بہ فضل خالق زمین وزمان ویمن بانی کون ومکان
نسخہ بے نظیر جس میں آدم کی برگشتگی اوراُس کی بحالی کا تذکرہ ہے موسوم بہ

The Key of Adam

A Treastise on the fall and Redemption of Man

Written By

Rev. Baboo Younis Singh

To the Requested by

Sir William Muir

کلیدِ آدم

مصنفہ

علامہ پادری بابو یونس سنگھ

جس کے لئے جناب سرولیم میور صاحب بہادر سی ایس آئی لفٹینٹ گورنر ممالک مغربی وشمالی نے انعام عطا فرمایا
نارتھ انڈیا ٹریکٹ سوسائٹی کے لئے

بہ مطبع امریکن مشن باہتمام پادری کریوصاحب طبع ہوا

۱۸۸۵؁ء


بسم الاب والابن والروح القدس

پہلا اول

دیباچہ طبع اول

حمد

حمد و سپاس و ثنا بے قیاس اس خالق بے مثال کو واجب و سزاہے کہ جس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت نادرہ(عجیب) سے اس آب و گل کو نیست سے ہست کیا اور اس کو ایسے سامان سے آراستہ اور اسباب سے پیراسنہ (سجاہوا)کیا ۔

مدح اب

جس میں کل باشندہ گان ارضی کمال اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور نہ صرف اپنے خالق کی قدرت کو مشاہدہ کرتے ہیں پر زبور کے مؤلف(ترتیب دیاگیا ) کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے میری جان خدا وند کو مبارک باد کہہ اور اس کی نعمتوں کو فراموش نہ کر کہ جو تجھ کو جیتے جان دیتا اور لطف کامل اور الطاف (لطف کی جمع ،مہربانیاں )شامل کا تاج تیرے سر پررکھتا ہے۔ 

مدح ابن 

اور ستائش و افر اور حمد اخراس منجی پاک کو کہ جس نے خلقت کے ابتری کو دیکھ کے اس پر ترس کھایا اور اس کی سلامتی کے لئے آپ کو خالی کیا بندے کی صورت پکٹری اور صلیب کے درد ناک اور رسواموت کا متحمل (برداشت کرنے والا)ہو کر بنی آدم کو قہر اور غضب الٰہی سے بچا کے حیات جاودانی کا وارث بنایا اور اپنی بھر پوری سے فضل پر فضل عنایت کر کے انسان کو نور کے فرزندوں کے ساتھ میراث میں حصہ دیتا ہے۔ 

مدح روح القدس 

اور تعریف ہو روح پاک کی کہ جو ابن اللہ کا قائم مقام ہوکے گنہگاروں کی ہدایت مسیح کی طرف کرتا ہے اور ان کی کمزوریوں میں ان کی مدد کرتا اور ایمان موثر کی طاقت و توفیق بخشتا ہے کہ جس کے باعث سے ان کی نجات کامل ہوتی ہے۔ 


پیدائش کی حقیقت 

الحمداللہ کیا صانع (خالق)ہے کہ جس نے نہ صرف عدم (نیستی)سے ایک وجود کو قائم کیا اور بغیر مادہ کے ایک عالم مادی کو بلا ستون استادہ کیا لیکن انواع و اقسام کے موجودات کو اپنی کلمہ کن کی تاثیر سے ہست کیا اور چھ دن کے عرصہ میں علی الترتیب ایک خلقت کو مرتب کیا بشر کو ایک مشت خاک سے پیدا کر کے نہ صرف اس کو اشرف المخلوقات قرار دیابلکہ اس کو اس عالم کا سرتاج بنایا۔

اقسام موجودات

یہ خلقت اس خالق بے چون و چرا کی قدرت کاملہ و مطلق کا گویا اک شمہ (تھوڑی سی چیز)ہے۔ یہ اس کی مخلوقات کا کل نہیں ہے بلکہ اور بے شمار مخلوقات و عالم بھی موجود کئے گئے ہیں جن کی حقیقت سے گو انسان اب واقفیت نہیں رکھتا ہے تا ہم ایک وقت آتا ہے۔ کہ جیسا فلک کی روشن ہستیاں اس خلقت کی کار جلیل اور اس کے باشندہ گان عالی کی تفتیش سے شاد ہیں اسی طور پر انسان بھی ان کی جلالی ہستیوں سے واقفیت حاصل کر کے خداوند کا مدح سرا ہو گا اور اس کے جلال کو بطور کمال مشاہدہ کرے گا۔ 

عنوان خلقت 

ہم خداوند تعالیٰ کی خلقت کو تین قسم پر تصور کرسکتے ہیں۔ جن کی کیفیت کلام پاک سے بخوبی مبرہن (دلیل سے ثابت کیا گیا ،مضبوط)وآشکارا ہے۔ اول۔ ہستی روحانی یا نورانی جوبنام ملائکہ مشہور ہیں

دوم ۔ خلقت مادی جس سے کہ یہ عالم اسفل (نیچے کی دُنیا)بناہے

ے سوم۔ انسان کہ جس میں روحانی اورمادی دونوں اخلاط (خلط کی جمع ،چاروں خلطیں یعنی سودا،صفرا،بلغم،خون)باہم پیوستہ پائی جاتے ہیں۔

ہستی روحانی یا نورانی جو بنام ملائکہ مشہور ہیں۔ 

گوازروی کلام الٰہی ملائکہ یعنی فرشتوں کے وجود میں کسی طرح کا شک نہیں ہے۔ تا ہم ان کی ماہیت اور پیدائش کی طور اور وقت کا حال بخوبی معلوم نہیں ہے۔ اتنا تو بے شک ظاہر ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کی ہستیاں ہیں کہ اور اس خلقت کی پیدائش کے وقت وہ مارے خوشی کے خداوند کے قدرت کی مدح سرائی کرتے تھے جس سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ وہ تو اس خلقت کے وجود کے قبل یا شاید اس کے اول روز میں موجود کئے گئے ہوں تو عجیب نہیں۔ پر از بس کہ یہ راز ہم پر افشا ں(ظاہر)نہیں کیا گیا ہے اس کی زیادہ تفتیش لا حاصل ہے۔ 

ان کا شروع 

ان کا شمار بھی کثیر ہے چنانچہ کلام میں یہ مذکورہے کہ خداوند کا فرشتہ ان کی چاروں طرف جو اس سے ڈرتے ہیں خیمہ کھڑا کرتا ہے اور انہیں بچاتا رہتا ہے۔( زبور۷:۳۴)جو ان کی شمار کی کثرت کے اوپر دال (دلالت کرنے والا،پر معنی)ہے۔ اور پولوس رسول نے بھی یوں رقم فرمایا ہے کہ


ہمیں خون اور جسم سے کشتی کرنا نہیں ہے بلکہ حکومتوں اور ریاستوں اور اس دنیا کی تاریکی کے اقتداروالوں اور شرارت کی روحوں سے جو افلاکی(آسمان) مکانوں میں ہیں( افسیوں ۶باب ۱۳ آیت)اس آیت سے ان کی کثرت مبرہن ہے۔ پر ان کی شمار کی کیفیت (مکاشفات ۵باب ۱۱ )سے بخوبی عیاں ہے۔ چنانچہ لکھا ہے’’ پھرمیں نے نگاہ کی اور تخت اور جاندار وں اور بزرگوں نے گردا گرد بہت سے فرشتوں کی آواز سنی جن کا شمار لا کھوں لاکھ اور ہزار ہا ہزار تھا۔

ان کا شروع 

ان کا شمار بھی کثیر ہے چنانچہ کلام میں یہ مذکورہے کہ خداوند کا فرشتہ ان کی چاروں طرف جو اس سے ڈرتے ہیں خیمہ کھڑا کرتا ہے اور انہیں بچاتا رہتا ہے۔( زبور۷:۳۴)جو ان کی شمار کی کثرت کے اوپر دال (دلالت کرنے والا،پر معنی)ہے۔ اور پولوس رسول نے بھی یوں رقم فرمایا ہے کہ

ان کے درجے 

یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں درجے ہیں چنانچہ چند ہیں جومقرب الٰہی کہلاتے ہیں۔ ان میں میکائیل ،اسرافیل اور جبرئیل وغیرہ ہیں جن کے وسیلے خدا وند کی مرضی نبیوں اور اس کے مقدس لوگوں پر آشکارہ کی جاتی تھی۔ 

ان کے فرائض اور منصب 

ان فرشتوں کا کام دوطور پر ہے ۔اولاً:۔ خدا کے نسبت،دوم :۔انسان کی نسبت خدا کی نسبت ان کا یہ کام ہے کہ وہ اس کی بزرگی کے آگے اپنے منہ اپنی دو پروں سے چھپاتے اور دو سے اپنے جسم پر پر دہ ڈالتے اور دو سے اُڑتے ہوئے قدوس قدوس قدوس کہہ کر اس کے تخت کے گرد مدح سرائی کرتے ہیں اور بنی آدم کی نسبت وہ خدمت گزار روحیں ہیں جو نجات کے وارثوں کی خدمت کے لئے بھیجے جاتے ہیں (عبرانیوں ۱باب ۱۴ آیت) 

ان کے فرائض اور منصب 

ان فرشتوں کا کام دوطور پر ہے ۔اولاً:۔ خدا کے نسبت،دوم :۔انسان کی نسبت خدا کی نسبت ان کا یہ کام ہے کہ وہ اس کی بزرگی کے آگے اپنے منہ اپنی دو پروں سے چھپاتے اور دو سے اپنے جسم پر پر دہ ڈالتے اور دو سے اُڑتے ہوئے قدوس قدوس قدوس کہہ کر اس کے تخت کے گرد مدح سرائی کرتے ہیں اور بنی آدم کی نسبت وہ خدمت گزار روحیں ہیں جو نجات کے وارثوں کی خدمت کے لئے بھیجے جاتے ہیں (عبرانیوں ۱باب ۱۴ آیت) 

نوع دوم خلقت مادی 

گو ان کا منصب اور مرتبہ سلسلہ میں انسان سے اعلیٰ ہے تاہم از بس کہ ان کا وجود اس عالم اسفل سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ہے ہم ان کا بیان اس مقام پر ختم کرتے ہیں۔اقسام دوم میں خلقت مادی ہے۔ از روئے تواریخ صحیح اس خلقت مادی کو وجود میں آئے ہوئے یعنی جس ہئیت میں وہ اب موجود ہے۔ چھ ہزار (۶۰۰۰)برس کا عرصہ گزرتا ہے۔ فی زمانہ عالموں نے یعنی چند دہریوں نے یہ ٹھہرایا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے لیکن وہ اس امر میں غلطی کرتے ہیں اور ان کی علت غائی(نتیجہ،فائدہ ،وجہ) صرف یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے جہلا(جاہل کی جمع) پر غالب آئیے اور کلام کو باطل کیجیے لیکن آفتاب کے اوپر خاک ڈالنے سے اس کو چھپا نا محال ہے اور اسی لنگڑی لولی باتوں سے کلام کا ابطال(غلط قرار دینا) غیر ممکن ہے۔ اس مادہ کے بیولے کے وجود کی تعداد بے معلوم ہے اورکوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب موجود کیا گیا پر ظاہر ہے کہ اس کے سرد ست(فی الحال) کی ہیئت(باعث،محبت) بہت قدیم نہیں ہے۔ 

مادہ کے وجود کامقصدخاص 

اس مادی کے وجود میں محض مطلب و مقصد یہ معلوم ہوتے ہیں۔ 

۱۔ اولاً اسکنائے ارضی کے سکونت کے لئے جائے استقامت ہو۔ 

۲۔ثانیاً کہ سارے جاندار ارضی اس سے اپنی غذا اور خوراک پائیں ۔ 

۳۔ ثالثاً کہ اس کے وسیلے سے آدم زاد اپنے خالق کی حکمت ودانش اور جلال و کبریائی اور اس کی رحمت کی بے پایاں(بے حد،بے انتہا) دولت کی پہچان حاصل کر کے خلقت کے وسیلہ سے اس کے بانی و مبانی علٰی کی بکمال اطمینان شناخت کرے اور اس کا ممنون و مشکور رہے کہ جس نے اس کو یہ نعمتیں عطا فرمائیں اور اس کی یاد میں قائم اور اس کی اطاعت میں مستعد ہو کر اپنی ہستی کی اول غرض کو پوری کرے اور زمین اور آسمان کی طرف صعود کر کے اس کے جلال کو آشکار کرتے ہوئے آخر کو اس کی صحبت میں ابدالاباد تک خوش و متمتع (فائدہ اُٹھانے والا)رہنے کی قابلیت کو پیدا کرے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے 

ابرباددمہ و خورشید و فلک درکاراند



تاتو نا نے بکف آری و بغفلت نخوری



ہمہ راز بھر تو سرگشتہ و فرمان بردار



شرط انصاف نباشد کہ تو فرمان نبری



پس جس حال میں کہ کل خلقت اس کے شان کبریائی کی مداح تھی تو ممکن نہ تھا کہ انسان ہی اکیلا خاموش رہتا۔ 

خلقت کی ستائش خفیہ 

ہر چند کہ اشیاء غیر ذی روح بے زبان ہیں اور ان کی آوازسننے میں نہیں آتی تا ہم اس میں کسی طرح کا شک نہیں کہ وہ خفیہ اپنے خالق و مالک کی ثنا خوانی کرتی ہیں۔ چنانچہ زبور کے مؤ لف نے الہام الٰہی سے اس مقدمہ میں یہ رقم فرمایا ہے ’’آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں اور فضا اس کی دستکاری دکھلاتی ہے۔ ایک دن دوسرے دن سے باتیں کرتا ہے اور ایک رات دوسری رات کو معرفت بخشتی ہے۔ ان کی کوئی لب اور زبان نہیں ان کی آواز سنی نہیں جاتی پر ساری زمین میں ان کی تار گونجتی ہے اور دنیا کے کناروں تک ان کا کلام پہنچا ہے‘‘ ( زبور۱۹:۱۔۴)۔ اور پھر یہ کہ اے خداوند تیری ساری دستکاریاں تیری ثنا خوانی کرتی ہیں اور تیری مقدس لوگ تجھے مبارکباد کہتے۔وہ تیری سلطنت کے جلیل کاموں کا بیان کرتے اورتیری قدرت کا چرچا کرتے ہیں تاکہ آدم زادوں پر اس کی قدرتیں اور اس کی سلطنت کی جلیل شوکتیں ظاہر کریں۔ (زبور۱۴۵: ۱۰ ۔۱۲)۔ 

اس خلقت کے وجود کا عرصہ

اس خلقت مادی کا وجود چھ روز کے عرصے میں علٰی الترتیب یوں ظہور میں آیا کہ پہلادن قادر مطلق نے روشنی کو وجود کیا۔ ہنوز مادے کا ہیولا(ہر چیز کا مادہ،ماہیت ،اصل) بے ترتیب تھا اور تاریکی اس ہیولا کے اوپر طاری تھی پس ضرور تھا کہ اس ہیولے کی حیثیت آشکارا ہو۔ چنانچہ اس معبود حقیقی نے اپنے کلمہ قدرت کی تاثیر سے روشنی کو وجود میں لا کے مادے کی حقیقت کو بالکل ہویدا (واضح)اور آشکارا کر دیا۔ روشنی حاجت ابتدائی تھی لہٰذا یہ حاجت ابتدا ہی میں رفع کی گئی۔ دوسرےروز رقیع یعنی فلک کی سطح نیلگون (نیلا،نیلے رنگ کا)اس غرض سے قائم کی گئی کہ وہ آب تحتانی(نیچے


والایانیچے والی) کو آب فوقانی(اوپر کا) سے منفصل(جدا کیاگیا) کر کے اس عالم کو سکناے ارضی آسائش کے لئے موزوں بنائے۔ اسی رقیع کی سطح نیلگون کے اوپر کے حصہ کو آسمان کہتے ہیں جہاں رب العالمین کا تخت قائم ہے اور اس کو بلندی کے اوپر اس لئے قائم کیا ہے کہ انسان کی نگاہ زمینی چیزوں پر نہیں بلکہ فوقانی چیزوں کی طرف کشیدہ رہے اور اپنے خالق کے دیدار کا طلب گار کھے۔ تیسرے روز خشکی جواب تک پانی کی تہ میں اور اس کے ساتھ مخلوط (ملاجلا)تھی پانی سے جدا کی گئی اور یوں ارض مستحکم کا وجود ہوا۔ اور حالانکہ انسان اور حیوان کے لئے نہ صرف جائے استقامت ہی مدنظر تھی بلکہ اس کا ایک خاص مقصد یہ تھا کہ اس کے وسیلے سےہر جاندار وذی روح مخلوق کے لیے خوراک بہم پہنچائی جائے اس نظرسےاس خالق نے جو اپنی خلقت کی بہتری ہمیشہ مقصودرکھتا ہے اس زمین کو قبہ (برج)استبرق (سبزا طلس کی قسم کا ایک ریشمی کیڑا)مزین(آراستہ) کیا اور اس پر فرش زمردی(سبز رنگ کا) بچھا کے اس کو نہ صرف خوشنمائی کا منظر قرار دیا بلکہ کل جاندار کی حاجات کلی کے رفع کرنے کے لئے اس کو وسیلہ بنایا جس میں اس طرح کی شیرینی اور حظ پایا جاتا ہے کہ ناپاک انسان اس برکت کے داتا کو فراموش کر کے اس ہی زمین میں غلطان (گول،گرتا پڑتا)و پیچاں(بل کھایا ہوا) رہتا ہے اور اپنی سعادت مندی کے نقد(پونجی) کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے۔ چوتھاروز وہ روشنی جو کہ اول روز وجود میں لائی گئی تھی خاص خاص چشموں میں یعنی آفتاب و ماہتاب اور کو اکب(ستارے) میں مجتمع(اکٹھا) کر دی گئی تا کہ ان کے وسیلہ سے انتہا ئے عالم تک روشنی اس زمین پر اپنا اثر کرتی رہے اور انسان اپنے کارو بار معمولی میں بہ طمانیت (تسلی)و آرام مشغول رہےاور تاکہ دنوں اور برسوں اور موسموں کا انتظام قائم رہے اور مخلوقات کو ہر آفت سے امان ملے۔ ان چاروں کے عرصہ میں خلقت بے جان اور غیر ذی کے روح مخلوق کا وجود ظہور میں آیا۔ پانچواں روز سے ذی روح مخلوق نمود ہونے لگے چنانچہ پانچویں روزبے شمار اقسام کے جاندار آبی و بادی زندگی اور حرکت کی طاقت اور اپنی اپنی جنس کے قائم رکھنے اور ان کو افزائش دینے کی قوت کے ساتھ آراستہ وموجود کئے گئے۔چھٹا روز بہائم (حیوان،مویشی)ارضی حتےٰ کہ ان سے اس مخلوقات کا خاتمہ عنقریب تمامی کے پہنچا۔ ان بہائم اور جاندار ارضی کے موجود کئے جانے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسیلہ سے انسان کو اپنے کاروبار کی نسبت آسانی حاصل ہو اور خداوند تعالیٰ کی قدرت کی بہتایت اور کثرت آشکارا ہو۔ یوں ہم اس خلقت کی صنعت کو دیکھ کے بتدریج کمال تک پہنچتے ہیں اور اس کی دانش کی فراوانی کو دریافت کر سکتے ہیں جن سے ان سب اشیاء کو حکمت سے بنا کر اپنی قدرت کا ملہ کا شائد کیا۔ 

تکملۂ خلقت 

جب کہ یوں خلقت اور اس کی معموری ظہور میں آئی تب لکھا ہے کہ’’ خدا وند تعالےٰ نے اس پر نظر کی اور یہ فرمایا کہ سب کچھ اچھا ہے ‘‘ جس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ اس خلقت میں کسی طرح کا نقص یا کسی نوع کی کمی نہ تھی بلکہ جس منشا سے اس کا وجود متصور ہوااس کی تکمیل کی ماہیت کلی کی حیثیت اس میں پائی گئی اور کہ خالق کی بزرگی کرنے کے لئے وہ ہر طرح سے مناسب اور موزوں تھی۔ 

  یہ خدا وند کے جلیل کاموں میں سے چند ہیں۔ لیکن اس قادر مطلق و بے پایاں معبود حقیقی کا جلال انسان کی پیدائش اور اس کی راز دار ترکیب جسمانی اور روحانی میں درجہ بہ درجہ اولی آشکارا ہے نہ اس وجہ سے کہ وہ سب سے اعلیٰ ہستی ہے کیو نکہ اس کا درجہ فرشتوں سے کمتر ہے پر اس وجہ سے کہ وہ اس خلقت اسفل کا سر تاج اور اس کی رونق اور اس زمین پر خداوند کا قائم مقام و نائب ہے اور اس کی فضلیت خاص اس بات میں ہے کہ وہ ظلِ سبحانی


(خداوند پاک کانائب)اور صورت یزدانی(نیکی وخیرخواہی) پر خلق کیا گیا اور ایسا صاحب اختیار وحکومت اور دبدبہ پیدا ہوا کہ جس میں اس کے قادر مطلق خالق کی خوبیاں بدرجہ اتم ہویدا ہیں اور اس کی ذات میں ایک ایسی بات پائی جاتی ہے کہ جو کسی ذی روح مخلوق میں ظہور میں نہ آئی یعنی کہ جیسا وہ خلقت کی اخیر صنعت تھا ویسا ہی وہی اکیلا اس حیثیت کے ساتھ خلق ہوا کہ اپنے خالق سے رفاقت و صحبت رکھے۔ یہاں تک کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کیسا عجائب و غریب بنا ہے تو ہم خداوند کی مدح سرائی میں اس غزل کی باتوں کو اپنی زبان پر لا کے اس کی حمد ثنا خوانی کی طرف یوں مخاطب ہو سکتے ہیں کہ معبودوں میں اے خدا وند تجھ سا کون ہے۔ پاکیزگی میں کون ہے تیرا سے جلال والا۔ ڈرنے والا۔ صاحب بڑا ئیوں کا۔ عجائبات کا بنانے والا۔ 

اسم انسان اول اور اس کی وجہ تسمیہ 

وہ مخلوق جو اس حیثیت اور ہیئت کے ساتھ وجود میں لایا گیا آدم کے نام سے موسوم ہوا جس کے معنی مٹی یا خاک کے ہیں۔ یہ نام اول انسان کو اس غرض سے دیا گیا تا کہ اس کی یاد سے اس میں اطاعت کی طبیعت قائم ہے۔ اور وہ افعال بے جا کا مرتکب ہونے سے محفوظ رہ کر اپنے خالق کی رحمت اور شفقت اور عنایت کا جو یاں(تلاش کرنے والا) اور اس کے دیدار کا طالب رہے چنانچہ بند گان مقبول خدا میں اب تک یہی وصف پایا جاتا ہے اور اس کی غزل شب و روز یہی ہوتی ہے ۔ میں اپنی آنکھیں تیری طرف اٹھاتا ہوں۔ آسمان پر بیٹھنے والے۔ دیکھ جس طرح سے کہ غلام اپنے مالکوں کی دست نگر رہتے ہیں جس طرح سے کہ لونڈی اپنی بی بی کی دست نگر ہے اسی طرح ہماری آنکھیں خدا ونداپنے خدا کی طرف ہیں جب تک کہ وہ ہم پر رحم نہ فرمائے۔ (زبور ۱۲۳: ۱، ۲) 

آدم کی پیدائش کا دن اور اس کا مقصد 

از بس کہ آدم اس خلقت اسفل کا تکملہ تھا خداوند نے اپنے ارادوں میں یہ مناسب سمجھا کہ اس کو پیدائش کی سلسلہ کی اخیردن میں وجود میں لائے۔ غرض کہ چھٹے روز جب کہ کل حیوانات خلق ہو چکے اور دوسری کوئی شے باقی نہ رہ گئی تھی کہ جو وجود میں لائی جا سکتی اسی روز خداوند عالم نے تکملہ خلقت کو موجود اور قائم کیا اور یوں اس خلقت کا کام ختم اور تمام ہوا۔ اور اس دن آدم کا پیدا کیا جانا اس جہت سے ضرور تھا کیو نکہ اس کی ماہیت جسمی ان حیوانات سے مشابہ تھی جو کہ اس روز خلق ہوئے اور اس لئے کہ جب تک وہ اس جسم میں تھا تب تک اس کو ان کی مانند اور ان کے ساتھ اسی خلقت کو آباد رکھناتھا۔ 

مقصد اول 

لیکن اس کی وجہ ہم یہ بھی گمان کر سکتے ہیں کہ اس کاخیال اس کے خیالوں کو خدا کے تابع اور مطیع رکھے تا نہ ہو کہ وہ اپنے دل میں کبر(عظمت،غرور) کو جگہ دینے اور یہ کہنے کا موقع پا لے کہ میں بھی اس وقت موجود تھا جب کہ تو نے زمین کی بنیاد ڈالی اور سما السموات(آسمانوں) کو خلق کیا۔ اے آدم زاد اس سے دو تعلیمیں لے۔ اول یہ کہ تو ایک مخلوق ہستی ہے اور دوئم یہ کہ تیرے خیالات شکر گزاری اور اطاعت کے ساتھ تیرے خالق و صانع کی طرف اٹھیں اور کہ تو ابدلآباد اس کی حمد و ثنا خوانی میں پایا جائے۔ 

مقصد ثانی 

اس کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو اس امر سے عزت بخشی جائے جیسا اس خلقت کی پیدائش کے انتظام میں یہ بات مد نظر تھی کہ خلقت ناکاملیت سے کاملیت کی طرف عروج کرے ویسا ہی انسان کی خلقت کا خاتمہ ہونے میں اس کے سر پر کمال کا تاج رکھا گیا اور یہ اس کے لئے ایسی عزت کا باعث ہوا کہ جو کسی مخلوق کو حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ 

مقصد ثالث 

اس کے تیسرے مقصد میں خدا کی رحمت اور مہربانی آدم زاد کے اوپر یوں آشکارا کی جاتی ہے کہ اس نے آدم کی تکلیف کی رفاہیت (خوشی)کا خیال کر کے نہ چاہ کر وہ ایسے وقت پر موجود کیا جائے کہ اس کو کا مل آسائش حاصل نہ ہو سکے چنانچہ سب چیزوں کو کامل کر کے اور اس کو فردوس برین کو نمونہ بنا کے آدم کو ایسے مکان میں رکھا کہ جس میں ساری چیزیں اس کے آرام کے لئے موجود تھیں اور تا کہ اس کا نفس یک لخت(فوراً) ان سے متمتع(فائدہ اُٹھانے والا) ہو کر اپنے خالق سے بستہ ہو جائے جو کہ معدن(کھان) کرم موجود ہے۔ 

مقصد ثالث 

اس کے تیسرے مقصد میں خدا کی رحمت اور مہربانی آدم زاد کے اوپر یوں آشکارا کی جاتی ہے کہ اس نے آدم کی تکلیف کی رفاہیت (خوشی)کا خیال کر کے نہ چاہ کر وہ ایسے وقت پر موجود کیا جائے کہ اس کو کا مل آسائش حاصل نہ ہو سکے چنانچہ سب چیزوں کو کامل کر کے اور اس کو فردوس برین کو نمونہ بنا کے آدم کو ایسے مکان میں رکھا کہ جس میں ساری چیزیں اس کے آرام کے لئے موجود تھیں اور تا کہ اس کا نفس یک لخت(فوراً) ان سے متمتع(فائدہ اُٹھانے والا) ہو کر اپنے خالق سے بستہ ہو جائے جو کہ معدن(کھان) کرم موجود ہے۔ 

آدم اور مخلوقات کل کا اتحاد 

لیکن ہر چند کہ خدا نے آدم کو ایسی عزت و فضلیت بخشی اور ان کواشرف المخلوقات بنایا اور ان کی اور غیر ذی روح مخلوق کے درمیان آسمان اور زمین کا فرق نظر آتا ہے تا ہم یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ان متفرق خلقتوں میں کسی طرح کا ربط و اتحاد نہ تھا۔ خدا نے آدم اور خلقت دونوں کو موجود کیا اور اپنی مشیت ازلی سے ان دونوں کے درمیان میں میل و موافقت اور ربط و اتحاد بھی قائم کیا۔ یہ زمین محض اس واسطے نہیں بنائی گئی کہ اس سے آدم کے صرف حاجات نفسانی رفع ہوں لیکن تا کہ اس کے وسیلہ سے اس کی عقل و اخلاق دونوں تربیت و نشوونما پائیں۔ الغرض یہ دنیا آدم زاد کے لئے نہ صرف سکونت گاہ ہے بلکہ ایک بڑا مکتب خانہ ہے جس کے وسیلہ سے خدا خود بنی آدم کی تعلیم و تربیت کا انتظام و بندوبست کرتا ہے۔ چنانچہ رسول نے آدمیوں کو خط میں اس تعلیم خلقتی کی نسبت یوں رقم فرمایا ہے کہ اس کی صفتیں جو دیکھنے میں نہیں آتیں یعنی اس کی ازلی قدرت اور خدائی دنیا کی پیدائش کے وقت سے خلقت کی چیزوں پر غور کرنے میں صاف معلوم ہوتی ہیں۔ 


دوسرا باب

آدم کی خلقت کی کیفیت

انسان مجموعہ عالم

آدم زاد کی ہستی ایک مجموعہ یعنی خلاصہ العالم ہے۔ اس کی ترکیب میں پستی اور بلندی عمدگی و سنجیدگی باریکی و پیچیدگی لذات آسمانی اور ہنریات جسمانی اس درجہ تک مخلوط ہے کہ جس کی تفتیش میں انسان کی محدود عقل عاجز و عاری ہے اور اس کا مرکب تصور اس قدر تیز گام نہیں ہے کہ اپنی کل ماہیت کی پہچان کے ساتھ برابری کر سکے۔ 

اس کی ہیئت روحی ان نورانی ہستیوں سے مشابہت رکھتی ہے جو سماوسماوات کی زیب و زینت ہیں اور اس کی ترکیب جسمی مادہ تحتانی سے جو اس خلقت اسفل کو زیبائی بخشتی ہیں متوصل ہے۔ یوں الوہیت اور اسفلیت دونوں کی ماہیتیں اس میں آمیز اور دونوں کی خوشنودی اور خوشنمائی اس میں پیوستہ نظر آتے ہیں۔ غرض کہ یہ امر لاریب(بے شک) ہویدا و آشکارا ہے کہ انسان کا وجود نہایت ہی راز دار ہے حکمائے یونان نے اس خیال میں غلطان و پیچان ہو کے انسان کو ’’مکر کا زماس ‘‘یعنی عالم کوچک(چھوٹا جہان) قرار دیا۔ ان کی طیور(طیر کی جمع ،پرندے) عقل کی بازو اس سے زیادہ تر بلند پروازی کی سکت و قوت نہ رکھتے تھی کیو نکہ انسان کی عقل محدود کی کیا مجال ہے کہ خدا کی بے حد دانش کے راز کو تماماً دکمالاً فہمائش(نصیحت) کر سکے۔ اس بات کی حقیقت کے اوپر فکر و تامل کر کے زبور کے مولف الہامی و بندہ مقبول یزدانی یعنی حضرت داؤد نے یہ رقم فرمایا ہے کہ’’ میں تیری ستائش ہی کرتا رہوں گا کیو نکہ میں دہشت ناک طور سے عجیب و غریب بنا ہوں۔ تیرے کام حیرت افزاہیں اس کا میرے جی کو بڑا یقین ہے( زبور ۱۳۹: ۱۴)۔

آدم کی پیدائش کاطور

از بس کہ آدم کی خلقت ایسے عجب طورپر لائی وجود میں آئی۔ اس کی پیدائش بھی کمال سنجیدگی کے ساتھ ہوئی۔ خلقت کی پیدائش کا طور جو اور اشیائے ذی روح یا غیر ذی روح کی نسبت مستعمل تھا وہ اب موقوف ہو گیا اور وہ جو خلقت کی عظمت اور بزرگی تھا ایک سنجیدہ مشورت کے ساتھ ظہور میں لایا جاتا ہے۔ اب ایک یہ حال تھا کہ خدا نے کہا کہ(ہو) اور (ہو گیا) پر جب آدم کو بنانا منظور ہوا تب لکھا ہے کہ’’ خدا نے کہا ہم آدم کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند بنائیں‘‘ جس سے مفسرین و محققین نے تثلیث کی تعلیم کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا کہ گویا آسمان میں تثلیث کی مبارک جماعت میں یہ مشورہ درپیش ہوا کہ آؤ ہم مل کے آدم کی پیدائش میں ہاتھ لگائیں چنانچہ حسب منشا ءکلام ربانی کلام الٰہی یعنی مسیح اور روح القدس مبارک دونوں سے خلقت کے کام شراکت اقنوم اول منصوب(قائم) ہیں جیسا لکھا ہے کاابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی۔ 


زندگی اس میں تھی اور وہ زندگی انسان کا نور تھی (یوحنا ۱: ۱۔۴) پھر وہ اندیکھی خدا کی صورت ہے اور وہ ساری خلقت کا پہلوٹھا ہے کیو نکہ اس سے ساری چیزیں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور اندیکھی کیا تخت کیا خاوندیاں(مالک) کیا ریاستیں کیا مختار یاں پیدا کی گئیں ساری چیزیں اس سے اور اس کے لئے پیدا ہوئیں اور وہ سب سے آگے ہے اور اس سے ساری چیزیں بحال رہتی ہیں( کلسی ۱: ۱۵، ۱۷ )اور (ایوب ۲۶ :۱۳ )میں آیا ہے کہ اسے اپنی روح سے آسمانوں کو آرائش دی آیات بالا سے واضح و عیاں ہے کہ انسان کی پیدائش کی نسبت اتحاد تثلیثی ہوا پر چاہے ہم اس معنی میں اس بات کو لیں چاہے نہ لیں اتنا بے شک ظاہر ہے کہ انسان فکر و تامل (سوچ بچار)کا مخلوق ہے بلا ریب اس کی ذات میں کوئی نہ کوئی بات فوق العادی (فضیلت کاعادی)مطلوب تھی۔ ورنہ اتنی سنجیدگی اور تر دو اورفکر کی ضرورت نہ ہوتی۔ ایک بزرگ نے یہ لکھا ہے کہ

خلقت کی ساری اشیاء کے اوپر آدم زاد کو فضلیت اور فوقیت اور بزرگی و فروغ اس بات میں آشکارہ ہے کہ اور ساری مخلوق خدا کے کلمہ کی تاثیر سے برپا ہوئے لیکن انسان ایک تدابیر اور فکر تامل کا نتیجہ ہے۔ کیو نکہ لکھا ہے کہ خداوند نے فرمایا کہ آؤ ہم انسان کو بنا ئیں۔ 

انسان ایک گل قدرت خالق 

اے بنی انسان تو کیا کوئی گل ہے یا بوٹا ہے۔ کہ تیری پیدائش میں سما اور سماوات میں فکر اور غور اورتاس نظر آتا ہے اور قادرمطلق خدا تیرا پیدائش میں تاخیر کر کے تیری خلقت کو فضلیت بخشنا چاہتا ہے۔ فی الحقیقت تو اپنے خالق کی قدرت کا ایک گل مقبول ہے لیکن اے بشر تو کانپتے ہوئے خوشی کر کیو نکہ تونے اپنے تئیں اس حیثیت میں ا پنی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں پہنچا یا پر تیرے خالق کو پسند آیا کہ تجھے فوقیت و فضلیت بخشے۔ سعدی شیرازی نے اپنی کتاب( گلستان ِسعدی) کے دیباچہ میں کیسی معقول بات کہی ہے جو اس مقام پر بہت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

ایک روز حمام (نہانے کی جگہ)میں کسی دوست کے وسیلے سے گل خوشبو دار میرے ہانہ آئی ایسا کہ اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہو گیا۔ یہ کیفیت معلوم کر کے میں نے اس مٹی سے سوال کیا کہ تو بے شک ہے یا عنبر(سمندرکی ایک قسم کی سوکھی جھاگ جس کو جلانے سے خوشبو پیداہوتی ہے ) ہے کہ تیری دل آویز(دل لُبھانے والی) بو سے میرا دماغ معطر ہو رہا ہے۔ اس گل نے بکمال عجز و انکسار یہ جواب دیا کہ میں تو نا چیز و حقیر مٹی تھی لیکن ایک مدت سے کل کی ہم نشینی کا سابقہ پڑا پس ہم نشینی کی صحبت نے مجھ میں یہ وصف پیدا کیا ہے۔ وگرنہ میں وہی خاک ہوں جو کہ اصل میں تھی۔

حاصل کلام ۔ خدا وند کے جمال نے تجھ کو یہ حسن کمال عنایت کیا ہے کہ تو کل خالق کا منظور نظر ہو سکتا ہے۔


اے آدم زاد یہ تدبیر و بندوبست جو تیری پیدائش میں نمایاں ہے۔کس لیے ہے جواب خدا نے تجھ کو اپنی صورت پر بنایا چاہا ۔تو بے شک خاک ہے پر خدائے ازلی وقادر مطلق تیرا بنانے والا ہے پس جیسا تو اس کی اخیر صنعت اور دستکاری اعلیٰ ہے ویسے ہی تو اس کی صورت کا نقش ہے اور اے تیر ے حال پر اگر تو اس صورت کی سیرت کو آپ میں آشکار انہ کرے اور اپنے خالق سماوی اور آبائے حقیقی کے اوپر حرف لائے ۔

خداکی صورت سے مراد

لیکن انسان کے خدا کی صورت پر پیدا ہونے سے کیا مراد ہے ۔کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے گا کہ خدا کی کوئی شکل ہے کہ جس کی صورت پر انسان پیدا کیا گیا ۔ہر گز نہیں ایسا خیال کرنا محض کفر کا کلمہ ہوگا اسی خیال کے رفع کرنے اور اس کی ماہیت کی شناخت حقیقی عطا کرنے کے لیے کلام میں صاف آیا ہے کہ خدا روح ہے ۔غرض کہ خداکی صورت کی نسبت جس کے نقش کی اوپر انسان بنا ہے یہ تصور کرنا کہ وہ کسی طرح کی جسمیت سے تعلق رکھتا ہے نہایت بے جا اور نامناسب ہے ۔لیکن یہ کہ جیسا خداروح ہے ویسا ہی یہ صورت بھی صفت روحی کے اوپر مبنی ہے ۔

اس صورت کی ماہیت

پر باوجود اس کے اس مقام پر یہ بھی دریافت کرنا لازم آتا ہے کہ اس صورت کی کیفیت وماہیت کیا ہے ۔کیا اس سے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ خدا کی کلیت کی صورت تماماً وکمالاً انسان کی ذات میں مجتمع ہی آیا یہ کہ و ہ ایسی ہے کہ جیسے کسی ماہیت اعلیٰ کا پر تو کسی شئے میں سایہ ڈالے کہ جس کے باعث سے اس کی ہئیت کو آراستگی وزیبایش وزینت حاصل ہوسکتی ہے ۔اس مقام پر پولُس رسول کی وہ بات یاد آتی ہے کہ ابھی ہم آئینہ میں دھندلا سے دیکھتے ہیں ۔اس سوال کی ماہیت کی بیان میں دوباتوں کے اوپر لحاظ رکھنا لازم ہے یعنی کہ خداوند تعالیٰ کی ماہیت سے دو یا تین متعلق ہیں ۔اول صفات جلالی جن کو صفات ذاتی خاص یاماہیتی کہنا چاہیے ۔دوسرے صفات جمالی جن کو تشریکی یاتشبیہ کہ سکتے ہیں۔

صفات جلالی

صفات جلالی یعنی صفت ذاتی خاص یاماہیتی سے خداکی وہ صفت مراد ہیں جو اس کی ماہیت خاص سے متعلق مہین ۔یہ صفات ماہیتی اس وہ جلیل صنعتیں ہیں کہ جس کی نسبت وہ بے مثل ہے اور وہ غیر ممکن التشارک ولاتشبیہ ہیں ۔چنانچہ اس کی نسبت خداوند تعالیٰ نے خود اپنی کلام مبارک میں یہ فرمایا کہ میں خدا ہوں ۔یہ میرا نام ہے میرے سواکوئی دوسرا نہیں ہے اور میں اپنا جلال دوسرے کو دوں گا ۔پس ان کی کیا حقیقت ہے کہ اس بے مثل اور غیر ممکن التشبیہ جلال کی ماہیت کے اوپر دعویٰ کرسکے ۔جیسا کہ خدااپنی ذات میں جلالی اور لاتشرک ہے ویسا ہی اس کی ماہیت کی تشریح یا تشبیہ بھی ناممکن ہے ۔وہ اپنی ماہیت کی نسبت لامفہوم اور غیرمدرک ہے اور انسان کی نظر سے غائب ہے جبکہ وہ نادیدہ ہے تو اس کی ماہیت کی صورت بھی ناممکن ہے ۔غرض خداکی وہ صورت جس پر انسان پیدا کیا گیا تھا اس کی اس جلالی صفات سے کچھ تعلق نہیں رکھتی ہے اور اس کی ہیئت ترکیبی اور اس کی استعداد محدودی دونوں اس امر میں ہوتے ہیں ۔

خداوند تعالیٰ نے اپنا جلالی ظہور بنی آدم کے اوپر آشکار ا نہیں کیا ہے ۔چنانچہ کلام مقدس میں آیا ہے کہ مخفی چیزیں خدا وند ہمارے خداکی ہیں کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ انسان اس کی جلیل صورت کی تاب لاسکے ۔جب حضرت موسیٰ نے خداوند کا جلال دیکھنا چاہا تو ان حضرت کو یہ جو اب ملا کہ کوئی انسان نہیں ہے جو میرا جلال دیکھے اور زندہ رہے بلکہ اس کی جلیل حضوری کی پشت ہی نے آنحضرت کو سراسیمہ اور پر یشان کرڈالا اور جب وہ بنی اسرائیل کے لشکر میں پہاڑ پر سے وارد ہوئے تو ان کا چہرہ اس قدر درخشاں (چمک دار) تھا کہ اسرائیلیوں کے دل ہیبت سے مر گئے اور ان کو مجبوری سے اپنے چہرے کے اوپر نقاب ڈالنالازم آیا ۔بلکہ اور بزرگ بھی یہ کلمہ اپنی زبان پر لائے کہ ہم مرے کیو نکہ ہم نے جلال کے خدا وند کو دیکھا ۔ حاصل کلام ۔ خدا کی وہ صورت جس پر انسان پیدا کیا گیا تھا اس ماہیت سے بالکل بے تعلق ہے۔ 

صفات جمالی یعنی صفات تشریکی یا تشبہی 

لیکن اس خالق کو جو اپنی ماہیت حقیقی میں اس قدر جلالی ہے یہ پسند آیا ہے کہ اپنے تئیں بنی آدم پر آشکارا کرے اور یہ اس نے اپنے جمالی صفتوں کے وسیلے سے کیا ہے۔ ان صفات کا ظہور پہلی بار اس وقت ہوا کہ جب بنی اسرائیل دشت سینا میں خیمہ زن تھے وہ یہ ہے تب خدا وند بدلی میں ہو کے اترا اور اس کی یعنی اپنے بندے موسیٰ کے ساتھ وہاں ٹھہرا رہا اورخدا وند کے نام کی منادی کی اور خدا وند اس کے آگے سے گزرا اور پکارا ۔ خدا وند خدا وند خدا وند ذوالطول رب الفضل ووفا۔ ہزار پشتوں کے لئے فضل رکھنے والا گناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا( خروج ۳۶: ۶۔۷ )یہ صفات ایسے ہیں کہ جن کی مشابہت بنی آدم میں ایک درجہ تک پائی جاتی رہی اور اس دنیا کی مسافرت میں یہی صفتیں اس کی تسلی اور خوشی و برکت کے چشمے ہوتے ہیں۔ اور ایمان و امید کے پیدا کرنے میں ممد (مددگار)ہوتے ہیں۔ انہیں صفتوں کے وسیلہ سے بنی آدم خدا کی پہچان کی شناخت رکھتی ہیں اور برگشتہ انسان اپنی نوزادگی کی پہچان میں بھی اسی قسم کی صفتوں کے طالب ہوتے ہیں۔ پس از بس کہ خداوند تعالیٰ کی یہ صفتیں تشریکی (حصہ داری )و تشبہی(مانندہونا) ہیں انسان میں خدا کی صورت انہیں صفتوں میں پائی جا سکتی ہے۔ اور انہیں میں پائی بھی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کی منشا کے مطابق پولس رسول نے کلسی جماعت کو آسمانی چیزوں سے دل لگانے کی نسبت نصیحت کر کے ان کو تحریک دلانے کی نیت سے یہ دلیل پیس کی ہے۔ کیو نکہ تم نے پرانی انسانیت کو اس کے فعلوں سمیت اتار پھینکا اور نئی انسانیت کو جو معرفت میں اپنے پیدا کرنے والے کی صورت کے موافق نئی بن رہی ہے پہنا ہے۔ (کلسی ۳: ۹۔۱۰)اور پھر (۱- کرنتھیوں۱: ۳۰ ) میں یوں آیا ہے کہ لیکن تم جیسے مسیح میں ہو کے اس کے ہو کہ وہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے حکمت اور راستبازی اور پاکیزگی اور خلاصی ہے۔ 

ماہیت بیان متذکرہ بالا 

بیان متذکرہ بالا کی کل ماہیت یہ ہے کہ انسان خدا کی جمالی صفات کے نمونہ پر اس کی صورت میں پیدا کیا گیا اور یوں اس کو ایک ایسا جلال بخشا گیا جو کہ فرشتوں کو بھی نہ میسر ہوا ۔بلکہ اگر ہم اہل ہنود(ہندو کی جمع) کے قول کو یہاں درج کر سکتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیوتوں نے بھی بہ تمنا رکھی کہ کاش ہم کو انسانیت کا جامہ عنایت ہوتا پر ان کو بھی نصیب نہ ہوا یوں ہم کلام کی اس آیت کی تصدیق اس مقدمہ میں پاتے ہیں جو (عبرانی۷:۲) میں آئی ہے کہ تو نے جلال و عزت کا تاج اس پر رکھا اور اپنے ہاتھ کے کاموں پراسے اختیاربخشا تو نے سب کچھ اس کے قدموں کے نیچے کیا ہے۔ 

تیسرا باب

پہلے آدم کا خدا کی صورت پر خلق کیا جانا

ماہیت جسمی
ماہیت جسمی

دوسرے باب میں اس کا اشارہ ہو چکا ہے کہ انسان کا جسم دو حصوں کے اوپر مشتمل ہے۔ ایک جسمانی اور دوسرا روحانی ۔جسم کی ماہیت یہ ہے کہ وہ خاکی اور فانی ہے اور طائر روح کے لئے مثل ایک قفس(پنجرہ) یا مکان کی ہے اور اس کو اسی وقت تک زیب و زینت ہے کہ جب تک یہ طائر روح اس کا لبد (منہ)خاکی کے اندر مقید ہے۔ اور جب وہ اس میں سے نکل جاتا ہے تو اس جسم کی ہیئت بھی متغیر ہو جاتی ہے اور اس میں زوال آجاتا ہے حتی کہ وہ نیست و نابود ہو جاتا ہے ۔ 

ماہیت روحی 

روح کی ماہیت یہ ہے کہ ناطق و غیر فانی ہے اور اس جسم سے آزاد ہو کر فلک افلاک پر پہنچی اور اپنی ہستی کے انجام کا حظ اٹھاتی اور اپنے کردار کے مطابق اپنی سزا یا جزا ابدالاباد کے لئے پاتی ہے۔ 

خدا کی صورت کا علاقہ 

غرض کہ خدا کی اس صورت کو جس کے اوپر انسان پیدا کیا گیا تھا اس کی ہیئت جسمی سے کچھ علاقہ نہیں ہے پر اس کی روح سے متعلق ہے اور وہ ان باتوں کی اوپر مشتمل ہے۔ 

خدا کی صورت کے علاقہ کی حقیقت کی تشریح 

۱۔ انسان صاحب ارواح ہے۔ 

۲۔ انسان صاحب بقا ہے۔ 

۳۔ انسان صاحب ادراک و فہم و ذکا ہے۔ 

  ۴۔ انسان صاحب ضمیر ہے۔ 

  ۵۔ انسان صاحب عرفان و دانش ہے۔ 

۶۔ انسان صاحب صداقت ہے۔ 

۷۔ انسان صاحب تقدیس ہے۔ 

۸۔ انسان صاحب اقتدار و حکومت ہے۔ 

پہلی حقیقت کا تذکرہ 

پہلے ۔ خدا کی صورت اس بات میں پائی جاتی ہے کہ انسان صاحب ارواح ہے۔ اس دنیا میں صد ہا چیز یں ایسی ہیں کہ جن کی ماہیت سے ہم محض نا آشنا ہیں لیکن ان کی تاثیرات سے ان کے وجوس کا ایسا تیقن (اعتبار)حاصل کرتے ہیں کہ جس میں شک کو مداخلت محال ہے۔ 

روح کی ماہیت کا بھی یہی حال ہے کہ اگرچہ ہم اس کی ماہیت کے اوپر کلام نہیں کر سکتے ہیں تو بھی اس کو وجود کی نسبت یقین کلی رکھتے ہیں۔ جب ہم کسی شے کو دیکھتے ہیں تو اس میں چند صفتیں ایسی پاتے ہیں کہ جس کے دیکھنے سے ہم اس کی ہیئت یا وجود کے قائل ہوتے ہیں گو اس ہیئت کی کل ماہیت سمجھ میں نہ آ سکے ۔ اسی طرح پر جب ہم انسان کی اندر عقل و ادراک اور فہم و ذکاوت(ذہانت) اور تصور و خواہش وغیرہ وغیرہ صفات کے اوپر غور و فکر کرتے ہیں تو فوراً ایک ماہیت کا خیال پیدا ہوتا ہے کہ جس میں سے یہ صفتیں اور خوبیاں صادر ہوتی ہیں۔ ایسی ماہیت کو ہم روح قرار دیتے ہیں ۔ کلام میں اس ماہیت کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’خدا وند خدا نے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا۔ سو آدم جیتی جان ہوا‘‘۔ جس سے اس کی علیحدہ ہیئت مدلل ہے۔ خداوند تعالیٰ کی ہیئت کے ظہور کی نسبت بھی کلام میں یوں آیا ہے کہ خدا روح ہے پس اسی قادر مطلق اور روح ازلی نے انسان میں زندگی کا دم پھونک کے اس کو روح ناطق عطا کی۔ فرق البتہ اتنا ہے کہ خدا وند جل جلال کہ ایک روح بسیط (وسیع)و غیر مخلوق و قیوم ہے پر انسان کی روح مخلوق ہے۔پس جیسا کہ صانع اور مصنوع میں ہمیشہ فرق ہوتا ہے ویسا ہی خالق و مخلوق روح میں بھی امتیاز حقیقی اور تفریق تحقیقی لازم و سزا وار(لائق،مناسب) ہے۔ اب ہم اس دنیا میں یہ قائدہ پاتے ہیں کہ لڑکا اپنے والدین کی مشابہت آپ میں اس قدر کہتا ہے کہ لوگوں کو یہ تمیز ہو جاتی ہے کہ یہ لڑکا فلاں شخص کا بیٹا ہے اسی طرح انسان کی روح میں خدا کی شباہت نمودار ہے اور اس کے وسیلے سے صفت الٰہی کا پر تو اس میں سایہ افگن(حفاظت یامدد کرنے والا) ہوتا ہے علاوہ اس کے فرزند ہیں نہ صرف ظاہر ی ہے مشابہت پائی جاتی ہے پر اس کا آج بھی اپنی اصل یعنی اپنی حقیقی والدین کی طرف ہوتا ہے ۔ بموجب اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ بنی آدم کی کل خواہشیں اس کے خالق منجی ہی کی طرف کو لگی رہتی ہیں اور جس قدر زیادہ خدا کی پہچان میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر وہ اپنے آسمانی باپ کی سی خوبیوں کو آپ میں آشکارا کرتا ہے۔ پس اگر ہم اس بات کو اس ماہیت سے ملائیں جو کہ لوگوں میں ایک باقاعدہ کلیہ ہو رہا ہے کہ کل شے یرجع الی اصلہ اور پھر اس کو کلام کی اس آیت سے مقابل کریں جہاں لکھا ہے کہ ’’تم سب اس ایمان کی سبب جو مسیح عیسیٰ پر ہے خدا کے فرزند ہو اور اس لئے کہ تم بیٹے ہو خدا نے اپنے بیٹے کی روح تمہارے دلوں میں بھیجی جو ابا یعنی اے باپ پکارتی ہے ‘‘۔تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ روح انسان روح خالق کی شبیہ و صورت پر خلق ہوتی ہے۔ (امثال ۲۰: ۲۷) میں آیا ہے کہ ’’آدمی کی روح خدا وند کا چراغ ہے‘‘۔ اور پولس رسول نے فرمایا ہے کہ’’ ہم نے دنیا کی روح نہیں بلکہ وہ روح جو خدا کی طرف سے پائی ہے‘‘۔ 


حاصل کلام 

ان آیات اوردلائل بالا سے صاف آشکارا ہے کہ انسان کی وہ صورت جس پر وہ خالق کیا گیا تھا اولاً اس بات کے اوپر مبنی ہے کہ انسان صاحب ارواح ہے کیو نکہ جسم کی نسبت ایسے الفاظ جیسے کہ کلام میں مستعمل ہیں ہر گز کار آمد نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں اور روح کے بغیر جسم خاک اور محض بے حقیقت شے ہے اور اس نسبت میں وہ حیوانوں سے بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔ 

دوسری حقیقت 

دوماً خدا کی صورت جو انسان میں پائی جاتی ہے اس بات میں ہے کہ وہ صاحب بقا ہے۔ بقا صرف خدا وند ہی کی ذات کو محسوب ہے چنانچہ (۱۔تیموتھی ۱: ۱) میں لکھا ہے کہ’’ اب ازلی بادشاہ غیر فانی کی عزت اور جلال ہمیشہ کو ہو۔ آمین ‘‘اور پھر (۱ تیموتھی ۶: ۱۶) میں آیا ہے جو مبارک اور اکیلا قدرت والا بادشاہوں کا بادشاہ اور خدا وندوں کا خدا وند ہے بقا فقط اسی کو ہے بلحاظ اس امر کے ساری قومیں بالا اتفاق اس صفت کو تسلیم کرتی اور خداوند سے خائف رہتی ہیں اور اس کی صداقت کے اوپر گواہ ہیں۔ 

انسان کی بقا کا ثبوت عقلی اور اس کی نوعیں 

عقل کی رو سے اس حقیقت کو ثابت کرنا کچھ مشکل نہیں ہے اور اس کے ثبوت میں چار باتیں قابل غور و لحاظ کے ہیں یعنی 

  ۱۔ روح کی ماہیت ایسی ہے کہ نیستی کے خیال کو باطل کرتی ہے۔ 

۲۔ یہ دنیا ایک امتحان کی حالت ہے۔ 

۳۔ روئے زمین کی کل قومیں اس رائے کے اوپر اتفاق رکھتی ہیں۔ 

۴۔ تشبیہات کی رو سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ 

۱۔ روح کی ماہیت اجزاء ترکیبی سے خالی ہے چنانچہ ہمارے منجی نے اپنے جی اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اپنے ہاتھ یہاں لاؤ اور ٹٹولو اور معلوم کرو کہ میں ہی ہوں کیو نکہ روح میں ہڈی اور گوشت نہیں ہوتا ہے۔ 

  ۱۔کیفیت نوع اول

جسم کا نیست ہونا ایک امر مطلق اور بدیہی ہے اس لئے کہ اس کی ترکیب میں مادہ کو مداخلت و آمیزش ہے اور مادہ کے اوپر حوادث(حادثہ کی جمع ،مصیبت،تکلیف) اپنا اثر کر کے اس میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں جو تبدیلات اس عالم مادی میں ہر حال میں ظہور میں آتی ہیں لیکن روح کی ہیئت میں مادہ کو دخل نہیں ہے چنانچہ حوادث وتبدیلات زمانہ سے اس کے اوپر اثر ناممکن بلکہ محال ہے اور جب کہ اس میں تبدیل و تغیر نا ممکن ہے تو وہ بے شک باقی ہو گی یعنی منطق کے قاعدہ کی بموجب اس کا خلاصہ یوں کر سکتے ہیں کہ جو غیر مادی ہے وہ فنا سے مبرہ و منزہ(پاک) ہے۔روح مادی شے نہیں ہے پس روح فنا سے مبرا و منزہ ہے۔ 


۲۔کیفیت نوع دوم 

یہ بات زبان زد عوام ہے کہ دنیا مزرعہ (کھیت)عاقبت ہے۔ جو جیسا بوئے گا ویسا ہی عاقبت میں کاٹے گا ۔جس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ جن جان اس جسم سے الگ ہو گی تب اپنے کردار کا عوض اپنے آقا ہے۔ حقیقی اور مالک تحقیقی کے ہاتھ سے پائے گی اس آیندہ سزا اور جزا کا خیال لوگوں کے اندیشوں میں یہاں تک سمایا ہوا ہے کہ گویا ان کے وجودکا ایک حصہ ہو رہا ہے۔ سعدی نے کہا ہے

زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر

پھر یہ کہ

کو س رحلت زد ندو بار نساخت  خجل آنکس کہ رفت و کار نساخت

اگر سچ ہے کہ یہ نیاز مزرعہ عاقبت ہے اور یہ کہ ہم اس عالم اسفل میں امتحاناً رکھے گئے ہیں تو اس زراعت کے نفع اور امتحان کی ثمرہ کی انتظاری خواہ نخوا ہ (زبردستی)ہو گی کیو نکہ محنت کا ایک انجام اور کردار کا ایک ثمر ہ ہوتا ہے۔ اب اگر محنت اور کردار کا انجام اور ثمرہ نیستی متصور ہو تو کلام بالا بے ماہیت ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب کوئی محنت کرنے والا ہے تو اس کے انجام کا حاصل کرنے والا بھی ضرور ہی ہو گا۔ مقام غور کا ہے کہ ہر کردار اسفل کماحقہ (جیسا اس کاحق ہے)انجام اس دنیا میں ظہور میں نہیں آتا ہے اور ہم اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ ہم نے اس کا انجام خدا کے اوپر چھوڑا جس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جو کہ حاکم العالم ہے اس کام کا عوض اس کے فاعل کو ایسے اندازہ پر دے گا جس کی ماہیت سے وہ اس عالم میں بے خبر ہے۔ علاوہ اس کے یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر باتیں الٹی پلٹی ہوتی ہیں۔ پس اگر یہی حال رہے تو عجیب طرح کی تاریکی نظر آئے گی اور خلقت کے مظلوم محض مظلوم ہی رہے اور اپنی صبر کے ثمرہ سے بے فیض و محروم گئے ۔کیا ایسی مہمل (بیکار،بیہودہ)بات کو عقل تسلیم کر سکتی ہے؟ ہر گز نہیں عقل صاف بتلاتی ہے۔ 

کہ سزا اور جزا کے لئے ایک وقت ہی اور وہ وقت جب ہی آئے گا کہ جب روح اس جسم کے پردہ کو پھاڑ کے اپنے خالق و مالک کے حضور میں کہ جس سے کسی دل کا حال پوشیدہ نہیں کھڑی کی جائے گی۔ تب وہ بات پوری ہو گی جو (ا۔ کرنتھی ۴: ۵) میں آئی ہے جب تک خداوند نہ آئے تم وقت سے پہلے عدالت نہ کرو وہ تاریکی کے پوشیدہ باتوں کو روشن کر دے گا اور دلوں کے منصوبے ظاہر کرے گا۔ تب خدا کی طرف سے ہر ایک کی تعریف ہو گی۔ 

۳۔ کیفیت نوع سوم 

تیسری دلیل اس امر کے ثبوت کی روئے زمین کی قوموں کے اتفاق میں پائی جاتی ہے۔ کثرت کی رائے ہمیشہ ہر خیال کو پائیداری اور استحکام بخشتی ہے اور کثرت کو ہمیشہ غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ پس جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فی الف( ۹۹۹)۔ آدمی روح کی بقاکے قائل ہیں تو کیا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ


یہ صرف لوگوں کی بندش ہے۔ ہر گز نہیں بلکہ اس کثرت رائے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ خیال انسان کی سرشت کا گویا ایک جز ہے اور قادر مطلق خدا کی طرف سے دل پر نقش کر دیا گیا ہے۔ تا کہ لوگ فریب نہ کھائیں بلکہ اپنی حقیقت حال کی اوپر نگاہ رکھ کے خداوند کے ملاقات کرنے کے لئے آپ کو تیار رکھیں۔ یہ خیال کہ لوگوں کو نہ صرف عاقبت کی طرف رجوع رکھتا ہے پر اخلاق کی درستی اور حصول خوبی کی نسبت بھی متحرک ہوتا ہے اور اس دنیا کو بہ ہمہ وجوہ(وجہ کی جمع) مزرعہ عاقبت بنا دیتا ہے۔ غرض یہ کہ ہم اس اتفاق عام میں بقا کا ثبوت حاصل کرتے ہیں۔ اور روح کی بقا کو قائم رکھنے کے لئے ہدایت و تعلیم پاتے ہیں۔ 

۴۔ کیفیت نوع چہارم 

چوتھی دلیل ہم عقلاً روح کی بقا کو تشبیہات کے ذریعے سے ثابت کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں اکثر اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض بعض چیزیں اپنی اصلی ہیئت(تعلق) کو تبدیل کر کے ایک نئی اور شاندار ہیئت پاتی ہیں۔ مثلاً تتلی جس میں حد درجہ کی خوشنمائی اور عمدگی نظر آتی ہے۔ ایک کیڑے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو پتی کے اوپر گزران کرتے کرتے ایک عجیب ہیئت میں مبدل (تبدیل شدہ)ہو جاتا ہے اور بظاہر نیستی کی حالت تک پہنچ جاتا ہے پر ایک عرصہ تک حالت میں رہ کے اپنی نیستی میں سے مثل ققنس (ایک روایتی خوش رنگ اور خوش آواز پرند کہتے ہیں کہ اس کی چونچ میں ۳۶۰ سوراخ ہوتے ہیں اور ہر سوراخ سے ایک راگ نکلتا ہے)کی ایک نئے انداز کی ہستی کی ماہیت کو اختیار کرتا اور اپنی ہیولے(اصل) کے پردہ کو توڑ کر ایک شاندار صورت پکڑتا ہے اور پتوں کو چھوڑ کے گلوں کے اوپر اپنا بسیرا لیتا ہے۔ اور ایک مجہول (کاہل)اور بے حقیقت کیڑے سے ایک خوشنما اوردل پسند برنگ گلگون تتلی کا وجود ظہور میں آتا ہے۔ پس جب کہ ادنیٰ درجے کے جانداروں میں ایسے عجیب و غریب تبدیل ظہور میں آتے ہیں تو انسان کی اعلیٰ ہستی میں اس طرح کا تبدل واقع ہونا اور اس کا ابدالاباد قائم رہنا بعید از عقل(عقل سے دور) نہیں ہے بلکہ ایک امر ممکن التشبیہ ہے اور قرین قیاس(وہ بات جسے عقل قبول کرے) متصور ہو سکتا ہے۔ 

اس نوع کے علاوہ ثبوت 

پھر انسان کی ہیئت کی تبدیلات کے اوپر فکر کرنے سے بھی یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے۔ انسان کی حالت پر جب سے کہ اس کے وجود کی بنیاد اس کی مان کی شکم میں پڑتی ہے اور اس کی موت تک میں کیسی عجائب و غریب تبدیلات ظہور میں آتے ہیں اس کی ہیئت مادری اور پیدائشی میں اس کے ما بعد زندگی سے کس قدر فرق ہوتا ہے کہ اگر الفت والدین درمیان میں نہ ہو تو اس بیچارہ بچہ کا پتہ نہ لگے۔ پر جب کچھ سیانا ہوا تو نہ صرف قوی ہوتا ہے پر رفتہ رفتہ سمجھ اور عقل و شعور کی دولت کو حاصل کرتا جاتا ہے۔ اور جب ایام بلوغت کو پہنچا تو اس میں کیسی پختگی آتی ہے کہ بزم انسانی کی زیب و زینت ہوتا ہے اور اس دنیا کے خیال کو ترک کرکے عالم بالا کی طرف کو پرواز کرنے لگتا ہے۔ پس کیا اس کا مرکب تصور یہیں پر عاجز وما ندہ ہو کے خاک پر بیٹھ رہے گا اور تصور کی بازو یہیں ٹوٹ جائے گی اور اس کی امید منقطع ہو(ٹوٹنا) جائے گی۔ ہرگزنہیں بلکہ اغلب(غالباً) ہے کہ اپنے جسم کی قفس سے آزاد ہو کر وہ جو اس عالم میں چیزوں کو گویا دھندلا سا دیکھتا ہے روحوں کے وطن میں پرواز کر کے ہر شے کی ماہیت حقیقی کو دریافت کرے گا اور زبور کے مؤلف کے ساتھ یہ کہ ’’میں جو ہوں صداقت میں تیرا منہ دیکھوں گا اور جب میں تیری صورت پر ہو کے جاگوں گا تو میں سیر ہوں گا‘‘( زبور۱۷ اور ۱۵) ۔ اور اپنے


منجی کے ساتھ یہ کہ ’’میں تم سے سچ سچ کہتاہوں کہ گہیوں کا دانہ اگر زمین میں گر کے مر نہ جائے تو اکیلا رہتا ہے پر اگر مرے تو بہت سا پھل لاتا ہے‘‘(یوحنا ۱۲: ۲۴) ۔

اس نوع کا ثبوت نقلی 

یہاں تک تو دلائل عقلی سے روح کی بقا کا ثبوت حاصل ہوا پر شکر کا مقام ہے کہ ہم صرف اپنی عقل ہی کے اوپر بالکل اعتماد نہیں رکھ سکتے ہیں پر عقل کی تصدیق نقل سے بھی پاتے ہیں اور کلام پاک درمیان میں آتا ہے۔ جس کے وسیلے سے خداوند نے ہماری ماہیت کو ہم پر ایسی صفائی کے ساتھ آشکارا کر دیا ہے کہ ہم اس امر کی تصدیق سے متمتع(فائدہ اُٹھانے والا،مستفید) اور مطمین ہوتے اور اپنی روح کو آراستگی بخشنے کے لئے ہدائت پاتے ہیں۔ چنانچہ اب ہم کلام کی نسبت رجوع کرتے ہیں تا کہ روح کی بقا کو ثابت کریں۔ (زبور ۱۶: ۸۔۱۱؛ ۴۹: ۵ ۱) میں یوں آیا ہے ’’میری نگاہ ہمیشہ خداوند پر ہے اس لئے کہ وہ میرے دہنے ہاتھ ہے مجھ کو کبھی جنبش نہ ہو گی۔ اسی سبب سے میرا دل خوش ہے اور میری زبان شاد میرا جسم بھی امید میں چین کرے گا۔ کہ تو میری جان کو قبر میں رہنے نہ دے گا اور تو اپنے قدوس کو سڑنے نہ دے گا تو مجھ کوزندگانی کی راہ دکھائے گا۔ تیرے حضور خوشیوں سے سیری ہے۔ تیرے دہنے ہاتھ میں ابد تک عشر تیں(خوشیاں) ہیں لیکن خدا وند میری جان پاتال کے قابو سے چھڑائے گا‘‘۔ پھر (ایوب ۱۹: ۲۶) میں یوں آیا ہے اور ’’ہر چند میرے پوست کی بعد یہ جسم بھی نیست کیا جا ئے لیکن میں اپنے گوشت میں سے خدا وند کو دیکھوں گا ‘‘اور (واعظ ۱۲: ۷) میں درج ہے’’ اس وقت خاک خاک سے مل جائے گی جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اور روح خدا کے پاس پھر جائے گی جس نے اسے دیا ‘‘۔پھر (۱-کرنتھی ۱۵: ۵۱-۵۴) آیات کے مضمون میں یہ لکھا ہے کہ ’’دیکھ میں تمہیں ایک بھید کی بات کہتا ہوں کہ ہم سب سو ئیں گے نہیں پر ہم سب بد ل جائیں گے ایک دم میں ایک پل؛ میں پچھلا نرسنگا پھونکتے وقت کہ نرسنگا تو پھونکا جائے گا اور مردے اٹھ کے غیر فانی ہوں گے اور ہم بھی بدل جائیں گے کیو نکہ ضرور ہے کہ یہ فانی بقا کے پہنے اور یہ مرنے والا ہمیشہ کی زندگی کو پہنے اور جب یہ فانی غیر فانی کو اور یہ مرنے والا ہمیشگی کو پہن چکے گا تب وہ بات جو لکھی ہے پوری ہو گی کہ فتح نے موت کو نگل لیا ‘‘۔پھر (۲۔کرنتھی ۵: ۱۰) پر رجوع کرو’’ کیو نکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسندِ عدالت کے آگے حاضر ہوں تا کہ ہر ایک جو کچھ اس نے بدن میں ہو کے کیا کیا بھلا کیا برا موافق اس کے پا لے ‘‘اور (۱-یوحنا ۳: ۲) میں یہ لکھا ہے ’’پیارو !اب ہم خدا کے فرزند ہیں اور ہنوز ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے پر ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا ہم اس کی مانند ہوں گے‘‘۔ 

خلاصہ الکلام 

از بس کہ خدا وند تعالیٰ باقی و قائم وجود اعلیٰ ہے اور اس نے انسان کی روح کو بھی غیر فانی و باقی بنایا ہے ظاہر ہے کہ یہ بقا ئے روحی ایک شباہت ہے کہ جس میں انسان خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔ 


تیسری حقیقت کا تذکرہ 

تیسرے خدا کی صورت جو انسان میں پائی جاتی ہے اس بات میں ہے کہ انسان صاحب ادراک وفہم و ذکا ہے۔ ادراک سے مراد وہ قوت اور استعداد اور روح ہے کہ جس کے وسیلہ سے انسان ہر بات کی ماہیت تک پہنچتا اور ان کا ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے اس کی اصلیت و حقیقت اور لغویت و بطالت کی شناخت حاصل کرتا ہے اور اپنی فہم و ذکاوت کو کام میں لا کے بات کی ماہیت کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی طاقت و استعداد ہے کہ جو اس کو حیوانات کے اوپر شرف بخشتی ہے۔ حیوانات ہر چند کہ اپنی عقل حیوانی کے ذریعہ سے ایک طرح کا وقوف آشکارا کرتے ہیں پر عقل سلیم کی ماہیت اور راز روے مقابلہ کے اصلیات و لغویات (لغویت کی جمع ،بیہودہ باتیں یاافعال)میں امتیاز کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی صفت سے عاجز و عاری ہیں۔ کسی بات کو جاننا اور اس کی شناخت کو حاصل کرنا ایک شے ہے اور اس بات پرخوض (غور)کر کے اس کی ماہیت تک پہنچنااور اس کے حسن وقبح (عیب،برائی) کو معلوم کرنا اور اس کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا شے دیگر ہے اس ماہیت کی خوبی قوت ادراک کے اوپر موقوف ہے اور اس کے وجود میں دانش و فراست اور فہم و ذکاوت کی حاجت ہے۔ سو از بس کہ انسان میں یہ صفت بدرجہ اولیٰ پائی جاتی ہے ہم اس میں اپنے خالق کی دانش بے حد کا عکس پاتی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان میں خدا کی صورت اس بات میں پائی جاتی ہے کہ انسان صاحب ادراک اور فہم و ذکا ہے اس امر کی تصدیق میں ہم کلام کے وہ آیات پیش کر سکتے ہیں جو( خروج ۳۱: ۱، ۳، ۶) میں آئے ہیں ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے ہم کلام ہو کے کہا دیکھ میں نے بضلی ایل بن اوری کو یہوداہ کے فرقہ میں سے بلایا اور میں نے اس کو حکمت اور فہمید اور علم اور ہر طرح کی ہنرمندی میں روح اللہ سے بھر دیا اور دیکھ میں نے ایلیا ب کو جو اخی سمک کا بیٹا اور دان کے فرقہ میں سے ہے اس کا ساتھی کر دیا اور میں نے سب روشن ضمیروں کے دل میں حکمت رکھی کہ سب کچھ جو تجھے فرمایا ہے بنا دیں‘‘ پھر حضرت سلیمان کے حق میں لکھا ہے کہ’’ آنحضرت کے انصاف کو سن کے بادشاہ سے ڈرے کیو نکہ انہوں نے دیکھا کہ خدا کی دانش عدالت کرنے کے لئے اس کے دل میں ہے‘‘ (ا۔ سلاطین ۳: ۲۸)۔ 

چوتھی حقیقت تذکرہ 

خدا کی صورت جس میں انسان پیدا کیا گیا تھا اس بات میں بھی پائی جاتی ہے کہ انسان صاحب ضمیر ہے ۔ جیسا کہ ادراک انسان کی استعداد اور روح کو جوہر ہے جس کے باعث سے اس کو کل حیوانات پر شرف حاصل ہے ویسا ہی استعداد اخلاقی کا جوہر اور اس کا سنبھالنے اور سدھارنے والا ضمیر ہے۔ ہر انسان کے دل میں ایک طبعی اور ذاتی پہچان ہے کہ جس کے باعث سے وہ نیک اور بد میں امتیاز کرنے کی طاقت پاتا ہے اور بعض بعض باتوں کو بیجا اور ناروا اور نازیبا تصور کر کے اس سے گریز کرتا ہے۔ اور چند باتوں کو واجب اور مناسب سمجھ کر اس کی روشنی میں چلنا فرضیات سے سمجھتا ہے اور اور دن میں بھی ان کی کشف امیدوار ہوتا ہے پس اس استعداد کو جس میں اس امتیاز کا وصف پایا جاتا ہے۔ ضمیر کہتے ہیں ضمیر عقل کا چراغ ہے اور نہ صرف عقل کا چراغ ہے پر کویا شمع نور الٰہی ہے جن لوگوں کے پاس کلام پاک کی روشنی نہیں ہے وہ نیکی و بدی میں امتیاز ضمیرہی رکھتے ہیں اور اسی کی ہدایت کے مطابق اپنی طبیعت کو راضی رکھتے اور اپنی زندگی گزارتے ہیں چنانچہ (رومی ۲: ۱۴، ۱۵) میں آیا ہے’’ اس لئے جب غیر قومیں جنہیں شریعت نہیں ملی اگر طبیعت سے شریعت کے کام کرتے ہیں سووہ شریعت نہ پا کے اپنے لئے آپ ہی اپنی شریعت ہیں۔ وہ شریعت کا خلاصہ اپنے دلوں میں لکھا ہوا دکھلاتی ہیں ان


کی تمیز یعنی ضمیر بھی گواہی دیتی اور ان کے خیال آپس میں الزام دیتے ہیں یا عذر کرتے ہیں‘‘۔ پھر اس کنعانی عورت کے ضمن میں جس کو لوگ مسیح کے پاس امتحاناً لائے تھی لکھا ہے کہ’’ جب فقہیہ اور فریسی مسیح سے اس کے الزام کی نسبت سوال کرتے جاتے تھی اور اس منجی عارف القوب نے کہا کہ تم میں جو بے گناہ ہے وہی پہلا پتھر مارے تو وہ یہ سن کر دل ہی دل میں اپنے آپ کو گنہگار سمجھ کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے چلا گئے (یوحنا ۸: ۹) یہ ضمیر قاضی تہذیب واخلاق ہے اور ہادی پیشوا اور کاشف (ظاہر کرنے والا)جرم آدم ہے اور اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پہچان کی ماہیت کی وسعت کو پہنچ نہیں سکتا ہے۔ انسان نے اس امتیاز کو حد درجہ تک پہنچانے کے لئے کوئی کوشش دریغ نہیں رکھی حتیٰ کہ اسی حوصلے میں آپ کو خراب و تباہ کیا۔ اس صدا نے کہ تم خدا کی مانند نیک و بد کو جاننے والے ہو گے اس کو ایسا فریفتہ کر ڈالاکہ اس کے فراق میں حکم الٰہی کو بھی پامال کر ڈالا اور اپنی حد اعتدال (درمیانی درجہ)سے گزر کے وہ نادانی کی کہ آپ کو اور اپنی اولاد کو بھی ذلیل و خوار کیا۔ لہٰذا نتیجہ اس کلام کا یہ ہے کہ انسان صاحب ضمیر اور فہم ہونے کے باعث سے اپنے خالق اور آباے سماوی کی صورت و سیرت کو آپ میں آشکارا اور اپنی علویت اور افضلیت کو ثابت وہویدا کرتا ہے۔ 

پانچویں حقیقت کا تذکرہ 

پانچویں ہم خدا کی صورت کو انسان میں اس بات میں بھی دیکھتے ہیں کہ انسان صاحب عر فان ہے۔ عرفان بمعنی پہچان کے ہے اور پہچان میں علم کی ماہیت مستعمل ہے۔ اب از بس کہ علم کے معنی جاننے کے ہیں اس سے یہ مراد ہے کہ انسان صرف بت کی مانند نہیں بنایا گیا تھا کہ صرف کھانے پینے اور لذت نفسی سے واقف ہو کے اس میں غلط و پیچ کھاتا رہے پر اس لئے کہ وہ اس عالم کا سردار بنایا گیا اور تا کہ اپنے آسمانی باپ کی صحبت میں ابد تک خوش و خرم رہے اس نظر سے اس کوا علیٰ درجہ کی پہچان ضرور تھی کہ اس کی ہستی کی غرض کا مقصد برائی اور وہ خدا اور ملائکہ بلکہ کل خلقت کا مقبول اور منظور نظر رہے لہٰذا انسان کی عرفان کی ماہیت کو ہم تین نوع کے اوپر منقسم کر سکتے ہیں۔ 

۱۔ خدا کی پہچان 

  ۲۔ اپنی ماہیت کی حقیقت کی پہچان 

  ۳۔ خلقت کی اشیاء متفرق کی پہچان 

  ۱۔ خدا کی پہچان 

ظاہر ہے کہ جب تک ہم جیسوں میں ایک دوسرے کی صحبت کی قابلیت تب تک وہ ایک دوسرے کی سنگت سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ اسی طور پر اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی ایسی پہچان حاصل نہ ہوتی کہ جو اس کی خدمت گزاری کے لائق ہو سکے تب تک یہ بات راست نہ آ سکتی تھی کہ خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس سے اس کی بزرگی اور عظمت اس کے دل کے اوپر نقش ہو گئی۔ اور وہ اپنے خالق کے دبدبہ کی شناخت اور اس سے اپنے لئے تسلی حاصل کر کے محفوظ ہو ا مثل ان فرشتوں کے جو اس کی جلیل حضوری میں رہتے اور شب و روز اس کی کبریائی (بڑائی)کی شہادت دیتی ہیں خدا وند کی اسی جلیل اور عظیم الشان ماہیت کی شناخت حاصل کر کے زبور کا مؤلف یہ کلمہ اپنی زبان کے اوپر لایا’’ معبودوں کے درمیان اے خدا وند تجھ سا کوئی نہیں اور تیری سی صنعتیں کہیں نہیں اے خداوند ساری قومیں جنہیں تو نے خالق کیا آئیں گی اور تیرے آگے سجدہ کریں گی اور تیرے نام


کی بزرگی کریں گی کہ تو بزرگ ہے اور عجائب کام کرتا ہے تو ہی اکیلا خدا ہے (زبور ۸۶: ۸-۱۰) ۔تا ہم اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ انسان خدا کی پہچان کے کمال تک پہنچ گیا اس سے صرف یہ مراد لینا چاہے کہ آدم نے خدا کی پہچان کی شناخت اس درجہ کی تک حاصل کی کہ جہاں تک اس کی محدود عقل کو رسائی اور گنجائش تھی اور اس کی تسلی اور خوشی کے لئے ضرور اور درکار تھی کیو نکہ کوئی مخلوق نہیں ہے کہ جو خدا وند کے کمال کو پہنچ سکے۔ چنانچہ حضرت ایوب اس مقدمہ میں فرماتے ہیں ’’کیا تو اپنی تلاش سے خدا کا بھید پا سکتا ہے یا قادر مطلق کے کمال کو پہنچ سکتا ہے۔ وہ تو آسمان سے اونچا ہے۔ تو کیا کر سکتا ہے پاتال سے نیچا ہے تو کیا جان سکتا ہے اس کا اندازہ زمین سے لمبا اور سمندر سے چوڑا ہے (ایوب ۱۱: ۷-۹) ۔حضرت داؤد نے خدا وند کی پہچان کی عظمت اور اس کی شناخت کو حتی ٰ الامکان حاصل کر کے جو تسلی پائی اس کا تجربہ یوں مذکور ہے’’ خدا یا تیرے اندیشے میرے حق میں کیا ہی قیمتی ہیں۔ ان کی کل جمع کیا ہی بڑی ہے میں انہیں کیا گنوں وہ تو شمار میں ریت سے زیادہ ہیں جب میں جاگتا ہوں تو پھر بھی تیرے ساتھ ہوں (زبور ۱۳۹: ۱۷-۱۸)۔ ان آیات سے صاف ظاہر و باہر ہے کہ خدا کے وجود کی پہچان انسان کی سمجھ اور اس کے ادراک کے احاطہ سے باہر ہیں پر جہاں تک ممکن ہے وہاں تک اس کی شناخت حاصل کر کے بنی آدم اس سے تسلی پاتا ہے اور خدا میں اپنی سلامتی دیکھتا اور اس میں شاد رہتا ہے۔ آدم کی ابتدا اے شناسائی (جاننے)کی کیفیت ہم ان باتوں میں پا سکتے ہیں جو کہ مسیح کی بادشاہت کی ترقی کے حق میں کلام پاک میں آئی ہیں کہ جس طرح پانی سے سمندر بھرا ہے اسی طرح زمین خدا وند کے جلال کی شناسائی سے معمور ہوگی پس انسان کی ہستی کی ابتدا اور انتہا دونوں کا لب لباب یہی پہچان ہے۔

خلاصہ کلام

بہر حال ساری باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب آدم نے اپنی آنکھیں زندگی میں کھولیں اور عجائب و غریب خلقت اور اس کی معموری کا مشاہدہ کیا تو ان کے عرفان طبع زاد (اپنی ایجاد،طبیعت سے نکلاہوا)نے ان میں خدا کی پہچان کی ایک کان عمیق پائی اور اپنے خالق کی ماہیت اور مقصود اور اس کے جلال اور شان کی خوبیوں کو ایسے انداز کے ساتھ دیکھ کر حیرت میں آکے اس کی پہچان کی عظمت کی وجہ سے سکوت کھینچا اور عجب نہیں کہ جیساحوا نے بموجب قول ملٹن صاحب

آدم سے کہا کہ جب میں تجھ سے گفتگو کرنے میں مشغول رہتی ہوں تو وقت کا خیال میرے دل سے بالکل محو ہو جاتا ہے۔

وہ بھی اس طرح کا کلمہ اپنی زبان پر لائے ہوں کہ اے خداوند تیری بزرگی اور جلال کے اوپر میرے سارے خیال دنیا سے اٹھ جاتے ہیں اور میں از خود فراموش ہو کے تیری شناخت میں محو ہو جاتا ہوں اور اغلب ہی کہ آن حضرت نے خداوند کی تعریف میں اس قسم کی غزل گائی۔

ہیں مجلی تیرے کام اور جملہ شے اے تو کہ خلاق سب خوبی کا ہے
بے گمان یہ ساری خلقت ہے تری اے خدائے قادر مطلق ربی
خوشنمائی پائی جاتی ہے عجیب جس میں اے رازق خداوندِ محبیب

کس قدر ہو گا عجیب و لا بیان آپ ہیں پس تو خدا وند جہان
ہیں نگاہوں سے پنہاں جو سر بسر تو جوان افلاک پر ہے جلوہ گر
ہیں وہ ڈھونڈ ے سے نظر آتے سدا یا کہ تیرے کا ر اسفل میں خدا
قدرت لا انتہا ؤ لا زوال تو بھی تیری مہربانی اور جلال
جو خیالوں سے ہمارے ہیں فزوں آشکارا صاف وہ کرتے ہیں یوں

اور ممکن ہے کہ نہ صرف آپ ہی متحیر (حیرت زدہ،حیران)ہو کے اکیلی ہی ثنا خوانی کی ہو پر ملائکہ و کل خلائق یعنی آفتاب و مہتاب کو اکب بلکہ اربعہ عناصرف کو بھی یوں ترغیب دی ہو کہ اپنے خالق کو بزرگی دو، اس کی مدح سرائی کرو ،اس کو خدائے کل جانو اور ادب و تعظیم کے ساتھ اس کی حمد میں خم ہو جو کہ تم کو جیتی جان دیتا ہے اور تمہارے سر دن پر لطف شامل اور الطاف کامل کا تاج رکھتا ہے۔ اسی طرح ہدایت ہم کو کلام میں یہی ملتی ہے۔ اور زبور کے مؤلف نے یہ ترغیب دی ہے’’ خداوند کی ستائش کرو۔ اے خداوند کے بندوں اس کی ستائش کرو۔ خداوند کے نام کی مدح کرو۔ خداوند کا نام اس دم سے ابد تک مبارک ہو آفتاب کے مطلع سے اس کی غروب تک خدا وند کا نام ممدوح ہو۔ خدا وند ساری امتوں پر بلند و بالا ہے۔ اس کا جلال آسمانوں پر ہے خداوند ہمارے خدا کی مانند کون ہے جو بلندی پر رہتا ہے (زبور۱:۱۱۳۔۵)۔ 

۲۔اپنی حقیقت کی پہچان اور اس کی ضرورت 

اپنی ماہیت اور حقیقت کی پہچان ۔ جیسا کہ خداوند کے وجود اور اس کی پہچان کی شناخت انسان کی تسلی کے لئے ضرور اور درکار ہے۔ ایسا ہی اپنے فرضیات کو مناسب طور پر ادا کرنے کے لیے بھی ضرور ہے کہ انسان اپنے تئیں بخوبی پہچانے اب ہرشخص کے اوپر آشکاراہے۔ کہ تابعداری کی ماہیت اپنی حقیقت کی پہچان کے اوپر موقوف ہے۔غلامانہ تابعداری اور فرزندانہ تابعداری میں آسمان اور زمین کا فرق ہے کیو نکہ دونوں کی پہچان کی ماہیت میں فرق ہوتا ہے۔ غلام کی پہچان محض خوف کے ساتھ ہے اس لیے کہ وہ آپ میں اور اپنے آقا میں کسی طرح کی مناسبت نہیں دیکھتا ہے۔ پر فرزند کی ماہیت غلام کی ماہیت سے افضل ہے چنانچہ اس پہچان سے ایک طرح کا اطمینان صادر ہوتا ہے جس کے باعث سے اپنے والدین کی نسبت اپنے فرائض کے ادا کرنے میں اس کو ایک طرح کی اعلیٰ تحریک حاصل ہوتی ہے اور وہ دل سے ڈر کو دور کر کے دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض کو مقبول طور پر ادا کرتا ہے۔ اب انسان کو ایسے مقبول طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے اس قدر پہچا ن حاصل کرنا ضرور ہے۔ کہ جس کے باعث سے وہ اپنے حدِاعتدال سے تجاوز نہ کرے اور اپنی خدمت کے ثمرہ کو اپنے حق میں مفید مطلب پائے۔ اس بات کی حقیقت کے ثبوت میں ایک نظر یاد آتی ہے۔ 

نقل کرتے ہیں کہ کسی بادشاہ کے دربار میں ایک وزیر تھا جو اپنی سرفرازی کی پیشتر نہایے ہی مفلوک الحال(تباہ حال) ہو گیا تھا نان شبیہ کو محتاج اور کپڑوں کی طرف سے ایسا تنگ ہو گیا تھا کہ واقعی چتھڑوں کی نوبت آ رہی تھی پر جب اس حالت میں بادشاہ کی اس پر مد نظر ہوئی تو اس نے اپنی اگلی حالت کا فرو گزاشت کرنا(چشم پوشی کرنا،بھولنا) مناسب نہ سمجھا بلکہ اپنی خدمت کو زیادہ تر مقبول طور پر ادا کرنے اور اپنی حالت کو ہر وقت اپنی یاد میں

تازہ رکھنے کی نیت سے اس نے ان چتھڑوں و ایک گٹھری میں باندہ کے توشہ خانی میں احتیاطاً کہہ چھوڑا اور ہر روز یہ معمول رکھتا کہ جب کار شاہی سے فراغت پاتا(فرصت حاصل ہونا) تو اس کمر ے کی اندر جا کے لباس فاخرہ اتار ڈالتا اور ان چتھڑوں سے اپنے تئیں ملبوس کر کے اپنی اصل کیفیت کو روز مرہ اپنی یاد میں تازہ کرتا اور ہر طرح کے آفات سے جو اعلیٰ منصب کو لاحق ہیں اپنے تئیں بچاتا۔ رفتہ رفتہ اس کے حاسد اس پر حسد لے گئے اور بادشاہ کے آگے اس کی منش زنی کی اور اس کو دزوی دولت شاہی کا متہم کیا۔ جب بادشاہ نے اس امر کی جستجو کی تو اس عقیل و فہیم و دانا اور وفادار شخص کو بعوض خیانت کے اسی پوشاک میں ملبوس پایا۔عند الاستفساریہ راز کہلا کہ وہ اپنی اصلی حالت کی پہچان سے کنارہ کرنا نا مناسب سمجھ کے یہ کام روز مرہ کرتاتھا۔ پس اس کی عدونادم ہوئے اور اس کے باعث سے اس کی خدمت بہ نسبت سابق کے گئی گونہ زیادہ پسندیدہ ہو گئی۔

خلاصۃ الکلام 

خلاصہ یہ کہ اسی شخص کی مانند اپنے فرائض کو واجبی طور پر ادا کرنے کے لئے اپنے تئیں بہر حال پہچاننا واجب و لازم تھا اور اسی پہچان کے مطابق انسان کا فرض واجب اور مقبول ہوا۔ سلیمان بادشاہ کے قول سے اس مقدمہ میں ہم کو یہ ہدایت ملتی ہے کہ یہ اچھا نہیں ہے کہ روح یا تمیز دانش سے خالی رہے (امثال ۱۹: ۳۰) ۔جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آدم کو خدا کی اور اپنی ماہیت کی پہچان یہاں تک حاصل تھی کہ اس کی اطاعت دانش کے ساتھ اوربہ ہمہ وجوہ پسندیدہ تھا اور کہ اس میں مقبولیت کی قابلیت موجود تھی۔ 

۳۔ اشیائے متفرق کی پہچان

خلقت کی اشیائے متفرق کی پہچان۔ آدم کے پیدا کئے جانے کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ وہ خلقت کے اوپر حکمران ہو چنانچہ اس مقصد کے بر آنے کے لئے ضرور تھا کہ وہ اپنے ماتحت اشیائے ذی روح یا غیر ذی کی حقیقت سے بخوبی واقف ہو۔ اس نظر سے خداوند کو پسند آیا کہ اس کو ان کی مختلف ماہیت کی پہچان کے ساتھ پیدا کر ے۔ آدم کا اس صفت کی ساتھ پیدا کیا جانا اس سے آشکارا ہے کہ جب سب جاندار ذی روح ان کی آگے لائے گئے تا وہ ان کے نام رکھے اس نے ان کے حسب حال ہرایک کو نام دیا اور جو نام آدم نے دیا وہی اس کانام ہوا۔ یوں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ خلقت کی اشیاء متفرق کی پہچان و شناخت میں ماہر تھے۔ 

حاصل کلام 

جب ہم اس سہ چند پہچان کی طرف رجوع ہوتے اور اس کے اوپر فکر کرتے ہیں تو بھی تامل یہی نتیجہ نکالنے کی ہدایت پاتے ہیں کہ اس عرفان یا پہچان میں خدا کی دانش بے حد کا آثار پایا جاتا ہے۔ جس سے ثابت ہے کہ اس امر کی نسبت بھی انسان خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا کیو نکہ خدا نے جو دانش اور عرفان کا چشمہ ہے انسان کو بھی اسی حیثیت کی ساتھ بنایا۔ 


چھٹی حقیقت کا تذکرہ 

خدا کی وہ صورت جس کے اوپر انسان پیداکیا گیا تھا اس امر سے بھی آشکارا ہے کہ انسان صاحب تصدیق یا صداقت ہے۔ انسان کی خلقت و نوع کے اوپر مبنی ہے ایک جسمانی دوسرا روحانی اور ان دونوں کی استعداد اور اوصاف بھی متفرق و مختلف ہیں۔ گو دل ہی سے سارے حرکات پیدا ہوتے ہیں تا ہم جسم کے کاموں میں اور روح کے کاموں میں بڑا فرق ہوتاہے۔ جسم کے کاموں کی رغبت اخلاق سے متعلق ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان صاحب تصدیق ہے تو اس سے یہ مرادہے کہ انسان کی افعال جسمانی ہر طرح سے مناسب دپسندیدہ اور خالص وبے لگاؤ تھے۔ اس کی حرکات شائستہ اور اس کے اطوار اخلاقی بایستہ اور زمین بند ہ تھے۔ اس کی مکر و فریب اور حیلہ بازی کا مادہ جواب بنی آدم میں ظاہر ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت اس میں موجود نہ تھا ۔پر وہ ان ساری باتوں سے مبرہ اور مستغنی(آزاد) تھا۔ اس کی چال میں نافرمانی اور شمہ تک نہ تھا اور کوئی امر مختلف ایسا نہ تھا جو اس کی تابعداری میں فتور برپا کرتا یا اس کو ایسے فعل کا مرتکب بناتا جس کو خدا کی مرضی سے مخالفت یا ضد ہوتی یعنی راست اور سید ھا اور ثابت قدم تھا اور اس میں کسی طرح کی خامی و کجی نام تک کو نہ تھی۔وہ اپنی خالق سے اور اس کی نسبت اپنے فرائض سے اس قدر واقف تھا کہ اپنے اخلاق کو خدا کی مرضی سے ملا دینا اس کے پسند خاطر تھا اور اس کو اس بات کا علم حاصل تھا کہ ہم پر فرض ہے کہ اپنے تن ومن سے خدا وند کی اطاعت و فرمانبرداری واجبی طور پر بجا لاؤں ۔ اس چلن کی راستی کی نسبت کلام سے یہ گواہی ملتی ہے کہ سو میں نے صرف اتنا پایا کہ خدا نے انسان کو سیدھا بنایا ۔ (واعظ ۷: ۲۹) اور کہ صادق کی راہ راستی ہی (یسعیاہ۵: ۲۶) خدا وند جو کہ بھلا اور سیدھا صادق ہے صداقت کو چاہتا ہے اور اس کا منہ سیدھے لوگوں کی طرف متوجہ ہے۔ (زبور ۱۱: ۷) اور (زبور ۲۵: ۸) اب ہم کو اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہیے کہ جتنی صفتوں کو خدا انسان سے طلب کرتا ہے ان ساری صفتوں سے انسان ابتدا ء معمور مملو (لبریز)بنایا گیا تھا ورنہ انسان اپنی ہستی کے مقاصد کے پورا کرنے کی استعداد نہ رکھ سکتا اور اگر یہ نقص اس میں ابتدا پایا جاتا تو اس میں نا کاملیت ہوتی اور خداوند کے کمال پر حرف آتا۔ پس ہم اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خداوند کی دستکاری میں ناراستی کو مداخلت محال ہےیا یہ کہ جس ہستی میں خداوند کی راستی کا خیال پایا جائے اس کو خدا کی شبیہ تصور کرنا چاہیے۔ انسان ہی اکیلا کہہ سکتا ہے کہ مصرعہ(ایک کواڑ) راستی موجب رضاے خدا ست ۔ اب چونکہ راستی کی صفت صفات باری میں سے ایک ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا کی وہ صورت جس پر انسان خلق کیا گیا تھا اس بات میں بھی آشکارا ہے کہ انسان صاحب صداقت تھا۔ 

ساتویں حقیقت کا تذکرہ 

جیسا کہ پاکی خدا وند تعالیٰ کی جناب جلیل کا سر تاج ویسا ہی تقدس یا پاکی کی صفت انسان کی کل جسمی طاقتوں اور روحانی استعداد کا بھی سر تاج تھا ۔یہی صفت تھی جو انسان کے سارے خیالات کے اوپر فرمان روا ہو کے اس کو خدا کے احکام کے مطیع (تابع)بناتی اور اس کو گناہ اور موت کی شریعت پر غلبہ بخشتی تھی اور اس کو ایسی حیثیت بخشتی تھی کہ جو کل مخلوقات کے اوپر اعلیٰ وبالاتھی اور اس کو خدااور خلق کا منظور نظر بناتی تھی۔آدم کی ابتدائی پاکی اور اس کے خالق کی بے حد پاکی کا ایک حصہ تھی اسی نظر سے وہ بے داغ اور بے عیب تھی اس کی مرضی اور خواہش و کل طبیعت اسی صفت کے آگے خم ہونے اور تعظیم کے ساتھ اس کی قد م بوس ہوتے اور اس کی ہدایت کی تابع تھی۔ خدا کا پیار اس کی خواہش یکتا تھی۔ اور اس کے دل کا میل اسی ایک خوبی کی طرف


رجوع تھا جس کی تحریک سے سوا ان خیالوں کی جن میں خالق کی رضا تھی اور اس کی خدمت کی بارے میں بے حد سرگرمی اور اس کو بیزار کرنے کی نسبت ایک سنجیدہ خوف غالب رہنے کے سوا اور کسی امر کا صادر ہونا ممکن ہی نہ تھا۔ جیسا (رومیوں ۷: ۲۲) میں آیا ہے کہ’’ میں باطنی انسانیت سے خدا کی شریعت میں مگن ہوں اور اس سبب سے کہ انسان خدا وند کے خوف میں اپنی پاکیزگی کو کامل کرتا تھا خدا کی بھی خوشنودی بنی آدم میں تھی ‘‘جیسا کہ( یسعیاہ۶۲: ۴ ؛امثال ۱۱ : ۲ ) میں آیا ہے’’ خدا وند تجھ سے خوش ہے۔ اور جن لوگوں کے دل میں برائی ہے ان سے خدا وند کو نفرت ہے پر جن کی روشیں سیدھی ہیں‘ ان سے وہ خوش ہے‘‘ اور پھر (متی ۵: ۸) میں لکھا ہے کہ ’’مبارک وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خداوند کو دیکھیں گے‘‘۔ 

پاکی کی صفت کی ضرورت 

یہ پاکی آدم کی شریعت کے ساتھ ایسی وابستہ تھی کہ جو اس کی حقیقت کے اوپر غور کرے گا سو اس بات کو بھی قبول کر لے گاکہ آدم تھا۔ آدم فاعل خود مختار اور ایک قانون کا پابند بنایا گیا تھا اب فاعل خود مختار کی خوبی اسی بات کے اوپر موقوف ہے کہ اس کی مرضی قانون طبیعی اور شرع اخلاقی کی پابندی کے لئے ہر طرح سے مناسب و موافق ہو اور اس کو اس قدر کمال حاصل ہو کہ وہ اطاعت اس کو بار نہ گزرے بلکہ تا کہ اس کا دل اس میں محفوظ رہے اور اس کا میل اسی طرف کو ہو اور یہ بغیر دلی پاکی کے محال تھا اور اس کے عدم وجود کی وجہ سے یہ کر سکتی ہیں کہ خدا انسان سے وہ بات طلب کرتا تھا کہ جس کے وفا کرنے کی اس کو طاقت نہ ملی اور یوں انسان کی برگشتگی کا الزام خدا کی طرف عائد ہوتا اور یہ آیت کلام میں ہر گز نہ ملتی کہ تم پاک بنو کیونکہ میں پاک ہوں خلقت کی پیدائش کے وقت جب سب کچھ ختم ہو چکا تو لکھا ہے کہ خدا نے سب پر جو اس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے جس سے صاف آشکارا ہے کہ سب کچھ اس کی مرضی کی مانند تھا اور کوئی شے خلاف کسی خلقت میں پائی نہ جاتی تھی۔ پھر اس ماہیت کی حقیقت انسان کی نئی پیدائش کی ماہیت سے علی الخصوص مبر ہن و آشکارا ہوتی ہے۔ 

نئی پیدائش اس ماہیت کی دلیل 

رسول یوں رقم فرماتی ہیں کہ تم اگلے چلن کی بابت اس پرانی انسانیت کو جو فریب دینے والی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوئی اتاردو اور اپنی سمجھ اور طبعیت کی نسبت نئے بنو۔ اور نئی انسانیت کو جو خدا کے موافق راستبازی اور حقیقی پاکیزگی میں پیدا ہوئی پہنو ۔ (افسیوں ۴۰: ۲۲-۲۴) ظاہر ہے کہ یہ نوزادگی اس قدیم اصلی پیدائش کی بگڑی ہوئی حالت کا بحال کرنا ہے۔ پس ضرور ہے کہ یہ پچھلی پیدائش اس پہلی پیدائش کی ہم اصل وہم ماہیت ہو اور اگر یہ امر قابل تسلیم کے ہے تو ضرور ہے کہ پاکی اس کی صفت تھی۔ 

نتیجہ کلام 

بیان بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدائے قادر مطلق نے جو اپنی ذات میں سراپاپاکی ہے انسان کو جو کہ اس عالم اسفل میں اس کا نائب ہے پاک اور بے لوث اور راستی کی میلان (رجحان)کے ساتھ پیدا کیا اور یوں اپنی صورت کو اس کے اوپر نقش کر دیا۔ 

آٹھویں حقیقت کا تذکرہ 

خدا کی صورت کا نقش اس حکومت اور سرداری میں بھی ہے جو کہ ابتدا میں خدانے آدم کو عطا کی تھی۔وہ اس عالم اسفل میں خدا کا نائب مقرر ہوا ۔چنانچہ اس کے تاج اقدس کا ایک گل اس کی زیبائش کے لئے اس کے سر پر رکھا گیا جس کے سبب سے اس میں یہاں تک د بدبہ اور شکوہ پایا گیا کہ جس وقت حیوانات اس کے آگے خدا کی طرف سے بھیجے گئے تو سب سے ان کی تابعداری میں سکوت کیا اور صبر کے ساتھ ان کی محکوم (جن پر حکومت کی جائے )رہے اور ان کی سرداری کو یوں تسلیم کیا کہ جو نام آدم نے ان کو دیا اس کو انہوں نے خوشی کے ساتھ قبول کر لیا۔ اس حکومت اور سرداری کی نسبت کلام میں یوں آیا ہے ’’تو نے اس کو( آدم کو) فرشتوں سے تھوڑاہی کم کیا اور شان و شوکت کا تاج اس کے سر پر رکھا ہے تو نے اس کو اپنے ہاتھ کے کاموں پر حکومت بخشی ۔ تو نے سب کچھ اس کے قدموں کے نیچے کیا ہے۔ ساری بھیڑ ،بکریاں اور گائے ،بیل اور جنگلی چوپائے اور آسمان کے پرندے اور دریا کی مچھلیاں اور ہر ایک چیز جو دریا کی راہوں میں گزرتی ہے‘‘ (زبور ۸: ۵-۸) ۔ 

مبارک ہو خدا وند جس نے انسان کو اپنی ظل (پناہ،سایا)پر اور اپنی مانند بنایا اور مبارک ہے آدم جو ایسی عمدہ ترین زیب و زینت کے ساتھ آراستہ پیراستہ کیا جا کے اس خلقت اسفل کا سر تاج قائم کیا گیا۔ 


چوتھا باب

آدم کی پیدائش کے ہمراہ خدا کی خاص پروردگاری کا تذکرہ

آدم کے ساتھ پررودگاری الٰہی کا اول سلوک یعنی جوہر معصومیت عطا ہونا ۔ 

خدا وند تعالیٰ نے آدم و حوا کو اپنی صورت پر پیدا کر کے اپنی پروردگاری میں اول سلوک ان کے ساتھ یہ کیا کہ ان کو جوہر معصومیت کا عطا کیا اور یوں ان کی خوشنودی کو کمال کے درجہ تک پہنچا دیا۔ وہ معصوم ہو کے آپ میں خدا وند کی تابعداری کی ماہیت رکھتے تھے ایسا کہ اپنے خالق کی خوشنودی اور رضا مندی کے سوا کوئی شئے ان کی پسند خاطر نہ ہو سکتی تھی۔ 

اس حالت میں وہ بدی سے اور اس کے نتائج سے محض نا آشنا تھی اس سبب سے ان کی اطاعت بھی بے لوث تھی اور از بس کہ وہ اختلاف کے مادہ سے بے خبر تھی خدا وند کی مرضی کی مخالفت کا شمہ تک ان کی سلامتی میں خلل انداز ہونے کو موجود نہ تھا تعریف و ستائش اور پاکی کی تحسین و آفرین کرنا ان کا کام تھا اور ان کی زندگی زندگی الٰہی کی ہم صفت تھی پس نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا خدا وند اپنی ذات میں پاکی اور سلامتی و کمال کا چشمہ تھا ویسا ہی ہمارے اول والدین بھی پاک اور سالم و کامل تھے ساری خلقت ان میں صورت الٰہی کی ماہیت کو دیکھ کر اور معلوم کر کے اطاعت اور الفت کے ساتھ اس کے سرنگوں ہوتی اور ان کی خدمت کرنے اور ان کی خوشی کو بڑھانے میں بدل (دل سے )مصروف اور ان کی خدمت گزاری اور فرمان برداری سے پھلو تی کرنے کی جیسا کہ اب حال ہے رغبت نہ رکھتی تھی ۔ وہ اپنے سردار اسفل کے دست قدرت کی نگران تھے اور آدم مع اپنے زوجہ کے خداوند ارض اور سما السماوات کی قدرت عالیہ کا دست نگر تھا۔ خدا کو جلال دینا ان کا عین شیوہ تھا۔ اور خلقت سے اطمینان ڈھونڈنا ان کا کام تھا اور یہ دونوں کام دل کی حب سے بے مکابرہ و مجادلہ (مقابلہ کے بغیر)ان سے ظاہر آشکارا ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ شمع نور تھی ان کی مرضی خداوند کی مرضی سے متحد تھی۔ ان کی محبت خالص و پاک اور ہر طرح کی بے انتظامی سے بری اور بے غبار(بغیر کسی ملال کے)تھی ۔ چنانچہ اسی معنی میں وہ خدا اور ملائکہ و کل ذی روح مخلوقات کی خوشنودی تھی اوران کی صدا حمد میں فرشتوں کی غزل آسمانی کی ہمدم تھی اور ان کی غزل یہ تھی۔ دو خداوند کو اے اس کی ساری خلقت۔ دو خداوند کو عزت اور جلال و بزرگی ۔ کیو نکہ اس کے کام عجائب ہیں اور اس کی رحمت سارے عالم پر ہے۔ 

پروردگاری الٰہی کا دوسرا سلوک یعنی باغ عدن میں رکھا جانا 

تا کہ ان کی خوشی بے گزمذرہے اور ان کی طبیعت پر کدورت (نفرت)کا غبار(دھواں) کسی طرح پر غلبہ کرنے پائے خدا وند کی پروردگاری کا دوسرا سلوک ان کے ساتھ یہ تھا کہ اس نے ان کو باغ عدن میں رکھا۔ عدن بمعنی عشرت اور خوشی و عیش کے ہیں اور چونکہ یہ نام اسم بامسمے تھا واضح ہے کہ یہ جگہ معدن خوشنمائی تھی یعنی جتنی چیزیں ضرورت کے لئے درکار یا خوشی کی افزائش کے لئے ممد تھیں وہ اس کمال کے ساتھ وہاں پر موجود تھیں کہ ان میں کسی طرح کی کمی نہ تھی اور نہ کوئی ایسی احتیاج تھی کہ جس کے رفع کرنے کی گنجائش اس میں نہ ہوتی۔ وہ فی الحقیقت بہشت برین کا نمونہ تھا عرش


تھا اور خداوند کا جلال اس کے وسیلہ سے یہاں تک مبر ہن و آشکارا تھا کہ جب آدم اپنی اشغال د ستی(ہاتھ کے کام مشغلے) میں مشغول ہو تا تو خداوند کی قدرت کی شگوفہ کاریاں ہر دم نگاہوں کے تلے حاضر رہتیں اور اطاعت و محبت اور سلامتی کی طبیعت کو مشتعل (بھڑکتا ہوا)کرکے اس کو جولانی(تیز فہمی،پھرتی) بخشیں اور اس کے خیالات خصوصاً اس باغ کی خوشنمائی کے وسیلے سے اس کے خالق و بانی کی طرف کو صعود کر کے(اوپر چڑھنا) اسی جانب کو رجوع رہتے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خداوند بنی آدم کی صرف بھلائی کا خواہاں رہتا ہے اور انسان معصوم کو خوشی و راحت سے ایسا گھیرتا ہے جو نہ صرف اس کی رحمت کے اوپر دال ہو بلکہ سلوک پدرانہ (باپ کی محبت)کو ہر حال میں آشکارا کرے حتیٰ کہ انسان اپنے خالق کی طرف سوا محبت کے اور کسی طرح پرنگا ہ کر بھی نہیں سکتا اور جو کچھ نقص دیکھتا تو اس کو اپنی ہی ذات میں پاتا اور خداوند کی حمد میں یوں نغمہ سرائی کرتا کھڑے ہو جا اور خداوند اپنے خدا کو ابدالاباد تک مبارک کہو۔ بلکہ تیرا جلالی نام مبارک ہو جو ساری مبارکباد ی اور حمد پر بالا ہے۔ تو ہاں تو ہی اکیلا خدا ہے۔ تو نے آسمان کو اور آسمانوں کے آسمان کو اور ان کی ساری زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے بنایا اور تو سبھوں کا پروردگار ہے اور آسمانوں کا لشکر تیرا سجدہ کرتا ہے۔ (نحمیاہ ۵: ۹،۵: ۶)۔ 

باغ عدن میں رکھے جانے کی علت غائی 

آدم کے باغ عدن میں رکھے جانے کی علت غائی یہ ہے کہ وہ باغ کی حفاظت میں مشغول رہ کر ہاتھ کے ساتھ اپنے دل کو بھی سالم و محفوظ رکھے اور بے شغلی و بے کاری کے امتحانات سے بچ کے اپنے مالک سے لو لگائے اور اسی کی خدمت میں شاد و بشاش رہے اور اپنے خالق کو فراموش کرنے کی طرف سے اطمینان میں رہے۔ یوں اس کی راہ میں گل اطمینان بہتیرا دئے گئے اور سلامتی اس کا بیرق (علم)ہوا جیسا کہ پاکی اس کا سر تاج تھی۔

پروردگاری الٰہی کا تیرا سلوک آدم کا صاحب شرع وا خلاق ہونا 

خداوند تعالیٰ نے اپنی رحمت کی بے پایا نی سے نہ صرف اس کی سلامتی کے لئے سامان ظاہری ہی بہم پہنچائے کہ جس کے باعث سے وہ گمراہی سے محفوظ رہے بلکہ اس کو اطمینان قلبی بھی بخشا تھا اور جس دل کو اپنی صورت کی صفت سے آراستہ کر کے پیدا کیا تھا اس دل کے اوپر اپنی انتظام پروردگاری سے شرع اخلاقی کو ایسے طور پر منقش کر دیا تھا کہ وہ گویا ایک قاعدہ تابعداری کا ہو گیا جو خدا کی نری محبت میں مناسب معلوم ہوا کہ اس کی شرط بھی ایسی تثلیث طور کے اوپر قائم کی جائے کہ جس پر عمل کرنا آدم کو شاق (دشوار)نہ گزرے اور نہ ان کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ تو نے ایسا سخت بار میرے اوپر رکھا کہ اس کی برداشت کی مجھ میں طاقت نہ تھی اور تا کہ آدم خوشی بخوشی اور جب دل سے اس کے پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف و مشغول رہ سکے اس سے اور کیا آسان ہو سکتا تھا کہ تو یہ کر تو زندہ رہےگا اور یہ بات زیادہ تر آسان اس وجہ سے تھی کہ خداوند نے ان کی طبیعت کو ایسے انداز کے اوپر خلق کیا تھا کہ ان میں نہ صرف تابعداری کی رغبت موجود تھی پر وہ تابعداری خود آسان تھی کیو نکہ وہ اسی بات کے حاصل کرنے کے لئے ممد بنائی گئی تھی ۔گو ان میں اس کی برعکس کام کرنے کی رغبت کی آزادی بھی موجود تھی ۔ دیکھیے خداوندکی رحمت کہ وہ انسان پر ایسے بوجھ نہیں رکھتا ہے جس کا وہ متحمل (برداشت کرنے والا)نہ ہو سکے۔ پر جیسا باپ بیٹے کے ساتھ کمال محبت اور ملائمت و نرمی سے پیش آتا ہے ویسا ہی خداوند بھی کمال محبت سے اس کی بھلائی کے لئے پیش آتا ہے اور ایسی سادہ طور پر اس کے ساتھ معہد (عہد کرنا)ہوتا ہے کہ جس میں آدم کو عذر کرنے کا موقع نہ ملے اور اپنے نافرمانی کو اپنی ہی


ذاتی کم طاقتی سے محسوب(حساب کیا گیا ) کر سکے تا کہ خداوند کی راستی بے خطا رہے اور آدم کی اپنی ذات اس فعل کی وجہ سے آپ اس کی اقتدار کی تعظیم کی جہت (کوشش)سے استعمال میں آیا یعنی اس کی تابعداری کی ماہیت فرزندانہ تھی جو صرف محبت کی راہ سے کار گر ہوتی اور اپنے فرائض کی تکمیل میں خوش و خرم اور شاد و متمتع رہتی ہے۔ چونکہ یہ اس کے لئے ایک حالت طبیعی تھی۔ کوہ سینا کی سی شدو مد اس کے ظہور کے لئے آشکارہ ہو نا مناسب نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ بسہولیت خدا کی رحمت کی فراوانی سے آدم نیستی سے ہستی میں لایا گیا ویسا ہی اس کے دل کی لوحوں پر عالم خاموشی میں یہ شرح کندہ ہو گی گویا اس کی سر شت کا ایک حصہ ہو گیا ۔اسی وجہ سے تا وقت یہ کہ اس میں فتور(خرابی) نہ تھا تب تک اس کی اطاعت دل کی حب سے اور بوضعہ (واضح)کامل ظہور میں آتی رہی اور اسی اخلاقی پاکی کی وجہ سے خدا بھی اس کے ساتھ سکونت اختیار کرنا دریغ نہ رکھتا تھا۔ وہ حالت ایسی نہ تھی کہ جس میں یہ کہہ سکتے کہ جسمانی مزاج خدا کا دشمن ہے کیو نکہ خدا کی شریعت کے تابع نہیں اور نہ ہو سکتا ہے اور جو جسمانی ہیں خدا کو پسند نہیں آ سکتے (رومیوں ۸: ۷-۸) بلکہ یہ وہ حالت تھی کہ جس کی نسبت میں خداوند نے خود فرمایا ہے کہ میری خوشی بنی آدم میں تھی۔ 

خدا کی پروردگاری کا چوتھا سلوک آدم کے ساتھ معہد ہونا 

آدم کی پیدائش کے ہمراہ خدا کی پروردگاری کے سلوک بالا کے شامل حال ایک امر یہ بھی ظہور میں آیا کہ خدا جس کو انسان کی بھلائی اور خوشنودی و سلامتی مد نظر تھی آدم کی خوشی کو افزوں کرنے کے لئے اس کے ساتھ معہد ہوا اورایک شرط کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی زندگی عطا کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہاں شاید یہ سوال کیا جائے گا کہ اب تک تو آدم نے گناہ نہ کیا تھا چنانچہ اب تک مرگ کی حقیقت سے نا واقف تھے۔ پس وہ زندگی کے مالک تھی تو پھر زندگی کا عہد کرنے سے کیا مراد ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو زندگی آدم کو اس وقت تک حاصل تھی وہ صرف یک طرفی تھی اور چونکہ وہ امتحاناً اس عالم اسفل میں رکھے گئے تھی ضرور تھا کہ ان پر اس بات کی ماہیت آشکارا کر دی جائے کہ آدم صرف باشند ہ ِزمین ہی نہیں پر کہ وہ ساکن کنعان بالا بھی ہے اور کہ ان کی جسمانی زندگی اس زندگی روحانی و اعلیٰ کا ایماو علامت تھی اور کہ جیسا ان کی ہستی کا کل یہ جسم نہیں تھا ویسا ہی ان کی یہ زندگی جسمی بھی ان کی زندگی کلی نہ تھی پر کہ روحانی زندگی ان کی میراث خاص تھی۔ بدین نظر مناسب تھا کہ اس کی کل ماہیت اور خداوند کی سلامتی و خوشی کی بے حد دولت اس کے اوپر آشکارا کی جائے چنانچہ اس عہد کامنشا یہی تھا کہ وہ آپ اس بات کی ماہیت کو سمجھ رکھیں کہ خدا نے ان کے لئے کیسی عظیم نعمتیں اپنے پروردگاری کے انتظام میں مہیا کی ہیں اور کہ ان کے حصول کے لئے کون سی تدبیر عمل میں لانی ضرور ہے ان وجوہات سے اس عہد کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ 

اس عہد کی بنیاد 

دوسری بات جو اس عہد کی ضمن میں قابل لحاظ کے ہے سو یہ ہے کہ اس کی بنا کس ماہیت کے اوپر تھی۔ آیاا س کی بنیاد آدم کی کسی ذاتی خوبی کے اوپر تھی یا آیا کہ وہ صرف رضا الٰہی کے اوپر مبنی تھا۔ اس کی بہ نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ماہیت آدم کی ذاتی خوبی کے اوپر ہر گز مبنی نہیں ہو سکتی تھی کیو نکہ اگر آدم میں ایسی خوبی ہوتی کہ کسی طرح ان کے اوپر امتحان کا اثر نہ ہو سکتا تو یہ ان کے لئے گویا کمال تک پہنچتا ہوتا اور اس حالت میں ان کے ساتھ عہد کرنے کی ضرورت نہ ہوتی عہد میں اس کی تکمیل کے برعکس صفت کا پایا جانا مشمول ہے۔ اور نہ جہان برعکس عمل کا ارتکاب ممکن نہیں ہے وہاں وہ بھی معنی سے


ٹھہرے گا ۔ مثلاً فرشتے جواب خداوند کی حضوری میں رہتے ہیں ان کے ساتھ کسی طرح کے عہد کا تذکرہ پایا نہیں جاتا اس لئے کہ ان کا اپنی اصلی حالت سے ے تک جانا محال مطلق ہے تو جب کہ یہ آشکارا ہے کہ یہ عہد آدم کی ذاتی خوبی کے اوپر مبنی ہیں ہو سکتا ہے۔ تو اس کا ایک ہی جواب باقی ہے کہ اس کی بنیاد خدا کی بڑی رحمت کے اوپر موقوف تھی۔ اس کو پسند آیا کہ اپنی مخلوق کو دو چند زندگی عطا کرے پس یہ دوسری زندگی جو کہ اس زندگی اسفل کا سر تاج تھی ان پر ایک عہد کے ساتھ آشکارہ کی گئی۔ اور یہی سلوک ہم اس زمانہ تک مشاہدہ کرتے ہیں ایسا کہ ہم پولس رسول کے قول کے مطابق اپنی زبان پر اس طور کا کلمہ لا سکتے ہیں کہ ہم جو کچھ ہیں سو خدا ہی کے فضل سے ہیں۔ جو بات کہ نظام انجیلی میں راست ثابت ہوئی ہے یعنی کہ اس نے اپنی ارادے کے موافق ہمیں سچائی کے کلام سے پیدا کیا وغیرہ ۔ اس کو ہم آدم کے حق میں بھی یوں مستعمل کر سکتے ہیں کہ خدا نے اپنی ہی مرضی کے ارادے کے مطابق آدم کے ساتھ یہ عہد کیا تا کہ اس کو آسمان کی خوشیوں میں میرا ث دے۔ 

اس عہد کی ماہیت 

یہ عہد جو خدا نے اپنے پروردگاری کے انتظام میں آدم کے ساتھ باندھا وجہ اس کے کہ آدم کی تابعداری کے اوپر مشروط تھا۔  اولاً 

عہد اعمال کہلا تا تھا۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اگر آدم اپنے امتحانی زمانے تک اس کام کے کرنے تک ثابت قدم رہتے جو ان کا اس عہد کی خوبیوں اور برکتوں میں شامل کرنے کے لئے قائم کی گئی تھیں تو آدم اس عہد کی طفیل سے اس ابدی الٰہی شادمانی کو حاصل کرتے جو ان کو نہ صرف ساری خلقت کے اوپرشرف دیتا بلکہ ان کی شادمانی بھی اس درجہ تک پہنچ جاتی جو کہ کسی مخلوق کو ہر گز حاصل نہ ہو سکتی جیسا کہ (۱-کرنتھی ۲: ۹) میں آیا ہے کہ خدا نے اپنے پیا ر کرنے والوں کے لئے وہ چیزیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں اور نہ آدمی کے دل میں آئیں۔  دویماً 

وہ زندگی کا عہد بھی کہلاتا ہے اس وجہ سے کہ اس عہد کی تکمیل کا انجام زندگی ہوتا۔ وہ نہ صرف اسی زندگی کی مرگ اخلاقی یا طبعی سے نجات پاتے بلکہ دوسری موت کا ان کے اوپر کسی طرح کا اثر نہ ہوتا۔ یوں ان کی زندگی دو چند ہوتی اور کچھ عجب نہیں کہ وہ اسی عالم اسفل میں اپنی بہشت کو اس طور پر پاتے کہ کسی طرح کی یا ناکاملیت اس میں نظر نہ آتی بلکہ خداوند ان کی روشنی اور زندگی کا نور ہوتا اور ان کی خوشی اور شادمانی عدیم المثال ہوتی ہاں وہ خداوند ہی کی شادمانی سے شاد ہوتے اور زمین کی ساتھ آسمان یعنی بہشت کو ملا لیتے اور یہاں پر نہ صرف خدا کی نائب ہے بنے رہتے بلکہ اول درجہ کی قربت خدا سے حاصل کرتے اور ابدی بادشاہی میں بڑی عزت اور جلال کے ساتھ میراث پاتے ایسی میراث جو کہ لازوال اور نا آلودہ ہے اور پژ مردہ نہیں ہوتی اور یوں ان کے ایمان کی آزمائش خداوند کی دن میں تعریف اور عزت و جلال کے لئے ہوتی۔ 


اس عہد کی شرط کی ماہیت 

خداوند کی اس پروردگاری کے سلوک کی عظمت اس بات سے بخوبی آشکارا ہوتی ہے کہ جیسا اس عہد سے آدم کی شادمانی مقصود تھی ویسا ہی اس کی رحمت بے حد میں وہ اپنی ناکاملیت کے اوپر ماتم کرنے کی وجہ پائے۔ 

اس عہد کی شرط یعنی کامل تابعداری 

یہ عہد کامل تابعداری کے اوپر مشروط تھا یعنی اس کی شرط یہی تھی کہ آدم صرف بذریعہ کامل تابعداری کے اس عہد کی نعمتوں میں شرکت حاصل کر سکتا تھا۔ امورات دینوی میں ہم تابعداری کو گویا سلامتی کی جان پاتے ہیں۔ جہان تابعداری ہے وہاں اکثر سرفرازی ظہور میں آتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے لوگ زمانہ بڑی بلند مرتبہ تک پہنچ گئے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اس صفتِ سے عجز و انکسار اور فروتنی آشکارہ ہوتی ہے۔ اور جہاں یہ صفتیں تماماً و کمالاً پائی جائیں وہاں سرفرازی کا نہ ہونا محال ہے۔ چنانچہ بزرگوں کے حالات پر غور کرنے سے اس بات کی ماہیت بخوبی ثابت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم نے خدا کے حکموں کی تابعداری کر کے اپنے بیٹے کو دوبارہ عہد کے ساتھ پایا اور یوں ان کی خوشی افزوں ہوئی۔ حضرت لوط نے خداوند کے حکموں کی تابعداری کو غنیمت سمجھ کی اپنی جان کو سدوم کی ہلاک سے بچایا اور آپ کو سالم و محفوظ رکھا۔ حضرت یوسف نے خداوند کی حکموں کی تابعداری سے رو گردانی نہ کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو ایسی سرفرازی حاصل ہوئی کہ مرتبہ میں فرعون سے صرف ایک ہی درجہ کم تھی۔ حضرت دانیال اور سدرک ، میسک اور ابد نجو نے خداوند کے حکموں پر عمل کرنے سے فضیلت پر فضیلت اور خوشنودی پر خوشنودی اور مرتبہ پر مر تبہ حاصل کیا۔ ہمارے خداوند کی والدہ متبر کہ اپنی غزل میں اپنی مبارکبادی کی نسبت یہ کلمہ اپنی زبان پر لائیں ’’خداوند نے اپنے بندے کی عاجزی پر نظر کی اس لئے دیکھ اس وقت سے ہر زمانے کے لوگ مجھ کو مبارک کہیں گے‘‘ جیسا سموئیل نے ساؤل کو تاکید کی کہ خداوند قربانی اور مینڈھوں کی چربی سے خوش نہیں پر اس میں کہ اس کا حکم مانا جائے ویسا ہی اس سرفرازی کی نسبت جو حضرت آدم کے حق میں بد نظر تھی اس کی شرط بھی تابعداری ہی ٹھہرائی گئی۔ 

اس حکم کی وسعت 

جو حکم کہ آدم کی تابعداری کے لئے شرط ٹھہرایا گیا تھا وہ صرف ایک ہی حکم کے اوپر موقوف تھا یعنی کہ توکل باغ کے درختوں کا پھل کھانا پر اس درخت سے جو باغ کے بیچو بیچ ہے تو اس سے نہ کھانا اور نہ اسے چھونا گو ظاہر میں یہ حکم بہت ہی چھوٹا تھا لیکن اس کی بڑی وسعت تھی اور وہ آدم کی کل استعداد کے اوپر حاوی تھا۔ یہ بھی خدا کے فضل کا ایک انتظام ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتیجے نکالتا ہے ایسا کہ لوگ دیکھ کے سکوت(بے حس ہوجانا) کرتے اور خداوند کی عظمت اور کبر یا(عظمت) کی شان کے لئے دم مارنے کی جگہ نہیں پاتے ۔ پس کیسی افسوس کی بات ہے کہ کوئی ان چھوٹی وسیلوں کو حقیر سمجھے۔ جو اس کی تحقیر کرتا ہے گویا خدا کی تحقیر کرتا ہے۔ اس مقام پر نعمان سوریانی کا حال یاد آتا ہے کہ جب اس نے بندہ خدا کی زبانی یہ کلمہ سنا کہ ’’جا اور یردن میں سات غوطے لگا تو تو صاف ہو جائے گا‘‘۔ وہ رنجیدہ ہو کے لوٹا جاتا تھا۔ پر جب اپنی خادموں کی تحریک سے اس سادہ حکم کی تعمیل کی تو کیسی عظیم شفا پائی کہ ویسی نہ سنی گئی تھی نہ دیکھنے میں آئی تھی۔ افسوس کہ آدم سے بھی اس سادہ حکم کی تعمیل نہ ہو سکی اور اس کی تہدید


(دھمکی)نےبھی ا ن کی اوپر اثر نہ کیا۔ حکم تو چھوٹا تھا پر اگر اس کی علت غائی کی طرف لحاظ کیا جائے تو کیسا عظیم نتیجہ اس سے نکلنا مطلوب تھا اور جب اس کی نقصان کے اوپر لحاظ کیا جاتا ہے۔ تو اس نقصان کی عظمت کا کون بشر بیان کر سکتا ہے۔ جتنی برکتیں اس کی تکمیل پر مبنی تھیں اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ لعنتیں اس کی نافرمانی سے صادر ہوئیں اور دنیا آج تک اس نافرمانی کے نتیجہ کے تلے دبی ہوئی آہیں اور چیخیں مارتی ہے حتیٰ کہ اگر خدا ہی اپنی رحمت کی بے پایا نی سے نجات کے لئے ایک نئی اور زندہ و موثر راہ نہ نکالتا تو انسان کی بربادی میں باقی کیا رہ گیا تھا اور اس کا اور اس کی اولاد دونوں کا کام تمام تھا اپنی حاسد(حسد کرنے والا) اور برگشتہ سردار کے ساتھ وہ ابدی تاریکی میں پڑے رہتے اور اسی کی مانند ان کی ایذا بھی ہر گز کم نہ ہوئی۔ 

اس حکم کی زبونی کی بنیاد 

عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کر سکتی ہے کہ اس درخت میں کوئی ایسی ذاتی برائی تھی کہ جس کے سبب سے اس کا کھانا باعث گناہ کا ہوا کیونکہ یہ امرکلام کی ماہیت کے برعکس ہو گا۔ لکھا ہے کہ خدا نے جب اپنی بنائی ہوئی خلقت پر نگاہ کی تو کہا کہ سب اچھا ہے خدا تعالیٰ کی پاک ذات کا تقاضا بھی ایسا ہے کہ ایسی ناکاملیت کے خیال کا مانع (منع کیاگیا)ہوتا ہے۔ پس اس خیال سے ہم اس امر کی صداقت کا علم حاصل کر سکتے ہیں اور یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس درخت میں یا اس کے پھل میں بالذات کسی طرح کی برائی نہ تھی بلکہ ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ یہ درخت کسی خاص اور بڑے مقصد سے نہ آدم کے بگاڑ نے بلکہ اس کو سدھانے کے لئے اس خوشنما باغ میں جس میں کسی نوع کی زبونیت(خرابی) نہ تھی رکھا گیا تھا۔ اور اگر آدم اپنے ایام امتحان کو سلامتی کے ساتھ طے کرتی تو یقین ہے کہ یہ درخت بھی مثل اور درختوں کی ان کی سلامتی میں ممد ہوتا اور یوں وہ خدا کی بزرگی کا وسیلہ ہو جاتا۔ حکم تھا کہ اس کا پھل نہ کھانا۔ پس یہی ممانعت تھی جس کی عدم تعمیل ان کے لئے گناہ محسوب ہوا یعنی گوپھل کا کھانا منع تھا پر گناہ اس حکم کے ٹالنے میں تھا نہ کہ پہل میں۔ خدا نے ہزار ہا نعمتیں آدم کو دی تھیں اور ان سے صرف ایک کا تارک (ترک کرنے والا)ہونا طلب کیا تھا پس ایسی حالت میں کون کہے گا کہ خدا نے ایک ایک بری چیز کو بنا کے آدم کے آگے امتحاناً پیش کیا۔ چنانچہ کلام میں آدم کی نافرمانی ہی کا ذکر اس بڑی آفت کے ضمن میں ہوا ہے ۔ اور یوں لکھا ہے کہ ایک کی نافرمانی سے نہ کہ پھل کے کھانے سے بہت گنہگار ہوئے۔ 

اس عہد کے قیام کی تہدید 

جو عہد خدا نے آدم کے ساتھ کیا تھا اس کو سنجیدگی بخشی اور اس میں اقامت (قیام)کے لئے اشتعالہ(شعلہ اُٹھانا،جوش) دینے کی غرض سے یہ عہد ایک تہدید (دھمکی)کے ساتھ قائم کیا گیا۔ اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھانا لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیو نکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو مرے گا۔ جس عہد میں سنجیدگی نہ ہو وہ عہد فضول ہے اور جہاں تہدید نہیں وہاں سنجیدگی نہیں اور خدا کا عہد بغیر سنجیدگی کے محال ہے۔ جہاں عہد میں سنجیدگی کی تہدید نہیں وہاں اس عہد کی تکمیل میں اشتعالہ کیو نکر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ضرور تھا کہ یہ عہد اس انداز کے اوپر باندھا جائے کہ اس پر قائم رہنے اور اس کی شراط کے پورا کرنے کے لئے اس میں رغبت و میلان ہو۔ اتنی بڑی اور سخت تہدید کےباوجود آدم نے اس پر لحاظ ہی نہ کیا تو اگر یہ عہد بلا تہدید ہوتا تو کیا حال ہوتا۔ اغلب ہے کہ جتنے دن وہ اپنی معصومیت میں قائم رہے اتنی دن بھی قائم رہنا

دشوار ہوتا ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا نے آدم کی بہترین بھلائی کو مدنظر رکھ کر ایسی سنجیدگی کے ساتھ آدم سے عہد کیا کہ جس کے اوپر لحاظ کر کے آدم اپنے امتحان کو خداوند کے خوف کے ساتھ پورا کرنے کے لئے ہدایت و تحریک پائے۔ 

خاتمہ الکلام

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ آدم کے ساتھ جس حال میں کہ وہ پیدا ہوئے تھے نری رحمت کو کام میں لا کے اور ان کی بہترین بھلائی کو مد نظر رکھ کے خداوند تعالیٰ نے محض اپنی مرضی کے نیک مشورہ اور ارادہ کے مطابق ان کو زندگی کی برکتوں میں حصہ دینے کے لئے اپنی پروردگاری کے انتظام میں اپنی رحمت کے عمدہ ترین سلوک سے ان کے ساتھ پیش آیا۔ بار خدا یا تیری رحمتیں کیسی گونا گوں(رنگ برنگی) ہیں اور تیری لطیف رحمتیں تیری ساری خلقت کے اوپر ہیں اور تیرے ساری کام حکمت کے ساتھ ہیں کاش کہ لوگ خداوند کے جلیل کاموں کے سبب اس کی مدح سرائی کرتی اور نجات کے نغموں سے اسی گھیر تے تو ان کی سلامتی دریا کی مانند بہتی اور ان کی اقبالمندی بے حد ہوتی ۔ اے لوگوں خداوند کے نام کی ستائش کرو کہ اس کانام اکیلا عالی شان ہے۔ اسی کا جلال زمین اور آسمان پر مقدم ہے۔ وہی اپنے لوگوں کے سینگ کو بلند کرتا ہے یہ اس کے پاک لوگوں کی اس قوم کی جو اس سے نزدیک ہے شوکت ہے(زبور ۱۴۸: ۱۴)۔


پانچواں باب

آدم کی برگشتگی اور ان کے جرم کی سقالت کا تذکرہ

آدم کی برگشتگی 

یہ نہایت ہی تاسف(افسوس) کا مقام ہے کہ آدم نے اپنی اس آزادی کی حالت کی جس میں خدا نے اپنی پروردگاری کے انتظام سے ان کو رکھا تھا قدر نہ کی اور نہ اس کو غنیمت سمجھا پر اپنے دامن صبر کو ہاتھ سے چھوڑ کر اس آزادی کی حالت میں فتور ڈالا بلکہ اس کے ساتھ اپنی نقد جان کو بھی ضائع و بر باد کر ڈالا اور جس روح کو خداوند تعالیٰ نے اپنے مصاحبت(ہم نشینی) سے مشرف(معزز) کیا تھا اس کو اس کی رفاقت سے جدا کر کے مورد عتاب (غصہ یاقہر کے ٹھہرنےکی جگہ)بنایا۔ ان کے امتحان کے لئے اغلب ہے کہ تھوڑی ہی روز مقرر کئے گئے تھے پر اس قلیل عرصہ تک بھی ان سے صبر نہ ہو سکا اور جلد بازی کر کے اپنی حالت سے گر گئے اور اپنی راستی سے بہک گئے۔ برے وقت میں حضرت نے اپنی ہم جلیس(پاس بیٹھنے اُٹھنے والا) و ہمدم زوجہ معشوقہ کے ہاتھ سے اس ثمر ممنوعہ کو لے کر کھایا اور آپ کو مع اپنی اولاد کے تباہ کر ڈالا جب حکم ٹوٹا تو کل خوبیوں کی گرہیں کھل گئیں اور وہ جادہ(راستہ،طریقہ) الفت بھی جس سے حضرت آدم خدا کے ساتھ بند ھے ہی کھل گیا اور کل عقدہ (قول وقرار)بے عقدہ ہو گیا۔ یوں گناہ کا سبز اور منحوس و تباہ کرنے والا قدم اس دنیا میں آیا اور ساتھ اس کے جتنی آفتیں اس میں مشمول تھیں سب ظہور میں آئیں اور یہ زمین جو بہشت بریں کا نمونہ تھی ایک ویرانہ خار دار بنیں گی۔ اور باغ عدن کی خوشیوں سے خارج کئے جا کے خدا کی حضوری کی خوشیوں سے بھی دور اور اس کی رفاقت سے محروم کر دئیے گئے۔

اس برگشتگی کا الزام خود آدم ہی کے اوپر عائد ہوتا ہے 

جاننا چاہئے کہ جس حالت میں خدا نے آدم کو پیدا کیا تھا اس حال میں ان کو وہ ساری صفتیں جو ان کی خوشی کی حالت میں قائم رکھنے کے لئے عطا کر دی گئیں تھیں ان کی سمجھ بخوبی روشن اور منور تھی اس میں کسی طرح کا نقص نہ تھا جس کے باعث سے اس فعل کے مرتکب ہونے میں ان کے لئے حیلہ ہوتا اور وہ خود اپنی اس حالت سے بخوبی واقف تھی ایسا کہ وہ لا علمی کا حیلہ یا عذر پیش نہ کر سکتے تھے۔ان کو مرضی کی آزادی اور نیکی کے میلان کی طاقت بھی عنایت ہوئی تھی۔ چنانچہ اس مرضی کو بگاڑ نا اور اس کی آزادی کو خفیف (کم،تھوڑا)سمجھنا ان کا اپنا ہی کام تھا کیو نکہ باوجود اس کے کہ ان کو برعکس کام کے کرنے کا اختیاربھی حاصل تھا تا ہم ان کی طبیعت ایسے انداز پر بنائی گئی تھی کہ ان کو نیکی کی رغبت کی طرف زیادہ تر میل تھا اور اس حالت میں قائم رہنے کی طاقت بھی موجود تھی اور آزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمیشہ برعکس کام کرنے میں متحرک ہو۔


اس الزام کی وجہ 

پھر آدم کو دلی اور بے داغ پاکی بھی حاصل تھی اور یہ ایک ایسی حالت تھی جو برعکس کام کر کے اس پاکی میں دھبا لگانے سے روکتی تھی۔ اگر اس سے یہ نتیجہ نہ نکل سکتا تو وہ صفت لا حاصل ہوتی اور گویا خدا کے اوپر حرف آتا۔ یہ پاکی ان کے لئے اہمیت کی حامل تھی کہ جس کے باعث سے وہ اپنی میراث اور اپنے استحقاق کے قائم رکھنے کے لئے اشتعال(جوش) اور تقویت حاصل کر سکتے تھے۔ اگر اس کلام کی ماہیت کے اوپر کہ خدانے انسان کو راست بنایا۔ بغور ملاحظہ کیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا نے اپنی رحمت سے سارے سامان ایسی انداز پر آدم کو عطا کئے تھے کہ جو ان کے ایمان کی استقامت کے لئے ممدومعاون تھے اور اگر ایک برعکس کام کی طرف رجوع کرنے کی لو(لگن) ان میں پائی جا سکتی تھی تو بیسیوں تحریکیں ان کو راستی کی میلان عطا کرنے کے لئے موجود تھیں۔ جو آدم کو فرمانبرداری کی حالت میں پائیداری بخشنے کے لئے بہمہ وجوہ (وجوہات کے ساتھ)کا ر گر اور بے خطا اشتعالی تھے یوں اتنی روشنی کے خلاف حکم عدولی کرنے میں آدم از خود ملزم ہوتے ہیں۔ اور گو انہوں نے اسے ٹال دینا چاہا مگر وہ کب ٹلتا تھا اور سو ا سکوت کے کچھ چارہ نہ تھا۔ 

آدم کا بہکانے یا ورغلانے والا

پر باوجود یہ کہ اس نافرمانی کا الزام خود ہمارے والدین کی طرف عائد ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی قابل یاد رکھنے کے ہے کہ یہ خواہش ان کی اپنی ذاتی خواہش نہ تھی پر ایک اور ہی اشتعالہ دینے والا تھا جس نے ایسے انداز کے ساتھ اس امر کے انتظام کی نسبت اپنی کینہ کشی (دشمنی رکھنے والا)سے تحریک کی اور گو وہ حاسد سانپ کی صورت میں نظر آیا لیکن وہ آپ کسی زمانہ میں ایک اعلیٰ درجہ ہستی تھا کہ جس کے دل میں کبر (غرور،گھمنڈ)داخل ہوا اور اپنی اصلی خوشی اور برکت کی حالت میں رہنا پسند نہ کر کے اپنی حالت کو بہتر بنانے کی نیت سے اپنے خالق و آقا ئے بزرگ و برتر سے ہمسری(برابری) کرنے کا متقاضی (تقاضاکرنے والا)ہوا اور جب اپنی شرارت کا یہ مزہ چکھا کہ مور دلعن(لعنت کاچشمہ) ہوا ۔تب اپنی نا امیدی کے درمیان میں سے بیٹھے بیٹھے خدا کی خلقت کے اس حصہ کی سیر کرتا ہوا اس کو خراب کرنے کے لئے برے مقصد سے مملو(لبریز) ہو کر اس باغ کی طرف کو نکل آیا اور اس جوڑے کی آسمانی خوشی کا منظر اس کے جی پر کھٹکا اور اپنے پر فتنہ دل سے یہ چاہا کہ اگر کسی حکمت سے یہ معصوم خلقت میرے ساتھ نافرمانی میں شریک ہو تو میرا مطلب بخوبی نکلے گا اور خدا کی خلقت کے بہترین حصہ میں فتور(خرابی) برپا ہونے سے میں اپنے کینہ کش نیش عقرب (بچھوکا ڈنگ،دشمن کی شرارت)کو کام میں لا کے اس پر غالب آنے میں گویا خدا ہی پر غالب آؤں گا ۔یوں اس مقصد کے بھرلانے کی نیت سے سوچتے سوچتے سانپ کو اپنے مطلب کے لئے چست ،چالاک ، فریبی ا ورمتضی دیکھ کر اس کے جسم کے اندرداخل ہوا اور آپ کو اس صورت کی پردے میں اس درخت ممنوعہ کے تلے پہنچایا جہاں کہ بحسب اتفاق حوا اس وقت اپنے یار ہمدم سے علیحدہ ہو کے موجود تھیں۔ 


اس ممتحن کی عجلت اور اس کا سبب 

جیسے ہی شیطان نے ان کی معصومیت اور خوشحالی کو دیکھا تو فوراً اس نے اپنے دام کے بچھانے کی تدبیر کی اور اس میں دیر کرنا بعید از مصلحت سمجھا۔ اور جو نہی ا س کو پہلا ہی موقع ملا وہ اپنے تیرکے چلانے اور زہر ہلاہل(مہلک زہر،زہر قاتل) کی تاثیر کے پھیلانے کے اوپر آمادہ ہوا اور اپنی فطرت کو بڑے ہی چالاکی اور پھرتی کے ساتھ کام میں لا کے ہماری ان والدین کو مجروح (زخمی)کیا۔ وہ ایسا ہی فطرتی اور شریر ہے کہ موقع پا کر چوکتا ہے۔

اس کی وجہین حوا کی تنہائی 

اگر کوئی پوچھے کہ شیطان نے اتنی عجلت (جلدی،شتابی)کیوں کی تو اس کے جواب میں اولاً میں یہ کہتا ہوں کہ حوا کی تنہائی کو اس نے غنیمت سمجھا۔ اس نے یہ دریافت کر لیا کہ اس میں آدم کی سی دلیری اور مستعدی(کمربستہ،ہوشیار) نہیں ہے اس لئے جب تک وہ اس سے الگ ہے تب تک اس پر غالب آنے کی ہر طرح سے امید ہو گی۔ اس کی فطرت نے آدم کی کمزوری کی خاص حالت کو اس کے اوپر آشکارا کر دیا اور جیسا کہ جب دشمن اپنے مخالف کو غافل اور تنہا پاتا ہے تب اس پر غالب آنے کے خیال سے فوراً اس پر اپنا حملہ کرنے سے باز نہیں آتا ویسا ہی اس نے اپنے اس موقع کو غنیمت سمجھ کے دیر ی نہ کی پر بلا تامل (بغیرسوچے،بغیروقفہ کے)اپنا ہاتھ صاف کیا اور اس کے غلبہ سے ہم اس کی ہوشیاری اور فطرتی و کینہ کش طبیعت کو جولانی (تیز فہمی،پھرتی)کو صاف صاف دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا اس روز یہ صاحب فطرت اپنے موقع کو غنیمت سمجھ کراپنا کام کر گیا ویسا ہی آج کے دن تک کرتا ہے۔ جب تک انسان خدا کی قوت بازو کے زیر سایہ زندگی بسر کرتا ہے اور اس کی صحبت سے الگ ہونا پسند نہیں کرتا ہے بلکہ روزہ اور نماز و دعا اور زاری اور حمد تعریف کے ذریعہ سے اپنے خداوند کا طالب رہتا ہے تب شیطان دور دور رہتا ہے لیکن جب انسان ان فضل کے وسیلوں سے کنارہ کشی کرتا ہے اور خداوند کی قوت بازو پر بھروسہ کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے ۔تب شیطان کو موقع ملتا ہے اور انسان اس شیر غران (دہاڑتے ہوئے شیر)کا صید (شکار)ہوتا ہے۔ اس مقدمہ میں ہم کو بیداری بخشنے کے لئے کلام میں یہ نصیحت آئی ہے کہ شیطان کو دل میں جگہ نہ دو اس کا مقابلہ کرو تو وہ بھاگ نکلے گا۔ 

حوا کا پہلے گناہ میں پھنسنا 

شیطان نے یوں موقع پاکے حوا کے اوپر جو اپنا دام چھوڑا اور میٹھی میٹھی باتوں سے اس کے دل کو فریفتہ کر لیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں اس کے مقابلے کی سکت نہ رہی۔ ان کی نگاہ ان مژآویزاں (پلکوں پر)کی خوشنمائی کے اوپر گھڑ گئی اس درخت نے ان کو دیوانہ کر دیا اور وہ اپنی حد اعتدال سے باہر ہو گئیں۔ وہ امتحان ان کی حد سے زیادہ ہو گیا ان کے حوصلے نے طبیعت میں آگ لگائی۔ دیکھو ان کا ہاتھ بڑھتا ہے اس شجر کا ثمر ان کو خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ وہ ٹوٹ کے ان کے ہاتھ تک پہنچا ہے۔ وہ ان کے ہونٹوں سے کیا لگتا ہے۔ کہ گویا قیامت برپا ہوتی ہے۔ اور ایک آن کی آن میں(ذراسی دیرمیں) کام تمام ہوتا ہے۔ کاش اس وقت تک بھی ان کو ہوش آتا لیکن حال بے حال تھا۔ سو احوصلے اور زیادہ جلال اور بزرگی کے خیال کے سب کچھ نگاہ سے گرا ہوا تھا۔ جس طرح کہ بھو کا غلبہ اشتہا(خواہش،بھوک) سے کھانے کے اوپر ٹوٹتا ہے ویسا ہی ان کو یہی ایک منہ مار لینے کا اشتہالہ(جوش) ملتا ہے۔ یہ اشتعالہ تو کیا تھا کہ گویا سم (زہر)افعی کا پھیلنا تھا۔ اس نے ان کی رگ رگ اور بند بند میں بلکہ ان کی کل انسانیت میں سرایت کی(جذب ہوجانا، رچ


جانا)۔ اور یوں پیالہ ناموس (شرم،عزت)کا پاش پاش ہوا تب تو آنکھیں کھولیں لیکن اب کیا تھا بندہ تو اپنا مطلب کر کے چل ہی دیا تھا۔اب سوا حسرت کے اور کچھ باقی نہ رہ گیا۔ اب صرف ایک ہی بات رہ گئی تھی کہ ان کا ہمد م و ہمراز بھی ان کی ہمدردی کے لئے ان کی مصیبت میں ان کا ساتھ دیتا سو وہ بھی بر آیا وہ اس پھل کولئے ہوئے اپنی شوہر کے پاس آئیں ۔حضرت آدم نے بھی اس وجہ کے شاید ان کو اپنے ہم جنس کا رنج جدائی گوارا نہ تھا یا کہ اور کسی وجہ سے مطلق استفسار(پوچھ گُچھ) نہ کیا اور نہ یہ سوچا کہ اس ثمر ممنوعہ کی کہانی سے کیا کچھ ستم نہ برپاہو گا۔ حضرت نے بھی اپنی معشوقہ کے ہاتھ سے لے کر اس کو کھا ہی تو لیا۔ وہ قیامت یک نشد ودشد دونوں کی دونوں بگڑی۔ تب تو ایک اور ہی منظر پیش آیا۔ سب کچھ تہ و بالا ہو گیا طلسم ٹوٹ گیا آنکھیں کھل گئیں چھکے چھوٹ گئے ۔ کیا تھا کیا ہو گیا چلے تھے بننے کو بہتر اور جلالی ۔ ہو گئے بد تر اور ناری۔ جہنم نے منہ کھول دیا اور ان کے خون کا پیا سا ان کے اشتیاق میں بیٹھا۔ قبر نے بھی منہ پھیلایا اور اپنی غذا طلب کی بموجب اس ارشاد کے کہ ’’جس دن تو اسے کھائے گا تو مرتے مرے گا‘‘۔اے یارو اب تو منظر دگر گون (مختلف)ہو گیا۔ یہ عالم سبزہ زار وادی مر گ زار (موت کی وادی)ہوا اس کی خوشنمائی کے بدلے میں جان وبال میں پڑ گئی۔ تن عریانی کا لباس بیداغ خشک ہونے والی پتیوں کے ملبوس سے بدل گیا۔ خدا کی رفاقت دور ہوگئی اور اس کی شیریں آواز خوف کا معدن بن گئی۔ 

آدم کا اس پھل کے کھانے کی حماقت 

گو یہ بات درست ہے کہ شیطان نے اپنا تیر حوا کے اوپر چلانا مناسب سمجھا اور ان کااپنے خالق کی اطاعت سے منحرف کروایا پر آدم کا ان کی خطا میں شریک ہونا بڑی حماقت کی بات تھی۔ ان کی طبیعت میں تو زیادہ تر استقلال تھا پس حضرت نے بے تامل ایسا کام کیوں کیا۔ کیا ان کو اس پھل کی شناخت نہ تھی۔ ممکن تھاکہ حضرت اس بات سے ناواقف ہوتے کیو نکہ وہ تو ہر روز اس کو دیکھتے تھے اور از بس کہ ان کی پہچان کامل تھی ان سے خطا کا ہونا اور اپنی بی بی کے ساتھ اپنے خالق کی نافرمانی میں شریک ہونا نہ صرف ان کی حماقت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کے جرم کو بھی سخت تر بنا دیتا ہے یوں ہر چند کہ آن حضرت نے اپنی معذرت میں یہ کہا کہ اس عورت نے جسے تو نے میرے ساتھ کر دیا مجھے اس درخت سے دیا اور میں نے کھا یا تا ہم یہ عذر ایسا نہ تھا کہ جس کے باعث وہ سزا سے بری ہو سکتے ۔ چنانچہ جب ان کی سزا کا حکم نامہ ان کوسنایا گیا تو ان کو اس بات کے کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ میں اس امر میں بے قصور ہوں۔ حضرت نے قصداً اور دیدہ ودانستہ اپنے کو بلا میں پھنسایا اور اب کوئی چارا ان کی حماقت کا باقی نہ رہا بجز اس کے کہ وہ اپنی خطا کاری کے تلے سکوت کرتے اور اپنے کئے کا پھل پاتے۔ اگر آدم اپنی زوجہ دل بند و جگر پیوند کی آواز کے شنوا ہونے کے عوض میں بموجب اپنے فرض کے اپنی خالق کی آواز کر شنوا ہوتے اور اپنے دل میں یہ عہد کرتے کہ جو ہو سو ہو میں اپنے خداوند کے حکم سے ہر گز تجاوز نہ کروں گا۔ اور اپنے اور اپنے خالق کے درمیان میں کسی شے کو وہ کیسی ہی عزیز کیوں نہ ہو منفصل(علیحدہ کیا ہوا) کرنے یا خلل انداز ہونے نہ دوں گا تو کس لیے اس بلا میں مبتلا ہوتے اور انہوں نے کہیں ایسا نہیں فرمایا کہ میں نے لا علمی سے یہ کام کیا۔ شرط اطاعت تھی۔ آدم نے اس شرط کو کسی وجہ سے کیوں نہ ہوعدول کیا۔ اور یوں نہ صرف حوا کی نافرمانی میں شریک ہوئے پر آپ بھی فی نفس (خواہش)نافرمانی کے مرتکب ہونے میں اپنی حماقت اور قصورواری دونوں کو بخوبی عیاں و آشکارا کر دیا۔ 


ان کے جرم کی ثقالت 

اس نافرمانی کی خطا میں کئی وجوہات ایسی تھیں کہ جن کے باعث سے آدم نہ صرف قصورار ٹھہرے لیکن ان کا جرم نہایت ہی شدید اور سنگین و ثقیل (ناقابل ہضم،بھاری)ہو گیا۔ 

اس ثقالت کے درجہ اول 

ان کے جرم کی ثقالت(بھاری پن) کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسی جگہ میں سر زد ہوا کہ جہاں سب سامان اطاعت اور تابعداری کی طبیعت کے پیدا کرنے میں ممد تھے۔ فضل جس قدر زیادہ ہوتا ہے۔ اسی قدر جواب دہی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ بات ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے کہ جب کسی بے حقیقت شخص سے کوئی بے جا حرکت صادر ہو جاتی ہے تو لوگوں کو چنداں اس کا خیال بھی ہوتا ہے کیو نکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ابلہ(نادان) سے کسی فعل ناشائستہ کا ظاہر ہونا اس کی ذات اور حالت سے بعید نہیں ہو سکتا ہے۔ اور کہ شاید بے سامانی کی وجہ سے اس کو اشتعالہ ہوا ہو ۔ لیکن جس قدر آدمی صاحب عزت و توفیق اور اہل مرتبت ہو اسی قدر اس کی بیوفائی لوگوں کو شاق (دشوار،دُوبھر)گزرتی ہے اور اس کو سزا بھی اکثر شدید دی جاتی ہے تا کہ اور وں کے لئے عبرت ہو۔ اسی طور پر جب آنحضرت کے پاس اور ان کے سامنے ہر طرح کے سامان خوشی و شادمانی اور اطاعت کی تحریک پیدا کرنے کے لئے موجود اور ممدو معاون تھے تو ان کی نافرمانی گو یا ان سارے معاملوں کو پامال کر کے اپنی طبیعت کی خرابی کو انکے اوپر فوقیت دیتی تھی۔ تو کیا ایسی حالت میں ان کا جرم ہلکا متصور ہو سکتا ہے ۔ پس قصداً خواہ امتحاناً ایک ممنوع امر کا کرنا جس میں خدا کی کبریائی(عظمت) ذلیل و خفیف ہوتی تھی۔ ان کے جرم کی سختی کو حد درجہ تک آشکارا کرتی اور ان کو سزا وار عذاب بنا دیتی ہے۔ خدا کا حکم ماننا ان کا فرض اول اورایک عمر بھر کا کام تھا اور اس کی بھی عین خوشی اسی بات میں تھی کہ میرا حکم مانا جائے اور اسی غرض سے یہ حکم صادربھی فرمایا گیا تھا۔ خدا کا حکم ماننا مینڈ ھوں کی فربہ چکنائی کی قربانی گزراننے سے بہتر ہے۔ اور اس سے غافل رہنا یا اسے منحرف ہونا سخت ترین جرم ہی اور کوئی عذر اس کے معاوضہ میں نہ پیش آ سکتا ہے ۔ نہ قابل پذیرائی کے ہو سکتا ہے۔ ہمارے مبارک منجی نے بھی اس مقدمہ میں خود اپنی زبان مبارک سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ نوکر جس نے اپنے آقا کی مرضی جانے پر اپنے تئیں تیار نہ رکھا اور ان کی مرضی کے موافق نہ کیا بہت مار کھائے گا۔ پر جس نے نہ جانا اور مار کھانے کا کام کیا تھوڑی مار کھائے گا۔ سو جسے بہت دیا گیا ہے اس سے بہت حساب لیں گے اور جسے بہت زیادہ سونپا گیا ہے اس سے زیادہ مانگیں گے (لوقا ۱۲ : ۴۷- ۴۸) ۔

اس ثقالت کی وجہ دوم

آدم کا جرم اس وجہ سے سنگین اور شدید ہو گیا کہ وہ خدا کے جلیل حضوری کے برعکس سر زد ہوا۔ وہ تو ساری خوشی اور سلامتی و برکت بلکہ جتنی چیزیں کہ قابل پسند یا خواہش کے ہیں سب کا چشمہ مملو دو افر ہے تو پس کون سی بات ایسی تھی کہ جو آدم کے لئے اس کے چشمہ فیض یا گنجینہ(خزانہ) محبت میں نہ تھی۔ لہٰذا اس صورت میں نافرمانی کرنا گویا اس کی جناب جلیل کی تحقیر کرنا۔ اور س سے آسودہ نہ ہو کر ایک دوسرے کو جو اس کی قابلیت نہیں رکھا قبول کرنا تھا۔ خدا کے کلام کے اوپر شک کرنا جس کی رحمت اور محبت اور شفقت اور شان و کبریائی کی علامت سے دنیا پر تھی اور ایک مخلوق کی بات کو ماننا گو فرشتہ ہی سہی گویاخدا کے فرمان کو ذلیل و خفیف کرنا تھا۔ اوراز بس کہ آدم کو اس کی پہچان حاصل تھی اور وہ اپنے خالق کے صفتوں سے بخوبی آگاہ


تھے کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ جس سے وہ کسی دوسرے کے کلام کو اس قادر مطلق و تسلی دہ کے کلام کے اوپر فوقیت دینے اور اس خوشی کے علاوہ جو خدا کے دیدار اور اس کی صحبت سے ان کو حاصل تھی کسی دوسری طرف سے اپنی خوشی کو افزوں کرنے یااپنی راز جوئی بے غرض سے رجوع کرنے کی رغبت و خواہش رکھتے۔ ایسی رحیم و کریم بر کتوں کے داتا سے رو گردانی کرنا محض حماقت کو آشکارا کرنا تھا اور دوسرے کی آواز کا شنوا ہونا عین نا شکری تھی کیو نکہ نعمتوں کا بخشنے والاخدا ہی تھا شیطان سے کب کوئی فائدہ کی بات یا سلامتی کی حقیقت ان کے ساتھ آ سکتی تھی۔ حکم خدا کا تھا اور اس کے حکم کو نہ ماننا اس کی عظمت اور بزرگی و جناب جلیل کے برعکس خطا کرنا تھا۔ اس سے زیادہ ثقالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ 

اس ثقالت کی وجہ سوم 

آدم کا جرم اس وجہ سے بھی ثقیل ہو گیا کہ آنحضرت نے نہ صرف اپنی ہہ کو برباد و تباہ کر کے خود کشی کی بلکہ وہ عہد صرف انہیں کے لئے نہیں بلکہ ان کی اولاد کے لئے بھی انہیں کے ساتھ باندھا گیا تھا اس عہد شکنی کے باعث سے انہوں نے اپنی اولاد کو بھی جو اب تک ان کے صلب میں مخفی تھی برباد کیا اور خود کشی کے ساتھ اپنی اولاد کشی کی سخت تر جرم کے بھی مرتکب ہوئے۔ جس حال میں کہ خدا نے آنحضرت کے تئیں ایک امانت سونپی تھی تو اس حال میں اگر اپنا خیال نہ کرتے تو چاہئے تھا کہ ان کے آنے والی اولاد کا خیال ان کو اس نا مناسب فعل کی طرف سے روکنے کے لئے اشتعالہ اور تحریک دیتا اور ان کو زیادہ تر احتیاط کی طرف رجوع کرتا۔ لیکن اس حکم کی نافرمانی سے گویا کہ انہوں نے امانت میں خیانت کی اور اس شرع اخلاقی کو جو ان کے دل کے اوپر لکھدی گئی تھی بالکل محوکر دیا اور اپنی اولاد کے صدو ر سے پیشتر ان کے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور اپنے ساتھ ان کو بھی شیطان کا مطیع اور مغضوب (جس پر غصہ ہو)الٰہی بنا دیا۔ پس اس میں ان کی کیسی نادانی ظاہر ہوتی ہے۔ 

اس ثقالت کی وجہ چہارم 

آدم کے جرم کی سنگینی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا یہ کام ان کی مرضی کی آزادی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ خدا نے اپنی بڑی رحمت سے ان کو اس بات کی نسبت یہ ہدایت کر دی تھی کہ اس پھل سے نہ کھانا ور نہ تمہاری سزا نہایت ہی سخت ہو گی لیکن اس تا کید کی طرف سے اپنے کان کو بند کر کے گویا خدا کی یاد کی صداقت کا امتحان کرنا چاہا۔ شیطان تو صرف اس امرکی نسبت ترغیب دے سکتاتھا۔ پر جبراً اس کے دل اوپر غالب نہ آ سکتا تھا ایسی حالت میں ان کا شیطان کی باتوں کا شنوا ہونا یا حوا کے خلاف باتوں کے اوپر عمل کرنا محض ان کے اپنی ہی طبیعت سے تھا۔ چاہئے تھا کہ ان کا یہ خیال ہوتا کہ خدا ہی اکیلا اس قابل ہے کہ اس کی بات سنے اور ان کے اوپر عمل کیا جائے کیو نکہ جو کچھ تھا سب اسی کے طفیل اور فضل سے تھا اور کہ کسی دوسرے کا وہ کیسی ہی چکنی اور چپڑی باتیں کیوں نہ کرے حق نہیں ہے کہ کوئی ایسی بات کہے جو کہ شنوائی کے قابل ہو۔ اگر یہ خیال اس وقت ان کے دل میں آتا تو ان کو اور ان کی اولاد دونوں کو کیسی خوش نصیبی حاصل ہوتی لیکن چونکہ اس عہد شکنی نے بے دبدبہ اور بلا جبر صدور پایا اور خدا حق اور اس کی برکت فراموش کر دی گئیں اور ان کا جرم بھی زیادہ ثقیل ہو گیا۔ 


اس ثقالت کی وجہ پنجم 

ان کے جرم کی ثقالت کی پانچویں وجہ یہ تھی کہ ان کی طبیعت میں بدی کی طرف رجوع کرنے کا مادہ نہ تھا پر پاکی کی نسبت ان کو کامل آزادی حاصل تھی اور اس قدر فضل ان کے دست قدرت میں تھا اپنے ممتحن(امتحان لینے والا) کا مقابلہ کر کے اس کے اوپر بخوبی غالب آنے کے لئے کافی اور بہر صورت کار گر تھا۔ خدا نے آدم کو بدی کرنے کی طبیعت نہیں دی تھی پر کرنے اور نہ کرنے دونوں کی نسبت ان کو آزادی حاصل تھی۔ تو ایسی نعمت اور وسیلت کی طرف سے بے پروا ہو کے بلارغبت کے ایک غاصب (زبردستی کسی کا حق چھینے والا)کی بات کا سننا اور اس کے اوپر عمل کرنا گویا یہ کہنا تھا کہ ہم کو پاکی کی نسبت آزادی کی طبیعت حاصل تھی ہی نہیں اور اس کے استحقاق کو حقیرسمجھ کر شیطان کے ہاتھ میں اس کو بیچ ڈالتا تھا۔ 

اس ثقالت کی وجہ ششم 

اس سختی وجہ اس میں پائی جاتی ہے کہ اس حکم کے دینے میں یہ مطلب متصور تھا کہ خدا ہی اکیلا حاکم العالمین سمجھا جائے اور یہ کہ جتنی مخلوق ہستیاں ہیں سب اسی کے تحت میں ہیں۔ چنانچہ بطور نتیجہ کے یہ خیال اس میں سے پیدا ہوتا ہے کہ ان پر بدرجہ اولی یہ فرض و واجب تھا کہ اپنے خالق ہی کی تابعداری میں قائم رہتے۔ پس اس تابعداری سے رو گردانی کرنے میں آدم نے خدا کے اس اسحتقاق کی تحقیر کی اور گویا یہ کہا کہ اس کا کیا حق ہے کہ وہی اکیلا ہم پر متسلط(قبضہ کرنے والا) ہو۔ یوں یہ گناہ خدا کی عزت اور شان دونوں کے برعکس ہو گیا اور انسان کے وجود کی نسبت جو خدا کی علت غائی تھی یعنی کہ وہ خدا ہی کی صحبت میں شاد ہے بالکل بدل گئی اور آدم کی راستبازی کی عادت امتیازی الٹ گئی۔ یوں یہ نافرمانی تو دیکھنے میں چھوٹی معلوم ہوئی پر اس کا نتیجہ اس کے اندازےسے زیادہ تر سبقت لے گیا۔ آدم کے لئے سب سے بہتر یہ بات ہوئی کہ اس نافرمانی کے اول خیال کو اپنے دل میں اٹھنے نہ دیتے یا یہ کہ جب ایسے خیال کی رغبت ہوتی یا اس کی تحریک ملتی تب اپنے خالق کی محبت اور اس کے فضل کے طالب ہو کر ان خیالات کو اٹھنے کے ساتھ کل عدم کر ڈالتے اور نہ اپنی شفیقہ(مہربان،غمخوار) کو اپنے پاس سے جدا ہونے دیتے۔ نہ آپ اس کی نہ شیطان کی باتوں کی طرف کسی نوع سے متوجہ ہوتے اس کے سوا اور کوئی بات ان کو پاکی کی حالت میں قائم رکھنے کے لئے کار گر نہ ہو سکتی تھی ۔ اس سے آدم زاد کو بھی تعلیم لینا چاہئے کہ جب کوئی ایسا ناشائستہ و نازیبا خیال وبرعکس خیال دل میں اٹھے جو خدا کے اور ان کے درمیان میں منفصل کرنے والا ہے تو اس خیال کو ابتدا میں روکیں اور اپنی فکر و اندیشوں کو خدا کے اوپر ڈالیں ۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔ سری چشمہ د گرفتن بہ میل چوپر شد نشاید گزشتیں بہ پیل ۔ یعنی جب کہ چشمہ چھوٹا ہے تو اس کو سلائی سے بند کر دے سکتے ہیں پر جب وہ بھر گیا تو ہاتھی کا روز بھی اس کو روک نہیں سکتا ہے۔ اس مقدمہ میں کلام کی ہدایت یہ ہے اس لئے خدا کے تابع ہو جاؤ۔ شیطان کا سامنا کرو اور وہ تم سے بھاگ نکلے گا۔(یعقوب ۴: ۷)۔

خلاصہ الکلام

اوپر کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ دلائل پیش رفتہ سے صاف عیاں ہے کہ آدم کی گشتگی ایک بلا ئے جاں گداز(دل پر اثر کرنے والا) تھی اور وہ کیو ں کر بسبب کئی ثقالتوں کے عظیم اور شدید سنگین ہو گیا اور ان کی حالت کو خطرناک بنا ڈالا اور حسرت کے سوا کوئی بات باقی نہ رہی۔ یعقوب حواری کی نصیحت یہاں بہت برجستہ (بروقت)ثابت ہوتی ہے۔ مبارک وہ آدمی جو آزمائش کی برداشت کرتا ہے اس واسطے کہ جب وہ آزمایا گیا تو زندگی کا تاج جس کا خدا نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کیا پائے گا۔ (۱-یعقوب ۱: ۱۲)۔

چھٹا باب

آدم کی برگشتگی کے نتیجوں کا تذکرہ

آدم کی نافرمانی آفت کلی کی بنیاد 

اگر کسی کا رفیق و شفیق بلکہ لخت جگر کوئی ایسا کام کرے جو اس کے بزرگوں کی شان کے برعکس ہو اور جس سے اس کی عزت میں ذلت و قباحت لازم آئے تو اس کا جی اس عزیز کی طرف سے کیسا برداشتہ خاطر اور بیزار ہو جائے گا اور فوراً اس کی نگاہ بدل جائے گی اور شفقت کے بدلے میں وہ اس کی قہر و عتاب میں پڑے گا بلکہ بیزار ہو کر اس کی صحبت سے متنفر (نفرت کرنے والا)ہو جائے گا۔ ویسی ہی کیفیت حضرت آدم کی نافرمانی سے ظہور میں آئی۔ جو نسبت طبعی کہ آدم کے اور خدا کے بیچ میں تھی اس سے نافرمانی کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ اول تو خدا وند عالم کے باعث نا خوشی اور جدائی کا ہو اور دوسرے اس کی وجہ سے اس کی روح میں بھی خرابی و فسادد رآئی۔ پھر اس نسبت ابدی سے جو خدا نے اپنے فضل کے انتظام میں آدم کے ساتھ باندھاتھایہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عہد شکنی کی سزاا سے بچنا محال تھا چنانچہ اس سزا میں تین باتیں تھیں۔

۱۔ جسم کا فنا ہونا 

  ۲۔ روح انسا ن کی ابتری 

۳۔ ابدی موت 

اس ماہیت کے اوپرسوچنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ساری مصیبتیں جو انسان کے لاحق ہو سکتی ہیں ان کی دامنگیر ہوئیں۔ اور مثل بھی مشہور ہے کہ آفت اکیلی نہیں آتی ہے پر اپنے ساتھ انواع واقسام کی خرابیاں لاتی ہے۔ ہنود کہتے ہیں کہ

جس وقت ہنومان نے لنکا میں آگ لگائی تھی اس وقت بادنوں ہوائیں چلتی تھیں یعنی نہ ایک نہ دو بلکہ آفتوں کا ایک ایسا سلسلہ بندھ گیا تھا کہ کسی پہلو میں زندگانی کی صورت نظر نہ آتی تھی۔

زبور کے مؤلف نے (زبور ۳۰: ۵) میں یہ لکھا ہے کہ’’ خداوند کے کرم میں زندگانی ہے تو اس سے بطور نتیجہ کہ ہم یہ بات نکال سکتے ہیں کہ جب اس کے کرم کی نگاہ اٹھ گئی تو بس چھٹی ہے اور وہ قیامت جب زندگی گئی تو سب کچھ گیا اور جہان خدا کی نگاہ ہٹی وہاں جو کچھ نہ ہو سو تھوڑا ہے۔ جتنی آفتیں کہ اس دنیا میں موجود ہیں خواہ جسمانی خواہ روحانی سب کا صدور اسی نافرمانی کے مادہ میں پا یا جا تا ہے۔ کیو نکہ جب سے یہ عہد شکنی ظہور میں آئی تب ہی سے ہر طرح کی خرابی اور تاریکی کے کاموں کا ظہور ہوا چنانچہ کلام کا منشا بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور ان خرابیوں کے اوپر لحاظ کر کے رسول ان کو جو بے خدا ہیں یہ الزام دیتا ہے تم اپنی باپ شیطان سے ہو اور چاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہش کے موافق کرو تو شروع سے قاتل تھا اور سچائی پر ثابت نہ رہا (یوحنا ۸: ۴۴) اور یعقوب رسول بھی فرماتے ہیں کہ ہر شخص اپنی خواہشوں سے لبھا کر اور حال میں پہن کر امتحان میں پڑتا ہے۔ سو خواہش جب حاملہ ہوتی تب

گناہ پیدا کرتی اور گناہ جب تمامی تک پہنچا موت کو جتنا ہے (یعقوب ۱: ۱۴-۱۵ )۔ آدم کے دل سے آفت کی شدت کو پوچھا چاہیے بموجب اس شعر کے کسی کا درد دل یارو کوئی بیدرد کیا جانے۔ وہی جانے وہی سمجھے مصیبت جس نے جھیلی ہو۔ اگر ہم آدم کے ساتھ ہو کر ان کے ہمراہ باغ عدن سے نکلیں اور ان کے رنج و غم میں شریک ہو کے ان کے قدم کی نقش پر اپنے قدم رکھیں تو صاف اس کے نتائج سے واقفیت حاصل کر لیں گے کیو نکہ لکھا ہے کہ خدا کا غضب نافرمانی کے فرزند پر پڑتا ہے اور اس میں سب کچھ شامل ہے۔ یوں آدم کی نافرمانی آفات کلیہ کی بنیاد ہو جاتی ہے۔ 

ان آفات کی نوعیں 

جن آفتوں اور مصیبتوں کا یا آدم نے اپنے سر کے اوپر پایا ان کو ہم تین نوع پر تقسیم کرتے ہیں۔ 

۱۔ کہ روئے زمین کے اوپر کے سبب سے لعنت آئی 

۲۔ کہ آدم کا جسم آفتوں اور کمزور ہونے کا متحمل ہوا اور ان کی طاقتوں میں لاغری سرائت کر گئی۔ 

۳۔ تیسری کہ ان کی روح آفات ابدی میں پڑی اور اس کی ساری استعداد یں اس قدر ضعیف ہو گئیں کہ حکم الٰہی کے بجا لانے کی نسبت مردہ ہو گئیں اور جو خواہش کسی قدر موجود تھی بھی تو بھی اس کو بخیریت انجام تک پہنچانے کی ان میں سکت نہ رہ گئی۔ بموجب پولُس رسول کے اس تجربہ آمیز کلمہ کے کہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی اچھی چیز نہیں بستی کہ خواہش تو مجھ میں موجود ہے پر جو کچھ اچھا ہی کرنے نہیں پاتا اور کہ جب میں نیکی کیا چاہتا ہوں تب بدی مجھ پاس موجود ہے(رومیوں ۸: ۱۸-۲۱) 

زمین کا لعنت کے تلے آنا 

ان تینوں نوعوں (اقسام)کا چرچا جس کا اوپر مذکور ہوا اور جو آدم کی نافرمانی کی وجہ سے ظہور میں سرد ست سلسلہ وار کرنا مطلوب ہے چنانچہ اولاً اس کی اس تاثیر کا بیان کرنے گے جو کہ ان کی نافرمانی کے باعث سے روئے زمین کے اوپر ہوئی۔ زمین ان کے سبب سے عموماً لعنت کے تلے لائی گئی جیسا مؤلف الہٰامی نے صاف فرمایا ہے کہ خدا نے آدم سے کہا اس واسطے کہ تو نے اپنی جورو کی بات سنی اور اس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم کیا کہ اس سے مت کھانا زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی (پیدائش ۳: ۱۷) وہ زمین جو اب تک ان کے لئے معدن شادمانی و فرحت و بشاشت و رافع کدورت و دافع عسرت اور جائے استقامت اور متانت فلاحت بخش تھی یعنی مصدر و منبع برکت تھی اس کی حالت اب تبدیل ہو گئی۔ اس کے سامان مسرت بخش بالکل مسدود (بند)ہو گئے اس کی طاقت ضائع ہو گئی۔ اس کی استقامت بے اقامت ہو گئی اس کی وہ صفت جو ارفع کدورت اور دافع عسرت تھی اس کے برعکس کدورت و عسرت کے زیادہ کرنے کے لئے وسیلے بن گئے۔ غرض کہ بموجب اس مثل کے بگلے کےمارنے سے سوائے پر کے اور کیا ہاتھ آتا ہے ۔سوا حسرت اور کلفت(رنج ،کدورت) کے اور ساری باتیں نادر(نایاب) ہو گئیں ۔واہ یہ کیا ہوا اور کیسا ہوا۔ برکت لعنت سے مبدل ہو گئیں اور معدن خوشنودی معدن رنج والم ہو گیا۔ یوں آدم کی آسائش جسمی میں صورت انقلاب کی نمودار گئی۔ زمین خداوند کی رحمت سے معمور کر دی گئی تھی ۔اب وہ حالت رہ گئی کہ جیسا یسعیاہ بنی نے فرمایا ہے۔ زمین غمگین ہوتی اور مرجھاتی ہے۔ جہان بیتاب اور پژمردہ ہوتا سر زمین ان کے نیچے جو اس پر بستے ہیں نجس ہوئی کہ انہوں نے شریعتوں کو عدول کیا قانون کو بدلا عہد ابدی کو توڑا اس سبب سے لعنت نے سر زمین کو نگل لیا وغیرہ (یسعیاہ ۴۴: ۴-۶) ۔اسی کلام کے منشا کے مطابق انجیل میں بھی یوں آیا ہے کہ خلقت بطالت کے تحت میں آئی کیو نکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت مل کے اب تک چیخیں مارتی اور ا سے پیڑیں لگی ہیں (رومی۲۰:۸۔۲۲) ۔


اس لعنت کا نتیجہ

جو نتیجہ اس لعنت کی وجہ سے صادر ہوا اس کا بیان کلام میں یوں ہوا ہے وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اگائے گی۔ جب یہ زمین خدا کے ہاتھ سے خلق ہو کر نکلی تھی تب معموری اور زندگی سے مملو تھی پر اب اس کی زرخیزی شور یدگی (پریشانی،دیوانگی)سے بدل گئی اس کی برکت اس کی ماہیت بار آور تھی اب وہ برکت اور لعنت میں بدل گئی اور بار آور ہونے کے بدلے میں وہ بنجر ہو گئی اس کی ہئیت ابتدائی میں اور اس ہیئت میں جو لعنت کے باعث سے ظہور میں آئی آسمان اور زمین کا فرق نظر آتا ہے اور حضرت ایوب کی وہ بات راست آتی ہے کہ’’ میں نے بیابان کو اس کا گھر مقرر کیا اور کھارے دشت کو اس کا مسکن (ایوب ۳۹: ۶) ۔یہ نتیجہ کیسا برعکس اور مضر نکلاشادابی اور شگفتگی کے بدلے میں ویرانی اور خارزاری کا منظر ظہور میں آگیا اور یہ حالت اس حالت سے کیسی برعکس تھی کہ جس میں خلقت کے وقت یہ زمین رکھی گئی تھی۔ گناہ نے کثرت میں قلت ڈالی اور روئیدگی میں سے شوریدگی پیدا کی۔ جہاں انسان کے لئے افراط اور کثرت اور بہتات تھی وہاں اب زیادہ تر قلت نظر آتی ہے۔ اور راحت و فرحت کی عوض میں تکلیف اور رنج کا سامنا ہو گیا ۔یوں خلقت گویا ہم سے یہ کہتی ہے کہ انسان کی خرابی نے مجھ کو ایسا تہ و بالا کر دیا ہے کہ میرا سلسلہ برعکس کر دیا۔ چنانچہ جب تم مجھ سے آسائش کے طلب گار رہو گے تب میں خار اور کانٹے و اونٹ کٹارے دکھلا کے تم کو شرمندہ کروں گی اور خجالت و رسوائی میں ڈالوں گی تا کہ تم کو یاد رہے کہ جیسا تم نے اپنی بے اطاعتی سے مجھ کو مورد لعن بنا دیا ویسا ہی تم پر بھی یہ بات آشکارا ہے کہ کوئی کانٹوں سے انجیر اور زیتون سے انگور کا منتظر نہیں ہو سکتا ہے۔ زندہ خدا کے ہاتھ میں کسی عنوان سے پڑنا ہولناک ہے اور کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی مخالفت کر کے کامیاب ہو سکے یا اپنے کو اس کے ہاتھ سے چھڑا سکے۔ 

آدم کا جسمانی تکلیف پڑنا 

اس نافرمانی کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم کا جسم اب نحیف (کمزور،لاغر)کے صدمے کا متحمل ہوا۔ اب تک زمین آسانی سے قدرے ہی محنت میں جو اس کے اوپر بار گران خاطر نہ ہو سکتی تھی ہر طرح کے سامان آسائش بہم پہنچا دیتی تھی۔ باغ عدن کی خوبیاں جو ان کے جسم کے لئے راحت بخش اور ان کی معموری شکم اور حلاوت(مٹھاس ،راحت) ذہن کے لئے غذا ئے لطیف مہیا کرنے کے لیے آپ میں حیثیت اور لیاقت و گنجائش رکھتی تھی اب ان کے لئے اپنی طاقت کے عطا کرنے سے منکر ہوتی ہیں ہاں انسان کے ہاتھ سے روٹی چھن گئی اور ان کا جسم باعث محنت کے عاجز و پریشان ہوتا ہے حتیٰ کہ سر کا پسینہ ماتھے پر سے ٹپک کے پاؤں کے تلوے تک پہنچتا ہے تو بھی وہ اپنا زور اس کو نہیں دیتی ہے اور جو کچھ اس کو ملتا ہے وہ فی الحقیقت اس کے لئے بڑی گاڑ ھے پسینے کی روٹی ہے اس کا آرام کے ساتھ کھانا محنت کی تلخی میں بدل گیا اور اس لعنت میں وہ بات مفہوم ہوئی جو خدا وند نے قائن کے حق میں کہیں ’’جب تو زمین پرکھیتی کرے گا وہ پھر تجھے اپنا حاصل نہ دے گی اور زمین پر تو پر یشان اور آوارہ ہو گا (پیدائش ۴: ۱۲) ۔تا ہم شکر کا مقام ہے کہ اگرچہ خداوند ہمارے گناہوں کے سبب سے ہم سے بیزار ہے لیکن وہ قہر کے درمیان اپنی رحمت کو یاد کرتا ہے کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ ہم خاک ہیں اور اپنے


باقی قہر کو روکتا ہے۔ ایسا کہ جو کچھ اپنی تباہ اور خراب و خستہ حالت میں ہم زمین سے پاتے ہیں۔ وہ بھی اسی کی عین رحمت ہے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا جھنجلانا دائمی نہیں اور وہ اب بھی اپنا فضل دینے کے لئے تیار ہے۔ اے گنہگار اپنی پریشانی کو اپنے گناہوں کا واجبی نتیجہ سمجھ پر شکر کے سجدے میں خدا وند کے آگے فروتنی اور عاجزی کے ساتھ خم ہو کیو نکہ اس کی لطیف رحمتیں اور اس کے سارے کاموں آشکارا ہیں اور وہ اپنے عدل میں بھی سچا اور راست ہے ۔بے شک وہ عدل کے بیچ میں رحمت کو یاد کرتا ہے اور ساری چیزوں کو پھر بھی اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے کار گر بناتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو زمین کویک لخت لوہے کا سابنا دیتا کہ انسان محنت کرتے کرتے مر جاتا تو بھی اس میں روئیدگی تک نظر نہ آتی لیکن اس کو صرف اتنا ہی سزا دینا پسند آیا کہ وہ اپنا پھل دینے سے انکار نہ کرے پر یہ کہ اپنا پورا حاصل ان کی محنت کی بموجب نہ دے۔ ’’وہ کانٹے اور اونٹ کٹارے تیرے لئے اگائے گی‘‘۔ 

خواہش کی ابتری 

اس کے شمول (شمولیت)میں ان کی جسمانی تکلیف کی زیادتی اس بات میں پائی جاتی ہے کہ ان کو یہ فتویٰ سنایا گیا کہ تو کھیت کے ساگ پات کھائے گا ۔ انسان کا جسم خاک سے بنایا گیا تھا اور اس مقدمہ میں اس کا مادہ جسمی مادہ حیوانی سے مشابہت رکھتا تھا اور صرف فوقیت روحانی میں اس کو فضلیت تھی ۔پس نا فرمانی کی وجہ سے وہ اپنے اعلیٰ اور بلند مرتبہ سے گر گئے اور ان کے اوقات گزاری بھی انہیں جانوروں کی مانند جو صرف سبزی پر زندگی بسر کرتے تھے آگئی۔ان کی غذا کی ماہیت میں تبدیلی آ گئی اور وہ جو باغ کی لطائف و تحائف کھاتے ہیں اب زمین کا ساگ پات کھانا ان کا حصہ ہوا۔ اس عالم کی اشیاء لطیف و تحفہ جات جو ان کی خاص غذا کے لئے مہیا کئے گئے تھے اب ان کے دسترخوان پر لائے جانے سے روکے جاتے ہیں اور وہ ہی سادہ چیزیں جو زمین پر پرورش حیوانات کے لئے از خود اگاتی ہے ان کا کل نان و نفقہ(گزارہ،کفالت) مقرر ہوتا ہے۔ فردوس کی بہتات اور عمدگی قلت اور سادگی میں آدم کی نافرمانی کے باعث سے تبدیل ہو گئی۔ یوں حضرت آدم کے حق میں وہ بات پوری ہوئی جو (احبار ۲۶: ۲۰) میں آئی ہے کہ’’ تمہاری قوت بے فائدہ خرچ ہو گئی کیو نکہ تمہاری زمین اپنا حاصل نہ بخشے گی اور نہ زمین کے درخت اپنا پھل دیں گے‘‘۔ اور وہ بھی جو (ایوب ۲۰: ۲۷-۳۰) تک کی مضمون میں آئی ہے ’’آسمان اس کی بدکاری کو آشکارا کرے گااور زمین اس کی برخلاف اٹھے گے اس کی گہرکی بڑھتی جاتی رہے گی اس کے انتظام کے دن میں وہ بہہ جائے گی ۔ خدا کی طرف سے شریر انسان کا یہی بخرہ ہے‘‘۔ یہ وہ میراث ہے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کی ہے۔

جسمی شادمانی کا غائب ہونا

لیکن نہ صرف آدم کی گزران ہی میں ابتری آئی بلکہ اسی سے ملحق (پیوستہ)ایک اور سخت ترین نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جسمی شادمانی بھی معدوم(ناپید،غائب) ہو گئی۔ جب زمین نے اپنا حاصل دینے سے انکار کیا اور ان کے محنت کا ثمرہ بھی ثمرہ ہو گیا تب ان کو کیا خوشی حاصل ہو سکتی تھی لیکن ان کی شادمانی اس وقت بالکل معدوم ہو گئی کہ جب وہ باغ عدن سے نکال دئیے گئے ۔تب آدم کی نظروں میں وہ شادمانی جو کہ بوسیلہ خلقت کے ان کو حاصل تھی جب کہ وہ مثل ان نعمت کے جو ایک خالق محب و فیاض کے ہاتھ سے ان کی آسائش اور اطمینان اور سر ور قلبی(دل کی خوشی) کی حیثیت کے ساتھ بچھایا گیا تھا بھی لطف ہو گئی اور ان مجموعہ نعمت کے عدم حصول نے ان کے خوشنودی کو کالعدم (معدوم،گویا کہ ہے ہی نہیں)کر دیا اور اس کا تکملہ یہ ہوا کہ باغ کی دید سے ان کا دل جو کہ غالباً بہلتا وہ بھی منع کیا گیا اور جب کہ وہ باغ عدن سے خارج کئے گئے تو اس کا غم مثل خار حسرت کے ان کے


دل کے اوپر کھٹکتا گیا اور زیادہ ترالم اس وقت ہوا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ میں نہ صرف براے چند ہ اس سے محروم ہوا ہوں پر ابد تک کے لئے اس میں مداخلت پانا محال ہوا کیو نکہ ان کے امتناع مداخل کے لئے خدا وند نے کروبیوں کو چمکتی تلوار کے ساتھ جو چاروں طرف پھرتی تھی مقرر کیا اور اس وقت سے آدم کے اس باغ میں داخل ہونے کی پھر خبر مطلق نہیں ملتی۔ وہ خارج کئے گئے تا کہ زمین کی کھیتی کریں اور اپنی منہ کے پسینے سے روٹی کھائیں اور ممکن نہ تھا کہ جب ان کے منہ کا پسینہ محنت کی شدت سے ٹپک کر ان کے پیروں تک پہنچتا اور پھر بھی ان کی قوت کا کما حقہ ثمرہ دیکھنے میں نہ آتا تو اس وقت کی یا د ان کو ستاتی کہ جب یہ تکلیف ان سے کو سوں دور تھی اور وہ اس بے لطفی سے محض نا آشنا تھے۔ جہاں ایسی حسرت ہو وہاں خوشنودی کیو ں کر ممکن ہو سکتی تھی۔ کیو نکہ خوشنودی میں اس وبال سے فارغ البالی مطلوب و مقصود ہے ۔ہائے گناہ نے کیا کیا کہ نہ صرف کمزوری اور طاقت جسمی میں لاغری کو ڈال دیا ایسا کہ بے سبب محنت کے ان کے ہاتھ ڈھیلے ہوتے اور گھٹنے تھرتھراتے ہیں۔مزید ماتم کو بھی دنیامیں اپنے ساتھ لایا اور دل انسان نادان کو ہدف رنج و الم کا بنا دیا۔ فی الحقیقت نیک بخت اور خوشحال وہی شخص ہے جو شریعت کو حفظ کرتا ہے۔ آدم کی بلکہ اس کی کل اولاد کی شادمانی چھن گئی اور خوشی ہر ے کھیتوں میں نہ رہی۔ زبور کے مولف نے کیسی پر تجربہ اور خوب بات فرمائی ہے کہ صادقوں کے خیموں میں خوشی اور نجات کی آواز ہے۔ 

جسم کی فنا

تکلیف جسمی اگر یہیں تک موقوف رہتی تو بھی شائد کہ یک گو نہ خیریت رہتی لیکن سب سے بدتر آفت یہ تھی کہ یہ جسم بیماری اور دکھ میں مبتلا ہوا بلکہ فانی ہو گیا۔ خدا نے فرمایا کہ جس دن تو اس پھل سے کھائے گا تو مرتے مرے گا۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر یہ ثمر ممنوعہ کھایا جاتا تو نہ صرف روح بلکہ جسم بھی نہ مرتا۔ کیو نکہ جسم روح کا مسکن ہے۔ اور جب یہ غیر فانی روح اس فانی جسم کے ساتھ متوصل کی گئی تو جس نے یہ اتصال بہم پہنچایا وہی اس فانی جسم کو بھی باعث اس اتصال (ملاپ)روح کی ایک اس طرح کی ابدیت موجود کرتا کہ جس کی زندگی روح کی زندگی کے برابر ہوتی اور جسم و روح دونوں اس توصل(میل ) میں شادو مسرور رہتے۔ کلام میں صاف آیا ہے کہ گناہ کا عوض موت ہے۔ اب ظاہر ہے کہ موت صرف ایک جدائی ہے جو کہ روح اور جسم کے بیچ میں ظہور میں آتی ہے۔ پس اگر گناہ نہ ہوتا تو اغلب ہے کہ ان دونوں میں ایسا اتحاد ہوتا کہ جدائی کا مانع ہوتا۔ مثل ان طور پور سرورکی جو اپنے آب و دانہ دہندہ سے اس قدر الفت و محبت رکھتے ہیں کہ ہر چند درقفس ان کی رہائی کے لیے کوشش کی جائے پر کسی نوع سے اس رہائی کو گوارا نہیں کرتے پر پھر پھر کے اسی قفس کےاندر داخل ہوتے اور اسی کو اپنا آشیانا بناتے ہیں۔ 

پر شاید کوئی اس مقام پر یہ کہے گا کہ مادہ کی ماہیت تبدیل و زوال پذیر ہے۔ پس ممکن نہ تھا کہ یہ تو صل ابدی ہوتا۔ اس کے جواب میں میں اولاً یہ کہتا ہوں کہ بہتیری حکما (دانشور)کایہ قول ہے کہ مادہ بھی ابدی اور نیستی سے خالی ہے ۔پس اگر یہ رائے صائب تصور ہو سکتی ہے تو اس کا سمجھ لینا آسان ہے کہ جسم اور روح دونوں کا وجود برابر ہوا تو جب روح عرفانی ہوئی تواسی اعتبار کے ساتھ یہ جسم بھی غیر فانی ہوتا ۔ پر اگر کوئی شخص اس رائے کی صائب ہونے پر معترض (اعتراض کرنے والا)ہو تو ہم اس دلیل کو یہیں چھوڑتے ہیں اور عقل صائب کی شائق کی دلجمعی کے لئے یہ کہتی ہیں کہ جس خالق نے جسم و روح دونوں کو بنایا اور ان کی جدائی کو صرف نافرمانی اوپر موقوف کیا وہی خالق بشرط فرمانبرداری اس جسم کو بھی بعد ایام امتحان ایسی صفت بخشنےکے اوپر قادر تھا کہ جس سے ان دونوں کے توصل میں جدائی تحقیقی کو دخل محال تھا۔ رسول نے فرمایا ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے خدا کی بخشش ہمارے


خداوند عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جیسا کہ اب قادر مطلق خدا مسیح کے وسیلے ہمیشہ کی زندگی دیتا ہے ویسا ہی تب بھی ہو سکتا تھا اور ہم اس جسم ہی میں خدا وند کو اس کے کامل جلال میں دیکھتے جیسا آدم کا حال نافرمانی کے پیشتر تھا اور اس طرح کی جدائی کی ضرورت مطلق نہ رہ جاتی۔

بہرحال آدم کی مصیبت جسمانی کا کمال اسی امر کے اوپر تھا کہ اور ساری مشکلات کے شامل حال ان کا جسم نہ صرف نقاہت و ضعف و کمزوری کے تحت میں لایا گیا بلکہ ان کا جسم بھی اپنی ہیئت وجودی کی ماہیت کو ترک کر کے ان کی خوشی میں مخل ہوا کہ ارتباط (میل،ملاپ)ابدی کا سلسلہ توڑ کے ان پر ثابت کیا کہ میں بھی اس امر میں خداوند کا محکوم ہوں اور تیری نافرمانی مجھ کو یہاں تک ناگوار خاطر ہے کہ میں بھی اپنے خداوند کے حکم کے تابع ہو کے تجھ سے جدا ہونا پسند کرتا ہوں اور اپنی جدائی سے تجھے یہ نصیحت دیتا ہوں کہ اگر اب بھی تو نہ پچھتا ئے گا تو خداوند کی صحبت سے بھی ابد تک کے لئے جدا کر دیا جائے گا کیو نکہ انسان میں خداوند کی رضا نہیں ہے پر صرف اس میں ہی کہ اس کی تابعداری کی جائے اور اس کے حکموں کے اوپر عمل کیا جائے۔ 

آدم کی آفت روحی 

تیسرا آفت خیز اور ہیبت انگیز نتیجہ اس نافرمانی کا یہ نکلا کہ ان کی روح آفت ابدی میں پڑی اور ان کی ساری استعدادیں (صلاحیتیں)ضعیف اور خدمت الٰہی کی بجالانے میں قاصر ہو گئیں اور یوں روح کی اس سلامتی میں جو بے گناہ ہی کی حالت میں ان کو حاصل تھی ایسا خلل واقع ہوا اگر خدا ہی اپنی رحمت سے اس کے بحال کرنے کی تدبیر نہ کرتا تو اس کی بحالی کسی طرح سے ممکن نہ ہوتی۔ 

پہلی آفت:۔ 
اصلی راستبازی سے خالی ہونا 

  جو اس نسبت میں ظہور میں آئی سو یہ تھی کہ ان کی وہ راستی کی حالت جس میں خدا وند نے ان کو خلق کیا تھا ضائع ہو گئی۔ اس اصلی راستی کی میلان یہ تھی کہ خدا کی مرضی اور اس کی خواہشوں کی تابعداری اور ان پر عمل کرنے کی طبیعت کو قائم رکھے۔ اس صفت سے خاص مقصود یہ تھاکہ وہ انسان کے خیالات کے اوپر حاکم ہو کہ جس کے باعث سے سارے برعکس خیالات دبا دئے جائیں اور خدا کی تابعداری کے محکوم رہیں اور تا کہ وہ خدا کو اپنا دوست حقیقی تصور کرنے کے لئے محرک ہوئے۔ لیکن جب نافرمانی نے دل کے اندر داخل کیا تو نتیجہ الٹ گیا اور نسبت اطاعت میں تبدل کے واقع ہونے کی وجہ سے ان کی صفات اخلاقی میں بھی بالکل تبدیلی ظہور میں آئی۔ یہ راستی اس اتحاد روحانی کے اوپر مبنی تھی چنانچہ جب کہ عہد شکنی کی بنیاد پڑی تو اس صفت سے خالی ہونے کی بنا پڑ گئی اور کامل خوشی کے چشمے کی طرف سے مغائرت (بے گانگی،اجنبیت)پیدا ہوئی اور ان کے کمال کی علت غائی یوں محو ہو گئی کہ جتنے وسائل اس کے قائم رکھنے میں ممد معاون تھی وہ برعکس ہو گئے اور اس کے حصول کا انتظام بے انتظام ہو گیا۔ چنانچہ بعوض خلوصیت دل کی اس میں فساد مدامی(ہمیشہ کاجھگڑا) ایسا آگیا کہ ان کے دل نے ان کو خود بخود ملزم ٹھہرایا اور میلان عکس کا سلسلہ جاری ہو گیا یعنی خدا میں اپنی کامل خوشی کے حاصل کرنے اور اس کی مرضی کے عوض میں اس کی تحقیر کا ارتباط ظہور میں آیا اور اپنی خیالی خوشی کی توقیر(تعظیم وتکریم) کو فضلیت دینے کا میل نمود ہوا ۔چنانچہ کلام کی گواہی اس مقدمہ میں یہ ہے کہ خدا نے انسان کو راست بنایا پر اس نے بہت سی بندشیں سوچ لی ہیں۔ اور جب کہ اطاعت الٰہی کے بدلے میں انسان کی اپنی بندش کو مداخلت ہوئی تو رضا ئے الٰہی کہاں باقی رہی ۔پس تو یوں خدائے راست اور انسان ناراست میں جدائی برپا ہو گئی اب


اگر راستی کی حالت کی ماہیت اور ناراستی کی حالت کی ناماہیتی کے اوپر بغور ملاحظہ کیا جائے تو اس کا حسن و قبح(عیب) بخوبی آشکارا ہو جائے گا اور یہ معلوم ہو گا کہ اس اصلی راستبازی سے خالی ہونے میں کون سا عظیم زیاں (خسارہ)و خلل واقع ہوا اور کہ یہ آفت کیسی بلا انگیز ہوئی۔ غرض یہ کہ بہر حال زبور کے مولف کے اس کلام کی خوبی آشکارا ہو گی کہ’’ خدا وند صداقت کے ذبیحوں سے خوشنود ہو گا‘‘ (زبور ۵۱: ۱۹) ۔خداوند کی رضا اسی میں تھی اور آدم اور ان کی اولاد کے لئے صداقت کی راہ میں زندگانی تھی اور اس کی راہ گزر میں ہر گز موت نہیں (امثال ۱۲: ۲۸)۔ اب اگر اس بات کی صداقت کو آشکارا کرنے اور اس کی نسبت کامل دلجمعی حاصل کرنے کے لئے ثبوت کلامی کی ضرورت معلوم ہو تو یہ دو آیات کافی ہوں گی۔ حضرت داؤد نے (زبور ۵۳ : ۳) میں یہ فرمایا ہے۔ ’’کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں‘‘۔ اور پولس رسول (رومی۳: ۱۰) میں بتلاتے ہیں ۔’’ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں‘‘ ۔ تا کہ ہم پر اس صفت کی خوبی عیاں کی جائے خداوند نے جو رحمت میں غنی ہے اپنی فضل کی بہتات سے ان کی اولاد کی سلامتی لے لی اپنی رضا یوں ظاہر کی ہے۔ اے سخت دلوں جو صداقت سے دور ہو میری سنو۔ میں اپنی صداقت کو نزدیک لاتا ہوں وہ دور نہ ہو گی۔ اور میری سلامتی تا خیر نہ کرے گی (یسعیاہ۱۲:۴۶۔۱۳)۔

دوسری آفت
آدم کا پاکیزگی کی حالت سے گرنا 

جو اس نسبت میں ظہور میں آئی سو یہ تھی کہ اس نافرمانی کے گناہ سے ان کی اس کامل پاکیزگی کی حالت میں جس سے خدا نے ان کی پیدائش کے وقت ان کو آراستہ کیا تھا اوران کے اور ان اولاد کے لیے مقصود رکھا تھا خلل واقع ہوگیا ان کی پاکی جاتی رہی اور اس کے عوض میں وہ عاصی(گنہگار) اور دکھی بن گئے اس نافرمانی نے ارتباط و توصل الٰہی کی جا دہ (راستہ)مستحکم کی گرہیں کھول دیں اور اس سلسلہ کو کاٹ کے خاک میں ملا دیا ایسا کہ وہ جو خدا اور مالک بلکہ کل و مخلوقات کی خوشنودی تھا اب وہ سب کی نگاہوں میں گھٹنے لگا اور سب نے اپنی نگاہیں ان کی طرف سے پھیر لیں اور جس وقت آدم نے اپنے تئیں خدا کی حضوری سے باغ کے درختوں کی آڑ میں چھپانا چاہا اس وقت گویا کہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ میں اب خدا کی صحبت کے قابل نہ رہا۔ پاکی کی صفت سارے اور صفات بلکہ انسان کے کل صفات حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ کا سر تاج تھا۔ وہ استعداد روح میں سب سے اعلیٰ درجہ رکھتے تھے اور ساری استعدادوں کا اپنی قبضہ میں رکھتے اور ان پر محکوم تھی اور ان کو خدا کے جلال اور اپنی بھلائی و بہتری کے لئے ممد و معاون بنانے کی حیثیت و قابلیت رکھتے تھے چنانچہ جب اس صفت میں خلل واقع ہوا تو کل انسانیت میں فتور لازم آیا اور کل انتظام تہ و بالا ہو گیا کیو نکہ کل سلسلہ انسانیت کا اسی کے اوپر مبنی تھا پر اس سے یہ مراد نہ لینا چاہیے کہ اس صفت سے قاصر ہونے میں ان کی استعداد یں مسدود ہو گئیں لیکن ان استعدادوں کا کمال ضائع ہو گیا اور خدا کی صورت کی رونق انہیں استعدادوں کے کمال کے اوپر موقوف تھی۔ انسان کی د لی پاکیزہ دانش اور ان کی وہ محبت الٰہی جو کہ ان کی مرضی کو مقدس کرتی تھی اور خدا کی مرضی کی تابعداری کی روحانی طاقت یہ باتیں اس پاکی کی صفت کے ضائع ہونے کے باعث مسدود ہو گئیں۔ پس نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ خدا نے اپنے حضوری کو بنی آدم سے جدا کر لیا اور اس سے زیادہ تر آفت بنی آدم کے لئے اور کیا ہو سکتی تھی۔ اس حقیقت کی ماہیت کو معلوم کر کے خدا کے بندہ داؤد نے اپنی دعا میں یہ اقرار کیا۔ ’’دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گناہ کی ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا۔ دیکھ تو اندر کی سچائی


چاہتا ہے سو باطن میں مجھ کو دانائی سکھا۔ زوفا سے مجھ پاک کر کہ میں صاف ہو جاؤں مجھ کو دھو کہ میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں‘‘ اور یہ دعا کرتے ہیں۔ کہ ’’اے خداوند میرے اندر ایک پاک دل پیدا کر اور ایک مستقیم روح میرے باطن میں نئے سرے سے ڈال مجھ کو اپنے حضور سے مت ہانک اور اپنی روح پاک مجھ سے نہ نکال (زبور ۵۱: ۵-۷؛ ۱۸: ۱۱) ۔پطرس رسول اس مقدمے میں خدا کے ایمانداروں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ’’ جس طرح تمہارابُلانے والاپاک ہے تم بھی اپنے چال چلن میں پاک بنوکیونکہ لکھا ہے کہ تم پاک ہو کہ میں پاک ہوں‘‘ (ا۔پطرس ۱ : ۱۵-۱۶) اگر پاکی کی صفت اس نافرمانی کی وجہ سے ضائع نہ ہوتی تو کلام کی وہ تاکید کہ نقدس کی پیروی کرو جس کے بغیر کوئی خدا کو دیکھ نہیں سکتا محض بے جا بات ٹھہرتی ۔ ان آیات بالا کی ماہیت کے اوپر بنظر غور ملاحظہ کرنے سےء صاف عیاں ہوتا ہے کہ پاکی کا جو ہر انسان کے ہاتھ سے جاتا رہااس کے باوجود اس آفت کی اب تک یہی بات راست و سچ ثابت ہوتی ہے کہ وہ جو پاک دل ہے سو ہی خدا کی صحبت سے متمتع ہو گا۔ 

علاوہ آفات روحی 

اس اصلی راستبازی اور پاکیزگی کے ضائع ہوجانے سے آدم زاد کی کل حالت متغیر(تبدیل) ہو گئی اور از بس کہ یہی دونوں صفات کل استعداد روح کے قائم و بحال رکھنے کے لئے ان پر مسلط تھی لہٰذا ان کے ضائع ہو جانے سے وہ نہ صرف ان کی روح ایسی برہنہ ہوگئی کہ جس کی عریانی کا چھپانا محال ہوگیا پر ان کی وجہ سےباقی ساری استعداد وں میں ایسی لاغری سرایت کر گئی کہ گویا اس کی ہیئت ہی بدل گئی اور انسان پاک باطن ایسا ناپاک اور ذلیل اور خوار و رسوا ہو گیا کہ حیوانوں سے بھی بدتر ہو گیا اور بے ایمانی اور بیوفائی کا بیج اس کے دل میں ایسا پڑ گیا کہ سوا ضرر(نقصان ،تکلیف) کے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی جیسا کہ آفتاب کے غروب ہونے سے تاریکی طاری ہو جاتی ہے ویسا ہی ان دونوں صفات اعلیٰ کو ضائع ہو جانے سے کل انسانیت میں خلل واقع ہو گیا اور بڑے بڑے ضرر ظہور میں آئے۔ اس ضرر کا بیان کلام میں یوں آیا ہے کہ ’’ان کی عقل تاریک ہو گئی اور وہ اس جہالت کے سبب جو ان میں ہے اور اپنے دلوں کی سختی کے باعث خدا کی زندگی سے جدا ہیں۔ انہوں نے سن ہو کے آپ کو شہوت پرستی کے سپرد کیا وغیرہ (افسیوں ۴: ۱۸-۱۹) ۔ان آیات کے اوپرملاحظہ کرنے سےپانچ( ۵ )باتیں نکلتی ہیں جو کہ انسان کی طبیعت میں پاکیزگی سے خالی ہونے کے باعث ظہور میں آئیں وہ یہ ہیں۔ 

  ۱۔ بنی آدم کی عقل تاریک ہو گئی۔

۲۔ ان میں جہالت داخل ہو گئی۔ 

۳۔ ان کے دل سخت ہو گئے۔ 

۴۔ وہ سن ہو(بے حس یا بے حرکت ہوجانا) گئے۔ 

۵۔ وہ خدا کی زندگی سے پیدا ہوئے اور بطور نتیجہ کے خدا کے غضب اور لعنت کے تلے پڑ گئے ہیں 


پس ان ساری باتوں کا ذکر اس مقام پر مسلسل کیا جائے گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ برگشتگی نے انسان کی حالت میں کہاں تک ابتری ڈال دی ہے۔ 

۱۔عقل کی تاریکی 

اس اصلی راستی اور پاکی سے خالی ہونے کا اول نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی عقل تاریک ہو گئی خدا نے اصل میں انسان کی خلقت کو اپنی پہچان کی روشنی سے ایسا منور کر رکھا تھا کہ کسی طرح کی تاریکی کا شمہ(قلیل مقدار) تک پایا نہ جاتا تھا اور جب تک کہ وہ روشنی بجنسہ قائم رہی تب تک عقل بھی جولانی پر تھی اس لئے کہ اس کا مرکز خدا ہی تھا جو سر تاپا روشنی ہے اور جس میں تبدیل اور زوال کا سایہ نہیں ہے پر جب طبیعت کا مرکز اپنے مرجع(جائے پناہ،رجوع کرنے کی جگہ ) خاص سے ہٹ گیا ۔تب عقل کا مرجع دگر گوں (الٹ پلٹ) ہو گیا اور ناپاکی کی میلان کی وجہ سے اس کے اوپر تاریکی چھا گئی جیسا کہ جب انسان کو مرض لاحق ہوتا ہے تو تندرستی کے ساری اشغال (شغل کی جمع،کام)میں تبدیلی آتی ہے ویسا ہی جب پاکیزہ انسان ناپاکی میں مبتلا ہوا تب اس کی استعداد عقلی کے مقصد بدل گئے اور از بس کہ وہ روشنی کے چشمے سے الگ ہٹ گیا اس اصلی پہچان کی خلو صیت کی نسبت اس میں تاریکی نے سرایت کی۔ چنانچہ اب اس کی صداقت یوں دیکھنے میں آتی ہے کہ آدم زاد زندہ خدا کی خالص پرستش کرنے کے عوض میں اپنی طبعی بندشوں کی طرف رجوع رکھتا اور حی القیوم کا جلال فانی انسان اور غیر ذی روح مخلوق کو دیتا ہے۔ اس ماہیت کے حق میں پولس رسول نے رومی کو خط میں یہ گواہی دی کہ خدا کی بابت جو کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔ ان میں آشکارا ہے کیو نکہ خدا نے اس کو ان پر آشکارا کیا اور آگے بڑھ کر یہ لکھا ہے کہ’’ انہوں نے اگرچہ خدا کو پہچانا تو بھی اس کی خدائی کے لائق اس کی بزرگی اور شکر گزاری نہ کی۔ بلکہ اپنے خیالوں میں بیہودہ ہو گئے اور ان کے نا فہم دل تاریک ہو گئے ۔ وہ اپنے کو دانا ٹھہرا کے نادان ہو گئے ‘‘وغیرہ (رومی ۱: ۱۹، ۲۱۔ ۲۲)۔ پاکی کی حالت میں عقل کی یہ استعداد باقی ساری استعدادوں کے لئے گویا مثل کنجی کی تھی کہ جو خدا کی حقیقی پہچان کی روشنی کی وجہ سے ان سب کو اپنی مرضی کی مانند خدا کے جلال کی طرف کو رجوع رکھنے کے لیے متاثر تھی تو جب کہ یہ روشنی تاریکی ہو گئی۔ تو وہ تاریکی کیسی بڑی ہوئی۔ اسی تاریکی کی وجہ سے خدا کی جلیل انجیل کی روشنی لوگوں کے دلوں پراثر نہیں کرتی ہے اور یوں عقل خدا ہی کی مخالفت کرتی ہے۔ حالانکہ اس کا کام یہ تھا کہ سارے خیالوں کو اپنی روشنی کی ہدایت میں لانے کے لئے اور ان پر حاوی ہو تو نہ یہ کہ اپنی حقیقت کے برعکس کام کرنے کے لئے ان کے اوپر محرک ہو۔ دیکھیں گناہ نے کیا ستم برپا کیا کہ شمع نور الٰہی کو گل کر کے اس کو تاریک کیا اور اپنی ساری ماتحت استعداد کو بھی تاریک کر کے زندگی کے چشمے کی طرف سے سب کو برگشتہ کیا اور آدم زاد کے تئیں ساری نیکی اور خوبی سے خالی کر ڈالا۔ جس میں سے ایک بات یہ تھی کہ عقل کی روشنی کے اوپر پردہ پڑ گیا اور عقل صائب(درست ) کے عوض میں عقل فاسد(شریر،تباہ) ہو گئی اور زبونی (تباہی ، کمزوری)کے تحت میں لائی گئی۔ چنانچہ اب بنی آدم کے حق میں کلام کی وہ بات راست آتی ہے۔ کہ اس جہان کی حکمت خدا کے آگے بیوقوفی ہے۔ 

  ۲۔جہالت کا دخل 

جب عقل کی صداقت کا نقد(سرمایہ) اس کی ہاتھ سے گیا۔ تب اس کی مرضی نے بھی بغاوت پر کمر باندھے اورجب مرض نے عقل کے ساتھ اتفاق کر کے خداوند کی روشنی کی اکیلی ہدایت اور صلاح ومشورت کے مطابق عمل کرنے سے پہلو تہی کی تب روشنی کا چشمہ بھی بند ہو گیا اور جہاں روشنی نہیں وہاں تاریکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے اور جہاں تاریکی ہے وہاں ہی جہالت ہو گی۔ کیو نکہ ماہیت حقیقی کی پہچان تاریکی کو دفع کرتی ہے اور


جس قدر اس پہچان سے کنارہ کسی ہو گی اور اسی قدر جہالت اپنا زور دکھلائے گی۔ اس جہالت کی نظر ہم اس خلقت میں بخوبی پاتے ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ دنیا کے واسطے خدا کی سچی دانش کے برعکس ہے اسی سبب سے جب ہم انسان کی فاسد عقل کو کلام کی صائب تعلیم سے جو روشنی کا چشمہ ہی مقابلہ کرتے ہیں تو الٰہی باتوں کی نسبت اس کو بالکل مردہ سا پاتے ہیں ۔ کلام کا دخل روشنی بخشتا ہے پر بگڑا ہوا آدمی آپنی جہالت میں اس روشنی کے دخل کا دشمن ہو جاتا ہے جس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے نا فہم دل تاریک ہوگئے ہیں اور ان کا ضمیر ایسا کند پڑ گیا ہے کہ الزام دینے کی طاقت اور سکت اس میں باقی نہیں ہے اور نہ اپنی ذات سے اپنی حقیقت کی شناخت کو حاصل کر سکتا ہے۔ پس جیسا کہ علم کے بغیر آدمی جاہل کہلاتا ہے ویسا ہی خدا کی پہچان کی شناخت حقیقی کے بغیر جس کو بگڑی ہوئی عقل قبول نہیں کرتی ہے، الٰہی باتوں کی نسبت ایک طرح کا اندھا پن چھایا ہوا ہے اور انسان خدا سے دور دور بھاگتا پھرتا ہے اور نہیں چاہتا ہے کہ خداوند کی روشنی میں چلے ۔چنانچہ ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کلام کے کیا معنی ہیں۔ کہ احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں۔ یہ کیو ں کر ہے کہ انسان اپنے خالق سے کنارہ کرتا اور اپنے باپ سے شرمندہ ہوتا ہے۔ یہی امر ہے کہ جس سے آدم زاد کی جہالت آشکارا ہوتی ہے۔ سلیمان بادشاہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’وہ جو صادق ہے اپنے ہمسایہ کی رہنمائی کرتا ہے پر شریروں کی راہ انہیں بھٹکاتی ہے ‘‘اور کہ آدمی کی جہالت اسے گمراہ کرتی ہے اور اس کا خداوند سے بیزار ہوتا ہے۔ اور کہ نادانی کا منصوبہ بھی گنا ہ ہے۔ خدا نے اصل میں انسان کو صاحب دانش و فہم بنایا تھا۔ پس جہاں دانش ہے وہاں سے جہالت سینکڑوں کو س بھاگتی ہے اور اگرچہ انسان بگڑ گیا ہے اور خدا کی روشنی کا دشمن ہو رہا ہے۔ تو بھی خداوند جو رحمت میں غنی ہے اس جہالت کے دفع کرنے کی نسبت اپنی مرضی کو اپنے کلام کے وسیلے سے یوں آشکارا کرتا ہے کہ ’’خدا کی مرضی یوں ہے کہ تم نیک کام کر کے احمقوں کی نادانی کامنہ بند کر رکھو‘‘۔ اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ کل آدم زاد سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔ 

آیات بالا سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے دل میں جہالت کا دخل ہو گیا ہے اور اگر کوئی پوچھے کہ اس کا کیا سبب ہے تو میں وہی جواب دوں گا جس کا ذکر مقصد دوم میں ہوا ہے یعنی کہ وہ گناہ کی تاریکی کا نتیجہ ہے۔ 

۳۔دل کی سختی

تیسرا نتیجہ اس برگشتگی کا یہ ہوا ہے کہ انسان کے دل بھی سخت ہو گئے ہیں۔ دل کی سختی نہایت ہے بُری بلا ہے۔ وہ انسان کو بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتی ہے۔ سخت دلی ساری شرارت کی بنیاد ہوئی ہے اور کجروی (اُلٹے راستے پر چلنا،ٹیڑھی چال)اور افعال بے جا کی محرک ہوتی ہے۔ چنانچہ کلام پاک میں بھی یوں آیا ہے کہ وہ جو اپنے دل کو سخت کرتا ہے زیاں(ضرر،خسارہ) میں گرے گا(امثال ۲۸: ۱۴) ۔وہ جو باوجود بار بار تنبیہ پانے کی گردن کشی کرتا ہے ناگہاں برباد کیا جائے گا اور اس کا کوئی چارہ نہ ہو گا (امثال ۲۹: ۱) ۔سختی ایسی شے ہے کہ خوبی کے اثر کو بے تاثیر کرتی اور اس کو بے حرکت بنا دیتی ہے۔ اور جب راستی کی تحریک کی مانع ہوئی۔ تب جو نہ ہو سو تھوڑا ہے۔ وہ توبہ کی طبیعت کی دشمن ہوتی ہے اور جب گنہگار دل خداوند کی طرف پھر نے کی میلان کو نہیں پاتا تب اس پر سوا غضب کے اور کیا نازل ہو سکتا ہے۔ خدا اپنی مہربانی اور رحمت و شفقت کو گنہگار انسان کی سلامتی کے لئے آشکارا کرتا ہے پر وہ اپنے دل کی حماقت میں اس کی برکتوں کو قبول نہیں کرتا ہے اور اپنے گناہوں میں مرنے کو بہتر سمجھتا ہے۔ کلام پاک ایسے شخص سے یوں کلام کرتا ہے’’ اے انسان تو اس کی مہربانی اور برداشت اور محبت کی کثرت کو حقیر جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی اسی مقصد سے ہے کہ تو توبہ کی طرف مائل ہو جائے بلکہ تو اپنے سخت اور بے تو بہ کئے دل سے اس دن کی خاطر جس میں قہر اور خدا کی عدالت حق ظاہر ہو گی اپنے لئے


غضب جمع کرتا ہے‘‘ (رومی ۲: ۴-۵) کہ یہ نتیجہ برگشتگی کا ہے اس آیت سے صاف ظاہر ہے ، جس حال کہ انہوں نے پسند نہ کیا کہ خدا کی پہچان کو حفظ کررکھیں خدا نے بھی انہیں عقل کی بے تمیزی پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ اس سے ہر طرح کی ناراستی اور بے امتیازی بد عہدی، بے دردی، کینہ روی اور بے رحمی صادر ہوئیں کیا برگشتگی کے پیشتر اس طرح کی خباثت انسانیت کی ذات میں پائی جا سکتی تھی۔ جب انہوں نے خدا کی پہچان سے کنارہ کیا تب ہی ان میں یہ ساری بد صفتیں جن میں دل کی سختی مشتمل ہے پیدا ہوئیں۔ اس خرابی سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے کلام میں یہ ہدایت کرتا ہے کہ اگر آج تم اس کی آواز کو سنو تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو۔ جب انسان کا دل تاریک ہوا۔ تب اس میں جہالت آئی اور جہالت نے دل کی سختی کو پیدا کیا جس سے بنی ہوئی بات بگڑی ۔ پس یہ کیسی بری بلا ہے۔ خدا ہر بشر کو اس مہلک نتیجہ سے نجات بخشی۔ 

۴۔انسان کا سن پڑ جانا

چوتھا نتیجہ جو دل کی سختی سے بھی ہولناک ہوا سو یہ ہے کہ انسان کا دل نہ صرف سخت ہوا بلکہ سن پڑ گیا ۔یعنی بے حس و حرکت وبالکل بے تاثیر ہو گیا ۔گویا الٰہی باتوں کی طرف سے مردہ ہو گیا ۔ دل کی سختی کی مزاولت (کسی کام کو ہمیشہ کرنا ،روز مرہ کی مشق)کا یہی انجام ہوتا ہے کہ بری عادت کا عادی ہوتے ہوتے بالکل سن ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی بات کا اس کے اوپر اثر نہیں ہو نے پاتا ساری استعداد یں موجود رہتیں ،خواہش بھی قائم رہتی ہے لیکن دل کی کوری(کورا کی تانیث،احمق،بے وفا،غریب) طبیعت کو مردہ بنا ڈالتی ہے ۔مثل اس شخص کے جس کو سُن کا مرض ہو جاتا ہے۔ اس کے ہوش و حواس درست رہتے ہیں لیکن ایک طرح کی بے خبری میں زندگی بستر کرتا ہے اور جسما نی آرام و رنج دونوں سے نا آشنا ہو جاتا ہے۔ بلکہ واقعی انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ یہ حالت اس شخص کے لئے ذاتی نہیں بلکہ عارضی ہوتی ہے ویسا ہی وہ انسان جو خدا کی پہچان کی روشنی کو داخل دینے سے منکر ہوتا ہے اپنے تئیں نہ صرف سخت کرتا ہے پر سختی کو یہاں تک ترقی کرنے کا موقع دیتاہے کہ اس کی عادتیں بگڑ کے بالکل بے حس و حرکت ہو جاتی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ آدم زاد خدا کے خیال تک کو اپنے دل میں آنے نہیں دیتا بلکہ اپنی زندگی کے لئے یہ مقولہ قائم کر رکھا ہے کہ دنیا محض غفلت سے قائم ہے۔ کون صاحب فہم انسان ہے جو اس حالت کو نہیں دیکھتا اور اس کے اوپر ماتم نہیں کریا ہے۔ علی الخصوص (خاص طورپر)وہ جن کے دل کلام الٰہی کی روشنی سے منور ہیں۔ اس فضل سے گری ہوئی حالت کو خدا کی روشنی میں دیکھ کر اس پر دلی ماتم و رنج کرتے ہیں۔ اور ان کی دعا دن رات یہی رہتی ہے، کہ خداوند اپنی رحمت سے ان کی حالت کو بدلے تا کہ وہ شیطان کی غلامی سے چھٹ کے خدا کی فرزندوں کی آزادگی میں چلیں اور خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے انتظام سے لڑنے والے نہ ہوں بلکہ خدا کی نجات میں شرکت حاصل کر کے نجات پائیں۔ یہ وہ بری حالت ہے کہ جس میں سمجھ اور مرضی خدا کی شریعت اور اس کی انجیل کی مخالفت کر کے نیکی کی طرف سے بالکل کنارہ کش ہوتی اور بدی سے ہم آغوشی کرتی ہے اور انسان کی محبت کو خدا کی طرف سے پھیر کے بیہودہ اور گناہ آلودہ خوشیوں میں مبتلا کرتی اور اسی میں اس کو گرفتار کر ڈالتی ہے۔ یہ وہ حالت ہے کہ جس میں ضمیر اپنے خاص منصب سے تجاوز کر کے نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی قرار دیتا ہے اور یوں کلام کی روشنی کو بے تاثیر کرنے کے لئے اثر دکھلاتی ہے۔ یہ وہ حالت ہے کہ جس میں انسان کی طبیعت مثل اس چھلنی کے ہو جاتی ہے کہ جس میں سے عمدہ و باریک و محکم چیزیں گر جاتی ہیں اور صرف فضلہ ہی فضلہ باقی رہ جاتا ہے جو سلامتی کے لئے محض بے کار ہیں۔ اس کے باعث سے جسم بھی خراب ہو جاتا ہے اور رہ جو راستی کے لئے وسیلہ بنایا گیا ہے اپنے عضو کو گناہ کے لئے ناراستی کا اوزار بناتا ہے۔ ہاں یہ ایسی


حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ مدد پیش کی جاتی ہے۔ پر اس خرابی کی حالت سے نکلنے کی رغبت اور میل تک اس میں باقی نہیں رہ جاتی ۔ یوں انسان اپنے آزاد مرضی کو بے جا استعمال میں لا کے اپنے تئیں خود ہلاک کرتا ہے اور اپنی ہلاکت کے اوپر فخر کرتا ہے۔ 

۵۔خداوند کی زندگی سے جدا ہونا 

پانچواں نتیجہ برگشتگی کا جو ساری آفتوں سے بد تر اور افضل تر ہے سو یہ ہوا کہ انسان خدا کی روشنی سے جدا ہو گیا۔ زندگی کی شرط کامل تابعداری مقرر کی گئی تھی ۔ ایسی تابعداری کہ جس میں خیال کے اختلاف اور طبیعت کی مخالفت اور چال چلن کی غیریت اور دل کی پاکی میں خلل کو مداخلت نہ تھی ۔زندگی کی حالت روشنی کی حالت کہلاتی ہے اور گناہ تاریکی سے مشابہ کیا جاتا ہے۔ پس جیسا کہ روشنی کو تاریکی سے مناسبت نہیں ہے اور تاریکی کو روشنی سے کچھ علاقہ نہیں ہے اور تاریکی روشنی کو گم کردیتی ہے اسی طور پر جب گناہ کی تاریکی دل میں در آئی تو زندگی کی روشنی کو تاریک کر کے اس کی ماہیت کو چھپا لیتی ہے۔ اور جب انسان تاریکی کو پسند کرنے لگتا ہے۔ تب روشنی سے برگشتہ ہوتا ہے اورجہاں کامل برگشتگی ہو اور کل شے کی کیفیت الٹ جائے تو وہاں خدا اپنے چہرہ کی روشنی کو چھپا لیتا ہے اور از بس کہ اس کے چہرہ کی روشنی میں زندگی ہے۔ جب وہ کھینچ جائے تو سوا تاریکی کے اور کیا رہ جائے گا۔ یوں انسان کی برگشتگی اس کو خدا کی حقیقی زندگی سے برگشتہ کر کے اس سے جدا کر دیتی ہے۔ برگشتگی کے کل مدارج کی علت غائی یہی ہے کہ خداسے جو زندگی کا چشمہ ہہے جدا کردیتی ہے اور خداوند کی حضوری سے محروم ہونا یہی جہنم ہے ۔اسی تاریکی کو رفع کرنے اور خدا کی زندگی برگشتہ انسان کو پھر عطا کرنے کے لئے انجیل درمیان میں آئی ہے۔ اور خداوند کی زندگی کو از سر نویوں ظاہرکرتی ہے۔ کہ ’’جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے پر جو بیٹے پر ایمان نہیں لاتا حیات کو نہ دیکھے گا بلکہ خداوند کا قہر اس پر رہتا ہے (یوحنا۳۶:۳) اوریوں انجیل گنہگار کو ہمیشہ کی زندگی یعنی خداوند کی زندگی عطا کرنے کے لئے خدا کی قدرت ثابت ہوتی ہے۔ 

خلاصہ کلام 

  برگشتگی کے نتائج میں سے چند یہ ہیں جن کے اوپر بنظر غور ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کیسا عظیم زیاں ہوا ہے۔ اس کی کل حقیقت ایسی بدل گئی ہے کہ وہ خدا کی پہچان کی روشنی سے منور کیا گیا تھا اور اس کی مرضی کے تابع تھا اب اس کی پہچان سے کنارہ کشی کرتا ہے اور اس کی مرضی سے بغاوت رکھتا ہے ایسا کہ وہ کام جو اس کی زیب و زینب تھے اب اس کو شاق گزرتی ہیں اور ان سے کنارہ کش ہونے کی میلان آپ میں پاتا ہے اور برگشتگی کی نتائج کا خلاصہ یوں ہو سکتا ہے۔ کہ وہ انسان کو گناہ اور مصیبت کی حالت میں لائی ہے یعنی کہ سارے انسانوں نے اپنے برگشتگی سے خدا کی صحبت کو کھو دیا اس کے غضب اور لعنت کے نیچے ہیں۔ اور یوں اس زندگی کی ساری مصیبتوں کے اور موت کے بلکہ جہنم کے عذاب ابدی کے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ 


ساتواں باب

انسان کی عدم تصحیح کا تذکرہ

تصحیح کے بارے میں انسان کی عدم قوتی 

  آدم کی برگشتگی کے نتیجوں کے اوپر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوا کہ اس کی ان عالیٰ صفات میں جو اس کی زیب و زینت اور فضل کی حالت میں استحکام بخشنے کے لئے وسیلے تھے کہاں تک ابتری آ گئی کہ اس کی گویا ہیئت ہے دگر گوں ہو گئی اور خدا کی وہ صورت جو عرفان اور تقدس میں اس کی خالق کی مانند بنائی گئی تھی کہاں تک محو ہو گئی۔ پر ان آفات کے شمول میں جس میں انسان برگشتگی کے باعث سے مبتلا ہو گیا تھاسب بڑی آفت یہ ہوئی کہ انسان میں اپنی حالت کی سدھارنے کے لئے ذاتی قوت باقی نہ رہ گئی۔ جتنے اوصاف کہ تصحیح (درست کرنا)کے لئے ضروری اور درکار تھے۔ ان سب میں لاغری سرایت کر گئی اور کوئی مادہ صحت کا باقی نہ رہ گیا کہ جس کے باعث سے اس کو اپنی حالت اصلی کے بحال کرنے میں مددملتی ۔چنانچہ لکھا ہے کہ’’ ہر بشر نے اپنے اپنے طریق کو زمین پر بگاڑا تھا‘‘( پیدائش ۶: ۱۲ )۔وہ خراب ہو ئے ان کی کام مکروہ ہیں کوئی نیکو کارہوجو خداوند آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کر ے دیکھے کہ ان میں کوئی دانش مند خدا کا طالب ہے یا نہیں۔ وہ سب گمراہ ہوئے وہ ایک ساتھ بگڑ گئے‘‘ (زبور ۱۴: ۱-۳) ۔اگر انسان میں کوئی شے ایسی تھی کہ جو اس کی اصلی حالت وہیئت میں رکھنے کے لئے کار یگر ہو سکتی تھی تو وہ ہی صفات تھی جو بے سبب گناہ کرنے کے تہ وبالا ہو گئے اور خدا کی پاکیزہ صورت کو ناپاکی میں بدل ڈالا۔ پس جس شے میں اتنا بڑا فتور پڑ گیا۔ اسی شے میں پھر اس کی بحالی کا مادہ یا تاب (نور،چمک)کی امید رکھنا بالکل برعکس بات ہوتی ہے اور گویا اس بگاڑ سے منکر بنانے کی میلان رکھتی ہے۔ بگڑی ہوئی چیز میں اپنے آپ کو سدھارنے کی ماہیت کا پایا جانا محالِ مطلق (ناممکن) ہے۔ اس دنیا میں یہ بات روزمرہ دیکھنے میں آتی ہے۔ کہ جوشے بگڑی اور تاوقت یہ کہ کوئی شے اوپر سے اس کے نقش ِمجاریہ (جاری شدہ قانون)کی دافعہ(دور کرنے والی۔غذا کے فضلہ کودور کرنے والی قوت) اس میں داخل ہو کے متاثر نہ ہو تب تک اس کا دفعیہ(دفع کرنے کی تدبیر) غیر ممکن ہے۔ مثلث ومثلاً جب انسان کے جسم میں مرض کا مادہ پیدا ہوا تو تاوقت یہ کہ کوئی ایسی دوا اوپر سے نہ دی جائے کہ جو اس مرض کے مادہ کے اوپر اثر کر کے اس کو کا لعدم کر دے ۔تب تک مرض فنا نہیں ہو سکے گا۔ یہی قاعدہ دنیا کے کل امور میں پایا جاتا ہے اور اس شے کی ماہیت میں جس میں نقص در آیا ہرگز اس کے دفعیہ کی طاقت دیکھنے میں نہیں آتی اور کوئی صاحب تیز و تجربہ ایسا نہیں ہے کہ جو اس ماہیت سے ناواقف ہو یا اسے باطل ثابت کر سکے۔ اب یہ بھی ظاہر ہے کہ جسم اور روح میں ایک طرح کا توسل(وسیلہ ڈھونڈنا،وسیلہ) ہے اور اکثر جسم کی حالتیں روح کی حالت کے اوپر دال ہیں اور تشبیہ روحی کو تشبیہ جسمی سے مناسب کرتے ہیں۔ اب گناہ روح کا مرض کہلاتا ہے چنانچہ (یسعیاہ ۱: ۵) میں لکھا ہے۔ ’’تمام سر بیمار ہے اور دل بالکل سست ہے‘‘۔ اب اس کی دفعیہ کی نسبت( یرمیاہ ۸: ۲۲) میں یہ آیت آئی ہے۔ ’’کیا جلعاد میں روغن بلسان نہیں ہے۔ کیا وہاں کوئی طبیب نہیں۔ میری قوم کی بیٹی


کیوں چنگی نہیں ہوتی اور پھر یہ کہ اپنی راہ نکالنے انسان کے قابو میں نہیں ہے ‘‘(یرمیاہ ۱۰ : ۲۳) ان تینوں آیات سے بیان بالا کی ماہیت بخوبی آشکارا ہو جاتی ہے اور اس حقیقت کے اوپر دال ہے کہ اپنی تصحیح کے بارے میں انسان محض ناطاقت ہے۔ 

اس ناطاقتی کی وجہ اول پاکی سے خالی ہونا 

اگر کوئی پوچھے کہ اس کا کیا بے سبب ہے کہ انسان میں اپنی تصحیح کی طاقت باقی نہیں ہے تو اس کی یہ وجہ معلوم کرنی چاہئے۔ پاکی کی صفت فردوس کی صفت اعلیٰ و خاص ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’ تقدس کی پیروی کرو جس کے بغیر کوئی خداوند کو دیکھ نہیں سکتا‘‘۔ جب آدم نے خدا کے حکم عدولی کی ۔تو ان کی پاکی جاتی رہی اور یوں فردوس کے اوصاف خاص سے محروم ہوئے۔ اب اگر تقدس خدا کی دیدار کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے تو ہم اس کی تشبیہ آنکھ سے دی سکتی ہیں۔ بدن کا چراغ آنکھ ہے پس اگر آنکھ اندھیری ہو تو تمام جسم اندھیرا ہوجائے گا اور جب کہ آنکھ کے اوپر پردہ نابینائی کا چھا گیا تو کیا ممکن ہے کہ آنکھ میں ایسی طاقت ذاتی پیدا ہو کہ اس جھلی کو جو آنکھ کے اوپر پڑ گئی ہے۔ توڑ کے اس کے تاریکی کے اوپر غالب آئے۔ پر تا وقت یہ کہ وہ جھلی کوباہری وسیلوں سے آنکھ کے اوپر سے ہٹائی نہ جائے تب تک دیکھنا محال ہے۔ اسی طر ح سے جب چشم روحی کے اوپر ناپاکی کا پردہ چھا گیا تب خدا کا دیدار محال ہے ۔اب اگر خیال بالا کے مطابق انسان چاہے کہ اپنی ذات سے اس پردہ کو اٹھا کے پاک ترین مکان کے اندر دیکھے تو اس کی ناپاکی اس میں مانع ہوتی ہے بلکہ اگرچہ اس میں خواہش بھی ہوتا ہم وہ اس مقدمہ میں مجبور و عاری ہے اس مقدمہ میں خواہش کا ہونا ایسا ہو گا کہ جیسا بیج جوسخت زمین کے اوپر جس میں تراوت (تازگی )نام کو نہیں ہے پڑی ۔وہ کبھی پھلدار نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں پڑے پڑے خشک ہو جائے گا یا آنکہ کسی چڑیا کا جس کی نگاہ اس کے اوپر پڑ جائے لقمہ بن کے اپنے مطلب مقصود سے بے تعلق ہوجائے گا ۔لہٰذا پاکی کی صفت سے خالی ہو کے انسان اپنی ذات سے اپنے تصحیح اور بحالی کی نسبت بالکل عاجز و عاری ہے جس عقل نے خرابی کا بیج بویا اس عقل سے پھر گیا ۔امید ہو سکتی ہے اور اس سے امید رکھنا بڑی حماقت ہے بلکہ لکھا بھی ہے کہ ’’نہ زور سے نہ قوت سے پر میری روح سے خداوند فرماتا ہے‘‘۔ 

وجہ دوم تقدس کی نسبت عدم توجہی 

پاکی کی صفت کے قائم رکھنے کی نسبت دو باتیں متاثر اور کار گر ہوتی ہیں۔ اولا یہ کہ پاکی کا حسن ہر وقت مد نظر رہے اب برگشتگی کے باعث سے انسان کی طاقت امتیازی مسدود ہو گئی ہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر امتیاز کی کمی ہو گی۔ اسی قدر مطلوب شے کی نسبت غفلت بھی ضرور ہے آشکارا ہو گی۔ چنانچہ جن لوگوں کا ضمیر کند ہو گیا ہے وہ لوگ ہمیشہ الٰہی باتوں کی طرف سے بے پرواہ رہتے ہیں۔ پاکی کی خوبصورتی یا اس کے حسن کو دیکھنے کے لئے پاکی کی نگاہ چاہئے ناپاکی مادہ کی نفسانیت ہے اور نفسانیت کی نسبت کلام میں یہ آیا ہے کہ جسمانی مزاج خدا کا دشمن ہے (رومی ۸: ۷) اور کہ وہ جو جسمانی ہیں خدا کو پسند نہیں آ سکتی اس کی نسبت یرمیاہ بنی کی نوحہ کی وہ باتیں راست آتی ہیں جو (یرمیاہ ۱: ۶ ) میں یہ آئی ہیں کہ’’ اس کی ساری رونق صیہون کی بیٹی سے جاتی رہی ‘‘اور یسعیاہ نبی کی وہ باتیں بھی صادق ٹھہرتی ہیں جو(یسعیاہ ۳۸: ۱، ۴) میں لکھی ہیں ’’واویلا ان کی شاندار شوکت جو کملایا ہوا پھول ہے۔ اور اس شاندار شوکت کا مر جھایا ہوا پھول جو اس شاداب ندی کے سرے پر ہے ۔انجیر کے پہلے پھل کی مانند ہو گا جو گرمی کے ایام سے پیشتر لگے جس پر کسی کی نگاہ پڑے اور وہ اسے دیکھتے ہی اور ہاتھ میں لیتے ہی جلدی سے کہا جاتا ہے‘‘۔ یرمیاہ کی کتاب میں یہ مضون آیا ہے ۔’’کیا کوشی


آدمی اپنے چمڑے کا یا تیندوا اپنے داغوں کو بدل سکتا ہے۔ تب ہی تم نیکی کر سکو گے جن میں بدی کرنے کے عادت ہو رہی ہے‘‘ (یرمیاہ ۱۳: ۲۳) ۔ اس حالت کی تشبیہ اس خوک (سور،خنزیر)سے دی جا سکتی ہے جو ہر چند بار بار صاف کیا جائے پر صفائی کی خوبی سے ناواقف ہو کے کیچ میں لوٹنا پسند کرتا ہے۔ ان آیات بالا کی حقیقت کےاوپر غور کرنے سے صاحب فہم پر صاف آشکارا ہو سکتا ہے کہ پاکی کے جوہر کو ہاتھ سے دے کے وہ اس کی پھر حاصل کرنے کی نسبت محض نا طاقت ہے۔ جیسا کہ نابیناآدمی روشنی کی ماہیت اور اس کی حسن سے بے بہرہ رہتا ہے۔ اسی طرح ناپاک آدمی بھی پاکی کے حسن کی شناخت سے خالی اوربے بہرہ ہے۔ اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے وہ اپنی ذات سے اس طاقت کو حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے مسیح نے اپنی زبان مبارک سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب تک آدمی پانی اور روح سے سر نو پیدا نہ ہو تب تک وہ آسمان کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا ہے‘‘۔ اور پولس رسول اس نئی زندگی کے بارے میں یہ ہدایت فرماتے ہیں کہ ’’ان ہم نے دنیا کی روح نہیں بلکہ وہ روح کو خدا کی طرف سے ہے پائی ،تا کہ ان چیزوں کو جو خدا نے ہمیں بخشی ہیں جانیں اور یہی چیزیں ہم انسان کی حکمت کی سکھائی ہوئی باتوں سے نہیں بلکہ روح القدس کی سکھائی ہوئی باتوں سے غرض روحانی باتیں روحانی لوگوں سے بیان کرتے ہیں۔ مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کے آگے بیوقوفیاں ہیں (ا۔کرنتھی ۲: ۱۲-۱۴) میں حضرت ایوب نے اپنی کتاب میں یہ فرمایا ہے کہ’’ کون ہے جو ناپاک سے پاک نکالے ‘‘(ایوب ۱۴: ۴) ۔جیسی کہ جب آنکھوں میں خلل آجا تا ہے اور ایک عرصہ تک سخت تاریکی میں رہنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ تب بصارت میں ایسی کمزوری آ جاتی ہے کہ آنکھ روشنی کی زیادتی کی تاب نہیں لا سکتی ہے ویسا ہی ناپاک انسان اپنی ناپاکی کی وجہ سے پاکی کے حسن کی تاب نہیں لا سکتا ہے اور یہ حالت اس وقت تک رہتی ہے کہ جب تک خدا جس نے ہمیں ابتدا میں خلق کیا ہے اسی قدر ت کاملہ سے ہم کو از سر نو پیدا نہ کرے۔ 

حسن تقدس کے اجر کی نسبت پہلو تہی 

دوسری بات جو پاکی میں استقامت بخشنے کے لئے کار گر ہوتی ہے سو اس کے اجر کو ملحوظ خاطر کہا ہے، پر اس کی نسبت بھی انسان بے پرواہ ہے۔ ناپاک انسان صرف بینائی سے زندگی کرتا ہے اور چونکہ پاکی کا انجام موت کے دریا کے اس پار ظہور میں آنے والا دیکھتا ہے ایمان کی استعمال میں لانے کا مادہ غائب رہتا ہے۔ وہ اس کو صفائی کے ساتھ اس عالم اسفل میں پست ہمت ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کس نے دیکھا ہے کہ وہاں کیا ہے اور کیا ہو گا۔ پس جیسا کہ جو شے جس قدر دور ہوتی ہے اسی قدر اس کا منظر دھُند لا نظر آتا ہے۔ اور اس کا حسن و قبح نہیں کُھلتا اسی طرح سے بہشت کی خوبیوں کا نادیدہ ہونا اس کے لئے ایک طرح کا پردہ ہو جاتا ہے۔ جس کے اس پاروہ نہ بخوبی دیکھ سکتا ہے نہ اپنی فکر سے اس کی ماہیت تک پہنچ سکتا ہے۔ اور یوں دامن صبر کو ہاتھ سے چھوڑ کر خود کو بلا میں گرفتار کرتا ہے۔ از بس کہ پاکی کا اجر نادیدہ ہے اور ایمان کا متقاضی ہوتا ہے اور ایمان کی ماہیت روحانی ہے۔ پس اس کے حصول کی قابلیت محال ہے جب تک کہ انسان کا دل ایسا مبدل نہ ہو جائے کہ بینائی اور ایمان کی زندگی کے بیچ میں امتیاز حقیقی جاری نہ ہو۔ لہٰذا اس کا کلام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا خداوند نے اپنی بندے یرمیاہ کی معرفت یروشلیم کے باشندوں کے حق میں کہا جب کہ ان پر ان کی روش کی ابتری کی وجہ سے آفتیں لانے کی تدبیر کی اور ان کو اس سے پھیرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نا امیدی کی بات ہے کہ اس لیے کہ ہم اپنے خیالوں کی پیروی کریں گے اور ہر ایک اپنے اپنے دل کی کجروی پر عمل کرے گا(یرمیاہ ۱۸: ۱۲)۔ 


وجہ چہارم عقل سلیم میں فتور کا لازم آنا 

پھر تصحیح کے بارے میں انسان کی عدم قوتی اس امرسے بھی مشیت (خواہش،تقدیر)ہے کہ اس کی عقل سلیم میں فتور واقع ہو گیا ہے۔ جب انسان کسی طر ح کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو ایک نہ دو نہ تین بلکہ جسم کے کل اعضاء پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح روح کے مرض مہلک اور مضر اثر کل استعداد روحی کے اوپر حاوی ہو جاتا ہے۔اب پاکی کی حالت روشنی کی حالت ہے اور جہاں روشنی ہے۔ وہاں عقل بھی منور ہے لہٰذاسلیم۔ پس جیسا کہ پاکی کی حالت روشنی کی حالت ہے ویسا ہی ناپاکی کی حالت تاریکی حالت ہے۔ چنانچہ کلام میں عقل کی تاریکی کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اب گناہ کی دخل نے پاکی کو ناپاک سے بدل ڈالا ہے اور گناہ کی بنیاد و دل کی تاریکی سے پڑی۔ پس اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ وہ تاریکی ترقی پذیر ہوئی۔ 

  الغرض جیسا کہ آنکھ جسم کی ہادی (ہدایت کرنے والا)ہے ویسا ہی دل رو ح کے ہادی ہے۔ اور جیسا کہ آنکھ کی کوری(اندھا پن) جسم کی تاریکی کو کامل کر دیتی ہے ویسا ہی دل کی کوری روح کی استعدادوں کو تاریک کر دیتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہت کہ عقل ایک استعداد اور رئیسہ(سردار) ہے۔ لہٰذا جیسا کہ دشمن سردار عظیم کے اوپر اپنا وار زیادہ تر کرتا ہے دل کی تاریکی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ استعداد عقلی کو تاریکی میں ڈال دے اور جب عقل میں فتور آیا تب اس میں سلامتی کہاں رہی کہ جس کے باعث سے اس کی تاریکی رفع ہو۔ جیسا کہ رات کی تاریکی سو آفتاب کی تمازت ( گرمی) کسی شے سے رفع نہیں ہو سکتی ہے۔ ویسا ہی عقل کی تاریکی سوا ئےشمع نور الٰہی کے کسی شے سے رفع نہیں ہو سکتی ہے۔ نفسانی طبیعت عقل کی سلامتی کی دشمن ہے۔ پس جب تک کہ نفسانیت قائم ہے تب تک عقل کا سلامتی کی طرف رجوع کرنا محال ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ’’ حکمت انسانی خدا کا دشمن ہے‘‘۔ اور یہ بھی کہ غیر قومیں اپنی باطل عقل کے موافق چلتی ہیں۔ کہ ان کی عقل تاریک ہو گئی ہے۔ اور وہ اس جہالت کے سبب سے جو ان میں ہے اور اپنے دلوں کی سختی کے باعث خدا کی زندگی سے جدا ہیں۔ انہوں نے سن ہو کے آپ کو شہوت پرستی کے سپرد کیا وغیرہ (افسیوں ۴: ۱۷-۱۹) ۔اب دل ہی ساری اخلاقی خوبیوں کا مرکز ہے اور عقل ان کی ہادی ہے لہذا اگر عقل تاریک ہو تو ساری خوبیاں ضرور ہی مسدود ہو جائیں گی۔

وجہ پنجم مصیبت کی عدم واقفیت

انسان اپنی تصحیح کے بارے میں اس سبب سے بھی ناقابل ہے کہ وہ اپنی مصیبت کما حقہ آگاہی نہیں رکھتا ہے۔ شناختِ حال حقیقی تصحیح کی جان ہے کیو نکہ بغیر اس پہچان کے ہر گز ایسا اشتعالہ حاصل نہیں ہو سکتا ہے کہ جو درستی کے لئے کار گر ہو۔ مریض جب تک کہ اپنی مرضی شدت و سختی اور اس کے مہلک اثر کو دریافت نہ کرے تب تک اس مرض کے علاج کی طرف کم دل لگاتا ہے اور وہ مرض جو خرابی کی ظاہری علامتوں سے خالی ہو سب سے بد تر ہوتا ہے کیو نکہ اس کی ناواقفیت جان کی گاہک ہوجاتی ہے اور تندرستی کے موقع کو ضائع کر دیتی ہے ایسا کہ سوا حسرت کے اور کچھ وہ نہیں جاتا ہے۔ برگشتہ انسان روشنی سے خالی اور زندگی سے دور ہو گیا ہے۔ اس سبب سے نفسانیت اس کے اوپر غالب ہے اور نفسانیت کی تاریکی پاکی کی آنکھوں کو جس کی روشنی کی ہدایت میں انسان اپنے حال سے بخوبی واقف ہو کے اور اس نظر سے اس پر نگاہ کرتا ہے کہ جس سے خدا اس کو دیکھتا ہے اندھا کر دیتا ہے۔ پس نہ اس میں سے برے ہو نے کی رغبت ہوتی ہے نہ وہ اس کی پرواہ کرتاہے، اس لیے کہ نفس کی پیروی سے منکر ہونا اس کو ناگوار گزرتا ہے۔ نفسانیت کی شیرینی اس کو محو کر دیتی ہے اور اس کے خیال کو ہلاکت کی سوچ سے ہٹا دیتی ہے۔ کسی نے انسان کی حالت کی نسبت کی کیا درست روایت کی ہے کہ


اتفاقاًایک شخص کے اوپر شیر نے وار کیا اس کی نگاہ جو اس کے اوپر پڑی تو وہ جان لے کے بھاگا پر جو ایک کوا ں سد راہ (کنواں حائل ہونا)تھا وہ اس میں گرا۔ قضارا(اتفاقاً،اچانک) اس کے بیچ میں ایک لکڑی لگی ہوئی تھی وہ اسی کے اوپر جا پڑا اور سلامت اس پر رک گیا۔ جو نیچے کی طرف نگاہ کی تو ایک بڑا اژدھا منہ پھیلائے ہوئے بیٹھادیکھا تب تو اور بھی پریشان ہواکہ دوسری بلا بد تر گلے پڑی ایک کے نیچے سے تو رہائی پائی پر دوسری سے کیو نکر جان بر(صحیح سلامت) ہوں گا۔ لکڑی جب ٹوٹ گئی فوراً نیچے گر کے اس موذی کا لقمہ دہن (منہ)ہو ں گا۔ پر اسی حیص و بیص(تکرار) میں اس لکڑی پر بیٹھے بیٹھے اپنی انگلی اس میں ڈالنے لگا اور حسب اتفاق جو اس کو منہ سے لگایا تو اس میں ایک طرح کی شیرینی پائی۔ اس شیرینی کو بار بار چاٹتے چاٹتے وہ ہر دو طرف کا خطرہ بھول گیا اور وہاں سے نکلنے کا خیال بھی فراموش کیا۔

نفسانی انسان کی بجنسہ (ایسا)یہی کیفیت ہے کہ نفسانیت کی شیرینی نے اس کی مصیبت کو فراموش کرا دیاہے اور وہ اپنی حالت کو بھول بیٹھا ہے۔ بنی اسرائیل کی اسی نفسانیت کی طبیعت کے اوپر ماتم کرتے ہوئے ہمارے مبارک منجی نے یہ کہا ۔’’ اے یروشلم اے یروشلم کئی بار میں بے چاہا کہ تیرے لڑکوں کو جمع کروں جس طرح مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے جمع کرتی ہے۔ پر تم نے نہ چاہا (لوقا ۱۳: ۳۴) ۔کاش کہ تو اپنے اسی دن میں ان باتوں کو جو تیری سلامتی کی ہیں جانتا پر اب وہ تیری آنکھوں سے چھپی ہیں (لوقا ۱۹: ۴۲) کسی بزرگ نے یہ نصحیت کی ہے کہ اپنے تئیں پہچان پر انسان اپنے تئیں پہچانے کیو ں کر؟ اندھا کہاں سے روشنی پا سکتا ہے۔ اس کی ذات تو تاریکی ہو گئی ہے یہ کام تو روح پاک کا ہے۔ پر انسان اس کی آواز کا شنوا نہیں ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ جیوں کا تیوں(ویسے کاویسا) اپنے گناہوں میں مرتا ہے نہ اس لئے کہ خداوند اس کی ہلاکت چاہتا ہے پر اس لئے کہ وہ اپنی حالت سے واقف ہونا اپنے لئے عین مصیبت سمجھتا ہے اور اس کی غفلت میں اپنی سلامتی تصور کرتا ہے۔ خدا اس سختی اور عدم توجہی سے ہر نفس کو بچائے اور اپنے امان میں رکھے۔ 

وجہ ششم دنیا سے اطمینان حاصل کرنے کی رغبت 

انسان اپنی تصحیح کے بارے میں اس وجہ سے بھی ناقابل ہے کہ اس کا دل اطمینان اور سلامتی کی اصل چشمی کی طرف بسبب اپنی ابتری کی رجوع کرنے کے برعکس دنیا سے اطمینان حاصل کرنے کی رغبت رکھتا ہے۔ جو دھندلی روشنی تاریکی کے درمیان میں سے اس کے دل کے اندر وقت بوقت اپنا اثر دکھلاتی ہے اور اس کے خیالوں کو بلند پروازی کے لئے تحریک دلاتی ہے و ہ بآسانی اپنے خیالوں کے مطابق اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے باعث سے اس بلندی کے نیچے کی طرف کو اترتی ہے اور زمینی چیزوں سے اطمینان ڈھونڈھنے کی رغبت آشکارا کرتی ہے۔اس مقام پر مسیح کی وہ تعلیم یاد آتی ہے جو( متی۱۲: ۴۳-۴۵)میں آئی ہے جب ناپاک روح آدمی سے باہر نکلتی ہے تو سوکھی جگہوں میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور جب نہیں پاتے تو کہتی ہے کہ میں اپنے گھر میں جس سے میں نکلی ہوں پھر جاؤں گی اور آ کے اسی خالی اور جھاڑا اور لیس پاتی ہے تب وہ جا کے اور سات روحیں جو اس سے بد تر ہیں۔


اپنے ساتھ لاتی اور اس میں داخل ہو کر وہاں بستی ہیں ۔سو اس آدمی کا پچھلا حال آگے سے برا ہوتا ہے۔ اس زمانہ کے لوگوں کا حال بھی ایسا ہو گا۔ ایمان کی نگاہ کی بصارت کم ہو جانے کے سبب سے وہ صرف ایک حد تک بلندی کے اوپر چڑھتا ہے پر حضرت موسیٰ کے ساتھ نبیوں کی چوٹی کے اوپر نہیں چڑھتا ہے۔ کہ جہاں سے زمین موعود کی برکتیں اور خدا کے جلال کی رونق نظر آئے اور وہیں قائم ہو جانے کے لئے کار گر ہو۔ یوں ایمان کے بازو تھک کر نیچے کو اپنے آشیانے کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ اتر کے خاموش بیٹھ جاتا ہے۔ اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خداوند کا یہ قول ہے کہ ’’جو آخر تک ثابت قدم رہے اور پائیدار رہتا ہے سو ہی نجات پائے گا‘‘۔ برگشتہ انسان نفسانیت کے ہاتھ میں بک گیا ہے اور اسی کا غلام ہو گیا ہے اور سانپ کی اس لغت میں شریک ہو رہا ہے کہ ’’تو زمین پر اپنے پیٹ کے بل چلے گا‘‘لہٰذا اس کی حیثیت اسی بات کے اوپر آ رہی ہے۔ کہ صرف نفسانیت کی آسودگی میں اطمینان ڈھونڈ ا ہے۔ نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا ہے۔ کیو نکہ وہ روحانی طور پر بوجھی(سمجھی) جاتی ہیں۔ پس اس بوجھ و سمجھ کی حاصل کرنے کے لئے روحانی طبیعت کا پیدا ہونا درکار ہے۔ اور یہ انسان اپنی ذات سے حاصل نہیں کر سکتاہے۔ پولس رسول نے (ططس ۳: ۳-۵) میں انسان کی اس برگشتگی کی حالت کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’ہم بھی آگے نادان ،نا فرمانبردار، فریب کھانے والے اور رنگ برنگ کی شہوتوں اور عشرتوں کے بس میں تھے پر جب ہمارے بچانے والے خدا کی مہربانی اور آدمیوں پر رغبت ظاہر ہوئی اس نے ہم کو راستبازی کے کاموں سے نہیں جو ہم نے کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئے جنم کے غسل اور روح القدس کے سر نو بنانے کے سبب بچائے گئے۔ 

خلاصہ الکلام 

وجوہات متذکُرہ بالا سے عیاں ہے کہ برگشتگی کے باعث آدم زاد نہ صر ف خدا کی رحمت سے دور ہو گئے بلکہ یہاں تک ابتری میں پڑ گئے ہیں ۔ اس آفت سے بری ہونے یا اس سے رہائی پانے کی طاقت و سکت ان میں مطلق باقی نہیں رہ گئی ہے کہ اس کی عقل اور سمجھ اور خواہش و مرضی بلکہ ساری استعداد روحی میں ایسی لاغری اور پژمردگی اور ناقوتی سرایت کر گئی ہے کہ وہ نیکی کی طرف سے بالکل مردہ ہو رہا ہے اور کہ اگر کوئی اعلیٰ قدرت یا طاقت بیرونی اس کے اوپر متاثر ہو کے اس کی کمزوری کو زور سے اور اس کی ناطاقتی کو قوت سے اور اس کی تاریک عقل اور سمجھ کو روشنی سے اور اس کی خواہش و مرضی کو نیا بنا کے بدل نہ ڈالے تو انسان کے لئے اپنی ذاتی تاریکی میں ابد تک کے لئے مبتلا رہنے کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ چنانچہ کلام کی وہ آیت راست و صادق آتی ہے کہ ’’خدا نے ہمیں بچایا اور پاک بلاہٹ سے بلایا نہ ہمارے کاموں کے سبب سے بلکہ اپنے ارادے ہی اور اس نعمت سے جو مسیح عیسیٰ کے واسطے ازل میں ہمیں دی گئی‘‘ (۲۔تیمتھی ۱: ۹) اور وہ بات بھی جو (۱- پطرس ۱: ۳-۴) میں آئی ہے۔ ہمارے خداوند عیسیٰ مسیح کا خدا اور باپ مبارک ہو جس نے ہم کو بڑی رحمت سے عیسیٰ مسیح کے مردوں میں جی اٹھنے کے باعث زندہ امید کے لئے سر نو پیدا کیا تا کہ ہم وہ بے زوال اور نا آلودہ اور غیر فانی میراث جو آسمان پر تمہارے لئے رکھی گئی ہے پائیں۔ اور پھر یہ کہ خدا ہی ہے جو تم میں اثر کرتا ہے کہ تم اس کی نیک مرضی کے مطابق چلو اور کام بھی کرو( فلپی۲: ۱۳)۔


آٹھواں باب

انسان کی بحالی کی تدبیر اور اس کے وسیلے کا تذکرہ

انسان کی بہتری کے لئے امید 

بیانات پیش رفتہ ہیں انسان کی اس تاریکی اور ابتری کا منظر دیکھنے میں آیا جس میں کہ وہ باعث گناہ کے گرفتار ہو گیا ہے اور جو کہ اس کی خطا کا واجبی نتیجہ ہے یہ حالت کیسی کریہہ (قابل نفرت)اور ہیبت ناک ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس کی سوچ وقت بوقت نہ آتی ہو اور اس سے پناہ مانگتا ہو۔ مصیبت میں پڑ کے نہ کبھی کوئی خوش ہوا ہے نہ ہرگز خوش رہ سکتا ہے۔ اور اس سے بڑھ کے مصیبت و آفت اور کیا ہو گی کہ انسان خدا کی تجلی سے محروم اور اس کی سلامتی بخش وبزرگی سے خارج ہو کے اندرآ جائے ۔ اور از بس کہ انسان نے دیدہ و دانستہ اپنے تئیں اس بلا کے دام میں پھنسا دیا ہے اگر وہ ابد تک کے لئے اسی تاریکی اور ابتری کی حالت میں چھوڑ دیا جاتا تو یہ اس کا مناسب بدلا ہوتا اور گنہگار کی سزا میں خدا راست ٹھہرتا اورانسان اپنی عذر خواہی کی نسبت خاموشی کی لگام اپنے منہ میں لگاتا اور اس کے لئے یہی خاص شغل مناسب و زیبا ہوتا کہ ابد الآباد اپنی پریشانی میں آپ نادم (شرمندہ)رہتا ۔جیسا کہ فرشتوں کا حال ہے۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ انسان کو اس تاریکی اور ابتری کی حالت میں نہ چھوڑے چنانچہ اس نے اپنی رحمت کی بے پایا ں سے تاریکی میں سے روشنی اور ابتری میں سے بہتری اور کلفت (رنج ،تکلیف)میں سے راحت کی صورت نکالی اور ان کی سلامتی کی نسبت اپنی مرضی کو بذریعہ یوں آشکارا کیا ہے کہ ’’مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور جیئے۔ باز آؤ اپنی بری راہوں سے باز آؤتم کاہے کو(کس لیے) مرو گے (حزقی ایل ۳۸: ۱۱) ۔ 

خدا کی رحمت انسان کی امید کی بنیاد 

یہ بات بھی قابل لحاظ کے ہے کہ انسان کسی طرح خدا کی رحمت کے اوپر اپنی سلامتی کی بحالی کے لئے دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ کیو نکہ جب رحمت کو پامال کیا اور اس کی تکفیر کی تو اس پر اسی کا امید وار ہونا محال ہے۔ چنانچہ انسان کو سوائےتاریکی کی ابدی سیاہی کے اور کسی تکفیر کی تو پھر اسی کا امیدوار ہونا محال ہے ۔چنانچہ انسان کو سوائےتاریکی کی ابدی سیاہی کی اور کسی بات کی انتظاری نہ تھی ۔بموجب اس قول کی کہ شریر جہنم میں ڈالے جائیں گی اور وہ ساری قومیں جو خدا کو فراموش کرتی ہیں۔ ایسی حالت میں خدا وند نے جو رحمت میں غنی ہے اس کی کمبخت حالت کے اوپر ترس کھایا اور اپنی رحمت کی بے پایاں سے اس کی مخلصی کے لئے اپنے دست قدرت کو دراز کیا اور اس کی رہائی و مخلصی کے لئے اس کا دامن گیر ہوا۔ کیو نکہ رحمت کا مادہ محبت کا متقامی ہوتا ہے۔ یوں خدا نے اپنی بڑی رحمت سے انسان کی نادانی اور خرابیوں کے اوپر عفو کا پردہ ڈالا اور اس کے گناہوں سے چشم پوشی کر کے آسمانی مکانوں کی میراث پھر حاصل کرنے کی لیاقت عطا کی اور اس کا استحقاق بخشا۔ لہٰذا کلام میں یہ آیا ہے کہ جب ہمارے بچانے والے خدا کی مہربانی آدمیوں پر ظاہر ہوئی اس نے


ہم کو راستبازی کے کاموں سے نہیں جو ہم نے کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئے جنم کے غسل اور روح القدس کے سر نو بنانے کے سبب بچایا جسے اس نے ہمارے بچانے والے عیسیٰ مسیح کی معرفت ہم پر بہتات سے ڈالا تا کہ ہم اس کے فضل سے راستباز ٹھہر کر امید کے مطابق ہمیشہ کی زندگی کے وارث ہوں (ططس ۳:۴-۷)۔ 

اس نجات کے حصول کا وسیلہ فضل ہے۔ 

پر تا کہ اس کی وجہ سے فخر بے جا و نازیبا سے بچائے جا کر صرف خدا کی رحمت کے اوپر تکیہ کرنے کے لئے ہدایت ملی۔ چاہیے کہ ہماری نگاہ ہمیشہ اس امر کے اوپر لگی رہے کہ جیسا خدا کی رحمت نے راہ نجات کھول دی ہے ویسا ہی اس رہائی کا حصول بھی اسی کے فضل کے اوپر موقوف ہے۔ وہ محض بخشش ہے۔ حق کا ذکر نام تک نہیں آ سکتا ہے اور سوا شکر و توکل کے اور کچھ چارا نہیں ہے کلام کی گواہی اس مقدمہ میں یہ ہے۔ تم فضل کے سبب ایمان لا کے بچ گئے ہو اور یہ تم سے نہیں خدا کی بخشش ہے اور یہ اعمال کے سبب سے نہیں نہ ہو کہ کوئی فخر کرے (افسیوں ۲: ۸-۹) ۔ 

اس کے حصول کا شرط قبول کرنا ہے۔ 

لیکن ہر چند کہ خدا نے اپنی رحمت کے بے پایاں سے گنہگار انسان کے لئے بہتری کی صورت نکالی ہے اور اس کی دعوت بھی کرتا ہے تا کہ اس کی سلامتی بخش نعمتوں میں شریک ہو اور اپنے مفت فضل سے انسان کو اس میں شرکت دیتا ہے تو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا حصول بجانب انسان ایک شرط کے اوپر موقوف ہے اور وہ شرط اس کو قبول کرنے کی ہے۔ اگر کسی ظرف (برتن)میں امرت (آب حیات)رکھا ہو تو اس کے دیکھنے سے اس کے فوائد میں شرکت حاصل نہ ہو گی یا آنکھ کہیں گنج (خزانہ)فراواں ہو تو اس کی اوپر نگاہ ڈالنے سے اس کا حاصل ہونا ممکن نہیں بلکہ جب تک کہ وہ حاصل نہ ہوا ور اس سے ہمارے دست مملو نہ ہوں تب تک وہ ہماری خوشی کو افزود (زیادہ)کرنے کے لیے نہ کارگر ہوگا اور نہ اس سے مطلب برآری(مطلب پورا ہونا) ہوگی۔ اسی طرح جب تک کہ خدا کا فضل حاصل نہ ہو تب تک وہ ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا ہے۔ جاننا چاہئے کہ کوئی ماہیت نہ رہے خیال سے حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس میں جدو جہد درکار ہے اور جب کوشش سے ہاتھ آئے تو سارے دل سے قبول کرنا لازم ہے تا کہ اس سے مستفید ہوں اسی طرح پر خدا کی رحمت کا حصول اس کی مقبولیت کے اوپر مشروط ہے یعنی اگر سارے دل سے خداوند کی نجات بطور بخشش کے قبول نہ کی جائے تو ہر گز حاصل نہ ہو گی۔ اس امر کی نسبت ہم کو کلام کی وہ آیت یاد رکھنی چاہئے جو (یوحنا ۱: ۱۲) میں آئی ہے کہ’’ جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں اقتدار بخشا کہ خدا کے فرزند ہوں۔ قبولیت حصول کی جان ہے۔ یہ دونوں لازم وملزم ہیں۔ جہاں قبولیت ہے وہاں ہی حصول ہے اور جہاں قبولیت نہیں وہاں حصول محال ہے۔ جو کلام کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے وہی تیس اور ساٹھ اور سو گناہ میوے لاتا ہے۔ پر جو قبول نہیں کرتا وہ بے پھل رہتا ہے۔ 


اس حصول کا شرط دوم ایمان ہے

لیکن اس حصول کی شرط میں صرف مقبولیت با ایمان بھی مشروط ہے۔ایمان قبولیت کا دست شفا ہے اور حصول کا مایۂ انبساط (شادمانی)ہے۔ یہ وہ جوہر ہے کہ جس کے بغیر خدا کو راضی کرنا محال ہے یہ وہ وسیلہ ہے کہ جس سے بخشش سماوی (آسمانی)سطح عرشی(زمین) کے اوپر اپنا اثر دکھلاتا ہے۔ اور خدا کی نجات قبول کرنے کے لئے قوی وسیلہ بن جاتا ہے۔ گو کلام میں چار اقسام کے ایمان کا تذکرہ آیا ہے۔ 

یعنی تواریخی اور عارضی اور معجزانہ یا مرعی(رعایت کیا گیا ،عائد کیا گیا) اور نجات بخشش ۔پر پہلے تین اقسام صرف بطور مدد گار کے ہیں اور ایمانِ نجات بخشش کی ماہیت کو پہنچ نہیں سکتے ہیں۔ اس نظر سے ہم ان سے کنارہ کر کے یہ کہتے ہیں کہ ایمانِ نجات بخشش ہی اس شرط دوم کے اوپر حادی ہے اور اس حصول کی ماہیت سے متعلق ہے چنانچہ لکھا ہے کہ ہم تو روح کے سبب ایمان کی راہ سے راستبازی کی امید کے بر آنے کی منتظر ہیں۔ اس لئے کہ مسیح عیسیٰ میں مختونی اور نا مختونی سے کچھ غرض نہیں مگر ایمان سے جو محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے(گلتیوں ۵: ۵-۶) ۔

یہ راہ نئی اور زندہ

از بس کہ یہ تدبیر خدا کے فضل کے اوپر مبنی ہے اور انسان کی کوشش و تدبیر سے کچھ سروکار نہیں رکھتی۔ کیو نکہ اس کی کوشش میں انسان عاجز ہے اور اس کی نسبت میں اس کی عقل قاصر اور اس کا خیال بند اور زبان چپ ہے یہ راہ اس پرانی راہ سے جو اعمال کی بنیاد کے اوپرقائم کی گئی تھی بالکل بے تعلق ہے۔ وہ ایک نئی راہ دکھلاتی ہے اور از بس کہ انسان کی نسبت خدا کے مقصد کے بر لانے میں کار گر ہے وہ صرف نئی بلکہ ایک زندہ راہ بھی کہلاتی ہے۔ 

پر اس نئی اور جیتی راہ سے کیا مراد ہے۔ یہ نئی اور جیتی راہ مسیح ہے جس نے اپنی فرمانبرداری سے انسان کو ابتری کی حالت سے نکال کے ابدی سرفرازی بخشتی ہے جیسا لکھا ہے کہ جیسے ایک شخص کی نافرمانی سے بہت لوگ گنہگار ٹھہرے ویسے ایک کی فرمانبرداری کے سبب سب آدمی راستباز ٹھہرائیں گئے (رومی ۵: ۱۹) اور مسیح نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے فرمایا ہے کہ’’ راہ حق اور زندگی میں ہوں کوئی بغیر میرے وسیلے کے باپ کے پاس آ نہیں سکتا ہے‘‘۔ 

دوسرا آدم 

جس طرح سے کہ آدم کی پیدائش کی رو سے اپنی ساری اولاد کا جانب دار تھا اسی طرح سے مسیح بھی اس نئے عہد فضل کا درمیانی ہو کے اپنی برگزیدہ لوگوں کاجانب دار ہوا۔پس جس طرح سے کہ پہلا آدم اپنی حکم عدولی سے اپنی اولاد کے لئے موت کا باعث ہوا ویسا ہی مسیح اپنے فرمانبرداری سے سب ایمانداروں کے لئے راستبازی اور زندگی کا بانی ہوا۔لہذا با اعتبار اس کام کے جس میں انسان کی سلامتی مد نظر تھی وہ دوسرا آدم کے خطاب سے ملقب ہوا ۔چنانچہ کلام پاک میں آیا ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم جیتی جان ہوا اور پچھلا آدم جلانے والے والی روح ہوا۔پہلا آدمی زمین سے خاکی ہے دوسرا آدمی


خداوند آسمان سے ہے(۱-کرنتھی ۱۵: ۴۵-۴۷)۔ بے شک یہ راہ جس سے اتنی بڑی نعمت پھر ہاتھ آئی نہایت ہی مبارک اور قابل تسلیم کے ہو گی اور مبارک وہ انسان جو اس راہ میں چلتا اور یوں ہمیشہ کی زندگی کی روشنی کو دیکھتا ہے۔ 

دوسرے آدم کی فوقیت و افضلیت 

جیسا کہ کل اجرام سماوی میں آفتاب سب سے زیادہ تر روشن اور فلک کی زیب و زینت اوراس کا جلال ہے ویسا ہی یہ خدا اور انسا ن کا محمود نہ صرف عالم بلکہ سماالسموات کی جانب کی بھی زیب و زینت ہے اور نہ اس دنیا میں نہ عالم بالا میں کوئی ایسا ہے جو اس پاک نام کی خوبیوں اور فضیلتوں کے ساتھ برابری یا ہمسری کا دعویٰ کر سکے چنانچہ کلام میں یوں آیا ہے کہ خداوند ہی نے اسے بہت سرفراز کیا اور اس کو ایسا نام جو سب ناموں سے نراگ ہے بخشا تا کہ عیسیٰ کا نام لے کے ہر ایک کیا آسمانی کیا زمینی کیا وہ جو زمین کے تلے ہیں گھٹنا ٹیکے اور ہر ایک زبان اقرار کرے کہ عیسیٰ مسیح خدا ہے تا کہ خدا باپ کا جلال ہو (فلپی ۲: ۹-۱۱) پھر اس کی فضلیت کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ اور ساری حکومت اور اختیار اور ریاست اور خاوندی پر اور ہر ایک نام پر جو نہ صرف اس جہان میں بلکہ آنے والے جہان میں بھی لیا جاتا ہے بلند کیا اور سب کچھ اس کے پاؤں تلے کر دیا۔ (افسی ۱: ۱۲-۲۲) ۔ 

نئے عہد کا درمیانی

از بس کہ بنی آدم کی نجات کے بارے میں اس دوسرے آدم کو ایک نیا اور اعلیٰ استحقاق بخشا گیا جو اسی قدر افضل تھا کہ جس قدر وہ خود اس عالم اسفل سے افضل تھا اور خدا نے اپنی رحمت کی فراوانی سے اس کے وسیلے باعث ٹوٹ جانے اس پرانے عہد کی بنی آدم کے ساتھ ایک نیا عہد فضل باندھا جو کہ ہر گز ٹوٹ نہ سکتا تھا یہ دوسرا آدم بہ اعتبار اس استعداد اعلیٰ کے نئے عہد کا درمیانی بھی کہلاتا ہے۔ سنیے کہ کلام اس مقدمہ میں کیا فرماتا ہے۔ پر اب اس نے اس قدر بہتر خدمت پائی جس قدر بہتر عہد کا درمیانی ٹھہرا جو بہتر وعدوں سے باندھا گیا اور اسی سبب سے یعنی اس سبب سے کہ اس نے ابدی روح کے وسیلے آپ کو خدا کے سامنے قربانی گزانا۔ وہ نئے عہد کا درمیانی ہے (عبرانیوں ۸: ۶، ۹: ۱۴-۱۵) ۔ 

ادونای صدقیوں خداہماری صداقت 

اور حالانکہ مسیح کی بدولت خداوند کی صداقت زمین کے اوپر آشکارا ہوئی اوراس کی خون کی بدولت بنی آدم کو حاصل ہوئی نبی نے بحکم الٰہی اس کو یہ نام عطا کیا۔ ادونای صدقیوں یعنی خدا ہماری صداقت۔ رسول نے بھی اس کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ تم عیسیٰ مسیح میں ہو کے اس کے ہو کہ وہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے حکمت اور راستبازی یا صداقت اور پاکیزگی اور خلاصی ہے (ا-کرنتھی ۱: ۳۰) ۔

صبح کا نورانی ستارا 

پھر اس نظر سے کہ مسیح کے باعث سے ہمیشہ کی زندگی کی امید بند ہے اور مثل صبح کے سارے کی جو مسافر کو دن کے نکلنے کی خبر دے کر خوشی بخشتا ہے۔ انسان کے پژمردہ دل ہرے کر دئیے گئے اس منجی عالم کو صبح کا نورانی ستارا لقب دیا ہے ۔ دیکھو (۲۔پطرس ۱: ۱۹) وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری


جگہ میں جب تک پو نہ پھٹے اور صبح کا تارا تمہارے دلوں میں ظاہر نہ ہو روشنی بخشتا ہے۔ پھر میں اسے صبح کا ستارا دوں گا (مکاشفہ۲: ۲۸) اور اس کے ضمن میں مسیح نے خود فرمایا کہ میں داؤد کی اصل اور نسل اور صبح کا نورانی ستا را ہوں(مکاشفہ ۲۲: ۱۶) ۔ 

شاہ سلامت

گوہمارے منجی کو اس کے مختلف منصب کے مطابق مختلف نام دئیے گئے ہیں جو گنہگار کی حسب حال ہونے سے اس کیے لئے نہایت قیمتی ہو جاتے ہیں اور عطر کی مانند اس کے سر پر اڈھیلے جانے سے اس کے دماغ کو معطر کر دیتی ہیں حتیٰ کہ وہ شخص جو اس کے مبارک لہو سے خریدا گیا ہے اس گیت کو اپنی زبان پر لانے سے شاد ہوتا ہے۔ عیسیٰ نام تیرا دل پسند کان چاہتے سننے کو ۔ زمین تمام آسمان بلند ۔ سب اس کی حمد کرو ۔ جس بات کا میں ہوں آرزو مند۔ سو تجھ میں ہی موجود۔ روشنی بن تیرے ناپسند۔ اور دوستی نامقصود ۔ تا ہم ایک نام ہے جو سب سے زیادہ تر دل پسند اور مرغوب ہے۔ یہ نام شاہ سلامت ہے اور اس نام سے اس کے اس دنیا میں آنے کی علت غائی ثابت ہوتی ہے ۔ وہ خدا اور انسان کے بیچ میں سلامتی اور صلح جاری کروانے کے لئے آیا نبی نے خدا کی ہدایت سے مسیح کی عجیب و غریب ناموں کی شامل حال کیااس کو سلامتی کا شاہزادہ کہا ہے (یسعیاہ ۹: ۶) ۔اور جب ہم مسیح کی سلطنت کی تاثیر اور اپنے دلوں میں اس کے اثر کے ا وپر غور و فکر کرتے ہیں تو ہمارے دل بے اختیار ان کے سلامتی کے قائل ہو کر کدا کا شکر کرنے کی ترغیب پاتے ہیں۔ کہ آسمانی سلامتی زمین کے اوپر آ گئی ہے۔ اور صداقت اور سلامتی باہم بوس و کنار(محبت اور پیار کرنا) کرتی ہیں۔ فرشتوں کی بھی گواہی یہ تھی۔ خدا کو آسمان پر تعریف زمین پر سلامتی اور آدمیوں میں رضا مندی ہو۔ اسی نظر سے فرشتے نے اس کا یہ نام بتلایا کہ’’ تو اس کا نام عیسیٰ رکھنا کیو نکہ وہ اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچائے گا ‘‘چنانچہ گناہوں سے رہائی پانا حقیقی سلامتی ہے جو صرف مسیح کے وسیلے سے جو دوسرا آدم کہلاتا ہے حاصل ہوتی ہے۔ 

دوسرے آدم کا انسان کے حسب حال ہونا 

یہ دوسرا آدم یوں بہر(کسی،کوئی ) نوع حسب حال تھا اور جب کہ خدا نے انسان کی سلامتی کے لئے اس کی وساطت کو قبول کیا تو اپنی عین محبت کو ظاہر کیا کیونکہ مسیح کے سوا کسی میں یہ طاقت نہ تھی کہ جنت کے اس دروازے کو جو آدم کے گناہ کے سبب سے بند ہو گیا تھا پھر کھول دینے کی سکت یا قابلیت ہوتی۔ الغرض یہ دیانت کی بات اور بالکل پسند کے لائق ہے کہ عیسیٰ مسیح گنہگاروں کے بچانے کے لئے اس دنیا میں آیا۔ اور مبارک وہ ہیں جو اپنی سلامتی کے لئے اس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔


نواں باب

کیفیت آدم ثانی

مسیح کا عجائب اور نادر ہونا 

اس عالم کا سارا انتظام نہایت عجیب وغریب ہے۔زمین کے اندر سے ایک خوشے کے نکلنے سے آفتاب کے طلوع ہونے تک عجائب ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو اس کے کل مدارج کو حل کر کے ایسا صاف کر دے کہ یہ دنیا مرجع(جائے پناہ) عجائبات نہ رہی۔ علاوہ اس کی خدا کے فضل کے انتظام میں اس کی قدرت ایسے عجائب طور پر آشکارا ہوئی ہے کہ جس کے سمجھنے میں انسان کی عقل قاصر ہے ۔حتیٰ کہ سخت سے سخت مخالفوں کی زبان بھی بند ہوئی ہے اور انہوں نے سکوت کیا اور اقرار کیا کہ یہ خداوند کا ہاتھ ہے چنانچہ جب خداوند نے اپنی رحمت کی فراوانی سے اپنے بندے ابرہام اور اسحاق و یعقوب کی قدیم اور یقینی وعدوں کو وفا کیا اور ان کی اولاد کو مصر کی زمین سے بالا دستی کے ساتھ نکالا اس وقت خداوند کے مقبول بندے حضرت موسیٰ نے اپنی فتح کی غزل میں یہ جملہ اس کی کبریائی کی شان میں گایا۔ معبودو ں میں خداوند تجھ سا کون ہے۔ پاکیزگی میں کون ہے ؟تیرا سا جلال والا ،ڈرانے والا ،صاحب بڑائیوں کا عجائبات کا بنانے والا (خروج ۱۵: ۱۱)۔ 

لیکن باوجود اس کے کہ یہ عالم خود ایک عجائب العالم ہے اور اس میں نہایت ہی نادر عجائبات ظہور میں آئے ہیں بلکہ روزمرہ دیکھنے میں آتے ہیں ۔تا ہم خلقت کے عجائبات میں سے سب سے عجیب ونادر یہ ہے کہ خدا نے مسیح کو جو اسی کی پاک ذات کی ماہیت کا نقش تھا اس عالم اسفل میں بھیجا تا کہ وہ بنی آدم کا عوض (بدلہ،تاوان)ہو کے ان کے لئے آپ کو خالی کر ے اوربندے کی صورت پکڑ کے آپ کو اس کی بحالی اور سرفرازی کی منشا سے ایسا پست کر ڈالے کہ اس کی حالت پر پستی گویا ختم ہو گئی۔ کیا دنیا میں اس سے زیادہ تر عجیب کوئی امر ظہور میں آیا ہے کہ وہ جو خلقت کا خالق ہے انسان بنا اور ایسی فروتنی کا متحمل ہوا کہ جس کے مقابل میں بنی آدم کی ساری پستی گروہی۔ اگر کوئی شخص اس کا ثبوت چاہے تو (یسعیاہ۵۵باب) کو پڑھ کے اور بغور مطالعہ کر کے بتلائے کہ کیا اس سے بڑھ کے پستی کی نظر بنی آدم کے بیچ میں دیکھنے میں آئی ہے یا آتی ہے یا آسکتی ہے۔ یہ وہ عجائب ہے کہ انسان کیافرشتوں کی بھی عقل دنگ ہے اور وہ اس راز کی ماہیت جاننے کے مشتاق ہیں۔ اس امر کی نسبت(۱- پطرس۱: ۱۲) میں الہٰام سے یوں رقم فرمایا ہے کہ ’’اس نجات کے تلاش و تحقیق نہ صرف انبیا ہی نے کہ بلکہ ان باتوں کی دریافت کرنے کے فرشتگان مشتاق ہیں‘‘۔ انجیل کا راز عظیم یہی ہے چنانچہ کلام میں یوں آیا ہے ۔ بالا اتفاق دینداری کا راز عظیم ہے۔ خدا جسم میں ظاہر ہواروح سیت راست ٹھہرایا گیا فرشتوں کو نظر آیا غیر قوموں میں اس کی منادی ہوئی دنیا میں اس پر ایمان لائے جلال میں اٹھایا گیا(۱۔تیمتھی ۳: ۱۲)۔ 


اس راز کا مہر الٰہی 

یہ راز صرف راز عظیم ہے ادر اک راز الٰہی ہے پر اس کے اوپر خدا وند کا اپنا ہی مہرودستخط پایا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت یوں ہوتا ہے کہ خدا نے اپنے بندوں انبیاؤں کے وسیلے سے پشت در پشت اس بات کے بھید کو آشکارا کیا اور ان کے وسیلے اپنے فضل کی بہتات اور اپنے جلال کی عظمت کو بنی آدم کی نسبت ظاہر کر کے ان کے خیالوں اور خواہشوں کی اسی راز کی طرف رجوع رکھا اور اس کے وسیلے سے ان کو تسلی عطا کی حتیٰ کہ سارے سچے ایماندار اسی نجات کی انتظاری میں زندگی بسرکرتے آئے اور فی زمانہ خدا کی سارے مقبول بندے اسی راز منکشف (ظاہر کیاگیا)سے خدا کے فضل کے حصول کے امیدوار رہتے ہیں۔ 

اس راز کا اول ظہور 

یہ راز اول اسی وقت آشکارا کیا گیا کہ جب حضرت آدم نے اپنے خداوند کے حکموں کو ٹال کے اپنے تئیں مع اپنی اولاد کے مور د لعن بنایا۔ وہ وقت آدم کے لئے بڑی تاریکی کا تھا اس سبب سے خداوند جو رحمت میں غنی ہے۔ اس کی حاجت کا پہچان کے ان کی تسلی یوں کرتا ہے کہ تم ابد تک کے لئے سرود نہ ہو گے۔ پر میں اپنی نجات تم کو عطا کروں گا چنانچہ اس بات کویاد رکھ کہ میری رحمت نے تمہارے لئے ایک راہ مخلصی کی تیار کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک تیری ہی نسل سے پیدا ہو گا جوسانپ یعنی شیطان کے سر کو کچلے گا۔ اس تسلی سے ان کے دل کو ایسا آرام حاصل ہوا کہ جس وقت ان سے ایک فرزند نرینہ پیدا ہوا اسی وقت انہوں نے خداوند کے وعدے کو مکمل سمجھ کے مارے خوشی کے کہا کہ میں نے خداوند سے ایک مرد پایا۔ گو یہ اس وعدہ کی تکمیل نہ تھی اور ہزار ہا برس کا عرصہ گزر نے والا تھا قبل اس کے کہ اس وعدے کا تکملہ قرار واقعی ظہور میں آیا۔ 

اس کا انکشاف مابعد 

اگرچہ یہ اول ظہور اس راز کا ایک جھلک سا نمودار ہوا تا ہم اس وقت سے برابر اس کی نسبت زیادہ تر صفائی ظہور میں آتی گئی اور ہر انبیاء متاخرین پر یہاں تک صفائی کے ساتھ آشکارا ہوتی گئی کہ وہ اور ا ن کے صحائف کے مطالعہ کرنے والے اس امر کے قائل ہو گئے کہ خداوند کی نجات آسمان سے زمین کے اوپر آنے والی ہے اور اس سے شاد ہوئے اور ایمان لا کے سر بہ سجود ہوئے اور وعدے کے وارث نبی ایساکہ حضرت آدم کے زمانے سے لے کے اس وقت تک کہ مرد خدا شمعون نے جو راستباز اور دیندار اسرائیل کی تسلی کی راہ دیکھتا تھا جس نے اس پاک فرزند معہود (وعدہ کیا گیا )کو اپنی گود میں لے کے برکت دی سب نے خداوند کے دن کو دیکھا اور اس کی نجات سے ایمان لا کے شاد ہوئے۔ یوں کلام کی وہ بات راست آتی ہے کہ گواہی جو عیسیٰ پر ہے نبوت کی روح ہے (مکاشفہ ۱۹: ۱۰) اور انتہائے عالم تک یہ بات راست رہے گی کہ خداوند عیسیٰ مسیح اس دنیا میں گنہگاروں کو بچانے کے لئے آیا (۱-تیمتھی ۱: ۱۵)۔


اس نجات کی بنیاد 

خداوند نے جس کو اس کے سارے کام آغاز آفر نیش (پیدائش ،مخلوق،دنیا)سے معلوم ہیں اپنی پیش بینی ہے۔دریافت کر کے کہ انسان اپنی پاکی کی حالت میں قائم نہ رہے گا۔ اپنی مشیت ازلی سے ازل میں اس نجات کی بنیاد ڈالے۔ لہٰذا پولس رسول اپنی خدمت گزاری کے ضمن میں افسی، کلیسیا کے آگے یہ بیان کرتے ہیں ’’مجھے جو سارے حقیر ترین مقدسوں سے حقیر ہوں یہ فضل عنایت ہوا کہ میں غیر قوموں کے درمیان مسیح کی بےقیاس دولت کی خوشخبری دوں اور سب پر یہ بات روشن کروں کہ اس بھید میں شرکت کیو ں کر ہوتی ہے جو ازل سے خدا میں جس نے سب کچھ عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے پیدا کیا پوشیدہ تھا‘‘(افسی ۳: ۸-۹) اور از بس کہ یہ ازلی نجات ابدی برکت اس جہان میں لائی ہے کلیسیا بھی اس نجات کی شاد مانی میں اپنی نجات کے پیشوا کو ابدی جلال یہ کہتے ہوئے دیتی ہے۔ اسی کو جس نے ہمیں پیار کیا اور اپنے لہو سے ہمارے گناہ دھو ڈالے اور ہم کو بادشاہ اور کاہن خدا اور باپ کے بنایا جلال اور قدرت ابد تک اسی کو ہے (مکاشفہ ۱: ۵-۶) ۔ 

مسیح کا اپنی ساری محبت سے اس نجات کی برکت کے لئے اپنے کو وسیلہ بنانا 

اگرچہ اس نجات کی تدبیر خدا کے ازلی ارادوں میں ہوئی تو بھی اس کو یہ پسند آیا کہ یہ نجات مسیح ہی کے وسیلے سے ظہور میں آئے کیو نکہ اس کے سواکوئی نہ تھا جو اس بڑے کام کے انجام دینے کے قابل ہوتا۔ لہٰذا مسیح نے بھی اپنی ساری محبت سے انسان کی حالت کے اوپر ترس کھا کے یہ کام اپنے اوپر لیا گو وہ اس بات سے واقف تھے کہ یہ سخت کام کس قدر گر انبار (پریشان کن)ہو گا۔ بموجب(وجہ یہ ہے) اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جس وقت خداوند عالم نے اپنے دربار سماوی میں یہ سوال پیش کیا کہ میں کسی بھیجوں اور میرے لئے کون جائے گا اسی وقت بیٹے نے یہ جوا ب دیا۔ دیکھ میں آتا ہوں۔ کتاب کی دفتر میں میرے حق میں لکھا ہے۔’’ اے میرے خدا میں تیری مرضی بجا لانے پر خوش ہوں‘‘ (زبور ۴۰: ۷-۸) اور ہر چند کہ ان کو اس کا علم تھا کہ مجھے اس پیالے کے تلچھٹ(وہ چیز جو مائع کی تہ میں بیٹھ جاتی ہے ،گاد) تک نچوڑ کے پینا ہوگا ۔ اور اس میں اس قدر تلخی تھی کہ اس نے یہ دعا کی کہ ’’اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے‘‘ تو بھی سا تھ ہی یہ کلمہ زبان پر آیا کہ ’’ میری نہیں بلکہ تیری مرضی ہو‘‘۔ اور جس وقت کہ مسیح نے اپنے دکھوں اور موت کی خبر اپنے شاگردوں کو دی اور پطرس نے کہا کہ اے خداوند تیری سلامتی ہو یہ تجھ پر کبھی نہ ہو گا۔ مسیح نے پھر کر پطرس سے کہا۔ ’’اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔ تو میرے لئے ٹھوکر کھلانے والا پتھر ہے۔ کیو نکہ تو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ انسان کی باتوں کا خیال رکھتا ہے‘‘ (متی ۱۶: ۲۲-۲۳) ۔اور یوں اس بات کو ثابت کیا کہ میرے اس دنیا میں آنے کی غرض یہی تھی اور ہے کہ بنی آدم کو بچاؤں ۔پس وہ کام کسی طرح سے رہ نہ جائے گا او رجو ہو سوہو پر نجات کا کام نا تمام نہ رہے گا بالفرض ایسا ہے۔ منجی انسان کی ضرورت کے لئے درکار تھا ورنہ انسان کی نجات غیر ممکن تھی۔


مسیح کا منجی موعود ہونا

اگر کوئی یہاں پر یہ سوال کرے کہ کیو ں کر ثابت ہے کہ فی الواقع عیسیٰ وہی مسیح ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا تو جواب یہ ہے کہ امر اس وجہ سے پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے کہ جتنی باتیں اس کے حق میں توریت اور صحائف انبیا میں اس کے ضمن میں لکھی تھیں سب عیسیٰ ناصری میں جس کا ذکر انجیل میں پایا جاتا ہے پوری ہوئیں۔ علاوہ اس کے جو شخص کہ ان کی زندگی کے حالات کے اوپر بغور ملاحظہ کرے گاوہ بھی صاف صاف یہی نتیجہ نکالے گا کہ بے شک خدا کی نجات نے اس کے ہاتھ میں عروج پکڑاہے۔ اس دنیا میں جو بہتر سے بہتر ہادی و پیشوا ہو گئے ہیں وہ مسیح کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے آفتاب کی رو برو چراغ ۔ اسی امر کی تصدیق میں مسیح کو آفتاب صداقت کا خطاب ملا ہے جس سے اس کا ا علیٰ مرتبہ اور نجات کے کام کی قابلیت مبر ہن (دلیل سے ثابت،مضبوط) و آشکارا ہے اور مخالف کا منہ بند کرنے کے لئے ایک علاج شافعی ہے۔ 

مسیح کی مقبولیت کا دلائل 

اس بات کے ثبوت میں کہ مسیح نجات کے مقدمہ میں خدا کا پسندیدہ و مقبول تھا ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے اس دنیا میں آنے کے طور کے اوپر غور کیجئے ۔ وہ اور بنی آدم کی مانند مرد کی خواہش سے پیدا نہیں ہوا ،کیو نکہ اگر ایسا ہوتا تو ایک گونہ (اسلوب،کسی قدر)ناکاملیت کا بھی احتمال(شک وشبہ،وہم) جائز تھا اور جتنے آدمی کہ ذاتی تولد کے سلسلہ میں آدم کے صلب سے نکلے ان سب میں وہ کاملیت جو خدا کے حضور میں پسندیدہ اور مقبول ہے پائی نہیں جاتی ۔بلکہ کلام کی وہ بات راست آتی ہے جو (واعظ۲۰:۷) میں رقم ہے۔ ’’کوئی انسان زمین پر ایسا صادق نہیں کہ نیکی کرے اور گناہ نہ کرے‘‘۔ پر اس سبب سے کہ مسیح اس دنیا کا نہ تھا اور نہ اس کی پیدائش تعلق ذاتی آدم سے متعلق تھی اس کے حق میں یہ گواہی ہے کہ وہ پاک اور بے بد اور بے عیب، گنہگاروں سے جدا اور آسمانوں سے بلند ہے (عبرانی ۷: ۲۶)۔

علاوہ اس کے مسیح کے شفیع و منجی ہو نے کی دلیلیں اس کی زندگی کے حالات سے آشکارا ہیں چنانچہ اب ہم اس کی طرف رجوع کریں گے۔ 

مسیح کی پیدائش

اس نظر سے کہ وہ ایک نئے عہد کا درمیانی ہوا جس کا ٹوٹنا کسی طور پر ممکن نہیں ضرور ہے کہ وہ اس طور پر اس دنیا میں نہ پیدا ہوکہ جس طور پر پہلا آدم پیدا ہوا۔ جس میں باوجود یہ کہ نیکی کی صفت تھی تا ہم خطا میں گرفتار ہونا ممکن تھا۔ مسیح نہ صرف عہد آسمانی کو دنیا میں لایا پر آپ بھی آسمان سے آیا اور خدا کے کمال سے بھرپور ہو کے آیا تا کہ انسان اس کے کمال سے فضل پر فضل پائیں۔ اسی سبب سے اس کی پیدائش بھی فوق العادی طور پر ہوئی لہٰذا جس وقت جبرائیل فرشتہ مریم کے اوپر مژدہ آسمانی لے کے نازل ہوا اس وقت ان سے یوں مخاطب ہوا ۔ ’’اے پسندیدہ سلام! خداوند تیرے ساتھ تو عورتوں میں مبارک ہے نہ اس وجہ سے کہ تمہارے بطن سے کوئی ایسا انسان پیدا ہونے والا ہے جو لاثانی اور بے نظیر ہو گا پر اس لئے کہ خدا کی قدرت کا تجھ پر سایہ ہو گا اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی کہا کہ اس سبب سے وہ پاک لڑکا جو تجھ سے پیدا ہو گا۔ خداوند تعالیٰ کا فرزند کہلائے گا‘‘۔ چنانچہ ان کی پیدائش کے وقت گو خلقت کی آوازبند تھی۔( کیو نکہ انہوں نے اس وقت جلال کے خداوند اور اپنے منجی کو نہیں پہچانا )فرشتوں نے وہ بے مثل غزل


گائی کہ ’’خدا کی آسمان پر تعریف اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں سے رضا مندی ہو‘‘ اور یوں آسمان سے رازِ آسمانی کا کشف ہوا۔ کیا بنی آدم میں سے کوئی ایسی حیثیت کے ساتھ اس دنیا میں کبھی آیا۔ اکثر لڑکوں میں بزرگی کی علامات ظہور میں تو آئی ہیں لیکن یہ پیدائش اور ظہور بے مثل اور لاثانی تھا۔ 

مسیح کی انتظاری کا عام ہونا 

بلکہ ہر چند کہ اس وقت دنیا نے اپنی سلامتی کے بانی اور چشمے کو نہ پہچانا تا ہم وہ بھی اس کی حقیقت سے ناواقف نہ تھا اور گو کہ وہ اس میں صرف ایک اعلیٰ درجہ کے انسان ہی کی علامت ڈھونڈھتے تھے تو بھی اس کے خدا سے ہونے کے اوپر کسی طرح کا شک نہ رکھتے تھے۔ کیو نکہ نبیوں کی گواہی نے ان کی آنکھیں کھول رکھی تھیں اور خلقت کی کل صورت اس کے صداقت کے اوپر مستند ہو رہی تھی۔ یہودیوں کیا امید کے نخل(درخت) میں اس وقت گل لگ چلے تھے۔ حتیٰ کہ ان کو اس عمدہ پھل کی جو ان کی تسلی کے لئے تھا ایک عام انتظاری تھی ۔چنانچہ شمعون نامی ایک بزرگ کے ضمن میں جب وہ ہیکل میں جس وقت کہ مسیح کو اس کے اندر لے گئے تھے روح کی ہدایت سے لایا گیا ۔لکھا ہے کہ’’ یروشلم میں شمعون نام ایک شخص تھا جو راستباز اور دیندار اور اسرائیل کی تسلی کی راہ دیکھتا تھا اور روح القدس اس پر تھا‘‘ ۔ اس کو روح القدس نے خبر دی تھی کہ جب تک خداوندکے مسیح کو نہ دیکھ لے موت کو نہ دیکھے گا۔ اس نے اسےاپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور خدا کی تعریف کر کے کہا کہ’’ اے خداوند اب تو اپنے بندے کو اپنے کلام کے مطابق سلامتی سے رخصت کرتا ہے۔ کیو نکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھی جو تو نے سب لوگوں کے آگے تیار کی ہے۔ قوموں کو روشن کرنے کے لئے ایک نور اور اپنے لوگ اسرائیل کے لئے جلال‘‘ (لوقا ۲:۲۵،۶: ۲۸-۳۲)۔ شمعون کی یہ عجیب باتیں قابل غور کے ہیں۔ جب سے دنیا موجود ہوئی تب سے کسی بچہ کے حق میں اس قسم کی باتیں نہ سکی نے کہیں اور نہ زمانۂ آخر تک کوئی کہے گا۔ یہ پسر(لڑکا،بیٹا) فوق العادی تھا ۔لہٰذا روح کی ہدایت سے فوق لعادی کلمات بھی اس کے حق میں مستعمل ہوئے۔ اور یہ بھی قابل غور ہے کہ نہ صرف یہودیوں ہی میں اس امر کی انتظاری عام تھی بلکہ کل زمین کے اوپر ایک عجیب و غریب ماجرے کی واقع ہونے کی انتظاری ہو رہی تھی۔ مثل ہے کہ کہ ایک ماس رُت آگے رہا وہ۔ ویسا ہی خلقت میں اس کے ایسے آثار نمود ہو رہے تھے کہ ساری خلقت کی ٹکٹکی اس کے اوپر لگ رہی تھی ۔ وہ مجوسی جن پر مسیح کی پیدائش کے وقت وہ ستارا جو یہودیوں کی امید کا بانگ سماوی تھا نمود ہوا گو اُن کو یہودیوں سے کچھ علاقہ نہ تھا ۔تا ہم اس کو دیکھتے ہی ان لوگوں نے یہ سوال کرنا شروع کیا کہ یہودیوں کا نو پیدا بادشاہ کہاں ہے کیو نکہ ہم نے پورب میں اس کا ستارا دیکھا اور اسے سجدہ کرنے کو آئے ہیں۔ اور جب اس پاک فرزند کی یروشلم میں ہو نے کی خبر پائی اور اوراسی ستارے کی رہبری سے اس کی حضوری میں پہنچائے گئے تو فوراً انہوں نے اسی جھک کر سجدہ کیا اور اپنی جھولیاں کھول کر اسے سونا اور لوبان اور مر نذر گزرانا اور یوں اس کے نبوی اور کہانتی اور بادشاہی سے چند عہدوں کو اس میں مشتمل پا کے اپنے فعل سے اس پسر کو وہ جلال دیا جو کسی فانی انسان کو آج تک حاصل نہیں ہوا۔ فرشتوں نے بھی آسمان سے ان پر نازل ہو کے اس کے عجیب بشارت کو اس ہردہ کے ساتھ دیا کہ مت ڈرو میں تمہیں بڑی خوشخبری سناتا ہوں۔ جو سب لوگوں کے واسطے ہے کہ داؤد کے شہر میں آج تمہارے لئے ایک نجات دینے والا پیدا ہوا وہ مسیح خداوند ہے اور یوں خداوند کا وہ وعدہ بھی پورا ہوا جو وسیلہ نبیوں کے کیا گیا تھا کہ ساری قوموں کا مطلب بر آئے (پورا ہونا)گا اور خدا وند کاجلال آشکارا ہو گا اور دنیا کی ساری کنارے خداوند کی نجات کو دیکھیں گے۔ 


مسیح کی آمد کے زمانہ کی موافقت اور مناسبت 

نہ صرف مذکورہ حالات ہی سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ یہ نجات جو مسیح کے وسیلہ سے گنہگار انسان کو ملی خدا کی طرف سے تھی لیکن اور ماجرے بھی اس کی پیدائش کے وقت ایسے عجیب ظہور میں آئے کہ دنیا اور اس کی آمد کی خوبیاں آشکارا ہو گئیں اور گویا کہ کل عالم خدا کی نجات کو تسلیم کرنے کے اوپر آمادہ و رجوع تھا۔ مسیح کی پیدائش کا زمانہ ہر طرح سے مناسب و موافق تھا اور نہ ان متن باتوں سے واضح ہے۔ 

اول

رومیوں کی سلطنت کی ترقی اور یونانی زبان کے رواج عام سے انجیل کی خوشخبری کی بہ آسانی مشتہر ہو نے کی بنیاد ڈالی گئی ۔ 

دوم

اسی زمانہ کے قریب قریب روئے زمین کی قوموں میں صلح عام جا رہی تھی ۔ 

سوم 

اس عالم کی دینی اوردنیوی حالتیں ایسی ابتری میں پڑ گئی تھیں کہ اگر ان میں صحت نہ در آتی تو درستی کی امید بالکل جاتی رہتی ۔ ہاں اس زمانہ کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیسا پو پھٹنے اور آفتاب کے طلوع کرنے کے درمیان میں حددرجہ کی تاریکی ہو جاتی ہے اور جو گویا کہ آفتاب کی آمد کے خوف سے سد راہ ہو جاتی ہے اور اس کی تابندگی کو روکنا چاہتی ہے پر عین اسی وقت کے اوپر آفتاب ان کے حجاب کے پردہ نقاب کو ان کے اوپر سے اٹھا کے اپنا پورا اثردکھلا کر ان کو نادم کرتا ہے۔ 

اس کی ثبوت کی اول حقیقت 

رومیوں کی سلطنت اس زمانہ میں ایسی ترقی کے اوپر تھی کہ جہاں تک روئے زمین کا حال ان کے اوپر آشکارا تھا وہ سب جگہ ان کے تحت میں تھیں اور جتنے اقلیم (ولایت ،ملک)کہ اس ریاست سے دورتھے ان میں سے اکثر اس کے مطیع ہو کر اسے بغل بندی دیتے اور یوں رومیوں کی سلطنت کا رعب اور دبدبہ کل روئے زمین کے اوپر چھا گیا تھا کہ جیسا سرکار انگریز کارعب و دبدبہ فی زمانہ ملک ہند میں بلکہ اور اور دلائلوں میں بھی چھا یا ہوا ہے ایسا ملکہ معظمہ کی رعایا ہر ملک کی سیر و گشت بے گزند(بغیر تکلیف کے) کر سکتی ہے۔ یہ اسی طور پر اس زمانہ میں مسیح کے شاگرد انجیل کی خوشخبری کو دنیا کے دور دراز ملکوں میں بھی بے کھٹکے لے گئے اور سب کو مسیح کی بشارت دے کے اکثرملکوں اور شہروں میں مسیحی کلیسیا کی بنیاد ڈالی۔ اس میں ہم صاف صاف خداوند کے دست قدرت کو دیکھ سکتے ہیں اور ایسے امر کا ہونا خالی از حکمت نہ تھا اور وہ حکمت یہ تھی کہ خداوند کا ممسوح (مسح کیا ہوا،مخصوص کیا ہوا)اس دنیا کے اوپر اپنی سلطنت قائم کرنے کے لئے آنے والا تھا ۔لہٰذا راہ پہلے ہی سے تیا ر ہو گئی تا کہ انجیل کی بشارت میں کسی طرح کا خلل واقع نہ ہوں جیسا کہ فی زمانہ خداوند کے اس وعدہ کو پورا ہونے کی نسبت کی ،کہ اس بادشاہت کی خوشخبری تمام دنیا میں سنائی جائے گی۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت کی رعب کے باعث ساری قومیں انجیل کو دخل دینے کے لئے مستعد ہیں ۔حتیٰ کہ چینی اور جاپانی بھی جو اجنبی اقوام سے عداوت دلی رکھتے اور ان کو اپنے ملک میں آنے دینے کے روا دار نہ ہوتے قاصد انجیل کے لئے بند نہیں ہیں اور ان ملکوں میں بھی مسیحی کلیسیائیں قائم ہیں۔ یوں عنقریب ساری دنیا


میں ہاں محمدیوں کی ریاستوں اور سلطنتوں میں بھی انجیل کی بشارت بخوبی دی جاتی ہے ویسا ہی اس وقت بھی رومی سلطنت کے باعث سے مسیح کی آمد کے لئے را ہ تیار ہو گئی اور اس کی تشہیر کے لئے ہر طرح سے مدد حاصل ہوئی یونانی زبان کا رواج بی اسی مشیت سے تھا اور اس امر سے ساری تربیت یافتہ اقوام میں انجیل کی بشارت دینے میں بڑی مدد ملی ۔ یونانی زبان کا اس زمانہ میں ایسا رواج ہو گیا تھا کہ یہودی بھی اپنی عبرانی کا بہت کچھ بھول گئے تھے ۔حتیٰ کہ مسیح کی زمانہ سے عنقریب دو سو برس پیشتر بائبل کے یونانی زبان میں ترجمہ کرنے کی نوبت آ گئی تھی۔ پس روئے زمین کے اوپر ایک ہی سلطنت اور ایک ہی زبان کے مروج ہوجانے کی وجہ سے مسیحی دین کو سارے عالم میں پھیلنے کے لئے راہ کھل گئی اور اس سبب سے کہ یہ زبان عام فہم ہوئی انجیل بھی اسی زبان میں قلم بند ہوئی۔ 

اس کے ثبوت کی حقیقت دوم 

روم کے بادشاہ بڑی صاحب حوصلہ تھے۔ اور روئے زمین کے اوپر قابض ہونے کا دم بھرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تلوار ہمیشہ میان کے باہر ہی رہی ہے اور کوئی ملک ایسا نہ تھا کہ جس کے اوپر انہوں نے دست انداز ی (مداخلت کرنا)نہ کی ہو۔ لہٰذا ان کے ہاتھ خون ہی میں تر رہتے تھے اور چونکہ ان کا ہاتھ ہر ایک کے برخلاف تھا ،ہر قوم کا بھی ہاتھ ان کے مخالفت میں اٹھا رہتا تھا ۔یوں ان کو شرارتوں اور بغاوتوں کی وجہ سے چین تک نہ لینے دیتے تھے۔ اسی طرح سے ایک سلسلہ لڑائیوں کا جاری رہا اور ان کے سپاہ جنگ کی آفت سے بری نہ ہو سکتے تھے۔ لیکن یہ زمانہ ایسا تھا کہ لڑائی سے ایک گو نہ امن حاصل تھا ۔اکثر مورخوں کا یہ قول ہے کہ

جانوس کی مندر کا دروازہ بے سبب لڑائیوں کی وہ سےہمیشہ کھلا ہی رہتا تھا اور صرف صلح کی وقت میں بند ہوتا تھا۔ اس مندر کا دروازہ اس وقت بند ہوا اور یوں وہ زمانہ امن و امان کا متصورہوتا تھا۔

موشئیم صاحب اپنی تواریخ کلیسیا میں گو اس امر کے اوپر شک کرتی ہیں تا ہم ان کا بھی یہی اقرار ہے کہ

اس زمانہ میں لڑائیاں موقوف تھیں۔ اور صلح کی وجہ سے لوگوں اور قوموں اور مملکتوں میں اطمینان جاری تھا۔

یہ حالت مسیح کی آمد کے لئے ایسی مناسب تھی کہ جیسا رات کی تاریکی کی دفعہ کرنے کے لئے آفتاب ایک ضرورت سے ہے۔ نبیوں نے الہٰام الٰہی سے ہدایت پا کے مسیح کو شاہ سلامت کے خطاب سے ملقب کیا تھا لہٰذا ضرورتھا کہ اس کی آمد کی سلامتی کے آثار روئے زمین کے اوپر نمودار ہوں ۔ ہاں جیسا کہ صبح کا ستارا مسافر کے لئے پو پھٹنے کی خبر لا کے اس کے دل کو بشاش کرتا ہے۔ ویسا ہی شاہ سلامت نے اپنے آنے کے قبل دنیا میں ایک ایسا امن جاری کیا کہ سب نے اس میں خداوند کی قدرت کو دیکھا اور یوں خلقت نے مع بنی آدم کی سلامتی کی نعمت حاصل کی۔ اس میں کسی طرح کا شک نہیں کہ سلامتی نے زمین کے اوپر قدم ڈالا تھا پس فرشتوں نے بھی مسیح کی پیدائش کے وقت اپنے غزل یوں چھیڑی کہ زمین پر سلامتی ہو۔ 

اب اگر ہم اس ماہیت کے اوپر غور کریں کہ کوئی چیز زمین کے اوپر اتفاق سے نہیں ہوتی ہے پر خدا اپنے نیک ارادے کے مطابق سارے کاموں جو انجام دیتا ہے اور بموجب کلام کی اس آیت کو جو (زبور۴۶: ۸-۹) آیت میں آئی ہے۔ اب خداوند کے کاموں کو دیکھ کہ زمین کی ساری طرفوں تک لڑائیاں تھا متا وہ کمان توڑتا اور نیزے دو ٹکڑے کرتا اور گاڑی کو آگ سے جلاتا ہے اور اس کو اس بات سے ملائیں جو نبی نے مسیح کے حق میں کہی کہ’’ میں


خداوند نے تجھے صداقت کے لئے بلایا میں تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کرو ں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور بند وں کو قید سے چھڑا دے اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کند ھے پر ہو گی اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے۔ سلامتی کا شہزادہ اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہو گی اور خداوند کی روح مجھ پر ہے‘‘۔ کیو نکہ اس نے مجھے مسیح کیا وغیرہ تو کون اس بات کے اوپر شک لا سکتا ہے۔ کہ یہ خداوند کا کام نہیں ہے۔ ہاں فی الحقیقت یہ خداوند کا کام ہے اور ہماری نظروں میں عجوبہ ہے۔ یہ خداوند کا کام ہے اور ہم اس سے شاد ہیں کہ خدا نے آپ کو بے گواہ نہیں چھوڑا بلکہ سلامتی کو دنیا میں لا کے اپنی مقبولیت کی مہر اس کے اوپر لگاتا ہے۔ پس دواے لوگوں کے گھرانوں دو خداوند کو عزت و جلال اور اس کی نجات میں شاد ہو کیو نکہ یہ سلامتی تمہارے لئے ہے۔ 

اس کے ثبوت کی حقیقت سوم

اس عالم کی دینی اور دینوی حالت میں علی الخصوص بڑی ابتری ہو رہی تھی۔ اس زمانہ کے علماء حکما اپنی عقل کی کوشش اور سعی کو حد درجہ تک پہنچا چکے تو تھے تو بھی اس خرابی اور ابتری کے دفعہ کرنے کے لئے جس کے اوپر ان کی نگاہ نا امیدی کے ساتھ پڑی تھی ان کی کوشش کار گر نہ ہوئی۔ ان کی حکما میں سے جو افضل ترین تھے اس ابتری سے اس قدر واقف اور اس کے دفعیے کے لئے بہمہ تن مشتاق اور آرزو مند تھے بلکہ ان میں سے اکثر کہہ مرے کہ اگر خدا آپ اپنی مرضی کو ہم پر آشکارا نہ کرنے تو ہم کسی نوع سے اس بات کو دریافت نہیں کر سکتے کہ انسان کی حالت کیا ہو گی اور کہ مشیت الٰہی ہمارے انجام کے نسبت میں کیا ہے۔ آیندہ سزا اور جزا کی نسبت بھی بڑی تاریکی میں پڑے تھے اور تمنا میں زندگی کرتے تھی کہ کاش یہ راز کسی طرح سے کھل جاتا اور یہ عقیدہ حل ہو جاتا۔ علم و دانش انسانی اپنی عروج کی ماداالنہار تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن کوئی تدبیر اس تیرگی کے رفع کرنے اور شک کو ان کے دل میں سے دور کرنے اور لوگوں کو ان امورات قبیحہ (بُری)کی جو اس وقت رائج ہو گئی تھی تارک بنانے کے لئے نہ تو بہم پہنچتی تھی اور نہ کوئی وسیلہ کارگر تھا ۔انسانی دانش سے کمال کے ہوتے ہوئے وہ بات راست آتی تھی کہ دنیا نے اپنی دانش سے خدا کو نہ پہچانا ۔ بلکہ باطل خیالوں میں پڑ گئے اور ان کے نافہم دل تاریک ہو گئے وہ آپ کو دانا ٹھہر ا کے نادان ہو گئے۔ اور یہ تاریکی سوائے یہودیوں کی روئے زمین کی کل قوموں کے اوپر چھائی تھی بلکہ مردمان روشن ضمیر اس تاریکی اس سے پناہ بھی مانگی تھی۔ اور از بس کہ سالک (راہ چلنے والا،جوخدا کاقرب بھی چاہے اور شغل معاش بھی رکھتا ہو)سے نہیں ۔ ہے کہ اپنی راہ کو سدھارے ۔خدا نے عین اس تاریکی حالت میں مسیح کو اس عالم فانی میں بھیج کر آفتاب صداقت کی روشنی کو تابع کیا اور دنیا کی ابتری نے اس کلام کی ماہیت کو آشکارا کیا کہ نہ روز سے نہ قوت سے پر میری روح سے خداوند فرماتا ہے۔ یوں ہم صاف دیکھتے ہیں کہ یہ نجات خداوند کی تھی جو یہ چاہتا تھا کہ انسان راستی کی پہچان کو حاصل کرے اور خود دریافت کرے کہ صرف خدا ہی کی رحمت سے انسان کی مغفرت ہے ۔ بہر حال ان امروں (فعل،کام)سے جن کا اوپر اختصارً تذکرہ(مختصر بیان) ہوا صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی آمد وقت نہایت مناسب وموافق تھا اور اگر انسان کو نجات دینا مطلوب تھا تو اس سے بہتر وقت اس کے ظہور کے لئے ہو نہیں سکتا تھا۔ پس اس مناسب و موافقت میں ہم اس نجات کے اوپر جو مسیح کے باعث سے اس دنیا میں لائی گئی خداوند کی مقبولیت کی مہر پاتے ہیں۔ 


مسیح کی پیدائش کی حقیقت اورکیفیت 

مسیح کے مقبول ہونے کی دلیل اس کی پیدائش کی حقیقت اور کیفیت سے ظاہر ہے ۔ جو بات فوق العادی ہوتی ہے اس کے کل آثار بھی فوق العادی ہوتے ہیں اور باوجود یہ کہ اکثر ماجرے اس دنیا میں عجیب و غریب اور نادر زمانہ وقوع میں آئے ہیں ۔لیکن مسیح کی پیدائش کے زمانہ میں ایسی باتیں ظہور میں آئیں کہ جو عدیم المثال (بے مثل ،جس کے برابر کوئی نہ ہو)اور لاثانی ہیں۔ حتیٰ کہ رسول کی وہ بات صادق ٹھہرتی ہے۔ کہ جو ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بیان کرتے ہیں جو راز کے ساتھ تھی جسے خدا نے زمانوں سے پہلے ہمارے جلال کے لئے مقرر کیا (ا۔کرنتھی ۲:۷) ۔گو دنیا ایک عجیب و نادر شخص کے آنے اور ساری چیزوں کو بحال کرنے کی منتظر تھی تا ہم ہنوز کسی پر یہ آشکارا انتہا کہ کب اور کیو نکریہ ظہور میں آئے گا؟ لیکن خدا نے اپنی مشیت (خواہش)سے انسان کی نجات کی نسبت اپنی اصلی ارادے کی تکمیل کی یہ تدبیر نکالی کہ اپنے ایک مقرب فرشتے کو ایک پاک دامن بتول (کنواری)کے پاس بھیج کے ان کو یہ بشارت دی کہ ’’اے مریم مت ڈر کہ تو نے خدا کے حضور فضل پایا اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عیسیٰ رکھے گی۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند اس کے باپ داؤد کا تخت اسے دے گا ۔ اور وہ سدا یعقوب کے گھرانے پر بادشاہت کرے گا اور اس کی بادشاہی کاآخر نہ گا‘‘ (لوقا ۱: ۳-۳۳) ۔آیت اور جب اس زن پسندیدہ اور مبارک نے بنظر جسمانی اس امر کے محال ہونے کی نسبت اپنے اسرار کا اظہار کیا تو فرشتے نے یہ تسلی بخش راز ان کے اوپر یوں ظاہر کیا کہ ’’روح القدس تجھ پر اترے گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا تجھ پر سایہ ہو گا۔ اس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہو گا خدا کا بیٹا کہلائے گا ‘‘(لوقا ۱: ۳۵) ۔اوریہ امر یہیں تک موقوف نہ رہا بلکہ روح پاک کا نزول ان کی بہن الیشبع کے اوپر بھی ہوا اور روح سے معمور ہو کے ان کے ملاقات کے وقت زور سے پکار کے کہا کہ ’’تو عورتوں میں مبارک ہے تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہے۔ میرے لئے یہ کیو نکر ہوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی کہ دیکھ تیرے سلام کی آواز جو نہی میرے کان تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ اور مبارک ہے وہ جو ایمان لائے کہ یہ باتیں جو خداوند کی طرف سے کہی گئیں پوری ہوں گی‘‘۔ (لوقا ۱: ۴۱ -۴۵) جب اس دو چند شہادت غیبی سے مریم کے اوپر اس کا راز افشا ں ہو گیا تو اس نے بھی خدا کے ارادے کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کا جو اپنے گلے میں ڈالا اور صبر اور عجز و انکسارکے ساتھ خداوند کی حمد یوں کی ۔ میری جان خدا کی بڑا ئی کرتی ہے۔ اور میری روح میرے نجات دینے والے خدا سے خوش ہوئی وغیرہ (لوقا ۱: ۴۶-۵۵) ۔جو پشت در پشت اس کی کلیسیا کے لئے تسلی کا باعث ہوا ہے اور اگر ایک اور بھی شہادت اس امر لاثانی کی نسبت ضرور ہے تو حضرت زکریا کی ان باتوں کے اوپر جو( لوقا ۱: ۴۷ -۷۹) کے بیچ میں آئی ہیں۔ گوش دل سے لحاظ کرو۔

علاوہ بریں (اس کے علاوہ)جب کہ اس امر کے نویں مہینے کے قریب قریب قیصر اگستس شاہ روم کا فرمان مردم شماری کی نسبت جاری ہوا تو کیا ہم اس امر کو اتفاق سے سمجھ سکتی ہیں کہ اسی حالت میں مسیح کی پیدائش ہوئی۔ آیا ہم اس کو ایک بات ایسی مصدق پاتے ہیں کہ جس میں خدا کا فضل انسان کی نجات کی نسبت پورا ہونے والا تھا جس کے باعث سے خدا نے اپنی پروردگاری کے انتظام میں ایسا بندوبست کیا کہ اس کے نجات زمین کے اوپر نمودار ہو اور وہ عقدہ (گرہ،عہد )جو اب تک لاحل تھا ۔یعنی کہ خدا انسان پر اپنی نجات کو ظاہر کرے گا یا نہیں حل ہو گیا اور وہ دن آیا کہ جس پر ایمان سے نگاہ کر کے ابرہام کا دل شاد ہوا۔ پھر کیا مسیح کی پیدائش کے وقت فر شتوں کا آسمان پر سے محامد(عمدہ اوصاف) ہونا امر اتفاقی تھا۔ آیا کہ وہ خداوند کی نجات کی بشارت تھی جو زمین کے اوپر نمود ہوئی اور ان کی غزل کے مدعا کے مطابق زمین پر آسمانی سلامتی آئی۔ اس کے سوا مجوسیوں کا اس لڑکے کی تلاش میں نکلنا اور اس کو پا کے اس کے آگے سونا اور لوبان اور مر نذر گذراننا اورشمعون اور حناکی نبوت جو اس پاک فرزند کی نسبت کی گئیں امر اتفاقی تھی ۔آیا کہ وہ


مصدق راز الٰہی تھے جس سے ایک سلسلہ شہادت کا قائم ہوا اور مسیح اور اس کی نجات کی مقبولیت کے اوپر دال (دلیل)ہوا۔ کیا کسی اور لڑکے کی پیدائش کی ضمن میں ایسی ایسی عجیب و غریب باتیں کبھی واقع ہو یں یا ایسی عجیب و غریب شہادتیں سنی گئیں۔ یہ وہی بات ہے کہ جو خدا نے اپنی بندے کی معرفت فرماتی تھی ۔ خدا جس نے اگلے زمانہ میں نبیوں کے وسیلے باپ دادوں سے بار بار اور طرح بطرح کلام کیا۔ ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلے بولا جس کو اس نے ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا وغیرہ اور اس سبب سے کہ وہ خدا کا مسیح تھا خدا نے خوشی کے تیل سے اس کو زیادہ ممسوح کیا تا کہ باپ کا جلال ظاہر ہو۔ 

مسیح کی طفولیت کا کمال اس کی مقبولیت کی دلیل 

اگر ہم مسیح کی پیدائش کے وقت کی حقیقت و کیفیت سے در گزر کر کے اس کی طفولیت (بچپن)کے اوپر لحاظ کریں تو اس ایام میں بھی ہم بہت سی ایسی باتیں اس کی ذات میں پاتے ہیں کہ جس سے اس میں خدا کی صورت کا نقش پایا جاتا اور اس کی مقبولیت کی کافی دلیل ہوتا ہے طفولیت کی پاکی اور اس کا کمال مسیح کی ذات کے اوپر ختم ہے۔ وہ نہ صرف قوموں کی امید گاہ بلکہ ان کو روشن کر نے کے لئے ایک نور اور اسرائیل کے لئے جلال تھا،۔ اجرام سماوی میں بہت سے سیارے و ستارے تابدار(چمک دار)تو ہیں لیکن آفتاب کو سب کے اوپر ایک ذاتی فوقیت ہے ۔اس دنیا میں بہت اقسام کے گل ہیں لیکن ہر گل ایک دوسری سے فرق رکھتا ہے اور گلاب کی آب و تاب اور خوشبو کے آگے سب دب جاتے ہیں۔ لڑکے بھی بہتیرے(بہت سے) اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ جن کی خوشنمائی اور پیشانی کی کشادگی اور زیر کی(عقلمندی ،دانائی) میں گویا آیندہ انسانیت چھپی ہوئی نظر آئی۔ لیکن جیسا آفتاب کے آگے کسی روشن شے کی کچھ حقیقت نہیں ہے ویسا ہی مسیح کے مقابلہ میں وہ سب اطفال(طفل کی جمع ،بچے) گم نام ہو جاتے ہیں۔ اس کے چہرے کے اوپر وہ شان تھی کہ فرشتوں نے اس کی مدح سرائی کی اور ایسی پاکی تھی کہ جس پر خدا ہی کی مہر پائی جاتی ہے۔ جس حال میں اس کے مقرب فرشتہ نے اس کو پاک لڑکا کے لقب سے نام زد کیا اور اس کو خدا تعالیٰ کا فرزند قرار دیا چھوٹے چھوٹے لڑکے معصوم تو ہوتے ہیں ۔لیکن اس پاک لڑکے کی معصومیت فوق العادی تھی اور جس قدر زیادہ تر اس کے اوپر غور کیا جائے اسی قدر زیادہ تر درخشاں (روشن)پایا جائے گا۔ حتیٰ کہ کلام کی اس آیت کی بخوبی تصدیق ہو جاتی ہے۔ کہ کلام مجسم ہوا اور فضل اور راستی سے بھرپور ہو کے ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال (یوحنا۱:۱۴)۔

مسیح کی طفولیت کی پاکی کی ضرورت 

ہاں وہ فی الحقیقت ہمارے بدلہ میں خدا کی طرف سے پاکیزگی ہوا تاکہ بنی آدم اس کی پاکی سے پاکیزگی حاصل کریں اور خدا کے مقبول ہو جائیں ۔ جس ماہیت کی وجہ سے مسیح کی طفولیت میں کمال پایا گیا اسی ماہیت سے اس کے طفولیت کی پاکی بھی آشکارا ہے۔ یہ پاک طفل عمانوئیل یعنی خدا ہمارے ساتھ تھا ۔لہذا ممکن تھا کہ سوا پاکی کے وہ اور کسی طور کے اوپر ظاہر ہوتا۔ خدا پاک ہے اور از بس کہ مسیح ماہیت الٰہی کا نقش اور اندیکھے خدا کی صورت تھا ضرور ہے کہ پاکی کا اس کے اوپر طلاق مطلق ہوتا کہ اس کا جلال باپ کے اکلوتے کے جلال سا مبرہن اور انسان کے اوپر الوہیت کا راز عظیم غیب سے منکشف ہو۔ کچھ تعجب نہیں کہ حواری نے یہ شہادت دی کہ وہ پاک اور بے عیب اور گناہ سے ناملوث تھا جیسا کہ گلاب کلی ہی میں خوشبو دینے لگتا ہے ویسا ہی مسیح میں بچپن ہی میں خدا کے جلال کی رونق نمود ہوئی اور یوں اس کی شفاعت کی قا بلیت مد لل ہوئی۔ 


مسیح کے کود کی (طفل)کے زمانہ کی کیفیت 

گو مسیح کی طفولیت کا زمانہ ہر طرح سے پسندیدہ اور مرغوب تھا تا ہم اس وجہ سے کہ کلام میں اس کا بہت زیادہ بیان نہیں ہوا ہم اس سے کنارہ کر کے اس کی کودکی(طفل،لڑکا،بچپن) کے اس زمانہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ کہ جب اس کا سن بارہ برس کا ہوا اور وہ شرع کی معمول کے بموجب یروشلم میں لایا گیا تا کہ والدین سے اس کو خدا کے نیاز کریں ۔ہر چند کہ اس امر کی کیفیت بھی اختصار کے ساتھ کلام میں درج ہے۔ تا ہم جتنا کچھ اس میں آیا ہے وہ مسیح کی فوق العادی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ بارہ برس کا سن ایسا نہیں ہے کہ جس میں کوئی لڑکا کیسا ہی زیرک و طبیعت دار کیوں نہ ہو کسی مذہب کے کل د قائق میں ایسا ماہر ہو کہ ان بزرگوں کے دانت کھٹے کرے جن کی تمام عمر شرع کی دقیق باتوں کے سیکھنے اور عمیق رازوں کو حل کرنے میں صرف ہوئی۔ تو بھی اس سن میں وہ ہیکل کے اندر داخل ہوکےفقہیوں اور شرع کے معلموں کے بیچ میں بیٹھا ہوا ان کی سنتے اور ان سے سوالات کرتے ہوئے ملا اور ایسے ہوش اور سمجھ کے ساتھ بات چیت کرتا تھا کہ سب جو اس کی سنتے تھے اس کی سمجھ اور اس کے جوابوں دھنگ تھے۔ اس گفتگو کے شمول میں یہ بات بھی قابل غور ہے۔ کہ اس کی باتوں میں نہ لڑکپن پایا گیا اور نہ ایسی سُبکی (ذلت)ظہور میں آئی کہ جس سے وہ ربی اور معلم شرع کا سمجھ کے اسے ڈانٹتے یا کہ گستاخی سے چین بچین ہوتے لیکن خود حیرت میں تھے کہ اتنے سے چھوٹے لڑکے نے ایسی دانش کہاں سے حاصل کی کہ اتنے بڑے بڑے عالم و فاضل بھی اس کے آگے گرد(خاک) ہیں۔ اور اس کی دانش کے آگے بے زبان ہیں۔ جب اس کی ماں نے تلاش کرتے کرتے اس کو ہیکل میں پایا اور اس سے کہا اے بیٹا کس لیے تو نے ہم سے ایسا کیا دیکھ میں اور تیرا باپ کڑہتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے ہیں۔ تو دیکھیں کیسا سلیم الطبع جواب اس مقدس لڑکے نے دیا۔ کیوں تم مجھے ڈھونڈتے تھے ؟کیا تم نے نہ جانا کہ مجھے اپنے باپ کے یہاں رہنا ضرور ہے؟ کیا یہ عام لڑکوں کی باتیں ہیں؟ ہر گز نہیں اس میں پیش خبری کی تکمیل پائی جاتی ہے۔ کہ ’’ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کندھے پر ہو گی اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے عجیب مشیر ‘‘وغیرہ۔ یہ یسی کے تنے کی وہ کوپل اور اس کے جڑوں کی وہ پھل دار شاخ تھا جس کی نسبت لکھا تھا کہ’’ خدا کی روح اس پر ٹھہرے گی حکمت اور خرد کی روح ،مصلحت اور قدرت کی روح ،معرفت اور خدا کے خوف کی روح اور وہ خدا کے خوف کی بابت تیز فہم ہو گا‘‘۔ (یسعیاہ۵:۱۱، ۲:۳) اگر آدمی غیر معتصب ہو کر مسیح کی اس عجیب دانش کے اوپر غور کرے تو صاف معلوم کر لے گا کہ مسیح خدا کی طرف سے استاد اور منجی ہو کے آیا ہے کیو نکہ جو حکمت اور خرد کی باتیں اس کی زبان سے ٹپکتیں وہ فوق العادی تھیں اور خدا کی دانش کے اوپر دال تھیں۔ 

اس کی طفولیت اور کودکی کے ایام کا خلاصہ 

مسیح کی طفولیت اور کودکی کا زمانہ ہر طرح سے مقبول اور پسندیدہ و مکمل تھا بلکہ اس میں ایک طرح کا فوق العادی کمال تھا جس پر اس کے منجانب اللہ ہونے کی لہر تھی اور صاف ثابت کرتی تھی کہ خداوند کی نجات اس عالم اسفل پر بنظر رحم آشکارا ہے اور کہ مسیح وہی ہے جو کہ جہاں کے گناہوں کو اٹھا لے جانے کے لئے نمود ہوا۔ پر اگر اس ایام کے کمال کی نسبت اور کچھ کہا جا سکتا ہے تو ناظرین کے خیال ان آیات کی طرف رجوع کرنا لازم ہے کہ جہاں لکھا ہے کہ ’’عیسیٰ حکمت اور قد خدا کے اور انسان کے پیار میں بڑھتا گیا‘‘ دیکھو (لوقا ۲: ۵۲) ۔ پڑھنے والا اس آیت کے اوپر غور کرے۔ پر اگر یہ


کافی نہیں ہے کہ مسیح کی مقبولیت کو ثابت کر دے تو حضرت زکریاہ کی اس نبوت کا مطالعہ کرنا لازم آتا ہے کہ جو اس وقت کہی گئی کہ جب خداوند نے اپنا وعدہ اپنے اس بندہ کی نسبت پورا کیا اور ان کے زبان کھلی اور وہ روح القدس سے بھر گئے ۔ دیکھو (لوقا ۱: ۶۸-۷۵) بمقابلہ (یوحنا ۱: ۱-۵)۔ 

مسیح کی طفولیت کی پاکی وبے باکی 

بارہ برس کے سن کا حال تیس برس کے سن تک بالکل معلوم نہیں ہے۔ کلام میں اس زمانہ کی حالت کا ذکر تک نہیں ہوا ہے سوا اس کے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اور ان کی تابع اور ہم پیشہ ہو کے رہے اور اپنی تابعداری میں اپنی قناعت اور طبیعت راضی برضا ئے الٰہی رہنے کے آشکارا کی اور ظاہر ہے کہ کوئی امر مرضی الٰہی کے خلاف یا انسانیت اعلیٰ کے برعکس اس سے صادر نہیں ہوا ۔کیو نکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور اس کامذکور ہوتا۔ پر اس خاموشی ہی میں اس کا حسن پایا جاتا ہے۔ لیکن تیس برس کے سن سے تو آنحضرت کی پاکی اور بے باکی ایسے طور کے اوپر ظہور میں آئی کہ وہ اس دنیا میں یکتا و لاثانی ثابت ہوا۔ اس کے ثبوت میں اس سے بڑھ کے اور کیا بات ثابت ہو سکتی ہے کہ اس نے خود دعویٰ کر کے چاہا کہ لوگ میری ذات میں کسی طرح کا عیب بتلائیں۔ لیکن ہر شخص کا منہ بند ہوااور کسی میں جرات نہ تھی کہ اس کے بے عیب پاکی میں کسی نوع (قسم)کا نقص بتلا سکتا۔ اس کی پاکی آفتاب کی مانند تابدار تھی اور کیا مجال تھی کہ اس میں کسی قسم کا الزام پایا جاتا ۔ انسان بلکہ بہتر انسان میں بھی کسی نہ کسی طرح کا نقص ہو سکتا ہے۔ لیکن مسیح کی ذات ذات الٰہی کی ہم ماہیت تھی ۔لہٰذا ناممکن تھا کہ وہ جو پاکی کا منبع اور سوتا تھا ناپاکی کا مرتکب ہو سکے۔ فی الحقیقت وہ خدا کی طرف سے استاد ہو کے آیا تھا اسی سبب سے اس کی استادی کا سلسلہ ہر نوع سے مقبول تھا۔ جیسا کہ ایک ہی چشمہ سے میٹھا اور کھاری پانی نکلنا غیر ممکن ہے۔ ویسا ہی مسیح کی ذات سے جو معدن پاکی تھا یہ بات بعید تھی کہ ناپاکی اس کی ذات میں در آ سکے اور جیسا کہ تاریکی کو روشنی سے کچھ سرکارو نہیں ہے ویسا ہی ناپاکی کو مسیح کی ذاتِ روشن کچھ بھی سروکار نہ تھا اس میں قدوسی کی روح تھی اور ایمانداروں کی قدوسی اور پاکی کا بھی یہی راز ہے۔ مسیح خدا کی طرف سے بنی آدم کے لئے پاکیزگی ہوا ہے اور ایمانداروں سے میں ہو کے اس کی پاکی میں حصہ پاتے اور خدا کے مقبول ہوتے ہیں۔ مسیح کی پاکی مثل سونے کے امتحان کی بھٹی میں تائی گئی ۔لیکن اس میں سے خالص اور بے داغ نکلی۔ وہ زندہ خدا کی روح ہے۔ لہٰذا اس میں سارے کمال کی بھر پوری موجود تھی۔ اگر یہ بھر پوری اس میں نہ ہوتی تو وہ ہر گز شفیع المذبینن ہونے کی لیاقت نہ رکھ سکتا اور نہ اس کی شفاعت کار گر ہوتی۔ 

مسیح کی مقبولیت کی دلیل آسمان پر سے آواز کا آنا 

جب ہمارے مبارک نجات دہندہ کا سن تیس (۳۰)برس کا ہوا ۔جس سن میں کہ ہیکل کے خدمت گزاری اپنے منصب کے اوپر مقرر کئے جاتے تھے تو وہ جس کو شریعت کی ساری باتیں پوری کرنا لازم تھا اپنے کام کے اوپر حاضر ہوا پر قبل کام کرنے کے ان کی مقبولیت کی علامتیں عمل میں آنے ضرور تھیں۔ پر از بس کہ وہی کاہن سماوی تھی ان کا مسح بھی سماوی ہونا لازم تھا۔ نبی نے بھی غیب سے اس کی خبر پا کے الہٰام سے یوں لکھا۔ ’’خداوند کی روح مجھ پر ہے کیو نکہ خدا نے مجھے مسیح کیا تا کہ مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دوں۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست اور قیدیوں کیلئے چھوٹنے اور بند ھوں کے لئے قید سے نکلنے کی منادی کروں خدا کے سال مقبول کااور ہمارے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہاردوں اور ان سب کو جو غمزدہ ہیں تسلی بخشوں کہ صیہون کے غمزدوں کے لئے ٹھکانا کردوں کہ ان کو راکھ کے بدلے پگڑی اور نوحہ کی جگہ خوشی کا روغن اور اداسی کے بدلہ ستائش کی


خلعت بخشوں، تا کہ وہ صداقت کے درخت اور خدا کے لگائے ہوئے پودے کہلائیں کہ اس کا جلال ظاہر ہو‘‘ (یسعیاہ۶۱: ۱-۳) ۔اس پیش خبری کی تکمیل کا وقت اب آیا اور عیسیٰ جلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس جو اس کا پیش رو تھا آیا تا کہ یہودیوں کی رسم کے مطابق بپتسمہ پائے اور یوحنا اس امر میں معترض ہو ئے ۔کیو نکہ ہر چند یہ احتمال ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو نہ دیکھا تھا تا ہم ان کی آنکھیں کھل گئیں تھیں اور ان کو یہ تشفی حاصل ہو گئی تھی کہ یہ وہی ہے۔ کہ جس کے لئے میں راہ تیار کرتا ہوں اور مسیح نے بھی ان سے فرمایا کہ اب ہونے دے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کروں ۔چنانچہ جب یہ امر ظہور میں آیا تو ایسا عجیب وغریب ماجرا واقع ہوا کہ دنیا نے آج تک نہ ایساکبھی دیکھا نہ سنا یعنی جو ہیں ہمارا منجی بپتسمہ پا کے پانی سے نکل آیا وہیں آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنی اوپر آتے دیکھا اور دیکھو کہ آسمان سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔ اس سے بڑھ کے مسیح کی مقبولیت کی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔ بلکہ مقبولیت کا کمال یہاں پر دیکھنے میں آیا ہے۔ 

مسیح کا امتحان کیا جانا 

جب پہلا آدم اس دنیا میں آیا تو شیطان نے موقع پا کر ان کے اوپر اپنے امتحان کا وار کیا اور غالب بھی آیا۔ اب چونکہ یہ دوسرا آدم بھی مثل پہلے آدم کے اپنے برگزیدوں کا جانب دار تھا۔ ضرور تھا کہ وہ بھی شیطان سے آزمایا جائے تا کہ شیطان کو بھی معلوم ہو کہ اب میرے سر کو بی (خاتمہ)کا وقت آیا اور خدا کی نجات بے خطا ہے اور گنہگار بھی اپنی نجات کے پیشوا کا کمال اور جمال دیکھیں اور سجدہ میں جھکیں اور اپنی نجات کا جلال خداوند کو دیکھے یہ کہہ سکیں کہ گو یہ ہمارا منجی ساری باتوں میں ہماری مانند آزمایا گیا تا ہم گناہ سے مبرا نکلا اور یہ تسلی حاصل کریں کہ مسیح ہمارا ہمدرد ہو کے ہماری تکلیفوں میں ہماری مدد کرنے کے اوپر قوی اور قادر اور راضی و تیار ہے۔ الغرض بعد بپتسمہ پانے کے وہی روح جو مثل فرشتہ کے اس کے سر کے اوپر نازل ہوئی تھی اب بیابان کی طرف اس کی ہدایت کرتی ہے تا کہ شیطان سے آزمایا جائے اور جب وہ شبانہ روز(دن رات) روزہ رکھ چکا تو شیطان اپنی رزمگاہ (میدان جنگ)میں موجود ہوا اور یہ موقع پایا کہ اس کے اوپر غالب آنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ حوا کے اوپر موقع پا کے اس نے اپنا حملہ کرنے میں پہلو تہی کی، ویسا ہی مسیح کی حالت کو بھی اپنے مفید مطلب پا کے کوشش دریغ نہ کی اور اس کو بھوکا پا کے اس کی کمزوری کے اوپر ایسے انداز کے ساتھ حملہ کیا کہ کسی عام انسان میں طاقت نہ تھی کہ اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا۔ مسیح کا بھوکا رہنا غالباً اسی غرض سے تھا کہ شیطان کو موقع دے تا کہ اس کے ہزیمت(شکست) کامل ہو ۔شیطان تو مسیح کی ماہیت سے بخوبی واقف تھا اور اس میں مجال نہ تھی کہ اپنی فطرت سے اس پر غالب آتا لیکن تین باتیں ایسی تھیں کہ ان کی نسبت اس کو یہ احتمال تھا کہ مبادا وہ کسی طرح لغزش کہا جائے اور یہ تینوں باتیں ایسی تھیں کہ انسان کا پیش جانانہایت ہی دشوار تھا۔ پہلے اس نے یہ دریافت کرنا چاہا کہ آیا اپنے آبائے سماوی کی مہربانی اور خبر گیری کی نسبت اس کا دل پورا ہے یا نہیں یا یہ کہ اور آدم زاد کی مثل اس میں بھی خامی پائی جا سکتی ہے۔ کیو نکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا مطلب خوب ہوتا۔ اوراس طرح کے امتحان کا بہترین موقع یہی تھا کہ جس کا منظراب پیش آتا ہے۔ بھوک کی شدت بڑے امتحان کا وقت ہے۔ کلام الٰہی کا مطالعہ کنند گان کو بخوبی یا د ہو گا کہ بھوک کے غلبہ کی حالت میں عیسو نے اپنے پہلوٹھے ہونےکی نعمت کی تحقیر کی اور کہا دیکھ میں تو مرنے پر ہوں سو پہلوٹھے ہونے کا حق میرے کس کام آئے گا۔ سو عیسو نے اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق نا چیز جانا۔ از بس کہ شیطان نے بار ہا اپنے اس انداز کی فطرت میں کامیابی حاصل کی تھی ۔وہ اپنے حملہ سے باز نہ رہا اور ہمارے منجی کے پاس آ کے کہا۔’’ اگر تو خدا بیٹا ہے تو فرما کے یہ


پتھر روٹی بن جائیں ‘‘پر گو ضرور تھا کہ ہمارے ایمان کا پیشوا تکلیفوں سے آزمایا جائے لیکن اس کا گناہ میں پھنسنا ناممکن تھا اور جب اس نے شیطان سے کہا کہ’’ آدمی صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سنے نکلنی ہے جیتا ہے‘‘۔ تو شیطان نے کامل ہزیمت پائی اور مسیح کے دل کو خدا کی مہربانی کی نسبت پورا پایا اور کچھ عجب نہیں کہ وہ اس ہی ایک حملہ کے اوپر قناعت کرتا لیکن اس نے نہ چاہا کہ باز آئے تا وقت یہ کہ اپنا کل زور اس کے اوپر آزمانہ لے۔ اس نظر سے خدا کی خبر گیری کی نسبت بھی اس کو ٹٹولا۔ اس امتحان کے بارے میں کلام میں یوں آیا ہے۔ تب شیطان اسی مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا۔ اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیو نکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لیے اپنے فرشتوں کو حکم کرئے گا اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے ایسا نہ ہو کہ تیرےپاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے‘‘۔ لیکن مسیح ایک بہتر عہدکا درمیانی ہونے کی وجہ سے ایسی طاقت و قوت سے آراستہ تھا کہ جس میں تزلزل کو دخل محال تھا ۔لہٰذا جب اس نے اس منجی پاک کی زبان مبارک سے یہ کلمہ سنا کہ ’’تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما‘‘ تو اس کے استقلال سے حیران اور شرمندہ ہوا۔ یوں شیطان نے خدا کی خبر گیری کی نسبت بھی اس کو پورا پایا اور اس کو دریافت ہو گیا کہ یہ وہی ہے کہ جس کی نسبت خدا نے فرمایا ہے’’دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا میرا برگزیدہ جس سے میرا دل راضی ہے میں نے اپنی روح اس کے اوپر رکھی۔ وہ نہ گھٹے گا اور نہ تھکے گا جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کر لے‘‘ (یسعیاہ ۴۲:۱-۴) ۔ان دونوں سے فراغت کر کے تیسرے اور سب سے بد تر حملہ کی فکر ہوتی ہے بلند پہاڑ کے اوپر سے دنیا کی ساری شان و شوکت کو دکھلا کے شیطان یہ کہتا ہے کہ’’ اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دوں گا‘‘۔ دیکھیں شیطان کی فطرت وحیلہ بازی ۔ اس کو علم ہے کہ انسان صاحب حوصلہ ہے اور اپنے حوصلہ کو پورا کرنے کے لئے وہ کوئی بات دریغ نہیں رکھتا ہے۔ لہٰذا اس نے چاہا کہ اس بات کو آزمائے کہ ساری دنیا کی حشمت اور شان و شوکت کی مختاری اس کے اوپر کہاں تک اثر پیدا کر سکتی ہے ۔ لیکن اے شیطان تو تو خود جانتا ہے کہ میں کس کے رو بر کھڑا ہوں اور تو خود واقف ہے کہ کس سے گفتگو کر رہا ہوں وہ خود ہی ساری خلقت کا خالق اور موجودات کا مالک ہے۔ پس تو اسے کیا دے سکتا ہے۔ ہاں تو اپنے چہر ہ پر شرمندگی کا نقاب ڈال اور اپنے کردار سے باز آ اس لئے کہ تیری کوشش رائیگاں (بے کار)ہے۔ وہ تیرے دام (جال)اجل میں کب آتا ہے۔ سکندراس خیال سے کہ اب کوئی ملک ایسا باقی نہیں ہے کہ جس کے اوپر میں قابض ہو سکوں روئے تو روئے لیکن جس کا تو اب ممتحن(جانچنے والا) ہے اس کو کیا غم ہے کہ ساری خلقت کی معموری اسی کی ہے اور نتیجہ یہی ہوا کہ جب شیطان نے دیکھا کہ اب میرے سارے تیر صاف ہو چکے اور اس کو مجروح (زخمی)کرنے میں کند(سُست) ہیں تو چپ چاپ وہاں سے چل دیا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ گو ہمارا سردار اور پیشوا ساری باتوں میں آزمایا گیا تو بھی گناہ کا داغ اس کے اوپر نہ آیا۔ اس میں گنہگاروں کے لئے کہیں تسلی ہے۔ کیو نکہ یہ اس لئے ہوا کہ وہ ان کے جو امتحان میں پڑتے ہیں مدد کر سکے اس لئے ایسا بزرگ سردار کاہن پاکی چاہیئے کہ ہم اپنے ایمان کے اقرار کو مضبوطی سے تھا مے ر ہیں ۔کیو نکہ ہمارا ایساسردار کاہن نہیں ہے جو ہماری سُستیوں میں ہمارا ہمدرد نہ سکے بلکہ ساری باتوں میں ہماری مانند آزمایا گیا پر اس نے گناہ نہ کیا اور از بس کہ وہ امتحان میں پڑ کے ثابت قدم رہا خدا نے اپنی رحیمی کو یوں آشکارا کیا کہ لشکر سماوی نے اس کی خدمت کی۔ اے گنہگار یہی تیرا نجات دینے والا ہے۔ اس کو دیکھ اور ارشاد ہوا اور اس کے وسیلے سے تخت فضل کے پاس جاتا کہ تجھ پر رحم ہوا اور فضل جو وقت پر مدد گارہو حاصل ہو۔


مسیح کی مقبولیت کی دلیل اور اس کے ایام رسالت کی پاکی و سراپا دانش و بینش 

جب ہمارا مبارک منجی خدا کی طرف سے ممسوح ہو کے اور شیطان کے اوپر غلبہ پا کے اس پر فتح یاب ہوا۔ اس وقت سے اس کی زندگی کا ہر لحظہ مظہر قدرت الٰہی تھا۔ دنیا میں بڑی بڑی نامی و گرامی لوگ ہو گئے ہیں جن کا آوازہ طشت از بام(مشہور ہونا،عام ہونا) بلند ہوا لیکن مسیح کی ذات بابرکات گو یا بشر کے بیچ میں آفتاب رو پوش تھا اور ان کے کل زندگی کے حالات ان کے گرد آفتاب کی سی روشنی دیتے تھے ۔یہ اس کے ماہیت و فضلیت کو بلا تکر ار ثابت کرتے ہیں۔ کلام کی گواہی یہ ہے ۔ ’’ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑھ کے نہیں ہوا لیکن میں تم سے کہتا ہوں۔ کہ یہاں ایک یوحنا سے بھی افضل تر ہے‘‘۔ ان کی پاکی ضرب المثل تھی۔ ناپاک روحوں نے بھی اسے کلام کرتے وقت خداوند کے قدوس کے نام سے خطاب کیا۔ حواریوں نے اسے خدا کی قدوس بیٹے کا لقب دیا۔ پطرس رسول نے مسیح کی پیروں کو یہ ہدایت کی ہے کہ ’’جس طرح تمہارا بلانے والا پاک ہے تم اپنے سب چال میں پاک بنو کیو نکہ میں پاک ہوں‘‘ (۱-پطرس۱: ۱۵-۱۶) ۔خلاصہ یہ کہ مسیح کی دانش بے مثل اس کی حکمت لاثانی اس کی سمجھ بے بدل اور اس کی پاکی عدیم المثال تھی۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ وہ جسم کی خواہش سے پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ خدا سے ہے۔ اور مسیح کی ذات میں پاکی کے کمال کا پایا جانا ایک امر ضروری ولا بدی تھا ۔کیو نکہ اول تو الوہیت نے اس کے جامہ انسانی کو پسند کر کے اس میں سکونت کرنا مناسب سمجھا۔ اب ظاہر ہے کہ پاک خدا ناپاک ہیکل کے بیچ میں رہ نہیں سکتا ہے اس لئے کہ اس کی آنکھیں ناپاکی کے اوپر سوا نفرت و حقارت اور کراہیت کے اور اسی طرح سے نگاہ کر ہی نہیں سکتیں چونکہ یہ جسم ایک جسم خاص تھا اور خدا کی سکونت کے لئے ہیکل تھا۔ مسیح کی انسانیت کے جامہ کا پاک ہونا ضرور تھا۔ دوسرے وہ انسان کا ضامن ہو کے آیا۔ پس اس کے جامہ کی پاکی گنہگار انسان کے جامہ ناپاک کو پاکیزہ کرنے کا وسیلہ تھی۔ اسی نظر سے لازم تھا کہ وہ پاک اور بے عیب ہوتا کہ انسان کی نجات میں کسی طرح کا خلل واقع نہ ہو اور انسان کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اے حکیم اپنے کو چنگا کر۔ لیکن اس کی کامل پاکی میں انسان اپنے ناپاکی کے دفعہ کے لئے تفتیہ(بہت گرم ،عاشق) پائے اور تا کہ وہ خدا کی نجات کو حاصل کر کے اس کی پاک ذات کی شادمانی کا وارث ہو۔ پھر وہ گنہگار وں کے لئے کفارہ ہونے کو آیا پس ضرور تھا کہ وہ پاک ہو۔ کیو نکہ ناپاک قربانی خدا کو نا مقبول اورناپسند ہے۔ دیکھو(عبرانی۷:۲۶-۲۸)۔ 

دسواں باب

مسیح کی موت اور اس کے فوائد کا تذکرہ

مسیح کی موت 

مسیح کے اس دنیا میں آنے کاایک خاص مقصد تھا ۔ان کو ایک کام کرنا تھا جو خدا نے ان کے لئے ٹھہرایا اور انہوں نے از خود اس کی تعمیل منظور کی تھی۔ وہ اسی کام کے انجام دینے کو آسمان سے اُترے تھے۔ چونکہ انسان کی نجات ے لئے ان کے عوض میں بطور ضامن کے آئی۔ لازم تھا کہ مجرم کی سزا ضامن پر پڑے۔ اب انسان کی نافرمانی کی سزا موت تھی۔ کیو نکہ شریعت اس کے قصاص (بدلہ،خون کے عوض خون)کے بارے میں یہ کہتی تھی کہ بغیر لہو بہانے کے نجات نہیں اور نہ خدا کی عدالت کے دعویٰ بغیر اس کے راضی ہو سکتے تھے۔ اس نظر سے آنحضرت کا مرنا ایک امر لا بدی تھا ۔کیو نکہ کل بنی آدم کی بدکار یاں اس کے اوپر لادی گئیں ۔ لیکن ہاں اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہئے۔ کہ وہ صرف ہماری خطاؤں کے لئے کچلے گئے اور ہماری ہی بدکاریوں کی وجہ سے ان پر سیاست ہوئی۔ 

اگر وہ اپنی خوشی سے گنہگاروں کے بدلہ میں اپنے جان نثار کر دیتے تو ان کا مر نا غیر ناممکن ہوتا اور اور تاریکی کے کل اختیار والوں کا زور اس کے اوپر غلبہ پانے میں مجبور و محجوب (پوشیدہ،نادم)ہوتا ۔ کیو نکہ خدا وند کے مسیح کو کون چھو سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ موت گناہ کا نتیجہ ہے ۔پولس رسول فرماتے ہیں کہ گناہ کا عوض موت ہے۔ لیکن ہمارے خداوند کی شان میں لکھا ہے۔ اس نے گناہ نہ کیا نہ اس کی زبان میں چھل بل (جھوٹ)پایا گیا۔ اسی نظر سے زبور کے مولف نے الہٰام سے یوں لکھا کہ ’’تو اپنے قدوس کو سڑنے نہ دے گا۔ ہمارا مبارک نجات دہندہ گناہ سے نا ملوث ہونے کے سبب سے اس کے نتیجہ کا متحمل ہر گز نہ ہو سکتا تھا اور موت کی کیا مجال تھی کہ اس کے اوپر وار کر کے شادیانے بجاتی کیو نکہ یہ وہ تھا جو اپنی نسبت یہ کہہ سکتا تھا کہ موت اور دوزخ کی کنجی میری اختیارمیں ہے۔ پس یاد رہے کہ مسیح کی موت محض گنہگاروں کے بدلے میں تھی اسی سبب سے خدا کو پسند آیا کہ اسی ز خمی کرے تا کہ اس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوں۔ کلام میں اس مقدمہ میں یوں آیا کہ مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے مرا۔ غرض یہ کہ مسیح کی موت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ جس کو خدا نے اپنی دانش و محبت سے انسان کی نجات کے واسطے معین کیا اسی سبب سے مثل خدا کے اور انتظاموں کی وہ ایک راز مالا ینحل ہے اور اس سبب سے کہ خدا کا کلام ہے وہ انسان کی نظروں میں عجوبہ ہے۔

مسیح کی موت کی خوبیاں

خدا نے جو رحمت میں غنی ہے اپنے محبت ازلی اور رحمت لا بدی سے یہ مناسب سمجھا کہ بنی آدم ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو۔ لہٰذا اس نے اپنا پیار یوں ظاہر کیا کہ جب ہم گناہ کرتے چلے جاتے تھے تب مسیح کو بھیجا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو۔ خدا کے فضل اور پروردگاری کا اکثر ایسا انتظام دیکھنے میں آیا ہے کہ بہتوں کے عوض میں ایک کی شفاعت مقبول ہوئی اور خدا کا غضب ٹل گیا۔ کلیسیاء قدیم کی تواریخ کے حالات ملاحظہ کرنے


سے یہ امر بخوبی پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے اور خدا کی محبت کی بہتات اور فضل کی گنجائش کو بطور کامل ہویدا و آشکارا کر دیتا ہے۔ بنی اسرائیل کی سر کشی اور شرارت اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں )ہے ۔حتیٰ کہ بعض بعض اوقات خدا کا غضب یہاں تک مشتعل ہوا کہ اس نے اپنے بندہ موسیٰ سے فرمایا کہ ہٹ جا اور چھوڑ دے کہ میں ان لوگوں کو ہلاک کروں ۔ لیکن از بس کہ خدا نے خود ان کے تئیں ان کی راہنمائی کے لئے مقرر کیا تھا ان کے شفاعت اور وساطت اسرائیلوں کے حق میں کار گر ہوئی۔ خدا نے اپنے قہر کو رو کا اور اس بلا کو جو ان پر لانا چاہتا تھا نازل کرنے سی باز رہا۔ یو ں ہی ایک کی تابعداری سے بہتیرے راستباز ٹھہرے۔ اور نہ صرف کلیسیا قدیم میں ہم اس بات کی نظیر پاتے ہیں بلکہ دنیا کی تواریخ کے حالات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسیح سے تین سوساٹھ (۳۶۰)برس پہلے شہر روم کی عام مجمع گاہ میں جو فورم کے نام سے مشہور تھا زمین دفعتاً شق ہو گئی۔ اور دیہاتیوں کی طرف سے یہ آگاہی ہوئی کہ یہ غار نہ بند ہو گا تا وقت یہ کہ وہ شے اس غار میں نہ ڈالی جائے گی جو رومیوں کی نظر میں نہایت درجہ کی بیش بہا متصور ہے۔ اس آفت جا نگداز کے باعث سے سب کے چھکے چھوٹ گئے اور سب اسی فکر میں غلطان و پیچان تھے کہ دیکھیں یہ بلا کیو نکر اس شہر پر سے ٹلتی ہے۔ روسا ءشہر اسی حیص بیص اور تگ ودو میں تھی پر کوئی تدبیر بنائے بن نہ پڑتی تھی کہ اس ثنا میں ایک رئیس اعظم مارکس کرشی اس نامی حاضر آیا اور یہ استفسار کر کے آپ لوگوں کے رو برو اپنی ہمت کو کام میں لا کے پانچوں ہتھیار سے اپنے تئیں مسلح کر گھوڑے پر سوا رہو اپنے مرکب کو ایڑ ی لگا بے تامل اس غار کے اندر کو د پڑا اور یوں اپنے تئیں اس شہر کی بہبودی کی نظر سے تصدق کر دیا۔ زمین نے بھی فوراً دونوں طرف سے اسے دبا لیا اور وہ بلائے عظیم کہ جس کے باعث سے کل قوم متردد(سوچ میں پڑجانے والا،پریشان) ہو رہی تھی ٹل گئی۔ لوگوں کی جان میں جان پڑ گئی۔ دیہاتوں کی رضا مندی ہو گئی اور شہر والوں نے امن پایا۔ مسیح کی موت بھی اسی طریق سے تھی۔ وہ محض اوروں کی رفاہیت(بھلائی) اور جان بخشی کی نسبت جان نثاری تھی اور خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ نہ تو عاً دکرہا اور جبراً بلکہ محض حب دلی سے کی گئی اسی وجہ سے خدا کی مقبولیت کی مہر ہماری نجات کی نسبت اس کی موت کی اوپر لگائی گئی کہ جس کے باعث وہ کار گر ہوئی۔ ایک اور نظیر بے بدل لیجئے۔ جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر مجلس جمع کر لی اور اس فکر میں ہوئے کہ مسیح سے کیا کریں کیو نکہ لوگ اس پر ایمان لاتے چلے جاتے تھے اور لوگوں پر یہ خوف غالب ہو رہا تھا کہ ہمارا ملک رومی بالکل چھین لیں گے اس وقت کائفا نامی ایک سردار کاہن نے الہام سے یہ خبر دی کہ تم کچھ نہیں جانتے اور نہ اندیشہ کرتے ہو کہ’’ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک آدمی قوم کے بدلے میں مرے اور نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو‘‘ (یوحنا ۱۱: ۵۰) وغیرہ۔ یوں مسیح کی موت ایک ضرورت خا ص اور انسان کی نجات کی ماہیت کا لب و لباب (جسم ،ڈھانچہ)ثابت ہوتی ہے اور اس سبب سے کہ خدا کی مہر اس کے اوپر ہی یہی اکیلی و کافی تدبیر ہے جس کی بنیاد پر گنہگارانسان خدا کی رحمت کے اوپر دعویٰ کر سکتا ہے اور اس کے حضور میں مقبول ٹھہر سکتا ہے۔ الغرض مسیح کی موت نے بہشت کا دروازہ گنہگاروں کے واسطے کھول دیا ہے اور زمین کے اوپر ایک عجائب تبدیلی لایا ہے ایسا کہ خدا راست رہتا ہے اور اسے جو مسیح پر ایمان لائے راستباز ٹھہراتا ہے اور لا رحیما کو رحمت دار بناتا ہے۔ 

مسیح کا جی اٹھنا 

ہر چند کہ مسیح کی زندگی کے حالات کلیہ خدا کی مقبولیت کی علامت کا ایک سلسلہ ظہور میں آتا ہے۔ کہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خدا ہی کی طرف سے معلم و منجی عالم ہو کے آیا تھا کہ جس کی بدولت انسان کو مغفرت حاصل ہو۔ لیکن جیسا کہ گلاب کاپھول باوجود وہ اور مسلے جا کے بھی


اپنی خوشبو چھوڑتا ہے ویسا ہی مسیح بھی اپنے موت میں وہ چند مقبول نظر آیا۔ مسیح کی باتوں کے اوپر جو اس نے پچھلی بار اپنی جان دینے کے قبل کہیں غور کرنے سے اس کی ماہیت فوق العادی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس کی موت عوام کی موت سے بہتر نہ ہوتی۔ لیکن اس کا مرنا بھی بے مثل ہوا۔ آفتاب اپنی روشنی دینے سے باز آیا اور یوں اس کی فضلیت کے اوپر گواہ ہوا۔ زمین بھی اس کی جو اس کا بنانے والا تھا تاب نہ لا سکی اور اس کے آگے یہاں تک سہم گئی کہ اس نے اپنا دہن کھول دیا ۔بلکہ کوہ تک تڑک اٹھے۔ یوں مسیح کے کمال کے اوپر ساری خلقت نے گواہی دی۔ اور اس کی رسالت کو قائم و ثابت کر دیا۔ لیکن اتنی ہے پر گواہیاں ختم نہ ہوئیں بلکہ ایک اور بات باقی تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف مرے بلکہ جی بھی اٹھے اور یوں ان کی قدرت کا ملہ مدلل اور آشکارا ہو اور انسان کو اپنے پیشوا ئے نجات سے کمال درجہ کی تسلی حاصل اور مہر الٰہی کاخاتمہ ہو جائے تا کہ کسی پہلو میں نجات کے مقدمہ میں انسان کو شک نہ رہ جائے۔ وہ نہ صرف ہماری نجات کے لئے مر ابلکہ ہمیں راستباز ٹھہرانے کے لئے جی بھی اٹھا۔ ممکن نہ تھا کہ زمین اس کو اپنا صید(شکار) ابدی بنائے۔ خلقت اس کو خوب پہچانتی تھی اس سبب سے اس کا بار ایسا گراں تھا کہ وہ بھی بے تاب ہو گئی۔ خدا کے قدوس کا سڑنا محالات سے تھا غرض کہ جبراً وقہراً وہ اس کا متحمل قلیل سے قلیل عرصہ تک بھی نہ رہ سکا۔ تیسرے دن کی روشنی نمود ہونے نہ پائی۔ تھی کہ قبر نے اپنی پاک امانت کو اچھال دیا۔ اور زمین نے اس کو نکال پھینکا ۔ جب کہ علی الصباح تیسرے روز چند مستورات خوشبو لے کر اس کو مسح کرنے کے لئے گئیں تو اس کو وہاں نہ پایا خدا کا ممسوح اٹھ گیا تھا۔ فرشتوں نے ان کو یہ شیریں آواز سنائی کہ ’’وہ یہاں نہیں ہے بلکہ جی اٹھا ہے‘‘۔ ہاں مسیح مردوں میں سے جی اٹھ کے بڑی قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ثابت ہوا۔ کیا اس طور کی مقبولیت الٰہی کی علامتیں اور کسی کی نسبت کبھی ظہور میں آئیں۔ کیا یہ سارا ماجرا اتفاقیہ تھا۔ ہر گز نہیں مسیح انسان کے لئے خدا کی نجات تھا لہذا امہر الٰہی اس کے اوپر جتنے اور مرتے ہر حال میں پایا گیا اور گنہگار انسان کے دل پر نجات کے حصول کے بارے میں بالکل شک رفع ہو گیا۔ 

مسیح کی موت کے فوائد 

از بس کہ مسیح کی قربانی و شفاعت خدا کی مسند عدالت کے آگے منظور و مقبول ہوئی اور مسیح نہ صرف ہمارے گناہوں کے لئے مرا پر ہماری سلامتی کے لئے جی بھی اٹھا اور ہماری شفاعت کے لئے خدا کے دہنے ہاتھ بلند ہوا۔ ممکن نہ تھا کہ اس کے بندہ اور پیرو فیض معمور سے بھی فیض رہتے اور اس پر ایمان لانے کے فوائد میں شرکت حاصل نہ کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو مسیح کا ہمارے عوض میں مرنا بے سود اور لا مقصود ہوتا اور خدا کے فضل کی کل ماہیت کو بے ماہیت کر دینا ہوتا۔ لیکن ہر گز ایسا نہ ہو گا۔ ممکن نہیں کہ مسیح اپنی جان کے درد کے حاصل نہ دیکھے۔ کیا نبی کی معرفت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ’’جب اس کی جان گناہ کے لئے گزرانی جائے تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا‘‘ وغیرہ (یسعیاہ ۵۳: ۱۰-۱۲) ۔ کیا خدا کا یہ کلام باطل ہو گا۔ ہو نہیں سکتا کہ کلام کا ایک شوشہ بھی ٹلے۔ سب کچھ کا پورا ہونا تو البتہ واجب ہے اور خدا کے کل ارادے قائم رہیں گے۔ تو حالانکہ مسیح کے وسیلے سے خدا کی نجات برگشتہ انسان کے لئے موجود کی گئی لہٰذا ہم یہ دریافت کریں گے کہ مسیح کے باعث سے ہم کیو ں کر اس نعمت عظیم کے حاصل کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ 

مسیح کی موت کا پہلا فائدہ پاکی کا حاصل ہونا 

خدا پاک ہے۔ حضرت آدم بھی ابتدا میں پاک بنائے گئے تھے اور لکھا ہے کہ بغیر تقدس کے کوئی خدا کو دیکھ نہیں سکتا ہے۔ جب تک حضرت آدم پاک تھے تب تک خدا سے رفاقت و صحبت رکھتی تھے۔ چنانچہ جب حکم عدولی ہوئی تب بھی یہی بات راست رہی بلکہ خدا نے اپنا پاک چہرہ آدم سے اسی لئے چھپا لیا کہ ان پر آشکارا کرے کہ بغیر پاکی کے اس رب قدیر و جلیل کادیدار محال ہے۔ غرض کہ خالق کے اسی صحبت و دیدار کے لئے اس نئی اور جیتی راہ سے جو مسیح کے جسم کے پردہ کو پھاڑ کے تیار کی گئی ہے۔ ہم مسیح کے باعث سے اور اس میں ہو کر تیار ہوتے ہیں اگر کوئی پو چھے کہ یہ کیو ں کر ہے تو جواب یہ ہے کہ ہماری پرانی انسانیت مسیح کے ساتھ صلیب پر کھینچتی جاتی ہے۔ اور یوں اس کی موت میں شرکت حاصل کر کے ہم اس کی زندگی میں بھی حصہ پاتے ہیں ۔ اس طرح سے مسیح کی زندگی ہماری ہوتی ہے۔ اور چونکہ مسیح کی زندگی پاکیزہ تھی ہم بھی پاک ہوتے ہیں اور جیسا کہ مسیح نے اپنے شاگردوں کے لئے یہ دعا کی کہ ’’جیسا اے باپ میں ایک ہوں ویسا ہی بخش دے کہ یہ بھی میرے ساتھ ایک ہوں ‘‘ہماری زندگی مسیح کے ساتھ متوصل ہوجا نے کے سبب سے ہم میں نئے طور پر اپنا اثر کر کے مسیح میں نیا مخلوق بنا دیتی ہے۔ اور جب ہم نئے مخلوق ہوئے تو پرانا نوشتہ گناہ کا مٹ جاتا ہے۔ اور مسیح کی پاکی کا نیا نوشتہ ہمیں عنایت ہوتا ہے اور یوں ہم اس پاکی کی سند ثبوت دونوں حاصل کر کے خدا کے مقبول ہونے اور اپنی حالت ابتدائی کو پھر بحال پاتے ہیں۔ اسی نظر سے (۱-پطرس ۱: ۹) میں مسیحیوں کی نسبت یوں کہا ہے کہ’’ تم چنے ہوئے خاندان بادشاہی کا ہنوں کا فرقہ مقدس قوم اور خاص لوگ ہو اور اسی پاکی کی روح کو حاصل کر کے ہم ابا یعنی اے پکار کے کہہ سکتے ہیں‘‘۔ پس ایسی رحمت پا کی کو ہم پست ہمت نہ ہوں بلکہ یہ کوشش کرتے رہیں کہ مسیح میں پائے جائیں ۔اپنے اس راستبازی کے ساتھ نہیں جو شریعت سے ہے بلکہ اس راستبازی کے ساتھ جو مسیح پر ایمان لانے سے یعنی اس راستبازی کے ساتھ جو خدا کی طرف سے ایمان کی شرط پر ملتی ہے اور اپنی ساری چال میں پاک بنیں۔ جیسا ہمارا بلانے والا پاک ہے۔ 

دوسرا فائدہ شیطان کے بند سے آزادی پانا 

تا کہ ہماری پاکیزگی کامل ہو اور ہم اس کی روشنی کی ہدایت میں چلتے رہیں ضرور ہے کہ ہم شیطان کے بند سے رہائی پائیں کیو نکہ ظاہر ہے کہ جب تک ہم اس مرد ک(ذلیل آدمی) کے بند میں ہیں۔ تب گناہ سے آزاد ہونا محا ل ہے۔ اور اگر گناہ سے رہائی نہ ہو تو خدا کی مقبول پاکی میں قدم ڈالنا بھی غیر ممکن ہے شیطان بھی ا پنے صید کو اپنے ہاتھ سے دینا گوارا نہیں کرتا ہے۔ اور تا وقت یہ کہ ہم اس پر غلبہ پائیں تب تک ہم پاکیزگی کو خدا کے خوف میں پورا نہیں کر سکتے ہیں پر خدا کا بیٹا اسی لئے آیا کہ شیطان کے اعمالوں کو نیست و نابود کرے۔ ہاں ہر چند کہ اس نے مسیح پر بھی حملہ سخت کیا لیکن مسیح نے اپنے جی اٹھنے سے اس کے سر کچل ڈالا اور اس کے شکار کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور یوں ہم کو اس بند سے آزاد کر کے اپنے فرزندوں کی آزادگی بخشی ہے۔  تیسرا فائدہ راستباز ٹھہرنا 

تیسری نعمت جس میں ہم مسیح کے وسیلے شرکت حاصل کرتے ہیں سو یہ ہے کہ ہم خدا کے حضور میں راستباز ٹھہرے ۔گناہ ہم پر غالب نہیں آ سکتا ہے۔ اس لئے کہ مسیح نے اپنی صداقت سے اس کو کھو دیا شریعت ہم کو گنہگار نہیں ٹھہرا سکتی ہے۔ کیو نکہ مسیح نے ہمارے بدلہ میں شریعت کو پورا کر دیا اور عدالت الٰہی کا واجبی مکانات دے دیا خدا ہم کو گناہ کا الزام نہ دے گا۔ کیو نکہ مسیح ہمارے گناہوں کے لئے مرا اور ہماری راستبازی کے لئے پھر جی اٹھا


۔غرض کہ جتنی باتیں ہماری مخالفت میں بر پا ہو سکتی ہیں وہ سب کا لعدم اور معدوم ہیں کیو نکہ مسیح نے پوری نجات ہمارے لئے مہیا و موجود کی ہے۔ پس کون ہے جو خدا کے چنے ہوؤں پر دعویٰ کر سکتا ہے خدا ہی ہے جو ان کو راستباز ٹھہرتا ہےکون سزا کا حکم دے گا۔ مسیح جو مر گیا بلکہ جی بھی اٹھااور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔ وہ تو ہماری سفارش کرتا ہے۔ غرض یہ کہ مسیح ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر اٹھا کی صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے حق میں مر کے راستبازی میں جی اٹھیں ۔اس امر کی نسبت حضرت یرمیاہ نے اس نجات دہندہ موعود مقبول کی صفت کے تذکرہ میں الٰہام سے یوں لکھا ہے کہ’’ اس کا نام یہ رکھا جائے گا۔ خدا وند ہماری صداقت ‘‘۔ اسی منشا ء کے موجب پولس رسول نے بھی یوں لکھا کہ ’’وہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے حکمت اور راستبازی ہے‘‘۔ اور پھر یہ کیو نکہ اس نے اس کو جو گناہ سے واقف نہ تھا ہمارے بدلے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اس میں شامل ہوکر راستباز ٹھہریں۔ اس راستبازی کے حاصل کرنے کی نسبت رسول نے یہ نصیحت دی ہے تم راستی کرنے کے لئے جاگو اور گنا ہ نہ کرو۔ یوں صاف ظاہر و عیاں ہے کہ خدا کی مقبول راستبازی صرف مسیح کے وسیلے سے گنہگاروں کو حاصل ہوتی ہے۔ اور ایمان کے وسیلے سے اس کے حق میں کار گر ہوتی ہے اور جو اس راستبازی سے اپنے کو ملبوس کرتا ہے وہ خدا کے حضور میں راست وصادق ٹھہر سکتا ہے ۔

چوتھا فائدہ خدا کے ساتھ میل

جب ہم یوں بتدریج مسیح کے وسیلے شیطان کی غلامی سے رہائی پاکے راستی کے لئے جاگ اٹھتے ہیں اور دل وجان کی پاکی حاصل کرتے ہیں۔ تب اس کی راستی و پاکی سے ملبوس ہو کے پرانی انسانیت کی ناپاکی کو کھو دیتے ہیں اور مسیح میں نئے مخلوق بنتے ہیں اور جب مسیح میں نئی مخلوق بنے تب ہم میں اور خدا کے بیچ میں مسیح کے خون کی بدولت میل و ملاپ ہوتا ہے۔ چنانچہ پولس رسول فرماتے ہیں کہ ’’اگر مسیح تم میں ہوں تو بدن گناہ کے سبب مردہ ہے پر روح راستبازی کے سبب زندہ ہے‘‘ (رومی ۸: ۱۰) اور جب روح راستبازی میں زندہ ہوئی تو ساری مغایرت جاتی رہی ۔کیو نکہ مثل مشہورہے راستی موجب رضائے خداست۔ پس اگر راستبازی خدا کی رضا کا موجب ہے تو ہم اس سے کیا نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ بجز اس کی جو کہ پولس رسول نے نکالا جیسا کہ (رومی ۵: ۱) میں آیا ہے۔ ’’پس جب کہ ہم ایمان کے سبب راستباز ٹھہرے توہم میں اور خدا میں ہمارے خدا وند عیسیٰ مسیح کے وسیلے میل ہوا۔ مسیح کی موت کے مقاصد اعلیٰ میں سے ایک یہ تھا۔ چنانچہ افسس کی کلیسیا کو یہ ہدایت دی گئی کہ ’’اب مسیح میں ہو کے جو آگے دور تھے مسیح کے لہو کے سبب سے نزدیک ہو گئے۔ کیو نکہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دو کو ایک کیا اور آپ میں دشمنی مٹا کے صلیب کے سبب سے دونوں کو ایک تن بنا کر خدا سے ملا دیا۔ (افسی ۲: ۱۳-۱۸) دیکھو۔ 

پانچواں فائدہ درجہ ابنیت 

جب بوسیلہ مسیح کے خدا کے اور گنہگاروں کے درمیان میں میل ہوا تو اس میل و ملاپ سے ایک عمدہ خوبی یہ نکلی کہ نہ صرف خدا کا غضب گنہگار انسان پر سے ٹل جاتا ہے اور وہ مورد رحم و فضل ہوتا ہے بلکہ درجہ ابنیت کا حاصل ہوتا ہے۔ وہ جو ایمان کے خاندان کے لوگ ہیں۔ سو خدا کے خاندان کو لوگ کہلاتے ہیں چنانچہ کلام پاک میں اس نعمت کی ماہیت کے حق میں یوں آیا ہے کہ ’’جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا اقتدار بخشا کہ خدا کے فرزند ہوں یعنی انہیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں ‘‘۔پھر لکھا ہے کہ’’ جب وقت پورا ہوا تب خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو


عورت سے پیدا ہو کے شریعت کے تابع ہوا تا کہ وہ ان کو جو شریعت کے تابع ہیں مول لے اور لے پالک ہونے کا درجہ پائیں۔ پس اب تو غلام نہیں بلکہ بیٹا ہے اور جب کہ بیٹا ہے تو مسیح کے سبب خدا کا وارث ہے‘‘ (گلتیوں ۴:۴، ۵ ،۷) پھر (۱-یوحنا۳: ۱) میں یوں لکھتے ہیں کہ’’ دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائیں‘‘۔ آیات بالا سے عیاں ہے کہ تائب (توبہ کرنے والا)گنہگار جو مصدق دلی اور شکستہ دلی سے خدا کے نئے عہد کے بڑے وعدہ کے مطابق اس کے مقبول ہوئے نہ صرف معافی کو حاصل کرتے بلکہ اس نئی توصل کے رشتہ سے بند ھ کر خدا کی برکت سماوی کے کل استحقاق میں دخل پاتے ہیں۔ کیو نکہ لکھا ہے کہ ’’جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں۔ وہ ہی خدا کے فرزند ہیں۔ کہ تم نے غلامی کی روح نہیں پائی کہ پھر ڈرو بلکہ لے پالک ہونے کی روح پائی جس سے ہم ابا یعنی اے باپ پکا ر پکار کر کہہ سکتے ہیں۔ وہی روح ہماری روح کے ساتھ گواہی دیتی ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔ اور جب فرزند ہوئے تو وارث بھی یعنی خدا کے وارث اور میراث میں مسیح کے شریک ‘‘(رومی ۸: ۱۴-۱۷) ۔ دیکھیں خدا کے فضل کی بہتات کہ اس کی رحمت بے پایاں سے ہم نہ صرف اس ہی زندگی کی برکتوں میں پھر حصہ پاتے ہیں بلکہ برکات و استحقاق سماوی پر بھی قابض ہوتے ہیں اور بینائی کی چال چھوڑ کے ایمان کی زندگی بسر کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور یوں اپنے ایمان کی غرض یعنی اپنے جانوں کی نجات کو حاصل کرتے ہیں ۔ پس جیسا کہ ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم میں پاکی کی صفت کو پید ا کرے ویسا ہی پاکیزگی کا نتیجہ یہ ہے کہ درجہ متبنیت (لے پالک)کا حاصل ہوا اور جب درجہ متبنیت کا حاصل ہوا۔ تب خدا ہمارا باپ ہوا نہ ازروئے حق پیدائش طبعی بلکہ از روئے حق نوزادگی اور اس کے ذریعہ سے ہم فی الحقیقت خدا کو ابا یعنی باپ پکار کے کہنے کی لیاقت پاتے ہیں اور جب ہم خدا کی طرف اے ہمارے باپ آسمانی کہہ کے مخاطب ہوتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس کے گھر اور فضل اور برکات کے کل استحقاق میں حق پاتے ہیں اور یوں کتنی برکتیں کہ خدا کی طرف سے انسان کو مل سکتی ہیں ان سب پر دعویٰ دار ہوتے ہیں اور یوں کمال حفاظت اور سلامتی کے ساتھ اطمینان سے زندگی بسر کرتے ہیں اور جسم و روح میں نئی قوت حاصل کر کے میراث میں نورکے فرزندوں کے ساتھ حصہ پاتے ہیں۔ لہٰذا اس مقام پر ہم اس مسند کلام کی تصدیق بخوبی پاتے ہیں کہ خدا کے برگزیدوں پر کون دعویٰ کرے گا۔ 

مسیح کی قربانی اور میاں جی گری (پیام رسانی)کی نعمتوں میں سے یہ چند ہیں پر کافی ہیں۔ پس جب کہ خدا کی رحمت اور مسیح کی برکت و طفیل سے ہم یوں بتدریج فضل میں ترقی پاتے ہیں اور قوت سے قوت تک بڑھتے جاتے ہیں۔ تب عمر بھر کے لئے موت کے خوف کی غلامی سے رہائی پا کے اور مسیح کے ساتھ ایک ہو کے خدا سے یکتائی حاصل کرتے ہیں اور یکتا ئی حاصل کر کے جلال کی میراث میں شرکت پاتے ہیں اور اس امید سے شاد ہوتے ہیں کہ جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر ہو گا تب ہم بھی اس کے ساتھ جلال میں ظاہر کئے جائیں گے۔ اسی وجہ سے کلیسیا دیدنی بہ ہمراہی کلیسیاء نادیدنی یہ غزل اپنا ورد بناتی ہے کہ اسی کو جس نے ہمیں پیار کیا اور اپنے لہو سے ہم کو ہمارے گناہوں سے دھو ڈالااور ہم کو بادشاہ اور کاہن خدا اور اپنے باپ کے بنایا۔ جلال اور قدرت ابد تک اسی کی ہے۔ آمین روح اور دلہن کہتی ہیں آ اور جو سنتا ہے کہے آ ۔ اور جو پیاسا ہے آئے اور جو کوئی چاہے آب حیات مفت لے۔ 

خدا سے ہر اوقات جو اپنے دل لگائیں گے
وہ بخشے گا نجات بلند وہ اسے کرے گا

وہ اس کا ہے مقبول پہچانتا وہ خدا کا نام
رب کرے گا قبول وہ اس سے دعا مانگے گا
رہے گا اس کے ساتھ خدا اسے چھڑا ئے گا
رکھے گا اپنا ہاتھ وہ اسے عزت د ے گا بھی
وہ کرے گا دراز یقیناً اس کی عمر کو
نجات کی راہ اور راز اور اس کے دل میں کھولے گا
گیارہواں باب

مسیح کی قربانی اور شفاعت کے فوائد کا حصول

مسیح کی موت کے فوائد کے نعمت کے حصول کی شکل 

مسیح کا گنہگار انسان کے لئے نجات کی نعمتیں موجود کرنا ایک بات ہے لیکن گنہگار انسان کا اس نعمت کا حاصل کرنا دوسری بات ہے۔ نعمت تو موجود ہے۔ لیکن اس کا حصول ایک اہم بات ہے اور گو امکان سے باہر نہیں ہے پر اس کا حصول مشروط ہے اور جب تک کہ وہ شرط پوری نہ ہو جس کی بنیاد پر اس کا حاصل ہونا ممکن ٹھہرایا گیا ہے۔ تب تک اس کا حاصل کرنا محال ہے۔ گو فضل کا سارا انتظام مفت بہم پہنچا ہے چنانچہ کلام میں بھی یوں آیا ہے ارے اے سب پیاسوں پانی پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس نقدی نہ ہو آؤ مول لو اور کھاؤ ۔ آؤ مئے اور دودھ پے روپا اور بے قیمت خریدو۔ تا ہم یہ بھی کلام میں آیا ہے۔ مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا ڈھونڈ ہو کہ تم پاؤ گے کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا کیو نکہ جو مانگتا ہے۔ اسے ملتا ہے اور جو کوئی ڈھونڈھتا سو پاتا ہے۔ اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا ۔ان آیات بالا پر غور و لحاظ کرنے سے صاف عیاں ہے کہ نجات کی نعمت تیار ہے۔ اور مفت میں عطا ہو گی۔ جو اس کا طالب ہے اسی کو حق ہے کہ اس کو پائے ۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا’’مانگو کہ تم پاؤ گے۔ تا کہ تمہاری خوشی کامل ہو‘‘۔ اور مشکل اس میں صرف یہ ہے کہ نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتوں کو نہیں قبول کرتا کہ وہ اس کے بیوقوفیاں ہیں (۱۔کرنتھی ۲: ۱۴)۔ جب مسرف بیٹا اپنے باپ کے گھر سے باہر ہوا تو باپ کے گھر تو وافر اور معمور ہی رہا لیکن اس کثرت اور افزونی سے اس کو کیا سروکار تھا وہ تو نکل بھاگا تھا اور جب تک نہ لوٹا تب تک وہ اپنے حق سے الگ تھا اور اپنی نادانی کے سبب سے محروم تھا۔ مسیح کی فرزندیت کے استحقاق حاصل کرنے کی نسبت کلام میں آیا ہے۔ کہ جتنوں نے اسے قبول کیا انہیں اس نے اقتدار بخشا کہ خدا کے فرزند کہلائیں۔ غرض کہ اس نعمت کا حصول بوجہ مشروط ہونے کے بہ وقت ہاتھ آتا ہے ۔کیو نکہ نفسانی آدمی روحانی باتوں کا دشمن ہے۔ اور نہ خدا کی شریعت کے تابع ہونا چاہتا ہے اس لئے گناہ نے اس کی آنکھیں اندھی کر رکھی ہیں اور مسیح کی جلیل انجیل کی رو شنی کی خوبی اس پر چمکنے نہیں پاتی ہے ۔لہٰذا وہ غفلت کو پسند کرتا ہے اور یہ غفلت سارے کاموں کو بگاڑ دیتی ہے اور اسی وجہ سے یہ کام مشکل ہوتا ہے۔ 

اس کے حصول کی شرط اول ایمان 

وہ شرط جس کے اوپر ان نعمات(نعمت کی جمع) کا حصول مبنی ہے سو مسیح والی نجات کی مقبولیت پر بیوقوف ہے اور یہ مقبولیت ایمان کو طلب کرتی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ بغیر ایمان کے خدا کو راضی کرنامحال ہے ایمان مثل اس ہاتھ کے ہے جو مسیح کی شفا بخش دامن کو پکڑتا اور اس کا دست نگر اور اس کی شفاعت و عنایت کا جو یاں بناتا ہے۔ یہ وہ نگاہ ہے جو کوہ پسگاہ کی چوٹی کی بلندی پر گنہگار کو کھڑا کر کے خدا کی نجات اور اس کے خوشنما منظر کو آنکھوں کے آگے لا کے موجود کر دیتا ہے۔ اور زمین یعولا کی فرحت سے آنکھوں کو سیر کر دیتا ہے۔ یوں مسیح کا حسن داد کی کل ذاتی خوبیاں اور اس کے دست نگر ہونے کی برکت آمیز نتیجہ ایمان کو مشتعل کر کے اور اس کے خوبی کو آشکارا کر دیتے ہیں اور یوں یہ ایمان ایک نعمت سلامت بخش ہو جاتا ہے جس سے یہ


نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم مسیح کو قبول کرتے ہیں اور صرف اسی پر اپنی نجات کے لئے کامل اورکافی بھروسہ رکھتے ہیں جب ہمارے منجی نے کہا کہ ابرہام تمہارے باپ نے ہمارے دن دیکھا اور خوش ہوا‘‘ ۔تو اس قول میں ایمان مشروط ہوا کیونکہ بغیر ایمان کے ابرہام کو مسیح کے دن کا دیکھنا محال تھا۔ اس کے ثبوت میں رسول کی ان باتوں کو سوچنا چاہئے جو عبرانیوں کے خط میں فرمائی گئی ہیں کہ ’’ایمان امید کی ہوئی چیزوں کی ماہیت اور ان دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے‘‘ کیو نکہ اس ہی کی بابت بزرگوں کے لئے گواہی دی گئی (عبرانی ۱۱: ۱۲) فضل کے نظام کی کل ماہیت اس ہی صفت کے اوپر مبنی ہے اور مقبولیت کی جڑ و بنیاد ہے۔ پطرس رسول اپنے پہلے خط میں مسیحیوں کے بے زوال اور غیر فانی میراث کے حصول کی نسبت یہ تحریر فرماتے ہیں’’ تم خدا کی قدرت سے ایمان کے وسیلے اس نجات تک جو آخری وقت میں ظاہر ہونے کو تیار ہے محفوظ کئے ہوئے ہو اور کہ اسے تو بن دیکھے تم پیار کرتے ہو اور باوجود یہ کہ تم اب اس کو نہیں دیکھتے تو بھی اس پر ایمان لا کے ایسی خوشی و خرمی کرتے ہو جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہے اور اپنے ایمان کی غرض یعنی جانوں کی نجات حاصل کرتے ہو‘‘ (۱-پطرس ۱: ۵، ۸، ۹) آیت الحاصل راستباز ایمان سے جیئے گا یوں ہم دیکھتے ہیں کہ بغیر ایمان کے مسیح کی موت اور اس کے جی اٹھنے کے فوائد میں شرکت حاصل کرنا محال ہے۔ 

ایمان ایک حاصل کی ہوئی نعمت ہے۔ 

یہ ایمان جو مسیح کی موت کے فوائد میں ہم کو حصہ دیتی ہے کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ فی نفسہ انسان کی ذات میں پائی جائے کیو نکہ گناہ کے باعث سے استعداد روحی میں بھی لا غری آ گئی ہے۔ بلکہ روحانی طور پر مردہ کہلاتا ہے۔ کلام میں بھی وہ گناہوں اور خطاؤں میں مردہ کہلایا ہے۔ پولس رسول نے اپنا تجربہ اس مقدمہ میں یوں بیان کیا ہے میں جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی اچھی چیز نہیں بستی کہ خواہش تو مجھ میں موجود ہے پر جو کچھ اچھا ہے کرنے نہیں پاتا کہ جو نیکی میں چاہتا ہوں نہیں کرتا بلکہ وہ بدی جسے میں نہیں چاہتا سو ہی کرتا ہوں۔ پس جب کہ میں جسے نہیں چاہتاوہی کرتا ہوں تو پھر میں اس کا کرنے والا نہیں بلکہ گناہ تو مجھ میں بستا ہے۔ غرض میں یہ شرع پاتا ہوں کہ جب میں نیکی کیا چاہتا ہوں تو بدی میرے پاس موجود ہے (رومی ۷: ۱۸-۲۱) برے درخت کا پھل برا ہی ہوتا ہے ۔یوں ہی برگشتہ انسان کے ایمان کی نگاہ اندھی ہو گئی ہے اور اس کا کھولنا اس کے قابو میں نہیں ہے۔ دیکھیں کلام اس مقدمہ میں کیا فرماتا ہے۔’’ کیا کوشی آدمی اپنے چمڑے کو یا تندوا اپنے داغوں کو بدل سکتا ہے۔ تب ہی تم نیکی کر سکوکے جن میں بدی کرنے کی عادت ہو رہی ہے‘‘( یرمیاہ ۱۳: ۲۳)۔ بہر حال انسان کی گناہ آلودہ حالت کی ابتری ایسی ہے کہ اس کو بالکل ہی بے سکت و بے طاقت بنارکھا ہے اور اس کلام کی ماہیت کی صداقت کو آشکارا کرتا ہے۔ جو (زکریا ۴: ۲) میں آیا ہے۔ ’’نہ توزور سے نہ تو توانائی سے بلکہ میری روح سے خدا وند کہتا ‘‘ہے ۔ اور پھر (یعقوب ۱: ۱۷) میں بھی آیا ہے کہ ’’ہر ایک اچھی بخشش اورہر ایک کامل انعام اوپر ہی سے ہے اور نوروں کے بانی کی طرف سے اترتا ہے جس میں بدلنے اور پھر جانے کا سایہ بھی نہیں ہے‘‘ پولس رسول نے (افسی۸:۲) میں اس بیان کی حقیقت کو یوں قطعی ثابت کر دیا جب فرمایا ہے کہ ’’تم فضل کے سبب ایمان لا کے بچ گئے ہو اور یہ تم سے نہیں خدا کی بخشش ہے‘‘۔ اس ماہیت سے صاف آشکارا ہے کہ ایمان ہے کہ ایمان کی نعمت انسان کے لئے ایک حاصل کی ہوئی شے ہے جو کہ اوپر سے آتی ہے اور انسان میں اپنا ثر کر کے اس کو اس نعمت میں شرکت دیتی ہے۔


اس نعمت کا بانی یا اس کا ذریعہ 

جب ہمارے مبارک منجی کا وقت آیا کہ اس دنیا میں اپنا کا م تمام کرکے آسمان پر جائے تو اپنے شاگردوں کو یہ تسلی دی کہ’’ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈر ے کیو نکہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے۔ میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے وہ میری بزرگی کرے گا اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پائے گا اور تمہیں دکھائے گا (یوحنا ۱۴: ۱۶-۱۷) اور ایمان کی بابت رسول فرماتے ہیں کہ وہ روح کے پھلوں میں سے ہے۔ یوں صاف ظاہر ہے کہ یہ نعمتیں بغیر ایمان کی حاصل نہیں ہوتیں اور ایمان بغیر روح کی مدد کے پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ پس روح پاک ایمان کی نعمت کا بہم پہنچانے والا ذریعہ ہے۔ اور ایمان اس کی مدد کا حصول موثر ہے۔ یوں روح پاک تثلیث کا اقنوم ثالث ہماری سلامتی کی نسبت ہماری مدد کرتا ہے۔ اور یہ نعمت عنایت کرتا ہے۔ کہ جو مسیح میں قائم کئے جانے کے لئے ممد ہوجاتا ہے۔ اور اس میں قائم ہو جانے کے سبب سے یہ ایمان وسیلہ سلامتی اور اس نجات کا ہو جاتا ہے۔ جو مسیح کی موت سے بہم پہنچائی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایمان سن لینے سے اور سن لینا خدا کی بات کے کہنے سے آتا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روح پاک بوسیلہ کلام کے جو کلیسیا میں خادمان دین کے ذریعہ سے سنایا جاتا ہے اپنا کام کر کے انسان کو ایمان من قائم کر دیتا ہے۔ اسی سبب سے ایمان خدا کی بخشش کہلاتی ہے۔ وہ بخشش زمینی نہیں ہے بلکہ مثل پنے بانی سماوی کے آسمانی ہے۔ رسول نے (رومی ۴: ۱۶) کے مضمون میں اس کی نسبت یوں فرمایا ہے کہ ابرہام کا راستباز ٹھہرایا جانا ایمان کے وسیلہ سے ہو اور نہ ایمان بے فائدہ ہوتا اور کہا ہے کہ اس لئے ایمان سے ہوا کہ وہ فضل کا ٹھہرے تا کہ وہ عہد تمام نسل کے لئے جو ابرہام کا ساایمان رکھتے قائم ہے۔ اس بات کی ماہیت (یسعیاہ ۵۲: ۷) میں یوں آشکا را ہوتی ہے کہ’’ پہاڑوں کے اوپر کیا ہی خوشنما ہیں ان کے پاؤں جو بشارت دیتا ہے اور سلامتی کی منادی کرتا ہے اور خیریت کی خبر لاتا ہے۔ اور نجات کا اشتہار دیتا ہے۔ جو صیہون کو کہتا ہے۔ کہ تیرا خدا سلطنت کرتا ہے‘‘۔ اور زبور کے مولف نے اس کی حقیقت کی نسبت یہ کہا ہے کہ ’’تیرے کلام کا مکاشفہ روشنی بخشتا ہے‘‘ (زبور ۱۱۹: ۱۳۰)۔ دوسرے مقام پر مقام پر کلام کی نجات بخشش تاثیر کے ضمن میں اس ہی الہامی مولف نے یوں اپنا تجربہ بیان کیا ہے کہ’’ خداوند کی توریت کامل ہے کہ دل میں پھرنے والی ہے۔ خدا کی شہادت سچی ہی کہ سادہ دلوں کو تعلیم دینے والی ہے۔ خدا کی شریعتیں سیدھی ہیں کہ دل کو خوشی بخشتی ہیں ۔ خدا وند کا حکم صاف ہے کہ آنکھوں کو روشن کرتا ہےکہ خدا کا خوف پاک ہے کہ ان کو ابدتک پائیداری ہے۔ خدا کی عدالیتں سچی اور تمام و کمال سیدھی ہیں وہ سونے سے بلکہ بہت کند سے زیادہ نفیس ہیں۔ شہد اور اس کے چھتے کے ٹپکوں سے شیریں تر ہے۔ اس کے سوا تیرا بندہ ان سے تربیت پاتا ہے۔ ان کے یاد رکھنے میں بڑا ہی اجر ہے‘‘ (زبور ۱۹: ۷-۱۱) ۔اور پولس رسول اپنے فرزند ایمانی تیمتھیس پر اس کلام کی فضلیت کو یوں آشکارا کرتے ہیں ’’تو لڑکائی(بچپن) سے مقدس کتابوں سے واقف ہے جو کہ تجھے مسیح عیسیٰ پر ایمان لانے سے نجات کی دانائی بخش سکتی ہیں‘‘ (۲۔تیمتھی ۳: ۱۵) ۔ حاصل اس کلام کا یہ ہے کہ کلام پاک خدا کی طرف سے انسان کی سلامتی کے لئے وسیلہ ٹھہرایا گیا ہے۔چنانچہ جب کلام ایمان اور دعا کے ساتھ پڑ رہا اور سنایا اور سنا جاتا ہے تو ہم کو ہماری غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ممد ہوتا ہے۔ اور روح پاک اس بیداری کی حالت کو فضل میں قائم کرنے کے لئے وسیلہ بنا دیتا ہے اور یوں اس فوق العادی مدد کے ساتھ کلام ہم کو مسیح میں قائم کر دیتا ہے۔ اور مسیح کی موت اور اس کے جی اٹھنے کی نعمت کے فوائد میں شرکت دیتا ہے۔ 


فضل کے وسیلات کا استعمال

علاوہ کلام کی تلاوت اور اس کی منادی کے جو بددرجہ اولے علی الخصوص انسان کو فضل کی حالت میں قائم کرنے کے لئے ممد ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے جو رحمت میں غنی ہے اپنے فضل کی بہتات سے کلیسیا میں چند اور ضوابط قائم کئے ہیں کہ جن کا استعمال فضل میں ا ستقامت دینے کے لئے کارگر ہوتے ہیں ۔ یہ ضوابط از بس کہ تعینات الٰہی ہیں وہ اس کے فضل کے انتظام کومتاثر طور سے کر سکے ۔اوپر بنی آدم کے دل پر مقاصد اعلیٰ اور روح کے برلانے کے لیے اپنا کام کرتے ہیں اور دل کی مخفی خواہشوں کو تحریک دے کے ا ن کو ایمان کی ہیت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس طور پر یہ ضوابط مسیح میں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ اور جو فضل کی حالت میں قائم بنانے کے لیے ایک وسیلہ موثر ہوجاتی ہیں ۔خداتعالی نے حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل کی نسبت یوں فرمایا کہ’’ تو رسوم اور شریعت کی باتیں انہیں سکھلا ‘‘(خروج ۱۸: ۲۰) اور حزقی ایل نبی کی معرفت یہ کہا کہ’’ اے آدم زاد تو دل لگا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ اور جو کچھ کہ خدا کے گھر کے قوانین و آئین کی بابت تجھ سے کہتا ہوں اپنے کانوں سے سُن اور گھر کی مدخل کو اور مقدس کی سب مخرجوں کو لحاظ کر‘‘ (حزقی ایل ۴۴: ۵) ۔ چنانچہ ان ضوابط پر عمل کرنا دینداری اور خدا شناسی کی ایک خاص پہچان ہے۔ حضرت زکریا اور الیشبع کی دینداری کی نسبت کلام میں یوں آیا ہے۔ کہ وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خدا کے حکموں اور قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔ اگر کلیسیا کی رسوم اور قوانین اس امر میں کار گزر نہ ہوتے تو وہ ہرگز مقر ر نہ ہوتے کیو نکہ ظاہر ہے کہ خدا نے اپنی کلیسیا میں کوئی ایسی بات جاری نہیں کی ہے کہ جس سے پاکی میں اور خدا کی پہچان میں ترقی نہ ہو۔ خدا تعالیٰ نے انسان کی حاجت سے واقف ہو کے اپنی مشیت ازلی میں بنی آدم کو دینداری اور اپنے پہچان میں ترقی کرنے کے لئے ایسی باتوں کا جاری اور قائم کرنا مناسب جانا ہے کہ جو اس مقدمہ میں کار گر ہو۔ اس کی تصدیق کلیسیا کے تجربہ سے بخوبی ہوتی ہے اور ان کے وسیلے سے وہ ایمان پر نیکی اور نیکی پر عرفان اور عرفان پر پرہیز گاری اور پرہیز گاری پر صبر ‘ اور صبر پر دینداری پر برادارانہ الفت اور برادراالفت پر محبت میں ترقی حاصل کرتے اور مسیح کے قد کے پورے اندازے کی طرف کو عود (لوٹنا،پھرنا)کرنے کے لئے حرکت پاتی ہے یوں روح پاک اپنا کام بتدریج پورا کرتا ہے اور دیندار کو خدا کی بادشاہی میں دخل دینے کا ذریعہ ہو جاتا ہے۔ اور یوں ہمارے منجی کی وہ باتیں راست ثابت ہوتی ہیں جو (یوحنا ۱۶: ۱۴) آیت میں آئی ہیں کہ وہ میری چیزوں میں سے لے گا اور تمہیں دکھلائے گا۔

روح القدس کے کام کی علت غائی 

اس سلسلہ اور ارتباط (میل،ملاپ)اور کل متعلقات کی جو بوسیلہ روح پاک کے ظہور میں آتیں اور ممد حیات ہو جاتی ہیں۔ علت غائی یہ ہے کہ وہ ہم کو مسیح میں متوصل کر دیتی ہیں اگر ان سب کی علت غائی یہ نہ ہو تو ان وسیلات سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ کہ ہم باپ کے پاس صرف بیٹے کے وسیلے سے رسائی پیدا کرتے ہیں اور بوسیلہ روح پاک بتدریج مسیح میں قائم کئے جاتے ہیں مسیح نے اپنے باپ سے اپنے شاگردوں کے لئے اور اپنے ایمانداروں کے حق میں یہ دعا مانگی کہ ’’وہ سب ایک ہوں جیسا کہ تو اے باپ مجھ میں اور میں تجھ میں کہ وہ بھی ہم میں ایک ہوں۔ اور اے باپ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی جنہیں تو نے مجھے بخشا ہے جہاں میں ہوں میرے ساتھ ہوں تا کہ وہ میرے جلال کو جو تو نے مجھے بخشا ہےدیکھیں‘‘ (یوحنا ۱۶: ۲۱-۲۴) اب کل انتظام انجیلی کا مقصد خاص یہی ہے کہ دیندار مسیح میں قائم ہو کے حیات ابدی کے وارث ہوں ۔مسیح نے اس دنیا سے اپنے وداع ہوتے وقت


باپ سے روح پاک کے لئے درخواست کی اور اس کو اپنا قائم مقام اس عالم اسفل میں بنایا توا ب میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ روح مسیح کی باتوں میں سے لے کے ہم کو نہ سکھلائے اور اس میں متوصل کرنے کے لئے ہماری مدد نہ کرے تو اس میں مسیح کے ساتھ مطابقت نہ ہو گی۔ 

اور جب مطابقت نہیں تو علت غائی کیو نکر بخریت انجام کوپہنچے گی بلکہ ایک امر محال ہو جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ تثلیث کے اقانیم ثلاثہ اپنا اپنا کام باہم اتفاق و اتحاد اور اتصال کے ساتھ کرتے ہیں۔ پس جب باپ اور بیٹا اپنا کام کریں تو روح القدس بھی اپنا کام کرنے سے باز نہیں رہ سکتا ہے۔ اور اگر روح پاک اپنا کام ایماندار میں کامل کرے۔ تو ممکن نہیں ہے کہ سوا مسیح میں متوصل کرا دینے کے اور کوئی نتیجہ اس سے دستیاب ہو سکے کیو نکہ وہ صرف مسیح کی بزرگی کرنے کے لئے اس دنیا میں انتہائے عالم تک کے لئے رکھا گیا ہے۔ چنانچہ رسول فرماتے ہیں کہ وہ روح ہماری کمزوریوں میں ہماری مدد کرتااور ہمیں ابا یعنی باپ کہہ کے پکارنے کی طاقت دیتاہے اس کلام کی ماہیت کو ہم زبور کے الہامی مولف کی اس دعا سے جو (زبور ۵۱: ۱۱) آیت میں آئی ہے بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی اپنی روح پاک کو مجھ سے نکال ۔ اس کی دعا کی یہی وجہ تھی کہ ان کو یہ پہچان حاصل تھی کہ فضل میں قائم رہنے کا یہ ایک بے خطا وسیلہ ہے۔ اس لئے منشا کے مطابق رسول نے بھی عیسائیوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ روح کو مت بجھاؤ۔ (اتھسلینکیوں ۵: ۱۹)۔ 

حاصل کلام 

حاصل کلام یہ ہے کہ روح القدس کی کل کام کی علت غائی یہ ہے کہ ہم کو ایمان و فضل میں وقائم کر کے مسیح میں مت کرے اور یوں اس کی موت اور جی اٹھنے کے فوائدس میں شرکت کلی بخشے اور ہم کو خدا کی فرزند بنائے یعنی خلاصہ یہ ہے کہ اس مخلصی میں جو مسیح نے گنہگاروں کے لئے خریدی ہے ہم روح القدس کے وسیلہ سے شرکت حاصل کرتے ہیں اور وہ یوں عمل میں آتا ہے۔ کہ روح پاک ہم میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ اور اس کے وسیلے سے ہمارے دل کو مسیح کی پہچان میں روشن کر کے ہمارے میلان کو ایسا نو پیدا بناتا ہے کہ ہم دل و جان سے مسیح کو اپنی نجات کے لئے جیسا کہ وہ انجیل میں پیش کیا گیا ہے قبول کرتی ہیں اور یوں روح کی کام کی مدد سے مسیح کے ساتھ گناہوں میں مر کے ور اس کے ساتھ راستبازی کے لئے زندہ ہو کر ابدی سلامتی کو حاصل کرتے ہیں۔ کاش خدا سارے گنہگاروں کی ہدایت کرے کہ اس روح پاک کے لئے التجا کر کے اس کے ذریعہ سے مسیح کی نجات میں شرکت حاصل کریں اور خدا کے فرزندوں کی آزادی میں میرا ث پائیں۔

؏ 

نظم عیسیٰ کی شان میں

جزاک اللہ یہ خوش خبری مجھے جس نے سنائی ہے۔

مسیحا کے ہی خون سے سارے عصیاں کی صفائی ہے۔

ہوا جس کے نگین دل پہ کندہ نام عیسیٰ کا

وہاں شیطان سے ملعون کی پھر کب رسائی ہے

ے بشر کیا ہے چنے عیسیٰ کو اپنے واسطے وہ خود

مسیحی جو ہوا یہ فضل حق کی راہنمائی ہے

ملاورثہ میں ہم سب کو گنہ ہے باپ دادوں سے

یہی دیکھو ہمارے بابا آدم کی کمائی ہے

ہزاروں شکر عیسیٰ کے اٹھایا بار عصیاں کا

مبارک ہو تمہیں لوگوں مسیحا سے رہائی ہے

تو ہی سچا منجی ہے تو اکلوتا خدا کا ہے

مئے خورسندی حق تو ہی نے ہم کو پلائی ہے

مبارک پھر مبارک پھر مبارک نام ہو تیرا

وہ اپنی جان تو نے اور ہماری جان بچائی ہے

اسی کی بندگی لاریب ہے آزادگی یا رو

ہماری روح تو اس نے غلامی سے چھڑائی ہے

کچل ڈالوں گا اوشیطان تجھے فضل مسیحا سے

نہیں تو جا نتا شہباز عیسیٰ کا سپاہی ہے

تمام شد

-------------