HOW GOD INSPIRED THE BIBLE

BY

Rev. Dr. Patterson Smyth, D.D.

بائبل کا الہٰام

جس میں بائبل کے الہٰام کی حقیقت ۔ ماہیّت اور حیثیّت پر مفصّل ۔ مدلّل اور نہایت دلچسپ بحث کی گئی ہے

مُصنّف

ڈاکٹر جے ۔ پیٹرسن سمائتھ صاحب ۔ ڈی۔ ڈی

پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی

انارکلی ۔ لاہور

Committee On World Literacy

And Christian Literature

Patterson Rev. Dr. Patterson Smyth, D.D.

1852-1932

پہلا حصّہ

موجودہ بے چینی اور اس کا علاج

باب اوّل

بے چینی

آج کل کا حل طلب عقدہ

جس مسئلے پر ہم بحث کرنے بیٹھے ہیں اسے اگر عقدہ(مشکل بات ) کہیں تو بجا ہے۔ نہ صرف اور مذہبی اخباروں اور رسالوں میں بلکہ ان میں بھی جن کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔نہ صرف دیندار اور مذہبی لوگوں بلکہ لا مذہب اور غیر مذہب اور ہر قسم کے اشخاص کے درمیان اس مسئلے پر بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ اور ہر ایک اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس عقدے (مشکل)کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ملک میں بے شمار لوگ یہ سوال کر رہے ہیں ۔ گو ان میں سے اکثر زبان سے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ کہ بائبل کے دعوے کیا ہیں؟ اس کا الہٰام کیا ہے؟ اس کا منبع)بنياد) کہاں تک انسان میں ہے؟ کہاں تک خدا میں ؟ وہ کس حد تک سہوو خطاء (غلطی و خطا)سے مبرا (پاک)ہے۔ کیا وہ فقط ’’ زمانہ قدیم کے پاک لوگوں ‘‘ کا کلام ہے؟ یا کیا وہ لفظ بلفظ خدا کا کلام ‘‘ ہے؟

اس سے پہلے شايد ہی کبھی ان سوالات کے متعلق سوچنے والے اور اہل الرائے(عقل مند) اشخاص کے درمیان اس قدر تحقیقات ،بلکہ ایک صورت سے کر سکتے ہیں۔ اس قدر بے چینی پیدا ہوئی ہو گی ، جو جو اب گذشتہ زمانہ میں دئے جاتے تھے۔ اُن سے لوگوں کی تشفی (تسلی )نہیں ہوتی ۔ اور اس وقت اگر کوئی یہ بھی کہہ بیٹھے ، کہ اس قسم کے سوالا ت پر عام طور پر بحث کرنا خلاف عقل اور پُر خطربات ہے ۔ تووہ احمق(بےوقوف) سمجھا جائے گا۔ اگر اس قسم کے سوالوں سے بے اعتنائی (لا پروائی )کرنا دُرست بھی ہوتا تو بھی اب انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ یہ سوال اب فقط نقطہ چینیوں عالمان علمِ الہٰی کا حصّہ نہیں رہے۔ اور نہ ایسی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا سمجھنا یا دستیاب ہونا (ملنا)مشکل ہو ہمارے کثیر الاشاعت (زيادہ چھپنےوالے)رسالوں اورمذہبی اخباروں میں برابر اُن کا ذکر پاياجاتا ہے۔ اور اہل ِعلم عوام ِالناس کو نہ صرف یہ باتیں بتاتے ہیں۔ بلکہ عموماً جو کچھ خود علماء کو ان امور میں واقفیت ہوتی ہے۔ عوام کو سب کا سب بتادینے سے دریغ (افسوس) نہیں کرتے۔

جب کبھی لوگوں نے ان عقدوں (مشکل باتوں)جو بائبل کے مطالعہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جو عموماً ہر زمانہ میں اس قسم کے سوالات لوگوں کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ مگر اکثر ان کے حل کرنے سے پہلو تہی (کنارہ کشی)کی جاتی تھی۔ اور ان کو یا تو عقدہ لا یخل (مشکل جو حل نہ ہو سکے)سمجھ کر یا یہ کہہ کر کہ ان کو حل کرنے کی کوشش کرنا بے ادبی ہےٹا ل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس قسم کےبہانوں کا موقع نہیں رہا۔ آج کل یہ سوالات اس قسم کی آزادی اور بے باکی (دليری)سے کئے جاتے ہیں کہ یہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کا کوئی نہ کوئی معقول (مناسب)جواب دینا چاہیے۔ بائبل کی تاریخ میں ایک ایسا اہم زمانہ پہنچا ہے۔ جس میں سے ہماری موجودہ نسل کو گذرنا ضرور ہے۔ اور اگر چہ گذر جھگڑے اور دل سوزی (دل جلنا)سے پُر ہوگا۔ اور مذہب کی آئندہ حالت کی نسبت (مقابلہ)طرح طرح کے شک وشبہ اور خوف و اندیشے پیدا ہوں گے۔ اگر ہمیں یقین ہے کہ آخری نتیجہ یہی ہو گا کہ بائبل کو مسیحیوں کےدل میں پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط اور دیرپا جگہ حاصل ہو جائے گی ایسے نازک وقت خدا کی طرف سے سمجھنے چاہیں ۔ یہ اس طریق وا نتظام کا حصہ ہیں۔ جو اس نے دنیا کی ترقی و بہبودی کے لئے ٹھہرا رکھا ہے ۔ جب کوئی کبھی سچائی انقضائے زمانہ( زمانے کاخاتمہ) سے غلطی مخلوط(مِلاجُلا) ہو جاتی ہے۔ تو اسی طور سے لوگوں کے اعتقادات (عقيدہ۔يقين)کے ہلانے اور مضطرب(بے قرار) کرنے سے اس بدی کا تصفیہ (صفايا)کیا جاتا ہے۔ اور ’’اب پھر ایک بار ‘‘ خدا ان عام تصورات کو جو لوگوں میں بائبل کی نسبت مروج (رائج)ہیں ہلا رہا ہے۔ ’’اور یہ عبارت کہ پھر ایک بار اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو چیزیں ہلادی جاتی ہیں مخلوق ہونے کے باعث ٹل جائیں گی ۔ تاکہ بے ملی چیز یں قائم رہ سکیں ‘‘(عبرانیوں ۲۷:۱۲)۔

ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے کو جو ہمارے اردگرد جاری ہے۔ غور سے نگاہ رکھیں ۔ اور ان تمام باتوں کو جن میں سے اکثر خدا کی اس منشاء(مرضی) کو جو بائبل کی نسبت رکھتا ہے بلاجانے پورا کر رہی ہیں جانچتے(پرکھتے) رہیں۔

(1)

بے چین ، سمجھدار ، دیندار آدمی

ہمیں یہاں اس امر کوبتا دینا چاہتے ہیں کہ اس کتاب کے لکھنے میں ہمارا روئے (گفتگو )کلام کن اصحاب(دوستوں) کی طرف ہے ۔ ہم ان سوچ بچار کرنے والے دیندار آدمی کومخاطب کرتے ہیں جن کے دل بائبل کی طرف سے اس وجہ سے بے چین ہو رہے ہیں۔ کہ انہیں روایتی اعتقاد کو مجبوراً چھوڑنا پڑا ہے۔ اور ابھی تک کوئی دوسری معقول وجہ دستیاب نہیں ہوئی جس کی بناء پر ان کا اعتقاد قائم ہو۔ مگر ہمیں یہ یقین کرنا چاہیے کہ ہر ایک سچے اور نیک شخص کے دل میں جب خدا اس قسم کی بے چینی اور بے اطمینانی پیداکرتا ہے ۔ تو اس سے اس کا منشا(مر ضی) یہ ہوتا ہے۔ کہ اس شخص کو ایک اعلیٰ سچائی کی طرف رہنمائی کرے۔ اب ہم دیکھتے ہیں۔ کہ مختلف قسم کے خیالات جن سے اُسے سابقہ(واسطہ) پڑتا ہے۔ ایسے شخص کے ذہن اور عقل پر کس طرح اپنا اثر ڈالتے ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ میں نہ تو بائبل کو ردّ کرتا ہوں اور نہ اس کی طرف سے بے اعتقاد ہوں ۔ ہرگز نہیں۔ مگر اس کی طرف سے میرا دل بے چین ہو رہا ہے۔ میرا یقین ہل گیا ہے۔ مجھے اس کتاب میں سے اس کے الہٰامی مصنفوں کے ایسے اقوال ملتے ہیں۔ جو اس مقیاس (پيمانہ)سے جو مسیح نے مقر ر کیا ہے۔ پورے نہیں اُترتے ۔ میں سنتا ہوں کہ اس کے تاریخی بیانات میں نقص پائے جاتے ہیں۔ بہت سے امور علوم کے مصدقہ(تصديق کيا ہوا) نتائج سے مختلف ہیں۔ اس کے ابتدائی زمانہ کی اخلاقی تعلیم بالکل بے ڈھنگی(نا موزوں) اور ناکامل(نا مکمل) ہے۔ اور اس کتاب میں جسے میں یہ سمجھتا تھا کہ براہ راست خدا کی انگلیوں کی لکھی ہوئی ہے مختلف اوقات میں تالیف و ترتیب و اصلاح و ترمیم (کتاب مرتب کرنا اور اس کی درستی و اصلاح کرنا)واقع ہونے کے نشان پائے جاتے ہیں ۔ میں اب بھی اس رُوحانی تسلی و اطمینان کے لئے جو اس سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے چھوڑنا نہیں چاہتا ۔ اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اگر بالفرض یہ الزامات سچ بھی ہوں تو بھی وہ کتاب دُنیا میں ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے ۔ مگر تو بھی میرا دل مضمحل (رنجيدہ)اور بے چین ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کس کس بات پر یقین کروں ۔ اس کی نسبت ا ب میرا دل ميں وہ کامل یقین باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے اس کے اوراق ایسے اعلیٰ تسلی و اطمینان سے پُر معلوم ہوا کرتے تھے۔

(2)

بے دین

’’ حال ہی میں میری مشکلات اور بھی سخت اور واضح ہو گئیں ہیں۔ میں بے دنیوں کی کوششوں کو جس کا اثر ہر طرف پایا جاتا ہے ۔ دیکھتا ہوں میں ہر روز ایسے آدمیوں سے بھی ملتاہوں جو بالکل بےدين اورملحد(بے دین،کافر)ہيں اورہرطرح کےمذہب کونفرت وہ حقارت سےديکھتے ہيں۔ مگر ان کے درمیان بھی ایسے اشخاص ہيں۔ جو سچے اور پُر ملال(افسردہ) دل سے مگر بلاخوف خالص سچائی کی تلاش میں ہیں۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کی سب سے بڑی مذہبی مشکلات بائبل کی وجہ سے ہیں۔ خواہ میں ان کی کتابوں کو پڑھوں یا اُن کے لکچروں کو سنوں یا زبانی گفتگو کروں میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے حملوں کا سب سے بڑا نشانہ بائبل ہی ہے۔ وہ صرف طعنے اور طنز یں نہیں کرتے بلکہ مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اکثر اوقات نہایت مضبوط دلائل بھی اُن مشکلات کےخلاف پيش کی جاتی ہيں جو بائبل کےمطالعہ سے پیدا ہوتی ہيں ان ميں بہت سی مشکلات تو ايسی ہيں جو خود ميرےدل ميں بھی خواہ مخواہ پيدا ہوا کرتی تھيں اور میں یا تو اُن پر سے بے مطالعہ کئے گذر جاتا تھا۔ یا انہیں فراموش(بھلانا) کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں نے انہیں سلانے کی کوشش کی مگر اب وہ سونے سے انکار کرتی ہیں کیوں کہ ان بائبل کے حملہ آوروں نے انہیں بالکل بیدار کر دیا ہے اکثر لوگ ہنس ہنس کر کہتے ہیں کہ دیکھو یہ مسیحی بھی کیسے سریع الاعتقاد (جلدی ايمان لانے والے )ہیں۔ کہ ایسی ایسی بے ہودہ باتوں پر یقین کرتے ہیں کہ خدا نے سارے عالم کی گرد ش کو ٹھہرا دیا ہے ۔ تاکہ یوشع(یسعیاہ) کنعانیوں پر اپنی فتح کی تکمیل کر سکے‘‘۔ وہ بڑے تمسخر(مذاق) کے ساتھ اس محبت بھر ے خدا کےکلام ، کو نقل کرتے ہیں کہ اے بابل کی بیٹی مبارک وہ جو تیرے لڑکوں کو پکڑ کے پتھروں سے پٹک دے۔

’’میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ جب میں بڑی فصاحت(صفائی) اور زور کے ساتھ اس قسم کے الفاظ عالم ِ اہل حرفہ (کاريگر)کی جماعتوں کے سامنے بیان ہو تے سنتا ہوں ۔ جن کو بچپن میں میری ہی طرح بائبل پر یقین رکھنے کی تعلیم دی گئی تھی ۔ نہیں بلکہ خود وہ لکچراربھی بچپن میں ایسا ہی یقين رکھتا تھا۔ اور میرےخیال میں نہیں آتا کہ کم سے کم اُن کے پہلو سے کس طرح اس قسم کی مشکلات کا جواب دینا ممکن ہے۔

(3)

بائبل کا عالم

’’ لیکن ایک دُوسرے پہلو سے بھی ایک اور اثر میرے اعتقادی امور پر پڑ رہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سی باتیں جو بائبل کے متعلق میرے کئی ایک خیالات کے اُلٹا دینے والی ہیں۔ ایسے اشخاص کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، جو نہ تو بے اعتقاد ہیں ،نہ مذہب کے دشمن ہیں، نہ اُس کی تو ہین روا رکھنے والے ہیں۔ بلکہ وہ بڑے ادب و لحاظ سے سالہا سال تک اس کے متعلقہ امور کی تحقیقات میں مشغول رہے ہیں۔ ان میں یونیورسٹیوں کے پروفیسر ، کلیسیاء کے بشپ اور اعلیٰ عہدے دار اور ایسے ایسے اصحاب شامل ہیں جن کی اعلیٰ علمیت اور دینداری اور خدا پرستی میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا ۔ اور یہ نہ صرف ایک جماعت سے بلکہ مختلف کلیسیاؤں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف سلسلہ خیالات کے پابند ہیں۔ ان کی باتوں سے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بائبل کی نسبت وہی خیالات نہیں رکھتے جیسے کہ اُنہیں بچپن میں تعلیم دی گئی تھی ۔ یا جیسا کہ عوام الناس میں سے ہزاروں دیندار مرد و عورت آج کل بھی مانتے ہیں۔ وہ يہ کہتے ہیں کہ اس میں سے بہت کچھ انسانی عنصر پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ باقاعدہ غور کرنے سے الہٰی عنصر بھی کچھ کم نظر نہیں آتا ۔ اُن کا یہ خیال ہے ۔ کہ بائبل بہت سی باتوں ميں ديگرکتب کی مانند ہے خاص کر عہد ِعتيق کے نوشتوں کے لحاظ سےاور وہ اس بات کے بھی قائل ہیں یہ ممکن ہے کہ قدیم مصنفوں نے بعض علمی اور تو اریخی باتوں کی نسبت بیانات کر ديےہوں ۔ جو غیر صحیح اور بے ڈھنگے(نا موزں) ہیں ۔ وہ یہ بھی دکھلاتے ہیں۔ کہ عہِد عتیق میں اخلاقی تعلیم ۔ بمقابلہ عہد ِجدید کے بہت ہی گر ی ہوئی ہے ۔ اور وہ یہ بھی دیکھتے ہیں۔ کہ ان کتابوں کی تالیف و ترتیب (درستی و جمع کرنا)میں بہت کچھ آزادی برتی گئی ہے۔ یہ باتیں میرے مسلمہ (مانے)تصورات کو جو بائبل کی حیثیت کی نسبت رکھتا ہوں ۔ بالکل تباہ کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔

’’ ان سب امور کی موجودگی میں میرے لئے اُن خیالات کا پابند رہنا جو بچپن میں مجھے سکھلائے گئے تھے۔ بالکل ناممکن ہے مگر ساتھ ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان خیالات کو ترک کرنا پاک نوشتوں کے الہٰی اختیار و مسند(ثبوت) کو ترک کرنے کے لئے برابر ہے‘‘۔

(4)

کٹّرديندار

اب ہم اس شخص کے تجربہ کا اور زیادہ کھوج لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس بے چینی کی حالت میں اُسے مذہبی دوستوں سے کیا امداد ملتی ہے۔ عموماً اس کی یہ صورت پائی جاتی ہے کہ ان لوگوں میں سے بعض تو سیدھے سادھے مسیحی ہیں۔ جو زیادہ تر خدا کی رفاقت میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور بائبل کو اس روحانی تسلی اور قوت کا مبنع سمجھتے ہیں۔ اور اس آزادانہ اور بے لحاظ نکتہ چینی کو ُسن کر جو آج کل اس پر کی جاتی ہے اُن کے دل کانپ کر ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اپنے دو ست کی اس بے چینی کو شیطان کی آزمائش خیال کرتے ہیں۔ اور اپنے تجربہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح ایک زمانہ میں اُن کے دل میں گھس کر انہيں طرح طرح کے وسوسوں (وہموں)اور توہمات (شک)کا شکار بناتا رہا ہے۔ یہ اُس کے ایمان کی آزمائش ہے۔ اُسے چاہیے کہ بڑی مضبوطی سے اپنے خیالات کو ان باتوں کی طرف سےہٹائے رکھے ۔ اور اپنے گھٹنوں پر یعنی دُعا کے ذریعے اس قسم کے شبہات (بد گمانياں)سے جنگ کرے ۔ اور اگرچہ وہ کسی طرح سے اس کی تسکین نہیں کر سکتے مگر اُن کے اس سادہ ایمان سے اس کو کسی قدر تسلی ملتی اور کچھ کچھ اُمید پیدا ہوتی ہے ۔ وہ دیکھتا ہے ۔ کہ ان کے کلام میں منطق و دلیل(علمِ دليل) تو نہیں ۔ مگر تو بھی اس میں شک نہیں کہ بائبل نے ان زندگیوں پر قوی(بھاری ) اثر کیا ہے۔ اور وہ ایک اعلیٰ مقام میں خدا کے ساتھ سکونت (رہنا)کرتے ہیں ۔ جہاں اس کے ایسے شک و شبہات ان کو بے چین نہیں کر سکتے ، اور اس طور سے ان کے ذریعہ سے اس کے اعتقاد کو ایک مخفی(چھپی ہوئی) قوت و امداد حاصل ہوتی ہے۔

ان میں سے بہت سے اشخاص جن میں سے کئی ایک سے میں خود بھی واقف ہوں ۔ غور فکر کرنے والے ، اہل الرا ئے(عقل مند) اور خدا پرست آدمی ہیں۔ جو ان سوالات کو جو بائبل کے متعلق پیدا ہوتے ہیں پڑھتے اور اُن میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مگر اس سے ان کے دل میں کسی قسم کے شبہات یا بے چینی پیدا نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ ان کا مزاج ہی ایسا مطمئن واقع ہوا ہے۔ کچھ یہ کہ انہیں پاک نوشتوں میں ایسی ایسی پاک اور خوبصورت باتیں ملی ہیں کہ وہ مشکلات کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔ اور کچھ یہ کہ وہ بہت سے آدمیوں کی طرح منطق )دليل)ایسے پابند نہیں اور نہ اپنے مقدمات کے صحیح نتائج کی پروا کرتے ہیں ۔ بلکہ سرسری طور پر کشف و الہٰام(خدا کی طرف سے ظاہر ہوئی بات) کے قدیمی خیال کو لئے رہتے ہیں ۔ اور جب کبھی کوئی مشکل دامن گیر ہوتی ہے ۔ تو بخندہ پیشانی (خوش مزاجی)سے کھسک جاتے ہیں۔ مگر ایسے اشخاص شک و شبہات کے گرفتارآدمی کو کچھ مد د نہیں دے سکتے ۔

پھر ایسے آدمی بھی ہیں ۔ جنہیں اپنی ہر ایک با ت کی بابت ایسا کامل یقین اور بھروسہ ہے کہ وہ کبھی اپنے فیصلوں کو معرض التواء (ملُتوی کرنا)میں ڈالتا پسند نہیں کرتے ۔ اس کتاب کے ناظرین اکثر ایسے اشخاص سے واقف ہوں گے۔ جنہوں نے حقیقی غور و فکر کرنے کی کبھی تکلیف گوارا نہیں کی ۔ جن کے دل میں نہ تو کبھی شبہات کو دخل ہے اور نہ تحقیقات کے شائق (شوقين)ہیں۔ جو مذہب کو ایک طرح سے اپنے ہی تصورات ِالہٰام کا پابند سمجھتے ہیں ۔ اور اس طرح سے صحیح یقین و اعتقاد کو جو بائبل کے متعلق رکھنا چاہیے ۔ اس کو معرض ِخطر میں ڈالتے ہیں۔ الہٰام کا ایسا خیال جو الہٰی عظمت و آزادی اور جلال کے مطابق ہو۔ اُن کی عقل و فکر میں بھی سما نہیں سکتا ۔ اُن کا تصور الہٰام کے بارے میں اس قسم کی سخت پابندی کا خواہاں ہے۔ جس سے تاریخ ِبائبل کے ہرایک واقع اور بیان کی صحت و درستی شرطی ہو۔ اس کے بیانات متعلقہ سائنس اُنیسویں (۱۹) صدی کی تحقیقاتوں اور دریافتوں(معلومات) کے ساتھ بالکل ٹکر کھائیں۔ اور اس کی اخلاقی تعلیم ہر ایک زمانہ میں کامل پائی جائے۔ ان کی رائے میں اس امر میں کسی قسم کا شبہ کرنا مذہب کی بنیادوں کو ہلا ڈالنا ہے۔ اسی قسم کے آدمی ہیں جو سب سے بڑھ کر اس بے چینی کے باعث ہیں۔ اور یہی لوگ بائبل کو اغيار(غيروں)کے اعتراضوں اور حملوں کا نشانہ بناتے ہیں ۔ وہ اپنے نامعقول (نا مناسب)اور من گھڑت خیالات کی سچائی کو ثابت کرنے میں خدا کے الہٰام بلکہ مسیحی دین کو بھی مشکلوں میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہی لوگ ملحدوں (کافروں)کو مسیحی مذہب پر بڑی بڑی فتوحات حاصل کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ وہی حق جو اشخاص کو خدا کی منشاء (مرضی )کے خلاف غمگین اور پریشان کرتے ہیں۔ وہ اپنی روایتوں میں خدا کے کلام کو باطل(جھوٹا) کرتے ہیں اور آدمیوں کے احکام کو بطور مسائل مذہبی کے سکھلاتے ہیں۔

اس قسم کے اشخاص ہیں۔ جن سے ایک حق جو آدمی کو جو مذہبی دُنیا میں سابقہ (واسطہ)پڑتا ہے۔ وہ اپنی مشکلات کا اپنے خادم الدین سے بہت کم ذکر کرتا ہے۔ اور بہت کم اُسے ایسے اصحاب (صاحب کی جمع)سے ملنے کا اتفا ق ہوتا ہے۔ جو اس قسم کی مشکلات کا مقابلہ کر کے آخر کارآرام و اطمینان کی مضبوط چٹان پر پہنچ گئےہیں۔

اس لئے یہ بے اطمینانی پھیلتی جاتی ہے۔ اگر چہ عام طور لوگ اس کا ذکر تذکرہ کرتےنہيں سنے جاتے ۔ بعض تو بہت جلد اس کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔ مگر بعض ایسے اشخاص بھی ہیں۔ جنہیں اُس کے تیر ہمیشہ چبھتے اور ستاتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی ذات میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ وہی کچھ اُس درد و تکلیف کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ جو ایک حق جُو(سچی کا پیرو) انسان کو پیشتر اس کے کہ حق کی روشنی میں پہنچ جائے برداشت کرنی پڑتی ہے راقم (لکھنے والا)کو اپنی مشکلات خوب یاد ہیں۔ اور اب اور بھی بہت سے اشخاص کی مشکلات سے واقف ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک نوجوان طالب علم کے الفاظ جس کا ایمان بائبل پر سے اُ ٹھتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت اُس کے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے۔ کہ ’’میرےجيسے سینکڑوں نوجوان ہیں۔ جو بائبل کواپنے ہاتھ سے دينا نہيں چاہتے ۔ مگر ہم ہرگز اس کی نسبت اُسی قسم کا خیال نہیں رکھ سکتے۔ جیسا کہ ہم کو بچپن میں سکھایا گیا تھا۔ اگر کوئی ایسا طریق ہے ۔ جس سے ہم اب بھی اُسے بیش قیمت خزانہ سمجھ کر اپنے قبضہ میں رکھ سکیں ۔ تو کیا ہمارے معلم(اُستاد) اُس سے واقف ہیں؟ اور اگر وہ واقف ہیں تو ہمیں بتاتے کیوں نہیں ؟‘‘۔

(5)

اس بے چینی کے ہمارے زمانہ میں پھیلنے کی کیا وجہ ہے۔

مگر یہ سب شک و شبہ کا طومار ہمارے گردن پر کیوں لادا گیا ہے؟ کچھ تو یہ وجہ ہے کہ آج کل عقلی بحث و مباحثہ کی بہت بھر مار ہو رہی ہے۔ مگر بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی گذشتہ زمانہ کی نسبت ہمارے زمانہ میں بہت ہی بڑھ کر حق تعالیٰ بنی انسان کو اپنی سچائی کے نئے نئے الہٰام اور مکاشفے عطا کر رہا ہے۔ تاریخ اور علوم طبعی ۔ مقابلہ مذاہب اور خود بائبل کی نکتہ چینی اور عمیق مطالعہ (گہرا مطالعہ)عجیب باتیں دريا فت(ايجاد) ہو رہی ہيں اس قسم کے مکاشفے اگرچہ پاک نوشتوں کے صحیح تصور سے مختلف نہیں ہیں۔ تو بھی اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وہ بعض بناوٹی تصورات کے جولوگ اُن کی نسبت رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ضرور مخالف ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں لوگ بائبل کو خواہ مخواہ وہ ُرتبہ دینے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جو اُس کی سند و اختیار(ثبوت و قدرت) کے لئے خوفناک ہے۔ اور جس کی خود اُس کے اپنے بیانات سے کچھ تصدیق(سچ ہونا) نہیں ہوتی ۔ بلکہ برخلاف اس کے اُس کا حقیقی زور اور خوبصورتی تاریکی میں پڑ جاتی ہے۔ زمانہ حا ل کی تحقیقات کی تیز روشنی میں یہ امر دن بدن زیادہ نمایاں ہوتا جاتا ہے کہ اس قسم کے خیال ثابت نہیں رہ سکتے ۔ اس سے سیدھے سادے آدمی بے چین ہو گئے ہیں ۔ کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خو د بائبل معرض خوف و خطر میں ہے۔ حالانکہ جو لوگ ان معاملات کو سمجھتےہیں۔ وہ بڑی اُمید کے ساتھ ۔ اگرچہ اُس میں فکر مندی بھی ملی ہوئی ہے۔ زمانہ آئندہ پر نظر کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جن غلط خیالوں نے لوگوں کے دل میں جڑپکڑلی ہے۔ تکلیف و نقصان کے سوا ا ُن کا اُکھڑنامشکل ہے ۔ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر بائبل کو آزاد ہو کر دُنیا میں اپنے کام کو سرانجام دينا ہے۔ تو یہ ضرور ہے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اُسے اُن غلط تصورات سے آزاد کر دیا جائے۔

ہو سکتا ہے یہ رہائی کسی حد تک اس بے چینی کے ذریعہ سے انجام کو پہنچے ۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بعض دل پسند اعتقادات کی بیخ کنی (جڑسے اکھاڑنا،تباہ کرنا)بہتر تعلیم کے لئے ضروری تیاری کاکام دينےميں مددگار ہو سکتا ہے کہ علماء اور ملحدین(کافر) اور مومنینِ بائبل (بائبل پر ايمان لانے والے)کے حق میں خدا کی اصلی منشاء کو پورا کر رہے ہوں تاکہ اُس کی سچائی کی نسبت ہمارے تصورات زیادہ وسیع اور صاف ہو جائیں۔

باب دوم

یقین کی بحالی

(1)

کیا بائبل ان خطرات سے محفوظ ہے؟

میرے نزدیک ان شکوک اور بے چینیوں کا عمدہ علاج سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ آدمی دلیری سے ان مشکلات کا جو اُسے بے چین کئے دیتی ہیں مقابلہ کرے۔ اُسے اپنے دل میں یہ ٹھان لینا چاہیے کہ اس کی تحقیقات اور تفتیش(چھان بين)ٌ کا مدعا (مقصد)فقط سچائی کو حاصل کرنا ہے ۔ اور وہ کبھی ان شرائط پر صُلح منظور نہیں کرے گا۔ جن کا مدار ایسی بنیادوں پر ہو جنہیں وہ پرکھتے ہوئے خوف کھائے کہ کہیں بودی(کمزور) نہ نکلیں ۔(1)

لیکن ہم سب ایسے دلیر اور جری پہلوان(شير مرد) نہیں ہیں۔ اور اگرچہ خدا کے انتظام میں بعض لوگوں کے لئے یہی بہتر ہو۔ کہ وہ ایک بے چینی اور اضطراب(گبھراہٹ) کی حالت میں اور اس خوف کے ساتھ مبادا (خدا نخواستہ)ایسا کرنے سے اُن کے ایمان کا جہاز شکستہ ہو جائے۔ پاک نوشتوں کے متعلق تحقیقات کرنا شروع کریں مگر مجھے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ آدمی اس غیر ضرور ی تکلیف و بے چینی سے بچنے کی کوشش نہ کرے۔ اور اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس مقام پر تھوڑی دیرکے لئے ٹھہر کر اپنے ایسے دوست کی خاطر جمعی (دل جوئی)کروں۔ اور اُسے یقین دلاؤں کہ اُس کے اس خوف و اندیشہ کے لئے کہ مبادا اس کا ایمان و اعتقاد الہٰام پر سے اُٹھ جائے مجھے کوئی معقول سبب نظر نہیں آتا ۔

میں یہاں الہٰام وو حی کی ضرورت کے متعلق دلائل پیش کرنا نہیں چاہتا ۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے کتاب کا حجم (سائز)بڑھ جائے گا۔ اور اس کے علاوہ پڑھنے والے کے خیالات اصل مقصد سے جو اس وقت مد نظر ہے آوارہ ہو جائیں گے۔ یہ کتاب ان ملحدوں (کافروں)کے لئے نہیں لکھی گئی ۔ جو سرے ہی سے الہٰام و مکاشفہ کے منکر(انکاری)ر ہیں۔ بلکہ اُن مسیحیوں کے لئے جو بائبل کو خدا کی الہٰامی کتاب مانتے ہیں۔ مگر بعض ایسی باتوں کو دیکھ کر جو اس کے خلاف نظر آتی ہیں شک و شبہ میں گرفتار ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کے نام ہی سے یہ ظاہر ہے۔ کہ اس کتاب میں بائبل کا الہٰامی ہونا پہلے ہی سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔

مگر تجربہ سے معلوم ہواہے۔ کہ اکثر یہ سوال کہ ’’ خد انے بائبل کو کس طرح الہٰام کیا‘‘۔ ایک دوسرے سوال تک کہ ’’ کیا فی الحقیقت خدا نے بائبل کو الہٰام کیا‘‘۔ لے جاتا ہے ؟ کیا زمانہ حال کی بے چینی میں یہ امر اکثر نہیں دیکھا جاتا ؟ اور اس لئے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تحقیقات کے شروع ہی میں لوگوں کو اُن کے دلائل سے مطلع (آگاہ)کر دیا جائے ۔ جو اس بے چینی کے زمانہ میں دُوسروں کی تقویت کا باعث رہے ہیں اور اُنہیں یہ یقین دلائیں کہ وہ تمام باتیں جن کے لئے ہم فی الحقیقت بائبل کی قدر کرتےہیں ان حملوں سے بالکل محفوظ ہیں بلندوبالا ہيں کہ زمانہ حال کہ تمام مخالفين وہاں تک پہنچ بھی نہيں سکتے۔


(1) ۔میں سارے سچائی کے بھید بائبل میں پاتا ہوں ۔ سب جو کچھ میں جانتا ہوں میں نے اُسی سے حاصل کیا ہے لیکن تو بھی میں ہر شخص سے یہی کہوں گا ۔ کہ بائبل پر مت یقین کرو اگر تم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ سچی ہے آزادی اور دلیری کے ساتھ اس کے ساتھ برتاؤ کرو۔ وہ تمہاری دوست ہے۔ دشمن نہیں ہے۔ اگر تم سدھائی اور صاف دل کے ساتھ اس سے سلوک نہیں کر و گے ۔ تو وہ ہرگز تم سے ۔۔۔۔۔۔۔
(2)

گواہوں کی ایک بڑی جماعت

اے پڑھنے والے ، اگر کبھی تمہارے دل میں اس قسم کا خوف و اندیشہ پیدا ہو کہ ممکن ہے کہ بائبل اگرچہ لوگ اُسے تین ہزار سال سے خدا کی دی ہوئی کتاب مانتے چلے آئے ہیں۔ مگر آج کل کے بحث مباحثہ اور دلیل و حجت (بحث و مباحثہ)کی بناء پر اس کے حق میں ایسے خیال غلط ثابت ہو جائیں ۔ تو لمحہ بھر کےليے ٹھہر کر اس خیال کے پورے زور و طاقت کو محسوس کرنے کو کوشش کرو کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ قدیم نوشتے جو ہمیشہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ جس سے اُن کی نکتہ چینی اور امتحان ہونا ممکن تھا۔ ہزار ہا سال تک تو الہٰی الاصل مانے جائیں ۔ اور لوگ انہیں اپنی زندگی کے لئے بطور دستور العمل (قانون)کے مان لیں۔ بلکہ ایسے احکام کو بھی جو بالکل اُن کے ناپسند ہوں۔ تسلیم کرلیں۔ اور پھر یہ قبول کرنے والے اور اطاعت کرنے والے وہ لوگ ہوں۔ جو دُنیا کی عقیل (دانا)اور اعلیٰ درجہ کی شائستہ (تميز دار)قوموں میں سے ہیں۔ اور زمانہ بعد زمانہ صرف ایسا ہی ہوتا رہے۔ بلکہ اُس میں ترقی بھی ہوتی جائے۔ اور پھر اور کسی زمانے میں ایسی عجیب و غریب ترقی نہ دیکھی جائے۔ جیسے اس انیسویں صدی میں جو شائستگی ۔ علمی اور عقلی تحقیقات میں سب زمانوں پر سبقت(برتری) رکھتی ہے۔

پاک نوشتوں کو یہ قوت و اختیار کہاں سے حاصل ہوا ؟ یہ یاد رکھو کہ یہ تمام صحیفے الگ الگ تھے۔ اور بعض اوقات ایک ایک کی تصنیف و تحریر کے درمیان سینکڑوں برس کا عرصہ گذر جاتا تھا۔ اور اُن میں سے ہرایک مختلف مزاج و خصلت (مزاج و فطرت)کے آدمی نے مختلف قسم کے لوگوں کے لئے لکھا تھا۔ اور اُس کے زمانہ کے حالات بھی دُوسروں سے مختلف تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ کئی ایک صحیفوں کی بابت ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کے لکھنے والے کون تھے۔ اور انہوں نے کس طرح موجودہ صورت اختیار کرلی۔ لیکن ساتھ ہی اس کے ہمیں اُن کی تاریخ میں کوئی زمانہ ایسا نظر نہیں آتا ۔ جب کہ اُن کی ایسی ہی قدرو منزلت نہیں ہوتی تھی۔ اور لوگ انہیں کسی نہ کسی صورت میں انسان سے بالا ہستی کی بنائی ہوئی کتاب نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بطور ایک زنجیر کے معلوم ہوتی ہیں۔ جس کا ایک سرا تو نہایت ہی قدیم زمانے میں جا پہنچتا ہے۔ اور دوسرا سرا مسیح کے پاؤں کے پاس آکر ٹھہرتا ہے۔

اور پھر خاص کر اس امر کو بھی مد نّظر رکھو کہ وہ صحیفے کسی خاص معجزے کے ذریعہ انتخاب نہیں کئے گئے تھے۔ اور اُن کا انحصار کسی بیرونی صاحب اختیار جماعت کے باقاعدہ فیصلہ پر نہیں ہے۔ نہ وہ کسی کلیسیاء کے یا کو نسل کے۔ نہ کسی پوپ کے یامقدس ولی کے۔ نہیں بلکہ وہ خود ہمارےمبارک خداوند کے فیصلہ پر بھی مبنی (بنياد رکھنا)نہیں ہیں۔ کیوں کہ اُس کے آنے سے بہت عرصہ پہلے صدہا سال سے وہ برابر اُس کے حق میں شہادت(گواہی) دیتے ۔اور ایک آسمانی پیغام کی طرح ’’ جو مختلف زبانوں میں اور مختلف طور سے ‘‘ دیا گیا اُس کے آنے کی خبر کو لوگوں کے دلوں میں ترو تازہ رکھتے اور اُس کا اُمید وار بناتے چلے آتے تھے۔ اُن کی ساری تاریخ کو مطالعہ کر جاؤ۔ اور تمہیں کہیں بھی پتہ نہیں ملے گا۔ کہ وہ کتابیں کسی بیرونی صاحب اختیار شخص یا جماعت کے حکم سے قبول کی گئیں۔ پیشتر اس کے کہ وہ ایک جلد میں جمع کی گئیں۔ بہت صدیوں سے بہت سی نسلیں انہیں برابر الہٰی الا صل مانتی چلی آئی تھیں۔ لو تھر کا قول ہے۔ کہ

’’ کلیسیا ء کسی کتاب کو اُس سے زیادہ قدرت یا اختیار نہیں دے سکتی ۔ جس قدر کہ وہ اپنے میں رکھتی ہے۔ ایک کونسل اُس کتاب کو پاک نوشتوں کی فہرست میں داخل نہیں کر سکتی ۔ جو اپنی ذات میں پاک نوشتہ نہیں ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ بڑی مجلس یا ان کے جانشینوں نے عہد عتیق کے مسلمہ صحیفوں (مانا ہوا پاک کلام)کو جمع کیا ۔ ہاں مگر کب ؟ خداوند مسیح کے زمانہ کے قریب قریب ۔ جب کہ وہ کتابیں صدیوں سے خدا کی کتابیں مانی جا چکی تھیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسیحی کلیسیاء نے عہد جدید کے صحیفے جو بائبل میں ہیں جمع کئے ہاں ۔ مگر کب ؟ اس کے بعد کہ وہ تین سوسال تک کلیسیاء کی ہدایت کے لئے خدا دا رہنما تسلیم ہو چکے تھے۔ اُن کا بائبل میں جمع کیا جانا انہیں با اختیار یا قابل سند نہیں بنا دیتا ۔ بلکہ اُن کا قابل سند ہو نا تھا۔ جس کے سبب سے انہیں بائبل میں جگہ ملی ۔

ہم پھر وہی سوال کرتے ہیں کہ اُن کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوا؟ اور اس کا فقط یہی جواب ہو سکتا ہے کہ یہ سند و اختیار اُن کے اندر ذاتی طور پر موجود تھا۔ یہ رتبہ جو اُنہیں حاصل ہوا۔ انہوں نے اپنی ہی قدرت سے حاصل کیا تھا۔ اور انسان کی اخلاقی حِس اور عقل نے اس کے قائم کرنے میں اتفاق کیا۔ وہ اپنی ہی باطنی قدر و قیمت کے لحاظ سے انسان کی خدا داد اخلاقی قوت و ملکہ کو پسند آتےہیں ۔ اور یہی پسند یدگی اور قبولیت اور حقیقت بائبل کی موجودہ حیثیت و مرتبہ کی بنیاد ہے۔

عہد عتیق کے صحیفوں پر نظر کرو ۔اگر اس زمانہ میں ہم سے سوال کیا جائے کہ ہم انہیں الہٰامی کیوں مانتے ہیں تو ہم عموماً یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ ہم انہیں اپنے خداوند اور اس کے رسولوں کی سند پر الہٰامی مانتے ہیں ۔ انہوں نے اسے کلام اللہ قبول کیا ۔ اور گو یا اپنے دستخط کے نیچے اُسے اس حیثیت سے ہمارے حوالے کر دیا۔ لیکن اُن کے زمانہ سے پہلے بغیر کسی اس قسم کی منظوری کے وہ کیوں مانے جاتے تھے؟ یہ کس طرح ہوا کہ لوگ ۔ موسیٰ ، یسعیاہ ، یرمیاہ، ہوسیع ، یوائیل ، عاموس ، میکاہ وغیرہ وغيرہ نبیوں کے کلام کو خدا کا الہٰام کیا ہوا ماننے اور اُس پر عمل کرنے لگ گئے ۔ موسیٰ کے سوا۔ اورکسی کے حق میں ایسے معجزے یا نشان نازل نہیں ہوئے تھے۔ اور نہ آسمان سے کوئی اس قسم کی صدا سنائی دی ۔ جو لوگوں کو اُن کی اطاعت(طابع داری) کا حکم دیتی تھی۔ اور نہ اُن کا الہٰی الاصل ہونا کسی بیرونی اختیار کے ذریعہ سے قائم کیا گیا۔ تو پھر کس وجہ سے اُن کے اقوال قبول کئے گئے؟


(1) بڑی مجلس ایک یہودی مجلس کا نام تھا۔ جس کے بانی روایت کے بموجب خود حضرت عزرایا عزیز بیان کئے جاتے ہیں۔ اور جو مذہبی امور کے متعلق ۴۵۰سے ۲۰۰ قبل مسیح تک یہودی قوم پر حکومت کرتے رہے ۔ اس کے شرکاء کی تعداد ۱۲۰ا ور بعض اوقات ۸۵ بتائی جاتی ہے۔ سب سے بڑا کام جو اس مجلس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے سو یہ ہے۔ کہ اس نے پاک نوشتوں کے قانون لینے عہد عتیق کے مشمولہ کتب کی تربیت و تدوین کی ۔ مگر بعض علماء اس مجلس کے وجود کے منکر ہیں۔

یہ ظاہر ہے کہ اس کا فقط ایک ہی جواب ہو سکتا ہے۔ ’’ یہ بزرگی انہوں نے اپنے ہی اندرونی دعوؤں کے لحاظ سے حاصل کی۔ انسانوں کو مجبوراً یہ اقبال (قبول کرنا)کرنا پڑا کہ اُن انبیاء کا یہ دعویٰ کہ ’’ خداوند کا کلام اُن پر نازل ہواہے ‘ ‘ سچا ہے ان انبیاء کے پیغاموں میں اور اُس شہادت ميں جو ان کے شامل حال تھی ۔ ایک ایسی بات تھی جو خواہ مخواہ یقین پر مجبور کرتی تھی۔ جب کوئی نبی ظاہر ہوتا تھا۔ تو اس کے دعویٰ پر اکثر جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ اور اکثر یہ جھگڑا بڑے جوش و خروش کے ساتھ ہوتا تھا۔ لیکن تو بھی نبی کی آواز ۔ اور جو پیغام وہ خداوند کی طرف سے لاتا تھا۔ اس کے اپنے ہی زمانہ میں چند ایماندار لوگ قبول کرلیتے تھے۔ اور رفتہ رفتہ مگر یقینی طور پر اس کے دوسرے ہم قوموں کو ماننا ہی پڑتا تھا۔

’’ عبرانی نوشتوں کی اس تاریخ میں تمہیں صاف صاف اور قطعی شہادت اس امر کی ملتی ہے کہ پاک نوشتوں کی اس اختیار و سند کی اصلی بنیاد کیا ہے۔ کوئی بیرونی صاحبِ اختیار شخص یا جماعت نہ تھی۔ جن سے اس بارے میں اپیل کی جاتی ۔ معجزوں کی شہادت بھی ہمیشہ موجود نہیں ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تو وہ بجائے خو د ایک قطعی ثبوت نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ نبیوں کا پیغام ’’ خدا وند کا کلام ‘‘ تھا ۔ اور وہ اس سے بڑھ کر اور کوئی سند اس کے ثبوت میں پیش نہ کر سکتےتھے۔ مگر جلدی یا دیرکے بعد وہ کلام خود بخود لوگوں کو اُس کی مقبولیت پر مجبور کرتا تھا ۔ اور جوں جوں یہودی قوم کی عمر زیادہ ہوتی گئی۔ اور جس قدر ان پاک کتابوں کو لوگوں کے دلوں پر اپنا ڈالنے کا زیادہ موقعہ ملا۔ اسی قدر زیادہ کا مل طورپر اور بغیر دلیل وحجت (بحث ومباحثہ)کے ان لوگوں نے اُن کا الہٰی الاصل اور قابل سندہونا تسلیم کر لیا ۔ خد ا کے کلام نے اپنا رُتبہ آپ ثابت کر دیا۔ سخت دل اور سرکش لوگ اُ س کی نسبت جھگڑا کرتے رہے ۔ لیکن وہ قائم رہا۔ اور آخر کار اُس نے اپنی راہ نکال لی۔ اُس نے نبیوں کے اس یقین کی بھی تصدیق کر دی کہ میرا کلام میرے پاس بےانجام نہ پھرے گا۔ بلکہ جو کچھ میری خواہش ہو گی وہ اُسے پورا کرے گا۔ اور اُس کام میں جس کے لئے میں نے اُسے بھیجا موثر ہوگا (یسعیاہ ۱۱:۵۵)۔

اور حقیقت میں بھی ایسا ہی تھا کہ آدمی ایک آواز سنتے تھے اور انہیں اس امر کا فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ آواز کس کی طرف سے آئی ہے۔ کیا وہ ہیت ناک اور دل میں چبھنے والے یرمیاہ کے اقوال فقط ایک ایسے آدمی ہی کے اقوال سمجھنے چاہییں ۔ جو اپنے ہم جنسوں سے ذرا زیادہ دانا اور بہتر تھا؟ یا کیا وہ سچ مچ جیسا کہ نبی کہتا تھا۔ اُس خدا قادر کاکلام تھا۔ جو دلوں کو جانچتا ہے جو ہماری راہوں کو دیکھتا ہے۔ اور ہمارے بستر کے پاس ہوتا ہے اور ہماری تمام روشوں کو معلوم کر لیتا ہے؟ اس آواز کا کوئی نہ کوئی مصنف تو ضرور ٹھہرانا چاہیے ۔ اور جس قدر زیادہ اُس کو سنتے تھے۔ اُسی قدر اُن کے شبہ کم ہوتے جاتے تھے کہ وہ ضرور خدا ہی کی آواز ہے۔ جب ایک دفعہ یہ بات تسلیم کر لی گئی تو نبی کے ہر ایک قول کو جو یہ پیغام لے کر آیا تھا لوگ خواہ مخواہ قیمتی سمجھنے لگ جاتے تھے۔ اور بڑی عزت و توقیر کی نظرسے دیکھتے اور محفوظ رکھتے تھے۔ اور اس طور وہ پاک نوشتوں کا مجموعہ بنتا گیا۔ جو ہمارے خداوند کے زمانہ میں خدا کی الہٰام کی ہوئی کتاب مانا جاتا تھا۔

’’مسیحیوں کے درمیان عہد ِجدید کے صحیفے اسی طرح جیسے کہ عہدِ عتیق کے صحیفے یہودیوں کے درمیان ۔ اُن کی قدروقیمت کے سبب تسلیم کر لئے گئے تھے۔ بعض گواہ اُٹھے اور انہوں نے خداوند کی تعلیم کو لکھ دیا۔ یا بعض پیغامات سنا دیئے جن کے سنانے کا انہیں اختیار ملاتھا یا اُنہیں لوگوں تک پہنچانے کےلئے روح کی ہدایت ملی تھی۔ لوگوں کو اس امر کا فیصلہ کرناتھا آیا وہ ان دعوؤ ں کو قبول کریں گے یا نہیں اپنے طور پر کرنا ہوتا تھا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی حالتوں میں گو ہمیشہ نہیں رسولوں کے کلام کی تائید معجزوں سے بھی ہوتی تھی۔ لیکن گو یہ معجزات کچھ دیر کے لئے شاہد (گواہ) کا کام دیتے ۔ مگر وہ بذات ِخود اور تن تنہا (ايک)اس تما م مقدمّہ کے تصفیہ (وضاحت)کے لئے قطعی شہادت (کامل گواہی)تسلیم کئے جانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ یہ سب محسوس کرتے تھے۔ کہ کوئی ظاہر ی معجزہ بجائے خود کسی الہٰی پیغام کی تصدیق نہیں کر سکتا ۔ اگر اس کے ساتھ ہی اس پیغام میں اُندرونی گواہی اس قسم کی موجو د نہ ہو کہ وہ درحقیقت خدا ہی کی طرف سے آیا ہے ۔ قصہ مختصر ابتدائی کلیسیاء بھی۔ جیسا کہ خود ہمارے خداوند کے زمانہ میں۔ انسان کے دل اور ضمیر ہی کو حاکم یا جج مقرر کیا جاتا تھا۔ مسیح خود بھی لوگوں کے دلوں اور ضمیروں کو اپنا گواہ ٹھہراتا تھا۔ اور آدمی اُس قابلیت کے مطابق اُسے قبول کرتے یا ردّ کرتے تھے۔ جو اُس کی الہٰی خصلت (خدا کی طرف سے دی گئی فطرت)کے پہچاننے کے لئے اُن کی فطرت میں رکھی گئی تھی۔

’’ اس طور سے شروع سے آخر تک پاک نوشتوں کی سندو اختیار اُس سند واختیار کے ہم پلہ(برابر) تھی۔ جو وہ لوگوں کو اس امر کا یقین دلانے کے متعلق کہ وہ در حقیقت خدا کی طرف سے ہیں۔ اپنی ذات میں رکھتے تھے۔ (1)

اب کیا یہ شہادت ان کتابوں کے الہٰامی ہونے کے بارے میں قابل لحاظ ہے کہ نہیں؟ ہم یقین کرتے ہیں کہ یہ سب خدا ہی کاکام ہے ۔ بائبل کو محض کلیسیاء ہی نے چُن نہیں لیا۔ ’’ بائبل نے بھی کلیسیاء کی طرح اُسی رُوح القد س کے عمل سے صورت پکڑی ۔ جو دونوں کی جان ہے‘‘۔ یہ رُوح القدس ہی کا الہٰی عمل تھا۔ جس نے خاص خاص کتابوں کو کلیسیاء کی دائمی (ہميشہ)تعلیم و تربیت کے لئے چُن لیا۔ مگر ہمیں اس امر پر بھی زور دینا چاہیے ۔ کہ اس کا طریق ِعمل یہ تھا کہ انسانی ارواح کو زندگی بخشنے اور اُن کی راہ نمائی کرے کہ وہ اس چیز کو جو اُن کی مذہبی زندگی کےلئے ممدو معاون(مددگار) اور تحریک کرنے والی تھی انتخاب کر لیں۔ اور ادب و عزت کے ساتھ اُسے استعمال میں لائیں اور اُسی الہٰی تمیز کے ذریعے سے لوگوں نے آخر کا ر بتدریج گو اس امر کو جانے بغیر چند تحریرات کے مجموعے کو مستند(تصديق کيا ہوا) کتابیں تسلیم کر لیا۔ اس طور سے گویا بائبل نے خود اپنے آپ کو اُس الہٰی طاقت کے وسیلے سے جو اُس میں فطرتاً موجود تھی بنا لیاِـ اُس نے خود اپنا راستہ تیار کیا۔ اور خود ہی اپنے لئے تخت مہیا کیا۔ اور انسانی شعور میں جو نیکی کا مادہ و ديعت(امانت) کیا ہوا ہے۔ اُس نے اس امر کو تسلیم کر لیا۔ کہ بائبل فی الحقیقت اس لائق ہے کہ ہمارا حاکم و رہنما ہو۔

يہی امر ہے جسے میں خاص طور پر ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ بائبل نے اپنی الہٰی طاقت کا ثبوت اس امر سے دیا ہے۔ اور اپنے موجودہ رُتبہ کو اسی وجہ سے پہنچا ہے کہ اُس نے انسان کی بہت سی نسلوں پر اُن کی قوت شعور اور ضمیر پر اپنا سکہ بٹھا کر اُن کو اپنا گرویدہ (عاشق)کر لیا ہے۔ اور اسی بنا پر وہ آج کل بھی حکمرانی کر رہا ہے۔ میں خاص کر تمہیں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ بائبل کی موجود ہ حیثیت کسی معجزہ یا کسی کلیسیاء یا کونسل کی سند(ثبوت) پر منحصر (ٹھہرا نا)نہیں ہے۔ بلکہ اُس اختیار اور تاثیر (اثر)پر جو وہ لوگوں کی ضمیر اور ذہن پر کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ تم کسی معجزہ کی نسبت شک کرو۔ بلکہ اپنی فطرتی تمیز پر بھی شک کرنے لگ جاؤ اور شاید کسی جماعت کے اختیار کو ماننے میں بھی تمہیں تاّمل (سوچنا)ہو۔ مگر تم سینکڑوں نسلوں کے یقین و اعتماد پر ایسی آسانی سے شبہ (شک)نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس کتاب سے نورو ہدایت اُمید و اطمینان حاصل کیا۔


(1) یہ عبارت کینبن ویس صاحب کے ایک وعظ سے لی گئی ہے۔

يہی امر ہے جسے میں خاص طور پر ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ بائبل نے اپنی الہٰی طاقت کا ثبوت اس امر سے دیا ہے۔ اور اپنے موجودہ رُتبہ کو اسی وجہ سے پہنچا ہے کہ اُس نے انسان کی بہت سی نسلوں پر اُن کی قوت شعور اور ضمیر پر اپنا سکہ بٹھا کر اُن کو اپنا گرویدہ (عاشق)کر لیا ہے۔ اور اسی بنا پر وہ آج کل بھی حکمرانی کر رہا ہے۔ میں خاص کر تمہیں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ بائبل کی موجود ہ حیثیت کسی معجزہ یا کسی کلیسیاء یا کونسل کی سند(ثبوت) پر منحصر (ٹھہرا نا)نہیں ہے۔ بلکہ اُس اختیار اور تاثیر (اثر)پر جو وہ لوگوں کی ضمیر اور ذہن پر کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ تم کسی معجزہ کی نسبت شک کرو۔ بلکہ اپنی فطرتی تمیز پر بھی شک کرنے لگ جاؤ اور شاید کسی جماعت کے اختیار کو ماننے میں بھی تمہیں تاّمل (سوچنا)ہو۔ مگر تم سینکڑوں نسلوں کے یقین و اعتماد پر ایسی آسانی سے شبہ (شک)نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس کتاب سے نورو ہدایت اُمید و اطمینان حاصل کیا۔

اُنہوں نے اسی کتاب سے نیک بننے کی قوت حاصل کی اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ درحقیقت خدا کی طرف سے آئی ہے۔ (1)

اس لئے بائبل کا مدار (قيام)کسی ایسی بنیاد پر نہیں ہے جسے کوئی آدمی اُکھاڑ سکے۔ اس کا اختیار و سند آج کے دن اسی امر پر موقوف (ٹھہرايا گيا)ہے۔ کہ وہ اس موجودہ نسل کے دل اور ضمیر کو اپیل (درخواست)کرتا ہے۔ اور یہ اپیل اُس اپیل کے نتیجہ سے اور بھی زیادہ قوی (مضبوط)ہو گئی ہے۔ جو وہ گذشتہ نسلوں کے دل و دماغ کو کرتا رہا ہے۔ تمام زمانوں میں سب سے بہتر اور پاک لوگ اور جو اس وجہ سے ایک مذہبی کتاب کے متعلق رائے دینے کی زیادہ قابلیت رکھتےہیں اس کتاب کے حق میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں اور اس گواہی نے جمع ہوتے ہوتے ایک بہت بڑے انبار (ڈھير)کی صورت اختیار کرلی ہے۔

اب ذرا تھوڑی دیر کے لئے تامّل (سوچ بچار)کر کے ان واقعات کی عظمت (بڑھائی)پر نگاہ کرو اور اس تصدیق کی قوت کو بھی محسوس کرو جو خود تمہاری ضمیر کی شہادت کو مضبوط کرتی ہے۔ اس بات پر خوب لحاظ کرو کہ اس کتاب کی قدرت پہلے کی نسبت اب اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس بات پر بھی لحاظ کرو کہ جو عقلی یا اخلاقی مشکلات لوگوں کو آج کل اس میں نظر آتی ہیں۔ وہ ہمیشہ سے اُس میں موجود تھیں اور ہمیشہ لوگوں کی نظروں کے سامنے رہی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو کہ وہ باوجود اُن سخت اور شدید حملوں کے جو گذشتہ صدیوں میں برابر اس پر ہوتے رہے ہیں۔ اپنے اختیار و عظمت کے رُتبہ پر ثابت و قائم رہی ہے۔ ملحدین(لا دين) بے شمار دفعہ اپنی طرف اُس کا قلع قمع(خاتمہ) کر چکے ہیں۔ مگر اُ س کا نتیجہ یہی ہوتا رہا ۔ کہ بجائے برباد ہونے کے اُس کی طاقت دن بدن بڑھتی گئی ہے۔ یہاں تک کہ آج کے دن انسانی زندگی میں سے بائبل کو اُکھاڑ پھینکنا ایسا ہی مشکل ہو گا جیسا سورج کو آسمان میں سے نکا ل پھینکنا۔

صرف ایک واقعہ کو بطور مثال کے لیجئے ۔ سو سال کا عرصہ ہوا والیٹرفرانس کے ایک مشہور دہریئے(خدا کو نہ ماننے والے)نے اپنے نزدیک اس کی کامل تردید (مکمل رد کرنا)کر دی۔ اور لکھا کہ

’’ ایک صدی کے عرصہ میں بائبل اور مسیحی دین گذشتہ زمانہ کی باتیں سمجھی جائیں گی‘‘۔


(1) میں جانتا ہوں کہ اس موقعہ پر لوگ کہیں گے۔ کہ اس دلیل کی بنا پر تو قرآن اور ہندوستان کی دیگر مقدس کتابوں کا مقبول ِعام ہونا بھی اسی نتیجہ کو چاہےگا ۔ اور اس طور سے یہ دلیل کمزور ہو جائے گی۔ لیکن مجھے اس امر کی قبولیت میں کچھ بھی تامل نہیں ۔ کہ ان کتابوں میں کسی قدر اُن کی قبولیت کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کی ضمیر کو اپیل کرتی ہیں۔ کیوں کہ اُن میں بھی ’’ اس نُور کی جو ہر ایک آدمی کو دُنیا میں آتا ہے۔ روشن کرتا ہے‘‘ شکستہ شعاعیں پائی جاتی ہیں۔ مجھے یہ سُن کر سخت افسوس ہو گا۔ اگر کوئی کہے کہ مسیحی دین اپنے پیرؤں سے اس قسم کے یقین کا خواہاں ہے کہ سارے عالم کے خدا اور باپ نے ساری غیر مسیحی دُنیا کو اپنی طرف سے کسی قسم کی روشنی دیئے بغیر اکیلا چھوڑ دیا ۔ مگر تو بھی یقیناً بائبل اور ان کتابوں کی حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ جو اچھی باتیں قرآن میں پائی جاتی ہیں۔ وہ پہلے ہی مسیحی اور یہودی ادیان(دین کی جمع) میں موجود تھیں ۔ اور وہ فقط انہیں میں سے اخذ کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ وہ فقط محمد صاحب کے اختیار سند پر جاری کیا گیا تھا۔ اور یہ دعویٰ اکثر تلوار کے ذریعہ سےمنوایا جاتاتھا۔ ہندوستان کی کتبِ مقدسہ اگرچہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے درمیان روحانی سچائیوں کے موتی بھی کہیں کہیں پائے جاتے ہیں۔ یقیناً اس دلیل کے مطابق بائبل کے مقابلہ میں پیش کئے جانے کے قابل نہیں ہیں ۔ اُن کا ادنی اور جاہل اقوام کے درمیان جن میں سے بہت کم لوگ اُن کے مضامین سے پوری وافقیت رکھتے ہیں۔ مانا جانا ایک بالکل دوسری بات ہے۔ بائبل کو دُنیا کی اعلیٰ اقوام کے درمیان قبولیت حاصل ہے۔ جہاں اکثر لوگ اس کے مضامین سے واقف ہیں۔ اور اس کی تحقیقات و جستجو میں مشغول ہیں۔ اور جن کے لئے اس کی قبولیت یا ردّ بڑا اہم اور گراں قدر امر ہے۔

مگر دیکھو کہ اس کی پیشن گوئی کس طرح پوری ہوئی ؟ اس کے زمانہ سے پیشتر ساری دُنیا میں شروع سے لے کر مشکل سے ساٹھ (۶۰) لاکھ بائبل کے نسخے تیار کئے گئے ہوں گے۔ مگر اُس کے زمانہ سے لے کر ایک ہی صدی کے عرصے میں (۲) ارب سے زیادہ بائبل اور بائبل کے صحیفے چھاپہ خانہ سے نکلے۔ اور وہ بھی ایسی ہيں جو علم و دانش اور نکتہ چینی اور سچائی کی جانچ پڑتال کے لحاظ سے سب پر سبقت (برتری)رکھتی ہے۔ اور اس وقت اسی (۸۰) مختلف بائبل سو سائٹیاں انسان کی ہر ایک معلومہ زبان (جانی گئی زبان)میں اور دُنیا کے ہر حصہ میں اُسی کتاب کو تقسیم کر رہےہیں۔

اگر یہ کتاب الہٰی الاصل نہ ہو تو واقعی یہ ایک نہایت ہی عجیب و غریب بات ہو گی۔ ملحدوںمیں اگر کچھ حوصلہ ہے تو ان واقعات کی کوئی اور اطمینان بخش تشریح کر دکھائیں۔ جس مسیحی کے دل میں کسی قسم کی بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ اُسے چاہیے کہ اس بات سے ہمت پکڑے اور یہ کبھی نہ بھولے کہ خواہ انسان کے خیالات بائبل کے متعلق کتنے ہی تبدیل کیوں نہ ہو جائیں مگر یہ واقعات ہر گز ہل جل نہیں سکتے ۔

(3)

خود کتاب کی شہادت

اب ہم خود کتاب کی طرف متوجہ ہو کر اس کا امتحان کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ یہ تمام زمانوں میں ایسے بااختیار طور پر لوگوں کو اپنا گردیدہ (عاشق)بناتی رہی ہے۔ بیرونی شہادت جس نے ابتدائی کلیسیاء کے دلوں پر اثر ڈالا ہم اس وقت اس کا ٹھیک ٹھیک کھوج(سُراغ) نہیں لگا سکتے۔ اس امر(فعل) میں ہم فقط ا ن کی شہادت(ثبوت) ہی کو قبول کر سکتے ہیں ۔ اندرونی شہادت جس سے اس کی وہ تاثیر مراد ہے جو وہ انسان کے دل اور ضمیر پر کرتا ہے۔ اُس کی نسبت ’’ ہر ایک آدمی جو خدا کی مرضی بجا لانا چاہتا ہے‘‘۔

اب بھی اس کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔ اب ہم مختصر طور پر کتاب پر نظر ڈالتے ہیں اور دیانت داری سے اس کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں وہ باتیں جو نقص یا قصور معلوم ہوں نظر انداز نہیں کرنی چاہییں ۔ گو یا کہ وہ اگلے زمانوں میں ایسی نہ معلوم دی ہوں۔ اب ہم اُس کی بڑی بڑی خصوصیات کو دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ دُنیا اور اس کے تمام تفکرات(فکريں) اور کارو بار کے درمیان یہ کتاب دُنیا داروں کی طرح دُنیا پرست نہیں معلوم ہوتی ۔ وہ روح کے عالم بالا سے واسطہ رکھتی ہے۔ وہ کم و بیش فصاحت (خوش بيانی)کے ساتھ لوگوں کو خدا اور فرض اور راستباز زندگی کی برابر تعلیم دیتی رہی ہے۔ ہمیں اُس میں ایسے خیالات کا سامنا ہوتا ہے جو اس دُنیا کے علم سے بالا ہیں۔ یہ خدا کی محبت، خدا کی الوہیت ( یعنی باپ ہونے ) خدا کی معافی کے متعلق خیالات ہیں۔ اور وہ ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی اُسی کو تسلیم کر دیں اور پھر اُسی کی خدمت میں زندگی بسر کریں۔ کیا اس قسم کے خیالات محض انسانی دل سے بلا کسی بالائی امداد(آسمانی مدد) کے پیدا ہو سکتے تھے؟

۱۔ ہم اس میں یہودیوں کی قومی تاریخ پاتے ہیں۔

یقیناً قومی تاریخ کبھی ایسے عجیب و غریب طور پر نہیں لکھی گئی ہو گی۔ اُس میں ہر ایک چیز الہٰی پہلو سے دیکھی جاتی ہے کہ اُس کا اُس کے ساتھ کیا لگاؤ ہے۔ دوسری قوموں کے تحریری واقعات میں یہ درج ہے کہ اس یا اُس عظیم الشان بادشاہ نے کیا کیا کارہائےنمایاں(نماياں کارنامے) کئے۔ کس طرح اُس قوم نے اپنے دشمنوں پر فتح پائی یا اُن سے مفتوح(فتح کیا گیا) ہو گئی ۔ مگر یہودیوں کی تاریخ میں ہر ایک بات خدا کی طرف منسوب ہے۔ یہ خدا تھا جس نے فتح پائی ۔ یہ خدا ہی تھا جس نے رہائی دلائی ۔ خدا ہی تھا جس نے سزا دی ۔ خدا ہی تھا جو تعلیم دیتا ہے ۔ اس میں قومی شان و شوکت یا حشمت و جلا ل کی نسبت کوئی فخر نہیں پایا جاتا۔ اور نہ خود سرائے کر کے قوم کو شیخی بگھارنے کا موقعہ دیا گیاہے۔ بلکہ اُن کے بڑے سے بڑے گناہ اور ذلتیں اور سزائیں ایسے ہی پورے طور پر بے کم و کاست( بغير کمی بيشی)کے بیان کر دی ہیں۔ جیسے اُن کی خوشیاں اورفتوحات ۔

دوسری اقوام میں ان کی قدرت اور مرفہ الحالی(خوش حالی)۔ آسائش اور مال و دولت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مگر ان عجیب تحریروں میں فقط نیکی ہی ایک قابل لحاظ چیز سمجھی جاتی ہے۔ نیکی کرنا اور راستی پر کاربند(قائم) ہونا ۔ ثروت یا دولت یا دُنیاوی کامیابی کی نسبت بہت زیادہ قابل قدر اور قیمتی سمجھا جاتا ہے اگر ہم اس قسم کی تاریخ نویسی کو محض ایک زمینی بات سمجھیں تو یہ ایک عجیب بات ہو گی۔ مگر افسوس ہے کہ نہ تو ہمیں اور نہ اور کسی قوم کو تاریخ نویسی کا ڈ ھنگ(طريقہ) آیا۔

۲۔ ہم برابر گویا ایک قسم کی خفیہ آواز

اس تاریخ کے سلسلے میں سنتے آتے ہیں ۔ جو لوگوں کو دھمکاتی ، ہمت دلاتی اور جب کبھی وہ نا رضامند ہوتے ہیں۔ تو اُن کی منت کرتی پائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں نبی یا مورخ یا مقنن (قانون بنانے والا)کا فقط يہی فرض معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کے لئے ملامت کرے ۔ پاکیزگی و تقدس کی ترغیب و تحریص (لالچ)دے اور لوگوں کو ( جیسا کہ کہیں کہیں ۔ گو ایسی صفائی کے ساتھ نہیں نظر آتا ہے)۔ ایک شریف اور خوبصورت زندگی کے نمونہ کی طرف متوجہ کرے یقیناً اس قسم کی بات اور قوموں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔

کیا کوئی شخص یہ کہے گا کہ یہ امر یہودی قوم کے اخلاقی میلان(اخلاقی رجحان) کے طبعی نشوونما کا نتیجہ تھا؟ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ مگر وہ قوم تو خود اپنی زبان سے یہ اقرار کرتی ہے کہ اُن کا طبعی میلان زیادہ بت پرستی اور حرام کاری کی طرف تھا۔ اس بات کو یادکروکہ کیسی نارضامندی کے ساتھ وہ تعلیم کو قبول کرتے تھے۔ اور کس قدر کم اُس پر کاربند ہوتے تھے۔ وہ کس طرح اپنے انبیاء کو جو اُن کے پاس پیغام لے کر آتے تھے۔ قتل کر دیتے تھے اور وہ بالکل اس قول کے مصداق (گواہ)تھے۔ جیسا کہ ستفنس نے اُنہیں خطاب کرکے کہا تھا کہ’’ اے سرکشو اور دل اور کان کے نامختونو۔ تم ہر وقت روح القدس کی مخالفت کرتے ہو‘‘ ۔ نہیں، بنی اسرائیل کے طبعی میلان اور خود آگاہی سے اس قسم کی آواز کا نکلنا ہرگز ممکن نہ تھا۔

۳۔پھر اس قوم کی قومی نظموں اور گيتوںپر نظر کرو

میرے نزدیک تو یہ سارے عالم کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا معجزہ کہ جان برایٹ انگلستان کا مشہور فصیح و بلیغ (خوش بيان فاضل)مقرر یہ کہا کرتا تھا کہ

’’فقط یہی ایک بات بائبل کو الہٰامی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ میں نہیں خیال کر سکتا کہ کوئی گرم جوش اور راستی پسند بے دین شخص بھی ان کو اچھی طرح سے مطالعہ کرے اور پھر بھی یہ کہے کہ یہ معمولی انسانی دماغ کی پیداوار ہے‘‘۔

جب میں اُس زمانہ کی دُنیاوی تاریخ پر نظر کرتا ہوں۔ جب کہ زبور لکھی گئی اور اس امر کے لئے میں آخری سے آخری تاریخ لوں گا۔ جو کہ آج کل کے علماء نے بہت سی نکتہ چینی اور چھان بین کے بعد ٹھہرائی ہے ۔اور جب میں اُس زمانہ کی غلاظت (گندگی)اور حرام کاری ، بت پرستی اور باطل پرستی اور خدا اور فرض کی نسبت اُن کے ادنیٰ اور ذلیل خیالوں کو دیکھتا ہوں۔ اور جب میں اُس تاریخ کو اپنی بائبل کے مقابلہ میں رکھ کر زبور کی کتاب پر نظر ڈالتا ہوں۔ تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ سخت سے سخت اور کٹّر ملّحد (بے دين)بھی ان دونوں کے باہمی اختلاف کو دیکھ کر اس امر کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا۔

’’اے خدا اپنی رحمت کے مطابق مجھ پر ترس کھا۔ اور اپنے رحم کی کثرت کے موافق میرے گناہ مٹا دے۔ مجھے میری بدکاری سے خوب دھو۔ اور میری خطاء(غلطی) سے مجھے پاک کر ۔ کیوں کہ میں اپنے گناہ مان لیتا ہوں۔ اور میری خطا ہمیشہ میرے سامنے ہے۔ میں نے فقط تیری ہی خطا کی ہے۔ اور جو تیری نظر میں بُر ا ہے۔ سو میں نے کیا تا کہ تو اپنی باتوں میں صادق (سچا)ٹھہرے۔ اور اپنے انصاف میں ٹھیک نکلے ۔ میری خطاؤں سے چشم پوشی (نظر انداز)کر۔ اور میری سب بدکاریاں مٹاڈال ۔ اے خدا مجھ میں ایک پاک دل خلق (پيدا)کر اور ایک مستقیم (مضبوط)روح میرے اندر نئے سر سے ڈال مجھے اپنے حضور سے مت نکال ۔ اور اپنی پاک روح مجھ سے مت لے لے۔ خدا کی قربانیا ں شکستہ دل میں شکستہ اور خستہ دل کو اے خدا تو ناچیز نہ سمجھے گا ‘‘۔(1)

’’ اے میری جان یہوواہ کو مبارک کہہ ۔ اور جو کچھ مجھ میں ہے۔ اُس کے مقّدس نام کو مبارک کہہ اے میری جان یہوواہ کو مبارک کہہ۔ اور اس کے احسان کو مت بھول ۔ جو تیری ساری بدکاریوں کو معا ف کرتا ہے۔ جو تجھے ساری بیماریوں سے شفاء بخشتا ہے جو تیری زندگی کو نیستی سے چُھراتا ہے۔ جو رحمت اور کرم تجھے گھیرتا ہے۔ یہوواہ رحیم و کریم ہے ۔ غصہ میں د ھيما ا ور رحمت میں بڑھ کر ۔ وہ تا ابد ملامت کرتا نہ رہے گا۔ وہ تا ابد غصہ نہ رہے گا۔ اُس نے ہماری خطاؤں(غلطيوں) کے موافق ہم سے سلوک نہ کیا ۔ اُس نے ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہ دیا۔ کیوں کہ دیکھو۔ آسمان زمین سے کس قدر بلند ہے۔ اسی قدر اُس کی رحمت اُس سے ڈرنے والوں پر بڑی ہے ۔ دیکھو پورب پچھم سے کتنا دُور ہے ۔ اتنےاتنے ہی دُور ہم سے اس نے ہمارے گناہ ڈال دیئے ۔ ہاں جیسے باپ اپنے بچوں پر ترس کھاتا ہے۔ ایسے ہی یہوواہ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں رحم کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ ہماری حقیقت جانتا ہے ۔ وہ یاد رکھتا ہے کہ ہم خاک ہی تو ہیں‘‘ ۔(2)


(1) زبور ۵۱ (2) زبور ۱۰۳۔

’’یہوواہ میرا چوپان ہے۔ مجھے کچھ کمی نہیں ۔ وہ مجھے ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے پانی کی طرف لے چلتا ہے۔ وہ میری جان ٹھکانے پر لے آتا ہے۔ وہ اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر میری رہنمائی کرتا ہے۔ بلکہ جو میں موت کے سایہ کی وادی میں بھی چلوں۔ تو بھی مجھے خو ف و خطر نہ ہو گا۔ کیوں کہ تو میرے ساتھ ہے ۔ تیری چھڑی اور تیری لاٹھی وہی میری تسلی کریں گے۔ تو میرے دُشمنوں کے روبرو میرے آگے دستر خوان بچھاتا ہے۔ تو میرے سر پر تیل ملتا ہے۔ میرا پیالہ لبریز ہے۔ حقیقت میں بھلائی اور رحمت عمر بھر میرا پیچھا کریں گے۔ اور میں یہوواہ کے گھر ابد الآباد تک سکونت کروں گا‘‘ ۔(1)

میں ایسے زبوروں سے جن میں دُشمنوں کو کو سا گیا ہے ۔ یا اور اسی قسم کے عیوب (عيب کی جمع)سے بے خبر نہیں ہوں میں اس مضمون پر آگے چل کر بحث کروں گا۔ وہ باتیں اس عجیب و غریب اور شاندار مجموعہ میں ایسی معلوم ہوتی ہیں جیسے مسوری کے چہرے کے داغ ۔ سوچو کہ یہ نظمیں اُس زمانہ میں لکھی گئیں ۔ جب کہ رومۃ الکبریٰ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اور پھر اپنے دلوں سے سوال کرو کہ کیا محض انسان ہی اس قسم کا کلام بنا سکتا تھا؟

۴۔ اور اب میں ایک اور عجیب امر کا بیان کروں گا

جب ہم اس کتاب کا امتحان کرتے ہیں تو ہم اُس میں معلموں کا ایک سلسلہ پاتے ہیں ۔ ان کی نسبت ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محض مذہبی جو ش و خروش کے غلام تھے۔کیوں کہ وہ بڑےٹھنڈے دل سے باتیں کرتےاور صاحبِ عقل و شعو ر معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کو دغا باز یا مکار بھی نہیں کہہ سکتے ۔ کیوں کہ اُن کی تعلیم بہت ہی عالی پایہ ہے اور باوجود يہ کہ اُن کی جان اس کے سبب سے معرض ِخطر میں تھی ۔ تو بھی وہ دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ یہوواہ کی طرف سے بولتےہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ محسوس کرتے تھے کہ کوئی خفیہ روح اُن کی روح کے ساتھ جدوجہد کرتی ہے۔اور انہیں تعلیم و روشنی بخشتی ہے ۔یہاں تک کہ بعض اوقات انہیں کلام کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ انبیاء کے سارے صحیفوں کو پڑھ جاؤ اور اس بات کا زور محسوس کرو کہ کس طرح وہ ان الفاظ کو بار بار دہراتے ہیں۔ ’’ خدا وند کا کلام ‘‘ ۔ ’’ خدا وند یوں فرماتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات تم یہ بھی دیکھو گے کہ نیم رضانبی ’’ خدا وند کے بوجھ کے نیچے آہ و نالہ کرتا نظر آتا ہے اور بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اپنی مرضی کے خلاف اس امر پر مجبور کیا جاتا ہے کہ خدا کی منتوں یا دھمکیوں کی بابت لوگوں سے کلام کرے۔ اور یہ سب اکثر اوقات اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر کرتا ہے۔ اور جب تم یہ سب کچھ دیکھ چکو ۔ تو پھر اپنے دل سے سوال کر و کہ کیا ایسی باتیں معمولی انسانی تاریخوں میں پائی جاتی ہیں۔

۵۔ اب اس کتاب کی اور خصوصیت بھی دیکھو

وہ آئندہ زمانہ کے متعلق پیشن گوئی کرتی ہے۔ اور اس کی پیش خبر یاں پوری بھی ہو جاتی ہیں۔ بھلا کو ن دانا یا مدّبر بلا امداد عالم بالا ایسا کر سکتا تھا؟ ۔ خدا فرماتا ہے ’’ کون ہے جو میری طرح آنے والی باتوں کی خبر دے‘‘۔ بھلا جہاں اس قدرکثرت سے ایسے واقعات ہوں۔ میں وہاں کس کس کو بطور مثال کے چنوں؟ نبی کے جو حزقیاہ کو قیدِ بابل سے (۱۵۰) سال پہلے سخت لعنت ملامت کرتا ہے۔ اُس کے الفاظ سنو ۔’’ رب الافواج کا کلام سُن۔دیکھ وہ دن آتے ہیں۔ کہ اب جو کچھ کہ تیرے گھر میں ہے۔ اور جو کچھ کہ تیرے باپ دادوں نے آج کے دن تک ذخیرہ کر رکھا ہے ۔ اُٹھا کے بابل کو لے جائیں گے۔ خدا وند فرماتا ہے۔ کہ کوئی چیز باقی نہ چھوٹے گی۔ اور وہ تیرے بیٹوں میں سے جو تیری نسل سے ہوں گے۔ اور تجھ سے پیدا ہوں گے۔ لے جائیں گے اور وہ شاہ بابل کے قصر (محل)میں خواجہ سرا ہوں گے‘‘( یسعیاہ۳۹: ۵۔۷)پھر سنو کہ میکا ہ نبی بھی اسی قید کی خبر دیتا ہے۔ مگر ساتھ ہی اُس رہائی کا بھی جو اُس کے بعد واقع ہو گی ذکر کرتا ہے ( میکاہ ۱۰:۲ )۔پھر اُن پیش خبریوں کو دیکھو جن میں خبر دی گئی ہے کہ بابل ایک ویرانہ ہو جائے گا اور نینوہ بالکل اُجاڑ ہو جائے گا۔ صور جال بچھانے کے لئے بطور چٹان کے ہو گا۔ اور اسرائیل تمام قوموں میں پراگندہ ہو جائیں گے۔ اور یروشلیم غیراقوام کے پاؤں تلے روندا جائے گا۔ کیا یہ باتیں فقط تیز فہم مورخّوں کی محض دُور اندیشی کی باتیں تھیں یا کہ بائبل کے یہ الفاط لفظی طور پر صحیح ہیں۔ کہ ’’نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی ۔ بلکہ آدمی خدا کی طرف سے روح القدس کی تحریک کے سبب بولتے تھے ‘‘ (۲۔پطرس ۲۱:۱)۔

مگر ایسی پیشن گوئیاں جو محض قومی حالات کے متعلق تھیں۔ ایسی بہت اہم نہیں کہ ہم اُن پر یہاں زیادہ عرصہ تک ٹھہریں۔ اب ہم اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن کی بناء پر دُور دراز عرصہ سے وہ مسیح کے اُمید وار و منتظر چلے آتے ہیں۔ ہر ایک شخص جو بڑی احتیاط سے اس کتاب کو مطالعہ کرےگا دیکھ لے گا کہ سارے عہدِ عتیق (پرانا عہد نامہ)کی نبوتوں میں ایک طلائی دوزی (سونے کا کا م)کے طور پر یہ گہرا یقین پایا جاتا ہے۔ کہ خدا کے پاس اپنی کلیسیاء کے واسطے ایک اور بیش قیمت چیز موجود ہے جو بنی اسرائیل کی معمولی شکستوں اور فتحيا بیوں ، قیدوں اور بحالیوں سےکہیں بڑھ کر ہے۔ اور جس کے لئے یہ تمام واقعات ایک طرح سے راستہ تیار کر رہے ہیں۔ کم و بیش صفائی کے یہ یقین ہر زمانہ میں پایا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اور کبھی نہ کبھی ایک کامل (مکمل)رہائی خلاصی اور خدا کے ساتھ زیادہ قریبی اور حقیقی اتحاد اور یگانگت حاصل ہو گی ۔ اور خدا کی حضوری اور قربت خاص طور پر عیاں (ظاہر)ہو گی۔ کہیں کہیں ہم اس امر کے متعلق زیادہ صاف اور واضح پیش خبریاں بھی پاتے ہیں۔ کبھی تو ایک تخم یا نسل کا ذکر پڑھتے ہیں جو سانپ کے سر کو کچلے گا اور جس میں دُنیا کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔ کبھی ایک نبی کا ذکر پڑھتے ہیں۔ جو موسیٰ کی مانند خدا کی طرف سے مبعوث(نبی کا بھيجا جانا) ہو گا۔ کبھی ایک بچہ کے پیدا ہونے یا ایک فرزند کے عطا ہونے کا ذکر پڑھتے ہیں۔ جس کا نام خدا ئے قادر ،ابدیت کا باپ ، امن کا شہزادہ ہو گا یا ایک راست باز خادم کا بیان پاتے ہیں جس پر خدا وند سب کی بدکاریاں لاد دے گا۔ کہیں ایک مسیح شہزادہ کا ذکر ہے جو کاٹا جائے گا۔ مگر اپنے لئے نہیں یا کسی شخص کا جو ابن آدم کا کی مانند ہے جس کوایک ابدی سلطنت بخشی گئی۔ ایک ایسی حکومت جو کبھی ٹل نہ جائے گی۔ کہیں ہم دوسری ہیکل کی شان و شوکت کا ذکر پاتے ہیں۔ جو پہلی ہیکل سے کہیں بڑھ کر ہو گی۔ الغرض اسی قسم کی بہت سی پیش خبریاں اس کتاب میں درج ہیں اور یقیناً یہ ایک اور بھی عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ یہودی اپنے کو دوسری اقوام سے بالکل الگ سمجھتے تھے اور اس امر کے لئے بڑے غیرت مند بھی تھے۔ تو بھی اُس آنے والے مسیح کی نسبت یہ بھی اُسی کتاب میں لکھا ہے کہ و ہ غیر اقوام کا نجات دینے والا بھی ہو گا۔’’ کیا یہ کم ہے کہ تو یعقوب کے فرقوں کے برپا کرنے اور اسرائیل کے بچے ہوؤں کے پھرا لانے کے لئے میرا بندہ ہو؟ مگر میں نے تجھ کو غیر قوموں کے لئے بھی بطور نُو ر کے بخشا ہے۔ کہ تیرے ذریعہ میری نجات زمین کے کناروں تک بھی پہنچے‘‘(یسعیاہ ۶:۴۹ )۔

لو گ جس طرح چاہیں کہ ان آیات کی تشریح کریں۔ مگر یہ ایک مانی ہوئی تاریخی بات ہے۔ کہ ان پیش خبریوں کے سبب سے یہودیوں کے درمیان کم و بیش صفائی کے ساتھ ایک سلطنت اور ایک مسیح کی جو کسی نہ کسی معنوں میں الہٰی ہوگا۔ ایک اُمید پیدا ہو گئی تھی۔ ہمیں صاف دل کے ساتھ دریافت کرنا چاہیے کہ آیا ان باتوں سے ہم کسی قسم کی تشریح و تفسیر کرکے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔نکتہ چین لوگ جتنا چاہیں کتاب کے زمانہ ِتحریر کی نسبت چھان بین کر یں ۔ مگر اس امر میں سے کوئی شخص کبھی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ بہر صورت مسیح سے کئی سو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہیں۔ اگر یہ پیشن گوئیاں اُوپر سے نہیں آئیں۔ تو کہاں سے آئیں؟ کیا کوئی شخص انہیں پڑھ کر یہ کہنے کا حوصلہ کر سکتا ہے۔ کہ وہ محض مفروضہ باتیں تھیں ۔ جو اتفاقاً درست نکل آئیں؟ کوئی عقل مند آدمی تو ایسا کہنے کانہیں۔ یقیناً کوئی مسیحی تو ایسا نہیں کہے گا۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ہمارا خدا وند اکثرانہی پیش خبریوں کا حوالہ دیا کرتا تھا۔ کہ ضرور ہے کہ یہ سب باتیں ’’ جن کا ذکر موسیٰ اور انبیاء اور زبوروں میں اس کے حق میں لکھا ہے ۔ پوری ہوں‘‘۔

۶۔ اور آخر میں ہم اس عجیب و غریب يگانگت کا ذکر کرتےہیں

جو ساری کتاب کے مختلف صحیفوں میں باہم پائی جاتی ہے۔ اور یہ دلیل بھی کسی طرح زور میں دوسری دلائل سے کم نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ کوئی بڑا استاد اس امر کی ہدایت نہیں کر رہا تھا۔ تو ہمیں بتانا پڑے گا کہ یہ کیوں کر ہوا کہ یہ مختلف صحیفے جن میں ایک دوسرے کے درمیان بعض صورتوں میں صدیوں کا وقفہ تھا سب مل جل کر ایک کامل اور متحد کتاب بن گئی یہ ہی ایک بات ان کےالہٰامی ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ مرحوم ڈاکٹر ڈسٹکوٹ صاحب لکھتے ہیں۔ کہ

’’ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ نوشتوں کے ٹکڑوں کا مجموعہ جو سوائے چند کےبغیر کسی باہمی تعلق کے خیال کے ۔ اور پھر ایک دوسرے سے دُور دراز فاصلہ پر اور نہایت ہی مختلف حالات کے درمیان لکھے گئے تھے۔ باوجود اس کے بھی باہم مل جل کر ایک ایسی مکمل کتاب بنا دیتا ہے جو کسی دوسری کتاب کی صورت میں دیکھنے میں نہیں آتا ۔ اور پھر اس کے علاوہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ مختلف اجزا جب تاریخی طور پر ان کی تشریح کی جائے ۔ تمدنی اور روحانی زندگی کی ایک بتدریج ترقی کا نشان دیتے ہیں۔ جو کم سے کم اس لحاظ سے باہم متحد ہے۔ کہ اس سب کا رخ ایک ہی جانب کو ہے‘‘۔

اور اگرچہ یہ سب کچھ بغیر کسی قسم کے ظاہر ی ارادہ اور بنددبست کے ہوا ہے۔ مگر پھر بھی اُس کے مبینہ واقعات کے باریک باریک تفصیلی امور میں بھی نہ صرف عجیب قسم کی مطابقت اور موافقت پائی جائے۔ بلکہ تعلیمی مسائل کے درمیان میں بھی اتحاد و یگانگت ثابت ہو۔ اور اگر جس قدر کہ وہ ایک دوسرے سے علیٰحدہ علیٰحدہ معلوم ہوتے ہیں اسی قدروہ ایک ہی روح ومزاج سے معمور ثابت ہوں۔ تو اس صورت میں بلا تامل يہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ خواہ وہ ابتداء میں کسی طرح ہی وجود میں کیوں نہ آئے ہوں۔ اور خواہ کسی صورت ایک جلد میں جمع کیوں نہ کئے گئے ہوں۔ تو بھی اُن پر الہٰی مہر صاف صاف ثبت (نقش)معلوم ہوتی ہے۔ جو اس امر کی شايد ہے کہ یہ نوشتے اُن معنوں میں ’’ خدا کے الہٰام کئے ہوئے ہیں‘‘۔ جو معنی ہم کسی دوسری کتاب کے حق میں نہیں لگا سکتے ۔ (1)

ہم یہاں اس کتاب کے اس مختصر امتحان و تفتیش کو ختم کرتے ہیں۔ بیرونی تصدیق سے بالکل قطع نظر کر کے ہم نے پاک نوشتوں میں اُس اندرونی قدر ت کو دریافت کرنے کی کو شش کی ہے۔ جس کے زور سے وہ تین ہزار سال سے لوگوں کی زندگیوں پر قابض و حکمران رہے ہیں۔

اس بیان میں ایک امر کے سوا ہم نے دیگر امور میں فقط عہدِ عتیق کے ادنیٰ مکاشفہ ہی کو مدّنظر رکھا ہے۔ کیوں کہ یہ عہد ِعتیق کے صحیفے ہی ہیں جن پر آج کل زیادہ تر اعتراض کئے جاتے ہیں۔ اور نیز اس لئے بھی کہ جو کچھ اس کی اخلاقی اور روحانی عظمت کے بارے میں درست و صحیح ثابت ہو گا۔ وہ بلا شبہ عہدِ جدید کی نوشتوں کے حق میں اُس سے بھی بڑھ کر صحیح ہو گا۔ اس ادنیٰ قسم کے مکاشفہ میں بھی باوجود اس کے ظاہری نقصوں اور عیبوں کی ہمیں ضرورت سے زیادہ ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے ہم اس قدر ت کا جو وہ لوگوں کے دلوں اور ضمیروں پر رکھتا ہے اور اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اگر ہم اس بات کو یاد رکھیں کہ عہد ِجدید میں یہ اپیل (درخواست)زور و طاقت میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اور کہ آج کے دن تک کوئی قوم کوئی فرد واحد اس قسم کا کوئی اعلیٰ اور بزرگ نمونہ دُنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکا ۔ جیسا کہ اس کتاب میں دو ہزار سال ہوئے ایک نہایت تاریک زمانہ میں پیش کیا گیا تھا۔ تو بائبل کے اور زیادہ امتحان کرنے کی کچھ بھی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ہم کو بلا تامل اس کتاب کی ذاتی خوبی میں اس امر کی بین (صاف)دلیل مل سکتی ہے کہ اُس کی زندگی اور قدرت کا کیا بھید ہے اور اس کا کیا ثبو ت ہے کہ وہ خود خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ ہمیں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ خواہ بائبل کی نسبت (مقابلہ)لوگوں کے خيالات ميں کيسی ہی تبديلی کيوں نہ واقع ہو جائے تو بھی واقعات ہرگز ٹل نہیں سکتے۔ 


(1)بائبل کلیسیاء میں صفحہ ۱۵۔
(4)

مسیح کی گواہی

جن امور پر اُوپربحث ہو چکی ہے۔ وہ مسیحی اور غیر مسیحی دونوں کو اپیل (درخواست)کرتے ہیں۔ مگر یہاں میں صرف مسیحیوں کو مخاطب کرتا ہوں۔ اور اُس بڑی اور ناقابل جنبش بنیاد کا جس کی رُو سے ہر ایک مسیحی بائبل کے الہٰی الاصل ہونے پر ایمان رکھتا ہے ۔ اُن سے ذکر کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس سب کا مرکز خود یسوع مسیح ہے۔ وہ یعنی بائبل اُس سے کسی طرح علیٰحدہ نہيں کی جا سکتی ۔ وہ اس زند گی کے ساتھ ایسا مضبوطی سے بند ھا ہوا ہے۔ کہ ہرگز جدا نہیں ہو سکتا ۔ خدا کا مجسم ہونا ایک ایسا واقعہ نہیں ہے جو اس کے ماقبل یا مابعد کی تاریخ کے ساتھ کچھ بھی تعلق یا واسطہ نہ رکھتا ہو۔ بلکہ وہ خدا کے ان تاریخی ظہورات(اظہار) کی جو وہ انسان پر کرتا ہے۔ اور جن کا عہدِ عتیق میں ذکر درج ہے ۔ چوٹی کے طورپر ہے اور بعد کے کامل ظہور کا جس کا ذکر عہد جدید میں ہے۔ سردار اور منبع ہے ۔ عہدِ عتیق اُس تیاری کا ذکر کرتا جو مسیح کی آمد کے لئے ہوتی رہی ۔ عہدِ جدید بتاتا ہے کہ جب تیاری تکمیل کو پہنچی ۔ ’’ تو وقت کے پورا ہونے پر خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا‘‘ یسوع گویا ان دونوں عہدوں کے درمیان کھڑا ہےاور اپنا ہاتھ دونوں کے سر پر رکھتا ہے ۔اس نے عہد ِعتیق کے نوشتوں ہی کی بابت لوگوں سے کہا تھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں۔ اور اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں۔ عہدِ جدید اس کے کلام اور افعال کی اور رسولوں اور ابتدائی شاگردوں کی تعلیمات کی جنہیں اس نے روح القد س کی قدر ت میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے بھیجا کہانی بیان کرتا ہے ۔ اور یہی بات کہ مسیح اُن کا مرکز ہے۔ مختلف صحیفوں کے ان دونوں مجموعوں کے باہمی اتحاد اتفاق کا باعث ہے۔ اُن کے تمام اجزا ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عہدِ عتیق نامکمل ہے کیوں کہ وہ عہدِ جد ید کا منتظر ہے اور عہدِ جد ید بھی بجائے خود نامکمل ہے ۔ کیوں کہ وہ پیچھے پھر کر عہدِ عتیق کی طرف دیکھتا ہے۔

اس لئے اس شخص کے لئے جو یقین کرتا ہے کہ یسوع مسیح خدا ہے ۔ بائبل کا الہٰی الاصل ہونا ہمیشہ کے لئے سلامت ہے۔ خواہ اس کے الہٰام کے حق میں اُس کی رائے کیسی ہی کچھ تبدیل کیوں نہ ہوجائے۔

میں یہاں فقط چند ایک آیات کو نقل کرتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارا خداوند عہدِ عتیق کی نسبت کہا کرتا تھا کہ وہ منزل من اللہ یعنی خدا کی دی ہوئی کتاب ہے۔ اور اس کی آمد کے لئے برابر راہ تیار کرتی رہی ہے۔

کیا تم ا س سبب سے بھول نہیں پڑے ہو کہ تم نوشتوں کو نہیں جانتے ہو (مرقس ۲۴:۱۲) ’’ یہ وہی ہیں جو میری گواہی دیتی ہیں‘‘(یوحنا ۳۹:۵)۔

’’ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کی کتابوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں ‘‘ (لوقا ۴۲:۲۴)۔

’’ یہ جو لکھا ہے اس کا میرے حق میں پورا ہونا ضرور ہے ‘‘(لوقا ۳۷:۲۲)۔

’’ موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب صحیفوں میں جتنی باتیں اس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں ۔ وہ سب اُن کو سمجھا دیں ‘‘ ( لوقا ۲۷:۲۴)۔

’’ کیا تم نے نوشتوں میں نہیں پڑھ کہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا ‘‘ (متی ۴۲:۲۱)۔

یہ وہی ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیرے سامنے تیری راہ درست کرے گا (متی ۱۰:۱۱)۔

(5)

اُس کی قدر ت کی گواہی

اب میں اور کیا کہوں؟ کیا میں پھر آپ کو یاد دلاؤں کہ ہر ایک شخص جس نے دل لگا کر بائبل کا مطالعہ کیا ہے۔ اُس کا یقین اس کے حق میں کیا ہے۔ ایک عالم اس یقین کا اُن لفظوں میں ذکر کرتا ہے۔ کہ وہ ’’ مجھے چھوڑتا نہیں ‘‘ ۔ لوگ اپنے ہی ذاتی تجربہ سے اس امر(فعل) کو محسوس کرتے ہیں کہ یہ کتا ب خود اپنی آپ گواہ ہے ’’ خود روح بھی اُن کی روح کے ساتھ گواہی دیتا ہے‘‘ ۔ کہ یہ کتاب کتا بِ اللہ ہے وہ ایسا انہیں ڈھونڈ لیتی ہے۔ جیسے اور کوئی کتاب نہیں ڈھونڈ سکتی ۔ اُ س کے الفاظ اُن کے دل میں گہری تحریک (جنبش)پید اکرتے ہیں۔ اس کی مدد سے وہ نيک بن جاتے ہيں اُس نے ان کے ارادوں پر قابو پا لیا ہے۔ اور اُن کے دلوں کو خوشی و خرمی سے بھر دیا ہے یہاں تک کہ وہ اس یقین سے باز نہیں رہ سکتے کہ اس کتا ب کی مانند کسی کتاب نے کبھی کلام نہیں کیا۔

کیا میں تمہیں یہ کہوں کہ تم اپنے چاروں طرف دُنیا پر نظر کرو۔ اور اس معجزہ نما طاقت کو ملاحظہ کرو۔ جو بائبل کو حاصل ہے؟ کس طرح اس کی تاثیر (عمل)سے بری زندگیاں درست ہو گئیں۔ اور شریف اور خوبصورت زندگیاں اس سے روزمرہ کی خوراک حاصل کرتی ہیں؟ کیا تم نے کبھی کسی اور تاریخی یا نظمی کتاب یا سوانح عمر ی(زندگی کی تاريخ) یا خطوط کا ذکر سنا ہے۔ جن میں یہ طاقت ہے کہ وہ لوگوں کو شرافت اور صداقت کی زندگی کی طرف مائل (متوجہ)کرے۔ کیا تم نے کبھی کسی شخص کو یہ کہتے سنا ہے۔ کہ میں ایک آوارہ مزاج اور بدچلن شخص تھا۔ اور اپنے خاندان کا ننگ (شرمندگی)تھا۔ یہاں تک کہ میں نے فلا ں شاعر کی نظمیں اور فلاں مورخ کی تاريخ مطالعہ کی ؟ کيا تم نے کسی شخص کو يہ کہتے سنا ہے کہ ميں نے فلاں قدیم قصہ یا نظم کے مطالعہ سے اُمید اور اطمینِان قلب اور بُری عادتوں پر غالب آنے کی قوت حاصل کی؟

لیکن ایسے لوگ ۔ جو بائبل کی نسبت یہ کہہ سکتے ہیں بہت ہیں۔ ہاں اُن کی تعداد ہزار ہا ہزار ہو گی۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ حالانکہ اُس کی پورے طور پر پیروی نہیں ہوتی تو بھی اُس کے ذریعے سے کس قدر خوشی اور نیکی دُنیا کو حاصل ہوئی ہے۔ تم یہ بھی دیکھ سکتے ہو کہ اگر اس کتاب پر پورے طور سے عمل درآمد ہو تو یہ دُنیا بہشت بری(اعلیٰ درجہ کی جنت)بن جائے گی۔ دُکھ اور شرارت بالکل معدوم (ختم )ہو جائیں گے۔ پاک دامنی اور محبت اور خود انکاری اس زمین پر سلطنت کریں گے۔ اور ست جگ (سچا ئی کا زمانہ)کا زمانہ ابھی شروع ہو جائے گا۔

وہ کتاب جو اسی زمین پر آسمانی امن و خوشی کا نمونہ قائم کرنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ ضرور آسمان سے اُتری ہو گی۔ وہ کتاب جس کے خوبصورت نمونوں کو کوئی آدمی کوئی قوم کبھی پورے طور پر نہیں پہنچ سکی۔ یقیناً معمولی طور پر محض انسانوں کے ہاتھو ں کی بنی ہوئی نہیں ہو سکتی۔

میں نے مختصر طور پر چند خیالات ظاہر کئے ہیں۔ جن سے بہت لو گ زمانہ حال کی بحث اور جھگڑوں میں قوت اور اطمینان حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے یقین کو بحال کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ایسی کتاب کی طرف سے بے چین ہو جائیں۔ جو اتنے طاقت ور طریقوں سے اپنے حق میں شہادت (گواہی)لے کر ہمارے پاس آتی ہے؟ کیا ہم اطمینان و تسکین ِقلب کے ساتھ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ سب باتیں جن کی خاطر ہم اس کتاب کی قدر کرتے ہیں۔ ہر قسم کے حملوں سے محفوظ ہیں اور ہمیں الہٰام کے متعلق خواہ اپنے خیالات کو کتنا ہی تبدیل کرنا کیوں نہ پڑے ۔ تو بھی ہم اس امر میں کبھی شک نہیں کر سکتے کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔

باب سوم

الہٰام کے بارے میں مشہورعام خیالات

گذشتہ باب میں مَیں نے اُس غرض سے لکھا ہے کہ اُس شخص کو جس کا دل بے چین ہو رہا ہے۔ حوصلہ دلاؤں ۔ یہ یاد دلا کر کہ الہٰام کے متعلق اُسے خواہ اپنے خیال کیوں نہ تبدیل کر نے پڑیں ۔ تو بھی الہٰام بجائے خو د ہر ایک قسم کے حملوں سے عملی طور پر بالکل محفوظ ہے۔ خواہ بائبل میں اُسے کیسی ہی مشکلات کیوں نہ نظر آئیں ۔ تو بھی یہ ممکن نہیں کہ اُسے محض انسان کی بنائی ہوئی کتاب سمجھ سکیں۔ اور نہ کبھی اس امر میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے طور پر خدا کی طرف سے الہٰامی سمجھے جانے کے قابل ہے۔ جس طور پر ہم اور کسی کتاب کو نہیں سمجھ سکتے۔

اس خیال کو مدنظر رکھ کر اُ س شخص کو تمام مشکلات کا دلیری سے مقابلہ کرنے کی جرات ہونی چاہیے۔ میں یہ ہرگز اُمید نہیں کرتا کہ اس بات سے اُس کی تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی۔ وہ صاف صاف معلوم کرلے گا۔ کہ وہ شخص جو الہٰام کا منکر(انکار کرنے والا) ہے۔ اُسے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ بہ نسبت(مقابلہ) اس شخص کے اُس شخص پر یقین رکھتا ہے۔ مگر تو بھی بائبل کے الہٰامی ماننے کے متعلق جو اس کی مشکلات ہیں۔ ان سے خلاصی پانا اس کے لئے مشکل ہو گا۔ وہ یہ کہے گا کہ ’’ یقیناً میں اس بات کو تو نہیں مان سکتا کہ بائبل ایک معمولی قسم کی غیر الہٰامی کتاب ہے۔ تاہم اس بے اطمینانی کو بھی جو میرے دل میں اس کے الہٰامی ہونے کی نسبت ہے۔ دُور نہیں کر سکتا ۔ میں اس کتاب کے الہٰامی مصنفوں کےایسے اقوال پاتا ہوں۔ جو یسوع مسیح کے مقرر کردہ معیار میں پورے نہیں اُترے میں سنتا ہوں کہ اُس تاریخی بیانات میں اختلاف ہیں۔ بعض باتوں میں وہ علوم ِجدید ہ کی فیصلہ شدہ باتوں سےمختلف ہے۔ اُس کے ابتدائی زمانہ کی اخلاقی تعلیم بالکل من گھڑت اور ناکا مل ہے۔ اور خود صحیفوں کے اندر جنہیں میں خدا کے ہاتھ کی لکھے ہوئے خیال کرتا تھا۔ تالیف و ترتیب (جمع وترتيب)اور صحت و ترمیم(درستی) کے نشان پائے جاتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ باتیں سچائی کی روح کے الہٰام کے ساتھ مطابقت کھا سکیں؟

اب اگر کسی آدمی نے خود کسی طرح ان مشکلات سے پیچھا چھڑا لياہے۔ تو وہ ان تمام منزلوں پر جن کے ذریعہ سے درجہ بدرجہ اس سوال کو حل کر کے موجودہ اطمینان حاصل کیا ۔ دوبارہ نظر ڈالتے وقت جلدی جلدی اُ س پر سے گذر جانا چاہتا ہے۔ لیکن اگر وہ دوسرے کے دل میں بھی وہی یقین پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تو مناسب ہے کہ وہ صبر واطمینان کے ساتھ اسی راستہ پر اپنے ہمراہی کی رہنمائی کرے۔ اس قسم کے ذہنی مشغلوں میں چھوٹی پک ڈنڈیاں ہرگز تسلی بخش ثابت نہیں ہوتیں۔

میں پہلے باب میں اس امر کا ذکر چکا ہوں کہ جب کسی شخص کے دل میں اس قسم کے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تو اس کے دیندار دوست عموماً اس کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اب ہم دیکھیں گے۔ کہ آیا اس کی مشکلات کے ساتھ اور کسی طور سے سلوک کرنا ممکن ہے یانہیں جس سے درحقیقت اس کو اس حالت تک پہنچنے میں مدد ملے۔ جہاں سے وہ ٹھنڈے اور مطمئن دل کے ساتھ الہٰام کے مسئلہ پر بذات خود غور کرکے اُسے حاصل کر سکے۔

کیا یہ بے چینی گناہ ہے؟

یہ کہ عام طور پر مانی ہوئی بات ہے کہ مذہبی شکوک اور بے چینی ہر صورت میں گناہ یا بدی نہیں سمجھی جانی چاہیے۔ مگر تو بھی ایک ایسی سچائی ہے جو ہر ایک شبہ میں پڑے ہوئے آدمی کے سامنے بار بار بڑے زور سے دہرائی جانے کی حاجت مند (ضرورت مند)ہے اگر کسی آدمی کے دل میں شبہات (شک)پیدا ہوں۔ بشرطیکہ وہ شبہات صاف دلی اور نیک نیتی سے پیدا ہوئے ہوں۔ تو اسے بھی ایسی ہی خدا کی بخشش سمجھنا چاہیے۔ جیسے کہ یقین و ایمان کو سمجھا جاتا ہے۔ اور ضرور ہے ۔ کہ اس کے ذریعہ سے بھی آخر کار نیک نتیجہ نکلے ۔ انگلستان کے مشہور شا عر ٹینسن کا یہ قول بالکل حق ہے کہ

’’ میری بات کو یقین مانو کہ اُس شک میں جو نیک نیتی پر مبنی ہو۔زیادہ ایمان کو دخل ہے۔ بہ نسبت دُنیا کے آدھے عقائد کے ناموں کے‘‘۔

اور بعض ایسے اوقات بھی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ جب کہ ایسے شکوک (شک)کو اپنے سے دُور رکھنا اُلٹا گناہ ہو گا۔ ایسے بے چین آدمیوں کی صورت میں جن کو میں مخاطب کر رہا ہوں۔ بائبل کی نسبت (مقابلہ)اس قسم کی بے اطمینانی ممکن ہے۔ کہ رفتہ رفتہ اور بھی ترقی کرتی جائے۔ اور آخر کار وہ مذہب اور خدا کی نسبت ہر ایک قسم کے یقین و اعتقاد کو خیر با د کہہ بیٹھیں ۔ تحقیقات سے بھاگنا شک و شبہ کو ترقی دینا ہے۔ جو شکوک خود بخود دل میں پیدا ہو جائیں۔ وہ کسی طور سے گناہ سمجھے جانے کے لائق مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں شکوک نہیں ستا تے ۔ مگر زیادہ مبارک ہیں ۔ وہ لوگ جو شک اور تاریکی میں سے گذر کر سچائی کی اعلیٰ معرفت کو حاصل کرتے ہیں۔ ہم سچے دل سے یہ یقین کرتے ہیں۔ کہ وہ لوگ جو عاجز دل اور نیک نیت کے ساتھ سچائی کی تلاش میں مشغول(مصروف) ہیں۔ خواہ اُس کے سبب ان پر کچھ ہی وارد(پيش آنا) کیوں نہ ہو۔ اس سچائی کے دریافت کرنے میں خدا ان کی ضرور مد دکرے گا۔ اور اگر بالفرض وہ اس تک نہ بھی پہنچیں تو ضرور اُن کی خطا (غلطی) کو معاف کرے گا۔ ایک قدیمی مصنف لکھتا ہے کہ

’’ اگر سچائی کے لئے ہر طرح کی محنت و کوشش کرنے کے بعد ہم ایسی باتوں میں جن کی بابت پاک نوشتے صاف صاف تعلیم نہیں دیتے ۔ غلطی میں پڑھ جائیں ۔ تو اس میں کچھ بھی خطر و اندیشہ نہیں ۔ وہ جو غلطی کھاتے ہیں اور وہ جو غلطی نہیں کھاتے دونوں نجات پائیں گے‘‘۔

(2)

سوتےکتوں کو سونے دو

اس لئے ہرایک کا فرض ہے کہ اس امر(فعل) کی سچائی میں جس سے بے چینی پیدا ہوئی۔ بڑے ادب سے مگر بے خوف ہو کر تفتیش و جستجو کرے۔ خدا کے نزدیک سچائی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ سچائی خدا سے ہے۔ خواہ اس سے ہمارے اندر بے چینی پیدا ہو یا نہ ہواور اگر ہم کو سچائی پر اور خدا پر یقین ہے تو آخر کار اس سےبے چینی ہرگز پیدا نہ ہوگی۔

اس لئے اس قول پر کہ ’’ سوتے کتّوں کو سونے دو ‘‘۔ کبھی قناعت (خوش رہنا)نہ کرو کیوں کہ اوّل تو یہ ایک بڑی کمینہ بات ہو گی۔ اس سے ظاہر ہوگاکہ تم خدا پر اور سچائی پر حقیقی ایمان نہیں رکھتے ۔ مگر ساتھ ہی ایک خوف ناک بات بھی ہے۔ کیوں کہ اکثر یہ کتّے خدا کے پہرہ دار کتّے ہیں تا کہ تمہیں اس امر سے خبر دار کرتے رہیں کہ تمہارے ایمان واعتقاد(يقين) میں سڑا دینے والی باتیں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ اگر تم انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرو گے اور انہیں سوتا رہنے دو۔ تو تمہیں ایک نہ ایک دن معلوم ہوگا کہ تمہارا ایمان بالکل زنگ آلودہ ہو گیا اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوئی۔ اور اس کے علاوہ خود تمہارے دلی اطمینان کے لحاظ سے بھی اُن سے ایسا سلوک کرنا سخت حماقت(بے وقوف) کی بات ہے۔ اگر تمہارا ننھا بچہ بیچا (بيچنے والا)کے خوف سے تاریک جگہ میں جانے سے ڈرتا ہے۔ تو وہ جب کبھی اس جگہ کے پاس سے گذرے گا۔ ہمیشہ ڈرا کرے گا۔ لیکن اگر تم اس کے ساتھ جا کر اس چیز کو باہر روشنی میں کھینچ لاؤ تو وہ دیکھ لے گا کہ وہ بیچا نہیں۔ بلکہ سفید چادر کھوٹنی پر لٹک رہی تھی ۔ اور اگر تم بھی اسی طرح بائبل میں کسی بیچا سے ڈرتے ہو ۔ جو تمہارے دل میں ہمیشہ اُ س کی طرف سے خوف بیٹھا رہے گا۔ جب تک کہ تم دلیری کے ساتھ اُسے روشنی میں نہ لاؤ گے۔ شائد اس سے تم کو یہ فائدہ پہنچے کہ تم کو یہ معلوم ہو جائے کہ تمہار ا اعتقاد(يقين) و تصحیح و ترمیم (درستگی)کا حاجت مند(ضرورت مند) ہے یاممکن ہے کہ جب اپنے سے بہتر اور دانا آدمی کی مد د سے تم اُس پر نظر کرو۔ تو وہ بالکل وہی بات ثابت ہو اور اس طور سے اُ س سے تمہار ا پیچھا چھوٹ جائے۔ خیر خواہ کچھ ہی ہو اُسے روشنی میں کھینچ لاؤ اور جہاں تک تمہارا بس چلے کبھی سوتے کتّوں کو سوتے رہنے مت دو۔ وہ اپنی نیند میں بھی بھونک بھونک کر تمہیں ہمیشہ بے آرام کرتے رہیں گے اور ممکن ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ اُٹھ کر تمہیں چیر پھاڑ ڈالیں۔

(3)

علماء کا اعتماد

جب آدمی کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس کی بے چینی بُری بات نہیں۔ بلکہ اچھی بات ہے۔ اور اُسے اس قدر شیطان کی آزمائش نہیں سمجھنی چاہیے بلکہ یہ جاننا چاہیے کہ وہ خدا کا طریق ہے۔ جس کے ذریعہ سے وہ سچائی کی تعلیم دیتا ہے تو اس کے علاوہ امداد اور یقین کی بحالی اس امر سے بھی حاصل ہو سکتی ہے کہ بڑے بڑے علماء اور علم الہٰی کے جاننے والے جن کی اعلیٰ دینداری میں کسی کو شبہ نہیں۔ سالہا سا ل سے ان باتوں سے جو تمہیں بے چین کر رہی ہیں۔ واقف و آشنا ہیں۔ مگر انہیں کبھی ان کے سبب سے کوئی پریشانی یا اضطراب (بےچينی)نہیں ہوتا۔ خواہ کوئی اس امر(فعل) کی حقیقت کو سمجھ سکےیا نہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ یہ دیکھ کر کہ ایک شخص بائبل کا نہایت قابل اور گہرا نکتہ چین بھی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کے اس کی تعلیم میں کامل اعتقاد (مکمل بھروسہ)رکھتا۔ اور اسے خدا کی الہٰام ہوئی کتاب سمجھتا ہے۔ ضرور انسان کا یقین و اعتقاد ترو تازہ اور مضبوط تر ہو جانا چاہیے ۔ نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جب ہم ایسے اشخاص سے زیادہ گہری واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے جس قدر زیادہ گہری تحقیقات کی اور بائبل کو باریک نظر سے مطالعہ کیا۔ اسی قدر پہلے کی نسبت (مقابلہ)اُن کا خیال بائبل کی عظمت اور شرافت اور خدا کی الہٰامی کتاب ہونے کے متعلق زیادہ وسیع ہوگیا۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے مسائل کو جو انہیں اس کے الہٰی الاصل ہونے کے اعتقاد(يقين) سے روکتے تھے۔ اُٹھا کر پھینک دیا ہے۔ انہوں نے سچائی کی تلاش کی اور سچائی نے اُنہیں بالکل آزاد کر دیا ہے ۔

(4)
رنگ دار عینک کے ذریعہ بائبل پر نظر کرنا

دُوسرا قدم اس بے چینی کے دُور کرنے کے لئے یہ ہو گا کہ اب ہمیں شبہ (شک)پیدا ہونے لگتا ہے کہ شايد کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ الہٰام نہیں جو معرض ِخطر میں ہے۔ بلکہ وہ مسائل جو لوگوں نے اس کے متعلق گھڑ رکھے ہیں۔ انسانی خیال کی تاریخ میں مشکل سے کوئی بات ایسی عجیب و غریب معلوم ہو گی کہ کس طرح ذی عقل نہ ہو ش آدمی بھی نسلاً بعد نسل بائبل کے متعلق اپنے ہی بے بنیاد مسائل قائم کرکے اُن پر جمے رہتے ہیں۔ بلکہ اس امر (فعل)پر اصرار (ضد)کرتے ہیں کہ جو بے ہودہ خیالات وہ بائبل کے الہٰام کی نسبت رکھتے ہیں۔ وہی حق ہیں۔ انہوں نے اپنے لئے ایک قسم کی رنگ دار عینکیں ایجاد کر لی ہیں۔ اور انہی کو لگا کر بائبل کو پڑھتے ہیں۔ وہ انہی عینکوں کو پشت در پشت(نسل در نسل) اپنے بچوں کی آنکھوں پر بھی لگاتے رہے ہیں۔ جس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ وہ رنگ اب بائبل کا حقیقی رنگ سمجھا جانے لگ گیا ہے۔ اور اس طرح طرح کے سلوک اور جھوٹے خیال اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ اس بات سے آدمی کے دل پر سے ایک بوجھ سا اُٹھ جاتا ہے ۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بائبل نہیں بلکہ رنگ دار عینک ہے، جسے اُتار پھینکنا چاہیے اور جب اس کتاب کو اس قسم کے خیالات کو بالائےطاق (ايک طرف رکھنا)رکھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تو سخت سے سخت مشکلات اور بے چینی فی الفور(فوراً) دُور ہو جاتی ہيں۔

اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے تو مجھے یقین ہے۔ کہ بائبل کے اعتقاد (ايمان)کے متعلق سب سے بڑے خطرات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بے دین آدمی اور ان کے سامعین (سننے والے)بھی بچپن سے انہیں رنگین عینکوں کے وسیلے بائبل کو پڑھنے کے عادی رہےہیں۔ اور نہ وہ اور نہ یہ اس خیال کے سوا جس کے وہ بچپن سے عادی ہو رہے ہیں اور کسی نئے خیال کا تصور نہیں کر سکتے۔ اس لئے اس بے دین ليکچر دینے والے کے دلائل(ثبوت) بڑی پر زور اور قائل (تسليم کرنا)کرنے والے معلوم ہوتے ہیں اور اس کی سامعین کے دل بھی اُن کو قبول کرنے کو پہلے ہی سے تیار ہیں۔

اس رنگ کی کتاب خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی ۔

بائبل یقینا ً اسی رنگ کی کتاب ہے۔

اس لئے بائبل خدا کی طرف سے نہیں ہے۔

اور ایسے نتیجہ پر پہنچنا لازمی امر ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص اُسے یہ بتادے ۔ کہ آپ برائے مہربانی یہ عینک اُتار ڈالیئے ۔ اور تب اس کے تمام دلائل(ثبوت) اور لوگوں کی بے چینی یک قلم(فوراً) ہو ا ہو جاتی ہیں۔

(5)

الہٰام کے متعلق مشہور عام خیالات کی خطر ناک حالت

جب یہ سوال کیا جاتا ہے۔ کہ اگر الہٰام ایسی بین (صاف)بات ہے۔ تو اس کی کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو اس کے ماننے میں اس قدر مشکلات پیش آتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس لئے کہ انہوں نے خود وہ مشکلات اپنے راستہ میں پیدا کر رکھی ہیں۔ انہوں نے الہٰام کی جگہ اس بارے میں بعض ایسے عام تصورات پید ا کر رکھے ہیں کہ الہٰام کیا کچھ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے بلا کسی سند (ثبوت)کے یہ فرض کر لیا ہے کہ اگر خدا بائبل کو الہٰام کرے۔ تو ضرور ہے کہ وہ اسے ایک خاص طور پر جوان کے نزدیک معقول اور مناسب معلوم ہوتا ہے الہٰام کرتا۔ ضرور ہے کہ اس کے الفاظ بھی الہٰامی ہوں یا ضرور ہے کہ وہ بالکل نقص و غلطی سے مبر ا(پاک)ہو۔ یا اس کی زبان اور طرز تحریر ہر قسم کے عیب (غلطی)سے پاک ہونی چاہیے ۔ اس کی مذہبی تعلیمی امور کے متعلق شروع ہی سے کامل ہونی چاہیے ۔ اور بہر صورت وہ ایسی اور ویسی ہونی چاہیے ۔ جیسا ان کی رائے میں ایک کتاب کے لئے جو خدا کی طرف سے الہٰام ہو۔ ہونا ضروری ہے۔

خدا نے انہیں اس قسم کی کوئی بات نہیں بتائی ۔ مگر یہ اُن کا اپنا خیال ہے کہ ایسا ہونا چاہیے ۔ اُن کی یہ غلطی قابل معافی ہے۔ کیوں کہ وہ اس محبت آمیز ادب و عقیدت سے جو وہ بائبل اور اس کے دینے والے خدا کی نسبت رکھتے تھے پیدا ہوئی مگر تو بھی وہ غلطی ہی ہے اور اس کے سبب سے بائبل کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

لوگ اسی قسم کی باتیں اپنے بچوں کو بھی سکھاتے رہے ہیں کہ الہٰام و مکاشفہ کے یہ معنی ہیں۔ رفتہ رفتہ جب یہ بچے بڑےہوتے ہیں۔ تو اس کتاب کے بعض حصوں میں ایسی ایسی باتیں پاتے ہیں۔ جوان خیالات کے مطابق اُترنےمیں قاصر (مجبور)رہتی ہیں۔ تب وہ فی الفور اس کتاب کے الہٰامی ہونے پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پہلے اس بات کو دیکھیں کہ جوتعریف الہٰام کی انہیں بتائی گئی تھی وہ تو غلط نہیں ہے۔

الہٰام کو الہٰام کے مشہور عام خیال کے ساتھ غلط ملط کر دینے سے وہ تمام غلط خیال پید ا ہوئے ہیں۔ جو ايمانداروں اور بے ایمانوں میں مروج (رواج) ہیں۔ ان تمام حملوں کا جو ملحدین (بے دين لوگ)نے بائبل پر کئے ہیں۔ مطالعہ کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ کیوں کہ ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ ان اعتراضوں میں سےمحض اُن خیالات پر وارد ہوتےہیں ۔ جو عوام الناس میں مروج(رواج) ہیں۔ اور جنہیں تعلیم یافتہ مسیحی مدت سے ترک کر چکے ہیں ۔ مگر ساتھ ہی اس کے یہ دیکھ کر کہ بعض بھلے آدمی ان بے ہودہ خیالات کی بڑی سر گرمی اور جوش وخروش کے ساتھ حمایت (طرف داری)کر رہے ہیں۔ گویا کہ خود مذہب کی بنیاد انہی سچائیوں پر رکھی ہوئی ہے سخت افسوس آتا ہے۔

لوگوں کے لئے یہ امر(فعل) کیسا تسکین بخش اور تسلی دہ ہو گا۔ اور اگر اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ محض بعض مسیحیوں کے توہمات باطلہ(جھوٹی طرفداری ) ہیں۔ جو وہ بائبل کی نسبت رکھتے ہیں۔ جو اس ساری بے اطمینانی کے لئے جو لوگوں میں پھیل رہی ہے۔ جواب دہ ہیں۔ اور دشمنوں کا قریباً ہر ایک حملہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔

لوگو ں کے اس بے بنیاد یقین سے کہ فلاں فلاں باتیں بھی الہٰام کی تعریف میں داخل ہیں ۔ اپنی قوت حاصل کرتا ہے۔

اے ناظرین !

اگر یہ بات سچ ہے۔ تو کیا بائبل کے متعلق ہماری سخت سے سخت مشکلات کافی الفور خاتمہ نہیں ہو جائے گا؟ کوئی آدمی سور ج کے داغوں کو دیکھ کر اس کی طرف سے دل برداشتہ نہیں ہو جائے گا۔ اور نہ کسی عمدہ تصویر پر کہیں کہیں کسی گوشہ میں ذرا سا خراش (ہلکا زخم)دیکھ کر اس کا لطف اُٹھانے سے انکار کرےگا۔ اسی طرح کوئی صادق دل آدمی جو پاک نوشتوں کے عجیب و غریب حسن و خوبصورتی پر نظر کرتا ہے۔ اُن ذرا ذرا سے نقصوں کا خیال بھی دل میں نہ لانا اگر اُس کے سامنے اس قسم کے خیال پیش نہ کئے جاتے کہ (جیسا کہ عوام میں یہ مشہور ہو رہا ہے )۔ اس کتاب میں کسی ایسے نقص کا دکھائی دینا اُ س کے در حقیقت خدا کی طرف سے ہونے کے خلاف ہے اُسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسے نقص ہرگز اُس میں موجود نہیں ہیں۔ اور اگر کہیں ایسے نقص تمہیں نظر بھی آئیں۔ تو اپنی آنکھوں کی شہادت (گواہی)کا کبھی یقین نہ کرو۔ بھلا جو کتاب آسمان سے اُتری ہو اس میں ایسے نقص کب ممکن ہیں؟

کیا اس سے انسان کے دل کو تقویت حاصل نہیں ہو گی ۔ اگر اس پر ثابت کر دیا جائے کہ اس قسم کی تعلیم محض باطل اور غلط ہے؟ بائبل آسمان پر سے بنی بنائی نیچے نہیں گری۔ اور نہ وہ جیسا کہ پرانے مطلا نسخوں(سنہری نسخے) میں تصویریں کھینچی ہوئی نظر آتی ہیں۔ طلائی نسخوں (سونے کے نسخے)سے جنہیں فرشتے آسمان پر لئے ہوئے بیٹھے ہیں نقل کی گئی ہے۔ اسے آدمیوں نے لکھا ۔ البتہ یہ سچ ہے کہ وہ آدمی خداکی طرف سے ملہم (الہٰام کيا ہوا) ہوئے تھے ۔ مگر تو بھی وہ انسانی دل اور انسانی کمزوریاں اور انسانی حسات رکھنے والے آدمی تھے۔

اور یہ بالکل طبعی طور پر لکھی گئی۔ اور جس طرح ہم لکھتے وقت اپنے ہاتھ اور دل اور دماغ کو استعمال کرتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے لکھنے والوں نے کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے اُتری مگر اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اسی دُنیا کی روحانی ہدایت کے لئے الہٰام کیا ۔ اور ایک شرافت بخش اثر اور الہٰی تعلیم اس سے صادر(جاری کرنا) ہوتی تھی۔ مگر اس امر نے کہ وہ خدا کی طرف سے الہٰام ہوئی اس زندہ انسانی کتاب کو محض ایک مردہ اور گلٹ(ظاہری خوبصورتی) کئے ہوئے بت میں تبدیل نہیں کر دیا ۔ البتہ ہم نے ضرور اُسے ایسا بنا دیا ہے۔ ہم نے مختلف نوشتوں کو جو تاریخ ، نظم ،ڈرامہ ، خط ، نبوت ، تمثیل کی صورت میں مختلف الطبائع مصنفوں کے ہاتھ سے مختلف مدراج سے لکھے گئے تھے۔ ایک جلد میں باندھ دیا ہے۔ اور خواہ مخواہ اُن میں ایک قسم کی پہچان یگانگت داخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ زندہ کلاموں کا مجموعہ جو ہمارے استعمال کے لئے دیا گیا تھا۔ ہم نے اسے پرستش کے لئے ایک بت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم نے ہر ایک خوبی جو ہمیں عمدہ معلوم ہوئی اس کی طرف منسوب کر دی ہے۔ مگر یہ نہیں سوچا کہ آیا ایسا کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ بھی ہے یا نہیں۔ اس میں جہاں کہیں کوئی علوم یا تاریخ کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس کے لئے خداکو ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔ نہیں بلکہ مصنفوں کے ناموں کے لئے بھی جو شروع کتاب میں درج ہیں۔ الہٰی سند پیش کرتےہیں اس طور سے بجائے اس کے کہ ہم ایسی شریف الہٰامی کتاب کا عقل مندوں کی طرح ادب و عزت کریں ہم نے اس کی ایسے طورپر پرستش کی جیسے احمق لوگ ایک بت کی کرتےہیں۔ وہ ایمان جسے بائبل کی روح کو اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اب حروف اور الفاظ کی باطل پر ستی (جھوٹ کی پوجا)میں خرچ ہو رہا ہے۔

تورایخ سے بھی ظاہر ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انسان جن چيزوں کی عزت وادب کرتا ہے اُن کا آخر کار يہی حال ہوتا ہے ۔يہوديوں کے ربی لوگ موسوی تحريروں کی ايسی عزت کرنے لگ گئے کہ آخرکار کہہ اُٹھے کہ خدا نے خود آسمان سے يہ کتابيں لکھی ہوئی موسیٰ کے حوالہ کی تھيں۔ نہيں بلکہ يہ کتاب ايسی کامل اور الٰہی صفات سے موصوف تھی کہ خود يہوداہ خدائے قادر اس کے مطالعہ ميں ہر روز تين گھنٹے صرف کیا کرتا تھا۔محمدی لوگ بھی اپنے قرآن کی بابت کہتے ہيں کہ اُسے براہ راست جبرائيل فرشتے نے اصل نسخہ سے جو آسمان ميں محفوظ ہے ۔محمد صاحب کو سکھايا تھا ۔وہ بالکل کامل اور بےنقص عربی زبان ميں لکھا ہوا موجود تھا ۔اور اس کا ہر ايک حرف خُدا سے ہے ۔وہ ہر طرح کی خطا ونقص اور سہوونسيان سے مبرا (پاک)ہے۔ اور جو باتيں اس ميں درج ہيں ان ميں ہرگز کسی کو کلام نہيں ہو سکتا ۔اور اس کا اٹل فيصلہ ہے اور کہ وہ ہر زمانہ ميں ہر طرح کے نقص سے اور نقل کرنے والوں کی غلطی سے محفوظ رہا اور خود خدا اس کا محافظ ونگہبان ہے ۔

اے ناظرين ۔آپ کہيں گے کہ يہ سب وہم وخيال ہے اور ان دعووں کا کوئی بھی ثبوت موجود نہيں يہ تو سچ ہے مگر کیا اِس سے اَس انسانی میلان کا پتہ نہيں چلتا کہ وہ جس کی عزت وادب کرتا ہے اس کو کس پايا تک پہنچا ديتا ہے اور کیااِس سے ہمارے لئے سبق نہيں ہے کہ ہم بائبل کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرنے سے خبردار ہيں۔

ميں کہتا ہوں کہ ہم نے بھی بائبل کے ساتھ ايسا ہی کیا ہے ہم بھی قريباًاس کے حق ميں يہی سب باتيں کہہ گزرے ہيں ہم موسی ٰ اور متی اور پولُس کے واسطے وہ وہ حقوق طلب کرتے ہيں جو شائد کبھی ان کے وہم وخيال ميں بھی نہيں آئے تھے شائد ہم يہ سمجھتے ہيں کہ ہم ان باتوں کو اُن سے بہتر سمجھتے ہيں مگر اس قسم کے باطل توہمات کے ذریعہ ہم نے اس کتاب کی فطرتی حسن وخوبصورتی کو گنوا ديا ہے کہ بچہ بچہ بھی اگر چاہے تو اس پر ملحدانہ حملہ کرنے کے لیے ميدان کھلا پاتا ہے ۔ميں پھر کہتا ہوں کہ ميرے نزديک يہ امر بھی بہت ہی فائدہ بخش ہو گا اگر ہم لوگوں کے ذہن نشين کر ديں کہ اُن بوجھوں کے لئے جو لوگوں نے اُس کی گردن ميں باندھ رکھے ہيں بائبل جو اب دہ نہيں ہے اس سے ہم دشمنوں کے حملوں کے درميان بےچين نہيں ہوں گے اور يقيناً ہم اس امر کے ليےمصمم عزم (پکا ارادہ)باندھنے پر آمادہ ہوں گے کہ جہاں تک ہو سکے جلد اس قسم کی باطل توہمات کی بيخ کنی(جڑسے اکھاڑنا) کر دی جائے اور خدا کے ان پاک اقوال کی نسبت پر آدب مگر معقول اعتقاد رکھنے ميں آزادی کے ساتھ ترقی ہو ۔

(6)

ايک تحّدی

اور اب اے ناظرين ۔پيشتر اس کے کہ ہم آ گے بڑھيں کہ ہم الٰہام کے اُن مشہور عوام خيالات ميں سے اُس خيال کو جس نے سب سے بڑھ کر خرابی پھيلائی ہے بيان کرديں اور ساتھ ہی اس کے اُس کے مويدوں(تائید کرنے والے) کو مدعو کريں کہ اگر يہ صحیح ہے تو ثبوت پيش کريں۔ اب تک ہم نے صرف عام طور پر ان کا ذکر ان ناموں سے کيا ہے کہ وہ مشہور عوام يا روايتی خيال ہيں اب ہم دليرانہ ان ميں سے ہر ايک خيال کا فرداً فرداًمقابلہ کريں گے اور جو جو ہميں سچائی کے مخالف نظر آئےگا اسے بلا تا ّمل مار گرائيں گے تا کہ بائبل ان کے ضرر سے محفوظ ہواور ہمارے بے چين دوستوں کو اطمينان ِقلب نصيب ہو۔

۱۔ لفظی الہٰام کا وہ مسئلہ ہے۔ جو یہ سکھاتا ہے کہ خدا کی کتاب ِمقد س کے صحیفوں کا مصنف ہے۔ انہیں معنوں میں جیسے عموماً کوئی شخص کسی کتاب کا مصنف ہوا کرتا ہے ۔ اور ہر ایک باب ، آیت ، لفظ بلکہ حرف بھی براہ راست اُسی کا لکھا ہواہے۔

۲۔ الہٰام میں انسانی عنصر کا بڑا حصہ ہے ۔ اُس سے انکار کرنا۔

۳۔ یہ یقین ضرور ہے کہ الہٰام شدہ بائبل بالکل ہر نوع کی سہوو خطا (غلطی و خطا)سے مبرا ہو۔خوا ہ تفصیلی امور (امر کی جمع)میں خواہ دُنیاوی واقعات کے متعلق امور ہیں۔

۴۔ یہ کہ الہٰامی کتاب کی اخلاقی اور روحانی تعلیم کسی زمانہ میں بھی ناکامل یا ناشائستہ نہیں ہو سکتی۔

۵۔ یہ کہ کسی کے ترتیب دینے یا اصلاح کرنے یا مصنف کے نام میں غلطی کرنے سے کسی کتاب کے الہٰامی ہونے میں نقص عائد ہوتا ہے۔

یہ پانچ مختلف خیالات ہم اس وقت منتخب کرتے ہیں۔ جو ہمارے نزدیک غلط ہیں۔ اور اس لئے ہم ان میں سے ایک ایک کی تردید کرکے دکھائیں گے کہ ان خیال کے مویدوں کے پاس کوئی شہادت(ثبوت) ان کی تائید (حمايت)میں موجود نہیں ہے۔ اور جو کچھ ہے سو اُن کا اپنا ہی وہم و خیال ہے۔

پہلاخیال تو آگے ہی قریباً مر چکا ہے۔ اور اس لئے موئے کو مارنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ۔ مگر دوسرے خیال ذرا سخت جان ہیں اور بہت سے مسیحیوں کے دل میں اب بھی انہیں جگہ حاصل ہے۔

وہ آگے بڑھ کر یکے بعد دیگر ے ہمارے سامنے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ہم صرف ان پر سرسری نظر کرتے ہیں۔اور اس باب کو ختم کرنے سے پہلے فقظ ایک ضرب لگائیں گے۔

(7)

کیا الہٰام کی کسی خاص تعریف کا ماننا ہم پر لازم ہے؟

لیکن شايدکوئی ہم سے پوچھے کہ کیا ان عقائد کو ماننا مجھ پر فرض نہیں ہے؟ کیا الہٰام پر اعتقاد(يقين) رکھنے سے مجھ پر یہ ماننا لازم نہیں ٹھہرتا کہ بائبل کے تاریخی واقعات کا ہر ایک بیان معجزانہ طور پر ہر ایک قسم کے سہو یا غلطی سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اور کہ اس کے لکھنے والے علم ہیت یا علم الارض کے متعلق ہر قسم کی غلطی کھانے سے محفوظ تھے۔ اور کہ بائبل کی ہر ایک کتاب کی یکساں قدر و قیمت رکھتی ہے۔ کہ الہٰامی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ مذہب یا اخلاق کے متعلق ناقص تعلیم دے کہ ہر ایک لفظ کو اس کے صاف اور ظاہر ی معنوں میں لینا چاہیے ۔ اور کہ ایسی کہانی جیسے کہ ایوب کا معاملہ اور شیطان کا خدا سے ہم کلام ہوناہے۔ لفظی طور پر درست واقعہ ماننا چاہیے ۔ کیوں کہ ممکن نہیں کہ خدا مذہبی سچائیوں کی تعلیم کے متعلق ایک محض شاعرانہ خیالی نظم و ناٹک الہٰام کر دیتا ۔

ان سب سوالوں کے جواب میں میں کہوں گا کہ ہرگز نہیں ان سوالات پر غور و بحث کرتے ہوئے تم خواہ کسی نتیجہ پر کیوں نہ پہنچو۔ تاہم اس سے تمہاری بائبل کے الہٰامی ہونے کے یقین پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ۔

جیسا کہ میں اُوپر بیان کر چکا ہوں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے۔ کہ الہٰام بائبل کے متعلق مسیحی دین اس قسم کے عقائد(عقيدہ کی جمع) رکھنے کا ذمہ اُٹھا چکاہے۔ اور اگر ان میں سے کوئی عقیدہ قابل اعتراض ثابت ہو۔ تو اس کے ساتھ ہی بائبل کے الہٰامی ہونے کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ نہیں بلکہ خود مسیحی دین بھی معرضِ خطر میں ہو گا۔

مگر پہلے یہ بتائیے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ الہٰام کی یہ تعریف ہونی چاہیے کہ وہ ان مذکورہ بالا ساری باتوں کا بیڑا اُٹھائے؟ ہرگز کہیں نہیں لکھا۔

بائبل میں ایسا ہرگز کہیں نہیں لکھا ۔ اگر چہ یہ بات آپ کو عجیب معلوم ہو۔ لیکن اگر آپ ذرا بھی غورو فکر کریں گے۔ تو آپ پر ثابت ہو جائے گا کہ بائبل کسی مقام پر کبھی بھی یہ نہیں بتاتی کہ الہٰام کی کیا تعریف ہے۔ درحقیقت بائبل اپنے الہٰام کے متعلق سوائے اس کے کہ وہ اس کی دعوئے دار ہے۔ کہیں بھی اور کچھ بھی نہیں بتاتی اور اس کی حقیقت اور وُسعت کے بارے میں اور اس امر میں کہ کسی کتاب کے الہٰامی ہونے میں کیا کیا باتیں شامل ہیں۔ غورو فکر اور فیصلہ کرنا وہ ہماری عقل و دانش پر چھوڑ دیتی ہے۔

اور پھر یاد رہے کہ مسیحی کلیسیاء نے بھی جو پاک نوشتوں کا شاہد اور محافظ ہے۔ اس بارے میں اپنے بچوں کے لئے کوئی خاص قانون نہیں ٹھہرا دیا۔ موجود ہ بے چینی کے زمانہ سے جب ہم پیچھے کو نظر کرتے ہیں۔ تو ہم اس دائمی الہٰی راہنمائی کا جس کا کلیسیاء سے وعدہ کیا گیا ہے۔ برابر صاف کھوج (نشان)پاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف زمانوں میں الہٰام کی نسبت (مقابلہ)لوگوں کے مختلف خیالات تھے کبھی ادنیٰ تھے کبھی اعلیٰ۔ کلیسیاء کے لئے کتنی بڑی آزمائش ہوتی ہو گی۔ کہ آئندہ نسلوں کے لئے ایسے اہم معاملہ پر ایک ناتبدیل قانون چھوڑ جائے۔ حالانکہ کہ یہ مسئلہ اُن کے گہرےمسائل سے جن کے حل کرنے کے لئے نسلوں نے مختلف زمانوں میں اپنی ساری طاقت خرچ کر دی۔ کہیں زیادہ اہم اور ضروری تھا۔ لیکن باوجود اس مسئلہ کے اس قدر اہم اور ضروری ہونے کے اور باوجود اس قدر اختلاف رائے ہونے کے پھر بھی کوئی عقیدہ یا حکم یا قاعدہ کلیسیاء کی طرف سے مقر ر نہیں ہوا ۔ جس کا ماننا خادمان ِدین یا مقتد یوں (پيروی کرنے والا)پر لازمی ٹھہرتا ۔

تو جب کہ نہ تو بائبل نے نہ کلیسیاء نے اس مسئلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ تو کسی آدمی کو کیا اختیار ہے کہ اس امر میں ہماری آزادی چھننے کی کوشش کرے؟ اگر ہم اب دب جائیں تو اس سے ہمارے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے۔ کیوں کہ ملحدوں کے سخت سے سخت حملوں اور مسیحیوں کی سخت پریشانی ان سب کا مداراسی عام یقین پر ہے کہ مسیحی دین ِالہٰام کے متعلق خاص خاص عقائد(يقين) رکھنے کا پابند ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔ ہمیں صرف الہٰام پر یقین کرنا لازمی ہے۔ مگر اس کی تشریح میں ہم جتنا چاہیں ایک دُوسرے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں۔

اگر ہم یہ دیکھیں کہ بائبل میں خاص خاص باتیں ہیں۔ جنہیں عوام کے مسلمہ اعتقاد (يقين)کے ساتھ مطابقت (برابری)نہیں دے سکتے ۔ تو اس سے بے چین ہونے کا کوئی موقعہ نہیں۔ کیوں کہ ممکن ہے کہ الہٰام کے متعلق یہ عقیدہ ہی غلط ثابت ہو۔ کیونکہ اس قسم کے عقائد کا مدار محض انسانی رائے اور انسانی ظن(بد گمانی) پر ہے۔ ہمارا اعتقاد جو الہٰام کے متعلق ہے۔ وہ کسی خاص تعریف کا پابند نہیں ہے ۔ اور اگر بالفرض ہم ادنیٰ سے ادنیٰ تعریف جو الہٰام کی کی جاسکتی ہے۔ مان لیں ۔ تو بھی مسیحی مذہب کے بنیادی اصولوں میں کسی طرح لغزش (غلطی)واقع نہیں ہو سکتی ۔

نہیں بلکہ ایک قدم اور بڑھ کر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کےبنیادی اصول اس امر پر بھی منحصر نہیں ہیں کہ کسی وحی الہٰام میں بھی اعتقاد رکھا جائے۔

مثلاً ہر ایک بحث و حجت جو بشپ بٹلر اور پادری پیکی صاحب مسیحی مذہب کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔وہ اس آدمی کے نزديک بھی جو کسی الہام و مکاشفہ کا قائل نہيں ۔ بلکہ ’’ چاروں انجیل نویسوں کو ایک معمولی ديانتد ارا ور راست گو اور عقل کے آدمی مانتا ہے‘‘۔ یکساں وقعت (برابرحيثيت)اور زور رکھیں گی۔ یہ سب سے اہم سوال کہ آیا مسیح نے اس طور پر زندگی بسر کی۔ اس طور پر کلام کیا اور مر گیا اور جی اُٹھا۔

ان انجیل نویسوں کے صاحب ِالہٰام (الہٰام رکھنے والے)ہونے پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ فقط اس امر پر کہ آیا وہ جائز اور معتبر گواہ (بھروسے کے قابل گواہ)تھے۔ یا نہیں ۔ مگر میں اس امر کا کس کے لئے ذکر کرتا ہوں؟ یقیناً اس لئے نہیں کہ میں بائبل کے الہٰامی ہونے پر مضبوط اعتقاد رکھنے کی ضرورت کو کمزور کرنا چاہتا ہوں۔ بلکہ میرا یہ منشاء (مرضی)ہے۔ کہ جہاں تک ممکن ہو قدیمی تعصبات(پرانی بےجاحمايت) اور توہمات (وہم)کو ڈھیلا کر دُوں تاکہ لوگوں کو الہٰام کی حقیقت اور وُسعت(گہرائی) کی متعلق صاف دل اور نیک نیّت سے تحقیقات کرنے کے لئے آزادی حاصل ہو۔ میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس سوال پر جس کے حل کرنے کے لئے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ آزادانہ بحث کریں اور یہ خوف دل میں نہ لائیں کہ اس سے کسی طرح ہمارے پاک دین کی بنیادیں ہل جائیں گی ۔ کیوں کہ بالفرض اگر ہم بائبل کے ہر ایک صحیفے کو غیر الہٰامی ہی مانیں تو ہمیں اس وجہ سے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بائبل کی قدروقیمت اس وجہ سے ہماری نظروں میں بہت کم ہو جائے گی۔ اس لئے جب کہ ہمارے دین کی بنیادیں الہٰام کے متعلق کسی خاص قسم کے اعتقاد رکھنے پر موقوف و مبنی نہیں ہیں۔ جب کہ خود بائبل نے بھی اس سوال کو بے حل کئے چھوڑ رکھا ہے۔ اور جب کہ کلیسیاء نے بھی گذشتہ (۱۹۰۰) سال میں کوئی خاص رائے اس کے متعلق قائم نہیں کی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی الہٰام کے متعلق تعریفوں یا مسئلوں کی نسبت اپنے کو ایسا ہی آزادانہ سمجھیں جیسا کہ ہو ا اور جواربھاٹا(سمندر کا اُتار چڑھاؤ) کے اسباب کی نسبت سمجھتے ہیں۔

باب چہارم

الہٰام کے متعلق سچّا خیال کس طرح باندھ سکتے ہیں

(1)

غلط طریق

یہ ایک نہایت ضروری اور اہم امر ہے۔ کیوں کہ موجودہ بے اطمینانی زیادہ تر اس سے پیدا ہوئی ہے کہ لوگوں نے گذشتہ زمانہ میں اس مسئلہ پر غورو بحث کرنے کے لئے غلط طریق اختیار کئے۔ جو غلط طریق اس وقت خاص طور پر میرے مدنّظر ہے۔ سو یہ ہے کہ چوں کہ ہم پہلے اپنے ذہن میں یہ خیال کر بیٹھے ہیں کہ خدا کو فلاں معاملہ میں اس طور سے کام کرنا چاہیے تھا۔ اس لئے یہ اُمید باندھ بیٹھے ہیں کہ اس نے یقینی طور پر ایسا ہی کیا ہوگا۔ مگر یہ طریق ہرگز اطمینان بخش نہیں ۔ کیوں کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ خدا اس طریق سے کام نہیں کرتا ۔ جیسا کہ ہم نے اپنے ذہن میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے اس طور سے کرنا ضرور ہے۔ یہ بات اکثر بتائی گئی ہے کہ اگر تجربہ ہمیں اس کے برعکس نہ بتاتا تو ہم بڑے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ اگر انسان کو الہٰام دیتا ہے ۔ تو ضرور ہے کہ اس الہٰام تک سب لوگوں کی رسائی ہو۔ یا کم سے کم یہ کہ اسے وہ الہٰام ایسے طور پر دینا ضرور ہے کہ جب اس تک کسی شخص کی رسائی ہو۔ تو اس کے سمجھنے میں غلطی کرنے کا کوئی خو ف و خطر نہ ہو۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے مفروضات (فرض کی ہوئی باتيں)کو کوئی ثبوت نہیں۔ ہم اب اس قسم کی باتیں فرض نہیں کرتے ۔ اس لئے کہ واقعات نے اُن کی بالکل تردید (رّد)کر دی ہے۔ مگر الہٰام کی نسبت جو جو خیال باندھے گئے ہیں۔ اُن کی ساری تاریخ اسی قسم کے بے بنیاد مفروضات کا قصہ بیان کرتی ہے۔ جو ایک ایک زمانہ میں بطور عقائد ِمسلمہ(مانا ہوا عقيدہ) کے تسلیم کر لئے گئے تھے اور جو اس وقت خد ا کی طرف منسوب (تعلق)کئے گئے تھے۔ لیکن ان پر آج کل کوئی بھی یقین نہیں رکھتا ۔ بلکہ وہ مشکل سے لوگوں کو یاد بھی ہوں گے۔

میں یہاں ان میں سے صرف چند مثالیں نقل کروں گا۔ جن سے یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ میرا یہ الزام کہ مسیحی لوگ اپنی بائبل کی نسبت اس سے کچھ کم احمقانہ خیال نہیں رکھتے تھے۔ جیسے کہ محمّدی لوگ قرآن کی نسبت رکھتے ہیں۔ سولہویں صدی میں یہ بڑے وثوق(اعتماد) سے مانا جاتا تھا کہ عبرانی نوشتوں کے اعراب بھی الہٰام سے لگائے گئے ہیں۔ کیونکہ ممکن نہ تھا کہ خداکسی لفظ کے صحیح تلفظ کو ایسی حالت میں چھوڑ دیتا کہ اس کی نسبت کسی قسم کا شبہ(شک) پیدا ہو سکے۔ لیکن جب کچھ عرصہ کے بعد اس قول پر اعتراض کیا گیا۔ اور بعض علماء نے یہ ثابت کر دیا۔ کہ یہ اعراب(زير، زبر پيش کی علا متيں) عہدِ عتیق کے صحیفوں کی تکمیل کے کئی ہزار سال بعد ایجاد ہوئے۔ تو اس وقت بھی ان پر یہ الزام لگا یا گیاتھا کہ ان کے خیالات الہٰام کے متعلق صحیح نہیں ہیں۔ خیر اب ہم سب جانتے ہیں کہ یہ علماء صحیح کہتےتھے۔ اور اس وقت یہ قدیمی جھگڑا بالکل فراموش(بھول جانا) ہو گیاہے۔ مگر الہٰام جوں کاتوں ویسا ہی موجودہے۔

پھر بعض آدمیوں نے یہ ٹھہرایا کہ چونکہ خدا بائبل کا مصنف ہے۔ تو ضرور ہے کہ اس کی زبان اور عبارت ہر قسم کے نقص سے خالی ہو۔ (ٹھیک ویسے ہی ۔ جیسے کہ مسلمان قرآن کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں)۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ خود خدا کا کلام ایک ادنیٰ درجہ کی عبرانی اور یونانی زبان میں لکھا جائے؟ ایسا کہنا اس کے منجانب اللہ ہونے سے منکر(انکار)ہونا ہو گا۔مگر يہ بات بھی غلط ثابت ہوئی۔ بائبل ایک بے نقص زبان یا عبارت میں نہیں لکھا گیا ۔ اور لوگوں نے رفتہ رفتہ جان لیا کہ کسی کتاب کے الہٰامی ہونے کےلئے یہ امر ضروری نہیں۔

پھر اس امر پر بڑا زور دیا جاتا تھا کہ ضرور ہے کہ خدا کا کلام ایسے معجزا نہ طور پر محفوظ و مصئون (حفاظت و نگہبانی)ہو کہ اس میں کسی زمانہ میں بھی نقل کرنے والوں کے ہاتھ سے ذرا سی بھی غلطی واقع ہونے کا احتمال و اندیشہ (وہم و ڈر)نہ ہو۔ اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے جب اصلاح شدہ ترجمہ سے یہ ثابت ہو ا کہ مختلف نسخوں میں سہو ِکا تب (تحريری غلطی)سے کہیں کہیں خفیف(معمولی) غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ تو اس سے پاک نوشتوں کے متعلق بہتوں کے ایمان متزلزل(ڈگھمگا گئے) ہوں گئے۔ بلکہ امریکہ کی کلیسیاء نے ایک جلسہ میں عام طور پر یہ دعویٰ کر دیا کہ منکروں کے سارے جملوں کے باوجود مسیحیوں کے دل میں پاک نوشتوں کی عزت و توقیر کو کسی چیز نے ایسا نقصان نہیں پہنچایا ۔ جیسا کہ اس بات نے مگر کیوں ؟ صرف اس وجہ سے کہ لوگوں نے اپنے دل میں فرض کر لیا تھا کہ خدا کو چاہیے تھا کہ نقل کرنےوالوں کی انگلیوں کی ایسی حفاظت کرتا کہ وہ خفیف (معمولی)سی غلطی بھی نہ کر سکتے ۔ خدا نے ان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں نے ایسا کیا ہے۔ اور نہ اُن کے پاس اس قسم کا خیال کرنے کے لئے کوئی سند(ثبوت) تھی۔ مگر انہوں نے اپنے ذہن میں یہ بات فرض کرلی تھی۔ اور پھر اُسے الہٰام کی تعریف کا ایک حصہ بنا دیا کہ اس نے ضرور ایسا کیا ہے۔ اور اس لئے جب اُن کے اس خیال کی غلطی ثابت ہو گئی۔ تو بائبل کے الہٰام کے متعلق ان کے یقین و ایمان میں فرق آگیا۔

مجھے اور اسی قسم کے اعتقادوں کے جواب بالکل مفقود (غائب)ہو گئے یا ہوتے جاتے ہیں۔ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ مثلاً یہ کہ زبور کی ساری کتاب داؤد کی لکھی ہوئی ہے۔ خلقت چوبیس چوبیس گھنٹے کے چھ دنوں میں تکمیل کو پہنچی ۔يا يہ کہ اس امر سے انکار کرنا کہ سور ج زمین کے گرد گھومتا ہے ۔ خود مسیح کی الوہیت سے انکار کرنا ہوگا۔ جس نے فرمایا تھا۔ کہ ’’ وہ سورج کو چڑھاتا ہے وغیرہ‘‘۔ اس قسم کے خیالات کی غلطی اور ان کے سید ھے سادھے لوگوں کے ایمان کے لئے خوفناک ہونے کے بارے ميں بہت کچھ لکھاجا چکا ہے۔ یہ ہرگز مناسب نہیں کہ ہم اُن امور کی بابت خواہ مخواہ اپنے دل میں بعض باتوں کو فرض کر لیں۔ اور پھر ان کو الہٰام کی تعریف کے ساتھ ایسا غلط ملط کر دیں کہ جب ان باتوں کی غلطی ثابت ہو جائے تو بے چارے سیدھے سادھے لوگوں کو اپنے ایمان کے لالے پڑجائيں۔

اب ہم جب کبھی اس قسم کے خیالات کا ذکر سنتے ہیں۔ تو ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جو اُن لوگوں کے لئے جوان کو مانتے تھے ۔ وہ بالکل راست اور صحیح تھے۔ اور شايد ہم میں سے بھی بعض لوگ جو اس وقت ان باتوں کو سن کر مسکراتے ہیں۔ ان لوگوں سے بڑھ کر عقل و دانش نہیں رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کرو؟ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے سوال سے قطع نظر کر کے ایک صاحب ِعقل آدمی پر جوان پر غور کرےصاف روشن ہو جائے گا کہ الہٰام کے متعلق بعض عقائد جو اس وقت کثيرالتعداد (بڑی تعداد)مسیحیوں کے دل میں نہایت گہری جگہ رکھتے ہیں۔ ایسے ہی بے بنیاد مفروضات ہیں۔ جیسے کہ وہ جوا ب بالکل مفقود(غائب) ہو گئے ہیں۔جن دلائل کی بنیاد پر ہمارے آباؤاجداد اپنے ان الہٰامی عقائد کو مانتے تھے۔ اسی قسم کی دلائل کی بنا پر ہم اس وقت اپنے موجود ہ عقائد کو مان رہے ہیں۔مثلاً یہ کہ خدا نے ضرور بائبل کو ایسا اور ویسا بنا یا ہو گا۔ اور یہ قرین عقل(عقل قبول کرے) ہے کہ وہ ایسا بناتا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اگر ہمار ے کسی ایسے اعتقاد میں کچھ فرق آنے لگتا ہے۔ تو ہم ایسے مشوش (گبھرانا)اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے بزرگ اپنے وہمی عقائد کی نسبت ہوتے تھے۔ اور وہ بھی ہماری طرح ایسا ہی کہا کرتے تھے۔ کہ ’’ اگر یہ بات سچ نہیں ہے تو بائبل ہر گز الہٰامی نہیں ہو سکتی ‘‘۔ کچھ تعجب(حيرانگی) نہیں کہ جو لوگ بائبل پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ہی الفاظ کو لے کر انہیں اپنے حملوں کا اوزار بناتے ہیں؟۔

ہمیں کس نے بتایا ہے کہ خدا کو چاہیے تھا کہ بائبل کو اس طرح الہٰام کرتا ۔ جس طرح ہم چاہتے ہیں ۔ نہ اس طرح جس طرح کہ وہ خود چاہتا ہے؟ ہم کون ہیں جو اس امر پر حکم لگا دیں کہ اس نے الہٰامی کتابوں کے لکھنے والوں کو کس قدر علم کی وسعت(گہرائی) اور کس قدر امداددی ؟ یا اسے دینی چاہیے تھی؟ کب ہم گذشتہ حالات سے عبرت (سبق)حاصل کریں گے؟ اور کب ہم اس قسم کے ڈھکوسلوں(دھوکہ فريب) سے باز آئیں گے ۔کہ چونکہ ہماری یہ رائے ہے کہ خدا کو یوں یا وُوں کرنا چاہیے تھا۔ اس لئے اس نے ضرور ایسا ہی کیا بھی ہے۔ اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو ہمیں الہٰام پر یقین لانے سے قطع انکار کر دینا چاہیے ؟ بشپ بٹلر نے ایک سو پچاس سال ہوئے بڑی دانائی سے لوگوں کو یہ صاف بتا دیا تھا۔ گو یا کہ اس کا بتانا کچھ بھی کام نہ آیا کہ

’’ ہم کسی صورت سے پہلے ہی سے اس امر کے حکم یا فیصلہ کرنےوالے نہیں ہو سکتے کہ کس طریق سے یا کس مقدار سے ہم اس بالائی قدرت روشنی اور ہدایت عطا ہونے کے اُمیدوار ہو سکتے ہیں ۔ پاک نوشتوں کے اختیار و سند کے متعلق صرف یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ وہی ہیں ۔جس کا وہ اپنے حق میں دعویٰ کرتےہیں ۔ آیا وہ اس قسم کی کتاب ہے۔ اور اس طور سے جاری کی گئی ہے۔ جیسا کہ کمزور آدمی کسی ایسی کتاب کی نسبت جو الہٰی الہٰام پر مشتمل ہو خیال کرنے کے عادی ہیں۔ اور اس لئے نہ تو مغلظات(موٹی موٹی گالياں) نہ عبارت کے ظاہری نقص نہ مختلف قرائیں(قاری کی جمع)۔ نہ مصنفوں کے متعلق ابتدائی زمانہ کے جھگڑے ۔ نہ اور کوئی اس قسم کی بات خواہ وہ ان سے بھی بڑی کیوں نہ ہو۔ پاک نوشتوں کے اختیار کو زائل (ختم)کر سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ انبیاء یا رسُل (رسولوں کی جمع) يا ہمارے خداوند نے یہ وعدہ دیا ہو کہ وہ کتاب جس میں الہٰی الہٰام درج ہو۔ ان باتوں سے محفوظ مصئون (نگہبانی)ہونی چاہیے‘‘ ۔ (1)


(1) ۔اتالوجی حصہ دوم باب ۳۔
(2)

صحیح طریق

اچھا’’ تو اگر یہ غلط طریق ہے۔ تو الہٰام کے متعلق سچی بات معلوم کرنے کا صحیح طریق کون سا ہے؟ صحیح طریق یہ ہے کہ خود بائبل سے سوال کرو۔ کسی عوام الناس کے مسلمہ عقیدے یا کسی مفروضہ مسئلے کو خواہ کیسے زور شور سے اس کی تائید کیوں نہ ہوتی ہو۔ کبھی مت مانو۔ جب تک کہ تم نوشتوں کی تحقیق و جستجو کر کے یہ نہ معلوم کرلو۔ کہ یہ باتیں فی الحقیقت ایسی ہی ہیں‘‘۔

علوم کی دوسری شاخوں میں اہل ِفلسفہ مدت سے یہ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ کہ تحقیقات وجستجو کا صرف یہ صحیح طریق ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کہ لوگ نیچر(فطرت) کو بھی ایسے ہی طور سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ جیسے لوگ اب بائبل کو کرتے ہیں۔ وہ پہلے بعض دعوؤں کو صحیح تسلیم کر لیا کرتا تھے ۔ اور پھر انہیں سے نتائج استخراج (نکالنا)کرتے جاتے تھے۔ مثلاً اہل ہیت نے فرض کر لیا تھا کہ اجرامِ آسمانی کو دائروں میں حرکت کرنی ضرور ہے کیوں کہ ان کی حرکت کا مل ہونی چاہیے ۔ اور دائرہ کامل گولائی ہے ۔ اور جو واقعات مشاہدہ میں آتےتھے۔ ان کو بھی کسی نہ کس طرح تشریح کر کے اسی اصول کی قید میں لانے کے لئے کوشش کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ سوائے تذبذب(بے چينی) اور پریشانی کے اور کچھ نہ ہوا۔ اور علم کی ترقی پر مہر لگ گئی۔ جیسا کہ آج کل بائبل کا بھی یہ حال ہے۔ مگر تین سو سال ہوئے فرانسس بیکن نے لوگوں کو ایک بہتر تجویز بتائی۔چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ کہ

’’ خودنیچر سے سوال کرو۔وہ تمہیں صحیح جواب دے گی۔ جو خیال تمہارے دل میں جم رہے ہیں۔ انہیں دھو ڈالو ۔ قدر ت کے واقعات اور ظہورات کا امتحان کرو۔ اوردیکھو کہ کون سا مسئلہ تم قائم کر سکتے ہو۔ جس میں یہ سب سما جائیں‘‘۔

اور اس طور سے اس نے مطالعہِ فطر ت کی ایسی کا یا پلٹ دی کہ اس میں دیرپا نتائج کا پھل لگنے لگا۔

یہی طریق ہمیں الہٰام کے مطالعہ میں استعمال کرنا چاہیے ۔ ہمیں وہ پرانا طریق چھوڑ دینا چاہیے جس میں پہلے یہ فرض کر لیتے تھے کہ فلاں فلاں بات بائبل کے حق میں صادق آنی چاہیے ۔ اور پھر انہیں مفروضات کی بنیاد پر بحث و حجت شروع کرتے تھے۔ ہمیں بیکن کے قاعدہ پر عمل کرنا چاہیے ۔ کہ ’’ خود بائبل سے سوال کرو اور وہ تمہیں صحیح جواب دے گی ‘‘ ۔ ہمیں اپنا الہٰام کا مسئلہ ان واقعات کی بنا پر قائم کرنا چاہیے ۔ جو بائبل میں مرقوم ہیں۔ اور وہ اسی صورت میں صحیح ہو گا۔ جب ان تمام واقعات کے ساتھ مطابقت کھائے گا۔

اب میں اس طریق کو ایک سادہ مثال کے ذریعہ سے بیان کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ الہٰام کے متعلق جو کچھ معلوم ہو سکتا ہے ۔ معلوم کروں خد انے مجھے کہیں نہیں بتایا کہ الہٰام ٹھیک ٹھیک کیا ہے۔ اُس نے مجھے یہ بتایا ہے کہ یہ ایک الہٰی تاثر ہے۔ یا یوں کہوں کہ قدیم لکھنے والوں کی روح میں روح قدس کا نفخ (پھُوکنا)ہے۔ مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ٹھیک ٹھیک مراد کیا اور کس قدرہے۔ نہ یہ کہ مجھے اس سے کس قسم کے اثرات کی اُمید رکھنی چاہیے ۔اس لئے میرے پاس اس کے دریافت کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ اس واقعہ کے متعلق تحقیقات کروں کہ بائبل میں اسے کس طور سے پیش کیا گیا ہے۔

میری رائے میں بائبل اور سب کتابوں سے اس امر میں مختلف ہے کہ وہ بالکل خد ا سے معمور ہے۔ الہٰی خیالات اس کے انبیاؤں اور زبورنویسوں کی زبان سے نکلتے ہیں۔ اس کی پیشن گوئیاں ایسی ایسی بھید کی باتیں بتاتی ہیں جو خدا ہی ظاہر کر سکتا تھا۔ اس کی تواریخ دُوسری تواریخوں سے مختلف ہے۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ الہٰی پہلو کو مدنظر رکھتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تمام ظہوروں کی تہ میں اور پس پشت خد ا ہی کوپاتی ہے۔ جب کہ دُوسری تاریخیں فقط لڑائیوں اور شکستوں کا میابیوں اور ناکامیوں ۔ قوم کے بادشاہوں اور رہائی دینے والوں کے حال بیان کرتی ہیں۔ یہ تاریخِ بائبل ایک عجیب و غریب اور پُر راز ِالہٰی باریک بینی کے ساتھ پردہ کو پھاڑ کر پیچھے کو چلی جاتی ہے۔ اور یہ دکھا دیتی ہے کہ ان سب واقعات کے پس پشت جو محض اتفاقی معلوم ہوتے ہیں۔ ایک اور طاقت اس ساری دُنیا کا انتظام و بندوبست کر رہی ہے۔ وہ تاریخ ہر جگہ خد اکو دیکھتی ہے۔ وہ خدا کو ظاہر کرتی ہے۔ اور اس سے مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہٰی تعلیم اور یہ الہٰی باریک بینی الہٰام کی اس تعریف کا جو میرے نزدیک صحیح ہے۔ بہت بڑا جزو(حصّہ) ہونا چاہیے۔

اور جب میں اور بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ تو میرے دل میں یہ یقین جاگزین (پسنديدہ)ہوتا جاتا ہے کہ اس کتاب میں ایک خفیہ طاقت بھر ی ہے۔ جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی اعلیٰ اور شریف زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور جوں جوں اس کتاب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی قدر زیادہ زور سے ہمیں اپنے گناہوں سے آگاہی(معلوم ہونا) ہوتی ہے۔ اور ہمارے دل میں راستبازی اور صداقت کے لئے پُر زور خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور اس لئے میں اس عجیب و غریب روحانی قدرت کو بھی الہٰام کی تعریف کا ایک جزو قرار دُوں گا۔جب میں اور بھی آگے بڑھتا ہوں۔تو ميں ديکھتا ہوں کہ انبیاء اور دیگر اشخاص صاف صاف اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ رُوح القدّس اپنی تاثیر سے ان کی ہدایت کرتا ۔ ان میں تحریکیں پیدا کرتا ہے۔ اور انہیں گویا اُٹھائے لئے جاتا ہے۔ اور میں اپنے الہٰام کے تصو ر میں اس آگاہی کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ جو مصنف کے دل میں خدا کے الہٰامی پیغامبر ہونے کے متعلق پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب اور بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ دُوسرے مصنف بھی ہیں۔ جو ( مثلاً انجیل نویس ) اس قسم کی آگاہی اور احساس کا ذکر تک بھی نہیں کرتے ۔ مقدس لوقا اپنی انجیل لکھنے کا فقط یہ سبب بتاتا ہے کہ وہ اپنے نفس مضمون سے زیادہ کامل واقفیت رکھتا ہے۔ اور مقدس یوحنا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ان واقعات کا چشم دید گواہ ہے ۔ اس لئے میں اپنے اس فیصلے کو ملتوی (ٹالنا)کرتا ہوں۔ اور کہتا ہوں کہ ’’ نہیں لکھنے والے کے دل میں اس قسم کی آگاہی کا ہونا الہٰام کا لازمی جزو نہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی خاص طور پر خدا کی طرف سے الہٰام حاصل کرے ۔ مگر اُسے اس کی خبر تک بھی نہ ہو‘‘۔

اب شائد میرے نزدیک اس امر کے فرض کے لئے حجت و دلیل موجود ہو کہ رُوح القّدس کی اس ہدایت و رہنمائی میں یہ امر بھی شامل ہے۔ کہ لکھنے والا ہر قسم کے تاریخی یا علمی اُمور کی تحریر میں خفیف سے خفیف(معمو لی سے معمولی) غلطی میں پڑنے سے بھی محفوظ رکھا جائے۔ اس لئے میں اپنے الہٰام کے تصور میں اس امر کو بھی داخل کر دیتا ہوں۔ میرے نزدیک اس قسم کے مفروضات کو جن کی صحت اغلب (سچائی ممکن ہو)ہو داخل کر لینے میں کچھ ہرج (دقّت)نہیں ۔ کیوں کہ آخر کا ر اس کی صحت و دُرستی محکِ امتحان(سياہ پتھر جس پر سونا چاندی پرکھا جاتا)پر پر کھی جائے گی۔ اور واقعات کی بناء پر اس کے صحیح ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن ایک دن کوئی معترض (اعتراض کرنے والا)کسی علمی معاملہ کی بابت بائبل کے کسی غیر صحیح بیان کی طرف مجھے توجہ دلاتاہے۔ یا کسی ایسی بات کا ذکر کرتا ہے۔ جو ظاہراً متضاد(اُلٹ) معلوم ہوتی ہے۔ جیسے کہ سلاطین اور تواریخ کے صحیفوں کے بعض بیانات ۔ اگر میں اس کی اطمینان بخش تشریح نہیں کر سکتا ۔ تو ضرور میرے دل میں شبہ پیدا ہو گا کہ میں اپنے فیصلہ میں جلدی کر رہا ہوں۔ اور کہ ابھی مجھے یہ حق حاصل نہیں ہوا کہ اپنے الہٰام کی تعریف میں اس کے مصنفوں کے ہر ایک صیغہ میں سہووخطا (غلطی و خطا)سے قطعاً مبر ا(بالکل پاک)ہونے کی صفت خوبی کو بھی داخل کر لوں ۔

اور اس طور سے قدم بقد م اور درجہ بدرجہ میں الہٰام کا وہ تصور حاصل کر لوں گا۔ جس میں یہ سب باتیں شامل ہوں۔ کبھی تو مجھے اپنے خیالات کی ترمیم (درستی)کرنی پڑے گی۔ اور کبھی زیادہ علمی روشنی ملنے کے سبب پہلے خیال کو رّد کرنا پڑے گا اور اس طور آخر کار میں علمی قاعدہ کے مطابق بائبل کے الہٰام کی صحیح تعریف کر سکوں گا۔

پس اس طور سے کاروائی کرنے میں کسی قدر تسکین (تازگی)ملتی ہے۔ جب میں عام مفروضات کی بناء پر تحقیقات شروع کرتا ہوں۔ کہ الہٰام کے تصور میں یہ یہ اور وہ وہ باتیں شامل ہونی چاہییں ۔ تو میں قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہوں۔ اور معترضیین میری جان کھا جاتے ہیں کہ یہ یہ باتیں جو تم کہتے ہو۔ بائبل ميں ہر گز ان کے مطابق نہیں پایا جاتا ۔ لیکن اگر میں اپنے سب مسائل کو خود بائبل کے اُندرونی امتحان پر موقوف رکھوں تو معترض بجائے مخالف ہونے کے سچائی کی تلاش میں میرا ممد و معاون (مدد گار)بن جاتا ہے۔ میں ان باتوں کی تحقیقات کرنے میں جو وہ میرے سامنے پیش کرتا ہے۔ ہرگز خوف نہیں کرتا ۔ اگر وہ میری تردید (ردّ کرنا)کے خیال سے میرے سامنے کوئی تاریخی نقص (خرابی)یا کوئی بیان جو خلاف اصول ِعلم ہو پیش کرتا ہے۔ تو اس سے نہ مجھے لرزہ چڑھتا ہے۔ نہ میرا دل پیچ و تاب کھانے لگتا ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اس بات میں سچا ہے تو یقینا ً میرا تصور ۔ جو میں نے الہٰام کی بابت قائم کیا ہے۔ غلط ہو گا ۔ میں سمجھے بیٹھا تھا کہ الہٰام کے تصور میں سہوو خطا سے مبرا ہونا بھی شامل ہے۔ گو خدا نے تو ایسا نہ کہاتھا۔ مگر مجھے خیال تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ میرا خیال غلط تھا۔ ا س لئے مجھے اپنے مسئلے کو درست کرنا چاہیے۔

اور اس طرح مطمئن اور صاف دل کے ساتھ میں ٹھنڈے دل کے ساتھ ان سب سوالات کا امتحان کر سکتا ہوں۔ جو دُوسرے آدمیوں کی جان کھا رہے ہیں۔ کیوں کہ میں اس بات کو بہتر سمجھتا ہوں کہ عجزو فروتنی (عاجزی و حليمی)اور ادب و تعظیم کے ساتھ ان ظہورات کا جو بائبل میرے سامنے پیش کرتی ہے۔ امتحان کروں۔ اور اس طور سے یہ دریافت (معلوم)کروں کہ خدا نے الہٰام کرنے میں کیا کیا کچھ کیا ہے۔ نہ یہ کہ پہلے ہی سے اپنے دل میں ٹھان لوں کہ چوں کہ لوگوں کی رائے میں خدا کو ایسا اور ویسا کرنا ضرور تھا۔ اس لئے اس نے ضرور ایسا ہی کیا ہو گا۔

الہٰام کے متعلق صحیح علم حاصل کرنے کا یہی صحیح طریق ہے۔ اس بے اطمینانی اور بے چینی سے بچنے کو میرےلئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں اور نہ الہٰام کا ایسا صحیح تصور باندھنے کا کوئی اور طریق ہے ۔ جو واقعات کے منطق) دليل )کی زد سے بچنے کو حوصلہ کر سکتا ہے۔

باب پنجم

الہٰام کے تصورات کی تاریخ

اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کہ یہ مشہور عوام خیال جو بائبل کی نسبت پھیل رہےہیں۔ محض لوگوں کی رائیں ہیں۔ جن پر ہر ایک زمانہ کے نیک اصحاب میں باہم اختلاف ِرائے رہا ہے۔ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ یہاں مختصر طو رپر اُن تمام بڑی بڑی مشہور رائیوں (رائے کی جمع)کی جو بائبل کے الہٰام کی حقیقت اور وسعت کے متعلق گذشتہ زمانوں میں مروج (رواج پانا)رہی ہیں۔ ایک تاریخ لکھ دوں ۔ اس پڑھنے والوں پر یہ واضح ہو جائے گا۔ کہ نفسِ الہٰام کے سب لوگ ہمیشہ سے قائل (تسليم کرنا)رہے ہیں۔ اور جو اس کا منکر(انکار کرنے والا) ہوتا تھا۔ وہ کافر یا ملحد سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس امر میں اختلاف رائے رہا ہےکہ کسی کتاب کے الہٰامی ہونے کے خیال میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ مثلاً آیا اس سے لفظی طوپر الہٰام ہونا مراد ہے۔ آیا انسانی عنصر اس سے خارج ہے۔ آیا الہٰام سہووخطا (غلطی)سے مبرا (پاک)کر دیتا ہے۔ آیا ہر ایک حکم و ہدایت جو الہٰام کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ کمال مطلق کا درجہ رکھتا ہے۔ اور آیا اس کے احکام کا اجرا ہر ایک زمانہ سے تعلق رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

(1)

یہودی

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے خدا وند کے زمانہ میں اور مسیحی دین کی ابتدائی صدیوں میں یہودیوں کا اعتقاد (يقين)کیا تھا۔ اس میں ہرگز کلام نہیں کہ وہ الہٰام کے مسئلے کےمتعلق بہت ہی اعلیٰ درجہ (عظيم درجہ)کے اور نہایت ہی سخت قسم کے اعتقاد رکھتےتھے۔ انبیاء کی زندہ آواز بند ہو چکی تھی اور رسمی حرف پرستی جو ایک مردہ مذہب کا نشان ہے۔ بائبل کے مطالعہ میں برسر حکم پائی جاتی تھی۔ مشہور یہودی عالم فیلو جو ڈیسن یونانی خیالات کی پابند ی میں الہٰام کو محض ایک حالت ِو جد(بے خودی کی حالت) سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ کہ

’’ نبی اپنی طرف سے کوئی لفظ نہیں بولتا ۔ بلکہ وہ محض خدا کے ایک آلہ کے طور پر ہے۔ جس میں خدا الہٰام کرتا یا پھونکتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے وہ خود کلام کرتا ہے‘‘۔

مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی لکھتا ہے۔ کہ

’’الہٰام کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک کو یکساں (برابر)درجہ حاصل نہیں ہوتا‘‘ ۔

مگر اس کے مابعد کے زمانہ کے یعنی مسیحی دین کی ابتدائی صدیوں کے یہودی اس سےبھی زیادہ سخت اعتقاد (يقين )رکھتےتھے۔ ان کی نظر میں ہر ایک لفظ ہر ایک حرف کی صورت خدا کی طرف سے مقر ر کی ہوئی تھی۔ اور اس میں کسی قسم کی غلطی کی آمیز ش(ملاوٹ ) ناممکن تھی۔ اُن کی اس روایت سے خاص طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ کہ جب موسیٰ پہاڑ پر چڑھا۔ تو اس نے یہوواہ کو شریعت کی کتاب کے حرفو ں پر گلگاری کرتے پایا ۔ وہ لکھتے وقت بڑی احتیاط سے ہر ایک ذرا ذرا سی تحریری خصوصیت قرأت کی ہر ایک صورت اور فرق کا لحاظ کرتےتھے۔ وہ ہر ایک آیت اور ہر ایک لفظ اور ہر ایک حرف کو گنتے تھے۔ وہ یہ بھی لکھ گئے ہیں کہ ہر ایک حرف تہجی کتاب ِاللہ میں کتنی دفعہ آیا ہے۔ اور اس کے یاد رکھنے کے لئے خاص خاص علامتیں مقرر تھیں۔ وہ یہ بھی بتا گئے ہیں کہ کتنی دفعہ ایک ہی لفظ کسی آیت کے شروع یا درمیان یا آخر میں آتا ہے۔ وہ توریت کی پانچوں کتابوں میں سے ہر ایک کتاب کی عین درمیانی آیت اور درمیانی لفظ اور درمیانی حرف بھی بتاگئے ہیں۔ اگر کہیں متن میں انہیں کوئی صریح(صاف) غلطی ملتی ۔ تو وہ اس کی تصحیح کا بھی کبھی حوصلہ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ایک پیچ در پیچ ( نہايت پچيدہ)قاعدہ کے موافق اسے حاشیہ پر لکھ دیا کرتے تھے۔ ربّی اسمعیل لکھتا ہے۔ کہ

’’ اے میرےبيٹے۔ خوب ہوشیار رہ کہ تو اپنا کا م کس طرح کرتا ہے۔ کیوں کہ تیرا کام آسمانی کام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تو قلمی نسخہ (قلم سے لکھا گيا)میں سے کوئی حرف چھوڑ دے۔يا بڑھا دے اور اس طور سے عالم کا برباد کرنے والا ٹھہرے‘‘۔

ان باتوں سے صاف صاف اُن کے عقائد(يقين) کا پتہ لگتا ہے کہ وہ یقین رکھتے تھے۔ کہ بائبل کا ہر ایک نقطہ یا شوشہ الہٰامی ہے ۔ اور کہ اس کا ہر حصہ ہر قسم کی سہوو غلطی یا نقص سے مبرا (پاک)ہے۔ اور کہ شریعت کا ہر ایک حکم نہایت ہی کامل ہے۔ اور کبھی منسوخ یا ترمیم (خاتمہ يا رد و بدل)نہیں ہو سکتا ۔ نہیں بلکہ ان کا اعتقاد اس حد کو پہنچ گيا تھاکہ شریعت کی زبانی تفسيروتشر يح بھی سہوونقص سے برَی مانی جانے لگ گئی۔ اور اس کے حق میں بھی یہ دعویٰ (مقدمہ)کیا گیا تھا کہ جب خدا نے موسیٰ کو لکھی ہوئی شریعت دی ۔ تو یہ شرح بھی اسی وقت ملی تھی۔ کیوں کہ کیسے ذہن میں آسکتا ہے کہ ایک کامل (مکمل)شریعت کے ساتھ کامل تفسیر بھی نہ ہو۔ یا ایسی جو خود یہوواہ کے حکم یا اختیار سے نہ ملی ہو۔

اس میں کچھ شبہ (شک)نہیں کہ اس قسم کے مبالغہ آمیز(بڑھا چڑھا کر ) خیالات کے ذریعہ خدا کے انتظام کے بموجب عہد ِعتیق متن کا محفوظ رکھا گیا۔ جن لوگوں کے ا ُس کی نسبت ایسے اعتقاد ہوں ۔ بھلا اُن سے بڑھ کر کون آدمی اس کام کے لائق اور سزا وار ہو سکتا ہے کہ پاک نوشتوں کو صدیوں تک غلطی سے محفوظ رکھ کر نسلاً بعد نسلاً حوالہ کرتے چلے آئیں ۔ مگر میں یہ تو ضرور کہوں گا کہ وہ اس سے بڑھ کر اور کسی بات کی لیاقت (خُوبی)نہ رکھتےتھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے درمیان بھی ایسے سچے دیندار آدمی نہ تھے۔ جن کے دل میں اس قسم کے اعتقاد کی وجہ سے سچی دینداری نے جڑپکڑلی تھی۔ مگر پاک نوشتوں کے حرف کی غلامی نےاُنہیں ان کی روح یا حقیقت کا گہرا علم حاصل کرنے سے ضرور محروم رکھا ۔ یہی عہدِ جدید کے زمانہ کے وہ رسم پر ست لوگ تھے۔ جن کے طریق تعلیم کو مسیح نے اس قدر قابل الزام ٹھہرایا تھا۔ ہاں یہ وہ آدمی تھے۔ جن کو کلام ِاللہ کی طرف داری کے تعصب نے اس امر (فعل)پر آمادہ کیا کہ اُنہوں نے خود خدا کے بیٹے کو مار کر ہی چھوڑا۔

یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود یکہ الہٰام کی نسبت اُن کے اس قسم کے خیالات تھے۔ تو بھی وہ اس میں مختلف مدارج کے قائل (ماننا)تھے۔ شریعت یعنی توریت سب سے اعلیٰ سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بعد انبیاء کے صحیفے ، پھر زبور اور دیگر نوشتے، ہمارے ذہن میں نہیں آتا۔ کہ جب وہ لفظی الہٰام کے قائل تھے۔ تو کس طرح سے اس قسم کے مدارج کے خیال کو اُس کے ساتھ تطبیق (مطابقت)دے سکتےتھے۔

(2)

ابتدائی کلیسیاء

جیسا کہ ہم پہلے عہدِ جدید (نيا عہد نامہ)کے رفتہ رفتہ نشوونما پانے کی نسبت لکھ چکے ہیں۔ اس سے ہر ایک شخص یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس صورت میں کلیسیاء کے ابتدائی زمانہ میں الہٰام کی نسبت کوئی خاص مسئلہ قائم ہونا ایک مشکل امر تھا۔ ہم ہر جگہ يہی دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ کتب عہد عتیق (پرانا عہد نامہ)کو مانتے ہیں۔ خداوند اور رسولوں کے کلام کی عزت و تعظیم کرتے ہیں۔ اور ان کے ملہم من اللہ (ا للہ کی طرف سے الہٰام)اور پُر ازاسرا رومعانی ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر اُن کے درمیان الہٰام کی نسبت کوئی خاص مسئلہ قائم کرنے کی کوشش نہیں پاتے ۔ بلاشبہ خداوند اور اس کے رسولوں کا نمونہ انہیں اس امر سے باز رکھتا ہو گا کہ وہ کٹ ملاؤں(خواہ مخواہ بحث کرنا) کی طرح مسائل قائم کریں یا ’’ حرف کی پرستش ‘‘کریں۔ جو اس زمانہ کے یہودیوں میں مروج (رائج)تھی۔ ان کو یاد ہو کہ مسیح باوجود یکہ نوشتوں کی بڑی عزت وتوقیر کرتا تھا۔ تو بھی ان کے ساتھ بڑا آزاد نہ برتاؤ کرتا تھا۔ نہیں بلکہ اس نے عہدِ عتیق کا کچھ حصہ اور اس کے مسائل کو اپنی تعلیم کے ذریعہ اعلیٰ پایہ کو پہنچا کر ایک طرح سےمنسوخ(رد) کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا ہو گا۔ کہ کس طرح مقدس پولس شریعت کو ناممکن ٹھہراتا تھا۔ اور رسول کیسی آزادی سے عہدِ عتیق کے صحیفوں کی عبارتیں نقل کرتےتھے۔ وہ محض الفاط کےپابند نہ تھے۔ بلکہ اس کے مطلب یا معانی کو بیان کر دينا کافی سمجھتے تھے۔ بلکہ اُن چند مثالوں پر پورا لحاظ کرکے بھی جو میرے اس بیان کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً مقد س پولس کا لفظ ’’ نسل یا نسلوں ‘‘ پر بحث کر نا

( گلیتوں ۱۶:۳)۔

پھر بھی ميں بلا تا مّل(بغير سوچے سمجھے) کہہ سکتا ہوں کہ زمانہ حال کے لفظی الہٰام(اصلی الہٰام) کا مروجہ مسئلہ ہرگز خداوند یا اس کے رسولوں کی زبان سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ اور اس لئے ابتدائی کلیسیا ء میں اس کار واج پانا بالکل غیر اغلب(غير يقينی) ہے۔ لوگ صدیوں تک عہد جدید کی حدود کا فیصلہ کئے بغیر بھی قانع(قنات کرنے والا)رہے۔ اور انہوں نے اس کو کوئی بڑی اہم بات نہیں سمجھا ۔ ان کے درمیان بعض کتابوں کی قبولیت کی بابت بھی باہم اختلاف تھا۔ اور اس لئے انہیں مسائل کی تائید(حمايت ) میں پوری وثوق (مکمل اعتماد)کے ساتھ نقل نہیں کرتے تھے۔ گو یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے درمیان خدا اور نیکی کی بابت بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ لیکن شاید وہ ان کے پاس دُوسری کتابوں کی طرح اعلیٰ سند (بڑا ثبوت)کے ساتھ نہیں پہنچی تھیں۔ اگر وہ موجود ہ زمانہ کے لفظی الہٰام کے قائل ہوتے ۔ تو اس قسم کی باتیں انہیں بالکل حیران و پریشان کر ڈالتیں ۔

جب ہم ان کی تحریروں کا امتحان کرتے ہیں۔ تو ان میں سے اس پہلو یا اس پہلو کی تائید(حمايت) میں عبارتیں نقل کر دینا بالکل آسان امر ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ہم ان میں سے بعض سر برآوردہ(معزز) مصنفوں کے چند فقرات نقل کرتے ہیں۔ مثلاً کلیمنٹ رومی ( ۹۰ء) میں لکھتا ہے کہ نوشتوں کو’’ روح القد س کی سچی باتیں‘‘ کہتا ہے۔جسٹن شہید (۱۵۰ء) لکھتا ہے۔ کہ

’’ روح القد س کا عمل الہٰامی کتابوں کے لکھنے والوں پر ایسا تھا۔ جیسا مضراب (ستار بجانے کا چھلا)کا اثر بربط پر ہوتا ہے‘‘۔

۱۔تھیناگو راس (۱۷۰ء) میں لکھتا ہے۔ کہ

’’ یہ ایسا ہے جیسے بنسی نواز بنسی بجاتا ہے ‘‘۔

یہ بات تو بالکل لفظی الہٰام کی اعلیٰ تھیوری کی مانند معلوم ہوتی ہے۔ گویا کہ وہ پاک نوشتوں میں انسانی عنصر کی ملاوٹ سے قطعی منکر ہے۔ مگر یہ یاد رہے جیسا کہ بشپ وسٹکٹ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں اس قسم کی مثالوں اور تشبیہوں کی نسبت جن سے لکھنے والا خدا کے ہاتھوں میں محض ایک آلہ کے طور پر معلوم ہوتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے ۔ کہ آواز کی سُر اور خاصیت نہ صرف بجانے والے کے ہاتھ پر بلکہ خود سائزپر بھی موقوف (ٹھہرنا)ہوتی ہے۔

کلیمنٹ ساکن اسکندریہ (۱۹۰ء) لفظی الہٰام کے اعلیٰ مسئلہ کا قائل معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ پاک نوشتوں کو بالکل سہو و خطا سے مبرا سمجھتا تھا۔ ٹرٹولین (۲۰۰ء) کا یہ خیال تھا کہ

’’الہٰی الہٰام الہٰامی شخصوں کو ایک وجد یا غشی کی حالت میں دیا جاتا تھا۔ گو اس کا یہ بھی خیال ہے کہ رسول بعض اوقات اپنی طرف سے بھی بولتے تھے۔ جیسا کہ مقدس پولس کہتے ہے۔ کہ ’’باقیوں سے میں کہتا ہوں ۔ نہ خداوند ‘‘۔

مقد س اگستین (۴۰۰ء) میں اناجیل کی بابت کہتا ہے کہ

’’ انہیں کلیسیاء کے سر نے لکھوایا ہے‘‘۔

اور وہ عام طور پر پاک نوشتوں کے سہوو خطا سے مبر ا ہونے کا قائل ہے۔ اگر چہ بعض اوقات ایسی رائیں بھی ظاہر کر دیتا ہے۔ جو اس خیال سے مطابقت نہیں کھاتیں ۔ یو سی بیس (۳۲۵ء)ایک جگہ اس امر پر غضب ناک ہوتا ہے۔ کہ کوئی شخص یہ کہےکہ’’ زبور نویس کی کسی شخص کے نام کی بابت غلطی کھانی ممکن ہے۔ اور ایک اور بزرگ اپی فینیس اس خیال کو مردور(لعنتی) ٹھہراتا ہے کہ رسول نے ایک آیت زیر بحث میں انسانی حیثیت سے کلا م کیا ہے۔

لیکن ان کے مقابلہ میں ہمیں ایسے ہی اور بزرگ ملتے ہیں۔ جو آزادانہ نوشتوں کے بیانات پر اعتراض کرتے ہیں۔ بلکہ مذکورہ بالا بزرگ بھی دُوسرے موقعوں پر ایسا ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اوریجن (۲۲۰ء) جو اپنے زمانہ کی کلیسیاء میں بائبل کی واقفیت کے لحاظ سے سب سےبڑھ کر تھا۔ اگرچہ پاک نوشتوں کے الہٰام کا بڑے ادب سے ذکر کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی لوگوں کو ہدایت کرتا ہے۔ کہ لفظوں پر خیال نہ کرو۔ جو ممکن ہے کہ بے فائدہ ہوں۔ اور شايد ان سے ٹھوکر لگے۔ بلکہ تعلیم کی روح و مغز کو پہنچنے کی کوشش کرو۔ جس سے ہمیشہ روحانی امداد ملتی ہے۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ اناجیل میں اتنے اختلافات ہیں کہ ان سے ’’ آدمی کا سر گھومنے ‘‘ لگ جاتا ہے۔ اور وہ شریعت کے بعض احکام کی نکتہ چینی کر کے ان کا نامعقول ہونا ثابت کرتا ہے۔ اگرچہ ساتھ ہی بڑی خوبصورتی سے اس الہٰی مقصد کا جس کے پورا کرنے کے لئے وہ لکھی گئی بیان کرتا ہے ۔’’ جب لوگ ( بنی اسرائیل ) بیابان میں کڑ کڑانے لگے ۔ تو موسیٰ انہیں چٹان کے پاس پانی پلانے لے گیا ۔ اور ایسا ہی وہ اب بھی انہیں مسیح کےپاس لے جاتا ہے ‘‘۔ مقدس جیروم (۲۰۰ء) اپنے خیالات میں بالکل مختلف و متضاد ہے۔ کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل لفظی الہٰام کا قائل ہے۔ کہیں وہ تاریخی سلسلہ کی غلطیوں کا ذکر کرتا ہے۔ جن کا سمجھنا مشکل ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مقدس مرقس (۲۶:۲ ) نے غلطی سے اخی ملک کی جگہ ابیاتر لکھ دیا ہے۔ اور بڑی آزادی سے مقد س پولس کی نکتہ چینی کرتا ہے۔ اور اس کی دہقانی زبان اور خلاف محاورہ عبارت کا ذکر کرتا ہے۔ اور اس کی دلائل (ثبوت)کو کمزور نا کافی ٹھہراتا ہے۔ خا ص کر ’’ نسل اور نسلوں ‘‘ والی بحث میں گلیتوں (۱۶:۲) مگر یہ بات قابل لحاظ ہے۔ کہ وہ ان باتوں کی نسبت (تعلق)بھی یہ نہیں سمجھتا کہ ان کے سبب سے ان کتابوں کے الہٰامی ہونے میں فرق آنا ممکن ہے۔ مقدس خروسسٹم (۳۸۰ء) مختلف اناجیل کے بیانات میں فرق پاتا ہے۔ مگر اسے ایک طبعی بات سمجھتا ہے۔ اور اس کو اس بات کا ثبوت ٹھہراتا ہے کہ انجیل نویسوں کی گواہی ایک دو سرے پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے بالکل آزاد ہیں۔

یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس زمانہ کے اہل الرائے کیوں کہ الہٰام و مکاشفہ میں بتدریج (آہستہ آہستہ)نشو ونما اور ترقی کے قائل (قبول کرنا)تھے۔ حالانکہ اس اصول کا نہ ماننا آج کل اکثر لوگوں کو حيرانی میں ڈال رہا ہے۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ عہدِعتیق کےبہت سے احکام محض لوگوں کی ادنیٰ اخلاقی حالت کے لحاظ سے دیئے گئے تھے۔ خدا نے ان کے ساتھ اس طرح سلوک کیا۔ جیسے ایک معلم یا طبیب کرتا ہے۔ اور اگرچہ اس نے ان کی آبائی رسوم کی بعض باتوں میں کانٹ چھانٹ کر دی۔ مگر باقی کو رہنے دیا۔ اور اس امر میں ان کے مذاق کو مد نظر رکھا۔ ’’کیوں کہ لوگ جس رسم کے عادی ہوتے ہیں اسے آسانی سے چھوڑنے میں نہیں آتے ‘‘۔ مقدس خرو سسٹم لکھتا ہے۔

’’ یہ مت پوچھو کہ عہدِ عتیق کے احکام اس وقت تک کس طرح فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ جب کہ ان کی احتیاج (ضرورت)ہی جاتی رہی ہے۔ بلکہ یہ پوچھو کہ جس زمانہ میں ان کی ضرورت تھی۔ اس وقت وہ کیا کام دیتےتھے۔ ان کی سب سے اعلیٰ تعریف یہ ہے کہ اب ہم انہیں ناقص معلوم کرتے ہیں۔ کیوں کہ اگر وہ ہمیں ایسے اچھے طور سے تربیت نہ کرتے۔ یہاں تک کہ ہم اعلیٰ باتوں کے محسوس کرنے کے قابل ہو گئے ۔ تو ہم اس وقت ان کے نقص و کمی سی ہرگز واقف نہ ہوتے‘‘۔

پھر مقد س بازلی لکھتا ہے۔ کہ

’’ شریعت جو آنے والی اچھی چیزوں کے سایہ کے طور پر تھی ۔ اور انبیاء کا کلام جو نشان و علامت کے طور پر ہونے کے سبب سچائی کو دھندلے طورپر ظاہر کرتا ہے۔ یہ سب دل کی آنکھوں کے لئے بطور مشق کے تھے۔ تاکہ ہم اس سے بڑھ کر اس حکمت کو جوراز میں مخفی (چھپی)ہے۔ حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں‘‘۔

اس زمانہ کے الہٰام بائبل کے تصورات کا اندازہ کرتے ہوئے اس امر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت یہ اعتقاد بھی تھا کہ کلیسیاء کی ساری جماعت کو بھی الہٰام پانے کی قدرت حاصل ہے۔ جو مقدس نوشتوں کے لکھنے والوں کے الہٰام سے فقط درجہ کے لحاظ سے ادنیٰ سمجھی جاتی تھی۔

جو کچھ اُوپر بیان ہوا۔ اس امر کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ قدیم بزرگانِ دین اگرچہ پاک نوشتوں کے من جانب اللہ ہونے پر یک زبان تھے۔ مگر الہٰام کی حقیقت اور حدود کے بارے میں ان کے اعتقاد میں بہت کچھ آزادی پائی جاتی تھی۔

(3)

قرون وسطیٰ یعنی درمیانی زمانہ

قرون وسطیٰ میں اس اعتقاد کا میلان (رحجان)اصول کے لحاظ سےا بتدائی کلیسیاء کے عقائد(عقيدہ کی جمع) سے بہت مختلف نہ تھا۔ بائبل کے الہٰامی ہونے پر سب لوگ کامل(مکمل) یقین رکھتے تھے۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ یہ الہٰام بائبل ۔ کلیسیاء کی غیرنوشتہ روایات کے ہم پلہ (برابر)سمجھا جاتا تھا۔ ٹرینٹ کی کونسل میں اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بموجب رومی کلیسیاء یہ ظاہر کرتی ہے کہ بائبل کے صحیفوں اور غیر نوشتہ روایات کو جو کلیسیاء میں سینہ بسینہ چلی آئی ہیں ۔ وہ یکساں ادب و عزت کے ساتھ مانتی ہے۔ ان روایات کی ناصاف اور پُر اختلاف حالت پر لحاظ کر کے یہ امر صاف روشن ہےکہ اس مسئلہ کے موافق پاک نوشتوں کے الہٰام کا خیال کس قدر گرا ہوا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہےکہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ وہ بزرگان ِدین کی رائیوں کو ایسے ہی وثوق (مکمل اعتماد)اور اعتبار کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ الہٰامی مصنفوں کے اقوال کو۔

اور اس کے علاوہ دن بدن تصوف (معرفت)کی طرف میلان بڑھتا چلا جاتاتھا۔ جو اس امر پر زور دیتا تھا کہ ہر ایک روح ِانسانی خدا کے ساتھ اس قسم کا میل اور اتحاد حاصل کر سکتی ہے۔ جسے الہٰام کے رُتبے سے کسی طرح کم نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اس قسم کے تصوف کی سب سے عمدہ مثال زمانہ حال کے کوئیکر (Quaker) فرقہ میں پائی جاتی ہے۔ ناظرین بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ افراد انسانی کے الہٰام کے متعلق ایسا مبالغہ آمیز اعتقاد اور اس کا روحِ الہٰی سے براہ راست پیغام حاصل کرنا ا س حد کو جو بائبل کے خاص الہٰام اور مسیحی افراد کے عام الہٰام کے درمیان جس سے ’’تمام نیک مشورے اور تمام عمدہ کام پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔ واقع ہے بالکل دُور کردیتا ہے۔

تاہم ان سوالات کے متعلق جو اس وقت لوگوں کے دلوں میں جوش مار رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ کی رائے کے بڑے بہاؤ یا میلان کو معلوم کرنا کچھ آسان امر نہیں ہے ۔مثلاً اس میں شک نہیں کہ بائبل کے بیانات متعلقہ تاریخ و علوم کے خالی از سہو ہونے پر لوگوں کا کامل یقین تھا۔ اگرچہ ساتھ ہم ابیلارڈ ( بارہویں صدی کے نامی اور مشہور عالم ) کے اس قسم کے آزاد انہ خیالات کو بھی دیکھتے ہیں کہ اس کے نزدیک رسولوں سے غلطی ہونی ممکن تھی۔ اور کہ انبیاء نے بعض اوقات محض اپنے انسانی خیالات ہی ظاہر کئے مگر سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے سوالات علمی طور پر کبھی معرض بحث میں نہیں آئے تھے۔ کیوں کہ ان کے دل میں یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ بائبل کو ایک طبعی قاعدہ کےمطابق مطالعہ کرنا چاہیے۔ یا یہ کہ وہ خدا کے اس برتاؤ اور سلوک کی تاریخ ہے۔ جو اس نے انسان کے ساتھ کیا اور اس کے الفاظ کو بھی کسی دوسری کتاب کی طرح ان کے صاف صاف اور لفظی معنوں کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے ۔

اور اس طور سے اس وقت بائبل کی عجیب وغریب قسم کی شرحیں اور تفسیریں ہونے لگیں ۔ یہودی روایات کی طرح جسے خداوند نے قابل الزام ٹھہرایا تھا۔ بگڑی ہوئی کلیسیاء کی روایتوں اور متکلمیں(کلام کرنے والے) کےعلم الہٰی کے سلسلوں نے کلام ِاللہ کی آزاد روحانی تعلیم کو بالکل دبا لیا۔ اس وقت بائبل محض ایک قسم کی پتھر کی کان کے مانند سمجھی جاتی تھی۔ جہاں الہٰی فلسفہ کے بڑے بڑے مسائل کی تائید (حمايت)میں ثبوتی آیات کا ذخیرہ جمع ہو۔ اور اگر کہیں معمولی مطالعہ کرنے والے کو کوئی مشکلات نظر آتی تھیں۔ تو تفسیر کے خاص خاص اصولوں کی بناء پر ان کی تشریح کر دی جاتی تھیں۔

مصلحین (اصلاح کرنے والے)کا سب سے عمدہ کام یہ تھا کہ انہوں نے بائبل کو پھر اپنے سچے رُتبہ پر بحال کر دیا اور لوگوں کو یہ بتادیا کہ انہیں اس کے وہی معنی سمجھنے چاہییں جو اس کے لفظوں سے نکلتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پرانی تعلیم کا خمیر(فطرت) بہت جلد مصلحین کے بعد کے مکتبوں (کتب خانے)میں بھی چل نکلا۔ اور اس کے بانیوں کا اصل مقصد کسی حد تک ضائع ہو گیا۔

(4)

زمانہ اصلاح

اصلاح(درستی۔ترميم) کے وقت بائبل کے مرتبہ میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ غلطی سے مبرا (پاک)کلیسیا ء کا امتحان ہو چکا تھا۔ اور وہ نہایت ہی ناقص و قاصر(کھوٹی اور لا چار) ثابت ہوئی۔ اور لوگوں نے اس کی بد عملیوں (بُرے کام)اور توہمات باطلہ(جھوٹے وہم) سے دق (تنگ آنا)آکر اور ایک راہنما کی ضرورت کو محسوس کر کے ایک ’’ لاغلط بائبل ‘‘ کو اس کے جا بجا دھردیا۔ ’’ پروٹسٹنٹوں کا مذہب بائبل ہے‘‘۔ صرف پاک نوشتے ہی نجات کے لئے کافی ہیں‘‘۔ یہ الفاظ اس تحریک کے تکیہ کلام ہو گئے ۔ اور یہ بالکل طبعی بات تھی کہ عام میلان(رحجان) اس طرف ہو کہ الہٰام کی حقیقت اور وسعت (گنجائش)کے متعلق ایک اعلیٰ قسم کا اعتقاد رکھا جائے۔

مگر اس میلان نے دوسری نسل میں مبالغہ آمیز صورت اختیار کر لی۔ جن لوگوں نے دلیر ی کے ساتھ زمین کے اعلیٰ سے اعلیٰ مسلمہ اختیار کو اُٹھا پھینکا تھا۔ ان سے یہ خوف کیا جا سکتا تھا کہ وہ ہر قسم کے اختیار(اجازت) سے بالکل آزاد ہونے کی کوشش کر یں گے ۔آزاد خیالی تفتیش و جستجو میں دلیری ۔ جب وہ بگڑی ہوئی کلیسیاء سے مقابل ہوتے تھے۔ ان باتوں پر ان کی ساری قدرت کا مدار ہوتا تھا۔ اور وہ طبعی طور پر اس اصول کو دوسرے اُمور میں بھی استعمال کرنے لگے ۔ اگر چہ ہم کو ان کی بعض رائیں سن کر افسوس آتا ہے۔ بلکہ مابعد کی زندگی میں وہ خود بھی اس پر افسوس کیا کرتے تھے۔ تاہم ہم ان کی اس حد سے بڑھی ہوئی دلیری اور آزادی پر جو ایسے نازک موقعہ پر اُن سے ظاہر ہوئی اُن پر سختی سے حکم نہیں لگانا چاہیے ۔ جب کہ آزادی خیال کے متعلق جان جوکھوں کا سامنا تھا۔ تو اس امر سے گریز مشکل تھا کہ بعض اوقات یہ آزادی مناسب حدود سے باہر نکل جائے۔

اراسمس کے خیالات پاک نوشتوں کے الہٰام اور مجموعے کے متعلق بالکل آزاد انہ تھے۔ وہ مقدس یوحنا کے مکاشفہ کے الہٰامی کتاب ہونے سے منکر(انکار کرنے والا) تھا۔ اور یہ کہا کرتا تھا کہ اگرچہ جو کچھ اس میں لکھا ہے اس پر ایمان لانا برکت کا باعث ہو ۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کیا لکھا ہے۔ نہ وہ پاک نوشتوں کے لکھنے والوں میں سے کسی کو ہر طرح کی سہوو غلطی سے مبرا (پاک)سمجھتا تھا۔ اس کا قول تھا کہ فقط مسیح ہی حق کہلاتا ہے اور فقط وہی ہر قسم کی غلطی سے مبر ا ہے۔

لوتھر بائبل کے صحیفوں پر اپنی ہی تمیز کے مطابق حکم لگاتا تھا۔ چنا ں وہ مقدس یعقوب کے خط کے حق میں کہتا تھا۔ کہ وہ تو ’’ کوڑایا بھوسہ ‘‘ ہے۔ کیوں کہ یہ خطا اس کے اس خیال سے کہ آدمی فقط ایمان کے ذریعہ سے راست بار ٹھہرتا ہے۔ اختلاف کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ پاک نوشتوں کے مضامین میں وہ سونا ، چاندی ، اور قیمتی پتھروں ’’ کے ساتھ لکڑی ، گھا س ، اور بھوسہ ‘‘ بھی پاتا تھا۔ اس کا قول ہے۔ کہ

لوتھر بائبل کے صحیفوں پر اپنی ہی تمیز کے مطابق حکم لگاتا تھا۔ چنا ں وہ مقدس یعقوب کے خط کے حق میں کہتا تھا۔ کہ وہ تو ’’ کوڑایا بھوسہ ‘‘ ہے۔ کیوں کہ یہ خطا اس کے اس خیال سے کہ آدمی فقط ایمان کے ذریعہ سے راست بار ٹھہرتا ہے۔ اختلاف کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ پاک نوشتوں کے مضامین میں وہ سونا ، چاندی ، اور قیمتی پتھروں ’’ کے ساتھ لکڑی ، گھا س ، اور بھوسہ ‘‘ بھی پاتا تھا۔ اس کا قول ہے۔ کہ

وہ ایوب کی کتاب کی نسبت کہتا ہے کہ وہ ایک تاریخی ڈراما (ناٹک ) ہے۔ جو توکل و صبر سکھانے کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ اور اس کے نزدیک بائبل کے تمام صحیفے یکساں قدر و قیمت نہیں رکھتے ۔ پولس کی تحریرات کو وہ سب سے افضل سمجھتا تھا۔ اگر چہ اس کے بعض دلائل کی نکتہ چینی کرنے سے بھی نہیں جھجکتا ۔ وہ لفظی الہٰام کا ہرگز قائل نہ تھا۔ اور بار بار اس سچائی پر جو بائبل کے متعلق بحث مباحثوں میں اکثر فراموش کر دی جاتی ہے زور دیتا تھا کہ روح القدس فقط کسی قدیم زمانے کی کتاب ہی میں محدود نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک مسیحی کے ضمیر میں بولتا ہے۔

کالون اگر چہ بائبل کے معاملہ میں زیادہ مودب(ادب سکھانے والا۔استاد) اور محتاط تھا۔ مگر لوتھر سے بہت ہی ہلکا آدمی تھا۔ اور اسی طرح اس کے خیالات بھی اس بارے میں ہلکے قسم کے تھے۔ وہ پاک نوشتوں کی شرح و تفسیر میں ضمیر کو بہت کم جگہ دیتا تھا۔ جیسا کہ اس کے سلسلہ علم الہٰی کے بعض نفرت آمیز مسائل شاہد(حسين) ہیں۔ وہ عہدِ عتیق کی اخلاقی تعلیم کو مسیحی کے دستور العمل(قانون کی کتاب) کے لئے کافی سمجھتا تھا۔ وہ بائبل کے ہرایک حصہ کو یکسا ں قابل قدر مانتا تھا۔ جب ایک موقعہ پر رینٹی ڈچس اوف فیررا۔ لوئی دواز دہم کی لڑکی نے کہا کہ داؤد کا نمونہ اپنے دشمنوں کے ساتھ عداوت(دشمنی) کی بابت ہمارے لئے قابل تقلید(پيروی کے لائق) نہیں ہے۔ تو کالون نے سختی سے جواب دیا کہ اگر ہم اس قسم کی تشریحیں کرنے لگیں۔ تو سارے نوشتے درہم برہم ہو جائیں گے۔ اور کہ اپنے دشمنوں سے عداوت کرنے کے لحاظ سے بھی داؤد ہمارے لئے بطور مثال کے ہے۔ اور مسیح کا نمونہ اور نشان ہے ۔ شايد (ممکن ہے)اسی قسم کے خیالات ہی کی بنا پر اس نے سرویٹس کا اس کے مخالفانہ عقائد کی وجہ سے جلا دیا تھا۔ رومی انکوئیزیش کے ممد(مدد گار) اپنے افعال کو اسی قسم کی دلائل سے جائز ثابت کیا کرتے تھے۔ تو کالون ایسا کیوں نہ کرتا ؟

دُوسری نسل میں جب یہ سب جوش و خروش فرو (دب گيا)ہو گیا۔ اور آزادانہ روحانی خیالات کسی قدر مردہ ہوگئے ۔ تو بائبل کو فی الفور وہ رتبہ حاصل ہو گیا جو کہ ایسے حالات کے درمیان اسے حاصل ہو جانا ایک طبعی امر تھا۔ جیسا کہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب ان کے اوالعز م اصحاب اور انبیاء گزر گئے۔ تو فقیہوں اور شریعت سکھانے والوں کا دُور آیا ۔ اور الہٰام کی تروتازہ اور گرما گرم لہروں کے بعد حرف کی سرد اور سنگین پرستش شروع ہوئی۔ ’’جب اصلاح کا پہلا ایکٹ ختم ہوا ۔ اور وہ بزرگ چل بسے ۔ جن کی حضوری سے وہ قوت حاصل ہو اکرتی تھی۔ تو ان کے پیرؤں نے بائبل کو بحیثیت مجموعی غلطی سے مبرا (پاک)ہونے کی ان تمام مصنوعی صفات سے ملبس کر دیا ۔ جن صفات کے رومی اپنی کلیسیاء کے لئے دعویٰ دار تھے۔ اپنے زمانہ کی ضروریات سے تنگ آکر کالون کے شاگرد یہ ماننے لگ گئے۔ کہ ہر ایک الہٰامی آدمی کے الفاظ بھی بلا لحاظ اس کی شخصی یا عقلی حیثیت کے ایک رہنما طاقت کے براہ راست اور بالا ئی قدرت فعل کا نتیجہ ہیں۔ پاک نوشتوں کا ہر ایک حصہ نہ صر ف تعلیم سے مملو(لبريز) ہے ۔ بلکہ ایک ہی قسم کی تعلیم سے اور ایک ہی معنوں میں ‘‘۔ (اوسنکٹ صلحب کی کتاب مطالعہ اناجیل پر )۔

بحث مباحثہ کی ضرورتوں نے انہیں ایسے گوشوں میں دھکیل دیا ۔ جو نہایت خطرناک تھے۔ اور لا غلط کلیسیاء کے مقابلہ میں انہوں نے بائبل کا لاغلط ہونا رکھ ديا۔ الہٰام میں الہٰی پہلو پر اس قدر زور دیا گیا کہ اس میں جو انسانی پہلوہے۔ وہ بالکل فراموش ہو گیا ۔ لکھنے والا خدا کے ہاتھ میں محض ایک قلم کے طو رپر تھا۔ وہ گویا روح القدس کے منشی کے طور پر تھا کہ جو کچھ وہ لکھواتا تھا يہ لکھتا جاتا تھا۔ پاک نوشتے اوّل آخر تک لفظ بلفظ الہٰامی ہیں۔ ایسے طور سے کہ ان کا ہر ایک لفظ اور ہر ایک حرف ٹھیک ایسا ہے۔ گویا کہ خود قادر مطلق خدا نے اسے اپنے ہی ہاتھ سے لکھا ہے۔ ان کا ہر ایک کلمہ خدا کا کلام ہے۔ ’’جو کچھ روح قدس نے لکھایا ہے۔ سو بالکل سچ ہے۔ خواہ وہ عقائد (يقين)کے متعلق ہو۔ یا اخلاق کے تاریخ کے ہو یا تواریخ کےجغرافیہ کے ہو یا اسما کے ‘‘۔ اور پھر اس سے یہ استنباط (نتيجہ نکالنا)کیا کہ تمام زمانوں میں پشت بہ پشت یہ نوشتے ایسے ہی چلے آئے ہیں۔ کیوں کہ کاتب (لکھنے والا)اور ناقل (نقل کرنے والا)خدا کی قدرت معجز نما (معجزہ کی طاقت)کے ذریعہ سے ہر ایک قسم کی غلطی یا تحریف (ردوبدل¬ّ)سے بالکل محفوظ رکھے گئے ہیں۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کس طرح مان سکتے کہ بائبل سہوو غلطی سے مبراہے۔

یہ بات اس زمانہ کے یہودیوں کی حرف کی پرستش کے کس قدر مطابق معلوم ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی کلیسیا ء سے خارج ہو رہی تھی۔ اور یہ مشابہت اور بھی زیادہ کامل ہو جاتی ہے۔ جب ہم یہ پاتے ہیں کہ جیسا یہودیوں میں ویسا ہی ان لوگوں کےدرمیان بھی پاک نوشتوں کے الفاظ کی اس قدر اعلیٰ عزت و توقیر کے باوجود حقیقی روحانیت نہایت ہی ادنیٰ اور تباہ حالت میں ہو رہی تھی۔ پروٹسٹنٹوں کی ساری تاریخ میں کبھی اس قدر تنگ دلی اور تعصب(تنگ نظری) اور عداوت نہیں پائی جاتی ۔ جس قدر کہ اصلاح کے بعد کے زمانے میں جس کہ اس قسم کے مسائل لوگوں کے عقائد میں جڑ پکڑ گئے تھے۔

اس طور سے اصلاح کے بعد کے دستور پر ستی کے زمانہ میں الہٰام کے متعلق اس قسم کے جھوٹے مسائل ظہور میں آئے ۔ جنہیں ہمارے زمانے کے لوگ الہٰام کی صحیح تعریف سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور ان مبالغہ آمیز خیالات کا لازمی نتیجہ ہوا۔ کہ لوگ ایسے نامعقول مسئلوں سے دق (عاجز)آگئے ۔ اور جو کچھ ہم شک اور بے چینی اور الحاد (دين سے پھر جانا)اس وقت دیکھتے ہیں۔ اُن کے لئے یہی باتیں جواب دہ ہیں۔

(5)

زمانہ حال

اٹھارہویں صد ی کی ڈی (1) از م اور الحاد کسی حد تک زمانہ اصلاح کے بعد کی اس قسم کی مسائل سازی کا نتیجہ تھا۔ بائبل کے متعلق اس قسم کی مبالغہ آمیز باتوں نے لوگوں کو طبعی طور پر اس کے مقابل کے گوشہ میں دھکیل دیا۔ رچرڈ بیکسٹر کا قول ہے۔ کہ

’’ شیطان کا آخر طريق يہ ہے کہ کسی چیز کو حدسے پرے پہنچا کر اسے بے کار کر دیتا ہے ۔ اور اسی طرح اس نے کوشش کی کہ بائبل کے اعتبار میں مبالغہ کرنے سے اُسے برباد کردے ‘‘ ۔

مخالفوں نے ہر ایک ذرا ذرا سی غلطی یا اختلاف پر جو بائبل میں دریافت ہو سکتا ۔ اور خاص کر عہد ِعتیق کی اخلاقی مشکلات پر اپنے حملوں کی بنیاد رکھ دی۔ ایسی باتیں اس شخص کو جو بائبل کی نسبت (تعلق)خیال رکھتا ہے۔ کسی طرح پر یشان نہیں کر سکتیں ۔ لیکن اس زمانہ میں جب کہ اس قسم کے مبالغہ آمیز اعتقاد رائج تھے۔ وہ نہایت خوف ناک ہتھیار تھے۔ اگر یہ کتا ب ’’ بالا ئی قدر ت کے الفاط اور کلمات کا مجموعہ ‘‘ ہے جسے روح القدس نے بذات خود لکھایا ہے ۔ اگر جیسا کہ علماء تعلیم دیتے تھے۔ کسی تاریخی یا علمی بیان یا اخلاقی اور روحانی تعلیم میں کسی قسم کا ذرا سا نقص واقع ہونا الہٰام کے مفہوم کے خلاف ہے ۔ تو ایک ملحد(کافر) کا کام اس کی بیخ کنی(جڑ سے اُکھاڑنا) کرنے میں کچھ مشکل کام نہ تھا۔


(1)وہ لوگ جو خدا کی ہستی کے تو قائل ہیں۔ مگر اس کو عالم کے انتظام میں کچھ حصہ نہیں دیتے۔

صاحب عقل و ہوش مندمسیحیوں نے فوراً تاڑلیا کہ اس قسم کی تعلیم کو درست کرنا چاہیے مگر تو بھی کئی نسلوں تک کچھ نہ کیا گیا۔ مگر شايد سب سے پہلی کوشش جو اس بارے میں کی گئی ۔ وہ کولرج صاحب کی ایک کتاب موسومہ ’’ غوروفکر کی امداد ‘‘ تھی ۔ جو اس کی وفات کے بعد شائع ہوئی یہ ایک ایسے شخص کاکام ہے ۔ جو فی الحقیقت بائبل سے محبت رکھتا تھا۔ جس کو یہ دیکھ کر کہ ان مصنوعی خیالات کے سبب جو اس کے زمانے میں رائج تھے۔ مذہب کو کس قدر ضرور نقصان پہنچا ہے۔ سخت رنج و ملال (دکھ وافسوس)ہوا۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بائبل کی شرع و تفسیر میں ضمیر کے اختیار کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ وہ اس میں انسانی عنصر کی موجودگی اور اس کے طبعی اور بر محل (موزوں)ہونے کا بھی ثبوت دیتا ہے۔وہ بڑے جوش سے اس امر کی تردید کرتا ہے کہ بائبل کے الہٰامی ہونے کے لئے اس کا ہر ایک نقطہ اور شوشہ سہوو غلطی سے مبرا(پاک) ہونا ضروری ہے۔ وہ بائبل کی تعلیم کی عظمت اور خوبصورتی میں ایسا محو (مصروف)ہے کہ ان تحریروں کو جو اس کی چھوٹی چھوٹی مشکلات اور اختلافات کے حل کرنے کے لئے لکھی گئی ہیں۔ حقارت کی نظرسے دیکھتا ہے ۔ اس کا قول ہے کہ ’’ شايد ان کی تشریح و توضیح ہو سکتی ہے۔ شايدنہیں ہو سکتی۔ مگر اس کی کسےپروا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں ‘‘۔

یہ تو سچ ہے کہ اس کے خیالات ایک خوف ناک حد کے قریب پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر حالات کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل طبعی امر تھا۔ لیکن اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس نے بہتوں کو جگا دیاکہ اس مضمون پر پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں ۔ کنگلی اور مورس اور آرنلڈ اور دیگر اصحاب نے یہ جھگڑا برابر جاری رکھا۔ گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ بڑی دانائی اور سلامت روی(سيدھی راہ) کو اختیار کرتے اور مناسب حد کے اندر ہی رہتے تھے۔ مگر بحیثیت مجموعی انہوں نے لوگوں کی اس امر میں بڑی مدد کی کہ بائبل کی نسبت زیادہ فراخ (کُھلا)اور زیادہ صحیح خیالات رکھیں۔ اور ہم آج کل ان کی محنتوں کا ثمرہ (پھل)کاٹ رہے ہیں۔ ’’ اوروں نے محنت کی اور ہم ان کی محنت میں داخل ہو گئے‘‘۔

دُوسرا حصّہ

خُدانے بائبل کو کس طرح الہٰام کیا

مُقدمہ

(1)

اِس وقت تک ہم صرف زمین کے صاف کرنے میں مشغول(مصروف) رہے ہیں تاکہ پڑھنے والے کو ایسے مقام تک پہنچائیں ۔ جہاں سے وہ الہٰام کے مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کر سکے۔ ہم نے یہ دریافت کیا ہے کہ موجودہ بے چینی کا بڑا باعث بائبل میں نہیں ہے۔ بلکہ ان بےہودہ اور بے سند مفروضات میں ہے جو بائبل کے متعلق لوگوں نے گھڑرکھے ہیں۔ ہم نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ مفروضات (فرض کیا گیا)کے ذریعہ نہیں بلکہ ایک علمی تحقیقات کے طریق پر عمل کرنے سے ہم الہٰام کے صحیح مفہوم کو دریافت کر سکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ تاریخی طور پر ایک مختصر نظر کر کے یہ بھی بتا دیا ہے کہ مختلف زمانوں میں اس بارے میں لوگوں کے کیا کیا خیال رہے ہیں۔

اب ہم دُنیا میں اس طور پر بنیادیں رکھنے کے بعد اس امر کی تحقیقات میں مشغول ہوتے ہیں کہ اس مضمون کے متعلق ہم قاعدہ اور اصول کے موافق کیا کچھ اعتقاد(يقين) رکھنے کے مجاز (با اختيار)ہیں۔

ہمارے سامنے جو سوال غور طلب ہے۔ سو یہ ہے کہ خدا نے بائبل کو کس طرح الہٰام کیا ؟ الہٰام کے مفہوم میں کیا کیا باتیں شامل ہیں؟ اس امر کو تسلیم کر کے کہ پاک نوشتوں کے لکھنے والے الہٰامی تھے۔ ہم پر اُن کی تحریروں کے متعلق کیا کچھ اعتقاد رکھنا لازم آتاہے۔

(2)

مثلاً یہ کہ کیا خدا نے اس طور سے بائبل کو الہٰام کیا کہ اس میں سے انسانی عنصر بالکل خارج کر دیا تھا؟ کیا لکھنے والا محض روح القدس کے قلم کے طور پر تھا؟ کیا لکھنے والے کی کوئی بھی ذاتی خصوصیت یا کوئی انسانی جذبہ یا نفسانی تحریک یا تعصب ’’ کلام اللہ ‘‘ میں موجود نہیں اور نہ وہ باتیں اس میں کوئی جگہ پا سکتی ہیں؟

کیا خدا نے بائبل کو اس طور سے الہٰام کیا کہ اس میں کسی قسم کی سہو و غلطی کا علم یا تاریخ کے متعلق موجود ہو نا ناممکن ہے ؟ کیا الہٰام پر اعتقاد رکھنے سے اس امر پر اعتقاد رکھنا بھی لازم آتا ہے کہ پاک نوشتے ہر طرح کی سہو و خطا سے مبر ا ہیں؟ یا اس کے ساتھ کیا اس قسم کا اعتقا د رکھنابھی ممکن ہے کہ کم سے کم اس کے علمی بیانات فقط اس زمانہ کی لاعلمی حالت کو ظاہر کرتے ہیں؟

یا اخلاقی اور مذہبی امور کے لحاظ سے اگر میں یہ یقین رکھوں کہ بائبل میں خدا نے الہٰامی مکاشفہ اس غرض سے دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے بنی انسان کو اُٹھا کر اعلیٰ زندگی کی طرف لے جائے۔ تو کیا اس کے ساتھ مجھے یہ بھی ماننا ضرور ہے کہ اس نے یہ مکاشفہ ایک ہی وقت اور ایک ہی دفعہ تما م و کمال دے دیا۔ یا کیااس کے متعلق یہ اعتقاد (يقين)رکھنا بھی ممکن ہے کہ اس کی تعلیم ابتدا ء میں نامکمل اور موٹی سوٹی ہونی چاہیے تھی۔ یا دوسرے لفظوں میں کیا یہ خیال کرنا ناروا ہے کہ عہدِ عتیق میں ایسی اخلاقی ہدایات اور شرائع ( شريعت کی جمع)ہو سکتی ہیں۔ جو آج کل کے مسیحیوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ادنیٰ اور نامکمل سمجھی جانی چاہییں۔

پھر کیا خدا نے بائبل کو اس طور سے الہٰام کیا کہ اس کے الہٰامی ہونے پر اعتقاد رکھنے سے مجھ پر یہ بھی لازم ٹھہرتا ہے کہ مختلف صحیفوں کی پیشانیوں پر جو مصنفوں کے نام لکھے ہیں۔ انہیں بالکل صحیح مانوں یا یہ کہ یہ کتاب جیسی مصنفوں کے ہاتھ سے نکلیں ۔اس وقت سے لے کر اب تک ہر قسم کے تغیر و تبدل (فرق)سےبالکل محفوظ چلی آئی ہیں؟

کیا الہٰام میں سخت دماغی محنت کو دخل نہیں ہے۔ جس کے ذریعہ سے لکھنے والا قدیمی نوشتوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اطلاع حاصل کرے۔ یا دوسری کتابوں میں سے فقرے کے فقرے اپنی کتاب میں داخل کرے؟ کیا نامعلوم اشخاص کے ذریعہ سے ان صحیفوں کا ترتيب ديا جانا يا اصلاح وترميم کيا جانا ان کے الہٰامی ہونے کو نقصان پہنچاتا ہے؟

ناظرین کو یاد رہے کہ میں بڑے زور سے اس امر کو بار بار لکھ چکا ہوں کہ ان سوالوں کا جواب دینے میں ہمیں مذہبی لوگوں کے مفروضات یا اعتقادات کو ہرگز دخل نہیں دینا چاہیے اور یہ بھی کہ بائبل اور کلیسیاء دونوں نے ہمیں اس امر کی تحقیقا ت کرنے کے ليےآزاد چھوڑ دياہے ۔ اور سچا طريق اس کام کے سر انجام کرنے کا يہ ہے کہ بڑی احتیاط اور ادب کے ساتھ بے خوف ہو کر ہم خود مسئلہ الہٰام کی تحقیقات کریں جیسا کہ وہ بائبل میں ہمارے رو برو پیش کیا گیا ہے۔

ناظرین کو مجھ سے یہ اُمید نہیں کرنی چاہیے کہ میں اس کتاب میں پورے طور پر اس مسئلہ پر بحث کروں گا۔ اس کے لئے تو ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی ۔ جس میں اوّل سے شروع کر کے بائبل کی ایک ایک کتاب پر غور کیا جائے۔ اور مذکورہ بالا سوالات میں سے ہر ایک کے متعلق اس کی شہادت کو پرکھا جائے۔ میں یہاں اس قسم کے امتحان کی صرف چند مثالیں دے کر یہ دکھاؤں گا کہ اس قسم کی تحقیقات کس طریق سے کی جانی چاہیے ۔ اور نیز وہ نتائج بھی ناظرین کے سامنے پیش کردُوں گا۔ جو تمام اہل الرائے کے نزدیک جن کی رائے کو ہماری نظر میں وقعت (قدر)ہونی چاہیے ۔ مقبول و مسلم ہیں۔

باب اوّل

الہٰام

(1)

الہٰام کیا ہے؟

اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے وقت ایک عالم نے کہا تھا کہ

’’ اگر تم مجھ سے نہ پوچھو تو میں جانتا ہوں‘‘۔

اور مجھے یقین ہےکہ ہم میں سے اکثر اشخاص الہٰام بائبل کے مفہوم کی نسبت اسی قسم کا جواب دینے پر مائل (متوجہ)ہوں گے۔ ہمارے ذہن میں اس کی نسبت ایک دُھندلا سا خیال ہے کہ وہ کسی خاص قسم کی مخفی(چھپی ہوئی) تاثیر کا نام ہے۔ جو خدا نے پاک نوشتوں پر کی ہے۔ اور یہ خیال عملی ضروریات کے لئے تو کام دے جاتا ہے۔ مگر جب ہم سے اس کی اور حد طلب کی جاتی ہے۔ توذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور مجھے شبہ (شک)ہے کہ آیا اس کی صحیح اور مکمل تعریف کرنی ممکن بھی ہے۔ اگر کوئی آدمی یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا پاک نے پاک نوشتوں کے الفاظ کو لکھا دیا۔ اور اس لئے خدا پاک نوشتوں کا ایسا ہی مصنف ہے۔ جیسے مثلاً جان بینن صاحب ’’ مسیحی کے سفر ‘‘ کے ہیں۔ تو اس کا الہٰام کا تصور بالکل صاف ہے۔ لیکن اگر اس قسم کا اعتقاد (يقين)ردّ کر دیا جائے ۔ تو اس کے ساتھ ہی ایسی صاف اور واضح تعریف کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔

الہٰام کا خیال فقط یہودیوں اور مسیحیوں میں ہی محددود نہیں ہے۔ قدیم یونانی و رومی مصنف بھی اکثر ’’ الہٰی جنون یا تنفس یا خدا سے اُٹھائے جانے یا خدا سے الہٰام کئے جانے اور پھونکے جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ فنون شریفہ (معزز پيشہ)مثل سنگ تراشی یا مصوری اور شاعری کی لیاقت پیش گوئی کی قدرت عشق و محبت کا جو ش، اور لڑائی کا تہور(دليری)، یہ سب باتیں ان فنوں کے دیوتاؤں کی طرف منسوب کی جاتی تھیں ۔ جو اس وقت اس شخص پر قابو پائے ہوئے سمجھے جاتے تھے۔ یہی الفاظ اور خیالات بعد ازاں مسیحیوں کی مذہبی اصطلاحات میں بھی داخل ہو گئے ۔ اور لازمی طور ا بتدائی کلیسیاء کے تصورات الہٰام پر بھی کسی درجہ تک اپنا اثر ڈالا ۔

لفظ (Inspird)یعنی ’’ الہٰام شدہ (1) ‘‘ صرف دو موقعوں پر انگریز ی بائبل میں استعمال ہوا ہے۔ اوّل ایوب ۸:۳۲ جہاں لکھا ہے کہ

’’ قادر مطلق اپنے دم سے انہیں (2) فہمید بخشتا ہے ‘‘۔ دوم (۲۔تمطاوس ۱۶:۲)’’ ہر ایک کتاب جو الہٰام سے ہے ‘‘مگر اس سے ہمیں اس خیال کا پورا مفہوم دریافت کرنے میں کچھ مد د نہیں ملتی ۔ انگریزی لفظ کے معنی ہیں۔ ’’کوئی ایسی چیز جس کے اندر خدا پھونکتا ہے‘‘۔ اور یہ لفظ ہر درجہ کی الہٰی تاثیر پر عائد ہوتا ہے۔ (۲۔پطرس ۲۱:۱) میں ’’ قدیم زمانہ کے مقدس لوگوں کا الہٰام ان لفظوں میں بیان ہوا ہے۔ کہ وہ روح القدس کی ’’ تحریک ‘‘ یا اُٹھا ئے جانے ‘‘ سے بولتے تھے۔ جو دم پھونکنے یا نفخ (پھوکنا)کی نسبت زیادہ زور رکھتا ہے۔ مگر ان دونوں الفاظ سے ہم صرف اتنی ہی سمجھ حاصل کرتے ہیں۔ کہ الہٰام کے معنی ہیں ’’ الہٰی تاثیر ‘‘۔


(1)اس کتاب میں ہم نے لفظ الہٰام انگریزی لفظ (Inspirtion)انسپائریشن کا ترجمہ کیا ہے۔ جس کے لفظی معنی’’ کسی کے اندر پھونک دینا ‘‘ہیں۔ لفظ الھام عربی مصدر لھم سے نکلا ہے۔جس کے معنی ’’ ڈال دیتا ‘‘ ہے۔ یوں دونوں لفظ یعنی انگر یزی و عربی قریب قریب بلحاظ لغت و اصطاح کے ایک ہی معنی رکھتےہیں۔ (2) عبر انی میں جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے ۔ سو نشا ماہ ہے۔جو عربی نسر سے ملتا ہے۔

تو اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے واقعات کا بڑی احتیاط کے ساتھ امتحان کرنے کے بعد ہم الہٰام کی کیا تعریف کریں؟ ہم کو اس تعریف سے بڑھ کر ماننے سے قطعی انکار کر دینا چاہیے۔ جو خود لفظ ہی میں پائی جاتی ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے پھونکا جانا یا ایک الہٰی تاثیر ۔ کیوں کہ صرف یہی تعریف ہے جو الہٰام کے سارے ظہورات پر حاوی ہو گی۔ یہ الہٰی تاثیر ۔ جیسا کہ بائبل کے امتحان کرنے سے واضح ہو گا۔ بعض واقعات تو فی الحقیقت ایک معمولی بات ہو گی۔ جس کی مد د سے آدمی کو یہ طاقت ملے کہ وہ کسی بات کو زیادہ سنجیدگی اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کر دے۔ بہ نسبت کسی اور معاملہ کے جو اس نے محض اپنی عقل و مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔ اور بعض اوقات یہ ایک عجیب و غریب اور مخفی قوت ہو گی۔ جو انسان کو خداوند خدا کی پوشیدہ باتوں کے سمجھنے کی قابلیت عطا کر دے۔ اس قوت نے ایک آدمی کو تاریخ نویسی میں مدد دی۔ دوسرے قدیمی نوشتوں کی ترتیب دیتے ہیں۔ ایک کو فن معماری میں دوسرے کو دل کو اُبھارنے والے گیت گانے میں۔ اس سے ایک رسول کو کلیسیاء کے لئے نیک اور عمدہ صلاحوں سے بھر ے ہوئے خط لکھنے میں مد د ملی ۔ اور اسی نے دوسرے نبی کے لبوں کو پاک آگ سے چُھوا ۔ تا کہ وہ اپنی قوم کو اس کی شرارت اور بدکاریوں سے خبردار کر دے۔

اگر چہ وہ دراصل ایک اخلاقی اور روحانی نعمت ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ذہن کی صفائی اور تیزی میں بھی مد د ملتی تھی۔ اس کے ظہور طرح طرح کے تھے۔ اور مختلف آدمیوں پر مختلف ہوتے تھے۔ اس سے اخلاقی اور روحانی سچائی کی گہری سمجھ حاصل ہوتی تھی۔ خدا کا حِس ۔ روح کا علو،(روح کی برتری) راست بازی کی خواہش عقیدت کی گرم جوشی ۔ سب اسی کے پھل تھے۔ اس سے حکمت اور عدالت کی روح۔ روحانی مکاشفات کے حاصل کرنے کی قابلیت ۔ اور ذہنی قواء (طاقت،قوت)کی تازگی اور تیزی حاصل ہوتی تھی۔ وہ یہ سب یا ان میں سے بعض طاقتیں عطا کرتی تھی۔ اور وہ ان طاقتوں کو مختلف مقدار میں بخشتی تھی۔ اور اس کا ظہور مختلف صورتوں میں مختلف ہوتا تھا۔

اس لئے ہمیں الہٰام کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہیے ۔ کہ وہ ایسی چیز ہے۔ جو ہر حالت میں یکساں عمل کرتی ہے۔ یا ہر وقت ایک ہی قسم کا عجیب و غریب نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ ان سادہ الفاظ میں اس کی تعریف نہایت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہ وہ طاقت ہے جسے خدا ہر ایک آدمی کو اس مقدار کے موافق عطا کرتا ہے۔ جس کی امداد کی اس آدمی کو اپنے خاص سپرد شدہ کام کے سر انجام کرنے کے لئے حاجت(ضرورت) تھی۔

(2)

مکاشفہ اور الہٰام

تا کہ اس مضمون پر خیالات میں گڑ بڑ نہ ہو۔ یہ ضرور ہے کہ ہم مکاشفہ اور الہٰام میں اچھی طرح سے امتیاز (فرق)کر لیں۔ ہم ایک شخص کو الہٰام کرتے ہیں ۔ مگر ہم ایک امر(فعل) کو کشف یا ظاہر کرتے ہیں ’’ الہٰام بطور ہوا کے سانس یا جھونکے کے ہے۔ جو ایک اخلاقی ہستی کے بادبانوں (مستول ،وہ کپڑا جو کشتی کی رفتار کو تیز کرنے اور اس کا رُخ موڑنے کے لیے لگاتے ہیں)کو بھرتا ہے۔ مکاشفہ بطور ایک دور بین کے ہے ۔ جس سے ہم ایسی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ جو آنکھ سے نظر نہ آ سکتیں ‘‘۔ مکاشفہ کے معنی ہیں ۔’’ کسی چیز کو جو پہلے معلوم نہ تھی ظاہر کر دینا ‘‘۔الہٰام کے معنی ہیں۔ ’’روح القدس کا نفخ یا پھونکنا ‘‘۔ تا کہ زیادہ روحانی کیفیت یا حالت یا زیادہ گرم جوشی اور گہر ی محبت پیدا کر دے۔ اور خدا کے مقاصد و منشاء کا گہرا علم و فہم حاصل ہو۔ یا دیگر قابلتیوں کو جن کے استعمال کی الہٰامی شخص کو اپنے منصبی (عہدے کے متعلق)کام کے سرانجام کرنے کے لئے ضرورت تھی۔ زیادہ تیز اور طاقت ور کر دے۔

اس لئے الہٰام کا بغیر مکاشفہ یا کشف کے ہونا ممکن ہے۔ مثلاً اگر نکتہ چینی یا يہ ثابت کر دے کہ کسی کتاب کا کوئی جزو بھی بالائے قدرت طریق سے کشف(ٌظاہر) نہیں کیا گیا ۔ اور جو واقعات اس میں درج ہیں۔ وہ معمولی قدرتِ مشاہدہ کے ذریعہ سے یا قدیمی نوشتوں سے یا دُوسروں کی شہادت (گواہی)سے حاصل کئے گئےتھے۔ تو اس سے کسی کتاب کا غیر الہٰامی ہونا لازمی طور پر ثابت نہ ہو گا۔ اس سے ہرگز یہ بیان غلط نہیں ٹھہرے گا کہ مصنف کو الہٰام کے ذریعہ ایک صاف حافظہ اور الہٰی باتوں کے سمجھنے کے لئے ایک تیز فہم اور باریک بین نظر عطا ہوئی تھی۔ اور اس کو طبعی قوت سے زیادہ قوتِ امتیاز بخشی گئی ۔ جس کے ذریعے سے اس نے جان لیا کہ اسے کیا کہنا چاہیے اور کس طرح کہنا چاہیے۔

یقیناً ساری بائبل الہٰی مکاشفہ نہیں ہے۔ بہت سی باتیں جو محض انسانی قواء(انسانی طاقت) کے ذریعہ معلوم نہ ہوتیں۔ وہ خدا نے معجزانہ طور سے بذریعہ مکاشفہ کے ظاہر کر دیں۔ مگر اور بہت سی باتیں ایسی تھیں ۔ جن کے لئے مکاشفہ کی حاجت نہ تھی۔ یہودی تاریخ کے واقعات معلوم کرنے کے لئے کسی قسم کے مکاشفہ کی حاجت نہ تھی۔ بلکہ قدیم نوشتوں اور مسودوں کا مطالعہ اور الہٰامی مصنف کا ذاتی مشاہدہ اور حافظہ اس غرض کےلئے کافی تھے۔ رسولوں اور یوسف اور کنواری مریم کے اسمآء ۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا قصہ یا ہمارے خداوند کے معجزات کا بیان کرنے کے لئے جو اناجیل کے لکھنے والوں یا ان کی خبر دینے والوں کے مشاہدہ کئے تھے۔ کسی مکاشفہ کی ضرورت نہ تھی۔ نہ پولُس رسول اپنے مشنری سیروسیاحت کے معلوم کرنے کے لئے جن کا وہ اپنے خطوط میں ذکر کرتا ہے کسی مکاشفہ کا محتاج تھا۔

تو یہ ظاہر ہے کہ بائبل کا بہت بڑا حصہ ہر گز خدا کی طرف سے کشف کے طور پر نہیں دیا گیا۔ اور نہ اس کی حاجت تھی۔ مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس نے سارا بائبل الہٰام کیا۔ جب کہ مصنفین نے اپنی قوت مشاہدہ یا حافظہ کو استعمال کیا یا قدیم تاریخی نوشتوں سے کام لیا۔ مثلاً یا شر کی کتاب یا جد اور اودّ کی تواریخ وغیرہ ۔ تو ہم اس امر کے لئے الہٰام کی ضرورت کو دیکھ سکتے ہیں تاکہ واقعات کی قدروقیمت اور منشاء (مرضی)اور عملی تعلق و لگاؤ کا صحیح طورسے موازنہ کیا جائے۔ اور ہر ایک چیز اس کی حیثیت اور رُتبہ کے موافق جانچی جائے۔ اور کہ کوئی واقعہ کا فی طور پر حسب ضرورت بیان کیا جائے اور بیرونی تاریخ کے پیچھے خدا کا ہاتھ صاف صاف نظر آئے۔

با ب دوم

دوحدّیں

تمہيد

اگر چہ جیسا ہم اُوپر لکھ چکے ہیں۔ ہم الہٰام کی صحیح تعریف بیان نہیں کر سکتے اور نہ اس کی حقیقت کو بتا سکتے ہیں۔ اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا الہٰام دینے میں کس قدر امداد عطاکرتا ہے۔ تاہم اس کے ظہورات پر جیسا کہ وہ بائبل میں نظر آتے ہیں ۔ غوروفکر کرنے سے اس کی نسبت اپنے خیالات کو بہت کچھ صاف و روشن کر سکتے ہیں۔ ہم یہ دریافت کر سکتے ہیں کہ آیا الہٰام اس امر کو لازمی ٹھہراتا ہے کہ ہم بائبل کے ہر ایک بیان کو محض خدا ہی کا کلام مانیں ۔ جس میں کسی مخلوق کے کلام کی آمیزش (ملاوٹ)نہ ہو۔ یاکہ اس میں انسانی نا کاملیت اور نقص کی ملاوٹ بھی ممکن ہے؟ یا کیا ایک الہٰامی کتا ب میں مذہبی یا اخلاقی امور میں زمانہ حال کے مسیحی عقائد کی نسبت ادنیٰ درجہ کے ناترا شیدہ (نہ ڈر)خیالات کا ملنا بھی ممکن ہے ؟

اگر ہم شروع ہی میں ان حدوں کو مقرر کر لیں۔ جن کے درمیان ہماری تحقیقات محدود رہنی چاہیے ۔ اور جن سے باہر ہم یقینی طور پر کہہ سکیں کہ الہٰام کا سچا تصور ملنا ممکن نہیں ۔ تو اس سے ہماری تحقیقات و جستجو میں بہت مدد ملے گی۔

اب جو لوگ کسی معنوں میں بھی پاک نوشتوں کو الہٰامی مانتے ہیں۔ ان کے درمیان ہم خیالات کی دو حدیں پاتے ہیں۔ جن سے باہر کوئی نہیں گیا ۔ نیچے کی حد پر وہ لوگ ہیں۔ جو الہٰام کو محض ایک طبعی بات سمجھتے ہیں۔ اُوپر کی طرف وہ ہیں۔ جو لفظی الہٰام کے قائل ہیں۔ اگر ہم ان دونوں کو آخری حدود سمجھ کر اُن کو بحث سے خارج کر دیں۔ تو ہم حدود کو اور بھی تنگ کر دیں گے۔ جس کے اندر الہٰام کی سچی تعریف و تصور کے واقع ہونے کی اُمید ہو سکتی ہے ۔ اور اس طور سے ہم کسی قدر صحیح تعریف کے زیادہ قریب ہو جائیں گے۔

(1)

طبعی الہٰام

اس وقت جب کہ قدیمی اعتقاد کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک آسان اور سادہ مسئلہ پیش کیا جاتا ہے۔ جو بوجہ آسان اور سادہ ہونے کے بہت سے اہل الرائے (عقل مند)اصحاب کے دلوں میں جڑ پکڑتا جاتا ہے اور بہت سے دُوسرے لوگ بھی جو ہرگز اہل الرائے کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ اسے دوسروں سے مستعار (مانگا ہوا)لے کر خواہ مخواہ اس پر اپنی فصاحت و بلاغت (خوش بيانی)جھاڑتے رہتے ہیں۔ اور چوں کہ اس میں سچائی کا کچھ جزو شامل ہے ۔ جیسا کہ ایسی صورتوں میں عموماً ہوا کرتا ہے۔ اس لئے وہ نہایت خوف ناک اور مغالط (غلط فہمی)میں ڈالنے والا ہے۔

یہ مسئلہ اس طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ بائبل چند صفحات کا مجموعہ ہے۔ جو فہیم اور معتبر اشخاص نے نیک نیتی سے تحریر کئے ہیں۔ اور جن کے کام میں رُوح الّقدس کی طرف سے الہٰام اور ہدایت دی گئی ۔ مگر یہ ہدایت و الہٰام ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شریف مصنف کی کتاب میں خواہ وہ شاعر ہو یا واعظ پایا جاتا ہے ۔ اور جس کی تعلیم سے لوگوں کے دل میں خدا اور مذہب کی نسبت سچے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کے اعتبار سے ہر ایک عالی قدر شاعر ملہم (الہٰام رکھنا) ہے۔ اور ہر ایک گرم جوش اور صادق آدمی جو اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے کوئی الہٰی پیغام رکھتا ہے۔ وہ ایسا ہی خدائے قادر کا نبی ہے۔ گویا کہ اس کا کلام بھی بائبل کا ایک حصہ ہے ۔ داؤد اور ملٹن شاعر ۔ یسعیاہ اور جان بنین ۔ افلاطون اور مقدس پولُس ایک ہی الہٰی روح کے مختلف ظہور ہیں۔ ’’ بائبل کے مصنف اس آگاہی اور شعور کو جو کسی حد تک سارے بنی آدم کو حاصل ہے۔ اور جو دُنیا کے برابر وسیع اور خدا کی طرح عالمگیر ہے۔ اوروں سے ذرا زیادہ مقدار میں رکھتے ہیں‘‘۔ انبیاء کا الہٰام جس کے ذریعہ سے انہوں اپنےزمانہ آئندہ کی پیش خبری کی۔ وہ فقط باریک نظری تھی۔ جس کے ذریعہ سے انہوں نے اپنے زمانے کے میلانوں (رجحانوں)کو دیکھ کر جان لیا کہ ان سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ جو طاقت انہیں لوگوں کے ضمیروں کو جگانے کے لئے حاصل تھی۔ وہ ان کی زندگی کی پاکیزگی و تقدس کا نتیجہ تھی ۔ جیسا کہ انگلستان کے ایک فصیح البیان(صاف بيان) نے فرانس کے مشہور ملکی انقلاب کی بابت جو گذشتہ صدی کے شروع میں واقع ہوا پیشن گوئی کر دی تھی۔ اسی طرح یسعیاہ نے یہودیوں کی اسیری کی پیشن گوئی کی تھی۔ جیسا کہ آج کل کسی پاک آدمی کا کلام لوگوں کے دلوں پر تاثیر کئے بغیر نہیں رہےگا۔ ویسے ہی زبور نویسوں اور رسولوں کے الفاظ کا بھی حال ہے۔ کیوں کہ وہ خدا کی قربت و نزدیکی میں زندگی بسر کرتے تھے۔

۱۔( الف )

یہ مسئلہ کہاں تک سچ ہے؟

اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس میں بہت کچھ سچائی پائی جاتی ہے۔ یہ سمجھنا سخت غلطی ہو گی کہ الہٰامی آدمی صرف زمانہ گذشتہ ہی میں ہوا کرتے تھے۔ اور کہ الہٰامی نوشتے صرف بائبل ہی میں پائے جاتے ہیں ۔ اور کہ خدا کی روح نے قدیم زمانے کے غیر مسیحی نیک دل معلموں (معلم کی جمع)کو آج اور کل کے نیک دل مسیحیوں کو الہٰام نہیں کیا ۔ تاکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں میں زندگی اور فرض کے متعلق بہتر اور اعلیٰ خیالات پیدا کرے ۔

دعا کی کتاب کے ان الفاظ کو کون رد کر سکتا ہے کہ خدا ہمارےزمانے میں اپنی رُوح ا لقّدس کے الہٰام سے لوگوں کے دل کے خیالوں کو پاک کرتا ہے؟ اور کون اس سے انکار کر سکتا ہے کہ لوتھر اور ٹامس اے کمپس کنگلی اور کارلائل کے پیغامات مذہبی خیالات کی درستی اور ترفیع (بلندی چٹرھنا)کے لئے خدا کی طرف سے الہٰام نہیں کئے گئے تھے؟

لیکن یقینا ً یہ سب باتیں اس اعتقاد کے مخالف نہیں ہیں کہ خدا نے ایک قوم کو دُوسری اقوام کے فائدہ کے لئے خاص طور پر تربیت کیا اور اس نے خاص اور بالا ئی قدرت الہٰام کی نعمت دُنیا کے قدیمی زمانوں میں خاص خاص آدمیوں کو عطا کی۔ تاکہ ان کے ذریعہ سے اپنی ذات اور مشیت(مرضی) کے متعلق بنیادی امور بنی انسان پر کشف (ظاہر)کرے۔جو اس زمانہ کے بعد کی تمام مذہبی تعلیمات کے لئے بطور دُنیا کے رہی ہیں۔ اس لئے آؤ۔ ہم اس امر پر غور کریں کہ ہمارے پاس اس اعتقاد کے لئے کیا دلیل ہے کہ پاک نوشتوں کے مصنفوں کا الہٰام ایک خاص قسم کا بالائی قدرت امر تھا۔ وہ معمولی الہٰام کی نسبت جس کی رہنمائی سے آج کل کے لوگ اچھے خیال سوچتے اور نیک کام کرتے ہیں برتراور مختلف تھا۔

۱۔( ب)

لکھنے والوں کا اپنے الہٰام کی نسبت کیا خیال تھا؟

پاک نوشتوں کے مصنفوں اور دوسرے مصنفوں کے دعویٰ کا مقابلہ کرنے سے پہلے شروع ہی میں یہ سوال کرنا مناسب ہے کہ یہ مصنف خود اس امر کی نسبت کیا خیال رکھتے تھے؟ اس امر کی نسبت جو خود ان کی روحوں میں مخفی(چھُپا) تھا۔ خود ان کی رائے یقیناً قابل قدر ہونی چاہیے۔ اور اس سوال سے ہمیں فوراً ایک نہایت اہم جواب ملتا ہے کہ جب کہ بڑے بڑے شعر ا اور معلمین اور متخلقین کبھی بھی خدا کی طرف سے ملہم(الہٰام رکھنا) ہونے کے دعوے دار نہیں پائے جاتے۔ اور نہ اپنے پیغام کے ساتھ اس قسم کے الفاظ شامل کرتے ہیں کہ ’’ خدا وند یوں فرماتا ہے‘‘۔ بائبل کے کئی ایک صحیفوں کے مصنف ایسا کرتے پائے جاتے ہیں۔

عہدِ عتیق پر نظر کرو۔ پہلے شاہ داؤد کے الفاظ سنو جو اپنے الہٰام کی نسبت فرماتا ہے۔

’’ خداوند کی روح مجھ میں بولی اور اُ س کاکلام میری زبان پر تھا‘‘ (۲ ۔سموئيل ۲:۲۳)۔پھر یسعیاہ کا کلام سنو۔’’خداوند نے جب اس کا ہاتھ مجھ پر

غالب ہوا ۔۔۔۔۔۔مجھ کو يوں فرمايا ‘‘(يسعياہ ۸: ۱۱)۔

پھر یرمیاہ کا بیان سُنو۔ ’’ پیشتر اس کے کہ میں نے تجھے پیٹ میں خلق کیا۔ میں تجھے جانتا تھا۔ اور رحم میں سے تیرے نکلنے سےپہلے میں نے تجھے مخصوص کیا۔ اور قوموں کے لئے تجھے نبی ٹھہرایا ۔ تب میں نے کہا۔ ہائے ۔ خداوند یہوواہ ! دیکھ میں بول نہیں سکتا کیوں کہ لڑکا ہوں۔ پر خداوند نے مجھ کو کہا۔ مت کہہ کہ میں لڑکا ہوں۔ کیوں کہ جن کے پاس میں تجھے بھیجوں گا۔ تو جائے گا۔ اور سب کچھ میں تجھے فرماؤں گا۔ تو کہے گا دیکھ میں نے اپنی باتیں تیرے منہ میں ڈال دیں۔ دیکھ آج کے دن میں نے تجھے قوموں اور بادشاہوں پر اختیار دیا ‘‘ (یرمیاہ۵:۱ ۔۱۰) ۔

عاموس جو ایک غریب چرواہا تھا۔ جب بیت ایل کے کاہنوں نے اُسے چپ رہنے کا حکم دیا تو یو ں کہتا ہے۔ ’’ میں تو نبی نہیں نہ نبی کا بیٹا ہوں ۔ بلکہ چرواہا ہوں۔ اور گولر کے پھولوں کا بٹور نے والا ہوں۔ اور خداوند نے مجھے لیا ۔ جب میں گلّے کے پیچھے پیچھے جاتا تھا۔ اور خداوند نے مجھے فرمایا کہ جا اور میری اُمت اسرائیل سے نبوت کر ‘‘ ( عاموس ۱۵،۱۴:۷ )۔

پھر سُنو حزقی ایل کیا کہتا ہے ۔ کہ’’ روح مجھے اُٹھا کے لے گئی سو میں تلخ دل ہو کے اور روح ميں جوش کھا کے روانہ ہوا کہ خدا وند کا ہاتھ مجھ پر غالب ہو رہا تھا‘‘ (حزقی ایل ۱۴:۳)۔

مگراور مثالیں جمع کرنےکی ضرور ت نہیں ہے۔ ناظرین انبیاء کے صحيفوں ميں سے گذر جائیں ۔ اور وہ خود دیکھ لیں گےکہ کس طرح باربار یہ سننے میں آتے ہیں۔ ’’ خداوند کا کلام ‘‘ ۔’’ خداوند یوں فرماتا ہے‘‘۔ بعض اوقات وہ دیکھے گا۔ کہ ایک نیم رضا پیغمبر ’’ خداوند کے بوجھ ‘‘ کے نیچےآہيں مار رہا ہے۔اور کسی بالائی قدرت ہاتھ کے ذریعہ دھکیلا جا رہاہے۔اور بعض اوقات اپنی خلاف مرضی بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اور بعض اوقات اپنی مرضی بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔جب کہ خدا کی روح قدرت کے ساتھ اس پر اُترتی ہے اور یہ دیکھ کر اسے اس امر میں کچھ بھی شبہ نہ رہے گا کہ قدیمی انبیاء یہ یقین رکھتے تھے کہ ان پر ایک خاص قسم کا اور بالائی قدرت الہٰام نازل ہوتا ہے۔

اب عہدِ جدید پر نظر کرو اورخداوند کے وہ پُرزور الفاظ سنو ۔جن کا ہم حصہ اوّل باب دوم میں ذکرکر چکے ہیں۔ پھر مقدس پولُس کے بیانات کو دیکھو کہ وہ کس طرح لکھتا ہے کہ ’’مجھے انجیل عطا ہوئی ۔ وہ مجھے انسان کی طرف سے نہیں پہنچی اور نہ مجھے سکھائی گئی ۔ بلکہ یسوع مسیح کی طرف سے مجھے اس کا مکاشفہ ہوا‘‘ (گلیتوں ۱۲:۱)۔ پھر دیکھو کیسے ایک صاحب اختیار کی مانند وہ اپنے خطوں کو شروع کرتا ہے ’’ پولُس یسوع مسیح کا ایک رسول ‘‘ گویا کہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا سارا اختیار اسی ایک امر پر منحصر ہے ۔ پھر دیکھو وہ کس طرح قدیمی انبیاء کی طرح دعویٰ کرتا ہے کہ ’’یہ بات ہم تمہیں خدا کے کلام سے کہتے ہیں‘‘۔ اور اپنےالہٰام کے حق میں اس کا یہی خیال ہے۔ اور اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ وہ عہدِ عتیق کے نوشتوں کے متعلق کیا خیال رکھتا ہے۔ تو اس کے خطوط میں ان بے شمار حوالوں کو دیکھو جہاں وہ بڑے ادب و عزت سے انہیں’’خدا کا کلام ‘‘ کہتا ہے۔ پھر ایک اور موقع پر وہ لکھتا ہے کہ ’’خداہو سیع (نبی کے صحیفہ ) میں فرماتا ہے‘‘۔ پھر خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے۔’’ میں ان میں بسوں گا۔ اور ان میں چلوں پھروں گا‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۶:۶)۔ پھر خاص کر اس مقام کو دیکھو ۔ جہاں وہ بڑے وثوق (اعتماد)سے تمطاؤس(تیمتھیس) سے کہتا ہے۔ کہ ’’ تمام نوشتے جو خدا سے الہٰام ہوئے ‘‘۔ جس کا ترجمہ خواہ کسی طرح کرو۔ اس سے کم سے کم یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان نوشتوں کے ایک خاص قسم کے اور بالا ئی فطرت الہٰام کا قائل تھا۔

اور اگر ہم عہدِ جدید کے باقی صحیفوں میں سے بھی گذر جائیں۔ تو ہم معلوم کریں گے کہ کس طرح مختلف نويس ندہ یہ اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ انبیاء اس امر کی ’’جستجو‘‘ کرتے تھےکہ مسيح کی روح جواُن ميں تھی۔ اُس کا مطلب کياتھا (۱۔پطرس۱۱:۱)۔’’اور کہ خدا کے بندے روح القدس کی تحریک سے بولتے تھے‘‘ (۲۔پطرس ۲۱:۱) اور کہ ان باتوں کا ذکر ’’خدا نے دُنیا کے شروع سے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیاہے‘‘ (اعمال ۲۱:۳)۔ کہ ’’ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معروفت کہا تھا وہ پورا ہو‘‘ (متی ۲۲:۱)۔ لیکن اس قسم کی اور مثالیں نقل کرنا فضول ہے۔ کیوں کہ ہرایک پڑھنے والے پر یہ صاف ظاہر ہے کہ پاک نوشتوں کے مصنف یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کو ایک خاص قسم کا الہٰام ہوتا ہے۔ اور خدا کی طرف سے ایک معجزانہ قوت بخشی گئی ہے۔

۱۔( ج)

دیگر اُمور قابل لحاظ

اس طبعی الہٰام کے مسئلہ کے خلاف اور بھی کئی اعتراض ہیں۔ جن پر اس مقام پر بحث کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ان مصنفوں کو ایک خاص قسم کی عجیب باریک بینی کی قوت حاصل ہے۔ جو کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔ یا وہ الہٰی نبوتیں جن کےسبب سے ایک مسیح کی آمد کی عالمگیر انتظاری پیدا ہو گئی یا معجزانہ علم و معرفت جیسے کہ مقدس پولُس کو حاصل تھی۔ ’’ دیکھو میں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ ہم سب سوئیں گے نہیں وغیرہ ‘‘۔ پھر ایک نہایت عجیب بات ہے کہ کس طرح یہ کتابیں جو ایک دوسرے سے بالکل علیٰحدہ ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض کے درمیان صدیوں کا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ پھر بھی سب کی سب مل کر ایک کامل اور جامع کتاب بن جاتی ہیں۔ گویا کہ کوئی استاد اس تمام معاملہ کا انتظام و بندوبست کر رہا تھا۔ اور بھی کئی ایک دلائل ہیں۔ جن کا میں اس کتاب کے پہلے حصہ میں ذکر کر چکا ہوں۔ جن سے اس کتاب کا الہٰامی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مگر ان کے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ میرے خیال میں جو کچھ لکھا گیا ہے ۔ وہ اس امر کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ ’’ طبعی یا فطرتی الہٰام ‘‘کا مسئلہ ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ جب تک کہ ہم بائبل کی خاص خاص باتوں کو جو اسے دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ بالکل نظرانداز نہ کر دیں۔

(2)

لفظی الہٰام

جو دلائل ہم نے اُوپر ’’ فطرتی الہٰام ‘‘ کے مسئلہ کی تردید(انکار) میں بیان کی ہیں ۔ وہی دلائل اکثر بائبل کے ’’لفظی الہٰام ‘‘ کی تائید میں پیش کی جا یا کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کے مطابق خدا پاک نوشتوں کا مصنف سمجھا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی معنوں میں جن میں مثلاً ملن شاعر کو اس کی مشہور نظموں کا مصنف کہہ سکتے ہیں۔ اس کا ہر ایک فقرہ اسی کا لکھایا ہوا ہے۔ اور اس کے لکھنے والے محض بطور قلم کے تھے۔ جس کا چلانے والا رُوح القّدس تھا۔ اور ان کا اس کام میں اس سے بڑھ کر اور کوئی حصہ نہ تھا۔ اس لئے بائبل کلیتاً(پورے طور پر )الہٰی الاصل ہے۔ اور لفظی طور پر اس ہر ایک فقرہ اور سطر خدا کی تصنیف کی ہوئی ہے۔ اس مسئلے کے صحیح طور پر بیان کرنے کے لئے میں اس کے چند مشہور مویّدوں (حمايت کرنے والے)کے الفاظ بجنسہ نقل کرتا ہوں۔ پر وفیسر گوسن صاحب لکھتے ہیں۔

’’ خدا نے نوشتوں کو دیا اور ان کی زبان پر بھی اپنی مہر کر دی ہے‘‘۔

ڈین برگن لکھتے ہیں۔

’’ بائبل سوائے اس کے نہیں کہ وہ اس کی جو تخت پر بیٹھا ہے۔ آواز ہے ۔ اس کا ہر ایک صحیفہ ، ہر ایک باب، ہر ایک آیت ، ہر ایک کلمہ ، ہر ایک حرف اس قادر مطلق کی اپنی آواز ہے۔ اور اس لئے مطلق بے نقص اور بے خطا ہے‘‘۔

ایک اور مصنف (مسٹربیلی )لکھتا ہے

’’ اور اس کا ہر ایک کلمہ ایسا ہے جیسا کہ اس صورت میں ہوتا ۔ اگر خدا بغیر کسی انسانی وسیلہ کے آسمان سے کلام کرتا ‘‘۔

حاصل کلام اس مضمون پر عام خیال یہ ہے۔ کہ الہٰامی نويس ندو(لکھنے والے)نے خدا کے بتانے سے ايسی تاريخيں لکھ ديں جو سہوو خطا (غلطی و خطا)سے مبرا (پاک)ہیں۔ اور جن کے تیار کرنے میں انہیں اور کسی قسم کے نوشتوں سے مدد لینے کی ضرور ت نہ تھی۔

شايد ہمارے ناظرین میں سے کوئی کہے کہ ’’ وہ پر زور کلمات جو ہمارے خداوند کے اقوال اور بائبل کے بعض مصنفوں کی تحریرات سے نقل کئے گئے ہیں۔ انہیں پڑھ کر مجھے یقین ہوتا ہے کہ اغلباً لفظی الہٰام کا مسئلہ سچ ہے‘‘۔ خیر صاحب آپ کو يہ بھی معلوم رہے کہ بہت سے اہل الرۓ(عقل مند)اس امر ميں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگرچہ وہ ان دلائل کی بنا پر بائبل کے الہٰامی ہونے کے قائل ہیں۔ تاہم انہوں نے سطحی باتوں کو چھوڑ کر ذرا آگے بھی جستجو و تحقیقات کی ہے۔ تا کہ اس امر کو معلوم کریں کہ خدا کے الہٰام کے مفہوم میں کون کونسی باتيں داخل ہيں پر وہ پاک نوشتوںکا امتحان کرنے کے بعد ہرگز یہ یقين نہیں کر سکتے کہ اس لفظ کے مفہوم میں لفظی الہٰام بھی شامل ہے۔

مثلاً وہ تواریخ کی کتابوں میں صریح نشانات (صاف نشان)اس امر کے پاتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ لکھنے والے خدا کے لکھانے سے لکھتے ۔ انہوں نے اپنے دماغوں سے کام لیا۔ اور قدیمی تاریخوں اور رواتوں اور سرکاری کا غذات میں ان واقعات کی جستجو اور تلاش کی۔ ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ باوجود اس ساری تحقیقات و جستجو کے ان کے بیانات میں بہت کچھ نقص و اختلاف پایا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ انجیل نویس اگر چہ قصوں کے نفس ِمضمون میں باہم اتفاق رکھتے ہیں۔ تاہم الفاظ کی بابت ایسی احتیاط کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ مثلاً جیسے کہ صلیب کے اُوپرکے نوشتہ کی بابت جہاں کہ دو انجیل نویس بھی باہم متفق نہیں ہیں۔ نیز وہ دیکھتے ہیں کہ خود مقدس پولس رسول اس قسم کے الفاظ کے استعمال کرتا ہے۔ کہ ’’ میں ایک احمق کی طرح کلام کرتا ہوں‘‘۔ جو اگرچہ ایک انسانی مصنف کے لئے ایسا کہنا ایک بالکل طبعی بات ہے۔ مگر روح القدس کی زبانی ایسے الفاظ لکھائے جانے کی مشکل سے اُمید ہو سکتی ہے۔ وہ بعض زبوروں میں اس قسم کے الفاظ پاتے ہیں۔ جو ہمارے خداوند کی زبان سے بالکل ناموزوں معلوم ہوتے ۔

وہ اس قسم کی باتوں سے جو بائبل میں پائی جاتی ہیں۔ اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔ اور اگرچہ انہیں لفظی الہٰام پر یقین کرنے میں کچھ بھی اعتراض نہ ہوتا۔ تاہم وہ اس امر کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں کو انسانی مصنفوں کے ذمہ لگائیں۔ بجائے اس کے کہ خدا کو اُن کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اوران دونوں باتوں میں سے ایک ضرورہی ماننی پڑے گی۔

اور جب ایک شخص اس طور پر غور و فکر کرنے لگتا ہے۔ تو اسے اس لفظی الہٰام کے مسئلے کے خلاف ہر طرف سے ثبوت ملنے لگتے ہیں وہ دیکھتا ہے کہ اگر خدا لفظی طور پر اس کا مصنف سمجھا جائے۔ ٹھیک انہی معنوں میں جس میں ملٹن یا جان بنن اپنی تصنیفات کے مصنف ہیں۔ تو بائبل کی عبارت اور زبان ہمیشہ اور ہر حالت میں بے نقص کامل اور یکساں ہونی چاہیے۔ حالانکہ کہ ایسا اکثر دیکھنے میں نہیں آتا ۔ علاوہ بریں ان میں مصنفوں کی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جو آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح عہد ِجدید کے صحیفوں کے لکھنے والے بلکہ خود خداوند عہد ِعتیق میں سے آزادی کے ساتھ آیات کو نقل کرتےہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ زبان میں نہیں بلکہ اندرونی خیالات اور مضامین میں اس الہٰام کے دیکھنے کے عادی تھے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ہماری بائبل میں بہت ساحصہ قدیمی نوشتوں تاریخی اور دیگر کاغذات بھی شامل ہے۔ اور اس لئے ان کے لئے اس امر پر یقین لانا ایک مشکل امر ہے کہ خدا ان قدیمی گم شدہ نوشتوں کے ’’ ہر ایک فقرہ ہر ایک لفظ اور ہر ایک کلمہ اور ہر ایک حرف ‘‘ کا بھی لفظی طور پر مصنف سمجھا جائے۔

اور وہ اس قسم کا سوال کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ پاک نوشتوں کے فقرات اور الفاظ اور حروف کے لفظی طور پر لکھائے جانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ خدا ان تمام صدیوں کے درمیان بھی اپنی معجزانہ قدرت کے ساتھ ان کے لفظ بلفظ صحیح طور پر نقل کرنے والوں سے لکھوانے کا بھی بندوبست نہ کر دے۔ مگر بائبل کے اصلاح شدہ ترجمہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہو گیا ہو گا۔ جو بات کہ علماء کو بہت پہلے سے معلوم تھی کہ پاک نوشتوں کے بعض الفاظ کے متعلق اکثر اوقات ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ دراصل صحیح لفظ کیا ہے۔ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا کہ یہ تو مانیں کہ ہزار ہا سال ہوئے خدا نے یہ تو اپنی قدرت کے ذریعہ انتظام کر دیا کہ پاک نوشتوں کا ہر ایک کلمہ خدا ہی کا لکھوایا ہواہو۔ مگر ساتھ ہی یہ انتظام نہ کیا کہ وہ ہر زمانے میں بالکل محفوظ بھی رہی۔ جس سے اس معجزے کا اصلی مقصد و مدعا بالکل فوت(ختم) ہوگیا۔

مگر اس مسئلہ کی تردید(رّد کرنا) میں اور زیادہ قوت خرچ کرنا محض تصنیع اوقات ہے وہ زمانہ گذر گیا ۔جب کہ ایسا کرنے کی ضرورت ہوتی۔ لفظی الہٰام کی نسبت اب سب تعلیم یا فتہ اشخاص یقین کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا مسئلہ ہے۔ جس کا واقعات سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اور اب دُنیا کے دیگر پرانے مردود ۔ دماغی خبطوں(سودائی) کے ساتھ وہ بھی چمگادڑوں اور چھچھوندروں کا حصہ ہے۔

اب ہم نےاپنی تحقیقات میں پہلے قدم پر یہ دریافت کر لیا ہے۔ کہ خدا نے پاک نوشتوں کو اس طور پر الہٰام نہیں دیا۔ جیسا کہ لفظی الہٰام کے ماننے والے بیان کرتے ہیں۔ مگر برخلاف اس کے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس نے اس طور پر بھی الہٰام نہیں کیا ۔ جس طور پر کہ وہ آج کل بھی نیک لوگوں کو الہٰام بخشتا ہے۔ اس لئے دونوں مبالغہ آميز (بڑھا چڑھا کر)حدود کو چھوڑ کر اور اس طور سے اپنی تحقیقات کے دائرہ کو محدود کر کے ہم اس امر کے دریافت کرنے کی کوشش کریں گے کہ بائبل کے الہٰام کے مفہوم میں کیا کیا باتیں شامل ہیں تاکہ اس بارے میں ہمارے خیالات و تصورات زیادہ صاف اور واضع ہو جائیں۔

باب سوم

انسانی اور الہٰی

(1)

الہٰام میں انسانی عنصر

جو شخص صدق دِل (سچے دل)سے بائبل کا مطالعہ کرے گا۔ وہ ضرور اس میں انسانی عنصر یا پہلو بھی پائے گا۔ اگر وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرے گا۔ تو بائبل اس کے لئے ایک عقدہ لاینحل(مشکل جو حل نہ ہو) یا ایک گورکھ دہندہ (مشکل معاملہ)بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ اس امر کو ادب و عزت کے ساتھ تسلیم کرے گا۔ تو بائبل بالکل صاف اور زیادہ خوبصورت معلوم ہو گی۔ الہٰام خدا کی روح اور انسان کی روح کے اتصال (ملاپ )کا نتيجہ ہےيا شايد زيادہ صاف الفاظ ميں يوں کہنا چاہيے کہ خدا رُوح القدس اور انسانی ذہن اور ضمیر کے اتصال کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں اجزاء میں سے ایک سے بھی قطع نظر(نظر انداز) نہیں ہو سکتی۔ اور نہ جیسا کہ ہم گذشتہ با ب میں دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو پر حد سے بڑھ کر زور دیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس صورت میں گڑبڑمچنے اور پریشانی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ ’’ آدمی خدا کی طرف سے روح القدس کی تحریک کے سبب بولتے تھے‘‘۔ تو ہمیں اس سچائی کے دونوں پہلوؤں میں امتیاز رکھنا چاہیے۔

۱۔ وہ روح القد س سے تحریک کئے جاتے تھے۔

۲۔ وہ محض آدمی تھے۔

وہ ایسے ہی آدمی تھے جیسے کہ ہم ہیں۔ ہماری ہی کمزوریاں اور ہمارے جیسے جذبات اور تعصبات (بے جا حمايت)رکھتے تھے۔ اگر چہ روح القدس کے اثر سے وہ بہت کچھ پاک صاف اور عالی مزاج ہو گئے تھے۔ ان آدمیوں میں ان کے مزاج اور طور و اطوار کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔کوئی عالم و تعلیم یافتہ تھا۔ کوئی اس سے بے بہرہ ( بےخبر)تھا۔ ہرایک ایک اپنے اپنے پہلو سے بیرونی معاملات پر نظر کرتا تھا۔ ہر ایک دوسروں سے اثرات اور تجربات اور تریبتِ زندگی کے لحاظ سے مختلف تھا۔ ان کے الہٰامی ہونے سے طبعی قواعد کا معرض التواء(ٹالنا) میں پڑھ جانا یا بے کار ہونا لازم نہیں آتا ۔ اور نہ اس سے ان کی شخصیت یا تعلیم و خصلت (فطرت)کے اختلافات زا ئل (دُور)ہو گئے۔ جو صاحب ِعلم تھا۔ اس کی تحر یر سے علمیت ظاہرہوتی ہے ۔جو چرواہا یا مچھوا تھا۔ وہ اپنی تربیت و عادت کا اظہار کرتا ہے۔ ’’ شاعرشاعرہی رہا۔ اور فلسفی فلسفی ہی رہا۔ اور مورّخ موّرخ(تاريخ لکھنے والا) ہی رہا۔ ہر ایک کا طبعی خاصہ اور طور و طریق جوں کا توں ہی رہا۔ اور اس لئے ہر ایک ہی اس کےفن کے قوانین کے مطابق شرح کرنی چاہیے‘‘۔

ایسا کہنے سے بائبل کی کسی طرح سے ہتک و بے عزتی(بے حرمتی، گستاخی) نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی کہے۔ کہ زمین کا کرٔہ ٹھیک مدور (گول)نہیں ہے۔ تو اس سے اس کی عزت کو کیا داغ لگ جائے گا۔ بلکہ جب ہم ایسا کہتے ہیں۔ تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم ایک امر واقعی کابیان کرتے ہیں۔ اس کی بابت ایک سچی بات کا اظہار کرتے ہیں۔ تا کہ وہ زیادہ درستی سے سمجھی جا سکے۔ ایک زمانہ میں یہ خیال کیا جاتا تھا۔ کہ اس قسم کے بیانات بائبل کی شان کے شایان نہیں ہیں۔

اور جو لوگ الہٰام کے متعلق مسائل گھڑا کرتے تھے۔ بغیر اس کے کہ ان کا واقعات کی رو سے امتحان و آزمائش کر لیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بائبل خالصاً ایک الہٰی چيز ہے۔ اور انسانی نويس ندہ(لکھنے والے) محض ایک کل کے طور پر تھا۔ اور اس کی شخصیت کو اس کے کام میں کچھ بھی دخل نہیں۔ وہ خدا کے ہاتھوں میں محض ایک قلم کے طورپر تھا ۔ جو وہ لکھاتا جاتا تھا۔ یہ لکھتا جاتا تھا۔ یا وہ روح القدس کے ہاتھو ں میں بطور ایک ساز موسیقی کے تھا۔ لیکن جیسا ہم اُوپر ذکر کر چکے ۔ جب زیادہ توجہ سے بائبل کا مطالعہ کیا گیا۔ تو ایسے ایسے اُمور ظاہر ہوئے ۔ جو اس قسم کے خیالات کے بالکل خلاف تھے۔ تب یہ دریافت ہوا کہ بہت سی باتوں میں یہ الہٰامی کتابیں عام غیر الہٰامی کتابوں کی مانند ہیں۔ ان کی زبان اور عبارت ہر حالت میں اعلیٰ درجہ کی نہیں۔ ہر ایک مصنف کا طرز ِتحریر اور طریق ِخیال الگ الگ ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک عام مصنفوں کی طرح اپنے اپنے عیوب(نقص) اور خوبیاں رکھتا ہے۔ موّرخ کو اپنی کتاب کی تصنیف میں وہی طریق اختیار کرنا پڑاہو گا۔ جو آج کل کے تاریخ نویسوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اسے قدیم نوشتوں سے جو پہلے سے موجود تھے۔ اپنا مضمون اکٹھا کرنا پڑا ۔ اور کچھ مصالحہ اپنے مشاہدہ اور حافظہ سے اور اپنے آس پاس کے لوگوں سے حاصل کیا۔ ان کی تحریرات میں ان کے عہد کے خیالات کا رنگ پایا جاتا ہے۔ مصنف کی علمی واقفیت بھی اس کے ہمعصروں(ہم زمانہ) کے دائرہ علم سے محدود(کم) معلوم ہوتی ہے۔ بعض نقاد(تنقيد کرنے والے) تویہ کہنے کی بھی جرات کرتے ہیں کہ وہ ان میں انسانی تعصبات اور جذبات کے بھی نشانات پاتے ہیں۔ مثلاً جب مقدس پولُس ایک یونانی شاعر کا قول نقل کرتے ہوئے۔ سارے اہل کریت کو ’’جھوٹے اور موذی جانور ‘‘ ( طیطس ۱: ۱۲)قرار دے دیتا ہے۔ یا جب کہ زبور نویس اپنے ظالموں کے خلاف غصہ میں آکر چلا اُٹھتا ہے۔ ’’ اے خداان کے دانت ان کے منہ میں توڑڈال ‘‘۔ اور پھر ۔ ’’ اس کے بچے سدا آوارہ رہیں اور بھیک مانگیں ۔ وہ اپنے ویرانوں سے خوراک ڈھونڈ تے پھیریں‘‘۔ (زبور ۱۲:۱۰۹)۔

ان باتوں سے قطع نظر کر کے بھی بائبل میں انسانی عنصر بڑی صفائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس کے ایک بڑے حصہ میں ایسے ایسے حسات اور جذبات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ جو محض انسانی ہیں۔ یعنی تنہائی اور غم ۔ خوف و رجا۔ شک اور تلخ کلامی ۔ ہم اس سب کو کلام ِاللہ پکارتےہیں۔ اور ایک طرح سے یہ کہنا صحیح بھی ہے۔ کیوں کہ یہ سب خدا کی طرف سے الہٰام ہوا ہے۔ مگر ہم کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کا بہت بڑا حصہ انسان کا کلام ہے جیسے کہ بچہ اپنے باپ کو پکارتا ہے۔ امداد کے لئے دعائیں۔ شک و شبہات اور اندیکھے خدا کےلئے روح کی پرواز ۔ یہ سب حسّات ہمارے فطرتی حسّات کی مانند ہیں۔ اور ہم انہیں ہمیشہ محسوس کرتے رہتے ہیں۔ کیا زبور کی کتاب کی خوبصورتی زیادہ تر اس امر میں نہیں ہے کہ وہ بڑی درستی کے ساتھ انہی باتوں کو بیان کرتی ہے۔ جو ہم خود بار بار اپنے اندر محسوس کرتے رہتے ہیں؟ ’’ اس لئے بائبل کے انسانی پہلو کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرنا محض اس لئے کہ اس کے کلام ہونے کا خیال آمیزش (ملاوٹ)سے خالی نہ رہے۔ ایسی ہی بڑی حماقت (بے وقوفی)ہو گی۔ جیسے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ باپ اور بچہ کی گفتگو کے لکھنے کا سب سے بہتر طریق یہ ہے کہ اس میں سے بچہ کے اقوال و خیالات و حسّات کو بالکل چھوڑ دیا جائے‘‘۔

خدا اسی طریق سے روح ِانسانی کو تعلیم دیا کرتا ہے۔ اگر صحیح پہلو سے دیکھیں ۔ تو معلوم ہوگا کہ بائبل میں انسانی پہلو کا ہونا بجائے ۔ اس کی عزت کو کم کرنے کے اسے اور بھی زیادہ بنی آدم کے لیے ایک نہایت مناسب مذہبی کتاب ٹھہراتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو۔ تو بھی اس امر کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں ۔ جب کبھی ہم اس سے قطع نظر (نظر چُرانا)کرنے یا منکر(انکاری)ہونے کی کوشش کرتے۔ یا خدا کی تعلیم کی سچائی کو اس امر پر منحصر کرتے ہیں کہ اس میں انسانی پہلو نہیں ہے۔ تو اس سے ہم اپنے مذہب کے مخالفوں کو ایک بہت بڑا موقعہ حملہ کرنے کا دیتےہیں۔

(2)

انسانی عنصر کی قدروقیمت

ہم جانتے ہیں کہ خدا اگر چاہے تو بغیر وسیلہ انسانی ذہن یا ہاتھ کے اپنا الہٰام عطا کر سکتا ہے۔ وہ اگر چاہتا تو ہر روز آسمان سے اپنی سچائیاں بیان کرد يتا یا فرشتوں کے ذریعہ بھیج دیتا۔ یا آسمان پر موٹے موٹے حرفوں میں منقش(لکھنا) کر دیتا ۔ یا پہاڑوں پر ایسے طور سے لکھ دیتا ۔ جو کبھی محو نہ ہو سکتیں ۔ اس طور سے وہ ہر ایک طرح کے بگاڑ یا خرابی سے بالکل محفوظ رہتیں ۔ اور اس طرح سے وہ ساری دُنیا میں ایک ہی دفعہ شائع کی جاسکتیں۔ خدا کے لئے ان باتوں میں سے کسی بات کو کرنا ایسا ہی آسان تھا۔ جیسا کہ یہ امر کہ سچائی کو رفتہ رفتہ اور بعض اوقات دھندلے طور سے ناکامل انسانی ذہنوں کے ذریعہ سے ظاہر کرے۔

مگر کیا اس قسم کا مکاشفہ انسان کی ضرورتوں کے لئے کافی ہوتا ؟ اگرچہ ہم بہت کچھ نہیں جانتے ۔ مگر یقناً اتنا تو کہہ سکتے ہیں۔ کہ بہرصورت خدا کا موجودہ طریق عمل سب سے بہتر ہے ۔ فی الواقعہ ہم یہ بھی پوچھ سکتےہیں۔

کہ اور کون سی تجویز ایسی ہے۔ جو معترض(اعتراض کرنے والا) پیش کر سکتا ہے۔ ہر ایک پیغام جو خدا کی طرف سے انسان کو ملے ۔ ضرور ہے کہ وہ انسانی قواء (طاقت)کے مناسب حال ہو۔ الہٰی باتوں کو انسان تب ہی سمجھ سکتا ہے جب کہ وہ انسانی فطرت کے قوانین کے مطابق اس کے سامنے پیش کی جائیں۔ اس لئے اگر ایک پہلے سے گھڑا ہوا الہٰام و مکاشفہ ایک پہلے سے گھڑی ہوئی زبان میں آسمان سے نازل کیا جائے۔ تو ہم اس کو بنی انسان کے ساتھ خط و کتابت کرنے کا ایک مناسب اور طبعی ذریعہ نہیں کہیں گے ۔ بہر صورت یہ تو ظاہر ہے کہ خد انے کسی ایسے طریق کو استعمال نہیں کیا ہے۔ اس نے انسانی ذہنوں کو اپنی سچائی کے ظاہر کرنے کا وسیلہ ٹھہرایا ہے۔ کیوں کہ اسی طریق سے انسانی ذہن جن کے لئے وہ نازل کی گئی ۔ اسے بہتر طور سے حاصل کر سکتے تھے۔ اس نے ان آدمیوں کو جو ہر ایک ملک اور زمانے سے بہت مناسبت رکھتے تھے۔ استعمال کیا۔ اس نے مختلف خصائل(عادتيں) اور طبائع(طبعيت کی جمع) والے آدمیوں کو الہٰام کیا ۔ اس نے مختلف خیال کے آدمیوں کو منتخب کیا۔ تاکہ اپنی سچائی کے مختلف پہلوؤں کو لوگوں پر ظاہر کرے ۔ اور اس طور سے ایک دوسرے کی درستی اور تکمیل کرے۔یوحنا جو تنہائی پسند اور تفکرومراقبہ(دل سے خدا کی طرف دھيان)کا عادی تھا۔ وہ دوسرے انجیل نویسوں کی نسبت اشیا ء کو مختلف رنگ میں دیکھتا ہے۔ آتش مزاج اور سرگرم پطرس کی تنگ خیالی اور نیم مہذب و ناتر بیت یا فتہ دماغ کی تکمیل کے لئے ایک وسیع خیال اور منطقی(دليل دينے والا) پولُس کی ضرورت تھی۔ جو مسیحی دین کی عالمگیر قدرت و وسعت (گہرائی)کا اندازہ لگانے اور اس قول کی حقیقت سمجھنے کی کہ سب لوگ جو ایمان رکھتے ہیں۔ خدا کے نزدیک مقبول ہیں۔ قابلیت رکھتا تھا۔ حالانکہ مقدس یعقوب جو ایک یہودی طرز کا مقد س آدمی تھا۔ اور ہمیشہ زندگی کے عملی پہلو پر نظر رکھتا تھا۔ اس بات کو تاڑ گیا کہ کس طرح نجات بالا یمان کی تعلیم کے متعلق بھی بآسانی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ گویا ایمان عمل سے زیادہ اہم ضروری ہے اور اس لئے اس نے یک دوسرے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی طرح دین و مذہب کی بنیادی سچائی پر زور دیا ۔ کہ محض نیکو کاری ہی میں انسان کی شرافت ہے۔

اسی طرح الہٰی روح انسانوں کی زندگی کے مختلف اہم موقعوں پر ان کے پاس آئی ۔ وہ ان کے پاس ان کی خو شی اور غم اور رشک و شبہ اور مایوسی ۔ ایمان کی مضبوطی اور آزمائشوں کے جدوجہد کے موقعہ پر آئی۔ اوراس نے انسانی روح کے ذریعے اس کی مختلف حالتوں میں عالمگیر انسانی روح کے ساتھ کلام کیا جو اس کے سوا اور کسی طرح ہرگز نہ کر سکتی۔ اس نے یسعیاہ کے پر جوش غضب اور یرمیاہ کی غم ناک آہ زاری کے ذریعہ جو وہ اپنی شریر قوم کی نسبت کرتے تھے۔ کلام کیا اسی نے قدیم زمانے کے زبور نویسوں کے دل کو چھُوا ۔ اور ہم ان کی کشمکش کا حال سُنتے ہیں ۔ جو وہ اپنے غموں اور اپنے گناہوں کے ساتھ کرتے تھے۔ اور نیز ان کی بچوں کی فریاد وپکار۔ جو ان کےدل سے زندہ خدا کی طرف اُٹھتی تھی۔ ان کے نوشتوں میں سنائی دیتی ہے۔ اسی نے ہوسیع کے دل میں اپنا الہٰام ڈالا ۔ جو اپنی سب سے درد ناک مصیبت پر جو کسی انسان پر پڑنی ممکن ہے۔ یعنی اپنی بیوی کی بے وفائی پر نوحہ زاری (رونا ۔ماتم کرنا)کرتا ہے۔ اور اس کے غم اور اس غیر تبدیل’’ محبت کو اس امر کے ظاہر کرنے کا ذریعہ بنا دیا۔ کہ خداوند یہوواہ بھی اپنی نافرمانبردار اُمت کے لئے اسی طرح افسوس کرتا ہے۔

اسی لئے خدا نے اس طور سے بائبل کو الہٰام کیا ۔ اس کو اپنے نبیوں کی علمیت یا صرف و نحو کے(گرأمر) قاعدوں کی پابندی کی اتنی پر واہ نہ تھی۔ اس کے مقصد کے لئے دھڑ کنے والا دل ۔ تیز آنکھ۔ اور پُر عقیدت دل ۔ جو خدا اور انسان کی الفت و محبت سے بھرا ہو۔ زیادہ کار آمد تھےبہ نسبت اس کے تاریخی واقعات کی ذرا ذرا سی باریکیوں یا علمی امور میں سہوو غلطی سے مبر ا (پاک)ہونے کا خیال رکھتا ۔ بھلا یہ ذرا ذرا سی مردہ باتیں کیا حقیقت رکھتی تھیں۔ بمقابلہ اس ہمدردی کے جو ایک انسان کے دل میں دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ۔ اور جس سے ایک شخص کے کلام سے دوسروں کے دل میں جوش و تحریک پیدا ہو جاتی ہے۔

اے مردو اور عورتو۔ اگر تم پاک نوشتوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہو۔ تو اس امر کو یقین جانو ۔ خدا انسانی تماشاگاہ کے پيچھے کھڑا ہواپتليوں کا ناچ نہيں نچارہاتم بائبل ميں انسانی عنصر کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔ تم نقص اور ناکاملیت (نا مکمل)اور محدودیت(کمی) کے خیال سے ڈرتے ہو ۔ تم انسانی جذبات اور حسات کے تسلیم کرنے سے خوف کھاتے ہو۔ کیوں کہ یہ باتیں تمہارے ذہن کے تصور سے جو تم الہٰام کی نسبت رکھتے ہو ۔ ٹکراتے ہیں مت ڈرو ’’ خدا کا نُور اپنی آسمانی پاکیزگی کو انسانی صورتوں میں منعکس (ظاہر)ہونے سے ہرگز نہیں کھو بیٹھتا ۔ بر خلاف اس کے انسان ایسی ہمدرد ی کو محسوس کرنے سے جو اس کے سے جذبات اور حسّات کی موجودگی کو بتاتی ہے۔ بہت کچھ فائدہ حاصل کرتا ہے ‘‘ ۔ یقیناً خدا کی تدابیر ہماری تدابیر سے زیادہ معقول(مناسب) ہیں۔بھلا اس سے بڑھ کر کون سا قدرتی طریق ہے۔ جس کے مطابق انسان آسمان کی طرف سے تعلیم حاصل کرتا ؟ اس سے بڑھ کر اور کون سا طریق ہے۔ جس سے بائبل ایسی کتاب بن جاتی جو سارے بنی انسان کے لائق ہو ؟

(3)

انسانی عنصر کو فراموش کرنے کی خرابی

ایک قدیمی یہودی ربی کا قول ہے۔ کہ

’’ شریعت بنی انسان کی زبان میں بولتی ہے‘‘۔

اور بائبل کے حق میں بہت بہتر ہوتا۔ اگر یہودی ربی اور ان کے مسیحی پیرو اس بات کو ہمیشہ مدّ نظر رکھتے ۔ کیوں کہ اس قسم کے تراشے ہوئے مسئلوں سے جو عرصہ سے مروج (رائج)چلے آتے ہیں بائبل کے فطرتِ انسانی کے مطابق ہونے کی خوبی نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔

انسانی روح کی آواز اس کی مختلف حالتوں میں جو بائبل کے صحیفوں میں سنائی دیتی ہے۔ اگر ہم اسے فی الحقیقت اپنی ہی جیسی روح انسانی کی آواز سمجھیں۔ تو وہ کیسی ہی دل پر اثر کرنے والی ہو گی۔ اور کیسی دلچسپی کے ساتھ ہم لوگوں کو اپنی آزمائشوں اور امتحانوں کے ساتھ جدوجہد کرنے یا زندگی کے اسرار کی بابت سوال کرتے دیکھیں گے۔ اگر ہم کو یہ معلوم ہو گا کہ یہ لوگ خاص کروہ جن کا ذکر ہم عہد ِعتیق میں پڑھتے ہیں۔ ہمارے جیسے معمولی ناکاہل انسان ہیں۔ جن میں خدا کا بڑا عظیم الشان کام جس سے وہ لوگ کے چال چلن اور خصائل (عادتيں)کو درجہ بدرجہ نشوونما دے کر کمال کی طرف لے جاتا ہے۔ جاری ہو رہا ہے۔ اور یہ کہ آدمی رفتہ رفتہ رُوح القدّس سے نور حاصل کر کے شرافت کے اعلیٰ مدارج کی طرف ترقی کر رہےہیں۔ اور اسی کے اثر کے نیچے یہ لوگ اپنے اپنےخیالات اور اُمنگوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ نہ یہ کہ فونوگراف (ايک آلہ جس کے ذريعے آواز قلم بند ہوتی ہے)کی طرح عالم بالا کے سکھائے ہوئے الفاظ کو دہرارہے ہیں۔

جب دُنیا کے تاریک زمانوں میں پیشتراس کے کہ کامل(مکمل) مکاشفہ حاصل ہوا۔ ایک خدا شناس آدمی ایک مایوسی و اضطراب (بے چينی)کے دریا میں پڑ جاتا ہے۔ اور اس حالت میں قبر کو ساری چیز وں کا انجام سمجھنے لگتا ہے۔ تو ہمیں یہ کوئی تعجب (حيران)کی بات معلوم نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ بالکل انسانی فطرت کے تقاضا کے مطابق ہے۔ اور اگر ہمیں اس بات پر تعجب ہو کہ کیوں اس کے اس قسم کے الفاظ کاٹ نہیں ڈالے گئے پيشتراس کے کہ اس کی تحریرات بائبل میں شامل کی گئیں۔ تو ہم کہیں گے کہ بلا شبہ خدا کو یہی منظور تھا۔ کیوں کہ اس کا مقصد اس طور سے اچھی طرح پورا ہوتا ۔ اور جب ہم اور الفاظ دیکھتے ہیں۔ جو جنگ و جدال کے زمانوںمیں لکھے گئے۔ جو مسیح کی روح کے ساتھ محبت و ملائمت کے لحاظ سے میل نہیں کھاتے ۔ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے آدمی ہی تھے۔ مگر ایسے آدمی جو اگرچہ الہٰام یافتہ تھے۔ تاہم انہیں ابھی تک پورے طور پر تعلیم حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اور نہ ان کے طبعی جذبات ابھی تک پورے طور پر روح القدس کی تاثیر سے مغلوب اور پاک صاف ہوئے تھے۔ ہمیں تاریخ کے اور واقعات کی طرح ان کو بھی ان کی طبعی حیثیت کے موافق سمجھنا چاہیے۔ گو ہم ان کی دعاؤں کو مسیحی روح کے موافق نہیں سمجھتے ۔ مگر باوجود اس کے بھی ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا پرست آدمی تھے۔ اور ہم ان سے فرائض کی بجا آوری کے متعلق عمدہ عمدہ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ وہ اس معاملہ کی پیروی میں جسے وہ درست اور خدا کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھے۔

ہم اپنی ہمدردی کے ذریعے ان کے حسّات کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ہم ان کی تاریخ کو اس کے طبعی(فطری) معنوں کے مطابق پڑھتے ہیں۔ مگر جب ہم تاریخِ بائبل میں کوئی واقعہ پڑھتے ہیں۔ گویا کہ وہ دنیا کے تاریک زمانوں میں ہی کیوں نہ واقع ہوا ہو۔ تو ہمارے پہلے ہی سے ٹھانے ہوئے خیالات کے سبب جو ہم بائبل کی ٹھہرا چکے ہیں۔ اس واقعہ کی طبعی صورت پہلے ہی سے اس میں خارج کر دی جاتی ہے۔ صرف اس لئے کہ وہ واقع بائبل میں ہے۔ ہم ان لوگوں کو جن کا اس میں ذکر ہے۔ معمولی قسم کے حقیقی آدمی نہیں سمجھتے ۔ہم اس امر(فعل) کو بھول جاتے ہیں کہ خدا نے ناکامل آدمیوں کو اپنی تعلیم کا ذریعہ ٹھہرایا۔ اور وہ آدمی ایک ہی دفعہ چھلانگ مار کر اپنی روحانی تعلیم کی چوٹی تک نہیں پہنچ گئے ۔ اور اس لئے بجائے اس کے کہ ہم ان کے غضب ناک ہو کر انتقام کے لئے پکار اُ ٹھنے کے ساتھ ہمدردی کریں۔ بجائے اس کے کہ ہم ان کی اس فریاد وپکار کو ایسا ہی سمجھیں جیسے کہ ایک بچہ چوٹ کھا کر چلا اُٹھتا ہے۔ اور اپنے باپ کے پاس بھاگا جاتا ہے۔ ہم اس کو ’’ کلام الہٰی ‘‘ پر ایک دھبہ سمجھنے لگتے ہیں۔

ہمارے لئے اس امر کو سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح قوی مزاج اور غضب ناک محب وطن ، جو خدا اور وطن کےلئے خوشی سے اپنی جان دے دیتے ۔ اپنی چاروں طرف بے رحمی اور ظلم کا دُور دُورہ دیکھ کر سخت جوش و غضب کی حالت میں اس قسم کی انتقا م و کینہ آمیز دعائیں لکھ گئے۔ جیسی کہ ہم زبور کی کتاب میں پاتے ہیں؟ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بائبل میں سے انسانی عنصر کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ ہم خیال کرتے ہیں۔ کہ خدا کو چاہیے تھا کہ ان آدمیوں میں جو ش و غضب نکال کر انہیں محض پتلیوں کی طرح بنا دیتا۔ پیشتر اس کے کہ اس نے انہیں اپنے ہم جنسوں کو تعلیم دینے کے لئے منتخب کیا۔ ہم اس طور سے تمام انسانیت اور طبعی جذبات کو ان میں سے خارج کر دینا چاہتے ہیں۔ پھر کہیں ان کے الہٰامی ہونے پر یقین کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خدا اس قسم کی کلوں کو استعمال کرتا نہ ایسے جوش و تحریک سے بھر ے ہوئے آدمیوں کو ۔ خیر کچھ ہی ہو ۔ مگر خدا نے ایسا نہیں کیا۔ خدا نے آدمیوں ہی کو استعمال کیا۔ اور جس قدر جلدی ہم اس واقعہ کو تسلیم کر لیں گے۔ اسی قدر صحت و صفائی کے ساتھ ہم بائبل کو پڑھنا اور اس کا صحیح مطلب سمجھنا سیکھ لیں گے۔

(4)

الہٰی عنصر کی انسانی عنصر کے ساتھ آمیزش

ہمیں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بائبل میں انسانی عنصر کی موجودگی پر خاص طور پر زور دیا جائے۔ یہ پہلو اس وقت تک اکثر مذہبی لوگ فراموش کرتے رہے ہیں۔ اور یہی غفلت ایک بڑی حد تک موجود ہ بے چینی کے لئے جواب دہ ہے۔ مگر دوسری جانب گذشتہ صدی کے مطالعہ بائبل سے یہ امر بھی زیادہ زیادہ واضح ہوتا رہاہے کہ یہ انسانی عنصر بائبل میں لوگوں کے خیال کی نسبت کہیں زیادہ پایا جاتا رہاہے۔ اور اس کے مصنفوں کواپنے قواء(قوت) کے استعمال میں بہت زیادہ آزادی رہی ہے۔ اس لئے یہ ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کی صحیح معرفت کے لئے اس پہلو کو بھی ہماری نظروں کےسامنے خاص طور پر وقعت(حيثيت) دی جائے۔

علاوہ بریں چونکہ ہمارے زمانہ میں الہٰام و مکاشفہ کے انسانی پہلو پر بہت ہی زور دیا جا رہا ہے ۔ اس لئے اور بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہم الہٰی پہلو کو نظر انداز نہ کر دیں۔ انسانی خیالات کی تاریخ کے مطالعہ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اس کا میلان(رحجان) ہمیشہ اس طرف رہتا ہے ۔ کہ گھڑی کے پنڈولم(گھڑی کا لٹکن)کی طرح کبھی ایک جانب کو دُور تک چلے جائیں۔ کبھی اس کی مخالف سمت کو ۔ اور جس قدر ایک طرف زیادہ جائیں گے۔ اسی قدر دوسری سمت کو اور بھی زیادہ دُور تک جا پہنچیں گے۔ اس لئے ہم کو اس خطرہ سے اپنی حفاظت کرنی چاہیے ۔ جب کہ ہم اس امر کو پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ خدا نے ہم کو تعلیم دینے کےلئے انسانی وسیلہ کو استعمال کیاہے۔ تو اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ فقط ایک وسیلہ ہی ہے۔ اور وہ جو اس کے پیچھے اور اس کے اندر اور اس کی تہ میں ہے۔ وہ خدا کی روح کی قدرت ہے۔

ہم الہٰی اور انسانی عنصر کے درمیان ایک خط فاضل (زيادہ)نہیں کھینچ سکتے۔ ہم اس کے کسی حصہ کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ ’’ یہ انسانی ہے‘‘ وہ الہٰی ہے۔ بعض حصوں میں جیسے کہ اناجیل میں الہٰی پہلو زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے حصوں میں جیسے کہ تواریخ کی کتابوں میں انسانی پہلو زیادہ معلوم دیتا ہے۔ وہ بطور ایک سونے کی کان کے ہے۔ جس میں سونا مٹی اور پتھر سے ملا ہوا پایا جاتا ہے۔ اور اگرچہ کہیں سونے کی مقدار کم ہے کہیں زیادہ ۔ مگر سب کا سب سونے کی موجودگی کے سبب درخشاں(روشن) معلوم ہوتا ہے۔ یا یوں کہو کہ اس کی مثال ایسی ہے۔ جیسی سورج کی کرنیں رنگین شیشوں والی کھڑکی میں سے گذر رہی ہوں ۔ شعاعیں ان شیشوں میں سے گذرنے کے سبب رنگین نظر آئیں گی ۔ ہم ایسی روشنی کسی اور طرح حاصل نہیں کر سکتے ۔ بعض حصوں میں تو یہ تو سل (وسيلہ)کی چیز ذرا موٹی اور ناکامل سی ہے۔ بعض حصوں میں روشنی اپنی چمک دھمک کے سبب آنکھوں کو چندھائے (روشنی کی تاب نہ لا سکے)دیتی ہے۔ مگر یہ روشنی ان رنگوں سے جُدا نہیں کی جا سکتی ۔ اور ہر ایک شعاع میں نو راور رنگ ملا جلا نظر آتا ہے۔ مگر اس توسل کی موجودگی کو نظر انداز کر دینا سخت حماقت(بے وقوفی) ہوگی ۔ کیوں کہ اس سے غلط فہمی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ اور آدمی خواہ مخواہ ایک حیرت و تعجب میں پڑھ جاتا ہے کہ کیوں خالص روشنی ہمیں نہیں ملتی ۔ مگر اس سے بڑھ کر حماقت کی یہ بات ہو گی کہ ہم خود روشنی ہی کو نظر انداز کر دیں اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ رنگین گنبد بجائے خود منور ہے۔ اور یہ جسے ہم آسمانی روشنی سمجھے بیٹھے ہیں ۔ خوردبین سے ہی ہے۔ خدا کی روح کے سوا کوئی اعلیٰ تعلیم نہیں مل سکتی ۔ اور نہ روح انسانی کے لئے کوئی حقیقی نور ہے۔ مگر وہی ’’نور جو دُنیا میں آکر ہر ایک آدمی کو روشنی بخشتا ہے‘‘۔

(5)

لکھا ہوا کلام اور کلام جو خود مسیح ہے۔

بائبل میں الہٰی اور انسانی عنصر کے یک جا موجود ہونے کی سب سے عمدہ مثال خود ہمارا خداوند ہے۔ جس میں دو طبیعتیں ۔یعنی الہٰی اور انسانی مجتمع (جمع ہونا)تھیں نہیں ۔ بلکہ اسے محض مثال سے پڑھ کر کہنا چاہیے ۔ کیا لکھا ہو ا کلام الہٰی اور کلام جو خو د مسیح ہے۔ یہ دونوں مکاشفے خدا نے انسانیت ہی کے ذریعہ سے انسان کو عطا نہیں کئے ۔ اور کیا یہی امر ایک بڑی حد تک اس اس مطابقت کو ثابت نہیں کرتا ؟ کیا یہ لکھا ہو اکلام اسی ہستی کی ناکامل اور انسانی تصویر نہیں ۔ جو باطنی ماہیت اور فطرت کے لحاظ سے ہمارے علم سے باہر ہے؟ اور کیا بڑے ادب و عزت کے ساتھ اس ابدی ’’کلام ‘‘ کی نسبت بھی یہی بات نہیں کہہ سکتے ۔ جو ’’ ابتداء میں خدا کے ساتھ اور جو خود خدا تھا‘‘؟۔

ان دونوں میں الہٰی اور انسانی عنصر کا اتحاد پا یا جاتا ہے۔ اس (مسیح) میں الہٰی فطرت کمزور انسانیت کا برقع پہنے ہوئے ہے۔ اس (لکھے ہوئے کلام ) میں الہٰی روح ناکامل انسانی ذہنوں اور ناکامل انسانی زبان کے ذریعہ اپنے کو آشکار ا کر رہی ہے۔ اس میں الوہیت اپنے پر قدر ت معجزے اور غیر مرئی(وہ جو دیکھائی نہ دے) عالم کے مکاشفے جلوہ گر کرتی ہے۔ اور ساتھ ہی اپنی کمزوری اور تھکان اور بھوک اور دُکھ کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے۔ اس میں الہٰی عنصر اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور نبوت اور مکاشفہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور انسانی عنصر جذبات اور بے صبری کی حرارت اور مایوسی اور خوف کی برودت (سردی)میں آشکارا ہو رہا ہے۔ اس میں خدا کے عظیم الشان کلمات اور راست بازی اور آنے والے عالم کے راز روز مرہ کی معمولی باتوں یعنی کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معمولی فقرات کے ساتھ ملے جلے سنائی دیتے تھے۔ اس میں نبوت اور مکاشفہ اور نیکی اور شرافت کے الہٰی سبق معمولی قصہ کہانیوں اور کرسی ناموں اور تاریخی واقعات کے ساتھ جن کا بعض اوقات آج کل کی زندگی کے ساتھ کچھ بھی واسطہ و تعلق نظر نہیں آتا مخلوط (مِلا جُلا)پائے جاتے ہیں۔

اس ( مسیح) میں بھی حکمت نے رفتہ رفتہ نشوونما حاصل کیا۔ اگرچہ وہ بچپن ہی سے ہمہ دان ہوتا ۔ تو وہ کامل انسان نہ ہوتا۔ اسی طرح کلام میں بھی ہم ایسا ہی نشوونما ۔ ایسی ہی اخلاقی ار روحانی تعلیم میں بتدریج ترقی پاتے ہیں۔ جس میں الہٰی رازوں کا مکاشفہ رفتہ رفتہ زیادہ صاف اور واضح ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جیسا کہ خود خداوند نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ عہدِ عتیق کے زمانے کی تعلیم عہدِ جدید کی تعلیم سے ادنےٰدرجے پر ہے نہیں بلکہ کسی قسم کی بے ادبی کے مجرم ٹھہرنے کے بغیر ہم اس مقابلہ کو اور بھی پرے لے جا سکتےہیں۔ اس (مسیح) میں اس کی زمینی زندگی کے خاتمہ تک بھی علم کے لحاظ سے خاص حدود پائی جاتی تھیں جو اس کی انسانیت کی وجہ تھیں۔ مثلاً وہ فرماتا ہے۔ کہ ’’ اس دن اور اس گھڑی کو کوئی آدمی نہیں جانتا ۔ ۔۔ بیٹا بھی نہیں بلکہ باپ ‘‘ بھلا اگر خود اس کلام کا یعنی مسیح کا۔ یہ حال تھا۔ تو کیا یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ لکھے ہوئے کلام میں لکھنے والے کے انسانی جہل و بے علمی کے نشان پائے جائیں ۔ اور وہ لوگ ایسی باتوں سے جن کا آشکارا ہونا خدا نے انسانی تحقیقاتوں اور دریافتوں کے ذریعہ سے ٹھہرایا تھا ناواقف پائے جائیں؟

مگر ہم اس مضمون پر ایک علیٰحدہ باب میں بحث کریں گے۔ لیکن ہم اُمید کرتے ہیں کہ ناظرین اپنے طور پر اس مشابہت اور مطابقت پر جو بائبل اور ہمارے خدا وند کی ذات کے درمیان ہے۔ اور جس کا ہم نے یہاں محض اشارتاً ہی ذکر کیا ہے۔ خوب غورو فکر کریں گے ہمیں یقین ہے کہ اس طور سے بہت سے تعصبات (تعصب کی جمع۔حمايت)دُور ہو جائیں گے۔ جن کا دُور ہونا بائبل کی صحیح معرفت کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ شايد اس امر پر غور کرتے کرتے کسی کی توجہ اس بات کی طرف بھی پھر جائے کہ کس طرح یہودی کسی ’’ آنے والے ‘‘ کا انتظار کر رہے تھے۔ مگر وہ ایک شخص کے بڑے جاہ وجلال کے ساتھ آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ جو غلط تھا ۔ اور اس لئے جب ایک غریب مسیح ظاہر ہوا۔ تو اسے بڑھئی کا بیٹا سمجھ کر انہوں نے رد کر دیا۔ شايد بعض اپنے دل سے یہ سوال بھی پوچھ بیٹھیں کہ ’’اگر یہ غلط تصور اس زمانہ میں مسیح کو قبول کرنے میں رکاوٹ کا باعث ٹھہرا۔ تو کیا ممکن نہیں کہ ایسا ہی غلط تصور ہمیں بائبل کی قبولیت سے روک رکھے ؟ اگر مسیح کو یہ کہنا پڑا ۔ تو کیا بائبل بھی زبان حال سے نہیں کہہ سکتی کہ ’’ مبارک ہے وہ جو میرے میں ٹھوکر کا موقعہ نہ پائے ‘‘۔

باب چہارم

بائبل سہوو خطا سے مبر اہے ؟

انسان کے بنائے ہوئے مسئلے کيا دعوٰے کرتے ہيں؟

میں اس کتاب میں برابر اس امر کابیان کر تا چلاآیا ہوں کہ بہت سی مشکلات جو لوگوں کو جو بائبل کے متعلق پیش آتی ہیں۔ ان کی بنا زیادہ تر اُن کے غلط خیالوں پر ہے۔ کیوں کہ وہ اس کے متعلق بعض ایسے دعوےکر بیٹھتے ہیں ۔جن کے لئے ان کےپاس کوئی سند (تصديق نامہ)نہیں ۔ اور پھر یہ اُمید کرتے ہیں کہ بائبل ہمارے ان خیالات کے برعکس ثابت نہ ہو۔ ان سب میں سے دو خیال سب سے بڑے ہیں۔ اور بہت سی بڑی بڑی مشکلات انہیں سے پیدا ہوئی ہیں۔ اس باب میں ہم ان میں سے ایک پر بحث کر یں گے۔

پہلا خیال

خدا کی اخلاقی اور روحانی سچائیوں کی تعلیم کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے معلموں (معلم کی جمع )کو ہر طرح کی سہو و خطا (غلطی و خطا)سے محفوظ رکھے۔

یا دوسرے لفظوں میں ۔ اگر بائبل الہامی کتاب ہے ۔ تو وہ ہر قسم کی لغز ش ( ڈگھمانا) سے پاک ہونی چاہیے ۔ خواہ مذہبی امور میں خواہ غیر مذہبی امور میں جو اس میں بیان ہوئے ہیں۔ ضرور ہے کہ اس کے لکھنے والے ہر ایک تفصیلی امر میں بھی غلطی سے محفوظ ہوں۔ اس کے تاریخ یا علمِ الارض (زمين کے بارے علم)۔ یا علم ہیت کے متعلقہ بیانات کو علمی لحاظ سے بالکل صحیح مانناچاہیے ۔ اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اس زمانہ کے مروّجہ و مسلمہ خیال ہیں۔

جس زمانہ میں وہ صحیفے لکھے گئے۔ لکھنے والوں کی لاعلمی یا اُن نوشتوں کی غلط بیانی سے جن سے وہ واقعات اُخذ(اختيار) کئے گئے ۔ کسی قسم کی غلط بیانی یا سہو و خطا (غلطی و خطا )کے واقع ہونے کا امکان نہیں ہے۔

اس خیال سے خواہ مخواہ یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ اگر کوئی شخص یہ دکھادے کہ اُن تین ہزار سال کے پرانے مصنفوں نے کوئی ایک بھی علمی یا تاریخی بیان لکھا ہے ۔ جس کا غلط ہونا پائیہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے۔ تو ہمیں بائبل کے الہٰامی ہونے کی نسبت اپنا اعتقاد تر ک (چھوڑ)کر دینا چاہیے۔

یہ دعویٰ واقعی خطر ناک ہے۔ مگر باوجود اس کے بہت سے دیندار لوگ سچے دل سے اسے مانے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر لی صاحب نے ’’ الہام ‘‘ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ جو اکثر لوگوں کے نزدیک مستند(قابلِ اعتبار) سمجھی جاتی ہے۔ اس میں ایک فقرہ لکھا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ جغرافیہ یا تاریخ کے متعلق تفصیلی باتوں میں اور نیز علم طبعیات کے متعلق جو بیانات بائبل میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کتاب کے ہر ایک حصے میں ہر طرح کی سہو وخطا(غلطی و خطا ) سے مبر ا (پاک)اور بالکل صحیح ماننے چاہئیں۔ اب میں ہاج صاحب کے اس قول کو بھی نقل کرتا ہوں۔

’’خدا مقدس نوشتوں کے لکھنے والوں کے کام کی نگہبانی کرتا تھا۔ اور اس کی غرض و مقصد یہ تھا کہ ان کی تحریر غلطی سے بالکل خالی رہے‘‘۔

ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں کہ

’’ اگر علم طبعیات(چيزوں کی خاصيت کا علم) کے متعلق کوئی غلطیاں بائبل میں نظر آئیں۔ تو بائبل خدا کی جانب سے نہیں ہو سکتی ۔ مگر ہم ثابت کئے دیتے ہیں کہ اس میں ایسی کوئی غلطی نہیں پائی جاتی ۔ اور اپنے مخالفوں سے تحّدی(للکارنا) کرتے ہیں کہ وہ ساری بائبل میں سے کوئی ایسی غلطی نکال دیں ‘‘۔

اور ایک اور صاحب لکھتے ہیں۔ کہ

’’ یہ مستند ہونا اور سہو و خطا(غلطی و خطا ) سے مبّرا ہونا صرف مکاشفہ ہی سے تعلق نہیں رکھتا ۔ بلکہ ان الفاظ سے بھی جن میں وہ مکاشفہ دیا گیا ہے۔ پاک نوشتوں میں غلطی کا پا یا جانا صرف ہماری تعلیم ہی کی تردّید(ردّ کرنا) نہیں کر دیتا ۔ بلکہ بائبل کے دعوٰی کی بھی ۔ اور اس لئے اُس کے الہٰام کی بھی جس نے یہ دعٰوے کئے‘‘۔

لیکن اگر فقط یہی بات ٹھیک ہو کہ ایک غلطی کے ثابت ہونے سے الہٰام سے انکار کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ تو ہمیں ہر طرح سے اس بات پر زور دینا چاہیے تا کہ ہمارے عقائد(عقيدہ کی جمع) میں فرق نہ آنے پائے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے۔ تو یقیناً وہ لوگ بلا ضرورت بائبل کو معرض خطر (خطرے ميں آنا)میں ڈال رہے ہیں۔ اور اپنے شکی بھائیوں کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہےہیں۔ اور ملحدین (کافر)کو خواہ مخواہ حملے کا موقعہ دےر ہے ہیں۔ اس لئے ہم سوال کرتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ نہیں بلکہ یہ سوال کریں گے کہ کيا اس بات کے ماننے کے لئے کوئی سند (ثبوت)بھی ہے ۱؟

(2)

نوشتوں کا دعویٰ کيا ہے؟

ميں يہاں بشپ ہٹلر کے الفاظ کو جن کاآگے بھی حوالہ دے چکا ہوں ۔پھر دوہراتا ہوں۔

’’ہم پہلے ہی سے حکم نہيں لگا سکتے کہ کس طريق سےاور کس تناسب سے ہم کو اس ميں بالائی (سطحی)فطرت اور روشنی اور ہدايت کے پانے کی اُميد رکھنی چاہيے۔ نوشتوں (پاک کلام)کے اختيار کے متعلق فقط يہی سوال ہونا چاہيے کہ آيا وہ ہی ہيں۔ جس کا دعویٰ کرتے ہيں۔نہ يہ کہ آيا يہ کتاب فلاں قسم کی ہے۔ يا فلاں طور سے شائع کی گئی ہے۔ جيسا کہ بعض کمزور عقل والے آدمی خيال باندھ بيٹھا کرتے ہيں کہ الٰہی مکاشفہ والی کتاب کو ايسااور ايسا ہونا چاہيے ۔اور اس لیے نہ تو اس کی متشا بہات (شبہ ميں پڑنا)۔ نہ عبارت کی ظاہری غلطياں۔ نہ اس کے لکھنے والوں کی بابت قديم زمانہ کے جھگڑے۔ نہ اسی قسم کی کوئی اور بات۔ خواہ وہ موجود ہ صورت سے بھی کہيں بڑھ کر کيوں نہ ہو ۔پاک نوشتوں کے اختيار وسند(ثبوت) کو ضائع کر سکتی ہے۔مگر اس صورت ميں کہ نبيوں اور رسولوں اور ہمارے خداوند نے يہ وعدہ ديا ہو کہ وہ کتاب جس ميں الٰہی مکاشفہ درج ہو ۔ ان ان باتوں سے محفوظ و مبرا (پاک)ہونی چاہيے‘‘۔

اب کیارسولوں اور نبيوں اور ہمارے خدا وند نے کبھی یہ وعدہ دیا ہے کہ کتابِ مقدس ایسی باتوں سے بری ہوئی چاہیے؟ کیا بائبل نے کہیں اپنے لکھنے والوں کی نسبت ایسا عالمگیر (تمام دنيا کا)دعوےٰکیا ہے؟ کیا کسی بائبل کے صحیفے کے لکھنے والے نے یہ دعوی ٰکیا ہے۔ یا اس کے کلام سے یہ مستبط(چنا گيا) ہو سکتا ہے کہ اُسے خدا کی طرف سے ایسی رہنمائی حاصل تھی کہ وہ اپنی کتاب کی چھوٹی چھوٹی تفصیلی باتوں میں بھی خطا و غلطی کے امکان(ممکن) سے محفوط رہے گا۔ یا کیا ان میں سے بعض مصنفوں نے اپنے سے پہلے مصنفوں کے حق میں اس قسم کی شہادت (گواہی)دی ہے؟ یا کوئی مصنف اس قسم کی تحریر چھوڑ گیا ہے کہ اسے خاص الہٰام کے ذریعے یہ حکم ملا ہے۔ کہ باقیوں کے سہو و خطا (غلطی يا خطا)سے مبرا(پاک) ہونے پر گواہی دے۔ یقیناً کوئی اسی قسم کا بیان دکھایا نہیں جا سکتا ۔

لیکن شايد کوئی کہے کہ یقینا ً فقط الہٰام کا ہو نا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ بائبل میں ذرا سا سہوو خطا ہونا بھی غیر ممکن ہے۔ ہرگز نہیں ۔ اگر خدا کا منشاء معمولی صحت و درستی والی تاریخوں سے جیسے کہ ہمارے آج کل کی انگریزی یا ہندوستانی تاریخیں ہیں۔ ایسا ہی کامل طور پر سرانجام ہو سکتا ہے۔ تو ہم کو اس بات کے فرض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ اس نے بائبل کے مصنفوں کو اس قدر روشنی بخشی کہ وہ ذرا ذرا اسی تفصیلی باتوں میں بھی جن کا کتاب کی اصلی غرض سے کوئی واسطہ نہیں۔ غلطی نہ کھائیں۔ مثلاً عہدِ عتیق (پرانا عہد نامہ)میں الہٰامی مصنف(الہٰام لکھنے والا) ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ ان کی تاریخ کا بہت سا حصہ قدیم گم شدہ ذریعوں سے مثلاً جداور ادو غیب بین۔ اور اسرائیل اور یہوداہ کے دفتروں میں سے اُخذ (نکالنا)کیا گیاہے۔ ہمارے پاس ان قدیمی طوماروں کے اور لوگوں کی قومی تاریخوں کے غلط ماننے کی کوئی وجہ نہیں مگر یقیناً ہمیں یہ فرض کر لینے کا بھی حق نہیں ہے کہ ان میں سے کسی بات میں بھی مثلاً لاویوں کے شجرہ نسب ، یا شاہ سلیمان کے گھوڑوں کی تعداد کے بیان کرنے میں بھی کسی قسم کی غلطی کو راہ نہیں۔ اور اگر ایسی غلطی ہوئی بھی تو خدا نے ایک معجز ہ کے ذریعے اسےدرست کر دیا۔ اگر بالفرض ایسی کامل صحت درستی اس کے اصلی مدعا (اصل مقصد)کے لئے ضرور ی ٹھہرتی تھی۔ اس امر کو ہم ذرا آگے چل کر اچھی طرح سے سمجھ سکیں گے۔

اگر ناظرین میری ان تمام دلائل پر لحاظ کرتے آئے ہیں۔ جن کی بناء پر میں نے لفظی الہٰام کے مسئلہ کو رد کیا ہے۔ تو انہوں نے معلوم کر لیا ہو گا کہ جب تک اسے براہ راست بائبل سے اس امر (معاملہ)کا ثبوت نہ ملے ۔ اس کا کوئی حق نہیں کہ بائبل کے کسی مصنف کے حق میں سہوو خطا (غلطی وخطا)سے مبرا ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے ۔ اگر وہ محض بطور قلم کے یا منہ کے ہوتا ۔ جسے روح القدس نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کیا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی تحریر غلطی سے خالی ہونی چاہیے ۔لیکن اگر یہ بات سچ نہیں ہے کہ بائبل کی تاریخی کتابوں کے لکھنے والے بغیر امداد قدیمی نوشتوں کےلکھنے پر قادر (قدرت والے)تھے۔ اور قدیمی تاریخوں کے سنین(سنہ کی جمع) اور واقعات ان قدیمی نوشتوں کے دیکھے ۔ بغیر صحیح طور پر معلوم کر سکتے تھے۔ اگر انہیں بھی ہمارے زمانے کے مورخوں(لکھنے والے) کی طرح انبیاء جماعتوں کی تحریروں اور یا شر یا جنگ نامہ یہوداہ جیسی قدیمی کتابوں اور پرانی روایتوں اور گاؤں اور شہروں اور سرکاری دفتروں سے اپنے حافظہ اور اپنے ہم عصر وں (ہم زمانہ) کی شہادتوں کے ذریعہ سے اپنی کتابوں کا مصالحہ جمع کرنا پڑتا تھا۔ تو اس صورت میں اس قسم کا دعویٰ کرنا یقیناً حد سے باہر جانا ہے کہ ان کی تاریخی یا علمی معلومات یا بیانات کی تمام تفصیلی باتیں بھی سہوو خطا(غلطی و خطا) کے امکان سے بری ہیں۔

اور میں پھر کہے دیتا ہوں کہ اس قسم کا دعویٰ(مطالبہ) کتاب ِمقدس میں کہیں نہیں کیا گیا ۔ لکھنے والے کبھی اس امر کے دعویٰ دار نہیں ہوئے کہ ان کی تحریر غلطی سے مبرا (پاک)ہے۔ اگر ہم ان کے حق میں اس قسم کے دعویٰ کرنے لگ جائیں تو یقیناً اس میں ان کا کچھ قصور نہیں ہے ۔ کیوں کہ ظاہر اً تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بائبل خاص کر عہدِ عتیق ہم کو اس قسم کے دعویٰ کرنے سے دُور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیوں کہ الہٰامی تاریخ نویس بار بار یہ بتانے کو اپنا قطع کلام(بات کاٹنا) کرتے ہیں کہ ان کی تاریخیں براہ راست خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔ بلکہ انہوں نے اپنا مصالحہ(مواد) قوم کے دوسرے غیر الہٰامی نوشتوں سے جمع کیا ہے۔ سلاطین اور تواریخ کی کتابوں کے مصنف ایک ہی واقعہ کی متوازی (برابر)تاریخیں لکھتے ہیں۔ جو تفصیلی امو ر میں ایک دوسرے سے ہرگز اتفاق نہیں کرتیں۔ اور بعض اوقات ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جنہیں باہم تطبیق (مطابق کرنا )دینا امکان سے باہر ہے۔ مگر وہ اسی قسم کے اختلافات ہیں ۔ جیسے کہ عمدہ قابل اعتبار تاریخوں کے باہمی مقابلہ سے دریافت ہوتے ہیں۔ ایسے اختلافات جن کی غیر موجودگی اس امر کی دلیل سمجھی جائے گی کہ انہوں نے باہم صلاح کر کے ان تواریخ کو لکھا ہے۔ یا ایک نے دوسرے کو نقل کیاہے۔ مگر ممکن ہے کہ ان اختلافات میں بھی تطبیق ہو سکتی۔ اگر ہم سارے واقعات کا علم ہوتا ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ نہ ہو سکتی ۔ لیکن جو شخص بائبل کی حقیقت سے واقف ہے اسے اس امر کی کچھ بھی پر وا نہیں کرنی کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں ۔ مگر ان اختلافات کی موجودگی اس شخص کو جھٹلا رہی ہے۔ جو بائبل کے الہٰام کو ایسی چھوٹی چھوٹی تفصیلی باتوں کی صحت و درستی پر موقوف (ٹھہرايا گيا)کرتا ہے۔

(3)

عام عقل و تمیز کیا چاہتی ہے؟

تو خدا نے کہیں بھی نہیں کہا کہ الہٰام کےلئے ہر مضمون مرقومہ(لکھا گيا) کی صحت و درستی ایک لازمی امر ہے۔ مگر تو بھی یہی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اور اس قسم کے تمام مسئلوں کی بنیاد بھی اسی خیال پر ہے۔ کہ ’’ اگر بائبل میں کسی قسم کی غلطی کی گنجائش ہو۔ خواہ اس بات کا تعلق اخلاقی یا مذہبی امور سے نہ بھی ہو ۔ تو بائبل قابل اعتبار نہ ٹھہرے گی۔ اور انسان کی رہنما (راہ دکھانے والا)بننے کے لائق نہ ہو گی ۔ اگر و ہ ہر بات میں غیر متزلل یعنی لغز ش(ڈگھمگانا ) اور سہو و خطا (غلطی ياوخطا)سےمبرا نہیں۔ تو ہم کو کیسے یقین آئے۔ کہ وہ ان کی سچائیوں کی نسبت بھی جو نہایت ہی اہم و ضرور ی ہیں۔ سہوو خطا سے پاک ہے؟ ‘‘۔

لیکن کیا بائبل پر اس طور سے حکم لگانا قرین عقل (وہ بات جسے عقل قبول کرے)بات ہے؟ کیا ہم دوسری باتوں کے علم پر اسی طور سے حکم لگایا کرتے ہیں؟ کیا یہ ضرور ہے کہ ایک آدمی ہر ایک بات میں غلطی سے مبرا (پاک)ہو۔ جب کہیں وہ کسی ایک امر میں ہمارا رہنما بننے کے لائق ٹھہر سکتا ہے؟ کیا یہ ضرور ہے کہ ایک طبیب کاشتکاری اور کان کھودنے اور قانون دانی اور جہاز رانی وغیرہ علوم میں طاق(ماہر) ہو۔ تب کہیں وہ ہماری صحت و تندرستی کے معاملات میں رائے دینے کے لائق ٹھہرے گا؟ کیا ہم کسی واعظ کے عقائد کی درستی پر شک کرنے لگتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ کسی کے قول کو نقل کرتے ہوئے اس کے مصنف کے نام میں غلطی کر بیٹھے ؟

نہیں بلکہ جب ہم خدا کے طریقوں پر جن سے وہ ہمیں معمولی علم عطا کرتا ہے۔ غور کرتے ہیں۔ تو کیا ہم کو یہ امر صاف نظر نہیں آتا کہ اس کے مذہبی معلموں (معلم کی جمع)کے لئے ہر امر میں لغزش (ڈگھمانا)سے آزاد اور محفوط ہونا ضروری امر نہیں ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا معمولی قاعدہ یہ ہے کہ وہ ایک شخص کو اس قسم کے قواۓ(قوت) اور ملکات(خوبياں) عطا کرتا ہے۔ جن کی مدد سے وہ ایک خاص قسم کے علوم کو مطالعہ کر سکے ۔ گو کہ دوسرے علوم کے لحاظ سے وہ نسبتاً جاہل رہتا ہے۔ مثلاً شاعری یا مصوری یا موسیقی یا ریاضی میں جو مشہور و معروف علماء و فضلا(عالم فاضل)گذرے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ علم سے باہر کی باتوں سے کچھ ایسے واقف کار نہیں تھے۔ اگر ایسے امور میں خدا کا یہ عام قاعدہ ہے۔تو کیا اس سے یہ قیاس کرنا (اندازہ)نا مناسب ہے۔ کہ مذہبی تعلیم کے بارے میں بھی اس نے یہی وطیرہ (طريقہ)اختیار کیا ہو گا۔

البتہ یہ تو ممکن ہے کہ اگر خدا کی مرضی ہو تو وہ ہرایک الہٰامی شخص کو عالم کے تمام اسراروں اور رازوں (پوشيدہ باتيں)کے متعلق کامل(مکمل) طور پر غیر خاطی (نا خطا کار) اور عالم کل کر دیتا ۔ مگر سوال یہ نہیں ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسا یقین کرنے کی وجوہات ہیں کہ اس نے ایسا کیا ہے؟ اور کیا اس کے مقصد و مدعا کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ ایسا کرتا ؟

ہمیں ہمیشہ خدا کے غیر معلوم کاموں کا اس کے معلوم کاموں کی نسبت و شباہت (مطابقت)کے موافق تصفیہ (واضح )کرنا چاہیے ۔ اور یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’وہ ہر بات میں کفایت(حسبِ ضرورت) کا لحاظ رکھتا ہے۔ نہ کاملیت کا ۔ یعنی یہ دیکھتا ہے۔ کہ اس کے مدعا کے حصول کے لئے کون سی بات کافی ہو سکتی ہے۔ نہ یہ کہ وہ کاملیت کے ذہنی تصور کے مطابق ہو‘‘۔ اب ہم دیکھیں گے کہ آیا اس بارے میں اسی اصول پر عمل ہوا ہے۔ یا نہیں سب سے پہلے ہمیں اس امر کو تحقیق کرنا چاہیے کہ خدا کا مدعا(مقصد) ہمیں بائبل کا دینے میں کیا تھا۔ تب ہم اس امر کا فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا کامل طور پر سہو و خطا(غلطی يا خطا) سے مبر ا (پاک)ہونا اس مدّعا (مقصد)کے حصول کے لئے ضروریات سے تھا۔

(4)

پا ک نوشتوں کا مقصد

اس سوال کا جواب دینے کو الہٰام سے خدا کی غرض اور مدعا(مقصد) کیا ہے۔ سب لوگ آمادہ ہیں۔ اور اس بارے میں اختلاف رائے بھی بہت کم ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ نہایت ہی اہم سوال ہے ۔ کیوں کہ اس جوا ب کو بڑی احتیاط سے برابر مد نظر رکھنے سے ہم اچھی طرح دیکھ سکیں گے کہ بہت سی متنازعہ فیہ(جس ميں جھگڑا ہو) باتیں جو ساری موجودہ بے چینی کا باعث ہیں۔ کيسی غیر اہم اور ہلکی ہیں۔

تو الہٰام کی غرض و مدعا کیا ہے ؟ کیا اس کی غرض یہ ہے۔کہ ہم کو علم ِالارض یا علم ہیت کے مسائل کے متعلق صاف اور بے خطا علم حاصل ہو جائے۔ یا یہ کہ وہ ہمیں بتائے کہ خدا نے زمین کو کس طرح خلق (پيدا)کیا؟ کیا اس کا یہ منشا (مرضی)ہے کہ ہم بنی اسرائیل کی تاریخ کے متعلق غلطی کھانے سے محفوظ رہیں ۔ یا یہ کہ ہمیں اس کے تمام بادشاہوں کے عہدِ حکومت کا صحیح صحیح زمانہ بتائے اور یہ کہ فلسطین کے باشندوں کی باہمی خانہ جنگوں میں ٹھیک ٹھیک کتنے آدمی کام آئے؟

یقیناً اس کا منشا ء (مرضی)ہر گز اس قسم کی باتیں بتانا نہیں ہے۔ خدا کا ہر گز یہ مقصد نہ تھا کہ بائبل میں ہمارے لئے علمی تحقیقات کا ایک مبسوط (وسيع)سائیکلوپیڈیا یا مخزن العلوم(علم کا خزانہ) مہیا کر دے جس سے علم حاصل کرنے کے لئے معمولی تحقیقات و جستجو کی ضرورت نہ رہے۔ روح القدس جس نے بائبل کا الہٰام دیا۔ خوب جانتا تھا کہ بنی اسرائیل کے کرسی نامے (نسب نامہ)اور لڑائیاں اور اسی قسم کے دیگر امورکی تفصیلی باتیں ہمارے لئے ہندوستان یا کسی دوسرے ملک کی تاریخ سے کچھ بھی بڑھ کر وقعت(حيثيت) نہیں رکھتیں۔ بائبل کو براہ راست ان باتوں سے کچھ بھی واسطہ نہیں۔ البتہ ضمنی طور پر اس میں ان کا ذکر آجاتا ہے۔

مگر الہٰام کا تعلق دیگر امور سے ہے۔ جو ہمارے لئے نہایت ہی ضروری اور اہم ہیں۔ وہ ہمیں خدا کی طرف سے اس لئے عطا ہوا ہے کہ ہمارے چال چلن کا رہنماہو ۔ اور ہماری تہذیب اخلاق کی عمارت کی تعمیر میں ممد (مدد گار)ہو۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ خصلت یا چال چلن انسانی زندگی کا تین چوتھائی ہے۔ اور اسی تین چوتھائی حصہ کے ساتھ ان الہٰامی تحریروں کا تعلق و واسطہ ہے۔ اس لئے بائبل کا الہٰام اس امر میں نہیں کہ وہ علمی یا تاریخی امور کے متعلق بے خطا تعلیم دے۔ بلکہ یہ کہ لوگوں کو بتائے کہ خدا کی مرضی کیا ہے۔ اور انسان اور خدا کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ انہی میں سے ایک الہٰامی آدمی ہم پر بائبل کی اغراض کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ سب صحیفے خدا کے الہٰام سے لکھے گئے ہیں۔ اور فائدہ مند ہیں۔ مگر کس کام کے لئے؟ کیا اس لئے کہ یہ موسوی بیانات خلقت عالم کی نسبت اور عبرانی قوم کی تاریخیں ہمیں بتائے ؟ ان میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند ہیں۔

پاک نوشتے انسان کے لئے خدا کی درستی کتابیں ہیں۔ ان کے لکھنے والے بڑے بڑے معلم ہیں جو دنیا کی تعلیم کے لئے مقر ر ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص شاعری یا مصوری یا سنگ تراشی(پتھر تراشنا) کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ تو وہ بڑے بڑے استادوں اور بڑی بڑی قوموں اور بڑی بڑی کتابوں سے جوان فنون (فن کی جمع)ميں کامل مہارت (ماہر)و دستگاہ (طاقت)رکھتے ہیں۔ واقفیت پید ا کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے کو راستبازی اور خدا کی راہوں کے لئے تیار رہنا چاہتا ہے ۔ تو اسے ان اُستادوں اور قوموں اور کتابوں سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے جو اس مقصد کے واسطے ملہم و مقرر و تحریر(بذريعہ الہٰام قائم ہونا) ہوئی ہیں۔

یہ تحریریں بڑے بڑے اخلاقی اور روحانی واقعات اور فرائض اور اشخاص کا اور اخلاقی ذمہ داریوں اور اس خوشی و مسرت کا جو رضائے الہٰی کے ساتھ موافقت پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے ذکر کرتی ہے۔ ان کا مدعا (مقصد)یہ ہے کہ اس ابدی اختلاف کو جو راستی اور نارستی ۔

یہ تحریریں بڑے بڑے اخلاقی اور روحانی واقعات اور فرائض اور اشخاص کا اور اخلاقی ذمہ داریوں اور اس خوشی و مسرت کا جو رضائے الہٰی کے ساتھ موافقت پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے ذکر کرتی ہے۔ ان کا مدعا (مقصد)یہ ہے کہ اس ابدی اختلاف کو جو راستی اور نارستی ۔

(5)

اس کا طریق تعلیم

اسی قسم کی سچائیوں کے مکاشفہ کےلئے بائبل دی گئی تھی۔ مگر ان باتوں کے متعلق کانٹے چھانٹے اور تراشے ہوئے مسائل بنے بنائے آسمان سے نازل نہیں ہو ئے مثلاً یہ کہ۔

خدا انسانوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔

خدا نا پاکی اور دغابازی(دھوکا بازی) سے نفرت کرتا ہے۔

خد ا سچے تائب (توبہ کرنے والے)کو معاف کر دیتا ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو شايد ہم پاک نوشتوں کے ہر نقطے اور ہر شوشے میں لفظی طورپر صحت و درستی ہونے اور اس کے ہر طرح کی سہووغلطی سے مبر ا(پاک)ہونے کی اُمید کر سکتے ہیں۔ مگر نہیں نہ سنہری اصولوں کے ذریعے نہ کاٹے چھانٹے عقائد ناموں کے ذریعے ۔ بلکہ تواریخ اور مکالات اور اشعار اور ناٹکوں کے ذریعے خدا اپنا مکاشفہ عطا کر تا ہے۔ یہودی قوم کے بزرگوں کے حالات میں ۔ ان کے بادشاہوں کے کارناموں میں ۔ انبیاء کے جلتے ہوئے اقوال میں۔ اور اس شخص کو گفتگو میں جو ایک گلیلی بڑھئی کے بھیس میں اپنے الہٰی عظمت و جلال کو چھپا کر جلوہ گر ہوا۔ ہاں اس شخص کی دیہاتی لوگوں کے ساتھ بات چیت میں۔ہاں ان سب متفرق(مختلف)باتوں میں ہم ان کے خیالات کو جو وہ خدا کی نسبت رکھتےتھے ۔ اور خدا کے ارادوں کو جو وہ انسان کے ساتھ رکھتا ہے۔ معلوم کرتے ہیں بائبل کی کتابیں اور امر کی تحریر کرتی ہیں کہ کس طرح خدابتدریخ (آہستہ آہستہ)بنی اسرائیل کی اخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت کر تا رہا ۔ اور کس طرح اس نے ان کے ذریعہ سے باقی دُنیا کو اپنا مکاشفہ عطا کیا۔

مثلاً بائبل میں سے قاضیوں کی تاریخ کو لو ۔ یہاں بھی ہم بار بار اسی سبق کو دہر ا یا جاتے دیکھتے ہیں۔ پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگوں نے گناہ کیا اور خدا کو بھول گئے۔ پھر ان کی سز ا کا ذکر پڑھتے ہیں کہ کس طرح وہ خدا کے مقر ر کئے ہوئے ظالم کے ذریعہ جس کے وسیلے اس نے اپنی مرضی کو پورا ہونے دیا۔ ان پر وارد (واقع)ہوئی ۔ پھر وہ بےچارے مصیبت یا فتہ لوگ اپنے اس دُکھ اور غم کی حالت میں تائب(توبہ) ہو کر خدا کو جسے انہوں نے رنجیدہ کیا تھا۔ پکارتے ہیں اور فی الفور ان کی امداد کے لئے ایک نجات دینے والا پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر اپنی شرارتوں کی طرف عود (واپس)کر آتے ہیں۔ پھر وہی ساری بات دہرائی جاتی ہے۔ اور پھر ہم وہی چکر گناہ اور سزا اور توبہ اور رہائی کا اور پھر گناہ اور سزا اور توبہ اور رہائی کو بار بار گھومتا دیکھتے ہیں۔ اور ان سارے واقعات میں خدا کا ہاتھ صاف صاف نظر آتا ہے۔

ہم اس کتاب کے خاص سبق کو فی الفور (فوراً)معلوم کر لیتے ہیں۔ وہ ہماری تعلیم کے لئے ایک سچا بیان ہے۔ کہ خدا انسان کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ خدا کے الہٰام نے اس مورخ (تاريخ لکھنے والا)کو تاریخ کا سچا فلسفہ سکھا دیا ہے کہ خدا ساری انسانی زندگی کے پیچھے کام کر رہاہے۔اگر چہ ظاہراً ایسا معلوم ہورہا ہے کہ گویا سب کچھ محض اتفاقی طور پر واقع ہو رہا ہے۔ وہ گناہ سے نفرت رکھتا ہے۔ اور افراد کو اور اقوام(قوم کی جگہ) کو بھی ان کے گناہوں کے لئے سزا دیتا ہے۔ اگرچہ بعض وقت لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔ اور یہ سزا محض اتفاقی طور پر نہیں ۔ بلکہ خدا کے قوانین کے عمل سے واقع ہوتی ہے۔ اور جب کہ گنہگار تکلیف اور دکھ سے تنگ آکر اور اپنے گناہوں سے پشیمان (شرمندہ)ہو کر خدا کے حضور میں سچے دل سے تائب ہوتا ہے۔ تو وہ اس وقت اپنے کو ’’ خداوند خدا ، رحیم اور مہربان ، بدی اور شرارت اور گناہ کو معاف کرنے والا ‘‘ بھی ثابت کرتا ہے۔

(6)

خطا اور غلطی سے کس قسم کی برّیت کی ضرورت ہے۔

ہم ديکھتے ہیں کہ بائبل کا مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کو اور اس رشتہ کو جووہ انسان سے رکھتا ہے ۔ ظاہر کر دے اس میں بعض تاریخی واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور ان کی تشریح کی گئی ہے۔ اور ہمارے لئے ان واقعات اور ان کی تشریح کی قدر و قیمت صرف اس امر(کام) میں ہے کہ ان کاعلم حاصل کرنے سے خدا کی ذات اور اس کی مرضی اس کے تعلقات اور رشتہ کی جو وہ ہمارے ساتھ رکھتا ہے معرفت حاصل کریں ۔ یہی خدا کا سب سے بڑا مقصد انسان کے لئے ہے’’ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلے سچے خدا کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے پہچانیں‘‘۔

تو الہٰامی نوشتوںمیں بڑی اہم بات یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں جس میں ہم ان کی تعلیم کے حاجت مند (ضرورت مند)ہیں۔ مستند معلم ٹھہریں۔ یعنی ہمیں بتائیں کہ خدا اور انسان کے درمیان کیا رشتہ ہے ۔ اور خداا نسان سے کیا سلوک کرتا رہا ہے؟ اس غرض کے لئے یہ ضروری ہے کہ تاریخ قابل اعتبار تاریخ ہو۔ اور واقعات کا تذکرہ کافی طور صحیح و درست ہو۔ اور وہ ان امور کی تعلیم دینے کے واسطے جو اپنے حسن سلوک کے متعلق خدا ہمیں بتانا چاہتا ہے۔ کافی ہوں مگر اس امر(کام) کے لئے کیا یہ ضروری امر ہے کہ افواج کی تعداد کو بڑی صحت سے بیان کرے یا جہاں کہیں علم ہیت یا علم الارض کے متعلق کسی امر کی طرف اشارتاً ذکر ہوا ہو۔ وہ بھی اصول علم کے مطابق صحیح ہو؟ کیا یہ امر دینی تعلیم کے لئے خوفناک ہو گا۔ اگر بائبل کے کسی صحیفے کا لکھنے والا اپنے زمانہ کے نہایت دانا اور عقلمند اشخاص کے ساتھ یہ یقین رکھتا تھا کہ سور ج زمین کے گردا گرد گھومتا ہے۔ یا اگر اس نے دو متضاد بیانات(فرق بيانات) میں سے کہ ارونا کی کھلیاں کے لئے کیا قیمت ادا کی گئی تھی۔ ایک بیان کو لے کر اپنی کتاب میں درج کر دیا۔ ہم اس شخص کے حق میں کیا کہیں گے ۔ جو کسی ملک کی تاریخ کی بابت اس قسم کے خیال رکھ۔ مثلاً یہ کہے کہ تاریخ انگلستان سے جو سبق حاصل ہوتے ہیں۔ وہ اس امر(کام) کے سبب بالکل ناقص ٹھہرتے ہیں کہ جنگ کریسی کے مختلف بیانات افواج کی صف بندی کے متعلق ایک دوسرے سے بالکل میل نہیں کھاتے ۔ یا یہ کہ قرون وسطی کا ایک مورخ سحرو افسون اور چڑیلوں اور ڈایئنوں کی ہستی کا معتقد(اعتقاد رکھنے والا) تھا؟

ہمیں اپنی بائبلوں کو ایسے ہی عقل و ہوش سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ جیسے دوسری تاریخوں کو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا کے مقصد کےلئے یہ ضروری نہ تھا کہ ہر ایک الہٰامی آدمی ہر ایک امر میں سہو(غلطی)و خطا سے بری ہو۔ اگر با لفرض کوئی آسمانی آواز کل کو ہمیں بتا بھی دے کہ ان کے علمی اور تاریخی مسائل کا ہر ایک نقطہ اور شوشہ بالکل صحیح و درست ہے۔ تواس سے الہٰامی کتابوں کی قدرو قیمت ایک ذرہ بھر بھی زیادہ نہیں ہو جائے گی۔

(7)

کیا بائبل سہوو خطا سے مبّرا ہے؟

تو اس سوال کا کہ کیا بائبل سہووخطا (غلطی وخطا)سے مبرا(پاک)ہے ۔ ہمارا یہ جواب ہے۔ ہاں بائبل سہوو خطا سے مبرا ہے۔مگر اس امر(کام۔فعل) میں کہ وہ خدا کو ہم پر ظاہر کرتی ہے۔ اور ہمیں وہ اس امر میں سہوو خطا سے مبر ا ہے کہ وہ لوگوں کو مسیح کی طرف بخشتی ہے۔ اور اعلیٰ اور روحانی زندگی کی طرف ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ وہ اپنے اس خاص پیغام کے لحاظ سے۔ اور اس وجہ سے جو کچھ ہونے کا اور جو کچھ کرنے کا دعویٰ (مطالبہ)کرتی ہے۔ سہوو خطا سے مبرا(پاک) ہے۔ ’’ وہ تمام باتیں جو وہ خدا اور مسیح اور سچائی اور راستبازی اخلاقی محبت اور خدا کے خوف و محبت میں زندگی بسر کرنے کی دانائی کے متعلق سکھاتی ہے۔ ان سے کامل(مکمل) طور پر قابل اعتبار ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ اور ایسے ہی قابل اعتبار اس کی وہ تعلیمات ہیں جو وہ ایسے امور(کاموں۔امر کی جمع) کے متعلق دیتی ہے۔ کہ انسانی زندگی کہاں گمراہی میں پڑتی ہے۔ چال چلن کےلئے سب امور میں سیدھا راستہ کون سا ہے۔ راست باز انہ زندگی حاصل کرنے کا کیا طریق ہے۔ اور کس طرح انسانی زندگی خدا کے نمونہ اور شباہت میں کاملیت کو پہنچ سکتی ہے‘‘(ٹامس صاحب)۔

ان امور میں بائبل ہر طرح کی سہود خطا سے مبرا ہے۔ اور ہم کو یاد رہے کہ یہی بے خطائی (بے گناہی)ہے۔ جس کی اس سے اُمید رکھنی چاہیے ۔ اور امر کہ آیا وہ علمی یا تاریخی مسائل کے بارے میں بھی ایسی ہی بے خطا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے ہمارا بہت کم واسطہ ہے۔ یہ بات محض انشا ء پردازی(مضمون نگاری) سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس لئے اس پر آزادگی کے ساتھ بحث ومباحثہ کرنے میں کچھ حرج نہیں۔


(1)دیکھو ۲ سموائیل ۲۴:۲۴ اور تواریخ ۲۵:۲۱ ۔
(8)

بائبل کے سہوو خطا سے پاک ہونے کے متعلق عام تصورات کی خطر ناک حالت

اب ایک قدم آگے بڑھو ۔ پاک نوشتوں کے ہر ایک طرح کے تفصیلی اُمور میں کامل طور پر بے خطا (بے گناہ)ہو نے پر اصر ار کرنا ۔ فقط ایک غیر ضروری اور بے سندبات ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا ماننا الہٰام کے عقیدہ کو سخت معرض خطر میں ڈالتا ہے۔ بھلا بتاؤ تو فرانس کے مشہو ر مصنف اور فصیح البیان(خوش بيان)رینان کو کسی چیز نے ملحد(کافر) بنا دیا؟ یہی بات کہ الہٰام کے عقیدہ سہو(غلطی) و خطا سے بریت کے عقید ہ کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔ چارلس بریڈلا کو کس چیز نے بائبل کا دشمن بنا دیا؟ یہ کہ پادری جس نے اسے مستقیم (درست) ہونے کے لئے تیا ر کیا۔ اس نے اس ذی فہم(عقل مند) لڑکے کے سوالات کو جو وہ الہٰام کے مسئلہ پر کرتا تھا۔ اپنی تنگ خیالی کی وجہ سے زجرو تو بیخ (جھڑکی ۔ملامت)کے ساتھ رد کر دیا ۔ اور ان کا کچھ تسلی بخش جواب نہ دیا۔ ناظرین آپ بھی کئی لوگوں سے واقف ہو ں گے۔ جن کا ایمان اسی قسم کی تعلیمات کے سبب سے زائل (ضائع)ہو گیا ہے۔ چند ماہ ہوئے خود میرے ذاتی تجربہ میں بھی یہ امر(کام) آیا۔ اور میں نے دیکھا کہ میرے ایک بڑے گاڑھے دوست کے ایمان پر اسی قسم کی غلط تعلیم نے پانی پھیر دیا۔

یقین جانو وہ لوگ بائبل کے نادان دوست ہيں ۔جو الہٰام کو اس قسم کے سوالات کے ساتھ وابستہ کر رہے ہیں۔ جب مذہبی معلموں کی جماعت میں ایسے اشخاص موجود ہوں۔ جو یہ کہیں کہ ایک ذرا سی غلطی کے ثابت ہونے سے بائبل کا الہٰامی ہونا مردو(ردِ کيا ہوا) ٹھہرےگا۔ جب کہ لفظوں کے صاف صاف معنوں کو کھینچ تان کر ذرا ذرا سے اختلافات کو تطبیق (مطابق کرنا)دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یا اس کے علمی امور کی متعلقہ باتو ں کو زمانہ حال کی تحقیقاتوں اور دریافتوں سے ملایا جاتا ہے۔ تو اس سے بائبل کو کچھ نفع نہیں حاصل ہوتا ۔ بلکہ اُلٹا اس کی جان عذاب میں پھنستی ہے۔ ایسی کتابوں کو پڑھ کر تو خواہ مخواہ یہ خیال پیدا ہو گا کہ گویا ہماری نجات کا مدارا اسرائیلوں کی ادنیٰ علمی واقفیت کی صحت پر موقوف ہے۔یا یہ کہ ہمارا مذہب معرض خطر میں ہے۔ اگر ہم قابل اطمینان طور پر یہ ثابت کر نہ سکیں کہ بنی اسرائیل کے پہلوٹوں کی تعداد ٹھیک (۲۲۲۷۳) تھی۔ جب تک لوگ الہٰام کے متعلق اس قسم کے جھوٹے خیالوں کو چھوڑ نہیں دیں گے۔ جب تک وہ یہ نہیں سیکھیں گے کہ راستبازی کے ابدی شریعت کی نسبت خدا کا اعلان ان باتوں سے بالکل آزاد ہے۔ تب تک بائبل کی حقیقت ٹھیک طور پر سمجھ نہیں آئے گی۔ اور نہ دشمنوں کے بے ہودہ حملوں سے چین ملے گا۔

ہم اس قسم کے تصورات کے ہرگزپابند نہ ہوں ۔ ہم سچائی کے طالب ہوں اور سچائی ہمیں آزاد کر دے گی۔ اس سے ہمارے ایمان کو تقویت (بڑھوتی)ملے گی۔ اور ممکن ہے کہ ہمارے سوا اور بھی بہت سےلوگ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ کیا ایسی اُمید رکھنا بے جا(فضول) ہے کہ اگر ہم اپنے بے سند (بغير تصديق)مسائل کو رد کردیں۔ توبائبل کی مخالفت اور عداوت(دشمنی) کا بہت بڑا حصہ رفتہ رفتہ ضائل (ضائع)ہو جائے گا۔ لو گ خواہ مخواہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ ملحد (کافر)يا دہريہ (خدا کا منکر)بن جائیں یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے احمقانہ(بے وقوفانہ) خیالات سے بے ايمانی پر مجبور کر دیاہے ۔جب انہيں يہ يقين ہو جاے گا کہ عيسائی ہونا نا معقول يا متعصب(بے جا حمايت کرنے والا) بننا نہیں ہے۔ اور کلیسیاء جو تجارت میں دغا و فریب کی ممانعت (منع کرنا)کرتی ہے۔ وہ شہادتوں اور تحقیقاتوں میں بھی ایسا کرنےکو ویسا ہی معیوب (برا)سمجھتی ہے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ہم فقط سچائی ہی کی طلب اور جستجو میں ہیں۔ اور سچائی کی تحقیقات میں ہم بالکل بے خوف اور ہر قسم کے تعصب(حمايت)سے آزاد ہيں ۔تو يقينا بہت سے لوگ جن کی بے اعتقادی نيک نيتی اور صدق دلی پر موقوف (ٹھہرانا)ہے۔ ایسی رکاوٹوں سے چھوٹ کر مذہب کی طرف رجوع لائیں گے۔

(9)

ایک احتیاط

مگر آخر میں ہمیں چند الفاظ بطور احتیاط کے کہنے ضروری ہیں۔ چونکہ ہم نے پاک نوشتوں کی علمی اور تاریخی غلطیوں کے امکان پر اس قدر زور سے بحث کی ہے۔ شاید اس سے ناظرین کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ شاید یہ امر(کام) نہایت اہم ہے۔ مگر انہیں مفصلہ (تفصيل)ذیل چند باتیں یاد رکھنی چاہییں کہ ۔

۱۔ صرف چند ہی صورتیں ہیں۔ اور وہ بھی نہایت خفیف (معمولی)ہیں ۔ جن کی بابت صحت و درستی کا سوال اُٹھایا گیا ہے۔

۲۔ اور ان میں سے بھی بعض تو محض ناقلوں (نقل کرنے والے)کی غلطیاں ہیں نہ اصل نوشتوں کی۔

۳۔ اور اس کے ساتھ ہی اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ واقعات کے باقی حصوں سے جو تحریر نہیں کی گئی ۔ اور جو تکمیل کے لئے ضرور ی ہیں۔ ہم ناواقف ہیں۔ اور نیز یہ بھی کہ جب ایک ہی واقعہ کے کوئی ایک صحیح بیان بڑے اختصا ر (خلاصہ)کے ساتھ یک جا جمع کئے جاتے ہیں ۔ تو ناظر کے دل میں غلطی یا اختلاف کا خیال پیدا ہونا ممکن ہے۔ حالانکہ دراصل ایسا نہیں ہوتا دیگر تواریخ سے اس قسم کی مثالیں لے کر ان پر غور کر نافائدہ سے خالی نہ ہوگا۔

اس لئے جب کہ ہم بائبل کے علمی اور تاریخی مسائل کے کامل طور پر سہوو خطا (غلطی وخطا)سے مبرا (پاک)ہونے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ امر کوئی بہت بڑی وقعت (عزت)اور اہمیت کے قابل نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ ہی بھی کہے دیتا ہوں کہ ایسے چھو ٹے چھوٹے نقصوں کا جو ان مٹی کے برتنوں میں جن میں خدا کے خزانے بھرے ہیں ۔ پائے جاتے ہیں۔ بہت کچھ لحاظ کرنا بالکل فضول ہے۔ البتہ اگر بے چین دلوں کی تسلی کے لئے ہو تو کچھ مضائقہ (حرج)نہیں۔ خدا کے وسیع اور پُر ثمر(پھل دار) ہرے بھر ے مرغزار(سبزازار) میں اس قسم کی مشکلات اور اختلافات کو چھپائے رہنا غیر ضروری ہے۔ اگر ہم روحانی خوراک کے لئے بائبل کو مطالعہ نہیں کرتے۔ تو اس قسم کے دوسرے مطالعوں سے کسی قسم کا فائدہ اور قوت حاصل نہیں ہو گی ۔ جیسا کہ فلّر صاحب لکھتے ہیں۔ کہ

’’ اگر لوگ کلام اللہ کی سادہ خوراک کو نہیں کھائیں گے۔ تو اگر اس کی ہڈیا ں ان کا گلاگھونٹ دیں ۔ تو ان کے لئے گلہ و شکوہ کا (اعتراض)مقام نہیں ‘‘۔

باب پنجم

خدا کی تعلیم کی بتدریج ترقی

(1)

عہدِ عتیق کی اخلاقی مشکلات

اس سے پہلے با ب میں ميں نے دو عام خیالوں کا ذکر کیا ہے۔ جو سب باتوں سے بڑھ کر لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ پیدا کرنے اور زیادہ تراس تمام بے چینی کا باعث ہیں ۔ ان میں سے پہلا جس کا ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں ۔ زیادہ تر بائبل کے متعلق ذہنی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ مگر اب ہم اس دوسرے خیال پربحث کرتے ہیں۔

دُوسرا خیال

الہٰام کے لئے یہ شرط ہے کہ اخلاقی اور روحانی سچائیوں کے متعلق خدا کی تعلیم جو اس کے ذریعے سے دی جاتی ہے۔ وہ ادنیٰ اور ناکامل صورتوں سے ترقی کر کے اعلیٰ صورتوں تک نہ پہنچے ۔ بلکہ ابتداہی سے اسے اپنی ساری کمالیت (مہارت)کے ساتھ جلوہ گر(ظاہر) ہونا چاہیے۔

یہ خیال دونوں خیا لوں میں سےزیادہ خطر ناک ہے۔ بہت سے اشخاص کے نزدیک پاک نوشتوں کے متعلق ذہنی مشکلات کچھ بہت وزن نہیں رکھتیں ۔ عام عقل انسانی کی مد د سے وہ بہت جلد دیکھ لیتے ہیں کہ خدا کے لئے یہ ضرور ی نہ تھا کہ الہٰامی نو يس ندہ کو انشائی(عبارت آرائی) اور علمی امور میں سہوو خطا (غلطی و خطا)سے مبرا (پاک)کر دے تا کہ وہ لوگوں کو حسن ِتقدس کی تعلیم دینے کے قابل ہو۔ مگر جو مشکلات در حقیقت خوفناک ہیں۔ وہ اس امر(کام) سے پیدا ہوتی ہیں کہ عہدِ عتیق (پرانا عہدنامہ)کے بعض اقوال منور شدہ مسیحی ضمیر و آگاہی کے موازنہ میں بہت ادنیٰ ترقی ہیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ اس قسم کی باتیں بھی روح القدس کے الہٰام سے لکھی گئی ہوں؟

مثلا ً ہم ابتدائی زمانے میں خدا کی نسبت بہت ہی ادنیٰ(نيچا) اور بے ڈہنگے خیال پاتے ہیں۔ گویا کہ وہ محض ایک قومی دیوتا تھا۔ جسے فقط اسرائیل ہی کی حفاظت و بہبودی مقصود(ارادہ کيا گيا) تھی ۔ اور دوسری اقوام کی طرف سے عداوت(دشمنی) نہیں تو بے پروائی تو ضرور کرتا تھا۔ ہم دیکھتےہیں کہ بائبل میں غلامی ،اور کثرت ازدواجی(ايک سے ذيادہ شادياں) کی اجازت دی گئی ہے۔ اور آدمی فقط ایک طلاق نامہ لکھ کر اپنی جورو (بيوی )کو الگ کر سکتاتھا۔ ہم نفرت بھرے دل کے ساتھ اس دغا بازی(دھوکہ دينا) کا ذکر بھی پڑھتے ہیں۔ جسے دبورانبیہ نے بڑی خوشی سے سنا ۔ اور اس پر ایسے برکت کے کلمے فرمائے جیسے مقدس کنواری کےکے حق میں کہہ گئے کہ

’’ حرقینی کی بيوی سب عورتوں سے مبارک ٹھہرے گی ‘‘( قضاۃ ۲۴:۵)۔

بعض نہایت ہی حمد و ستائش سے معمور زبوروں میں ہم بعض وقت ایسی دعاؤں کو سن کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جن میں خدا سے دعا و التجاء (فرياد)کی جاتی ہے کہ گنہگاروں پر یا اس سے بھی بڑھ کر زبور نویس (زبور لکھنے والا)کے دشمنوں پر اپنا غضب اور عذاب نازل کرے۔ ہم نہیں خیال کر سکتے کہ یسوع مسیح اس قسم کی آرزؤوں(منت اور التجا) کو پسند کرتا ۔ بلکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ خود ہمارے دل بھی اس امر کو گوارا کرتے نظر نہیں آتے ۔

(2)

تعلیم ایک معقول طریقہ

یہ تو سچ ہے کہ اس قسم کی مشکلات بائبل کی اخلاقی تعلیم کے خوبصورت چہرہ پر بطور بے معلوم دھبوں کے ہيں۔ لیکن اگر ہم سچے دل سے مسئلہ الہٰام کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو اس قسم کی مشکلات سے ہرگز پہلوتہی (کنارہ کشی)نہیں کرنی چاہیے ۔ میں جانتا ہوں کہ بعض اصحاب (دوست )جن کے دل میں پاک نوشتوں کے ادب و عزت میں عقل و دانش کو بہت دخل نہیں ہے۔ اس قسم کے واقعات کی اخلاقی حیثیت پر بحث کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ’’ تم کون ہو کہ اپنے ضمیر کو بائبل کی باتوں پر حکم لگانے کے لئے جج مقرر کرو‘‘ ۔ کولرج صاحب اپنے اقرارات میں ایک عالم خادم الدین کا ذکر کرتے ہیں۔ کہ جب اس کے سامنے یا عيل کے فعل کے قابل تعریف ہونے پر اعتراض کیا گیا۔ تو یہ کہہ کر بحث کا خاتمہ کر دیا کہ

’’ میں تو بائبل سے بہتر کوئی اخلاقی تعلیم نہیں چاہتا اور کسی چیز کے قابل تعریف ہونے کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ بائبل نے اسے تعریف کے قابل بیان کیا ہے‘‘۔

ایسے اصحاب بائبل کے لئے نہایت بڑے خطر ے اور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ اس وقت بھی ایسے کئی شخص موجود ہوں گے۔ اور اس لئے میں یہاں اس امر پر بڑے اصرار(تاکيد) کے ساتھ زور دیتا ہوں کہ جب تم بائبل کا مطالعہ کرو تو بلا خوف و اندیشہ کسی آیت کے ایسے معنوں کو جو عالمگیر مسیحی ضمیر کے خلاف (1) ہیں ردّ کرتے جاؤ ۔ خدا ہی نے تمہیں ضمیر بھی دیا ہے۔ اور بائبل بھی ضمیر ہی کے ذریعے سے روح الہٰی روح انسانی کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ اور اس لئے کسی فقرہ کا مضمون جو انسان کے حق اور راستی کےسب سے اعلیٰ مقیاس (اعلیٰ پيمانہ)کے خلاف ہو۔ اس کو ہمیشہ بے اعتباری اور شبہ (شک)کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

یہ خیال کرتے ہوئے افسوس معلوم ہوتا ہے کہ اس بیسویں صدی کے شروع میں اس قسم کے الفاط لکھنے کی حاجت(ضرورت) پڑی۔ مگر ہم اس امر(کام) سے اپنی آنکھیں ہر گز بند نہیں کر سکتے کہ اس قسم کے الفاط کی حاجت (ضرورت)ہے۔ اور کہ آگے ہی مذہب کے مقدمہ کا کلامِ اللہ کی شرح و تفسیر میں اس خدا دا د ضمیر کے نہ استعمال کرنے کے سبب بہت ہی ضررونقصان پہنچ چکا ہے۔

اکثر اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں حق و باطل کے محض انسانی خیالات کی بناء پر اس قدر حوصلہ نہیں کر نا چاہیے ۔ اور اگر ہم کو یہ کہا جائے۔ جیسا کہ اکثر کہا گیا ہے کہ پاک نوشتوں کا فلاں مسئلہ انسان کے اعلیٰ خیالات و حسات سے جو وہ درستی اور مناسبت اور فیاضی کی نسبت رکھتا ہے ۔ مخالف نظر آتا ہے۔ تو بھی ہمیں اپنی اس اخلاقی نفر ت کا ذرا بھر بھی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ سچّا اور بچّوں کے ایسا ایمان ہر ایک بات کو بلا تاّمل(بغير سوچے سمجھے) قبول کرنے پر آمادہ ہو گا۔


(1)یہ یاد رہے کہ میں نے یہ نہیں کہا۔ کہ جو کچھ میرے یا تمہارے ضمیر کے فرداًفرداً مخالف ہو۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے۔ کہ میرا یا تمہار ا ضمیر کسی امر میں خراب یا غلطی پر ہو۔ مگر تعلیم یافتہ مسیحیوں کے مجموعی ضمیر کی نسبت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۔زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔

مگر یقین جانو کہ سچّا بچّوں کے ایسا ایمان ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔ اور یہ ایک نہایت ہی معیوب(عيب دار) امر ہے۔ اور اس سے سچے مذہب کی بنیادوں کو ضرر(نقصان) پہنچتا ہے ۔ جب کہ ایمان کا اس طور سے ذکر کیا جاتا ہے۔ خدا پر ایمان لانا ایک شخص پر ایمان لانا ہے۔ ایک صاحب خصلت (مزاج)شخص پر جو لامحدود عد د اور محبت اور تقد س اور شرافت اور فیاضی کی صفات سے موصوف (جس کی تعريف کی جاے) ہے۔ وہ ایسا خدا ہے جو اگر ایسا کہنا بے ادبی میں داخل نہ ہو۔ اپنی الوہیت سے قطع تعلق کرنا بہتر سمجھے گا۔ بجائے اس کے کہ کسی آدمی کے ساتھ نامناسب سلوک کرے۔ یا بے مروتی یا بے مہری سے پیش آئے۔ یہی ایمان ہے۔ جس کے لئے بائبل کا مطالعہ کرتے وقت تمہیں دعا کرنی مانگنی چاہیے ۔ تمہیں پر محبت ، وفادار ، اور بااعتماد بچے کی طرح ہو نا چاہیے ۔ جو ہمیشہ اپنے باپ کا باوفا فرزندبنا رہتا ہے۔ اور اس کی خصلت و عزت کے لئے غیرت مند ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسی بات کہے جو اس کی شان کے شایاں نہ ہو تو اس پر کبھی یقین نہیں کرتا ۔ خواہ وہ لوگ یہ بھی کیوں نہ کہا کریں کہ ایسی باتیں خود اس باپ کی تحریری کلام میں لکھی ہوئی ہیں۔

اگر میرے ناظرین میں سے کوئی شخص اپنے د ل میں یہ ٹھان بیٹھا ہے کہ ضمیر کو بائبل کی اخلاقی تعلیم پر حکم لگانے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تو اسے اس کتاب کو آگے نہیں پڑھنا چاہیے ۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو میں جہاں تک ہو سکے گا۔ اس کی امداد کے لئے حاضر ہوں۔ اس کےلئے میری یہ تجویز ہے کہ بالفعل اُسے ان مشکلات سے الگ ہٹالے جاؤ ں گا۔ اوراس فصل کے خاتمہ پر پھر اسے ان کی طرف متوجہ کروں گا۔ اس وقت میں اسے ان کے فیصلہ کے بہتر طور پر لائق بنانے کی کوشش کروں گا۔

میں یہ امر جتا دینا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات کے پیدا ہونے کا یہ باعث ہے کہ لوگ بحث غلط مقدمات سے شروع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ ’’اگر خدا اور روح القدس عہدِ عتیق (پرانا عہد نامہ)کی تعلیم دینے والا تھا۔ تو ضرور ہے کہ ہر زمانہ میں وہ ایک ہی قسم کے عالی پایہ(عظيم) اور شریف فرائض و احکام کی تعلیم دے کسی قسم کی ناکاملیت یا نگھڑپن ، یا ادنیٰ (نيچا)اخلاقی تعلیم کسی زمانہ میں بھی ایسی تعلیم کے جو خدا کے طرف سے ہونے کے دعوے دار ہے۔ شایان شان نہیں ہے‘‘۔ مگر اس دعویٰ کو ہرگز قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں ۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ تمہیں اس قسم کا دعویٰ (مطالبہ)کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ میں تمہارے ہی طریق سے جو تم اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے استعمال کرتے ہو۔ تمہیں یہ دکھاؤں گا کہ جس بات کی تم بائبل سے اميد کرتے ہو۔وہ بالکل خلافِ عقل اور خلافِ فطرت ہے ۔بلکہ تمہیں اس میں سے اسی قسم کا اُمیدوار ہونا چاہیے ۔ جس کا اس میں پایا جانا ممکن ہے۔ یعنی ادنیٰ اور سہل (آسان)تعلیم و رفتہ رفتہ اورقد م تقد م ترقی کرتی جاتی ہے۔ اور جو آخر کار یسوع مسیح کی تعلیم میں اپنےکمال کو پہنچتی ہے۔

(3)

پہلی مثال

ہم اپنے تمام تعلیمی اُمور میں بلا تاّمل اس قانون کو کہ ہر ایک چیز بتدریج و بہ ترتیب(آہستہ آہستہ تر تيب سے ) نشوونما پاتی ہے۔ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمیں نہایت ہی ادنیٰ(چھوٹی) اور ابتدائی باتوں سے شروع کرنا چاہیے ۔ اور کہ شروع میں نہایت ہی موٹے موٹے اور نامکمل خیالوں پر اکتفا ء (کافی سمجھنا)کرنی ضرور ہے۔ بلکہ امر واقعی تو یہ ہے کہ جب تک اعلیٰ مسائل کے سمجھنے کے لئے ذہن کافی طور پر تیار نہ ہو۔ تو اعلیٰ علو م کی تعلیم نہ صرف ناکارہ ہو گی بلکہ اس سے انسان خواہ مخواہ دھوکا کھائے گا۔

علم ہندسہ کا ماہر جو عالم کی نہایت ہی پیچیدہ اشکال و سوالات کے حل کرنے میں استاد ہے۔ اس پر بھی ایک زمانہ گذر چکا ہے۔ جب کہ وہ طفل ابجد جان(بچپن سے حروفِ تہجی کو جانے والا ) تھا۔ اس وقت اس کے لئے اس قسم کے دقیق (مشکل)سوالات بالکل عقدہ لا يخل(حل نہ ہونے والے مشکل سوال) ہوتے ۔ اور وہ ان کی حقیقت کےسمجھنے سے بالکل عاری (مجبور)ہوتا ۔ اس کےدل میں کبھی خیال بھی نہیں آئے گا کہ اپنے لڑکے سے جس نے بھی اقلیدس(رياضی کا علم) کے مقالہ (تحرير)اوّل کو شروع کیا ہے۔ ابھی سے اس قسم کے اعلیٰ مطالعوں کی اُمید کرے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک طول طویل(بہت لمبا) اور بتدریج (آہستہ آہستہ)تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس کا بچہ اس امر (کام۔ فعل)کو سمجھنے کے قابل ہو گا کہ مثلث قائم الزاویہ (تکون ۹۰ڈگری کا زاويہ)کے و تر(مثلث قائم الزاويہ کا سب سے بڑا ضلع) پر جو مربع بنا یا جائے ۔ وہ اس کے دوسرے دونوں ضلعوں کے مربعوں کے مجموعہ کےبرابر ہو گا۔ اور اس سے بھی زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اس امر کو معلوم کرے گا کہ یہ ریاضی کا مسئلہ تمام عالم کے قائم الزاویہ مثلثوں کے حق میں صحیح ٹھہرتا ہے۔ باپ کو مشکل سے وہ وقت یا د ہوگا۔ جب کہ اس قسم کی دریافتیں اس کے لئے بالکل نئی باتیں تھیں۔ وہ ان بے شمار زینوں(سيڑھيوں) کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ جو ابھی اس کے اور اس کے بیٹے کی علمی واقفیت کے درمیان واقع ہیں۔ اور جس پر اس کے بیتے کو قد م بقدم چڑھنا ہے ۔ لیکن اگر وہ دانا (عقلمند)ہے ۔ تو وہ اس امر میں ہرگز جلد بازی نہیں کرےگا۔ وہ یہ نہیں کہے گا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ میرا یہ اعلیٰ علم سچا اور قیمتی ہے۔ اور اس سے مجھے بہت ہی ذہنی خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے میں اپنے بیٹے کو بھی اسی وقت اس کے سکھانے کی کوشش کروں گا۔ کیا ضرور ہے کہ میں ان ادنیٰ علو م کی تعلیم پر اپنا وقت ضائع کروں ۔ جب کہ دوسرا علم ایسا اعلیٰ اور عظیم الشان اور خوبصورت ہے‘‘۔ نہیں۔ ہرگز نہیں ۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بیٹے کا ذہن اس وقت اس کے لائق نہیں۔ اور اس لئے وہ عقل مندی سے اس کے ذہنی نشوونما کے بتدریج (آہستہ آہستہ)ترقی پانے کا صبر سے انتظار کرتا ہے۔

(4)

دُوسری مثال

اور کیا یہی اصول ہماری اخلاقی اور مذہبی تعلیم و تربیت پر بھی حاوی(بھاری) نہیں ہے؟ ایک دانا اور سمجھ دار آدمی کو وسطی افریقہ میں غلاموں کے درمیان مشنری مقرر کرکے بھیجو ۔ جو ابھی ابھی غلامانہ اور وحشیانہ زندگی سے نکل رہے ہیں۔ اور جن کی پرانی عادتیں ابھی تک ان پر قابو رکھتی ہیں۔ اور شراب نوشی اور ناپاکی اور قتل اور لوٹ ماران کےلئے معمولی باتیں ہیں۔ کیا وہ ان کی اصلاح اس طور سے شروع کرے گا کہ ان کے تمام نقصوں اور بے ہودہ عادتوں پر یک قلم(فوراً) پانی پھیر دے۔ اور اعلیٰ درجہ کے چال چلن اور عادت و خصلت (فطرت)کے متعلق سخت قواعد مقر ر کر دے۔جن کے حسن و خوبی کی قدر کرنے کی وہ بالکل قابلیت نہیں رکھتے۔ اور جن پر زور دینے سے ان کے بغاوت(سرکشی) پر آمادہ ہو جانےکا اندیشہ (ڈر)ہے؟ کیا اس کی ابتدائی تعلیم یہ ہو گی کہ انہیں خود انکاری اور دشمنوں سے محبت رکھنے۔ عورتوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے۔ اعلیٰ ایمان اور پُر محبت عبادت ۔ اور خدا کے لئے اپنی جان کو تسلیم کر دینے کے فرائض سکھائے؟ کیا وہ یک قلم ان سے یہ اُمید رکھے گا۔ کہ وہ اپنے چال چلن میں وہ اعلیٰ تقدس و نیکو کاری ظاہر کریں ۔ جو اعلیٰ سے اعلیٰ مسیحی ولیوں(خدا کے قريبی لوگ) میں نظر آتی ہے؟

یقیناً نہیں۔ اگر وہ دانا اور فہیم(عقل مند) ہوگا۔ تو وہ ابتداء میں بہت سی باتوں سے جو اسے ناپسند ہوں گی۔ چشم پوشی (نظرانداز) کرے گا۔ بہت سی باتیں جنہیں دیکھ کر اسے افسوس اور ناخوشی ہو گی۔ در گذر(برداشت) کرے گا۔ کیوں کہ اسے بتدریج (آہستہ آہستہ)نشوونما حاصل ہونےکا قانون خوب یا د ہے۔ وہ آسان آسان اور سادہ سادہ احکام جاری کرے گا۔ وہ چھوٹی چھوٹی ابتدائی باتوں کی تعلیم دےگا۔ وہ ہرایک ایسی علامت کو دیکھ کر جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ درحقیقت نیکی کی طرف ترقی کر رہےہیں خوش ہوگا۔ اگرچہ اس کے ساتھ بہت کچھ بدی کی آمیزش (ملاوٹ)بھی کیوں نہ ہو۔ دُعا اور اُمید اور محبت کے ساتھ وہ اپنے لوگوں کو نگاہ رکھے گا۔ اور اپنی تعلیم کے سلسلہ کو بڑے صبر اور استقلال (مضبوطی)سے جاری رکھے گا۔ اسے ان کے مزاج وخصلت میں حقیقی ترقی دیکھ کر اگرچہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو ۔ زیادہ خوشی ہو گی۔ بہ نسبت اس کے کہ ان سے کسی بیرونی قواعد کی سختی سے پابندی کرائے۔ وہ آہستہ آہستہ ترقی کرنے پر قانع (قناعت کرنا)ہو گا۔ اور رفتہ رفتہ بے معلوم مدارج (معمو لی درجہ)سے اپنے مدعا کو حاصل کرتا جائے گا۔ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کو جو گو باہر کے لوگوں کے نزدیک تعریف کی نسبت زیادہ تر قابل زجرو تو بیخ(ملامت وطنز) ٹھہریں۔ مگر اس کی نظر میں ان بے چارے وحشیوں کی ترقی کے اعلیٰ زينوں پر چڑھنے کی علامت ہیں۔ بڑی شادمانی سے ملاحظہ (ديکھنا)کرے گا۔ وہ کچھ عرصہ تک اس امر پر قناعت (جو مل جاے اس پر راضی ہونا)کرےگا کہ ان کے دل میں خدا اور مذہب کے متعلق ناکامل اور موٹے سوٹےخیالات جاگزین (بيدار)رہیں۔ وہ اپنے کو اس بے چارے پر خطا آدمی کی جگہ پر رکھ کر جو اعلیٰ زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہمدردی کرے گا۔ اور اس کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ کیوں کہ اسے سچے دل سے اس امر پر اعتقاد(يقين) ہے کہ یہ لوگ آخر کار ضرور ترقی کرکے اعلیٰ زندگی کو حاصل کر لیں گے۔

وہ راست باز آدمی ہمیشہ خدا سے ان بے چارے و حشیوں کے حق میں دعا کرے گا۔ کہ ’’ وہ اپنے رُوح القّدس کے الہٰام سے ان کے دل کے خیالوں کو پاک کرے‘‘۔ مگر اسے اس امر(فعل) کا بھی یقین ہے۔ کہ خدا رُوح القّدس کی حضوری سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر قسم کی غلطی اور بدکاری معدوم(ختم) ہو جائے۔ بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان لوگوں میں کچھ کچھ سچائی اور کچھ روحانی زندگی موجود ہے۔ اگرچہ اس کی مقدار بہت سی قلیل(کم) کیوں نہ ہو۔ اور اس یقین کے ساتھ وہ صبر کے ساتھ انتظار کرتا ہے۔ اور برابر انہیں تعلیم دیتا ۔ اور ان کے حق میں دعا مانگتا رہتا ہے اور اُمید کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

رفتہ رفتہ جب کہ ان لوگوں میں سے بعض ایک اعلیٰ شریف مزاج مسیحی کے درجہ کو حاصل کرلیتے ہیں۔ اور مصلوب کے راستہ پر قدم بقدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کیا وہ اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت اور ابتدائی خیالات پر پیچھے کو نظر نہیں ڈالیں گے۔ اور اسے ایک ابتدائی منزل نہیں سمجھیں گے۔ جس سے وہ اب بہت دُور نکل آئے ہیں۔ مگر کیا ساتھ ہی وہ یہ اقرار نہ کریں گے کہ یہ ادنیٰ منزل ان کی اس اعلیٰ زندگی کے حصول کےلئے ایک لازمی تیار ی تھی۔

(5)

برہمن کا نشوونما ۔ ایک مثال

ہم غیر اقوام کی زندگی سے بھی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر میکس مار صاحب برہمنوں کی مذہبی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ کہ

’’ شاگرد کو مذہبی نشوونما کے تین مدارج میں سے گذرنا پڑتاہے۔ یعنی طالب علمی (علم حاصل کرنا)۔ خانہ داری (گھر کا کام)۔ اور گیان دھیان(سوچ وفکر) کی زندگی میں سے طالب علموں کو پہلےویدوں (ہندؤں کی مقدس کتاب)کو برزبان (زبانی ياد )کرنا پڑتا ہے۔ اور جب وہ خانہ دار ہوتا ہے۔ تو اسی کے مطابق وہ اپنے سب کاروبار اور پوجا پاٹ کرتا ہے ۔ مگر جب وہ تیسر ے درجہ کو پہنچتا ہے۔ اور اس کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ تو وہ ان تمام ادنیٰ باتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور اپنےسارے خیالوں کو برہم (خدا)پر لگا دیتا ہے‘‘۔

وید اب اس کے لئے علم کےلحاظ سے گویا ایک ادنیٰ چیز ہو جاتے ہیں۔ اور راگنی (بد کار عورت)اور اندر (باطن)کا اب نام ہی نام رہ جاتا ہے۔ ہزار ہا سال سے ایسے برہمنوں کے خاندان چلے آتے ہیں۔ جن میں بیٹا روز بروز ویدوں کے شلوک (حمد۔ قصيدہ)برزبان کرتا ہے۔ اور باپ دن بدن پوجاپاٹ میں مشغول رہتا ہے۔ اور دادا ان سب ریت و رسوم(رسم ورواج) کو محض بطلان (جھوٹ)سمجھتا ہے۔ بلکہ ویدوں کے دیوتاؤں کو بھی نہیں مانتا۔ بلکہ ان کو اس کی ساری توجہ اس اعلیٰ گیان اور معرفت(خدا کا علم) پر لگی ہے۔ مگر دادا باوجود اس کے اپنے بیٹے اور پوتے کو حقارت(کمتر) کی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ اور نہ اگر چہ ظاہر ی ریت و رسم کے قواعد کی پوری پابندی کرتے ہیں۔ اس کو برا بھلا کہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اس تنگ دروازہ سے گذر چکا ہے۔ اور اس لئے اس کی اس آزادی اور اعلیٰ خیالات کے اعلیٰ درجہ کے لئے جس کو اس نے حاصل کر لیا ہے اس کو نہیں ستاتے۔

(6)

قوم کی تعلیم

اب ہم اس امر کو دیکھیں گے۔ کہ جو اصول افراد کےحق میں صحیح ہے۔ وہی اصول اقوام کے حق میں بھی صحیح ہے۔ آدمی گہوارے (پنگوڑا)سے لے کر قبرتک برابر ترقی کئے جاتا ہے۔اور یہی حال اقوام کا بھی ہے ان میں بھی برابر نشوونما حاصل کرتے رہنے کی قابلیت (خوبی)ہے۔ ہر ایک نسل گذشتہ نسل کی نشوونما کے نتائج کو اپنی ذات میں شامل کر لیتی ہے۔ اور آگے قدم بڑھاتی جاتی ہے۔

اس طاقت کے لحاظ سے جس کے مطابق زمانہ ماضی کے نتائج کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ بنی انسان کو اگر ایک عظیم انسان کہیں تو بجا ہے۔ جس کی عمر ہزار ہا سال کی ہے۔ مختلف زمانوں کی ایجاد یں اور دریافتیں سب اسی کا کام ہیں۔ اور عقائد اور مسائل اور رائیں اور اصول سب اسی کے خیال ہیں۔ مختلف زمانوں کی سوسائیٹوں کی حالت اس کے طور و طریق ہیں۔ وہ ہماری ہی طرح علم اور خودداری اور ظاہر ی جسامت میں برابر بڑھتا چلاجاتا ہے۔ اور اس کی تعلیم بھی اسی طریق اور انہیں وجوہات کے لحاظ سے ہماری ہی طرح ہوتی ہے۔

اس لئے قوم کے حق بچپن اور جوانی اور کہولت (بڑھاپے کی آغاز)کے الفاط کا استعمال کرنا بر محل (مناسب)ہے۔ نہایت قدیم زمانوں کے انسان ہمارے مقابلے میں محض بچے ہی تھے۔ ان کے لئے ادنیٰ اور ابتدائی قسم کی تعلیم کی ضرورت تھی۔ ان میں ایسی خود داری نہ تھی۔ اور ان کے نقصوں اور گناہوں سے بہت کچھ درگذر(برداشت) کرنی مناسب ہے۔ وہ خدا کے اس عظیم الشان مدرسہ کی ادنیٰ جماعتوں میں تعلیم پاتے تھے۔

(7)

خدا کا مدرسہ

اگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے ۔ تو اُمید ہے کہ ناظرین نے اب اس اصول کو کہ خدا بنی انسان کو رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ تعلیم دیتا ہے خوب جان لیا ہے۔ اور اب وہ بائبل کی اخلاقی تعلیم کے متعلق صحیح خیال کو قبول کر سکیں گے۔

بائبل یا یوں کہو کہ عہدِ عتیق کو اب یہ نہیں سمجھنا چاہیےکہ وہ احکام یا ہدایات یا مثالات کا مجموعہ ہے۔ جو ہر زمانے اور ہر حالت کےلوگوں کے لئے قابل تعمیل و پیروی ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو اس کو اس شرافت اور مذہبی اُمور کی تعلیم میں بتدریج ترقی کرنے کی کہانی سمجھنا چاہیے کہ کس طرح وہ آہستہ آہستہ خدا کی معرفت کو حاصل کرتے گئے۔ عہدِ عتیق یہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک خاص قوم اس طور پر تربیت کی گئی ۔ اور کس طرح ایک بیچاری قوم نے جو غلامی کی حالت میں مصر سے نکلی تھی۔ رکاوٹ اور ہدایات اور سرزنش (بُرا بھلا)اور ملامت کے ذریعہ بڑی سہولت اور تدریج (درجہ بہ درجہ)کے ساتھ اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کی ۔ کس طرح خدا ان کی نگہبانی کرتا رہتا تھا۔ جیسے سنا ر چاندی سونے کو کٹھالی میں صاف کرتا ہے۔ اور اس سے رفتہ رفتہ ساری میل ملاوٹ کو خارج (نکال)کر دیتا ہے۔

اس میں اس بتدریج طریق تعلیم کا ذکر ہے۔ جس کا ہم اُوپر اپنی مثال میں ذکر کر چکے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنی باتیں تھیں جو اس ابتدائی زمانہ میں در گذر کی گئی تھیں۔ یا جیسا کہ (اعمال ۳۰:۱۷) میں لکھا ہے۔ ’’ چشم پوشی ‘‘ کی گئی کس طرح غلامی یک لخت(ايک دم ) دُور نہیں کر دی گئی۔ بلکہ اس کی بے رحمیوں کی ممانعت کی گئی۔ اور اس کی بدعملیوں(بُرےکام) کو روکا گیا۔ کس طرح عورتوں کی طلاق کی بالکل ممانعت(منع کرنا) کی گئی ۔ مگر اس پر سخت قید یں لگا دیں گئیں۔ تاکہ لوگ بے پروائی سے اس پر عمل درآمد نہ کریں۔ کس طرح کینہ (دشمنی)اور انتقام (بدلہ)کے وحشیانہ قومی دستور پناہ کے لئے شہر مقرر کرنےکے ذریعے ہلکے کر دئیے گئے ۔ تاکہ منتقم(انتقام لينے والا) کا غیظ و غضب(سخت غصّہ) انقضائے زمانہ (وقت گزرنے کے ساتھ)سےسرد(ٹھنڈے) ہو جائے۔

وہ دکھاتا ہے کہ کس طرح ملائمت اور تحمل اور بردباری اور دوسروں کی یہی خواہی کی تعلیم روح القدس کے الہٰام سے رفتہ رفتہ ان کے قوانین میں داخل ہوتی گئی۔ وہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ ان کا خدا کا تصور کیسا ناکامل اور من گھڑت تھا۔ جیسا کہ ان بچوں کا ہوتا ہے۔ جن کی تعلیم ابھی شروع ہوئی ہو ۔ وہ یہ دکھاتا ہے کہ کیسی حقیقی دینداری اور اخلاقی امور میں گرم جوشی کے ساتھ اعتقاد(يقين) کی ناکامل اور نامناسب صورتیں اور خدا کی رضا کے متعلق غلط خیالات بھی ملے ہوئے ہیں۔ وہ یہ دیکھاتا ہے کہ ہر ایک زمانہ میں اس زمانہ کی حیثیت اور حالت کے مطابق تعلیم ملتی رہی۔ نہ تو اس میں بہت جلدی تھی۔نہ سستی وہ ہر زمانہ کے حالات اور سوالا ت کے ساتھ اپنے بوربط دیتی تھی۔ اگر چہ ہمیشہ اس سے کچھ نہ کچھ بڑھی ہوئی نظر آتی تھی۔ مگر ایسی نہیں کہ لوگ اس کی پیروی کرتے ڈر جائیں القصہ(مختصر يہ کہ) ہر ایک سمجھدار شخص جو غور سے اس کا مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھ لے گا کہ اس میں مذہبی خیالات نے بتدریج (آہستہ آہستہ)نشوونما حاصل کیا۔ اور خدا اور راستی اور فرض کی نسبت ابتدائی ناقص خیال رفتہ رفتہ ترقی کرتے گئے۔ یہاں تک کہ اس اخلاقی خوبصورتی کو حاصل کر لیا جو ہم یسوع مسیح کی تعلیم میں دیکھتے ہیں۔

اگر کسی کو اب بھی الہٰی تعلیم کی اس نشوونما کے متعلق شبہ(شک) باقی رہے۔ تو اسے ہمارے خدا وند کے ان اقوال کو پڑھ کر اس میں کچھ حجت(بحث) باقی نہیں رہے گی۔ مثلا ً ’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھنا اور اپنے دشمن سے عداوت (دشمنی)لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنےدشمنوں سے محبت رکھو۔ اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا مانگو‘‘ ۔ ’’موسیٰ نے تمہارے دل کی سختی کے سبب ‘‘ بعض آسان شرائط پر طلاق کی اجازت دی ’’مگر میں تم سے کہتا ہوں ۔ کہ جو کوئی اپنی بیوی کو زنا کار ی کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے‘‘۔ اور پھر دوسرے موقعہ پر جب کہ غضب ناک (سخت غصہ)شاگرد اپنے اُستاد کے دکھ دینے والوں پر آسمان سے آگ برسانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ایلیاہ نے کیا۔ تو اس نےانہیں بتا دیا کہ مسیح کی روح ایلیاہ کی روح نہیں ہے۔ اور کہ وہ روحانی تعلیم کے ایک اعلیٰ درجہ(اونچا درجہ) سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بائبل ہی ہے۔ جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں قدیمی(پرانی) تعلیم کی اخلاقی حالت پر کس طرح حکم لگانا چاہیے ۔ ’’ خود یہی امر کہ ہم عہدِ عتیق کے نقصوں (غلطياں)اور مکیتوں پر ایک زیادہ اعلیٰ مقیاس (عمدہ پيمانہ)کے مطابق حکم لگا سکتے ہیں۔ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ کس طرح بڑے صبر کے ساتھ روح حق اپنے کام کو سرانجام دیتا آیا ہے۔ اور ان واقعا ت کی بنا پر ہم بلا تامل(بغیر سوچے سمجھے) یہ کہہ سکتے ہیں کہ مکاشفہ کے اس الہٰی انتظام و طریق میں بالکل کامیابی ہوئی ہے‘‘۔ مقدس خرد سستم لکھتا ہے۔

’’یہ مت پوچھو کہ عہدِ عتیق کے احکام اس وقت کس طرح نیک ٹھہر سکتے ہیں۔ جب کہ ان کی ضرورت جاتی رہی بلکہ یہ پوچھو کہ جب زمانہ کو ان کی ضرورت تھی۔ تو اس وقت وہ کیسے اچھے تھے۔ ان کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے۔ کہ ہم اب ان پر نظر کر کے انہیں ناقص (خراب)خیال کرتے ہیں۔ کیوں کہ اگر وہ ایسی اچھی طرح سے ہمارے تربیت نہ کرتے ۔ یہاں تک کہ ہم زیادہ اعلیٰ(عظيم) چیزوں کے حصول کے قابل ہو جائیں ۔ تو ہم کبھی ان کے نقصوں (غلطياں)کو اس وقت نہ دیکھ سکتے ‘‘۔

(8)

اخلاقی مشکلات پر بحث

میں نے اُوپر یہ کہا تھا کہ جب ناظرین ان امور(امر کی جمع) پر حکم لگانے کے لئے صحیح خیال حاصل کر لیں گے۔ تو میں پھر ان کو ان مشکلات پر بحث کرنے کے لئے مدعو کروں گا۔ میں نے اس سے پہلے اس امر پر زور دیا ہے کہ انسانی ضمیر کو بائبل کے اشخاص کے الفاظ اور حالات پر نکتہ چینی کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن میں نے جو کچھ اُوپر بیان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہو گیا ہو گا کہ ان کی نکتہ چینی (برائی نکالنا)کرتے وقت ہمیں کس قدر چشم پوشی(نظر انداز) اور در گذر کرنی چاہیے۔ اس وقت ہم یائیل یا دبورہ یا سموئیل یا ایلیاہ کہ نسبت خدا کی اس اخلاقی تعلیم کے بڑے مدرسہ کی اعلیٰ جماعتوں میں تعلیم پا رہے ہیں۔ ہم اس بڑی عالمگیر قربان گاہ کی ذرا اُونچی سیڑھیوں پر ہیں۔ جو تاریکی(اندھيرا) میں سے خدا کے نور کی طرف چڑھتی جاتی ہیں۔

اس لئے ادنیٰ منزلوں والے لوگوں کے کلام اور افعال پر نکتہ چینی (برائی نکالنا)کرتے وقت ہمیں چاہیے کہ ان پر ان کے مدارج (درجے)کے موافق حکم لگا دیں۔ ان کے ادنیٰ درجہ پر ہونے سے يہ لازم نہيں آتا کہ وہ روح القدس کے الہٰام سے بے بہرہ (محروم)تھے۔ اگر ناظرین (ديکھنے والے)نے میرے اس خیال کو بخوبی ذہن نشین( ذہن ميں بٹھانا)کر لیا ہے کہ مذہب بنی انسان کی ایک جاری تعلیم کا نام ہے۔ وہ بتدریج(آہستہ آہستہ) آگے بڑھتا چلے جانا ہے۔ یا یوں کہوں کہ انسان ایک مخفی (چھپا ہوا)روح القدس کی طاقت سے جو اس کے اندر سکونت(ٹھہرنا) کرتا ہے۔ درجہ بدرجہ اس کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تو وہ یہ دیکھ لے گا کہ آج سے تین ہزار برس پہلے خدا اور راستی اور فرض کی نسبت ادنیٰ (نيچا)درجہ کا خیال ہونا۔ الہٰی الہٰام کی موجودگی کے ساتھ بالکل بے ربط(بے ترتيب) نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھ جائے گا کہ ممکن ہے کہ خود موسیٰ اور سموئیل نبی اور داؤد بعض باتوں میں ہمارے آج کل کے سنڈے سکول کے بچوں سے بھی ادنیٰ روحانی خیال رکھیں۔ مگر باوجود اس کے ان کے تصورات ان کے زمانہ کے لوگوں کے خیالات سے اس قدر بلند و بالا(اونچا) تھے کہ صرف الہٰی الہٰام کی موجودگی کی بنا پر ہم اس فرق کی تسلی بخش وجہ بتا سکتے ہیں۔

البتہ اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ خدا کی نیکی اور بدی کے قوانین کسی درجہ تک بدل گئے ہیں۔ کیونکہ وہ ایسے اٹل (نا ٹلنے والا)ہیں۔ جیسےوہ قوانین جو تمام عالم کی حرکات پر حاوی(بھاری) ہیں۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ جیسا کہ قوانین طبعی ۔ ویسے ہی اخلاقی قوانین بھی درجہ بدرجہ لوگوں پر ظاہر کئے گئے ۔ جو ں جوں وہ ان کے سمجھنے کے قابل ہوتے گئے۔

’’ بقول ہرڈر عہدِ عتیق کے نقص معلم کے نہیں ۔ بلکہ متعلم کے نقص(غلطی) ہیں۔ اخلاقی تعلیم کے سلسلہ میں ان کا ہونا ضروریات سے ہے۔ وہ جزوی (خاص)اور بتدریج(آہستہ آہستہ) حاصل ہونے والے مکاشفہ کے لازمی حدود کے سبب سے ہیں۔ اگر خدا مختلف زمانوں میں تاریخی طور پر مکاشفہ عطا کرنا پسند کرتا ہے۔ تو ضرور ہے کہ یہ مکاشفہ ہر زمانہ کے لوگوں کی ضرورتوں اور ذہنی اور اخلاقی قابلتیوں کے ساتھ وابستہ ہو ‘‘۔

( نیومین سمایتھ )

اگر بتدریج ترقی پانےکا قانون ہمیشہ مدنظر رہے۔ تو عہدِ عتیق کی اخلاقی مشکلات بہت کچھ رفع(ختم) ہو جائیں گی ۔ اب ہم ان مثالوںکوجن کا ہم نے اس فصل کے شروع میں ذکر کیا تھا لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے موجود ہ نقطہِ نظر سے وہ کیسے نظر آتے ہیں۔

۱۔ ہم دیکھتےہیں کہ قدیم زمانہ(پرانا زمانہ)ميں لوگوں کے ذہن میں خدا کا ایسا تصور جاگزین(بيداری) تھا۔ جسے کامل (مکمل)نہیں کہہ سکتے ۔ ان کے نزدیک خدا اور بزرگ اور طاقت ور ہے۔ وہ سب خداؤں سے بڑا ہے۔ راستبازی کو چاہتا ہے۔ بدکاری سے نفرت رکھتا ہے۔ مگر اکثر اس کی نسبت ایسے خیال ظاہر کئے جاتے ہیں کہ گویا وہ فقط قوم اسرائیل کا ہی خدا ہے ۔ اوراُسے دُنیاکی اور اقوام کی کچھ پروا نہیں ۔ مگر کہیں کہیں اعلیٰ (عظيم)سچائی کی شعاعیں بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاً وہ نینوا کی پرواہ کرتا ہے۔ عربی ایوب سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ خا ص کر اس کا یہ کلام کہ موجودہ نسل کے ذریعے’’ زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی‘‘۔ قابل لحاظ ہے رفتہ رفتہ انبیاء کی حد نگاہ و مبلغ ہوتی جاتی ہے۔ مگر مسیح کی آمد کے بعد یہ قدیم نا کاملیت آخر کار دُور ہو گئی۔ اور یہوواہ سب انسانوں کا خدا ظاہر ہوا۔ ایسا خدا ’’ جو چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں‘‘۔

۲۔ ہم زبور میں اعلیٰ اخلاقی تعلیم پاتے ہیں۔ اور زبور نویس خُدا اور تقد س کے لئے بڑی سرگرمی اور آرزو(خواہش) کا اظہار کرتا ہے۔ مگر ساتھ ہی کہیں ہم ایسے کلمات بھی پاتے ہیں۔ جن میں خُدا کے نافرمانوں کے حق میں اور بعض زبور نویس کے دشمنوں کے حق میں سخت بد دُعا کی گئی ہے۔ لیکن اگر ہم قانون نشوونما کو مدنظر رکھیں۔ تو اس میں کوئی بھی مشکل نظر نہیں آتی ۔ یہ دُعائیں محض ذاتی انتقام کا اظہار نہیں ہیں۔ بلکہ اس دعویٰ کا جو اسرائیل خدا پر رکھتی ہے کہ وہ اپنے عد ل (انصاف)کو قائم کرے گا۔ مگر یہ سب اس زمانہ کی باتیں ہیں ۔ جب کہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہی دُنیاوی زندگی ہی ہے جس میں آخر کار خُدا کو اپنے عدل کا تقاضا پور ا کرنا چاہیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ لوگ گناہ اور گنہگار کے درمیان امتیاز (فرق)نہیں کرتے تھے۔ جب کہ اخلاقی امور(امر کی جمع) کے متعلق غضب اور شرارت سے نفرت کی بھر مار کی جاتی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس صورت میں ہم ایسے آدمیوں پر حکم لگا رہے ہیں جو خدا کی سلطنت(حکومت) کی عمارت کے ابتدائی زمانوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بائبل میں انسانی عنصر بھی موجود ہے۔ اور کچی دھات اگرچہ سونے سے معمور ہے۔ تو بھی وہ بالکل خالص سونا نہیں ہے۔

۳۔ پھر ہم اس میں غُلامی اور کثیر الازدواجی (زيادہ شادياں)اور طلاق بھی پاتے ہیں جن کی (یہ یادرہے)اگر چہ اجازت نہیں دی گئی۔ اور نہ ان کے لئے کسی قسم کی ترغیب و تحریص(لالچ دينايا حرص دلانا) کی گئی ہے۔ بلکہ فقط ان کی برداشت کی گئی۔ اور ان پر قیدیں لگائی گئی اور رفتہ رفتہ عالم بالا کی بڑھتی ہوئی تاثیرات سے انہیں زیادہ زیادہ پاک و صاف کر دیا گیا ہے۔

۴۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بعض کارناموں کی تعریف کی گئی ہے۔ یا ان کا بلا کسی قسم کی زجر(دھمکی) و الزام کے ذکر ہوا ہے۔ جنہیں ہم مسیحی دین کی زیادہ صاف روشنی حاصل ہونے کے سبب قابل الزام سمجھتے ہیں۔ مثلاً اسی واقعہ کو لو جس کا ذکر اُوپر ہو چکا ہے کہ اسرائیل کے بہادر نبیہ یائیل کی فعل کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں نے طرح طرح کی دلچسپ تشریحیں کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ سسرانے یائیل کے ساتھ بد سلوکی کی ہو گی ۔ جس کا بدلہ اس نے اس طور سے لیا۔ یا یہ کہ دبورہ نبیہ نے یہ کلمات الہٰام سے نہیں کہے ہوں گے۔ یا یہ کہ پاک نوشتوں کے صاف بیانات میں یائیل کے اس فعل کو ہرگز قابل تعریف نہیں ٹھہرایا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ مگر مجھے اس قسم کی مفروضات کے لئے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔ اور اگر ناظرین میرے طریق استدلال (دلیل لانا)پر جس کا اُوپر ذکر کیا ہوا ہے۔ غور کریں گے۔ تو اس قسم کی تشریحوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی ذبورہ نے نبیہ ہونے کی حیثیت میں کلام کیا۔ مگر اس کو اس الہٰی نو ر کا فقط تھوڑا سا حصہ ملاتھا۔ جو اس کے بعد رفتہ رفتہ بڑھتا گیا ۔ یہاں تک کہ آخر کار روز روشن کے درجے کو پہنچ گیا ۔

۵ ۔’’ تم میروز پر لعنت کرو۔ خدا وند کا فرشتہ بولا ۔ اس کے باشندوں پر بڑی لعنت کرو‘‘۔ یہ دبورہ کا گیت تھا۔ مگر کیا اس نے یہ الفاظ کسی ذاتی غرض کو پورا کرنے کے لئے یا کوئی ذاتی انتقام لینے کے واسطے کہے تھے؟ ہرگز نہیں۔

۶۔ وہ اسرائیل کی ماں تھی اور وہ ایک ماں کے دل کی گرم جوشی اور ایک حب الوطن (وطن سے پيار کرنے والا)کی سرگرمی سے کلام کر رہی تھی۔ اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے ظالموں کے مقابلے میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیا تھا۔ محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اور محبت بھرے دل سے ان کو برکت دے رہی تھی۔ اور اسی محبت سے جو غضب(غصہ) اور انتقام (بدلہ)کی آگ اس کے دل میں اس کے دشمنوں کے مقابل میں بھڑک رہی تھی۔ اس کو بھی اس نے ان بزدل اور خود غرض لوگوں پر لعنتیں کرنے میں ظاہر کر دیا۔ جو ایسے ضروری موقعہ پر ’’خداوند کی امداد کے لئے ہاں قوت والوں کے خلاف خداوند کی امداد کے لئے نہ آئے‘‘۔ جب تک دبورہ کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔ اور میں اس دُور د راز زمانہ اور ملک اور اس عبرانی جنگجو عورت کے حالت پر نظر کرتا ہوں۔ جو ابھی تک روحانی خلقت (فطرت)کی اس ابتدائی حالت میں تھی۔ جب تک کہ میں اس پر جوش اولو العز م (عالی حوصلہ)اور بہادر عورت پر غور کرتا رہتا ہوں۔ اور اس کے ارادہ اور خصلت (فطرت)کے زور و قوت پر نظر کر تا ہوں۔ تو میں وہاں ایک گہر ی الفت و محبت کا ابتدائی جو ش و خروش دیکھتا ہوں۔ اس طور پر تو سب کچھ درست نظر آتا ہے۔ اور میں اس کے ہدایت و نمونہ سے سبق حاصل کر سکتا ہوں ۔ اس بتر(بہت ناقص) اور غیرمعمولی جو ش کو دیکھ کر میں اس زیادہ صاف و شفاف روشنی کو جو مسیحی کے راستہ پر پڑتی ہے پہچانتا ہوں۔ اور اس کے لئے خدا کا شکر کرتا ہوں۔ اور ساتھ ہی اس کے یہ دیکھ کر کہ عہدِ عتیق کے اولو العز م (عالی حوصلہ)اور بہادر کس طرح بالکل اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے۔ اور اپنے ادنیٰ ذاتی اغراض و مقاصد سے اُوپر اُٹھائے جاتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے الہٰی آقا کی خدمت میں وہ اپنے سارے جسم و جان کو قربان کر دیتے تھے۔ مجھے انکسار فرونتی(عاجزی اورخاکساری) کا ایک سبق حاصل ہوتا ہے۔ اور میں شرمسار ہو کر ان کی مثال و نمونہ کی پیرو ی کے لئے اپنے کو اُکسانے پر مجبور کرتا ہوں ۔(1)

اور دبورہ کو چھوڑ کر یائیل کی طرف متوجہ ہوں تو ہمیں ان مشکلات کے حل کرنے کے لئے بھی اسی کلید (کُنجی)سے کام لینا چاہیے۔ اور اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ دُنیا کی تعلیم و تربیت کے ابتدائی زمانہ میں لوگوں کے تصورات اخلاقی امور کے متعلق بہت ادنی ٰ اور ناکامل تھے۔

اس صورت میں بھی ہم نہایت بہادرانہ مگر ناقص فعل کو دیکھتے ہیں۔ ( کولرج صاحب )

جو ایسے پر آشو ب (فتنہ و فساد)زمانوں میں بہت ہی قابلِ تعریف سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان میں نیکی اور بدی دونوں کی آمیزش(ملاوٹ) پائی جاتی ہے۔ وہ دلیری اور جانبازی اور جان نثاری جو اسرائیل کو ظالم کے پنجہ سے چھڑانے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار تھی۔ ہاں یہ سب خدا کی طرف سے عطا ہوئی تھی۔اگرچہ اس میں ایسی دغا بازی بھی ملی ہوئی تھی۔ جو کو اعلیٰ درجہ(عظيم درجہ) کی اخلاقی تعلیم قابل الزام ٹھہرائے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر ہم اس قصہ کے تمام واقعات معلوم ہوتے اور اگر یہ کہانی پاک نوشتوں میں نہیں ۔ بلکہ کسی دوسری تواریخ (تاريخ کی جمع)میں درج ہوتی تو بڑی آسانی سے ہم بھی اس کی زمین میں تر زبان ہوتے۔ ہم ممالک کی تواریخ میں بہت سے بہادری اور اولوالعزمی(جرات،استقلال) کے کاموں کو بڑی حسین و تعریف کی نظر سے دیکھا کرتے ہیں۔ حالانکہ کہ اخلاقی مقیاس(پیمانہ) میں وہ ہرگز پورے نہیں اُترتے ۔ تو اگر یہودیوں کی تاریخ میں اسی قسم کے واقعات ہماری نظر کے سامنے آئیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں بھی اسی نظرسے نہ دیکھیں ۔ (دیکھو سننیلی صاحب کی یہودی کلیسیاء کی تاریخ )

ڈاکٹر ارنلڈ صاحب نے یائیل کے مقدمہ میں نہایت برجستہ الفاظ لکھے ہیں۔ جن کا یہاں نکل کر نافائدہ سے خالی نہ ہو گا۔

’’ یائیل کی تعریف سے جو حقیقت منکشف (ظاہر)ہوتی ہے۔ سو یہ ہے کہ خدا جہاں کہیں راستی اور صدق دلی(سچے دل) کو دیکھتا ہے۔ وہاں جہالت کے بارے میں بہت کچھ آغماض (رُو گردانی)کر تا ہے۔ اور وہ جو سچے دل سے اپنے علم کے انداز ہ کے موافق اس کی خدمت کرتے ہیں۔ اور وہ اس کے انتظام و قدرت کے عام سلسلہ کے موافق اس سے برکت اور آفرین (شاباش)حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جن کی آنکھیں اور دل اپنی ذات پر نہیں بلکہ اپنے فرائض کی بجا آوری پر لگے ہیں۔ وہ اس دھواں اُٹھتے ہوئے سن (رسّی)کی مانند ہیں۔ جنہیں وہ بجھاتا نہیں۔ بلکہ انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ تا کہ شعلہ زن (شعلہ نکالنے والا)ہوں۔ جب ہم ان افسوسناک مگر شاندار شہادتوں کا حال پڑھتے ہیں۔ جہاں کہ ظالموں اور مظلوموں دونوں کی جماعتوں کے درمیان نیک لوگ پائے جاتے تھے۔ تو گو ہم یہ اُمید و یقین نہیں کر سکتے کہ یہ ستم گر لوگ (ظالم لوگ)بھی ایک ایسی ہی دینی سرگرمی سے تحریک دلائے گئے تھے۔ اگرچہ ان کی یہ سرگرمی جہالت اور غلطی پر مبنی تھی۔ اور وہ بھی یائیل کی طر ح خدا کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ اسی کی طرح انہوں نے بھی ایسے وسائل (ذرائع)اختیار کئے جنہیں مسیح روح قابل الزام ٹھہراتی ہے؟‘‘۔


(1)کو لرج صاحب ۔

یہ باب بالکل راست اور بے محل (نا مناسب)ہے کہ ہم بہت سے اشخاص کے کاموں کو جن کی عہدِ عتیق (پرانا عہد نامہ)میں تعریف ہوئی ہے۔ قابل ِالزام ٹھہرائیں۔ کیوں کہ ہم نے وہ باتیں دیکھیں ہیں۔ جو انبیاء اور صدیقین (راستباز لوگ)کو زمانوں تک دیکھنی نصیب نہیں ہونی تھیں ۔ مگر پھر بھی یہ بات اس سے کچھ کم راست اور ضروری نہیں ہے کہ ہم کو چاہیے کہ ان کی اس نہ ڈرنے والی سرگرمی کی پیروی (پيچھا)کرنے کی کوشش کریں۔جن سے خالی رہنے کے لئے ہماری موجود ہ علم و معرفت کی حالت میں ہمارے پاس کوئی معقول عذر(مناسب بہانہ) نہیں ہے۔ اور جس سرگرمی کے باعث باوجود جہالت اور کم علمی کے اپنے بُرے کاموں کے لئے بھی انہوں نے برکت حاصل کی۔

(9)

تعلیم میں بتدریج ترقی کے اُصول سے قطع نظر کرنے کے نقصان

بائبل پر اس تاریخی قاعدہ سے نظر کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ ایسے کامل ہدایات کا مجموعہ(جمع کيا ہوا) نہیں ہے۔ جو ہرحال اور ہر زمانہ سے یکساں تعلق رکھتے ہوں۔ بلکہ وہ خدا کے انسان کو بتدریج (آہستہ آہستہ)تعلیم و تربیت کرنے کی کہانی ہے۔ اس شخص کے لئے جو اس کی تعلیم کو سمجھنا چاہتا ہے ۔ نہایت ضروری اور لابدی (لازمی)ہے۔ گذشتہ زمانے میں اس اصول کی طرف سے بہت کچھ بے پروائی کی گئی جس کے سبب سے مذہب کے بارے میں نہایت افسوس ناک نتائج پیدا ہو گئے۔

’’ اس بات کو یاد کر کے افسوس آتا ہے کہ تاریخ کے کتنے خون آلودہ صحیفے اس بربادی اور جان کنی سے خالی نظر آتے۔ اگر لوگ اس امر کو یاد رکھتے کہ عہدِ عتیق (پرانا عہد نامہ)کی شریعت ابھی تک ایک ناکامل شریعت تھی۔ اور عہد عتیق (پرانا عہد نامہ)کی اخلاقی تعلیم نے پوری روشنی اور ہدایات کے درجہ کو حاصل نہیں کیا تھا۔ جب مسائل کے خون خوار حمائتی اپنی ان سختیوں کے ثبوت میں تورات کے حوالوں سے سند(ثبوت) لاتے تھے۔ جب بادشاہوں کا قتل اہود اور یائیل کے نمونوں سے جائز قرار دیا جاتا تھا۔ جب صلیبی (1) لڑائیاں لڑنے والے ’’کافروں‘‘ کے خون دریا بہا دینا خدا کی اعلیٰ (عظيم)خدمت میں سمجھتے تھے۔ کیوں کہ وہ اس امر کی تائید میں قاضیوں کے صحیفہ کا حوالہ دے سکتے تھے۔ جہاں قوموں کی قوموں کو تباہ و ہلاک کر دیئے جانے کا ذکر ہے۔ جب کہ انکوزیشن کی بےرحمیوں اور عذابوں کی تائید میں جو بدعتیوں اور غیر مذہب والوں پر روا رکھے جاتے تھے۔ سموئیل اور ایلیاہ نبی کا نمونہ پیش کیا جاتا تھا۔ جب کہ کثیر الازدواجی(زيادہ شادياں) اور غلامی کی برباد کن رسم کے جواز(اجازت) میں قدیم بزرگوں مثل ابراہیم اور یعقوب کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ جب کہ آیات کے مضامین کو کھینچ تان کر ان سے خلاف اخلاق ظلم و ستم کا جواز ثابت کیا جاتا تھا۔ جب کہ بے گناہ غریب عورتوں کو احبار کی آیات کے حوالے سے جادوگرنیاں اور چڑیلیں سمجھ کر جلا یا جاتا تھا۔ جب کہ ایسے ایسے جرائم اور بے رحمیوں پر (جیسے کہ مقدس (1) بارتو ں کے دن کا قتل ) پوپ اور کلیسیاء کے اعلیٰ افسر خوشی کی نعرے بلند کرتے تھے۔ اور ان کے کرنے والوں کو خدا کے قدیم بہادروں کے برابر سمجھتے تھے ۔(2)


(1) یہ وہ لڑائیاں تھیں ۔ جو اہل یورپ نےمسلمانوں کے ساتھ شہر یروشلم (بیت المقدس ) پر قابض ہونے کے لئے کیں۔ اور جوکئی سال تک جاری رہیں۔ (دیکھو محاربات صلیبی مطبو عہ پنجاب (رلیجس سو سائٹی )۔ (2)رومی کلیسیاء کی ایک عدالت کا نام ہے جو ملحدوں اور بدعتیوں کی تحقیقات و سزا کے لئے قائم کی گئی تھی۔جس کے ذرہعئ سئ قرہباً سوا دو سو سال کے عرصہ میں ۳۲ ہزار آدمی قتل کئے گئے اور قریبا ً ۳ لاکھ اور طرح سے سزایاب ہوئے۔ یہ عدالت ہسپانیہ میں ۱۴۸۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اور ۱۸۲۰ء میں سرکاری طور پر منسوخ کی گئی۔

یہ سب حماقتیں اور بے رحمیا ں کبھی واقع نہ ہوتیں ۔ اگر لوگ بائبل کو اس طور سے مطالعہ کرتے جو اس کا حق تھا۔ اور اگر وہ مسیح کی تعلیم کو درستی سے سمجھتے کہ خدا کا مکاشفہ ترقی پذیر ہے ۔ اور کہ عہدِ عتیق کے الہٰام یافتہ مقدسوں اور الوالعزم لوگوں کے اخلاقی تصورات بھی عہدِ جدید کے مقابلہ میں فقط ایسے ہیں۔ جیسے دھوپ کے مقابلہ میں چاندنی اور مے انگوری کے مقابلہ میں پانی ۔

مگر اس بات پر زمانہ حال میں بھی پورا پورا لحاظ نہیں کیا جاتا ۔جس کا نتیجہ سچائی کے مقدمہ میں ایسا ہی درد ناک ہے بہت سے سوچ سمجھ والے مسیحی ہیں جن کا ایمان انہیں عہد ِعتیق کی مشکلات کے باعث رفتہ رفتہ خدا اور بائبل پر سے اُٹھتا جاتا ہے۔ بہت لوگ اس خیال سے کہ غلامی اور کثیر الازدواجی کی خدا کی طرف سے اجازت ہے۔بے خوف ہو کر سوال کرتے ہیں۔ بہت لوگ اس خُدا میں جس نے جہان سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔ اور عہدِ عتیق کے اس قومی خُدا میں جو فقط ایک خاص قوم پر نظر رحمت رکھتا تھا۔ نمایاں فرق دیکھ کر حیرت زدہ ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ خدا کے تصورات (خيالات)اور اخلاق کے تصورات (خيالات)نے رفتہ رفتہ نشوونماحاصل کیا۔ ابتدائی خیالات کو بعد کے خیالات سے وہی نسبت (تعلق )ہے۔ جو بچہ کے خیالات کو ایک فیلسوف (عالم فاضل)کے خیال سے ہوتی ہے۔ بچے کے خیالات بچے کی حالت کے مناسب ہوتے ہیں ۔ مگر وہ ایک فیلسوف کے پورے نشوونما پر پہنچے ہوئے ذہن کے لئے بالکل نامناسب ہوتے ہیں۔

بائبل کو اس کے مقاصداور معانی کے تاریخی مدعا (مقصد)کو مد نظر رکھ کر مطالعہ کرو۔ اور تم روزبروز اس حکمت اور صبر کا جو خد ا دُنیا کی تعلیم میں کام میں لایا زیادہ زیادہ علم حاصل کرتے جاؤ گے۔ لیکن جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ اسے اس تاریخی کلید کے بغیر مطالعہ کرو۔ اور ’’الہام بائبل کو محض ایک سطح مسطح (کھلا ميدان)سمجھو ۔ جس میں نہ تو فاصلہ ہے نہ گہرائی۔ تو تمہیں الہٰی حکمت کا کچھ کچھ اسی قسم کا تصور حاصل ہو گا۔ جیسے کہ کوئی شخص آسمان کو ایک چپنی سطح سمجھے۔ جس میں تمام ستارے جڑے ہوئے ہیں۔ اور ان انتہا فاصلوں کو جو علماء ان ستاروں کے درمیان بتاتے ہیں۔ اور اس تما م یگانگت (ايک ہونا)اور اتحاد کو جس کے مطابق یہ سب حرکت کر رہے ہیں۔ بالکل فراموش (بھلا دينا)کر دے۔ بھلا ایسا شخص خدا کی اس قدرت و جلال کا جو آسمانوں کی صنعت میں نظر آتا ہے۔ کیا اندازہ لگا سکے گا‘‘۔

اس لئے جب کوئی ملحد (کافر)عہدِ عتیق کے متعلق کسی اخلاقی مشکل کا ذکر کر کے ہم پر طعنہ زنی(طنز کرنا) کرنے لگے ۔ اور یہی کہے کہ ’’مسیحی دین خدا اور چال چلن وغیرہ کی نسبت اس اس قسم کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یہ بات صحیح ہے ۔ کیوں کہ میں اسے بائبل میں لکھا پاتا ہوں‘‘۔ تو ہمیں اس کے اس بیان کو تسلیم کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ چونکہ بائبل کی تعلیم ایک ترقی پذیر مکاشفہ ہے۔ تو اس صورت میں یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ کوئی شخص ابتدائی مدارج (درجے)کا کلام لے کر ہم سے کہے کہ ’’ دیکھو یہ تمہارا خدا ہے۔ دیکھو یہ تمہارا مذہب ہے‘‘۔ جیسے کہ ہم اپنے کو مسیح کے حضور میں لاتے ہیں ۔ ہم ان کی تعلیم کا مسیح کی تعلیم سے موازنہ (مقابلہ)کرتے ہیں۔ اور جہاں کہیں ہمیں یہ تعلیم اس کی تعلیم سے گری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ہم اس کو اپنے مذہب کا صحیح نقشہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔


(1)۲۴ اگست کا روز مقدس بارتوں رسول کی یاد گار کےلئے مقرر کیا گیا تھا۔ مگر اب خاص کر اس لئے مشہور ہے کہ اسی روز کی پہلی شام کو ۱۵۷۲میں ہیو گو ناٹ لوگ جو پراٹسٹنٹ تھے۔ شاہی حکم سے عام طور پر فرانس میں قتل کر دے گئے تھے۔ (2)منقول از فیر ر صاحب دیباچہ پلپٹ کمنٹری یعنی تفسیر الواعظین ۔
(10)

اعتراض اور اُن کے جواب

اب میں اپنے ناظرین کی جگہ رکھ کر اور مختلف طبیعت و مزاج کے آدمیوں سے اس معاملہ پر بحث و گفتگو کر کے بعض مشکلات کو جو اس بات کے مطالعہ سے ان کے دل میں پیدا ہونی ممکن ہیں ۔ بیان کرتا ہوں۔

پہلا اعتراض

’’ ضمیر کو بائبل کے مختلف حصوں کی قدرو قیمت کی نسبت حکم لگانے کی اجازت دینا ایک خوفناک امر (کام)ہے ۔ اور گویا اپنے منہ میاںمٹھو بننا(اپنی تعريف آپ کرنا)ہے۔ ہم کون ہیں کہ الہٰامی الفاظ میں سے چننے اور انتخاب کرنے کا حوصلہ کریں‘‘۔

جو کچھ ہم پہلے ہی اس مضمون پر بیان کر چکے ہیں۔ اگر اس سے معترض کی تسلی نہیں ہوئی۔ تو میں اس کو فقط اتنا اور یاد دلاؤں گا کہ خواہ یہ میاںمٹھو بننا ہو یا نہ ہو۔ ٹھیک یہی بات ہےجو وہ اور دوسرے سمجھدار انسان بائبل کے متعلق کر رہے ہیں۔ جب وہ زبور کا مطالعہ کرکے اُٹھتا ہے۔ تو وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ کہ اسے بھی گرم جوشی(سر گرمی) کے ساتھ زبور نویسوں کی طرح خدا سے محبت رکھنی چاہیے۔ اور اس پر اعتماد رکھنا اوراس کی حمد و تعریف کرنی چاہیے ۔ وہ یہ کبھی خیال نہیں کرتا کہ اسے بھی ان کی طرح خدا سے دعا مانگنی چاہیے۔ اس کا غصہ ان لوگوں کے خلاف جو اس سے باغی (بغاوت کرے والا)ہیں بھڑک اُٹھے ۔ وہ اس میں یہ دو روایات پڑھتا ہے۔ ’’ کہ چھوٹے لڑکو ، ایک دوسرے سے محبت رکھو ‘‘۔ اور کہ ’’وہ خون اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں‘‘۔ وہ ان میں سے ایک کو تو عالمگیر(پوری دنيا) سمجھتا ہے۔ مگر دوسرے کی طرف سے بے اعتنائی (لا پرواہی)کرنے میں اسے کچھ تامل(سوچ بچار) نہیں ہوتا۔

ضرور ہے کہ ضمیر ان امور میں امتیاز(فرق) کرے۔ بائبل کے مطالعہ سے ہم کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ جب تک کہ خدا کی روح ہمارے شامل حال نہ ہو اور یہ روح انسانی ضمیر کے ذریعے سے کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بائبل کے مطالعہ کے ساتھ روح القدس کی امداد کی دعا کو لازمی ٹھہراتے ہیں۔ ضرور ہے کہ وہ کامل سچائی کی طرف ہمارے رہنمائی کرے۔ روح القدس کاکام لکھنے والوں کو الہٰام دینے کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گیا ۔ وہ اب بھی اپنی کلیسیاء اور اس کے افراد کے اندر قوت بخشنے والی طاقت کی مانند سکونت پذیر (رہنا)ہے۔ اور’’ مسیح کی چیزوں کو لے کر انہیں ہم پر ظاہر کرتا ہے‘‘۔

دُوسرا اعتراض

’’ اگر عہدِ عتیق کا کچھ حصہ ناقص (کمزور)اور نشوونما کی بالکل ابتدائی حالت میں سمجھا جائے۔اور اس سبب سے آج کل کے مسیحیوں کی ہدایت کے قابل نہ مانا جائے۔ تو کیا رفتہ رفتہ لوگ عہدِ جدید کی نسبت بھی ایسا ہی کہنے لگ جائیں گے۔ اور اس کی تعلیم کی نسبت (تعلق)بھی ایسا خیال کرنے نہ لگیں کہ وہ بھی روحانی تعلیم کے ادنیٰ منزلوں کےساتھ مناسبت رکھتی تھی؟‘‘۔

خیر ۔ ناظرین ۔ عہدِ عتیق کی بعض تعلیمات کے متعلق تو کسی اگر مگر کی حاجت (ضرورت)نہیں ہے۔ ہمارا خداوند خود ہمیں بتا چکےہیں۔ کہ وہ مقابلہ اس اعلیٰ مقیاس(عمدہ پيمانہ) کے جو وہ زمین پر لایا ۔ ہرگز کامل نہیں ہے۔ لیکن اس اعتراض کی بابت کہ لوگ رفتہ رفتہ عہد ِجد ید کی نسبت بھی اس قسم کی باتیں کہنے لگ جائیں گے ۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ اس امر پر سوچنے کے لئے ابھی بہت وقت ہے۔ جب مسیحی اس اعلیٰ مقیاس کے کسی قدر قریب قریب پہنچنے کے جو مسیح دین پیش کرتا ہے قابل ہو جائے گی۔ تو یہ بھی غنیمت (کافی)سمجھا جائے گا۔ اس مقیاس(پيمانہ)سے پرے نکل جانا تو ایک دوسری بات ہے ۔ یہ مقیاس اب قریباً انیس سو بیس برس سے ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ رسولوں کے زمانہ سے لے کر کسی زمانہ کی نسبت زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں۔ مگر تو بھی کیا کوئی قوم اور کوئی فردو بشر(انسان) یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے قریباً اسے حاصل کر لیا ہے؟ اس مقیاس سےبڑھ کر کوئی چیز ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتی ۔ہم ابھی تک برابر اس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ ہم سے پر ے اوربلندنظرآتا ہے۔

عہدِعتیق کا عہدِ جدید سے مقابلہ کرنےمیں اس امر کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ ان دونوں کے درمیان وہ واقعہ حائل (بيچ ميں آنا)ہے ۔ جو تاریخ علم کا مرکز ہے۔یعنی مسیح کا جسم انسانی اختیار کرنا۔ جو کچھ اس سےپہلے ہوا وہ سب اس کے لئے تیاری کے طور پر تھا اورجو کچھ اس کے بعد واقع ہوا وہ سب واقعہ کی تشریح اور تفصیل اور اسی کے نتائج کو عملی صورت میں ظاہر کرنے کے لئے ہے۔

عہدِ عتیق تیاری کے طور پر تھا۔ عہدِ جدید خاتمہ ہے ۔ عہدِ عتیق کی تعلیم اگرچہ اعلیٰ(عظيم) اور خوبصورت ہے تاہم کامل(مکمل) نہیں۔ وہ بہت صدیوں میں رفتہ رفتہ ترقی پاتی رہی ہے۔ اور بہت عرصہ تک رفتہ رفتہ روز روشن کی طرف بڑھتی چلی گئی ہے۔ یہاں تک کہ وقت پورا ہونے پر خدا نے اپنا فرزند(بيٹا) بھیج دیا۔ اب عہدِ جد ید کی تعلیم شروع ہوئی بتدریج نہیں اور نہ فقط عہدِ عتیق کی تعلیم کے لحاظ سے بطور ایک قدم آگے بڑھنے کے بلکہ وہ دفعتاً اور ایک ہی بار اپنی ساری آب و تاب (شان و شوکت)میں جلوہ گر ہوئی۔ اور اس لئے اس زمانہ کی حالت سے جس میں وہ رائج ہوئی اس قدر بلند و بالا تھی کہ اس وقت بھی حالانکہ اسے انیس صدیا ں گذر چکی ہیں اور لوگ برابر اس کے حصوں کے لئے جدوجہد(کوشش) کرتےرہے ہیں۔ تو بھی اس قدر بلند معلوم ہوتی ہے جیسے کہ سورج آسمان میں ہم سے بلند نظرآتا ہے۔ گیٹی کا قول ہے کہ

’’ذہنی تہذیب و تربیت خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے ۔ علوم طبیعہ گہرائی اور چوڑائی میں کتنی ہی فراخی (وسعت)حاصل کیوں نہ کر لیں ۔ ذہن انسانی خواہ کتنا ہی وسیع (کشادہ)کیوں نہ ہو جائے۔ تو بھی وہ کبھی مسیحی تعلیم کی عظمت اور اس کی اخلاقی تہذیب کے پرے نہیں جا سکتا ‘‘۔

جیسے کہ مسیح کی انجیل میں درخشاں (روشن)نظر آتی ہے۔

تیسرا اعتراض

’’ اگر عہدِ عتیق(پرانا عہد نامہ) کی تعلیم ایسی ناقص اور ابتدائی ہے۔ تو ہمیں اس کے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اسے بالکل ترک کر دیں۔ اور فقط عہدِ جد ید(نيا عہد نامہ) کے مطالعہ کو کافی سمجھیں‘‘ ؟

جو شخص اس قسم کے اعتراض کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عہد ِعتیق کی بابت (نسبت)اور نیز اس تعلق کی بابت جو وہ عہدِ جدید سے رکھتا ہے صحیح خیال نہیں باندھا۔ اور صاف ظاہر ہے کہ اس کا خیال اس خیال کی نسبت بہت مختلف ہے۔جو ہمارا خدا وند اور اس کے رسول عہدِ عتیق کی نسبت رکھتے تھے۔ اور جس کا ثبوت اس طریق سے ملتا ہے۔ جس کے مطابق وہ عہدِ عتیق کے صحیفوں کو استعمال کرتے تھے۔ یہ تو سچ ہے کہ عہدِ عتیق کو عہد ِجد ید کے لئے راستہ تیار کرنے والا سمجھنا چاہیے ۔ مگر یہ تیاری ایسی نہیں ۔ جیسے کہ عمارت کے لئے پاڑ (مچان)باندھی جاتی ہے۔ کہ جب عمارت ختم ہو جائے۔ تو ہٹا دی جائے بلکہ وہ بطور بنیادوں کے ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔

عہدِ جدید کی تعلیم عہد ِعتیق کی تعلیم کو ہٹا دینے والی منسوخ(رد) کر دینے والی نہیں ہے۔ بلکہ وہ عہدِ عتیق کی ابتدائی تعلیم کے لئے بطور نشوونما اور ترقی کے ہے۔ مثلاً عہدِ عتیق کی شریعت جو قتل اور زنا کے بیرونی افعال کے لئے تھی ۔ وہ عہد ِعتیق میں ایک اعلیٰ حالت کو پہنچا دی گئی ہے کہ آدمی کو نہیں چاہیے کہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھے۔ اور کہ اسے اپنے دل میں بھی بُری باتوں کا خیال نہیں آنے دینا چاہیے ۔ عہد ِجدید کی تاریخ ایک نئی تاریخ نہیں ہے ۔بلکہ عہدِ عتیق کی تاریخ کا تتمہ(بقیہ) ہے۔ وہ اس امر کی کہانی ہے کہ وہ معاملہ جس کے لئے عہدِ عتیق تیار کر رہا تھا اور جس کا وہ منتظر تھا اب تکمیل کو پہنچ گیا۔

اس لئے عہدِ جدید کا مل طور پر سمجھا نہیں جا سکتا جب تک کہ اسے عہدِ عتیق کے ساتھ رکھ کر نہ دیکھا جائے۔ اس میں جو پیشن گوئیوں کے پورا ہونے کا تذکرہ ہے اس کے مطالعہ کے لئےان پیشن گوئیوں کا علم ایک لابدی(لازمی) امر ہے کہ کس طرح بتدریج طویل(لمبا) عرصہ تک اس تعلیم کے لئے تیار ی ہوتی رہی۔ اور جب ہم اس خیال پر لحاظ کرتے ہیں کہ کس طرح انسان نے طویل زمانوں میں درجہ بدرجہ روحانی امور کی تعلیم حاصل کی تو ہم ان سارے زمانوں میں ایک الہٰی مقصد و مدعا (غرض)کا عمل نظر آتا ہے۔ اوراس سے ہم خدا کی حکمت اور صبر کو نامعلوم کرنا سیکھتے ہیں۔

عہد ِعتیق اور جد یدایک دوسرے سے جُدا جُدا نہیں کئے جا سکتے۔ دونوں ہمیشہ کے لئے مسیح میں متحد(اکٹھے) ہیں۔ وہ گویا ان دونوں کے درمیان میں کھڑا ہے۔ اور ان دونوں کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ عہدِ عتیق ناکامل (نامکمل)اور بطور تیار ی کے ہے۔ مگر وہ ہرگز اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس کی کم قدری کریں۔ اور ایسے الگ ڈال دیں۔ ’’ یہ مت سمجھو کہ میں توریت اور نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ (رد)کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں‘‘۔ وہ اس قدیمی اور ابتدائی تعلیم کو لے کر اور اسے ایک زیادہ عمیق (گہرا)اور روحانی اور اعلیٰ صورت میں تبدیل کر کے ہمیں واپس دیتا ہے۔ وہ قدیم نبوتوں کو لیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ’’ یہ وہ ہیں جو میرے حق میں گواہی دیتی ہیں‘‘ ۔ وہ یہ دکھاتا ہے کہ تما م عہدِ عتیق اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور پھر اسے مکمل بنا کر ہمارے ہاتھوں میں دے دیتا ہے۔ پرانا تعلیمی قاعدہ پھینک نہیں دیا جاتا ۔ اور نہ بطور ایک قدیمی چیزوں کی یاد گار کےلئے رکھا جاتا ہے۔ بلکہ ہمیں مسیح کی زندگی اور تعلیم اور کام کے پورے مکاشفے کی روشنی میں اسے از سر نو مطالعہ کرنا چاہیے۔

ہاں بائبل ایک ہی ہے اور اس کے تمام اجزا کل کی تکمیل اور کاملیت کے واسطے ضروری ہیں۔ بعض لوگ اسے ایک بڑی جماعت یا گرجا گھر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ جس کی تعمیر میں پندرہ سوسال کا عرصہ خرچ ہوا ہو۔ عہدِ عتیق کو اس گر جایا مندر کا بیرونی حصہ سمجھنا چاہیے۔ زبور اور انبیاء بطور اس کے دونوں پہلووں کے ہیں۔ اور اناجیل امام کے کھڑے ہونے کی جگہ اور چوتھی انجیل کو گویا بطور قدس الاقداس کے یا اندرونی مقام کے سمجھنا چاہیے۔ اور اس کے گرد اگرد اور پیچھے رسولوں کے خطوط اور مکاشفات کی کتاب ہے۔ جن میں سے ہر ایک گویا بجائے خود ایک خوبصورت ہوتی ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک اس عا لیشان عمارت کی حسن کی خوبصورتی کو ترقی دینے میں مد ددیتی ہے ۔(1)

(11)

خاتمہ

اس باب میں یہ نہایت ضروری تھا کہ خدا کی تعلیم کو بتدریج(آہستہ آہستہ) ترقی پانے اور نیز اس امر کا کہ عہد ِعتیق عہدِ جدید کی نسبت سے ادنیٰ ہے بیان کیا جائے۔ اور تاہم جب میں ان عا لیشان(بلند مرتبہ) اور روح کے ہلادینے والے الفاط کا جو عہدِ عتیق کے ابتدائی حصہ میں بھی نظر آتے ہیں خیال کرتا ہوں تو مجھے خواہ مخواہ ان کے حق میں اس قسم کے معذرت نامہ لکھنے سے شرم آتی ہے۔ کل کوئی دس بارہ مثالوں کی ادنیٰ اخلاقی حالت کی بابت جو عہدِ عتیق میں پائی جاتی ہیں۔ لکھتے ہوئے مجھے ایسے طور پر لکھنا پڑا ہے کہ گویا عہدِ عتیق میں کوئی بھی ایسی شان اور خوبصورتی اور جلال نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس زمانہ کے لحاظ سے جس میں لکھا گیا ۔ تاریخ کا عالی شان (بلند مرتبہ)معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

جب میں کہانی کو پڑھنا شروع کرتا ہوں کہ کس طرح خدا نے بنی انسان کو رفتہ رفتہ روحانی امور میں تعلیم و تربیت کیا تو یہ کیسی عجیب کہانی معلو م ہوتی ہے۔ یہ کتنی بڑی دلیل (ثبوت)اس کے الہٰامی کتاب ہونےکے حق میں ہے؟

اور جب میں اس کے ساتھ یہ دیکھتا ہوں ۔کہ یہ لوگ اس تعلیم کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر نارضامند تھے۔ تو مجھے اور بھی زیادہ تعجب(حيران) ہوتا ہے۔

جب میں اس زمانہ کی جب کہ زبور لکھے گئے۔دنیاوی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں خواہ ان کی تاریخ کو کتنا ہی زمانہ مابعد میں کیوں نہ ٹھہراؤ۔ اورجب میں اس زمانہ کی گندگی اور ناپاکی کو ملاحظہ کرتا ہوں اور یہ بھی دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ خدا اور فرض کے متعلق کیسے ادنیٰ خیال رکھتے تھے۔ اور لکڑی اور پتھر کے بتوں کی پر ستش پر کس قدر شیدا (شوقين)تھے۔ اور جب میں اس تاریخ کو اپنی بائبل کھول کر زبور کی کتاب کے مقابلہ میں رکھتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سخت سے سخت ملحد (کافر)بھی اس اختلاف کو دیکھ کر ایک نمایاں فرق کا قائل ہو جائے گا۔ ا س کے الفاظ پر غور کرو تو سہی کس طرح گناہوں سے پشیمانی(شرمندگی) ظاہر کرکے توبہ اور معافی کی التجا (درخواست)کی جاتی ہے۔ کس طرح خدا کی مقبولیت ، زندگی کی پاکیزگی اور عفت(پرہيز گاری) کے لئے آرزومندی (خواہش)ظاہر کی جاتی ہے۔ کس طرح یہوواہ کی نیکی اور بھلائی کے خیال سے خوشی و خرمی کااظہار کیا جاتاہے۔ وہ ان کے اعتقاد(يقين) میں ’’ اسرائیل کا قدوس ‘‘اور وہ باپ ہے۔ جو اپنے بچوں پر ترس کھاتا ہے۔ وہ خدا ۔ خدائے رحیم و کریم اور برداشت کرنے والا ہے۔ جو شفقت اور وفا میں بڑھ کر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم کس چیز سے بنے ہیں۔ وہ یاد رکھتا ہے کہ ہم مٹی ہی تو ہیں‘‘۔


(1)از کینن لڈن صاحب منقو ل از ’’ عہد عتیق کا الہٰی کتب خانہ ‘‘ مصنفہ کرک پیٹرک صاحب ۔

بھلا انسان الفاط کے تحریک(ترغيب دينا) دینے والے اثر سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ اور پھر یہ خیال کر کے کہ وہ کس زمانے میں لکھے گئے اسے معجزے سے کم کیا سمجھے گا؟ بھلا انسان خود خدا کے جلال کے حضور ميں کس طرح ايسی سردمہری (بے وفائی)سے نکتہ چينی(برائی نکالنا) کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ کولرج صاحب ایک شخص کی تصویر کھینچتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ کہ

’’ جب میں اپنی روح کی خوشی اور محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ اور بائبل کی کتابیں یکے بعد دیگر ے میرے حافظہ کی آنکھوں کے سامنے گذر رہی تھیں۔اور میں شریعت اور سچائی اور نیک نمونوں ۔ نبوتوں اور دلچسپ گیتوں اور ہزار ہا ہزار آوازوں کے نغموں اور مقدسوں اور انبیاء کی مقبول (مشہور)شدہ دعاؤں کا ذکر کر رہا تھا۔ جو گو یا آسمان سے ہمارے پاس آتے ہیں۔ اور ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا فاختہ روحانی خوشیوں اور غموں اور ضروریات کے بوجھوں سے لدے ہوئے چلے آتے ہیں۔ تو وہ جوں ہی میں اپنے بیان کو ختم کر چکتا ہوں۔ تو بڑی سرد مہری کے ساتھ میری طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے۔ کہ کیا تمہیں دبورہ کے برکت کے کلمات اور زبوروں کی وہ آیات جن میں دشمنوں پر لعنت کی گئی ہے۔ یاد ہیں‘‘؟

باب ششم

الہٰام اور تنقید اعلیٰ

(1)

تنقید اعلیٰ

تنقید اعلیٰ یعنی ہائر کرٹی سزم (Higher Cariticisim )اس تنقید و تحقیقات کا نام ہے۔جو بائبل کے صحیفوں کے مصنف تاریخ تصنیف ذرائع دینا بیع(فروخت) اور ترتیب و ترکیب اور ان خاص حالات کے متعلق جن کی وجہ سے وہ تصنیف و تالیف(مضمون بنانا اور جمع کرنا) ہوئے کی جاتی ہے۔ مطالعہ بائبل کے متعلق یہ ایک نسبتاً نئی شاخ علم ہے۔ اس کا نام اعلیٰ یا نئی تنقید (نکتہ چينی)اس لئے رکھا گیا ہے تا کہ اسے ادنیٰ یا پرانی تنقید سے جس کا تعلق فقط متن کی صحت اور ان وسائل سے تھا۔ جن کے ذریعہ سے اس قسم کی سہو و اغلاط(خطاوغلطياں) دریافت کی جاتی اور درست ہو سکتی تھیں۔

شاید بعض ناظرین کو معلوم ہوگا کہ کچھ عرصہ سے انگلستان میں اس امر پر بحث مباحثہ ہو رہا ہےکہ آیا جو نظمیں اور ناٹک انگلستان کے مشہور و معروف شاعر شیکسپیر کی طرف منسوب (نسبت کيا ہوا)کئے جاتے ہیں۔ وہ فی الحقیقت اسی شخص کے لکھے ہوئے ہیں یا کسی اور کے بعض لوگ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ وہ لارڈ بیکن کے لکھے ہوئے ہیں۔ محض اس بناپر کہ اس کی عبارت اور بعض خیالات اس سے ملتے یا مشابہت(مثال دينا) رکھتے ہیں۔ اس امثال سے کچھ کچھ یہ امر(فعل) سمجھ میں آسکتا ہے کہ تنقید اگر علمی اور تاریخی پہلو کو چھوڑ بیٹھے ۔ تو بھٹکتی بھٹکتی کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ مگر تو بھی اس تنقید نے شیکسپیر کے مطالعہ اور دیگر امور(معاملات) کی تحقیقات کے متعلق بہت کچھ دلچسپ اور مفید باتیں دریافت(معلوم) کی ہیں۔ مثلاً اندرونی اور تاریخی شہادت(گواہی) کی بناپر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بعض ناٹک جو اس وقت شیکسپیر کی جلد میں شامل ہیں۔ درحقیقت شیکسپیر کے نہیں ہیں۔ بلکہ کسی اور گم نام مصنف کے لکھے ہوئے ہیں۔ ان کی طرز کلام اور خیالات کو بڑی امعان نظر(گہری نظر) سے پرکھا گیا ہے۔ اور اس کے مصدقہ (تصديق شدہ)ناٹکوں سے ان کا بین (صاف)اختلاف دکھا یا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں اس امر کے متعلق نہایت دلچسپ تحقیقاتیں کی گئی ہیں کہ شیکسپیر کے ناٹکوں کا منبع (بنياد) کیا تھا۔ اس نے کون کون سی تاریخی کتابوں یا قصہ کہانیوں سے ان کا ڈھانچہ تیار کیا تھا۔ اور پھر اس کے ہمعصر (ہم زمانہ)مصنفوں کی تحریروں سے مدد لے کر بہت سے دقیق(مشکل) اور مشتبہ (جس پر شک ہو)مضامین کی تشریح کے متعلق ضرور ی اطلاع حاصل کی گئی ہے۔ اس میں کچھ شبہ (شک)نہیں کہ بعض اوقات لوگ محض بےہودہ مفروضات (فرض کی ہوئی باتيں)کی بنا پر ایسے ایسے نتائج نکال بیٹھے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ مگر الجملہ اس قسم کی تحقیقات علم حاصل کرنے کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ ہے۔ اور اس کے ذریعے سے شیکسپیر کے مطالعے اور اس کا لطف اُٹھانے میں بہت امداد ملتی ہے۔

اب مذہبی دنیا میں اس اعلیٰ تنقید نے بائبل کے ساتھ بھی کچھ کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ جو لوگ اس فن تنقید (نکتہ چينی)کے ماہر اور طالب علم ہیں۔ اگر ان سے دریافت(معلوم) کیا جا ئے کہ ان کے اس کام کا مقصد و منشا (ارادہ اور مرضی)کیا ہے۔ تو وہ یہی کہیں گے کہ بائبل میں کئی ایک صحیفے ایسے ہیں ۔ جن کی صورت سے ہم صاف ظاہر ہے کہ وہ زیاہ قدیمی مگر فی الحال گم شدہ نسخوں اور نوشتوں کی بنا پر تالیف(جمع کرنا) کی گئی ہیں۔ بعض ایسے ہیں جن میں ظاہر اً کوئی ایسی بات نہیں معلوم ہوتی ۔ مگر تو بھی ان کے رائے میں ان میں ایسے نشانات پائے جاتے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پر کسی مرتب یا اڈیٹر(ترتيب دينے والا)’’ کا قلم چلا ہے۔ جس نے انہیں خاص خاص عجمو عوں میں ترتیب ديا۔ یا ان کے نامکمل بیانات کی تکمیل (مکمل کرنا)کی۔ یا کسی نہ کسی طرح اصلی کتاب میں صحت و ترمیم (اصلاح ودرستی)کی ‘‘۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بعض کتابوں کا توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو اس امر میں شبہ کرنے کےلئے وجوہات ملتی ہیں کہ وہ حقیقت اس مصنف کی جس کے نام سے منسوب(نسبت) میں لکھی ہوئی نہیں ہیں۔

وہ تمہیں بتائیں گے کہ ان کی غرض اس طور سے پاک نوشتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ ہے کہ ان کے دل میں کتاب اللہ کی عزت و توقير(تعظيم) جاگزین (پسنديدہ)ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ جس قدر روشنی اس پر پڑنی ممکن ہو اس کے مطالعہ کے لئے مہیا کر دیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر ان کتابوں کو ان کی صحیح تاریخی مسند(ثبوت) پر رکھا جائے اور ان کے زمانہ تحریر اور غرض تحریر کا بخوبی علم حاصل کیا جائے۔ تو اس سے ان کتابو ں کے مطالب(مطلب کی جمع) کو سمجھتے اور ان کی قدر و قیمت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔

مگر شايد کوئی شخص یہ سوال کر لے کہ بھلا ان کتابوں کی نسبت جنہیں صدہا سال (صدياں)گذر گئے۔ خا ص کر عہدِ عتیق(پرانا عہد نامہ) کے متعلق جس پر زیادہ تر ان علماء کی توجہ لگی ہوئی ہے۔ اتنی صدیوں کے بعد عہد(معاہدہ) کیا معلوم کر سکتے ہیں۔ خاص کر اس صورت میں جب کہ قدیمی تواریخ کی کتابیں اس مضمون پر خاموش نظر آتی ہیں؟ مگر اس کا وہ یہ جواب دیں گے کہ ہم اسی طرح اس کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔ جیسے لوگ شیکسپیر یا دیگر قدیمی کتابوں کی کرتے ہیں۔ مختلف زمانوں کی زبان اور علم ادب کا بڑے غور و توجہ سے مطالعہ کرنے کے بعد وہ مختلف زمانوں کے مصنفوں میں امتیاز (فرق)کر سکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مختلف زمانوں کی اردو یا انگریزی تصنیفات(کتابوں) کو امتیاز کرنا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کسی مصنف کی طرزِ تحریر(لکھنے کا انداز) اور خاص خاص فقرات اور الفاظ کا جو اس سے مخصوص ہیں۔ بڑی درستی کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد وہ فوراً اس امر(معاملہ) کو پہچان لیتے ہیں کہ کہاں کہاں کسی غیر شخص کی تحریر کی ملاوٹ کا نشان پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی مصنف کا کلام میں اس کے مقامی حالات کا رنگ دیکھ لیتے ہیں۔ یا ایسی ایسی اشیاء یا رسوم دستو رات (رسم و رواج)کا ذکر پاتے ہیں جو کسی خاص زمانہ یا ملک سے مخصوص تھے۔ یا کہیں کہیں اس زمانہ کی تاریخ ہی کی طرف کوئی سرسریم(معمولی) اشارہ مل جاتا ہے۔ ان سب باتوں سے مدد حاصل کر کے وہ بائبل کے زبور یا تاریخ یا دیگر امور کے متعلق فیصلے قائم کرتے ہیں۔

(2)

تنقید اعلیٰ کی چند مثالیں

شايد بہتر ہو گا کہ میں چند سادہ نمونے پیش کر کے اس امر کی توضیح (وضاحت)کروں۔ شاید ناظرین نے اس تنقید(نکتہ چينی) کا ذکر تورات کے متعلق سنا ہو گا کہ آیا وہ حضرت موسیٰ کی تصنیف (تحرير)ہے یا نہیں۔ کیوں کہ عموماً یہ مسئلہ بہت مشہور عام ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم اسی کو بطور نمونہ پیش کرتےہیں۔ میں اس وقت کسی خاص پہلو کو اختیار نہیں کرتا ۔ نہ کسی خاص فریق(مدّعی) کے ساتھ اتفاق رائے ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس مقدمہ (دعویٰ يا مسُلہ)کا صرف اس لئے ذکر کرتا ہوں کہ اعلیٰ تنقید کی غرض و مقصد(مطلب و مقصد) اچھی طرح سے لوگوں کے ذہن نشین کردُوں۔

تورات یعنی موسیٰ کی پانچ کتابوں کی نسبت یہودی ہمیشہ سے یہ اعتقاد(يقين) رکھتے آئے ہیں کہ وہ عہدِ عتیق کے دیگر جملہ صحیفوں سے زیادہ مقدس اور قابل تعظیم ہے۔ اور وہ کبھی یہ جرات نہیں کرتے تھے کہ اس کی نسبت(متعلق) کسی قسم کی نکتہ چینی کو دخل دیں کبھی کسی شخص کے دل میں یہ خیال بھی نہ آیا ہو گا کہ ان کی نسبت اس قسم کے سوال اٹھائے کہ اس کا مصنف کون ہے۔ اور وہ کب اور کس طور سے تالیف و تصنیف (درستی و اصلاح)ہوئی ۔ عموماً یہ اعتقاد(يقين) تھا کہ حضرت موسیٰ نے اس کو اس صورت میں جس میں وہ اب موجود ہے لکھا تھا۔ مگر تو بھی بعض اشخاص کو یہ عجیب معلوم ہوا کرتا تھا کہ اس کتاب میں موسیٰ کی وفات کا حال بھی درج ہے۔ اور اس کے حق میں اس قسم کے کلمات لکھے ہیں کہ وہ یعنی موسیٰ ’’سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے۔ زیادہ حلیم(نرم مزاج) تھا‘‘ ۔ اور ’’ ا ب تک اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا ‘‘۔ اور ’’ آج کے دن تک کوئی اس کی قبرکو نہیں جانتا ‘‘۔ نیز یہ کہ اثناء تحریر (لکھے جانے کے دوران)میں لکھنے والا ہمیشہ اس گذشتہ زمانے کی طرف اشارہ کرتا رہتا ہے۔ ’’ جب کہ بنی اسرائیل بیابان میں تھے‘‘۔ اور ’’ کنعانی ملک میں تھے‘‘۔ اورمشرقی ممالک کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ ’’یردن کے اس پا ر‘‘ بتاتا ہے۔ جس سے ظاہر ہے۔ کہ مصنف فلسطین کےملک میں یردن کے مغربی علاقہ میں رہتا تھا۔ اور جغرافیہ کے متعلق کس سوال کو حل کرتےہوئے وہ گویا بطور سند(ثبوت)کے ایک قدیمی کتاب یعنی ’’ یہوواہ کےجنگ نامہ ‘‘سے نقل کرتا ہے۔ جو کسی طرح سے موسیٰ کے زمانہ سے پہلے کی نہیں ہو سکتی ۔ اوراسی قسم کی دوسری مشکلات بھی نظرآتی ہیں۔ چنا نچہ تنقید کے ابتدای زمانہ میں یہ سوال کیا گیا تھا۔ کہ ’’ اس اعتقاد(يقين) کے لئے کیا سند(ثبوت) ہے کہ حضرت موسیٰ کتابوں کی موجودہ صورت میں ان کا مصنف مانا گیا ہے‘‘؟

اور یہ معلوم ہوا کہ اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہودی کلیسیاء ہمیشہ سے یہ مانتی چلی آئی ہے۔ اس وجہ سے نکتہ چینوں نے اپنے کو موسیٰ کی تورات کے مصنف ہونے پر اعتراض کرنے کے لئے آزاد سمجھا۔ یا کم سے کم یہ مانا کہ موسیٰ کی تحریریں فقط بطور مصالح (نيکی کی طرف لانے والا)کے ایک حصہ تھیں۔ جن کی مدد سے ان کے اصلی مصنف یا اڈیٹر نے موجودہ ’’پانچ صحیفے ‘‘ جو حضرت موسیٰ کے نام سے مشہور ہیں تیار کر لئے۔

یہ بات تو بالکل صاف تھی کہ موسیٰ نے ایک شریعت کی کتاب لکھی تھی۔ خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی (1) ۔اور اسے حکم ملا تھا کہ ا عمالیقیوں کی لڑائی کا حال ’’کتاب میں لکھے‘‘ ۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے سفروں کا حال تحریر کیا۔ اور جب وہ یہ لکھ چکا تو اس نے اسے کاہنوں کے حوالے کر دیا۔ اور ان کو یہ ہدایت کی کہ ہر ساتویں سال خیموں کے عہد کے موقعہ پر اسے لوگو ں کو پڑھ کر سنایا کریں۔ اور وہ خیمہ کے صندوق میں رکھی جائے تاکہ لوگوں کے سامنے بطور ایک گواہ کے رہے۔مگر صاف ظاہر ہے کہ اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ یہ ساری کی ساری پانچوں کتابیں جیسی کہ وہ اس وقت موجودہیں۔ حضرت موسیٰ نے تحریر کی تھیں۔

اب اس تنقید اعلیٰ کے مسئلوں میں سےجس پر وہ اپنی ساری طاقت خرچ کرتی رہی ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہے ۔کیا موسیٰ ساری تورات کا پیدائش سے لے کر استثنا کی کتاب تک اس کی ایک ایک سطر کا رکھنے والا ہے؟ مگر ایک اور سوال ہے۔ جس سے ہم اس نئے علم کے طریق عمل کی نسبت زیادہ وضاحت سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ سوال مصنف کی نسبت (تعلق)نہیں بلکہ کتاب کی تالیف و ترتیب (درستی و اصلاح)کے متعلق ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ موسیٰ ہی تورات کے صحیفوں کا مصنف ہے۔ تو کیا ان میں سے کسی یاسب میں ایسے ایسے مسودے (وہ تحرير جو سرسری طور پر لکھی جاۓ)بھی شامل کئے گئے ہیں۔جو موسیٰ کے زمانہ سے پہلے کے تھے؟


(1)دیکھو حضرت یشوع کی کتاب( ۳۲:۸)۔

اٹھارھویں صدی کے وسط(درميان) میں پہلے پہل اس مسئلہ پر باقاعدہ طور سے غور و توجہ شروع ہوئی ۔ ایک فرانسیسی طبیب استرک نامی نے اس کی طرف توجہ دلائی ۔ کہ پیدائش ۱باب ۳:۲ میں پیدا ئش خلقت کا ایک مسلسل بیان درج ہے۔ مگر اس سے اگلی آیت میں ایک بالکل دوسرا بیان شروع ہوتا ہے۔ جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ مولف (جمع کرنے والا)نے اپنی تحریر میں دو مختلف روائیوں کو لے کر شامل کر دیا ہے۔ یہ دونوں کہانیا ں اس کے نزدیک بلحاظ طرز عبارت اور واقعات کی ترتیب اور خاص کر ایک اور امر کے لحاظ سے باہم مختلف ہیں ۔ جس کی وجہ سے پہلے پہل اس کی توجہ اُدھر منعطف(متوجہ ہونے والا) ہوئی تھی۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک بیان میں تو خدا کے لئے لفظ الوہیم استعمال ہوا ہے۔ اور دوسرے میں یہوواہ الوہیم چنانچہ اُردو ترجمہ میں بھی لفظ خدا ۔ اور خداوند خدا استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے یہ فرق نما ياں ہو سکتا ہے۔ جب اور زیادہ تحقیقا ت کی گئی تو بہت سے لوگوں کے نزدیک اس امر کی تصدیق ہو گئی۔ اور انہوں نے یہ دریافت کیا کہ ساری تورات میں یہوواہ نام والے اور الوہیم نام والے نسخے خلط ملط (گڈمڈ)ہو رہےہیں۔ اور اس کے علاوہ کئی مختلف شجرہ نسب (نسب نامہ)ہیں۔ جو مصنف یا مرتب(ترتيب دينے والا) نے جوں کے تو ں اُٹھا کر اپنی کتاب میں درج کر لئے ہیں۔ اس خیال کو اگرچہ بعض جرمنی کے علماء نے بڑھاتے بڑھاتے بے ہودگی(نا شائستگی) کے درجے کو پہنچا دیا ہے۔ مگر اس کو اب قریباً تمام بائبل کے علماء تسلیم کر گئے ہیں۔ خیر خواہ کچھ ہی ہو ہمیں اس جگہ اس خیال کی خوبی یا نقص سے کچھ بحث نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف اسے بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو اس ’’اعلیٰ تنقید‘‘(عظيم نکتہ چينی)کی حقیقت معلوم ہو جائے۔

(3)

ایک نامعقول تشویش

اگر چہ ہم اس تنقید کے حامیوں(حمايت کرنے والے) کے بعض خیالات سے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں۔ تو بھی اس امر(فعل) کو تسلیم کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس ’’تنقید اعلیٰ ‘‘ کے خلاف لوگوں نے بہت سی غلط اور بےہودہ باتیں اُڑا رکھی ہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ایمان کی حالت بائبل اور خدا کے متعلق کچھ بہت قابلِ تعریف نہیں معلوم ہوتی ۔ مگر یہ بالکل صحیح ہے کہ جب موسیٰ کے کتابِ پیدائش کے مصنف ہونے کا سوال اُٹھایا گیا۔ تو لوگوں میں اس قدر تشویش (فکرو تردّد)پھیل گئی تھی۔ گویا کہ الہٰی بادشاہت کی بنیادیں اسی پر منحصر(انحصار کرنا) تھیں۔ تنقید اعلیٰ (عظيم نکتہ چينی)کا کام فقط یہ ہے کہ بائبل کے صحیفوں کے متعلق جو کچھ راست و صحیح ہو اسے دریافت کر لے۔ اور لوگوں سے صرف اس بات کے ماننے کی امید کی جاتی ہے۔ جس کی صحت پایہ ثبوت (سچائی کا ثبوت)کو پہنچ جائے۔ وہ ہرگز اس امر(فعل) پر مجبور نہیں ہیں کہ جو بےہودہ باتیں بھی حامیانِ تنقيد(تنقيد کی حمايت کرنے والے) ان کے سامنے پیش کریں خواہ مخواہ ان پر یقین کریں۔ ان کاکام فقط یہ ہے کہ ساری باتوں کو آزمائیں اور جو صحیح اور راست ہو اسے قبول کریں۔

اس ليے اس تنقید کے حق میں یہ کہنا کہ ’’وہ بائبل پر حملہ کرتی ہے‘‘۔ یا ’’ہمارے ایمان کی دشمن ہے‘‘۔ نامناسب اور خلاف انسانیت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان عقائد میں جو عام طور پر بائیل کی نسبت مروج(رائج) ہیں ۔ بعض بعض مشکلات ہیں۔ مثلاً یہی تورات کا معاملہ جس کا میں اُوپر ذکر کر چکا ہوں ۔ جو شخص ان مشکلات کے حل کرنے اور ان کی تشریح و توضیح(وضاحت) کرنے کی کوشش کرے ۔ اسے بائبل پر حملہ کرنے والا سمجھنا ضرور نہیں ۔ اور نہ یہ امر ایک صاحب عقل و ہوش (عقلمند)انسان کے سزاوار ہے کہ اس قسم کے سوالوں پر غورو فکر کرنے سے انکارکرے۔

قدیمی مسلمہ عقائد کے زور و طاقت کی یہ ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ اس موقعہ پر بعض مقدس آدمی جو بلحاظ ذہنی قابلتیوں کے اعلیٰ اقتدار(بلند رُتبہ) رکھے تھے۔ گھبرا اُٹھے۔ اور انہوں نے اس نئے علم کو بُرے بُرے ناموں سے خطاب کرنا شروع کیا کہ وہ ’’خوفناک ‘‘۔ ’’نوشتوں کو پامال (روندنا)کرنے والا ‘‘ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض نکتہ چین اپنی مبالغہ آمیزرائیوں (بڑھا چڑھا کر رائے دينا)کے لحاظ سے کسی قدر اس قسم کے خطابوں(خطاب کی جمع) کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مگر یہ ایک بالکل دوسری بات ہے۔ ہمیں اس وقت بے ہودہ یا مبالغہ آمیز خیالوں سے بحث نہیں ۔ بلکہ ان ثابت شدہ اور قیرین قیّاس (وہ بات جسے عقل قبول کرے)مطالب (مطلب کی جمع)سے جو اس قسم کی تحقیقات سے متنج (نتيجہ نکلنا)ہو سکتے ہیں۔

جب کبھی کسی پُرانے مسلمہ اعتقاد(تسليم شُدہ ايمان) پر حملہ ہو ا کرتا ہے۔ خواہ اس کی بنیاد کیسی ہی ضعیف (کمزور)کیوں نہ ہو۔ تو اکثر ہل چل مچ جایا کرتا ہے۔ ہم پہلے ہی لفظی الہٰام سہو و خطا(غلطی و خطا)ء سے بریت (آزاد)اور ترقی پذیر(ترقی قبول کرنے والا) الہٰام کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے اس امر(فعل) کا ذکر کرچکے ہیں۔ ان کی نسبت(متعلق) بھی لوگ یہ سمجھتے تھے۔ کہ مرد یہ عقائد(انسانی عقائد) کا کاٹنا خود الہٰام کی جڑ کاٹنا ہے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ خدا نے کہیں اس قسم کے مردی عقائد(انسانی عقائد) کی تصدیق نہیں کی۔ اور ان کا نفس الہٰام(الہٰام کی روح) پر کچھ اثر نہیں پڑتا ۔ مگر ایسامعلوم ہوتاہے کہ اس سبق کی مکر رسہ کر ر(باربار،کئی مرتبہ) ہر ایک نئے موقعہ پر ازسر نو (نئے سرے سے)سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوگ اس وقت یہ خیال کرتےہیں کہ عہد ِعتیق کے صحیفوں کےمسلمہ مضفوں یا تاریخ تصنیف (لکھےجانے کی تاريخ) کے متعلق کسی قسم کے اعتراض کرنا گویا اعتقاد کی جڑ اُکھارنا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ یہ باتیں اعتقاد(يقين) کی جڑ اُکھاڑتی ہیں۔ مگر کس اعتقاد کی؟ صرف اسی مرد یہ عقیدہ(انسانی عقيدہ) کی کہ کتابوں کے نام بھی خد ا کے الہٰام کئے ہوئے ہیں۔ اور ان کتابوں کو بعض مصنفوں کےنام کی سند (ثبوت)پر قبول کرنا چاہیے ہمیں کس شخص نے بتا یا ہے کہ موسیٰ نےکتاب پیدائش کی تحریر کی تھی۔ یایشوع اور سموئیل نے وہ کتابیں لکھی تھیں۔ جو ان کے نام سے منسوب(تعلق ہونا) ہیں؟ کیا بائبل یہ کہتی ہے کہ یہ کتابیں درحقیقت انہیں اشخاص نے لکھی ہیں؟ کیا یہ کوئی بڑی ضروری بات ہے کہ ان کے لکھنے والا کون ہے؟ اس امر سے البتہ ان کی تاریخ تصنیف (لکھے جانے کی تاريخ)کے قائم کرنے میں مدد ملے تو ملے۔

اگر بالفرض انہوں نے ان کتابوں کو لکھا بھی۔ تو بھی یہ امر قابل لحاظ ہے کہ انہوں نے اس امر(فعل) کو اپنے ہی دل میں چھپائے رکھا۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیں نہیں بتایا ۔ نہ انہوں نے اس بنا پر ہم کو ان کتابوں پر اعتقاد (يقين)رکھنے کی ترغیب(خواہش)دی کہ یہ ان کی لکھی ہوئی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ البتہ یہ تو سچ ہے کہ ان مردی بیانات(انسانی بيانات) کی تائید (حمايت)میں اب بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جو نکتہ چینیوں کے بہت سی دلائل کی نسبت جو اس کےخلاف پیش کی جاتی ہیں۔ میں ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ مگر سوال زیرِ بحث یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کون راست (درست)ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’ آیا اس قسم کے عقائد کے متزلزل(ڈگمگانا) ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک تشویش و پریشانی (فکرمندی و پريشانی )کی حالت میں پڑجانا مناسب ہے؟ کیا بائبل کے صحیفوں خاص کر عہد ِعتیق (پرانا عہد نامہ)کے صحیفوں کے مصنفوں کے متعلق ہمارے علم میں کسی قسم کی تبدیلی واقع ہونا کوئی قابلِ اندیشہ بات (وہ بات جس ميں کسی بات کا ڈر ہو)ہے؟ یہ ممکن ہے کہ جب اس شور و شر(ہنگامہ وشرارت)کی دھول (مٹی)بیٹھ جائے ۔ تو آخر کار ہمارے عقائد جو ں کے تو ں پائے جائیں۔ مگر ہم کیوں خواہ مخواہ ان عقائد کو عظمت (بڑائی)دے رہے ہیں۔ مثلاً انبیائے اصغر (چھوٹی کتابيں لکھنے والے نبی)کے صحیفوں پر نظر کرو۔ یہودی نسخہِ بائبل میں یہ سب صحیفے ایک ہی کتاب میں مجتمع (اکھٹے)ہیں ۔ ان اشخاص کے حالات کی کچھ خبر نہیں۔ وہ مجلس(آدميوں کا گروہ) يا فقیہ (شرع کا عالم)جنہوں نے ان کو جمع کیا۔ ان کے اباّ کےنام یا اس عہد کے علاوہ جس میں وہ مبعوث(بھیجے گئے) ہوئے۔ ان کی نسبت اور کچھ نہیں جانتے ۔ یقیناً ان کے ناموں سے ان کی تصانیف کو کوئی سند و اختیار(ثبوت وطاقت) حاصل نہیں ہوتا ۔ فرض کرو کہ اس کتاب کے شروع میں فقط(صرف) یہ الفاظ لکھے ہوتے کہ ’’مجموعہ صحف انبیاء (نبيوں کا کلام)تو بتائیے۔ ہمارے لئے اس بات سے کیا فرق پیدا ہو جاتا ؟ کیا اس وقت ہمیں یہ کہا جاتا کہ ان انبیاء کے اسماء(ناموں) کو نہ جاننا ہمارے ایمان کے لئے خطر ناک ہے؟

ہمیں کہا جاتا ہے کہ اگر ہم اس امر پر اعتقاد نہ رکھیں کہ ساری تورات جیسے کہ وہ آج کل موجود ہے۔ لفظ بلفظ موسیٰ کی لکھی ہوئی ہے۔ تو اس سے ہمارے ایمان کو نقصا ن پہنچتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس بات سے انکار کرنے میں کیا برائی ہے۔ اگر ہمارے پاس اس قسم کے یقین کے لئے وجوہات ہوں کہ جس کسی نے اس کو لکھا ۔ اس کے پاس کے لکھنے کے لئے ضروری وسائل موجودہ تھے؟ کیا اس امر کا یقین کرنا خوفناک ہے۔ کہ زبورِ داؤد میں سے بہت سے مزامیر(راگ ميں گائی جانے والی دعائيں) حضرت داؤد کےلکھے ہوئےنہیں ہیں۔ اور ہم یہ بھی یقینی طور پر طور نہیں کہہ سکتے۔ کہ کون کون سے زبور اس کے لکھے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے ایمان کے لئے اس امر کا جاننا خوفناک ہے کہ امثال سلیمان میں اُجوربن يا قہ کے امثال اور نیز وہ امثال بھی جو شاہ لیموئیل کی ماں نے اس کو سکھائیں شامل ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ کون تھے؟ ہم کیوں اس سبق کے سیکھنے سے پہلو تہی(کترانا) کرتے ہیں جس پر بائبل بھی زور دیتی ہے کہ کتابوں کی سند و اختیار اس امر پر منحصر نہیں ہے کہ ان کے لکھنے والے کون کون تھے۔ بلکہ اس امر پر کہ وہ خدا کی طرف سے الہٰام ہوئی ہیں۔ اور کلیسیاء نے مشیت ایزدی(خدا کی مرضی) کی ہدایت سے ان میں سے ایسی ایسی کتابوں کو محفوظ رکھا ۔ جو تعلیم اور تادیب(ادب سکھانا) اور اصلاح (درستی )اور راستی(سچائی) میں تربیت کرنےکے لئے ضروری تھیں۔

(4)

اعلیٰ تنقید کے خطرات

ناظرین کے لئے ’’ اعلیٰ تنقید ‘‘ کی بے اعتباری ثابت کرنے کےلئے فقط ان تخیلّات (تصورات)کا ذکر کر دینا کافی ہے۔ جو اس کے حد سے بڑھے ہوئے شیدائیوں(عاشقوں) نے گذشتہ چند سالوں میں ظاہر کئے ہیں۔ اور میں بھی اس امر میں انہیں قابل الزام نہیں ٹھہرایا۔ ایک شخص جلے دل سے لکھتا ہے۔ کہ

’’ ان نقادوں (پرکھنے والے)کی تحریروں سے ہم اس امر کی آگاہی(جاننا) حاصل کرتے ہیں کہ بائبل پر ستی ممکن ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی معلوم کرتے ہیں کہ وہ گوئی((ايک ہل ميں جُتے ہوئے دو بيل)) اور ژاژ خانی(بکواس) ایسے ہی ممکنات(وہ باتيں جو ہو سکتی ہيں) میں سے ہے‘‘۔

اور اس شخص کا یہ قول برمحل(موزوں) بھی ہے۔ جو لوگ بائبل کے لفظی الہٰام اور سہوو نسیان (بھُول چُوک)سےبريت(آزاد) کے ماننے والوں کو بے وقوف اور احمق سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت ایسے بھی ہیں ۔ جو بائبل کے مطالعہ کو اپنے اسی قسم کے بے بنیاد مفروضات (کمزور فرض کی ہوئی باتيں)کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ جو بائبل کا مطالعہ اس مسئلہ کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ چونکہ اقوام کی ابتدائی حالت میں جب وہ تربیت و تعلیم سے بے بہر ہ (محروم)ہوتی ہیں۔ عام کاروبار میں بالائی قدرت واقعات کو دخل دینا ایک طبعی امر (فطری عمل)ہے ۔ اس لئے بائبل کی قدیمی تواریخوں میں جہان کہیں بالا قدرت باتوں کا ذکر ہے۔ انہیں محض قصہ کہانی اور دیوتاؤں کی حکائتیں سمجھنا چاہیے ۔ اور جہاں تک ممکن ہو۔ ان کی تشریح و توضیح کر کے انہیں طبعی واقعات کے صیغہ(سانچے ميں ڈھلی ہوئی چيز) میں داخل کر دینا چاہیے۔ ان لوگوں کے درمیان جلد باز اور شور ہ شر(ہنگامہ) لوگ بھی ہیں جو زبر دستی کی منطق(دليل) کے ساتھ بڑے بڑے نتائج پر پہنچ جاتے ہیں اوربجائے اس کے کہ وقت کو اجازت دیں کہ وہ ان دعوؤں کی صحت کو شکِ امتحان پر کہہ کر ان کی صحت و غلطی کو قائم کرے۔ وہ بڑےبڑے دعویٰ کے ساتھ خم ٹھونک(بے باک ہو کر مقابلہ کرنا) کر کہنے لگتے ہیں۔ کہ ’’یہ امور تنقید کے ذریعے سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں‘‘۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اپنی عقل و تمیز پراس قدر ناز(فخر) ہے کہ وہ تاریخ و تصنیف و ترتیب و ترکیب کے بڑے بڑے اہم امور پر محض اپنے ذہنی مفروضات اور مصنف کی عبارت اور خصلت(فطرت) اور خیالات کے بنا پر حکم لگانے بیٹھ جاتے ہیں۔ نقاد (تنقيد کرنے والا)کو ایسا خیال گذرتا ہے کہ بعض فقرات کسی مصنف کی طرز تحریر یا طر ز خیال کے ساتھ جو ڑنہیں کھاتے۔ اور اس ليےدوسرے اشخاص کی رائے کا انتظا ر کئے بغیر جو اس امر میں ایسی ہی لیاقت و قابلیت رکھتے ہیں۔ وہ بڑے اطمینان سے ان کو خط دُحدانی میں رکھ کر ان پر الفاظ’’ غالب ہے کہ بعد میں ایزاد (اضافہ کيا گيا)کئے گئے ‘‘۔ ’’ کسی اور شخص نے داخل کر دیئے ‘‘۔ لکھ دیتا ہے۔

اس قسم کی باتیں ہیں جن سے ’’تنقید اعلیٰ ‘‘کا نام بدنام ہو گیا ہے۔ اور لوگوں کو اس کے سنتے ہی چڑ آتی ہے۔ انہیں باتوں سےایسے بے سرو پا (بے بنياد)مسائل ایجاد ہوئے جو نہ صرف مسئلہ الہٰام سے ہی لگاؤ (تعلق) نہیں رکھتے ۔ بلکہ عہدِ عتیق کی معمولی صحت و درستی اور قابل ِاعتبار ہونےسے بھی ۔ مگر اس کی علمی لحاظ سے باقاعدہ تنقید نہیں کہنا چاہیے۔ اور نہ حقیقی عالمانہ تنقید اس قسم کی بےاعتدالیوں(ناانصافيوں) کے لئے جواب دہ ہو سکتی ہے۔ شايد بعض لوگ ان کے حوصلے اور جرات کے لئے ان کے مدّاح ہوں ۔ مگر حوصلہ اور جرٔات گو مناسب محل (موقع )پر کتنی ہی قابل تعریف ہو ۔ تو بھی ایسے اہم معاملوں میں خاص کر بائبل کے متعلقہ مطالب پر غورو فکر کرنےمیں۔ اگر اس کے ساتھ اختیار اور حیاء(لحاظ) او ر کلام ِاللہ کا ادب و عزت بھی شامل نہ ہو ۔ اسے ضرور خوفناک اور بے محل سمجھنا پڑے گا۔ کڑوے دانوں کے اُکھاڑنے میں خالص گندم کو بھی اُکھاڑ دینا آسان ہے اور ہر ایک انسان کو چاہیے کہ ایسے اہم اور نازک معاملوں میں جن کا تعلق اس ادب و عزت سے ہو۔ جو صدیوں سے بائبل کےحق میں لو گوں کے دلوں میں جاگزین (پسنديدہ)ہے۔ مزید احتیاط دور اندیشی(عقل مندی) پر کار بند(عمل ميں لانا) ہو۔

(5)

تنقیدکی مناسب حیثیت

مگر مخالفوں کی اس دلیری اور جرات کے مقابلہ میں ہم سزا وار نہیں کہ ہم بھی سمت مقابل (مقابلہ کی طرف)میں حد سے باہر نکل جائیں۔ یہ ہرگز مناسب نہیں کہ ان خوفناک اور بے بنیاد مسائل کی نسبت اپنی ناراضگی ظاہر کرتے کرتے اس حد کو پہنچ جائیں۔ کہ خود ’’اعلیٰ تنقید‘‘ پر ہی لعنت بھیجنا شروع کریں۔ یا جو لوگ اس میں مشغول (مصروف)ہیں اُن کے حق ميں طرح طرح کی بدگمانياں(بُرے خيالات)کرنے لگ جائیں۔ تيزی اور جلد بازی اور زٹل(بکواس) ہر ایک نورِ ایجاد علم کے ابتدائی زمانوں میں خوف وضرر (ڈر اور نقصان)کا باعث ہیں۔ اور جوانی کے تمام عیبوں (برائياں)کی طرح جوں جوں وہ عمر میں ترقی کرتا جائے گا۔ یہ بھی کم ہوتے جائیں گے۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’اعلیٰ تنقید ‘‘ کے سب ہی علماء ایسے زود مزاج(تيز مزاج) اور جلد باز نہیں ہیں ۔ ہم کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے۔ کہ اس کا اصلی مقصد یہ ہے کہ بائبل کے متعلق سچائی اور محض سچائی کو دریافت (ڈھونڈنا)کرے یقیناً جس قدروہ اس امر میں کامیابی حاصل کریں۔ اسی قدر وہ قدر دانی کے سزا وار ہیں۔ خواہ ان کی تحقیقات سے ہمیں اپنے پہلے دل پسند خیالات بدلنے ہی کیوں نہ پڑیں ۔ سچائی ہمیشہ ایسی ہی چیزوں کو برباد کیا کرتی ہے۔ جو اسی لائق ہوتی ہیں۔ اور خواہ کچھ ہی ہو ۔ خدا بھی ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم سچائی کی پیروی (پيچھے چلنا)کریں۔ خواہ وہ ہمیں کہیں کیوں نہ لے جائے۔ یا اس کا کچھ ہی نتیجہ کیوں نہ نکلے۔

مگر اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ہم ان بائبل کی نکتہ چینيوں کے تمام فیصلوں کو صرف اس وجہ سے کہ یہ ان کے فیصلہ میں سچا سمجھ کر مان لیں ۔ ہم کو ان کے علم اور لیاقت(قابليت) کے لئے ان کی عزت کرنی چاہیے۔ اور ان کی صاف دلی اور حق جوئی کےلئے ان کو آفرین کہنا(داد دينا) چاہیے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے مشکل سوالات کے حل کرنے کے لئے عبرانی علم و ادب اور تاریخ سے بھی کچھ بڑھ کر جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمیں ہر قسم کی دوسری شہادت(گواہی) کو بھی نہ صرف اس خاص شہادت کو جو ’’تنقید اعلیٰ‘‘ کے عالموں سے ملتی ہے پرکھنا چاہیے ۔اس کے لئے ایک تلے (يکساں)ہوئے دماغ اور فراخ دل اور انصاف پسند روح کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک باادب مذہبی میلان (رحجان)جس سے ہماری مراد زود اعتقادی(فوراً يقين کر لينا) نہیں ہے۔ اور صحیفے کے مقصد و نفس ِمضمون (اصل مطلب)کی تہ تک پہنچ جانے کی قابلیت کی بھی حاجت (ضرورت)ہے۔ جس کے سوا کسی کتاب کی صحیح تنقید و موازنہ(نکتہ چينی و مقابلہ) کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص عبرانی اور علم اللسان(زبان کی تاريخ کا علم) اور تاریخ سے کامل وافقیت رکھتا ہو۔ اور تنقید و موازنہ میں بھی ماہر و تجربہ کار ہو۔ مگر پھر بھی عہدِ عتیق کے صحیفوں کی اصل و ترکیب (حقيقت وتد بير)و تاریخ ِتحریر کی نسبت صحیح رائے نہ دے سکے۔

اس لئے اگرچہ ہمیں ماہرانِ علم تنقید کی علمیت اور قابلیت کا عتراف (ماننا)ہےتو بھی ہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی اصلی حیثیت ایک گواہ کی ہے نہ کہ جج کی۔ ہماری قانونی عدالتوں میں اکثر اس امر کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہر دو فریق کی جانب سے خاص خاص علم و فن کے ماہرین ۔ خواہ ڈاکٹر ہوں یا انجنٔیر یا کوئی اور فن والے طالب کئےجاتے ہیں۔ اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ان کی شہادت(گواہی) باہم کیسی مختلف و متضاد(اُلٹ) ہوتی ہے۔ لیکن گو ان کی شہادت کسی امر(معاملہ) کے تصفيہ (فيصلہ)کے لئے نہایت ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ تو بھی مقدمہ کا فیصلہ ان کے سپرد نہیں کیا جاتا ۔ اور سب لوگ اس امر کو تسلیم کرتےہیں کہ اگر چہ ماہرین علوم وفنون(ہنروفن) کسی امر متعلقہ میں شہادت دینے کے لئے کیسے ہی لائق و فائق (لياقت ميں فوقيت رکھنے والا)کیوں نہ ہو۔ تو بھی ان کا ایک جج کی کرسی پر بیٹھ کرکسی معاملہ کے متعلق صحیح صحیح فیصلہ دینا ایک دوسری بات ہے۔ جج یا جوری بننے کے لئے اس کے علاوہ اور بہت سی قابلتیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب ہمیں چاہیے کہ اس امر(معاملہ) کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ۔ اور پھر جو کچھ یقینی سچائی ہم کو ان علماء (عالموں کی جمع)کے ذریعے سے حاصل ہواُسے ہمیشہ قبول کرنے کو تیار رہیں۔ ’’جب تنقید ادب و عزت سے کی جائے۔ جب وہ سرے سے يہ دعوےٰ نہ کر بیٹھے کہ کوئی بالائی قدرت ظہور تاريخی لحاظ سے صحيح مانے جانے کے قابل نہيں۔ جب وہ اس امر کےا مکان سے منکر(انکار کرنے والا) نہ ہو کہ خدا اپنا مکاشفہ انسان کو دیتا ہے اور جب وہ تاریخی تحقیقات کے صحیح اصولوں پر کاربند ہو۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ مسیحی لوگ خواہ مخواہ اس کی مخالفت کریں‘‘۔ جو لوگ اس حالت میں بھی بائبل کی اعلیٰ تنقید(عظيم نکتہ چينی) کا منہ بند کرنےکی کوشش کریں اور خواہ مخواہ شور و غوغا (ہنگامہ)مچائیں۔ ان کی حالت قابل ِرحم سمجھی جانی چاہیے ۔ جہاں کہیں گذشتہ زمانوں میں مسیحیوں نے مذہب نا م سے کسی نئے علم و دریافت کی مخالفت کی ہے۔ اور پھر منہ کی کھا کر ہار ماننے کو مجبور ہوئے ہیں۔ اس سے سوائے شرم و افسوس کے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ آج کل ہمیں اسی تجربہ کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جس شخص کا خدا پر سچا ایمان و اعتماد ہے۔ وہ کبھی سچائی سے خائف(خوف کھانے والا) نہیں ہو گا۔ یہ یاد رکھو کہ خدا اپنی سچائی کی آپ محافظت(حفاظت) کر سکتا ہے۔ اور ہم میں سے کون ہے جو دعوےسے کہہ سکے کہ یہ تنقید (نکتہ چينی)بھی اس کی سچائی کو ظاہر کرنے کا ایک ذریعہ نہیں ہے’’ کیوں کہ یہ کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔ اور اگر خدا کی طرف سے ہے۔ تو تم ان لوگوں کو مغلوب(شکست خوردہ) نہ کر سکو گے‘‘۔

(6)

کیا اس کے نتائج سے ڈرنا چاہیے؟

بعض آزاد خیال لوگ اکثر اس طور پر گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک بائبل کی نسبت (تعلق)خواہ کچھ ہی تسلیم کیوں نہ کر لیں۔ تو بھی اس کے اعتبار و الہٰام میں فرق نہیں آئے گا۔ مگر یہ خیال ٹھیک نہیں ہے۔ اس قسم کی مقررہ حدود ہیں۔ جن سے باہر ہم نہیں جا سکتے بعض اس قسم کی باتیں ہیں جن میں اگر شہادت (گواہی)کی بنا پر ہم ماننے پر مجبور ہو جائیں۔ تو اس سے بائبل کا عام اعتبار(يقين) اُٹھ جائے گا ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا الہٰامی ہونےکا دعویٰ بھی باطل (غلط)ٹھہرے گا۔ کیا ہمیں کسی اس قسم کے خطرہ کا اندیشہ (خوف)کرنا چاہیے۔

سب سے پہلے اس امر(معاملہ) کو یاد رکھنا ضروری ہےکہ اغلب (يقينی)معلوم ہوتا ہےکہ عہد ِعتیق (پرانا عہد نامہ)کے متعلق جو تحقیقات و جستجو(کوشش) ہو رہی ہے۔ اس کا آخر ی نتیجہ شايد ایسااہم نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ہم اس وقت اُمید کرنے پر مائل(متوجہ) ہیں۔ ہم عہد جدید (نياعہد نامہ)کی کتابوں کی اسی قسم کی تحقیقات(جانچ پڑتال) پر پیچھے نظر دوڑتے ہیں۔ جس سے چند سال ہوئے سخت بے چینی پھیل گئی تھی۔ اس وقت ہمارے سامنے بہت سی کتابیں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ جو ہمیں اس بے چینی کی عظمت (شان و شوکت)کو یاد دلاتی رہتی ہیں۔ لیکن اب جب کہ اس قسم کے مباحثہ و مجادلہ(بحث و لڑائی) کا بازار سرد ہو گیا ہے۔

ہم ٹھنڈے دل سے اس امر(فعل۔معاملہ۔کام) کو دیکھ سکتے ہیں کہ ان تمام حملوں اور حملوں کے جوابوں میں جو کچھ اب ہمارے پاس باقی رہ گیا ہے۔ اس سے صرف چند ہی قابل تسلیم باتیں ثابت ہوئی ہیں۔ اور اس سے بہت ہی تھوڑی کو قابل تعریف تبدیلی۔ ان خیالات میں ہوئی ہے۔ جو لوگ خدا یا بائبل کے حق میں رکھتے تھے۔ بلا شبہ عہدِ عتیق کے متعلق جو حال میں جستجو(کوشش)ہو رہی ہے۔ اس سے اس کی نسبت(تعلق) بڑھ کر اہم نتائج پیدا ہوں گے۔ مگر گذ شتہ تجربہ کی بنا پر ہم یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ بہت سے دعویٰ جو بڑے وثوق (اعتماد)کےساتھ آج پیش کئے جاتے ہیں۔ شايد آئندہ پشت(نسل) کے وجود میں آنے سے پہلے ہی متروک و فراموش (ترک کيا ہوا وبھولاہوا)ہو جائیں گے۔

مگر شايد کو ئی کہے کہ میں اس بات کو مان کر یہ بھی کہتا ہوں کہ کیا ممکن نہیں کہ یہ ’’باقی ماندہ قابلِ تسلیم اُمور ‘‘ جو آخر کار ’’ تنقید اعلیٰ‘‘ کے ذریعہ سے پایہ ثبوت کو پہنچ جائیں۔ ایسے ہوں کہ بائبل کی نسبت (تعلق)ہمارے اعتقاد (يقين)کو بالکل کمزور کر دیں؟

میں ہرگز ایسا خیال نہیں کرتا ۔ اس قسم کے خوف و اندیشہ کی وجہ خاص کر یہ ہے کہ آج کل لوگ انہی امور(امرکی جمع)پرزیادہ ترگفتگوکرتےرہتے ہيں جو زيادہ حيرت بخش ہوتے ہيں اس سبب سے اُن باتوں کو ايک قسم کی حد سے بڑھی ہوئی حيثيت حاصل ہو جاتی ہے اِس بات سے انکار نہيں ہو سکتا کہ بہت سے دعوے جو بعض نقادوں نے خاص کر اہل ِجرمن نے بائبل کے حق ميں پيش کيے ہيں اگر وہ ثابت ہو جائيں تو اس سے سخت تشويش پيدا ہوگی اور وہ کسی قسم کے عقيدہ الہٰام کے ساتھ جوڑ نہيں کھا سکتے مگر اس سے ہميں بے چين نہيں ہونا چاہيے کيو نکہ بحث و مباحثہ کی گرم بازاری ميں لوگ طرح طرح کے دعوٰے کر بیٹھا کرتے ہيں اور ظاہراً دل خوش کن دلائل سے اُن کی تائيد (حمايت)بھی کر ديا کرتے ہيں ۔اگر ہم گز شتہ مباحثوں اور کجادلوں (ٹيڑھے دل)کی تاريخ کا مطالعہ کريں گے۔تو ہميں معلوم ہو جائےکہ يہ کوئی نئی بات نہيں ہےجو اس وقت ہو رہی ہے۔ ايسے ہی حيرت انگيز دعوےپہلے بھی پيش ہوتے رہے ہيں۔ بلکہ ابھی چند ہی سال کی تو بات ہے۔ جب کہ عہدِ جديد کے متعلق مباحثہ کا بازار گرم تھا۔ تو ايسی ہی باتيں سننے ميں آيا کرتی تھيں۔ اگر ايسی ايسی باتيں ديکھ کر ہمارا سر پھر جائے۔ تو ہميں اس قسم کی بےچينی سے کبھی بھی چھٹکارا نصیب نہيں ہوگا۔ کيوں کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ ہمارے دامن (آنچل يا پلّو)سے لگی رہے گی۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کتابِ مقدس نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ ایسے ہی خطرات کے درمیان میں کاٹا ہے۔ مگر پھر بھی آج تک صحیح سلامت موجود ہے۔ کیوں کہ جب تک بہت سے علماء و فضلا مختلف مسائل کی نسبت (تعلق)اتفاقِ رائے ظاہر نہ کریں۔ تب تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون کون سی باتیں قرار(مقرر) پاگئی ہیں۔ مگر اس پر اتفاق رائے کا ابھی تک ہمیں کسی مسئلہ کی بابت (سبب)کوئی نشان بھی نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ ہمیں ان بہت سی مضبوط دلائل کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ۔ جن کی بنا پر ہم بائبل کے الہٰامی ہونے کے قائل (تسليم کرنے والا)ہیں۔ اور اس لئے ان دعوؤں کا جو اس کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتے سچا ہونا کیسا غیر ا غلب(غير يقينی) ہے۔

اور خاص کر ہمیں بڑے اطمینان(تسلی) کے ساتھ اپنے دل کو اس کا فیصلہ پر لگانا چاہیے ۔ جو ہمارے خداوند نے عہدِ عتیق (پرانا عہدِنامہ )کے حق میں دیا تھا۔ وہ ان تمام عام اعتقادوں(عقيدوں)کو جو اس کے زمانہ میں لوگوں کے دلوں میں بائبل کی نسبت جاگزین (پسندديدہ)تھے۔ نہیں مانتا تھا اور نہ وہ ان روایتوں کا قائل(تسليم کرنے والا)تھا۔ جنہیں تقدس کے لحاظ سے بائبل کے برابر دیا جاتا تھا۔ نہ وہ ان عام اعتقادوں (عقيدوں)کو جو آج کل ہمارے زمانہ میں مروج (رواج دیاگیا )ہیں مانتا تھا۔ مگر ان عالم اعتقادوں سے قطع نظر(اس کے سوا)کر کےوہ ايک بات کا ضرور قائل (تسليم کرنے والا)تھا ۔اور اس کا اُس نے اپنی سند و اختيار(قابو۔قبضہ) سے اعلان کر ديا ۔پہلی صدی مسيحی ميں مشکل سے کوئی يہودی ہو گا ۔جو يسوع ناصری سے بڑھ کر اس امر(فعل) کا معتقد(اعتقاد رکھنے والا) ہو کہ يہودی کليسيا کے عہدِ عتيق کی کتابوں کے مجموعہ کو خدا کے الہٰام کی تعليم سمجھ کر قبول کرنا چاہيے۔ جب کبھی عہدِعتيق کے اعتبار و اختيار پر حملہ ہوا اور شک وشبہ(گمان۔وہم) اور بے چينی کا دوردورہ ہو تو ہم کو اپنے اطمينانِ قلب (دل کو تسلی دينا)کے لئے يہ ياد رکھنا چاہیے کہ ہمارےآقا نے خدا کی کتابیں تسلیم کر لیاہے۔ اور وہ ہمیشہ ان سے سند(ثبوت) لیا کرتا تھا۔ ’’آسمان و زمین ٹل جائیں گے۔ مگر اس کی باتیں ہر گز نہ ٹلیں گی‘‘۔

ليکن جہاں ہمیں یہ پورااعتماد (يقين)ہے کہ غالباً کوئی ایسی بات جو درحقیقت ان کے الہٰام کے منافی (خلاف)ہے ثابت نہ ہوگی ۔ تو بھی ہمیں اس امر میں( فعل )سخت احتیاط(حفاظت) کی ضرورت ہے کہ کن کن باتوں کو در حقیقت منافی الہٰام (الہٰام کے خلاف)سمجھنا چاہیے ۔ بہت کچھ بے چینی جو اس وقت تنقید اعلیٰ (عظيم نکتہ چينی)کے خلاف پھیل رہی ہے۔ اس کی بنیاد زیادہ تر اس امر پر ہےکہ بعض نیک آدمیوں نے اس کی مخالفت پر کمر باند ھ رکھی ہے۔ جن کے نزدیک ’’قدیم طریقوں ‘‘ کی پابندی یہ معنی رکھتی ہے کہ قدیم غلطیوں کی بھی پابندی کی جائے۔ دن بدن علماء کے اس امر پر اتفاق ہونے کے آثار (علامات)نظر آتے ہیں کہ بعض باتیں جنہیں یہ لوگ بائبل کے حق میں خوفناک سمجھے بیٹھے ہیں۔ آخر کار ثابت شدہ اُمور کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔

ان باتوں کا ذکر کرتے ہوئے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے اصل منشاء(مرضی ۔مقصد) کا بھی اظہار کر دوں ۔ میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ہم کو یہ تمام باتیں مان لینی چاہییں۔ نہ یہ کہ ان میں سے بہت سی باتیں پایہ ثبوت(ثابت ہونا) کو پہنچ چکی ہیں۔ جو کچھ میری غرض ہے۔ سو یہ ہے کہ ناظرین کو چاہیے کہ ان سوالات کا بے خوف و خطر (ڈر و خطرہ)مقابلہ کر کے بلا دو رعایت (قصبہ يا شہر کی طرف داری کرنا )ان کا اپنے لئے فیصلہ کریں فرض کر و کہ تنقید کے ذریعے سے یہ تمام باتیں پایہ ثبوت(ثابت ہونا) کو پہنچ جائیں۔ تو کیا ہمیں بائبل کی سند و اعتبار (يقينی ثبوت) کے جاتے رہنے کا خوف ہے؟

فرض کرو کہ تنقید(نکتہ چينی) اس امر(فعل) کو ثابت کر دے کہ تورات کی پانچوں کتابیں محض قدیم موسوی تحریرات کی تریتب دینے سے بنی ہیں۔ یا وہ ایک مصنف کی نہیں۔ بلکہ مختلف مصنفوں کی تصانیف(تصنيف کی جمع) کا مجموعہ ہیں۔ یا اگر یہ دعویٰ (مطالبہ)پایہ(رتبہ) ثبوت(شہادت)کو پہنچ جائے کہ یسعیاہ کی کتاب کے ابواب(۴۰ تا ۶۶ )کسی اور ’’ نامعلوم بزرگ ‘‘ کی تصنیف ہیں۔ جو یسعیاہ نبی کی کتاب کے ساتھ شامل کر دیئے گئے۔ جیسا کہ ہم دیکھتےہیں کہ سلیمان کی امثال کی کتاب کے آخر میں اگور(اجور) اور لیموئیل (لموایل)کی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ توبتائیے پھر کیا؟ بھلا اس سے بائبل کی حقیقی قدر وقیمت کو کیا نقصان پہنچے گا؟

نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مضطرب (بے قرار)کرنے والےدعویٰ(مطالبہ) کو لو۔ فرض کرو کہ یہ امر(فعل) قابل اطمینان طور پر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ موسیٰ اس شریعت کا جو تورات کی پانچوں کتابوں میں درج ہے۔ فقط ایک جُز اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ اور بعدا زاں دوسرے قوانین کے مجموعوں کی بااختیار آدمیوں کے ذریعہ سے اس میں توسیع و ایزادی (وسعت و زيادتی)ہوتی رہی۔ یاکنعان میں پہنچنے کے بعد لوگوں کے مختلف حالات اور ضرویات کی وجہ سے ان میں مناسب ترمیم (درستی)ہوتی رہی۔ بلکہ اس امر کو بھی فرض کر لو کہ آخری تصحیح و ترمیم(صحيح ودرستی) جلاوطنی یعنی قید بابل کے بعد واقع ہوئی۔ یاد رہے کہ ایسا کہنے سے میری ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ میرے نزدیک یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے۔ مگر فرض کرو کہ یہ ثابت ہو بھی جائے تو پھر کیا؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا کسی قوم کو بتدریج(آہستہ آہستہ) اور بہت سے اشخاص کے ذریعہ سے تعلیم دے۔ اور یہ طورو طریق بھی ایسا ہی موثر اور کار آمد ہو۔ جیسا کہ اس صورت میں ہوتا کہ وہ سب کچھ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی آدمی کے ذریعہ سے سکھا دیتا ؟ اور اس نے ہمیں کہیں بھی یہ نہیں بتایا کہ اس نے ان دونوں طریقوں میں سے خاص طور پر کسی ایک کو اختیار(منظور) کیا ہے۔

اگر تنقید کے ذریعہ معقول دلائل(مناسب دليليں) کی بنا پر ثابت ہو جائے کہ بعض مردیہ بیانات (انسانی بيانات )کتابوں کے مصنفوں کے متعلق صحیح نہیں ہیں۔ بلکہ اگر ہم اس امر میں شبہ کی حالت میں چھوڑ ديئےجائیں کہ ان کتابوں کے مصنف درحقیقت کون تھے۔ تو کیا ہمارے واسطے اس بات کو معلوم کر لینا فائدہ سے خالی ہو گا کہ ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم خواہ مخواہ کتابوں کے سرناموں(لکھنے والے کا پتہ اور نشان ) کو بھی الہٰامی سمجھ بیٹھیں۔ جیسا کہ ہم ان تواریخ و سنین (تاريخ اور سن )کو بھی جو کسی کسی بائبل کے حاشیہ پر لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ الہٰامی نہیں سمجھتے ہیں؟ اور اسی طرح ان صحیفوں کے مصنفوں کا جاننا بھی بہت صورتوں میں ایسا گراں قدر(اہم ،قیمتی ) معاملہ نہیں ہے۔

یا اگر ہمیں یہ دکھایا جائے کہ عہد ِعتیق کا کوئی صحیفہ اس زمانہ سے جو ہم نے ٹھہرایا ہوا ہے۔ کوئی سودو سوسال بعد کا لکھاہو ا ہے۔ تو اس میں حیرانی و گھبراہٹ کی کونسی وجہ ہے۔ بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ مصنف کو ضروری اطلاع ملنے کے وسائل حاصل تھے؟ اگر خد اان الفاظ کے ذریعہ سے جو اس نے قدیم زمانہ میں الہٰام کئے ہمارے دلوں میں تاثیر(اثر) کرتا ہے۔ اور ہماری ضمیروں کو ُاکساتا تو اس میں کیا مضائقہ (حرج)ہے کہ وہ ایک دو صدی پہلے لکھے گئے تھے۔ یا پیچھے ؟

اگر ہمیں یہ دکھا یا جائے کہ قدیمی الہٰامی موّرخوں (تا ريخ لکھنے والے)نے بجائے اس کے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کو غیر متزلزل

(نہ ہلنے والی)درستی و صحت کے ساتھ لفظ بلفظ خد اکی زبان سےسُن کر تحریر کریں۔ زمانہِ حال کے موّرخوں کی طرح بڑی محنت کے ساتھ پرانی تاریخوں روز نامچوں ، دفتروں اور نسب ناموں کا مطالعہ اور چھان بین (کھوج)کر کے لکھی ہے۔ جس میں اس خطر ہ کو گنجائش(جگہ) تھی کہ ان نوشتوں کی غلطیاں ان کی تحریرات میں بھی دخل ہو جائیں ۔ اگر ہم کو یہ بتایا جائے کہ اس قسم کی تحریرات بھی ایسی ہی الہٰامی ہیں جیسے کہ ایک محوو مجذ و ب(خدا کی محبت ميں مگن ) نبی کی رویا یا وہ خیالات جو اس کی روح میں بلاواسطہ خدا کی طرف سے القا ( غيب سے دل ميں ڈالنا)ہوئے۔ تو اس میں کون سی بات ہے۔ جس سے ہمیں مضطرب و پریشان(بے چين و دُکھی) خاطر ہونا چاہیے؟ اگر ہمیں پہلے یہ علم نہ تھا کہ یہ کتابیں کس طرح تصنیف و تالیف ہوئی تو کیا ہمیں اس شخص کا شکرگزار نہیں ہو نا چاہیے ۔ جو ہمیں اس بات کو بتا دے؟ اگر ہمارے پہلے تصور ات الہٰام کی نسبت غلط تھے۔ تو کیا ان کی صحت و درستی کے لئے ہمیں خوش نہیں ہو نا چاہیے؟

یا اگر ہم کو یہ جتایا جائے کہ ایوب کی کتاب کس طرح ایک ڈراما کے طور پر ہے۔ اور ایک دہی تصویر کے طور پر شیطان کے خدا کے بیٹوں کی جماعت کے ساتھ آنے اور یہوواہ کے ساتھ گفتگو کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور کہ وہ ایک نظم ہے۔ جس میں ایوب اور اس کے دوست زندگی کے رازوں پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ یا اگر ہمیں یہ کہا جائے کہ مشرقی ممالک کے شعر و شعاری کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں خواہ مخواہ یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اس سارے واقعہ کو لفظی طور پر صحیح واقعہ نہیں ماننا چاہیے۔ بلکہ یہ محض ایک منظو م ناٹک (نظم کيا گيا ڈرامہ)ہے۔ جس میں قدیم بزرگوں کی زندگی اور اطوار کی بنا پر ’’ دکھ کے راز ‘‘ پر بحث کی گئی ہے۔ تو کیااس سے کتاب میں ایک قسم کی خوبصورتی اور معقولیت نمایا ں نہیں ہو جاتی ؟ کیا روح القدس لوگوں کو نظم یا فسانہ اور ڈراما کے ذریعہ تعلیم نہیں دے سکتا تھا۔ جیسے کہ ہمارےخداوند نے بعدازاں ’’مصرف بیٹے ‘‘ کی تمثیل اور دولت مند اور لعزر کی حکایت کے اعلیٰ روحانی سچائیوں کی تعلیم دی؟

(7)

ایک معقول ذہنی حالت

اب ہمیں تنقید اعلیٰ پر اس پہلو سے نظر کرنی چاہیے ۔ ہر ایک بات جو وہ معقول طو رپر ثابت کر سکے۔ ( نہ وہ جس کا وہ فقط دعویٰ یا اظہار کرے )۔ اسے فقط صدق دل (سچے دل)سے ہی نہیں ۔ بلکہ شکر گذاری کے ساتھ قبول کرنا چاہیے کیوں کہ تمام صداقت و سچائی منجانب اللہ ہے ۔ اور اس سے آخر کار سوائے بہتر ی کے اور کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ ہمیں خواہ مخواہ ’’ ہٹ دہر می (ضد)سے عہدِ عتیق کے الہٰام یا الہٰی سند کو کسی پہلے ہی سی ٹھانی ہوئی بات پر بازی کے طور پر لگا نہیں دینا چاہیے کہ ہمارے نزدیک یہ کتابیں اس طور سے یا اس صورت میں الہٰام ہونی چاہیے تھیں‘‘۔ ہمیں صاف دل کے ساتھ اس تمام شہادت کو سننے اور غور کرنے کے لئے جو ہمارے سامنے پیش کی جائے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں کسی امر کی بابت قطعی فیصلہ(آخری فيصلہ) کرنے لئے جلد بازی کو بھی کام میں نہیں لانا چاہیے۔ ہمیں نئے نئے دعوؤں اور بیانوں کو قبول کرنے کے لئے بڑی احتیاط برتنی چاہیے۔ اور جو کچھ قدیمی خیال کی تائید(حمايت) میں کہا جا سکتا ہے۔ پہلے اس پر اچھی طرح غور و فکر کر لینی چاہیے ۔ ہماری صاف دلیل اور دلیری میں ادب و لحاظ کو دخل ہو نا چاہیے ۔ اور ساتھ ہی بڑی احتیاط اور سنجیدگی کے ساتھ شہادت(گواہی) کی جانچ پڑتا ل (تحقيق)کرنی چاہیے۔ اور ہماری دلی خواہش یہ ہونی چاہیے کہ ہم بلا وجہ دوسروں کے مسلمہ(تسليم شدہ) اور مرغوب عقائد(پسنديدہ ايمان) کو ہرگز تہ و بالا (اُوپر نيچے )نہیں کریں گے۔

اور ہم کو ہمیشہ اس امر کے ماننے کے لئے رضامند و تیار رہنا چاہیے کہ اور لوگ بھی دیانتدار اور راستی پسند ہیں۔ اور ان کے دل میں بھی خدا اور بائبل کی نسبت ایسی ہی عزت ولحاظ جاگزین(پسند يدہ) ہے۔ہمیں ہرگز لوگوں کی دینداری یا دیانت داری کے متعلق بے جا شبہات (فضول شک)کو جگہ نہیں دینی چاہیے ۔ اور نہ ان کی نسبت طرح طرح کی بدظنیاں(بد گمانياں) پیدا کرنی چاہییں۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اس قسم کے مسائل کی تائید(حمايت) کرتے ہیں کہ موسیٰ نے تورات کی پانچوں کتابیں تما م و کمال تصنیف (تحرير)نہیں کیں۔ اور کہ پاک نوشتوں میں ہمارے خیال کی نسبت زیادہ تر انسانی عنصر کو دخل ہے۔

اور آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دل میں خدا اور سچائی کی نسبت اور نیز روح القّدس کے آزادانہ عمل واختیار کی بابت زیادہ زیادہ اعتقاد ہونا چاہیے۔ اور ہم کوزیادہ زیادہ دُعا کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جس قدر زیادہ ہم بائبل کے ’’ اندرونی راز ‘‘ سے واقف ہوتے جائیں گے۔ اسی قدر ہم کو اس کے الہٰی نورو قدرت کا زیادہ زیادہ یقین ہوتا جائے گا۔ اور ہم اس بات کے قائل ہوتے جائیں گے کہ جو مسئلہ اس کے الہٰام کے اعتقاد کے ساتھ میل نہیں کھائے گا۔ وہ یقیناً غلط ہو گا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے آدمی جب کبھی کوئی نئی بات ایسی ظاہر ہوتی ہےجو ان کے مسلمہ عقائد کو مضطرب(پريشان) کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔تو وہ خواہ مخواہ کی بادشاہت کے لئے فکر مند اور ہراسان(خوف زدہ) ہوتے لگتے ہیں ۔ تو ہمیں ان کی اس حالت کو دیکھ کرترس آتا ہے۔ اگر بالفرض ہمارے خیالات میں خدا کے کسی فعل کے طریق عمل کی نسبت کچھ فرق آجائے۔ تو وہ فعل زائل (ختم)نہیں ہو جاتا ۔ اسی طرح اگر الہٰام کی نسبت ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع ہو جائے۔ تو یقیناً اس سے الہٰام کی حقیقت زائل نہیں ہو جاتی جیسے کہ علم ِنباتات کے سلسلہ کی صحت ودرستی کرنے سے پھولوں کی خوشبو میں کسی قسم کا فرق نہیں آجاتا۔

اس طرح بڑے ٹھنڈے دل سے اور پورے اعتماد (يقين)کے ساتھ نہ تو تیزی(گرم مزاجی) کو اور نہ تعصب (طرف داری۔حمايت)کو دل میں جگہ دے کر ہمیں تنقید اعلیٰ کے علم کو استعمال کرنا چاہیے ۔ یہ سمجھ کر کہ یہ بھی خدا کی اچھی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے سچائی کے متعلق زیادہ وسیع خیالات رکھنا سیکھیں۔ اوراگر ہم اسے اس طرح استعمال کریں گے۔ تو ہم دیکھیں گے کہ اس کے ذریعہ ہمیں بجائے اپنے نقصان پر ہرا ساں و خوف زدہ (پريشان و ڈرانا)ہونے کے زیادہ تر خوش و خرم ہونا چاہیے۔

کسی قدیم ملک کا ایک قصہ ہے کہ ایک دفعہ آگ نے پہاڑیوں کو تاخت و تاراج(تباہی و بربادی) کرتے ہوئے تمام پھولوں اور پتوں کو جلا کر خاک سیا ہ(راکھ) کر دیا۔ جس سے ملک کی صورت بالکل بدل گئی۔ لیکن جب لوگ اپنے نقصان کے لئے افسوس کر رہے تھے۔ تو دفعتاً انہوں نے دریافت کیا کہ آگ جس نے پھول پتوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اس کی گرمی سے بعض چٹانوں کی دراڑیں کھل گئیں۔ اور ان میں سے چاندی کی ایک قیمتی کان نظر آنے لگی۔

’’یہ باتیں بطور تمثیل کے ہیں‘‘۔ کیوں کہ اگر اس تنقید اور نکتہ چینی کی آگے سے ہمارے کسی دل پسند روایتی عقیدہ میں فرق آبھی جائے۔ تو ہمیں اس کی جگہ سچائی کا زیادہ گہرا علم حاصل ہو گا۔ ہم اس کے ذریعہ سے الہٰام کی حقیقت اور حدود سے واقف ہو جائیں گے۔ اور خدا کے ان طریقوں کو جن کے مطابق وہ انسان کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ ہم اس کے ذریعہ بہت سی غلطیوں اور غلط فہمیوں سے خبر دار ہو جائیں گے۔ جو اس وقت بہت سےلوگوں کو بائبل سے دُور ہٹا رہی ہیں۔ ہم ان حالات کا زیادہ زیادہ علم حاصل کریں گے۔ جن کےدرمیان بائبل لکھی گئی تھی۔ اور نیز اس کے لکھنے والوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت اور ایسے خاص خاص حالات سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ جن کے سبب انہیں ان کی تصنیف و تالیف (کتاب لکھنا و جمع کرنا)کی تحریک (حرکت۔جنبش)ہوئی ۔ ہم ان کے خیالات اور طرز بیان سے زیادہ آشنا (واقف)ہوں گے۔ اور ان کے زمانہ کی اخلاقی اورتمدنی(طرزِ معاشرتی) حالت کو بھی بہتر طور سے پر کھ سکیں گے ۔ ہم اپنے کو ان قدیمی مصنفوں اور ان کے ہم عصروں کی جگہ رکھنے یایوں کہو کہ ان کے پہلو سے اَشیا پر نظر کرنے کی قابلیت حاصل کریں گے۔ اور ان دونوں کے خیالات و حسات کی ماہیت(حقيقت) کو بخوبی سمجھ سکيں گے۔ اوراس طور سے ان زمانوں کی تصوير اپنے سارے رنگ و روغن کے ساتھ ہماری آنکھوں کےسامنے چلتی پھرتی نظر آئے گی۔ تاریخ تروتازہ اور واقعی اورانسانی دلچسپی سے معمور (بھرپور)دکھائی دینے لگے گی۔ اور سچائیاں اب ہمارے لئے ایسے گہرے معنوں سے بھری ہوئی دکھائی دیں گی۔ جیسی پہلے کبھی نہ ہوئی ہوں گی۔

باب ہفتم

خاتمہ

(1)

اور اب پیار ے پڑھنے والے۔ میں اس رسالہ کو ختم کرتا ہوں ۔مجھے ہرگز یہ دعویٰ (يقين)نہیں ہے کہ میرے خیالات بڑے عالی اور کامل (بڑے اور مکمل)ہیں۔ اور نہ میں جیسا کہ چاہیے اس مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے اس کا حق ادا کر سکا ہوں۔ لیکن خیر جو ہوا سو ہوا ۔آؤ اب ہم چند لمحوں کے لئے ان نتائج پر غور کریں ۔ جو اس کتاب کے مطالعہ سے ہم نے حاصل کئے ہیں۔

ہم نے اس کتاب میں اپنے مضطرب(بے قرار) و پریشان خاطر دوستوں کی بعض مشکلات پر غور کیا ہے۔ اور معلوم کیا ہے کہ ان کی بنا زیادہ تر تعصب(بے جا حمايت) اور غلط فہمی پر ہے۔ کیوں کہ انہوں نے بلا تحقیق بعض مشہور عوام مفروضات (فرض کی ہوئی بات)کو قبول کر لیا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اسلام کی سچی حد و تعریف قائم کرنے کا صحیح طریق یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے ہی اس امر(فعل) کا فیصلہ کر لیں کہ خدا کو کیا کرنا ضرور تھا۔ بلکہ یہ کہ بائبل کو مطالعہ کر کے دیکھیں کہ اس نے کيا کچھ کیا ہے۔ اس طریق تحقیقات پر عمل کرنے سے ہمیں مجبوراً بائبل کے متعلق اپنے بعض مسلمہ خیالات کی ترميم(درستی)کرنی پڑی ہے۔ مگر ساتھ ہی میں نے یہ جتا دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ کوئی نئی بات نہیں۔ اور اس لئے ہمیں اس سے گھبرانا اور بے چین نہیں ہونا چاہیے ۔ کیوں کہ یہی عام خیال جنہیں ہم بھی قابلِ تسلیم (ماننے کے قابل)نہیں پاتے ۔ انہیں تمام تعلیم یافتہ علماء علم الہٰی بھی ردّ کرتےہیں۔ اور ان کےلئے خود بائبل یا کلیسیاء کی تعلیم میں بھی کوئی سند(ثبوت) نہیں پائی جاتی۔

مجھے یقین ہے کہ اس امر پر زور دینے سے نہ صرف پریشان خاطر مسیحی ہی تسلی حاصل کریں گے۔ جن کے لئے میں نے یہ رسالہ تالیف(لکھا) کیا ہے۔ بلکہ بعض راستی پسند منکر ین (انکار کرنے والے)بھی ۔جن کی نظر سے یہ کتاب گذرے ۔ اور شاید وہ یہ بھی معلوم کر لیں گے کہ وہ غلطی سے منکر ین کے زمرہ (حلقہ)میں داخل ہو گئے ہیں۔ اور جس بات کی وہ اب تک مخالفت و تردید کرتے رہے ہیں۔ وہ بائبل نہ تھی۔ بلکہ ڈھکو سلے (بہانے)تھے جو لوگوں نے اس کی نسبت بنا رکھے تھے۔

(2)

ممکن ہے کہ بعض ناظرین ان خیالات کے پڑھنے سے جو اس کتاب میں پیش کئے گئے ہیں۔ پہلے پہل کچھ پریشان خاطر ہو جائیں ۔ ایسے ضروری اور اہم معاملات کے متعلق اپنے اعتقاد ات کو از سر نو(نئے سرے سے ) ترتیب دینے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ پریشانی ہونی ہی چاہیے۔ ہم ایک لمحہ بھر میں ایک نئے پہلو کو اختیار نہیں کر سکتے ۔ لیکن اگر ذرا غور و فکر کریں گے۔ تو معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کی بے چینی کی کچھ ضرورت نہیں۔ بائبل کی بنیادیں اس وقت پہلے کی نسبت کچھ کم مضبوط نہیں ہیں۔ نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس وقت کی نسبت زیادہ مضبوط ہیں۔ جب کہ اعلیٰ تنقید(عظيم نکتہ چينی) کا ہر ایک نیا خیال اور ہر ایک نیا واقعہ جو بنی اسرائیل کی محض مبتدیانہ(ابتدائی) علمی وافقیت سے اختلافات(دشمنی) کرتا ہو ا دریافت(معلوم) ہوتا تھا۔ اور جس سے لوگوں کے دلوں میں الہٰی سلطنت کی بنیادوں کے اُکھڑ جانے کی نسبت طرح طرح کے وسوسے (وہم)اور خوف پیدا ہو جایا کرتے تھے۔ بائبل کی سند(ثبوت) و اختیار میں بھی کچھ کمی واقع نہیں ہوئی ۔ اور وہ ہمارے ادب و لحاظ کے ایسی ہی شایاں(لائق) و سزادار ہے جیسی کہ پہلے۔ اور نہ اس وقت ہم اسے کچھ کم الہٰی الاصل سمجھتے ہیں۔ ہم فقط اس کی حقیقت اور اس پر الہٰی عمل کے طریق(طريقہ) کو زیادہ صفائی سے سمجھنے کے طلب گار ہیں۔

(3)

یہ تو سچ ہے کہ جورائےیہاں ظاہر کی گئی ہے۔ اس پر عمل کرنے سے بائبل کے مطالعہ میں زیادہ محنت اور توجہ کی حاجت(ضرورت) پڑے گی۔ ہم اب ہر ایک آیت کو اس طور نہیں لے سکتے کہ گویا وہ اپنی ذات میں کامل (مکمل)ہے۔ اور اس مسئلہ کے لئے جس کا اس میں بیان ہے۔ مکمل ثبوت کے طور ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ سیاق و سباق (مضمون کا تسلسل)کلام اور نیز لکھنے والے کی زبان اور مکان اور دیگر حالات پر بھی لحاظ کرنے کی ضرورت ہو گی ۔ ہمیں نوشتوں کے ایک حصہ کا دوسرے حصہ کے ساتھ موازنہ (برابری)کرنا ہو گا۔ ہمیں اس اصول کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ عہدِ عتیق کی تعلیم بعض حصوں میں عہد ِجدید کی تعلیم سے ادنیٰ ہے۔ اور ہمیں اپنے عقیدہ کی بنا بعض فقرات یا آیات پر نہیں رکھنی ہوگی ۔ بلکہ زیادہ تر بائبل کی عام روح و مزاج پر ۔ اور ان سب باتوں کے لئے زیادہ غورو فکر ۔ زیادہ احتیاط اور دُور اندیشی (عقلمندی)زیادہ ادب و لحاظ۔ زیادہ دُعا اور زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہوگی۔

مگر جو کچھ محنت ہم اس طور سے اس پر خرچ کریں گے۔ اس کا سینکڑوں گنا پھل ملے گا۔ بائبل جب انسانی روایتوں کی ملاوٹ سے پاک ہو جائے گی۔ تو وہ زیادہ حقیقی اور طبعی اور الہٰی معلوم ہونے لگے گی۔ تب ہمارے عقیدے بھی زیادہ مضبوط بنیاد پر مبنی ہوں گے۔ اخلاقی اور ذہنی مشکلات کا خوف و ہراس جاتا رہےگا۔ اور اگرچہ اس میں اب بھی ایسی باتیں نظر آئیں گی۔ جن کے حل کرنے میں حیرانی اور پریشانی دامن گیر(روکنا) ہو۔ تاہم ہم یہ سیکھ لیں گے کہ ہماری مسیحی زندگی کا مدار(انحصار)ا س پر نہیں ہے کہ ہم سب رازوں اور سب علموں کومعلوم کر لیں۔ بلکہ اس پرکہ ہم فروتنی اور فرزندانہ اطاعت(بيٹوں جيسی فرمانبرداری) کے ساتھ اپنے کو رضائے الہٰی (خدا کی مرضی)کے تابع کر دیں ۔ جو ہر طرح کی عملی ضروریات کے لئے اس میں صاف طور پر منکشف و مبرہن(انکشاف و دليل سے ثابت کيا ہوا) ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ صدق دل (سچے دل)سے مفصلہ ذیل (نيچے درج تفصيل)دعا مانگا کریں ۔ اور ہمیشہ خدا سے ہدایت اور راستی کے طلب گار رہیں۔

اے مبارک خُدا وند تو نے سب مقد س کتابیں ہماری تعلیم کے لئے لکھوائیں یہ بخش کہ ہم انہیں اس طرح سُنیں۔پڑھیں ، سوچیں ، سیکھیں، اور دل میں ہضم کریں کہ تیرے پاک کلام سے صبر و تسلی حاصل کر کے حیات ابدی کی اُس مبارک اُمید کو اختیار کر یں۔ اور ہمیشہ تھامے رہیں۔ جو تو نے ہمارے منجی یُسوع مسیح میں ہمیں دی ہے۔
(آمین )