The Rev. Allama Barakat Ullah, M.A
Fellow of the Royal Asiatic Society, London
1891-1972
Fatherhood of God & Sonship of Christ
Reply to Objection Mullana Sanaullah Amritsari
اَبوّتِ خدا اور اِبنیتِ مسیح
(بجواب ِ اعتراضاتِ مولوی ثناء الله صاحب مرحوم اہلِ حدیث)
مصنفہ
مرحوم علامہ برکت الله
1966
مصنف
صحت ِ کتب ِ مقدسہ ، اناجیل اربعہ کی قدامت اور اصلیت کلمتہ الله کی تعلیم ، مسیحیت کی عالمگیر ، اسرائیل کا نبی یا جہان کا منجی وغیر وغیرہ
دریاد گارِ
والد بزرگوار شیخ رحمت الله مرحوم ومغفور جن کی علم دوستی ، تلاش ِ حق کی تڑپ ، ایثار نفسی اور مقنا طیسی مسیحی زندگی کے انوار کی ضیا پاشیوں نے میرے دل کے ظلمت کدہ کومنور کردیا اور میں
آفتاب ِ صداقت کے نور
سے فیض یاب ہوکر ابدی نجات کا وارث ہوگیا۔
برکت الله
دیباچہ
مولوی ثناء الله صاحب (خدا ان کی مغفرت کرے )نے میری چند کتابوں کے جواب میں ایک ضخیم کتاب’’ اسلام اور مسیحیت ‘‘لکھی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت کے فورًا بعد میں نے اخبار اُخوت ، لاہور میں آنجہانی کے اعتراضات کے جواب مسلسل مضامین کی صورت میں شائع کئے ۔ تاکہ ان پر اپنے اعتراضات کی خامی ظاہر ہوجائے اور وہ رحلت کرنے سے پہلے حق کی جانب رجوع کرسکیں۔
یہ رسالہ ان اعتراضات کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ جو مولانامرحوم نے اخبارِ اہل حدیث میں اور اپنی کتاب’’اسلام اور مسیحیت ‘‘میں لکھے تھے چونکہ اہل اسلام بالعموم اوراہل حدیث بالخصوص آئے دن اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے ہیں، میں نے یہ مناسب سمجھا کہ ان کے معقول جواب جو عقلی اور منقولی دلائل پر مشتمل ہوں۔ فائدہ عام کی غرض سے شائع کئے جائیں تاکہ ہمارے مسلم برادران جو حق کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اس رسالہ کے دلائل وبرہان اور تو ضیحات کو ٹھنڈے دل سے بغور پڑھیں اور خدا کی لازوال محبت ِبیکراں کا احساس کریں جو وہ اپنے فضل وکرم سے تمام گنہگار انسانوں کے ساتھ کرتا ہے۔
میر ی دعا ہے کہ اس رسالے کے مسلم ناظرین خدا کی بے قیاس محبت اور اَبوت کے انجیلی عقیدہ کو صحیح طور پر سمجھ سکیں کیونکہ خدا کی محبت اور مسیح کی اِبنیت کے عقیدے بنیادی طور پر باہمد گرپیوستہ ہیں اور مسیح کی ابنیت کا عقیدہ مومنین کی فرزندیت کے عقیدے سے وابستہ ہے۔
میں نے اس مختصر رسالےمیں اِن مرکزی انجیلی عقائد کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہر شخص جو گناہوں کے ہاتھوں لاچار ہوکر شیطانِ لعین کا غلام ہوچکا ہے ابنِ الله کی محبت کا احساس کرے جو فہم وادراک سے بھی پرے ہے کیونکہ یہ محبت الٰہی کی مظہر ہے اور کامل واکمل ہے۔ خدا کرے کہ کتاب کے ناظرین منجی عالمین کے مبارک قدموں میں آکر میری طرح نجات ِ سرمدی حاصل کریں ۔
آمین ثم آمین
میرٹھ چھاؤنی برکت الله
یکم مارچ ۱۹۶۶ء
بابِ اوّل
اَبُوتِ الٰہی کا انجیلی مفہوم اور اسلامی معتقدات
فصل اوّل
جسمیتِ خدا کا عقیدہ
ہم نے اپنی کتاب’’توضیح البیان فی اصول القرآن‘‘میں لکھا تھا۔ اسلام میں خدا کے ننانوے(۹۹) نام ہیں۔لیکن ان ننانوے ناموں میں ’’اَب ‘‘یعنی باپ کا نام موجود نہیں اور نہ اس لفظ کا لطیف اور پاکیزہ مفہوم کسی اورنام سے قرآن میں موجود ہے۔ خدا کے تصور ’’ اَب ‘‘یا’’ رب‘‘ ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ پہلا تصور انجیلی ہے دوسرا تصور اسلامی تصور ہے (صفحہ ۱۶)۔
اس کے جواب میں آنجہانی مولوی ثنا ء الله صاحب لکھتے ہیں:
’’ بالکل صحیح فرمایا ہے۔ اَ ب کے معنی باپ کے ہیں ۔ باپ کے لفظ کی تشریح کی ضرورت نہیں ۔ اَب کے معنی میں دو بلکہ تین مفہوم داخل ہیں۔ مثلاً اگر زید کسی کا اَب ہے ۔ تو اس کا تصور تین مفہوموں پر مشتمل ہوگا۔(۱) زید ذات (بحیثیت ذواضافت )(۲) زید کی بیوی (۳) وہ طور جس کا زید باپ ہے۔ جب تک کسی شخص کی اَبوُت میں ان تینوں مفہوموں کا تصور نہ ہو وہ کسی کا اَب نہیں کہلا سکتا ۔ چنانچہ ارشاد ہے’’انی یکون لہ ولد ولمہ نکن لہ صاحبة‘‘ (خداکی اولاد کیسے ہوگی اس کی تو بیوی ہی نہیں، کیسی فلسفیانہ اور دقیق دلیل ہے) (اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۶تا ۱۷)۔
(1)
بچارے مولوی صاحب معذور تھے۔ وہ فرقہ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے جس کا خصوصی عقیدہ یہ ہے کہ خدا جسم رکھتا ہے ۔ چنانچہ جہاں قرآن میں وارد ہے کہ خدا کامنہ ہے (بقر۱۰۹)یا خدا کا ہاتھ ہے (مائد ۶۹)وغیرہ ان سے وہ لفظی مطلب لیتے ہیں ۔ پس وہ مذکورہ بالا’’ فلسفیانہ اور دقیق دلیل ‘‘پیش کرتے ہیں کہ خدا باپ نہیں ہوسکتا تاقتیکہ اس کی بیوی نہ ہو۔
اہل ِ حدیث کا عقیدہ یہ ہے کہ الله جسم رکھتا ہے پس وہ صفاتِ باری تعالیٰ کو بقیاس حسِیات قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ شہر ستانی لکھتے ہیں کہ ومثل مفرو کمش واحمد الجہمی وغیر ھمہ من اھل السنة قالوا معبود ھمہ صورة ذات اعضاء وابعاض ۔۔۔الخ یعنی مضرو کہمش احمد ہجمی وغیرہ اہل ِ سنت سے اس بات کے قائل ہیں کہ الله صورت رکھتا ہے جس کے اعضا بھی ہیں اور اجزاء بھی۔خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی ۔ وہ انتقال بھی کرسکتا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جائے ۔ وہ بلندی پر چڑھ سکتا ہے اور نیچے بھی اتر سکتا ہے۔ استقرار اور تمکن بھی اس کو حاصل ہے۔’’اس کے بعد علامہ مذکور لکھتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں جو الفاظ اس قسم کے وارد ہیں وہ سب کے لفظی معنی مراد لیتے ہیں‘‘ (کتاب ملل ونحل صفحہ ۷۸)۔ یہ مضر او رکہمش کوئی معمولی شخص نہیں تھے بلکہ امام بخاری اور امام مسلم کے اساتذہ تھے۔ علامہ ذہبی
میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ کہمش ثقہ ہیں۔ صالح ہیں، ہر روزوشب میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ۔امام ذہبی خود جسمیت خدا کے قائل تھے۔
چنانچہ لکھا ہے’’ ولکنہ غلب علیہ مذہب الاثبات ومنافرة التاویل والفضلة عن التنز یہ حتی اشرذ اللک فی طبوہ انحراف شدید اعن اھل التنزیہ ومیلاقویا الی اھل الاثبات ‘‘یعنی ذہبی پر مذہب اثبات غالب ہے اور تاویل سے نفرت اور تنزیہ سے غفلت ، جس نے ان کی طبیعت میں ایسا اثر کیا کہ وہ اہل تنزیہ (جو الله کی جسمیت وغیرہ سے منزہ جانتے ہیں )سے منحرف تھے اور ان لوگوں کی طرف زيادہ مائل تھے جو جسمیت یا لوازِم جسمیت کو خدا کے لئے ثابت کرتے ہیں‘‘۔
۲۳۱ہجری میں خلیفہ واثق بالله ہارو ن نے ’’ احمد بن نضر انخزاعی کو جو اہل ِ حدیث سے تھے اور امرونواہی کے پابند تھے بغداد میں قید کرکے بلا بھیجا او ران سے قیامت کےدن خدا کی رویت کا سوا ل کیا۔ انہوں نے کہا کہ روایت سے رویت ( یعنی خدا کو آنکھوں سے دیکھنا) ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کی سند میں ایک حدیث بیان کی ، واثق نے کہا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے، واثق نے کہا کہ افسوس ہے کہ خدا کو محدود اور مجسم اور مکان کامقید اور دیکھنے والے کی آنکھوں میں سما جانے والا سمجھتاہے۔ تو قطعی کفر کررہا ہے اور خدا کی صفات کو نہیں سمجھتا۔ فرقہ معتزلہ کے فقہیوں نے جو وہیں بیٹھے تھے ان کے قتل کا فوراً حکم دے دیا۔ خلیفہ نے وہیں تلوار منگوائی اور کہا کہ جب میں اسے مارنے کےلئے کھڑاہوں کوئی شخص میری مدد نہ کرے کیونکہ جو قدم میں اس کےقتل کے لئے اٹھاؤں گا ان کا ثواب مجھے ملے گا۔ یہ شخص ایک ایسے خدا کو مانتا ہے جس کو ہم نہیں مانتے اور نہ اس جیسی صفات کے قائل ہیں ۔ احمد طوق زنجیر پہنچے چمڑے کے بچھونے پر بٹھائے گئے اور خلیفہ نے اپنے ہاتھ سے ان کی گردن ماری اور حکم دیاکہ ان کا سر بغداد میں بھیج دیا جائے اور ان کا جسم رائے میں سولی دیدیا جائے ۔ ان کا سر اور جسم چھ برس تک لٹکا رہا۔ ان کے سر کے لئے ایک چوکیدار مقرر کردیا جو اس کو نیزہ سے قبلہ رو ہونے نہیں دیتا تھا‘‘۔
(تاريخ الخلفا صفحہ ۲۲۸)۔
ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ تو اسلاف کے اقوال ہیں لہذا ہم دورِ حاضر ہ کے مولوی وحید الدین صاحب حیدر آبادی (جنہوں نے صحاح ستہ کا ترجمہ کیا ہے)کی کتاب ہدیۃ المہدی سے ذیل کی عبارت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ جگہ کی قلت کی وجہ سے عربی عبارت کے ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
’’ خدا کی بہت سی صفات شرع میں وارد ہیں۔ ہم سب کے ساتھ خدا کو موصوف جانتے ہیں ، نہ انکار کرتے ہیں او رنہ تشبیہ دیتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
ایک ذاتی ہیں جو قدیم اور ازلی ہیں۔ مثلاً حیات، غم ، قدرت اور ارادہ ۔ مشیت ، جلال، عزت سننا، دیکھنا، بولنے کی قوت، دوسری قسم کی صفات فعلی ہیں ، جو حادث ہیں۔ (یعنی جو پہلے نہ تھیں، لیکن اب موجود ہوگئی ہیں ) مثلاً کلام ، بیٹھنا ، ہنسنا ، اترنا، چڑھنا ، آنا ، جانا ، دونوں ہاتھ بلند کرنا ، قدم پھیرنا، نزدیکی ، دوری ، بچھانا ، سانس لینا ، حیران ہونا، خوش ہونا ، بشاش ہونا، غضب ، غیرت ، کسی کی بات پر رنجیدہ ہونا، شرمانا ، ٹھٹھا کرنا۔ مسخرہ پن ، مکر ، فریب دینا، تردد، فضل، رحمت ، حیلہ کرنا ، آرام کرنا ، اختیار ،امر ، نہی ، خوش طبعی ، مصافحہ کرنا ، اطلاع (آکر دیکھنا ) اوپر چڑھ کر دیکھنا ، استدراج ، حب، بغض ، رضا ، کراہیت ، غصہ ، دشمنی ، دوستی ، ٹہلنا ، دوڑنا ، پیدا کرنا ، وجود میں لانا۔ عندیہ (پاس) تقلیب قلوب ، خوشخبری ، دھمکی ، بعض مخلوق کو اپنا کلام سنانا ۔عرش کے علاوہ
بعض جگہوں پر عارضی تجلی دکھانا اور جس صورت میں چاہے ظاہر ہونا ۔۔۔ خدا جس زبان میں چاہے کلام کرتا ہے ، صوت یعنی آواز حرف سب اس کلام میں ہوتا ہے ۔۔۔خدا کے کلام کی صفت سکوت کی نفی ہے۔۔۔ خدا نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا۔ ایساکہ حضرت نے اس کی آواز کو سنا۔ ۔۔خدا ایک شے ہے لیکن وہ اور چیزوں کی مانند نہیں ہے۔ وہ شخص ہے اور آدمی لیکن دیگر اشخاص اور آدمیوں کی طرح نہیں ہے۔ ۔۔خدا اوپر کی جانب ہے ۔ اور اس کا مکان عرش ہے۔متکلمین کایہ کہنا کہ خدا کسی جہت ومکان میں نہیں ہے باطل ہے۔ کیونکہ ہرموجود کے لئے مکان کا ہونا لازم ہے۔ اور جہت بھی خدا کے لئے ثابت ہے۔۔۔ خدا کی صورت ہے ، مگر اس کی شکل سب سے زیادہ خوبصورت ہے، وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جس صورت میں چاہے ظاہر ہوکر اپنی تجلی دکھائے۔خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کا چہرہ ہے۔ اور آنکھ ، ہاتھ ، کف ، مٹھی ، انگلیاں ، بازو ، سینہ ، پہلو ، کولھا ، پاؤں ، پنڈلی ، کندھا وغیرہ بھی ہیں۔ لیکن یہ سب ایسی ہیں جو اس کی شان کے شایان ہیں ان باتوں کے ہونے سے خدا سے تشبیہ لازم نہیں آتا۔ کیونکہ تشبیہ تب ہوسکتی ہے اگرہم کہیں کہ اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا ہے۔۔۔اسی طرح خدا کا چڑھنا اور عرش پر بیٹھنا اور وہاں ٹھہرنا ، مگر یہ بیٹھنا خدا کا ایسا ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔۔۔ ہمارے شيخ ابن القیم نے کہا کہ ازروئے شرح اور اشارہ خدا کی طرف حساً ثابت ہے ۔۔۔ خداکا نزول وصعود بھی صفاتِ افعال سے ہے۔ کیونکہ خدا ہر شب کو دنیا والے آسمان پر بذات ِ خاص اترتا ہے تو کیا عرش خالی ہوجاتا ہے؟اس میں دو قول ہیں۔ حافظ ابن مندہ تو اس بات کا قائل ہے کہ جب خدا عرش سے اترتا ہے تو عرش خالی ہوجاتا ہے۔ اور یہی مذہب امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔ مگر شیخ ابن تیمیہ کا مسلک یہ ہےکہ عرش بالکل خالی نہیں ہوتا۔ خدا اس طرح عرش سے اترتا ہے جس طرح ہم منبر پر سے اتر آتے ہیں۔ اور حدیث ِ نزول ہےکہ پھر خدا اپنی کرسی پر چڑھ جاتاہے اورالفاظ ِ صعود اور نزول جانا اور آنا سے ایسے امور مراد ہیں جو حرکت اورانتقال کے بغیر نا ممکن ہیں۔۔۔ ہاں خدا کی حرکت اوراس کا انتقال ہماری حرکت اورسکون کے مشابہ نہیں۔۔۔ اگر ہم کہیں کہ خدا حرکت اور سکون پر قادر نہیں تو خدا کا عجز لازم آتا ہے۔‘‘
پس اہل ِ حدیث کیا متقدمین اور کیامتاخرین خدا کی جسمانیت کے قائل ہیں۔ مولوی ثناء الله صاحب مرحوم کہنے کو توغیر مقلد تھے۔ لیکن تقلید کے پرلے درجے کے حامی ہوکر اسی قسم کے خیالات کے پیرو ہیں ( دیکھو ان کی تصانیف حق پرکاش صفحہ ۲۳۰ وغیرہ)۔
انہی خیالات کی بنا پر مولوی صاحب کی مذکورہ بالا دلیل بھی قائم ہے بلکہ مولانا تو اپنے استادوں پر بھی سبقت لے گئے ہیں۔ چنانچہ داؤد جواربی سے حکایت ہے ۔’’ انہ تعالیٰ اعفونی عن الفرج اللحیة واسا لونی عمادرا ء ذالکہ وقال ان معبود ہ جسمہ ولحمہ ومعلہ وجوارح راعضہاء من یدرجل وراس ولسان وعینین واذ نین‘‘ یعنی’’وہ کہتا تھاکہ لحیہ اور فرج کے سوال سے تو معاف رکھو (یعنی یہ نہ پوچھو کہ خداکی داڑھی ہے یا نہیں اور علامت ِ رجولیت اور اناثیت ہے کہ نہیں )اور جو چاہو پوچھ لو۔ اس کا یہ بھی مقولہ ہے کہ خدا کا جسم بھی ہے۔ گوشت بھی ہے ۔ خون بھی ہے اور اعضا ء جوارح بھی ہیں۔ ہاتھ، پیر ، سر ، زبان ، آنکھیں ، کان سبھی کچھ ہیں ۔‘‘پس جہاں مولوی صاحب کے استاد نے کہا تھا کہ خدا کی رجولیت اور انا ثیت کے سوال کا جواب دینے سے مجھے معاف کرو، وہاں مولوی صاحب کی دلیل کی بنیاد صاف ثابت کرتی ہے کہ مولوی صاحب کے خیال میں یہ علامت بھی موجود ہوسکتی ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جب تک خداکی ابوت میں یہ تصور نہ ہو وہ کسی کا اَب نہیں کہلاسکتا ۔‘‘ اسی قسم کی دلیل کو سن کر کسی شاعر نے کہا ہوگا۔
عقل ہر چند فضائل نیست
جہل ہم خالی ازدلائل نیست
(۲)
سورگباشی مرزا غلام احمد قادیانی اپنے بلند آہنگ دعاوی ٰسے پہلے اپنے عام عقائد کے اعتبار سے وہابی تھے اور خدا کی جسمانیت کے قائل تھے ۔ جب آپ پر نبوت کا رنگ چڑھا اور آپ سودیشی بنی بنے بمصداق ’’ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑھا‘‘ آ پ وہابیوں سے بھی بڑھ چڑھ کر خدا کی جسمانیت کے قائل ہو گئے۔
چنانچہ آپ کے چند کشف اور الہام ملاحظہ ہوں:
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ بعینہ الله ہوں ۔ میں نے یقین کرلیاکہ میں وہی ہوں۔ اورنہ میرا ارادہ باقی رہا او رنہ خطرہ ۔ الله تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہوگیا تو میرا غصہ اس کا غصہ ہوگیا۔ میرا حلم اس کا حلم ہوگیا۔ میری حلاوت اور تلخی اس کی حلاوت اور تلخی ہوگئی۔ اورمیری حرکت وسکون اسی کی حرکت وسکون ہوگئی اور جب میں اس حالت میں مستغرق تھا تو میں یوں کہہ رہا تھاکہ اب ہمیں اپنا نظام ِ جدید پیدا کرنا چاہیے اور نئی زمین بنانی چاہیے تو میں نے آسمان وزمین بالا جمال پیدا کئے جن میں کوئی ترتیب وتفریق نہ تھی۔۔۔ اس طرح سے میں خالق ہوگیا‘‘ (آئینہ کمالات ِ اسلام صفحہ ۵۶۴تا ۵۶۴)۔
شائد کوئی کہے کہ یہ تو محض خواب تھا لیکن معترض کو جاننا چاہیے ، کہ سورگباشی مرزا جی کے خواب بھی اپنے اندر ظاہری اور مادی واقعیت کا رنگ رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ اپنی مایہ ناز کتاب حقیقت الوحی میں لکھتےہیں ’’ ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خدا تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیشنگوئیاں لکھیں جن کا یہ مطلب تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں۔ تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور الله تعالیٰ نے بغیر کسی تامل کے سرخی کی قلم سے اس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پرجھاڑدیتے ہیں اور پھر دستخط کردئیے اور میرے پراس وقت نہایت رقت کا عالم تھا ا س خیال سے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کا میرے پر فضل اور کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلا توقف الله تعالیٰ نے اس پرد ستخط کردئیے اور اسی وقت میری آنکھ کھل گئی ۔ اور اس وقت میاں عبد الله سنوری مسجد کے حجرے میں میرے پیر دبارہا تھا کہ اسکے روبرو غیب سے سرخی کے قطرے میرے کرتے اور اسکی ٹوپی پر بھی گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سرخی کے قطرے گرنے اور قلم کے جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا۔ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا۔۔۔ میں نے یہ سارا قصہ میاں عبدالله کو سنایا اور اس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبدالله جو اس رویت کا گواہ ہے اس پر بہت اثر ہوا اور اس نے میرا کرتہ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیا جو اب تک اس کے پاس موجود ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ ۲۵۵: اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزا جی خدا کی جسمانیت کے قائل تھے۔ چنانچہ گو آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقی طور پر یہاں کاغذ بھی ہے۔ سرخ روشنائی بھی ہے ۔قلم بھی ہے۔ خدا قلم کو ہاتھ سے چھڑکتا بھی ہے۔ خدا کے دستخط بھی ہیں اور گوروجی کے کرتے اور چیلے کی ٹوپی پر سرخ رنگ کے مادی دھبے بھی واقعی اور حقیقی ظاہر ی طور پر موجود ہیں۔
_______________
1ناظرین سورگباشی’’ سلطان القلم ‘‘کی اردو ملاحظہ فرمائیں۔ قادر الکلام صاحب ِ وحی نے مذکر کو مونث بنادیا ہے (برکت الله )
ایک اور خواب میں آنجہانی فرماتے ہیں:
’’ ایک خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں ۔میں منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے۔اتنے میں جواب ملا کہ اے مرزا صبر کرہم عنقریب فارغ ہوتے ہیں۔ پھرایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ کچہری میں گیا ہوں تو الله تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور ایک طرف ایک سر رشتہ دار ہے کہ ہاتھ میں ایک مسِل لئے ہوئے پیش کررہا ہے ۔ حاکم نے مسل اٹھا کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے باریک نظر سے دیکھا کہ ایک کرسی اس کے ایک طرف خالی پڑی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے مجھے کہا کہ اس پر بیٹھو او راس نے مسل ہاتھ میں لی ہوئی ہے اتنے میں ، میں بیدار ہوگیا‘‘ ( البدر جلد دوم نمبر ۶ ۱۹۰۳ء ومکاشفات صفحہ ۲۸ تا ۲۹)۔
اس سے ظاہر ہے کہ سورگباشی کے خیال میں خدا جسم رکھتا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر کلرکوں کی امداد سے عدالت کرتاہے او مقدمات کے جھمیلوں میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ بصد مشکل اس کو بات کرنے کی فرصت ملتی ہے۔
شائد کوئی پھر کہے کہ یہ بھی خواب ہی تھا۔ پس ہم مرزا جی کے الفاظ سے ثابت کرتے ہیں کہ مرزا جی آئندہ جہان کے حالات اور باشندگان کو مادی اور جسمانی سمجھتے تھے۔ چنانچہ آپ ایک جگہ لکھتے ہیں : (نقل کفر کفر نباشد )
’’ میں اُسے (یعنی حضرت مسیح کو ) اپنا ایک بھائی سمجھتاہوں۔ اگر چہ خدا تعالیٰ کا فضل مجھ پر اُس سے بہت ہی زیادہ ہے اور وہ کام جو میرے سپرد کیاگیا ہے اس کے کام سے بہت ہی بڑھ کر ہے تاہم میں اس کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بار بار دیکھا ہے۔ چنانچہ ایک بار میں نے اور حضرت مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس لئے میں اور وہ ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں‘‘(ملفوظاتِ احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۱۹۹ مرتبہ محمد منظور الٰہی)۔
اس امر کا مزید ثبوت کہ مرزا جی خدا کی جسمانیت کے قائل تھے اس سے ملتا ہے کہ آپ خداکی زبان کے بھی قائل تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کے اعتقاد ( کہ وحی رسالت منقطع ہوگئی ہے )کے خلاف آپ یہ دلیل لاتے ہیں’’ کوئی عقلمند اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ؟ پھربعد اس کے سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا ؟ کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی ہے؟‘‘
(صفحہ ۱۴۵ ضمیمہ نصرة الحق )
خدا کی زبان تو الگ رہی مرزا جی کے خیال میں خدا تعالیٰ رجولیت کی قوت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ چنانچہ مرزا جی کے ایک مرید خاص قاضی یا ر محمد صاحب بی او ایل پلیڈر اپنے ٹریکٹ نمبر ۳۴ موسوم یہ اسلامی قربانی (مطبوعہ ریاض ہند پریس ۔ امر تسر ) میں لکھتے ہیں:
’’ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور الله تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ سمجھنے والے کے واسطے اشارہ کافی ہے ( استغفرالله ) پس مرزا جی ’’ خدا کا بیٹا ‘‘ ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں ( توضیح المرام صفحہ ۲۷ وغیرہ)تو وہ جسمانی معنوں میں ہی کرتے ہیں۔آپ کا مشہور الہام ہے انت منی بمنزلہ ولدی یعنی خدا کہتا ہے کہ اے مرزا تو مجھ سے ولد کے طور پر ہے یعنی تو مجھ سے ایسا رشتہ رکھتاہے جو میرے جسمانی بیٹے کی مانند ہے (حقیقت الوحی صفحہ ۸۶)۔ ایک اور الہام ہے انت منی بمنزلہ اولادی یعنی خدا کہتا ہے کہ تو میرے نزدیک بمنزلہ میری اولاد کے ہے (البشری جلددوم صفحہ ۶۵) اسی طرح کا ایک اور الہام ہے’’ اے مرزا ، تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہوگیا ہے۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال الله کے ہے‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی صفحہ ۱۴۳)۔ آپ کا ایک اور مشہور الہام ہے انت منی وانا منک (حقیقت الوحی صفحہ ۷۴)یعنی اے مرزا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں (معاذ الله ) ایک اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی پیش گوئی
کرتے ہوئے مرزا جی لکھتے ہیں کہ ’’فرزند ، دلبند ، گرامی ارجمند مظہر الاول وآخر مظہر الحق والعلا کان نزل من السماء یعنی وہ لڑکا ایسا ہوگا جیساکہ خود خدا آسمان سے اتر آیا‘‘۔ ایک اور دلچسپ الہام میں آپ لکھتےہیں ’’ انت منی بمنزل اولادی کقو لہ علیہ السلام الخلق عیال الله کقولہ تعد فاذکرو والله کذ کرابا ء کمہ یعنی خدا کو باپ کہہ کر پکا ر سکتے ہو‘‘( تفہیمات صفحہ ۶۴)۔
مذکورہ بالا چند اقتباسات اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سورگباشی مرزا جی نہ صرف خدا کی جسمانیت کے قائل تھے بلکہ مشرکین وکفار عرب کی طرح خدا کے جسمانی بیٹوں اور اولاد کے قائل تھے۔
(۳)
آمد برسر مطلب ۔آنجہانی مولوی ثناء الله صاحب اپنے عقیدہ جسمانیت ِ خدا کی وجہ سے حقیقت سے کوسوں دور چلے گئے ہیں۔ اگر قرآن ایسی کتاب ہے جو حکمت سے پرُ ہے۔ جیسا اس کادعویٰ ہے (یس آیت ) تو ظاہر ہے کہ اس کی دلیل ایسی ہونی چاہیے جو مخاطب کی پوزیشن کی قاطع ہو۔ پس واجب تو یہ تھا کہ قرآن کی ’’فلسفیانہ اور دقیق دلائل ‘‘ (کہ خدا کی اولاد کیسے ہوگی اس کی تو بیوی ہی نہیں )لانے سے پہلے مرحوم یہ ثابت کرتے کہ انجیل جلیل میں مقدسہ مریم بتول کو کسی مقام پر نعوذ باالله خدا کی بیوی کہا گیا ہے ۔ یاجمہور کلیسائے جامع کا کسی زمانہ میں اس قسم کا عقیدہ تھا۔ اگر آپ یہ شہادت پیش کرکے فرماتے کہ انجیل کے فلاں مقام میں لکھا ہے ۔ کہ خدا کی بیوی ہے اس لئے اس کی اولاد ہے۔ لیکن قرآن میں لکھا ہے کہ خدا کی اولاد کیسے ہوگی جب اس کی بیوی ہی نہیں تو ہم اس دلیل کی پختگی کو مان بھی سکتے ۔ کیونکہ اجتماع الضدین امر محال ہے۔ لیکن راقم السطور کو تو زیادہ وجود تلاش بسیار کلیسیائے جامع میں اس قسم کے خیال کا سراغ بھی کہیں نہیں ملا۔ او رنہ جناب مولوی صاحب کافر ض تھاکہ اپنی اس قرآنی دلیل کو قائم رکھنے کی خاطر ثابت کرتے کہ فلاں انجیل کی آیت یا فلاں وقت کی کلیسیا اس قسم کے مردود خیال کی حمایت کرتی ہے اور اگر وہ یہ نہیں کرسکتے تو وہ اس دلیل کی خامی کو مخلص مناظربن کر مان لیتے۔
اخفائے حقیقت سے کام لے کر آنجہانی مولوی ثناء الله صاحب مرحوم پادری علی بخش صاحب پر بہتان لگا کرکہتے ہیں کہ’’پادری علی بخش صاحب لکھتے ہیں کہ بعض مسیحیوں نے مریم کو ملکہ آسمانی اور خدا کی جورو کہا ہے ‘‘ (تفسیر جلد اول صفحہ ۱۳۲، صفحہ ۱۷)۔
جب ہم نے مرحوم کی تفسیر کو دیکھا تو اس میں بپاس خاطر قرآن یہ لکھا پایا۔ ’’ بعض مسیحیوں نے مقدسہ مریم کو ملکہ آسمانی کہا اور اس کے آگے سوٹیاں چڑھایا کرتے تھے۔ جس سے بعض جاہل مسیحیوں میں وہی غلط خیال پیدا ہوگیا ہوگا جس کی تردید قرآن میں کی گئی ہے کہ خدا کی کوئی جورو ہے اور وہ الوہیت رکھتی ہے۔ اس لئے تثلیث کاجزو ہے۔ مقدس انجیل بھی غلطیوں کی تردید کرتی ہے۔‘‘ کہاں مولوی صاحب کا یہ یقینی قول کہ مرحوم کے مطابق ’’ بعض مسیحیوں نے مریم کو خدا کی جورو کہا ہے‘‘ او رمرحوم کا اصل قول کہ شائد ’’ بعض جاہل مسیحیوں میں وہی غلط خیال پیدا ہوگیا ہوگاکہ خدا کی کوئی جورو ہے۔‘‘ جس کی تردید مقدس انجیل میں موجود ہے کجا مولوی صاحب کا اس ظن باطل کو ایک تاریخی امر واقعہ قرار دینا اور کجا مرحوم کا اس کو زیادہ سے زیادہ امکان کی حد سمجھنا ،اورپھر مولوی صاحب کا اس سفید جھوٹ کو اپنی’’ فلسفیانہ اور دقیق دلیل‘‘ کی حمایت میں پیش کرنا۔
ع۔ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
ہمیں اسلامی مناظرین کی حالت پر ترس آتا ہے کہ انجیل کی تعلیم کے مقابلہ میں ان کے پاس قرآن کی دلیل ثابت کرنے کے لئے اتہام طرازی اور اخفائے حق کے اوچھے ہتھیاروں کےسوا اب اور کچھ نہیں رہا۔
فصل دوم
اَبوُت ِ الٰہی کا مفہوم اور قرآن
حق تو یہ ہے کہ مولوی صاحب آنجہانی نے قرآنی آیت’’ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ‘‘(انعام ۱۰۱)کو اس سلسلہ میں پیش کرکے قرآن پر ظلم کیا ہے اور دیدہ دانستہ خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ قرآن مجید نے یہ دلیل مسیحی تصور ِ خدا کے خلاف کبھی پیش ہی نہیں کی تھی۔ مرحوم مولانا ئے امرتسری کو قرآن دانی اور تفسیر نویسی پر اس قدر ناز تھا کہ آئے دن بچارے خلیفہ قادیان کو للکارتے رہتے تھے۔ لیکن آپ کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ آیہ زیر بحث کس موقع اور محل پر نازل ہوئی تھی اور اس کا کیا مطلب ہے۔
گر تو قرآں بدیں قمط خوانی
ببری رونق مسلمانی
حقیقت یہ ہےکہ اس آیت میں قرآن بت پرست کفار مکہ کے مشرکانہ خیالات کی تردید کرتاہے۔ جس طرح ہندوؤں کے پرانوں اور دیگر مشرکانہ کتابوں میں دیوتاؤں اور دیویوں کےاختلاط ، صحبت ، مجامعت، اولاد وغیرہ کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اسی طرح عرب کے مشرکین جولات، منات اور عزیٰ وغیرہ دیوی اوردیوتاؤں کو مانتے تھے یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے دیوتاؤں کی بیویاں ، بیٹے اور بیٹياں تھیں او ریہ اولاد جسمانی طورپر ان سے پیدا ہوئی تھی ۔ پس ان مشرکانہ خیالات کے خلاف سورہ انعام میں قرآن مجید کہتا ہے ’’ یہ (مشرکین) جنات کو الله کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ حالانکہ اسی نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اور بے سمجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹياں تراشتے ہیں۔ وہ پاک ہے اور ان باتوں سے وہ بناتے ہیں۔ بہت دور ہے۔ وہ آسمان وزمین کا موجد ہے۔ اس کے بیٹا کیوں کر ہوگیا۔ حالانکہ اس کے کوئی جورو نہیں ہے اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا ۔ اور وہ ہر شے سے واقف ہے۔ یہ ہے الله تمہارا رب اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘‘ (آیات ۱۰۰، ۱۰۲)۔
جب مولانا کی قرآن فہمی کا یہ حال تھا تو معلوم نہیں آپ قلم اٹھان کی تکلیف ہی کیوں کرتے تھے۔
سینہ گرم نداری مطلب صحبت عشق
آتشتے نیست چودر محمرہ ات عود مخر
آپ نے اس آیت کو جو واضح الفاظ میں بت وبت پرستی کے خلاف ہے مسیحی تصور خدا کے خلا ف پیش کرکے اپنی کوتاہ غلطی اورکوتاہ علمی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ نہ تو انجیل جلیل اور نہ مسیحی کلیسیا کبھی اس قسم کے مشرکانہ خیالات کے نزدیک پھٹکی جن کی تردید مندرجہ بالاآیات قرآنی میں کی گئی ہے ۔ انصاف پسند ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگاکہ مولوی صاحب کا اس آیت کو پیش کرنا یا تو آپ کی عدم واقفیت قرآن پردلالت کرتاہے اوریاپھرآپ کی دیدہ ودانستہ خیانت کا کھلا ثبوت ہے۔ اور آپ نے ابن یہود کے نقش قدم پر چل کر قرآنی آیات کو ’’ ان کے ٹھکانے سے بے ٹھکانہ کر‘‘ دیا ہے۔ یحرفون الکلمہ من مواضعہ (نساء آیت ۴۸، مآئدہ ۴۵)۔
(۲)
مولوی ثناء الله صاحب فرماتے ہیں کہ الفاظ باپ بیو ی اور بیٹا اضافی ہیں۔ پس ان میں سے کسی ایک کے تصور کے لئے دوسرے دوکاوجود لازم آتا ہے لیکن قرآن آپ کی اس فلسفیانہ اور دقیق دلائل ’’کی حمایت نہیں کرتا دیکھئے جب ام لمومنین مقدسہ مریم بتول کے پاس خدا نے فرشتہ بھیجا۔ اور اس نے آپ کو خوشخبری سنائی کہ حضرت کلمتہ الله آپ کے بطن سے پیدا ہونگے تو آپ نے فرمایاکہ’’ اے میرے رب ۔ میرے لڑکا کیونکر ہوگا، حالانکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ۔‘‘ فرمایا ! یہ کام مجھ پر آسان ہے۔ اسی طرح الله جو چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ وہ جب کوئی کام ٹھہراتا ہے تو صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا۔ سوہ وہ ہوجاتا ہے‘‘(سورہ مریم ع ۲۔ آل عمران ع ۵)یہاں قرآن مجید نہایت واضح طور پر مولوی صاحب کی دلیل کو کاٹ کر بتلاتا ہے کہ بیٹے کے تصور کے لئے باپ کا وجود لازم نہیں ہے۔ اور انجیلی عقیدہ تو یہ مانتا ہی نہیں کہ خدا آسمانی معنوں میں کسی کا باپ ہے۔ کیا معترض کی قوت ِ متخیلہ اس قدر گری ہوئی ہے کہ وہ خدا کے اَب کا تصور بغیر جسمانی مطلب کے سمجھ ہی نہیں سکتے؟
قرآن مجید سے ظاہر ہے کہ الفاظ’’ اب ‘‘ ،’’ابن‘‘ ،’’ اُم‘‘ (باپ ، بیٹا ، ماں، کے تصور کے لئے حقیقی جسمانی تعلق کی ضرورت ہی نہیں۔
چنانچہ قرآن صاف فرماتا ہے کہ ’’ الله نے تمہاری بیویوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو تمہاری سچی ماں نہیں بنایا اور نہ تمہارے لے پالک بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا ٹھہرایا ۔ یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں اور الله سچ فرماتاہے ۔۔۔ نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائيں ہیں‘‘ (احزاب ع ۱)۔کیا ان آیات کی موجودگی آپ کےقیاس کے ’’خیالی قلعے پربم کا اثر ‘‘نہیں کرتی ؟ آپ تو ماشا ء الله مفتی ہیں آپ کو تو معلوم ہی ہوگا ۔ کہ ان آیات کی روسے اسلام میں صلبی بیٹے کی بیوی حرام ہے۔ لیکن لے پالک کی بیوی حرام نہیں بلکہ لے پالک تو کسی کا وارث بھی نہیں ہے۔
قرآن میں حضرت رسول عربی کے چچا کو جس کا اصلی نام عبدالعزیٰ تھا۔’’ ابو لہب‘‘ یعنی شعلہ کا باپ کہا گیا ہے۔ کیا شعلہ کی کوئی بیوی یا بیٹا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو آپ کےدعوےٰ کا کیا حشر ہوا کہ خدا کسی کا باپ نہیں کیونکہ ’’ جب تک کسی شخص کی ابوت میں ان تینوں مفہوموں کا تصور نہ ہو وہ کسی کا اب نہیں کہلا سکتا ‘‘ سچ ہے قولکمہ بانوا ھکمہ والله یقول الحق ۔
قرآن میں آٹھ مقامات میں راستہ کے مسافر کے لئے لفظ ’’ ا بن السبیل‘‘یعنی سڑک کا بیٹا وارد ہوا ہے (بقرہ ۱۷۲ وغیرہ)اب ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیا کوئی مسافر لفظی معنوں میں سڑک کا بیٹا ہوسکتا ہے اور کیا سڑک کی کوئی جورو بھی ہوتی ہے ؟
اسی طرح قرآن نے اپنے واسطے لفظ’’ام الکتاب‘‘ تجویز کیا ہے (آل عمران ۵، انعام ۹۲) اور مکہ کے شہر کو ’’ام القریٰ‘‘کہا ہے۔ اب ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیا یہاں کوئی جنسی پہلو مراد ہوسکتا ہے؟
بخاری نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کو اپنا نام ’’ابو تراب‘‘ بہت پسند تھا اور اگر کوئی شخص آپ کو اس نام سے پکارتا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے۔ وجہ تسمیہ یہ ہےکہ ایک روز آپ حضرت فاطمہ سے کچھ ناخوش ہوکر مسجد میں تشریف لے آئے ، اور وہیں سوگئے ، رسول الله تشریف لائے اورخود بہ نفس نفیس آپ کے بدن مبارک سے مٹی پونچھتے جاتے تھے کہ اٹھو ’’ ابو تراب‘‘ (یعنی مٹی کے باپ)۔
دنیا بھر کے مسلمان حضرت رسول عربی کے مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ کے نام سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ ان سے اتنی حدیثیں مروی ہیں کہ کسی دوسرے شخص نے اس کثرت سے روایات بیان نہیں کیں۔ چونکہ آپ بلی سے محبت رکھتے تھے آپ کا نام ابوہریرہ پڑگیا اور ایسا مشہور ہوگیاکہ عوام الناس ان کا اصلی نام بھی نہیں جانتے ۔ کیا آپ بلی کے حقیقی باپ کسی طرح ہوسکتے تھے ؟اورکیا بلی کی ماں آپ کی بیوی ہوسکتی تھی؟ علی ہذا القیاس عربی فارسی اردوزبانوں میں اس قسم کے بیسیوں الفاظ مستعمل ہوتے ہیں۔مثلاً ابن لعنب ، بنت النعب (بمعنی انگوری شراب) ۔ دخت رز، ابو لمنھا ،
(شراب) ابن الوقت (زمانہ ساز)، ابنائے زمانہ ، ابو الشفا(شکر) بنت الحجر (جل پری) وغیرہ جو استعاروں کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کسی صحیح العقل شخص کے خواب وخیال میں بھی نہیں آتا کہ ان الفاظ کے لفظی معنی لیں۔
سچ تو یہ ہےکہ ارباب دانش ایسے مضحکہ خیز دلائل سے اپنی روزانہ زندگی میں قائل نہیں ہوسکتے ۔ ہر فرقہ کے بزرگ روزانہ بات چیت میں بیسیوں کوپیار کی رو سے بیٹا کہتے ہیں۔ اور اس لفظ سے ان کی مراد ہرگز نہیں ہوتی کہ وہ سب کے سب ان کے صلبی بیٹے اور شرعاً ان کی جائدا د کے وارث ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ معترض انجیل جلیل کی تعلیم پر اعتراض کرتے وقت معمولی عقل کو بھی استعمال کیوں نہیں کرتے؟ کاش کہ آنجہانی اپنے قدیم حریف سورگباشی دیا نند جی کے قول پر ہی دھیان دیتے کہ ’’ جہاں معنی میں غیر امکان ہو وہاں مجاز ہوتاہے‘‘ (رک وید آدی بھاشیہ بھومکا صفحہ ۱۰۰)۔
آپ نے یہ دلیل دیتے وقت قرآن کو کیوں بالائے طاق رکھ دیا ۔ جس میں لکھا ہے کہ لیس کمثلہ شی کہ خدا کی مثل کوئی چیز نہیں۔ مسلمان مناظروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے گہرے سے نہ صدف سے
کسی نے حضرت مولانا روم کی مثنوی کی نسبت کہا ہے
ع۔ ہست قرآن درزباں پہلوی
مولوی ثنا ء الله صاحب نے مثنوی شریف کو دیکھا ہوگا آپ نے اس مشہور عالم کتاب میں یہ شعر بھی پڑھا ہوگا ۔
اولیاء اطفال حق اندائے پسر
درحضور وغیبت آگاہ باخبر
آپ اس پر غور کرکے اپنی دلیل کی بنیادی غلطی کو جان سکتے تھے لیکن جس شخص کی عقل مسجد کے مکتب کی چار دیواری سے باہر پرواز کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ وہ ان رموز کی روحانیت کی بلندیوں کو کب پہنچ سکتا ہے؟
(۳)
اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن شریف میں متعدد آیات موجود ہیں جن میں اس بات کا بارہا اعادہ کیا گیا ہےکہ خدا کی کوئی اولاد نہیں۔ سورہ اخلاص میں بتاکید آیا ہے کہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ یعنی خدا نے نہ تو کسی کو جنا ہے اور نہ وہ خود کسی سے جنا گیا ہے۔ ان تمام آیات میں لفظ ولد استعمال ہوا ہے پس یہ سب کی سب آیات کفار ِ مکہ کے مشرکانہ باطل عقیدہ کے خلاف ہیں اور ان سب کا روئے سخن کفار عرب کی طرف ہے جو یہ مانتے ت
تھے کہ عام انسانوں کی مانند ان کے معبودوں کے ہاں بھی بیٹے بیٹياں جسمانی طور پر پیدا ہوئیں (سورہ صافات ۱۴۹، طور ۳۹، زخرف ۱۵وغیرہ)۔ ان بت پرستوں کے خلاف قرآنی آیات میں اس بات پر زور دیا گیا ہےکہ خدا نے کسی کو نہیں جنا اور اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہوسکتی ہے۔
ناظرین پر آگے چل کر واضح ہوجايئگا کہ انجیل جلیل کی بھی یہی تعلیم ہے کہ خدا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوسکتی اور اس کی ذات ایسے امور سے پاک منزہ اور بالا ہے پس یہ آیات مسیحی عقیدہ کے خلاف پیش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ صرف مشرکانہ عقیدہ کے خلاف دلیل ہوسکتی ہیں لیکن مشرکانہ عقیدہ اور انجیلی تعلیم میں بعد المشرقین ہے۔ ہاں یہ آیت مرزائی عقیدہ کے خلاف پیش کی جاسکتی ہیں کیونکہ جیسا ہم اوپر بتلا چکے ہیں۔ سورگباشی مرزا جی ا س مشرکانہ عقیدہ کے بیرو نظر آتے ہیں اور اپنے الہامات میں جا بجاوہی لفظ (ولد) استعمال کرتے ہیں جس کے خلاف قرآن جہاد کرتاہے۔
قرآن تین مقامات میں حضرت مسیح کا ذکر کرکے کہتا ہےکہ مسیح خدا کا بیٹا نہیں (مریم ۷، توبہ ۳۱، نساء ۱۶۹)، لیکن یہ مقامات خود ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن حضرت مسیح کے لئے یہ لفظ’’ خدا کا بیٹا ‘‘ اس واسطے پسند نہیں کرتا کیونکہ اس کو یہ خدشہ دامنگیر تھاکہ مبادا کفارِ عرب اس لفظ کو جسمانی معنوں میں سمجھ کر خیال کریں کہ جس طرح ان کے معبودوں کےہاں بیٹے ہیں اسی طرح خداکا بھی کوئی بیٹا مسیح ہے پس قرآن اصطلاح ’’ ابن الله‘‘ کو ترک کرکے ایک اور اصطلاح وضع کرتاہے جو اس کے خیال میں انجیلی مفہوم کو بدرجہ احسن ادا کرتی ہےیعنی روح الله کی اصطلاح چنانچہ قرآن عیسائیوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے’’اے اہل کتاب ۔۔۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم الله کا رسول ہیں اور خدا کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف ڈالا ۔ وہ روح ہیں جو خاص خدا کی طرف سے اس دنیا میں آئے‘‘ (سور نساء ۱۶۹) ۔
یہاں قرآن کا روح الله سے وہی مطلب ہے جو انجیل میں روح الله سے ہے۔ دونوں کا مطلب واحد ہے۔ صرف اصطلاحات دو ہیں گو قرآن لفظ ابن کا استعمال نہیں کرتا لیکن اسکے معنی کو سروک نہیں گردانتا ۔ دونوں صحفِ سماوی کا واحد مطلب یہ ہے کہ مسیح کو فرق البشریٰ مقام حاصل ہےگو آپ بشر تھے۔ کوئی دوسرا خاکی بشر اس مقابلہ تک نہیں پہنچا اور نہ پہنچ سکتا ہے (دیکھو میرا رسالہ’’ مسیح ابن مریم کی شان ‘‘)۔
پس اگرچہ قرآن انجیلی اصطلاح ابن الله سے گریز کرتا ہے لیکن وہ کسی مقام میں بھی اس اصطلاح کے اس اصلی اور حقیقی مفہوم کی مخالفت نہیں کرتا جو انجیل جلیل میں پایا جاتا ہے۔ جس کو آگے چل کرہم انشاء الله وضاحت کےساتھ بیان کرینگے ۔ اس نکتہ کو واضح کرنے کے لئے ہم ایک قرآنی آیت کو پیش کرتے ہیں جو سورہ مائدمیں ہے۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاء وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِل َيْهِ الْمَصِيرُ
یعنی ’’یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے پیارے ہیں ۔ تو ( اےمحمد) ان سے کہہ کہ پھر وہ تمہارے گناہوں کےسبب تم کو عذاب کیوں کرتا ہے؟ نہیں۔ تم انسان ہو اور خدا نے جو اور بشر پیدا کئے ہیں ان میں سے بشر تم بھی ہو۔ خدا جسے چاہے عذاب دیتا ہے ۔ آسمانوں اور زمین اورجو کچھ ان دونوں میں ہے سب پرالله ہی سلطنت کرتا ہے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے‘‘( آلمائدہ آیت ۱۸)۔
دیکھئے اس مقام میں قرآن مسیحی اصطلاح ’’خدا کے بیٹے ‘‘کے اصلی مفہوم پر اعتراض نہیں کرتا اور نہ دلیل لاتا ہے کہ ’’ خدا کی اولاد کیسے ہوگی؟ اس کی توبیوی ہی نہیں۔‘‘ اگر اس کو اس اصطلاح کےمفہوم پر اعتراض کرنا مقصود ہوتا تو یہ مقام تھا جب وہ صریح اور واضح الفاظ میں اس کے اصلی مفہوم
_______________
2یہاں پرامر قابل ذکر ہے کہ اناجیل اربعہ کے عربی ، فارسی اور اردو ترجموں میں جہاں کہیں خداوند مسیح کی ابنیت کا ذکرآتا ہے وہاں لفظ ولد وغیرہ کا استعمال نہیں کیاگیا ۔ جس سے جسمانیت کی بو آتی ہے۔ برکت الله۔
کے جواز کا انکار ایسے الفاظ میں کرسکتا تھا کہ جن میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش ہی نہ رہتی۔ کیونکہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک واضح کتاب ہے (حجر آیت ۱وغیرہ)اور کہ وہ حقائق کی نسبت تفصیل سے کام لیتا ہے (حم سجدہ آیت ۲)لیکن وہ اس مقام پر اس مفہوم کی صداقت کا نہ انکار کرتاہے اور نہ اس کی مذمت کرتاہے ۔ حق تو یہ ہے کہ اس کو انجیلی مفہوم (یوحناباب ۱،آیت ۱۲، افسیوں باب ۱، آیت ۵، ۲ ۔پطرس باب ۱ ،آیت ۴ وغیرہ ) پر اعتراض کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ کیونکہ وہ بار بار اعتراف کرتاہے کہ وہ انجیل جلیل کا مصدق ہے (مائدہ ع ۷، ۱۰۔ بقر ع ۵، ۱۱۔ انعام ع ۱۱۔ نسا ع ۶وغیرہ)۔
اس مقام پرانجیلی اصطلاح سے جو مطلب آپ اخذ کرتے ہیں وہ بھی قرآن مجید نہیں لیتا۔وہ یہاں یہود ونصاریٰ کو یہ نہیں کہتا کہ تم سمجھتے ہو کہ تم خدا کے بیٹے دیوتا ہو یا دیوتا صفت ہو اور الوہیت میں شریک ہو لیکن تم محض بشر ہو۔ اگر وہ اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں کرتا تو یہود ونصاریٰ بھی کفار ِ قریش کی مانند’’ قرآن کو جھک جھک ‘‘ ٹھہراتے (فرقان ع ۳) کیونکہ دونوں مذاہب کے پیروکٹر موحود تھے۔
حقیقت یہ ہےکہ قرآن مجید بھی یہود ونصاریٰ کو اس مقام میں بعینہ وہی بات کہتاہے جو صحائف ِانبیاء اور انجیل میں لکھی ہے ۔ اہل یہود خداکی برگزیدہ قوم تھے (پیدائش باب ۱۲، آیت ۱۳، یرمیا ہ باب ۳۱،آیت ۹وغیرہ)۔اس برگزیدگی کا اصلی مطلب یہ ہےکہ خدا نے ان کو اقوام ِ عالم میں سے چن لیاتھا۔ تاکہ وہ ذات وصفات الٰہی کےعلم کو تمام دنیا میں پھیلانے کا وسیلہ ہوں (یسعیاہ باب ۴۹، آیت ۱تا ۱۳، وباب ۶۱ وغیرہ)لیکن جب اس قوم میں روحانی زوال آیا تو یہود اپنی برگزیدگی کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ وہ خدا کے خاص منظور ِ نظر ہیں اور چونکہ خدا ان کا طرفدار ہے ان سے کسی قسم کی کوئی باز پرس نہ ہوگی (یرمیاہ باب ۲۶ وغیرہ) لیکن خدا وقتا ً فوقتاً انبیاء کے ذریعہ ان پر یہ ظاہر کرتا رہاکہ ان کا یہ خیال باطل ہے (حزقی ایل ۱۵،آیت ۶تا ۷، استثناباب ۱۰، آیت ۱۷۔ یرمیاہ وغيرہ)۔ انجیل جلیل میں بھی آیا ہے کہ حضرت یوحنا اصطباغی (حضرت یحییٰ) نے اہل یہود سے فرمایا’’ تم توبہ کے موافق پھل لاؤ اور اپنے دلوں میں یہ مت کہو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے (ہم کو کیا خدشہ ہوسکتا ہے )خبردار ہوجاؤ۔ اب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھاہوا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے‘‘ (متی ۳۔ آیت ۸)۔ حضرت کلمتہ الله نے بھی ان کے خیال وافعال پر ملامت کرکے ان کو ان کی برگزیدگی کا صحیح مفہوم بتلایا اور ان کے گناہوں کا اور ان کی سزا کا ذکر فرمایا اور با ربار ان کو ان کے ہولناک انجام پر مطلع فرمایا(یوحنا ۸باب ، متی ۲۳باب ، لوقا ۱۳، آیت ۱۷، باب ۲۱ وغیرہ) جناب مسیح کے رسول بھی مسیحیوں کواہل یہود کے حسرتناک انجام کو یاد دلاکر ان کو عبرت دیا کرتے تھے او رکہتے تھے کہ ’’ خداکسی طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اس سے ڈرتا اور راستبازی کرتاہے وہ اس کو پسند ہے‘‘ ( اعمال باب ۱۰، آیت ۳۵۔ ۱ پطرس ۱آیت ۱۷وغیرہ ) مقدس پولوس رسول بھی مسیحیوں پر اس امر کو بار بار واضح کرتے ہیں (رومیوں باب ۱۲، آیت ۱۱، باب ۱۰، افسیوں باب ۶،آیت ۹۔ کلسیوں باب ۳، آیت ۱۱تا ۱۵ وغیرہ)اور اہل یہود کی سزا کو مقام ِ عبرت بتلاتے ہیں (رومیوں باب ۱۱،آیت ۱۷، ۲۴ وغیرہ)۔
پس اس مقام میں قرآن شریف بھی انجیل جلیل کی طرح یہود ونصاریٰ کو ان کی برگزیدگی اور بلاوے کاصحیح مفہوم بتلا کر ان کو کہلاتا ہے کہ ’’ تم خدا کے بیٹے اور اس کے برگزیدہ تو ہولیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم اس کے منظور نظر ہو، یا د رکھو کہ تم بھی خدا کی دیگر مخلوق کی مانند انسان ہو۔ جب تم گناہ کرتے ہو تو وہ تم کو عذاب دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے اخلاقی قوانین آسمان اور زمین اور مافہیا پر حکمران ہیں۔ اور اگر تم توبہ کر و توخدا بخشنہار ہے‘‘(المائدہ آیت ۲۱)۔
باب دوم
اَبوُتِ الٰہی کا مفہوم اور یہودی خیالات
عہد ِعتیق اور اَبوتِ الٰہی
کتب عہد عتیق میں جا بجا آیا ہے کہ قوم بنی اسرائيل خداکی برگزیدہ قوم ہے اور بنی اسرائیل خداکی ابوت سے مراد اپنی قومی برگزیدگی لیتے تھے۔ خدا بنی اسرائيل کا من حیث القوم باپ تھا۔
(خروج باب ۴، آیت ۲۲، ہوسیع باب ۱۱، آیت ۱، باب ۱ آیت ۱۰)۔ کیونکہ خدا نے اپنے فضل کی وجہ سے اس کو اقوام عالم میں سے چن کرایک ایسی قوم بنادیا تھا جس نے اوراقِ تاریخ عالم میں اپنے لئے نام پیدا کرلیا تھا۔(استثنا باب ۳۲، آیت ۶۔ یسعیاہ باب ۶۴، ۷تا ۸، یرمیاہ باب ۳۱، آیت ۹۔ ملاکی ۱، آیت ۶، باب ۲، آیت ۱۰وغیرہ)۔ بنی اسرائیل کے خیال کے مطابق خدا دیگر اقوام عالم کا حکمران اور خالق تھا۔ لیکن وہ ان کا باپ نہیں تھا۔ وہ صرف اپنی خاص برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کا حکمران خالق اور باپ بھی تھا۔
اہل یہود کی اس ذہنیت کو ہم ملک ِ چین کے خیالات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بیسیویں صدی سے پہلے ملک ِ چین کے بادشاہ اور لوگ اپنے آپ کو بلند ترین اور اعلیٰ ترین قوم اور برگزیدہ نسل تصور کرتے تھے اورکل دنیا کے ممالک واقوام کو بہ نظر حقارت دیکھتے تھے۔ وہ چین کو خداداد ملک تصور کرتے تھے اور چین کی حدود کے باہر دنیا کو وحشی اور غیر مہذب خیال کرکے ان سے کسی قسم کا سروکار نہیں رکھتے تھے۔ چونکہ وہ ان اقوام کو اچھوتوں کا درجہ دیتے تھے لہذا وہ ان کے خیالات ، رسمیات اور معتقدات وغیرہ سے کنارہ کرتے تھے۔
یہود کی اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہواکہ وہ بیرونی ممالک واقوام کے حالات سےکلیتاً ناواقف تھے اور مغربی اور ایشیائی اقوام وممالک کے علوم و فنون ، آلات حرب وغیرہ سے بے بہرہ اور نا بلد تھے۔ اور اپنی کھال ہی میں مست رہتے تھے ۔ پس جب کبھی یہ ممالک واقوام پر چڑھائی کرتے تو اور شکست پر شکست کھاتےتھے۔
(۲)
ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عہد عتیق کی کتب مقدسہ میں جس مقامات میں خدا کی پدرانہ شفقت کا ذکر آیا ہے (زبور ۶۸: ۶، ۱۰۳: ۱۳، یرمیاہ ۳۱: ۹)۔ وہ محض تمثیلی اور تشبیہی طور پر کہا گیا ہے (استثناباب ۱، آیت ۳۱۔ باب ۸آیت ۵)۔ ان مقامات کا یہ مطلب نہیں کہ خدا بنی اسرائيل کے ہرفرد کا باپ تھا ۔ وہ فقط قوم بنی اسرائیل کامن حیث القوم باپ تھا۔ یہودی کتب مقدسہ میں دو مقاموں میں خدا کو بنی اسرائیل کے بادشاہ کا باپ کہاگیاہے۔ (۲ سیموئيل ۷، آیت ۱۴۔ زبور ۸۹۔آیت ۲۶تا ۲۷)لیکن یہ محض اسلئے کہا گیاہے کیونکہ ان کا بادشاہ قوم کا سر اور نمائندہ ہونے کی حیثیت رکھتا تھا لہذا ان کتب میں خداکی ابوت کا مفہوم صرف یہود کی برگزیدہ قوم یا اس قوم کے سردار اور بادشاہ تک ہی محدود تھا۔
پس یہ ظاہر ہے کہ یہودی کتب مقدسہ خدا کی عالمگیر ابوت کی قائل نہیں تھیں جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ انسانی اخوت کی بھی قائل نہ تھیں۔ اہل یہود کو حکم تھا کہ ’’ تو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ‘‘( احبار باب۱۹، آیت ۱۸)۔ لیکن وہ فقط’’ پڑوسی ‘‘ سے مراد صرف قوم بنی اسرائیل کے افراد لیتے تھے یا وہ ’’پردیسی جوان کے درمیان رہتا ہو‘‘ (آیت ۳۴) یعنی جو غیر یہودی مذاہب کو تر ک کرکے یہودی مذہب کا پیرو ہوگیا ہو۔ تمام یہودی لٹریچر می
میں یہ کہیں نہیں پایا جاتا ۔کہ اقوام عالم کے لوگ اسرائیل کی مانند خدا کے فرزند ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ ہم کو اس بات کا نشان بھی نہیں ملتا کہ خداروئے زمین کی قوموں کا باپ ہے اور دنیا کے افراد سے بچوں کی طرح محبت کرتا ہے ۔ جو روزانہ نماز اہل یہود پڑھتے ہیں۔ وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ان کو ’’غیر اقوام‘‘ میں پیدا نہیں کیا ہے۔ہر تہوار کے دن نماز کے دوران میں وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ ا س نے قوم اسرائيل کو اقوام ِ عالم سے ایسا لگ کرلیا ہے جس طرح تاریکی نور سے الگ ہے اورپلیدگی پاکیزگی سے جدا ہے اور اس قوم کو روئے زمین کی اقوام میں برگزیدہ کرکے سرفراز فرمایا ہے۔ ان کی نماز میں ایک لفظ بھی نہیں پایا جاتا جس میں وہ خداسے یہ توفیق مانگی جائے کہ وہ ان کو اقوام عالم کی خدمت کرنے کی طاقت عطا فرمائے یا ان کو دنیا کے ہرگوشہ میں خدا کی ابوت کی منادی کرنے کی توفیق ملے۔
(۳)
گوٹنجن یونیورسٹی کے پروفیسر جریمائس کی شہر ہ آفاق کتاب ’’ انجیل کا مرکزی پیغام‘‘ کےپہلے لیکچر کا عنوان’’ اَبا‘‘ ہے۔ اس میں یہ عالم بے بدل لکھتاہے کہ عہد عتیق کے کسی ایک مقام میں بھی خدا کو کسی فرد کا باپ نہیں کہا گیا۔ ہاں خدا کو کل قوم اسرائیل کا باپ کہا گیا ہے (جیسا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں )۔ آنخداوند کے معاصر مصنف خدا کو قوم اسرائیل کا باپ بھی لکھنے سے جھجکتے تھے اور جب کبھی ان کو لکھنا پڑجاتا تھا تو وہ لفظ بادشاہ کو لفظ باپ سے ملاکر ’’ خدا ہمارا باپ اور بادشاہ ‘‘لکھا کرتے تھے پروفیسر مذکور لکھتاہے کہ ’’کوئی عالم کنعان کے یہودی مصنفوں کی کسی کتاب سے ایک مقام بھی پیش نہیں کرسکتا جہاں کسی ایک فرد نے بھی خدا کو’’میرا باپ‘‘ کہا ہو۔
یہ حقیقت صرف اہل یہود کی کتب مقدسہ تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک اوقوام کے مذاہب کی تاریخ میں کسی ایک واحد فرد نے خدا کو مخاطب کرکے’’ میرا باپ‘‘ نہیں کہا ۔ حضرت کلمتہ الله تاریخ عالم میں پہلے اور اولین فرد تھے جنہوں نے خدا کو’’ میرا باپ‘‘کہا۔ ابن الله نے اپنی تمام دعاؤں میں ہمیشہ بغیر کسی استثنا کے خدا کو ’’ میرا باپ‘‘کے لطیف الفاظ سے مخاطب فرمایا‘‘ (مرقس باب ۱۴، آیت ۳۶ وغیرہ)۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب کبھی آپ نے خدا کو ’’ میرا باپ‘‘ کہا آپ کبھی عبرانی زبان کے خاص رسمی لفظ کو ’’ جو یہودی کتاب الصلواة میں تھا)اپنی زبان مبارک پر نہ لائے بلکہ آپ نے وہی ارامی لفظ ’’ابا‘‘استعمال کیا جو یہودی بیٹے اپنے باپ کے لئے روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کیا کرتے تھے۔چنانچہ تلمود میں لکھا ہے کہ ’’ پہلے الفاظ جوبچہ بولنا سیکھتا ہے ‘‘وہ’’ ابا‘‘ اور’’ اماں ‘‘ ہیں۔ حضرت کلمتہ الله نے اپنے حوارین اور متعبین سے بھی فرمایا کہ جب تم دعا کرو تو کہو’’ اے ہمارے باپ‘‘ کیونکہ جتنوں نے ابن الله کو قبول کیا اس نے ان کو خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا (یوحناباب ۱، آیت ۱۲)۔ پس مسیحی کلیسیا ابتداہی سے آپ کےنمونہ اورحکم کے مطابق اپنی روزانہ دعاؤں میں خدا کے لفظ ’’باپ‘‘استعمال کرتی چلی آئی ہے۔ (رومیوں باب ۸، آیت ۱۵۔ گلتیوں باب ۴، آیت ۶وغیرہ)۔
اناجیل اربعہ میں لفظ’’ باپ ‘‘ (۱۷۰) ایک سو ستر دفعہ خدا کے لئے وارد ہوا ہے۔ ان مقامات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ امر صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ابن الله اس خطاب کے ذریعہ عالم وعالمیان پر اس لاثانی رشتہ کا مکاشفہ ظاہر کردیتے ہیں جو خدا باپ اور اس کے ابن وحید محبوب ربانی کےدرمیان رہا انشاء الله ہم آگے چل کر اس رشتہ پرروشنی ڈالیں گے ۔ یہاں ہم صرف ایک مقام کا اقتباس کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ ابن الله فرماتے ہیں’’ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپاگیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوابیٹے کےاور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہے‘‘( متی ۱۱: ۲۷، ۲۸، لوقا ۱۰: ۲۲)۔یہ الفاظ ابن الله کے صحیح اور اصلی مقام کو صاف طور پر واضح کردیتے ہیں اورہم پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ خدا باپ اور ابن الله کا باہمی رشتہ ایسا ہے جس کا احساس اور علم پہلے کسی انسان ضعیف البیان کے شان وگمان میں بھی نہ آیا تھا۔ ابن الله کے مبارک
الفاظ یہودیت کی تمام شرعی قیود کی باڑوں کو پھاند کر پار ہوجاتے ہیں کیونکہ ابن الله کی زندگی الوہیت کی زندگی تھی۔ اہل یہود ’’خدا کا بیٹا ‘‘ اور ’’ خدا کے بیٹے ‘‘ کے محاوروں سے بخوبی واقف تھے (یرمیاہ ۳۱ : ۹ وغیرہ) اور اس محاورہ کو شرک سے تعبیر نہیں کرتے تھے۔ خدا ان کی قوم کا باپ تھا کیونکہ یہود اس کے برگزیدہ بیٹے تھے۔ وہ ابنیت سے قومی برگزیدگی مراد لیتے تھے۔ لیکن ابن الله اس محاورہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس محاورہ کو استعمال کرکے اس خاص باہمی رشتہ کو جتلاتے تھے جو آپ خداباپ کے ساتھ رکھتے تھے۔ چنانچہ مقدس یوحنا لکھتے ہیں کہ ’’اس سبب سے یہودی اسے (خداوند مسیح کو) قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ۔۔۔ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کےبرابر بناتا تھا‘‘(یوحنا ۵: ۱۸۔ ۱۰: ۳۰ تا ۳۸ وغیرہ)۔
اہل یہود کی کتب مقدسہ میں لفظ ’’ باپ‘‘ خدا کی محض ایک صفت ہے۔ جس سے وہ رشتہ اور تعلق مراد ہے جو خدا اپنی برگزیدہ قوم اسرائیل سے رکھتا تھا۔ پس کتب عہد عتیق میں یہ لفظ اسماء الصفات میں سے ایک صفت کوظاہر کرتاہے وہ اسم الذات انہیں جو خدا کی ذات کی امتیازی خاصیت کو ظاہر کرے۔
کلمتہ الله کےہمعصر یہود کے خیالات
عہد ِ عتیق کی کتب میں ایک طرف تو خدا کو رحیم کریم غفار وغیرہ صفات سےمتصف کیا گیا ہے جو اعلیٰ ترین او ربلند ترین قسم کی ہیں۔ لیکن دیگر مقامات میں خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں جن سے وہ ایک قہار، جبار،مطلق العنان ظالم ہستی نظر آتی ہے۔ یہواہ بظاہر خفیف باتوں پر غیظ وغضب میں آجاتاہے۔ اس کی غیرت ، رقابت اور حسد وغیرہ کے جذبے بنی اسرائیل اور غیر اقوام دونوں کے حق میں نہایت ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں۔ مثلًا گو ساؤل اس کا ممسوح بادشاہ ہے ۔لیکن دشمن قبائل کو بے رحمی اور بیدردی سے قتل اور غارت نہ کرنے اورجانوروں تک کو ہلاک کرنے سے انکار کرنے کی بنا پر یہوواہ اس کامخالف ہو جاتاہے۔ یہواہ کے نتھنوں کی ہوار یگستانی کی باد موسم کی طرح تباہ کاری اور غارتگری پیداکرتی ہے(ہوسیع ۱۳: ۱۵ حزقی ایل ۲۰: ۸ وغیرہ)۔ اس کا دیدار موت کی نشانی ہے(خروج ۲۰: ۱۹وغیرہ)۔ غرضیکہ یہوواہ کا تصور ایک جابر، ظالم ، جفا کار ، مطلق العنان شہنشاہ کاسا ہے ۔ جس کے محض خیال سےانسان پرکپکپی چھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند کےہمعصر یہوواہ اپنے معبود یہوواہ کانام لینے سے بھی خائف وترساں رہتے تھے۔ پس انہوں نے چند الفاظ مخصوص کر رکھے تھے جو وہ خدا کے نام (یاہ وے ) کی بجائے استعمال کرتے تھے مثلاً’’ستودہ‘‘ (مرقس ۱۴: ۶۱)،’’العلی‘‘ (مرقس ۵: ۷)،’’آسمان‘‘ (مرقس ۱۱: ۳، یوحنا ۳: ۲۷)،’’ قدرت‘‘ (مرقس ۲۶: ۶۴) " خداوند " وغیرہ ۔ بعض اوقات وہ خدا کے لئے صرف لفظ " نام" استعمال کرتے تھے۔ مثلاًجب سردار کاہن(امام ِ اعظم) اپنے گناہوں کااقرار کرتا تھا وہ خدا کو یوں مخاطب کرتا تھا۔" اے نام۔ میں اور میرے گھرانے نے تیرے حضور گناہ کیا ہے۔اے نام !تو ہی میرا کفارہ کر۔"(کتاب جوما ۳: ۸)۔
پس جناب ِمسیح کے ہم عصر وجود مطلق کی ماورائے ادراک ذات اور لامحدود مافوق ، دراءالوری ٰ صفات پرخاص طور پر زور دیتے تھے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہواکہ جب فریسی فرقہ نے زور پکڑا تو انہوں نے مراسم وشعائر ظاہری کی ادنیٰ ترین تفاصیل کیاادائیگی کو فرض قرار دے دیا۔ جو ایک بلند وبالا، قادر مطلق ، خالق اور مطلق العنان شہنشاہ کے حضور میں حاضر ہونےکے لئے لازم خیال کی گئیں۔ چنانچہ اسی بنا پر یہود کے اہل فقہ ہر قسم کی رسمی پاکیزگی پرزوردینے پر غایت اصرار کرتے تھے۔"( مرقس ۷: ۳ الخ وغیرہ)۔
کلمتہ الله اور عہدِ عتیق کاتصور
حضرت کلمتہ الله کی بعثت کےزمانے میں آپ کےہم عصروں کےدلوں میں ذات الٰہی کی نسبت پروردگاری کو عملاً فراموش کرچکے تھے۔ انہوں نے خدا کو عرش بریں پر بٹھا کر اس کو دنیا سے اس قدر بلند وبالا کردیا تھا کہ اس میں اور اس کی خلقت میں انتہائی دوری پیدا ہوگئی تھی۔ خدا خلقت کا مالک تھا جس کے قبضہ قدرت میں بنی نوع انسان کی جان تھی جو اس کے عبداور غلام تھے(احبار ۲۵: ۵۵۔ یوحنا ۱۵: ۱۵وغیره)۔ جناب مسیح نے خدا کے تصور کو اس حددرجہ کے مبالغہ سےنجات دی ۔ آپ نے فرمایا تھاکہ آپ توریت اور صحائف انبیاء کومنسوخ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ آپکی آمد کا مقصد ان کو کامل کرنا تھا۔(متی ۵: ۱۷)۔ پس آپ نےلفظ’’ باپ ‘‘ کو ( جوان کتابوں کےچند مقامات میں خدا کے لئے وارد ہوا تھا) لیا اور اس کو ہر قسم کے قومی تعصب ، نسلی امتیاز اورہر ایسے مشرکانہ عنصر سے پاک کردیا جس کی وجہ سے کسی کو ذات الٰہی کی نسبت غلط فہمی کاگمان بھی نہ ہوسکے ۔ آپ نے ابوت کے تصور میں اس قسم کے مطالب اور معافی پیدا کرکے اس کو ایک ایسا کامل اوراکمل تصور بنادیاکہ لفظ خداکی ذات کی نسبت ایک نیا مکاشفہ ہوگیا۔
انجیل جلیل کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت کلمتہ الله دیگر ربیوں کی مانند ایک ربی نہیں تھے۔ آپ اپنے مواعظ ونصائح میں خدا کی ذات وصفات پر کبھی فلسفیانہ بحث نہیں کرتے اور نہ آ پ خداکے تصور کی کسی منطقیانہ اصطلاح میں تعریف بیان فرماتے ۔ بلکہ آپ اپنے سامعین کے سامنے خدا کی اس ابدی محبت کو بیان فرماتے ہیں جو فہم وادراک سے بھی بالا ہے۔ آپ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ لوگوں کےدلوں میں خدا کی بیکراں اور لازوال محبت کا احساس پیدا ہو۔پس آپ خداکی ذات وصفات پر فلسفیانہ بحث کرنے کی بجائے خدا کی اخلاقی فطرت کی شوکت ، الٰہی ابوت کی حشمت اور اس کی ازلی محبت کی وسعت اور محمق کو خلق خدا کے سامنے روز مرہ کی زندگی کے واقعات کی مثالیں اور تمثیلیں دے کر سیدھے سادے الفاظ میں کھول کر بیان کردیتے تھے ۔ حضرت کلمتہ الله نے اپنی روزانہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی بے قیاس او ربیکراں محبت اور ابوت کو مجملاً اورتفصیلاً اپنے بے حد یل نمونہ سے ہر خاص وعام پر آفتاب ِ نصف النہار کی طرح ظاہر کردیا اور اپنی تعلیم میں آپ نے ابوت ِ الٰہی کااطلاق واضح طور پر دنیاوی اور انسانی تعلقات کے ہر پہلو پرکرکے اس تصور میں نئی جان ڈالدی ایسا کہ یہ لفظ مثل ِ سابق محض ایک مجرد، ذہنی اور خیالی تصور نہ رہا بلکہ ایک زندہ چلتی پھرتی ٹھوس حقیقت کا مجسمہ بن گیا۔
باب ِ سوُم
ابوتِ الٰہی کا مفہوم اور انجیل جلیل
فصل اوّل
حضرت کلمتہ الله کی تعلیم
ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت کلمتہ الله نے خداکی ذات وصفات کو بیان کرتے وقت ایسے الفاظ کو استعمال کرنے سے احتراز فرمایا جن سے اس کی ذات کی اصل حقیقت پر کسی قسم کا پردہ پڑسکے یاکسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان بھی ہوسکے ۔ مثال کے طورپر لفظ ’’ بادشاہ‘‘ لے لو۔ کتب عہدِ عتیق میں جا بجا متعدد مقامات میں خدا کو ’’بادشاہ ‘‘کہا گیا ہے۔ چنانچہ صرف ایک کتاب یعنی زبور کی کتاب میں خدا کے لئے یہ لفظ بیسیوں جگہ استعمال ہواہے اور بنی نوع انسان کو خدا کا غلام کہاگیا ہے (۵: ۲، ۲۴: ۱۰، ۲۷: ۹، ۳۱: ۱۶وغیرہ)پر یہ بات قابل غور ہے۔ کہ اگر چہ جناب مسیح کی زبان ِمبارک پر الفاظ ’’ خدا کی بادشاہت‘‘ ہر وقت جاری تھے۔ (متی ۶: ۳۳۔ متی۱: ۱۴۔ مرقس ۱۲: ۳۱ ،لوقا ۱۳باب وغیره) لیکن آپ نے خدا کے لئے لفظ ’’ بادشاہ‘‘ شاذو نادر ہی استعمال فرمایا اور اگر عامتہ الناس کو کسی تمثیل کے ذریعہ کوئی حقیقت سمجھانے کی خاطر اس لفظ کی ضرورت لاحق ہوئی تو آپ نے اس کو صرف کنایتہً ضمنی طور پر ہی استعمال کیا تاکہ ایک مطلق العنان ہستی کا تصور بنی آدم کے ذہین سے نکل جائے ۔
انجیل جلیل کا سطحی مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتاہے کہ جناب مسیح کی تعلیم میں خدا کے نام یعنی لفظ ’’باپ ‘‘ کو وہی جگہ حاصل ہے جو توریت اور صحائف انبیاء میں خدا کے نام لفظ ’’یہوواہ‘‘کو حاصل تھی۔ بالفاظ دیگر لفظ ’’یاوے ‘‘اور ’’رب ‘‘کی جگہ لفظ ’’اَبا ‘‘اور لفظ ’’ باپ ‘‘ اسم ذات بن گیا۔ جس طرح خدا نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ لفظ’’یہواہ ‘‘ کا نیا مکاشفہ عطا کیا تھا (خروج ۶: ۱۳تا ۱۶)اسی طرح انجیل جلیل میں حضرت کلمتہ الله کے ذریعہ لفظ ’’ باپ ‘‘ سے ہم کو کامل او راکمل مکاشفہ عطا کیا گیا ہے (یوحنا ۱: ۱۷تا ۱۸)۔ انجیل جلیل میں الف سے ی تک ابوت الٰہی کا ذکر ہے اورالٰہی ابوت کے تصور کو مر کزی جگہ حاصل ہے ایساکہ دیگر تمام صفات ِ الٰہی کا محور یہی ایک تصور ہوگیاہے۔
(۲)
حضرت کلمتہ الله کی تعلیم کے مطابق خدا کو باپ اس وجہ سے نہیں کہا گیا کہ وہ ہمارا خالق ہے ۔ انا جیل اربعہ کا ایک ایک ورق چھان مارو تم کو آنخداوند کی زبان ِ حقیقت ترجمان پر لفظ " خالق " کہیں نہیں ملے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ آپ کا یہ ایمان تھاکہ ہم کو خدا نے پیدا کیا ہے (مرقس ۱۰: ۶) لیکن وہ عامتہ الناس کے دلوں سے ان تمام باطل خیالات کو نکال دینا چاہتے تھے جو لفظ" خالق " کے تصور کے ساتھ وابستہ تھے یعنی یہ کہ ہم خدا کے ہاتھ میں کمہار کی مٹی کی مانند ہیں۔(یرمیاہ ۱۸: ۶تا ۷۔ یسعیاہ ۴۵: ۹۔ ۶۴: ۸۔ ایوب ۰ ۱: ۹۔ یسعیاہ ۲۹: ۱۶: ۳۰: ۱۴۔ ۴۱: ۲۵وغیرہ) آپ کی تعلیم یہ تھی کہ خدا ہمارا باپ ہے جس کی ذات محبت ہے پس کائنات خدا کی تلون مزاجی یا لہری پن یا لیلا کی وجہ سے وجود میں نہیں آئی ۔ خدا کوئی من موجی ہستی نہیں جو کمہار کی طرح ہو کہ جو چاہے اپنے مخلوق کے ساتھ کرے اس کے برعکس کلمتہ الله نے یہ تعلیم دی کہ اس وجود مطلق کی ذات محبت مطلق ہے ا
اورمحبت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ خلق کرے اور اپنے آپ کو ظاہر کرے۔پس خلق کرنا اس کی ذات یعنی محبت کا ظہور ہے ۔ لیکن اگرچہ اس کی ذات اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ خلق کرے تاہم وہ ذات خود وجود ِ مطلق اور واجب الوجود ہستی ہے۔
پس خدا اور کائنات کا باہمی تعلق کمہار اور مٹی کا سا نہیں۔ یہ تعلق ایسا بھی نہیں کہ پہلے کا دوسرے پر اور دوسرے کا پہلے پرانحصار ہو۔ کیونکہ جس طور سے خدا کا وجود کائنات کے لئے لازمی ہے اسی معنی میں کائنات کا وجود خدا کے لئے لازمی نہیں۔خدا کا وجودکائنات کے لئے لازمی ہے کیونکہ خدا کے بغیر کائنات کا وجود قائم نہیں رہتا لیکن خدا قائم بالذات ہے وہ واجب الوجود ہستی مطلق ہے اور اس کے لئے کائنات کاوجود صرف اسی معنی میں ضروری ہے کہ اس کی ذات اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا ظہور خلقت اور تخلیق کے ذریعہ ہو۔ خدا کے تخلیقی ارادہ نےہم کو خلق کیا ہے لیکن خالق ہونے کی وجہ سے وہ خود خلقت سے بلندو بالا ہے۔پس خلقت خداکا نہ جوہر ہے اور نہ اس کی ذات میں شامل ہے جس طرح ہمہ اوستی کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس خلقت خلاق کی محبت اور الٰہی ارادہ اور منشا ء سے صادر ہوئی ہے اور اس کا ظہور ہے۔ اگر خدا کا وجود مٹ جائے تو کائنات بھی مٹ جائیگی۔ لیکن اگر کائنات کا وجود مٹ جائے تو خداکا وجود نہیں مٹ سکتا ۔ کیونکہ وہ واجب الوجود ہستی مطلق ہے جس کی ذات کا ظہور کائنات کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی ہوسکتا ہے۔
مذکورہ بالا دومثالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ الله نے خدا کے لئے لفظ " اَبا" یعنی " باپ" کا استعمال کرکے بنی نوع انسان کےدلوں سے وہ دہشت اور ہیبت دور کردی جو خدا کے محض تصور سے لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر طاری ہوجاتی تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آ پ کی تعلیم میں خدا کے بلند وبالا ہونے اور ماوریٰ ادراک ہونے کی نفی کی گئی ہے یا وجود مطلق کی برتری اور مطلقیت کو کہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ آپ ایک ایسے خدا کی ابوت کی تعلیم دیتے ہیں جس کی محبت کی ماورائی ادراک ہے تاہم وہ اپنی محبت کی وجہ سے ہمارے دلوں میں سکونت کرتا ہے(یوحنا ۱: ۱۴)۔اسکی محبت کی خوبی فہم وادراک سے بھی بالا اور بلند ہے اور اس کی محبت اور وسعت اور عمق ایسی ورا ء الوریٰ ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔
(۳)
اگر ہم اس خلیج کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں جو جناب مسیح اور آپ کے ہمعصروں کے خیالات (وجود الٰہی کے متعلق رکھتے تھے) کے درمیان حائل تھی تو مسرف بیٹے کی تمثیل (لوقا ۱۵باب) سے ہم کو مدد مل سکتی ہے۔ اس تمثیل میں بڑا بیٹا حقوق الله کو غلام کی مانند نہایت فرمانبرداری سے بجالاتا ہے (آیت ۲۹)۔وہ خیال کرتا ہے کہ باپ محض ایک عادل منصف ہے اور راستبازوں اور ناراستوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہے ۔ اس کی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ گنہگار مسرف بھائی خدا کے نزدیک بھی پھٹکے ۔ یہ زاویہ نگاہ آنخداوند کے ہمعصر فریسیوں اور فقہیوں کا تھا۔وہ یہ خیال کرتے تھے کہ خدا ایک مطلق العنان بادشاہ ہے جس کے ادنیٰ ترین احکام کو غلام کی طرح فرمانبرداری سے ماننا ہمارا اولین اور بنیادی فرض ہے ۔ وہ ایک عادل بادشاہ ہے جس کے نزدیک گنہگار پھٹک نہیں سکتا۔ ہرگنہگار اپنےگناہوں کے مطابق سزا پائيگا ۔ اور ہر نیکو کار اپنے اعمال صالح کے مطابق جزا پائیگا ۔ لیکن حضرت کلمتہ الله کا تصور خدا اس سے کوسوں دور تھا۔ آپ نے اس تمثیل کے ذریعہ عالم وعالمیان کو یہ سبق دیاکہ خدا ہمارا آسمانی باپ ہے جونیکوں اور بدوں دونوں سے ابدی محبت رکھتاہے ۔ اور اس کی محبت کا انحصار دونوں قسم کے لوگوں کی حسن ِ خدمت اور استحقاق پر مبنی نہیں ہے۔ وہ اعمال کی عمدگی اورخوبی کے مطابق بنی نوع انسان سے محبت نہیں رکھتا بلکہ اس کی محبت کی خوبی اس بات میں ظاہر ہوتی ہے کہ جب گنہگار انسان اپنے گناہوں کے ہاتھوں بے بس ولاچار ہوکر اس کی محبت کی طرف نظر کرکے اور اس سے متاثر ہوکر اس کی طرف رجوع کرتاہے تو خدا کی محبت بیتاب ہوکر اس کو سینے سے لگالیتی ہے۔ خدا کی لازوال شاہانہ محبت گنہگار بیٹے کی حاجت اور درماندگی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے خدا کی بیکراں محبت ہر گنہگار کو تلاش کرتی ہے اور موقعہ کی تاک
میں رہتی ہے کہ ہر گنہگار کو ’’ دوڑ کر گلے لگالے‘‘ او راس کے بوسے لے۔’’ہر توبہ کرنیوالے گنہگار کی بابت آسمان پر خدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے‘‘ کیونکہ پہلے ’’وہ مردہ تھا اب زندہ ہوا۔ وہ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے۔‘‘
دوڑا زاہد کہ قیامت پہ قیامت آئی
داخل خلد گنہگار ہوئے جاتے ہیں
الٰہی ابوت کی محبت اس قسم کی نہیں جو کسی مطلق العنان بادشاہ کوا پنی رعیت سے ہوتی ہے ۔کیونکہ اس قسم کی محبت کا انحصار رعیت کی تابعداری اور فرمانبرداری پر ہوتاہے۔ بغاوت اور غدر اس رشتہ محبت کو قطع کردیتی ہے۔کیونکہ بادشاہ اپنی باغی رعایا سے محبت نہیں رکھتا بلکہ اس کی بیخکنی کردیتا ہے۔ اس کو چین نہیں آتا جبتک باغیوں کاکلیتہ ً ناس نہ ہوجائے ۔ لیکن باپ کی محبت اور ازقسم دیگر ہے۔ خواہ بیٹا باپ سے محبت رکھے یا نہ رکھے باپ ہمیشہ بیٹے سے محبت رکھتا ہے۔ ماں کی مامتا اور باپ کی محبت ا پنے نا فرمان بیٹے کا استیصال نہیں چاہتی اور نہیں کرتی بلکہ اس برعکس اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نا فرمان بیٹے کو اسکی نا فرمانی کے باوجود پیار کرے ۔ خدا کی لازوال محبت گنہگار کو از سر نو بحال کردیتی ہے۔ وہ دنیائے روحانیت میں از سر نو پیدا ہوجاتا ہے۔ جس طرح خدا باپ خود فطرت سے بلند وبالا ہے اسی طرح وہ اپنے تائب بحال شدہ بیٹے کو مافوق الفطرت زندگی عطا فرماتا ہے جو اس کو گناہ ، دنیا اور شیطان پر غالب آنے کی توفیق بخشتی ہے ہمارا باپ" آسمان پر ہے" لیکن وہ ایماندار کے دل میں بھی سکونت کرتاہے۔ وہ جودراالوریٰ ہے اس کی محبت محیط کل ہوجاتی ہے۔ خدا نہ صرف بلند وبالا عظیم اور العلیٰ ہے بلکہ وہ ہمارا باپ بھی ہے جو ہم کو ازلی محبت سے چاروں طرف گھیرے ہوئے ہے۔ پس کلمتہ الله نے اہل یہود کےخیالات کی تصحیح فرما کر الٰہی ذات کے صحیح تصور کو کامل کرکے اہل عالم کے روبرو پیش کردیا ہے۔
مسرف بیٹے کی تمثیل کے ذریعہ حضرت کلمتہ الله نے خدا کی قدوسیت کا صحیح تصور بھی ہم پر ظاہر کردیاہے ۔ خدا تعالیٰ کی قدوسیت ایک اورمثال ہے جس کی نسبت ابن الله کے ہمعصر غلط خیال رکھتے تھے۔ وہ خدا کی اس صفت کی تاویل وتشریح اس طورپر کرتے تھے کہ خدا کی قدوسیت انسان کے لئے ایک ہیبت ناک معنی رکھتی تھی اور کسی گنہگار کو یہ حوصلہ نہ پڑتا تھاکہ خدا کے نزدیک پھٹکنے کی جرات بھی کرسکے ۔ لیکن حضرت کلمتہ الله نے فرمایا کہ خدائے قدوس گناہ اور بدی سے نفرت کرتاہے ۔ لیکن وہ گنہگار سےمحبت رکھتا ہے۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ خدا کی محبت کی قدوسیت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ خود گنہگار کی تلاش میں نکلے اورہر ممکن طریقہ سے یہ جدوجہد کرتی ہے کہ گنہگار توبہ کی طرف راغب ہوں اور جب وہ اس کے فضل وکرم سے توفیق حاصل کرکے توبہ کرتےہیں تو خدا ایسا قدوس باپ ہے کہ وہ نہ صرف تائب گنہگاروں کو معاف کرکے قبول کرتاہے بلکہ ان کواپنے بے حد فضل سے پاک بھی کرتا ہے۔’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا ۳: ۱۶)آنخداوند کی تعلیم اور نمونہ نہ بدترین سےبدترین گنہگار پر بھی اس کی غیر فانی روح کی اہمیت واضح کردی اور اس کو اس بات کا علم ہوگیا کہ اس کی روح ایسی بیش قیمت ہے کہ خدائے دوجہان خود اس کے گناہ کے باوجود اس سے ازلی اور ابدی محبت رکھتا ہے اورہر بدکار نئی پیدائش حاصل کرکے پاک بن سکتا ہے۔ کلمتہ الله نے خدا کی محبت اور قدوسیت کو ( جن کو آپ کے ہمعصر متضاد صفات سمجھے بیٹھے تھے)الٰہی ابوت کے تصور میں باہم پیوستہ کردیا۔ جس ہستی کی قدوسیت کے خیال سے پہلے خوف اور دہشت ٹپکتی تھی کلمتہ الله کے تصور ِ ابوت الٰہی نے اس ہستی کی پاکیزگی اور قدوسیت کے تصور کو اب ایک نہایت دلآویز تصور بنادیا ۔
پس اناجیل اربعہ کا مطالعہ ہم پر ظاہر کردیتاہے کہ سیدنا مسیح نے ایک طرف الٰہی قدرت وعظمت وجلالت اور دیگر صفاتِ جلالی کو قائم رکھا اور دوسری طرف الٰہی ابوت کو تمام صفات الٰہی کامرکز اور سرچشمہ بناکر خدا کو ایک محبت کرنیوالی اورمحبت کرانے والی دلآویزہستی بنادیا(متی ۶: ۲۶، ۳۲، ۔ ۱۰: ۲۹، ۳۱ وغیرہ) آپ نے خدا کی رفعت اور بلندی کو اہل یہود کے مبالغہ آمیز افراط سے نجات دلا کر ابوت کے تصور کے ذریعہ خدا کی ذات کا نیا مکاشفہ دنیا پر روشن کردیا اور فرمایا کہ خدا " جو آسمان پر ہے " وہ "ہمارا باپ " ہے اور ہماری رفاقت اس کے ساتھ ہے" جو عالی اور بلند ہے اور ابدیت جس کا مسکن ہے جس کانام قدوس ہے۔" (یسعیاہ ۵۷: ۱۵) حضرت ابن الله نے ہر انسان کو فرزند یت کا درجہ عطا کرکے اس کو ایک ایسا مقام بخشا جہاں خدا اور انسان کے باہمی تعلقات از سر نو استوار ہوگئے ۔ گویہ رفاقت نہایت گہری اور قلبی ہے تاہم اس میں بے تکلفی کو مطلقاً دخل نہیں ہوتا۔ یہ رفاقت پریم اور پیار سے پُر ہوتی ہے لیکن اس میں بے پروائی اور بے اعتنائی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب ہم خدا باپ کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو ہم کو اپنی کم مائگی بے بسی اور بے بضا عتی کا پختہ احساس ہوتاہے۔ ہم کو یہ علم ہوتا ہےکہ ہم جوکچھ ہیں محض اس کی محبت کے تقاضے اور فضل کی وجہ سے ہیں۔ پس یہ رفاقت کسی جذباتی محبت یا پھسپھسے جذبات کی افراط کا نام نہیں ہے۔جب خدا کی کامل محبت ہمارے دلوں سے دہشت کو نکال دیتی ہے (۱۔یوحنا ۴: ۱۸)تو وہ ہماری ناچیزگی اور فرومائگی کے احساس کو بیش ازبیش تیز کردیتی ہے۔ الٰہی محبت کا تصور ہمارے دلوں میں ہیبت اور دہشت کی بجائے الٰہی ابوت کی بیکراں محبت کے جلالی رعب اور پاکیزہ احترام کے جذبات پیدا کردیتاہے (۱پطرس ۱: ۱۷)اورہم کو اس تصور کی نئی اورزندہ راہ سے الٰہی قربت کے مقدس اور پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری حاصل ہوجاتی ہے(عبرانی ۱۰: ۱۹)۔
فصل دوم
اَبوُتِ الٰہی کا مفہوم اور خدا کی خالقیت
او رپروردگاری کی صفات
جہاں تک خدا کے تصور کا تعلق ہے۔ یہودی خیالات اور قرآنی تعلیم میں چنداں فرق نہیں ۔لہذا حضرت کلمتہ الله نے یہودی تصورات کی جو تنقیح وتنقید کی وہ بہت کچھ قرآنی عقائد اور اسلامی تعلیم پر بھی صادق آتی ہے۔
ہم گذشتہ باب میں ذکر کرچکے ہیں کہ اہل یہود کے خیال میں اَبوُت ِالٰہی کی حد نہایت تنگ اور اس کا دائرہ نہایت محدود تھا۔ کیونکہ ان کے زعم میں خدا کل بنی نوع انسان کا باپ نہ تھا بلکہ صرف قوم برگزیدہ یعنی بنی اسرائیل کا باپ تھا اور وہ بھی اس کا من حیث القوم باپ تھا پر اس قوم کے لکھو لکھہا افراد کا باپ نہ تھا ہمارے مبارک خداوند نے اس تصور کو کامل کیا اور فرمایا کہ خدا اقوام عالم کے افراد کا باپ ہے۔ خواہ وہ یہودیوں یاغیر یہود ، خدا کی ابوت ایک عالمگیر تصور ہے جس میں رنگ نسل ، قوم یا ملک وغیرہ جیسے عارضی امور کا رتی بھر دخل نہیں (یوحنا ۳: ۱۶۔ ۴: ۱۰، ۲۱، ۲۳، ۳۴۔ ۶: ۳۷، ۴۶۔ ۱۲: ۲۰، ۲۴ ، متی ۲۳، ۱ و۹ وغیرہ) پس ابوت ِ الٰہی کا تصور کل اقوام ِ عالم کے کل افراد پر حاوی ہے۔ خدا دنیا کے تمام افراد کا باپ ہے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ خواہ وہ دوسرے کے شکر گزار بندے ہوں یا نا شکرے احسان فراموش اور صبر آزمالوگ ہوں(متی ۵: ۴۵تا ۴۸)۔اس کی ابوت اس کی پروردگاری کی علت
ہے۔ خدا باپ ہونے کی حیثیت سے سب کو پیار کرتا ہے اور سب کو برکت دیتا ہے۔ خدا نے دنیا کے کل افراد کو اپنی صورت پر بنایا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ ایسا اخلاقی اور روحانی تعلق اور رشتہ رکھ سکیں جو باپ اور بيٹوں کےد رمیان ہوتاہے۔ پس کل بنی نوع انسان اس بات کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے فرزندوں کی صفات اپنے اندر رکھیں اور ان صفات کو اس کی محبت کی شان کے مطابق بروئے کار لاکر ان میں واقعیت کارنگ پیدا کردیں۔ اور امکان کو حقیقت کر دکھلائیں۔
خدا کی خالقیت اور اَبوت الٰہی
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔ آنجہانی مولوی ثناء الله صاحب یہ خیال کرتے ہیں کہ انجیل جلیل میں خدا کو اقوامِ عالم کا باپ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ وہ کل بنی نوع انسان کا خالق ہے(اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۷)لیکن اس قسم کی من گھڑت باتیں صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ مولوی صاحب انجیل جلیل کی تعلیم سے قطعاً ناواقف تھے ۔ حضرت کلمتہ الله کی تمام تعلیم میں تم کو ایک لفظ بھی ایسا نہ ملے گا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آپ خدا کو محض خالق ہونے کی وجہ سے کل بنی آدم کا باپ خیال فرماتے تھے ۔ آپ نے خدا کو ’’ باپ ‘‘اس بنا ء پر نہیں کہا تھا کہ اس نے دنیا کے لوگوں کو خلق کیا ہے یا کہ وہ ان کا حکمران بادشاہ ہے۔ اور نہ آپ نے خدا کو قوم یہود کا کبھی اس وجہ سے ’’ باپ ‘‘ کہاکہ اس نے حضرت ابراہم سے عہد باندھا تھا بلکہ آپ نے خدا کو باپ اسلئے کہا کیونکہ خدا کی ذات محبت ہے ۔ خدا اس اخلاقی تعلق اور روحانی رشتہ کی وجہ سے بنی آدم کا باپ ہے جو اس کے اور انسان کے درمیان حضرت کلمتہ الله کے طفیل قائم ہوگیا ہے۔
یہ امر صرف اناجیل اربعہ سے ہی واضح نہیں ہے۔ عہد جدید کی تمام کتب اور مکتوبات کا ایک ایک ورق چھان مارو تم کو یہ کہیں نہیں ملیگا کہ خدا خالق ہونے کی وجہ سے بنی نوع انسان کا باپ ہے ۔ خدا کی ابوت کا تصور خدا کی خالقیت کی صفت سے کلیتہ ً جُدا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انجیل کی کتب کے مصنفین کسی جگہ بھی الٰہی محبت اور تخلیق کا ذکر اکٹھا نہیں کرتے اور نہ انجیل کا کوئی فقرہ یا آیت الٰہی ابوت کو تخلیق کے ساتھ متعلق کرتی ہے۔ مثلاً مقدس پولوس ایک مقام میں بت پرستوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ ’’اور اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر قوم کو تمام رویِ زمین پر رہنے کیلئے پیدا کی۔۔۔‘‘(اعمال ۱۷: ۲۶)۔یہاں وہ ان بت پرستوں کو اخوت ِ انسانی اور خدا کی توحید کا سبق دیتے ہیں اور ابوت الٰہی کا اس مقام پر ذکر نہیں فرماتے ۔ یہ نہایت پرُمعنی بات ہے ۔ اورزیرغور ہے کہ وہ اس تقریر میں فطری ہم سرشتی کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس فطری اور قدرتی قرابت داری کے ساتھ انسانی فرزندیت کا ذکر کہیں نہیں کرتے ۔ اور اس مقام میں تخلیق کے ساتھ لفظ’’ خدا ‘‘ استعمال کرتے ہیں لیکن لفظ’’ اَبا یعنی اے باپ ‘‘ (رومیوں ۸: ۱۵)’’باپ ‘‘استعمال نہیں کرتے پس انجیل ِجلیل کی تعلیم کے مطابق خدا محض خلق کرنے کی وجہ سے ’’ باپ‘‘ نہیں ہوسکتا وہ صرف ’’ خالق ‘‘ ہوسکتا ہے ۔ فطری پیدائش انسان کو روحانی معنوں میں خدا کا فرزند نہیں بنا سکتی ۔انسان کی روحانی فرزندیت کا تعلق اس کے جسم کی قدرتی اور فطری پیدائش سے نہیں بلکہ اس کی روحانی پیدائش کےساتھ ہے۔ چنانچہ خداوند مسیح فرماتے ہیں : جو جسم سے پیدا ہوا ہے وہ جسم ہے اورجو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے تعجب نہ کر کہ میں نے تجھ سے کہا تمہیں نئے سرے سے پیدا ہوناضرور ہے‘‘(یوحنا ۳: ۶تا ۷)۔ خدا ہمارا باپ اسلئے نہیں کہ وہ ہمارا خالق ہے اورنہ محض جسمانی جسم کی وجہ سے ہم اس کے بیٹے ہیں (یوحنا ۱: ۱۳) ابوت اور ابنیت کا تعلق جنم سے نہیں بلکہ نئے جنم سے ہے جیسا ہم باب اول کی فصل دوم میں واضح کر آئے ہیں کہ ابنیت کے رشتہ سے جسمانی زندگی مراد نہیں بلکہ روحانی زندگی مراد ہے۔ الٰہی ابوت کا تعلق جسم کی فطری بنیاد پر نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی اساس پر ہے۔
اَبوُت اور پروردگاری
آنجہانی مولوی ثناء الله صاحب پادری ایس ۔ ایم ۔ پال صاحب مرحوم کے کسی مضمون کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے باطل خیالات کی حمایت میں پیش کرکے فرماتے ہیں کہ" انجیل میں خدا کے لئے لفظ " اب " اس واسطے آیا ہےکہ وہ ہمارا خالق ، مالک اور پروردگار ہے وہ تمام کائنات کا حقیقی بادشاہ اور فرمانروا ہے " مولوی صاحب موصوف لفظ " اب " کی یہ من مانی تشریح کرکے ہم سے پوچھتے ہیں کہ وہ "کونسی ضرورت داعی ہے کہ آپ " اب " کا لفظ استعمال کریں جو موہم غلطی ہے اور رب کا لفظ چھوڑدیں جو بالکل صاف ہے" (اسلام اور مسیحیت صفحہ ۱۷)۔
ہم نے سطور بالا میں واضح طورپر بتلادیا ہے کہ حضرت کلمتہ الله نےخدا کی ایسی تمام صفات کو (خواہ وہ توریت اور صحائف انبیاء میں ہی وارد کیوں نہ ہوئی ہوں )اپنی تعلیم میں استعمال کرنے سے احتراز فرمایا ہے جن سے غلط فہمی کا امکان بھی ہوسکتا تھا۔ مثال کےطور پر آپ نے خدا کے لئے لفظ ’’ خالق ‘‘ اور ’’ بادشاه‘‘کو کبھی استعمال نہ کیا۔ اگرچہ آپ خدا کو خالق مانتے تھے (مرقس ۱۰: ۶) اور خدا کی بادشاہی کو اس دنیا میں قائم کرنے آئے تھے (متی ۴: ۱۷، اور ۱۳باب وغیرہ) پس اگر لفظ ’’ اب ‘‘موہم غلطی ہوتا تو آپ اس لفظ کو کبھی استعمال نہ فرماتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مرحوم مولوی صاحب جیسا ہم عرض کرچکے ہیں ، جسمیت خدا کے لغوعقیدہ کے قائل ہیں۔ اسلئے ان کے لئے لفظ’’اب ‘‘موہم غلطی بن جاتا ہے اور آپ وہم میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ پس واجب ہے کہ معترضین انجیلی اصطلاحات پر اعتراض کرنے کی بجائے خود اپنے غلط اور باطل عقیدوں کی تنقید کرکے ان کی اصلاح کرے۔
(۲)
یہ مفروضہ قطعی غلط ہے کہ انجیل جلیل میں خدا کے لئے لفظ ’’اب‘‘ اس واسطے آیا ہے کہ وہ ہمارا خالق ، مالک اور پروردگار ہے اور تمام کائنات کا حقیقی بادشاہ اور فرمانروا ہے ’’ بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ لفظ اس واسطے وارد ہوا ہے کیونکہ وہ خدا کی محبت اور اس کی محبت کی ذات کو احسن طور پر ادا کرتا ہے اور خدا کا اسم ذات ہونے کی وجہ سے تمام الٰہی صفات کا سرچشمہ ہے۔ خداہمارا باپ اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ہمارا خالق ہے بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارا خالق ہے کیونکہ وہ ہماراباپ ہے۔ خدا ہمارا باپ اس واسطے نہیں کہ وہ ہمارا پروردگار ہے بلکہ وہ ہمارا پروردگار باپ ہونے کی وجہ سے ہے۔ وہ ہمارا باپ ہے لہذا وہ ہمارا پروردگار ہے۔ خدا ہمارا باپ ا س واسطے نہیں کہ وہ ہمارا مالک بادشاہ اور فرما نروا ہے بلکہ اس کے برعکس چونکہ وہ باپ ہے اس لئے ہم اس کی محبت کے قبضہ قدرت میں ہیں اور یہ الٰہی محبت کل کائنات پر حکمران ہے پس اَبوُت الٰہی خدا کی اسم ذات ہے اور تمام صفات الٰہی اور مافیہا اسی ایک ذات کی مظہر ہیں کیونکہ لفظ’’ اب ‘‘سے خدا کی اخلاقی ماہیت اور اصلیت کا اظہار مقصود ہے ۔ خدا کی ذات اس کی صفات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ان صفات کا انحصار اس کی ذات یعنی محبت پر ہے۔ پس ابوت ِالٰہی کا تصور صفات پروردگار ی رحم اورفضل وغیرہ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور ان سے بلند وبالا اور ارفع ہے کیونکہ وہ اُن کامنبع اور سرچشمہ ہے۔
جیساکہ ہم سطور بالا میں کہہ چکے ہیں خدا تمام کائنات کا خالق ہے لیکن وہ کائنات کا باپ نہیں ہے وہ موجودات میں سے صرف بنی نوع انسان کا باپ ہے۔یہودیت اور اسلام خدا کو بنی آدم کا خالق مانتے ہیں۔ لیکن کل افراد عالم کا باپ نہیں مانتے ۔ معترض کو خود اقرار ہے کہ ’’ خالق ‘‘ اور ’’ اب ‘‘ میں فرق ہے۔ پس امید ہے کہ اب ان کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ ’’ کونسی ضرورت داعی ‘‘ہے جو ہم کو لفظ ’’ اب ‘‘ کا استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ کیا ہمارے مخاطب اسلامی فلسفہ سے اس قدر نا بلد ہیں کہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ شریعت اسلام میں توحید الربوبیہ کو ماننے والا بھی سچا مسلمان نہیں ہوتا اگر چہ وہ اس بات کا قائل ہوتاہے کہ خدا ایک ہے جس نے سب کو خلق کیا ہے اور سب کا پروردگار اور رب ہے بلکہ صر ف توحید الالوہیہ کا قائل ہی مسلمان کہلا ی
یا جاسکتا ہے۔ جب ہم اسلامی مناظرین کی اسلام وقرآن دانی سے لاعلمی کی طرف نظرکرتے ہیں تو ہم ان کو اس قابل نہیں پاتے کہ ان کی کسی بات کا بھی جواب دیا جائے لیکن
ع چہ تواں کرد کہ بوئے تو خوش است
(۳)
خداکی پروردگار ی اور انتظام ِ کائنات اَبوُت ِالٰہی کی ہم معنی اور مترادف نہیں ہے۔ خدا تمام آفرنیش اور خلقت کا پروردگار ہے لیکن تمام مخلوق میں سے وہ صرف بنی نوع انسان کا باپ ہے ۔چنانچہ حضرت کلمتہ الله خدا کی پروردگاری کا ذکر کرکے فرماتے ہیں’’ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے ۔ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان وشوکت کے ان میں سے کسی ایک کی مانند پوشاک پہنے ہوئے نہ تھا۔ کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بکتیں ؟ ان میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گرسکتی ‘‘( متی ۶، لوقا ۱۱ باب ) پس خدا تمام خلقت کا مہربان پروردگار قاضی الحاجات اور روزی رساں ہے۔ لیکن وہ صرف بنی نوع انسان کے کروڑوں افراد کا باپ ہےجن میں سے ہر ایک کی قدر اور وقعت او رمنزلت دیگر کائنات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے( متی ۶: ۲۶تا ۳۰)۔کیونکہ انسان خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے(پیدائش ۱: ۲۶تا ۲۷ وغیرہ)۔ اقوام ِ عالم کے کل افراد کی زندگی کا خفیف سے خفیف واقعہ بھی خدا کی اَبوُت ومحبت کے دائرہ سے باہر نہیں ہے (متی ۱۰: ۳۰، لوقا ۲۱ : ۱۴تا ۱۸۔ یوحنا ۱۰: ۲۷تا ۲۹ وغیرہ)۔ خدا باپ کی ابوت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بیٹوں کی دنیوی حاجتوں کو پورا کرے اورا ن کو بہترین چیزيں عطا فرمائے (متی ۶: ۳۲۔ ۷ : ۱۱وغیرہ) بلکہ ان کو جو دل کے غریب ہیں اپنی بادشاہی بخشے اور اپنا دیدار ان کو دے جو دل کے پاک ہیں (متی۵ : ۲تا ۸) اور روح القدس جیسی عظیم ترین نعمت ان کو عطا فرمائے (لوقا ۱۱: ۹تا ۱۳)خدا باپ اپنے فرزندوں کو اپنی قربت اور رفاقت بخشتا ہے جس طرح کوئی بیٹا بغیر کسی شرط یا قید کے یا ہچکچاٹ محسوس کئے اپنے باپ کے پاس آ جا سکتا ہے۔ یہ تعلق کوئی رسمی یا قانونی یا غلامانہ تعلق نہیں بلکہ فرزند انہ تعلق ہے جس میں خدا کی پدرانہ محبت پر ایمان اور بھروسے کا عنصر غالب ہے (رومیوں ۸: ۱۵، ۱ یوحنا ۴: ۱۸تا ۱۹، ۲ تیمتھیس ۱: ۲ وغیرہ)۔
(۴)
لیکن خدا کی ابوت اس کے رحم وکرم اورپروردگاری وغیرہ صفات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر وہ اس بیکراں محبت سے ظاہر ہوتی ہے جو خدا باپ اپنے گنہگار فرزند کے ساتھ کرتا ہے جس کے وہ کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوتے اَبوُت ِ الٰہی اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ کھوئے ہوؤں کو تلاش کرے اور ان کو بچائے ۔ خداکی محبت اپنے نا فرمان بیٹوں کےساتھ عدل اور انتقام سے کام نہیں لیتی ۔ کیونکہ خدا ذولا انتقام نہیں ہے نہ وہ کوئی جبار اور قہار ہستی ہے بلکہ ابوت الٰہی اپنے فیض وفضل کی بخشش سے کام لے کر ہمیشہ اس کی کوشش میں رہتی ہے کہ کل بنی آدم جو خدا باپ کے ساتھ اخلاقی اور روحانی تعلق رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اس کے فیض ِ وجود سے توفیق حاصل کرکے اس صلاحیت میں واقعیت کا رنگ پیدا کردیں ۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے الٰہی ابوت ومحبت ہر طرح کے ایثار کو کام میں لاتی ہے (یوحنا ۳: ۱۶)کیونکہ محبت اور ایثار ایک ہی تصویر کے دور رخ ہیں (لوقا ۱۵باب) کیا اسلام میں خدا کے لئے کوئی ایسا لفظ موجود ہے جو اس قسم کی اَبوُت اور محبت کے ہم معنی ہوکر اس کا بطرز احسن اظہار کرسکے؟
فصلِ سوم
انجیلی اِصطلاحات ’’خدا کے فرزند ‘‘
’’خدا کے لے پالک بیٹے ‘‘ اور ’’خدا کا بیٹا ‘‘
ہمارے غیر مسیحی برادران انجیلی اصطلاحات کے مطالب ومعانی سے ، بالعموم بے خبر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے انجیل جلیل پر بے جا اعتراض کرتے ہیں۔ پس اس فصل میں ہم ان کو چند ایسی اصطلاحات کا صحیح مفہوم بتلاتے ہیں۔ جن کا تعلق الٰہی اَبوت کے تصور کے ساتھ ہے۔
اگرچہ اَبوت اور ابنیت اضافی لفظ ہیں" لیکن الٰہی اَبوُت کامفہوم بنی نوع انسان کی ابنیت کے مفہوم سے جداگانہ ہے اور ان دونوں کے معنوں میں امتیاز کرنا لازم ہے۔ خدا کل بنی نوع انسان کا باپ ہے کیونکہ اس کی ذات محبت ہے ۔ چونکہ خدا کی ذات میں تبدیلی واقع ہونی نا ممکن ہے لہذا اس کی محبت ازلی ابدی لازوال اور ہمیشہ یکساں رہنے والی شے ہے۔ پس اس کی اَبوُت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ انسان سے ہمیشہ محبت رکھے ، لیکن انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے وہ سدا یکساں نہیں رہتی ۔ اس میں ہمیشہ تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ پس انسان خدا سے ہمیشہ محبت نہیں رکھتا ۔ چنانچہ ایک طرف خدا باپ کی محبت ہمیشہ یکساں رہتی ہے لیکن دوسری طرف انسان خدا کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار نہیں رکھ سکتا جو گناہ کی وجہ سے بگڑجاتے ہیں ۔ لہذا ظاہر ہے کہ اگرچہ ہر انسان Ideally یعنی تصور کے لحاظ سے خدا کا فرزند ہے لیکن Actually یعنی فی الحقیقت وہ خدا باپ سے بیوفائی اختیار کرکے اس سے روگرداں ہوجاتاہے اور الٰہی محبت سے منہ موڑ لیتا ہے لیکن خدا نہ صرف Ideally تصور کے لحاظ سے بلکہ فی الحقیقت ہمیشہ باپ ہے پس ہر انسان میں خدا کے فرزند ہونے کی صرف صلاحیت اور اہلیت موجود ہے اور اس کایہ فرض ہے کہ اس امکان کو حقیقت کردکھائے اور فی الواقع خدا کا فرزند بن جائے (یوحنا ۱: ۱۲) تاکہ خدا باپ کےساتھ اس کا اخلاقی اور روحانی رشتہ از سر نو قائم ہوجائے ۔
خدا کے فرزند
اس نکتہ کو واضح کرنے کی خاطر انجیل جلیل میں خدا باپ کو خا ص طور پر ایمانداروں کا باپ کہا گیا ہے ۔ اور ایمانداروں کوخاص طور پر ’’ خدا کے فرزند‘‘ کہا گیا ہے (یوحنا ۱: ۱۲ وغیرہ)۔ کل بنی نوع انسان ہیں ہمیشہ اس بات کی صلاحیت موجو دہے کہ وہ الٰہی محبت کو محسوس کرکے توبہ کے وسیلے خدا کی جانب رجوع کریں اور خدا کے فرزند بن جائیں۔ لیکن چونکہ انسان خود مختار ہے وہ گناہ کی وجہ سے اس صلاحیت کو کھودیتا ہے اور اس کا بات کا اہل نہیں رہتا کہ امکان کو حقیقت میں تبدیل کرسکے۔ پر گو وہ گناہ کی پاداش میں خود اپنے آپ کو فرزندیت کے حق سے محروم کردیتا ہے لیکن وہ ہر وقت ایمان کے ذریعہ اس حق کو دوبارہ حاصل کرسکتا ہے ۔
مسرف بیٹے کی تمثیل (لوقا ۱۵: ۱۱تا ۳۲)اس امر کو واضح کردیتی ہے۔خدا فرمانبرداروں اور نا فرمانوں دونوں قسم کے بيٹوں کا باپ ہے (آیت ۱۱) لیکن نا فرمان فرزند محبت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس رشتہ کو خود قطع کردیتے ہیں جو خدا اور ان کےدرمیان ہے(آیت ۱۲، ۱۳)۔ وہ اس لائق نہیں رہتے کہ اس کے بیٹے کہلائیں ‘‘(آیت ۱۸، ۱۹)روحانی نقطہ نگاہ سے وہ بیٹے نہ رہے لیکن باپ کی محبت دونوں قسم کے بیٹوں کے لئے لازوال اور دائمی
ہے (آیات ۲۰، ۳۱، ۳۲)گنہگار بیٹوں میں یہ صلاحیت باقی رہتی ہے کہ وہ از سر نو حقیقی فرزند بن جائیں۔ پس اگر وہ ’’ہوش میں آکر‘‘ خداکی محبت کی طرف نظرکریں (آیت ۱۷) اور اس رشتہ کی طرف نگاہ کریں جو انہوں نے خود اپنے گناہوں کی وجہ سے گمراہ ہوکر اپنے ہاتھوں منقطع کردیا تھا(آیت ۱۸، ۱۹) اور الٰہی محبت کی طرف رجوع لائیں (آیت ۲۰)جو ہمیشہ ان کی تلاش میں رہتا ہے(آیت ۴، ۸) تو الٰہی ابوت از سر نو اس روحانی تعلق کو دوبارہ قائم استوار کردیتی ہے جو پہلے موجود تھا (آیت ۲۰، ۲۵)کیونکہ اگر ہم اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو الٰہی ابوت کا یہ تقاضاہے کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرے اورہم کو ہر طرح کی ناراستی سے پاک رے اور الٰہی ابوت کے اس تقاضا کی وجہ یہ ہے کہ الٰہی ابوت سچی ازلی ابدی اور دائمی ہے اور اس کی محبت کی وفاداری بھی ابدی ہے (۱یوحنا ۱: ۹)۔
تڑپ کے شانِ کریمی نے لے لیا بوسہ
کہا جو سرر کو جھکا کر گنہگار ہوں میں (اقبال)
سطور ِبالا سے ظاہر ہوگیا ہوگاکہ گو کل بنی نوع انسان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ خدا کے فرزند فی الواقع ہوجائیں لیکن خدا خاص طورپر ایمانداروں کا باپ ہے جو خدا کی محبت کا حقیقی تجربہ کرکے اس کو سچے دل سے باپ مانتے ہیں(متی ۶: ۹۔ ۷: ۱۱۔ لوقا ۱۱: ۱۳۔ ۱تمتھیس ۴: ۱۰ وغیرہ)۔ کیونکہ قدرتی طور پر صرف وہی لوگ الٰہی محبت کا مزہ جان سکتےہیں۔ جو باپ کے ساتھ بیٹوں کی طرح رفاقت رکھتے ہیں (رومیوں ۸: ۱۵تا ۱۷، گلتیوں ۴: ۶۔ ۱ پطرس ۱: ۱۷ وغیرہ)جن لوگوں کو اس محبت کا تجربہ ہی نہیں وہ نہ تو الٰہی ابوت کو جان سکتے ہیں اور نہ اسکی قدر کرنے کے اہل ہیں۔ وہ خدا کی فرزندیت کی صلاحیت خود کھو دیتے ہیں۔ ابوت سے مراد ایک ایسا رشتہ ہے جو اخلاقی اورروحانی ہے اور نئی پیدائش سے تعلق رکھتا ہے اسی واسطے مقدس یوحنا فرماتاہے کہ’’جو اس کے نام پر ایمان لاتےہیں وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے جتنوں نے کلمتہ الله کو قبول کیا اس نے ان کو خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا‘‘(یوحنا ۱۲:۱)۔ ایمان دار اس روحانی تعلق کا اپنی روزانہ عملی زندگی کے ہر شعبہ میں تجربہ کرتے ہیں(متی ۵: ۹، ۴۵)اور وہ اخلاقی اور روحانی نشوونما پاکر قربت الٰہی حاصل کرکے خدا کی کامل محبت میں روز بروز ترقی کرتے چلے جاتے ہیں ۔ پس حقوق العباد کو احسن طور پر پورا کرنے کا انحصار الٰہی محبت اور ابوت پر ہے(متی ۵: ۴۸)۔جنا ب مسیح نے فرمایا ہے کہ خدا کے بیٹے وہ ہیں جو خدا کی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں (متی ۵: ۴۸) بالفاظ دیگر ابوت الٰہی کا تصور حقوق العباد پر حاوی ہے ۔حضرت کلمتہ الله نے حقوق الله اور حقوق العباد کے متعلق جو تعلیم دی ہے وہ سب کی سب الٰہی ابوت کے تصور کی تفصیل ، تشریح اور توضیح ہے۔
مسیح ابن الله
انجیل جلیل میں الفاظ’’ خدا کا بیٹا‘‘ صیغہ واحد میں خصوصیت کے ساتھ حضرت کلمتہ کی ذات پاک کے لئے وارد ہوئے ہیں۔ آپ کا جو تعلق آسمانی باپ کے ساتھ ہے وہ لاثانی اور بے عدیل ہے اس سلسلہ میں آپکی مبارک زندگی کے دو واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یعنی جب آپ نے بپتسمہ پایا اور جب آپ کی صورت بدل گئی (مرقس ۱: ۱۱، ۹: ۷) دونوں موقعوں پر آسمان پر سے یہ ایک آواز سنائی دی کہ ’’ تو میرا بیٹا ہے (تیرانا م ) مجبوب (ربانی ) ہے جس میں سے خوش ہوں۔ تم اس کی سنو ‘‘ (متی ۱۷: ۵) یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن الله کی زبان ِحقیقت ترجمان پر خدا کے لئے ہمیشہ لفظ ’’باپ ‘‘جاری تھا۔ آپ نے ’’ خدا ‘‘ کے لئے لفظ ’’باپ ‘‘ کےعلاوہ کوئی اور ایسا لفظ استعمال نہ فرمایا جو اہل یہود میں مروج تھا۔ چنانچہ انجیل لوقا میں
حضرت ابن الله نے اس امتیاز کو جو آپ میں اور دیگر انسانوں میں تھا ہمیشہ برقرار رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ شقی اہل یہود اس بات کے شاکی تھے کہ آپ ’’خدا کو خاص اپنا باپ‘‘کہتے تھے اور آپ کے قتل کے درپے تھے(یوحنا ۵: ۱۸۔ ۱۰: ۳۰تا ۳۸)یہاں ہم بخوف ِ طوالت صرف ایک حوالہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں جس میں حضرت ابن الله کی ایک دعا کے الفاظ درج ہیں۔ آپ فرماتےہیں ’’اے باپ ! آسمان اور زمین کے خداوند ۔ میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں (سیدھے سادے لوگوں) پر ظاہر کیں۔ہاں ۔ اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوا بیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہے ۔"( متی ۱۱: ۲۵۔ لوقا ۱۰: ۲۱)۔
ابن الله کا مفہوم اور قرآن
انجیل یوحناکی ابتدا میں وارد ہوا ہے" ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا اورکلمہ خدا تھا سب موجودات کلمہ کےذریعہ پیداہوئی ۔ اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی بنی نوع انسان کا نور تھا ۔ کلمہ مجسم ہوا" قرآن میں بھی آیا ہے "یعنی اے مریم ! الله تجھ کو اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے (سورہ آل عمران ۴)۔ پھر سورہ نساء میں وارد ہوا ہے ۔ "یعنی تحقیق مسیح عیسیٰ ابن مریم الله کا رسول ہے اوراس کا کلمہ ہے جو مریم کی طرف ڈال دیااور وہ الله کاروح ہے(آیت ۱۴۹)۔ ہر دو آیات میں حضرت مسیح کو کلمتہ الله یعنی خدا کا کلام (کلمتہ منہ) اور روح الله یعنی کا روح (روح منہ) کہا گیاہے۔ قرآن مجید میں ابن مریم کے سوا کسی دوسرے انسان یا نبی کے لئے الفاظ کلمہ منہ اور روح منہ وارد نہیں ہوئے ۔ کیونکہ نوع انسانی (جو کلمہ کے ذریعہ وجود میں آئی ) مخلوق ہے اور غیر الله ہے لیکن دو آیات بالا میں لفظ منہ آیاہے جو اضافت تجنیسی ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ حضرت کلمتہ الله وروح الله مسیح عیسیٰ بن مریم اسی جنسی سے تعلق رکھتے ہیں جس جنس کا الله ہے۔ بالفاظ دیگر الله اور کلمتہ الله دونوں ایک ہی جنس کےہیں اور ایک ہی جنس سے نسبت رکھتے ہیں یہ اضافت اور نسبت غیر الله اور مخلوق انسان یا موجودات میں سے کسی شے کے لئے استعمال نہیں ہوسکتی اور نہ ہوئی ہے۔
علی ہذا لقیاس سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیتہ شریفہ میں الفاظ روح منہ میں بھی یہی اضافت بجینسی ہے اور ان الفاظ کا بھی یہی مطلب ہے کہ حضرت روح الله مسیح عیسیٰ ابن مریم اسی جنس کے ہیں جس جنس کا الله ہے۔ یہ اضافت بجینسی ثابت کرتی ہے کہ روحِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ الله اور روح الله ایک واحد لاشریک جنس کے فرد واحد ہیں اگرچہ نام دو ہیں۔ آیات بالا کے الفاظ کلمہ کی شخصیت اور ذاتیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ جو مریم صدیقہ سے مولود ہوا وہ خدا ئے عزوجل کی ذات سے ہے۔ بالفاظ ِ انجیل " ابتدا میں کلمہ تھاور کلمہ خدا کے ساتھ تھااو رکلمہ خدا تھا" ۔ پس دونوں کتب سماوی سے ثابت ہے کہ جو کلمہ مجسم ہوا وہ ازلی ہے اور اس کی ذات خدا کی ذات میں سے ہے اوراس کا جوہر خدا کے جوہر میں سے ہے مسیحی کلیسیا کے عقائد نامہ کے الفاظ میں کلمتہ الله خدا میں سے خدا ہے۔ نور میں سے نور ہے۔ حقیقی خدا میں سے حقیقی خدا ہے۔ وہ مصنوع ہیں بلکہ مولود ہے ۔ اس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔ اس کے وسیلے سے سب چیزیں خلق ہوئیں۔" حکیم قآنی کے الفاظ صرف آپ کی قدوس ذا ت پر صادق آتے ہیں۔
نہانی از نظرائے بے نظر از بس عیانستی
عیاں شد سرایں معنی میگفتم نہانستی
گہے گویم عیانستی گہے گوم نہانستی
نہ ایں استی نہ آنستی ہم ایں آستی ہمم آنستیی
خدا باپ اور ابن الله کا باہمی تعلق نہ صرف بے نظیر اور لاثانی ہے بلکہ ازلی ہے۔ چنانچہ آنخداوند کی ایک اور دعا میں یہ الفاظ آتے ہیں ۔ ’’اے باپ تونے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی ۔ اے عادل باپ دنیا نے تو تجھے نہیں جانا مگر میں نے تجھے جانا ہے‘‘ (یوحنا ۳: ۳۵)بیٹا وہی کام کرتاہے جوباپ کرتا ہے (۵: ۲۰)آپکی زندگی کا مشن اور پروگرام باپ کی ابوت ومحبت کے مطابق ہے(۵: ۱۷) اسی واسطے آپ کے تمام معجزات اور افعال سے محبت ، رحم اور ہمدردی ٹپکتی ہے۔ اور ان کا حق بجانب ہونا خدا کی ابوت اور ذات الٰہی کی محبت سے ظاہر اور ثابت ہے۔ حضرت ابن الله کی تعلیم کا ایک ایک لفظ اور آپ کی زندگی کاایک ایک واقعہ خدا کی محبت اور ابوت کا کامل او راکمل مظہر اورثبوت ہے (یوحنا ۱۰: ۲۶تا ۳۸)۔
خدا کے لے پالک بیٹے
پس حضرت ابن الله کی ابنیت ایک لاثانی اور بینظیر رشتہ ہے۔ جن معنوں میں مسیح ’’ خدا کا بیٹا‘‘ ہے ان معنوں میں دیگر انسان ’’خدا کے بیٹے ‘‘ نہیں ہیں۔اس امتیاز کو قائم رکھنے کے لئے انجیل جلیل کی کتب کو لکھنے والے مختلف الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کرتےہیں۔ چنانچہ مقدس یوحنا اپنی تحریرات میں صرف آنحداوند کے لئے ہی ’’خدا کا بیٹا ‘‘ یا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن دیگر ایمانداروں کے لئے ایک دوسری اصطلاح ’’ خداکا فرزند‘‘ استعمال کرتے ہیں(۱یوحنا ۵: ۲۔ یوحنا ۱۱: ۵۲۔ ۱: ۱۲۔ ۵: ۲۵۔ ۹: ۳۵۔ ۲۰: ۳۱۔ ۱: ۱۸۔ ۳: ۱۶ وغیرہ)۔
مقدس پولوس سلطنت ِ روما کی ایک قانونی اصطلاح کا استعمال کرکے اس امتیاز کو قائم رکھتے ہیں آپ سیدنا مسیح کو ’’ خدکا بیٹا ‘‘ لیکن باقی ایمانداروں کو ’’ لے پالک بیٹے‘‘ کا نام دیتے ہیں(رومیوں ۱: ۴۔ گلتیوں ۲: ۲۰۔ ۴: ۵۔ افسیوں ۱: ۵ ۔ رومیوں ۸: ۱۵تا ۲۲ وغیرہ) ۔یہ اصطلاح صرف مقدس پولوس ہی استعمال کرتے ہیں۔ انجیلی مجموعہ کتب کا کوئی دوسرا مصنف اس قانونی اصطلاح کا استعمال نہیں کرتا ۔
لےپالک بیٹا بنانے کی رسم رومی قانون میں جائز تھی۔ رومی قانون کے مطابق باپ خاندان کے بچوں پر خود مختار بادشاہ کا سا اختیار رکھتا تھا یہاں تک کہ بالغ اولاد بھی اسکے اختیار کے قابو میں تھی۔ جس طرح غلام یا کوئی دوسرا مال فروخت کیا جاسکتا تھا اسی طرح ایک خاندان کا بیٹا کسی دوسرے خاندان کا لے پالک بن سکتا تھا۔ یہ رسم پانچ گواہوں کے سامنے عمل میں آتی تھی۔ ا سکے بعد لے پالک بیٹے کے پرانے تعلقات بالکل منقطع ہوجاتے تھے حتیٰ کہ اس کے قرض بھی مٹ جاتے تھے۔ قانون کی نظر میں لے پالک بیٹا ایک نیا مخلوق بن جاتا تھا اور وہ ایک نئے خاندان میں از سر نو پیدا ہوجاتا تھا۔
چنانچہ اس مروجہ اصطلاح کے ذریعہ مقدس پولوس اپنے رومی نو مریدوں کو خدا کی ابوت، ایمانداروں کی فرزندیت ، پرانے گناہوں کی معافی، نئے سرے سے پیدا ہونے اور آسمان کی بادشاہی کے وارث ہونے کا مفہوم سمجھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ میں انسان کے طور پر کہتا ہوں ‘‘ (گلتیوں ۳: ۱۵)یعنی میں مسیحی نجات کی حقیقت کو انسانی رسوم ورواج کی تشبیہ دے کر تم پر واضح کردیتاہوں کہ خدا اپنے فضل کی وجہ سے مسیح کے وسیلے سے بنی نوع انسان کو اپنے لے پالک بیٹے بناتاہے اور روح اس بات کا گواہ ہے(رومیوں ۸: ۱۶) جس طرح رومی قانون میں گواہ کا ہونا ضروری ہے ۔ لے پالک ہونے سے ہم کو نہ صرف الٰہی ابوت اور محبت کی بخشش ملتی ہے بلکہ ابنیت کے تمام فائدے اور حقوق ملتے ہیں( ۸: ۱۷) وہ ہمارے گناہوں کے مٹ جانے اور ہماری بحالی کی بنا ء ہے جس طرح قانون میں قرض مٹ جاتے ہیں اور انسان از سر نو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاتاہے ۔ خدا کی پر محبت فضل کی وجہ سے یہ محبت ان سب کے لئے ہے جواس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں (افسیوں ۱: ۴تا ۵)۔ جو انسان پہلے ابلیس کے فرزند تھے (یوحنا ۸: ۴۱تا ۴۴) اب خدا کے فضل اور
محبت سے اس کے خاندان میں شامل کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے پرانے باپ ابلیس سے ہر قسم کا تعلق قطع کرلیا ہے اور اب ان نجات یافتہ ایمان داروں کا باپ خدا ہے۔ اور یہ نجات یافتہ ایماندار از سر نو پیدا ہوجاتے ہیں۔
گو مقدس پولوس رسول ان تمام روحانی رموز کو سمجھانے کی خاطر ایک قانونی اصطلاح کا استعمال فرماتے ہیں لیکن آپ کے خیال میں ایمانداروں کی تبنیت اور ان کا لے پالک ہونا محض قانونی کارروائی یاایک رسمی بات نہیں ہے بلکہ وہ دل کی ایک زندگی بخش تبدیلی ہے جس کا اثر ایمان دار کی زندگی کے ہر شعبہ پر پڑتا ہے۔
مولوی ثناء الله صاحب کو بھی " خدا کے بیٹے " کی اصطلاح پر ان معنوں میں اعتراض نہیں ہونا چاہیے جو انجیل جلیل میں ہیں۔مقدس پولوس اس اصطلاح کی توضیح کرکے کہتے ہیں کہ ’’ بیٹے ‘‘ سے مراد ’’ لے پالک بیٹے‘‘ سے ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ’’ جتنے خداکی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی۔ جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی ہے جس سے ہم ابا یعنی اے باپ کہکر پکارتے ہیں ‘‘(رومیوں ۸: ۱۴۔ گلتیوں ۴: ۵تا ۷ وغیرہ)اور قرآن بھی صاف کہتاہے کہ’’ الله نے تمہارے لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا نہیں ٹھہرایا ‘‘(احزاب ع ۱) پس اب قرآن وانجیل دونوں کی رو سے معاملہ صاف ہوگیا کہ مسیحی اصطلاح ’’خدا کے بیٹے‘‘ سے مراد خدا کے نعوذ با الله صلبی بیٹے نہیں اوردونوں آسمانی صحیفوں کی روسے آنجہانی مولوی صاحب کی پیش کردہ دلیل مردود ثابت ہوتی ہے۔
ناظرین پر اب ظاہر ہوگیا ہوگاکہ حضرت ابن الله کی تعلیم سے جو انا جیل اربعہ میں مندرج ہے یہ ظاہر ہے کہ خدا جس کی ذات محبت ہے کل بنی نوع انسان کا باپ ہے اور اقوام عالم کے تمام افراد یا اہلیت رکھتے ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں جو انسان اس صلاحیت کو ایمان کے ذریعہ برروئے کار لاکر اس کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں واقعیت کا جامعہ پہنا کر ایک حقیقت بنادیتے ہیں وہ الٰہی ابوت کو قبول کرتے ہیں جناب مسیح ایسے ایماندار انسانوں کو خدا کے فرزند بننے کا حق عطا فرماتا ہے ۔ کیونکہ صرف وہی خدا کا ابن وحید ہے جو عالم وعالمیان کو یہ دعوت دیتاہے کہ وہ اس کے قدموں میں آکر اس کے مکتب میں ابوت الٰہی کا حقیقی مطلب سیکھیں تاکہ وہ خداکے فرزند بن جائیں اور جان سکیں کہ خدائے دوجہان خود ان سے ازلی اور ابدی محبت رکھتاہے (یوحنا ۴: ۲۳۔ ۱۴: ۶، ۲۴۔ ۱۵: ۱۶۔ ۱۶: ۲۷وغیرہ)۔
جناب مسیح کا توسل لازمی ہے کیونکہ صرف وہی خدا باپ کی محبت کو کماحقہ ، جانتے ہیں ۔ باپ کی مرضی کو بجالانا آپ کی خوراک ہے (یوحنا ۴: ۳۴)آپ خدا باپ کی زندگی اپنے اندر رکھتے ہیں (۵: ۲۶)لہذا آپ مردہ روحوں کو زندگی بخشتے ہیں )(۵: ۲۱) آپ کے خیال ،اقوال اور افعال باپ کے ہیں (۵: ۱۷) ایساکہ آپ نے فرمایاکہ ’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا ‘‘(یوحنا۸: ۲۹۔ فلپیوں ۲: ۷تا ۱۱۔ عبرانیوں ۵: ۸ وغیرہ) لہذا صرف آ پ ہی ابوت الٰہی کو بنی نوع انسان پر بہترین اور احسن طورپر منکشف کرسکتے تھے (متی ۱۱: ۲۸۔ یوحنا ۱۴: ۱۵۔ ۱۷: ۶تا ۱۰وغیرہ) اسی لئے آپ کی قدوس ذات خدا کی محبت کی کامل اور اکمل مظہر ہے۔
انجیل جلیل کی دیگر کتب بھی اسی سہ گونہ صداقت کو پیش کرتی ہیں۔ چنانچہ مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ’’ (۱) خدا کُل بنی نوع انسان کا باپ ہے(افسیوں ۲: ۱۸۔ ۳: ۱۴۔ ۵: ۲۰۔ ۶: ۲۳ وغیرہ)لیکن (۲) ایمان دار اس کے خاص معنوں میں فرزند ہیں۔ (رومیوں ۸: ۱۵۔ گلتیوں ۳: ۲۶۔ ۴: ۵ الخ) جو مسیح کے وسیلے سے خدا کے لے پالک بیٹے بن جاتے ہیں (افسیوں ۱: ۱۵) کیونکہ (۳) صرف وہی حقیقی معنوں میں ابن الله ہے (رومیوں ۱: ۴۔ ۲ کرنتھیوں ۱: ۱۹۔ افسیوں ۴: ۱۳۔ ۱ تھسلنیکیوں ۱: ۱۰وغیرہ)۔ خدا اصلی معنوں میں جناب مسیح کا باپ ہے (۲ کرنتھیوں ۱: ۳۔ افسیوں ۱: ۳ وغیرہ) وہ اس کا اپنا بیٹا ہے (رومیوں ۸: ۳تا ۳۲وغیرہ)۔
پس نہ تو انجیلی مجموعہ کا کوئی مصنف اورنہ ہی مقدس پولوس خدا باپ اور ابن الله کے باہمی تعلق کو خدا اور دیگر انسانوں کے باہمی تعلق کو ملاتے ہیں بلکہ دونوں کی تمیز کو برقرار اور قائم کرکے اس کو استوار او رمحکم کردیتے ہیں اَبوت الٰہی انجیل جلیل کے تمام مصنفین کے عقائد کی اور مقدس پولوس کی دینیات کی بنیاد ہے جس طرح وہ حضرت کلمتہ الله کی تعلیم کی بنیاد ہے اور لفظ ’’ ابا‘‘ دونوں کی تعلیم کا بنیادی پتھر ہے (رومیوں ۸: ۱۵۔ گلتیوں ۴: ۶۔ مرقس ۱۴: ۳۶ وغیرہ)۔
امید ہے کہ اب معترضین سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’وہ کونسی ضرورت داعی ہے‘‘ جس کی وجہ سے ہم خدا کیلئے لفظ’’رب‘‘ کی بجائے لفظ’’ اب ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ہمارے خیال میں ان کو بھی غالباً اس بات میں اقبال کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ خدا کے تصور میں کم از کم وہ صفت موجود ہونی چاہیے جو ہم کو انسانی تعلقات میں بہترین اور پاکیزہ ترین نظر آتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ صفت خدا کے تصور میں موجود نہ ہو تو مخلوق انسان اپنے خالق سے بہترہوگا۔ پس الٰہی اَبوُت کا تصور کسی حال میں بھی انسانی ابوت کے تصور سے کم نہ ہونا چاہیے بلکہ اس کا مفہوم اس قدر بلند وبالا ہونا لازمی ہے ۔ جس قدرخدا انسان سے بلند وبالا ہے۔
توریت شریف میں وارد ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۔(پیدائش ۱: ۲۷) حدیث میں بھی آیاہے کہ ’’خلق آدم علی صورتہ ‘‘یعنی خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم الٰہی صفات وذات کا ورک انسان کے بہترین اوصاف کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ بخاری اورمسلم میں حضرت فاروق سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک قیدی عورت قیدیوں میں سے اپنے بچہ کی تلاش میں بھاگی پھرتی تھی۔ جب وہ اس کو ملا تو اس نے اس کو اپنے سینے سے لگایا ۔ دودھ پلایا یہ دیکھ کر رسول عربی نے صحابہ سے کہا کہ اس عورت کے رحم سے جو اس نے اپنے بیٹے پرکیا خدا کا رحم اپنے بندوں پر بہت زیادہ ہے (مشارق الانوار نمبر ۱۳۷۵)انسانی تعلقات میں بہترین شئے محبت ہے جو انسانی ابوت واخوت کے تعلقات میں ہم کو نظر آتی ہے پس خدا کی ذات میں محبت کا پاکیزہ ترین شکل میں ہونا ایک لابدی امر ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن الله فرماتے ہیں"تم میں ایسا کون باپ ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اس کو پتھر دے؟ یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے ؟ پس جبکہ تم برُے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟ (متی ۷: ۹تا ۱۱۔ لوقا ۱۱: ۱۱ تا ۱۳)۔دنیوی باپ کی محبت نہ صرف بیٹے کی جسمانی پیدائش سے ہی ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کی جسمانی اور دماغی پرورش ، اخلاقی اور روحانی تعلیم وتربیت اور تمام حاجتوں کو ایثار کےذریعہ رفع کرنے سے ظاہر ہوتی ہے لیکن وہ سب سے زیادہ اس موقع پر ظاہر ہوتی ہے جب بیٹا ایا م بلوغت کو پہنچ کر آوارہ ہوکر بھٹک جاتاہے۔تب باپ کی محبت کڑھتی ہے اور ماں کی مامتا روتی ہے اوردونوں محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہر ممکن موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاکہ ان کا آوارہ بیٹا کسی نہ کسی طرح پھر خاندان کی گود میں واپس آجائے اور ماں باپ کے ساتھ دوبارہ رفاقت رکھے۔ جب ہم برُے ہوکر اپنے بچوں کو خاطر ہر قسم کا ایثار کرتےہیں تو کیا ابوت الٰہی اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈے اور ان کو شیطان کے پنجہ سے رہائی دے؟ (لوقا ۱۹: ۱۱۔ متی ۱۸: ۱۰تا ۱۴۔لوقا ۱۵باب وغیرہ)اور جب الٰہی محبت اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتی ہے تو’’ ایک توبہ کرنے والے گنہگار کی بابت آسمان پر خدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔‘‘
اناجیل اربعہ کا مطالعہ ہم پر ظاہر کردیتاہے کہ حضرت ابن الله کے سوانح حیات اَبوُت الٰہی کے تصور کی بہترین تفسیر ہیں۔ اہل یہود کے ربی عامتہ الناس کو صرف توبہ کی دعوت دینے پر ہی کفایت کیا کرتے تھے۔ وہ خود گنہگاروں سے کسی قسم کا میل جول نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کو جماعت سے خارج کرکے ان سے نفرت کرتے تھے ایسا کہ فریسیوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کو وہ ’’ گنہگار‘‘ کہتے تھے ایک وسیع خلیج حائل تھی۔ لیکن ابن الله کا وتیرہ اس قسم کا نہ تھا۔ آپ محبت مجسم تھے۔ پس آپ گنہگاروں کو توبہ کی دعوت دینے پر ہی قناعت نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ان کے ساتھ میل ملاپ رکھتے تھ
تھے۔ ان کے ساتھ نشست وبرخاست کرتے۔ ان کے ساتھ کھاتے پیتے اور ان کی تلاش وجستجو میں رہتے تھے اور خدا کی محبت اور ابوت کی نہ صرف زبان سے ہی تعلیم دیتے تھے بلکہ اپنی طرز زندگی او رنمونہ سے ان پر اَبوُت ِ الٰہی کے گہرے رموز کا مطلب کھولتے تھے یہاں تک کہ فریسی طعنہ دے کرکہتے تھے کہ یہ شخص ’’گنہگاروں کا یار ہے‘‘ (متی ۱۱: ۱۹) آپ جواب میں فرماتے تھے کہ" تندرستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو اس کی حاجت ہوتی ہے پس میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لئے بلانے آیا ہوں‘‘(مرقس ۲: ۱۷۔ متی ۹: ۱۳وغیرہ) کیونکہ وہ بھی خدا کے فرزند ہیں اور میں ان کو ڈھونڈتا اور تلاش کرتا ہوں۔ کیونکہ خدا کی محبت ان کی تلاش کرتی ہے (لوقا ۱۹: ۹تا ۱۰۔ ۱۵: ۲۰ وغیرہ)۔
اب معترضین ہی خدارا انصاف کرکے بتلائیں کہ کیا قرآنی تصور خدا اور ’’ رب ‘‘ کا لفظ ’’ ابا‘‘ کے لطیف اور پاکیزه مفہوم کو ادا کرسکتا ہے؟ کیا قرآنی تصور ِ خدا میں محبت اور ایثار اور تلاش ِ گنہگار موجود ہیں ؟ اور اگر نہیں( اور یقیناً اس سوال کا جواب صرف نفی میں ہی ہوسکتاہے ) تو کیا ’’ اب ‘‘ کا انجیلی تصور ’’رب ‘‘کے قرآنی تصور سے بہتر اور برتر نہیں؟
اے میرے مسلمان بھائیو! خدا باپ کی محبت آپ کو تلاش کرتی ہے کاش کہ آپ منجی عالمین کی آواز کو سنیں جو تمام عالم کے گنگاروں کو یہ خوشی کی خبر دیتی ہے’’ اے سب لوگو جو تھکے اور گناہ کے بوجھ سے دبے ہومیرے پاس آؤ۔ میں تم کو آرام دونگا‘‘(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۱۱: ۳۷)۔