THE MESSIANIC PROPHICIES

J. ALI BUKHSH

پیشین گوئیاں

ربنا المسیح کے بارے میں

مصنف

فاضل اجل پادری جے علی بخش صاحب


پنجاب رلیجیس بُک سوسائٹی

انارکلی۔ لاہور







پہلا باب

عبرانی نبوت

نبوت سے دینی تعلیم مراد ہے اورمہذب اقوام کے دین کا یہ لازمی جزہے۔پہلے پہل تویہ ایک عمل کی صورت میں نظر آتی ہے بعد ازاں بتدریح یہ ایک عہدہ بن جاتاہے اورآخر کار ایک سلسلہ کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جب کبھی دینی تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی نبوت کا اظہار ہوا۔ پہلے پہل تو گاہے گاہے مختلف صورتوں میں یہ ظاہر ہوئی لیکن جوں جوں وہ دین ترقی کرتا گیا نبوت کو بھی ترقی ہوتی ہوگئی اوریہ ایک عہدہ بن گیا۔ قدیم پتری آرکوں کے زمانے میں حکومت کے تین عمل ،یعنی نبوت، کہانت اوربادشاہی عموماً سرخاندان یارئیس قبیلہ میں مجتمع (اکٹھا، جمع کیا ہوا)تھے۔ لیکن اس کے بعدبادشاہی کا عہدہ الگ ہوگیاورمطلق العنان (خود سر، بے لگام،بے باک، آزاد)بادشاہ بن گئے ۔پھر بتدریج یہ بادشاہی ایک خاندان میں محدود ہوگئی ۔ کچھ زیادہ عرصہ گذرنے نہ پایا تھا کہ کہانت الگ ہوکر ایک خاص خاندان سے مخصوص ہوگئی اورعلیحدہ بن گیا۔ البتہ نبوت کو علیحدہ سلسلہ بننے میں عرصہ لگا۔چونکہ اس کا تعلق خدا سے تھا اس لئے وہ عرصہ دراز تک انسانی رشتوں سے آزاد رہی۔ اعلیٰ درجہ کے ادیان (دین کی جمع)میں یہ تینوں سلسلے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ البتہ نبوت کے سلسلہ نے ایک مدرسہ یا مجلس کی صورت سے زیادہ شاذونادرہی ترقی کی۔ بادشاہی میں توحکومت کا تصور پایا جاتاہے اورکہانت میں عبادت کا تصور لیکن نبوت کا عمل دینی تعلیم کاوسیلہ ہے۔

فصل اوّل

نبوت کا لازمی اُصول

دینی تعلیم کی حیثیت سے نبوت کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ من جانب اللہ ہے اوراُسے الہٰی اختیار اورسند حاصل ہے۔ نبی خدا کا خادم ہے جسے خدا نے حکم دیا ہےکہ وہ تعلیم دے۔

عبرانی نبوت دیگر ادیان کی نبوت سے ویسی ہی متفرق ہے جیسے کہ عبرانی مذہب دیگر ادیان سے۔ اس میں چند صفات ایسی ہیں جن کے ذریعہ اسےکہانت اوربادشاہی سے امتیاز کرسکتے ہیں۔ ان عام صفات کے علاوہ چند خاص صفات بھی ہیں جن کے ذریعہ ہم عبرانی نبوت کا امتیاز عام نبوت سے کرسکتے ہیں۔

نبوت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کسی قسم کا اتحاد اورشراکت ہے خواہ وہ حقیقی ہویا خیالی۔بہر حال نبی کا یہ دعویٰ ہوتاہےکہ وہ خداکی طرف سے دینی تعلیم دینے کے لئے بھیجا گیا ہے۔

کتابِ مقدس اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ نبیوں کی عام جماعت میں سے عبرانی نبی ایک خاص نوع کے نبی تھے۔ یہوواہ کا نبی یہوواہ کے نام سے بولتاہے اوربعل کا نبی بعل کے نام سے ۔عبرانی نبوت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ الہٰی مکاشفہ ہے اور دیگر مذاہب کے نبیوں کا بھی یہی دعویٰ ہے۔ ان دونوں قسم کی نبوتوں میں کیسے امتیاز کریں اورکیوں ہم عبرانی نبوت کو صحیح اوردیگر مذاہب کی نبوتوں کوغلط قرار دیں؟


مخفی نہ رہے کہ کتابِ مقدس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ عبرانی نبوت ہی اصلی وصحیح نبوت ہے۔ مثلاً ملکِ صدق ، یترو اوربلعام غیر قوم یعنی غیرعبرانی نبی تھے(پیدائش ۱۴: ۸، خروج ۱۸، گنتی ۲۳، ۲۴باب) یہ ماننا مسیحیوں کےلئے ضروری نہیں کہ خدا نے اسرائیل کے سوا باقی سب قوموں کو بلاہدایت چھوڑدیا۔ بلکہ تواریخ پر نظر ڈالنے سے یہ ظاہر ہوجاتاہےکہ خدا نے غیر اقوام نبیوں کو بھی برپا کیا تاکہ وہ ان اقوام کو اعلیٰ مذہب کے تیار کریں۔ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی نبوت میں بعض اعلیٰ خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس سے انکار کرنامناسب نہیں گووہ مذاہب سے اعلیٰ نہیں جیساکہ بائبل کا دین ہے۔ اس لئے جو معیار اُن کی نبوت کو پرکھنے کےلئے استعمال کریں اسی سے عبرانی نبوت کا امتحان کریں۔

فصل دوم

نبوت کی مختلف صورتیں

نبوت کی تین مختلف بڑی صورتیں ہیں جو دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔مثلاً خواب،رویا ، صفائی قلب یا روحانی امتیاز کا منور ہونا۔ کتابِ مقدس کے مطالعہ کرنے والے ان تینوں صورتوں سے واقف ہیں اوریہ تینوں صورتیں دیگر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ یوایل نبی نے اس کا ذکر یوں کیا" تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے اورتمہارے بوڑھے خواب دیکھیں گے ۔ اورتمہارے جوان روئتیں"(یوایل ۲: ۱۸)۔

فصل سوم

الفاظ اورخیالات خدا کی طرف سے

خواب میں انسان اسی منفعل(اثر قبول کرنے والا، شرمندہ) حالت میں ہوتاہے کہ بیرونی تاثیریں اُس پر نقش ہوسکتی ہیں۔ اگرچہ بدن کی خرابی یا مزاج کے اختلاج(بے چین ہونا،دھڑکنا) ہی سے خواب واقع ہوا ہولیکن وہ تاثیرات خواب دیکھنے والے کی مرضی کے قابو میں نہیں ہوتیں۔ وہ بالکل بے بس ہوتاہے ۔ وہ اپنی عقل کی تحریک اورجذبات کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔بعض لوگ اس بیرونی تحریک وتاثیر کوبدارواح سے منسوب کرتے ہیں اوربعض آسمانی قوتوں سے۔

بائبل کی نبوت میں خوابوں کا باربار ذکر آیاہے۔ اسرائیل کے بزرگوں کو خواب میں ہدایت ملی اورمریم ویوسف کو مسیح کی حفاظت کےلئے خواب میں آگاہی ہوئی۔مصر اوربابل کے بادشاہ گھبراگئے جب اُن کو خواب کا تعبیر کرنے والا کوئی نہ ملا۔ یوسف اوردانی ایل کوخواب کے ذریعہ اُن خوابوں کی تعبیر معلوم ہوئی۔ پس خواب بھی نبوت کی ایک صورت ہے۔



فصل چہارم

طبعی نبوت

نبوت کی عام صورت حالتِ وجد (بے خودی کی حالت)ہے۔ ایسی حالت طبعی بھی ہوسکتی ہےمثلاً یہ کہ مرگی یاکسی دیگر جسمانی بیماری یااعصابی فساد کی وجہ سے عقل اورجذبات پر عجیب اثر پڑے۔ یہ حالت مصنوعی یاجعلی بھی ہوسکتی ہے۔ بعض دوائیوں اوربوٹیوں کا دھواں دینے سے ایسی حالت رونما ہوتی ہے یابدارواح یاالہٰی روح کی تاثیر سے ایسی حالت بھی طاری ہوجاتی ہے۔

مشرقی ممالک میں مرگی کے بیمار اور دیوانوں کو عوام الناس جن بھوت یادیوکے آسیب سے منسوب کرتے ہیں ۔ جیسے کسی آدمی کا دین ہوتاہے ویسے ہی اس پر اُس کا اثر ہوتاہے۔جولوگ کثرتِ الہٰ کے قائل ہیں وہ اس کو اپنے معبودوں سے منسوب کرتے ہیں اور واحد خدا کے ماننے والے الہٰی روح سے۔ ایسی تاثیریں چونکہ غیر طبعی اور بیروں ازتجربہ ہوتی ہیں اس لئے اُن کو اعجازی یافوق العادت (شان وشوکت ،عادت سے بڑھ کر)قرار دیتے ہیں۔ بعل کے نبیوں نے چھریوں سے اپنے تئیں گھائل کیا اور دیوانوں کی طرح دیرتک چلاتے رہے تاکہ اُن پر یہ حالت واردہو۔ وہ مذبح کے گرد کودتے ناچتےرہے(۱۔سلاطین ۱۸: ۲۶)۔

مُردوں سے تعلق جتانے والے منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہیں(یسعیاہ۸: ۱۹)مشرقی ایشیا میں ایسے لوگ ایک دوائی بنام تمبورین اوردیگر نشہ آور بوٹیاں استعمال کرتے اورنشہ کی حالت میں لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں ۔ بھنگ اور چرس کا استعمال فقیروں میں اسی وجہ سے رواج پاگیا۔

یونانی نبیہ عورتیں بعض غاروں کی گیس وغیرہ کےذریعہ اپنے پر ایسی حالت وارد کرلیتی تھیں چنانچہ ڈلفی، ڈاؤونا وغیرہ میں اس مقصد کیلئے مندرقائم ہوگئے۔ مسلمان درویش بھی گھومنے ،چکر لگانے اور زورسے چلانے کے ذریعہ ایسی حالت کو وارد کرلیتے ہیں۔ دیوی دیوتاؤں کے چیلے زنجیروں سے اپنے تئیں زخمی کرکے اوردیوانہ وار سرمارکرتے ہیں ۔جسے وہ کھیلنا کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ لوگ دنیا کی طرف سے بے ہوش ہوجاتے ہیں اوران سے طبعی پیشین گوئی صادر ہوتی ہے ۔بائبل میں ایک ایسے گروہ کا ذکر ہے جواوُنچے مکانوں سے تنبوراورطبلہ بجاتی آرہی تھی اور نبوت کررہی تھی۔ جب ساؤل اس گروہ سے ملا تو وہ بھی ناچنے اورنبوت کرنے لگ گیا(۱۔سموئیل۱۰: ۵)پھر جب ساؤل داؤد کی تلاش میں گیا تو خدا کا روح اُس پر نازل ہوا اور وہ نبوت کرنے لگا اوراُس نے اپنے کپڑے اتارڈالے اور سموئیل کے سامنے رامہ میں نبوت کرنے لگا اورسارا دن اورساری رات ننگا پڑا رہا۔ جہاں سے یہ کہاوت شروع ہوئی کہ کیا ساؤل بھی نبیوں میں ہے؟(۱۔سموئیل۱۹: ۲۳وغیرہ)۔

یہ حالت بھی سب ادیان میں مشترک ہے اورعبرانی مذہب بھی اس سے خالی نہیں۔ خود حالت وجد سے یہ دریافت نہیں ہوسکتا کہ آیا وہ خدا کی تاثیر سے یاکسی دیگر تاثیر سے ہے اسلئے ہر ایسی حالت کو پرکھ لینا چاہیے۔



فصل پنجم

طبعی نبوت کے خواص

نبیوں کا ایک اعلیٰ درجہ اور سلسلہ بھی ہے۔ جوگوشہ نشین (تنہائی میں رہنے والا،تارک الدنیا)ہوکر کتابِ مقدس کے دھیان میں مصروف ہوتے ہیں اُن کے دل ودماغ الہٰی نور سے منور ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اعلیٰ درجے کی صداقتوں کو جان لیتے ہیں ۔ اُن کو علم لُدنی(وہ علم جو کسی کو خُدا کی طرف سے برائے راست بغیر استاد حاصل ہو) حاصل ہوتاہے ۔ وہ انسانی اُمور اور سیرتوں کو پڑھ سکتے اور ماضی اورحال دونوں اُن پر کھل جاتے ہیں۔

ایسے اعلیٰ درجہ کےنبی دنیا کے دیگر مذاہب میں پائے گئے۔ اُن کوہم جھوٹے اور دیوانے نہیں کہہ سکتے۔ کیا اُن میں سے کسی کوبھی الہٰی روح نے ہدایت نہ کی تھی؟ عبرانی نبی نہ صرف عبرانی قوم کےلئے تھے بلکہ ساری دنیاکے لئے بھی۔ توکیا خدا نے باقی قوموں کوایسی ہدایت کےلئے نبیوں کے ذریعہ تیارنہ کیاہوگا؟

مونٹانسٹ نظریہ یہ تھا کہ انبیاء کی حالت ایسی ہوجاتی تھی کہ وہ الہیٰ روح کا آلہ بن جاتے تھے ۔نبی دیکھتا اوسنتا ہے۔ جسے اپنے سے الگ اوراُس کوخارجی شے کے طورپر بیان کرتاہے۔

عبرانی نبوت میں اِس کا بیان یوں کیا جاتاہےمثلاً جدعون ، افتاح اورسمسون پرخداکا ہاتھ پڑتا ہے۔ وہ الہیٰ تاثیر کا آلہ یاوسیلہ بن جاتے ہیں ۔ نبیانہ دیوانگی ساؤل جیسے شخص پرطاری ہوجاتی ہے۔ فرعون اورنبوکدنضر پرخدا کی مرضی منکشف ہوتی ہے۔ بلعام نے خدا کی روئتیں دیکھیں۔ سموئیل نے بچپن میں خدا کی آواز سنی۔ عدن میں سانپ گویا ہوتاہے۔ بلعام کی گدھی بول اٹھتی ہے۔ لیکن یہاں یہ اوزار ادنیٰ درجے کے ہیں۔ روحانی اور دینداروں کےلئے نبوت کا یہ طریقہ نہیں۔

بلعام کوخوابوں میں مکاشفہ ملا۔ اُس کی حالتِ وجد کا ذکر ہے کہ وہ چت پڑا ہے۔اس کی آنکھیں بند ہیں وہ رویا دیکھتا اورکلام سنتاہےاوراُسے حکم ملا کہ وہ اِن باتوں کوظاہر کرے اگرچہ ایسا کرنا اُس کی مرضی کے خلاف تھا(گنتی۲۴: ۱۵۔ ۱۶)۔

لیکن یہوواہ کا نبی موسیٰ اس سے اعلیٰ تھا۔ خدا موسیٰ سے رویتوں ،خوابوں یاتمثیلوں میں کلام نہیں کرتابلکہ روبرو۔ اُس نے خدا کی صورت دیکھی اور خدا سے رفاقت حاصل کی (گنتی ۱۲: ۶۔ ۸)۔ مابعدنبوت کا نمونہ موسیٰ ہے۔ خدا جس نبی کو برپا کرنے کو تھا وہ موسیٰ کی مانند بیان ہوا(استثنا ۱۸: ۱۸) عموماً عبرانی نبوت اعلیٰ پایہ کی ہے۔ البتہ ابتدائی صورت نبوت کی عبرانیوں کے درمیان ادنیٰ درجہ کی تھی اس لئے ان ایام میں غیب بین یارشی (دیکھنے والا) کہلاتا تھا اوراُس کی نبوت کا نام رویا تھا۔پھر بھی خدا کی حضوری اس میں موجود تھی جیسے یعقوب کے خواب میں آسمانی سیڑھی کے وقت یاابرہام کی رویت میں جب اُس نے آگ کی بھٹی دیکھی اور حزقی ایل نے کروبیوں کی رتھیں دیکھیں (پیدائش ۲۸: ۱۲، ۱۵: ۱۲۔حزقی ایل پہلا باب)۔

لیکن مابعد زمانے میں عبرانی غیب بن نبی کہلایا۔ جس ماخذ سےیہ لفظ نکلا ہے اُس کے معنی ہیں پھل کا نکلنا۔ چنانچہ امثال ۱۰: ۳۱ میں "راستباز کا منہ حکمت کی بات نکالتاہے" عربی میں بھی اس کے معنی اٹھنا ۔قابل فہم ہونا اوراعلان کرنا ہے اور "اسوری زبان میں نبا کے معنی بلانا،پکارنا اورنام رکھنا ہے۔ اس لئے نبی ترجمان اور واعظ ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے نبیانہ کلام ایک اشارہ ۔ایک پیغام یاکلام یایہوواہ کا کلام ہے(پیدائش ۱۵: ۱)مشنایا پیغام یااوپر اٹھانا۔ نیز دیکھو (ہوسیع ۹: ۷؛ عاموس ۳: ۷۔ ۸)۔


نبوت کا طبعی نظریہ

غیرادیان میں جونبوت پائی جاتی ہے اس کی اعلیٰ صورت سے اُس کا آغاز ہوتاہے۔اس میں اعلیٰ درجہ کی دُور بینی اورباطنی علم کا مشاہدہ ہوتاہے۔ دیگر ادیان کے معلموں میں یہ صفات پائی جاتی تھیں۔ عبرانی نبیوں کا بھی یہی دعویٰ تھا۔اگرچہ وہ اُن معلموں سے اعلیٰ درجے کےتھے۔ نیچری معلموں کی سرسیدوغیرہ کی طرح یہی تعلیم تھی کہ نبوت بھی ایک طبعی ملکہ ہےجوفطرت بعضوں کوعطا کرتی ہے۔ لیکن عبرانی نبوت پر یہ امر صادق نہیں آتا۔ چنانچہ عبرانی نبیوں اور دیگر ادیان کے معلموں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے۔

عبرانی نبوت کے خواص

عبرانی نبی کو خدا شخصی طورپر بلاتاہے اوراسے اپنا روح عطا کرتا ہے۔ وہ صرف خدا ہی کے نام سے کلام کرتاہے۔ وہ نبیوں کے سلسلے میں سے ایک ہے جوعبرانی دین کی ترقی کےلئے برپا ہوئے۔ وہ پہلی یا ماقبل نبوت کے لے کر دوبارہ پیش کرتا ہے اوراپنے مابعد نبیوں کے سپرد کرتاہے۔ الغرض عبرانی نبوی نجات کا ایک نظام ہے۔

یہاں ہم نہ صرف عبرانی نبوت اور غیر عبرانی نبوت میں امتیاز نہ کریں بلکہ خود عبرانی نبوت میں۔اصلی کوجعلی سے جدا کریں کیونکہ بعض لوگوں نے یہوواہ کے نام سے کلام کیالیکن جھوٹ بولے (یرمیاہ ۲۳باب) بعضوں نے اپنی خودرائی اوراٹکل کو خدا کاکلام سمجھ لیا جنہیں جھوٹی روحوں نے فریب دیا(۲۔تواریخ ۱۸باب) بعضوں نے نبوت کواپنا پیشہ بنالیا تاکہ اس کے ذریعہ نفع کمائیں اورملکی اغراض کی مددکریں۔یہوواہ کے نبی کوایسے جھوٹے نبیوں اوربعل کے نبیوں سے جھگڑنا پڑا۔

فصل ششم

نبی کی بلاہٹ اورانعام

عبرانی نبی خدا کی طرف سے بلایا جاتاہے اور وہ صداقت مابعد نبیوں کے سپرد کرتاہے۔

عبرانی دین خدا کے ساتھ اتحادوشراکت کا دین ہے۔اسلئے وہ جس دین کی تلقین کرتاہے وہ غیرفانی دین ہے جواُسے براہِ راست خدا سے حاصل ہوا۔خداکا یہ مکاشفہ زمان ومکان اورفطرت کے دائرہ میں اُسے ملا۔ اس لئے نہ صرف نبوت کی نعمت بلکہ معجزہ کرنےکی طاقت بھی براہِ راست خدا سے ان عبرانی نبیوں کوملی۔ یوں یہ سارے انبیاء اس نظام کے افراد تھے اگرچہ ہرایک نبی کو یہ نعمتیں حاصل نہ تھیں یا اُن کا ذکر قلمبند نہیں ہوا۔

اس نبوت کا وسیلہ روح القدس تھا۔ اورجن پر روح القدس کا اثر ہوا وہ دیندار لوگ تھے۔ یہ الہٰی روح انسانی روح کوعطا ہوا۔البتہ یہ عطیہ مختلف اشخاص میں مختلف اندازہ سے ملا چنانچہ موسیٰ اورایلیاہ، یسعیاہ ، یرمیاہ اور حزقی ایل کا مطالعہ کرنے سے یہ اختلاف ظاہر ہوجاتاہے اورخاص موقعوں پر خاص جوش سے اُنہوں نے اس کو ظاہر کیا۔



فصل ہفتم

نبوت کی کسوٹی یا معیار

حقیقی نبوت کا صحیح معیار یہ ہے کہ وہ نبوت صداقت اور واقعات کے مطابق ہو۔ ان نبوتوں میں غلطی کا امکان تھا اس لئے حضرت موسیٰ نے قوم کو اس سے آگاہ کیا۔ دیکھو( استثنا ۱۸: ۱۴۔ ۲۲)۔

یہاں صحیح نبوت کا ثبوت نہ تو نشان نہ معجزے بلکہ ظاہرا پیشین گوئی ٹھہرائی گئی ۔ سیدنا مسیح نے خود فرمایا کہ " جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی برپا ہوں گے اور بڑے بڑے نشان دکھائیں گے"(متی۲۴: ۲۴) بلکہ باطنی سیرت یانبوت کا لب لباب آیا وہ یہوواہ کے نام سے ہوئی ۔آیا وہ سچی اورحقیقی ہے۔آیا وہ خدا کےجلال کے لئے ہے یاآیاوہ پہلی نبوتوں کے مطابق ہے۔ اس کسوٹی سے عبرانی نبوت کو پرکھ سکتے ہیں۔

فصل ہشتم

نبوت کا نشوونما

طوفانِ نوح اورتیری آرکوں کے زمانے میں گاہے گاہےنبوت کا ظہور ہوا۔بحیثیت عہدہ موسیٰ پہلا نبی تھا اور وہ مابعد نبیوں کا نمونہ تھا۔ سموئیل نے نبوت کا ایک عہدہ بنادیا اورنبیوں کے سکول قائم کئے۔ یہ نبی بادشاہوں کے مشیر اور قوم کے مصلح تھے۔ اورایسے نبیو ں کی ایک اعلیٰ مثال ناتن، ایلیاہ اورالیشع تھے۔ اُنہوں نے قوم کو اس کی تاریخ اس کے عہدوں، اُس کی شریعت اورعبادت کی تعلیم دی اور موسیقی اورحکمت کے سکول قائم کئے۔ سلسلہ وار نبیوں کے برپا ہونے سے نبوت کو کمال حاصل ہوا۔ اوران نبیوں نے اپنی نبوتوں کوقلمبند کیا۔

موسیٰ سے پیشتر حنوق، نوح، ابراہام اوریعقوب نے نبی کی خدمت سرانجام دی۔لیکن موسیٰ نے ایک ایسے نبی کی یانبیوں کے سلسلے کی پیشین گوئی کی جوموسیٰ کی مانندہوگا۔ بمقابلہ کنعانی جادوگروں اورفالگیروں کے۔ سموئیل کے زمانے تک گاہے گاہے یہ نبی برپا ہوتے رہے ۔ جب سموئیل نبوت کے عہدے کےلئے بلایا گیا تو وہ موسیٰ کی طرح حاکم بھی تھا اورنبی بھی۔لیکن جب اُس نے حکومت چھوڑی تواُس نے نبوت کا ایک الگ عہدہ بنادیا اورنبیوں کے سکول قائم کئے۔

سموئیل کے بعد پہلے پہل ایسے نبی بھی اٹھے جوقوم کی عدالت بھی کرتے تھے وہ بادشاہوں کے درباروں میں یا قومی مجمعوں میں ناگہاں آموجود ہوتے اورجو پیغام اُن کو ملا تھااُسے پہنچاتے ۔نبیوں کے مدرسوں میں یہوواہ کی تعلیم اوراُس کی عبادت کے طریقے رقص وسرود کے ذریعہ سکھائے جاتے تھے اورغالباً بائبل کی تاریخیں کتابیں اُنہوں نے ہی تصنیف کیں۔جب یہودی سلطنت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی توشمالی سلطنت میں زیادہ ترنبی برپا ہوئے ۔ ایلیاہ اورالیشع اس زمانے کے اعلیٰ پایہ کے نبی تھے۔

وسیع معنی میں ہم تمام عہدِ عتیق کونبوت کہہ سکتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ شریعت ، حکمت اور زبور کی کتابوں اورنبیوں کے صحیفوں میں امتیاز کیا گیا اور یوں نبوت کا حلقہ زیادہ تنگ اورمحدود ہوگیا۔ خطِ عبرانیوں گیارہ باب میں ایسے نبیوں اوربہادروں کی فہرست دی گئی ہے گو وہ مکمل نہیں۔



فصل نہم

نبی کا اعلیٰ تصور

نہ صرف موسیٰ کے دس احکام یاصرف شریعت میں بلکہ سارے عہدِعتیق میں یہ اعلیٰ تصوراپنی جھلک دکھاتا رہتاہے۔ چنانچہ ان نبیوں نے جو تعلیم دی وہ دیگر ادیان کے نبیوں کی تعلیم سے بہت اعلیٰ تھی ۔مثلاً خُداکی وحدانیت اور شخصیت کی تعلیم ۔ایسے خدا کی تعلیم جس نے خلقت پیدا کی اورمخلصی کا انتظام کیا۔

اسی طرح انسان کے بارے میں جو تعلیم عبرانی نبیوں نے دی وہ بھی لاثانی ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان ایک ہی اصل سے ہے ۔وہ ایک نوع ہے اوریہ انسان ایک دن پاک اورکامل ہوگا جیسے خدا پاک اور کامل ہے۔

اسی طرح انسان کی نجات کی جوتعلیم ان نبیوں نے دی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی۔اس نجات یا مخلصی کے ذریعہ خدا اورانسان کا اتحاد ممکن ہوگیا۔


دوسرا باب

پیشین گوئی

دُنیا کے سارے مذاہب میں یہ دعویٰ ہے کہ اس میں پیشین گوئیا ں ہیں۔ مخفی نہ رہے کہ نبوت اورپیشین گوئی میں امتیاز کیا گیا ہے۔ نبوت زیادہ وسیع لفظ ہے اورپیشین گوئی اس کا صرف ایک جزو ہے۔ اس لئے پیشین گوئی کو نبوت پر فوق(بلندی) نہیں، اگرچہ بعضوں نے غلطی سے پیشین گوئیوں کی نسبت بہت مبالغہ کیا۔ پیشین گوئی عبرانی نبوت ہی کا مخصوص جزنہیں بلکہ سارے دینوں میں اس کا چرچا ہے۔ فطرت انسانی کو ایسی تربیت مل سکتی ہے کہ وہ پیشین گوئی کے قابل بن جائے۔جیسے مدبرانِ ملک اپنے ملک اور اپنی قوم کی تواریخ کا مطالعہ کرنے سے اس قابل ہوسکتے ہیں کہ وہ اس قوم کے مستقبل کے بارے میں بتاسکیں۔ اسی طرح علمائے دین اس قابل ہوسکتے ہیں کہ کلیسیا کی خبر دےسکیں۔ چونکہ انسان کی طبیعت کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ مستقبل کا علم حاصل کرے اسلئے مسیحی شخصی دعا مانگتاہے اورغیر مسیحی مختلف قسم کے نبیوں کی تلاش کرتاہے۔

پیشین گوئی نبوت کی وہ صورت ہے جس میں آئندہ کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے اوراس لئے یہ قابل قدر ہے کیونکہ اس میں یہ تعلیم پیش کی جاتی ہے کہ مخلصی کے کام کی تکمیل مسیح کے وسیلے سے سرانجام پائے گی۔

فصل اوّل

پیشین گوئی کے چشمے

غیرادیان میں پیشین گوئی کاسب سے ادنیٰ چشمہ مُردہ ارواح ہیں۔ بعل کے مذہب میں اس کا بڑا چرچا تھا۔ ایسے لوگوں کے ذریعہ مستقبل کا حال معلوم کرتے تھے جو مرُدگان کی روحوں کو بلاسکتے تھے مثلاً عین دور کی جادوگرنی کا سموئیل کی روح کو بلانا(۱۔سموئیل ۲۸باب)۔

دوسرا چشمہ شگون لینا یا فال دیکھنا تھا۔(یسعیاہ ۸: ۱۹)خاص کر جانوروں کی انتڑیوں یاپرندوں کے پرواز کے ذریعہ پتوں کی صرصراہٹ کی آواز سے یا پاک جانوروں کی حرکتوں یا کسی غیر معمولی واقعہ کے ذریعہ شگون کے یہ طریقے رومیوں اوریونانیوں میں بہت مروج تھے۔

کہتے ہیں کہ حضرت یوسف اپنے جام کے پانی کے ذریعہ شگون لیا کرتے تھے(پیدائش ۴۴: ۵) تیروں کے ذریعہ شگون لینے کا ذکر( حزقی ایل ۲۱: ۲۱۔ ۲۳)میں آتاہے۔ نیز ترافیم یا خاندانی چھوٹے بتوں کے ذریعہ شگون لیتے تھے (حزقی ایل ۲۱: ۲۱،زکریاہ ۱۰: ۲)۔

جوتشیوں یانجومیوں کے ذریعہ مستقبل کا حال دریافت کرتے جو ستاروں کی گردش ورفتار سے آئندہ کا حال معلوم کیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادواورہاتھوں کے خط وخال کے ذریعہ انسان کی قسمت بتاتی جاتی تھی۔

لیکن بائبل مقدس نے ان سارے طریقوں کو رد کیا اوراُن پر لعنت کی۔ البتہ قرعہ کے ذریعہ خدا کی مرضی دریافت کرنے کو جائز رکھا۔ عکن اور یونتن کے بارے میں قرعہ ڈالنے کا ذکر آیاہے۔(یشوع ۷: ۱۴؛ ۱۔سموئیل ۱۴: ۴۳)موعودہ زمین قرعہ کے ذریعہ تقسیم کی گئی ۔ لڑائی کے وقت اورحالات کو قرعہ کے ذریعہ دریافت کیا (یشوع ۱۴: ۱۹)۔ بنی اسرائیل میں اوریم اورتمیم کے ذریعہ خدا کی مرضی دریافت کی جاتی تھی(احبار ۸: ۸)۔ ساؤل اور داؤد کی تاریخ میں اُن کا ذکر آیاہے (۱۔سموئیل ۳۰: ۷ وغیرہ ۱۔سموئیل ۲۸: ۶)۔



فصل دوم

عبرانی پیشین گوئی کا چشمہ خدا ہے

یہ پیش گوئی خوابوں کے ذریعہ یارویتوں کے ذریعہ جوحالت وَجد میں ملتے ہیں دی جاتی ہے، ایسی صورتوں میں مستقبل ایک ڈرامہ کی شکل میں قوتِ متخیلہ (سوچنے کی قوت)پر منعکس ہوجاتاہے ۔ جس پر پیش گوئی ظاہر ہوتی ہے ۔ وہ اُس کے تجربے اورمشاہدے کی اشیاء کے ذریعہ ہوتی ہے۔ مگر یہ پیش گوئی محض خیالی نہیں ہوتی بلکہ قوتِ متخیلہ کی طبعی طاقت سے اعلیٰ ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم نے رویا میں دیکھاکہ اس کی نسل ۴۰۰برس تک مصر میں رہے گی ۔ مصر میں رہنے کا خیال توقوتِ متخیلہ سے علاقہ رکھتاہے لیکن سالوں کی تعداد جن میں وہ نسل دکھ اٹھائے گی محض قوت متخیلہ کا کام نہ تھا۔(پیدائش ۱۵باب) فرعون کے خواب کا انحصار توملک کی طبعی حالت پر تھا لیکن ان کی تفصیل کسی خارجی قوت سے علاقہ رکھتی تھی جسے ہم فوق العادت کہہ سکتے ہیں (پیدائش ۴۱باب)اسی طرح ان خوابوں کی تعبیر کا واقعات میں ظاہر ہوں اس امر پر شاہد ہے کہ یہ کسی اعلیٰ قوت کا کام تھا۔نبوکدنضر کے خوابوں اوردانی ایل نبی کی رویتوں کے بارے میں بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ (دانی ایل۴، ۷باب)۔

اب خوابوں کے ذریعہ پیش گوئی سے گذرکر ہم ان منظوم پیش گوئیوں پر نظر ڈالیں جوحالتِ وجد میں منکشف(ظاہر) ہوئیں۔ مثلاً بلعام کی پیش گوئی، وہ پیش گوئی بلعام کی خواہشات کے بالکل خلاف تھی(گنتی ۲۳، ۲۴باب )کسی اعلیٰ طاقت نے بلعام کوبرکت دینے پر مجبور کیا حالانکہ وہ خود اسرائیل پر لعنت کرنا چاہتا تھا۔اس پیش گوئی کو ہم طبعی نہیں کہہ سکتے ۔

البتہ عبرانی قوت میں اکثر یہ دیکھا جاتاہےکہ عبرانی نبی جو پیش گوئی کرتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ایسے نبی اپنے زمانے میں صاحبِ عقل وخرد تھے۔ وہ اپنی قوم کی تاریخ اوراپنے قرب وجوار (نزدیک، اردگرد)کی قوموں کے مذاہب اورملکی اُمور سےواقف تھے۔ وہ مدبرانِ ملک میں شامل تھے لیکن ان سب سے بڑھ کر وہ خدا پرست اوردیندار لوگ تھے۔ اُن کا نور قلب اور دُوربینی (دور سے دیکھنا)کی طاقت خدا کے نور سے منور تھی۔

فصل سوم

عبرانی نبوت بذریعہ نشانات

یہ نشانات کبھی توادنیٰ درجے کے استعمال کئے گئے جیسے اخیاہ شونی نے کپڑے کےبارہ ٹکڑے کرکے یہ ظاہر کیاکہ دس ٹکڑے یروبعام کودئے گئے یعنی دس فرقوں کی سلطنت۔یہاں دس ٹکڑوں سے دس فرقے مُراد ہیں اور کپڑوں کے پھاڑنے سے اُن فرقوں کی دوسلطنتوں میں تقسیم (۱۔سلاطین ۱۱: ۳۰۔ ۳۱)بعض اوقات تویہ نشانات بذریعہ عمل دکھائے گئے اوربعض اوقات محض تقریر میں۔ چنانچہ حزقی ایل نے دوچھڑیوں کا ذکر کیا جن پر یہوداہ اوراسرائیل کے نام لکھے تھے اور وہ چھڑیاں آپس میں جڑگئیں یعنی دونوں سلطنتوں میں اتحاد ہوگیا۔(حزقی ایل ۳۷: ۱۵وغیرہ)اسی طرح یرمیاہ نبی نے انجیر کے دوٹوکروں کا ذکر کیا۔ ایک میں اچھی انجیریں تھیں اوردوسرے میں بُری ۔ اس سے اسرائیل کی نیک وبددو گروہیں مُراد لیں(یرمیاہ ۲۴)۔یہ چند مثالیں بطورنمونہ کے پیش کی گئیں۔کوئی شخص لفظی طورپر ان کی تکمیل کی توقع نہیں کرسکتا بلکہ اُن کی غرض سمجھنے سےواسطہ ہوگا۔


عبرانی نبی عموماً اعلیٰ نشان استعمال کرتے تھے۔ البتہ مسیحیوں نے اس طریقہ کو بہت بگاڑا اورہر شے کو نشان سمجھا۔ لیکن ہم صرف انہی نشانوں کا ذکر کریں گے جن کونبیوں نے استعمال کیا اوریہ مختلف قسم کے نشان میں بعض اشخاص بطور نشان کے استعمال ہوئے جیسے موسیٰ، داؤد یاسلمان اوریہ امر طبعی تھاکہ مسیح موسیٰ ثانی اوراس سے اعلیٰ قرار دیا جائے۔ یاظفریاب جنگی بادشاہ جو داؤد کی مانند ہویا سلیمان کی طرح صلح کا بادشاہ۔

سیدنا مسیح نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو ایلیاہ سے تشبیہ دی(متی ۱۱: ۱۴، ملاکی ۴: ۵)ان نشانوں میں سیرت کی عام مطابقت مُراد لی گئی نہ ہر چھوٹی تفصیل کی مطابقت اگر کوئی تفصیل کی مطابقت تلاش کرے تو وہ غلطی کرے گا۔

نہ صرف اشخاص کو نشان ٹھہرایا بلکہ بعض رسوم کو بھی مثلاً عید فسح کو۔ عہد کے صندوق اورسردارکاہن کے تاج کو ۔یہ نئے عہدکے نشانات بتائے گئے۔جہاں تک یہ نشان اعلیٰ ہوں گے وہاں تک مطابقت بھی اصل اورنشان میں زیادہ ہوگی۔ ایسی پیش گوئیوں کی تفسیر کرنا بھی مشکل ہے۔ ان کا راز کبھی کبھی صدیوں تک چھپا رہا۔اورجب تک وہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی کسی نے ان کا مطلب نہ سمجھا مثلاً فرعون اور نبوکدنضر کےخوابوں کو۔ ان کی تفسیر کے لئے یوسف اوردانی ایل جیسے اشخاص کی ضرورت تھی۔مسیح کے بارے میں جو نبوت تھی وہ مسیح کی پہلی آمد کے وقت بہت کچھ سمجھ میں آئی۔ مسیح نے اپنے رسولوں کے ذہنوں کو روشن کیا تاکہ وہ کتاب ِمقدس کے معنی سمجھ سکیں۔ اسی طرح مسیح کی دوسری آمد کے وقت نئے عہدنامہ کی نبوت پورے طور سے سمجھ میں آئے گی۔اس سربمہر کتاب کو وہ برہ کھولتاہے جوذبح ہواتھا۔

کبھی کبھی یہ نشان عام نشان سے بڑھتے بڑھتےایسا عظیم وعالیشان بن جاتاہے کہ حقیقت سے پرے ہوجاتاہے۔ مثلاًایک تاک کو مصر سے لاکر کنعان میں لگایا۔ وہ تاک بڑھتے بڑھتے ساری زمین پر پھیل گئی اوراُس کی شاخیں بحیرہ شام سے دریائے فرات تک (زبور ۸)۔اسی طرح دانی ایل نبی نے ایک پتھر کا ذکر کیا جوبڑھتے بڑھتے ساری دنیا میں پھیل گیا (دانی ایل ۲باب) میکاہ نے خداوند کے گھر کے پہاڑ کو یوں ظاہر کیا کہ وہ سارے بلند پہاڑوں سے اونچا ہوگیا(میکاہ ۴؛یسعیاہ۲باب) اسی طرح حزقی ایل نبی نے نئے یروشلیم کےلئے ایسے الفاظ استعمال کئے کہ وہ ناممکن کے درجے تک پہنچ گئے(حزقی ایل ۴۰باب) اور بعضوں کا بیان ایسے عجیب طورسے ہوا کہ پڑھتے پڑھتے ہنسی آجاتی ہے۔ اگرچہ پیش گوئی یا نشان کی ظاہری صورت ایسی ناممکن نظر آئے لیکن حقیقت کوظاہر کرنے کے لئے ایسی صورت موزوں تھی۔ مثلاً نبوت میں اسرائیل سے عام اسرائیل جسم کے لحاظ سے مُراد نہیں بلکہ روحانی اسرائیل سے مراد ہے (رومیوں ۹باب) ابراہیم کی اولاد ایماندار لوگ ہیں(رومیوں ۴باب) مسیحی کلیسیا قدیم اسرائیل کی قائم مقام اوراس کے وعدوں کی وارث ہے(۱۔پطرس ۲: ۴)۔

لیکن عبرانی نبوت میں اعلیٰ نبوت بھی شامل ہے جو صریح پیش گوئی کہلاتی ہے۔ایسی پیش گوئی کے شروع میں گوکسی نشان کا استعمال ہولیکن رفتہ رفتہ وہ نشان پیچھے رہ جاتاہے۔

نبوت میں کبھی اعداد کا ذکرآتاہے جن کے معنی اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے جب تک کہ اُن کا کچھ سراغ نہ ملے۔ اسی طرح نزدیک یاقریب کا استعمال ہوا۔ مثلاً یوایل کے لئے جونزدیک ہے وہ تاریخی طورپر یسعیاہ کے لئے عرصہ دراز ہوگا۔ اورجویرمیاہ کےلئے نزدیک ہے ملاکی کےلئے دورہوگا۔پھر بھی یہ سارے نبی کے بعددیگرے خداوند کے دن کو یہی کہتے چلے گئے۔


اسی وجہ سے سیدنا مسیح نے فرمایاکہ وقتوں اورموسموں کا علم صرف خداکوہے (متی ۲۴: ۴۲؛ اعمال ۱: ۷)الغرض نبوت کے آج اورکل کے درمیان ایک رات ہے جو غیر مقررہ اور غیر یقینی ہے۔ اس لئے آج کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہ تیاری کا وقت ہے۔

فصل چہارم

پیش گوئی کی حدود

نبی گویا اعلیٰ پہاڑ پر کھڑا ہے۔ وہ سامنے انجام کود یکھ رہاہے لیکن بیچ میں جو خلیج (پانی کا وہ حصہ جو تین طرف خشکی سے گھِرا ہوا اور ایک طرف سمندر سے ملا ہوا، فاصلہ)حائل ہے وہ اس کی نظروں سے اوجھل (غائب)ہے ۔وہ درمیانی وادیوں چٹانوں اور ندیوں کو نہیں دیکھتا اور وہ نبی اس انجام کو اپنے زمانہ کی تاریخ کے رنگ میں پیش کرتاہے اور وہ رنگ مقامی عارضی اوراس کے زمانے کے مطابق ہے اورایسے فاصلہ اورمعیاد کو وہ تمثیلی اعداد میں پیش کرتاہے نہ حقیقی اعداد میں ۔ ایسی نبوت میں باربار یہ نصیحت ملتی ہے کہ دکھوں میں صبرکرو کیونکہ مخلصی آرہی ہے اورہم نہیں جانتے کہ کتنی جلد آجائے گی۔

فصل پنجم

مسیح کے بارے میں پیش گوئی

عبرانی نبوت اعلیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرتی جاتی ہے حتیٰ کہ مسیح میں جاکر تکمیل کو پہنچتی ہے ۔ اس ساری نبوت کا یہ مرکزی تصور ہے۔ اس کے باقی سب سبق اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔یہ وہ چشمہ ہے جہاں سے برکت اورلعنت کی ندیاں برابر جاری رہتی ہیں۔ مسیحی نبوت مسیح کے وسیلے مخلصی کی پیش گوئی ہے۔ اوریہ پیش گوئی انہی نبیوں تک محدود نہیں جو بحیثیتِ عہدہ نبی تھے بلکہ یہ تاریخی اورمنظوم کتابوں میں بھی اُسی طرح ملتی ہے جیسے نبیوں کی کتابوں میں ۔مسیحی پیش گوئی میں نہ صرف مسیح کی شخصیت کا ذکر ہے بلکہ اُس کے کام کا بھی ۔ نیز ان سارے فوائد اوربرکات کا جو مسیح کے وسیلے حاصل ہوتے ہیں۔ عام تصور مخلصی کی تکمیل ہے۔

عبرانی نبوت کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ خدا،انسان اور مخلصی ۔یہ مخلصی خدا کی اُمت کو اب بھی حاصل ہے اورآئندہ کوبھی حاصل ہوگی ۔لیکن اس کا کمال مسیح کے زمانے میں ہوگا۔ پہلی مخلصی کو ہم خاص مخلصی سمجھیں ۔ دوسری کو مستقبل حالت کا مسئلہ اورتیسری مخلصی کو مسیح کے بارے میں نبوت۔

مخلصی کا یہ مسئلہ بتدریج منکشف ہوتا گیا۔ اس میں ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانے شامل ہیں۔ موجودہ مخلصی ،بہتر مخلصی کی اُمید ہمارے اندر پیدا کرتی اورمسیح میں تکمیل پاتی ہے۔

پرانے عہدنامے میں یہ مخلصی ایک بیج کی مانند نظر آتی ہے ۔ وہ بیج پھول اورپھل لاتاہے۔چنانچہ نئے عہدنامہ میں اس کا پھول اورپھل نظر آتاہے۔ شریعت اورانبیاء میں جس مخلصی کا ذکر ہے وہ اس شخص میں پوری ہوتی ہے جو شریعت اورانبیاء کو پورا کرنے آیا تھا۔



فصل ششم

مسیح کے بارے میں پیش گوئی کی تکمیل

مخفی نہ رہے کہ مسیحی نبوت بتدریج ترقی کرتی جاتی ہے۔یہ الگ الگ پیش گوئیاں نہیں بلکہ باہم وابستہ ہیں۔ وہ ایک پودے کی طرح نشوونما پاتی ہے اس لئے اس کے مختلف درجوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ پھر بھی یہ کہنے میں تامل نہیں کہ پُرانے عہدنامے کی نبوت کی کلید(چابی،کُنجی) مسیح کی آمدِ اوّل ہے۔اس نے اس کے مختلف کمروں کو کھول دیا اوربتادیاکہ مسیح کی دوسری آمد ساری نبوت کو پورے طور سے منکشف کردے گی۔

مسیح کے بارے میں نبوت کی تفسیر کا ایک بڑا موزوں طریقہ ہے اور وہ یہ ہے :

۱۔ ہرایک پیش گوئی کا مطالعہ الگ الگ بڑے غوروخوض سے کریں۔

۲۔ اسی سلسلہ کی دوسری پیش گوئیوں کے ساتھ مقابلہ کرکے پڑھیں۔

۳۔ اس کو مسیح اوراس کی مخلصی کی روشنی میں پڑھیں۔

بعض لوگوں نے سمجھا کہ ایسی پیش گوئی کے دہرے معنی ہوتے ہیں لیکن یہ درست نہیں ۔ معنی توایک ہی ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ پیش گوئی دنیاوی مخلصی سے شروع کرکے ابدی مخلصی کی طرف ترقی کرتی جاتی ہے اس لئے بعضوں نے یہ دھوکا کھایا۔


تیسرا باب

مسیح کے بارے میں ابتدائی پیش گوئی

توریت میں کئی ایک مسیحی نبوتیں پائی جاتی ہیں اوران نبوتوں میں ایک بڑا فاصلہ حائل ہے اوروہ مختلف شخصوں کے ذریعہ ملیں۔ پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں خلقت کی پیدائش کا ایک قدیم گیت ملتاہے۔ اس کے چھٹے حصے میں آدم کا ذکر ہے جوسب سے آخر میں اورسب سے اعلیٰ اورخدا کے لشکر میں سب سے افضل پیدا کیا گیا(پیدائش ۱: ۲۶سے ۳۰) اس میں یہ بیان ہے کہ آدم کوخدا نے آسمانی عقول کی صورت اورشکل پر خلق کیا جن سے خدا نے انسان کے پیدا کرنے کے بارے میں مشورت کی۔ مقابلہ کرو(زبور ۸: ۶)سے ۔ اسے سب پر حکومت بخشی۔ اس کے لئے مقررہوا کہ اس کی اولاد زمین کی وارث ہو۔

یہ صورت نہ صرف عقل وپاکیزگی کی تھی بلکہ کل انسان یاآدم کی کیونکہ ظاہری صورت باطنی صورت کا جسمانی اظہار ہے اوریہ صورت پاتال (شیول)میں بھی قائم رہتی ہے(زبور ۱۷: ۱۵)یہ صورت ان روحوں یاعقول کی مظہر ہے۔

اس تصور کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا۔ اسے مسیحی پیش گوئی توٹھیک سے طورسے نہیں کہہ سکتے۔ البتہ یہ تصور ساری نبوت کی شرط اورڈھانچہ ہے کیونکہ انسان کے بارے میں خدا کی یہی تجویز تھی کہ آخر کارانسان ایسا ہی بن جائے۔

فصل اوّل

پہلا مسیحی تصور

مسیحی نبوت کا آغاز نوع انسان کی تاریخ کے آغاز سے ہی شروع ہوتاہے۔نوع انسان کے گرتے وقت یہ تصور پیش کیا گیا۔

پیدائش ۳: ۱۴، ۱۵ میں ہے کہ عورت کی نسل ایک لڑائی کے بعدجس میں دونوں فریق زخمی ہوں گے سانپ پر غالب آئے گی۔ اس میں لعنت اورغم داخل ہیں۔ اس کے ذریعہ وہ خدا کو اپنا مخلصی دہندہ تسلیم کرلیتے ہیں۔ وہ باغِ عدن معہ اس کےدرختوں اورحیوانات کے انسان کی تربیت کے لئے تھا۔ اُن کی آزمائش ضروری تھی کیونکہ بلاآزمائش کوئی دینی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ آدم وحوا کی اخلاقی تربیت کیلئے آزمائش ضرور تھی۔ زندگی اور موت کے درخت ان کے سامنے نیکی اوربدی کی تصویر کھینچتے تھے۔ اُن کے ذریعہ نیکی اوربدی کی پہچان بڑھتی جاتی تھی۔ اب حیوان آزمانے والا آتاہے۔ یہ آزمائش ذائقہ کی دل کی اورعقل کی تھی۔ یعنی پھل اورخوبصورتی اورعقل کی زیادتی کے وعدے کے ذریعہ۔

عورت آزمائش میں گر کرخود آزمانے والے بن گئی ۔ ویسے ہی آدم نے آزمائش میں گر کر حکم عدولی کی۔ خدا بطور قاضی اورمخلصی دہندہ کے ظاہر ہوا۔

سانپ کو جو لعنت ملی اُس میں بدروحیں اوربدآدمی بھی شامل ہیں(یوحنا ۸: ۴۴)۔

طوفان سے پہلے کی صرف یہی ایک پیش گوئی ہم تک پہنچی ہے۔

فصل دوم

سیم کی برکت ۔ طوفان کے بعد

طوفان کے فوراً بعدخدا نے وعدہ کیا اورنوح کی اولاد کو یقین دلایاکہ زمین قائم رہے گی اورموسم برابر برقرار رہیں گے(پیدائش ۸: ۲۰۔ ۲۲)۔تب نوح نے خداوند کےلئے ایک مذبح بنایا اورسب پاک چوپایوں اورپاک پرندوں میں سے تھوڑے سے لے کر اس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں اور خداوند نے اُن کی راحت انگیز خوشبو لی اورخداوند نے اپنے دل میں کہاکہ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجوں گا۔ کیونکہ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُراہے۔ نہ پھر سب جانداروں کو جیسا اب کیا ہے ماروں گا۔ بلکہ جب تک زمین قائم ہے بیج بونا اورفصل کاٹنا۔ سردی اور تپش گرمی اور جاڑا دن اور رات موقوف نہ ہوں گے۔

ان آیات میں خدا کے ایک اعلیٰ وعدہ کا ذکر ہے۔ گو لفظی طورپر یہ مسیح کے بارے میں وعدہ نہیں کہلاتالیکن اس میں مسیحی تصور کا مزید انکشاف پایا جاتاہے۔ زمین کو جب انسان مطیع کرچکے گا تووہ اپنی ساری تاریخ میں دراصل زمین ہی رہے گی اورموسموں کے تغیر وتبدل کا سلسلہ بھی برابر جاری رہے گا۔ نوع انسان کا گناہ اس جنگ میں ایک بڑا عنصر ہے۔ یہ گناہ نہ صرف آزمانے والے اوربیرونی دنیا میں ہی پایا جاتاہے بلکہ انسان کے باطن میں بھی۔ توبھی زمین کی حالت میں فرق نہ آئے گا۔جب تک کہ انسان کے انجام کی غایت (غرض ،انجام)پوری نہ ہو۔

گناہ طوفان کے عین بعد نوح کی اولاد میں نمودار ہوا جس کی وجہ سے نوح نے اپنے بیٹے کنعان کو لعنت دی۔ یہ کنعان حام کا بیٹا تھا لیکن حام کے دوسرے بیٹے اس لعنت میں نظر انداز ہوئے۔

یافت کی برکت کو زیادہ توسیع دی گئی ۔ اورسیم کویہ برکت ملی کہ خدا اُس کے خیموں میں رہے گا۔

یہ دوسری مسیحی پیش گوئی بھی پہلی پیش گوئی کی طرح ایک برکت ہے۔اس بر کت کا موقعہ گناہ اور شرم ہے۔ یہ گناہ نوح کے خلاف ہے۔ یہ گناہ سب سے چھوٹے بیٹے حام سے سرزدہوا ۔ لعنت اوربرکت براہِ راست خدا نے نہ دی بلکہ نوح نے ۔ نوح نے بحیثیت نبی خدا کے مقصد کو ظاہر کیا۔ یہ لعنت وبرکت اُس جدوجہد کوظاہر کرتے ہیں جو شیطان اوراُس کےلشکر کے خلاف نہیں بلکہ نوع انسان کی تین قوموں کے درمیان ہوگی۔

اس پیش گوئی میں تین گروہ ہیں۔ اورگناہ اورنیکی کے بھی تین درجے ہیں جو نوح کے تین بیٹوں میں پائے جاتے ہیں گناہ اورشرم توحام اوراس کی اولاد میں محدود ہے اورنیکی یافت کی اولاد میں۔لیکن سیم کی دینداری یافت کی نیکی سے بڑھ کر ہے۔ ان تینوں بیٹوں میں سیرت کے یہ تین درجے ان قوموں کی تاریخ میں نمودار ہیں ۔ دیکھو (پیدائش ۹: ۱سے ۱۷، ۲۶، ۲۷)۔

" اس نے کہا کہ کنعان ملعون ہو۔وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہوگا۔پھر کہا خداوند سیم کا خدا مبارک ہو اورکنعان سیم کا غلام ہو۔ خدا یافت کو پھیلائے کہ وہ سیم کے ڈیروں میں بسے اورکنعان اُس کا غلام ہو" ۔

حام نے اپنے بوڑھے باپ کی بے عزتی کی۔ اوروہ انسان کی نفسانی فطرت کا نشان تھاجواُس کی نسل کی تواریخ میں پائی جائے گی۔ یہ قابلِ غور ہے کہ حضرت نوح نے حام کو جواس گناہ کا مرتکب ہوا نظر انداز کردیا اوراُس کےبیٹے کنعان کو موردِ لعنت ٹھہرایا۔ انتقام فطرت یا نیچر کا قانون ہے اورحام سے یوں انتقام لیا گیا جیسے حام نے اپنے باپ کی بے عزتی کی ہے ویسے ہی اُس کا بیٹا اُس کی بے عزتی کرے گا۔ اوریہ لعنت حام کے ایک بیٹے کو ملی۔ باقی بیٹے نظر انداز کئے گئے۔


اب نوح نے دوسرے بیٹوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے باپ کی عُریانی ڈھانپی۔ سیم نوح کا پہلوٹھا بیٹا تھا۔ جس میں باپ کی دینی طبیعت پائی جاتی تھی اس لئے اُس کو نوح نے برکت دی اور کنعان پر لعنت بھیجی۔ پھر یافت کوبرکت دی کہ وہ پھیلے اورساتھ ہی کنعان کولعنت کہ وہ غلام رہے۔

کنعان اوریافت کو چھوڑ کر ذرا سیم کی برکت پر غورکیجئے۔وہ برکت یہ ہے کہ خدا سیم کے ڈیروں میں رہے گا یااُن کے اندر بسے گا۔سیم کی اولاد کا حصہ خدا تھا۔ الہٰی حضوری ہمیشہ اُن کے خیموں میں رہی۔ اُنہوں نے حقیقی مذہب کو قائم رکھا ۔شریعتِ انبیاء اورمسیحی دین انہی کے وسیلے رواج پکڑگئے۔ اس نبوت کا مرکزی تصور یہ ہے کہ خدا آئے گا اورسیم کے ڈیروں میں رہے گا۔ پہلی پیش گوئی میں یہ تھا کہ عورت کی نسل کو سانپ پر فتح حاصل ہوگی۔ یہاں دوسری پیش گوئی میں مسیحی مخلصی کا الہٰی پہلودکھایا گیا کہ خدا کی آمد سیم کے خیموں میں ایک بڑی برکت ہوگی۔اس پیش گوئی کے یہ دوسلسلے نوعِ انسان کی تاریخ میں برابر نشوونماپاتے رہے حتیٰ کہ مسیح کی آمد اورخاص کر اُس کی دوسری آمد میں وہ کمال کو پہنچے۔

فصل سوم

ابرہام کی برکت

مسیحی تصور کی نشوونما کی تاریخ میں ایک بڑا وقفہ پایا جاتاہے۔ نوح کے بیٹے بڑھتے بڑھتے خاندان ،فرقے اورقومیں بن گئے ۔ اُن کی بدی کے باعث بابل کے بُرج بنانے کے وقت وہ منتشر ہوگئے۔چونکہ سیم کے فرقوں میں خالص خدا کی عبادت کم ہوگئی تھی۔ اس لئے خدا نے ابرام اوراس کی بیوی کو چنا اورحکم دیاکہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر ایک دور ملک میں جابسیں تاکہ وہ برگزیدہ امت کے جدِ امجد اوردنیا کے لئے برکت بنیں۔ ابرام کی بلاہٹ سے تاریخ انسانی میں ایک نیا زمانہ شروع ہوتاہے۔

۱۔ابرام کے ساتھ خدا نے عہدباندھا ۔ اس کےذریعہ ابرام کی نسل اورخدا کے درمیان اورابرام کی نسل اورنوع انسان کے درمیان ایک مبارک رشتہ قائم ہوگیا۔ اورابرام سے ایک مبارک زمین کا وعدہ کیا گیا۔

یہ پیش گوئی بھی ایک برکت کی صورت میں ہے ۔خدا ابرام سے متکلم ہوا۔ البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بذریعہ خواب متکلم ہوا یا رویا یا باطنی نوروآگاہی سے ۔

دیکھو (پیدائش ۱۲: ۱۔ ۳)" خداوندنے ابرام سے کہا کہ تواپنے وطن اوراپنے ناطہ داروں کے بیچ سے اوراپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو میں تجھے دکھاؤں گا۔ اورمیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اوربرکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔سوتوباعثِ برکت ہو۔جو تجھے مبارک کہیں اُن کو میں برکت دوں گا اور جوتجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے"۔

ابرام کو حکم ملا کہ وہ اپنے رشتے داروں سے جدا ہوجائے اوراپنا وطن چھوڑ کر ایسے ملک میں چلا جائے جواسے میراث میں دیا جائے گا۔ اوروہاں اُس کا نام زمین کی قوموں کےلئے باعث برکت ہوگا۔ چنانچہ حضرت ابرام نے یہ حکم مان لیا اوراس برکت کا وارث ہوا۔ وہ اپنے ملک سے نکل کر کنعان کو گیا اوروہاں سکم میں پہنچ کر ممرے کے بلوط کے پاس اس کو یقین دلایا گیاکہ موعود زمین وہی تھی چنانچہ وہاں اُس نے خداوند کےلئے مذبح بنایا اور تسلیم کیاکہ یہوواہ خدا ہے جس نے اس زمین کا وعدہ اُس سے کیا۔


ناظرین اس انتخاب کا لحاظ رکھیں۔ وہ وعدہ پہلے عورت کی نسل سے تھا۔ پھر وہ سیم کی نسل سے ابراہیم کی اولاد کوملا۔ ابراہیم کی نسل گومحدود ہوگئی تھی۔ توبھی برکت ساری قوموں تک پہنچے گی۔ ابرام اگرچہ اس وقت بوڑھا اوربے اولاد تھا پھر بھی خدا نے وعدہ کیاکہ اس کی اولاد ریت کے ذروں کی طرح کثیر ہوگی۔ اس کے بعد خدا نے اپنے پہلے وعدے کوزیادہ توسیع دی اورکہا" اپنی آنکھ اٹھا اورجس جگہ توہے وہاں سے شمال اور جنوب اورمشرق اور مغرب کی طرف نظر دوڑا کیونکہ یہ تمام ملک جوتو دیکھ رہا ہے میں تجھ کو اورتیسری نسل کو ہمیشہ کےلئے دوں گا۔ اورمیں تیری نسل کو خاک کے ذروں کی مانند بناؤں گا ایسا کہ اگرکوئی شخص خاکے ذروں کو گن سکے توتیری نسل بھی گن لی جائے گی "(پیدائش ۱۳: ۱۴۔ ۱۸)۔

سکم میں تو"اس ملک" کا ذکر تھالیکن یہاں تمام ملک کا پہلی دفعہ وعدہ میں تویہ ذکر تھا کہ میں تجھے بڑی قوم بناؤں گا۔ اب اس کی اولاد کا ذکر ہے کہ وہ " خاک کےذروں" کی طرح بے شمار ہوگی۔

سدوم اورعمورہ کی بربادی کا ذکر کرتے وقت بھی اس وعدہ کی طرف اشارہ ہے۔ ابرہام سے تو یقیناً ایک بڑی اور زبردست قوم پیدا ہوگی اور زمین کی سب قومیں اُس کے وسیلے سے برکت پائیں گی (پیدائش ۱۸: ۱۷۔ ۱۹)۔

حضرت ابراہیم کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ شاید بے اولاد ہی مرجائے اوراُس کا خادم الیعزر اس کی میراث کا مالک ہو۔ اس لئے خدا نے اس کو یہ کہہ کر تسلی دی" یہ تیرا وارث نہ ہوگا بلکہ وہ جو تیری صلب سے پیداہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔ اب آسمان کی طرف نگاہ کر۔ اگر تو ستاروں کو گن سکتاہے توگن ۔ تیری اولاد ایسی ہی ہوگی" (پیدائش ۱۵: ۴۔ ۶)۔ البتہ حضرت ابرہام کو یہ بتایا گیا کہ وہ سرزمین اُس کو یااُس کی اولاد کوایک لخت نہ ملے گی بلکہ اُس کی اولاد چار سو(۴۰۰)برس تک مصر کی غلامی میں رہے گی۔ اُس کی چوتھی پشت غلامی سے رہا ہوکر موعود زمین کی مالک بنے گی۔ یہاں اُس ملک کی حدود بھی بتائی گئیں کہ وہ دریائے مصر سے لے کر دریائے فرات تک ہوگی۔ وہاں پہلے گیا رہ قومیں بستی تھیں۔ کنعانیوں کے فرقے، ارامی، حتیوں کے فرقے وغیرہ (پیدائش ۱۵: ۱۸۔ ۲۱)۔

اس کے بعد اس برکت کا ذکر اُس وقت ہوا جب خدا نے ابرہام سے ایک عہدباندھاجس کا نشان ختنہ تھا اوراس وقت ابرہام کا نام بدل کر ابرہام ہوگیا (پیدائش ۱۷: ۱۔ ۸)۔اس برکت میں ابرہام " بہت قوموں کا باپ" کہلایا جس کی وجہ سے اُس کا نام ابرہام ہوا۔ یہ ملک" دائمی ملکیت" ہوگا۔

اس کے بعد یہ برکت حضرت اضحاق کے حصے میں آئی۔ ہاجرہ اورقطورہ اوردوسری لونڈیوں کے ذریعہ ابرہام کی جواولاد تھی وہ الگ ہوگئی اوراس برکت کی وارث نہ ہوئی لیکن خدا اضحاق پر ظاہر ہوا جس وقت وہ بیرسبع کوگیا" میں تیرے باپ ابرہام کا خداہوں۔ مت ڈر کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تجھے برکت دوں گا اوراپنے بندے ابرہام کی خاطر تیری نسل بڑھاؤں گا" (پیدائش ۲۶: ۲۴)اضحاق کی نسل سے دوبیٹے توام پیداہوئے۔ اُن کی پیدائش سے پیشتر ایک بیٹے یعقوب کودوسرے بیٹے عیسو پر ترجیح دی گئی ۔ اورکہا گیا کہ" بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا"(پیدائش ۲۵: ۲۳، ۲۴)۔ اضحاق کی اولاد دوقوموں میں منقسم ہوگئی اور یہ ابرہاہیمی برکت یعقوب کے ورثہ میں آئی چنانچہ اضحاق نے اپنے مرنے سے پیشتر جوبرکت دی وہ یعقوب نے حاصل کی اگرچہ باپ وہ برکت عیسو کودینا چاہتا تھا۔ اس برکت میں یہ ذکر ہے" خدا آسمان کی اوس اورزمین کی فربہی اوربہت سا اناج اورمے تجھے بخشے۔ قومیں تیری خدمت کریں اورقبیلے تیرےآگے جھکیں۔ تواپنے بھائیوں کا سردار ہو اور تیری ماں کے بیٹے تیرےآگے جھکیں جوتجھ پر لعنت کرے وہ خود لعنتی ہو اورجوتجھے دعادے وہ برکت پائے"(پیدائش ۲۷: ۲۷۔ ۲۹)۔


یہاں اُس موعود سرزمین کی زرخیزی کاذکر ہے اوراس امر کا کہ قومیں یعقوب کی فضیلت اورامارت کو مان لیں گی۔ پھر اسی وعدے کی توسیع یعقوب کو برکت ملتے وقت ہوئی جب وہ ہاران کو جارہا تھا۔

" میں خداوند تیرے باپ کا خدا اوراضحاق کا خداہوں۔میں یہ زمین۔۔۔۔۔۔تیری نسل کو دوں گا اورتیری نسل زمین کی گرد کے ذروں کی مانندہوگی۔۔۔۔۔ اور زمین کے سب قبیلے تیرے اورتیری نسل کے وسیلے سے برکت پائیں گے"(پیدائش ۲۸: ۱۳: ۱۶)۔اس برکت میں (پیدائش ۱۲: ۱۔ ۵ اور ۱۳: ۱۴۔ ۱۷) کاتکرار ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ(پیدائش ۲۶: ۱۴ )میں تویہ مذکور تھا۔" میں تیرے ساتھ ہوں گا "۔لیکن یہاں یہ ہے" دیکھ میں تیرے ساتھ ہوں اورہر جگہ جہاں توجائے تیری حفاظت کروں گا اورتجھ کو اس ملک میں پھر لاؤں گا" (آیت۱۵)۔

جب یعقوب فدان ارام کو بھیجا گیا تویہی برکت دہرائی گئی (پیدائش ۲۸: ۱۔ ۴)۔ خدا نے جوعہد ابرہام سے باندھا تھا(پیدائش ۱۷باب)اس کا یہ تکرار ہے۔ اورجب یعقوب فاران ارام سے واپس آیا اوراُس کا نام یعقوب سے اسرائیل ہوگیا۔ تویہی برکت پھردہرائی گئی (پیدائش ۳۵: ۹۔ ۱۲)۔

فصل چہارم

یہوداہ کی برکت

یعقوب کےبارہ بیٹے تھے جن سے اسرائیل کے بارہ فرقے پیداہوئے۔ یہ لوگ مصر کوگئے۔ جہاں یوسف نے اُن کی پرورش کی ۔وہاں یعقوب نے اپنے مرنے سے پہلےان بارہ بیٹوں کوبرکت دی۔ وہ برکت مسیحی نبوت تھی۔اس برکت میں یعقوب نے کنعان کی زمین کو تقسیم کیا گویا وہ اُس کے قبضہ میں آ چکی تھی۔ اس برکت میں اُس نے یہوداہ کو سب کا سردار ٹھہرایا اوراُس کی نسبت کہا گیا کہ قومیں اُس کی مطیع ہوں گی اور وہ زمین کی نعمتوں سے مالا مال ہوگا۔ اس برکت میں ابراہیمی برکت کی توضیح(شرح وضاحت،کھول کربیان کرنا) کی گئی ہے۔ پہلی برکتوں میں تو صرف ایک ایک بیٹا چنا گیا تھا ۔ لیکن اب اس برکت میں یعقوب نے اپنے کسی بیٹے کو خارج نہیں کیا۔ البتہ تین بڑے بیٹوں کو ادنیٰ درجہ دیا کیونکہ اُن کی سیرت میں نقص پایا گیا۔ حرامکاری اورظلم اُن سے سرزد ہوئے۔ پھر بھی اُن کو کنعان کی زمین میں سے حصہ دیا گیا۔ اسی طرح ہرایک بیٹے کو اُس کی سیرت کے مطابق حصہ دیا گیا۔ لیکن یہوداہ کو ان سارے فرقوں کا صدرقرار دیا۔ جیسے اسرائیل قوموں کے لئے برکت کا وسیلہ مقرر کیا گیا تھا ویسے ہی یہوداہ اپنے فرقوں کے درمیان فاتح فرقہ مقرر ہوا(پیدائش ۴۹: ۸سے ۱۲)۔

اس برکت میں خاص بات موعود زمین ہے جہاں یعقوب بطورمسافر کے طور پررہا کرتا تھا۔اب یہ فرقے اُس سرزمین کو وہاں کے اصلی باشندوں سے فتح کرکے تصرف(دخل دینا) میں لائیں گے۔ یہوداہ شیرببر کی طرح ہراول بنے گا۔ یعقوب نے اُس کے مستقبل کو دیکھا اورکہا" یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی۔ اورنہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا جب تک شیلوہ نہ آئے اورقومیں اُس کی مطیع ہوں گی(پیدائش ۴۹: ۱۰) اس کی تفسیر بہت کچھ لفظ شیلوہ پر موقوف ہے۔ انگریزی بائبل کے ترجموں نے اس کو بڑے حروف میں لکھاہے جس سے ظاہر ہے کہ اس نے اُنہوں نے مسیح کا نام مُراد لیاہے۔ لیکن یہ خیال مسیحی کلیسیا میں سولھویں صدی میں پیداہوا۔ دوسرے ترجموں میں اُس کے متفرق معنی لئے گئے۔ مثلاً


۱۔ یہ وہ شہر ہے جہاں یروشلیم کے چنے جانے سے پیشتر مقدس خیمہ رکھا گیا۔ اس کے مطابق اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ان فرقوں کے سفر کا انجام شیلوہ ہوگاجو مقدس زمین کا ایک شہر تھا جس کے فتح کرنے سے یہ یقین ہوجائے گا کہ فتح کا کام ختم ہوا۔ یہوداہ جو فرقوں کا سردار تھا اُس کو میراث میں لے گا۔ یہ متاخرین (پیچھے آنے والے لوگ، اخیر زمانے والے)کی رائے ہے۔ متقدمین کی یہ رائے نہ تھی اورنہ اُس کا کوئی ثبوت ہے۔

۲۔اعراب کی ذرا سی تبدیلی سے اس لفظ کے معنی "اُس کا بیٹا " ہوجاتے ہیں" شیل" بمعنی بیٹا اورآخرکی’’ ہ‘‘ کےمعنی اُس کا ۔یونتن کے تارگم نے یہ معنی لئے اوردسویں صدی سے یہودی علماء نے اس معنی کی تائید کی۔ لیکن پرانے عہدنامے میں کہیں ایسا لفظ نہیں ملتا۔ کالون صاحب کی یہی رائے تھی۔

۳۔ یہ مسیح کا نام ہے۔ یہ رائے پہلے پہل تالمود میں ملتی ہے کہ یہ مسیح کا نام ہے لیکن اُس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض عائد ہوجاتے ہیں ۔

(الف)۔اس سے پیشتر کی پیش گوئیاں اورمابعد چندصدیوں تک مسیح کی نسبت پیش گوئیاں عام صورت رکھتی ہیں نہ کہ خاص صورت یعنی بتدریج مسیح میں پوری ہوتی ہیں اوربراہِ راست مسیح کا ذکر نہیں کرتیں۔

(ب)۔یعقوب کے خیال میں موعود زمین اور دشمنوں پر فتح پانے کا زیادہ خیال ہوگا۔ اس نے اس میراث کو تقسیم کیا۔

(ج)۔ علاوہ ازیں کسی دوسرے مقام میں یہ لفظ مسیح کا نام نہیں بتایاگیا۔

(۴۔) لفظ شیلوہ کے معنی ہیں" وہ جس کا حق ہے" اس کے مطابق اس جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ یہوداہ سرداری کرے گا جب تک کہ وہ زمین فتح نہ ہو۔ اس کے بعدوہ دائمی امن وآرام کی زندگی بسرکرے گا۔

یوسف کی برکت میں ذکر ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر زمین کی زرخیزی کالطف اٹھائے گا(پیدائش ۴۹: ۲۲۔ ۲۶)۔

الغرض رفتہ رفتہ یہ فرقے ان برکتوں کے وارث ہوتے گئے۔ جب یشوع اورکالب کنعان پر فتحیاب ہوئے اُس کے بعد بھی یہ برکتیں ملتی گئیں۔ داؤد کی فتوحات اورسلیمان کی دولت سے یہ زیادہ افضل ہیں کیونکہ ان میں آخری دنوں پر نظر ہے اور زمانہ کے آخر میں اس کی تکمیل ہوگی۔ جب مسیح آئے گااورسب کچھ اُس کے پاؤں تلے آجائے گااس وقت یہوداہ اوراسرائیل کےلئے وہ ساری چیزیں حاصل کرے گا جواُن کا حق ہے کہ دنیا کی قومیں اُن کے مطیع ہوں۔ یہوداہ کے فرقے کا یہ وہ ببر شیر ہے جو آسمان کی کتاب کی مہریں کھولتاہے (مکاشفہ ۵: ۵ ،۲۲: ۱۶)۔ وہ فتح کرتا جائے گا ۔ جب تک کہ سب کچھ اس کے مطیع نہ ہو۔



باب چہارم

موسیٰ کے زمانہ کی مسیحی نبوت

یعقوب کی برکت مصر کی اسیری کے زمانے میں عبرانیوں کی تسلی بخش اُمید تھی۔ اُس کی صداقت اُس ظاہرہونے لگی جب خداوند اپنے بڑھائے ہوئے بازوسے اُنہیں سمندر اوربیابان سے کوہ سینا تک لے گیا۔

فصل اوّل

اسرائیل خدا کا بیٹا

یہوواہ اسرائیل کو اپنا پہلوٹھا بیٹا ٹھہراتا۔ قوموں کے درمیان اُسے میراث دیتا اورپدرانہ شفقت سے اُس کی خبرگیری کرتاہے جب تک کہ وہ اُس سرزمین پر قبضہ نہیں کرتے ۔

خدا نے موسیٰ کو اس مخلصی کے کام کیلئے مقرر کیا اورفرعون کیلئے اس کو پیغام دیا گیا:

" تو فرعون سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتاہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پہلو ٹھا ہے اور میں تجھے کہہ چکاہوں کہ میرے بیٹے کوجانے دے تاکہ وہ میری عبادت کرے۔۔۔"(خروج ۴: ۲۲، ۲۳)۔اس حکم میں کلی اسرائیلی بہ ہیئت مجموعی خدا کا بیٹا یا پہلوٹھا بیٹا ٹھہرے۔ اورخدا نے اُن خاص حفاظت اورہدایت کی ۔ اس رشتہ کا مفصل ذکر موسیٰ کے گیت میں آیاہے(استثنا ۳۲: ۶۔ ۱۰؛ نیز مقابلہ کرو ہوسیع ۱۱: ۱؛ متی ۲: ۱۵)۔

فصل دوم

خدا کی سلطنت

خدا نے اسرائیل کو مصر سے مخلصی دے کر اپنی خاص میراث ٹھہرایا اوراُسے کاہنوں کی سلطنت او رمقدس قوم بنایا۔

جب قوم اسرائیل صحیح سلامت کوہِ سینا تک پہنچ گئی توپہلی بات جو بنی اسرائیل کو بحیثیت قوم کہی گئی وہ وعدہ تھا جوموسیٰ کے وسیلے دیا گیا۔ " اگر تم میری بات مانو اورمیرے عہد پر چلو توسب قوموں میں سے تم ہی میری خاص ملکیت ٹھہروگے۔۔۔ تم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اورایک مقدس قوم ہوگے"(خروج ۱۹: ۳۔ ۶)۔

یہ وعدہ اُس عہد کی بنیاد تھاجو خدا نے قوم اسرائیل سے باندھا ۔ اگرچہ خدا ساری زمین کا مالک ہے توبھی اُس نےایک خاص قوم کو چنا جس پر وہ خاص طریقے سے حکومت کرے گا۔یوں دوسری مسیحی پیشینگوئی کی توضیح کی کہ وہ سیم کے ڈیروں میں رہے گا۔ اب وہ اسرائیل کی سلطنت کا خدا اوربادشاہ بنتاہے اوریوں خدا کی سلطنت کی بنیادرکھی گئی۔ یہ بادشاہی کاہنوں یا مقدس قوم کی ہے۔ وہ پاک قوم ہیں کیونکہ ان کا بادشاہ پاک ہے۔ وہ کاہن ہیں کیونکہ


وہ دوسری قوموں کے لئے خدا کے نمائندہ اوردرمیانی ہیں۔ ابراہیم کی برکت کا جو تیسرا جز تھا۔ اُس کو زیادہ واضح کیا۔ ابرہام کے نزدیک جو ضروری امر تھا وہ موعود نسل تھا اور یعقوب کیلئے وہ موعود سرزمین تھی۔ لیکن اب جب کہ اسرائیل ایک قوم بن گیا توخاص امر وہ رشتہ ٹھہرا جو خدااوراسرائیل کے درمیان قائم ہوا۔ اس رشتہ کے وسیلے وہ قوموں کےلئے برکت کا باعث بن گئے یعنی وہ کاہنی اورشاہی خدمت بجالائیں گے۔

قوم کی یہ کہانت عالمگیر کہانت تھی کیونکہ اب تک اسرائیل میں کہانت کا عہدہ مقرر نہ ہوا تھا۔ اُس کے بعد جب کہانت کا عہدہ مقرر ہوا تویہ عالمگیر کہانت منسوخ نہ ہوگئی جیسے ایک شاہی خاندان کے قائم ہونے سے اسرائیل کی عالمگیر سلطنت جاتی نہ رہی۔ یہی وعدہ مسیحی کلیسیا نے اپنے سے منسوب کیا(۱ ۔پطرس ۲: ۹؛ افسیوں ۱: ۱۴ ؛طیطس ۲: ۱۴؛ کلسیوں ۱: ۱۲۔ ۱۳)۔

کیونکہ مسیح ملکِ صدق کے طورپر بادشاہ اورکاہن تھا۔ قوم کی یہ کہانت لاوی، ہارون اور صدوق کے خاندانوں سے گزرتے ہوئے مسیح میں تکمیل پاتی ہے۔ اسی طرح قوم کی بادشاہی داؤد کے خاندان سے گزرکر جلال کے بادشاہ میں پوری ہوئی (مکاشفہ ۵: ۱۰؛ ۱۹: ۱۱ وغیرہ)۔

فصل سوم

ظفریاب ستارہ

بلعام نے یہ ظاہر کیاکہ خدا کی سلطنت جہان کی قوموں سے الگ ہے۔ خدا اُس کا بادشاہ ہے اس میں بہت سے اشخاص شامل ہیں اور وہ سلطنتِ سب پر غالب اور اٹل ہے۔ اُس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ ساری قوموں کو اپنے عصا کے نیچے لائے گی۔

حورب پہاڑ پر جومکاشفہ ملا اس میں دس احکام اور عہد کی کتاب عطا ہوئی اورخدا کا یہ لشکر منظم طورپر کنعان کوروانہ ہوا اورخدا کی سرکردگی میں چالیس برس بیابان میں بھٹکتےپھرنے کے بعد یہ لشکر دریائے یردن کے کنارے پرآخیمہ زن ہوا۔یہاں اُن کو مضبوط قوموں سے مقابلہ پیش آیا۔ کنعان کا سارا ملک تیار ہوگیا کہ اُن کو دریائے یردن عبور کرنے سے روکے۔ یہاں ایک دوسری مسیحی پیش گوئی کا موقع پیدا ہوا۔ یہ پیش گوئی قوم اسرائیل کے کسی بزرگ یانبی کی معرفت نہیں دی گئی بلکہ ایک غیر قوم نبی بلعام نامی کے ذریعہ سے ۔یہ شخص مشرق کے خردمندوں میں گنا جاتا تھا۔ جس ملک میں وہ رہتا تھا وہاں کا دین دریائے نیل اوردریائے سندھ کے علاقہ کے دینوں سے بہتر اورپاکیزہ تھا۔ اُس نے یہ یہوواہ کے عجیب کاموں کا ذکر سنا ہوا تھا۔ وہ شمعون مجوسی اوریہوداہ کی طرح خدا کا متلاشی تھا۔ لیکن لالچ نے اُس کواندھا کردیا۔ لوگ اُس کی برکتوں اور لعنتوں کو بہت موثر سمجھتے تھے۔

شاہِ موآب نے اسرائیل سے ڈر کر بلعام کوبلوایا اورکہا کہ وہ اسرائیل پرلعنت کرے اوراس کو بہت انعام واکرام دینے کا وعدہ کیا۔ بلعام نے خدا سے مشورت کی خدا نے اس کو جانے سے منع کیا لیکن وہ لالچ کے مارے جانے پر اصرار کرتاہے اس لئے اُسے جانے دیا لیکن اُس نے اسرائیل پر لعنت نہ کی بلکہ برکت دی اوراُن برکتوں میں یہ تیسری پیش گوئی پائی جاتی ہے۔ان برکتوں کا ذکر (گنتی ۲۲: ۱۔ ۱۲؛ ۲۳: ۷۔ ۱۰، ۲۰ ۔ ۲۴، ۲۴: ۵۔ ۹، ۱۷۔ ۱۹، ۲۰ ۔ ۲۴ )میں پایا جاتاہے اوریہ پیش گوئی(گنتی۲۴: ۱۷۔ ۲۰)تک میں قلمبند ہے۔

" یعقوب میں سے ایک ستارہ نکلے گا اوراسرائیل میں سے ایک عصا اُٹھے گا ۔ اورموآب کی نواحی کومارمار کر صاف کردے گا۔اور یعقوب ہی کی نسل سے وہ فرمان روااٹھے گاجوشہر کے باقی ماندہ لوگوں کو نابود کرڈالے گا"۔

جب وہ یہ ذکر کرچکا کہ خدا کی بادشاہی ادوم اورموآب پر فتح حاصل کرے گی تو وہ دوسری قوموں کی طرف متوجہ ہوا (گنتی ۲۴: ۲۰۔ ۲۴)۔


پہلی پیش گوئی میں تواسرائیل بلحاظ دیگر قوموں کے کاہن کی مانند ہے لیکن اس پیش گوئی میں وہ بادشاہ کی مانند ہے جن قوموں کا اس میں ذکر ہے وہ دنیا کی قوموں کی گویا نمائندہ ہیں جو خدا کے اسرائیل کی مخالفت ہیں۔ خدا کی عام سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے وہ داؤد کے شاہی خاندان کے تصورکولیتاہے جو ساری قوموں کی مطیع کرے گا اورپھر اُس کے شاہی عصا کی طرف نظر اٹھاتاہےجوداؤد ثانی یاابنِ داؤد تھا۔

فصل چہارم

ابدی کہانت

فنحاس کی وفاداری کے صلہ میں اُس سے اوراُس کی اولاد سے ابدی کہانت کا عہد باندھا گیا۔

جب قوم اسرائیل کوہِ حورب کے دامن میں خدا کے سامنے حاضر ہوئی تو اُن کو خدا نے جہان کی قوموں کےلئے کاہن اوربادشاہ بنایا۔ اس لئے اُن کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا تاکہ اُن کا امتیاز دوسری قوموں سے ہوسکے۔ اس تعلیم کے لئے اُن کو دس احکام یادس کلمے ملے جن کی تفصیل کی گئی اور وہ تفصیل عہد کی چھوٹی کتاب کہلاتی ہے(خروج ۳۴: ۱۲۔ ۲۸)۔

پھر وہ شریعت دی جوعہد کی بڑی کتاب کہلاتی ہے(خروج ۲۰: ۲۳سے ۳۴باب کے آخر تک اورپھر احبار کی کتاب) کی شریعت جس میں کاہنوں کےلئے خاص ہدایت ہیں۔ اس ساری شریعت میں کہانت پر زور ہے۔ اس لئے فنحاس کی مستقبل مزاجی اور وفاداری کے باعث اس سے یہ ابدی عہدباندھا گیا۔

" سوتوکہہ دے کہ میں نے اس سے صلح کا عہدباندھا اوروہ اس کیلئے اور اُس کے بعد اُس کی نسل کےلئے کہانت کا دائمی عہد ہوگا کیونکہ وہ اپنے خدا کے لئے غیرت مند ہوا اوراُس نے بنی اسرائیل کےلئے کفارہ دیا"(گنتی ۲۵: ۱۲۔ ۱۳)۔

مسیحی تصور اس میں یہ ہے کہ یہ ابدی کہانت ہوگی۔ اس لئے اس کی تکمیل مسیح میں ہوتی ہے جو ملکِ صدق کے طریق کا کاہن تھا۔یوں قو م کی ابدی کہانت کوتوضیح حاصل ہوئی ۔

فصل پنجم

موسیٰ کی مانند نبی

موسیٰ نے یہ پیش گوئی کی کہ خدا اُس کی مانند ایک نبی برپا کرے گا جس کو بولنے کا اختیاز خدا کی طرف سے ملے گا اورجو اُس کی بات نہ مانے گا اُس کو سزا ملے گی۔

ماقبل چار پیش گوئیوں میں کسی نہ کسی قدرابرہام کے عہد کی تشریح پائی جاتی ہے لیکن استثنا کی کتاب نے محبت کے رشتے پر زوردیا جوخداوند اوراُس کی اُمت کے درمیان ہے(استثنا ۱۰: ۱۵)۔


موسیٰ کی معرفت جو پیش گوئی ہوئی وہ پہلی پیش گوئیوں سے متفرق ہے وہ عام تھیں۔ یہ خاص ہے ۔" خداوند تمہارا خدا تمہارےہی بیچ سے یعنی تمہارے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اُس کی سننا ۔۔۔ اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اورجوکچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔۔۔ جو کوئی ان باتوں کو۔۔۔۔ نہ سنے تومیں اُن کا حساب اُس سے لوں گا"(استثنا ۱۸: ۱۶۔ ۱۹)۔

اُس نبی کے یہ خواص اس پیشینگوئی میں بیان ہوئے ہیں:

(۱۔) وہ اسرائیلی ہو۔(۲۔) وہ موسیٰ کی مانند ہو(۳۔)خدا کی جانب سے کلام کرنے کا اختیار اُسے ملاہو۔

بنی اسرائیل کی تاریخ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں گذرا جو موسیٰ کے برابر یا اُس سے اعلیٰ ہوجب تک کہ مسیح ظاہر نہ ہوا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اس امر کوتسلیم کیا(یوحنا۱: ۱۵۔ ۲۸)۔

فلپس نے یسوع سے ملاقات کرنے کے بعد نتن ایل سے یہ کہا " جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اورنبیوں نے کیا ہےوہ ہم کو مل گیا(یوحنا ۱: ۴۵)۔

سامری عورت نے یسوع کو مسیح یعنی وہ نبی سمجھا (یوحنا ۴: ۲۹)۔

جھیل گلیل کے کنارے بھیڑ چلا کر یہ کہا" جونبی دنیا میں آنے والا تھا فی الحقیقت یہی ہے"(یوحنا ۶: ۱۵)۔

سیدنا مسیح نے فریسیوں کویہ کہا" اگرتم موسیٰ کا یقین کرتے تومیرا بھی یقین کرتے اس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ جب تم اُس کے نوشتوں کا یقین نہیں کرتے تومیری باتوں کا کیوں کریقین کروگے؟(یوحنا ۵: ۴۶، ۴۷)۔

رسولوں نے بھی یسوع کوموسیٰ کی مانند نبی سمجھا چنانچہ پطرس نے موسیٰ کی پیش گوئی کو یسوع سے منسوب کیا(اعمال۳: ۲۲۔ ۲۶)۔ اسی طرح بزرگ ستفنس نے (اعمال ۷: ۳۷)۔

عبرانیوں کے تیسرے باب میں موسیٰ اوریسوع کی مشابہت کا بیان آیاہے۔

یہاں ایک اعتراض کا ذکرکرنا بھی مناسب ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ استثنا کے مذکورہ بالا مقام میں براہِ راست مسیح کی پیش گوئی نہیں بلکہ نبیوں کے سلسلے کی پیش گوئی ہے۔ اس لئے پہلے پیش گوئی کی طرح یہ بھی عام ہے نہ کہ خاص۔ اگریہ خاص پیش گوئی مانی جائے توموسیٰ کے مابعد نبیوں کے بارے میں کوئی سند نہ رہے گی۔

لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ سامریوں نے مسیح کے آنے کی اُمید کی بنا یہی پیش گوئی سمجھی کیونکہ وہ مابعد انبیا کو ردکرتے تھے۔

سیاق سباق عبارت بھی اس کا ممد (مددگار)ہے کہ یہاں ایک خاص نبی کی پیش گوئی ہے کیونکہ اس نبی کے بارے میں نہ صرف یہ لکھا ہے کہ وہ اسرائیل میں سے نکلے گا بلکہ موسیٰ کے مشابہ ہوگا۔ یہ تو سچ ہے کہ توریت میں نبیوں کے سلسلے کی کوئی پیش گوئی نہیں۔ اُس کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ مابعد نبوت کا انحصار توریت کی سند پر نہ تھا کیونکہ خدا جس نے موسیٰ کو بھیجا وہ اسی طرح دوسرے انبیاء کو بھیج سکتاہے۔ توریت میں صرف کاہنوں کے سلسلہ کا ذکر ہے۔ انبیاء اور بادشاہوں کے سلسلہ کا ذکر نہیں۔ خدا جس کو چاہتا تھا اسے مقرر کرتا تھا۔ موسیٰ کا عہد کسی کے ورثہ میں نہ آیااورسموئیل کے زمانہ تک کوئی نبی موسیٰ کے بعدبرپا نہ ہوا اس لئے ایسے سلسلے کی پیش گوئی کی کچھ ضرورت نہ تھی۔



فصل ششم

برکت اور لعنت

خدا کی عدالت کا مسئلہ اس الہٰی تعلیم سے صادر ہواجوکئی طرح سے دی گئی اورجوبرکتیں اورلعنتیں اُس تعلیم سے ملحق ہوئیں ان سے اس تعلیم پر الہٰی مہرلگ گئی۔ توریت میں عدالت کے چار مختلف بیان پائے جاتے ہیں جو شریعت کے ساتھ پیوستہ ہیں ۔سب سے سادہ بیان عہد کی بڑی کتاب میں ملتاہے۔ (خروج ۲۳: ۲۰۔۲۳)۔ پھر عہد کی چھوٹی کتاب میں (خروج ۳۴: ۱۲۔ ۲۸)جس کا تعلق موسیٰ کے گیت سے ہے(استثنا ۳۲باب) پھرا ستثنا کی کتاب میں ان برکتوں اورلعنتوں کا شمار دیا گیا ہے۔(استثنا ۲۷، ۲۸ باب) اسی طرح احبار کی کتاب کے چھبیسویں (۲۶)باب میں۔

ان برکتوں کا ذکر نبیوں نے باربار کیا۔ ان کی بنیاد یعقوب کی برکتیں ہیں(پیدائش ۴۹ باب) اسی طرح موسیٰ کی لعنتیں اُن پیش گوئیوں کی بنیاد ہیں جوالہٰی عدالت کے بارے میں کی گئیں(استثنا ۳۲: ۲۰: ۴۲؛ملاکی ۴باب)۔

استثنا کی کتاب میں لعنتوں کا مفصل بیان ہے۔ اُن کے آخر میں ایک عام پیش گوئی ہے(استثنا ۲۸: ۶۳۔ ۶۸)۔

پھر احبار کی کتاب میں شریعت کے توڑنے والوں پر لعنتیں مذکور ہیں (احبار ۲۶: ۱۶سے ۴۵)۔

توریت میں جن پیش گوئیوں کا ذکر ہوا انہیں ہم چار قسموں پر تقسیم کرسکتے ہیں۔

(۱۔) آدم کے زمانے کی ۔(۲۔)نوح کے زمانے کی ۔(۳۔) ابراہام کے زمانے کی۔(۴۔) موسیٰ کے زمانے کی ۔

چوتھی ، پانچویں اور چھٹی پیش گوئیاں تیسری پیش گوئی کی توضیح وتوسیع ہیں۔

اس مسیحی نبوت کے دوسلسلے ہیں ۔ ایک کوہم انسانی کہیں گے اوردوسرے کوالہٰی۔ انسانی سلسلہ تویہ ہے کہ عورت کی نسل سانپ پر فتح پائے گی اور الہٰی سلسلہ یہ ہے کہ خداوند آسمان سے اُتر کر سیم کے ڈیروں میں بسے گا تاکہ ایمان داروں کوبرکتیں دے اور دشمنوں کو سزا۔ برکت کے دووسیلے ہیں۔ اول ابرہام کی نسل ، دوم کنعان کی زمین۔ ابراہام کی نسل یہوداہ کے فرقے کے شیر ببر کے وسیلے سے اورکنعان کی زمین بطور اسرائیل کی میراث کے۔

برکت کی بھی دوصورتیں ہیں(۱۔) مقدس کاہنی شاہی اُمت یعنی ابن خدا کی خدمت ، (۲۔) اورخدا کی ظفریاب سلطنت کی اعلیٰ حکومت۔ موسیٰ ثانی کی نبیانہ خدمت کے وسیلے خدا کا مکاشفہ تکمیل کو پہنچے گا اورخدا کی اُمت کے لئے ابدی وفادار کہانت قائم ہوگی۔

مسیحی نبوت کا یہ عام خاکہ اوربنیاد ہے۔ جس پر مابعد نبوت کی تعمیر وہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں اوراُن کو ہم اب تک مطابقت نہیں دے سکتے۔

مسیح کی پہلی آمد نے بہت پیش گوئیوں کی تشریح کردی اسی طرح مسیح کی آمدثانی سے باقی پیش گوئیوں کی تشریح ہوجائے گی۔


پانچواں باب

داؤد کے زمانے میں مسیحی تصوریا مسیح کی نسبت پیش گوئی

قاضیوں کے زمانے میں مسیحی خیال وتصورمیں کچھ ترقی نہ ہوئی۔ کنعان کی فتح کے بعد قوم کی یکتائی جاتی رہی۔ملک کی دوسری قوموں کی تاثیر کے ذریعہ بنی اسرائیل کی روحانی حالت بگڑی گئی ۔ اس عرصے میں موسوی شریعت کے ماننے وغیرہ کا کچھ ذکر نہیں آتا۔ پھر بھی خدا نے اُن کو نہ چھوڑا۔گاہے گاہے خدا کا روح بعض بہادروں پر اُترا اوراُنہوں نے اپنے دشمنوں پر زبردست فتوحات حاصل کیں۔ رفتہ رفتہ اسرائیل کے دشمن گھٹ گئے۔ قاضیوں کے زمانے کے آخر میں صرف فلستی مخالف رہ گئے۔ اُس وقت ایلی سردار کاہن شیلوہ میں تھا اوراُس کے دوبیٹے حفنی اور فنحاس اُس کے مددگار تھے۔ لیکن وہ ایسے بے دین تھے کہ خداوند کی عبادت میں بےعزتی ہوئی اورلوگ قربانی چڑھانے سے نفرت کرنےلگے۔ یہ اپنی بے دینی کے باعث اپنے باپ کے گھرانے کی تباہی کا باعث ہوئے۔ اسی موقع پر ایک پیش گوئی ہوئی۔ جس کا خاص تعلق توعیلی کے گھرانے اورکہانت کے بدلنے سے ہے لیکن مسیحی زمانہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ایماندار فنحاس کے خاندان میں ابدی کہانت ہوگی۔

فصل اوّل

وفادار کہانت

عیلی کے بے ایمان خاندان کی جگہ ایماندار کہانت قائم ہوگی اور ممسوح بادشاہ کے آگے ہمیشہ خدمت کرے گی۔

" میں اپنے لئے ایک وفادار کاہن برپا کروں گا جوسب کچھ میری مرضی اورمنشا کے مطابق کرے گا اورمیں اُس کےلئے ایک پائیدار بناؤں گا۔ اور وہ ہمیشہ میرے ممسوح کے آگے آگے چلے گا"(۱۔سموئیل ۲: ۳۵۔ ۳۶)۔

اس پیش گوئی نے کہانت کو عیلی کے خاندان سے ہٹا کر ایک دوسرے خاندان میں منتقل کردیا۔ یہاں کہانت کا سلسلہ تنگ ہوکر فنحاس کے خاندان تک محدود ہوگیا(گنتی ۲۵: ۱۲۔ ۱۳) جیسے عیسو اپنے بھائی یعقوب کی خدمت کرے گا ویسے عیلی کا خاندان اس دوسرے خاندان کی خدمت کرے گا(پیدائش ۲۷: ۲۹)۔

اس پیش گوئی میں ذکر ہے کہ وہ میرے ممسوح کے آگے آگے چلے گا ۔ لیکن یہ ممسوح کاہن ممسوح نہیں ہوسکتا بلکہ اُس کا اشارہ ممسوح بادشاہ کی طرف ہے جس کا رفیق یہ ممسوح کاہن ہوگا۔ یہ بھی عام مسیحی پیش گوئی ہے جس کی تکمیل( ۱۔سلاطین ۲: ۳۵) میں ہوئی۔" صدوق کاہن کوبادشاہ نے ابیاتر کی جگہ رکھا" (نیز دیکھو حزقی ایل ۴۴: ۱۵)۔



فصل دوم

ہمہ دان حاکم

خداوند ہمہ دان(ہربات سے واقف) قاضی ہے۔ وہ کمزوروں کا حامی اورانصاف کرنے والا ہے۔ وہ کل زمین کی عدالت کرتاہے۔ وہ اسرائیل کے بادشاہ کو سرفراز کرے گا۔

خدا نے بنی اسرائیل کوایک نئے زمانے کے لئے تیار کیا۔ اُس نے دیندار خدا ترس حنا کو چنا جس کے بطن سے وہ نبی پیدا ہوا جس سے داؤد کے زمانہ کاآغاز ہوا۔

اس عطیہ کی شکرگزاری کا اظہار حنا کے ایک گیت میں کیا اورخُدا کے روح کے الہام سے اُس ہمہ دان قاضی کا تصور حاصل ہوا۔ اس گیت کی گونج مبارک مریم کے گیت میں سنائی دیتی ہے۔ اس گیت میں ایک نئے زمانہ کا صاف بیان ہے جس میں ہمہ دان قاضی آدمیوں کے اعمال کو تولتا اور انسانوں میں جوغیر مساوات پائی جاتی ہے اُس کی تلافی کرتاہے۔

" خداوند خدایِ علیم ہے۔۔۔ خداوند زمین کے کناروں کا انصاف کرے گا۔ وہ اپنے بادشاہ کو زوربخشے گااوراپنے ممسوح کے سینگ کوبلند کرے گا"(۱۔سموئیل ۲: ۱۔ ۱۰)۔

اس عدالت میں خداوند کی حکومت اسرائیل میں ایک بادشاہ کو سربلند کرے گی۔ شاہی خاندان کے بارے میں پیشینگوئیاں تھیں۔ ان کی تکمیل اب شروع ہونے لگی۔ سموئیل پہلے پہل موسیٰ کی مانند نبی تھا جونبیوں کے سلسلہ یا خاندان کا بانی ہوا۔ وہ پھر قاضی یاحاکم بھی بنا اورآخر کار حکومت کا بوجھ اُس نے اُتار دیا اور نبی کا کام کرتا رہا۔ بنی اسرائیل کو ملکی حالات نے مجبور کیا کہ وہ ایک بادشاہ کے لئے تقاضا کریں۔اورجب عہد کا صندوق اسیر ہوگیا اورشیلوہ برباد ہوا تو اس تقاضائے زور پکڑا اوربنی اسرائیل سموئیل اورخداوند کے خلاف سرکشی پرآمادہ ہوئے کہ وہ انہیں ایک بادشاہ اورشاہی خاندان دے تاکہ وہ بھی دوسری قوموں کی طرح متحد اورمنظم قوم بن جائیں۔ اگرچہ خدا کا مقصد اور موسوی شریعت کا منشا یہ تھا کہ ایسا کیا جائے لیکن ان کا یہ تقاضا قبل ازوقت تھا۔چنانچہ ساؤل بادشاہ ہونے کے لئے عارضی طورپر چنا گیا اورساؤل کے وقت سے نیا انتظام اورنیا زمانہ شروع ہوا۔ اگرچہ ساؤل بادشاہ ہوا۔ لیکن سموئیل ملکی اور دینی دونوں امور میں اختیار رکھتا تھا۔

جب داؤد ممسوح ہوا وہ صِیّون کے تخت پر متمکن (قرار پکڑنے والا،قائم)ہوا۔ پھر جب عہد کے صندوق کو وہاں لے گئے اوریروشلیم میں قوم کا دینی اورملکی اتحاد ہوا اُس وقت سے مسیحی نبوت کا بھی نیا زمانہ شروع ہوا۔

فصل سوم

داؤد کے ساتھ عہد

خداوند نے داؤد کے خاندان کو اپنا بیٹا قرار دیا جسے وہ اُس کےگناہ کے باعث انسانوں کے ذریعہ سزا دلوائے گا لیکن اُسے وہ مطلقاً ترک (بالکل چھوڑدینا)نہ گا۔ اُس نے وعدہ کیاکہ وہ داؤد کی نسل کوایک ابدی خاندان بنائے گا اوراُس گھر میں رہے گا جواُس کی بزرگی کے لئے بنایا جائے گا۔


اس عہد کا موقع وہ تھا جب داؤد کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یروشلیم میں خدا کےلئے گھربنائے۔اس وقت ناتن نبی داؤد کے پاس آیا اور اُس نے کہا ۔

" میں تیرے بعد تیری نسل کو جوتیری صلب سے ہوگی کھڑا کرکے اُس کی سلطنت کو قائم کروں گا۔ وہی میرے نام کا ایک گھر بنائے گا اورمیں اُس کی سلطنت کا تخت ہمیشہ کے لئے قائم کروں گا اورمیں اس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ خطا کرے تومیں اُسے آدمیوں کی لاٹھی اوربنی آدم کے تازیانوں سے تنبیہ کروں گا۔ پر میری رحمت اُس سے جدا نہ ہوگی (۲۔ سموئیل ۷: ۱۱۔ ۱۶ نیز دیکھو۔ ۱۔تواریخ ۱۷: ۱۰۔۱۴)۔

اس پیش گوئی میں تین عناصر پائے جاتے ہیں۔

اوّل۔ داؤد کے خاندان کی ابدی حکومت۔

دوم۔ داؤد کی نسل ک خدا کے لئے گھر بنانا۔

سوم۔ داؤد کی نسل کو خدا کے بیٹے کا درجہ ملا جسے وہ پدرانہ تنبیہ بھی کرے گا۔ مابعد نبوت کی بنیاد انہی تین عناصر پر رکھی گئی ۔ مخلصی کی جو پیش گوئیاں اس سے پیشتر مذکور ہوئیں اُن کی توضیح اس میں پائی جاتی ہے مثلاً

(۱۔) بلعام نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ یعقوب سے ایک عصا اورایک ستارہ نکلے گا۔ وہ عصا داؤد کے خاندان میں ہوگا۔ یعقوب نے یہوداہ کے شیر ببر کی پیش گوئی کی تھی۔ اب وہ بیت لحم کا شیر ببر ظاہرہوا۔ داؤد کا تخت یعقوب کےعصا سے زیادہ بلند ہے اوراُس کی فتوحات بھی یہوداہ کی فتوحات سے بڑھ کر ہیں۔ پھر بھی اب تک یہ پیش گوئی عام ہے۔

(۲۔) خداوند کے گھر کی تعمیر سیم کی برکت کی توضیح وتشریح ہے۔ یہوواہ نہ صرف سیم کے خیموں میں رہے گا اوراسرائیل کے فرقوں کے درمیان ان کا بادشاہ اورخدا ہوگا بلکہ اُس کا مسکن یروشلیم میں ہوگایعنی اُس ہیکل میں جسے داؤد کی نسل تعمیر کرے گی۔ یہاں خاص سلیمان کا ذکر نہیں کہ وہ اس گھر کو بنائے گا بلکہ عام طورپر داؤد کی نسل ، خداوند کی ہیکل ابدی ہوگی اور داؤد کی نسل بہئیت مجموعی اُس ہیکل کی نگران ہوگی ۔ یہ پیش گوئی اُس ہیکل میں تکمیل نہیں پاتی جو سلیمان نے بنائی بلکہ سلیمان کی ہیکل ایک اوراعلیٰ ہیکل کی طرف اشارہ کرتی تھی۔

(۳۔) ناتن کی پیش گوئی میں اعلیٰ بیٹے کا رشتہ ہے جب بنی اسرائیل مصرسے نکلے اس وقت یہوواہ نے اسرائیل کو اپنا بیٹا کہا۔ اب یہ رشتہ داؤد اور اُس کی نسل میں محدود ہوگیا۔ اس رشتے میں دوباتیں شامل ہیں تنبیہ اور رحمت اگرچہ تواریخ کی کتاب میں تنبیہ کا ذکر نہیں ملتا۔

بعضوں نے سمجھا کہ یہ پیش گوئی سلیمان میں پوری ہوئی ۔ ہاں بیشک سلیمان میں جزوی طورپر پوری ہوئی لیکن اس کی تکمیل ابنِ داؤد یعنی سیدنا مسیح میں ہوئی ۔ داؤد کی نسل خدا کا گھر بناتی ہے جس کاآغاز سلیمان نے کیا۔ وہ ہیکل برباد ہوئی ۔ زروبابل نے اُس کو ازسر نوتعمیر کیا۔ لیکن اُس وقت بھی تکمیل نہ ہوئی ۔ اُسے بھی انطاکیوس اپی فینس نےنا پاک کیا۔ لیکن سیدنا مسیح میں اُس کا کمال ظاہر ہوا جب خدا انسانیت میں آبسا اوراس انسانیت کو خدا کے دہنے ہاتھ جگہ ملی۔

داؤد کی بڑی اُمید اوراُس کے غوروفکر کا مضمون یہی عہد تھا (۲۔سموئیل ۲۳: ۱۔ ۷)۔

داؤد اوراُس کے بیٹے سلیمان کی زندگی مسیحی تصور کا ایک نشان یانمونہ تھے۔



فصل چہارم

فاتح بادشاہ

(زبور۱۱۱ )میں سیدنا مسیح سے قسم کھاکر کہاکہ وہ اُس کو ملکِ صدق کے طریق پر کاہن بادشاہ کی طرح اپنے دائیں ہاتھ بیٹھا ئے گا۔ یہ پیش گوئی ابن داؤد کے بارے میں ہے اوراس میں اس پیش گوئی کی تشریح ہے جوناتن نبی نے کی تھی۔

اس مزمور کے دوحصے ہیں اورہر حصے میں پانچ پانچ مصرے پائے جاتے ہیں پہلے حصہ میں یہ ذکر ہے کہ خدا نے مسیح کو اپنے دائیں ہاتھ پر سرفراز کیا اور وہ تخت بخشا جواس کے سارے دشمنوں پر فوق رکھتا تھا۔ وہ رتھ میں سوار ہوکراپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوتاہے۔ دوسرے حصے میں یہ ذکر ہے کہ خدا قسم کھاکر مسیح کو ملکِ صدق کی طرح کاہن اوربادشاہ بناتاہے اور وہ اپنے دشمنوں کو چکنارچور کرتاہے۔ اس پیش گوئی میں کہانت کو بادشاہی کے ساتھ ملادیا ہے اوریوں مسیح بادشاہ اورکاہن ہوکر اسرائیل پرجوکاہنوں کی شاہی اور مقدس قوم تھی بادشاہی کرتاہے۔ یہ مسیح بادشاہ بھی ہے اور کاہن بھی۔اس پیش گوئی کی تکمیل بھی سیدنا مسیح میں ہوئی ۔دیکھو (عبرانیوں ۷باب ، نیز مقابلہ کرو متی ۲۲: ۴۱ مرقس ۱۳: ۳۶ اور لوقا ۲۰: ۴۲ سے)۔

فصل پنجم

تخت نشین مسیح

(زبور ۲ )میں مسیح صِیّون میں تخت نشین نظر آتاہے۔ وہ بحیثیت بیٹے کے اُس کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہے۔

اس مزمور کے پہلے حصے میں یہ ذکر ہے کہ قومیں اُس کی مخالفت میں بندشیں باندھ رہی تھیں۔دوسرے حصے میں مسیح خود متکلم ہے اور وہ یہ ظاہر کرتاہے کہ خدا نے مجھے اپنا بیٹا بنایا۔اس میں (زبور ۱۱۰ اور ۲سموئیل ۷باب کی طرف اشارہ ہے۔ زبور ۱۱۰ میں تویہ مسیح بادشاہ سوار ہوکر آرہا تھا۔ اب وہ فتحیاب ہوکر خدا کے دائیں ہاتھ صِیّون کے تخت پر بیٹھا ہے اور دشمنوں کو تنبیہ کررہاہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرو (اعمال ۱۳: ۲۳ ؛ورومیوں ۱: ۴ ؛ عبرانیوں ۱: ۵ بمقابلہ ۲۔سموئیل باب۷ ؛ اعمال ۴: ۲۵ )کا۔

فصل ششم

راستباز بادشاہ

(مزمور ۷۲ )میں مسیح بادشاہ راستی ، رحم اور صلح سے سلطنت کرتاہے معلوم ہوتاہے اورقومیں اُس کی اطاعت کرتی ہیں۔ وہ عالمگیر برکت کا چشمہ اورمقصد ہے۔سلیمان کے زمانہ میں اُس کی جزوی تکمیل ہوئی ۔ قوموں کےبرکت پانے کی جوپیش گوئی تھی اُس کی کچھ توضیح اس میں پائی جاتی ہے۔یہاں لوہے کا عصا ملاپ اور صلح کے عصا سے مبدل ہوجاتا ہے۔ اس کی تکمیل بھی سیدنا مسیح میں ہوگی جب دنیا کی ساری بادشاہیاں اُس کی ہوجائیں گی۔



فصل ہفتم

مسیح کی شادی

(زبور ۴۵) میں یہ نظارہ پیش کیا گیاہے کہ یہ عظیم الشان بادشاہ دُلہا کی طرح نکلتاہےکہ قوموں کو اپنی عروس اور دلہن بنا کر خوشی منائے۔ اس مزمور کی تصنیف کا وہ موقع تھا جب یورام شاہ یہوداہ نے اسرائیل کی شاہزادی اتھلیا سے شادی کی۔

اس میں (مزمور ۲)کی توسیع ہے۔ وہاں یہ تصور پیش کیا گیاتھا کہ مسیح ساری قوموں پر حکومت کرتاہے ۔(مزمور ۷۲ )میں یہ نظارہ دکھایا گیا تھا کہ مسیح بادشاہ کے ذریعہ قوموں کو کیسی بڑی برکتیں ملتی ہیں۔ (مزمور ۴۵) میں یہ پیش کیا گیا کہ اس مسیح کا قوموں سے وہ رشتہ تھا جو شوہر کا بیوی سے ہوتاہے۔

یہ مسیح دُلہا کی مانند ہے اورخدا کا بیٹا اس لئے اس کی عظمت وشوکت الہٰی جلا ل کو منعکس کرتی ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرو (عبرانیوں ۱: ۹)کا۔اوراس شوہر اوربیوی کےرشتہ کے لئے دیکھو (یوحنا ۳: ۲۹؛ افسیوں ۵: ۲۵ ؛مکاشفہ ۱۹: ۷ ۔ ۹)۔

فصل ہشتم

خداوند کا مخلصی دہندہ کی صورت میں آنا

خداوند اپنے ممسوح کی مخلصی کے لئے آتااوراُس کے دشمنوں کو اس کے مطیع کرتاہے اوراُس کی سلطنت کوتوسیع دیتاہے۔ (زبور ۱۸)نہایت اعلیٰ مزمور ہے۔ یہ مزمور کچھ تبدیلی کے ساتھ( ۲۔سموئیل ۲۲باب) میں پایا جاتاہے ۔خدا مزمور نویس کو مخلصی دینے کے لئے آتاہے۔ اور داؤد کو سرفراز کرکے اُس کےدُشمنوں کو اُس کے مطیع کرتاہے(۲۔سموئیل ۲۲: ۴۴۔ ۵۱ ؛زبور ۱۸: ۴۳ ۔ ۵۰)وغیرہ۔

فصل نہم

خداوند فتح مند بادشاہ

(زبور ۲۴) میں خداوند رب الافواج مقدس شہر میں فتح یاب بادشاہ کی طرح داخل ہوتاہے۔

جب داؤد نےعہد کے صندوق کو عوبید ادوم کے گھر سے یروشلیم میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ منگوایا (۲۔سموئیل ۶باب ؛ ۱۔تواریخ ۱۵باب ) تو وہ اسرائیل کی تواریخ میں ایک نیا زمانہ تھا۔ اس کے ذریعہ خداوند اور داؤد کے خاندان کا مسکن اکٹھا ہوگیا۔ اس مزمور کا دوسرا حصہ خاص اسی واقعہ کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا۔

یہ مزمور سوال وجواب کے طورپر ہے اورایک کورس ہے۔


کورس ۲۴: ۷ سوال ۲۴: ۸(پہلا حصہ)جواب ۲۴: ۸ (دوسرا حصہ)کورس ۲۴: ۹۔ سوال ۲۴: ۱۰(پہلا حصہ ۔ جواب ۲۴: ۱۰(دوسرا حصہ)۔

خداوند کا فتح مندانہ صِیّون میں داخل ہونا۔ سیدنا مسیح کےصعود کا نمونہ ہے۔

فصل دہم

کامل انسان

کامل انسان کا تصور یوں پیش کیا گیا کہ وہ اپنی فروتنی یاتجسم کے ایام میں فرشتوں کی شان وشوکت کے لحاظ سے کم وادنیٰ تھا لیکن وہ ساری مخلوقات پر آخرکار حکومت کرنے کےلئے سرفراز ہوا۔(زبور ۸) میں یہ تصور پایا جاتاہے۔

(زبور۸: ۵ )میں اردو نئے ترجمہ میں یوں لکھاہے۔

" تونے اُسے خدا سے کچھ ہی کمتر بنایا ہے لیکن (عبرانیوں ۲: ۷ )میں جو حوالہ دیا گیاہے اُس میں یہ ترجمہ ہے" تونے اُسے فرشتوں سے کچھ ہم کم کیا" اوریہ ترجمہ نئے ترجمے سے غالباً بہتر ہے۔ اس مزمور میں وہی خیال ظاہر کیا گیا جو(پیدائش ۱: ۲۶۔ ۳۰) میں پایا جاتاہے۔ اگرچہ اُس کی عظمت الہٰی ہستیوں یافرشتوں سے کچھ ادنیٰ تھی پھر بھی اُس کو ساری خلقت پر حکومت عطاہوئی ۔ انسان کی یہ حکومت خدا کا خاص عطیہ تھا جس کے حصول کی خاطر اسے ساری عمر جدوجہد کرتا تھا۔ یہ تصور آدم ثانی میں پورا ہوا اوراسی وجہ سے اُس نے ابنِ آدم کا لقب اپنے لئے پسند کیا جوانجیل میں قریباً ۵۰ دفعہ آیاہے۔ اگراس تکرار کو شامل کریں تو ۷۸ دفعہ ۔ اس لقب میں سیدنا مسیح کی فروتنی اوربحیثیت آدم ِثانی اس کا انجام ظاہر کیا گیا۔

فصل یازدہم

یہ انسان کامل موت میں بھی فتح مند ہے

(۱۶ ۔مزمور) مسیحی تصور سے بھرا ہے۔اس میں ذکر ہے کہ انسان کو اس زندگی میں بھی خدا کی شفقت حاصل ہے اورمرنے کے بعد وہ خدا کی شراکت میں رہتاہے۔

یہاں اُ س کے جی اُٹھنے کا توکچھ ذکر نہیں البتہ پطرس اورپولُس رسولوں نے اس مزمور کو مسیح کے جی اٹھنے سے منسوب کیا(اعمال۲: ۲۷؛ ۱۳: ۲۵)۔

مزمور نویس کی اُمید کی بنیاد یہ ہے کہ خدااُس کی پناہ گاہ ہے اور وہ مستقبل پربڑے توکل سے نظر ڈالتا ہے۔ وہ یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ موت سے بچ جائے گا۔ لیکن اُسے یہ یقین ہے کہ جب وہ پاتال (عالم ارواح) میں جااترے گا تب بھی خدا اُسے ترک نہ کرے گا۔ وہ نیست نہ ہوگا بلکہ زندگی کی راہ پائے گا اورخدا کی حضوری کا خط اٹھائے گا۔ مزمور نویس کے دل میں قیامت کا خیال تونہیں لیکن یہ خیال ہے کہ موت کے بعدبھی خدا کے ساتھ شراکت رکھنے کا تجربہ اُسے حاصل ہوگا۔یہ تصور مسیحی تصور ہے جس کی تکمیل پہلے پہل تواس انسان میں ہوتی ہے جس سے خدا بالکل خوش تھا ۔پہلے پہل سیدنا مسیح کی قیامت کے ذریعہ امید نوع انسان کےلئے ممکن اورآخر کار ایک حقیقت ہوگئی ۔


داؤدکے زمانہ میں مسیحی تصور کے الہٰی اورانسانی دونوں پہلوؤں میں ترقی ہوئی ۔ نوع انسان کی عظمت فرشتوں سے کچھ کم ہوگی لیکن مخلوقات پراُسے حکومت حاصل ہوگی۔دیندار انسان کو خدا کی خاص مہربانی حاصل ہوگی اور وہ مہربانی موت کے بعدبھی جاری رہے گی۔ داؤد کے خاندان کا بادشاہ مسیحی تصور کا خاص وسیلہ بن گیا۔ اس کو الہٰی بیٹا ہونے کا درجہ ملا۔ اور وہ بطور کاہن بادشاہ کے صِیّون کے تخت پر متمکن ہوا ۔ اوراُسے اختیار ملا کہ وہ اسرائیل اورباقی ساری قوموں پر حکومت کرے ۔ وہ سارے دشمنوں کو مغلوب کرکے اُن کو اپنی دلہن بناتاہے۔ اورصلح وراستبازی کے ساتھ ابد تک حکومت کرتا ہے۔ اُس کو اُس کے گناہ کے باعث تنبیہ ملتی ہے لیکن خدا کی رحمت کبھی اُسے ترک نہیں کرتی۔ وہ خدا کے لئے ہیکل بناتا اور وہاں خدا کی حضوری کا خط اٹھاتاہے۔ ایک وفادار کاہن اُس کا رفیق ہے۔

الہٰی پہلو میں یہ ترقی نظر آتی ہے کہ خدا اپنے ممسوح کو چھڑانے اوراُس کے دشمنوں کو مغلوب کرنے کو آتاہے۔ وہ جلال کا بادشاہ بڑا فاتح ہے اوراپنے مسیح کے دائیں ہاتھ کھڑا ہوکر جنگ کرتا اوردشمنوں پر فتح پاتا ہے اور صِیّون کے پہاڑ پر چڑھ کر ابد تک بادشاہی کرتاہے۔



چھٹا باب

پہلے انبیاء میں مسیح کے متعلق تصور

یہودی ربیوں نے انبیاء کی کتابوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا۔ ایک مجموعے کو اُنہوں نے پہلے انبیاءکہا تاکہ اُن کا امتیاز مابعد انبیا ء اور تواریخی کتابوں یعنی یشوع، قاضیوں ، سمویئل اورسلاطین کی کتابوں سے ہوسکے۔

یوایل

ان انبیاء میں سب سے پہلا نبی یوایل تھا جس نے یوآس بادشاہ کے ایام میں نبوت کی، نبوت کا موقع وہ تھا جب سرزمین پر ٹڈیوں کی آفت آئی۔ اُس کے بعد خشک سالی آئی۔ نبی نے یہ ظاہر کیاکہ یہ خدا کی طرف سے بطور تنبیہ کے تھیں۔ان کے بعد سخت مصیبتیں خداوند کے خوفناک دن میں آئیں گی۔ اس لئے نبی نے روز اوردعا کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی (یوایل ۲: ۱۷)۔ اورانہیں بتایا کہ خدا تم پر ترس کھاتاہے ۔وہ اُن کی خاطر بڑے بڑے کام کرے گا۔ وہ اپنا روح سارے بشر پر نازل کرے گا اورانصاف کی وادی میں قوموں کی عدالت کرے گا اوراپنی اُمت کو دائمی امن اور فارغ البالی عطا کرے گا۔

فصل اوّل

خداوند کا دن

یوایل نبی نے یہ بیان کیاکہ وہ اپنے روح کے ذریعہ آئے گا اورنبوت کے طرح طرح کے انعام سب لوگوں کو عطا کرے گا۔ زمین اور آسمان میں بڑے بڑے نشان نظرآئیں گے اورجو خداوند کا نام لیتے ہیں وہ اُن کو یروشلیم میں مخلصی دےگا۔ ساری قومیں یہوسفط کی وادی میں جمع ہوں گی ۔خدا کی اُمت ایک زرخیز زمین بنے گی اور اُس کے دشمن ایک اجاڑ بیابان ہوں گے۔

یہ پیش گوئی (یوایل ۲: ۲۸۔ ۳باب )کے آخر تک پائی جاتی ہے ۔یہاں یہوواہ کی دوطرح کی آمد کا ذکر ہے۔ ایک میں فضل اورروح کی بارش نازل ہونے کا ذکر ہے اوردوسری میں عدالت وغضب کے نازل ہونے کا ۔ایک آمد تو پنتی کوست کے روز پوری ہوئی اوردوسری آمد جہان کے آخر میں روزعدالت کو پوری ہوگی۔ دیکھو (اعمال ۲باب ، رومیوں ۱۰: ۱۲۔ ۱۳؛متی ۲۴: ۲۹)۔

اس آخری آمد یا بڑی عدالت کی پیش گوئی (یوایل ۳: ۹۔ ۲۱) میں قلمبند ہے۔ ان دونوں آمدوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ پرانے عہدنامہ کی نبوت میں آخری دن کہلاتاہے ۔ اس لئے ان پیش گوئیوں میں یہ دونوں آمدیں اکٹھی مذکور ہیں۔


روح کے انعاموں کا ذکر (رومیوں ۱۲: ۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۲باب )میں آیاہے۔ جو مسیح نے آسمان پر جاکر نازل کئے لیکن آخری زمانے میں بھی یہ انعام ملیں گے۔ اسی طرح آسمان کے جن نشانوں کا ذکر ہے وہ پینتی کوست اورمسیح کی صلیب اور قیامت کے وقت بھی نظر آئے اور زمانے کے آخر میں بھی نظر آئیں گے۔

(یوایل ۳: ۹)مذکور ہے کہ ’’لڑائی کی تیاری کرو یاتقدیس کرو اس میں اُس رواج کی طرف اشارہ ہے جب لڑائی سے پہلے قربانی چڑھائی جاتی تھی‘‘(۱۔سموئیل ۷: ۸ ؛یسعیاہ ۱۳: ۳؛ یرمیاہ ۵۱: ۲۷)۔

(یوایل ۴: ۹۔ ۲۱ )میں ذکر ہے کہ خدا کے لوگوں کی حالت ایسی ہوگی جیسے زرخیز زمین کی۔ خدا صِیّون میں سکونت کرے گا۔ یروشلیم مقدس ہوگا۔ سرزمین میں انگور کے رس اور دودھ کی ندیاں بہیں گی۔ خدا کےگھر سے زندہ پانیوں کے چشمے جار ی ہوں گے اوربنجر زمین سیراب ہوگی۔

(متی ۲۴باب) میں یروشلیم کی بربادی کی جو پیشین گوئی ہے وہ آخری عدالت کی طرف اشارہ کرتی ہے(مکاشفہ ۶: ۱۲، ۱۴ ۔ ۲۰؛ ۱۶: ۱۶؛ ۲۰ :۱۱ ۔ ۱۵؛ ۲۲: ۱۳)۔

عاموس

دوسرا نبی عاموس تقوع کا گڈریا تھا۔ اُس نے یربعام ثانی شاہ اسرائیل اورعزیاہ شاہ یہوداہ کےدنوں میں نبوت کی۔ شمالی سلطنت کے بادشاہوں میں سے یربعام سب سے بڑا بادشاہ تھا۔اس نے دمشق اورکل سوریا کا علاقہ دریا ئے فرات تک فتح کرلیا اگرچہ اُ س نے خداوند کی نظر میں بدی کی(۲۔سلاطین ۱۴: ۲۴۔ ۲۵) عزیاہ شاہ یہوداہ نے خداوند کی خدمت کی اوراقبال مند ہوا۔ اس نے ادوم اور عرب کو لیا اوردریائے مصر تک فتح کیا (۲۔تواریخ ۲۶باب)۔

ان دونوں بادشاہوں کے ایام میں یہ سلطنت داؤد کے زمانہ کی سلطنت سے زیادہ وسیع تھی۔ لیکن یہ اقبال مندی صرف ظاہراً اوردینوی اقبالمندی تھی کیونکہ شمالی دس فرقوں کی سلطنت داؤد کے گھرانے سے اب تک جدا تھی اوروہ بہت خراب اورمخالف تھی یہاں تک کہ امصیاہ شاہ یہوداہ کے دنوں میں اُنہوں نے یروشلیم کی دیواروں کوگرادیا اورہیکل اور بادشاہ کے محل لوٹ لیا(۲۔سلاطین ۱۴: ۱۲۔ ۱۴؛ ۲۔تواریخ ۲۵: ۱۷۔ ۲۴)یہ جدائی روز بروز بڑھتی گئی ۔ اوریہ دونوں سلطنتیں اپنی اپنی اقبال مندی پر فخر کرتی تھیں لیکن عاموس نبی نے اُن کی اندرونی خراب حالت کودیکھ کر اُن کو خدا کےغضب کے نازل ہونے سے ڈرایا کہ خدا اُن کو سزا دے گا جیسے دمشق ، غزہ ، صور، ادوم، آمون اور موآب کو سزا دی تھی۔ اُن کے تین بلکہ چار گناہوں کے باعث یہوداہ اورخاص کر اسرائیل اس تباہی میں مبتلا ہوں گے۔آگ اُن کی فصیلوں کے اندر بھڑک اٹھے گی اوران کے محلوں کوخاک سیاہ کردے گی۔ ان کو کال ، خشک سالی ٹڈیوں ، وبا ، جنگ ، بھونچال اورآگ کی آفتوں کے ذریعہ آگاہ کیا(۱، ۲باب)۔چوتھے باب میں ان کو یہ حکم ہے کہ" اسرائیل ، تواپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر" ساتویں باب میں نبی نے ٹڈیوں اورایک خوفناک آتشزدگی کی رویا دیکھی ۔پھر نویں باب میں نبی نے یہ دیکھا کہ خداوند ہیکل کے صحن کے مذبح پر کھڑا فرشتے کو حکم دے رہاہے کہ مذبح اورہیکل اور ساری اُمت کے سروں کو پاش پاش کردے۔ خواہ وہ کہیں چھپیں سزا سے نہ بچ سکیں گے۔ یہ گویا اناج کا چھلنی میں سے چھانا جاناہے لیکن گندم کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہوگا۔

فصل دوم



داؤد کے تباہ شدہ گھرانے کی از سرنوتعمیر

عاموس نے پیش گوئی کی کہ اسرائیل قوموں کے درمیان پھٹکا جائے گا لیکن گندم کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہوگا۔ داؤد کا تباہ شدہ گھرانا ازسرنواقبال مند ہوگا اور وہ قوموں کو اپنی میراث میں لے گا۔ زمین زرخیز اورپھلدار ہوتی تاکہ خدا کی اُمت کےلئے دائمی گھر بنے(عاموس ۹: ۱۱۔ ۱۵)۔

اس نبی نے مسیحی نبوت کے انسانی پہلو کو لیا کہ داؤد کے گھر کی اقبال مندی بحال ہونے سے مسیحی زمانہ کی برکتیں صادر ہوں گی ۔خدا نے جو وعدے سے حضرت ابراہیم، اسرائیل اور داؤد سے کئے تھے وہ پورے ہوں گے۔ ادوم اوردیگر غیر قوموں کا بقیہ جن پر یہوواہ کا نام لیا گیا خداوند کی تلاش کرے گا اورجن برکتوں کا وعدہ یعقوب کے ذریعہ ہوا تھا(پیدائش ۴۹) اورجن کا علاقہ مسیح بادشاہ کی سلطنت سے تھا (زبور ۷۲) وہ پورا ہوگا۔ انہی برکتوں کا ذکر یوایل نبی نے کیا تھا کہ وہ خداوند کی آمدکے وقت ملیں گی(یوایل ۴باب)

اس نبی کی نبوت میں مسیح کی خاص شخصیت کا توکچھ ذکرپایا نہیں جاتا لیکن عام بیان داؤد کے گھرانے اوراُمت اسرائیل کا ہے اور بزرگ یعقوب نے (اعمال ۱۵: ۱۶ )میں اس پیش گوئی کی تکمیل مسیح کے زمانہ سے منسوب کی جب پینتی کوست کے وقت رسولوں کی منادی سے غیرقومیں انجیل پر ایمان لائیں۔

ہوسیع

تیسرا نبی جس نے مسیح کے زمانہ کی پیش گوئی کی وہ ہوسیع تھا جس نے شاہ اسرائیل یروبعام ثانی اورشاہ یہوداہ عزیاہ کے دنوں میں نبوت کی۔ یروبعام کی سلطنت کی اقبا ل مندی کے ساتھ لوگوں کی حالت گرتی چلی گئی ۔ اسرائیل کی سرزمین میں نہ سچائی تھی نہ رحم اورنہ خدا کا علم تھا بلکہ لوگ ایسے بگڑ گئے تھے کہ خدا نے اُن کو ترک کردیا۔ اس وقت ہوسیع نے جوشمالی سلطنت کا یرمیاہ کہلاتا ہے نبوت کی۔

دس فرقوں یعنی اسرائیل کا یہ بہت بڑا نبی تھا۔ اس لئے یہودیوں نے انبیائے صغیرہ کی بارہ کتابوں میں اُس کو پہلے جگہ دی۔ وہ تنبیہ کرنے میں بڑی تندی(تیزی، سختی، بدمزاجی) سے کام لیتا ہے لیکن تسلی دینے میں بڑی نرمی سے پیش آتاہے۔ اس نے فطرت کے نظاروں خاص کر جنگل ، پہاڑ اورکھیتوں کے نظاروں کو بہت پیش کیا اوربہت سے استعارے اورتشبہیں استعمال کیں مثلاً پھول اورشہد کی مکھی کی۔

فصل سوم

اسرائیل کی بحالی

اسرائیل کی سزا کے بعد ہوسیع نبی نے اسرائیل کی بحالی کی پیش گوئی کی۔مثلا(۱ )اسرائیل کے لوگ بعل کی پرستش کے باعث زناکار بنے اور اُن کو یہ نام ملا۔ یزرعیل(خدا بکھیرتاہے)۔ لورحامہ (جس پر رحم نہ ہواہو)اورلوامتی (میری اُمت نہیں )۔

۲۔ اسرائیل کی والدہ نے بعل کے ساتھ زنا کیا۔ اسلئے اس کے شوہر یہوواہ نے اُسے ردکردیا۔ لیکن سیاست وسزا کے بعداُس سے پھر شادی کرلی۔


۳۔ یہوواہ وفادار ہے اگرچہ اسرائیل نے بیوفائی کی۔

۴۔ اسرائیل اسیری میں جائے گا لیکن خداوند اُسے ترک نہ کرے گا بلکہ پھر اُس کو اُس کے ملک میں لے آئے گا۔

۵۔ اسرائیل وبا اورمری سے مرے گا اورشیول (پاتال) میں اترے گا لیکن خداوند اُس کا فدیہ دے کر اُسے وہاں سے چھڑائے گا۔

۶۔ اسرائیل ایک پھلدار زمین بنے گا جہاں یہوواہ خداوند کی محبت اوس کی مانند پڑے گی۔

اس نبوت کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

۱۔ اسے ۲: ۲تک اسرائیل کی زناکاری اوربحالی۔

۲۔۲: ۳سے ۲۰ تک والدہ اسرائیل کی دوبارہ شادی۔

۳۔ ۳باب یہوواہ وفادار ہے اگرچہ اس کی بیوی نے بیوفائی کی۔

پھر( ۱۱: ۸ سے ۱۱) میں یہ پیش گوئی ہے کہ جیسے میں نے ملک مصر سے مخلصی دی تھی ویسے ہی اب اس اسیری سے مخلصی دوں گا۔ البتہ یہ مخلصی مصر، اسور اور بحری ممالک تک محدود ہے۔

(۱۳باب) میں بھی سزا اوربحالی کا نقشہ پیش کیا گیا۔ یہاں نبی نے قیامت کا ذکر کیا اورعہدعتیق میں ایسی قیامت کا یہ پہلا ذکر ہے۔

پھر( ۱۴: ۲۔ ۱۰) میں یہ ذکر ہے کہ اسوراسرائیل کو اسیر کرکے لے جائے گا۔لیکن اسرائیل کلیہ طورپر نیست نہ ہوگا اس لئے یہ ہدایت ہے کہ اسرائیل توبہ کرے اور حکم مانے کہ خدا کا وعدہ پورا ہوسکے۔ پھر آخر میں افرائیم توبہ کرتا اور خدا برکت دیتاہے۔



ساتواں باب

یسعیاہ اوراُس کے ہمعصر

اسور نے شمالی سلطنت یعنی دس فرقوں کی سلطنت کو مغلوب کرلیا تھا۔اب اس نے ارادہ کیاکہ یہوداہ کی سلطنت کوبھی تباہ کرے۔ ان دنوں میں یہوداہ کا بادشاہ حزقیاہ تھا۔ لیکن خدا نے اُس وقت یہوداہ کوتباہی سے بچالیا۔ حزقیاہ کے دنوں میں یہوداہ کی سلطنت تنہا خدا کی سلطنت تھی اوراُس کا کوئی حریف(دشمن) نہ تھا۔اب یروشلیم خدا کی سلطنت کا مرکزہو گیا۔اسور سزا دینے کا اوزار یا سونٹا ہے ۔جن دنوں میں اسور نے یہوداہ پر لشکر کشی کی اُس نے چند بڑے بڑے نبی برپاکئے۔اُنہوں نے اعلیٰ تعلیم دی اور خداوند نے خود آکر دشمنوں کے لشکروں کو تباہ کیا اورحزقیاہ کو شفادی (یسعیاہ ۳۷، ۳۸؛ ۲۔سلاطین ۱۹، ۲۰) اب یہودا ہ کی سلطنت کا نیازمانہ شروع ہوا اوراُس میں بڑی اصلاح ہوئی۔

اس زمانہ کا سب سے پہلا نبی وہ تھا جس کی پیش گوئی کا اقتباس میکاہ اوریسعیاہ نبیوں نے کیا(یسعیاہ ۲: ۱۔ ۴ ؛میکاہ ۴: ۱۔ ۵)۔

فصل اول

خداوند کے گھر کا سر بلند ہونا

ہیکل کا پہاڑ سارے پہاڑوں سے خداوند کے تخت کے طورپر بلند کیا جائے گا جہاں قومیں گویا حج کرنے کو آئیں گی۔ وہ تعلیم اور عدالت کا چشمہ ہوگا۔خداوند کی سلطنت کا یہ نتیجہ ہوگاکہ لڑائی کے اوزار برباد ہوں گے اور سارے جہان میں امن وآسائش پائی جائے گی۔ یہ پیشینگوئی (یسعیاہ ۲: ۱۔ ۴ ؛میکاہ۴: ۱ ۔ ۵ )میں پائی جاتی ہے۔ نبی نے رویا میں ہیکل کے پہاڑ کو دیکھا کہ جب سلیما ن نے اس پہاڑ پر ہیکل بنائی تو اُس کو بڑی عزت حاصل ہوئی حالانکہ دنیاکے دیگر پہاڑ جن پر غیر معبودوں کےلئے مندر بنے تھے اُسے حقارت سے دیکھتے تھے(مقابلہ کرو زبور ۶۸: ۱۵۔ ۱۶) نبی نے دیکھا کہ یہ پہاڑ اس پستی کی حالت سے اٹھ کر بلند اور دنیا کے بلند پہاڑوں سے بھی اونچا ہوگیا۔ جس کو سب دیکھ سکتے اورجہاں سب حج کےلئے جاسکتے تھے۔خداوند کے حضور سے ان لوگوں کی ہدایت کےلئے تعلیم صادر ہوتی ہے جواُس کی روشنی میں چلنا چاہتے ہیں۔ اور یہ حکم نافذ ہوتاہے کہ جنگ کے اسلحہ تباہ کئے جائیں اورہر ایک امن وامان سے زندگی بسر کرے۔ الغرض اس پیش گوئی کی غایت یہ ہے کہ عالمگیر اورابدی صلح وسلامتی ہوگی۔

اس کی تکمیل بھی اس وقت ہوگی جب سیدنا مسیح آسمانی ہیکل میں سربلند ہوگا کیونکہ یہ آسمانی ہیکل تعلیم ، عدالت اورابدی امن کا چشمہ ہے۔ (حزقی ایل ۴۰: ۲۰ ؛ زکریاہ ۱۴: ۱۰ )میں اس کی طرف اشارہ ہے۔



فصل دوم

صلح کا بادشاہ

صِیّون اپنے بادشاہ کی آمد سے خوش رہا ہے جو حلیم لیکن فتح مند ہوکر آتاہے۔اُس نے لڑائی کے اوزار تباہ کردئیے اوراُن سے زمین پر سلطنت کرنے لگا(زکریاہ ۹: ۹۔ ۱۰)۔ اس کی تکمیل کا ذکر(متی ۲۱: ۵؛ یوحنا ۱۲: ۱۵ )میں پا یا جاتاہے۔

اس پیش گوئی میں وہی ضروری خیال پایا جاتاہے جو(میکاہ ۴: ۱ ۔ ۵) میں ہے۔ یہ بھی کسی گمنام نبی کی پیش گوئی ہے جس کا اقتباس زکریاہ نبی نےکیا۔ زبور کی کتاب کی پیش گوئیوں میں مسیح بادشاہ کی قدرت وحشمت کاذکر تھا۔یہاں اُس بادشاہ کے حلم وراستبازی کاذکر ہے(زبور۱۱۰، ۲، ۲۵)۔

یہ پیش گوئی (زبور ۷۲ )کی پیش گوئی کے مشابہ ہے معلوم ہوتاہے کہ (یسعیاہ ۹: ۱۔۷، ۱۱: ۱۔۷؛ میکاہ ۵: ۲۔ ۵) کی یہی بنیاد ہے۔

فصل سوم

بحری تکلیف میں سے بحالی

اسرائیل اوریہوداہ جلاوطنی سے واپس اپنے ملک کو آئیں گے۔ خداوند اُن کو بڑی عجیب قدرت کے کاموں کے ساتھ مصر اور اسورسے واپس لائے گا۔ وہ جلعاد اورلبنان کی زمین میں بسیں گے اوریہوواہ کے نام چلیں گے(زکریاہ ۱۰: ۳۔ ۱۲)۔

یہوداہ اور یوسف کے گھرانے متحد ہوکر اپنے دشمنوں سے جنگ کرتے اور آخرکار ان پر فتح پاتے ہیں اوریہوواہ لشکروں کے خداوند کی سرکردگی میں وہ بہادرانہ جنگ کرتے ہیں جو اُن کا مقابلہ کرتے ہیں اُن کو پاؤں تلے کچل ڈالتےہیں۔ افرائیم توجلاوطن ہوکر دانوں کی طرح مصر اوراسور میں منتشر ہوجاتاہے۔ اُسے اُس سمندر سے گذرنا پڑتاہے جو مصیبت اورلہروں کا سمندر ہے لیکن وہ مصر اوراسور سے واپس آئے گا اوریہوواہ کا نام لے کر چلے گا۔

فصل چہارم

رد کیاہواگڈریا

نیک گڈریا یعنی خداوند اپنے اگلے اسرائیل کو رد کردیتاہے۔ بنی اسرائیل نے اُس کی قیمت ایک غلام کی قیمت کے برابر ٹھہرائی ۔ یہ ادنیٰ قیمت بھی رد کی گئی ۔ اور گڈریے کی فضل واتحاد کی چھڑیاں توڑی دی گئیں جن سے مراد جدائی تھی (زکریاہ ۱۱: ۷۔ ۱۴)۔

ماقبل قرینے (پہلے سے ترتیب)سے ظاہر ہے کہ شریر گڈریے اپنے قائدے اور نفع کےلئے گلے کو تباہ کررہے تھے۔ اب خدا خود اُس کم بخت گلہ کا گڈریا ہو کرآتاہے جوابھی ذبح کئے جانے کو تھا۔ یہ پیش گوئی نظم کی صورت میں ہے۔نبی نے دو چھڑیاں لیں اور پھر اُنہیں توڑ ڈالا۔ اُس نے کسی سے تیس روپے مانگے جنہیں اُس نے پیچھے ردکردیا۔ اس گڈریے کو صرف یہی حکم نہ تھا بلکہ یہ خاص حکم تھا کہ وہ گڈریے کے طورپر کام کرے۔ اُس نے تین گڈریوں(غالباً اس وقت کے بادشاہوں) کو کاٹ ڈالا۔ اس کو کچھ عرصے کے لئے لوگوں نےگڈریا تسلیم کرلیا۔ لیکن پیچھے اُسے رد کردیا اوراُس کی


مزدوری اُس کودی۔ یہ گڈریا خداوند باشاہ ہے۔ یہاں یہوداہ اوراسرائیل کی دوبادشاہیوں کا ذکر ہے جن میں سے اسرائیل کی بادشاہی تباہ ہوگی کیونکہ انہوں نے یہوواہ کو اپنا بادشاہ تسلیم نہ کیا۔ ہوسیع نے بھی اس قسم کی قیمت کاذکر کیا لیکن وہاں یہ قیمت یہوواہ نے اسرائیل کے لئے بطور لونڈی کے تھی زرِ فدیہ ادا کیا۔ یہاں یہ قیمت اسرائیل نے یہوواہ کی نگرانی وخدمت کے معاوضہ میں دی۔جس چھڑی کا نام فضل تھا وہ اس امر کا نشان تھی کہ یہوواہ اپنی اُمت کی کیسی قدر کرتاہے ۔اسی قسم کی محبت کاذکر ہے ہوسیع نبی نے کیا جس چھڑی کا نام اتحاد تھا وہ یہوداہ اوراسرائیل کے دوبارہ اتحاد کا نشان تھی۔ ہوسیع نے یہ ظاہر کیاکہ آخر کاربحالی کے وقت ان دونو حصوں میں پھر اتحاد ہوگا۔ حزقی ایل نے بھی اسی خیال کوظاہر کیا۔

اس پیش گوئی کی جزوی تکمیل کا ذکر (متی ۲۷: ۹ )میں پایا جاتاہے۔

یسعیاہ

یسعیاہ عہدِ عتیق کا سب سے بڑا نبی ہے۔ یہ پہلے نبیوں کی سیرتوں کا جامع ہے۔ اس نے سب سے زیادہ مسیح اوراُس کے زمانہ کا ذکر کیا۔اس کتاب میں کئی پیش گوئیاں جمع کی گئی ہیں۔

ان کو سمجھنے کےلئے یہ لازمی ہے کہ ہم اُن پیش گوئیوں کو الگ رکھیں جن کا تعلق بابل کی اسیری سے ہے کیونکہ ان میں یہ مان لیا گیاہے کہ بابل سب سے بڑا دشمن تھا اوربابل سے مخلصی مسیحی زمانہ کی برکت تھی حالانکہ یسعیاہ اسوری زمانہ کا بڑا نبی تھا۔ جن فصلوں کو الگ کرناچاہیے وہ یہ ہیں۔

(۱)۔ ۱۳باب سے ۱۴: ۲۳تک۔

(۲)۔ ۲۴باب سے ۲۷باب کے آخر تک ۔

(۳)۔ ۳۴، ۳۵ باب۔

(۴)۔ ۴۰باب سے ۶۶باب تک۔

یہ گمنام پیش گوئیاں یسعیاہ سے منسوب کی گئیں ۔ جیسے ضرب المثالیں سلیمان سے ، مزامیر داؤد سے اور شرعی قوانین موسیٰ سے ۔ یہ پیش گوئیاں طرز عبادت ، تاریخی موقعے اور تعلیم وتصور کے لحاظ سے یسعیاہ کی تصنیف سے متفرق ہیں گویا ایک ہی روح سب میں جاری وساری ہے۔ اس لئے جن پیش گوئیوں کو ہم ٹھیک طرح سے یسعیاہ کی سمجھتے ہیں وہ تین قسموں میں منقسم ہیں۔

)۱(۔(یسعیاہ ۱۔ ۱۲باب )کے آخرتک۔ ان بابوں میں یہوداہ اوراسرائیل پر سزا کے نازل ہونے کا ذکر ہے۔ اس مجموعے میں( ۲ ۔ ۵باب )کے آخرتک پہلے لکھے گئے ۔ اس کے بعد( ۶۔ ۱۲ )تک اور پھر اسی مجموعہ کے دیباچہ کےلئے پہلا باب بڑھایا گیا۔

(۲)۔(یسعیاہ۱۴: ۲۴: سے ۲۳باب )کے آخر تک۔ اس مجموعے میں گردونواح کی قوموں کے خلاف پیغام ہیں۔ مثلاً فلستیہ ، موآب ، دمشق ، اسرائیل ، کوش، مصر ، بابل ، اُدوم ، عرب صور ، رویاکی وادی (یروشلیم)۔

(۳)۔(یسعیاہ ۲۸ سے ۳۳ باب )کے آخرتک ۔ یہوداہ اوراسرائیل پر واویلا ان کے خاص گناہوں کے باعث ۔یسعیاہ کی نبوتوں کے پہلے حصے میں بہت کچھ مسیحی زمانہ کاذکر ملتاہے۔پہلی پیش گوئی کسی گمنام نبی کی تھی جس کاذکر پہلے ہوچکا جس کے آخر میں نصیحت تھی(یسعیاہ۲: ۵) لیکن یسعیاہ کی کتاب میں مسیحی تصور چوتھے باب سے شروع ہوتاہے۔

فصل پنجم

صِیّون کی پاکیزگی

یہوواہ خداوند اپنی اُمت کو پاک وصاف کرنے آئے گا تاکہ وہ بقیہ پاک اور مقدس ہے۔ وہ سرزمین حیرت انگیز طورپر سرسبز ہوگی اوریہوواہ کی دائمی حضوری اُس کی حفاظت کرے گی۔ (یسعیاہ ۴: ۲۔ ۶)۔

اس پیش گوئی میں دونئی باتیں بھی منکشف(ظاہر) ہوئیں۔ اس میں اُمت کی تنبیہ وتربیت کا بھی ذکر ہے اورایک مقدس بقیہ کا بھی جس کو سخت مصیبت سے مخلصی ملے گی۔ اس پیش گوئی میں سزا کاذکر ہے۔وہ قوموں کی سزا نہیں جیسا یوایل نے نبوت کی تھی (یوایل ۳: ۱۸) بلکہ برگشتہ اسرائیل کی سزا جیسا ہوسیع نے بتایا تھا(ہوسیع ۲: ۲۲) یہ سخت مصیبت اسرائیل کو پاک صاف کرنے کےلئے تھی جیسے سونا آگ کی بھٹی میں صاف کیا جاتاہے ۔ خداوند کی اس آمد کا یہ نتیجہ ہوگا۔

اوّل ۔ اس سرزمین کی اعلیٰ زرخیزی۔

دوم۔ خدا کی اُمت کی پاکیزگی۔

سوم۔ یہوواہ ہمیشہ اپنی اُمت کے درمیان سکونت کرے گا اوراس کےلئے خروج کی کتاب سے تشبیہ لی گئی (خروج ۱۴: ۱۹)۔ یعنی بادل اور آگ کا ستون پھر بحال ہوگا۔

فصل ششم

عمانوایل

ایک نوجوان (یاکنواری)عورت سے عجیب بچہ پیدا ہوگا اوراُس کا نام عمانوایل رکھا جائے گا۔ وہ اس بات کا نشان ہوگا کہ خداوند اپنی اُمت کے ساتھ ہے اور وہ انہیں چھڑائے گا۔ البتہ اُس کی بلوغت تک ملک میں مصیبت رہے گی۔

اس پیش گوئی کا وہ موقعہ تھا جب ارامیوں اوراسرائیل نے یہوداہ پرحملہ کیا جس کی وجہ سے یہوداہ پربڑی مصیبت آئی۔ یہوداہ کےبادشاہ آخز سے یسعیاہ نبی نے یہ تقاضا کیاکہ وہ خداوند سے کوئی نشان مانگے زمین سے لے کر آسمان تک جس چیز کا چاہے۔ لیکن آخز نے نشان مانگنے سے انکار کیا تو خدا نے خود ایک نشان بخشنے کا وعدہ کیا۔

(یسعیاہ ۷: ۱۳۔ ۱۷)تک۔

اس پیشین گوئی کے پڑھنے سے یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ یہ بچہ آخزیا یسعیاہ کے یاکسی دیگر نامعلوم خاندان میں پیدا ہوگا۔ لیکن یادرکھیں کی اس نشان کا زور والدہ پر نہیں بلکہ بچے اوراُس کے نام پر ہے جس عبرانی لفظ کاترجمہ نوجوان عورت یاکنواری عورت کیاگیا اُس میں کنواری پن پرزور نہیں۔ اگرنبی اس بات پر زوردینا چاہتا تو دوسرا لفظ استعمال کرتا جس کے خاص معنی صرف کنواری ہی کے ہوتے ۔


یہ بچہ اس امر کا نشان ہے کہ خدا اپنی اُمت کے ساتھ ہے۔ا س میں اس امر پر زورنہیں کہ اخزیاہ کو یہ یقین دلایا جائے کہ جن اُمور کی پیش گوئی ہوئی وہ یقیناً اسوریوں کے ذریعہ سوریا اورسامریہ کی اسیری کے بعد وقوع میں آئیں گے بلکہ اس امر پر زور ہے کہ باوجود ان مصیبتوں کے خدا اپنی امت کے ساتھ رہے گا۔اس بچہ کی نسبت یہ نہیں بتایا گیاکہ وہ خدا کا مظہر یا تجسم ہوگا بلکہ یہ کہ وہ بچہ الہٰی مخلصی کی ضمانت ہے۔ یہ مخلصی اس بچے کی پیدائش کے وقوع میں نہیں آئے گی بلکہ اس کا بچپن توتنگی وتکلیف میں گزرے گا ۔ وہ شہداور دہی پر گزران کرے گا کیونکہ وہ سر زمین تباہ ہوگئی۔ وہاں صرف گڈرئیے اوران کے گلے پھرتے ہیں۔اس زمین کی یہ مصیبت اُس بچے کی بلوغت تک رہے گی۔ یہ وعدہ اُس اٹل مصیبت کے وقت کیاگیا۔ مسیح کی پیدائش تک یہ وعدہ ہی رہا جس کی پیش گوئی ہوئی ۔ آخز کے زمانہ میں اس کے پورا ہونے کی تلاش ہم کیوں کریں۔یہ تو آئندہ کے لئے ایک نشان تھا۔ یہ امر دیگر ہے کہ وہ نبی یا اس کے سامعین اس کی جلد تکمیل کی امید رکھتے تھے ۔ مخلصی کی جو تجویز خدا نے اس کی معیاد مقرر کرنا ہمارا کام نہیں۔آخز وحزقیاہ کے زمانے میں ایسے کسی بچے کے پیدا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ نبی کے بچوں کے نام صاف بتائے گئے ہیں۔ لیکن اس عمانوایل کا کچھ تعلق ان بچوں سے نہیں۔

یسعیاہ نے اس بچے کو بعض مقدس نام دئیے اورمیکاہ نے اس کی پیدائش کی جگہ بھی بیت لحم بتائی (یسعیاہ ۹: ۶؛ ۱۱: ۱؛میکاہ ۵: ۳) ۔سوریوں کے بعد اسوریوں نے اسرائیلیوں کودکھ دیا۔ یہ مصیبت ختم ہونے کے بعد بابل نے ان کو اسیر کیا اوربابلی اسیری کے بعدیونانیوں نے اوریونانیوں کے بعد روم نے ۔دنیا کی ان زبردست طاقتوں نے یکے بعددیگرے (ایک کے بعد ایک ،مسلسل)اسرائیل کو ایذا پہنچائی۔ یسعیاہ کی نظر صرف اسوری اسیری تک پہنچتی ہے اورجو اس کے بعد وقوع میں آئے گا وہ اُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ پھر بھی اُ س نے یہوداہ کے وفادار بقیہ کو عمانوایل کی پیش گوئی کے ذریعہ تسلی دی اور یہ وعدہ مصیبت کے سارے زمانوں میں تسلی کا باعث رہاجب تک کہ مسیح کنواری مریم سے پیدا نہ ہوا(متی ۱: ۲۱، ۲۵)۔

فصل ہفتم

سلامتی کا شہزادہ (سردار )

اسرائیل کی شمال مشرقی سرحد پرایک بڑی روشنی چمکنے والی تھی جو اُمت کو اتنا ہی سربلند کرے گی جتنا کہ وہ پست ہوئی تھی۔اُسے ایک بڑی مخلصی نصیب ہوگی جواس مخلصی سے بہت بڑھ کر ہوگی جومدیان کے دن جدعون کے ذریعہ ملی تھی۔ داؤد کے گھرانے میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے یہ نام ہوں گے۔ عجیب، مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ ۔ وہ داؤد کے تخت پر ہمیشہ تک راستی سے سلطنت کرے گا ۔ اورلڑائی کے سب اوزار توڑے جائیں گے۔

اس پیش گوئی کا موقعہ وہ تھا جب گلیل اورپیریا کے باشندوں کوتگلت پلاسر شاہِ اسوراسیر کرکے لے گیا(۲۔سلاطین ۱۵: ۴۹)۔ اس وقت سلامتی کے شہزادہ کی پیش گوئی ہوئی سارے ملک کنعان میں غم اوراُداسی کے بادل چھاگئے۔ سارے باشندے مایوسی میں مبتلا تھے۔ یہ لوگ بنی اسرائیل میں سے سب سے پہلے اسیری میں گئے لیکن وہ سب سے پہلے سرفراز بھی ہوں گے۔

(یسعیاہ ۸: ۲۳۔ ۹: ۶)تک۔


میں نے شمال مشرقی سرحد پر جس کے باشندے سب سے پہلے اسیر ہوکرگئے ایک بڑی روشنی چمکتی دیکھی۔ اس سے وہ مخلصی مراد تھی جواُس مخلصی سے بھی بڑی تھی جو جدعون نےموآبیوں پر یزرعیل کے میدان میں حاصل کی تھی۔ یہ فتح داؤد کے گھرانے کا ایک شہزادہ حاصل کرے گا۔ اس فتح کی وجہ سے اُس شاہزادے کوعظیم الشان لقب دئے گئے ۔ یہ چار نام ہیں:

۱۔ عجب مشیر۔ کیونکہ اس کی عقلمندانہ تجویزوں سے یہ فتح حاصل ہوئی ۔اس کی یہ عقلمندی بڑی روشنی کی طرح چمکتی ہے۔

۲۔ خدائے قادر۔ بہادر ایل کیونکہ الہٰی شان سے اُس نے اس مہم کو سرانجام دیا اور اس نے جدعون کی فتح کی نسبت زیادہ شاندار فتح حاصل کی۔

۳۔ ابی عد۔ " ابدیت کا باپ" یا ’’لوٹ کا باپ‘‘ یعنی ابدیت رکھنے ولا یا لوٹ کا مالک یا لوٹ کا بانٹنے والا ۔ اگرپہلے معنی لےجائیں تومراد ہوگی کہ یہ شہزادہ ابدتک رہنے والا ہے۔ اگر دوسرے معنی لیے جائیں تویہ مراد ہوگی کہ اس کو ایسی بڑی فتح حاصل ہوگی کہ وہ اپنےلوگوں میں لوٹ کر تقسیم کرے گا جس سے لوگوں کے دل خوش ہوجائیں گے۔

۴۔ سلامتی کا شاہزادہ۔ یہ فتح قطعی اورکامل تھی جس کی وجہ سے اوزار توڑے اورجلائے جاتے ہیں کیونکہ آئندہ کو جنگ نہ ہوگی۔

سلامتی کے شاہزادہ کا یہ تصور(زکریا ۹باب) کی توسیع ہے۔ اورجنگ کے ہتھیاروں کی تباہی (ہوسیع ۲باب )کی توسیع ہے۔ اور داؤد کے تخت پر ابدی حکومت (زبور ۲، ۱۱۰ ؛خاص کر زبور ۷۲) کی توسیع ہے۔

یہ صلح کا شاہزادہ خداوند یسوع مسیح ہے ۔ اس پیش گوئی کی تکمیل (متی ۴: ۱۵۔ ۱۶ )میں پائی جاتی ہے۔

فصل ہشتم

پھل دار شاخ

یسی کے تنے سے ایک شاخ نکلتی ہے۔ روح کی ہفت(سات) چند نعمتیں اُس پر ٹھہرتی ہیں جن کے ذریعہ اس کو پورا کام کرنے کی قوت حاصل ہوتی ہے۔

اس پیش گوئی کا موقعہ وہ تھاجب اسوریوں نے یہوداہ پرحملہ کیا اور وہ ملک اتنا گھٹ گیا کہ خالی تنہ رہ گیا اوراب خود اس کےلئے بھی خطرہ تھا۔

اب اس تنہ میں سے ایک پھلدار شاخ نکلے گی۔

(یسعیاہ ۱۱: ۱۔ ۱۶ )تک۔

یہ شاخ بہت پھلدار ہوجائے گی کیونکہ الہٰی روح کی نعمتوں سے اُس کو مدد ملتی ہے۔ یہ نعمتیں( ۳)جوڑوں میں ظاہر کی گئی ہے۔

پہلا جوڑہ۔ حکمت اور خردکی روح ، حکمت گہری باتوں کے دریافت کرنے والی اورخرد عملی امتیاز کرنے والی ہے۔

دوسرا جوڑہ۔ مصلحت اور قدرت کی روح، مصلحت سے وہ قوت مُراد ہے جو تجویز اورہدایت کرتی ہے قدرت اس کو عمل میں لاتی ہے۔


تیسراجوڑہ۔ معرفت اورخداوند کے خوف کی روح، معرفت سے مراد ہے خدا سے شخصی عملی واقفیت ۔ خوف سے مراد ہے تعظیمی خوف جو حقیقی مذہب کا جز ہے۔ ان کے ذریعہ یہ مسیح راستی اورامن کے ساتھ سلطنت کرنے کے قابل ہوتاہے۔

مظلوموں کا انصاف کرنا ، غریبوں کی مدد کرنا اورظاہری صورت کے مطابق نہیں بلکہ اندرونی سیرت کے مطابق انصاف کرنا اُس کا خاص کام ہے۔ اس کا نتیجہ عالمگیر امن ہوگا۔ انسان وحیوان جودشمنی ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ عدن کی لعنت برکت سے بدل جائے گی۔ مصر کے خروج کی نسبت بڑا خرو ج ہوگا۔ سارے ملکوں سے خدا کے لوگ اس شاخ کی طرف آئیں گے جو بطور جھنڈے کے کھڑی کی جائے گی۔ یہ پیش گوئی( زکریاہ ۱۰باب) کی پیش گوئی کی توسیع ہے۔

فصل نہم

مصراور اسور کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد

مصر اور اسور اسرائیل کے ساتھ مل جائیں گے اورخدا کی اُمت بنیں گے۔مقدس زبان بولیں گے اورمذبح اورقربانی سے اُس کی عبادت کریں گے۔ کوش اور صوریہوواہ کےلئے نذریں ادا کریں گے (یسعیاہ۱۸: ۷؛ ۲۳: ۱۸)۔

اس پیش گوئی کا خاص تعلق دوبڑی حریف سلطنتوں سے ہے یعنی مصر اور اسور جو اسرائیل کی خاص دشمن تھیں (یسعیاہ ۱۹: ۱۶۔ ۲۵)۔

مصر اسرائیل کا قدیم دشمن تھا۔ اسور اس وقت سب سے بڑی طاقت تھی۔ یہوداہ کا ایک فریق مصر سے مدد کی امید رکھتا تھا۔ اوردوسرا فریق اسور سے یہوداہ کی بربادی قریب نظر آتی تھی۔ مگریہوداہ کی بادشاہی خداکی تھی اس لئے خدا خود اُسے فتح بخشتا ہے۔ نبی نے مصر کی تباہی کی پیش گوئی کی۔ آخرکار یہ قدیم دشمن اسرائیل کے دوست بن جائیں گے وہ اسرائیل کے خدا کی پرستش کریں گے۔ یہ قدیم قومیں دنیاکی قوموں کی نمائندہ تھیں۔ وہ قدیم قومیں تونیست ونابود ہوگئیں۔ اس لئے اس پیش گوئی کی تکمیل دنیا کے امن وامان کی سلطنت میں ہوگی۔

فصل دہم

صِیّون کے کونے کا پتھر

ایک کونے کا پتھر صِیّون میں رکھا جائے گا جوسب کے اعتبار کے قابل ہوگا۔ وہ سخت طوفان کے وقت بھی مضبوط رہے گا۔

یسعیاہ کی نبوتوں کی تیسری فصل بھی مسیح کی نسبت نبوتوں سے شروع اور اُن پر ختم ہوتی ہے۔ اسور نے جب یہوداہ پر حملہ کیا تویہوداہ پر سخت مصیبت آئی ۔ جولوگ اتحادوں اورعہدناموں پر بھروسہ رکھتے تھے اُن کو سخت مایوسی ہوئی ۔ اُن پر ظاہر ہوگیا کہ پناہ کی جگہ صرف ایک ہی تھی اور وہ خدا کا شہر تھا۔ وہ ساری مصیبتوں کے درمیان اُس کے کونے کا مضبوط پتھر رہے گا (یسعیاہ ۲۸: ۱۴۔ ۱۸)۔

اس مضبوط ودیرپا کونے کے پتھر کا تصور مابعد مزمور میں پا یا جاتا ہے " جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرکا پتھر ہوگیا"یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے"(زبور ۱۱۸: ۲۲۔ ۲۳) نئے عہدنامہ میں اس کا کئی دفعہ ذکر ہوا (متی ۲۱: ۴۲؛ مرقس ۱۲: ۱۰؛ لوقا ۲۰: ۱۷؛ اعمال ۴: ۱۱ ؛رومیوں ۹: ۳۳؛ ۱۰: ۱۱ ؛۱۔پطرس ۲: ۶، ۷)۔



فصل یازدہم

صِیّون بڑے بادشاہ کا شہر

صِیّون یہوواہ کا پُر امن مسکن ہوگا۔ وہ ذوالجلال جنگی مرد اوربادشاہ ہے۔ وہ اُن ندیوں کی جگہ ہے جہاں مخالف جہاڑ ٹوٹتے اورخدا کی اُمت کے ہاتھ آتے ہیں۔

اسوریوں کےذریعہ جومصیبتیں وار ہوئیں اُن کے ذریعہ نبی اوراُس کے شاگردوں کا توکل یہوواہ پر زیادہ پختہ ہوگیا۔اس توکل کا کمال( ۳۳باب )میں نظرآتاہے۔ نبی نے دیکھا کہ وہ طوفان گذرگیا۔ حملہ موقوف ہوا۔ صِیّون محفوظ ہوگیا اور یہوواہ سبھوں پر حکمران ہے (یسعیاہ ۳۳: ۱۳۔ ۲۴)۔

یہ پیش گوئی( یسعیاہ ۴باب) کی پیش گوئی کی توسیع تھی۔اس پیش گوئی کے شروع میں صِیّون کے حقیقی شہری کا حلیہ دیا گیا ہے ۔مقابلہ کرو(زبور ۱۵ ؛ ۲۴: ۳۔ ۶)کے ساتھ۔

صِیّون کو خیمہ سے تشبیہ دی گئی جس کی رسیاں اورکھونٹیاں نہایت مضبوط تھیں۔ پھر اُس کو ندیوں کی جگہ سے تشبیہ دی گئی جیسے وہ شہر تھے جودریائے نیل اور دریائے فرات کے ساحلوں پر واقع تھے۔وہاں مخالف جہازوں کا گزرنہ ہوگا ۔ اگر اُدھر سے گزریں گے تو اُن کو صِیّون کے باشندے توڑکر اپنے قبضے میں کرلیں گے۔ اس کی ندیاں امن کی ندیاں ہیں ۔یہوواہ ذوالجلال بادشاہ وہاں حکمران ہے ۔یہ تشبیہ (یوایل ۳: ۱۸ )میں بھی آئی ہے۔ یہ پیش گوئی اسوری بادشاہ سنحیرب کے حملے سے پہلے لکھی گئی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل یہود اہ خدا کی فرمانبرداری کرنے لگے۔یسعیاہ کی پیش گوئیوں میں یہ سب سے زیادہ فصیح عبارت میں لکھی گئی ۔ اس میں امن ،معافی اورپاک خوشی کا خاص ذکر ہے ۔ نبی کو یہ اُمید تھی کی سنحیرب کے لشکر کی شکست کے بعد یہ خوشی کی حالت اُس ملک کو نصیب ہوگی۔ لیکن یہ اُمید پوری نہ ہوئی اورنہ ہوگی جب تک کہ ابنِ داؤد یعنی ابنِ خدا کی سلطنت نہ آئے۔

شروع کے دومزامیر میں صِیّون کے اس جلال کاذکرآتاہے۔ (یسعیاہ ۳۳ باب )کی طرح ان دومزامیر میں بھی یہ ذکر ہے کہ اسوریوں کے لشکر کی تباہی کے بعد صِیّون کی ایسی حالت ہوگی۔ اس لئے ان دو(مزامیر ۴۶، ۴۷ )کوہم اسی زمانہ سے منسوب کرتے ہیں۔

میکاہ

میکاہ اوریسعیاہ ہم عصر نبی تھے ۔یہ دونوں یاتواُستاد شاگرد تھے یا گہرے دوست۔ البتہ اتنا فرق معلوم ہوتاہےکہ یسعیاہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں میں نبوت کرتا تھا اورمیکاہ دیہاتی لوگوں میں۔ ان دونوں نے یہ کوشش کی کہ یہوداہ کے ایمانداروں کا ایمان مضبوط کریں۔ یرمیاہ نبی نے بتایاکہ میکاہ نے حزقیاہ بادشاہ کے ایام میں نبوت کی جس کا لوگوں پر گہر ااثر ہوا۔ چونکہ میکاہ کی کتاب ایک مکمل کتاب ہے اس لئے گمان غالب ہے کہ اس نے حزقیاہ کے زمانہ کے ذرا بعد نبوت شروع کی ۔


(میکاہ کے ۴، اور ۵باب) میں جومیکاہ کی نبوت ہے اس کے تین درجے ہیں۔ پہلے پہل تواُس نے کسی ماقبل گمنام نبی کی پیش گوئی کو پیش کیا کہ خداوند کے گھر کا پہاڑ سب پہاڑوں سے بلند کیا جائے گا۔ اورمیکاہ نے خود یہ نبوت کی کہ یروشلیم برباد ہوگا اورہیکل کا پہاڑ ایک جنگل بن جائے گا(میکاہ۳: ۲۱)۔

دوسرا درجہ عاموس کی پیش گوئی کے مشابہ ہے ۔ داؤد کے بُرج کی قدیم حکومت جاتی رہی لیکن وہ پھر بحال ہوگی۔ صِیّون کی بیٹی ذلیل ہوگی۔ لیکن صِیّون کے سانڈھ ان قوموں کو پامال کریں گے اورصِیّون آخرکار سب پر فتح پائے گی۔ (میکاہ ۴: ۸۔ ۱۳)۔ یہاں تین تشبہیں استعمال ہوئیں۔ گڈریوں کا برُج صِیّون کی بیٹی اور سانڈھ یا بیل۔

اور تیسرا اوراعلیٰ درجہ وہ ہے جہاں یہ ذکر ہے کہ بیت لحم سے ایک حاکم نکلے گا۔

فصل دوازدھم

بیت لحم سے حاکم

ایک حاکم بیت لحم میں پیدا ہوگا۔ اس کا نام صلح ہوگا۔ اس کے ذریعہ قدیم وعدے پورے ہوں گے۔ اور وہ زمین کی حدوں تک سربلند ہوگا(میکاہ۵: ۱۔ ۴)۔

نبی نے دیکھا کہ صِیّون سخت مصیبت میں ہے۔ دشمنوں نے اُس کا محاصرہ کیا اور اُسے اسیر کرلیا۔اُس کے بادشاہ کی بے عزتی ہوئی ۔ داؤد کا خاندان ویسا ہی پست ہوگیا۔جیسے وہ پہلے بیت لحم میں محض ایک گڈریے کی حالت میں تھا۔ پھر نبی نے دیکھا کہ داؤد کا تباہ شدہ خاندان پھر بحال ہوگا جیسا کہ عاموس نے خبردی تھی۔ قدیم وعدے پورے ہوں گے۔ داؤدسے جوعہد کیا گیا تھا وہ پورا ہوگا۔ داؤد کے خاندان سے ایک حاکم نکلے گا اورحاکم بنے گا۔ اس کی حکومت دنیا کے کناروں تک وسیع ہوگی۔ اُس کے زمانے میں اسرائیل دوسری قوموں کے لئے اس کی مانند ہوگا۔ وہ اپنی ابدی کہانت کوپہچا نیں گے اور وہ گلے میں شیر کی طرح بنے گا۔ لیکن اُس کی آمد کا مقصد امن وصلح ہے اوریہ حاکم صلح کہلائے گا۔ اس کے ساتھ مقابلہ کریں (متی ۲: ۶) کا۔



آٹھواں باب

یرمیاہ اوراُس کے ہمعصر

حزقیاہ کی اچھی سلطنت کے بعد منسی اورآمون کی خراب حکومت شروع ہوئی ۔ ملک کی حالت بہت بگڑ گئی اگرچہ یوسیاہ نے اصلاح کی کوشش کی۔ لوگوں کو موسوی شریعت پرعمل کرنے کی ہدایت ہوئی ۔ فراموش شدہ ہیکل میں سے استثنا کی کتاب کا ایک نسخہ مل گیا۔ خداوند کے گھر میں مزامیر گانے کا پھرا نتظام ہوا۔ انبیاء اس کا م میں بادشاہ کی مدد کرتے رہے(۲۔سلاطین ۲۲باب، ۲۔تواریخ ۳۴باب) اس اصلاح کے ذریعہ نیک لوگوں کا جتھا عوام سے علیحدہ ہوگیا کیونکہ عوام الناس نے اصلاح پر عمل نہ کیا۔

جب یہ نیک بادشاہ قدیم مجدد کے مقام پرایک جنگ کے وقت مارا گیا تو حالت بہت نازک ہوگئی (۲۔سلاطین ۲۲: ۲۹۔ ۳۰ ؛ ۲۔تواریخ ۳۵: ۲۰ ۔ ۲۵) انبیاء کی کوشش ناکام رہی۔ یوسیاہ کے زمانہ کا بڑا نبی یرمیاہ تھا جس کی مدد دیگر انبیاء صفنیاہ، حبقوق وغیرہ کرتے رہے۔ ان انبیاء میں سے سب سے پہلا نبی صفنیاہ تھا جس نے یوسیاہ کی سلطنت کے شروع میں نبوت کی ۔

صفنیاہ

اس نبی کے زمانہ میں صفنیاہ نبی کی نبوتیں بہت کم ملتی ہیں ۔ اس نے پرانی نبوتوں کو بہت کچھ دہرایا۔ اوربعض اوقات تولفظ بہ لفظ اُن کو نقل کیا۔ البتہ طرزِ عبادت خاص ہے(دیکھو ۲: ۱۔ ۲؛ ۳: ۱۱، ۱۸)۔ اس کی نبوت کی خصوصیت یہ ہے کہ سارے ملکوں اورقوموں پر اُس نے اپنی نظر ڈالی اور اُن کی روحانی حالت کی نظر ثانی کی۔ یروشلیم کی تباہی کا اتفاقی ذکرکیا۔

فصل اوّل

خداوند کی بڑی عدالت

صفنیاہ نے یہ نبوت کی کہ خداوند کی عدالت کا بڑا اور خوفناک دن یہوداہ یروشلیم اورساری قوموں پر آنے والا ہے لیکن جوراستباز منتشر ہوگئے ہیں وہ مخلصی پائیں گے۔ اسرائیل اپنے ملک میں آئے گا۔ یہوواہ نجات دہندہ اُن کے درمیان رہے گا اورخوشی منائے گا۔ ساری دنیا میں اسرائیل کی شہرت اور تعریف ہوگی اور افریقہ کےدوردراز علاقوں کے باشندے بھی اسرائیل کے ساتھ مل کر خداوند کی پرستش کریں گے۔

معلوم ہوتاہے کہ صفنیاہ کے دل میں سکوتی حملہ آوروں کا خیال تھا۔ یہ اجنبی گروہ ایشیا کے باشندوں کے درمیان ہل چل پیدا کردیتے تھے۔ نبی نے یہ سمجھا کہ دورونزدیک کی قوموں کی بربادی کےلئے وہ سکوتی خدا کے ہاتھ میں ایک اوزار ہیں۔(دیکھو صفنیاہ ۱۵: ۲، ۳، ۱: ۱۴۔ ۱۸، ۲: ۱۔ ۳)۔

پھر نبی نے یکے بعد دیگرے(ایک کے بعد ایک) فلسطین کے شہروں کربربادی کا ذکر کیا۔ موآب اورآمون سدوم اورعمورہ کی طرح بگڑ گئے ۔ کوشی لوگ تلوار سے مارجائیں گے۔ اسور مغلوب ہوگا اور نینوہ اجاڑ ہوجائے گا۔


لیکن اس سزا میں مخلصی کا مقصد نمودار ہے۔ نہ صرف اسرائیل ہی کے لئے بلکہ ساری قوموں کےلئے بھی۔

(صفنیاہ ۳: ۸۔ ۲۰)۔

اس نبوت میں یہ امر قابِل غور ہے کہ اس سزا کے بعدساری قوموں کو مخلصی ملے گی۔ اس میں (یسعیاہ ۱۹: ۱۸ سے ۲۵) کی توسیع پائی جاتی ہے ۔ نبی کے خیال میں جو قومیں یہوواہ کی پرستش میں خاص حصہ لیتی ہیں وہ افریقہ کی قومیں ہیں یعنی کوش اورلبیان کے لوگ۔ یسعیاہ نے ذکر کیا تھا کہ مصر کی سرزمین میں مذبح نصب کیا جائے گا۔ یہاں اُسی کی طرف اشارہ ہے۔ مسیح کے ایام میں عالمگیر یہوواہ کی عبادت کا ذکر عہد عتیق کے محاورے کے مطابق مذبح اور قربانیوں کے ذریعہ ہوا۔

نبی نے اسرائیل اوریہوواہ کے رشتہ کوبھی محبت کے ذریعہ ظاہر کیا جیسے ہوسیع نے کیا تھا یعنی نکاح کا رشتہ۔ اسرائیل کو نئے نام دئیے گئے اورشادی کی ایک بڑی ضیافت کا نقشہ پیش کیا جس کا ذکر نئے عہدنامہ میں کئی دفعہ ہوا۔

فصل دوم

صِیّون میں قوموں کا متبنیٰ بننا

(زبور ۸۷ )میں ذکر ہے کہ صِیّون میں دیگر قومیں بھی صِیّون کے باشندوں میں شمار ہوں گی۔

اس مزمور کے ساتھ مقابلہ کرو(زبور ۴۵ ،یسعیاہ ۱۹: ۱۸۔ ۲۵) کا۔ اس مزمور کی پیشین گوئی (صفنیاہ۳: ۹، ۱۰) سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ مصر کے ساتھ بابل کا ذکر آتاہے جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ ہم اسوریوں کے زمانے کو چھوڑ آئے اوربابل کے زمانہ میں پہنچ گئے ہیں۔

ایک عالم ڈیلچ (deletzsch)نے اس مزمور کا نام رکھاہے" قوموں کی نئی پیدائش کا شہر" ۔ یہ قومیں جوایک وقت باہم بہت سخت مخالف اوردشمن تھیں وہ اب برادرانہ رشتے میں پروئی گئیں اوراُن میں سے ہرایک خدا کے خاندان کے بچوں میں شمار ہونے لگی۔

(زبور ۴۵) میں اس رشتے کو نکاح کے رشتے سے تشبیہ دی گئی تھی۔ یہاں یہ قومیں متبنیٰ (بیٹا بنایا ہوا، لے پالک)کہلاتی ہیں اوران کا نام صِیّون کے باشندوں کے رجسٹر میں درج ہوتاہے۔( یسعیاہ ۱۹: ۱۸ ۔ ۲۵) میں بھی مصر اور اسور کا اتحاد اسرائیل سے ظاہر کیا گیا۔ جواسرائیل کوبیٹے کا لقب ملا تھا اب وہ دیگر قوموں کوبھی ملتاہے۔

فصل سوم

تاکستان اسرائیل کی بحالی

اسرائیل کی تاک کو دریائے نیل اور فرات کے درندہ جانوروں نے پامال کیا تھا۔ (زبور ۸۰ )میں بحالی کےلئے دُعا ہے خاص کر مسیح ابن آدم اور یہوواہ کے دائیں ہاتھ کے انسان کی مدد کےلئے ۔

غالباً یہ( ۸۰) مزمور یوسیاہ کے ایام میں لکھا ہوگا جب کہ یہوداہ کا خاص دشمن تھا۔

یہاں اسرائیل کوتاک سے تشبیہ دی گئی جس کا ذکر یعقوب کی برکتوں میں آیا تھا(پیدائش ۴۹: ۱۱۔ ۱۲ )وغیرہ۔


ابن آدم کا لقب زبور میں آیا تھا۔ اور’’خدا کے دائیں ہاتھ کا انسان‘‘( زبور ۱۱۰ )میں مذکور ہوا۔ یہ دونوں لقب یہاں ملادئیے گئے ہیں۔

حبقوق

یہ نبی (حبقوق )بابلی زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے غالباً صفنیاہ سے کچھ پیچھے یہویکن کے زمانہ میں نبوت کی۔ اس میں بلند خیالات اوراعلیٰ زبان پائی جاتی ہے۔ یہ یروشلیم کی بربادی سے پیشتر زمانہ کاآخری نبی تھا۔ اگرچہ اس کی کتاب میں بھی ماقبل انبیا کی پیش گوئیوں کے حوالے پائے جاتے ہیں توبھی اس میں اُس کی ذاتی پیش گوئیاں بھی ملتی ہیں۔

حبقوق نے خداوند سے یہ شکایت کی کہ کسدیوں کے حملوں کی وجہ سے ملک میں جو مصیبت وارد ہوئی ہے اُس پر نظر کر اورحملہ آوروں کو سزا دے۔ خداوند نے اس کی فریاد کا یہ جواب دیاکہ ظالموں اوربدکاروں کو سزا دوں گا اورراستبازوں کی مدد کروں گا(حبقُوق ۲: ۴)۔

اس سے یہ یقین ہوگیاکہ اسرائیل کے وفادار راستباز لوگ زندہ رہیں گے حالانکہ ظالم مغرور تباہ ہوگا۔ اس حصے میں خود خداوند کی حضوری کا یقین دلایا گیا (حبقوق ۲: ۲۰) قوموں کی ان شکایات کے دوران میں حبقوق نے (یسعیاہ ۱۱باب) کی پیش گوئی کا حوالہ دیا(حبقوق ۲: ۱۲۔ ۱۴)۔خاص کر اس کا مقابلہ کرو( یسعیاہ ۱۱: ۹ )سے ۔پھر نبی نے بیان کیاکہ خداوند سزا اور مخلصی دینے کو آئے گا۔

فصل چہارم

خداوند کی آمد

حبقوق نے بیان کیاکہ خداوند اپنی اُمت کی مخلصی اوردشمنوں کی بربادی کےلئے آئے گا(حبقوق ۳باب )۔

یہ پیش گوئی اعلیٰ نظم میں بیان ہوئی ۔اس میں پہلے تونبی کی یہ دعا ہے کہ شریر دشمنوں کو سزا دینے کےدوران میں خدا اپنی رحمت کویادرکھے۔پھر موسیٰ کی برکت کی طرح اوردیبورہ اور داؤد کی غزل کی مانند(استثنا۳۳۔ قضاۃ ۵باب زبور ۱۸)۔خداوند کی آمد کا بیان ہوا۔ خدا کے جلال کودیکھ کر نبی پہلے پہل تو بہت خوفزدہ ہوگیا مگر آخر میں مخلصی کا تجربہ حاصل کرکے اُس نے خوشی کا اظہار کیا۔ خداوند کی یہ آمد وہی آمد ہے جومسیحی پیش گوئیوں میں باربار پیش کی گئی ۔ یہاں جو بات نبی کے مدِنظر ہے وہ اُمت کی مخلصی ہے۔

فصل پنجم

راستباز حاکم

(زبور ۵۰) میں خدا کو راستباز قاضی کے طورپر ظاہر کیا گیا ہے وہ عدالت کےلئے آتاہے۔ راستبازوں اورشریروں دونوں کویہ آگاہی دی گئی کہ وہ شکر گزاری کے ہدیے گزارنیں اورخُدا کا جلال ظاہر کریں تاکہ اُس کے غضب کی آگ اُس برباد نہ کرے۔

اس مزمور کا طرز اور تعلیم حبقوق کے طرز اور تعلیم کے مشابہ ہے اور خداوند کی آمد کا ذکر بھی قریباً ویسا ہی ہے۔ اس مزمور کا ٹھیک موقع تو معلوم نہیں ۔البتہ اس کی عام تعلیم حبقوق کے زمانے کے مناسبِ حال ہے۔

یرمیاہ

یسعیاہ کے بعد دوسرا بڑا نبی یرمیاہ گزرا ہے۔ یہ والدہ کی بطن ہی میں اس ہولناک کام کےلئے مخصوص ہوا کہ اپنی اُمت کی جھوٹی اُمیدوں کو رد کرے اوراپنی اُمت کے ساتھ اُن کے دکھوں میں شریک ہو۔

یرمیاہ کو عموماً ہم غم کا نبی کہہ سکتے ہیں۔ جو کام اُس کے سپرد ہوا وہ غم وافسوس سے بھرا تھا۔ یہوواہ نے اُسے مضبوط شیر، آہنی ستون اور پیتل کی فصیلوں(دیواروں ) کی مانند بنایا جوسارے ملک ، بادشاہوں ، سرداروں اور کاہنوں اورعوام الناس کے خلاف قائم رہے گا(یرمیاہ ۱: ۱۸۔ ۱۹)۔ گواُنہوں نے یرمیاہ کو ستایا اوراُس پر ظلم کئے ،لیکن وہ اس پر غالب نہ آئے کیونکہ خداوند اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اپنی اُمت کی یہ ساری مصیبت دیکھتی اوراُن بقیہ کے ساتھ مصر کو بھا گ گیا۔ اُس نے اپنا تجربہ( یرمیاہ ۹: ۱۔ ۲) میں بیان کیا۔ اُس کی تصنیف میں اُس کی مایوسی اور عمر رسیدگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔

اس نبی کا تعلق یوسیاہ بادشاہ کے ساتھ تھا۔ بادشاہ کی اصلاحات میں یرمیاہ نے مدد کی۔ استثنا کی کتاب کا اس پر گہرا اثرہوا۔

یرمیاہ کی نبوتوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں جس کا پہلا باب بطور دیباچہ کے ہے۔ اُس میں نبی کی بلاہٹ کا ذکر اورآخری باب تاریخی بیان ہے۔

پہلا حصہ(۲باب سے ۲۴باب تک)یہوداہ کے متعلق تقریروں کا مجموعہ ہے۔

دوسرا حصہ (۲۵باب سے ۴۵باب تک)سزا اور تسلی کے متعلق پیشین گوئیوں کا مجموعہ ہے۔

تیسرا حصہ (۴۶باب سے ۵۱باب تک)قوموں کو پیغام ہے۔

پہلے حصہ میں مسیحی زمانہ کی پیش گوئیاں ہیں۔ ایک خدا کی آمد کے اوردوسری مسیح بادشاہ کے بارے میں ہے۔

فصل ششم

یروشلیم خداوندکا تخت

یہوواہ نجات دہندہ اپنی جلاوطن اُمت سے شادی کرتاہے۔وہ ایک کوشہر میں سے اوردوکوخاندان میں چن کر صِیّون میں بحال کرتاہے۔ وہ شمال کی زمین سے جمع ہوکر اپنے آباؤ اجداد کی میراث لینے کوآئیں گے۔ وہ اُن پر اپنی مرضی کے مطابق ایک گڈرئیے کو مقرر کرے گا۔ سارا یروشلیم خداوند کا تخت کہلائے گا اورساری قومیں وہاں جمع ہوں گی(یرمیاہ۳: ۱۴۔ ۱۸)۔

یہ نبوت یوسیاہ کےدنوں کی ہے۔ اس میں وہی خیال ہے جو (ہوسیع ۲باب )میں پایا جاتاہے کہ یہوواہ اوراسرائیل کا نکاح ہوگا۔ گولوگ پراگندہ ہوگئے لیکن خداوند کسی کو فراموش نہیں کرئے گا۔ عاموس نبی کی نبوت کی طرح یہاں بھی یہ ذکر ہے کہ ایک دانہ بھی ضائع نہ ہوگا(عاموس ۹: ۹)۔

اسرائیل کے انتظام میں عہد کا صندوق سب سے مقدس تھا جس میں عہدنامہ کی تختیاں محفوظ تھیں۔ اس صندوق کے اوپر کروبیوں کی مورتیں تھیں اور وہ خداوند کا تخت تھا۔ جہاں سے خدا اُمت پرظاہر ہوتا تھا۔ لیکن نئے عہدمانہ میں یرمیاہ کی پیش گوئی کے مطابق جلاوطنی سے بحالی کے بعدعہد کا صندوق موجود نہ رہا۔ اس عہد کے صندوق کا جاہ وجلال فراموش ہوجائے گا۔ کوئی دوسرا صندوق اس کے عوض بنایا نہ جائے گا کیونکہ اُس سے


ایک اعلیٰ اوربہتر شے عطا ہوگی۔ سارا نیا یروشلیم شہر ان کا قائم مقام ہوگا۔ سارا شہر خدا کا تخت ہوگا۔ سارا شہر ہیکل کے پاکترین حصہ کی طرح پاکترین ہوگا اورسارے باشندوں کوکاہنی حقوق حاصل ہوں گے۔ البتہ یرمیاہ کے دل میں بادل اور آگ کے ستون کا خیال تھا اوراس میں یسعیاہ کی پیش گوئی (یسعیاہ ۴: ۵۔ ۶) سے کچھ ترقی پائی جاتی ہے۔

فصل ہفتم

راستباز شاخ

یرمیاہ نے مسیح کو راستباز شاخ کہا۔ یہ نام یہوواہ صدقنو (یہوواہ ہماری راستبازی) اس کو اورنئے یروشلیم کودیا گیا ہے۔ مصر سے خروج کرنا لوگ فراموش کردیں گے کیونکہ ایک بڑا خروج اعلیٰ پیمانے پر ہوگا جس میں وہ سب لوگ جوسارے ملکوں میں منتشر ہوگئے تھے نکل کر پھر مقدس سرزمین میں آئیں گے۔داؤد کے خاندان کی بادشاہی اورلاوی کی کہانت ابدی ہوگی۔

مسوریٹک نسخہ میں دو مقامات دئے گئے ہیں۔ پہلا مقام توپہلے مجموعہ (۳۳: ۵سے ۷) اوردوسرا مقام دوسرے مجموعہ سے (۳۳: ۱۴سے ۲۲)۔ یہ دونو مقام ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں۔البتہ اتنا فرق پایا جاتاہے کہ دوسرا مقام پہلے مقام کی توسیع ہے۔ دوسرا مقام ستروں کے ترجمے میں نہیں پایا جاتا کیونکہ جس نسخے سے ستروں کا ترجمہ کیا گیا اُس میں وہ مقام نہ تھا۔ پھر بھی کچھ شک کی گنجائش نہیں کہ یہ مقام اصلی ہے۔ ان دونوں مقاموں کو بالمقابل رکھ کر پڑھو۔

ان مقامات میں یرمیاہ نے یسعیاہ نبی کی پیش گوئی (یسعیاہ ۷: ۱۴؛ ۱۱: ۲)کو لے کر اُسے نئے خیالات کا لباس پہنایا۔ یہ نام " یہوواہ ہماری راستبازی " یسعیاہ کے اُس مقام کو یادلاتاہے جہاں لکھا ہے کہ "ایل ہمارے ساتھ"(عمانوایل) مسیح بادشاہ کو یہ نام دیا گیا اوریہ اس امر کا ضامن تھا کہ اسرائیل کی راستبازی یہوواہ میں پائی جائیں گی۔ اسی طرح دوسرے مقام میں یہی نام نئے یروشلیم کودیا گیا کیونکہ وہ یہوواہ کا تخت تھا۔ قوموں میں سے منتشربنی اسرائیل کا خروج ایسا شاندار ہوگا کہ مصر کا خروج اُس کے سامنے ماند پڑجائے گا۔

دوسرے مقام میں اس پیش گوئی کوتوسیع دی گئی اورچند قدیم عہدوں کو اس میں شامل کیا۔ مثلاً نوح کے ساتھ عہد کو جوموسموں کے قائم رہنے کا نشان تھا۔ ابراہیم کے ساتھ عہد کو جواُس کی نسل کی کثرت کا تھا۔ فنحاس کے ساتھ عہد کہانت کی مداومت (قیام)کوداؤد کے ساتھ عہدکو جو اُس کی نسل کی ابدی بادشاہی کا نشان تھا۔ یہ سارے عہد یقینی تھے ان کے ٹوٹنے کا امکان نہ تھا۔

فصل ہشتم

بحالی اورنیاعہدنامہ

راخل کوجواپنے بچوں کی لئے روتی ہے یہ تسلی دی جاتی ہے کہ وہ دشمن کے ملک سے واپس آئیں گے۔ یہوواہ ابدی محبت کے ساتھ انہیں پیارکرتاہے۔ جب ان کے گناہوں کی سزا مل چکیگی اور وہ توبہ کریں گے توخداوند اُن کو بحال کرے گا۔ ہرقسم ودرجہ کے لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ واپس آئے گی اور خداوند اپنے خدا کی اور داؤد اپنے بادشاہ کی اطاعت کریگی۔ خداوند انہیں اُن کے ہی ملک میں لگائیگا اور وہ عجب طور سے پھل دار ہوگی اور لوگوں کو ایسی خوشی ہوگی جیسی عہد کے وقت ہوتی ہے۔ ایک نیا عہد باندھاجائے گا اورالہٰی تعلیم اُن کے دلوں پر لکھی جائے گی تاکہ وہ خداوند کو جانیں۔ یروشلیم ازسرنوتعمیر ہوگا اور وہ اپنے سارے قرب وجوار کے ساتھ خداوند کے لئے مقدس ہوگا۔


یرمیاہ نے اپنی نبوت کے زمانہ کے آخر کے قریب ایک چھوٹی کتاب تسلی کےلئے لکھی جس میں مسیحی زمانہ کا خاص تصور پایا جاتاہے۔ اس چھوٹی کتاب کا مضمون وہی ہے جو ہوسیع کی کتاب کے پہلے تین ابواب میں پایا جاتاہے ۔ یہ نبوت اس بڑی نبوت کی جو تسلی کی کتاب کہلاتی ہے بنیاد ہے۔(یسعیاہ ۴۰باب ۶۶باب)۔ یہ نبوت نظم میں ہے۔

یرمیاہ ۳۰باب اور۳۱باب ۔

اس پیشینگوئی کا اعلیٰ معراج آخری حصے میں ملتاہے کہ خداکا عہد ٹوٹ نہیں سکتا اور اسرائیل کی نسل کلیہ طورپر رد نہ کی جائے گی۔ راستبازوں اور شریروں کو الگ الگ کردیا جائے گا یروشلیم گو تباہ ہوا لیکن وہ از سر نو تعمیر ہوگا اور پہلے سے زیادہ شاندار ہوگا۔ عرب کی پہاڑی جہاں کوڑھی رہتے تھے اور ہنوم کی وادی جہاں گندگی اورلاشیں پھینکی جاتی تھیں پاک ہوں گے اور اُس سارے علاقے کا نام پاکترین مقام ہوگا۔ جوکتبہ سردار کاہن کے تابع تاج پر ہوتا تھا وہ سارے یروشلیم پر لکھا جائے گا۔ تیسرے باب کے مضمون کی طرح وہ سارا شہر عہد کے صندوق کا قائم مقام ہوگا۔ ۳۳باب کی بھی یہی مضمون ہے کہ اس کا نام " یہوواہ صدقنو" (خداوند ہماری راستبازی ) ہوگا۔

یرمیاہ نے جو مسیحی زمانے کا تصور پیش کیا۔ وہ پہلے تصورات سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہے۔مسیح بادشاہ کاتصور ماند پڑجاتاہے کیونکہ یہ بادشاہ خود یہوواہ ہے جس نے اپنی اُمت کو مخلصی عنایت کی ۔ اس نبوت میں خروج کا قصہ اور کوہِ سینا کا عہدنامہ اس اعلیٰ تصور کو بیان کرنے کےلئے استعمال کیا گیا۔ یہوواہ خود آئے گا اوراپنی اُمت کو عجب طرح سے مخلصی دے گا اوراُن کے ساتھ ایک نیا عہدباندھے گا۔ اس نبوت کی طرف (متی ۲: ۱۷ ۔ ۱۸) میں اشارہ پایا جاتاہے۔

فصل نہم

داؤد کے ساتھ غیر تبدیل عہد

خداوند نے جو عہد داؤد کے ساتھ باندھا خداوند وفادار ہے۔ اگرچہ داؤد کا خاندان زوال پکڑگیا کیونکہ خداوند کی رحمتیں ابدی ہیں۔ وہ آکر صِیّون میں ابد تک رہے گا اور وہاں کے باشندوں کےلئے سامان بکثرت مہیا کرے گا اور داؤد کے لئے شان وشوکت پیدا کرے گا۔

(زبور ۸۹، ۱۳۳) میں عہد کے اٹل ہونے کا خیال( یرمیاہ ۳۳باب) کی طرح ہے۔ مسیح بادشاہ کا تصور کچھ دھندلاسا ہے کیونکہ یہوواہ خود اُن کی اُمید ہے۔

(زبور ۸۹) میں اُس عہد کی تشریح ہے جو داؤد کے ساتھ باندھا گیا تھا اوراس میں داؤد کے خاندان کے گناہوں کے باعث قائم کیا گیا ۔

(زبور ۱۳۲ ؛ زبور ۸۹ )کی طرح ہے۔ اس میں بھی اس پیشینگوئی کا حوالہ ہے جو ناتن نبی نے کی تھی۔

اس مزمور میں نہ صرف داؤد کے ساتھ عہد کاذکر ہے بلکہ اُن پیش گوئیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو یسعیاہ اوریرمیاہ نبیوں نے شاخ اور کونپل کے بارے میں کی تھیں۔


صِیّون مخلصی کا مرکز ہوگا کیونکہ وہ خداوند کا ابدی تخت ہے۔ زبور ۷۲ کی طرح یہ مسیح کی سلطنت کا نتیجہ ہے۔ کاہن نجات کے درمیانی نہ ہوں گے بلکہ وہ خود بھی نجات کےلباس سے ملبس ہوں گے۔ او ریوں ابدی کہانت کی خدمت کو سرانجام دیں گے جیسا کہ (یرمیاہ ۳۳باب )میں مذکور ہے لیکن داؤد ثانی کو خاص شفقت عنایت ہوگی۔

اس مزمور کے ساتھ مقابلہ کریں زکریاہ کے گیت کا (لوقا ۱: ۶۸۔ ۷۰)۔

نواں باب

حزقی ایل

جلاوطنی کے نبیوں میں حزقی ایل پہلا نبی تھا۔ اس زمانہ میں مسیحی نبوت کا نیا زمانہ شروع ہوا۔ وہ شاہ یہویکن کے ساتھ یروشلیم کی بربادی سے گیارہ سال پہلے اسیری میں گیا۔وہ دریائے کبار کے کنارے رہتا تھا۔ وہ جلاوطنی کے پانچویں سال نبوت کےلئے بلایا گیا او رکم از کم بائیس(۲۲) سال تک نبوت کرتا رہا۔ وہ کاہنی خاندان سے تھا۔ اس نبی نے نشانوں اور تمثیلوں کو بہت استعمال کیا۔

اس نبی کی نبوت کے زمانے کو ہم دوحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ یروشلیم کی بربادی سے جو صدقیا ہ کے گیارھویں(۱۱) سال میں ہوئی ۔ اس بربادی سے پیشتر اس کا یہ کام تھا کہ وہ ان لوگوں کو خدا کی سزاؤں سے ڈرائے ۔ لیکن اُس بربادی کے بعد اس کا پیغام تسلی کا تھا اوراُس نے خدا کے وعدوں کو پیش کیا کہ وہ اُن کو بحال کرے گا۔

دیباچہ (۱سے ۳: ۲۱تک)میں اُس کی بلاہٹ کے طریقہ کا ذکر ہے۔

پہلا حصہ (۳: ۲۲سے ۲۴باب کے آخر تک) یروشلیم اوریہوداہ کے خلاف سزا کی نبوتیں ہیں۔

دوسرا حصہ (۲۵باب سے ۳۲باب کے آخر تک) سات پیشینگوئیاں غیر اقوام کے خلاف ہیں جیساکہ یسعیاہ اوریرمیاہ کی کتابوں میں مندرج ہیں۔

تیسرا حصہ (۳۳سے ۴۸باب تک ) اسرائیل کی بحالی کی پیشین گوئیاں اور دنیا کی قوموں کی تباہی کی خبریں ۔ نئی ہیکل اورخدا کی بادشاہی کی پیش گوئی سے پہلے حصے میں تین مقامات میں مسیح کے زمانہ کی پیش گوئیاں ہیں۔

فصل اوّل

خداوند مقدس

جلاوطنی کے ایام میں خداوند خود اپنی اُمت کےلئے مقدس ہوگا۔وہ پھر اُنہیں اُن کی سرزمین میں بحال کرے گا۔ وہ اُس کی ساری نفرتی اشیا کو دورکرے گا اور اُنہیں گوشت کا دل اورنئی روح عطا کرے گا۔ تب وہ اُس کی راہوں میں چلیں گے (حزقی ایل ۱۱: ۱۶۔ ۲۰)۔

اس مقام میں یہوواہ خود مقدس کہلایا۔ اس پیش گوئیاں کے ساتھ( یسعیاہ ۴باب) کا مقابلہ کرو کہ خدا تنبیہ دے کر اپنی اُمت کو پاک کرے گا۔ اس میں( یرمیاہ ۳۰، ۳۱ باب) کی مزید تشریح ہے۔ الہٰی تعلیم پتھروں کی لوحوں کی بجائے خود دل پر جو صاف ہوگیا لکھی جاتی ہے۔ کسی مقامی ہیکل کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ ہر جگہ خدا خود اُن کا مقدس ہوگا ۔ خدا بلاہیکل کے بہتر ہے بہ نسبت ہیکل بلاخدا کے ۔ زربابل کے دنوں میں بحالی ہوئی اُس میں خدا کی ایسی آمد کا پتہ نہیں چلتا اس لئے اس کی تکمیل سیدنا مسیح میں ہوتی ہے۔



فصل دوم

دیودار کی عجیب شاخ

خدا کی سلطنت دیودار کے درخت کی شاخ کی طرح ہے جوایک بلند درخت ہے۔ کاٹ کر اسرائیل کے پہاڑ پر لگائی گئی اور وہ بڑھتے بڑھتے بہت عظیم الشان اوربلند ہوگئی ۔ (حزقی ایل ۱۷: ۲۲۔ ۲۴)۔

(زبور ۸۰ ؛میکاہ ۴باب )کی طرح یہاں بھی یہ خوبصورت تشبیہ یا مثال پیش کی گئی ۔ اس تشبیہ میں یہ دکھایا گیا کہ خدا کی سلطنت ایک نرم شاخ سے بڑھتے بڑھتے ایک عالیشان درخت بن گیا۔ شاخ سے مراد اسرائیل کا وفادار بحال شدہ بقیہ ہے۔ اس بقیہ کو مسیحی زمانے کی ساری برکتیں حاصل ہوں گی۔ اگرچہ قوم تباہ ہوگئی توبھی کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ بقیہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو سارے وعدوں کا وارث ہوگا۔مقابلہ کرو( متی ۱۳: ۳۱)سے۔

فصل سوم

مستحق بادشاہ

کاہن کا سربند اوربادشاہ کا تاج جاتا رہے گا۔اور سلطنت کھنڈروں کا ڈھیر رہے گی جب تک کہ وہ نہ آئے جس کو یہوواہ نے مقرر کیا ہے۔ (حزقی ایل ۲۱: ۲۵۔ ۲۷)۔

کاہن کے سربند اوربادشاہ کے تاج جاتے رہنے سے عہدے سے اُن کی معزولی مُراد ہے ۔ کچھ عرصہ کےلئے کہانت اور سلطنت جاتی رہے گی۔ موجودہ سلطنت مسیح کی سلطنت نہیں۔ آج کل جولوگ بحیثیت عہدہ کاہن اوربادشاہ ہیں وہ اس مسیحی تصور تک نہیں پہنچتے ۔ یہ دونوں برباد رہیں گے جب تک کہ یہوواہ کا مقرر کیاہوامسیح نہ آئے۔ بعض نے یہ سمجھا کہ یہاں (پیدائش ۴۹ )کے شیلو کی طرف اشارہ ہے۔ زربابل کی امارت (دولت مندی۔سرداری)اوریشوع کے ایام میں یہ پیش گوئی تکمیل کو نہ پہنچی۔ یہ توفنحاس کی کہانت اور داؤد کی بادشاہی کا گویا عکس تھیں کیونکہ ان کاہنوں کے اوریم وتمیم نہ تھے اور ان سرداروں کے ہاتھ میں حقیقی اختیار تھا۔ منجانب اللہ مقرر شدہ شخص صرف سیدنا مسیح ہے۔

حزقی ایل کی کتاب کے دوسرے حصہ میں کوئی پیش گوئی مسیحی زمانہ کے متعلق نہیں البتہ تیسرا حصہ قریباً سارا ایسی پیش گوئی سے بھرا پڑا ہے۔



فصل چہارم

وفادار گڈریا

خداوند اسرائیل کا وفادار گڈریا اپنی منتشر بھیڑوں کو بحال کرے گا اوراُن کو پھر اُن کے ملک میں پہنچائے گا اوراُن پر داؤد ثانی کو گڈریا مقرر کرے گا اور اُن کے ساتھ امن وبرکت کا نیا عہد باندھے گا۔ (حزقی ایل ۳۴: ۱۱۔ ۳۱)۔

یہوواہ اسرائیل کا گڈریا ہے اورجلاوطن اسرائیل اس کا گلہ ہے۔ وہ اُن کو جمع کرکے اُن کے قدیم بھیڑ خانے میں لائے گا۔ نبی کے دل میں (زبور ۸۰ ؛زکریاہ ۱۱باب) کا تصور تھا۔ یہاں سے اچھے گڈریے نے اپنی بھیڑوں کو پھر حاصل کیا اوراُن کے ساتھ نیا عہد باندھا۔ اس عہد کا نام امن کا عہد نامہ ہے کیونکہ اُس کے دوران میں جنگ وجدل نہ ہوگا بلکہ حیوانوں اورانسانوں میں بھی صلح ہوگی۔ فطرت کے ساتھ یہ عہد ویسا ہی ہے جس کا ذکر ہوسیع اوریرمیاہ کی کتابوں میں آیا تھا۔ اس گڈریے کو یہوواہ خود مقرر کرے گا۔

فصل پنجم

بڑی طہارت

اسرائیل اپنے ملک میں بحال ہوگا۔ ان پر صرف پانی چھڑکا جائے گا اور وہ پاک وصاف ہوں گے۔ وہ سنگین دل کی بجائے نیا دل اورنئی روح حاصل کریں گے۔ وہ ملک میں بڑے خوش وخرم رہیں گے۔ وہ سرزمین باغِ عدن کی طرح ہوگی۔ (حزقی ایل ۳۶: ۲۵۔ ۳۵)

حزقی ایل نے ظاہر کیا کہ اس بحالی کے ساتھ بڑی طہارت یا پاکیزگی ہوگی۔ پہلی فصل میں یہ پاکیزگی بذریعہ سیاست وسزا دکھائی گئی تھی مگر یہاں صرف پانی کے ذریعہ یہ پاکیزگی حاصل ہوگی۔ اوریہ غسل اورطہارت کاہنوں یا شرعی رسوم کے ذریعہ عمل میں نہ آئے گی بلکہ خود یہوواہ کے ذریعہ ۔ یہ قومی بپتسمہ ہوگا جس کے ذریعہ ساری قوم اندر اورباہر سے صاف ہوجائے گی ۔ بُتوں کی آلودگی اورہر طرح کی بدی کی آلائش(گندگی،آلودگی) جاتی رہے گی۔ سب کو نیا دل ملے گا۔ سنگین دل نکال دیا جائے گا اور نئی روح خود خدا کی طرف سے عطا ہوگی۔ یہ پاک شدہ قوم اُس پاک شدہ ملک میں بسے گی۔ فردوس بحال ہوگا اورکل زمین باغِ عدن کی طرح ہوگی۔ نبی کے دل میں آدم کی آزمائش اوراُس کے گرنے اور نوعِ انسان کے آغاز کا خیال تھا(پیدائش ۲: ۷)۔



فصل ششم

بڑی قیامت

اگرچہ قوم مردہ اورخشک ہڈیوں کے ڈھیر کی طرح ہے مگر خداوند کا روح اُنہیں زندہ کرے گا۔ اوراُن کے بہادری کی روح پھونکی جائے گی اور وہ ایک بڑی فوج بن جائے گی۔ (حزقی ایل ۳۷: ۷۔ ۱۴)۔

یہاں وہی خیال ہے جب خدا نے آدم کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور وہ جیتی جان ہوگیا۔ اسی طرح قومی قیامت ہوگی جس کا ذکر ہوسیع کی کتاب میں ہوا۔ یہاں اس مسیحی مسئلہ کا ذکر نہیں کہ سب لوگ مُردوں میں سے جی اٹھیں گے ۔ یہاں قومی موت اورقومی قیامت کا تصور ہے قوم اسرائیل مردہ تھی۔ وہ میدانِ جنگ میں ماری گئی ۔ وہ میدان مقتولوں کی ہڈیوں سے اٹا پڑا تھا۔ لیکن خدا کا وعدہ پورا ہوگا۔ یہ سوکھی ہڈیاں خدا کے روح سے زندہ ہوکر ایک بڑی فوج ہوجائے گی۔ یہ قومی قیامت نوعِ انسان کی قیامت کی ایک مثال تھی۔

فصل ہفتم

بڑ ا اتحاد

داؤ د ثانی کے وقت اسرائیل اوریہوداہ میں اتحاد ہوگا۔ ان کے ساتھ امن کا ایک نیا اور دائمی عہد کیا جائے گا اورخداوند کا مقدس کے درمیان ہمیشہ تک رہے گا۔ (حزقی ایل ۳۷: ۲۱۔ ۲۸)۔

اس میں ماقبل چند پیش گوئیوں کو ایک نئی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ اتحاد اسرائیل اوریہوداہ کے درمیان ہوگا۔ اسرائیل کی شمالی سلطنت پہلے اسیری میں گئی تھی۔اس کے بعد یہوداہ کے لوگ اسیر ہوکر گئے اب وہ دونوں حصے داؤد ثانی کے زمانہ میں متحد ہوجائیں گے جیساکہ ہوسیع نبی نے ظاہر کیا تھا۔ اس اتحاد کے وقت ایک نیا عہد اُن کے ساتھ باندھا جائے گا جوابد تک قائم رہے گا۔( حزقی ایل ۳۴باب) میں بھی اس قسم کا ذکر تھا کہ خدا کا مسکن ان کے ساتھ ابدتک رہے گا۔

فصل ہشتم

جوج کو سزا

جوج دنیا کے کناروں سے قوموں کو جمع کرکے ایک بڑی لڑائی کرے گا۔خداوند آکر ان سب کو برباد کرے گا۔ اورگندھک کا مینہ برسائے گا لیکن اپنی اُمت پر اپنا روح انڈیل دے گا اوراُن کو ان کی سرزمین میں بحال کرے گا۔


(حزقی ایل ۳۸، ۳۹باب)۔

اس پیشینگوئی میں نبی دیکھتاہے کہ بنی اسرائیل مقدس زمین میں پھر آباد ہوتے ہیں۔ وہاں وہ امن چین سے رہیں گے۔ لیکن آخری دنوں میں ان کی بختاوری (خوش قسمتی)دیکھ دوسری قوموں کو لالچ آئے گا کہ اُس ملک پرحملہ کریں۔ وہ لوگ جو قدیم ایام میں بڑے غارت گر گزرے ہیں اور وسط ایشیا کے تاتاری سوار جن کی طرف اشارہ صفنیاہ کی پیش گوئی میں پایا جاتاہے وہ نبی کی باطنی آنکھ کے سامنے آخری ایام کے دشمنوں کا نشان تھے۔ ان وحشی قبیلوں کے سرداروں کا سردار جوج ہوگا جو آندھی وطوفان کی طرح مقدس زمین پر لوٹ پڑے گا۔ان کے ساتھ دنیا کی دوسری قومیں بھی ہوں گی۔ مثلاً فارس ، مصر (کوش) لیبیا، گومر، توگرماہ، منتک اور توبال اس حملہ میں شامل ہوں گے۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے دوردراز ملکو ں سے بھی حملہ آور آئیں گے اوراس معصوم قوم کو ستائیں گے اوراس کے امن وامان کو تلف کردیں گے۔ ایسے جنگ کا ذکر یوایل کی نبوت میں بھی آیا ہے لیکن وہاں اس جنگ کا دائرہ تنگ تھا۔ وہاں وہ میدانِ جنگ یہوسفط کی وادی تھی یہاں اس جنگ کا میدان اسرائیل کا پہاڑ ہے۔ یہ حملہ آور بادلوں کی طرح ساری سرزمین پر چھاجاتے ہیں۔ لیکن یہوواہ اپنی اُمت کا محافظ ہے جوج اوراُس کا لشکر تباہ ہوجائیں گے۔

خداوند کی آمد کے وقت ایک بڑا بھونچال آئے گا جس سے بڑے بڑے ٹیلے او رپہاڑ گرپڑیں گے۔ پھر آندھی کا طوفان برپا ہوگا اورآسمان سے آگ ، گندھک اور اولوں کی بارش ہوگی۔ اس کے ذریعہ فوجوں میں ایسی کھلبلی مچ جائے گی کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے ۔ پھر رہے سہے لوگ مری سے تباہ ہوں گے اُن کی ہڈیاں اس کثرت سے ہوں گی کہ اسرائیل کا خاندان سات مہینوں تک ان کے دفن کرنے میں مصروف رہے گا اورلاشوں سے ایک بڑی وادی بھر جائے گی۔ اُن کے اوزار اس کثرت سے ہوں گے کہ زمیندار سات سالوں تک اُن کو ایندھن کی جگہ جلاتے رہیں گے۔ یہ شکست قطعی وآخری ہوگی۔ اس کے بعد نبی نے بحال شدہ اسرائیل کے محفوظ ہونے کا ذکر کیا۔ خدا کا روح اُن پر نازل ہوگا۔ اور وہ یہوواہ کو اپنا مخلصی دینے والا تسلیم کریں گے۔

اس پیشین گوئی میں ماضی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ نہیں یہ ایک طرح کا مکاشفہ ہے۔ اوراُس جنگ کی طرف اشارہ کرتاہے جوبحالی کے بعد ہوگا۔ اس جنگ کا ذکرپھر نئے عہدنامہ کی کتاب مکاشفہ میں ہواجہاں عالمگیر لڑائی کا ذکر ہے (مکاشفہ ۲۰: ۷۔ ۱۰)۔

فصل نہم

بحالی کی مقدس زمین

حزقی ایل نے اس سرزمین کا مفصل بیان کیا اوربتایاکہ کس طرح وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔کاہنوں ،لاویوں اوربادشاہ کو کونسا حصہ ملے گا مقدس شہر کا نام یہوواہ شمہ (خداوند وہاں)ہوگا ہیکل اوراُس کی شاندار ساخت اور قدوسیت کا ذکر ، کہانت ، صدوق کی وفادار اور مقدس نسل تک محدود ہوگی۔ اوراس کی رسمیات سابق رسمیات سے کچھ متفرق ہیں۔ ہیکل سے زندگی کے پانی کی ایک ندی بہ نکلے گی جوگہری اور تیزی ہوتی جائے گی۔ اس کے پانی سے نہ صرف بنجر زمین ہی زرخیز بن جائے گی بلکہ وہ مُردہ سمندر اوراُس کے کناروں کو بھی سوائے چند شور قطعوں کے زرخیز بنادے گی۔ اس ندی کے کناروں پر زندگی کے درخت لگے ہوں گے جن کے پتے شفا بخش ہوں گے۔ان پر ہر مہینے پھل لگیں گے عدن کا باغ اورنیا یروشلیم ملادئے گئے ہیں۔

حزقی ایل نے اپنی کتاب کے آخر میں ایسا بڑا نشان استعمال کیا ہے جو پہلے کسی نبی نے استعمال نہ کیا تھا۔ اس نے فردوس کے قصے ۔ بحال شدہ مقدس زمین ، سلیمان کی ہیکل اوربابل کی سلطنت اوربڑے شہروں کی عمارتوں یعنی جو اس کی قوم کی نظر میں نیز تاریخ میں سب سے عالیشان منظر تھے اکٹھا کردیا تاکہ بحالی کی مقدس سرزمین کی شان وشوکت کوکسی طرح ظاہر کرسکے۔

زمانہ حال کے بعض علماء (حزقی ایل ۴۰ تا ۴۹ ابواب) کو مسیحی زمانہ سے متعلق نہیں سمجھتے۔ اور بعض صرف(حزقی ایل ۴۷: ۱۔ ۱۲ )کو مسیحی زمانہ سے متعلق سمجھتے ہیں۔

جس ہیکل کا ذکر حزقی ایل کی کتاب میں ہے وہ ایک نہایت بلند پہاڑ پر واقع ہے جیساکہ میکاہ اوریسعیاہ نے بیان کیا یہ شہر کی طرح ایک شاندار عمارت ہے۔ اس کے چاروں طرف فصیل(دیوار) ہے۔ اس کی پیمایش وغیرہ کا بیان(حزقی ایل ۴۵باب )میں ہوا۔ یہ مقدس سرزمین بحیرہ شام کے ساحل پر حامات سے لے کر مصر کے دریا تک اوریردن کے مغرب کی طرف ہے۔

اس نئی ہیکل کے تقدس پر بہت زوردیا گیا۔



دسواں باب

جلاوطنی میں نبیانہ آوازیں

جب شاہ بابل نبوکدنضر نے یروشلیم کو برباد کیا اوراُس کے باشندوں کو اسیر کرکے لے گیا توایسا معلوم ہوا کہ گویا یہودی قوم مرگئی اور اُن کا مذہب فنا ہوگیا۔اس وقت خدا نے ایک بڑا نبی برپا کیا۔ اسی نبی کا نام (اگریہ یسعیاہ نہ ہو تو) بتایا نہیں گیا۔ اس کی نبوتیں جلاوطنوں میں مشہور کی گئیں اورنظم کی صورت میں جمع ہوئیں یعنی (یسعیاہ ۲۰۔ ۲۶باب تک ۔ شاید ۱۳، ۱۴، ۳۴، ۳۵ باب )بھی اسی مصنف کے ہیں۔

جب یہوداہ اسیر ہوکر جلاوطنی میں گئے۔تم موآب اورادوم وغیرہ قوموں کے ظلم کے باعث ان کی مصیبت میں بڑا اضافہ ہوگیا۔ یہ لوگ بابل سے مل کر یہودیوں کو ستاتے رہے۔اس لئے یہ طبعی نتیجہ تھا کہ بحالی سے ان قوموں کی سزا کا تصور ملحق ہو۔ جلاوطنی کے اوائل ایام میں ایسی چند پیش گوئیاں اُن نبیوں نے کی جن کی آنکھوں کے سامنے شہر یروشلیم برباد ہوا۔ ان میں( یسعیاہ ۲۴تا ۲۷ابواب) کا مکاشفہ خاص اہمیت رکھتاہے۔ پُرانے عہدنامے میں یہ سب سے نفیس اوراعلیٰ نظم ہے۔

فصل اوّل

بڑے دارالخلافے کی بربادی

بابل کی تباہی اورموت وغم کا نیست ونابود ہونا۔

اس مکاشفہ میں قوموں کی سزا کا نقشہ دیا گیا ہے جن میں موآب اور دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں مثلاً بابل کے لویاتان اورمصر کے اژدہا کا خاص طور سے ذکر ہوا۔

زمین ایسی لڑکھڑاتی ہے جیسے نشہ میں چور انسان ۔یہ تباہ اوراجاڑ ہوگئی ۔ اس کے باشندے منتشر ہوگئے۔ دنیا کے بادشاہوں اور آسمان کی بد طاقتوں کو قید خانے میں بند کرکے سزا دی گئی ۔ شریر ظالم ہمیشہ کےلئے برباد ہوئے لیکن اسرائیل کی لاش خداوند سے تعلق رکھتی ہے۔ زندگی کا نور اُن کے مردہ بدنوں کو زندگی بخشے گا اوراُن کی روحیں پاتال (شیول) سےباہر نکلیں گی۔ موت اور غم ہمیشہ کےلئے نیست ہوگاجہاں جہاں لوگ جلاوطن ہوکر گئے تھے وہاں سے وہ ایک ایک کرکے جمع ہوں گے اور کوہ صِیّون میں واپس آئیں گے۔ وہاں وہ ساری قوموں کے ساتھ مل کر اس ضیافت میں شریک ہوں گے جو خداوند نے اُن کےلئے تیار کی ہے۔

(۲۴سے ۲۷)تک۔

اس کے بعد کسی بڑے نبی نے پیش گوئی کی کہ مادی لوگ فارس کوبرباد کریں گے اوردنیا کو سزا ملے گی۔( یسعیاہ ۱۳تا ۱۴: ۲۳)۔ یہ اس سزا کا پیش خیمہ ہے جو خورس بادشاہ کے ذریعہ بابل کوملی (یسعیاہ ۴۰تا ۴۸)۔ اسی قسم کی پیش گوئیاں دوسرے پہلے نبیوں نے بھی کی تھیں۔ مثلاً یوایل، صفنیاہ اورحزقی ایل نبیوں نے (یوایل ۴: ۹؛ یرمیاہ ۲۲: ۷؛ ۵۱: ۲۷۔ ۲۸ ؛ صفنیاہ ۱: ۷)۔


پھر ایک اور مکاشفہ کسی دوسرے نبی کا (یسعیاہ ۳۴۔ ۳۵باب) میں پایا جاتا ہے ۔یہ ماقبل مکاشفہ سے طرز تحریر میں مختلف ہے ۔یہ اُس مکاشفہ سے مشابہ ہے جو (یسعیاہ ۴۰۔ ۶۶)تک میں مندرج ہے ۔ ماقبل مکاشفہ میں بڑا دشمن بابل تھا جس کے ساتھ مصر اور خاص کر موآب شامل تھے ۔اس مکاشفہ میں ادوم کا ذکر ہے اور اس کو خاص سزا ملتی ہے۔

فصل دوم

خُداوند کا لہو میں غسل کرنا

اس مکاشفہ میں زمین کی عدالت کی تصویر ہے ۔عدالت ایک بڑامقاتلہ(قتل،خوں ریزی)ہے ۔ادوم میں خُداوند گویا خون میں غسل کرتا ہے ۔آسمان وزمین مقتولوں کی لاشوں اور خون سے بھر گئے۔آسمان وزمین طوماروں کی طرح لپیٹے گئے اور اُن کے لشکر درختوں کے پتوں کی طرح مرجھا گئے۔ (یسعیاہ ۴۴: ۱۔۱۰)۔

پہلی چند پیش گوئیوں میں بھی ایسے مقاتلہ کا ذکر ہوا(یوایل ۴: ۱۸۔۲۱؛ حزقی ایل ۳۸، ۳۹ باب)لیکن یہاں اس مقاتلہ کی خوفناک تفصیل دی گئی ہے۔ پہاڑوں سے خون بہ نکلتا ہے اور زمین لاشو ں سے بھر جاتی ہے ۔

وہ دیگر تشبیہیں بھی استعمال ہوئی ہیں ۔طومار کی طرح آسمانوں کا لپٹا جانا اور اجرام فلکی کا درخت کے پتوں کی طرح مرجھا جانا ۔اس قسم کی تشبیہ (متی ۲۴: ۲۹ ؛ مکاشفہ ۶: ۳) میں بھی پائی جاتی ہے ۔ ادوم کی خاص سزا ویسی ہے جیسی سدوم اور عمورہ کو ملی تھی(پیدائش ۱۹: ۲۴۔۲۸)۔

زمین کی تباہی کے بعد وہ ازسرنو تیار ہوگی جیسا کہ( یسعیاہ ۳۵) میں ذکر ہوا۔ادوم کی سزا کا ذکر دو دیگر پیش گوئیوں میں بھی پایا جاتاہے ۔ ایک تو (یسعیاہ ۶۳: ۱۔۶) میں درج ہے۔ اسی کا قرینہ سے کچھ تعلق نہیں ،اس لیے اس کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے۔

دیگر پیش گوئیوں کی طرح ادوم یہاں خُدا کے دشمنوں کا نشان ہے۔ خُدا نے اس قوم کو ایسی سزا دی کہ اُن کے خون سے خداوند نے گویا غسل کیا۔ ادوم کا فتح کرنے والا خود خداوند ہے چنانچہ(مکاشفہ ۱۹: ۱۳) میں یہی پیش گوئی مدنظر ہے ۔یہ خُدا کے بندے کی پیش گوئی ہے اور یہ بندہ دراصل خود خداوند ہے۔

ادوم پر فتح پانے کی ایک پیش گوئی عبدیاہ کی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ عبدیاہ کے زمانے کے متعلق علما کی رائے مختلف ہے ۔بعضوں نے سمجھا کہ انبیائے اصغر میں یہ سب سے پہلے تھا جس کی نبوتوں کو یوایل اور یرمیاہ نے استعمال کیا ۔ (عبدیاہ ۱۔۴ ؛یرمیاہ ۴۹: ۱۴)ہمدگر(آپس میں) بہت مشابہ ہیں ۔ بہت پیش گوئیوں میں ادوم خداکے دشمنوں کی ایک مثال ہے (نوحہ کی کتاب ۴: ۲۱۔۲۲؛ حزقی ایل۲۵: ۸، ۱۲۔۱۴؛عبدیاہ ۱۔۲۱؛ یرمیاہ ۴۹: ۷۔۲۲؛ یسعیاہ ۶۳: ۱۔۴)۔

(عبدیاہ ۱۵)میں خداوند کے دن کا ذکر ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرو (یوایل۱: ۱۵؛ صفنیاہ ۱: ۱۴) کا۔ اس پیش گوئی میں یہ خاص بیان ہے کہ مقدس زمین قطعہ بہ قطعہ پھر آباد ہوگی ۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرو(زبور ۸۰؛ حزقی ایل ۴۹ باب )کا۔

فصل سوم

فطرت کی تبدیلی

اس مکاشفہ (یسعیاہ ۳۴۔۳۵ باب )کی دوسری فصل پہلی فصل کے بالمقابل ہے ۔پہلی فصل میں ذکر تھا کہ زمین بگڑگئی اور وہ ویران اور سنسان ہوگئی ۔ا س دوسری فصل میں یہ ذکر ہے کہ وہ ویران اور سنسان جگہ بدل کر ایک باغ بن جائے گا ۔

مخلصی یافتہ لوگوں کےلئے ایک شاہراہ تیار کی گئی تاکہ وہ اپنے ملک کو واپس آئیں ۔ وہ ویرانہ سے باغ میں منتقل ہوگئی ۔ ہرطرح کی برائی وہاں سے نکال دی گئی ۔ غم جاتا رہا اوراس کی جگہ دائمی خوشی نے لے لی۔

یہاں مخلصی یافتہ لوگوں کی سرزمین کی اعلیٰ تصویر پیش کی گئی ہے۔ حزقی ایل کی کتاب میں بھی زمین کی زرخیزی کا ذکر ہوا۔( حزقی ایل ۳۴: ۲۵۔ ۲۷، ۳۶: ۳۵؛ ۴۷: ۱۲)۔ لیکن جیسی تفصیل مذکورہ بالا پیش گوئی میں دی گئی وہ ماقبل پیش گوئیوں میں پائی نہیں جاتی ۔ اس لئے پیش گوئی (یسعیاہ ۴۰۔ ۶۶ باب) کی بنیاد ہے ۔خداوند کی آمد ان ساری برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ اُس کے آنے پر فطرت کی شکل بدل جائے گی۔ اس کے غضب سے زمین ویران ہوگئی تھی لیکن اب وہ پھر آباد ہوتی ہے۔ فلسطین کے زرخیز حصے مثلاً لبنان، کرمل، اور شرون کی طرح سارا ملک زرخیز ہوگا۔ انسان کی بدنی تکلیفیں جاتی رہیں گی ۔ اندھے لنگڑے اور گونگے شفا پائیں گے ۔ گناہ کا نام ونشان نہ رہے گا۔ ایک شاہراہ بن جائے گی جس کے ذریعہ سارے مخلصی یافتہ لوگ خدا کے باغ میں آئیں گے۔

فصل چہارم

بڑا دکھ اٹھانے والا

دیندار اسرائیلیوں کےلئے جلاوطنی ایک سخت تجربہ تھا۔ مصر ی غلامی بھی اُس کے آگے ماند تھی۔ مقدس سرزمین خدا کی اُمت کے گناہ اور حماقت کے باعث اُن کے ہاتھ سے چھین گئی ۔ لوگ مایوس تھے کہ جن برکتوں کے وارث تھے اُن سے وہ محروم کردئے گئے ۔یہ دیندار لوگ سب سے زیادہ مصیبت محسوس کرتے تھے۔ ایسے حالات سے دکھ اٹھانے والے مسیح کا تصور پیدا ہوا۔ مخلصی کا مسئلہ پیچیدہ ہوگیا کیونکہ نہ صرف گنہگاروں کو تکلیف پہنچی بلکہ دینداروں کو بھی ایسے دکھ کی پیش گوئی اُس وعدہ میں پائی جاتی ہے جوحوا سے کیا گیا تھا کہ وہ تیری ایڑی کو کاٹے گا اور تو اُس کے سر کو کچلے گی ۔ یہ فتح دکھوں کے وسیلے حاصل ہوتی ہے۔ ابراہیم کے ساتھ جوعہد ہوا اُس میں بھی اس کا ذکر ہے اور داؤد کے ساتھ عہد میں بھی۔جوحال ابراہیم کی نسل کا مصر میں ہوا وہی داؤد کی نسل کا بابل کی جلاوطنی میں ہوگا۔

جلاوطنی کے ایام کے بعض مزامیر میں اس بڑے دکھ اٹھانے والے کا ذکر ہوا اور وہ سوائے مسیح کے اورکون ہوسکتاہے؟

زبور ۲۲

اس مزمور میں ایک دکھ اٹھانے والے کاذ کر ہے جوہاتھ پاؤں پھیلائے ہوئے ایک کمزوربدن ہے۔ اُس کے ہاتھ پاؤں چھیدے ہیں۔ ظالم دشمنوں سے گھرا ہے جو اس پر ہنستے ہیں کیونکہ اُس نے خدا پر بھروسہ رکھا۔ اُس کے کپڑوں کو لوگوں نے آپس میں بانٹ لیا۔ ایسا معلوم ہواکہ خدا نے اُسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ موت کی خاک میں جابیٹھا ہے پھر اس نے رہائی پائی اور قربانیوں کے ذریعہ اپنے رہائی دینے والے کی تعریف کی۔ اُس میں اسرائیل کی بڑی جماعت شریک ہوئی زمین کے کناروں کو دعوت دی گئی کہ خداوند کی طرف پھریں۔ کوئی شخصی ایسی تکلیفوں میں نہیں پڑا۔ سوائے سیدنا مسیح کے۔ایسے دکھ اٹھانے والے کا ذکر (زبور۴۰، ۶۹، ۷۰ )میں بھی پایا جاتاہے۔

ان مزامیر میں ایک ایسے دکھ اٹھانے والے کا ذکر ہے۔جو سراسر خدا کی خدمت میں مصروف تھا ۔ اُس نے خدا کی خدمت کےلئے دکھ اٹھایا۔ وہ خدا کے گھر کے لئے غیرت مند تھا۔ وہ روزہ رکھتا اور دعا مانگتا ہے تو بھی خدا نے اُسے ترک کرکے اس کے دشمنوں کے قبضے میں چھوڑدیا۔ ان دشمنوں نے اس سے سخت کلامی اوربدسلوکی کی۔ وہ گڑھے میں ڈالاگیا اوراُس کی جان معرضِ خطر میں تھی۔ اسے سخت پیاس لگی اور شکستہ دل ہوکر موت کے قریب جاپہنچا۔ اُس پر کسی نے رحم نہ کیا۔ اس کے غریبوں نے بھی اُسے ترک کردیا۔ شریروں نے اُسے حقیر جانا اوراُسے سرکہ اورپت پینے کودیا لیکن آخر کار اس صبروتحمل کی اُسے جزا ملی۔ اُس کے دشمنوں پر سخت فتویٰ دیا گیا۔ اس نے اپنی رہائی کا اعلان بڑی جماعت میں مشتہر کیاجس کو سن کر حلیم لوگ خوش ہوگئے ۔

اس مزمور میں یرمیاہ کا تجربہ مدنظر ہے۔



گیارھواں باب

خداوند کے بندے کے بارے میں پیشینگوئی

(یسعیاہ ۴۰سے ۶۶ابواب )تک جلاوطنوں کےلئے تسلی اور خوشی کی کتاب ہے جس میں وعدہ ہے کہ خداوند اسرائیل کو قید سے چھڑانے اوراُن کو اُن کی مقدس زمین میں بحال کرنے کو آئے گا۔ (یسعیاہ ۳۴، ۳۵ باب) اس کا گویا پیش خیمہ ہیں صرف عدالت ومخلصی کی ترتیب میں فرق ہے۔ قوموں کی عدالت بابل کی عدالت سے الگ کی گئی اورنئے یروشلیم کے بیان سے ملادی گئی ۔ یہ مصنف نبوت کی اعلیٰ چوٹی پر بیٹھاہے۔ جتنی پیش گوئیاں اس مصنف نے جمع کیں کسی اور پہلے نبی نے نہیں کیں۔اس کو ہم سب سے زیادہ انجیلی نبی کہتے ہیں کیونکہ اس کتاب میں نئے عہد کا بہت مفصل بیان ہواہے۔ پہلے تواس نے کُل جلاوطنوں کا تجربہ بیان کیا۔ پھر نبیوں کا تجربہ ۔ پھر خاص کر خداوند کے بندہ کا پردرد تجربہ ۔

اس نبوت کے تین حصے ہیں۔ ہر حصہ نوحصوں پرمنقسم ہے اورہر حصہ کے آخر میں ایک ہی قسم کا جملہ آتاہے۔ خداوند فرماتاہے کہ شریروں کے لئے سلامتی نہیں (۴۸: ۲۲؛ ۵۷: ۲۰۔ ۲۱؛ ۶۶: ۲۴)۔ خداوند کی آمد اوربابل سے رہائی کا ذکر باربار آیا ہے (۴۲: ۱۴۔ ۱۷؛ ۴۸: ۲۰ ۔ ۲۲ ؛ ۵۲: ۱۱۔ ۱۲؛ ۵۷: ۱۴۔ ۲۱؛ ۶۲: ۱۰۔ ۱۲)۔

ایک طرح سے اس کے پانچ حصے ہیں۔

(۱۔)۴۰سے ۴۱: ۱۰تک اور ۴۱: ۱۳سے ۴۲: ۱۳تک

(۲۔)۴۲: ۱۸سے ۴۴: ۲۳تک

(۳۔)۴۸: ۱سے ۱۱، ۴۹: ۱سے ۱۳تک ۔

(۴۔)۵۲: ۱۳سے ۵۳تک اور ۵۵باب۔

(۵۔)۵۸، ۵۹، ۶۱ابواب۔

ان حصوں کے آخر میں چھوٹے چھوٹے گیت جیسے آتے ہیں۔ ان گیتوں کا عام مضمون خداوند کے بندے کی مخلصی ہے۔ اوراس امر کے بارے میں علما میں اختلاف ہے کہ یہ بندہ کون ہے۔ ان مسیحی پیش گوئیوں میں یہ نیا تصور ہے ۔اس نبی نے مخلصی کے مسئلہ کی بہت کچھ تشریح کردی ۔

موسیٰ اور داؤد کو بہت مقامات میں خداوند کے بندہ کا لقب دیا گیا(استثنا ۳۴: ۵ ؛یرمیاہ ۳۳: ۲۱)۔ لیکن یہ لقب انہی پر محدود نہیں بلکہ یشوع ، ایوب ، دانی ایل اور زوربابل بھی خداوند کے بندے کہلاتے ہیں۔ یرمیاہ اور حزقی ایل نبیوں نے یہ لقب کل اسرائیل کےلئے استعمال کیا(یشوع ۲۴: ۲۹؛ ایواب ۱: ۸؛دانی ایل ۶: ۲۱؛حجی ۲: ۲۳؛یرمیاہ ۳۰: ۱۰؛ ۴۶: ۲۷، ۲۸ وحزقی ایل ۳۷: ۲۵)اس میں کچھ شک نہیں کہ اسرائیل بحیثیت مجموعی خداوند کا برگزیدہ بندہ تھا (یسعیاہ ۴۱: ۸۔ ۱۰)۔ یہاں اسرائیل کا مقابلہ بت پرستوں سے کیا گیا۔ مشرق سے جو حملہ آورآرہا تھا اُس سے بُت پرست ڈرتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کو ڈرنے کا اندیشہ نہیں۔ اب اسرائیل خداوند کا بندہ کہلایا جیسے پہلے وہ خداوندکا بیٹا کہلایا تھا۔ لفظ" بندہ" عام ہے اس لئے جن مقامات میں یہ لفظ آیاہے وہاں ہم اُس کی تشریح کریں گے۔



فصل اوّل

وہ بندہ جس سے خداوند خوش ہے

خداوند اپنے بندے اسرائیل کا مخلصی دینے والا ہے۔ وہ اُس کے آگے بیابان کو فردوس بنادے گا اوراُس کی ساری ضروریات مہیا کرے گا۔ اُس نے ایک بندے کو برپا کیا جس سے وہ خوش ہے ۔ اُس کو اُس نے اپنا روح عطا کیا۔ یہ بندہ کمزوروں سے حلم کے ساتھ سلوک کرتاہے اورجہان کے تعلقات میں بہت حلیم ہے لیکن وہ اسیروں کو مخلصی دے گا۔ وہ اسرائیل کےلئے عہد اور غیر قوموں کےلئے نور ہوگا(یسعیاہ ۴۱: ۱۵۔ ۲۰؛ ۴۲: ۱۔ ۱۳)۔

اس دوسرے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ بندہ قوم اسرائیل سے متفرق ہے کیونکہ وہ اسرائیل کےلئے ایک عہد ہے۔ مقابلہ کرو(متی ۱۲: ۱۷)سے ۔ اُس نے اسرائیل کے اور دیگر قوموں کےلئے کچھ کام کرنا ہے۔ یہ عہدوہی نیاعہد ہے جس کا ذکر یرمیاہ اورحزقی ایل نے کیا تھا۔ یہ غیرقوموں کےلئے نور ہے یعنی اُن کی ہدایت وتعلیم کےلئے ۔ اسی لئے قوم اسرائیل کاہنوں کی سلطنت کہلاتی تھی۔ یہ بندہ بادشاہ نہیں بلکہ ایک نبی اورساتھ ہی مخلصی دینے والا بھی ہےکیونکہ اُس نے اسیروں کو قید سے چھڑایا۔ اس عہدے کے لئے خدا نے اُس کو الہٰی روح سے ممسوح کیا جیسے کہ مسیح بادشاہ کو ممسوح کیا تھا۔ یہ بندہ خدا کو مقبول وپسند ہے اس لئے گناہ آلودہ اوربرگشتہ اسرائیل سے متفرق ہے۔ اس کا واسطہ کمزوروں اور فنا ہونے والوں سے پڑتاہے ان کو ٹوٹے ہوئے سرکنڈے اورجلی ہوئی سن سے تشبیہ دی گئی ۔

پس اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ خداوند کا بندہ کون ہے؟ زمانہ حال کے مفسروں کی یہ رائے ہے کہ یہ کامل اسرائیل کا تصور یانمونہ ہے۔ یعنی چیدہ دیندار حصہ اسرائیل کا یہاں خداوند کا بندہ کہلایا۔ ایک اور عالم نے اس خیال کو مخروطی مینار کی تشبیہ سے یوں ظاہر کیاکہ اس مینار کا قاعدہ توکل اسرائیل ہے۔ اس کا وسطی حصہ برگزیدہ اسرائیل اوراس کی چوٹی وہ مسیح ہے جو اسرائیل میں سے ہے لیکن وہ اسرائیل کا درمیانی بھی ہے۔

اس مسیحی تصور کی نشوونما ہم نے دکھادی۔ کل نوع انسان میں سے ایک بیج یا نسل نکلی۔ پھر وہ نسل ابراہیم کے خاندان میں محدود ہوئی ۔ رفتہ رفتہ داؤد کے خاندان میں اورپھر خود مسیح میں۔

یہ لفظ بیٹا پہلے پہل کل قوم اسرائیل کےلئے استعمال ہوا۔ پھر داؤد کی نسل بیٹا کہلائی اورآخر کار مسیح بادشاہ۔

اسی طرح یہ لقب " بندہ" پہلے کل اسرائیل کےلئے استعمال ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ اُس نبی میں اس کی تکمیل ہوئی جس کو ہم مسیح کہتے ہیں ۔ مصنف کے دل میں موسیٰ ، داؤد اور یرمیاہ کا خیال تھا لیکن یہ تصور اُن میں اُس وقت تک پورا نہ ہوا جب تک کہ مسیح کا ظہور نہ ہوا۔



فصل دوم

خداوند اپنے بندے اسرائیل کو چھڑاتاہے

خداوند اپنے بندے اسرائیل کو اُن کی جلاوطنی میں سے جمع کرئے گا۔ وہ اُن کے سارے گناہ مٹاڈالے گا۔ وہ آگ اورپانی میں سے گزریں گے( یسعیاہ ۱۱)سے مقابلہ کرو اور زکریاہ کے مصیبت کے دریا سے (لال سمندر میں سے گزرنا)لیکن اُن کو کچھ گزند (صدمہ، تکلیف)نہ پہنچے گا۔ وہ اُن کےلئے بیابان میں شاہراہ تیار کرے گا اوربیابان کو بدل کر باغ عدن بنادے گا۔ وہ ان کی نسل پر روح نازل کرے گا اور وہ پھلدار ہوں گے۔ اور یعقوب کا نام بطور عزت کے لقب کے اختیار کیا جائے گا۔

(یسعیاہ۴۳: ۱۔۷؛ ۴۳: ۱۶۔ ۲۱؛ ۴۴: ۱۔ ۵)۔

یہ آخری بیان یوایل اور حزقی ایل کی نبوتوں کے مطابق ہے اور(یسعیاہ ۱۹باب )کے مطابق کہ مصر اور اسور اسرائیل کا لقب اختیار کریں گے (زبور ۷۸ )کے مطابق۔

اس فصل کے آخر میں گناہ سے رہائی کی پیش گوئی اور تعریف کا گیت ہے(یسعیاہ ۴۴: ۲۱۔ ۲۳)۔

فصل سوم

اس بندہ کی اعلیٰ بلاہٹ

خداوند کا بندہ یعقوب کے فرقوں کو برپا کرنے کےلئے ماں کے بطن ہی سے بلایا گیا ۔ اولاً وہ خاکساری کی حالت میں چھپا رہے گا ۔لیکن آخر کار بادشاہ اور شہزادے اُس کی عزت کریں گے۔ وہ اسرائیل کو اس کی میراث پربحال کرے گا اور قوموں کےلئےنور ونجات ہوگا۔ جلاوطن اسرائیلی دوردور ملکوں سے واپس آئیں گے۔ خداوند خود اُن کی رہبری کرے گا۔ وہ آئندہ بھوک پیاس یاگرمی سے دکھ نہ اٹھائیں گے کیونکہ فطرت یا نیچر خود بدل کر ان کے لئے شاہراہ بن جائے گی ۔

(یسعیاہ ۴۹باب؛ ۵۲: ۱۳۔ ۱۵)۔

گذشتہ فصل کی نسبت اس فصل میں خداوند کے بندے کے تصور میں کچھ ترقی پائی جاتی ہے۔ وہاں تویہ ذکر تھاکہ اس کا خدا کے روح سے مسح ہوا(یسعیاہ ۴۴: ۱)۔ یہاں وہ ماں کے بطن ہی سے بلایا گیا اوراُس کی پیدائش سے پہلے اُس کی خدمت مقرر ہوئی ۔ وہاں وہ تیز داؤ نےوالا اوزار تھا۔ یہاں وہ تیز تلوار ہے جو خدا کے ہاتھ میں چھپی ہے(یسعیاہ ۴۱: ۱۵)۔

یہاں ہمیں( یسعیاہ ۱۱: ۴ )کی وہ شاخ یادآتی ہے جس کا منہ عصا تھا اورجس کی سانس شریروں کو بھسم کرتی تھی(یسعیاہ ۱۱: ۴)۔

اس فصل میں یہ خیال ہے کہ وہ ذلت اورخاکساری کی حالت میں پیش کیا گیا۔ وہ تو غلام ہے ۔ وہ غیر قوم بادشاہوں کا اسیر ہے ۔ اس سے لوگ نفرت کرتے ہیں ۔ لیکن اُس کی یہ خاکساری اُس کے جلال پر ایک نقاب تھی۔ یہ تلوار اپنی آب وتاب دکھاتی اوریہ تیرا پنے نشانے پر بیٹھتاہے اوربادشاہ اُس کی عزت کرنے لگ جاتے ہیں۔


یہاں یہ بندہ اسرائیل سے متفرق ہے۔ اس لئے یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ بندہ کوئی نبی ہے یا اسرائیل کا محض تصور ؟ ہمارے خیال میں یہ مسیح نبی ہے جویرمیاہ کی طرح اپنی ماں کے بطن سے بلایا گیا (یرمیاہ ۔۱: ۵)۔یہ نبی یعقوب ثانی ہے جیسے مسیح دیگر مقامات میں آدم ثانی ۔ موسیٰ ثانی اور داؤد ثانی کہلایا۔ یہ اشخاص یکے بعد دیگرے (ایک دوسرے کے بعد)مسیح کا نشان ٹھہرے۔

فصل چہارم

ناہ اٹھانے والا بندہ

خداوند کا یہ بندہ دکھ اٹھانے والا ہے۔ اس کی شکل بھی دلکش نہیں۔ وہ حقیر اوررد کیا جاتاہے ۔ وہ مردِ غمناک اورخارج شدہ ہے۔ اگرچہ وہ برہ کی طرح معصوم ہے توبھی وہ چھیدا گیا۔ اُس نے کوڑے کھائے اوراپنی اُمت کےلئے کچلا گیا۔ خداوند اُس پر بطور خطا کی قربانی (عبرانی ۔آشام)کے سبھوں کی بدکاریاں دھردیتاہے۔ وہ سب کا قائم مقام ہوکر دکھ اٹھاتاہے۔بعد ازاں وہ سرفراز ہوا اوراُس کے صلہ میں اس کوفتح کی لوٹ ملی۔ اپنی خدمت میں وہ بہرہ ور ہوا اوراُس نے بڑی عزت حاصل کی۔

(یسعیاہ ۵۳باب)

یہ اس اصلی نبوت کی چوتھی فصل ہے۔ اس میں اس مسیح بندہ کا تصور اعلیٰ درجہ تک پہنچتاہے۔ پہلی فصل میں اس بندے کی نرمی اورحلم پر زوردیا گیا اوریہ بتایا گیا کہ یہ نہ کمزور ہوگا اورنہ توڑا جائے گا جب تک کہ اپنے کام کو سرانجام نہ دے۔دوسری فصل میں یہ بندہ قوم اسرائیل ہے۔ تیسری فصل میں یہ ذکر ہوا کہ یہ بندہ کچھ عرصے کےلئے اپنی ذلت وخاکساری میں چھپا رہے گا ۔ پھر خداوند اُس کو مخلصی کا کام سرانجام دینے کےلئے ظاہر کرے گا۔ اس فصل میں اس بندے کے دکھوں کا ذکر ہے کہ وہ مخلصی کا وسیلہ ہیں۔ زبور میں جس دکھ اٹھانے والے مسیح کا ذکر تھا اس سے یہاں کچھ زیادہ ترقی دکھائی گئی ۔ یہاں یہ بندہ گناہ اٹھانے والا ظاہر کیا گیا۔جو اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچائے گا۔

مضمون کی ترتیب یہی ہے جو(زبور ۴۰) میں دی گئی ۔ یہاں یہ دکھایا گیا ہے کہ اُس کو سرفرازی حاصل ہوئی جسے دیکھ کرقومیں اوربادشاہ دنگ رہ گئے ۔

یہ کونپل ایک جڑ کی طرح خشک زمین میں سے پھوٹ نکلتی ہے۔ اس کا آغاز توپستی میں ہوا لیکن ترقی حیرت انگیز ہوئی ۔ یہ ہمیں اُس پھلدار شاخ کی یاددلاتی ہے جو یسی کی جڑ اورتنے سے نکلتی ہے (یسعیاہ ۱۱: ۱) اوردوسری طرف اس امر کی کہ خداوند نے اپنے بندے کوچھپایا(یسعیاہ ۴۹: ۱۲) لوگوں نے اُس کےساتھ ایسا سلوک کیاجیسے کسی کوڑھی سے کرتے ہیں۔

اس نبوت کے تیسرے حصے میں ان دکھوں کی وجہ بتائی گئی کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث دکھ نہیں اٹھارہا بلکہ اپنی اُمت کے گناہوں کےلئے ۔ وہ ان کی جگہ اور بطورقائم مقام کے دکھ اٹھاتاہے۔ وہ چھیدا گیا۔ اس پر کوڑے پڑے وہ کچلا گیا اوراُس کو سخت ایذادی گئی ۔ ظلم اور بے انصافی کے باعث اُس کا غم زیادہ بڑھ گیا۔ یہ گناہ اٹھانے والا بندہ سوائے نبی کے اور کون ہوسکتا ہے ؟نبوت کرنے والا شخص تواپنے تئیں دوسروں کے ساتھ کھوئی ہوئی بھیڑوں میں شمار کرتاہے جن کے گناہوں کو اس بندے نے اٹھایا۔


آخر کار اس بندے کی موت واقع ہوتی ہے اوراس کو بھیڑ کی قربانی یا شہید کی موت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ موت بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ کسی نبی کی موت ہے۔ اگرچہ قومی موت اور قومی قیامت کا تصور مسیحی پیش گوئیوں میں کئی دفعہ ہوا لیکن وہ قومی موت جائز سزا کے طورپر تھی۔ لیکن یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ بندہ دوسروں کے گناہوں کےلئے مارا جاتاہے ۔ وہ خود معصوم ہے ۔ یہ موت خدا کی تجویز مخلصی کا جز ظاہر ہوتی ہے۔ یہ موت اُمت کے لئے خطا کی قربانی کے طورپر ہے۔اس موت کے بعد اُس بندے کی سرفرازی شروع ہوتی ہے ۔اگرچہ اس کی قیامت کا خاص ذکر نہیں لیکن یہ بیان اُس پر دلالت کرتاہے کیونکہ اس کی خدمت کا اجرملتا ہے ۔ اس پیش گوئی کی تکمیل سیدنا مسیح کی موت میں اُس کے جی اٹھنے اورآسمان پر صعود کرنے میں ہوئی ۔

فصل پنجم

بڑی دعوت

ایک بڑی دعوت سبھوں کو دی جاتی ہے کے نئے عہدنامہ کی برکتوں کو مفت حاصل کریں۔ یہ خدا کی اُن رحمتوں کی تصدیق ہے جن کا یقین داؤد اور اُس کی نسل کو دلایا گیا۔ خداوند کا کلام ویسا ہی مستقل ہے جیسے آسمان ۔ یہ کلام اُس کا مقصد پورا کرے گا اور کل خلقت اُس کی اُمت کی مخلصی سے خوشی منائے گی ۔(یسعیاہ ۵۵باب )مقابلہ کرو( یرمیاہ ۳۳؛ حزقی ایل ۳۴باب )سے ۔

اس نبوت میں مخلصی کے نئے عہدنامہ کا مفصل ذکر ہوا ۔ یہ عہد اُن رحمتوں کی تصدیق ہے جن کا وعدہ خدا نے ناتن نبی کے ذریعہ داؤد اوراُس کی نسل کے ساتھ کیا تھا۔ یہ رحمتیں ساری اُمت کو حاصل ہوں گی یعنی اُن کو جو اس دعوت کو قبول کریں گے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرکے سچے دل سے خداوند کی طرف پھریں گے اُن کو یہ برکتیں مفت ملیں گی۔

فصل ششم

راستباز کا اجر

اسرائیل کو یہ دعوت دی گئی کہ وہ روزہ رکھ کر توبہ کرے۔ راستبازی اوررحمت کے کام کرے اورسبت کو مانے۔ تب خداوند اُن کا نور وجلال ہوکرآئے گا۔ وہ بطور جنگی مرد کے اُن کے دشمنوں سے اُن کو چھڑانے کےلئے آئے گا۔ وہ اُنہیں نیاعہد بخشے گا اورخداوند کا روح ہمیشہ تک اُن کے ساتھ رہے گا۔

(یسعیاہ ۵۸: ۸۔ ۱۱)۔

(یسعیاہ ۵۹باب) میں اسرائیل کی بدیوں اورگناہوں کا ذکر ہے جن کی وجہ سے اُن پر یہ مصیبت نازل ہوئی اس لئے جتنی زیادہ ان کی مصیبت بڑھتی اتنی ہی زیادہ یہ ضرورت ہوئی کہ خدا اُن کے لئے مداخلت کرے۔

(یسعیاہ ۵۹: ۱۶۔ ۲۱)۔

چنانچہ سیدنا مسیح نے مداخلت کی کیونکہ اُس نے اپنے بندے کو درمیانی اور گناہ اٹھانے والا مقرر کیا۔ خداوند کی مداخلت ان دکھوں میں نہیں کیونکہ یہ کام تواس بندے کا تھا۔ اُس کی مداخلت بطور فاتح کے تھی کہ اپنی اُمت کے دشمنوں کو اُن کے کاموں کے مطابق سزا دے۔ اس مقصد کےلئے وہ سرسےپاؤں مسح ہوتا نظر آتاہے۔ اس جنگ کا نتیجہ فتح ہوا اوراس کے دشمن تباہ ہوئے۔ اُمت کے ساتھ نیا عہد باندھا گیا۔ یرمیاہ اور حزقی ایل سے بھی ایسے عہد کا ذکر کیا۔یرمیاہ کی کتاب میں یہ ذکر ہے کہ خدا کی باتیں اس اُمت کے دلوں پر لکھی گئیں۔ حزقی ایل میں یہ ذکر ہے کہ نیادل اور نئی روح اُن کو عطا ہوئی تاکہ وہ خداوند کے احکام پر عمل کریں۔ان مختلف بیانوں کی غرض یہ ہے کہ رسمی وشرعی رسوم کی بجا آوری کی جگہ باطنی۔ حقیقی اور روحانی اطاعت لے لے گی۔ یوایل ،حزقی ایل وغیرہ کی کتابوں میں جو وعدے تھے وہ یہاں دہرائے گئے ۔

اس نبوت کے پانچویں حصے میں اس بندے کا مزید بیان ہے۔



فصل ہفتم

بڑا واعظ

خداوند کے بندے کو الہٰی روح سے مسح ملا۔ وہ غریبوں اور مصیبت زدوں کی مخلصی کےلئے حلیم مناد یا واعظ بن گیا۔ اس نے سالِ مقبول اورروزِ عدالت کا اعلان کیا۔ اُس نے غم کوخوشی سے بدل دیا۔ خداوند کی اُمت کےلوگ کاہن بن گئے اور قومیں ان کی خدمت گار ہوگئیں۔ یہوداہ کےشہر پھر بنائے گئے اورجو جلاوطن واپس آئے وہ نئے عہد کی برکتوں کا مزا اڑانے لگے۔ اور وہ ایسی نسل تسلیم کئے گئے جو الہٰی برکتوں کا خط اٹھاتی ہے۔ اپنے اس کام کی تکمیل کو مدِنظر کو یہ بندہ تعریف کا گیت خوشی سے گاتاہے۔

(یسعیاہ ۶۱باب)۔

اس مقام میں خداوند کے بندے کا تصور چوٹی تک پہنچ جاتاہے۔یہ بے وجہ نہ تھا کہ مسیح نے اس میں اپنی تصویر دیکھی اور ناصرت کے عبادت خانہ میں اُس نے اپنی رسالت کے کام کو اسی پیش گوئی کے ذریعہ پیش کیا(لوقا۴: ۱۷۔ ۲۲)۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے مخلصی کی انجیل سامعین کے سامنے پیش کی ۔ خدا کے روح سے اُس کو مسح ملا اور و ہ ایک حلیم واعظ بن گیا(یسعیاہ ۴۲: ۱۔ ۷)۔ یہاں وہ شکستہ دلوں کے زخم پرمرہم لگاتا اور ماتم کرنے والوں کو تسلی دیتا اور اُنہیں خوشی کا لباس پہناتاہے۔ پہلی پیش گوئی میں وہ قوموں کےلئے نور اورقوم اسرائیل کےلئے ایک عہد تھا۔ دوسری پیش گوئی میں وہ یعقوب کے فرقوں کوبحال کرکے اُن کو اُن کے ملک میں آباد کرتاہے اوردنیا کی حدود تک نجات بنتاہے(یسعیاہ ۴۹: ۱۔ ۷)۔ اس پیش گوئی میں پھر توسیع ہوئی ۔ یہاں یہ مخلصی یافتہ لوگ راستبازی کے لوگ بن جاتے اوریہوداہ اوریروشلیم کے کھنڈروں کو ازسرنوتعمیر کرتے ہیں۔وہ قوموں کےلئے کاہن بن جاتے ہیں اور قومیں اُن کی خادم ہوجاتی ہیں ۔ یوں وہ تصور پورا ہوتاہے جو حورب کے عہدنامے میں پیش کیا گیاتھا(خروج ۱۹: ۳۔ ۶)۔ قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ وہ نسل ہے جوخداوند کی برکتوں کی وارث ہے(پیدائش ۱۲: ۱۔ ۳)۔ اب وہ اس نئے عہد کی برکتوں کا خط اٹھاتے ہیں جن کا ذکر یرمیاہ اور حزقی ایل نبیوں نے کیا تھا۔ یوں اس پیش گوئی میں وہ سارے تصورات پائے جاتے ہیں جوماقبل پیش گوئیوں میں مندرج تھے سوائے دکھوں کے تصور کے جو یہ بندہ بحیثیت قائم مقام ہونے کے اٹھاتاہے اس میں اس بندے کی پست حالی کو پورے طور پرمنکشف(عیاں) کیا گیا۔ شروع اورآخر میں اس کی سرافرازی کاذکر ہوا اور تصور میں جو کسر رہ گئی (کمی)تھی وہ اس پیش گوئی میں پوری کردی گئی ۔اب اس کا لقب بندہ نہیں آتا بلکہ وہ غریبوں اور غم زدہ لوگوں کو نجات کی خوشی کےلئے تیا رکررہاہے۔ اُس لئے مناسب تھا کہ یہ پیش گوئی خوشی کے گیت پر ختم ہوجو اس بڑے واعظ کے منہ سے نکلا۔ اُس نے اپنی خدمت کو سرانجام دیا اوراب اجر کا مستحق ہے۔



بارھواں باب

صِیّون کی بحالی کی نبوت

(یسعیاہ کی کتاب ۴۰: ۱۔ ۱۱؛ ۴۲: ۱۴۔ ۱۷) میں جوپیش گوئی ہے وہ صِیّون کی تسلی کے لئے ہے۔ اس میں صِیّون خداوند کی بیوی کہلاتی ہے اور وہاں کے باشندوں کی والدہ ۔ خداوند کی آمد قریب ہے وہ صِیّون کو تسلی دینے اور اُس کے ویرانوں کو تعمیر کرنے آتاہے۔ اُس کی اُمت بابل سے رہائی پاکر (بیابان سے گزرکر مقدس زمین کو جاتی ہے ۔ مصر سے خروج کرنے کے واقع سے یہ واقع زیادہ عجیب وغریب ثابت ہوتاہے۔ الغرض اس نبوت کا مرکز صِیّون ہے جیسے پچھلی فصل کا مرکز خداوند کا بندہ تھا۔

فصل اوّل

صِیّون کےلئے خداوند کی شاہراہ

صِیّون کے گناہ کے باعث جو مصیبت نازل ہوئی تھی اس کا زمانہ اب پورا ہوگیا۔ اب قدیم وعدے پورے ہوں گے ۔ خداوند کی آمد سے پہلے ایلچی بھیجے جائیں گے۔ نیچر یعنی فطرت میں عجیب تبدیلی ہوگی اور صِیّون خوشخبریاں سنائے گی۔ خداوند حاکم کی طرح قوی بازو کے ساتھ آئے گا اورمحبت بھرے گڈریے کی طرح مخلصی کی شاہراہ پر سے اُن کو پہنچائے گا۔

(یسعیاہ۴۰: ۱۔ ۱۱؛ ۴۲: ۱۴۔ ۱۷)۔

(یسعیاہ ۴۰: ۱۔ ۱۱) میں تسلی کا پیغام ہے ۔جو نبی نے ان آیات میں پیش کیا۔ صِیّون کی مصیبت اورجنگ وجدل کازمانہ ختم ہوگیا۔ خداوندکے آنے پر اس کو اجر ملے گا آمد کے ایلچی نے پہلے فطرت کو حکم دیا کہ وہ ایک شاہراہ تیارکرے۔ پہاڑ اور ٹیلے گرجائیں ۔ وادیاں ابھر آئیں۔ ٹیڑھے راستے سیدھے ہوجائیں۔

اس پیش گوئی کے دوسرے حصے میں آوازیں سننے میں آتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہتی ہے کہ خداوند کا کلام ابدتک قائم رہتاہے۔ اوردوسری آوازیہ کہتی ہے کہ انسان کمزور اور فانی(فناہوجانے والا) ہے۔

زکریاہ میں جو پیش گوئی تھی اس میں گڈریے نے اپنے گلہ کو ادنیٰ(کم،تھوڑا، چھوٹا) مزدوری کی وجہ سے رد کردیا تھا۔ مزمور میں بھی گڈریا ناراض نظر آتاہے اوراس کے لوگ اس سے التجا کرتے ہیں کہ وہ آکر اُن کو نجات دے ۔ حزقی ایل کی کتاب میں یہ ذکر ہوا کہ وہ گڈریا اپنے بکھرے ہوئے گلہ کو جمع کرکے اُن کے ملک میں لے جاتاہے۔ اس پیش گوئی میں وہ گڈریا اپنے گلہ کو شاہراہ پر سے لے جاتے ہوئے نظر آتاہے۔ وہ حلیم اورہمدرد ہے وہ چھوٹے دودھ پیتے بچوں کی بھی فکرکرتاہے۔ مقابلہ کرو(یسعیاہ ۳۵: ۵)سے۔

فصل دوم

خداوند واحد خدا اورنجات دہندہ ہے

اس فصل میں یہ ذکر ہے کہ خورس بادشاہ نے بابل کو تسخیر کیا۔ نبی نے خورس کے کام کا بیان کیا جس کے ذریعہ اسرائیل رہائی پاتاہے اوربابل اوردوسری قوموں پرخدا کی طرف سے سزا نازل ہوتی ہے۔ خورس کا وہی کام ہے جو اُس سے پہلے اسوریوں اورکسدیوں کو دیا گیا تھا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسوریوں نے اسرائیل کو سزادی تھی لیکن خورس نے اُن کو مخلصی دی خورس صِیّون کے دشمنوں کو فتح کرتاہے اوربنی اسرائیل کو مخلصی اوررہائی بخشتاہے۔

بنی اسرائیل خوشی کےگیت گاتے ہوئے بابل سے نکل جاتے ہیں۔ خداوند بیابان میں سے اُن کو لے جاتاہے ۔ چٹان سے پانی نکال کر اُن کی پیاس بجھاتا ہے۔ اُس وقت دنیا کے کناروں کے لوگ بھی خداوند کی طرف پھریں گے۔اورہر زبان اس کی اطاعت کی قسم کھائے گی۔ (یسعیاہ ۴۵: ۲۱۔ ۲۵)۔

یہوواہ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں۔وہی اکیلا خدا نجات دہندہ ہے ۔ نبی نے یہ تصور حاصل کیا کہ آخر کار خود خدا ہی نہ صرف یہودیوں بلکہ ساری دنیا کو نجات دے گا۔ یسعیاہ کی کتاب کے پہلے حصے میں اس نجات میں مصر ، اسور ، ابی سینا اورصوربھی شریک ہوتے ہیں ۔ صفنیاہ کی کتاب میں اہل کوش اوراہل لیبیا اس سے حصہ پاتے ہیں (یسعیاہ ۱۹: ۱۶۔ ۲۵؛ صفنیاہ ۳: ۸۔ ۲۰۔ ۸: ۱)۔

(زبور ۸۷ )میں یہ ذکر تھا کہ غیر قومیں متبنیٰ (لے پالک)بنائی جاتی ہیں ۔ مصر، بابل ، فلسطین ، صور اور کوش یکے بعد دیگرے خدا کے شہر میں شہری حقوق حاصل کریں گے ۔ یرمیاہ نے بیان کیاکہ ساری قومیں نئے یروشلیم میں جمع ہوں گی(یرمیاہ۳: ۱۴۔ ۱۸؛ ۸: ۶)۔

لیکن یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے میں پہلے دفعہ اس عالمگیر نجات کا ذکر ہوا جب کل نوع انسان مل کر واحد خدا اورنجات دہندہ کی پرستش کریں گے۔

(یسعیاہ ۴۸: ۱۷۔ ۲۲)۔

اس مقام میں جلاوطنی کی وجہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل نے خدا کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیا تھا اس لئے وہ جلاوطن ہوئے ورنہ جووعدے خدا نے ان سے کئے تھے وہ پورے ہوئے ۔ ابراہیم کی نسل ریت کی طرح کثیر ولاتعداد ہوئی۔ اُن کا امن وامان سدا بہنے والے دریا کی طرح ہوا اوراُن کی راستبازی سمندر کی لہروں کی طرح لیکن وہ بحال کئے جائیں گے جیسے وہ مصر سے نکلے تھے ایسے ہی وہ بابل کی اسیری سے نکلیں گے۔



فصل سوم

خداوند صِیّون سے وفادار ہے

خداوند والدہ سے بھی زیادہ وفادار ہے ۔ وہ کبھی صِیّون کو نہ بھولے گا۔ بلکہ وہ اُسے بحال کرے گا اوراُس کے بچوں کو بڑھائے گا۔ وہ اپنے بازو کو ننگا کرے گا۔ اوریروشلیم کو مخلصی دے گا۔ وہ بابل سے رحلت (کوچ)کریں گے اور ایک مقدس اُمت مقدس برتنوں کو اٹھائے ہوئے لے جائے گی ۔ خداوند خود اُن کا ہراول اورچنڈاول ہوگا۔ بادشاہ اور ملکہ اُن کے دینی باپ اور دینی ماں ہوں گے۔ صِیّون کے نگہبان آمد کی خوشخبریاں سنا ئیں گے اوریروشلیم کے ویرانے تال دیں گے۔

(یسعیاہ ۴۹: ۱۴۔ ۲۳)

اس پیش گوئی میں خدا کی وفاداری کی تعریف کی گئی۔ وہ حلیم باپ ہے جیسے کہ وہ حلیم گڈریا تھا۔ پُرانا صِیّون توبرباد ہوگیا۔ خدا نئے صِیّون اورنئے یروشلیم کی بنیاد ڈالتاہے۔

صِیّون کا جورشتہ قوموں سے ہے اُس کا بھی بیان آیاہے کہ وہ بھی اس نئے یروشلیم کی تعمیر میں حصہ لیں گے۔ وہ صِیّون کے خادم بنیں گے اوراُس کے بچوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے ۔ وہ گویا دینی باپ اوردینی ماں بنیں گے۔

(یسعیاہ ۵۱: ۱۔ ۸)

اس مقام کے شروع میں صِیّون سے درخواست کی گئی کہ وہ قدیم وعدوں کو نہ بھولے اوراُس کو یقین دلایا گیا کہ خداوند صِیّون کو تسلی دے گا۔مثلاً ابراہیم سے جو وعدہ کیا گیا تھا اُسے یاد دلا کر اُسے تسلی دی کہ وہ وعدہ پورا ہوگا۔اُس کا ویرانہ باغ عدن کی طرح سرسبز اورشاداب ہوگا۔ یہاں یرمیاہ کا وہ مقام یادآتاہے جو تسلی کی کتاب کہلاتاہے(یرمیاہ ۳۰، ۳۱باب) اور حزقی ایل کا وہ وعدہ جو اس کی کتاب کے (حزقی ایل ۳۶: ۲۵۔ ۳۵) میں پایا جاتاہے ۔پرانی زمین اور پُرانے آسمان کی جگہ نئی زمین اور نیا آسمان ہوگا۔

(یسعیاہ ۵۲: ۷۔ ۱۲)۔

اس مذکورہ بالا مقام میں یہ درخواست ہے کہ خداوند کا بازو جاگ اٹھے اور اپنی اُمت کو مخلصی دے۔ پہلے تویہ ذکر تھا کہ صِیّون اوریروشلیم پہاڑوں پر سے خداوند کی آمد کا اعلان کررہے ہیں۔یہاں وہ مناد پہاڑوں پر ہیں جو لوگ امن وسلامتی کا پیغام اُن سے سنتے ہیں وہ اُن کی تعریف کے گیت گاتے ہیں ۔ اُمت کو یہ حکم ہے کہ وہ بابل سے نکلے۔ پھر آخر میں ایک نیا خیال ہے ۔بابل سے نکلنا فرار کی صورت نہیں رکھتا جیسا کہ مصر سے ۔ بلکہ یہ پُر امن پرستاروں کا خروج ہے جو مقدس لباس پہنے خدا کے مقدس برتنوں کو اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسے مصر سے خروج کے وقت آگ اوربادل کا ستون اُن کا راہنما ہوا۔ اب خود خدا اُن کی رہبری کرتاہے۔

اس مقام کے آخر میں اس قسم کی تصویر ہے جو خداوند کے بندے کی سرفرازی کی (یسعیاہ ۵۲۔ ۵۳باب )میں دی گئی تھی مگر یہاں وہ تصویر صِیّون کی سرفرازی کی ہے جس نے کچھ عرصہ دکھ اٹھایا تھا۔



فصل چہارم

خداوند صِیّون کا تسلی دینے والا ہے

صِیّون تھوڑے عرصے کےلئے ترک کی گئی اوراس نے مصیبت اٹھائی لیکن خداوند اُس کا شوہر اور نجات دہندہ ہے۔ وہ اس سے وفادار ہےاوراسے اپنا صلح کا عہد عطا کرے گا اوراُس کی سرزمین میں اُس کو بحال کرے گا اوراُس کے بچے ایسی کثرت سے ہوں گے کہ وہ ہر طرف ٹوٹ پڑیں گے اور قوموں پر قبضہ کریں گے اوریروشلیم ، قیمتی پتھروں سے بنایا جائے گا۔ اُس کے سب بچے خداوند کے شاگرد ہوں گے اورابد تک اس میں رہیں گے۔

(یسعیاہ ۵۴: ۱۔ ۱۷)۔

اس نفیس نظم میں وہی خیال ظاہر کیا گیا جو( یسعیاہ ۴۹: ۱۴۔ ۲۳)میں پایا جاتاہے۔ اور اس کے علاوہ ماقبل نبیوں مثلاً ہوسیع ، صفنیا ،یرمیاہ اور حزقی ایل نے جوخیال ظاہر کیا تھا اُس کا خلاصہ یہاں دیا گیا۔ صِیّون کی دو مختلف حالتوں کا ذکر ماقبل بیانوں کی نسبت زیادہ صفائی سے کیا گیا ہے۔ صِیّون جوانی کی جورو (بیوی)ہے جسے خداوند نے اُس کے گناہ کے باعث تر ک کردیا تھا۔ خداوند اُس سے ناراض تھا اوراس نے بیوگی کی شرم اٹھائی ۔ اُس کی جان ملول(غمگین) ہوئی اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوئی اور کوئی اُس کی تسلی دینے والا نہ تھا۔ یہ بیوی جسے خداوند نے تر ک کیا اُس بیوی کی یاددلاتی ہے جس کا ذکر (ہوسیع ۲: ۳۔ ۲۰؛یرمیاہ ۳۳: ۱۴۔ ۲۲ )میں ہوا۔ لیکن یہ ذلت صرف تھوڑی دیر تک رہے گی۔

خداوند وفادار ہے ۔ اُس کا عہد ٹوٹ نہیں سکتا اس لئے وہ پھر اُس کو قبول کرے گا۔ وہ اُسے یقین دلاتاہے کہ وہ پھر کبھی اسے ترک نہ کرے گا۔ یہاں اُس عہد کی طرف اشارہ ہے جو نوح کے ذریعہ خدا نے باندھا تھا اور جس کا ذکر یرمیاہ نے کیا(یرمیاہ ۳۳: ۱۴۔ ۲۲)۔

اس بحالی کے بعد اُس کی اولاد بکثرت ہوگی۔ یہاں بانجھ اور شادی شدہ عورت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بانجھ عورت جنے گی۔ لیکن جلاوطنی میں اس کے بچے مارے گئے اورمنتشر ہوگئے جن پر راخل نوحہ کرتی ہے(یرمیاہ ۳۱: ۱۵۔ ۱۶) لیکن بحالی کے بعد پھر اس کے اولاد ہوگی اوریروشلیم ازسر نو تعمیر ہوگا اوراُس کی خوبصورتی اورشان پہلے یروشلیم سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس نئے یروشلیم کا ذکر یرمیاہ اور حزقی ایل نبیوں نے بھی کیا۔ اس کے ساتھ (مکاشفہ ۲۱باب) کے نئے یروشلیم کا مقابلہ کرو۔

بحالی کے بعد امن وامان ہوگا جیسا کہ حزقی ایل نے ظاہر کیا تھا(حزقی ایل ۳۴: ۲۵؛ ۳۷: ۲۶ وغیرہ) خداوند خود اُس کا ہادی بنے گا(مقابلہ کرو صفنیاہ ۳: ۱۶۔ ۱۷ سے) ۔ اس میں سب سے بڑھ کر خیال یہ ہے کہ خدا ابد تک اُس کا تسلی دینے والا اورنجات دہندہ ہوگا(یرمیاہ ۳۱: ۳۳۔ ۳۴ ؛حزقی ایل ۳۶: ۲۵۔ ۳۵)۔



فصل پنجم

خداوند کی عبادت کا گھر ساری قوموں کےلئے ہوگا

نہ صرف ایماندار اسرائیل بلکہ ساری اجنبی قومیں بھی جوعہد اور سبت کی محافظت کرتی ہیں مقدس پہاڑ کی وارث ہوں گی کیونکہ خداوند فروتنوں اورخستہ دلوں کے ساتھ رہتاہے اور اس کا گھر ساری قوموں کےلئے عبادت کا گھر ہوگا۔ راستباز صلح کے عہد کا لطف اٹھائیں گے لیکن شریروں کےلئے کوئی سلامتی نہیں۔ اس پر یہ حکم صادر ہوتاہے کہ شاہراہ تیارکرو اور واپس آنے والے جلاوطنوں کے راستے سے ہر طرح کی رکاوٹ دورکرو۔

(یسعیاہ ۵۶: ۶۔ ۷ )میں یہ پیش گوئی ہے کہ غیر قومیں بھی مسیحی زمانے کی برکتوں میں شریک ہوں گی اور خوجے جو پرانے عہد نامہ میں خارج کئے گئے وہ بھی نئے یروشلیم میں آباد ہوں گے اور پورے حقوق حاصل کریں گے۔

(یسعیاہ ۵۷: ۱۱۔ ۲۱)۔

اس مقام میں راستبازی اور شریروں کے درمیان امتیاز کا ذکر ہے۔ بُت پرست ہلاک ہوں گے۔ شریروں کےلئے کوئی سلامتی نہیں لیکن جو خداوند پر توکل کرتے ہیں وہ کوہِ مقدس کے وارث ہوں گے۔ مقابلہ کرو( یسعیاہ ۱۹: ۲۱؛صفنیاہ ۳: ۱۰ وغیرہ۔ نیزد یکھو یسعیاہ ۴۲: ۱۴؛ ۴۰: ۳)۔

فصل ششم

صِیّون جہان کا نور ہے

خداوند کے بندے کا تصور( یسعیاہ ۶۱باب )میں اعلیٰ درجے تک پہنچتاہے لیکن اب صِیّون کی بحالی کا تصور کمال کو پہنچتاہے۔

صِیّون میں خداوند کی آمدطلوع آفتاب کی طرح ہے جو اُسے روشن کرتا اوراُسے جہان کےلئے نور بناتاہے ۔ وہاں قومیں جمع ہوتی ہیں کہ اپنے خزانوں کے ساتھ صِیّون اوراُس کے خدا کی تعظیم کریں۔ اب وہ شہر قیمتی دھاتوں سے بنایا جائے گا۔ سلامتی اور راستبازی وہاں کے حاکم ہوں گے۔ سارے لوگ وہاں کے راستباز اور سارا شہر بالکل ذوالجلال ہوگا۔

(یسعیاہ ۶۰باب)

یہ نظم ساری کتاب کا گویا موتی ہے۔ یہ( یسعیاہ ۴۹: ۱۴۔ ۲۳ )پر مبنی ہے۔ پہلے حصے میں صِیّون کو حکم ہے کہ اُٹھے اوراپنی روشنی چمکائے تاکہ دیگر قومیں اوراُن کے بادشاہ اُس کی روشنی میں چلیں۔ اس میں خداوند آفتاب کی طرح طلوع ہوا ہے تاکہ اُس کی روشنی دنیا کی حدوں تک پہنچے۔ یہ اُس خیال کی توسیع ہے جو یرمیاہ کی کتاب میں تھا کہ سارا شہر خداوندکا تخت ہے اور سراسر مقدس ہے(یرمیاہ ۳: ۱۴۔ ۱۸؛ ۳۱: ۴۰)۔ اس شہر کا نام یہوواہ شمی اور یہوواہ صدقنو(یرمیاہ ۳۳: ۱۶؛حزقی ایل ۴۸: ۳۵) ہوگیا۔ پھر صِیّون کو حکم ہے کہ اپنی بحال شدہ اولاد کو دیکھے جن کو غیر قومیں نوکروں کی طرح اٹھائے چلی آتی ہیں(یسعیاہ ۴۹: ۱۸۔ ۲۲)۔ وہ نہ صرف اُس کی اولاد کو لاتی ہیں بلکہ اپنے خزانوں کو بھی۔اُس کےد وسرے حصے میں وہ فاختاؤں کے جھنڈ کی طرح اپنے گھونسلوں کی طرف اڑے چلے آتے ہیں۔


تیسرے حصہ میں اُس کی ذلت کی حالت کا اس کی سرفرازی سے مقابلہ کیا گیا۔ اُس کے دشمنوں کی اولاد اُن کے پاؤں تلے ذلیل پڑی ہے(یسعیاہ ۴۹: ۲۲۔ ۲۳)۔ اب اُس کی سلامتی محفوظ ہوگئی (یسعیاہ ۵۴: ۱۳۔ ۱۷)۔ اب اس شہر کی دیواریں پتھر کی نہ ہوں گی نہ ہیرے موتیوں کی جیسا کہ پہلے ذکر ہوا(یسعیاہ ۵۴: ۱۱۔ ۱۲)۔ بلکہ اُن کا نام نجات اور حمد ہوگا (یسعیاہ ۲۴: ۲۷؛ ۲۶: ۱)۔

آخری حصہ میں پھر وہی بیان ہے جو پہلے حصہ میں گزرا کہ خداوند اُن کا آفتاب اور چاند ہوگا۔ اوراسے موجودہ چاند اور سورج کی ضرور نہ ہوگی۔ موسوی شریعت میں جن برکتوں کا وعدہ تھا وہ اب پوری ہوتی ہیں (دیکھو استثنا ۳۲: ۳۰؛ احبار ۲۶: ۸) صِیّون کے اس جلال کا کمال نئے یروشلیم میں دکھایا گیا (مکاشفہ ۲۱: ۲۲۔ ۲۷؛ ۲۲: ۵)۔

(یسعیاہ ۶۲باب) میں اس خیال کو یوں ظاہر کیا گیاہے کہ صِیّون کا نام پہلے متروکہ اورخرابہ ہوگیا تھا لیکن اب اُس کا نیا نام بعولا(شادی شدہ) اور حفظیباہ (میری خوشی مجھ میں) ہوگا۔خداوند اُس پر ایسی خوشی کرے گا جیسے شوہر اپنی دلہن کے لئے کرتاہے او روہ اسے اپنے جلال کا تاج بنائے گا۔ خداوند دیر تک خاموش نہ رہے گا ۔ جونگہبان دیواروں پر بیٹھے ہیں وہ چپ نہیں رہ سکتے۔ آمد نزدیک ہےنقیب یا مناد پکاررہے ہیں کہ " راہ تیار کرو" یہ اشتہار زمین کے کناروں تک جا پہنچا ہے کہ نجات آرہی ہے"۔

(یسعیاہ ۶۲باب)

جوخیال پہلے دونبوتوں (یسعیاہ ۴۲: ۱۴؛ ۵۷: ۱۱) میں ظاہر کیا گیا تھا وہ یہاں اکٹھا کردیا گیا ہے۔ اب وہ دونام (متروکہ اور خراب ) ترک کردئیے گئے۔ اب تو وہ خداوند کے تاج کا موتی بن گئی اوراسے نئے نام بعولا ہ اور حفظیباہ دئے گئے۔ صِیّون کی شادی کے متعلق جو پہلی پیش گوئیاں تھیں(ہوسیع ۲: ۱۹)۔ خاص کر (صفنیاہ ۳: ۱۷؛یسعیاہ ۵۴: ۵) وہ یہاں جمع کردی گئیں۔ نگہبان دیواروں پر سے چلاتے ہیں جیسے( یسعیاہ ۵۲: ۸ )میں تھا۔ اب یہ اعلان ہے کہ خداوند آتاہے نجات آرہی ہے۔

فصل ہفتم

نیا یروشلیم۔ نئے آسمان اور نئی زمین

(یسعیاہ ۶۳ ۔ ۶۶باب) کے آخر تک بطور تتمہ (کتاب کا وہ زائد حصہ جو اخیر میں لگا دیتے ہیں، بقیہ،خاتمہ)کے ہیں(۶۳: ۷سے ۶۴باب) کے آخر تک ایک نوحہ اورالتجا ہے۔ اس میں کوئی پیش گوئی نہیں۔( ۶۵، ۶۶باب) بطور مکاشفہ کے ہیں۔

خداوند کی آمد کا یہ نتیجہ ہوگا کہ نئے آسمان ۔ نئی زمین اورنیا یروشلیم پیدا ہوگا۔ وہاں نہ رونا ہوگا نہ قبل ازوقت موت ۔ بلکہ لوگ بڑی خوشی منائیں گے ۔ خداوند دریا کی طرح صِیّون کو سلامتی بخشے گا ۔ بحالی سے قومیں حصہ پائیں گی اورنئی کہانی ان نذرانوں میں شریک ہوں گی۔ ہر نئے چاند اورسبت کو خداوند کے سامنے بڑا مجمع ہوا کرے گا لیکن شریر ان برکتوں میں سے حصہ نہ پائیں گے۔ اُن پر آگ اور تلوار نازل ہوگی۔ بمقدس شہر کے باہر اُن کی لاشیں کوڑے کرکٹ کی جگہ سڑیں گی اورجلیں گی۔

(یسعیاہ ۶۵: ۱۷۔ ۶۶باب )کے آخر تک


یہ مکاشفہ پہلے مکاشفات کی نسبت کچھ زیادہ قابل غور ہے ۔ نبی نے نئے آسمان ، زمین اور نئے یروشلیم کودیکھا اور خدا کی آمد نے ان کو وجود دیا۔ اس باب کے شروع میں بھی اسی قسم کا مکاشفہ تھا۔ وہاں یہ ذکر تھا کہ زمین شکستہ ہوئی۔ وہ متوالے کی طرح ڈگمگائی ۔ وہ گرے گی اورپھر نہ اٹھے گی (دیکھو یسعیاہ ۲۴: ۱۰، ۱۹۔ ۲۰؛ ۲۵: ۷۔۸)لیکن وہاں اُن کی بحالی اور نئے بننے کا کچھ ذکر نہ تھا۔ لیکن اس مکاشفہ میں پُرانی زمین ،آسمان اور یروشلیم کی جگہ سے نیا آسمان، زمین اوریروشلیم پیدا ہوتاہے۔ اس مکاشفہ میں پہلے نبیوں کی نبوتوں سے بھی کچھ لیا گیا تاکہ تصویر کو مکمل کیا جائے۔ مثلاً عاموس اوریسعیاہ کے مکاشفہ سے (عاموس ۹: ۱۱ ۔ ۱۵ ؛یسعیاہ ۱۱: ۱۔ ۵)۔

اس نبوت میں اُن سب سے یہ درخواست ہے جو یروشلیم کو پیار کرتے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ خوشی منائیں۔ اس کے بعد عدالت وسزا کا ذکر ہے کہ خدا آگ اور تلوار لے کر بُت پرستوں کو تباہ کرنے کوآتاہے۔اس میں( یسعیاہ ۴۹، ۶۰باب) کی پیش گوئیوں کی توسیع ہے ۔ قومیں اپنے نذرانے لائیں گی جیسے بنی اسرائیل لائیں گے۔ ان میں لاویوں کے کاہن چنے جائیں گے ۔ یوں نہ ہیکل ساری قوموں کےلئے دعا کا گھر بنے گا(یسعیاہ ۵۶: ۶۔ ۷)۔

آخر میں یہ مقابلہ دکھایا گیاہے کہ شہر کے اندر توراستباز عبادت کےلئے جمع ہیں اورباہر شریروں کی لاشیں گل سڑرہی ہیں۔ ایک طرف تو مخلصی یافتہ لوگوں کی دنیا ہے اور دوسری طرف شریروں کےلئے جہنم ہے۔ آئندہ زندگی کی جھلک نظر آتی ہے جو مسیح کے زمانہ میں حاصل ہوگی۔ یہودی جہنم اورنئے عہدنامہ کے دوزخ کا مسئلہ یہاں نظر آتاہے(۲۔پطرس ۳باب؛مکاشفہ ۲۱باب)۔

اس پیش گوئی کا رشتہ حزقی ایل کی کتاب سے ہے۔ اگر حزقی ایل کو( یسعیاہ ۴۰۔ ۶۶باب) تک کی خبر ہوتی ہے تو وہ اپنی پیش گوئی نہ کرتا کیونکہ وہ ایک طرف توموسوی شریعت سے متفرق ہے اور دوسری طرف (یسعیاہ ۴۰۔ ۵۵)تک کے باب سے ۔ یہ مشکل اس طرح حل ہوسکتی ہے کہ حزقی ایل نبی مسیحی تصورات میں یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے کی مصنف سے نیچی جگہ پر کھڑا ہے۔ اس دوسرے حصہ کے مصنف کے سامنے حزقی ایل ،یرمیاہ اور جلاوطنی کی اور ماقبل پیش گوئیاں موجود تھیں اس لئے اُس کی نظر زیادہ بلندی تک پہنچی ۔



تیراھواں باب

دانی ایل نبی

حضرت دانی ایل بلحاظ عہد ے کے نبی نہ تھے بلکہ ایک دانا حکیم ۔ ان کی پیش گوئیاں رویتوں یا خوابوں کی تعبیر کے طورپر ہیں جیسے یوسف مصر میں کرتے تھے۔ اس کتاب کے سواحضرت دانی ایل کا ذکر بہت کم ملتاہے۔ وہ شریف خاندان سے تھے اوریاہویکن کی سلطنت کے تیسرے سال اسیر ہوکر بابل کوگئے۔ اورشاہِ بابل نبوکدنضر کے زمانے سے لے کر خورس بادشاہ کے زمانے تک کام کرتے رہے۔ یہ کتاب عزرا کی کتاب سے مشابہ ہے ۔ عبرانی اور ارامی زبان میں لکھی گئی چنانچہ( ۲: ۵۔ ۷باب) کے آخر تک توارامی زبان میں ہے اورباقی کتاب عبرانی زبان میں۔

اس کتاب کے پہلے چھ باب توترتیب وقت کے مطابق ہیں۔(۱۔ ۴باب) تک میں نبوکدنضر کا بیان ہے۔( ۵باب) میں بیلشضر کی ضیافت کا ذکر ہے۔( ۶باب) میں دارا بادشاہ کے عہد سلطنت کا جب ان کو شیروں کی ماند سے مخلصی ملی۔ اوراس باب کے آخر میں یہ لکھا ہے" پس دانی ایل دارا سلطنت اورخورس فارس کی سلطنت میں کامیاب رہا" (دانی ایل ۶: ۲۸) ان بابوں میں مصنف نے دانی ایل اوراُس کے تین رفیقوں کے قصے جمع کئے ہیں۔

ترتیب وقت کے لحاظ سے اس کتاب کا دوسرا حصہ ایک الگ مجموعہ جس کے شروع میں اس خواب کا ذکر ہے جودانی ایل نے بیلشضر بادشاہ کی سلطنت کے پہلے سال میں دیکھا(۷باب) پھر اُس رویا کا بیان ہے جو شاہِ بیلشضر کے تیسرے سال دیکھا (۸باب)۔ پھر وہ رویا جو اُس نےدارا کی سلطنت کے پہلے سال میں دیکھی(۹باب) اورآخر میں وہ رویا جو اس نے خورس کے تیسرے سال میں دیکھی(۱۰۔ ۱۲باب) ان میں سے پہلی رویا ارامی زبان میں لکھی گئی اورباقی عبرانی زبان میں ۔ اس لئے یہ دوسرا حصہ دانی ایل نبی کے خوابوں اور رویتوں کا مجموعہ ہے۔ اس حصے میں کبھی توحضرت دانی ایل کے صیغہ متکلم آیاہے۔اورکبھی صیغہ غائب کتاب میں اس بات کا کوئی دعویٰ نہیں کہ وہ حضرت دانی ایل کی تصنیف ہے۔ اس میں وہ کہانیاں جمع کی گئیں جو حضرت دانی ایل اوراُن کی رویتوں کے بارے میں مشہور تھیں۔ اس کتاب کا مولف غالباً مکابی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ستروں کے یونانی ترجمے میں کئی ایک اپوکرفل قصے وغیرہ بھی زائد ڈالے گئے۔

البتہ عام رائے یہی چلی آتی ہے کہ یہ کتاب خود حضرت دانی ایل کی تصنیف ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ نہیں کہ اس کا مصنف یا مولف کون تھا؟ بلکہ یہ ہے کہ آیا تواریخی طورپر یہ قابل اعتبار ہے یا نہیں۔ کتاب کی اندرونی شہادت سے یہ ثابت ہوتاہےکہ یہ کتاب بذریعہ الہام لکھی گئی ۔ جنہو ں نے اس کتاب پر شک کیا وہ فوق العادت معجزوں اور پیش گوئیوں کے قائل نہیں چونکہ اس کتاب میں فوق العادت عنصر غالب جاتاہے اس لئے اُنہوں نے اس کے معتبر ہونے پر اعتراض کیا۔ جو قصے اس میں مندرج ہیں اُن کا عام سبق یہ ہے کہ خدا سے وفادار رہو۔ اس میں توکچھ شک نہیں کہ یہ پیش گوئیاں حضرت دانی ایل کی ہیں جوجلاوطنی کے زمانے میں اس کو عطا ہوئیں اگرچہ وہ مکابیوں کے زمانے میں کتاب کی صورت میں جمع ہوئیں۔



فصل اوّل

ابنِ آدم کی سلطنت

دانی ایل نبی نے بیان کیاکہ اس جہان کی سلطنتیں خدا کی سلطنت کی مخالف ہیں۔ اُن کا ذکر اُس بُری اورخوفناک مورت کے ذریعہ ہوا جس کے چار حصے ہیں جویکے بعد دیگرے شان وشوکت میں تنزل کرتے جاتے ہیں اور مغائرت (غیریت، اجنبیت)کا عنصر بڑھتا جاتاہے۔نیز ان چار حیوانوں کے ذریعہ کیا گیا جویکے بعد دیگرے سمندر سے نکلتے ہیں اور تشبیہی اعداد( ۳، ۴، ۱۰) کے ذریعہ ظاہر کیا گیا کہ ان سلطنتوں کی وسعت بڑھتی جاتی ہے۔ آخری حیوان میں سے ایک چھوٹا سینگ نکلتاہے ۔ وہ مخالف مسیح ہے۔ خدا کی سلطنت کو اس چھوٹے پتھر سے تشبیہ دی گئی جوبلاہاتھ لگائے پہاڑ میں سے کاٹا گیا۔ اس پتھر نے اس مورت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بڑھتے بڑھتے ایک بڑا پہاڑ بن گیا جس سے زمین معمور ہوگئی ۔ابن آدم بادلوں کے تخت پر سوار ہوکر مخالفِ مسیح اوراُن حیوانوں کو ہلاک کرنے آتا اور عالمگیر سلطنت کی لگام اپنے ہاتھ میں لیتاہے۔ قدیم الایام بھی شعلوں کے تخت پر بیٹھ کر عدالت کے لئے آتاہے۔ وہاں سے آگ کی ندی بہ نکلتی ہے۔

دانی ایل نبی کی کتاب میں مسیح کی سلطنت کے ذریعہ دنیا کی بادشاہیوں کی تباہی دونشانوں کے ذریعہ بتائی گئی ۔ ایک تونبوکدنضرکے خواب میں (دوسرا باب)۔ دوم دانی ایل کی رویت میں (۷باب)۔

(دانی ایل ۲: ۳۱۔ ۴۵)۔

اس خواب میں یہ بالکل ایک نئی تصویر ہے جو ماقبل پیش گوئیوں میں نہیں پائی جاتی ۔ نہ حزقی ایل کی کتاب میں جہان نشانوں اور تشبیہوں کو بہت استعمال کیاگیا ۔ یہ تصویر دھاتوں سے بنی ہے۔ اس لئے دنیا کی سلطنتوں کا یہ مناسب نشان تھا او رپہاڑ سے بلاہاتھوں کے کاٹا گیا ۔پتھر خداکی سلطنت کی موزوں علامت تھی۔ لیکن یہ خواب تن تنہا نہیں۔ اس کے ساتھ دانی ایل کی رویت کو پڑھیں جس میں دنیا کی سلطنتوں کا بیان چار حیوانوں کے ذریعہ کیا گیا۔ جو سمندر میں سے یکے بعد دیگرے نکلتے ہیں۔ ان کے بالمقابل ابن آدم اور قدیم الایام کو پیش کیا ہے اس لئے ان دونوں نشانوں کا مطالعہ اکٹھا کرنا چاہیے۔

(دانی ایل ۷: ۲۔ ۲۷)۔

ان سلطنتوں کی تعداد چار ہے اُس مورت میں تویہ سب پیوستہ ہیں لیکن (ساتویں باب) میں یہ سلطنتیں یکے بعد دیگر سے برپا ہوتی ہیں۔ ان کی تفسیر مختلف علما نے مختلف طور سے کی ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ چوتھی سلطنت روم کی سلطنت ہے جس میں وہ ساری باتیں پوری ہوتی ہیں جو ان دوتصویروں میں پیش کی گئی ہیں۔ عدد( ۴) کسی شے کی ازحدوسعت کےلئے آتاہے۔ یہ سلطنتیں یکے بعد دیگرے برپا ہوکر دنیا کے چاروں کناروں سے خدا کی اُمت کو مطیع اور زیر کرتی ہیں۔

سونے کا سراور شیر پہلی سلطنت کا نشان اور چاندی کا سینہ اور بازو اورریچھ جس کے منہ میں تین پسلیاں تھیں مادی فارسی سلطنت کا نشان تھیں۔ ان تین پسلیوں سے عموماً مصر، بابل اورلدیا مُراد لی جاتی ہے جن کو مادی سلطنت نے فتح کیا تھا۔ پیتل کا پیٹ اور رانیں اور وہ چیتا جس کے چار سر تھے وہ یونانی سلطنت تھی جو سکندر اعظم اوراُس کے چار جانشینوں نے قائم کی۔ چار سروں اور چار پاؤں سے سکندر اعظم کے چار جانشین مُراد ہیں جن میں سکندر کی سلطنت منقسم ہوگئی ۔ لوہے کی ٹانگیں۔ مٹی اور لوہے کے پاؤں اور خوفناک حیوان جس کے دس سینگ تھے وہ رومی سلطنت کا نشان تھا۔ ان دس سینگوں سے رومی سلطنت کے وہ مختلف حصے مُراد ہیں جن میں وہ سلطنت تقسیم ہوگئی ۔ عدد دس کمال کا نشان ہے۔ ان اعداد( ۳، ۴ اور ۱۰)سے ظاہر ہے کہ یہ سلطنتیں وسعت میں تو بڑھتی لیکن عظمت ، شوکت واتفاق میں گھٹتی گئیں۔ اس چوتھی اورآخری سلطنت میں سے ایک چھوٹا سینگ نکلتاہے جس کی آدمی کی سی آنکھیں ہیں اورجو بہت بڑی باتیں بولتا اور مقدسوں کے ساتھ جنگ کرتاہے جب تک کہ قدیم الایام ظاہر نہیں ہوتا۔


یہ چھوٹا سینگ کوئی چھوٹی باغی طاقت ہوگی جس نے چند دیگر سینگوں کو توڑا یا مغلوب کیا۔ یہ چھوٹا سینگ یاحکومت مغرور ، ظالم اور مقدسوں کوستانے والی ہے۔ اس سینگ کا جو حلیہ دیا گیا اس سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی خاص شخص ہے۔ یہ مخالفِ مسیح ہے ساتویں باب میں جس چھوٹے سینگ کا ذکر ہوا اس کو بعضوں نے سمجھا کہ یہ وہی ہے جس کا ذکر (آٹھویں باب) میں آتاہے لیکن غالباً یہ درست نہیں کیونکہ ایک کاتعلق تو تیسری سلطنت سے ہےاوردوسرے کا چوتھی سلطنت سے۔ یوں پہلا سینگ دوسرے کا گویا پیش خیمہ ہے چھوٹے سینگ کے بارے میں جو لکھا گیا وہ انطاکس ایپی فینی اَس کی تاریخ پر بہت کچھ صادق آتاہے لیکن بعض اُمور ایسے ہیں جوجلاوطنی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یوں مفسروں میں بہت اختلاف ہے۔ اس پیش گوئی کوسمجھنے کے لئے ہم ان امور کا لحاظ رکھیں کہ نام بیج یانسل ، بیٹا اور بندہ نبیوں کے کلام میں ایک بیج کی طرح بڑھتے بڑھتے مسیح میں تکمیل پاتے ہیں۔ اس تشبیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ قرین قیاس(وہ بات جسے عقل قبول کرے) ہے کہ دنیا کی سلطنتیں وسعت اورطاقت میں بڑھتے بڑھتے ایک مخالف مسیح کی شکل میں ظہور پائیں گی جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں دجال المسیح کہا جاتا ہےاوریہ دجال مسیح کی آمد ثانی سے پیشتر برپا ہوگا۔

اس مخالفِ مسیح کے زمانے میں خدا کی اُمت کی مصیبتیں بہت بڑھ جائیں گی اُن کو اُن کے مذہب کے باعث سخت ایذادی جائے گی۔ لیکن اس مخالفِ مسیح کا زمانہ بہت محدود اورقلیل(تھوڑا) ہوگا ۔ نبیانہ کلام میں یہ تین اوقات اور آدھا کہلاتاہے یعنی نبیانہ زبان میں نصف ہفتہ کیونکہ خدا نے یہ زمانہ گھٹا دیا۔خدا اس ظالم مخالفِ مسیح کو سزا دینے آئے گا۔

یہ پتھر جوبلاہاتھوں کے پہاڑ سے کاٹا گیا اورجس نے بڑھتے بڑھتے زمین کوبھر دیا مسیح کی سلطنت کا نشان ہے۔اس قسم کی پیشین گوئی( یسعیاہ ۲: ۱؛میکاہ ۴: ۱ )میں بیان ہوئی ۔ یہ اس تاک کی مانند ہے جس کا ذکر مزمور ۸۰: ۱۰۔ ۱۲ میں ہوا اور اس شاخ کی مانند جس کا ذکر حزقی ایل نے کیا (حزقی ایل ۱۷: ۲۲۔ ۲۴) اسی طرح یہ ابن آدم بمقابلہ جنگلی حیوانات کے مسیح کی سلطنت کا نمائندہ ہے۔ یہ ابن آدم بادلوں پر سوار ہوکر قدیم الایام تک پہنچتاہے اور اُس کو ابدی سلطنت دی جاتی ہے ۔ قدیم الایام کی آمد خدا کی آمد ہے جو آگ کے شعلوں کے تخت پر بیٹھا ہے اور جس کے تخت سے آگ کی ندیاں بہ نکلتی ہیں۔ یہ شعلے اُس کے غضب کا اظہار ہیں۔ یہ فضل کی ندیوں کی ضد ہیں(یوایل ۴: ۱۸۔ زبور ۴۶: ۵۔ یسعیاہ ۳۳: ۲۱ حزقی ایل ۴۷: ۶۔ ۱۲) الغرض خدا کی اورمسیح کی یہ آمد سزا کےلئے ہے اور نئے عہدنامے کے مطابق یہ آمد ثانی ہے۔

یہ نبوت ماقبل نبوتوں سے اس امر میں امتیاز رکھتی ہے کہ اس میں اعمال ناموں اور کتابوں کا ذکرآتاہے جن کی بناء پر سزا دی جاتی ہے اوراُس آگ کی ندی کا ذکر ہے جس میں خدا کے دشمن پھینک دئے جائیں گے۔ یہ جہنم کی آگ کی دوسری صورت ہے (یسعیاہ ۶۶: ۲۴؛ مکاشفہ ۲۰: ۹۔ ۱۱)۔



فصل دوم

آخری ایام

دانی ایل نے پیش گوئی کی کہ ستر (۷۰)مقدس سالی ہفتے یروشلیم کے دوبارہ بنانے کے حکم سے لے کر دنیا کے آخر تک گزریں گے۔ آخری ہفتے کے دن بتائے گئے ہیں۔ اس آخری سالی ہفتے کے وسط میں بڑی مصیبت ہوگی۔ مسیح مارا جائے گا۔ عبادت موقوف ہوگی او رمقدس شہر برباد ہوگا۔ یہ مصیبت نصف ہفتے سے کچھ زیادہ دیر تک رہے گی۔ اورپھر کچھ تھوڑے ہفتے کے بعد برکت نازل ہوگی۔ مُردوں کی قیامت اور عدالت کا دن آئے گا جب راستبازوں کو اُن کی میراث ملے گی او روہ ہمیشہ تک ستاروں کی طرح چمکیں گے ۔

دانی ایل کی کتاب کے دوسرے حصے میں یہ دومسیحی پیش گوئیاں ہیں جن کا مطالعہ اکٹھا ہونا چاہیے دانی ایل نے دارا بادشاہ کے پہلے سال میں دعا مانگی اوراُس کا جواب (دانی ایل ۹: ۲۴۔ ۲۷)میں قلمبند ہے۔ اس جواب میں اُس زمانے کی پیش گوئی ہے جو مسیح کی آمد اور آخری زمانوں تک پہنچتی ہے(دانی ایل ۹: ۲۴۔ ۲۷)۔

دوسری رویا خورس بادشاہ کے تیسرے سال میں دکھائی گئی ۔ ان پیش گوئیوں کا مطلب اس امر کے سمجھنے پر حصر (احاطہ کرنا،گھیرنا)رکھتاہے کہ ستر(۷۰) ہفتوں سے کونسا زمانہ مراد ہے۔ اس کے متعلق تین مختلف رائیں ہیں۔

(۱۔) قدیم رائے یہ تھی کہ اُن کا تعلق مسیح کے جسم میں ظاہر ہونے اوراُس کی موت اور رومیوں کے ذریعہ یروشلیم کے برباد ہونے سے ہے۔

(۲۔) زمانہ حال کے مفسر یہ لکھتے ہیں کہ ان دونوں مقاموں کا تعلق انطاکس اپی فینس کے زمانے سے ہے۔

(۳۔)بعض قدیم بزرگ اور زمانہ حال کے چند مفسروں کا یہ خیال ہے کہ ان کا تعلق اُس زمانے سے ہے جو جلاوطنی کے اختتام سے شروع ہوکر مسیح کی آمدِ ثانی تک پہنچتاہے ۔ اُ س زمانے میں خدا کی سلطنت کے نشوونما کاذکر ان میں ہے۔

پہلے تویہ سوال لازم آتاہے کہ آیا یہاں ستر(۷۰) ہفتوں کو دوحصوں پر منقسم کریں؟( ۶۲)ہفتوں کو پہلے سات(۷) ہفتوں سے ملائیں یا تین حصوں پر تقسیم کریں یعنی سات (۷)ہفتے۔( ۶۲) ہفتے اورایک ہفتہ ؟

اس تیسری تاویل میں یہ مشکل ہے کہ مسیح کے کاٹے جانے کی تسلی بخش تشریح نہیں ہوتی ۔ علاوہ ازیں مسیح کی آمد اورآخر کے درمیانی( ۶۲)ہفتوں کا دراز زمانہ عہدعتیق کی پیش گوئی کے مطابق نہیں کیونکہ وہاں آمد اوّل اور آمدِ ثانی میں امتیاز نہیں کیا گیا۔یہ امتیاز صرف نئے عہدنامے ہی میں پایا جاتاہے ۔ عبارت کے پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ خورس کے حکم کے نافذ ہونے سے مسیح شاہزادہ کی آمد تک ( ۶۹) ہفتے گزریں گے اورآخری ہفتہ مسیح کی آمد کا ہفتہ ہے جس کے وسط میں مسیح مارا جاتاہے اورپُرانے عہدکی عبادت ختم ہوجاتی ہے ۔ مقدس شہر برباد اور نیا عہد قائم ہوتاہے۔ یوں نبی نے زمانے کے آخر تک نگاہ ڈالی ۔ دانی ایل میں مسیح کے مارے جانے کا ذکر کوئی نئی بات نہیں ۔ یسعیاہ میں خداوند کے بندے کے مارے جانے کا اورجلاوطنی کے مزامیر میں اُس کے دکھوں کا ذکر ہم معلوم کرچکے ہیں (زبور ۲۲: ۱۶)۔ جلاوطنی کے زمانے میں مسیح کے دکھ اٹھانے کا ذکر خاص مضمون کی حیثیت رکھتاہے ۔ لیکن سیدنا مسیح کی آمدِ اوّل سے اس کے پورے معنی ظاہر نہ ہوئے ۔

ہم اس تاویل کو قبول نہیں کرسکتے کہ اس نبوت کا تعلق ان مصیبتوں سے ہے جو انطاکس اپی فینس کےزمانے میں خدا کی اُمت نے اٹھائیں ممکن ہے کہ ممسوح یا مسیح سے مُراد کوئی سردار کاہن ہو جو اُس زمانے میں مارا گیا یا کوئی سردار مُراد ہو جس نے یہودیوں کی مدد کی ۔ لیکن یہ توبیان اسرائیل کے شہزادے اورخداوند کے ممسوح کا ہے۔ البتہ مکابی زمانے میں کسی نے یہ سمجھا کہ یہاں انطاکس کے زمانے کی ایذارسانی کا ذکر ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انطاکس کے زمانے کی ایذارسانی اس بڑی مصیبت کا پیش خیمہ تھا نہ کہ تکمیل۔


آخری پیش گوئی میں آخری ہفتے کی زیادہ توسیع ہے۔ یرمیاہ نے جو ستر(۷۰) سالوں کی اسیری کی پیش گوئی کی تھی(یرمیاہ ۲۹: ۱۰) وہ شاید (دانی ایل ۹باب) کے ستر(۷۰) ہفتوں کی پیش گوئی سے تعلق رکھتی ہوکہ یروشلیم کے ازسرنوبنانے کے حکم سے لے کر مسیحی زمانے کے آخر تک پہنچے۔ یوں ستر(۷۰) ہفتے کے آخری ہفتے کے دن بتائے گئے۔ سالی ہفتے کے کل ایام ۲۵۲۰ دن ہیں جن میں سے ۱۲۹۱ کا ذکر ہوا یعنی سالی ہفتے کے نصف دنوں سے( ۳۰)دن زیادہ۔ اور( ۱۳۳۵ )دن یا( ۴۵)دن زیادہ۔ اسی قسم کے اعداد کا ذکر آٹھویں باب میں ہوا یعنی( ۲۳۰۰) صبح وشام جو( ۶- 7/18 )سالی دنوں کے برابر ہیں یعنی سالی ہفتے کا ایک بہت بڑا حصہ ۔ تیسری سلطنت کے چھوٹے سینگ کی ایذارسانی تو قریباً سارے سالی ہفتے تک رہے گی ۔ لیکن چوتھی سلطنت کے چھوٹے سینگ کی ایذارسانی صرف نصف ہفتے تک یا اس سے ذرا زیادہ عرصے تک ۔

آخری برکت نہ صرف اُن ہی کےلئے ہوگی جو اُس وقت زندہ ہوں گے بلکہ وفادار دانی ایل اوراُن لوگوں کےلئے بھی جن کے ذریعہ دوسرے لوگ راستباز بن گئے ۔یعنی فی الحقیقت مُردوں کی قیامت ہوگی۔ مُردوں کی قیامت کی تین پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں (ہوسیع ۱۳: ۱۴؛ حزقی ایل ۳۷: ۷۔ ۱۴؛ یسعیاہ ۲۶: ۱۹)۔

یہاں پہلی دفعہ مسیحی تصور میں افراد کی قیامت کا ذکر آتاہے ۔ بعضوں کی قیامت ابدی اجر پانے کےلئے ہوگی اور بعضوں کی ابدی ذلت وندامت اٹھانے کیلئے جوراستباز مردوں میں سے جی اٹھیں گے وہ مقدس زمین کی برکتوں میں شریک ہوں گے۔ لیکن عام قیامت کا مکاشفہ کہ راستباز اور شریروں سبھوں کی قیامت ہوگی اب تک نہ ملا۔ وہ مکاشفہ نئے عہدنامہ میں آکر ظاہر ہوا۔

چودھواں باب

بحالی کے زمانے میں مسیحی تصور

کسدی سلطنت کی بربادی اور فارسی سلطنت کا قیام خدا کی طرف سے وقوع میں آیا۔ اوریہ خدا کی اُمت کی خاطر ہوا۔خورس یہودیوں پر مہربان تھا۔ اُس نے اُنہیں اجازت دی کہ یروشلیم کو واپس جائیں اورہیکل اورعبادت کو بحال کریں۔ یہودی نبیوں نے اس کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کے پورا ہونے پر خدا کے بندوں کی اُمید بہت بڑھ گئی ۔ اُن کو وہ عجائبات یادآئے جب اُس قوم نے مصر سے رہائی پائی اوربیابان میں سے گذر کر کنعان کوگئے۔ یسعیاہ یرمیاہ اور حزقی ایل کی نبوتوں سے اُن کی دلیری زیادہ ہوئی ۔ اب اُن کو یقین ہو گیاکہ خدا آئے گا اوراُن کے آگے آگے صِیّون کو جائے گا اوراُس کا یہ ظہور پہلے ظہوروں سے زیادہ شاندار ہوگا۔

)۶۸مزمور (میں بھی یہ خیال ظاہر کیا گیا جس سے یہ گمان پیدا ہوتاہے کہ یہ مزمور اسی زمانہ میں تیارہوا۔

فصل اوّل

خداوند کا کُوچ کرنا

(زبور ۶۸) میں یہ بیان ہے کہ خدا صِیّون کی طرف کوچ کررہاہےوہ اپنے سارے دشمنوں پر فتح پاکر خوشی کرتاہے ۔ جن اسیروں کو اُس نے چھڑایا وہ دھوم دھام کے ساتھ غنیمت کا مال ساتھ لے کر اپنے ساتھ صِیّون کے مقدس میں لاتاہے اور کوش اور ساری قومیں اس کی عبادت اور تعریف میں شریک ہوتی ہیں۔

اس مزمور کے پانچ (۵)حصے ہیں اور ہر حصے میں پندرہ پندرہ آیتیں ہیں اوریہ دیبورہ کے گیت کے نمونے پر بنایا گیا اور یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے کے مولف کے تصورات اس میں پائے جاتے ہیں ۔ پہلے حصے میں یہ ذکر ہے کہ جب خدا ظاہر ہوگا توشریر دھوئیں کی طرح بھاگیں گے اورموم کی طرح پگھل جائیں گے(مقابلہ کروگنتی ۱۰: ۳۵سے) لیکن راستباز خوشی کے نعرے ماریں گے۔

اس حصے کے آخر میں یہ ذکر ہے کہ شاہراہ تیار کی جائے جہاں سے خداوند کی رتھ بیابانوں میں سے گذرے (مقابلہ کرویسعیاہ ۴۰: ۳؛ ۵۷: ۱۴؛ ۶۲: ۱۰)۔ اوراُس نے اپنے تئیں یتیموں کا باپ ، بیوگان کا منصف ، قیدیوں کا نجات دہندہ اور پیداوار کا بخشنے والا ظاہر کیا(مقابلہ کرو ۴۰: ۱۱؛ ۴۲: ۱۶؛ ۴۹: ۱۵۔ ۱۶)۔

دوسرے حصہ میں یہ ذکر ہے کہ خداوند نے کوہِ سینا سے فلسطین جانے کےلئے کوچ کیا۔(دیکھو دیبورہ کا گیت ، قاضیوں ۵: ۴۔ ۵)۔ اوراپنی اُمت کےلئے سامان مہیا کیا (موسیٰ کا گیت خروج ۱۵: ۱۳۔ ۱۷)۔ اورآخر میں خدا فتح کا اعلان کرتاہے اور عورتیں خوشی کا گیت گاتی ہیں (خروج ۱۵: ۲۱؛ یسعیاہ ۴۰: ۹؛ ۴۸: ۲۰؛ ۵۲: ۷۔ ۸؛ ۶۲: ۶۔ ۱۱)۔


لوٹ کے مال کے لئے دیکھو (قضاۃ ۵: ۱۶)۔ قوموں کے بادشاہ بھاگ گئے اور لوٹ کا مال میدانِ جنگ میں پڑا رہا۔ تیسرے حصے میں ذکر ہے کہ خدا نے برف کے طوفان کے ذریعہ دشمنوں کو پریشان کردیا اوراُس کے کوچ کادوبارہ ذکر ہے۔ خداکے ساتھ فرشتوں کی بیشمار رتھیں تھیں (استثنا ۳۳: ۲)۔ مخلصی یافتہ اسیروں کی قطاروں کے ساتھ مقابلہ کرو(قضاۃ ۵: ۱۲ )کا اور (افسیوں ۴: ۸)کا۔

چوتھے حصے میں دشمنوں کےکچلے جانے کا ذکر ہے(قضاۃ ۵: ۱۸)۔

پانچویں حصے میں ایک دعا ہے کہ صِیّون کو تقویت ملے اوراُس کےدشمن برباد ہوں۔ ان دشمنوں کو اُن حیوانوں سے تشبیہ دی گئی جومصر کے جنگلوں اور دلدلوں میں پائے جاتے تھے۔ پھر نبی نے دیکھاکہ مصر اور کوش ہدیے لاکر خدا کی عبادت کرتے ہیں۔

جب خورس نے اجازت دی کہ یہودی اپنے ملک کوواپس جائیں اور ہیکل کو ازسرنوتعمیر کریں تو بہت یہودی زروبابل کی سرکردگی میں اور یشوع سردارکاہن کے ساتھ واپس یروشلیم کو گئے اور ہیکل کی تعمیر شروع کی۔ لیکن سامریہ اور اُدوم کے باشندوں نے اُن کی راہ میں بہت روڑے اٹکائے اور فارس کے بادشاہ کے پاس اُن کے خلاف غلط اطلاعیں بھیجتے رہے ۔ دارا بادشاہ کے عہدِ سلطنت میں دونبی برپاہوئے یعنی حجی اور زکریاہ۔

حجی کی کتاب کے بیان کے سوا حجی نبی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے اور (عزرا ۵: ۱ ؛ ۶: ۱۴ )میں اس کے برپا ہونے کا ذرا سا ذکر ہے۔ اس نبی کی کتاب میں دوپیش گوئیاں پائی جاتی ہیں اور وہ آپس میں ایسی مشابہ ہیں کہ ان کا مطالعہ بھی ساتھ ہی کرنا چاہیے۔

فصل دوم

دوسری ہیکل کا جلال

حجی نبی نے یہ پیش گوئی کی کہ آسمان وزمین ہلائیں جائیں گے ۔ سلطنتیں تہ وبالا ہوں گی۔ قومیں اپنے بیش بہا خزانے خداوند کے گھر میں لائیں گی اوراُس گھر کاپچھلا جلال پہلے جلال سے بڑھ کر ہوگا۔ خداوند کا بندہ زُربابل اُس کے ہاتھ میں مثل نگیں کے ہوگا۔

(حجی ۲: ۶۔ ۹)۔

اس پیش گوئی کی بنیاد حزقی ایل ۔ یرمیاہ اوریسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے پر حصر رکھتی ہے (یرمیاہ ۳: ۱۴۔ ۱۸ ؛حزقی ایل ۴۰۔ ۴۹باب ؛یسعیاہ ۵۴: ۱۱؛ ۱۴، ۶۰باب)۔

جلاوطنوں نے جس ہیکل کے بنانے کا ارادہ کیا اُس کی شان وشوکت سلیمان کی ہیکل سے زیادہ ہوگی۔ یہ ساری قوموں کےلئے عبادت گاہ ہوگی جہاں وہ اپنے خرانے لائیں گے اوریہ امن وامان کی جگہ ہوگی۔ یہ نتیجہ خدا کی مداخلت سے پیدا ہوگا ۔ زمین میں بھونچال ہوگا اور ویسی ہی قوموں کے ملکی اور معاشرتی رشتوں میں ہلچل ہوگی۔

پھر زُربابل کی سرفرازی کی پیش گوئی ہے۔

(حجی ۲: ۲۱۔ ۲۳)۔

قوموں کی ہل چل کی یہ تشریح ان آیا میں کی گئی کہ سلطنتیں تہ وبالا ہوں گی۔ ان کی جنگی طاقت سلب ہوجائے گی تاکہ زُربابل سرفرازی حاصل کرے۔ مقابل آیات کی طرح یہاں بھی یہ ذکر ہے کہ یہ ہیکل شان وشوکت میں پہلی ہیکل سےبڑھ چڑھ کر ہوگی۔ اور زُربابل جو داؤد کے تخت کا وارث تھا جاہ وجلال کا مالک ہوگا۔ وہ خداوند کابندہ ہے جو قوم کا سردار بن جائے گا ۔ وہ نگینہ(قیمتی پتھر) کی طرح ہے کیونکہ جن رحمتوں کا وعدہ داؤد سے کیا گیا گویا وہ اُن کے پورا ہونے کا بیعانہ یاضامن تھا۔ زُربابل کا نام اُسی معنی میں یہاں بھی استعمال ہوا جیسے یرمیاہ نے داؤد کا نام استعمال کیا تھا۔ وہ زُربابل ثانی کاایک نشان ہے۔



زکریاہ

بحالی کے زمانے کے نبیوں میں زکریاہ سب سے بڑا تھا۔ یہ حزقی ایل کی طرح نبی بھی تھا اور کاہن بھی اور حزقی ایل کی طرح اُس نے تمثیلی نشانات بھی استعمال کئے ۔ اس کتاب کے تین حصے ہیں۔

پہلا حصہ( ۱سے ۸ باب )تک ۔ زکریاہ نے الہام کے ذریعہ جورویا دیکھی وہ یہاں قلمبند ہے۔ باقی دوحصے ایسے متفرق ہیں کہ مفسروں نے اُن کو دوسرے نبیوں اوردوسرے زمانوں سے منسوب کیا ہے۔

دوسرا حصہ مثلاً( ۹سے ۱۱باب) تک ایک قدیم زکریاہ سے منسوب کئے جاتے ہیں جوآخر کے زمانے میں نبوت کرتا تھا جس وقت کہ ہوسیع اوریسعیاہ نبی نبوت کرتے تھے۔ اس نبوت کے پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جس وقت یہ نبوت ہوئی اس وقت یہوداہ اوراسرائیل کی سلطنتیں جدا جدا موجود تھیں اور دشمن وہی تھے جنہو ں نے شمالی اسرائیلی سلطنت کو تباہ کیا۔ (دیکھو باب ہفتم ۔ فصل اوّل )۔

تیسرا حصہ( ۱۲۔ ۱۴باب)تک کسی دوسرے نبی کی پیش گوئی ہے جو اس زکریاہ سے متفرق تھا ۔ وہ نبی غالباً جلاوطنی کے زمانے کے بعد برپا ہوا۔ اس لئے ہم پہلے اُس پیش گوئی کا ذکر کریں گے جو زکریاہ کی کتاب کے پہلے حصہ میں پائی جاتی ہے۔

فصل سوم

نئے یروشلیم کا جلال

یروشلیم میں بیشمار لوگ آباد ہوں گے۔ اُس کی دیواریں نہ ہوں گی کیونکہ خداوند خود اُس کے گرد آگ کی دیوار ہوگا اور اُس کے درمیان جلال بسے گا کیونکہ وہ اُس پر قبضہ کرکے اُسے اپنا شاہی مسکن بنائے گا ۔ چھوٹے بچے اور بوڑھے دونوں اُس کی گلیوں میں پائے جائیں گے۔ ساری قومیں یہودیوں کا دامن پکڑ یں گی اور خداوند کو اُس کے مقدس شہر میں ڈھونڈ یں گی اور وہ اُس کی اُمت کے درمیان شمار کی جائیں گی۔

اسی قسم کی دو پیش گوئیاں جن کا تعلق نئے یروشلیم سے ہے اس کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ ایک تو دوسرے باب میں مندرج ہے اور دوسری آٹھویں میں۔ سواس کا مطالعہ بھی اس پیش گوئی کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔

(زکریاہ۲: ۸۔ ۱۷)۔

اس پیش گوئی میں اکثر اُن ماقبل پیش گوئیوں کی طرف اشارے پائے جاتے ہیں جویسعیاہ کی کتاب کےد وسرے حصے میں پائی جاتی ہیں۔ یروشلیم کی آبادی کی کثرت (یرمیاہ ۳۱: ۸) میں مذکور ہے اور (یسعیاہ ۴۹: ۲۰۔ ۲۱ ؛ ۵۴: ۱۔۳ )میں۔ یروشلیم کی دیواروں کی طرف (یسعیاہ ۶۰: ۱۸) میں یہ اشارہ تھا کہ اُس کی دیوار یں نجات اورحمد ہوں گی اور(یسعیاہ ۲۶: ۱ )میں یہ کہ وہ دیوار نجات ہوگی۔ بابل سے نکل جانے کے حکم کے ساتھ مقابلہ کرو۔(یسعیاہ ۴۸: ۲۰؛ ۵۲: ۱۱؛ ۶۲: ۱۰ )کا یہ حکم باربار دہرایا گیا۔


خداوند کے یروشلیم کو اپنا ابدی مسکن بنانے کا ذکر انبیا قدیم سے کرتے چلے آئے (یوایل ۳: ۲۱؛ صفنیاہ ۳: ۱۵؛یرمیاہ ۳: ۱۷)۔

اسی طرح قوموں کا اس نجات میں شریک ہونا بھی مسیحی نبوتوں میں مذکور ہوا۔ خاص کردیکھو (یسعیاہ ۶۶: ۱۸ )کو۔

دوسری نبوت (زکریاہ ۸باب) میں مندرج ہے۔

(زکریاہ ۸: ۱۔ ۸: ۲۰۔ ۲۳)

نئے یروشلیم کو یہ نام دئے گئے اور وہ اُن ناموں سے مشابہ ہیں جو صفنیاہ یرمیاہ ،حزقی ایل اوریسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصہ نے بیان کئے۔ یعنی شہر صدق اورکوہ مقدس(مقابلہ کرو صفنیاہ ۳: ۱۶ ؛ یرمیاہ ۳۳: ۱۶؛حزقی ایل ۴۸: ۳۵؛یسعیاہ ۶۰: ۱۴؛ ۶۲: ۴)۔

بوڑھوں اوربچوں کا اُس شہر کی گلیوں میں پھرنا( یسعیاہ ۶۵باب) میں مذکور ہوا۔ اس پیش گوئی میں سب سے اعلیٰ بیان وہ ہے جہاں قومیں ایک دوسرے کو اُکساتی ہیں کہ خداوند کو پیارکریں۔ جب ایک قوم یہ کہتی ہے ۔چلو ہم جلد خداوند سے درخواست کریں تو دوسری قوم یہ جواب دیتی ہے "میں بھی چلتاہوں" اور وہ سب یہودیوں کا دامن پکڑ کر کہتی ہیں کہ ہمیں خداوند کے حضور لے چلو۔

اس پیش گوئی میں زکریاہ نے ماقبل پیش گوئیوں کی طرف اشارہ کیا۔

فصل چہارم

کاہن بادشاہ کی تاج پوشی

خداوند کا بندہ بنام شاخ خداوند کی ہیکل بنائے گا اوراُس کے کونے کا سرا ہوگا۔ کہانت اورشاہی عہدے اُس میں جمع ہوجاتے ہیں۔ وہ خدا کے فضل کا دائمی وسیلہ ہوجاتاہے۔

(زکریاہ ۳: ۸۔ ۴: ۱۴)تک

سردار کاہن یشوع سے وعدہ کیا گیا کہ خدا کا بندہ جس کا نام شاخ ہے برپا ہوگا۔ یہاں یہ لفظ شاخ اسم علم کے طورپر مستعمل ہے اور یہ مسیح کا ایک نام ہے جویرمیاہ نبی کتاب میں آتا ہے(یرمیاہ ۳۳: ۵۔ ۸؛ ۱۴ ۔ ۲۲)۔ اس نبی نے اس شاخ کو ابنِ داؤد سے منسوب نہیں کیا اور نہ داؤد کے نام سے پھر بھی یہ عیاں ہے کہ زکریاہ نے زُربابل کو داؤد کی جگہ استعمال کیا اور وزروبابل ثانی کا منتظر تھا۔ اوریہ لقب " خداوند کا بندہ" اس کےلئے استعمال ہوا جیسا کہ یرمیاہ ویسعیاہ نبیوں نے داؤد کا نام داؤد ثانی کے لئے استعمال کیا۔ یہاں اس لقب کا تعلق اُس بندے سے نہیں جویسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے میں مستعمل ہوا۔ زکریاہ نبی نے یہ لقب عارضی طورپر استعمال کیاکہ پیچھے اُس نے اس عجیب پتھر کا ذکر کیا۔ جویشوع کے آگے دھراہے ۔ اس پتھر پر سات آنکھیں کھدی ہیں جن سے الہٰی روح کے ساتھ طرح کے کاموں کی طرح اشارہ ہے۔ پتھر پر ان کھدی ہوئی آنکھوں سے ظاہر ہے کہ یہ وہ بنیادی پتھر نہیں جس پر کہ ہیکل کی بنیاد رکھی گئی بلکہ یہ چوٹی کا پتھر ہے جوہیکل کی تکمیل کا نشان ہے۔ اس پتھر کے ذریعہ یشوع اور اسرائیل کو یقین دلایا گیا کہ جس ہیکل کی تم نے بنیادرکھی ہے وہ تکمیل کو پہنچے گی ۔ہیکل کی بنیاد رکھنے کا ذکر (یسعیاہ ۲۸: ۱۴سے ۱۸اور زبور ۱۱۸: )۲۲، ۲۳۔ میں بھی آیاہے۔ یہ تکمیل مسیح کی آمد کے وقت ہوگی اور چوٹی کاپتھر اُس وقت رکھا جائے گا۔


اس بندے شاخ کی آمد اور چوٹی کے پتھر کے رکھے جانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گناہ خارج ہوجائے گا اورعالمگیر صلح اورامن قائم ہوں گے۔ اس کے بعد اس نبی نے ہیکل کے شمعدان کی رویا دیکھی جس کے دائیں اور بائیں دوزیتون کے درخت ہیں جو ان چراغوں کےلئے ہمیشہ تیل مہیا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا تعلق شمعدان سے دونالیوں کے ذریعہ ہے جن کے وسیلے سنہری تیل ان درختوں سے پیالے میں آتا رہتاہے اور پیا لوں سے چراغوں میں۔ اس پیالے میں سے سات نالیوں کے ذریعہ ان سات چراغوں میں پہنچتاہے اور سات دیگر نالیاں ہیں جو چاروں طرف گھومتی ہیں جن کے وسیلہ ہر ایک چراغ کو تیل کی مساوی مقدار ملتی رہتی ہے اوران چراغوں کاتعلق ایک دوسرے سےقائم رہتاہے ۔

ان زیتون کے دو درختوں سےدو ممسوح شخص مراد ہیں جو خدا کے آگےکھڑے ہیں۔ ایک ممسوح کاہن ہے اور دوسرا بادشاہ ۔ اس کی خدمت کے ذریعہ خدا کے فضل کا تیل خدا کی سلطنت کے شمعدان میں پہنچتا رہتاہے تاکہ روشنی چمکاسکے۔ جیسے یرمیاہ نبی کی کتاب میں ذکرتھا کہ مقدس شہر عہد کا صندوق اور خداوند کا تخت بن گیا (یرمیاہ کے ذریعہ خدا کے فضل کا تیل خدا کی سلطنت کے شمعدان میں پہنچتا رہتاہے تاکہ روشنی چمکاسکے۔ جیسے یرمیاہ نبی کی کتاب میں ذکرتھا کہ مقدس شہر عہد کا صندوق اور خداوند کا تخت بن گیا (یرمیاہ۳: ۱۴۔۱۸) ویسے ہی یہاں نئی ہیکل ایک بڑا شمعدان بن جاتی ہے جس سے اسرائیل اور دیگر قوموں کوروشنی پہنچے۔ یہاں یہ تو صاف ذکر نہیں کہ یشوع اور زُربابل اس ہیکل کو تکمیل تک پہنچائیں گے ۔ صرف اتنا صرف ذکر ہے کہ وہ اُس کی بنیاد رکھیں گے اوراس کی تکمیل پر بڑی خوشی منائی جائے گی۔ زُربابل کی اس ہیکل کی پشت پر وہ بڑی ہیکل ہے جس کا ذکر یرمیاہ، حزقی ایل اور حجی وغیرہ نےکیا۔ جن لوگوں نے زکریاہ نبی کی نبوت سنی اُنہوں نے زُربابل کی ہیکل کو وہ کامل ہیکل نہ سمجھا ہوگا جس کی پہلے نبیوں نے پیش گوئی کی تھی۔ زُربابل کی یہ ہیکل کو گویا بیعانہ تھی۔ علاوہ ازیں یشوع کی نسبت توکہہ سکتے ہیں کہ وہ ممسوح کاہن تھا لیکن زُربابل کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ وہ ممسوح بادشاہ تھا۔ اگرچہ وہ شاہی خاندان سے ہو اس لئے یشوع اور زربابل اس نبی کے نزدیک ان بڑے عہدوں کے گویا نشان تھے۔ یہ بڑے عہدےآخری دنوں میں اپنی پوری شان میں ظاہر ہوں گے مسیح شاخ برپا ہوگا اور وہ سب کےلئے نور وفضل کا چشمہ بن جائے گا۔

اس بندے کے بارے میں جو شاخ کہلاتاہے دوسری پیش گوئی (زکریاہ۶باب) میں پائی جاتی ہے اوراس میں پہلی پیش گوئی کی توسیع ہے۔ (زکریاہ۶: ۹۔۱۵)۔

اس شاخ کے بارے میں یہاں یہ ذکر ہے کہ وہ برپاہو کر خداوند کی ہیکل بنائے گا یہ آئندہ کا ذکر ہے حالانکہ زربابل پہلے سے موجود تھا اورنئی ہیکل بنارہا تھا۔

نبی نے اُس سونے کے تاج کا ذکر کیا جواُن یہودیوں نے بھیجا جوبابل میں رہ گئے تھے ۔ یہ تاج یشوع کے سر پر رکھا گیا نہ اس لئے کہ وہ مسیح سمجھا گیا بلکہ یہ کہ وہ ایک نشان تھا کہ مسیح آئےگا اور اُس کوایسا تاج پہنایا جائے گا۔ اس میں کاہن اور بادشاہ کے دونوں عہدے جمع ہوں گے۔یہ وہی کاہن بادشاہ ہے جس کا ذکر (مزمور ۱۱۰) میں ہوا۔یہ وہی ہے جسےیرمیاہ نے شاخ نام دیا۔ اوریسعیاہ نے کونپل (یسعیاہ ۱۱باب) اورناتن نبی کی پیش گوئی میں داؤد کی نسل اورہیکل کابنانے والا کہلایا(۲۔سموئیل ۱۱۔ ۱۶؛ تواریح ۱۷: ۱۰۔ ۱۴) لیکن زکریاہ نے ان سب پیش گوئیوں سے کچھ زیادہ ظاہر کیا۔ یسوع مسیح ناصری میں ان سب پیش گوئیوں کی تکمیل ہوتی ہے۔

فصل پنجم

خداوند مقدس بادشاہ

(زبور ۹۳، ۹۵ ۔ ۱۰۰ تک اور زبور ۴۷ )میں یہی مضمون پایا جاتاہے کہ خداوند سلطنت کرتاہے۔ ان کی ساخت وترکیب بھی ایک ہی قسم کی ہے۔ شاید وہ ایک ہی بڑے گیت کے حصے ہوں۔ اور گمان ہے کہ یہ مزامیر دوسری ہیکل کی تعمیر کے وقت بنائے گئے۔ ان میں خوشی اور اُس زمانے کی امید کااظہار ہے جب دوسری ہیکل پہلی دفعہ تکمیل کو پہنچی۔ وہ حجی اور زکریاہ کی پیش گوئیوں سے علاقہ رکھتے ہیں۔

خداوند مقدس بادشاہ صِیّون میں تخت نشین ہے۔ اُس کی حکومت ساری زمین پر ہے۔ کل خلقت اُس کی آمد کےلئے خوشی کرتی ہے۔ اُس کی سلطنت انصاف پاکیزگی اور بہت سی برکتوں کی سلطنت ہے۔

(زبور ۹۳)۔

اس مزمور کے شروع میں یہ الفاظ ہیں " خداوند سلطنت کرتاہے" اس گروہ کے سارے مزامیر کا یہی مضمون ہے وہ شوکت اور قدرت سے ملبس ہے۔ اُس ہیکل کی خاص صفت پاکیزگی ہے۔

(زبور ۹۵)۔

اس مزمور میں حمد کےلئے دعوت ہے کہ خداوند کی جو تیرا بادشاہ اور معبودوں کا معبود ہے حمدکرو۔

(زبور ۹۶)۔

اس میں بھی حمد کےلئے دعوت ہے اور یہ درخواست ہے کہ سارے جہان میں اُس کی نجات کی خوشخبری دی جائے۔

(زبور ۹۷ )۔

یہ بھی( زبور ۹۳) کی طرح ہے ۔ خداوند بلند تخت پر بیٹھا ہے وہ کل زمین کا بادشاہ ہے راستبازوں کودعوت ہے کہ خوشی منائیں۔

(زبور ۹۸)۔

یہ (زبور ۹۶) سے مشابہ ہے اور نئے گیت گانے کی دعوت ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرو( یسعیاہ ۴۰ : ۵؛ ۵۱: ۹ ؛ ۵۲: ۱۰؛ ۶۲: ۸ )کا۔

(زبور ۹۹)۔

اس کے شروع میں بھی یہ جملہ آتاہے کہ خداوند سلطنت کرتاہے۔ خداوند صِیّون میں کروبیم (فرشتوں)پر تخت نشین ہے اور ساری قوموں سے سربلند ہے۔ وہ مقدس ہے پھرقدیم تاریخ دہرائی گئی جیسے( زبور ۹۵) میں تاکہ لوگ عبادت کریں۔ موسیٰ ہارون اور سموئیل نے دعائیں مانگیں اور خدا نے اُن کا جواب دیا۔ آگ اور بادل کے ستون میں سے خدا نے اُن سے کلام کیا اوراُس نے اُن کے گناہ بخشے پھر وہ کتنا زیادہ راستباز اور نجات دہندہ ثابت ہوگا جب وہ صِیّون میں تخت نشین ہوگا ۔

(زبور ۱۰۰)۔


اس مزمور میں بھی حمدکے لئے دعوت ہے۔ اس کی بنیاد( یسعیاہ ۴۰: ۱۱ )ہے کہ خدا چوپان ہے اور اسرائیل اس کا گلہ ہے اس لئے وہ خدا کی حمد کریں۔

(زبور ۴۷) اس گروہ کے مزامیر سے ایسا مشابہ ہے کہ اس کا ذکر بھی اُن کے ساتھ ہی کیا جاتاہے۔

اس مزمور میں بھی خدا کی حمد کیلئے دعوت ہے جو ساری سرزمین کا بادشاہ ہے یہ( زبور ۶۸ )سے مشابہ ہے جہاں یہ ذکر ہے کہ خدا نرسنگے کی آواز کے ساتھ صِیّون پر چڑھا۔ وہ عالمگیر بادشاہ ہے۔

فصل ششم

خداوند کے جلال کی سرزمین

خداوند اپنی اُمت کی اقبال مندی بحال کرے گا۔ اُس کا جلال اُس زمین میں رہے گا۔ اورالہٰی صفات کا اتحاد ہوگا۔ آسمان اور زمین دوستانہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے تالی بجآئیں گے۔ زمین زرخیز ہوگی۔ مویشی بیشمار اور بچے پورے قدکے اور خوبصورت ہوں گے سارے جہان میں امن اور خوشی ہوگی۔

(زبور ۸۵)

پہلے حصے میں خدا کی رحمت کےلئے شکرگزاری ہے۔ اُس نے جلاوطنوں سے اپنے وعدے پورے کئے اوران کو بحال کیا اور اُن کے گناہوں کو معاف کردیا (مقابلہ کرو یسعیاہ ۴۴: ۲۲سے)۔ لیکن خدا کی مہربانی کی مزید ضرورت تھی تاکہ اس زمین کی زرخیزی بحال ہوا اور خدا کا غصہ بالکل جاتارہے۔

دوسرے حصے میں اس درخواست کا جواب ہے کہ جولوگ اُس سے ڈرتے ہیں نجات اُن کے نزدیک ہے۔ پھر پیش گوئی کا رخ اُس پہاڑ کی طرف ہے اوریہ ذکر ہے کہ خدا کا جلال اُس مقدس زمین میں بسے گا ۔ خدا کی صفات کا اتحادہوگا۔ وہ آسمان سےنازل ہوں گی اور زمین میں سے پھوٹ نکلیں گی اور صِیّون پر آٹھہریں گی ۔ الہٰی رحمت اور الہٰی وفاداری مختلف سمتوں سے آکر صِیّون میں متحد ہوجائیں گی۔راستبازی اور امن مدتوں سےاُس ملک سے غائب رہے اب وہ ایک دوسرے کو دوستانہ بوسہ دیں گے۔ وفاداری زمین سےپھوٹ نکلے گی اور الہٰی راستبازی آسمان سے نازل ہوگی۔

(زبور ۱۴۴: ۱۲۔ ۱۵)۔

اس حصہ میں ملک کنعان کی خوشی وخرمی کا ذکر ہے۔

فصل ہفتم

کامل انسان کا بدی پر فتح یاب ہونا

گذشتہ مزامیر اُس سرزمین کی خوشحالی کاذکرہوا جس میں خداوند بستا ہے۔ (زبور ۹۱) میں دیندار شخص کی خوشحالی کا ذکر ہے جوخدا کے ساتھ شراکت رکھتاہے۔

(زبور ۹۱)

اس خوبصورت اور نفیس مزمور میں اُس کامل انسان کا ذکر ہے جوخدا سے شراکت رکھتاہے اورجس نے ہر طرح کی نجات حاصل کی۔ ایسا تجربہ جلاوطنی اور گناہ کے زمانے میں حاصل نہ ہوسکتا تھا بلکہ بختاوری(خوش قسمتی، خوش نصیبی) کے زمانے اور خداوندکی مقدس زمین میں۔ ایسا کامل انسان کامل ایام میں ہی برپا ہوسکتا تھا جب زمین اور وہ قوم سراسر خوشحال ہوں۔ جس کامل انسان کاذکر( زبور ۸)میں ہوا اورجس کی طرف اشارہ (پیدائش ۳: ۱۴۔ ۱۵) میں تھااس کاکمال یہاں ظاہر ہوتاہے ساری بدی پرغلبہ حاصل ہوگیا۔ سانپ پاؤں تلے کچلا گیا۔ فردوس اور الہٰی شراکت بحال ہوئے۔ یہ مناسب تھاکہ مسیح کی آزمائش کے وقت شیطان یہ اقتباس کرے اور اس کو یسوع پر چسپاں کرے(متی ۴: ۶)۔ بیشک یہ اُس کی پیش گوئی تھی لیکن اُس کی زمینی خدمت کے ایام کی نہیں۔ بلکہ اُس کےجی اٹھنے اورجلال میں پہنچنے کے ایام کی پیش گوئی تھی۔

زکریاہ کی کتاب ۱۲سے ۱۴ باب میں ایک ایسا مکاشفہ ہے جس کا وقت اورحاصل کرنے والا ہوں معلوم نہیں۔ لیکن قدیم ایام سے یہ زکریاہ کی کتاب میں شامل کیا گیا ۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ وہ یرمیاہ کا مکاشفہ ہے۔ لیکن آج کل علما کی رائے یہ ہے کہ یہ جلاوطنی کے بعد کےکسی نبی کا مکاشفہ ہے۔ اس کا حصر بہت کچھ حزقی ایل اوریسعیاہ کی کتابوں کے دوسرے حصے کی پیش گوئی پر ہے۔ یہاں زربابل کی حکومت کے زمانے کے بعد کا نقشہ دکھائی دیتاہے۔ان دوابواب میں مسیحی پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں جن کا الگ الگ مطالعہ کرنا چاہیے۔ دکھ اٹھانے والے مسیح کا تعلق اُس آخری مصیبت سے ہے جو یروشلیم میں برپا ہوگی جیسا کہ دانی ایل کے بارے میں (دانی ایل ۹: ۲۴۔ ۲۷)۔ ذکر ہوا ہم پہلے دکھ اٹھانے والے مسیح کا ذکر کریں گے اور بعد ازاں اس بڑی عدالت اور اُس کے نتائج کی پیش گوئی کا۔

فصل ہشتم

گڈریا جس پر مار پڑی

داؤد کا گھرانہ اوریروشلیم کے باشندے اپنے رد کردہ گڈریے کےلئے تائب ہوکر نوحہ کرتے ہیں۔ اُس کو خداوند نے گلہ کی نجات کےلئے اپنی تلوار سے مارا اورایک چشمہ سارے گناہ کے دھوڈالنے کےلئے کھل گیا۔

یہاں دوامور کا بیان ہے۔ پہلے حصے میں اُس ردکردہ گڈریے کیلئے نوحہ ہے اور دوسرے میں یہ ذکر ہے کہ خداوند نے اُس گڈریے کو مارا۔ ہم اس دوسرے بیان پر پہلے بحث کریں گے۔

(زکریاہ ۱۳: ۷۔ ۹)۔

یہ گڈریاغالباً نبی نہیں بلکہ قوم کا حاکم ہے۔ حاکم تلوار سے مارا گیا۔ وہ اپنے گلہ کے ساتھ لڑائی میں مصروف تھا اور دشمن نے اُسے شکست دی جیسے یوسیاہ کو مؔجدد کے میدانِ جنگ میں شکست ہوئی ۔ اُس کے مرنے پر اُس کی فوج بھاگ نکلی اوربڑی مصیبت اٹھائی۔ان کو مصیبت کی بھٹی میں سے گزرنا پڑا۔ اُن میں سے دوتہائی لوگ مارے گئے اور تیسرا حصہ بچ رہا ۔اُن کو خداوند نے بچایا۔ اس گلے کے بچوں نے خداوند کو پکارا اوراُس نے اُن کو بچالیا۔ یہ گڈریا اُس کی اُمت کا شہید گڈریا ہے جیسے دانی ایل کی کتاب کا شہید سردار (دانی ایل ۹: ۲۶) نہ کہ( یسعیاہ ۵۳) کا شہید بندہ اگرچہ یہ دونوں بندے اُمت کےگناہوں کے عوض دکھ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے خداوند نے اس پیش گوئی کو اپنی ذات سے منسوب کیا جس رات وہ پکڑوایا گیا(متی ۲۶: ۳۱۔ ۳۲؛ مرقس ۱۴: ۲۷)۔ مسیح خداوند کا بندہ بھی تھا اور سردار یا شہزادہ بھی ۔

(زکریاہ ۱۲: ۱۰۔ ۱۳: ۱)۔


نبی نے اس مقام میں اس واقعہ کو لیا جب یوسیاہ کی فوج کو بمقام مجدد شکست ہوئی اور وہ بادشاہ میدان جنگ میں مارا گیا جس پر سارے یہوداہ نے ماتم کیا (۲۔سلاطین ۲۳: ۲۹) یہ ایک طرح کا نشان اُس بڑی مصیبت کا تھا جو مسیح کے رد کرنے اورمارے جانے کی وجہ سے اس قوم پر نازل ہوگی۔

لیکن زکریاہ میں جس شہید بادشاہ کا ذکر ہے اُسے دشمنوں نے قتل نہ کیا بلکہ اُس کے اپنے لوگوں نے اُسے رد کیا اور مارا جنہوں نے اُس کے ہمراہ دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کیا۔ پہلے مقام میں تویہ ذکر تھاکہ خداوند کی تلوار نے اُسے چھیدا ۔ لیکن یہاں یہ ذکر ہے کہ جب خداوند کےگڈریے کو اُس کی اُمت نے ردکیا تو اُنہوں نے خداوند کو چھیدا۔ یہی حال اُس وقت گزرا جب سیدنا مسیح نے آدمیوں کے گناہوں کےلئے تنہا صلیب پر دکھ اٹھائے۔ گورومی سپاہیوں نے اُسے چھیدا لیکن اُس فعل اوراُس کی موت کی ساری ذمہ داری اُس کی اُمت پر تھی اورانہی پر یہ الزام لگایا گیا۔

اُن کے مسیح کی وفات کے بعد اُس کے پیروؤں کو دشمنوں نے بہت ستایا اوراُنہوں نے اپنی مصیبت میں خداوند سے فریاد کی اور خدا نے اپنا روح اُن پر نازل کیا۔ روح القدس کا یہ نزول اس سزا کےدنوں میں (حزقی ایل ۳۹: ۲۹) کے مشابہ ہے۔ خدا کے روح سےخدا کےبندوں کو یہ علم حاصل ہوتاہے کہ خداوند نجات دہندہ ہے۔ زکریاہ نے اس الہٰی روح کوفضل کی روح اور فضل کےلئے مناجات کی روح کہا۔ اس کےذریعہ لوگوں میں سچی توبہ پیدا ہوتی ہے اور وہ مسیح کے رد کرنے پر قومی ماتم کرتے تھے۔اُن کےتوبہ کرنے پر خداوند اُن کےلئے گناہ اور ناپاکی دھونے کےلئے ایک چشمہ کھول دے گا۔

ہمارے خداوند نے یہ ظاہر کیاکہ وہ خودردکیا ہوا مسیح تھا۔ اُس کےردکئے جانے کا اظہار اُس کی صلیب اور موت کے ذریعہ ہوا۔ اُس نےدیکھا کہ اس کے عوض پر جو عذاب نازل ہوا اُس کےلئے وہ سخت نوحہ کررہا تھا کیونکہ یروشلیم نے اُس کو ردکیا تھا (متی ۲۴: ۳۰ ؛مکاشفہ ۱: ۷) یہ امر قابل غور ہے کہ مسیح نے(یسعیاہ ۵۳ )کے دکھ اٹھانے والے بندے کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ اُس دکھ اٹھانے والے سردار یا بادشاہ کا کیا جس کا بیان دانی ایل اور زکریاہ کی کتابوں میں آتاے۔ الغرض دکھ اٹھانے والے مسیح کا تصور یہاں زکریاہ کی کتاب میں کمال تک پہنچ گیا۔

فصل نہم

لاثانی دن

یروشلیم کےپھاٹکوں پر ساری غیر قوموں کے ساتھ ایک آخری لڑائی ہوگی۔ خداوند اپنے سارے مقدسوں کے ساتھ اپنی اُمت کے چھڑانے اوراپنے دشمنوں کےہلاک کرنے کےلئے آئے گا۔ ایک بڑے زلزلے سے زیتون کا پہاڑ پھٹ کردوٹکڑے ہوجائے گا اوراس میں لوگوں کو پناہ ملے گی۔ اور خداوند عدالت کےلئے اُس پرکھڑا ہوگا۔ قوموں کوکوڑھ اوراندھے پن کی سزا ملے گی۔ یروشلیم کے جنگی بہادروں کو بڑی قوت اور بہادی عنایت ہوگی اور سارے دشمن تباہ ہوں گے۔ خداوند زمین پر بادشاہ ہوگا اور ساری قومیں اُس کی خدمت کریں گی زندہ پانی کے سوتے یروشلیم سے مشرق ومغرب کو بہ نکلتے ہیں۔ ایسا دن جس کے ساتھ کوئی رات اور سردی کا موسم نہیں طلوع ہوتا ہے اوراُس کا کوئی انجام نہیں۔ یروشلیم کی ہر چیز پر یہ کھدا ہوا ہوگا " خداوند کےلئے مقدس " کوئی ناپاک شخص اس میں کبھی داخل نہ ہوگا۔ ساری قومیں عیدِ خیام کے ماننے کےلئے چڑھ آئیں گی۔

اس کتاب میں آخری جنگ کے دوبیان پائے جاتے ہیں ۔ پہلے بیان میں اُس جنگ اور اُس مخلصی ذکر ہے جو خداوند کے ذریعہ حاصل ہوگی۔

(زکریاہ ۱۲: ۱۔ ۹)۔

یہاں یہ نقشہ کھینچا گیاہے کہ قومیں جمع ہوکر یروشلیم پر چڑھائی کرتی ہیں۔ وہ حرص سے اس کو لینا چاہتی ہیں۔ ان کی نظر میں وہ شراب کے پیالے کی طرح ہے جس کو چھین لینے کےلئے ہر قوم نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے وہ سب اُسے پی کر نشہ میں چوُر ہوگئیں۔دوسری مثال یہ ہے کہ یروشلیم سخت تنگی میں ہوں گے تو خدا مداخلت کرے گا اور اپنی اُمت کو ایسی طاقت عطا کرے گا جس سے اُن کا کمزور سےکمزور آدمی بھی داؤد اور داؤد کے گھرانے کے بادشاہوں کی طرح مضبوط ہوجائے گا اورملک کی طرح ہوگا۔ (پیدائش ۲۲: ۱۵) میں ملک یہوواہ کا ترجمہ" خداوند کا فرشتہ " کیا گیاہے۔ لیکن دراصل یہ خداوند کا مظہر یا ظہور ہے۔ جن پر فرشتے کی صورت میں خداوند ظاہر ہوا اُنہوں نے اُسے خداوندہی سمجھا۔ اس ملک کا ذکر زکریاہ اورملاکی کی کتابوں میں آتاہے۔ اس لئے وہ جنگل کے درمیان آگ کی کڑاہی کی طرح ہوگا یا غلہ کے پولوں کے درمیان ایک مشعل کی طرح جس سے ساری قومیں جوچڑھ آئی تھیں وہ جل کر بھسم ہوجائیں گی۔ (حزقی ایل ۳۸، ۳۹ باب) میں خداوند کی آمد اور یروشلیم کی مخلصی کا ذکر اسی طرح ہوا۔

عہدِ عتیق کا مکاشفہ یہاں کمال تک پہنچ گیا۔

(زکریاہ ۱۴: ۱۔ ۲۱)۔

یروشلیم کے پھاٹکوں پر جو جنگ ہوئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہر مسخر ہوا۔ جو قومیں حملہ آور ہوئی تھیں ان کا کام ختم ہوگیا۔ یروشلیم کے آدھے لوگ اسیری میں گئے اور آدھے بچ نکلے ۔ اُن کو بچانے کےلئے خداوند ظاہر ہوتاہے وہ کوہِ صِیّون پر کھڑا ہوتاہے اور خداوند کی موجودگی سے وہ کانپتا ہے اورپھٹ کر دوحصے ہوجاتاہے۔ اور مفروروں کو اُس وادی میں پناہ ملتی ہے۔ خداوند اپنے سارے فرشتوں کے ساتھ آتاہے(دانی ایل ۷: ۱۰)۔

خداوند سارے دشمنوں پر کوڑھ اورکورچشمی(نابینا) کی وبا نازل کرتاہے جیسے کہ یہوسفط کے ایام میں ہوا اوروہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ(۲۔تواریخ ۲۰: ۲۲۔ ۲۴)۔

اب دنیا میں ایک نئے دن کا طلوع ہوا۔ یہ عدالت اورمخلصی کا دن تھا۔ اس دن کےلئے سورج کی روشنی درکارنہ ہوگی۔ نہ سردی کا موسم ہوگا۔ نہ یخ نہ موسموں کا تغیر وتبدل اور نہ رات ہوگی۔ سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔ اور شام کوبھی دوپہر کی طرح روشنی ہوگی۔ اس دن کا آفتاب خود خداوند ہوگا(یسعیاہ ۶۰: ۱۹۔ ۲۰)۔

یروشلیم زندہ پانیوں کا چشمہ بن جائے گا ،یوایل ، یسعیاہ، حزقی ایل اور مزامیر میں بھی اس بہتی ندی کا ذکر ہوا(یوایل ۴: ۱۸؛یسعیاہ ۲۳: ۲۱؛زبور ۴۶: ۵ ؛حزقی ایل ۴۷: ۱۔ ۱۲)۔ ان سارے مقامات میں وہ ندی ایک تھی لیکن یہاں دوندیاں ہیں جومختلف سمتوں میں پھوٹ نکلتی ہیں۔ ایک توبحیرہ مُردار کی طرف بن جاتی ہےجیسے یوایل اورحزقی ایل کی پیش گوئیوں میں۔ اور دوسری بحیرہ شام کی طرف جیسے یہاں یہ ندی چشمہ سےنکلتی ہے جس کے پانی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی یہ سردی اور گرمی میں بلاکم وکاست (کمی)برابر بہتی رہتی ہے۔


جوقومیں اس سزا میں سے بچ جائیں گی وہ یروشلیم کو عبادت کےلئے جائیں گی۔مقابلہ کرو(یسعیاہ ۶۶: ۳۳)سےیروشلیم سراسر مقدس ہے جیسےیرمیاہ نے ظاہر کیا۔ وہ سارا شہر خداوند کا تخت ہے اور اس کا درجہ عہدکے صندوق کے برابر ہے (یرمیاہ ۳: ۱۴۔ ۱۸) یہاں یہ ذکر ہے کہ یروشلیم میں ہر شے گھوڑوں کی گھنٹیوں اور کھانے کےمعمولی برتنوں پر بھی وہ جملہ لکھا ہوگا جو سردار کاہن کے تاج پر لکھا ہوتا تھا" یعنی یہوواہ کے لئے مقدس "۔

ملاکی

یہ تو معلوم نہیں کہ ملاکی کسی شخص کا نام تھا یااُس کے عہدکے کا (ستروں )کے یونانی ترجمہ میں اس لفظ کا ترجمہ" اُس کا فرشتہ ہوگا"۔تارگم میں یہ شخص عزرا سمجھا گیا چنانچہ جیروم ، کیلون وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ یہ توظاہرہے کہ یہ نبوت جلاوطنی سے واپس آنے اورہیکل کی تعمیر کے بعد لکھی گئی اور سکندر اعظم کے زمانے سے بیشتر اس پیش گوئی کا لکھنے والا نحمیاہ کا ہمعصر اورہم خدمت معلوم ہوتاہے۔

اس کتاب کی عبارت بہت پر زور اورمکالمے کی صورت میں ہے۔ پُرانے عہدنامے کے نبیوں کی کتابوں میں یہ آخری کتاب ہے۔ اس نبی کے پیغام کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اور شروع میں دیباچہ ہے۔ دیباچے میں خدا کی اس محبت کا ذکر ہے جواسے اسرائیل سے تھی(۱: ۱۔ ۶) پہلا حصہ اس میں اُن کاہنوں کوملامت کی گئی جواُس کے نام کوحقیر جانتے تھے(۱: ۷۔ ۲: ۹تک)۔ دوسرے حصے میں اُمت کو ملامت کی گئی اُن کی بیوفائی کے باعث (۲: ۱۰۔ ۱۶) اس کے ساتھ مقابلہ کرو(نحمیاہ ۱۳: ۲۳۔ ۳۱)کا ۔ تیسرے حصے میں خداوند کی آمد کا ذکر ہے اس لئے وہ مسیحی زمانے سے علاقہ رکھتاہے(۲: ۱۷۔ ۳باب کےآخر تک)۔

فصل دہم

ایلیاہ ثانی

عہد کا فرشتہ عدالت کےلئے آتاہے۔ اُس سے پہلے کا ایک نقیب(خبر دینے والا) آتاہے۔ یعنی ایلیاہ ثانی وہ دن آگ کا دن ہے جو شریروں کو جلاڈالے گا۔ وہ آفتاب کا دن بھی کہلاتاہے جس سے خدا ترسوں کو خوشی حاصل ہوگی۔ لاوی عدالت کی آگ سے سے صاف کئے جائیں گے اوراُمت کی نذریں پھرخداوند کو مقبول ہوں گی۔

(ملاکی ۳باب)

ملاکی کی نبوت زکریاہ اور بحالی کے مزامیر کی مانند یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے پر حصر رکھتی ہے۔ نقیب آن کر خداوند کا راستہ تیارکرتاہے جیسا کہ صِیّون کی بحالی کی نبوت میں بیان ہوا (یسعیاہ ۴۰: ۱۔ ۱۱)۔ یہ نقیب پہلے توایلچی کہلایا۔ پھر ایلیاہ نبی ۔ نبی کے دل میں یہ خیال تو شائد نہ ہوگا کہ جوایلیاہ آتشبی رتھوں میں سوار ہوکر آسمان پر چلاگیا تھا۔ وہ آخری ایام میں تیار کرنے کےلئے پھر آئے گا۔بلکہ اُسے اُس نے ایلیاہ ثانی سمجھا جس کامناسب نشان قدیم ایلیاہ تھا۔ اس ایلیاہ ثانی کا کام یہ ہوگا کہ وہ بچوں اوراُن کے والدین میں ملاپ پیدا کرے اور قوموں کو ان کے بزرگوں کے صحیح ایمان کی طرف رجوع کرائے یعنی توبہ کی منادی کا کام کرے۔

یہ آمد خداوند کی آمد ہے کیونکہ یہ عہد کا ملک قدیم خداوند ملک کی طرح خدا کا ظہور ہے ۔جو اپنی اُمت کو ہدایت اورمخلصی کےلئے بار بار ظاہر ہوا۔ وہ بنی اسرائیل کی عدالت اس عہد کے مطابق کرے گا کہ وہ کہاں تک اس میں وفادار ہے ۔وہ ناگہان(اچانک) اپنی ہیکل میں آئے گا جب کہ لوگوں کو اس کےآنے کی توقع نہ ہوگی۔ وہ دن آگ کا دن ہوگا جو شریروں کو جلا کر خاک سیاہ کردے گا۔ یہ اُسی آتشین دریا کی طرح ہے جس کا ذکر دانی ایل نے کیا اورجہنم کے شعلوں کی طرح ہے جس کا ذکر یسعیاہ کی کتاب میں ہوا (یسعیاہ ۶۶: ۲۴؛ دانی ایل ۷: ۱۰) اسرائیل کے بدکاروں کےلئے بھی وہ آگ کا دن ہوگا۔ ساری اُمت خاص کر لاوی کا ہنی فرقہ اس آگ کی بھٹی میں سے گزرے گا اور سونے چاندی کی طرح اُن کی میل دور کی جائے گی اور وہ خالص ہوجائیں گے۔ وہ بالکل پاک وصاف ہوں گے۔ خدا ترسوں پر آفتاب صداقت طلوع ہوگا۔ وہ عقاب کی طرح ان کو اپنے شفا بخش پروں کے نیچے چھپا لے گا۔ وہ شریروں پر غالب آکر خوشی منائیں گے۔

یہاں آگ اور نور کے دن پرآکر عہد عتیق کی نبوت مناسب طور سے ختم ہوتی ہے جب خداوند پُرانے عہد کا اجر ہرایک کو دے گا۔



پندرہواں باب

مسیح کے بارے میں اعلیٰ تصور

مسیح کے بارے میں عہدِ عتیق کی نبوت مخلصی کی صدیوں کی تواریخ میں سے گذرتے ہوئے نہایت سادہ بیجوں سے بڑھتے بڑھتے نہایت بلندی تک پہنچ جاتی ہے۔ اگرچہ یہ بیانات مختلف طور سے ہوئےلیکن پھر بھی ان میں ایک عجیب یکتائی ہے اور رفتہ رفتہ تکمیل کے درجوں میں بڑی مناسبت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ نبوت کا یہ سارا سلسلہ مخلصی کا ایک نظام ہے۔ یہ تصور اس لئے دیا گیاکہ خدا کی اُمت ترقی کرتے کرتے اس منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔

فصل اوّل

نوع انسانی کا تصور

اس تصور کا آغاز پہلے پہل (پیدائش ۱: ۲۶۔ ۳۰) میں قلمبند ہوایعنی یہ کہ نوع انسان خداکی صورت پر مخلوق ہوئی اور باقی مخلوقات پر اُسے حکومت بخشی گئی۔ (زبور ۸ )میں اسی تصور کا ذکر ہے۔ اس اعلیٰ تصور میں آدم وحوا کے گناہ سے فرق آگیاہے۔لیکن یہ تصور بالکل نیست نہ ہوا۔ البتہ الہٰی برکتوں اور اُس اعلیٰ نمونے تک پہنچنے کی صورت بدل گئی لیکن حقیقت وہی رہی کیونکہ یہ ناممکن تھاکہ انسان کا آخری انجام خدا کی اعلیٰ تجویز سے متفرق ہو۔ اب وہ برکتیں ایک عہدکے ساتھ ملحق ہوگئیں۔( زبور ۱۶) میں یہ ذکر ہے کہ یہ انسان خدا کی مہربانی اورمرنے کے بعد اُس کی رفاقت حاصل کرتاہے ۔(زبور ۹۱)میں یہ بیان ہے کہ دیندار انسان خطروں سے رہائی پاکر خدا کی قربت ورفاقت حاصل کرتاہے اور فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔

نوع انسان کا یہ اعلیٰ تصور خدا کی اُمت کی میراث ہوا۔ یہ موسوی شریعت کی برکت ہے پُرانے عہد کی ریت رسوم اسی کے حاصل کرنے کا وسیلہ ٹھہرائی گئیں۔ لیکن جب بنی اسرائیل کی سرکشی کے باعث یہ وسیلہ بھی ناکام رہا تو انبیاء نے اپنے اپنے زمانے میں نئے عہد میں اسی تصور کو پیش کیا۔

ہوسیع نے ذکر کیا کہ جب اسرائیل کی شادی خداوند سے ہوئی تو ساری خلقت اور ساری فطرت نے خوشی منائی (ہوسیع ۲: ۱۸)یسعیاہ نبی نے اس امن وامان کے زمانے کا ذکر کیا جب ایک چھوٹا بچہ درندہ حیوانات کا ایالی بنتا ہے اور بچے سانپوں سے کھیلتے ہیں (یسعیاہ ۱۱: ۶۔ ۹) حزقی ایل نے عدن ثانی کا بیان کیا(حزقی ایل ۳۶: ۳۵) یسعیاہ کی دوسری کتاب میں یہ ذکر ہے کہ بیابان کی جگہ باغ ہوجاتاہے اورنئے آسمان اور نئی زمین پیدا ہوتی ہے جن میں راستبازی اورامن بستے ہیں(یسعیاہ ۵۱: ۳؛ ۵۵: ۱۲۔ ۱۳؛ ۶۵: ۱۷) زبور ۸۵ میں خداوند کے جلال کی سرزمین کا ذکر ہواجہاں خداوند کی صفات ایک دوسری کو بوسہ دیتی ہیں اور زمین وآسمان میں دوستی ہوجاتی ہے۔ دیکھو آٹھویں باب کی فصل دوم کاآخری حصہ۔

(زبور ۱۴۴: ۱۲۔ ۱۵)میں عالمگیر صلح اور خوشی کی تصویر کھینچی گئی ۔ زمین زرخیز ہے اورخاندان بچوں کی کثرت سے مالا مال ہے (باب چودھواں فصل ۶)

فصل دوم

بدی کے ساتھ جنگ

(پیدائش ۳: ۱۴۔ ۱۵) میں انسانی تاریخ کا خاکہ دیا گیا تھایعنی بدی کے ساتھ جنگ جب تک کہ بدی پر فتح حاصل نہ ہو عورت کی نسل سانپ پر اور ابن آدم بدی کے سردار پر فتح پائے گا۔ پہلے پہل تویہ دکھایا گیا کہ جنگ سانپ اوراُس کی نسل کے ساتھ ہے۔ لیکن مابعد نبوت میں اُس کی تشریح یہ ہوئی کہ یہ جنگ نیک وبد کے درمیان ہے جو خاندانوں، فرقوں ، قوموں اور آسمان وزمین کی قوتوں کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔ آخر کار یہ ایک عالمگیر جنگ ہوجاتی ہے کیونکہ بدی سے نوع انسان میں جدائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ لڑائی انسانوں میں بدنسل اور وعدہ کی نسل کے درمیان ہوتی ہے رفتہ رفتہ بدنسل مخلصی یافتہ نسل میں سے خارج ہوجاتی ہے ۔ ابرہام اوراُس کی نسل حوا اور اُس کی اولاد کے قائم مقام ہیں۔ ہاجرہ ،قطورہ اور عیسو کی اولاد خارج کی جاتی ہے اوراسرائیل مقدس نسل ٹھہرتی ہے اور سارے وعدوں کی وارث ہوتی ہے۔ یسعیاہ اوراُس کے مابعد انبیاء نےجسمانی اسرائیل اور روحانی بقیہ میں امتیاز کیا ہے اورجلاوطنی کے بعد بقیہ گھٹتے گھٹتے ایک لاثانی بندہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے اور وہ اسرائیل ثانی ٹھہرتاہے جوسب کے گناہوں کےلئے دکھ اٹھاتا ہے اور سب کے لئے مخلصی حاصل کرتاہے(یسعیاہ ۵۳) اورآخر وہ ابنِ آدم بنتاہے جوآسمان کے بادلوں پر سوار ہوکرآتاہے ۔ اور بدنسل رفتہ رفتہ مخالفِ مسیح میں ظاہر ہوتی ہے جس پر یہ ابن آدم فتح پاتاہے (دانی ایل ۹: ۲۳)۔

فصل سوم

خدا کی آمد

اس کا آغاز سیم کی برکت سے ہوا(پیدائش ۹: ۲۶۔ ۲۷) بدی پر فتح پانے کےلئے آدمی کو خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔ خدا سیم کے ڈیروں میں رہنے کے لئے آتاہے ۔ خداوند کا فرشتہ پتری آرکوں(آبا) کو یقین دلاتاہے کہ وہ اُن کے ساتھ رہے گا اور عہدکے وعدوں کو پورا کرے گا۔ خروج کے وقت اس فرشتے نے اپنی سکونت کےلئے مقدس خیمہ اختیار کیا۔ اور وہ خیمہ اس وقت تک شیلوہ میں رہا جب تک کہ فلستیوں نے اس کو نہ لوٹا ۔ پھر داؤد سے وعدہ کیا گیا کہ وہ ہیکل میں رہے گا (۲۔سموئیل ۷: ۱۱۔ ۱۶)چنانچہ وہ سلیمان کی ہیکل میں داخل ہوکر جلاوطنی تک وہاں رہاخدا کی حضوری یروشلیم کو تباہی سے بچالیتی ہے ۔ صِیّون میں ایک کونے کا پتھر رکھا گیا جوپورے اعتماد کے قابل ہے ۔ وہ طوفان کے وقت بھی قائم رہتاہے (یسعیاہ ۲۸: ۱۶) اور صِیّون خدا کامسکن ٹھہرتاہے۔ جہاں وہ جنگی مرد قاضی اور بادشاہ ہوکر رہتاہے (یسعیاہ۳۳: ۲۰۔ ۲۴) صِیّون خدا کی اُمت کےلئے جائے امن وامان ہے (زبور ۴۶۔ ۴۸)۔

ایسے اعلیٰ تصور کی تصدیق وتکمیل اُمت کے گناہوں کے باعث نہ پُرانے یروشلیم میں ہوسکتی تھی اور نہ پرُانی ہیکل میں۔ انبیائے نے اس تکمیل کو نئی ہیکل اور نئے یروشلیم سے منسوب کیا(حزقی ایل ۱۱: ۱۶، ۴۰باب سے ۴۸باب تک)پھر اس کا یہ نقشہ پیش کیا گیا اس نئی ہیکل کا پہاڑ سارے پہاڑوں سے زیادہ سربلند ہوگا۔ قومیں وہاں آئیں گی اور وہ تعلیم اور عدالت کا چشمہ بنے گا (میکاہ ۴: ۱ ؛یسعیاہ ۲: ۲)۔


یرمیاہ نے ایک نئے یروشلیم کودیکھا جو عہد کے صندوق کی طرح مقدس ہوگا(یرمیاہ ۳: ۱۷) اس کا نام " خداوند ہماری صداقت " ہوگا(یرمیاہ ۳۳: ۱۶)اوراس کے نزدیک کوئی ناپاک شے نہ ہوگی(یرمیاہ ۳۱: ۳۸۔ ۴۰) پھر یہ ذکر آتاہے کہ خداوند آکر اس ہیکل میں ہمیشہ تک رہے گا اور وہاں کےباشندوں کی سب حالتوں کو پورا کرے گا(زبور ۱۳۲)۔

حزقی ایل نے اس کا یہ نام بتایا"خداوند وہاں ہے" (حزقی ایل ۴۸: ۳۵)یسعیاہ کی دوسری کتاب میں یہ ذکر ہے کہ یہ ہیکل قوموں کی عبادت کا گھر ہوگی اور قومیں اپنے خزانے وہاں لائیں گی۔ اور یروشلیم قیمتی پتھروں سے بنایا جائے گا۔ اس کے پھاٹک " نجات " اوراس کی دیواریں " تعریف کہلائیں گی ۔ یہ جہان کا نور وجلال ہوگا۔ بعولا اور حفظیباہ اس کا نام ہوگا۔ یہ نئی زمین اور نئے آسمان کا مرکز ہوگا(یسعیاہ ۴۹: ۴۳؛ ۵۴: ۱۲؛ ۵۶: ۷؛ ۶۰: ۶۲؛ ۶۵: ۱۷)۔

حجی نبی نے یہ ظاہر کیا کہ اس گھر کا جلال پہلے گھر کے جلال سے اعلیٰ ہوگا (حجی۲: ۹)۔زکریاہ نےیروشلیم کے باشندوں کے کثرت کا ذکرکیا اوربتایاکہ خداوند اس کے اردگرد دیوار کی طرح ہوگا اور یہ وفاداری کا شہر کہلائے گا (زکریاہ ۲: ۸۔ ۱۷؛ ۸: ۳)۔ مابعد کے ایک نبی نے یہ پیش گوئی کی کہ نیا یروشلیم ایسا مقدس ہوگا کہ اُس کے گھوڑوں کی گھنٹیاں اورکھانے کے برتن بھی سردار کاہن کے تاج کی طرح اس کتبہ سے مزین(آراستہ) ہوں گے" خداوند کےلئے مقدس" (زکریاہ ۱۴: ۲۰۔ ۲۱)۔

فصل چہارم

مقدس زمین

مقدس زمین کا مضمون ابرہام کی برکت سے شروع ہوا(پیدائش ۱۲: ۱۔ ۳)یہ میراث مقدس نسل کی ہے۔ اس زمین کو یعقوب نے اپنے بیٹوں میں تقسیم کیا۔ اوریہوداہ کو ان کا سر لشکر مقرر کیاتاکہ وہ اس سرزمین کوفتح کرنے لئے کوچ کرے۔ یہوداہ اور افرائیم کو اُس سرزمین کے زیادہ زرخیزحصے ملے(پیدائش ۴۹: ۱۱، ۲۰، ۲۲۔ ۲۶)۔توریت میں موعودزمین کی برکتیں خداکے احکام ماننے سے ملحق گئیں(خروج ۲۳: ۲۵ ۔ ۳۱؛استثنا ۳۲: ۲۹۔ ۳۰؛ ۳۸: ۳۔ ۱۳؛احبار ۲۶: ۳۔۱۲ ؛استثنا ۳۱: ۲۰۔ ۴۶؛ ۲۸: ۶۳۔ ۶۸) نبیوں نے یہ ظاہر کیاکہ ان برکتوں کےحاصل کرنے میں وہ لوگ اس لئے قاصر رہے کہ یہ اُن کے گناہ کی سزا تھی اس لئے اُنہوں نے اس مقدس زمین کو نئے عہدسے ملحق کیا۔ بحال شدہ سرزمین باغِ عدن کی طرح پھل دار ہوگی اور وہ بھی فرقوں میں تقسیم کی جائے گی اور خاص حصےکاہنوں ،لاویوں اور مقدس شہر اور بادشاہ کوملیں گے۔ ہیکل سے آب حیات کی ندی جاری ہوگی جس سے اُس زمین کے بنجر حصے بھی زرخیز ہوجائیں گے اورمُردہ سمندر کا پانی بھی شیریں ہوجائے گا۔ یہ ندی مشرق اور مغرب دونوں طرف بہے گی اور بہتے بہتے اس کے پانی زیادہ گہرے ہوتے جائیں گے۔ اس کے کناروں پر زندگی کے درخت ہوں گے جوہرمہینے پھل دیں گے۔ اوران کے پتے شفا بخش ہوں گے(حزقی ایل ۳۶: ۳۵، ۴۵۔ ۴۸باب تک) مقدس زمین تک ایک شاہراہ تیار ہوگی تاکہ جلاوطنوں کو واپس جانا آسان ہوجائے اور ان کی ضرورتیں رفع کی جائیں۔ اس ملک میں نفیس چیدہ درخت اورپھولوں کے پودے ہوں گے۔ یہ فردوس ہوگا نئے آسمان اور نئی زمین میں راستبازی اورامن حکمران ہوں گے۔ ساری خرابیاں خواہ جسمانی ہوں خواہ اخلاقی دور کی جائیں گی۔ وہاں نہ غم ہوگا نہ آنسو، نہ موت بلکہ ہرجگہ ابدی خوشی اور خرمی پائی جائے گی(یسعیاہ ۲۵: ۶ ۔ ۸؛ ۴۱: ۱۸۔ ۲۰؛ ۴۹: ۹۔ ۱۳؛ ۵۱: ۳؛ ۵۵: ۱۲۔ ۱۳؛ ۶۵: ۱۷)۔



فصل پنجم

خداوند باپ اور شوہر

خروج کے وقت اسرائیل کو خداوند نے اپنا پہلوٹھا بنایا اوراُن کو دیگر قوموں کے درمیان میراث دی اور اُن کی پدرانہ ہدایت کرتا رہا جب تک کہ وہ اس زمین کے مالک نہ بن گئے(خروج ۴: ۲۲۔ ۲۳)پھراسرائیل کی یہ ابنیت داؤد اوراُس کی اولاد سےمنسوب ہوئی چنانچہ ہوسیع نے بنی اسرائیل کو مسیح کے دنوں میں زندہ خدا کے بیٹے کہا(ہوسیع ۱: ۱۰) خدا نے گودوسری قوموں کو اُن کے گناہوں کی وجہ سے چھوڑدیا لیکن وہ اسرائیل کو ترک نہ کرے گا۔ وہ اُسے مُردوں میں سے جلائے گا اوراُنہیں پاتال سے مخلصی دے گا(ہوسیع ۱۱: ۸۔ ۹؛ ۱۳: ۱۴)یرمیاہ نے افرائیم کو خداوند کا پہلوٹھا کہا۔ گواُسے تنبیہ وسزا ملی لیکن وہ توبہ کرکے خداوند کی طرف رجوع ہوا(یرمیاہ ۳۱: ۱۸۔ ۲۰) یسعیاہ کی کتاب میں یہ ذکر ہےکہ خداوند وفادار صِیّون کو والدہ سے بھی زیادہ پیار کرتاہے وہ اُسے کبھی فراموش نہ کرے گا بلکہ اُس بحال کرے گا اور اس کی اولاد کو بڑھائے گا(یسعیاہ ۴۹: ۱۴۔ ۲۲)۔

لیکن ابنیت کا رشتہ ایسا عام نہیں جیسا کہ شادی کا رشتہ یہ تصورتوریت میں پایا جاتاہے لیکن خاص طورپر ہوسیع نبی نے اس کا ذکر کیا۔ اسرائیل والدہ نے بعل سے زنا کیا اس لئے شوہر یہوواہ نے اُسے ردکردیا۔ لیکن بیابان میں سزا پانے کے بعد وہ اپنی سرزمین میں بحالی ہوئی اوراُس کی شادی از سرنوہوئی اور اس اتحاد کی بنیاد الہٰی صفات تھیں(ہوسیع ۱، ۲باب) صفنیاہ نبی نے یہ ظاہر کیا کہ خداوند ازسرنوع صِیّون کو پیار کرنے لگتاہے اوراس پر بڑی خوشی کرتا ہے (صفنیا ۳: ۱۷)۔یرمیاہ نے بھی اس دوبارہ شادی کا ذکر کیا(یرمیاہ ۳: ۱۴)۔

لیکن یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصہ میں اس کا مفصل بیان ہے (یسعیاہ ۵۴: ۱۔ ۱۷) صِیّون کا نام متروکہ (ترک کیا ہوا،رد کیا ہوا)اور خراب رکھا گیا تھا لیکن اب وہ حفظیباہ (پیاری)اور بعولا (سہاگن) (یسعیاہ ۶۲باب)۔

گلے اور گڈریے کے رشتہ کا ذکر بھی گاہے گاہے (کبھی کبھار)ہوا۔ مثلاً یعقوب کی برکتوں میں(پیدائش ۴۹: ۲۴) لیکن خاص کر زکریاہ نے اس رشتہ کا ذ کر کیا(زکریاہ ۱۱: ۷۔ ۱۴) زبور ۸۰ میں اسرائیل کے گڈریے سے یہ دعا ہے کہ وہ اپنی اُمت کی مدد کےلئے آئے (زبور ۸۰: ۲) حزقی ایل نے اچھے گڈریے کی نسبت لکھا کہ وہ اپنی منتشر بھیڑوں کی تلاش کرتااورجمع کرتااوراُن کو بھیڑ خانے میں واپس لاتاہے(حزقی ایل ۳۴: ۱۱۔ ۳۱) یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصہ میں یہ بیان ہے کہ یہ گڈریا اپنے گلے کو نجات کی شاہراہ سے لے جاتاہے وہ دودھ پیتے بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کی بھی فکررکھتاہے(یسعیاہ ۴۰: ۱۱) زبور ۹۵ میں زبور ۱۰۰ میں اسرائیل کی نسبت یہ لکھا ہے کہ وہ خداوند کی چراگاہ کےلوگ اوراُس کے ہاتھ کی بھیڑیں ہیں (زبور ۹۵: ۷؛ ۱۰۰: ۳)۔



فصل ششم

خدا کی سلطنت

حورب پہاڑ پر جو عہد ہوا اُس وقت اسرائیل خدا کی سلطنت کا ہنوں اور مقدس قوم کی سلطنت ٹھہرا (خروج ۱۹: ۶)ابرہام کی برکت میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اُس کی نسل نوع انسان کےلئے برکت ٹھہرے گی (پیدائش ۱۲: ۱۔ ۳)حورب پر جو عہد ہوا اس میں اُس کی تکمیل کے طریقوں کا خاکہ دیاگیا۔ اسرائیل شاہی کاہن بنے اور اس حیثیت سے اُنہیں دوخدمتیں سرانجام دینی تھیں ایک تو کہانت کی خدمت اورایک شاہی خدمت یہ دونوں پہلو مسیح کے متعلق نبوتوں میں منکشف(ظاہر، عیاں) ہوئے۔

بلعام کی نبوت میں خدا کی بادشاہی قوموں سے علیحدہ ہے۔ اس میں بیشمار لوگ شامل ہیں اوراس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ سب قوموں کو مغلوب کرتی ہے(گنتی ۲۳: ۹۔ ۱۰؛ ۲۴: ۱۷۔ ۱۹) یہوواہ اس سلطنت کا بادشاہ ہے۔

داؤد کے ساتھ جوعہدہوا اُس میں بتایا گیاکہ داؤد کی نسل وہ مسیح خاندان ہے جو اُس کی بادشاہی پر حکمران ہے۔ پھر بھی خداہی بادشاہ رہتاہے (۲۔سموئیل ۷: ۱۱۔ ۱۶) اس لئے خدا کی بادشاہی کی فتوحات کبھی تومسیح کی فتوحات کہلاتی ہیں اور کبھی خدا کی ۔داؤد کی سلطنت کے ابتدائی زمانے میں مسیح فاتح کے طورپر نظر آتاہے لیکن تاریکی کے ایام میں مسیح کا خیال دھندلا پڑگیا اور خدابادشاہ کا ذکر زیادہ ہوا چنانچہ( زبور ۲۴ )میں یہوواہ لشکروں کا خدا فتح یاب ہوکر مقدس شہر میں داخل ہوتاہے۔( زبور ۴۶، ۴۸ )میں یروشلیم بڑے بادشاہ کا شہر کہلاتاہے جہاں سے وہ اپنے سارے دشمنوں کو مغلوب کرتاہے۔

داؤد کی نسل کی بیوقوفیوں کی وجہ سے خدا کی سلطنت کو تنزل ہوا۔ یہ دو حصوں میں منقسم ہوگئی شمالی فرقے جنوبی فرقوں سے علیٰحدہ ہوگئے اس لئے اُس وقت سے ان حصوں کے اتحاد کا ذکر ہونے لگا۔ اسوریوں کے حملوں کے ذریعہ خدا کی سلطنت کو مزید ضعف (دوچند،کمزوری)پہنچا۔ اس لئے یروشلیم اور صِیّون ہی کا ذکر باقی رہ گیا وہاں جوکونے کاپتھر لگایا گیا وہ ہر طرح کے ہنگاموں میں قائم رہے گا(یسعیاہ ۲۸: ۱۶۔ ۱۸)زبور ۸۰ میں اس سلطنت کو انگور کے درخت سے تشبیہ دی گئی جوپہلے بہت پھلدار ہوالیکن پیچھے جنگلی جانوروں نے اُس کی ڈالیاں چھانٹ ڈالیں۔ حزقی ایل نے رویا میں دیکھا کہ یہ سلطنت مقررہ بادشاہ کے آنے تک برباد رہے گی(حزقی ایل ۲۱: ۳۱۔ ۳۲) اور وہ دیوار کی چھوٹی شاخ کی طرح مقدس زمین کے پہاڑ پر لگائی جائے گی اور بڑھ کر عالیشان درخت بن جائے گی (حزقی ایل ۲۷: ۲۲۔ ۲۴) دانی ایل کی رویا میں یہ سلطنت ایک چھوٹا پتھر ہے جوبلاہاتھوں (ہاتھ لگائے بغیر)کےچٹان میں سے کاٹا گیا اور بڑھتےایسا بڑا ہوگیا کہ دوسری سلطنتوں کو اُس نے پاش پا ش کردیا(ٹکڑے ٹکڑے کرنا) اور پہاڑ بن گیا جس سے ساری زمین بھر گئی ۔ (دانی ایل ۲: ۴۴۔ ۴۵)جلاوطنی کے ایام کی نبوتوں میں یہوواہ خود اسرائیل کا بادشاہ ہوکر آتاہے۔ اورجب بحالی کا وقت آیا تواُس نے اُن سے بڑے معجزے کئے جو خروج کے وقت کئے گئے تھے۔ وہ مخلصی کی شاہراہ پر اُپنی اُمت کے آگے آگے جاتاہے ۔ اُس کے سامنے ساری فطرت کی شکل بدل جاتی ہے اور وہ صِیّون کو اپنا مسکن بنالیتا اور وہ اسرائیل اور دنیا کے نوروجلال کی طرح ہمیشہ حکومت کرتا ہے اس کی امن وامان کی سلطنت کے باعث کل فطرت وخلقت خوشی مناتی ہے اور ساری قومیں اُس کو اپنا عالمگیر بادشاہ تسلیم کرتی ہیں(یسعیاہ ۴۱، ۴۲باب ۴۹: ۲۱۔ ۲۵ ؛ ۵۲: ۷۔ ۱۲؛ ۵۷: ۱۱۔ ۲۱، ۶۰باب، ۶۲: ۱۰۔ ۱۲؛زبور ۶۸، ۹۳ ،۹۵ سے ۱۰۰)۔


کاہنی رشتہ کا نشوونما مابعد نبوت میں دکھایا گیا ۔پہلے تو ساری قوم کاہن بتائی گئی ۔ پھر اُس قوم میں سے ایک خاندان کہانت کےلئے چنا گیا۔ اس وقت سے قوم کی کہانت کا تصور ماند پڑگیا۔ نبیوں میں سے یسعیاہ نےپہلی دفعہ قوم کی کہانت کا ذکر پھرچھیڑا۔ اُس نے دیکھا کہ مصر اور اسور اسرائیل کے ساتھ متحد ہوکر خدا کی اُمت بن گئے ۔ وہ سب مقدس زبان بولتے اورمذبح اور قربانی کے ساتھ یہوواہ کی اطاعت کرتے ہیں اور کوش اور صوربھی اُس کے آگے ہدیئے چڑھاتے ہیں (یسعیاہ ۱۸: ۷؛ ۱۹: ۱۶۔ ۲۵؛ ۲۳: ۱۸)۔صفنیاہ نے دیکھا کہ اسرائیل کی شہرت افریقہ کے دورودراز ملکوں تک پہنچ گئی ۔ اور کوش اور لبیا کےلوگ ہیکل میں نذرانے بھیجتے ہیں (صفنیاہ۳: ۹۔ ۱۰) زبور ۸۷ میں یہ گیت گایا جاتاہے کہ قومیں خدا کے شہر میں حق پیدائش حاصل کرتی ہیں اوراُن کو صِیّون کے شہری ہونے کا حق ملتاہے۔

یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے میں اس کی زیادہ تفصیل پائی جاتی ہے۔یعقوب کا نام عزت کا لقب بن جاتا ہے ۔زمین کی ساری قومیں اور ساری زبانوں کے لوگ یہوواہ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ بادشاہ اور ملکہ صیون کے دینی باپ اور دینی ماں بن جاتے ہیں ۔اور عام دعوت دی جاتی ہے کہ اس نئے عہد کی برکتوں میں ہر ایک شخص شریک ہو خوجوں کی اور غیر یہودیوں کو خُدا کے گھر میں عبادت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور دُنیا کے لوگ اپنی نفیس اشیا صیون میں لاتے ہیں اسرائیل کے لوگ کاہن بن جاتے ہین اور باقی قومیں ان کی خادم (۴۴: ۵؛ ۴۵: ۲۱۔۲۵؛ ۵۵: ۱۔۵؛۵۶: ۶۔۷؛ ۶۱: ۵۔۶؛ ۶۶: ۲۰۔۲۱)

(زبور۶۸)میں یہ ذکر ہے کہ کوش ،مصر اور ساری قومیں جزیہ دیتی ہین اور یہوواہ کی حمد گاتی ہیں(زبور۶۸: ۳۱۔۳۲)۔ زکریاہ نے بیان کیا کہ قومیں ایک دوسرے کو یہوواہ کی تلاش کی ترغیب دیتی ہیں (زکریاہ ۸: ۲۲۔۲۳)شاہی مزامیرمیں یہ ذکر ہےکہ ساری زمین خُدا کی پرستش میں مصروف ہے (زبور ۹۶، ۹۸، ۹۹)۔اور( زکریا ہ ۱۴باب)میں یہ ذکر ہے کہ داری قومیں عید خیام منارہی ہیں (زکریاہ ۱۴: ۱۶۔۱۷)۔

فصل ہفتم

خُداوند (یہوواہ )کا دن

الہٰی عدالت کا مسئلہ موسوی شریعت کی برکتوں اور لعنتوں سے پیدا ہوتا ہے ۔(خروج ۲۳: ۲۰۔۲۲؛ ۳۴: ۱۲۔۲۸؛ استثنا۲۷، ۲۸ باب؛ احبار۲۶)۔اسرائیل کی برکت مین اس کے دشمنوں کی عدالت اور خود اسرائیل کی تنبیہ وطہارت سے علاقہ رکھتا ہے ۔عدالت یہ ہے کہ ہر طرح کی مصیبت خُداکی سلطنت کے دشمنوں پر لادی جائے خواہ وہ اس سلطنت کے اندر ہوں خواہ باہر ۔حنا کے گیت میں یہ ذکر ہے کہ خُداوند ہم دان منصف حاکم ہے ۔وہ کمزوروں کا حامی اور ساری دُنیا میں عدل کرنے والا ہے (۱۔سموئیل ۲: ۱۔۱۰)۔زبور ۵۰ میں خُدا کے ظہور کا ذکر ہے جو عدالت کے لیے آتا ہے ۔ راستبازوں اور شریروں دونوں کو یہ ہدایت ہے کہ سچے دل سے نذرانے چڑھائیں تاکہ وہ ہلاک نہ ہوں ۔

یوایل نے پہلی دفعہ خُداوند کے دن کے مسئلہ کا ذکر کیا ۔یہ بڑا ہولنا ک دن ہوگا جب خُدا قوموں کی عدالت کرے گا ۔ ساری خلقت میں ہل چل پڑجائے گی ۔ اس عدالت کو ایک جنگ ، فصل کے دَرواور انگوروں کے کولہو سے تشبیہ دی گئی (یوایل ۳: ۱۸۔۲۱)۔صفنیاہ نے بیان کیا کہ اس ہولناک دن پر سب کچھ بھسم ہوگا (صفنیاہ ۱: ۱۴۔۱۸؛ ۲: ۱۔۳)۔حزقی ایل نے یہ ظاہر کیا کہ مقدس زمین کے پہاڑوں پر قوموں سے جنگ ہوگی جن کا سرلشکر جوج ہوگا ۔وہ خُداوند کی آمد پر ہلاک ہوں گے جو اُن پر آگ اور گندھک برسائے گا اور ان کو بالکل تباہ کرے گا(حزقی ایل ۳۸۔ ۳۹باب)۔


جلاوطنی کے نبیوں نے اس عدالت کو مختلف نام دئے۔ بابل، مصراور موآب پر یہ عدالت ہوگی اور زمین ایک شرابی کی طرح لڑکھڑانے لگے گی اور برباد ہوگی ۔ بڑا دارالخلافہ ویران ہوگا ۔ زمین کے بادشاہ اور آسمان کی بد قومیں قید میں ڈالی جائیں گی تاکہ ان کو سزا ملے۔ ظالمو ں کو نیست کیا جائے گا(یسعیاہ ۱۳: ۱۔۱۳؛ ۲۴۔۲۷باب تک)۔یہ عدالت ایک بڑا قتل ہے ۔خُداوند ادوم پر فتح پاتا ہے اس کی تلوار دشمنوں کے خون سے آلودہ ہے۔ اس کے لباس پر خون کے دھبے پڑے ہیں۔ بلکہ آسمان وزمین بھی ان کے خون اور لاشوں سے بھرگئے ۔آسمان طومار کی طرح لپیٹے گئے اور ان کے لشکر درخت کے پتوں کی طرح جھڑ گئے(یسعیاہ ۳۴؛ ۶۳: ۱۔۶)۔جوقومیں یروشلیم سے لڑ رہی تھیں ان کو کورچشمی اور کوڑھ نے آدبوچا اور وہ تباہ ہوگئیں (زکریاہ ۱۲: ۱۔۹؛ ۱۴: ۱۔۲۱)۔خُداوند قدیم الایام کی حیثیت میں شعلوں کے تخت پر بیٹھ کر آتا ہے۔اور اسکے سارے دشمن آگ کے دریا میں ڈالے جاتے ہیں(دانی ایل ۷: ۹۔۱۲)۔شریر لوگوں کو کوڑے کرکت کی طرح مقدس شہر سے باہر نکال پھینکتے ہیں (یسعیاہ ۶۶: ۲۴)۔آگ کا یہ دن شریروں کو جلا کر فنا کردیتا ہے (ملاکی ۳ باب)۔

یہ عدالت کا دن مخلصی کادن بھی ہے یوایل نبی نے دیکھا کہ خداکا روح سارے بشر پر نازل ہوتاہے اور طرح طرح کی روحانی نعمتیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں(یوایل ۳باب) حزقی ایل نے بھی بتایا کہ جوج اور قوموں کی تباہی کے وقت خدا کا روح اسرائیل پر نازل ہوگا(حزقی ایل ۳۹باب)۔ عاموس نبی نے یہ تعلیم دی کہ اسرائیل ساری قوموں میں سے نکال لیا جائے گا اور وہ بھوسے کی طرح برباد ہوں گی لیکن سچے اسرائیل کاایک دانہ بھی ضائع نہ ہوگا(عاموس ۹: ۹)۔ ہوسیع نے یہ ظاہر کیاکہ والدہ اسرائیل کو بیابان میں تنبیہ ملے گی اور وہ پھر بحال ہوگی یااسرائیل مرجائے گا اور دوبارہ زندہ کیا جائے گا (ہوسیع ۲، ۳، ۱۳: ۱۴)یسعیاہ نےیہ پیش گوئی کی کہ خدا وند اسرائیل کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر صاف کرے گا تاکہ وہ مقدس اورمبارک برتن بن جائے (یسعیاہ ۴: ۲۔ ۶)۔ یرمیاہ نے یہ بیان کیاکہ اس پدرانہ تنبیہ کے بعد اسرائیل توبہ کرے گا(یرمیاہ ۳۰: ۱۲۔ ۳۱باب کے آخر تک) حزقی ایل نے رویا میں دیکھا کہ بنی اسرائیل سوکھی ہڈیوں کی طرح میدان جنگ میں پڑے تھے لیکن خداوند نے اُن کوپھر زندہ کیا(حزقی ایل ۳۷: ۷۔ ۱۴) خداوند اپنے لوگوں پر صاف پانی چھڑکے گا اوراُن کو پاک کرے گا اور ان کو نیادل اور نئی روح عطا ہوگی (حزقی ایل ۳۶: ۲۵۔ ۳۵)اس بیان کی زیادہ تفصیل جلاوطنی کے نبیوں نے دی (یسعیاہ ۲۴۔ ۲۷باب کے آخر تک)۔

یسعیاہ کی کتاب کے دوسرے حصے میں یہ ظاہر کیا گیا کہ صِیّون کی جنگ ختم ہوگئی۔ اُس کی بدی دُور کی گئی اور خداوند نے اُسے بحال کیا(یسعیاہ ۴۰: ۱۔ ۲؛ ۴۴: ۱۔ ۵ ؛ ۵۴: ۱۔ ۱۷؛ ۶۲: ۱۱۔ ۱۲)۔

دانی ایل نبی نے یہ پیش گوئی کی کہ جب راستبازوں کو ان کی میراث ملے گی تو مُردوں کی قیامت ہوگی لیکن شریر اسرائیلی انگشت نما (بدنام)ہوں گے(دانی ایل ۱۲: ۱۔ ۱۳)۔

مابعد انبیاء نے اس تصور کو اعلیٰ چوٹی تک پہنچایا فضل اور مناجات کی روح یروشلیم پر نازل ہوتی ہے اور وہ سچی توبہ کرکے خُداوند کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور ان کے گناہ چشمہ میں دھوئے جاتے ہیں (زکریاہ ۱۲: ۱۰۔ ۱۳: ۱تک)ایک لاثانی دن آتا ہے جس کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا اورجس میں موسموں کا تغیر وتبدل نہ ہوگا(زکریاہ ۱۴: ۶۔ ۱۰)۔ملاکی نبی نے دیکھا کہ یہوواہ آفتاب صداقت کی طرح آرہاہے تاکہ عدالت کی آگ سے صاف کرے جس سے شریر توفنا ہوں گے لیکن راستباز صاف ہوکر خدا کے مقبول ہوں گے۔ وہ اپنے پروں سے ان کو شفا دے گا اور اُن کواپنی چیدہ میراث اور بیش بہا ملکیت بنائے گا (ملاکی ۳باب)۔



فصل ہشتم

مقدس کہانت

اسرائیل سے جو عہد حورب پہاڑ پر ہوا تھا اس کے باعث اسرائیل کاہنوں کی سلطنت کہلایا(خروج ۱۹: ۳۔ ۶)اس کی تشریح اُن عہدوں کے ذریعہ ہوئی جو فنحاس اور داؤد کے ساتھ باندھے گئے۔ ایک عہد میں تو اسرائیل کے لئے وفادار کہانت ہے اور دوسرے میں اُس کےلئے شاہی خاندان ان میں سے ہر ایک میں مسیحی تصور پایا جاتاہے جس کی تکمیل رفتہ رفتہ ہوتی چلی گئی ۔

پہلے عہدکےذریعہ فنحاس اوراُس کی اولاد ابدی کہانت کے وارث ہوئے (گنتی ۲۵: ۱۲۔ ۱۳) وہ اسرائیل اور خدا کے درمیان درمیانی بن گئے جیسے خود اسرائیل قوموں اور خدا کے مابین درمیانی تھے۔ یہ عہد اس پیش گوئی میں دہرایا گیا جس میں یہ ذکر ہے کہ ایلی کے بیوفا خاندان کی جگہ وفادار کہانت قائم ہوگی (۱۔سموئیل ۲: ۳۵۔ ۳۶)پھر یہ مسیحی کہانت مسیح بادشاہ کے تصور کے سامنے یرمیاہ کے زمانے تک ماند پڑی رہی یرمیاہ نے یہ ظاہر کیاکہ داؤد کے اور فنحاس کے ساتھ خدا کے عہدابدی اور غیر متبدل تھے۔ یرمیاہ نے یہ بھی بیان کیا کہ لاوی کی کہانت نہ صرف ابدی کہانت ہوگی بلکہ اس میں بیشمار لوگ داخل ہوں گے(یرمیاہ ۳۳: ۱۷۔ ۲۲) حزقی ایل نبی نے نئی ہیکل میں کہانت کوصدوق کے خاندان سےمنسوب کیا کیونکہ وہ وفادار ہے(حزقی ایل ۴۴۔ ۴۵باب) یسعیاہ کی دوسری کتاب میں دوسری قوموں کوبھی لاوی کی کہانت میں حصہ دیاگیا(یسعیاہ ۶۶: ۲۱)ملاکی نبی نے یہ پیش گوئی کی کہ لاوی پاک کئے جائیں گےاور وہ مقبول قربانیاں گزارئیں گے(ملاکی ۲: ۴۔ ۹؛ ۳: ۳۔ ۴)زکریاہ نے یہ رویت دیکھی کہ کاہنی اورشاہی عہدے دوزیتون کے درختوں کی مانند تھے جن سے مقدس تیل ہمیشہ بہم پہنچتا رہتاہے تاکہ خدا کی اُمت کو روشنی دے اور پھر یہ دونوں عہدے سے ایک تخت اورایک تاج میں جوایک مقدس شخص کو حاصل ہوتاہے جمع ہو گئے (زکریاہ ۶: ۱۳)۔

فصل نہم

وفادار نبی

موسیٰ نے پیش گوئی کی تھی کہ اُس کی مانند ایک نبی برپا ہوگا۔ اُس کوبولنے کےلئے خدا کی طرف سے اختیار ملے گا اورجواُس کی نہ سنے گا اُس کو سزا ملے گی(استثنا ۱۸: ۱۶۔ ۱۹)۔مسیح نبی کا یہ تصور پھر جلاوطنی کے زمانے تک نہیں ملتا جلاوطنی کے ایام میں جب کاہن اوربادشاہ غائب ہوگئے تونبی ہی خداوند کا اکیلا خادم رہ گیا اورمسیحی تصور اُس کے ساتھ ملحق ہوا۔ یہ نبی بڑا دکھ اٹھانے والا ہے خداوند نے اُس کو ماں کے شکم ہی سے بلایا اوراُس کااعلیٰ عہدہ مقررکیا خداوند اُس سے خوش ہے اوراس کونیا روح عطا کرتاہے وہ سراسر خداوند کی خدمت کےلئے مخصوص ہے اُسے خدا کے گھر کے لئے بڑی غیرت ہے وہ روزے رکھتا ہے دعائیں مانگتااور غریبوں اورمصیبت زدوں کے وعظ کرتاہے۔وہ کچھ عرصے تک اپنی خاکساری میں چھپا رہتاہے دشمن اُسے چھیڑتے اور لوگ اُسے رد کرتے ہیں اگرچہ وہ برے کی طرح بے عیب ہے توبھی اپنی اُمت کےلئے کوڑے کھاتا چھیدا جاتا اور کچلا جاتاہے اُس کی سخت پیاس کے وقت دشمن اسے سرکہ اورپت پینے کو دیتے ہیں ۔ اور وہ شکستہ دل ہوکر جان دیتاہےاُس کے اپنے عزیز بھی اُسے چھوڑ جاتے ہیں خدا کچھ عرصے کےلئے اس کو اُس کے دشمنوں کی مرضی پر چھوڑدیتاہے لیکن آخر کار اُس کا اجر اُسے ملتاہے (زبور ۲۲، ۴۰، ۵۹، ۷۰ ؛یسعیاہ ۵۲: ۱۔ ۱۳، ۴۹؛ ۵۲: ۱۳ ۔ ۵۳باب کے آخر تک )۔


خداوند نے اسے مخلصی دی اور سارے حلیم لوگ خوشی مناتے ہیں خدا نے اُس کو سرفراز کیا ۔ وہ بھری مجلس میں خدا کی مدح کرتاہے۔ اُس کے دشمنوں کوسخت سزا ملی۔ لیکن وہ نجات کا مناد بن گیا۔ اس نے سالِ مقبول اور عدالت کے دن کی منادی کی ۔ اس نے غم کو خوشی سے بدل ڈالا اُس نے اسیروں کو چھڑایا۔ اس نے اسرائیل کو بحال کیا۔ وہ قوموں کا نور ہوگیا اور زمین کی حدوں تک نجات۔ بادشاہ اور سردار اس کی عزت کرتے اوراُس کی ایسی سرفرازی دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔

فصل دہم

مسیح بادشاہ

خدانے جو عہد داؤد کے ساتھ کیا تھا وہاں سے مسیح بادشاہ کا تصور پیدا ہوا(۲۔سموئیل ۷: ۱۱۔ ۱۶)خداوند نے داؤد کے خاندان کو اپنا بیٹا بنایا جسے وہ اُس کے گناہوں کے باعث انسانوں کے ہاتھوں سے سزا دلائے گا لیکن اُسے ترک نہ کرے گا۔ وہ داؤد کے گھرانے کو ابدی خاندان بنائے گا۔ اب داؤد کا خاندان اسرائیل کی نسل کا قائم مقام ہوگیا۔ اور اسرائیل کی جگہ اب داؤد کا خاندان بیٹا کہلایا مسیح بادشاہ کا ذکر چند ایک مزامیر میں پایا جاتاہے۔ مثلاً( زبور ۱۱۰ )میں لکھاہے کہ خدا نےقسم کھاکر بادشاہ کو اپنے دائیں ہاتھ تخت پر بٹھایا کہ وہ ملکِ صدق کی طرح کاہن بادشاہ ہو۔ پھر اُس جنگ کا ذکر ہے جو کاہنی جماعت کے ساتھ مل کر مسیح کو لڑنی ہوگی اور قوموں پر فتح حاصل ہوگی۔ زبور ۲میں ذکر ہے کہ مسیح صِیّون میں خدا کے دائیں ہاتھ تخت نشین ہے کہ وہ عالمگیر بادشاہ ہے زبور ۷۲ میں یہ مسیح بادشاہ راستبازی کے ساتھ رحم اور امن اوامان سے سلطنت کرتاہے اور قومیں اس کی عزت کرتی ہیں۔ زبور ۴۵میں یہ مسیح بادشاہ بطور دلہا کے الہٰی شان کے ساتھ ظاہر ہوتاہے اور قوموں سے شادی کرتاہے۔

ان مزامیر میں داؤد کے زمانے کی مسیحی اُمید کا اظہار ہے لیکن نبیوں کے ایام میں جب داؤد کے خاندان کو تنزل ہوا تومسیح بادشاہ کا تصور ایک نئی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسیح بادشاہ کے بارے میں اس نئی صورت کا بیان عاموس نبی نےکیا داؤد کا تباہ شدہ خاندان پھر بحال ہوکر پہلے کی طرح اقبالمند ہوگا(عاموس ۹: ۱۱، ۱۲) ہوسیع نے یہ پیش گوئی کی کہ اسرائیل کہ جس نے داؤد کے خاندان اور خداوند کو ایک ہی وقت میں ترک کردیا تھا وہ توبہ کرکے خداوند اور داؤد ثانی کی طرف رجوع ہوگا(ہوسیع ۳باب)۔

زکریاہ کی کتاب کے پہلے حصے میں صِیّون اپنے بادشاہ کی آمد پر خوشی منارہی ہے۔ وہ گدھی بلکہ گدھی کے بچے پر سوار ہوکر آتاہے۔ اس نے جنگ کے ہتھیار توڑدئے اور امن وامان سے دنیا پر سلطنت کرتاہے(زکریاہ ۹: ۹، ۱۰)۔

یسعیاہ اورمیکاہ کی کتابوں میں صلح اورامن اس مسیح بادشاہ کی سلطنت کا خاص مضمون ہے ایک نوجوان عورت سے بچہ پیداہوگا۔ اُس کا نام عمانوایل ہوگا۔ وہ اس امر کا نشان اور ضامن ہے کہ خداوند اپنی اُمت کے ساتھ ہے اور کہ وہ انہیں مخلصی دیگا۔اس کی بلوغت تک ملک میں مصیبت رہیگی(یسعیاہ ۷: ۱۳سے ۱۷)اسرائیل کی شمالی مشرقی سرحد پر بڑی روشنی چمکیگی اور لوگوں کو سرفرازی اور عزت حاصل ہوگی اورایک بڑی مخلصی ملیگی جو اس مخلصی سے بزرگ ترہوگی جو مدیان کے دن جدعون کو حاصل ہوئی تھی۔ داؤد کے گھرانے میں ایک بچہ پیداہوگا۔ اُس کانام عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ اورسلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ وہ داؤد کے تخت پر راستبازی سے سلطنت کرے گا اورجنگ کےہتھیار توڑے جائیں گے (یسعیاہ ۸: ۲۳۔ ۹: ۶تک)یسی کے تنے سے ایک شاخ اوراُس کی جڑ سےکونپل نکلے گی۔ وہ پھلدار ہوگی اور خدا کی روح کی ہفت چند نعمتیں اس کو عطا ہوں گی۔ راستبازی اور وفاداری سے کمر بستہ ہوکر وہ دنیا پر سلطنت کرے گا۔ اس کے زمانے میں خدا کا عرفان عام ہوجائے گا وہ ایک جھنڈا ہوگا جس کے نیچے قومیں جمع ہونگی اورافرائیم اوریہوداہ کے درمیان جو جھگڑا تھا وہ موقوف ہوجائے گا(یسعیاہ ۱۱باب)۔


بیت لحم میں ایک حاکم پیدا ہوگا جس کا نام صلح ہوگا وہ قدیم وعدوں کا پورا کرے گا اوردنیا کی حدوں تک بزرگ ہوگا(میکاہ ۵: ۱۔ ۴)۔

حزقیاہ کےعہدسلطنت میں مسیح بادشاہ کا تصورکمال تک پہنچا اوریسعیاہ اورمیکاہ نےاُس کا ذکر کیا۔ مابعد نبوتوں میں مسیح بادشاہ کا تصور کچھ ماند پڑگیا۔ زبور ۸۰ میں وہ خداوند کے دائیں ہاتھ کا آدمی کہلاتاہے۔ یرمیاہ نے اسے راستباز شاخ کہا اور یہ بیان کیاکہ اُس کا نام یہوواہ صدقنوں (خداوند ہماری راستبازی )ہوگا۔ اور داؤد کی بادشاہی ابدی ہوگی(زبور ۸۰: ۱۸ ؛یرمیاہ ۳۳: ۵۔ ۸؛ ۳۳: ۱۴۔ ۲۲)۔ اورایک بڑی بھیڑ جلاوطنی سے واپس آئے گی اوریہوواہ اور داؤد بادشاہ کی اطاعت کرے گی(یرمیاہ ۳۰: ۸)۔

(زبور ۸۹، ۱۳۲)میں یہوواہ اپنے عہد سے وفادار کہلایا جو اس نے داؤد سے باندھا تھا۔ داؤد کے لیے بختاوری اور شان وشوکت پھوٹ نکلے گی حزقی ایل نے یہ پیش گوئی کی کہ کاہن اور بادشاہ کا تاج ہٹا دیا جائے گا۔ جب تک کہ یہوواہ کا مقرر کردہ شخص برپانہ ہو(حزقی ایل ۳۴: ۲۳)۔یہ مقرر کردہ شخص داؤد ثانی یا بحالی کے زمانے کا گڈریا ہے، جس کے ماتحت اسرائیل اور یہوواہ ہمیشہ کے لیے متحد ہوجائیں گے (حزقی ایل ۲۷: ۲۱۔۲۵)۔

یسعیاہ کی کتاب کے مصنف اور اس کے ہمعصروں نے مسیح بادشاہ کا کچھ ذکر نہیں کیا ۔ انہوں نے خُدا بادشاہ اور خادم نبی کا بہت ذکر کیا لیکن زکریاہ کی کتاب میں بحالی کے نبیوں میں سے مسیح بادشاہ کا ذکرہوا۔ اس کا نام شاخ بتایا گیا جو خداوند کی ہیکل بنائے گا اور اس کی چوٹی کا پتھر بنے گا ۔اس کے تاج میں کاہن اور بادشاہ کے عہدے متحدہوجائیں گے اور وہ فضل کے ابدی وسائل بنیں گے (زکریاہ ۳: ۸۔۴: ۱۴؛ ۶: ۹۔۱۵)۔

دانی ایل نبی کی رویت میں ذکر ہے کہ آخری مصیبت کے ایام میں مسیح بادشاہ برپا ہوگا اور دُکھوں کو اُٹھائے گا اور مخلصی کا کام سرانجام دئے بغیر مارا جائے گا(دانی ایل ۹: ۱۶)۔

جس نے زکریاہ کی کتاب کے ۱۳۔۱۴ باب کو لکھا اس نے بھی داؤد کے خاندان اور یروشلیم کے باشندوں کا ذکر کیا اور اس رد کئے گئے گڈریے پر ماتم کیا۔ اسے خداوند کی تلوار نے گلّے کی نجات کی خاطر مار ڈالا (زکریاہ ۲: ۱۰۔۱۳؛ ۱۳: ۷۔۹)۔

جس گڈریے پر مار پڑی اور وہ بادشاہ جو مارا گیا یہ دونوں ایک ہی شخص ہیں ۔ لیکن یسوع مسیح کی آمد سے پہلے یہ علم حاصل نہ ہوا کیونکہ یہ دونوں عہدے اس میں جمع ہوگئے جس نے اس لیے دکھ اور موت کو سہا کہ فتحیاب ہواور سلطنت کرے۔

فصل یازدہم

نیا عہد

جب پرانا عہد اور اس کی رسوم مخلصی کو سرانجام دینے اور مسیحی تصور کے حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو یہ ظاہر ہوا کہ یہ عہد آخری اور قطعی عہد نہ تھا بلکہ وہ نئے مسیحی عہد کے لیے ایک تیاری تھا۔ نبیوں کے زمانے میں اس نئے عہد کا مکاشفہ ملا ۔ہوسیع نے پہلی دفعہ دوبارہ شادی کی مثال یا تشبیہ سے اس نئے عہد کا ذکر چھیڑا۔ الہٰی صفات اس اتحاد کی بنیادہیں اور ساری خلقت اس عالمگیر صلح اور امن کے عہد میں شریک ہے(ہوسیع ۲: ۱۸۔۲۳)۔

یرمیاہ نے اس نئے عہد کو زیادہ واضح کیا ۔ اس کی تعلیم کا ذریعہ پتھر کی لوحیں نہ ہو ں گی بلکہ وہ دل کی تحتی پر لکھی جائے گی ۔ نہ استادوں کی ہی ضرورت ہوگی ۔کیونکہ سبھوں کو خُداوند کا عرفان حاصل ہوگا(یرمیاہ ۳۱: ۳۱۔۳۷)۔حزقی ایل نے بھی امن وامان کے نئے عہد کا ذکر کیا جب جنگ موقوف ہوگی اور انسان وحیوان مل جل کر رہیں گے۔ تویہ ابدی عہد ہوگا جس میں اسرائیل اور یہوداہ متحد ہوجائیں گے اور خُدا کی حضوری ہمیشہ ان کے درمیان ہوگی (حزقی ایل ۳۴: ۲۵۔۳۱؛ ۳۷: ۲۶۔۲۸)۔

یسعیاہ کی دوسری کتاب کے مصنف نے اس نئے عہد کو خُداوند کے بندے سے ملحق کیا ۔ یہ بندہ ایک نئے عہد کا مجسمہ ہے ۔ داؤد کی نعمتیں اس وقت حاصل ہوں گی ۔ یہ ابدی عہد ہے جب ہر طرح کا جور وظلم جاتا رہے گا(یسعیاہ ۴۲: ۶؛ ۴۴:۱۰۔۱۷؛ ۵۵:۳؛ ۶۱: ۸۔۹)۔

المختصر پرانے عہد نامے کی مسیحیانہ نبوت ایک پودے کی طرح شروع ہوکر باقاعدہ نشوونما پاتی جاتی ہے اور صدیوں کے دوران میں اس کے مختلف پہلو زیادہ روشن ہوجاتے ہیں ۔اگرچہ اس پودے کے رگ وریشے(بنیاد،اصل) بہت پیچیدہ ہیں جن کے سمجھنے میں بڑے بڑے علما کو بھی مشکلات پیش آئیں ۔مثلاً کہیں تو خُدا کی آمد کا ذکر ہے اور کہیں انسان کی آمد کا۔ کہیں تو دکھ اُٹھانے والے مسیح کا ذکر ہے اور کہیں حکمران مسیح کا۔ باوجود اس اختلاف کے ساری نبوت میں یکتائی پائی جاتی ہے اور وہ یکتائی ٹھیک طور پر اس وقت سمجھ میں آئی جب یسوع مسیح (خُداجسم میں) ظاہر ہوا جس نے دکھ اُٹھائے اور پھر آسمان میں تخت پر جا بیٹھا اور جب پینتی کوست کے دن روح القدس نازل ہوا۔

الغرض ساری نبوت کا کلید(کُنجی) سیدنا مسیح ہے نبوت کے سارے پہلوسیدنا مسیح میں تکمیل پاتے ہیں۔

عبرانی نبوت کی حقیقت اس کی صحت اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ من اللہ ہے۔ نبوت کا مسیح اور تاریخ کا مسیح، عبرانی پیش گوئی کی نجات اورمسیحی نجات متضاد نہیں بلکہ باہم عین مطابق ہیں اور یہ مطابقت اور اس برّے کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے جو بنائے عالم سے پیشتر ذبح کیا گیا (۱۔پطرس ۱: ۲۰)۔ لیکن آخری زمانے میں ظاہر ہواجس نے مخلصی کی تجویز کی اورجس نے اس تجویز کو منکشف کیا جس نے تاریخ میں اس کو تکمیل دی۔ وہ ایک شخص تھا عبرانی نبوت کا سرچشمہ خدا ہے جس سے الہٰام کی ندی ہمیشہ بہتی رہتی ہے سوائے خدا کے کون ایسی نبوت دے سکتا ہے اورکون اُسے پورا کرسکتا تھا۔ نبوت کا تصور اور تاریخی تصور اسی میں پورے ہوتے ہیں جو زمان ومکان سے اعلیٰ اورجو خالق ، حاکم ومالک اوردنیا کا نجات دہندہ ہے۔ خدا کا تجسم ،مسیح کا مصلوب ہونا ،جی اٹھنا ،آسمان پر چلے جانا اور اُس کی آمدِثانی ان ساری پیش گوئیوں کی تکمیل اورخدا کے جلال کا اظہار ہے۔ اس سارے مکاشفہ کےلئے خدا کا شکر ہے۔

ختم شدہ

-------------