رسالہ اوّل
آدم ثانی
جب ہمارے منجی نے اپنی اس مفوضہ (سُپرد کی ہوئی )خد مت کو جس کے انجام دینے کے لئے آپ مبعوث(نبی کا بھيجا جانا) ہوئے تھے۔ پورا کیا تو اپنے صعود (آسمان پر جانا)سے پہلے اپنے شاگردوں کو یہ حکم دیا کہ۔
’’ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے ۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد گرد بناؤ اور انہیں باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام پر بپتسمہ دو۔ اور انہیں یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا ہے ۔ اور دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔ ( متی ۲۸ : ۱۸۔۰ ۲) ۔
اس حکم کو سنتے ہی آپ کے شاگرد جو خُدا کے سچے اور برگزیدہ(چُنا ہوئے) رسول تھے۔ مسیحیت کی تبلیغ (خُدا کا حکم پہنچانا)کے لئے اطراف و ا کناف عالم (دُنيا کے کنارے)میں جا پہنچے۔ اور اس حکم کی تعمیل میں اس قدر سرگرم تھے۔ کہ قریباً سب کے سب اسی راہ میں شہید ہوے لیکن تبلیغ کا کام کبھی بند نہ رہا بلکہ تابعین (رسولوں کے شاگرد)اور طبع تابعین ( رسولوں کی فطرت والے شاگرد) نے اس خدمت کو اپنا اوّلین فرض سمجھا اور انجیل جلیل کی بشارت سناتے سناتے ہندستان تک آپہنچے ۔ یوں تو جس ملک میں ان کا قدم پہنچا وہیں خیرو برکت ان کی ہمرکاب (ہم سفر)ہے لیکن ہندوستان میں ان کی بشارت سے جو اثر ہوا۔ اس کا اندازہ اس سے سچ ہو سکتا ہے۔ کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں خاندان مسیحیت کے حلقہ بگوش (فرمابردار)ہو چکے ہیں ۔
تاہم ہمارے ہندستان میں بکثرت ایسے اشخاص موجو د ہیں جو اس دولتِ لازوال سے ابھی تک محروم ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان احباب (دوستوں)کے لئے جواب تک اس نعمت ِعظمیٰ(بڑی نعمت) سے محروم ہیں ایک ایسا رسالہ لکھوں جو بالخصوص ربنا المسیح کی تقديم (فضيلت)کا خلاصہ اور بائیس مقدس مطالب کے سمجھنے کا آلہ ہو۔ اور نیز سب ناظرین پر بات واضح ہو جائے کہ ہم عیسائی جو خُدا کا کلا م سنا رہے ہيں طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں اُٹھاتے ہیں اورمتعصبوں (مذہب کی بے جا حمايت کرنے والے )کے لعن و طعن ہر وقت رہتے ہیں آخر کیوں اور کس لئے ؟ ہم ناظرین کی خدمت میں انکساری کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے مدُعا کو(مقصد) سمجھنے میں عجلت (جلدی)نہ کریں ۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں ۔کہ بلا سوچے سمجھے آپ ہماری بات مان لیں بلکہ ہمارا مُدعا یہ ہے کہ جو کچھ ہم عرض رہے ہیں آپ اس پر غور کریں اگر معقول (مناسب)ہو اور قبول کرنے کے لائق ہو تو آپ اس کو تسلیم کريں ورنہ آپ مختار ہیں۔
بھائیو ! ہم سب بہ حیثیت انسان اُس آدم کے فرزند ہیں جس سے گناہ سرزد ہوا اس لئے ہم سب ورا ثتہ(باپ دادا سے ) گنہگار ہیں اور کسباً (خُود عمل کرکے )ہم نے بہت کچھ اس پر اضافہ کیا ہے پس ہم بالکل نالائق اور گنہگار اور قابلِ سزا ہیں ہماری عبادت۔ بندگی۔ نماز ۔ روزہ۔ خیرات ۔وغیرہ بھی اس لا ئق نہیں کہ خُدا کی درگاہ میں مقبول ہو سکے ہمارے تمام کام نکمے اور گندے ہیں کوئی عقل مند اُن پر پھروسہ نہیں رکھ سکتا ہے ۔ بلکہ ہمارا ہی دل ا ُن پر بھروسہ کر کے اطمینان حاصل نہيں کر سکتا ۔ اگرچہ شرط ِعبودیت(عبادت ) یہ ہی ہے کہ اس کی اطاعت حتیٰ المقدور(جہاں تک ہوسکے) کی جائے تو بھی ہماری عبادت اس لائق نہیں جس پر بھروسہ کر کے اس قدوس کی عدالت میں جا کھڑے ہوں چنانچہ حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ ’’ خُداوند آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کرتا ہے تاکہ دیکھے کہ ان میں کوئی دانشمند خُدا کا طالب ہے یا نہیں وہ سب کے سب گمراہ ہیں اور سب کے سب بگڑ گئے ہیں کوئی نیکو کار نہیں ایک نہیں ‘‘۔ (زبور ۱۴: ۲، ۳ )۔
چنانچہ حضرت پولوس رسول بھی یہی فرماتے ہيں کہ ’’ کیا ہوا کیا ہم کچھ فضیلت رکھتے ہیں بالکل نہیں کیونکہ ہم یہودیوں اور یونانیوں دونوں پر پيشترہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ سب کے سب گناہ کے ماتحت (نيچے۔ تابع)ہیں چنانچہ لکھا ہے کہ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں کوئی سمجھ دار نہیں کوئی خُدا کا طالب نہیں سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمے بن گئے کوئی نيکو کارنہیں ایک بھی نہیں اُن کا گلاُ کھلی ہوئی قبرہے ۔ انہوں نے اپنی زبانوں سے فريب ديا اُن کے ہونٹوں میں سانپو کا زہر ہے ۔ اُن کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھر ا ہے اُن کے قدم خُون بہانے کے لئے تیز رو ہیں ۔ اُن کی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے ۔ اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے اُن کی آنکھوں میں خد ا کاخوف نہیں ( رومیوں ۳: ۹، ۱۸) ۔
الغرض جن پر لفظ انسان کا اطلاق ہوسکتا ہے اُن پر گناہ کا بھی اطلاق ہو سکتا ہے خواہ بنی ہو یا ولی (خُدا کے قريب ) رشی (خُدا پرست۔ درويش)ہو یا مُنی (زاہد۔پرہيزگار)سب کے سب گنہگار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہماری کیا حالت ہو گی ۔ جب خد اکی ذات پر غور کرتے ہیں تو وہ سراسر پاک ہے اور گناہوں سے بے حد نفرت کرتا ہے۔ اور جب اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم سراسر ناپاک ہیں اور گناہوں کی طرف مائل ۔پس ہم میں اور خُدا میں کس طرح ربط اور اتحاد ۔ موافقت اور مواصلت (پيوستہ ہونا)پیدا ہو ؟
اور یہ بھی خوب ثابت ہو چکا ہے کہ انسان اپنی طاقت سے نجات حاصل نہیں کر سکتا ہے اگرچہ خُدا بے شک رحیم بھی ہے لیکن صرف رحمت پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہنا اور اُس کی عدالت کا لحاظ نہ رکھنا بھی بڑی جہالت ہے پس اس مشکل کو جو ہمارے سامنے آپڑی ہے ہم کسی صورت سے دفع نہیں کرسکتے ہیں بجز اس کے کہ تمام مذاہب کی کتابوں کو پڑھیں اور تمام ہادیان دین(دين کے رہنما) کی ہدایات پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اور جس مذہب کی کتاب میں نجات کا مکمل بندوبست ہو اور رحم و عدالت کو مطابق کر دکھائے اور جس کی تعلیم بھی محققانہ (تحقيق شدہ)ہو اور رُو ح کے تقاضا کو بھی پورا کرے ۔ اور منجاب اللہ ہونے کی دلا ئل رکھتی ہو ہم اس کو بصدق دل انتخاب کریں اور اس کی پابندی میں اپنی باقی عمر صرف کر ڈالیں۔
پس جہاں تک ہماری تحقیقات کا تعلق ہے۔ ہم نے صرف بائبل مقدس ہی کو ان صفات کے ساتھ موصوف(قابلِ تعريف ) پایا۔ اور بلا تعصب (بغير مذہب کی بے جا حمائت )اور برملایہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف بائبل مقدس ہی خُدا کا سچا کلام ہے ۔ لہذ اب ہم اس کی پاک تعلیم کا خلاصہ لکھنا شروع کرتے ہیں اور ناظرین سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ ٹھنڈے دل سے اُس پر غور کریں کیونکہ حقیقی عرفان یہی ہے ۔ اب خُدا کا فضل ہم سب کے شامل حال ہو ۔
آدم اوّل اور آدم ثانی
حق سجاد تعالیٰ جو ازلی اور ابدی خُدا ہے ارادہ کیا کہ اپنی عظمت اور قدرت کا اظہار کرے پس اُس نے زمین اور آسمان کو اور سب کچھ جو اُن میں ہے اپنے ازلی کلمہ کی وساطت (وسيلہ ) سے پیدا کیا اور آدم کا پتلا مٹی سے بنا کر زندگی کی رُوح اس میں پھونک دی اور اُس کو فاعل مختار ہونے کا حق دے کر باغ ِعدن میں رکھا اور اُس کی پسلی میں سے ایک عورت پیدا کر کے اُس کے ساتھ کر دی تا کہ اُس کی انیسہ (محبت رکھنے والی)ہو اور حکم دیا کہ اُس درخت سے جس کا کھانا منع ہے۔ نہ کھانا ورنہ مر جاؤ گے۔
شیطان لعین(لعنتی ) نے جو راندہ در گاہ ایزدی (خُدا کے حُضور ی سے نکالا ہوا)اور فاعل مختار فرشتہ تھا وقت کو غنیمت سمجھ کر حوّا کے پاس آکر اس کو فریب دینا چاہا چنانچہ حوّا اس کے فریب میں آگئی اور شجر ِممنوعہ میں سے خود بھی کھا یا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا یا۔ لہذا موت کا ان پر طاری ہونا لازمی امر تھا پس خُدا نے ناراض ہو کر دونوں بلکہ تینوں کو باغ عدن سے نکل جانے کا حکم دیا یوں تمام روئے زمین پر نسل انسانی پھیلتی گئی اور شیطان کی شیطنت (شرارت۔بدی) میں بھی اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ ہر ایک انسان کے رگ و ریشہ میں ا س کے خون کے ساتھ ساتھ دورہ کرنے لگا ( مشکوۃ کتاب الایمان فی الوسوسہ) ۔ اس پر خُدا کی رحمت جوش پر آئی اور انبیاء کا ایک وسیع سلسلہ جاری کیا جنہوں نے نہ صرف یہ تعلیم کہ خُدا کی اطاعت اور فرمانبرداری عین سعادت مندی اور فلاح دار ین ہے۔ بلکہ نجات کے اس وعدے کو جو خُدا نے آدم اور حوّا سے بہشت سے نکل جانے وقت کیا تھا کہ ’’ عورت کی نسل شیطان کے سر کو کچلے گی ‘‘۔ (پیدائش ۳: ۱۵)۔ لوگوں کے ذہن نشین کرنے میں کوئی کسر اُٹھانہ رکھی ۔ لیکن افسوس ہے کہ بہت کم لوگوں نے ان کا یقین کیا۔ اور اکثر بُت پرستی اورنفس پرستی میں مبتلا ہو کر شیطان کےہلاکت آفرین پنجہ میں پھنس گئے۔ اس لئے خُدا نے بھی کئی بار آفات ارضی وسماوی (زمينی و آسمانی )کے ذریعہ اپنے قہر اور غضب کا اظہار کیا جو سعید(خوش نصيب ) ہوئے اورمتنبہ(تنبيہ حاصل کرنا) ہوئے اور جو شکی تھے وہ ہمیشہ کے لئے ہلاکت ہوئے۔ چنانچہ یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ہم میں سے ہر ایک نےاپنی راہ لی‘‘۔
انسان کی اس قدر سرکشی کے باوجود خُداوند تعالیٰ نےا یک شریعت بھی موسیٰ کی معرفت اس جہان میں بھیج دی جس کا مطلب یہ تھا کہ انسان اپنی کمزوری اور گناہ آلودگی سے واقف ہوتا کہ آیندہ فضل کی قدر و منزلت معلوم کرسکے۔ اور وہ شریعت اس طرح پر تھی ۔ کہ غور و خوض کے بعداچھی طرح معلوم ہو سکے کہ وہ آیندہ فضل کا عکس اور نمونہ ہے۔
اس کے بعد خُدا نے اس آدم کو زمین پر بھیجا جس کی بشارت تمام انبیاء دیتے آئے تھے۔ اور یہ نیا آدم اس غرض سے دنیا ميں آیا تا کہ پہلے آدم کے فرزندوں کو جو شیطان کے قبضہ میں گرفتار ہوئے تھے۔ اپنی ذات پِاک کے ساتھ پیوست(جوڑنا) کر کے موت کے قبضہ سے نکال لے اور جتنے بوجھ ان کی گردن پر ہیں سب آپ اُٹھائے اور اُن سب کو جو اس پر ایمان لائے نجات دے یہ خُدا کا بڑا رحم تھا جو اپنے بندوں پر کیا ۔ورنہ سب دوزخ کے وارث ہو چکے تھے۔ اس نئے آدم کی پیدائش بھی اس آدم اوّل کی مانند ہوئی فرق اتنا رہا کہ پہلا آدم شیطان سے مغلوب(ہارنا) ہوا دوسرا آدم اس پر غالب آیا اور اس کو شکست دے کر بالکل مغلوب کر لیا چونکہ محض انسان کی طاقت سے یہ بعید(دُور۔فاصلے پر) تھا کہ کہ شیطان پر فتح یاب ہو سکے۔ اس لئے اس آدم ثانی میں الوہیت(خُدائی) بھی تھی ۔ اور انسانیت بھی جس کا ثبوت کلام الہٰی میں بالوضاحت موجود ہے۔
جس طرح ایک مہربان باپ مصیبت کے وقت اپنے بچوں کو گلے سے لگا لیتا ہے۔ اسی طرح خُدا نے بشکل انسان اس جہان ميں آکر ہمیں اپنے گلے سے لگا لیا ہے ۔ اور ہمارے دُکھ در د کو ہم سے دُور کر ڈالا اور ہماری رُوحوں کو آرام بخشا اور ہمیں اپنی راست بازی سے راست باز بنایا یہ دوسرا آدم جس کا ذکر سطور ِ بالا میں ہوا ربنا المسیح ہے۔
چنانچہ لکھا ہے کہ کیونکہ جب آدمی کے سبب سےموت آئی تو آدمی ہی کے سبب سے مرُدوں کی قیامت بھی آئی اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ۔ ویسے ہی مسیح میں زندہ کئے جائیں گے۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے پہلا پھل مسیح پھر مسیح کے آنے پر اس کے لوگ اس کے بعد آخرت ہو گی۔ اس وقت وہ ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت نیست کر کے بادشاہت کو خُدا يعنی باپ کے حوالہ کردے گا ۔ ( ۱ کرنتھیوں ۱۵: ۲۱۔ ۲۴ )۔
چنانچہ اسلام بھی اس کا قائل ہے کہ مسیح دُوسرا آدم ہے چنانچہ آل عمران کے ۵ رکوع میں ہے کہ( ان مثل عیسیٰ عند اللہ لمتل آدم ) یعنی خُد ا کے نزدیک عیسیٰ مسیح مثل آدم کے ہے۔
اب ہمار ی عرض یہ ہے کہ یہ نیا آدم جو موت پر فتح یاب ہو گیا ہے اور جس کے اختیار میں سب کچھ ہے اور جس نے ایمان لانے والوں کے لئے نجات تيار کر لی ہے اُس کے پاس آؤ اور نجات حاصل کرو پہلے آدم کی فرزندی سے جو موت کا سبب ہے نکل کر اس آدم ثانی کی فرزندی میں آ کر نئی پیدائش حاصل کرو تا کہ اس موت کے قبضہ سے جو آدم اوّل کی فرزندی کی وجہ سے تم پر طاری ہے نکل کر ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو جاؤ جیسے مقدس یوحنا فرماتے ہیں کہ یسوع نے جواب میں اس سے کہا میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سر ے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا ( یوحنا ۳:۳)۔
شاید کوئی یہ کہے کہ ہم اس کی فرزندی میں کیونکر شامل ہو سکتے ہیں جواب یہ ہے کہ صدق دل اور نیک نیتی سے اپنے کئے ہوئے سے پچھتاؤ اور اُسے پکار کر کہو کہ اے ہر گنہگار کو نجات بخشنے والے ہمیں بھی بچا اور ہم پر رحم کر ہمیں اپنی طرف کھینچ کہ ہم غار ِعصیاں (گناہوں کی غار)میں ڈوبے جاتے ہیں۔ اے کریم خُدا ہمارے دلوں کو اپنی طرف مائل کر ہم کسی خاص دین یا مذہب کو آپ پسند نہیں کرتے ہیں ہمیں صرف تیری تلاش ہے جدھر تو ہے ہمارے دلوں کو اُدھر متوجہ کر اگر خلوص کے ساتھ تم ایسی دُعا کرو تو یقیناً خُدا تمہیں بھی اپنی طرف کھینچ لے گا اور تمہاری ساری مشکلیں آسان ہو جائے گی ۔ اور تمام مواقع دُور کئے جائیں گے ۔
ان روز مرہ دُعاؤں کے سوا طالب ِحق کو یہ بھی لازم ہے کہ ہر مذہب کی کتاب کو بلاتعصب غور سے پڑھے اور شک و شبہ کو اس کے سمجھنے والوں سے تحقيقانہ طور پر دریافت کرے نہ کہ متعصبانہ (مذہب کی بے جا حمايت)طو ر پر ۔
ناظرین ! آپ جو اپنے مذہب کی کتابوں کو غور سے پڑھتے ہیں ذر ا ہماری کتابوں کو بھی غور سے مطالعہ فرمائیں اگر آپ کو ااطمینان ہو جائے تو ٹھيک ورنہ آپ مختارہیں۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کتابوں کے پڑھنے سے اپنے دین کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ جو مذہب ایسا ضعیف (کمزور) ہو کہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کے دیکھنے سے اس میں شک پڑ جائے تو ا س کے باطل(جھوٹا) ہونے میں کیا شک ہے وہ ہی سچا مذہب ہے کہ ہر مذہب کی کتاب پڑھ کر اس میں قائم رہ سکیں اور اس میں ترقی کر سکیں۔
الغرض ربنا المسیح نے اس زمین پر تشریف لا کر اس جدائی کو جو انسا ن اور خُدا میں واقع ہو ئی تھی دُور کر کے صلح کرا دی ۔ اس طرح پر کہ ہم بدکاروں کے معاوضہ میں اپنی جان دے کر خُدا کی عدالت پوری کردی۔ اور ہماری کمزوریوں کو زور سے بدل کر ہم میں نئی انسانیت پیدا کر دی ۔ اور اس دنیا کو پھر اس کی اصلی حالت پر لا کر رشک فردوس بنا دیا ۔ چنانچہ اس کے ایماندار بندے بجز گناہ کرنے کے ہر طرح سے آزاد ہیں۔ اور اس دنیا سے اسی طرح فائد ہ اُٹھانے ہیں جس طرح حضرت آدم باغ ِعدن سے اُٹھاتے تھے۔ البتہ جس طرح شیطان باغِ عدن میں آدم کی تاک میں لگا رہتا تھا اسی طرح مسیح کے ایمان دار بندوں کی تاک میں بھی لگا رہتا ہے لیکن ان کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے کیونکہ خود مسیح اُن کے محافظ اور نگہبان ہیں۔
چنانچہ مقدس پولوس نے اسی مضمون کو بدیں الفاظ بیان کیا ہے کہ ’’ رات بہت گذر گئی اور دن نکلنے والا ہے پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں جیسا دن کو دستور ہے شاستگی سے چلیں نہ کہ ناچ رنگ اور نشے بازی سے نہ زناکاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے بلکہ خُداوند یسو ع مسیح کو پہن لو اور جسم کی خواہشوں کے لئے تدبیر نہ کرو ‘‘ ۔ ( رومیوں ۱۳ : ۱۳۔ ۱۴)۔
پھر ا س روشنی کے ہتھیار کی تفصیل جن کے ذریعہ سے ہم شیطان کو شکست دے سکتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ ’’ پس سچائی سے اپنی کم کس کر اور راست بازی کا بکتر لگا کر اور پاؤں میں صُلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہ۔ جس سے تم اس شریر کے سارے جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو ۔ اور نجات کا خود اور رُوح کی تلوار جو خُدا کا کلام ہے لے لو اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور منت کرتے ہو۔ ’’ ( افسیوں ۶ : ۱۴۔ ۱۸) ۔
بھائیوں ! خُداوند یسوع مسیح نے اُن لوگوں کو جن کو اُس نےا پنی راستبازی کے ذریعہ اصلی شکل پر پھیرا ہے شیطان سے محفوظ رہنے کے لئے سات ہتھیار بند ھوائےہیں تاکہ اُس شریر کا مقابلہ کر کے اُس فضل کو جو اُس کی طرف سےا نسانوں کو دیا گیا ہے کھو نہ دیں۔
سچائی کا کمر بند ۔ راستبازی کا بکتر ۔ خوشخبری کی تیاری کے جو تے ۔ ایمان کی سپر ۔ نجات کا خود ۔ کلام ِالہٰی کی تلوار ۔ رُوح میں ُدعا کی مدد ۔ پس جو کوئی خُداوند یسوع مسیح ميں پیوست ہوا ہے۔ اور جس نےآدم اوّل کی فرزندی چھوڑ کر خُدا کی فرزندی کا مرتبہ حاصل کیا ہے۔ وہ شخص ان سات ہتھیاروں سے ہر وقت شیطان کا مقابلہ کرتا رہتا ہے۔ اور اُن خُدا کے فرزندوں کا دُنیا میں اور آسمان پر ایک جھُنڈ تیار ہو گیا ہے۔ پس ہم ان لوگوں کو جو ان خُدا کے سپاہیوں کے جُھنڈ کا بے خبری سے مقابلہ کرتے ہیں ۔ یا مخالف کی فوج کے ساتھ مل کر ہلاک ہو رہے ہیں اطلاع دیتے ہیں کہ بھائیوں ! اس دشمن کا ساتھ مت دو جو مغلوب ہو چکا ہے بلکہ خُدا کے لوگوں میں شامل ہو جاؤ۔
اور اپنی راستبازی پر بھروسہ نہ رکھو بلکہ خُدا کی اس راستبازی کو جو آدم ثانی میں پیوست ہونے سے ملتی ہے حاصل کرو ۔ خُدا کے سامنے وہی راستباز ی جو اس نے خود عنایت کی ہے کار آمد ہے ۔ ہماری راستبازی وہاں کار آمد نہیں ہو سکتی ہے۔
یہ خُدا کا فضل ہے کہ دوسر اآدم ظاہر ہوا جو پاک اورقدوس ہے اور وہ اپنے ساتھ آدمیوں کو پیوست کرتا ہے۔ اس لئے وہ پہلے آدم کی نجاست (گندگی )اور اپنی شرارت کی نجاست سے پاک ہوتے ہیں اور آدم ثانی کی خوبی میں سے حصّہ پاتے ہیں اس لئے وہ خُدا کے مقبول فرزند بن جاتے ہیں ۔ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ سرسری نہیں بلکہ گہری اور حقیقی باتیں ہیں۔
رسالہ دوم
آدم ثانی سے پیوست ہونا
رسالہ اوّل میں آدم اوّل اور آدم ثانی کا ذکر کیا گیا اور یہ بیان ہوا کہ آدم اوّل کے سبب سے سب آدمی خُدا کی رحمت سے محروم ہوئے اور موردِ غضب الہٰی(جس پر خُدا کا غضب ہو) بن گئے لیکن دوسرے آدم یعنی حضرت عیسیٰ کے ساتھ پیوند(لگايا جانا ) ہونے کی وجہ سے پھر حالت اصلی پر آ جاتے ہیں۔ اس رسالہ میں اس بات کا ثبوت دینا ضرور ہے کہ ہم اس کی راستبازی سے کیونکہ راستباز بن جاتے ہیں اور کیوں اس کے ساتھ پیوست ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہم لوگ جو آدم اوّ ل کے سبب سے گنہگار ٹھہرتے ہیں اس کا کیا سبب ہے؟ بادی النظر (سرسری نظر) میں یہ بات بعید از قیاس (وہ بات جو خيال ميں بھی نہ آسکے )معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص کی خطا سے دوسرا شخص خطاکار ٹھہرے ۔ مگر غور و خوض کے بعد ایسا معلو م ہوتا ہے کہ یقیناً یہ بات لائق تسلیم اور برحق ہے کہ آدم اوّل کے سبب سے سب لوگ بگڑ گئے اور اس کی خطا کی وجہ سے سب مجرم بن گئے۔ دلیل اس دعویٰ کی یہ ہے کہ آدم اوّل سب آدمیوں کا مبدا (ابتدا) تھا یا وہ حقیقی تخم(بيج) تھا کہ جس پر ہر فرد بشر کا سلسلہ جا کر ختم ہوتا ہے ۔ یا یوں سمجھنا چاہے کہ آدم اوّل کل انسانیت کا مجموعہ تھا ہر آدم کی انسانیت اس میں موجود تھی مثلاً ایک آم کی گٹھلی میں اس کے تمام شاخ و بار با لقوہ (قوت)مو جود ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب آدم اوّل باغ عدن میں تھا تو یہ سب آدمی جواب زمین پر چلتے پھرتے ہیں یا وہ جو مرگئے ہیں یا وہ جو پیدا ہو ں گے۔ سب کے سب بالقوہ(قوت) اُس میں موجود تھے۔ اس کا جسم سب کے جسموں کا سانچا تھا اس کی رُوح سب کی رُوحوں کا مخزن(ذخيرہ۔ سٹور) تھا چنانچہ تو رۃ میں لفظ پھلو اور بڑھو کا خطاب اس کی دلیل ہے پس جب اس نے خطا کی تو اس کے ساتھ سب نے خطا کی اور جب اُس پر خُدا کا قہر نازل ہو ا تو ان سبھوں پر بھی ہو ا جو اُس میں بالقوہ موجود تھے۔ ظاہر میں آدم کی خطا ہے حقیقت میں ہم سب کی خطا ہے کیونکہ وہ ہم سبھوں کا مجموعہ تھا جو غضب کا سزا وار ہو ا ۔ پس ہر فرد اس مجموع کا مفضوب علیہ ٹھہرا ۔ اس لئے یہ کہنا کہ ایک کی خطا سے ہم سب کیوں خاطی (خطا کار)ہوئے۔ محض نادانی ہے۔ اب اگر کوئی شخص کوئی قصو ر کرتا ہے۔ تو اس سے وہی خود قصور وار ٹھہرتا ہے کہ یہ شخص بذاتِ خود دوسرے قصور واروں کا مجموعہ نہیں ہے برعکس اس کے آدم تمام نسلِ انسانی کا مجموعہ تھا ۔ چنانچہ تورا ت مقدس میں لکھا ہے کہ ’’ تو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر کیونکہ میں خُداوند تیرا خُدا غیور خُدا ہوں اور باپ دادوں کی بدکاریاں اُن کی اولاد پر جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں تیسری اور چوتھی پشت تک پہنچاتا ہوں ۔ اُن میں سے ہزاروں پر جو مجھے پیار کرتے ہیں اور میرے حکموں کو حفظ کرتے ہیں رحم کرتا ہوں ‘‘۔ ( خروج ۲۰: ۵،۶)۔
شاید کوئی یہ کہے کہ اس زمانہ کا شخص اگرچہ کُل انسانیت کا مجموعہ نہیں تو بھی اپنی اولاد کا مجموعہ تو ہے لہذا لازم ہے کہ اس کی بدی اس کی اولاد میں بھی اثر کرے جواب یہ کہ بے شک اگر کوئی ایسا شخص ہو جو بدکار اور نا خُدا ترس ہو تو اس کی اولاد بھی جو بالقوہ اس میں موجود ہے تیسری چوتھی پشت تک سزا وار ٹھہرتی ہے۔ اس وقت تک جب تک کہ اس بدکار باپ کی رُوح کا اثر اولاد سے مُندفع (دفع دور)نہیں ہو جاتا ۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اگر بدکار باپ کا اثر اولاد میں سرایت کرے تو وہ بھی غضب کے ماتحت(نيچے) رہتے ہیں۔ اور جب وہ بداثر جاتا رہے تو خُدا بھی مہربانی کرتا ہے۔ اسی طرح اگر آدم اوّل کی بگڑی ہوئی طبیعت کا اثر ہم میں رہے تو ہم غضب میں رہتے ہیں اگر وہ اثر جاتا رہے تو رحمت کے سايہ میں آ جاتے ہیں پس یہ بات واضح ہو گئی کہ آدم اوّل کے سبب سے ہم سب گنہگار ہو چکےہیں ۔ اسی طرح آدم ثانی کی راستبازی سے ہم راستباز ٹھہرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے پا ک ہو جاتے ہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے جب دیکھا کہ ا ٓدم اوّل بگڑ گیا اور اس کے سبب سے اس کی تمام اولاد غضب کی سزا وار ہوئی اور جب آدم نے اس منشا الہٰی(خُدا کی مرضی) کے برخلاف کہ آدم اس کا خلیفہ ہو کر ابدالآ باد تک زمین پر حکومت کرے اور زندہ رہے‘‘۔کا م کیا تب خُدا نے ایک دوسرے آدم کو جس میں پہلے آدم کی طبیعت کا کچھ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ذات ِالہٰی سے متصف(صفت رکھنے والا) اور اس کی عین ذات کا عکس اور پر تو تھا بھیجا تا کہ ابدالآباد تک زمین پر حکومت کرے اور اس کے رُوحانی فرزند ہمیشہ اس کے ساتھ حیات ِ ابدی کے وارث بن جائیں اور سند خلافت پر حکمران رہیں۔
اگر یہ آدم ثانی بھی آدم اوّل کی طرح اپنی اولاد کا سلسلہ جسمانی طور پر علیٰحدہ جاری کرتا تو آدم اوّل کی تمام ذریّت(نسل۔تخم) دوزخی ہو کر ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار رہتی اور خُدا کی رحمت میں ان کا حصہ نہ رہتا بلکہ ہم سب کے سب دوزخ میں جاتے اس لئے خُدا نے ہم پر یہ فضل کیا کہ آدم اوّل کی اولاد کو اس کی فرزندی سے نکال کر آدم ثانی کی فرزند ی میں اس طرح شامل کیا کہ اُ س پر ایمان لانے کی وجہ سے اس کی فرزندی ميں ان کا شمارہو نہ کہ آدم اوّل کی فرزندی میں۔
اور جیسے آدم اوّل نے اپنی اولاد کے ظہور سے پیشتر تمام اور کو ضمناً (اشارۃً) اور بالقوہ اپنے اَور(طرف) لے کر موت کے سایہ میں کردیا تھا اسی طرح اس آدم ثانی نے اپنے تمام فرزندوں کو یعنی اپنی تمام کلیسیاء کو ضمناً اور بالقو ہ اپنے اندر لے کر سب راستبازیاں پوری کردیں۔ اور اپنے تمام کلیسیاء کے لوگوں کے گناہوں کو آپ اُٹھا کر سز ایاب ہوا تا کہ وہ لوگ موت کے سایہ سے نکل کر اور آدم اوّل کی فرزندی سے چُھٹ کر اس کے فرزند ہو جائیں اور ہمیشہ اُس کے ساتھ زندہ رہیں۔
شاید کوئی یہ کہے کہ آدم اوّل اگر خُدا کا گناہ نہ کرتا تو ہرگز نہ مرتا نہ تو جسم کی نسبت سے اور نہ رُوح کی نسبت بلکہ ہمیشہ وہ اور اس کی اولاد زندہ رہتے لیکن اب گناہ کی وجہ سے وہ اور اس کے فرزند دونوں مر گئے۔لیکن اس آدم ثانی کے فرزندبھی تو جسم کے اعتبار سے مرتے ہیں پس ان کے مرنے کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آدم اوّل کے سبب سے ہر انسان کا جسم اور رُوح دونوں بگڑ گئے اور دونوں پر موت کا فتوی لگ گیا لیکن آدم ثانی نے صرف رُوح کو جو بیش قیمت جو ہر ہے اپنے ساتھ پیوست کر کے بچا لیا اور اس حقیر جسم کو جو آدم اوّل کے سانچے میں ڈھلا ہوا اور خالی پتلا ہے اس قابل نہ سمجھا کہ اس پُرانے چیتھڑے کو دھو کر پھر اُس پاک رُوح کو پہنا دے اس لئے اس کو قابل ِالتفات(توجہ کے لائق) نہ سمجھا کیونکہ اس کا منشا(مرضی)یہ ہے کہ میں ان رُوحوں کو جنہیں میں نے بچایا ہے نیا لباس یعنی اور ہی بدن عنایت کروں بلکہ اس زمین کو بھی جو آدم کے سبب سے لعنتی ہوئی ہے اور جس سے یہ خاکی جسم بنائے گئے ہیں اور اس آسمان کو بھی تبدیل کر کے نئی زمین اور نیا آسمان بناؤں اور اپنے مقدسوں کو اس میں رکھوں ۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ وہ اپنی اس قوت کی تاثیر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کر سکتا ہے ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کی صورت پر بنائے گا ( فلپیوں ۳ : ۲۱ )۔
مقدس پطرس لکھتے ہیں کہ ’’ لیکن اس کے وعدے کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کر رہے ہیں جن میں راستباز بسی رہے گی ۔ ’’ ۲ پطرس : ۱۳)۔
یسعیاہ نبی لکھتے ہیں کہ دیکھو میں نئے آسمان اور نئی زمین پیدا کرتا ہوں اور جو آگے تھے ان کا پھر ذکر نہ ہو گا ( یسعیاہ ۶:۱۶)۔
پھر لکھتے ہیں کہ کیونکہ جس طرح سے نئے آسمان اور نئی زمین جو میں بناؤں گا میر ے حضور قائم رہیں گے اسی طرح تمہاری نسل اور تمہارا نام باقی رہے گا۔ خُدا وند فرماتا ہے (یسعیاہ ۶۶:۲۶)۔ پس ہمارا خُداوند اس زمین کو جو سراسر فانی ہے نیست (ختم)کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ بدن جو اس سے بنا ہے ضرور ہے کہ نیست ہو مگر رُوح جو بیش قیمت شے ہے اور جو اس زمین سے نہیں بنی ہے صرف اسی کی حفاظت درکار ہے ۔ بشرطیکہ اس کے فرزند بن جائیں اس لئے اب اس امر کا بیان مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ آدم ثانی یعنی حضرت مسیح کے فرزند کیونکر بن جاتے ہیں اور علائق(تعلقات) فرزندی کس طرح متحقق(درست) ہو جاتے ہیں۔ یوحنا ۳:۳ ۔ میں ہے کہ حضرت عیسیٰ نيکديمس سے جو ایک یہودی عالم تھا یوں فرماتے ہیں کہ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا ۔ نيکديمس نے اس سے کہا آدمی جب بوڑھا ہو گیا تو کیونکر پیدا ہو سکتا ہے ؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہو سکتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اوررُوح سے پیدا نہ ہو خُدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا ‘‘ ( یوحنا ۳: ۳۔ ۵)۔
ان آیتوں سےصاف ظاہر ہے کہ خُدا کے فرزند بننے اور بہشت میں داخل ہونے کے لئے نیا جنم لینا ضرور ہے پس جو کوئی نیا جنم لیتا ہے وہ آدم ثانی کا فرزند بن جاتا ہے لیکن اس نئے جنم کے معنی ہمارے خُداوند نے یہ بتلائے ہیں کہ پانی اور رُوح سےپیدا ہونا یعنی پانی سےاصطباغ(بپتسمہ ) لینا جو ظاہر ی اقرار کا نمونہ ہے اور خُدا کی رُوح کا دل میں آجانا ۔
مگر یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ آدم ثانی کی رُوح سے ہماری رُوح کو طاقت ملے یعنی رُوح القدس یا خُدا کی رُوح جو باپ اور بیٹے سے نکلتی ہے ہمارے اندر آجائے تو ضرور ہم اس کے فرزند ٹھہرتے ہیں گو یا کہ ہم باطنی طورپر خُدا سے پیدا ہو گئے اور اسی لئے ہم خُدا کے بیٹے کہلاتے ہیں ۔ مقدس یوحنا لکھتے ہیں کہ ’’ جتنوں نے اُسےقبول کیا اس نے انہیں خُدا کے فرزندہ بننے کا حق بخشا یعنی انہیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں ( یوحنا ۱: ۲ ۱)۔
اس آیت کا لطف اس وقت معلوم ہوتا ہے جب کہ ہم خُداکی رُوح سے رُوحانی طور پر پیدا ہو کر اس کے فرزندبن جاتے ہیں ۔
اب یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ مسیح کی رُوح اس کے لوگوں میں کیونکر آجاتی ہے جس کے سبب سے خُدا کے فرزند بن کر آدم اوّل کی فرزندی سے نکل جاتے ہیں اور ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں ۔
واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنے گناہوں سے شرمندہ اور بیزار ہو کر خُدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور رُوحانی طور پر مضطرب (پريشان)رہتا ہے اور خُدا وند یسوع مسیح سے امداد طلب کرتا ہے تب خُدا وند تعالیٰ اس پر فضل کرتا ہے اوراس کی توبہ قبول فرماتا ہے اس صورت میں خُداوند یسوع مسیح کی رُوح اس شخص کی طر ف توجہ فرماتی ہے۔اور جس قدر یہ شخص خالص نیت سے اپنی رُوح میں درست طور پر دعاکرتا ہے اور مناجات کے ذریعہ خُدا کی طرف تقرب(نزديکی) ڈھونڈتا ہے اور کلام الہٰی میں غور کرتا ہے۔
اُسی قدر رُوح القدس کا فیضان(بڑی بخشش) اور اس کا نزول اس کے دل پر زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ اور یہ شخص اپنے دل میں آرام اورتسلی پاتا ہے خُدا کی محبت اور دُعا کا شوق اور نیکی میں سرگرمی اور تحمل و برداشت ۔ صبر و قناعت اس کے دل میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور گھمنڈ ۔غرور ۔حیلہ سازی ۔ حسد ۔ لالچ ۔ تملق(خوشامد)۔نفس پروری ۔ شہوت پرستی وغیرہ عیوب (عيب کی جمع) جو ہر آدمی میں پائے جاتے ہیں رفع ہونے شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کی رُوح مہبط مورد انوار الہٰی (خُدا کا نور اُترنے کی جگہ)بن جاتی ہے اس وقت اس کی باطنی آنکھیں ٹمٹا اُٹھتی ہیں پھر یہ شخص کلام ِالہٰی کے ذریعہ سے اپنے باطنی عیوب اور خد ا کی قدوسیت اور اس جہاں کی ناپائداری اور آیندہ جہاں کی قدرو منزلت رُوحانی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے اور اس کا ضمیر روشن ہوتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ خُدا کی رُوح کی برکت سے ہوتا ہے اس کے رُوح کے بغیر ہر گز کوئی آدمی راہ راست پر نہیں آسکتا ۔ جب میں خُداوند یسوع مسیح کے پاس حاضر نہ ہوا تھا اور اس کی رُوحانی برکتوں سے واقف نہ تھا تو اس وقت کئی ایک دنیا وی عالم لاہور میں رُوح القدس کی بابت گفتگو کرتے تھے۔ کہ رُوح القدس کیا چیز ہے ؟ میں بھی چپ چاپ سنتا تھا مگر ان کی باتوں کو میری تمیز قبول نہیں کرتی تھی وہ کہتے تھے کہ عیسائی لوگ جو رُوح القدس کا فیضان (فائدہ۔بڑی بخشش) اور اس کا نزول آدمیوں کے دلوں میں تسلیم کرتے ہیں ۔ شاید انکشا ف ِ ذہنی یا فیضانِ علمی کا طبیعت پر اثر کرنا مراد لیتے ہیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ فیضانِ علمی اکثر ذہین لوگوں میں ہوتا ہے کچھ عیسائیوں کو خصوصیت نہیں اگرچہ اس کی بابت اس وقت میں کچھ نہ کہہ سکا لیکن اب میں کہتا ہوں کہ رُوح القدس تو اور ہی چیز ہے اور اس کےکچھ اور ہی خاصے ہیں تمام جہان کے ذہن اس کے بغیر نادان ہیں وہ لوگ سراسر غلطی پر تھے رُوح القدس کا لطف جب تک کہ وہ حاصل نہ ہو کوئی نہیں جانتا جب کسی کےا ندر وہ رُوح آتی ہے تو و ہ آدمی اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی کا بیعانہ( پوری رقم کی ادائيگی سے پہلے پہلی قسط) دیکھ کر بہت بڑی خوشی اور آرام اور ایک ایسی الوالعزمی (ثابت قدمی )جو عقل سے بالاتر ہے پا تا ہے تمام مصائب اور تکالیف کو بڑی خوشی کے ساتھ برداشت کرتا ہے وہ اپنی موت میں عین زندگی پاتا ہے اپنے اور خُدا میں ایک خاص تعلق دیکھتا ہے دقایق (باريک نکات)اور رموز الہیہ (خُدا کے بھيد)اس پر منکشف (ظاہر)ہوتے ہیں ایک عجیب قسم کی روشنی جو ذہن کی روشنی سے بالاتر ہے اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ دینداری میں سرگرم اور گناہوں کے بوجھ سے آپ کو سبک (ہلکا)پاتا ہے تیزی ذہن اور فیضاِن علمی سے یہ باتیں ہرگز نصیب نہیں ہوتیں پس ضرور رُوح القدس اور چیز ہے اور ذہين ہونا اور چیز ہے۔ ایک محمدی عالم نےمجھ سے کہا کہ میں بھی انجیل کو تحقیقات کی نیت سے آج کل دیکھ رہا ہوں میری زبان سے نکلا کہ خُداکرے کہ آپ کی سمجھ میں آجائے وہ صاحب خفاہو کر کہنے لگے کیا میں ایسا غبی (کند ذہن)ہو ں کہ انجیل کے ترجمہ کو نہ سمجھ سکوں گا ۔ مدت کے بعد مجھ کو معلوم ہوا کہ ہر ذہن رُوح القدس کے بغیر ضرور غبی ہو تا ہے کوئی شخص رُوح القدس کے بغیر کلام الہٰی کو نہیں سمجھ سکتا ہے اگرچہ وہ کیسا ہی بڑ ا عالم کیوں نہ ہو رُوح القدس دعا اور تلاوتِ بائبل اور فضلِ الہٰی سے ملتی ہے ۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اشرف المخلوقات کا اطلاق ہر ایک انسان پر درست نہیں ہے کیونکہ انسان کیسا ہی بڑا عقل مند کیوں نہ ہو جب تک اس میں رُوح القدس نہیں ہے ضرور وہ شرافت ِانسانی سے گراہو ا ہوتا ہے ا ٓدم اوّل اس وقت تک اشرف تھا جب تک اس نے خُدا کی اس رُوح کو جو اسے ملی تھی نہ بجھایا جب بجھایا تو شرافت سے گر گیا ۔
پس رُوح القدس کیا ہے آدم ثانی کی رُوح ہے جو مقدسو ں میں آبستی ہے اس کے سبب ہم لوگ خُدا وند یسوع مسیح کے فرزند اور اس کے عضو بن جاتے ہیں اس اجمال(اختصار) کی تفصیل یہ ہے کہ آدم اوّل جس نے ہر فرد انسان کو ضمناً اور بالقوہ اپنے اندر لے کر لعنت اُٹھائی تو جس قدر انسان اس سے پیدا ہوئے خواہ وہ مرے ہو ں یا زندہ یا جو پیدا ہوں گے ۔ وہ سب کے سب آدم اوّل کے حکم میں ہیں کیونکہ آدم اوّل ان سب کا ایک مجموعہ ہے لہذا اس کی لعنت میں وہ سب شریک ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ اس کا کیاسبب ہے کہ تمام شریر آدم اوّل کے اعضاء ہیں جو اب یہ ہے کہ آدم اوّل کی رُوح ان میں بستی ہے مثلاً زید ایک آدمی ہے کہ جس کی رُوح اس کے ہر عضو پریعنی ہاتھ ۔ کان ۔ ناک وغیرہ پر سلطنت کرتی ہے اگر وہ کسی کو قتل کرے تو اس کا سارا بدن خونی ٹھہرتا ہے کیونکہ اسی کی رُوح سے اس کا سارا بدن زندہ ہے۔
شناخت اس کی یوں ہے کہ آدم اوّل لالچی تھا پس اگر ہمارے اندر لالچ ہے تو اسی کی رُوح ہم میں بستی ہے وہ حیلہ ساز تھا اس نے خُدا سے کہا کہ ’’ اس عورت نے جسے تو نے میرے ساتھ کر دیا ہے مجھ سے گناہ کرایا‘‘ ۔ اگر ہم بھی حیلہ ساز ہیں اور گناہ کر کے اس کے عذر پیش کرتے ہیں تو اسی آدم کی رُوح ہم میں ہے وہ عاقبت اندیش(دور کی سوچنے والا) نہ تھا اس نے بے تامل (بغير سوچے سمجھے )اس درخت میں سے جس سے خُدا نے منع کیا تھا کھالیا اگر ہم بھی عاقبت اندیشی نہیں کرتے اور بے تامل ہر ایک بات مان لیتے ہیں تو ہم میں اس کی رُوح بستی ہے وہ خُدا کے حکم کو چھوڑ کہ دوسروں کی بات مان گیا اگر ہم بھی خُدا کے حکم کو چھوڑ کر دنیا کے لوگوں کی باتیں مان لیتے ہیں تو بیشک اس کی رُوح ہم میں ہے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے درجہ پر اس کا عضو ہے۔ اسی طرح اگر اس دوسرے آدم کی رُوح ہم میں بسے تو ہم اس کے اعضا بن جاتے ہیں کیونکہ جیسے تمام شریروں کے مجموعہ کا سر آدم اوّل ہے اسی طرح تمام مقدسوں کے مجموعہ کا سر عیسیٰ مسیح ہے۔
چنانچہ کرنتھیوں میں لکھا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تم جانوں کہ ہرمرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خُدا ہے ‘‘ ۔ ( ۱ کرنتھیوں ۱۱: ۲)۔
’’کیونکہ شوہربیو ی کا سر ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا ء کا ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے ‘‘۔ (افسیوں ۵: ۲۳) ۔
یعنی تمام مقدسوں کی جماعت گو یا یک بدن ہے جس کا سر حضرت عیسیٰ مسیح ہے۔
اس کا ثبوت کہ سب آدمی جو مسیح کے ہیں ہر ایک اس کا عضو ہے یہ ہے کہ ’’ اسی طرح تم مل کر مسیح کا بدن ہو اور فرداً فرداً اعضاء ‘‘ ۔ (کرنتھیوں ۱۲: ۲۷)۔ رومیوں میں ہے کہ اسی طرح ہم بھی بہت سے ہیں۔ مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ‘‘۔ ( رومیوں ۱۲ :۵)۔
افسیوں میں لکھا ہے کہ ’’ اور سب کچھ اس کے پاؤں تلے کر دیا اور اس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیاء کو دے دیا ‘‘ ( ۱: ۲۲، ۲۳) ۔ غرضیکہ یہ مضمون انجیل شریف میں ہر ایک جگہ پر مذکور ہے کہ ہم سب مسیح کے اعضاء اور وہ ہمارا سر ہے اس لئے مسیح کی رُوح اس کے سب اعضاء میں سلطنت کرتی ہے اور یہ وجہ ہے کہ اس کے سزا اُٹھانے سے ہم سب بچ گئے کیونکہ اگر سلطنت کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے سزا اُٹھانے سے ہم سب بچ گئے کیونکہ اگر سرنے بوجھ اُٹھا کر پھینک دیا تو پیر جو اس کے متعلق تھے خود بخود سبک (ہلکے)ہو گے پس جاہلوں کا وہ اعتراض کہ ایک کی سزا سے دوسرا کیوں پاک ہو جاتا ہے رفع ہوا کیونکہ وہ ایک دوسروں سے جدا نہیں ہے اور اس کا تعلق اس طرح ثابت ہے کہ کسی کو شک کی گنجائش باقی نہیں یعنی یہ کہ اسی کی رُوح ہم میں آگئی لیکن جو اس سے جدا ہیں وہ اس لطف سے محروم ہیں۔
اور یہ سبب ہے کہ عیسیٰ مسیح کی راستبازی سے ہم راستباز ہوئے کیونکہ جب سر پر تاج رکھا جاتا ہے تو تمام بدن کی زینت ہو جاتی ہے یعنی جب اس نے شریعت کے تمام احکام اور سب صداقتیں پاک اور بے گناہ ہو کر پوری کر دیں اور آدم اوّل کے فرزندوں کو اپنی رُوح دے کر اس کی فرزندی سے نکال لیا اور اپنا عضو بنا لیا تو جس قدر لوگ اس کے عضو بن گئے وہ سب اس کی راستبازی سے راستباز ٹھہرگئے۔
اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ آدم اوّل کے فرزند جن پر موت کا فتویٰ ہو چکا تھا اور اب اس کی فرزندی سے بھاگ کر آدم ثانی کی فرزندی کی پناہ میں آگئےہیں تو کیا خُداکا وہ حکم یعنی موت کا فتویٰ ان پر پورا ہوئے بغیر ٹل گیا ہرگز نہیں کیونکہ خُدا کا حکم پورا ہوئے بغیر ٹل نہیں سکتا کہ وہ جلتی آگ کی مانند ہے پس خُداوند یسوع مسیح نے سب کی موت اپنے اُوپر اُٹھالی يعنی سب کے بدلہ میں فدیہ ہوا۔
یہ ایسی بات ہے جیسے پاؤں ہاتھ نے خطا کی لیکن سزا سر پر آ پڑی اسی کے سزا اُٹھائے سے ہم اچھے ہو گئے۔
لیکن چونکہ وہ خود بے گناہ اور پاک تھا اور اس کی رُوح جیسی کہ خُدا میں سے نکلی تھی ویسی ہی مبرااور بے عیب تھی اس لئے اگر چہ موت نے ہمارے گناہوں کے سبب سے تھوڑی دیر کے لئے اس کو دبا لیا لیکن ہمیشہ تک اس کو اپنے قبضہ میں نہ رکھ سکی کیونکہ ایک پاک رُوح اس کے قبضہ میں ہرگز نہیں رہ سکتی اس لئے وہ اس کے قبضہ سے نکل ا ٓیا۔ لہذا ہم بھی اس کے اعضاء ہونے کے باعث سے موت کے پنجے سے چھٹ گئے اس سے ظاہر ہے کہ مسیح کی راستبازی کی وجہ سے ہم کس طرح راستباز ٹھہرتے ہیں۔
مگر یہ نعمت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ اس کی رُوح ہم میں ہوا گر اس کی رُوح ہم میں نہیں ہے تو ہم لاکھ اقرار کریں کہ ہم مسیح کے ہیں ہمیں کچھ فائدہ نہیں بلکہ ہم موت کے سایہ میں رہتے ہیں۔
اب یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ آیا خُدا کی رُوح آدمیوں کو بھی ملتی ہے یانہیں جس کے سبب سے اس کے عضو بن سکتے ہیں۔
سو جاننا چاہیے کہ مسیح کی رُوح ضرور اس کے سچے عیسائیوں کو مرحمت ہوتی ہے بغیر اس کے کوئی شخص عیسائی نہیں ہو سکتا اور وہ رُوح ہر زمانہ میں مقدسوں کو ملتی رہی ہے۔ اس کے وسیلہ سے وہ بھی مسیح کا عضو ہو کر نجات پاتے رہے ہیں اور جنہیں نہیں ملی ہے وہ جہنمی ہوئے اور ہوتے ہیں۔
یوحنا کے پہلے خط میں لکھا ہے کہ ’’ چونکہ اس نے اپنے رُوح میں سے ہمیں دیا ہے اسی سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں ‘‘ ( ۴: ۱۳)۔
اسی خط کے ۲۔ ۲۴ میں ہے ’’اور جو اس کے حکموں پر عمل کرتا ہے وہ اس میں اور یہ اُس ميں قائم رہتا ہے اور اسی سے یعنی اس رُوح سے جو اس نے ہمیں دی ہے ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم میں قائم رہتا ہے۔
نیز یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے کہ اس روز تم جانو گے کہ میں اپنے باپ میں ہوں اور تم مجھ میں اور میں تم میں ( ۱۴: ۲۰)۔
اسی طرح رومیوں میں لکھا ہے کہ لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ رُوحانی ہو بشرطیکہ خُدا کا رُوح تم میں بسا ہوا ہے مگر جس میں مسیح کا رُوح نہیں وہ اس کا نہیں اور اگر مسیح تم میں ہے۔ تو جان گناہ کےسبب سے مردہ ہے مگر رُوح راست بازی کے سبب سے زندہ ہے (رومیوں ۸: ۹) ۔
پہلا کرنتھیوں میں لکھا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ تم خُدا کا مقدس ہو اور خُدا کا رُوح تم میں بسا ہوا ہے اگر کوئی خُدا کے مقدس کو برباد کرے گا خُدا اس کو برباد کرے گا کیونکہ خُدا کا مقدس پاک ہے اور وہ تم ہو ( ۳: ۱۶) ۔
اعمال میں لکھا ہے کہ پطرس نے ان سے کہا کہ توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کےلئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح القدس انعام میں پاؤ گا۔ ( ۲: ۳۸) ۔ دیکھو ان آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ خُدا کا رُوح ان آدمیوں کو جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں ضرور ملتا ہے اور یہ بات نہ صرف انجیل سے بلکہ تمام نبیوں کے پاک نوشتوں سے بہت ہی اچھی طرح ثابت ہے۔
شاید کوئی نا سمجھ یہ کہے کہ اگر تم میں عیسیٰ مسیح کا رُوح رہتا ہے۔ تو تم معجزات کیوں نہیں دکھلا سکتے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کو کرنتھیوں کا پہلا خط ۱۲ باب دیکھتا چاہیے کہ رُوح کے کیا کیا کام ہیں وہاں لکھا ہے کہ نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں رُوح ایک ہی ہے اور خدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُداوند ایک ہی ہے ۔ اور تاثیریں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُدا ایک ہی ہے جو سب میں ہر طرح کا اثر پیدا کرتا ہے لیکن ہر شخص میں رُوح کا ظہور فائدہ پہنچانے کے لئے ہوتا ہے کیونکہ ایک کور وح کے وسیلے سے حکمت کا کلام عنایت ہوتا ہے اور دوسرے کو اس رُوح کی مرضی کے موافق علمیت کا کلام ۔ کسی کو اسی رُوح سے ایمان اور کسی کو اسی سے رُوح کا امتیاز کسی کو طرح طرح کی زبانیں۔ کسی کو زبانوں کا ترجمہ ۔ لیکن یہ سب تاثیریں وہی ایک رُوح کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باٹتا ہے۔
پس اس بات کے دیکھنے اور اس پر غور کرنے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر رُوحانی آدمی کو معجزات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب تمام کلیسیاء ایک بدن ٹھہرا جس کا سرخود حضرت مسیح ہے اور جس کی زندگی مسیح کی رُوح ہے تو اب ایک شخص جو اس بدن کا ایک ناخن یا اس سے بھی چھوٹا ایک عضو ہو اور اگرچہ اسی رُوح سے جس کے سبب سے تمام بدن زندہ ہے وہ بھی جیتا ہو تو بھی جو اس کا کام ہے وہی کر سکتا ہے کوئی ناخن سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو زبان کا کام یا آنکھ یا ناک کا کام کیوں نہیں کرتا کیونکہ ضرور ہے کہ ہر عضو اپنا اپنا کام کرے بایں ہمہ اس شخص میں بھی وہی رُوح ہے جو بدن پر حکومت کرتا ہے ۔ فقط ۔
اب غور کیجئے کلامِ الہٰی کی یہ کیسی صاف تعلیم ہے جس پر تمام کتب ِانبیاء گواہی دیتی ہیں اور جس سے ہم اپنے بدنوں میں زندگی محسوس کرتے ہیں لیکن دنیاوی مذہب جو آدمیوں نے بنائے ہیں کیا سکھلاتے ہیں ذرا غور تو کیجئے مسیح کے پاس آؤ تا کہ ہمیشہ کی زندگی کا رُوح تمہیں بھی مل جائے ورنہ مفت آپ کی رُوح برباد ہو جائے گی خُداوند آپ سب پر اپنا فضل کرے۔
رسالہ سوم
آدم ثانی یعنی مسیح خُداوند کے فضائل میں
اگر چہ خُداوند عیسیٰ مسیح کے فضائل میں سے کچھ پہلے ضمناً (اشارۃً)مذکور ہو چکا ہے تاہم ضرور ہے کہ ایک رسالہ مستقل طور پر ان کے فضائل میں لکھا جائے تا کہ ان لوگوں کو جو ان کے حال سےنا واقف ہو کر دوزخ کی طرف چلے جاتے ہیں اور ان کو بھی مثل اور ہادیوں (رہنماوں)کے ایک ہادی خیال کر کے گمراہی کے جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں فائدہ پہنچے۔ واضح رہے کہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے خصا ئص(عادات) اور فضائل (خوبياں)اس قدر ہیں کہ اس مختصر رسالہ میں ان کی گنجائش نہیں ہے مگر میں ان خصائص کو جو نہایت روشن اور واضح ہیں۔
بیان کرتا ہوں جن کا جاننا اُن طالبان ِحق کے لئے جو ان کا عضو بننا چاہتے ہیں واجب اور لازم ہے پوشیدہ نہ رہے کہ بیس فضیلتیں خُدا وند یسوع مسیح میں ایسی ہیں جو کسی دوسرے ہادی اور مرشد میں نہیں پائی جاتی ہیں ۔
فضیلت اوّل ۔ کہ وہ باعث ایجاد عالم ہیں یعنی اسی کے وسیلہ سے تمام کائنات اور سب چیز یں پیدا ہوئیں۔ چنانچہ لکھا ہے۔ کہ خُدا نے کہا کہ اُجا لا ہو اور اُجالا ہو گیا ( پیدا ئش ۱: ۳ ) ۔ خُداوند کے کلام سے آسمان بنے اور اُن کے سارے لشکر اس کے منہ کے دم سے ‘‘ ( زبور ۳۳:۶ ) ۔ ان آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا کے حکم یا کلام سے سب چیزیں اس کے وسيلہ سے پیدا ہوئی ہیں مگر یوحنا کی انجیل میں لکھا ہےکہ ’’ ابتداء میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا یہی ابتداء میں خُدا کے ساتھ تھا۔ ساری چیزيں اس کے وسيلہ سے پيدا ہوئيں اور جو کچھ پيدا ہوا ہے اس ميں سے کوئی چيز بھی اس کے بغیر نہیں ہوئی اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھا ‘‘۔ (یوحنا ۱: ۱۔ ۴ )۔ پھر آیت ۱۳ میں ہے کہ ’’ کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلا ل دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلا ل ‘‘۔( ۱: ۱۴) ۔
کلسیوں میں لکھا ہے کہ ’’ کیونکہ اسی میں ساری چیزیں پیدا کی گئیں آسمان کی ہوں یازمین کی دیکھی ہوں یا اندیکھی ۔ تخت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات ساری چیزیں اسی کے وسیلے سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں ‘‘ ( ۱: ۱۶)۔
اگر آپ ان آیتوں پر اور ان دیگر آیا ت پر جن کو ہم نے پیش نہیں کیا ہے انصاف کے ساتھ غور کریں تو با وضاحت ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح باعث ایجاد ِعالم ہیں۔ اور ہمارے لئے کیسی خوشی کا مقام ہے کہ ہم ان کو جو باعث ایجاد عالم ہیں پا لیا ہے۔ مسلمانوں کا گمان (خيال)ہے کہ سارا جہان محمد صاحب کے سبب سے پیدا ہوا ہے مگر اس دعویٰ کا ثبوت ان کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ اور نہ وہ خُدا کے کلام سے اس کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔ البتہ ایک عربی فقرہ یعنی ( لو لاک لما خلقت لا فلا ک ) سناتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ اے محمد تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ‘‘ ۔ حالانکہ یہ فقرہ بالکل بے بنیاد ہے ۔ ( یہ قرآن کی آیت ہے اور نہ یہ کوئی معتبر حدیث ہے بلکہ صوفیوں نے گھڑکرمشہور کر دیا ہے۔ مولوی رحمت اللہ صاحب جو مسلمانوں میں بڑے مولوی ہیں ۔ ان کو بھی تسلیم(قبول کرنا)ہے کہ یہ فقرہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں پایا نہیں جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کئی بار اپنے وعظ میں بمقام کر انہ اس کا ذکر کیا ہے۔ البتہ فارسی کی اُن غیر معتبر کتابوں میں جو شاعروں کی بنائی ہوئی ہیں۔ موجود ہے پس ایسی کتابوں کا کیا اعتبار ہے ۔ ہم تو خُدا کے کلام سے خُداوند یسوع مسیح کی نسبت اس کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ قرآن میں بھی مسیح خُدا کا کلمہ کہلاتا ہے۔ غرض کی یہ دعویٰ محمد صاحب کی نسبت ہرگز درست نہیں ہوسکتا کیونکہ کلام الہٰی تو الگ رہا قرآن سے بھی یہ دعویٰ اُن کی نسبت ثابت نہیں ہے۔ اس کے سوا خُدا کا کلام قدیم ہے اور مسیح بھی قدیم ہیں مگر محمد صاحب مثل اور آدمیوں کے حادث (فانی)ہیں نہ انہوں نے قدامت کا دعویٰ کیا ہے۔ اور نہ قرآن میں اس کا ذکر ہے۔ کلام اقانیم ثلاثہ(تثليث کے تين اقانيم ) میں سے ایک اقنوم ہے۔محمد صاحب کوئی اقنوم نہ تھے بلکہ وہ اقانیم ہی کے منکر تھے۔ یہی سبب ہے کہ مسیح باختیار خود قدرت دکھلا تا رہا ۔ بہر حال مسیح کے سوا اور کسی کی نسبت یہ دعویٰ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔
فضیلت دوم۔ وہ رُوح القدس کی قدرت سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ اُن کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ رُوح القدس سے حاملہ پائی گئی ‘‘(متی ۱۸:۱)۔
یسعیاہ نبی اس کی خبرمسیح سے ۷۴۲ برس پیشترد ے گیا تھا چنانچہ اُ س کے ۷ باب آیت ۱۴ میں مرقوم ہے کہ ’’ خُدا آپ تم کو ایک نشان دے گا۔ دیکھو کنواری حاملہ ہو گی ۔ اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوائیل رکھے گی ‘‘۔ اگر وہ کسی آدمی کے نطفہ سے ہوتا تو وہ بھی اور انسانوں کی طرح موروثی گنہگار ہوتا اور شفيع (شفاعت کرنے والا)بھی نہیں ہو سکتا تھا اس لئے وہ بلا تو سط غیر ی خُدا سے صادر(نکلنے والا) ہوا چنانچہ یوحنا کی انجیل میں مرقوم ہے کہ اور انہوں نے اس کو قبول کیا اور سچ سچ جان لیا کہ میں تیری طرف سے نکلا ہوں اور وہ ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ۔ ( ۱۷: ۸)۔ مسیح صرف عورت سے بغیر باپ کے اس لئے پیدا ہوا کہ اوّل شیطان نے عورت ہی کو ضعیف(کمزور) جان کر بہکایا تھا۔ خُدا نے اُسی کے وسیلہ سے اُس کا سر کچلوانا چاہا جیسے ( پیدا ئش ۳: ۱۵)۔ میں پہلے سے خبر دی تھی ۔ کہ وہ تیرے سر کو کچلے گا ۔ پس حضرت مسیح کے سوا کسی نے شیطان پر فتح نہیں پائی۔
فضلیت سوئم۔ کہ وہ خُدا کابیٹا نہ جسمانی طور پر بلکہ رُوحانی طور پر وہ باپ سے نکلا اور دنیا میں آیا اور سب لوگ خُدا کے حکم سے پیدا ہوئے لیکن وہ ذات پا ک سے ازل سے ہے چنانچہ یوحنا کی انجیل میں مذکور ہے کہ ’’ اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے ‘‘ ( ۱۷ : ۵) ۔ اور چونکہ وہ خُدا سے نکلا ہے اسی لئے خُدا کا بیٹا کہلاتا ہے مگر اس مضمون کو بغیر امداد غیبی (غائب) کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے چنانچہ (متی ۱۶: ۱۳)۔ تک کا یہی مطلب ہے کہ اے پطرس تو جو مجھے زندہ خُدا کا بیٹا کہتا ہے یہ بات جسم اورخون سے نہیں بلکہ میرے باپ نے تجھ پر ظاہر کی ہے۔ اور (۱ کرنتھیوں ۲: ۱۱)۔ میں ہے کہ ’’ اسی طرح خُدا کی رُوح کے سوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا اس بھید کو رُوحانی آدمی ہی اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں مگر مسیح کی نسبت صاف لکھا ہوا ہے کہ ’’ آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیا ر ا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ‘‘ ( متی ۳ :۱۷)۔
پھر پطرس کے دوسرے خط میں لکھا ہے کہ ’’ اُ س نے خُدا باپ سے اس وقت عزت اور جلال پا یا جب اس افضل جلال میں سے اسے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اور جب ہم اس کے ساتھ مقدس پہاڑ پر تھے تو آسما ن سے یہی آواز آتی سنی ‘‘ ۔ (متی ۱۷ :۵) ۔ اور داؤد نبی ۵۲۰ برس پیشتر کہتا ہے کہ میں حکم کو آشکارا کر وں گا۔ کہ خُداوند نے میرے حق میں فرمایا تو میرا بیٹا ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہوا (زبور ۳: ۷) ۔ اس زبور کی آیت ۱۲ میں ہے کہ ’’ بیٹے کو چو مو ايسا نہ ہو کہ وہ بیزار ہو اور تم راہ میں ہلا ک ہو جاؤ جب اس کا قہر یکایک بھڑکے‘‘۔ نیز آیت ۳، ۴ میں ہے کہ آؤ ہم ان کے بند کھول ڈالیں اور ان کی رسیاں اپنے سے توڑ پھنکیں وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گا ۔ یعنی جو لوگ اس کے بیٹے کو قبول نہیں کرتے اور اس کے برخلاف باتیں کرتے ہیں خُدا ان سے اس قدر ناراض ہے پھر یہ کہ مسیح نے خود کہا ہے کہ میں خُدا کا بیٹا ہوں ۔ چنانچہ یوحنا ۹: ۳۵، ۳۶ کا یہی مطلب ہے کہ مسیح نے اُسے کہا کہ تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے اس نے جواب دیا کہ اے خُداوند وہ کون ہے عیسیٰ نے کہا جو تجھ سے بولتا ہے وہی ہے۔ بھائیو جب خُدا کا بیٹا ہمیں مل گیا اور ہمارا ہادی ہوا تو اب ہمیں اور کیا چاہیے ۔ افسوس ہے کہ اگر مسیح پر غور نہیں کرتے اور یہ جو انجیل شریف میں کہیں ابن ِآدم یا نبی یا رسول یا سردار کاہن یا ابن ِ داؤد وغیرہ ان کے نام مذکور ہیں یہ نام ان کے ایک ایک کام اور خاصیت ظاہر کرتے ہیں صرف غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
فضیلت چہارم ۔ وہ قادر مطلق تھا یعنی اعتبار الوہیت وہ ہر طرح صاحب قدرت تھا اپنے اختیار سے سب کچھ کرتا تھا کیونکہ اس نے باختیار خود ہر طر ح کے عجیب و غریب کا م دکھلائے اور کہا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے میں بھی کرتا ہوں چنانچہ یوحنا ۵۔ ۱۸ میں ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خُدا کے برابر کہا۔ یہی سبب تھا کہ یہودی اس کے زیادہ دشمن بن گئے مکاشفہ ۱: ۱۷، ۱۸ میں ہے کہ جب میں نے اسے دیکھا تو اس کے پاؤں پر مُردہ سا گر پڑا اور اس نے یہ کہہ کر مجھ پر اپنا دہنا ہاتھ رکھا کہ خوف نہ کرمیں اوّل اور آخر اور زندہ ہوں میں مر گیا تھا اور دیکھ میں ابدالآ باد زندہ رہوں گا۔
پنجم۔ کہ وہ عالم الغیب بھی تھا چنانچہ انجیل کے بہت سے واقعات ہیں فضیلت پر دلا لت کرتے ہیں مثلاً اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا۔( متی ۱۲۔ ۲۵) ۔
یسوع نے ان کے خیال معلوم کرکے کہا کہ تم کیوں اپنے دلوں میں بُرے خیال لاتے ہو ۔ (متی ۹: ۴) ۔ اور اس کی حاجت نہ رکھتا تھا کہ کوئی انسان کے حق میں گواہی دے کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ انسان کے دل میں کیا کیا ہے ۔ (یوحنا ۲: ۲۵)۔ اور اس کے فرزندوں کو جان سے ماروں گا اور ساری کلیسیاؤں کو معلوم ہو گا کہ گُردوں اور دلوں کا جانچنے والا میں ہی ہوں ۔ (مکاشفہ ۲: ۲۳)۔ اب ہم جان گئے کہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اس کا محتاج نہیں کہ کوئی تجھ سے پوچھے اس سبب سے ہم ایمان لاتے ہیں کہ تو خُدا سے نکلاہے ۔ (یوحنا ۱۶: ۳۰) ۔ پس اب غور کیجئے کہ کوئی بنی غیب دان نہیں ہوتا ہے نبیوں کو اسی قدر غیب کی بات معلوم ہوتی ہے۔ جس قدر خُدائے تعالیٰ ان کو بتلاتا ہے مگر ہمارا خُداوند یسوع مسیح جو خُدا سے نکلا ہے عالم الغیب بھی ہے۔
فضیلت ششم ۔کہ اس کی تعلیم تمام جہان کے معلموں کی تعلیم سے افضل اور اعلیٰ بلکہ عقل سے بلند اور بالا ہے خُدا کے بغیر کوئی شخص ایسی تعلیم نہیں دے سکتا ہے جو لوگ عہد عتیق و جدید سے واقف ہیں اور کشادہ دل ہیں وہ اس فضیلت سے خوب واقف ہیں اور کوئی عقلمند اس فضیلت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ مسلمان جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن بہت فصیح(شريں کلام) ہے وہ صرف لفظی فصاحت پر نازاں ہیں اس کے متعلق ہم نے ہدايت المسلمین کے باب ہفتم و ہشتم کے آٹھ فصلوں میں لکھا ہے۔ ہم لوگ توریت و انجیل کی لفظی فصاحت پر نازاں نہیں بلکہ اس کے مضامین عالیہ پر ناز اور فخر کرتے ہیں لفظی فصاحت خود کتنی ہی اعلیٰ ہو اس قابل نہیں کہ اس پر فخر کیا جائے۔
فضیلت ہفتم ۔ کہ وہ پاک اور بے عیب اور معصوم تھا ۔ خُدا کے کلام سے ظاہر ہے۔ کہ سب جہاں کے لوگ خواہ بنی ہوں یا رسول خواہ عام ہوں یا خاص سب کے سب گنہگار ہیں سوائے خُداوند وعیسیٰ مسیح کے مثلاً کیونکہ اس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا ۔ ( یسعیاہ ۵۳: ۹) ۔
کہ اس نے گناہ کیا اور نہ اس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی ۔ ( ۱پطرس ۲: ۲۲)۔
تم جانتے ہو کہ وہ اس لئے ظاہر ہوا تھا تا کہ گناہوں کو اُٹھا لے جائے ۔ اور اس کی ذات میں گناہ نہیں ۔ (۱۔یوحنا ۳: ۵) ۔ تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کر تا ہے اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہيں کرتے ۔ یوحنا ۸: ۴۶) ۔ جو گناہ سے واقف نہ تھا اسی کو اس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اس میں ہو کر خد ا کی راستبازی ہو جائیں ( ۲کرنتھیوں ۵: ۲۱)۔ ساری باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تا ہم بے گناہ رہا ۔ (عبرانيوںوں ۴: ۵)۔ خود حاکم اس کے بے گناہ ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ چنانچہ متی ۲۷: ۲۴ میں مذکو ر ہے ۔ جب پیلاطوس نے دیکھا کہ مجھ سے کچھ بن نہیں پڑتا بلکہ ہنگامہ اور زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ تو پانی لے کے لوگوں کے سامنے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ میں اس راستباز کے خون سے پاک ہوں ایک چور جو اس کے ساتھ مصلوب ہوا تھا یوں کہتا ہے۔ کہ ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اس نے کوئی بے جا کام نہیں کیا (لو قا ۴۳: ۴۱) ۔ نیز داؤد نبی زبور ۱۶ کی آیت ۱۰ میں مسیح کو قدوس کہتا ہے ۔ جس کے معنے بالکل بے عیب اور نہایت پاک کے ہیں اس کے سوا یوحنا سے سب لوگ گناہوں کا اقرار کر کے اصطباغ (بپتسمہ )لیتے تھے۔ لیکن جب حضرت مسیح اصطباغ لینے گیا تو یوحنا نے کہ میں خود تجھ سے اصطباغ لینے کا محتاج ہوں تو میرے پاس کیوں آیا اس وقت مسیح نے گناہ کا اقرار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ تمام راستبازیوں کو پورا کرنے کی غرض سے اصطباغ لیتا ہوں ۔ مسلمان اگرچہ آنحضرت کو معصوم مانتے ہیں لیکن ان کے پاس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ قرآن میں آپ کے گناہوں کا ذکر موجود ہے۔
فضیلت ہشتم ۔ کہ وہ سب آدمیوں اور فرشتوں کا مبدا(اصل۔ بنياد)ہے ۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹناخواہ آسمانیوں کا ہو۔ خواہ زمینوں کا خواہ ان کا جو زمین کے نیچے ہیں۔
(فلپیوں ۱۲: ۱)۔ اور جب پہلوٹھے کو دنیا میں پھر لاتا ہے تو کہتا ہے کہ خُدا کے سب فرشتے اسے سجدہ کریں (عبرانيوں ۱: ۶)۔ قرآن میں جو یہ ہے کہ آدم اوّل کو فرشتوں نے سجدہ کیا اس کا ثبوت خُدا کے کلام سے نہیں ملتا ہے ۔ البتہ آدم ثانی یعنی خُداوند مسیح کو بے شک فرشتے سجدہ کرتے ہیں جو باپ کے ساتھ تخت نشین ہے۔
فضیلت نہم۔ ہمارا خُداوند یسوع مسیح ہر وقت حاضر ناظر ہے ۔ ذیل کی آیات ملاحظہ ہوں۔ اور دیکھو میں زمانہ کے آخر تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں (متی ۲۸: ۲۸) ۔ میں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا ۔ ( مکاشفہ ۲: ۲) ۔
فضیلت دہم ۔کہ وہ شفاعت کرنے والا ہے۔ چنانچہ وہ خود فرماتا ہے کہ مجھے گناہ بخشنے کا اختیار ہے اور اس دعویٰ کو اس نے اچھی طرح ثابت بھی کیاہے ۔لیکن اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (متی ۹: ۶) ۔ اور اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دُوں گا ۔ میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو ۔ اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی ۔ کیونکہ میرا جُو ا ملائم ہے۔ اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔ ( متی ۱۱: ۲۸ ، ۳۰ خُداوند مسیح کے سوا کسی نے دعویٰ نہیں کیا ہے کہ میں تمہاری شفاعت کروں گا سب مرشدوں نے آدمیوں کے سرپر بوجھ ڈالا ہے مگر حضرت مسیح نے خود ہمارا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا لیا ہے۔ جس کے لئے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔
فضیلت ياز دہم(گيارھواں)۔ کہ اس نے گنہگاروں کے عوض اپنی جان دی اور سب ایمانداروں کو بچا لیا وہ دوست جس کو ہم حقیقی معنوں میں دوست کہہ سکیں مسیح کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا مگر اس کفارہ کا لطف اور اس کے عظمت اور جلال اور یہ کہ وہ ضرور ہی امر تھا اس وقت سمجھ میں آتا ہے۔ کہ جب کوئی شخص تورۃ اور انجیل کو سمجھ کر پڑھتا ہے
فضیلت دو از دہم (بارھواں) ۔ رحم ۔ حلم ۔ فروتنی ۔ تو کّل۔ صبر وقناعت وغیرہ تمام اوصاف حمیدہ (قابلِ تعريف خُوبياں )جیسے اس کی ذات میں پائے جاتے ہیں ۔ دوسروں میں نظر نہیں آتے چنانچہ انجیل کے پڑھنے والے اس بیان کے گواہ ہیں۔
فضیلت سیزدہم( تيرھواں)۔تمام نبیوں اور رسولوں اور سب مقدسوں اور سارے جہاں کے عقلمندوں نے یوں کہا ہے۔ کہ ہم خُدا تعالی کو جیسا جاننا چاہیے ہر گز نہیں کیونکہ وہ اور والور اہے اور بزرگوں کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ ( صاعر فناک حق معرفتک) یعنی جو پہچاننے کا حق ہے ہم نے اس طرح خُدا کو نہیں پہچانا اس کا سبب یہ ہے کہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان اس ذات کو جو لامحدود اور غیر مدرک(سمجھ نہ آنے والا) کماحقہ(جيسا اُس کا حق ہے) معلوم کر سکے اس لئے تمام عقلاء اس پر متفق ہیں کہ کوئی شخص اس کا ادارک (سمجھ) نہیں کر سکتا ہے لیکن ہمارا منجی جو کامل انسان اور کامل خُدا ہے یوں فرماتا ہے کہ اے عادل باپ دنیا نے تجھے نہیں جانا مگر میں نے تجھے جانا اور انہوں نے بھی جانا ہے کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔ یوحنا ۱۷: ۲۵ میں ہے پر میں اسے جانتا ہوں اس لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں ۔ اور اسی نے مجھے بھیجا ہے۔ ( ۷: ۲۹ )۔ تم نے اسے نہیں جانا لیکن میں اسے جانتا ہوں ( ۸: ۵) جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو جانتا ہوں۔ ( ۱۰: ۱۵) دیکھو یہ وہ بڑی فضیلت ہے جو کسی بنی اور رسول کو بھی مرحمت(مربانی۔کرم) نہیں ہو ئی۔
فضیلت چاردہم (چودھواں)۔یہ کہ حضرت عیسیٰ کے وسیلے کے بغیر ہم خُدا کو راضی نہیں کر سکتے اور خُدا کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلہ بر آئے گی ۔ ( ۵۳: ۱ ) کیونکہ مجھ سے جُدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے (یوحنا ۱۵: ۵) ۔ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا ۔ ( ۱۶: ۶)
فضیلت پانزدہم (پندرھواں)۔یہ کہ قیامت کے دن سب مُردوں کو وہی جلائے گا سب کی زندگی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ لکھا ہے کہ بلکہ اسے آخر ی دن پھر زندہ کروں گا۔ ( یوحنا ۶: ۳۹) اور میں اسے آخری دن پھر زندہ کروں گا( آیت ۲۰ ) آیت ۵۳ میں ہے کہ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے اور میں اسے آخر ی دن پھر زندہ کروں گا ۔ مکاشفہ ۲: ۱۸ میں ہے کہ عالم ارواح اور موت کی کنجیاں میرے پاس ہیں اے بھائیو جو ہميں قبروں سے اُٹھائے کیا ہم اس کی فرمانبرداری نہ کریں لازم ہے کہ اس کی رضا جوئی (مرضی پوری کرنا)کے درپے ہوں ۔
فضیلت شانزدہم (سولواھوں)۔کہ وہ قیامت کا پہلا پھل ہے چنانچہ کرنتھیوں میں لکھا ہے لیکن فی الواقع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا اور جو سو گئے ہیں ان میں پہلا پھل ہو ا ۔ (کرنتھیوں ۱۵: ۲۰ )
فضیلت ہفت دہم (سترھواں)۔کہ قیامت کے دن و ہی سب کی عدالت کرے گا ۔ خُدا نے عدالت اسی کے سپرد کی ہے ۔ دشمن اور دوست اس کےآگے حاضر ہو ں گے اور وہی انصاف کرے گا ۔ کیونکہ ابنِ آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا اس وقت ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلا دے گا ۔ (متی ۱۶: ۲۷) ۔ جب ابنِ آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہوئے ہو ۔ بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔
( متی ۱۹ : ۲۸ ) اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کرے گا ۔ جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُداکرتا ہے ۔ ( متی ۲۵ : ۳۱ )۔ کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا ہے بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ (یوحنا ۵ : ۲۲، ۲۳)۔
فضیلت يز دہم ۔(اٹھارہواں)یہ کہ وہ شریعت کا پورا کرنے والا ہے یعنی اس نے شریعت کے احکام بے عیب ہو کر کماحقہ(جيسا اُس کا حق ہو) ادا کر دیئے اس لئے اس کے سب فرزند ظاہر ی شریعت سے آزاد ہوئے چنانچہ لکھا ہے کہ کیونکہ ہمیں اس طرح ساری راستبازی پوری کرنی مناسب ہے ۔ (متی ۳: ۱۵)۔ جب یسوع نے وہ سرکہ پیا تو کہا تمام ہوا اور سرجھکا کر جان دے دی۔ ( یوحنا ۹: ۳۰) ۔ متی ۵: ۱۷ میں ہے کہ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پور ا کرنے کو آیا ہوں
فضیلت نزدہم ۔(اُنيسواں )یہ کہ ہمارا خُداوند یسوع مسیح ابدالآباد زندہ ہے اس کی عمر کا انتہا نہیں و ہ آسمان پر زندہ ہے اور خُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے ۔ یسعیاہ ۵۳ : ۱۰ میں ہے کہ اس کی عمر دارز ہو گی ۔ حالانکہ آیت ۹ میں کہہ چکا ہے کہ اس کی قبر دولت مندوں کے ساتھ ہوئی مگر اب کہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہوگی صاف ظاہر ہے کہ وہ مر کے جی اُٹھے گا ۔ چنانچہ انجیلوں سے خوب ثابت ہے کہ وہ تیسرے دن جی اُٹھا اور چالیس دن تک دکھائی دیا اور بہتوں نے دیکھا اور بہتوں کے ساتھ رہا ۔ پھر آسمان پر چلا گیا ۔
عبرا نيوں ۱۔۳ کہ وہ گناہوں کو دھو کر عالم بالا پر کبِریا (خُدا)کی دہنی طرف جابیٹھا۔
حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ خُدا وند نے میرے خُداوند کو فرمایا تو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی بناؤں ( زبور ۱۱۰ ۔ ۱)۔
خود مسیح نے کہا ہے کہ اس کے بعد تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ (متی ۲۶: ۲۶) دیکھو میں آسمان کو کھلا ہوا اور ابنِ آدم کو خُدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں۔ (اعمال ۷: ۵۶)
فضیلت بیستم ۔(بيسواں)ہمارے خُداوند کی یہ ہے کہ کُتبِ عہد عتیق میں سینکڑوں بشارتیں اور پیشین گوئیاں اس کی نسبت لکھی ہیں جن سے خُدا کا جلا ل ظاہر ہوتا ہے۔ اورجن پر غور کرنے سے مسیح کی صداقت اور نیز يہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ اولین و آخری کا وسیلۂ نجات صرف خُداوند عیسیٰ مسیح ہے۔ اس کے سوا ایک اور قسم کی پیشین گوئیاں بھی ہیں جن کو اشارات کہتے ہیں جو اوّل قسم کی پیشین گوئیوں سے زیادہ تر اس کا جلال ظاہر کرتی ہیں۔ جن کو اہل ِعلم اور رُوحانی آدمیوں کے سوا عوام نہیں سمجھ سکتے ہیں اور اس کثر ت سے پائی جاتی ہیں کہ آج تک محققین (تحقيق کرنے والے )کی عقل نے اُن کا احاطہ(حد بندی) نہیں کیا ہے۔ بلکہ روز بروز نئے نئے مضامین منکشف (ظاہر )ہوتے جاتے ہیں۔ مگر یہ اشارات ان لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ جو رات دن کلامِ الہٰی میں غور کرتے رہتے ہیں۔پس اب ہم ناظرین سے یہ التماس کرتے ہیں کہ خُداوند یسوع مسیح کی طرف آپ غور کریں اور اس کے فضائل پر لحاظ کر کے تمام جہان کے ہادیوں کو اس کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھیں اگر وہ سارے جہان کے ہادیوں سے ہر بات میں افضل ثابت ہو تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور اس سے تعلیم پانا نہایت مناسب ہے ورنہ مفت عمر برباد کر کے خُدا کو ناراض کرنا اچھا نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھنا کہ قیامت کا دن اچانک آنے والا ہے یکا یک مسیح آسمان سے ظاہر ہو گا پھر اس وقت بجز کف افسوس ملنے (افسوس سے ہاتھ ملنا)کے اور کوئی چارہ نہ ہو گا ۔ خُدا آپ کو تحقیق کاشوق اور دوراندیشی(دور کی سوچنا) کی توفیق عنایت کرے۔ آمین
رسالہ چہارم
۵۴ پیشین گوئیوں کے ذکر میں
ماہ گذشتہ کے رسالہ میں ہمارے خُدا وند یسوع مسیح کے بعض فضائل کا ذکر ہوا اب جاننا چاہیے کہ خُداوند یسوع مسیح جو آدم ثانی ہے جس کے ساتھ پیوند ہونے سے خُدا کی فرزندی کا حق ملتاہے نہایت درجہ کا معتبر(قابلِ اعتبار) اور یقیناً خُدا کی طرف سے ہے اور یہ اس لئے بیان کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو نئے مذاہب سے ناراض ہیں عیسائی مذہب سے بھی اس لئے خو ش نہیں ہیں کہ اس کے برحق ہونے کی دلائل پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ کلام ِ الہٰی کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھا بلکہ اور جھوٹے مذاہب کے قیاس پر اس کو بھی جھوٹا کہا لہذا ضرورت ہے کہ سچے مذہب کی چند دلائل پیش کی جائیں تا کہ اس رسالہ کے سمجھنے میں دقت نہ ہو ۔ واضح رہے کہ پہلی دلیل جس کو سب دلیلوں سے اوّل جاننا ضرور ہے یہ ہے کہ کلامِ الہٰی کی کتابیں جو مختلف زمانے میں علیٰحدہ علیٰحد ہ متعدد پیغمبر وں کی معرفت الہام سے لکھی گئی ہیں اور جو آج تک اسی طرح صحیح سالم چلے آئے ہیں جن کا ثبوت کچھ کچھ بدایت المسلمین میں بھی ہو چکا ہے۔ وہ سب کے سب اس بات پر گواہی دیتے ہیں کہ خُداوند عیسیٰ مسیح وہی نجات دہندہ ہے جو خُدا کی طرف سے سارے جہان کی نجات کے لئے مقرر ہوا ہے۔ اور یہ الہامی کتابیں مسیح کی نسبت یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عیسیٰ مسیح تمام انبیائے اولین و آخرین اور تمام بنی نوع انسان کا ایک ہی شفيع (شفاعت کرنے والا)اور اُمید گاہ ہے کیونکہ ان کتابوں میں اس کی نسبت بکثر ت پیشین گوئیاں موجو د ہیں ۔
۱۔ پیشین گوئی خُدا کا بیٹا دُنیا میں آئے گا۔ میں حکم کو آشکار ا کروں گا کہ خُدا نے میرے حق میں فرمایا تو میرا بیٹا ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہوا ’’ ( زبور ۲:۷ ) ‘‘۔ وہ بزرگ ہو گا اور خُدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خُداوند خُدا اس کے باپ داؤدکا تخت اُس سے دے گا ( لوقا ۲: ۳۲ )۔
۲ ۔پیشین گوئی وہ عورت کی نسل سے پید ا ہو گا یعنی مرد کے نطفہ سے نہ ہو گا ۔ ’’وہ ( یعنی عورت کی نسل ) تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی کو کاٹے گا‘‘ ( پیدائش ۳: ۱۵ ) لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا ‘‘۔ (گلتیوں ۴:۴) ۔
۳ ۔ پیشین گوئی وہ ابراہام کی نسل سے ہو گا ( پیدا ئش ۲۲: ۱۸) ‘‘ اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پائيں گی کیونکہ تو نے میری مانی ‘‘ ( پیدائش ۲۲ : ۱۸ ) ’’پس ابراہیم اور اس کی نسل سے وعدے کئے گئے وہ نہیں کہتا کہ نسلوں سے جیسا کہ بہتوں کے واسطے کہا جاتا ہے بلکہ ایک کے واسطے کہ تیری نسل کو اور وہ مسیح ہے ‘‘۔ (گلتیوں ۳: ۱۶) ۔
۴۔ پیشین گوئی وہ اضحاق کی نسل سے ہو گا نہ اسماعیل کی ( پیدائش ۲۱: ۱۲) ۔ کیونکہ تیری نسل اضحاق سے کہلائے گی ‘‘( پیدا ۲۱: ۱۲) یعنی اسماعیل کو گھر سے نکال دے کیونکہ وہ وعدے کا فرزند نہیں ہے۔ عبرانيوں ۱۱ : ۱۷ سے ۱۹ تک لکھا ہے کہ ’’ ایمان ہی سے ابراہام نے آزمائش کےوقت اضحاق کو نذر گزرانا اور جس نے وعدوں کو سچ مان لیا تھا وہ اس اکلوتے کو نذر کرنے لگا ‘‘۔ اور متی ۱۔ ۱ سے ظاہر ہے کہ مسیح اضحاق کی نسل سے پیدا ہوا۔ ۵ ۵۔ پیشین گوئی وہ داؤد کی نسل سے ہو گا ۔ ( ۱۳۲ زبور ۔ ۱۱) ’’ خُداوند نے سچائی سے داؤد کے لئے قسم کھائی جس سے وہ نہ پھرے گا کہ میں تیرے پیٹ کے پھل میں سے کسی کو تیرے لئے تیرے تخت پر بٹھاؤ ں گا ۔ ( زبور ۱۳۲ : ۱۱) یرمیاہ ۲۳ ۔ ۵ میں ہے کہ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند کہتا ہے کہ میں داؤد کے لئے صداقت کی ایک شاخ لگاوں گا اور ایک بادشاہ بادشا ہی کرے گا اور اقبال مند ہو گا اور عدالت صداقت زمین پر کرے گا۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمان کے سوا کوئی اور شخص داؤد کے لئے اُٹھنے والا ہے کیونکہ یرمیاہ بہت پیچھے بڑا ہے ۔ اعمال ۱۳ ۔ ۲۳ میں ہے کہ ’’ اسی کی نسل میں سے ( یعنی داؤ د کی ) خُدا نے اپنے وعدے کے موافق اسرائیل کے پاس ایک منجی یعنی یسوع کو بھیج دیا ‘‘۔
۶۔ پیشین گوئی وہ وقت مقررہ پر پیداہو گا یہوداہ سے ریاست نہيں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا جُدانہ ہو گا اور نہ حاکم اس کے پاؤں کےدرمیان سے جاتا رہے گا ۔ جب تک کہ شيلوہ نہ آئے اور قومیں اس کے پاس اکٹھی ہو ں گی ۔ ( پیدائش ۴۹ : ۱۰) ۔
ستر(۷۰) ہفتے تیرے لوگوں اور تیرے شہر مقدس کے لئے مقر ر کئے گئے ہیں تا کہ اس مدت میں شرارت ختم ہو اور خطاکاریاں آخر ہو جائیں اور بدکاری کی بابت کفارہ کیا جائے اور ابدی راستباز ی پیش کی جائے اور اس رویت(رويا) پر اور نبوت پر مہر ہو اور اس پر جو سب سے زیادہ قدوس ہے مسح کیا جائے ۔ سو تو بوجھ اور سمجھ کہ جس وقت سے یروشلیم کا دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم نکلے مسیح بادشاہ زادہ تک سات ہفتے ہیں اور باسٹھ ہفتے اس وقت بازار پھر تعمیر کئے جائیں گے اور دیوار بنائی جائےگی مگر تنگی کے دنوں میں ‘‘ دانی ایل( ۹: ۲۴)۔
لوقا کی انجیل میں لکھا ہے کہ ’’ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہو ا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں ‘‘ ( ۲: ۱)۔
۷۔ پیشین گوئی وہ کنواری سے پیدا ہو گا ۔ ’’ دیکھوکنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی ‘‘ ۔ (یسعیا ہ ۷ : ۱۴) متی ميں ہے ان کے اکٹھا ہونے سے پہلے وہ رُوح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی ‘‘ ۔ ( متی ۱: ۱۸) ۔
۸ ۔ پیشین گوئی وہ عمانوائیل کہلائے گا یعنی خُدا ہمارے ساتھ ‘‘۔ اور اس کا نام عمانوئیل رکھے گی ‘‘۔ ( یسعیاہ ۷: ۱۴ ) یہ بھی مسیح میں پوری ہوئی چنانچہ اس کا ذکر متی ۱۔ ۲۲، ۲۳ میں ہے اور سب جہان کے عیسائی اُسے اپنا عمانوائیل کہتے ہیں۔
۹۔ پیشین گوئی وہ بیت اللحم کی بستی میں پیدا ہو گا ’’ اے بیت اللحم افراتہ ہر چند کہ تو یہودا ہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ايک شخص نکل کے ميرے پاس آئے گا ۔ جو اسرائیل میں حاکم ہو گا اور اس کا نکلنا قدیم الا یام الازل سے ہے ‘‘۔ ( میکاہ ۵: ۲)۔ چنانچہ متی ۱۔ ۲ میں ہے کہ ’’جب یسو ع ہيروديس بادشاہ کے زمانے میں یہودیہ کے بیت اللحم میں پیدا ہوا‘‘۔
۱۰۔ پیشین گوئی وہ بزرگوں سے عزت پائے گا ۔ اور ترسیس اور جزیروں کے سلاطین نذریں لائیں گے۔ اور سیبا اور سبا کے بادشاہ ہدیے گذرانيں گے ۔( زبور ۷۲ : ۱۰) ۔
چنانچہ متی ۲۔ ۱ سے ۱۱ تک اس عزت کا ذکر موجود ہے۔
۱۱۔ پیشین گوئی اُس وقت بچے قتل کئے جائیں گے۔ چنانچہ یرمیاہ کے صحیفہ میں ہے کہ خُداوند یوں کہتا ہے کہ رامہ میں ایک آواز سُنی گئی ہے۔ نوحہ اور زار زار رونے کی ۔راخل اپنے لڑکو ں پر روتی ہے ۔ اور اپنے لڑکوں کی بابت تسلی نہیں پاتی کیونکہ وہ نہیں ہیں ‘‘۔ (یرمیاہ ۳: ۱۵)۔ متی ۲: ۱۶ سے ۱۸ تک میں لکھا ہے کہ ’’جب ہيرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی تو نہایت غصہ ہوا اور آدمی بھیج کر بیت اللحم اور اس کی ساری سرحدوں کے اندر کے سب لڑکوں کو قتل کر وا دیا جو دو برس کے یا اس سے چھوٹے تھے۔ اُس وقت کے حساب سے جو اس نے مجوسیوں سے تحقیق کیا تھا۔ مخفی (چھپا)نہ رہے کہ راخل جو یعقوب کی زوجہ اور یوسف کی ماں تھی اس کا مزار بیت اللحم میں ہے ۔
۱۲۔ پیشین گوئی وہ مصر سے بلا یا جائے گا۔ چنانچہ ہو سیع ۱۱۔ ۱ میں ہے کہ ’’جب اسرائیل لڑکا تھا میں نے اس کو عزیز رکھا اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا ۔ متی ۲: ۱۵ میں ہے کہ ’’ ہیرودیس مرنے تک وہیں رہا تا کہ جو خُدا وند نے نبی کی معرفت کہاتھا پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا‘‘۔
۱۳ ۔ پیشین گوئی اس کے آگے یحییٰ (يوحنا)پیغمبر منادی کرے گا چنانچہ یسعیاہ ۴۰۔ ۳ میں ہے کہ ’’ بیا بان میں ایک منادی کرنے والے کی آواز تم خُدا وند کی راہ تيارکرو صحر ا میں ہمارے خُدا کے لئے ایک سیدھی شاراہ تیار کرو ‘‘۔ اور دیکھو میں اپنا رسول بھيجتا ہوں ۔اور وہ میری آگے میری راہ کو درست کر ے گا ۔ اور وہ خُداوند جس کی تلاش میں تم ہو ہا ں عہد کا رسول جس سے تم خوش ہو اور اپنی ہیکل میں ناگہاں آئے گا۔ دیکھو وہ یقیناً آئے گا۔ رب الافواج فرما تا ہے ( ملاکی ۳: ۱) متی ۳: ۱، ۲ میں ہے کہ ان دنوں میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور یہودیہ کے بیابان میں یہ منادی کرنے لگا کہ تو بہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے ‘‘۔
۱۴ ۔ پیشین گوئی وہ رُوح القدس سےمسح کیا جائے چنانچہ ۴۵ زبور ۷ میں ہے کہ ‘‘ تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے اس لئے خُدا تیرے خُدا نے تجھ کو خوشی کے تیل سے تیرے ہمسروں سے زیادہ مسح کیا ‘‘۔ یسعیاہ ۵: ۴ میں ہے کہ ’’ اور خُدا وند کی رُوح اس پر ٹھہرے گی حکمت اور خرد (عقل) کی رُوح مصلحت اور قدرت کی رُوح معرفت اور خُداوند کے خوف کی رُوح نیزيسعياہ ۶۱ ۔ ۱ میں ہے ‘‘ ۔ خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ خُداوند نے مجھے مسح کیا تا کہ مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دُوں ۔ اس نے مجھے بھیجا ہے۔ کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کروں اور قیدیوں کے لئےرہائی اور بندھوؤں کے لئے قید سے نکلنے کی منادی کروں ‘‘۔ متی ۳: ۱۶ میں ہے کہ ’’دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خُدا کی رُوح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اُوپر آتے دیکھا ‘‘۔اعمال ۱۰: ۳۸ ۔ میں ہے کہ یسوع ناصری کو کس طرح خُدا نے رُوح القدس اور قدرت سے ممسوح کیا ۔
۱۵۔ پیشین گوئی ۔ ’’ وہ خُدا کا بیٹا اور موسیٰ کی مانند پيغمبر بھی ہو گا خُداوند تیرا خُدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی پر پا کرے گا ۔ تم اس کی طرف کان دھر و ‘‘۔ ( استثنا ۱۸ : ۱۵ ) ’’ اور اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقر ر ہوا ہے۔ یعنی یسوع کو بھیجنا ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خُدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں ۔چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خُداوند خُدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا ۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا ‘‘۔ ( اعمال ۳: ۲۰۔ ۲۲ ) ۔
۱۶۔ پیشین گوئی وہ ملکِ صدق کی طرح کاہن ابد تک کاہن ہے ‘‘۔ (زبور ۱۱۰: ۴ ) ۔ نیز عبرانيوں ۵۔ ۵ ، ۶ میں ہے کہ اسی طرح مسیح نے بھی سردار کاہن ہونے کی بزرگی اپنےتئیں نہیں دی بلکہ اسی نے دی جس نے اسے کہا کہ تو میرا بیٹا ہے آج تو مجھے سے پیدا ہوا چنانچہ دوسرے مقام میں بھی لکھا ہے کہ تو ملک ِصدق کی طور پر ابدتک کاہن ہے۔
۱۷۔ پیشین گوئی وہ منادی کرے گا خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ خُداوند نے مجھے مسح کیا تا کہ مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دُوں اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو تندرست کروں اور قیدیوں کے لئے چھوٹنے اور بندھوں کے لئے قید سے نکلنے کی منادی کروں کہ خُداوند کے سالِ مقبول کا اور ہمارے خُدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دُوں ‘‘۔ (یسعیاہ ۶۱: ۱، ۲) چنانچہ لوقا کی انجیل میں ۴ : ۱۶ سے ۲۱ تک لکھا ہے کہ مسیح ناصرۃ میں جہاں اس نے پرورش پائی تھی اورآیا اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادتخانہ میں گیا اور یسعیاہ نبی کی کتاب کھول کروہ مقام پڑھ کر سنایا جہاں لکھا ہے کہ اور خُداوند کا رُوح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھو ں کو بینائی پانے کی خبرسناؤں کچلے ہوؤں کو آزاد کروں اور خُداوند کے سال مقبول کی منادی کروں۔ پھر وہ کتاب بند کر کے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادت خانے میں تھے سب کی آنکھیں اس پر لگی تھیں وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا ہے ‘‘۔ اور ۴۲ آیت میں ہے کہ ’’ اس نے ان کو کہا مجھے اور شہروں میں بھی خُدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانی ضرور ہے کہ مسیح شب وروز منادی میں مشغول رہا کرتا تھا۔
۱۸ ۔ پیشین گوئی اس کی منادی کا شرورع گليل سے ہو گا لیکن تيرگی(اندھيرا) وہاں نہ رہے گی ۔ جہاں آگے کو اس پر پست(نيچا) پڑی تھی کہ اس نے پہلے زبولون کی سر زمین کو اور نفتالی کی سرزمین کو ذلت دی پر آخری زمانہ میں غیرقوموں کے گليل میں دریا کی سمت یردن کے پار بزرگی دے گا۔ یہ بھی مسیح کے حق میں پوری ہوئی چنانچہ متی ۴: ۱۲ سے ۱۶ تک میں ہے کہ ۔ جب اس نے کہا کہ یوحنا پکڑوا دیا گیا تو گلیل کو روانہ ہوا اور ناصرت کو چھوڑ کر کفر نحوم میں جا بسا جو جھیل کے کناے زبولون اور نفتالی کی سرحد پر ہے تا کہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو ۔
۱۹۔ پیشین گوئی وہ یروشلیم میں آئے گا ۔ اے صیون کی بیٹی تو نہایت خوشی کرا ے یروشلیم کی بیٹی تو خوب للکار کہ دیکھ تیرا بادشاہ تجھ پاس آتا ہے وہ صادق ہے اور نجات دینا ا س کے ذمہ میں ہے وہ فروتن ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر ہاں گدھی کے بچے پر سوار ہے ۔
یہ پیشین گوئی بھی مسیح میں پوری ہوئی چنانچہ متی ۲۱: ۱ سے ۵ تک میں ہے کہ اور جب وہ یروشلیم کے نزدیک پہنچے او ر زیتون کے پہاڑ پر بیت فگے کے پاس آئے تو یسوع نے دو شاگردو ں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤو ہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی اور اس کے ساتھ بچہ تمہیں ملے گا انہیں کھول کر میرے پاس لے آؤ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ یہ خُداوند کو درکار ہیں وہ فی الفور انہیں بھیجے گا ۔ او ر یہ اس لئے ہوا کہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو ‘‘۔
۲۰۔ پیشین گوئی وہ ہیکل میں آئے گا حجی ۲۔ ۷ میں ہے کہ ’’ بلکہ میں ساری قوموں کو ہلادوں گا ۔ اور ساری قوموں کی مرغوب(پسنديدہ) چیزیں ہاتھ میں آئیں گی او رمیں گھر کو جلا ل سے بھر دُوں گا ۔ چنانچہ متی ۲۱۔۱۲ میں ہے کہ اور یسوع نے خُدا کی ہیکل میں داخل ہو کر ان سب کو نکال دیا جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے۔ اور صرافوں(مالدار۔ساہو کار) کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیا ں اُلٹ دیں اور ان سے کہا لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا تم اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو۔ ۵۳ ۔ ۲ میں ہے کہ وہ اس کے آگے کونپل کی طرح پھوٹ نکلا ہے اور اس جڑکی مانند جو خشک زمین سے پنپتی ہو اس کی ڈیل ڈول کی کچھ خوبی نہ تھی اور نہ کچھ رونق کہ ہم اس پر نگا ہ کریں اور کوئی نمائش بھی نہیں کہ ہم اس کے مشتاق ہوں چنانچہ مرقس ۶: ۳ میں ہے کیا یہ وہی بڑھی نہیں جو مریم کا بیٹا ہے۔
لوقا ۹: ۵۸ میں ہے کہ یسوع نے اس سے کہا کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں مگر ابنِ آدم کے لئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں اور لوقا ۲: ۷ میں ہے کہ اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ ان کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔
یہ سب آیتیں اس کے افلاس(غربت) کے گواہ ہیں۔
۲۲۔ پیشین گوئی وہ حلیم اور فروتن ہو گا یسعیاہ ۴۲۔ ۳ میں ہے کہ وہ مسئلے ہوئے سرکنڈےکو نہ توڑے گا ۔ چنانچہ متی ۱۲۔ ۱۶ میں ہے کہ اور انہیں تاکید کی کہ مجھے ظاہر نہ کرنا ۔
۲۳۔ پیشین گوئی وہ رحیم اور شفیق ہو گا یسعیاہ ۴۰ ۔ ۵ میں ہے کہ وہ چوپان کی مانند اپنا گلہ چرائے گا وہ برّ وں کو اپنے ہاتھ سے فراہم کرے گا اور اپنی گود میں اُٹھا کر لے چلے گا اور ان کو جو دودھ پلاتی ہیں آہستہ لے جائے گا ۔ چنانچہ متی ۱۴: ۱۴ میں ہےکہ اس نے نکل بڑی بھیڑ دیکھی اور اسے ان پر ترس آیا ۔ تمام انجیل میں مسیح کی رحمت اور شفقت کا اس کثر ت سے ذکر ہے کہ اس مختصر بیان میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔
۲۴۔ پیشین گوئی وہ بے زیا (نقصان نہ پہنچانے والا)ہو گا یسعیاہ ۵۳ : ۹ میں ہے کہ کیونکہ اس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا ۔ مقابلہ کرو ۔ ۱ پطرس ۱: ۲۲ سے جہان مرقوم ہے کہ ۔ نہ اس نے گناہ کيا اور نہ اس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی ۔
۲۵۔ پیشین گوئی وہ غیرت مند ہو گا ۶۹ زبور ۹ میں ہے کہ ’’ تیرے گھر کی غیرت نے مجھ کو کھا لیا اور ان کی ملامتیں جو تجھ کو ملامت کرتے ہیں مجھ پر پڑیں مقابلہ کرو یوحنا ۲۔ ۱۷ میں ہے کہ اور اس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ لکھا ہے کہ تیرے گھر کی غیرت مجھ کو کھا جائے گی ۔
۲۶۔ پیشین گوئی وہ تمثیلوں میں منادی کرے گا ۷۸ زبور ۲ میں ہے کہ میں اپنا منہ کھول کے ایک تمثیل کہوں گا اور میں راز کی باتوں کو جو قدیم سے ہیں ظاہر کروں گا ۔ مقابلہ کرو ۔ متی ۱۳۔ ۳۴ ۔ میں ہے کہ یہ سب باتیں یسوع نے بھیڑ سے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے ان سے کچھ نہ کہتا تھا ۔ چنانچہ انجیل مقدس میں بہت سی تمثلیں خُدا کی مذکور ہیں۔
۲۷ ۔ پیشین گوئی وہ معجزہ بھی دکھلائے گا ۔ یسعیاہ ۳۵۔ ۵، ۶ میں ہے کہ اس وقت اندھوں کی آنکھیں وا کی جائے گی اور بہروں کے کان کھولے جائیں تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھریں گے اور گونگے کی زبان گائے گی کیونکہ بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلے گی ۔ مقابلہ کرو متی ۱۱۔ ۲ ۔ میں ہے کہ اور یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو جا کر یوحنا سے بیان کر و کہ اندھے دیکھتے اور چلتے پھرتے ہیں کو ڑی پاک صاف کئے جاتے اور بہرے سنتے ہیں اور مُردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے اور یوحنا ۱۱ ۔ ۴۷ میں ہے کہ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدرِ عدالت سے لوگوں کو جمع کر کے کہا ہم کرتے کیا ہیں یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔
۲۸ ۔ پیشین گوئی وہ ملامت اُٹھائے گا ۔ ۲۲ زبور ۶ میں ہے کہ پر میں کيڑا ہوں نہ انسان آدمیوں کا ننگ ہوں اور قوم کی عاراور ۶۹ زبور ۷ میں ہے کہ تیرے لئے میں نے ملامت اُٹھائی اور شرمندگی نے میرے منہ کو ڈھانپا آیت ۲۰ ميں ہے کہ ملامت نے میرا دل توڑا میں بیماری میں گرفتار ہوں میں نے ديکھاکہ کوئی مجھ سے ہمدرد ہو پر کوئی نہیں اور کوئی مجھےتسلی دے پر نہ ملا ۔ یسعیاہ ۵۳۔ ۳میں ہے کہ وہ آدمیوں میں نہایت ذلیل اور حقیر تھا وہ مرد ِغمناک اور رنج کا آشنا ہو ا لوگ اس سے گویا رُوپوش تھے اس کی تحقیر کی گئی اور ہم نےاس کی کچھ قدر نہ جانی مقابلہ کرو رومیوں ۱۵ ۔ ۳ سے کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہ کی بلکہ یوں لکھا ہے کہ تیرے لعن طعن کرنے والوں کے لعن طعن مجھ پر آپڑے ۔ انجیل سے ظاہر ہے کہ مسیح نے بڑی سخت ملامت اُٹھائی اور جس ميں اس کی شوکت اور جلال کا راز تھا۔ کہ ذلت کا مگر اس کے سمجھنے کے لئے مغز(دماغ۔عقل) در کا ر ہے ۔
۲۹۔ پیشین گوئی بھائی بھی اس کو ترک کریں گے ۔ ۶۹ زبور ۸ میں ہے کہ میں اپنے بھائیوں کےنزدیک پردیسی بنا اور اپنی ماں کے فرزندوں کے بیچ اجنبی ٹھہرا ۔ مقابلہ کرو یوحنا ۱۔۱۱ سے اور وہ اپنے گھر آیا اور اس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔ اسی انجیل کے ۷ ۔ ۵ میں ہے کیونکہ اس کے بھائی بھی اس پر ایمان نہ لائے تھے۔
۳۰ ۔ پیشین گوئی وہ ٹھوکر کا پتھر ہو گا ۔ یسعیاہ ۸ ۔ ۱۴ میں ہے کہ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گا پر اسرائیل کے گھرانوں کے لئے نکر(کونے) کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلیم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام ہو گا ۔ مقابلہ کرو رومیوں ۹۔ ۳۲ میں ہے۔ انہوں نے اس ٹھوکر کھانے کے پتھر سے ٹھوکر کھائی ۱ پطرس ۲۔ ۸ میں ہے ۔ اور ٹھیس لگنے کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان ہوا کیونکہ وہ نہ فرمان ہو کر کلام سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اسی کے لئے مقرر بھی ہوئے تھے۔
۳۱۔ پیشین گوئی وہ اس سے عداوت کریں گے۔ ۶۹ زبور ۴ میں ہے کہ وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں وہ جو مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں اور ناحق میرے دشمن ہیں زبردست ہیں جو کچھ کہ میں نے نہیں چھینا سو میں پھیردُوں گا ۔ مقابلہ کرو یوحنا ۱۵ ۔ ۲۴، ۲۵ سے ۔ اگر میں ان میں وہ کام نہ کرتا جو کسی دوسرے نے نہیں کئے تو وہ گنہگار نہ ٹھہرتے مگر اب تو انہوں نے مجھے اور میرے باپ دونوں کو دیکھا اور دونوں سے عداوت کی لیکن یہ اس لئے ہوا کہ وہ قول پورا ہو جو ان کی شریعت میں لکھا ہے کہ انہوں نے مجھ سے مفت عداوت کی۔
۳۲۔ پیشین گوئی ۔ اس کو یہودیوں کے بزرگ رد کریں گے ۱۱۸ زبور ۲۲ میں ہے کہ وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہوا۔ چنانچہ چنانچہ متی ۲۰۔ میں ہے کہ یسوع نےان سے کہا کیا تم نے کتابِ مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کياوہی کونے کا پتھر ہو گیا۔
۳۳۔ پیشین گوئی یہودی اور غیر قوم بھی اس کے برخلاف اتفاق کریں گے ۔ ۲ زبور ۲ آيت میں ہے کہ زمین کے بادشاہ سامنا کرتے ہیں اور سردار آپس میں خُداوند کے اور اس کے مسیح کے مخالف منصوبے باندھتے ہیں چنانچہ لوقا ۲۳۔ ۲ میں ہے کہ اور اسی دن ہیرودیس اور پلاطوس آپس میں دوست ہو گئےکیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی اور اعمال ۴ ۔ ۲۷ میں ہے کہ کیونکہ واقعی تیرے پاک خادم یسوع کے برخلاف جسے تو نے مسح کیا ہیرودیس اور پنطوس پیلاطوس غیرقوموں اور اسرائیلوں کے ساتھ اسی شہر میں جمع ہوئے ۔
۳۴ ۔ پیشین گوئی اس کا ایک دوست اس کو فریب دے گا ۴۱ زبور میں ہے کہ میرے ہم دم نے بھی جس پر مجھے بھروسہ تھا اور جو میرے ساتھ روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی مقابلہ کرو یوحنا ۱۳۔ ۲۱ سے تم میں ایک شخص مجھ پکڑوائے گا ۔ یہودا نے اسے پکڑوا دیا ۔
۳۵۔ پیشین گوئی اس کے شاگرد بھی اسے چھوڑديں گے زکریاہ ۱۳۔ ۷ میں ہے کہ گّلہ پراگندہ ہو جائے ۔ مقابلہ کرو متی ۲۶ ۔ ۳۱ سے تم سب اسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے ۔
۳۶ ۔ پیشین گوئی وہ تيس روپیوں کی قیمت پر فروخت ہو گا زکریا ہ ۱۱ ۔ ۱۲ میں ہے کہ اور انہوں نے میرے مول کی بابت تیس روپے تول کر دیئے مقابلہ کرو متی ۲۶ ۔ ۱۵ سے انہوں نے اسے تیس روپے تو ل کر دیئے ۔
۳۷ ۔ پیشین گوئی ان روپیوں سے کمہار کا کھیت مول لیا جائے گا ۔ زکریاہ۱۱۔ ۱۲ میں ہے کہ اور خُداوند نے مجھے حکم دیا کہ اسے کمہار پاس پھینگ دے اس اچھی قیمت کو جو انہوں نے میری ٹھہرائی تھی ۔ مقابلہ کرو متی ۳۷ ۔ ۶، ۷ سے تب انہوں نے صلاح کر کے اُن روپیوں سے کمہار کا کھیت پردیسیوں کے دفن کرنے کے لئے خریدا۔
۳۸۔ پیشین گوئی وہ اوروں کے دُکھ آپ اُٹھا ئے گا یسعیاہ ۵۳ ۔ ۴۔ یقیناً اس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کا بوجھ اپنے اوپر چڑھایا دانیال ۹: ۲۶ میں ہے کہ مسیح اوروں کے لئے مارا جائے گا نہ اپنے لئے چنانچہ متی ۲۰ ۔ ۲۸ ۔ میں ہے کہ اور اپنی جان بہتیروں کے فدیہ میں دے ۔
۳۹ ۔ پیشین گوئی وہ بڑا صابر ہوگا یسعیاہ ۵۳ ۔ ۷ وہ تو نہایت ستایا گیا اور غمزدہ ہوا تو بھی اس نے اپنا منہ نہ کھولا ۔ چنانچہ متی ۲۷ ۔ ۱۲ میں ہے کہ اس نے کچھ جواب نہ دیا ۔ آیت ۱۴ میں ہے کہ ایک با ت کا جواب نہ دیا ۔
۴۰ ۔ پیشین گوئی اس کے منہ پر چھڑی ماریں گے۔ میکاہ ۵۔ ۱ میں ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی ماری ہے۔ چنانچہ متی ۲۷۔ ۳۰ میں ہے کہ اس پر تھوکا اور وہی سرکنڈالے کر اس کے سر پر مارنے لگے ۔
۴۱۔ پیشین گوئی اس کی شکل بگاڑی جائے گی ۔ یسعیاہ ۵۲ ۔ ۱۴ میں ہے کہ اس کی پیکر بنی آدم سے زیادہ بگڑ گئی۔ چنانچہ یوحنا ۱۹۔ ۵ میں ہے کہ یسوع کانٹو ں کا تاج رکھے اور ارغوانی پوشاک پہنے باہر آیا اور پیلا طوس نے ان سے کہا دیکھو یہ آدمی ۔
۴۲ ۔پیشین گوئی اس کے ہاتھ پاؤں میں میخیں (کيل)گاڑی جائیں گی ۔ ۲۲زبور ۱۶ میں ہے کہ انہوں نے میرے ہاتھ اور پاؤں چھید ے۔ چنانچہ یوحنا ۲۰۔ ۲۷ میں ہے کہ اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھو ں کو دیکھ۔
۴۳۔ پیشین گوئی اس کو خُدا تھوڑی دیر کے لئے عدالت پوری کرنے کی خاطر چھوڑ دے گا ۔ ۲۲ زبور میں ہے۔ کہ مسیح نے چلا کے کہا اے میرے خُدا اے میرے خُد ا تو نے مجھے کیوں چھوڑدیا ہے۔
۴۴۔ پیشین گوئی اس کو سرکہ پلایا جائے گا ۶۹ زبور ۲۱ میں ہے کہ انہوں نے مجھےکھانے کے عوض پت دیا اور میری پیاس بجھانے کو سرکہ پلایا۔ متی ۲۷ ۔ ۳۴ میں ہے کہ پت ملا ہو ا سرکہ اسے پینے کو دیا ۔
۴۵۔ پیشین گوئی اس کے کپڑے بانٹے جائیں گے ۔ ۲۲زبور ۱۸ میں ہے کہ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میرے لباس پر قرعہ ڈالتے ہیں۔ متی ۲۷ ۔ ۳۵ میں ہے کہ اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کربانٹ لئے۔
۴۶۔ پیشین گوئی وہ گنہگاروں میں شمار ہو گا۔ یسعیاہ ۵۳ ۔ ۱۲ میں ہے کہ وہ گنہگاروں کے درمیان شمار کیا گیا ۔ مرقس ۱۵۔ ۲۷ میں ہے کہ اور انہوں نے اس کے ساتھ دو ڈاکو ایک اس کی دہنی اور ایک اس کی بائیں طرف صلیب پر چڑھائے ۔
۴۷۔پیشین گوئی وہ اپنے قاتلوں کی سفارش کرے گا۔ یسعیاہ ۵۳ ۔ ۱۲میں ہے کہ اس نے گنہگاروں کی شفاعت کی ۔ لوقا ۲۲۔ ۳۴ میں ہے کہ یسوع نے کہا اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں ۔
۴۸ ۔ پیشین گوئی اس کی ہڈی توڑی نہ جائے گی ۔ خروج ۱۲۔ ۴۶ میں ہے کہ اس کی ہڈی نہ توڑی جائے ۔ ۳۴ زبور ۲۰ میں ہے کہ وہ اس کی ساری ہڈیوں کا نگہبان ہے یوحنا ۱۹ ۔ ۳۳ میں ہے کہ اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا ۔ یہ ایک ایسی عجیب بات ہے جس کی تشریح کے لئے یہ کتاب کافی نہیں ہے آیت ۳۶ میں ہے کہ یہ باتیں اس لئے ہوئیں کہ نوشتہ پورا ہو کہ اس کی کوئی ہڈی نہ توڑی جائے گی ۔
۴۹۔ پیشین گوئی کہ وہ دولت مند وں شمار کيا جائے گا ۔ یسعیاہ ۵۳ ۔ ۹ میں ہے کہ پراپنے مرنے کے بعد دولت مندوں کے ساتھ وہ ہوا۔ متی ۲۷ ۔ ۶۰ میں ہے کہ اور اپنی نئی قبر میں رکھ دیا جو اس نے چٹا ن میں کھدوائی تھی۔
۵۰ ۔ پیشین گوئی وہ پھر جی اُٹھے گا ۱۶ زبور ۱۰ میں ہے کہ تو اپنے قدوس کو سڑنے نہ دے گا ۔ لوقا ۲۴ ۔ ۶ میں ہے کہ وہ یہاں نہیں ہے بلکہ جی اُٹھا ہے۔
۵۱ ۔ پیشین گوئی وہ آسمان پر چڑھ جائےگا۔ ۶۸ زبور ۱۸ میں ہے کہ تو اُونچے پر چڑھا ۔ لوقا ۲۴ ۔ ۵۱ میں ہے کہ ان سے جُدا ہوا اور آسمان پر اُٹھایا گیا۔
۵۲۔ پیشین گوئی وہ خُدا کے دہنے جا بیٹھے گا ۔ ۱۱۰ زبور میں ہے کہ تو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ۔ عبرانيوں ۱۔ ۳ میں ہے کہ اور خُدا تعالیٰ کے دہنے جا بیٹھا ۔
۵۳۔ پیشین گوئی آسمان پر جا کر کہا نت کرے گا ۔ ذکریاہ ۶۔ ۱۳ میں ہے کہ وہ اپنی کرسی پر کاہن ہوگا ۔ رومی ۸۔ ۲۴ میں ہے کہ خُدا کی دہنی طر ف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے ۔
۵۴۔ پیشین گوئی غیراقوام اس کی طرف رجوع کریں گے۔ یسعیاہ ۱۱۔ ۱۔ میں ہے کہ جو قوموں کے لئے جھنڈے کی طرح کھڑی ہو گی ۔ متی ۱۲ ۔ ۲۱ میں ہے کہ اور اس کے نام سے غیر قومیں اُمید رکھیں گی اس طرح کی دوسری آمد کے متعلق بھی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں جن کو بخوف طوالت ہم نظر انداز کرتے ہیں ۔جب کہ اس قدر پیشین گوئیاں آپ پر صادق آگئی ہیں تو اور واقعات بھی جو آپ کے متعلق ہیں بالضرور آپ پر صادق آئیں گی ۔ ہم نے اس بیان میں نہایت اختصار(خلاصہ) سے کام لیا ہے تاہم مسلمانوں کو اس مقام پر بہت غور و خوض کرنا لازمی امر ہےتا کہ جس دھوکہ میں وہ مبتلا ہیں اس سے رہائی حاصل کریں ۔
رسالہ پنجم
خُداوند مسیح کے معجزات کے بیان میں
دُو سری دلیل(وجہ۔ثبوت) خُدا وند کی صداقت(سچائی) پر یہ ہے کہ آپ نے ایسے ایسے معجزات دکھلائے کہ تاوقتیکہ کوئی شخص من جانب اللہ نہ ہو ہرگز نہیں دکھا سکتا ہے۔ اگرچہ دیگر ادیان(دين کی جمع) میں بھی بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے ہادیوں کے متعلق کچھ اس قسم کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے بھی یہ کچھ کیا مگر ان کے بیانات معیارِ صداقت سے کوسوں دُور ہیں۔ اس لئے کہ معجزات کی صداقت یا وقوع کے لئے جن شرائط کی ضرور ت ہے وہ شرائط ان میں بالکل مفقود(غائب) ہیں چنانچہ ہم ان شرائط میں سے چند بطور اختصار ذیل میں لکھتے ہیں تا کہ ہر ایک شخص کوسچے و جھوٹے معجزات کے پہچاننے میں سہولت ہو۔
شرط اوّل ۔یہ کہ وقوع معجزات پر گواہی دینے والے اشخاص معتبر ہوں یعنی دیندار خُدا پر ست ۔ خُدا ترس بے تعصب دین کے لئے جان پر کھیلنے والے ہوں ۔ زر دوست خوشامدی عیش و عشرت کے طالب ۔ غرض مند نہ ہوں ۔ اگر آپ خُداوند کے معجزات پر گواہی دینے والے اشخاص کی زندگی پر غور کریں ۔ تو آپ پر ظاہرہو جائے گا کہ دینداری پرہیز گاری۔ راست گوئی اور خُدا ترسی میں وہ اپنی نظیر(مثال) آپ ہی تھے۔ دین کے معاملے میں وہ جان پر کھیلنے والے اور دنیاوی اغراض کی طرف سے بالکل بے نیاز (لا پروا)تھے۔
شرط دوم ۔یہ کہ چشم دید گواہ ہوں نہ مسلمان محدثين (حديث کے جاننے والے)کی طرح جو دوسری تیسری پُشت میں سُنی سنائی بے ٹھکانہ باتوں کا ذکر کریں۔
شرط سوئم ۔یہ کہ وہ معجزات جو چشم دید شخصوں کے ذریعہ بیان ہوں ان کی شہرت اسی وقت ہوئی ہو جب کہ ان واقعات کے دیکھنے والے بہت لوگ موجود ہوں ۔ چنانچہ ہمارے خُداوند کے معجزات جو انجیلوں میں مذکور ہیں اسی وقت مشتہر (مشہوری کرنا )ہوئے جب کہ صدہا مرد وزن مسیح کے دیکھنے والے موجود تھے۔ اور کسی نے بھی ان کا انکار نہیں کیا ۔مخالفین میں سے کسی نے کچھ اعتراض کیا تو یہ کہ بعل زبول کے ذریعہ سے کرتا ہے۔ جن سے اقرار ثابت ہوتا ہے۔ آنحضرت کے معجزات اس وقت مشہور ہوئے جب کہ مسلم و بخاری وغیرہ محدث (حديث لکھنے والے) پیدا ہوئے یا مولوی جامی نے پیدا ہو کے ملک فارس میں شواہد النبوۃ لکھی خود آنحضرت کے عہد میں کوئی معجزہ قرآن میں مذکورہو کر مشہور نہیں ہوا البتہ آنحضرت کے عہد میں فصاحت کے معجزہ کا مل مجا نسا سورۃبھی غلط فہمی پر مبنی تھا کیونکہ اگر قرآن فصیح بھی ہو تو بھی فصاحت معجزہ نہیں ہو سکتا کیونکہ خود آنحضرت نے قرآن مین معجزوں کا انکار کیا ہے اور لہذا وہ سب معجزات بھی جو حادیث میں مذکور ہیں غلط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تواتر (سلسلہ ۔تسلسل)نہ رہا ۔ بخلاف بائبل کے معجزوں کے کہ ان کی مانند کوئی اہل ِمذہب اپنے مذہب کے معجزات کا تواتر نہیں دے سکتا ۔
شرط چہارم۔ یہ کہ ان گواہوں کی تقاریر مبالغہ(بڑھا چڑھا کر ) اور رنگ آمیزی (ظاہری خوبصورتی)سےبالکل خالی ہوں بلکہ ان کے بیانات واقعات پر مبنی ہوں جیسا کہ مسلمان محدثین کے مبالغے اور حواریوں (شاگردوں )کی بے ریا گفتگو سے ظاہر ہے۔
شرط پنجم ۔یہ کہ جس شخص کی نسبت معجزات کا دعویٰ ہے وہ شخص اپنی چال چلن اور اپنی تعلیم سےبھی من جانب اللہ ہونا ثابت کرے تب تو اس کے معجزات خُدا کی طرف سے خیال کئے جا سکتے ہیں ورنہ شعبدہ بازی(جادو کے متعلق ہنر ) اور فریب ہو گا ۔ پس شرائط بالا کو مدنظر رکھ کر اگر آپ بائبل کے معجزات کی جانچ پڑتال کر لیں تو آپ پر روز ِروشن کی طرح ظاہر ہو گا کہ بائبل کا ہر ایک معجزہ خُدا کی طرف سے ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسیح کے معجزات وہ اس مذہب کی صداقت کے ثبوت دوسری دلیل ہیں۔ کس قدر اور کیا کیا ہیں پہلے امر کی نسبت کہ مسیح نے کس قدر معجزات دکھلائے یوحنا ۲۰۔ ۳ میں ہے کہ ’’ اور یسو ع نے اور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دکھائے جو اس کتاب میں لکھے نہیں گئے۔ اس آیت سے کثرت ِ معجزات ظاہر ہے لیکن ہم ان بعض معجزات کی فہرست جن کا ذکر کلامِ اللہ میں ہے بیان کرتے ہیں ۔ تاکہ ناظرین ان پر غور کریں۔ پہلا معجزہ مسیح نے پانی کو مے بنا دیا یوحنا ۲۔ ۶ سے ۱۱ وہا ں پتھر کے چھ مٹکے یہودیوں کی طہارت(صفائی ) کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ اور ہر ایک میں دو یا تین من کی گنجائش تھی یسوع نے ان سے کہا مٹکوں میں پانی بھر دو اُنہوں نے اُن کو لبالب بھر دیا ۔اور پھر یسوع نے کہا اب نکالو اور میرمجلس (محفل کا سربراہ ) کے پاس لے جاؤ اور وہ لے گئے جب میر مجلس نے وہ پانی جو انگوری مے بن گیا تھا چکھا تب دلہے کو بلایا اور کہاہر آدمی پہلے اچھی مے دیتا ہے اور ناقص اس وقت جب پی چکتے ہیں لیکن تو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے یہ اس لئے کہا کہ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسیح کے معجزے کا اثر ہے ۔ ۲ ۔ معجزہ (یوحنا ۴ ۔ ۴۶ سے ۵۳ ) یسوع پھر قانا ئے گلیل میں جہاں اس نے پانی کو انگوری مے بنا دیا تھا آیا اور بادشاہ کا کوئی ملازم جس کا بیٹا کفر نا حوم میں بیمار تھا سن کر کہ یسوع یہودیہ سے گلیل میں آیا ہے اس کے پاس گیا اور اس کی منت کی کہ آکر اس کےبیٹے کو اچھا کرے کیونکہ وہ قریب المرگ تھا تب یسوع نے اس کہا جا تیرا بیٹا جیتا ہے ۔ چنانچہ اسی وقت اس لڑکے کو آرام ہو گیا ۔ ۲۔ معجزہ (متی ۸۔ ۵ سے ۱۳) جب یسوع کفر ناحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اس کے پاس آیا اور اس کی منت کرکے کہا اے خُداوند میرا لڑکا فالج کا مارا گھر میں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے یسوع نے اسے کہا ميں آکے اُسے اچھا کروں گا چنانچہ اسی گھڑی اس کا لڑکا چنگا ہو گیا ۔ ۴۔ معجزہ ( لوقا ۵۔ ۴ سے ۶ جب مسیح کلام کرنے سے فارغ ہوا تو شمعون کو کہا گہرے میں جال ڈال دو شمعون نے کہا اے استاد ہم نے ساری رات محنت کی لیکن کچھ نہ پکڑ سکے لیکن تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہوں اور جب انہوں نے یہ کیا تو مچھلیوں کا بڑا غول ان کے جال میں پھنس گیا یوحنا ۲۱۔ ۶ میں ہے کہ اُس نے انہیں کہا کشتی کی دہنی طرف جال ڈالو تو پکڑو گے ۔پس انہوں نے ڈالا اور مچھلیوں کی کثرت سے پھر کھینچ نہ سکے۔ ۵ معجزہ (متی ۸ ۔ ۲۸ سے ۳۴ ) اور جب مسیح اس پار گرا سينيوں کے ملک میں آیا دو دیوانے اسے ملے جو قبروں سے نکلتے تھے۔ اور چلا کے کہا اے یسوع خُدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام کیا تو یہاں اس لئے آیا ہے۔ کہ وقت سے پہلےہميں ہلا ک کرے تُو ہميں سورؤں کے غول میں بھیج اس نے انہیں کہا جاؤ اور وہ نکل کے سورؤں کے غول میں داخل ہو گئے اور سورؤں کا غول کڑاڑے پرسے دریا میں کود ا اور پانی میں ہلاک ہوا اور چرانےوالے بھاگے اور شہر میں جا کے سب ماجرا اور دیوانوں کا احوال بیان کیا اور ۹۔ ۲۲، ۳۳ میں ہے کہ لوگ اس ماجرا کو دیکھ کر ایک گونگا دیوانہ اس کے پاس لائے اور جب بدرُوح نکالی گئی تو گونگا بولنے لگا اور لوگوں نے تعجب کر کے کہا ایسا کبھی اسرائیل میں نہ ہوا تھا۔ اور ۱۵۔ ۲۲ سے ۲۸ میں ہے کہ ایک کنعانی عورت کی لڑکی کو اچھاکیا ۔ محمد صاحب نے کبھی ناپاک رُوحوں کو نہیں نکالا بلکہ ناپاک رُوحوں نے باقرار قرآن ان پر اثر کیا جیسا کہ معوذتین میں ذکر ہے ۔
۶ ۔ معجزہ ( متی ۸ ۔ ۱۴ : ۱۵ ) ۔ یسوع نے پطرس کے گھر میں آ کے دیکھا کہ اس کی ساس تپ میں پڑی ہے اس نے اس کا ہاتھ چھُوا تپ اُتر گئی اور وہ اُٹھ کے اس کی خدمت کرنے لگی۔ ۷۔ معجزہ (متی ۸۔ ۲ ) میں ہے کہ یسوع نے ایک کوڑھی کو اچھا کیا۔ ۸۔ معجزہ (لوقا ۵ :۱۷ ،۲۶) ایک مفلوج کو چار آدمی اُٹھا کر اس کے پاس لائے لیکن بھیڑ کے سبب نزدیک نہ آسکتے تھے تب چھت کو توڑ کرمفلوج کو اس کے سامنے لٹکایا عیسیٰ نے ان کا ایمان دیکھ کر کہا اے فرزند تیرے گناہ معاف ہوئے میں تجھے کہتاہوں اُٹھ اپنا کھٹولا اُٹھا اور اپنے گھر چلا جا وہ فوراً اُٹھا اور اپنا کھٹولا اُٹھا کر سب کے سامنے نکل گیا ۔
۹۔ معجزہ ( متی ۱۲ ۔ ۱۰ سے ۱۳) وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا اور مسیح نے اس کے ہاتھ کو اچھا کيا ۔ ۱۰۔ معجزہ ( یوحنا ۵: ۵ سے ۹) وہاں ایک آدمی تھا جو اڑتیس برس بیمار تھا جب یسوع نے اس کو پڑا ہو ا دیکھا تو اسے کہا کیا تو چاہتا ہے کہ اچھا ہو جائے بیما ر نےجواب دیا اے خُداوند میرے پاس کوئی آدمی نہیں ہے کہ جب پانی ہلے مجھے حوض میں ڈال دے اور جب تک میں آؤں دوسرا مجھ سے پہلے اُترتا ہے عیسیٰ نے اسے کہا اُٹھ اپنا کھٹولا اُٹھا کر چلا جا اسی وقت وہ آدمی اچھا ہوا اور اپنا کھٹولا اُٹھا کر چلا گیا ۔ اور وہ سبت کا دن تھا ۔ ۱۱ معجزہ (متی ۹۔ ۱۸ ،۱۹، ۲۳، ۲۵ ) مسیح نے ایک سردار کی مری ہوئی لڑکی کو زندہ کیا ۔
اور لوقا ۷ ۔ ۱۲ سے ۱۵ میں لکھا ہے کہ مسیح نے ناین شہر کے پھاٹک پر ایک بیوہ عورت کے بیٹے کا جنازہ دیکھا اور رحم کر کے کہا اے جوان میں تجھے کہتا ہوں اُٹھ اور وہ مردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور یوحنا ۱۱۔ ۱۱ سے ۴۴ میں لکھا ہے کہ ایک شخص لعزر نام کو جو چاردن تک مر کر گور(قبر) میں رہا تھا زندہ کیا ۔ ۱۲۔ معجزہ ( متی ۹ ۔ ۲۷ سے ۳۰ ) ۔ جب مسیح گھر میں پہنچا تو دو اندھے اس کے پاس آئے اور یسوع نے کہا کیا تمہیں اعتقاد ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں وہ بولے ہاں اے خُداوند تب اس نے ان کی آنکھوں کو چھوا اور کہا کہ تمہارے ایمان کے موافق تمہارے لئے ہوا اور ان کی آنکھیں کھل گئیں اور مرقس ۸ ۔ ۲۲ سے ۲۵ میں لکھا ہے کہ اس نے ایک اندھے کو آنکھیں دیں ۔ اور یوحنا ۹۔ ۱ سے ۷ میں لکھا ہے کہ اس نے ایک جنم کے اندھے کو آنکھیں دیں۔ اس کے سوا بہرے گونگوں کو بھی اچھا کیا جن کا ذکر مرقس ۷ ۔ ۲۲ سے ۳۵ تک موجود ہے۔ ۱۴ ۔ معجزہ ( متی ۱۴ ۔ ۱۵ سے ۲۱ ) میں لکھا ہے کہ اس نے پانچ روٹی اور دو مچھلیوں سے عورتوں اور بچوں کے سوا پانچ ہزار مردوں کا پیٹ بھر دیا اور ٹکڑوں کی بارہ ٹوکریاں بچ رہیں ۔ اور ۱۵ ۔ ۳۲ سے ۳۸ میں لکھا ہے کہ سات روٹیوں اور کئی چھوٹی مچھلیوں سے عورتوں اور بچوں کے سوا چار ہزار مردوں کا پیٹ بھر دیا ۔ اور بچے ہوئے ٹکڑوں کی سات ٹوکریاں بھری اُٹھائیں ۔ ۱۵۔ معجزہ (متی ۱۴ ۔ ۲۵ سے ۲۷ ) اور رات کے چوتھے پہر یسوع دریا پر چلتا ہوا ان کے پاس آیا ۔ ۱۶۔ معجزہ (متی ۱۴۔ ۲۹ ) ۔ مسیح نے اسے کہا اور پطرس ناؤ (کشتی )سے اُتر کر پانی پر چلنے لگا کہ یسوع کے پاس آئے ۔ ۱۷۔ معجزہ ۔ ( متی ۸۔ ۲۳ سے ۲۶) دریامیں ایک ایسی آندھی آئی کہ ناؤ لہروں میں چھپ گئی اور مسیح سوتا تھا تب اُس نے اُٹھ کے ہوا اور دریا کو ڈانٹا اور بڑا چین ہو گیا اور لوگوں نے تعجب کیا اور کہا یہ کیسا آدمی ہے کہ ہوا اور دریا بھی اس کی مانتے ہیں ۔ ۱۸ ۔ معجزہ (متی ۱۷ ۔ ۲۷ ) مسیح نے پطرس سے کہا تو دریا پر جا کے بنسی ڈال جو مچھلی پہلے نکلے اُسے لے اور اس کا منہ کھول تو ایک سکہ پائے گا ۔ اسے لے کر میرے اور اپنے واسطے انہیں دے ۔ ۱۹ ۔ معجزہ ( لوقا ۱۲۔ ۱۱ سے ۱۳ ) ایک کبڑی عورت کو جو اٹھارہ برس سے کبڑی تھی اچھا کیا ۔ ۲۰ ۔ معجزہ ( لوقا ۱۴ ۔ ۲سے ۴) ایک جلندر (پيٹ ميں پانی پڑنے کا مرض )کے مریض کو اچھا کیا۔ ۲۱۔ معجزہ (متی ۲۱ ۔ ۱۹) ایک انجیر کے درخت کو جو بظاہر سر سبز تھا لیکن درحقیقت اس میں ایک بھی انجیر نہ تھا ۔ سوکھا دیا تا کہ ریاکاروں اور دھوکہ بازوں کو عبرت (سبق)حاصل ہو ۔ ۲۲۔ معجزہ ( لوقا : ۲۲باب ۵۰ ۔۵۱ آيت سردار کاہن کے ملازم کے کان کو جس کو پطرس نے کاٹ دیا تھا دوبارہ اچھا کیا۔
۲۳۔ معجزہ ( متی ۴۔ ۲۳، ۲۴) یسوع تمام گلیل میں پھرتا اور لوگوں کے سارے دُکھ دردوں کو دفع کرتا تھا ۔ جس سے اس کی شہر ت تمام اطراف میں پھیل گئی اور سب بیماروں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے۔ اور بد روحوں اور مرگیوں اور مفلوجوں کو جو اس کے پاس لائے گئے تھے۔ اچھا کیا اور ۱۵ ۔ ۳۰ ۔ میں ہے کہ اور بڑی بھیڑ لنگڑوں اندھوں گونگوں ٹنڈوں اور بہت اوروں کو اپنے ساتھ لے کر اس کے پاس آئی اور انہیں یسوع کے پاؤں پرڈالا اور اس نے اچھا کیا۔
۲۳۔ معجزہ ( متی ۴۔ ۲۳، ۲۴) یسوع تمام گلیل میں پھرتا اور لوگوں کے سارے دُکھ دردوں کو دفع کرتا تھا ۔ جس سے اس کی شہر ت تمام اطراف میں پھیل گئی اور سب بیماروں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے۔ اور بد روحوں اور مرگیوں اور مفلوجوں کو جو اس کے پاس لائے گئے تھے۔ اچھا کیا اور ۱۵ ۔ ۳۰ ۔ میں ہے کہ اور بڑی بھیڑ لنگڑوں اندھوں گونگوں ٹنڈوں اور بہت اوروں کو اپنے ساتھ لے کر اس کے پاس آئی اور انہیں یسوع کے پاؤں پرڈالا اور اس نے اچھا کیا۔
اناجیل کے مطالعہ کرنے سے جو عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ معجزات کا سلسلہ خود خُداوند کی ذات پر ختم نہیں ہو تا ہے بلکہ آپ کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگردوں سے ایسے معجزات سر زد ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر اس امر کا یقین ہو جاتا ہے۔ کہ حضرت مسیح نہ صرف معجزہ کرنےوالے تھے۔ بلکہ معجزوں کی قوت اور اقتدار بخشنے والے تھے۔ چنانچہ مسیح کے شاگردوں کی نسبت متی ۱۰۔ ۱ میں ہے کہ اور اس نے اپنےبارہ شاگردوں کو پاس بلا کر انہیں ناپاک رُوحوں پر اختیار بخشا تا کہ ان کو نکالیں ۔ اور ہر طرح کی بیماری اور دُکھ درد کو دُور کریں۔ پھر آیت ۸ میں ہے مسیح نے شاگردوں کو کہا بیماروں کو اچھا کرو مرُدوں کو زندہ کرو کو ڑھیوں کو صاف کر و بد روحوں کو نکالو تم نے مفت پایا مفت دو ۔ چنانچہ مرقس ۱۶ ۔ ۲۰ میں ہے کہ اور وہ باہر جا کے ہر جگہ منادی کرنے لگے ۔ اور خُداوند ان کی مدد کرتا اور کلام کو معجزوں کے وسیلہ جو ا س کے ہمراہ تھے۔ ثابت کرتا تھا۔ اعمال ۲۔ ۴۳ میں ہے کہ اور بہت سی کراماتیں اور نشانیاں رسولوں سے ظاہر ہوئیں ۔ ( اعمال ۲۔ ۴ ) میں ہے کہ وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانيں بولنے لگے ۔ یہ مسیح کا کیسا بڑا معجزہ ہے جو حواریوں کے وسیلہ سے ظاہر ہو ا کہ ان پڑھ لوگ آناً فاناً ہر زبان بولنے لگے اور یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ خُدا کا کلام ہر ملک کے لوگوں کو سنايا جائے اور ہر وہ شخص جو ایمان لائےنجات پائے آنحضرت اپنے آپ کو سب جہان کی طرف ایک آخری رسول بتلاتے تھے۔ مگر ان کو فارسی زبان بھی بولنی نہ آئی اور مسلمان فارسی سے خط وغیرہ کا ترجمہ کروا کر سنا کرتےتھے۔ ( اعمال ۳۔ ۱ سے ۱۱) تک لکھا ہے کہ پطر س اور یوحنا جب ہیکل میں گئے تو انہوں نے ایک جنم کے لنگڑے کو کہا کہ یسوع مسیح ناصر ی کے نام سے اُٹھ اور چل اور اس کا دہنا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا فوراً اس کے ٹخنے مضبوط ہوئے اور وہ کُو د کے کھڑ ا ہوا اور چلنے لگا ۔ (اعمال ۵۔ ۱ سے ۱۲) میں لکھا ہے کہ ایک شخص حننیاہ اور اس کی جو رو صفیر ہ نے رسولوں سے جھوٹ بولا اور پطرس کی بددعا سے فوراً مر گئے اور آیت ۱۰۔سے ۲۰ لکھا ہے۔ کہ مرد اور عورتیں گروہ کے گروہ خُداوند پر ایمان لا کے ان میں شامل ہوتےتھے۔ یہاں تک کہ لوگ بیماروں کو سڑکوں میں چار پائیوں اور کھٹولوں پررکھتےتھے۔ تا کہ جب پطرس آئے اس کا سایہ ہی ان میں سے کسی پر پڑ جائے اس لئے سردار کاہن اور اسکے ساتھی غضب سے بھر گئے ۔ اور رسولوں کو قید خانہِ عام میں ڈال دیا لیکن خُدا کے فرشتے نے رات کو قید خانہ کا دروازہ کھولا اور انہیں باہر لا کے کہا جاؤ اور ہیکل میں کھڑے ہو کے ا س زندگی کی کلام کی باتیں سناؤ اور یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ وہی حواری جو بُزدلی میں ضرب المثل (کہاوت کی طرح مشہور ہونا)تھے۔ اور جنہوں نے جان کے خوف سے مسیح کا انکار کیا اب مسیح سےطاقت پا کر علماء اور یہود اور حاکموں کے سامنے جان نثاری کے ساتھ بحث کر رہے ہیں اور ساری مصیبتوں کی برداشت کرنے میں بے حد مضبوط ہو گئے ہیں اور اعمال ۸ ۔ ۴ سے ۱۳ میں لکھا ہے فلپس نے سامریہ کے ایک شہر میں بہت سے معجزے دکھلائے اور بہت لوگ مسیحی ہو گئےاور ۹ باب سے ظاہر ہے کہ پولوس رسول پر کس طرح خُداوند دمشق کے نزدیک ظاہر ہوا اور کیونکر اس کا دل تبدیل ہوا ۔ پھر اعمال ۱۲۔ ۱۱ میں ہے کہ پولوس کے معجزہ سے الیماس جادو گر فوراً اندھا ہو گیا اور ۱۴ ۔ ۱۰ میں ہے کہ اس نے لنگڑے کو چلنے کی طاقت دی اعمال۔ ۱۶ ۔ ۱۸ میں ہے کہ اس نے مسیح کے نام سے ناپاک رُوح کو نکالا اعمال۔ ۱۹۔ ۱ میں ہے کہ خُدا پولوس کے ہاتھ سے بڑے معجزے دکھلاتا تھا۔ ۲۰۔ ۱۰ میں ہے کہ اس نے مسیحی قدرت سے یوتخس مُردہ کو جلایا(زندہ کيا) اعمال۔ ۲۸۔ ۵ میں ہے کہ اس کو کالے سانپ نے ضرر نہ پہنچایا اور آیت ۸ میں ہے کہ پبليُس کا باپ اس کے ہاتھ رکھنے سے درست ہو گیا اور ۳۔ ۷ میں ہے کہ پطرس کی معرفت ایک لنگڑے کی ٹانگیں درست ہو گئیں۔ اس کے سوا رسولوں کے اور بہت سے معجزات اعمال کی کتاب میں مذکور ہیں جس سے مسیح کی فیض سانی ثابت ہے پس اب اگر آپ مسیح کے معجزات کو آنحضرت کے معجزات کے ساتھ دیانتداری کے ساتھ مقابلہ کریں تو آپ پر واضح ہو جائے گا ۔ کہ مسیح کے جتنے معجزے ہیں وہ سب حقیقی اور مبنی بر صداقت ہیں ۔ بر عکس اس کے آنحضرت کے جتنے معجزے ہیں وہ سب من گھڑت اور دُو ر از صداقت ہیں۔
رسالہ ششم
حضرت مسیح کی بہت سی پیشین گوئیوں میں سے ۱۴ پیشین گوئیوں کو ذکر
تیسری دلیل اس کی صداقت پر یہ ہے کہ ہمارا خُداوند یسوع مسیح صادق القول اور اپنے بیان میں ہر طرح سے سچا ہے۔ اگرچہ وہ واقعات جو اس کی صادق القولی کو مختلف صورتوں میں ظاہر کرتے ہیں انجیل شریف میں بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن ہم صرف ان واقعات کو ہدیہ ناظرین کرتے ہین جن کا تعلق پیشین گوئیوں کے ساتھ ہے۔ جن میں سے کچھ پورے ہو گئے ہیں اور کچھ پورے ہو رہے ہیں جس سے ان کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ان پیشین گوئیوں کے دیکھنے سے صاف طوپر یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جس طرح وہ پوری شدہ پیشین گوئیوں میں سچا نکلا ہے تو ضرور جو جو باتیں اس نے اپنی آمد ثانی کے متعلق بیان کی ہیں ضرور راست اور درست ہو ں گی۔ اور اس نے جو وعدے اور وحید مومنین و کافر ین سے کئے ہیں بے شک اسی طرح وقوع میں آئیں گے ۔ جس طرح اور باتیں واقع ہوئیں پس جب کہ یہ مضامین ایمان کی ترقی کرنے والے ہیں ۔ اور مذہب کی حقیقت پر ایک کامل دلیل ہیں اس لئے کچھ ان میں سے ہم اپنے ہندو ستانی بھائیوں کو سنانا چاہتے ہیں ۔ تا کہ وہ بھی ان پر غور کر کے حقیقی ایمان کی طرف رجوع کریں یوں تو مسیح کی پیشین گوئیاں بکثرت ہیں لیکن ہم صرف چودہ پیشین گوئیاں ہديہ ناظرین کرتے ہیں ۔ پہلی پیشین گوئی اس نے اپنے مر کے جی اُٹھنے کی خبر پہلے سے دی تھی ۔ متی ۱۶ ۔ ۲۱ اس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ مجھے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جاؤ ں اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھاؤں اور قتل کیا جاؤں اور تیسرے دن جی اُٹھوں مسیح نے کئی بار یہی بیان کیا اور اس کے موافق ظہور میں آیا چنانچہ متی ۲۹ سے ۲۸ باب تک اگر کوئی پڑھے تو اس کو اچھی طرح معلوم ہو جائے گا ۔ کہ اس نے کیسے کیسے دُکھ یہودیوں کے ہاتھ سےاُٹھائے اور بالآخر وہ مارا بھی گیا اور تیسرے دن جی بھی اُٹھا ۔ اس مقام پر کئی باتیں غور طلب ہیں۔ اوّل یہ کہ اہلِ اسلام کہتے ہیں کہ مسیح مارا نہیں گیا جو بالکل غلط ہے ہم مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں غفلت (لا پروا ہی ) سے کام نہ لیں۔ کیونکہ صرف اسی پر نجات اُخروی منحصر ہے۔ اس لئے ہماری مختصر گذارشات پر ذرا دیر کے لئے دھیان دیں۔
اوّل ہم مسلمانوں کے اس بیان کو کہ مسیح نہیں مارا گیا اس لئے غلط کہتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے صر ف آنحضرت کی حدیث ہے جو اپنے ثبوت میں پیش کرتے ہیں چونکہ وہ حدیث تاریخ اور واقعات کے برخلاف اور قرآن شریف کے متضاد ہے لہذا قابل اعتبار نہیں ہے۔
دوئم یہ کہ اگلے نبی گواہی دے گئے ہیں کہ مسیح جب آئے گا تو وہ ایمانداروں کے واسطے اپنی جان دے گا اور مارا جائے گا چنانچہ دانی ايل نبی نے مسیح سے ۵۳۸ برس پیشتر بطور پیشن گوئی کے یہ کہا تھا ۔ کہ ۶۲ ہفتوں کے بعد مسیح قتل کیا جائے گا ۔ ( دانی ا يل ۹: ۲۶ ) اور یسعیاہ نبی نے مسیح سے ۷۱۲ برس پیشتر یہ کہا تھا کہ وہ ظلم کرکے اور فتویٰ لگا کر ُاسے لے گئے پر کون اس کے زمانے کا بیان کر ے گا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا میرے گروہ کے گناہوں کے سبب اس پر مار پڑی ( یسعیاہ ۵۳: ۸) ۔
سوئم۔ یہ کہ یہودی لوگ جنہوں نے مسیح کو قتل کیا وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے بےشک اسے مارا ہے آج تک کوئی یہودی اس بات کا قائل نہیں ہوا کہ ہم نے مسیح کو قتل نہیں کیا خود محمد صاحب بھی یہودیوں سے سن کر اقرار کرتے ہیں کہ یہودی لوگ مسیح کو قتل کرنے کے قائل ہیں چنانچہ قرآن کی سورہ نساء میں لکھا ہے (قلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم ) یعنی یہود کہتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ مسیح مریم کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔
چہارم یہ کہ خود حضرت عیسیٰ انجیل میں ذکر کرتے ہیں کہ مجھے مارا جانا ضرور ہے۔
پنجم یہ کہ مسیح کے شاگرد جو صاحب ِمعجزات اور سچے رسول تھے۔ وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ ضرور ہمارے سامنے مارا گیا اور جی اُٹھا چنانچہ اعمال ۵۔ ۳۰ ، ۳۱ میں ہے۔ کہ ہمارے باپ دادوں کے خُدا نے یسوع کو جلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کے مار ڈالا تھا اسی کو خُدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کے اپنے دہنے ہاتھ سے سربلند کیا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے اور ہم ان باتوں کے گواہ ہیں۔
ششم یہ کہ یہودیوں کے درمیان جو کھیت خون کا کھیت کہلاتا ہے اور جو کہ پردیسیوں کے گاڑنے کے لئے خریدا گیا تھا وہ ان تیس روپیوں سے خریدا گیا تھا جو مسیح کی پکڑوائی کی اُجرت کے طور پر یہودا اسکریوتی نے لیا تھا اور اسی وقت سے یہ واقعہ تمام یہودیوں میں مشتہر ہو چکا تھا ۔ اور سبھوں نے اس ماجرے کو قبول کیا تھا۔ اب انصاف کیجئے اتنے گواہوں اور ایسے معتبر رسولوں کو ہم کس دلیل سے رد کریں اور صرف ایک ہی شخص کی بات کو جو چھ سو برس بعد ایک دُور غیر ملک میں پیدا ہوا اور جس کی رسالت ہی کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی اور جو کتبِ الہٰی کے برخلاف اور جہان کی تواریخوں کے برعکس ہے تسلیم کریں پس ضرور مسیح مارا گیا اور جی اُٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا ۔ دوسر ی بات غور کےلائق یہ ہے کہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی ایذا کشی اور مصیبت اور بےعزتی کی برداشت اور جاہلوں کے ہاتھ سے ٹھٹھا میں اُڑائےجانے کا احوال سن کر نادان بے سمجھ لوگ جنہوں نے خُدا کے مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی یعنی جنہوں نےکلام ِالہٰی کے نور سےمنور ہو کر اپنی انسانی عقل کی غلطیوں سے واقفیت حاصل نہیں کی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان بیانوں سے مسیح پر عیب لگتا ہے اور ایک پیغمبر کی بے عزتی ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ لوگ حیات ِابدی سے محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں کو معلوم رہنا چاہیے کہ ان بیانوں سے مسیح اور خُدا پر کچھ عیب نہیں لگتا بلکہ اس کی قدوسی اور محبت اور اس کا جلال اور عدالت رحم اور علم حد درجہ ظاہر ہوتا ہے ۔
اگر یہ بیان مفصل لکھا جائے تو ایک بڑی کتاب ہو جاتی ہے۔ اس لئے یہاں پر ہم صرف ایک اشارہ پر کفایت کرتے ہیں کہ مسیح کی دنیا وی بے عزتی اس کا جلال ظاہر کرتی ہے نہ کہ اس کی حقارت ۔ میر ی بات لائق غور یہ ہے ۔ کہ اس پیشین گوئی پر بعض اہلِ اسلام اعتراض کرتے ہیں ۔ جو متی ۱۲۔ ۴۰ میں ہے کہ جیسے یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بیان کے موافق تین رات دن قبرمیں پورے کرنے ضرور تھے حالانکہ وہ جمعہ کو تیسرے پہر دفن ہوا اتوار کو علی الصباح جی اُٹھا۔ اس کا جواب کئی طور پر دیا جا سکتا ہے۔ مگر ہم تحقیقی جواب دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ عبارت عام بول چال کے طور پر استعمال ہوئی ہے جیسے کوئی شخص جمعہ کو شام کے وقت امرتسر میں آئے اور اتوار کی صبح کو کہے کہ میں تین دن سے امرتسر میں آیا ہوں اور وہ ضرور اس قول میں سچا ہے کیونکہ ایسا بولنا عام محاورہ ہے اسی طرح مسیح نے کہا اس کی یہ مراد نہیں تھی کہ تم گھڑی کے تین رات دن کے گھنٹے منٹ پورے کرلینا بلکہ یہ مطلب تھا کہ روز دفن سے تیسرے دن اُٹھوں گا ۔ ہمارے پاس قول کی تائید اُمور ذیل سے ہوتی ہے اوّل خود مسیح نے بار بار ہمیں اس فقرہ کے معنی بتلائے ہیں کہ روز دفن سے تیسرے دن جی اُٹھوں گا ۔ چنانچہ متی ۲۰ ۔ ۱۹ میں کہ وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا اور مرقس ۸ ۔ ۳۱ میں ہے کہ وہ تین روز بعد جی اُٹھے۔ اور ۹۔ ۲۱ میں ہے کہ وہ مصلوب جو کہ تیسرے دن پھر جی اُٹھے گا اور ۱۰۔ ۳۴ میں ہے کہ وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا ۔ اور لوقا ۹۔ ۲۲ میں ہے کہ وہ تیسرے دن پھر اُٹھایا جائے اور ۱۸۔ ۳۳ میں ہے کہ تیسرے دن جی اُٹھے گا۔ ان فقروں سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی مراد صرف تیسرے دن جی اُٹھنے کی ہے نہ وہ مراد جو معترض سمجھا ہے ۔
دوئم یہ کہ مسیح کے شاگرد اس فقرہ کے معنی محاورہ کے طور پر یہ ہے سمجھے تھے جو مسیح نے بار بار بیان کئے اور جو ہم بیان کرتے ہیں چنانچہ لوقا ۲۴ ۔ ۶ ، ۷ میں ہے کہ یاد کرو کہ جب وہ گلیل میں تھا تو اس نے تم سے کہا تھا ضرور ہے کہ ابن آدم گہنگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیاجائے ۔ اور صلیب دیا جائے اور تیسرے دن جی اُٹھے ۔ اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ تم گھڑی ہاتھ میں لے کر تین رات دن کے تمام گھنٹے اور منٹ گنتے جاؤ بلکہ صرف یہ مطلب تھا کہ دفن ہونے کے دن سے تیسرے دن جی اُٹھوں گا ۔ سوئم یہ کہ مسیح کے دشمنوں نے بھی اس فقرے کے معنی و ہی سمجھے تھے جو ہم کہہ رہے ہیں چنانچہ متی ۲۷ ۔ ۶۳ میں ہے کہ خُداوند ہمیں یاد ہے کہ اس دھوکہ باز نے جیتے جی کہا تھا ۔ کہ میں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا ۔ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبرکی حفاظت کی جائے۔ نہ یہ کہ تین رات دن کے گھنٹے گنے جائیں ۔ چہارم یہ کہ مسیح کا جمعہ کومصلوب ہونا اور اتوار کو جی اُٹھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا مطلب تیسرے دن جی اُٹھنے سے تھا اور الفاظ محاورے کے عام بول چال کے طور پر استعمال ہوئےہیں ۔ پنجم یہ کہ متی کی انجیل میں مسیح کا تین دن رات یونس(يوناہ) کی مانند زمین میں رہنا مذکور ہوا ہے پہلےمعترض کو چاہیے کہ یونس کا تین دن رات گھڑی کے حساب کے بموجب مچھلی کے پیٹ میں رہنا ثابت کرے بعد اس کے پھر اس تشبیہ پر گفتگو کرے ہم کہتے ہیں کہ یونس کا تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا اسی طو ر پر تھا جس طورپر مسیح تین رات دن قبر میں رہا ۔ پس عقل سلیم کے نزدیک یہ اعتراض بالکل باطل (جھوٹ)ہے اور مسیح کی پیشین گوئی ضرور پوری ہوئی۔
۲۔ پیشین گوئی یہوداہ کے حق میں ہے یوحنا ۱۳: ۲۱ ۔یہ باتیں کہہ کر یسوع اپنے دل میں گھبرایا اور یہ گواہی دی کہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ميں سے ایک شخص مجھے پکڑوائے گا ۔ متی ۲۶ ۔ ۲۵ اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے جواب میں کہا کہ اے ربیّ کیا میں ہوں اس نے اس کہا تو نے خود کہہ دیا ۔ اس کا یہ کہنا بھی پورا ہوا ۔ چنانچہ متی ۲۶ ۔ ۴۷ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا ۔ کہ یہوداہ جوا ن بارہ ميں سے ایک تھا آیا اور اس کے ساتھ ایک بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لئے سردار کاہنوں اور بزرگوں کی طرف سے آپہنچی اور اس کے پکڑوانے والے نے انہیں یہ پتہ دیا تھا۔ کہ جس کا میں بوسہ لوُں وہی ہے اُسے پکڑ لینا اور فوراً یسو ع کے پاس آکر کہا کہ اے ربی سلام اور اس کے بوسے لئے۔ ۳۔ پیشین گوئی سب شاگردوں کے حق میں ہے متی ۲۶ ۔ ۳۱ اس وقت یسو ع نےان سے کہا کہ تم سب اسی رات میری بابت ٹھوکر کر کھاؤ گے ۔ کیونکہ لکھا ہے کہ میں چرواہے کو ماروں گا اور گلے کی بھیڑیں پراگندہ ہو جائیں گی ۔ نیز دیکھو مرقس ۱۴ : ۲۷ ۔ یوحنا ۱۶: ۳۲ ۔ چنانچہ متی ۲۶ ۔ ۵۶ میں ہے کہ تب سب شاگرد اسےچھوڑ کے بھاگ گئے۔ ۴۔ پیشین گوئی گلیل کے جانے کے حق میں ہے ۔ متی ۲۶ ۔ ۳۲ میں ہے کہ میں اپنے جی اُٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا ۔ یہ بھی پوری ہوئی ۔
چنانچہ متی ۲۸ ۔ ۶ ۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کےموافق جی اُٹھا ہے آؤ یہ جگہ دیکھو جہان خُداوند پڑا تھا ۔۔۔اور دیکھو وہ تم سے پہلےگلیل کو جاتا ہے ۔اور گیارہ شاگرد گلیل کے اس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے ان کے لئے مقر ر کیاتھا۔ ۵۔ پیشین گوئی پطرس کے حق میں ہے متی ۲۶ ۔ ۳۳ میں ہے پطرس نے جواب دےکے اسے کہا گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن میں کبھی ٹھوکر نہ کھاؤ ں گا یسوع نے اسے کہا میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ اسی را ت مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا ۔ یہ بھی پوری ہوئی چنانچہ آیت ۶۹ میں ہے کہ پطرس باہر صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لونڈی اس کے پاس آکر بولی تُو بھی یسوع گلیلی کے ساتھ تھا اس نے سب کے سامنے یہ کہہ کے انکار کیا کہ میں نہیں جانتا ہوں کہ تو کیا کہتی ہے اور جب وہ ڈیوڑھی میں چلا گیا تو دوسری نے اسے دیکھا اور جو وہاں تھے ان سے کہا یہ بھی یسوع ناصری کے ساتھ تھا اس نے قسم کھا کر پھر انکار کیا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے۔ انہوں نے پطرس کے پاس آکے کہا بے شک تو بھی ان میں سے ہے کیونکہ تیری بولی سے بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ اس پر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا اور فی الفور مرغ نے بانگ دی پطرس کو یسوع کی وہ بات یاد آئی جو اس نے کہی تھی کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا اور وہ باہر جا کے زار زار رویا۔ ۶۔ پیشین گوئی مسیح کی صلیبی موت کے حق میں ہے یوحنا ۳۔ ۱۴ میں ہے کہ اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُ ونچے پر چڑھایا اسی طرح ضرور ہے کہ ابن آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تا کہ جو کوئی ایمان لائے اس میں ہمیشہ کی زندگی پائے ۔
اگر آپ اس واقعہ کا بیان پڑھنا چاہتے ہیں کہ کس طرح اور کس لئے موسیٰ نے پیتل کا سانپ بنا کر اپنے عصا پر لٹکایا تو آپ گنتی ۲۱ : ۵۔ ۹ تک کا مطالعہ کریں۔
ہمارے منجی کی پیشین گوئی بھی حرف بہ حرف پوری ہوئی چنانچہ یوحنا ۱۹: ۱۸ میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس کو اور اس کے ساتھ اور دو شخصوں کو صلیب دی ایک کو ادھر ایک کو اُدھر اور یسوع کو بیچ میں۔
۷۔ پیشین گوئی رُوح القدس کے حق میں ہے یوحنا ۱۴۔ ۲۶ میں ہے کہ لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھلائےگا ۔ اور جو کچھ میں نے تم سےکہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا ۔ چنانچہ یہ بھی پورا ہوا جیسا کہ اعمال ۲۔ ۱ سے ۴ تک مذکور ہے کہ جب عید پنتیکوست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے کہ یکا یک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے روز کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اوراس سے سارا گھر جہاں و ہ بیٹھے تھے ۔ گونج گیا اور انہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر آٹھہریں اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح القدس نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی ۔
سب اہلِ علم صاحب شعور اچھی طرح جانتےہیں کہ یہ پیشین گوئی مسیح نے رُوح القدس کے حق میں بیان کی تھی اور جب خُداوند کی رُوح حواریوں پر نازل ہوئی تو یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی ۔ مگر بعض اہل ِاسلام یوں کہتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی مسیح نے محمدصاحب کے حق میں کہی ہے اور اس کے متعلق کچھ چون وچرا کرتے رہتے ہیں ۔ لہذا ضرور ہے کہ اس کی نسبت بھی کچھ لکھ ڈالیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی محمدصاحب کے حق میں ہرگز نہیں ہے بلکہ صرف رُوح القدس کے حق میں ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ تمام کلام ِ الہٰی میں کوئی لفظ اور کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جس سے مسلمانوں کا دعویٰ ثابت ہو سکے مسلمان کہتے ہیں کہ جس لفظ کا ترجمہ ’’مددگار ‘‘کیا گیا ہے۔ وہ لفظ فارقلیط ہے اور اس کے صحیح معنی محمد یا احمد کے ہیں ان بے چاروں کو اگر یونانی زبان سے واقفیت ہوتی تو وہ ہرگز اس قسم کابے ہودہ دعویٰ نہ کرتے بہر حال یہ بار ثبوت ان پر ہے کہ وہ کسی مستند یونانی لغت سے ثابت کریں ۔ کہ فارقلیط کے معنی محمد یا احمد کے ہیں۔ اس کے سوا آیت بالا میں مسیح نے فرمایا ہے کہ وہ مدد گار حواریوں کو مسیح کی سب باتیں یاد دلائے گا ۔ محمدصاحب نے حواریوں کو مسیح کی باتیں یاد نہیں دلائیں بلکہ خود چھ سو برس کے بعد ظاہر ہوا پھر اسی کے ۱۴۔ ۱۶ میں ہے کہ وہ مددگار تمہارے ساتھ ابد تک رہےگا محمد نہ کبھی حواریوں اور عیسائیوں کے ساتھ رہے اور نہ اب ساتھ ہیں بلکہ خُدا کی رُوح ہمیشہ ان کے ساتھ رہی اور اب تک مسیحی ایمانداروں کے ساتھ ہے۔ آیت ۱۷ میں مسیح نے تیسری صفت اس کی یہ بیان کی کہ اسے دنیا نہیں پا سکتی کیونکہ اسے نہیں دیکھتی اور نہ اسے جانتی ہے لیکن تم تو اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں موجود ہے یہان سےظاہر ہوتاہے کہ وہ مددگار غیر مرئی یعنی نادیدنی ہے۔ مگر محمد صاحب کو عرب کےلوگوں نے دیکھا وہ غیر مرئی نادیدنی شے نہ تھے۔ بلکہ خُدا کی رُوح یہ صفت رکھتی ہے ۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ مسیح نے شاگردوں سے کہا جب تک وہ مددگار نہ آئے تم کہ یروشلیم کے شہر سے باہر نہ جانا چاہیے چنانچہ لوقا ۲۴۔ ۴۹ اور اعمال ۱۔ ۴، ۵ میں بھی اس کا مفصل ذکر موجود ہے پس ان آیتوں کے رو سے لازم تھا کہ جب تک آنحضرت ظاہر نہ ہوئے تب تک حواری ۶ سوبرس تک یروشلیم میں زند ہ موجود رہتے حالانکہ آنحضرت سے بہت پہلے حواری فوت ہوئے۔ اس کے سوا عقلمند آدمی کے لئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اس آنے والے کا نام مسیح نے مددگار بیان کیا ہے محمد صاحب کیونکہ ہو سکتے ہیں کیا تعلیم کے اعتبار سے ہرگز نہیں پس انسان کی مددکرنا صرف رُوح القدس کا کام ہے۔ اور وہ ہر لمحہ کر رہا ہے۔ پس یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ ۸۔ پیشین گوئی اپنے لوگوں کو طاقت بخشنے کے حق میں ہے لوقا ۲۱ میں ہے کہ میں ہے کہ میں تمہیں ایسی زبان اور حکمت دُو ں گا۔ کہ تمہارا کوئی مخالف سامنا کرنے یا خلاف کہنے کا مقدور نہ رکھے گا۔ یہ بھی پورا ہوا چنانچہ رسولوں کا حال دیکھنے سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ بالکل جاہل اور بے پڑھے لوگ تھے ۔ لیکن مسیح نے ان کوایسی زبان اور حکمت عنایت کی کہ تمام جہان کے عالم ان کی تعلیم سے دنگ ہیں اور سب اولین و آخرین کے بھید اور الہٰی ر موز جو ابتداء عالم سے پوشید ہ تھے ان کے دل اور زبان پر جاری ہیں اور آج تک مسیحی لوگوں کو خد ا کی طرف سے وہ زبان اور حکمت عنایت ہوئی ہے کہ کوئی مخالف ان کا مقابلہ تحریر اور تقریر میں نہیں کر سکتا ۔ پس یہ پیشین گوئی بھی ہم اچھی طرح پوری ہوئی دیکھتے ہیں۔
۹۔ پیشین اس کی باتیں نہ ٹلنے کے حق میں ہے متی ۲۴ ۔ ۳۵ میں ہے کہ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے ۔ پر میری باتیں نہ ٹلیں گی۔ مراد یہ ہےکہ آسمان اور زمین کو بھی اس قدر پائيدار ی نصیب نہیں ہے جس قدر میری باتوں کو حاصل ہے وہ ہرگز نہ ٹلیں گی ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کی باتیں ہرگز ٹلنے والی نہیں ہیں۔ دیکھو جھوٹے مذہبوں کی باتیں کیسی ٹل گئیں اور ٹلتی جاتی ہیں لیکن مسیح کی باتیں جو حقیقت میں سچی ہیں آج تک نہیں ٹلی اور آئندہ کو ہرگز ٹلتی نظر نہیں آتیں ۔ ابتداء میں یہودیوں نےمسیح کی تعلیم کونیست و نابو د کرنا چاہا اور اپنی تمام طاقت اس میں صرف کی جس قدر وہ لوگ بربادی چاہتے تھے۔ اس سے زیادہ یہاں ترقی ہوتی جاتی تھی۔ ان کے بعد بد عتیوں اور گمراہوں نے باوجود دعویٰ عیسائیت اس کی پاک تعلیم کو چھوڑ کر اپنی گندی رسميں ماننا شروع کی مگر اُن کی مُردہ تعليم سے مسيح کی زندہ تعليم دب نہ گئی بلکہ ان کی انسانی تعلیم کو دبا کر خد ا کا زندہ کلام ایسا اُبھرا کہ ہمیشہ سے اِس وقت تک مسیحی تعلیم بے تعصب حق پرستوں کے سامنے آئینہ کی طرح موجود ہے ۔ اس کے بعد ملحدوں (کافروں )نے خُدا کے منکروں نےعقل پرستوں نے مسیحی کلام پر اپنی بڑی طاقت خرچ کی اور چاہا کہ یہ تعلیم جہاں سے اُٹھ جائے اور ان کی تعلیم جاری ہو مگر وہ خود برباد ہوئے ا ن کی کتابوں کو کیڑا کھا گیا لیکن مسیح کی باتیں اب تک قائم ہیں اس کے سو ا محمد صاحب نے مسیحی تعلیم کے برباد کرنے میں اور ہی طرح سےکوشش کی لوگوں سے کہا کہ و ہ کلام تو برحق ہے لیکن اب وہ منسوخ ہوا ا س پر عمل نہ کرو لو یہ میرا قرآن ہے اس کو مان لو محمد ی عالموں نے اپنےپیشوا کی تائید میں بڑے اگر مگر ملا کر کتابیں تصنیف کیں پر کلامِ الہٰی کو وہ لوگ ہرگز رد نہ کر سکے ان کی تمام غلطیاں ظاہر ہو گئیں چنانچہ کوئی سچائی سے تحقیق کرتا ہے اپنے خیالوں سے توبہ کر کے انجیل پر ایمان لے آتا ہے پس یہ مسیح کا قول کہ میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی کیسی درستی سے پورا ہوا اور ہوتا جاتا ہے۔
۱۰ ۔ پیشین گوئی انجیل کی منادی کے حق میں ہے متی ۲۴ ۔ ۱۴ ۔میں ہے کہ اور بادشاہت کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہو گی تا کہ سب قوموں کےلئے گواہی تب خاتمہ ہو گا۔ اگر کوئی اس وقت پر غور کرے جس وقت یہ پیشین گوئی مسیح نے سنائی تھی اور آج کے دن کو دیکھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت آسمان کی بادشاہت رائی کے دانہ کی مانند کیسی کمزور نظر آتی تھی ۔ اور اب کیسے بڑے درخت کی صورت میں جہان میں ظاہر ہوئی ہے ۔ اور کہاں سے کہاں تک اس کی منادی ہوگئی اس پيشگوئی کی اس حالت کو ديکھ کر يقين کامل ہو جاتا ہے کہ ضرور قيامت تک ساری دُنيا ميں انجيل کی منادی ہوجائے گی ۔
۱۱۔ پیشین گوئی غیرقوموں کے ایمان کے حق میں ہے متی ۸۔ ۱۱ میں ہے کہ کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آکر ابراہیم اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہت کی ضیافت میں شریک ہوں گے پر بادشاہت کے فرزند باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا۔ یہ بھی پورا ہو گیا کہ ہزار ہا آدمی پورب پچھم جنوب شمال کے رہنے والے ایمان کر مسیحی جماعت میں داخل ہو گئے اور ہزار ہا آدمی عیسائی ہوتے جاتے ہیں اور ان ایمان لانے والوں میں سے صدہا ہردم ایسے اچھے عیسائی ہو ئے ہیں کہ ہم ان سے اچھےلوگ کسی قوم کے بزرگوں میں نہیں دیکھتے اور مسیح کی یہ پیش خبری اور غیر قوموں میں سے بعض کا یہ حال دیکھ کر خد اکی ستائش کرتے ہیں۔
۱۲۔ پیشین گوئی عیسائیوں کی مصیبت کے حق میں ہے متی ۲۴۔ ۹ میں ہے کہ وہ تمہیں دُکھ میں حوالہ کریں گے اور مار ڈالیں گے اور میرے نام کے سبب سب قومیں تم سےکینہ (دُشمنی )رکھیں گی ۔ یہ بھی پورا ہوا کیونکہ دنیا داروں نے ہمیشہ سے ان لوگوں کےساتھ عداوت کی اور اب خاص اس قوم سے ہر شخص عداوت رکھتا ہے ۔ ۱۳۔ پیشین گوئی جھوٹے نبیوں کے حق میں ہے ۔ متی ۲۴۔ ۱۱ میں ہے کہ بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے اور بے دینی کےبڑھ جانے کےسبب بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی ۔ مگر جو آخر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا ۔ یہ بھی پورا ہو اور ہوتا جاتا ہے ۔ بہت سے جھوٹے معلم(استاد) ظاہر ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں اور آئندہ کو بھی شاید ہو جائیں۔
۱۴۔ پیشین گوئی یروشلیم کے حق میں ہے متی ۲۴ ۔ ۲ میں ہے کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا ۔ جو گرایا نہ جائے گا ۔ یہ بھی پورا ہوا اور یروشلیم کی بربادی مسیح کے فرمان کے موافق ہوئی اس کے سوا خُدا وند یسوع مسیح کی اور بہت سی پیشین گوئیاں ہیں خصوصاً مکاشفہ کی کتاب میں جس میں ہمارے خد اوند نے تما م احوال اپنے عہد سے قیامت تک کا لکھو ادیا ہے جس میں سے بہت کچھ ترتیب وار پورا ہو گیا ۔ اور روز بروز پورا ہوتاجاتا ہے۔ جس کےلکھنے کی گنجائش اس مختصر رسالہ میں نہیں ہے ان سب کو چھوڑ کر صرف اس عرض پر اکتفاء کرتے ہیں کہ ایسا صادق القول دنیا میں مسیح کےسوا کون ظاہر ہوا ضرور وہ خُدائے مجسم تھا جو سب ایمانداروں کی نجات کے واسطے آیا اس پر انجیل کے موافق ایمان لاؤ اور تعصب(مذہب کی بے جا حمايت ) کو چھوڑ کر ان باتوں پر فکر کرو جانور کی طرح بے فکر دنیا میں رہنا اچھا نہیں آخر ایک دن عدالت کا مقرر ہے خد ا سے ڈرو اور اس کے اکلوتے پیارے بیٹے کو قبول کرو اور اس کے شکر گزار بنو جس نےاپنا بیٹا تمہیں بخش دیا تا کہ ہمیشہ کی زندگی اس کے وسیلہ سے حاصل کرو آیندہ مختار ہو ۔ ( وما علی الرسول الا البلاغ )۔
رسالہ ہفتم
مسیح کی تقر یر کا غلبہ
گذشتہ تین رسالوں میں دین ِعیسوی کی حقیقت پر ایسی تین کا مل دلیلیں مذکور ہوئیں کہ ایک دیانتدار شخص کے لئے کافی سے زیادہ ہیں اور حقیقت یہ کہ اس قسم کے کامل دلائل کوئی اہل ِمذہب سوائے عیسائیوں کے اپنے مذہب پر پیش نہیں کر سکتا تاہم ہم بہت سی اور دلیلیوں میں سے ایک اور دلیل بیان کر کے اس بحث کو چار دلیلیوں پر ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ دیگر مضامین کو بہت جلد ناظرین کی خدمت میں پیش کر سکیں
۔ چوتھی دلیل عیسائی مذہب کی حقیقت پر یہ ہے کہ خُداوند یسوع مسیح کی تقریر میں ایسا زور اور ایسی طاقت اور کشش تھی جس کی مثل دنیا کے اور مقرروں اور ہادیوں(رہنماؤں ) کی تقریر میں نہیں مل سکتی ہے یعنی اس کی تعلیم ہر تعلیم پر غالب آتی ہے ۔ اس کی تفصیل اور کیفیت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کوئی شخص کلامِ الہٰی کو اوّل سے آخر تک اس کے واقفوں سے اور اس کی معتبر(قابلِ اعتبار) تفسیروں سے دریافت کر کے غور سے پڑھے ان مختصر رسالوں میں اس کی کیفیت کا کماحقہ(جيسا اس کا حق ہے ) بیان کرنا دشوار ہے ہاں متی رسول کی انجیل کی تفیسر میں جو لکھی جا رہی ہے اس کے متعلق قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ۔ یہاں پر صرف اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ مسیح کی تعلیم میں کئی قسم کی خوبیاں ہیں جس کو ہر شخص بشرطیکہ سلیم العقل (عقل مند )اور بے تعصب ہو قبول کر سکتا ہے پہلی بات وہ اپنی تعلیم میں اپنے ان مخالفوں پر جو اس وقت اس کا مقابلہ کرتے تھے۔ بڑی قوی(مضبوط ) دلیلوں سے غالب آیا ۔ اس کی توضیح (وضاحت )یوں ہے کہ دنیا میں جتنے رہبر خواہ جھوٹے یا سچے ظاہر ہوئے ہیں ان کے عہد میں ان کے مخالف اور ان کے رد کرنے والے ان سے مقابلہ اور بحث کرنے کو اُٹھے ہیں اور ان سے حقیقت کی دلیلیں بھی طلب کی ہیں اور ان پر اعتراض کر کے ان کو رد کرنا چاہا اور یہ بات طالبان ِحق کے لئے نہایت مفید ثابت ہوئی ہے۔ جس سے صحیح عقل اچھا نتیجہ نکالتی ہے۔مثلاً جب محمدصاحب ظاہر ہوئے اور دعویٰ نبوت کا کیا تو ان کے مقابلہ پر عرب کے بُت پرست اور بعض جاہل یہودی اور بدعتی عیسائی اُٹھے اور محمد صاحب سے بحث کی جس کا ذکر کہیں کہیں قرآن میں بھی ملتا ہے اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب عرب کےُبت پرستوں پر بحث میں کبھی کبھی غالب بھی آتے تھے۔ لیکن معجزہ نہ ہونے کے سبب غلبہ کا کمال ان پر بھی ظاہر نہ ہو سکا حالانکہ بُت پرستی ایسی باطل ہے کہ ہر شخص جو اس کو رد کرنا چاہے بآسانی اس کو باطل کہہ سکتا ہے مگر یہود اور عیسائیوں پر باوجو سلطنت اور اقتدار کے آپ کبھی غالب نہ آ سکے۔ ( سورہ الحجر کے پہلے رکوع میں ہے ۔ کہ قالوایا ایتھا الذی نزل علیہ الذکر انک مجنون لو ماتا تنا بالملکتہ ان کنت من الصا دقین ۔ لوگ کہتے اے شخص جس پر قرآن اُترا ہے تو بے شک دیوانہ ہے کیوں نہیں آتا ہمارے پاس فرشتوں کو اگر تو سچا ہے اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ۔ ماننزل المحکتہ الا بالحق وما کا نو منظرین انا نحن لا لنا الذکرو انا لا حافظوں ) ۔
ہم نہیں بھیجے فرشتے مگر کام پھراکر اور اس وقت فرصت نہ ملے گی ہم نے آپ قرآن اُتار ہے اور ہم اس کے نگہبان ہیں ۔ ظاہر کہ اس اعتراض کا جواب ایسا ہے کہ ايک جھوٹا شخص بھی جواب دے سکتا ہے اس سے معترض کا منہ بند نہيں ہو سکتا ۔ متی ۱۲ : ۲۴۔۲۶ سے ظاہر ہے کہ جب يہوديوں نے مسيح کے معجزات پر اعتراض کیا کہ جو کچھ تو کرتا ہے بعلز بول(بد رُوحوں کے سردار ) کے ذریعہ سے کرتا ہے تو مسیح نے ان کو ایسا دنداں شکن(منہ توڑ ) جواب دیا کہ وہ بالکل خاموش ہو گئے وہ جواب یہ کہ جس کی بادشاہت میں پھوٹ پڑتی ہے وہ و يران ہو جاتی ہے ۔اور جس کسی شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا ۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکا لا تو اپنا مخالف آپ ہو گیا پھر اس کی بادشاہت کیو نکر قائم رہے گی ۔ دیکھو یہ کیسا معقول جواب ہے جس کو ہر منصف شخص فوراً قبول کرے گا۔ دوسراجواب مسیح نے یہ دیا کہ اگر میں بعلزبول کی مدد سے دیووں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں اس لئے وہ ہی تمہارے منصف ہو ں گے ۔ تیسرا یہ جواب دیا کہ زور آور کا گھر لوٹنے کو کوئی بڑا اور چاہئے تا کہ پہلے زور آور کو وہ باندھے پھر اس کا گھر لوٹے پس شیطان جو ایسا زور آور ہے کہ کوئی آدمی اس پر فتح یاب نہیں ہو سکتا وہ بغير الہٰی طاقت کے کیو نکر مغلوب ہے کہ کوئی آدمی اس پر فتح یاب نہیں ہو سکتا وہ بغير الہٰی طاقت کے کیونکر مغلوب ہو گا اور تم دیکھتے ہو کہ میں شیطان پر غالب ہوں پس ضرور میں خُدائی طاقت سے کام کر تا ہوں۔ ( سور ۃ انبیاء کے پہلے رکوع میں ہے۔ قالو اضغاف الحلام ہل افتراہ بل ھو شاعر فلیا یتہ کمادسل لا ولون) لوگ کہتے ہیں یہ قرآن کے جھوٹے خواب خیال ہیں اور محمد شاعر ہے اس نے یہ باتیں بنائی ہیں اگر چاہے تو اگلے پیغمبروں کی مانند کوئی نشانی لائے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا (ماامت تبتہم من قریتہ اھلکنا ھا افہم یومنون ) ۔ ان سے پہلے بھی کسی بستی نے نہیں مانا جن کوہم نے مارا پس یہ کیاماننے والے ہیں ۔ یہ ایسا جواب ہے کہ ہر جھوٹا مدعی نبوت(نبوت کا دعویٰ کرنے والا) بھی یہ جو اب دے سکتا ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے۔ کہ اگر محمد صاحب نے کوئی معجزہ دکھلا یا ہوتا تو وہ لوگ ایسا اعتراض نہ کرتے اور نہ محمد صاحب ایسا سست جواب دیتے ان کے سوال سے تین باتیں ظاہر ہیں اول یہ کہ قرآن کے مضامین ان کے سامنے جھوٹے خواب خیال کی طرح ہیں چنانچہ اب بھی کوئی عقل مند شخص ان مضامین کو جو صرف قرآن کے ہیں عمدہ نہیں کہہ سکتا ہے البتہ کتبِ مقدسہ سے جتنے مضامین کو جو صرف قرآن کے ہیں عمدہ نہیں کہہ سکتا ہے البتہ کتب ِمقدسہ سے جتنے مضامین ماخوذ (اخذ) ہیں وہ بلا شک نہایت اچھے ہیں ۔ انجیل کے مضامین کی برتری کی نسبت خود یہودیوں نے جومسیح کے جانی دشمن تھے گواہی دی ہے جس کا ذکر متی ۱۳، ۵۴ میں ہے کہ اپنے وطن میں آ کر ان کے عبادت خانے میں انہیں ایسی تعلیم دینے لگا کہ وہ حیران ہو کر بولے کہ اس کو یہ حکمت اور معجزے کہاں سے مل گئے اور آج تک کسی آدمی نے انجیل سے بہتر کوئی تعلیم نہیں دکھلائی ۔ دوم یہ کہ محمدی لوگ قرآن کی عبارت معجزہ جانتے ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ عرب کو اس معجزے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ سب لوگ فصیح (خوش بيان )تھے مگر اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس عبارت آرائی اور فصاحت(خوش بيانی ) سے محمد صاحب کو شاعر کہا یا نبی انہوں نے اس کو معجزہ بھی نہ جانا اور قرآن سے کہیں ثابت نہیں ہو تا کہ اہل ِعرب نے اس فصاحت سےتعجب کر کے ان کو نبی جانا ہو برخلاف اس کے وہ اس کی فصاحت ِلفظی کی لفظی ہنسی اُڑا کر ان کو شاعر بتلا تے تھے۔ سوم یہ کہ اہلِ عرب ان سے کہتے تھے۔ کہ اگر تو بنی ہے تو اگلے نبیوں کی مانند کوئی نشانی دکھلا اس سے ظاہر ہے کہ کوئی نشانی ان کے پاس نہ تھی۔ اور آنحضرت کا جواب ایسا ضعیف(کمزور ) ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے ایک بات کو بھی ردنہیں کر سکتا نہ کوئی معقول عذر پیش کرتا ہے۔ سورہ بقر کے ۲۳ رکوع میں ہے ۔ ( یسلونک عن الا ھلہ ) نئے چاندہ کا حال تجھ سے پوچھتے ہیں لوگ اے محمد جلا لین میں ہے کہ سوال یہ تھا ۔ کہ کیا سبب ہے کہ چاند چھوٹا نکلتا ہے اور بڑھتے بڑھتے بڑا ہو جاتا ہے۔ پھر گھٹ جاتا ہے سور ج کی مانند ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا ہے؟ یہ ایک علمی اور معقول سوال تھا اب جواب ملا حظہ ہو ( قل ھی مواقیت الناس والحج ) کہہ دے یہ وقت ٹھہرے ہیں لوگوں کے لئے اور حج کےاس کو کہتے ہیں سوال از آسمان جواب از ریسیان ۔ یہ جواب بعینہ ایسا ہے کہ کسی ہندو کےجواب میں کہا جائے کہ سڑکیں بنی ہیں گنگا نہانے والوں کے واسطے سورہ ذاریات میں ہے ۔ ( یشلوند ایان یوم الدین ) لوگ پوچھتے ہیں انصا ف کا دن کب آئے گا جواب یہ دیا گیا (( یوم ہم علی النگر یقفون )۔ جس دن آگ میں ڈالے جائیں گے یہ سوال مسیح سے بھی کیا گیا تھا کہ قیامت کب آئے گی مسیح نے ایسا معقول جواب دیا جس سے لوگ ساکت ( چُپ۔ دم بخود)ہوگئے اور کہ اس دن کی بابت کوئی نہیں جانتا بلکہ فرشتے بھی نہیں جانتے مگر تو بھی اس نے اس کی ایسی علامتيں بتلائیں کہ واضح ہو گیا چنانچہ سب سے بڑی علامت يہ بتلائی کہ جب انجیل کی منادی زمین کی انتہا تک ہو جائے اس وقت قیامت ہو گی یہ ایک ایسا جواب ہے جو قیامت کا یقین اور اس کے قریب و بعد کا حال نہایت تسلی کے ساتھ دلو ں پر نقش کر دیتا ہے اس لئے اس سوال کے جواب میں مسیح غالب اور محمد صاحب مغلوب (ہارا ہوا) اسی طرح قرآن میں بہت سے سوال وجواب مذکور ہیں کہیں عورتوں کی بابت کہیں یتیمو ں کی بابت کہیں حیض کی بابت ۔ کہیں خیرات کی بابت کہیں شراب اور قمار بازی (جُوا بازی)کی بابت اور کہیں وراثت کی بابت مگر ان کے جواب یا تو ایسے ہیں کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی دے سکتا ہے۔ یا مہمل(نکما۔بے کار) ہیں۔ کوئی جواب ان کا طاقت غيبی ظاہر نہیں کرتا ۔ برخلاف مسیح کے جو اپنے معترضوں پر اپنے جوابوں میں نہ صرف عقلی غلبہ بلکہ عقل سے با لا غيبی الہٰی غلبہ ظاہر کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ جب ظاہر ہوئے باوجود یکہ ان کا دعویٰ نہ صرف نبوت و رسالت کا تھا بلکہ یہ تھا کہ میں خد ا کا بیٹا ہوں انسان اور خُدا دونوں ہوں ۔اولین اور آخر ین کا میں نجات دہندہ ہوں ۔قیامت اور زندگی میں ہی ہوں ۔ میں جہان کا نور ہوں۔ بغیر میرے وسیلہ کوئی خُدا سے میل(ملنا) نہیں کر سکتا ۔ کرسکتا میں زندگی کی روٹی ہوں جو آسمان سے اُتری ہے۔ اور مخالف ا س کے نہ صرف بُت پرست اور جنگی آدمی تھے بلکہ بڑے بڑے یہودی فاضل عالم اور فقیہ اور محدث (فقيہ)معلم اُستاد اور مشائح کبار(علما ۔بزرگ ) تھے۔ اور بیان اس کا یہ تھا کہ یہ کلام الہٰی جو تمہارے ہاتھ میں ہے اسی کو تم نہیں سمجھتے یہ سب بیانات میرے حق میں ہیں اور وہ لوگ اس سے بحث کرنے کو اُٹھے لیکن وہ ان پر ایسا غالب آیا کہ حقیقت میں سب مغلوب ہو گئے اگرچہ بعض نے شرارت سے نہ مانا تو بھی اس کے مباحثہ سے ظاہر ہےکہ حقیقت میں اس کے نہ ماننے والے متعصب(تنگ نظر) اور پاجی (ذليل ۔بدمعاش)تھے ۔ جس قدر عقلی مباحثے اس جہان میں ہوئے ہیں ان کے غالبی اور مغلوبی میں ہمیشہ متاخرین (پيچھے آنے والے)کو سُقم (خرابی ۔دکھ) معلوم ہوتے ہیں لیکن مسیحی غلبہ جو صرف قدرت الہٰی سے نمودار ہوا ہے ۔ وہ ہمیشہ اپنے مخالفوں پر غالب رہا ہے مسیح کا یہ دعویٰ سن کر کہ میں خُدا کا بیٹا ہوں علماء یہود سخت ناراض تھے۔ اور آج تک دنیاوی لوگ جو خُدا کی قدرت سے ناواقف اور کلامِ الہٰی سے بے خبرہیں اس دعویٰ سے کہ مسیح خد اکا بیٹا ہے۔ نہایت خفا ہوتے ہیں پر اس نے اپنے دعویٰ کو جو نجات کی بنیاد ہے بہت ہی اچھی طرح ثابت کر دیا۔
اوّل قدرتِ اختیاری کے ذریعہ سے دوم طبیعتِ الہٰی یا مزاجِ الہٰی کے ذریعہ سے مگر وہ دل کے اندھے ان بھیدوں کو نہ سمجھے تب اس نےان پاک نوشتوں کی رو سے جو اگلے پیغمبر وں نےالہام سے لکھوا کر انہیں دیئے تھے اپنی الوہیت کو ظاہر کر دیا ایسا کہ وہ عالم لا جواب ہو گئے اور اب تک لاجواب ہیں چنانچہ متی ۲۲۔ ۲۱ سے ۴۶ کہ اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے یہ پوچھا کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو وہ کس کا بیٹا ہے؟ انہوں نے اس سے کہا داؤد کا۔ اس نے ان سے کہا پس داؤد رُوح کی ہدایت سے کیو نکر اسے خُداوند کہتا ہے کہ خُداوند نے میرے خُدا وند سے کہا میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں ۔ اس کے اس جواب کی بابت کوئی ایک بات نہ کہہ سکا اور نہ اس دن سے کسی نے اس سے پھر سوال کرنے کی جرات کی ۔ دیکھو خُداوند یسوع نے اپنی الوہیت کے منکروں کا منہ کیسی کامل دلیل سے بند کر دیا کہ علمائے یہود کچھ نہ کہہ سکے ۔ اور نہ آج تک کچھ کہہ سکتے ہیں اور جو مطلب اس نے اس ۱۱۰ زبور کی پہلی آیت کا بیان کیا اس کے سوا کوئی اور مطلب اس آیت کا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ محمدصاحب نے قرآن میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ میری نسبت حضرت عیسیٰ نے خبردی ہے کہ میرے بعدایک نبی آئے گا اس کا نام احمد ہو گا۔ مگر اس دعویٰ کو نہ تو انہوں نے اور نہ ہی علمائے محمدیہ نے آج تک ثابت کیا اور نہ یہ مضمون انجیل شریف میں کہیں مذکور ہے پس اب ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے بیان میں سچے اور غالب ہیں اسی طرح ایک دفعہ علمائے یہود ظاہر ی شريعت سے باطنی اور رُوحانی شریعت کا مقابلہ کرنے کو اور مسیح کا امتحان لینے کو آئے یوحنا ۸۔۳ سے ۱۱ اور ایک عورت کو جوزنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی تھی لے کر اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ نے ایسوں کو سنگسار کرنےکا حکم دیا ہے۔ تو اس کی نسبت کیا حکم دیتا ہے اس نے جواب دیا جو تم میں بے گناہ ہے وہ ہی پہلے اس کے پتھر ما رے وہ لوگ دل میں قائل ہو کر چھوٹے بڑے سب کے سب چلتے بنے۔ تب حضرت مسیح نے اس عورت سے کہا جا پھر گناہ مت کر ۔ مسیح کایہ مطلب تھا کہ شریعت بے شک درست اور خُدا کی طرف سے ہے لیکن تم اس کا مطلب نہیں سمجھے ہو جس شريعت کے رو سے یہ عورت گنہگار ہوئی ہے اسی شریعت کے رو سے تم بھی گنہگار ہوئے کوئی تم میں بے گناہ نہیں ہے جب تک الہٰی کفارہ نہ ہو شریعت بچا نہیں سکتی شریعت ایک آئینہ ہے جو تمہارے منہ کی سیا ہی تمہیں دکھاتا ہے پر سیاہی کو دُور نہیں کر سکتا تم آئینہ میں اپنے منہ کی سیا ہی دیکھ کر پانی سے منہ دھو لو یعنی کفارہ کے خون کے بغیر پا ک نہیں ہو سکتے تم سب کے سب گنہگار ہو ایک گنہگار دوسرے گنہگار کو کیوں مارے بلکہ سب کے سب مار کھانے کے لائق ہیں۔ دیکھو انسانی سوال کا ضعف(کمزوری) اور الہٰی جواب کی طاقت اور اسی طرح مسیح کی ساری تعلیم میں الہٰی غلبہ ظاہر ہے ۔ جب کہ ایسے ایسے حقیقی اور صحیح مضمون جو عقل ِانسانی سے بالا ہیں اس کی تعلیم میں ملتے ہیں تو پھر محمدی شریعت کے مطالب جو ظاہر ی اور جسمانی ہیں عقل پر کیونکر غالب ہو سکتے ہیں اور ایسی زور آور باتیں جو مسیح کی تعلیم میں ہم پاتے ہیں سارے قرآن میں کہیں نہیں پاتے ہیں۔ ایک دفعہ علمائے یہود نے صلاح کہ کسی طرح مسیح کو گفتگو میں پھانس لیں۔ متی ۲۲۔ ۱۵ سے ۲۱ چنانچہ وہ ہیرودیوں کو لے کر اس کے پاس آئے اور مکاری سے کہا کہ اے اُستاد ہم جانتے ہیں کہ تو سچا ہے سچائی سے خُدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے ہمیں بتلا کہ شہنشاہ قیصر کو جزیہ دینا جائزہے یا نہیں ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ یا تو یہ کہے گا کہ جائز ہے اور یا یہ کہے گا کہ جائز نہیں ہے۔ اگر جائز کہے گا تو ہم اہل شرع میں اس کو بدنام کريں گے کہ وہ کافر کو جزیہ دینا جائز بتلاتا ہے۔ اور اگر ناجائز کہا تو عدالت میں اس کا مواخذہ (باز پُرس)کرا دیں گے ۔ کہ وہ بادشاہ روم کو محصول(ٹيکس) دینے سے منع کرتا ہے لیکن اس نے جو دل اور گُردوں کا جانچنے والا ہے اور جو تمام دینی اور دنیاوی انتظام کا الک ہے جس پر کوئی انسان نہ فرشتے غالب آسکتے ہیں یوں جواب دیا کہ اے ریا کارو مجھےکیوں آزماتے ہو جزیہ کا سکہ مجھے دکھاؤں وہ ایک دینار اس کے پاس لائے اس نے انہیں کہا یہ صورت اور یہ تحریر کس کی ہے وہ بولے قیصر کی تب اس نے کہا جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو دو انہوں نے یہ سن کر تعجب کیا اور اسے چھوڑ کر چلے گئے ۔ ایک دفعہ اس کے پاس صدوقی لوگ آئے جو قیامت کے منکر تھے انہوں نے اس کےسامنے وہ سوال کیا جس کا جواب کوئی اہلِ شرع نہ دے سکتا تھا اور جس کے جواب سے اہلِ اسلام تو نہایت ہی لاچار ہیں وہ سوال وہ ہے جس کا ذکر متی ۲۲۔ ۲۴ سے ۲۳ میں ہے انہوں نےاسے کہا کہ اسے استاد موسیٰ نے کہا ہے اگر کوئی آدمی اپنی جو رو چھوڑ کے بے اولاد مر جائے تو اس کا بھائی اس کی جو روسے شادی کر لے تا کہ اپنے متوفی (فوت ہوا)بھائی کے لئے اولاد جاری کرے ۔ اب ہمارے درمیان سات بھائی تھے۔ پہلا عورت چھوڑ کر مر گیا دوسرے نے اس کے ساتھ شادی کی دوسرا بھی مر گیاتیسرے نے شادی کی اسی طرح ساتو ں کی جو رو بن کر وہ عورت بھی مر گئی پس قیامت میں وہ کس کی جو رو ہو گی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ ان ساتوں کا استحقاق (حق)اس عورت کی نسبت یکساں ہے کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی جس سے ایک دوسرے پر ترجیح پا کر قیامت میں اس کو اپنی جو رو بنائے اور اس قباحت (دشواری )کے سبب ان کو گمان تھا کہ قیامت بھی نہ ہو گی ۔ مسیح نے ان کو یوں جواب دیا کہ قیامت میں نہ بیا ہ کرتے نہ بیاہے جاتے ہیں بلکہ آسمان پر خُدا کے فرشتوں کی مانند رہتے ہیں ۔ یہ ایسا جواب ہے جس کو عقل بھی قبول کرتی ہے کیونکہ وہ جہان تناسل جاری کرنے کا نہیں ہے جو وہاں عورت کی ضرورت ہو بلکہ وہ جگہ حقیقی آسائش اور تسبیح و تحمید کی ہے پھر مسیح نے یہ بھی کہا کہ تم خُدا کے نوشتوں سے ناواقف ہو اس لئے تم کو یہ گمان ہوا ہے کہ وہاں جو رو شوہربھی ہو ں گے۔ دیکھئے کیسا اعلیٰ جواب ہے ۔ پھر مسیح نے یہ بھی کہا کہ تم نے نوشتہ میں کیا یہ نہیں پڑھا جو خُدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ابراہام کا خُدا اضحاق کا خُدا یعقوب کا خُدا ہوں حالانکہ مدت گزری کہ ابراہام اور اضحاق اور یعقوب سو گئے ہیں اگر قیامت نہیں ہے اور رُوحیں مر کر معدوم (ختم )ہو جاتی ہیں تو یہ اسناد (ثبوت )کہ میں ابراہام وغیرہ کا خُدا ہوں باطل (جھوٹ)ہو جاتا ہے۔ اور تم توریت کو کلام اللہ مان کر اس کو باطل کرتے ہو پس تم خُدا کے کلام کو نہیں سمجھتے اس لئے قیامت کے منکر ہو۔ لوگ یہ سن کر اس کی تعلیم سےدنگ (حيران )ہوئے اور حقیقت میں دنگ ہونے کی بات تھی۔ کہ اس نے ایسے عمدہ الہٰی مضمون کا بيان کیا۔ پھر لکھا ہے کہ مسیح نے سبت کے دن کئی ایک کام کئے جس پر علمائے یہود کڑکڑائے(بُرا بھلا کہنا) اور کہنے لگے کہ یہ آدمی سبت کی عزت نہیں کرتا توریت کے حکم کو نہیں مانتا مگر مسیح نےجواب دیا کہ تم اس حکم کا مطلب نہیں سمجھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کوئی دنیاوی کام سبت میں نہیں کر سکتے مگر نیک کام جو عبادت میں شامل ہے تم کر سکتےہو۔ دوسری بات اس کی عمدہ تعلیم میں یہ ہے کہ فضائل حمیدہ (قابلِ تعريف خوبياں )یعنی توکل قناعت ۔ صبر۔ برداشت ۔ محبت خیر خواہی ۔ رضا و تسلیم وغیرہ کو جن کو سب لوگ عقلا و نقلاً اچھا جانتے ہیں ۔ اور اکثر معلموں نے ان کی تعلیم بھی دی ہے اس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کے دقایق خفیہ(چُھپے نکُتے ) اور نکات ِدقیقہ (معمولی معاملہ )اور کیفیت غیر مفہومہ صاف طور پر سمجھی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معلم اس گلشن کے ارد گرد پھرنے والے ہیں انہوں نے ان مدارج کو اچھی طرح دریافت بھی نہیں کیا اور نہ ان کی تشریح کماحقہ ان سے ہو سکی لیکن مسیح نے نہ صرف ان کی تفسیر بتلائی بلکہ عملاً دکھلا دیا اور اپنا ایسا نمونہ ظاہر کیا کہ تمام سالکین (وہ شخص جوخُدا کا قرب بھی چاہے اورشغل معاش بھی رکھتا ہو )اس کا منہ تکتے رہ گئے اہلِ تصوف(صوفی) جو ان امور میں کاملیت کا دعویٰ رکھتے ہیں مسیح کی تفسیر و تعمیل سےدریافت ہوا کہ وہ ان کو سمجھتے ہی نہیں اس نے سالکوں(سالک کی جمع) کو ان کے سلوک میں عابدوں (عبادت کرنے والے) کو ان کی عبارت میں زاہدوں کو ان کے زہد میں پرہیز گاروں کو ان کے پرہیز میں ۔ مخیروں(خيرات کرنے والو) کو ان کی خیرات میں۔ دنیا داروں کو ان کی دنیاداری میں۔ خانہ داروں کو ان کی خانہ داری میں ایسی عمدہ ہدایت کی ہے کہ سب انسانی و الہٰی واجبات و فرائض ایسے طور پر ادا ہو سکتے ہیں کہ کسی کا حق بھی تلف نہ ہو اور انسان مقبول الہٰی ہو جائے دوسروں کی تعلیم ایسی جامع اور مانع نہیں ہے تیسری بات یہ ہے کہ اس کی تعلیم جسم اور رُوح دونوں کے واسطے مفید ہے اس طرح پر کہ وہ تمام رُوحانی امراض مہلکہ کی تشریح اور دوا بتلاتا ہوا اس طرح ہدایت کرتا ہے کہ جسم بھی طبعاً بچ جائے اور غرض اصلی بھی فوت نہ ہونے پائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب(غيب کا علم ) کی تعلیم ہے جو ہر بشر کے حال سے واقف ہو کر اس کا معالجہ بتاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بیان کو پاک رُوحیں زیادہ پسند کرتی ہیں اور وہ رُوحیں بھی جو نفسانی خواہشوں میں دب کر مُردہ سی ہو گئی ہیں اس کےکلام سے درجہ بدرجہ زندگی حاصل کرتی ہیں چوتھی بات یہ ہے کہ انسان جو بدی کا خميرآدم کے سبب سے اپنے اندر رکھتا ہے اور باوجود سخت کوشش اور ایسی عمدہ تعلیم کے پھر بھی خطا اور غلطی میں گر کر سزا کا سزا وار ہو جاتا ہے اس کا تدارک(علاج) بھی اس کی تعلیم میں ایسا پایا جاتا ہے کہ کسی معلم کی تعلیم میں نظر نہیں آتا وہ یہ ہے کہ وہ ہمارا کفارہ اور گناہوں کا بدلہ بھی ہے غرض کہ ہم اس کی تعلیم کو اور اس کا دامن پکڑ کر کسی طرح ڈوب جانے کا خوف نہیں رکھتے ہیں ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اس کی تعلیم میں تمام انبیائے سابقین کا نتیجہ مضمر (چُھپا)ہے جس سے اس کی صداقت اور حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور بہت سی خصوصیتیں ہیں جو عام فہم نہیں بلکہ غور طلب ہیں جن کی گنجائش ان رسالوں میں نہیں ہے اس لئے ان سب کو انجیل کے پڑھنے پر موقوف رکھ کر ہم یوں کہتے ہیں کہ اے بھائیوں دین مسیحی ضرور خد اکی طرف سے ہے ہم آپ صاحبان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ غافل(لا پروا) نہ رہیں اور ان ساری باتوں کی تحقیق کر لیں ورنہ خُدا کی حجت(دليل) تم سب صاحبوں پر تمام ہو چکی ہے ایسا نہ ہو کہ مفت تمہاری جانیں برباد ہو جائیں ۔ پانچ باتیں ہیں جو انسان کو خُدا سے نہیں ملنے دیتیں ۔ دُنیا کی محبت ۔ بیوقوفی ۔ سستی ۔ غرور ۔ اور تعصب آؤ ہم ان گندی باتوں کو چھوڑ کر سچائی کو تلاش کریں جھوٹے مذہبوں اور باطل خیالوں کو ترک کر کے خُدا کے دین پر غور کریں۔ خُدا کرے اس رسالہ کے پڑھنے والے اور سب آدمی اپنی نجات کا فکر کر کے مذہبوں کا مقابلہ کریں اور ان باتوں پر جو اس رسالہ میں ہیں غور کر کے مقصد اصلی کو حاصل کریں مسیح کے وسیلہ سے۔
رسالہ ہشتم
موت کے بیان میں
رسالجات گذشتہ میں خُداوند عیسیٰ مسیح کے فضائل اور اس کی حقیقت پر کچھ اشارہ کیا گیا ہے۔ اب ہم اس کی عمدہ تعلیم میں سےبعض خاص مضمون بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ ناظرین بنظر انصاف دیکھیں اور غور کریں کہ یہ مضامین جن کو خُداوند یسوع مسیح نے اپنی تعلیم میں بیان فرمایا ہے اس بات پر صاف دلالت کرتے ہیں کہ ان کا معلم ضرور خُدا ئے برتر ہے اور یہ مضامن ایک ایسی خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ طالبِ حق کی رُوح ان کی صداقت پر بے تامل (بلا سوچے سمجھے)گواہی دیتی ہے ۔ لیکن وہ شخص جس نے دین ِمحمدی یادین ِ ہنود وغیرہ کو غور سے دیکھا ہو اور ان کے دقایق و نکات(پچيدہ نکات) میں بخوبی غور کی ہو اور دینیات میں فکر کر کے تجربہ کا ر ہو گیا ہو ان مضامین مذکورہ بائبل کی بلندی اور پاکیزگی کا حال جلد دریافت کر کےلطف اُٹھا سکتا ہے۔ ناظرین کے لئے بطور نمونہ چند مضمون کلامِ الہٰی کے دینِ محمدی سےمقابلہ کر کے دکھلانا چاہتا ہوں۔
پہلا مضمون
موت کے بیان میں
ہر ایک آدمی جانتا ہے کہ ضرور ایک روز موت آنے والی ہے اور اس کے بعد کا احوال عقل سے کوئی دریافت نہیں کر سکتا کہ کیا ہو گا اور اس میں تو شک نہیں ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا عذاب یا ثواب یا کچھ نہیں مگر عقل انسانی ان تینوں شقوں(حصّوں) میں سے کسی ایک شق ( حصّہ)پر کامل گواہی نہیں دے سکتی البتہ مذہب کی کتابوں میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے اور اپنے اپنے گمان میں ہر ایک آدمی نے موت کے تدارک(علاج) کے واسطے کسی نہ کسی مذہب کو اختیار کیا ہے تاکہ انجام بخیر ہو جائے۔ ہم عیسائی لوگ تمام اہلِ مذہب کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہم سب لوگوں کی نیت بخیر ہے اس بات سے غرض نہیں کہ کس مذہب اور کس آدمی اور کون سی باتوں کے وسیلہ سے ہمارا انجام بخیر ہو سکتا ہے۔ مقصد یہ ے کہ انجام بخیر ہو تو اب آؤ ہم سب کے سب بہت پیاراور الفت سے اپنے اپنے خیالوں کا مقابلہ کریں اور سب مل کر سوچیں کہ کون سے وسائل انجام بخیر کر سکتے ہیں اور کون کون خیال درست اور واجب معلوم ہوتے ہیں۔ اگر سب کے سب بلا طرف داری مقصودِ اصلی کو نظر کے سامنے رکھ کر یہ کام کریں تو ضرور ہے کہ ہدایت پائیں دُنیا کے لوگ تحقیقات کے وقت مقصود ِ اصلی کو چھوڑ کر اور غیر مقصود کو پیش نظر کر کے گمراہی کے گرداب (پانی کا چکر ،بھنور)میں جا پڑتے ہیں۔
موت کا بیان جو محمد صاحب نے کیا ہے ہم اس کو قاضی ثناء اللہ صاحب مرحوم کی کتاب تذکرۃ الموتی سے نقل کرتے ہیں جو مسلمانوں میں ایک معتبر(قابل، اعتبار) کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے ۔ احمد نے مجاہد سے روایت کی کہ جب خُدا نے آدم کو پیدا کیا تو کہا ابن الخراب دولد الموت آباد ہو خراب ہونے کے واسطے بچے جن موت کے واسطے یہ بالکل غلط ہے کیونکہ خُدا کسی آدمی کی موت نہیں چاہتا کیونکہ وہ عادل اور منصف ہے نہ اس نے آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ مر جائے بلکہ آدم آپ خطا کار ہو کے موت کا سزا وار ہوا۔
یہ حدیث کا مضمون کلام الہٰی کے برخلاف ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب گور (قبر)میں دفن کیا جاتا ہے۔ تو زمین چار طرف سےسرک کر اسے خوب زور سے دباتی ہے۔ اور اسے دُکھ دیتی ہے جس کو ضفطہ کہتے ہیں ۔ سعد بن معاذ کو جو بڑا مسلمان تھا اور زینب ورقہ اور محمد صاحب کی لڑکیوں کو زمین نے دُ کھ دیا تھا ۔ کیونکہ ہر مومن و کافر کو یہ عذاب ہوتا ہے یہ بیان بھی غلط ہے۔ کیونکہ جو لوگ آگ میں جلائے جاتے ہیں یا ڈوب مرتے ہیں یا جن کو شیر کھا جاتا ہے ان کی نسبت یہ بیان صریح غلط ہے۔ عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ محمد صاحب نے کہا جب آدمی قبر میں جاتا ہے تو اس کے اعمال بشکل انسان آکر اس سے ملا قات کرتے ہیں اور قبر میں اس کےہمنشين ہو کر ا س کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اس سے باتیں کیا کرتےہیں میں کہتا ہوں کہ گواعمال انسان کے رُوح کے لئے مفید یا مضر ہوں لیکن یہ بیان کہ وہ آدمی بن کر قبر میں ملاقات کریں عقلاً و نقلاً ترغیب باطل(جھوٹ) ہے ابی سعید محمد صاحب سے روایت کرتا ہے کہ جب نیک آدمی دفن ہوتا ہے تو قبر کہتی ہے ۔ شاباش مرحبا خوب آیا کل تک تو مجھ پر چلا کرتا تھا آج میں تجھ پر ہوں۔ دیکھ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں۔ پھر خود بخود بڑی چوڑی ہو جاتی ہے اور بہشت کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور وہاں سے اس کو ہواآتی ہے۔
یہ حدیث کا مضمون کلام الہٰی کے برخلاف ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب گور (قبر)میں دفن کیا جاتا ہے۔ تو زمین چار طرف سےسرک کر اسے خوب زور سے دباتی ہے۔ اور اسے دُکھ دیتی ہے جس کو ضفطہ کہتے ہیں ۔ سعد بن معاذ کو جو بڑا مسلمان تھا اور زینب ورقہ اور محمد صاحب کی لڑکیوں کو زمین نے دُ کھ دیا تھا ۔ کیونکہ ہر مومن و کافر کو یہ عذاب ہوتا ہے یہ بیان بھی غلط ہے۔ کیونکہ جو لوگ آگ میں جلائے جاتے ہیں یا ڈوب مرتے ہیں یا جن کو شیر کھا جاتا ہے ان کی نسبت یہ بیان صریح غلط ہے۔ عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ محمد صاحب نے کہا جب آدمی قبر میں جاتا ہے تو اس کے اعمال بشکل انسان آکر اس سے ملا قات کرتے ہیں اور قبر میں اس کےہمنشين ہو کر ا س کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اس سے باتیں کیا کرتےہیں میں کہتا ہوں کہ گواعمال انسان کے رُوح کے لئے مفید یا مضر ہوں لیکن یہ بیان کہ وہ آدمی بن کر قبر میں ملاقات کریں عقلاً و نقلاً ترغیب باطل(جھوٹ) ہے ابی سعید محمد صاحب سے روایت کرتا ہے کہ جب نیک آدمی دفن ہوتا ہے تو قبر کہتی ہے ۔ شاباش مرحبا خوب آیا کل تک تو مجھ پر چلا کرتا تھا آج میں تجھ پر ہوں۔ دیکھ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں۔ پھر خود بخود بڑی چوڑی ہو جاتی ہے اور بہشت کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور وہاں سے اس کو ہواآتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جب ایک شخص کو دفن کر کے چلے جاتے ہیں۔ تو ایک شخص قبر پر اکیلا باقی رہ جاتا ہے تا کہ چند بار اذان دینے سے شخص مدفون کی مدد کرے ۔ بھلا کون عقل مندان باتوں کو باور (يقين ۔اعتماد)کر سکتا ہے۔ عمارہ بن حرم کہتا ہے کہ محمد صاحب نے فرمایا کہ قبر سے نیچے اُتر کیونکہ مُردے کو تکلیف ہوتی ہے بعض حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مقبروں میں بول و برازنہ کرنا چاہیے کیونکہ مردے تکلیف پاتے ہیں۔ ایسی ایسی صدہا باتیں ہیں جو محمد صاحب کی تعلیم سے اہل اسلام میں جاری ہيں ۔لیکن ان پر غو ر کر نے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ محمد صاحب نے لوگوں کو جسمانی موت کے باطل خوف سے ڈرایا ہے۔ اگر وہ موت کی کیفیت سے واقف ہوتے تو ایسے مضمون جو صریح باطل(صاف جھوٹ) ہیں۔ جن کو ہرگز کوئی دانا آدمی قبول نہیں کر سکتا بیان نہ کرتے ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس شخص نے ایسے ایسے غلط مضمون اپنی اُمت کو سکھائے ضرور اس نے اور مضمون بھی جو بائبل کے برخلاف سکھلائے ہیں صحیح نہ ہوں گے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ کلام الہٰی موت کا حال کیا کچھ بیان کرتا ہے۔
جسمانی موت کا بیان
پیدائش ۳۔ ۱۹ میں ہے تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا۔ مگر پیدائش ۲۔ ۱۷ سے ظاہر ہے کہ یہ موت اس گناہ کا نتیجہ ہے جو آدم سے سرزد ہوا ۔یہ موت ہر آدمی پر اسی آدم کی غلطی کے باعث وارد ہو گئی ہے۔ واعظ ۸۔۸ میں ہے کسی آدمی کو رُو ح پر اقتدار نہیں کہ اسے پکڑ رکھے اور مرنےکے دن اس کا کچھ بس نہیں۔ یہ موت خُدا کے حکم اور قبضہ قدرت میں ہے۔ استثنا ۲۲۔۲۹ میں ہے کہ میں ہی مارتا ہوں اور میں ہی جلا تا (زندہ کرنا)ہوں۔ جب یہ موت آتی ہے تو تمام دُنیاوی منصوبے باطل ہو جاتے ہیں واعظ ۹۔ ۱۰ میں ہے کہ جو کام تیر اہاتھ کرنے پائے اسی کو اپنے مقدور بھر کر کیونکہ وہا ں گور میں جہاں تو جاتا ہے نہ کام نہ منصوبہ نہ آگاہی نہ حکمت ہے۔ ایوب ۱۔۲۱ میں ہے کہ اپنی ماں کے پیٹ سے میں ننگا نکل آیا اور پھر ننگا وہاں جاؤں گا۔ خُداوند نے دیا اور خُدا وند نے لیا خُدا کا نام مبارک ہو ۔ یہ موت سب کو برابر کر دیتی ہے۔
ایوب ۳۔۱۹ میں ہے کہ چھوٹے بڑے وہاں ایک ساتھ ہیں اور غلام اپنے آقا سے آزاد ہے ایک دن ایسا آئے گا ۔ کہ اس موت سے سب کے سب مخلصی پائیں گے۔ اور پھر کبھی اس موت سے نہ مریں گے۔ اگرچہ بعض کے لئے ایک موت تیار لیکن یہ اعمال ۲۴۔ ۱۵ میں ہے کہ اور خُدا ہے اسی بات کی امید رکھتا ہوں جس کے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہو گی ۔اور اس موت سے ہم جب مخلصی پائیں گے۔ تو پھرکبھی نہ مریں گے ۔ لو قا ۲۰ ۔ ۳۶ میں ہے ۔ کیونکہ وہ پھر مرنے کےبھی نہیں اس لئے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے ۔ اور قیامت کےفرزند ہو کر خُد اکے بھی فرزند ہوں گے۔ اس جسمانی موت کو بھی خُداوند یسوع مسیح نے مغلوب (ہراياسس)کر کے دکھلایا۔ کیونکہ وہ مُردوں میں جی اُٹھا اور موت کے قبضہ میں نہ رہا اور آخر الامر ہمیں بھی وہی اس کے پنجہ سے مخلصی دے گا ۔
ہو سیع ۱۳ ۔ ۱۴ میں ہے کہ پاتال کے قابو سے فدیہ میں لوُں گا ۔ میں انہیں موت سے چھڑاؤں گا ۔ اے موت تیری مری کہاں ہے اے پاتال تیری ہلاکت کہاں۔ ان پاک بیانوں سے یہ بات ظاہر ہے ۔کہ یہ جسمانی موت جس کا آنا ضروری ہے کچھ خو ف اور اندیشہ کی موت نہیں کیونکہ یہ ایک طرح کا انتقال مکان ہے ۔اگرچہ اس کے باعث ہم بدن کو چھوڑ کر ایک پردے میں ہو جاتے ہیں تو بھی خواہ ہم بھلے ہوں یا بُر ے اس کے نیچے سے ضرور مخلصی(رہائی) پا کر اُٹھ کھڑے ہو ں گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان بیانوں میں نہ جھوٹی ترغیب(آمادہ کرنا۔لالچ دلانا) ہے نہ بناوٹ نہ مبالغہ(بڑھا چڑھا کر بيان کرنا) بلکہ واقعی امر ہے ۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ اس موت کو یاد کر کے اپنے فرائض اور واجبات کو ادا کر کے کوچ (روانگی)کے منتظر رہیں۔ خُداوند عیسیٰ مسیح جو موت پر غالب آیا ہے۔ اس کے وسیلہ سے بعض آدمی اس موت سے بھی مخلصی پائیں گے ۔یعنی اس کو بھی نہ دیکھیں گے ۔ یعنی وہ لوگ کہ جن کے زمانے میں وہ آسمان سے آ جائے گا ۔صرف ان کے جسم تبدیل ہو جائیں گے ۔ کیونکہ فانی اور گنہگار جسم کا برباد ہونا ضرور ہے۔ اس لئے یہ تبدیلی بھی ایک طرح کا انتقال ہے اور اسی انتقال(ايک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا) کا نام جسمانی موت ہے۔ یہ جواب ہے ان لوگوں کے لئے جو کہتے ہیں کہ الیاس (ايلياہ)اور حنوک کیوں نہ مرے اور کیوں وہ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے۔
پس جاننا چاہیے کہ وہ لوگ اگرچہ موت متعارفہ(ظاہری موت) سے بچ گئے پر تبدیل جسم ان کے لئے بھی ضرور ہے۔ کیونکہ ناپاک اور خاکی جسم خُدا کے سامنے کھڑا ہونے کے لائق نہیں ہے ۔یسعیاہ ۶:۵ میں لکھا ہے کہ تب میں بول اُٹھا کہ ہائے(افسوس) مجھ پر میں تو برباد ہوا کہ میں ناپاک ہونٹ والا آدمی ہوں۔ اور نجس لب(ناپاک ہونٹ) لوگوں کے درمیان بستاہوں۔ کیونکہ میری آنکھوں نے رب الافواج کو دیکھا ۔ اس دم ایک اُن سرافیم (فرشتے)میں سے ایک سلگتا ہوا کوئلہ جو اس نے دست پناہ سے مذبح پر سےا ُٹھا لیا اپنے ہاتھ میں لے کے میرے پاس اُڑا ۔ اور اس نے میرے منہ کو چھوا اور کہا کہ دیکھ اس نے تیرے لبوں کو چھوا سوتیرا گناہ دفع ہوا۔ کہ مذبح کی آگ سےجو مسیح کی قربانی کا نشان ہے ۔یسعیاہ کو پاک کر کےسامنے کھڑے رہنے کے لائق بنا یا ۔
ایسے بیانوں سے ظاہر ہے کہ جب تک انسان کے گناہ دفع نہ ہوں اور جب تک وہ اپنے گناہوں کو دھو نہ ڈالے درگاہ الہٰی میں رسائی نہیں ہو سکتی۔ اب اگرچہ الیاس(ايلياہ) و حنوک نے جسمانی موت کو نہ دیکھا تو کیا ہوا موت کی غرض اور مراد پوری ہو گئی۔ جیسے کہ اب مسیح کی آمد ثانی میں ان عیسائیوں سے جوا س وقت زندہ ہو ں گے۔ موت کی مراد پوری کی جائے گی۔ یعنی موت کے سبب کو دُور کرنا یا گناہ کے زہر کو دھو ڈالنا اور جب کسی کے جسم سے گناہ دفع ہوئے تو اب وہ شخص نئے جسم میں ہے ۔پس اس نے بڑے آرام کے ساتھ انتقال مکان کیا۔ یا معناً جسمانی موت کو دیکھا یہاں سے ثابت ہے کہ ہر آدمی جسمانی مو ت کو دیکھے گا ۔ اس کا آنا ضرور ہے اور جو ضروری امر ہے اس سے ڈرنا اور ڈرانا نا دانی ہے۔ کیونکہ اس کا دفع کرنا ممکن نہیں۔ہاں ایک اور موت ہے۔ جس سے خوف کرنا نہایت ضرور ہے اور جسمانی آدمی اُس کو نہیں جانتے ہم لوگ جو عیسائی ہوجاتے ہیں۔ اور جاہلوں کی طرح طرح کی لعن طعن سہہ لیتے ہیں۔ اسی موت سے ڈر کر عیسیٰ مسیح کے پاس پنا ہ لیتے ہیں کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں۔ جو ہمیں اس بڑی مو ت سے بچائے ۔ بہت سے لوگ اس موت سے ناواقف جسمانی موت پر آہ کیا کرتے ہیں۔ اور قبروں اور جنازوں اور ویران مکانوں اور قدیم آثاروں کو دیکھ کر افسو س کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ایک دن ہمیں بھی اس جہان کو چھوڑنا ہے ان کو خیال کرنا چاہیے ۔کہ اس طرح کے افسوس جو دین محمد ی وغيرہ میں عاداتِ محمودہ(قابلِ تعريف عادتيں ) خیال کئے گئے ہیں۔
نہایت مکروہ بات ہے کیونکہ یہ جہان جس پر خُد اکی لعنت پڑی جو شیطان کا گھر ہے جس کی ہر چیز فانی اور بے وفا جس میں ہر طرح کے دُکھ ہمارے لئے تیار ہیں ۔اگر ہم اس کو چھوڑ دیں تو خوشی کی بات ہے۔ نہ افسوس کی البتہ ان کے لئے افسوس کی بات ہے جن کے دلوں میں ا س جہان کی محبت زور مار رہی ہے ۔ پس اس موت سے جو جسمانی ہے ہرگز خوف نہ کرنا چاہیے ۔بلکہ اس موت کو جو جی اُٹھنے کے بعد آنے والی ہے اور جس کا تدارک (انتظام۔درستی) بھی ممکن ہے۔کیونکہ وہ بلا جس کا دفع کرنا ممکن تھا اگر ہماری غفلت سے ہم پر آجائے تو بڑے افسوس کی بات ہے۔ خاص کر ایسی بلا جس کا انجام نہیں یعنی نا تمام ہے ۔
پس اے بھائیو۔ آؤ اور خُدا کے کلام میں اس موت کا حال اور تدارک دریافت کر کے سعی (کوشش) کریں کہ وہ موت ہم پر نہ آپڑے ۔
دُوسری موت
اس کے بہت سے نام کلام اللہ میں مندرج ہیں۔ اور شرح بیان اس کا خُدا نے اپنے کلام میں اس لئے کیا ہے کہ اس روز لوگ یوں نہ کہیں ۔ کہ ہم اس سے ناواقف تھے۔
پہلا نام ۔خُدا کے چہرے کی سزا ۔(۲تھسلنيکيوں ۱۔۹ )میں ہے کہ وہ خُداوند کے چہرے اور اس کی قدرت کے جلال سے دُور ہو کر ابدی ہلاکت کی سزا پائیں گے ۔
دوسرا نام ۔شیطانی مصاحبت(ساتھ رہنا)( متی ۲۵۔ ۴۱ ) میں ہے کہ پھر وہ بائیں طرف والوں سےکہے گا ۔ اے مومنو ۔ میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
تيسرا نام۔ آگ کی جھیل (مکاشفہ ۱۹ ۔ ۲۰ )میں ہے کہ اور وہ حیوان اور اس کے ساتھ وہ جھوٹا نبی پکڑا گیا۔ جس نے اس کے ساتھ ایسے نشان دکھائے تھے۔ جس سے اس نے حیوان کی چھاپ لینے والوں اور اس کے بت کی پرستش کرنے والوں کو گمراہ کیا تھا ۔وہ دونوں آ گ کی اس جھیل میں زندہ ڈالے گئے جو گندھک سے جلتی ہے۔ اور ۲۱ ۔ ۸ میں ہے کہ یہ دوسری موت ہے۔
چوتھا نام۔ ہمیشہ کا کیڑا (مرقس ۹۔ ۴۴ )میں ہے کہ جہاں ان کا کیڑا نہیں مرتا اور آگ نہیں بجھتی ۔
پانچواں نام ۔باہر کا اندھیرا(متی ۲۵۔ ۳۰ )میں ہے کہ اس نکمے نوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو۔
چھٹا نام ۔ہمیشہ کا اندھیرا ۔(پطرس ۲۔ ۱۷ )میں ہے کہ ان کے لئے ہمیشہ کی تاریکی کی سیاہی دھری ہے۔ قہر غضب مصیبت اور تنگی بھی اسی کا نام ہے۔( رومیوں ۲۔ ۹ )میں ہے کہ اور مصیبت اور تنگی ہر ایک بدکاری جان پر آئے گی ۔ آنے والا غضب بھی اسی کا نام ہے ۔
( ۱ تھسلنيکيوں ۱۔ ۱۰)میں ہے کہ یسوع نے جو ہمیں آنے والے غضب سے چھڑایا ہے۔
سز اکی قیامت ۔( یوحنا ۲۹ )میں ہے کہ جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے لئے نکلیں گے ۔
شرمندگی کی قیامت ۔ (دانی ايل ۱۲۔ ۲ )میں ہے کہ جا گ اُٹھیں گے بعض حیات ابدی کے لئے اور یعنی رسوائی اور ذلت ابدی کے لئے جہنم کا عذاب ۔
(متی ۲۳ ۔ ۳۳ )میں ہے کہ اے سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بچو گے ایسے ایسے بہت سے نام اس موت کے ہیں جو اُس کی صفتوں کو ظاہر کرتےہیں۔ اس امر میں محمد ی بیان بے جا ۔ تحریف (تبديلی )اور دہشت ظاہر کرتا ہے مگر کلام الہٰی اس کا حقیقی بیان کر کے نفس الامر(حقيقت) پر رہنمائی کرتا ہے۔
اب کئی امر دریا فت کے لائق ہیں۔
اوّل یہ کہ اس موت کا یقین ہمیں کیونکر ہوا کہ ضرور آنے والی ہے۔ واضح ہو کہ جب آدمی اس بات پر خیال کر ے کہ خُدا ضرور عادل اور منصف ہے۔ تو عقل چاہتی ہے کہ جو لوگ اس کی رحمت سے دور جا پڑے البتہ ان کے لئے ایسی سز ا ہونی چاہیے۔
دوسری یہ بات ہے کہ کلام الہٰی جو اپنی صداقت (سچائی)بہت باتوں میں ظاہر کر چکا ہے۔ اس لئے یہ بیان بھی اس کا ضرور سچا ہے۔ دیکھو کلام اللہ میں صدہا پیشین گوئیاں مذکور ہیں۔ جو اپنے موقع پر پوری ہو گئیں اور ہو تی جاتی ہیں۔ جس سے کلام کی معتبری(قابلِ اعتبار) ثابت ہو گئی۔ اس کے سوا جن کے ذریعہ سے وہ کلام ہمیں عنایت ہو ا ہے۔ وہ لوگ بھی اسی خالق کی قدر ت سے صاحب اعتبار ثابت ہو گئے ہیں اس لئے ضرور یہ بیان ان کے راست اور درست ہیں ۔اور یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس دوسری موت کا مقابلہ انسان کے انجام سے علاقہ رکھتا ہے اور انجام آدمی کے سوا خُدائے قادر کے کوئی نہیں جان سکتا ۔
اس کی کیفیت دریافت کر نا عقل سے باہر ہے پس اس کی تحقیق عقل سے بلکہ اسی کے کلام سے کرنی ضرور ہے ہاں عقل یہ کہتی ہے. کہ کچھ نہ کچھ انسان کا انجام ہونا چاہیے ۔ اور یہ بھی کہتی ہے کہ بدی کا انجام بد ہونا چاہیے ۔ پس جہاں تک عقل کی رسائی ہوئی وہاں تک عقل سے اور جہاں عقل لاچار ہو وہاں پر کلام الہٰی کی ہدایت سے اس موت کا یقین ہمارے دلوں میں پیدا ہوا ہے۔ دیکھو دُنیا میں ہم ہر ایک آنے والی مصیبت کا یقین معجزوں اور علاما ت سے دریافت کرتے ہیں ۔اسی طرح اس موت ِثانی کا حال ہم نے نہایت بڑے معتبر معجزوں سے جن کے برابر کوئی بھی سچا اور معتبر جہان میں ظاہر نہیں ہوا۔ سنا ہے اور اس کے آنے کی علامات بھی ہم نے عقل کی آنکھ سے ديکھی ہیں۔ اس لئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ بے شک یہ موت بدکاروں پر آئے گی ۔
دوئم یہ کہ اس کے آنے کا کیا سبب ہے کلام اللہ سے ظاہر ہے ۔کہ یہ موت گناہ کا نتیجہ ہے رومیوں ۶ ۔ ۲۳ میں ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے ۔ یعقوب ۱۔ ۱۵ میں ہے کہ خواہش حاملہ ہو کے گناہ پیدا کرتی ہے۔ اور گناہ جب انتہا تک پہنچتا ہے تو موت کو جنتا ہے۔ ہم سب آدمی موروثی گناہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آدم کی خطا(غلطی ) کے باعث سب گنہگار ہیں ۔اور گناہ اکتسابی (ذاتی محنت سے حاصل کرنا) بھی ہم میں بھرے ہوئے ہیں ۔اس لئے ہم بڑے خوف کے مقام میں ہیں ۔کیونکہ اس آئندہ موت کا سبب ہم میں موجود ہے۔ اس کے سوا یہ بات ہے کہ اگر ہم اپنے اعمال پر تکیہ کر کے اس موت سے بچنا چاہیں تو بادی النظر(سر سری نظر ) میں یہ راہ مخلصی کی دکھائی دیتی ہے۔
مگر امثال ۱۴ ۔ ۱۳ میں یوں مذکور ہے کہ ایک راہ ہے جو انسان کو سیدھی دکھلائی دیتی ہے۔ پر اس کے انتہا میں موت کی راہیں ہیں ۔ رومی ۶۔ ۲۱ میں ہے کہ پس تم نے ان کاموں سے جن سے اب شرمندہ ہو کیا پھل پایا ۔کیونکہ ان کا انجام موت ہے ۔ دیکھو بھائیو اآدمی کیسی غلطی میں پھنسے ہوئےہیں اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے خُدا کے غضب سے بچنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ہم کیسے ہی اچھے کام کریں تو بھی ہمارے ضعیف (کمزور)کا م خُد ا کے قوی (زور آور)کام کا مبادلہ و مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ یہاں سے ظاہر ہے آنے والی موت کے دو سبب ہیں گناہ اور اعمال پر بھروسہ رکھنا سو دونو ں سبب انسان ميں موجو د ہیں ۔
سوئم يہ کہ یہ موت کس کے وسیلہ اور کس کے ہاتھ سے دی جائے گی ۔ خُدا کے کلام میں لکھا ہے کہ خُداوند عیسیٰ مسیح جس کا اختیار کل آسمان و زمین پر ہے۔ جو ہرایماندار کو نجات بخشتا ہے اسی کے ہاتھ سے یہ موت گنہگار بدکاروں بے ایمانوں کو دی جائے گی ۔ متی ۲۵۔ ۳ ہے کہ جب ابن ِآدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے ۔ تو اس وقت وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ۔ آیت ۴۱ میں ہے کہ پھروہ بائیں طرف والوں سے کہے گا ۔اے ملعونو (لعنت کيا گيا۔مردود) میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ۔ جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ۲ تھسلیکنوں ۱۔ ۶ میں ہے کہ اس وقت جب کہ خُداوند یسوع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہو گا ۔اور جو خُدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خُدا وند یسوع کی خوشخبر ی کو نہیں مانتے ان سے بدلہ لے گا ۔ کہ وہ خُداوند کے چہرے سے اور اس کی قدرت کے جلال سے دُور ہو کہ ابدی ہلاکت کی سزا پائیں گے ۔
بات یہ ہے کہ ہم کیونکر اس موت سے مخلصی پائیں گے۔ اگر آدمی اس موت سے بچنا چاہے تو اس کو لازم ہے کہ خُداوند عیسیٰ مسیح پر ایمان لائے۔ بغیر اس ایمان کے کسی طرح خلاصی نہیں ہو سکتی ۔ یوحنا ۳۔ ۱۶ میں ہے کہ خُدا نے جہان کو ایسا پیا ر کیا کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا ۔ تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔ یوحنا ۴۔ ۹ میں ہے کہ خُدا کی محبت جو ہم سے ہے اس سے ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا تا کہ ہم اس کے وسیلہ سے زندگی پائیں۔ یوحنا ۱۱ : ۲۵ میں ہے کہ یسو ع نےا س سے کہا کہ قیامت اور زندگی تو میں ہوں جو مجھ پر ایمان لاتا ہے۔ گو وہ مرجائے تو بھی زندہ رہے گا ۔
اگلے رسولوں کے نوشتے اگر کوئی آدمی غو رسے پڑھے تو اسے معلوم ہو جائے گا۔ کہ یہی خُدا وند یسوع مسیح نجات دہندہ اور بھر وسے کے لائق ہے۔ اسی پر ایمان لاکر سب مقدس جنت کے وارث ہوئے ہیں۔ پس اسی پر ایمان لانا اس موت سے بچاتا ہے ۔
آیندہ رسالہ میں ایمان کا کچھ احوال ناظرین پر روشن ہو جائے گا ۔ کہ یہ ایمان کیسا قوی اور پاک حقیقی ایمان ہے۔ اور صرف یہی نجات کی جڑہے ۔اعمال حسنہ (نيک کام)اس کا ثمرہ (فائدہ)ہے نہ نجات کا سبب بلکہ باعث زینت(خوب صورتی۔سجاوٹ) ہے۔ یعنی اعمال نیک سے ہماری خوبصورتی اور خُداکی بزرگی ظاہر ہوتی ہے اگروہ مسیحی ایمان کا ثمرہ ہو ورنہ سب ہیچ (ناکارہ)ہیں ۔ موت اوّل اور موت دوم کا مختصر ذکر سننے سے کئی باتیں غور و طلب ہیں۔
اوّل يہ کہ جسمانی موت ابدی نہیں ہے اس کے انجام میں سزا یا جزا کے لئے پھر زندگی ہے۔اتنی تکلیف ہے کہ اس خاکی خیمہ کو چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن حقیقت میں تکلیف نہیں بلکہ راحت (آرام)ہے ۔کیونکہ طرح طرح کی تکالیف اور مصائب سے اس موت کے وسیلہ سے ہم رہائی پاتے ہیں۔پس دنیا کے مدرسہ سے جس میں تعلیم اور امتحان کے لئے بھیجے گئے ہیں وہی رخصت کا وقت ہے اس موت کو یاد کرکے ہمیں شوق اور چستی پیدا ہونا چاہیے ۔کہ ہم بہت جلد اس مدرسہ میں تعلیم پا کر اور فضیلت حاصل کر کے وہ نیک نامی کا سرٹيفکيٹ حا صل کریں۔ جس سے ہم اپنے حقیقی وطن میں جا کر اچھا عہدہ پائیں۔ لیکن چھٹی کے وقت کے منتظر رہیں ایسا نہ ہو کہ رخصت کا وقت آجائے اور ہم وہی جاہل کے جاہل بدنامی کی چھٹی لے کر یہاں سے نکلين۔ اور وطن میں تمام تر ٹھوکر کھاتے دُکھ اُٹھاتے پھریں۔
پس جو کوئی اس جسمانی موت میں سوائے ایسے فائدوں اور نقصان کے اور طرح کی تکالیف بیان کرے اور قبر کے بچھو سانپ وغیرہ سے ڈراے وہ معلم خُدا کے بھیدوں سے ناواقف اور خود تعلیم پانے کے لائق ہے۔ دوسری موت پر فکر کرنے سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ بے شک وہ خوف کے لائق ہے۔اس لئے کہ ابدی ہے اور اس میں انسان معدوم(نابود۔نيست کيا گيا) نہیں بلکہ موجود رہ کر برابر دُکھ میں پھنسا رہتا ہے۔ اور وہاں جا کر پھر کوئی شخص اس سے چھُوٹ نہیں سکتا ہے۔
اس کے سوا وہ ایسی موت ہے کہ اس کا تدارک (علاج)بھی ہم کر سکتے ہیں۔ اگر ہماری غفلت (غلطی۔لاپرواہی)سے وہ موت ہم پر آجائے ۔تو علاوہ اس کی تکلیف کے کتنی پشیمانی(شرمندگی) ہم کو اُٹھانی پڑے گی ۔ پھر ہم اپنی تدبیر اور ساری عقل اور ہوشیاری کو لے کر کیا خوش ہوں گے۔ دُنیاوی علم اور سارے شان وشوکت اور مال و متاع(پونجی۔اثاثہ) ،او لاد اور رشتہ دار اور دنیا کی عزت ہمارے کس کام آئیں گی ۔ ہمارا علم جہل اور ہماری عقل بیوقوفی سے تبدیل ہو جائیں گی ۔ دنیا پر فر یفتہ(فدا۔عاشق) ہو کر لڑکو ں کیسی طارگا رہے ہیں خُدا کی حکمت انہیں پکارتی ہے اور وہ نہیں سنتے نوح پیغمبر نے دنیا کے لوگوں کو بہت سمجھا یا لیکن اس ميں بدمستی(شہوت پرستی) میں اسکی نہ سنی آخر سب برباد ہوگئے ۔ لوط نے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو بدی سے کیسے منع کیا لیکن انہوں نے نہیں مانا اور تباہ ہوئے۔
یہ کیسے نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ابتدائے دُنیا سے اس موت کا چر چہ رسولوں نے دُنیا میں کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک دن آجائے گی کیاہم اس کا بندو بست بہت جلد اسی جہان میں نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے ۔کہ جیتے جی جس کی تسلی اس جہان میں اس موت سے نہیں ہوئی اس کا انجام ہرگزبھلا نہ ہو گا سب جھوٹے مذہب والوں کی رُوح یا تو فریب کھا کر یا صرف اس اُمید سے کہ شائد بخشا جاؤں گا ۔ بے تسلی اس جہان سے نکل جاتی ہے۔ ہمارا خُداوند یسوع مسیح اور مرشدوں کے مانند صرف جھوٹی تسلی نہیں دیتا ہے۔ بلکہ سچی اور آسمانی تسلی جسں کی کیفیت ہم بیان نہیں کر سکتے رُوح کو عنایت (عطا کرنا ۔بخشنا)فرماتا ہے ۔
ہاں اس کی بابت اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاک آرام اور وہ حقیقی خوشی خاص مناسبت سے ایک پاک رُوح کو دے کر رحمت الہٰی کے سایہ میں کر دیتا ہے ۔ اس وقت خوف اور تردد(سوچ۔فکر) غم اور سستی رُوح سے یک لخت دُور ہو جاتی ہیں ۔ اور رُوح دیکھتی ہے کہ پہلے میں کسی بوجھ کے تلے دبی ہوئی تھی ۔ اور مرد ہ پڑی تھی۔ لیکن اب زندہ اور بحال ہو کر حقیقی حمایتی کے ساتھ راحت کی سواری ميں اُڑتی ہوئی آسمان کی طرف چلی جاتی ہوں ۔اور اپنے حمایتی کی دستگیری(مدد۔حمايت) سے میدان میں کود کر مشکلات کے پہاڑوں کو ہنستی ہوئی ٹھوکر سے اُڑاتی ہے اگر چہ محالفوں کے محاصرہ میں آپ کو دیکھتی ہے پر نہیں گھبراتی بلکہ بڑی بھاری فتح کی اُمید میں شکر گذاری اور ستائش کے مضمون دعاؤں میں لپیٹے ہوئے آسمان کو اُڑاتی ہے اور جب پیچھے مُڑ کہ دیکھتی ہے کہ مسیح مجھے کہاں سے نکال لا یا تو اپنی پہلی حالت کو دیکھ کر کانپ اُٹھتی ہےپس اے میرے بھائیو ہم تمہیں بھی اطلاع دیتے ہیں کہ خُدا وند عیسیٰ مسیح کے پاس جینے آؤ تمہیں اس ہمیشہ کی موت سے کامل مخلصی عنایت کرتا ہے آیندہ تمہیں اختیار ہے فقط ۔
رسالہ نہم
ایمان کے بیان میں
گذشتہ رسائل میں خُداوند یسوع مسیح کا کچھ حال بیان ہوں اور اس بات کا بھی ذکر ہو ا کہ یسوع مسیح پر جب تک کوئی شخص ایمان نہ لائے۔اس وقت تک ہرگز نجات نہیں پا سکتا ہے۔ اب اس امر کا ذکر ضرور ہے کہ ایمان کیا چیز ہے اور کیو نکر ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ خُدا اور انسان کے درمیان صلح کا باعث ہے ۔یعنی بغیر ایمان کے خُدا کے ساتھ صلح نہیں ہو سکتی اس کی توضیح(واضح کرنا) یوں ہے کہ جس شخص میں ايمان نہیں وہ بے شک خُدا کا دشمن اور اس کے قہر کا ماتحت (نيچے)ہے۔ کیونکہ عد م ایمان عین مخالفت ہے اور گویا خُدا کی خُدائی اور اس کا بندہ ہونے کا صریح(صاف) انکار ہے۔ اور جو شخص اپنی عبودیت(عبادت) اور اس کی الوہیت(خُدائی ) کا منکر ہے ۔ خواہ عمداً خواہ جہالتہً کسی صورت سے ہو وہ ہرطرح خُدا کا مخالف اور دشمن ہے۔
اس کے سوا آدم اوّل کی خطا کے سبب ہر انسان خُدا کے غضب کے ماتحت ہے ۔جس کا ذکر ہو چکا اس لئے ضرور ہے کہ ہم کسی طرح اپنے خالق و مالک سے میل اور صلح پیدا کر لیں۔ کیونکہ یہ بات بغیر ایمان کے دوسری چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔اس لئے ایمان کی تلاش ہر فرد بشر پر واجب اور لازم ہے۔ ایمان کے عام معنی یہ ہیں کہ کسی خاص مضمون یا خاص عقیدے کا دل میں یقین اور زبان ميں اقرار کرنا ۔مگر ایمان حقیقی کے یہ معنی نہیں ہیں اس کے کچھ اور ہی معنی ہیں جو ذیل میں آئے ہیں۔ ایمان کے عام معنی کے رو سے اس جہان میں دیکھو۔ کہ کس قدر علیٰحد ہ علیٰحدہ ایما ن ہیں جومروّج (رواج)ہو رہے ہیں ۔چنانچہ ہندوؤں کا ایک جُدا ایما ن ہے جس کا ایک بڑ ا حصہ اس وقت یہ بھی ہے کہ غیر اقوام کے ہاتھ سے نہ کھانا اور اپنی ذات کی حفاظت زیادہ تر کر نا مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ کہ محمد صاحب کی نبو ت کا یقین اور اقرار کرنا اور خُدا کو واحد جاننا۔
اسی طرح ہر ایک مذہب کا جُدا جُدا ایمان ہے اور اہل عقل کے صدہا قسم کے عقائد مختلف گو یا ان کے مختلف ایمان ہیں ۔ ان کے سوا بعض لوگ اس ملک میں ایسے ہی ہیں کہ کچھ تو علم کی روشنی کےسبب سے اور دین ہنود اور دین اسلام کے بے بنیاد ہونے کے باعث اپنے اپنے دین سے ناراض ہیں۔ لیکن عیسائی مذہب کو تو شرم کے مارے یا دُنیاوی تکالیف کے باعث قبول کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔ یا اس لئے کہ مذہب عیسویٰ پر بھی ان کے کچھ اعتراضات ہیں اور تندہی سے اس کا تصفیہ (فيصلہ۔صلح ) نہیں کر سکتے ہیں ۔اور اپنے ذہن میں دبائے بیٹھے ہیں ایسے لوگوں نے بھی جُدا جُدا خیالات پیدا کر کے ان کو اپنا اپنا ایمان قرار دے لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان طرح طرح ایمان اور عقائد کو دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے۔ لازم یہ ہے کہ ان تمام مروّجہ عقائد کی چھان بين کر ے۔ اور جو ایمان باعثِ نجات ہو اس کو قبول کرے۔ اس لئے اب میں ایمان حقیقی کی بابت کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں واضح ہو کہ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ خُدا تعالیٰ نے اس زمین پر لوگوں کو ضرور الہام دیا ہے یعنی کتب الہامیہ زمین پر موجود ہیں ۔جس کا ذکر مختصر بند ہ نے ہدایتِ المسلین کے باب اوّل میں بھی لکھا ہے ۔
پس جب کہ کلام الہٰی زمین پر آچکا تو اب ہمیں کیا حاجت(ضرورت) ہے۔ کہ آدمیوں کے بتاتے ہوئے ایمان کو قبول کر کے ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار ہوں ہمیں ضرور ہے کہ اس ایمان کو جو خُدائے قادر کے کلام میں مذکور ہے حاصل کریں۔ کیونکہ اس ایمان کے سامنے جہان کے ایمان اور ان عقائد کے سامنے تمام جہان کے عقائد ہيچ اور ناقابل التفات( بے کار اور توجہ کے قابل نہ ہونا) ہیں ۔ مخفی(چُھپا) نہ رہے ۔ کہ کلامِ الہٰی میں ایمان کا ذکر یوں آیا ہے کہ ایمان متلاشی ہے ۔ رومیوں ۱۲۔ ۳ میں ہے کہ ایک طالب ِحق کو خُدا کی طرف سے بطور بخشش کے ملتا ہے بلکہ جیسا خُدا نے ہر ایک کو اندازے کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال (درميانہ درجہ )کے ساتھ رہے اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھے۔
اس سے ظاہر ہے کہ ایمان صرف خُدا کی طرف سے عنایت ہوتا ہے شاید کوئی کہے کہ ایمان جب کہ ایک بخشش ِ الہٰی ہے۔ تو ہر انسان اس کے حاصل کرنے یا نہ کرنے میں معذور ہے۔ جواب یہ ہے۔ کہ ایمان جو موجب نجات ہے۔ و ہ تو بے شک خد ا کی بخشش ہے مگر انسان کی طرف سے اس کی تلاش اور طلب شرط ہے۔ اگر اس کی طرف سے تحریک نہ ہو تو وہ ایمان حاصل نہ ہو گا۔ یعنی ایمان تو ضرور بخشش ِالہٰی ہے پر اس بخشش کا طلب کرنا اور اس کی طلب میں جان بلب(مرنے کے قريب) ہونا انسا ن پر فرض ہے اس لئے ایسا شخص جو اپنے فرض کو ترک کرتا ہے ۔ معذور نہیں ہو سکتا بلکہ بے ایمان مر جاتا ہے ۔ اور یہ جو کہا کرتے ہیں کہ خُدا پر ایمان لا اس کے یہ معنی ہیں کہ تو اس کی جستجو کر کہ وہ بخشش ِ الہٰی یعنی ایمان خُدا کی طرف سے تجھے عنایت ہو ۔ ایمان خُدا کی طرف رجوع کرنے کا وسیلہ ہے ۔
( اعمال ۱۱۔ ۲ ) میں ہے کہ اور بہت سے لوگ ایمان لا کے خُدا وند کی طرف رجوع ہوتے۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ بغیر ایمان کے خُدا کی طرف پھر نا مشکل ہے پس ایمان رُوح کا وسیلہ بھی ہے۔ یا یوں کہیں کہ ایمان ایک صحیح یقین ہے جو رُوح القدس کے وسیلہ سے دل پر القا (وہ بات جو خُدا دل ميں ڈالے ) ہوتا ہے۔ چنانچہ ( ۱ کرنتھیو ں ۲: ۹ ) میں ہے کہ کسی کو اسی رُوح سے ایمان الخ(آخر کا مخفف)۔ یعنی رُوح القدس کا یہ بھی کام ہے کہ اس کے وسیلہ سے آدمیوں کو ایمان عنایت ہوتا ہے۔ اور چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کلام ِالہٰی میں جگہ جگہ ایمان لانے کے واسطے سب کو حکم ہوتا ہے اور ہماری طرف سے زیادہ تر کوشش و سعی(جدوجہد۔کوشش) طلب کرتا ہے پھر ان آیات کو بھی ہم دیکھتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایمان صرف خُدا کی بخشش اور عنایت سے حاصل ہوتا ہے تو ہمارے دل میں خواہ مخواہ يہ خيال پيدا ہو جاتا ہے کہ شائد ان دونوں بيا نات ميں کچھ اختلاف ہے ۔ حالانکہ اس کے معنی يہی نہيں ۔کہ انسان پر جستجو کرنا اور سعی(کوشش) کرنا فرض ہے ۔ اور اس کوشش اور سعی اور التجا کے باعث جو سچا رُوحانی یقین خُدا تعالیٰ دل پر القا کرتا ہے ۔ وہی بخششِ ایزدی (خُدا کی بخشش)ہے۔ اور یہ سچا یقین ان مقدمات سے مرکب (دو چيزوں کا ملاپ)نہیں ہے۔ جو آدمیوں کی عقل نے پسند کر کے ترکیب دی ہے ۔بلکہ ان صحیح مقدمات سے مرکب ہے۔ جو قاد ر مطلق نے آسمان سے انسان کی بہتر ی کے لئے نازل فرمائے ۔
اور یہی سبب ہے کہ اس ایمان کے مقدمات نہ عقلی ہیں اور عقل کے برخلاف بلکہ عقل سے بالا اور برتر جن کے نیچے عقِل انسانی کھڑی ہو ئی اپنی نا رسائی( اس تک پہنچ نہ پانا) کا اقرار کر کے ان مضامین کو اپنے سر کا تاج بیان کرتی ہے۔ اب اس امر کا جاننا ضروری ہے کہ اس ایمان کے کتنے ارکان ہیں ۔يعنی صحیح ایمان میں کس کس چیز کا یقین لازم ہے ۔کہ اوّل خُدا کی ذات پر ایمان لانا لازم ہے۔ مرقس ۱۱۔ ۴۲ میں ہے اور یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خدا پر بھروسہ رکھو۔ یعنی خُدا کو پہچانو یہاں شناخت سے مراد انسان کی شناخت نہیں ہے بلکہ وہ شناخت مراد ہے ۔کہ جس طرح خُدا نے آپ کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔
دوم مسیح پر ایمان لانا واجب ہے یوحنا ۱۴۔ ۱ میں ہے کہ تمہارا دل نہ گھبرائے تم خُدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو مجھ پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں جس طرح میں ظاہر ہوا ہوں ۔ اسی طرح مجھ پر یقین لاؤ گے خُدا کا بیٹا اور گناہوں کا کفارہ اور باعثِ ایجاد عالم اور کامل انسان اور خُدا بھی جانو۔ اور میرے مرنے اور جی اُٹھنے اور آسمان پر جانے کا اقرار کرو ۔اور جانو کہ قیامت اور زندگی میں ہی ہوں۔ خیر جو جو بیان مسیح کے متعلق انجیل میں مذکور ہیں ان سب کو ماننا مسیح پر ایمان لانا ہے نہ صرف یہ یقین کرنا کہ وہ ایک رسول تھا۔ اور بس یہ اس پر ایمان لانا نہیں کہلاتا ہے۔
سوم انجیل پر ایمان لانا واجب ہے مرقس ۱۔ ۱۵ میں ہے کہ وقت پورا ہو گیا ہے خُدا کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے۔ تو بہ کرو اور انجیل کو مانو۔ انجیل پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ خوشخبری جو گناہوں کی معافی کی بابت مسیح کے کفارہ کے وسیلہ آسمان سے نازل ہوئی قبول کرو ۔ یہ کہ انجیل صر ف ایک کتاب ہے جو حضرت عیسیٰ پر آسمان سے نازل ہوئی ہے۔ اور چپ کر رہو جیسے مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ یہ انجیل پر ایمان نہیں ہو سکتا ہے چہارم خُدا کے وعدوں پر ایمان لاؤ ۔ رومیوں ۴۔ ۲۱ میں ہے کہ جو کچھ اس نے وعدہ کیا ہے وہ اس کے پورا کرنے پر بھی قادر ہے یعنی خُدا تعالیٰ کے سب وعدے جو کلام ِالہی میں مذکور ہیں بہت سچے اور درست ہیں جو شخص اس کے وعدوں میں سے ایک وعدہ کا منکر یا دل میں شک رکھتا ہے وہ کافر ہے۔
پنجم موسیٰ کے نوشتے پر ایمان لانا واجب ہے ۔ اعمال ۱۸ ۔ ۴ میں ہے کہ لیکن تیرے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس طریق کو وہ بدعت (مذہب ميں نئی بات نکالنا)کہتے ہیں اسی کے مطابق میں اپنے باپ دادوں کے خُدا کی عبادت کرتا ہوں اور جو کچھ توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اس سب پر میرا ایمان ہے۔
ششم پیغمبر وں کے صحیفوں پر ایمان واجب ہے تواریخ ۲۰۔ ۲ میں ہے کہ اس کے نبیوں پر ایمان لاؤ تو تم کامیاب ہوگے اور اعمال ۲۶ ۔ ۲۷ میں ہے کہ اے اگر پا بادشاہ کیا تو نبیوں کا یقین کرتا ہے میں جانتا ہوں کہ تویقین کرتا ہے غرضیکہ ان سب باتوں کے یقین کا مجموعہ جو ا مختصر فقرہ میں شامل ہے کہ تو خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا انسان کی نجات کا موقوف علیہ(وہ شخص جس پر کسی کام کا فيصلہ منحصر کيا گيا ہو) ہے ۔ اور جب کسی انسان کے دل میں خُدا کی طرف سے یہ ایمان نہ صرف عقل کی مدد سے بلکہ رُوح القدس کی معرفت نازل ہو کر مقام پذیر ہوتا ہے تو اس کے سبب سے وہ آدمی فوائد ذیل کا مستحق (حق دار) ہو جاتا ہے کیونکہ ان فوائد مندرجہ ذیل کا مبنع اسی حقیقی ایمان میں مندرج ہے۔ اس ایمان کو ہم ایمان مدلل کہتے ہیں یعنی وہ ایمان جو اپنی صداقت پر آپ ہی دلیل بھی ہے کیونکہ اس کی بنیاد مسیح کے کفارہ پر ہے اوروہ یہ بات بتلاتا ہے کہ جو کوئی اس ایمان کو اپنے آپ میں رکھے ضرور گناہوں کی معانی پائے گا کیونکہ اس کا رکن ِاعظم کفارہ ہے جو گناہوں کے عوض وقوع میں آیا اور کوئی دنیاوی ایمان اپنی ذات میں کوئی ایسا رُکن نہیں رکھتا جس سے وہ موجب نجات ہو محمدی ایمان بھی دو جز رکھتا ہے چنانچہ محمدیوں کا قول ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کا رسول ہے اور اس ایمان کو وہ لوگ موجب نجات جانتے ہیں پر اس میں کون ساجُز ہے جو موجب نجات ہو سکتا ہے پہلا جو اللہ ایک ہے ۔ بہت اچھا جُز ہے مگر بغیر کسی اور جُز کےلائق نجات نہیں کیونکہ شیطان بھی اس بات کا قائل ہے حالانکہ یہ اکیلا جُز اس کی نجات کو مفید نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ محمد اس کا رسول ہے اوّل تو اس کا ثبوت کہیں سے نہیں ملتا ۔دوسرا گناہوں کی معافی کے لئے اس میں کون سی محبت قائم ہو سکتی ہے برخلاف اس کے کہ مسیح گناہوں کا کفارہ ہے یہ رُکن نجات کی کامل اُمید رکھتا ہے اسی طرح مسیحی مذہب کے ارکان ایمان کامل ارکانِ نجات ہیں۔
دوسرا فائدہ اس ایمان سے یہ ہے کہ انسان اس ایمان کے سبب سے خُدا کے حضور راستباز ٹھہرتا ہے یعنی وہ راستبازی جو نجات کے لئے مفید ہو جس کو انسان اپنے اعمال سے حاصل نہیں کر سکتا صرف اس حقیقی ایمان سے انسان کو حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اس ایمان کا یہ بھی ایک رُکن ہے کہ مسیح نے شریعت کی تمام راستبازیوں کو پورا کر دیا پس اس ایمان کا لانے والا مسیح کی راستبازی کے باعث راستبا ز ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے ایمان لا کے مسیح کو پہن لیا ۔ اعمال ۱۲۔ ۹ ۲ میں ہے۔ کہ اور موسیٰ کی شریعت کے باعث جن باتوں سے تم بری نہیں ہو سکتےتھے ان سب سے ہر ایک ایمان لانے والا اس کے باعث بری ہوتا ہے اور رومیوں ۳۔ ۲۱، ۲۲ میں ہے کہ مگر اب شریعت کے بغیر خُدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوتی ہے جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے یعنی خُدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔ اب دیکھو تمام دنیاوی ایمان آدمی کو راستباز نہیں بنا سکتے محمد ی ايمان سے کوئی راستباز نہیں ہو سکتا کیونکہ جس پر ایمان لاتے ہیں خود اس نے بھی تمام راستبازیاں پوری نہیں کیں۔
تیسرا خاصہ اس ایمان کا یہ ہے کہ جس میں یہ ایمان آتا ہے اس کو خُدا کی فرزندی کا حق مل جاتا ہے یعنی اس ایمان سے انسان خُدا کا بیٹا ہوجاتا ہے یوحنا ۱۔ ۱۲ میں ہے کہ لیکن جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی انہیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں اور گلیتوں ۳۔ ۲۶، ۲۷ میں ہے کہ کیونکہ تم سب اس ایمان کے وسیلے سے جو مسیح یسوع میں ہے خُدا کے فرزند ہو اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا ۔ مطلب یہ ہے کہ اس ایمان کا ایک یہ بھی بڑا رُکن ہے کہ مسیح خُدا کا بیٹا ہے پس جب ہم مسیح پر ایمان لائے جو خُدا کا بیٹا ہے۔ اور وہ ہمارا لباس اور ہماری رُوح کا تاج ہو ا تو ہم بھی ا س کے باعث خُدا کے بیٹے ہو گئے چنانچہ یوحنا ۱۷ ۔ ۲۳ میں ہے کہ میں ان میں اور تو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں پس سب ایماندار جو مسیح میں ہو کے خُدا سے ميل کرتے ہیں سب خُدا کے فرزند ہوتے ہیں فرق اتنا رہتا ہے کہ مسیح خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے پر یہ لوگ اس میں ہو کے اور اس کے سبب سے خُدا کے لے پالک فرزند ہوتے ہیں ۔ دیکھو جو فائدہ اس ایمان سے نکلتا ہے اسی فائدہ کا ایک رکن اس ایمان میں شامل ہے بلکہ ساری مسیحی تعلیم اس ایمان میں مندرج ہے ۔
چوتھا فائدہ اس ایمان سے یہ ہے کہ جس کسی میں یہ ایمان آتا ہے اس میں ایک رُوحانی روشنی اور باطنی بصیرت ایسی پید اہوجاتی ہے جس کے سبب سے اس کی رُوحانی اور باطنی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ شخص کلام ِالہٰی سے مستفید (فائدہ اُٹھانا)اور اپنے باطنی عیوب (عيب کی جمع) سے جو خفی (چُھپے)ہوتے ہیں خبردار ہونے لگتا ہے اور ہر وقت چوکنا رہتا ہے یوحنا ۱۲ ۔ ۲۶ میں ہے کہ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے نور پر ایمان لاؤ تا کہ نور کے فرزند ہو اور آیت ۴۶ میں ہے کہ میں نور ہو کے دنیا میں آیا ہوں تا کہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ ہے ۔ چونکہ وہ خود نور ہے صرف اس پر ایمان لانے سے انسان تاریکی میں نہیں رہتا بلکہ ایک رُوحانی روشنی اپنے چال چلن میں پاتا ہے جس کسی نے یہ روشنی نہیں پائی وہ یاد رکھے کہ اب تک مسیح پر ایمان نہیں لایا۔
پانچواں فائدہ یہ ہے کہ اس آسمانی ایمان سے رُوحانی زندگی حاصل ہوتی ہے یعنی ہر انسان جو موروثی (باپ دادا کی طرف سے) اور کسی گناہوں کے باعث مُردہ دل اور مردہ رُوح رکھتا ہے اس ایمان کے سبب اس کی رُوح اور اس کا دل جی اُٹھتا ہے ۔ یوحنا ۲۰۔ ۲۱ میں ہے کہ لیکن یہ اس لئے لکھے گئے ( یعنی معجزات ) کہ تم ایمان لاؤ کہ یسو ع ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کے اس کے نام سے زندگی پاؤ۔ یعنی مسیح پر ایمان لانے سے رُوحانی زندگی ملتی ہے گلتیوں ۲۔ ۲۰ میں ہے کہ میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب ميں زندہ نہ رہا بلکہ مسيح مجھ ميں زندہ ہے اب ميں جو جسم ميں زندگی گزارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔ یعنی وہ رُوحانی زندگی اس پر ایمان لانے سے مجھے مل گئی ہے ۔
چھٹا فائدہ اس ایمان سے یہ ہے کہ نہ صرف رُوحانی زندگی بلکہ ہمیشہ کی زندگی بھی اسی ایمان سے ملتی ہے جو کوئی حقیقی یا آسمانی ایمان رکھتا ہےو ہ ابدالآباد زندہ رہے گا ۔ یوحنا ۲۔ ۱۵ میں ہے کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔
ساتواں فائدہ اس حقیقی ایمان سے یہ ہے کہ ایمان محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے ۔ بعض اور عداوت اور لڑائی جھگڑے سے محمد ی ایمان زبردستی اور ظلم سے ہے ۔ اس سبب سے وہ کچھ اثر بھی نہیں رکھتا یہ مسیحی ایمان ہے جو موثر ہے گلیتوں ۵۔ ۶ میں ہے کہ مگرایمان جو محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے (۱تمتھيس ۱۔ ۵) میں ہے کہ حکم کا مقصد یہ ہے کہ پاک دل اور نیک نیت اور بے ریا ایمان سے محبت پیدا ہو ۔
آٹھواں فائدہ یہ ہے کہ اس ایمان کے باعث تسلی اور شیطان پر غلبہ اور شیطان کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے ( ۱ تمتھيس ۴۔ ۱۰ ) میں ہے کہ کیونکہ ہم محنت اور جانفشانی اسی لئے کرتے ہیں کہ ہماری اُمید اس زندہ خُدا پر لگی ہوئی ہے جو سب آدمیوں کا خاص کر ایمانداروں کا منجی ہے یعنی ایمان کے سبب تسلی اور برداشت کی طاقت ہمیں ملی ہے یوحنا ۱ خط ۵۔ ۴، ۵ میں ہے کہ جو کوئی خُدا سے پیدا ہوا ہے وہ دنیا پر غالب آتا ہے۔ اور وہ غلبہ جس سے دنیا مغلوب(ہارنا) ہوئی ہے ہمارا ایمان ہے دنیا کا مغلوب کرنے والا کون ہے۔ سوا اس شخص کے جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع خُدا کا بیٹا ہے ۔ یعنی ایمان سے ہم لوگ دنیا پر فتح یاب ہو سکتے ہیں ۔ افسیو ں ۶ ۔ ۱۶ میں ہے کہ اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپرلگا کر قائم رہو جس سے تم اس شریر کے سارے جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو ۔ یعنی ایمان کے سبب شیطان کے ہر حملہ پر فتح یاب ہو سکتے ہیں اس کے سوا اور بہت سے فائدے اس حقیقی ایمان سے حاصل ہوتے ہیں جو کسی دنیاوی ایمان سے حاصل نہیں ہوتے دنیاوی ایمان کی بڑی خوبی اگر کہیں ہو تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ عقل کے موافق بنایا جائے لیکن یہ ایمان جو آ سمان سے آیا ہے ایسے ایسے عمدہ فائدے بخشتا ہے جس کا بیان نہیں ہو سکتا ہے اس لئے اب ہم اپنے ہندوستانی بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اس حقیقی ایمان کی تلاش سے بے خبر نہ رہیں ۔ اس کی شناخت یوں ہے کہ ہر ایک آدمی فکر کرے کہ ہم نے یہ ایمان حاصل کیا ہے یا نہیں اگر نہیں کیا تو اس خُدائے رحیم کی منت اور سماجت کریں اور سجدہ کر کے عاجزی سے اپنی سب دعاؤں میں شوق کے ساتھ یہ ایمان طلب کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی طلب میں جان بلب(مرنے کے قريب) ہو جائیں یقین ہے کہ وہ رحیم خُدا اپنے سچے طالبوں کو عنایت کرے گا اور اگر کسی کو یہ ایمان عنا یت ہو چکا ہے تو وہ آدمی خُدا کا لاکھ لاکھ شکر کرے اور ہمیشہ اس کی حفاظت اور ترقی کی دُعائیں کیا کرے ۔ نہ صرف دُعائیں بلکہ روز روز اپنےآپ کو جانچے کہ میری دُعاؤں کے موافق میرا ایمان کی ترقی روز بروز ہوئی ہے یا نہیں اگر ہوتی ہے تو شکر کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح سرگرم رہیں اور اگر باوجود دُعاؤں کے ایمان میں ترقی نہیں ہوتی تو نہایت مضطرب (پريشان)اور بے چین ہو جائے ۔ یہاں تک کہ اس کا فضل جوش مارے اور ہم اپنے ایمان میں ترقی دیکھیں یعنی اپنے چال چلن میں فرق پائیں اور وہ زندہ و موثر ایمان جو ہمارے اندر ہےا سکا پھل اور اس کی تاثیر اپنی روز مرہ کی حرکات و سکنات میں نمودار دیکھیں کیونکہ مسیحی ایمان مثل دنیاوی ایمانوں کے مُردہ ایمان نہیں ہے بلکہ جہاں یہ ایمان ہوتا ہے وہاں اس کے آثار بھی ہوتے ہیں ورنہ جھوٹا دعویٰ ہو گا۔
سوائے اس بات کے ہر ایک ایماندار کو یہ بھی لازم ہے کہ ان مسیحی ایمانداروں کے نمونوں کو جو کلام ِ الہٰی میں اسی غرض سے مذکور ہوئے ہیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے تا کہ اس کے پاس ایمان کے جانچنے کوایک میزان(پيمانہ ) بھی موجود رہے اور ہر وقت اپنے ایمان کو ان لوگوں کے ایمان سے مقابلہ کر کے فکر یا شکر کرتا رہے۔ مثلاً ہابل ۔ راستباز کا ایمان جس کا ذکر عبرانيوں ۱۱۔ ۴ میں ہے کہ ایمان ہی سے ہا بل نے قائن سے افضل قربانی خُدا کے لئے گزرانی اسی کے باعث اس کے راستباز ہونے پر گواہی دی گئی کہ خُدا نے اس کی نذر پر گواہی دی اور اسی کے وسیلہ سے اگرچہ وہ مر گیا ہے اب تک بولتا ہے ۔یہ اچھا نمونہ خاص کر ان کے لئے ہے جو خد اکے سامنے دُعائیں یا نماز میں یا صدقات و خیرات لے کر حا ضر ہونا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ پاک و صاف نیت سے حاضر ہوں اسی طرح ہابل و قائن دونوں کے ایمان کو یاد رکھیے اور اپنا دل ریاکاری گھمنڈ غرور سے بچائیں اگر نہ کریں تو اپنے ایمان کو آپ ہی ان دونوں شخصوں کے ایمان سے مقابلہ کر کے جان سکتے ہیں کہ ہم میں کون سا ایمان ہے اور حنوک کو بھی یاد کریں جس کا ذکر آیت ۵ میں ہے۔ ایمان ہی سے حنوک اُٹھایا گیا تا کہ موت کو نہ دیکھے ۔ اور چونکہ خُدا نے اس کو اُٹھا لیا تھا ۔ اس لئے اس کا پتہ نہیں ملا ۔
آيت ۷ ميں ہے کہ ايمان ہی کےسبب نوح نے اُن چیزون کی بابت جو اس وقت نظر نہ آئی تھیں الہام پاکر خوف سے کشتی گھرانے کے بچاؤ کے لئے بنائی اسی سے اس نے دنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اس راستبازی کا جو ایمان سے ملتی ہے وارث ہوا ۔ آیت ۸ میں ہے ایمان سے ابرا ہام جب بلایا گیا فرمانبردار ہوا کہ اس جگہ چلا گیا جسے وہ میراث میں لینے والا تھا اور باوجود یکہ نہ جانا کہ کدھر جاتا ہے۔ آیت ۱۷ میں ہے ابراہام جب ایمان سے آزمایا گیا اضحاق کو قربانی کے لئے گزرانا ۔ ہاں اکلوتے کو اس نے چھڑایا جس نے وعدوں کو پایا تھا ۔ آیت ۲۰ میں ہے ایمان سے اضحاق نے آنے والی چیزوں کی بابت یعقوب اور عیسو کو برکت دی۔ آیت ۲۱ میں ہے ایمان سے یعقوب نے مرتے وقت یوسف کے دونوں بیٹوں کو برکت دی اور اپنے عصا کا سر تھام کر سجدہ کیا۔
آیت ۲۲ میں ہے ۔ ایمان سے یوسف نے جب وہ مرنے پر تھا بنی اسرائیل کے خروج کا ذکر کیا اور اپنی ہڈیوں کی بابت حکم دیا۔ آیت ۲۴ میں ہے۔ ایمان سے موسیٰ نے سیانا ہو کے فرعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے انکا رکیا ۔ کہ اس نے خُدا کے لوگوں کے ساتھ دُکھ اُٹھانا اس سے زیادہ پسند کیا کہ گناہ کے مزہ کو جو چند روزہ ہے حاصل کرے کہ اس نے مسیح کی لعن طعن کو مصر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی دولت جانا کیونکہ اس کی نگاہ بدلے پر تھی۔ ایمان سے اس نے بادشاہ کے غصہ سے خوف نہ کھا کر مصر کو چھوڑ دیا کہ وہ گویا اندیکھے کو دیکھ کر قائم رہا ۔ اس نے ایمان سے فسح کرنے اور خون چھڑکنے پر عمل کیا ایسا نہ ہو کہ پہلوٹھوں کا ہلاک کرنے والا انہیں چھوئے ۔ ایمان سے وہ لال سمندر سے یوں گذرے جیسے خشکی پر سے لیکن جب مصریوں نے اس راہ کا قصدکیا تو وہ ڈوب گئے ۔
ایمان سے یریحو کی شہرِ پناہ جب اسے سات دن تک گھیر رکھا تھا گر پڑی ایمان سے راحب فاحشہ بے ایمانوں کے ساتھ ہلاک نہ ہوئی اس نے جاسوسوں کو سلامت اپنے گھر میں اُتارا اسی ایمان سے کا لب نے کہا کہ ہم لوگ چڑھیں گے ۔ اور ملک لے لیں گے۔ متی ۱۳۔ ۳۱ ایوب کے ایمان کا ذکر کتاب ایوب ۱۹ ۔ ۲۵ میں ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا بچانے والا جیتا ہے ۔ سدرک ، میسک ، و عبدنجو کے ایمان کا ذکر دانی ایل ۳۔ ۱۳ سے ۳۰ تک یوں لکھا ہے کہ نبو کدنضر نے ان کو آگ کی جلتی بھٹی میں ڈال دیا اور پھر دیکھا کہ یہ چاروں شخص آگ میں صحیح سلامت پھرتے ہیں جن میں سے ایک کی صورت خد اکے بیٹے کی سی ہے۔ دیکھو ان کے ایمان کے سبب خود خُداوند مسیح ان کی مدد کو آگ میں آیا اور ان کو بچایا ۔
پطرس نے ایمان سے مسیح کو خد اکا بیٹا کہا جس کے باعث وہ بڑے درجے کا مستحق ہوا جس کا ذکر متی ۱۶۔۱۶ میں ہے۔ ایمان سے ایک گنہگار عورت نے عطر لا کر مسیح کے پاؤں پر ملا اور اجر پایا ۔ تیرے ایمان نے تجھے بچایا سلامت چلی جا۔ عبرانيوں ۱۱۔۳۳ سے ۴۰ تک لکھا ہے ۔ کیا کہوں فرصت نہیں کہ جدحون اور برق و سمسون اور افتاح اور داؤد اور سموئیل اور نبیوں کا احوال بیان کروں کہ انہوں نے ایمان کے وسیلہ سے بادشاہوں کو جیت لیا راستی کے کام کيے وعدوں کو پہنچے شیر ببر کے منہ بند کئے ۔ آگ کی تیز ی کو بجھایا ۔ تلواروں کی دھاروں سے بچ نکلے ۔ کم زوری میں زور آور ہوئے ۔ لڑائی میں بہادری کے ساتھ غیروں کی فوجو ں کو ہٹا دیا۔ عورتوں نے اپنے مردوں کو جی اُٹھے پایا۔ پر بعض مار کھاتے کھاتے مر گئے اور چھٹکارا قبول نہ کیا تا کہ افضل قیامت تک پہنچیں اور بعض ٹھٹھوں میں اُڑ ائے گئے۔ انہوں نے کوڑے کھائے اور زنجیروں اور قید میں بھی پھنسے سنگسار کئےگئے ۔ آرےسے چیرے گئے ۔ شکنجے میں کھینچے گئے۔ تلوار سے مارے گئے بھیڑوں اور بکروں کی کھال اوڑھے ہوئے تنگی ۔ مصیبت اور دُکھ میں مارے مارے پھرے ۔ دنیا ان کے لائق نہ رہی ۔ جنگلوں ۔ پہاڑوں غاروں اور زمین کے گڑھوں میں آوارہ پھرا کیا۔ اے بھائیو دیکھو ۔ یہ جفاکشی اور برداشت صرف اس آسمانی ایمان کی طاقت سے ہوئی جس کی منادی ہم لوگ ملکِ ہندوستان میں کر رہے ہیں۔ کیا کوئی ایمان جہان میں ایسی تدبیریں رکھتا ہے ہرگز نہیں محمدی لوگ جان بچانے کے لئے جھوٹ بولنا درست بتلاتے ہیں۔ اس سے ان کے ایمان کی باطنی تاثیر ظاہر ہوئی ہے اور آسمانی ایمان کی تاثیر عیسائیوں کی جفا کشی سے ُہويدا (ظاہر)ہے ۔ ایمانداروں کو لازم ہے کہ اپنے ایمان میں مضبوطی تلا ش کریں اور گزرے ہوئے نمونوں سے اپنی طاقت دیکھیں اور ایمانداروں کا ذکر خُدا کےکلام میں مندرج ہے اس کا اکثر مطالعہ کیا کریں ۔ میں یہاں پر چند مقاموں کی فہرست لکھ دیتا ہوں تا کہ ناظرین کلام الہٰی میں خود دیکھ لیں ۔ ( دانی ايل ۶۔ ۱۰، ۲۳ ) گنہگار عورت ( لوقا ۷۔ ۵۰) نتھنی ايل(یوحنا ۱۔ ۴۱ ) سامریہ کے لوگ (یوحنا ۴۔ ۳۹) مارتھا ( یوحنا ۱۱۔ ۲۷) شاگرد (یوحنا ۱۶۔ ۳۰) توما ( یوحنا ۲۰ ۔ ۲۸) ستفنس( اعمال ۶ ۔ ۲۵ ) کاہن ( ۶ ۔ ۷ ) حبشی ( اعمال ۸ ۔ ۲۷ ) برنباس ( اعمال ۱۱۔ ۲۴ ) سرگیوس پوس ( اعمال۱۳۔ ۱۲ ) فلپی کا داروغہ ( اعمال ۱۶۔ ۳۱،۳۴ ) دقسی کے لوگ (کلسیوں ۱۔ ۴) رومی ( رومیوں ۱۔ ۸) تھسلینکیوں (تھسلینکیوں ۱۔۳) لوئیس ( ۲ تمتھيس ۱۔ ۵ ) پولوس ( ۲ تمطا ؤ س ۴۔ ۷) وغیرہ مقامات ایمانداروں اور بے ایمانوں کے مذکور ہیں۔ خُداوند ہم سبھوں پر اپنا فضل کرے کہ سب کو حقیقی ایمان نصیب ہو اور سب لوگ جھوٹےایمان سے مخلصی پائیں مسیح کے وسیلہ سے۔
رسالہ دہم
اس امر کے بیان میں کہ نجات کیا چیز ہے ؟
کیونکہ اسی مطلب کے لئے تمام دینی تکلیفات اور سب جھگڑے اور مباحثے جہان میں جاری ہوئے ہیں۔ ہر اہل ِ مذہب کو لازم ہے کہ اپنے اپنےمذہب ميں بھی نجات کے متعلق غور کریں۔ اور اس بیان پر جو اس رسالہ میں کلام الہٰی سے لکھا جاتا ہے فکر کریں۔ کہ کون سا بيان قرین قیاس (وہ بات جسے عقل قبول کرے)ہے ۔اور ایک مضطرب (بے چين۔بے قرار)رُوح کو تسلی دینے والا اور منجانب اللہ معلوم ہوتا ہے۔ ؟ محمد ی مذہب میں نجات کا یہ حال ہے کہ قرآن میں اوّل سے آخر تک خوب غور سے دیکھا ۔کہیں نجات کا پتہ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس میں سوائے نیک اعمال کے اور کوئی صورت نجات کی نہیں لکھی ہے۔ مگر اس میں یہ لکھا ہے کہ خُدا صادق القول اور عادل ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ بدکار کو سزا اور نیکو کار کو جو مطیع (ماتحت)شرع ہو جزا (ثواب۔اجر)بھی دیتا ہے۔ اور یہ بات تو سب پر ظاہر ہے کہ کوئی آدمی بے گناہ نہیں ہے۔ اگر کوئی متکبر (مغرور) شیطان کا پیرویہ کہے ۔ کہ میں بے گناہ ہوں تو بھی ضرور اس کا دل اندر سے گواہی دے گا کہ وہ بھی گنہگار ہے اور چونکہ ہر گنہگارکو اگر خُدا سچا ہے سزا تو ضرور ہو گی ۔
پس نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر مسلمان کو اور ہر ایک اس شخص کو جو اعمال پر بھروسہ رکھتا ہے ضرور سز ا ملے۔ اگر کہو کہ خُدا رحیم ہےممکن ہے کہ رحم کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر عدل(انصاف) کہاں جائے گا؟ کیونکہ وہ عادل بھی ہے پس اعمال سے ہم کسی طرح بچ نہیں سکتے۔ جب تک کوئی ہماری شفاعت(گناہوں کی معافی کی سفارش) نہ کرے تا کہ رحم بھی ہو جائے ۔اور عدالت و صادق القول بھی بحال رہے۔اور اس کا نام نجات ہے جو بغیر اس قسم کی شفاعت کے حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اب قرآن میں دیکھتا ہوں کہ کہیں محمد صاحب نے اس کا ذکر کیا ہے۔ یا نہیں ۔ بقر ۳۴ رکوع میں ہے ۔ ( یایھا لذین امنوا النفقو ممتاداقنا من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلقہ و لا شفا عہ )اے مسلمانو!
ہمارا دیا خرچ کرو اس دن سے پہلے جس میں نہ کچھ زور چلتا ہے نہ دوستی کام آتی ہے نہ شفاعت چلتی ہے ۔ اس مقام پر مسلمانوں سے خطاب ہے اور شفاعت سے انکار ۔ اسی رکوع میں ہے ( من ذالذی یشفع عند ہ الا باذیہ ) ۔ خُدا کے سامنے کون ہے جو شفاعت کر سکے ۔ مگر اس کے حکم سے اس آیت سے شفاعت ثابت کی جا سکتی ہے مگر ضعف (کمزوری)کے ساتھ کیونکہ محمد صاحب نے جواہل ِ اسلام کے گڈریئے ہیں کہیں قرآن میں یہ اقرار نہیں کیا کہ میں شفاعت کروں گا ۔ یا وہ کون ہے جو عدالت کو پورا کر کے شفاعت کرے گا۔ حالانکہ یہ مضمون قرآن میں کثرت سے آنا چاہیے تھا اس مقام پر ( الا باذنہ ) کی قید سے کون ساقرینہ (انداز)ہے۔ کہ محمد صاحب کو شفیع (شفاعت کرنے والا)سجھیں ۔ ایک اور قرآن ميں آیت ہے جس پر مسلمانوں نے بھروسہ کر رکھا ہے ( ولسوف یعطیک ایلث فنرحسنی) ۔ خُدا تجھے دے گا تو راضی ہو گا ۔ قرآن میں کہیں ا س بات کا ذکر نہیں ملتا کہ وہ کیا چیز ہے جو دے گا ۔جس سے محمد صاحب راضی ہو جائیں گے ۔
جلالین میں ہے کہ آخرت میں بہت سی اچھی چیزیں دے گا۔ بيضاوی میں ہے کمال نفس اور غلبۂ دین اور بلندی ِدین دے گا ۔ حسینی میں ہے کہ دے گا تجھے رُتبہ شفاعت مدارک میں ہے دے گا تجھے ثواب و مقا م شفاعت وغیرہ اب دیکھنا چاہیے کہ یہ سب مفسرین کی باتیں ہیں۔ اس آیت میں کسی خاص بات کا ذکر نہیں اور اگر کوئی آدمی غور سے دیکھے تو ساری سورت ميں کوئی ایسا قر ینہ پا نہ سکے گا جس سے شفاعت مراد ہو سکے۔ ساری سورت کا ترجمہ یہ ہے۔ چڑھتی دھوپ کی قسم کا لی رات کی تو خُدا نے تجھے چھوڑا نہ۔ تجھ سے بیزار ہو ا ضرور پچھلی پہلی سے تیرے لئے بہتر ہے۔ تیر ا خُدا تجھے دے گا تو راضی ہو گا ۔تو یتیم تھا تجھے جگہ دی۔ تو گمراہ تھا تجھے ہدایت کی۔ تو فقیر تھا تجھے مالدار کیا ( یعنی خدیجہ مالدار عورت سے تیری شادی ہو گئی پس یتیم کو نہ دبا سائل (مانگنے والا )کو نہ جھڑک۔ خُدا کی نعمت کا بیان کر ناکہ دیکھو یہاں شفاعت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
زبردستی مفسرین نے بے اعتبار حدیثوں کی بنا پر شفاعت کا خیال کر لیا ہے یہاں دُنیا کی نعمت کا ذکر ہے۔ حدیثوں میں لکھا ہے کہ چند روز محمد صاحب کو الہام نہ ہوا ایسے پر یشان ہو ئے کہ رات کی تہجد کی نما ز پڑھنے کو بھی نہ اُٹھے کافروں نے چرچا کیا کہ اب محمد کو اس کے خُدا نے چھوڑ دیا ۔اور اس سے ناراض ہو گیا کیونکہ کئی دن سے کوئی آیت نہیں اُتری یہاں سے ظاہر ہے۔ کہ محمد صاحب اس مقام پر اپنے دُنیاوی غلبہ کے ذکر سے جس کے اُمید وار تھے مسلمانوں کی تسلی کی ہے۔ یہاں شفاعت کے ذکر کا کہیں نام و نشان نہیں ہے صرف وہم (شک)ہے ۔
قرآن میں ایک اور آیت ہے جس پر اہلِ اسلام بڑا فخر کرتےہیں اور حتی کہ شاعر اپنے شعروں میں اس کا ذکر کرتے۔ اور سب مسلمانوں کا اس پر بھروسہ ہے۔ ناظرین ذرا انصاف سے اس پر غور کریں کہ بھروسہ کے لائق ہے یا نہیں بنی اسرائیل کے ۹ رکوع میں لکھا ہے۔۔ ( ومن للیل فتھجد بہ نا فلا لک کے عیسیٰ ان یتعثک ربک مقاماً محمود وقل موب ادخلنبی مدخل صدق و کخرجنی محرج سدق و جعل بی ندنک سلطانا نصیراً)۔ ترجمہ اے محمد خاص کر تو کچھ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھ شاید تیرا خُدا تجھے تعریف کے مقاصد میں کھڑا کرے اور کہہ اے خُدا مجھے داخل کر سچا داخل ہو نا ۔اور مجھے نکال اچھا نکالنا ۔اور دے مجھے اپنے پاس سے ایک حکومت کی مدد ۔ تعریف کے مقام سے جس کو مقامِ محمود(تعريف کيا گيا) کہتے ہیں۔
لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ وہ شفاعت کا مقام ہے حالانکہ قرآن میں کوئی آیت اس کی تائید (حمايت)میں نہیں ہے ۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ( وھو مطلق فی کل مقامیضھر کرامۃ )۔ یعنی مقام ِمحمود عام ہے ہر مقام کو جس میں عزت ہو ۔ ( والمشھو انہ مقام الشفاعد لماروی ابوھریرہ ) ۔ اور مشہور یہ ہے کہ وہ مقام شفاعت ہے۔ جیسا کہ ابوہر یرہ نے روایت کی ہے دیکھوایک بڑے عالم نے مان لیا کہ وہ لفظ عام ہے نہ خاص اور یہ بھی کہہ دیا ۔کہ حدیث کی وجہ سے لوگوں نے اس کو مقام ِشفاعت مان لیا ہے۔ پس جسے حدیثوں پر اعتبار ہو وہ اس کو مان لے حالانکہ جو حدیث قرآن کے برخلاف ہو وہ قابل ِتسلیم نہیں ہو سکتی ہے۔
چنانچہ اس تفسیر میں اس کے معنی یوں لکھے ہیں کہ را ت کو تہجد کی نماز پڑھا کر اُمت کے سوا تجھ پر خاص یہ نماز فرض ہے شاید خُدا تجھے شفاعت کے مقام میں کھڑا کرے۔ اور کہہ اے رب داخل کر مجھے مدینہ میں اچھا داخل ہونا اور نکال مجھے مکہ سے اچھا نکالنا اور مجھے میرے دشمنوں پر قوت دے ۔
پس اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے وہاں جا کر عزت کا مرتبہ ملے۔ اسی کو مقامِ محمود کہا ہے یعنی رات کو خُدا سے دعائیں مانگا کر ۔تا کہ یہ ذلت جو مکہ میں ہے نہ رہے۔ مدینہ میں جا کر حکومت مل جائے اور بیضاوی بھی اس مطلب کی تائید کرتا ہے۔ پس اب انصاف کرو کہ شفاعت کا یہاں کیا ذکر ہے؟ اب دیکھنا چاہیے کہ عیسائی مذہب میں نجات کی بابت کیا لکھا ہے ؟ کلام ِالہٰی میں نجات کے کئی ایک نام ہیں ۔
۱۔ فتح (ا کرنتھیوں ۱۵۔ ۵۷ ) میں ہے۔ پر شکر خُدا کا جو ہمیں ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ فتح بخشتا ہے۔
۲۔ شہر پناہ اور قلعہ( یسعیاہ ۲۶۔ ۱ )میں ہے کہ ہمارا تو ايک محکم شہر ہے اس کی ديواروں اور بُرجوں کے بدلے وہ نجات ہی کو مقرر کرے گا ۳۔ چشمے( یسعیاہ ۱۲۔ ۳ )میں ہے کہ سو تم خوش ہو کے نجات کے چشموں سے پانی بھرو گے ۔
۴۔ پیالہ ( ۱۱۶ زبور آیت ۱۳ )میں ہے کہ نجات کا پیالہ اُٹھاؤں گا اور خُداوند کا نام پکار وں گا ۔
۵۔ چراغ( یسعیاہ ۶۲ ۔ ۱ )میں ہے کہ دم نہ لوُں گا جب تک کہ اس کی صداقت نور کے مانند نہ چمکے۔ اور اس کی نجات چراغ روشن کی طرف جلوہ گر نہ ہو
۶۔ ڈھال( سموائیل ۲۲ ۔ ۳۶ )میں ہے کہ تو ہی نے مجھے نجات کی سپِر بخشی ہے۔
۷۔ سینگ( لوقا ۱۔ ۶۹ )میں ہے کہ اور اپنے خادم داؤد کے گھرانے میں ہمارے لئے نجات کا سینگ نکالا ۔
۸۔ پہاڑ ( استثنا ۳۲۔ ۱۵ )میں ہے کہ اپنی نجات کے پہاڑ کو حقیر جانا ۔ اور بہت سے نام اس کے مذکور ہیں ۔ نیز اس نجات کے بیان کے سارے پہلو کلام ِالہیٰ میں مفصل(تفصيل سے) ملتے ہیں۔
مسیحی نجات کا بیان
یہ بیش قیمت چیز جس کی مانند جہاں میں کوئی چیز ہمارے لئے اچھی نہیں ہو سکتی ہے اپنے سب پہلو ہمیں یوں دکھلاتی ہے۔ پہلی بات کو ئی آدمی اس نجات کو اپنی طاقت سے حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ خُد اکی طرف سے مرحمت(کرم۔مہربانی) نہ ہو۔
افسیوں ۲۔ ۸ میں ہے کہ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔ ططس ۳۔ ۵ میں ہے کہ
تواس نے ہم کونجات دی مگر راستباز ی کے کاموں کے سبب نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے موافق نئی پیدائش کے غسل اور رُوح القدس کے تئیں نیا بنانے کے وسیلے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خُد انے یہ کام کیوں کیا کہ ہمیں دوزخ سے بچا لیا کیا ہم کچھ اس کے حقدار تھے ؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کے پانچ سبب ہیں اوّل یہ کہ خُدا میں جو ایک نفس کی صفت ہے یہ اس کا ظہور ہے۔ ططس ۲۔ ۱۱ میں ہے کہ کیونکہ خُدا کا فضل جس سے سب آدمیوں کے لئے نجات ہے ظاہر ہوا ہے۔
دوسرا سبب یہ کہ اس کے رحم کا ظہور ہوا ہے ۔ ۶ زبور ۴ میں ہے کہ اے خُداوند پھر آ میری جان کو مخلصی دے اپنی رحمت کے سبب مجھے نجات بخش ۔
تیسر ا سبب یہ کہ خُدا کو ہم سے محبت ہے اگرچہ ہم گنہگار اور بدکار ہیں اور اسے بھول گئے ہیں پروہ نہیں بھلا وہ سچا دوست ہے ۔ رومیوں ۵۔ ۸ میں ہے کہ
لیکن خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنگار ہی تھےتو مسیح ہماری خاطر موا۔ یوحنا کا پہلا خط ۴۔ ۹، ۱۰ میں ہے کہ جو محبت خُدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے سبب سے زندہ رہیں ۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خد ا سے محبت کی ۔ بلکہ اس میں ہے کہ اس نےہم سے محبت کی۔ اور ہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا ۔ یعنی نجات جو ظاہر ہوئی ہے وہ خُدا کی محبت کے سبب سے ہے ۔
چوتھا سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی قدرت ظاہر کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے یعنی انسان جو موروثی (باپ دادا سے)گناہ اور اکتسابی (خود عمل کرنے کے )گناہ کی وجہ سے نجات سے دُور جا پڑا تھا اور اپنے اعمال سے اس کو حاصل نہ کر سکتا تھا۔ اور انسان کے سامنے نجات حاصل کر نا غیر ممکن تھا تب خد انے اپنی قدرت سے ممکن کر دکھلایا۔ چنانچہ یسعیاہ ۵۰ ۔ ۲ میں ہے کہ کیا میرا ہاتھ ایسا کو تا ہ (چھوٹا)ہو گیا ہے کہ چھڑا نہ سکتا یا نجات دینے کا میرا زور نہیں دیکھو میں اپنی ایک گھُر کی(جھڑکی) سے سمندر کو ُسکھا دیتا ہوں اور نہروں کو صحرا کر ڈالتا ہوں ۔
پانچواں سبب یہ ہے کہ اس نے ہماری برداشت کی یعنی اس صفت کے باعث ہم بچ گئے ۔ ۲ پطرس ۳ ۔ ۱۵میں ہے کہ اور ہمارے خُدا وند کی برداشت کو اپنی نجات جانو ۔ ۲ بات خُدا وند کا ارادہ اس نجات کی نسبت کیا ہے آیا وہ لوگوں کو دینا چاہتا ہے یا نہیں ۔ ۱ تھمتھيس ۲ ۔ ۴ میں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ سارے آدمی نجات اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ نجات دینے میں اس کی رضامندی ہے مگر چونکہ انسان فاعل مختار (وہ کام کرنے والا جس کو کامل اختيار حاصل ہو)ہے یا گیا ہے ۔
پانچواں سبب یہ ہے کہ اس نے ہماری برداشت کی یعنی اس صفت کے باعث ہم بچ گئے ۔ ۲ پطرس ۳ ۔ ۱۵میں ہے کہ اور ہمارے خُدا وند کی برداشت کو اپنی نجات جانو ۔ ۲ بات خُدا وند کا ارادہ اس نجات کی نسبت کیا ہے آیا وہ لوگوں کو دینا چاہتا ہے یا نہیں ۔ ۱ تھمتھيس ۲ ۔ ۴ میں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ سارے آدمی نجات اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ نجات دینے میں اس کی رضامندی ہے مگر چونکہ انسان فاعل مختار (وہ کام کرنے والا جس کو کامل اختيار حاصل ہو)ہے یا گیا ہے ۔
انجیل مقدس میں اس قسم کی بہت سی آیات موجودہیں جو اس پر واقعی پر گواہی دیتی ہیں یسعیاہ ۳۵ ۔ ۴ میں کہتا ہے کہ ان کو جو کم دِلّے ہیں کہو کہ ہمت باندھو مت ڈرو دیکھو تمہارا خُدا سزا اور جز ا ساتھ لئے ہوئے آتا ہے۔اور خُدا ہی آئے گا اور تمہیں بچائے گا ۔
انجیل مقدس میں اس قسم کی بہت سی آیات موجودہیں جو اس پر واقعی پر گواہی دیتی ہیں یسعیاہ ۳۵ ۔ ۴ میں کہتا ہے کہ ان کو جو کم دِلّے ہیں کہو کہ ہمت باندھو مت ڈرو دیکھو تمہارا خُدا سزا اور جز ا ساتھ لئے ہوئے آتا ہے۔اور خُدا ہی آئے گا اور تمہیں بچائے گا ۔
اعمال ۲۰۔ ۸ میں ہے کہ تا کہ خُدا کی کلیسیاء کی گلہ بانی کرو جسے اس نے اپنے خاص خون سے مول لیا ۔ عبرانيوں ۹۔ ۱۲ میں ہے کہ وہ بکروں اور بچھڑوں کا خون لے کر نہیں بلکہ اپنا ہی خون لے کر پاک مکان میں ایک ہی بار داخل ہو گیا اور ابدی خلاصی کر ائی۔ کیا ایسا کسی مدعی شفاعت نے کیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ چھٹی بات یہ ہے کہ یہ نجات جو مسیح نے ہمارے لئے تیار کی ہے ۔ یہ عرفی(رسمی۔مشہور) نجات نہیں ہے جیسا کہ مسلمانوں اور اور مذہب والوں میں مشہور ہے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ قیامت کے روز چھٹکارا مل جائے گا بلکہ مسیحی نجات چونکہ حقیقی نجات ہے۔ اس لئے اس کا شروع اسی جہاں سے ہوتا ہے جس سے اس آیندہ نجات کو جو بمنزلہ اس شروع کے انتہائی ہے عین الیقین کے ساتھ دیکھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو جو چیزیں اس دنیا میں موجب سز ا ہیں جن کے سبب آدمی دوزخ کے لائق ہو گیا ہے جس کا قبضہ میں رہنا دوزخ میں جانے کی کامل علامت ہے انہیں کے قبضہ سے اسی جہان میں ہمارا خُداوند یسوع مسیح انسان کو نجات دیتا ہے اور اس کے تمام بوجھوں کو اس کے سر پر سے اس طرح اُتار پھینکتا ہے کہ پھر ان کا ترک کرنا ہمارے لئے باعث تکلیف نہیں رہتا ہے ۔
اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی غریب آدمی کسی زبردست کا قرضدار ہو اور روپیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ قرضخواہ اسے پکڑ کر اپنا غلام بنائے اور اس کو طرح طرح کی تکلیف دے اور کہے کہ تیرے لئے اس قدر میعاد مقرر ہے اس کے اندر یا تو قرض ادا کرو ۔ ورنہ آخر کو تجھے خوب کوڑے مار کر قید خانہ میں بند کروں گا اور ہر گز نہ چھوڑوں گا ۔ اس اثنا میں کوئی بڑا دولتمند اس غریب کے حال پر رحم کر کے اس کا ذمہ دار ہو جائے اور کہے کہ جائیں اس نے اپنی طرف سے تجھ پر رحم کر کے تیرا قرض ادا کر دیا ہے تیرا قرض خواہ اب تجھے سزا نہ دے گا۔ اب بتلاؤ کہ یہ غریب اس کی بات کا کیونکر یقین کرے کہ اس نے میرا قرض ادا کر دیا ہے اور وہ مجھے اب دُ کھ نہ دے گا کیونکہ اس کے سامنے قرض ادا نہیں ہوااور نہ قرض خواہ نے اس کو رُوبرو بُلا کر کچھ کہا ؟ اس کا يقين يوں ہوگا کہ اس پر سے قرض خواہ کی تکلیف اُٹھ جائے اور قید سے آزادگی ہو جائے اور پھر اس کی غلامی نہ رہے خوشی خوشی اپنے وطن اور اپنے گھر کی طرف اور اپنے اقارب (رشتہ داروں)سے ملاقات کرنے کی اجازت حاصل کرے ۔اگر ایسا نہ ہو تو اس دولت مند کا یہ قول کہ میں نے تیرا قرض ادا کر دیا ہے اس کے حق میں یقین کے لائق نہ ہو گا ۔
پس جب کہ ہمارے خُداوند نے ہمارے لئے نجات کو حاصل کر لیا ہمیں خُدا کے غضب سے بچا لیا ہمارا قرض ادا کر دیا۔ تو اب ہم اس کی نجات کے سبب آزاد ہو گئے ہیں ہمارے جسم اور ہماری جانوں نے کئی طرح کی مصیبتوں سے مخلصی پائی ۔ اوّل شریعت کی قید سے ۔ (گلیتوں ۴۔ ۴، ۵ )میں ہے کہ لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہو ا تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھڑائے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ شریعت کی قید سے ہماری مخلصی اس طرح سے نہیں ہوئی جس طرح شریرلوگ اپنے فرض کو چھوڑ کر گمراہ ہوئے ہیں ۔بلکہ ہمارا خُداوند آپ شریعت کے تابع ہوا تاکہ ا س کے حقوق ادا کر کے اس سے ہمیں مخلصی دے ۔ اس صورت ميں شريعت کے احکام بھی پورے ہو کر اپنی ميعاد کو جا پہنچےاور ہم نے مخلصی بھی پائی۔اب اس کے ترک سے ہم گنہگار نہیں ہو سکتے ۔ ۱ پطرس ۱۔ ۸، ۹ میں ہے کہ کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چال چلن جو باپ دادوں سے چلا آتا تھا اس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونا چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوتی بلکہ ایک بے عیب اور بےداغ بّرے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے ۔ ۳۔ گناہ کی حکومت سے اگرچہ انسان قادر مطلق نہیں ہو سکتا تو بھی اس مسیحی نجات کے سبب سے گناہ کا منصوبہ ہرگز نہیں رہ سکتا۔ شاید کسی وقت موقع پا کر گناہ اس پر حملہ کرے مگر وہ شخص مقابلہ سے پیش آتا ہے اور مذہب والوں کی طرح گناہ کا غلام نہیں رہتا ۔ رومیوں ۶۔ ۲۲ پر اب گناہ سے چھوٹ کر اور خُدا کے بندے ہو کر پاکیزگی کا پھل لاتے ہو ۔ ۴۔ شیطان سے اس نجات کے سبب مخلصی ہوتی ہے۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ اب ہمیں شیطان فریب نہیں دے سکتا بلکہ یہ مطلب ہے کہ مسیح نے بہتوں کو شیطان کے ہاتھ سے بچا لیا ۔اور اس کی عام سلطنت میں خلل ڈال دیا اور ہم بھی مسیح کے وسیلہ سے شیطان پر غالب آتے ہیں۔ عبرانيوں ۲۔ ۱۴ میں ہے کہ وہ بھی اسی طرح ان میں شریک ہوا تا کہ موت کے وسیلہ اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کرے۔ ۵ ۔ ہمارے دشمنوں سے اس نے ہمیں مخلصی دی ہے۔ اور یہ مخلصی دو طرح پر ہے ۔
اوّل ان چیزوں اور ان آدمیوں وغیرہ سے جو ہمای جان کے دشمن تھے جو ہم کو دوزخ کے لائق بناتے تھے۔ خلاصی دی ہے۔
دوئم یہ کہ آمد ثانی میں زمین پر سے ہمارے سارے دشمن اور مخالف نابود کئے جائیں گے لوقا ۱۔ ۷۱ میں ہے کہ ہم کو ہمارے دشمنوں سے اور سب کينہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات بخشی ۔ یہ سب باتیں اس آنے والی نجات کے آثار ہیں جو ہم پر ظاہر ہوئے ہیں مسیح نے ہمیں آزاد کر ا دیا۔
دوئم یہ کہ آمد ثانی میں زمین پر سے ہمارے سارے دشمن اور مخالف نابود کئے جائیں گے لوقا ۱۔ ۷۱ میں ہے کہ ہم کو ہمارے دشمنوں سے اور سب کينہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات بخشی ۔ یہ سب باتیں اس آنے والی نجات کے آثار ہیں جو ہم پر ظاہر ہوئے ہیں مسیح نے ہمیں آزاد کر ا دیا۔
۱۔یہ کہ وہ شخص اس کے سبب الہٰی راستبازی سے ملبس (لباس پہننا)ہو جاتا ہے ۔ مگر اس کے فضل کے سبب اس میں مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسو ع میں ہے۔ مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں
۲۔ یہ کہ تمام گناہوں کی معافی ہو جاتی ہے۔ افسیوں ۱۔ ۷ ہم کو اس میں اس کے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اس کے اس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔
۳۔ یہ کہ اسی نجات کے سبب ہم خُدا کے لے پالک بھی ہو جاتے ہیں ۔ افسیوں ۱۔ ۵ میں ہے کہ اور اس نے اپنی مرضی کو نیک ارادے کے موافق ہمیں اپنے لئے پیشتر سے مقرر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلے اس کے لے پالک بیٹے ہوں۔
۴۔ یہ ہے کہ اسی نجات کے سبب ہم لوگ ایک نئی پیدائش حاصل کرتے ہیں پطرس ا۔ ۳ میں ہے کہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو۔ جس نے یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کے لئے ازسر نو پیداکیا ۔
۵۔ یہ کہ اسی نجات کے سبب انسان کا خُدا سے میل ہو جاتا ہے۔ متی ۵ میں ہے کہ کیونکہ جب باوجو د دشمن ہونے کے خُدا سے اس کے بیٹے کی موت کے وسیلے سے ہمار ا میل ہو گیا ۔ تو میل ہونے کے بعد تو ہم اس کی زندگی کے سبب سے ضروری جيئں گے ۔
۶۔ یہ ہے کہ اس کے سبب پاکیزگی کی چال چلتے ہیں ۔ شریروں کی چال نہیں چل سکتے ۔ حزقی ایل ۳۶۔ ۲۹ میں ہے میں تمہیں تمہاری ناپاکیوں سے بچاؤ ں گا ۔
۷۔ یہ کہ انسان کے دل میں یہ نجات ستائش اور مدح سرائی کا شوق پیدا کرتی ہے۔ ۷۱زبور ۲۳ میں ہے ۔ کہ میر ے ہونٹ جس وقت کہ میں تیری مدح سرائی کروں گا نہایت خوش ہو ں گے ۔ اور ایسے میرا جی جسے تو نے خلاصی بخشی ۔ یہ حال اس جہان میں نجات یافتہ لوگوں کا ہے اور اس جہان میں زیادہ تر اس کا انکشاف ہو گا۔
۸۔ وہ کہ جو لوگ اس نجات کو پاتے ہیں ان کو لازم ہے کہ دوسرے کی جان بچانے کا ایک بڑا شوق دل میں پیدا ہو جائے۔
دیکھو ہمارے بھائی اسی سبب سے کیسی کیسی تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اور کلام ِالہٰی اور مسیح کی نجات کا چرچہ کرتے پھرتے ہیں کہ کسی دوسرے سے ایسا کام نہیں ہوتا ۔ رومیوں ۔ ۱۱۔ ۱۴ میں ہے کہ تاکہ کسی طرح سے اپنے قوم والوں کو غیرت دلا کر ان میں سے بعضوں کو نجات دلاؤں ۔ ناظرین کرام مطلع رہیں کہ نجات الہٰی کا حال آپ کے بھی گوش گزار(آگاہ کرنا) ہو چکا ہے غفلت کو دُ ور کریں کیونکہ اب کوئی عذر(بہانہ) باقی نہیں رہا ہے ۔ پس سب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے پاس چلے آؤ کہ اس کی نجات عام ہے جو کوئی ایمان لاتا ہے نجات پاتا ہے آیندہ اختیار ہے۔
رسالہ يازدہم(۱۱)
آسمانی محبت کے بیان میں
ہمارے خُداوند کے کلام ِمقدس میں سے ایک تعلیم محبت کی بھی ہے۔ جو انسان کے لئے دو جہان میں نہایت فائدہ بخش ہے۔ اور محبت کی یہ تعلیم جو خُدا وند مسیح نے دی ہے اپنی خصوصیات کے باعث کچھ اور ہی کیفیت دکھلاتی ہے ۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ الہیٰ تعلیم ہے جن اشخاص نے علمِ اخلاق کی کتابوں میں محبت کا بیان دیکھا ہے۔ اور جن لوگوں نے اہل تصوف(صوفيوں کا عقيدہ) اور تعشق(عشق۔محبت) کی صحبت (دوستی) میں محبت کا جام پی کر اس کا دعویٰ کیا ہے ۔اور جن لوگوں نے ہندو مسلمانوں کے مذہب کے استادوں اور ان کی کتابوں سے محبت کی تعلیم پائی ہے ان سب کی خدمت میں عرض ہے ۔کہ انصاف کی آنکھ اور تجربہ کے دماغ سے اس مسیحی محبت کو اپنے اپنے خیالوں کی محبت سے مقابلہ کر کے دیکھیں ۔ اور جو سچا ہو اس کو قبول کریں۔
اگر کوئی شخص محبت کا پورا بیان کلام الہٰی سے نکال کر سنائے تو بہت مشکل ہے کیونکہ یہ ایک ایسا بڑا بیان ہے کہ جس کے لکھنے کو دفتر درکار ہے لیکن اس رسالہ میں اس کے بعض مضامین کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ تا کہ اس کی کیفیت دریافت کر کے اس میں بسیں ۔ محبت کی دو قسمیں ہیں ۔
اوّل وہ کہ جس سے خُدا کا جلال اور اس کی بزرگی ظاہر ہوتی ہے ۔ مثلاً خُدا کی ہم سے محبت جس سے خُدا کا جلال اور بزرگی ظاہر ہو۔ دوسری محبت دُنیاوی جس میں دنیا کے سردار یعنی شیطان کا جلال اور اس کی بزرگی ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ محبت مُردود اور لعنت کے لائق ہے پس جہاں کہیں اس محبت کا جزو پایا جائے اس سے نفرت کرنا واجب ہوتا ہے ۔ تاکہ پہلی محبت ہاتھ سے جاتی نہ رہے اور ہم شیطان کے دوست ہو کر خُدا کے دشمن نہ ہو جائیں۔
یہاں سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی آدمی خُدا کی عبادت اور اس سے محبت اس سبب سے کرتا ہے۔ کہ مجھے می جنت ميں حور اور فلاں اور شراب اور اچھے اچھے لباس ملیں گے۔ اور میں مزے اُڑا وں گا۔ اس میں خُدا کی محبت نہیں۔ اس کے کام نفرتی ہیں یہ دوسری محبت نفسانی آدمیوں میں اور جھوٹے مذہب والوں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس نالائق محبت کو جو مردود ہے اور جسے شہوت پرستوں نے محبت الہٰی سمجھا ہے چھوڑ کر ہم صرف حقیقی محبت کا بیان کرنا چاہتے ہیں۔ جس ميں خُدا کی بزرگی ظاہر ہوتی ہے ۔
اس میں چند ذکر ہیں۔ پہلا ذکر خُدا اس محبت کے بیان میں جو اس کی طرف سے ہمارے حق میں ہے۔ ۲ کرنتھیوں ۱۳۔ ۱۱ میں ہے کہ خُدا محبت اور میل ملاپ کا چشمہ تمہارے ساتھ ہو گا ۔ یوحنا ۱ خط ۴ ۔ ۸ میں ہے کہ جو محبت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا کیونکہ خُدا محبت ہے ۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ محبت ایک صفت ہے اور اس صفت کا احوال کلام الہٰی میں یوں ملتا ہے۔
اوّل کہ یہ نہایت بڑی محبت ہے۔ افسیوں ۲۔۴ میں ہے کہ مگر خُدانے اپنے رحم کی دولت سے اس بڑی محبت کے سبب جو اس نے ہم سے کی۔
۲۔ دائمی ہے صفنیاہ ۳۔ ۱۷ میں ہے کہ خُداوند تیرا خُدا جو تیرے درمیان ہے قادر ہے وہی بچالے گا۔ وہ تیرے سبب سے شادمان ہو کر خوشی کرے گا ۔ اپنی محبت کے باعث وہ الزام دینے کے بدلے خاموش رہے گا ۔ یسعیاہ ۴۹۔ ۱۶ میں ہے کہ دیکھ میں نے تیری تصوير اپنی ہتھیلیوں پر کھو دی ہے اور تیری شہر پناہ ہمیشہ تک میرے سامنے ہے۔
۳۔ یہ کہ محبت الہٰی بے لطف نہیں بلکہ اس میں دل کشی اور فرحت بھی ۔ ہو سيع ۱۱۔ ۴ میں ہے کہ میں نے انہیں انسان کی طرح رسیوں سے اور محبت کی ڈوریوں سے کھینچا ۔
۴۔ کوئی چیز ہمیں اس کی محبت سے جدا نہیں کر سکتی ۔ رومیوں ۸۔ ۳۹ میں ہے کہ نہ بلند ی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق ہم کو خُدا کی محبت سےجو ہمارے خُدا وند یسوع مسیح ميں ہے جدا کر سکے گا ۔
۵۔ یہ کہ بغیر ہماری لیاقت(قابليت) کے یہ محبت اس کو ہم سے ہے یرمیاہ ۳۱۔ ۳ میں ہے کہ خُداوند قدیم سےمجھ پر ظاہر ہوا اور کہا کہ میں نے بڑے ابدی عشق سے تجھے پیار کیا اس لئے میں نےاپنی شفقت تجھ پر بڑھائی ۔
۶۔ یہ کہ اس صفت الہٰی کا ظہور خاص حضرت مسیح میں ہے وہی اس کا مظہر(ظاہر کرنے والا ) بھی ہے ۔ یوحنا ۱۵۔ ۹ میں ہے کہ جیسا باپ نے مجھ سے محبت کی ویسا ہی میں نے تم سے محبت رکھی تم میری محبت میں قائم رہو۔ ۱۹۔ ۲۶ اور میں نے انہیں تیرے نام سے واقف کیا اور کرتا رہوں گا ۔ تا کہ جو محبت تجھ کو مجھ سے تھی وہ ان میں ہو اور میں اُن میں ہوں۔
۷ ۔ یہ کہ اس محبت میں خُداوند یسوع مسیح قائم رہتا ہے یعنی وہ وہ اس کا مسکن ہے۔ یوحنا ۱۵۔ ۱۰ میں ہے کہ اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے ۔ جیسا میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اس کی محبت میں قائم ہوں۔ شاید کوئی کہے کہ یہ محبت الہٰی جس میں ایسی ایسی صفات ہیں تم پر کیونکر ظاہر ہوئی جاننا چاہیے کہ چند ایسی باتیں ہیں جن سے دریافت ہوتا ہے کہ ضرور خُدا کی محبت ہماری نسبت اسی طرح جوش مار رہی ہے ۔ اوّل یہ کہ اس نے مسیح کو بھیج دیا ۔یوحنا پہلا خط ۴۔ ۹ میں ہے کہ جو محبت خُدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ صرف بھیج دیا بلکہ ہمارے واسطے صلیب پر کھینچ دیا ۔
۲۔یوحنا پہلا خط ۴۔ ۱۰ میں ہے کہ محبت اس ميں نہيں کہ ہم نے خُدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔
۳۔ یہ کہ اس نے جو ہمیں مفت نجات عنایت فرمائی اس سے اس کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ ططس ۳۔ ۴، ۵ میں ہے کہ مگر جب ہمارے منجی خُدا کی مہربانی اور انسان کے ساتھ اس کی الفت ظاہر ہوئی تو اس نے ہم کو نجات دی۔ مگر راستباز ی کے کاموں کے سبب نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلے سے۔
۴۔ یہ کہ اسی جہان میں اس نے ہمیں ایک ایسی رُوحانی زندگی مرحمت(بخشش) کی ہے جس سے ہم جانتے ہیں کہ خُدا ہمیں پیار کرتا ہے کیونکہ ہم پہلے مُردہ تھے اب اپنی رُوحوں میں اس کے کلام سے ایک نئی زندگی دیکھتے ہیں۔ جو ہم نے پہلے دیکھی اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے چاروں طرف بہت سے مُردے پھرتے ہیں اگر کوئی آدمی اس کا یقین نہ کرے تو ہم سوا اس کے اور کچھ اس کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ وہ خود مسیح کے پاس آکر دیکھ لے ۔
۵۔ یہ کہ اس نے ہمیں موثر بلاہٹ سے بلایا یعنی جس آواز سے اس نے ہمیں پکارا ہے وہ آواز ایسی موثر ہے۔ کہ حقیقی طالب اس کا اثر دل پر دیکھتا ہے اور غیر قوموں کے بھی دل چھد جاتے ہیں ۔اسی واسطے مسیح نے فرمایا کہ میری بھیڑیں میری آواز پہنچانتی ہیں۔
۶۔ یہ کہ خُداوند اپنے لوگوں کو ان کی غفلت میں انہیں تنبیہ دیتا ہے۔ اس سے اس کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ عبرانيوں ۱۲۔ ۶ میں ہے کہ کیونکہ جس سے خُداوند محبت رکھتا ہے اسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔ شاید کوئی کہے کافروں پر بھی دُکھ اور مصیبت آتی ہے تو کیا خُدا ان کو بھی پیا ر کرتا ہے جواب یہ ہے کہ بے شک خُدا ان کو بھی پیا ر کرتا ہے لیکن وہ محسوس نہیں کرتے تا کہ توبہ کرکے ایمان لائیں ۔ اگر ان کی یہ غفلت دیر تک رہے اور بار بار تنبیہ پر ہوشیار نہ ہو جائیں تب انہیں چھوڑ دیتا ہے پھر وہ اپنے کيے کی سزا بھگتيں گے۔یہ اُمور اور ان کے سو اور دينی اور دنیاوی نعمتیں اور مدد گار یاں اور خبر گیریاں اور حفاظت وغیرہ بھی اس کی عام محبت کا اقرار کرتے ہیں
پس اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا خُدا ئے برتر ضرور ہم سے محبت رکھتا ہے ۔ یہاں تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
اوّل خُدا کو ہم سے محبت ہے ۔
دوئم وہ محبت مسیح میں ظاہر ہوتی ہے۔
سوئم ہم آپکو اور اس جہان کو اس کی محبت میں گھِرا ہوا دیکھتے ہیں۔
دُوسرا ذکر مسیح کی ہم سے محبت کے بیان ہیں ۔ اگرچہ وہی محبت ہے جو خُدا باپ سے بیان میں ظاہر ہوتی تو بھی اس کا ظہور چونکہ خاص طور پر ہوا ہے اور تعلق اس کا اقنوم ثانی یعنی بیٹے سے ہے۔ جو انسان بن کر ہمارے درمیان رہا۔اور ہمیں پیار کیا ضرور ہے کہ اس کا بھی مختصر بیان کریں اُوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ خُدا کی محبت کا موزوں خا ص خُداوند یسوع مسیح ہے اور اس کی ذات میں اس محبت نے ظہور(ظاہر ہونا) پایا ہے ۔
اگر چہ اس کی شاخیں چاروں طرف پھیل گئی ہیں لیکن سب کچھ اسی کے وسیلہ سے ہے کیونکہ ازل سے اس کے ساتھ ہے اور اسی سے سب کچھ پیدا ہوا ۔ پر ہم مسیح کی محبت میں خاص کر چار باتیں دیکھتے ہیں۔
ا ۔یہ کہ اس کو خُدا سے محبت ہے۔ یوحنا ۱۴۔ ۲۱ میں ہے کہ لیکن یہ اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا جانے کہ میں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا میں ایسا ہی کرتا ہوں ۔
۲۔ یہ کہ اس کو تمام کلیسیاء یعنی اپنی اُمت کے سب لوگوں سے محبت ہے۔ یوحنا ۱۵۔ ۹ میں ہے کہ جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی میں نے تم نے محبت لکھی ۔ افسیوں ۵۔ ۲۵ میں ہے کہ مسیح نے کلیسیاء کو پیا ر کیا۔
۳۔ یہ کہ وہ خاص لوگوں سے کو جوسچے عیسائی ہیں خاص محبت رکھتا ہے۔ اور نہ صرف محبت بلکہ اپنے آپ کو ان پر ظاہر بھی کرتا ہے ۔ یوحنا ۱۴۔ ۲۱ میں ہے کہ جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ ان پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے۔ وہ میرے باپ کا پیار ا ہوگا ۔ اور میں اس سے محبت رکھوں گا اور اپنے آپ کو اس پر ظاہر کروں گا۔
۴۔ یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھتا ہے تو بہ کی مہلت ديتا ہے ۔ لوقا ۲۳۔۳۴ میں ہے کہ اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں ۔ یہ چار باتیں مسیح کی محبت میں خوب ظاہر ہیں جس قدر اس نے خُدا کو پیار کیا اور اس کے حکموں سے ذرا ادھر اُدھر نہ مُڑا اور اس کی مرضی کا متلاشی (تلاش کرنے والا)رہا ۔ جیسا خوشی کے وقت ویسا ہی مصیبت اور دُکھ کے وقت خُدا سے محبت اور پیار کرتا رہا ۔ ایسا کوئی آدمی دنیا کی چاروں حدوں میں نظر نہیں آتا ۔کہ خُدا کو اس طرح پیار کرے اور اپنی جماعت کو اس نے ایسا پیار کیا ۔کہ کوئی سچا رسول بھی بمشکل کرتا ہے۔ خاص لوگوں کو اس نےایسا پیا ر کیا کہ آسمان پر ان کا اعلیٰ منصب اور زمین پر ان کا مدد گار ہو کر آخر ی زمانے تک ان کے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا دشمنوں کو ایسا پیار کیا کہ کسی نے ایسا کر کے نہ دکھلایا ۔ اب یہ جاننا چاہیے کہ یہ کیونکر ہوا کہ مسیح نے ہمیں ایسا پیا ر کیا۔
اوّل۔ یہ کہ وہ گم شدوں کو ڈھونڈتا پھرا ۔ لوقا ۱۹۔ ۱۰ میں ہے کہ کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔
دوم۔ یہ کہ اس نے اپنی جان ہماری خاطر دے دی ۔ یوحنا ۱۵۔ ۱۳ میں ہے کہ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دئیے ۔
سوم۔ یہ کہ ہمارے گناہوں کو اپنے خون سے دھوتا ہے۔ مکاشفہ ۱۔ ۵ میں ہے کہ جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور جس نے اپنے خون کے وسیلے سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی ۔
چہارم ۔یہ کہ وہ ہمارے لئے جو بے کس اور بے بس تھے آسمان پر سفارش کرتا ہے۔ عبرانيوں ۷۔ ۲۵ میں ہے کہ اسی لئے جو اس کے وسیلہ سے خُدا کے پاس آتے ہیں وہ انہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ ان کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے۔
پنجم ۔یہ کہ اگر چہ خود آسمان پر چلا گیا لیکن ہماری تسلی کے لئے ایک تسلی دینے والے یعنی رُوح القدس کا وعدہ کیا ۔ یوحنا ۱۵۔ ۲۶ میں ہے کہ لیکن جب وہ مدگار آئے گا ۔ جس کو میں تمہارے پاس با پ کی طرف بھیجوں گا ۔ یعنی سچائی کا روح جو باپ کی طرف سے نکلتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ مگر اس مسیحی محبت کی بھی چند صفتیں ہیں ۔
اوّل۔ یہ کہ یہ محبت دلوں کو کھینچتی ہے۔ ۲ کرنتھیوں ۵۔ ۱۴ میں ہے کہ کیونکہ مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ایک سب کے واسطے موا تو سب مریں گے۔
دوم ۔یہ کہ یہ محبت بے تبدیل ہے یوحنا ۱۳۔ ۱ میں ہے کہ تو اپنے ان لوگوں سے جو دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا ۔ سوئم۔ یہ کہ یہ محبت جُدا ہونے والی نہیں ہے۔ رومیوں ۸۔ ۳۵ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا۔ مصیبت يا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار۔
چہارم ۔یہ کہ محبت مقدسوں کی نسبت روز بروز ترقی پر ہے ۔ یہاں تک کہ ابدالآباد اس کے سایہ میں رہیں لیکن بے ایمانوں کی نسبت اگرچہ اس جہان میں یہ محبت ہاتھ پسارے ہوئے ہے کہ مجھ میں آؤ لیکن ایک ایسا وقت آئے گا کہ اگر وہ اس محبت کو قبول نہ کریں۔ تو یہ محبت اُن کی طرف سے منہ موڑ کر پھر ان کی طرف تو جہ نہ کرے گی۔ اور یہی مسیح جو اس وقت محبت سے بلاتا ہے اس وقت ان کے حق میں جو قبول نہیں کرتے قہر الہیٰ ہو کر ان کے سامنے ہو جائے گا ۔ یہاں تک خُدا کی محبت اور مسیح کی محبت مختصر طور پر بیان ہوئی ۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اوّل خُدا سے محبت نکلی نہ ہمارے کسی استحقاق (حق)کے باعث بلکہ مفت اس سے صادر ہوئی۔ اور مسیح میں اس نے ظہور پکڑ کر چاروں طرف اپنا ظہور دکھلا دیا ۔ اب اگر ہم مسیح پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے وسیلہ خُدا کی محبت سے ہم نے کچھ حصہ پایا ہے تو ضرور ہے کہ ہمارے اندر بھی یہ محبت اسی طرح ظہور پائے جیسی مسیح میں ظاہر ہوئی ہے۔ یوحنا ۱۳۔ ۳۳ میں ہے ۔ کہ میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو ۔ اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں بھی محبت کرنے کا حکم لکھا ہے۔ مگر مسیح نے فرمایا کہ میں نیا حکم دیتا ہوں اور بے شک یہ نیا حکم ہے کیونکہ اگلوں پر اس طرح کی محبت کرنا ظاہر بھی نہ ہوا تھا ۔کیا اس محبت کی صورت اور اگلوں کی محبت کی شکل یکساں ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ بڑا حکم بڑی ترقی کے ساتھ ظاہر ہوا ہے ۔
اگلے لوگ دشمنوں سے دشمنی کرتے تھے۔ اور انسا ن کی طبیعت کا ميلان ( رحجان )بھی یہی ہے۔ لیکن اس آسمانی محبت میں دشمنوں سے دوستی کرنے کا حکم ہے اگرچہ اگلے زمانے کے لوگ بھی انسانیت کے اقتدار سے باہم کچھ نہ کچھ محبت کرتے تھے۔ لیکن ایک مکمل صورت میں یہ آسمانی محبت آسمانی طاقت سے حضرت مسیح کے وسیلہ ہمارے اندر آئی ہے۔ اس لئے اگلی محبت اور اس میں بہت بڑا فرق ہے وہ ایک طرح کا مبادلہ (ادلہ بدلی)تھا یہ مفت کی جاتی ہے۔ وہ انسانی اقتضا (تقاضا۔خواہش)کا نتیجہ تھا اور یہ الہٰی منشا کا ثمرہ (حاصل۔فائدہ)ہے ۔ مگر کوئی آدمی اس نئے حکم پر عمل کرنا چاہے تو خیال کرے کہ میں مسیح کی مانند چاروں طرف پیار کے دروازے کھو لے رکھتا ہوں یا نہیں یعنی خُدا سے کلیسیاء سے خواص سے عوام سے میری محبت ہے یانہیں پر یہ محبت اسی غرض سے خُدا باپ نے اس کا ظہور کیا یا کوئی اور غرض ہے۔ اگر وہی غرض اور اسی طور پر یہ ہے تو نئے حکم پر عمل ہے۔ ورنہ وہی عقلی اور دنیاوی انسانی محبت ہے جو پرانے چيتھڑے ہیں۔ اور کسی کام کی نہيں ہے۔
پس خُدائے برتر سے ہم کس طرح محبت رکھیں متی ۲۲۔ ۷ میں ہے کہ یسوع نے اسے کہا کہ خُدا وند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی سار ی جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ پہلا اور بڑ ا حکم یہی ہے۔ اس جہان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خُدا سے محبت رکھتے ہیں حالانکہ ان میں محبت ِالہٰی نہیں ہوتی وہ اپنے دل سے فریب خوردہ ہوتے ہیں پس جاننا چاہیے۔ کہ جس میں خُدا کی محبت ہے اس میں يہ علامات ہوتے ہیں۔
اوّل۔ خوشی ۵ زبور ۱۱ میں ہے کہ تب وہ سب جو تجھ پر بھروسہ رکھتے ہیں خوش رہیں گے ۔ کیا خُدا کے کلام کے سننے اور پڑھنے اور دعا کرنے میں ہم خوشحال رہتے ہیں یا تنگ دل ۔
دوسری۔ علامت دلیری ہے جو کوئی خُدا کی محبت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ دلیر ہوتا ہے کسی آدمی اور چیز سے اور کسی نقصان سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ قادر مطلق کا دوست ہے۔ ۱ یوحنا ۴۔ ۱۸ میں ہے کہ محبت خوف کو دُور کر دیتی ہے کیونکہ خوف سے عذاب(مصيبت) ہوتا ہے اور کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا ۔ دیکھو اس ملک کے لوگ جاہلوں کے لعن طعن سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں خُدا کی محبت نہیں ہے۔
دوسری۔ علامت دلیری ہے جو کوئی خُدا کی محبت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ دلیر ہوتا ہے کسی آدمی اور چیز سے اور کسی نقصان سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ قادر مطلق کا دوست ہے۔ ۱ یوحنا ۴۔ ۱۸ میں ہے کہ محبت خوف کو دُور کر دیتی ہے کیونکہ خوف سے عذاب(مصيبت) ہوتا ہے اور کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا ۔ دیکھو اس ملک کے لوگ جاہلوں کے لعن طعن سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں خُدا کی محبت نہیں ہے۔
چہارم۔ علامت خُدا کی فرمانبرداری ہے کیونکہ محبت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں اپنے دوست کا حکم نہ مانوں ۔ یوحنا ۱ خط ۵۔ ۳۰ میں ہے کہ خُدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کریں اور اس کے حکم سخت نہیں ۔ ہر ایک آدمی جب تک ان چار باتوں کواپنے اندر نہ دیکھے ہر گز خیال نہ کرے کہ مجھ میں خُدا کی محبت ہے ۔ دوسری حضرت مسیح کی محبت ہے جیسی خُدا کی محبت ہم پر فرض ہے ویسی ہی مسیح کی محبت بھی ہر فرد بشرکو واجب اور فرض ہے ۔ کیونکہ وہ محبتِ الہٰی کا مہبط (اترنے کی جگہ) ہے۔ کوئی آدمی اس سے جُدا ہو کہ خُدا سے محبت ہر گز نہیں کر سکتا ۔اس نے ہم سے محبت کی ہم بھی اس سے محبت کریں جیسی خُدا نے اس سے محبت کی۔ ایسی اس نے خُدا سے محبت کی بعض لوگ اس سے بالکل محبت نہیں رکھتے وہ لوگ حقیقت میں خُدا سے محبت نہیں رکھتے نہ خُدا ان سے راضی ہو گا ۔ بعض لوگ اس کے ساتھ جسمانی طور پر محبت رکھتے ہیں مثلاً اس کی تصویر کا عشق یا اس کے نام کی تسبيح یا اس کی صلیب کی تصویر گلے ميں یا اُس کے بعض برکات کو غیر مناسب پیار کر تے مگر یہ سب بُت پرستی کے اجزا ہیں اور مسیح نے بھی ان باتوں کو نا پسند فرمایا ہے۔ لوقا ۱۱۔ ۲۷ میں سے کہ ایک عورت نے کہا مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو رہا اور وہ چھایتا ں جو تو نے چوسیں عیسیٰ نے جواب دیا ہاں مگر زیادہ مبار ک و ہ ہیں جو خد ا کا کلام سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ مسیح کی محبت کے یہ نشان ہیں۔
۱۔ نشان مسیح کو رُوح میں تلا ش کرنا کیونکہ اگر ہم اس کے ہیں تو وہ ہم میں بستا ہے ۔ غزل الغزالات کے ۳۔ ۲ میں اس مضمون کا ذکر ہے ۔ ۲۔نشان اپنی صلیب اُٹھا کے اس کی پیروی کرنا یعنی ایسی پیروی کرنا کہ اگر ا س کے لئے جان بھی جائے تو منظور ہو ۔ متی ۱۰۔ ۳۸ میں ہے کہ اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میری پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔
۳۔ نشان تمام چیزوں سے زیادہ اس کو پیا کرنا ۔ متی ۱۰۔ ۳۷ میں ہے کہ جو کوئی ماں یا باپ کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں ۔
۴۔ نشان مسیح کی خدمت کرنا اور اس کی خدمت یوں ہے کہ اس کے لوگوں کی خدمت کی جائے ۔ متی ۲۵۔ ۲۰ میں ہے کہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ کیا اس نے میرے ہی ساتھ کیا ۔
۵۔ نشان اس کے حکم کو بے کم و کاست(بغير کمی بيشی کے) بجا لانا ۔ یوحنا ۱۴۔ ۱۵ میں ہے کہ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔ پس یہ پانچ نشان مسیح کی محبت کے ہیں جس میں یہ نہیں ہیں اس میں مسیح کی محبت نہیں اور جس میں مسیح کی محبت نہیں اس میں خُدا کی محبت نہیں ۔ پھر دیکھو مسیح نے دنیا کے لوگوں سے تین طرح کی محبت کی ہے عام کلیسیاء سے اور خاص مقدسوں سے اور اپنے دشمنوں سے بھی اسی طرح مگر وہ آسمانی محبت ہم میں ہے تو ہم بھی اسی طرح کریں اور مسیح اور خُدا نے ہم سے اس لئے محبت کی ہے ۔کہ ہماری جان بچ جائے پس اس رعایت سے ہم پر بھی محبت کرنا فرض ہے ۔
اوّل۔ تمام جماعت سے۔ گلتیوں ۶۔ ۱۰ میں ہے کہ سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہل ایمان کے ساتھ ۔
دوئم ۔خادمان ِدین سے جو مسیح کی طرف سے جماعتوں کا بندوبست اور کلام کی خدمت اور بھائیوں کی خدمت کے لئے مقرر ہیں جن کو خُدا کی رُوح نے اس عہدے کے لئے چن لیا ہے جنہو ں نے خُدا کے لوگوں سے اس منصب کی عزت پائی ہے ۔کہ رسولوں اور نبیوں کے تائب ہو کر خُدا کا کلام سنائیں۔ اور دنیا کے سب کاروبار کرکے اسی میں اپنی عمر تمام کریں تم ان سے محبت کرو دیکھو خُدا نے اور مسیح نے ان سے محبت کی ہے کہ یہ عہدہ بخشا ہے ۔ ۱ تھسلینکیوں ۵۔ ۱۳ میں ہے کہ اور ان کے کام کے سبب محبت سےان کی بڑی عزت کرو اور آپس میں میل ملاپ رکھو ۔
سوئم ۔ مقدسوں سے محبت رکھو یعنی ان آدمیوں سے جو خُدا کی جماعت میں ایماندار ہیں اور نیکی کے کام کیا کرتے ہیں اور کلام کے مطیع (تابع) اور فرمانبردار رہتے ہیں ۔۱ پطرس ۳۔ ۱۷ میں ہے کہ سب کی عزت کرو برادری سے محبت رکھو خُدا سے ڈرو بادشاہ کی عزت کرو ۔ چہارم۔ ہر کسی سے محبت رکھو اور دشمنوں کو بھی پیار کرو کیونکہ ہم خُدا کے دشمن تھے اس نے ہم کو پیار کیا اور مفت ہمارے لئے حضرت مسیح کو بھیج دیا۔ متی ۵۔ ۴۴ میں ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا مانگو ۔ یہ اس آسمانی محبت کی تایثر ہے جس کو مسیح نے ظاہر کیا ۔ اب یہ جان لینا چاہیے کہ پیار کس طرح کیا جاتا ہے۔ پیار صرف زبانی نہیں ہوتا بلکہ عمل اور خدمت سے ظاہر ہوتا ہے مثلاً کسی کے دُکھ درد کے شریک ہونا اور اس کی خوشی میں خوش اور غم میں غمزدہ ہونا۔
ان کی خطاؤں کو بخشنا ۔ کمال خاکساری اور فروتنی سے ان کی ایذا کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا اور ہمدردی کے ساتھ ملامت(نصيحت) بھی کرنا، بھوکوں کو کھانا دینا ،ننگوں کو کپڑے پہنانا ،پیاسوں کو پانی پلانا ،بیماروں کی خبر لینا۔ مسافروں کا مکان میں اُتار نا ،میٹھی زبان سے باتیں کرنا لیکن نہ اپنی تعریف اور شہرت کی غرض سے بلکہ سب کچھ محض خدا کی خاطر اور خوشنودی کے لئے کرنا۔ کیونکہ خُدا نے ہم سے بے ریا محبت کی ہے اور ہم بھی یہ سب کچھ اسی کے جلال اور بزرگی کے لئے کریں ۔ تب ہم اس آسمانی محبت سے حصہ پائيں گے ۔ ورنہ ہرگز نہیں ۔ خُداوند تعالیٰ ہم پر اور سب ناظرین پر اپنا فضل کرے کہ اس محبت میں حصہ لے کر اپنے اند ر اس کا اثر دیکھیں خُدا وند مسیح کے فضل سے آمین ۔
رسالہ دوازدہم(۱۲)
خُدا کی بزرگی اور جلال کے بیان میں
اگر انسان خوابِ غفلت سے ذرا بیدا ہو کر دیکھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے خُدا وند یسو ع مسیح سے اور اس کے لوگوں سے اور اس کے کلامِ مقدس سے جس قدر خُدا ئے برتر کا جلال اور اس کی بزرگی ظاہر ہوتی ہے ۔ کسی اور کے کلام سے ہرگز ظاہر نہیں ہوتی ہے اور نہ کوئی شخص اور مذہب اس کو ظاہر کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک کامل رُوحانی دلیل ہے اس بات پر کہ ضرور یہ دین خُدا ہی کی طرف سے ہے ۔ علاوہ کلام ِالہٰی کے کیا عقل بھی اس بات پر گواہی نہیں دیتی کہ ہم سب اس کے بندے ہیں لہذا اپنے خالق اور مالک کی تعظیم اور بزرگی ظاہر کرنا ہم پر فرض ہے جس کی حکمت کے آگے تمام حکماء کی حکمت ہيچ (نکما۔ناکارہ)ہے اور جو اپنی قدرت ِکاملہ سے تمام دنیا او رمافیہا کو عدم سے خیروجود میں لایا۔
اور جس نے اپنے فضل و کرم سے انواع و اقسام کی چیزیں ہمارے قیام اور بقا (زندہ رہنا)کے لئے پیدا کیں ۔ اور جس نے اتنی بڑی زمین کو بغیر سہارے کے کھڑا کر دیا ہے اور اجرام سماوی کو باہمہ شان و شوکت بکھیر دیا ہے اور جس کا علم اتنا وسیع ہے کہ ذرہ سے لے کر آفتاب تک اور تمام جہان کی ہر چیز کو احاطہ (گھيرا)کیا ہوا ہے۔ کیا ہم ایسے بڑے خالق اور مالک کی تعظیم اور بزرگی بیان نہ کریں اور اس کی حمد و ثنا کا تذکرہ کرتےہوئے اس کا جلا ل ظاہر نہ کریں ۔ ضرور ہمارا فرض ہے کہ ہمیشہ جب تک جیتے ہیں اس جہان میں شکر گذاری کے ساتھ اس کے کاموں کو دیکھ کر اس کے فضل اور حکمت اور قدرت کی تعریف سے اپنی ناپاک زبان کو پاکیزگی دیا کریں اور اپنی بہتری کے لئے یہ سچا قاعد ہ پیش نظر رکھیں کہ جو تعلیم اور جو معلم ہمارے ایسے خالق اور مالک کی بزرگی اور جلال کو کماحقہ(جيسا اس کا حق ہے ) تسلیم نہ کرے اس سے نفرت اور پرہیز کریں ۔جو کلام اور تعلیم اور جو معلم سب سے زیادہ اور عقل سے بھی بلا بزرگی اور جلال کے ساتھ اس کی قدرت اور شوکت کا اظہار کرے اس کو تلاش کر کے اپنی آخرت کا ذخیرہ پیدا کریں۔
دیکھو اس نیک اور ضروری قاعدہ کے مطابق تمام جھوٹے مذہب اور باطل تعليميں رد ہو جاتی ہیں کیونکہ اگر انسان صحیح عقل اور صاف دل سے اور اس کی بزرگی کی رعایت سے دنیا کے سب مذہبوں کو ملاحظہ کرے تو سوائے کلامِ الہٰی کے یعنی بائبل کے۔ دوسری تعلیم ایسی نہ پائے گا ۔ جس سے خُدا کا جلال اور اس کی بزرگی ظاہر ہوتی ہو ۔ اہل ہنود کے مذہب کی طرف دیکھو کہ انہوں نے گنہگار آدمیوں کو جن کے چال چلن بھی اچھے نہ تھے۔ خُدا کے اُوتار(خُدا کا انسان کی شکل ميں آنا) مان لیا اور وہ بدیاں جو انہوں نے دنیا میں کیں ان کو خُدا پر جائز رکھا بُرے حکم اور اصنام پرستی(پتھر وغيرہ کے بُت کی پوجا) اور اشجار پرستی (درختوں کی پوجا) اور پاتی پرستی اور زر پرستی (دولت کی پوجا)سے اس کے نام کی عزت دوسروں کو دی۔ اور اس کے کلام سے دور جا کر اپنے شاعروں اور راجوں کی تصانيف (تحريروں ) کو کلامِ الہی ٰبنا لیا ۔اور ان کی تعظیم کی اور طرح طرح کی بدکاریاں کرنا اس کے حکم سے بتلایا ۔اوراس کے نام کی حقارت کی۔ بعض نے اس کی صفات کا انکار کیا۔ اور بعض نے باوجود اقرار کے مخلوقات کو اپنا خالق سمجھ لیا۔ اور سزا کے لائق ہوئے اہل ِاسلام کی طرف دیکھو جو کہتے ہیں نیکی او ربدی خُدا کی طرف سے ہے اس کی بزرگی اور جلال کو داغ لگاتے اور اس کو بدی کا بانی بتلاتے وہ جو نیکی کا منبع ہے اسی کو معاون شر(شرارت کا مدد گار) کہتے ہیں۔ اور آپ پاک بنتے ہیں ۔
حالانکہ پاکیزگی صرف اسی کی ذات کا خاصہ ہے نہ ان کے اماموں اور نبیوں کی لیکن وہ لوگ بلا دلیل(ثبوت کے بغير) خُدا کو بانی شر اور اپنے بزرگوں کو اس سے معصوم جان کر اس مبارک خُدا ئے برتر کی قدوسیت پر عیب لگاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جب انسان سے اس قسم کے ناکردنی اور ناشائستہ(بُرے) افعال سرزد ہوتے ہیں ۔جن کی معقول وجہ وہ نہیں بتلا سکتا ہے تب وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ خد اکی طرف سے ہے۔ اور اس طرح خُدا کو وہ بانی شر بتلاتا ہے۔
علاوہ بریں یہ دونوں فرقے یعنی ہندو مسلمان اور ان کے سوا اور وہ سب فرقے جو انسان کی نجات اس کے افعال پر موقوف رکھتے ہیں۔ وہ بھی اس کی تعظیم میں بند لگاتے ہیں۔ اور اپنے گندے اور ناپاک کاموں کو جو حقیقت میں ناقص ہیں لائق جانتے ہیں ۔کہ اس کی پاک و کامل نجات کو اس کے مبادلہ(بدلے) میں حاصل کریں گے ۔اور مذہبوں کو دیکھو کہ وہ حقیقت ہی کے منکر (انکاری) ہیں ۔ اُن کے نزدیک کچھ حق اور درست ہےہی نہيں۔ اور خُدا کے کاموں کو لغو (فضول) اور بے حکمت جانتے ہیں ۔یہ بھی اس کی ذات پر عیب لگاتے ہیں۔ ہمہ اوست (ہر چيز خُدا ہے )والوں کو دیکھو کہ کیسے سرکش اور باغی ہو گئے۔ کہ خُدا کی عزت اور جلال کو نہ جانا بلکہ ہر ایک چیز کو وہ عزت اور بزرگی جو اسی کے لائق ہے دے بیٹھے ۔
عقل پرستوں کو دیکھو کہ الہام کے منکر ہو کر اس کی ہدایت اور رہنمائی کو ناچیز جانا اپنی ناقص عقل کو جو ناپاک اور بددل کے ساتھ ان کے اندر ہے ایسی عزت اور بزرگی دی۔کہ گویا وہ آپ اپنے خالق کی ہدایت کی حاجت(ضرورت) ہی نہیں رکھتے۔ اسی طرح تمام باطل مذہب اور بُری چال کے چلنے والے اس کی ذات پاک پر عیب(نقص) لگاتے ہیں۔ اگرچہ وہ عمداً اور بہ گمان خود ایسا کام نہ کریں۔ پر ان کی تعلیم ایسی ایسی باتوں سے یہ نقصان پیدا کر رہی ہے اور وہ ان پر غور نہیں کرتے اور یہ بھی بڑی دلیل (وجہ)ہے۔ اس بات پر کہ ان کا طریقہ خُدا کی طرف سے نہیں ہے۔
اب بائبل کی طرف دیکھو کہ اس سے خُدا کا کیسا عالیشان جلال ظاہر ہوتا ہے یسعیاہ ۶۔ ۴ میں لکھا ہے کہ ۔کہ اورایک نے دوسرے کو پکار ا اور کہا قُدوس قُدوس قُدوس رب الافواج ہے اور ساری زمین اس کے جلال کے برخلاف اور اس کے سامنے گستاخی کرتے ہیں۔ تو بھی اس کا حلم اور بردباری (برداشت۔تحمل) اور توبہ کی مہلت دینے کے لئے اس کا چپ چاپ رہنا اس کا جلال ظاہر کرتا ہے ۔ پانچ باتوں کا ذکر کلام اللہ میں پایا جاتا ہے جن سے اس کی بزرگی اور جلال ظاہر ہے ۔
اوّل۔ اس کے نام سے اس کا جلال ظاہر ہے کیونکہ اس کا نام دبدبہ اور شوکت والا اور خوف اور اُمید والا ہے۔ اور وہ ان سب صفتوں کو دکھلاتا ہے ۔ استثنا ۲۸۔ ۵۸ میں ہے۔ کہ اگر تو دھیان رکھ کے اس کی شریعت کی سب باتوں پر جو اس کتاب میں لکھی ہیں عمل نہ کرے گا کہ اس کے جلالی اور ہولناک نام یہواہ اپنے خُدا سے نہ ڈرے۔ تب خُداوند تیری آفتیں اور تیری اولاد کی آفتیں عجیب طرح سے بڑھادے گا ۔
پس اے بھائیو خُداوند کا نام بڑ ا بزرگ اور جلال کا نام ہے مناسب یہ ہے کہ جب ہم اس کا نام لیں تو اسی وقت اس کے رُعب داب سے ہمارے دل لرزاں(کانپ جائيں ) ہو جائیں۔ کیونکہ وہ سارے ناموں سے بلند اور بالا اور قوی تر (نہايت طاقت ور)ہے۔ لوگوں نے کثرت ِاستعمال کے سبب اس پاک نام کی تعلیم چھوڑ دی ہے۔ ہر وقت کاتکيہ کلام کر کے کچھ اس کا خوف اور دبدبہ دلوں میں نہیں دیکھتے ۔ بعض لوگ اکثر اس کے نام کی قسمیں کھایا کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کس کے نام کی بے عزتی کرتے ہیں۔
راقم نےجب خُدا وند مسیح کی خدمت میں حاضر نہیں ہو اتھا ۔ اس وقت ایک محمد ی عالم سے سنا تھا کہ خُداوند کے نام کی تعظیم جیسی عیسائی لوگ کرتے ہیں ایسی دنیا میں کوئی نہیں کرتا ۔لیکن اب مجھ پر اس عالم کی بات کا بھید ظاہر ہوا کہ اسنے سچ کہا تھا ۔ نحمیاہ۹ ۔۵ میں ہے کہ کھڑے ہو جاؤ اور خُداوند اپنے خُدا کو ابدالآباد مبارک کہو ۔بلکہ تیرا جلالی نام مبارک ہو جو ساری مبارک بادی اور حمد پر بالا ہے ۔چونکہ اس کانام جلالی ہے۔ اس لئے خروج ۲۰ ۔ ۷ میں ہمیں حکم دیا ہے کہ تو خُداوند اپنےخُدا کا نام بے فائدہ مت لے کیونکہ جواس کا نام بے فائدہ لیتا ہے ۔ خُداوند اسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا ۔
چند آیتوں سے ظاہر ہے کہ خُدا نے اپنے پاک نام کو رُعب کے طور پر کئی جگہ بیان کیا ہے۔ خروج ۶۔ ۲ میں ہے کہ پھر خُدا نے موسیٰ کو فرمایا اور کہا میں خُداوند ہوں۔ اور یہی حقیقی تفاخر (فخر)خروج ۳۔ ۱۴ میں ہے کہ میں وہ ہوں جو میں ہو ں اور اس نے کہا تو بنی اسرائیل سے یوں کہو کہ وہ جو ہے اس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے دیکھو کلامِ اللہ میں یہ نام رعب کے ساتھ مذکور ہوا ہے چاہیے جہاں یہ نام مذکور ہو فوراً خوف اور دہشت اور اُمید کے ساتھ اس پرتو جہ کریں ۔ ورنہ نام کی بے عزتی کے باعث سزاکے لائق ہو جائیں گے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے بغاوت اور شیطان کا تخم (بيچ) ان کے دلوں میں موجو د رہتا ہے۔ بعض محمدی حدیثوں میں لکھا ہے کہ محمد صاحب کا نام پاک جگہ میں لینا مگر خُدا کا نام جہاں چاہو لو کچھ ڈر نہیں ہے۔ دیکھو یہ کیسی بڑی بات ہے۔
دوم اس کی عظمت سے اس کا جلال ظاہر ہے ایوب ۳۷۔ ۲۲ میں ہے کہ اور سمت شمال سے سونے کی سی تجلی(روشنی ) آتی ہے خُدا کا ہیبت ناک جلال ہے قادر مطلق جو ہے ہم اس کے بھید تک پہنچ نہیں سکتے اس کی قدرت اورعدالت عظيم ہیں اور اس کا انصاف بھی فراواں ہے ۔ یعنی اس کی بڑائی جو اس کی ذات کا خاصہ ہے اس کی بزرگی اور جلال کو ظاہر کرتی ہے۔ ۹۳ زبور ۱ میں ہے کہ خُداوند سلطنت کرتا ہے ۔ وہ شوکت کا خلعت (لباس )پہنے ہوئے ہے اس نے اپنی کمر قوت سے کَسی (باندھی)اس لئے جہاں قائم ہے کہ وہ ٹلتانہیں ۔ ۱۰۴ زبور ۱ میں ہے کہ اے میری جان خُداوند کو مبارک کہہ اے خُداوند میرے خُدا تو نہایت بزرگ ہے تو حشمت اور جلال کا لباس پہنے ہوئے ہے۔
سوئم ۔ خُداوند کا جلال اس کے کاموں سے ظاہر ہے یعنی جو کام اس نے کئے یا جو کام لوگوں نے کئے اور خُدا نے ان کے کاموں کی نسبت ان سے کوئی معاملہ برتا ان سب سے اس کی عظمت اور بزرگی ظاہر ہے ۔ ۱۹زبور ۱ میں ہے کہ آسمان خُدا کا جلا ل بیان کرتے ہیں اور فصااس کی دستکاری دکھلاتی ہے ۔ ۱۱۱ زبور ۳ میں ہے کہ اس کا کام جاہ و جلال ہے اس کی صداقت ابدتک قائم ہے اس کی قدرت اس کا جلال ظاہر کرتی ہے خروج ۱۵۔ ۱ میں ہے کہ میں خُداوند کی حمد و ثنا گاؤں گا کہ اس نے بڑے جلال سے اپنےتئیں ظاہر کیا کہ اس نے گھوڑے کو اس کے سوار سمیت دریا میں ڈال دیا۔ آیت ۶ میں ہے کہ اے خُداوند تیرا دہنا ہاتھ زور میں مشہور ہوا ہے اے خُداوند تیرے دہنے ہاتھ نے بیریوں (دشمنوں )کو چُور چار کیا۔
چہارم ۔ اس کی صفتوں سے ان کی تاثیروں سے اس کا جلال ظاہرہے رسولوں سے اور نبیوں اور مقدسوں سے اور پیش گوئیوں سے اور معجزات سے اس کی بندگی ظاہر ہوتی ہے۔
پنجم ۔خُداوند عیسیٰ مسیح سے اس کے جلال سےظہور پایا یوحنا رسول نے اپنی انجیل کے ۱۔ ۱۴ میں یوں ذکر کیا ہے۔ اورمسیح کی نسبت یوں لکھا ہے کہ کلام ( یعنی خُداوند یسوع جو ازل سے باپ کے ساتھ تھا)۔ مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسے باپ کےا کلوتے بیٹے کا جلال۔ ۲ ۔کرنتھیوں ۴۔ ۶ میں ہے کہ اس لئے کہ خُدا ہی ہے جس نےفرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکاتا کہ خُدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گرہو ۔ عبرانيوں ۱۔ ۳۔میں ہے۔ کہ وہ اس کے جلال کا پر تو(عکس) اور اس کی ذات کانقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سبنھالتا ہے۔ وہ گناہ ہوں کو دھو کر عالم بالا پر کبِریا (خُدا)کی دہنی طرف جا بیٹھا ۔
پس یہ پانچ باتیں ہیں جن سے اس کاجلا ل ظاہر ہے اور کوئی بات ان سے باہر نہیں ہے یعنی اس کا نام اس کا کلام اس کی عظمت اور قدرت اس کی صفات اور خُداوند یسوع مسیح ۔ چند مضمون اس الہٰی جلال کے متفق ہیں۔
اوّل۔ يہ کہ اس کا یہ جلال ابدی اور ازلی ہے۔ ۱۰۴زبور ۳ میں ہے کہ خُداوند کا جلال ابدی ہے خُداوند اپنی صنعتوں سے خوش ہے۔
دوم ۔ يہ کہ جلال مستغنی (آزاد)اور بے پرواہ ہے۔ افسیوں ۳۔ ۱۶ میں ہے کہ وہ اپنے جلا ل کی دولت کے موافق تمہیں یہ عنایت کر ے کہ تم اس کی رُوح سے اپنی باطنی انسانیت میں بہت ہی زور آور ہو جاؤ یعنی تمہارے کاموں کے سبب اور نہ کسی استحقاق (حق)کے باعث بلکہ صرف اپنے جلا ل کے موافق یہ بخشی ۔
سوئم۔ يہ کہ خُداوند اپنے جلا ل میں غیور ہے وہ نہیں چاہتا کہ یہ جلال جو اس کی ذات پاک کا خاصہ ہے کوئی دوسرا اس میں دست اندازی کرے اسی جلال میں شیطان نے دست اندزای کی وہ ملعون(لعنت کيا گيا) ہو گیا ۔ اسی جلال میں بُت پرستوں اور بے ایمانوں نےخلل ڈالا ہے کہ وہ جہنم کے سزا وار ہوئے اس دینداری کا یہی بھید ہے ۔ اور دنیا اس سے ناواقف ہے جس پر یہ جلال کا بھید کھل جاتا ہے وہی دیندار ہوتا ہے۔ یسعیاہ ۴۲ ۔ ۸ میں ہے کہ یہواہ میں ہوں یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت کسی دوسرے کو نہ دُوں گا ۔ اور وہ ستایش جو میرے لئے ہوتی ہے کھودی ہوئی مورتوں کے لئے ہونے نہ دُوں گا۔
یہاں سے ظاہر ہے کہ خُدا اپنا جلال کسی دوسرےکو دینا نہیں چاہتا پس جو لوگ اس کا جلال دوسری چیزوں کے لئے عمداً یا غلطی میں پڑ کر یا کسی کے بہکانے سے دیتے ہیں وہی سب کے سب خُدا کے دشمن اور باغی ہیں۔ مثلاً معبود ہونا اسی صاحب ِ جلال کو لائق ہے ۔ اگر کوئی آدمی بُت پرستی یا قبر پرستی کرے خواہ مراقبہ (سب چيزوں کو چھور کر خُدا کا دھيان کرنا)سے یا تعظيم بے جا سے یا کوئی شخص فنا نی الشیخ یا فنانی الرسول (فقر کا وہ مرتبہ جس ميں مريد اپنے مرشد يا رسول کے خيال ميں ڈوبا رہے )ہونے بيٹھے وہ خُدا کا جلال دوسروں کو دیتا ہے وہ خُدا کی درگاہ سے باغی ہو کر بھاگا ہے ضرور وہ غارت ہوجائے گا ۔ جب تک وہ تو بہ کرے اور حاضر ہو کر اپنے گناہ کا اقرار نہ کرے دوسرے یہ کہ وہی قادر مطلق قابلِ بھروسہ ہے جس کاایسا جلال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی طاقت یا اپنی بزرگی کی طاقت یا رشتہ دار بھائیوں کی طاقت یا کسی پیر فقیر کی طاقت اور جھوٹے مذہب پر بھروسہ رکھے یا امیروں کا بھروسہ دل میں آنے دے ضرور خُدا کا غصہ اُس پر ہو گا اس نے خُدا کا جلال دوسروں کو دیا ۔ ۳۔ یہ کہ اسی خُدا کی محبت اور پیار سب سے زیادہ دل میں رکھنا لائق ہے۔ کیونکہ وہ صاحبِ جلال ہے اور اگر کوئی آدمی دنیا کی چیزوں کو زیادہ پیار کرے اور دنیا کے خوف سے اس کی خدمت میں حاضر ہو تو اس نے بھی خُدا کا جلال دوسری چیزوں کو دیا علی ہذا القیاس اسی جلال سے انحراف(مخالفت) کرنے کے باعث ہر ایک گناہ موجود ہوتا ہے اور سب طرح کی برکتیں اور نعمتیں اسی جلال سے عنایت ہوتی ہیں تمام مقدس اسی کے شوق میں سو گئے اور اسی پوڑی (سيڑھی)سے فضل کی بلندی پر جا چڑھے ۔ ۶۳ زبور ميں ہے کہ اے خُدا تو میرا خُدا ہے ۔ میں تڑکے تجھے ڈھونڈوں گا میری جان تیری پیاسی ہے۔ اور میرا جسم خشک اور دھوپ کی جلی ہوئی زمین میں جہان پانی نہیں تیرا مشاق(خواہش مند ) ہے تا کہ تیری قدرت اور تیری حشمت کو دیکھے جیسا کہ میں نے بيت قدس میں دیکھا ہے ۔ ۹۰ زبور ۱۶ میں ہے کہ اپنے کام اپنے بندوں کو اور اپنی شوکت ان کے فرزندوں کو دکھلا ۔
چہارم ۔يہ کہ کلیسیاء عیسیٰ خُدا کے لوگوں کی جماعت اسی الہٰی جلال سے روشن ہے یسعیاہ ۶۰۔۱ ، ۲ میں ہے کہ اُٹھ روشن ہو کہ تیری روشنی آئی خُدا وند تجھ پر طالع ہو گا اور اس کا جلال تجھ پر نمودار ہو گا ۔
پنجم يہ کہ یہی جلال ایک وقت میں خاص طور پر ظاہر ہونے والا ہے کہ تمام زمین اس سے بھر جائے گی ۔ جب خُداوند عیسیٰ مسیح آئے ۔ حبقوق ۲۔ ۱۴ میں ہے کہ کیونکہ جس طرح پانی سے سمندر بھر اہوا ہے اسی طرح زمین خُداوند کے جلال کی شنا سائی (واقفيت)سے معمور ہو گی ۔
ششم۔ یہ کہ یہ الہٰی جلال بعض وقت اسی جہان میں بعض بندوں پر ظاہر ہوا ہے مثلاً موسیٰ پر اور بعض انبیاء پر اور مسیح کے عہد میں حواریوں پر اور ایک بڑی بھیڑ پر کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ اس کا حقیقی جلال دیکھ سکے ہاں اس کی تجلی(روشنی) دیکھ سکتے ہیں لیکن آخری وقت میں جب مسیح آئے گا ۔ اور اس جلال کے دیکھنے کے لائق بنائے تو دیکھیں گے ۔ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کا جلا ل اس جہان میں ظاہر ہوا ہے۔ اور ہم اس کے بندے اوراس کے لوگ ایسے جلال کے ظاہر کرنے کو مامور ہیں اگر کوئی آدمی اپنی نجات چاہے وہ ہمارے خُدا وند کا جلال ظاہر کرنے میں سعی(کوشش) کرے اور جناب ِمسیح کے جلال کو ہر وقت پیش ِ نظر رکھے ۔ دیکھو جناب مسیح کا جلا ل اس سے ظاہر ہے کہ وہ خُدا کا بیٹا بھی تھا جو ازل میں باپ سے مولود ہے پھر وہ باپ کے ساتھ ایک خُدا بھی ہے خُداوند وں کا خُدا وند وہ ہے ۔ خُدا کی ماہیت کا نقش وہ ہی ہے ۔ خالق ہے اور وہ ہی مبارک ہے ہر نیکی کا وسیلہ وہ ہی ہے پیغمبر اور سردار کا ہن بھی وہی ہے بادشاہوں کا بادشاہ اور حاکموں کا حاکم اور اُمت کا چوپا ن اور کلیسیا ء کا سردار اور اس کی بنیاد بھی وہ ہی ہے سچائی اور سچا نو ر اور سچی راہ اور حقیقی زندگی بھی وہی ہے ۔ یہ سب صفتیں اس کے کلام میں مذکور ہیں جن سے اس کا جلال ظاہر ہے اور یہ زمین آسمان اور تمام ابنیاء اور رسول اور سب عبادات اور سب دین کے معاملات اور آدمی اس کے ناقص نمونے تھے۔ اسی کا ظہور اوّل سے آخر تک ہے یہ سب مضامین بھی اس کا جلال دکھلاتے ہیں اس کے سوا اس کی پاک گفتگو اور اس کے سب کام اور اس جہان کی زندگی سب کے سب اس کا جلال ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کی جفاکشی اور ایذا کی برداشت اور مرکے جی اُٹھنا اور آدمیوں کو بچانا اس کا کامل جلا ل دکھلاتے ہیں۔ اس کی رحمت اور مہربانی جو اس نے ہم پر کی ہے ۔ اور ہم جو غیر قوموں میں سے ہیں ۔ اور خُدا کی رحمت سے دُور تھے اسی نے اپنے اس عالی جلال سے ہمیں بلایا يہ جہان اسی کا ہے پس اے بھائیوآؤ ہم سب خُدا کو جلال کوديں تا کہ اس کے حقیقی بندے اور دوست بن جائیں مگر یہ جلال الہٰی سوائے کلام الہٰی کے دوسری تعلیم سے انسان پر ظاہر نہیں ہو سکتا اس لئے سب کی خدمت میں عرض ہے کہ مسیح کے پاس آؤ تا کہ اس الہٰی جلال سے جو اس کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے۔ خُدا کو جلال ديں ۔یہ آخری رسالہ حقیقی عرفان کا جو فی الحقیقت سچی شناسائی بتلا تا ہے خُداوند کے جلال اور اس کے نام کی عظمت پر تمام کیا جاتا ہے اسی کا جلال ابدالآ باد ہو۔ آمین۔