The Inward Way

Rev J.Takle

Aim at leading the Muslim through the truth and error of Sufi doctrine to consider Jesus, the Way, the Truth and The Life.

--------

Written in a style and spirit calculated to remove

Prejudice and disarm critism.

الطریقت

علامہ جے ٹیکل صاحب

By kind permission of the C.L.S.

Approved by the C.L.M.C.

کرسچین لٹریچر سوسائٹی کی اجازت سے

پنجاب رلیجیس بک سوسائٹی ۔ انار کلی ۔ لاہور

نے شائع کی

1924

الطِریقت

پہلا باب

خُدا۔ جو ہمارا وطن ہے

بعض مسلمانوں میں آج کل یہ میلا پایا جاتا ہے ۔ کہ اسلام کے ظاہری رسُوم پر کم زور دیا جائے۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ شریعت کی تعمیل پر نا واجب زور دیا جاتا ہے اور باطنی صداقت کو بہت کچھ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حقیقت کا تجربہ چاہئے۔ جہاں روح کے تجرد میں دلیل دم بخود رہ جاتی ہے۔ وہ اس امر کے طالب ہیں۔کہ دل کی ہیکل(بیت اللہ) خدا کا مسکن ہو۔ چنانچہ جلال الدین رومی نے یہ فرمایا۔

واحد حقیقی مسجد اولیا اللہ کے دل ہیں

جو مسجد اولیا اللہ کے دلوں میں تعمیر ہوتی ہے

وہ سب کا معبد ہے کیونکہ خدا وہاں بستا ہے

بہت مذاہب میں خاص کر دین اسلام اور دین مسیحیت میں مغرب و مشرق دونوں میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جہنوں نے اپنے باطن میں محبت و جان نثاری کے اندرونی شعلے کی طرف رخ کیا۔ اور الہی محبت کی آگ سے اُس کو مشتعل کیا۔ وہ صوفی ہیں اگرچہ اس نام کو وہ پسند نہیں کرتے۔ اگر ان کو ایسے لوگوں میں شریک کریں جن میں صوفیانہ روح پائی جاتی ہے۔ تو شاید ان کو اعتراض نہ ہوگا۔ وہ اِس خیال میں رہتے ہیں کہ جو اشیا مرئی ہیں وہ فانی ہیں۔لیکن جو غیر مرئی ہیں وہ ازلی ابدی ہیں۔

تصوف کیا ہے۔ اگرچہ حقیقی صوفی کی صحیح تعریف احاطہ بیان سے باہر ہے۔ جیسے مادرزادذہین کی۔ کیونکہ ان دونوں کے مزاج دیگر لوگوں کے مزاجوں سے متفرق ہوتے ہیں۔ تو بھی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے حقیقی رجحان کو بیان کر سکیں ۔ تصوف کی مختلف صورتیں تو ہیں۔ بعضوں کا تصوف محبت اور حسن کا ہوتا ہے اور بعضوں کا فلسفے کا۔ لیکن ہماری غرض یہاں دینی تصوف سے ہے جس میں کئی طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ تو بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصوف فطرت اور روح میں زندہ خدا کی تحصیل کی کوشش کا نام ہے۔ اس کا واحد مدعا یہ ہے کہ حقیقی اشیاء غائت تک رسائی حاصل کرے اور خدا کے ساتھ قریبی شراکت کا حظ اٹھائے اور کامل اتحاد اور وصل حاصل کرے۔

حال کے مسیحی مصنفوں میں سے ایک نے تصوف کی یہ تشریح کی۔ خدا کے لئے انسان کا جبلی احساس اس کی ساری شخصیت کا غالب اصول ہو۔ یعنی انسان کا قلب۔ دل اور ارادہ اس حیات اور ازلیت میں غرق ہو جائے۔ جو الہیٰ صورت کا محض رُو برو دیکھنا ہی نہیں بلکہ جلال سے جلال تک اُس صورت پر تبدیل ہوتے جانا ہے۔ یہ ایسی بصارت ہے جس کے سامنے باقی ہر ایک بصارت محض سایہ ہے۔ گو ایسی بصارت معدودے چند ہی کو پورے طور سے حاصل ہوتی ہے۔ اور بے زبان صوفیوں کا شمار ہمارے وہم و گمان سے کہیں زیادہ ہے جو نہ تو اپنا تجربہ بیان کرنے کے قابل ہیں نہ ان کو یہ علم حاصل ہے کہ وہ ہے کیا۔ لیکن جو آج کل صوفی تجربے کے نام سے موسوم ہے وہ ایک طرح کے مقناطیسی عمل کا نام ہے جس کےذریعہ عقل بے حس ہو جاتی ہے اور کچھ حالت خواب سی طاری ہو جاتی ہے۔یہ تو تصوف کی ایک بگڑی صورت ہے۔

1۔فطرت میں خداپہلی تعریف میں یہ بیان کیا گیا ہے حقیقت میں صوفی اپنی روح اور فطرت میں زندہ خدا کی حضوری کو محسوس کرتاہے۔ خدا اپنے عالم میں ہے۔ اسکو ہم وہاں دیکھ سکتے ہیں اور وہی انسان اس کا حظ اٹھا سکتا ہے۔ پولس رسول نے یہ بیان دیا کہ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے۔ وہ اُنکی قدرت سے ظاہر ہے۔ اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا۔" کیونکہ اُس کی ان دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں "(رومیوں 1باب 20 سے 21آیت)

خُدا ہمہ جا حاظر و ناظر ہے جس قدر وہ فطرت سے بالا ہے اُسی قدر وہ فطرت کے اندر ہے۔ وہ اپنی لازوال قدرت خالقہ دنیا کی ہر شے میں ظاہر کر رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو ویسا ہی آشکار و نمودار کرتا ہے۔جیسے انسان اپنے چہرہ کے تبسم سے اپنی روح کے حُسن کو ظاہر کر سکتا ہے۔

حضرت داؤد نے زبوُر کی کتاب میں خدا کی حضوری کا یہ ذکر کیا ہے:۔

7مَیں تیری رُوح سے بچ کر کہاں جاؤُںیا تیری حضُوری سے کِدھر بھاگُوں؟

8اگر آسمان پر چڑھ جاؤُں تو تُو وہاں ہے۔اگر مَیں پاتال میں بِستر بِچھاؤُں تو دیکھ!تُو وہاں بھی ہے۔

9اگر مَیں صُبح کے پر لگا کرسمُندر کی اِنتہا میں جا بسُوں

10تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کرے گااور تیرا دہنا ہاتھ مُجھے سنبھالے گا۔

11اگر مَیں کہُوں کہ یقِیناً تارِیکی مُجھے چُھپالے گیاور میری چاروں طرف کا اُجالا رات بن جائے گا

12تو اندھیرا بھی تُجھ سے چُھپا نہیں سکتا۔

(زبور139 ۔ 7سے 12آیت)

اِس عبارت میں حضرت داؤد ایسے شخص کا خیال کر رہا ہے جو اپنے گناہ کے احساس کی وجہ سے اپنے تئیں خدا قادر مطلق کی حضوری سے چھپانا چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ دنیا کی انتہا تک چلا جائے تو خدا وہاں بھی موجود پائےگا۔ خواہ وہ آسمانوں کے آسمان تک چڑھ جائے یا قعر سمندر میں اُتر جائے تو بھی یہی حال پائےگا۔ یہ مفرور قادر مُطلق کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا۔ تاریکی جو اکثر مفروروں کی پشت پناہ ہے وہ بھی خدا کے سامنے درخشاں ہے۔

زبور کی کتاب میں فطرت کا نظارہ بھی عجیب طرح سے پیش کیا گیا ہے اسرائیل کے شیریں گانے والےداؤد نے یہ فرمایا:۔

1اَے میری جان! تُو خُداوند کو مُبارک کہہ۔اَے خُداوند میرے خُدا! تُو نِہایت بزُرگ ہے ۔

تُو حشمت اور جلال سے مُلبّس ہے۔2تُو نُور کو پوشاک کی طرح پہنتا ہےاور آسمان کو سائبان کی طرح تانتا ہے۔3تُو اپنے بالاخانوں کے شہتیِر پانی پر ٹِکاتا ہے۔تُو بادلوں کو اپنا رتھ بناتا ہے۔تُو ہوا کے بازُوؤں پر سَیر کرتا ہے۔

(زبور104۔ 1سے 3آیت)

خدا کا لباس دعا اور دھیان کے ذریعے سے مزمور نویس کی بصارت ایسی صاف ہو گئی تھی۔ کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس سے معمور پایا۔

شاعر کا دِل آئینہ کی طرح ہوتا۔ اور اُس میں دنیا کا عکس پڑتا ہے۔ اُس کی نگاہیں فطرت خدا کا لباس ہے اور حاضر و ناظر خدا کا مکاشفہ ہے۔خلقت کے یہ اعلٰی معنی ہیں۔کل عالم خدا کا لباس ہے۔ حضرت داؤدکے وقت سے ہزارہا لوگوں نے اپنے تجربات کوایسی ہی الفاظ میں بیان کیا۔ بزرگ ہلاری نے یہ پوچھا۔ کون شخص ہے جو فطرت پر نگاہ ڈالے اور خدا کو نہ دیکھے۔

بعض اوقات مادیہ خیال کے لوگوں نے بھی پہاڑوں کی قدرتی شان و شوکت یا سمندر کی لا انتہا صُخامت کو یا ندی کے کنارے ایک ننھے سے پھول کو دیکھ کر اُن کی زبان حال سے ایسی باتیں سنیں جن کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ ان اشیا کا لُطف صرف نبی شاعروں ہی کو حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر عوام میں سے خلقت کے عجائبات دیکھ کر سر بسجود ہو گئے اور ایمان لا کر ایسے کلمات زبان پر لائے۔

زمین تو آسمان سے پُر ہے

اور ہر جھاڑی خدا کے نُور سے مشتعل ہے

ہم روز مرہ کی زندگی میں یہ خیال رکھیں کہ یہ فانی جہان وہ شیشہ ہے جس میں اُس ازلی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔غیر مرئی جہان کو وہاں دیکھ اور معلوم کر سکتے ہیں۔ غیر مرئی خدا وہاں نظر آتا ہے۔

خدا کا چہرہ ۔کیا فطرت کا یہ روحانی نظارہ قرآن میں نظر نہیں آتا۔ یعنی خدا کی حضوری کا یہ احساس ؟ اکثر عُلما یہ مانتے ہیں کہ اللہ کا عام تصور ایسے علما ئے دین کے ذریعے صدیوں سے چلا آیا ہے جہنوں نے وحدت الہیٰ کے روکھے پھیکے مسئلے کو ثابت کرنے میں جان توڑ کر زور لگایا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ محمد صاحب کا میلان طبع تصوف کی طرف تھا۔ جب کبھی آنحضرت نے فطرت پر نگاہ ڈالی تو ساری خلقت میں ذات الہٰی کا مشاہدہ کیا۔ اِس کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے اکثر وجہ اللہ کے طور پر اس کا ذکر کیا۔

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ

اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ (سورة بقر 115-2)۔

یہ جملہ اکثر قرآن میں آیا ہے۔ پروفیسر میکڈانلڈ صاحب کہتے ہیں کہ اِس خیال کا محمد صاحب پر بہت اثر ہوا اور اس کا بار بار انہوں نے ذکر کیا۔ مابعد اسلام نے بھی اس خیال کو لے لیا کیونکہ جلالی زندگی کے اسرار اس میں مرکوز تھے۔

خدا کا یہ غالب احساس جو دینداروں کی روحوں میں عام طور سے پایا جاتا ہے۔ حقیقی تعظیم افزا اور عبادت افروز تجربہ ہے اور جہاں تک کسی کی زندگی پاکیزہ ہوگی اور جہاں تک کسی کو روحانی صداقت کا شوق ہوگا اسی نسبت سے یہ تجربہ بھی کم و بیش ہوگا۔ لیکن یہاں اس امر کی بڑی احتیاط درکار ہے کہ نشانوں کی عبادت کہیں حقیقی پرستش کی جگہ غصب نہ کر لے۔ قدیم آریا لوگوں میں آفتاب طلوع ہواؤں ۔رعد اور برق کو دیکھنے سے اُن میں ان باقدرت طاقتوں کی حضوری کا ایسا یقین ہو گیا ۔ کہ انہوں نے ان کو دیوتا مان لیا اور کثرت الا اللہ کا مسئلہ قائم کر دیا۔ لیکن مسیحی دین اس امر پر زور دیتا ہے کہ گو عالم الوہیت کے ہزارہا نشانوں سے بھر پور ہے۔ لیکن خدا ان سے ایسا ہی بالا تر ہے۔ جیسے کہ ہماری روح بدن سے اعلیٰ ہے۔

ایک اور غلطی سے بھی بچنا چاہیے۔ اور جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ چونکہ خدا ہمہ جا حاضر اور ہمہ جا ساری ہے تو وہ خود بخود اپنے پورے جلال کے ساتھ منکشف ہوگا۔ ایسے عقیدہ کی مخالفت جس قدر کی جائے تھوڑی ہے۔ اس عالم اسباب میں ایک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ گو ہمارے بدنوں۔ اور حیوانات و نباتات کے اجسام کے ذرات سب قوانین فطرت کے مطابق خود بخود عمل کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ قوانین کی طبیعت کااظہار ہیں لیکن آدمی کا ارادہ ایسا نہیں۔ انسان ایسی خود بخود چلنے والی مشین نہیں۔ بلکہ اکثر یہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اُس کے ارادہ کا رجحان بدی کی طرف ہو جاتا ہے اور اپنے خالق کے ارادہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس طرح سے آدمی کی رُوح میں الہٰی زندگی اور محبت کا نشوونما رک جاتاہے ۔ یہ تو سچ ہے! خدا ہمہ جا حاضر تو ہے لیکن جب تک تسلیم مطلق کے ذریعے ہماری مرضی خدا کی مرضی کے مطابق نہ ہو جائے انسان کی روح خدا کی حضوری کی حقیقت کو پورے طور سے پہچان نہیں سکتی۔ اور جب تک انسان کی اخلاقی اور روحانی حالت بدل نہ جائے ایسا ہو نہیں سکتا۔ اس لئے بائبل میں ہر انسان کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ فوراًاُس شے کو اختیار کرے جس کے باعث خدا کے ساتھ اُس کا زندہ اور روحانی تعلق پیدا ہو جائے۔ لیکن بائبل نے اس امر کو بھی واضح کر دیا کہ ایسے فعل کے لئے خدا کے روح القدس کی ضرورت ہے تا کہ اس تسلیم مطلق کے کام میں ہماری مدد کرے۔ کیونکہ طبعی زندگی کے وسائل ایسی حالت پیدا کرنے کے لئے غیر مکتفی ہیں جو کہ خدا کو پسند ہو۔

ہمارےآقا ومولا سیدنا مسیح نے اس کا بیان ےوں فرمایا۔" اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کر لے گا اور میرا باپ اُس سے محبت رکھی گا اور ہم اُس کے پاس آئیں گے اور اُ سے ساتھ سکونت کر ینگے"۔ (انجیل مقدس راوی حضرت یوحنا باب 14-23آیت)۔ ان الفاظ میں نوع انسان کے روحانی تقاضا کی تشفی کا طرےقہ پایا جاتا ہے اور آدمی کی روح میں خدا کی حقیقی سکونت کی تکمیل کا رستہ دکھایا گیا ہے۔ اس کی روحانی بنیاد محبت اطاعت۔ تسلیم اور رفاقت پر ہے۔ دل میں خدا کے ایسے ہی اِحساس کا مزید بیان مابعد ابواب میں کیا جائیگا۔

زمانہ حال میں بڑی ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر ایسی سرگرمی اور جوش پیدا ہوتا کہ روح کی بھر پوری کی حقیقت کو پہچان سکیں۔ ان کو اس امر کے جاننے کی ضرورت ہے کہ گناہ کی تاریکی کے پردوں کے ذریعے سے ہماری روحوں کی بصارت پر ایسا گہرا اثر ہوتا اور ان کو اندھا کر دیتا ہے۔ خدا اور روح کو گناہ ہی جدا کر دیتا ہے۔ جب تک یہ پردے دور نہ ہوں تب تک خدا کا دیداراور کامل بصارت حاصل ہو نہیں سکتے۔ تصوف کی یہ حقیقی صورت ہی زندگی اور قدرت رکھتی ہے ہم نے اسے حقیقی صورت کہا کیونکہ ہم ان وجد و رقص کی اور ریا ضتی صورتوں کو پسند نہیں کرتے جن کو آجکل لوگ تصوف سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا کے ساتھ حقیقی رفاقت حقیقی بلوغت کے لئے لازمی ہے۔ اور اسے وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو ایسا پاک کرتا ہے۔ جیسے کہ خدا خود پاک ہے۔

بے چینی اور بے اطمینانی جو چاروں طرف نظر آتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ خدا کے بغیر روح کو اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ محبت سے ہمارے پاس آنا چاہتا ہے تاکہ ہماری زندگی کے خلا کو بھر دے بشرطیکہ ہم اسے قبول کرلیں۔ہمارے آرام کا آسمانی بندر وہی ہے۔ اُسی نے ازلیت کو ہمارے دل میں نقش کر دیا انسان جلاوطنی کی حالت میں رہا ہے اب اسے وطن کو آنا ہے۔ لیکن وطن آنے کا رستہ اُس کو نہیں ملتا۔

شمالی افرےقہ کے عالم جید آگستین نے یہ دعا مانگی تھی۔ اور وہ دعا ہم میں سے ہر ایک کی زبان سے نکلنی چاہئے:۔

"اے خدا تو نے ہمیں اپنے لئے بنایا

اور ہمارا دل بے چین ہے۔

جب تک تجھ میں چین نہ پائے"۔

دُوسرا باب

تصوف

مُسلمان صوفیوں کی یہ تعلیم ہے کہ انسان کیسے خدا کا دیدار حاصل کر سکتا ہے اور وجد اور محبت کے ذریعے خدا کے ساتھ کامل وصل حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے اعلیٰ خیال اور دیندار انہ احساس تو بہت نفیس ہیں۔ ان کی ریاضت اور اخلاقی نیت تو قابل تعریف ہے۔ اسلام کے نشوونما و ترقی کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے اس کی تاریخ خالی از دلچسپی نہ ہو گی۔ اس کے متعلق اس قدر کتابیں لکھی گئی ہے کہ اسلامی دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

اس کا آغاز

تصوف کی ضرورت ہی کیا تھی؟ شروع اسلام ہی سے اِس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں۔ ابن خلدون مسلمان مورخ نے بیان کیا کہ پہلے پہل محمد صاحب کے اصحاب نے تصوف کی تائیدو حمایت کی اور اسے صداقت و نجات کا رستہ کہا۔ چنانچہ اُس کا بیان یہ ہے۔ دینداری میں محنت کرنا۔ اور خدا کی خاطر سب کچھ ترک کرنا۔ دُنیاوی تماشاؤں اور نظاروں سے اجتناب کرنا عیش و عشرت اور دولت و حشمت کو چھوڑنا۔ کیونکہ انسان انہیں کا دل دادہ ہوتا ہے۔ ترک صحبت اور گوشہ نشینی اختیار کر کے خدا کی عبادت میں زندگی بسر کرنا تصوف کے بنیادی اصول تھے۔ انہیں کا رواج صحابہ اور اُن مسلمانوں میں تھا جو محمد صاحب کے عین بعد گزرے۔ لیکن دُوسری پشت میں اور اس کے بعد دنیاوی مذاق نے غلبہ حاصل کیا اور ہر طرح کی آلودگی سے ملوث ہو گئے۔ لیکن جہنوں نے تزکیہ نفس کو اپنا مقصد ٹھیرایا اُن کو صوفی یا تصوف کا لقب ملا۔

پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیاداری کا غلبہ تصوف کے آغاز اور ترقی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ جس کی وجہ سے تصوف ایک علم بن گیا۔ پہلے چار خلیفوں کی تلوار نے جو فتوحات حاصل کیں اُن کے ذریعہ سے اکثر مسلمانوں میں حُب دنیا نے بہت دخل اور غلبہ حاصل کر لیا۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی تھے جو ملکی سازشوں اور حصول دنیا کی رغبتوں سے کنارے رہے۔ یہ دیندار لوگ گہری روحانی زندگی پر بہت زور دیتے تھے۔ اِن اوائل ایام میں بھی ایسے لوگ تھے۔ جو لفظ شرع۔محبت۔ رفاقت اور وصل وغیرہ الفاظ کی خوبی کو پہچانتے اور اپنے اندرونی روحانی تجربے میں اُن کی تلاش کرتے تھے۔ وہ اس دنیا کے مرکز یا قلب کے عرفان کی تحصیل کے آرزو مند تھے۔

دیگر تاثیرات

ابن خلدون کے بیان کے مطابق اگرچہ صوفی اپنی اس تعلیم کا چشمہ اسلام ہی میں ڈھونڈتا ہے۔ تو بھی اس کے نشوونما و ترقی کا سُراغ غیر مسلم چشموں میں ملتا ہے۔ عربی کے ایک یورپین عالم کا خیال ہے کہ صوفی خیالات کا سُراغ بہت کچھ مغرب کے مسیحی صوفیوں اور علم الہیٰ میں پایا جاتا ہے اور نیز فارس اور ہندوستان کے صوفیوں اور ویدانتیوں کی تعلیم میں۔ صوفی وعظوں کا قدیم مجموعہ جو ہم تک پہنچا ہے وہ تو بہت کچھ مسیحی کتابوں پر مبنی ہے۔ لیکن تصوف کی مابعد اصطلاحات ہندوؤں کی کتابوں سے لی گئی ہیں۔

علم فارسی کے ایک یوروپین عالم کی بھی یہی رائے ہے۔ وہ کہتا ہے۔” صوفیوں کی یہ تعلیم یعنی شخصی انانیت کے عالم گیر روح میں فنا ہو جانے کا مسئلہ ضرور ہندوؤں سے آیا“۔ اُس کی رائے میں” خاموشی کا عہد۔ اور ذکر اور دیگر ریاضتیں“اُس زمانہ کے مسیحی راہبوں کی تاثیر اور تعلیم سے لی گئیں۔ بلکہ خود یہ نام صوفی مسیحی اصطلاح تھی۔ کیونکہ جو لوگ مسیحی فقیروں کی تقلید میں صوف یا اُون کا لباس اوڑھتے تھے وہ صوفی کہلانے لگے۔ یہ لباس اس امر کا نشان تھا کہ انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کو ترک کر کے گیان دھیان کی زندگی کو اختیار کر لیا تھا۔

تعریف

صوفی تعلیم کا مفصل بیان کرنا تویہاں نا ممکن ہے۔ البتہ ہم اس کی قدر اس امر میں تسلیم کرتے ہیں کہ روح کی بھر پوری کا یہ ایک طریقہ ہے۔ سب سے قدیم تعریف جو صوفی یا تصوف کی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے۔”یہ الہٰی حقیقتوں کا ادراک ہے“ اس کے بعد جتنے منہ گزرے اتنی تعریفیں اختراع ہوئیں۔ امام غزالی نے یہ بیان کیا”ازروے قیاس اس کا نتیجہ یہ ہے روح اوپر بلندی پر چڑھے اور اُس کی نا قص اور ادنے خصائص و صفات دور ہو جایں اور خدا کی طبیعت ہی میں محو ہو کر خدا کے تصور ہی کو اپنا سارا زیور بنا لے“ ایک دوسرے شخص نے یہ تعریف کی۔” اس ظاہری دنیا کے نقص کو دیکھنا بلکہ اُس کے دھیان میں ہر ناقص کی طرف سے آنکھ بند کر لینا جو واحد ہر طرح کے نقص سے مبرا ہے۔ یہی تصوف ہے“۔

یہ وہ دینی تعلیم ہے جو اسلامی شریعت اور دیگر عبادتی طریقوں سے اعلیٰ اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا رستہ ہے۔ اگر چہ بہتوں کی یہ رائے بھی ہے کہ اسلامی عقائدد اور رسوم ہمیشہ ایمان کی بنیاد رہیں گے۔ اگرچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام غزالی نے مسلمانوں کے درمیان تصوف کو ایک خاص درجہ عطا کیا تو بھی انہوں نے بڑے زور سے یہ تاکید کی کہ منکشف دین سے جدا کوئی حقیقی تصوف ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ خدا پر ایمان لانے اور اُس کی مرضی کا علم حاصل کرنے کے لئے کوئی تواریخی بنیاد چاہئے۔ اس لئے صوفی کو چاہئے کہ وُہ کِسی ایسی بات کو نہ مانے اور نہ قبول کرے جو اس مکاشفے کے خلاف ہو۔ بقول اُس دین کے فرائض سے آزاد ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دے کر یہ فرمایا تھا کہ دوزخ ایسے فقیروں سے بھرا پڑا ہے۔ جو منکشف دین سے برگشتہ ہو کر اپنے ایمان کے جہاز کو تباہ کر بیٹھے۔

لیکن ایک یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ جب محمد صاحب نے اس قدر واضح کر دیا کہ قرآن آخری مکاشفہ تھا اور اسلام ایک کامل عقیدہ تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہر شخص صداقت کا ایک نیا اور گہرا مکاشفہ حاصل کرے اور خدا سے آزادانہ بلاوساطت تکلم کر سکے جو کہ اہل تصوف کے نزدیک ہر شخص حاصل کر سکتا ہے؟ اور جبکہ محمد صاحب نے اپنے دل میں اس امر کو محسوس کر لیا کہ وہ اور اُن کے سب تابعین خدا سے ایسا رشتہ رکھتے تھے جیسے غلام کا اپنے سلطان سے ہوتا ہے۔ایسا خدا جس کے پاس ایسے طور سے نہیں پہنچ سکتے جیسے کہ پُر محبت باپ کے پاس پہنچ سکتے ہیں تو اہل اسلام ایسے نقیص تصور کو کیسے رکھ سکتا تھا۔ کہ خدا نہ صرف انسان کے نزدیک بلکہ عین اُس کے دل میں آ سکتا تھا۔

مخفی نہ رہے کہ انسان کے دِل کے تقاضات اکثر اُس کے عقلی مسائل سے زیادہ صحیح ہوتے ہیں۔ بعض اوقات محمد صاحب میں حقیقی صوفی میلان طبع پایا جاتا تھا اور اُن کو یہ علم تھا کہ خُدا دُور بھی تھا اور نزدیک بھی۔گو وہ عرش مُعلے پر متمکن تھا تو بھی وہ ایسا دوست تھا جو انسان کی رُوح کے نہایت قریب تھا۔اہل تصوف نے اپنا خیالات کی تائید میں چند آیات قرآنی بھی پیش کی ہیں۔ مثلاً بلا وساطت الہام کی باطنی رویت کے بارے میں انہوں نے قرآن کے ان الفاظ کو پیش کیا۔

وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا

”جس کو ہم نے اپنے علم کی تعلیم دی“۔ (سورة الکہف آیت 64)۔

اُن کے نزدیک جس علم کا یہاں ذکر ہوا وہ خُدا سے انسان کے اپنے علم لدنی کے ذریعے بلاوساطت الہام تھا۔

وہ یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ

”جب میرے بندے میری بابت تجھ سے سوال کریں تو فی الحقیقت میں بہت نزدیک ہوں“ (سورة البقرآیت186)۔

اور

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ

” جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لیے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ ہے “ (سورة رعدہ28)۔

لیکن اُن کی من بھاتی آیت یہ ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ

” اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔“(سورة ق آیت 16)۔

علاوہ ازیں صوفی صاحبان خوابوں اور حالت وجد کے ذریعے حاصل کردہ الہام پر بھی بہت زور دیتے ہیں اور اس کے لئے وہ محمد صاحب کی سند پیش کرتے ہیں جس نے فرمایا تھا۔ ”خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے“ ۔ پروفیسر میکڈانلڈ صاحب نے خوابوں کے الہام کے متعلق اسلامی تصور کا یوں بیان کیا۔ ذی عقل روح اپنی فطرت ہی سے عالم رُوحانی کے ادراک کی قدرت رکھتی ہے اور یہ قوت اُس وقت بھی اپنا عمل کرتی ہے جب کے انسان اور اُس کے حواس حالت خواب میں ہوتے ہیں لیکن اس طریقے سے صرف تصورات ہی اس کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اِن تصورات کو بدن میں لے آتی ہے جس کے پاس کہ حواس باطنی کا پورا سامان موجود ہے۔ پھر قوت متخیلہ اُن کو قوت حافظ کی کہانیوں سے مزین کر کے مناسب طور سے پیش کرتی ہے۔

تصوف کا طریقہ

تصوف میں رُوحانی نشوونما کے طریقے کے بارے میں چند اصطلاحیں مقررہیں جو صوفیوں کی زبان پر چڑھی ہوئی ہیں۔

یہ چار ہم وزن اصطلاحیں ہیں اور صوفی نشوونما کی چار منزلوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ شریعت۔ طریقت۔معرفت۔حقیقت۔صوفیوں درویشوں اور فقیروں کے نزدیک ان کے اہم معنی ہیں۔ مسیحی صوفیوں نے بھی تین اصطلاحوں سے کام لیا۔

ایک کو(Purgative) تزکیہ نفس۔

دُوسرے کو(Hluminative) تنویر قلب۔

تیسرے کو(Unitive) واصل کہتے ہیں۔

جو لوگ نور اور خدا کی محبت اور خدا کے ساتھ وصل کی آرزو رکھتے ہیں اُن کو انہیں منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

طریقت کی معنی رستہ ہے۔ جو اس رستہ میں قدم رکھتا ہے وہ سالک کہلاتا ہے۔ جن کو مقررہ مقامات یا منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ اور ان کو طے کرنے کے بعد وہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور وہ منزل مقصود فنا فے اللہ کی حالت ہے۔ یہ منزلیں فی الحقیقت اعلیٰ زندگی کے مختلف پہلو ہیں جن کو انسان طرح طرح کی ریاضتوں اور مراقبوں کے ذریعے سے حاصل کر سکتا ہے۔ درویشوں کے مختلف فریق ان کو مختلف طور سے بیان کرتے ہےن۔ اس لئے ان کو ترتیب دینا مشکل ہے۔ نقشبندی فقیر چار منزلیں بیان کرتے ہیں لیکن دوسرے خاندان ان کو سات یا آٹھ بتاتے ہیں۔

عام طور پر اُن مقامات کو ہم ےوں تقسیم کرسکتے ہیں۔

.
چہار چند تصوف روح کی سات منزلیں روح کی کیفتیں
1۔ شریعت ۔ جسمانی انسان کی منزل ۔ جس میں وہ شریعت کی رسوم کی پوری پابندی کرتا ہے وہ باطنی طریقے سے ناواقف ہوتاہے۔ عبودیت توبہ
2۔ طریقت ۔اس منزل میں آدمی باطنی الہام حاصل کرنا شروع کرتاہے۔ اس کی بدی اور غلاظت بتدریج دور ہوتی جاتی ہے۔ عشق پرہیز۔ترک ۔ افلاس ۔صبر
3۔ معرفت۔ اس منزل میں محبت سے پیدا شدہ عرفان الہٰی بڑھنے لگتا ہے۔ معرفت توکل علے اللہ
4۔ حقیقت۔ علم الیقین جس کا انجام یہ ہے کہ انسان کی اپنی معرفت نیست ہوجاتی ہے۔ وجد۔ یا حال
حقیقت
وصل۔ فنا
اطمینان
تیِسرا باب

باطنی طریقے کی منزلیں

مسیحی دین میں دیندار خدا رسیدہ اشخاص کا بہت بڑا اشما رہا ہے ۔جن کو صوفی پہچان اور روحانی لذات حاصل تھیں۔ ہر فریق میں ایسے شخصوں کی کمی نہیں۔ اُن میں سے بعض تو بڑے خاندانی لوگ تھے اور بعض عام محنتی لوگ۔ اُن کا اطمینان خاطر آشکارا ہے۔ خدا کے ساتھ اُن کی روزانہ رفاقت ویسی ہی حقیقی ہے۔ جیسے والدین بیوی بچوں اور دوستوں سے رفاقت ہوتی ہے۔ وہ بحیثیت صوفی اپنا خیال نہیں کرتے اور نہ کل کی طرح کسی صوفی ضابطے کے پابند ہوتے ہیں ۔فی الحقیقت وہ خدا پرستی میں اور اپنے ہم جنس انسانوں کی ہمدردی میں ایسے عملی اور سر گرم ہوتے ہیں کہ وہ نام کی بھی پرواہ نہیں کرتے بلکہ فرقہ بندی کے نام کو بھی بُر ا جانتے ہیں۔ کسی انگریز مصنف نے کیا خوب کہا ہے۔ مسیحی ہونے کے لئے صرف یہ لازمی ہے کہ وہ وفادار ہو ۔لیکن اوّل درجے کا مسیحی ہونے کے لئے اُسے صوفی بننا درکا ہے ۔(1)

صوفیوں اور درویشوں کی طرح دیگر مسیحی صوفیوں نے بھی اپنی تعلیم کو باقاعدہ سلسلہ وار قلمبند کیا۔ انہوں نے صوفی کی غایت یہ ٹھیرائی کہ بتد ر یج عمل کے ذریعہ روح کاکامِل توصل خدا سے ہو جائے۔ انہیں معلوم ہے کہ دین میں بہت باتیں ایسی ہیں جو محض عقل سے تو دریافت نہیں ہو سکتی ہیں۔ وہ روزانہ ُروحانی تجربے سے الہیٰ محبت کا سبق سیکھتے ہیں۔ اسلئے ان کے ذریعے مذہب خُدا کے ساتھ رفاقت کا ایک تجربہ ہے۔

نظریہ کی تبدیلی

اصل وطن کو واپس جانے کے لئے کون سی منزلوں سے گزرنا ہوگا؟ سالک جو تصّوف کے باطنی طریق میں الحق کی طرف رُخ کر کے قدم مارنا چاہتا ہے۔ اُسے سب سے پہلے تبدیلی دل میں سے گزرنا چاہیے اُسے اپنی پہلی خود غرضی اور غیر حقیقی زندگی کی طر ف سے روگردانی کرنی ہوگی۔ اس روگردانی سے اُس کے نظریہ میں تبدیلی ہوگی۔ او ر رُوح اعلیٰ جلال کی نامعلوم زندگی کی طرف نگاہ جماتی ہے اور اس رویا سے عشق پیدا کر لیتی ہے۔ ہم بلااندیشہ یہ کہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی کوئی دینی زندگی اس استقلال اور تسلیم مطلق کے زمانوں کے بغیر نہیں ہوتی۔

یہ حالت یا تبدیلی خاطر کا تجربہ صوفیوں پر ہی محدُود نہیں۔ یہ تو فیض ِعام ہے۔ البتّہ مختلف اشخاص میں مختلف طور سے پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ عقلی یا اخلاقی یا جذباتی ہو۔ یہ از سر نو خدا کی طرف رجُوع کرنا ہے۔ اگر یہ حقیقی ہو۔ تو عموماً یہ ایسی حالت یا حالتیں ہونگی۔ جیسے رابندر ناتھ ٹاگور کی زندگی میں گزرا جبکہ ایک موقعہ پر کلکتہ کے ایک بازار میں اُس پر ایک ایسی حالت طاری ہوگئی جس کی نسبت اُس نے یہ بیان کیا” ایک سخت حجاب اُٹھ گیا۔ اور جو کچھ میں نے دیکھا وہ ذوالجلال تھا۔ سارا جہان ایک ذوالجلال موسیقی ایک عجیب نظم تھا“۔


(1) Dr J.Watson – The Upper Room

امام غزالی نے اپنی ا یک کتاب میں اپنی تبدیلی کا عمدہ بیان لکھا ہے۔ یہ خدا کی طرف دانستہ حرکت تھی۔ اس تبدیلی میں اُس نے مفصلہ ذیل امور کو درج کیا:۔

خدا کی ناراضگی کا خوف۔ وصل کی آرزو۔ تبدیلی نظریہ۔ توبہ ۔ رُوح میں علوی اور سفلی عناصر کی جنگ۔ تسلیم اور خدا کے عشق کا پیدا ہونا۔ امام غزالی کا جو تجربہ تھا وہ بہت صوفیوں اور مسیحیوں کا تجربہ بھی ہوا۔ اور ایسی تبدیلی لازمی ہے۔

امام غزالی لکھتے ہیں: کہ سارے مسلمان یہ ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں۔ کہ خدا کا دیدار انسانی خوشی کا سر تاج ہے کیونکہ شریعت میں اس کا یہی بیان آیا ہے۔ لیکن پھر بھی بہتوںمیں یہ صرف زبانی اقرار ہی ہے جس سے اُن کے دلوں میں کوئی تڑپ پیدا نہیں ہوتی۔ یہ بالکل امر طبعی ہے۔ کیونکہ انسان کیسے اُس شے کی آرزو رکھ سکتا ہے۔ جس کا اُسے کوئی علم حاصل نہیں؟ یہ تو سچ ہے۔ آدمی روحانی چیزوں کی آرزو کیسے رکھ سکتا ہے اگر رُوح کی آنکھ میں اُس کے حسن کی جھلک نہ پڑی ہو؟ اس رُوحانی حُسن کو بیدار کرنا اور جلانا چاہئے۔

توبہ

جب تصّوف رُوح کی اس حا جت کو مان لیتا ہے کہ وہ خدا کے حضور اپنے تیئں نالائق و گہنگار جان لے تو وہ حقیقی دین کے ایک بنیادی اصول پر زور دیتا ہے اور توبہ کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ مسیحی دین میں یہ ایک بنیادی ا صُول ہے۔

توبہ کیا ہے؟

کیمبرج یونیورسٹی کے فارسی پروفیسر صاحب یہ کہتے ہیں کہ ازروئے تصّوف توبہ رُوح کی بیداری ہے لاپروائی کی خواب سے۔ یوں خطا کار اپنی بدراہیوں سے آگاہ ہو کر اپنی گزشتہ نافرمانی پر پشمان ہونے لگتا ہے۔ مگر وہ اس وقت تک فی الواقع تائب نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وہ اُس گناہ یا اُن گناہوں کو ترک نہ کر دے۔ جن سے وہ واقف ہو گیا ہے۔ اورعزم با لجزم نہ کرے کہ آ ئندہ وہ ان گناہوں کی طرف کبھی عود نہ کریگا۔ اگر وہ اپنے اس عہد کو پُورا کرنے میں قاصر رہے تو وہ پھر خدا کی طرف رجوع کر ے۔جس کی رحمت لا انتہا ہے۔ کسی مشہور صُوفی کا ذکر ہے۔ کہ اُس نے ستر دفعہ توبہ کی اور ستر دفعہ ہی وہ گناہ میں مبتلا ہوا۔ قبل ازیں کہ اُس نے آخری مستقبل توبہ کی۔ ایسے تائب شخص کو چاہئے کہ حتی المقدورجن کا اُس نے نقصان کیا ہے اُ ن کی تلافی کر دے ۔ (1)

بلاشک توبہ کا یہ اعلیٰ تصوّر ہے۔

مسیحی دین نے بھی رُوح کی اس ضرورت پر زور دیا کہ محبت۔ زندگی اور پاکیزگی کے رستے میں قدم دھرنے سے پیشتر آدمی کو خدا کے سامنے توبہ کرنا چاہیے۔ اور بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں جہنوں اپنے گناہوں سے پچھتا کر سچّی توبہ کی۔ زُبور کی کتاب میں خاص کر ایسے تائبوں کا ذکر آیا ہے۔ اس کتاب میں کئی مزامیر ایسے ہیں جو توبہ کے مزامیر کہلاتے ہیں۔


(1) Reynold A. Nicholson, The Mystic of Islam p.3031 (More Info)
https://en.wikipedia.org/wiki/Reynold_A._Nicholson

حضرت داؤد نے ایک سخت گناہ میں مبتلا ہونے کے بعد یہ زبور لکھا۔ جو ایک دعا ہے

1اَے خُدا! اپنی شفقت کے مُطابِق مُجھ پر رحم کر۔اپنی رحمت کی کثرت کے مُطابِق میری خطائیں مِٹا دے۔2میری بدی کو مُجھ سے دھو ڈالاور میرے گُناہ سے مُجھے پاک کر۔3کیونکہ مَیں اپنی خطاؤں کو مانتا ہُوںاور میرا گُناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔4مَیں نے فقط تیرا ہی گُناہ کِیا ہےاور وہ کام کِیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہےتاکہ تُو اپنی باتوں میں راست ٹھہرےاور اپنی عدالت میں بے عَیب رہے۔5دیکھ! مَیں نے بدی میں صُورت پکڑیاور مَیں گُناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا ۔6دیکھ تُو باطِن کی سچّائی پسند کرتا ہےاور باطِن ہی میں مُجھے دانائی سِکھائے گا۔7زُوفے سے مُجھے صاف کر تو مَیں پاک ہُوں گا۔مُجھے دھو اور مَیں برف سے زِیادہ سفید ہُوں گا۔8مُجھے خُوشی اور خُرّمی کی خبرسُناتاکہ وہ ہڈّیاں جو تُو نے توڑ ڈالی ہیں شادمان ہو ۔9میرے گُناہوں کی طرف سے اپنا مُنہ پھیرلےاور میری سب بدکاری مِٹا ڈال۔10اَے خُدا! میرے اندر پاک دِل پَیداکراور میرے باطِن میں از سرِنو مُستقِیم رُوح ڈال ۔11مُجھے اپنے حضُور سے خارِج نہ کراور اپنی پاک رُوح کو مُجھ سے جُدا نہ کر۔12اپنی نجات کی شادمانی مُجھے پِھر عِنایت کراور مُستعِد رُوح سے مُجھے سنبھال۔13تب مَیں خطاکاروں کو تیری راہیں سِکھاؤُں گااور گُنہگار تیری طرف رجُوع کریں گے۔14اَے خُدا! اَے میرے نجات بخش خُدا مُجھے خُونکے جُرم سے چُھڑاتو میری زُبان تیری صداقت کا گِیت گائے گی ۔15اَے خُداوند! میرے ہونٹوں کو کھول دےتو میرے مُنہ سے تیری سِتایش نِکلے گی16کیونکہ قُربانی میں تیری خُوشنُودی نہیں ورنہ مَیں دیتا ۔سوختنی قُربانی سے تُجھے کُچھ خُوشی نہیں۔17شِکستہ رُوح خُدا کی قُربانی ہے۔اَے خُدا تُو شِکستہ اور خستہ دِل کو حقِیر نہ جانے گا ۔(زبور51)

اِس دُعا میں عارضی افسوس و پشیمانی سے بڑھ کر احساس پایا جاتا ہے۔ مزمور نویس دونوں ہاتھوں سے خدا کا دامن پکڑے ہے ۔اور یہ آرزو ہے کہ خدا کی حضوری اُس کی رُوح میں قائم رہے کیونکہ اسی سے پاک دل پیدا ہو سکتا اور گناہوں کی معافی خوشی و خرمی بحال ہو سکتی ہے۔

نفس کشی

ترک دنیا کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تصوف ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے۔ سالک اپنے تئیں دُنیا سے الگ کرنے کے لئے اور دُعا و دھیان کی زندگی بسر کرنے کے لئے افلاس کو اختیار کرتا ہے۔ اس لئے ایسے ناموں سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً فقیر۔ درویش وغیرہ اور جب اُسے مرقعہ یا گڈری ملتی ہے۔ تو خوشی کے مارے اُچھل پڑتا ہے۔ اس مرقعہ کے لئے ان فقیروں کو بہت شوق ہوتا ہے۔ مسیحی تصوف میں بھی اس قسم کے فقیر پائے جاتے ہیں۔ البتہ مسلمان صوفیوں سے اس امر میں متفرق ہیں کیونکہ اس میں یہ فقیری نہیں۔ کیونکہ مسیحی دین نفس کشی پر زور نہیں دیتا بلکہ نفس کی صفائی اور ترقی پر۔مسلمان اور مسیحی ُصوفیوں میں یہ بڑا فرق ہے۔ کامل انسان کا تصورمسیحی دین میں یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیّت کو بھُول نہ جائے۔ بلکہ اُسے اعلیٰ درجہ تک پہنچائے اور ایسی ہی کامل شخصیّت پوُرے طور سے مشخص خُدا کی خوشحالی کا حظ اُٹھا سکتی ہے۔

ہمارے آقا ومولاسیدنا مسیح نے ایسی فقیری کی تائید نہیں کی اِن کا کبھی یہ منشا نہ تھا کہ آدمی کو اُس کی تمدنی اور مجلسی زندگی اور معمُولی پیشوں سے ہٹا دے لیکن وہ اپنے تابعین سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ زمین کے نمک”اور ایسا نور بن جائیں جو تاریک جگہوں میں چمکے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد دُنیا میں رہتے ہوئے بدی سے محفوظ رہیں اور اُس نے اُن کے محفوظ رہنے کے لئے دعا بھی کی۔(یوحنا17باب 15آیت)۔

نہ اُس نے کبھی گداگری کی تائید کی وہ غالباًاس صُوفی قول سے اتفاق رائے ظاہر کرتا کہ” مال جمع کرنے کی آرزو تمہیں تاریکی میں رکھے گی۔ کیونکہ اُس نے خود یہ فرمایا کہ” دولتمند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا کیسا مشکل ہے“۔ دولتمند ہونے کی خوشی خدا کے کلام کو گھونٹ لیتی ہے اور وہ بے پھل ثابت ہوتا ہے“ لیکن اگر کسی کے پاس دولت ہو اور وہ خود غرضی کی وجوہات سے نہ اُسے فضول اُڑائے نہ بخیلوں کی طرح اُسے جمع کرے تو وہ قابل اعتراض نہیں جبکہ خدا کے خانساماں کے طور پر وہ اُسے صداقت اور راستبازی کی سلطنت کے پھیلانے کے لئے استعمال کر تا ہے۔

شیخ سعدی نے گلستاں میں یہ لکھا۔۔۔۔ فقیری لباس کی تبدیلی کا نام نہیں ۔ مرقعہ۔ تسبیح اور گڈری سے کیا فائدہ۔ ایسے بُرے کاموں سے پرہیز کر جو تجھے آلودہ کرتے ہیں۔ اپنے کام میں محنت کر اور جو لباس چاہے پہن۔ فقیر صفت ہو اور کلاہ تاتاری پہن۔

آگستین نے دولتمند اور لعزر کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہا۔ یہ اس کا افلاس نہ تھا بلکہ اُس کی دینداری تھی جس کے باعث لعزر فردوس میں گیا اور جب وہاں پہنچا تو ایک دولتمند کی گود میں اُس نے آرام پایا۔

دِل کے غریب

ہمارے آقا ومولاسیدنا مسیح نے ایک قسم کے افلاس کی تعریف کی” مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہیں کی ہے“ ۔ یہاں ایسے لوگوں کی تعریف نہیں جس کے پاس دُنیاوی مال و متاع قلیل ہو۔ نہ ایسے لوگوں کی جو فقیری زندگی بسر کرنے کے لئے دُنیا کو ترک کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی تعریف ہے جو اپنی اخلاقی اور رُوحانی افلاس کا علم رکھتے ہیں وہ مبُارک ہیں کیونکہ اُن کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ الہیٰ نور میں وہ اپنے تاریک دلوں کو دیکھتے ہیں اور جس روح کا گزر ایسی حالت میں سے ہو وہ عرفان الہیٰ میں ضرور آگے بڑھےگی۔ فروتنی کے باعث دل کے غریب لوگ محسُوس کرتے ہیں کہ اب تک اُنہوں نے حقیقی عرفان اور قدرت کی دہلیز سے بھی عبور نہیں کیا۔ توبھی وہ خدا کے فضل پر تکیہ کرتے اور اُس کی معمُوری سے حاصل کرتے اور یہ ےقین رکھتے ہیں کہ اُن کے قدم ترقی کی راہ میں ہیں۔ ایسے افلاس سے ضرور حقیقی دولت پےدا ہوتی ہے۔

مسیح نے ایک دُوسرے موقعے پر یہ کہا۔”آسمان کی بادشاہت تمہارے اندر ہے“ ۔اس لئے جو شخص دل کا غریب ہے اور اپنی طرف سے آنکھ ہٹا کر حسُن الہیٰ کی طرف نگاہ لگاتا ہے۔ کچھ کمزور طور سے اوپر کی طرف دےکھتا اور جدوجہد کرتا ہے۔ توبھی اُسے علم ہے کہ اس کے باطن میں آسمان کی بادشاہی نشوونما پا رہی ہے کیونکہ ُروح القدس اُس کے اندر سکونت کر رہاہے۔

خودانکاری

کیا مسیحی دین میں کسی چیز کا ترک نہیں؟ ہے تو سہی بہت چیزیں آدمی کو ترک کرنی اور چھوڑنی پڑتی ہیں۔ کیونکہ اُن سے باطنی زندگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بہت مسیحیوں کو یہ بلاہٹ آتی ہے کہ خواہ وہ دُنیا کی عیش و عشرت کو قبول کریں یا خودانکاری کے مسیح کی دعوت کو۔ مسیح نے اس کا تقاضا کیا۔ بلکہ حقیقی شاگرد کے پرکھنے کا یہ معیار تھا۔آپ نے فرمایا!” اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہئے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے“ (متی 16باب 24آیت) ۔ ایک دوسرے موقعے پرآپ نے یہ کہا۔” اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچّوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دُشمنی نہ کرے۔ تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا“۔(لوقا14باب 26آیت) ۔آپ نے ایک مقولے میں اس کا لب لباب بیان کیا۔ ” جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اُسے بچائےگا“۔ (متی 10باب 39آیت)۔

بادی النظر میں اپنے عزیزوں سے دشمنی رکھنے کا خیال سخت معلوم ہوتا ہے لیکن سامعین کو معلوم تھا کہ مسیح کا مطلب کیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ شاگردی جیسے اہم امر میں اُسے سخت الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ نیم تجاویز کی وہاں گنجائش نہ تھی۔ تم یا تو مسیح اور اس کی محبت کو ترجیح دو یا اپنے گھر اور خویش اور اقربا کو۔ یہ آزمایش ہر ایک کے سامنے یکساں نہیں آتی۔ لیکن ایک نہ ایک وقت یہ آتی ضرور ہے اور جہاں ثواب یااجر کے خیال کے بغیر سر تسلیم خم ہوا اور ترک کے حکم کو مان لیا گیا اُس کا اجر یہ ہو گا کہ وہ جان فی الحقیقت تکمیل کو پہنچیگی اور ایسے مقصد کی طرف ترقی کر نے کے لئے کیا ایسا ترک مُناسب نہیں؟

دِل کی پاکیزگی

اس قدر ذکر کے بعد اب یہ بتانا ضرور نہیں کہ تصوف اور مسیحی دین دونوں میں دل کی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے۔ ناپاکی سے دل کی آنکھ اندھی ہو جاتی ہے۔ امام غزالی نے صوفیوں کے عقیدے کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا۔” دل کو ان ساری باتوں سے پاک کرنا جو خدا سے علاقہ نہیں رکھتیں ۔ دلی طہارت میں پہلا قدم ہے۔مسیح نے فرمایا۔”مبارک ہیں وہ جو دل کے پاک ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھنگے“۔ یہ دیدار یہاں سے شروع ہوتا ہے اور عاقبت میں اُسکی تکمیل ہوتی ہے۔

مسیح کے زمانے کے دینی پیشواؤں نے موسوی شریعت کے مطابق بدن کی شرعی پاکیزگی کی ضرورت کی تعلیم دی۔ پاک اور ناپاک چیزوں میں بڑا امتیاز کیا۔ لیکن مسیح نے یہ تعلیم دی کہ اُن دھوئے ہاتھوں سے کھانا کھانا۔ یعنی شرعی فعل کی فروگذاشت آدمی کو ناپاک نہیں کرتی نہ وہ شے جو منہ کے اندر جاتی ہے بلکہ وہ چیزیں جو منہ سے نکلتی ہے جہنوں نے یہ کلام سُنا اُنہوں نے اِس کا مطلب نہ سمجھا اس لئے مسیح نے یہ تشریح کی:۔

”جو باتیں مُنہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں اور وُہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال۔ خونریزیاں۔ زناکاریاں ۔ حرامکاریاں۔ چوریاں۔ جھوٹی گواہیاں۔ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا“ ۔(متی 15باب 18سے 19آیت)۔

مسیح نے ناپاکی کا جو خاکہ کھینچا وہ صحیح ہے اور ہر ایک شخص کو دل کو پاک کرنے والی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ دل کے پاک لوگ ان باتوں کو دیکھ سکتے ہیں جن کو ناپاک لوگ دیکھ نہیں سکتے اور حقیقی دین کے رازوں سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ ٹامس کیمپس نے یہ کہا۔ اگر تو چکھنا اور دیکھنا چاہتا ہے کہ خدا کیسا شیریں ہے تو تجھے عریاں ہو کر اور خدا کے آگے پاک دل ہو کر آنا چاہئے۔

منقسم ارادہ

مصیبت یہ ہے۔ کہ اکثر لوگ خدا کی جانب رُخ کر کے جب چلنے لگتے ہیں تو وہ اپنی سارے جدوجہد میں بیکس و لاچار محسُوس کرتے ہیں ۔ یہ اُن کے ارادے کے سکون کا نتیجہ ہے۔ ان کے اندر آرزو ایسی زبردست نہیں کہ ادنیٰ آرزو پر غالب آ جائے پُولس رسُول نے اپنی زندگی کی ایک حالت میں اپنے تئیں رُوحانی طور پر پابزنجیر پایا اور یُوں چلا اُٹھا۔ ”ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں۔ اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائیگا۔“ آگستین جو مسیحی کلیسیا میں بڑا عالم گزرا ہے وہ اسی قسم کے تجربے سے گزراا ُس نے اس کا یوں بیان کیا۔” جب انسان پر گہری ننید طاری ہوتی ہے تو اکثر آدمی اُسے دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتا گو اُسے پسند نہ کرتا ہو۔ اُسے آنے دیتا ہے ۔ یہی حال میرا تھا۔ مجھے یقین تھا۔ کہ اپنی شہوات سے مغلوب ہونے کی نسبت تیری محبت سے مغلوب ہونا بہتر تھا۔ گو اس موخرالذکر کا میں قائل تھا۔ تو بھی اوّل الذکر مجھے مرغوب تھا اور میں اِس میں مبتلا رہا۔ تیری دعوت کا جواب دینے کے لئے مجھ میں کچھ نہ تھا ! اے سونے والے جاگ۔ لیکن نےندکے وقت یہ الفاظ نکلتے رہے۔ ذرا ٹھہرو ۔ابھی اُٹھتا ہوں۔ لےکن اِس ”ابھی“ کا کوئی ”ابھی“ نہ تھا۔” اور ذرا ٹھہرو“۔ ایک طول طویل زمانہ ہو گیا۔۔۔۔۔ کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ تو بہت جلد سُن لیگا اور میری شہوت کی آرزو کا علاج کریگا۔ جسے میں نیست تو کرنا نہ چاہتا تھا بلکہ اُس کو پورا کر نا چاہتا تھا۔“

ہندوستان میں یہی تجربہ لوگوں کو حاصل ہوا۔ رابندروناتھ ٹاگور کا بیان ہے!” زنجیریں تو بہت سخت ہیں۔ لیکن جب میں انہیں توڑنا چاہتا ہوں تو دل دُکھنے لگتا ہے۔۔۔ اے دوست لیکن جو کوڑا کرکٹ میرے کمرے میں بھرا پڑا ہے میں اُس کو جاروب سے نکالنا نہیں چاہتا۔ جو پردہ مجھ پر پڑا ہوا ہے وہ خاک اور موت کا ہے۔ میں اس سے گھن کرتا ہوں تو بھی پیار سے اُس سے چمٹا رہتا ہوں۔ میرا فرض بھاری ہے میرے قصور بڑے ہیں۔ میری شرم پوشیدہ اور گراں ہے تو بھی جب میں اپنی بھلائی کے لئے عرض کرنے لگتا ہوں۔ تو میرے دل کانپتا ہے کہ کہیں وہ درخواست منظور نہ ہو جائے۔“

امام غزالی کی یہی حالت ہوئی ۔جب اُس کے ضمیر نے اُس کو ہدایت کی کہ کس رستے پر اُسے چلنا چاہئے۔ وہ لکھتے ہیں۔” صبح کو تو میں سچّے دل سے یہ ارادہ کرتا کہ اب میں عاقبت کی فکر میں ہی زندگی بسر کرونگا۔ اور شام کو جسمانی خیالات کا ایک بڑ ا ہجوم مجھے آگھیرتا اور میرے ارادوں کو منتشر کر دیتا“۔ یہ تجربہ بھی پولس کے تجربے کے مشابہ تھا۔ جس نے یہ لکھا ”جس نیکی کا میں ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کر تا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں“۔(رومیوں7باب 15آیت)۔

نفس غلام بنانے والا

اِس منقسم ارادے سے ہم کو کیوں تکلیف پہنچتی ہے؟ اعلیٰ کی طرف ہمارے اندر میلان تو ہے لیکن کوئی شے رُوح کو اُس اعلیٰ طبقے کی طرف پرواز کرنے سے روکتی ہے۔ جو کہ اُس کی حیات ہے۔ اُس کے پروں میں ایک بوجھ بندھا ہے جو اُسے زمین کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے۔ حقیقی نفس کو اس ادنیٰ نفس نے غلام بنا رکھا ہے ہمارے اندر ایک ادنیٰ یا شہوانی نفس پایا جاتا ہے۔ جو اعلیٰ کو دبائے رکھتا ہے۔ منشا تو یہ تھا کہ اعلیٰ نفس سلطان ہو اور ادنیٰ اُس کا غلام۔ لیکن اکثروں کی زندگی میں یہ معاملہ بالکل برعکس ہو گیا اگرچہ انسان کی آرزو اور احساس اور اعتراض ایسی غلامی کے خلاف ہیں۔

مُسلمانوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اس طریقے سے جکڑ بند ہونے کے کیا معنی ہیں۔ اُن کو اِس امر کا علم ہے کہ انسان کے باطن میں مخالف عناصر موجود ہیں۔اور جو عنصر ان کے باطن میں خلل پیدا کرتا اور ان کی رُوح کو غلام بناتا ہے اُسے وہ نفس سے موسُوم کرتے ہیں ۔جذبات اور شہوات کا یہ صدر مقام ہے اور اُس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو مسیحی اصطلاح میں جسم کہلاتا ہے ۔ کیونکہ انجیل میں لفظ جسم سے وہ ادنیٰ ذات مراد ہے جو ارادے کو بدی کی طرف مائل کرتی ہے۔

جس قدر اس نفس کی حکومت کم و بیش ہوتی ہے اُسی قدر خدا اور انسانی رُوح میں جُدائی کم و بیش ہوتی ہے۔ محمد صاحب کا قول ہے”۔ تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے“ اوراکثر مسلمان اس قول پر صاد کرینگے۔ تمثیلاً اس کو لومڑی اور سانپ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اَل حلّاج کہا کرتے تھے کہ بعض اوقات ان کاا نفس کتّے کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ سارے صوفیوں کا یہ خیال ہے۔ کہ یہ نفس ایک ادنیٰ۔ رینگنے والی اور آلودہ کرنے والی ذات ہے جو رُوح کو غلام بناتی اور اُس کے نشوونما کو روک دیتی ہے۔ انگریز شاعر نے اِسی مضمون کو کچھ یوں بیان کیا تھا:۔

اب ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ کسی غیر مرئی دیو نے اپنے قوی اور ناپاک ہاتھ میرے ارادے پر ڈالے ہیں اور مجھے کھینچ کر اپنی طرف لے جا رہا ہے اور میری ہستی کی خُوشحالی کو لوٹ کر لے جا رہا ہے۔

پس دل تک دو اطراف سے یا دو پھاٹکوں کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔” جسم “ کے ذریعے اور ” روح “ کے ذریعے۔ یا بقول رومی:۔

ایک یہ ُدنیا ہے اور ایک وہ دُنیا ہے

اور میں دہلیز پر بیٹھا ہوں۔

کیا میں حیوانیت کی طرف جھکوں یا خدا کی طرف؟ اس سوال کا جواب ہم سب نے دینا ہے۔

ایک دفعہ محمد صاحب بعض قبیلوں کے ساتھ جنگ کر کے واپس آ رہے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ جہاد نفس جہاد اکبر تھا۔ اُنہوں نے یہ محسُوس کیا کہ انسان بذات خود اُس خوشی تک پہنچ نہیں سکتا جو انسانی رُوح میں خُدا کے سکونت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

ہم ناظرین سے بمنت عرض کرتے ہیں کہ اس کے متعلق جو کچھ انجیل میں بیان ہوا ہے اُس کو غور سے پڑھیں۔ اس میں ایسے لوگوں کا بیان بکثر ت ہوا ہے جو مسیح اور رُوح القدس کی تاثیر سے موثر ہوتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں پیش کرنا مُناسب ہوگا۔اس میں ذکر ہے کہ انسان کے باطن میں ایک پُرانا مخلُوق ہے اور ایک نیا مخلُوق ہے۔ ایک جسمانی انسان ہے اور ایک رُوحانی۔ اور یہ تشبہیں مسیحی دین کی جان ہیں۔ جیسا ہم نے ماقبل باب میں ذکر کیا انسان اپنی طبعی حالت میں اپنے اندر اخلاقی تبدیلی خود بخود پیدا کر نہیں سکتا ۔ جس سے کہ اُس کی رُوح کو نئی زندگی اور خدا کے ساتھ مستقل شراکت حاصل ہو۔

توبہ اور تبدیلی دل مسیحی دین میں لازمی امور ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ توفیق الہیٰ کی ضرورت ہے۔ خدا کا رُوح القدس انسان کے دل کو از سر نو پیدا کر تا ہے اور اُس سے نئی زندگی اور رُوحانی تبدیلی حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ نہ صرف واحد حقیقی دین ہے۔ بلکہ دین کی تاریخ میں لاثانی دین ہے۔

تصّوف کی کتابوں میں اس کے لگ بھگ ایک مشہور مسلمان صُوفی عورت کا قصّہ آتا ہے۔ اس عورت کا نام ربیعہ العدویہ تھا جو750ہجری میں زندہ تھی۔ ایک دفعہ کسی نے اُس سے یہ پوچھا کہ اگر میں تائب ہو کر خدا کی طرف پھروں تو کیا رحم سے وہ میری طرف پھریگا ؟ اُس نے جواب دیا ۔نہیں۔ بلکہ اگر وہ تیری طرف پھر یگا تو تُو اس کی طرف پھریگا۔“

انسان اور خداوند دونوں کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جب بیدار شدہ اور تا ئب رُوح کے پاس رُوح القدس آتا ہے تو ایک نیا آغاز۔ ایک نیا مخلوق ایک نئی نیّت انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے جو اسے خدا کے ساتھ ایک نیا رشتہ اور شراکت رکھنے کے قابل کر دیتا ہے۔

رُوح القدس کس صورت میں آتا ہے؟ بعض اوقات خدا کے سانس کے طور پر۔ کیونکہ جب مسیح نے انسان کی رُوح کے اندر نئی پیدائِش پیدا کرنے کے لئے رُوح القدس کے فعل کا ذکر کیا۔ تو آپ نے یہ فرمایا۔” ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے۔ اور تُو اس کی آواز سنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے جو کوئی رُوح سے پیدا ہوا ایسا ہی ہے“ ۔(یوحنا3باب 8آیت)۔

ایک دوسرا امر جو مسیحی تجربے میں لاثانی ہے وہ یہ ہے ۔ نئی زندگی کے متعلق انجیل میں صاف بیان ہے کہ نو پیدا شدہ رُوح گناہوں کی معافی اور اُس کے ساتھ اطمینان کا احسا س بھی بہت ہوتا ہے۔ ایک مثال لیجئے۔ کسی بچّے نے اپنی والدہ کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے اُس کو سخت رنج پیدا ہوا وہ اپنے گناہ کو محسوس کر کے اُس کا اقرار کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنی ماں کی گود میں پھر کیسے جا سکتا ہے۔جب تک اُسے یہ محسوس نہ ہو کہ اُس کی والدہ نے اُسے معاف کر دیا ہے؟ اُس کے اور اُس کی والدہ کے درمیان اتحاد کیسے ہو سکتا ہے جب تک کہ بچہ اپنی ماں کے محبت بھرے تبسّم کو دیکھ نہ لے؟

انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ”خدا مسیح میں دنیا کو اپنے ساتھ ملا رہا تھا اور ہر بیدار شدہ رُوح جو اس صداقت پر ایمان لاتی اور مسیح کو قبول کرتی ہے اُسے یہ خوش تیقن حاصل ہو تا ہے کہ مسیح کی خاطر خدا نے اُسے معاف کر دیا ہے۔ اس باطنی طریقے میں مسیحی شخص یُوں قدم اُٹھاتا ہے۔ خدا کی معافی کا یہ تجربہ ُروح کو حاصل ہوتا ہے اور پاکیزگی اور تقدیس کی تاثیر کو وہ محسُوس کرنے لگتا ہے۔

یہ دعوت ہے کہ انسان تاریکی میں سے نکل کر خدا کے عجیب نور میں آئے۔ اس کے ذریعے سے رُوح اور خدا کے درمیان صحیح رشتہ قائم ہوتا ہے جس کے ذریعے سے خدا کا ہمارے اندر بسنا ممکن ہو جاتا ہے۔

چوتھا باب

کمال کی طرف ترقی

جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ صوفی کی منزل مقصود کیا ہے تب تک اُن کے طریقے کی ٹھیک سمجھ ہم کو مل نہیں سکتی۔ پروفیسرنکلسن صاحب لکھتے ہیں۔” سارے تصّوف کا دارومدار اس عقیدے پر ہے کہ جب انسان کی اپنی فردیت اور خودی معدوم ہو جاتی ہے تب وہ عالمگیر رُوح ملتی ہے یا دینی عبارت میں یُوں کہیں کہ وجد ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے رُوح خدا کے ساتھ براہِ راست میل جول و اتحاد حاصل کر سکتی ہے ۔ ریاضت ۔ طہارت۔ محبّت۔ عرفان تقدّس جو تصّوف کے بڑے اصول ہیں ان کی نشوونما اسی اصول سے شروع ہوتی ہے۔“

متواتر سعی یہ ہونی چاہئے کہ یہ فردیت اور خودی معدوم ہوتی جائے۔ کیونکہ اسی کے معدوم ہونے سے کامل حقیقی رُوح کی پہچان حاصل ہو سکتی ہے۔ برہمن اپنا شدوں کی تعلیم کے یہ عین مطابق ہے۔

جب تک دوئی قائم رہتی ہے الہیٰ وحدت ناکامل رہتی ہے۔ یہی ہمہ اوست کی تعلیم ہے۔

توحید کی یہ نئی تشریح ہے۔ یہ توحید صدیوں سے مسلمانوں کا عقیدہ رہا ہے۔ صوفی شخص کے نزدیک وحدت کے یہ معنی ہیں کہ انسان فنافی اللہ ہو جائے۔ اور یہ کلمہ لا اللہ الا اللہ بدل کر لا ۔ الا اللہ رہ جاتا ہے۔ یا جیسا کسی صوفی نے کہا۔

جناب حضرت حق رادوئی نیست

دراں حضرت من و ماتوئی نیست

من وما وتو واو ہست یک چیز

کہ درو حدت نباشد، ہیچ تمیز

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ واحد کیوں کثرت بن جائے۔ یہ ہندو مسئلہ ہے۔ صوفی اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ طامع مصنف کی طرح جو یہ چاہتا ہے کہ اُس کے طبع زاد خیالات اس کی کتاب کے ذریعے دوسروں کو معلوم ہو جائیں ایسا ہی اس اعلیٰ عقل کی یہ آرزو تھی کہ ایسے وجود پیدا کرے جن میں وہ اپنی ہمہ دانی ڈال سکے۔ کبھی اس خیال کو ان لفظوں میں ظاہر کیا جاتا ہے ”اس محبوب نے شیشے میں اپنے حُسن کو دیکھ کر یہ آرزو کی کہ بہت سے شیشے پیدا ہو جائیں جن میں اُس حُسن کا عکس ظاہر ہو۔

وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانی رُوح اب تاریکی اور منتشر نور کے ہزارہا حجابوں میں لپٹی پڑی ہے۔ یہ حجاب اُسے حقیقت سے علٰیحدہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ حجاب بھی خود خدا نے ہی پیدا کئے ہیں۔

صوفی تصنیفات میں اس کا بہت ذکر آتا ہے کہ انسان میں رُوح اُس حقیقی زندگی سے علیحدہ ہو کر آتش ہجر میں تڑپ رہی ہے۔ اسی نے مثال دی۔” انسان کی رُوح اُس تنے کی مانند ہے جسے کسی نے اُس کی جگہ سے کاٹ لیا اور اُس کی بانسری بنا لی اب اُس بانسر ی کی درد ناک آواز آنکھوں سے آنسو بہا رہی ہے ۔ اہلِ تصوف کہتے ہیں کہ جب بچّہ روتا ہوا پیدا ہوتا ہے۔ تو اس کی یہی وجہ ہے کہ رُوح خدا سے اپنی جُدائی کو محسُوس کر رہی ہے اور جب جوخواب میں بچہ چلاتا ہے تو وہ یہ محسُوس کر تا ہے کہ میں راہ بھُول کر اپنے اصلی وطن سے دُور جا پڑا ہوں۔ بعدازاں جب وہ دنیا وی امور میں محو ہو جاتاہے تو جُدائی کا یہ احساس جاتا رہتا ہے۔ اس لئے اُس کو از سر نو بیدار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

جو حجاب صوفی کو حق سے جدا کئے ہوئے ہیں۔ اُن کو کیسے دور کریں؟ کسی ہندو یوگی یا مسیحی راہب نے اس اعلیٰ رویت کے حاصل کرنے کے لئے اپنے تئیں ایسے دُکھ نہیں دئیے جیسے کہ صوفیوں نے دئیے ہیں۔ درد اور شرم کو انہوں نے حقیر جانا اور بدھ کی طرح وہ یہ کہنے لگے:۔

ساری خوشحالی کی خوشحالی اور ساری خُرمی کی خُرمی اس دروغ کو ترک کرنا ہے جو یہ کہتا ہے کہ”میں ہوں“

اللہ کا نام

جُدائی اور تاریکی کے حجابوں کو دور کرنے کا بڑا طریقہ اللہ کے نام کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر عماد الدین نے جو اسلامی علوم کے عالم جید اور قطب جمال ولی اور فارس کے شاہی خاندان سے تھے اور جہنوں نے مسیحی ہو کر پنجاب میں وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف میں زندگی کا بڑا حصہ گزارا اپنے مسیحی ہونے سے پیشتر کا حال بیان کرتے وقت یہ ظاہر کیا کہ صداقت کی تلاش میں اُن کو ایک کتاب بہت عزیز تھی۔ اس میں صوفی تعلیم کی ہدایات تھیں۔ جہاں کہیں وہ جاتے اس کتا ب کو اپنے ساتھ رکھتے اور اس کی تعلیم پر چلنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ۔ اس کتا ب کے بارے میں اُنہوں نے یہ تحریر کیا۔

میں قرآن سے بھی زیادہ اس کتاب کو پیارا جانتا تھا۔ یہاں تک کہ سفر میں رات کو ساتھ لے کر سوتا۔ اور جب میری طبعیت گھبراتی تو اس کتاب کو چھاتی سے لگا کر دل کو آرام دیتا میں نے اُس کی بتائی ہوئی ساری رسوم پر عمل کیا۔ وہ یہ ہیں کہ بے سِلا کپڑا پہن کر بارہ دن تک با وضو ایک زانو ایک نشست پرنہر جاری کے کنارے بیٹھ کر باآواز بلند تیس بار ہر روز پڑھے دُنیا کی کوئی چیز نہ کھائے۔ نمک کا کھانا بھی نہ کھائے۔ صرف جو کا آٹا حلال کی کمائی کا لا کر اپنے ہاتھ سے روٹی پکائے۔لکڑی بھی خود جنگل سے لائے۔ جو جوتا بھی نہ پہنے۔ برہنہ پارہے۔ اس کے ساتھ روزہ رکھے۔ دن سے پہلے دریا میں غسل بھی کرے۔ کسی آدمی کو نہ چھوئے بلکہ وقت معیّنہ کے سوا کسی سے بات بھی نہ کرے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ خدا سے وصل ہو جاتا ہے۔ اُسی لالچ میں بندہ نے یہ دُکھ اُٹھایا۔ اس کے سوا لاکھ دفعہ لفظ اللہ بھی اسی حال میں کاغذپر لکھا۔ ایک جزو کاغذ ہر روز لکھ ڈالتا تھا۔ بلکہ مقروض سے ہر لفظ علٰیحدہ علٰیحدہ کترکے آ ٹے کی گولیوں میں لپیٹ کر دریا کی مچھلیوں کو کھلاتا تھا۔ یہ عمل بھی اُسی کتاب میں لکھا تھا۔ دن بھر یہ کام کرتا رات کو نصف شب سوتا ۔ نصف شب بیٹھ کر لفظ اللہ خیال کے اندر دل پر لکھ کر خیال کی آنکھ سے دیکھا کرتا اس مشقت کے بعد جب وہاں سے اُٹھا تو میرے بدن میں طاقت نہ رہی۔ رنگ زرد ہو گیا۔ میں ہوا کے صدمے سے اپنے تئیں تھام نہیں سکتا تھا۔

ایک راست رُوح کے تجربے کے بیان سے کس قدر سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرنے میں کیسی جدوجہد درکار ہے ۔کہتے ہیں کہ اس سے دل پاک اور حسین ہو جاتا ہے اس کی آواز رُوح کا راگ ہے۔ اہل اسلام ہر جگہ اس نام کا تلفظ ایسے طریقے سے کرتے ہیں۔ تاکہ خدا کا دیدار بہت جلد اُن کو حاصل ہو جائے۔

ہم یہ مان لیتے ہیں کہ عزم جزم کے ذریعہ یا کسی جملہ یا نام کے طوطے کی طرح رٹنے کے ذریعے بعض گناہوں سے آدمی بچ جائے۔لیکن یہ تو بالکل ناممکن ہے کہ ایسے طریقے سے انسان ایسے اعلیٰ درجے کو پہنچ جائے جس سے کہ اُس کی مرضی اور خدا کی مرضی ایک ہو جائے۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہیں کہ ایسے تکرار الفاظ یا ذکر کے ذریعے یہ صوفی مقصد حاصل ہو جائے کہ وہ اپنے آپ کو بھُول جائے۔ لیکن خدا کا یہ منشا نہیں۔

حالت وجد

اللہ کے نام کے ذکر میں مدد کرنے کے لئے مسلمان صوفی ایک مناجات بھی استعمال کیا کرتے ہیں۔ اس کام اُن میں ذکرہے۔ اس میں خاص طور پر ہر سانس لیا جاتا اور خاص بدنی حرکات پر عمل کیا جاتا ہے۔دینی مجلسوں میں اس پر عمل کرتے ہیں۔ جن میں ایک یا زیادہ اشخاص اس نام کے ذکر کی واحد کوشش میں محو ہوتے ہیں۔ یہ ذکر خفی بھی ہوتا ہے اور جلی بھی لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کے خیال کے سوا اور کوئی نہ رہے۔ صوفی تعلیم میں اگر کوئی عملی بات ہے تویہی ذکر ہے۔

جب آدمی بتدریج حروف الفاظ اور جملے بالکل بھُول کر ایک ہی خیال حاصل کر لیتا ہے تو اسے وہ ترقی کہتے ہیں۔دیگرالفاظ میں رُوح کی تبدیلی صرف اُس وقت ہوتی ہے جب جواس ظاہری کے تصّور سے حواس باطنی کو حاصل کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی شے میں ایسا محو ہونا ممکن ہے کہ کسی شے کے حاصل کرنے میں باطنی عمل بالکل فراموش ہو جائے۔ لیکن اس نام کے ذریعہ کیا وہ تصور یا مقصد حاصل ہوتا ہے؟ صوفی کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

مولانا رومی کی طرح ہم پُوچھتے ہیں۔

کیا کوئی نام اپنے موضُوع کے بغیر ہوا کرتا ہے؟ کیا تم نے کبھی گملے سے پھول توڑے۔

تم اُس کا نام لیتے ہو۔ اُس حقیقت کو جا کر ڈھونڈو جس کا یہ نام (1) ہے۔

یہ تو آشکارا ہے ۔ کہ اکثر صوفیوں کا مقصد اور غائت یہ ہے۔ کہ دل سادہ لوح کی طرح ہو۔ تاکہ اُس میں وجد کی حالت پیدا ہو سکے اور پھر اُس غائت حالت میں منتقل ہو سکے۔ جس میں کہ انسانی روح فنافے اللہ ہو جاتی ہے۔ اور وجد کے ذریعہ یہ حالت پیدا ہو سکتی ہے۔ محبت۔عرفان۔ توکل علیٰ اللہ کی منزلیں ہیں۔ لیکن وہ سب اُس وجد یا حالت کا جُز ہیں جس میں ارادہ اور عقل نیست ہوتے جاتے ہیں۔ احساس ہی احساس باقی رہتا ہے۔ رقص کے چکر اور کافیوں کا سُریلا پن بعض اوقات جام شراب اس حالت کو پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں او ر اس کا نام رُوحانی خوشی رکھا جاتا ہے۔


(1) جلال الدین رومی جلد اول حکایت 14

بہت مسلمانوں کو اب یہ معلوم ہوتا جاتا ہے۔ کہ رقص و سروں کی یہ ریاضتیں اُن کے عاملوں کے لئے مضر ہیں۔ پروفیسر میکڈالنڈ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ قاہرہ میں تھے تو اُس نے ایک دوست سے سنا جو صاحب مطبع تھے کہ انہیں اپنے دو کمپازٹیروں کو موقو ف کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے کام کے لئے بالکل ناقابل ہو گئے تھے۔ چنانچہ اُس نے بیان کیا کہ وہ ہفتے میں دو دفعہ ان ذکروں کے لئے جاتے اور اُس کا یہ نتیجہ تھا۔ کہ ان دنوں میں وہ جس حرف کو جوڑ نے بیٹھتے تو سارا دن وہی دینی جملے اُن کی زبان سے نکلتے رہتے اور یوں اُن کے کام میں ہرج واقع ہوتا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ ایک مقناطیسی حالت خواب پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ حالت بذات خود تو حظ کی حالت تھی لیکن وہ حالت ویسی خراب تھی جیسے کہ افیوں وغیرہ کے نشہ سے انسان کاہل الوجود ہو جائے۔ اُن کو یہ خواب جیسا تو حاصل ہو گیا اور وہ سارا دن اسی مقناطیسی بیہوشی میں پڑے رہتے۔

انجیل میں لکھا ہے کہ”شراب پی کے متوالے نہ ہو بلکہ رُوح سے بھر جاؤ۔“ (افسیوں5 باب 18آیت)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدنی فطرت کے بعض احساس کے ذریعے نشہ حاصل کرنے کی تلاش نہ کرو نہ کسی زہریلی شے سے جس سے کہ اعصاب پر عارضی اثر بلکہ حقیقی چشمے سے الہام۔ قوت اور تقدیس کی تلاش کرو۔ یعنی خدا کے ُروح القدس سے جو دل میں آ کر صداقت اور محبت کا فرحت بخش نور بخشتا ہے۔

جذباتی تصور

صوفیوں اور درویشوں کی یہ حالت وجد کبھی کبھی عجیب صورت اختیار کر لیتی ہے اور اُس وحدت کی طرف ترقی کرنے کے لئے عجیب مثالیں اور تشبیہیں استعمال کرتی ہے۔ عرفان اور عشق کے دو مسئلوں کی تشریح جن کا اتحاد معرفت میں پاتا جاتا ہے۔ عشق مجازی اور شراب خانہ کی مثالوں سے کی جاتی ہے۔ صوفی کتابوں میں عشق کے قصّے کہانیاں بھرے پڑے ہیں اور بڑے مبالغے سے اُن کا بیان ہوا ہے۔ زلیخا اور یوسف کی باہمی محبت کو رُوح کے عشق الہیٰ کی تمثیل ٹھہرایا ہے۔

پروفیسر نکلسن صاحب لکھتے ہیں۔” معبثوق کے گُل رخسار کی الہیٰ ذات کی مثال ہے جو اپنی صفات میں منکشف ہوتی ہے۔اُس کی سیاہ زلفیں اس بات کا نشان ہیں کہ وہ واحد کثرت کے پردوں میں چھپا ہے۔ جب اُس نے یہ کہا کہ ”مے پی تا کہ وہ تجھے اپنے آپ سے مخلصی دے“۔ تو اس کے یہ معنی ہیں کے” الہیٰ مراقبہ میں محو ہو کر اپنے آپ کو بھُول جا۔ یہ عشقیہ اور شراب خوری وغیرہ کے اشعارے اسلامی نظم ہی کا خاصہ نہیں لیکن جس قدرمبالغے سے اسلام نے ان کا بیان کیا اور کسی جگہ پایا نہیں جاتا۔

وجد کی جس حالت سے صوفی کمال کی طرف ترقی کر تاہے۔اُس کو پرکھنے سے یہ واحد نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ جب انسان کو ایسی اعلیٰ شخصیّت سے مدد نہ ملے اور نہ اَور کوئی ذریعہ حاصل ہو۔ تو وہ محبّت کے عقلی نصب العین ہی کی تلاش کرتا ہے۔ یہ ایک جذباتی نصب العین ہے۔ اور وہ نشوونما پا کر اُس کے لئے یہ ممکن کر دیتا ہے کہ ایسی باطنی حالت کو حاصل کرے جس میں اُس کو ابدی خوشحالی کا حظ اٹھانے کی توقع ہے۔ محبت کا جو مسیحی رُوحانی نصب العین ہے اُس سے یہ متفرق ہے۔ یہ مسیحی نصب العین ہمیشہ انسانی رشتوں کے ذریعہ ظاہر کیا جاتا ہے اور اُس واحد کے ساتھ شخصی رفاقت و شراکت ہی میں اُس کا تجربہ کر سکتا ہے جو باپ دوست اور رفیق ہے۔

مسلمان صوفی اس حالت وجد میں جس قدر زیادہ ترقی کرتا ہے اُسی قدر زیادہ علم الہیات کے مسئلے مسائل سے آزاد ہوتا جاتا ہے ۔ اور اخلاقی تصورات کی اطاعت سے آزاد مستغنی اور عقل سلیم کی ہدایات سے لاپرواہ ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ فردیت بتدریج کافور ہوتی جاتی ہے۔ گوبدن حسب ِمعموُ ل کھاتا پیتا ہے وہ فردیت بتدریج فنا کی حالت تک پہنچ جاتی ہے۔ اس حالت میں رُوح ِ نجات حاصل کرتی ہے۔ اور اس طریقے کا بھی کمال ہے۔ اس کا رشتہ بقا سے ہوجاتا ہے۔ اور وہ محویت کی حالت ہے۔ اور جسے امام غزالی صاحب نے خدا میں مجذوب ہو جانا کہا ۔

پس اس سفر کا انجام ”اس سادہ عمل کا کمال ہے جس کے ذریعے رُوح بتدریج ہر مغائر اشیا یا غےر خُدا سے علےحدہ ہوتی ہے۔ ۔۔ یعنی ربوبےت کے درجہ تک جا پہنچتی ہے۔“

رُوحانی خود کشی

ناظرینِ رسالہ ہذا کو کئی دفعہ یہ خیال آیا ہو گا کہ اس تصوف کی تعلیم میں بہت ساری خطر ناک غلطیاں ہیں۔ مثلاً اگر ہم اس واحد نور کے شرارے ہیں۔ تو ہم میں قصور داری کا احساس کیوں پایا جاتا ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ سالک کی پہلی منزلوں میں گناہ اور توبہ کے احساس پر بہت زور دیا گیا۔ نفس کیسا گھناونا ظاہر کیا گیا اور آدمی میں منقسم ارادے یا دو دلی کا بارگراں کا احساس پایا گیا۔ ایسے خیالات اس تعلیم سے کیسے مطابقت رکھ سکتے ہیں کہ صرف وہی موجُود ہے اور باقی سب کچھ غیر وجود ہے۔ کیا دنیا کا گناہ اُس کے ذمے لگا یا جائے؟

صوفیوں کو یہ مشکل پیش آئی اور ان کو یہ کہنے کے سوا چارہ نہ رہا کہ بدی بھی خدا کا جُز تھی۔ اُن کے شاعر اور فلاسفر ایسا کہنے سے ذرا نہیں شرماتے اور اس میں خدا کی شان پر کیسا بٹّا لگایا جاتا ہے۔

مولانا رومی فرماتے ہیں۔

جیسا تو کہتا ہے وہ بدی کا چشمہ ہے۔

تو بھی بدی اُسے نقصان نہیں پہنچاتی۔ بدی بنانے ہی میں اُس کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔۔۔اگر وہ بدی پیدا نہ کر سکتا۔ تو اس میں حکمت کی کمی ظاہر ہوتی۔

اس لئے وہ کافر بناتا ہے اور مومن مسلمان تا کہ دونوں اس پر شہادت دیں اور اُس واحد قادر مطلق خُدا کی پرستش کریں (دفتر دوم حکایت 10)۔

جب مولانا صاحب سے کسی نے پوچھا کہ جس خدا نے بدی پیدا کی تو وہ خود بھی بد ہو گا۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر تصویر میں بد صورتی پائی جائے تو وہ مصّور کی بد صورتی پر دال نہ ہوگی۔ تصّوف میں ایسی ہی تعلیم پائی جاتی ہے۔ جس سے خالق کی کسر شان ہوتی ہے اور اس کو ہم سے بھی زیادہ ضعیف ٹھہراتی ہے۔ بہر حال سب کچھ اس پرمنحصر رکھتا ہے کہ ہم خدا کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے اندر ذمہ داری کا احساس گھٹ جائے گا۔ خدا کی سیرت کو موہوم اور مبہم بنا دو۔ اور یہ کہہ کر انسان کی ذمہ داری کو گھٹا دو کہ وہ تو خود خدا ہی ہے۔ اُسی وقت سارے اخلاق کا قلع وقمع ہو جائے گا۔ صداقت شخصیّت اور بقا کی دیوار منہدم ہو جائے گی۔ ایسی تعلیم سے ابتری اور بدی کے سوا اور کیا پیدا ہو سکتا ہے۔

امام غزالی نے اپنی ایک کتاب میں یہ بیان کیا کہ اُن دنوں میں بھی صوفی تعلیم بعضوں کے لئے کیسی مضر تھی۔ اُنہوں نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ بہت لوگ خدا کے عشق اور اُس کے وصل کا تو بہت ذکر کرتے۔ لیکن اپنے فرائض سے غافل رہتے تھے۔ الحلاج کو انا لحق کہنے کے باعث دار پر کھینچا۔ حالانکہ بایزید بسطامی الحمد اللہ کی جگہ الحمدنی کہا کرتے تھے اور ان کا یہ تکیہ کلام تھا۔ لَیس فِی جُبّتِی سَوا اللہ۔ ”میرے جبے کے اندر سوائے خدا کے کچھ نہیں۔ دُوسروں کی بھی یہی عادت تھی۔ اس لئے امام غزالی نے یہ درخواست کی کہ اس قسم کے خیالی پلاو عوام الناس کےلئے نہایت ہی مضر ہیں۔ اور بہت اہل حرفہ لوگوں نے اپنے پیشے چھوڑ دئیے اور اس قسم کے جملے اپنی زبان سے نکالنے لگے۔ اس قسم کے جملے لوگوں کو بہت دِل پسند تھے ۔ کیونکہ اس سے لوگوں کو یہ امید ہو جاتی ہے کہ اپنے کام چھوڑ کر وجد و رقص کے ذریعے اپنی رُوحوں کو پاک کر لیں گے۔ عوام الناس بھی ایسی باتوں میں اپنا حق جتاتے اور اِسی قسم کے پریشان خیالات ظاہر کرتے ہیں۔

ایسے ہمہ اوستی خیالات سے بام مارگی تعلیم پیدا ہوتی ہے۔ کوئی یوں کہہ سکتا ہے کہ میری ہستی تو عارضی ہے اور بہت جلد وحدت میں غرق ہو جائے گی پھر میں نیکی۔ خدا اور اپنے ہمجنسوں کے لئے اپنے تئیں کیوں دُکھ دوں۔” کھا ۔پی اور خوش ہو کیونکہ تیرے دن تو گذرنے والے ہیں۔

عمر خیام نے یہی کہا تھا۔

جو کچھ ہم صرف کر سکتے ہیں صرف کریں

قبل ازیں کہ ہم خاک میں مل جائےں۔

خاک میں خاک جا ملے اور ہم خاک میں مل جائےں۔

مےَ۔غزل۔مطرب کے ساتھ زندگی ختم کریں۔

صوفی کوشش کے انجام تک ہم پہنچ گئے۔ انسانی فردیت خدا کی ہستی میں جذب ہو گئی۔ جیسے بادل آفتاب کی درخشانی میں غائب ہو جاتا ہے۔العرض صوفی کمال خیال۔ اَورشخصیّت کی نفی ہے۔ مسیحی دین کی تعلیم اس کے بر خلاف ہے۔ مسیحی دین میں عقیدہ کل شخصیت یعنی عقل۔ دل اور ارادہ سے علاقہ رکھتا ہے۔ اس میں” میں “ اور ”تو“ کا عدم نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کا کامل اتحاد ہو جاتا ہے یہ نفس کا فراموش کرنا نہیں بلکہ محبت میں اُس کا اظہار ہے۔ راستبازی پر زور ہے نہ محض ترک پر۔ خدا واحد ہے۔ لیکن وہ کثرت کو معدوم نہیں کرتا۔ بلکہ وہ کثرت میں سکونت کرتا اور اُس کثرت میں جو متفرق دل اور ارادے پائے جاتے ہیں اُن کو زیور حُسن سے آراستہ پیراستہ کرتا ہے۔ اُس کی زندگی سے ہر زندگی کو حرکت ہے۔ لیکن ایک خاص معنی میں وہ ایسی زندگی میں موجزن ہوتی ہے جس نے یسُوع کو اپنا الہیٰ نجات دہندہ تسلیم کر لیا۔ اور وہ زندگی کو ایسی اخلاقی قوت اور رُوحانی سیرت سے مزین کرتی ہے کہ رُوح انسانی اپنے تئیں دوسری رُوحوں سے علیحٰدہ نہیں کر سکتی بلکہ جوش و خرمی کے ساتھ دُوسروں تک پہنچتی ہے اور خُدا کی محبت کو ظاہر کرتی ہے۔

ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح نے یہ فرمایا۔” تم مجھ میں قائم رہو“ تم میری محبّت میں قائم رہو“۔ اُسی موقع پر اُس نے یہ بھی فرمایا۔ جیسی میں نے تم سے محبّت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبتّ رکھو“۔ یہ دونوں تصّور لازم ملزوم ہیں۔ یہی محبت شخصیّت کا کمال اور مسیحی عقیدے کا لب لباب ہے۔ ہمارے اندر جس قدر گہرا احساس اس محبت کا ہو گا اسی قدر زیادہ ہمارے عمل میں اُس کا اظہار ہوگا۔

الغرض مسیحی شخص میں اِن صوفی تجربات کا ایک اخلاقی مقصد ہے جس سے وہ خُدا کا حق اور انسان کا حق بجا لانے کے قابل ہو جاتاہے۔ چونکہ خدا نے ہم کو انسانی سو سائٹی میں رکھا ہے۔ اس لئے بحثیت باپ۔ خاوند۔ شہری اور ممبر سو سائٹی اپنا فرض ادا کر کے آدمیوں کے درمیان خدا کی سلطنت اور خدا کے شہر کی تعمیر کریں۔

پانچواں باب

کامل رُوحانی رہنُما

اہل تصوف میں اس امر پر اکثر بحث رہی کہ خُدا کے ساتھ اتحاد پیدا کرنے کا کوئی وسیلہ بھی ہے۔ بعضوں کے نزدیک تو یہ خیال بلا وساطت وصل کے خلاف ہے۔ لیکن بلا شک صُوفی درویش سفر کی ابتدائی منزلوں کے لئے بالخصوس ایسے وسیلے کی ضرورت مانتے ہیں۔ بغیر رُوحا نی مرُشد کے سالک بن نہیں سکتا۔اس مرُشد کو پیر یا شیخ بھی کہتے ہیں۔ اور یہ بھی ضرور ہے کہ پیر خود سالک رہ چکا ہو۔ اور اس راہ کے رازوں سے بخوبی واقف ہو۔ درویشوں کے سارے خاندان اس پر زور دیتے ہیں۔

اس لئے مرُید اپنے پیر کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ چشتی خاندان کے ایک کلکتہ کے رہنے والے پیشوا کا یہ قول ہے۔ پہلی منزل میں مرید کو چاہئے کہ اپنے پیر کو پیار کرے اور اپنا سب کچھ اُسی کو سمجھے۔ اُس کی گفتار رفتار اور عبادت اپنے شیخ کی مانند ہو۔ اُس کا اُ کل و شرب بھی اُس کی مانند ہو اور اُس پر برابر اپنا دھیان جمائے رکھے۔ شیخ اس نو مرید کو اپنے زیر نظر رکھے۔ اُس کی تربیت کرے اُس کی کامیابی یا ناکامیابی کا اقرار سنُے اور اُس کی رُوحانی ترقی کا اندازہ لگائے۔

پیر کی تاثیر

پیر اُسے یہ تلقین کرتا ہے کہُ فنا شو پیش از آں کہ فنا شوی ‘یعنی اپنے جذبات کو مار کر اور اپنے دل کو صاف کر کے اپنی سفلی ذات کو کشتہ کر دے۔ اور اپنے اور مرُید کے رشتے کا یُوں بیان کرتا ہے۔ ”تو تو لاش ہے اور میَں اُس لاش کا غسال ہوں۔ تو باغ ہے اور میں باغباں ہوں“۔ اس سے مراد تسلیم مطلق ہے۔ اگر کوئی ارادہ باقی رہتا ہے تو وہ اُس مرُشد کا ارادہ ہے۔ فی الحقیقت ساری دینی ریاضتیں پہلی منزلوں میں سکھائی جاتی ہیں نہ خدا سے بلاواسطہ واقف ہونے کی خاطر۔ یہ فنا نی اللہ ہونے کی گویا تمہید ہے۔

پیر درمیانی وسیلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اُس خاندان کے بانی سے سلسلہ وار اُس کو خاص قوتیں ملتی ہیں۔ اُس کے وسیلے الہیٰ قدرت اور عرفان حاصل ہوتا ہے۔ تصوف میں اُس کادرجہ یہ ہے کہ سالک صرف اُسی کے وسیلہ نجات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خطرہ ہے کہ وہ اپنے اس درجہ کا غلط استعمال کرے۔ منشیات اور کشش مقناطیسی کے ذریعہ بہتوں نے اس کا بُرا استعمال کیا اور بہت طالبان حق کو فریب دیا۔ لیکن سارے اسلامی ممالک میں لوگوں کو پیروں سے بہت عقیدت ہے اور ہزارہا مسلمان پیروں کو خدا کی طرح پوجتے ہیں۔ اس کا کچھ مضائقہ نہیں کہ پیر زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ لوگوں کا اُس پر ویسا ہی عقیدہ ہے۔ بلکہ جس قدر مرنے کے بعد اُس کی عزت ہوتی ہے۔ اِتنی زندگی میں نہیں ہوتی۔

بنگال کے وہابی ان پیر پرستوں کے خلاف بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کو نر پوجا یا انسان کی پرستش کا الزام دیتے رہتے ہیں۔ لیکن تصوف کی کتابوں میں تو خدا کے اوتار یا مظیر اللہ محدود اور غیر محدود کے درمیان پُل کہلاتے ہیں۔

مولانا رومی بھی اس خیا ل سے بے بہرہ نہ تھے۔

اند آدر سایہ آں عاقلے کش نتا ند براداز راہ ناقلے
بس تقریب جویدو سوئے الہ سر پیچ از طاعت او ہیچ گا
چوں گرفتی پیر ہن تسلےم شو دست او جز قبضہ اللہ نیست۔

(مثنوی دفتر اول حکایت10)۔

درمیانی کی ضرورت

مذکورہ بالا بیان سے بخوبی ظاہر ہے کہ انسان کی روح ایسے شخص کے ملنے کی کیسی آرزو مند ہے جسے کہ اس وصل الہیٰ کا راز معلوم ہو۔ روح ہزاروں طریقوں سے ظاہر کر رہی ہے کہ اُس کے اور خالق کے درمیان کسی درمیانی کی ضرورت ہے۔ اُسے اس امر کا علم ہے کہ کوئی شئے ان کے درمیان حائل ہے۔ اپنے تقاضات اور خواہشات کے ذریعہ روح کو معلوم ہے کہ وہ زیادہ بھر پور زندگی کے لئے خلق ہوئی تھی۔ اس لئے وہ ایسے شخص کی طالب ہے جسے اس کامل زندگی کے کامل طریقے کا کامل علم ہو۔

اپنے روحانی مرشد کے نمونے کو دیکھو۔ کیا وہ بے گناہ ہے؟ کیا وہ کامل ہے؟ صوفی عقیدے کے مطابق اس درمیانی پیر کو ایک خاص درجے تک کامل ہونا چاہئے۔ ورنہ وہ دوسروں کو کمال کے راہ کی ہدایت نہیں کر سکتا۔ بعض پیروں کی نسبت ان لوگوں کا گمان ہے کہ وہ سلسلے وار سجادہ نشین ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے اُن کی کمالیت یقینی ہے۔ لیکن کیا تحقیقات کے سامنے یہ رائے قائم رہ سکتی ہے؟ مسیحی لوگ اپنے واعظین کو کمال کانمونہ نہیں ٹھیراتے ۔ اسی وجہ سے بہت لوگ مسیحی لوگوں کی کمزوریوں پر نگاہ ڈالتے ہیں اور اسی وجہ سے آج دنیا نے مسیحی دین کو ایسا کم سمجھا۔

کامل مرشد

مسیحیوں کا کامل مرشد اور رہنما مسیح ہے۔ وہ اپنی تعلیم اپنی سیرت اپنے چلن میں کامل تھا اور اُس کی تعلیم اور عمل دونوں یکساں تھے۔ دُنیا کے سارے مذاہب کی مقدس کتابوں کا مقابلہ کرنے اور انسانی تاریخ کے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی دفعہ ایسا کامل شخص نمودار ہوا ور وہ سیدنا مسیح تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے دینی معلموں اور پیشواؤں میں سے صرف ایک ہی ایسا شخص نظر آیا جس پر الہیٰ صورت کا نقش ایسا تھا کہ کوئی اُسے پہچانے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی وہ واحد شخص ہے جس کے ہم طالب ہیں کہ خدا کیسا ہوتا ہے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ مسیح نے موسیٰ کی توریت کے جو گہرے باطنی معنی بتائے اس سے بھی ثابت ہے کہ وہ کامل روحانی مُرشد تھا۔ اُس نے یہ فرمایا۔” یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“ (متی5باب 17آیت)۔ مسیح نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرے دین موسیٰ کے دین کو منسوخ کر دے گا۔ بلکہ برعکس اس کے اُ س نے بار بار قدیم مقدس کتابوں اور روایتوں کا ذکر کر کے اور اُن کے باطنی معنی بتا کر اُن کی تصدیق کی جس سے شخصی تجربے پر تاثیر ہوئی۔ ہم اُس کے اقوال میں سے ایک کو لے کر اس بیان کی تشریح کرتے ہیں۔

ایک موقعہ پر شریعت کے ایک عالم شرع نے مسیح سے یہ سوال کیا کہ میں کیا کروں؟ تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ مسیح نے جواب دیا کہ توریت میں کیا لکھا ہے۔ عالم شرع نے جواب دیا کہ ”خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ“۔ مسیح نے کہا” تونے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر تو تو جئیے گا“ (لوقا10باب 25سے 28آیت)۔

مسیح کے سارے خیال کا حصر انہی دو اصولوں پر ہے کہ خدا کو پیا رکریں اور انسان کو پیار کریں۔ مسیح کی تعلیم کی بڑے غور سے تفتیش کریں۔ تو یہی پائیں گے ہمارے آقا ومولانے اس عالم شرع کو جو جواب دیا اُس میں شرعی ریت و رسوم کو مسیح نے ویسی ہی نگاہ سے دیکھا جس نگا ہ سے کہ صوفی شریعت اسلام کو دیکھتا ہے۔ مسیح نے اُس کی نئی اور باطنی تشریح کی جو کبھی نظر انداز نہیں ہو سکتی۔

ہم ڈاکٹر عماد الدین کے صوفیوں میں سے مسیحی ہونے کا ذکر کر آئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متی کی انجیل کو پڑھنا شروع کیا اور ابھی ساتواں باب ختم نہ کیا تھا کہ اُسے ثابت ہو گیا کہ مسیح کامل روحانی مرشد اور دنیا کا نجات دہندہ تھا۔ کیونکہ انسان کے دل کا اور باطنی طریقے کی ضرورت کا اُس کو اِس قدر علم حاصل تھا۔ اُسی انجیل سے ہم مسیح کے ایک دو اور قوال کا اقتباس بھی کرتے ہیں۔

خون کے بارے میں مسیح نے فرمایا۔” تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا۔ کہ خون نہ کر۔ اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا“۔ (متی5باب 21سے 22آیت)۔

زنا کے بارے میں مسیح نے فرمایا۔” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کر لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا“(متی5باب 27سے 30آیت)۔

اس تعلیم کے عین بعد۔ مسیح نے ایسا بیان کیا جو ہر تارک صوفی کو بہت مرغوب ہو گا۔ مسیح نے یہ فرمایا کہ اگر تیری آنکھ ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال ڈال اگر ہاتھ ٹھوکر کھلائے تو اُسے کاٹ ڈال مبادا وہ تیری باطنی ترقی میں سد راہ ہوں۔

طلاق کے بارے میں مسیح نے یہ فرمایا۔” یہ بھی کہا گیا تھا کہ جوکوئی اپنی بیوی کو چھوڑے اُسے طلاق نامہ لکھ دے۔لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے ۔اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے (متی5باب 31سے 32آیت)۔

دینی اعمال کی تعلیم دیتے وقت مسیح نے ہمیشہ خدا اور اس کی پرستش کے روحانی ہونے پر زور دیا۔ اس نے کہا کہ خدا روح ہے اور اسکے پرستاروں کو چاہئے۔ کہ روح اور راستی سے اس کی پرستش کریں (یوحنا 4باب 24آیت)۔ عبادت کے کسی فعل پر اس کو لگا کے دیکھ لو وہ عمل عبادت اور ایمان کے باطنی اور روحانی فعل کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔

دعاکے معنی۔ دعا کے بارے میں مسیح نے یہ فرمایا:۔

جب تم دعا مانگو تو ریا کاروں کی مانند نہ ہو۔ کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دعا مانگنی پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں دےکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے(متی6باب 5آیت)۔

اُس نے دکھاوے کی دینداری پر ملامت کی۔ اُس نے یہ تعلیم دی کہ ایسے لوگوں کو اسی دنیا میں اُن کا اجر مل گیا۔ کیونکہ دوسرے لوگ اُن کو دیندار سمجھنے لگے۔ حالانکہ ہمارا باپ خدا یہ چاہتا ہے کہ بیرونی زندگی کی طرف سے اپنے دروازے بند کر لیں تاکہ اپنی روح کے باطن میں ہم خدا سے قربت حاصل کریں۔ جہاں کہیں روح میں حقیقی روحانی زندگی ہو گی وہاں دینداری کا دکھاوا نہ ہوگا۔

مسیح نے یہ بھی تعلیم دی کہ ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ خدا ہماری دعا قبول کریگا اور ہمیں معاف کرے گا۔ اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی رکھتے ہوئے خدا سے دعا مانگیں گے بلکہ اس سے کچھ زیادہ بھی کہا۔ اُس نے فرمایا کہ اگر مسجد یا ہیکل میں بھی تم کو یہ یاد آئے کہ تمہارے اور دوسرے کے مابین کچھ مغائرت اور شکایت ہے۔

اس موقع کے لئے اُس نے یہ فرمایا” اگر تو قربانگاہ پر اپنی نذر گزرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گزران (متی5باب 23 سے 24آیت)۔

خیرات کے بارے میں مسیح نے یہ فرمایا:۔

”خبردار اپنی راسبازی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لئے نہ کرو نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لئے کچھ اجر نہیں ہے۔ پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تو خیرات کرے۔ تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے بایاں نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دےکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا“ (متی6باب 1 سے4آیت)۔

مسیح نے ایسی تعلیم باطنی روزے کے بارے میں دی کہ کیاکسی اور مذہب میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے؟ اس نے توریت کی تعظیم کی لیکن ساتھ ہی روح کے باطنی تجربات کو چھوا اور یہ تقاضا کیا کہ جو کچھ ہم کریں اُس میں صداقت اور حقیقت ہو ایسی تعلیم کے بارے میں منسوخ یا معطل ہونے کا الزام کیسا بے جا اور نامناسب ہے۔

مسیح کی یہ تعلیم نہ صرف غیر منسوخ اور کامل ہے بلکہ جو شخص اس تعلیم کے لئے اپنا سینہ کھولتا اور انجیل کی اعلیٰ صداقت کو قبول کرتاہے اُسے وہ خاص روحانی ترجمان مل جاتا ہے ۔جسے روح القدس کہتے ہیں۔ وہ دل کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے اور اُس دل میں نئے خیالات اور نئی تحریکیں پیدا کر کے تقدیس کی راہ میں آگے بڑھاتا جاتا ہے۔

رُوح القدس کا اندر بسنا

ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ روح القد س خدا کا سانس ہے جو ایماندار کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔انجیل میں یہ تعلیم صاف مذکور ہے کہ جو زندگی روح القدس کے ذریعے انسان کو ملتی ہے اُس کے بغیر باطنی طریقے میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی ۔ وہ پوشیدہ طور پر اُس زندگی کو شروع کرتا اور قائم رکھتا ہے۔ جو مسیح نوع انسان کے لئے لایا۔

اس روح کے بارے میں مسیح نے کیا فرمایا؟ وہ دنیا سے رخصت ہونے کو تھا۔ جب اُس نے اپنے شاگردوں سے یہ کہا:۔

” اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو۔ تو میرے حکموں پر عمل کر و گے اور میں باپ سے درخواست کروں گا۔ تو وہ تمہیں دوسرا مددگاربخشے گا کہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا روح جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسےدیکھتی اور نہ جانتی ہے۔تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا “ (یوحنا14باب 15 سے18آیت)۔

پھر مسیح نے فرمایا

” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں ۔ مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گااور تمہیں آئندہ کی خبر دیگا اور میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبر دے گا “ (یوحنا16باب 12 سے18آیت)۔

مسیح کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد اپنے تئیں تنہا اور متروک خیال کریں۔ اس لئے اس نے یہ بیان کیا کہ اُن کے اندر الہیٰ زندگی کے نشوونما اور تکمیل کے لئے اور ساری قوموں میں اُس کی انجیل کے سنانے میں مدد کرنے کی خاطر وہ ان کے ساتھ برابر رہے گانہ بدنی صورت میں بلکہ روح القدس کے ذریعے سے اُن کے دلوں میں سکونت کرے گا۔ اور اُن کے افعال و اقوال کے ذریعے ایسے کام کرے گا جو ظاہر ًا ناممکن معلوم ہوتے ہیں۔

مسیح کے ان الفاظ پر بھی غور کریں”تم کو ساری سچائی کی راہ دکھائے گا۔۔۔۔ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔

میرا جلال ظاہر کریگا۔۔۔۔ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ مسیح نے جو تعلیم دی تھی ایمانداروں کے لئے اُس کی تشریح کرےگا۔ اس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ روح القدس کامل روحانی ترجمان ہے۔ وہ مسیح کے آمد کی پیشن گوئیوں اور وعدوں اور اُس کی زمین پر کی زندگی اور تعلیم کو لےکر اُن پر اُس کے معنی کھولتا ہے۔ وہ الہیٰ شارع اور ترجمان ہے۔

روح ہمیشہ مسیح کا جلال ظاہر کرتا ہے۔ توریت زبور اور انجیل کو لے کر اُس کے نقش قدم کا سُراغ ہمیں دیتا ہے جسے ہم پیار کرتے ہیں۔ اور ہمارے روحانی ادراک پر مسیح کی رویت کو منکشف کرکے بتاتا ہے کہ وہ آدمیوں کا نجات دہندہ ہے۔ اُس معمورو کثرت کی زندگی کے بارے میں خدا کے ارادے کو وہی ہم پر روشن کرتا ہے تاکہ جو لوگ ایمان کے وسیلے مسیح سے پیوستہ ہو گئے۔ وہ اُس کا حظ اٹھا سکےں۔ اس کام کو اُس نے صلیب پر سر انجام دیا۔ کسی شاعر نے یہ کہا تھا ۔ جس کا ترجمہ ہے:۔

”روح کلام پر دم کرتا ہے۔ اور حقیقت کو سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔ احکام اور وعدے تقدیس کنندہ نور بہم پہنچاتے ہیں“۔

اس غیر مرئی روحانی مرشد کی تاثیر کی تشریح کس طرح سے کریں؟ ساری دنیا میں جو صدق دل سے مسیح پر ایمان لاتے ہیں وہ مبارک تجربے کے ذریعے سے جانتے ہیں کہ خدا کا پاک روح اُن میں آتا۔ بستا اور زبردست تاثیر کرتا ہے۔ روح پر مسیح کو منکشف کرنے کے کام میں اُس کی لاثانی حضوری مسیحی دین اور دیگر ادیان میں مابہ الامتیاز ہے۔

کیا اس تشریح سے ناظرین کو اس کا مطلب سمجھنے میں مدد ملیگی؟ انسان کا دل بیقرار اور دہشت زدہ ہے۔ اُسے اندرونی جدوجہد کا علم ہے۔ اُس میں ملاپ۔ محبت اور اطمینان کی تمنا ہے اور نور و آزادگی کی جانب کسی قدر دروازہ کھولتا ہے۔ روح القدس ہمیشہ نزدیک ہے وہ تاکتا رہتا ہے۔ پاس ہی کھڑا ہے۔ واعظین کی منتوں۔ کتاب مقدس کے پیغاموں بلکہ روز مرہ کے واقعات مثل بیماری و موت وغیرہ کے گناہ اور آئندہ عدالت کا یقین دلاتا ہے۔ اور صداقت کی تازہ کرنوں کے ذریعہ حوصلہ افزائی کرتا ہے حتیٰ کہ مسیح کا الہیٰ حُسن غیر مرئی خدا کی صورت اپنی پوری شان کے ساتھ اُس پر منکشف ہو اور روح محبت سے اُسے قبول کر لے۔ مسیح کا روحانی حسن اُس محبت اور ایمان کے ذریعہ آشکارا ہوتا ہے جو روح القدس کے ذریعے ہماری روحوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

گویا روح القدس فوٹو گرافی کے کیمرا کی ٹوپی اتار دیتا ہے اور مسیح کی صورت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اور دل کی تیارکردہ قابل احسا س زمین پر اُس روشنی کی چمک کے ذریعے عکس کو پڑنے دیتا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جو ہمارے دلوں پر منقش ہو کر ہمیں خدا کے دیدار اور عرفان کے قابل بنا دیتی ہے اور ہمارے سارے اعمال میں اُس کو مناسب جگہ دیتی ہے۔

” جو چیزیں نہ آنکھوں نے دےکھیں نہ کانوں نے سنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں۔وہ سب خُدا نے اپنی محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کر دیں لیکن ہم پر خدا نے اُن کو روح کے وسیلے سے ظاہر کیا۔ کیونکہ روح ساری باتیں بلکہ خدا کی تہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے“ (1کرنتھیوں 2باب 9سے 10 آیت)۔

ایمانداروں کو اپنا فرض بھی بجا لانا ہے۔ وہ روح القدس کے کام پر تکیہ کر کے نچلا بیٹھ نہیں سکتا اور نہ یہ خیال کر سکتا ہے کہ اُس کی روحانی باطنی زندگی کے نشوونما کے لئے اب اُسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ایماندار کو کو شش کر کے یہ جاننا چاہئے کہ اس سب کا مطلب کیا ہے ۔ اور خدا کے کلام میں انسان کے ساتھ خدا کے سلوک۔ اور گناہ و نجات کی تاریخ کا کیا بیان آیا ہے۔ اُسے اس امر کی ضرورت ہے کہ مسیح کے قدموں کے پاس بیٹھ کے اُس کے اقوال کی شیریں آواز سنے اور دھیان رفاقت اور دعا میں بہت وقت صرف کرے۔ صرف اسی طریقے سے اپنے دل کی زمین کو اُس روح کی فصل کے لئے تیار کر سکتا ہے جو محبت ۔ خوشی۔ اطیمنان۔ خوش مزاج۔ مہربان۔ فیاض۔ وفادار۔حلیم و پرہیز گار ہے۔

چھٹا باب

مسیح اور روحانی اتحاد

اہل تصوف ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح کی بڑی تعظیم کرتے ہیں وہ اسے خالص صوفی اور امام الآشین یعنی سیاحوں کا پیشوا سمجھتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک مسیح کی زندگی اور تعلیم تصوف کے عقیدہ کا تقریباً کمال ہے۔ اُس کی بے وطنی۔ افلاس اور دنیا سے بے تعلقی کا اُن پر بہت اثر ہے اور اُس کے اس قول کا جو اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ہے چرچا کرتے نہیں تھکتے۔

”لومڑیوں کے لئے ماندیں اور ہوئی پرندوں کے لے بسیرے پر ابن آدم کو سر دھرنے کی جگہ نہیں“ (متی8باب 20آیت) ۔

تصوف کی کتابوں میں مسیح کے بارے میں اصلی یا نقلی انجیلوں سے بہت قصے پائے جاتے ہیں۔ خاص کر امام غزالی اور جلال الدین رومی کی تصنیفات میں۔

دنیا کی بے اطمینان سیرت کے بارے میں امام غزالی نے یہ فرمایا ۔ سیدنا مسیح نے یہ کہا۔” دنیا کو پیار کرنے والا شخص اُس آدمی کی مانند ہے۔ جس نے آب شور پیا ہو۔ جتنا وہ اُسے پیتا ہے اُتنا ہی زیادہ وہ پیاسا ہوتا ہے حتی کہ وہ بلا پیا س بجھے ہلاک ہو جاتا ہے“ (از کیمیاے سعادت)

پھرجناب مسیح کے ایک دوسر ے قول کو انہوں نے اقتباس کیا۔

”جان لو کہ سارے گناہ کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور شاید ساعت بھر کی محبت اُن کو جو اُس کی پیروی کرتے ہیں دنیا کو بالکل کھو دیں“

(احیا العلوم)۔

اور پھر” یہ حُب دنیا اور حُب عاقبت ایک ہی دل میں سما نہیں سکتے۔جیسے آب و آتش ایک ہی ظرف میں اکٹھے نہیں رہ سکتے“ (احیا العلوم)۔

دنیا کے فانی ہونے کے بارے میں یہ بیان ہے کہ جب لوگوں نے آکر سیدنا مسیح کے لئے گھر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو وہ انہیں ساحل سمندر پر لے گیا اور ان بے قرار لہروں کو دکھایا اور کہا کہ ان لہروں پر گھر بناو۔ امام غزالی نے اس قول کا یوں ذکر کیا:۔

سیدنا مسیح نے فرمایا” تم میں سے کون سمندر کی لہروں پر گھر تعمیر کر سکتا ہے؟ دنیا کا یہی حال ہے۔ اسلئے اسے پائیدار مکان نہ سمجھو“

(احیا العلوم)۔

لیکن صوفیوں اور دریشوں کا مسیح کو اپنے جیسا فقیر سمجھنا ان کی غلطی ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ وہ اکثر پہاڑوں پر جا کر رات بھر دعا مانگا کر تا تھا۔ دھیان اور خدا کی قربت میں وقت کا ٹتا تھا۔ لیکن ہجوم کو چھوڑ کر وہاں جانا کسی خود غرضی کی خواہش سے نہ تھا۔ بلکہ وہ آرام و اطمینان کی خاطر وہاں جاتا تھا۔ تاکہ وہ اپنے باپ کی قربت میں رہ کر اُن بھاری فرائض کے ادا کرنے کے لئے تیار ہو۔ جوان لوگوں کے درمیان اس کو پیش تھے جو بے چوپان بھیڑوں کی مانند تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ ہفتوں تک بیابان میں رہا کرتا جہاں اُس پاک روح کو شیطانی وسوسوں اور آزمائشوں سے جنگ کرنی پڑی وہ بھوکا رہا اور اسے اندرونی جدوجہد کرنی پڑی۔ لیکن یہ وہ فقیرانہ فعل نہ تھا جسے صوفی فقیرانہ ریاضت سمجھتے ہیں۔ وہ وہاں شیطان پر فتح حاصل کرنے گیا تاکہ وہ اُن مردوں اور عورتوں کو زیادہ فائدہ پہنچا سکے جو بدی کا شکار ہو چکے تھے۔ یہ ترک دنیا اور خود انکاری تو تھی۔ کیونکہ آزمائش کے قصے سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ روحانی سلطنت اور دنیا کی سلطنت کے درمیان انتخاب وہاں کیا گیا۔

سیدنا مسیح درویش نہ تھے

یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ صوفی طریقہ ریاضت کا حصہ اس امر پر تھا کہ انسان کے باطن میں بدی کا عنصر تھا۔ جس پر فتح نفس کشی کے طریقوں ہی سے پا سکتے تھے۔ صوفیوں کے نزدیک ایسی نفس کشی لازمی ہے اور سالک کے لئے پہلی منزلوں میں یہ اہم منزل ہے۔ جب صورت حال یہ ہو۔ تو پھر مسیح کے لئے ایسی ریاضتوں پر عمل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہر مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ وہ گناہ سے بالکل مبرا تھا۔ صوفیوں کے روحانی مرشدوں کے برعکس اُسے توبہ اور نفس کشی کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ اُس میں کوئی ایسے شے نہ تھی جسے کشتہ کرنے کی اسے ضرورت ہو جس سے کہ اُس کی روح خدا کے ساتھ اتحاد کے قابل بن جائے۔ اُسے یہ اتحاد زندگی بھر حاصل تھا۔

سیدنا مسیح کا دم

مسیح میں ایسی الہیٰ زندگی نے اس کو ایسی قدرت اور تاثیر عطا کی نہ صرف آدمیوں کے بدنوں کو شفا دینے میں بلکہ اُن کی بدل ڈالنے میں بھی۔ یہ تبدیلیوں فی زمانہ بھی وقوع میں آتی رہتی ہیں۔ خدا کی حمدہو!۔وہ اب تک اس لئے وقوع میں آ رہی ہیں۔ کیو نکہ روح القدس قوت بخش رہا ہے جو ہر ایماندار اور کل کلیسیا میں کام کر رہا ہے۔ چنانچہ مثنوی رومی میں مسیح کی ایسی تاثیر کا یوں ذکر آیا ہے۔

صومعہ عیسیٰ است خوان اہل دل

ہان دھان اے مبتلا ایں درمہل

جمع گشتندے زہر اطراف خلق

ازضر ےروشل و لنگ و اہل ولق

بردر آں صومعہ عیسیٰ صباح

تا بدم ایشاں رہا نند از جناح

آب و گل چو از دم عیسیٰ چرید

بال و پر بکشا دو مرغے شد پرید

صد ہزاراں طب جالینوس بود

پیش عیسیٰ و دمش افسوس بوُد

حالیا موقوف فکر و رائے او

زندہ از نفخ مسیحا آسائے او

ایک دوسرے مقام میں مولانا رومی نے یہ تحریر کیا جس کا یہ ترجمہ ہے:۔

بہار آئے پر پتھر پر سبزی نہ اُگے گی۔ یہ خزاں میں بھی بنجر ہے اور بہار میں بھی بنجر ہے اور آدمی کا دل یہ پتھر ہے۔ جب تک فضل شامل حال نہ ہو اور اس پتھر کو چور کر کے اس بنجر زمین کو سبزہ زار نہ بنائے اور جب دم مسیحا از سر نو اس دل پر پھونکا جائے گا تو یہ زندہ ہو گا۔۔ اس میں سانس آئے گااور یہ کلیانے لگے گا۔

مولانا رومی نے شفا بخش دم مسیحا سے کیا سمجھا؟ اُس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ طبعی طبقے میں یہ دم اعجاز تھا جس سے مُردہ زندہ ہو جاتے تھے۔ بلکہ کچھ اس سے بھی بڑھ کر تھا۔ اخلاقی طبقے میں بھی اس دم کو یہ طاقت حاصل ہے کہ دل کو زندہ کر کے اُسے پاک کرے۔ یہ دم کیا ہے؟ یہ جناب مسیح میں وہی الہیٰ حیات اور روح ہے۔ اہل اسلام مسیح کو روح اللہ کہا کرتے ہیں۔ اس لئے وہ ضرور یہ بھی مان لیں گے کہ اُسے دلوں کو تبدیل کرنے کی قوت حاصل ہے ۔ اگر کسی نے شریعت۔ طریقت اور حقیقت کے صحیح معنی سمجھے تو وہ سیدنا مسیح تھا۔

ہم آقا ومولا سیدنا مسیح کے ذرا زیادہ قریب جائیں۔ بہتوں نے اُسے ٹھیک طور سے نہیں سمجھا۔ ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ وہ صوفی نمونے کا فقیر نہ تھا اور ہم اُس کے کمال کے سامنے سرنگوں ہوتے۔ ہم کچھ اس سے آگے قدم بڑھا کر یہ ظاہر کریں گے۔ اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ خدا اور انسان کے درمیان روحانی اتحاد کرانے آیا تھا۔ اس کی ساری تعلیم میں اس کا سراغ پایا جاتا ہے۔ بہت کچھ تو اس نے تمثیلوں اور تشبہیوں میں بیان کیا اور بہت کچھ صاف و سلیس الفاظ میں جسے ہر اہل بصارت دےکھ سکتا ہے۔

اپنا ذکر کرتے ہوئے اس نے یہ فرمایا۔” دنیا کا نور میں ہوں“۔”زندگی اور قیامت میں ہوں“۔ ”اچھا گڈریا میں ہوں۔ اچھا گڈریا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے“۔ مسیح نے یہ بھی فرمایا کہ باپ کے پاس پہنچنے کے لئے راہ بھی وہی تھا۔ یعنی اصلی طریقت۔

ان دعادی میں سے ہر ایک دعویٰ کی تشریح سے اُس دین کے حقیقی باطنی معنی سمجھنے میں ہم کو مدد ملے گی جس کی تعلیم مسیح نے دی۔ لیکن خاص کر ہم اُس کے دو اقوال پر غور کریں:۔

(1) مسیح نے فرمایا۔”زندگی کی روٹی میں ہوں۔“ کیا اس سے زیادہ روحانی تصور ہو سکتا ہے۔ اہل فہم کے لئے اس میں روحانی غذا ہے۔ مسیح نے کہا” جو روٹی آسمان سے اُتری وہ میں ہوں“ اور پھر یہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے کی چیز اور میرا خون فی الحقیقت پینے کی چیز ہے۔“ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے۔” جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اورمیں اُس میں۔“ اس کا نتیجہ روحانی تبدیلی ہے۔”جو کوئی میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے۔ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔“ (یوحنا6باب 51 سے 54تک)۔

اہل تصوف کہا کرتے ہیں کہ حقیقت کو پانے کےلئے تشبہیہ میں سے گزر جانا چاہئے۔ مسیح ہمیں کیا سمجھانا چاہتا تھا؟ اُس وقت سامعین میں ملے جلے لوگ تھے ۔ کچھ یہودی تھے اور کچھ مسیح کے شاگرد۔ کھانے کا مطلب انہوں نے دینی تعلیم سمجھا تھا۔ لیکن اس سے کچھ زیادہ معنی اس میں تھے۔ اگرچہ اُس وقت مسیح کے شاگردوں نے ان الفاظ کے پورے معنی نہ سمجھے لیکن جب روح القدس آن کر اُن کے دلوں میں سکونت کرنے لگا تو انہوں نے ان الفاظ کے ٹھیک معنی سمجھ لئے۔

ہم جانتے ہیں کہ روٹی غذا ہے۔ یہ قوت دیتی ہے ۔ یہ صرف ایک شرط پر دنیا کو زندگی عطا کرتی ہے۔ ہم اُسے کھا کر ہضم کرکے اپنے بدن کا جز بنا لیں ورنہ جو قوت اُس سے حاصل ہونی چاہئے وہ کبھی حاصل نہ ہوگی۔ یہی حال مسیح کا ہے۔ جو زندگی کی روٹی آسمان سے نازل شدہ ہے۔ وہ ہماری روحوں کی غذا ہے اور ہمیں ایسی طاقت بخشتا ہے جس کے ذریعے ہمارا لازوال اتحاد خدا باپ کے ساتھ ہو جائے۔ ایسی ہی غذا کے ذریعہ روحوں کو طاقت اور زندگی مل سکتی ہے۔ شرط یہ ہی کہ ہم اُس میں شریک ہوں۔ ہم ایمان سے اُس کو قبول کر لیں اور اُس کو اپنا جز بنا لیں۔

مسیحی حقیقی غذا تھا کیونکہ وہ محبت کے خدا کا اوتار تھا۔ ہمارے دلوں کی تشف صرف محبت ہی سے ہو سکتی ہے۔ اُس نے آن کر اپنی جان ہمارے لئے دی۔ اور ہمارے دل اُس محبوب کو اپنے اندر لے لیتے ہیں اور اُس کی حضوری کے ذریعہ اُن کو غذا اور خوشی حاصل ہوتی ہے اپنے بدن اور خون سے محبت کے ذریعہ جو قربانی اُس نے دی۔ یعنی ہماری خاطر عین اپنی جان دی تاکہ ہم اُسے اپنی جان کا محبوب جان کر زیادہ زیادہ اُس سے دل بستہ ہو تے جائیں۔

2۔مسیح نے فرمایا۔” انگور کی حقیقی بیل میں ہوں“۔ ”تم ڈالیاں ہو“۔ اس روحانی سِریہ اتحاد کے بارے میں یہ ایک اور مسیح کا قول ہے۔ ہمارے خداوند کے ہر دیندار پیرو کے لئے یہ گراں بہا قول ہے۔ اس میں شراکت اور کامل اتحاد اور اُس روحانی ترقی کے وسائل کا ذکر ہے۔ جو دین کی تاریخ میں لاثانی ہے مسیح کے الفاظ یہ ہیں۔

”تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کی بیل میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اسی طرح اگر تم بھی مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔ میں انگور کی بیل ہوں تم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے۔ کیونکہ مجھ سے جُدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی مجھ میں قائم نہ رہے تو وہ ڈالی کی طرح پھینک دیا جاتا اور سوکھ جاتا ہے۔“ (یوحنا15باب 4سے6آیت)۔

مسیح نے اپنے شاگردوں سے اس امر کی تشریح کہ وہ ایماندار کے اندر صرف اسی شرط پر سکونت کر سکتا ہے کہ وہ پھل لائے۔ یعنی مسیح کی اندرونی زندگی میں وہ ترقی کر ے۔ اور آدمیوں کے درمیان تاثیر کرے۔ یہ باطنی تجربے کے لئے تقاضا ہے۔ اور انسان کی یہی اعلیٰ زندگی ہے۔ روح میں مسیح کی محبت کا مستقل وقوف اس کی قوت ہے۔ اسی واحد طریقے سے پھل پیدا ہو سکتا ہے۔

اگر یہ اتحاد موجود ہے۔ تو پھل بھی یقینی ہے۔ جیسے انگور کے درخت میں پتوں اور پھلوں کا ہونا۔ ڈالی کو اس کوشش کا کچھ وقوف نہیں ہوتا کیونکہ تنہ کے ساتھ اُس کا زندہ تعلق ہے۔ جو ڈالی اُس تنے میں قائم رہتی ہے وہ کسی شے کی محتاج نہیں کیونکہ جو کچھ اُسے درکار ہے وہ تنے میں موجود ہے۔”اور اُس میں الوہیت کی ساری بھر پوری سے ہم سب نے پایا فضل پر فضل“۔

مسیح کے اس سارے قول کا زور پھل لانے پر ہے۔ مسیح کی یہ آرزو تھی کہ لوگ محض نام کے شاگرد نہ ہوں۔ یا محض ظاہری صورت شاگردی کی رکھنے والے نہ ہوں۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ اُس کے شاگردوں کی زندگی ایک زبردست طاقت بن جائے تاکہ اُس کی صورت کو وہ منکشف کر سکےں۔ جیسا کہ خود اُس نے غیر مرئی خدا کی صورت کو منکشف کیا تھا۔ اُس کا منشا یہ تھا کہ اُس کے شاگرد ایسا وسیلہ بن جائیں۔ جن کے ذریعے وہ خود پھل پیدا کرے۔ وہ انہیں الہٰی صداقت کے رس اور الہیٰ محبت کی حقیقت سے بھر دیتا ہے۔ اب ان کا یہ کام ہے کہ وہ اُس زمین کو انگوروں میں منتقل کر دیں۔ دیگر الفاظ میں خدا نے ایمانداروں کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ نوع انسان پر ایسا اثر کریں جس سے کہ وہ مسیح میں زندگی کو قبول کر لیں۔ جہاں تک اُس زندگی نے اُن کے دلوں پر اثر کیا ہو گا وہاں تک وہ اُس کو قبول کر لیں گے۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیحٰ دین محض کوئی ظاہر مسئلہ یا کسی نسخے یا رسوم کی پابندی نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ مسیح زندہ ہے اور وہ اپنے تئیں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ وہ اُن میں سکونت کرے اور یوں وہ ہمارا ملاپ خدا سے کرا دیتا ہے اس کا اُس کو پورا یقین ہے۔ اُس نے یہ صاف کہا۔” مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے“۔

ہماری تمنا یہ ہے کہ ہمارے سب مسلمان بھائی جہنوں نے اس زندگی عرفان و محبت الہیٰ کی اس قدر عرصے تک تلاش کی ہے۔

وہ اپنی آنکھیں مسیح کی طرف پھیریں اس کے طریقے میں چلیں ۔ اُس کی زندگی سے قوت حاصل کریں اور اس کے طالب ہوں کہ وہ اُن کے اندر سکونت کرے۔ اس کے لئے انجیل کی متواتر تلاوت اور اُس پر غورو دھیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے لئے دعا اور روح القدس کی مدد درکار ہے تاکہ ان ساری صداقتوں کا مطالعہ روحانی آنکھ سے کریں جیسا کہ مولانا روم نے فرمایا:۔

یہ مے اُس دنیا کی ہے۔ ظروف اِس دنیا کے ہیں۔ ظروف دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن مے پوشیدہ ہے یہ جسمانی آنکھ سے پوشیدہ ہے۔لیکن روحانی آنکھ پر منکشف اور ہویدا ہے۔ (مثنوی دفتر پنجم قصہ 8)۔

ساتواں باب

مسیحی تحصیل

شاید ناظرین کے دل میں یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی ہو گی کہ آیا روحانی اتحاد کا یہ مسیحی مسئلہ فی الحقیقت ہمارے جیسے ایک انسان میں عملی جامہ میں ثابت ہو ا یا مسیح کے یہ اقوال بے معنی تھے؟

بہت سے ایسے اعلیٰ اور شریف اشخاص گزرے ہیں جو دنیاوی معاملہ فہمی اور امور ملکی میں شہرہ آفاق تھے انہوں نے بھی جناب ِمسیح کی زندگی سے زندگی حاصل کی۔ لیکن مثال کے لئے شاید ایک شخص کے روحانی تجربے کا ذکر کرنا کافی ہوگا۔ بشرطیکہ توجہ کے ساتھ ہم اس پر غور کریں۔ ہمارا مدعا پولس رسول کی زندگی سے ہے جس کا خاکہ اس کے خطوط میں کھچا نظر آتا ہے جو اُس نے ایشیا کو چک کی مختلف مسیحی جماعتوں کو لکھے اور جو بائبل کا ایک جز ہیں۔ بہت باتوں میں پولس امام غزالی کی مانند تھا۔ دونوں علم الہیٰ کے ماہر اور شرعی زندگی کے دل دادہ تھے۔ اور دونوں اس نتیجے تک پہنچے کہ حقیقی دین شریعت کے بغیر کسی دیگر وسیلے سے انسان کی باطنی زندگی میں نشوونما پاتا ہے۔

پولس جس کا پہلا نام ساؤل تھا۔ اپنی قومیت اور ابراہیمی ملت اور موسوی دین پر بڑا فخر کرتا تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنی نسبت یہ لکھا۔” آٹھویں دن میرا ختنہ ہوا۔ اسرائیل کی قوم اور بنیا مین کے قبیلہ کا ہوں۔ عبرانیوں کا عبرانی۔ شریعت کے اعتبار سے بے عیب تھا۔“ (فلپیوں3باب 4سے 6آیت)۔

پھر اُس نے یہ بیان کیا۔” میں اپنے یہودی طریق میں اپنی قوم کے اکثر ہم عمروں سے بڑھتا جاتا تھا اور اپنے بزرگوں کی روائیتوں میں نہایت سر گرم تھا۔“(گلتیوں 5باب 14آیت)۔ بچپن سے پولس کو یہ تعلیم و تربیت ملی تھی کہ توریت و زبور کو مانے۔ اور یہودی کلیسیا کے ریت رسوم پر چلے۔ چنانچہ وہ اِن سب پر باتفصیل عمل کرتا رہا اور اسے یہ خیال تھا کہ ایسی شرعی اور کلیسیائی پابندی کے ذریعے سے ہی وہ متقی اور پرہیزگار بن سکتا تھا۔

پولس نے یہ بھی خیال کیا کہ وہ بہتر یہودی اور خدا کا بہتر خادم ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ جناب ِمسیح کے شاگردوں کو ستائے اور دکھ دے۔ لیکن جن مقدسوں نے سنگسازی زدو کوب قید اور جام شہادت تک سے خوف نہ کھایا ان کی زندگیوں کی تاثیر اپنا رنگ دکھائے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ ان مسیحیوں کے ایمان نے اس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اُس کو ایک نئی قسم کے مذہب سے پالا پڑا جس نے انسانیت کا ایک نیا نمونہ پیدا کر دیا تھا۔ ان مقدسوں کی غیر معمو لی روحانی زندگی اور سرگرمی دیکھ کر وہ حیران ششدر رہ گیا۔ برادری اور غریبوں اور ہر جماعت کے محتاجوں کے ساتھ ان کی بیغرض محبت اور ہمدردی دیکھ کر وہ دم بخود رہ گیا۔ وہ اس احساس سے رہائی نہ پا سکتا تھا کہ یہ مسیحی جو ستا ئے جاتے تھے حقیقی زندگی اور قوت کے راز سے واقف تھے۔ اُس کا اُسے کچھ علم نہ تھا۔ اور جس دین کا وہ ایسے جوش و خروش سے آخری دم تک پیرو تھا اُس سے یہ نعمت حاصل نہ ہوئی تھی۔وہ اپنے سے یہ سوال کرنے لگا کہ”کیا ایمان ۔ اُمید۔ محبت کی یہ مسیحی تعلیم جو اُس مصلوب۔ جی اُٹھے اور آسماں پر صعود کرنے والے مسیح پر تکیہ کرنے پر مبنی ہے سچ ہی تو نہیں؟

اپنی ضمیر سے وہ کچھ عرصے تک یہ سوال پوچھتا رہا لیکن پھر بھی مسیحیوں کے ستانے سے باز نہ آیا۔ لیکن ایک روز دوپہر کے وقت جب دمشق کی طرف وہ جارہا تھا نا گہاں آسمان سے اُس کے ارد گرد ایسا نور چمکا کہ یہ زمین پر گر پڑا اور اُس نے کسی کو اپنے سے یہ کہتے سُنا:۔

” اسے شاؤل اے شاؤل تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟“

اُس نے پوچھا اے خداوند تو کون ہے۔

اُس نے جواب دیا کہ میں یسوع ہوں جسے تو ستاتا ہے۔

مگر اُٹھ شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔ (اعمال الرسل 9باب 3سے 7)، جو آدمی اُس کے ہمراہ تھے وہ خاموش کھڑے رہ گئے۔ کیونکہ آواز تو سنتے تھے مگر کسی کو دیکھتے نہ تھے۔

اس متشرع ساؤل سے مبشر انجیل پولس بن گیا۔ مسیحی دین کی تاریخ میں روھانی تجربے کا یہ عجیب قصہ ہے۔ اس قصے کی صد ا قت اُس شخص کی پوری تبدیلی سے ظاہر ہے۔ جو ایک دفعہ فخر کرنے والا فریسی تھا وہ حلیم اور خاکسار مسیح کا پیرو ہو گیا وہ ستانے والا اُس ستائی ہوئی تعلیم کا معلم جید بن گیا۔ اس کی تعلیم انتہائی یہودیت نہیں بلکہ وسیع مسیحی عالمگیر تعلیم ہے۔

پولس نے اپنی زندگی کی اس عجیب تبدیلی کا بار بار ذکر کیا۔ اِس نے اُس زمانے سے تشبیہ دی جب تاریک دنیا سے نور اس کو پیدا ہو گیا۔ اُس کے یہ الفاظ ہیں” خدا ہی ہے جس نے یہ فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکاتاکہ خدا کے جلال کی پہچان کو نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو“(-2کرنتھیوں4باب 6آیت)۔

پولس کو یہ علم تھا کہ اُس نے رویت دیکھی اور مصلوب اور جی اُٹھے مسیح کو اُس نے دیکھا۔ جس نے اپنے الفاظ سے اس نور میں جو دوپہر کے آفتاب سے بھی زیادہ نورانی تھا۔ اُس پر یہ ظاہر کر دیا کہ وہ زندہ تھا اور مسیحیوں کے ستانے سے وہ خود مسیح کو ستا رہا تھا۔

شریعت سے مسیح کی طرف کیوں پھریں؟ شاید کوئی یہ پوچھے کہ پولس موسیٰ کی شریعت سے ہٹ کر جنابِ مسیح کے ذریعہ آئی ہوئی خدا کے فضل کی انجیل کی طرف کیوں ہوا؟ جو وہ شریعت کی راستبازی کے لحاظ سے بے عیب تھا تو وہ کامل ٹھیرا۔ بلاشک یہودی نقطہ خیال سے وہ کامل تھا۔ لیکن پولس نے یہ معلوم کیا کہ شریعت میں یہ طاقت نہ تھی کہ اُسے خدا کی نظر میں کامل بنائے۔اُس کو یہ معلوم ہو گیا کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کےجلال سے محروم ہیں“۔ اور کہ جب تک باطنی انسانیت کسی طریقے سے از سر نو پیدا نہ ہوا ور جو صرف خدا ہی کر سکتا تھا اُس کا نفس یا گناہ آلودہ فطرت اُس کی روح کو ہلاک کر دے گی۔ پوُ لس نے یہ دلیل پیش کی انسان میں ایک گناہ آلودہ فطرت تھی جو اُسے آدم سے حاصل ہوئی جسے کوئی شریعت بدل نہ سکتی تھی۔ لیکن اُس نے یہ بھی سےکھ لیا کہ مسیح پر ایمان لانے کے ذریعے ہی سے وہ از سر نو پیدا ہو سکتا تھا۔

اور دین کے اس نئے تصور نے اُن بڑی صداقتوں کا عرفان پولُس کو عطا کیا جن کے طالب صوفی ہیں۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ فنا شو پیش ازآں کہ فنا شوی“ اور الفاظ” ہجر“۔ تسلیم۔خود انکاری“۔ اور وصل وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح پولس نے روح القدس سے تعلیم پا کر ان سارے خیالات کی عمدہ تشریح کی۔

پولس جب مسیح کو نجات کا طریقہ مان چکا تو اُس کی زندگی کا تکیہ کلام ہی مسیح ہو گیا۔ چنانچہ اُس کے بیان سے یہ پایا جاتا ہے۔

” میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں۔ اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے۔ اور میں جو اب جسم میں زندگی گزارتا ہوں۔ تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کر دیا“(گلتیوں2-2)۔

مسیح کی زندگی کو پولس نے جو اپنی زندگی سمجھا تو یہ روح القدس کی تعلیم سے تھا۔ کیونکہ مسیح نے جب اپنے تئیں”انگور کی بیل“ یا ”آسمانی روٹی کہا“۔ تو اُس نے اسی روحانی اتحاد کا بیان کیا تھا۔

پولس نے جب اس کو اپنی زندگی کا تکیہ کلام ٹھیرایا تو اُس نے محض مسیح کی پیروی کرنا مراد نہ لیا۔ جو کوئی مسیح کو جاننا چاہتا ہے۔ یہ اُس کا روزانہ حق ہی نہیں! بلکہ پولس کو اپنی زندگی کے لئے ایک نیا مرکز مل گیا۔ خودی کے مرکز سے اُس کی روح ہٹ گئی اور اس نئی زندگی میں قائم ہو گئی جس کا مرکز خدا تھا۔ پُرانے ”میں“ کی جگہ نیا ”میں“ آ گیا۔ اس لئے پولس یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ”میرے لے زندگی میں خود ہوں“ ”بلکہ“ میرے لئے زندگی مسیح ہے“۔ اب گناہ آلود نفس اُس زندگی پر حکومت نہ کر سکتا تھا۔ کیونکہ مسیح اُس کے اندر داخل ہو گیا تھا۔ جس سے اُس کی روح کو صحت و زندگی ملتی اور قدسیت میں ترقی ہوتی تھی۔ اس کا نتیجہ عجیب تھا کہ اُمید۔محبت۔آزادگی اور رُوح القدس میں خوشی نے اُس کی روح کو بھر دیا۔ پولس کی وہ پرانی شکایت”اُس موت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا“ (رومیوں24:7) اب اطمینان کا یہ اظہار اُس سے سنتے ہیں۔” مجھے خدا کی محبت سے جو یسوع مسیح ہمارے خداوند میں ہے کون جدا کرے گا“۔

پولس نے اپنی ساری تحریروں میں یہ امر بخوبی ظاہر کر دیا کہ مسیح کے سچے ایماندار کے لئے یہ عملی جامہ پہن لیتا ہے ۔ خود پولس کے اپنے الفاظ میں اس کی تشریح پائی جاتی ہے۔” میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہو گیا ہوں“۔ پولس کا الہام۔ اُس کی زندگی کی سانس۔ اُس کا کھانا اس الہیٰ نجات دہندہ کی شراکت میں تھا جو کلوری کی صلیب پر مصلوب ہوا۔ اور مردوں میں سے پھر جی اُٹھا۔ پولس کے نزدیک اس کے یہ معنی تھے۔ کہ مسیح کے دکھ اُس کے اپنے دُکھ ہو گئے گویا اُس کی زندگی کے ہر طبقے میں یہی عمل ہو رہا تھا۔

پولس کی یہ تعلیم تھی کہ مسیح پر ایمان لانے کے ذریعے ایماندار مسیح میں پیوند ہو جاتا تھا اور مسیح کے ساتھ روحانی اور اخلاقی شراکت اُس کو حاصل ہو جاتی تھی۔ اور وہ مسیح کی صلیب اور مردوں میں سے جی اٹھنے میں اُس کے ساتھ شریک ہو جاتا تھا۔ جیسے لفظی طور سے مسیح ہمارے گناہوں کی خاطر موا اور خدا کے سامنے ہمیں راستباز ٹھیرانے کے لئے جی اٹھا ویسے ہی ہر ایماندار کو اُس کی صلیب کے وسیلے یہ توفیق ملتی ہے کہ ہر روز گناہ کے لئے مرے اور اُس کی قیامت کی قدرت میں راستبازی کے لئے جی اُٹھے۔ پس کامل ایمان سے یہ مراد ہے کہ آدمی اپنے دل اور ارادے کو پورے طور سے خداوند مسیح کے آگے سونپ دے۔ اور دانستہ سوچ سمجھ کر اُس کے ساتھ یگانگت کا احساس حاصل کرے۔

اس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح کو قبول کرنے سے پیشتر اُس کے قواے فساد کی طرف عود کرتے جاتے ہیں۔ لیکن نئی زندگی کو حاصل کرنے کے ذریعے نئی طاقت اُس کو مل جاتی ہے۔ اور اس نئی خلقت کے عمل کو سرا نجام تک پہنچاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا یوں ذکر کرسکتے ہیں۔ جب انسان اپنی مرضی کو خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ تو خدا کی مرضی اس کی ساری شخصیت میں عمل کرنے لگ جاتی ہے۔ جب ہم اس الہیٰ مرض کو کام کرنے دیتے ہیں تو ہماری ساری زندگی بدل جاتی ہے۔

تو بھی بعض گناہ آلود فطرت باقی رہتی ہے۔ یہ مصلوب کہلاتی ہے۔ پولس نے یہ لکھا۔” ہم جانتے ہیں کہ ہماری انسانیت اُس کے ساتھ اس لئے صلیب دی گئی کہ گناہ کا بدن بیکار ہو جائے تا کہ ہم آگے گو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں“۔ (رومیوں6:6)۔ اِس نے اِس کو ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی چھال چاروں طرف سے چھیل لی گئی ہو اور جو درخت فی الحقیقت مُردہ ہے۔ شہوت اور جذبات کو کشتہ کرنے کی اب بھی ضرورت ہے۔ لیکن اب ایسے ایماندار کے لئے یہ ممکن ہو گیا جو یہ جانتا ہے کہ مسیح میں بسنے (ہمارا گناہ کی نسبت مرنا) اور مسیح کے اُس کے اندر بسنے کے کیا معنی ہیں۔ اور مسیح کے ذریعہ جو غالب آنے والی زندگی حاصل ہوتی ہے اس سے واقف ہے ہمیں یہ یقین ہے۔ کہ چونکہ مسیح نے صلیب پر ایسی فتح حاصل کی جسے ہمارے اندر گناہ کی نسبت موت کہتے ہیں۔ پولس نے یہ کہا تم اپنے تئےں گناہ کی نسبت مردہ اور اپنے خداوند یسوع مسیح میں خدا کی نسبت زندہ سمجھو۔

”تم اپنے تئیں خدا کے لئے مخصوص کرو گویا کہ تم موت سے زندگی میں لائے گئے ہو۔ راستبازی کے لئے اپنے اعضاءکو خدا کے لئے مخصوص کرو“۔

کلیسیا کی مسیحی جماعت کی طرف جو اُس نے خط لکھا اُس نے اس روحانی اتحاد کا مزید بیان کیا اور بتایا کہ مسیحی شخص اس روحانی زندگی میں خود مسیح کے ساتھ آسمان میں جا بیٹھتا ہے۔ جیسے مسیح آسمان پر چڑھ گیا ویسے ہی ایماندار کے وسیلے چڑھ جانا چاہئے۔ پولس کے یہ الفاظ ہیں۔” پس جب تم مسیح کے ساتھ جلائے گئے تو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسیح موجود ہے اور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔ عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو۔ نہ زمین پر کی چیزوں کے کیونکہ تم مر گئے اور تمہاری زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں چھپی ہوئی ہے۔ جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کیا جائے گا۔” تو تم بھی اس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جاؤ گے“۔ (کلسیوں4-1:3)۔

کیا اس قسم کے تجربے کی دیندار اہل اسلام کو آرزو نہیں؟ یہ بڑا راز ہے۔ خود پولس نے اس کو راز کہا۔ توبھی یہ روحانی تجربہ اور طاقت ہے یہ ایمان کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ پولس نے کہا۔” میں جواب جسم میں زندگی گزارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزرانتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کر دیا“۔ (گلتیوں2:20)۔

یہ قابل لحاظ ہے کہ اپنے سارے خطوں میں پولس نے نجات اور مسیح کے ساتھ روحانی اتحاد کے بارے میں لکھا اُس نے خدا کی اس عجیب محبت۔رحمت اور فضل کے لئے اُس کی تمجید کی کیونکہ اُس نے ایسے وسائل اور طریقے بہم پہنچائے جن کے ذرےعے انسان خدا کے ساتھ ملاپ حاصل کر سکے۔

مسیح کلیسیا کی زندگی

لیکن پولس نے اس خیال کی اور بھی توضیح کر دی کہ مسیح جو ہماری زندگی کا مرکز ہے وہ نہ صرف افراد کی زندگی کا مرکز ہے بلکہ ساری کلیسیا کا جو مسیح پر ایمان لانے والوں کی جماعت ہے۔ اس کا سراغ بھی مسیح کے الفاظ میں ملتا ہے۔ چنانچہ اُس نے یہ فرمایا تھا۔” میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو“۔ اور”جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں“(متی 18باب 20آیت)۔

مسیح نے ایمانداروں کی ایک برادری قائم کر دی جن کا اتحاد محض انجمنی یا جماعتی نہ تھا جیسا کہ آجکل پایا جاتا ہے۔ ایسے اتحاد تو خود غرضی پر مبنی ہیں۔ لیکن یہ اتحاد خاندانی اتحاد تھا۔ جس کا سر خود مسیح تھا۔

کلیمنٹ نے جو پولس سے تھوڑی دیر بعد زندہ تھا اس مسیحی اتحاد کو ایسے حلقوں کی زنجیر سے تشبیہ دی جوکشش مقناطیسی سے پیوستہ تھے۔ لیکن ہماری دل چسپی پولس کی تشبیہ سے ہے۔

اُس نے ذکر کیا کہ مسیح اور اُس کی کلیسیا کا تعلق عمارت کی بنیاد اور خود عمارت سے مشابہ ہے۔” تم خدا کی عمارت ہو۔بنیاد مسیح ہے۔ اس بنیاد پر یہ عمارت تعمیر کی جاتی ہے کہ گویا یہ ایک واحد پتھر ہے۔(1کرنتھیوں 3باب 9سے 11آیت)۔

اُس نے ایک اور مشہور تشبیہ دی کہ مسیح اور اُس کے لوگوں کا اتحاد ایسا ہی ہے جیسا کہ انسانی بدن کا اعضا سے تھا۔ اور یہ تشبیہ بالکل مسیح کے تصور کے مطابق تھی کہ اُس کی کلیسیا ایک زندہ روحانی بدن تھا۔ مسیح اس بدن یا کلیسیا کا سر تھا۔ اس حیثیت سے وہ یگانگت اور امتیاز کا مرکز تھا۔ جیسے انگور کے درخت کی اونچی سے اُونچی ڈالی تھی جڑ کی زندگی سے زندہ رہتی ہے۔ ویسے ہی بدن میں ہر عضو کا زندہ تعلق سر سے ہوتا ہے۔ ویسے ہی مسیح اور اُس کی کلیسیا کا اتحاد تھا۔ اُس نجات دہندہ کی زندگی بخش حیات اُس سے بہ کر اُس کے بدنّ(یعنی کلیسیا) کے ہر عضو میں سرایت کرتی ہے۔(1کرنتھیوں 12باب 12سے 13آیت اور 27آیت۔ افسیوں 4باب 15سے 16آیت)۔

پولس نے عقد نکاح سے بھی اس کو تشبیہ دی جس سے کہ بیاہ کا تصور اور بھی زیادہ اعلیٰ ہو جاتا ہے۔ شوہروں کو نصیحت کرتے وقت اُس نے یہ مثال دی۔ اُس کی یہ تعلیم تھی کہ جیسے مسیح بدن کا سر تھا۔ اور اس لئے کلیسیا پر اختیار کھتا تھا۔ ویسے ہی شوہر جورو کا سر تھا۔ جیسے بدن سر کے تابع ہوتا ہے ویسے ہی جورواں شوہروں کے تابع ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ محبت سے ہو۔ کیونکہ جیسے مسیح نے کلیسیا کو پیار کیا اور اُس کی خاطر جان دی ویسے ہی شوہر اپنی جوروؤں کو پیار کریں جیسے اپنے بدن کو پیار کرتے ہیں۔ آدمی اپنے بدن سے عداوت نہیں رکھتا۔ بلکہ برعکس اس کے اُسے کھلاتا اور اُس کی پرورش کرتا ہے۔ جیسے کہ مسیح کلیسیا کو خوراک دیتا اور اس کی پرورش کرتا ہے۔ کیونکہ ہم تو اُس کے بدن کے اعضا ہیں۔(افسیوں 5باب 21سے 32آیت)۔

لیکن ہم پھر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس اتحاد کے ذریعہ ایماندار بے کار نہیں ہو جاتا۔ عمارت کی مثال دیتے وقت پولس نے افراد کی ذمہ داری پر بھی زور دیا اور کہ ہر ایک کو پاکیزہ بننا چاہئے۔ کیونکہ ایماندار روح القدس کی ہیکل ہے اور روح القدس اُن کے دلوں کے اندر سکونت کرتا ہے۔ اور بدن کی تشبیہ جس میں ہر ایمان دار ایک عضو ہے۔ پولس نے ہر فرد عضو کے کام پر زور دیا جس کے وسیلے کہ سارا بدن محبت میں بڑھتا اور تعمیر ہوتا جاتا ہے۔ (افسیوں 4باب 16آیت)۔ بدن میں یگانگت ہے۔ مختلف اعضا کو ایک دوسرے سے ایک مشترک غرض ہے۔ تاکہ ایک دوسرے کی عزت خوشی۔ غم۔ ہمدردی میں روح القدس کے ذریعہ شراکت حاصل ہو (1کرنتھیوں 12باب 25سے 28آیت)۔ جس صداقت کی تشریح پولس نے کی خواہ وہ کیسی ہی گہری اور سِریہ ہو اُس نے اُس کو ہمیشہ عملی جامے میں ظاہر کیا۔ بعض فرائض کو ادا کرنا تھا۔ روحانی زندگی دینی سر گرمی کے پہلو بہ پہلو ہونی چاہئے۔ ایماندار کو مسیح میں زندگی کا جو تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اُس کے یہ معنی نہیں کہ وہ دعا سے یا خدا کے گھر سے یا اپنے ہم جنسوں کی مدد سے غافل رہے۔ پولس نے کہا” لگا تار دعا مانگو“۔ دوسروں کی فکر اور ہمدردی جو اُس میں پائی جاتی ہے وہ ہر ایک کے لئے نمونہ ہے۔ چنانچہ اس الفت کا ذکر اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے۔” کس کی کمزوری سے میں کمزور نہیں ہوتا۔ کسی کے ٹھوکر کھانے سے میرا دل نہیں دُکھتا۔(2کرنتھیوں 11باب 19آیت)۔

کیا خدا اور انسان کے درمیان اس سے اعلیٰ اتحاد ممکن ہے جو کہ دو انسانوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جس اتحاد کے ذریعہ ایک شخصیت دوسری شخصیت سے وابستہ ہو جاتی ہے اور ایک مشترک مرکز یعنی مسیح الہیٰ نجات دہندہ اور درمیانی کے وسیلے زندگی زندگی سے وصل حاصل کر لیتی ہے۔

پولس کے دل میں جو یہ خیال تھا اُس نے اُس کو یہ تصور دیا کہ خلقت کی کل اشیاءکا اتحاد مسیح میں تکمیل پائے گا۔ پولس پر یہ منکشف ہوا تھا کہ مسیح میں۔ مسیح کے وسیلے اور مسیح کی خاطر ساری چیزیں مخلوق ہوئےں۔ وہ سب چیزوں سے پہلے تھا وہ سب چیزوں کی علت۔ سب کا مبدا اور سب کی علت غائی تھا۔ اور ساری چیزیں اُس میں قائم رہتی ہیں۔(کلسیوں1باب 17آیت)۔ الغرض مسیح وہ کلید ہے جو خلقت کے سارے رازوں کو کھول دیتی ہے۔ اس میں اور اُس کے وسیلے سے خلقت سالم کامل بن جاتی ہے۔

ملاپ کا طریقہ انجیل میں یہ بتایا گیا ہے۔” خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کر لیا۔“ (2 کرنتھیوں 5باب 19آیت)۔

”کیونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی میں سکونت کرے اور اُس کے خون کے سبب جو صلیب پر بہا صلح کر کے سب چیزوں کا اُسی کے وسیلے سے اپنے ساتھ میل کرے۔ خواہ وہ زمین کی ہوں خواہ آسمان کی“۔ ( کلسیوں1باب 19سے 20آیت)۔

کسی انگریزی شاعر نے کہا تھا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔

میں کہتا ہوں کہ مسیح میں خدا کو تسلیم کرنا۔

عقل کو مقبول ہے۔

زمین اور اُس کے باہر کی ساری مشکلات اس سے حل ہو جاتی ہیں اور تجھے ترقی دے کر دانا بناتا ہے؟

اب ان صداقتوں کے ساتھ ہمارا کیا تعلق ہے؟ کیا ہم دین میں لکیر کے فقیر بنے رہیں جس دین کا گلا قدیم روایتوں نے گھونٹ ڈالا ہے؟ کیا دین ہمارے لئے محض ایک رسم رہ گیا ہے اور چند جملوں اور دعاؤں میں مقید ہو گیا ہے۔ جن کو ہم سزا کے خوف سے استعمال کرتے ہیں؟ کیا ہماری جماعت دینی امور میں ہم کو زندہ سمجھتی ہے۔ حالانکہ ہم دل میں جانتے ہیں کہ خدا کے نزدیک ہم زندہ نہیں ؟ یا یہ جانتے ہیں کہ دین ہماری رُوح اور خدا کے ساتھ ہماری شراکت کا تجربہ ہے۔ کیونکہ ہمیں ایک قابل درمیانی مل گیا ہے یعنی بے گناہ نجات دہندہ مسیح اور ہم روح میں اُس کے ساتھ سکونت رکھنے سے خوش ہوتے ہیں۔