PERSONAL FRIENDS OF JESUS
Rev. James Russell Miller
Translated into Urdu By
Mr.M.L.Relia Ram
مسیح کے خاص دوست
مصنفہ
پادر ی جے آر۔ ملر صاحب
مترجمہ
مسٹر ایم۔ایل رلیارام
بی۔اے۔ ایل ایل بی
منقول از مسیحی
پنجاب رلیجس بک سوسائٹی
انارکلی1907 ء
James Russell Miller
(20 March 1840 – 2 July 1912)
باب۔۱
مسیح اور اُس کا پیشرو
اکثر دینی تصویروں میں دونوں یوحنا مسیح کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک دائیں اور دوسرا بائیں ہاتھ۔ ہر بات میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے بپتسمہ دینے والا تو جنگل کا رہنے والا ایک تُند خو آدمی تھا اور رسول اعلیٰ درجہ کی روحانی لطافت اور حلیم مزاجی کا نمونہ تھا۔ اگر یوحنا بپتسمہ دینے والا پرانے عہد کی پیشینگوئیوں کا ایک کِھلا ہوا پھول تھا تو یوحنا رسول نئے عہد کی خوشخبری کا پکاہوا پھل۔ تواریخ میں بھی وہ اسی طرح مسیح کے دائیں بائیں ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک تو اس کے آگے آگے اس کی راہ تیار کرتا ہے۔ دوسرا اس کے پیچھے آکر اس کی رسالت کا مطلب ظاہر کرتا ہے۔ یسوع میں ہو کر ان کا آپس میں میل ہوا۔ دونوں اس کے دوست تھے۔ غالباً بپتسمہ پانے کے دن تک یسوع کی اپنے بپتسمہ دینے والے سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ اس میں کچھ تعجب نہیں۔ بچپن میں ان کو ایک دوسرے کے قریب رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ علاوہ ازیں وہ چھوٹی عمر میں ہی جنگل میں رہنے کو چلا گیا۔ ممکن ہے کہ وہ کبھی یسوع سے ملنے نہ آیا ہو۔ اور یسوع بھی کبھی اس سے ملنے نہ گیا ہو۔
تاہم ان کی مائیں آپس میں نزدیکی رشتہ دار تھیں۔ چاروں انجیلیوں کے شروع میں ہی ان دونوں کی پیدائش کا حال بڑی خوبی سے اکٹھا دیا گیا ہے۔ جبرائیل ہی نے دونوں مبارک عورتوں کو مبارک باد دی۔ قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ یہ دونوں بچپن میں اکٹھے رہتے۔ اگر یہ اکٹھے پرورش پاتے تو نہ معلوم ان کی سیرتوں پر کیا کچھ اثر ہوتا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی تُند،سخت اور لوگوں سے الگ رہنے والی طبیعت مسیح کی حلیم مزاجی پر کیا اثر کرتی اور مسیح کی خوشی طبعی شیریں مزاجی اور محبت والی طبیعت یوحنا کے مزاج اور سیرت پر کیا اثر ڈالتی۔
آخر کو جب ان دونوں کی باہم ملاقات ہوئی تو یوحنا پر ایک عجیب اثر ہوا۔ مسیح کے چہرے ہی میں کچھ ایسی بات تھی جس سے اس جنگل کے رہنے والے دلیر مناد پر بھی خوف سا چھا گیا۔ یوحنا اس آنے والے کا منتظر اور اس کی آمد کے لئے چشم براہ تھا۔ جس کا کہ وہ پیشرو تھا۔ ایک دن مسیح نے آکر اس سے بپتسمہ پانے کی درخواست کی۔ یوحنا نے اب تک کسی کو بپتسمہ دینے میں تامل نہ کیا تھاکیونکہ جو کوئی اس کے پاس آتا اس کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور معافی پانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ لیکن اس شخص کے چہرہ پر جو اب اس کے سامنے بپتسمہ لینے کو کھڑا تھا دلی قدسیت کا ایسا نور چمکتا تھا کہ اس سے یوحنا دہشت زدہ سا ہوگیااور کہنے لگا کہ ”میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں“۔ مگر یسوع نے جواب میں کہا ”اب تو ہونے ہی دے“۔اس بات سے یوحنا کی دہشت اور بھی بڑھ گئی ہوگی۔ یسوع نے اوپر کو آنکھیں اٹھا کر دعا کی اور آسمان کھل گیا اور اس قدوس کے سر پر ایک سفید کبوتر آٹھہرا۔ روایت ہے کہ اس نور سے یردن کی ساری وادی روشن ہوگئی اور خدا کی آواز بھی یہ کہتی سنائی دی کہ یہ یسوع میرا پیارا بیٹا ہے۔
یوحنا کے ساتھ یسوع کی دوستی کا آغاز یوں ہوا۔ یہ ایک عجیب موقع تھا۔ صدیوں سے مسیح کے آنے کی پیشین گوئیاں ہو رہی تھیں اور اب یوحنا نے اس کو دیکھ لیا۔ اس نے اس کو بپتسمہ دے کر اس کا کار منصبی اس کے سپرد کیا۔ اسی لئے یوحنا پیغمبروں میں سب سے بڑا ہے۔ اس نے اس مسیح کو دیکھا جس کی اس کے متقدمین نے صرف پیشین گوئی کی تھی۔ مسیح کی اس ملاقات سے یوحنا کی تند طبیعت بہت کچھ نرم ہوگئی ہوگی۔ مسیح اور اس کے پیشرو کی باہمی دوستی دیر تک نہ رہی۔ لیکن وہ مضبوط اور سچی تھی اور بہت موقعوں پر اس دوستی کی سچائی اور مضبوطی پرکھی گئی۔
یوحنا کی منادی اور لوگوں کے اس کے پاس آنے کی خبر یروشلیم تک پہنچی اور سنہیڈرن یہودیوں کی مجلس نے چند آدمی بیابان کو بھیجے کہ یوحنا سے دریافت کریں کہ تو کون ہے ؟ ان کا یہ خیال تھا کہ شاید یہی مسیح نہ ہو۔ اس لئے انہوں نے اس سے چند سوال کئے ”کیا تو ایلیاہ ہے؟“،”کیا تو وہ نبی ہے؟“، ”نہیں! تو پھر تو کون ہے؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں۔ تو اپنی نسبت کیا کہتا ہے“۔
اس سے یوحنا کو یہ موقع ملا کہ اگر وہ چاہتا تو سب سے اعلیٰ عزت کا دعویدار ہوتا ہے۔ اس کو یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہاں میں ہی مسیح ہوں یا چپکا رہتا اور ان کے اس خیال کو قائم رہنے دیتا اور چونکہ ان دنوں لوگوں کا یہ عام خیال تھا کہ مسیح ایک دنیاوی بادشاہت قائم کرنے کو آتا ہے۔ وہ اس کو تخت پر بٹھانے کی کوشش کرتے لیکن وہ صداقت اور مسیح کا ایسا وفادار تھا کہ اس کو کیسی ہی آزمائش کیوں نہ ہوئی ہو اس نے اس موقع کو بالکل جانے دیا اور یہی جواب دیا کہ ”میں ایک آواز ہوں“۔محض ایک آواز اس عجز و انکسارسے ا س نے اپنی حقیقی عظمت کا اظہار کیا۔
سچ۔ ایک آواز ہی بڑے بڑے کام کرسکتی ہے وہ ایسے الفاظ بول سکتی ہے جن کو گونج چار دانگ عالم میں پھیل جائے۔اور وہ ایک عالم کی برکت کا وسیلہ ہو۔ لوگوں کو کام کرنے کی تحریک دلائے۔ غمزدوں کو تسلی۔ ناامیدوں کو امید اور مایوسوں کوہمت دے۔ اگر کوئی شخص محض ایک آواز ہو اور اگر اس آواز میں سچائی، محبت اور زندگی ہو تو اس کی خدمت بڑی بااثر اور کارگر ہوگی۔
بائبل کا زیادہ حصہ ایک آواز سا ہے جو گزشتہ زمانہ کی گہرائی میں سے آتی ہے۔ ہم ان سب مقدسین کے نام سے بھی آگاہ نہیں۔ جنہوں نے روح القدس کی تحریک سے یہ عجیب باتیں قلمبند کیں۔ بہت سے شیریں زبوروں کے لکھنے والوں کا ہم کو پتہ بھی نہیں۔ لیکن محض اس باعث سے ان کی قدر کچھ کم نہیں ہوئی نہ ان کے تسلی بخش اثر میں کچھ فرق آتا ہے حالانکہ وہ محض آواز ہیں۔ ایک ایسی آواز ہونا بھی جس کو مرد و زن بخوشی سنیں اور جس کے الفاظ ہر جگہ اپنا عمدہ اثر ڈالیں بڑی بات ہے۔
یوحنا کا اپنی نسبت یوں کہنا اس کی فروتنی پر دال ہے۔ وہ دنیاوی عزت و شان کا خواہاں نہ تھا۔ اس کو لوگوں کی مدح و ثنا کی پرواہ نہ تھی۔ ایسی عزت کی بطالت سے وہ آگاہ تھا۔ اس کی یہی آرزو تھی کہ وہ محض ایک آواز بنوں اور دنیا کو وہ خوشخبری سناﺅں جس کے سنانے کو میں آیا ہوں۔ وہ جانتا تھا کہ میں ایک خاص پیغام دینے کو آیا ہوں اور اس کو اپنی خدمت کی بجا آوری کی فکر تھی۔ اس کو اس امر کی تو چنداں پرواہ نہ تھی کہ میری عزت اور حیثیت کیا ہے لیکن اس کو اس بات کی فکر تھی کہ میں اپنے پیغام کو درستی سے سناﺅں۔
ہم میں سے ہر ایک کو خدا کی طرف سے کچھ نہ کچھ پیغام ملا ہے کہ لوگوں کو سنائیں۔ ہم اس دنیا میں ایک خاص مطلب اور کام کے لئے آئے ہیں اور خدا اور انسان سے تعلق رکھنے والی ایک خاص خدمت ہمارے سپرد ہوئی ہے۔ اس امر کا کچھ مضائقہ نہیں کہ ہمارا نام لوگوں میں مشہور ہو یا نہ ہو۔ہم عزت اور ناموری پائیں یا لوگ ہمیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ لوگ ہمارا پیغام سن لیں۔ اور اس کا اثر ان کی زندگیوں میں ظاہر ہو۔ یوحنا ایک لائق اور وفادار آواز تھا اور سچائی اور خدا کی بادشاہت کے لئے اس کی آواز صاف اور پرزور تھی۔ اس کا کام بادشاہ کے آگے آگے چل کر اس کے آنے کی خبر دینا اور لوگوں سے یہ کہنا تھا کہ اس کے آنے کے لئے راہ تیار کرو۔ اس نے اپنی اس خدمت کو خوب اچھی طرح انجام دیا اور بادشاہ کے آنے پر یوحنا کا یہ کام پورا ہوا۔
بھیجے ہوﺅں نے اس سے یہ بھی پوچھا کہ اگر تو نہ مسیح ہے اور نہ ایلیاہ تو بپتسمہ کیوں دیتا ہے۔ یوحنا نے پھر اپنے دوست کی عزت کی اور یوں جواب دیا کہ ” میں تو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں پر تمہارے درمیان ایک کھڑا ہے۔ جس کو تم نہیں جانتے یہ وہی ہے جو میرے بعد آکر بھی مجھ سے زور آور ٹھہرا۔ میں اس کی جوتیاں بھی ان کے اٹھانے کے لائق نہیں“۔یوحنا نے مسیح کے ساتھ دوستی رکھنے کا دنیا کو نمونہ دیا ہے۔
یہ بات کیسی افسوسناک ہے کہ مسیح کے اکثر پیرور یہ سبق نہیں سیکھتے۔ وہ اونچی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ لوگوں میں بزرگی پائیں۔ اور ہر ایک زبان پر انہیں کا ذکر خیر ہو۔ مسیح کے نزدیک وہی لوگ بزرگی پاتے ہیں جو اپنی خودی کو بھول جاتے ہیں۔ تاکہ مسیح عزت پائے۔ یوحنا نے کہا کہ میں اپنے دوست کی جوتیاں اٹھانے کے بھی لائق نہیں کیونکہ یہ میرا دوست نہایت عظیم الشان اور شاہ بلند اقبال اور ہر طرح سے بزرگی اور عزت کے لائق ہےں اس نے یہ بھی کہا کہ میرا کام تو صرف ظاہری ہے لیکن تمہارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ اس کو دلوں تک پہنچنے کی قدرت حاصل ہے۔ کاش کہ مسیح کا ہر پیرو اس امر کی پہچان پائے کہ مسیح کی خدمت میں اس کا کیا درجہ ہے۔ یوحنا نے مسیح کے حق میں اس کی آزمائش کے بعد پھر گواہی دی۔ ایک نوجوان کی طرف مخاطب ہو کر اس نے کہا ” کہ دیکھو خدا کا برہ جو جہان کے گناہ اٹھا لے جاتا ہے“۔ یوں یوحنانے اپنے دوست کی بڑی عزت کی۔ ہاں اس دوست کی جو دنیا کے گناہ اور غم و رنج کا اٹھانے والا تھا۔ شاید یوحنا کو ابھی تک یہ علم نہ تھا کہ مسیح جہان کے واسطے صلیب پر جان دے گا۔ تاہم کسی نہ کسی طرح اس کو یہ رویا ملی کہ مسیح اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچائے گا اور اس لئے ان لوگوں کے سامنے جو وہاں کھڑے تھے۔ اس نے یہ گواہی دی کہ یہ خدا کا بیٹا ہے اور یوں اپنے دوست کی اور بھی عزت کی۔
اس کے دو ایک دن بعد یوحنا نے اپنے دو شاگردوں سے کہا کہ دیکھو خدا کا برہ اور پھر ان سے یہ ہدایت کی کہ میری پیروی چھوڑ کر مسیح کے پیچھے ہو لو۔ یہ اس کی شریف دوستی کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس نے خود اپنے شاگردوں سے کہا کہ نئے مالک کے پیچھے ہولیں۔ ایسا کرنا سہل نہیں ہے اور اپنے دوستوںکو دوسرے کی خدمت کے لئے دے دینا بڑے حوصلہ کا کام ہے۔
یوحنا کی دوستی اور وفاداری کا ایک اور ثبوت یہ ہے۔ یوحنا کے شاگرد مسیح کی دن بڑھتی ترقی اور شہرت پر رشک کھاتے تھے۔ جو بھیڑ کہ پہلے یوحنا کے پیچھے آتی تھی۔ اب وہ اس کے پیچھے ہولی۔ وہ یوحنا سے بڑی محبت رکھتے تھے اور یہ امر ان کے حافظہ میں ابھی تازہ تھا کہ مسیح کے کام شروع کرنے سے پیشتر اور بعد میں بھی کیونکہ یوحنا نے اس کے حق میں گواہی دی اور لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھیر دی۔ اس لئے ان کے نزدیک یہ بات معلوم نہ ہوتی تھی کہ مسیح اپنے دوست اور مددگار کو نقصان پہنچا کر آپ عزت پائے۔ اگر یوحنا ایسا شریف اور یسوع کا وفاداردوست نہ ہوتا تو اپنے شاگردوں کی ایسی باتوں سے ضرور مسیح کے ساتھ اس کی دوستی میں خلل آجاتا۔ اکثر لوگ ایسی خوشامد آمیز تسلی سے لاعلاج نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے کم اندیشوں کی جھوٹی ہمدردی سے رشک کی چنگاری بھڑک کر شعلہ زن ہو جاتی ہے۔
لیکن یوحنا کے جواب میں بڑی شرافت پائی جاتی ہے۔ ہر دلعزیزی نے اسے بگاڑا نہیں تھا۔ ایسے شخص بہت کم ہیں۔ جو بڑی بڑی کامیابیاں اور اقبالمندی پاکر بھی حلیم اور فروتن اور منکسر المزاج بنے رہیں۔ شہرت اور ہر دلعزیزی جاتے رہنے کا وقت اس سے بھی بڑھ کر سیرت کا معیار ہے۔ خصوصاً جب کوئی اور یہ ہر دلعزیزی پاتا ہو۔ ایسی حالت میں بہت کم شخص اپنی شیریں مزاجی کو قائم رکھتے بلکہ الٹے تلخ مزاج ہو جاتے ہیں۔
یوحنا ان دونوں کسوٹیوں پر پورا اترا۔ ہر دلعزیزی سے وہ مغرور نہ ہوا۔ اس کے جاتے رہنے سے اس کا مزاج تلخ نہ ہوا ہر حالت میں وہ حلیم اور شیریں مزاج بنا رہا۔ اس کا بھید یہ تھا کہ وہ اپنی رسالت میں وفادار رہا۔ اس نے ایک موقع پر فرمایا کہ ”انسان کچھ پا نہیں سکتا جب تک اس کو آسمان سے نہ دیا جائے“۔ جو عزت اور رعب اس کو لوگوں پر حاصل تھا وہ اس کو آسمان سے دیا گیا تھا۔ اب وہ عزت اس سے چھن کر مسیح کو دی گئی۔ جب کچھ خدا کی طرف سے ہوا وہ درست تھا اور اس میں گلہ کرنا واجب نہ تھا۔
پھر یوحنا نے اپنے دوستوں کو صاف صاف یاد دلایا کہ میں مسیح نہیں ہوں بلکہ اس کا پیشرو۔ اس نے مسیح کے ساتھ اپنا تعلق بڑے موثر طور سے یہ ظاہر کیا۔ یسوع دولہا لیکن یوحنا صرف دولہا کا درست تھا جو دولہا کی عزت سے خوش ہوتا ہے۔ واجب بھی یہی تھا کہ دولہا عزت پائے اور اسکادولت پیچھے کو ہٹ جائے۔ دولہا دولہا ہی کی پکار ہو اوراس کا دوست فراموش کیا جائے۔ مسیح کے عزت و شہرت پانے پر یوحنا نے خوشی کرنے سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا حالانکہ وہ خود ایسی شہرت پانے کے بعد لوگوں کی یاد سے جاتا رہا۔ ”ضروری ہے کہ وہ بڑے اور میں گھٹوں“۔ یوحنا کا کام تو پورا ہوگیا اور مسیح کا کام ابھی شروع ہوا تھا۔ یوحنا اس بات کو سمجھتا تھا اور اس نے اپنے دوست کے عزت و شہرت پانے پر ایسی وفاداری اور دلدادگی سے جس کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی خوشی کا اظہار کیا حالانکہ اس سے اس کی اپنی عزت کم ہو رہی تھی۔
ہمیشہ کے لئے یہ شریف دوستی زندگی کا نمونہ ہے۔ رشک سے انسانی دوستی میں خلل آجاتا ہے۔ کسی دوسرے کی عزت و شان کے لئے جب کہ وہ ہماری ہی جگہ لے رہا ہو وفاداری سے کام کرنا مشکل ہے۔ دوستی کا تو کیا ذکر ہر کہیں رشک مطعون اور خدا کے ناپسند ہے۔ مسیح کے ساتھ دوستی میں بھی ہم کو محتاط رہنا چاہئے۔ کہ کہیں خودی ہماری دوستی میں نہ آجائے۔ اسی کی عزت اور بادشاہت کی ترقی کا فکر رکھنا اور اپنا خیال نہ کرنا چاہئے۔مسیح کے ساتھ یوحنا کی دوستی کا تو اتنا بیان ہولیاپر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی موقعوں پر مسیح نے بھی یوحنا کے لئے بڑی گہری دوستی کا اظہار کیا۔ یوحنا کا قید ہونا ایک بڑا درد انگیز واقع ہے۔ جو اس کی صداقت کی دیانتداری سے منادی کرنے کا باعث واقع ہوا تھا۔ بلحاظ ان تمام واقعات کے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اپنی قید کی تنہائی میں اس کے دل میں یہ شک گزرا ہو کہ آیا یسوع سچ مسیح موعود ہے لیکن یاد رہے کہ اس درد انگیز وقت میں بھی یوحنا یسوع کا وفادار دوست رہا۔ جب اس کے دل میں شبہ پیدا ہوا تو اس نے براہ راست یسوع سے پچھوا بھیجا۔ کاش کہ وہ سب جن کے دل میں روحانی باتوں کی نسبت شک و شبہ پیدا ہو ایسا ہی کریں تو ہر حالت میں نتیجہ اچھا ہو کیونکہ مسیح شکی دلوں کو ہر حالت میں تسلی دینا جانتا ہے۔
یوحنا کے بھیجے ہوﺅں کی واپسی پر یسوع نے وہ پرزور کلمات فرمائے جن سے اس کی اپنے پیشرو سے حقیقی دوستی ظاہر ہوتی ہے۔ یوحنا کے شک لانے سےمالک کے دل سے اس کی جگہ جاتی نہ رہی۔ یسوع جانتا تھا کہ یوحنا کے سوال پوچھنے سے میرے شاگرد اس کو کچھ نظر حقارت سے دیکھیں گے۔ اس لئے یوحنا کے بھیجے ہوﺅں کے جاتے ہی اس نے یوحنا کی تعریف شروع کی۔ دوست کی غیر حاضری میں اس کی تعریف کرنا دوستی کا ثبوت ہے۔ اکثر ظاہری دوستیاں اس کسوٹی پر پوری نہیں اترنے کی۔ یوحنا کے شک لانے پر یسوع نے ملامت کی ایک بات بھی نہ کہی۔ بلکہ اس کی حد درجہ کی تعریف کی۔ اس نے اس کی مضبوطی اور اس کے قائم رہنے کا ذکر کیا۔ یوحنا رسکنڈا نہ تھا جو ہوا کے جھونکے سے ہے۔نہ وہ کوئی خودپسند اور اپنے راحت و آرام کا طالب تھا بلکہ وہ ہر قسم کی خود انکاری اور مصیبتوں کی برداشت کے لئے ہر وقت تیار تھا۔ یسوع نے یوحنا کی ان اصفات پر یہ صفت ایزادگی کی اس دنیا میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں ہوا بے شک یہ سچی تعریف ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یسوع نے اپنے اس وقت کی جو راستبازی کی خاطر دکھ اٹھا رہا تھا۔ دوستی کا حق پورا کیا۔
ایک اور واقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع یوحنا سے کیسی محبت کرتا تھا۔ یوحنا کی موت کے بعد یوں ہوا کہ اس مرحوم نبی کے دوست قید خانہ میں جمع ہوئے اور اپنے استاد کے بے سر بدن کو لے جا کر بڑے غم اور عزت سے دفنایا۔ پھر انہوں نے جا کر یسوع کو اس ماجرے کی خبر دی۔ انجیل میں یوح لکھا ہے کہ یہ سنتے ہی یسوع کشتی میں بیٹھ کر اکیلا ویرانہ میں چلا گیا۔ اپنے دوست کی افسوسناک موت کی خبر سن کر اسے ایسا رنج ہوا کہ اس نے تنہائی پسند کی۔ یہودیوں نے اس کو تعزر کی قبر پر روتے دیکھ کر کہا کہ دیکھو وہ اسے کیسا پیار کرتا تھا“۔ یوحنا کی موت کی خبر کے پانے پر یسوع کے رونے کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن وہ فوراً لوگوں سے جدا ہوگیا تاکہ اکیلا ہو اور کوئی اس کے رنج کو نہ دیکھے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اکیلے ہو کر وہ رویا کیونکہ یوحنا کو پیار کرتا تھا اور اس کی موت متاسف ہوا۔
یسوع اور یوحنا کی دوستی کا بیان بڑا دلکش ہے۔ یوحنا کی وفاداری اور صدق دلی سے یسوع کو بڑی تسلی ملی ہوگی۔ اور یوحنا کے لئے مسیح کی دوستی بڑی خوشی کا وسیلہ ہوئی ہوگی۔
یوحنا کے درد انگیز بیان پڑھنے سے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موت بے وقت واقع ہوئی۔ جب اس نے اپنی خدمت شروع کی تو کامیابی کی ہر صورت تھی۔ کچھ مدت تک وہ بڑے زور سے منادی کرتا رہا۔ اور ہزاروں اس کی سننے کو آتے تھےں پھر اس کی شہرت کم ہونے لگی اور تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ زندان میں ڈالا گیا اور پھر بڑی بے رحمی سے مارا گیا۔
ہمارا دل کہتا ہے کہ کیا یہ تھوڑی سی خدمت اس لائق ہے کہ انسان پیدا ہو اور اتنی تکلیفیں اٹھا کر اس کے لئے تیار ہو۔ اس سوال کا ہم یہی جواب دے سکتے ہیں کہ یوحنا اپنا کام پورا کر چکا تھا۔ وہ دنیا میں صرف یہ کام کرنے کے لئے خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا کہ مسیح کے لئے راہ تیار کرے۔ مسیح کے آنے پر یوحنا کا کام پورا ہوا۔ وہ مسیح کا دوست ہو کر بہشت میں داخل ہوا اوردوسرے عالم میں شاید اب بھی اپنے خداوند کی خدمت میں لگا ہے۔
باب۔2
مسیح کا پیارا شاگرد یوحنا رسول
محبت سی دنیا گو یا نئی زندگی پا رہی ہے۔ یہ عظیم تبدیلی خدا کی محبت سے واقع ہو رہی ہے۔ مسیح کے پیشتر دنیا میں محبت نہ تھی۔ البتہ نوع انسان میں محبت ہمیشہ سے چلی آتی ہے۔ یعنی حب پدری، حب مادری، حب برادری، حب وطن اور ہاں صادق، پروفا اور مستقل انسانی دوستوں کے اکثر تذکرے پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں محبت طبعی تو ہمیشہ سے ہے لیکن مسیح کے آنے تک مسیحی محبت نہ تھی۔
یسوع کا مجسم ہونا دنیا میں خدا کی محبت کا ظاہر ہونا تھا۔ تینتیس برس یسوع دنیا میں رہا اور اپنے ہر قول اور فعل اور اپنی زندگی کے مبارک اثر سے محبت کا اظہار کرتا رہا۔ صلیب پر اس کے دل کے چھد جانے سے اس کی محبت دنیا میں پھیل گئی۔جیسے مریم کی عطردانی کے کھلنے سے سارا مکان مہک گیا۔ ویسے ہی خدا سے محبت جو مسیح کی زندگی اور موت میں ظاہر ہوئی دنیا میں معمور ہو رہی ہے۔
یسوع نے اپنی محبت انسانی دلوں میں ڈالی تاکہ ساری دنیا میں اس کا اشتہار ہو اور اس سے فوراً ایک عجیب تبدیلی واقع ہوئی۔ پینتیکوستسے بعد کی تواریخ کلیسیا مسیح کے شاگردوں میں ایک ایسی روح کا اظہار کرتی ہے جو دنیا نے کبھی پیشتر دیکھی نہ تھیں ان کی سب چیزیں مشترکہ تھیں۔ زور آور کمزوروں کی مدد کرتے تھے۔ ان میں ایسا اتفاق و اتحاد تھا جو سچ مچ آسمان پر کا نمونہ تھا۔ تب سے آج کے دن تک محبت کا خمیر کام کر رہا ہے۔ اس کا اثر زندگی کے تمام صیغوں میں پایا جاتا ہے۔ فن، علم ادب، موسیقی، قوانین، تعلیم اور اخلاق میں ہر ایک ہسپتال،یتیم خانہ، پاگل خانہ اور اصلاح خانہ مسیح کی محبت کی تحریک سے پائم ہوا ہے۔ اس الٰہی محبت کے قوموں میں کا م کرنے کا نتیجہ و ماحصل مسیحی تہذیب ہے۔
مسیح کی محبت کے دنیا میں پھیلانے اور اس کے معنی بتانے میں شاید کسی اور شاگرد نے اتنا کام نہیں کیا جتنا مسیح کے اس پیارے شاگرد نے کلیسیا کے قائم کرنے میں پطرس ایک بڑی طاقت تھا اور پولوس میں بھی بڑا مشنری جوش تھا اور اس نے مسیحیت کی منادی زمین کی حدوں تک کی۔ یہ دونوں رسول اپنی جگہ اور کام میں بڑے تھے۔ لیکن یوحنا نے دنیا کو محبت کی برکت دینے میں ان دونوں سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ اس کا اثر ہر کہیں پایا جاتا ہے۔ سارے شاگردوں میں زیادہ وہی یسوع کی مانند ہے۔ اس کا اثر بنی آدم میں آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے۔ مسیحیوں میں محبت کی روح کے بڑھنے۔ بنی آدم کی فلاح و بہبودی کی کوششیں کرنے اور اس خیال کے جگہ پکڑنے سے اس کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسیحی قوموں کے مابین جنگ قطعی ترک ہوتا اور جھگڑوں کا فیصلہ بذریعہ پنچائت کے ہونا چاہئے اور کہ تمام بنی آدم اعضائے یک دیگر اند۔
یسوع اور یوحنا کی اس دوستی کا تذکرہ نہایت دلچسپ ہوگا کیونکہ اس مقدس دوستی میں یوحنا نے وہ کچھ سیکھا جو اس نے اپنی زندگی اور کلام سے دنیا پر ظاہر کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس دوستی کا آغاز کب ہوا۔ ایک دن یوحنا بپتسمہ دینے والا یردن کے کنارے اپنے دو شاگردوں کے ہمراہ کھڑا تھا۔ ان میں سے ایک تو اندریاس تھا اور دوسرا ہم جانتے ہیں کہ یوحنا۔ کیونکہ یوحنا کی انجیل میں جہاں اس واقع کا ذکر قلمبند ہے دوسرے شاگرد کا نام نہیں دیا گیا۔ ان دونوں جوانوں نے ابھی تک یسوع کو دیکھا نہ تھا۔ لیکن یوحنا بپتسمہ دینے والا اس کو جانتا تھا اور جب یسوع وہاں سے گزرا تو اس نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ”دیکھو خدا کا برہ“!
یہ دو نوںجوان یسوع سے بات کرنے کی غرض سے اس کے پیچھے ہولئے۔ ان کے قدموں کی آواز سن کر یسوع نے پیچھے کو مڑ کر دیکھا اور ان سے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اے استاد تو کہاں رہتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”آﺅ اور دیکھو“۔ انہوں نے اس کی دعوت بڑ خوشی سے قبول کی اور شام تک اس کے ہاں ٹھہرے رہے۔ اس مبارک وقت میں جو کچھ گزرا اس کا بیان کہیں درج نہیں پایا جاتا۔ تو بھی ہمیں یقین ہے کہ اس ملاقات سے یوحنا پر بڑا اثر ہوا۔
ہماری زندگی کے اکثردن کسی خاص واقع سے نامدار نہیں۔ ہزاروں دن ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ تاہم عموماً ہر ایک کی زندگی میں دو ایک دن ضرور کسی خاص واقع یا بات کے لئے نامدار ہوتے ہیں۔ کسی ایسے شخص سے پہلی ملاقات کے لئے کہ جس سے بعد میں زندگی بھر سابقہ رہے۔ یا اس سے خاص گہری دوستی ہو جائے۔ یا کسی نئی صداقت کے ظاہر ہونے یا کسی خاص ایسے فیصلہ کے لئے کہ جو بڑی برکت کا موجب ہو۔ ایسا دن اور دنوں سے جدا ، الگ اور ممیز رہتا ہے۔
یوحنا کی عمر کی درازی نصلیب ہوئی۔ لیکن اپنے آخری دن تک وہاس دن کو یاد کرتا ہوگا۔ جب کہ اس نے یسوع سے پہلی ملاقات کی اور اس کے ساتھ ایسی مبارک دوستی کا آغاز ہوا۔ ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ جیسے پہلی ملاقات میں ہی داﺅد یونتن کو جان سا عزیز ہوگیا۔ ویسے ہی پہلی ملاقات میں ہی یوحنا اور یسوع کے مابین وہ مقدس دوستی قائم ہوگئی جو یوحنا کی زندگی کے لئے بڑی بھاری برکت کا موجب ٹھہری۔
یوحنا اپنے آپ کو اکثراس نام سے لکھتا ہے کہ ” وہ شاگرد جسے یسوع پیار کرتا تھا“۔ اس تعریف سے اس کو خداوند کے خاص دوستوں میں بھی امیاز ملتا ہے۔ یسوع تمام رلوگوں کو پیار کرتا تھا لیکن اس کے تین خاص رسول تھے جو گویا اندرونی حلقہ سے متعلق تھے۔ ان تینوں میں یوحنا سب سے پیاراتھا۔ ہم کو معلوم نہیں کہ یوحنا میں ایسی کونسی صفت تھی کہ جس سے اس کوایسی عزت ملی۔ غالباً وہ یسوع کا خالصہ زاد بھائی تھا۔ کیونکہ اکثروں کا خیال ہے کہ یسوع اور یوحنا کی مائیں آپس میں بہنیں تھیں۔ لیکن یہ رشتہ داری ان کی اس محبت کی وجہ ہو نہیں ہوسکتی۔ یوحنا میں ضرور کوئی ایسی صفات ہوں گی جن سے وہ یسوع کا یاسا ہمراز دوست ہونے کے قابل ٹھہرا۔
ہم جانتے ہیں کہ یوحنا کے اطوار بڑے دل رُبا تھے۔ وہ محض ایک مچھیرا تھا اور جوانی میں اس کو علم یا تربیت پانے کے موقعے نصیب نہ ہوئے۔ اگر مریم اور سلومی آپس میں بہنیں تھیں تو پھر یسوع اور یوحنا دونوں داﺅد کی نسل سے ہوئے۔ ایسی شریف شاہی اور بزرگ نسل سے ہونا بھی بڑی بات بھی ہے۔ یوحنا معمولی آدمیوں سے بے شک نرالا تھا۔ اپنی ذات اور فطرت کے لحاظ سے وہ بڑا ہمدرد اور دوست ہونے کے قابل تھا۔
یوحنا کی تصنیفات کے مطالعہ سے ہمارے سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ اپنی انجیل میں وہ کبھی بھی اپنا ذکر نام لے کر نہیں کرتا تاہم اس کے مطالعہ سے اس کی شیریں مزاجی ظاہر ہے۔ بعض کھیت اور مرغزار ہوئے خوشگوار سے مہکے ہوتے ہیںاور ایک بھی پھول نظر نہیں آتا پر غور سے دیکھنے پر چھوٹے چھوٹے پھول لمبے لمبے گھاس میں چھپے ملتے ہیں۔ ہر ایک قوم میں ایسے غریب مزاج شخص ملتے ہیں کہ جن کے نام سے لوگ واقف نہیں۔ لیکن ان کا اثر چاروں طرف پڑتا ہے۔ یوحنا کی انجیل کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے لکھنے والے کا نام کہیں ظاہر نہیں ہوتا۔
لیکن اس کی روح کا اثر ساری کتاب میں پایا جاتا ہے۔
اپنے آپ کو وہ جس پیرایہ میں ظاہر کرتا ہے اس سے اس کی سیرت کا پتہ ملتا ہے۔ مصنف اپنے آپ کو چھپاتا ہے کہ یسوع کا نام اور اس کا جال روشن ہو اکثر دیندار اپنے خداوند کو بزرگی دیتے وقت بھی اپنا نام روشن حروف میں لکھتے ہیں کہ جو کوئی استاد کو دیکھے وہ اس کے دوست کو بھی دیکھ لے۔ یوحنا میں یہ روح بالکل مفقود ہے۔ جب یوحنا بپتسمہ دینے والے سے اس کا نام پوچھا گیا۔ تو اس نے بتانے سے انکار کیا اور کہا کہ میں محض ایک آواز ہوں کہ بادشاہ کے آنے کا اعلان کروں۔ ویسے ہی یوحنا رسول بھی اپنا ذکر یوں کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جس کو استاد پیار کرتا ہے۔
یاد رہے کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں وہ شاگرد ہوں جو یسوع کو پیار کرتا ہے اس سے تو فخر پایا جاتا کہ میں اور شاگردوں کی نسبت خداوند کو زیادہ پیار کرتا ہوں بلکہ یہ کہ وہ شاگرد جس کو یسوع پیار کرتا ہے۔ اس امتیاز سے سلامتی کا ایک بڑا بھید پایا جاتا ہے۔ ہماری امید اس میں نہیں کہ ہم یسوع کوض پیار کرتے ہیں بلکہ اس میں کہ وہ ہم کو پیار کرتا ہے۔ ہماری بہتر سے بہتر محبت متلون اور بے ٹھکانا ہے۔ ایک دن تو وہجوش و وخوشی سے شعلہ انگیز ہے اور ہم دعویٰ کرےت ہیں کہ مسیح کی خاطر ہم جان دینے کو بھی تیار ہیں۔ اور دوسرے ہی روز کسی مایوسی و بے ہمتی کے وقت ہم کو شک پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم اس سے محبت بھی رکھتے ہیں یا نہیں اگر سلامتی ہمارے مسیح سے محبت کرنے پر موقوف ہو تو وہ ویسی ہی متلون ہوگی جیسے ہمارے دل کی حالت۔ لیکن اگر مسیح کی محبت پر ہمارا تکیہ اور انحصار ہو تو کسی قسم کی دنیوی تبدیلی سے ہمارے اطمینان میں فرق نہیں آئے گا۔
اسی لئے یوحنا کا مزاج بڑا سلیم اور اس کا دل پُر اطمینان تھا۔ وہ غریبی اور فروتنی سے بھی خوش تھا وہ تکیہ اور بھروسہ کرنا جانتا تھا۔ وہ بڑا حلیم مزاج اور روحانی شخص تھا۔ کسی صورت سے وہ کمزور اور نامرد نہ تھا۔ جیسا کہ اس کی بعض تصویروں سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ خیال نہ صرف محض غلط بلکہ اہانت کرنے والا ہے۔ یوحنا بڑا شریف اور صاحب اقتدار تھا۔ اس کی خاموشی طبیعت اور شیریں مزاج کے تلے ایک بڑی جوشیلی روح تھی۔ لیکن وہ مرد محبت تھا۔ اس نے الٰہی اطمینان کے سبق سیکھ لئے تھے اور اپنے آپ پر اس کو قابو حاصل تھا۔
ان باتوں سے اس شخص کی سیرت کا پتہ ملتا ہے جس کو یسوع پیار کرتا تھا اور جس کو اس نے اپنی گہری دوستی میں لیا۔ جب یسوع اس کو اول اول ملا تو یوحنا محض ایک لڑکا تھا۔ یسوع کی صحبت میں ہی اس نے ترقی کی۔ جس دن یوحنا پہلی دفعہ یسوع کے مکان پر اس کے پاس بیٹھا تو وہ اس کی باتیں غور سے سنتا تھا۔ اس کی سیرت میں ترقی اور سعادت مندی کے آثار تھے۔ اب یوحنا کی جو تصویر ہمیں نظر آتی ہے وہ اس وقت کی ہے جب کہ مسیح کی محبت میں وہ نشوونما پا چکا تھا۔ وہ یسوع کی تربیت کا پھل ہے۔دن بدن اس کی جوان روح خداوند کی ہر ایک تحریک کا جواب دیتی اور نہایت خوبصورت بنتی گئی۔ بلا ریب یوحنا کی وہ صفت جس سے وہ یسوع کا ایسا دوست بننے کے قابل ٹھہرا اس کی صاف دلی تھی۔ جس امر کا یسوع اشارہ بھی کرتا وہ اس کو سمجھتا اور اس کو عمل میں لاتا بھی تھا۔
اس تین سال کی دوستی کا بیان بڑا ہی دلچسپ ہوتا لیکن اس کا بہت ہی تھوڑا ذکر قلمبند کیا گیا ہے۔ پہلی ملاقات سے چند مہینہ بعد سمندر کے کنارے پھر ان کی ملاقات ہوئی۔ بعض وجوہات سے یوحنا اور اس کے رفیقوں نے مچھلیاں پکڑنے کا کام بھی اختیار کرلیا تھا۔ علی الصبح یسوع نے آکر دیکھا کہ رات بھر کی بے پھل محنت کے بعد وہ بڑے مایوس اور شکستہ دل ہو رہے ہیں۔ اس پر اس نے حوصلہ دے کر کہا کہ گہرے پانی میں جا کر فلاں جگہ پھر جال ڈالو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا جال مچھلیوں سے پُر ہوگیا۔ اس الٰہی قدرت کے اظہارسے مچھووں پر بڑا اثر ہوا۔ پھر یسوع نے ان سے کہا کہ میرے پیچھے آؤاور میں تم کو آدمیوں کا مچھوا بناؤں گا۔ اور وہ اپنی کشتی چھوڑ کر فوراً مسیح کے پیچھے ہولئے۔
اب یوحنا سب کچھ چھوڑ کر مسیح کے ساتھ ہولیا وہ شب و روز اسی کے پاس رہتا اور ہر کہیں اس کے ساتھ ساتھ جاتا تھا۔ وہ اس کے مدرسہ میں تھا اور بڑا تیز فہم طالب علم تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے ایک اور بلاہٹ آئی۔ یسوع نے اپنے بارہ رسول چنے اور ان میں سے یہ پیارا شاگرد بھی تھا اس انتخاب اور بلاہٹ سے اس کو مسیح کی اور بھی قربت حاصل ہوئی۔ اب ہر دم مسیح کے ساتھ ساتھ رہنے سے اس کی سیرت کی تبدیلی اور بھی جلد واقع ہونے لگی۔
یوحنا اور اس کے بھائی یعقوب دونوں کو ایک عجیب لقب دیا گیا ہے۔ یسوع نے ان کو بوا نرگیس یعنی ابن رعدکانام دیا۔ اس نام دینے سے یسوع کی ضرور کوئی خاص مراد ہوگی۔ شاید رعد سے تہمت اور کام کرنے کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ یوحنا کی روح میں آگ کا سا جوش تھا۔ یوحنا کی تصنیفات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بابت یہ بات ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ وہ ایسا مرد محبت معلوم ہوتا ہے کہ ہم سمجھ نہیں سکتے کہ کوئی متضاد صفت بھی اس میں ہوسکتی ہے۔ لیکن اس امر کی شہادت ہمارے پاس ہے کہ طبیعتاً وہ بڑا جوشیلا تھا۔ لیکن اس جوش پر اس کو قابو حاصل تھا۔ یوحنا کی سیرت کا اندازہ ہم اس کی تصنیفات سے لگاتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ بڑھاپے میں لکھی گئیں۔جب کہ وہ محبت کے سبق بخوبی سیکھ چُکا تھا۔
جوانی میں وہ بڑا تیز مزاج اور جوشیلا تھا۔ یسوع کی زیر ِ تربیت اُس نے اپنے مزاج پر پُورا پُورا قابو پایا۔ اس تیز مزاجی کی مثال ایک مشہور واقع سے ملتی ہے۔ کسی گاؤں کے لوگوں نے خداوند کو قبول کرنے سے انکار کرنے سے انکار کیا اور یوحنا اور اُس کے بھائی نے چاہا کہ آسمان سے آگ نازل کروا کر اُن کو تباہ کر ڈالیں۔ لیکن یسوع نے اُن کو یاد دِلایا کہ میں دنیا میں لوگوں کو تباہ کرنے نہیں آیا بلکہ اُن کو بچانے کو آیا ہوں۔
ہمیں یہ تو معلو م نہیں کے اُس کے رسُول ِ محبت بننے سے پیشتر خداوند کو کتنی دفعہ اُسے یہ سبق سکھانا پڑا ۔ مقدس پولس نے اپنے بڑھاپے میں کہا کہ میں نے یہ سیکھا ہے کہ خواہ کسی حالت میں ہُوں ۔ اُس میں خوش رہوں۔ یہ واقع ہماری تسلی کا موجب ہے کہ وہ ہمیشہ یوں کہنے کے قابِل نہ تھا اور کہ اُس کو بھی یہ سبق ایسے ہی سیکھنا پڑا جیسے ہمیں سیکھنا پڑتا ہے۔ اِس امر سے بھی ہم کو تسلی ملتی ہے کہ یوحنا کو بھی محبت اور حلیمی کا سبق سیکھنا پڑا۔ اور یہ سبق سہل نہ تھا۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یسوع کی دوستی کے وسیلہ سے یوحنا نے شیریں مزاجی اور محبت کرنے والی طبیعت پائی۔
سعدی کے یہ اشعار کیسے معنی خیز ہیں ۔
گُلے خوشبوئے درحمام روزے
رسید از دست محبوب بدسِتم
بدو گُفتم کہ مُشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلاویزے تو مستم
بگھتا من گِلے ناچیز بودم
و لیکن مُدقے باگل نشستم
جمال ِ ہمنشیں درمن اثر کرو
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
یوحنا کو یسوع کے ساتھ دِلی قُربت حاصل تھی۔ اور اِس حلیم دِل کی محبت نے اُس کے دِل پر بڑا اثر کیا۔ اور اُس کی صورت بدل دی۔ جو شخص محبت کا یہ سبق سیکھنا چاہے وہ اِس راز کو سمجھ لے۔ یسوع میں قائم رہنے سے یسوع بھی ہم میں قائم رہتا ہے۔ اور اس کے ہم میں قائم رہنے سے ہم اُس کی صورت پر ڈھلتے جاتے ہیں۔ یسوع کے محبِ خاص ہونے کے باعث یوحنا کو بڑے بڑے مبارک تجربے نصیب ہوئے۔ اس کی صورت بدلنے کا وہ شاہد تھا جبکہ ایک ساعت کےلئے مسیح کا اصلی جلال اُس کے جامہ میں سے ظاہر ہُوا۔ اِ س رویا کو یوحنا کبھی نہ بھولا ۔ اُس کا اثر اُس کے دِل پر بڑا گہرا ہُوا۔ جب یسوع نے گتسمنی میں ایذا اٹھائی تو وہاں بھی یہ یسوع کے نزدیک تھا اور محبت سے اُس کو تسلی دیتا تھا۔
اِس آخری تجربہ سے یہ اشارہ مِلتا ہے کہ یسوع اور یوحنا کی دوستی کس قسم کی تھی۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ یہ دوستی یوحنا کےلئے بڑی برکت اور راحت موجب تھی۔ اور اُس سے اُس کی ساری سیرت بدل گئی۔
لیکن یہ دوستی یسوع کےلئے کیا تھی ؟
اُس کےلئے بھی وہ ضرور باعثِ راحت تھی۔ اُس کا دِل بھی محبت و ہمدردی کا خواہاں تھا۔ گتسمنی کے دُکھ کا سب سے بڑا غم آمیز جُزو یسوع کی مایوسی تھا۔ جبکہ وہ محبت کا بھوکا تسلی اور قُوت پانے کی اُمید سے اپنے تئیں چُنے ہوئے شاگردوں کے پاس آیا اور اُن کو سوتے پایا۔
یوحنا جو عشا ء کے وقت یسوع کی چھاتی پر تکیہ کئے ظاہر ہوتا ہے ۔ اُس کی یہ تصویر ہمارے ذہن میں رہتی ہے کہ یہ جگہ بھروسے اور اعتبار کی ہے۔
وہی لوگ چھاتی پر سر رکھتے ہیں جِن کو بڑا اُنس اور محبت ہو۔ دِ ل کے نزدیک یہ محبت کی جگہ ہے ۔ ہاں یہ جگہ سلامتی کی ہے کیونکہ وہ ابدی بازؤں کے آغوش میں ہے بیکا نہیں ہو سکتا۔ جَس رات یوحنا یسوع کی چاہتی پر تکیہ کئے بیٹھا تھا وہ دنیا میں سب سے تاریک رات گُزری ہے۔
تمام غم زدہ ایمانداروں کےلئے تسلی کی جگہ یہی ہے ۔ اور اُس چھاتی پر ابھی اور بہت سے ایمانداروں کے لئے جگہ ہے۔
یوحنا یسوع کی چھاتی پر تکیہ کئے ہوئے تھا ، ہاں کمزوری زور پر اور ناتوانی قادرِ مطلق کی مدد پر تکیہ کئے ہوئے تھی ۔ ہمیں بھی سیکھنا چاہیئے کہ اپنا سارا بوجھ مسیح پر ڈال دیں اور اُس پر تکیہ کریں ۔ کیونکہ مسیحی ایمان استحقاق ہے۔
ایک موقع پر تو یوحنا اپنی معمولی فروتنی کو بھول گیا تھا ۔ نئی بادشاہت میں سب سے اعلیٰ جگہ پانے کےلئے اُس نے اپنے بھائی کے ساتھ مِل کر درخواست کی کہ یہ صرف ایک شہادت اِس امر کی ہے کہ یوحنا بھی ہمارا سا مزاج رکھتا ہے۔ یسوع کو اُن شاگردوں پر ترس آیا اور اُس نے اُن سے بڑی حلیمی سے کہا کہ ” تم نہیں جانتے کہ کیا مانگتے ہو “ پھر اُس نے اُن کو سمجھایا کہ بڑی جگہیں محنت و مشقت اور خدمت تکلیف اُٹھانے سے مِلتی ہے۔ آخری عُمر میں یوحنا نے خداوند کے اِن الفاظ کا مفہوم سمجھا ۔ اُس نے مسیح کے نزدیک ترین جگہ پائی۔ لیکن کسی دنیوی تخت کے زینہ پر نہیں ۔
یہ نزدیکی محبت کی تھی اور اُس کا زینہ فروتنی ۔ خود فراموشی اور خدمت تھی۔
آخری دم نظروں میں یوحنا کے ساتھ ٹھہرنے سے یسوع کو بڑی تسلی ہوئی ہو گی۔ اگر وہ اور رسولوں کے ہمراہ باغ سے ایک دم بھاگ گیا تو وہ فوراً واپس ہُوا۔ کیونکہ خداوند کی آخری عدالت کے وقت اُس کے ساتھ تھا۔ اور پھر صلیب پر سے یسوع نے دیکھا تھا کہ اُس کے عزیز دوستوں کا ایک گروہ بے دِل شکستہ اُسے دیکھ رہا ہے اور اُن دوستوں میں یوحنا بھی تھا۔ یسوع نے جب اپنی ماں کو یوحنا کے سپرد کیا اور اُسے اُس کو اپنے ہاں لے جاتے دیکھا تو اُس کے دِل سے ایک بڑا بوجھ اُتر گیا۔ دوستی کا یہ ایک اعلیٰ اظہار تھا۔
اُس نے اپنے دوستوں میں سے یوحنا کو چُنا کہ ” عورتوں میں سے اُس مبارک “ خاتون کو پنا ہ دینے کا مقدس نصیب پائے۔
یسوع اور یوحنا کی اِس دلکش دوستی کے بیان سے ظاہر ہے کہ ہر ایک مسیحی کےلئے اپنی اپنی جگہ کیا کچھ ممکن ہے۔
ہر مسیحی کےلئے مقدس یوحنا بن جانا تو مُمکن نہیں لیکن یسوع کے ساتھ خالص اور گہری محبت رکھنا ہر ایک مسیحی کا استحقاق اور حصہ ہے۔
اور جو کوئی اُس دوستی کے زِمرہ میں داخل ہو گا وہ اپنے دوست کی صورت پر ڈھلتا جائے گا۔
باب۔3
پطرس
نئے عہد نامہ میں شمعون پطرس کا ذکر پہلے پہل اُس موقع پر آتا ہے جب یردن کے کنارے اُس کی یسوع کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اُس کا بھائی اُس کو وہاں لایا تھا۔ وہیں ایک ایسی دوستی پیدا ہو گئی جو نہ صرف شمعون کےلئے نہایت ضروری اور مفید بلکہ تمام دنیا کےلئے بڑی بھاری برکت کا موجب ٹھہری۔ یسوع نے بڑے غور اور د؛لچسپی کے ساتھ اُس پر نگاہ کی ۔ اُس کی نگاہ اُس کی جان تک جا پہنچی اور اُس نے شمعون کی سیرت کو پڑھ لیا۔ نہ صرف اُس کی اُس وقت کی حالت کو پہچان لیا بلکہ یہ بھی کہ فضل کی تاثیر سے وہ کیا کچھ بن سکتا اور کیا کچھ انجام دے سکتا ہے۔ اُس نے اُس کو ایک نیا نام دیا اور یسوع نے اُس پر نگاہ کر کے کہا کہ ” تو شمعون ہے تو کیفا یعنی پطرس کہلائے گا “
یورپ کے ایک مشہور عجائب گھر میں رمرانڈ نامی ایک مصور کی دو تصوریریں پہلو بہ پہلو رکھی ہیں ۔ ایک تو اُس کی پہلی کوشش کا نتیجہ ہے جو بالکل ناقص اور ادھوری ہے ۔ دوسری ایک اعلےٰ درجے کی تصویر آپ اپنی نظیر ہے۔ یونہی اُن دو ناموں شمعون اور پطرس میں اول تو ہمیں ایک سیدھا سادھا مچھوا ملتا ہے کہ جس پر ابھی یسوع کا اثر نہ پڑا تھا۔ اوردوم ہم کو اُس کو اُس کی اُس وقت کی حالت نظر آتی ہے جبکہ یسوع کی دوستی سے اُس کا دِل محبت والا اور اُس کی زندگی بار آور ہو گئی تھی۔ جبکہ یسوع کی تعلیم سے اُس نے دانشمندی حاصل کر لی۔ اور اُس کے دِل میں بڑی بڑی تحریکیں اور آرزوئیں پیدا ہو چکی تھیں۔ ہاں جبکہ جنگ و ناکامی ، توبہ و معافی ، غم و رنج کے تجربے اُس پر اپنا اثر کر چکے تھے۔
” تُو شمعون ہے “ اُس وقت اُس کا نام یہ تھا ”تو کیفا کہلائے گا “یہ اُس کی آئندہ حالت کی طرف اشارہ ہے۔ سیرت یا رُتبہ کی تبدیلی ظاہر کرنے کےلئے اکثر نام بھی بدل دیا جاتا ہے۔ ابرہام کو جب وعدہ دیا گیا تو اُس کو نام بھی ابراہیم یعنی ” قوموں کا باپ “ سے بدل دیا گیا۔
یعقوب کو جس کے نام کے معنی دھوکا اور فریب دینے والا ہے خدا کے ساتھ کُشتی کرنے اُس کی پرانی انسانیت کے شکست پانے اور ایمان اور اعتقاد سے غالب آنے پر اسرائیل یعنی خدا کا شہزادہ کا نام دیا گیا۔ شمعون نے یسوع کے پاس آنے اور اُس کے ساتھ دوستی پیدا کرنے پر یہ ایک نیا نام پایا کہ ”تو کیفا کہلائے گا “ ۔اِس سے یہ مُراد نہیں کہ شمعون کی سیرت اُسی وقت بدل گئی اور اُس کو یہ صفات حاصل ہوگئیں جو اُس کے نام سے ظاہر ہیں بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یسوع نے پہچان لیا کہ یہ شخص کِس مضبوطی ، توانائی ، اور استقلالی جِن کا نشان پتھر ہے حاصل کر سکتا ہے۔ اور فضل کے اُس میں تکمیل پانے پر اُس کی سیرت ایسی ہوگی۔ یہ نیا نام اُس حالت کی پیشن گوئی تھا جو یسوع کے اثر سے اُس کو حاصل ہوئی ۔ ابھی تو وہ صرف شمعون ہے۔ جلد باز۔ جوشیلا اور گھمنڈی اور اِس لئے کمزور اور بے استقلال۔ اِس شخص کی تبدیلی ہاں شمعون کے کیفا میں تبدیل ہونے کے چند طریق اور وسائل پر ہم غور کریں گے۔ تین برس کی دوستی کے بعد یہ شخص اپنی خدمت کےلئے تیار ہوا۔ یہ طریق سہل نہ تھا۔ شمعون کو بہت سے مُشکل سبق سیکھنے پڑے۔ ضرور تھا کہ خود اعتمادی فروتنی سے بدل جائے۔ تیز مزاجی کو چھوڑ کو وہ اپنے آپ پر قابُو پائے۔ تکبُر کی جگہ اوروں کی عزت کرے۔ بے پروائی کی جگہ فِکر مند ہو۔ جلد بازی چھوڑ کر دانشمند اور کمزوری چھوڑ کر زور آور بنے۔ یہ ساری سرگزشت اُن الفاظ میں ملفوف(لِپٹی ہوئی ، لفافہ میں بند ) تھی کہ ” تو کیفا یعنی پتھر کہلائے گا “ یردن کے کنارے اُس دوستی کا آغاز ہوا۔ دوستی سے ساری زندگی اور اُس کے مقاصد اور انجام بدل جاتے ہیں۔ ہم کبھی کہہ نہیں سکتے کہ کسی کے ساتھ اتفاقیہ ملاقات کا نتیجہ بھی کیا ہو گا۔ لیکن یسو ع کے ساتھ دوستی کے پیدا ہونے سے بہتری کے بڑے بڑے موقعے ملتے ہیں۔ نئے نام کے پانے سے شمعون کے دِل میں زندگی کے معنی کا نیا خیال پیدا ہو گیا ہوگا۔
اُس کی روح کو نئی رویا مِلی ہوگی۔ اور اُس کے دِل میں نئی نئی آر زوئیں پیدا ہو ئی ہوں گی۔ اُس میں ایسی ایسی امیدیں پیدا ہو گئیں جِن کا خواب و خیال تک نہ تھا۔ اگر کسی کی زندگی میں یسوع کو یہ جگہ مِل جا ئے تو اُس کا یہی حا ل ہوتا ہے۔ سیرت کا ایک نیا خیال دِل میں پیدا ہو جاتا ہے۔
ہمارا مطمح ( مقصد ۔ مرکزِ نگاہ ) اور ہدف ہی اور ہو جاتا ہے۔ اور ایک ایسی رویا ملتی ہے جس سے زندگی کے تمام خیالات بدل جاتے ہیں۔
مسیح کی دوستی بڑی تحریک دلانے والی ہے۔
کچھ مہینوں بعد شمعون کو ایک بلاہٹ ملی اور اب یسوع کے ساتھ اُس کو گہرا اور دائمی تعلق حاصل ہوا۔ یہ واقع دریائے گلیل پر ہُوا۔
شمعون اور اُس کے رفیق ( دوست۔ساتھی ) مچھلیا ں پکڑ رہے تھے ۔ ساری رات محنت کرنے پر بھی اُن کو کُچھ نہ مِلا تھا ۔صبح کے وقت یسوع نے شمعون کو کشتی سے مِنبر (پُلپٹ ) کا کام لیا اور بھیڑ کو جو کنارے پر کھڑی تھی وعظ و تلقین کرتا رہا۔۔ پھر اُس نے کشتی سے کہا گہرے میں لے چلو اور تُم شکار کےلئے اپنے جال ڈالو۔ شمعون نے کہا یہ تو محض تضیع اوقات( وقت گنوانا یا رائیگاں کرنا ) ہے تاہم اُس نے خداوند کا حکم مانا اور مچھلیوں کا غول گِھر آیا۔
اِس معجزے سے شمعون کے دِل پر بڑا اثر ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ میں الہیٰ حضوری میں ہوں اور اُس کو اپنے گناہوں اور نالائقی کے خیال ستانے لگے اور اُس نے یسوع کے پاؤں میں گِر کر کہا ” اے خداوند میرے پاس سے جا کیونکہ میں گنہگار ہوں “
لیکن یسوع نے اُس کو تسلی دے کر کہا کہ ” خوف نہ کر “ اور پھر فرمایا کہ ” اب سے تو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا “ شمعون کا ماہی گیری کا کام تو ختم ہُوا۔ وہ سب کُچھ چھوڑ کر مسیح کے پیچھے ہو لیا اور پورے طور پر اُس کو شاگرد بنا۔ یسوع کے ساتھ اُس کی دوستی مضبوط اور گہری ہوتی گئی۔ اُس نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا اور یسوع کے ساتھ مُفلسی اور بے وطنی اختیار کی۔ مسیح کے گھرانے میں رہنے سے شمعون نے اپنے خداوند کی زندگی کا ہر ایک پہلو دیکھا۔ خلوت یا جِلوت میں جو کچھ خداوند فرماتا شمعون سُنتا تھا اور جِس جِس امر سے خداوند کی سیرت مزاج اور طبعیت کا اظہار ہوتا تھا وہ شمعون کے مشاہدے سے گُزرتا تھا۔ اِس امر کا انداز ہ لگانا بالکل ناممکن ہے کہ اِن سب باتوں سے شمعون کی زندگی پر کیا کُچھ اثر ہُوا۔
وہ ہمیشہ مسیح کی سیرت میں نئی نئی چیزیں دیکھتا اُس کے لبوں سے نئی نئی باتیں سُنتا اور اُس کی زندگی سے نئے نئے سبق سیکھتا تھا۔ ؎
ایک نیک مرد کی صحبت میں ہر دم رہنے سے ضرور اچھا اثر ہوتا ہے۔ یسوع کے ساتھ ایسی دوستی کے تعلق میں رہنا ایک مقدس نصیب ہے اور اُس سے شمعون پر جو کچھ اثر ہوا ہم اُس کا اندازہ لگا نہیں سکتے۔
رسالت کی بلاہٹ کے پانے پر شمعون پر بڑا اثرا ہُوا ہو گا۔ وہ ناصرف بارہوں میں شامل تھا بلکہ اُس کا نام سب میں اول تھا۔ اُس کا نام ہمیشہ پہلے دیا جاتا ہے۔ وہ اُن سب میں ممتاز اور اُ ن سب کا رہبر ہونے کو تھا اور اُن میں اُس کو اول جگہ حاصل تھی۔ کوئی نیک دِل شخص ایسی جگہ پانے پر مغرور اور متکبر نہیں ہو جاتا بلکہ اور بھی فروتن اور منکسر المزاج ( مسکین طبع۔ غریب مزاج ) ۔ کیونکہ اِس ا متیاز سے اُس کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ نیک مرد اِس امر کی پہچان سے کچھ خوف زدہ سا ہو جاتا ہے کہ خد ا مجھے دنیا میں جگہ اور کام کرنے کو دیتا اور اوروں کو برکت دینے کےلئے مجھ سے کام لے رہا ہے۔ اُس کو چاہئے کہ اپنی اعلے ٰ بلاہٹ کے لائق چال چلے۔ اُس کو ایک قسم کی پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے۔ مقدس خدمت کےلئے خدا نے اُس کو الگ کیا ہے۔
ایک اور واقع سے شمعون پر بڑا اثر ہُوا اور وہ اِس امر کی پہچان تھی کہ یسوع ” المسیح “ ہے۔ ہمں یہ تو معلوم نہیں کہ اِس صداقت کا انکشاف اُس کے دل پر کیسے ہُوا لیکن یہ یقین اُس کے دل میں ایسا مضبوط ہو گیا کہ وہ اُس کے اظہار سے باز رہ نہ سکا۔ وہ قؔیصریہ فلپی کے علاقہ میں تھا ۔ یسوع اپنے بارہ شاگردوں کو دعا کےلئے الگ ویرانہ میں لے گیا تھا۔ یہاں اُس نے اُن سے دو سنجیدہ سوال پُوچھے۔
اول تو اُس نے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں ؟ یعنی یہ کہ میں کون ہوں ؟ جواب سے ظاہر تھا کہ اُس کی نسبت لوگوں کے مختلف خیال تھے
اور اُن میں سے کوئی بھی ٹھیک نہ تھا ۔ پھر اُس نے اُن بارہوں سے کہا کہ تُم مجھے کیا کہتے ہو ؟ شمعون نے جواب میں کہا ” تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے “
یہ اقرار بڑا جامع تھا ۔ ہاں وہ اِس امر کا اظہار تھا کہ یسوع ” مسیح “ ہے اور یہ کہ وہ الہٰی وجود ہاں زندہ خدا کا بیٹا ہے۔
شمعون کا یہ عجیب اقرار اُس کی زندگی میں ایک بڑا نامدار موقع ہے۔ یسوع نے شمعون کے حق میں کلمہ دُ عائیہ کہا اور پھر پیشن گوئی کی کہ
”تو پطرس ہے “ اور اُس کا نیا نام لیا جو اب اُس پر صادق بھی ٹھہرنا تھا۔ کیونکہ شمعون کی پُرانی انسانیت مر رہی تھی اور وہ نئی انسانیت اختیار کر رہا تھا۔
”تو پطرس ہے اور میں اِس پتھر پر اپنی کلیسیا بناؤں گا “ اِس سے شمعون کی آئندہ حالت اور بھی صاف ظاہر ہوتی تھی۔ یہ گویا خداوند کے اُس بیان کی توضیح ( وضاحت ) تھی کہ ” تو کیفا کہلائے گا “ ۔ تمام رسولوں کا گویا وکیل ہو کر پطرس نے مسیح کا اقرار کیا اور یوں خداوند سے عزت پائی۔
لیکن مسیح کی پہچان اُس نے ابھی تک پُوری پُوری نہیں پائی تھی۔ شمعون یہ تو مانتا تھا کہ یسوع ”المسیح “ ہے لیکن مسیح کی نسبت اُس کا خیال ابھی تک دنیوی تھا۔ اس لئے اُس وقت سے یسوع نے اپنی رسالت کی بابت رسو لوں کو تعلیم دینی شروع کی کہ ضرور ہے کہ میں بہت دُکھ اٹھاؤں، قتل کیا جاؤں ۔ اِس پر شمعون نے بڑی غلطی کی جو اپنے خداوند کو صلیب سے روکنے کی کوشش کی اور بڑے زور سے کہا
” اے خداوند خدا نہ کرے یہ تُجھ پر ہرگز نہیں ہونے کا “ ۔ اُسے فوراً اُس کا یہ سخت جواب ملا کہ
” اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو جا تو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے “
شمعون کو ایک نیا سبق سیکھنا تھا ۔ مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے اور روح القدس کے آنے تک اُس نے یہ سبق کما حقہ (بخوبی ) سیکھا کہ روحانی زندگی میں رُتبے کا پیمانہ خود فراموشی کی خدمت کا پیمانہ ہے۔
اِس سے ہمیں محبت اور دوستی کا ایک بڑا سبق ملتا ہے ۔ ممکن ہے کہ جِن اشخاص سے ہم بڑی محبت رکھتے ہیں اُن کےلئے ہم شیطان کا کام دیں۔
اور یہ یُوں ہوتا ہے کہ ہم اُ ن کو محنت و مشقت ، خدمت اور پُر خطر رسالت سے جِس کےلئے خدا اُن کو بُلا رہا ہو باز کی ترغیب دیں۔
ہم کو لازم ہے کہ بڑی احتیاط اور اپنی محبت پر قابو رکھیں تا کہ کہیں اپنے دوستوں کےلئے راہ ِ آسان کرنے کی غرض سے اُن کو اُس راہ سے پھیر نہ دیں جو خدا نے اُس کےلئے تیار کی ہے۔
یُوں شمعون کو سبق پر سبق سیکھنا پڑا اور پھر سبق کا ماحصل فروتنی تھا۔ یُوں ہم آ خری شب اور اُس کی افسوس ناک افتاد تک پہنچتے ہیں ۔
پطرس کا انکار ایک سخت مایوسی تھا ۔ جیسے پطرس نے خود کہا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ناممکن بات تھی وہ شیر سا بہادر تھا ۔ اُس کی محبت یسوع کے ساتھ حقیقی اور صادِق تھی۔ اُس نے پتھر کا نام پایا تھا۔ تین سال تک وہ یسوع سے تعلیم پاتا رہا اور رسولوں میں اُس کو خاص عزت اور ہر دلعزیزی حاصل تھی۔ اُس کو اِس خطرہ کی پیشتر آگاہی بھی حاصل تھی ۔ تاہم با یں ھمہ وجوہ یہ شاگرد وں میں بہادر اور عزیز یہ مرد چٹان ۔
بڑی بے عزتی سے گِرا۔ اور گِرا بھی ایسے وقت بھی جب چاہئے تھا کہ اپنے مالک کی محبت سے وہ بڑا دلیر اور وفادار ہوتا۔
مسیح کی پُر محبت حِلم نے اُس کو بچا لیا ۔ خداوند نے جب پطرس کا انکار سُن کر اُس کی نگاہ کی تو اُس کے دِل میں کیسا درد پیدا ہُوا ہوگا۔
اِس محبت کی نگاہ کے بعد پطر س باہر جا کر زار زار رویا۔ آخر کار خداوند کا فرمایا یاد آیا۔ اُسے معلوم ہوتا تھا کہ پس میری معافی کا وقت گُزر چُکا۔
لیکن یسوع کے دِل میں تو اُس کو وہی جگہ حاصل تھی اور وہ ایک نیا مخلوق ہو کر اپنی اِس خواری سے اُٹھا۔
پطر س کی تربیت میں اُس کا یہ انکار کرنا ایک بڑی ضروری جگہ رکھا ہے ۔ اُس آخری رات تک شمعون کی سیرت میں ایک برا دھبہ تھا خود اعتمادی اُس کی کمزوری کا ایک بڑا جُزو تھی ۔ شاید اِس عیب کے دور کرنے کا سوائے اُس کے کوئی اور طریق نہ تھا کہ اُس کو کرنے کی اجازت دی جاتی۔
کم از کم ہم کو اتنا معلوم ہے کہ انکار کے اِس تلخ تجربہ اور پھر توبہ کرنے سے پطر س کی کمزوری جاتی رہی۔ توبہ سے وہ نیا مخلوق بن گیا ۔ آخر کار وہ گناہ کی قید سے رہا ہُوا۔ اُس نے فروتنی کا سبق سیکھ لیا۔ پھر اُس کےلئے خداوند کا انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ کُچھ دیر بعد دِل پرکھنے والے سوال کے تین دفعہ دوہرانے پر وہ بحال اور خدمت پر لگایا گیا ” میرے برے چرا ۔ میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر “ یہ مقصد پورا ہُوا اِ س نئے انسان کی رویا سچ نکلی شمعون کیفا بن گیا۔ یہ طریق بڑا لمبا اور گِراں تھا لیکن ضرورت سے زیادہ لمبا اور گِراں نہ تھا۔ پتھر گِھس رہا اور بُت تیار ہو ر ہا تھا ۔ شاید تُم کہو کہ شمعون کو پطرس بننے میں بڑی قیمت دینی محنت کرنی پڑی ۔ شاید تُم پوچھو کہ کیا اِس قابل تھا کہ اِتنی قیمت دی جاتی اور کیا پطرس کےلئے یہی بہتر نہ تھا کہ وہ مچھوے کا مچھوا بنا رہتا اگر یہ ہوتا تو پھر وہ محض ایک مچھوا بنا رہتا اور اپنی مقررہ عُمر تک اپنے ہمسا یوں کے ساتھ رہ کر سمندر کے کنارے دفنایا جاتا۔
اب بھی اِس کی زندگی افلاس اور محنت و خدمت کی زندگی تھی۔ اُسے وہ مضبوط چٹان سی انسانیت پیدا کرنے میں بڑی محنت اور دِقت اٹھانی پڑی لیکن آج کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ِاِس قابل نہ تھا ؟ پطرس کی یہ اعلیٰ درجے کی مسیحی آدمیت بیس صدیوں سے دنیا کے سامنے ایک ایسی سیرت کا نمونہ رہی جِس کی تحصیل ہر مسیحی کو کرنی چاہئے ۔ ایک ایسی زندگی جس کے اثر سے لاکھوں کو اعلےٰ اعلے ٰ تحریکیں اور آرزوئیں ملی ہیں جو قیمت سیرت کی اِس شرافت اور اِس مقدس تاثیر کی توسیع کے لئے دی گئی ۔ کیا کُچھ زیادہ تھی ؟
لیکن زرااپنی تو کہو؟ تو ہم میں سے بعض کو اِس خوبصورتی اور طاقت کا پانا مشکل ہے جو خداوند نے ہمارے لئے مقرر کی ہے شاید ہم کو نقصان ، امتحان ، آزمائش اور غم کے تجربوں سے گُزرنا ضرور ہو۔ زندگی کے بڑے بڑے سبق لینے ہوتے ہیں اور وہ ایک دن میں سیکھے نہیں جاتے۔
نہ اُن کا سیکھنا ہی سہل ہے لیکن کتنی ہی قیمت دینی کیوں پڑے زندگی اِس قابل ہے کہ ہم یہ سبق سیکھیں۔ سونا اِس قابل ہے کہ وہ پاک صاف ہونے کےلئے آگ میں ڈالا جائے۔ ہیرا اس قابل ہے کہ اپنی چمک اور شان پانے کے لئے کاٹا اور تیار کیا جائے ۔ زندگی اِس قابل ہے کہ خداوند کے شبیہ کے اُس میں پیدا کرنے اور خدمت کےلائق بنانے کےلئے جتنی تربیت اور سختی ضروری ہو اُس کو وہ برداشت کرے۔
کہتے ہیں کہ شاعر جو کچھ اپنی جِگر سوز نظموں میں ہم کو سکھاتے ہیں اُن کا تجربہ وہ مصیبتوں میں پاتے ہیں ۔ اگر ایک ہی مصرعہ بڑی بڑی بڑی تحریکیں دلائے اور دنیا کی برکت کا موجب ہو تو اُس کے لکھنے میں جتنی قیمت دی گئی ہو وہ تھوڑی ہے۔
تئیسویں زبور میں لکھنے کے لئے داؤد کو بہت کچھ مصیبت اٹھانی پڑی لیکن اب اِس کا خیال نہیں کہ اُس زبور کےلئے اُس کو بہت قیمت دینی پڑی۔
باب۔ 4
توما
یسوع اور توما کی دوستی کا آغاز کا بیان کہیں قلم بند نہیں۔ہمیں معلوم نہیں کہ توما کب یسوع کے شاگردوں میں شامل ہُوا۔ اور اول اول یسوع کی طرف کیسے رجوع لایا۔ کیا اُس کو کوئی دوست یسوع کے پاس لایا ۔ کیا وہ خداوند کی شہرت سُن کر آپ سے آپ اُسے دیکھنے کو چلا آیا ؟
کیا اُس نے خداوند کو کسی دِن کلا م کرتے سُنا اور یوں اُس کے کلام کے اثر سے کھینچ آیا ؟ یا کیا یسوع نے خود اُس کے ہاں جا کر یا اُسے کام میں مشغول پا کر اُس کو بُلا لیا اور کہا میرے پیچھے آ؟
اِن باتوں کی بابت ہمیں کچھ معلوم نہیں اُس کا ذکر پہلے پہل بار رسولوں کی فہرست میں آتا ہے۔ چونکہ یہ رسول شاگردوں کے وسیع مجمع میں سے چُنے گئے تھے ۔ توما رسول بننے سے پیشتر یسوع کا شاگرد ہوگا ۔ کچھ عرصہ سے توما اور یسوع آپس میں دوست تھے اور اِس امر کے بدیہی(روشن )
ثبوت موجود ہیں ۔ کہ اُن کی دوستی بڑ ی گہری اور مضبوط تھی ۔ توما کا گو بہت ہی مختصر احوال اناجیل میں مرقوم ہے تاہم اِس سے بخوبی ظاہر ہے کہ توما بڑا وفادار اور دلدادہ شاگرد تھا ۔ اور یسوع اُس کے ساتھ نہایت برداشت اور حِلم سے پیش آتا ۔
نئے عہد نامہ میں بعض نہایت ہی عجیب تصویریں بار بار ملتی ہیں اس لئے جہاں کہیں اُن کا ذکر آتا ہے ہم فوراً پہچان لیتے ہیں کہ یہ کِس کی شبیہ ہے۔
مثلاً پطرس کا ذکر جہاں کہیں ہے اُس کی شبیہ وہیں ہے۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی کام میں لگا ہے یا کلام کرتا ہے یا کام۔ وہ ہمیشہ دانشمندی سے بھی کام نہیں لیتا لیکن اُس کا انداز نِرالا ہے ۔ بے صبر ، خود اعتماد ، جلد باز لیکن زندہ دِل ہر موقع ہم اُس کو فوراً پہچان لیتے ہیں حالانکہ اُس کا نام بھی مذکور نہیں ہوتا
یوحنا بھی ہمیشہ ایک ہی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ مؤدب ، خاموش ، پیارا ، قابل اعتبار اور محبت کا رسول۔ اندریاس بہت کم دکھائی دیتا ہے لیکن ہر موقع پر وہ ایک ہی کام میں لگا ہے ۔ کسی نہ کسی کو مسیح کی طرف لا رہا ہے ۔ بیت عنیا کی مریم کا ذکر صرف تین موقعوں پر آتا ہے لیکن اُس کو ہم ہمیشہ یسوع کے قدموں میں بیٹھا دیکھتے ہیں۔ حالانکہ مرتھا ہمیشہ اپنی خدمت میں مشغول ہے ۔
توما کی شبیہ بھی ایک نرالے انداز سے کھینچی گئی ہے ۔ یہ رسول صرف تین موقعوں پر ظاہر ہوتا ہے لیکن اُن سب میں شبیہ ایک ہی ہے اور ایسی صاف ہے کہ توما کی سیرت پطرس سے کچھ کم شہرت نہیں رکھتی ۔ وہ ہمیشہ تاریک پہلو پر نظر ڈالتا ہے۔ ہم اُس کو ہمیشہ شکی مزاج سمجھتے ہیں لیکن اُس کا شک اِس قسم کا نہیں جس سے تعظیم و ادب کی کمی اور نادانی اور بے فِکری ظاہر ہو بلکہ اُس کی طبعیت کا جبلی میلان اِ س طرف تھا کہ ہر بات کی کھوج لگا لے اور ایسے ثبوت طلب کرے جِن سے اُس کے حواس و حسات کی تسلی ہو۔ وہ مسیحی دین کے واقعات سے کسی قسم کا انکار نہیں کرتا کیونکہ اُس کی طبعیت ایسی نہ تھی۔ کافی ثبوت کے باہم پہنچنے پر توما خوشی سے یقین کر لیتا تھا۔ وہ برابر یسوع کا دلدادہ اور یسوع کا سچا دوست بنا رہا۔ خداوند سے اُس کو خاص اُنس تھا اور وہ موت تک اُس کی پیروی کرنے کو تیار تھا۔
پہلا موقع جبکہ توما ظاہر ہوا لعزر کی موت تھا۔ یسوع اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر یردن کے پااُتر گیا تھا۔ یہودی اُس کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مگر وہ اُن کے ہاتھوں سے نِکل گیا تھا ۔ جب اُس نے سُنا کہ لعزر بیمار ہے تو جِس جگہ تھا وہیں دو دِن اور رہا۔ پِھر اُس نے بعد میں شاگردوں سے کہا کہ آؤ یہودیہ کو پِھر چلیں۔ شاگردوں نے اُس کو یاد دلایا کہ ابھی تو یہودی تجھے سنگسار کرنا چا ہتے تھے اور تُو پھر وہاں جاتا ہے۔
اُن کے خیال میں اب مناسب نہ تھا کہ بیت عنیا کے غمزدوں کو تسلی دینے کی خاطر بھی و ہ آپ کو معرضِ خطر میں ڈالے۔
یسوع نے ایک چھوٹی سی تمثیل سُنا کر یوں جواب دیا کہ جو شخص دِن کو سفر کرے وہ خطرے سے محفوظ ہے کیونکہ وہ ٹھوکر نہیں کھاتا۔ اِس تمثیل کا مطلب یہ تھا کہ اُس کی زندگی کی ابھی شام نہیں ہوئی تھی اور اِس لئے جو کام اُس کے سپرد کیا گیا اُس کو بِلا خوف انجام دے سکتا تھا۔ جس کسی شخص کو خدا کوئی خاص کام کرنے کو دے وہ اُس کو ختم کئے بغیر مرتا نہیں۔
پھر یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ لعزر مر گیا ہے اور میں اُسے جِلا نے کو جاتا ہوں۔
اِس موقع پر توما ظاہر ہوتا ہے اُس نے اپنے ساتھ کے شاگردوں سے کہا آؤ ہم بھی اُس کے ساتھ مرنے کو چلیں۔
اُس نے تاریک پہلو ہی پر نظر ڈالی۔ اُس نے یہ امر تسلیم کر لیا کہ اگر یسوع پھر یہودیہ میں واپش آیا تو وہ ضرور مارا جائے گا۔ کُچھ دیر کےلئے تو وہ بالکل بھول گیا کہ یسوع کو الہیٰ قُدرت حاصل ہے اور یہ کہ جب تک باپ کا کام ختم نہ ہولے الہٰی حفاظت اُس کے سر پر سایہ افگن رہے گی۔ یسوع نے جو ابھی فرمایا تھا کہ جب تک میرے دِن کی سناعت تمام نہ ہو لے میں محفوظ ہوں ا ُسے وہ بالکل نہ سمجھا۔
اُس کو صرف یہودیوں کی مخالفت یاد رہی اور یہ کہ کیونکہ وہ خداوند کے قتل کے درپے تھے۔
اُس کو یقین تھا کہ اگر یسوع واپس آیا تو وہ اپنے منصوبے کو ضرور پورا کریں گے۔ بادلوں میں اُس کو تاریکی ہی تاریکی نظر آئی۔
توما ایسے نیک لوگوں کا نمونہ ہے جو ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ وہ صرف زندگی کے غم آمیز پہلو کو دیکھتے ہیں ۔
اُن کو سرد کے درختوں میں ستارے دکھائی نہین دیتے۔ خطرے کے وقت بھول جاتے ہیں کہ ایسی ایسی پناہ گاہیں بھی ہیں جِن میں بھاگ کر ہم سلامتی پا سکتے ہیں۔ وہ خدا کے وعدوں سے واقف ہیں اور دوسروں کو سناتے بھی رہتے ہیں لیکن جب اپنے سر پر پڑتی ہے تو اُن کو اُن کا خیال تک نہیں رہتا۔ مصیبتوں میں وہ الہیٰ نوشتوں سے کسی قسم کیہ تسلی نہیں پاتے اور امید بھی اُن کے دِل سے جاتی رہتی ہے وہ بے ہِمت سے ہو جاتے ہیں اور تاریکی اُن کی فضا سے ہر ایک ستارے کو چھُپا دیتی ہے اُن پر کسی قسم کی مصیبت کیو ں نہ آئے وہ صرف مصیبت ہی کو دیکھتے ہیں
مگر بادلوں کی روشنی اُن کو نظر نہیں آتی۔ یوں زندگی کی مصیبتیں اور بھی دوبھر ہو جاتی ہیں۔ دِل کے غمگین ہونے سے بوجھ اور بھی بھاری ہو جاتا ہے۔ ہر درد اور بھی تیز ہو جاتا ہے کیونکہ اُس کے جلو میں بے ہِمتی و دِل شکنی ہوتی ہے ۔
غم و رنج نا امیدی کے ساتھ اٹھانے سے اور بھی تاریک ہو جاتا ہے۔ تاریک پہلوُ پر نظر ڈالنے سے ہر فِکر اور بھی بڑھ جاتی اور ہر خوشی کی حلاوت و شیرینی گھٹ جاتی ہے۔ جو شخص ہر چیز بے ہِمتی و نا امیدی کے آنکھوں سے دیکھے اُس کے نزدیک دنیا کی خوبصورتی آدھی رہ جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے خوف بڑھ جاتے اور ذرا ذرا سے تکلیفیں پہاڑ ہو جاتی ہیں۔
دنیا کا ہمارے لئے پسندیدہ یا نا پسندیدہ ہونا ہمارے دِل کی حالت پر موقوف ہے۔ اور اگر دِل میں اُمید و خوشی نہ ہو ساری دنیا اندھیری نظر آتی ہے۔ زندگی میں ہم کو وہی کُچھ مِلتا ہے جس کے پانے کی ہم میں توفیق ہے۔ جو شخص مخلتف رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتا اُس کو نیچر (فطرت) میں کسی قسم کی خوبصورتی نظر نہیں آتی ۔ جِس کو عِلم ِ موسیقی کا مذاق نہیں وہ نیچر کی ہم آہنگی کو سُن نہیں سکتا
جب ہمارے دِلوں میں خوف جاگزین ہو تب تک ساری زندگی دہشت زد ہو جاتی ہے۔
اگر دِل امید سے پُر ہو تو ہر خوُشی دُوگنی ہوجاتی ہے۔ اور غم آدھا ہو جاتا ہے۔ اِس دنیا میں غم و رنج تو ہر ایک کا حصہ ہے لیکن وہ تسلی بھی پاتے ہیں تلخ پیالے پینے تو ہر ایک کو پڑتے ہیں لیکن اُن کے پیالہ کی تلخی شیرینی سے بدل جاتی ہے۔
بھاری بوجھ ہر ایک کو اٹھانے تو پڑتے ہیں لیکن شادمان دِل بوجھ کو ہلکا پاتا ہے۔ خوف و خطر تو ہر ایک کو درپیش ہے لیکن مسؔرت آمیز ہمت سے اُن کا ڈر جاتا رہتا ہے۔ دِل میں امید کی روشنی کے درخشاں ہونے سے ساری دنیا منور نظر آتی ہے
لیکن ہم نے توما کے ڈر کا بیان ابھی ادھورا پڑا ہے۔ خداوند کے یہودیہ کو آنے میں اُس نے صرف خطرہ ہی خطرہ دیکھا۔
”یہودی تو اُس کو مار ڈالیں گے اُس کی موت یقینی ہے “۔ اُس وقت توما کے کُچھ ایسے حالات تھے ۔ گو توما کا خیال تھا کہ یسوع جلد شہید ہونے کو ہے مگر وہ اُس سے جُدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔
” آؤ ہم بھی اُس کے ساتھ مرنے کو چلیں“ اُس کے اِس خوف کے ساتھ یسوع کےلئے دِلی محبت مخلوط تھی۔
یسوع کے بیت عنیا جانے اور توما کے اُس کی زندگی سے نا امید ہو جانے کے خیال ہی سے اُس کی دلداگی اور محبت اور بھی پُختہ ہو گئی۔ اور یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے۔ اُس کو یقین تھا کہ یسوع اپنی موت کی طرف جا رہا ہے ۔
لیکن اُس کی وفاداری میں سرموُ فرق نہ آیا۔ توما کا یہ مزاج قابل تقلید ہے۔ یہ حقیقی سپاہیانہ مزاج ہے۔ اِس کی دِلداگی کامل اور اُس کی پیروی بِلا شرط ہے۔ہاں اُس کی ایک ہی شرط اور ایک ہی آرزو ہے جِس کا نام محبت ہے۔ اور اُس کا ایک ہی قاعدہ ہے جسے فرمانبرداری کہتے ہیں۔ اُس پر انجام کے خیال سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اور گو اُس کو انجام موت ہو وہ اُس سے بھی تامل نہیں کرتا۔
خداوند اِس قسم کی شاگردی چاہتا ہے ”جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ پیار کرے وہ میرے لائق نہیں “
جو کوئی اپنی زندگی سے نفرت نہ کرے وہ میرا شاگرد ہو نہیں سکتا۔ یسوع کے شاگرد کو ہمیشہ راضی اور تیار رہنا چاہئے کہ موت تک اُس کی پیروی کرے۔ توما نے شریف شجاعت سے اپنی دوستی کا ثبوت دیا۔ شجاعت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ فرائض کی راہ میں انسان بِلا تامل قدم اٹھائے چلا جائے گو ذاتی نقصان ہی اٹھانا کیوں نہ پڑے۔ جس سپاہی کا چہرہ بدنی کمزوری سے زرد ہو پھر بھی وہ ثابت قدمی سے آگے بڑھتا جائے اُس قوی ہیکل سپاہی سے بدر جہا بہادر ہے جو بِلا خوف گھمسان میں گھُس جائے ۔
دوسری بار توما بالا خانہ میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ رسول مقدس عشا کھا چُکے تھے۔ یسوع نے اپنے باپ کے مکان کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ ” اب میں جاتا ہوں تا کہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں اور پھر میں آکر تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤںگا“
خداوند کے اِس فرمان کا مطلب توما نہ سمجھ سکا۔
اُس نے کہا ” اے خداوند ہم نہیں جانتے تو کہاں جاتا ہے پھر راہ کس طرح جانیں“ اُس نے یہ تو نہ کہا کہ جب تک میں خود نہ دیکھ لوں یقین نہ کروں گا لیکن اُس کے سوال کا مفہوم یہی تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ خداوند اپنی تعلیم کو زرا صاف الفاظ میں بیان کرے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام مسیحی اپنے ایمان کی بنیاد دریافت کریں کہ ہم کیوں مسیحی ہیں۔ یوں اُن کا ایمان پُختہ ہوگا اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ آزمائش و امتحان کے وقت اُن کا ایمان مضبوط اور ثابت رہے گا۔
کیونکہ وہ الہٰی صداقت کی چٹان پر قائم ہے۔ توما کی داستاں کا آخری واقع مسیح کے جی اٹھنے کے بعد کا ہے۔
پہلے سبت کی شام کو تمام شاگرد ایک بالا خانہ پر اکٹھے اِن عجیب باتوں کا چرچہ کرتے تھے جو اُس روز واقع ہوئیں تھیں۔
کسی وجہ سے توما اِس جلسے میں حاضر نہ تھا۔ ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ غمگین مزاج ہونے کی وجہ سے وہ حاضر نہ ہوا۔
وہ یسوع کو سچے دِل سے پیار کرتا تھا اور اُس کا غم بڑا گہرا تھا۔ اُس دِن چاروں طرف افواہیں پھیل رہی تھیں کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے لیکن توما نے اِس کا یقین نہ کیا۔ شاید وہ اِس نا امیدی کے سبب سے کسی سے مِلتا جُلتا نہ تھا۔
اور رونے اور ماتم کرنے کےلئے بھی اپنے ساتھ کے شاگردوں سے نہ مِلا۔
اِس رات یسوع بند دروازے میں سے اندر داخل ہوا تھا اور حسب ِ معمول شاگردوں سے کہنے لگا ”تمہای سلامتی ہو “
بعد میں باقی شاگرد توما سے کہنے لگے ہم نے خداوند کو دیکھا ہے۔ لیکن اُس نے اُن کی بات نہ مانی یعنی اُس کو یقین نہ آیا کہ خداوند سچ مچ شاگردوں میں ظاہر ہُوا ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ شاگردوں کو دھوکا ہُوا ہے اس لئے کہتا تھا کہ جب تک میں خود اُس کو نہ دیکھ لوں گا یہ یقین نہیں کرنے کا۔ بلکہ علاوہ اِس کے شہادت کا خوب موازنہ کروں گا۔ وہ میخوں کے سوراخ بھی دیکھنا چاہتا تھا اور اُن میں اپنی اُنگلی ڈالنا چاہتا تھا۔
اِس امر پر غور کرنے سے ہمیں فائدہ ہوگا کہ توما کے اِس شکی مزاج سے اُس کا کچھ نقصان ہوا۔
اول تو وہ اُس رات رسولوں کے جلسے میں شامل ہونے سے محروم رہا۔ وہ غم و رنج کی حالت میں تنہا خِلوت نشین رہا۔
غم میں اُس کو کوئی امید نہ تھی اور وہ تسلی نہ پاتا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ جب یسوع شاگردوں پر ظاہر ہوا تو توما حاضر نہ تھا اور یوں وہ اُس مکاشفہ سے محروم رہا جِس سے دیگر شاگردوں نے بڑی تسلی پائی۔ اُس وقت سے اُن کا غم خوشی میں تبدیل ہو گیا لیکن توما ایک اور ہفتہ اُس غم کی تاریکی میں پڑا رہا جو مسیح کے صلیب پانے سے اُس پر چھا گئی تھی ؔ۔
شک لانے سے ہمارا نقصان ہوتا ہے اُس کے باعث آسمانی اطمنان ہم سے پرے رہتا ہے۔
اکثر مسیحی غم کے پہلے صدمہ میں توما کا سا تجربہ پاتے ہیں۔ غم و رنج سے مغلوب ہو کر وہ تنہائی میں جا بیٹھتے اور اُس تسلی کے قبول کرنے سے جس کا مسیح کی انجیل میں ذکر آیا ہے انکار کرتے ہیں۔ وہ اپنے کان بند کر لیتے ہیں تا کہ محبت کی آوازیں جو بائبل میں سے اُن کو پکارتی ہیں نہ سُنیں اور اِس طرح الہٰی تسلی کو نہیں پاتے۔ مسیحی دین کی بڑی بڑی صداقتیں تو وہ مانتے ہیں مثلاً یسوع اُن کے لئے مُوا اور جی اٹھا لیکن سخت مصیبت کے وقت اُن کا ایمان کام نہیں دیتا۔ اِس طرح وہ توما کی طرح تاریکی میں چلتے ہیں۔ برعکس اِس کے جو ایماندار مسیح کے جی اٹھنے اور اُس میں غیر فانی زندگی کے پانے کی صداقت کو دِل سے مانتے ہیں وہ جدائی کے صدمہ کو کچھ محسوس نہیں کرتے لیکن اِس امید سے اُن کو بڑی تسؔلی ملتی ہے کہ ہمارے جو عزیز جو اب کچھ دیر کےلئے ہم سے جُدا ہو گئے ہیں ہمیشہ کی زندگی میں ہمارے شریک اور حصہ دار ہیں۔
جس طریق سے خداوند نے توما کے شک کو دور کیا اُس سے ظاہر ہے کہ توما کےلئے خداوند کی دوستی کیسی گہری اور صبر و برداشت والی اور دانشمندانہ تھی۔ اُس نے یہ نہ کہا کہ اگر توما رسولوں کی شہادت کو نہیں مانتا تو وہ اُس تاریکی میں پڑا رہے جو اُس کی بے ایمانی سے پیدا ہوئی تھی۔ جیسے کہ ایک طبیب حاذق خطرناک زخم کو بڑی ہوشیاری اور نرمی سے باندھتا ہے ویسے ہی اُس نے توما کے شک کا علاج بڑے حِلم سے کیا۔ اُس کو کوئی جلدی نہ تھی۔ ایک ہفتہ تک اُس نے کچھ نہ کھایا۔ اُن دنوں میں توما ک غمناک دِل کو اپنی اُس سابقہ تسلی کو جو از خود حاصل ہو جاتی ہے پا لینے کا کُچھ موقع ملا ۔
توما ابھی تک کہتا تھا کہ میں ہرگز یقین نہ کروں گا۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے پر وہ بھی اوروں کے ساتھ جلسے میں آگیا۔
شاید اِس ایمان سے کہ خداوند جی اٹھا ہے شاگردوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی اور وہ ایسے خوش و خُرم نظر آنے لگے کہ اُن کی اِس حالت سے توما کا شک ویسا ہی مضبوط نہ رہا۔ کم از کم وہ یقین کرنا چاہتا تھا ہاں وہ ایمان لانا چاہتا تھا۔
اِس رات یسوع پھر کمرہ میں آیا۔ دروازے بند تھے کہ یسوع آیا اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا ”تمہاری سلامتی ہو “
پھِر توما کی طرف متوجہ ہُوا اور اپنے ہاتھوں کو سامنے کر کے اُس سے کہا اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور میرے جی اٹھنے کے ثبوت کا بخوبی موازنہ کر لے۔
اب تو توما کو یقین ہو گیا اُس نے اپنے ہاتھ سوراخوں میں نہ ڈالے۔ کیونکہ اب اُس کی کچھ ضرورت نہ تھی۔
یسوع کو روبرو دیکھنا ، اُس کی آواز سننا ، اور اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے نشان دیکھنا توما کے لئے کافی ثبوت تھا۔
اُس کے تمام شک و شبہے جاتے رہے۔ خداوند کے قدموں کے گِر کر وہ یوں تضؔرع کرنے لگا
” اے میرے خداوند ۔ اے میرے خدا “
یوں یسوع کے حلم سے توما بے ایمان ہونے سے بچ گیا۔ جب کبھی کوئی شخص شک کے تجربہ میں سے گُزر رہا ہو تو ایک دانشمند اور وفادار دوست کا ہونا ایک بڑی برکت ہے۔ بعض اوقات نادانی سے لوگوں کے شک دور کرنے کی جگہ ہم اُن کو اور بھی مضبوط کر دیتے ہیں۔ اُن کو بحث و حُجت درکار نہیں بلکہ محبت کی برداشت جو بولنے کے ٹھیک موقع کی منتظر رہتی ہے اور جس کو بہت بولنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی توما کو بحث و دلیل سے یقین نہ آیا بلکہ مسیح کے زخموں میں مسیح کی محبت کا یقین پا کر ۔ ہم کو اِس امر سے تسلی ملتی ہے کہ مسیح کے جی اٹھنے کی صداقت کا توما کو مشکل سے یقین آیا۔ کیونکہ اول اول ایک رسول نے بھی اِس واقع پر شک کیا لیکن بعد ازاں دِل سے قائل ہو گیا اِس لئے یہ ثبوت اور بھی مضبوط اور یقین دلانے والے ہو جاتے ہیں۔ اگر سارے رسول اُس کو جلدی سے مان لیتے تو اُن لوگوں کےلئے کچھ تسلی نہ ہوتی جو آسانی سے انجیل کو مان نہیں سکتے۔ حالانکہ اُس کو سچے دِل سے ماننا چاہتے ہیں اِس واقع سے ایک اور رسول شک لایا اور دیگر رسولوں کی شہادت قبول کرنے سے انکار کرتا رہا لیکن آخر کار سچا اور پختہ ایمان لایا صاف ظاہر ہے کہ شک بالکل بے اُمید نہیں۔ اکثر اوقات یہ ایمان کے بڑھانے کا ایک وسیلہ ہوتا ہے۔
توما کی داستان سے یہ ظاہر ہے کہ بعض ایماندار راستی سے شک رکھ سکتے ہیں۔ شک کی حالت میں بھی وہ محبت کرتا تھا۔
شاید توما سے بڑھ کر کوئی شاگرد یسوع سے محبت نہ رکھتا ہو۔ اُس نے پطرس کی طرح کبھی بڑھ بڑھ کر دعوے نہ کئے۔
لیکن اُس نے کبھی مسیح کا انکار بھی نہ کیا۔ توما بہت ایمانداروں کےلئے تسلی کا باعث ہے کیونکہ اس نے ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ سچے مسیحی اور مسیح سے محبت رکھنے والے ہوں تا ہم اپنے ایمان کا کبھی فخر نہ کریں۔
لاریب سوال کرتے رہنے کی نِسبت ایمان رکھنا بدر جہا بہتر ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ سوال دیانتداری اور سچائی سے پوچھے جائیں اور ہماری وفاداری میں سرِ موُفرق نہ آئے۔ لیکن صداقت کے پانے اور چٹان پر قائم رہنے کی غرض سے سوالات کا پوچھنا ایسے سہل ایمان سے بہتر ہے جو اپنی امید کی وجہ دریافت کرنے کی تکلیف نہ اٹھاتا اور اپنے عقیدے کے مسائل کو یونہی ازبر کر لیتا اور اُس پر کبھی فِکر نہیں کرتا۔
یسوع سے گہری اور مضبوط دوستی رکھنے کے باعث توما بچا رہا۔ توما کی سیرت کا خاصہ یہ تھا کہ وہ شکی مزاج تھا بلکہ یہ کہ شک کی حالت میں بھی وہ محبت کرتا رہا اُس کا شک اُس کی محبت کا پیمانہ تھا اور اُس کو شک محبت مین چھپ گیا۔
اگر مسیح کے ساتھ ہماری محبت سچی اور صادق ہو تو سوال کرنا کوئی بغاوت نہیں۔ بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پتھریلی پہاڑی محبت جلالی ایمان کیمروشن چوٹی تک پہنچتی ہے۔ ایک شک کا رُخ تو موت اور تاریکی کی طرف ہوتا ہے لیکن ایسا شک بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ سورج اور برکت پر اپنی نگاہ رکھتا ہے۔
توما ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ہم ہمیشہ ایک چیز کے تاریک پہلو ہی کو دیکھیں اور پھر بھی سچے مسیحی ہوں۔
یسوع سے سچی محبت رکھیں اور اُس کے لئے جان دینے کےلئے بھی تیار ہوں لیکن ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ سب سے اچھا طریق نہیں ۔ کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ رسولوں میں سے توما سب سے واجب التقلید ہے۔
یہ کہ اُس کی سیرت سب سے خوبصورت اور اُس کی زندگی سب سے شریف اور بہتر ہے۔
شکؔ کی نِسبت ایمان اور سوال پوچھنے کی نِسبت اعتبار بہتر ہے۔ مغموم اندوہگین (غمگین۔ رنجیدہ ) اور مایوس مسیحی کی نِسبت خوش و شادمان رہنا بہتر ہے۔ کیونکہ اِس سے زندگی زیادہ شیریں اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔
اور یہ کہ وہ اور لوگوں کے دلوں کو بھی خوش کر دیتی ہے۔ مغموم دِل مسیحی جہاں کہیں جاتا ہے تاریکی ہی ڈالتا ہے۔
ایک شادمان دِل مسیحی شخص کی جس سے اُس کو واسطہ پڑتا ہے برکت کا موجب ہے۔
باب۔5
مریم اور مرتھا
بیت عنیاہ کے اِن احباب کا تذکرہ نہایت دِلچسپ ہے اس یاد ہی سے ہر غور پسند مسیحی کے دِل میں شکر گزاری کےخیالات پیدا ہوتے ہیں کہ اِس خاندان کی مہمان نوازی ، پناہ اور محبت سے خداوند کو کیسی تسلی مِلی۔ ؎
ایک روایت ہے کہ مسیح کے صلیب پانے کے دِن جب وہ کلوری کی طرف جا رہا تھا تو ایک پرندے کو اُسے دیکھ کر ترس آگیا اور اُس نے نیچے کو اُڑ کر اُس کی پیشانی میں سے ایک کانٹا نکال لیا۔ کانٹے کے نکلتے ہی پیشانی میں سے کون بہہ نکلا اور اُس کے چھینٹے پرندے کے سینے پر آپڑے۔۔ اُسی دِن سے اُس کے سینہ پر ایک سُرخ نشان چلا آتا ہے۔
اِسی وجہ سے اُس کا نام لال چڑیا پڑ گیا ہے۔ یقیناً بیت عنیاہ کے خاندان نے مسیح کے دِل میں سے کئی کانٹے نکالے اور اُس کو شادمان کیا۔
جِس وقت کہ یہ پیارا مہمان اُس خاندان میں تھا اُس وقت کے تین نظارے ہی مِلتے ہیں۔
اول۔ خداوند نے اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک دِن اُس گاؤں میں داخل ہُوا۔ مرتھا نے اُسے اپنے گھر میں اتارا اور اُس کی خاطر تواضع کی۔ گھر کی مالک اورمنتظم مرتھا تھی اور مریم نامی اُس کی ایک چھوٹی بہن تھی۔
دوسری تصویر تو ایسی صاف ہے کہ گویا اِس نظارے کی کِسی نے عکسی تصویر اتاری ہے۔
مریم ایک چھوٹا موُڑھا اُٹھا کر خداوند کے پاؤں کے پاس آبیٹھی اور اُس کا کلام سُنتی ہے۔ مرتھا اِدھر اُدھر گھر میں بھاگی پھِرتی اور اُن مہمانوں کےلئے جو اچانک بِلا اطلاع آپہنچے روٹی کا فِکر کر رہی ہے اور یہ کرنا ضروری تھا۔
مہمان نوازی نہایت مناسب ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مرتھا اپنے کام میں سلیم الطبع نہ رہی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ
” مرتھا خدمت کرتے کرتے گھبرا گئی تھی “ اگر کسی کے ہاں بارہ تیرا مہمان بغیر خبر کئے آجائیں اور اُن کی روٹی کا انتطام اُسی وقت کرنا ہو تو شاید کوئی خواتین گبھرا جائیں اور طبیعت پر قابوُ بھی نہ رکھ سکیں۔ تاہم ہم کو یہی سبق ملتا ہے کہ مرتھا کو گھبرانا نہ چاہئے تھا۔ بلکہ چاہئے تھا کہ وہ اُس سخت خدمت میں بھی سلیم الطبع اور شیریں مزاج بنی رہتی۔
یہ مناسب نہ تھا کہ مریم کے ساتھ وہ ایسی بے صبری دکھاتی۔ گبھرائی ہوئی کمرے میں جو آئی اور مریم کو چُپ چاپ مسیح کے پاؤں پاس بیٹھے دیکھا تو کُچھ ناراض سی ہوئی اور خداوند سے یوں اپیل کرنے لگی کہ
” اے خداوند! کیا تجھے خیال نہیں کہ میری بہن نے خدمت کرنے کو مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے؟ اِس سے کہہ کہ میری مدد کرے“۔ یہ تو میں یقنی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ مرتھا کہ یہ خیال غلط یا بے وجہ تھا کہ مریم کو اُس کی مدد کرنی چاہئے تھی۔
یسوع نے بھی نہ کہا کہ وہ غلطی پر تھی۔ اُس نے مریم کو صرف یہ یاد دلایا کہ ایسی باتوں سے گھبرانا اور کُڑکُڑانا درست نہیں۔
”مرتھا تُو تو بہت سی فِکر و تردؔد میں ہے“اُس نے مرتھا کہ خدمت پر سرزِش نہ کی بلکہ اُس کی گھبراہٹ اور کُڑکُڑاہٹ پر۔
خداوند ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا بوجھ کتنا ہی بھاری اور وقت کتنا ہی تنگ کیوں نہ ہو مگر مسیح کا سا اطمنان ہمیں دِل میں رکھنا چاہئے۔ مسیحی زندگی کا راز یہ نہیں ہے کہ فِکرو تردؔد کے بغیر زندگی کیسے بسر کریں کیونکہ یہ تو ناممکن ہے بلکہ یہ کہ بڑی بڑی خدمتوں اور فِکروں میں بھی سلیم اور شیریں بنے رہیں۔
دوسری تصویر میں ہمیں اِس خاندان میں مصیبت اور تکلیف نظر آتی ہے۔ ایک عزیز سخت بیمار ہے۔ اُس کے صحت پانے کی امید نہیں۔ دُکھ اور بیماری کی تجُربوں سے شاید ہی کوئی مسیحی خاندان ناآشنا ہو۔ محبت اِس بیمار کی خدمت کرتی رہی۔
اُس کے لئے دعا مانگتی اور اُس کی صحت کا انتظار کرتی تھی۔ یسوع وہاں سے دور تھا تاہم اُس کو خبر بھیجی گئی۔
وہ آیا تو لیکن معلوم ہوتا تھا کہ دیر سے دونوں بہنوں نے جبکہ وہ اُسے جُدا جُدا ملِیں تو یہی کہا کہ
” اے خداوند اگر تو یہاں ہوتا “ لیکن اِن بہنوں نے قدرتِ الہٰی کے صرف ایک جُزو کو دیکھا۔ ہم تمام کو دیکھتے اور جانتے ہیں
کہ یسوع ٹھیک وقت پر آیا۔اُس نے اُن غمزدوں کو تسؔلی دی۔ اُن کے غم کو مِٹا دیا۔ اور خاندان کو پِھر شادمانی عطا کی۔
تیسری تصویر ایک ضیافت کی ہے۔ یسوع کی عزت و شان میں ایک دعوت دی گئی۔ اُس کے صلیب پانے سے چند روز پیشتر کا ذکر ہے۔ یہاں بھی دونوں بہنیں اپنی اپنی سیرتوں میں ظاہر ہوتی ہیں مرتھا تو حسب ِ معمول خدمت میں لگی ہے اور مریم یسوع کے پاؤں پاس بیٹھی ہے۔
اور اُس دوست کےلئے جِس نے اُن کے خاندان کےلئے اتنا کچھ کیا اپنی عجیب محبت کا اظہار کر رہی ہے جو عطؔر اُس نے مسیح کے پاؤں پر ڈالا وہ اُس کے دِل کی خالص محبت کا نشان تھا۔
مریم کی یہ دلداگی بڑی دلکش ہے۔اُس کی تحریک محبت نے کی۔ محبت کے بغیر کوئی خدمت کیسی ہی بڑی اور قیمتی کیوں نہ ہو خدا کی نظروں میں کچھ بھی منزلت نہیں رکھتی۔ دنیا تو شاید تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرے لیکن اگر محبت نہ ہو تو فرشتے بے اعتنائی سے منہ موڑ لیتے ہیں ”اور اگر میں اپنا سارا مال غریبوں کو کھِلا دوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں “
محبت چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی بڑیم منزلت پاتی ہے۔ تاوقتیکہ ہم یسوع سے محبت نہ رکھیں ہمیں اُس کےلئے کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔ یہ تو یوں ہوگا کہ بے جڑ پودے باغ میں دبا دیں اور امید پھول اور پھل کی رکھیں۔ سب کاموں کی جڑ محبت ہونی چاہئے کیونکہ مریم کا دِل محبت سے شرابور تھا اِس لئے اُس کےلئے مہنگ مولا عطر لانا مُشکل نہ تھا۔
محبت کا پھل خدمت ہے لیکن یہی اُس کا سالم پھل نہیں۔سیرت بھی اُس پھل کا ایک جُزو ہے۔
اگر ہم یسوع سے محبت رکھیں تو اُس کی خوبصورتی ہمارے دِلوں میں پیدا ہو جائے گی۔مسیح کی باتوں کے دِل میں گھر کر جانے سے مریم بڑی حلیم اور پُر محبت بن گئی۔ یسوع کے ساتھ دوستی رکھنے سے ہم بھی یسوع کی مانند بن جاتے ہیں۔
لیکن اُس کے ساتھ خدمت بھی ضرور ہو گی۔محبت نور کی مانند ہے اور چھپ نہیں سکتی۔ دِل میں وہ بند بھی نہیں رہ سکتی۔
قید اور جِنس میں بھی وہ رکھی جا نہیں سکتی۔وہ تو جیتی رہے گی اور بولے گی اور کام کرے گی۔
محبت ہی یسوع کو آسمان سے نیچے زمین پر لائی تاکہ وہ کھوئی ہوئی دنیا کا شفیع ہو محبت ہی کی تحریک سے اُس کے رسول انجیل کی خوشخبری سنانے کو دنیا کی حدوں تک چلے گئے۔
جیسے سنگ تراش اپنے ذہن میں ایک نقشہ باندھ لیتا ہے اور پھر اُس کے مطابق بُت تراشتا ہے ویسے ہی جب تک مسیح کی صورت کا ہر خط و خال زندگی میں ظاہر نہ ہو۔ کسی سیرت کو پاکیزگی اور قُدسیت کی خوبصورتی میں ڈھالنے کی کوشش کرنا کافی نہیں۔
کسی ایک خاص روحانی خوبصورتی سے انسان کامل بن نہیں سکتا۔ مسیح کے قد کے اندازے تک پہنچنے کےلئے خدمت درکار ہے۔
اُس جوان نے کہا تھا کہ اے استاد !میں نے لرکپن سے اِن سب پر عمل کیا ہے اِس پر یسوع نے اُس سے کہا
”ایک بات کی تُجھ میں کمی ہے جا جو کچھ تیرا ہے بیچ کر غریبوں کو دے“اُس جوان کی زندگی کو جو اخلاقی طور پر قابلِ نمونہ تھی کامل بنانے کےلئے محبت کی خدمت درکار تھی۔
اکثر مسیحیوں کو یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہیں تو نیک۔ اُن کی زندگی بے عیب ، اُن کی سیرت بے داغ اور اُن کے
قول و فعل میں مطابقت ہے لیکن اُن میں ایک بات کی کمی ہے اور وہ خدمت ہے مسیح سے محبت رکھنی ہمیشہ خدمت کی تحریک دلاتی ہے۔ ایک مسیحی فقیر کا ذکر ہے کہ خدا کو خوش کرنے کی غرض سے اُس نے کتابِ مکاشفہ کے صفحات کو اپنے زمان ہ کے رواج کے مطابق زرین کرنا شروع کیا۔ اِس مسرت بخش کام میں وہ ایسا محو ہو گیا کہ غریبوں اور بیماروں کی طرف سے جو وباء میں مبتلا ہو رہے تھے تغافل کرنے لگا۔ نقش و نگار کھینچتے کھینچتے وہ اپنے خداوند کے چہرے پر جا پہنچا۔
اِس چہرے سے خداوند کی آمدِثانی کا جلال ظاہر تھا لیکن اُس کا ہاتھ رُک گیا اور اپنی منزل بھول گیا۔
اِس حیرت میں اُسے یہ عرفان مِلا کہ چونکہ نقش و نگار کے شوق میں اُس نے خدمت کے فرائض سے تغافل کیا تھا اِس لئے اُس کی یہ ہُنر مندی اُس سے لے لی گئی۔
اِس دریافت سے سرزش اور تنبیہ اٹھا کر اُس نے اپنے قلم اور رنگ کو بالائے طاق رکھ دیا اور بیماروں اور دکھیاروں کی خدمت کرنے کو چل دیا اِن مصیبت زدوں کی خدمت وہ یہاں تک کرتا رہا کہ خود اُس نامراد مرض میں مبتلا ہوگیا۔
اُفتاں و خیراں اپنی جھونپڑی کو واپس آیا کہ مرنے سے پیشتر اپنے اُس چہیتے کام کا ختم کرے۔
گھُٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس نے مدد کےلئے دعا کی۔ لیکن کیا دیکھتا ہے کہ جلالی خداوند کی تصویر ایک فرشتہ مکمل کر چُکا ہے اور ایسی خوبصورتی سے جو انسانی صنعت سے بالاتر تھی۔
یہ ہے تو محض ایک روایت لیکن اِس کا ماحصل قابل ِغور ہے۔ اکثر لوگ اپنی مسیحی زندگی میں سیرت اور چال چلن اور مزاج کو سُدھارنے اور اپنے فرائض منصبی کو وفاداری سے انجام دینے کی ہر دم کوشش تو کرتے ہیں لیکن اُس قانونِ محبت کو بھول جاتے ہیں جس سے مسیح کے ہر شاگرد کو خداوند کی طرف بھلائی کرنا چاہئے۔
مسیحی ہونا ، دیانتدار ،صادق، صابر، محنتی، اور با سلیقہ ہونے سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔اِس سے مُراد صلیب اٹھا کر مسیح کے پیچھے پیچھے چلنا ، لوگوں سے محبت رکھنا اور اُن کی خدمت کرنا ہے۔ اور اکثر اوقات اپنا مکان جپتا کام۔دل پسند رفیق اور اسباب راحت و آرام چھوڑ کر محتاجوں مصیبت زدوں غریقِ گناہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ کیونکہ یہ مسیحی فقیر ان لوگوں سے تغافل کرتا تھا جو اُس کی خدمت کے محتاج تھے اِس لئے وہ خداوند کے چہرے کو نقش کرنے سے عاری ہو گیا۔ جِس حال کہ کوئی مسیحی محبت کی خدمت سے تغافل کرتا رہے تو وہ اپنے خداوند کے چہرے کو اپنی روح پر نقش کر نہیں سکتا۔
مریم کے جٹا ماسی کا عطر لانے کے بعد جو کچھ واقع ہوا ہم اُس پر غور کریں یسوع کے بعض شاگرد ناراض ہو گئے۔
ہر ایک کا اپنی اپنی محبت دکھانے کا طریق جُدا ہے۔ لیکن بعض لوگ دوسروں کی طریق کی ضرور عیب جوئی کرتے ہیں۔
مسیحی کلیسیاؤں میں بھی یہی حال ہے ایک میمبر دوسرے کے کام یا طریق پر اعتراض کرتا ہے۔
یاد رہے کہ یہودہ اسکریوتی نے یہ طمن کی تھی کہ بہتر ہوتا کہ یہ عطر بیچ کر غریبوں کو دیا جاتا۔ مقدس یوحنا بڑے افسوس کے ساتھ ہم کو بتاتا ہے کہ یہوداہ کے اِس پاکیزہ طمن کی اصلی غرض کیا تھی۔ یہوداہ کو غریبوں کی فِکر نہ تھی بلکہ وہ چور تھا اور غریبوں کےلئے جو کچھ دیا جاتا اُس کو اپنے تصّرفِ بیجا میں لاتا تھا۔
یسوع نے فوراً مریم کی حمایت میں اپنی آواز اٹھائی اور ایسے طریق سے مریم کے دُکھیا دِل کو عجیب تسّلی ملی ہو گی۔
کسی شخص پر مسیح کی خدمت کرکرنے پر عیب جوئی کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔ جِن مسیحیوں کی محبت بھری خدمت پر اعتراض و طعن کئے جاتے ہیں وہ اِس واقع سے تسّلی پائیں جس میں مسیح نے ایک طعن کے اوپر مریم کی حمایت کی تھی۔
اِس طعن پر مسیح نے کہا کہ ”اُسے یہ میرے دفن کے دِن کےلئے رکھنے دے“اُس نے میرے لئے کارِ احسن کیا ہے۔
حالانکہ شاگردوں نے تو نہ کہا تھا کہ اتنا روپیہ ضائع کیوں ہُوا۔ مسیحی کاموں کی نسبت اکثر لوگ یہی کہتے ہیں۔
جو زندگی دوسروں کی خدمت میں خود انکاری اور خود ایثاری میں صؔرف کی جائے اُس کو وہ تضیع سمجھتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ضائع وہ زندگیاں ہو رہی ہیں جو گناہ اور عشرت کی دلدادہ ہیں ۔ جو لوگ محض دنیاوی زندگی بسر کرتے ہیں وہ اُس حیات کو ضائع کر رہے ہیں جس کے بچانے کو یسوع نے اپنی جان دے دی۔ افسوس کہ فرشتوں کو یہ دنیوی فیشن کی زندگی کیسی قابل ِ ترس معلوم ہوتی ہو گی۔ ”جو کچھ وہ کر سکتی تھی اُس نے کیا “یہ بڑی اعلےٰ درجے کی تعریف تھی۔ وہ اپنی عُمدہ سے عُمدہ خداوند کے پاس لائی۔ شاید ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور خود نثاریوں کو بہت بڑی منزلت دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بشرطیکہ وہ ہماری وہ ہماری سب سے بہتر چیزیں ہوں تو شرفِ قبولیت پاتی ہیں۔ لیکن مریم کا کوئی کام چھوٹا نہ تھا۔
عطر بڑا گِراں بہا تھا اُس نے اُس بیش قیمت عطر کو تنگدِلی سے خرچ نہ کیا بلکہ سارے کا سارا یسوع کے سر اور پاؤں پر ڈال دیا
جو کچھ اُس نے دیا وہ اُس کو سب سے بہتر مال تھا۔
ہم اِس سے سبق سیکھتے ہیں۔کیا ہم اپنا سب سے عمدہ حصہ مسیح کو دیتے ہیں۔ اُس نے اپنا سب سے عمدہ انعام ہم کو دیا اور سب سے عمدہ بخششیں ہمیں ہمیشہ دیتا رہتا ہے۔کیا ہم اپنا بچا ہُوا حصہ اُس کو نہیں دیتے ؟
پھر ہم خداوند کے اُن الفاظ سے جو اُس نے مریم کی تحسین میں کہے اپنے ضمیر کو تسلی دیتے ہیں کہ
”جو کچھ وہ کر سکتی تھی اُس نے کیا “آہ مریم کی خدمت تو بڑی گِراں قدر تھی۔ اُس کا جو مال سب سے قیمتی تھا وہ اُس نے دیا۔
اگر ہماری ناچیز نظر سب سے عمدہ چیز نہ ہو تو یسوع نے جو کچھ مریم اور اُس کے تحفہ کی نسبت کہا اُس سے ہم کو کچھ بھی تسّلی نہیں مِل سکتی۔ بیوہ کی چھدام (دمڑی)اُس کی سب سے عمدہ نذر تھی۔ اور گو اُس کی نذر بری کم قیمت تھی اُس نے اپنی سب سے عمدہ چیز دے دی۔ ایک غریب عورت تو صرف ٹھنڈے پانی کا پیالہ ہی دے سکی۔ لیکن اگر ہم اپنی کثرت میں سے صرف تھوڑا سا دے دیں تو جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ ہم نہیں کرتے۔
جائے غور ہے کہ اِس مقدس خدمت میں عطر دانی بھی توڑی گئی کسی بات سے دریغ کیا نہ گیا۔
شکستہ چیزوں کو بائبل میں ایک خاص منزلت حاصل ہے۔ جدعون کے ساتھیوں نے جب آپ کو دشمنوں پر ظاہر کیا تو اپنے گھڑے توڑ ڈالے۔ پولس اور اُس کے رفیق جہاز کے شکستہ ٹکڑوں پر تیر کر سمندر سے پار ہوئے۔
شکستہ دِل کو خدا قبول کرتا ہے۔ یسوع کا بدن شکستہ ہوا تا کہ دنیا کےلئے زندگی کی روٹی بنے۔
غم کی شکستہ چیزوں میں سے خدا خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ زمینی شکستہ امیدیں بسا اوقات بڑی بڑی آسمانی برکتوں کا آغاز ٹھہرتی ہیں۔ جب تک کوئی چیز شکستہ نہ ہو اُس کا حاصل ہم کو نہیں مِلتا۔ اِن برکتوں کی تحصیل کےلئے جو صرف غم و تکلیف سے ہی ملتی ہیں۔ خود غم بھی کوئی بڑی چیز نہیں۔ اگر خدا کی یہی مرضی ہوتو ہم شکستہ ہونے سے خوف نہ کھائیں۔
یوں ہی خدا ہم کو خدمت کے قابل بنائے گا۔ عطر دانی کے توڑنے ہی سے عطر کی خوشبو مہکی تھی۔
اِس طعن پر خداوند نے یہ بھی کہا تھا کہ ”یہ اُس نے دفن کرنے کےلئے میرے بدن پر پہلے سے عِطر ملا“یہ لفظ
”پہلے سے“بہت دلپسند ہے۔ یسوع کے گاڑے جانے پر نیکدیمس بہت سا مُر اور لُبان اُس کے بدن پر ملنے کو لایا تھا اور اُس نے اچھا کیا۔ اِس سے خداوند کی عزت مقصود تھی۔ نیکدیمس کے ہم ہمیشہ مشکور رہیں گے کہ جِس خداوند سے ہم اتنی محبت کرتے ہیں اُس کو لائق طور پر دفنانے میں نیکدیمس کی شرمیلی محبت نے آخر کار ظاہر ہو کر ایسی مدد کی۔
لیکن مریم کی خدمت اُس سے بھی بہتر تھی۔ وہ اپنا عِطر پہلے سے لائی کہ بڑے غم کے وقت میں خداوند کو خوشی اور تسلی اور قُوت ملے۔ ہم جانتے ہین کہ اِس اظہار محبت سے خداوند کا دِل شاد ہو گیا۔ آخر غمناک ہفتہ کے واقعات کےلئے اُس کی روح نے قُوت پائی۔ اِس لئے خداوند نے یہ کہا تھا کہ ”اُس نے میرے ساتھ بھلائی کی ہے“دوستی کی خدمت میں ہم کو سبق سیکھنا چاہئے۔اکثر لوگ اپنے عزیزوں کے بعد مرگ اپنی محبت کے عطر دان لاکر توڑتے ہیں۔ جس حال کہ اُن کی محبت بھرے الفاظ خوشی جُرّات اور امید کا موجب ٹھہریں تب تو وہ چُپ رہتے ہیں اور جب اُن کا عزیز کفن میں مُہر یاب پڑا ہو اور اُس کے کانوں میں اُن کی دلکش آواز جا نہ سکتی ہو تب وہ اپنی محبت کااظہار کرتے ہیں۔ اکثر لوگ زندگی بھر مُشکلات ، آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا بڑی بہادری سے کرتے ہیں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر بوجھ اٹھاتے اور بے غرض خدمت میں اپنی زندگی صرف کر دیتے ہیں اور کوئی بھی اُن کو ہِمت نہیں دلاتا۔ نہ اُن سے اظہار ِدوستی کرتا ہے۔ لیکن اُن کے مرنے پر مداحوں کا ایک بڑا گروہ اُن کی عزت و تعظیم کرنے کو جمع ہو جاتا ہے۔ ہر شخص ذاتی مہربانیوں کو یاد رکھتا اوردوسروں کی مدد کا اعتراف شکرگزاری سے کرتا ہے۔
غمزدہ دوستوں کو محبت شکرگزاری اور قدردانی کے خطوط لکھے جاتے ہیں۔کفن پر رکھنے کےلئے گُلدستوں کے گُلدستے بھیجے جاتے ہیں۔جو کئی سال تک سخت راہوں میں بکھیرنے کےلئے کافی ہوتے۔ کئی نیک مرد اور خاتونیں جنہوں نے زندگی بھر محبت اور ہمت کا لفظ تک نہیں سُنا اگر اپنی موت سے چند گھنٹے بعد اٹھ کر دوستوں کی قدردانی اور محبت اور الفت کے الفاظ سُنیں تو کیسے حیران ہوں۔ زندگی میں تو اُن کو خیال تک نہ تھا کہ ہمارےدوست اور مدّاح اتنے ہیں اور یہ کہ ہم اِتنوں کی مدد کا وسیلہ ٹھہرے ہیں۔
ایک خادم الّدین کا ذکر ہے کہ مدت تک خدمت کرنے کے بعد اپنے وطن حقیقی کو رحلت کر گیا۔ اُس کی موت کے بعد ہی اُس کے احباب نے ایک جلسہ کیا اور اُس کی زندگی کا ذکرِ خیر کیا۔کئی واقعات سُنائے گئے جِن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُس کی محنت موجبِ برکت ٹھہری تھی۔
متعدد لوگوں نے یکے بعد دیگرے مرحوم سے اپنی محبت اور شکرگزاری کا اظہار کیا۔ خادم الّدین کی بیوہ بھی اُس جلسہ میں حاضر تھی اور اُس مہربانی اور اظہار محبت کےلئے اُس نے اُن کو شکریہ ادا کیا لیکن ہِچکیاں لے لے کر کہنے لگی کہ
”اُس کے جیتے جی آپ نے اِن باتوں کا اظہار کیوں نہ کیا“ہاں کیوں نہیں؟
بے غرضی سے اُس نے چالیس برس خدمت کی تھی اُس نے تو اپنی جان سے بھی دریغ نہ کیا تھا۔
دِن رات اُس کو اپنی جماعت کی فِکر تھی۔اور جب وہ خدا کے کسی فرزند کی مدد کر سکتا تو اپنے آرام کا کبھی خیال نہ کرتا تھا۔
جماعت اُس سے محبت کرتی اور اُس کی محنتوں کی قدردانی کرتی تھی۔ لیکن اِس عرصہ دراز میں کسی ایک نے بھی اُس کو نہ بتایا کہ جماعت آپ سے کیسی محبت رکھتی اور آپ کی محنتوں کی قدر کرتی ہے اور آپ کی شُکرگزار ہے۔
یہ تو وہ جانتا تھا کہ خداوند میرے کام سے خوش ہے اوراِس سے اُس کو ہمت ملتی تھی۔ اِس تحسین کا وہ آرزو مند تھا
لیکن اگر اُس کی جماعت جِس سے وہ محبت رکھتا جس کےلئے وہ جیتا اور جس کی مدد اُس نے کئی صورتوں میں کی تھی کبھی اُس کو بتاتی کہ ہم آپ سے کیسی محبت رکھتے ہیں تو وہ کیسی تسلی پاتا اُس کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ، اُس کی جفاکشی سہل ہو جاتی اور خدمت کی خوشی اور بھی بڑھ جاتی۔
ہمارے اکثر احباب آشنا اور ہمسائے ہماری تسلی اور دوستی سے قُوت اور شادمانی پا سکتے ہیں۔ ہم اپنے تمام پھول کفن کےلئے ہی رکھ نہ چھوڑیں۔ اور اپنی سنگِ مر مر کی عطر دانیوں کو اپنے عزیزوں کے مرتے دم تک سر بمہر نہ رکھیں۔
ہم ایسے وقت میں مہربانی کریں جبکہ مہربانی اپنا نیک اثر کرے۔ اگر ہم کو اپنے عزیزوں کے کفن کےپاس کھڑے ہو کر یہ کہنا پڑے کہ”اگر میں کچھ مہربانی دکھاتا تو اُس کی راہ کچھ منور کر سکتا“تو ہمارا غم اور بھاری ہو جاتا ہے۔
جب یسوع نے فرمایا کہ تمام دنیا میں جہاں کہیں انجیل کی منادی ہو گی یہ بھی جو اُس نے کیا اُس کی یاد گاری میں کہا جائے گا ۔
تو اُس نے مریم کی بڑی عزت کی۔اُس کی اپنی موت کی یادگاروں میں مریم کی اِس محبت کی خدمت کو جگہ حاصل ہے۔
مریم کے عطر سے جیسے سارا کمرہ مہک گیا ویسے ہی آج کے دِن تک مریم کی محبت کے ذکر سے ساری مسیحی دنیا بھری ہے۔
اُس کی خدمت کے اثر سے اثر اور خداوند کے اُس کی قدردانی سے بیشمار خاندانوں کو برکت ملی اور لاکھوں زندگیاں شیریں اور صادق بن گئی ہیں۔
\باب۔6
دوستی کی شرائط
ہر شخص کو جو اناجیل کا بغور مطالعہ کرتا ہے معلوم ہو جاتا ہے کہ مسیح کی بلاہٹوں میں دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے کی متضاد ہیں یعنی اُن کی وُسعت اور تنگی دو ایسی کُشادہ ہیں کہ اُن میں تمام بنی آدم شامل ہیں تو بھی اپنی شرائط کے لحاظ سے ایسی تنگ ہیں کہ صرف چند ہی اُن کو قبول کر سکتے ہیں۔
انجیل کُل دنیا کےلئے ہے اور خدا کی لامحدود محبت کی مانند وسیع ہے خدا نے جہان کو پیار کیا۔ جب یسوع لوگوں میں پھرتا تھا تو اُس کو دِل سب کےلئے کھُلا رہتا تھا۔ وہ کسی قوم کا مربّی نہ تھا۔ اور نہ اُس کے نزدیک ایک شخص بھی ایسا تھا جس کو وہ چھوڑ سکتا یا جس کے ساتھ خلا ملا میں گفتگو نہ کر سکتا تھا۔ یا جس کو اُس کے ساتھ دوستی پیدا کرنے کا حق نہ تھا۔ اُس نے اپنے تئیں ابنِ آدم کہا جس سے کسی خاص شخص کا بیٹا مُراد نہیں بلکہ ابنِ آدم اور اِس لئے وہ ہر شخص کا بھائی ہے جس میں انسانیت پائی جاتی تھی۔اُس کےلئے اُس کے دِل میں جگہ تھی۔ جہاں کوئی محتاج شخص پایا جاتا وہیں وہیں وہ اپنی ہمدردی ظاہر کرتا اور برکت دینا چاہتا تھا۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا کہ جو گناہ میں گِر چُکا ہو اور مسیح محبت اور رحم ظاہر کئے بغیر اُس کے پاس سے گُزر گیا ہو۔
انسان ہونا اُس کےدِل کےلئے گویا پروانہ ہمدردی تھا۔ یسوع کی تمام بلاہٹوں پر وسعت کی مُہر لگی ہوئی ہے
”اے تُم لوگوتھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دوں گا“
”جو میرے پاس آتا ہے میں اُسے نکال نہ دوں گا“ ”اگر کوئی پیاسا ہے تو میرے پاس آئے اور پیئے “
ایسے ایسے الفاظ اُس کے لبوں سے نکلتے رہتے تھے۔کوئی مرد یا عورت اُس کے اِن الفاظ کو سُن کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ
”اُن میں میرے لئے کچھ نہیں“اُن میں سے کسی کو بھی الگ رکھنے کا اشارہ تک بھی موجود نہیں۔ کسی خاص فرقہ مثلاً
راستباز ، مغرور، مہذب یا غیر مہذب ، اشراف اور دولتمند کے آنے کی نسبت ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔
یسوع نے ایسا ایک لفظ بھی نہیں کہا صرف اُسی کو بلاتا ہے جو تھکا اور بوجھ سے لدا ہُوا ہو۔ جو آسکتا ہے و قبول کیا جاتا ہے
اور کسی طرح سے نکال نمہیں دیا جاتا۔ جو کوئی پیاسا ہو وہ آنے اور پینے کےلئے بلایا جاتا ہے۔
بعض استاد اپنی تعلیم کے مطابق خود ہی عمل نہیں کرتے وہ خدا کی عالمگیر محبت کا تذکرہ کرتے ہیں مگر لوگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں جس سے اُس محبت کا پتہ نہیں ملتا۔
اگرچہ سب کو پیار کرنے کا اقرار تو کرتے ہیں مگر جب کوئی ادنیٰ یا نیچ آدمی اُن کے پاس سے گُؔزرتا ہے تو وہ اپنے دامن سمیٹنے لگتے ہیں۔ لیکن یسوع ٹھیک خدا کی محبت کے مطابق جس کی وہ تعلیم دیتا تھا زندگی بسر کرتا تھا۔
اُس کی نسبت یہ بات لفظی طور پر صادق آتی رہی کہ اُس نے کسی کو جو اُس کے پاس آیا نکال نہیں دیا۔ اُس نے راستبازی کی اُن صفات کی تردید کی جو اُس کے لوگوں کے دینی استادو ں نے بنائیں اورقائم کی تھیں۔ وہ ہمیشہ اپنے عبادت خانوں اور یا عبادت کے موقعوں پر پڑھا کرتے تھے کہ ”تو اپنے پڑوسی کو اپنی مانند پیار کر“مگر وہ پڑوسی کے لفظ کو ایک خاص قومی اور روحانی منتخب شُدہ لوگوں کے دائرے تک محدود کر دیتے تھے۔
برعکس اِس کے یسوع نے سکھلایا کہ کسی شخص کا پڑوسی اُس کو وہی ہمجنس ہے جو محتاجی میں مبتلا ہو گیا ہو خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو اِس لئے جب کبھی کھوئے ہوئے لوگ اُس کے پاس آئے انہوں نے محسوس کیا کہ خدا کی محبت نے اُس میں اُتار لیا ہے۔
کتابِ مقدس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک دفعہ تمام محصول لینے والے اور گنہگار اُس کی تعلیم سُننے کےلئے اُص کےپاس آئے لیکن یہودیوں کے دینی معلموں نے اُس میں نقص نکال کر کہا کہ ”یہ شخص گنہگاروں کو قبول کرتا اور اُن کے ساتھ کھاتا ہے“مگر اُس نے یہ کہہ کر اپنی طریق کی پشتی کی کہ ”میں کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے کےلئے تو آیا ہوں“ایک اور موقع پر اُس نے کہا کہ
میں حکیم ہوں اور حکیم تندرستوں کےلئے نہیں بلکہ بیماروں کے واسطے ہوتا ہے میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کےلئے بلانے آیا ہوں۔ ایک غریب عورت جو گنہگار تھی اُس کی اُس پُر محبت دعوت کو کہ
”اے تم لوگو جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو میرے پاس آؤ“سُن کر اُس کی صداقت کو آزمانے کےلئے اُس کے پاس آئی اور روتی ہوئی اُس کے قدموں پر گِر کر آنسوؤں سے انہیں بھگو دیا اور اپنے بالوں سے پونچھ کر چوما۔ تب اُس نے جٹا ماسی کے عطر کا ایک ڈبہ کھول کر تمام عطر اُس کے قدموں پر ڈال دیا۔ اُس کا ایسی عورت اپنے قدموں کے پاس ٹھہرا کر ایسا کرنے کی اجازت دینا عام دستور کے خلاف تھا۔
اگر وہ یہودی ربی ہوتا تو اُس کو نفرت سے اپنے پاس سے دور کر دیتا تا کہ چھُو کر اُس کو ناپاک ک نہ کر دے۔
لیکن یسوع نے اُس عورت کو اپنے پاس ٹھہرنے دیا تا کہ وہ اپنی محبت اور توبہ کا کام پورا کر لے۔
بعد ازاں اُس سے ایسی باتیں کہیں جِن سے اُس کو یقین ہوگیا کہ اُسے معافی اور سلامتی حاصل ہو گئی ہے۔
یسوع کی زندگی میں اُس کی وسیع بلاہٹ کی صداقت کے بہت سے ثبوتوں میں سے یہ ایک ثبوت ہے۔
ہمیشہ کھوئے ہوئے اور گنہگار اُس کے پاس آتے تھے کیونکہ اُس میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ اُن کےلئے اُس کے پاس آنا اور اُس سے اپنے گناہ کے بوجھ کا ذکر کرنا اور بہتر زندگی حاصل کرنے کےلئے درخواست کرنا آسان تھا۔چنانچہ اُس کے شاگردوں میں ایک محصول لینے والا تھا۔
جب یسوع نے اُس کو اپنا شاگرد بنانے کےلیے بلایا تو اُس کو اپنے دوستوں میں شامل کیا۔ اور اب اُس کا نام آسمانی شہر کی بنیادوں میں سے ایک پر بطور ”برے کے رسول“ کے کندہ ہے۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کی محبت قولاً فعلاً کیسی فراخ اور وسیع ہے۔ اُس کا دِل ہر انسان کےلئے رحم سے معمور تھا۔
اُس کے پاس برکت تھی جسے وہ ہر روح پر نازل کرنا چاہتا تھا۔ جو چاہتا یسوع کا دوست بن سکتا تھا اور اُن میں جو اُس کے بہت نزدیک رہتے تھے شامل ہو سکتا تھا۔ کسی کےلئے اُس کا دروازہ بند نہیں تھا۔
ایک اور قسم کے الفاظ بھی ہیں جن سے اُن وسیع بلاہٹوں اور اُس پُر فضل محبت کی حد بنی کی گئی ہے۔
بار بار یسوع اپنے شاگردوں کو مایوس کر دیتا تھا جب لوگ اُس کے پاس آتے تھے تو وہ انہیں کہتا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پیشتر اُس نقصان کا اندازہ لگا لو جو تمہیں میری پیروی کرنے میں اٹھانا پڑے گا۔ ایک فِقرہ میں تین اشخاص کا حال درج ہے جو یسوع کے شاگرد بننے کے خواہاں تھے مگر وہ اُن کےلئے اپنی پیروی کرنا مُشکل اور کٹھِن بنا دیتا ہے۔
ایک شخص اُس کے پاس آیا اور چِکنے چُپڑے انداز سے کہنےلگا کہ ”جہاں تو جائے میں پیچھے چلوں گا“اِس سے بڑھ کر وہ کیا کر سکتا تھا۔ کوئی شخص اِس سے بڑھ کر نہیں کر سکتا تھا۔ مگر یسوع نے اِس سرگرم فقیہ کو مایوس کر دیا۔ اُس نے دیکھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اُس کا مطلب نہیں سمجھتا اور نہیں جانتا کہ اُس کو اِس میں کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا اور شاگردی کی وہ ضروری صفات یعنی سختی کی برداشت اور خود انکاری میں اُس کی محبت قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس واسطے اُس نے جواب میں کہا کہ
”لومڑیوں کی ماندیں اور ہوا کے پرندوں کے لئے بسیرے ہیں مگر ابن آدم کےلئے سر رکھنے کی جگہ نہیں “
غرضیکہ اُس نے اپنی مُفلسی اور بیکسی کی تصویر اُس کے سامنے کھینچ کر اُس سے کہا کہ
”تم کو میری پیروی کرنے سے اُس حالت میں پہنچنا پڑے گا۔کیا تُم تیار ہو؟“
تب یسوع دوسرے کی طرف متوجہ ہوا اور اُس سے کہا ”میرے پیچھے آ“لیکن اُس نے مُہلت مانگی اور کہا
”خداوند پہلے اجازت دے کہ اپنے باپ کو گاڑ آؤں“یہ درخواست بھی واجبی معلوم ہوتی تھی۔
تمام الہامی نوشتوں میں والدین کے فرائض کو اعلےٰ درجہ پایا گیا ہے تو بھی یسوع نے کہا ”نہیں میُردوں کو اپنے مُردے گاڑنے دے مگر تو آکر خدا کی بادشاہی کی منادی کر“اگر مشنری کام میں فوراً مشغول ہونے کےلئے باپ کی محبت کے پاک فرض کو بھی چھوڑ دینا پڑتا ہے تو شاگرد ہونا کیسا مشکل ہے۔ یہ سُن کر تیسرے شخص نے بھی شاگرد ہونے کی درخواست کی مگر ساتھ میں مہلت بھی مانگی کیونکہ اُس نے کہا کہ ”میں تیرے پیچھے چلوں گا لیکن پہلے میں اپنے گھر کے لوگوں سے رُخصت ہو آؤں“یہ درخواست بھی مناسب تھی
لیکن جواب اب بھی سخت دیا گیا یعنی ”جوکوئی ہل پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہت کے لائق نہیں “
جو مسیح کی پیروی کیا چاہتا ہے اُس کےلئے گھر کے لوگوں سے آخری الوداع کرنا بھی منع کیا جاتا ہے۔
اِن واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع نے لوگوں کےلئے شاگرد بننا نہ صرف مشکل اور مہنگا کر دیا بلکہ یہ ٹھہرایا کہ شاگرد بننے کےلئے خواہ کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے اور انسانی محبت کے کیسے ہی پاک فرائض کو چھوڑنا پڑے مگر مسیح کی بادشاہت کے کام کو اول درجہ دینا چاہیے۔
اس قسم کی تعلیم کی ایک عمدہ مثال اُس جوان سردار کی ہے جس نے زندگی کی راہ جاننی چاہی تھی۔
ہم عموماًمتلاشیوں کےلیے مسیح کی پیروی کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یسوع نے اُس دولتمند جوان کےلئے مشکل کام پیش کیا۔ اُس کو تما م دولت و چھوڑ کر خالی ہاتھ نئے مالک کی پیروی کرنی تھی۔ کیونکہ اُس نے سرگرم متلاشی کو ایسا مایوس کر دیا
اُس نے اپنے دِل میں دیکھا اور معلوم کیا کہ جب تک میں اپنے آپ پر فتح نہ پاؤں تب تک سچا شاگرد ہو نہیں سکتا۔
سوال یہ تھا کہ وہ یا تو روپیہ کو رکھے یا یسوع کو۔ اُس کے سامنے ایسی کٹھن راہ پیش کی گئی کہ کم سے کم اُس دِن وہ جوان یسوع کو چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ فی الحقیقت ہر شخص کو شاگرد بنانے کےلئے اِس قسم کا پیمانہ رکھا گیا۔ وہ جنہوں نے اُس کی پیروی کی سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ اُس کے پیچھے چل دیئے اُن سے طلب کی گیا تھا کہ وہ باپ اور ماں اور بچوں اور زمین کو چھوڑیں اور اپنی صلیب اٹھا کر اُس کی پیروی کریں۔
کیا وجہ ہے کہ مسیح کی بلاہٹیں اپنی عملی صورت میں ایسی تنگ کی گئیں۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ یسوع خدا کا مظہر ہے۔
وہ دنیا میں محض اس لئے نہیں آیا کہ چند بیماروں کو چنگا کرے۔ اور چند تاریک گھروں میں اُن کے مُردوں کو زندہ کر کے ازسرِنو خوشی لائے اور اخلاقی اور روحانی تعلیم کا ایک طریقہ قائم کرے اور مہربانی ، رحم اور محبت کی خدمت کو شروع کرے بلکہ وہ اِس لئے آیا تھا کہ کھوئی ہوئی دنیا کو بچائے اور انسان کو گناہ کی حالت سے نکال کر پاکیزگی کی حالت میں پہنچا دے۔
اور اِس کام کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا یعنی یہ کہ لوگ پھر خدا کی تابعداری میں لائے جائیں۔
یسوع ہم کو اپنے عجیب دعووں اور تابعداری کی ذمہ داریوں سے حیران کر دیتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ اگر لوگ آرام چاہتے ہیں تو مجھ پر ایمان لائیں۔ وہ مجھے سب سے بڑھ کر پیار کریں وہ بغیر کسی قسم کی رکاوٹ اور حُجت کے میری فرمانبرداری کریں
وہ اپنے حال اور آئندہ کا تمام نفع میرے ہاتھوں میں سپرد کر یں۔ القصہ یہ کہ وہ اپنے تئیں خدا کی جگہ رکھ کر سب کچھ جو خدا طلب کرتا ہے اُسے وہ اپنے لئے طلب کرتا ہے۔
اور اُن سے کو اُس کی تابعداری اختیار کرتے ہیں اُن سب برکتوں کا وعدہ کرتا ہے۔
اس طریق یسوع لوگوں کو بچانا چاہتا تھا۔ انسانیت میں خدا کا مظہر ہو کر وہ انسانوں کے پاس آیا اور خدا کو اُن کی پہنچ میں لا کر کہا
”مجھ پر ایمان لاؤ۔مجھ پر بھروسہ کرو۔ میری پیروی کرو۔اور میں تمہیںابدی برکتوں تک پہنچا دوں گا“اگرچہ دعوت تو عالمگیر ہے مگر اس کی برکتیں صرف انہیں کو مل سکتی ہیں جو فی الحقیقت مسیح کو خدا کا بیٹا قبول کرتے ہیں۔
اگر یسوع نے اپنے پیروکاروں سے مشکل باتیں طلب کیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ لوگ کسی اور طرح بچ نہیں سکتے۔
کوئی ہلکا اور آسان بندھن نہیں ہے کہ جس سے وہ اُس کے ساتھ باندھے جائیں۔ اُس کے ساتھ پیوست ہو جانے سے ہی
وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہو سکتے ہیں اگر کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یسوع اپنی شاگردی سے کسی کو مایوس کرتا ہے تو اُس کا باعث یہ ہے کہ کوئی نئی زندگی کی نسبت جس کےلئے یسوع لوگوں کو بلاتا ہے دھوکا نہ کھائے۔
وہ کسی کو اپنا پیرو بنانا نہیں چاہتا جو پہلے سے ہی حساب لگا کر یہ فیصلہ نہیں کر لیتا کہ آیا میں اُس کے ساتھ جانے کو راضی ہوں یا نہیں ؟لوگ مسیح کے ساتھ ایسی دوستی کر کے جو اور رشتوں سے بڑھ کر ثابت ہو چُکی ہو۔ ؎آسمانی زندگی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ؎
اِس لئے دین مسیحی کےلئے جذبہ ہے۔زِنزنڈارف کا مقولہ یہ تھا۔ ”میرا ایک ہی جذبہ ہے اور وہ مسیح ہے“
مسیح کی طرف محبت ایک ایسی طاقت ہے کہ بیس صدیوں سے دنیا کو تبدیل کر رہی ہے۔
شریعت اگرچہ بڑی ڈرانے والی طاقت سے تشبیہ دی گئی ہے مگر اُس سے کبھی یہ کام پورا نہیں ہو سکتا تھا۔
کامل سے کامل اخلاقی قانون خواہ کیسی ہی اعلےٰ حکومت سے کیوں نہ جاری کیا جائے مگر اندھیرے کو روشنی سے ، بے رحمی کو رحم دلی سے سختی کو نرمی سے بدل سکتا۔وہ کون سی چیز ہے جو انجیل کو ایسی طاقت دیتی ہے جس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
لوگ مذہب یا عقاعد ناموں یا اخلاقی نصیحتوں یا کلیسیائی طریق کی طرف بلائے نہیں جاتے بلکہ محبت کرنے اور مسیح کی پیروی کرنے کو بلائے جاتے ہیں۔ مسیح میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کے باعث لوگ اُس کی طرف کھنچے جاتے اور سب سے زیادہ اُس کے لئے وفادار ہو کر اُس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیتے اور ہر قسم کے خوف اور خطروں کے درمیان اپنی جان تک دے دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
کیا یہ اُس کی تعلیم ہے ؟
کوئی شخص اُس کی مانند کلام نہ کرتا تھا کیا یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو معجزات میں ظاہر کی گئی ؟
کیا یہ اُس کی بے گناہی ہے ؟ سب سے بڑا بد خواہ نقطہ چین اُس میں عیب تلاش نہ کر سکا۔کریکٹر (کردار۔ خصلت ) کی کامل خوبصورتی ہے۔ اُن باتوں میں سے نہ ایک اور نہ سب کے سب مسیح کی طرف عجیب و غریب کشش کا باعث ہو سکتی ہیں۔
اِس کا بھید صرف محبت ہے۔ وہ دنیا میں اس لئے آیا تا کہ وہ خدا کی محبت کو ظاہر کر ے۔ وہ انسانی جسم میں خدا کی محبت تھا۔
اُس کی زندگی محبت ہی محبت تھی۔ بڑے عجیب طریقے سے اپنی تمام زندگی میں اُس نے محبت کو ظاہر کیا۔ لوگوں نے محبت کو اُس کے چہرے میں دیکھا۔ اُس کے چھونے میں محسوس کیا۔ اُس کی آواز میں پہچانا۔ یہی بڑی بات تھی جو اُس کے شاگردوں نے اُس کی زندگی میں محسوس کی۔ اُس کی دوستی بے نظیر تھی ایسی نہ انہوں نے کبھی دیکھی اور نہ کبھی اُن کے خواب و خیال میں آئی۔
یہی باعث تھا کہ وہ اُس کی طرف کھنچ گئے اور اُس کو دِل و جان سے پیار کرتے تھے۔ محبت کے بغیر محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ زور سے پیدا نہیں ہو سکتی پاکیزگی سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ انعام دینے سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ لوگ تمہارے انعاموں کو لے کر اُس کے عوض میں نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مگر محبت محبت کو پیدا کرتی ہے۔ دِل سے دِل کو راہ ہے۔ یسوع نے لوگوں سے محبت کی۔ مگر وہ محبت جو اُس نے اپنی زمینی زندگی کے دنوں میں اپنی دلکش اور مرغوب دوستی کے ذریعہ ظاہر کی۔
ُس کی محبت کا سب سے اعلےٰ اظہار نہ تھا۔ اُس کا سب سے بڑا اُس کا جان دینا تھاب۔
”اچھا گڈریا میں ہوں اچھا گڈریا اپنی بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہے“یہ اُس کی محبت کا سب سے عجیب ظہور تھا جو دنیا میں ظاہر ہوا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے خاص اور جانی دوست کےلئے اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے مگر یسوع نے دشمنوں کی دنیا کےلئے اپنی جان دی۔ اگر اُس نے محض اپنے پیارے شاگرد اور بہادر پطرس کےلئے جان دی ہوتی تو ہم اُس کو مطلب سمجھ سکتے۔ مگر اُس نے اپنا قیمتی لہو جو ابدی خلاصی کا لہو تھا گنہگار انسانوں کےلئے بہایا مسیح کی یہی عجیب محبت ہے جو آدمیوں کو اُس کی طرف کھینچتی ہے۔ اُس کی زندگی خاص کر اُس کی صلیب ہر ایک سے یہ کہتی ہے ”خدا تمہیں پیار کرتا ہے“
”خدا کے بیٹے نے اپنے تئیں تمہارے لئے دے دیا ہے “یسوع نے اِس عجیب بھید کو اپنے الفاظ میںاس طرح بیان کیا ہے
”اگر میں زمین پر سے اوپر اٹھایا جاؤں تو سب آدمیوں کو اپنے پاس کھینچ لوں گا“صلیب ہی سے اُٗس کی عجیب اور اُس کی لاثانی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔ صلیب کی کشش کا بھید محبت ہے۔ ”اُس نے مجھے پیار کیا اور اپنے تئیں میرے بدلے دے دیا“
اِس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ یسوع بطور دوست کے کیسا ہے اور وہ اپنے پہلے شاگردوں کے حق میں کیسا تھا اور آج کیسا ہے ؟
اُس کی دوستی کامل ہے سب سے عُمدہ اور گہرے دنیاوی دوست اُس کامل نمونہ کا محض چھوٹا سے جُزو ہیں۔
لیکن ہم دنیا میں اُن کی بڑی قدر کرتے ہیں وہ ہمارے لئے بیش قیمت جواہر سے بھی قیمتی ہیں۔
ہم اور ساری چیزوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ مگر ہمیں اُن دوستوں کی جُدائی گوارا نہیں۔ اُن سے ہم خوشی تسلی اور پاک خیالات حاصل کرتے ہیں۔ زندگی بغیر دوست کے سُنسان اور خالی معلوم ہوتی ہے۔ سچ مُچ محبت سب سے بڑی چیز ہے۔
ساری دنیا میں سوائے اُس کے کوئی چیز نہیں جو ہمارے دل کو تسّلی سے بھر سکے۔ اگرچہ دنیاوی دوست بہت قیمتی ہوتے ہیں مگر اُن کی سب سے نزدیکی اور حقیقی دوستی کامل دوستی کا جُزو ہے۔ اِس سے ہم کو برکتوں کا چھوٹا سا پیالہ حاصل ہوتا ہے۔
کبھی کبھی کمزوری کے باعث ایسے دوستوں کی مروّت روکی جاتی اور بعض حالتوں میں سختی ست مبدّل کی جاتی ہے۔؎
اُن کی سب سے بڑی مدد پر ہمیشہ بھروسہ نہیں ہو سکتا وہ اکثر بے موقع اور بے وقت ہوتی ہے۔
مگر یسوع کی دوستی کامل ہے وہ ہمیشہ پُر از مروّت و محبت ہوتی ہے۔ اُس کی مدد دانائی سے ہوتی ہے۔ اُس کی مہربانی آسمانی حرارت کی مانندہے۔ جو اُس کی زندگی کو قائم رکھتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے۔ خدا کی تمامحبت یسوع کی دوستی میں نازل کی جاتی ہے۔ اُس کا پیارا بننا ابدی بازوؤں کی پناہ میں آجانا ہے۔ یسوع کہتا ہے ”میں اور میرا باپ ایک ہیں“اِس لئے اُس کی دوستی باپ کی دوستی ہے۔ وہ جو سچائی سے اُس کو قبول کرتے ہیں اُن کی زنندگیاں برکتوں
کی دولت سے مالامال ہو جاتی ہیں۔ مسیحی زندگی میں عقاعد کےلئے جگہ ہے اور اُس کے مسائل گویا سچائی کا بڑا ڈھانچہ ہیں
جن کے ساتھ ساتھ عقاعد کی عمارت بنتی ہے جس سے یہ طاقت حاصل ہوتی جاتی ہے۔ عبادت بہت ضروری ہے۔
بشرطیکہ اُس کو ایمان اور روح القدس سے زندہ کیا جائے رسومات کا پاک مقصد یہ ہے کہ اُن کے وسیلے نہر کی طرح فضل کی دھار جاری ہو لیکن تمام روحانی زندگی کی جان یسوع کی دوستی ہے۔ یسوع کی محبت کو جو فہم سے باہر ہے جاننا زندہ دین ہے۔
عقاعد نامے ، عبادتیں اور رسومات اور سیکریمنٹ اُسی قدر ہمارے لئے برکت کا باعث ہوتے ہیں جہاں تک کہ وہ اُس محبت کو ہم پر واضح کرتے ہیں اور ہم کو مسیح کے ساتھ نزدیکی والے اور شخصی رشتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ؔ
یسوع کی دوستی ہماری نادار زمینی زندگی کو خاک سے اُٹھا کر خوُبصورتی برکت کی حالت میں پہنچا دیتی ہے۔
یہ ہمارے لئے ہر چیز کو بدل دیتی ہے۔یہ ہم کو خدا کے حقیقی اور سچے فرزند بناتی ہے۔یہ ہم کو اُس شے سے ملا دیتی ہے جو پاک اور حق ہے۔یہ ہم میں مسیح کےلئے دوستی اُکساتی اور ہماری زندگی کی تمام لہروں کو نئی اور پاک نالیوں میں پہنچاتی ہے۔
اس طرح سے یہ ہم کو ہمارے دوست کی جس کے ہم ہیں اور جس کی خدمت کرتے ہیں صورت میں ڈھالتی جاتی ہے۔
اس طرح سے یسوع لوگوں کی زندگیوں کو نیا کر کے دنیا کو بچاتا رہا ہے وہ آسمان کی بادشاہت کو زمین پر قائم کر رہا ہے۔
وہ نہ تو ہتھیاروں کے زور سے اور نہ شریعت کے ڈر سے بلکہ محبت کے زور سے اپنی رعیت بناتا ہے۔
لوگوں کوسکھلایا جاتا ہے کہ خدا انہیں پیار کرتا ہے۔ وہ پہلے یہ محبت مسیح کی زندگی میں دیکھتے ہیں پھر اُس کی صلیب میں جہاں وہ خدا کا برہ ہو کر اور دنیا کے گناہوں کو اُٹھا کر مر گیا۔ اُس محبت کی زبردست تاثیر سے متاثر ہو کر وہ اپنے دِل آسمانی بادشاہت کے حوالہ کرتے ہیں اِس طرح سے محبت کی فتوحات جاری رہتی ہیں۔ یسوع کی دوستی دنیا کے گُناہ اور بدی کو آسمانی پاکیزگی اور خوبصورتی میں بدل رہی ہے۔
باب۔7
دوستوں کا انتخاب
دوستوں کا چُننا انسان کی زندگی میں سب سے بڑی اور ضروری بات ہے۔ اکثر جوان دوستوں کے انتخاب میں غلطی کر کے اپنا سب کُچھ کھو بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ ایسے لوگوں کو چُن لیتے ہیں جو اپنے اثر سے انہیں نیچے کھینچ لے جاتے ہیں قصرِ مذّلت میں گِرا دیتے ہیں۔
اکثر شخصوں کا اخلاقی تنّزل اُسی روز سے شروع ہو جاتا ہے جس روز وہ کسی نالائق دوست کو چُن لیتے ہیں۔
کئی عورتوں کی غم اور بُرائی کی زندگی اُس دِن سے شروع ہوتی ہے کہ جس روز کسی نکمّے دوست کو اپنے دِل میں جگہ دیتی ہیں۔
برعکس اِس کے بہتوں کی خوشی اور قبالمندی اور کامیابی اور سرفرازی کی زندگی کا باعث یہ ہُوا ہے کہ وہ کسی پاک ، شریف ، نیک ، اور فراخ دِل کو اپنا دوست منتخب کرتے ہیں۔ ایک دفعہ مسٹر براؤننگ نے چارلس کنگسلے سے پوچھا
”براہ مہربانی آپ مجھے بتلایئے کہ آپ کی زندگی کا بھید کیا ہے تاکہ میں بھی اپنی زندگی کو ایسی ہی خوبصورت اور اچھی بناؤں ؟“
اُس نے جواب دیا کہ ”میرا ایک دوست تھا “بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اعلےٰ درجے کے کیریکٹر میں خوبصورت اور اُن کی زندگی میں عُمدہ اور نیک تھیں اُن میں داخل کر دیا۔
خداوند کا اپنے شاگردوں کا انتخاب ہمارے اپنے دوستوں کے چُننے کے پیرایہ میں متصور نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ معمولی دوستوں سے بڑھ کر تھے۔ اُس نے انہیں اپنا قائم ِ مقام اور اپنی کلیسیا کی بنیاد بنایا تھا۔ تاہم اُس ماجرے سے ہم اپنے لئے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
یسوع نے اپنے دوستوں کو بڑے تحمل سے چُنا۔ اُس کے شاگرد مہینوں سے اُس کے پاس رہتے تھے۔ اپنی عام خدمت کے شروع کرنے کے کم از کم ایک سال بعد اُس نے بارھوں کو چُنا۔ اُس کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اپنے پیروؤں کے گروہ سے سے واقف ہو۔ اُن کے کریکٹر کو آزمان کر دیکھ لے اور اُن کی طاقت اور کمزوری کی ماہیت کو جانچ لے۔
دوستوں کے چُننے کی نسبت بہت سی مُہلک غلطیاں ناواجب جلد بازی کے سب سے سرزد ہوتی ہیں۔ ہم اُن کو جنہیں ہم دوست بنانے کا خیال کرتے ہیں جاننے کے لئے کافی وقت خرچ کریں اور اُن کے ساتھ دوستی کی سنجیدہ اور پُختہ مُہر لگانے سے پیشتر اُنہیں بخوبی جان لیں۔
یسوع کے دوست کے انتخاب کو ایسا ضروری سمجھا کہ اُس نے اُس کو اپنی دعا کا مضمون بنا لیا۔ اُس نے تمام رات خدا کے حضور دعا مانگی اور صبح شاگرد منتخب کئے۔ اگر یسوع کو اپنے دوستوں کا انتخاب کرنے سے پیشتر ایسی دعا کی ضرورت تھی تو ہم کو کتنا لازم ہے کہ اپنی زندگی میں نئے دوست بنانے سے پیشتر خدا سے صلاح لیں۔ ہم نہیں جان سکتے کہ اُس دوست کا ہم پر کیسا اثر پڑے اُس کے وسیلے ہم کہاں تک پہنچ جائیں یا اُس کے باعث سے ہم پر کیسے کیسے رنج اور تکلیفیں آئیں گی یا ہماری روح کیسی خوبصورت یا بد صورت بنائی جائے گی۔
ہم کسی کو اپنا دوست قبول نہ کریں جب تک کہ خدا اُسے ہمیں نہ دے جو اِن سے بڑھ کر کسی اور بات میں الہٰی دانائی کے محتاج نہیں ہیں جتنے کے اِس بات کا فیصلہ کرنے میں کہ کون اُن کا دوست ہو گا۔ آخری عشاء کے موقع پر یسوع نے اپنی دعا میں اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ”یہ تیرے تھے تُو نے اُن کو مجھے عطا کیا ہے“ جو شخص یہ کہتا ہے کہ
”یہ شے خدا نے مجھے دی یہ دوست مجھے خدا نے عطا کیا“۔ اِس سے دوستی بہت ہی پاکیزہ ہو جاتی ہے۔
یسوع نے اپنے دوستوں کوچُننے میں اُن سے آرام اور مدد حاصل کرنے کا اتنا خیال نہیں کیا جِتنا اُس نے اِس امر کا خیال کیا کہ وہ خود اُن کےلئے مدد اور تسلی کا باعث ہو سکے۔ وہ اپنے لئے دوستی کا بھوکا تھا۔ اُس کا دِل بھی اسی قدر محتاج تھا جیسا کہ ایک انسانی دِل ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی اپنی محبت کے اظہار میں اُس کے پاس کُچھ لایا اُس نے اُس کو خوشی سے قبول کیا۔
اُس نے غریبوں، بچوں اور محتاجوں کی دوستی کو قبول کیا۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ بیت عؔنیاہ کا گھر بمہ اپنے اعتبار، آرام ، پناہ اور دِلی محبت کے جو اُس کو وہاں سے حاصل ہوتی تھی اُس کے لئے کیسا دلکش تھا۔ انجیل کی تمام رقّت آمیز کہانیوں میں سے ایک یہ ہے۔
جب یسوع باغ میں ہمدردی کا بھوکا ہو کر بار بار اپنے انسانی دوستوں کے پاس آتا تھا۔ اِس امید سے کہ انہیں محبت میں جاگتا پائے نگر اُس نے انہیں سوتے پایا۔ وہ کلمات جو اُس موقع پر اُس کے لبوں سے نکلے کہ ”تم ایک گھنٹہ بھر بھی میرے ساتھ جاگ نہ سکے“بڑی مایوسی کے الفاظ تھے۔ یسوع اپنے لئے دوستی کی برکتوں کا بھوکا تھا۔ اور بارھوں کے چُننے میں وہ اُن کے ساتھ اپنی رفاقت میں تسلی اور طاقت حاصل کرنے کی امید رکھتا تھا۔
لیکن اُس کی سب سے دِلی خواہش یہ تھی کہ وہ اُن کےلئے برکت ہو۔ وہ خدمت کروانے کےلئے نہیں بلکہ خدمت کرنے کےلئے اور دوست حاصل کرنے کےلئے نہیں بلکہ دوست بننے کےلئے آیا تھا۔ اُس نے بارھوں کو چُنا تا کہ انہیں عزت اور نیکی میں سرفراز کرے۔ اور ُان کی زندگیوں کو پاک و صاف اور مفید بنائے تاکہ انہیں اپنے گواہ قرار دے اور کہ وہ اُس کی انجیل کو پھیلانے اور اُس کی زندگی اور تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کا وسیلہ ہوں۔ وہ اپنے لئے کچھ نہ چاہتا تھا۔ بلکہ اُس کا دِل ہر دم بے غرض محبت سے پُر تھا۔
ہم یسوع سے سیکھتے ہیں کہ دوستی کی سب سے ضروری بات یہ نہیں کہ ہم دوستوں کی تمنا رکھیں بلکہ ہم یہ کہ ہم دوست ہونے کی خواہش کریں نہ کہ اوروں سے فائدہ اور مدد حاصل کریں۔ بلکہ اوروں تک برکتیں پہنچائیں۔ بسا اوقات دوستی محض خود غرضی کی بِنا پر کی جاتی ہے تا کہ اُس سے خوشی یا دِل کی مُراد حاصل ہو۔ برعکس اس کے اگر اوروں اگر اوروں کا بھلا کرنے اور ُن کی مدد اور خدمت کرنے کےلئے دوست ہونے کی خواہش کی جائے تو ایسی خواہش مسیحی خواہش ہوگی۔
اور زندگی اور کیرکٹر(سیرت) کو بہتر بنائے گی۔ اِس خیال سے ہم کو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یسوع نے کِس قِسم کے لوگوں کو اپنے دوست بنانے کےلئے چُن لیا۔خیال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کا بیٹا تھا آسمان سے اُتر کر اپنی قوم کے بڑے مہذب اور تعلیم یافتہ آدمیوں کو جو ذی فہم اور عقلمند اور با رعُب ہوتے اپنے لئے دوست منتخب کرتا لیکن بجائے اِس کے کہ یروشلیم کو جا کر ربیوں ، کاہنوں ، فقیوں اور حاکموں میں سے اپنے لئے رسُول انتخاب کرے۔ اُس نے سادہ اور عام لوگوں خصوصاً گلیل کے مچھیروں میں سے دوست چُنے۔ اُس کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ اُن لوگوں میں سے اپنے دوست چُن لے جو اُس کی طرف راغب ہو چُکے تھے اور اُن میں سے کوئی بڑا عالم یا تہذیب یافتہ نہ تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اُس نے مرتبہ ، عزت، نام دنیاوی رعب اور انسانی دانائی کی نِسبت دِل کی خوبیوں کی زیادہ پرواہ کی۔اُس نے انہیں اپنے پاس رکھنا چاہا تا کہ وہ اُن کے ساتھ رہ کر اُس کا سا مزاج حاصل کر لیں اور اُس کے وفادار اور ہمدرد رسُل بن سکیں۔
یسوع نے ان پڑھ اور غیر تربیت یافتہ آدمیوں کو اپنے گھرانے میں شامل کیا اور فوراً ہی اپنے بڑے کام کے واسطے
اُنہیں تیار کرنے لگا۔ امر قابل ِ غور ہے کہ یسوع نے بارھوں کو چُنا تا کہ اُس کی تعلیم لوگوں میں دُور دُور تک پھیلائیں اور کہ وہ اُس کے کلمات کو جمع کر لیں اور اپنے اثر کو بہت سے شاگردوں پر صاف اور موثر طور سے ڈالیں تا کہ وہ مِٹ نہ سکیں۔
اُس نے انہیں اپنے نزدیکی رشتہ میں قبول کیا اور اپنی بادشاہت کی بڑی بڑی سچائیاں سکھائیں اور اپنی زندگی کی مُہر اُن پر لگائی اور اُن میں اپنی روح پھُونکی۔ ہم رسولوں کو بڑے آدمی سمجھتے ہیں وہ بڑے آدمی بن گئے اُن کے اثر نے بہت سے مُلکوں کو بھر دیا اور آجکل تمام دنیا اِس سے پُر ہے۔ وہ تخت پر بیٹھ کر تمام قوموں کی عدالت کرتے ہیں لیکن جو کچھ وہ بن گئے اِس کا باعث یسوع کے ساتھ دوستی تھا۔ اُس نے انہیں تمام بزُرگی دی۔ اور اُس نے انہیں یہاں تک تربیت دی کہ اُن کی جہالت تہذیب میں تبدیل ہو گئی۔ اِس میں شک نہیں ہے کہ اُس نے خِلوت میں بہت سا وقت اُن پر خرچ کیا۔وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہے انہوں نے اُس کی تمام زندگی دیکھی۔
اُن کےلئے تین برس تک یسوع کے دساتھ رہنا ، اُس کے ساتھ کھانا ، اُس کے ساتھ پِھرنا، اُس کی تمام گفتگو کو سُننا،اور اُس کے صبر و مہربانی اور فِکروں کو دیکھنا۔ اُن کے لئے فخر کا باعث تھا۔اُس کے ساتھ رہنا گویا بہشت میں رہنا تھا کیونکہ یسوع خدا کا بیٹا یعنی خدائے مجسم تھا۔ جب فیلبُوس نے یسوع سے کہا ”خداوند ہمیں باپ کو دکِھلا یہ ہمارے لئے کافی ہے“یسوع نے جواب دیا ”جس نے مجھے دیکھا ہے اُس نے باپ کو دیکھا“
اِس لئے یسوع کے ساتھ رہنا خدا کے ساتھ رہنا تھا۔ اگرچہ اُس کے جلال کو انسانیت کے پردے نے کسی قدر دُھندلا سا کر رکھا تھا تو بھی اُس کی الوہیت میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔ تین سال تک شاگرد خدا کے ساتھ رہے اِس لئے کچھ تعجب نہیں کہ اُن کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی ہو گی اور جو کچھ اُن میں بہتر تھا وہ محبت کے خوش گوار موسم میں کہ جس میں رہتے تھے انگور کی طرح باہر نکل آیا۔ اُس نے بارھوں کو چُنا۔ غالباً اِس لئے کہ اسرائیل کی بارہ قومیں تھیں تاکہ یہ تعداد جاری رہے۔ ایک انجیل نویس لکھتا ہے کہ اُس نے اُن کو دو دو کر کے بھیجا کیوں ؟ چونکہ تمام دنیا میں انجیل کی بشارت دینی تھی۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ وہ ایک ایک کرکے بھیجے جاتے۔ اِس طرح وہ دوگنی جگہوں میں جا سکتے تھے۔
کیا ہی ایک جگہ دو دو کر کے بھیجنا طاقت کا ضائع کرنا نہ تھا ؟ اِس میں شک نہیں ہے کہ یسوع نے سوچ کر ایسا ہی کیا۔
اگر ایک ایک جاتا تو وہ تنہائی محسوس کرتا مگر دو دو کرکے جانے سے وہ ایک دوسرے کی محبت کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
اُن دنوں میں انجیل کی بہت مخالفت کی جاتی تھی اور اکیلے کےلئے مخالفت کا سامنا مُشکل ہوتا۔
بھائی کی رفاقت دِل کو نہایت مضبوط ور دلیر بنا دیتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کہان تک ہم ساتھیوں کے مقروض ہیں۔
کہاں تک ہم کو اُن سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ کتنی دفعہ اُن کے بغیر ہم دل شکستہ اور مایوس ہوجاتے ہیں
علمِ ادب میں خوشی کی سب سے عُمدہ تعریفوں میں سے ایک آئسور ونڈل ہومس نے اِس طرح کی ہے کہ
”خوشی غم کے آتش کدہ پر کھڑی ہے“جب اُس کی پیاری بیوی گُزر گئی اور ایک بوڑھا اُس کو تسلی دینے کےلئے آیا تو اپنے سفید سر کو ہِلا کر کہا اب بچاؤ کی کم امید ہے۔سچا ساتھی عجیب تسّلی بخش ہے۔ تنہائی دُکھدائی ہے۔ تُم ایک کوئلے سے آگ نہیں جلا سکتے لکڑی کا اکیلا ٹُکڑا نہیں جل سکتا لیکن دو کوئلوں اور لکڑی کے دوٹُکڑوں کو ساتھ ساتھ رکھ رکھ تو آگ خوب تیزی سے جلنے لگتی ہے۔ یسوع نے اپنے دوستوں میں سے دو دو کو جوڑ دیا تا کہ باہمی دوستی سے ایک دوسرے کو اُکسائیں۔
بارھوں کا اِس طرح کا ایک اور سبب بھی تھا اُن میں سے ہر ایک کمزور انسان تھا۔یعنی اُن میں سے ہر امر میں کامل نہیں تھا۔
ہر ایک میں اُس کی اپنی خاص طاقت اور خاص کمزوری تھی۔ یسوع نے اُن کو اِس طرح جوڑ دیا کہ ہر ایک دو مل کر ایک نیک آدمی بن جائے۔ جلد باز اور اپنے اوپر بھروسہ کرنے والے پطرس کو محتاط اور دیکھ بھال کے کام کرنے والے اندریاس کی ضرورت تھی۔ توما جو شکی تھا متی پکے ایماندار کے ساتھ جوڑا گیا۔ کسی اتفاق سے یہ بارہ چھ حصوں میں تقسیم نہیں ہوگئے تھے۔ یسوع جانتا تھا کہ آدمی میں کیا ہے اور اُس نے اُن آدمیوں کو ایسے طور سے آپس میں ملا دیا تا کہ ہر ایک میں جو کچھ سب سے بہتر ہے وہ باہر آجائے اور اسی طرح سے اُن کی زندگیوں کو جوڑ کر اُن کے قصوروں اور کمزرویوں کو خوبصورتی اور طاقت میں بدل دیا اُس نے سب کو یکساں بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اُس کی یہ کوشش نا تھی کہ پطرس یوحنا کی طرح چُپ چاپ حلیم بن جائے یا توما متی کی سرگرم اور پکا ایماندار بنے۔
اُس نے ہر شخص کی شخصیت کو دیکھ کر اُسی کو نشو نما میں لانے کی کوشش کی۔ اُس کا پطر س کی تیز سرگرمی کو مستقل مزاجی اور احتیاط میں ڈھالنا گویا پطرس کواُس سے جو اُس کی نیچر میں سب سے عُمدہ ہے محروم کرنا تھا۔اُس نے اپنے رسولی گھرانے کے اِس قدر مُختلف مزاج کے نمونے پائے جس قدر کہ آدمی پائے جاتے ہیں۔ اور ایک میں کسی خاص خوبی کی زیادتی دوسرے کی کمزوری پر غالب آگئی۔ یسوع کے اپنے شاگردوں کو تربیت دینے کے طریقے پر غور کرنا خالی ازدلچسپی نہ ہوگا۔
سچی دوستی کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کسی دوست کی زندگی کو آسان بنایا جائے۔ بلکہ یہ کہ دوست کو کچھ بنا دیا جائے۔
یہی خدا کا طریقہ ہے وہ ہر بوجھ کو جس کے نیچے وہ ہمیں دبا ہُوا دیکھتا ہے جلدی سے اُٹھا نہیں لیتا۔
وہ ہماری اُن دعاؤں کا جو ہم مشکلات سے رہائی حاصل کرنے کےلئے یا اُن آزمائشوں سے بچنے یا اُن قربانیوں کےلیے جو ہم کو کرنی پڑتی ہیں مانگتے ہیں فی الفور جواب نہیں دیتا۔
وہ ہم کو سختی یا نقصان یا دُکھ سے نہیں بچاتا وہ ہمارے لئے آسانی نہیں کرتا۔ بلکہ ہم کو کچھ بنانا چاہتا ہے۔
ہم بوجھ کے نیچے دب جاتے ہیں۔ والدین بڑی غلطی کرتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے بچوں کوسخت کاموں یا تربیت سے بچانے کا خیال کرتے ہیں۔وہ جو اپنے پیارے کےلئے محض خوشی اور آرام کی تلاش کرتا رہتا ہے نِکما دوست ہے۔
”زندگی میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کوئی شخص ہم کو بہتر سے بہتر کام کرنے کے لائق بنا دے“ یسوع سچا اور حقیقی دوست تھا اُس نے کبھی کوشش نہیں کی کہ بوجھ کو ہلکا کر دے یا راستے کو صاف یا کشمکش کو آسان کر دے۔اُس نےاپنے شاگردوں کو ایسے آدمی بنانا چاہا کہ جو دُنیا کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں۔ وہ جن کے کریکٹر اُس کی زندگی کے ہر کام میں پاکیزگی کی خوبصورتی کا عکس ڈالیں وہ جِن کے ہاتھوں میں اُس کی انجیل محفوظ رہے جب کہ وہ اُس کے ایلچی ہو کر دنیا مین جائیں ۔
اُس نے ہر رسول کے رُو برو اعلیٰ پیمانہ رکھ دیا اور اُس کو اُس پیمانہ کے مطابق کام کرنے کی مدد دی۔
اُس نے انہیں سِکھلایا کہ صلیب کا مضمون زندگی کا قانون ہے۔ اور کہ اپنی جان بچانا اُس کو کھو دینا ہے۔
اور محض اُسی وقت جبکہ ہم اپنی جان کھو دیتے ہیں یا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ بعض مُلکوں میں سارنگی گانے والے اپنے کاریگر ہاتھوں سے سارنگی کو توڑتے اور اُس کی ازسرِنو مرمت کر کے اُسے ایسا عُمدہ باجہ بنا لیتے ہیں کہ اگر وہ نیا اور ثابت اور مکمل رہتا تو ایسا نہ بن سکتا۔ خواہ سارنگی کی نسبت یہ سچ ہو یا نہ ہو مگر انسانی زندگیوں کی نِسبت ضرور سچ ہے۔
ہم بغیر نتیجہ ، دُکھ اور خرچ کی طاقت ، خوبصورتی ، عزت اور دوسروں کی مدد کرنے کی حالت تک نہیں پہنچ سکتے۔
یسوع کی بابت بھی لکھا ہے کہ وہ بھی دکھوں سے کامل کیا گیا۔ اُس میں گناہ نہ تھا تو بھی اُس کو یہ کاملیت ، کشمکش،آزمائش ، دُکھ اور غم کے وسیلہ سے حاصل ہوئی تاکہ وہ ہمدرد دوست یا مددگار نجات دہندہو ہو سکے۔ رسولوں میں سے بھی کوئی دُکھ اور مصیبت اٹھانے کے بغیر یسوع کی شاہی طاقت کو حاصل کر کے اور اُس کا قائم مقام ہو کر بنی آدم کا مدد گار ہونے کے درجہ تک نہیں پہنچا۔ اِس دنیا میں کوئی شخص بھی آرام اور سہولت کی سڑک پر چل کر جس پر پھول بِچھے ہوں مفید یا حقیقی عزت کی زندگی تک نہیں پہنچا۔ ہم دکھ اٹھانے اور آنسو بہانے کے بغیر کبھی عُمدہ اورمعزز کام کرنے کے لائق نہیں بن سکتے۔یہ ہمیشہ سچ ہے کہ
”وہ چیزیں جو دُکھ دیتی اور وہ جو روگ پیدا کرتی ہیں انسان کی زندگی کو کاملیت کے درجہ تک پہنچاتی ہیںاور صدمے ، تنگیاں اور مصیبتیں خوشی کے دنوں سے بڑھ کر ہمارے دوست ہیں “ہمارا حال کیسا ہے ؟
زندگی ہمارے لئے حقیقی ہو جاتی ہے۔ جب کہ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے خوشی اور غم ، آرام اور تکلیف ، کامیابی اور ناکامی ،تندرستی اور بیماری، شانتی اور کشمکش کی حالت میں خدا ہم کو انسان بناتا رہتا ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ آیا ہم گِرتے ہیں یا نہیں۔ ایک شخص ہے جو سخت آزمائش میں سے گُزر رہا ہے۔ کئی مہینوں سے اُس کی بیوی سخت تکللیف اٹھا رہی ہے۔ اِس تمام عرصہ میں وہ مالی زیر باری اور ہمدردی کا بوجھ اٹھا رہا ہے اور ہر لمحہ کا دُکھ جو اُس کی بیوی اٹھا رہی ہے اُس کے دِل کو تلوار کی طرح کاٹ رہا ہے۔ فِکر اور رات کی بیداری اور تھکاوٹ کا بوجھ بلکہ بیوی کی بیماری کی سخت تکالیف خدا کی پُر از محبت رُغبت کا یقین دلاتی ہیں مگر اُس کی آنکھ زیادہ غور کے ساتھ اُس شخص پر لگی ہوئی ہے جو ہمدردی اور تردّد کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ آیا یہ شخص اُس آزمائش میں قائم رہ سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بننا جانتا ہے یا نہیں۔ مسیح کی زندگی میں ہر مشکل اور تکلیف دہ بات اُس کے لئے نئی فتح پانے اور زیادہ آدمیت کے درجہ تک پہنچنے کا ایک اور موقع ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم شاگردوں کی نِسبت تھوڑا جانتے ہیں۔
اُن میں سے چند کا کسی قدر زیادہ ذکر ملتا ہے۔ مثلاً
پطرس ، یعقوب اور یوحنا کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ کیونکہ الہامی کلام میں اُن کے نام بار بار آتے ہیں۔ متی سے اُس کی انجیل کے سبب جو اُس نے لکھی ہے واقف ہیں۔ توما کے نام سے بھی اُس کے شکُوک کے باعث آشنا ہیں۔ اُس یہوداہ کا حال جو اسکریوتی نہ تھا بہت کم معلوم ہے۔
باقیوں کی نسبت ہم سوائے اُن کے ناموں اور کُچھ نہیں جانتے۔بہت تھوڑے بائبل کے پرھنے والے ہوں گے جو بارھوں کے نام بھی بتلا سکتے ہیں اناجیل میں رسولوں کا مفصل احوال درج نہ کئے جانے کا ایک سبب یہ ہے کہ بائبل صرف ایک ہی نام کی عظمت کو قائم کرتی ہے۔ یہ سوانح عُمریوں کی کتاب نہیں بلکہ خداوند یسوع کی کتاب ہے۔ ہر رسول اپنے مالک کا اکیلا دوست ہے جس میں اور کوئی دخل نہیں دے سکتا۔
ہم اُن کی سنجیدہ تقریروں اور لمبے لمبے سفروں کا جو اُس کی گہری رفاقت میں انہوں نے کئے اور دلوں کے کھولنے اور کمزوریوں اور ناکامیابیوں اور بہت دعاؤں کا جو انہوں نے آپس میں مل کر کیں خیال کر سکتے ہیں۔
ہم یقین کر سکتے ہیں کہ اِ تین سال کے عرصہ میں خداوند کے دِل مبارک انکشاف کے باعث اُن میں سے ہر ایک کے دِل اُس کی پاک دوستی کی علیحدہ علیحدہ تشریح تھی۔ لیکن اُس کی نسبت تمام نئے عہد نامہ میں ایک لفظ بھی درج نہیں۔
کیونکہ ایسے حالت کا ظاہر کرنا مناسب نہ تھا۔ ہم کو یہ بھی یقین ہے کہ بارھوں میں سے ہر ایک نے یسوع کے صعود کے بعد بہت عُمدہ کام کیا۔ لیکن کسی نے اُس کو قلم بند کر کے محفوظ نہیں رکھا۔ روائتیں تو ہیں لیکن اُن میں تاریخ بہت ہی تھوڑی ہے۔
کتاب اعمال یعنی رسولوں کے اعمال کی کتاب نہیں ہے۔ اُس میں یوحنا کا بہت تھوڑا اور پطرس کا کچھ اُس سے زیادہ۔ پولس کا بہت زیادہ اور باقیوں کا سوائے اِس کے کہ پہلے باب میں اُن کے ناموں کی فہرست پائی جاتی ہے کچھ ذکر نہیں ہے۔
ضرورت نہیں کہ ہم اِس کی بابت فِکر مند ہوں۔ ہر زمانہ کے بھلے اور مفید لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہُوا ہے۔
صرف چند نام محفوظ رہ جاتے ہیں اور بہتوں کے نامم فراموش ہو جاتے ہیں۔ دنیا اپنے مر بّیوں کا بہت تھوڑا حال محفواط رکھتی ہے۔لیکن ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹی سے چھوٹی مہربانی جو مسیح کے نام سے کی جاتی ہے لکھی اور یاد رکھی جاتی ہے۔
بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ ایک گہری وادی میں ایک خوبصورت پودا اُگا جو ہوا میں لہراتا تھا۔
ایک دِن یہ گویا اِس امر کی شکایت کرتا ہُوا گِر پڑا کہ کوئی اُس کی خوبصورتی کو یاد نہ کرے گا۔
مگر کچھ دِن ہوئے کہ ایک شخص جو علمِ طبقات الارض کا ماہر تھا اور اپنی عِلمی تحقیقات میں اپنا ہتھوڑا لے کر وہاں گیا اُس نے اپنا ہتھوڑا ایک چٹان پر مارا اور اُس کے جوڑ میں ایک پودے کی صورت بنی ہوئی دیکھی۔ جِس کا ہر رگ دریشہ بلکہ نازک سے نازک پتیوں کی صورت موجود تھی۔ یہ وہی پودا تھا جو زمانوں پیشتر اُگا اور سبزی کے ڈھیر میں گِر گیا۔
وہ تو مر گیا مگر اُس کی یاد گار محفوظ رہی جو اب تک ظاہر ہے۔ ایسا ہی حال گُمنام رسولوں اور اُن سارے لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنی خوبصورت زندگیاں خدا اور انسان کےلئے بسر کیں اور دنیا سے غائب ہوگئے۔
کوئی چیز جاتی نہیں رہتی اور نہ فراموش کی جاتی ہے۔ آئندہ زندگی میں یادگاریں قائم رہتی ہیں۔ ایک روز ہر چیز ظاہر کی جائے گی۔ مکاشفات کی کتاب میں لکھا ہے کہ آسمانی شہر کی بنیادوں پر برے کے بارہ رسولوں کے نام لِکھے ہیں۔ اگرچہ نیا عہد نامہ اُن کی لائق زندگیوں کے واقعات بیان نہیں کرتا مگر ابدی چٹانوں میں اُن کے نام کھودے گئے ہیں۔ جہاں ہر آنکھ ہمیشہ تک اُنہیں دیکھتی رہے گی۔
اُن چُنے ہوئے دوستوں کی زندگیوں پر یسوع نے اپنی صورت نقش کی۔ اور اُس کی مبارک الہٰی انسانی دوستی نے اُن کو انسان بنا کر اِس لائق کر دیا کہ اُس کا نام لے کر دنیا کی حدوں تک جائیں۔
یہ ایک نیا اور عجیب اثر تھا جو دنیا پرپڑا یعنی یسوع مسیح کی پاک دوستی رسولوں کے دِلوں اور زندگیوں میں شروع ہوئی اور فی الفور اِس پُرانی دنیا کو نئی بنانے لگی۔ جو ایمان لائے انہون نے اپنے دلوں میں اُس عجیب دوستی کو حاصل کیا۔
انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو ایسے طور سے پیار کیا کہ لوگوں نے اِس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔
مسیحی ایک ہی خاندان کے طور پر آپس میں مِل جُل کر رہنے لگے۔ پینتی کوست کے دِن سے یسوع کی یہ عجیب دوستی جہاں کہیں انجیل پہنچائی جاتی ہے پھیلتی رہتی ہے۔ اُس نے اپنی عجیب محبت کے باعث دنیا کو مسیحی گھرانے دیئے ہیں۔
اُس نے ہسپتال اور کوڑھی خانے بنائے ہیں۔ اور ہر مقام میں جہاں کہ خوشخبری سنائی گئی ہے ہر قِسم کے خیراتی کام جاری کئے گئے ہیں۔
یسوع کی صلیب سے موسمِ بہار کی خوشگوار ہوا کی مانند نرمی کی لہر تمام دنیا پر پھیل گئی ہے۔
یسوع کی دوستی نے جو دنیا کے لئے بطور وراثت کے اُس کے شاگردوں کے دِلوں میں چھوڑی گئی عجیب کام کیا تھا۔
اور اُس کی خدمت اور اثر بڑھتا رہے گا جب تک کہ ہر چیز جو بُری معلوم ہوتی ہے دنیا سے جاتی نہ رہے گی۔
اور خدا کی محبت تمام زندگیوں میں پھیل جائے گی۔
باب۔8
احسان فراموش دوست
اِس دنیا میں محبت کا اکثر عِوض نہیں دیا جاتا۔ بہتوں نے خالص اور پاک محبت کی مگر اُن کا اِس محبت کا کوئی عِوض نہ دیا گیا۔
ماں باپ کی محبت کا اکثر کچھ بھی بدلہ نہیں دیا جاتا۔ والدین اپنے بچوں کےلئے اکثر زندگی بسر کرتے ہیں۔
جب وہ بے کس اور معصوم ہی ہوتے ہیں تو وہ اُن پر اپنی محبت ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اُن کےلئے محنت کرتے ہیں۔
اُن کےلئے دُکھ اٹھاتے۔ جب وہ بیمار ہو جاتے تو اُن کی تیمارداری اور خبر گیری کرتے۔ اُن کےلئے دعائیں مانگتے اور اُن کو تعلیم دیتے ہیں۔ دنیا کی تمام محبتوں میں سے والدین کیہ محبت خدا کی محبت سے کُچھ مشابہ ہے۔
انسانی خوبیوں میں سے یہی ایک خوبی ہے جو آدم کے گناہ میں مُبتلا ہونے کے وقت سے اب تک بغیر کسی قسم کے نقصان کے ویسی ہی چلی آتی ہے۔
بچوں کے والدین کی فرمانبرداری کرنے سے جو بعض گھروں میں دکھلائی دیتی ہے۔ دنیا میں بہت تھوڑی چیزیں زیادہ خوبصورت ہوں گی لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اِس الہٰی محبت کا کچھ تبادلہ نہیں دیا جاتا۔
اکثر اِس محبت کا جو بنی آدم کی بھلائی کےلئے ظاہر کی جاتی ہے بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
بہت سے اپنی تمام زندگی اوروں کی بھلائی میں بسر کرتے ہیں مگر کوئی صِلہ نہیں پاتے۔ بہتوں نے اپنے مُلک کی بے غرض اور وفاداری سے خدمت کی ہے مگر کُچھ صِلہ نہیں پایا بلکہ بعض صورتوں میں وہ دُکھ میں چھوڑ دیئے گئے اور مُفلسی اور فراموشی کی حالت میں مر گئے۔ اکثر قید خانے میں ڈالے گئے یا قتل کئے گئے۔ یا اُس مُلک سے جلا وطن کئے گئے کہ جو اپنے جلال اور بزرگی کےلئے اُن کو حِب الوطنی اور وفادار خدمت کا ممنون تھا۔ اِسی طرح بہتوں کے دِل ناشکرگزرای کے باعث ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے مربّی تھا۔ کسی نے کبھی اُس کی مانند نہ تو قوم کو پیار کیا اور نہ ہی کر سکتا ہے۔
وہ الہیٰ ایلچی تھا جو دنیا کے بچانے کےلئے آیا۔ اُس کی تمام زندگی محبت کا مکاشفہ تھی۔ وہ محبت جو یسوع مسیح میں ظاہر ہوئی وہ محض انسانی محبت نہ تھی بلکہ خدا کی محبت تھی جس کی گہرائی اور مضبوطی لا انتہا ہے۔ تو بھی اُس کی اِس عجیب و غریب محبت کا عِوض نا شکرگزاری حاصل ہوا۔ ”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس سے بنائی گئی اور دنیا نے اُسے نا جانا“
صرف چند شخصوں نے اُسے پہچانا اور اُس کی محبت کو قبول کیا لیکن بہتوں نے اُس کی کچھ پروا نہ کی۔
بلکہ اُس میں خوبصورتی نہ دیکھی اور اُس کی برکتوں کو رد کیا۔ اُس نے سب کی برداشت کی اور سب کی بھلائی کی اور اپنی محبت کی ایسی مِنتوں اور سماجتوں سے جِن کی طرف کچھ توجہ نہ کی گئی ضائع کیا یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے ایک روز اُس کو مصلوب کیا۔ بدیں خیال کہ اِس طرح سے ہم اُس کے قادر دِل کے محبت بھرے جوش کو بجھا دیں گے۔
یسوع کی پاک دِل کی احسان فراموشی کے اظہار میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اُن میں سے پہلی مثال وہ سلوک ہے جو ناصرۃ میں اُس کے ساتھ کیا گیا جہاں اُس نے پرورش پائی۔ وہاں کے لوگوں نے تیس برس تک اُس کی زندگی کو جو اُس نے اُس گاؤں میں بسر کی تھی دیکھا تھا۔ وہ اُس کے بچپن کی حالت سے وقاف تھے۔ جبکہ وہ اُن کی گلیوں میں کھیلا کرتا تھا۔ جب وہ طاقتور جوان ہو کر وہاں رہتا تھا تو وہ اُس سے روز بروز اپنے بیچ میں بڑھئی کا حقیر پیشہ کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ یسوع کی بے گناہ زندگی کا جو اُن تمام سالوں میں بسر کی گئی خیال کرنا دلچسپ ہو گا۔ اُس کے سر پر کسی قسم کا حلقہ نہ تھا مگر اُس کا انسانی کریکٹر روشن تھا۔
اُس کے ہاتھوں سے سوائے فرائض ، وفادارنہ خدمت یا مہربانی کے معجزوں کے کوئی اور معجزہ نہیں کیا گیا تو بھی ہم شک نہیں کرت سکتے کہ اُس کی وہ زندگی جو ناصرۃ میں بسر ہوئی غیر معمولی فضل اور خوبصورتی کی زندگی تھی۔
جس نے کامل بے غرضی اور اعلےٰ مددگاری کے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ آخر کار وہ ناصرۃ سے چلا گیا تاکہ بطور مسیح کے اپنی پبلک خدمت کو شروع کرے۔اُس وقت سے لوگوں نے اُسے پھر نہ دیکھا۔بڑھئی کی دوکان بند کی گئی ہتھیار بے استعمال پڑے رہے اور وہ صورت جس کو وہ روز روز دیکھا کرتے تھے اب اُن کی گلیوں میں دکھائی نہ دیتی تھی۔
ایک سال یا اُس سے کچھ زیادہ عرصہ کے بعد ایک دِن وہ اپنے قدیم پڑوسیوں سے ملاقات کرنے کےلئے واپس آیا۔
اور کچھ عرصہ تک وہاں ٹھہرا۔ اور سبت کے روز اپنے گاؤں کے عبادت خانہ میں گیا جہاں وہ اُن دنوں جایا کرتا تھا جبکہ وہ ناصرۃ میں رہتا تھا۔ جب اُس کو موقع دیا گیا تو اُس نے یسعیاہ نبی کی کتاب کھول کر وہ مقام پڑھا جہاں مسیح کے مسح ہونے اور اُس کی خدمت کا مختصر مگر عجیب بیان پایا جاتا ہے۔ جب وہ پڑھ چُکا تو اُس نے لوگوں سے کہا کہ یہ نبوت اب تمہاری شُنید
(سُنی ہوئی بات) میں پوری ہو چُکی ہے۔ یعنی میں وہ مسیح ہوں جس کی نسبت نبی نے پیشن گوئی کی ہے۔
کُچھ دیر تک تو لوگوں نے اُس کے پُر فضل الفاظ کو بڑی خاموشی اور توجہ سے سُنا مگر بعد بعد ازاں یہ دیکھ کر کہ وہ جس کی نسبت ہم جانتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں بڑھئی کا کام کرتا تھا اب ایسا حیران کرنے والا دعویٰ کرتا ہے۔
غصہ سے بھر کر اُٹھے اور اُس کو عبادت خانہ سے باہر نکال دیا۔اور اگر وہ اُن کے بیچ سے نہ نکل جاتا تو وہ اُس کو پہاڑ کی چوٹی پر سے گِرا یتے۔ وہ محبت سے اعلےٰ برکتیں لے کر اُن کے پاس آیا تھا مگر انہوں نے مع برکتوں کے اُسے نکال دیا۔ وہ اُن کے بیماروں چنگا کرنے ، اُن کے اندھوں کو بینائی دینے ،لنگڑوں کو ٹانگیں دینے ، کوڑھیوں کو پاک صاف کرنے اور غمزدوں کو تسلی دینے آیا تھا۔لیکن اُس کو وہاں سے رحم کے کام کئے بغیر جانا پڑا اور مصیبت زدہ برابر دُکھ اٹھاتے رہے۔
اور اُس کی اِس دوستی کا صِلہ جووہ اپنے قدیم پڑوسیوں سے رکھتا تھا ناشکرگزاری میں مِلا۔
یسوع کی زندگی میں احسان فراموش دوست کی ایک اور مثال وہ دولت مند جوان تھا جو اُس کے پاس آیا۔
اُس کے جوان کے کریکٹر میں کئی عُمدہ خوبیاں تھیں۔ اور وہ سچائی کا سرگرم متلاشی بھی تھا۔
ہمیں صاف طور سے بتلایا جاتا ہے کہ یسوع اُس کو پیار کرتا تھا جیسا کہ مرتھا، مریم اور لعزر کے ساتھ اُس کی محبت کا ذکر ہے ویسا ہی اُس شخص کے ساتھ بھی ہے۔ لیکن اُس کی محبت کی کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ جوان آدمی مسیح کی طرف بہت کچھ راغب ہُوا اور چاہا کہ اُس کے ساتھ چلے مگر وہ شاگردی کی شرائط پوری نہیں کر سکا اِس لئے واپس چلا گیا۔
یہ خیال کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ اگر وہ مسیح کو چُن لیتا اور اُس کے ساتھ ساتھ چلتا تو اُس کا کیا نتیجہ ہوتا۔
وہ ابتدائی کلیسیا میں اعلےٰ جگہ حاصل کرتا۔ اور تمام آنے والی نسلوں میں اُس کا نام یاد کیا جاتا مگر اُس نے اپنے روپے کو مسیح سے زیادہ پیار کیا۔ اور صلیب کی راہ کو جو اُس کےلئے مقرر کی گئی تھی رد کیا۔
وہ ابتدائی کلیسیا میں اعلےٰ جگہ حاصل کرتا۔ اور تمام آنے والی نسلوں میں اُس کا نام یاد کیا جاتا مگر اُس نے اپنے روپے کو مسیح سے زیادہ پیار کیا۔ اور صلیب کی راہ کو جو اُس کےلئے مقرر کی گئی تھی رد کیا۔
یسوع کی زندگی میں احسان فراموش دوستوں کی تمام مثالوں میں سے یہوداہ کا حال سب سے افسوس ناک ہے۔
ہم نہیںن جانتے کہ وہ کس طرح مسیح کا شاگردبن گیا اور کب وہ پہلے پہل یسوع کے پاس آیا یا کون اُس کو لے آیا۔
لیکن اِس میں شُبہ نہیں ہے کہ رسول چُنے جانے سے کچھ عرصہ پیشتر وہ مسیح کا پیرو ہوا ہوگا۔
یسوع نے اُن کےلئے جنہوں نے اُس کے ساتھ رہنے کےلئے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا فِکر کی۔ رات بھر دعا مانگنے کے بعد اُن میں سے بارھوں کو چُن لیا تا کہ اُس کے خالص ایلچی اور گواہ ہوں۔ اُس نے اُن سب کوپیار کیا اور اپنے گہرے اور نزدیکی رشتہ میں شامل کیا۔ خیال کرو کہ ان کےلئے یسوع کے ساتھ رہنا کیا اعلےٰ حق تھا۔ انہوں نے اُس کی تمام باتیں سُنیں۔ اُس کی زندگی کے ہر پہلو کو دیکھا۔ بعض دوستوں کی نِسبت بہتر یہی ہے کہ ہم انہیں بہت اچھی طرح نہ جانیں۔ وہ اپنی پرائیویٹ زندگی میں ایسے نیک نہیں جیسا کہ اپنی پبلک زندگی میں۔ اُن کی زندگی ایسی ہے کہ زیادہ نزدیک ہو کر دیکھنے سے بہت عُمدہ معلوم نہیں ہوتی۔ ہم اُن میں ایسی باتیں، عادتیں ، طریقے، مزاج، اور غرضیں دیکھتے ہیں جو اُن کی اِس چمک دمک کو جو ہم دور فاصلے سے اُن میں دیکھتے ہیں مات کر دیتی ہیں۔ اُن کے ساتھ گہری رفاقت دوستی کو کمزور کر دیتی ہے۔ لیکن برعکس اِس کے ایسے دوست بھی ہیں کہ جس قدر ہم اُن کی پرائیویٹ زندگی سے واقف ہوتے جاتے ہیں اُسی قدر زیادہ انہیں پیار کرتے ہیں۔
اُن کے ساتھ گہری رفاقت اُن کی کریکٹر کی خوبی ، روح کی عُمدگی ، دِل کی کُشادگی اور مزاج کی شیرینی یعنی اُن کی عادتیں ، مزاج اور اعلےٰ خود انکاریاں جن سے زندگی کی خوبصورتی بڑھتی اور ہمارے دوست کی شخصیت دلکش معلوم ہوتی ہےظاہر ہو جاتی ہے۔
ہم کو یقین ہے کہ یسوع کے ساتھ گہری رفاقت ہی اُس کے دوستوں کےلئے دلکش اور خوبصورت بنا دیتی ہے۔
یہوداہ اُس پُر فضل شخصیت کے زیرِ سایہ اور اُس عجیب محبت کے اثر میں مہینوں تک رہتا رہا۔
اُس نے یسوع کی خالص اور پاک زندگی کے مختلف پہلو دیکھے ، اُس کی باتیں سُنیں ، اُس کے کاموں کو دیکھا۔
بِلا شُبہ خداوند کے ساتھ اپنے شخصی رشتہ میں اُس نے شخصی دوستی اور محبت کے بہت سے نشانات محسوس کئے۔
اناجیل کو بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہوداہ کو اکثر اُس گناہ سے جس میں گر کر وہ آخر کار ہلاک ہو گیا بار بار خبردار کیا گیا تھا۔ بار بار یسوع لالچ کے خطرے کی نسبت گفتگو کرتا رہا۔ پہاڑی وعظ میں اُس نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ اپنا خزانہ زمین پر جمع نہ کریں بلکہ آسمان میں اور کہا کہ کوئی شخص خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔
مگر یہوداہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک سے زیادہ تمثیلوں میں دولت کے خطرے پر زور دیا گیا تھا۔
کیا ہم شک کر سکتے ہیں کہ ایک ہی مضمون کی نسبت اُن تمام نصیحتوں اور عبرتوں میں خداوند کے ذہن میں یہوداہ کا خیال تھا۔
وہ وفادار دوست کی طرح اُس کو اُس گناہ سے جو اُس کی زندگی کو نقصان پہنچا رہا تھا بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔
لیکن یہوداہ نے یسوع کی سچی اور گہری محبت کو رد کیا۔ اُس کا اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اِس عرصہ میں اُس کے اندر روپیہ کا خوفناک لالچ بڑھتا رہا۔پہلے اُس نے اُس کو چور بنایا۔ وہ روپیہ جو یسوع کے دوست یسوع کو دیتے تھے تا کہ وہ اپنی حاجتیں رفع کرے یا غریبوں کےلئے استعمال کرے ، آخر کار یہوداہ جو خزانچی تھا اپنے لئے چُرانے لگا۔ یہ پہلا قدم تھا۔ دوسرا قدم یہ تھا کہ اُس نے اپنے خداوند کو تیس روپے کےلئے بیچ دیا یہ اُس کے لالچ کا جس کو وہ اپنے دِل میں پالتا رہا چوری سے زیادہ خوفناک پھل تھا چُرانہ بذاتہِ بُرا ہے۔ مگر یہوداہ کی طرح کلیسیا کے خزانے کو چُرا لینا بہت کمینہ قسم کی چوری ہے۔
لیکن دوست کو پکڑوا کر روپے لے لنیے سے بڑھ کر اور کیا کمینہ گُناہ ہو سکتا ہے ؟
اُس دوست کو روپے لے کر پکڑوا دینا جس کی محبت ہمرازی اور اعتبار میں برسوں بسر کئے ہوں جس کے ساتھ روز کھانا کھایا ہو اور جس کی دوستی کے طفیل مہینوں بلکہ برسوں سے آرام پایا ہو۔ کیا ایسے گناہ کی شرمناک سیاہ تصویر کو کھینچنے کےلئے کافی الفاظ مِل سکتے ہیں۔
اُن سب کے نام پر جو اُس مبارک جمعہ کے روز جُرم میں شریک ہوئے تواریخ کے صفحوں میں رسوائی کا خاص داغ لگا ہُوا ہے۔
لیکن اُن میں سب سے زیادہ گہری رسوائی کا راز یہوداہ کے نام پر لگا ہے۔ جس نے رسول ہو کر چند روپیوں کے لئے اپنے عُمدہ ترین دوست کو کمینہ دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار کروا کر دغا بازی کی۔
یسوع کی دوستی کا جو اُس نے یہوداہ کے ساتھ کی یہ انجام ہوا۔ یہ اُن برسوں کی محبت کا پھل تھا کہ جِن میں وہ صبر سے تعلیم دیتا رہا۔ خیال کرو کہ یہوداہ کیا بن سکتا تھا۔ وہ رسول ہونے کےلئے چُنا اور بلایا گیا تھا یسوع کے دِل میں کوئی وجہ نہ تھی کہ یہوداہ سچا اور لائق نہ بن سکتا تھا۔ خدا کا ارداہ کسی کی نسبت یہ نہیں کہ وہ گناہ میں رہے۔ خدا کے مقصد میں یہوداہ کی نِسبت دغابازی اور رسوائی نہ تھی۔ اگر یہوداہ کےلئے سچا اور نیک بننا ناممکن ہوتا تو یسوع اُس کو بارھوں میں انتخاب نہ کر لیتا۔ یہوداہ گِر گیا اس لئے کہ اُس نے پورے طور سے اپنے تئیں خدا کے حوالہ نہ کیا تھا۔ اُس نے خدا اور دولت دونوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں اُس کے دِل میں نہیں ٹھہر سکتی تھیں۔
بجائے دولت کو باہر نکالنے کے دولت نے مسیح کو اُس کے دِل سے نکال دیا۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسانی دِل میدان ِ جنگ بن جاتا ہے گویا وہ میدان وائر لوہے جہاں قسمتوں کو فیصلہ کیا جاتا ہے۔ تُم کِس کو چاہتے ہو ؟ خدا یا دولت کو۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہر ایک روح کو جواب دینا چاہئے۔
تمہاری روح میں اِس لڑائی کا کیا حال ہے ؟ تمہارے میدانِ جنگ میں کون فتح مند ہے ؟ مسیح یا دولت؟ مسیح یا عیش و عشرت ؟ ؎
مسیح یا گُناہ؟مسیح یا خودی ؟یہوداہ نے لڑائی ہار دی اور شیطان نے فتح پائی۔ مقام ِ برسلز میں ایک تصویر ہے جس میں یہوداہ خداوند کو پکڑوانے کے بعد رات کے وقت اِدھر اُدھر پِھرتا رہا۔ اتفاق سے وہ اُس جگہ آپہنچا جہاں ایک کاریگر یسوع کے واسطے صلیب تیار کر رہا ہے۔ پاس ہی آگ جل رہی ہے جس کی روشنی اُن شخصون کے چہرے پر پڑ رہی ہے جو اب سو رہے ہیں۔
یہوداہ کا سایہ کس قدر سایہ میں ہے مگر جونہی اُس دغاباز کی آنکھیں صلیب اور اُن اوزاروں پر پڑتی ہیں جو کہ صلیب کے بنانے میں استعمال کئے گئے ہیں جس پر اُس کا دوست اُس کے پکڑوانے کے باعث کھینچا جائے گا تو اُس کے چہرے پر غم اور کشمکش کے آثار دکھائی دیتے ہیں ۔ اگرچہ وہ گناہ آلود ضمیر کا دُکھ اُٹھا رہا ہے مگر اپنی ہتھیلی کو رات کے وقت بڑی مضبوطی سے پکڑ کر اُٹھائے پھِرتا ہے۔
اِس تصویر سے یہوداہ کے گناہ کا پھل ظاہر ہوتا ہے۔ وہ تھیلی جس میں تیس روپے پڑے ہوئے ہیں بہت جلد مایوسی کے باعث پھینک دی جانے کو ہے۔ احسان فراموش دوستی ! ہاں اُس مبارک دوستی کو اپنے دِل سے باہر رکھ کر یہوداہ نے امید کو اپنے دِل سے باہر رکھا۔ ان سب باتوں سے بڑی نصیحت یہ حاصل ہوتی ہے کہ یسوع مسیح کی دوستی کو رد کرنا کیسا خطرناک ہے۔
اُس کی دوستی ہی نجات اور ہمیشہ کی زندگی کو حاصل کرنے کی اکیلی راہ ہے۔ وہ لوگوں کو بلاتا ہے کہ اُس کے پاس آکر اُس کی پیروی کریں اور اُس کےئ دوست بنیں۔ وہ صرف اِس طرح خدا کے پاس آسکتے ہیں اور اُس کے گھرانے میں قبول کئے جا سکتے ہیں۔
جب ہم اُس نتیجہ کا خیال کرتے ہیں کہ جو اُس سچائی سے سیکھ سکتے ہیں تو بُرا ڈر معلوم ہوتا ہے کہ ہر روح کو خدا کی تمام محبت کےلئے اپنے دِل کو بند کر لینے اور اِس محبت کی لامحدود برکتوں کو رد کر دینے کی کیسی طاقت حاصل ہے۔
ممکن ہے کہ ہم زندگی بھر مسیح کے نزدیک رہیں۔ جبکہ اُس کا فضل ایک سمندر کی مانند ہمارے پاس بہ رہا ہے تو بھی ہمارے دِل الہیٰ محبت سے کچھ برکت نہ پائیں۔ ہم خدا کی محبت کو ویسے ہی بے فائدہ بنا سکتے ہیں جیسے سورج کی کِرنیں جہاں تک کہ اُن سے ہمارا تعلق ہے بیابان کی ریت پر پڑ کر بے فائدہ ہو جاتی ہیں۔
وہ محبت جس کا بدلہ محبت سے ادا نہیں کیا جاتا اور جو ہمارے دلوں میں گھُس کر انہیں گرم اورنرم نہیں کر دیتی اور ہماری زندگھی کو عُمدہ ، ملائم اور پُر برکت نہیں بنا دیتی بے فائدہ ظاہر کی جاتی ہے۔ یہ ہماری بے ایمانی کے سبب سے بے فائدہ بنائی جاتی ہے۔
ہم اپنے لئے مسیح کی موت کو بھی بے فائدہ بنا دیتے ہیں۔ یعنی جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اُس قیمتی زندگی کو ضائع شدہ ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہم یسوع کی محبت کو اپنے دِل میں آنے نہیں دیتے تو یسوع کا مرنا ہمارے لئے بے فائدہ ہے۔
اکثر انسانی محبت کی احسان فراموشی دِل کو کڑوا کر دیتی ہے۔ جب پاک دوستی کی بے قدری کی جاتی ہے اور اُس کو رد کیا جاتا ہے اور جب کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے بے فائدہ محبت کی۔ دُکھ سہا اور خود انکاری کی جبکہ مجھے محبت کے پاک اور مُفت اظہاروں کے صِلہ میں ناشکرگزاری اور بُرائی حاصل ہوئی تو ایسی صورت میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ دِل اپنی مٹھاس کو کھو دیتا ہے
اور ٹھنڈا اورسخت ہوجاتا اور بھلائی کرنے سے رُک جاتا ہے۔ لیکن یسوع کے دِل پر اُس کی محبت اور دوستی کی احسان فراموشی سے ایسا اثر نہیں ہوا
بہت شخصوں کی زندگی میں یہوداہ جیسا شخص اُن کی مہربانی اور نیکی کے تمام کاموں کو روک دینے اور محبت کے چشموں کو بند کر کے آنے والی نسل کو اُن کی نیکی کی دولت سے محروم کر دینے کو کافی ہے۔ لیکن باوجودیکہ یسوع کی محبت رد کی گئی اور اُس کا بدلہ بدی دیا گیا تو بھی اُس کا دِل ماں کی طرح مہربان اور محبت کرنے کےلئے زور آور اور میٹھا بنا رہا۔
حقیقی زندگی بسر کرنے کے متعلق بھاری سوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کس طرح زندگی کے سخت سے سخت تجربوں میں اپنے دِل کو سر گرم ، پُر محبت اور مدد کرنے والا رکھ سکیں۔ ہم وقتاً فوقتاً اوروں سے دُکھ سہنے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتے
خواہ ہم کیسی ہی راستبازی کی زندگی بسر کریںتو بھی اروروں کی بے انصافی کا دُکھ سہنا پڑے گا۔
کئی دفعہ جب ہم نے اوروں کے ساتھ بھلائی کی ہے ہمیں اُس کو صِلہ ناشکرگزاری حاصل ہوا ہے۔
بہت سے اُن مہربانیوں کو جو اُن پر کی جاتی ہیں بھول جاتی ہیں۔ بعض ایسے ہیں جن کو یاد نہیں رہتا کہ اُن کی ضرورت اور دُکھ کے وقت اوروں نے اُن کی مدد کی ہے اور وہ اوروں کی ضرورت کے وقت مدد نہ کرنے کے باعث اپنی دوستی کھو بیٹھتے ہیں۔
بعض وقت اعلےٰ درجے کی مہربانی کے عوض سخت ظُلم اٹھانا پڑتا ہے۔
جب محبت کے سلوک کا صلہ ناشکرگزاری اور برائی حاصل ہوتا ہے تو دِل کی محبت کا چشمہ کڑواہو جانا آسان ہے لیکن اُس کو انجام یہ ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے حقیقی مقصد کو جس سے ہماری بھلائی ہوتی اور جس کو ہر قسم کے ایسے تجربوں سے کہ جن میں ہو کر گُزرنا پڑتا ہے نقصان نہیں پہنچتا کھو بیٹھتے ہیں۔
اُن کی طرف سے جِن کا ہم بھلا کرتے ہیں کسی قسم کی احسان فراموشی ، بے انصافی یا نالائقی ہماری سچی محبت کی مٹھاس کو کرواہٹ سے تبدیل نہ کر سکے۔ تازہ پانی کے چشموں کی طرح جو سمندر کے کنارے ہوتے ہیں جِن کے اوپر اگرچہ کھارے پانی کی لہر آجاتی ہے مگر جب وہ لہر گُزر جاتی ہے تو ویسے ہی میٹھے رہتے ہیں۔
ہم بھی احسان فراموشی کے تمام تجربوں کے درمیان ہمیشہ میٹھے ، اوروں کےلئے فِکرمند بے غرض اور فیاض رہیں۔
باب۔9
یسوع کی والدہ شریفہ
اِس دنیا میں بچے کا پہلا دوست اُس کی ماں ہوتی ہے۔ دنیا میں وہ بالکل اجنبی آتا اور کوئی اُس کو جانتا نہیں۔ لیکن آتے ہی وہ محبت کو منتظر پاتا اور اُس کو ایک دوست مِل جاتا ہےجس کی گود میں وہ آرام کرتا۔ جس کے بازو اُس کو اٹھائے رکھتے اور جس کے ہاتھ اُس کی خدمت کرتے ہیں۔
بچے کے ساتھ ہی محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔ ماں اُس کو اپنی چاھتی سے لگاتی ہے۔ اوع اُس کے دِل میں اپنے نوزائیدہ بچہ ہی کا تصور ہر دم بندھا رہتا ہے۔
کچھ دیر تک بچے کو اِس محبت کا علم نہیں ہوتا۔تاہم یہ محبت اپنی مضبوطی اور گہرائی میں بڑھتی رہتی ہے۔
ہزاروں طریق سے ماں اپنے بچہ کے دِل میں بھی یہ محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے آخر کار اُس محبت کا اظہار شروع ہوتا اور بچہ محبت کرنا سیکھتا ہے۔ اُس وقت سے یہ مقدس دوستی بڑھتی ہے۔
بچے کی پیدائش کی رات کو فرشتوں کی ایک عجیب دید مِلی اور گڈریئے اُس کو دیکھتے ہی شہر کو بھاگے آئے۔
جب انہوں نے بچہ کو چرنی میں لِپٹے دیکھا تو اُس کی ماں کو وہ سب عجیب باتیں بتائیں جو انہوں نے دیکھی اور سنیں تھیں۔
مریم نے یہ سب باتیں اپنے دِل میں رکھیں اور اُن پر سوچ کیا کرتی تھی۔ اگرچہ وہ اُن سب باتوں کا مطلب سمجھ نہ سکتی تھی۔
مگر اتنا تو وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں اور کسی عجیب معنی میں وہ خدا کا بیٹا ہے۔
اِس احساس سے اُس کی مادّریت کے فرائض اور بھی ضروری معلوم دیتے ہوں گے۔
خدا کی کیسی گہری قُربت میں وہ زندگی بسر کرتی ہوگی۔ اُس کی محبت کیسی گہری اور حقیقی ہو گی !
اپنے کام کاج میں وہ کیسی با صبر اور شیریں طبع ہوگی اور اُس کو ہر دم یہ خیال رہتا ہوگا کہ جو مقدس زندگی تعلیم و تربیت کےلئے میرے سپرد کی گئی ہے اُس پر کسی تلخ یا سخت کلامی کا سایہ نہ پڑے۔ صرف چند بار ہی پردہ اُٹھتا ہے اور ہم کو ماں اور بیٹے کی دید ملتی ہے۔ چالیسویں روز اُس کو ہیکل میں لے گئے اور وہ خدا کی نذر کیا گیا۔ یہاں بچے کا جلال ماں کو پھر یاد دلایا گیا۔ ایک مرد بزرگ شمعون نامی نے بچے کو اپنی گود میں لیا اور اُس کو ”خدا کی نجات“کہا۔ والدین کو وِداع ہوتے وقت اُس نے برکت دی تو پردہ کو زرا اُٹھا کر اُن کو آئندہ کی جھلک اُن کو دکھلائی۔ ”یہ لڑکا اسرائیل میں بہتوں کے گِرنے اور اُٹھنے کو مقرر ہوا ہے۔اور ایسا نشان ہونے کےلئے جس کی مخالفت کی جائیگی“۔پھر اُس نے مریم کو بڑی سنجیدگی سے خطاب کر کے کہا ”بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چِھد جائے گی“
یہ پیش خبری تھی کہ مریم کے دِل پر کیا کیا رنج و غم آئیں گےاور جو اُس پر بار بار آتے رہے یہاں تک کہ اُس نے اپنے بیٹے کو صلیب پر دیکھا۔ صلیب کا سایہ مریم کی جان پر برسوں چھایا رہا۔ جب کبھی وہ اپنے بچے کو لوری دے کر سُلاتی یا اُس کو گود میں لے کر ٹہلاتی اور اُسے چوُمتی تو اُس کو شمعون کے الفاظ یاد آتے اور اُس کادِل چھِد سا جاتا تھا۔
شاید نبی کے یہ الفاظ بھی اُس کی یاد میں آتے تھے کہ ”وہ حقیر اور لوگوں کا رد کیا ہوا ہے۔مردِرنج“
”ہماری بدکرداریوں کے لئے وہ کُچلا گیا“اور اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ جب کبھی وہ بچے کو کھیلتا ، خوش و خرُم اپنے آنے والے غم سے بے خبر دیکھتی تو شمعون کے الفاظ کے اُس کے کانوں میں خراش کرتے اور اُس کے دِل میں ایک عجیب بے وجہ 10خو10ف۔۔۔ پیدا ہو جاتا تھا۔
ہیکل سے آنے کے بعد ہی مجوسی سِجدہ کرنے آئے اور جب اُس نے دیکھا کہ مشرق کے کے اجنبی اُس کے بیٹے کو
”یہودیوں کا بادشاہ“کہتے اور سرِ بسجود ہو کر اُس کی پرستش کرتے اور اپنی نذریں اُس کے قدموں میں رکھتے ہیں تو بڑی حیران ہوئی ہو گی۔ اُس کے بعد ہی اُن کا مصر جانا ہوا۔ جب اُس سخت خطرہ سے بچنے کےکےلئے وہ اپنے بیٹے کو لے کر بھاگی تو اُس کو کیسے اپنی چھاتی سے لگائے رہتی ہو گی !کچھ عرصہ بعد وہ مِصر سے واپس ہوئے اور تب سے ناصرۃ اُن کا مسکن رہا۔
تیس سال کے عرصہ میں صرف ایک دفعہ ہمیں ماں اور بچہ کی دید ملتی ہے اور یہ بات اُس وقت کی ہے جب یسوع پہلی بار عید فسح پر گیا۔ واپسی کے وقت یسوع پیچھے ٹھہرا رہا۔ بڑی تلاش کے بعد ماں نے اُسے ہیکل میں استادوں بیچ میں بیٹھے اور اُن سے سوال کرتے ہوُئے پایا۔
اُس کی ماں کے الفاظ ملامت آمیز معلوم ہوتے ہیں ” اے بچے تو نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کُڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے“ وہ بڑی ششدر پریشان تھی۔ اس سے پیشتر لڑکے نے ہمیشہ اُس کی فرمانبرداری کی تھی۔
اُس نے کبھی اپنی ماں کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کی کوشش نہ کی تھی اور اُس کی ہدایت سے کبھی منہ نہ موڑا تھا۔
اب کہ اُس نے اُس سے پوچھے بغیر ایسا کیا تھا۔ گویا اُس نے اب سے خود مختاری اختیار کر لی تھی۔
ماں اور اُس کے بچے کی دوستی میں یہ بڑا نازک وقت تھا۔ جب کبھی کوئی بچہ اپنی حسبِ مرضی کام کرنا شروع کر دے اور اپنی ماں کی ہدایت پر نہ چلے تو اُس کے اور اُس کی ماں کی دوستی میں یہ موقع بڑا نازک ہوتا ہے۔
یسوع کا جواب معنی خیز ہے ”مجھے اپنے باپ کا ہاں رہنا ضرور ہے“ ماں کے علاوہ ایک اور بھی تھا جس کی عطاعت اور فرمانبرداری اُس کو لازم تھی۔ وہ ابنِ اللہ بھی تھا اور ابنِ مریم بھی۔ اپنے بچوں سے سلوک کرتے وقت والدین کو یہ امر ہمیشہ ملخوظِ خاطر رکھنا چاہیئے کہ اُن کے فرزند خدا کے فرزند بھی ہیں۔ ہیکل میں ماں اور بیٹے کے عجیب تجربے کے بعد جو کچھ واقع ہُوا وہ نہایت ہی عجیب ہے۔ یسوع اپنی ماں کے ساتھ ناصرۃ میں آ گیا۔ اور اُس کی تابعداری کرتا رہا۔ خدا سے تعلق رکھنے کے باعث وہ اپنی ماں کا تو ویسا ہی فرزند رہا اِس رشتہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ چونکہ وہ خدا سے بہت محبت رکھتا تھا۔اِس لئے اپنی ماں سے اُس کی محبت کم نہ ہوئی۔ آسمانی باپ کی فرمانبردارہ کرنے سے اُس نے زمینی والدین کی فرمانبرداری کو رد نہ کیا۔ وہ اپنے گھر کو واپس چلا گیا اور اٹھارہ برس تک معمولی کاموں کو اُس نے اپنے باپ کا کام سمجھ کر بخُوشی تمام سر انجام دیا۔
ماں اور بیٹے کی اِس عرصہ کی تواریخ نہایت ہی دلچسپ ہوتی لیکن ہمارے لئے وہ لکھی نہیں گئی۔ یہ عرصہ بڑا عجیب ہو گا۔
ایسی دوستی سے بڑھ کر جو کبھی کبھی ماں بیٹے کے درمیان پائی جاتی ہے۔دنیا میں بہت کم چیزیں ایسی دلکش اور خوشنما ہونگی۔ بچے کی نسبت زرا عُمر رسیدہ لڑکا زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اُن کی باہمی رفاقت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ایک مقدس اور نہ ٹوٹنے والا اخلاص اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ لڑکا اپنے دِل کی ایک ایک بات ماں کو بتا دیتا ہے اور وہ خوش و شادمان عورت جانتی ہے کہ لڑکے کی ماں کو کیسا ہونا چاہئے اور اپنی منزلت کو خوب رکھتی ہے۔ اور لڑکے کی نہ تو بچپنے کی شرم کو دور ہونے دیتی ہے اور نہ اُس کو اپنا کوئی راز پنہاں رکھنے دیتی ہے۔ لڑکا اپنے دِل کی راز سے رازدار بات اُس کے کانوں میں سُنا دیتا ہے اور شوق محبت اور بچوں کے سے ایمان سے اُس کی دانشمندانہ اور محبت بھری صلاح کو سُنتا ہے۔
ایسی دوستی سے بڑھ کر جو کبھی کبھی ماں بیٹے کے درمیان پائی جاتی ہے۔دنیا میں بہت کم چیزیں ایسی دلکش اور خوشنما ہونگی۔ بچے کی نسبت زرا عُمر رسیدہ لڑکا زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اُن کی باہمی رفاقت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ایک مقدس اور نہ ٹوٹنے والا اخلاص اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ لڑکا اپنے دِل کی ایک ایک بات ماں کو بتا دیتا ہے اور وہ خوش و شادمان عورت جانتی ہے کہ لڑکے کی ماں کو کیسا ہونا چاہئے اور اپنی منزلت کو خوب رکھتی ہے۔ اور لڑکے کی نہ تو بچپنے کی شرم کو دور ہونے دیتی ہے اور نہ اُس کو اپنا کوئی راز پنہاں رکھنے دیتی ہے۔ لڑکا اپنے دِل کی راز سے رازدار بات اُس کے کانوں میں سُنا دیتا ہے اور شوق محبت اور بچوں کے سے ایمان سے اُس کی دانشمندانہ اور محبت بھری صلاح کو سُنتا ہے۔
یروشلیم سے آنے کے بعد اُن کو رنج و غم کا سامنا ہوا۔ یوسف کا اب کہیں ذکر نہیں آتا اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مر گیا اور مریم بیوہ رہ گئی۔ بہ اعتبار بڑا بیٹا ہونے کے ماں کی فِکر یسوع کے سر پر پڑی۔ اُس کے دِل کی گہری محبت اور اُس کی عجیب نرم دِلی کے لحاظ سے ہم با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کیسی بے غرض اور دلدادگی سے اُس نے اپنی ماں کے بیوہ ہونے پر اُس کی خدمت کی۔ اُس نے بڑھئی کا کام سیکھا تھا۔ دِن بہ دِن وہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے اُس کی ضروریات پوری کرتا تھا۔
اُن دنوں میں ماں اور بیٹے کی محبت نہایت مقدس ہو گئی۔ اِس مبارک خاتون کا حِلم ،سنجیدگی ، امید ، فروتنی اور دعا نے اُس کی سیرت کے رگ و ریشہ پر بڑا اثر کیا ہوگا۔ آخر تک اُس کی ماں کی زندگی کی برکت اُس کے ساتھ رہی۔
تیاری کے یہ تیس خاموش سال گُزر گئے اور یسوع اپنی عام (پبلک) خدمت شروع کرنے کو نکلا۔ ماں کی پہلی دید قانائے کی شادی پر ملتی ہے۔
یسوع بھی وہاں موجود تھا۔ مے ختم ہوگئی۔ اور مریم اُس کی نسبت یسوع کو کچھ کہنے لگی ”اُن کے پاس مے نہیں رہی“ وہ کسی فوق الخلقت قُوت کے اظہار دیکھنے کی توقع رکھتی تھی۔ اِس کی پیدائش کے دِن سے اُس کے دِل میں ایک بڑی امید جاگزین تھی۔
اب اُس نے بپتسمہ پا لیا اور اپنا کام تیار کر لیا تھا۔ کیا معجزہ کرنے کا وقت نہیں آ پہنچا تھا ؟
یسوع کا جواب ہمیں چونکا دیتا ہے۔ ”اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا“ اِن الفاظ سے ایک قسم کی ملامت اور زجرو توبیخ مِترشحّ جو ایسے حلیم اور محبت کرنے والے بیٹے کے شایاں نہیں۔ لیکن اِس جواب میں کوئی ایسی بات نہیں جو یسوع کے حِلم اور محبت کے متضاد ہو۔ اُس کا مطلب یہی تھا کہ معجزہ کرنے سے پیشتر مجھےاپنے باپ کے فرمان کا انتظار کرنا چاہئے
اور یہ کہ اُس کا وقت ابھی ہُوا نہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماں نے اِس کا مطلب سمجھ لیا اُس کے جواب سے اُس کے دِل پر چوٹ نہ آئی۔نہ ہی اُس کے انکار کا نتیجہ نکالا۔ اُس نے خادموں سے کہا کہ جو کچھ وہ تمہیں کرنے کو کہے وہی کرو۔
اُس نے شیریں فروتنی کا سبق سیکھ لیا تھا۔ اب وہ جان گئی تھی کہ میرے بیٹے کو سب سے اول خدا کی تابعداری لازم ہے۔ اور وہ الہیٰ آواز کا انتظار کرنے لگی۔ مقدس دوستی میں کسی قسم کا فرق نہ آیا۔
ایک اور عرصہ دراز آتا ہے جس میں مریم کا کہیں ذکر نہیں۔ غالباً وہ تنہائی میں زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن ایک دِن کفر نحوم میں ایسا ہوا کہ جب یسوع وہاں ہر دلعزیز ہو گیا تھا اور بڑی بھیڑ کے آگے منادی کر رہا تھا تو اُس کی ماں اور بھائی مکان کے باہر آئے اور ندر کہلا بھیجا کہ ہم تجھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماں اِس لئے آئی تھی کہ اُس تکان(تھک جانا) وہ کام سے آرام کرنے کےلئے اُسے تھوڑی دیر کےلئے لے جائے۔ وہ اپنی صحت و سلامتی کو معرضِ خطر میں ڈال رہا تھا۔
یسوع نے انکار کیا۔ اِس کا حقیقی مطلب یہ کہنا تھا کہ میرے اور میرے فرض کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔
باپ کا کام ہمیشہ مقدّم رہنا چاہئے۔ انسانی تعلقات الہٰی تعلقات سے پیچھے آتے ہیں۔ یسوع نے کسی طرح اپنی ماں کی بے عزتی نہ کی جبکہ اُس نے اُس کی محبت بھری دلچسپی کی تحریک کو نہ مان کر اپنا کام چھوڑنا نہ چاہا۔
مقدس سے مقدس انسانی دوستی کے اثر سے متاثر ہو کر ہمیں خدا کی مرضی کے پورا کرنے سے باز نہیں رہنا چاہئے۔
اور ماؤں نے بھی اپنے بچوں کی محبت کے باعث ایسی ہی غلطی کی ہے اور ایسی خدمت سے جو سخت یا نقصان دہ ہو اُن کو باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب محبت ہم کو خدا کی مرضی کے پورا کرنے سے باز رکھے تو اُس کی آواز کو خاموش کر دینا چاہئے۔
یسوع کی ماں کا ذکر پھر صلیب کے بیان میں آتا ہے۔ آہ مقدس حُبِّ مادری تو آخر تک وفادار اور با استقلال رہتی ہے۔
آخر کار شمعون کی پیشن گوئی پوری ہوتی ہے ”تلوار ماں کی جان کو بھی چھید رہی ہے“یسوع صلیب پر مصلوب ہوا مریم صلیب کے دامن میں مصلوب ہوئی۔ اِس سین(نظارہ ) کےایک پہلو پر فِکر کرنا ! حُبّ مادری یہاں بھی ہے۔ حب ِ مادری کی وفاداری کا بیان نہت عجیب ہے۔ ماں اپنے بچے کو کبھی ترک نہیں کرتی۔ مریم ہی اکیلی خاتون نہیں جو صلیب تک بیٹے کے پیچھے پیچھے گئی ہو۔
ماں کی اپنے بیٹے سے دوستی کا یہاں معراج اور انتہا ہے۔ وہ صلیب کے پاس کھڑی اُس کو دیکھ رہی ہے۔
اے استقلال والی ،وفادار، نا مرنے والے اور حقیقی دوستی۔
لیکن دم مرگ بیٹے کی اپنی ماں سے محبت کی کہو ؟ اپنی جانکنی میں کیا اُس کو ماں کی فکر ہے ؟
ہاں اُن سات کلموں میں سے جو اُس نے صلیب پر سے کہے ایک کلمہ سے ظاہر ہے کہ اُس کے دِل میں ماں کی محبت بدستور سابق اور ویسی ہی موجود تھی۔ مریم کی عُمر اُس وقت پچاس سے اوپر تھی۔ اُس کے بیٹے کے جاتے رہنے پر دُنیا اُس کی نظروں میں تیرہ وتاریک ہو جانے والی تھی۔ اِس لئے اُس نے ایسی محبت کے سایہ میں اُس کا انتظام کیا جہاں وہ جانتا تھا کہ محفوظ رہے گی۔ جب اُس نے اپنے پیارے شاگرد کو اُس کا ہاتھ پکڑے اپنے گھر کو لے جاتے دیکھا تو مرنے کے درد کا ایک حصہ اُس کے دِل سے جاتا رہا۔ اُس کی ماں کی فکر و حفاظت کی جائے گی۔ اِس مبارک دوستی کے بیان سے خانوادوں (خاندانوں)میں ماں اور بیٹے کا تعلق ہمیشہ کےلئے شیریں ہو جانا چاہئے۔
اِس سے ہر ایک عورت کو بہتر عورت اور لائق ماں ہو جانا چاہئے اِس سے ہر ایک بچے کو صادق اور مقدس ہونا چاہئے۔
ہر ایک گھرانے میں والدین اور بچوں کے درمیان مقدس دوستی پیدا ہونی چاہئے۔ یوں اِس زمین پر ہی بہشت کا کچھ کچھ سماں بند جائے گا۔ مسز براوننگ انگلستان کی ایک مشہور شاعرہ لکھتی ہیں کہ
مقدس ہے۔افضل ہے۔
دنیا میں اعلےٰ
یہ ماں اور بیٹے کی کیاہی محبت
کہ دو قلبِ انسان سے ہو کر ہویدا
بنی باہمی ایک الہٰی محبت“
باب۔10
یسوع کی انسانی طبیعت
طبعی طور پر ہماری طبعیتوں کا جھکاؤ اِس طرف ہے کہ ہم یسوع کو ایک ایسا شخص خیال کریں جو اپنی شخصیت کے خواص میں دیگر بنی آدم سے بالکل مختلف ہو۔ چونکہ ہم اُسے خداوند اور الہیٰ شخص مانتے ہیں اِس لئے اُس کی انسانیت کو ہمپایہ قرار دینا نہایت ہی نامعقول اور معیوب معلوم ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اُس کی زندگی ہماری زندگی سے بالکل مختلف اور متفاوت تھی۔
ہمیں یہ پسند نہیں آتا کہ یسوع کو دیگر اطفال کی طرح ایامِ طفولیت میں طفلِ مکتب تصور کریں۔
ہمارے خیالات کا رجحان ہمیشہ اُسی طرف ہے کہ وہ ہر حال میں لکھنے پڑھنے اور گفتگو کرنے پر از خود قادر اور تعلیم کا محتاج نہ تھا۔ہمارے خیال میں اُس کے ایاّم ِ طفولیت اور جوانی کے زمانہ کا وہی حال نہ تھا جو اُس کے دیگر ہموطنوں کا بھی متصور ہو سکے۔
گویا اُس کی زندگی اور اُس کا تجربہ اوروں سے مختلف تھے۔ اُس کی آزمائشوں کے متعلق بھی ہمارے دِل میں ایسے ہی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ جو امور اوروں کےلئے مشکلات اور آزمائشوں کا حکم رکھتے تھے اُس کے سامنے گویا اُن کی کچھ حقیقت ہی نہ تھی۔
پس ممکن ہے کہ ہم یسوع کی انسانی زندگی کو دیگر بنی آدم کی زندگی کے درجہ سے بالا و برتر اور اُس کے تجربات سے معّرا سمجھیں
ہم اکثر اُس کی نسبت یہ خیال نہیں کرتے کہ اُسے بھی ہماری مانند آزمائشوں پر غالب آنے ، ظلم و نعذی کو برداشت کرنے ، فرمانبرداری اور صبر و تحمل سیکھنے اور اعتماد و خوشحالی حاصل کرنے میں جدو جہد کرنی پڑی۔ ہم اکثر گُمان کرتے ہیں کہ اُس کے دوست
عوام الناس کے دوستوں کی مانند نہ تھے۔ ہمارے زعم میں اُس کی انسانی زندگی کسی خفیہ اور نادانستہ طور سے اُس الوہیت سے جو اُس میں بستی تھی تقویت یافتہ اور انسانیت کے تمام تقاضوں بؔری تھی۔ اِس میں شک نہیں کہ اس طرح کی تعظیم و تکریم کے خیالات میں بہت سے لوگوں میں یسوع کی حقیقی معرفت کا درجہ رکھتے ہیں۔
لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو اُس کی الُوہیت کے خیالات میں ہمہ تن متستغرق(ڈوبا ہُوا ) ہیں اِس آرام و اطمنان اور تسلی کو جو اُس کی انسانیت کے عرفان سے حاصل ہوتی ہے کماحقہ حاصل نہیں کر سکتے۔ اناجیل میں یسوع کا حال ایسا صاف صاف مندرج ہے جس سے اُس کی انسانی زندگی کے متعلق کسی طرح کے شکوک کی گنجائش نہیں رہتی۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سوائے گُناہ کے اُس میں انسانیت کے تمام لوازمات موجود تھے۔ اُس کی زندگی کا شروع ٹھیک ایسا ہی تھا جیسا کہ دیگر آدمزاد کا ہوتا ہے
وہ بھی اور بچوں کی طرح کمزور اور نادان تھا۔ اُس میں کسی طرح کے قبل از وقت کمال کا نشان تک نہیں مِلتا۔
اُس نے بھی دوسرے بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی۔ اُس کے سبق اوروں کے مقابلہ میں آسان نہ تھے۔
وہ بھی دیگر بچوں کی مانند اُن کے ساتھ کھیلتا کُودتاتھا غرض جس قدر ہم یسوع کو دیگر آدمزاد کی مانند خیال کریں گے اور اُسے کسی خاص طور سے غیر معمولی انسان قرار نہیں دیں گے۔ اُسی قدر ہم کو اُس کا حقیقی اور سچا عرفان حاصل ہو گا۔
مؔلیس مشہور مصّور نے اپنی جوانی کے دنوں میں یسوع کی ایک نہایت عجیب تصویر کھینچی۔ جس میں یسوع ناصرۃ میں ایک چھوٹا لڑکا پیش کیا گیا ہے اور بڑھئی کے اوزار سے اپنی اُنگلی کاٹ لیتا ہے اور اُس پر پٹی بندھوانے کےلئے اپنی ماں کے پاس آتا ہے۔
یسوع کی یہ تصویر فی الحقیقت حقیقی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُس میں ایک ایسا نظارہ پیش کیا گیا ہے جو اُس کے ایام ِ طفولیت میں زیادہ تر ممکن الوقوع اور قرینِ قیاس متصور ہو سکتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک یسوع ناصرۃ میں رہا اُس کی زندگی میں کوئی ایسی بات ہویدانہ تھی جس کے باعث اُس کے ساتھی اور ہمسائے اُس کی طرف کوئی خاص توجہ کرتے اور اُس کو اچنبھا قرار دیتے۔
ہمیں صاف معلوم ہے کہ اُس نے اپنی رسالت کے علانیہ اظہار سے پیشتر کوئی معجزہ نہیں کیا۔ہم اُس کے حق میں یہ خیال کر سکتے ہیں کہ وہ ناصرۃ میں ایک ایسی زندگی بسر کرتا تھا جو ہمدردی اور مہربانی سے پُر اور خود غرضی سے بالکل خالی اور پاک تھی۔
اُس میں کبھی کوئی گناہ یا قصور نہیں پایا جاتا تھا۔ اُس نے ہمیشہ شریعتِ الہیٰ کی پوری پوری متابعت اور محافظت کی۔
با اینہمہ اُس کا کمال کچھ حیرت انگیز اور تعجب خیز نہ تھا۔ اُس کی شکل میں کوئی ایسی تبدیلی واقع نہ ہوئی جس سے لوگ مرغوب ہو کر اُس کے جلال اور شان و شوکت میں مجذوب ہو جاتے۔لِکھا ہے کہ ”وہ انسان اور خدا کی منظوری میں بڑھتا گیا “اُس کے دِین نے اُس کو زندگی کو ایک نہایت جلالی اور غالب زندگی بنا لیا۔ لیکن وہ ایسی سادہ اور معمولی معلوم ہوتی تھی کہ اُس نے کسی کی غیر معمولی توجہ کو اپنی طرف نہ کھینچا۔ یہ زندگی بہر حال بہر کیف انسانی زندگی تھی۔ آخر تک یہ زندگی ایسی ہی رہی۔
جب اُس نے اپنی رسالت کا اعلانیہ اظہار کیا۔ جب اُس کے کلام اور کام میں الہٰی الہام و مکاشفہ کا دریا تمّوج پر تھا تب بھی اُس کی زندگی انسانی تھی۔ وہ ہماری طرح کھاتا پیتا تھا۔ وہ تھکا ماندہ بھی ہو جاتا تھا اور اُس کی مشکلات بھی ہماری سی مشکلات تھیں
جن کے باعث وہ ہماری طرح غمزدہ اور مغموم ہوتا تھا۔ جو باتیں اُسے برداشت کرنی پڑیں اُن کے وسیلہ سے اُس نے فرمانبرداری کا سبق حاصل کیا۔ وہ بھوکا اور پیاسا ہوا اور اُس نے کبھی اپنی حاجات کو الہیٰ طاقت سے رفع نہ کیا۔ تمام امور میں وہ اپنے ہم جِنس بھائیوں کی مانند تھا۔ ”اُسے ایسا ہی پسند آیا“۔ یسوع کا دِل انسانی تھا اور اس کی زندگی کو انسانی زندگی کا نام دینے کےلئے یہ ایک نہایت قوی اور بعین ثبوت ہے۔جب ہم اُسے ”ابنِ اللہ“ خیال کرتے ہیں تویہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا فی الحقیقت اُسے اِس امر کی کچھ احتیاج تھی یا وہ سچ مُچ یہ آرزو رکھتا تھا کہ بنی آدم میں سے کوئی مردوزن اُس کے شخصی دوست ہوں ؟
جہاں سے وہ آیا تھا وہاں پر اُسے ابدالآباد باپ کی گود میں سب کچھ حاصل تھا اور آسمانی مکانوں میں مقّرب فرشتگاں اُس کے حضور میں حاضر تھے۔ اِس تاریک اور گناہ آلودہ دنیا میں اُس کی کون سی خواہش اُسے کھینچ لائی جس کے پورا ہونے کی وہاں کوئی صورت نہ بنتی تھی اور یہاں اس کے حصول کا مقام تھا ؟
کون سا گنہگار انسان اُس کی دوستی کے لائق تھا ؟ کس کو فی الحقیقت اُس کا خاص دوست کہلانے کا حق حاصل تھا؟
اُس جہان کی گہری سے گہری اور پاک سے پاک محبت اُس کے دل کو کیا اطمینان دے سکتی تھی؟
ایک دُھندلی اور ناچیز موم بتی سے سورج کیا نور حاصل کرے گا ؟ کیا بے پایاں سمندر اور بہر ِناپیدا کنار اُس قطرہ شبنم کا محتاج ہے جو کسی پھول پنکھڑی میں مخفی ہو؟ مسیح کی روح کو کسی پُر کدُورت اور گناہ آلودہ زندگی سے القائے الہیٰ اور محبت کی کون سی برکات کا حاصل ہونا مقصود ہو سکتا ہے ؟َ
تاہم اناجیل اِس امر کی شہادت سے پُر ہیں کہ یسوع انسانی محبت کا ازبس آرزو مند تھا اور جن سے اُس کی دوستی تھی وہ نہایت اعلےٰ درجے تک اُس کی تسّلی اور اُس کے اطمینان کا باعث تھے۔ علاوہ اِس کے جو اُس کی دوستی میں ثابت قدم اور وفادار نہ رہے اُن کے باعث اُسے سخت رنج و غم نصیب ہُوا۔ وہ محبت اور پیار کا از حد مشتاق تھا۔ یہاں تک کہ بہت سے کمزور و لاچار
مرد و زن اُس کے حلقہ دوستی میں شامل ہوئے۔ اور اُس سے کئی طرح کا پاک تعلق پیدا کیا جس سے وہ اکثر تسّلی پاتا تھا۔
مسیح میں عام اور تمام بنی آدم کےلئے جو محبت تھی اُس میں اور اُس محبت میں جو اُسے اپنے خاص شخصی دوستوں سے تھی امتیاز کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ اِس لئے دنیا میں آیا کہ خدا باپ کو ظاہر کرے اور گنہگاروں کے حق میں اُس کا دل الہیٰ رحم سے پُر تھا۔کفارہ کے کام کو پورا کرنے کےلئے اُس کا زمین پر آنا اسی بے حد محبت کا تقاضا تھا۔اسی کے تقاضا و تحریک سے وہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے آیا۔ وہ اُن سب کا جو اُس پر ایمان لائیں اور اُس کی پیروی کریں بچانے کےلئے آسمان سے اُتر آیا۔پر اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ جان بھی اُس کے نزدیک گِراں قدر اور بیش قیمت تھی۔ اور کوئی روح ایسی ذلیل و حقیر نہیں تھی جس کو وہ پیار نہ کرتا تھا۔لیکن وہ غالباً وہ اِس عالمگیر الہیٰ محبت کے جو یسوع کے دل میں تھی بنی آدم میں سے اُس کے خاص دوست بھی تھے۔ ممکن ہے کہ کوئی خیر خواہ اخلائق اپنے ہم جنس بنی آدم کےلئے اپنی تمام زندگی مخصوص کر دے اور تمام عمُر اُن کی ترقی و بہبودی اور آزادی کے کام میں مشغول رہے۔
اور بیماری اور غمزدوں کی دستگیری اور از پائے اُفتادگاں کی بحالی میں مصروف رہے۔ تمام مصیبت زدوں کےلئے ایسے شخص کا دل رحم سے پُر ہوتا ہے اور اُن کو دیکھ کر اُس کے دل میں رحم کا دریا از بس موجزن ہوتا ہے۔ لیکن با اینہمہ انہیں میں سے جن کو بچانے اور مدد و یاری پہنچانے کا وہ ایسا مشتاق ہے اُس کے خاص دوست بھی ضرور ہوں گےاور اُس کے حالاتِ زندگی کے تار میں اُس کے عزیزِ احباب کے حالات کے سنہلے تار ضرور نظر آئیں گے اور صاف معلوم ہوگا کہ اُس نے اپنے اُن خفیہ دوستوں سے اورورں کی مدد و یاری کے کام میں محنت کرتے وقت کِس قدر طاقت اور تازگی حاصل کی ہے۔
یسوع نے اپنی تمام زندگی جو نہایت ہی مبارک اور بیش قیمت تھی محبت کے کام کےلئے مخصوص کر دی۔
بیماروں کو صحت بخشنے، غمزدوں کو تسلّی دینے، پژمردہ خاطروں کو تازگی عطا فرمانے اور نجات بخشنے کےلئے ہمیشہ اُس سے قُوت نکلتی رہتی تھی۔وہ اپنی ذات اور فیضانِ برکات سے گویا ہمیشہ پژمردہ اور تباہ حال زندگیوں کو تازہ اور توانا کرنے کےلئے آبِ حیات کے پیالے بھر بھر کے دے رہا تھا۔ اُس کے اپنے لئے تازگی اور طاقت حاصل کرنے کے سر چشموں میں وہ مردو زن شامل تھے جو اُس کے خاص دوستوں کے نام سے ممتاز ہیں۔ یسوع کے دوست اُس کے لئے ویسے ہی تھے جیسے کہ محتاجی و احتیاج کے موقع پر ہمارے دوست ہمارے لئے ہوتے ہیں۔ وہ دوستی اور رفاقت کا نہایت بھوکا اور پیاسا تھا اور جب لوگوں نے اُسے قبول نہ کیا اور اُس کے سامنے موالات ومواسات کے دروازوں کو بند رکھا تو اُسے نہایت صدمہ محسوس ہوا۔
اِس افسوس ناک امر کے اظہار کےلئے نئے عہد نامہ میں یہ چھوٹا سا فِقرہ سب سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ
”کہ وہ اپنوں کے پاس آیا پر انہوں نےاُسے قبول نہ کیا“ کہ جن پر یہ مناسب تھا کہ اُس کی خوب خاطر تواضح کرتے اُن کی روح گردانی اور لاپرواہی کا بیان اس جُملہ میں نہایت درد انگیز اور رقت خیز طور پر پایا جاتا ہے کہ ”لومڑیوں کے لئے ماندیں اور پرندوں کےلئے بسیرے ہیں پر ابنِ آدم کےلئے کہیں سر رکھنے کو بھی جگہ نہیں “جنگلی درندوں اور ہوا کے پرندوں کےلئے دنیا خاصی آرام گاہ تھی۔ لیکن جس کے دِل میں سب سے بڑھ کر پیار اورمحبت کا مسکن تھا اُسی کو اِس جہان نے قبول نہ کیا اور زمین باوجود اپنی فراخی کے اُس کے لئے گویا تنگ ہوگئی۔پھر اُس کا یہ کہنا کہ ”وہ وقت قریب ہے بلکہ آ پہنچا ہے کہ تم سب اپنی راہ لو گےاور مجھ کو اکیلا چھوڑ جاؤ گے“یہ صاف اس امر کا اظہار ہے کہ یسوع دوستی اور رفاقت کا بھوکا اور پیاسا تھا۔
گتسمنی کے باغ کا نطارہ بھی بتلاتا ہے کہ ہمارا خداوند ہمدردی کا از حد مشتاق اور آرزو مند تھا۔
اپنے غم و رنج کے وقت اُس کی آرزو تھی کہ اُس کے دوست اور رفیق اُس کے پاس ہوں تا کہ وہ ضرورت کے موقع پر اُن سے کچھ تسلی و اطمینان اور تقویت حاصل کر سکے۔ چونکہ وہ انسانی ہمدردی کا آرزو مند تھا اِس لئے جب اُس سے اپنی اِس آس و امید کے خلاف مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تو اُس کی مصیبت اور بھی دوبالا ہو گئی۔ جتنی مرضی وہ دعا مانگ کر اپنے شاگردوں کے پاس واپس آیا اُس نے انہیں سوتے پایا۔انجیلی بیان سے یہ چند مذکورہ بالا ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کا دل محبت و پیار اور مہُرو اُلفت کا کیسا مشتاق تھا۔وہ خود مجسمِ محبت تھا اور اُس کی یہ آرزو تھی کہ لوگ بھی سے محبت رکھیں۔
جب اُسے کسی میں اور کہیں بھی محبت نظر نہ آئی تو مغموم اور مایوس ہو گیا۔ جس کسی نے اُس سے محبت کی اُس نے اِس کی قدر کی۔ غُرباء کی محبت، جن کی اُس نے مدد کی اُن کی شکرگزاری اور بچوں کا پیار اُس کی نظر میں سب قابلِ قدر تھے۔
ہم کبھی اِس امر کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ پیارے شاگردون کی محبت کی یسوع نظر میں کس قدر قدر و مّزلت تھی۔
بیت عنیاہ کا گھر اُس کے لئے نہایت تسلّی اور اطمینان کا باعث تھا اور اُس خاندان کی رفاقت سے اُسے بہت تقویت حاصل ہوتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں اُس کے دل کے لئے آرام کا باعث تھیں۔ جن شریف عورتوں نے اُس کی پیروی کی اُن کی خدمات اور محبت سے اُس نے بہت کچھ اطمینان حاصل کیا۔
اس کتاب کے دیگر ابواب میں انجیلی بیانات کی بِنا پر انہیں کے مطابق یسوع کے بعض دوستوں کا حکایات کے طور پر حال لیا گیا ہے۔ بعض اوقات تو اِن حکایات کے متعلق بیان کی بہت گنجائش ہے۔ مثلاً پطرس اور یوحنا کی حکایات میں طوالت کی بہت گنجائش ہے۔ بخلاف اِس کے بسا اوقات فقط ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں مل سکتی ہیں۔ اگرچہ وہ اِس قابل ہوتی ہیں کہ انہی سے دوستی کا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
چنانچہ اندریاس یوسف اور بیت عنیاہ کی بہنوں کا حال اسی قسم کا ہے۔ ان دوستوں کےحالات کا مطالعہ اور اِن کی تحقیق و تدقیق
ہمارے لئے خالی از فائدہ نہیں ہے۔ اِس سے کم از کم ہم کو یسوع کی انسانی طبعیت کا عرفان حاصل ہوگا اور ہم معلوم کریں گے کہ دنیا کو برکت دینے اور بچانے کےلئے اِس کے طریقے کون سے اور کیا کیا ہیں۔ ہر سچے مسیحی کی زندگی مین سب سے ضروری اور لابُدی بات یہ ہے کہ وہ یسوع سے خاص دوستی اور رفاقت رکھے۔ اُس نے لوگوں کو یوں دعوت دی کہ
”میری پیروی کرو سب کچھ چھوڑو اور صرف مجھ سے چِمٹے رہو۔مجھ پر ایمان لاؤ اور مجھ پر بھروسہ رکھو۔مجھ سے پیار و محبت رکھو اور میری فرمانبرداری اور متابعت کرو۔“ اِس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ اُن کی زندگیاں بدل گئیں اور اُن میں بھی اُسی کا جلال اپنی چمک دمک میں دکھانے لگا۔
وہ بات جس سے کسی کا مسیحی ہونا کچھ معنی رکھتا ہے یہی ہے کہ یسوع سے دوستی ہو۔ دوستی سے یقیناً تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جِن کی صحبت میں ہم زیادہ تر رہتے ہیں آخر اُنہیں کی مانند ہو جاتے ہیں۔
ایک کی زندگی دوسرے کی زندگی سے آمیزش حاصل کرتی ہے۔ ایک کا دِل دوسرے کے دِل کا ہم خیال بن جاتا ہے۔
روحانی طور پر اعلےٰ درجے کی تخلیط ہوتی ہے اور انجام کا رد و تو دوست یک تن و یک جاں ہو کر بہ آوازِ بُلند پُکار اُٹھتے ہیں کہ
من تُو شدم تُو من شدی من تن شدم تُو جاں شدی
تاکس نگو یدبعد زیں من دیگرم تو دیگیری
اگرچہ ہماری دوستی میں یسوع مسیح کے لائق بہت ہی کم سرمایہ ہے تا ہم یہ دریافت کر کے تسّلی حاصل ہوتی ہے کہ فی الحقیقت ہماری ددوستی اُس کی نظر میں قابلِ قدر اور بیش قیمت ہے۔اس سے اُس کی دلجمعی اور اُسے شادمانی ہوتی ہے۔
اگرچہ ہماری اچھی سے اچھی اور سچی سے سچی دوستی بھی نکمی اور ناچیز ہے تاہم ہمارے لئے مسیح کا فضل جس کی وہ ہم پر کثرت سے بارش کرنے کو تیار ہے بالکل بے حد اور لامحدود ہے۔ ”میں نے تمہیں دوست کہا ہے۔“
اُس کی کوئی اوربخشش جو ہم اُس سے پاتے ہیں اُس کی دِلی دوستی کا ہمو زن نہیں ہو سکتی۔ سائرس نے اپنے ایک درباری آرٹا بارس کو ایک زرین جام دیا لیکن اپنے عزیز کریسن تھیس کو چوما آرٹا بارس نے سائرس سے کہا ”آپ نے جو سنہلا پیالا مجھے دیا ہے وہ ایسا قیمتی اور کھرا سونا نہیں جیسا کہ بوسہ ہے جو آپ نےکریسن تھس کو دیاہے “
کسی نیک آدمی کا زوال ایسا قابلِ قدر نہیں ہو سکتا جیسا کہ اِس کی گران بہا اور بیش قیمت ہے۔ فی الحقیقت اس تمام جہان میں سب سے بڑی عزت سب سے بڑا رُتبہ اور عہدہ یسوع مسیح کی دوستی ہے۔ اور یہ دولت ایسی ہے کہ اُسے ہر ایک حاصل کر سکتا ہے۔ ” میں اب سے تم کو خادم نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔میں نے تم کو دوست کہا ہے“
” جو کچھ میں تمہیں فرماتا ہوں اگر تم اس کو بجا لاؤ گے تو تم میرے دوست ہو“ جب یسوع زمین پر تھا اُس کے اُس وقت کے دوستوں کے حالات سُن کر ہمیں آہیں بھرنے کی ضرورت نہیں”کاش کہ جب یسوع بنی آدم میں رہتا تھا میں بھی اُس کے ساتھ ہوتا اور اُس کی دوستی کے حلقہ میں شامل ہو کر اُس کی محبت کے جوش کو محسوس کرتا۔
میری زندگی اُس سے تقویت پاتی اور میری روح اُس سے تحریک حاصل کرتی اور اُس کی محبت اور اس کے فضل کا کام مجھ میں جاری رہتی رہتا “ یسوع کے جن دوستوں کا حال نئے عہد نامہ میں پایا جاتا ہے وہ دوستی کا نمونہ ہیں۔
اور اگر ہم بھی چاہیں تو اُس کی بخششوں کو قبول کر کے اور اپنی زندگی کو اُس کی محبت اور وفاداری کے لئے مخصوص کر کے اُس کی دوستی کے رشتہ میں منسلک ہو سکتے ہیں۔
یسوع کی دوستی میں تمام دیگر برکات بھی ابدالآباد کےلئے شامل چنانچہ مرقوم ہے کہ ”تمام چیزیں تمہاری ہیں اور تم مسیح کے ہو“
اُس کی دوستی سے ہماری کامل تقدیس ہوتی ہے جس دوستی میں سہ گونا تعلق اور رشتہ نہ ہو وہ کامل نہیں بلکہ نہایت ناقص ہے۔
اگر مسیح ہمارا دوست ہے تو ہماری زندگی جلالی زندگی ہے۔ زمانہ گزشتہ کے تمام پاک بھید ہم کو اس میں نظر آتے ہیں۔
اور آئندہ زندگی کی امیدیں جو بالکل تباہ ہو گئیں تھیں پھر سر سبز اور تر و تازہ دکھائی دیتی ہیں۔
باب۔11
یسوع کا اپنے دوستوں کو تسّلی دینا
وہ انجیل جس میں غم کےلئے تسّلی نہ ہو انسان کے دل کی بڑی بڑی حاجات اور مشکلات کو رفع نہیں کر سکتی۔ اگر یسوع کوشی کے وقت ہمارا دوست ہوتا تو ہماری زندگی کے اور بہت سے موقعوں پر اُس کی دوستی بالکل بے سُود ہوتی لیکن انجیل شریف کا ہر ایک صفحہ تسلی اور اطمینان سے معمور ہے۔ یسوع جیسا خوشی اور آرام کے ایام میں ہمارا رفیق ہے ویسا ہی تنہائی اور دُکھ میں بھی ہمارا دوست اور غمگسار ہے۔ وہ شادی کی ضیافت میں گیا اور اُس ضیافت کو طوُل دینے کےلئے اُس نے اپنا پہلا معجزہ دکھایا۔ پھر وہ غم کے گھر میں گیا اور اُس کے غم کو خوشی سے تبدیل کر دیا۔
یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ہم یسوع کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ اُس نے تسلّی دہند کو حیثیت میں اپنے شاگردوں کو کہاں تک تسلی دی ہے اِس سے ہم یہ معلوم کریں گے کہ دُکھ اور رنج و غم میں کس طرح تسّلی مِل سکتی ہے۔ بہت سے مسیحی ایسے بھی ہیں جو انجیل سے کچھ تسلی نہیں پاتے یسوع کے دوست ایامِ سلامتی میں اُس کی محبت میں خوش ہوتے ہیں۔
اور گیت گاتے ہوئے اُس کی روشنی میں چلتے ہیں۔لیکن جب کوئی رشتہ ٹوٹتا ہُوا نظر آتا ہے اور گھر ماتمکدہ بن جاتا ہے تو وہ دل جو تعریف اور شکرگزاری سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے انجیل کی تسلی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم مسیح کو اپنا تسّلی دہندہ جانتے اور تسلیم کرتے ہیں تو ضرور غم و رنج میں بھی اُس پہ بھروسہ کریں گے اور خوشی کے گیت گا سکیں گے۔
یسوع کی زندگی پت غور کرنے سے ہمیں اوروں کو اُن کے غم میں حقیقی تسلی دینے کی طاقت اور لیاقت حاصل ہو گی۔
یسوع کی زندگی پت غور کرنے سے ہمیں اوروں کو اُن کے غم میں حقیقی تسلی دینے کی طاقت اور لیاقت حاصل ہو گی۔ ہر ایک مسیحی کےلئے ایسا ہونا ضروری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے مسیحی بہت ہی کم ہیں ۔
ہم میں سے بہتوں کے لئے اپنے اپنے دوستوں کو غم میں تسلی دینے کی خاطر اُن کے پاس جانے کی نِسبت اُن سے دور رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ اکثر اوقات بجائے اسِ کے کہ ہم تسلی دہندہ بنیں اور اُن کو غم کی برداشت کےلئے زیادہ مضبوط بنائیں اُن کے غم کو اِس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اُن کی برداشت حیطہ مکان سے خارج ہو جاتی ہے اور بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے تسلی دینے کی استعداد حاصل نہیں کی۔یہ امر از حد ضروری ہے کہ ہمارا خداوند ہی ہمارا استاد ہو اگر ہم اُس کی تسلی دینے کے طریقہ کا مطالعہ کریں تو ہم پر بخوبی منکشف ہو جائے گا کہ درد و غم کے موقع پر ہم دوستوں کو کس طرح تسلی دیں کہ اُن کےلئے برکت کا باعث ہوں۔
یسوع کی خدمات کا زیادہ حصہ اُن لوگوں سے وابستہ تھا جو کسی نہ کسی تکلیف و مصیبت میں مبتلا تھے۔ ایک دفعہ اُس کے سب سے پیارے اور عزیز دوستوں پر غم کی گھنگوُر گھٹا چھا گئی۔ اگر اِس حالت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ یسوع نے اپنے دوستوں کو کس طرح تسلی دی۔ اور اِس سے ہم نہایت مفید اور کار آمد سبق حاصل کریں گے۔
یہ یسوع کے عزیز احباب بیت عنیاہ کا ایک گھرانہ تھا۔مذکورہ بالا غم کے دور دورہ سے پیشتر یسوع اکثر مہمان کے طور پر اُس خاندان کے پاس جایا کرتا تھا اور اُس خاندان کے تمام شرکا ءنہایت عزیز اور جانی دوست تھے۔ جب وہ اُن کے گھر میں جاتا تھا وہ نہایت تپاک سے اُسے قبول کرتے تھے اور اُس کی بہت ہی خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ اپنی خوشحالی کے ایام میں یسوع کی
فیض مآب پسند و نصائح سُنا کرتے تھے۔ اِس لئے غم و رنج کے زمانہ میں اُن کےلیے اِس کی طرف رجوع لانا اور اُس سے تسلی پانا آسان ہو گیا۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مصیبت میں مبتلا ہو کر مسیح کو دوست سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنی خوشخالی اور فارغ البالی کے ایام میں اُس کی دوستی کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ اور جب کبھی اچانک اور ناگہاں کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو تسلی کےلئے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ مبارک اور دانا وہ ہیں جو اپنے ایامِ سلامتی میں پیشتر اِس سے کہ اُن کی زندگی میں کسی طرح کی تلخی یا کڑواہٹ واقع ہو مسیح کو قبول کر لیتے ہیں۔ یسوع ایسے لوگوں کو اُن کی خوشیوں میں برکت بخشتا ہے۔
وہ مصیبت ذدوں کو خوشحال اور فرخندہ فال بنا دیتا ہے۔ اُس کی برکت کے باعث محبت کی شیرینی بڑھ جاتی ہے۔
اور جب کبھی غم کا سایہ پڑتا ہے تو تاریکی میں روشنی چمکتی ہے۔ دِن کے وقت ستاروں کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اُس وقت سورج کی روشنی زمین کی تمام راہوں کو روشن کرتی ہے لیکن جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو ستارے چمکتے ہیں اور ہم پر اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی ڈالتے ہیں اور ہم نہایت خوش و خُرم ہوتے ہیں۔ اِسی طرح خوشی اور سلامتی کے زمانہ میں بھی یسوع کی روشنی ہمارے سر پر آسمانی تسلی کے ستاروں کی طرح پر تو افگن رہتی ہے ہم کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہمیں اُن کی ضرورت ہے۔ اس طرح جو برکات یسوع کے پُر فضل الفاظ میں بھی چھُپی ہوئی ہیں اُن کا حقیقی عِلم و عرفان حاصل نہیں ہوتا لیکن جب وہ دفعتاً انسانی خوشی معدوم ہو جاتی ہے تو الہٰی تسلی آشکارہ ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر ہم تسلی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتے نہیں پھرتے بلکہ وہ تسلی مسیح کی محبت اور فضل میں پیشتر سے ہی ہمارے پاس ہی موجود ہوتی ہے۔وہ دوست جس کو ہم نے اپنے ایامِ سلامتی میں قبول کر رکھا ہے۔اب غم کے وقت ہماری مدد کےلئے موجود ہے۔ اِس وقت اُس کی الہیٰ دوستی ایسی بیش قیمت معلوم ہوتی ہے کہ پہلے ہم نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
جب لعزر بیمار ہوا اُس وقت یسوع مُلک کے دوسرے حصہ میں تھا۔ جب اُس کی زندگی کی امید جاتی رہی تو بہنوں نے یسوع کے پاس پیغام بھیجا کہ ”کہ وہ جس کو تُو پیار کرتا ہے“بیمار ہے۔ یہ پیغام بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اِس می نہ کسی قِسم کی تاکید ہے اور نہ کوئی درخواست ہے کہ یسوع جلد آئےمگر اِس کے مختصر الفاظ سے متّوکل دلوں کی حالت بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔
اِس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مصیبت کے وقت ہمیں کس طرح دعا کرنی چاہئے۔
”تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تمہیں کِن کِن چیزوں کی ضرورت ہے“ہمیں کسی درد ناک آواز یا ولولہ انگیز اور رقّت خیز لہجہ سے دعا کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ جو دعا ایمان کے ساتھ ہو وہ سب سے عُمدہ اور بہتر دعا ہے۔
ایسی دعا کے وسیلہ سے ہم اپنے دِل کا بوجھ اپنے مالک پر ڈال دیتے ہیں اور ہر طرح کے تردّد سے رہائی پاتے ہیں۔
جب کوئی خدا کا محبوب بیماری کے بِستر پر پڑا ہُوا تو یہ کہنا کافی ہے کہ ”اے خداوند جس کو تو پیار کرتا ہے “ بیمار ہے۔
ہم اِس قصہ کو پڑھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یسوع اپنے دوستوں کا پیگام سُن کر فوراً بیت عنیاہ کی طرف روانہ ہوا بلکہ دو دِن تک ٹھہرا رہا۔ ہم کو کچھ معلوم نہیں کہ اُس نے ایسا کیوں کیا۔لیکن اُن الفاظ میں جو دیر کی نسبت لکھے گئے بڑی تسلی پائی جاتی ہے۔
اِس لئے جب اُس نے سُنا کہ لعزر بیمار ہے تو وہ اُسی جگہ جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا دو روز تک رہا“ اِس توقّف کا باعث وہ محبت تھی جو یسوع اِس خاندان سے رکھتا تھا۔ شاید اِس کا مطلب یہ تھا کہ لعزر کی موت کے وسیلہ سے اُن سب کو برکت حاصل ہو۔
آخر کار وہ بیت عنیاہ میں پہنچا۔لعزر کو مرے ہوئے چار روز گُزر چُکے تھے۔ اِس خاندان کے بہت سے دوست تھے۔
چنانچہ ماتم پُرسی کی رسُوم کے لحاظ سے گھر میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ یہ سب لوگ حسبِ دستور تسلی دینے کےلئے آئے تھے۔
لیکن یسوع بیت عنیاہ پہنچ کر گھر سے کچھ فاصلہ پر باہر ہی ٹھہر گیا شاید اُس کی یہ مرضی نہ تھی کہ دوسرے لوگوں میں شامل سمجھا جائے۔جو صرف دستور کے مطابق ماتم پُرسی کےلئے آئے تھے۔ اُس نے چاہا کہ اُن لوگوں سے الگ لعزر کی غمزدہ بہنوں سے ملاقات کرے۔ چنانچہ وہ گاؤں سے باہر ہی ٹھہر گیا اور غالباًمارتھا کے پاس پیغام بھیجا کہ ”میں آگیا ہوں“اور وہ فوراً اُس سے مِلنے کےلئے آ گئی۔
ہم خیال کر سکتے ہیں کہ خداوند کے پاس آنے کےلئے اُس کا دِل کیسا مشتاق تھا۔ جب اُس نے سُنا کہ وہ نزدیک ہے تو اُس ماتم کے شور و غُل کو جس سے اُس کا گھر بھرا ہوا تھا چھوڑ کر یسوع کی تسلی بخش حضوری میں حاضر ہو گئی۔ یسوع کا چہرہ متردّد نہیں تھا پر اُس پر حقیقی ہمدردی اور شفقت کے آثار نمایاں تھے۔ وہ نہایت خاطر جمع اور مطمعین تھا۔ مرتھا کو اُس کی مبارک اور تسلی بخش صورت دیکھتے ہی تسّلی ہوگئی ہو گی۔
جب کبھی ہم تسلی کے محتاج ہوں تو مناسب ہے کہ ہم مسیح کے حضور میں حاضر ہوں۔ انسانی دوستی کا مقصد اور مرام اسی وقت انجام کو پہنچتا ہے جب ہم اُسے اپنے غم میں مددگار اور کار آمد پاتے ہیں۔ ضرور ہے کہ انسانی دوستی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ کرے۔
کیونکہ اگر کچھ نہ کرے تو دوستی نہیں بلکہ سرد مہری اور بے رُخی ہے۔ انسانی دوستی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ غموں کا ذکر کرتے کبھی نہیں تھکتی۔ چنانچہ گفتگو کے پیرایہ میں اِس قدر سوالات سے استفسار کیا جاتا ہے کہ ہم جواب دیتے دیتے تھک جاتے ہیں۔ہمارے دوست خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام دکھوں کا ذکر کرنے اور اُن کی گہرائی کو پہنچنے سے ہمیں تسّلی دیں گے لیکن اس تسلی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے غموں کا بوجھ بجائے ہلکا ہونے کے اور بھی بھاری ہوجاتا ہے اور اُس کی برداشت کےلئے ہم پہلے سے بھی زیادہ کمزور اور بُزدِل ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم کو فی الحقیقت تسلی کی ضرورت ہے تو بہتر ہے کہ ہم مسیح کے پاس پناہ گزین ہوں۔ کیونکہ اُسی کے پاس ہمارے لئے کامل تسلی اور خوشی موجود ہے۔
وہ تسلی جو مسیح نے لعزر کی غمزدہ بہنوں کو دی ہمارے لئے قابلِ غور ہے۔ اول اُس نے پردہ اٹھا کر ہمیں وہ نظارہ دکھایا جو موت کی وادی سے پار ہے ”تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔قیامت اور زندگی میں ہوں۔جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اگرچہ وہ مر گیا ہے تو بھی جئے گا اور جو کوئی جیتا ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی نہ مرے گا“یہ کہہ کر گویا دوسری دنیا کی طرف ایک کھڑکی کھول دی۔
یہ امر بے نسبت مریم اور مرتھا کے ہمارے لئے زیادہ صاف ہے۔ اِن کلمات برکات آیات کے کچھ عرصہ بعد یسوع کو خود موت سے گُزر کر اور قبر سے نکل کر ہمیشہ کی زندگی میں آنا پڑا۔ جو کسی مسیحی دوست کی جُدائی کے باعث غم میں مُبتلا ہیں۔ انہیں نئے عہد نامہ سے موت کی نسبت حقیقی تعلیم پڑھ کر عجیب تسلی حاصل ہو گی۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اعتقادی طور پر قیامت کو یقینی سمجھنے پر عجب غم میں مُبتلا ہوتے ہیں تو تسلی اُن کے پاس نہیں بھٹکتی۔یسوع نے مارتھا کو کہا
”تیرا بھائی جی اٹھے گا “ اُس نے کہا ”ہاں میں جانتی ہوں کہ قیامت میں پچھلے دِن پھر جی اٹھے گا“مرتھا کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی دور کی امید سے اُس کا دِل تسلی پزیر نہ ہوا۔ موجودہ نقصان کے خیال نے اُس کے ہر ایک خیال اور جذبہ کو دبا رکھا تھا۔ اُس کا عزیز بھائی فوت ہو گیا تھا اور اُس کے دِل میں بڑی یہ خواہش تھی کہ وہ پھر زندہ ہو جائے۔
وہ کون ہے جو کسی کے پیارے کی قبر پر کھڑا ہوا ہو اور اُس نے اُس تسلی کا تجربہ نہ کیا ہو جو مُردوں کے جی اٹھنے کے یقین سے پیدا ہوتی ہے۔
مارتھا کے مضمحل اور اندوہگین دِل کےلئے یسوع کا یہ فرمان کہ ”قیامت اور زندگی میں ہوں“نہایت ہی تسلی بخش تھا۔ مارتا نے دور و دراز کی قیامت کا ذکر کیا لیکن یسوع نے فرمایا کہ ”قیامت میں ہوں“اُس کی گفتگو میں ہمیشہ کی زندگی کے متعلق صاف اور مبارک الفاظ موجود تھے۔ چنانچہ اُس نے فرمایا کہ ”وہ جو زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی نہ مرے گا“جو مسیح میں ہیں اُن کےلئے کوئی موت نہیں۔جسم مرتا ہے پر وہ زندہ رہتے ہیں۔ قیامت آئندہ زمانہ میں ہو گی۔ لیکن ایمانداروں کی زندگی میں جو مسیح ہے کوئی وقفہ نہیں آتا۔
اگرچہ ایماندار ہمارے درمیان سے چلا جاتا ہے۔ اور ہماری آنکھیں اُسے نہیں دیکھتیں۔ ہمارے کان اُس کی آواز نہیں سُنتے۔
اور ہمارے ہاتھ اُس کو چھو نہیں سکتے تو بھی وہ زندہ اور بدستور خیال کرتا ہےاور احساسِ باطنی کے وسیلہ سے محبت میں مصروف رہتا ہے۔ موت سے اُس کی ہستی کی کوئی طاقت جاتی نہیں رہتی اور اُس کی خوبصورتی میں کچھ کمی پیدا نہیں ہوتی۔
یہ اُس تسلی کا ایک حصہ ہے جو یسوع نے اپنے دوستوں کو اُن کے غموں میں دی۔ اُس نے اُن کو یقین دلایا کہ موت نہیں ہے اور وہ سب جو اُس پر ایمان لاتے ہیں ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہیں۔ جو اس دنیا میں اپنے عزیزوں سے جدا باقی رہ جاتے ہیں انہیں جدائی اور تنہائی کا غم تو ہوتا ہے لیکن یہ امر قابل یاد ہے کہ جو گُزر جاتے ہیں اُن کےلئے کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہیں۔
یسوع اپنے اُن دوستوں کو جو اِس دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں کس طرح تسلی دیتا ہے ؟
جب ہم بیت عنیاہ کے گھر کے غم کا حال پڑھتے ہیں تو اِس سوا ل کے جواب میں صاف کہا جا سکتاب ہے کہ اُس نے اُن کے مُردہ کو زندہ کر کے لفظی طور سے بھی موت اور غم کو دور کر دیا۔ اگر وہ آجکل بھی جس جگہ محبت اُس کو پکارتی ہے ہر حالت میں ایسا ہی کر سکتا تو نہایت تسلی کا باعث ہوتا لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لعزر کا موت سے لوٹ کر اپنے گھر آنا محض چند روزہ اور عارضی تھا۔ وہ فنا آزمائش ہماری دُکھ اور موت کی زندگی میں واپس آیا اور وہ بھی تھوڑے ہی روز کےلئے اُس کا یہ جی اٹھنا عرفانی زندگی کےلئے نہ تھا بلکہ محض فانی زندگی کی چند روزہ بحالی تھی ضرور تھا کہ وہ پھر موت کی وادی میں سے گُزرے اور اُس کی بہنیں دوبارہ اُس کے غم کی جدائی کا تجربہ کریں۔
ہم اِس کو بمشکل ہی تسکین ِتسلی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ کچھ عرصہ کے لئے آخری جدائی کے باب میں التوا تھا۔
لیکن یسوع نے اُس کے علاوہ لعزر کی بہنوں کو سچی اور حقیقی تسلی بھی دی۔ اُن کو اُس کی حضوری سے ہی تسلی حاصل ہو گئی۔
وہ جانتی تھیں کہ یسوع ہم کو پیار کرتا ہے۔ پہلے بھی جب کبھی وہ اُن کے گھر آیا تو اپنے ساتھ برکت لایا۔
اُس کی حضوری سے اُن کے دِلوں میں سلامتی اور امن کو جوش پیدا ہوتا تھا۔ اُس کے مبارک اور منور چہرہ کی روشنی سے جو اُن پر پڑتی تھی اُن کے بھاری سے بھاری غموں کی تلخی جاتی رہتی تھی۔ ہر ایک مستقیم ، ملائم اور سچی محبت کا اثر ہمیشہ تسلی بخش ہوتا ہے۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی معتبر اور اعتماد و وثوق کے لائق دوست ہو تو ہم سخت سے سخت آزمائش میں بھی قائم رہ سکتے ہیں۔
اگر یسوع ساتھ ہو تو ایماندار ہر قسم کے غم کی برداشت کر سکتا ہے۔
اِن غمزدہ بہنوں کی تسلی کی دوسری بات یسوع کی ہمدردی میں تھی۔ اُس نے پیریا سے آنے میں اُن کے غم کے وقت ہمدردی ظاہر کی۔ اُس کی گفتگو سے ہمدردی ٹپکتی تھی۔ جب اُس نے اُن بہنوں سے باری باری ملاقات کی تو اُس کے طور طریقہ سے حددرجہ کی شرافت نمایاں تھی مریم کا غم مارتھا کے غم سے کہیں بھاری تھا۔ جب یسوع نے اُس کو اور اُس کے دوستوں کو روتے دیکھا تو غمزدہ ہوا اور گھبرایا۔ بلکہ بائبل کی سب سے چھوٹی آیت میں تو یوں مندرج ہے کہ ”یسوع رویا“اس سے اُس کی عجیب ہمدردی ظاہر ہوتی ہے۔
”یسوع رویا“ غم کی حالت میں اِس انسانی ہمدردی کو حاصل کرنا اس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہماری پرواہ کرتا ہے اور ہمارا ہمدرد ہے۔ بڑی تسلی کی بات ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو اس قدر تسلی حاصل ہوتی ہے جس قدر ہمارے دل میں اُس شخص کی عزت و وقعت ہوتی ہے۔ یوحنا، پطرس اوریعقوب لعزر کی قبر پر روتے تو بہنوں کےلئے بڑی تسلی کا باعث ہوتا۔
مگر یسوع کا رونا اُن سب سے بڑھ کر تھا۔ یہ وہ پاکترین ہمدردی تھی جو خدا کے بیٹے نے دو بہنوں کے سخت غم کے موقع پر رو کر ظاہر کی۔
یہ چھوٹی سی آیت یا تمام بائبل میں سب سے چھوٹی آیت ”یسوع رویا“صرف اِس لئے نہیں لکھی گئی کہ کہانی کا ایک حصہ ہو بلکہ اُس میں تمام زمانوں کےلئے یسوع کے دِل کا اظہار اور نکشاف پایا جاتا ہے۔
جب کبھی یسوع کا کوئی دوست غم میں مُبتلا ہو جاتا ہے تو وہ حقیقی ہمدردی اور تسلی دینے والا اگرچہ نطر سے غائب ہوتا ہے تو بھی پاس کھڑا ہو کر اُس کے غموں میں شریک ہوتا ہے اور ہر ایک دُکھ کو محسوس کرتا ہے۔ اس خیال میں بڑی تسلی ہے کہ خدا کا بیٹا ہمارے دکھوں میں دُکھ اٹھاتا ہے۔ جب ہم مانتے ہیں کہ خدا ہمارے دکھوں کی نسبت سب کچھ سمجھتا ہے تو ہم چُپ چاپ اپنے سارے دکھوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔
مسیح کے دوستوں کو تسلی دینے میں ایک اور بات ہے جو بہت ہی پُر نصیحت ہے۔ اُس کی ہمدردی محض خیالی نہیں تھی اکثر دفعہ انسانی ہمدردی محض خیالی ہوتی ہے۔ ہمارے دوست ہمارے ساتھ روتے ہیں۔ اور یہ کہہ کہہ کر کہ ہمیں بڑا افسوس ہے واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر ہماری مدد کےلئے کچھ نہیں کرتے۔ بیت عنیا ہ میں یسوع کی ہمدردی بہت ہی عملی تھی۔
اُس سے نہ صرف اُس نے اپنی محبت اپنے دوستوں کو ہی دکھلائی کہ دوسرے صوبہ سے اپنا کام چھوڑکر چلا آیا تا کہ اُن کے دُکھوں میں اُن کا ہمدرد ہو بلکہ اُس نے اُن سے الہٰی ہمدردی کے ایسے کلمات کہے جنہوں نے اب تک بھی اِس دنیا میں روشن راہ تیار کررکھی ہے۔ وہ نہ صرف اُن کے غم میں اُن کے ساتھ رویا بلکہ اُس نے سب سے بڑا معجزہ کر کے ان کے دلوں اور ان کے گھر کی خوشی کو از سرِنو بحال کیا۔ یہ معجزہ بھی بیش قیمت تھا کیونکہ اُس کے سبب سے اُس کو اپنی زندگی دینی پڑی۔
وہ بخوبی جانتا تھا کہ دوستی کے اس کام کا کیا انجام ہوگا تو بھی وہ نہ جھجکا۔
کسی سبب سے اُس نے دیکھ لیا کہ لعزر کا زندہ کرنا اُس کے دوستوں کےلئے برکت کا باعث ہو گا۔
چونکہ وہ بہنوں اور بھائیوں کو پیار کرتا تھا وہ جہاں تھا حالِ دو روز اور ٹھہرا رہا اور بہنوں کی طرف سے پیغام پا کر بھی جلدی نہ کی اس لئے ہم یقین کر سکتے ہیں کہ لعزر کا زندہ کیا جانا اگرچہ اُس کی سابقہ کمزور زندگی سے کچھ بہتر نہیں تھا تو بھی اُس خاندان کےلئے برکت کا باعث تھا۔ یسوع کا اپنے دوستوں کو ہمدردی دکھلانے اور سب سے بڑی تسلی دینے کا یہ سب سے بہتر طریقہ تھا۔
اس میں شک نہیں کہ یسوع کے ہزاروں دوستوں نے اپنے کسی دوست کی جدائی کے غم کے وقت چاہا ہے کہ وہ لعزر کی طرح اُن کے پیارے کو واپس دے کر انہیں تسلی بخشیں۔ بہت دفعہ یسوع نے ایسا کیا ہے کہ اثر میں اُس کے برابر ثابت ہوا ہے۔
یعنی ایمان کی دعا کے جواب میں اُس نے اُن کے پیاروں کی جانیں بچا دی ہیں۔ جب ہم بیمار دوستوں کے لئے دعامانگتے ہیں تو بڑی فروتنی سے عموماً یہ مانگا کرتے ہیں کہ وہ شفا حاصل کریں مگر پُختہ بھروسے میں ہم اپنی سب سے زور آور خواہش کو بھی دبا لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں اگر یہ ہمارے پیاروں کےلئے بہتر نہیں ہے ،اگر یہ خدا کی راہ نہیں ہے تو تیری مرضی پوری ہو۔ اگر ہم ایمان کی دعا مانگیں تو ہم کو یقین کرنا چاہئے کہ نتیجہ خواہ کچھ ہی ہو مگر ہمار ے لئے وہی بہتر ہے جو خدا کو پسند ہے۔
اگر خدا کی دانائی اور محبت پر ایساس بھروسہ اور ایمان رکھنے کے بعد بھی ہمارا دوست اٹھا لیا جائے تو اِس اعتماد میں بڑی تسلی یہ ہوگی کہ خدا کی مرضی یہی تھی۔ حالانکہ ہمارے مُردہ کو از سرِ نو زندہ کر کے کوئی معجزہ نہیں کیا گیا تو بھی یسوع کی ہمدردی عملی تسلی پیدا کرتی ہے۔ لفظ تسلی کے معنی مضبوطی دینا ہے۔ ہم اپنے غم کو اُلٹانے کےلیے مدد پاتے ہیں۔ نوشتوں کی یہی
تعلیم ہے کہ جب ہم اپنی آزمائشیں کے وقت خدا کے پاس آتے ہیں وہ یا تو ہمیں اُن سے چھُڑاتا ہے یا برداشت کرنے کےلئے فضل بخشتا ہے۔ وہ اس بوجھ کو جو ہم اُس پر ڈالتے ہیں اٹھانے کا وعدہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے بوجھوں کو اٹھانے میں سہارہ دیتا ہے۔جب کسی انسانی دوست کی حضوری ہم سے چھین لی جاتی ہے تو مسیح پہلے سے زیادہ ہمارے نزدیک ہو جاتا ہے اور اپنی محبت اور فضل کو پہلےسے بھی زیادہ ظاہر کرتا ہے۔ مسیحی زندگی میں غم کا مسئلہ بہت بھاری ہے۔ یہ ضروری بات ہے کہ ہم اِس امر کو صاف صاف سمجھ لیں تا کہ برکت حاصل کریں اور فائدہ اٹھانے سے روکے نہ جائیں۔ ہر ایک غم جو ہماری زندگی میں آتا ہے خدا کی طرف سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہمارے لئے لاتا ہے۔ لیکن ہم اکثر فائدے کو رد کر دیتے اور بجائے اِس کے نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ تسلی جو خدا ہمیں دیتا ہے تکلیف کو دوسر کرنے یا ہمارے دِل کے حوا س کو مُردہ کرنے سے جہاں تک کہ ہم دکھ کو محسوس نہ کر سکیں نہیں دیتا۔ خدا کی تسلی اس میں ہے کہ وہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت بخشتا ہے۔ اگر ہم خدا کے وقت پر اپنی زندگی مسیح کے ہاتھوں میں سونپ دیں اور پختہ ایمان اور بھروسے کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیتے رہیں تو سب کچھ بہتر ہو گا۔ اور اگر رد کر دیں یا مخالفت کریں تو نہ صرف اُس تسلی کو ہی کھوئیں گے جو غم میں ہمارے لئے رکھی ہوئی ہے بلکہ اِس کے برعکس اپنی زندگی میں بھی نقصان اٹھائیں گے۔ جب کوئی شخص اس سے زیادہ تلخ مزاج ہو جاتا ہے تو اُس نے بجائے برکت کے نقصان اٹھایا ہے اور اگر ہم اپنے غم کو برکت اور بھروسے کے ساتھ قبول کریں تو ہم اُس کے سبب سے اپنی زندگی اور کیریکٹر میں زیادہ بہتر بن کر عُمدہ کام کےلیے مفید ہو جائیں گے۔
ایک جگہ ایک عورت کی تصویر ہے جو کسی بھاری غم میں مبتلا سمندر کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے ۔ کالے پانیوں نے اُس کے دل کے خزانے کو کھا لیا ہے اور وہ اپنے غم میں تسلی نہیں پاتی۔ اُس کے نزدیک ہی ایک فرشتہ اپنی بربط بجا رہا ہے۔ یہ تسلی کا فرشتہ ہے۔ لیکن عورت اپنے غم کی شِدت میں فرشتے کے چمکدار چہرے کو نہیں دیکھتی اور نہ ہی اُس کی بربط کی آواز سُنتی ہے۔ اکثر مسیحی گھرانوں کی ایسی ہی تصویر ہے۔ باوجود خدا کی محبت اور رحم کی کثرت کے دِل بے تسلی رہتا ہے۔
ایسا نہ ہونا چاہئے۔ یسوع میں تسلی کا لا محدود چشمہ موجود ہے۔ ہمیں صرف دِل کھول کر اُسے قبول ہی کرنا ہے۔
تب ہم الہیٰ محبت سے کمھا لے جا کر غم سے گُزریں گے اور اُس کے سبب سے کیریکٹر کی مضبوطی حاصل کر کے زندگی کی ہر ایک حالت میں برکت پائیں گے۔ ہماری زندگی کے غم ہم کو کئی سبق سکھلاتے ہیں۔ ہر ایک دُکھ میں برکت کا بیج ہے۔
ہر ایک آنسو میں دھنک چھپی ہوئی ہے۔
باب۔ 12
دوستوں سے الوداع
کیا اِس کا ہے مطلب کہ غم و رنج کی نسبت
خوشیوں کےلئے روتے ہیں ہم لوگ بکثرت
اور بعض دفعہ روتے ہیں ہم درد و الم پر
اور آنسوؤں میں پاتے کوشی کو ہیں برابر
افسوس! کہ اُن بچوں سی حالت ہوئی اپنی
ہاں! باپ کے گھر کےلئے جن کو ہو اداسی
ہم دیکھتے ہیں خواب دلآویز وہاں کے
خوش ہو کے یہاں زیست بسر کر نہیں سکتے
آخر کار انجام آپہنچا۔اس دنیا میں ہر ایک دوستی کا ایک نہ ایک دن خاتمہ ہوتا ہے۔ دو دلی عزیزوں کی شیرینی زندگی میں یہ واقع ضرور آتا ہے کہ ایک نہ ایک روز وہ باہم اپنی آخری سیرؔ کریں۔ آخری بار ایک دوسرے سے ہمکلام ہوں۔ بار آخر مصافحہ کریں۔ اور پھر ایک عازمِ مُلک جاودانی ہو اور دوسرا اُسی دنیائے دوں میں ٹھہرا رہے۔ دو دوستوں میں سے ایک کی یہ ضرور بد نصیبی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر اشک فشانی کرے۔
اور اِس خیال سے اور بھی آٹھ آٹھ آنسو روئے کہ میں ہی اکیلا اِس قبر پر رونے والا رہ گیا ہوں۔
اپنے شاگردوں سے یسوع کی دوستی نہایت ہی شیریں تھی۔ ایسی شیریں دوستی دنیا میں پہلے کبھی دیکھی نہ تھی کیونکہ یسوع کے دِل سا اور کوئی محبت کرنے والا اور محبت کی تحریک دینے والا دنیا میں پہلے کبھی ہُوا نہ تھا لیکن اِس دنیا میں یہ مقدس زندگی بھی ایک وقت کےلئے تھی۔یسوع کی گھڑی آخر کار آپہنچی۔ اگلے دِن وہ اپنے باپ کے پاس جانے والا تھا۔
الوداع بُری رقت انگیز تھی۔ اس لوداع کہنے کےلئے ایک بالا خانہ تجویز کیا گیا۔ جو یقیناً یوحنا مرقس کی ماں مریم کے مکان میں تھا۔ اِس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دوپہر کے وقت مسیح کے دو گہرے دوست بیت عنیاہ سے آئے کہ کمرے کی تلاش کر کے فسح کی تیاری کریں۔ یہ سب کام چُپکے چُپکے کیا گیا اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہوئی۔ کمرے کی دریافت بھی کی نہ گئی۔ لیکن ایک خاص جگہ پر ایک شخص پانی کا گھڑا اٹھائے مِلا۔جو ایک نہایت غیر معمولی واقع ہے۔ مسیح کے یہ دونوں پیغمبر چُپکے سے اُس شخص کے پیچھے ہو لئے اور یوں اُس مکان میں پہنچےجہاں وہ مہان خانہ تھا۔ جو مسیح اور اُس کے شاگردوں نے استعمال کرنا تھا۔
یہاں دونوں شاگردوں نے فسح کی ضروری تیاری کی۔
شام کے قریب مسیح اور اُس کے دیگر شاگرد اِس بالا خانہ میں آئے اول تو یہودیوں کے طریق کے مطابق عید فسح منائی گئی اور پھر نئے یادگار خداوند کی عشاء کاتقّرر ہوا۔اِس سے استاد اور شاگردوں کے مابین ایک بڑا مقدس رشتہ قائم ہُوا۔ یہوداہ اسکریوتی باہر چلا گیا تھا اور باقی سب یکدل اور ہم خیال تھے۔ اب الوداع شروع ہوئی۔ یسوع اُن سے رخصت ہونے کو تھا اور اُس کو یہ آرزوانمگیر تھی کہ میرے بعد شاگرد مجھے یاد رکھیں اُس کی یہ آرزو بالکل تقاضائے انسانی تھا۔ کون چاہتا ہے کہ میں فراموش ہوجاؤں۔ اس سے بڑھ کر کوئی خیال دل توڑنے والا نہیں ہو سکتا کہ میرے بعد احباب مجھے بالکل فراموش کر دیں۔
کسی دل میں میری یاد نہ رہے۔اور اس دنیا میں کہیں میرا یاد گار نہ ہو۔ ہم سب کو امید ہے کہ اس دنیا میں ہمارے چہروں کے مفقود ہو جانے کے مُدتوں بعد بھی عزیز و احباب کی یادِ محبت میں ہم جیتے رہیں گے۔ ہماری محبت جتنی مضبوط اور پاکیزہ رہی ہو۔
ہماری دوستی جتنی گہری ہو اُتنی ہی زیادہ ہماری آرزو ہو گی کہ اپنے محبوب کے دل میں ہماری یاد رہے۔
کئی وسائل اور طریق سے لوگ اس دنیا میں اپنا نام اور اپنی یاد تازہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بعض تو اپنی قبر آپ بنواتے ہیں۔
اس دنیا میں بقا حاصل کرنے کا یہ طریق نہایت دلسوز ہے۔ بعض ایسے کارنمایاں کرتے ہیں جو تواریخ کے صفحوں میں روشن رہیں۔
بعض کتابوں میں اپنا نام کندہ کر لیتے اور یوں بقائے دوام کا سہرا پانے کی امید رکھتے ہیں۔
محبت کا دلوں میں جگہ بنانا سب سے بہتر طریق ہے۔ خداوند کی عشا کے تقرر سے ظاہر ہے کہ یسوع کے دل میں اپنی اید چھوڑ جانے کی کیسی خواہش تھی۔ اس نے فرمایا کہ ”جب میں چلا جاؤں تو مجھے بھول نہ جانا “ اور اس خیال سے کہ میں فراموش نہ ہو جاؤں اُس نے روٹی اور مے لی اور روٹی توڑ کر اور مے انڈیل کر اُس نے اپنے احباب کو بطور اپنی یادگار کے دی۔
اُس نے اس لواداعی کھانے کو اپنی نجات بخش محبت کے بڑے بڑے کاموں سے متحد کیا۔ یہ روٹی جو میں نے توڑی ہے میرے شکستہ بدن کا نمونہ ہو کر دنیا کےلئے روٹی ہو۔ ”یہ مے جو میں اب تمہیں پیالے میں ڈال کر دیتا ہوں اُس لہوُ کا نشان ہو جو میں نے تمہارےلئے بہایا ہے“۔ خداوند کی عشا کا کچھ ہی مفہوم کیوں نہ ہو اب سے اول یہ ایک یادگار ہے۔ یہ استاد کی اُس آرزو کا اظہار ہے کہ میرے احباب مجھے یاد رکھیں۔ آج کے روز ہمیں بھی جو مسیح کے دوست ہیں وہ دِل کی اس آرزو کو پیش کرتا ہے
”مجھے یاد رکھ۔مجھے بھول نہ جانا۔ میری اُس محبت کو یاد رکھنا جو میں نے تم سے کی۔“ یسوع کی الوداع یوں بڑی مبارک ٹھہری۔
اس کی یاد اپنی نرمی اور سرگرمی کے باعث تب سے دنیا کی برکت کا موجب ٹھہری ہے۔ کوئی شخص اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس بالا خانہ میں اُس رات کے واقعات نے ان بیس مسیحی صدیوں کی زندگی پر کیا تاثیر ڈالی ہے۔
یسوع کی الوداع صرف یہ خداوند کی عشاء ہی نہ تھی۔ اُس کا اُس وقت کا کلام تب سے مومنین کےلئے روٹی مے ہاں مسیحی کا بدن اور لہو رہا ہے۔ ان گیارہ شاگردوں کےلئے جو اس وقت دسترخوان پر بیٹھے تھے یہ الفاظ نہایت ہی بیش قیمت تھے۔ ان میں سے ایک نے جو اُس رات خداوند کی چھاتی پر تکیہ لگائے بیٹھا تھا ان الفاظ کو اپنے بڑھاپے میں یاد رکھا اور ان کو ہمارے لئے قلمبند کیا۔
اس ایک بات میں ان عجیب الوداعی الفاظ پر بخوبی غور کرنا مشکل ہے۔ صرف چند خاص خاص باتوں پر فکر کیا جائے گا۔
یہ الوداعی الفاظ ایک نصیحت وہاں ایک نئے حکم سے شروع ہوئے۔ کہ ”تم ایک دوسرے سے محبت رکھو“ہم بخوبی سمجھ نہیں سکتے کہ جب خداوند کے احبا ب کو یہ حکم دیا گیا تو کیونکر فی الواقع یہ ایک نیا حکم تھا۔دنیا نے ایسی محبت جو یسوع اُس کی سرد فضا میں لایا پہلے کبھی نہ جانی تھی۔
وہ لوگوں میں یہ الہیٰ محبت کی زندگی جی چُکا تھا۔ اب اُس کے احباب کو یہ محبت قائم اور جاری رکھنی تھی۔
”جیسے میں نے تم سے محبت کی تم بھی ایک دوسرے سے ایسی محبت رکھو“مسیح کے دوستوں نے اس محبت کو بڑے ادھورے طور پر سیکھا ہے۔ تاہم جہاں کہیں انجیل گئی وہاں ہمدردی کی لہر پھر گئی ہے۔
پھر ایک تسلی کا کلمہ کہا گیا جو کہ سرود تب سے جہان میں جاری ہے ”تمہارا دل نہ گھبرائے۔تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان لاؤ“تئیسویں زبور کے سواپارنجل کا کوئی اور فِقرہ مقدس یوحنا کی انجیل کے چودھویں باب کے ان ابتدائی الفاظ کے برابر دنیا کی تسلی اور اطمینان کا وسیلہ نہیں ٹھہرا۔ ان الفاظ نے غمزدہ شاگردوں کویقین دلایا کہ خداوند ان کو بھُولے گا نہیں۔
اور کہ اُس کی موت سے وہ کام جو اُس نے اُن کےلئے شروع کیا تھا منقطع نہ ہوگا۔ اور کہ وہ اُن کےلئے جگہ تیار کرنے کو جا رہا تھا۔اور پھر اُن کو اپنے پاس لے جانے کےلئے واپس آئے گا۔ تا کہ جہاں وہ ہے وہ بھی وہیں رہیں۔
اُس نے ان کو یہ بھی یقین دلایا کہ گو وہ خود جا رہا تھا اس کی اپنی بدنی حضوری سے کچھ بہتر اور بڑھ کر اُن کوچیز دی جائے گی۔
ایک اور تسلی دینے ولا آئے گا تا کہ وہ یتیم نہ رہیں۔
خداوند کے الوداعی الفاظ کا کچھ حصہ چند سوالوں کا جواب تھا جو اُس کے احباب نے اُس سے پوچھے۔
اُن کی اپنی اپنی مُشکلات تھیں۔انہوں نے اپنی اپنی مشکلات خداوند کو پیش کیں۔ اور اُس نے رفع مشکلات کی سبیل بتلائی۔
سب سے پہلے پطرس نے سوال کیا۔ یسوع نے اپنے جانے کا ذکر کیا تھا۔پطرس نے اُس سے پوچھا خداوند تو کہاں جاتا ہے ؟“
یسوع نے اُسے جواب دیا کہ”جہاں میں جاتا ہوں تو وہاں آ نہیں سکتا۔ لیکن کسی دن تو وہاں آئیگا“پطرس بڑا دلیر تھا۔اور وہ یہ بات سُن نہیں سکتا تھاکہ کوئی ایسی جگہ بھی ہے جہاں وہ خداوند کے پیچھے جا نہیں سکتا۔ اس لئے پطرس نے بڑے وثوق سے کہاکہ
”تیری خاطر میں اپنی جان دینے کو بھی تیار ہوں“ خداوند نے جواب میں کہا کہ ”کیا تو میری خاطر اپنی جان دیگا؟“
کہا”بیشک“تب اُس نے پطرس کے افسوس ناک اور دِل توڑنے والے گِرنے کا ذکر کیا کہ کیونکہ جان دینے کی بجائے وہ اپنے خداوند کا انکار کرے گا۔ جب یسوع اپنے باپ کے مکان اور اپنے احباب کے پاس واپس آنے کا ذکر کرچکُاتو توما نے اُس سے سوال پوچھا۔یسوع نے فرمایا تھا
”جہاں میں جاتا ہوں تم جانتے ہواورراہ بھی تم جانتے ہو“توما بڑا کم فہم اور بال کی کھال نکالنے کا عادی تھا۔
وہ کسی بات کو فرض نہ کر لیا کرتا تھا۔ جب تک وہ کسی بات کو سمجھ نہ سکےاُس کو مانا نہ کرتا تھا۔
”خداوند ہم نہیں جانتے کہ تو کہاں جاتا ہے اور ہم راہ کو کس طرح جانیں “ہم کو خوش ہونا چاہئے کہ توما نے یہ سوال کیا کیونکہ اُس کا ایک عجیب جواب مِلا۔ یسوع خود راہ اور سچائی اور زندگی ہے۔ یعنی مسیح کو جاننا ان تمام باتوں کو جاننا ہے۔
جو ہمیں آسان اور اُس کی راہ کی نسبت جاننی ضرور ہیں۔ یسوع کو اپنا منجی ، دوست اور خداوند ماننا تاریک راہ میں سے اُس کی ہدایت سے وطن کو پہنچنا ہے۔
یسوع نا صرف وہ دروازہ ہے جو اُس راہ میں کھُلتا ہے بلکہ وہ خود راہ ہے اور راہ میں وہ راہبر ہے۔ وہ خود اس راہ میں سے گُزر چُکا ہے۔ ہر کہیں ہمیں اس کے نقش پا ملتے ہیں۔ اس سے بھی کچھ بڑھ کر وہ خود وہی راہ ہے اور راہ کی نسبت سچائی اور وہ زندگی جو راہ میں ہمیں تحریک دلاتی ہے۔ اس کا دوست ہونا کافی ہے۔ ہمیں یہ پوچھنا ضرور نہیں کہ وہ کہاں گیا ہے۔
اور کہ راہ کِدھر یا کون سی ہے ہمیں صرف اِس میں قائم رہنا ہے۔
مضبوط ہم کو صد!شکر وہ ملا ہے
جگہ سے ہے واقف اور راہ جانتا ہے
اِس راہ سے سفر وہ ایک بار کر چکا ہے
پیغامبر ہے۔در ہے۔ راہ اور راہنما ہے
پھر فیلبوس نے ایک سوال کیا۔ اُس نے خداوند کا جواب جو اُس نے توما کو دیا سُنا تھا۔ فیلبوس کُند ذہن اورغبی تھا لیکن بڑا وفادار اور کامن ننس کا آدمی تھا۔ قُوتِ متخّیلہ سے بالکل عاری تھا۔ روحانی رموز بالکل سمجھ نہیں سکتا تھا۔
صرف امر واقع اس کے ذہن میں آتا تھا۔ یسوع نے جو باپ کو دیکھنے اور جاننے کا ذکر کیا تو یہ الفاظ اُس کے کان میں پڑ گئے۔
وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ باپ کو دیکھے۔ وہ خدا کی رویا دیکھ رہا تھا۔ مسیح بڑا صابر تھا اور اپنے شاگردوں کی کُند ذہنی سے مایوس نہ ہوجاتا تھا۔ لیکن فیلبوس کے ان الفاظ سے اُس کو سخت چوٹ لگی۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس تین سال کے عرصہ میں فیلبوس نے کیسا تھوڑا سیکھا تھا۔ ”میں اتنا عرصہ تمہارے ساتھ رہا اور تو نے اب تک مجھے نہیں جانا“
پھر یسوع نے بتایا کہ وہ باپ کو ان پر ظاہر کر رہا تھا۔ اور فیلبوس اس امر کا خواہاں تھا۔
کچھ دیر یہ مشنقانہ الفاظ یسوع کی زبان پر رہے اور وہ اپنے آپ کو شاگردوں پر ظاہر کرنے کا ذکر کر رہا تھا کہ ایک اور سوال اُس کا مخل ہُوا۔ اِس دفعہ یہوداہ سُخن گو ہوا۔ یہ یہوداہ اسکریوتی نہ تھا۔ کیونکہ اُس کا نام بغاوت کے دھبہ سے داغدار ہو چکا تھا۔
وہ باہر رات کے اندھیرے میں چلا گیا تھا اور شاگردوں کے خاندان سے الگ ہو چکا تھا۔ یہوداہ سمجھ نہ سکتا تھا کہ یسوع کو کس طرح اور کس خاص طریق سے اپنے آپ کو شاگردوں پر ظاہر کرے گا۔
شاید یہوداہ کا یہ خیال تھا کہ مسیح کے پیرو اس طرح جُدا اور الگ کئے جائیں گے۔ جیسے اسرائیل اور قوموں سے ممّیز کئے گئے تھے۔ لیکن یسوع نے اپنے شاگردوں کے دلوں سے ایسی تنگ خیالی کو فوراً دور کر دیا۔ اس کے انکشاف کی صرف ایک شرط تھی۔
اور وہ محبت۔ہر ایک پر جو اُس سے محبت رکھے اور اُس کے حکم کی فرمانبرداری کرےوہ اپنے آپ کو ظاہر کرے گا۔
اپنے شاگردوں کے ان تمام سوالات کا جواب دینے کے بعد یسوع نے اپنے الوداعی کلمات پھر شروع کئے۔
اُس نے اپنے دوستوں کو کئی عطیات دیئے اور اپنی ملکیت سب میں تقسیم کی۔ ہمارے دل میں خواہ مخواہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کیا جائیداد چھوڑ مرا۔اس کے پاس مکانات یا زمین ، چاندی یا سونا تو نام کو نہ تھا۔جب وہ صلیب دیا گیا تو سپاہیوں نے اُس کے کپڑے آپس میں بانٹ لئے۔ لیکن جائیداد اور منقولہ وغیرہ منقولہ کے علاوہ اور مقبوضات ، ملکیت بھی ہوتی ہے کوئی شخص بڑا اعلےٰ اور شریف نام پیدا کرتا ہے۔ اور اپنے لواحقین کو اپنا نام ورثہ میں دے جاتا ہے۔ لیکن ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس آخری رات اُس بالا خانہ میں یسوع کے پاس نہ نام تھا اور نہ طاقت تھی جو وہ اپنے دوستوں کو دے جاتا۔ اگلے دن اُس نے صلیب ٌپر چڑھنا تھا اور اُس کی زندگی میں ہر ایک خوبصورتی اور امید کا خاتمہ ہوا معلوم ہوتا تھا۔
تاہم اُس نے اپنے مرتے وقت عطیات بڑے اطمینان سے کئے اس امر کا احساس رکھتے ہوئے کہ میرے پاس وہ کچھ ہے جو کسی گنج قارون کی نسبت کہیں زیادہ دنیا کی برکت کا موجب ٹھہرے گا۔ جو میں پیچھے چھوڑ جاؤں۔اُن میں سے ایک عطیہ اُس کا اطمینان تھا۔
”میں تمہیں اطمینان دیئے جاتجا ہوں۔اپنا اطمیان تمہیں دیتا ہوں“ یہ اُس کا اپنا اطمینان تھا۔ اگر یہ اطمینان اُس کا اپنا نہ ہوتا تو وہ اپنے شاگردوں کو کیسے دے سکتا۔ ہم دوسروں کو وہ چیز کبھی دے نہیں سکتے جو ہمیں خود حاصل نہ ہو۔
یہ اُس کا اپنا تھا کیونکہ اُس نے اس کو اپنے زور سے حاصل کیا تھا۔ اطمینان محض راحت اور آرام نہیں ہے۔ نہ یہ جھگڑے اورلڑائی کی عدم موجودگی ہے۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو سخت سے سخت لڑائی اور ہنگامہ کے بیچ میں بھی قائم رہتی ہے۔
یسوع دنیا کے اطمینان ، راحت و آرام سے آشنا تھا۔ لیکن دِلی چین کا اُس نے ایک ایسا راز پایا تھا جس میں دنیا کبھی خلل انداز نہ ہو سکتی تھی۔ یہ اطمینان اُس نے اپنے شاگردوں کو دیا اور اُس سے وہ ایسے غنی ہوئے کہ دنیا کی ساری دولت سے بھی ہوتے۔
اپنی ایک اور ملکیت جو شاگردوں کو دے گیا اُس کی خوشی تھی۔ ہمارا خیال مسیح کی نسبت ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ وہ مردِغم تھا اور ہم زرا حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ بھلا اِس کے پاس کون سی خوشی تھی جو وہ اپنے شاگردوں کو دے گیا۔
اور ہو نہ ہو خوشی کا ذکر کرنے کا یہ وقت بھی کون سا تھا۔ کیونکہ وہ گتسمنی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ اور دوسرے روز اُس نے صلیب پانا ہے۔ تاہم اِس بالا خانہ میں اُس کے دِل میں ایک نہایت مبارک خوشی تھی۔
اس تاریک ساعت میں بھی جو اُس پر آئی اُس کی وہ خوشی سرِموکم نہ ہوئی کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ”اُس خوشی کے باعث جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا“یہ خوشی اُس نے اپنے شاگردوں کو بھی دی
”میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں تاکہ میری خوشی تم میں ہو“۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شاگردوں نے یہ ورثہ ضرور پایا۔
جب خدا کے یہ بندے دنیا میں گئے تو اُس خوشی کے عجیب راز سے دنیا حیران ہوتی تھی۔ تاریک سے تاریک راتوں میں وہ خوشی کے نغمے گاتے تھے۔ بڑے سے بڑے غم کی حالت میں اُن کے چہرے گویا کسی مقدس اندرونی نور سے روشن تھے۔ مسیح کی خوشی اُن میں پوری ہوئی۔
رُخصت ہوتے وقت اُس نے اپنی تمام میراث جو اُس کو بہ حیثیت خدا کا اکلوتا بیٹا ہونے کے حاصل تھی اپنے دوستوں کے پنجے میں کر دی۔ آسمان کی چابی اُس نے اُن کے ہاتھوں میں دے دی۔ اُس نے اُن کو بتایا کہ جو کام انہوں نے اُس کو کرتے دیکھا تھا وہ ایسے کام بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر کام کرنے کی طاقت اور قدرت پائیں گے۔ اُس نے یہ بتایا کہ جو کچھ تم میرا نام لے کر باپ سے مانگو گے وہ تمہیں دے گا۔
اُس کے نام کی تمام طاقت اُن کی ہو گی اور جیسے وہ چاہیں اُس طاقت سے کام لیں۔ اُن کی کسی درخواست سے انکار نہ کیا جائے گا۔تمام آسمانی بادشاہت اُن کےلئے کھُلی ہو گی۔
جو عطیات مسیح اپنے رخصت کے وقت شاگردوں کو چھوڑ گیا یہ صرف اُن کا خلاصہ ہے۔اپنا اطمینان ، اپنی خوشی اپنی بادشاہت کے تمام خزانوں کی چابی۔ اپنی زندگی میں اُس نے اُن کو عجیب طریق سے برکت دی تھی۔ لیکن اُس کی محبت کی سب سے عُمدہ چیزیں اور سب سے بڑی برکت اُس کی موت کے وسیلے دی گئی۔ جو کسی اور طریق سے دی نہ جاتی۔ ؎
اور لوگ بھی ہیں جو نیک کام کرنے کےلئے جیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنا غروب ہونے سے پیشتر اپنے کام کو انجام دیں۔
خدا کا منصوبہ بھی یہی ہے کہ پیشتر ازیں کہ اُن کے دنوں کے انجام پر موت ”خاتمہ“ کندہ کرےوہ اپنا کام ختم کریں۔
لیکن مسیح کےلئے خدا کا ارداہ اِس کی موت میں تھا۔ خداوند کی عشاء کے اجزاء میں وہ برکتیں ظاہر کی گئی تھیں جو اُس کے مرنے کے باعث ظہور میں آنے والی تھیں۔ شکستہ بدن اور بہا ہوا خون۔ وہ عطیات جو اُس نے اپنے دوستوں کو دیئے اور جن کا ذکر اُس نے اپنے الوداعی کلمات میں کیا اُس کی موت پر حاصل ہونے تھے۔
تمام لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کےلئے ضرور تھا کہ وہ بلندی پر چڑھایا جائے۔ گناہوں کی معافی دینے کےلئے اُس کو اپنا خون بہانا ضرور تھا۔
اس کا جانا اُن کےلئے فائدہ مند تھا تا کہ تسّلی دینے والا آئے۔ اُس کا اطمینان اور اُس کی خوشی ایسے عطیات تھے جو تب ہی مل سکتے تھے کہ جب وہ دنیا کا نجات دہندہ ہو کر اپنی جان دے چُکے۔ اُس کے نام میں آسمان کے خزانے کھولنے کی طاقت اُسی وقت حاصل ہو گی کہ جب کفارہ ہو چکے اور شفیع آسمان میں خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہو۔
یسوع کی اس لوداع میں ایک اور بات تھی۔ اپنا یہ شفقت آمیز کلام ختم کر کے اُس نے اپنی آنکھیں دعا میں اپنے باپ کی طرف اٹھائیں۔ اُس کی سفارش بڑی شفقت آمیز اور رقتب انگیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک ماں اس دنیا سے رخصت ہونے کو ہے اور اپنے بچوں کو آسمانی باپ کی شفقت پدری کے حوالہ کر رہی ہے اور جانتی ہے کہ میں اُن کو نامعلوم اور خطرناک دشمنوں کے درمیان ماں کی محبت اور پناہ کے بغیر چھوڑے جاتا ہوں۔
اس عجیب دعا کے لفظ لفظ سے محبت ٹپکتی اور ایک نہایت محبت بھرا دل ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے احباب کے ساتھ تھا تو اُس نے اُن کو اپنی الہٰی قدرت کے سایہ تلے رکھا تھا۔ اُس نے ایسی وفاداری اور جان نثاری سے اُن کی نگہبانی کی تھی۔
سوائےہلاکت کے فرزند کے کوئی گُمراہ نہ ہُوا تھا۔ ہلاکت کے فرزند کی نگہبانی بھی اُس نے کماحقہ کی تھی اور یہ اچھے گڈریئے کا قصور نہ تھا کہ یہ بد نصیب ہلاک ہوا۔ وہ ہلاک اِس لئے ہوا کہ اُس نے الہٰی محبت کا مقابلہ اور الہٰی مرضی کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کیا تھا۔ جب یسوع نے اپنے باپ سے اس کم نصیب کا جو ہلاک ہوا ذکر کیا تو اُس کے دِل میں بڑا درد ہوا ہو گا لیکن باقی سب سلامت تھے۔ یسوع نے اب تک تمام خطروں میں سے اُن کو بچائے رکھا تھا۔
لیکن وہ اب اُن سے رخصت ہونے کو ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُن کو بڑی بڑی مشکلات اور خطروں کا سامنا ہو گا اور اُن کی حفاظت کو میں نہ ہوں گا اُن کے لئے اُن کی طرز شفاعت قابل ِ غور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ وہ اس دنیا سے اٹھا لئے جائیں۔
محبت کا تقاضا تو شاید یہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن الہٰی طریق یہ نہیں ہے کہ ہمیں جنگ میں سے نکال لیا جائے۔ مسیح کے اُن دوستوں کو تربیت دی گئی تھی کہ اُس کے گواہ ہوں اور اُس کے جانے کے بعد اُس کے قائم ِ مقام بنیں۔
اس لئے کیسی ہی مشکلات اور خطرے کیوں نہ ہوں اُن کا دنیا میں ٹھہرنا ضرور تھا۔ اُس نے یہ دعا کی کہ ”شریر سے ان کی حفاظت کر“۔ اور بُرا ہے ، ایذارسانی ،زمینی تکالیف ، اور نقصان ، غم اور درد سے بچے رہنے کےلئے دعا کی نہ گئی۔
یہ کوئی ایسی برائیاں اور شرارتیں نہیں ہیں کہ جن سے انسانی زندگی محفوظ رکھی جا سکے۔ ایک ہی شریر ہے اور وہ گناہ ہے۔
تکلیف اور مصیبت میں ہمارا خطرہ یہ نہیں کہ ہم دُکھ اٹھائیں بلکہ یہ کہ ہم کہیں گناہ نہ کریں۔
اپنے دوستوں کےلئے یسوع کی دعا و منت یہ تھی کہ وہ گناہ سے اپنی روحوں اور اپنی روحانی زندگی میں نقصان نہ اٹھائیں۔
اگر دشمن ہمیں نقصان پہنچائیں یا ہمیں تکلیف دیں تو خطرہ اس بات کا نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ بے انصافی ہو اور بلا وجہ ہمیں نقصان پہنچے بلکہ خطرہ اس امر کا ہے کہ اپنی مصیبت میں محبت ہمارے دلوں سے جاتی رہے اور ہم غصہ ور یا تلخ مزاج ہو جائیں۔
بیماری ، مصیبت یا مفارقت کے وقت ہمیں بیماری یا غم سے ترساں ہونا نہ چاہئے بلکہ اس سے کہ مبادا خدا کا اطمینان ہمارے دل میں نہ رہے اور ہم شیریں مزاجی کھو بیٹھیں۔ ایک ہی بات ہمیں سچ مُچ نقصان پہنچا سکتی ہے اور وہ گُنا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے ہمیشہ یہی شفاعت کی جاتی ہے نہ یہ کہ ہم دنیا کی دشوار گزار راہوں اور درد ناک تجربوں سے بچے رہیں۔
بلکہ یہ کہ ہم پاکیزہ، حلیم اور خدا کے فرمانبردار بنے رہیں اور اطمینان اور خوشی ہمارے دلوں میں ساکن رہے۔
اس امر کی التجا بھی تھی کہ اُس کے شاگردوں کو اپنی روحیں کلّیہ تقدیس کرنے کی توفیق ملے اور وہ اپنے اُستاد کےلئے باہر دنیا میں جانے کےلئے تیار رہیں اور دنیا کےلئے وہ کچھ بنیں جو خداوند اُن کے لئے رہا تھا۔ یہ اس بات کےلئے دعا نہ تھی کہ اُن کی راہ میں پھول بِچھے رہیں۔ بلکہ یہ دعا صلیب کےلئے تھی کہ وہ اپنی زندگی کلّیہ طور پر خدا کو نثار اور تسلیم کر دیں۔
دعا ختم کرنے سے پیشتر اُس نے اُس نے اپنے دوستوں کےلئے آخری آرزو کا اظہار کیا کہ جب دنیا میں اُن کا کام ختم ہولے وہ اپنے وطن اور گھر میں باریاب ہوں کہ جہاں وہ کود ہوں وہاں اُس کے دوست بھی ہوں تا کہ اُس کا جلال دیکھیں۔
بیشک ایسی پُر مطلب اور ست سنگت دنیا میں کبھی نہیں ہوئی جیسی یہ الوداعی میٹنگ اِس بالا خانہ میں تھی۔
یہاں یسوع اور اُس کے برگزیدوں کی دوستی اپنے سب سے مقدس تجربہ پر پہنچی۔ اس کی گہری انسانی محبت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے آخری روز کی ساری شام اپنے دوستوں کے ساتھ بسر کی۔ وہ جانتا تھا کہ آدھی رات کے بعد اُس پر کیا کچھ گُزرنے والا تھا۔ گتسمنی کی سخت جان کنی ، یہوداہ کا اُس کو پکڑوانا ، اُس کا گرفتار ہونا ، اُس کا ملزم ٹھہرایا جانا ، اور پھر اگلے روز کی شرمساری اور اذیت اس لئے اُس نے تجویز کی تھی کہ اُس کی اذیت کے تجربہ سے پیشتر یہ وقت آرام و اطمینان سے اپنے دوستوں کے ساتھ کٹ جائے۔ یہ اُس نے اپنے لئے کیا تھا۔ اُس کا دل دوستوں کی سنگت کا اشتیاق رکھتا تھا۔
”اُسے بڑی آرزو تھی کہ دُکھ سہنے سے پہلے یہ فسح اُن کے ساتھ کھائے “ ہم کسی قدر یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس مقدس سنگت سے اُس کو تسلی اور قوت ملی جو بعد کی تاریک ساعتوں میں اُس کی پُشتی کا موجب ٹھہری۔
اُس نے یہ اپنے شاگردوں کی خاطر بھی کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میرے پکڑوائے جانے پر اُن کے دل کیونکر غم سے شکستہ ہوں گے اور وہ خواہاں تھا کہ اُن کو تسلی دے اور راہ کےلئے ان کو مضبوط کرے۔ اس مقدس وقت کی یاد اُن کے غم کی شبِ تاریک میں مشلِ ستارہ کےآویزاں درخشاں رہی اور ان کی زندگی بھر اُن کی برکت کا موجب ٹھہری۔
کون بتا سکتا ہے کہ اس الودع سے ان بیس صدیوں میں مسیح کی تمام کلیسیا کو کیا برکتیں ملی ہیں ؟
مسیحی تواریخ کا یہ قدوس الاقداس ہے۔ خداوند کی عشاء نے جو اُس رات مقرر ہوئی اور جو تب سے خداوند کی عجیب محبت اور قربانی کی یادگار مانی جاتی ہے اپنی مہکدار یادگار سے دنیا کو شیریں اور معطر کر دیا ہے۔ دسترخوان پر خداوند نے جو الفاظ فرمائے وہ جہاں کہیں انجیل خوشخبری پہنچی ہے زبان اور دِل سے دوہرائے گئے ہیں۔ اور لاکھوں دلوں کی تسلی کا موجب ٹھہرے ہیں۔ اس شفاعتی دعا کی مناجاتیں بخور کی طرح برابر اوپر اُٹھتی اور مومنین کی ہر ایک نئی پُشت کو اپنے زِمرہ میں شامل کرتی رہی ہیں۔
اس الوداع نے تمام صدیوں کے مسیحی دلوں کو اُس کی محبت سے شرابور رکھا ہے جو کبھی نہ بدلنے والا دوست کل آج اور ہمیشہ تک یکساں ہے۔
باب۔13
مرُدوں میں سے جی اٹھنے کے بعد کی دوستی
اپنے رہیں گے دائم جو ہیں عزیز اپنے وہ خالق اپنی بخشش واپس نہ لے گا ہم سے
ہو جائیں اگرچہ اوجھل نظروں سے ہماری پر ہے یقیں اپنی روح اُن کو ڈھونڈ لے گی
وقت انتطار کا سب ہو جائےگا جو پورا اُٹھ جائے گا ہمارے دل سے فنا کا سایہ
نہ کہ عوض میں ہوگا حاصل جلال ہم کو شک کی جگہ ملے گی تسکین کمال ہم کو
ہمارے دل میں اکثر یہ خیال آتا ہے اُس کی زندگی کے بعد کیا ہوگا ؟
ہماری زندگی کس قسم کی ہوگی؟ اور اس دنیا کے عزیز و احباب سے وہاں ہمارے تعلقات کیسے ہوں گے؟
موت سے انسانی محبت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کیا دوستی کے رشتے جو اس دنیا میں ایسے مضبوط ہوتے موت سے ٹوٹ جاتے ہیں ؟
یا کیا اس زندگی اور موت کے بعد بھی یہ دوستی کا رشتہ قائم رہتا اور صرف کچھ عرصہ کے معرضِ التوا میں آتا ہے ؟
اگلے جہان کی نسبت واقفیت حاصل کرنے کی خواہش بالکل قُدرتی اور جائز ہے۔سچ ہے کہ جب تک ہم اس دنیا میں ہیں اگلے جہان کی نسبت ہم بہت کچھ آگاہی حاصل نہیں کر سکتے۔ انسانی آنکھیں اس رازِ سربستہ کی کیفیت دیکھ نہیں سکتیں۔ ہم تو گویا ایک بحِربے پایاں کے کنارے کھڑے حیرانی سے پوچھ رہے ہیں کہ اس کے پار دوسری طرف کیا ہے۔ اس دور ُملک سے واپس آکر کسی نے وہاں کی خبر ہمیں نہیں دی۔ کلام اللہ سے بھی ہمیں بہت مدد نہیں ملتی۔ الہام بھی اس مبارک زندگی کے بارے میں بہت کچھ نہیں بتاتا۔ ہم جانتے یہں کہ تجسم سے پیشتر ابنِ اللہ ہمیشہ آسمان پر رہتا تھا اور ہمیں خیال آتا ہے کہ وہی ہمیں بتائےگا کہ آسمانی دروازوں کے اندر کس قسم کی زندگی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے سوالات پر وہ بھی خاموشی اختیار کر لیتا اور ہمیں کچھ نہیں بتاتا۔ جس جگہ سے وہ آیا اور جہاں واپس گیا اور جہاں اُس نے فرمایا کہ میرے شاگرد فراہم ہوں گے۔
وہاں کے نقش و نگار ، وہاں کے دلفریب نظاروں اور وہاں کے باقطع بازاروں کا کچھ حال ہمیں نہیں سناتا۔
نہ ہمیں یہ بتایا کہ اس دریا کے ساکنین کام کیا کرتے اور اپنا وقت بسر کیسے کرتے ہیں۔ نہ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ موت کے بعد ہماری دوستی ایک دوسرے سے کیسی ہو گی۔بایں خیال کہ یسوع بھی ہمیں بہت کچھ آگاہی نہیں دیتا شاید ہم بے حوصلہ ہو کر اس دریافت کا شوق کھو بیٹھیں۔ تا ہم اُس نے ہمیں بہت کچھ بتایا ہے۔ ایک عجیب انکشاف ہے جس اکثر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ موت اور قبر میں تین دن رہنے کے بعد پھر جی اُٹھا اور زمین پر چالیس روز رہا اِس عرصہ میں اُس نے پرانے تعلقات پھر اختیار نہ کئے۔جیسے وہ پہلے اپنی خدمت کے تین سال شب و روز اپنے شاگردوں کے ساتھ رہتا۔ اُن کے ہمراہ سفر کرتا۔ اُن سے گفتگو کرتا اور اُن کو معجزے دکھاتا تھا ۔ اب اُس نے ایسا نہ کیا۔
صرف چند بار اُن پر ظاہر ہوا۔
اس چالیس دن کے عرصہ میں مسیح کے اپنے شاگردوں پر ظاہر ہونے میں ہم یہ ایک عجیب بات پاتے ہیں کہ وہ موت سے پرے معلوم ہوتا ہے۔ لعزر بھی موت کے بعد اس زندگی میں واپس آیا تھا۔ لیکن اُس کی زندگی وہی پرانی زندگی تھی۔
اپنی بہنوں اور دیگر احباب سے اُس کے وہی پرانے تعلقات قائم ہوگئے تھے اور اُن میں غالباً بہت کچھ فرق نہ آیا تھا۔
لعزر وہی پہلا سا انسان تھا اور وہی پہلی سی انسانی کمزوریاں اور خطائیں اُس میں پائی جاتی تھیں۔
قبر سے واپس آنے پر یسوع موت سے پرے معلوم ہوتا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جو تینتیس برس اس دنیا میں جیا۔
اور مصلُوب ہوا۔ پر تاہم اس میں ایک عجیب تبدیلی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ جب چاہتا ظاہر ہو جاتا اور پھر جب چاہتا نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔ بند دروازوں میں سے وہ اندر کمروں میں آجاتا تھا۔ آخر کار اُس کو بدن زمین سے اوپر کو صعود کر کے آسمان پر چڑھ گیا اور قوانین مرکز الثقل کا تابع نہ رہا۔ اس لئے اُن چالیس روز کے عرصہ میں ہم یسوع میں ایک ایسا شخص پاتے ہیں جو گویا دوسری زندگی میں جا پہنچا ہے۔
جو کچھ وہ تب تھا وہی اُس کے بندے ہوں گے جس حال کہ وہ موت میں سے روحانی بدنوں کے ساتھ نکلیں گے کیونکہ جو سو گئے ہیں اُن میں وہ پہلا پھل تھا۔
جب ہم یسوع کو اس چالیس روز کے عرصہ میں دیکھتے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اس میں کیسی کم تبدیلی آئی۔
موت کے کوئی نمایاں نشان اُس میں باقی نہ رہے۔اُس کی زندگی کی کوئی خوبصورتی قبرمیں جاتی نہ رہی۔ موت کے سایہ سے وہ ویسا ہی انسان واپس آیا جیسے وہ وادی میں داخل ہونے سے پہلے تھا۔ موت سے اُس کی انسانی ہمدردی کم نہ ہوئی ،
اُس کی حلیم مزاجی میں فرق نہ آیا۔ اُس کی خوش اطواری پر فرق نہ پڑا۔ جب شاگردوں کے ساتھ ہم اُس کو ملِتے جُلتے اور بات چیت کرتے دیکھتے تو اُس کے خاص انداز و اطوار جو اُس کی خدمت کے پہلے تین سال اُس کی طبعیت کا خاصہ تھے اب بھی اُس میں پاتے ہیں۔
ہم اس سے بجا نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اپنی نئی زندگی میں مسیح کی مثال ہم میں بہت تبدیلی واقع نہ ہو گی۔
ہمارے گناہ ہماری کمزوریاں اور خطائیں ہمارے عیب اور داغ ہم سے جاتے رہیں گے۔ ہماری جبّلی طاقتیں اور قوتیں جو دیر تک بند اور رُکی رہی تھیں آزاد ہوں گی۔ ہماری سیرت کی چھپی ہوئی خوبصورتیاں چمک اٹھیں گی۔جیسے فوٹو گرافر کی پلیٹ میں تصویر ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی کئی تبدیلیاں ہم میں واقع ہوں گی۔ لیکن ہماری شخصیت ویسی کی ویسی رہیگی۔ یسوع کے احباب نے اُس کو با آسانی پہچان لیا۔ ہمارے عزیز بھی ہمیں پہچان لیں گے۔ یہاں اس زندگی میں جو کچھ عمدہ اور پسندیدہ ہے۔
روحانی فتح کے پھل دنیا کے تجربوں سے جو کچھ سبق ہم نے سیکھے ہیں۔کلام اللہ سے جو کچھ اثر ہم پر ہوا ہے پاکیزہ دوستی سے ہماری زندگی میں جو سنہلے اور روپہلے تا کے بنے ہیں۔ رنج و غم سےجو ہم پر اثر ہوا ہے۔ روح القدس کی جو تاثیر ہم پر ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ ہماری نئی زندگی میں ظاہر ہوگا۔ ہمیں نہ سڑنے والے روحانی اور جلالی بدن ملیں گے جو نہ فنا ہوں گے۔ نا مادہ کا اُن پر اثر پڑے گا۔ ہماری زندگی میں جو کچھ عمدہ اور حقیقی اور مبارک زندگی کے لائق ہے موت اُس کو چھین نہ لے گی۔
ہے اعتماد، واپس دےگاہمیں وہ ان کو صاف اور خوبصورت ،روشن ،یقین جانو
یہ آسماں اگرچہ خوش وضع ، خوشنما ہے لیکن نہیں خدا کا ہرگز یہ مدعا ہے
ایسا بدل دے اُن کو جو روحیں اُس میں جائیں بے صبر و آبدید آنکھوں کو بھلائیں
اور اُن لبوں کو چشمِ اخلاص سی نہ دیکھیں جو نہ امید ہو کر کرتے ہیں ضبط آہیں
جو روحیں اُس نے دی ہیں واپس نہ اُن کو لے گا اور ہے جنہوں نے اُس سے یا پُر جلال پایا
امید ہے وہ اُن کو ایسا بنا نہ دیگا جاتی رہیں وہ ہم سے بھولیں دھیاں ہمارا
کچھ شک نہیں کہ اس میں ایمان میں ہوں رکھتا ہاں اوہ ہی پیارا پیارا ، پُر پُر جلال چہرہ
ہے انتظار کرتا میرا وہاں پہ ہر دم اک دن اکٹھے ہو کر ملیں گے سب ہم
دو روحیں جو بنائی حق نے ہیں ایک جیسی صادق مِثل ہے جن پر ”دو جسم ایک جاں“ کی
نازک یہ اُن کا رشتہ ہرگز نہیں ہے ایسا جس کو کہ توڑ ڈالےدستِ ستم فنا کا
قبر سے واپس آن کر یسوع نے جو دوستیاں کیں ان کا مطالعہ بھی خالی از دلچسپی نہیں۔ اُس نے پہلی سی عام خدمت کی زندگی پھر اختیار نہ کی۔ اُس نے پھر مُلک میں جا بجا سفر نہ کیا۔ا ُس نے ہیکل میں لب دریا پند و نصائح نہ کیا۔
پھر وہ بیماروں کو شفا دیتا نہ پھِرا۔ نہ اُس نے جا بجا جا کر تعلیم دی۔ نہ ہی اُس نے مُردوں کو جلایا۔ وہ پبلک میں ظاہر بھی نہ ہوا۔
صرف اُس کے شاگردوں نے ہی اُس کو دیکھا۔ اُس کی لوگوں سے ملاقات بھی بہت مختصر کیفیت میں قلم بند ہے لیکن وہ ہے نہایت ہی دلچسپ۔ اُس سے صاف ظاہر ہے کہ اُس کے موت کے تجربے سے اُس کی دوستی کا کوئی رشتہ سرِموکم نہ ہوا۔
اُس کے دِل کی محبت موت میں بھی زندہ رہی اور اُسی حلیمی اور شفقت میں اُس چالیس روز کے عرصہ میں ظاہر ہوئی۔ وہ اپنے پرانے احبا ب کو اجنبیوں کی طرح نہ ملا۔ بلکہ اِس طرح کے گویا کچھ عرصہ کےلئے کہیں گیا ہوا تھا اور وہاں سے واپس آیا تھا۔
جی اٹھنے کے بعد وہ اول اول مریم مگدلینی پر ظاہر ہوا۔ مریم کی داستاں نہایت ہی دلسوز اور دلچسپ ہے۔ صدیوں کی روایات نے اس کے نام نامی پر دھبا لگا دیا ہے۔ لیکن نئے عہد نامہ میں اس امر کا اشارہ تک نہیں کہ اُس کے چلن میں کسی قسم کا کوئی عیب تھا۔
مریم مگدلینی وہ گنہگار عورت نہ تھی جو شمعون کے گھر میں مسیح کی زیارت کو آئی۔ مریم کی پہلی حالت کی نسبت صرف یہی لکھا ہے کہ اُس میں سات دیو تھے۔ اور کہ مسیح نے اُس سخت غلامی سے اُس کو آزاد کیا۔ اِس بے بیاں رہائی کے شکریہ میں مریم اپنا گھر بار چھوڑ کر مسیح کے پیچھے ہولی۔ اور اُس کی موت کے دِن تک اُس کو ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ اُن چند برگزیدہ خواتین میں سے تھی جو برابر اُس کی خدمت کرتی تھیں۔
مسیح کےلئے مریم کی جانثاری کمال درجہ کی تھی۔ جب قبر پر پتھر رکھا گیا تو اُس کے آس پاس پھِرا کی اور قبر کو چھوڑ کر جانا نہ چاہتی تھی۔ پھر پہلے دِن کی صبح کو وہ اُن میں سے تھی جو مسیح کےلئے مُر لے کر منہ اندھیرے قبر پر پہنچیں تھیں۔ اُس کی صلیب سے وہ سب بعد میں گئیں اور قبر پر سب سے پہلے پہنچیں۔ مریم کی جانثاری کا صلہ بھی مل گیا۔کیونکہ یسوع سب سے پہلے اُسی پر ظاہر ہوا۔ جب وہ خالی قبر کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ پہلے تو اُس نے اُس کو نہ پہچانا۔ اُس کو خیال تک نہ تھا کہ اُس کو جیا ہوا دیکھے گی۔ آنسوؤں سے اُس کی آنکھیں بھی دھندلا گئی تھیں۔ اور وہ صاف دیکھ نہ سکتی تھی۔
لیکن جس وقت خداوند نے اُس کو نام لے کر پکارا ”مریم“ اُس نے اُس کو فوراً پہچان لیا۔اور بولی۔ ”ربونی۔خداوند“
اُس کی نظروں میں وہ تبدیل نہ ہوا تھا۔ اُس نے اُس کو فراموش نہ کیا۔اُس کے دل کی محبت سرِموکم نہ ہوئی تھی۔
پہلے کی طرح شاگرد اُس سے بات چیت کر سکتے تھے۔ موت سے اُس کی پہلی ہمدردی اوردوستی میں فرق نہ آیا تھا۔
مریم پر ظاہر ہونے کے تھوڑی دیر بعد وہ دوسری عورتوں پر بھی جو شکرگزاری سے اُس کی خدمت کیا کرتی تھیں ظاہر ہوا۔
انہوں نے اُس کو پہچان لیا۔ اور اُس نے اُن کو۔ اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ کہ جب انہوں نے اُس کو پہلے سا ہمدرد اور شفیق اور غمگسار پایا۔
اُسی دِن یسوع پطرس پر ظاہر ہوا۔ انجیل نویسوں نے اس ملاقات پر پردہ ڈال دیا ہے۔ یسوع اور پطرس کی دوستی تین برس قائم رہی تھی ۔ پطرس نے اپنی مجذوبی طبعیت اور بے صبری سے کئی دفعہ اپنے آقا کو رنج دلایا تھا۔ لیکن پکڑوائے جانے کی رات سردار کاہن کے ایوان میں پطرس نے مسیح کا شاگرد ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ میں اس کو جانتا ہاں پہچانتا بھی نہیں۔
جب تیسری بار یہ جھوٹے اور بُزدلی کے الفاظ پطرس کے لبوں پر تھے۔ مسیح نے پھر کر اندوہگیں محبت کی نظر اپنے بے وفا اور کم اعتقاد شاگرد پر ڈالی اور پھر پطرس کو اپنے آقا کی آگاہی یاد آئی۔ توبہ سے اُس کا دِل شکستہ ہوا۔ اور وہ باہر جا کر زار زار رویا۔ لیکن معافی پانے کا اس کو کوئی موقع نہ ملا۔ کیونکہ دوسری صبح ہی مسیح اپنی صلیب پر تھا اور شام کو قبر میں۔ پطرس کا غم نہایت گہرا اور دلی تھا۔
کیونکہ اپنے آقا سے اُس کی محبت نہایت گہری اور مضبوط تھی۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جب اس صبح کو ایمانداروں میں یہ خبر پھیل گئی کہ خداوند جی اٹھا ہے تو پطرس کے دِل کی کیا حالت ہو گی اور اُس کو کیا خیال آتے ہوں گےکہ مسیح مجھ سے اب کیسا برتاؤ کرے گا۔ وہ اس اضطراب میں دیر تک نہ رہا۔ جو خواتین اول اول قبر پر آئیں اور اُس کو خالی پایا اُن کو شاگردوں اور پطرس کےلئے پیغام ملا۔ خصوصیت سے پطرس کا نام لینے سے پطرس کو کیسی خوشی ہوئی ہو گی۔ اس سے اُس پر ظاہر ہوا کہ مسیح کی محبت صرف موت ہی سے زیادہ مضبوط نہ تھی۔ بلکہ گناہ سے بھی مضبوط۔ پھر اُسی دِن اکیلے میں مسیح پطرس پر ظاہر ہوا۔
کوئی شک نہیں کہ اُس محبت کی قدوسیت میں شاگرد نے اپنے گناہ کا اقرار اور اور اعتراف کیا اور آقا نے معافی بخشی چالیس روز کے عرصہ میں یسوع اور پطرس اکثر مُلاقی ہوئے۔موت سے دوستی میں فرق نہ آیا۔ مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد خداوند ایسے ہی محبت کرتا تھا جیسے معمولی انسانی ملاقات کے دنوں میں۔
جی اٹھنے کے بعد کے واقعات میں سے اماؤس کا سفر نہایت ہی دلچسپ ہے۔ کلیؔوفس اپنے ایک دوست کے ہمراہ دلِ بریاں گھر کو جا رہا تھا کہ راہ میں اُن کو ایک اجنبی آ ملا۔ جب وہ اُن کے ساتھ ہو کر مقدس نوشتوں کی باتیں ان کو سمجھاتا تھا تو اُس کی باتیں نہایت ہی موثر معلوم ہوتی تھیں۔ پھر انہوں نے شام کا کھانا اکٹھے کھایااور روٹی توڑتے وقت خداوند نے اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کیا۔
یہاں بھی اُسی شیریں دوستی کا اظہار ہوا۔ جس سے پہلے اُن کے دل خوش ہوا کرتے تھے۔
مسیح کے جس جس موقع پر ظاہر ہونے کا حال مندرج ہے ان سب میں یہ بات عام پائی جاتی ہے۔ جو لوگ موت سے پہلے اس کے دوست تھے انہوں نے اُس کو پھلا سا ہی دوست پایا۔
کیا ہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے ہیں کہ جیسے مسیح کے حال میں ہوا۔ ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی ہوگا۔ اس کا جی اٹھنا صرف اس امر کا نشان اور وعدہ نہ تھا کہ ایمانداروں کا جی اٹھنا کیسا ہوگا کہ مبارک ابدیت کا بیج اور قدرت اُن میں ہوگی بلکہ اس امر کا نمونہ نہ تھی۔ کہ ہمارا جی اٹھنا کیسا ہوگا۔ موت سے ہم میں بہت کم تبدیلی واقع ہوگی۔ ہم ایسے ہی زندگی بسر کرتے جائیں گےکہ جیسے کچھ واقع نہیں ہُوا۔ اگر ہم مسیح پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں موت کے تجربہ سے خائف ہونا نہیں چاہئے۔
اس میں ایک راز ہے۔ لیکن جب ہم اس میں سے گُزر چکیں گے تو ہم پائیں گے کہ یہ ایک نہایت ہی سادہ اور معمولی واقع ہے
شاید جیسے رات کو سو جانا۔ اور صبح کو اُٹھ بیٹھنا۔ اس سے ہمیں کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے گا۔ ہماری زندگی کی کسی خوبصورت چیز پر اس سے داغ نہ پڑے گا۔ کوئی کار آمد چیز اس سے جاتی نہ رہے گی۔ موت زندگی کا صرف ایک حصہ اور لقمہ کی صورت ہے۔
جیسے بیج مٹی میں بویا جاتا ہے اور پھر ایک خوبصورت پودے کی صورت میں پھل پھول لے کر ظاہر ہوتا ہے۔ موت کے بغیر زندگی نا مکمل رہے گی۔ سب سے بڑی مصیبت جو کسی پر آ سکتی ہے یہی ہے کہ وہ کبھی نہ مرے۔ یہ ترقی اور نمّو کی رکاوٹ فی الواقع موت ہی ہوگی۔
موت بے شک ہے زندگی کا تاج مرض ِ لادوا کا ہے یہ علاج
گر نہ ہو موت، مفلس و نادار زندگی میں ہوں سخت خستہ و خوار
گر نہ ہو موت،روز درد بڑھے کوئی جینے کو زندگی نہ کہے
گر نہ ہوموت، ایک احمق بھی دل سے خواہش کرے گا مرنے کی
موت دینے کے واسطے صحت زخم دیتی ہے ازرہ شفقت
گِرتے ظاہر ہیں اُس کے صدمے سے لے کے فوراً ہیں اُٹھ کھڑے ہوتے
ہم حکومت کے لُطف اٹھاتے ہیں بیڑیوں سے رہائی پاتے ہیں
محوِ تابیں اس زمیں کے ناز و نیاز آسمانوں کو کرتے ہیں پرواز
ہیں مقابل میں جس کے باغِ عدن ایک پژ مُردہ اور خشک چمن
ہم نے جو کچھ عدن میں ہے کھویا موت اُس سے کرے زیادہ عطا
خوف کا بادشاہ جسے سمجھا شہزادہ وہ ہے سلامتی کا
آسمان اور بہشت کے متعلق جو عام خیالات پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن میں اصلاح مطلوب ہے۔ بچپن ہی سے یہ خیال ہمارے ذہن نشین ہو گیا ہے کہ قبر سے پرے کی زندگی اس دنیائے دوں کی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ شروع ہی سے ہمیں ایسا ہی سکھایا اور بتایا گیا ہے کہ بہشت آرام کی جگہ ہے جہاں ہم خدا کی حضوری پاتے اور ابدالآباد اُس کی حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں۔ ہماری انسانی زندگی میں سے انسانی پہلو بالکل مفقود کیا گیا ہے۔ ایمانداروں کے باہمی تعلقات بالکل نظر انداز کئے گئے ہیں۔ مسیحی گیتوں اور کتابوں میں آسمان کے متعلق صرف خدا کی طرف کا پہلو دیا گیا ہے۔ اس جگہ کی شان و شوکت پر مقدس یوحنا کی رویا کے پہلو سے بہت زور دیا گیا ہے۔ ان خیالات میں الہٰی برکت کا سب سے بڑا خیال یہی ہے کہ زمین اور زمینی حالات و تعلقات سے رہائی پانا ہے۔ جس وطن کو ہم جا رہے ہیں وہاں غم ہے نہ تکلیف ، نہ درد، نہ کسی قسم کی کشمکش ، نہ محنت نہ مشقت، خوبصورت نہروں کے سرسبز کناروں پر پھولوں کے درمیان ہم بیٹھیں گےاور ابدالآباد نغمہ سرائی کریں گے۔
ہم قادرِ مطلق خدا کے تختِ عالی کے حضور سرِ بسجود پڑھ کر اس کے مبارک اور نورانی چہرے کو دیکھا کریں گے۔
لیکن مسیح کی تعلیم سے ایسے آسمان اور ایسی آسمانی زندگی کا پتہ نہیں ملتا۔ سچ ہے کہ جس جگہ جا رہا تھا اور جہاں اُس نے فرمایا کہ میرے شاگرد فراہم ہوں گےوہ اُس کو ”اپنے باپ کا مکان“ نام دیتا ہے۔ اس سے گھر اور محبت کا پتہ ملتا ہے۔
اور یہ مسیح کی چالیس روزہ زندگی سے مطابقت کھاتا ہے کہ دوستی اور محبت کے جو رشتے اور تعلقات یہاں پیدا ہوئے ہیں وہاں قائم اور برقرار رہیں گے۔ لیکن خاندنی زندگی کی جو رویا ہمیں یہاں ملتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ بیکاری کا سامان ہوگا۔
لاریب گھر کے خیال سے جس زندگی کا مفہوم ہوتا ہے اس سے بڑھ کر خوبصورت اور قُدرتی زندگی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
دنیا میں کوئی ہوم(گھر) کامل نہیں لیکن ہر ایک سچے ہوم (گھر) میں آسمانی معافی کی خوشبو پائی جاتی ہے۔
اور ہمیشہ اس سے مفہوم محبت کی خدمت ہوتی ہے نہ کہ آرام و بیکاری کی زندگی۔ مسیح کی اور تعلیم سے آسمانی زندگی کے بارے میں ہم بہت کچھ دریافت کر سکتے ہیں۔ جو کوئی جیتا، اور ایمان لاتا ہے کبھی نہ مرے گا۔ جس حالت کو ہم موت کہتے ہیں اُس میں زندگی کی کوئی رکاوٹ یا التوا نہیں۔ ہمیشہ کی زندگی کو ہم آسمانی زندگی یا جلال کی زندگی سمجھے بیٹھے ہیں۔ ہے تو وہ ایسی ہی لیکن اس کا آغاز یہیں ہو جاتا ہے۔ جس وقت ہم ایمان لاتے ہیں ابدی زندگی پا لیتے ہیں۔ جو مسیحی صفات ہم کو حاصل کرنی چاہییں وہ آسمانی سبق ہیں جو ہمیں سیکھنے ہیں۔ اگر ہم آسمانی زندگی کا بخوبی اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو چاہئے کہ اس دنیا میں مسیحی زندگی کا نمونہ
اپنے سامنے رکھیں اور تصّور کریں کہ یہ زندگی آپ نے پوری کمالیت میں کیا ہوگی۔آسمان کیا ہے۔ اس دنیا کے فضل کے سبق اچھے سیکھے ہوئے اور اِس دنیا کی عُمدہ سے عُمدہ روحانی زندگی جلال پائی ہوئی۔ اس لئے آسمانی زندگی کا سب سے عُمدہ نمونہ زندگی کے اُس نمونہ سے ملتا ہے جو مسیح نے اپنے شاگردوں کےلئے مقرر کی۔ کیونکہ آسمان میں یہی زندگی بخوبی کمال کو پہنچی ہوئی ہو گی۔
مثلاً سب سے ضروری سبق جو ہمیں سیکھنا ہے اور جس میں اور سب سبق آجاتے ہیں وہ محبت ہے۔ خدا محبت ہے اور اگر ہم اُس کی مانند ہونا چاہیں تو ہمیں محبت کرنا سیکھنا چاہیئے۔ تمام تعلقات محبت کے تعلقات ہیں۔ تمام صفات اور نیکیاں محبت کی صفات ہیں۔ تمام فرائض ایک بڑے فرض کا جزو ہیں۔ ایک دوسرے سے محبت کرنا ، تمام عمدہ اور شریف سیرت ہماری زندگی میں محبت کا ہونا ہے۔
ساری زندگی ایک مدرسہ ہے جس میں روز کا کام کرنا، محنت کرنا ، تکلیف اٹھانا، لوگوں سے ملنا جُلنا، احباب سے دوستی کرنا ،
خوشی اورغم کے تجربے پانا، بوجھ اٹھانا، مایوسی اور امید کا لطف اٹھانا اور سب سے آخری تعلیم محبت کا سبق سیکھنا ہے۔
انگریزی کا مشہور شاعر براؤننگ اپنی کتاب ”ربی بن عرما“میں یوں لکھتا ہے:
اے بُوڑھے دوست میرے یہ زندگی ہماری جو فکر و عیش، یاس و امید میں ہے کٹتی
ہے صرف ایک موقع سیکھیں سبھی محبت ہو سکتی ہے یہ کیا کچھ۔کیا کچھ رہی محبت
جانیں کہ کیا چیز ہے فی الواقع محبت
یہ محبت کیا ہے جو زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھنے ولا ہے۔خدا کی طرف اُس کا اظہار ِ عبادت ،بندی، حمد، فرمانبرداری اور رفاقت سے ہو سکتا ہے۔ آسمان کے متعلق عام خیالات میں محبت کا یہی اعلےٰ خیال پایا جاتا ہے۔ یہ سب خدا کی حمد و ثنا ء اور اُس کو تمجید دینا ہے۔ لیکن محبت کا انسانی پہلو بھی ہے۔ مقدس یوحنا جو گویا محبت کا شاگرد ہے صاف صاد تعلیم دیتا ہے کہ جو شخص کہے کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں۔ اس کو چاہیئے کہ انسان سے محبت کرنے سے اس بات کا ثبوت دے۔
اگر ہماری تمام تربیت محبت کرنا اور اپنی زندگی میں محبت کا اظہار کرنا ہو تو بیشک ہمیں آسمانی زندگی کا پتہ اور نمونہ مل گیا۔
جو باتیں ہم نے یہاں سیکھی ہیں ان کو وہاں جاری رکھیں گے۔ جلال کی زندگی صرف اس دنیا کی مسیحی زندگی کی کمالیت ہو گی۔
آسمان بیکاری کی جگہ نہ ہوگا۔ اس زندگی کےلئے جو کام کےلئے بنائی اور ترتیب دی گئی ہو بیکاری کی زندگی کبھی برکت کی زندگی نہیں ہو سکتی۔ محبت کا خاصہ خدمت ہے۔ ”نہ خدمت لینا بلکہ خدمت کرنا“ جس شخص نے محبت کرنا سیکھ لیا ہو اس کو ایسی حالت میں کبھی خوشی مل نہیں سکتی کہ جس میں خدمت کرنے کا موقع نہ ملے۔ آسمان میں یہاں سے بڑھ کر۔دینا لینے سے مبارک ہوگا۔ اور وہی لوگ وہاں اول اور مقدم ٹھہریں گے جو فروتن اور حلیم روح میں خدمت کرتے ہیں۔ آسمان بڑی کام کرنے کی جگہ ہو گی۔ اس کے بندے اُس کی خدمت کریں گے۔ جن قوموں نے یہاں مسیح کی خدمت کرنے کی خدمت پائی ہے۔ وہاں ان کو اپنی بہتر خدمت کا بڑا موقع ملے گا۔
وکٹر ھیوگو نے اپنے بڑھاپے میں کہا
جب میں قبر میں اُتروں گا تو اروروں کی طرح میں کہہ سکتا ہوں” میں نے اپنے دن کا کام ختم کیا “
لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا ”میں نے اپنی زندگی ختم کی “ دوسری صبح کا تو میرا دن کا کام شروع ہوگا ؎
میری قبر چاروں طرف سے بند جگہ نہیں وہ تو ایک راہ گُزر ہے شفق کے ساتھ ہی یہ بند ہو جاتی ہے اور صبح کو کھُل جاتی ہے۔
جو زندگی مسیح کے مومنین کو آسمانی میں نصیب ہو گی اس کے ساتھ کیسا ہی راز وابستہ کیوں نہ ہو۔ایک بات کا ہم یقین رکھیں کہ اُن کی زمینی زندگی میں جو کچھ سچ اور الہیٰ ہےوہ اپنے ہمراہ لے جائیں گے۔ ان کی جو سیرت یہاں بنی ہے وہ موت سے گزر کر بھی قائم رہے گی۔ اپنی طاقتوں کے استعمال سے انہوں نے جو لیاقت پیدا کی ہے وہ نئی زندگی میں خدمت کرتے وقت اس کو حاصل رکھیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی تربیت یافتہ قابلیت کے مطابق ان کو کام ملے گا۔ آسمان ایک ایسی قدرتی اور معمولی جگہ ہوگی جس کا ہم کو خیال تک نہیں۔ اس دنیا کے نمونہ کی زندگی سے وہ بہت کچھ مختلف نہ ہو گا۔ جب ہم وہاں ایک دوسرے سے ملیں گے۔ تو شاید اس خیال سے حیران ہوں گے کہ ہم کیسے کم تبدیل ہوئے۔ پرانی ہمدردی اور دوستی مفقود نہ ہوگی۔
ہم اپنے احباب کو کسی خاص حلیمانہ طریق یا اورورں کےلئے فکر کے ذریعہ جو اُن کا یہاں دنیا میں خاصہ تھا۔ پہچان لیں گے۔
جو دوستیاں ہم نے یہاں شروع کیں اور جن کے بڑھانے کا ہمیں قوت نہ ملا وہاں ان کو تازہ کرنے اور ابدیت تک قائم رکھنے کا موقع ملے گا۔
انسانی زندگی اسی دنیا میں شروع ہوئی ہے۔ آسمان میں وہ اپنے کمال اور معراج کو پہچے گی۔ اس دنیا میں اکثر روحیں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں۔ جیسے رات کو دو جہاز ایک دوسرے کے پاس سے گزر جاتے ہیں۔
آسمان میں کافی وقت ملے گا کہ ایسی دوستیاں نمّو پاکر اپنی خوبصورتی ظاہر کریں۔ مسیح کی دوستی یہاں صرف ایک بحر بے پایاں کے کنارے کو چھوتی ہیں آسمان میں ہم بِلا روک اُس کی رفاقت میں مسیح کی محبت کے بارے میں جو فہم سے باہر ہے ہمیشہ تک سیکھتے رہیں گے۔
باب۔14
یسوع خود کیسا دوست تھا
کئی صدیاں گزرتی ہیں اک شخص ہُوا روئے زمین پر جلوہ گر تھا
بظاہر زندگی اس نیک خوُ کی دکھائی دیتی تھی ناکام گویا
بوقتِ مرگ اُس کو ایک بخشش جہاں کو دی رہے گی جو ہمیشہ
دوستی کی تاریخ میں دنیا ہمیشہ رطب اللساں اور شیریں رہی ہے۔ تمام تواریخ کے ابتدائی اوراق شریف دوستیوں کے بیان سے روشن ہیں اور یہ تذکرے مستند علمِ ادب کا رُتبہ پا چکے ہیں۔ ہر زمانہ میں ناظم و ناثر میں ایک نمونہ کے قابل دوستی کی صفات پر قلم اٹھایاہے۔ لیکن یسوع مسیح نے دنیا میں انسانی زندگی کی ہر ایک بات کے متعلق نیا مطح اور معیار رائج کیا۔
وہی اکیلا مرد کامل ہاں انسانیت کےلئے خدا کانمونہ تھا۔ دنیا کی تواریخ میں صرف ایک بار ایک مرد پیدا ہوا۔
زمانہ کے طبقوں میں صرف ایک بار کئی ناکامیوں کے بعد بھی انسانی نیچر(فطرت) کے ذخیرہ میں سے ایک غنچا بے عیب پھول کی صورت شگفتہ ہوا۔ خدا نے انسانیت کا ایک ہی کامل نمونہ زمین پر ظاہر کیا۔ انسانی زندگی کی ہر ایک بات میں الہیٰ نمونہ کےلئے ہم مسیح کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یسوع نے دوستی کے معنی کیا بتائے؟
ایک سچے دوست کی صفات جو یسوع کی زندگی میں ظاہر ہوتی ہیں وہ کیا ہیں ؟َ
ظاہر ہے کہ اس نے دوستی کے پایہ کو ایسا بلند کیا جو پہلے کبھی نہ تھا۔ اس نے سب چیزیں نئی کر دیں۔ یسوع کے ہمیں تعلیم دینے اور ہمارے درمیان رہنے ، اُس کے صلیب پانے اور مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد لفظ فرض نے نئے معنی پا لئے۔
اس نےزندگی کا ایک نیا خیال لوگوں کو پیش کیا۔ سیرت کا نیا مطح بنایا۔ قابل اور خوبصورت چیزوں کی نسبت نئے خیالات پیدا کر دیئے۔دنیا کے جو خیالات مبارکِ حالی کی نسبت تھے ان میں مسیح کی ایک بھی برکت جگہ نہ رکھتی تھی۔ ؎
مسیح کی تمام برکت و مبارکہ حالی کی بِنا روحانیت پر تھی۔ جن باتوں کے لئے اُس نے فرمایا کہ زندگی بسر کرنی چاہئے۔
اس کے آنے سے پیشتر لوگ ان باتوں کے لئے زندگی بسر کرتے نہ تھے۔ اس نے زندگی میں ہر ایک بات کےلئے نیا نمونہ دکھایا۔
یسوع نے دوستی کا ایسا نمونہ اور خیال پیش کیا جو عِلم ادب کے تمام نمونوں سے گوئے سبقت لے گیا۔ شاگردوں سے الوداع کہتے وقت اُس نے اُن کو ایک ”نیا حکم “ دیا۔ حکم یہ تھا۔ کہ اُس کے دوست ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔
اس فرمان کو ”نیا حکم“کا نام کیوں دیا گیا ؟
کیا یسوع کے آنے سے پیشتر اس کے بارے میں کوئی حکم نہ تھا۔ کہ نیک مرد ایک دوسرے سے محبت کریں ؟
کیا یہ محبت کا قانون بالکل نیا تھا جو اسی نے رائج کیا ؟
جس طریق اور صورت میں مسیح نے یہ حکم دیا۔ اس صورت میں پہلے کبھی نہ دیا گیا تھا۔ موسوی شریعت میں اس مضمون کا ایک حکم پایا تو جاتا ہے لیکن مسیح کے حکم سے وہ بالکل مختلف ہے۔ حکم اس طرح پر تھا کہ ”اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ“
محبت کرنے کا معیار، مطح اور ہدف اپنی مانند تھا۔ لوگ پہلے اپنے آپ سے محبت کریں اور پھر اپنے ہمسایوں سے اپنی مانند۔
پرانا حکم یہی تھا۔لیکن نیا حکم اس سے بالکل اختلاف اور امتیاز رکھتا ہے۔ اس کا معیار اور انداز یہ ہے ”جیسے میں نے تم سے محبت کی۔“یسوع نے اپنے شاگردوں سے کیسے محبت کی ؟ جیسے اپنے آپ سے ؟
کیا اُس نے تمام وقت اسی معیار کو مدِ نظر رکھا ہے ؟ ہمیشہ اپنے آپ ، آرام ، اپنی راحت، اپنی سلامتی کا خیال رکھا اور شاگردوں سے محبت کرتے وقت اس معیار سے آگے نہ بڑھا ؟ نہیں !نہیں !
یسوع نے محبت کا ایک نیا نمونہ پیش کیا۔ اُس نے اپنے آپ کو بالکل نظر انداز اور فراموش کر دیا۔ اپنے آپ سے انکار کیا۔ انپی جان کی کبھی فکر نہ کی۔ اور محبت کرنے میں خرچ یا قربانی حد یا اندازہ کا کبھی خیال تک نہ کیا۔
اس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا۔ کوئی چیز اپنے احباب سے دریغ نہ رکھی۔ اپنی جان تک سے دریغ نہ کیا۔ اس لئے مسیح نے جو دوستی کا معیار اور مطح اپنے پیروؤں کےلئے مقرر کیا وہ بیشک نیا تھا۔ بجائے اس کے کہ ”اپنے ہمسایہ سے ایسے محبت رکھ جیسے اپنے آپ سے۔“ ”ایسے محبت کرو جیسے مسیح نے محبت کی“ اور اُس نے آخر تک محبت کی۔ مسیحی دین کی تواریخ پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوگا کہ مسیح نے دوستی کے کے جس نمونہ کو رواج دیا وہ بیشک دنیا میں نئی بات تھی۔ وہ اپنے مُدعا اور تحریک میں بیشک نئی تھی۔ موسوی شریعت کی محبت کی تحریک کوہِ سینا سے ہوئی۔ مسیحی شرع کی محبت کلوری سے۔ پہلا تو محض سخت اور سرد قانون تھا دوسرا جلتا ہوا جذبہ ، پہلے عملدرآمد محض فرض کی روح سے تھا۔ دوسرے کی تحریک مسیح کی عجیب محبت سے ہوئی۔
بِلا شک پرانے عہد نامہ کے دنوں میں لوگ خدا سے محبت کرتے تھے۔ کیونکہ اس کے اُن برگزیدہ بندوں کی تعلیم میں جو خدا کی طرف سے لوگوں سے کلام کرتے تھے۔ خدا کی نیکی فضل اور محبت کا انکشاف پایا جاتا ہے۔ یہ انکشاف گو نہایت ہی عجیب تھے۔
تاہم خدا کے اس مکاشفہ سے جو یسوع مسیح میں ہوا۔ یہ مقابلہ کھا نہیں سکتے۔ ابنِ اللہ انسانی صورت میں لوگوں کے درمیان آیا
اور اس کے فروتن اور حلیم زندگی میں الہیٰ محبت کی برکت آدمیوں کی نظروں کے سامنے ظاہر ہوئی۔
آخر کار صلیب کا واقع ہوا۔ جہاں محبت میں خدا کا دل شکستہ ہو گیا۔ پھر کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایسی تحریک کے ساتھ مسیح کے پیروؤں کی دوستی کا ایک نیا نمونہ ظاہر ہوا۔اس زندگی سے جو مسیحیت نے پیدا کی ہے ہم ایسے مانوس ہو گئے ہیں کہ جس جس جگہ روح کے پھل پک گئے اور اپنی اصلی نموّ کی حالت پر پہنچ گئے ہیں ہم خیال تک نہیں کر سکتے کہ یسوع کے آنے سے پیشتر وہاں انسانی سوسائٹی کی حالت کیا تھی۔ اس دنیاسے پہلے دنیا میں محبت تو تھی۔والدین اپنے بچوں سے محبت کرتے تھے۔
جبّلی محبت کے رشتے غیر مسیحیوں میں بھی بعض اوقات بڑےمضبوط اور سچے تھے۔ محبان صادق پائے جاتے تھے گو خال خال۔
تواریخ نے بعض کی سچی دوستی اور صادق محبت کو بقاء کا لباس پہنا دیا۔انسانیت میں یہ باتیں ہمیشہ دل خوش کُن اور پسندیدہ رہی ہیں۔
یہ الہیٰ صورت کا بقیہ ہے جو انسان کے گِرنے کے بعد اس میں باقی رہا ہے۔
لیکن روزِ پینتی کوست کے بعد ایک دوسرے سے جو محبت کا اظہار مسیحیوں کے درمیان ہوا اس کی نظیر پیشتر کی اعلےٰ سے اعلےٰ اور مہذّب سوسائٹی میں کہیں پائی نہیں جاتیں۔
بِلا ریب نوزاد مردوں میں یہ الہیٰ محبت کا انکشاف تھا۔ پینتی کوست کلیسیا میں جس قسم کی رفاقت کا سبق ملتا ہے وہ معمولی انسانی محبت سے کبھی بھی پیدا ہو نہیں سکتی۔ یہ آسمانی زندگی کاایک شمعہ تھا جو زمین پر ظاہر کیا گیا۔
جو شخص ایک دوسرے سےایسی محبت کرتے تھے وہ نئے آدمی تھے۔وہ از سرِ نو اوپر سے پیدا ہوئے تھے۔ یسوع آسمان کی بادشاہت اس دنیا میں قائم کرنے کو آیا۔ دو سرے لفظوں میں اس لئے آیا کہ اپنے مومنوں کے دلوں میں آسمان قائم کرے۔
نئی دوستی یہی ہے۔ عقیدہ کے دوہرانے سے کوئی شخص مسیحی بن نہیں جاتا۔ کوہِ سینا کی کڑک اور گرج کے درمیان گو حکم سنائے جائیں ان سے کسی کی زندگی میں محبت پیدا ہو نہیں جاتی۔ جو محبت کا نیا نمونہ مسیح لوگوں میں رائج کرنے کو آیا وہ خدا کی محبت کا انسانی دلوں میں آشکارا کرنا تھا۔ ”جیسے میں نے تم سے محبت کی۔تم بھی ایک دوسرے سے محبت کی“ یہ تھا نیا حکم!
چونکہ دوستی کا نیا نمونہ جو مسیح نے دیا وہی تھا جو اُس نے اپنی زندگی میں ظاہر کیا۔ مناسب ہے کہ ہم اس مقدس نمونہ کا مطالعہ کریں تا کہ ہم جانیں کہ اس نمونہ تک کس طرح پہنچیں۔ پہلے ہم مسیح کی دوستی کی شیرینی اور لطافت پر غور کریں۔
انگلستان کے ایک وعظ نے خوب کہا ہے کہ مسیح کی ذات میں دونونوع کی صفات ظاہر ہیں۔
”اس میں عورت کا دل تھا اور مرد کا دماغ “مزاج کی شیرینی اور لطافت اور صرف عورت ذات کا ہی خاصہ نہیں۔ چونکہ یہ مزج کی حلیمی، لطافت اور مہربانی صرف طاقت اور قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اپنے اعلےٰ اظہار میں یہ صفت ایسی ہی مردانہ صفت ہے جیسی زنانہ۔ یسوع انتہا درجہ کا حلیم مزاج دل سے مہربان اور شیریں کلام تھا۔
اس کی مزاج کی حلیمی ہرگز ہرگز کمزوری یا نرمی کے باعث نہ تھا۔ یہ ماں کی سی سچی محبت ہے اور اپنے بچوں کےلئے حلیم مزاج تھی۔ یہ محبت بازوؤں میں لینے ، حفاظت اور پرورش کرنے والی محبت تھی۔ یسوع کی سوانح عمری میں ہم اس صفت کی اکثر مثالیں پاتے ہیں ۔
بڑے سے بڑے حلیم اور محبت کرنے والے مزاج بھی کچھ نہ کچھ سختی ، سرد مہری ، یا تلخی کا اظہار ضرور کرتے ہیں
لیکن مسیح حلیم مزاجی میں کبھی قاصر نہ رہا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یوحنا کےلیے اُس کی محبت کیسی مجذوب تھی۔
چھوٹے بچوں سے اُسے کیسی اُلفت تھی۔ گنہگاروں پر جو اُس کے پاؤں میں آکر گِرتے تھے اس کو کیسا ترس آتا تھا۔
اُس شہر پر جس نے اُس کو رد کیا۔ اور اس کو صلیب دینے پر تھا۔ وہ کیسا کیسا زار زار رویا۔ غریبوں کا اسے کیسا فکر رہتا تھا۔
اور بیماروں سے اُسے کیسی ہمدردی تھی۔ مسیح کی دوستی کی ایک اور خاصیت صبر و تحمل تھا۔ اپنی ساری زندگی میں وہ ایک دفعہ بھی اس صفت میں قاصر پایا نہ گیا۔ شاگردوں سے اُس کا سلوک اِس امر کا شاہد ہے کہ وہ بڑے کم فہم شاگرد تھے اس کو ایک ہی سبق کئی دفعہ بار بار سکھانا پڑا۔ وہ اس کی سیرت کا سمجھ نہ سکتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم میں کبھی نہ تھکا۔ وہ اپنی دوستی میں بے وفا بھی نکلے۔خطرہ کے وقت میں وہ سب بھاگ گئے اور اُن میں ایک نے اس کا انکار کیا۔ اور دوسرے نے اس کو پکڑوایا۔
لیکن اس نے کبھی بھی بے صبری کا اظہار نہ کیا۔ اپنوں سے اس نے آخر تک ، باوجود سرد مہری اور بے وفائی کے محبت کی۔
اس نے بیجا دُکھ اٹھائے۔ لیکن چُپ چاپ سب مصیبتیں برداشت کیں۔ اپنا مزاج کبھی اس نے کھو نہ دیا۔اگرچہ اس کا سارا کام رائیگاں معلوم دیتا تھا وہ کبھی بے ہمت نہ ہوا۔ اپنے شاگردوں کی طبعیت اور سیرت کی ناپسندیدہ باتوں کو دل پسند بنانے میں وہ کبھی بے حوصلہ نہ ہوا۔ کسی جان کے بارے میں اس نے امید کو ہاتھوں سے نہ دیا۔ اگر یہ انتھک صبر کی صفت اس میں نہ ہوتی تو انسانی زندگیوں میں وہ جو دلچسپی لیتا تھا اس سے کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔ مسیح کی دوستی لاغرض تھی۔ اس نے ایسوں کو اپنا دوست نہ بنایا کہ جن کی دوستی سے اُس کی شان بڑھ جائے اور جس کی مدد سے اس کا منصب اور پایہ بلند ہو۔
بلکہ اس نے حقیر اور گمنام شخص چُنے کہ جن کو وہ خود احسن مرتبہ کی پایہ تک بلند کرے۔ اس کے دشمنوں نے بھی اس پر الزام لگایا تھا۔کہ وہ موصول لینے والوں اور گنہگاروں کا دوست ہے۔ ایک معنی میں الزام راست تھا۔ وہ دنیا میں اسی لئے آیا تھا کہ گُم گُشتہ بنی آدم کا نجات دہندہ ہو۔ اس نے اپنے آپ کو طبیب کہا اور طبیب کا کام بیماروں کے درمیان ہے نہ کہ تندرستوں کے۔ اپنے دوستوں کی سیرت میں عیب یا نقص پا کر مسیح کی دوستی اُن کےلئے کسی طرح کم نہ ہوئی۔
ان معمولی انسانی تعلقات میں جب ہم کسی شخص کو اپنے دوستوں کے زِمرہ میں لیتے تو ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کرنے کو ہیں۔
نکاح کا اقرار اس طرح پر ہے کہ ”اقبال اور اوبار میں۔امیری اور غریبی میں۔ بیماری اور صحت میں “ سچی دوستی میں بھی یہی اقرار ہے۔ ہم اپنے دوستوں سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں۔ جو کچھ اس لفظ وفاداری میں مفہوم ہے ہم نہیں جانتے کہ ہمارے اس مقدس عہد سے کیا کچھ کام نہ لیا جائے گا۔ شاید ہمارے دوست پر مصیبت آئے اور کئی باتوں میں اس کو مدد درکار ہو۔ بجائے مدد کے وہ ہمارے لئے بوجھ ثابت ہو۔لیکن دوستی کو کچھ ہی خرچ دینا کیوں نہ پڑےاسے اپنے معیار میں کم اترنا نہیں چاہئے۔جب ہم کسی کے دوست بنتے ہیں تو ہم نہیں جانتے کہ گہری واقفیت سے اُس کی سیرت کے کیا کیا عیب اور نقص ہم پر ظاہر نہ ہوں گے۔ لیکن یہاں بھی نمونہ کی دوستی کا قاصر ہونا نہیں چاہئے۔ عام انسانی تعلقات پر جو کچھ صادق آتا ہے وہ ایک نہایت ہی عجیب طور پر مسیح کی دوستی پر صادق ٹھہرتا ہے۔ صرف غور کرو کہ شاگردوں کے ساتھ اُس کے تین برس کیسے گُزرے۔ اس بڑی محبت کا جو اُس نے کی انہوں نے کیا معاوضہ دیا۔ شاگرد متلّون مزاج ، کمزور ، نادان ، بے وفااور ناقابلِ اعتبار تھے۔ ذاتی بڑائی کا خیال ہر وقت ان کو دامنگیر رہتا تھا۔ خداوند کی عشاء میں بھی ان کو یہی فکر تھی کہ میں سب سے مقدم ٹھہروں۔رشک ، حسد ، تنگ خیالی، ناشکرگزاری ، کم اعتقادی اور بُزدلی ان کے رویہ سے ظاہر تھی۔
اپنے برگزیدوں میں ان ناپسندیدہ صفات کے اظہار سے مسیح کی دوستی اُن کےلئے سرِ موکم نہ ہوئی۔ اس نے اُن کو اپنے دوستوں کے زِمرہ میں لے لیا تھااور اُن پر پورا اعتبار رکھتا تھا اور کلیّتہً ان کا ہو گیا تھا۔ وہ دوستی کے معیار میں کیسے ہی کم کیوں نہ اترےاس کی محبت ویسی کی ویسی رہی۔ ان کی کمزوریوں اور اُن کی آہستہ روی میں وہ صابر رہا۔اور انتطار سے خائف نہ تھا
کیونکہ اس کو یقین تھا کہ آخر میں وہ اپنے ایمان اور اس کی دوستی کا ثبوت دیں گے۔ یسوع کو اپنے احباب کے موجودہ راحت و آرام کی فکر نہ تھی بلکہ ان کی سب سے بڑی بہتری کی۔ بسا اوقات انسانی دوستی مہربانی اور فیض کے پیرایہ میں در حقیقت بڑی مہربانی کرتی ہے۔
اس کا خیال یہی ہے کہ انسانی دوستی کا فرض درد سے رہائی دلانا ، بوجھ کو ہلکا کرنا ، تکلیف و مصیبت کو ہٹانا اور راہِ سخت کو ہموار کرنا ہے۔ انسانی محبت کی شفقت و اُلفت سے بڑے بڑے نقصان پہنچتے ہیں لیکن یسوع نے اپنے دوستوں سے برتاؤ کرنے میں ایسی کوئی غلطی نہ کی۔ اس نے اپنے دوستوں کےلئے زندگی کو آسان بنانے کی کوشش نہ کی۔ اس نے اُن کو ناز و نعمت میں نہ رکھا۔
اُس میں شاگردی کی شرائط بایں خیال کبھی ہلکی نہ کیں۔ کہ ان کو اس کی پیروی کرنا آسان ہو جائے۔ اس نے اُن کے بوجھ خود نہ اٹھا کر بلکہ ان کی ہمت اور حوصلہ افزائی کےلئے ان کو امید اور جُرات دلائی تا کہ وہ خود اپنے بوجھ اٹھائیں۔ اس نے ان کو ایک تنہا گوشہ میں دنیا سے علیحدہ نہ رکھا تا کہ برائیاں ان کے سامنے نہ آئیں اور آزمائشوں سے ان کا سامنا نہ ہو۔
بلکہ اس نے ان کو ایسے زندگی بسر کرنا سکھایاکہ روحانی خطرہ میں الہیٰ حفاظت ان کو اپنےظلِ عاطف میں رکھےاور تب وہ خطروں کا سامنا کریں اور اپنی لڑائی اچھی طرح سے لڑیں۔ اُس نے اپنے شاگردوں کےلئے یہ دعا نہ کی کہ وہ دنیا سے اٹھا لئے جائیں اور یوں اُس کے خطروں اور آزمائشوں سے بچیں بلکہ یہ کہ دنیا کی بدی سے بچے رہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اچھے سپاہی بننے کےلئے یہ ضرور ہے کہ وہ زرمگاہ میں تربیت پائیں۔ اس نے ان کی بجائے جنگ نہ کی۔ اس نے پطرس کو بھٹکائے جانے سے نہ بچایا۔ضرور تھا کہ اُس کا یہ شاگرد تلخ تجربہ ا ٹھائے۔ گو وہ اُس میں ناکام کیوں نہ نکلے۔ پطرس کےلئے مسیح کی دعا یہ نہ تھی کہ پطرس بھٹکایا نہ جائے بلکہ یہ کہ اُس کو ایمان بالکل جاتا نہ رہے۔
اپنے احباب سے برتاؤ کرتے وقت اُس کے یہی پیش نظر رہتا تھا کہ ان میں سیرت کی مضبوطی اور اعلےٰ حوصلگی پیدا کرے اور راحت و آرام کے چمن ستان میں پھول بکھری ہوئی راہوں میں ان کو لئے نہ پھرے۔ ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ مسیح کا پیرو جہاں کہیں جائے۔ رحمت اور نیکی ہمیشہ اس کے شامل ِ حال رہیں گی۔ یہ ہے تو سچ لیکن یہ کبھی نہ سمجھ بیٹھنا کہ کبھی تکلیف پیش نہ آئے گی۔ صلیب اٹھانی نہ پڑے گی، درد اور نقصان کا تجربہ نہ ہوگا۔ بوجھ تلے ہی ہم بخوبی بڑھتے ہیں۔ وہی سبق ہم اچھی طرح سے سیکھتے ہیں جو مشکل ہوں۔
جب ہم اس زمینی زندگی سے گُزر کر دوسری طرف کھڑے ہوں گے اور جس راہ سے ہم مُڑ کر اس کو دیکھیں گے تو اس وقت یہ ظاہر ہوگا کہ جس جس جگہ ہم نے راہِ کٹھن اور تکلیف دہ پائی وہیں ہم کو سب سے اچھی برکت ملی۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ جو کچھ مسیح میں سخت معلوم ہوتا تھا۔ وہی سب سے سچی اور دانشمند دوستی ہے۔
ایک شاعر نے سچ کہا ہے کہ،
تم اگر ہو کے مستعد یکسر جا سکو واپس اس دوراہے پر
جس جگہ سے بڑا سفر کر کے آئے ہو بوجھ یہ اٹھائے ہوئے
جس جگہ پر تھا فیصلہ کرنا لو میں دونو سے کون سا رستہ
تم اگر اس جگہ پہنچ جاؤ اپنے کھوئے مقام کو پاؤ
صاف اے غم کے جاتری بتلا کون سی راہ داں سے تو لے گا
دوسری راہ جو اختیار کرو اور یہ معلوم اس سے تم کو ہو
اس کے وعدے تمام دھوکا تھے جس سے اس دام میں تھے تم آئے
راہ پہلی کہ جس پر آہ و بُکا کرتے رنجِ سفر میں صبح و ما
وہ اگرچہ کٹھن تھی اور دشوار پر مبارک تھی مرہم دِل زار
ہاں ! پھر اے غم کے جاتری بتلا کون سی راہ داں سے تو لے گا
بعض دیندار لوگ جس طریق سے کہ اُن کی دعاؤں کا جواب ملتا ہے اس سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
بِلا ریب اِن کو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دعاؤں کا جواب ہی نہیں ملا۔ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی کسی تکلیف کو دور کرےاور ان کا کوئی بوجھ ہٹا دے اور ان کی درخواست مقبول نہیں ہوتی۔وہ دعا میں لگے رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے پڑھا ہے کہ ہم کو دعا میں اصرار کرتے رہنا اور ثابت قدم ہونا چاہئے۔اور ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہیں اور بے دل نہ ہوں۔ لیکن تاہم کوئی جواب نہیں ملتا۔ پھر وہ پشیمان خاطر ہو جاتے ہیں اور سمجھ نہیں سکتے کہ خدا کے وعدے پورے کیوں نہیں ہوئے۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے وعدوں کو ٹھیک طور پر پڑھا نہیں۔ اس امر کا کبھی وعدہ کیا نہیں گیاکہ ہمارے بوجھ اٹھا لئے جائیں گے اور کوئی اور ان کو اٹھائے گا۔ اگر خدا اپنے بچوں کے زار زار رونے پر ان کی تکلیف کو دور کر دے اور سختی سے ان کو بچا لے اور ہر ایک چیز ان کےلئے راحت و آرام کی بنا دے تو وہ دانشمند ، اچھا اور محبت کرنے والا باپ نہ رہے گا۔
ایسے طریق سے تو ہم ہمیشہ بچے کے بچے ہی بنے رہیں گےاور کبھی تربیت نہ پائیں گے۔ نہ سلیقہ سیکھیں گے۔ بوجھ اور تکلیف اٹھانے سے ہم مضبوط اور خود اعتماد بن سکتے ہیں۔ خود یسوع نے زرمگاہ اور زندگی کی آزمائشوں کے تجربہ میں تربیت پائی۔
ان باتوں سے جو اس کو اٹھانی پڑیں اس نے فرمانبرداری سیکھی۔ آزمائشوں کا سامنا کرنے اور ان پر فتحیاب ہونے سے وہ دنیا کا استاد بنا اور تمام آزمائشوں میں ہم کو رہائی دینے کے قابل ٹھہرا۔ کسی اور طریق سے ہم مسیح کی مانند بن نہیں سکتے۔ یہ تو نہایت ہی نامہربانی ہو گی اگر ہمارا باپ ان تجربوں سے ہمکو کوبچائے کہ جن سے ہم طاقت اور قوت پاتے ہیں۔
وعدہ یہ نہیں کہ اگر ہم اپنی مصیبت میں خدا کو پکاریں تو وہ مصیبت کو ہم سے دور کر دے بلکہ یقین تو اس بات کا دلایا گیا ہے کہ اگر ہم خدا کو پکاریں تو وہ ہمیں جواب دے گا۔
ہو سکتا ہے کہ جواب مصیبت کا دور کرنا نہیں بلکہ حوصلہ اور تسلی دلانا ہو۔ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنا سب بوجھ خدا پر ڈال دیں۔ لیکن یہ وعدہ کیا نہیں گیا کہ خداوند بوجھ کو اٹھا لے گا۔ وعدہ اس بات کا ہے کہ بوجھ کے تلے وہ ہم کو سنبھالے رکھے گا۔چاہیئے کہ ہم بوجھ کو اٹھائے رکھیں اور ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ بوجھ تلے ہم بے ہوش نہ ہو جائیں گے کیونکہ خداوند ہمیں طاقت دے گا۔
یقین اس امر کا دلایا نہیں گیا کہ ہم آزمائے نہ جائیں گے۔ بلکہ یہ کہ کوئی ایسی آزمائش ہم پر نہ آئے گی جو انسان کی طاقت سے باہر ہو اور کہ وفادار خدا کوئی ایسی آزمائش ہم پر آنے نہ دے گا جو ہم برداشت نہ کر سکیں۔
یہ ہے جو الہیٰ دوستی ہمارے لئے کرتی ہے۔ یہ زندگی ہمارے لئے آسان نہیں بنا دیتی کیونکہ اس طرح ہم جینے سے طاقت اور نیکی کی کوئی برکت حاصل نہ کریں گے۔ تو پھر ہماری دعاؤں کا جواب کیسے ملتا ہے ؟
خدا ہمیں ایسے سنبھالے رکھتا ہے کہ ہم بے دل نہیں ہوتے۔ اور پھر اس کی برکت ہمارے شاملِ حال رہتی اور ہمیں دانشمندی اور طاقت بخشتی ہے مسیح کی دوستی ہمیشہ ہمدردی سے بھری رہی۔اکثر لوگ ہمدردی کے غلط معنی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمدردی محض کمزوری سے کسی پر ترس کھانا ہے یا کسی بیمار یا غمگین کے سرہانے بیٹھے رہنا اور کسی کو کسی طرح سے مدد یا قوت دینے کی بجائے صرف اس کی تکلیف کا تجربہ اٹھانا ، مصیبت کے وقت میں ایسی ہمدردی سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے شاید دوسرے شخص کو رفاقت کا احساس پیدا ہو جس سے تنہائی کا خیال شاید جاتا رہے۔ لیکن اس سے مصیبت زدہ یا غمگین نہ دلاور نہ طاقتور بنتا ہے۔
بلکہ اس سے تو بوجھ اس کے غم کے احساس کے بڑھ جانے کے طاقت کم ہو جاتی ہے۔ مسیح کی ہمدردی ایسے طور پر ظاہر نہ ہوئی۔
کسی شخص کی ایسی تکلیف اور درد نہ تھی کہ جس سے اس کا دل چھِد نہ گیا اور شفقت اور رحمت کے چشمے اس کے دل سے جاری نہ ہوئے ۔اس نے اپنے دوستوں کی بیماریاں اٹھائیں اور ان کے غم اپنے سر پر لئے اور ہر ایک انسانی تجربہ میں کمال محبت کے ساتھ داخل ہوا۔
لیکن بیماروں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے سرہانے رونے کےلئے اس نے کچھ اور بھی کیا۔
اس کی ہمدردی ہمیشہ ان کی طاقت دیہی کےلئے تھی۔ اُس نے درد یا مصیبت کے بارہ میں مبالغہ کی کبھی جُرات نہ دلائی
کیونکہ اکثر دلوں میں اس بات کا میلان ہے اس نے کبھی خود ترسی، بے ہمت، غمگینی یا بیجا غم کو کبھی پسند نہ کیا۔
اس نے مایوسی کے لہجہ میں غم یا تکلیف کا کبھی ذکر نہ کیا۔ اس نے ہمیشہ امید دلانے اور لوگوں کو مضبوط اور دلاور بنانے کی کوشش کی۔ اس کی خدمت ہمیشہ حوصلہ اور جُرات دلانے کی تھی۔ اس نے اپنے شاگردوں کو بڑی بڑی اصولی صداقتیں سکھائیں
کن جن پر اس کے دوست اپنے غم میں تکیہ کریں اور ان کویہ بھی سکھایا کہ خوش رہو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔
اس نے ان کو اپنی سلامتی اور خوشی دی۔ وہ ان کے ساتھ ان کی افسوس ناک بیچارگی کی حالت میں گِر نہ گیا بلکہ اپنی فتح مند زندگی میں ان کو ہمدردی کے پایہ تک بلند کیا۔ مسیح کی تمام خدمت میں ایک عجیب امید کی جھلک پائی جاتی ہے وہ کبھی پست ہِمت نہ ہوا۔ اس کے لئے ہر ایک غم خوشی کی راہ تھا۔ ہر ایک لڑائی فتح مندی کی برکت کا راستہ تھی۔
ہر ایک بوجھ جس کے نیچے لوگ کراہتے ہیں نئی طاقت کا راز تھا۔ ہر ایک نقصان میں منافع پنہاں تھا۔ یسوع خود ایسی زندگی بسر کرتا تھا۔یہ ایک تھیوری نہ تھی۔ کہ جس کی اس نے اپنے پیروؤں کو تو تعلیم دی لیکن جس کا اس نے خود تجربہ نہ کیا تھا۔
اس نے اپنے دوستوں کو ایسی نامجّرب راؤں کے قبول کرنے کو کہا۔ جو سبق اس نے سکھائے اپنی زندگی میں سب پورے کر کے دکھائے۔ وہ محض ایک استاد ہی نہ تھا بلکہ وہ لوگوں کا پیشوا بھی تھا۔ اس کی دوستی سے خود بخود بڑی بھاری تحریک پیدا ہوتی تھی۔
اس نے لوگوں کی زندگی میں نئی نئی باتیں اور نیا مقصد سکھایا اور اعلےٰ سے اعلےٰ تحصیل میں ان کی مدد کرنے کو ہمیشہ تیار رہا۔
مسیح کی یہ دوستی ایک ایسی تحریک ہے جو دنیا کو الہیٰ نمونوں کی طرف بلند کر رہی ہے۔ جب مسیح نے اپنے قدموں میں صلیب کا سایہ دیکھا اور اپنے بڑے غم کے پھل اور اپنی محبت کے اثر پر فِکر کی تو اُس نے یہ بڑا وعدہ اور پیشن گوئی کی کہ ”میں۔ جب میں زمین سے اوپر اٹھایا جاؤں گاتو میں سب لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لوں گا “ ہر ایک زندگی جو اپنے لئے خدا کی خوبصورتی اور کمالیت کے خیال تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس مبارک دوستی کی طاقت کو محسوس اور استاد کی شبیہ تک ترقی کر رہی ہے
مسیح کی دوستی ہر ایک انسانی دل کے دروازے پر بڑی الہیٰ آرزو کی منتظر کھڑی رہتی ہے۔اس کا یہی پکار ہے کہ
” دیکھ میں دروازے پر کھڑا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے تو میں اس کے پاس اندر جاؤں گا۔
اور اس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا “ یہ مبارک دوستی ہر ایک زندگی کے آگے منتظر رہتی ہے۔ منتظر ہے کہ مقبول ٹھہرے اور اس کی مہمان نوازی کی جائے۔جہاں کہیں یہ مقبول ہوتی ہے دل میں الہیٰ محبت ڈال دیتی ہے کہ جس سے ساری زندگی بدل جاتی ہے۔
مسیح کا دوست ہونا آسمان کی مبارک سنگت میں خدا کا فرزند ٹھہرنا ہے۔