
HOW TO READ THE BIBLE FOR
THE GREATEST BENEFIT
By
Reuben Archer Torrey
بائبل کو کس طرح پڑھنا چاہیے
جس میں اُن ضروری اصول اور باتوں کو درج کیاگیا ہے جن کو مدّنظر
رکھ کر بائبل شریف کا مطالعہ کرنے والا بہت زیادہ نفع اُٹھا سکتاہے۔
اور جن سے بائبل کے ہر مطالعہ کرنے والے کو واقف ہونا چاہیے۔
مصنف
پادری آر۔اے ۔ٹوری صاحب
مترجم
پادری طالب الدین صاحب بی۔اے
پاسٹر پریسبٹیرین چرچ نولکھا لاہور
پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی
انار کلی ۔لاہور
ء۱۹۰۸

Reuben Archer Torrey
(28 January 1856 – 26 October 1928)
was an American evangelist, Congregational pastor,
educator, and writer.
پہلا حصہ
پہلا باب
بائبل کی تلاوت کے طریقے
تمہید
قبل ازیں (اس سے پہلے) کہ ہم اُن شرائط کا ذکر کریں جن کی پیروی سے بائبل کے مطالعہ سے بہت سافائدہ حاصل ہوتا ہے ہم اُن مفید طریقوں کو پیش کرنا چاہتے ہیں جن کے مطابق بائبل کا مطالعہ ہوسکتا ہے ۔ہمیں اندیشہ ہے کہ جو طریقے ہم پیش کرنے لگے ہیں کئی لوگ اُن کی اُلجھنوں اور مشکلوں کو دیکھ کر ڈر جائیں گے ۔لیکن یادرہے کہ وہ ایسے مشکل نہیں ہیں جیسے کہ نظرآتے ہیں ۔اُن کا ممکن اور مفید ہونا بارہا بائبل کلاسوں میں ثابت ہوچکا ہے ۔اور ایسی کلاسوں ہیں کہ جو کالج گریجوئیٹزسے مشتمل نہ تھیں بلکہ ایسے لوگوں سے جو درمیانی درجہ کی تعلیم رکھتے تھے یا علمی لیاقت سے بالکل بے بہرہ (محروم، خراب،بے ادب) تھے۔اس میں شک نہیں کہ وہ طریقے جوہم پیش کرنے لگے ہیں وقت اور محنت ضرور طلب کرتے ہیں ۔ پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بائبل سونے کی کان ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں جو سونے کے لیے کان کھودنا گوارانہ کرے بشرطیکہ اُسے یہ یقین ہوکہ اس کام سے سونا ضرور دستیاب ہوگا۔اب یہ ایک یقینی امر ہے کہ اگر کوئی شخص بائبل کی کان کو کھودے گا تو سونا اُسے ضرور ملے گا۔جب وہ اُن طریقوں کو جو یہاں پیش کئے جاتے ہیں کام میں لائے گا تو مشق کے سبب سے اُس کی لیاقت بہت جلد ترقی کرجائے گی حتّٰی کہ وہ جتنا کام شروع میں ایک گھنٹے کے اندر کرتا تھا اُس سے بہت زیادہ پندرہ منٹ کے عرصہ میں کرنے لگ جائے گا۔
مطالعہ کا پہلا طریقہ جو پیش کیا گیا ہے وہ ذہنی طاقت یا غور وفکر کی لیاقت کو صیقل (صاف ،چمک) کے لیے اکسیر(نہایت مفید) ثابت ہوگا۔ ہاں جب کوئی شخص اُس طریقہ کو ایک عرصہ تک کام میں لانے کا خوگر(عادی ،عادت رکھنے والا) ہوجائے گا تو اُس کی مشاہدہ کرنے والی طاقتیں ایسی تیز ہوجائیں گی کہ جن باتوں کو وہ پہلے بڑے مطالعہ اور غور سے دریافت کیا کرتا تھا پھر اُنہیں ایک ہی نظر میں جان لیا کرے گا۔یہ طریقہ اور عقلی طاقتوں کو بھی ترقی بخشے گا مثلاً خیال کو ذہن میں ترتیب دینے اور اُس پر سلسلہ وار غور کرنے اور ہربات کو اُس کی جگہ رکھنے کی لیاقت پیداہوگی ۔نیز خیالات کو صفائی اور درستی اور طاقت کے ساتھ بیان کرنے کی استعداد بھی آجائے گی۔واقعی عقل کی تہذیب اور ترقی کے لیے جو موقعہ بائبل کے مطالعہ میں ملتا ہے وہ اورکسی کتاب کے مطالعہ میں نہیں ملتا کسی کتاب یا مضمون کے مطالعہ سے اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا بائبل کے مطالعہ سے پہنچتا ہے ۔بائبل کو لوگ پڑھتے توبہت ہیں لیکن اُس کا مطالعہ بہت کم کرتے ہیں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس بات پر بھی لحاظ کیا جائے گا کہ جو طریقہ اس کتاب کے شروع میں پیش کیا گیا ہے وہ وہی طریقہ ہے جو آج کل نیچر (فطرت)کے مطالعہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے ۔کہ پہلے چیزوں کی تشریح کرکے اُن کی حقیقت دریافت کی جاتی ہے اور پھر اُن چیزوں کو اُن کی اقسام کے مطابق جابجا ترتیب وار رکھ دیتے ہیں۔ یادرہے کہ الہٰی مکاشفہ کی باتیں نیچر کی چیزوں سے عظمت اور معافی اور مدد دہی اور فائدہ رسانی میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں ۔اور پھر لطف یہ ہے کہ نیچر کی چیزوں کی نسبت بائبل کی باتوں کو ہم بآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نیچر کے گہرے طلباء نہیں بن سکتے لیکن بائبل کے بن سکتے ہیں۔ بہت لوگ ایسے ہیں جو بہت تعلیم یافتہ تو نہیں ہیں ۔لیکن بائبل کی صداقتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ اور یہ واقفیت اُنہیں مطالعہ کے وسیلے حاصل ہوئی ہے۔ ہاں بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعلیم پائی ہے پر بائبل کے روزانہ مطالعہ کے سبب سے اُن میں ایسی دانائی پیدا ہوگئی ہے کہ اُس سے بڑے بڑے عالم اور پادری حیران اور دم بخود ہیں ۔
دوسراباب
ایک ایک کتاب کا مطالعہ کرنا
بائبل کے مطالعہ کا پہلا طریقہ جس پر ہم اس وقت غور کریں گے یہ ہے کہ بائبل کامطالعہ ایک ایک کتاب کے وسیلے کیا جائے ۔یہ طریقہ مطالعہ کا وہ طریقہ ہے جو سب سے زیادہ مفید ہے۔ لیکن سب سے زیادہ مشکل بھی ہے اُس سے کثیر اور دیر پا پھل پیدا ہوتا ہے ۔ہم اسی پر غور کریں گے کیونکہ ہماری رائے میں یہ ایسا مضمون ہے جس کو ہمیں زیادہ وقت دینا چاہیے۔
اس کے متعلق پہلا کام یہ ہے کہ ایک کتاب مطالعہ کے لیے انتخاب کی جائے یہ بڑی ضروری بات ہے ۔کیونکہ اگر انتخاب کرنے میں غلطی ہوجائے گی تو یہ ممکن ہے کہ آدمی دل شکستہ ہوکر مطالعہ کے اس طریقہ کو جو نہایت مفید ہے چھوڑ دے ۔ذیل کی صلاحیں مبتدی(شروع کرنے والے) کے لیے مفید ہوں گی۔
(۱)۔کتاب وار مطالعہ کرنے کے لیے پہلے کوئی چھوٹی کتاب چننی چاہیے۔ شروع میں کواگر کوئی ضخیم(بڑے حجم والا،بہت بڑا) کتاب چنی جائے گی تو مطالعہ کرنے والے کو بشرطیکہ وہ مستقل مزاج نہیں ہے مایوسی اُٹھانی پڑے گی ۔اور شاید اُن آخری نتیجوں تک جو قیمت میں ہماری محنت سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں پہنچنے سے بہت پہلے مطالعہ سے دست بردار ہونا پڑے گا۔
(۲)۔ پہلے کوئی آسان کتاب مطالعہ کے لیے انتخاب کرنی چاہیے۔ بائبل کی بعض کتابوں میں ایسی مشکلات پائی جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نظر نہیں آتی ہیں۔ شاید پڑھنے والے کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوکہ پہلے اِن مشکل کتابوں پر غالب اور حاوی ہونا چاہیے ۔جب اُس کی لیاقتیں بہ سبب مشق کے صیقل (صاف،چمک) ہوجائیں گی تب و ہ اس کام کو کامیابی کے ساتھ اور تسلی بخش صورت میں انجام دے سکے گا لیکن اگر شروع ہی میں جیسا اکثر لوگ نادانی سے کیا بھی کرتے ہیں وہ اس مہم کو فتح کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے گا۔ تو بہت جلد اپنے تئیں پریشانی میں پائے گا ۔پطرس کا پہلا خط ایک نہایت بیش قیمت کتاب ہے۔لیکن بائبل میں جو نہایت مشکل مقامات آتے ہیں اُن میں سے بعض بعض اسی خط میں درج ہیں ۔اگر اس میں یہ مشکل مقام نہ ہوتے تو یہ خط مبتدی کے لیے بہت اچھا ہوتا ۔لیکن چونکہ اس میں یہ مشکل مقامات موجود ہیں اس لیے اس خط کو شروع میں اپنے گہرے مطالعہ کا مضمون بنانا حکمت پر مبنی نہیں۔
(۳)۔پہلے ایسی کتاب مطالعہ کے لیے چنو جو ایسی باتو ں سے پُر ہوجواس طریق تلاوت کی خوبیوں کو روشن کردیں اوریوں اسی قسم کے مطالعہ کی مزید خواہش دل میں پیدا کریں۔جب کوئی شخص اُس طریقہ کے مطابق جو ابھی پیش کیا جائے گا کسی ایسی کتاب میں سے جو خاصی ضخیم اور پُر مضمون بھی ہے عبورکرلے گا تو اُس کا شوق مطالعہ بڑھ جائے گا اور وہ کہے گا کہ مَیں اس قسم کے مطالعہ کے لیے ضرور وقت نکال لوں گا’’تھسلینکیوں کو پولُس کا پہلا خط‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں یہ سب شرائط جو ہم رقم کرچکے ہیں پائی جاتی ہیں۔چنانچہ یہ خط چھوٹا بھی ہے اور اس میں تفسیر اور معانی اور تعلیم کے متعلق کوئی مشکل نہیں آتی ہے ۔اور پھر باوجود اس سہولت کے روحانی مطالب سے بھر پور ہے علاوہ اس کے ایک اورخوبی اس میں یہ ہے کہ وقت کے اعتبار سے یہ پولُس کے خطوط میں سے پہلا خط ہے ۔یوحنا کا پہلا خط بھی کئی باتوں کے سبب سے مشکل خط نہیں ہے۔توبھی معافی کے اعتبار سے بائبل کی بڑی بڑی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔
(۲)۔ دوسرا کام یہ ہے کہ کتاب کے عام مضامین کا باہمی تعلق اچھی طرح سمجھ لیا جائے ۔اس کا م کوانجام دینے کا طریقہ بہت سہل ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ کتاب زیرمطالعہ بغیر ٹھہرنے کے اوّل سے آخر تک پڑھی جائے۔اور اسی طرح پھر اوّل سے آخر تک پڑھی جائے ۔اور پھر پڑھی جائے۔ غرض یہ کہ کم ازکم ایک ہی دفعہ کے بیٹھنے میں بارہ تیرہ مرتبے اُس پر سے عبور کیاجائے ۔جس شخص نے کبھی اس طریقہ کو برت (استعمال) کرنہیں دیکھا اُسے تو شاید یہ بات بہت مفید معلوم نہ ہوگی ۔لیکن ہر ایک سمجھدار آدمی جس نے اس طریقہ کو آزما دیکھا ہے آپ کو اُس کی ترغیب دے گا۔وہ معنوی لطافت اور خوبصورتی جواس طرح کی واقفیت سے کسی کتاب میں نظر آنے لگتی ہے واقعی تعجب خیز ہوتی ہے۔کتاب کھلنے لگ جاتی ہے وہ رشتے جو کتاب کے مختلف حصِص (حصہ کی جمع) میں پائے جاتے ہیں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ دلکش خیالات کے سلسلے جو تمام کتاب میں پائے جاتے ہیں دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ کتاب اپنی مجموعی حالت میں ذہن نشین ہوجاتی ہے۔اور وہ تعلق جو اُس کے مختلف حصوں میں پایا جاتا ہے سمجھ میں آجاتا ہے اور یوں اُن حصوں کو جداگانہ اور مفصل طور پر سمجھنے کی بنیاد قائم ہوجاتی ہے۔ شہر باسٹن کے مشہور پادری جیمؔس ایم گرے صاحب جو بائبل کو بڑا پیار کرنے والے اور اُس کی تعلیم دینے میں بڑے لائق استاد سمجھے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ میں اپنی خدمت کے زمانہ میں کئی سالوں تک اپنی انگریزی بائبل کا نامکمل اور ناقص ساعلم رکھتا تھا انگریزی کے مطالعہ کا پہلا مفید خیال اُنہوں نے ایک ایسے شخص سے پایا جو لیمین (Layman) تھا یعنی پادری نہ تھا۔وہ اپنے مسیحی تجربہ میں ایک قسم کی غیر معمولی خوشی اور تسکین رکھتا ہوا نظر آتاتھا اور اُس تجربہ میں ایک قسم کی غیر معمولی خوشی اور تسکین رکھتا ہوا نظر تھا اور اُس تجربہ کو افسیوں کے خط کے مطالعہ سے منسوب کرتا تھا۔مسٹر گرے نے اُس سے پوچھا کہ آپ نے کس طرح اُس خط کو پڑھا تھا۔اُس نے کہا کہ میں ایک روز اتوار کی شام کو اُس خط کی ایک پاکٹ ایڈیشن اپنے ساتھ لے کر جنگل کی طرف چلا گیا۔ اور وہاں جاکر میں نے ایک ہی مرتبہ بغیر ٹھہرنے کے اُسے قریباً بارہ (۱۲) دفعہ پڑھ ڈالا اور جب میں اُٹھا تو مَیں نے دیکھا کہ مَیں اُس خط پر خوب حاوی ہوگیا ہوں یا یوں کہوں کہ وہ خط مجھ پر حاوی ہوگیا ہے یہی وہ راز تھا جسے مسٹر گرے پانا چاہتا تھا اور جس کے لیے دعائیں مانگا کرتا تھا۔اس وقت سے لے کر مسٹر گرے نے اپنی بائبل کو شروع سے آخر تک اسی صورت میں پڑھا اور وہ اُس کے لیے ایک نئی کتاب بن گئی ۔
(۳)۔تیسرا کام یہ ہے کہ اُس کتاب کے لیے ایک دیباچہ تیار کیا جائے اور وہ اس طرح کہ کاغذ کے جداجدا ٹکڑوں یا کارڈوں کے سرے پر مفصلہ ذیل سوال لکھے جائیں۔(۱)اس کتاب کو کس نے لکھا؟ (۲)کس کو لکھا؟(۳)کہاں لکھا؟(۴)کب لکھا؟(۵)کس موقعہ پر لکھا؟(۶)کس غرض کے لیے لکھا ؟ (۷) لکھنے کے وقت اُس کا حال کیاتھا؟ (۸)جن کو لکھا اُن کا حال اُس وقت کیا تھا؟(۹) اس کتاب سے مصنف کی زندگی اور سیرت کے متعلق کیا لکھا معلوم ہوتا ہے ؟(۱۰)اس کتاب میں کون سے بڑے بڑے خیالات درج ہیں ؟(۱۱)اس کتاب کی مرکزی تعلیم یا صداقت کیا ہے ؟ (۱۲) اس کتاب کی خصوصیتیں کیا ہیں۔ جب آپ اپنے کاغذات کے سروں پر یہ سوالات لکھ کر تیار کرچکیں تو اُنہیں پہلو بہ پہلو اپنے سامنے اپنے مطالعہ کی میز پر رکھ لیں اور پھر کتاب زیر مطالعہ کو آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کریں اور جب آپ ان سوالوں میں سے کسی سوال کا جواب پائیں تو اُسے اُس کا غذ پر جس کے اوپر وہ سوال مرقوم ہے لکھ لیں ۔ممکن ہے کہ آپ کو کتاب بار بار پڑھنی پڑے تاکہ کام صفائی کے ساتھ اور تسلّی بخش صورت میں انجام پائے۔مگر اس محنت سے آپ کو فائدہ بہت پہنچے گا۔جب آپ اس کام کو پہلے خود انجام دے چکیں تو اُس وقت (اُس سے پہلے کسی صورت میں نہیں) اُن نتیجوں کو جو آپ کے مطالعہ سے پیدا ہوئے ہیں دوسروں کے مطالعہ کے نتیجوں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ دیباچہ تیار کرنے کے کام کی ایک عمدہ نظیر(مثال) وہ کتاب ہے ۔جس کانام ’’نیا عہد نامہ اور اُس کے لکھنے والے‘‘ ہے۔(The New Testament of its writers) اور اُس کے مصنف کانام پادری جے۔ اے مکلی مانٹ ہے۔
واضح ہوکہ جو دیباچہ آدمی خود تیار کرتا ہے وہ دوسروں کے تیار کئے ہوئے دیباچوں سے بہت بیش قیمت ہوتا ہے ۔یہ کام مشاہدے اور مقابلے اور استدلال (دلیل) کی طاقتوں کو صیقل کرنے کے لیے ایک عمدہ طریق ہے ۔یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ بعض سوالات کا جواب دوسری کتابوں سے جو اُس کتاب سے جو زیر مطالعہ ہے گہرا علاقہ رکھتی ہیں ملتا ہے ۔مثلاً اگر ہم پولُس کے خطوط میں سے کسی خط کا مطالعہ کررہے ہیں تو ممکن ہے کہ ہمارے کسی سوال کا جواب اعمال کی کتاب سے ملے یاکسی اُس خط سے ملے جو اُس جگہ کے باشندوں کو لکھا گیا ہے جہاں سے زیر مطالعہ خط بھیجا گیا تھا اور یہ بات بھی یادر کھنی چاہیے کہ سارے سوالات جو اوپر رقم ہوئے ہیں بائبل کی ہر کتاب پر چسپاں نہیں ہوتے ۔
اگر کوئی شخص اُس محنت اوروقت کو جو اس دیباچہ کے کام کے لیے ضروری ہے صرف کرنے کو تیار نہ ہوتو وہ اس کام کو چھوڑ سکتا ہے ۔مگراس سے نقصان بڑا ہوگا۔کیوں کہ کوئی کوئی مقامات خطوط میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہرگز سمجھ میں نہیں آتے تاوقت یہ کہ یہ معلوم نہ ہوکہ وہ خطوط کس کو لکھے گئے ہیں ۔علاوہ بریں بائبل کی اکثر غلط تفسیر اس بات پر مبنی ہوتی ہے کہ کسی حکم کو جو ایک خاص جگہ کے لیے ہوتا ہے ہم سب جگہوں کے لیے سمجھ لیتے ہیں۔
اوراسی طرح بارہا غلط تفسیر اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ جو بات مقدسوں کے حق میں لکھی گئی ہے ہم اُسے بے دینوں پرچسپاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتاکہ خط زیر نظر کے لکھنے کاموقعہ کیا تھا تو کئی مقامات تاریکی میں بیٹھے رہتے ہیں پر اگر معلوم ہوتا ہے تو حل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لکھنے والے کے خاص حالات کی واقفیت سے کئی مقامات میں نیازور پیدا ہوجاتا ہے مثلاً جب ہم یہ جان جاتے ہیں کہ فلپیوں کا پُر جوش خط جس میں بار بار یہ الفاظ آتے ہیں ’’خُداوند میں خوش رہو‘‘ اور کہ ’’تم کسی بات کا اندیشہ نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اورمنّت کے وسیلے سے شکرگُزاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں ۔اس صورت میں خُدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا‘‘(فلیپوں۴:۴۔۷)۔
ہائے جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ خط ایک قیدی کا لکھا ہوا ہے جو دم دم پر پھانسی کا حکم سُننے کا منتظر تھا تو یہ خط کیسا پُر معنی معلوم ہونے لگ جاتا ہے۔ اور جب یہ بات ہمیں معلوم ہوجاتی ہے کہ فلاں کتاب کے لکھنے کا یہ خاص مقصد تھا تو ہم اُن خاص نصیحتوں کی تفسیر جو اُس کتاب میں درج ہوتی ہیں اُن کے خاص علاقوں کے مطابق کرنے لگ جاتے ہیں غرض یہ کہ ان سوالوں کے جوابات جس طرح اپنی ذات میں مفید ہیں اُسی طرح اُس سارے کام میں جو بعد میں کرنا پڑتا ہے کار آمد ثابت ہوتے ہیں ۔
(۴)۔چوتھا کام یہ ہے کہ کتاب ٹھیک ٹھیک فصلوں میں تقسیم کی جائے ۔یہ کام ایسا نہیں کہ اس کے بغیر مطالعہ ہونہیں سکتا۔تاہم بڑا مفید ہے۔ ساری کتاب کو پڑھو اور مصنف کا خیال جہاں جہاں ختم ہواُن موقعوں پر نشان لگاؤ۔اور پھر ان بڑے بڑے حصوں پر غور کرو اور دیکھو کہ ان کے ٹکڑے بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں اگر ہوسکیں تو اُن پر بھی نشان لگاؤ کسی خط کو اس طرح فصلوں میں تقسیم کرنے کے کام میں نئے عہدنامہ کانیا ترجمہ جو آیتوں کے بے ربط اور بے معنی طور پر تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ خیال کے منطقی تعلق کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے بڑا کام دے گا۔جب کتاب کی فصلیں تیار ہوجائیں تو ہر فصل پر ایک موزوں عنوان لکھنا چاہیے ۔لیکن اس عنوان کو ایسے پُر مضمون الفاظ میں بیان کرنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو وہاں تک اُس فصل کا پورا مطلب اُس سے ادا ہو جائے ۔ نیز وہ ایسا نکؔیلااور دل میں چھبنے والا ہونا چاہیے جو فوراً وہ دل میں گڑ جائے ۔اسی طرح وہ عنوان بھی جو اُن فصلوں کے لیے تجویز کئے جائیں جو بڑی فصلوں کے ضمن میں آتی ہیں ایسے ہوں کہ بڑی فصلوں کے عنوانوں کے مطابق ہوں۔پہلے پہل بے شمار فصلوں میں کتاب کو تقسیم نہ کرو ۔ذیل میں جو تقسیم پہلا پطرس کی دی گئی ہے جس میں بہت فصلیں درج نہیں کی گئیں ہمارے مطلب کی توضیح (وضاحت کرنا)کی ایک عمدہ نظیرہے۔
(۱)۱: ۱۔۲ ۔دیباچہ اور سلام ۔ اُن مسافروں اور پردیسیوں کو جو پنطس وغیرہ میں رہتے ہیں۔
(۲)۱: ۳۔۱۲۔وہ میراث جو آسمان پر محفوظ ہے اور وہ نجات جو ظاہر ہونے کو تیار ہے ۔اُن مسافروں کے لیے جو طرح طرح کی آزمائشوں کے درمیان ایمان کے وسیلے خُدا کی قدرت سے مامون(محفوظ) ہیں۔
(۳)۱: ۱۳۔۲۵۔ مسافرت کے ایام میں مسافروں کاچلن۔
(۴) ۲: ۱۔۱۰۔ مسافروں کی اعلیٰ بلاہٹ اور درجہ اور انجام ۔
(۵) ۲: ۱۱۔۱۲۔ مسافروں کی رفتار مسافرت کے ایام میں۔
(۶)۲: ۱۳۔۱۷۔ مسافروں کا فرض اُن انسانی حکومتوں کے متعلق جن کے ماتحت وہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
(۷)۲: ۱۸۔۳: ۱۔۷۔مختلف مسافروں کے فرائض۔
(الف) ۲: ۱۸۔۲۵ ۔ نوکروں کے فرائض اپنے آقاؤں کے متعلق۔اور اُنہیں ادائے فرائض کی ترغیب دی جاتی ہے بوسیلہ مسیح کے نمونہ کے ۔جو بے انصافی اور تحقیر کی حالت میں بھی برداشت کیا کرتا تھا۔
(ب) ۳: ۱۔۶۔ بیویوں کے فرائض شوہروں کے متعلق۔
(ج) ۳:۷۔ شوہروں کے فرائض بیویوں کے متعلق۔
(۸) ۳: ۸۔۱۲۔مسافروں کا سلوک ایک دوسرے سے ۔
(۹) ۲: ۱۳۔۲۲۔ مسافر کا راستبازی کے سبب سے دُکھ اُٹھانا۔
(۱۰) ۴: ۱۔۶۔ مسافروں کا اُن لوگوں کے دستوروں سے علیحدہ ہونا جن کے درمیان وہ زندگی بسرکرتے ہیں۔
(۱۱) ۴: ۷۔۱۱۔ مسافروں کی مسافرت کا انجام کو پہنچنا اور اُن کا چلن آخری ایام میں۔
(۱۲) ۴: ۱۲۔۱۹۔ مسافروں کا مسیح کے لیے اور مسیح کے ساتھ دُکھ اُٹھانا۔
(۱۳) ۵: ۱۔۴۔ بزرگوں کافرض اور اجر۔
(۱۴) ۵: ۵۔۱۱۔ مسافروں کی رفتار ۔وہ فروتن اور بھروسے سے پُر۔خبرداری سے مملواور راستی سے بھرپور ہوتے ہیں۔تمجید الہٰی۔
(۱۵) ۵: ۱۲۔۱۴۔ خاتمہ اور برکت۔
(۵)۔پانچواں کام یہ ہے کہ ہرآیت کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے۔
(۱) پہلی بات اس آیت وار مطالعہ کرنے کے متعلق یہ ہے کہ آیت کے ٹھیک معانی دریافت کئے جائیں ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ بات کس طرح وقوع میں آسکتی ہے۔تین منزلیں ہیں جن کے طے کرنے سے آدمی کسی آیت کے اصل معنوں تک پہنچتا ہے۔
(الف) پہلی بات یہ ہے کہ جو لفظ مستعمل ہوئے ہیں اُن کے ٹھیک ٹھیک معنی دریافت کئے جائیں ،پڑھنے والا ہمیشہ دوقسم کے الفاظ سے ملاقی (ملاقات کرنے والا) ہوتا ہے ۔اوّل وہ جن کے معنی صاف ہیں اور دوسرے وہ جن کے معنی مشکوک ہیں اب مشکوک یامبہم الفاظ کے صحیح صحیح معنی دریافت کرنا ناممکن نہیں ہے لیکن یہ مشکل ڈکشنری (لغات) دیکھنے سے حل نہیں ہوتی ۔لغات دیکھنے کا طریقہ ہے تو آسان لیکن لفظوں کا روحانی مطلب دریافت کرنے میں بڑا مضّر(نقصان دہ) ہوتا ہے ہماری رائے میں فقط ایک ہی محفوظ اور یقینی طریقہ ہے جس سے کسی لفظ کا اصل مطلب دریافت ہوسکتا ہے ۔یعنی پہلے یہ دریافت کیا جائے کہ بائبل اور بالخصوص اُسی مصنف کی دوسری کتابوں میں وہ لفظ کس طرح استعمال کیاگیاہے۔لیکن اس بات کے دریافت کرنے کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے پاس کلید الکلام(کلام کی کُنجی) ہو۔ اگر انگریزی کی کلید الکلام استعمال کرسکتا ہوتو سڑانگ صاحب کی کتاب استعمال کرنی چاہیے جس کانام (Strongs Echaustwe Concordance of the Bible) ہے۔ اگر یہ کتاب پاس نہ ہوتو اس سے دوسرے درجہ پر ایک اور کلید الکلام ہے ۔جس کانام (Youngs analytical Concordance) ہے۔وہ استعمال کی جائے ۔پر اگر کوئی شخص یہ کتابیں لینے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو کروڈنز کنکارڈنز ہی کام میں لانی چاہیے۔وہ بھی کچھ نہ کچھ کام دے جائے گی۔پر جہاں تک ممکن ہو طالب علم کو سرانگس اگزاسٹوکنکارڈنس لینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ (جو انگریزی نہیں جانتے اُنہیں کلید الکلام ۔تفصیل الکلام تسہیل الکلام جیسی کتابیں کام میں لانی چاہئیں ) لازم ہے کہ وہ تمام مقامات جن میں وہ خاص لفظ جس کے معنی دریافت کرنے منظور ہیں مستعمل ہوا ہے نکالے جائیں اور پھر اُن پر خوب غور کیا جائے ۔اس صورت میں لفظ کے اصل معنی معلوم ہوجائیں گے۔یادرہے کہ بائبل کی بعض بڑی بڑی تعلیمیں ایک ہی لفظ کے معنوں پر موقوف ہوتی ہیں ۔مثلاً لفظ’’راستباز ٹھہرانے‘‘کے مفہوم کے سبب سے دو مختلف سکول علم الہٰی کے بن گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا لفظ ’’راستباز ٹھہرانے ‘‘ کے معنی (ذاتی طور پر)’’راستباز بنانے‘‘ کے ہیں۔یا ’’راستباز گِنے جانے یا سمجھنے ‘‘ کے ہیں۔نوشتوں کے بہت سے مقاموں کی صحیح تاویل اُس مفہوم کی تائید کرتی ہے جو ہم اس لفظ سے منسوب کرتے ہیں۔مناسب ہے کہ وہ تمام مقامات جن میں یہ لفظ آیا ہے آدمی دیکھے اگر وہ ایسا کرے گا تو اُس کے دل میں ذرا شک نہیں رہے گا کہ بائبل نے اس لفظ کو کس طرح استعمال کیا ہے اور اس سے کیا معنی لیے ہیں۔دیکھو استثنا ۲۵: ۱؛ خروج ۲۳: ۷؛ یسعیاہ ۵: ۲۳؛ لوقا ۱۶: ۱۵؛ رومیوں ۲: ۱۳، ۳: ۲۳۔۲۴؛ لوقا۱۸: ۱۴؛ رومیوں ۴: ۲۔۸۔ یہ مقام ظاہر کرتے ہیں کہ بائبل میں یہ لفظ کس طرح استعمال ہوا ہے ۔سٹرانک صاحب کی کنکارڈنس یا ینگ صاحب کی کنکارڈنس کے استعمال سے مطالعہ کرنے والے پر روشن ہوجائے گا کہ انگریزی (یااردو ) کی بائبل میں جو ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا گیا ہے وہ کئی یونانی یا عبرانی لفظوں کا ترجمہ ہے ۔کسی انگریزی یا اردو لفظ کی پڑتال کرتے وقت بے شک ہم اُن مقاموں کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے جن میں اُس کے لیے یونانی یاعبرانی میں ایک ہی خاص لفظ آیا ہے ۔اُن دونوں کنکارڈنسون میں سے جن کے نام اوپر درج ہوچکے ہیں کوئی کنکارڈنس لووہی اس کام کو پورے پورے طور پر انجام دے دے گی خواہ ہمیں یونانی اور عبرانی سے ذرا بھی مس(لگاؤ ،رجحان) نہ ہو۔البتہ سٹرانگ کی کنکارڈنس کی مدد سے یہ کام دوسری کنکارڈنس کی بہ نسبت زیادہ آسانی سے انجام پائے گا۔یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم یہ دریافت کرلیتے ہیں کہ بائبل فلاں فلاں لفظ کو کس کس معنی میں استعمال کرتی ہے تو نوشتوں کی تفسیر کے کئی عقدے آپ ہی آپ حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً آج کل کے پُرزور سوالات میں ایک یہ سوال داخل ہے کہ (۱۔یوحنا ۱: ۷) کا کیا مطلب ہے ؟ کیا یہ آیت یہ سکھاتی ہے کہ ’’یسوع مسیح کا خون ‘‘ ہمیں گناہ کے تمام جرم سے صاف کرتا ہے یا اس کا یہ مطلب ہے کہ یسوع مسیح کا خون ہمیں گناہ کی موجودگی سے اس معنی میں صاف کرتا ہے کہ مسیح کے خون سے گناہ جو ہم میں بستا ہے جڑ سے جاتا رہتا ہے؟ بہت لوگ جو اس سوال کو سنتے ہیں شاید جلدی سے اس طرف یا اُس طرف اپنی رائے دے دیتے ہیں ۔لیکن اس طرح ایسے مشکل سوالات کا فیصلہ کرنا عمدہ دستور نہیں ہے مناسب ہے کہ کنکارڈنس لی جائے اوروہ تمام مقام جن میں لفظ ’’صاف کرنا ‘‘ خون کے ساتھ استعمال کیاگیا ہے دیکھے جائیں ۔ایسا کرنے سے اس سوال کا جواب مختتم (ختم کرنے والا) طور پر ہمیشہ کے لیے دے دیا جائے گا۔پس یہ مناسب نہیں کہ آپ یہ خیال کربیٹھیں کہ ہم نے ایک آیت کا صحیح صحیح مطلب پالیا ہے تاوقت یہ کہ آپ مشکوک الفاظ کے معنی بائبل میں اُس لفظ کا استعمال دیکھ کر دریافت نہ کرلیں۔بلکہ جب آپ کو پورا پورا یقین بھی ہو کہ ان لفظوں کے ٹھیک ٹھیک معنی آپ کو معلوم ہیں اُس وقت بھی آپ پورا بھروسہ نہ کریں جب تک پھر اُن کی تحقیق نہ کرلیں۔
(ب) کسی آیت کے صحیح صحیح معنوں سے واقف ہونے کی راہ میں دوسرا قدم یہ ہے کہ وہ تعلق دریافت کیا جائے جو وہ آیت عبارت ماقبل اور مابعد کے ساتھ رکھتی ہے بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ اگر اُنہیں اس تعلق سے علیحدہ کرلیا جائے تو اُن سے طرح طرح کے معنی لیے جاسکتے ہیں۔لیکن جب اُن کو اگلی پچھلی عبارت کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو سوائے ایک تاویل (بچاؤ کی دلیل)کے باقی سب تاویلیں کافور(غائب) ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً آپ (یوحنا ۱۴: ۱۸) لیں’’ مَیں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔مَیں تمہارے پاس آؤں گا‘‘۔ان لفظوں کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح کا کیا مطلب ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’مَیں تمہارے پاس آؤں گا‘‘؟ ایک مفسر یہ جواب دیتا ہے کہ اُس کا یہ مطلب ہے کہ مَیں مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد تمہیں پھر نظر آؤں گاتاکہ تمہارے ٹوٹے ہوئے دل تسلّی پائیں۔
دوسرا کہتا ہے کہ اُس کی مراد دوسری آمد سے ہے۔تیسرا یہ جواب دیتا ہے کہ مسیح کا یہ مطلب ہے کہ مَیں روح القدس کے کام کے وسیلے آؤں گا تاکہ مَیں اپنے آپ کو اپنے شاگردوں پر ظاہر کرکے اُن کے دلوں میں سکونت اختیار کروں۔سوال برپا ہوتا ہے کہ ان باتوں میں سے کونسی بات درست ہے؟ اب علم الہٰی کے بڑے بڑے ڈاکٹروں میں تو نااتفاقی نظر آتی ہے ۔کیا کوئی عام آدمی بھی اس معمے (بھید) کو حل کرسکتا ہے ؟ یقیناً کرسکتا ہے ۔اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص اُن آیات کو جوان الفاظ سے پہلے آتی ہیں (آیات ۱۵۔۱۷) اور نیز اُن کو جواِن کے بعد آتی ہیں (۱۹۔ ۲۶) پڑھ کر یہ دریافت کرنے کی کوشش کرے کہ مسیح ان میں کیا کہہ رہا ہے تو وہ بے شک یہ جان لے گاکہ مسیح کی مراد ان الفاظ سے کیا ہے ۔آپ اس بات کو خود آزما کر دیکھ سکتے ہیں۔
ہماری رائے میں بائبل کی تفسیرکے متعلق جو مشکل سوالات لوگوں کو تنگ کررہے ہیں اُن میں سے بہت اس سادہ سے طریقہ سے یعنی عبارت ماقبل اور مابعد پر بخوبی غور کرنے سے حل ہوسکتے ہیں ۔کئی سرمن (واعظ) جوہم سُنتے ہیں فضول سے نظر آنے لگ جاتے ہیں جب ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جو خیال واعظ نے اپنی آیت سے نکالا ہے و ہ اُس خیال سے جو اگلی پچھلی عبارت کے تعلق پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کوسوں دور ہے۔
(ج) تیسرا قدم اسی راہ میں یہ ہے کہ اُن مقامات پر غور کیا جائے جن میں وہی مضمون جو آیت زیر ملاحظہ میں آتا ہے درج ہے ۔مثلاً وہ مقامات جن میں اُسی درس یا وقوعہ کا ایک اور بیان مندرج ہے ۔یا وہ مقامات جو آیت زیر نظر کی تفسیر کاکام دیتے ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک ایک لفظ پر بھی غور کرلیتے ہیں اور عبارت کے سلسلہ کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی ہم اس عقدے کوحل نہیں کرسکتے کہ اُن تاویلوں میں سے جو اُس آیت سے پیدا ہوسکتی ہیں کونسی تاویل مصنف کو مدنظر تھی ۔ایسی حالتوں میں بائبل کے اندر آپ ضرور کوئی نہ کوئی جگہ ایسی پائیں گے جواس مشکل کو حل کردے گی۔نظیر(مثال) کے طور پر آپ (یوحنا ۱۴: ۳) پر غور کریں ۔’’مَیں پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں تم بھی ہو‘‘ اُن الفاظ پر جو اس آیت میں آئے ہیں غور کے ساتھ نظر ڈالنے سے اور اُنہیں اُن کے باہمی تعلق میں دیکھنے سے واقعی اس مقام کا مطلب بہت کچھ کھُل جاتا ہے ۔تو بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اُن مفسرین کے درمیان جن کی رائے کو ہم آسانی سے رد نہیں کرسکتے اس مقام کی تفسیر کے متعلق اختلاف ہے ۔ چنانچہ اُن کے درمیان چار طرح کی تاویلیں مروج ہیں ۔(۱) کہ اس آنے سے یہ مراد ہے کہ مسیح ایمانداروں کو لینے کے لیے موت کے وقت آتا ہے جیسا کہ وہ استفنس کو لینے آیا۔(۲) کہ اس سے قیامت کے وقت آنا مراد ہے ۔(۳) کہ اس سے روح پاک کے وسیلے آنا مراد ہے۔(۴) کہ اس سے مسیح کی دوسری آمد مراد ہے جب کہ وہ شخصی طور پر زمانہ کے آخر میں جلا ل کے ساتھ آئے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چاروں تاویلوں میں سے کونسی تاویل درست ہے؟ خیال گزرتا ہے کہ جو کچھ ہم اوپر (۱۸ آیت) کی نسبت کہہ آئے ہیں شاید وہی اس مشکل کو بھی دور کردے گا۔لیکن یہ خیا درست نہیں ۔کیونکہ یہ صاف طور پر روشن نہیں ہے کہ جس آنے کا ذکر (۳آیت)میں ہوا ہے وہ وہی ہے جس کا تذکرہ (۱۸ آیت) میں پایاجاتا ہے ۔کیونکہ جو کچھ ایک مقام میں آنے کی نسبت کہاگیا ہے وہ اُس سے جو دوسرے مقام میں آنے کے بارے میں لکھا ہے بالکل مختلف ہے ۔کیونکہ ایک حالت میں تو مسیح کا آنا اس لیے ہوگا کہ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے لے اور جہاں وہ ہے وہاں ہم بھی ہوں۔ لیکن دوسرے مقام میں اس کا آنا اس غرض سے ہے کہ اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرے اور ہمارے ساتھ رہے ۔لیکن خوشی کی بات ہے کہ ایسا مقام بائبل میں ہے جو ہماری مشکل کو حل کردیتا ہے وہ گویا یسوع کے الفاظ کی ایک الہامی تفسیر ہے ۔وہ مقام (۱۔تھسلنیکیوں ۴: ۱۶۔۱۷) میں پایا جاتا ہے ۔اگر ہم ان دونوں مقاموں کو دو کالموں میں پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو یہ بات بخوبی روشن ہوجائے گی ۔
۱۔تھسلنیکیوں ۴: ۱۶۔۱۷ ’’خُداوند خود آسمان سے اُتر آئے گا ہم بادلوں پر اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خُداوند کا استقبال کریں۔ہم اس طرح ہمیشہ خُداوند کے ساتھ رہیں گے۔ | یوحنا۱۴: ۳ ’’میں پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں تم بھی ہو |
اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں مقام اُن تینوں باتوں میں جو کالموں میں درج ہیں پوری پوری مطابقت رکھتے ہیں اور لاریب (بے شک) ایک ہی مضمون سے متعلق ہیں ۔لیکن( ۱۔تھسلنیکیوں ۴: ۱۶۔۱۷) کو نظر تعمق سے دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اُس سے مسیح کی کونسی آمد مراد ہے ۔اور یوں (یوحنا ۱۴: ۳) کا مطلب بھی ظاہر ہوجاتا ہے ۔ایک کتاب ہے جس کانام ’’دی ٹریزری آف سکرپچر نالج‘‘(The Treasury of Scripture Knowledge) ہے۔ وہ اس قسم کے اہم مضمون مقامات کے ڈھونڈھنے میں بڑی مدد دیتی ہے یہ ہیں وہ تین منزلیں یا تین قدم جن کی پیروی سے ہم کسی آیت کے صحیح معنوں تک جاپہنچتے ہیں ۔اُن کی پیروی کے لیے محنت کی ضرورت ہے لیکن یہ ایسی محنت ہے جسے ہر کوئی انجام دے سکتا ہے ۔اور جب کسی آیت کے معنی معلوم ہوجاتے ہیں تو ہم اُن نتیجوں تک پہنچ جاتے ہیں جو صحیح اور راسخ ہوتے ہیں۔
ان طریقوں کی پیروی کرنے کے بعد بہتر ہے کہ ہم پھر تفسیروں کو دیکھیں اور دریافت کریں کہ ہمارے نتیجے اوروں کے نتائج کے ساتھ کہاں تک موافقت رکھتے ہیں ۔اب پیشتر اس کے کہ ہم یہ بتائیں کہ آیت کے معنی دریافت کرنے کے بعد اور کیا کرنا چاہیے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خُدا ہر ایک آیت کے وسیلے سے ایک خاص صداقت ظاہر کرنا چاہتا ہے ۔وہی صداقت اصل بات ہے ۔چاہے اور درجنوں تاویلیں کی جائیں اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔پس لازم ہے کہ نوشتوں کی ہر آیت کے متعلق ہم اس تلاش میں رہیں کہ خُدا اُس کے وسیلے سے کیا سکھانا چاہتا ہے اور اس بات کے جویاں نہ ہوں کہ ہم اُس سے کیا نکال سکتے ہیں ۔اور ہم آرام نہ لیں جب تک اس بات کا تسلی بخش جواب نہ پالیں۔یہ ہم مانتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کوئی آیت اپنے اصل معنی کے ساتھ ساتھ اور معنی بھی دے ۔مثلاً ہوسکتا ہے کہ ایک نبوت پہلے کسی نزدیک کے شخص (مثلاً سلیمان ) میں بھی پوری ہو۔اور پھر کامل طور پر مسیح میں پوری ہو۔
(۲) جب ہم کسی آیت کے معنی دریافت کرچکتے ہیں تو ہم اُس کے مطالعہ سے فارغ نہیں ہوجاتے ۔کیونکہ ایک اور کام ابھی باقی ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم آیت کو اُس کے مختلف اجزاء میں تقسیم کریں۔ یہ کام نہایت دلچسپ اور مفید ہے ۔علاوہ بریں اس سے عقل کی مختلف قواء(قوت) کی ترقی بھی عمدہ طور پر ہوجاتی ہے ۔اس کام کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آیت پر خوب غور کریں کہ یہ سوال کریں کہ یہ آیت کیا سکھاتی ہے ۔’’اور پھر یوں لکھنا شروع کریں ۔اوّل۔ دوم ۔سوم علیٰ ہذا۔ پہلی نظر میں تو شاید آپ کو صرف دویاتین باتیں ہی ایسی معلوم ہوں گی جو اُس آیت سے نکل سکتی ہیں ۔ لیکن جب آپ باربار اُس پر غور کریں گے تو اُس کی تعلیموں کا شمار بڑھنے لگے گا اور آپ تعجب کریں گے کہ ایک ہی آیت سے اتنی صداقتیں ظاہر ہوسکتی ہیں اور اس سے آپ کے دل میں یہ اعتقاد ترقی کرتا جائے گا کہ اس کتاب کا مصنف خُداہی ہے ۔چھوٹے پروفیسر اگیسز کی بابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص اُن کے پاس اختھیالوجی(مچھلیوں کا علم) سیکھنے کو آیا۔پر وفیسر موصوف نے اُس شخص کو مچھلی دے کر کہا کہ آ پ اسے لے جائیں اور اس پر غور کریں۔ کہ جب اس مچھلی کے حالات وخواص سے بخوبی واقف ہوجائیں تو میرے پاس آئیں اور مَیں آپ کو ایک نیا سبق دوں گا۔کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص پر وفیسر صاحب کے پاس پھر آیا اور جو کچھ اُس مچھلی کے متعلق دریافت کیا تھا عرض کیا۔جب وہ اپنی تقریر ختم کرچکا تو پر وفیسر موصوف نے پھر وہی مچھلی اُس کے حوالے کی اور کہا کہ اس پر مزید غور فرمائیں۔وہ بہت متعجب ہوا۔لیکن مچھلی لے کرچلا گیا۔کچھ مدت کے بعد وہ پھر حاضر ہوا ۔اور جو نئی باتیں معلوم کی تھیں پیش کیں وہ خیال کرتا تھا کہ جو کچھ اس مچھلی پھر دی گئی اور اسی طرح باربار کیاگیا تاوقت یہ کہ اُس شخص نے یہ نہ جان لیا کہ کہ میری حقائق شناس طاقتیں مجھے کس غرض کے لیے دی گئی ہیں اور نیز یہ نہ سیکھ لیا کہ پورے پورے طور پر کام کرنا کسے کہتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے یعنی ہمیں ایک ہی آیت پر بار بار غور کرنا چاہیے ۔جب تک کہ ہم اُس آیت میں اُن ساری باتوں کو نہ دیکھ لیں جو ہم دیکھ سکتے ہیں ہم اُسے نہ چھوڑیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو غالب ہے کہ جب ہم دو تین ماہ کے بعد پھر اسی آیت پر غور کریں گے تو ہم اُس میں پھر کوئی ایسی نئی بات دیکھیں کے جو پہلے نہیں دیکھی تھی۔ ممکن ہے کہ اس طریق تشریح کی مثال ہمارے لیے مفید ہو۔ آؤ ہم پہلا پطرس کے پہلے باب کی پہلی دو آیتوں پر غور کریں۔ ان آیتوں کو پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابواب کی آیت وار تقسیم جو بائبل میں کی گئی ہے وہ منطقی اعتبار سے نہیں کی گئی ۔ایسا اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک کی جگہ دو آیتیں اکٹھی پڑھنی چاہئیں۔
۱۔پطرس ۱: ۱۔۲ ۔یہ آیتیں ہمیں ذیل کی باتیں سکھاتی ہیں۔
(۱)یہ خط پطرس کا لکھا ہوا ہے۔
(۲)کہ وہ پطرس جس نے اس خط کو لکھا یسوع مسیح کا رسول تھا۔
(۳)کہ پطرس یہ کہنا اور یہ سوچنا پسند کرتا تھا کہ میں یسوع مسیح کا بھیجا ہوا ہوں۔مقابلہ کرو(۲۔پطرس ۱:۱)
(فائدہ ۔رسول اور مشنری ہم معنی الفاظ ہیں)
(۴)اسمائے یسوع مسیح (جو اِن دوآئتوں میں دو دفعہ مستعمل ہوئے ہیں ) کا مطلب ۔
(الف)۔ نجات دہندہ
(ب)۔ مسح کیا ہوا
(ج)۔ پرانے عہدنامہ کی نبوتوں کا پورا کرنے والا۔’’مسیح‘‘ یہ لفظ بالخصوص مسیح کے زمینی راج پر اشارہ کرتا ہے۔
(۵) یہ خط برگزیدوں کو لکھا گیاتھا۔خصوصاً اُن برگزیدوں کو جو پنطس (اُس پنطس میں جو پولُس کی خدمات کی پُرانی جگہ تھی) وغیرہ میں مسافر تھے۔
(فائدہ ۔اس سوال کا جواب کہ کیا الفاظ ’’تتر بتر ہیں‘‘یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جن کو یہ خط بھیجا گیا وہ یہودی مسیحی تھے؟ دیباچہ میں آنا چاہیے)
(۶) ایماندار
(الف)۔ خُدا کے برگزیدہ یا چنے ہوئے ہیں۔
(ب)۔ خُداکو اُن کا علم آگے ہی سے ہے۔
(ج)۔ وہ روح سے پاک کئے ہوئے ہیں۔
(د)۔ اُن پر یسوع مسیح کا خون چھڑکا ہوا ہے ۔
(ر)۔زمین پر مسافراور پر دیسی ہیں۔
(س)۔اُن پر فضل پر فضل ہوتا ہے ۔
(ش)۔ وہ بے انتہا سلامتی کے وارث ہیں۔
(۷)برگزیدگی
(الف)۔ کون برگزیدہ ہیں ؟ ایماندار ۔مقابلہ کرو آیت ۵ سے
(ب)۔ کس بات کے لیے برگزیدہ ہیں۔
(a)فرمانبرداری کے لیے
(b) یسوع کا خون چھڑ کے جانے کے لیے ۔
کس چیز کے موافق چُنے ہوئے ہیں ؟ خُدا کے ازلی علم کے موافق مقابلہ کرو (رومیوں ۸: ۲۹۔۳۰)۔
کس سے برگزیدہ ہیں ؟ روح کے پاک کرنے سے۔
برگزیدگی کا معیار۔فرمانبرداری مقابلہ کرو( ۲۔پطرس ۱: ۱۰)
تثلیث کے تینوں اقنوموں کا کام برگزیدگی کے متعلق
(الف)۔ باپ برگزیدوں کو اپنے ازلی علم سے جانتا ہے ۔
(ب)۔ یسوع مسیح اپنے خون سے گناہ کے جرم کو صاف کرتا ہے۔
(ج)۔ روح پاک کرتی ہے۔
(۸)خُدا برگزیدوں کا باپ ہے۔
(۹)مسیح کی انسانیت کی صداقت اُس کے خون کے بیان میں نظر آتی ہے ۔
(۱۰) مسیح کے جسم کی حقیقت بھی خون کے بیان میں جلوہ گرہے۔
(۱۱) مسیح اپنے خون سے نہ کہ اپنے نمونہ کے وسیلے ہمیں گناہ سے بچاتا ہے۔
(۱۲) پطرس کی خواہش اور دعا بہ متعلق اُن کے جن کو وہ لکھ رہا ہے یہ تھی کہ فضل اور سلامتی اُن کو بکثرت نصیب ہو۔
(۱۳) فضل اور سلامتی سے بہرہ ور ہونا ہی کافی نہیں ۔ایماندار کو کثرت کے ساتھ ان برکتوں کو حاصل کرنا چاہیے۔
(۱۴) اگر کسی کو فضل اور سلامتی حاصل ہے تو یہ کوئی دلیل نہیں کہ اُس کے لیے دُعا نہ کی جائے بلکہ اور دُعا کرنی چاہیے کہ خُدا اُسے یہ برکتیں زیادہ عطا فرمائے۔
(۱۵) فضل سلامتی کے پہلے آتاہے۔اُن سب مقاموں کا مقابلہ کرو جہاں یہ الفاظ اکٹھے آتے ہیں۔
مسطورہ بالا تشریح اس بات کی ایک نظیر ہے کہ کسی آیت کو کس طرح اُس کے مختلف اجزاء میں تقسیم کرنا چاہیے۔ساری کتاب کو اسی طرح پڑھنا چاہیے۔
اس کام کو انجام دیتے وقت تین قاعدوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔
اوّل۔ ہم اپنی تشریح میں وہ بات داخل نہ کریں جو صاف صاف طور پر آیت میں نہیں پائی جاتی ۔بائبل کے مطالعہ کے متعلق ایک بڑا نقص یہ نظر آتا ہے کہ اکثر اوقات بائبل کے مقامات میں سے وہ باتیں اخذ کی جاتی ہیں جو خُدا نے اُن میں کبھی رکھی ہی نہیں ہیں۔بعض لوگ اپنی پیاری تعلیموں اور مثلوں کو ہرمقام میں دیکھتے ہیں حالانکہ خُدا اُنہیں بالکل وہاں نہیں دیکھتا ہے خواہ کوئی تعلیم کیسی ہی سچی اوربیش قیمت اور بائبل کے مطابق کیوں نہ ہو تو بھی اُسے مطالعہ کرتے وقت زیر مطالعہ آیتوں میں اُس کو نہ ڈالو اگر خُدا نے اُس کو وہاں نہیں رکھا ۔چونکہ مجھے ان باتوں کا تجربہ ہے اس لیے مَیں اس قاعدے پر بڑا زور دیتا ہوں ۔
دوم ۔جو کچھ آیت میں پایا جاتا ہے اُس کو ضرور نکال لو۔بہت سی باتیں تو شائد نظر ہی نہیں آئیں گی کیونکہ بائبل ایک گہرا سمندر ہے لیکن آپ آرام نہ کریں جب تک غوطہ لگاتے لگاتے اُس حد تک نہ پہنچیں کہ پھر آگے اس میں اور کچھ دکھائی نہ دے۔
سوم۔ جو کچھ آپ نے پایا ہے اُسے ٹھیک ٹھیک طور پر بیان کریں۔یعنی آپ اسی بات سے مطمئن نہ ہوں کہ جو کچھ آیت میں پایا جاتا ہے مَیں نے ویسا کچھ کچھ تو اپنی تشریح میں درج کرلیا ہے ۔نہیں بلکہ عین وہی باتیں اُس میں درج کریں جو اُس آیت میں پائی جاتی ہیں۔
(۶)۔ چھٹا کام کسی کتاب کے مطالعہ کے متعلق یہ ہے کہ آیات کی تشریح سے جو نتائج پیدا ہوں وہ ترتیب وار رکھے جائیں۔آپ نے آیات کی تشریح کے وسیلے سے بہت سی حقیقتیں معلوم کرلی ہیں اور اپنے کاغذ پر لکھ بھی لی ہیں ۔اب آپ کایہ کام ہے کہ آپ ان حقیقتوں اور صداقتوں کو ترتیب دے کر مرتب شکل میں رکھیں۔اس کام کو انجام دینے کے لیے آیات کی تشریح میں سے گزرنا چاہیے اور اُن مضامین پرجن کا بیان خط میں آیا ہے نشان لگانا چاہیے ۔بلکہ اُن کو اُسی وقت لکھ لینا چاہیے ۔پھر جب ان مضامین کی پوری فہرست تیار ہوجائے ۔تو ان مضامین کو علیحدہ علیحدہ کاغذوں یا کارڈوں پر لکھ لینا چاہیے۔ازاں بعد (اس کے بعد) ایک مرتبہ پھر اپنی تشریح میں سے گزر کر جو جو باتیں اُن مضمونوں کے متعلق معلوم ہوں اُن کو اُس کاغذ یا کارڈ پر لکھ لینا چاہیے جس پر آپ ان سے تعلق رکھنے والا مضمون لکھ چکے ہیں۔مثلاً ہر ایک بات جو خُدا باپ سے علاقہ رکھتی ہے اُس کاغذ پر لکھی جائے جس کے سرے پر ’’خُدا باپ ‘‘ لکھاہوا ہے۔اس کے بعد اُن باتوں کو اچھی طرح اور ٹھیک ٹھیک طور پر تقسیم کرنا چاہیے جو ہر مضمون کے ضمن میں آتی ہیں ۔فرض کیجئے کہ ہم پطرس کا پہلا خط پڑھتے رہے ہیں ۔اب جب ہم نے اُس کی آیات کی تشریح اور تقسیم ختم کرلی اور ایک مرتبہ پھر اُس پر سے عبور کیا تو اُس میں کم ازکم یہ مضامین پائے۔ (۱) خُدا۔(۲)یسوع مسیح۔(۳) روح القدس۔(۴) ایماندار۔(۵) شوہر اور جورواں۔ (۶) نوکر۔(۷) نئی پیدائش ۔( ۸) خُداکاکلام ۔(۹)پرانے عہدنامہ کے نوشتے ۔(۱۰)نبی۔(۱۱) دُعا۔(۱۲)فرشتے۔(۱۳)شیطان۔(۱۴)بپتسمہ۔(۱۵)انجیل۔(۱۶) نجات۔(۱۷)دُنیا ۔(۱۸)انجیل کے مناد اور استاد۔(۱۹)آسمان ۔(۲۰)فروتنی ۔(۲۱)محبت۔
اب یہ باتیں عام عنوانوں کا کام دیں گی۔لیکن جب وہ باتیں جو تشریح کے وسیلے دستیاب ہوئی ہیں ان مختلف عنوانوں کے نیچے مرتب کی جائیں گی ۔تو معلوم ہوگا کہ وہ خود کئی اجزاء میں تقسیم ہوسکتی ہیں۔مثلاً جو باتیں خُدا کے متعلق معلوم ہوئیں وہ ان اجزاء میں منقسم ہوسکتی ہیں۔ (۱) اُس کے اسماء(اسم کی جمع، نام) (اس سرخی کے نیچے جو باتیں آتی ہیں وہ آگے خود کئی حصوں میں منقسم ہوسکتی ہیں )(۲) اُس کی صفات(یہ بھی مختلف اجزاء میں تقسیم ہوسکتی ہیں )مثلاً (الف) اُس کی پاکیزگی(ب) اُس کی قدرت۔(ج) اُس کا ازلی علم(د) اُس کی وفاداری (ر) اُس کی برداشت۔(س) اُس کا فضل ۔خُدا کے فضل کے متعلق اس خط میں کم ازکم ۲۵یا ۲۵ سے زیادہ باتیں بتائی گئی ہیں۔(ش) اُس کی رحمت۔(ص) اُس کی بے طرفداری ۔(ض) اس کی سختی ۔(۳) اُس کی عدالتیں ۔(۴) اُس کی مرضی۔(۵)خُدا کےنزدیک کیا پسندیدہ ہے۔(۶)خُدا کی طرف ہمارا کیافرض ہے۔ (۷)خُدا کے رہنے کی جگہ ۔(۸)خُدا کی حکومت۔(۹)خُدا کاکام ۔یعنی خُدا کیا کرتاہے ۔خُدا کی ملکیتیں ۔مثلاً ’’خُدا کا ہاتھ‘‘ ’’خُدا کا گھر‘‘ ’’خُدا کی انجیل‘‘ ’’خُداکا گلہ‘‘ ’’خُدا کے لوگ‘‘ ’’خُدا کے قیدی اور غلام‘‘ ’’خُداکاکلام ‘‘ ’’خُدا کی باتیں‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
اگر اس ترتیب دینے والے کام کی مثال کسی خاص کتاب کی کسی خاص تعلیم کے متعلق پورے پورے طور پر دی جائے تو شاید وہ زبانی صلاح کی نسبت زیادہ مفید ثابت ہوگی اور اُس سے یہ بھی ظاہر ہوجائے گا کہ اس طریق سے کیسا عمدہ پھل پیدا ہوتا ہے ۔پس ہم نظیر کے طور پر پہلے پطرس کی تعلیم مومنین کے متعلق پیش کریں گے ۔اور دیکھیں گے کہ یہ خط اس تعلیم کے متعلق کیا کہتا ہے۔
یہ خط ایماندار کی بابت کیا سکھاتا ہے
(۱)۔ایماندار کے حقوق۔
(ا)۔اُس کی برگزیدگی۔
(الف)۔خُدا اُس کاازلی علم رکھتا ہے ۔ا: ۲
(ب)۔ وہ خُداکا چُنا ہوا ہے۔۱: ۱
(ج) وہ خُداکے ازلی علم کے مطابق خُدا کا چنا ہوا ہے ۔۱: ۲
(د)وہ فرمانبرداری کے لیے چنا ہوا ہے۔۱: ۲
(ر)وہ یسوع کے خون کے چھڑکے جانے کے لیے چُنا ہواہے۔۱: ۲
(س) وہ روح کی تقدیس کے وسیلہ چُنا گیا ہے ۔۱: ۲
(۲)۔ اُس کی بلاہٹ۔
(الف) اُسے کس نے بلایا ہے ؟۔خُدانے( ۱: ۱۵ )خُدا نے جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے (۵: ۱۰)۔
(ب) کس بات کے لیے بلایاگیاہے ؟وہ اس لیے بُلایا گیا ہے کہ صبر سے دُکھ کی برداشت کرکے نیکی کرنے میں مسیح کے نقش قدم پر چلے۔ وہ اس لیے بلایا گیا ہے کہ بُرا بھلا سُن کربرکت دے (۳: ۹)۔ وہ تاریکی سے خُدا کی عجیب روشنی میں بُلایا گیاہے (۲: ۹)۔ وہ خُداکی ازلی وابدی جلال کے لیے بلایا گیا ہے (۵: ۱۰)۔
(ج) کس میں بُلایا گیا ہے؟مسیح میں (۵: ۱۰)۔
(د) کس غرض کے لیے بلایا گیاہے؟ تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرے جس نے اُسے بُلایا ہے (۲: ۹)۔تاکہ وہ ایک میراث کا وارث ہو (۳: ۹)۔
(۳)۔اُس کی نئی پیدائش
وہ نئے سرے سے پیدا ہوا ہے۔
(الف) خُدا سے پیدا ہوا ہے (۱: ۳)۔
(ب) زندہ اُمید کے لیے نئے سرے سے پیدا ہوا ہے (۱: ۳)۔
(ج) ایک میراث کے لیے نئے سرے سے پیدا ہوا ہے جو غیر فانی اور بے داغ اور لازوال ہے جو آسمان پر محفوظ ہے۔
(د) مسیح کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث پیدا ہوا ہے (۱: ۲)۔
(ر) وہ غیر فانی تخم سے ۔خُدا کے کلام سے جو زندہ اور قائم ہے پیدا ہوا ہے (۱: ۲۳)۔
(۴)۔ اُس کی مخلصی
(الف) اُس نے چاندی اور سونے جیسی فانی چیزوں کے وسیلہ مخلصی نہیں پائی (۱: ۱۸)۔
(ب)مسیح کے قیمتی خون سے مخلصی پائی ہے (۱: ۱۹)۔
(ج) اُس نے اُس نکمّے چال چلن سے جو باپ دادوں سے چلا آتا تھا رہائی پائی ہے (۱: ۱۸)۔
(د) اُس کے گناہوں کو لے کر مسیح خود صلیب پر چڑھ گیا ہے (۲: ۲۴)۔
(۵)۔ اُس کی تقدیس۔
وہ روح کے وسیلے پاک کیا گیا ہے (۱: ۲)۔
(۶)۔ اُس کی صفائی ۔
وہ مسیح کے خون سے صاف کیاگیا ہے (۱: ۲)۔
(۷)۔اُس کی حفاظت۔
(الف) وہ خُداکی قدرت سے محفوظ ہے (۱: ۵)۔
(ب) وہ اُس نجات کے لیے محفوظ ہے جو تیار ہے اور آخری ایام میں ظاہر ہونے کو ہے(۱: ۵)۔
(ج) خُدا اُس کی فکر کرتا ہے (۵: ۷)۔
(د) وہ اپنا سارا فکر اُس پر ڈال سکتا ہے (۵: ۷)۔
(ر) فضل کا خُدا اُسے دُکھ کی تھوڑی مدت کے بعد کامل اور قائم اور مضبوط کرے گا(۵: ۱۰)۔
(س) اگر وہ سرگرمی سے نیکی کرے تو کوئی اُس کے ساتھ بدی نہیں کرسکتا ہے (۳: ۱۳)۔
(ش) وہ شرمندہ نہیں ہوگا(۲: ۶)۔
(۸)۔ اُس کی خوشی ۔
(الف) اُس کی خوشی کی خاصیت
(a)وہ اُس کی موجودہ خوشی ہے ۔بے بیان خوشی ہے (۱: ۸)۔جلال سے بھری ہوئی خوشی ہے (۱: ۸)۔ (یہ خوشی ایسی خوشی ہے کہ طرح طرح کی آزمائشوں کے دُکھ کے سبب سے بھی صنائع نہیں ہوتی ۔۱: ۶)
(b)اُس ایمان کے سبب سے خوش ہوتا ہے جو وہ اندیکھے مسیح پر رکھتا ہے (۱: ۸)۔
(y)وہ مسیح کے دُکھوں میں شامل ہونے کے سبب سے خوش ہوتا ہے (۴: ۱۳)۔
(ج) وہ کن باتوں میں آئندہ خوش ہوگا؟
(a)مسیح کے جلال کے ظاہرہونے کے سبب سے خوش ہوگا(۴: ۱۳)۔ (فائدہ ۔مسیح کے دُکھوں میں شامل ہونے کی موجودہ خوشی اُس بے نہایت خوشی کی شرط ہے جو مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے وقت نصیب ہوگی ۔۴: ۱۳)
(۹)۔ اُس کی اُمید۔
(الف)اُس کی خاصیت
(a)زندہ امید ہے (۱: ۳)۔
(b)وہ عقل کے موافق ہے (۳: ۱۵)۔
(y)وہ باطنی امید ہے ۔’’تم میں ‘‘(۳: ۱۵)
(ب)اُس کی امید کس میں ہے ؟ خُدامیں ہے(۱: ۲۱)۔
(ج)اُ س کی اُمید کی بنیاد کیا ہے۔
(a)مسیح کا مردوں میں سے جی اُٹھنا(۱: ۳۔۲۱)۔
(۱۰)۔ اُس کی نجات
(الف) وہ ایسی نجات ہے جو وقوع میں آچکی ہے ۔
(a)وہ خلاصی پاچکاہے(۱: ۱۸۔۱۹)۔
(b) وہ شفاپاچکا ہے (۲: ۲۴)۔
(فائدہ ۔بپتسمہ کے وسیلہ (تشبیہ کے طور پر )ایماندار بھی اُسی طرح جس طرح کی نوح طوفان کے وسیلے فائز بہ نجات ہوا فطرت کی پُرانی زندگی سے نکل کر فصل کی نئی اور مردوں میں جی ہوئی زندگی میں داخل ہوگیا ہے ۳: ۲۱)۔
(ب)وہ ایسی نجات بھی ہے جواب وقوع میں آرہی ہے ۔
(a) ایمان دار اب اپنی روح کی نجات پارہا ہے (۱: ۹)۔
(b) وہ کلام کی خوراک کے وسیلے ترقی کرنے والی نجات ہے (۲: ۲)۔
(y) وہ آنے والی نجات ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والی ہے (۱: ۵)۔
(۱۱)۔ ایماندار کی ملکیت۔
(الف)خُدا اُس کا باپ ہے (۱: ۱۷)۔
(ب) مسیح بھی اس کا ہے ۔
(a) اُس کا گناہ اُٹھانے والا ہے (۲: ۲۴)۔
(b) اُس کا نمونہ ہے(۲: ۲۱)۔
(y) اُس کے دُکھوں کا شریک ہے (۴: ۱۳)۔
(ج)وہ ایک زندہ امید رکھتا ہے (۱: ۳)۔
(د) وہ ایک غیرفانی بے داغ اور لازوال میراث کا وارث ہے جو آسمان پر محفوظ ہے (۱: ۴)۔
(ر) وہ کثیر فضل اورسلامتی کا وارث ہے (۱: ۲)۔
(س) خالص روحانی دودھ اُس کو ملتا ہے (۲: ۲)۔
(ش) خدمت کے انعام اُسے حاصل ہیں ۔ہاں ہر ایماندار کوئی نہ کوئی انعام رکھتا ہے (۴: ۱۰)۔
(۱۲)۔ ایماندار کیا ہیں؟
(الف) چُنی ہوئی قوم ہیں (۲: ۹)۔
(ب) شاہی کاہنوں کا فرقہ ہیں(۲: ۹)۔
(ج) مقدس کاہنوں کافرقہ ہیں (۲: ۵)۔
(د) ایک پاک قوم ہیں (۲: ۵)۔
(ر) خُدا کی خاص میراث ہیں(۲: ۹)۔
(س) زندہ پتھر ہیں(۲: ۵)۔
(ش) خُدا کاگھر ہیں(۴: ۱۷)۔
(ص )روحانی گھر ہیں(۲: ۵)۔
(ض) خُدا کا گلہ ہیں (۵: ۲)۔
(ط) فرمانبرداری کے فرزندہیں(۱: ۱۴)
(ظ) مسیح کے دُکھوں کے حصہ دار ہیں (۴: ۱۳)۔
(ع) ظاہر ہونے والے جلال کے حصہ دار ہیں (۵: ا)۔
(غ) مسافر ہیں (۱: ۱)۔
(ف) اس دُنیا میں پردیسی ہیں ۔اُن کے مُلکی حقوق یہاں نہیں ہیں۔آسمان پر ہیں(۲: ۱۱) مقابلہ کرو (فلپیوں ۳: ۲۰) کے ساتھ۔
(ق) وہ دوسرے ملک کو جارہے ہیں(۲: ۱)۔
(ک) وہ مسیحی ہیں ۔لہٰذا مسیح کے قائم مقام (۴: ۱۶)۔
(۱۳)۔ ایماندار کے امکانات۔
(الف) وہ گناہ کی نسبت مرسکتا ہے (۲: ۲۴)۔
(ب) وہ راستبازی کی نسبت جی سکتا ہے (۲: ۲۴)۔
(فائدہ ۔اگر ہم راستباری کی نسبت جینا چاہیں تو ضروری امر ہے کہ ہم گناہ کی نسبت مردہ ہوں ۲: ۲۴)۔
(ج) وہ مسیح کے نقشِ قدم پر چل سکتا ہے (۲: ۲۱)۔
(د) وہ گناہ کرنے سے باز رہ سکتا ہے (۴: ۱)۔
(ر) وہ اور آدمیوں کی شہوتوں سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے (۴: ۲)۔
(س) وہ خُدا کی مرضی بجالانے کے واسطے اپنے تئیں وقف کرسکتا ہے (۴: ۲)۔
(فائدہ ۔فقط جسم میں دُکھ اُٹھانے کے وسیلے ایماندار گناہ اور آدمیوں کی شہوتوں سے بچ کر خُدا کی مرضی پورا کرنے کو جی سکتا ہے )۔
(۱۴)۔ زمانہ گزشتہ میں ایماندار کے لیے کیا کچھ تھا؟
(الف) نبیوں کی خدمت اُس کے لیے تھی (۱: ۱۲)۔
(ب) مسیح کا بیش قیمت ہونا اُس کے لیے تھا(۲: ۷)۔
(۱۵)۔پھر یہ باتیں بھی اُس کو حاصل ہیں ۔
(الف) انجیل کی منادی روح القدس کے وسیلے اُس کو کی جاتی ہے (۱: ۱۲)۔
(ب) یسوع مسیح کے اظہار کے وقت فضل اُس کو حاصل ہوگا (۱: ۲) مقابلہ کرو(افسیوں۳: ۷)کے ساتھ ۔
(ج) اُس نے اس بات کا مزہ چکھا ہے کہ خُدا مہربان ہے (۲: ۳)۔
(۲)۔ ایماندار کی آزمائش اور مصیبتیں ۔
(۱) ایمانداروں کی مصیبتوں اور آزمائشوں کا بیان (۱: ۶)۔
(۲) ایماندار کی مصیبتوں اور آزمائشوں کی خاصیتیں۔
(الف) وہ تکلیفوں کی برداشت کرکے دُکھ اُٹھاتا ہے (۲: ۱۹)۔
(ب ) وہ راستبازی کے سبب سے دُکھ اُٹھاتا ہے(۳: ۱۴)۔
(ج) وہ بھلائی کرنے کے سبب سے دُکھ اُٹھاتا ہے (۳: ۱۷، ۲: ۲۰)۔
(د) وہ مسیحی ہونے کے سبب دُکھ اُٹھاتا ہے(۴: ۱۶)۔
(ر) اُس پر طرح طرح کی آزمائشیں آتی ہیں (۱: ۶)۔
(س) وہ طرح طرح کی آزمائشوں میں دُکھ اُٹھاتا ہے (۱: ۶)۔
(ص) اُس کے نیک چال وچلن پر بسا اوقات لعنت کی جاتی ہے (۳: ۱۶)۔
(ض) لوگ اُسے بہ سبب اُس کی دُنیا سے علیحدہ زندگی کے طعن دیتے ہیں (۴: ۴)۔
(ط) لوگ اُسے مسیح کے نام کے سبب سے بُرا بھلا کہتے ہیں (۴: ۱۴)۔
(ظ) اُس پر آگ کی آزمائشیں آتی ہیں (۴: ۱۲)۔
(۳)۔ اُن ایمانداروں کو دلاسا دیا جانا جو آگ کی سی آزمائشوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہیں۔
(الف) بدی کی جگہ نیکی کرکے دُکھ اُٹھا نا اچھاہے (۳: ۱۷)۔
(ب) ضرور ہے کہ عدالت خُدا کے گھر سے شروع ہو۔اور ایمانداروں کی عدالت جو بوسیلہ آزمائش کے ہوتی ہے وہ بمقابلہ انجیل کے نافرمانوں کے آئندہ انجام کے کچھ بھی نہیں ہے (۴: ۱۷)۔
(پ) مبارک ہے وہ ایماندار جو راستبازی کے سبب سے دُکھ اُٹھاتا ہے (۳: ۱۴)۔مقابلہ کرو (متی ۵: ۱۰۔ ۱۲) کے ساتھ ۔
(ت) مبارک ہے وہ ایماندار جو مسیح کے نام کے سبب سے دُکھ اُٹھاتا ہے (۴: ۱۴)۔
(ٹ) جلال کی روح اور خُدا کی روح اُس ایماندار پر نازل ہوتی ہےجو مسیح کے نام سے تکلیف اُٹھاتا ہے (۴: ۱۴)۔
(ث) ایماندار کا رنج تھوڑے سے وقت کے لیے ہے(۱: ۶)۔
(ج) ایماندار کی مصیبت تھوڑے سے عرصے کے لیے ہے (۵: ۱۰)۔
(چ) تھوڑے عرصے کی مصیبت کے بعد خُدا کا جلا ل جو ابدی ہے مسیح میں ظاہر ہوگا(۵: ۱۰)۔
(ح) دُکھ جس کی برداشت تھوڑے سے عرصہ کے لیے کرنی پڑتی ہے ایمان کی آزمائش کے لیے ہوتا ہے(۱: ۷)۔
(خ) آگ کی آزمائشیں بھی پرکھنے کے لیے ہوتی ہیں (۴: ۱۲)۔
(د) جو ایمان اس طرح پر کھا جاتا ہے وہ سونے سے زیادہ بیش قیمت ہوتا ہے (۱: ۷)۔
(ڈ) جو ایمان طرح طرح کی آزمائشوں سے پرکھا جاتا ہے وہ مسیح کے ظاہر ہونے کے دن تعریف اور عزت اورجلال کے لائق پایا جائے گا (۱: ۷)۔
(ذ) ایماندار پر قسم قسم کی تکالیف کے وارد ہونے کا سبب یہی کہ اُس کا آزمایا ہوا ایمان مسیح کے ظاہر ہونے کے دن تعریف اورجلال اور عزت کے لائق پایا جائے (۱: ۷)۔
(ز) جب کوئی ایماندار خُداکے خوف اور اپنی ضمیر کی ہدایت کے سبب سے تکلیفوں کی برداشت کرکے دُکھ اُٹھاتا ہے تو خُدا خوش ہوتا ہے (۲: ۱۹)۔
(ڑ) جب کوئی ایماندار صبر کرتا ہے اور نیکی کرنے کی وجہ سے دُکھ اُٹھاتا ہے تو خُدا اس سے خوش ہوتا ہے (۲: ۲۰)۔
(ژ) جو ہمارے حق میں بُرا کہتے ہیں اُنہیں خُدا کے حضور حساب دینا پڑے گا(۴: ۵)۔
(س) دُکھوں میں ہمارے ہم ایمان ہمارے ساتھ شامل ہیں(۵: ۹)۔
(ش)مسیح نے بھی ہمارے لیے دُکھ اُٹھایا(۲: ۲۱)۔
(ص) مسیح نے بھی ایک دفعہ دُکھ اُٹھایا ۔راستباز نے ناراستوں کے لیے ۔تاکہ وہ جسم کے اعتبار سے مر کر لیکن روح کے اعتبار سے زندہ ہوکر ہمیں خُدا کے حضور حاضر کرے(۳: ۱۸)۔
(ض) مسیح نے ایماندارکے لیے نمونہ مہیا فرمایا ہے تاکہ وہ اُس کے نقش قدم پر چلے (۲: ۲۱)۔
(ط) ہم اپنی آتشی آزمائشوں میں مسیح کے دکھوں میں حصہ لیتے ہیں (۴: ۱۳)۔
(ظ) جب اُس کا جلال ظاہر ہوگاتو ہم بڑی خوشی سے خوش وقت ہوں گے(۴: ۱۳)۔
(۴)۔ ایماندار کوکس طرح اپنے دُکھوں اور آزمائشوں کو سہنا چاہیے ۔
(الف) ایماندار کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میری آگ کی سی آزمائشیں انوکھی ہیں (۴: ۱۲)۔
(ب) ایماندار پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کی آزمائشوں کا منتظر رہے(۴: ۱۲)۔
(ج) جب کسی ایماندار کو مسیحی ہونے کے باعث دُکھ اُٹھانا پڑے تو لازم ہے کہ وہ شرمندہ نہ ہو(۴: ۱۶)۔
(د) جب وہ مسیحی ہونے کے باعث دُکھ اُٹھائے تو چاہیے کہ وہ اس نام (مسیحی ) کے سبب سے خُدا کا جلال ظاہر کرے(۴: ۱۶)۔
(ر) جب وہ آگ کی سی آزمائشوں کو سہے تو مناسب ہے کہ وہ خوش ہوکیونکہ وہ مسیح کے دُکھوں میں شامل ہوگیا ہے (۴: ۱۳)۔
(س) جب وہ دُکھ اُٹھائے تو لازم ہے کہ وہ گالی کے عوض گالی نہ دے اور نہ دھمکائے بلکہ اپنے آپ کو اُس کے ہاتھ میں سونپ دے جو راستی سے انصاف کرتا ہے (۲: ۲۳)۔
(ش) جب وہ دُکھ اُٹھاتا ہے تو وہ اپنی روح کو نیکی کرکے خُدا کے سپرد کرے جو وفادار خالق ہے (۴: ۹)۔
(۳)۔ ایماندار کے خطرات
(۱) ایماندار اُن جسمانی شہوتوں میں گرفتار ہوسکتا ہے جواُس کی روح سے لڑائی کرتی ہیں (۲: ۱۱)۔
(۲) ایماندار گناہ میں گرفتار ہوسکتاہے (۲: ۲۰)۔
(۳) ایماندار بہت بُری بُری قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوسکتاہے (۴: ۱۵)۔(تنبیہ۔ غور کرو اُن خطرناک امکانات پر جو ایماندار کے دل میں پنہاں ہیں )۔
(۴) ایمانداروں کی دُعائیں رُک سکتی ہیں (۳: ۷)۔
(۵) ایمانداراس خطرے میں ہے کہ اپنی اعلیٰ بلاہٹ اور انجام کے سبب سے انسانی قوانین اور حکومت کی تحقیر کرے(۲: ۱۳)۔
(۶) ایماندار اس خطرے میں ہے کہ اپنی اعلیٰ بلاہٹ کے سبب سے اپنے جسمانی آقاؤں کےفرائض ادا نہ کرے(۲: ۱۸)۔
(۷) ایماندار اس خطرے میں بھی ہے کہ اپنے سے بڑے ایمانداروں کے اختیار اور مرضی کو پامال کرے (۵: ۱۵)۔
(۴)۔ ایماندار کی ذمہ داری۔
(۱) ہر ایماندار کی ایک خاص ذمہ داری ہوتی ہے (۴: ۱۰)۔
(۲) ہر ایماندار اُس برکت یا انعام کے لیے ذمہ دار رہے جو اُسے مرحمت ہوا ہے (۴: ۱۰)۔
(۵)۔ ایماندار کے فرائض۔
(۱) ایماندار کو کیا بننا چاہیے۔
(الف) اُسے ہر معاملےمیں پاک بننا چاہیے ۔
(a) کیونکہ خُدا پاک ہے (۱: ۱۵)۔
(b) کیونکہ یہ لکھا ہے کہ تم پاک بنو(۱: ۱۶)۔
(ب) اُسے اپنے بُلانے والے کی مانند بننا چاہیے (۱: ۱۵۔۱۶)۔
(ج) پرہیزگار(یایوں کہیں کہ صابر سمجھدار اور دھیما) بننا چاہیے (۱:۳، ۴: ۷، ۵: ۸)۔
(د) اُسے دُعا کے لیے پرہیزگار بننا چاہیے(۴: ۷)۔
(ر) اُسے اس سبب سے کہ خاتمہ جلد آنے والا ہے ہوشیار بننا چاہیے (۴: ۷)۔
(س) اُس بیدار رہنا چاہیے(۵: ۸)۔
(ش) اُسے ایمان میں مضبوط ہونا چاہیے(۵: ۹)۔
(ص) انسانی قانون کا پابند ہونا چاہیے ۔
(a) خُداوند کے سبب سے (۲: ۱۳)۔
(b) بادشاہ کے تابع ہونا چاہیے ۔اس لیے کہ وہ سب سے بزرگ ہے (۲: ۱۳)۔
(c) حاکموں کے اس لیے کہ وہ بدکاروں کی سزا اور نیکوکاروں کی تعریف کے لیے بادشاہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔
(d) یہ خُدا کی مرضی ہے (۲: ۱۵)۔
(ض) ایمانداروں کو ایک سامزاج رکھنا چاہیے (۳: ۸)۔
(ط) ہمدرد ہونا چاہیے (۳: ۸)۔
(ظ) نرم دل ہونا چاہیے (۳: ۸)۔
(ع) فروتن مزاج بننا چاہیے (۳: ۸)۔
(غ) تیار ہونا چاہیے ۔
(a) ہمیشہ
(b) ہر شخص کو جواب دینے کے لیے جو ایماندار سے یہ دریافت کرے کہ جو اُمید وہ رکھتا ہے وہ کیا ہے ۔
(c) فروتنی اور خوف سے ۔
(d) اُن کو شرمندہ کرنے کے لیے جو مسیح میں اُس کی نیک چلنی پر طعن کرتے ہیں (۳: ۱۶)۔
(ف) فکر مند نہیں ہونا چاہیے(۳: ۱۴)۔
(۲) ایماندار کو کیا نہیں ہونا چاہیے ۔
(الف) جہالت کی قدیم زندگی کی شہوتوں کے مطابق نہیں چلنا چاہیے (۱: ۱۴)۔
(ب) بدی کے عوض بدی نہیں کرنی چاہیے (۳: ۹)۔
(ج) گالی کے عوض گالی نہیں دینی چاہیے(۳: ۹)۔
(د) دُنیا کے خوف سے نہیں ڈرنا چاہیے(۳: ۱۴)۔
(ر) اپنا باقی ماندہ وقت آدمیوں کی شہوتوں کے موافق صرف نہیں کرنا چاہیے(۴: ۲)۔
(۳) ایماندار کو کیا کرنا چاہیے۔
(الف) اُسے فرمانبرداری کا فرزند بن کر زندگی بسر کرنی چاہیے (۱: ۱۴)۔
(ب) مسافرت کے وقت کو خوف سے کاٹنا چاہیے(۱: ۱۷)۔
(ج) اُن شہوتوں سے جو روح سے لڑائی کرتی ہیں اجتناب کرنا چاہیے(۲: ۱۱)۔
(د) خُدا کی مرضی کو زندگی کا کامل قانون سمجھنا چاہیے (۲: ۱۵)۔
(ر) اس کی ضمیر پر خُدا کے خیال کو حکومت کرنی چاہیے نہ کہ آدمیوں کے خیال کو (۲: ۱۹)۔
(س) مسیح کو اپنے دل میں پاکیزگی کے ساتھ قائم کرنا چاہیے (۳: ۱۵) مقابلہ کرو(یسعیاہ ۸: ۱۳) سے ۔
(ش) اپنا باقی ماندہ خُدا کی مرضی کے بجا لانے میں صرف کرنا چاہیے۔
(ص) ذیل کی عادتوں کو دور کرنا چاہیے۔
(۱) ہر طرح کا کینہ دور کرنا چاہیے(۲: ۱)۔
(۲) ہر طرح کا فریب دور کردینا چاہیے ۔
(۳) ہر قسم کی ریاکاریاں دور کرنی چاہئیں (۲: ۱)۔
(۴) حسد دور کرنا چاہیے ۔
(۵) ہر طرح کی بدگوئی چھوڑ دینی چاہیے (۲: ۱)۔
(ض) خُداوند کے پاس اُسے زندہ پتھر سمجھ کر آنا چاہیے (۲: ۴)۔
(ط) جس نے اُسے اندھیرے سے عجیب روشنی میں بُلایا ہے اُس کی خوبیاں ظاہر کرنا چاہیے (۲: ۹)۔
(ظ) مسیح کے مزاج سے ملبس ہونا چاہیے تاکہ جسم میں تکلیفیں سہی جائیں (۴: ۱)۔
(ع) اپنا سارا فکر خُداوند پر ڈالنا چاہیے کیونکہ وہ اُس کا فکر کرتا ہے (۵: ۷)۔
(غ) خُداوند کے سچے فضل میں قائم رہنا چاہیے (۵: ۱۲)۔
(ف) شیطان کا مقابلہ کرنا چاہیے (۵: ۹)۔
(ق) خُدا کے زور آور ہاتھ کے سامنے اپنے آپ کو فروتن کرنا چاہیے (۵: ۵)۔
(a) کیونکہ خُدامغروروں کا مقابلہ کرتا پر فروتنوں کو اپنا فضل بخشتا ہے (۵: ۵۔۶)۔
(b) تاکہ خُدا اُس کو بروقت سرفرازی بخشے(۵: ۶)۔
(ک) مسیحی ہونے کے باعث دُکھ اُٹھاکر خُدا کا جلال ظاہر کرنا چاہیے (۴: ۱۶)۔
(گ) خبردار رہنا چاہیے کہ وہ چور بن کر یا بدکاری کے سبب سے یا دوسروں کے معاملات میں دست اندازی کرنے کے باعث دُکھ نہ اُٹھائے (۴: ۱۵)۔
(ل) آگ کی سی آزمائشوں میں خوش ہونا چاہیے (۴: ۱۳)۔
(م) مختلف اشخاص سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔
(۱) خُدا کا خوف ہونا چاہیے(۲: ۱۷)۔
(۲) بادشاہ کی عزت(۲: ۱۷)۔
(۳) آقاؤں کی باخوف تابعداری ۔(نہ صرف اُن آقاؤں کی جو نیک اور ملائم مزاج ہیں بلکہ سخت مزاجوں کی بھی )(۲: ۸)۔
(۴) بھائیوں کے لیے ۔
محبت ہونی چاہیے (۲: ۱۷، ۱: ۲۲، ۴: ۲۸)۔
دلی محبت ہونی چاہیے(۱: ۲۲)۔
سرگرم اور گہری محبت ہونی چاہیے (۱: ۲۲، ۴: ۸)۔
جس طرح غلام کمر بند پہن لیتا ہے اُسی طرح فروتنی کا کمر بند پہن لینا چاہیے ۔یعنی
اوّل:۔ ایک کو دوسرے کا غلام سمجھنا چاہیے ۔
دوم :۔ اس لیے فروتنی کا کمر بند پہن لینا چاہیے کہ وہ اس بات کا نشان ہوکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی خدمت کرنے کو تیار ہیں (۵: ۵) مقابلہ کرو ساتھ (یوحنا ۱۳: ۴۔۵) سے ۔
اپنے بھائیوں کے درمیان اُسی نعمت کو جو خُدا سے پائی ہے خُدا کے گوناگوں فضل کے نیک مختار کی طرح صرف کرنا چاہیے (۴: ۱۰)۔ ایک دوسرے کی مہمان نوازی بغیر کڑکڑاہٹ کے کرنی چاہیے (۴: ۹)۔پاک بوسہ سے ایک دوسر ے کو سلام کرنا چاہیے (۵: ۱۴)۔
(۵) گالی دینے والوں کے ساتھ سلوک ۔
گالی کے عوض بھلا چاہنا فرض ہے (۳: ۹)۔
(۶) غیر قوموں کے ساتھ سلوک ۔اُن کے درمیان چال وچلن نیک ہونا چاہیے (۲: ۱۲)۔
(فائدہ ۔اس کا سبب یہ ہے کہ غیر قومیں ملاحظے کے دن خُدا کی بڑائی کریں ۲: ۱۳)۔
(فائدہ دوم ۔ اس نیک چال وچلن میں وہ نیک کام شامل ہوں جنہیں غیر قومیں دیکھ سکیں ۲: ۱۲)۔
(۷) احمقوں کے ساتھ سلوک ۔نیک کاموں سے اُن کی جہالت کے منہ کو بند کرنا چاہیے (۲: ۱۵)۔
(۸) عوام الناس سے سلوک ۔اُن کی عزت کرو(۲: ۱۷)۔
(تنبیہ ۔ایماندارشوہروں اور بیویوں کے فرائض ایک علیحدہ فصل میں آنے چاہئیں )۔
(ن) کلام کے خالص دودھ کا مشتاق ہونا چاہیے(۲: ۲)۔
(و) اپنی عقل کی کمر باندھنی چاہیے(۱: ۱۳)۔
(ء) بڑھنا چاہیے(۲: ۲)۔
(ی) اپنی امید اُس فضل پر لگانی چاہیے جو یسوع مسیح کے اظہار کے وقت اُس پر ہونے والا ہے (۱: ۱۳)۔
(۶)۔ ایماندار کے نشانات
(۱) اُس کا ایمان اور اُمید خُدامیں (۱: ۲۱)۔
(۲) یسوع مسیح کے وسیلے خُدا پر ایمان لاتا ہے (۱: ۲۱)۔
(۳) خُدا کو اپنا باپ کہہ کر پکارتا ہے (۱: ۱۷)۔
(۴) مسیح کو پیار کرتا ہے گو اُسے کبھی نہیں دیکھا ہے (۱: ۸)۔
(۵) مسیح پر ایمان لاتا ہے گواُسے کبھی نہیں دیکھا ہے (۱: ۸)۔
(۶) اپنی جان کے چرواہے اور نگہبان کے پاس پھر آیا ہے (۲: ۲۵)۔
(۷) سچائی کی فرمانبرداری سے اپنی روح کو پاک کرچکا ہے (۱: ۲۲)۔
(۸) بھائیوں سے بے ریامحبت رکھتا ہے (۱: ۲۲)۔
(۹) اچھی چال چلتا ہے (۳: ۱۶)۔
(۱۰) جن غیر قوموں کے درمیان رہتا ہے اُن کے ساتھ ’’سخت بدچلنی‘‘ تک نہیں دوڑتا ہے ۔(مقدس زندگی بسر کرتا ہے ) (۴: ۴)۔
(۱۱) اپنی زبان کو بدی سے بچاتا ہے(۳: ۱۰)۔اپنے لبوں کی حفاظت کرتا ہے کہ وہ فریب کی بات نہ بولیں(۳: ۱۰)۔
(۱۲) بدی سے پھر جاتا ہے (۳: ۱۱)۔
(۱۳) نیکی کرتا ہے (۳: ۱۱)۔
(۱۴) سلامتی کی باتیں کرتا ہے (۳: ۱۱)۔
(۱۵) سلامتی کا پیچھاکرتا ہے (۳: ۱۱)۔
(فائدہ ۔۱۱۔آیت سے ۱۴۔آیت تک بھی غالباً مسیحی فرائض ہی کا ذکر ہے)
(۷)۔ ایماندار کی لڑائی۔
ایماندار کے سامنے ایک لڑائی ہے (۴: ۱)۔اس لڑائی کے لیے مسیح کا مزاج کافی اوزار ہے (۴: ۱)۔یہ لڑائی شیطان کے ساتھ ہے (۵: ۸۔۹)۔ فتح ایماندار کے لیے ممکن ہے (۵: ۹)۔ فتح ایمان میں قائم رہنے سے حاصل ہوتی ہے (۵: ۹)۔
(۷)۔ اب ہم ساتویں یا یوں کہیں کہ آخری کام تک پہنچ گئے ہیں ۔اور وہ کام یہ ہے کہ مطالعہ سے جو نتائج پیدا ہوئے ہیں اُن پر غور کیا جائے اور وہ ذہن نشین کئے جائیں ۔بادی النظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے نتائج کو مرتب کرچکتے ہیں تو ہمارا کام ختم ہوجاتاہے ۔لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ جو نتیجے ہم نے نکالے ہیں ہو استعمال کے لیے جمع کئے گئے ہیں ۔اور اُنہیں استعمال کرسکتے ہیں کہ پہلے ہم خود اُن سے روحانی حظ اُٹھائیں اور اُنہیں اپنے کام میں لائیں ۔اور پھر اُن سے اوروں کو فائدہ پہنچائیں ۔ان نتیجوں کو اپنے کام میں لانے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اُن پر غور کریں ۔جس طرح ہم کھانے کو میز پر چُن لیتے ہیں تو ہم کھانے کے کام سے فارغ نہیں ہوجاتے اسی طرح جب ہم کسی کتاب کے مضامین کو مرتب کرچکتے ہیں تو ہم پورے پورےپورے طور پر اُس کے مطالعہ سے فارغ نہیں ہوتے ۔کھانا میز پر اس لیے چُنا جاتا ہے کہ ہم اُسے کھائیں ۔ہضم کریں اور وہ ہمارے جسم میں مل جائے ۔اُن بہت سی باتوں میں سے جو آج بائبل کے مطالعہ میں ہمیں ناکام رکھتی ہیں ایک بات یہی ہے کہ لوگ غور سے مضامین کو دیکھتے ہیں ۔تشریح کرتے ہیں ۔ترتیب دیتے ہیں لیکن دریافت کردہ نتائج میں مگن نہیں ہوتے ۔لیکن بائبل کے مطالعہ میں شاید اور کوئی چیز ایسی ضروری نہیں جیسا مگن رہنا ضروری ہے ۔دیکھو(یشوع ۱: ۸؛ زبور ۱: ۲۔۳)۔
پس چاہیے کہ جن تعلیموں کو آپ نے ترتیب دی ہے آپ اُن میں سے گزریں ایک ایک پر دھیان لگائیں تاوقت یہ کہ یہ عجیب صداقتیں آپ کے دل میں کُھب کرآپ کی زندگی میں نمودار اور آپ کی زندگی کا حصہ نہ ہوجائیں ۔آپ اس کام کو بار بار انجام دیں۔ غور وفکر سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے جو آدمی کو ایک تازہ خیال سوچنے اور بولنے والا آدمی بناسکتی ۔اس دُنیا میں بہت کم لوگ سوچنے والے ہیں ۔واضح ہوکہ جس طریق تلاوت کا خلاصہ یہاں پیش کیاگیا ہے ۔وہ پڑھنے والے کے وقت اور محنت کے مطابق مختصر بھی کیا جاسکتا ہے ۔مثلاً وہ پانچواں کام چھوڑ سکتا ہے اور ساری کتاب میں سے گزر کر ان باتوں کو جمع کرسکتا ہے جو وہ کتاب مختلف تعلیموں کے متعلق سکھاتی ہے اس سے مطالعہ کاکام تو بہت کم اور ہلکا ہوجاتا ہے ۔مگر اس اختصار کے سبب سے نتیجوں کی بھر پوری میں سے بھی بہت کچھ کم ہوجاتا ہے ۔ماسوائے اس کے کام بھی کامل اور عالمانہ طرز پر نہ ہوگا اور نہ اس سے عقلی ترقی ہی بہت ہوگی لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت لوگ سُست ہیں اور ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ دیر نہ لگے اور کام ہوجائے ۔پس آدمی اُس تجویز کی پیروی جو پیش کی گئی ہے پورے پورے طور پر نہ کرسکے تو مختصر طریقے ہی کو کام میں لائے ۔اگر کوئی چاہے تو وہ کم از کم بائبل کے مطالعہ میں عمدہ مہارت پیدا کرسکتا ہے ۔
اگر کسی کے پاس بہت ہی تھوڑا وقت ہوتو اس سے بھی مختصر طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ وہ پہلے دوسرے کام کوانجام دے اور پھر خط میں سے گُزرے اور ایک ایک آیت پر غور کرے اوراُن حوالوں کو دیکھے جو کلید الکلام یا ’’ٹریژری آف سکرپچر نالج‘‘ میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ کم ازکم بائبل کی ایک چھوٹی سی کتاب کا مطالعہ تو ضرور اس کامل طریق کے مطابق جو باب ہذا میں درج ہے کرنا چاہیے ۔
تیسرا باب
مضمون وار مطالعہ
بائبل کے مطالعہ کا دوسرا طریق یہ ہے کہ مضمون وار تلاوت کی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بائبل میں تلاش کی جائے کہ وہ مختلف مضامین کے متعلق کیا سکھاتی ہے یہ طریق شاید سب طریقوں سے زیادہ دلچسپ طریق ہے ۔اسی طریقہ کی پیروی سے کئی نتائج اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں گو وہ آخری نتائج متفق ہوتے ہیں۔ اس طریق کی پیروی سے واقعی کئی فوائد منتج (نتیجہ دینے والا) ہوتے ہیں ۔مثلاً کسی مضمون پر پورے پورے طور پر حاوی ہونے کا یہی ایک عمدہ طریقہ ہے کہ بائبل لی جائے اور اُس کے مختلف مقامات کی چھان بین کی جائے تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ کلام اللہ اُس مضمون کے متعلق کیا کہتا ہے ۔اگر کوئی مسیحی اپنی بائبل لے کر پیدائش سے مکاشفات کی کتاب تک بدیں غرض عبور کرے کہ اُسے معلوم ہوجائے کہ بائبل میں اُس مضمون کے بارے میں کیا کچھ پایا جاتا ہے تو وہ مضمون ضرور اُس کے دل پر جم جائے گا ۔پہلے کی نسبت وہ اُسے زیادہ پورے طور پر اور زیادہ صحیح صورت میں سمجھنے لگ جائے گا۔مسٹر موڈی صاحب کی نسبت کہاجاتا ہے کہ کئی سال گزرے اُنہوں نے مضمون ’’فضل‘‘ کا مطالعہ اسی طرح کرنا شروع کیا۔روز روز وہ بائبل کو پڑھتے تھے اور دریافت کرتے جاتے تھے کہ وہ فضل کے متعلق کیا کہتی ہے ۔جب بائبل کی تعلیم فضل کے متعلق اُن پر صاف صاف کھُل گئی تو ان کا دل جوش کی آگ سے جل گئی کہ وہ باہر نکل گئے اور بازار میں جاکر اُس آدمی کو جو اُنہیں پہلے ملا پکڑ کر بزبان انگریزی کہنے لگے ’’آپ گریس(فضل ) کو جانتے ہیں ‘‘۔ لیکن چونکہ انگریزی زبان میں گریس عورتوں کا نام بھی ہوتا ہے اس لیے اُس آدمی نے موڈی صاحب کی طرف مخاطب ہوکر کہا ’’کونسی گریس کو‘‘ ؟ کہا خُدا کے فضل کو جس سے نجات ملتی ہے۔یہ کہہ کر اُنہوں نے سب کچھ جو اُن کے دل میں اس مضمون کے متعلق بھرا ہواتھا انڈیل دیا۔ اگر کوئی خُدا کافرزند ’’فضل‘‘ یا ’’محبت ‘‘ یا ’’ایمان‘‘ یا ’’دُعا‘‘ کے مضامین کا مطالعہ اسی طرح کرے گا تو اُس کا دل بھی ان مضامین سے ضرور بھر جائے گا۔خُداوند یسوع بھی پرانے عہد نامہ کا مطالعہ اسی طرح کیا کرتا تھا کیونکہ ہم اُس کی نسبت اس طرح کلام میں پڑھتے ہیں ’’موسیٰ سے اورسب نبیوں سے شروع کرکے سب صحیفوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں‘‘۔ اس طریق تلاوت کو دیکھ کر اُن دو شاگردوں کے دل جو اُس کے ساتھ ساتھ چلتے تھے جو ش کی آگ سے بھرگئے (لوقا۲۴: ۳۲)۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس طریق تلاوت میں پولُس بھی اپنے خُداوند کے نقش قدم پر چلا کرتا تھا (اعمال ۱۷: ۲۔۳)۔
لیکن یادرکھنا چاہیے کہ اس طریق کے ساتھ خطرے بھی لگے ہوئے ہیں مثلاً اس طریقہ کی دلکشی اور دلچسپی بجائے خود خطر ناک ہے ۔بہت لوگ اس طریقہ کی دلچسپی کے سبب سے باقی طریقوں کو چھوڑ بیٹھتے ہیں لیکن یہ بات بڑے نقصان کا باعث ہوتی ہے ۔کیونکہ اس طریقہ کی پیروی سے بائبل کا پورا اور کافی علم کبھی حاصل نہیں ہوتا۔اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ بائبل کا پورا پورا اور بہر نہج (ہر طریقہ سے ) تُلا ہوا علم حاصل کرے تو اُسے یادر کھنا چاہیے کہ وہ ایسا علم فقط ایک طریقے کی پیروی سے کبھی حاصل نہیں کرسکتا ۔لیکن سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا خاص خاص مضامین سے دلچسپی رکھتا ہے ۔اور اگر کوئی اُسے متبنہ (لے پالک) نہ کرے تو ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی بائبل مضمون وار پڑھنے لگتا ہے تو وہ اُنہیں مضامین کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو صداقتیں اُن مضمونوں سے وابستہ ہوتی ہیں اُن میں تو وہ خوب پکا ہوجاتا ہے ۔لیکن دیگر مضامین میں جو ویسے ہی ضروری ہوتے ہیں بے پروائی کے سبب سے کچا رہ ہے۔یادر رہے کہ ہم کسی صداقت کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ ہم یہ نہ جانیں کہ وہ دیگر صداقتوں سے کیا رشتہ رکھتی ہے۔ مَیں کئی ایسے اشخاص سے واقف ہوں جو خُداوند کی دوسری آمد سے بڑی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ لہٰذا اُن کا مطالعہ بہت درجہ تک اسی مضمون کے متعلق ہوتا ہے ۔ اب ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ یہ صداقت ایک بڑی بیش قیمت صداقت ہے۔ لیکن یہ بھی یادر کھنا چاہیے کہ بائبل میں اور صداقتیں بھی ہیں جن کا جاننا ہم پر فرض ہے۔ پس اسی ایک صداقت کا مطالعہ کرنا اور باقیوں کو نظر انداز کردینا بڑی حماقت کی بات ہے ۔اسی طرح مَیں اُن لوگوں سے بھی واقف ہوں جن کے مطالعہ کا مضمون صرف یہی ایک خیال ہے کہ ’’خُدا ہی شفا بخشتا ہے ‘‘۔ ایک آدمی کا ذکر ہے کہ اُس نے اپنے دوست سے کہا کہ مَیں نے اپنی عمر کے کئی سال عدد ’’سات‘‘ کے مطالعہ میں جو بائبل میں آیا ہے صرف کئے ہیں ۔خیر یہ آخری بیان تو ایک ایسے آدمی کا ہے جو حدسے کہیں بڑھ گیا تھا تاہم اس سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ فقط مضمون وار مطالعہ کرنے سے کیا نقصان پیدا ہوتا ہے ۔ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اگر ہم صرف مضمون وار مطالعہ کرنے کے طریقہ کی پیروی کریں گے تو ہم کبھی بائبل کی سب صداقتوں کی تہ تک نہیں پہنچیں گے ۔اگر مضمون وار مطالعہ کرنے کے طریقہ کے متعلق چند ہدائتیں رقم کی جائیں تو غالب ہے کہ اُن سے بائبل پڑھنے والوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔وہوندا۔
(۱)ترتیب کا پابند ہونا چاہیے ۔انتخاب مضامین میں اپنے وہم کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ جو مضمون سامنے آئے وہی اختیار کرلیا جائے ۔مناسب ہے کہ آپ پہلے اُن تمام مضامین کی جو آپ کو یاد ہوں اور جن کا ذکر بائبل میں آتا ہے ایک فہرست تیار کریں ۔ایک ایسی وسیع اور مکمل فہرست تیار کریں جیسی کہ آپ تیار کرسکتے ہیں ۔اور پھر ترتیب وار ایک ایک مضمون کو لیں اور اُن کا مطالعہ کریں۔
نمونہ کے طور پر ذیل کی فہرست پیش کی جاتی ہے ہر ایک شخص خود اس فہرست میں اور مضامین داخل کرسکتا ہے اور پھر بڑے بڑے مضامین کواُن کے لازمی حصوں میں تقسیم کرسکتا ہے ۔
مضامین کی فہرست
خُدا
خُدا روح ہے ،خُدا کی وحدت، خُدا کی ازلیت وابدیت، خُدا ہر جاحاضرو ناظر ہے ،خُدا کی شخصیت ،خُدا قادر مطلق ہے ، خُداہمہ داں ہیں ، خُدا پاک ہے ، خُدا محبت ہے ، خُدا کی راستبازی ، خُدا کی رحمت اور پُر محبت مہربانی ،خُدا کی وفاداری اور خُدا کا فضل۔
یسوع مسیح
مسیح کی الوہیت ، یسوع مسیح کا باپ کے تابع ہونا، یسوع مسیح کی انسانی ذات ،مسیح کی سیرت، اُس کی پاکیزگی ،اُس کی محبت خُداسے ، اُس کی محبت انسان سے ،اس کی محبت روحوں کے لیے ، اُس کا رحم ،اُس کی دُعامانگنے والی عادت، اُس کی فروتنی اور پستی ۔
یسوع مسیح کی موت
مسیح کی موت کی غرض ، مسیح کیوں موا؟ مسیح کس کے لیے موا؟ مسیح کی موت کے نتائج۔
مسیح کا مردوں میں سے جی اُٹھنا
مردوں میں سے جی اُٹھنے کا واقعہ ، مردوں میں سے جی اُٹھنے کے نتائج ، مردوں میں سے جی اُٹھنے کی ضرورت ،مردوں میں سے جی اُٹھنے کا طریقہ۔
یسوع مسیح کا صعود اور سرفرازی
یسوع مسیح کی دوسری آمد
دوسری آمد کی حقیقت،دوسری آمد کا طریقہ،دوسری آمد کی غرض ،دوسری آمد کے نتیجے اوردوسری آمد کا زمانہ ۔
یسوع مسیح کا راج
روح القدس
روح القدس کی شخصیت، روح القدس کی الوہیت، روح القدس کا خُدا باپ اور بیٹے یسوع مسیح سے شخصی امتیاز کے اعتبار سے جدا ہونا۔روح القدس کا باپ اور بیٹے کے ماتحت ہونا اور روح القدس کے نام ۔
روح القدس کا کام
دُنیا میں ،عام طور پر انسان میں ،ایماندار میں، نبیوں اور رسولوں میں ،یسوع مسیح میں
انسان
اس کی پہلی حالت ،اُس کا گر جانا ،وہ اب خُدا کے سامنے کیا جگہ رکھتا ہے اور اُس نجات سے علیحدہ ہوکر جو یسوع مسیح نے تیار کی ہے اُس کی کیا حالت ہے ، اُس کا راستباز ٹھہرایا جانا،اُس کی نئی پیدائش،اُس کا خُداکا فرزند بننا، ایماندار کا یقین اپنی نجات کے متعلق، جسم ،تقدیس ،صفائی ،مخصوص کیا جانا، ایمان ،توبہ ،دُعا، شکرگزاری، خُداکی تعریف، عبادت، خُدا سے محبت ،یسوع مسیح سے محبت ، انسان سے محبت اور ایمانداروں کی عاقبت۔
فرشتے
اُن کی ذات اور رُتبہ ،اُن کا شمار،اُن کا مسکن ،اُن کی سیرت ،اُن کاکام اور اُن کا انجام۔
شیطان
اُس کا وجود، اُس کی ذات اور جگہ ، اُس کا کام ، ہمیں اُس کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھنا چاہیےاوراس کی عاقبت۔
بدروحیں
اُن کا وجود ، اُن کی ذات ، اُن کاکام اور اُن کا انجام ۔
جو شخص اس کام کو انجام تک پہنچانے میں ثابت قدم رہ سکتا ہے ہم اُسے یہ صلاح دیتے ہیں کہ وہ اس قسم کی فہرست لے کر اپنا مطالعہ پہلے مضمون سے شروع کرے اور جو کچھ بائبل اِن مضامین کی نسبت کہتی ہے اُسے دریافت کرتا ہوا آخر تک چلا جائے یہ کام اس کتاب کا مصنف خود کرچکا ہے اور اس کی یہ شہادت ہے کہ اس طریق کی پیروی کرنے سے اِن مضامین کے متعلق زیادہ وسیع علم اُس کو حاصل ہوا اور نیز وہ اُن پر ایسا حاوی ہوا کہ ویسا علم الہٰی کی بڑی بڑی کتابوں کے دیکھنے سے بھی نہیں ہوا تھا۔لیکن ممکن ہے کہ کئی لوگ اس کام کی ظاہری مشکل اور توسیع کو دیکھ کر پست ہمت ہو جائیں ۔ایسے لوگوں کو یہ صلاح دی جاتی ہے کہ وہ شروع شروع میں ایسے متعدد مضامین چُنیں جو اُنہیں زیادہ ضروری معلوم ہوتے ہیں ۔لیکن کسی نہ کسی وقت ضرور اس بات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے کہ بائبل جو کچھ خُدا اور انسان کی بابت بتلاتی ہے اُس کا مطالعہ پورے پورے طور پر کیا جائے ۔ایسی کتابوں سے جن میں تعلیمی اور عملی مضامین کی فہرستیں پائی جاتی ہیں بہت مدد ملتی ہے ۔
(۲) ۔ اس کام کو پورے پورے طور پر کرنا چاہیے جب آپ کسی مضمون کا مطالعہ شروع کریں تو فقط چند مقامات بائبل کے دیکھنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اُن تمام مقامات کو جو اُس مضمون سے متعلق ہوں دیکھیں ۔اگر ایک آیت بھی ایسی رہ جائے جو اس مضمون سے علاقہ رکھتی ہے لیکن آپ نے اُسے دیکھا نہیں تو آپ یہ سمجھیں کہ آپ نے ابھی اُس مضمون کا پورا پورا علم حاصل نہیں کیا ۔اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اُن تمام مقامات کو معلوم کریں جو مضمون زیر مطالعہ سے علاقہ رکھتے ہیں ۔
(الف) کلید الکلام کے استعما ل سے ،یعنی وہ تمام مقامات نکالو جن میں وہ لفظ آتا ہے اور پھر وہ تمام مقامات دیکھو جن میں اُس کے مترادف الفاظ آتے ہیں ۔مثلاً اگر آپ مضمون ’’دُعا‘‘ کا مطالعہ کرتےہیں تو وہ تمام آیات نکالیں جن میں لفظ دعا طرح طرح کی صورتوں میں آیا ہے ۔اور نیز ایسے مقامات بھی دیکھیں جن میں دُعا کے ہم معنی الفاظ مثل ’’چلانے‘‘ ’’پکارنے ‘‘ ’’مانگنے اور منت کرنے ‘‘ کے آئے ہیں ۔
(ب) کسی بائبل ٹکسٹ بُک کے استعمال سے اس قسم کی کتابیں بائبل کے مقامات کو لفظی رعایت سے نہیں بلکہ مضمون کے اعتبار سے ترتیب وار جمع کردیتی ہیں ۔اور کئی آیات ایسی ہیں جو دُعا کے مضمون سے علاقہ رکھتی ہیں حالانکہ اُن میں نہ تو لفظ دُعا ہی پایا جاتا ہے اور نہ اُس کا کوئی مترادف لفظ ہوتا ہے ۔اس قسم کی سب کتابوں میں اچھی کتاب وہ ہے جو انگلس صاحب کی ’’بائبل ٹکسٹ سائکلوپیڈیا ‘‘کہلاتی ہے۔
(ج) پھر کئی مقامات جو نہ کلید الکلام اور نہ ٹکسٹ بُک کے وسیلے سے معلوم ہوئے تھے آپ ہی آپ معلوم ہوتے جائیں گے جب ہم کتاب وار مطالعہ کریں گے یا جب ہم بائبل کو شروع سے پڑھیں گے تو ایسا کرنے سے ہمارا علم مضامین کے متعلق وسیع ہوتا جائے گا۔
(۳)۔ معنوی صحت زائل نہ ہونے پائے ۔جس آیت پر آپ غور کررہے ہیں اُس کے صحیح صحیح معنی دریافت کرنے چاہئیں ۔مطالعہ کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھو کہ مضمون زیر بحث کا تعلق عبارت ماقبل ومابعد کے ساتھ کیا ہے اور اُسی طریق سے جو کتاب وار مطالعہ کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے اس کے معنی دریافت کرو ۔مضمون وار مطالعہ اکثر اوقات ناقص صورت میں کیا جاتا ہے ۔مثلاً آیات اپنے باہمی تعلق سے علیحدہ کی جاتی ہیں اور آپس میں بہ سبب کسی دور کے تعلق کے مربوط کی جاتی ہیں حالانکہ اُن کے اصل مطلب اور تعلیم کی طرف بہت توجہ نہیں کی جاتی ۔اور اسے لوگ مضمون وار مطالعہ کرنا کہتے ہیں ۔ اس بے پروائی کے سبب سے مضمون وار مطالعہ کرنے کا طریقہ بہت بدنام ہوگیا ہے ۔لیکن جس طرح کسی اور طریقہ کی پیروی کرنے میں ہم صحت معنوی کے پابند ہوسکتے ہیں اُسی طرح ہم اس طریقہ میں بھی ہوسکتے ہیں اور جب ہم ایسے پابند ہوجائیں گے تو ہمارے مطالعہ کے نتائج نہایت فائدہ بخش اور تسلی بخش ہوں گے ۔نہ کہ گمراہ کرنے والے ۔لیکن اگر کام بے توجہی اور بے پروائی سے کیا جائے گا تو یقیناً نتائج گمراہ کرنے والے اور نقصان دہ ہوں گے۔
(۴)۔ مطالعہ کے نتائج کو ترتیب دے کر لکھ لینا چاہیے ۔جب کوئی شخص کسی بھاری مضمون کا مطالعہ کررہا ہے تو ضرور ہے کہ وہ بہت سا سرمایہ جمع کرے۔ اب اس کے جمع ہوجانے کے بعد لازم ہے کہ وہ مرتب بھی کیا جائے ۔جب آپ اُس کو غور کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ کو وہ تمام باتیں جو آپس میں علاقہ رکھتی ہیں معلوم ہوجائیں گی ۔آپ انہیں منطقی ترتیب کے مطابق سلسلہ وار مرتب کریں ۔ذیل میں مضمون وار مطالعہ کی نظیر ہدیہ ناظرین کی جاتی ہیں ۔اور وہ اس مضمون کے متعلق ہے کہ بائبل یسوع مسیح کی الوہیت کے متعلق کیا سکھاتی ہے ۔
یسوع مسیح کی الوہیت
۔۱اُس کے الہٰی اسماء
(۱)۔ لوقا۲۲: ۷۰’’ خُدا کابیٹا‘‘ اس نام سے مسیح چالیس دفعہ موسوم کیاگیا ہے ۔علاوہ اس کے بار بار اور نام بھی جو اس کے ہم معنی ہیں کلام میں آئے ہیں ۔مثلاً ’’اُس کا بیٹا‘‘ ۔’’میرا بیٹا‘‘۔ اور یوحنا۵: ۱۸ سے ظاہر ہے کہ یہ نام الہٰی نام ہے ۔
(۲)۔ یوحنا ۱: ۱۸۔’’اکلوتا بیٹا‘‘ یہ نام پانچ مرتبہ آیا ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ یہ کہنا کہ یسوع مسیح بھی صرف اور آدمیوں کی طرح خُداکابیٹا ہے درست نہیں ۔مقابلہ کرو (مرقس ۱۲: ۶) کے ساتھ ۔اس مقام میں مسیح خود اور نبیوں کو خُدا کے خادم کہہ کر اپنے تئیں ’’خُداکاپیارا بیٹا ‘‘ کہتا ہے ۔
(۳)۔ ’’اوّل اور آخر‘‘ ۔ مقابلہ کرو (یسعیاہ ۴۱: ۴ ، ۴۴: ۶) کے ساتھ ۔ان آخری مقاموں میں ’’اوّل وآخر‘‘ وہ ہے جو ’’یہواہ ‘‘ ’’لشکروں کا یہواہ ‘‘ ہے ۔
(۴)۔ مکاشفہ ۲۲: ۱۲، ۱۳، ۱۶۔ اوّل ’’الفا اور اُمیگا‘‘۔ دوم ’’شروع اور انجام ‘‘۔ (مکاشفہ ۱: ۸) میں خُداوند خُدا کو الفااور اُمیگا کہاہے۔
(۵)۔ اعمال ۳: ۱۴’’قدوس‘‘ (ہوسیع ۱۱: ۹) اور کئی دیگر مقامات میں خُداکو ’’قدوس ‘‘ کہا ہے ۔
(۶)۔ متی ۳: ۱؛ لوقا ۲: ۱۱؛ اعمال ۹: ۱۷؛ یوحنا ۲۰: ۲۸؛ عبرانیوں ۱: ۱۱۔
’’خُداوند ‘‘اس نام ’’خُداوند ‘‘ سے مسیح سینکڑوں مرتبہ موسوم کیا گیا ہے انسان کے متعلق یہ لفظ نئے عہدنامے میں ( ۹)مرتبہ آیا (دیکھو اعمال ۶: ۳؛ افسیوں ۴: ۱؛ یوحنا ۱۲: ۲۱)۔لیکن ایک مرتبہ بھی ایسے طور پر استعمال نہیں ہوا جس طرح کہ مسیح کے متعلق ہوا ہے ۔کیونکہ مسیح کے متعلق حرف تعریف کے ساتھ بھی آیا ہے ۔جس سے اُس کی خُداوندی کی تخصیص ہوجاتی ہے ۔جیسا کہ خُدا کے ساتھ آیا ہے ۔مقابلہ (اعمال ۴: ۲۶، کا اعمال ۴: ۳۳) کے ساتھ ۔نیز دیکھو (متی ۲۲: ۴۳۔۴۵؛ فلپیوں ۲: ۲۱؛ افسیوں ۴: ۵)۔اگر کوئی یہ شک کرتا ہے کہ رسول مسیح کو الہٰی شخص نہیں سمجھتے تھے اُس کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اُن مقامات کو جن میں یسوع کو خُداوند کہا ہے پے درپے پڑھتا جائے ۔
(۷)۔ اعمال ۱۰: ۳۶۔ ’’سب کا خُداوند ‘‘۔
(۸)۔۱۔کرنتھیوں ۲: ۸۔’’جلال کا خُداوند ‘‘۔(زبور ۲۴: ۸۔۱۰) میں ’’لشکروں کے خُداوند ‘‘ کو جلال کا بادشاہ کہاہے ۔
(۹)۔ یسعیاہ ۹: ۶۔
(الف)’’عجیب ‘‘ مقابلہ کرو (قضاۃ ۱۳: ۱۸)۔
(ب)’’خُدائے قادر‘‘۔
(ج) ’’ابدیت کا باپ ‘‘ دیکھو نئے ترجمہ کا حاشیہ ۔
(۱۰)۔ عبرانیوں ۱: ۸’’خُدا‘‘(یوحنا ۲۰: ۲۸) میں تو ما یسوع کو ’’میرا خُدا‘‘کہتا ہے اور یسوع اُسے بڑی نرمی سے ملامت کرتا ہے کہ اُس نے پہلے اس طرح کیوں نہ مانا۔
(۱۱)۔متی ۱: ۲۳ عمانوایل ۔خُدا ہمارے ساتھ۔
(۱۲)۔ طیطس ۲: ۱۳ ’’ہمارا بزرگ خُدا‘‘۔
(۱۳)۔ رومیوں ۹: ۵ ’’خُدائے محمود‘‘۔
دعویٰ۔سولہ (۱۶) ایسے اسماء سے یسوع مسیح بائبل میں موسوم کیا گیا ہے جن سے اُس کی الوہیت صاف صاف طور پر عیاں ہے ۔بعض اسماء بار بار استعمال ہوئے ہیں ۔جن مقاموں میں یہ نام آئے ہیں اُن کا شمار سینکڑوں تک پہنچتا ہے ۔
۔۲ یسوع مسیح کی الہٰی صفات
(۱)وہ قادر مطلق ہے ۔
(الف) لوقا ۴: ۳۹۔یسوع بیماریوں پر اخیتار رکھتا ہے اور وہ اُس کے حکم کے تابع ہیں ۔
(ب) لوقا ۷: ۱۴۔۱۵، ۸: ۵۴۔۵۵؛ یوحنا ۵: ۲۵۔ خُداکا بیٹا موت پر بھی اختیار رکھتا ہے ۔وہ بھی اُس کے حکم کے تابع ہے ۔
(ج) متی ۸: ۲۶۔۲۷۔ یسوع جو مسیح ہے اور جو خُداکا بیٹا ہے بدروحوں پر بھی اختیار رکھتا ہے وہ بھی اُس کے حکم کے تابع ہیں ۔
(ر) افسیوں ۱: ۲۰۔۲۳۔ یسوع مسیح ہر طرح کی حکومت اور اختیار اور قدرت اور سیاست اور ہر ایک نام سے بہت بلند ہے جو نہ صرف اس جہان میں بلکہ آنے والے جہان میں بھی لیاجائے گا۔اور سب کچھ اُس کے زیر قدم ہے ۔فرشتے بھی اُس کے تابع ہیں ۔
(س) عبرانیوں ۱: ۳۔ خُدا کا بیٹا سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے ۔
دعویٰ۔ یسوع مسیح خُدا کا بیٹا قادر مطلق ہے ۔
(۲)۔ یسوع مسیح ہمہ دان ہے۔
(الف)یوحنا ۴: ۱۶۔۱۹۔ یسوع مسیح آدمیوں کے حالات سے واقف ہے ۔وہ اُن کے پوشیدہ حالات سے بھی واقف ہے ۔
(ب) مرقس ۲: ۸؛ لوقا ۵: ۲۲؛ یوحنا ۲: ۲۴۔۲۵؛ اعمال ۱: ۲۴۔یسوع مسیح بنی آدم کے پوشیدہ خیالوں سے واقف ہے ۔وہ سب آدمیوں کے ظاہر وباطن کوجانتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ آدمی میں کیا ہے ۔مقابلہ کرو(۲۔ تواریخ ۶: ۳۰؛ یرمیاہ ۱۷: ۹۔۱۰) کے ساتھ ان مقاموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی آدم کے دلوں کو فقط خُدا ہی جانتا ہے ۔
(ج) یوحنا ۶: ۶۴۔ یسوع شروع ہی سے جانتا تھا کہ یہودا اُسے پکڑوائے گا۔ وہ نہ صرف لوگوں کے موجودہ خیالات سے واقف تھا بلکہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ آئندہ کیا کریں گے ۔
(د) یوحنا۱: ۴۸۔ یسوع دورہی سے جان لیتا تھا کہ لوگ کیا کررہے ہیں ۔
(ر) لوقا ۲۲: ۱۰، ۱۲؛ یوحنا ۱۳: ۱؛ لوقا۵: ۴۔۶۔ یسوع نہ صرف یہ جانتا تھا کہ خُدا کے کام آئندہ کیا ہوں گے بلکہ وہ یہ بھی بالتفصیل جانتا کہ ہر ایک آدمی آئندہ کیا کرئے گا ۔وہ سمندرکی مچھلیوں کی حرکات تک سے واقف تھا۔(یہ مقامات اگر سب نہیں تو ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں کہ اگر صرف اُنہیں پر غور کیا جائے تو شاید یہ خیال گزرے گا کہ جو باتیں اُن میں درج ہیں وہ خُدا نے یسوع مسیح پر ظاہر کی تھیں)۔
(س) یوحنا ۲۱: ۱۷، ۱۶: ۳۰؛ کلسیوں ۲: ۳۔ یسو ع سب کچھ جانتا تھا ۔اُس میں حکمت اور معرفت کے سب خزانے چھپے ہوئے تھے۔
دعویٰ۔ یسوع مسیح ہمہ دان ہے ۔
جب ہم مسیح کی انسانیت پر غور کریں گے تب ہم کو معلوم ہوجائے گا کہ اُس نے اپنی رضا مندی سے اپنی موروثی الہٰی ہمہ دانی پر ایک پردہ سا ڈال دیا تھا (مرقس ۱۱: ۱۲۔۱۴؛ فلپیوں ۲: ۷)۔
(۳)یسوع مسیح حاضر وناظر ہے ۔
(الف) متی ۱۸: ۲۰۔ یسوع مسیح ہر جگہ جہاں دو یا تین اُس کے نام پر فراہم ہوتے ہیں حاضر ہوتا ہے ۔
(ب) متی ۲۸: ۲۰۔ یسوع مسیح ہر ایک شخص کے ساتھ جو دُنیا میں جاکر شاگرد بناتا ہے حاضر ہوتا ہے۔
(ج) یوحنا ۳: ۱۳۔ ابن آدم جس وقت دُنیا میں تھا عین اُسی وقت آسمان میں بھی تھا ۔(تنبیہ۔ یہ مقام مشتبہ ہے ۔دیکھو نیا ترجمہ)۔
(د) یوحنا ۱۴: ۲۰؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۳: ۵۔ یسوع مسیح ہر ایماندار میں موجود ہے ۔
(ر) افسیوں ۱: ۲۳۔ یسوع مسیح سب میں سب کچھ ہے۔
دعویٰ ۔یسوع مسیح حاضر وناظر ہے ۔
(۴)اُس کی ازلیت۔(یوحنا ۱: ۱؛ میکاہ ۵: ۲؛ کلسیوں ۱: ۱۷؛ یسعیاہ ۹: ۶؛ یوحنا ۱۷: ۵، ۶: ۶۲، ۸: ۵۸؛ ۱۔یوحنا ۱: ۱، ۲۷؛ عبرانیوں ۱۳: ۸)۔
دعویٰ۔ خُدا کا بیٹا ازل سے ہے ۔
(۵)اس کی بے تبدیلی ۔(عبرانیوں ۱۳: ۸، ۱: ۱۲) یسوع مسیح بے تبدیل ہے ۔وہ نہ فقط ہمیشہ موجود ہے بلکہ ہمیشہ یکساں موجود ہے ۔
(۶)فلپیوں ۲: ۶۔ یسوع مسیح اپنے مجسم ہونے سے پہلے خُدا کی صورت میں تھا۔(یونانی لفظ ’’مارفی‘‘ جس کا ترجمہ صورت کیا گیا ہے ۔اُس صورت سے مراد ہے جو نظر کے سامنے آتی ہے ۔یعنی بیرونی شکل)۔
(۷) کلیسوں ۲: ۹۔ مسیح میں الوہیت کا سارا کمال مجسم ہے ۔
دعویٰ۔ پانچ یا پانچ سے زیادہ خاص صفات یسوع مسیح سے منسوب کی گئی ہیں اور بیان کیا گیا ہے کہ الوہیت کا سارا کمال اُس میں مجسم ہے ۔
۔۳ یسوع مسیح کے الہٰی کام اور عہدے
(۱)خلقت اُس کاکام ہے ۔ (عبرانیوں ۱: ۱۰؛یوحنا ۱: ۳؛ کلسیوں ۱: ۱۶)۔خُدا کا بیٹا ازلی کلمہ خُداوند عالم کائنات کا پیدا کرنے والا ہے ۔
(۲) خلقت کو سنبھالنا اُس کا کام ہے ۔(عبرانیوں ۱: ۳) خُدا کابیٹا سب چیزوں کا سنبھالنے والا ہے ۔
(۳)گُنا ہ کو معاف کرنا اُس کاکام ہے ۔(مرقس ۲: ۵۔۱۰؛ لوقا ۷: ۴۸۔۵۰) یسوع مسیح زمین پر گناہ معاف کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ (اُس کی تعلیم سے ظاہر ہے کہ جو گناہ کئے جاتے ہیں وہ اُس کے خلاف کئے جاتے ہیں(لوقا۷: ۴۰۔۴۷)سے ظاہر ہے کہ شمعون فریسی بھی اور وہ عورت بھی جو کہ عطر لائی تھی دونوں اس کے قرض دار تھے۔لیکن (زبور ۵۱: ۴) سے ظاہر ہے کہ گناہ خُدا اور فقط خُدا کے برخلاف ہوا کرتا ہے )۔
(۴) مُردوں کو زندہ کرنا اُس کاکام ہے ۔(یوحنا ۶: ۳۹۔۴۴، ۵: ۲۸۔۲۹) یسوع مسیح ہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے ۔
سوال :۔کیا ایلیا اور الیشع نے مُردوں کو زندہ نہیں کیا۔
جواب :۔ نہیں ۔خُدا نے اُن کی دُعا کے جواب میں مُردوں کو زندہ کیا لیکن مسیح اپنے کلام سے مُردوں کو زندہ کرے گا۔اپنی پستی کے ایام میں وہ اُنہیں دعا کے وسیلے زندہ کیا کرتا تھا (یوحنا ۱۱: ۴۱)۔
(۵) جسموں کو بدل دینا اُس کاکام ہے (فلپیوں ۳: ۲۱)۔یسوع مسیح ہمارے بے حرمت جسم اپنے جلالی بدن کی مانند بنائے گا۔
(۶) انصاف کرنا اُس کاکام ہے (۲۔ تیمتھیس ۴: ۱)۔مسیح یسوع زندوں اور مردوں کا انصاف کرےگا۔(یسوع مسیح نے خود اپنے اس الہٰی کام پر بہت زور دیا ۔یوحنا۵: ۲۲۔۲۳)۔
(۷) ہمیشہ کی زندگی دینا اُس کاکام ہے (یوحنا ۱۰: ۲۸، ۱۷: ۲)۔یسوع مسیح ہمیشہ کی زندگی بخشنے والا ہے ۔
دعویٰ۔ سات خاص الہٰی کام یسوع مسیح سے منسوب کئے گئے ہیں ۔
۴۔ وہ باتیں جو پُرانے عہدنامہ میں یہوواہ خُدا کی نسبت کہی گئی ہیں نئے عہدنامہ میں وہی یسوع مسیح سے منسوب کی گئی ہیں ۔
(۱) زبور ۱۰۲: ۲۴۔۲۷ مقابلہ کرو عبرانیوں ۱: ۱۰۔۱۲ کے ساتھ ۔
(۲) یسعیاہ ۴۰: ۳۔۴ مقابلہ کرو متی ۳: ۳ اور لوقا ۱: ۶۸۔۶۹، ۷۶ کے ساتھ ۔
(۳)یرمیاہ ۱۱: ۲۰، ۱۷: ۱۰ مقابلہ کرو مکاشفہ ۱۱: ۲۳ کے ساتھ ۔
(۴) یسعیاہ ۶۰: ۱۶؛ زکریاہ ۲: ۵ مقابلہ لوقا ۲: ۳۲ کے ساتھ ۔
(۵) یسعیاہ ۶: ۱، ۳: ۱۰ مقابلہ یوحنا ۱۲: ۳۷۔۴۱ کے ساتھ ۔
(۶) یسعیاہ ۸: ۱۳۔۱۴ مقابلہ ۱۔پطرس ۲: ۷۔۸ کے ساتھ۔
(۷) یسعیاہ ۸: ۱۲۔۳۱؛ ۱۔پطرس ۳: ۱۴۔۱۵ کے ساتھ ۔
(۸) گنتی ۲۱: ۶۔۷ مقابلہ ۱۔کرنتھیوں ۱۰: ۹ کے ساتھ ۔
(۹) زبور ۲۳: ۱ ؛یسعیاہ ۴۰: ۱۰۔۱۱ مقابلہ کرو یوحنا ۱۰: ۱۱ کے ساتھ ۔
(۱۰) حزقی ایل ۳۴: ۱۱، ۱۲: ۱۶مقابلہ لوقا ۱۹: ۱۰ کے ساتھ ۔
(۱۱)پرانے عہد نامہ میں خُداوند سے ہمیشہ خُدا مرادہے بشرطیکہ قرینے سے کوئی اور شخص مراد نہ ہو۔اسی طرح نئے عہد نامہ میں خُداوند سے یسوع مسیح مراد ہے بشرطیکہ قرینہ (طور طریقہ) اور معنی کسی اور شخص پر اس لفظ کو چسپاں نہ کریں۔
دعویٰ۔ بہت سی باتیں جو پُرانے عہدنامہ میں یہوواہ خُدا کی نسبت کہی گئی ہیں وہی نئے عہد نامہ میں یسوع مسیح سے منسوب کی گئی ہیں یعنی نئے عہد نامہ کے تصور اور تعلیم میں یسوع مسیح وہی جگہ رکھتا ہے جو پُرانے عہد نامہ کے خیال اور تعلیم میں یہوواہ رکھتا ہے ۔
۵۔ پھر وہ طریقہ بھی غور کے لائق ہے جس میں خُدا باپ اور یسوع مسیح بیٹے کے نام اکٹھے آتے ہیں ۔
۲۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۴؛ متی ۲۸: ۱۹؛ ۱۔تھسلنیکیوں ۳: ۱۱؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱۲: ۴۔۶؛ ططس ۳: ۴۔۵ ۔مقابلہ کریں ططس ۲: ۱۳ کے ساتھ۔
رومیوں ۱: ۷۔ اسی طرح کی اور کئی نظیریں (دیکھو پولُس کے سب خطوط)۔
یعقوب ۱: ۱؛یوحنا ۱۴: ۲۳۔’’ہم ‘‘ یعنی خُدا باپ اور میں ۔۲۔پطرس ۱: ۱؛ کلسیوں ۲: ۲؛ یوحنا ۷: ۳، ۱۴: ۱ مقابلہ یرمیاہ ۱۷: ۵۔۷ کے ساتھ ۔
مکاشفہ ۷: ۱۰، ۵: ۱۳۔ مقابلہ یوحنا ۵: ۲۳ کے ساتھ ۔
دعویٰ۔ یسوع مسیح کا نام خُدا باپ کے نام کے ساتھ اس طرح بے شمار مقامات میں آتا ہے کہ اُس طرح کسی محدود مخلوق کا نام خُدا کے نام کے ساتھ مربوط کرنا ناممکن ہے ۔
۶۔وہ عبادت جو خُدا کا حق ہے یسوع مسیح کو دی جاتی ہے ۔
(۱) متی ۲۸: ۹؛ لوقا ۲۴: ۵۲؛ متی ۱۴: ۳۳ مقابلہ کریں اعمال ۱۰: ۲۵۔۲۶ ؛مکاشفہ ۲۲: ۸۔۹؛ متی ۴: ۹۔۱۰ کے ساتھ ۔
اوریسوع مسیح نے بے تامل اُس عبادت کو قبول کیا حالانکہ تمام نیک آدمی اور فرشتے اس قسم کی عبادت کے قبول کرنے سے کوسوں بھاگتے ہیں۔
سوال :۔ کیاوہی لفظ جس کا ترجمہ ان مقاموں میں عبادت کیا گیا ہے ۔ذی مرتبہ آدمیوں کی تعظیم کے لیے نہیں آیا ہے ؟ہاں آیا ہے ۔لیکن ایسی صورت میں یہوواہ کے پرستاروں نے کبھی استعمال نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ پطرس اور فرشتہ کے خوف کھا کر پیچھے ہٹ جانے سے ظاہر ہوتا ہے جب اس قسم کا سجدہ اُن کو کیا گیا۔
(۲) ۱۔کرنتھیوں ۱: ۲؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۲: ۸۔۹؛ اعمال ۷: ۵۹۔ مسیح کے حضور میں دعا کی جاسکتی ہے ۔
(۳) زبور ۴۵: ۱۱؛ یوحنا ۵: ۲۳ مقابلہ مکاشفہ ۵: ۸ ۔۹، ۱۲، ۱۳ کے ساتھ خُدا باپ کی یہ مرضی ہے کہ جو تعظیم اور عزت اُس کو دی جاتی ہے وہی بیٹے کو بھی دی جائے ۔
(۴) عبرانیوں ۱: ۶؛ فلپیوں ۲: ۱۰۔۱۱(مقابلہ یسعیاہ ۴۵: ۲۱، ۲۳ کے ساتھ) خُدا کے بیٹے یسوع کی عبادت اسی طرح ہوگی جس طرح خُدا کی عبادت فرشتے اور بنی آدم کرتے ہیں ۔
دعویٰ۔ یسوع مسیح ایک ایسا شخص ہے جس کی عبادت فرشتوں اور آدمیوں سے ایسے ہی طور پر ہونی چاہیے جیسی کہ خُدا باپ کی ہوتی ہے ۔
عام دعویٰ ۔ بے شمار الہٰی اسماء کے وسیلے سے اور خاص الہٰی صفات کے منسوب کرنے سے اور کئی الہٰی کاموں کے ذریعے سے ۔بہت سی ایسی باتوں کے وسیلے سے جو پُرانے عہدنامہ میں یہوواہ پر عائد ہوتی لیکن نئے عہدنامہ میں یسوع مسیح سے منسوب کی جاتی ہیں۔ یسوع مسیح کے نام کو ایسے طور پر خُداکےنام کے ساتھ ربط دینے سے کہ اُس طرح کسی محدود مخلوق کے نام کو خُدا کے نام کے ساتھ مربوط نہیں کرسکتے اور ایسی تعلیمات سے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی عبادت خُدا باپ کی طرح ہونی چاہیے ۔غرض یہ کہ ان تمام بے خطا صورتوں میں خُدا نے اپنے کلام میں صاف صاف طور پر اس بات کو ظاہر فرمایا ہے کہ یسوع مسیح ایک الہٰی شخص ہے وہ خُدا ہے ۔
اب مضمون وار مطالعہ کرنے کے طریقہ کے متعلق صرف ایک ہی بات بتلانی باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مضمون وار مطالعہ کرنے کے لیے مضامین کتاب وار مطالعہ کرتے ہوئے جمع کرلینے چاہئیں ۔
چوتھا باب
بائبل کے اشخاص کی سوانح عمریوں کا مطالعہ
تیسرا طریقہ مطالعہ کا یہ ہے کہ جن اشخاص کا ذکر بائبل میں پایا جاتا ہے اُن کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا جائے۔ اس طریق تلاوت کی تعریف پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائبل کے مختلف اشخاص کو لے کر اُن کی زندگی اور کام اور سیرت پر غور کیا جائے ۔ درحقیقت یہ طریقہ مضمون وار مطالعہ کر نے کے طریقہ کی ایک خاص صورت ہے۔ اور یہ طریقہ نہایت دلچسپ اور فائدہ بخش بنایا جاسکتا ہے ۔ہاں یہ طریقہ خاص طور پر خادم الدینوں کے لیے مفید ہے کیونکہ وعظ بنانے کے لیے نہایت عمدہ ہے ۔لیکن عام طور پر سب مسیحیوں کے لیے فائدہ مندہے۔ ذیل کی ہدائتیں اُن کے لیے جو اس طریقہ میں بہت تجربہ نہیں رکھتے مفید ثابت ہوں گی ۔
(۱) وہ تمام مقامات جن میں اُس شخص کا جو زیر مطالعہ ہے ذکر آتا ہے جمع کرو ۔اور یہ کام سٹارنگ صاحب کی کنکارڈنس میں شخص زیر مطالعہ کے نام کی طرف توجہ کرنے سے باآسانی انجام دیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ وہاں اُس کے نام کے نیچے وہ تمام مقامات دئے ہوئے ہیں جن میں اُس شخص کا ذکر پایا جاتا ہے ۔
(۲)اس شخص کی سیرت کی تشریح کرو۔اس بات کی انجام دہی کے لیے لازم ہے کہ وہ مقامات جن میں اُس کا ذکر پایا جاتا ہے باربار پڑھے جائیں۔ جب یہ کام کیا جائے اُس وقت پنسل ہاتھ میں ہونی چاہیے تاکہ جو خیال اُس کی خاصیتوں کے متعلق پڑھتے وقت دل میں پیدا ہووہ اُسی وقت لکھ لیا جائے ۔
(۳)اُس کی قوت اور کامیابی کے عنصروں کو لکھ لو۔
(۴) اُسکی کمزوری اور ناکامی کے اسباب لکھ لو۔
(۵)جن مشکلات پر وہ غالب آیا اُنہیں لکھ لو۔
(۶)اُس کی کامیابی جن جن باتوں کی مدد سے پیدا ہوئی وہ لکھ لو۔
(۷)جن اچھی باتوں کو اُس نے پامال کیا وہ لکھ لو۔
(۸) جن موقعوں کو اُس نے کھودیا وہ لکھ لو۔
(۹)جن موقعوں کو اُس نے استعمال کیا وہ لکھ لو۔
(۱۰) جو غلطیاں اُس سے سرزد ہوئیں وہ لکھ لو۔
(۱۱)جن خطروں سے وہ بچا وہ لکھ لو۔
(۱۲) پھر اُس آدمی کی زندگی کی ایک چھوٹی سی تاریخ لکھو اور اُسے ایسا زندہ اور حقیقی بناؤ جیسا کہ بنا سکتے ہو۔ہاں اُس کی ایسی تصویر کھینچو کہ اُس سے یہ معلوم ہو کہ وہ ایک حقیقی اور زندہ آدمی ہے ۔مختلف واقعات کی جگہ اور تعلقات پر غور کرو۔مثلاً اس طرح کہ پولُس جب ایتھنز میں تھا تو کیا کچھ سرزد ہوا اور جب کرنتھس اور فلپی میں تھا تو کیا ہوا۔مختلف واقعات وقت کے اعتبار سے جو تعلق آپس میں رکھتے ہیں اُس پر غور کرنا لازمی امر ہے ۔ کیونکہ تھوڑے لوگ ہیں جو اعمال کی کتاب پڑھتے ہوئے وقت کی زودرفتاری پر نگاہ کرتے ہیں ۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو واقعات آپس میں سالوں کا فاصلہ رکھتے ہیں ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا پے درپے واقع ہوئے ہیں ۔اسی کے ضمن میں اس بات پر بھی غور کرو کہ اُس وقت اُس آدمی کی کیا عمر تھی جب وہ واقعات سرزد ہوئے جو مقام زیر مطالعہ میں درج ہیں ۔
(۱۳) زاں بعد اُن نصیحتوں کو مختصر طور پر قلمبند کرو جو ہمیں اُس آدمی کی زندگی سے سیکھنی چاہئیں ۔
(۱۴) پھر شخص زیر مطالعہ کے متعلق ان باتوں پر بھی غور کرو ۔کہ اُس کا تعلق یسوع کے ساتھ کیا ہے ۔کیا وہ اُس کا پیش نشان ہے (جیسے کہ یوسف اور داؤد اور سلیمان وغیرہ تھے )۔یا کیا وہ یسوع کا پیش رو ہے ۔یا اُس پر ایمان رکھتا ہے یا اُس کا دشمن ہے یا اُس کا غلام ہے یا اُس کا بھائی ہے (مثل یعقوب اور یہوداہ کے )یا اُس کا دوست ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔
بہتر ہے کہ اسی قسم کا مطالعہ ایسے شخص سے شروع کیا جائے جس کا بیان بائبل میں طویل صورت میں نہیں پایا جاتا مثلاً حنوک یا استفنس ۔ اس میں شک نہیں کہ جو ہدائیتں اوپر رقم کی گئی ہیں اُن میں سے کئی بعض اشخاص کی سوانح عمریوں میں جگہ نہیں پائیں گی۔
وہ کتابیں جن سے اس قسم کےمطالعہ میں کئی مفید اشارے مل سکتے ہیں یہ ہیں ۔ڈاکٹر سٹاکر کی کتابیں مثلاً لائف آف کراسٹ (حیات المسیح) لائف آف پال (پولُس کے حالات) اور نمونہ مسیح ایف ۔بی مائر صاحب کی کتاب ’’ایلیاہ ‘‘ اور دیگر بزرگان عہد عتیق ۔موڈی صاحب کی کتاب ’’بائبل کیرکٹرز‘‘۔
پانچواں باب
مسیح کی علامتوں اور پیش نشانیوں کا مطالعہ
چوتھا طریقہ مطالعہ کا وہ ہے جس کے مطابق اُن علامتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مسیح کی پیش نشانیوں تھیں ۔ اس کی کئی نظیریں خود بائبل میں موجود ہیں ۔مثلاً عبرانیوں کے خط میں یہ طریقہ نہایت دلچسپ اور فائدہ بخش ہے ۔اس کے وسیلے سے ہمیں کئی بیش قیمت صداقتیں بائبل کے اُس حصہ میں دبی ہوئی نظر آنے لگ جاتی ہیں جو ہمیں پہلے نہایت خشک اور بے تاثیر سامعلوم ہوتا تھا۔اس بات کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ بعض لوگ اس طریقہ کو بہت بُری طرح استعمال کرتے ہیں ۔لیکن یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم اسے بالکل نظر انداز کردیں خصوصاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نہ صرف پولُس بلکہ خود مسیح اس طریق تلاوت کو بہت پسند کیا کرتا تھا ۔مفصلہ ذیل باتوں کو بمنزلہ اُن ہدایات کے سمجھنا چاہیے جن کے مطابق ہمیں اس طرز مطالعہ کو انجام دینا چاہیے ۔
(۱)۔ اوّل اس بات کو تحقیق کرو کہ جسے تم علامت یا پیش نشانی سمجھتے ہو اس کی سند بائبل میں بھی پائی جاتی ہے ۔کیونکہ اگر کوئی شخص اس معاملے میں اپنے واہمہ کو پوری پوری آزادی دے دے گا تو وہ ہر جگہ پیش نشان پیدا کرے گا۔ایسی جگہوں میں بھی علامتیں دیکھے گا ۔جہاں نہ انسانی اور نہ الہٰی مصنف نے علامتی معنی رکھے ہیں ۔کبھی کسی بات کو علامت نہ کہو جب تک کہ تم بائبل کے کسی صاف مقام کا حوالہ نہ دے سکو جہاں کہ وہ علامتی صداقت کھُلے لفظوں میں لکھائی گئی ہے ۔
(۲)۔ شروع میں زیادہ آسان اور زیادہ واضح علامتوں کا مطالعہ کرو ۔مثلاً فسح (مقابلہ کرو خروج ۱۲ کا پہلا کرنتھیوں ۵: ۷ کے ساتھ )
(۳) ۔ خیالی باتوں اورمبالغہ سے اپنے آپ کو بچاؤ ۔یادرکھنا چاہیے کہ قوت متخیلہ (سوچ بچار کی قوت) ہر ایک آدمی کو جس میں خیال دوڑانے کی طاقت اور علامتی معنوں کو جلد دیکھنے کی لیاقت پائی جاتی ہے لے اُڑے گی اگر وہ قابو میں نہیں رکھی جائے گی علامتی مطالب کو پہچاننے اور سمجھنے کی لیاقت جو ہم پائی جاتی ہے خبرداری اور احتیاط کے سبب سے نہ صرف زیادہ تیز ہوجائے گی بلکہ عمدہ طور پر تربیت بھی کی جائے گی ۔
(۴)۔ جب کسی مقام کا جس میں کچھ علامتی اشارہ پایا جاتا ہے مطالعہ کرنے لگو تو نوشتوں کے تمام حوالوں کو جو اُس علامت کے متعلق مل سکتے ہیں جمع کرو ۔اس قسم کے حوالوں کا ایک عمدہ مجموعہ اس کتاب میں ملتا ہے جو ’’دی ٹریزری آف سکرپچر نالج‘‘(The Treasury of Scripture Knowledge)کہلاتی ہے ۔
(۵)۔ بڑی خبرداری سے لوگوں اور جگہوں کے ناموں کے معنی دریافت کرو ۔بائبل کے ناموں میں اکثر بڑے گہرے اور دور تک پہنچنے والے مطالب نہاں (پوشیدہ ) ہوتے ہیں ۔مثلاً صبرون جس کا مطلب ’’آپس میں ملانا ‘‘ ’’اتفاق کرنا‘‘ یا ’’شراکت رکھنا ‘‘ ہے بڑے گہرے معنی دیتا ہے جب اُسے ہم اُس کی تاریخ کے ساتھ ملاکر دیکھتے ہیں ۔اسی طرح پناہ کے تمام شہروں کے ناموں کا حال ہے ۔بلکہ نوشتوں کے بہت سے ناموں کا یہی حال ہے ۔کیا یہ کوئی اتفاقی بات تھی کہ وہ جگہ جہاں وہ شخص پیدا ہوا جو زندگی کی روٹی تھا بیت لحم یعنی ’’روٹی کا گھر‘‘ کہلائے؟ سی ۔ایچ ۔ایم کے نوٹ پیدائش اور خروج اور احبار اور گنتی اور استثنا پر اُن لوگوں کے لیے علامتوں کا مطالعہ کرنے میں کچھ تجربہ رکھتے ہیں نہایت معنی خیز ہیں ۔
چھٹا باب
بائبل کی کتابوں کا اُس ترتیب کے مطابق جس میں کہ وہ بائبل میں پائی جاتی
ہیں مطالعہ کرنا ۔اور ترتیب وقت کے مطابق اُن کوپڑھنا۔
بائبل کے مطالعہ کا پانچواں طریقہ وہ پُرانا طریقہ ہے جس میں بائبل کی کتابیں شروع سے آخر تک یعنی پیدائش سے لے کر مکاشفہ تک ترتیب وار پڑھی جاتی ہیں ۔آج کل لوگ اس طریقہ کو اکثر ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔ لیکن اس میں بعض ایسے فوائد مضمر ہیں جو کسی اورطریقہ میں نہیں پائے جاتے ۔بعض وقت یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تم بائبل کے کتب خانہ میں جس کے اندر چھیاسٹھ کتابیں موجود ہیں پہلی سے لے کر آخر تک بہ ترتیب پڑھ سکتے ہوتو تم اپنی لائبریری کے سب سے اونچے خانہ سے شروع کرکے ساری کتابیں اول سے آخر تک پڑھنا شروع کرسکتے ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کافی ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا کتب خانہ ہے کہ تمہارے لیے اس سے کُلی طور پر واقف ہونا ضروری امر ہے تاکہ تم اُس میں کی ہر ایک کتاب کو جداگانہ طور پر سمجھ سکو ۔ اور اگر وہ کتب خانہ اُسی طرح مرتب کیاگیا ہے جس طرح کہ بائبل مرتب کی گئی ہے تو تمہارے لیے اپنے کل کتب خانہ میں سے گزرنے کا یہی طریقہ اورسب طریقوں سے اچھا ہے ۔بائبل کو شروع سے لے کر آخر تک مقرری اوراد (ورد کی جمع ،وظائف) کی صورت میں پڑھنے کے یہ فائدے ہیں ۔
اوّل :۔یہی ایک طریقہ ہے جس سے کتاب کی کل صورت کا پتہ لگ سکتا ہے ۔جس قدر ہم بائبل کی کلیہ صورت سے واقف ہوتے ہیں اُسی قدر زیادہ ہم اُس کی جزوی کتابوں کو سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔
دوم:۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے آپ ساری کتاب پر سے عبور کرسکتے ہیں اور یوں خُدا کے کل مکاشفہ کی وسعت سے واقفیت پیدا کرسکتے ہیں ۔پیشتر اس کے کہ کوئی شخص کتاب وار یا مضمون وار مطالعہ کرکے تمام بائبل پر سے عبور کرے کئی سال صرف ہوں گے ۔خُدا کے کلام یا ہر حصہ بیش قیمت ہے ۔اور صداقت کے جواہرات کئی ایسی جگہوں میں چھپے ہوئے ملتے ہیں جن سے اُن کی یافت (آمدنی،کمائی) کی ذرا توقع نہ تھی ۔مثلاً (۱۔تواریخ ۴: ۱۰)ہم جب مقرری وردوں کی صورت میں بائبل کو پڑھتے ہیں تو بارہا اس قسم کے جواہرات ہمارے ہاتھ لگ جاتے ہیں ۔
سوم :۔یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم بائبل کی یکتائی اور وحدت کو سمجھنے لگتے ہیں اور اسی سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ ایک کتاب کا دوسری سے کیا رشتہ ہے ۔
چہارم:۔ یہی طریقہ ہے جو ہمیں ایک ہی طرف جُھکنے اور ایک ہی خیال میں محو ہوجانے سے بچاسکتا ہے ۔بائبل ایسی کتاب ہے جس کے کئی پہلو ہیں ۔وہ کالوینسٹک بھی ہے اور آرمینین بھی ہے (یعنی اُس میں برگزیدگی کا مسئلہ بھی پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی انسان کی ذمہ داری پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے ) اسی طرح وہ تثلیثی بھی ہے اور مواحد بھی ہے ۔وہ خُداوند یسوع مسیح کی الوہیت بھی صاف صاف طور پر سکھاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کی انسانیت پر بھی زور دیتی ہے۔ وہ ایمان کی عظمت کا بیان کرتی ہے لیکن ساتھ ہی نیک کام بھی طلب کرتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگر ہم کتاب وار یا مضمون وار مطالعہ کرنے کی اثنا میں کسی خاص صداقت کی طرف حد سے زیادہ جُھکے ہوئے ہیں ۔اور ہمارا ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے تو ہمارا ورد وار مطالعہ کرنا بہت جلد ہمیں کسی ایسی دیگر صداقت پر لے جائے گا جو اُس کے بالمقابل واقع ہے۔اور یوں ہمیں اصل جگہ پر لا کر کھڑا کردے گااور تجاوز کرنے سے بچائے گا۔بعض اشخاص فقط ایک صداقت کے خیال میں حدسے زیادہ محوہوجانے کے سبب سے پاگل ہوجاتے ہیں ساری بائبل کو بڑی خبرداری اور توجہ سے پڑھنا اس قسم کے رجحان کو حداعتدال (مناسب ،نہ کم نہ زیادہ) سے باہر نہیں جانے دیتا۔میرے خیال میں تین طریقوں کو ہر روز جاری رکھنا بہت مفید ثابت ہوگا۔
اوّل:۔کسی خاص کتاب کے مطالعہ کو جاری رکھنا چاہیے۔ دوم :۔ خاص مضامین کا مطالعہ جاری رکھنا چاہیے (شاید وہ مضامین اچھے ہوں جو کتاب وار مطالعہ کرتے ہوئے نظر سے گزریں)۔سوم:۔ بائبل کو شروع سے لے کر آخر تک مقررہ وردوں کی صورت میں پڑھتے جانا چاہیے ۔مطالعہ کے ہر ایک طریقہ کو وردوار پڑھنے والے طریقہ سے مکمل کرنا چاہیے ۔کئی سالوں کا عرصہ گزرا کہ مَیں نے یہ ارادہ کیا کہ مَیں بائبل کے پُرانے ترجمہ کو ہرسال شروع سے لے کر آخرتک پڑھا کروں گا۔اور اسی طرح نئے ترجمہ کو بھی ہر سال اوّل سے لے کر آخر تک پڑھا کروں گا اور اسی طرح نئے عہدنامہ کو یونانی میں ہر سال شروع سے لےکر آخر تک ختم کیا کروں گا۔یہ طریقہ بہت مفید ثابت ہوا اور میں کبھی اس طریقہ کو اپنی خوشی سے نہیں چھوڑوں گا ۔
چھٹا طریقہ:۔ تلاوت کلام کا وہ ہے جو پانچویں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے ۔اور اس میں بھی کئی فائدے پائے جاتے ہیں جو خود بخود ظاہر ہوجائیں گے جب ہم یہ بتائیں گے کہ وہ طریقہ کیا ہے ۔وہ یہ ہے کہ بائبل کے مختلف حصے ترتیب وقت کے مطابق پڑھے جائیں اور طریقہ کے مطابق زبور اپنے تواریخی مواقع کے مطابق پڑھے جاتے ہیں اور اسی طرح نبیوں کی کتابیں اور رسولوں کے خطوط بھی وقت کے اعتبار سے مطالعہ کئے جاتے ہیں۔ تمام بائبل بڑی خوبصورتی کے ساتھ وقتی تقدیم وتاخیر کے مطابق مِس پٹری صاحبہ کی کتاب موسومہ ’’کِلیُوز ٹُو دِی ہولِی رِٹ‘‘ میں مرتب کی گئی ہے۔ (امریکن ٹریکٹ سوسائٹی سے یہ کتاب ملتی ہے)
روز مرہ اورادکا جو نقشہ مِس پٹری صاحبہ نے تیار کیا ہے تین سال میں بائبل میں سے عبور کراتا ہے ۔کتاب میں مطالعہ اور امتحان کے لیے سوالات بھی دئے ہوئے ہیں ۔
ساتواں باب
بائبل کا مطالعہ اس غرض سے کہ اور لوگوں
کو عملی طور پر فائدہ پہنچانے کی قابلیت پیدا ہو۔
بائبل کے مطالعہ کا ساتواں اور آخری طریقہ یہ ہے کہ بائبل ایسے طور پر پڑھی جائے جس سے اور لوگوں کو عملی طورپر فائدہ پہنچانے کی لیاقت پیدا ہوجائے ۔بائبل کو اس صورت میں پڑھنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جہاں تک ہوسکے وہاں تک پہلے ہمیں اُن آدمیوں کی جو ہم سے اس دُنیا میں مل سکتے ہیں ایک مکمل فہرست اُن کی قِسموں کے مطابق تیار کرنی چاہیے ۔اُن کی مختلف قسموں کے نام جدا جدا کاغذوں یا کارڈوں کے سروں پر لکھ لو ۔پھر بائبل کا پڑھنا شروع کرو اور آہستہ آہستہ پڑھتے جاؤ۔اور جب تم پڑھتے پڑھتے کسی ایسے مقام پر پہنچو جو تمہاری دانست میں کسی خاص قسم کے لوگوں کے لیے مفید ہے تو اُسے اس کاغذ یا کارڈ پر نقل کرو جس پر اُس طرح کے لوگوں کی قسم کانام لکھا ہوا ہے ۔اسی طرح ساری بائبل کو پڑھ ڈالو۔اچھا ہواگر اس کام کے لیے ایک علیحدہ بائبل لی جائے ۔اور مختلف رنگوں کی روشنائیاں استعمال کی جائیں ۔یا مختلف اقسام کے حروف یا نشان کام میں لائے جائیں تاکہ اُن کے وسیلے سے مختلف اقسام کے لوگ جد ا جدا طور پر ظاہر کئے جائیں اور بائبل کے مقامات کے نیچے اُس روشنائی سے جو اس قسم کے لوگوں کے لیے مقرر کی گئی ہے جن کا ذکر اُن مقاموں میں آتا ہے لکیر کھینچی جائے ۔یاوہ نشان لگایا جائے جو اُس قسم کے لوگوں کے واسطے ہم نے مقرر کردیا ہے۔کئی لوگوں نے اس قسم کے مطالعہ کو انجام دیا ہے ۔اُن کے کام کے نتیجے کئی کتابوں میں قلمبند ہیں ۔مثلاً منہل صاحب کی کتاب موسومہ ’’فرنشنگ فارورکرز‘‘۔الگزنڈر پیٹرسن صاحب کی کتاب ’’بائبل مینوئیل فار کرسچن ورکرز‘‘ دزوری صاحب کی کتاب ’’ہنڈ بُک فار ورکرز‘‘۔ اور مصنف کتاب ہذا کا رسالہ موسومہ ’’وسٹ پاکٹ کم پے نی ان فار کرسچن ورکرز‘‘۔اوراس کا دوسرا رسالہ ’’پاؤٹو برنگ مین ٹوکرائسٹ‘‘۔مگر سب سے عمدہ کتاب وہ ہے جو تم خود تیار کرتے ہو۔جن کتابوں کے نام اوپر بتائے گئے ہیں وہ البتہ تمہیں اتنا بتائیں گی کہ اس کام کو کس طرح کرنا چاہیے ۔تاکہ یہ کام شروع کیا جائے ہم اشارے کے طور پر مختلف لوگوں کی اقسام کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں ۔اگر چاہوتو اُس میں اور بڑھا دو۔
(۱)۔ وہ لوگ جو بے پرواہ اور بے توجہ ہیں ۔
(۲)۔ وہ جو چاہتے ہیں کہ نجات پائیں لیکن نہیں جانتے کہ کس طرح پائیں۔
(۳)۔ وہ جو جانتے ہیں کہ نجات کس طرح اور کس سے ملتی ہے ۔لیکن مشکلات میں مبتلا ہیں ۔مثلاً وہ جو یہ کہتے ہیں ۔’’مَیں تو حد سے زیادہ گنہگار ہوں ‘‘۔(پس مَیں کس طرح بچ سکتا ہوں)۔’’میرا دل بہت ہی سخت ہے ‘‘۔’’مسیحی بننے سے پیشتر مجھے نیک بننا چاہیے‘‘۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ مَیں ثابت قدم نہیں رہ سکتا ‘‘۔’’مَیں بہت ہی کمزور ہوں‘‘۔’’مَیں پہلے کوشش کرچکا ہوں اور ناکام نکلا ہوں‘‘۔’’مَیں اپنی بُری عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا‘‘۔ ’’اگر مَیں مسیحی ہوجاؤں تو لوگ مجھے ستائیں گے ‘‘۔’’مسیحی ہوجانے سے میرے کام یاپیشے کو بہت نقصان پہنچے گا‘‘۔’’مسیحی ہوکر تو بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے ‘‘۔’’مسیحی زندگی تو بڑی سخت زندگی ہے‘‘۔’’مَیں لوگون کے ٹھٹھوں اور طعنوں سے ڈرتا ہوں ‘‘۔’’میرے دوست مجھ سے چھن جائیں گے ‘‘۔ ’’مَیں تو سُن ہوگیا ہوں ‘‘۔’’مَیں مسیح کو ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن وہ مجھے ملتا نہیں ‘‘۔ ’’مَیں نے فضل کے دن کو گناہ کرکے کھودیا ہے ‘‘۔’’خُدا مجھے قبول نہیں کرےگا‘‘۔’’مَیں نے وہ گُناہ کیاہے جو معاف نہیں ہوسکتا ہے ‘‘۔’’اب میرے مسیحی ہونے کا وقت جاتا رہا ہے ۔مجھ سے بہت دیر ہوگئی ہے ‘‘۔ ’’مسیحی کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں‘‘۔’’خُدا تو مجھے بے انصاف اور ظالم معلوم ہوتا ہے ‘‘۔’’بائبل میں اتنی باتیں ہیں جو مَیں سمجھ ہی نہیں سکتا‘‘۔
(۴)۔ وہ لوگ جو جھوٹی اور ناقص امیدوں کے نشے سے مخمور ہورہے ہیں ۔مثلاً وہ جو یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ’’ہم اپنی راستبازی سے نجات پائیں گے ‘‘۔’’خُدا ایسا مہربان ہے کہ کسی کو سزا نہیں دے گا‘‘۔ ’’اگر مَیں مسیحی بننے کی کوشش کرو ں تومَیں اُس کوشش کے سبب سے بچ جاؤں گا‘‘۔ ’’مجھے اُمید ہے کہ مَیں بچ جاؤں گا کیونکہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں بچ گیا ہوں‘‘۔’’مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں آسمان کو جارہا ہوں‘‘۔
اسی طرح وہ سب جو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارا اقرار ہمیں بچائے گا یا کلیسیا کا ممبر ہونا ہمیں نجات بخشے گا۔ یا اُن کاایمان خواہ وہ اُنہیں گناہ سے بچاتا بھی نہ ہو اُن کی رہائی کا باعث ہوگا۔
(۵)۔ وہ جو یقین رکھتے ۔مثلاً ’’وہ جو پیچھے ہٹ گئے ہیں ‘‘۔’’وہ جو شکوک میں مبتلا ہیں ‘‘۔’’وہ جو بے دین اور ملحد ہیں ‘‘۔
(۶)۔ وہ جو فیصلہ کو ملتوی رکھنا چاہتے ہیں ۔مثلاً ’’رومن کیتھلک‘‘۔’’یہودی ‘‘۔’’وہ جو سپرچوئےلِسٹس(Spiritualists) کہلاتے ہیں‘‘۔ ’’وہ جو کرسچن سائنٹسٹس کہلاتے ہیں ‘‘۔’’وہ جو سیکرٹ ڈی سائیپلز کہلاتے ہیں ‘‘۔ ’’وہ جو غمگین ہیں ‘‘۔’’وہ جن کی ہمت ٹوٹ گئی ہے ‘‘۔ ’’وہ جو افکار(فکر کی جمع) کے نیچے دبے ہوئے ہیں ‘‘۔’’وہ جن کا مزاج بہت مضبوط نہیں ہے ‘‘۔’’وہ جو دُنیا دار مسیحی ہیں‘‘۔’’وہ جو کنجوس ہیں ‘‘۔
اگر یہ کام کیا جائے تو اس سے بڑے بیش قیمت نتیجے برآمد ہوں گے مثلاً ایک تو یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ بائبل کیسی عجیب کتاب ہے کہ ہر ایک آدمی کی ضرورتوں کی مرافعت (باہمی میل جول ،رفاقت) کے لیے اُس میں کافی ووافی سرمایہ پایا جاتا ہے ۔
دوم :۔وہی عام مقامات جن کے پڑھنے کے ہم خوگر (عادی) ہوگئے ہیں ہمیں نئے معنی رکھتے ہوئے نظر آئیں گے جب ہم پروہ رشتہ جو وہ لوگوں کی ضرورتوں کے ساتھ رکھتے ہیں ظاہر ہوجائے گا۔ بائبل ایک زندہ کتاب بن جائے گی ۔
سوم:۔ اگر ہم دوسروں کے لیے غذا تلاش کریں گے تو ہم خود بھی آسودہ ہوجائیں گے ۔
چہارم :۔سرمنوں اور بائبل کلاسوں اور دعائیہ جلسوں اور شخصی کام کے لیے بہت سا مصالح ہاتھ لگ جائے گا ۔ہاں اس سے کام کرنے کے لیے بائبل کا بہت عمدہ علم جمع ہوجائے گا۔
بائبل کا مطالعہ
خُدا کا شکر ہے کہ کلیسیا دن بدن اس بات کو پہچانتی جاتی ہے کہ اس کی زندگی اور تقویت اور خدمت کے لیے کلام الہٰی کی تلاوت اور مطالعہ کی اشد ضرورت ہے ۔چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ جس قدر زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ہر مسیحی کو خُدا کی روح سے بھرپور ہونا چاہیے اُسی قدر زور اس بات پر بھی دیا جاتا ہے کہ مسیح کے بندوں کو خُدا کا کلام ہر روز پڑھنا چاہیے۔اور ہر روز کچھ عرصہ اپنے وقت کا دعا کی کوٹھری میں صرف کرنا چاہیے ۔کلام اللہ کا پڑھنا اور دُعا کا مانگنا فضل کے وسائل کہلاتے ہیں ۔اور روحانی زندگی کی مضبوطی اور تقویت کے لیے ازحد ضروری ہیں ۔خُداوند زندگی کا منبع اور سرچشمہ ہے۔کوئی بشر اپنے آپ نہ جسمانی اور نہ روحانی زندگی پیدا کرسکتا ہے ۔ہمیشہ کی زندگی ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کی بخشش ہے (رومیوں ۶: ۲۳)۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے سلسلہ میں خُدا نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتو اُسی وقت اُس کو ماں کا دودھ دیا جائے تاکہ وہ زندگی جو اُس بچہ کو بخشی گئی ہے قائم رہے ۔اور روز بروز ترقی کرتی جائے ۔اگر ماں دودھ دینا چھوڑ دے اور اپنے دل میں یہ کہے کہ جس خُدانے اس بچے کو زندگی عطاکی ہے وہی اس کو زندہ رکھے گا۔وہی اپنی غیر مرئی (وہ جو دیکھائی نہ دے ) طاقت سے اس کی نشوونما کرے گااور جوانی تک پہنچا ئے گا تواُسے بہت جلد اُس کی مردہ لاش کے پاس بیٹھ کر آنسو بہانے پڑیں گے کیونکہ اُس نے خُدا کے قانون کو توڑ ڈالا ۔یہی حال روحانی زندگی کاہے ۔اُسے بھی ہم اپنی کوششوں سے اپنی ریاضت سے اور اپنے زہد وتقویٰ سے ۔اپنی نمازوں اور اپنی دُعاؤں سے پیدا نہیں کرسکتے وہ خُدا کی بخشش ہے ۔خُدا ہی اُسے دیتا ہے ۔لیکن جب وہ مل جاتی تب اُس کی مضبوطی اور اس کی تازگی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ فضل کے وسائل استعمال میں لائے جائیں۔ جو شخص اُنہیں کام میں لاتا ہے وہ روحانی زندگی میں ترقی کرتا جاتا ہے ۔اور جو اُنہیں کام میں نہیں لاتا وہ زیادہ زیادہ کمزور ہوتا جاتا ہے ۔ ہر ایک ایماندار کے لیے جو مسیح میں زندہ ہوتا ہے کلام الہٰی سے یہی صدا آتی ہے ۔’’اسے کھانے کودو‘‘ اسے میرے فضل کے وسیلوں کو کام میں لانے کی ترغیب دو تاکہ یہ چھوٹے بچوں کی طرح ہمیشہ کمزور نہ رہے بلکہ تندرست بچوں کی طرح انسانیت کے کمال کی طرف بڑھتا جائے۔
ایک مرتبہ مسٹر ماٹ صاحب نے جن کے نام نامی سے ہم سب واقف ہیں یہ پُر مطلب الفاظ اپنی زبان سے نکالے ۔’’کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا شخص دیکھا جو سچا دیندار تو تھا پر کلام الہٰی کو پڑھنے والا نہ تھا‘‘؟کیا کوئی شخص اس کے جواب میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ہاں میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو دیندار تو تھے پر کلام الہٰی کے علم سے بالکل ناواقف اور بے بہرہ تھے ؟حقیقی دینداری اور کلام اللہ کی تلاوت آپس میں ایسی وابستہ ہیں کہ ہم ایک کو دوسری سے جُدا نہیں کرسکتے ۔
ہم اس مضمون کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے ۔پہلے ہم یہ دکھائیں گے کہ کلام الہٰی کی تلاوت کیوں ضروری ہے ۔اور پھر یہ کہ ہمیں کس طرح کلام الہٰی کو پڑھنا چاہیے ۔زاں بعد وہ طریقے پیش کریں گے جن کے مطابق بائبل کا مطالعہ ہمیں فائدہ بخش سکتا ہے۔
پہلا باب
خُدا کے کلام کے پڑھنے کی ضرورت اور وجوہات
اس سوال کا جواب ہم کسی قدر اوپر دے چکے ہیں ۔لیکن وہ بیان بطور دیباچے کے تھا یہاں مفصل طور پر چند وجوہات کا ذکر کریں گے ۔
(۱)۔اس لیے اس کلام کے مطالعہ کی ضرورت ہے کہ یہ خُداکاکلام ہے اور زندگی اسی کے وسیلے سے ملتی ہے ۔خُدا نے فطری زندگی کو اپنے کلام کے وسیلے سے پیدا کیا۔ اگر آپ پیدائش کی کتاب کے پہلے باب کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر نئی پیدائش اور ہرنئے انتظام کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں ’’اور خُدا نے کہا‘‘۔مثلاً اس طرح کہ ’’خُدا نے کہا کہ اُجالاہو‘‘’’خُدانے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہووے‘‘خُدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی جمع ہوویں ‘‘۔وغیرہ لفظ ’’کہا‘‘ ان اور دیگر مقامات میں خُدا کے کلام کی جگہ لیتا ہے ۔کیونکہ جو کچھ کہاجاتا ہے وہی کلام ہے ۔پھر(یوحنا۱: ۲۔۴) کا اس مقام سے مقابلہ کرو ۔ اس مقام سے صاف ظاہر ہے کہ خُدا کاکلام ساری چیزوں کا پیدا کرنے والا اور اپنے میں زندگی اور نور رکھنے والا کلام ہے ۔یہ سچ ہے کہ اس مقام میں مراد اقنوم ثانی سے ہے ۔تاہم یہ بات خالی از مطلب نہیں کہ اسی ازلی کلام نے جو صاحب شخصیت کلام ہے تمام کائنات کو یعنی سمااور ارض کو اور جو کچھ اُن میں ہے اُس کو اپنے کلام کی قدرت سے خلق کیا ۔اور وہی اپنی قدرت کے کلام سےاُنہیں سنبھالے ہے ۔
لیکن جس بات کا یادرکھنا ہمارے لیے ضروری اور مفیدہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی زندگی بھی اسی کلام سے دستیاب ہوتی ہے ۔چنانچہ لکھا ہے (یوحنا۵: ۲۴۔۲۵؛ یعقوب۱: ۱۸؛ ۱۔پطرس۱: ۲۳۔۲۵؛ یوحنا ۲۰: ۳۱؛ یوحنا ۶: ۶۷۔۶۸)۔
(۲)۔ خُدا کےکلام کا مطالعہ اس زندگی کو بڑھاتا ہے (۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۱۳)۔ اس مقام میں اس بات کی خبر ملتی ہے کہ کلام ایمان لانے والوں میں تاثیر کرتا رہتا ہے ۔اور پھر (۱۔پطرس ۲: ۲ ) میں صاف آیا ہے کہ نوزاد بچوں کی طرح خالص اور روحانی دودھ کے مشتاق رہو تاکہ اُس کے ذریعہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے بڑھتے جاؤ۔ایک پادری صاحب کا قول ہے کہ لوگ باسی روٹی پسند نہیں کرتے مگر باسی سرمن پسند کرتے ہیں مناسب ہے کہ کلام کو مطالعہ تازہ جس طرح سرمن روز مرہ تازہ ملتا تھا۔
ایک اور شخص کہتا ہے کہ پادریوں کی دُکانوں ہی سے دودھ نہ لو بلکہ اپنی اپنی دوکانیں رکھو۔ہمیں کسی کے مطالعہ کے نتیجوں پرمطمئن نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ اپنے لیے آپ مطالعہ کرنا چاہیے ۔کہتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کی پکائی ہوئی روٹی بہت مزہ دیتی ہے ۔
(۳)۔ یہ کلام ہماری تقدیس کے لیے ضروری ہے ۔خُداوند نے اپنے شاگردوں کو فرمایا ’’تم اُس کلام کے طفیل سے جو مَیں نے تم سے کیا پاک ہو‘‘(یوحنا۱۵: ۳)۔پھر دوسرے موقعہ پر فرماتا ہے ۔اُنہیں حق کے وسیلے سے مقدس کر تیرا کلام حق ہے ‘‘۔اور پھر رسول کہتا ہے ۔’’اس واسطے خُداوند فرماتا ہے کہ اُن میں سے نکل کر علیحدہ رہو اور ناپاک چیز کو نہ چھوؤ۔اور مَیں تم کو قبول کرلوں گا۔اور تمہارا باپ ہوں گا۔اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہوگے۔ یہ خُداوند قادر مطلق کا قول ہے ۔پس اے عزیزو چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے ۔تو آؤ اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خُدا کے خوف سے پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔نیز دیکھو(افسیوں ۵: ۲۶۔۲۷)۔
(۴)۔ ہماری پھلداری اور ثمروری بھی اسی کلام پر منحصر ہے ۔’’بیج خُدا کاکلام ہے ‘‘۔(لوقا ۸: ۱۱۔اور پھر کلسیوں ۱: ۶۔ اور ۱۔تھسلنیکیوں ۶: ۸ )تک پڑھو۔ان مقاموں میں مسیحیوں کے عام پھلوں کا جو کلا م کی تاثیر کے وسیلے پیدا ہوتے ہیں ذکر آتا ہے ۔پہلے مقام سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلام کو بڑی مصیبت میں روح القدس کی خوشی کے ساتھ قبول کرنے سے ہم خُدا کی مانند بنتے ہیں ۔ اسی سے سارے ایمانداروں کے لیے نمونہ بنتے ۔اسی سے خُدا کے کلام کا اچرچا ہمارے وسیلے جابجا ہوتا ۔اسی سے ہمارا ایمان جو خُداوند پر سے جابجاشہرت پاتا ہے ۔
لیکن جب ہم خُداوند کے الفاظ کو جو ذیل میں رقم ہیں پڑھتے ہیں تو بہت اچھی طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خُداکے کلام اور ایماندار کی پھلداری میں کیسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے ۔وہ الفاظ یہ ہیں ۔(یوحنا ۱۵: ۱۔۸) خصوصاً یہ الفاظ’’اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں ۔ تو جو چاہومانگو ۔تم کو ملے گا۔میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔جب ہی تم میرے شاگر د ہوگے ‘‘۔جب ہم میں مسیح کی باتیں قائم ہوتی ہیں اور ہم مسیح میں قائم ہوتے ہیں تب ہم اُن پھلوں کے لیے جو خُدا کی بزرگی اور جلا ل کا باعث ہیں دُعا کرتے ہیں ۔ہماری دُعاسُنی اور قبول کی جاتی ہے۔اور وہ پھل کثرت سے پیدا ہوتے ہیں جن سے اس کا جلال ظاہر ہوتا ہے ۔
اسی باب کی آیات زیر نظر سے اور کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔مثلاً
(۵)۔ اگر خُداوند کی باتیں ہم میں قائم ہوں تو ہماری دعائیں سُنی اور قبول کی جائیں گی ۔خُداوند فرماتا ہے ’’اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو ۔تم کو ملے گا‘‘(یوحنا۱۵: ۷)۔اس کا مقابلہ کر و (۱۔یوحنا۵: ۱۴۔۱۵) سے ’’اگر ہم اُس کی مرضی کے موافق کچھ مانگیں ۔وہ ہماری سُنتا ہے ‘‘۔ہماری دُعائیں اُسی وقت قرین باجابت ہوتی ہیں جب وہ خُدا کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں۔ لیکن ہم آپ ہی آپ خُدا کے ارادوں سے واقف نہیں ہوسکتے ۔ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ وہ اپنی مرضی آپ ہم پر ظاہر فرمائے ۔اب کلام اللہ میں اُس کی مرضی ظاہر ہوئی ہے ۔ اسی طرح خُداوند یسوع مسیح کی باتیں خُدا کی مرضی کا اظہار ہیں ۔پس اُن کا ہم میں قائم ہونا گوخُدا کی مرضی کے عرفان کا ہم میں راسخ ہونا ہے ۔اور خُدا کی مرضی کے عرفان سے بہرہ ور ہونا اپنی دُعاؤں کا جواب پانا ہے ۔رسول کہتا ہے کہ ہم مانگتے ہیں پر نہیں پاتے اس لیے کہ ہم بد وضعی سے مانگتے ہیں ۔ دُعاؤں کے جواب کی روک بدوضعی ہے ۔لیکن یسوع مسیح کے کلام سے واقف ہونا بدوضعی کا علاج ہے ۔جو لوگ اس کلام سے واقف ہیں انہیں یوں کہنا چاہیے کہ جن میں یہ کلام قائم ہے ۔وہ اپنے نفس اور اپنی خودی اپنی طمع (لالچ) اپنی عزت ،اپنی شہرت اور اپنی بزرگی کے جویاں نہیں ہوتے وہ یہ دریافت کرتے رہتے ہیں کہ خُدا کیا چاہتا ہے اور جب اُس کی مرضی اُن پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خُداوند ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری مرضی بجالائیں ۔اُن کی دُعا سُنی جاتی ہے کیونکہ اُس میں ’’بدوضعی ‘‘ نہیں پائی جاتی ۔
(۶)۔ خُداوند کاکلام مسیح کے بندوں کے لیے لڑائی کا ہتھیار ہے۔افسیوں کے خط میں آیا ہے ’’روح کی تلوار جو خُدا کاکلام ہے ‘‘ اس آیت کی نظیر اورتفسیر ہمارے خُداوند سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ۔جب وہ بپتسمہ پاچکا تو ’’روح یسوع کو جنگل میں لے گئی تاکہ ابلیس سے آزمایا جائے ‘‘(متی ۴: ۱)۔ یہ وقت اُس جنگ وجدل کا تھا جو ہمارے خُداوند یسوع مسیح اور تاریکی کے سردار شیطان کے درمیان واقع ہوئی ۔اس جنگ میں اُسے ابلیس پر فتح پانا تھا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا کا بیٹا بھی فتح پانے کے لیے اس بات کا محتاج تھا کہ روح القدس اور کلام دونوں شامل حال ہوں ۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ روح القدس اُس کا رہنما ہے ۔اُسے جنگل میں لے جاتا اپنی قوت اور ہدایت سے اُس کو معمور کرتا ۔اور اپنی تلوار جو خُدا کاکلام ہے اُس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی تینوں آزمائشوں میں اسی تلوار کے وار سے دشمن کو نیچا دکھاتا ہے ۔جب وہ حملہ کرتا ۔ جب وہ دل کو لبھانے والی آزمائشوں کو پیش کرتا ہے ۔اُسی وقت ’’لکھا ہے ‘‘’’لکھا ہے ‘‘’’یہ بھی لکھا ہے ‘‘ کہہ کر اُس کی آزمائشوں کی دلفریبیوں کو برباد کرتا ہے ۔یادرہےکہ ابلیس ایسا دھوکے باز اور ایسا فتنہ پرداز اور ایسا ہوشیار ہے کہ وہ عموماً ہم کو ہمارے ہی اوزاروں سے شکست دینا چاہتا ہے اور شکست دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں خالص شیطنت کی باتیں ان کے سامنے رکھوں تو شاید یہ لوگ میرے دام تزویر(مکر کا جال، فریب کا پھندا) میں نہ پھنسیں گے ۔لیکن اگر مَیں انہیں کے مقدس کلام کی غلط تفسریں پیش کروں تو جلد میرے ہتے چڑھ جائیں گے ۔اسی افتراپردازی (الزام دینا) سے اُس نے خُداوند کو اپنے پھندے میں پھنسانا چاہا۔اگر مسیح خُدا کے کلام سے بخوبی واقف نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟ لیکن یسوع کلام کا مطالعہ کرنے والا تھا۔وہ جانتا تھا کہ شیطان جو آیت اقتباس کررہا ہے اُس کا کیا مطلب ہے اور فلاں آیت کے ساتھ مقابلہ کرنے سے شیطان کا دعویٰ کیسا جھوٹا معلوم ہوتا ہے ۔کیا یہی ہمارا تجربہ نہیں ۔ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ آزمائشوں سے بچائےگئے ہیں ۔یا جنہوں نے اُن پر فتح پائی ہے وہ کس ہتھیار سے فاتح نکلے ‘‘۔کیا وہ خُدا کا کلام نہ تھا جو روح کی تلوار ہے ‘‘۔اور کیا یہ بھی بار بار ہمارے تجربہ سے نہیں گزرا ہے کہ اگر ایک آیت کی غلط فہمی سے ہم کسی ناجائز کام کے ارتکاب پر آمادہ ہوئے تو دوسرے مقام کی روشنی نے ہم پر ظاہر کردیا کہ ہمارا قیاس غلط ہے پس خُدا نہیں چاہتا کہ ہم یہ کام کریں۔
اب اس سے کیا نتیجے نکلتے ہیں ۔(الف) ہم اس تلوار کو اپنے پاس رکھیں ۔ڈیگٹی صاحب نے خوب کہا ہے کہ اگر کسی جنگل میں میری مڈبھیڑ کسی پھاڑنے والے درندے سے ہوجائے اور مَیں کہوں کہ میری بندوق میرے گھر میں ہے تو مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اگر کلام حرزجان نہ ہو۔ اگر وہ نوک بر زبان نہ ہوتو شیطان اور اُس کے فرشتوں کے مقابلے کے وقت ہمارا حال اُسی سپاہی کا ساہوگا جو میدان کا رزار(جنگ) میں اسلاح جنگ کے بغیر جاتا ہے ۔
(ب) پھر یہ بھی لازم ہے کہ ہم اس تلوار کو استعمال بھی کرتے رہیں ۔جو لوگ کلام سے واقف ہیں اور پھر گر جاتے ہیں اُن کے گرنے کی یہی وجہ ہے کہ وہ کلام کو استعمال نہیں کرتے ۔اکثر یہ افسوسناک حال دیکھنے میں آتا ہے ۔یہ کلام زنگ خوردہ تلوار کی طرح بے کار پڑا رہتا ہے ۔لوگ بائبل گھروں میں رکھتے ہیں پر بے استعمالی کے سبب سے منوں گرد اس پر جم جاتی ہے ۔اُسے استعمال نہیں کرتے ۔پھر یہ بھی مشاہدے سے گزرتا ہے کہ کلام کی آیات طوطے کی طرح رٹی ہوئی ہیں لیکن کام کے وقت اُن سے کام نہیں لیا جاتا مسیح کو اس آیت کے سیکھنے سے کہ ’’آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے منہ سے نکلتی ہے ‘‘۔کیا فائدہ ہوتا اگر وہ اس آزمائش کے جواب میں کہ ’’اگر تو خُداکا بیٹا ہے تو اس پتھر کو کہہ کہ روٹی بن جائے ‘‘ اس آیت کو بطور تلوار کام میں نہ لاتا۔علیٰ ہذا کیا ہم بھی اپنی آزمائشوں کے وقت ایسا ہی کیا کرتے ہیں ۔
پر اگرہم مطالعہ ہی نہ کریں ۔اگر ہمیں کلام یاد ہی نہ ہو تو پھر کیا کرسکتے ہیں ۔مَیں نے ایک بزرگ پادری صاحب کو دیکھا ہے کہ وہ ہر روز دو تین آئتیں حفظ کرکے اپنی تنہائی اور فرصت کے وقت میں اُنہیں پر غور کیا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں کلام میں مگن رہتے تھے۔اور اُن کا یہ معمول تھا کہ جو کوئی اُن سے ملاقی (ملاقات کرنے والا)ہوتا وہ اُس سے ضرور اُن آئتوں میں سے کسی نہ کسی آیت کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے ۔ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ایک نوجوان خادم الدین طرح طرح کے شکوک میں مبتلا ہوکر دلی سلامتی کھو بیٹھا ۔انجیل کی ساری صداقتیں اُسے بناوٹی باتیں معلوم ہونے لگیں ۔لیکن وہ اس بے اطمینانی کی حالت پر نوحہ کناں (رونا،ماتم کرنا) تھا۔بے چینی درجہ غایت تک بڑھی ہوئی تھی ۔گو شکوک کی تیرگی نے اُسے ملفوف کر رکھا تھا ۔تاہم وہ اس بات کو محسوس کررہا تھا کہ میری سلامتی کا خزانہ لُٹ گیا۔کاش کہ وہ دولت مجھے پھر مل جائے ۔دُنیا اندھیرہوگئی تھی ۔تمام اشیاء اُداسی کا ماتمی لباس پہنی نظر آتی تھیں گریہ کا دریا شدت غم سے امڈ اچلاآتا تھا۔اسی پر یشانی اور پشیمانی کی حالت میں وہ مغموم وملول (غمگین اور پریشان ) چلاجارہا تھا کہ اُسے وہ پادری صاحب ملے جن کا ذکر اوپر ہوا ۔اُنہوں نے اُس نوجوان کو نہ سلام کہنے اور نہ گُڈمارننگ بولنے کی مہلت دی ۔ دیکھتے ہی بآواز بلند کہا ۔’’وہ اُن کی بے ایمانی کے سبب سے وہاں کوئی معجزہ نہ دِکھا سکا‘‘۔اور پھر کہا بھائی ہم فضل کے معجزوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں ۔ لیکن اہلِ ناصرت کی طرح کوئی جلوہ اُس کی قدرت کا ہمیں نصیب نہیں ہوتا ۔اور کیوں ؟ اس لیے کہ ہماری بے ایمانی مسیح کے معجز نماز ور کے ہاتھوں کو باندھ دیتی ہے۔ یہ سُن کر وہ نوجوان اُن کے گلے سے چمٹ گیااور کہا کہ بزرگ پادری صاحب کہ یہ خاکہ جو آپ نے اس وقت کھینچا ہے میری ہی حالت کا ایک سچا اور صحیح نقشہ ہے ۔میری بے اعتقادی نے مسیح کے زور کے ہاتھوں کو زنجیریں پہنا رکھی ہیں ۔چاہتا ہوں ۔بہت چاہتا ہوں کہ وہ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے ۔مگر میری بے ایمانی نے اُسے کچھ کرنے نہیں دیا۔پھر وہ پُھوٹ پُھوٹ کررویا ۔اور اُس بزرگ خادم الدین کے کمرے میں جاکر دُعا میں شامل ہوا۔ روشنی چمکی اور تاریکی بہت درجہ تک کافور ہوگئی۔دیکھئے کس طرح ایک آیت نے جو بروقت اُس بڈھے خادم الدین کی زبان سے نکلی شکوک کے بادلوں کو تتّر بتّر کردیا۔
اس کلام کو نہ صرف پادریوں کو پڑھنا چاہیے بلکہ ہر درجہ اور ہررتبہ کے مسیحی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔دیگٹی صاحب ایک جنگی آدمی کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے ہر روز ایک آیت یاد کرلیا کرتا تھا۔ہم کلام کو پڑھیں ایسا کہ داؤد کے ساتھ مل کر یہ کہہ سکیں ’’مَیں نے تیرے کلام کو اپنے دل کے بیچ چھپالیا ‘‘(زبور۱۱۹: ۱۱)۔
دوسرا حصہ
پہلا باب
بائبل کے فائدہ بخش مطالعہ کی لازمی شرائط
لوگ اکثر بائبل کے مطالعہ کے لیے طرح طرح کے طریقہ استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اُن سے بہت سافائدہ حاصل کریں۔ لیکن یادرکھنا چاہیے کہ اگر وہ شرائط جو ہم ذیل میں درج کرنے لگے ہیں پوری نہ کی جائیں تو خواہ کیسا ہی عمدہ طریقہ عمل میں کیوں نہ لایا جائے ہمیں اُس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا ۔لیکن اگر وہ شرطیں پوری کی جائیں تو ہمیں کلام کی تلاوت سے ضرور فائدہ پہنچے گا خواہ ہم کیسا ہی نامکمل یا ناقص طریقہ استعمال کیوں نہ کریں۔
۱۔ بائبل کے مطالعہ سے بہت سا فائدہ اُٹھانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ پڑھنے والا ازسر نوپیدا ہو۔بائبل ایک روحانی کتاب ہے ۔وہ روحانی باتوں کو روحانی لفظوں میں بیان کرتی ہے(۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۳) ۔لہٰذا فقط روحانی آدمی ہی اُس کے گہرے معنی اور بیش قیمت تعلیموں کو سمجھ سکتا ہے ۔ ’’نفسانی آدمی خُدا کی روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں‘‘(۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔روحانی بینائی صرف ایک ہی صورت میں ملتی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ آدمی ازسرنوپیدا ہو۔ چنانچہ خُداوند فرماتا ہے۔’’جب کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا‘‘۔ہمارا اُن زبانوں کا علم جن میں بائبل لکھی گئی ہے خواہ کیسا ہی وسیع اور گہرا کیوں نہ ہو ہمیں کچھ فائدہ نہیں بخش سکتا۔ہم اُس سے نہ بائبل کو سمجھ سکتے اور نہ اُس کی خوبی کو محسوس کرسکتے ہیں پس جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آدمی الہٰی زبان بھی سمجھ سکتا ہو۔ یعنی روح کی زبان سے بھی واقف ہو۔یہ مسلمہ امر ہے کہ بہت سے کم علم مرد اور عورتیں جو اُن زبانوں سے مطلق واقف نہیں جن میں بائبل لکھی ہوئی ہے بائبل کے مضامین اور تعلیمات کا بہت عمدہ علم رکھتے ہیں۔ایسا کہ اُن تعلیمات کی گہرائی اور بھرپوری اور خوبصورتی سے بخوبی واقف ہیں بلکہ تھیولاجیکل سمنریوں کے پروفیسر وں کا علم بھی اُن کے علم کو نہیں پہنچتا ۔اس زمانہ کی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ بائبل پڑھانے کے لیے ایسے آدمی مقرر کئے جاتے ہیں جو کبھی ازسرنوپیدا نہیں ہوئے ۔وہ اس کام پر صرف اس واسطے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس انسانی زبان کا علم جس میں کہ بائبل کی کوئی کتاب یا کتابیں لکھی ہوئی ہیں اچھا رکھتے ہیں ۔اگر ایسا کرنا درست ہے تو آرٹ کے سکھانے کے لیے بھی ایک ایسا شخص مقرر کیا جاسکتا ہے جو فقط رنگوں کا اصطلاحی ساعلم رکھتا ہو اُن کی خوبی کو محسوس کرنے کی طبعی لیاقت سے بے بہرہ ہو۔ پر کون ایسے آدمی کو مقرر کرے گا؟ کیونکہ سب اس بات کو جانتے ہیں کہ علم تصویر کے سکھانے کے لیے نہ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اُستاد رنگوں کا اصطلاحی سا علم ہی رکھے بلکہ اُس میں نفیس چیزوں کے پہچاننے کی ذاتی اور طبعی لیاقت بھی موجود ہو۔ اسی طرح اس بات کی ضرورت ہے کہ بائبل سکھانے کے لیے اُستاد روحانی بینائی سے بہرہ ور ہو۔جس شخص میں فن تصویر کی خوبیوں کا حظ اُٹھانے کی خُداداد لیاقت پائی جاتی ہے ۔وہ خواہ اصطلاحی باتوں سے واقف ہویا نہ ہو تو بھی فن تصویر اور نقاشی اور سنگ تراشی وغیرہ کا عمدہ نکتہ چین ہوگا بہ نسبت اُس آدمی کے جو اصطلاحی علم تو رکھتا ہے لیکن اُن باتوں کے حسن وقبح کے محسوس کرنے کی طبعی بینائی نہیں رکھتا اسی طرح وہ آدمی جو یونانی اور عبرانی کا اصطلاحی علم تو نہیں رکھتا مگر روحانی بینائی رکھتا ہے بائبل کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے بہ نسبت اُس آدمی کے جو عبرانی اور یونانی کی اصطلاحوں اور صنعتوں سے تو خوب واقف ہے لیکن روحانی آنکھ سے بالکل محروم ہے ۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض بعض جگہ لوگوں کو بشارت کی خدمت کے واسطے تیار کرنے کے لیے عبرانی اور یونانی کے علم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔لیکن روحانی زندگی کی طرف اور اُس بینائی کی طرف جو روحانی زندگی سے پیدا ہوتی ہے بہت توجہ نہیں کی جاتی ہے ۔ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ جو لوگ ازسرنوپیدا نہیں ہوئے ان کو بائبل پڑھنے سے روک دینا چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کلام ہی وہ وسیلہ ہے جسے روح القدس نئی پیدائش بخشنے میں استعمال کرتا ہے (۱۔پطرس ۱: ۲۳؛ یعقوب ۱: ۱۸)۔پر تاہم یہ بات بھی خوب سمجھ لینی چاہیے کہ گو بائبل میں بہت سی تعلیمات ہیں جنہیں نفسانی آدمی سمجھ سکتا اور جن کی خوبصورتی کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے تو بھی اُس کی خاص خاص تعلیمات اُس کی رسائی سے باہرہیں اور اُن کی اعلیٰ خوبصورتیاں اُس دُنیا سے علاقہ رکھتی ہیں جہاں اُس کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ۔پس فائدہ بخش تلاوت کی پہلی شرط یہی ہے جو ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے ۔’’تمہیں ازسرنو پیدا ہونا چاہیے‘‘۔جیسا فائدہ آپ کو کلام ربانی کے مطالعہ سے اُٹھانا چاہیے آپ نہیں اُٹھا سکتے تا وقت یہ کہ نئے سرے سے پیدا نہ ہوں ۔جب تک یہ شرط پوری نہ ہو اُس وقت تک بائبل کے خزانے آپ کے لیے راز سربستہ کی طرح ہیں ۔
۲۔ بائبل کی تلاوت سے بہت فائدہ اُٹھانے کی دوسری شرط یہ ہے کہ ہم اپنی بائبل کو بہت پیار کریں۔جو شخص اپنا کھانا اشتہار کے ساتھ کھاتا ہے وہ اُس سے بہت فائدہ اُٹھاتا ہے بہ نسبت اُس شخص کے جو اس کام کو صرف اپنا فرض سمجھ کرکرتا ہے ۔اگر بائبل کا مطالعہ کرنے والا ایوب کے ساتھ مل کر یہ کہتا ہے ۔’’مَیں نے اُس کے منہ کی باتوں کواپنی زندگی کی ضروریات سے عزیز جانا ہے ‘‘(ایوب۲۳: ۱۲)۔
یاوہ یرمیاہ کے ساتھ مل کر وہ بات کہتا ہے جو (یرمیاہ ۱۵: ۱۶) میں پائی جاتی ہے تو اس بات کو اچھا نشان سمجھنا چاہیے ۔بہت لوگ اُس دسترخوان پر جو خُدا نے اپنے کلام میں بچھایا ہے بغیر اشتہا(بھوک، خواہش)کے آتے ہیں ۔وہ روحانی خوراک کے لیے کچھ بھوک نہیں رکھتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ادھر دُدھر بھٹکے رہتے ہیں اور ہر بات کے متعلق شکایت ہی کرتے ہیں ۔بائبل پر جو آج کل نکتہ چینی کی جاتی ہے اُس کی جڑ میں بہت درجہ تک روحانی بدہضمی پائی جاتی ہے اب سوال یہ ہے کہ بائبل کی محبت کس طرح پیدا ہوسکتی ہے ؟ پہلی بات تو یہی ہے کہ نئی پیدائش ہی سے یہ محبت پیدا ہوتی ہے ۔جہاں کہیں زندگی ہوگی وہاں بھوک بھی ضرور ہوگی ۔مردے کو بھوک کبھی نہیں لگتی ۔اب یہ خیال ہمیں لوٹاکر پھر پہلی شرط پر لاکھڑا کرتا ہے ۔پر اس سے آگے بڑھ کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں جس قدر زیادہ زندگی ہوگی اُسی قدرہمیں زیادہ بھوک بھی لگے گی ۔کثیر زندگی کلام خوانی کی کثیر بھوک کی دلیل ہے ۔پھر کلام کی تلاوت بھی کلام کی محبت کوپیدا کرتی ہے ۔ مصنف کو وہ وقت یادہے جب کہ وہ بائبل کی نسبت اُن کتابوں کی زیادہ بھوک رکھتا تھا جو بائبل کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔لیکن جس قدر بائبل کے مطالعہ کی عادت زیادہ بڑھتی گئی اُسی قدر اس کتاب کی محبت بھی زیادہ ہوتی گئی۔ایسی ایسی باتوں کو مدنظر رکھنا کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے ۔اس کی غرض کیا ہے ۔اس کی قدرت کیسی ہے اس کی تعلیمات کی خوبی کیسی ہے بہت درجہ تک اس کتاب کی بھوک کو بڑھائے گا۔
۳۔ تیسری شرط یہ ہے کہ ہم اس کام کو محنت کشی کے ساتھ کرنے کو تیار ہوں ۔سلیمان نے اُس شخص کی جو کلام کے مطالعہ سے بہت سافائدہ اُٹھاتا ہے عمدہ تصویر کھینچی ہے۔ وہ تصویر(امثال ۲: ۱۔۵) میں موجود ہے ۔واضح ہوکر چاندی کی تلاش کرنا اور چھپے ہوئے خزانوں کی جستجو میں رہنا سخت محنت پر دلالت کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسےبائبل میں سے نہ صرف چاندی ہی ملے بلکہ سونا بھی دستیاب ہواور اُس کے چھپے ہوئے خزانے اُس پر ظاہر ہوجائیں تو لازم ہے کہ وہ اس کان کو خوب کھودے ۔کیونکہ صرف کلام کو پڑھنے یا دیکھنے ہی سے آرزوئے دل کا دامن پر نہیں ہوتا بلکہ کلام کا مطالعہ کرنے اور اُس میں مگن رہنے اور اُس پر سوچنے سے کیسئہ (جیب)مراد ہوتاہے۔جو لوگ بائبل کے مطالعہ سے بہت فائدہ نہیں اُٹھاتے وہ اس خرابی میں مبتلا ہیں کہ وہ سوچنا نہیں چاہتے ۔پس بائبل کے مطالعہ کی بے ثمری کی تہ میں بہت درجہ تک فکر کی سستی پائی جاتی ہے ۔لوگ اکثر بائبل کے مطالعہ کے نئے نئے طریقے طلب کرتے ہیں ۔پر بات اصل یہ ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا طریقہ معلوم ہوجائے جس کے وسیلے سے بغیر محنت کئے بائبل سے بہت سافائدہ حاصل کرلیا کریں اب اگر کوئی شخص سست مسیحیوں کو ایک ایسا طریقہ بتائے جس سے دن میں کوئی ایسے دس منٹ مطالعہ کو دئے جائیں جن میں نیند بہت آتی ہے مگر پھر بھی اُس مطالعہ سے وہ اتنا ہی فائدہ اُٹھالیں جتنا خُدا چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُٹھائیں تو وہ بہت خوش ہوں ۔لیکن یہ ہونہیں سکتا۔اگر لوگ دانائی اور حکمت اور برکت کے اُن خزانوں کو پانا چاہتے ہیں جو خُدا نے اپنے کلا م میں جمع رکھے ہیں تو اُنہیں محنت بلکہ سخت محنت کے لیے تیار ہونا چاہیے ۔میرے ایک دوست نے جو تجارت پیشہ تھا ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ مجھے جلد ’’ایک لفظ‘‘ میں بتاؤ کہ میں اپنی بائبل کس طرح پڑھا کروں ۔مَیں نے کہا’’سوچو ‘‘ زبور نویس اُس شخص کو مبارک کہتا ہے جو ’’خُداوند کے کلام میں دن رات سوچاکر تا ہے ‘‘(زبور ۱: ۲)۔خُداوند نے یشوع کو بھی حکم دیا کہ تو ’’اُس پردن رات سوچاکر‘‘ اور پھر اسے یقین دلایا کہ اس سوچنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تو اپنی راہ میں اقبال مند ہوگا اور تجھے کامیابی حاصل ہوگی (یشوع ۱: ۸)۔اور پھر ہم اپنے خُداوند کی ماں مریم کی نسبت پڑھتے ہیں کہ اُس نے اُن باتوں کو جو فرشتے نے اُسے کہی تھیں اپنے دل میں رکھا اور اُن پر سوچتی رہی (لوقا۲: ۱۹)۔
پس یہی طریقہ ہے جس سے آدمی بائبل کے مطالعہ سے بہت فائدہ حاصل کرسکتا ہے ۔ایک آدھ سیر گوشت جو اچھی طرح چبایا اور ہضم کیا جاتا ہے اور بدن میں جاملتا ہے منوں گوشت کی نسبت جو کھانے میں نہیں آتا پر صرف دیکھنے میں آتا ہے سینکڑوں گُنازیادہ طاقت بخشتا ہے ۔اسی طرح اگر ایک آیت اچھی طرح کھائی اور ہضم کی جائے تو اُس سے زیادہ طاقت حاصل ہوگی بہ نسبت اُن درجنوں ابواب کے جن پر سے ہم فقط سرسری طور پر عبور کرجاتے ہیں ۔بائبل کے ہر لفظ کو جو تم پڑھتے ہوتو اُس کی طرف دیکھو ۔اُسے اِدھر اُدھر اُلٹاؤ۔کیونکہ ایسا کرنے سے وہ مقامات بھی جو بار بار پہلے نظر سے گُزر چکے ہیں ایک نئے معنی دینے لگ جاتے ہیں ۔اس بات کی آزمائش کے لیے آپ (زبور ۲۳: ۱؛ فلپیوں ۴: ۱۹) کے ہر لفظ پر پندرہ پندرہ منٹ ٹھہریں اور پھر دیکھیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔
۴۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ پڑھتے وقت ہماری مرضی بالکل خُدا کے تابع ہو۔دیکھو خُداوند مسیح (یوحنا ۷: ۱۷) میں کیا فرماتا ہے ۔اس مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرضی جو بالکل خُدا کے ہاتھ میں سونپی جاتی ہے ایسی صاف بینائی پاتی ہے جو خُدا کی کتاب کے سمجھنے کےلیے ضروری ہوتی ہے ۔ بائبل کےمتعلق بہت سی مشکلات اور غلط فہمیاں زیادہ تر اس وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں کہ پڑھنے والے کی مرضی کتاب کے مصنف کی مرضی کے تابع نہیں ہوتی ۔یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ جب ہم اُس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ہم خُدا کی طرف مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں ’’اے خُدا مَیں اپنی مرضی کو بغیر کسی شرط کے تیری مرضی کے تابع کردیتا ہوں ۔تو مجھے اپنی مرضی سکھا‘‘ تو وہ مقامات جو پہلے ہماری سمجھ میں نہیں آیا کرتے تھے صاف اور سادے اور خوبصورت دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی ایجوکیشن (تعلیم) سے بھی بائبل کے بھید اتنے نہیں کُھلتے جتنے مطیع مرضی کے وسیلے سے کُھل جاتے ہیں ۔ہاں سوائے مطیع مرضی کے آپ بائبل سے بہت سافائدہ نہیں حاصل کرسکتے ۔اس بات کے فیصلے میں آپ کو بہت صفائی کام میں لانی چاہیے۔ بہت لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ’’مَیں خیال کرتا ہوں کہ مَیں نے اپنی مرضی کو خُدا کے تابع کردیا ہے ‘‘ پر حق یہ ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرتے ۔وہ کبھی خُدا کے حضورتنہا نہیں گئے اور وہاں جاکر اُنہوں نے سوچ اور سمجھ کے ساتھ یہ نہیں کہا ’’اے خُداوند مَیں اب اور اسی جگہ اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں ۔تاکہ تو مجھ پر حکمرانی کرے ۔تو میری رہنمائی کرے ۔مجھے اپنی مرضی کے مطابق بنائے ۔جہاں چاہے وہاں بھیجے اور جیسا چاہے ویسا میرے ساتھ کرے‘‘۔اس قسم کا عمل خُدا کے کلام کے خزانوں کے دروازوں کو کھٹکھٹانے کے لیے ایک عجیب کلید (چابی)ہے ۔جب کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے تو بائبل اُس کے لیے نئی کتاب بن جاتی ہے ۔ایسا کرنے سے مصنف کتاب ہذا کی زندگی اورعقیدے اور خدمت میں ایک عجیب تبدیلی پیداہوئی۔
۵۔پانچویں شرط چوتھی کے ساتھ بڑا گہر اعلاقہ رکھتی ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ جو شخص کلام کے مطالعہ سے بہت سافائدہ اُٹھانا چاہیے کہ وہ اُسی وقت فرمانبرداری سے اُن کو بجالائے ۔یعقوب نے قدیم مسیحیوں کو اور ہمیں بہت اچھی نصیحت دی جب یہ کہا کہ ’’تم کلام پر عمل کرنے والے بنو ۔نہ محض سُننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں ‘‘(یعقوب ۱: ۲۲)۔بہت لوگ ایسے ہیں جو اپنے تئیں کلام کا مطالعہ کرنے والا سمجھتے ہیں پر وہ آج اُسی طرح اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں جس طرح یعقوب کے زمانہ میں لوگ اپنے آپ کو دھوکا دیتے تھے ۔وہ یہ تو جانتے ہیں کہ بائبل کیا سکھاتی ہے ۔ پر وہ اُس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ اور اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ آخر کار دیکھنے کی طاقت بھی کھو دیتے ہیں ۔یادرہے کہ جب ہم کسی صداقت کی پیروی کرتے ہیں تو وہ ہم کو دوسری صداقت تک پہنچاتی ہے لیکن جب ہم اُس صداقت کی فرمانبرداری نہیں کرتے تو صداقت کو پہچاننے کی طاقت بھی برباد ہوجاتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف عام طور پر ہماری مرضی خُدا کے حوالے کی جائے بلکہ خُدا کے ہر نئے کلام کی جو ہم پر ظاہر ہوصاف صاف طور پر عملی فرمانبرداری بھی کی جائے ۔جو قانون ان الفاظ سے مترشح (ٹپکنے والا) ہے ’’جس کے پاس ہے اُس کو اور بھی دیا جائے گا۔پر جس کے پاس کچھ نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لیا جائے گا‘‘۔اور کسی جگہ ایسی شادمانی کے ساتھ اپنے پہلے حصہ کو پورا نہیں کرتا اور نہ ایسی سختی کے ساتھ اپنے دوسرے جزو میں سچا ثابت ہوتا ہے جیسا اُس وقت ہوتا ہے جبکہ ہم بائبل کی صداقت کو جو ہم پر ظاہر ہوتی ہے عمل میں لاتے ہیں یا اُسے رد کردیتے ہیں ۔ اُسے عمل میں لاؤ تو زیادہ پاؤگے ۔پر اگر اُسے رد کروتو وہ بھی جو آپ کے پاس ہے کھودوگے ۔بائبل کا مطالعہ صرف عقلی آسودگی کے لیے نہ کریں بلکہ اس بات کے دریافت کرنے کے لیے کریں کہ مجھے کیسی زندگی بسر کرنا اور کس طرح خُدا کو خوش کرنا چاہیے ۔پس جس فرض کا حکم بائبل میں پاؤ اُسے فوراً بجالاؤ۔ جو خوبی کسی بائبل کے بزرگ میں دیکھو اسی وقت اُس کے نقش قدم پر چلو ۔بائبل کے بعض مردوں اور عورتوں میں کوئی خرابیاں نظر آئیں تو اُسی وقت اپنی زندگی پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ کہیں مجھ میں تو وہی غلطیاں نہیں پائی جاتی ہیں ۔اگر معلوم ہوں کہ ہاں پائی جاتی ہیں اُسی وقت اُنہیں سدھارویعقوب بائبل کو آئینہ سے تشبیہ دیتا ہے (یعقوب ۱: ۲۳۔۲۴) ۔آئینہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بات اپنی جگہ اور محل سے مِلی ہوئی ہوتی ہے تو وہ فوراً بتا دیتا ہے ۔اور جب آپ کو وہ نقص (خرابی ) معلوم ہوجاتا ہے تو آپ اُسے فوراً درست کرلیتے ہیں۔ مناسب ہے کہ بائبل اسی طرح استعمال کی جائے ۔جو صداقت آپ نے دیکھ لی ہے اُس کی فرمانبرداری اُن آئتوں کے مشکلات کو حل کردے گی جو آپ ابھی تک نہیں سمجھتے ۔پر اگر اُس صداقت کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو صداقت کی تمام دُنیا تاریک ہوجائے گی ۔اس زمانہ کی بہت سی بے ایمانی اور غلطی کا یہی سبب ہے ۔ لوگوں نے صداقت کو دیکھا ۔مگر اُس کے مطابق عمل نہ کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے لیے صداقت کافورہوگئی ۔مَیں ایک ہوشیار اور ہونہار جوان خادم الدین سے واقف ہوں ۔وہ صداقت کی معرفت میں جلد جلد ترقی کررہا تھا ۔اور خاص کر وہ ایک بات کے متعلق بہت بڑھا ہوا خیال رکھتا تھا۔ ایک دن طوفان برپا ہوا ۔یعنی اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اس بات کا ماننا بہت عمدہ کام ہے لیکن ضرورت نہیں کہ ہم اس کا بہت چرچا کیا کریں ‘‘۔ اب وہ دونوں یا صرف وہی اپنی گواہی کو چھپانے لگا۔ بیوی کا انتقال ہوگیا اور وہ ڈگمگانے لگا۔بائبل اس کے لیے ایک ایسی کتاب بن گئی کہ گویا اس پر مہر لگی ہوئی ہے ۔ اُس کے ایمان میں جنبش پیدا ہوئی اور اس نے برملا بائبل کی بعض بنیادی تعلیموں کا انکار کیا۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ غیر فانیت کی تعلیم کا ماننا بھی چھوڑ بیٹھا ہے ۔اب اس ساری تبدیل شدہ حالت کا کیا باعث تھایہ کہ جس صداقت کے مطابق ہم عمل نہیں کرتے اور گواہی نہیں دیتے وہ کافور ہوجاتی ہے ۔ بعض لوگ اُس خادم الدین کی آج بھی تعریف کرتے ہیں ۔پر اس میں شک نہیں کہ اُس کے دل میں روشنی کی جگہ تاریکی نے لے لی ہے ۔
۶۔ چھٹویں شرط یہ ہے کہ بائبل پڑھتے وقت ہمارا دل بچوں کا سا دل ہو۔ خُدا اپنی گہری گہری صداقتیں شیر خواروں پر ظاہر فرماتا ہے ۔ ہمارے زمانہ کے لوگوں کو اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ مسیح کے ان الفاظ کو اپنے دلوں پر نقش کرلیں۔’’اے باپ آسمان اورزمین کے مالک مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر کھول دیں‘‘(متی ۱۱: ۲۵)۔سوال ہے کہ اگر ہم یہ چاہیں کہ خُدا اپنی سچائی ہم پر ظاہر فرمائے اور ہم اُس کے کلام کا مطلب سمجھیں تو ہمیں کس بات میں بچے بننا چاہیے ؟ یادرہے کہ بچہ اپنی دانائی سے معمورنہیں ہوتا۔بلکہ وہ اپنی نادانی کو پہچانتا اور سیکھنے کے لیے تیارہوتا ہے ۔وہ اپنے استادوں کے خیالات اور تصورات کے برخلاف اپنے خیال اور تصور پیش نہیں کرتا ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بائبل کے مطالعہ سے بہت سافائدہ حاصل ہوتو اسی قسم کے مزاج سے ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے اگر آپ کے دل اپنے تصورات سے معمور ہیں اور آپ بائبل میں فقط اُن کی تائید تلاش کرتے ہیں تو بائبل کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیں ۔بلکہ اس غرض سے اُسے ہاتھ میں لیں کہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ خُدا کے کون سے تصورات ہیں جو اُس نے اپنی کتاب میں منکشف فرمائے ہیں ہاں بائبل کو اپنی رائے کی تائید کے لیے ہاتھ میں نہ لیں ۔بلکہ اس مقصد سے لیں کہ آپ وہ بات سیکھیں جو خُدا سکھانا چاہتا ہے ۔اگر کوئی شخص بائبل اس لیے پڑھتا ہے کہ وہ اس میں اپنے خیالات کو دیکھے تو یہ ممکن ہے کہ اُن خیالوں کو اس میں دیکھے ۔پر اگر وہ بچے کی طرح اپنی نادانی محسوس کرکے سیکھنے کے لیے اُسے ہاتھ لگائے گا ۔تو وہ اُس میں وہ چیز پائے گا جو اس کے خیالوں سے ہزار ہادرجہ بہتر ہے یعنی خُدا کے خیال ۔ہم جانتے ہیں کہ کیوں بہت لوگ اُن کے دلوں کو بھر رہے ہیں اتفاق نہیں رکھتی اور اُن کے دل اُن خیالوں سے ایسے بھرپور ہیں کہ جو کچھ بائبل سکھاتی ہے اُس کے لیے اُن کے دلوں میں ذرا جگہ نہیں ۔اس کی مثال ہم کو رسولوں کی زندگی میں ملتی ہے ۔اُن کی تربیت کے زمانہ میں ایک موقعہ ایسا تھا کہ وہ اپنی رائے کو مسیح کے خیال پر ترجیح دینا چاہتے تھے ۔دیکھو (مرقس ۹: ۳۱) وہاں لکھا ہے ۔’’وہ اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دیتا تھا کہ ابن آدم آدمیوں کے حوالے کیاجائے گا اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ قتل ہونے کے تین دن بعد جی اُٹھے گا‘‘۔اب یہ بات ایسی صاف اور روشن ہے جیسی کہ لفظوں کے وسیلے سے صاف اور روشن ہوسکتی ہے ۔ پر چونکہ یہ بات رسولوں کے خیالات کے بالکل برعکس تھی اس لیے وہ اُسے نہ سمجھے ۔چنانچہ ہم دوسری آیت میں پڑھتے ہیں۔’’لیکن وہ یہ بات نہ سمجھے‘‘۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ اس کا مطلب نہ سمجھے ۔پرکیا ان کی یہ کم فہمی ہماری کم فہمی سے زیادہ عجیب ہے کیونکہ ہم بھی تو بائبل کی سادہ باتوں کو نہیں سمجھا کرتے جب کہ وہ ہمارے خیالات کے برخلاف ہوتی ہیں ۔بہت مسیحی پہاڑی وعظ کے بعض حصوں میں بڑی مشکلات محسوس کرتے ہیں ۔وہ مشکلات فوراً حل ہوجاتیں اگر وہ مسیح کے پاس بچوں کی طرح سیکھنے کے لیے آتے ۔بچوں کی طرح نہ کہ ایسے بڈھوں کی طرح جو خیال کرتے ہیں کہ ہم تو ساری باتیں جانتے ہیں اور جو مسیح کے لفظوں کی تفسیر میں اپنی فلاسفی کی جسے وہ صحیح اور غلطی سے بری جانتے ہیں تائید ڈھونڈتے ہیں ۔بعض بعض آدمی ایسے علم الہٰی سے پُر ہیں جو کلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور جب وہ اپنی غلطی کو دیکھ لیتے ہیں تو اُنہیں اُس ناقص علم الہٰی سے چھٹکارا پانے کےلیے مدت العمر(لمباعرصہ) کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بہت لوگ جو حیرانی کی حالت میں ہیں اسی طرح چلایا کرتے ہیں آہ! اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ اُن سے کہو کہ اس آیت کا مطلب وہی ہے جو اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔پر جس مطلب کی تلاش میں تم لگے ہوئے ہو وہ اُس مطلب سے جو خُدا نے اس میں رکھا ہے ذرا مطابقت نہیں رکھتا ۔چاہوتو تم اپنا مطلب اس سے توڑ مروڑ کر اپنی تفسیری چالاکیوں سے نکال سکتے ہو اور اُسے اپنے مقصد کے مطابق بنا سکتے ہو۔پر تم بائبل کے نزدیک اس غرض سے نہ آؤ کہ تم دیکھو کہ تم اُس سے کون کون سی معنی اپنی مرضی کے مطابق نکال سکتے ہو بلکہ اس نیت سے اُسے دیکھو کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ خُدا کا مطلب کیا ہے ۔لوگ اکثر کلام ربانی کی آیات کی صداقت یہ کہہ کر کھودیتے ہیں۔’’پر اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے ‘‘۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ شاید ایسا ہوسکتا ہو پر سوال یہ ہے کہ کیا خُدا کا بھی یہ منشا تھا کہ اُس سے وہ مطلب لیا جائے جو تم نکالتے ہوتو بائبل کے مطالعہ سے بہت سا فائدہ اُٹھانے کے لیے ہم سب کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اکثر یہ دعا کیا کریں ۔’’اے خُدا تو مجھے ایک چھوٹا لڑکا بنا۔مجھے میرے خیالوں سے خالی کر۔اور اپنی مرضی سکھا۔ اور مجھے تیار کر کہ جو کچھ تو کہے میں اُسے چھوٹے بچہ کی طرح قبول کروں خواہ وہ اُس خیال کے جواب تک میرے دل میں جاگیر ہے برعکس ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ بائبل عجیب طور پر اُس شخص کے لیے کُھل جاتی ہے جو اُسے اس صورت میں ہاتھ لگاتا ہے اور اُس دانا احمق کے لیے بند ہوجاتی ہے جو یہ سوچتا ہے کہ مَیں تو سب کچھ جانتا ہوں اور پطرس اور پولُس اور یسوع مسیح کو بلکہ خود خُدا کوبھی سکھا سکتا ہوں ۔کسی شخص نے خوب کہا ہے کہ بائبل پڑھنے کی سب سے عمدہ شرط ’’بچہ بن کر پڑھنے کی شرط‘‘ ہے ۔مَیں ایک دن اپنے ایک دوست خادم الدین سے ایک مقام کے متعلق گفتگو کررہا تھا ۔مَیں نے اُسے کہا۔ ’’اس مقام کی سادہ اور صاف تعلیم یہ ہے ‘‘ اُس نے جواب دیا کہ ’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے ۔ پر میرے فلسفہ سے مطابقت نہیں رکھتی ‘‘۔افسوس ! اب یہ آدمی صاف دل آدمی تھا ۔پر بچوں کی سی طبیعت نہیں رکھتا تھا جو بائبل کے فائدہ بخش مطالعہ کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔بہت لوگ اسی طرح کی طبیعت کے ساتھ بائبل کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔واقعی ہمیں بائبل کے مطالعہ سے بڑا فائدہ ہوتا ہے جب ہم اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ لامحدود خُدا ہماری نسبت بہت زیادہ جانتا ہے ۔کہ جو نسبت ایک نادان بچہ کا علم خُدا کے علم سے رکھتا ہے ہمارا اعلیٰ سے اعلیٰ علم بھی اُس سے بدرجہ کم ہوتا ہے ۔ہاں ہمیں بائبل کے مطالعہ سے بہت فائدہ پہنچتا ہے جب ہم خُدا کے پاس بحث کرنے کے لیے نہیں بلکہ بچوں کی طرح سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔لیکن ہم اس بات کو بڑی آسانی سے اور بار بار بھول جاتے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ جب کبھی ہم اپنی بائبل کھولیں ہم اپنے اپنے گھٹنوں پر گر کر یہ کہیں ’’باپ میں ایک چھوٹا بچہ ہوں ۔تو مجھے سکھا‘‘۔
یہ خیال ساتویں شرط ہمارے سامنے لاتا ہے ۔
۷۔ ساتویں شرط بائبل کے مطالعہ سے بہت سافائد ہ اُٹھانے کی یہ ہے کہ ہم اُسے خُدا کا کلام سمجھ کر پڑھیں ۔پولُس رسول تھسلنیکے کی کلیسیا کو لکھتے وقت اس لیے خُدا کا شکر کرتا ہے کہ جب اُنہوں نے خُدا کے کلام کو قبول کیا تو اُسے آدمیوں کاکلام سمجھ کر قبول نہیں کیا بلکہ خُدا کا کلام (جیسا کہ وہ ہے بھی ) جان کر قبول کیا (۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۱۳) پولُس نے بہت اچھا کیا جو خُدا کا شکریہ ادا کیا اور چاہیے کہ ہم بھی جب اس منزل پر پہنچیں جہاں ہم خُدا کے کلام کو خُدا کا کلام سمجھ کر قبول کرنے لگیں تو خُدا کا شکریہ ادا کریں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات سے وہ آدمی بھی ہمت ہار بیٹھے اور کلام پڑھنا چھوڑ دے جو بائبل کو خُدا کاکلام نہیں سمجھتا کیونکہ جو شخص بائبل کو کلام الہٰی نہیں مانتا اُس کے لیے بشرطیکہ وہ صاف دل آدمی ہوسب سے اچھی بات یہی ہے کہ وہ اُس کا پڑھنا نہ چھوڑے ۔ایک ایسا وقت تھا کہ اس کتاب کا مصنف بائبل کے کلام اللہ ہونے پر بہت شک رکھتا تھا۔پر اب جو مضبوط یقین اور اعتقاد اُس کے دل میں بائبل کے کلام اللہ ہونے کا پایا جاتا ہے وہ بیشتر کلام ہی کے پڑھنے سے پیدا ہوا ۔جو لوگ اس پر شک لاتے ہیں وہ عموماًوہی ہوتے ہیں جو زیادہ تراُن کتابوں کو پڑھتے ہیں جو بائبل پر یا بائبل کے متعلق لکھی گئی ہیں نہ کہ وہ جو خود کتاب کی اصل تعلیموں کو خوب کھوجتے ہیں ۔اب اگرچہ یہ سچ ہے کہ مسیحی سچائی کے ثبوت کی دلائل کی کتاب بائبل آپ ہی ہے ۔اور اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ بڑے سے بڑے منکر کو بھی بائبل کے پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے ۔تاہم یہ بھی بالکل صحیح ہے کہ تاوقت یہ کہ ہم اس بات کے قائل نہ ہو جائیں کہ بائبل خُدا کاکلام ہے اور ایسا سمجھ کر اُسے نہ پڑھیں تب تک اُس کے مطالعہ سے جیسا فائدہ اُٹھانا چاہیے نہیں اُٹھا سکتے بائبل کو خیالاً خُداکاکلام سمجھنے اور اُسے خُدا کاکلام سمجھ کر پڑھنے میں بڑا فرق ہے۔ پر وہ اُسے ایسا سمجھ کر پڑھتےنہیں ۔بائبل کو خُدا کا کلام سمجھ کر پڑھنے میں چار باتیں شامل ہیں۔
(۱)۔ اوّل اُس میں یہ بات شامل ہے کہ جب اُس کی تعلیمات صاف طور پر معلوم ہوجائیں تو اُنہیں بلاحجت تسلیم کرلینا چاہیے خواہ وہ عقل کے خلاف ہی معلوم کیوں نہ ہوں ۔عقل کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنے فیصلوں اوردلیلوں کو لامحدود حکمت کی باتوں کے تابع کردیں ۔وہ عقل جو لامحدود حکمت کی باتوں کے پرکھنے کے لیے محدود عقل کو ایک کسوٹی ٹھہراتی ہے اورخُدا کے لامحدود علم کو انسانی فیصلہ کی رائے پر چھوڑ دیتی ہے عقل نہیں بلکہ حماقت ہے ۔یہ دعویٰ کرنا ۔’’کہ چونکہ یہ بات میری رائے میں درست نہیں اس لیے سچ نہیں خواہ خُدا ہی کے منہ سے نکلی ہو‘‘پرلے درجہ کی حماقت سے بھری ہوئی بات ہے ۔’’اے انسان بھلاتو کون ہے جو خُدا کے سامنے جواب دیتا ہے ‘‘(رومیوں ۹: ۲۰)۔حقیقی عقل جب لامحدود عقل کو پاتی ہے تو اُس کے سامنے جُھک کر کہتی ہے ۔’’اے خُداتو جو چاہے سوفرمائیں اُس پر ایمان لاؤں گی ‘‘۔جب ہم ایک دفعہ اس بات کے قائل ہوگئے کہ بائبل خُداکا کلام ہے تو لازم ہے کہ اُس کی تعلیمات ہر طرح کے مباحثہ اور بحث کا خاتمہ ہوں ۔کیونکہ پھر ’’خُداوند یوں فرماتا ہے ‘‘ ہر سوال کا فیصلہ کرے گا۔تاہم بہت لوگ ایسے ہیں جو منہ سے تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ بائبل خُداکاکلام ہے ۔پر اگر آپ اُنہیں یہ کہیں کہ دیکھو بعض متنازعہ (وہ چیز جس کی بابت جھگڑا ہو) امور کی بابت بائبل یہ کہتی ہے تو وہ اپنے سرہلائیں گے اور کہیں گے ۔’’ہاں آپ کا فرمان صحیح ہے ۔پر مَیں تو ایسا ایسا خیال کرتا ہوں‘‘۔یا وہ یہ کہیں گے۔’’فلاں ڈاکٹر یا فلاں پروفیسر یا ہماری کلیسیا یہ تعلیم نہیں دیتی ہے ‘‘۔اس طرح کے مطالعہ سے بہت ہی کم فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔
(۲)۔ پھر بائبل کو خُدا کاکلام سمجھ کر مطالعہ کرنے میں دوسری یہ بات شامل ہے کہ اُس کے وعدوں پر پورا پورا بھروسہ رکھا جائے ۔یعنی اُن کی کل وسعت اور بھرپوری پر پورا پورا ایمان لایا جائے ۔ہاں جو شخص بائبل کو خُدا کاکلام سمجھ کر پڑھتا ہے وہ اُس کے کسی وعدے میں سے ایک شوشہ بھی نہیں گھٹاتا ۔جو شخص بائبل کو خُدا کاکلام سمجھ کر پڑھتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ ’’وہ خُدا جو جھوٹ نہیں بول سکتا یہ وعدہ کرتا ہے ‘‘ اور وہ اُس مطلب میں سے جو اُس وعدے سے مترشح (ٹپکنے والا)ہوتا ہے گھٹا بڑھا کرخُدا کو جھوٹا نہیں ٹھہراتا۔بلکہ وہ وعدوں کی تلاش میں رہتا اور جب اسے کوئی وعدہ ملتا ہے تو وہ اس بات کو دریافت کرتا ہے کہ اس وعدہ کا کیا مطلب ہے۔ اور جب اُس کا مطلب اُس پر ظاہر ہوجاتا ہے تو وہ اُس وعدہ پر قائم ہوجاتا اور اُس کے معنوں کی بھرپوری کے سبب سے اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوتا ہے ۔یہ بات اُن باتوں میں سے ہے جن کے وسیلے سے بائبل کے مطالعہ سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے وعدوں کی تلاش میں لگے رہو۔ اور جب اُنہیں پاؤتو اُسی وقت اُنہیں اپنا بناؤ ۔اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ کل شرائط بجالائی جائیں اور سب نقصانات اُن کے سبب سے اُٹھا ئے جائیں ۔یہ وہ طریق ہے جس سے خُدا کی اس برکت بھرپوری جو خُدا آپ کے لیے رکھتا ہے آپ کی بن جاتی ہے ۔ یہ وہ کلید ہے جو خُدا کے فضل کے خزانوں کو کھول دیتی ہے ۔مبارک ہے وہ شخص جس نے بائبل کو خُدا کا کلام سمجھ کر ایسے طور پر پڑھنا سیکھ لیا ہے کہ جب کوئی نیا وعدہ اُس پر ظاہر ہوتا ہے تو وہ اُسے اپنا بنالیتا ہے اور اُس کے لیے سب کچھ چھوڑدینے کو تیار ہوجاتا ہے ۔
(۳)۔ بائبل کو خُدا کاکلام سمجھ کر پڑھنے میں فرمانبرداری بھی شامل ہے ۔یعنی اُس کے احکام کو فوراً اور بے کم وکاست(بالکل درست) بے چوں وچرا بجالانے والی فرمانبرداری بھی اس میں شامل ہے ۔ممکن ہے کہ فرمانبرداری کرنا مشکل ہوبلکہ ہوسکتا ہے کہ ناممکن بھی معلوم ہو۔پرچونکہ خُدا نے اُس کا حکم دیا ہے کچھ اور کرہی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اُس کی تعمیل کروں اور اس کے نتائج کو خُدا کے ہاتھ میں سونپ دوں ۔اگر آپ بائبل کے مطالعہ سے بہت فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ پختہ طور پر کریں کہ آپ ہر صاف وعدے کو اپنا بنائیں گے ۔اور ہر صاف حکم کی تعمیل کریں گے اور جن وعدوں اور حکموں کو آپ ابھی نہیں سمجھتے اُن کو بھی صاف صاف طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
(۴)۔ پھر بائبل کو خُدا کاکلام سمجھ کر پڑھنے میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ خُدا کی حضوری میں پڑھا جائے ۔جب آپ کوئی آیت کلام کی پڑھیں تو اُس وقت اُس میں سے زندہ خُدا کی آواز بولتی ہوئی سُنیں ۔جب آپ اُن لفظوں میں سے ہمارے باپ خُدا کی آواز جو ایک زندہ اور موجود ہے۔ سُننے کے خوگر ہوجائیں گے تو آپ کے لیے بائبل میں ایک نئی قدرت اور دلربائی پیداہوجائے گی ۔بائبل کے دلکش اور رقت انگیز(جس پر رونا یا رحم آئے) الفاظ میں یہ الفاظ شامل ہیں ’’حنوک خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘(پیدائش ۵: ۲۴)ہم خُدا کی جلالی حضوری جس وقت چاہیں اُسی وقت خُدا کے کلام کو کھول کر اور اُس میں سے حاضر وناظر خُدا کی آواز سُن کر پاسکتے ہیں ۔وہ شخص جو بائبل کو اس صورت میں پڑھتا ہے وہ کیسے پاک خوف اور کیسی عجیب وبے بیان خوشی کے ساتھ اُسے پڑھتا ہے!۔
۸۔ آٹھویں اور آخری شرط فائدہ بخش مطالعہ کی یہ ہے کہ کلام دُعا کے ساتھ پڑھا جائے ۔زبور نویس یہ دُعا کیا کرتا تھا ۔’’میری آنکھیں کھول تاکہ مَیں تیری شریعت کے عجائب مضمونوں کو دیکھوں ‘‘(زبور ۱۱۹: ۱۸) جو شخص بائبل کے مطالعہ سے بہت سافائدہ اُٹھانا چاہتا ہے ۔اُسے چاہیے کہ وہ یہی یا اسی قسم کی کوئی اور دعاہر دفعہ جب کہ بائبل پڑھنے لگے مانگا کرے ۔بہت تھوڑی کنجیاں اتنی صندوقچیوں کو جن میں چھپے ہوئے خزانے بند ہوتے ہیں کھولتی ہیں جتنی دُعاکھولتی ہے ۔کوئی اور چیز اتنی مشکلات حل نہیں کرتی ہے ۔کوئی خوردبین اُن خوبصورتیوں کو جو عام طور پر دیکھنے والے کی نگاہ سے پوشیدہ ہوتی ہیں اتنا ظاہر نہیں کرتی ہیں جتنا دُعا کرتی ہے جب ہم دُعا میں سربسجود ہوکر کسی پرانی آیت پر غور کرتے ہیں تو اُس سے کیسا نور برآمد ہوتا ہے !۔میرا اس بات پر بڑا اعتقاد ہے کہ گھٹنوں پر کلام پڑھنے سے بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔جب کوئی شخص بائبل کی کسی کتاب کو اوّل سے آخر تک گھٹنوں پر مطالعہ کرتا ہے (اور یہ باآسانی ہوسکتا ) تو وہ کتاب اُس کے لیے ایک نئے معنی اختیار کرتی اور ایک نئی کتاب بن جاتی ہے ۔کسی شخص کو اپنی بائبل کھولنی ہی نہیں چاہیے جب تک کہ وہ پہلے خاموشی کے ساتھ خُدا کے سامنے اس بات کے لیے دُعا نہ کرے کہ و ہ اُس کا مطلب اُس پر ظاہر فرمائے اور اس کے صفحوں کو اپنی روح کی روشنی سے منور کرے ۔کسی کتاب کو اُس کے مصنف کی ہدایت اور رہنمائی سے پڑھنا بڑی برکت کا باعث ہوتا ہے اور بائبل کے پڑھنے میں ہمیں یہ حق اور برکت حاصل ہے ۔اگر کوئی شخص ایک ایسا مقام پائے جس کا سمجھنا یا جس کی تشریح کرنا مشکل معلوم ہوتو چاہیے کہ اُسے چھوڑ دینے یا کسی عالم دوست کے پاس جانے یاکسی تفسیر سے مدد ڈھونڈھنے کے عوض وہ اُس مقام کو خُدا کے سامنے رکھے اور اُس سے درخواست کرے کہ وہ اُس کے معنی روشن کرے ۔اور ایسا کرتے وقت خُدا کے اس وعدے کو خُدا کے حضور پیش کرے۔’’اگر کوئی تم میں سے حکمت میں قاصر ہو تو خُدا سے مانگے جو سب کو سخاوت کے ساتھ دیتا اور ملامت نہیں کرتا کہ اس کو عنایت ہوگی ۔پر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے ‘‘(یعقوب ۱: ۵۔۶)۔آپ تعجب کرو گے جب دیکھیں گے کہ ایسا کرنے سے وہ مقامات جو پہلے بڑے مشکل معلوم ہوتے تھے آسان ہوگئے ہیں ۔ہیری مورہاؤس جو کم علم لوگوں میں بائبل کا بڑا عالم گزرا ہے کہا کرتا تھا۔
’’ کہ جب کبھی میرے سامنے کوئی ایسا مقام آتا ہے جس کے معنی مَیں نہیں سمجھ سکتا میَں پہلے بائبل میں کسی ایسے مقام کی تلاش کرتا ہوں جو اُس پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے ۔اور پھر اُسے خُدا کے سامنے دُعا میں رکھ دیتا ہوں اور مجھے کوئی ایسا مقام یادنہیں جس نے ایسا کرنے کے بعد بھی اپنے معنی مجھ پر ظاہر نہ کئے ہوں ‘‘۔
اس کتاب کے مصنف کو بھی قریب قریب اسی قسم کا تجربہ حاصل ہے ۔کئی سال گُزرے کہ مَیں فرن کونین سوئٹزرلینڈ کی سیر ایک دوست کے ساتھ پیدل کررہا تھا ۔اور ان ذونتھک غاروں کو جو بہت مشہور ہیں دیکھ رہاتھا ۔ایک دن ایک چھٹی رساں نے ہمیں ٹھہرا کرکہا ۔کیا آپ ایک غار کو جو عام راستہ سے کسی قدر دور ہے پر نہایت خوبصورت اور دلچسپ ہے دیکھنا چاہتے ؟ ہم نے کہاہاں ہم دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس پر وہ ہم کو جنگلات میں سے اور درختوں کے نیچے نیچے اُس غار کے منہ کے پاس لے گیا ۔ہم اُس میں داخل ہوئے ۔ہرطرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔اب وہ شخص تو غار کی خوبصورتی کی بڑی تعریف کرتا تھا اور بتاتا جاتا تھا کہ اُس میں مذبح بھی ہیں اور اور کئی چیزیں بڑی خوبصورت بنی ہوئی موجود ہیں ۔لیکن ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔کبھی کبھی وہ ہمیں ہوشیار کرنے کے لیے یہ کہہ دیتا تھا ’’آپ ذرا خبردار رہیں کیونکہ آپ کے پاؤں کے پاس ایک ایسا گڑھاہے جس کی گہرائی اب تک کوئی ناپ نہیں سکا‘‘۔ یہ سُن کر ہمیں یہ اندیشہ دامن گیر ہوتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ہی اس غار کی تہ تک پہلے پہنچنے والے نکلیں ۔غرض یہ کہ کوئی چیز اُس ساری جگہ میں ہم کو دل پسند نظر نہیں آتی تھی ۔لیکن جب لمپ جلایا گیاتو ساری جگہ نے نئی صورت اختیار کرلی ۔معدنی اشیاء جو غار کی تہ پر پڑی ہوئی تھیں اُن سے جو اُس کی چھت سے لٹک رہی تھیں ملاقی ہورہی تھیں وہاں نیچر کا بڑا مذبح بھی موجود تھاجسے عام لوگوں کے قیاس نے پرانے عابدوں کی دستکاری سمجھ رکھا تھا۔نفیس اورعمدہ قسم کی قدرتی صنعتیں ہر جانب نظر آتی تھیں اور سب چیزیں چمکتی ہوئی روشنی میں تاروں کی طرح جگمگ جگمگ کررہی تھیں۔ مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ کلام کے کئی مقاموں کا یہی حال ہے ۔جب لوگ آپ کے پاس اُن کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں تو آپ اُس خوبصورتی کو نہیں دیکھتے ۔بلکہ آپ کو وہ تاریک اور پیچ درپیچ اور خطرناک مقام معلوم ہوتے ہیں ۔لیکن جب دُعا کے وسیلے سے خُدا کی روشنی چمک اُٹھتی ہے تو ایک منٹ میں کس طرح تمام چیزیں نئی صورت اختیار کرلیتی ہیں ۔اور آپ ایسی خوبصورتی مشاہدہ کرتے ہو جسے زبان بیان نہیں کرسکتی فقط وہی اُس خوبصورتی کو محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اُسے اُسی روشنی میں دیکھا ہے ۔پس جو شخص اپنی بائبل کو خوب سمجھنا اور اُسے بہت پیار کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دُعا میں لگا رہے ۔اس کلام کے معنی اورجلال کو روشن کرنے میں دعا کالج کی تعلیم سے زیادہ مدد دیتی ہے ایک جرمن یونیورسٹی میں مجھے ایک ایسے اُستاد سے تعلیم پانے کا افتخار حاصل ہوا جو ہر زمانہ کے بائبل کے لائق اُستادوں میں شمار کیا جاتا تھا۔اُس یونیورسٹی میں مَیں نے جو سب سے بڑا سبق سیکھا وہ اس اُستا د کی زبانی مجھے حاصل ہوا اور وہ یہ تھا کہ اُس نے ہمیں بتایا کہ پروفیسرڈیلک اپنے بہت لیکچروں کو گھٹنوں پر تیار کیا کرتا تھا۔
دوسرا باب
آخری اشارے
اس کتاب کو ختم کرنے سے پیشتر ہم چند اور باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں ۔اور وہ یہ ہیں ۔
۱۔ اپنی بائبل روزمرہ پڑھا کرو۔بائبل کو ہر روز باقاعدہ طور پر پڑھنا بائبل کے مطالعہ کے لیے نہایت ضروری ہے بعض لوگ اُن فوائد کو جو اس عادت سے منتج(نتیجہ) ہوتے ہیں بخوبی نہیں دیکھتے وہ شخص جو قاعدے اور ترتیب کے ساتھ نہیں پڑھتا ۔جو کبھی کبھی تو بہت سا وقت اس مطالعہ کی نذر کرتا ہے اور کبھی کبھی کئی دنوں تک بائبل کی صورت ہی نہیں دیکھتا اس قسم کے مطالعہ سے اتنا فائدہ حاصل نہیں کرتا جتنا وہ شخص کرتا ہے جو روزمرہ مقرری انداز کے مطابق اپنی بائبل کو پڑھتا رہتا ہے ۔اہل بریا کی حکمت اور شرافت کا سبب یہ تھا کہ وہ روز بروز کتاب مقدس میں تحقیق کرتے تھے‘‘(اعمال ۱۷: ۱۱)۔ایک دفعہ ایک شخص نے جس کو امریکہ کے کالجوں کے طلباء خوب جانتے ہیں ایک کنونشن کے موقعہ پر کہا کہ میں کنونشنوں میں حاضر ہوا ہوں اور مَیں نے اُن سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے ۔لیکن سب سے بڑی برکت مجھے اُس کنونشن سے ملی جس میں فقط چار آدمی حاضرتھے اس شخص کو وہ برکت جس کا ذکر اُس نے کیا اس طرح ملی ۔ان چار اشخاص نے یہ عہد کیا کہ ہم ہر روز کچھ حصہ دن کا بائبل کے مطالعہ میں صرف کیا کریں گے ۔ اُس وقت کے بعد اس شخص کا بہت ساحصہ گاڑیوں پر ہوٹلوں میں اور کنونشنوں میں صرف ہوا لیکن اُس نے اپنے عہد کو نہ توڑا بلکہ ہر حال میں اُسے پوراکرنے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اسکی مسیحی زندگی میں اُسے سب سے بڑی برکت کلام کی روزانہ تلاوت کے وسیلے سے نصیب ہوئی ۔جس شخص نے اس بات کو کبھی آزمایا نہیں وہ اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتا کہ ہر روز کچھ حصہ وقت کا بائبل کے مطالعہ میں صرف کرنے سے اور اُس حصہ کو بہرحال اُسی کام کے لیے مخصوص سمجھنے سے کیسے نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔بہت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ۔ہم ایسے مصروف ہیں کہ ذرا وقت نہیں دے سکتے ۔ہم کہتے ہیں کہ وہ وقت جوتلاوت کلام میں صرف ہوگا ضائع نہیں ہوگا بلکہ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ لارڈ کیرنیز نے جو نہ صرف اپنے زمانہ میں ایک لائق شخص ہی تھا بلکہ بڑا مصروف آدمی بھی تھا مرنے سے پیشتر یہ گواہی دی کہ وہ ہر روزصبح کے پہلے دو گھنٹے تلاوت اور دُعا میں صرف کیاکرتا تھا ۔اور اُس نے اپنی زندگی کے بڑے بڑے کام اورنتیجے اسی بات سے منسوب کئے ۔پس یہ درست نہیں کہ بائبل کو فقط اُسی وقت پڑھیں جب ہمارا جی چاہے ۔اور نہ یہ روا ہے کہ ہم اپنی بائبل کو فقط اُسی وقت ہاتھ لگائیں جب ہمیں فرصت ہونہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بائبل کے پڑھنے سے بہت فائدہ اٹھائیں تو لازم ہے کہ ہم اس کام میں مقرری اصول اور پختہ عادت سے کام لیں ۔خواہ ہم اور کوئی کام کیوں نہ کریں وہ کبھی بائبل کے مطالعہ سے بڑھ کر ضروری نہیں ہوسکتا اور بائبل کامطالعہ اور باتوں کو جو اُس سے کم ضروری ہیں اپنی جگہ نہیں دے سکتا۔ خوراک کی باقاعدگی جوتعلق جسمانی زندگی سے رکھتی ہے وہی رشتہ کلام کا پڑھنا روحانی زندگی سے رکھتا ہے ۔کوئی نہ کوئی وقت ضرور مقرر کرو خواہ وہ شروع میں پندرہ منٹ سے زیادہ نہ ہو اور جب تک زیادہ وقت دینے کو تیار نہ ہو اُس وقت تک اتنا ہی وقت کلام کے مطالعہ میں صرف کرتے رہو۔
۲۔ سب سے اچھا حصہ دن کا جو تم اس مطالعہ کے لیے دے سکتے ہوانتخاب کرو بائبل کے مطالعہ کو سونے کے وقت کے لیے جب کہ آنکھوں میں نیند بھری ہوئی ہوتی ہے اور دماغ بھاری ہوجاتا ہے ملتوی نہ کرو ۔سوتے وقت گزرے ہوئے دن کے آخر میں کلام پڑھنا بہت اچھا ہوتا ہے لیکن یہ وقت مطالعہ کے لیے موزوں نہیں ۔کسی اور مضمون کا مطالعہ اس بات کواتنا طلب نہیں کرتا کہ انسان اپنی تمام قواء کے ساتھ اس میں لگ جائے جتنا بائبل کا مطالعہ اس بات کو طلب کرتا ہے ۔پھر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ اس مطالعہ کو بہت کھانا کھانے کے بعد بھی کبھی شروع نہ کریں ۔جب شکم پُر ہوتا ہے تو دماغ کسی قدر کاہل ہوجاتا ہے اور اس وقت اُس سے محنت لینا عقلمندی کی بات نہیں ہے ۔جن لوگوں نے اس مضمون پر غوروفکر کے ساتھ توجہ کی ہے وہ ہم زبان ہوکر یہ رائے دیتے ہیں کہ صبح کا وقت بائبل کے مطالعہ کے لیے سب سے موزوں ہوتا ہے بشرطیکہ اُس میں کسی طرح کا خلل نہ آنے پائے ۔جہاں کہیں اور جب کبھی ہوسکے توایسا کرو کہ جب تم بائبل کے مطالعہ میں مصروف ہونے لگوائیں وقت اپنے آپ کو ایک کوٹھری کے اندر بندکرو اوردُنیا کو اُس سے باہر نکال دو۔
۳۔ بائبل کا مطالعہ کرتے وقت مقام زیر نظر میں مسیح کو ڈھونڈو۔ہم خُداوند مسیح کی نسبت یہ الفاظ پڑھتے ہیں ’’اُس نے پھر موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کرکے سب صحیفوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوتی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں ‘‘(لوقا ۲۴: ۲۷)۔ساری بائبل کا مضمون مسیح ہے اور یہ مضمون ساری کتاب میں جابجا پھیلا ہوا ہے ۔بائبل کے بعض بعض حصے جو بظاہر خشک اور بوسیدہ سے معلوم ہوتے ہیں نئی زندگی سے تازہ ہوجاتے ہیں جب ہم اُن میں مسیح کو دیکھنا سیکھ جاتے ہیں ۔مجھے یادہے کہ شروع شروع میں احبار کی کتاب مجھے بڑی پھیکی معلوم ہوتی تھی ۔لیکن جب مَیں نے مختلف نذروں اور قربانیوں میں ۔سردار کاہن اور اُس کے لباس میں ۔خیمہ اور خیمہ کے اسباب میں غرض یہ کہ ہرجگہ مسیح کو دیکھنا سیکھ لیا تو وہ کتاب میرے لیے ایک نئی کتاب بن گئی ۔ہر ایک آیت میں جو زیر مطالعہ ہو مسیح کو ڈھونڈو اگر ایسا کروگے تو نسب نامے اور شہروں کے ناموں کی فہرستیں بھی ایک نئی خوبصورتی اور طاقت اختیار کرلیں گی۔
۴۔ نوشتوں کو حفظ کرو۔زبور نویس کہتا ہے ’’مَیں نے تیرے کلام کو اپنے دل کے بیچ چھپالیا تاکہ مَیں تیرا گناہ نہ کروں ‘‘(زبور ۱۱۹: ۱۱)۔ گُناہ سے بچانے کے لیے اور کوئی چیز ایسی کارگر نہیں جیسا کہ خُدا کاکلام ہے ۔خُدا کے کلام سے جو مسیح کے دل کے بیچ چھپا ہوا تھامسیح آزمانے والے پر غالب آیا۔(متی ۴: ۴، ۷، ۱۰) لیکن خُداکاکلام جو دل میں چھپاہوا ہوتا ہے ماسوائے گناہ پر غلبہ بخشنے کے اور باتوں میں بھی کام آتا ہے ۔مثلاً وہ بدعت یا غلطی کے فاش اور مقابلہ کرنے میں بھی فائدہ بخش ہوتا ہے ۔وہ آدمی کویہ لیاقت بھی بخشتا ہے کہ ’’کیونکہ اُس کی جو تھکامانداہے کلام ہی سے کمک ‘‘ کرے۔ہاں وہ کئی باتوں میں کام آتا ہے ’’ تاکہ مرد خدا کامل اور ہرایک نیک کام کے لیے تیار ہو‘‘(۲۔تیمتھیس ۳: ۱۷) آیات کو حفظ کرتے وقت باب اور آیت کے شمار کو بھی یادکرلو۔باب اور آیت کا یاد کرنا آیت کے الفاظ کے حفظ کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔اوریہ بات عملی کاروائی میں بہت کام آتی ہے ۔پھر نوشتوں کو ترتیب وار حفظ کرو ۔کلام اللہ کی آیات کو اپنے دل میں بے ترتیب صورت میں جمع نہ کرو۔بلکہ اپنے دل میں مختلف خانے بناؤ اور اُن پر خاص خاص مضامین کے نام لکھو اور اُن میں حسب موقعہ آیات کا سرمایہ جمع کرو۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم حسب ضرورت اپنے مغز کو تکلیف دئے بغیر اُن کو باہر نکال لیا کروگے بہت لوگ ایسے ہیں جو فوراً ہر ضروری مضمون پرسلسلہ وار اور مدلل طور پر اور نوشتوں کے مطابق درس دے سکتے ہیں اور اس کاسبب یہ ہے کہ اُنہوں نے حکمت کا ذخیرہ نوشتوں کی آیات کی صورت میں مسلسل طور پر اپنے دل میں جمع کررکھا ہے ۔
۵۔ آخری بات یہ ہےکہ اپنے خالی وقت کو بائبل کے مطالعہ میں صرف کرو۔ بعض لوگوں کی زندگیوں میں ضائع کئے ہوئے وقت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔مثلاً وہ وقت جو گاڑیوں پر سوار ہوکر گلیوں میں صرف کیا جاتا ہے ۔یاریل گاڑیوں میں کاٹا جاتا ہے ۔وہ وقت جواُن لوگوں کے انتظار میں خرچ ہوتا ہے جو ہم سے ملنا چاہتے ہیں ۔وہ وقت جو کھانے سے پہلے کھانے کے انتظار میں کٹتا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔اگر کوئی شخص چھوٹے قد کی بائبل یا نیا عہدنامہ اپنی جیب میں اپنے ساتھ رکھے تو بہت ساحصہ اس قسم کے وقت کا بائبل کے مطالعہ میں صرف کیا جاسکتاہے ۔یا وہ اس قسم کے وقت کو اُن آیات پر غور کرتے ہوئے صرف کرسکتا ہے جو اُس نے حفظ کررکھی ہیں ۔ کتاب ہذا کے مصنف نے اپنے کئی سرمن اور درس اسی طرح تیار کئے ہیں کہتے ہیں کہ ہنری وارڈ بیچر صاحب نے اُس وقت کے اندر جو کھانے کی میز پر بیٹھ کر کھانے کے آنے سے پہلے اُس کو دستیاب ہوا کرتا تھا تاریخ انگلستان کی ایک ضخیم کتاب شروع سے آخر تک ختم کی ۔کتنی کتابیں بائبل کی اسی عرصہ میں پڑھی جاسکتی ہیں ؟ ایک دفعہ ایک دوست نے ذکر کیا کہ وہ آدمی جو بعض باتوں میں بائبل کا عجیب علم رکھتا تھا اور جس کی مانند اور کوئی آدمی مجھے اب تک نہیں ملا کینڈا کے ایک شہر میں نمکین گوشت بیچنے کاکام کیا کرتا تھا اس آدمی نے ایک بائبل اپنی الماری پرکھول رکھی تھی ۔اور جب اُسے کام سے ذرا فرصت ملتی تھی وہ بائبل کے مطالعہ میں لگ جاتا تھا ۔ کتاب تو ایسی جگہ میں بار بار ہاتھ لگانے سے سیاہ ہوگئی تھی لیکن اس میں شک نہیں کہ اُس آدمی کا دل اُسی نسبت سے سفید ہوگیا تھا ۔کسی چیز کی کفایت شعاری(کم خرچی) سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا وقت کی کفایت شعاری سے ہوتا ہے ۔لیکن وقت کو بچانے کا اور کوئی طریقہ ایسا فائدہ بخش نہیں جیسا یہ کہ جو لمحے ضائع ہونے پر ہیں وہ کلام اللہ کی تلاوت یا کلام پر غور کرنے میں صرف کئے جائیں ۔
ختم شُد