AN ENQUIRY INTO THE MOSLEM CONCEPTION OF GOD
God In Islam
BY THE
REV. WILLIAM GOLDSACK
Translated into Urdu By
Pro. Muhammad Ismail Khan
خدائےِ اسلام
یعنی
اہلِ اسلام کے الہٰی اعتقاد کی تحقیق
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
اللہ حی القیوم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے
(سورہ آل عمران آیت۲)
مصنف
علامہ ڈبلیو گولڈ سیک صاحب
مترجم
پروفیسر محمد اسماعیل خان
THE CHRISTIAN LITERATURE SOCIETY
LONDON, MADRAS AND COLOMBO
1919
REV. WILLIAM GOLDSACK
Australian Baptist Missionary and Apologist
1871–1957
تمہید
کسی مذہب کی فضیلت اس بات میں نہیں ہوسکتی کہ وہ بہت سے ممالک کا مذہب ہے یا اُس کے ماننے والے زیادہ ہیں بلکہ صرف اسی ایک بات میں کہ خدا کی ذات اوراُس کے کیرکٹر کے بارے میں دیگرمذاہب کے مقابلے میں اعلیٰ اورافضل تعلیم دے کیونکہ تمام اخلاقی شریعت کا دارومدار اسی بات پر ہے۔ خواہ کوئی مذہب خدا کی توحید کی تعلیم دے خواہ اُس میں الہٰوں کی کثرت پائی جائے لیکن زيادہ ترقابلِ غور یہ بات ہے کہ خدا کے کیرکٹر اورخدا کی صفات کی تعریف اُس میں موجود ہے یا نہیں۔ کیونکہ کیرکٹر اور صفات کو چھوڑ کر خالص توحید کی تعلیم اُفتادہ انسان کو اٹھانے اوراُس کے دل میں عظمت ایزدی قائم کرنے کےلئے پاگل ناکافی ہے ۔ خدا کے لئے کیرکٹر ازبس بنیادی اورلابُدی اصول میں سے ہے۔
اگرکوئی محقق یہ دریافت کرنا چاہے کہ خدا کے حق میں اہل اسلام کا کیا اعتقاد ہے توعام طورپر اُس کے لئے معلومات کے صرف چار وسیلے ہیں :
اول: قرآن جومجمل وپُرمعنی کلمہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) سکھاتا ہے۔
دوم: احادیث جن میں حضرت محمد کی زبانی تعلیم کا ذخیرہ ملتاہے اوربعد کے زمانے کے بعض خیالات بھی پائے جاتے ہیں ۔
سوم: اجماع یعنی علمائے اسلام کی متفق علیہ رائے۔
چہارم: قیاس یعنی تعلیم اسلام کے متعلق علمائے اسلام کے اخذ کردہ نتائج ۔ پس اب یہ بات صاف ظاہر ہے کہ خدا کے حق میں اہل اسلام کا اعتقاد معلوم کرنے کے لئے ہرچہار شواہد مذکورہ کی تحقیق وتدقیق نہایت ضروری ہے۔ لہذا ہم اس کتاب میں ان چاروسیلوں یعنی قرآن۔احادیث۔ اجما ع قیاس کودکھلادینگے تاکہ پڑھنے والا اُنہیں سے دریافت کرکے فیصلہ کرسکے کہ خدا کی نسبت اہل اسلام کا اعتقاد کہاں تک کافی اورقابلِ قبول ہے۔
حضرت محمد کے الہٰی اعتقاد کے ماخذ ضرور بہت سے تھے۔ غالباً نیچر آپ کا سب سے بڑا معلم تھا۔ چنانچہ قرآن کے بعض نہایت فصیح مقامات میں خدا کی خالقانہ عظمت وبزرگی کا بیان پایا جاتاہے ۔ جب آپ عالمِ شباب میں بھیڑبکریوں کی گلہ بانی کرتے تھے تب بھی ضرور اُس خالق بلندی وپستی کی بزرگ ہستی کا خیال آپ کے دل ودماغ میں سماگیا ہوگا۔ آپ کو ضرور یہ خیال آیا ہوگا کہ کوئی اعلیٰ ہستی آپ کے ہر چہار طرف اپنے وجود کے مظاہرے کے وسیلے سے جلوہ گر ہے۔ چنانچہ بعد کے زمانے میں جوخیالات آپ نے نہایت خوبی وخوش اسلوبی کے ساتھ اپنی بُت پرست قوم کے سامنے پیش کئے وہ اس زمانے میں آپ سیاروں ،ستاروں اورتمام اجرام فلکی کی حرکات اور اللی دانائی وحکمت کی بین آیات سے حاصل کئے تھے۔ پھر کوہ حایرا کی غار میں آپ کے مراقبے نے اسلامی عمارت کا خاکہ تیارکرنے میں آپ کو ضرور بہت مددی ۔ حضرت محمد کی ذکی طبعیت اور دل ودماغ پر بسا اوقات یہ حقیقت نقش ہوگئی ہوگی کہ : خدائے تعالیٰ احکم الحاکمیں ہمیشہ علانیہ شان وشوکت اور کروفر کے ساتھ اور رعدوبرق کے شوروشعب سے باتند اور طوفانِ عظیم کے رُعب کے ساتھ ہی اپنی قادر ہستی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ بخلاف اس کے بسا اوقات عالم خاموشی میں نہایت دھیمی آواز سے نیچر کے ذریعے سے اپنے آپ کو تمام کون ومکان کا خالق ومالک اور قادرمطلق خداوند ثابت کرتاہے۔
پس ظاہر ہے کہ خدا کی نسبت حضرت محمد کے ابتدائی خیالات کی بنیاد اُنہیں حیرت خیز نیچری نظاروں پر تھی جوآپ کے ہرچہار طرف تھے۔ چنانچہ بار بار قرآن کی نہایت شستہ اور فصیح نظم میں آپ اہلِ عرب کو اُس علت العلل کی یادوعبادت کی طرف بُلاتے ہیں۔ قرآن کی ان بتدائی سورتوں میں خدائے قادر کی قدرت وحی کانہایت عمدہ نمونہ یوں مندرج ہے:
" هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِىءُ السَّحَابَ الثِّقَالَ وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاء وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ
(وہی ہے خوف واُمید کے لئے تمہیں بجلی دکھلاتاہے اور وہی بھاری بادلوں کو لاتاہے۔ رعد اُس کی حمد بیان کرتاہے اور فرشتگان بھی ڈرتے ہوئے اُس کی توصیف کرتے ہیں۔ وہ رعد کوبھیجتاہے اوراُس کے وسیلے سے جسے چاہتاہے پکڑلیتا ہے ۔ پھر بھی وہ خدا کی بابت جھگڑتے ہیں لیکن وہ سخت قوت والا ہے)۔
پھر سورہ بقرہ کی ۱۶۴، ۱۶۵ ویں آیات میں یوں مرقوم ہے:
وَإِلَـهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(تمہارا خدا خدائے واحد ہے ۔ اُس کے سوا کوئی اورخدا نہیں ہے ۔ وہ رحمان اوررحیم ہے۔ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور شب وروز کے اختلاف میں۔ دریا میں چلنے والی کشتی میں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتاہے اور بارش میں جو خدا آسمان سے نازل فرماتاہے جس سے زمین کو اُس کی موت کے بعد زندہ کرتاہے اورچوپایوں کو اُس پر منتشر کرتاہے اور زمین وآسمان کے درمیان ہواؤں اوربادلوں کی تسخیر میں سمجھدار لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں)۔
پھر خدا کے بارے میں حضرت محمد کے اعتقاد کا دوسرا ماخذ آپ کے ہمعصر فرقہ حنیف تھا۔ فرقہ حنیف کے لوگوں نے ہر طرح کی بُت پرستی کو ترک کرکے تمام دیگر اہل عرب کے خلاف صرف خدائے واحد کی پرستش وعبادت اختیار کی تھی۔ حضرت محمد کا ان لوگوں سے ضرور میل جول تھا۔اگرخدا کی بابت آپ کی تعلیمات کا عقائد ومسائل حنیف سے مقابلہ کیا جائے توصاف معلوم ہوجائے گا کہ خدائے تعالیٰ کے بارے میں آپ کے خیالات زیادہ تراسی فرقے سے اخذ کئے گئے ہیں۔
سوم۔ خدا کے حق میں حضرت محمد کے خیالات اور عقائد زیادہ اُن میں یہودیوں اور عیسائيوں کی صحبت سے موثر ہیں جو آپ کے زمانے میں ملک عرب میں آباد تھے اگر کوئی اُن تمام یہودی کہانیوں کو پڑھے جوقرآن میں بار بار دہرائی گئی ہیں اور حضرت محمد کے دعویٰ کے سنانے کے لئے عبادت میں شامل کی گئی ہیں توصاف معلوم ہوجائیگا کہ خدا اور دنیا میں خدا کی حکومت کے خیالات میں حضرت محمد کہاں تک یہودیوں کے قرضدار ہیں پھر اس کے ساتھ ہی اگرآپ کے تصورات کا جوش اورشاعرانہ طبیعت بھی مدِنظر ہوتو بخوبی سمجھ میں آجائیگا کہ اہل اسلام کا الہٰی اعتقاد کن کن تاثیرات سے پیدا ہوئے ہیں۔
تمام محققینِ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کا سارا زور خدا کی توحید پر ہے۔ جومشُرک اپنے بُتوں کو چھوڑ کر لا الہ الا اللہ کہنا سیکھ لیتاہے وہ فوراً شخصی عزت بلکہ دیوانگی حاصل کرتاہے جس کے وسیلے سے وہ تمام مشکلات پر غالب آنے کے لائق خیال کیا جاتاہے لیکن جیسا کہ ہم اس سے پیشتر کہہ چکے کہ خدا کی خالص توحید کی تعلیم انسان کی اصلاح کرنے اوراُس کے لئے پاکیزگی کاخاص خیال کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ ان ساری باتوں کا دارومدار خدا کے کیرکٹر اوراُس کی صفات پر ہے۔ اب مسلمان پڑھنے والا تمام تعصبانہ خیالات سے خالی ہوکر ہمارے ساتھ اس امر کی تحیق میں مشغول ہوئے کہ کتب اسلام میں خدا کے بارے میں کیا تعلیم پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ اگرکہیں زبان سخت معلوم ہو تووہ اُس کے خلاف نہیں بلکہ اُن عقائد کے خلاف ہے جوخدا ئے پاک کی شان کے شایاں نہیں ہیں جن کو خدا کا ہرایک مخلص بندہ واجبی غیرت سے ردکریگا۔
اب ہم اہل اسلام کے ابتدائی اور بعد کے تکمیل یافتہ الہٰی اعتقاد کی تحقیق کرتے وقت اکثر اوقات اُس کا مسیحی اعتقاد سے جس کی بنیاد توریت وانجیل کے الہام پر ہے مقابلہ کرینگے اور ہماری دعا ہے کہ وہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ، " راہ راست پر ہماری ہدایت ورہبری کرے۔
خدائےِ اسلام
باب اوّل
وحدتِ خُدا
قرآن میں وحدتِ خدا پر بکثرت عبارات پائی جاتی ہیں اوراُن میں سے بعض فصاحت وبلاغت سے پُر ہیں۔مثلاً سورہ اخلاص میں یوں مرقوم ہے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌاللَّهُ الصَّمَدُلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْوَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ( کہہ اللہ ایک ہے اور اللہ ازلی ہے ۔ وہ جنتا نہیں اورنہ جنا گیا ہے اورنہ کوئی اُس کی مانند ہے) حضرت محمد متواتر نیچر کی خدا کی وحدت کی دلیل کے طورپر پیش کرتے تھے ۔ چنانچہ ایسی عبارات کے نمونے کے طورپر ہم اس جگہ آیت الکرسی درج کرتے ہیں جوکہ سورہ بقرہ میں یوں مندرج ہے۔اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (سورہ بقرہ ۲۵۵ اللہ حی القیوم کے سوا کوئی اورخدا نہیں ہے۔ نہ وہ اونگتا ہے اورنہ سوتا ہے آسمان وزمین کی سب معموری اُسی کی ہے۔ کون اُس کے پاس شفاعت کرسکتاہے سوائے اُس کے جس کو وہ اجازت دے؟ جو کچھ اُن کے آگے اور پیچھے ہے وہ سب جانتاہے اوروہ اُس کے علم کے کسی حصے پر حاوی نہیں سوائے اُس پر جواُسے پسندآتاہے۔ اُس کی سلطنت تمام زمین وآسمان پر ہے اور وہ ان دونوں کی حفاظت سے ماندہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ بزرگ وبرتر ہے)۔
قرآن میں بار بار توحید الہٰی کے ثبوت میں شرک کی نامعقولی پیش کی گئی ہے ۔ چنانچہ سورہ مومن کی ۹۲ویں آیت میں مرقوم ہے " ما اتخذ اللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذالذ ھب کل الہ بما خلق و لعلا بعضھم علیٰ بعض سبحان اللہ عما یصفون " (خدا کا کبھی کوئی بیٹا نہیں ہوا نہ کبھی اُس کے ساتھ کوئی خدا تھا۔ کیونکہ اس حال میں ہرایک خدا اپنی مخلوق لے بھاگتا اور بعض اپنے آپ کو دوسروں پر برتری دیتے اللہ اُن سب باتوں سے پاک ہے جو وہ اُس کے حق میں کہتے ہیں )پھر سورہ انبیاء کی ۲۲ویں آیت میں مرقوم ہے"لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا (اگرزمین وآسمان میں خدا کےس وا اورمعبود ہوتے تو ضرور وہ دونوں(زمین وآسمان ) خراب ہوجاتے ہیں یعنی ان معبودوں کے باہمی مقابلہ اورنااتفاقی کے سبب سے تمام مخلوقات درہم برہم اورتباہ ہوجاتی۔
حضرت محمد نے بدرجہ غائت بُت پرستی کی تردید کی اورسوائے ایک مختصر اور عارضی وفقہ کے ہمیشہ تردید کرتے رہے ۔ بتوں کو" شرشیطانی" کے نام سے نامزد کیا اور متواتر مکروہ ومردود ٹھہرایا۔ صاف بیان کیاکہ بُت ہمارے نفع ونقصان کی قدرت نہیں رکھتے اور بُت پرستوں کی سزا کو نہایت ہولناک صورت میں پیش کیا۔ آپ نے صرف لامذہب عربوں ہی بُت پرستی کو ملعون ومذموم قرار نہیں دیا بلکہ ایک اوراعتقاد کو جس کے مطابق فرشتگان کو بیویوں اور بیٹیوں کے طورپر خدا سے منسوب کیا جاتا تھا ۔نہایت ہجو یہ الفاظ میں مذموم بیان کیا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی ۴۲ آیت میں مرقوم ہے " أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلآئِكَةِ إِنَاثًا " (کیا تم کو تمہارے رب نے بیٹے چن دئے اوراپنے لئے فرشتوں سے بیٹیاں لیں؟)اسی طرح سے الہٰی انتظام میں خدا کے ساتھ کسی کوشریک ماننے کے خیال کی بھی قرآن نے تردید کی چنانچہ سورہ انعام کی ایک سوپہلی آیت میں یوں مندرج ہے " توبھی وہ جنوں کو اُس کا شریک بناتے ہیں حالانکہ اُس نے اُنہیں پیدا کیا ہے"۔
لیکن حضرت محمد نے صرف بُت پرستی کی تردید نہیں کی بلکہ مسیحیوں کو مُشرک ٹھہرایا اوراُن پر تین خدا ماننے کا الزام لگایا۔ اس الزام کی بنیاد تعلیم تثلیث پرتھی جس میں مسیح کی الہٰی انبیت شامل ہے۔ یہودیوں پر بھی یہ الزام لگایا کہ وہ عذرا کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں حالانکہ نہ اُن کتابوں میں اس کا ذکر ہے اور نہ اُن کی روایات ہی میں اس کا کچھ پتہ ملتاہے کہ اُنہوں نے کبھی عذرا کو ابن اللہ یا خدا کا بیٹا کہا۔تثلیث کی نسبت جوبیشمار حوالجات قرآن میں پائے جاتے ہیں اُن سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ راسخ الاعتقاد مسیحیوں میں تثلیث کی جوتعلیم مانی اور سکھائی جاتی ہے آپ اُسے مطلق نہیں سمجھے۔ ایک سے زیادہ مرتبہ غلطی سے باپ ،بیٹے اورمریم کو تثلیث کے اقانیم ثلاثہ کے طورپر پیش کیا ہے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ کی ۷۷ویں آیت سے ۷۹ ویں آیت تک یوں مرقوم ہے" لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَـهٍ إِلاَّ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ يَنتَهُواْ عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ۔
(کافر کہتےہیں یقیناً اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ مسیح ابن مریم محض ایک رسول ہے۔ اُس سے پیشتر رسول ہوچکے ہیں اوراُس کی ماں مومنہ تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے)پس اب قرآن ہی کے بیان سے اظہر من الشمس ہے کہ تثلیث کی جس تعلیم کو مسیحی مانتے اورسکھاتے ہیں حضرت محمد نے اُس کی تردید نہیں کی بلکہ لاعلمی کے سبب سے ایک خیالی اوروہمی تین خداؤں کے ایمان کی مخالفت کرتے رہے۔ چنانچہ سورہ مائدہ کی ۱۱۶ویں آیت میں مندرج ہے ۔وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ (اورجب خدا نے کہا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تونے لوگوں سے کہاکہ مجھ کو اورمیری ماں کو اللہ کے سوا دومعبود مانو؟)حضرت محمد کی غلطی مفاعف تھی ایک توآپ نے اقانیم تثلیث میں روح القدس کی جگہ مریم کو شامل کیا اوردوسرے یہ خیال کیاکہ مسیحی لوگ اقانیم ثلثہ تثلیث کو جُدا جُدا تین خدا مان کر اُن کی عبادت کرتے ہیں ۔ پس جس بات کی قرآن بڑے زوروشور سے تردید کرتاہے وہ الہوں کی کثرت ہے۔ مسیحی لوگ بھی ایسے مشرکانہ خیال واعتقاد کی تردید کرنےمیں مسلمانوں سے کم غیرت مندنہیں ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ نیک نیت وحق پسند مسلمان حضرت محمد کیاان غلطیوں کی موجودگی میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کلام اللہ ہے جو جبرائیل فرشتہ کی معرفت حضرت محمد پر نازل ہوا۔ اس مقام پر یہ امر نہایت ہی قابل غور ہے کہ عرب میں علم الاشیاء قدیمہ کی معلومات زبان اور تواریخ کے فتویٰ کی پورے طورسے تصدیق کررہی ہیں اوراُن سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ جومسیحی عرب میں آباد تھے وہ اقانیم ثلثہ تثلیث میں باپ، بیٹے اور روح القدس ہی کو شامل کرتے تھے کیونکہ یمن میں ڈاکٹر ایڈورڈ گلیسر صاحب نے مسیحی لوگوں کی یادگاروں کو دریافت کیا تو ان پر ۵۴۲ء کا یہ لکھا پایاکہ " خدا ئے رحیم اوراُس کے مسیح اورروح القدس کی قدرت سے " ۔
مسیحیوں کے الہٰی اعتقاد کی بنیاد اُن الفاظ پر ہے جوسیدنا مسیح نے استعمال کئے جیساکہ انجیل مرقس کے ۱۲ویں باب کی ۲۹ویں آیت میں مرقوم ہے" اے اسرائیل سن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے" مسیحی اعتقاد میں تثلیث فی التوحید ہے نہ کہ جُدا جُدا تین خداؤں کی تعلیم۔ لیکن حضرت محمد نے غلط فہمی کی اوراس غلط فہمی میں آپ کے مومنین بھی اُس وقت سے آج تک شریک ہوتے چلے آئے ہیں۔ آپ نے مسیح کی الہٰی ابنیت کو نہ سمجھا اوریہ خیال کرکے کہ مسیحی لوگ مسیح کو خدا کا جسمانی بیٹا مانتے ہیں اُس کی تردید کی۔ آپ کی یہ غلط فہمی قرآن سے بخوبی ظاہر ہے چنانچہ مثال کے طورپر ہم ایک دوآیتیں نقل کرتے ہیں۔ سورہ انعام کی ایک سوپہلی آیت میں مندرج ہے بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ (وہ زمین وآسمان کا خالق ہے۔ اُس کا بیٹا کہاں سے ہوگا جبکہ اُس کی کوئی بیوی نہیں ہے)۔ پھر سورہ مومن کی ۹۲ویں آیت میں مرقوم ہے" وما اتخذ اللہ من ولد" (خدا کا کوئی بیٹا نہیں ہے)۔ مفسرزمخشری کی تفسیر کے مطالعے سے کسی قدر معلوم ہوسکتاہے کہ ابنیتِ مسیح کے بارے میں مسلمانوں کے کیا خیالات ہیں ۔ چنانچہ مفسر مذکور سورہ نساء کی ۱۶۹ ویں آیت کی تفسیر میں لکھتاہے کہ اس مقام پر قرآن اُنہی کے (مسیحیوں کے) الفاظ کو پیش کرتا ہے کہ خدااور مسیح اورمریم تین خدا ہیں اورمسیح خدا اور مریم کا بیٹا ہے" جب مسلمانوں کے ذہن میں تثلیث کے بارے میں ایسے خیالات ہیں توکچھ تعجب نہیں کہ عقیدہ تثلیث کو توحید کامنافی سمجھتے ہیں لیکن اگر ٹھیک طور سے سمجھ لیا جائے تومسئلہ تثلیث ہرگز ہرگز منافی توحید نہیں ہوسکتا۔ مسیحی بھی خدا کی وحدت وتوحید پر بہت زوردیتے ہیں اورمسلمانوں کی طرح مانتے ہیں کہ صرف ایک ہی خدا ہے۔ مریم کو خدا ماننا اوراُس کی خدا کی سی عبادت کرنا اورمسیح کو خدا کے سوا ایک اور خدا ماننا تمام مسیحیوں کے نزدیک کفر عظیم ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ " ایک زندہ وازلی خدا کی ذات پاک میں یا اُس قدوس کی واحد ذات وہستی کے اندر اندر اقانیم ثلثہ ہیں" ہرگز ہرگز توحید الہٰی کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ بخلاف اس کے یہ حقیقت دین اور فلسفہ میں بہت سی باتوں کے سمجھنے میں مدد کرتی ہے اور "کلمتہ اللہ " و" روح اللہ" وغیرہ مسیح کے القاب پر جوکہ کسی محض انسان کے حق میں استعمال نہیں ہوسکتے بخوبی روشنی ڈالتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر برادران اہلِ اسلام اپنے پُرانے خیالات کو چھوڑ کر اورمسیح کی ابنیت کے جسمانی خیال کو ترک کرکے اُسے روحانی تعلیم کے طورپر سمجھنے کی کوشش کریں تو اُن کو مسیحی تعلیم تثلیث میں کوئی ایسی بات نہیں آئیگی جس سے خدا کی وحدت کی مخالفت ہو۔ پہلے تمام مخلوقات سے خدا کے وجود کا جدا تصورکریں اوراُسے اُسکی بے نظیر وپرُجلال توحید کے تخت پر دیکھیں اورپھرذہن کی آنکھیں کھول کر واحدِ خدا کی ذات پر غورکریں۔ جیساکہ خدا کی صفات میں کثرت دیکھتے ہیں ممکن ہے کہ اُس کی واحد ذات میں بھی کثرت کا مشاہدہ کریں۔ لیکن اس ذاتی وصفاتی کثرت سے اُس کی وحدت میں کچھ فرق نہیں آتا۔وہ ویسا ہی لاثانی اور وحدہ لاشریک لہ رہتاہے۔ پس مسیحیوں اور محمدیوں میں امرمتنازعہ یہ نہیں کہ آیا خدا ایک ہے یاایک سے زیادہ ہیں بلکہ اصل مبحث یہ ہے کہ واحدِ خدا کی ذات کیسی ہے اوراُس ذات میں کونسے راز مخفی وسربستہ ہیں۔
اگراہل اسلام خدا کی ذات پر اس طرح سے غورکرنا شروع کریں توہمیں پختہ یقین ہے کہ اُن کی بہت سی مشکلات کا فور ہوجائیگی ۔ اس مقام پر یہ امر ملحوظ ظاہر ہے کہ خدا کی تثلیث فی التوحید ذاتِ الہٰی کا مکاشفہ ہے اورمسیحیوں کے ایمان کی بنیاد اسی حقیقت پر ہے۔یہ ممکن ہے کہ اس کے متعلق بہت سی مشکلات ہوں لیکن یہ مشکلات اُن مشکلات سے ہرگز ہرگز بڑی خیال نہیں کی جاسکتیں جواُس خشک توحید سے علاقہ رکھتی ہیں جس کے لحاظ سے خدا ہمیشہ سے ایک سنسان تنہائی میں موجود ہے۔ یایوں کہیں کہ محب بے محبوب ہے یا عالم بلا معلوم ہے۔
ہم ہر چہار طرف سے راز رموز سے محصور ہیں اوراُن اسرار سے تثلیث فی التوحید کی نسبت بہت سے اشارات ملتے ہیں۔ مثلاً آفتاب میں قوت ، گرمی، اورروشنی یاہرانسان فردواحد میں جسم، ذہن اور روح پر ہے۔ پس اگرخدا کی ذاتِ واحد میں ہستیوں کی کثرت پائی جائے توکچھ تعجب کی بات نہیں ہے بہر حال جبکہ ہم مخلوقات کے اسرار کو سمجھنے سے عاجز وقاصر ہیں توکیا" یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات کا مصداق بننا نہیں ہے کہ ہم الہٰی ذات کے اسرار کوسمجھنے کا دعویٰ کریں اور خود رائے بن کر اُس کی ذات میں تثلیث کے امکان کے منکر ہوں۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے لحاظ سے الہٰی وحدت میں کسی نہ کسی طرح کی کثرت ماننی پڑتی ہے۔ مثلاً انسانیت کا ایک اعلیٰ وپاکترین تقاضا" محبت" ہے ۔ انسان محبت کرتاہے اوریہ بھی آروز رکھتاہے کہ اُس کے ہم رُتبہ ہمجنس اُس سے محبت رکھیں کیاہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا خود انسان کا خالق کسی وقت اس وصف " محبت" سے خالی تھا؟ کیا وہ دنیا اور فرشتگان کی پیدائش سے پیشتر خالی از محبت خشک وحدت میں موجود تھا ؟ اس قسم کے خدا کی شخصیت بمشکل ہی متصور ہوسکتی ہے۔کیونکہ شخصیت کا مفہوم ایسی ذات ہے جس کو اپنی اوراپنے خواص کی ہستی کا علم واحساس ہویعنی اُس کے لئے عالم ومعلوم ہونا ضرور ہے ۔ ہمہ اوست والوں نے بھی اس حقیقت کا اقرار کیاہے اورایک طرح کی تثلیث قائم کی ہے جس کادارومدار کائنات ہی پر رکھاہے۔ اُن کے خیالات کے مطابق خدا اپنے آپ کو کائنات سے تمیز کرتاہے اوراس طرح اپنی ہستی کے احساس کی صفت سے متصف ہے۔ چنانچہ لکھاہے کہ " چونکہ خدا ازلی ہے وہ ہمیشہ اپنی ذات کے احساس کے لئے اپنے مقابلے میں فطرت کو قائم رکھتاہے" مسیحی علما اس الہٰی ذات کے احساس کا ذریعہ سیدنا مسیح خدا کے ازلی بیٹے میں پاتے ہیں ۔ لہذا مسیحی فلسفہ الہٰی الہام سے پوری پوری مطابقت رکھتاہے۔ اگراہل اسلام مندرجہ بالا بیان کو سیدنا مسیح کے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھیں توصاف معلوم ہوجائے گا۔کہ اسلامی خشک توحید کے مقابلے میں تثلیث فی التوحید کی تعلیم نہایت ہی اعلیٰ وتسلی بخش ہے ۔ سیدنا مسیح کے دعائیہ الفاظ کیسے پُرمعنی ہیں چنانچہ وہ فرماتاہے "اے باپ تواُس جلال سے جومیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنادے" پھر فرمایا " تونے مجھے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی"(یوحنا ۱۷: ۵، ۲۴)۔
اسمائے الہٰی مندرجہ قرآن میں سے ایک " القیوم" ہے کیا لیکن القیوم کا یہ تقاضہ نہیں کہ کسی طرح کی کثرت اُس ذات واحد کے اندر اندر پائی جائے تاکہ اُس ذات کا کامل اظہار ہو؟ شہرلاہور کی پُرانی مسجدوں میں سے ایک کی دیوار پر" اللہ کافی" کندہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں وہ سب کچھ موجود ہے جواُس کے کامل اظہار کے لئے ضرور ہے۔ پھر "الودود" کہلاتاہے ۔ اس سے بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ محبت ومحبوب اورمحبت کے تمام لوازم اپنی ذاتِ واحد میں رکھتاہے اورکسی بیرونی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ اگرخدا واجب الوجود اورالقیوم ہے تو ضرور اُس کی ازلی محبت کے لوازم اُس کی ذات پاک میں موجود ہیں۔ اسلامی خشک الوہیت کے خیال کے مطابق توخدا صفتِ محبت سے عاری ٹھہرتاہے درحالیکہ اُس کے مخلوق انسان میں محبت کا جذبہ موجود ہے۔ لیکن یہ بات توغیر متصور ہے کیونکہ خالق اپنی ذات وصفات میں مخلوق س ادنیٰ نہیں ہوسکتا۔
الغرض چونکہ تثلیث کی تعلیم میں مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے یہ انسانی اختراع نہیں ہے اوریہ بھی یادررہے کہ یہ تعلیم موحد یہودیوں سے رائج ہوئی جن کا میلان خاطر اس کے خلاف ہونا چاہیے تھا۔ جو کچھ کہا جاسکتاہے وہ سب کہنے کے بعد انسان کو لازم ہےکہ خدا کی ذات کا عرفان حاصل کرنے کےلئے الہٰی الہام کو اپنا رہنما بنائے ۔کیونکہ انسان اپنی جستجو سے خدا کو نہیں پاسکتا اوراپنے ناقص علم کے وسیلے سے اُس کی لامحدود ذات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا ۔ خدا کو پورے طور سے جاننے کےلئے ضرور ہے کہ ہم خود خدا ہوں یابرعکس اس کے یوں کہیں کہ جس کو انسان پورے طور سے جان سکے وہ خدا بھی نہیں ہوسکتا۔مذکورہ بالا بیانات کے مطابق جبکہ خدا کی ذاتِ واحد میں کسی طرح کی کثرت کا ہونا ضرور ہے اورکلام اللہ سے اُس کی ذات کے بارے میں تثلیث فی التوحید کی تعلیم ملتی ہے توایمان مضبوط ہوتاہے اور امید تازہ ہوتی ہے۔جب سیدنا مسیح اپنے متحیر شاگردوں کے سامنے آسمان پر صعود فرمارہے تھے اُس نے اُنہیں فرمایا" جاؤ اورقوموں کو باپ بیٹے اور روح القدس کے نام سے (نہ کہ ناموں سے) بپتسمہ دے کر شاگرد بناؤ" مسیحی لوگ اسی نام کی منادی کرتے ہیں۔ باپ تمام چیزوں کو منبع وسرچشمہ ہے ۔ بیٹا ازل سے باپ کے ساتھ ہے اور روح القدس باپ اوربیٹے سے صادر ہے اورایک ہی خدا ہے۔ اسلام میں خدا اپنی خشک توحید اوربیگانہ وار بزرگوں میں ایسا نظر آتاہے کہ اُس کی ذات صفات جوبیان کی جاتی ہے اُس میں قائم نہیں ہوتیں۔ لہذا اسلام خدا کی تعریف میں قاصر ہے اورتوریت وانجیل کی الہٰی تعلیم اورمکاشفات کا مخالف ہے۔
اب دوم
صفاتِ خدا
قرآن اور احادیث میں جوصفاتِ خدا سے منسوب کی گئی ہیں اُن کو عموماً ازلی بیان کیا ہےوہ ننانوے(۹۹) اسمائے الہٰی کے نام سے مشہور ہیں۔ لہذا خدا کی صفات پر غوروفکر کرتے وقت ان ننانوے اسمائے صفات پر غور کرنا ازبس ضروری ہے۔ خدا کا اسم الذات یاذاتی نام اللہ ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ یہ نام ننانوے ناموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اسمائے صفات کی دوقسمیں ہیں۔ اوّل اسماء الجلالیہ دوم اسماء الجمالیہ ۔ یہ سب نام آپ ہی اپنی شرح کرتے ہیں ۔ مثلاً الرحٰمن پہلی قسم کی فہرست میں آتاہے لیکن المنتقم دوسری قسم کی فہرست میں آئیگا۔ اسلام کے علم الہٰی میں ان ناموں کی اہمیت کا ذکر کرتے وقت مبالغہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کے وسیلے سے نہایت صفائی اورصراحت کے ساتھ معلوم ہوجاتاہے کہ خدا کی صفات اورکیرکٹر کے بارے میں اہل اسلام کا خیال واعتقاد کیا ہے۔ ان ناموں کے ورد کا بہت ہی بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ مشکوات میں یوں مرقوم ہے" من احصاھادخل الجنہ" (جوکوئی ان کا ورد کرتاہے بہشت میں جائے گا)۔
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ بہت سے دینی معلموں کی غلطی اس میں نہیں جوکچھ وہ خدا سے منسوب کرتے ہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ وہ بہت سے ایسے امور کو نظر انداز کرتے ہیں جنہیں خدا سے منسوب کرنا چاہیے۔ ان ننانوے وصفی ناموں میں سے زیادہ ترخدا کی قہاری وجباری کا اظہار کرتے ہیں اوراُس کے جلال کا بیان کرنے والے بہت ہی تھوڑے ہیں۔ بیشک یہ سچ ہے کہ قرآن میں ایک سورہ کے سوا سب کے شروع میں خدا کو " رحیم ورحٰمن" لکھاہے اوربار بار اس کو غافر الذنوب بیان کیا ہےلیکن یہ حقیقت پھر بھی قائم رہتی ہے کہ قرآن خدا کو زیادہ ترصاحب قدرت اورمطلق العنان حاکم ہی بیان کرتاہے اورخدا کی فرمانبرداری کی بنیاد اُس کا خوف اورمحبت بالکل مفقود ہے۔ خدا کے اخلاق کے متعلق صرف چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اوراگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ اخلاقی صفات ہیں توبھی قرآن میں صرف دوہی الفاظ ملتے ہیں اوراسلامی علم الہٰی میں اُن کے بھی معانی مشتبہ ومشکوک ہیں۔ خدا کی قہاری وجباری کی صفات قرآن میں بار بار ذکر کی گئی ہیں۔ خدا کی اخلاقی صفات کا خلاصہ یا ماحصل اُن دوآیتوں میں پایا جاتاہے جن میں مندرج ہے کہ اللہ پاک اور صادق العقول ہے۔ قرآن بتاتاہے اوراحادیث سے اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ حضرت محمد کو کسی حد تک خدا کی جسمانی صفات کا خیال توتھالیکن اُس کی اخلاقی صفات کا خیال یاتوتھا ہی نہیں یابلکل غلط تھا۔ آپ نے فطرت میں خدا کی قدرت کودیکھا لیکن اُس کی پاکیزگی اوراُس کے عدل وانصاف کی جھلک آپ کو نصیب نہ ہوئی۔
جب خدا کے ننانوے ناموں کی فہرست میں " باپ" نظر نہیں آتا تومسیحی آدمی کو اس سے سخت حیرت ہوتی ہے۔ اگر قرآن واحادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بائبل کے مکرر اعلان" خدا جہان کو پیارکرتا ہے" کا نہ پایا جانا ازحد پریشانی پیدا کرتاہے جس دین میں ابتدا ئےِ عالم سے پیشتر ہی سے خدا جہان کو پیار کرنے والا نہیں اُس میں یہ تعلیم کہاں پائی جاسکتی ہے کہ کائنات کی تخلیق کے بعد سے خدا اپنی مخلوقات کوپیار کرتاہے۔ لفظ "اسلام" اس امر کے اظہار کے لئے کافی ہے کہ خدا اورانسان میں بجائے باپ اور بیٹے کے آقا اورغلام کا رشتہ ہے۔ اور انسان کا رتبہ صرف یہی ہے کہ قادرِمطلق خدا کی مرضی کا محض مغلوب ہی ہو۔
اہل اسلام بحیثیتِ مجموعی ان ننانوے اسمائے صفات سے بہت ہی متاثر ہوئے ہیں ۔ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ" کے بعد سب سے زیادہ" اللہ اکبر " مسلمانوں دردزبان ہے۔ پس اہل اسلام کا تصور جوخدا کے بارے میں ہے اُس میں کچھ محبت نہیں جوعابد کو معبودوں کی طرف طبعاً مائل کرکے فرمانبردار بنائے تاکہ وہ محبت اور دلی رغبت سے خدا کی مرضی کا مطیع بنے۔ خدا کااسلامی تصور یہ تقاضا کرتاہے کہ خدا کی ایک جابر حکم کی مانند غلامانہ فرمانبرداری کی جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرزندانہ محبت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ حضرت محمد نے مسیح کی ابنیت کی تردید کی اوراس کا اسباب یہ تھاکہ آپ اُس کو روحانی پیرایہ میں نہ بیان کرسکے اور نہ سمجھ سکے لیکن خدا کو آپ نے ایسا جسمانی تصور کرلیا کہ گویا وہ تخت پر بیٹھا اپنے ہاتھ سے تقدیر ہائے نیک وبدلکھ رہا تھا۔ اب کیا ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت محمد کا خیال خدا کی شخصیت کے بارے میں بالکل غلط تھا اوراسی واسطے آپ اس خیال میں الجھ گئے کہ مسیح کی ابنیت کی نسبت مسیحی تعلیم کو یوں تصور کیاکہ اُس کے مطابق گویا وہ مریم طاہرہ سے جسمانی طورپر پیدا ہوا۔
باب سوم
عقائد تجسمِ خدا
قرآن کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ بہشت ودوزخ کے متعلق بیانات مادی ہیں۔کیونکہ حضرت محمد نے زیادہ تر اہلِ بہشت کی نفسانی عیش وعشرت اوراہلِ دوزخ کے جسمانی عذاب ہی کے بیان میں اپنے تمام تصورات کو صرف کیا ہے۔ قرآن اوراحادیث میں ایمانداروں کو بہشت میں بہت سی نفسانی خوشیوں کے وعدئے دئیے گئے ہیں۔ اُن خوشیوں کے بیان نہایت مفصل اور مشرح طورپر مندرج ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ شرابّ طہور کی نہریں جاری ہونگی اورموٹی موٹی سیاہ آنکھوں والی حوریں اہل جنت کی خوشی کوکامل کرینگی۔ بخلاف اس کے دوزخ نہایت ہی ہیبت ناک جگہ ہے۔ وہاں اہل دوزخ کو آتشی لباس پہنا جائیگا اور ابُلتا ہوا پانی اُن کے سروں پر ڈلا جائے گا ۔ جس کی گرمی سے اُن کی آنتیں پگل کر نکل جائیگی اورلوہے کے گرزوں سے اُن کو مارینگے۔خون اورپیپ کا مرکب انہیں کھانے کو ملیگا اوراُن بدبختوں کو سانپ اور بچھو متواتر ڈنک مارتے رہینگے ۔ حضرت محمد کا خیال اس جسمانی سوزش کےعذاب سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس قسم کی سزا کو بہت سے شہیدوں نے مسکراتے ہوئے برداشت کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ کے جہنم میں ذہنی اور عقلی سزا کا نام تک نہیں پایا جاتا۔
پس کچھ تعجب کا مقام نہیں کہ جب حضرت محمد کا دماغ ایسے مادی بہشت ودوزخ کے خیال سے پُر تھا توآپ نے خدا کو بھی ایسا ہی مادی بیان فرمایا۔ چنانچہ قرآن میں بہت سے مقامات پر خدا کے چہرے اُس کے ہاتھوں اوراُس کی آنکھوں کا ذکر ہے اوراُسے ایک تخت پر بیٹھا ہواتصور کیا ہے۔ مفسر حسین لکھتاہے کہ اس تخت کےآٹھ ہزار پائے ہیں اورہر دوپایوں کا درمیانی فاصلہ تیس لاکھ میل ہے ! قرآن واحادیث کے ان مقامات کی شرع میں مفسرین کو بڑی مشکل پیش آتی ہے اوراُنہوں نے صرف یہ طریقہ پسند کیا ہے کہ ان باتوں کو بے تفسیر اور بے دلیل ہی تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طورپر ہم مالک ابن انس کے بیان کو پیش کرتے ہیں۔ وہ خدا کے تخت پر بیٹھنے کی نسبت یوں لکھتا ہے " خدا کا تخت پر بیٹھنا تومعلوم ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کس طرح بیٹھا ہوا ہے۔اس کو ماننا فرض ہے اورکسی طرح کی چون وچرا کرنا بدعت ہے" ۔ اس مقام پر یہ کہنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق مادی لوحِ محفوظ سے نقل ہوکر مادی کتاب آسمان سے نازل ہوئی لہذا اس کا مقام یعنی تختِ خدا بھی مادی ہونا چاہیے۔ پس جب مادی تخت تسلیم کرلیا توخدا کو مادی ماننے میں ایک ہی قدم باقی رہ جاتاہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے یہ قدم باقی نہیں رکھ چھوڑا اورخدا کو مادی جسم وصورت کے ساتھ تصور کیا ہے لیکن پھر بھی جیساکہ ترمذی کے بیان سے ظاہر ہے علمائے اسلام اس امر کے باب میں نہایت ہی ششدروحیران ہیں۔ حضرت محمد نے کہا تھا" خدا ساتوں آسمانوں کے سب سے نچلے پر اُترآیا" جب ترمذی سے اس کی نسبت پوچھا گیا تواُس نے جواب دیا کہ" خدا کا اُترآناتو قرین قیاس اور معقول بات ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ کس طرح سے اُترآیا ۔ اس پر ایمان لانا فرض ہے لیکن اس کے متعلق تحقیقات کرنا مذموم وبدعت ہے"۔
بیشک فرقہ معتزلہ اوردیگر بدعتی فرقوں کے علماء نے اس قسم کے تمام مادی خیالات کی تردید کی اورتجسم کے الفاظ کے روحانی معانی بیان کئے لیکن راسخ الاعتقاد فرقوں کے علماء نے اُنہیں خوب سرزنش کی اوراُن میں سے بہت سے اس جرات وتہور کے سبب سے مار ڈالے گئے ۔ پھر جب اُن کومقدرت نصیب ہوئی تواُنہوں نے بغدادی سلطنت کے زمانے میں راسخ فرقوں سے وہی سلوک کیا۔ جلال الدین السیطوی ان کے ظلم وتشدد کے باب میں بیان کرتاہے کہ خلیفہ الواثق نے احمد(بن نصرالکفائی)محدث کو بغداد میں طلب کیا اور اُس سے قرآن کے خلق کئے جانے اورقیامت کےدن دیدارالہٰی کےبارے میں سوال کیا خلیفہ مذکورہ خود اُن دونوں کا منکر تھا۔ احمد نے جواب دیا" ستروں ربکم یوم القیامتہ کما ترون القمر)روزِ قیامت میں تم اپنے رب کو اس طرح دیکھوگے جس طرح چاند کودیکھتے ہو)الواثق نےکہا" توجھوٹ بولتاہے" ، " احمد نے جواب دیا " نہیں میں جھوٹ نہیں بولتا بلکہ توجھوٹ بولتاہے " اس پر خلیفہ نے کہا" کیا خدا ایک دائرے میں اُس مادی چیز کی مانند نظر آئیگا جس کوجگہ مقید کرسکتی ہے اورآنکھیں دیکھ سکتی ہیں؟ یہ کہکر معتزلہ پیشوانے اٹھ کر اپنے ہاتھ سے احمد کو قتل کیا ۔تاہم آخرکار راسخ الاعتقاد فرقے کے لوگ غالب آئے اورنتیجتہً ہرایک پکے مسلمان کو یہ ماننا پڑتاہےکہ قیامت کے روز خدا مادی طورپر نظر آئے گا اوراس عقیدے کی بنیاد قرآن واحادیث کے صاف وصریح الفاظ پر ہے۔ چنانچہ سورہ قیامت کی ۲۲ویں آیت میں یوں مرقوم ہے۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌإِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ" کتنے منہ اُس دن اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوئے تازہ ہونگے)۔ حضرت محمد کی بہت سی احادیث خدا کے مادی دیدار کے متعلق موجود ہیں اوراُن سے صاف معلوم ہوجاتاہے کہ اس امر کے بارے میں آنحضرت کے خیالات کیسے تھے یہاں تک کہ شک وشبہ کی مطلق گنجائش نہیں رہتی۔ چنانچہ مشکوات المصابیح میں مرقوم ہے" قَالَ إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنْ النَّارِ قَالَ فَيَرفع الْحِجَابَ فَينظُرونَ إلى وجه الله تعالى فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ (پیغمبر نے فرمایا کہ جب اہلِ جنت میں داخل ہونگے تواللہ تعالیٰ اُن سے کہیگا کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں اوردوں؟ تب وہ کہینگے کیاتونے ہمارے چہروں کوروشن نہیں کیا اورکیا تونے ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا اور آتش دوزخ سے نہیں بچایا؟ تب خدا پردہ اٹھائيگا اور وہ اللہ تعالیٰ کےچہرے پر نظر کرینگے ۔ اُن کو دیدار الہٰی سے زیادہ مرغوب کوئی چیز نہیں دیجائیگی)۔اگر کوئی معراج کا بیان پڑھے تواُس پر بخوبی ظاہر ہوجائیگا ۔ کہ علمائے اسلام نے کہاں تک حضرت محمد کی شان میں مبالغہ وغلو سے کام لیا ہے۔ چنانچہ لکھاہے کہ " خداوند مجھ سے ملاقات کرنے کو آیا اورمجھ کو مرحبا کہنے کےلئے اپناہاتھ بڑھایا اورمیرے چہرے پر نظر کی اورمیرے کندھے پر ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کے سروں کی ٹھنڈک محسوس کیا" پھرایک اور موقع پر جب آپ سورہے تھے خدا ملاقات کو آیا۔ چنانچہ مشکوات المصابیح میں یوں مندرج ہے" وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ" (اُس نے اپنی ہتھیلیوں کومیرے کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اُس کی انگلیوں کی ٹھنڈک کو اپنے سینے میں محسوس کیا۔
اس بات کے ثبوت میں کہ مندرجہ بالا بیان راسخ الاعتقاد مسلمانوں کی تعلیم ہے ہم ذیل کا بیان جوہرہ سے نقل کرتے ہیں۔ ۱۰۷سے ۱۱۲ صفحے تک یوں مرقوم ہے" خدا کودیکھنا اس دنیا میں بھی اور عالمِ آخرت میں بھی ممکن ہے۔ اس دنیا میں تو صرف حضرت محمد ہی کو خدا کا دیدار نصیب ہوا ہے اور عالمِ آخرت میں تمام مومنین اُسکودیکھینگے بعض کا خیال ہے کہ صرف آنکھوں سے دیکھینگے۔ بعض کے نزدیک تمام چہرے سے اور بعض کہتے ہیں کہ تمام جسم سے یاجسم کے تمام اعضاء سے دیکھینگے۔
مومنین کے اجر کے بارے میں قرآن میں ایک مشہور آیت ہے اور صحیح احادیث کی سند سے مفسرین اس آیت سے دیدار الہٰی کی طرف اشارہ پاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ یونس کی ۲۷ویں آیت میں مندرج ہے " لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ"( جنہوں نے بھلائی کی اُن کے لئے بھلائی اورزیادتی ہے)مفسرین کہتے ہیں کہ " بھلائی " سے بہشت اورگناہوں کی معافی مُراد ہے اور" زیادتی " کا فہوم فرحت افزادیدارِ خدا ہے۔ چنانچہ خلاصتہ التفاسیر کامصنف اس آیت کی تفسیر میں یوں لکھتاہے " حسنیٰ سے جنت اور مغفرت۔۔۔ اورزیادتی سے دیدار الہٰی مُراد ہے۔ اسی آیت کی تفسیر میں عباس یوں لکھتاہے " الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ: يعنی النظر إلى وجه الله (حسنیٰ سے جنت اور "زیادتی" سے خدا کے چہرے پر نظر کرنا مراد ہے۔
اب ممکن ہے کہ کوئی یوں کہے کہ مندرجہ بالا حوالجات میں جن مقامات کا ذکر ہواہے اُنہی کی مانند بائبل میں بھی خدا کے چہرے اورہاتھ وغیرہ کا ذکر پایا جاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ بالکل سچ ہے لیکن بائبل سےمادی خدا کی تعلیم قائم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ بائبل میں (اس قسم کے جتنے مقامات ہیں اُن کے معانی سوائے بالکل روحانی اور تشبیی کے اورکچھ ہوہی نہیں سکتے۔ مثلًا صاف لکھاہے کہ" خدا روح ہے" (یوحنا ۴: ۲۴)۔ " کبھی کسی آدمی نے خدا کو نہیں دیکھا"(یوحنا ۱: ۱۸)۔ " خدا نے نادیدہ " (کلسیوں ۱: ۱۵)۔ پُرانے عہدنامے میں بھی جہاں جہاں خدا کے ظاہر ہونے کا ذکر ہے وہاں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ خداوند کا "فرشتہ" لوگوں کے ساتھ چلتاہے اوراُن سے ہم کلام ہوتا تھا۔ مسلمان مفسرین کے مبالغوں سے پُربے ٹھکانہ بیانات اوربائبل کے بیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے" مفسرین اسلام کے ان بیانات کی بنیاد حضرت محمد کے صاف وصریح الفاظ پر ہے۔ حضرت محمد نے خدا کو اور شیطان کو مادی وجود کے ساتھ متصور کیا ہے۔ چنانچہ مشکوات المصابیح میں شیطان کے بارے میں یوں مندرج ہے" وَوَقْتُ صَلاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ فَأَمْسِكْ عَنْ الصَّلاةِ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ " (نمازِ صبح کا وقت صبح صادق سے طلوعِ آفتاب تک ہے لیکن جب آفتاب بلند ہوتاہے نماز سے باز رہو کیونکہ یقیناً وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے بلند ہوتاہے)۔
مشکوات میں ایک اورحدیث مرقوم ہے جوخدا کے مجسم ہونے اور تقدیر کی خوفناک تعلیم دیتی ہے۔ چنانچہ لکھاہے " قَالَ: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ. ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بيده فَاسْتَخْرَجَ ذُرِّيَّةً فقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ (کہا محمد نے) بیشک اللہ نے آدم کو خلق کیا اوراُ سکی پیٹھ ٹھوکی اپنے دائیں ہاتھ سے اوراس سے اولادنکال کر کہا کہ میں نے ان کو بہشت کےلئے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ بہشت کے کام کرینگے۔ پھردوبارہ اپنے ہاتھ سے اُس کی پیٹھ ٹھوک کراُس کی اولاد نکالی اورکہا کہ اُن کو میں نے دوزخ کےلئے پیدا کیاہے اوریہ اہل دوزخ کے کام کرینگے)۔
مندرجہ بالا مقتبسات سے جن کی مانند اوربھی بہت سے مل سکتے ہیں صاف ظاہر ہے کہ اسلامِ خدا کو مادی جسم دینے کے الزام سے بُری نہیں ہوسکتا۔ قرآن واحادیث میں جوبہشت ودوزخ کے مادی بیانات پائے جاتے ہیں یہ بھی اُنہیں سے اخذ کیاہوا خیال ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ یہ بیانات جن کو تمام پکے مسلمان لفظی طورپر سچ مانتے ہیں مجسم خدا کے خیال کی تائید کرتے ہیں۔ پھر علاوہ بریں حضرت محمد نے صاف صاف یہ بیان کیاہے کہ شبِ معراج میں آپ آسمان پر گئے۔ وہاں آدم، موسیٰ، عیسیٰ اوردیگر انبیاء سے ملاقات کی اورآخر کااُمت کی نمازیں کم کرانے کی درخواست لے کر خدا کے حضور میں پہنچے۔ یہ بیان نہایت صاف اورتشبیہ واستعارے سے بالکل خالی ہے۔ اس سے بھی یہ بخوبی ظاہر ہوتاہے کہ خدا اپنی تمام مخلوق سے دُورسب سے اونچے آسمان پر ایک مادی تخت پربیٹھا ہے۔
خدا کے حق میں ایسے خیال واعتقاد کا عملی نتیجہ اسلامی عبادت کے خیال میں صاف نظر آتاہے" رب العرش" نے دن بھر میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنے کا محکم دیدیاہے اورہرایک مومن پر اس کی بجا آوری فرض ہے خواہ کیسا ہی بے لذت وتکلیف ومعلوم ہو۔ برکت حاصل کرنے کا ذریعہ سوائے فرمانبرداری کے اورکچھ نہیں۔ نمازیں سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں لیکن آنحضرت نے اُن کو کلیدِ درجنت بیان فرمایا ہے ۔ پس جو دانا ہے وہی داخل ہوگا۔ خدا کے ساتھ صحبت رکھنے کا خیال بالکل مفقود ہے۔ ہم یہ کہنے کی جرات کرسکتے ہیں کہ قرآن واحادیث میں کہیں ایک فقرہ بھی نظر نہیں آتا جویوحنارسول کے الفاظ ذیل کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے۔ " ہم خدا کے ساتھ صحبت رکھتے ہیں" خدا محبت ہے اور جومحبت میں رہتاہے اورخدا اُس میں سکونت کرتاہے" بائبل کی تعلیم کے بموجب خدا" ہم سے دورنہیں بلکہ ہرایک کے نزدیک ہے" اور" وہ ہاتھ کے بنائے ہوئے زمینی یاآسمانی مکانوں میں نہیں رہتا" کیونکہ ہم اُسی میں چلتے پھرتے اور زندہ ہیں" جب برادرانِ اہل اسلام سیدنا مسیح سے یہ سیکھ لینگے کہ" خدا روح ہے اوراُ سکے پرستاروں کو واجب ہے کہ روح وراستی سے اُس کی پرستش کریں۔ تب ہی رسم پرستی کی جگہ حقیقی روحانی عبادت ہوگی اوردور کے آسمانی تخت پر کے مہیب خدا کے خیال کے عوض میں خدا کے ساتھ دلی تعلق نصیب ہوگا ۔ تب ہی اہل مسیح کی ابنیت کی روحانی تعلیم کو سمجھ سکینگے اورپاک تثلیث میں ذاتِ باری کے متعلق بہت سے مشکل مسائل حل ہوجائینگے۔
باب چہارم
خدا اورانسان کا باہمی رشتہ
گذشتہ ابواب میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرآن واحادیث نے کیسے نالائق ونامناسب پیرائے میں وجودِ خدا کا تصور پیش کیا ہے۔ قرآن واحادیث خداتعالیٰ کوخشک واحد اورمحبت سے خالی پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے نیازی اورواجب الوجود ہونے کی صفات رکھتاہوا نظر نہیں آتا بلکہ بیرونی اسباب کا محتاج ہے یعنی اپنی شخصیت کے اظہار واحساس کے لئے مخلوقات کا حاجتمند ہے۔ علاوہ بریں قرآن اوراحادیث کی یہ تعلیم کہ خدا مادی وجود یا جسم رکھتاہے اوربھی اُس کی ذاتِ پاک پر دھبا لگانے والی ہے اورروح وراستی کی عبادت کے لئے سدراہ ہے۔
جب ہم خالق اورمخلوق اورخصوصاً خدا وانسان کے باہمی رشتہ کے پہلو سے اسلام کی تعلیم پر نظر کرتے ہیں توذاتِ باری کا تصور اوربھی ناقص وادنیٰ نظرآتاہے اوراقوام اسلام کا ترقی نہ کرنا اورخطرہ کے وقت مایوس ونااُمید ہونا مقامِ تعجب نہیں رہتا ۔ اسلامی خدا وہ آسمانی باپ نہیں ہے جواپنے بچوں پر ترس کھاتا اور یہ بات یادرکھتا ہے کہ وہ خاک ہیں بلکہ وہ ایک دوُر رہنے والا بالکل بیگانہ مطلق العنان بادشاہ ہے جواپنے غلاموں پر اپنی جابر مرضی کے موافق حکومت کرتاہے اوراُس کیلئے کوئی کسی طرح کا قانون یا اخلاقی حد نہیں ہے۔ انسان اُس کے ہاتھ میں ایک ایسی پُتلی ہے جس کا ہرایک نیک وبعد فعل ازل ہی سے مقدر اور ابتدائے عالم سےپیشتر ہی سے لوح محفوظ پر مرقوم ہے۔ اس تقدیر وقسمت کی صریح تعلیم کا اگر صحیح نتیجہ اخذ کیا جائے تو خدابدی کا بانی ٹھہرتاہے۔ جولوگ اس تعلیم کو مانتے ہیں وہ سب کے سب طبی طورپرکاہل الوجود اورپست ہمت ہوجاتےہیں اور اسلامی ممالک کی موجودہ حالت اس کی خلق تباہ کن اوربیکار کرنے والی تاثیر پر شاہد عدل کاحکم رکھتی ہے۔ اب ہم اس بات کا ثبوت اسلام ہی سے پیش کرینگے کہ ہم نے مندرجہ بالا بیان میں کچھ مبالغہ نہیں کیا۔
قرآن واحادیث میں قسمت کی تعلیم بار بار پائی جاتی ہے اور دونوں اس بات پر زوردیتے ہیں کہ انسان نیکی یابدی کی مطلق طاقت نہیں رکھتا بلکہ بہر حال مقُید قسمت ہے چنانچہ مشکوات میں مرقوم ہے " قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمُ فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، َقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ، فَكَتَب ما كانَ ومَا هو كائنٌ إلى الأبَدِ (پیغمبر نے فرمایاکہ یقیناً خدا نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اوراُسے کہا لکھ۔ پس اُس نے جوکچھ تھا اورجوکچھ ابد تک ہونے وال تھا سب لکھا) پھر اسی کتاب کی ایک اورحدیث میں یوں مندرج ہے " قَال رِسوْل اللهِ صَلع كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (پیغمبر نے فرمایاکہ زمین وآسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پیشتر اللہ نے تمام مخلوقات کی مقادیر کو لکھا اوراُس کا تخت پانی پر تھا۔ قرآن بھی ان احادیث کے ساتھ بالکل متفق اورہمزبان وہم آواز ہے۔ چنانچہ سورہ القمر میں ۵۲، ۵۳ آیت تک یوں مرقوم ہے " إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍوَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ(ہم نے ہرایک چیز پہلے ٹھہراکر خلق کی ۔۔۔۔اورجوکچھ اُنہوں نے کیا وہ ورقوں میں لکھا گیا اورسب چھوٹے بڑے لکھنے میں آچکے)۔پھرسورہ بنی اسرائیل کی چودھویں آیت میں لکھاہے" إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ (ہرایک انسان کی بڑی قسمت ہم نے اُس کی گردن سے لگادی ہے)۔ نیز آدم اورموسیٰ کے بہشت میں بحث کرنے کا ایک قصہ مشہور ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ قسمت کے مطابق انسان کے سب نیک وبدافعال ازل ہی سے خدا نے ٹھہرا رکھے ہیں۔ چنانچہ یہ قصہ مشکوات میں یوں مندرج ہے کہ" ایک مرتبہ آدم اورموسیٰ اپنے رب کے حضور میں بحث کررہے تھے اورموسیٰ نے کہا تو وہ آدم ہے جسے خدا نے اپنے ہاتھ سے خلق کیا۔ جس میں اُس نے اپنی روح پھونکی، جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا اورخدا نے تجھ کو بہشت میں بسایا۔ باوجود اس سب کے تونے گناہ کیا اورتمام بنی آدم کو ذلیل کیا۔ آدم نے کہا تو وہ موسیٰ ہے جس کو خدا نے اپنا پیغام اوراپنی کتاب دے کر بھیجنے کا شرف بخشا اورخدا نے تجھ کو وہ لوحیں دیں جن پر سب کچھ مرقوم ہے۔ تومجھے بتاکہ خدا نے مجھ کو خلق کرنے سے کتنے سال پیشتر توریت کولکھا تھا؟ موسیٰ نے کہا چالیس سال۔ تب آدم نے پوچھا کیا تونے اُس میں یہ لکھا دیکھا کہ آدم نے اپنے رب کےخلاف گناہ کیا! موسیٰ نےکہاہاں اس پر آدم نے کہا پھر تومجھے اس فعل پر کیوں ملامت کرتا ہے جو خدا نے مجھے خلق کرنے سے چالیس برس پہلے ہی ٹھہرا رکھا تھا؟ ایک اورحدیث بعض کے بہشت کوجانے اوربعض کے جہنمی ہونے کی تقدیر کی تعلیم دیتی ہے۔ چنانچہ حضرت علی کی روایت سے مشکوات میں یوں مندرج ہےمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ أَوِ الْجَنَّةِ (تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے لئے خدا نے بہشت یا دوزخ میں جگہ نہ لکھ رکھی ہو)۔پھر آنحضرت کی ایک اور حدیث اسی اندھا دھند مایوسی خیز قسمت کی تعلیم دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَغَ إِلَى كُلِّ عَبْدٍ مِنْ خَلْقِهِ مِنْ خَمْسٍ: مِنْ أَجَلِهِ، وَعَمَلِهِ، وَمَضْجَعِهِ، وَأَثَرِهِ، وَرِزْقِهِ (بیشک اللہ عزوجل نے اپنے تمام بندگان کے لئے پانچ باتیں پیدائش سے ٹھہرا رکھی ہیں(۱) موت(۲) جائے سکونت (۳) افعال (۴)سفرات (۵) رزق) پس کچھ تعجب نہیں کہ آپ کے صحابہ نے ایسے عقیدہ کو سن کر حیرانگی سے پوچھا" توپھر انسان کی سعی وکوشش سے کیا فائدہ ہے؟ جس کا آپ نے قطعی جواب دیا۔ " جب خدا کسی نے بندے کو بہشت کےلئے پیدا کرتاہے تواُس کے مرتے دم تک اُسے اہلِ بہشت کی راہ پر چلاتاہے اوراُس کے بعد اُسے بہشت میں لے جاتاہے اورجب وہ کسی بندے کودوزخ کےلئے پیدا کرتاہے تواُس کے مرتے دم تک اُسے اہلِ دوزخ کی راہ پر چلاتاہے اوراُس کے بعد اُسے دوزخ میں لے جا"(دیکھو مشکوات المصابیح کتاب الایمان باب القدر)۔
اسی طرح سے قرآن میں بھی شروع سے آخر تک قسمت کی ایسی ہی اندھا دھندتعلیم پائی جاتی ہےاورخدا بالکل بے قانون اوراپنی مرضی کا مغلوب جابر بادشا ہ بیان کیا جاتاہے ۔ چنانچہ سورہ النحل کی ۹۵ویں آیت میں یوں مرقوم ہے۔يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء (جس کوچاہتاہے گمراہ کرتاہے اورجس کوچاہتاہے ہدایت کرتاہے)۔پھر جیسا احادیث میں ہے ویسا ہی قرآن میں بھی لکھا ہے کہ خدا نے بعض لوگوں کو خاص دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے ۔ مثلاً سورہ اعراف کی ۱۸۰ ویں آیت میں مندرج ہے" وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ" (بہت سے جنوں اورانسانوں کوہم نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے)سورہ سجدہ کی ۱۳ویں آیت میں اس فعل کا جوکہ خدا کی شان کے شایان نہیں ہے سبب بیان کیا گیا ہے ۔وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(اگرہم چاہتے توسب کو ہدایت کرتے لیکن میرا یہ قول حق ہے کہ میں جنوں اور آدمیوں سے دوزخ کو بھرونگا)۔یہ قطعی تقدیر الہٰی نہ صر ف ہر فرد بشر کے لئے اس کا انجام مقرر کرتی ہے بلکہ زندگی کے ہرپہلو پر اس کی تاثیر ہوتی ہے اورانسان خدا کے ہاتھ میں ایک پرخہ سابن جاتاہے جوازخود حرکت نہیں کرسکتا بلکہ جدھر الٹا سیدھا خدا چلاتاہے چلتا رہتاہے جیساکہ سورہ حدید کی ۲۲ویں آیت میں مذکور ہےمَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا(زمین پر یا تم میں کوئی ایسی بات حادیث نہیں ہوتی جواس سے پیشتر کہ ہم نے اُن کو خلق کیاکتاب میں نہ تھی)پس اس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ انسان کونیکی یابدی اختیارکرنے کا کچھ اختیار نہیں ہے، یہاں تک کہ اُس کا چاہنا یاکسی بات کوپسند کرنا بھی خدا کی مرضی یاتقدیر میں آچکا ہے۔ چنانچہ ایک مقام نہایت ہی مشہور ہے جوکہ راسخ الاعتقاد علمائے اسلام اپنے مباحثوں میں بغداد کے معتزلہ اور دیگر ملحدفرقوں کے خلاف پیش کیا کرتے تھے اورآزاد خیال مسلمانوں کے تمام دلائل کوجو وہ آزاد مرضی کی تائید میں پیش کرسکتے تھے ردکرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ سورہ دہر کی آخری آیات میں یوں مرقوم ہے " فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ (پس جوکوئی چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے اورتم نہ چاہو گے جواللہ چاہے)قرآن واحادیث کی مکررہ شہادت سے ثابت ہواکہ اسلامی خدا کیساہے۔ خدا کی کیسی بُری تصویر دکھائی گئی ہے !اس قسم کے عقیدے سے انسان مایوسی کے بحر بے پایاں میں گرجاتاہے اوراس کی اپنی تمام سعی وکوشش بے فائدہ بے سود ٹھہرتی ہے اورکسی طرح سے خدا کی مرضی ڈھونڈھنے اوربجا لانے سے اُس تقدیر کو نہیں بدل سکتا جو اُس کی پیدائش سے ہزاروں سال پیشتر ہی لکھی جاچکی تھی۔ کیا شیطان اپنی ہوشیاری سے اس سے بڑھ کر کوئی ایسی راہ تجویز کرسکتاہے جس کے وسیلے سے انسان کا دل زیادہ سخت ہوجائے اورنتیجتہً شکم پرستی اورشہوت پرستی کی زندگی بسر کرے؟ چنانچہ عمر خیال لکھتاہے" کلک تقدیر نے جو لکھنا چاہا لکھد یا۔ اب کسی کی نیکی پرہیزگاری اورآہ ونالہ سے اُس کاایک نقطہ وشوشہ بھی ٹل نہیں سکتا" اہل اسلام جانتے ہیں کہ اُن کے اعمال نیک ہوں یا بدتوبھی ممکن ہے کہ خدا اُن کواہل بہشت میں شمار کرے ۔ وہ بخوبی اپنا مقولہ بناسکتے ہیں کہ " آؤ کھائیں پیئیں اورعیش کریں کیونکہ موت سر پر کھڑی ہے" مشکوات المصابیح میں خود حضرت محمد کی حدیث موجو دہے" إِنَّ العَبدَ لَيَعْمَلُ عَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وإنَّه مِن أهلِ الجَّنة، ويعمل عَمَلَ أهلِ الجَنَّة وإنَّه من أهلِ النارِ " (بیشک ممکن ہے کہ انسان کے اعمال اہل دوزخ کے ہوں اوروہ اہلِ بہشت میں سے ہو اورایا اس کے کام اہل جنت کے ہوں اوروہ اہلِ دوزخ میں سے ہو)۔ایسے مذہب ایسے اعتقادِ خدا اورخدا کے ایسے انتظامِ عالم کا واجبی نتیجہ ضرور لاپروائی اورمردہ دلی ہوگا۔ کیونکہ اگر انسان اٹل تقدیر یاقسمت کے قبضے میں ہے اوراس کے نیک وبداعمال کا کچھ لحاظ نہیں کیا جاتا بلکہ ازلی فیصلے کے مطابق اس کو جنتی یاجہنمی قرار دیا جاتاہے توانسان کی طرف سے دینی اوراخلاقی امور میں ہرطرح کی کوشش لاحاصل وبے سود ہے۔
قسمت اور تقدیر کی تعلیم کودیکھ کر اگرہم حضرت محمد کویہ کہتے پائیں کہ ہرحالت میں تقدیر پر شاکر رہو، طاعون سے مت بھاگو اوربیماری کے دفیعہ کے سامان بہم پہنچانے کی کوشش نہ کرو توکچھ تعجب نہیں ہوگا ۔مشکوات المصابیح میں آنحضرت کی ایک حدیث میں یوں مندرج ہےالطَّاعُونَ رِجْسٌ... وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ (طاعون سزا ہے جب کسی ملک میں پھیلے اورتم اُس ملک میں ہو تو اُس کے سامنے سے مت بھاگو) حال کے علم حفظانِ صحت اورتجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کوپہنچ چکی ہے کہ اگرطاعون زدہ مقامات کوچھوڑدیا جائے اور مناسبِ تدابیر حفظِ تقدم اورعلاج ومعالجہ کے طورپر کام میں لائی جائیں توطاعون کا زور بہت کم ہوجاتاہے اوراُس سے نجات ممکن ہوجاتی ہے لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی جگہ سے مت ہلو بلکہ وہیں جمے رہو۔جوتقدیر میں لکھاہے بہر حال وہی ہوگا۔
ہم نے یہاں پر فرقہ معتزلہ کی آزاد مرضی کی تعلیم پر بحث نہیں کی اوراُس کا سبب یہ ہے کہ پکے مسلمانوں کے نزدیک یہ فرقہ ملحد ہے اوراُس کی تعلیم بھی مردود ہے۔ اس مختصر بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ راسخ الاعتقاد اہل اسلام کے عقیدے کے مطابق خدائے تعالیٰ کی ذات وصفات کو پیش کریں۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کے سمجھنے میں غلط فہمی نہیں کی اور نہ ہم نے کوئی خلاف بیان کی ہے چنانچہ ہم اس بات کے ثبوت میں علمِ الہٰی کے وہ مسلمان اُستادوں کے بیان پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوجائیگا کہ اسلامی تعلیم مختصر ان بیانات میں موجود ہے اورقرآن واحادیث کے صاف وصریح الفاظ پر مبنی ہے ۔ چنانچہ پہلے ہم محمد برکوی کا بیان پیش کرتے ہیں " اس بات کا اقرار کرنا واجب ہے کہ نیکی اوربدی خدا کی ازلی تقدیر اورازلی ارادے سے وقوع میں آتی ہے۔ جوکچھ ہوا ہے اورجوکچھ ہوگا سب مقدر ہے اورازل ہی سے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہے۔مومن کا ایمان اوردیندارکی دینداری ونیک اعمال الہٰی پیش بینی اورمرضی کے مطابق تقدیر میں آکر خدا کی منظوری سے لوحِ محفوظ پر لکھے گئے ہیں بے ایمان کی بے ایمانی اوربیدین کی بیدینی اوربداعمال خاد کے ازلی علم اوراُ سکی مرضی وتقدیر کے مطابق وقوع میں آتے ہیں لیکن اس میں اُس کی خوشی نہیں ہے۔ اگرکوئی یہ پوچھے کہ خدا بدی کو کیوں چاہتاہے اورپیدا کرتاہے؟ توہم صرف یہ جواب دے سکتے ہیں کہ ضرور کوئی نیک انجام جن کوہم نہیں سمجھ سکتے مدِنظر ہونگے" امام غزالی اس تعلیم کو مشہور مقصود الاثنیٰ میں یوں بیان فرماتے ہیں " حق سبحانہ ان چیزوں کو جوہیں اپنی مرضی سے مقرر کرتاہے اورتمام حادثات وواقعات کو وقوع میں لاتاہے ۔تمام کائنات میں کم وبیش چھوٹی بڑی، نیک وبد ،مفید ومضر، ایمان وبے ایمانی علم وجہالت ، خوشحالی وتنک حالی۔ توانگری وافلاس، اطاعت وبغاوت غرض سب کچھ خداکی تقدیر اوراُس کی مرضی کے قطعی () کے مطابق ظہور میں آتاہے۔۔۔۔۔ اس کی تقدیر ٹل نہیں سکتی اورجوکچھ اُس نے ٹھہرادیا ہے اُس کے وقوع میں آنے میں تاخیر نہیں ہوتی"۔
اسلام نے خدا کو ایسا ہی اَن ہونا تصور کیا ہے جس سے تمام اخلاقی احساس نیست ونابود ہوجاتے ہیں اورانسانی ذمہ داری کا کلی طورپر استیصال ہوجاتاہے کیونکہ جب انسان کا ہرایک فعل قادرِمطلق خدا کی مرضی اورتقدیر کے قبضے میں ہے تو اظہر من الشمس ہےکہ تمام انسانی افعال کا فعال درحقیقت خدا خودہی ہے ۔ پس ایسی حالت میں سزا دینا اور دوزخ میں ڈالنا اول درجے کی بے انصافی وبے رحمی ہوگی۔ معتزلوں کا یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ اگرخدا بے دینی سکھاتاہےاورکفرکے کام کرواتاہے تووہ خود بیدین وکافر ہے ! یہ تقدیر کی تعلیم انسان کو اس درجے تک کفر بکنے پر آمادہ کرتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ بائبل میں ایسی عبارات پائی جاتی ہیں جن سے برگزیدگی کی تعلیم ملتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ صاف تعلیم ملتی ہے کہ خدا سب کی بھلائی چاہتاہے وہ چاہتاہے سب اس کی نزدیکی وقربت حاصل کریں۔ نجات حاصل کرنا بھی انسان کی آزاد مرضی پر چھوڑا جاتاہے اوراس طرح سے قسمت کا پھندا اوربندھن بائبل کی تعلیم سے بالکل خارج ہے ۔ بائبل میں بہت سے مقامات پر مرقوم ہے کہ خدا چاہتاہے کہ تمام بنی آدم عرفان حق کو پائیں اورنجات کو حاص کریں لیکن ہم صرف چند مقامات کے اقتباس پر اکتفا کرینگے"وہ چاہتاہے کہ سارے آدمی نجات پائیں اورسچائی کی پہچان تک پہنچیں(۱تمطاوس ۲ :۴) وہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتاہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے(۲پطرس ۳: ۹) خداوند یہوداہ فرماتاہے کہ مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ شریر کےمرنے میں مجھ کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سےباز آئےاورجئے(حزقی ایل ۳۳: ۱۱) بائبل میں خدا پرازشفقت ومحبت باپ کی مانند ہے جواپنے بچوں پر بدرجہ کمال شفقت دکھاتاہے اوراُن کی نجات کے کام کو پورا کرنے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجتاہے لیکناسام میں وہ آدم کو اُس کی اولاد کی پیدائش سے پیشتر اُن کی روحیں دکھاتاہے اور اُن کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے اور بعض کو اُس کی دائیں طرف اور بعض کو بائيں طرف کھڑاکرکے فرماتاہے " هَؤُلَاءِ في الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي وَهَؤُلَاءِ في النَّارِ وَلَا أُبَالِي " یہ بہشت کے لئے ہیں اورمجھےکچھ پروا نہیں یہ دوزخ کےلئے ہیں اورمجھے کچھ پرواہ نہیں )۔
مندرجہ بالا حوالا ایسے خدا کی پرستش کرتاہے جو ایشائی بادشاہ کی مانند چلتے چلے کسی کوانعام واکرام دیتاہے اور کسی کے نام پر یہ بے سبب اپنی جابر طبیعت سے موت کا فتویٰ جاری کرتاہے ۔ اگراسلامی تقدیر وقسمت مندرجہ قرآن واحادیث کو مانیں تو نما ز روزہ اوردعابندگی بالکل بیکار وبے سود ہیں۔ کیونکہ انسان اپنے تام افعال واقوال بلکہ خیالات میں بھی تقدیر کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے اورکسی طرح سےنیکی بدی کا ذمہ دار اورجوابدہ نہیں ٹھہرسکتا لیکن انسانی ضمیر شخصی ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے اوراس حقیقت پر نہایت صفائی وصراحت سے پرزورگواہی دیتی ہے۔
باب پنجم
خدا بلحاظِ گناہ ونجات
اسلامی تقدیر کے مطالعے سے خدا کا انسان سے رشتہ معلوم کرکے اوریہ جان کر کہ انسان کے تمام افعال ازل ہی سے تقدیر کے بس میں ہیں یہ خیال پیدا ہوتاہے کہ اسلام میں گناہ کی تعلیم اورنجات کی تدبیر دونوں ناممکن ہیں کیونکہ منطقی طورپر تقدیر کی تعلیم سے یہ صاف نتیجہ نکلتاہے کہ نیکی اوربدی میں کچھ فرق نہیں ہے اور سز وجزاکے بھی کچھ معنی نہیں ہیں۔ لیکن اسلام کی متناقص تعلیمات کے سبب سے گناہ کا مفصل بیان پایا جاتاہے اور سزا وجزا کی بڑی تدبیر موجود ہے ۔ قرآن کی تعلیمات سے بہت ہی متغائر ومتابئن ہیں اورخاص کر گناہ اورنجات کے باب میں تو قرآن بالکل گڈمڈ اور تناقص سے پُر ہے۔ حضرت محمد نے ایک طرف توتقدیر کی ایسی تعلیم دی کہ انسان بالکل بے کس وبے بس ہوگیا۔ آزاد مرضی ہاتھ سے دے بیٹھا اورایسے بے اختیار ہوگیاجیسے کمہار کے ہاتھ مٹی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آنحضرت خدا سے میل حاصل کرنے کی انسانی آرزو کودبا نہ سکے اور شخصی آزادی وذمہ داری کی حقیقت کو نظر انداز نہ کرسکے۔ تقدیر وقسمت کو اس متغائر تعلیم کو حکیم عمر خیال اپنی ربا عیات میں نہایت صفائی سے یوں بیان کیا ہے" اے توجس نے میری راہ کو طرح طرح کے خطروں سے بھردیا اورازل ہی سے میرے تمام افعال ٹھہرارکھے ہیں۔ مجھ کو میری گنہگاری کےلئے سرزنش نہیں کریگا"۔
اگرگناہ کے تعلق میں اسلام کےالہٰی تصور پر غور کیاجائے تو یہ حقیقت بالکل آشکارا ہوجاتی ہے کہ اخلاق اور دین میں کوئی باہمی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ حقیقی راستی وپاکیزگی کے مقابلے میں خدا رسم پرستی اور ظاہری دکھاوے کی دینداری کو زيادہ چاہتاہے۔ اندرونی تقدیس کی چنداں پروا نہیں کرتا لیکن ظاہری رسوم کی بجاآوری بہت ضروری ہے ۔ پس گناہ کوئی ازلی اخلاقی شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ محض ایک جابرانہ حکم کی عدم تعمیل کا نام ہے اورمسلمان تاجروں کی عملی زندگی سے اس امر کی بخوبی تشریح ہوتی ہے۔ وہ روزانہ نمازوں کے باب میں توبڑے ہوشیار اورمحتاط ہیں لیکن لین دین میں بے کھٹکے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔ عام طورپر یہ دیکھا جاتاہے کہ یورپ کےباشندے جھوٹ بولتے اوردھوکہ وفریب کرتے ہیں وہ دینداری کا دعویٰ ہی نہیں کرتے ۔ اُن میں کم سے کم یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ اُن کا ظاہر وباطن یکساں ہے۔
اگر حضرت محمد کی احادیث اوردیگر اسلامی کتب فقہ مثلاً فتاوی عالمگیری وغيرہ کا مطالعہ کیا جائے توصاف معلوم ہوجائے گا کہ اندرونی پاکیزگی اور دینداری کےعوض میں ظاہری رسوم کی بجاآوری پر زیادہ زوردیا گیا ہے اور رسم پرستی کے احکام روحانی تعلیم کےمقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اہل اسلام پر ایسی تعلیم کی بڑی تاثیر ہوئی ہے چنانچہ وہ خدا کے بارے میں غلط خیال اورغلط اعتقاد رکھنے کی وجہ سے حقیقی عبادت سے بہت دور جاپڑے ہیں او رروحانی عبادت کی جگہ رسم پرستی پر زوردیتے ہیں ۔ہمارے اس بیان کی تشریح وتصدیق کےلئے اسلامی نماز کو دیکھئے اورخيال کیجئے کہ اہل اسلام کس طرح بن سمجھے یونہی طوطے کی طرح الفاظ کو دہرانے ہیں ۔ ہم بے تامل کہہ سکتے ہیں کہ اس نماز میں اٹھنے بیٹھنے کی تفصیل اور قرات الفاظ ہی کا زیادہ ترج خیال کیا جاتاہے ۔نماز گذار کی نیت کیسی ہی خالص ہو اور وہ کتنی ہی صاف دلی سے عبادت کرے توبھی نماز اجنبی زبان میں ہے (کیونکہ عربوں کے سوا بہت ہی کم مسلمان عربی زبان سمجھتے ہیں)اورپھر طرفہ تریہ بات ہے کہ اگر اٹھنے بیٹھنے میں کہیں ذراسی غلطی ہوگئی تونماز ٹوٹ گئی ۔نماز کا صحیح ہونا نماز گذار کی دلی حالت پرنہیں بلکہ ظاہری قواعد پر موقوف ہے ۔چنانچہ حضرت محمد نے فرمایا " إنَّ اللهَ لَا يقبَل صَلَاة بِغَيْرِ طُهُورٍ (تحقیق اللہ بغیروضو کےنماز قبول نہیں کرتا)۔ پھر فرمایا مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعَرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يَغْسِلْهَا فُعِلَ بِهَا كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ (جس نے بال برابر جگہ ناپاک چھوڑدی اوراُسے نہیں دھویا اُس کے ساتھ دوزخ کی آگ سے ایسا کیا جائيگا )۔ یہ امر نہایت ہی حیرت خيز ہے کہ اخلاقی پاکیزگی کی طرف بمشکل ہی کہیں اشارہ ملتاہے حالانکہ وضو وغیرہ کے قواعد وتشریحات سے کتابیں بھر پڑی ہیں ۔ فی الجملہ نماز بجائے دلی عبادت کے اٹھنے بیٹھنے اورچند ظاہری قواعد کی بجا آوری ہے۔ چنانچہ مشکوات میں ایسی احادیث بھر پڑی ہیں جن سے ثابت ہوناہے کہ پانی گناہوں کو دھوڈالتاہے لیکن ہم اس جگہ صرف ایک حدیث پیش کرینگے کتاب الطہارت میں غسل کے بیان میں ایسی بہت سی احادیث ملینگی ۔ آنحضرت نے فرمایا" إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوْ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ كَانَ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ كُلُّ خَطِيئَةٍ مَشَتْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ الذُّنُوبِ (جب مسلمان یامومن بندہ وضو کرتاہے اوراپنا منہ دھوتاہے تووہ تمام گناہ جن پر اُس نے اپنی دونوں آنکھوں سے نگاہ کی ہے اُ سکے چہرے سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ خارج ہوجاتے ہیں اورجب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتاہے تو وہ تمام گناہ جواُس کے دونوں ہاتھوں نے کئے ہیں اُس کے ہاتھوں سے پانی کے ساتھ یاپانی کےآخری قطرے کےساتھ خارج ہوجاتے ہیں اورجب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتاہے تو وہ تمام گناہ جن کی طرف اُس کے پاؤں چل کر گئے ہیں اُس کے پاؤں سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ خارج ہوجائے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتاہے۔
اسلام کی ظاہرداری اورقانون جواز کی صورت زیادہ ترگناہ کےبیان میں نہایت صفائی سے نظر آتی ہے۔ اسلام گناہ کی اصلی مکروہ صورت دیکھنے میں بالکل نا بینا ہے اوراسلامی علم الہٰی کے مطالعے سے یہ بات صاف معلوم ہوسکتی ہے کہ اس کا سبب خدا کے بارے میں غلط تصور اور غلط اعتقادرکھتاہے۔ اسلام خدا کو راستکار اورانصاف دوست حاکم کی صورت میں پیش نہیں کرتا بلکہ بخلافاس کے ایک متلون مزاج العنان حکمراں کی حیتی میں دکھاتاہے جس کی خوشنودی اُس کے چند احکام کی بجاآوری سے حاصل ہوسکتی ہے بلکہ جیسا ہم پیشتر ذکر کرآئے ہیں محض اس کے ننانوے(۹۹) ناموں کے ورد ہی کے وسیلے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ ترمذی اور سنائی کے مطابق آنحضرت کی ایک حدیث یہ بھی ہے " من قمر کل یوم مانی مرقہ قل ھواللہ احد فحی عنہ ذنوب خمسین سنہ(جس نے ہر روز دوسوبار " قل ھو اللہ احد" پڑھا اس کے پچاس برس کے گناہ مٹ جائینگے) کتا ب فضائیل القرآن میں بار بار یہ مضر تعلیم دی گئی ہے کہ چند ظاہری رسوم کی پابندی سے گناہ معاف ہوجائینگے اورمکہ کا حج توبہشت میں جانے کےلئے رابداری کا یقینی پروانہ سمجھاتاہے۔
مسلم وبخاری کے مطابق آنحضرت کی ایک اورحدیث مشکوات میں اسماء الہٰی کےباب میں مندرج ہے ۔ اُس سے بہت ہی اچھی طرح یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت محمد کے خیالات گناہ اور مغفرت کےبارے میں بہت ہی گڑ بڑ اوربے ٹھکانہ تھے۔ چنانچہ مرقوم ہے "قال رسول اللہ صلی ان عبد اذنب ذبنا فقال رب اذنبت فاغفر فقال ربہ اعلمہ عبدی ان لہ رباً یغفر الذنوب دیا خذبہ غفرت لعبدی ثمہ ملث مشاء اللہ ثما اذنب ذنباً قال رب اذنبت ذباء اغفر فقال اعلمہ عبدی ان لہ ریا یغفر الذنوب دیا خذیم غفرت العبدی ثمہ مکث ماشا ء اللہ ثم اذنب زنبا قال رب اذنبت ذبنا اخر فاعفر ہ لی فقال اعلمہ عبدی ان لہ ر بالیغفر الذنب ویا حذبہ غفرت لعبد فلیفعل مشاء(رسول اللہ نے فرمایاکہ خدا کے ایک بندے نے کوئی سخت گناہ کیا اور کہا اے میرے رب میں نے گناہ کیا ہے اسے معاف کردے۔ اس کے رب نے کہا ۔ کیا میرا بندہ جانتاہے کہ اُ س کا رب ہے جوگناہ معاف کرتاہے اوراُ ن کیلئے سزا بھی دیتاہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا۔ پھر وہ ٹھہرارہا۔ جیسا خدا نے چاہا ۔ پھر اُس نے ایک سخت گناہ کیا اورکہا اے میرے رب ۔ میں نے سخت گناہ کیا ہے۔ اسے معاف کردے۔ اُس نے کہا کیا میرا بندہ جانتاہے کہ اُس کا رب ہے جوگناہ معاف کرتاہے اورسزابھی دیتاہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا۔پھر وہ ٹھہرا رہا جیسا خدا نے چاہا ۔ پھر اُس نے سخت گناہ کیا اورکہا اے رب میں نے پھر سخت گناہ کیا ہے ۔ مجھے معاف کردے۔ تب خدا نے کہا کیا میرا بندہ جانتاہے کہ اُس کا رب ہے جوگناہ معاف کرتاہے اورسزا بھی دیتاہے۔میں نے اپنے بندے کو معاف کیا ہے پس اب وہ جوچاہے سوکرے!) ایسی تعلیم صریحاً گناہ کی طرف مائل کرتی ہے لہذا کچھ تعجب نہیں کہ اہل اسلام نے کفارہ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا اور گناہ کی کراہیت کونہیں پہچانا۔ جب گناہ آسانی سے معاف ہوسکتاہے تواُس کا ارتکاب بھی تامل وبے خوف ہوتاہے لیکن اگرانسان مسیحیوں کے ساتھ اس بات کو معلوم کرلےکہ گناہ کی معافی کےلئے سیدنا مسیح کو مصلوب ہونا پڑا تووہ گناہ سے نفرت وپرہیز کرنا سیکھیگا۔
حقیقت تویہ ہے کہ اسلام میں نجات کےبارے میں کوئی معقول اور قابلِ قبول خیال یا تعلیم نہیں ہے اورا سکی تلاش میں کتُبِ اسلام کا مطالعہ بالکل بے سود ٹھہرتاہے۔ انسانی ضمیر اپنی گنہگاری کو محسوس کرکےپکارتی ہے " میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟" لیکن اسلام سے اس کا کوئی تسلی بخش جواب بن نہیں آتا۔ اورجوجواب اسلام دیتاہے وہ بالکل ناقص ہے اور اس سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ اہل اسلام خدا کی ذات کے بارے میں کیسے ناواقف اور غلط خیال رکھنے والے ہیں۔ جب بنیادہی ایسی کھوکھلی ہے اورخدا کے حق میں درست اعتقاد ہی نہیں توپھر کچھ تعجب کی بات نہیں کہ حضرت محمد کونجات کی کوئی ایسی صورت نہیں سوجھی جوخدا کی شان کے شایاں ہوتی۔
" میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟" کے جواب میں حضرت محمد کے اقوال بے شمار اورباہم متضاد ہیں۔ اگرگنجائش ہوتی تو ہم بہت سے ایسے مقامات کونقل کرتے جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت کے خیال کہ مطابق قیامت کے روز کل بنی آدم کے نیک وبد اعمال تولے جائینگے اوراُن کی کمی یا بیشی کے مطابق جزا وسزا کے فتاوی سنا کر بعض کو بہشت میں داخل کیا جائے گا اور باقی سب جہنم واصل ہونگے۔ پھر یہ بھی آپ نے فرمایا کہ حضرت محمد سمیت تمام بنی آدم کو نجات کا دارومدار خدا کی رحمت پر ہے۔ علاوہ بریں بعض احادیث قرآن کے برخلاف یہ تعلیم دیتی ہیں کہ گنہگار انسان نجات حاصل کرنے کے لئے زیادہ ترحضرت محمد کی شفاعت ہی پر بھروسہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر ایک انسان پیدائش سے پیشتر ہی سے جنت یاجہنم کے لئے مقرر ہوچکا ہے۔ یہ اعتقاد کیسا نا اُمیدی اورمایوسی سے پُر ہے۔
کتُب اسلام میں خدا کا ایک نام العادل بھی ہے۔ اور وہ الرحیم بھی کہلاتاہے لیکن اسلام یہ بات سمجھانے سے بالکل قاصر وعاجز ہے کہ وہ عادل ورحیم دونوں کیونکر ہوسکتاہے انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ کیلئے سزا دی جائے اورنجات کی کوئی تدبیر جواسکی چار ہ جوئی نہ کرے نامعقول وباطل ٹھہریگی۔ ساتھ ہی خدا کے رحم کے اظہار کی بھی کوئی صورت ہونی چاہیے تاکہ خدا کی ان ہر دو صفات یعنی عدل ورحم کا کامل اظہار ہوئے۔ اسلام کی اس ناقص وغیر تسلی بخش تعلیم کے نتائج کی شہادت تواریخ سے ملتی ہے بڑے بڑے پکے مسلمان بلکہ آنحضرت کے بعض اصحابہ کرام بھی اول درجے کی مایوسی ونااُمیدی کی حالت میں قبر میں گئے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ خلیفہ علی کے ہاں کوئی مہمان وار د ہوا اورپوچھا کہ کیسے گذرتی ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ایک لاچار گنہگار کی مانند نوشتہ تقدیر کے مطابق دن پورے کررہاہوں اورہیبتاک انجام کا منتظر ہوں۔ پھر آنحضرت کے صحابہ میں سے عمر ابن عبداللہ کی بابت لکھتاہے کہ وہ دن بھر روز ہ رکھتا تھا اور ساری ساری رات عبادت میں کھڑا رہتا تھا۔ ایسے موقعہ پر اُس کے ہمسائے اکثر اُس کو چلاتے اوریوں کہتے سنتے تھے " اے میرے خدا! آتش ودوزخ کا خیال مجھے بے چین کررہا ہے مجھے نیند نہیں آتی ۔ میرے گناہ معاف کردے، اس دنیا میں انسان کے لئے فکریں اور غم ہیں۔ دوسرے جہان سزا کا حکم اورآتش دوزخ موجود ہے۔ ہائے ہائے ! روح کو آرام وراحت کی کہاں سے اُمید ہوسکتی ہے؟"
اسلام نجات کا کچھ یقین نہیں دلاتا کیونکہ وہ گناہ کا کوئی علاج بہم پہنچاتاہے ہے اورنہ گنہگار کا کوئی عوض مہیا کرتاہے تاہم انسان کی روح کفارہ کے لئے چلاتی ہے اوراس بات کی ازبس آرزومند ہے کہ کسی طرح سےمغفرت کا یقین حاصل ہوجائے۔ بائبل کی یہ تعلیم کہ " بن خون بہائے معافی نہیں" انسان فوراً قبول کرتاہےاور شیعہ لوگوں کو امام حسن اورامام حسین کی موت کوکفارہ کی موت قرار دینا صاف ظاہر کرتاہے کہ کفارہ کی ضرورت کا یقین انسان کے دل میں نہایت ہی پختہ وبیخ گرفتہ ہے۔
جب اسلام اس عظیم حقیقت کو سمجھیگا کہ" خدا محبت ہے" تب ہی اسلام مسیح کے کفارہ کی عظیم معقولیت کو سمجھ سکینگے، اسلام ابتدائی گناہ کو تسلیم کرتاہے اورمانتاہے کہ آدم کے وسیلے سے تمام بنی آدم گنہگار ٹھہرے۔ پس اب اہل اسلام اس بات کو کیوں معقول اور قابلِ قبول خیال نہیں کرتے ایک ہی یسوع مسیح کی فرمانبرداری کے سبب سے تمام بنی آدم راستبازٹھہرسکتے ہیں ؟ انجیل شریف میں یہ ایک نہایت عظیم ازلی حقیقت منکشف کی گئی ہے بلکہ انجیل یہی ہے اورلاکھوں نے اسی سے حقیقی راحت کو حاصل کی ہے ۔اے برادرانِ اہل اسلام بائبل کو پڑھو۔ اُس میں آپ کو خدا ئے تعالیٰ کی ذاتِ پاک کا مکاشفہ نصیب ہوگا۔ وہ مطلق العنان وجابر حاکم نہیں جوبندوں کو اُن گناہوں کی سزا دیتاہے جن کے ارتکاب پر اُس نے خود ہی اُن کومجبور کیا بلکہ مہربان اوررحیم باپ ہے جواپنی مخلوق بنی آدم میں سے کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ آرزو رکھتاہے کہ وہ سب اُس کی طرف رجوع لائیں اورحیاتِ ابدی کے وارث ہوں۔ وہ نہایت محبت بھرے الفاظ سے سب کو بلاُتاہے۔ یہ خدا سیدنا مسیح میں ہوکر تمام جہان کو اپنے آپ سے ملاتاہے اور صرف سیدنا مسیح کی صلیب کے وسیلے سے ہی گنہگار انسان خدائے پاک تک رسائی حاصل کرسکتاہے۔ صلیب پر عدل کا تقاضا پورا ہوگیا اوررحم کےاظہار کی بھی صورت نکل آئی ۔ بس اب جوکوئی چاہے آئے اورآبِ حیات مفت لے جوکوئی خدا کوجاننا چاہے اُسے مسیح " کلمتہ اللہ" کو جاننا ضرور ہے کیونکہ" خدا کوکسی نے کبھی نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا"(یوحنا ۱: ۱۸) ۔ سیدنا مسیح فرماتےہیں" جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کودیکھا(یوحنا ۱۴: ۹)۔ " راہ ، حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا"(یوحنا ۱۴: ۶)۔