگ اس قوم کو ایسا کرنے کے سبب سے نادان اور بے سمجھ خیال کرتے تھے اور ان کے عقیدے کو ایک وہم قراردیتے تھے تاہم وہ قوم اسی وہم کو اپنا ایک متبرک اور بیش بہا خزانہ تصور کرتی تھی ۔ یہی عقیدہ ان کے ملکی قوانین اور انتظام کی جڑ میں تھا اور اسی ایک چھوٹے سے تنے سے تمام بنی نوع آدم کے خیالت میں اس تصور کا پیوند(جوڑ) لگایا گیا۔
اب ہم نے دیکھا کہ دنیا اپنی خالص حکمت سے خدا کو پہچاننے میں قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) نکلی ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر مسیحی مذہب نمودار نہ ہوتا تو تو بھی رفتہ رفتہ وقت کے گزرنے پر لوگ خود بخود مذہبی صداقتوں(سچائی،خلوص) کو دریافت کر لیتے لیکن ہم اس کے جواب میں فقط اتنا کہتے ہیں کہ ایسا دعوے زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ تاریخ اس کی تائید ہر گز ہرگز نہیں کرتی ۔ انسانی حکمت کو ایک لمبا چوڑا زمانہ دیا گیا تاکہ وہ جو کچھ خدا کی بابت جاننے کے متعلق دریافت کر سکتی تھی کرے ۔ او ر اسکےلیے اسے اچھے اچھے موقعے بھی ملے۔ لیکن جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ایسی کام کی انجام دہی کی قابلیت نہیں رکھتی تو مسیحی مذہب ظہور پذیر ہوا۔ مسیؔح نے اس دنیا میں قدم نہ رکھا جب تک کہ یہ بات ثابت نہ ہوگئی کہ عقل انسانی دن بدن خدا سے بھٹکتی جاتی اور مذہب میں کوئی ذاتی اور اندرونی اصول ایسا نہیں پایا جاتا کہ اس کے وسیلے وہ درجہ کمال تک جا پہنچے ۔ اورکہ ایک عرصہ دراز میں انسان اپنی خالص طاقتوں سے نجات کی تدبیر کرنے کی ضرورت نہیں کہ جس وقت پرانے زمانوں کی تہذیب کا چراغ گل ہونے پر تھا اگر اس وقت افق اخلاقی پر مسیحی مذہب کا آفتاب طالع (طلوع)نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی فلسفہ اور سائنس مذہبی مکاشفات سے جدا ہو کر کوئی ایسا عقلی مذہب پیدا نہیں کر سکتے جو انسانی نیچر کی تسلی اور صفات اور سرفرازی کےلیے کافی ہو۔ فلسفہ اور سائنس اس منزل سے جس پر وہ پولوس رسو ل کے زمانے میں پہنچے ہوئے تھے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں۔ علم کے خزانوں میں زمانہ بزمانہ زیادہ معموری آتی گئی۔ ہے اور اسی طرح عقلی لیاقتیں (قابلیت،استعداد)صقیل ہو کر آگے ہی آگے قدم اٹھاتی رہی ہیں۔ سائنس میں بالخصوص علوم ریاضیہ اور طبعیہ نے بڑی ترقی کی ہے اور انسان کی ذہنی طاقتوں نے نہ صرف یونان اور وم کی فلسفانہ میراث سے بلکہ ہر زنانہ کی دولت علم و ہنر سے بڑا فروغ حاصل کیا ہے ۔کیا ہم اس زمانہ میں جو علم و ہنر میں اس قدر ترقی کر گیا ہے وہ کام جو یونان اور روم نہ کر سکے کرسکتے ہیں؟ کیاہم پنجر اور انسان کے موجودہ علم کی وساطت(وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ) سے کوئی ایسا مذہب تجویز کر سکتے ہیں جو ایک جانب پورے طور پر عقلی اصول پر مبنی ہو اور دوسری جانب ہماری ساری ضروریات کی مرافقت(باہمی میل جول) کے لیے کافی اور دافی بھی ہو۔ کیا ہم کوئی ایسی ملت رائج کر سکتے ہیں جو نہ صرف عقل کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو بلکہ دل کے تبدیل کرنے اور ضمیر کو تازگی بخش کر اسے جاؤہ مستقیم پر چلانے اور ہماری رفتاروگفتار(چال چلن، طور طریقہ) کو پاک اور صف بنانے میں کار گر ہوتی ؟ اگر سائنس اور فلسفہ اس زمانہ میں بھی یہ کام نہیں کر سکتے تو ہم دلیری سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ دنیا جو کچھ خدا کے بارے میں خود دریافت کر سکتی ہے اس سے کہیں زیادہ خدا کا علم اسکے لیے درکار ہے۔
اس بات کی صداقت(سچائی،خلوص) پر ہم اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں جو زمانہ حال کے فلاسفر اور سائنٹسٹ مذہب یا یوں کہیں کہ مسیحی مذہب کی جگہ نصب کرنا چاہتے ہیں۔ کامٹیؔ جس کا کچھ ذکر اوپر بھی ہو چکا ہے یہ چاہتا ہے کہ ہم انسانیت کی پوجا کیا کریں۔ پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ کاؔمٹی خود مانتا تھا کہ ہم انسانیت کی پرستش نہ پورے پورے طور پر اور نہ صدق دلی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ پر فرض کریں کہ ہم سب انسانیت کی عبادت کرنے لگ جائیں۔ کیا وہ فائدہ جو اس عبادت سے ہمارے دلوں اور دماغوں کو پہنچے گا۔ اس فائدے سے جو اہل یونانکو جو پیٹرؔ ار جونوؔ کی عبادت سے حاصل ہوتاتھا۔ بڑھ کر ہوگا؟۔ سیؔڑاس چاہتاہے کہ ہم عالم موجودات کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ کیا یہ بات ہمیں پھر پرانی بت پرستی کی طرف نہیں کھینچےگی کہ کسی درخت یا پتھر کی پوجا سے وہی فائدہ برآمد نہیں ہوگا جو عالم موجودات ک سامنے سر جھکانے سے منتج ہوگا ؟ ہربرٹ سپنسر کی رائے ہے کہ خداک ی جگہ ہم نامعلوم کی پرستش کیا کریں۔ پر ہم پوچھتے ہیں کہ ہم نامعلوم کی طرف کون سے تصورات کون سے خیالات منسوب(متعلق کیا ہوا، نسبت کیا گیا) کریں۔ کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم خالی ؔخلا، ازلیؔ وابدی نفی کی عبادت کیا کریں؟ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہم یرُداؔن یعنی فنا کی تعظیم کریں اور پھر بودؔھ ازم کی طرف راعب ہوں۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اگر ہم اس صلاح پر عمل کرنے لگ جائیں تو عقلی زندگی او ر سوشل ترقی کی تمام راہیں بند ہو جائے گی۔ ہاں۔ ان بڑے بڑے عالموں اور فاضلوں کو جو فقط فلسفہ اور سائنس پر تکیہ کرتے ہیں خدا کے دریافت کرنے میں فلسفہ اور سائنس نے کچھ مدد نہیں د ی ہے۔ بلکہ یوں کہنا عین بجا ہے کہ خدا کی ذات وصفات کے بارے میں زیادہ دریافت کرنے کی بجائے وہ اس غلطی میں ڈوب گئے سوائے ان خداؤں کے جن کا ذکر اوپر ہوا اور کوئی خدا ہی نہ راہ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب کوئی خدا ان کے لیے نہ رہا تو آئندہ زندگی کی امید بھی جاتی رہی ۔ لہذاکوئی شخص ان کے پاس اس سوال کے ساتھ نہیں جا سکتا کہ " میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوں"؟ اگر یہ ان کے فلسفانہ طریقوں میں طرح طرح کے بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں تاہم وہ سب اس ایک بات پر متفق ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی ایک وہمی خواب ہے اور بقائے دوام(ہمیشہ کی زندگی کا ،حیاتِ جادوانی) کی خواہش جو انسان کے دل میں پائی جاتی ہے وہ صرف اس طرح پوری ہو تی اور ہو سکتی ہے کہ آدمی مرنے کے بعد کچھ عرصے کےلیے پس ماندگان(بیماری، تھکن،ایک قسم کا جنون) کی یاد میں بذریعہ اپنے اثر کے زندہ رہے اور بس۔
پس محض عقلی روشنی سے یا فلسفانہ مذاہب کے وسیلے سے ہم خدا کو ایسے طور پر نہیں جان سکتے۔ جیسے طور پر کسی گنہگار شخص کو جاننا چاہیے۔ ہاں بلا امداد خاص مکاشفات الہیہ کے اس بنیادی اصول کو بھی جو یہ ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے اور جسے مذہب کی بنا اور کمال کہنا چاہے نہیں جان سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ خلقت اور خلقت کے انتظام میں بہت سی ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن سے خدا کی بھلائی اور فیاضی ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن جب تک ان پر خدا کی تدبیر نجات کی روشنی نہیں پڑتی تب تک ان سے اس کی وہ پدرانہ محبت جو وہ بنی آدم کے ساتھ رکھتا ہے ظاہر نہیں ہوتی۔ جو شخص صلیب کی روشنی میں خلقت کی چیزوں اور کاموں کو دیکھتا ہے ۔ وہی یہ کہہ سکتا ہےکہ" میں ان میں اپنے باپ کا ہاتھ دیکھتا ہوں جو اپنے بچوں کی رہنمائی کر رہا ہے"۔
اگر دنیا میں سوائے اس روشنی کے جو خلقت اور پرؔدی ڈِنس سے منعکس(عکس قبول کرنے والا، الٹا ، اوندھا) ہوتی ہے اور کسی طرح روشنی نہ ہوتی تو روشنی سے خدا کی نسبت کیا ظاہر ہوتا؟ فقط یہ کہ خدا بڑی قدرت رکھتا ہے ۔کیونکہ اس نے دنیا کو بنایا اور وہی اسے سنبھالتا اور اس پر حکمرانی کرتاہے ۔ کہ وہ بڑی
حکمت والا ہے۔ کیو نکہ اس نے دنیا کی چیزوں کو بہت اچھی طرح مرتب(ترتیب سے دیا گیا،اکھٹا کیا گیا) کیا ہے۔ ماسوائے ان اوصاف کے اس کی بھلائی بھی اس کی قدرت اور حکمت سے موافقت(مطابقت، برابری ، ساتھ) رکھتی ہوئی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس کی نیک غرض خلقت کے کاموں اور انتظاموں کی تہ میں پائی جاتی ہے ۔ ۔۔۔ سے فقط اتناہی ظاہر ہوتاہے اور ہمیں یقین ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہمیں اس سے زیادہ خدا کی نسبت بتاتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ خدا نے اپنی قدرت اور حکمت سے دنیا کو ایسا بنایا کہ انسان کو ایک ایک قدم پر اچھی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ لہذا اس کی یہ فیاضی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمارا باپ ہے اگر کوئی یہ کہے تو ہم اس کی بات کو نہیں کاٹینگے بلکہ اس کے ساتھ متفق ہو کر کہ کہینگے کہ خلقت اور نتظام موجودات سے خدا کی اؔبویت ضرور اتنے درجے تک ظاہر ہوتی ہے پر سوال یہ ہے کہ کیا بنی آدم کے درمیان باپ کی پدرانہ محبت میں اس سے بڑھ کر اور کچھ شامل نہیں ہوتا۔ یایوں کہیں کہ کیا اس قسم کی بھلائی اور فیاضی اس کی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ اظہار ہے؟ جس باپ کے دل میں صرف اتنی ہی محبت پائی جاتی ہے کہ اپنے فرزندوں کے لیے کھانا اور کپڑا اور محفوظ جبکہ مہیا کردے اور بس ۔ اس میں باپ ہونےکی اصل صفت نہیں پائی جاتی۔ فرض کریں کہ کوئی باپ ایسے لڑکے اور لڑکیاں رکھتا ہے جو نہایت فرمانبردار اور نیک چلن ہیں۔ وہ ان کے لیے اسباب آسائش مہیا کرتا ہے جو کچھ کھانے پہننے کے لیے درکار ہے انہیں دیتا ہے۔ پر کیا اس سے وہ پدرانہ محبت ثابت ہوجائے گی جو اس وقت عموماً ظاہر ہوا کرتی ہے جب باپ اپنے بچوں کے لیے دکھ سہتا اور خطروں میں گرفتار ہوتا۔ مال ودولت کا نقصان اٹھاتا بلکہ جان پر کھیل جاتا ہے؟ فرشتوں کو جو ہر طرح کے نقص اور ضعف سے بری ہیں اس قسم کی محبت یا محبت کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن بنی آدم کو جو اپنی اصل حالت سے گرے ہوئے ہیں اور گناہ کے پنجے میں گرفتار ہیں اس قسم کی محبت کی ضرورت ہے۔ او روہ اس محبت کے کسی خاص اظہار کے بغیر خود بخود خلقت کے انتظام سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ خدا میں ایسی محبت پائی جاتی ہے جو قربانی تک اپنے آپ کو ظاہر کر سکتی ہے ۔ ہاں جب اس دنیا میں گناہ داخل ہوا اور اس کے سبب سے انسان دکھ اور موت کے پنجے میں گرفتار ہوا تب اس بات کے پرکھے جانے کا موقع آیا کہ خدا لفظ بات کے کامل مہفوم کے مطابق گنہگار آدمی کا باپ ہے یا نہیں۔ کہ آیا وہ اسکی نجات کےلیے پستی اور دکھ اور قربانی سہنے کو راضی ہے یا نہیں؟ اب اگر آپ خلقت کے عجائبات اور پراویڈنس (انتظام الہی) کے ہر اثبات(ثبوت، حقیقت) پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ با وجود خدا کی بے نظیرحکمت اور بے چون وچرا(کسی عذر کے بغیر، بے دلیل) صنعت کے خلقت سے ایسی محبت ظاہر نہیں ہوتی ۔ آپ ہزار ہا اشیاء اور واقعات ایسے بنا سکے گے جن سے خدا کی نیکی اور فیاضی بکثرت ٹپکتی ہے۔ للیکن ایک بات بھی ایسی پیش نہیں کر سکینگے جس سے وہ پدرانہ محبت مترشح(ترشح کرنے والا، ٹپکنے والا) ہو جو خود انگاری یا ذاتی قربانی پر دلالت(علامت، سراغ) کرتی ہے۔ اور محبت جو اس وقت اپنی جھلک دکھاتی ہے جب باپ اپنے بچے کی جان بچانے کےلیے آگ کے انگاروں میں گرپڑتا یا متلاطم(طلاطم برپا کرنے والا، تھپیڑے مارنے والا، موج زن) طوفان میں گر کر اپنی جان کومعرض خطر میں ڈال دیتا ہے ۔ اگر آپ خلقت کے اندر کوئی بات اس قسم کی محبت کو ظاہر کرنے والی نہیں بتا سکتے تو آپ اس معنی میں کہ جو ہمیں مدنظر ہے خدا کو باؔپ ثابت نہیں کر سکتے۔
اس کا سبب یہی ہے کہ نہ خلقت اور نہ خلقت کا انتظام خدا کی طرف سے کسی قربانی پر اشارہ کرتا ہے اور یہی اصل سبب ہے کہ ہمیں ایک خاص مکاشفہ کی ضرورت ہے ۔ خدا اپنے بیٹے کو قربانی کےلیے عطا کرکے اس بات کو ظاہر فرماتا ہے کہ اس کی محبت بنی آدم کےلیے ایسی ہمدردی اور رحمدلی اور الفت سے بھرپور ہے کہ انسانی باپوں کی محبت اس کا ایک شمہ(تھوڑی کم، قلیل) بھی نہیں ۔ مسیح اپنےتجسم اور زندگی اور دکھوں اور موت کے وسیلے نہ صرف خدا کی ذات اور حکمت اور بھلائی کو ظاہر کرتا بلکہ اس کے دل کی محبت کی گہرائیوں کو ہم پر آشکار کر دیتا ہے اور ہم ان کو دیکھتے ہوئے اس یقین سے بھر جاتے ہیں کہ ہم بھی فی الحقیقت اس کے فرزند ہیں۔ ہماری عقل یا فکر بے وساطت (وسیلہ ، ذریعہ، واسطہ)الہی روشنی اور ہدایت کے اس کی محبت کی گہرائی کو دریافت نہیں کر سکتا ۔ پر ہماری تسلی اور خوشی اور ابدی آرام کے لے اسی قسم کا علم ضروری ہے۔
ہم اسی طرح اور کئی باتیں کر سکتے ہیں جو بغیر خاص مکاشفات سے دریافت نہیں ہوسکتی تھیں لیکن ہم ان کا ذکر اس جگہ نہیں کریں گے۔ انتا کہنا کافی ہوگا یہی نجات کی ساری تدبیر انسان کی عقل سے بلندو بالا ہے ۔ اس بات کو جاننے میں کہ گنہگار انسان کیونکر خدا کے ساتھ میل پیدا کر سکتا ہے۔ ہماری عقل قاصر(کوتاہی کرنےوالا، مجبور) ہے اور یہ کہنا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں سراسر حماقت ہے واقعی یہ بات سچ ہے کہ اس امر میں اپنی نادانی کو پہچان ہماری دانائی کا نشان ہے۔ مسیح ہماری حکمت ہے ۔ کہتے ہیں کہ مقام ڈیض۔۔۔۔ (جو مصنوعی (صنعت کیا گیا، بنایا ہوا) تھی) آئی کہ سقرؔاط سب سے دانا ہے۔ سقؔراط یہ سن کر حیران ہوا اور ادھر ادھر داناؤں کی تلاش میں نکلا تاکہ کسی دانا کو دیکھ کر یہ کہے کہ دیکھو یہ شخص مجھ سے زیادہ دانا ہے۔ لیکن جس کسی کو وہ ملتا تھا وہ اس میں یہ بات پاتا تھا کہ وہ جاننے کے قابل کوئی بات نہیں جانتا تاہم رعد یہ کرتا ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اور جب کوئی شخص اس پر اس کی بے علم اور جہالت ظالت ظاہر کرتا تھا تو سخت ناراض ہو جاتا تھا۔ آخر کار سقؔراط مائل ہوگا کہ مندر کی آواز نے جو کچھ کہا ہے صحیح ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اس واقع میں ان سے زیادہ دانا ہوں۔ کیونکہ نہ یہ ہی کچھ جانتے ہیں اور نہ میں ہی کچھ جانتاہوں ۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور درحقیقت کچھ نہیں جانتا اس بات کو مانتا ہوں کہ کچھ نہیں ہیں اس یک چھوٹی سی بات میں اور اس سے زیادہ داناہوں۔ سقراؔط کی چھوٹی سی باتوں کے معتلق تھی اگر ویسی ہی طبیعت ہماری صداقتوں(سچائی،خلوص) کی نسبت ہوتو ہم حقیقی دانائی سے مالا مال ہیں۔یہ عالم اور زجا ان باتو ں کو جانتا ہے ۔ اور نہ جان سکتا ہے ۔ پس وہی حقیقی حکمت سے بہرہ ور ہے جو اپنی لا علمی کو محسوس کرتا اور مان لیتا ہے۔ پس خالی تھی ازم کافی نہیں خاص مکاشفہ الہی کی اشر ضرورت ہے۔ اور خدا محبت کرنے والا باپ ہے وہ مکاشفہ ہمیں مسیح اور اپنے کلام میں عطا فرماتا ہے۔
___________
1میں نےلفظ اِن ٹیوشن اور اِن ٹیوشنل جو صفت کا کلمہ ہے اس لیے بار بار استعمال کئے ہیں کہ اُردو میں مجھے کوئی الفاظ معلوم نہیں جوان الفاظ کے لیے استعمال کئے جائیں۔ یہ شاید میری کم علمی یا لا علمی کا باعث ہے ۔ لیکن اور انگریزی الفاظ کی طرح یہ الفاظ بھی اردو میں مداہ پاتے جاتے ہیں ۔ میں نے ان کے مطلب کو ظاہر کرنےمیں حتیّ الواسع کوئی دقیقہ(کوئی بہت چھوٹی چیز، معمولی بات) فرد گزاشت نہیں کیا۔
2خلاف معمول یا قاعد ہ
3ہم نے یہ لفظ بار بار استعمال کیا ہے۔ اس کا سمجھنا نہایت ضروری امر ہے۔ اصطلاح علم الہی میں شخص اس وجود کو کہتے ہیں جو قدرت، علم ، ارادہ رکھتا ہو اور نیز اپنے میں اور باقی تمام اشخاص اور اشیاء میں یہ تمیز کر سکتاہو کہ میں ان سے جدا اور وہ مجھ سے جدا ہیں۔
-------------