Mirror of Truth

Mirat-ul-Haq

BY

Allama F.S.Taj

مراۃ الحق

از

علامہ ایف۔ ایس ۔ تاج

۱۹۵۹


التماس

معزز ناظرین! بندہ نےیہ کتاب"مراۃ الحق" طالبانِ راہ حق کی راہنمائی وہدایت کے لئے تصنیف کی ہے۔ مراۃ آئینہ کو کہتے ہیں ۔ جس طرح انسان آئینے میں اپنی شکل وصورت کی اصلیت کودیکھتاہے۔اُسی طرح میری یہ کتاب متلاشیان جادہ حق کو خدا کا جمال دکھانے گی۔ لیکن جیسے کل چشم کے لئے آئینہ کا وجودِ عدم برابر ہے۔ اسی طرح وہ لوگ " جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا (ابلیس ) نے اندھا کردیاہے" مراۃ الحق سے مستفیض نہ ہوسکیں گے۔ اس کتاب کی تیاری میں چند کتب اور پُرانے اخبارات سے بھی امداد لی گئی ہے۔ چونکہ جا بجا عقلی دلائل سے حقائق کوثابت کیا گیا ہے اور اکثر احباب کلام مقدس کے حقائق وسائل کوعقلی دلائل وبراہین سے ثابت کئے جانے سے سخت بیزار ہوتے ہیں۔اس لئے عرض ہے کہ ایسے اصحاب مندرجہ ذیل اُمور پر ضرور غورکریں تاکہ اُن کی غلط فہمی دُور ہوجائے۔

اول : یہ کائنات خدا کا فعل ہے۔ اورکلام اللہ خدا کا قول ۔ لہذا اُس کے ہی فعل سے اُس کے کلام کو ثابت کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ جائز ہے۔

دوم : دنیا کی چیزیں آسمانی چیزوں کا عکس اور نقل ہیں (عبرانیوں ۸: ۵۔ ۹: ۲۳۔۱۰: ۱) اس لئے نقل سے اصل کوثابت کرنا ناجائز نہیں۔ بلکہ بطور استدلال انی لابدی وضروری ہے۔

سوم : ساری شرع الہٰی کے خلاصہ کا اول جزیہ ہے کہ" توخداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ" پس یہ خدا کوعقل سے پیار کرنا ہے۔ سگانِ دنیا اِسی عقل کوناجائز طورپر استعمال کرکے فوائد حاصل کرتے ہیں اورہم اپنی عقل سے خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں۔

چہارم : حقائق غیر مرئیہ اور دقائق لطیفہ روحانیہ کا ثبوتی تصور محسوسات ومرئیات ہی سے ہوسکتا ہے۔اس لئے نادیدنی رُوحانی حقیقتوں کومریبات کے پیرائے میں ظاہر کرنا لازمی ہے۔

پنجم : سب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ خدا باپ اور خداوند مسیح نے تشبیہوں اور تمثیلوں میں کلام کیا۔ ملاحظہ ہو۔زبور ۷۸: ۲۔ ہوسیع ۱۲: ۱۰ اور متی ۱۳: ۳۴۔ مرقس ۴: ۳۳۔ ۳۴۔ اور آنخداوند مسیح نے فرمایا" جب میں نے تم سے زمین کی باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا۔تواگر میں تم سے آسمان کی باتیں کہوں توکیونکر یقین کرو گے؟"(یوحنا ۳: ۲) واضح ہوکہ میں فلاسفر نہیں منطقی نہیں ایک محدود قابلیت کا مالک ہوں لیکن خداوند مسیح کی طاقت سے یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔

اس تصنیف کے تہیہ سے پیشتر ہی میرا جسم صحت اور علالت کے برزخ میں پھنسا ہوا تھا اور یہی اطمینان سوز اورہمت شکن حالات اس خدمت میں بہترین صورت میں انجام دہی کے مانع رہے ۔

اس لئے التجا ہے کہ میری ناداری صحت کوملحوظ رکھتے ہوئے اس مصائب ونقائص سے چشم پوشی فرمائیے۔ خیال رہے کہ محض تردیدی جذبات میری اس غامہ فرسائی کے متحرک نہیں ہوئے۔ اگرچہ بعض جگہ خاص ضروریات کے ماتحت تردید وتنقید واجب سے بھی کام لینا پڑا ہے۔ خداوند کریم میرے نیک مقصد کو پورا کرے۔ اُمید کامل ہے کہ اس کے مطالعہ سے بہت لوگ اپنی روحوں کی سعادت حاصل کرینگے۔آمین

نیاز کیش۔ ایف ۔ ایس تاج

اے ۔ پی مشن لدھیانہ


مراۃ الحق

حمد : ہر طرح کی تعریف وتوصیف اور حمد وتمجید کی حقدار وہی ذاتِ بیچون وبچگون ہے جوادراک وفہم انسانی سے بعید اور وارء الوراء ہے۔ جس کے الطاف واکرام میں حیث الاجتماع تمام افراد عالم پر شبانہ روز مشترک ومساوی طورپر ظاہر ہوتے ہیں ۔ جس کی بے قیاس محبت منصفہ شہود پر طرح بطرح آشکارا ہوتی رہتی ہے۔ فطرت کے ذرے ذرے میں اُس کا نور حقانیت جلوہ فگن ہے۔ اُس نے انسان خاطی وعاصی کی شقاوت قلبی اور کورباطنی کے اندفاغ وازالہ کےلئے اپنے اکلوتے بیٹے خداوند مسیح کو جسم میں بھیجا اوراُس کے پاک کفارہ کے طفیل انسان کی مصیبت وگناہ کا چارا فرمایا۔ اورمریضان گناہ کے بہتے ہوئے آنسو پونچھے جس کے باعث ہم اُس کے فضل کے تخت کے سامنے دلیری سے جاسکتے ہیں۔ اُس کی تمجید خداوند مسیح میں ابدالاآباد ہوتی رہے۔ آمین۔

حُسنِ عقیدت :ابتدائی زمانوں میں جبکہ انسان بالکل سیدھا سادھا تھا۔ اوراُس کے قلب ظلمانیہ وفطرت محبوبہ پر آفتابِ عالم وتہذیب کے برق وش پر تونہیں پڑتے تھے۔ اخلاق وتہذیب کوکسی ذہن ودل میں باریابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ظلمت وتاریکی کے سمندر میں جُہل ونادانی کی طغانیاں تھیں۔ اورہر طرف جہالت آمیز سادگی کے آثار نظر آتے تھے۔ اُس وقت بھی انسان کے وجدانیات میں دوحقیقتیں صاف اُبھری ہوئی جگہ رکھتی تھیں۔ اول اپنے آپ کو فطرتی طورپر کمزور بیکس تصور کرنا۔ کسی دستگیر وحاجت روا کی ضرورت کوبزور محسوس کرنا۔ ان ہی دوحقیقتوں کی بناء پر اگر اُس کوکوئی حاجت روا یا دستگیر خواہ وہمی ہو پیش کیا گیا ۔ تواُس نے بطیب خاطر اُس کی پرستش کی۔ اُس وقت انسان مثل ایک طفل کمسن کے فطرتی طور پر عجائبات کا مشتاق تھا ۔ اور غیر مرئی دوہمی اشیاء کی پرستش کے لئے ایک دم تیارہوجاتا تھا۔ اُس وقت انسان میں ایک طرح کی حُسنِ عقیدت پائی جاتی تھی۔ ان زمانوں میں علماء نے اُس کے حسن عقیدت اور سریع الاعتقادی سے ناجائر فائدہ اٹھایا۔ اسی زمانہ میں آندھی آگ پانی بارش آفتاب مہتاب اور رعد وغیرہ کی پرستش شروع ہوئی۔ چونکہ یہ اشیاء انسانی طاقت سے بالا تھیں اورانسانی جدوجہد اُن کے مقابلہ میں قطعی بے سُود تھی۔ اس لئے انسان نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی اعلیٰ اورقادرہستیاں ہیں جن کے سامنے ہم بالکل کمزورومجبور ہیں۔ اسی طرح فطرت کی اٹل اشیاء کی طاقت وقدرت سے مرعوب ومجبور ہوکر یہ حسن عقیدت اُن میں پیدا ہوئی کہ ان فطرت کی طاقتوں کودیوتا تصورکرکے اُن کی رضا جوئی اورحصول خوشنودی کے لئے اُن کے آگے قربانیاں چڑھانی شروع کردیں۔تاکہ وہ اُن کے ایثار وعبودیت سے خوش ہوکر اُن کے دامانِ مُراد کے مقصود کے موتیوں سے بھردیں۔ اورہرقسم کی غارت گری وتباہ کاری سے باز رہیں۔ اور جب کہیں بارش کی زیادتی سے فصلوں مویشیوں کھیتوں اورمکانوں کا نقصان ہوجاتا تھا توسمجھتے تھے کہ اندر دیوتا ناراض ہے۔ اوراگر آندھی یا آگ سے کچھ نقصان ہوتا تھا توماروت اوراگنی دیوتا کی ناراضگی کے قیاس لگاتے تھے۔ اورہرممکن کوشش سے اُن کے قہر وغضب کوروکنے کے لئے اوراُن کی خوشنودی کی خاطر گائے۔ بچھڑے گھوڑے بلکہ انسان تک کو بیدریغ قربان کردیتے تھے اور سوم رس دیوتوں کے اکل وشرب کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس قسم کی فطرت پرستی اورخداکی قدرت کے مظاہرات وآثار کی پوجا نہ صرف ہندوستان ہی میں ہوتی تھی بلکہ ایک زمانہ کہ ایسی جہالت اورخوش اعتقادی ہمہ گیری تھی اورکوئی ملک یاقوم اس سے آزادنہ تھی۔مصری اُمیرس واسس تھا ۔ تھاتھ ۔کھیم ۔پتھا اور میض اورمُتبرک سانڈ کے پوجاری تھے۔اسی طرح یونان ۔ایران۔کارتھیج بابل۔ نینوہ۔ سریہ۔ روم۔ امریکہ اورجرمنی وغیرہ تمام ممالک میں اُلو۔بیل ۔وینس ۔ جیوپیٹر۔بعل۔عستارات ۔ ہرکیولیس۔ آطیس۔ سٹارٹی۔ ایڈونس۔ بیکس اوراپالو وغیرہ کی پرستش بڑے زوروں پر تھی۔ اورتاحال ایسی باطل پرستی کا بقیہ دنیا کے تمام حصص میں کم وبیش موجود ہے۔ بائبل مقدس میں بھی اُس زمانہ کی وحشیانہ رسوم کا کئی جگہ صاف ذکر موجود ہے۔بائبل مقدس میں بھی اُس زمانہ کی وحشیانہ رسوم کا کئی جگہ صاف ذکر موجود ہے۔ مثلاً طفل کشی ۔ اور وادیوں میں چٹانوں کے شگافوں کے نیچے بچوں کی ذبح کرتے ہوگا(یسیعاہ ۵۷: ۵)۔ پھر بچوں کو آگ میں جلانا " اور اُنہوں نے توفت کے اُونچے مقام بن ہنوم کی اُونچی وادی میں بنائے تاکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں جلائیں "(یرمیاہ ۷: ۳۱)۔ "تم خداوند اپنے خدا کے لئے ایسا نہ کرنا۔ کیونکہ جن جن کاموں سے خداوند کونفرت اور عداوت ہے وہ سب اُنہوں نے اپنے دیوتاؤں کے لئے کئے ہیں۔ بلکہ اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کوبھی اپنے دیوتاؤں کے نام پر آگ میں ڈال کرجلادیتے ہیں "(استشنا ۱۲: ۳۱)۔

زمانے نے ایک کروٹ بدلی۔ کچھ انقلاب پیدا ہوا۔ تعلیم وتہذیب ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ میں خواہ وہ اُمور جسمانی سے متعلق ہو یا روحانی سے اعتدال اورمیاہ روی نہایت ضروری ہے۔ افراط وتفریط کی مُورت خواہ کسی صورت میں پوجی جائے۔ہرحال میں نتائج بجائے خوشگوار ہونے کے غیر مفید ومضرت رساں ثابت ہوں گے۔ اعتدالِ فطرت کا ناسخ منسوخ ہے ۔ اوراس کے خلاف عمل کرنے سے ہر پہلو سے تشویشناک آثار ونتائج کا ظہور بطور لازم وملزوم کے لابُدی ہے۔ حسن عقیدت اور سوء عقیدت میں افراط وتفریط ہے۔اس لئے ان ہردوخیالات کا باطل اور ناقابل تسلیم ہونا بدیہی۔ عقیدہ ویدانت بھی چُونکہ سوء عقیدت کا نتیجہ ہے۔ اس لئے اس جگہ اُس کو معرض بحث میں لانا ضروری ہوگا۔ لہذا اب ہم مختصر طورپر مسئلہ ویدانت کی کھوج کریں گے۔


(۱)

ویدانت

جملہ مذاہب کے معتقدات اِس امر میں اتفاق کلی رکھتے ہیں کہ تمام نوع انسان کی طبائع کوکسی نہ کسی طرح سے عرض گناہ عراض ہے۔ اور استقرانی طورپر بھی گناہ کی ہمہ گیری مسلم الثبوت ہے۔ مسئلہ گناہ پر پوری بحث ہم آگے چل کر مناسب مقام پر کریں گے ۔سردست عقیدہ ویدانت کے مطابق گناہ اورنجات پرمختصر طورپر لکھیں گے۔ ویدانتی لوگ گناہ کو اگیان اودیا اوربھرم وغیرہ ناموں سے پکارتے ہیں۔ اوراُن کے مسلمات کے مطابق گناہ یا پاپ ایک اعتباری محض اور عدمی شے ہے۔ اور خارج میں اُس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اوراُس کو محض اگیان یا بھول ہی مانتے ہیں اورگیان پراپتی کوبرہم پراپتی کا سبب مانتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ برہم میں سے پرکرتی یا مایا پیدا ہوئی ۔ اورپرکرتی نے ہی برہم کواپنے جال میں پھنسالیا۔جیسے مکڑی میں سے جالا نکلا اوراُسی نے مکڑی کوپھنسارکھاہے۔ یہ جگت نتھیار (خواب ووہم ) ہے اوربرہم ست(حقیقت ) ہے۔

دراصل برہم اورمایا (مادہ پرکرتی ) کا جوخیال ہے وہ بائبل کی تخلیق آدم وحوا کا ایک بگڑا ہوا اور کسی قدر صاف عکس ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ آدم برہم تھا اورحوا مایا پرکرتی ہے۔ اورحوا نے آدم میں سے بالکل نکل کر آدم کو ہی اپنے فریب میں پھنسالیا۔ اوراس طرح سے گناہ دنیامیں آیااورسب آدمیوں میں پھیل گیا۔ اورتمام آلام ومصائب گناہ کا نتیجہ ہیں۔ اورپھر وہ مانتے ہیں کہ اگیان (جہالت) کی تاریکی سے نکل کر گیان کوحاصل کرنا ہی مُکتی یا براہم پراپتی ہے۔ اوراس طرح جیو اور مادہ برہم میں لین یا ابھید ہوجاتاہے۔جس طرح صوفی لوگ بھی آخری منزل کو فنافی اللہ ہونا مانتے ہیں یعنی جیو(روح) اوربرہم میں کسی قسم کا تغیرہ وتفاوت نہیں رہتا۔ بلکہ التصاق تام ہوتاہے۔ اور دُوئی کے پردہ کے ہٹ جانے سے ایسا ہی ہوتاہے جیسے ایک حباب یا قطرہ سمندر میں غائب ہوکراپنے خصوصی امتیاز کوکھودیتا اوراُسی کا رُوپ ہوجاتاہے۔ دراصل وہ برہم سے اُوپر کسی اعلےٰ ہستی یا خالق کے قائل ہی نہیں ہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ جس طرح گناہ کے باعث انسان کی خداسے جدائی ہوئی اُسی طرح گناہ سے مخلصی حاصل کرکے انسان آدم والی ابتدائی پاکیزہ حالت پر بحال ہوکر پھرتقریب الہٰی حاصل کرتاہے۔ لیکن ہم نجات دہندہ اورنجات یا بندہ کی ہستیوں میں امتیاز کے قائل ہیں۔ اورخالق ومخلوق کوجُدا جُدا متمائز ہستیاں مانتے ہیں۔ یعنی نجات کی حالت میں ہم خدا کی عین ذات نہیں ہوجاتے ۔ بلکہ اوصاف ملکوتیہ کے باعث خداکی مُشابہت قریبی رکھتے ہیں۔ جیسے ابتدا میں خدا نے آدم کواپنی صورت پر ذی ارادہ پاک اور فعل مختار بنایا۔ اُسی طرح دوبارہ شبیہ اللہ کے ساتھ ظلی طورپر ہماری مُشابہت ہوجاتی ہے۔ نہ یہ کہ برہم میں لین ہوجاتے ہیں۔ جب مسیح جوہماری زندگی ہے ظاہر کیاجائےگا توتم بھی جلال میں اُس کے ساتھ ظاہر کئے جاؤگے"(کلسیوں ۳: ۳۔ ۴) ویدانتیوں کا خیال ہے کہ برہم ہی خالق اوربرہم ہی مخلوق ہے۔ مگر اُن کا یہ خیال نادرست ہے کیونکہ خالق ومخلوق ۔ فاعل ومفعول اورصانع ومصنوع میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ یا توخالق ومخلوق اورکارن وکارج مترادف الفاظ ہوں گے۔جس طرح پیارومحبت ۔ اوررنج وغم مترادف اورہم معنی الفاظ ہیں اور یہ سراسر محال ہے۔ جس طرح ضارب کے بغیر مضروب والد کے بغیر پسر اورکاتب کے بغیر مکتوب کا وجود محال ہے۔ اُسی طرح صانع کے بغیر مصنوع اورکارن کے بغیر کارج کا ہونا ناممکن ومحال ہے۔ ورنہ کارن وکارج وغیرہ توہمات کا ذخیرہ ہوں گے۔

دوم ۔ یہ لازمی امر ہے کہ فاعل کا وجود مفعول سے مقدم ہواور مفعول کے فاعل کے ارادہ میں توقدیم ہوسکتاہے ۔ لیکن وجود خارجی کے اعتبار سے مفعول اور فاعل آنِ واحد میں کبھی نہیں ہوسکتے۔ اگریُوں ہوناممکن ہو توپھر کوئی کسی فعل کا فاعل نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ فاعل مقدم اور مفعول موخر ہو۔

سوم برہم ست اور جگت متھیا کا خیال بھی ابتدائی سوء عقیدت اور کورانہ فلسفہ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ متھیاشئے ست شئے کا جُز نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ کسی شئے کا اپنے نقیض میں سے برآمدہ ہونا محال ہے۔ سورج میں سے تاریکی شہد سے تلخی اور سفید میں سے سیاہی کبھی نکل نہیں سکتی۔ اسی طرح ست برہم میں سے متھیا جگت کابرآمدہونا ناممکن ومحال ٹھہرا۔ ویدانتیوں کا یہ خیال ہے کہ جیسے ایک ہی سوت سے مختلف الوان واشکال کےکپڑے بنتے ہیں۔


اوراُن کے مختلف نام رکھےجاتے ہیں مگر ادُھیڑنے پر وہی سُوت کا سوت رہ جاتاہے۔ اسی طرح ایک ہی برہم ہے جو جگت کی بوقلموں اشیاء میں جُدا جُدا معلوم ہوتاہے۔ اور وہ اشیاء مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہیں مگر ہے " سروم کھلودم برہم" لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ سونے کی ایک اینٹ ہے اُس کی ڈھال کر مختلف اطوار اوراشکال کے زیورات بناکر اُن کے متفرق نام رکھے جاتے ہیں ۔ تاہم وہ سونا زیورات کی صورت میں تبدیل کردینے سے بھی سونا ہی رہے گا۔ پیتل نہیں بن جائے گا اورنہ ہی متھیا ہوگا۔کیونکہ ست میں سے است کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔پس ثابت ہوا کہ برہم ست ہے توجگت بھی ست ہے۔ گرنتھ صاحب کی گواہی بھی یہی ہے کہ" آپ ست کیا سب ست" ۔ علاوہ ازیں اگرسچ مُچ ویدانت کے خیال کے مطابق یہ دنیا محض وہمی وخیالی ہو توچاہیے کہ اگر آگ کوپانی کہاجائے تووہ پانی ہوجائے۔اوراسی طرح اگردن کورات کہہ دیا جائے توفوراً رات ہوجائے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پس عالم کی حقیقت ثابت ہے۔ اورجگت متھیا اوربرہم ست کے مسئلہ کا ابطال ظاہر ہے۔

چہارم ۔عقیدہ ویدانت کے مطابق خدا کامُرکب ماننا پڑتاہے کیونکہ تمام جہادات ۔ نباتات حیوانات اورارواح کا اُسی میں سے برآمد ہوناثابت کرتاہے کہ تمام مادی وغیرہ مادی اشیا برہم کے اجزا ہیں۔ اول تو مادی وغیرہ مادی آپس میں ایک دوسرے کے اجزاء نہیں ہوسکتے۔ اور پھر برہم کے اجزا مانتے سے برہم کوترکیب لازم آتی ہے۔ اور شۓمُرکب اول توحادث ہوتی ہے اوربرہم کا حدُوث ایک اور خالق کو گنجائش دیتاہے۔ جو اُس سے قدیم ہوکر اُس کی بھی علت ٹھہرے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مُرکب ہونا کوئی اعلیٰ صفت نہیں چاہتا ۔ ترکیب ادنیٰ اجسام کا خاصہ ہے۔ روح اعلیٰ وجود ہے اور وہ غیر مُرکب ہے۔ جسم ادنیٰ شے ہے اور یہ مُرکب ہے۔ پس برہم کا مُرکب ہونا اُس کے متنزل اورادنیٰ ہونے کی دلیل ہے۔

پنجم ۔ویدانت کے مطابق برہم کو سُگن اور نِرگن مانا جاتاہے۔ یعنی جب اُس کا تعلق تین گنوں ست ۔ رج۔ تم سے ہو تو وہ سگن ہوتاہے اور جب ان تین گنوں سے جدا ہو تو وہ نرگن ہوتاہےاورجب ان تین گنوں سے جدا ہو تووہ نرگن ہوتاہے۔ لیکن اُن کا یہ نظریہ بھی دیگر خیالات کی طرح خلافِ عقل ہے۔ ذات اور صفات آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ذات مجموعہ صفات ہے۔ جس طرح صفات کا وجود بغیر موصوف کے محال ہے۔ اُسی طرح موصوف کا وجود بلاصفات ممکن نہیں۔ برہم کو سگن اورنرگن ماننے کے یہ معنی ہوئے کہ وہ ذی صفات بھی ہے اورلاصفات بھی۔ اس طرح واحد ذات میں دونقیضوں کا اجتماع جائز ٹھہرا کر خداکی ہستی سے منُکر ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص عالم بھی ہو اور لاعلم بھی۔زندہ بھی ہو اور مرُدہ بھی ۔ موصوف کے بغیر صفت اور صفت کے بغیر موصوف کا وجود قطعی محال وممتنع ہے۔ مثلاً آگ ذات ہے اور حرارت اُس کی صفت ۔ اگر حرارت نہ رہے توآگ کی ذات کا انکار لازم آئے گا اور اگر آگ نہ ہو توحرارت کا وجود کہاں رہیگا ۔ پس لامحالہ ایک ہی خدا سگن اور نرگن دونوں نہیں ہوسکتا اورمحض نرگن بھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ بے صفات شئے اعتباری محض اور عدمی ہوگی نہ کہ نفس الامری اورحقیقی۔ پس یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ خدا ذی صفات(سگن) ہے۔ اس لئے کہ وہ حقیقی وجود ہے۔ اس لئے بھی کہ مخلوقات جواُس سے صادر ہوئی وہ ذی صفات ہے۔(رومیوں ۱: ۱۹سے ۲۰)۔ اگر خالق کو بے صفات (نرگن) مانا جائے اوراُس کی مخلوقات کوذی صفات (سگن) توایک نقیض کودوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔اوریہ محال ہے۔ لہذا خدا الحی ۔ ذی صفات اورحقیقی وجود ہے اور ویدانت کا عقیدہ سراسر باطل ہے۔


رہا یہ خیال کہ جو کچھ نظر آتاہے سب برہم ہے۔ اس کے متعلق یہ اُمور قابل غور ہیں کہ جبکہ کوئی انسان اپنے جسم۔ رنگ۔ شکل وصورت ۔ خدوخال ۔ صحت وسقم ۔ عادات وخصائل اورحُسن وقبح میں کسی دوسرے انسان سے مناسب ومطابقت تام نہیں رکھتا ۔ بلکہ ہر انسان میں ایک دُوسرے

ششم ۔سے نمایاں امتیاز پایا جاتاہے۔ اورجس کے باعث ہم ماں باپ بہن بھائی حاکم محکوم اور دوست ودشمن کو جُدا جُدا پہچانتے ہیں۔ اوران امتیازات کے باعث ہرایک کی شخصیت کے متعلق "میں" کا احساس ہونے پر دیگر افراد سے خودکو ممتاز سمجھتے اوراپنی شے کو" میری" کہتے اور اپنی اشیاومقبوضات کودیگر افراد کی اشیا سے عزیز رکھتے اور اُن کے کھوجانے پر افسوس کرتے ہیں توکس صورت میں تمام خلقت ایک برہم ہوسکتی ہے؟ زید کے مبروص ہونے سے بکر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک کوگیان ہونے سے سب کوگیان نہیں ہوتا۔ ایک سانپ کوماردینے سے تمام سانپوں کا زہر دُور نہیں ہوتا۔ توبھلا اس خیال کی صحت کی کیا دلیل ہوسکتی ہےکہ" سروم کھلودم برہم" بلکہ اس خیال میں ایک بھاری قباحت یہ ہے کہ بہن ۔ بیٹی۔ ماں۔ زوجہ ۔ خالہ اور دادی وغیرہ رشتوں میں کوئی فرق نہ رہنے کے باعث ان سب کوایک ہی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔اورتمدنی وخاندانی زندگی میں سخت مشکلات پیش آئیں گی۔ اوران تمام رشتوں ناطوں کا باہمدگرممتاز صُورت قائم رہنا بھی اس عقیدہ کے ابطال کی ایک مسکت دلیل ہے۔

ہفتم اور اگر فی نفسہ یہ تمام جگت ایک ہی برہم ہے۔ توذات پات اور اُونچ نیچ کے مکروہ وناشائستہ خیالات اوراعلےٰ وادنیٰ کے امتیازات کے کیا معنی ہیں؟ ویدانتی بھگتوں کو توکتے بلیوں اور گدھوں کووں کے ساتھ کھانے پینے سے بھی پرہیز جائز نہیں۔ چہ جائیکہ اچھوتوں کے ساتھ چھوجانا بھی زندہ درگور ہونے کا مصداق بنا ہوا ہے۔ اگرسرب جگت کوبرہم ثابت کرنے بیٹھے تھے توپہلے ان معمولی ابتدائی باتوں کی تواصلاح کرلیتے اورکم ازکم چھوت چھات کے قلعہ کو توپہلے سرکرلیتے ۔اگر ویدانت کی یکتائی کی تعلیم کی مثال سوائے ویدانت کی دنیا کے اورکسی بھی مذہب میں موجود نہیں۔ لیکن اگربرہم گیانیوں کے عملی پہلو کو دیکھ جائے تواُن کی سی امتیاز پسندی اورباہمد گرنفرت وجدائی کے خیالات کی کثرت کی مثال بھی کافہ انام پر اورکسی مذہب میں ہرگز ہرگز نہ ملے گی۔ گویا یکتائی توصرف زبان کے لئے ہے اور جدائی عمل کرنے کے لئے ۔ یہ تو اُس شخص کا سا حال ہوا کہ جس کے گھر میں توافلاس کی وجہ سے چوہے بھوکے مرتے ہوں اور زبان سے رٹنا پھرے سونا۔ سونا۔ اگران بھلے آدمیوں سےکوئی پوچھے کہ صاحب ! ایسی زبردست یکتائی کی تعلیم اورپھر ان امتیازات کے معنی؟ توجواب یہ ہوتا ہے کہ ابھی ہم اگیانی ہیں۔جب گیان ہوجائے گا توامتیازات نہ رہیں گے۔ اول توہمیں آج تک کوئی ویدانتی پوُرن گیانی نہیں ملا۔ اگرکوئی ہزار میں سے ایک ہوگا توگیان کی مشین کی سست رفتاری پرشک کی گنجائش نہیں۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جوشخص یہ اقرار کرتاہے کہ ابھی مجھے پورا گیان نہیں ہوا جب ہوجائے گا تو امتیازات کوچھوڑدونگا ۔ تواُس کے اس اقرار ہی سے ثابت ہے کہ وہ ان امتیازات کی قباحت سے آگاہ ہے اور اُنہیں مٹانا بھی چاہتاہے توبھلا ا س سے زیادہ گیان اورکیا ہوتاہے۔ سب زبانی جمع خرچ ہے اور حقیقت ندارد۔ اپنی اخلاقی کمزوریوں کی پردہ دری کے لئے اگیانی بن جاتے ہیں۔ ایسی تعلیموں نے ملک کی ذہنیت کوغایت درجہ پست کر رکھا ہے۔ اورجب تک ان خیالات کی جان کا فاتحہ نہ پڑھا جائیگا ہم حقیقی اخلاقی شائستگی ۔ تمدنی آزادی اور رُوحانی ترقی سے بے نصیب رہیں گے۔شُکر کا مقام اورہماری خوش قسمتی ہےکہ مسیحیت نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قلعہ بطلان پر بمباری کرنے کے لئے میدان کارزار میں ڈیرے ڈال لئے ہیں اور صرف مسیحیت نے ہند میں تمدنی اصلاحات اورمساوات کی تحریکوں کوجنم دیا ہے جس کی تقلید پر آج آریہ۔ سکھ اور مسلمان جھکے ہوئے ہیں۔


پھر کوئی ان ویدانتیوں سے یہ توپوچھے کہ کسی شیر چیتے اور سانپ وغیرہ سے خائف وسہمگیں ہوکر کیوں بھاگے جبکہ وہ اُسی کا رُوپ ہے ۔ کوئی دویت نہیں۔ اس واجبی اجابت کا جواب اکثر ہمیں یہ دیا جاتا ہے کہ بھرم کے آگے بھرم بھاگتاہے۔ یا یوں کہیں کہ بھرم سے ڈر کر بھرم بھاگ جاتاہے نہ

ہشتم کہ ویدانتی ۔ اس مضحکہ خیز جواب سے ہمیں ہنسی آتی ہے۔ اول اس لئے کہ شیر او رویدانتی دونوں حقیقی اور خارجی وجود ہیں کہ نہ وہمی۔ اورپھر دونوں برہم۔ دُوسرے یہ کہ وہم سے وہم کیسے ڈرکر بھاگ سکتا ہے؟ دُوسرے الفاظ میں اُس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وہم دُوسرے وہم کو دُور کرسکتاہے۔ حالانکہ یہ صریح باطل ہے ۔ دواشیا جواپنی خاصیت میں ایک ہی ہیں وہ ایک دُوسرے کی مدافعت نہیں کرسکتیں ۔ مثلاً سردی سردی کو اور گرمی گرمی کو اورتاریکی تاریکی کوکبھی دُور نہیں کرسکتی۔کوئی بھی خاصیت اپنی متضاد خاصیت کے وسیلے دُور کی جاسکتی ہے۔ لہذا وہم وہم سے ڈرکر بھاگ نہیں سکتا۔ بلکہ ویدانتی شیر سے ڈر بھاگتاہے۔ اسی سے اُن دونوں میں مغائرت وتفاوت ظاہر ہے ۔پس ثابت ہوا کہ تمام جگت برہم نہیں ہے۔بلکہ خدائے واجب الوجود وفوق الفطرت تمام مصنوعات مرئیہ اور غیر مرئیہ اور سفیلہ وعلویہ کا واحد خالق اورصانع ہے۔ اور وہی تمام کائنات پر حکمران ہے۔ وہ مُرکب نہیں۔ نرگن نہیں ۔ گیان واگیان ہردوکابانی نہیں۔ اُس نے مخلوقات کواپنے میں سے نہیں نکالا اور نہ ہی تمام ممکنات فنا ہوکر اُس میں مل جائیں گی۔ وہ ازلی وابدی غیر مرئی ۔ لطیف الحی ذی صفات خالق مالک رازق فوق الفطرت اور ادراک عقل انسانی سے باہر ہے۔

آتما نیتہ مُکت ۔ ویدانیتوں کا خیال ہے کہ آتما نیتہ مُکت اور برلیب (منزہ عن الخطا)ہے۔ اوراُس پر گناہ مطلق اثر انداز نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غیر مادی اور غیر متاثر ہے۔ وہ ہمیشہ پاک وصاف رہتی ہے۔ پاپ(اگیان) صرف ستھول دیہہ (کثیف جسم) ہی سے متعلق ہے۔ اوردکھ سکھ کے سب اثرات دیہہ ہی پر ہوتے ہیں۔ رُوح ان کیفیات سے قطعی متکیف نہیں ہوتی۔

اول ۔ اگر تنزہ تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ اورگناہ جسم کا خاصہ ذاتی ہے۔ تواس صورت میں رُوح اورجسم کی طبائع باہمد گرمتضاد ہوئیں۔ اور ضدین کا اجتماع محال ہے۔ اوریُوں انسانی زندگی کا قائم رہنا محال ٹھہرا۔(شائد اسی واسطے جگت کومتھیا سمجھتے ہیں ) لیکن انسانی زندگیاں قائم ہیں۔ پس گناہ کا تعلق روح وجسم دونوں سے ثابت ہوگیا۔

دوم ۔ اگر پاکیزگی اورمعصومیت تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ تو حصول موکھش (نجات) یابرہم پراپتی کی خاطر اس قدر کٹھن ریاضیتیں کرنا فضول اور تحصیل لاحاصل ہے ۔جسم کے فنا ہونے پر آتما پرماتما میں جاملے گی۔ کسی کوتپ جپ سادھن وغیرہ کی مطلق ضرورت نہیں۔ یہ سراسر گمراہ کن عقیدہ ہے۔ دراصل اشرف شئے کے فساد سے ادنیٰ شئے کا فساد لازم آتاہے ۔ اگر اصل الشجر سوُکھ جائے توڈالیاں کبھی قائم نہیں رہ سکتیں۔ برعکس اس کے ڈالیوں کے سُوکھ جانے سے جڑ کا نقصان نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح روح جسم کی بہ نسبت اشرف ہے۔ اگراُس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تولازمی امر ہے کہ جسم بھی اُس بگاڑ سے متاثر ہو۔پس اگر جسم میں گناہ موجود ہے توروح میں اُس سے پہلے ہے۔ جب تک رُوح کی اصلاح نہ کی جائے جسم کی اصلاح ناممکن


ہے اورجسم مادہ ہے۔ اور مادہ بذاتہ غیر مُدرک اور غیر متحرک ہے۔بغیر روح کے سہارے کے وہ اچھا یا بُرا کوئی عمل نہیں کرسکتا۔ پس ہر طرح سے رُوح پر ہی الزام آتاہے۔ اس لئے آتمانیتہ اور نرلیب ہرگز نہیں ہوسکتی"۔

سوم ۔پس جبکہ رُوح اورجسم دونوں گناہ آلودثابت ہوگئے تواب سوال لازم آتاہے کہ پھر گناہ کا وجود حقیقی ہے یا اعتباری محض۔ اگرکہو اعتباری توامراعتباری کی مدافعت کے لئے خارجی تدابیر جیسے سادھن ریاضت وغیرہ اورکرم دھرم وغیرہ بے سُود وبےکارٹھہرتے ہیں۔ اورجب گناہ مفروض ذہنی ٹھہرا تودکھ جوپاپ کا نتیجہ ہے وہ بھی ناپید ہونا چاہیے۔ اورکوئی بھی دنیا میں دُکھیا اورمصیبت زدہ نہ ہونا چاہیے۔ اوراگر دُکھ اورپاپ کوئی موجود فی الخارج شۓ نہیں توتناسخ کس پرند ے کا نام ہے ۔ اور ویدانتیوں کی جُملہ تدابیر دربارہ مدافعت اگیان اور حُصول موکھش کیا معنی رکھتی ہے؟ یہ تواُس سڑی آدمی کا ساحال ہوا جوبری یا سیمرغ (ایک فرضی عظیم الحبثہ پرندہ جس کی نسبت وہمی لوگوں کا خیال ہے کہ ہاتھی کوپنجوں میں لے کر اڑجاتا ہے)کے خوف سے غاروں میں چھپتا پھرے۔ اور یا حُصول اقبال ودولت کے لئے ہُما کی تلاش میں صحرا نوروی وبادیہ پیمائی کرتاہے پھرے۔حالانکہ یہ دونوں پرندے قوتِ واہمہ کی اختراع کا وہمی نتیجہ ہیں۔ اگرکہو کہ گیان ہونے پر ان وہمی تصورات کا سدباب ہوجاتاہے توکیا اب کس برہم گیانی کو دکھ درد محسوس نہیں ہوتا؟ اگراب محسوس ہوتاہے توپہلے اُس کا وجود حقیقی تھا نہ کہ اعتباری ۔ اوراگر کہو کہ اب بھی دکھ درد محسوس نہیں ہوتا تویہ صریح باطل ہے۔ اگر کوئی روز روشن میں سُورج کے وجود سے انکاری ہو تو اُس کے مخبوط الحواس اور سڑی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں۔ چُونکہ دُکھ درد وغیرہ کا وجود دنیا میں بدیہی الظہور ہے اور کسی ثبوت کا محتاج نہیں اور دکھ نتیجہ ہے پاپ کا۔ پس جب دُکھ کا وجُود حقیقی ثابت ہے تواُس کا سبب یا علت یعنی گناہ کیونکر اعتباری ہوگا۔ لہذا گناہ بھرم اور وہم نہ رہا بلکہ حقیقی ٹھہرا اوریہ بالکل صحیح ہے۔

گیان ۔ گناہ اوراُس کے نتائج دُکھ درد اور رنج ومحن کا وجود عالم میں بدیہی ہے۔ویدانتیوں کا خیال ہے کہ گیان ہونے پرگناہ (بھول) معُدوم ہوجاتاہے۔ واضح ہو کہ گیان کے معنی علم ہیں۔ کسی بیماری کا محض علم اُس کا علاج نہیں ہوسکتا۔اگربیماری کا علم ہی اُس کا علاج ہوسکتا تو صفحہ ہستی پر ڈاکٹروں اورحکیموں کا وجود ناُبود ہوتا۔کسی مریض کواُن کا منت کش احسان ہونے کی کبھی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ بلکہ اپنے مرض کے محض علم ہی سے شفا ہوجایا کرتی۔ گیان وغیرہ کے بھروسے پر رہ کر گناہ کی طرف سے آنکھیں بند رکھنا سخت نادانی اورکج فہمی ہے۔ گیان یا علم (شرع) سے تومحض گناہ کی پہچان ہوتی ہے۔(رومیوں۳: ۲۰) فرض کروایک شخص اندھیری رات میں ایک ایسے مکان میں سویا ہوا ہے جواندر سے نہایت گندہ اور غلیظ ہے۔ مکڑی کے جالے۔ کوڑا کرکٹ وغیرہ بکھرے پڑے ہیں۔لیکن وہ شخص نہایت اطمینان سے اُس میں شب باش ہے۔ اب ایک دوسرا شخص چراغ لے کر اُس کمرے میں وارد ہوتاہے۔ لیکن چراغ کی آمد سے مکین کی طبیعت میں ایک دم ایک انقلاب پیدا ہوجاتاہے۔ اب وہ پہلے کی طرح مطمئن اورپُرسکون نہیں رہتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چراغ کی روشنی نے مکان کی غلاظت وگندگی کواُس پر ظاہر کردیا۔ اب وہ ایک لمحہ تک اُس میں رہنا نہیں چاہتا۔ اب وہ چاہتاہے کہ اُس مکان کوفوراً غلاظت سے پاک کیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ چراغ اُ س مکان کوہرگز صاف نہیں کرسکتا۔ وہ توصرف اُس کی گندگی کوظاہر کرکے محض اُس کی مدافعت کی طرف مائل ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح گیان (علم شرع) کوایک چراغ سمجھیۓ۔ (زبور ۱۱۹: ۱۰۵)وُہ انسان کے گناہوں کی کراہت کو اُس پر ظاہر کردیتاہے۔ لیکن دُور نہیں کرسکتا۔ البتہ وہ نجات کی ضرورت کومحسوس کرواکے کسی طبیب روحانی کی طرف ترغیب دلاسکتاہے۔اور متلاشی حق بنادیتاہے۔ اور اُن کا یہ خیال بھی عجیب ہے کہ گیان حاصل ہونے پر سادھن (عملی تدابیر) ختم ہوجاتے ہیں۔ جیسے پھل لگنے پر پھُول خود بخود جھڑجاتے ہیں۔ اور مسیحی مسلمات کے مطابق گیان(علم شرع) کے حُصول کے بعداصل سادھن شروع ہوتے ہیں۔ جیسے مرض کا علم ہوجانے پر بُہت سے غذاؤں سے پرہیز رکھنا اور بہت سی دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے پُرانی انسانیت کو اُس کےکاموں سمیت اُتارنا پڑتا اور نئی انسانیت کو پہننا پڑتا ہے(کلسیوں ۳: ۹-۱۰) برہم گیانی کو تونیک اور بد دونوں قسم کے کاموں کو تیاگنا پڑتاہے ۔ لیکن انجیل اس کے برخلاف یہ حکم لگاتی ہے کہ "پس جو کوئی نیکی کرنا جانتاہے اورنہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے"(یعقوب ۴: ۱۷)۔ جب تک خوابیدہ شخص کو گھر میں لگی ہوئی آگ کا علم ہی نہیں وہ اُسےکیسے بجھا ئے گا ؟جونہی اُس کی آنکھ کھلے گی اورمکان کی آتشزدگی کا گیان ہوگا وہ ایک دم عملی تدابیر (سادھن) اُس کے بجھانے کی کرے گا۔ اگر آگ کا گیان ہونے پر بھی اُس کے بجھانے کی ضرورت کا قائل نہ ہو تو اُس کے سڑی ہونے میں کیا شک ہے؟



مکتی ازروئے ویدانت اوپر ہم واضح طورپر دکھاچکے کہ گیان یا علم محض سے نجات کا حصول ناممکن ہے۔ البتہ گیان گنہگار انسان پر اُس کی گناہ آلودہ اورمکروہ حالت کوپورے طورپر آشکارا کردیتاہے۔ اوراُس سے چھٹکارا ہرگز نہیں کراسکتا۔بلکہ نجات کی ضرورت محسوس کروادیتا ہے۔ اور ویدانتی مکتی کوچار قسم کی مانتے ہیں یا یوں کہیں کہ ازروئے ویدانت نجات کے چار مدارج ہیں۔ یعنی : سلوک۔ سمیت۔ سُروپ ۔سمُجھ۔

اول ۔ سلوک ۔ یعنی برہم کے دیس میں رہنا۔

دوم ۔ سمیپ ۔ یعنی برہم کی قرُبت میں رہنا۔

سوم ۔ سُروپ ۔برہم کے ساتھ مشابہت ومماثلت حاصل کرنا۔

چہارم ۔ سمجھ یعنی برہم کی عین ذات ہوجانا۔ جس کی وہ ابھید ہونا یا برہم میں لین ہونا۔ (سما جانا) کہتے ہیں۔ وحدۃ الوجود یعنی سمجھ ہی مُکتی کا کمال ہے۔

اگربغور دیکھا جائے تویہ کوئی کمال کی حالت نہیں بلکہ برعکس اس کے انتہائی زوال اور عدم کی حالت ہے۔ اول توابھید ہونے میں کوئی آنند نہیں کیونکہ تودوئی (دویت) میں ہوتا ہے نہ کہ ادویت میں۔ ایک طرف معبود ہو اور دُوسری طرف عابد اپنے معبود کے وصل سے اپنی مُدتوں کی تشنہ روح کی تشنگی بجھائے اوراُس کے دیدار فیض آثار سے اطمینان قلبی اورسکون باطنی حاصل کرے۔ یک جان دوقلب ہوجائیں تب حقیقی آنند ہے۔ لکن برہم میں فنا ہوجانا کوئی اطمینان کی بات نہیں ہے۔ایسی مکتی نہیں بلکہ انتہائی بے بسی اورلاچاری کی حالت ہے ۔ اورنہ ہی ازروئے عقل یہ ممکن ہے کہ جیو جوا لپگیہ (محدود) ہے۔ برہم میں جوسروگیہ (لامحدود ) ہے کسی صورت ابھید ہوسکے۔ کیونکہ متنا ہی وجود لاانتہا زمانہ تک ترقی کرتے جانے سے بھی کبھی بے حد نہیں ہوسکتا ۔ازیں جہت محدود ولامحدود جو باہم نقیضین ہیں کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ازروئے ویدانت انسان کے بھلے اور بُرے افعال کی جزاوسزادینے والا کوئی عادل ومصنف خدا نہیں ہے۔ اوربرہم ہی ہر طرح کی نیکی وبدی کا مخرج ومنبع ہے اور دونقیضوں کا علت واحد پر اجتماع جائز سمجھتے ہیں۔ اورپاپ اُن کے نزدیک غیر فطری امر نہیں ہے۔ پاپ کا نتیجہ چوراسی لاکھ جنموں کا چکر اورپاپ کے تیاگ اور گیان پراپتی کا انجام برہم کی ذات میں فنا ہوکر ہمیشہ کے لئے معدوم اورناپید ہوجانا ویدانت کے مطابق طریق حیات اورنجات وغیرہ کا تصور نہایت گمراہ کن اور ہلاکت آفرین ہے۔اس کے مطابق انسان کو نراچھت (بے خواہش) ہونا نجات کے لئے ضروری ہے ۔ یہ بھی قانون قدرت کے خلاف جہاد ہے کیونکہ انسانی فطرتی طورپر بے خواہش نہیں بلکہ


باخواہش پیدا کیا گیا ہے۔ البتہ خواہشات کا نیک ہونا انسانی کمال کا نشان ہے۔ اور عدم خواہش توادنیٰ اجسام کی خاصیت ہے۔ جیسے پتھر ۔دھات اورنباتات وغیرہ میں اچھی یا بُری کوئی بھی خواہش نہیں پائی جاتی۔ ہاں برہم میں فنا ہوجانے سے نیستی ہی ہوگی ۔اورسچ ہے کہ نیستی میں خواہش کا وجود محال ہے۔ جبکہ چوراسی لاکھ جنموں میں سے صرف انسانی جنم ہی اعلےٰ اور بابرکت سمجھا جاتاہے ۔ اورخواہشات کا وجود اور نیک وبد خواہش کا امتیاز بھی اسی جنم میں حاصل ہوتاہے تولازم تھا کہ اس جنم کا انتہائی کمال یہ سمجھا جاتا کہ اُس میں خواہش کا ظہور اوربھی اعلےٰ ہوتا۔ اور وہ اس صورت میں ہوتا کہ انسان کی خواہشات مفیلہ وذمیمہ معُدوم ہوجاتیں۔ اوربرعکس اس کے خواہشات علویہ وسعیدہ اورجذبات لطیفہ رُوحانیہ میں حد کمال کوپہنچتا۔ لیکن افسوس ! کہ ویدانتی لوگوں نے مُکت جیو کو قطعی بے خواہش مان کرنجات کوایک انتہائی متنزل اور ادنیٰ حالت ثابت کیا ہے۔ تاہم بے خواہش ہونا بھی خلاف واقعہ ہونے کے باعث جہل مرکب ہے۔ کیونکہ یہ امر بدیہی ہے کہ اس ملبوس ہستی میں کوئی انسان بے خواہش ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی ویدانتی کومُکتی کی اُمید نہ رکھنا چاہیے۔ پھر برہم گیانی کو کسی کے ساتھ بولنا نہ چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کو تو تم اور تمہارے وغیرہ کہنے سے دوئی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ قدرت نے زبان وذہن انسان کواستعمال کے لئے دے رکھے ہیں۔ اور قدرت اپنے قوانین کوجبری طور پر منواتی ہے۔ اوراس لئے ضرور بولنا ہی پڑتاہے ۔ مگر برہم گیانی اپنی اس کمزوری ونقیص کی پردہ داری ایک اور صورت میں کرنا چاہتے ہیں۔ کہ جوگیا سُو(طالب علم ) کوسمجھانے اور تعلیم دینے کے لئے بولتے ہیں ورنہ بولنے کی کوئی اچھیا (خواہش ) نہیں ہے۔ اجی صاحب !جوگیا سُو کواگیان کی تاریکی سے نکالنے اور راہ راست پرلانے کی فکر بھی توایک خواہش ہے ۔ خواہش کے معنی ہیں چاہنا ۔ جب تم چاہتے ہو کہ دُوسروں کو اُپدیش کرکے راہ راست پر لاؤتوخواہش اورکس پرندے کانام ہے۔ ویدانتی فنا ہونے کو مُکتی اعلیٰ حالت سمجھتے ہیں اور زندگی کو لعنت اور بُرے اعمال کا بُرا نتیجہ ۔ ہم زندگی سے خارج ہونے کو ہلاکت اور ابدی زندگی کوخدا کی بخشش اورانعام سمجھتے ہیں۔ اب ناظرین خود دیکھ لیکں کہ کونسا طریق انسان کی فلاح وبہبود جسمانی وروحانی کا آئینہ دار ہے۔ سوء عقیدت مسئلہ ویدانت کا جنم وہ ہے۔ اوراُس کی تقلید سے نہ تو انسان دینوی تہذیب وشائستگی کوحاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی اس طبعی موت کے بعد اُس کے لئے حقیقی خوشی اوراطمینان وسکون قلبی کی کوئی اُمید باقی رہتی ہے۔ اور انسان آئندہ زندگی کی سنہری اُمیدوں سے ہاتھ دھوکر یہی کہتاہے کہ "اگر مُردے نہ جلائے جائیں گے ۔ توآؤ کھائیں۔پئیں ۔ کیونکہ کل تومرہی جائینگے"۔(انجیل شریف۔ ۱کرنتھیوں ۱۵: ۳۲)۔

انجیلی نجات انجیل کی رُو سے نجات یا بندہ کی مختصر سی تعریف یہ ہے: ۔ پُرانی انسانیت مصلوب ہوکر گناہ کا بدن بیکار ہوجائے۔ آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہے (رومیوں ۶: ۶) بدن گناہ کے سبب سے مُردہ اور روح راست بازی کے سبب زندہ ہو (رومیوں ۸: ۱۰) ۔ حُصول کمال کی استعداد پیدا ہوجائے (۲کرنتھیوں ۳: ۱۸)۔ آنخداوند مسیح کے ساتھ مشابہت ہوجائے (فلپیوں ۳: ۲۱۔ ۱یوحنا ۳: ۲)خدا کے ساتھ ملاپ(افسیوں ۲: ۱۳۔ ۲۲) سزائے عدالت سے رہائی (رومیوں۸: ۱) اوریہ نجات خدا کی بخشش ہے نہ کہ ہماری کمائی ہوئی(افسیوں ۲: ۸سے ۹) اور یہ نجات ابدی اور لازوال ہے (مکاشفہ ۲۱: ۳۔۷۔ ۲۳: ۲۷۔عبرانیوں ۹: ۱۲)۔


(۲)


روح کے متعلق عقائد

یوں تورُوح کے وجود کے متعلق دنیا میں بے شمار عقائد ہیں۔ اوراُن سب کو بحث میں لانا محال بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ اگر ان تمام عقائد کو اجمالی طورپر دیکھا جائے توتین قسم کے خیال معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی ایک خیال کے مطابق رُوح مُرکب امتزاجی ہے۔ دُوسرے خیال کے مطابق ازلی وابدی اور بالذاتہ ناقابل فنا ہے۔ اور تیسرے عقیدہ کے مطابق روح حادث ہے۔ اور اپنی فنا یا بقا کے معاملہ میں ذات واجب کی محتاج ہے۔اب ہم ان ہرسہ عقائد پر مختصر طورپر کریں گے۔

روح مرکب امتزاجی ہندوستان میں چار واکئے اس خیال کے قائل ہیں کہ روح مُرکب امتزاجی ہے۔ اس عقیدہ کا بانی برہسپتی تھا۔یہ لوگ خدا کی ہستی سے قطعی مُنکر ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ جسم وروح میں کوئی مغائرت نہیں۔ اجزائے مادی کی ترکیب سے اجسام بنتے ہیں اور وہی اجزاء روح کا مادہ ہے جسم کے فنا ہونے سے رُوح بھی فنا ہوجاتی ہے۔ جیسے ریکارڈ کے ٹوٹنے پر اُس کی آواز بھی مٹ جاتی ہے۔ اگریہ درست مان لیا جائے تورُوح مادی شئے ٹھہری اور روح کی صفت ادراک ہے۔ پس درک مادہ کی صفت میں شامل ہوجائے گا۔ اور کوئی مادی شئے غیر مُدرک نہ رہے گی بلکہ مُدرک وغیرہ مُدرک کی تفریق اُڑجائے گی۔ مندرجہ ذیل دلائل سے بھی اس خیال کا ابطال ظاہر ہوتاہے۔

۱۔ علم حکمت اس حقیقت پر شاہد ہے کہ سات برس کے بعد جسم کے تمام پُرانے ذرات زائل ہوکر اُن کی جگہ نئے ذرات لے لیتے ہیں اور وہ جسم بالکل نیا جسم ہوجاتاہے۔ اسی طرح اسی برس کی عمر تک گیار دفعہ جسم انسانی قطعی بدل کر ہر دفعہ نئے ذرات سے ایک نیا جسم مرتب ہوتا رہتا ہے۔ اگر ادراک وعلم وغیرہ ذرات مادیہ کی صفت ہوتی تولازم تھا کہ ہرہفت سالہ معلومات پُرانے زائل شدہ ذرات کے ساتھ ہی زائل وناپید ہو جاتیں۔کیونکہ اُن معلومات کے سرمایہ دار جوذرات تھے جب وہ نہ رہے تو معلومات کا قائم رہنا محال ہوتا۔ اوراس طرح چودہ بردس کی عمر کے واقعات اکیس برس کی عمر میں۔اکیس برس کے اٹھائیس برس میں اور اٹھائیس برس کے پنتیس برس میں بھول جانے چاہئیں۔لیکن مشاہدہ اس کے خلاف ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ پُرانے ذرات جدید ذرات کواپنے اثرات سپُرد کرجاتے ہیں اور یوں پُرانی معلومات وواقعات یادرہتے ہیں تواس صورت میں کسی بیمار کوکبھی تندرست نہ ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی جاہل کو عالم۔لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا ۔ پس جسم کے ذرات کے باربار تبدیل وتحلیل ہوتے رہنے ۔ اورکسی عضو کے کٹ جانے کے باوجود بھی جس حقیقت کے علم وادراک وحافظہ وغیرہ میں سرموفرق نہیں آتا وہی روح ہے۔ اور وہ وغیر مادہ ہے۔ جبکہ ذرات کے تحلیل ہونے سے وہ زائل نہیں ہوتی۔ کسی عضو کے کٹ جانے سے کٹ نہیں جاتی۔ تواس میں شک نہیں کہ اگرجسم یکدم فنا ہوجائے توبھی وہ قائم رہے گی۔ پس وہی روح ہے۔ اور غیر مادی ومجرد وجود ہے۔


۲۔ واحد حقیقی وہ ہے جس کا کسی طرح سے قسمت وتجزیہ نہ ہوسکے اور نفس ناطقہ جسم ہو توجسم قابل قسمت وصاحب تجزیہ ہے۔ اورظاہر ہے کہ محل کی قسمت سے حال کا تقسیم ہونا لازم آتاہے۔ پس جسمیت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت کو اور قسمت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت معنی واحد حقیقی کو۔ اور واحد حقیقی کا انقسام محال ہے ۔ پس ثابت ہواکہ روح جسم نہیں بلکہ غیر مادی شے ہے۔

۳۔ جسم وہ ہے جو ابعاد ثلاثہ رکھے۔ (یعنی ۔طول۔ عرض وعمق) مگر عقل وعلم جوانسان میں موجود ہیں اُن کی نہ کوئی مقدار ہے اورنہ امتداد۔تمام اجسام مُرکبات قسمت وتجزیہ کوچاہتے ہیں۔ مگرعلم کا تجزیہ وقسمت محال ہے۔ لہذا علم خاصہ جسم نہیں۔ اگر کوئی غیر مادی ظرف ہمارے جسم میں اُس کے قیام کے لئے نہیں ہے توغیر مادی مظروف (علم) کا وجود بھی محال ہوگا۔ پس ثابت ہواکہ جو شئے غیر مادی علم کا ظرف ہےوہ روح ہے ۔لہذا رُوح غیر مادی ہے۔

۴۔ ترکیب امتزاجی کے اجزا عناصر ہیں۔ اور عناصر ہیں ادراک ۔علم کی استعداد مفقود ہے۔ پس جو صفت اجزا میں موجود نہ ہو وہ مُرکب میں کیسے پیدا ہوجائے گی۔ کوئی مُرکب شئے اپنے اجزا کی کیفیت سے الگ کوئی صفت پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اگر پانچ گرم دوائیں ملا کر کسی کو کھلائی جائیں تواُس کے مزاج میں سردی پیدا نہ ہوگی ۔ اورنہ ہی سرد دواؤں کی ترکیب میں گرمی۔ کانچ کے ایک ذرے میں شیرینی نہیں توایک من بھر کا کانچ میں بھی شیرنی نہ ہوگی۔ ایک ریزہ سنگ میں علم نہیں توایک پہاڑ میں بھی علم نہیں ہے۔ درک اور عدم درک آپس میں نقیض ہیں۔ اوراس صورت میں ایک نقیض کودُوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔ اوریہ محال ہے۔ لہذا یہ عقیدہ خلاف عقل اور بے بنیاد ہے۔

روح قدیم وقائم بالذات دوسرے خیال کے مطابق رُوح ازلی وابدی ۔ قائم بنفسہ اور مُتصف بصفاتہ ہے۔ ویدانیتوں کے کئی فرقے ہیں۔ اُن میں سے ایک فرقہ توروُح کے جداگانہ وجود کا قائل ہی نہیں۔ یعنی وہ اربعہ نہیں بلکہ خمسہ عناصر سے الگ کسی لطیف وجود کو نہیں مانتے ۔ اورجو ویدانتی رُوح کی ہستی کے قائل ہیں تووہ کثرت ارواح کے قائل ہی نہیں۔ بلکہ تمام مرئیات وغیرمرئیات میں ایک ہی رُوح مانتے ہیں ۔ اوراُسے برہم (خدا ) کا جزجانتے ہیں ۔ وہ تمام اشیاء مادی وغیر مادی کو خدا میں سے نکالتے ہیں۔ اس خیال کے حامی خدا کو مُرکب ثابت کرتے ہیں۔ چارواکئے وغیرہ توروُح کومُرکب امتزاجی مانتے ہیں۔ اور ویدانتی خدا کو مُرکب مانتے ہیں۔ آریہ لوگ بھی رُوح کوقدیم مانتے ہیں اوراُس کی قدامت کےاثبات میں بہت سے دلائل پیش کیا کرتے ہیں۔ لیکن ہم قدامت رُوح کے عقیدہ کی بطالت کومبرہن کرکے آخری اورصحیح عقیدہ پیش کریں گے۔

۱۔امر مسلمہ ہے کہ ہرقسم کا علم وفہم اورعقل وادراک روح ہی کا خاصہ ہے اوریہ خاصہ رُوح کا ذاتی ہے۔ اورخاصہ ذاتی کا انفکاک اپنی ذات سے محال ہے۔ پس اگرروح قدیم ہے تواُس کی اپنی قدامت کا علم ضرور ہونا چاہیے ۔۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی کی بھی رُوح کو اپنی قدامت اورازلیت کا نہ تو تفصیلی اورنہ اجمالی علم ہے۔اگر کہا جائے کہ رُوح کو اپنےحدوث کا بھی تو علم نہیں تو وہ حادث کس طرح ہوسکتی ہے۔ تو واضح ہو کہ حدیث و مذامت کا عدم علم ہی تورُوح کے حدوث کی سب سے زبردست اورمسکت دلیل ہے۔ خدامت کے لئے علم لازمی ہے۔ لیکن حدوث کے لئے لازمی نہیں۔ سوامی دیانند کا قول ملاحظہ ہو۔ جو اشیاء بدامی ہیں اُن کی صفات وفعل فطرت مدامی ہیں۔ اورغیدامی جوہروں کے غیر مدامی ہوتے ہیں۔ سوستیارتھ پر کاش ہے۔


صفحہ ۸۱۔ پس اگر رُوح انادی (قدیم )۔ ہے تو اس کا علم وگیان بھی مدامی ہونا چاہئے اورازیں جہت اُس کو اپنی قدامت کا بھی علم ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔لہٰذا رُوح قدیم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حادث اورمخلوق وجو دہے۔

۲۔رُوح کے تمام علوم وافعال تحصیلی (اکتسابی ) محدود متناہی ہیں۔ تو رُوح محل حوادث ہوکر خود حادث ٹھہری۔

۳۔اگر کہا جائے کہ مرض نسیان یاجون ہونے پر طفیلی کے حالات یا د نہیں رہتے۔ یا یہ کہ کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ اُس نے گذشتہ سال ماہ مارچ کی دس تاریخ کے ساڑھے دس بجے کیاکیا تھا وغیرہ۔ تواول تو ان دلائل سے خود دیانند صاحب کا مندرجہ بالا قائم کردہ معیار قدامت ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دوم یہ کہ ہم تفصیلی علم نہیں بلکہ اجمالی علم کا تقاضا کرتے ہیں۔رُوح کواپنی قدامت یا کم از کم کسی گذشتہ جنم کا اجمالی علم تو ضرور ہونا چاہئے۔ اگرماں کے رِحم میں بچے کو گیان نہیں ہوتا تو اُس وقت رُوح کا تعطل اوربے صفات ہونا ثابت ہے۔ حالانکہ مدامی اشیاء کے صفات وفعل وفطرت بھی مدامی مسلم ہیں۔ اب ذرا انصاف سے کہئے کہ حدوث ِرُوح میں کیا کَسر رہی؟

۴۔رُوح کی تمام معلومات اکتسابی اورتحصیلی ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی بلااکتساب علم عالم ہوجائے۔ ہم اس مکتب فطرت میں رُوح کو بتدریج علوم وفنون کی تحصیل کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ اُس کا عل لُدنی نہیں بلکہ اکتسابی ہے۔ اگر وہ قدیم ہوتی تو اُس کا علم ضرور لُدنی ہوتا۔ اورعلم لُدنی کی رُو سے جو معلومات ایک رُوح کی ہوتیں وہی فطرتی دلدلی طورپر تمام اَرواح انسانی کی ہوتیں۔ لیکن سب کے خیالات و آراء میں مختلف حقائق کے متعلق اختلاف بدیہی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ رُوح کا علم لُدنی نہیں اورازیں جہت وہ قدیم بھی نہیں بلکہ حادث ومخلوق ہے۔

رُوح مخلوق وحادث

رُوح کے وجود کے متعلق آخری صحیح عقیدہ کی آئینہ دار بائبل مقدس ہے۔ اور یہ عقیدہ مندرجہ بالا دو عقائد کے بین بین رہتا ہے۔ اگر رُوح کو مُرکب امتزاجی ماننے ہیں تفریط ہے تو اُس کو قدیم اور قائم ماند ماننے اس افراط ہے۔ اور افراط تفریط معیوب ہے۔ مسیحیت رُوح کو اُس کے اصل منصب ہے نہ تو گراتی ہے۔ اورنہ اُس کے جائزدرجہ سے اُس کو بلند کرنی ہے۔ بلند ہمارے مسلمات کے مطابق رُوح مخلوق وحادث وجود ہے۔ اس لئے کہ میرے حضور رُوح اورجانیں جو میں نے پیدا کی ہیں بیتا ب ہوجاتی ہیں۔ (یسعیاہ ۵۷: ۱۶) اورپھر خُدا کو ارواح کا خالق (پیدا کرنے والا ) ہونے کی حیثیت سے رُوحوں کا باپ کہا گیا ہے۔(عبرانی ۱۲: ۹) اورجیسے وہ خالق ہونے کی جہت سے تمام مصنوعات سفلیہ وعلویہ اورمرئیہ وغیر مرئیہ کا مالک ہے ویسے ہی وہ اَرواح کا بھی مالک ہے۔ خُداوند سارے بشر کی رُوحوں کا خُدا (گنتی ۱۶: ۲۲ ؛۲۷: ۱۶) اور رُوح صرف انسان میں ہے۔ لیکن انسان میں رُوح ہے (ایوب ۳۲: ۸)۔ حیوانات میں رُوح موجود نہیں ہے میصری تو انسان ہیں خُدا نہیں۔ اوراُن کے گھوڑے گوشت ہیں روح نہیں (یسعیاہ ۳۱: ۳)۔ حیوانات صرف جان اورجسم کا مجموعہ ہیں۔ اورانسان کا امتیاز حیوان سے اس طرح ظاہر ہے کہ اُس میں جان وبدن کے علاوہ رُوح بھی موجود ہے(ا۔تھسلینکوں ۵: ۲۳)۔ جس طرح جسم سے جسم پیدا ہوتاہے۔ اُس طرح رُوح سے رُوح پیدا ہوتا ہے۔ یعنی قانون ارثی کے مطابق بچے اپنے والدین سے پیدائش کے لحاظ سے جسم ورُوح دونوں حاصل کرتے ہیں۔ اوررُوح حادث ہے قدیم نہیں۔ یعنی ازلی تو نہیں بلکہ ابدی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ باازتہ ابدی اورہنفسہ غیر فانی ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ اُس کو ابدیت اس صوت میں مانی جاسکتی ہے۔ کہ جس طرح جسم رُوح کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ اُسی طرح رُوح خُدا کے سہارے زندہ رہتی ہے جسم ورُوح کی جُدائی کا نام جسمانی موت ہے۔ اوررُوح سے جُداہوکر جسم تو فنا ہوجاتا ہے۔ مگر رُوح قائم رہتی ہے۔


اسی طرح رُوح اورخُدا کی جُدائی کا نام رُوحانی موت ہے۔ اسی کو مکاشفہ ۲۱: ۸ میں دوسری موت کہاگیا ہے۔ اورخُدا سے جُدا ہوکر رُوح فنا ہوجاتی ہے۔ مسیحی مسلمات کے مطابق اَبدی ہلاکت سے یہی مُراد ہے کہ مخالفین خُدا کی اَرواح بیاعث تناقض وتخالف طبائع اُس سے جُدا ہونے کے باعث معدوم دفنا ہوجائیں گی۔ اسی طرح راستبازوں کی ارواح خُدا کے ساتھ مطابقت و مناسبت طبعی رکھنے کے باعث تاابد زندہ رہیں گی۔ ملاحظہ ہو متی ۲۵: ۳۱- ۴۱ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ادنی ٰ وجود ہمیشہ اشرف وجود کے سہارے قائم وباقی رہتا ہے۔ ادنی ٰ کے فساد فنا سے اشرف کی فنا لازمی نہیں۔ مثلاً پتے اورشاخیں اگرجڑ کے ساتھ قائم رہیں تو فنا نہیں ہوتے۔ اگر الگ ہوجائیں توجڑ تو قائم رہے گی مگر پتے اور شاخیں فنا ہوجائیں گے۔ اسی طرح جڑ اگرزمین میں قائم رہے تو فنا سے محفوظ رہے گی۔ اوراگر الگ ہوجائ تو جڑ توفنا ہوجائے گی مگر زمین قائم رہے گی۔ ایک اورمثال لیجئے۔جسم کے تمام اعضا ء میں دماغ سب سے اشرف مسلم ہے۔ اگر کسی کی ٹانگ بازو ناک وغیرہ کٹ جائیں یا آنکھیں جاتی رہیں یا دانت نکل جائیں تو بھی وہ زندہ رہے گا۔ اورہزاروں لاکھوں لنگڑے ےلوے۔نکٹے اندھے لوگوں کا زندہ اورموجود ہونا بدیہی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے کوئی ایسا انسان نہ دیکھا ہوگا کہ جس کا سرکٹ گیا ہو اوروہ بقید حیات ہو۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اشرف کے فساد فنا سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔اسی طرح جسم کا وجود منحصر ہے۔ رُوح پر اور رُوح کا قیام خُدا پر اس عام بحث سے نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ تبدل پذیر حقیقتیں لاتبدیل وجود کے ساتھ متعلق ہونے سے لاتبدیل اورغیر فانی ہوجاتی ہیں۔ تو ریت شہادت دیتی ہے کہ وادیتی سینا میں جب ایزد تعالیٰ حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہوا تو اُس کا ظہور جھاڑی میں لگی ہوئی آگ کی صورت میں ہوا۔اورلاتبدیل وجود خُدا تعالیٰ کی موجودگی کی تاثیر سے جھاڑی آگی سے جل نہیں گئی بلکہ قائم رہی۔ آریہ لوگ اکثریہ معارضہ پیش کیا کرتے ہیں کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ضرور مریگا۔اورجس کی ابتد ا ہے اُس کی نیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا دنیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا ونیستی ضروری ہے۔ وہ ممتنع الوجود ہے نہ کہ ممکن الوجود واجب الوجود وہ ہے جس کا ہونا ضروری ہے۔ ممتنع الوجود وہ ہے جس کی نیستی(زہونا) ضروری ہے لیکن ممکن الوجود وہ ہے جس کا نہ عدم ضروری اورنہ وجود ضروری ہے پس ممکنات ومحدثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔ پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات واجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود وعدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات ہیں۔ اگروہ (خُدا ) اُنہیں قائم رکھنا چاہئے تو وہ قائم رہتی ہیں۔ اوراگر مٹانا چاہئے تومٹ جاتی ہیں۔ خُدا کی رُوح کی تاثیر ممکنات کو ابدیت میں قائم رکھ سکتی اوررکھتی ہے۔ اس کے متعلق کلام ِمقدس کی تائیدبلامقہ ہو۔ تیری نگہبانی نے میری رُوح سلامت رکھی(ایوب ۱۰: ۱۲)۔ اُسی کے ہاتھ میں یہ جاندار کی جان اورکل بنی آدم کا دم ہے (ایوب ۱۲: ۱۰) اگروہ اپنی رُوح اوراپنے دم کو واپس لے لے تو تمام بشر اکٹھے فنا ہواجائینگے (ایوب ۳۴: ۱۴- ۱۵)۔ ااورکوئی رُوح اپنی بقا میں مختار نہیں ہے بلکہ خُدا تعالیٰ کی مریضی کے زیر ہے۔ کسی آدمی کو رُوح پر اختیار نہیں کہ اُسے روک سکے اورمرنے کادن بھی اُس کے اختیار سے باہرہے۔ (واعظ ۸:۸)۔ پھر رُوح کی غیر فانیت وابدیت کے متعلق بھی ملاحظہ ہوتااور خاک خاک سے جاملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اوررُوح ِخُدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس جائے (واعظ ۱۲: ۷)۔ اورجناب خُداوند مسیح کے قول سے بھی ثابت ہے کہ رُوح حادث بحدوث بدن نہیں بلکہ غیر فانی وابدی ہے جو بدن کو قتل کرتے ہیں اوررُوح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو(متی ۱۰: ۲۸)۔اورسلیمان نبی کا قول بھی دیکھو لیکن صادق مرنے پر بھی اُمیدوار ہے (امثال ۱۴: ۳۲ ایوب ۱۰: ۲۶)۔ اگررُوح کی طبیعت خُدا کی طبیعت سے متضاد ہوتو خُدا اُسے فنا کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈر وجو رُوح اوربدن دونو ں کو جنہم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اوربدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ متی ۱۰: ۲۸ ریکارڈنگ کمپنی ماہرین موسیقی کی آوازوں کو ریکارڈوں میں بند کرلیتی ہے۔ آواز غیر مادی شے ہے۔ اگر گویا مر بھی جائے تو بھی ریکارڈ میں اُس کی آواز باقی رہتی ہے لیکن آواز کو ریکارڈ میں بند رکھنا ریکارڈ ساز کی مرضی پر منحصر ہے۔


اگر چاہئے تو اُس کو تادیر قائم رکھے اورچاہے تو ریکارڈ کو توڑ کو ایکد م معدوم کردے۔ اورریکارڈ وہی قائم رکھے جاتے ہیں جن میں بھر ا ہواراگ اصول موسیقی کے فنی نکتہ نگاہ سے درست ہو۔ ورنہ توڑدئے جاتے ہیں۔ پس واجب تعالیٰ ازلی وابدی ہے۔رُوح ازلی نہیں پر صرف ابدی ہے۔ اورجسم نہ ازلی ہے نہ ابدی اور اجسام جو راستباز رُوحوں کو روز ِقیامت حاصل ہونگے۔ وہ زندگی کی اعلیٰ سرشت میں تبدیل ہوکر غیر فانی ہوجائیں گے (ا۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵۲- ۵۳)۔ اورخُدا کےسامنے نیستی یاعدم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔کیونکہ اُس کے نزدیک سب زندہ ہیں(لوقا ۲۰: ۳۸)۔ اورارواح ومادہ کی قدامت خُدا کے خالق ہونے میں کوئی مددگار نہیں ہے۔ بلکہ وہ قادر مطلق اورازلی وابدی خُدا ہے۔ جب اُس نے ایک زمانے میں کائنات کو پیدا کیا اورانسان کو خلاصہ کائنات بنایا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مردوں کو زندہ نہ کرسکے۔ جس مادہ کو اُس نے پیدا کیا۔ اُس کو مِٹانا اورقائم رکھنا اُسی کے قبضہ اقتدار میں ہے۔ اُمید ہے کہ ناظرین رُوح کے متعلق اس بیان سے کافی فائدہ اُٹھائیں گے۔

(۳)


تزکہ نفس وریاضت ِبدنی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اشرف کے فساد سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے۔ جیسا ہم اُوپر کے بیان میں ثابت کرچکے ہیں۔ اورفطرت کی صد یا اشیاء غور وفکر کرنے سے ا س امر کی صداقت اوربھی روشن ہوتی ہے۔ اسی طرح رُوح انسانی میں جو جسم کی بہ نسبت اشرف یہ اعلیٰ ہے بگاڑ پیدا ہونے سے جسم میں لازمی طورپر اُس سے متاثر ہوگیا۔ جب گناہ کے باعث انسان خُدا سے جُدا ہوگیا۔ یعنی روحانی متنزل اورموت کے ماتحت آگیا تو جسم بھی موت وتنزل سے مغلوب ہوگیا۔اورا س طرح بنی نوع انسان پر موت نے تسلط جمالیا۔ اب اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ جس سے رُوح بحال ہوسکے۔ تو ضرور جسم بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کو بقا کو حاصل کرے۔ اسی نکتہ پر پہنچکر انسان میں بھگتی۔ریاضت اورتپسیا کے خیالات پیدا ہوگئے۔ ہندوستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی رہبانیت نے ریاضت جسمانی کے خیالات کو حد سے زیادہ بڑھا دیا اگرچہ نفسانی خواہشات کو روئے اوردبانے سےروحانی زندگی میں ارتقاء کی کچھ شعاعیں پڑنے لگتی ہیں۔ اورنفس امارہ پر قابو پانے کی کوشش کرنا نیک زندگی گذارنے کے لئے کسی حدتک مفید بھی ہے۔ تاہم یہ سراسر غلط فہمی اورنادانی ہے کہ جسم کوبالکل حقیر اورردی سمجھ کر اُس کی نشوونما اورپرورش کی طرف سے قطعی آنکھیں بند کرلیجائیں۔ جس طرح قیمتی اشیاء کی حفاظت مکان کی پختگی پر منحصر ہے۔ اُسی طرح رُوح کی حفاظت کے لئے جسم کی پرورش جو اُس کا ظرف ہے نہایت ضروری ہے۔ ورنہ خُدا داد اِنعام (جسم ) کی بے قدری وحقارت ہوگی۔ اورخود کشی وریاحیت بدنی ایک ہی مفہوم کے مصداق ہوں گے۔ واضح ہوکہ کھانا پینا اورپہننا کوئی گناہ نہیں اورنہ ہی یہ کوئی نیکی ہے۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان (روحانی نقصان ) نہیں۔ اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸:۸) کھانے پیٹ کے لئے ہیں اورپیٹ کھانوں کے لئے۔لیکن خُدا ا س کو اور اُن کو نیست کرے گا (ا۔ کرنتھیوں ۶: ۱۳) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۴: ۱۷) اگر کھانا پینا اورپہننا وغیرہ گناہ ہوتو اس گناہ کاباقی خُدا کو ماننا پڑے گا جس نے ہمیں جسم دیا۔ اورجسم بھی ایسا جو خوراک وپوشاک اوردیگر ضروریات کا محتاج ہے۔


جب خُدا رازق ہے اوراُس نے ہماری جسمانی خواہشات کا جواب بھی اسی فطرت کے اندر دیا ہے تو لازمی بات ہے کہ ہم رُوح کے ساتھ جسم کی بھی فکر رکھیں۔ لیکن امور معاشرت میں بھی حداِ اعتدال سے تجاوز کرنا خلاف ِ فطرت ہونے کے باعث جسمانی سزا لازمی ٹھہراتاہے۔ اگر بالکل نہ کھائیں توموت یقینی ہے۔اور اگر حد سے زیادہ کھائیں تو بھی اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودنھے کا مقولہ درست ہے۔ امور ِمعاشرت میں اعتدال مفید ہے اورتجاوز مضُر پیٹ خُدانے خالی رکھنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ اس لئے کہ اس میں کچھ ڈالا جائے۔جسمانی زندگی اسی پر منحصر ہے۔ اگر جیب میں کچھ ڈالنا ہی نہ ہوتا تو اُس کا لگانا بلا مقصد ہوتا۔ اسی طرح جو اعضا ء خُدا نے ہماری جسمانی ساخت میں بنا دئے ہیں وہ کوئی نہ کو ئی مقصد ضرور رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ مٹانے کے لئے نہیں بلکہ قائم رکھنے کے لئے ہیں۔ (دیکھو توڑوں کی تمثیل متی ۲۵: ۱۴- ۳۰)۔

اگر نفسیائی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو انسان کا دماغ بمنزلہ ایک کپتان کےہے۔ اورجسم کے تمام اعضا ء سپاہی ہیں۔ پیٹ راشن کا گودام اور بھنڈاری ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کپتان کی طاقت کا تمامتردار ومدار سپاہیوں کی صحت اورمضبوطی پر ہے۔ اکیلا کپتان کبھی دشمن کی فوجوں کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سپاہیوں کے صنعف وقوت کا انحصار خوراک کی کمی وبیشی پر ہے۔ جس قدر اچھی اورکتفی خوراک کا ذخیرہ پیٹ کے گودام میں ہوگا۔ اوردل کے ذریعے سے دما غ اوردیگر اعضا ء کو وہ خوراک بقدر ضرورت ملیگی۔اُسی قدر دماغ ان اعضا ء سے بہترین خدمات لے سکیگا۔ جب اعضاء کی نشوونما میں لاپرواہی وبے احتیاطی ہوگی اوراُن سے محنت زیادہ لیچا ئیگی تو ہستہ آہستی کمزور ہوتے جائیں گے۔ اوراُن کی کمزور ی وناتوانی سے دماغ بھی ضیعف ونحیف ہوکر بے کار ہوجائے گا۔ اوراس طرح سے جو بہترین خدمات اپنے اعضا ء سے ہم مخلوقات خُدا کی بجالا سکتے ہیں وہ انجام نہ پائیں گی۔ اوریوں انسانی زندگی ایک انتہائی خود غرضی کی زندگی بن جائے گی۔ اورخُدا سے محبت کرنے کا پہلا زینہ ہے مخلوقات سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵:۱) اورتارک الدنیا ہونے سے مخلوقات سے محبت وہمدردی کے مواقع ہی نہیں ملتے۔ اس لئے ان ذرائع سے خُدا کا وصال حاصل ہونا قطعی ناممکن ومحال ہے۔ جو لوگ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی ومحبت کے خیال کو ترک کرکے براہ ِراست خُدا ہی سے ملاپ کرنا چاہتے ہیں وہ اولا د سے نفرت اوروالد سے محبت رکھنے کو ممکن سمجھتے اور ایک کنارے کے سمندر کے قائل ہیں۔ جیسے ایک کنارے کے دریا کا وجود محال ہے۔ ویسے ہی مخلوقات کو چھوڑ کر خُدا سے محبت رکھنا ناممکن ہے۔

کلام ِالہٰی کا یہ پیغام ہے کہ تم اہویہ نفسانیہ اوراغشیہ جسمانیہ میں اپنے دلوں کو یہاں تک نہ الجھاو کہ خُدا کی یاد ہی تمہارے دِلوں سے بسر جائے۔ اورتم نِرے نفسانی اوردُنیا پر ست ہی ہوجاو۔ کلام کا فرمان ملاحظہ ہو۔ کیونکہ نہ ہم دُنیا میں کچھ لائے۔ اورنہ کچھ اُس میں سے لیجا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں(۱۔ تیمتھیس ۶:۷-۸ کلسیوں ۳: ۲ متی ۶: ۳۳ ) دو مکھیاں ہیں۔ ایک کھانڈ کے شیرہ پر میٹھتی ہے اوراُس میں ایسی پھنستی ہے کہ پھر زندہ باہر نہیں نکل سکتی۔ دوسری مکھی مصری کی ڈلی پر بیٹھتی ہے اورکھا کر خوشی سے اُڑ جاتی ہے۔ مزا تو دونوں نے شیرینی کا لیا مگر ایک کا انجام ہلاکت اوردوسری کا زندگی اورخوشی ہوا۔ اسی طرح لذائدو حظا نفسانیہ کے پوجاری بن جانے سے خُدا سے جُدائی اورہلاکت لازمی ہے۔ اوراشیائے جسمانیہ کو اپنے غلام بنا کر اُن سے خاطر خواہ کا م لینا خوشی کا موجب ہے۔ امور معاشرت میں بھی افراط تفریط ہو جب ہلاکت ہے۔ اِن نعمت ہائے گوناگوں کو ٹھکر ادینا کفران نعمت (۱۔ تیمھتیس ۴: ۱- ۵)۔

اکثر سادھو اورتیاگی بیراگی لوگ حظا ئظ جسمانیہ اورلذائذ نفسانیہ سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہوجاتے ہیں۔ اورویرانوں میں جاکر اپنے جسموں کو نہایت بیدروانہ وجاملا نہ طریقوں سے ریاضت کے شکنجوں میں کھینچتے ہیں۔ قانون مرتے ہیں اُلٹے سرکےبل درخت پر لٹکتے۔ جل دھارے کرتے باہیں سُکھالیتے ہیں تاکہ اُن کی انانیت (خودی ) مٹ جائے۔ لیکن یہ کوئی خودی کشی نہیں بلکہ خود کشی ہے۔


ایسی کٹھن ریاضتوں کے باوجود وہ حقیقی خوشی اورسکون قلبی سے محروم رہتے ہیں۔ اسی واسطے مغربی رہبانیت اورہندوستانی ریاضت جن میں حماقت ایک اُبھرا ہوا عنصر ہے مقبول عام نہ ہوسکے۔ اورمذہبی دُنیا میں اُن کی قدر ومنزلت ان خیالات کے حامیوں کی توقعات کے خلاف ہوئی۔ اوراُن کی تقلید دیر پانہ رہی۔ ہندوستان کے توپتے پتے پر کرم مارگ ،بھگتی مارگ ،گیان مارگ نیستا آہسناپر مودھر ما اور نروان وغیرہ لکھے ہوئے ہیں۔ اورمہا تمابدھ نے تو ان خیالات ہمہ گیر تھے۔ اوراب تک اُن کا بقیہ کم وبیش ہر حصہ دُنیا میں موجود ہے۔ پولوس رسول بدنی ریاضت کوغیر فطری ہونے کے باعث معیوب ٹھہراتا ہے۔ملاحظہ کیونکہ جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے لیکن دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مند ہے (۱۔ تیمتھیس ۴: ۵۸)(کلسیوں ۲: ۲-۲۳) اگر ترک دنیا اوراس قسم کا تزکیہ نفس رُوحانی کمالیت کے حصول کے لئے ضروری شرط ہو تو ضرور ہے کہ تمام بنی نوع انسان آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں ڈیرے لگائیں۔ کیونکہ جو چیز بذریعہ ترک دنیا وریاضت حاصل ہونے کی اُمید ہے اُس کی ضرورت سے کوئی خالی نہیں۔ پھر جنگلوں میں آباد ہونے سے آبادیاں جنگل ہوجائیں گی۔ اورجس دنیا کو ترک کیا وہی ساتھ جائے گی۔ اوراس طرح دُنیا کے تمام کارخانے بگڑ جائیں گے اورتمدن معاشرت کے عالم میں انقلاب کے طوفان برپا ہونے سے انسانی زندگی نہایت خطرناک ضلالت وگمراہی کے سمندر میں غر قاب ہوجائے گی۔ اورنہ مرض رہے نہ مریض کا مقولہ پورا ہوجائے گا۔

اگرجسمانی اعضا ء اورنفسانی قوی کو مضحمل واز کا ر رفتہ بنا کر اوربدی کے صدور کے امکان کو مٹا کر کوئی بدی سے بچنے اورنیک کر دار ہونے کا دعویدار ہو تو یہ کوئی خوبی اوراخلاقی جرات کا کام نہیں ہے۔ بلکہ انتہائی بزدلی وخنک طبعی ہے۔ رابرنسن کا قول کیرکٹریا سیر تکی تعریف میں کیا خوب ہے کہ زبر دست جذبات اوراُن پر زبردست قابو کا نام سیرت ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص جو گن چشم بعلت مولودی ہو یہ دعویٰ کرکے کہ میں اپنی تمام زندگی پھر کبھی بدنظری کا مرتکب نہیں ہوا تو کونسی خوبی ہے۔ اگر گو نگا کہے کہ میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی یا کسی کی بدگوئی نہیں کی تو یہ کوئی قابل ِتحسین بات نہیں ہے۔ کوئی بلند مکان کی چھت پر کھڑا ہے اور نیچے زمین پر شیر موجود ہے۔ اگروہ شخص اوپر ہی سے پکارے کہ دیکھو میری بہادری کہ میں شیر سے مطلق خوف نہیں کھاتا تو کون ہے جو اُس کے اس بزدلانہ ومضحکہ خیز دعویٰ پر نہ ہنسے گا؟ ہندوستان میں تیاگی بیراگی لوگوں کا بھی یہی حال تھا اورہے لق ودق صحر ا میں ایک وتنہارہتے ہوئے اول تو اُن کا ماحول ہی اس قسم کا ہوتا ہے کہ عملی بدی کا امکان ہی محال ہوتا ہے بدنظری کریں تو کس پر زنا کریں توکس سے وہاں اُن کے سوااورکوئی نہیں ہوتا۔

اسی طرح چوری جھوٹ اورعداوت وغیرہ کا بھی کوئی امکان وہاں نہیں ہوتا۔کیونکہ وہاں ایسے مواقع ہی ناپید ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اعضا ئے جسمانیہ کو معطل دبے کار کرنے سے بھی نیت میں خواہشات بدکار ریالہرایا کرتا ہے۔ کیونکہ سانپ کے بِل کو مارنے سے سانپ نہیں مرتا۔ اگرچہ عملی گناہوں کا موقع نہیں ملتا اوراُن کا امکان عارضی طور پر مِٹ بھی جاتا ہے۔ لیکن خیالی گناہ سے رہائی محال ہے۔ جس طرح ایک کوڑھی والدین کا بچہ طبعی موروثی طورپر مبروص ہونے کے باعث دیگر کوڑھیوں سے الگ رکھے جانے پر بھی بُرص کے جراثیم سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں اس مرض موذی کے جراثیم ضرور قائم رہیں گے۔ اُسی طرح ارثی گناہ آلودہ طبیعت ترکِ دُنیا اورتزکیہ نفس سے بحال نہیں ہوسکتی۔ اورگناہ کے موروثی مرض ہونیکی شہادت کلام ِالہٰی یوں پیش کرتا ہے۔ دیکھ ! میں نے صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا (زبور ۵۱: ۵ رومیوں ۵: ۱۲) کیونکہ میں جانتا تھا کہ تو بالکل بے وفا ہے اوررحم ہی سے خطا کار کہلاتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۸: ۴) اورنہ ہی سمادھی لگانے اورمحض ارادہ پرزور دینے سے گناہ سے رہائی ممکن ہے۔کیونکہ اِرادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے چنانچہ جس نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا وہ کرلیتا ہوں (رومیوں ۷: ۸- ۹۱) پس گناہ کا ازالہ انسانی تدابیر سے مجال ہے۔ گناہ کی علت چونکہ بُری خواہش ہے اوروہ کسب بد سے پیشتر ہی موجود ہوتی (یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵)۔


اورخواہش بد کوئی اکتسابی شے نہیں بلکہ طبعی موروثی ہے۔اس لئے ریاضت وغیرہ سے اُس کا انسداد ازالہ توتب ہی ممکن ہوتا اگروہ کوئی تحصیلی اوراکتسابی شے ہوتی۔ اس لئے مقدس پولوس فرماتا ہے۔ ان باتوں میں اپنی ایجاد کی ہوئی عبادت اورخاکساری۔اورجسمانی ریاضت کے اعتبارسے حکمت کی صورت تو ہے مگر جسمانی خواہشوں کے روکنے میں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا(کلسیوں ۲: ۲۳)۔

قدرت نے جو طاقتیں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں وہ بذاتہ بُری نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کو اچھا یا بُرا بنا دینا ہماری نیت کے حسن یا قبح پر منحصر ہے۔ اوران قابلتوں کو مسلوب وبیکار کردینا فطرت کے خلاف جہاد اورخُدا کی مرضی سے بغاوت ہے۔ اسی لئے پولوس رسول نے یہ جانتے ہوئے کہ غصہ ایک فطرتی جذبہ ہے اُس کے متعلق فرمایا کہ غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کر و۔سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے (افسیوں ۴: ۲۶)۔ ایک بزرگ جہاندیدہ کا قول ہے کہ وہ بیوقوف ہے جسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اوروہ عقلمند ہے جو غصے کو آنے نہیں دیتا۔

مشہور یونانی حکیم سقراط کی بیوی نہایت بدمزاج اورزور رنج تھی۔ایک دن اُس نے سقراط کوا یک معاملہ پر بہت سخت سست کہا۔ مگر وہ اُس کی بے لگامم زبان کی ہنگامہ خیز روانی کو دیکھ کر دروازے میں چپ چاپ جا بیٹھا۔ اُس کی اِس خاموشی سے وہ اوربھی بھنائی۔اورغص سے برتنوں کا دھوون اُس کے سرپر انڈیل دیا۔ سقراط نے غصہ کو روکتے ہوئے نہایت نرمی اورخندہ پیشانی سے فرمایا کہ اس قدر گرجنے کے بعد برسنا بھی ضروری تھا اورخُداوند مسیح نے سب سے بڑھ کر انتقامی جذبات پر قابو پانے اورصبر وبرداشت کرنے کی عملی مثال صلیب پر دشمنوں کے حق میں معافی وبرکت مانگنے سے پیش کی (لوقا ۲۳: ۳۴)۔ پھر خُداوند مسیح کی شمع محبت کے پروانے مقدس ستفنس نے بھی اپنے پیر طریقت کی طرح بوقت سنگسار ہونے کے اپنے دشمنوں کے حق میں یہ دُعا مانگی کہ اَے خُداوند یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا (اعمال ۷: ۶۰)۔ ان تمام اِمثلہ توضیحات سے منتہائے مقصود اورخلاصہ المرام یہ ہے کہ فطرتی قویٰ اورپنچرل جذبات و جبلت کو معطل کرنے کی بجائے اُن کو ایک منظم صورت میں بطریق احسن جائز استعمال لانا عین دانائی انسانیت اورخُدا کی فرمانبرداری ہے۔ ہمارے نفسانی وبہمی قویٰ جب بدکرداری ونفسانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں تو اُن کی حالت کا خاکہ کچھ اس طرح پر ہوتا ہے۔جیسے ایک گندی بدرروشہر سے تمام گندگی وغلاظت کو لیجا کر باہر ایک بسیط قطعہ اراضی کو دلدل اور تعفن کامرکز بنادیتی ہے۔اور ہر کوئی اُس جگہ سے نفرت کرتا ہے اورکوئی بھی اُس کے پاس سے گذرناپسند نہیں کرتا۔ یہ خاکہ اُس وقت کا ہے جب ہمارے جذبات پر سفلی عنصر غالب ہوتا ہے۔ اب اس تصویر کا دوسرا رُخ جو نہایت حسین اوردلکش ہ ملاحظہ ہو۔ ایک زیر ک ودانا آدمی اُسی قابل صد نفرت وکراہیت قطعہ اراضی کو اس طرح پسند عام وخوشگوار بنادیتا ہے۔ کہ اُس خط میں ایک خوشنما باغ لگادیتا ہ۔ اوراُسی کھادوالے پانی سے اُسے سینچتا ہے۔ اب وہ زمین دیگر قطعات کی بہ نسبت زیادہ زرخیز ہونے کے باعث پودوں کو زیادہ خوراک دیتی ہے۔ اوروہی متعفن وغلیظ جگہ اہل شہر کی دلبستگیوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ بھانت بھانت کے میووں کی کثرت فواروں کی سیم ریزی۔شیمیم گل کی عنبر بہتری ظہور کی نغمہ سنجیاں۔بادنسیم کی نطق باریاں گلہائے دلکشائے کے رنگین مرقعے خوش بہار پھولوں کے جمگھٹے زائران ودلدار گان فطرف کی گلگت سے روضہ جنت کا دھوکہ پڑتا ہے اوروہی گھنونی دمکروہ جگہ اپنی رعنائیوں اوردلفریبیوں میں کیف زا اثرات لئ ہوئے شائقین فطرت کے لطیف جذبات پر کھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہی حال ہماری جسمانی قوتوں کا ہے۔ قدرت نے جس خاص مقصد کے ماتحت ان کو پیدا کیا ہے اُس سے تجاوز کرنا الہٰی سرتابی اور قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے۔ ان طاقتوں کو معطل کرنا یا اُن کے مخصوص افعال سے باز رکھنا اوردبانا ایسا ہی مضرت رساں ہے جیسا کہ بدررَد کو بند لگا دینے سے شہر میں غلاظت وگندگی کے جمع ہوجانے کے باعث مختلف امراض کے پھیلنے سے نقصان ہوتا ہے۔ ریاضت وغیرہ کے خیالات گناہ کے وجود اوراُس کے باعث انسان کی رُوحانی بے چینی اوراضطراب کے مظہر ہیں۔ اوریہ بھی اظہر من الشمس ہے۔

ان انسانیت سوز طریقوں پر صدیوں عمل در آمد کرتے رہنے کے بعد بھی انسان حقیقی اطمینان قلبی اورسکون باطنی سے بے نصیب ہے۔ وجہ ا سکی یہ ہے کہ مصائب جسمانی و آلام روحانی کے موجبات کا صحیح سراغ لگانے میں لوگ قاصر رہے۔


جب تک کسی مرض کی علت کا علم نہ ہو اُس کے نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ہمیشہ سبب کی مدافعت سے نتیجہ کی مدافعت ہواکر تی ہے۔ جس طرح ہم بار ہاذکر کرچکے ہیں کہ ہمیشہ اشرف کے بگاڑسے ادنی ٰ کی اصلاح ممکن ہے۔ نہ کہ اُس کے برعکس پس گناہ رُوح کو عارض ہے اوربطور نتیجہ اُس کے آثار جسم میں بھی ظاہر ہیں۔ رُوح اورجسم کا تعلق بطور مرُکب کے سمجھیئے۔ یایوں کہیں کہ رُوح ہماری زندگی میں مثل ایک ہاتھ کے ہے۔ اوراعضا ئے جسم اُس کے ہتھیار بقول شخصے۔

جب تک ہے رُوح جسم میں چلتے ہیں دست دیا
دُولھا کے دم کے ساتھ یہ ساری برات ہے

جب رُوح پاکیزہ اوردل عارف کی طرح صاف اورگناہ کے رنگ سے منزہ ومبرہ ہوتی ہے توان ہتھیاروں کو نیک کاموں میں استعمال کرتی ہے۔ اورجب وہ نفس امارہ کے دام تزویر میں مبتلا ہوتی ہے تو ان ہی ہتھیاروں کو بدی کی راہ میں استعمال کرتی ہے۔ مثلاً زید اوربکر کے پاس دو تلواریں ہیں۔ زید نے اپنی تلوار سے کسی بیگنا ہ کا سر قلم کردیا۔ اوربکر نے اپنی تلوار سے ایک شیر کو مار کر چند راہگیروں کی جانیں بچادیں۔ ہر دوصورتوں میں تلوار اچھی یابری نہیں بلکہ تلوار کے استعمال کنندوں کی طبائع نیک یا بد ہیں۔ اسی طرح جو نیک یا بدافعال ہمارے اعضا ء سے صاد ر ہوتے ہیں وہ رُوح کی بدیا نیک خصلت کے آئینہ دار ہیں۔ جب ہماری رُوح کا مطلع صاف نہیں ہوتا اوراُس پر گناہ کے تاریک بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں تو ان ہی اعضا ء سے ہم بُرے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ ہاتھوں سے چوری حق تلفی ظلم اورخون ریزی زبان سے دروغ گوئی دروغ حلفی اورگالی ودشنام آنکھوں سے بدنظری فحش بازاری کُتب کامطالعہ اورعیب بینی کانوں سے ہزلیات بدگوئی نمامی اورنفسانی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے قصے سُننا پسند کرتے ہیں۔ دما غ ہمیشہ بدی کے منصوبے باندھتا اورپاوں ٹیڑھی روشیں اختیار کرتے ہیں۔ اورجب ہماری روحانیات پر آفتاب ِصداقت کی ضیاباریاں ہوتی اوررُوح آغوش محبوب کی طرح پاک وبے عیب ہوتی ہے۔ تو اسی دماغ سے جذبات سعیدہ اورخیالات پسندیدہ اُبلے پڑتے ہیں۔ اورلطیف وسحر آگیں پاکیزہ تخیل خندہ سیال کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتا ہے۔ زبان سے خُدائے عزہ جل کی تعریف و توصیف کی خراماں موسیقی وکیف زاترئم نکل کر لبوں پرکھلیتا ہے۔ اورغمزدو ںکے لئے تسلی سے بھرے ہوئے فقرے زبان سے نکلا کرتے ہیں۔ ہاتھ خیرات پر مستعد ہونے اورمریضوں کی مرہم پٹی و تمہاداری کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ کان کلام ِالہٰی کی آواز پر چھکتے اوربدگوئی سننے سے نفرت کرتے ہیں۔ اوردل میں شکر گزاری محبت ،نیکی ،رَحم ،ہمدردی معافی اورخُدا پر ستی کے جذبات وخیالات جوش مارنے میں۔ غیرضیکہ روحانی کمالیت سے ہماری جسمانی زندگی بھی متاثر ہوکر روحانیت میں بیدیل ہوجاتی ہے اورانسان بالکل نیامخلوق بن جاتا ہے۔ پر جس طرح لوہے کی دوکان پر سونا نہیں مل سکتا۔ اسی طرح بغیر خُداوند مسیح کے جو تمام جہان کے طبعیت روحانی ہیں رُوحانی کمالیت اوردلی صحت کاحاصل ہونا قطعی محال ہے شفا خانہ حیوانات میں صرف مویشیوں کا علاج ہوتا ہے انسانوںکا علاج نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہمارے تمام جسمانی امراض وعوراض کا علاج معالجہ ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ لیکن روحانی مرض (گناہ ) کے علاج کے لئے کوئی شفا خانہ دُنیا میں موجود نہیں ہے۔ مریض روحوں کو حکیم حاذق اورطبیب صادق خُداوند مسیح ہے۔ اُس پر ایمان لانے والے اوردلی توبہ سے اُس کے حضور جانے سے روحانی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ پس تمام ریاضت کرنے والے اورتھکے ماندے اوربوجھ سے دے ہوئے لوگوں کو اطمینان رُوحانی اورسکون قلبی دینے کے لئے خُداوند مسیح دعوت دیتا ہے (متی ۱۱: ۲۸: ۳۰)۔


(۴)


عقل اورمذاہب


مذہب کی ضرورت

انسان فطری طورپر کمزور اوربیکس ہے۔ اور کسی ایسے دستگیر وحاجت روا قادر اورعظیم طاقت کے تحت ہوکر رہنا چاہتا ہے جو اُس کی مشکلات ومصائب کو حل اورحوائج وضروریات کو پورا کرسکے۔ ہر انسان اپنی طبعی کمزوری کے سبب ایک حاجت روا کی ضرورت کا قائل ہے۔ کوئی زبان سے لاکھ انکار کرے لیکن زبانی انکار اُس زبردست حقیقت کے وجدانی احساس کی تسکین کا موجب نہیں ہوسکتا۔ اس عالم اسباب میں اُس فوق الفہم اورغیر مرئی ہستی کے ثبوت کے لئے سب سے بڑی عقلی دلیل استدلال اِنی ہے (یعنی مصنوع سے صانع کا تصور ) اس سے آگے عقل طبعی کی رسائی محال ہے اور انسان محدود العلم اورقاصر العقل عقلی دلائل کے زینے لگا کر وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اس خارجی مادی عالم کے قوانین طبعیہ کے ساتھ اجسام مادیہ کثیفہ کی موافقت ومناسبت رہنے سے اجسام قائم اورزندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح رُوح انسانی کے اُس عالم رُوحانی کے قوانین رُوحانیہ کے ساتھ تطابق و توافق کے باعث رُوح انسانی صحت کی حالت میں برقرار رہتی ہے۔ اگراجسام مادیہ کی عالم خارجی کے ساتھ مطابقت قائم نہ رہے۔ تو وہ فنا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اَرواح انسانی کی اُس عالم رُوحآنیہ لطیفہ کے ساتھ موافقت قائم نہ رہے تو وہ فنا ہوجاتی ہیں۔ خُدائے قدیر وحکیم نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ سے جس طرح ہماری جسمانی پرورش کے لئے اس مادی دنیا میں تمام ضروری اورامکتفی سامان مہیا کردئے ہیں۔ اُسی طرح ہماری رُوحانی پرورش کے لئے بھی اُس نے تمام ضروری سامان پیدا کردئے ہیں۔ اوروہ سامان جو ہماری حوائج رُوحانیہ اورضروریات اخلاقیہ کو پورا کرتا ہے اُسی کانام مذہب ہے۔ بعض لوگ جن کا روحانی معیار اورمذہبی نکتہ نظر بہت پست ہے خواہ مخواہ امور معاشرت اورچند ظاہری نشان وغیرہ رکھنے کوبھی مذہب کا جُز بنائے بیٹھے ہیں۔ معاشرت وسیاست تو جسمانی مذہب ہی کا جُز ہیں۔ رُوحانی مذہب میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مذہب کا تعلق صرف ہماری رُوحانی زندگی کے ساتھ ہے اوربس۔ پس ثابت ہوا کہ جس طرح جسمانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے جسمانی اسباب کی ضرورت کا نکار نا ممکن ہے۔ اسی طرح رُوحانی زندگی کے قیام وبقا کے لئے مذہب کی ضرورت کا انکار ناممکن ہے پس یہی مذہب کی ضرورت ہے۔

عدم مذہب سے انسانی زندگی میں بداثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جسم میں صحت مفقود اورعلالت موجود ہوجاتی ہے۔ دیگر صورت میں جب ہم روحانی قوانین سے تجاوز کرتے ہیں تو ہماری رُوح صحت کی بجائے رُوحانی امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ اورروحانی مرض کا نام گناہ ہے۔ خُداوند کریم نے اپنی عنایت بے غایت سے ایسے سامان بھی فطرت میں پیدا کردئے ہیں جن سے ان جسمانی امرا ض کی مدافعت ہوسکے۔ ہر مرض کے علاج کے لئے ہر نوع کی جڑی بوٹیاں اورادویہ کارخانہ فطرت میں موجود ہیں۔ ہر مرض کی تشخیص اورعلاج ومعالجہ کی مفصل تشریحات کُتب ِطب میں موجود ہیں۔


اب جبکہ خُدائے حکیم قدیر نے انسان کو جسمانی عوارخ سے نجات دلانے کے لئے اس قدر اعلیٰ سامان عطا کئے ہیں تو لازمی امر ہے کہ روحانی امراض (گناہ) کی مدافعت کے لئ نسبتاً اُن سے بھی اعلیٰ سامان عنایت کرے۔ چنانچہ روحانی طب کی کتاب بائبل مقدس ہے جس میں روحانی امراض کی تشخیص اوراُن (گناہوں ) سے نجات حاصل کرنے کے نہایت تیر بہد ف اورلاثانی نسخے مرقوم ہیں۔ جو کوئی مرض گناہ کے شافی وقطعی علاج کا خواہشمندہ ہو وہ بائبل مقدس کی طرف متوجہ ہو۔ پس مذہب کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ انسان کی روحانی فطرت کلے فساد کو دور کرکے اُسے اُس کی اصلی فطرت یعنی پاکیزگی پربحال کرے۔ اورجب تک خاطی وعاضی انسان خُدا کی طبیعت پر مطبوع نہ ہوجائے۔ یعنی گناہ سے قطعی مبرہ منزہ نہ ہوجائے اُس کا خُدائے پاک وقدوس کے ساتھ ملاپ ناممکن ہے۔ کیونکہ متضاد طبائع کا اجتماع محال ہے۔ مذہب کا دوسرا کا م یہی ہے کہ وہ انسان کا خُدا تعالیٰ سے میل کروائے۔ گناہ اوراُس کے تمام بدنتائج سے رہائی۔ نیک اورپاک طبیعت کا حصول اورخُدا اورانسان کے مابین ملاپ پیدا کرنے اسی کانام نجات یامکتی ہے۔ لہٰذا مذہب کا کام یہی ہے کہ وہ انسان کو گناہ سے کامل نجات دلائے۔

عقل کاکام

بعض مذاہب محض عقل کی محدود اورکمزور بنیاد پر قائم ہیں۔ اورمجروعقل کی دوڑ دھوپ کے حاصلات کو مذہب حقہ قرار دے کر خُدا کی ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اوربعض جو خُدا کی ہستی اوروجود کے قائل بھی ہیں تو وہ نیچر ہی کو خُدا سمجھے ہوئے ہیں اور خُدا کو غیر از فطرت یا فوق الفطرت ہستی تسلیم نہیں کرتے۔ ان دونوں سوالات کا خلاصہ یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو خُدا کوئی شے نہیں اوراگر وہ کچھ ہے تو یہ ثابت ہے کہ یا تو خُدا اسم بلا مسمی اورقوت واہمہ کی اختراع ہے اور یا خود خُدا ہے۔ مذہب جنسی اعلیٰ وارفع برکت تو خُدا نے اس لئے بخش دی تھی کہ انسان ا سکی پیروی میں اپنی روش کو درست کرے۔ اوراُس کے سانچے میں ڈھل کے حقیقی روحانی اخلاقی شائستگی کو حاصل کرے۔ لیکن فی زمانہ زندہ دل لوگ ا س کو اُلٹے معنوں میں لے رہے ہیں۔ مذہب کو اپنی تقلید پر چلارہے ہیں۔ اوراپنی عقلی ودنیوی شائستگی کے سانچے میں اُس کو ڈھال کر اُس میں جدت طرازیاں کرتے ہیں۔ اورمذہب کو سائنس کی قیود میں ڈال کو تسخیر ہمزاد کی طرح اُس پر غالب آنا چاہتے ہیں۔۔۔آریہ بھائی مذہب کو سائنس کے ماتحت کرکے ریل گاڑیاں اورہوائی جہاز بھی ویدوں میں سے برآمد کررہے ہیں۔حالانکہ سائنس کا تعوزہر۔ ادویات ومحسوسات سے ہے اورمذہب کا تعلق غیر مادی روحانی حقائق سے سائنس کا نکتہ خیال اورہے اورمذہب کل سطح نظر اورسائنس اوراُس کے مادی مشاہدات وتجربات اوراُس کی دیگر معلومات۔۔۔اس مادی وحادث خلقت کا بیان کرتی ہے اورمذہب ا س خلقت کی مادی وغیر فانی حیثیت کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتا ہے۔ مذہب کا تعلق طبیعات کی زندگی سے نہیں۔ اس کے برعکس سائنس کا تعلق غیر مرئی۔ فوق الفہم اورلطیف روحانی حقائق سے نہیں ہے۔دونوں کے مقاصد جدا۔خیالات جُدا۔ طریق کا ر مختلف اورنتائج مختلف ہیں۔ جس طرح علم النفس اورعلم اقلیدس دونوں کے اغراض ومقاصد اورنکتہ ہائے نگاہ میں بعد المشر قین ہے۔ اسی طرح مذہب اورسائنس کے مقاصد و نکتہ ہائے نگاہ میں تفادت ہے۔ واضح ہو کہ انسان کے گنہگار ہوکر فطرت کی طبعی مادی حقیقتوں کا علم نہیں کھویا تھا۔ اس واسطےمذہب کا یہ کام نہیں کہ اُس کا قدرتی اشیاء کی ماہیت سے تعارف کروائے۔ بلکہ گناہ کی تازیکی نے اُس کی اصلی روحانی اورپاکیزہ فطرت اورخُدائے تعالیٰ کی صحیح پہچان پرپردہڈال دیا تھا۔ اس واسطے مذہب صرف خُدا شناسی تک پہنچانے اورانسان کو اُس کی اصلی پاکیزہ فطرت کا تصور دلانے کا ضامن ہے۔ اوریہی اُس کا نفس مضمون ہے کشش ثقل کے قانون کی واقفیت انسان کے طبعی بگاڑ کو دور کرکے اُسے پاک دراست نہیں بنا سکتی۔ پس سائنس کا دائرہ عمل اس خارجی مادی عالم کی طبعی حقیقتوں تک محدود ہے۔ اورسائنس کی حدود سے آگے مذہب کی عملداری ہے۔ وہ لامحدود ،غیر مادی ، غیر مرئی رُوحانی حقیقتوں کے علم وعرفان کا سرمایہ دار ہے۔


اگرمذہب کا کام صرف سائنس بیان کرنا ہوتا تو پھر مذہب کی عدم ضرورت ثابت ہے۔ کیونکہ سائنس کی تحقیقات کے نتائج مذہب سے حاصل نہیں ہوئے۔ بلکہ عقل انسانی کے محدود وغور خوخ کا ماحصل ہیں۔ یہ بھاری غلطی مدتوں سے اس واسطے پڑی ہوئی ہے کہ مجرد عقل پر بھروسہ کرکے اصولات عقلیہ اوراُصولات ِدین ومذہب قرار دے کر انسان نے مذہب کو مجردعقل کا مشغلہ اوردماغی ورزش کا تختہ مشق سمجھا ہوا ہے۔ عقل کا کام۔۔۔یہ ہے کہ کسی شئے کا امکان یا ضرورت ثابت کرے۔ اس سے آگے انسان کو۔۔۔ دو و آمیز روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ عقل صرف یہ حکم کرتی ہے کہ یہ کارخانہ حیات ایک نہایت اعلیٰ اورنے نظیر صنعت ہے۔ اورکوئی بڑے سے بڑا حکیم فلاسفر یا سائنس دان نیچر کی ادنی ٰ سے ادنیٰ شئے کا مثل بنا نہیں سکتا۔ اس سےآگے عقل یہ کہتی ہے کہ نیچر کی اس بے نظیر کل کے پرزوں کو حرکت دینے والا کوئ انجینئر بھی ایسا ہی بے مثل ہونا چاہئے۔ اوروہی انجینئر مصنوعات فطرت کا صانع بھی ہوگا لیکن یقینی طورپر یہ نہیں کہہ سکتےے کہ کوئی صانع یا کاریگر ہے۔ کیونکہ اگر ہے توعقل کے پاس اُس کا کیا ثبوت ہے ؟ عقل ایسے نادیدہ اورالطف وادق وجود کا کوئی ثبوت جو قابل اشارہ حسی ہودے نہیں سکتی۔ عقل کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہونا چاہئےنہ کہ ہے مثلاً ایک خوابیدہ شخص کے پاس سے ایک گدھا گزرتا اورغائب ہوجاتا ہے۔اوربیدار ہونے پردہ اُس کے آثار ِقدیم دیکھتا ہے۔ تو اُس کے دل میں فوراً دوخیال پیدا ہوتے ہیں۔ کہ یا تو کوئی گدھا یہاں سے گذرہے اوریا گھوڑی کا بچھرا۔ کیونکہ ان دونوں کے پاوں کی بناوٹ اورکمیت وکیفیت میں کچھ فرق وامتیاز نہیں ہے۔ اگر گدھے کے نقش ِقدم کہے تو اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں کیونکہ گدھا وہاں موجو د نہیں ہے۔اورنہ ہی بچھرے کے نقش ِپاء کہہ سکتا ہے کیونکہیہ امر یقینی نہیں ہے۔ اورہردو کے سموں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں۔پس ثابت ہوا کہ وہ عقل اس معاملہ میں محض امکان ہی ثابت کرسکتی ہے نہ کہ حقیقت جکہ مجرد عقل فطرت کے روزانہ صدہاواقعات کے یقینی ثبوت کے لئے کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتی تو اُس فوق الفطرت اوربعید از فہم وادراک صانع حقیقی ومالک تحقیقی کو کیسے ثابت کرسکتی ہے۔ اورغیر مرئی رُوحانی حقائق کی تفہیم و تعقیل میں کیسےے کامیاب ہوسکتی ہ۔ اس منزل پر پہچن کر عقل طبعی کے پر جلتے ہیں اور وہ معطل وحیران ہوجاتی ہے۔ کیا تو تلاش سے خُدا کو پاسکتا ہے ؟ کیا تو قادر ِمطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کرسکتا ہے (ایوب ۱۱: ۷)۔ خُداوند خُدائے اَ بدی وتمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اورماندہ نہیں ہوتا۔ اُس کی حکمت ادراک سے باہر ہے (یسعیاہ ۴۰: ۲۸)۔

عقل کا دائرہ عمل

کو لھو کے بیل کی نقل وحرکت ایک خاص دائرہ تک محدود ہوتی ہے اوروہ اُس مخصوصہ محیط سے باہر نہیں جاسکتا۔ وہی اُس کا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل کا دائرہ علم وادراک محض محسوسات ومرئیات تک ہی محدود ہے۔ اورمحسوسات و مادیات کے متعلق ہی عقل کے تجربات قابل ِتقسیم ہوسکتے ہیں۔ اوربدیہی حقائق کی تحقیق وتدقیق کے لئے عقل خالق نے اچھی رہنما بخش دی ہے۔ اوروہ محض ظاہر ی وباطنی حؤاس ِعشرہ کی مدد سے خارجی عالم کی طبعی حقیقتوں کی دریافت کرسکتی ہے۔ حواس ِخمسہ ظاہری یہ ہیں۔ حس مشترک ،خیال ،وہم ،حافظہ ، قوت متصرفہ ،جس طرح ظاہری کی تمام قوی ٰ کی درہ التاج قوت ِباصر ہ ہے۔ اُسی طرح حواس ِباطنی میں قوت متصرفہ سب سے زیادہ کا ر آمد اوراعلی ٰ ہے۔ بس عقل ان ہی حواس عشرہ کے کندھوں پرہاتھ دھرکے چلنے والی ہے۔اور اُن کی محتاج ہے۔ جس طرح ایک جنگی سپہ سالا ر کی کامرانی ونصرت کا تمامتر اِنحصار اچھی ، قابل اورتربیت یافتہ پلٹن اوربہترین اسلاح محاربہ پر ہوتا ہے۔اور بغیر ان کے وہ معطل وبیکار ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل اعضا ئے جسمانیہ کی سپا ہ اورحواس عشرہ کے ہتھیاروں کے بغیر محض نکمی اورناکارہ ہے۔ مثلاً اگر آنکھ نہ ہوتی تو حروف ایجادنہ ہوتے۔کتابیں لکھی نہ جاتیں۔پریس اورمطابع کی اختراع نہ ہوتی۔


فوٹو گرافی،فلم سازی ، رنگریزی ورنگسازی ،نقاشی ومصوری خیاطی ،بخاری ہوائی جہاز ،ریل گاڑی ،اوردیگر ہر قسم کی مشینری کا وجود نہ ہوتا۔ علم النجوم ،علم الاجسام ،علم طب ، علم جغرافیہ ، علم اقلیدس اورخورد بین ودوربین وغیرہ ہر گز معرض ِظہور میں نہ آتے۔غیر ضیکہ انسان علم وفضل اورتہذیب وشائستگی سے قطعی بے بہرہ ہوتا۔ اورانسان وحیوان میں کوئی بالاامتیاز نہ رہتا۔ دیگر حواس پر آنکھ کو ہم نے اسی لئے فضیلت دی ہے کہ وہ عقل کے لئے سب سے زیادہ کار آمد آلہ ہے۔ اسی واسطے جناب خُداوند مسیح نے کیا خوب فرمایا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے۔اگر تیری آنکھ درست ہوتو تیرا سارابدن روشن ہوگا۔ اوراگر تیری آنکھھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہوگا۔ پس اگروہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہوتو تاریکی کیسی بڑی ہوگی (متی ۶: ۲۲-۲۴)۔ لوقا ۱۱: ۳۴-۳۶)۔ پس ثابت ہوا کہ تمام عقلی کارنامے محض حواس کی موجودگی کی برکت ہیں۔ اورجہاں حواس کا م نہ دیں وہاں عقل مجرد بیکار ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا رُوحانی واخلاقی حقائق ودقائق جو کسی حس سے محسوس نہیں ہوسکتے اُن کی تفہیم وتعقیل عقل مجرد سے قطعی ناممکن ہے۔ اورعقلی وعلمی کمالیت سےروحانی واخلاقی ترقی لازم نہیں آتی۔ جب تک اُس میں کوشش نہ کی جائے۔جو شخص کمیسٹری میں باہر اوریگانہ عصر ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ اُسی علم کی روشنی میں الہٰیات کا بھی عالم ہو۔عقلی باتیں تو عقل دریافت کرسکتی ہے۔لیکن فوق العقل حقائق کو کیسے جان سکتی ہے ؟ آگ جلا دیتی ہے برف ٹھنڈی ہوتی ہے۔ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ سورج سے روشنی اورحرارت صادر ہوتی ہے۔ ہوا اوراپانی کے بغیر زندگی نہیں۔ سنکھیا مہلک ہے۔عسل شیریں ہے۔جنظل تلخ ہے۔ جب الملوک دست آور شے ہے۔ دو متوازی خطوط کا اتصال محال ہے۔ دو اوردو چار ہوتے ہیں۔ جو جُز میں ہے وہ کل میں ہے وغیرہ یہ سب بدیہی حقیقیتں ہیں۔ ان پر اورایسے ہی اورہزاروں امور پر تمام افراد ِعالم من حیث الاجتماع اتفاق کلی رکھتے ہیں۔ ا سکی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام حقائق تجارب ِمشہودہ پر مبنی اورحواس سے محسوس ہوسکتے اوربدیہی الظہور ہیں۔ لیکن طبعیات بدیہیات میں بھی بعض امور ایسے ہیں جن پرسب لوگ اتفاق نہیں رکھتے۔ مثلاً آریہ وغیرہ مادہ واَرواح انسانی کو قدیم مانتے ہیں۔ اورمسیحی ومسلمان اوردیگر بہت لوگ حادث مانتے ہیں۔ حالانکہ مادہ دیدنی کثیف اورعقلیات حسیات سے ہے۔ اورہر انسانی اپنی رُوح کاکم وبیش وجدانی اِحساس رکھتا ہے۔ جب بدیہیات میں ایک عقل دوسری عقل کے مخالف ہے۔ اورعقلی نتائج میں بعد المشہ قین ہے۔ تو عقل روحانی اورغیر مرئی وغیر محسوس حقائق لطیفہ اورامور دقیقہ کی دریافت میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے ؟ اوررُوحانیات ومدہبیات کے متعلق تضاد وتناقض فی العقول بدیہی ہے۔ عالم کا عدم سے بحکم الہٰی موجود ہو جانا۔ اِلہام معجزات ،گناہ اورنجات ،حیات بعد از ممات ،وجود ملائکہ۔ قیامت ، عدالت ، اَبدی سزا اوراَبدی زندگی وجود ایزد تعالیٰ وغیرہ امور سب مزہیبات وایمانیات سے متعلق ہیں۔ اورسب فوق الفہم والعقل حقائق ہیں۔ اورعقل کی رَسائی سے باہر ہیں۔ اور جب تک کوئی صداقت یا حقیقت اپنے علم کا موقع نہ دے عقل خود بخود اُس کا علم حاصل نہیں کرسکتی۔ پس عقل محدود ہے اور محدودات سے باہر اُس کی قوت پر بھروسہ رکھنا لاحاصل ہے۔

ارتقائے عقل

ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس امر کو واضح کردیا۔ کہ عقل ِانسانی محدود ہے اوروہ کسی حد کے اندر اندر رہ کرہی اپنا کام کرسکتی ہے اوراس سے آگے نہیں جاسکتی۔درختوں کے اُوپر بیجد خلاء موجودہے۔ اُن کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے مانع نہیں۔ تمام فضاء اُن کو آسمان تک بلند ہونے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔لیکن دیکھئے کہ وہ اپنی مقررہ حدود تک ترقی کرلینےکے بعد رُک جاتے ہیں۔ اسی طرح طبقہ نباتات ،حیوانات اورانسان کے قدوقامت کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے محدود مُسد نہیں۔ جہاں تک وہ بڑھنا چاہیں بڑھیں۔ لی


لیکن مشاہد ہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی شئے ارتقائی لحاظ سے اپنی مقررہ حُدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ تو بھلا عقل انسانی اپنی حدود سے کیسے متجاوز ہوسکتی اور کس طرح امور رُوحانیہ اورحقائق لطیفہ وغیر محسوسہ کو جان سکتی ہے ؟ خُدا نے ہر شئے کے ساتھ عقل کی بھی حد ٹھہرائی ہے۔ تُو نے اُس کی حدوں کو مقرر کردیا ہے جنہیں وہ پار نہیں کرسکتا (ایوب ۱۴: ۱۵)۔ تُونے حدباندھ دی تاکہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔(زبور ۱۰۴: ۹، ۱۹۹: ۹۶ )۔ واضح ہوکہ گو خُدا نے عقل کو محدود بنایا ہے۔لیکن جس طر ح تمام اشیاء میں اُس قادر مطلق نے ارتقائی قوت ِفطری طورپر رکھ دی ہے۔اور ہر شئے ابتدائی وسطی اورانتہائی منازل ترقی کو بتدریج طے کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح عقل انسانی کے لئے بھی میدان ترقی وسیع ہے۔ ایک بیج جو زمین میں بویا جاتا ہے وہ تہ خاک ہی میں پورا درخت نہیں بن جاتا۔ وہ خاک کے نیچے زیادہ سے زیادہ دو یاتین انچ لمبا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ارتقا ء انتہائی کے تمام سامان زمین کے نیچے موجود ہیں ہوتے۔ پوری ترقی پودا زمین سے باہر نکل کر ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح انڈے کے اندر جو چوزہ ہے وہ اُس خول کے اندر بقدر گنجائش ہی بڑھ سکتاہے۔ لیکن کمالیت اُس خول سے باہر نکل کر ہی حاصل کرسکتا ہے۔ اس بیان سے پودے اورچوزے میں کمالیت کی عدم استعداد مُراد نہیں ،بلکہ ارتقائی صلاحیت واستعداد تو ہوتی ہے پر زمین اورخول بیضہ اُن کی کمالیت کے محدود ہوتے ہیں۔ اورحصول کمال کے تمام وکمال سامان وہاں نہیں ملتے۔ اسی طرح رُوح ِانسانی اسی جسمی خول کے اندر رہتے ہوئے حصول بڑھ سکتی۔ اوررُوح کی قوت ِتعقل کو ترقی کے واقع نہیں ملتے۔ مقدس پولوس رسول نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ اب ہم کو آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔مگر اُس وقت رُو برو دیکھیں گے۔ اس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے پورے طورپر پہچانوں گا جیسے میں پہچا نا گیا ہوں (۱۔ کرنتھیوں ۳۱: ۱۲) کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتا رہیگا (۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۹-۱۰) ہماری عقل اس جس میں خول کے اندر رہ کر رُوحانی اورنادیدنی حقائق کو ایمان کی آنکھ سے دُھندلا سادیکھتی ہے۔لیکن ایک وقت آئے گا جب عقل انسانی سے حجاب اُٹھ جائے گا اوراُس وقت وہ رُوحانی حقیقتوں کو رُوبر و دیکھے گی۔ رُوحانی ترقی اس جسم میں شروع ہوجاتی ہے اوربتدریج اس فانی جسم سے آزاد ہوکر وہ ترقی کمال کو پہنچے گی۔ اورہم اُس جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸) اورہمارے عقلی ورُوحانی قویٰ بقدر متناہ ترقی کرتے کرتے لامحدودنہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ محدود شئے ابد تک ترقی کرنے سے بھی لامحدود نہیں ہوسکتی۔

عقل اَور موالید ِثلٰثہ

ماہرین طبعیات تمام موجودات کو طبقات ِثلٰثہ میں منقسم کرتے ہیں جمادات نباتات اورحیوانات اورانسان کو طبقہ حیوانات میں شامل کرکے اُسے حیوان ِناطق کہتے ہیں۔ ان ہرسہ طبقات میں خاصیات وصفات کے لحاظ سے خاص امتیازات نظر آتے ہیں۔ جو ایک طبقہ کو دوسرے سے اشرف یا ادنی ٰ ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً جمادات میں فوت ِنامیہ مفقود ہے اورنباتات جسم نامی ہے۔یعنی اُس میں نمو کی قوت موجود ہے۔ ازیں وجہ وہ جمادات سے اعلیٰ ہے۔ پھر نباتا ت میں حس، ارادہ اورحرکت معدوم ہے۔ لیکن حیوانات میں قوت ِنامیہ کے علاوہ حِس ،حرکت ، ارادہ اورجان موجود ہے۔حیوانات حسِاس،متحرک بالا رادہ اورذی جان ہیں۔ اورانسان وحیوان میں وجہ امتیاز نفسِ ناطقہ ہے یعنی انسان ذی جان ہونے کے علاوہ ذی رُوح بھی ہے۔ اوراُس میں ادنی ٰ طبقات ِثلٰثہ کی حیثیتں اُس کے اعلیٰ وافضل مدراج میں پائی جاتی ہیں۔

وہ پتھر لکڑی اورہتھیار کے نقصان سے بھی واقف ہیں۔پھر طبقہ حیوانات کو انسان کی نسبت بہت ہی تھوڑا علم ہے۔گائے بھینس ،بیل ،گھوڑا ، اُونٹ،بھیڑ ،بکری ،گدھا ،کُتا ،طوطا ،مُرغی وغیرہ اپنے مالک کو خُوب پہچانتے ہیں۔ اورغیر آدمی کو غیر سمجھتے ہیں۔ا


ا نسان کے غصہ اورنرمی وہمدردی میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بدیہی بات ہے کہ وہ انسان کی حقیقت کو ایسا نہیں جان سکتے جیسا انسان اُن کو جان سکتا ہے۔ انسان جمادات کو جانتا ہے۔ پتھر کوئلے ،سونا ،چاندی ،اوردیگر دھاتوں کے خواص وفوائد سے بخوبی واقف ہے۔ علم طب میں ہرنوع کی جڑی بوٹیوں اورپھولوں پھلوں کی تشریحات موجود ہیں۔ ان کے فوائد اورنقصانات سے کامل ِواقفیت رکھتا ہے۔ حیوانات کا پورا علم رکھتا ہے۔ علم الا جسام، علم خواص الا شیاء،علم الانوار، علم النفس طب اور صد ہا علوم وفنون جوانسانی تحقیقات کا ماحصل ہیں اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ کہ انسان ہر سہ ادنی ٰ طبقات کا علم کامل اوریقینی رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے ادنیٰ طبقات کو انسان کاکچھ علم نہیں ہے۔پھر طبقہ انسانی میں بھی عقلاء و جُہلا کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء وعقلا طبقہ جُہلا ء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلاء کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء و عقلا طبقہ جُہلاء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلا ء اُن کے متعلق نہیں رکھتے۔ بچے والدین کی نسبت اُس قدر علم نہیں رکھتے جس قدر والدین بچوں کی نسبت۔اسی طرح انسان صنعیف البیان اورناقص العقل ومحدود العلم کی ہستی جس قدر مذکورہ بالا تین طبقوں سے اعلیٰ ہے اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی لاکھ درجہ خُدائے تعالیٰ بے حدود بے عد کے بالمقابل ادنی ٰ ہے۔ تو بھلا انسانی عقل کی کیا مجال ہے کہ وہ طبقہ الہٰی اورحقائق رُوحانی ودقائق فوق الفہم کی حیطہ ادراک میں لاسکے۔ عقل انسانی محض من حیث الآ ثار ہی طبقہ الہٰی اوروجود لامتناہی کا کچھ تصور کرسکتی ہے۔ جس طرح حیوانات کا علم انسان کے متعلق بہت ہی معمولی اور ناقص ہے۔ اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی بدرجہا کم انسان اپنی عقل مستناہیہ وفہم محدود سے حقائق قُدسیہ الہٰیہ کی تفہیم کرسکتا ہے۔ اوربطور استدلال انی معلول سے علت اورمصنوع سے صانع کا تصور کرسکتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔(اوروہ بھی ) اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کردیا۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہا ں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں۔ (رُومیوں ۱: ۱۹-۲۰) مشاہد ہ فطرت سے خُدا کا صرف مثالی علم ہی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اُس کی حقیقت کا یقینی علم محال ہے۔ اگر کائنات کے صرف مشاہدہ ہی سے خالق کایقینی اورصحیح علم حاصل ہونا ممکن ہوتا۔تو دُنیا میں اُس کی ہستی اورماہیت کے متعلق خیالات وآراء میں منافقت نہ مخالفت نہ ہوتی۔پس انسان مجوب الفہم من حیث العقل حقائق الہٰی اوروجود لامتناہی کے صحیح تصور میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ واہ ! خُدا کی ذات اورحکمت اورعلم کیا ہی عمیق ہے۔ اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اوراُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔ خُداوند کی عقل کو کس نے جانا۔ یاکون اُس کا صلاح کار ہوا ؟ (رُومیوں ۱۱: ۳۳- ۳۴)۔

عقل کی عدم صحت

واضح ہوکہ عقل طبعی کی کارگزاری کے نتائج عالم میں مختلف ہیں جس سے عقل ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ اسی عقل نے ہزاروں لوگوں کی رہنمائی کی اور وہ خُدا کی ہستی سے منکر ہوگئے اورعقل کفر ولحاد کی موید دبانی ٹھہری۔اسی عقل کی رہنمائی میں لاکھوں انسان بتوں کو خُدا سمجھنے لگے۔ اسی عقل کی روشنی میں بیشمار لوگ بُت پرستی پر آمادہ ہوگئے۔ اسی عقل نے لاکھوں انسانوں کو گمراہ کردیا۔ او ر وہ گور پرستی پیرپرستی،لنگ پرستی، مردم پرستی، عناصر پر ستی،فطرت پرستی اور تناسخ جیسے غیر معقول ومجہول عقائد پر ضمیر فروشی کرنے لگے۔ اسی عقل نے ہدایت کی اورآریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگ۔ اسی عقل نے ہدایت کی اور آریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگے۔ اسی عقل کے اشاروں پر مسیحی ومحمدی مادہ وارواح کی ازلیت وقدامت کی تردید وتکذیب پر جھکے۔ غرضیکہ آج تک تفادت فی العقول بدیہی طورپر ظاہر وبا ہر ہے۔ آخر یہ تمام عقائد یا عقل کے تمام نتائج تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانچ اورپانچ نو ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہا پانچ نو ہوتے ہیں۔


دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہتا ہے دس، آخر ان چاروں کے جواب توصحیح نہ ہوں گے۔ ایک ہی جواب درست ہوسکتا ہے۔ جب خُداواحد وبرحق ہے۔ اورتمام عقلیں بھی صحیح ہیں۔ تو مختلف عقائد اورمتضادخیالات کے وجود کے کیامعنی ؟ ایک ہی خُدا اتنے متضاد ومتناقض عقائد کابانی نہیں ہوسکتا۔ پس انسانی عقلوں میں اختلاف وتناقص کی وجہ اُن کی عدم صحت ہے اورعد م صحت کا موجب گناہ۔ اس لئے موضوعات ِعقلیہ کو کوئی حقیقی والہٰی مذہب قرار دینا سراسر جہالت اورکج فہمی ہے۔ عقل کے تمام پُرزوں پر گناہ کا زنگ لگ گیا ہے۔ اس لئے اُس کی رفتار ہیں فرق ہے ۔اوراٗن آدمیوں میں رد وبدل پیدا ہوتا ہے جن کی عقل بگڑ گئی ہے۔ اوروہ حق سے محروم ہیں۔(۱۔ تمتھیس ۶: ۵)۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے۔(افسیوں ۴: ۱۸)۔ یہ ایسے آدمی ہیں جن کی عقل بگڑی ہوئی ہے اور وہ ایمان کے اعتبار سے نامقبول ہیں (۲۔ تمتھیس ۳: ۸) جن کی عقلوں کو اس جہان کے خُدا (یعنی ابلیس ) نے اندھا کر دیا ہے۔(۲۔ کرنتھیوں ۴:۴)۔

میرا مطلب عقل کی عدم صحت سے یہ نہ سمجھا جائے کے گناہ کے باعث عقل کی قوتیں زاہ ہوگی ہیں یا معدوم وناپیدا نہیں ہوگئیں۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصلی حالت پر نہ رہیں۔ مثلاً ہمارے سامنے میز پر دس گھڑیاں رکھی جائیں جو بخوبی چل رہی ہیں۔ بظاہر صاف اورصحیح معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن جب اُن میں وقت دیکھا جاتا ہے۔ تو سب میں دس دس،پندرہ پندرہ اوربیس بیس منٹ کا فرق ہے تو آخر کس بناء اُن کی رفتار پر صحت کا حکم لگایا جائے ؟ گھڑیاں ثابت ہیں،پُرزے قائم ہیں۔گھنٹے،منٹ اورسیکنڈ کی سوئیاں حرکت کررہی ہیں۔مگر سب کے اوقات میں مطابقت ویکسانیت نہیں۔ اسی سے اُن کی عدم صحت ثابت ہوگی۔ یہی حالت جمیع عقول انسانی کی ہے۔اس واسطے مجرد عقل کے نتائج وحاصلات کو کسی مذہب کا صحیح قرار دینا ضلالت وگمراہی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ عقل کی مذکورہ بالا حالت پر غور کرتے ہوئے ہمیں عقلی ونقلی طورپر عقل کی دوحالتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی۔

اول۔ پہلی حالت عقل کی وہ تھی جبکہ وہ کمالیت،صحت اورپاکیزگی کی حالت میں خالق کے ہاتھ سے نکلی۔ اس کے متعلق کلام اللہ کی شہادت یہ ہے اورخُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا(پیدا ئش ۱: ۲۷)۔ یہا ں خُدا کی صورت سے وجہ اللہ مُراد نہیں ہے بلکہ اس صورت سے مُراد رُوحانی صورت ہے۔ اکثر خبیس الطبع لوگ نادانی سے یہ سوال کیا کرتے ہیں۔ کہ چونکہ انسان خُدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اوروہ جسم واعضا ء رکھتا ہے۔ الہٰذا انسان کی طرح خُدا بھی جسم واعضا ء رکھتا ہوگا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اُن کے اس نامعقول معارضہ کا مدفل جواب لکھا جائے۔ اورگمراہوں کو راہ دکھائی جائے۔ جو لوگ علم تشبیہ واستعارہ سے واقف ہیں وہ ایسا پودا اعتراض نہیں کر سکتے۔واضح ہو کہ ہر جگہ لفظی معنی لینا جائز نہیں۔ اوربالخصوص صحائف مطہرہ کی عبارات کے سمجھنے میں زیادہ احتیاط برتنا چاہئے۔ ایک حکیم کہتا ہے کہ یہ نسخہ ہتیلی پر سرسوں جمانے والا ہے تو اس سے لفظی معنی مُراد نہ ہوں گے بلکہ محض دوا کی زور اثر ہی مُراد ہوگی اورداود ہوگی اورداود نبی خُدا سے یہ التجا کرتا ہے کہ مجھے اپنے پروں کے سایہ میں چھپالے (زبور ۱۷: ۸)۔ تو کیا اس سے خُدا کو پرندہ سمجھا جائے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ مُراد یہ ہے کہ اَے خُدا مجھے اپنی پناہ و حفاظت میں رکھ۔ خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا اس آیت میں انسان مشبہ حتی ہے۔ خُدا مشبہ بہ عقلی اوروجہ شبہ مرکب عقلی ہے۔ جب مشبہ حسی اورمشبرہ دونوں حسی ہوں تو یہ سوال جائز ہوسکتا ہے۔ لیکن آیت زیربحث میں تشبیہ تمثیل ہے۔ اورتشبیہ تمثیل میں وجہ شبہ مرکب حسی نہیں ہو ا کرتی بلکہ مرکب عقلی ہوتی ہے۔ اور خُدا کے ساتھ انسان کا یہ اشتراک صفائی تشبہی ہے۔ عین مطابقی نہیں۔ اورخلاصہ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح خُدا پاک وفاعل مختار ذی عقل اورصاحب ِارادہ ہے۔ اُسی طرح اُس نے انسان کو بھی ان صفات سے متصف فرمایا۔ خُدا کی صورت کے معنی ملاحظہ ہوں (افسیوں ۴: ۲۴،کلسیوں ۳: ۱۰ عقلی طورپر یہ حقیقت اس لحاظ سے درست ہے کہ اگر خُدا نے انسان کو پاک اورکامل نہیں بنایا تھا تو اُس کا گناہ میں گرنا خُدا سے انحراف وبغاوت نہیں۔


نہ ہی الہٰی سرتابی ہے اورخُدا نے اُس سے نیکی پاکیزگی اوراپنی متابعت کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ دوم خُدائے پاک وقدوس سے ناپاک طبعیت کے معلول کا اصدار محال ہے۔پس ثابت ہوا کہ خُدا نے انسان کو پاک وراست بنایا تھا۔ یہ انسانی رُوح اورعقل کی حالت اولہ تھی (واعظ ۷: ۲۹)۔

دوم۔ اورعقل کی حالتِ ثانیہ موجود متنزل اوربگڑی ہوئی حالت ہے۔ اُن کی عقل اور دل دونوں گناہ آلودہ ہیں(۱۔ طیطس ۱: ۱۵ ۲۔ تیمتھس ۳: ۸ ) قتل کے اسی لخطاط وتنزل کے باعث پولوس رسول فرماتا ہے۔ مگر نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طورپر پرکھی جاتی ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔ خُداوند یسوع مسیح نےجو مسرف بیٹے کی تمثیل (لوقا ۱۵: ۱۱- ۲۳)میں فرمایا ہے وہ انسان کی اِسی دوقسم کی حالت کا مکمل فوٹو ہے۔ مسرف بیٹے کی پہلی حالت جبکہ وہ باپ سے رُخصت ہوا بہت دولتمندی اورخوشحالی و خوشی کی تھی۔ اوردوسری حالت انتہائی تنگدستی۔ ناداری اورکس مپرسی کی تی۔ چنانچہ رُوح وعقل انسانی کی موجود ہ حالت مسرف بیٹے کی حالت ِثانیہ کے مطابق ہے۔اب خُدا جو رحیم وکریم اورسرچشمہ محبت ہے کبھی ہو نہیں سکتا کہ انسان کو ابدتک اس عقلی وروحانی گمراہی میں رہنے دے۔اورہم یہ بھی خوب جان گئے کہ محض عقل سے اوروہ بھی مریض ومتنزل عقل سے خُدائے قادرِمطلق کو جان نہیں سکتے۔ کیونکہ عقل کے بازو ہم نے صدیوں آزمادیکھے۔ اب عقلی مذاہب کے دعوے دار اور عقل کے شیدائی جواُس کو اُس کے اصل مرتبہ سے بہت زیادہ بلند کرکے دکھاتے ہیں خوب غور کرلیں کہ عقل طبعی کس قدر قابلیت کی سرمایہ دار ہے ۔ا ورا ُس کو اُس ک جائز درجہ سے بڑھ کر سمجھنا کس قر کو ر اعتقادی،خوش فہمی اورحقیقت سے روگردانی ہے۔ اب آخری ممکن اور صحیح صورت ہی ہوسکتی ہے کہ خُدا ئے تعالیٰ خود اپنا علم وعرفان انسان کو عطا فرمائے۔ اورکسی طرح سے اپنی ذات وصفات اورمرضی کو اُس پر ظاہر کرے۔ تاکہ انسان عقل کوے پیچھے لگ کر گمراہی سے گمراہی کی طرف نہ بڑھتا چلاجائے۔ اگلے باب میں ہم خُدا کے اُسی ذریعہ ووسیلہ کا بیان کریں گے جس کی وساطت سے ہم خُدا شناسی تک پہنچ سکتے ہیں۔

(۵)


الہام کی ضرورت

جب رُوح انسانی پر انحطاط وتنزل نے قبضہ جمالیا اوراُس کا وہ نور بصیرت جوخُدا نے اُسے بخش دیا تھاگناہ کی تاریکیوں میں بالکل مدھم پڑگیا۔ اورچشم بصیرت پر معصیت کا پَردہ ساچھاگیا۔ تواُس نے گناہ کی تیرگی میں ادھر اُدھر پاو ں مارنے شروع کئے۔ اوراس ظلمت میں جو بھی پگڈنڈی اُسے سوجھی بس اُسی کو تھام لیا جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہار ا مگر راہ ِحق کے حصول میں ناکا م رہی۔ عقل کی اس لاچاری اوربے بسی کی حالت میں خالق نے الہام کی مشعل سے صراط ِ مستقیم کی طرف اُس کی رہنمائی وہدایت فرمائی۔ جس مدعا ومقصد کے حصول میں عقل ِانسانی ناکا م رہی۔ وہ خُدا نے الہام کی وساطت سےعطا فرمایا۔ گویا اُس فوق الفہم وادرا ہستی نے انسان سو والفہم وفاسد العقل اورمحدود العلم پر خود اپنی ذات وصفات اورمرضی کا انکشاف فرمایا۔ کیونکہ اورکوئی صورت ممکن ہی نہ تھی۔



جوڑا اورترقی

یہ بدیہ حقیقت ہے کہ فطرت کی کوئی شئے بغیر جوڑے کے کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ ہر شئے جوڑے کے ساتھ مل کر بڑھ سکتی ہے۔ ورنہ مجرد ہی رہتی ہے۔ نباتا ت حیوانات اورانسان میں جوڑے کاوجود ترقی کی شرط ہے۔چنانچہ موجودات کی ہر ہر جنس میں مذکرو مونٹ اورنرد مادہ کاوجود اس صداقت پر دال ہے۔ آنکھوں کا جوڑا آفتاب ہے۔اگر آفتا ب نہ ہوتو ہم کچھ بھی دیکھ نہ سکیں۔ کان جوڑا ہوا ہے۔ اگر ہوا نہ ہوتو ہم کو ئی آواز بھی سن نہ سکیں۔ بیج کا جوڑا زمین ہے۔ اگر ایک بیج کو دس سال تک کسی ڈبی میں بند کررکھیں تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ لیکن زمین میں بونے سے تیسرے دن اُگ آتا اوربتدریج کمال کو پہنچتا ہے۔ اورایک دانے کے درجنوں دانے ہوجاتے ہیں۔ برقی تار کے دوسرے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اوردوسرا منفی۔ اگران دونوں کو باہم ملایا نہ جائے تو بجلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن ملانے سے فوراً بجلی پیداہوجاتی ہے۔ اسی طرح عقل مجرد کو لھو کے بیل کی طرح ایک ہی مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ اوراپنی مخصوص حدود سے باہر نہیں جاسکتی۔ پس عقل کا جوڑا الہام ہے۔جب دونوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ تو تیسری شئے پیدا ہوتی ہے۔ اوروہ خُدا کی معرفت اورحقیقت کا علم ہے۔ موٹر صرف سمند رکے کنارے تک ہی پہنچا سکتی ہے۔ پار نہیں لے جاسکتی اورممکن ہے کہ موٹر ڈرائیوڑ یہ سمجھے کہ سمندر کے پرے اورکوئی عالم نہیں۔ پس پانی ہی پانی ہے اوراسی طرح دیدانتی کی عقل بھی نیچر کےحالات ِ موجودہ اورتجارب مشہورہ کی بنا پر کہدے کہ اس عالم ناسوت سے پرے اورکوئی رُوحانی عالم نہیں اورخُدا بھی کوئی غیر از نیچر شئے نہیں۔ بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے وہی ہے۔ لیکن سمندر کے پار جہاز لے جاتا ہے۔ اورثابت کرتا ہے کہ سمندر کے پار اوربھی دنیابسی ہے۔ اوراُس کی یہ کیفیت ہے۔ جس طرح موٹر اورجہاز دونوں کے ذریعے سمندر پار کی دُنیا کا علم حاصل ہوتا ہے۔اُسی عقل والہام کے ذریعے عام ناسوت سے عالم لاہوت تک پہنچنا اوراُس سے کم وبیش واقفیت حاصل کرنا ممکن ہے ۔اگرانسان میں عقل نہ ہوتی توالہام بے معنی ہوتا۔ اوراگر الہام نہ ہوتا تو عقل رُوحانی اورالہٰی حقائق کے علم سے قاصر رہتی۔ بہرحال دونوں کا وجود ترقی کے لئے ضروری ہے۔ جب انسان اپنی کمزور عقل اورمحدود حواس سے خُدا ئے بیحد کی ہستی کے متعلق صحیح علم حاصل کرنے میں قاصر اورمجبور ثابت ہوتو ایزد تعالیٰ لے اپنی ہستی اورعالم لاہوت کی کیفیت کو اپنی رُوح کے وسیلے بوساطت انبیاء موسلین کے خود اُس پر آشکارا فرمایا۔ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں۔ نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُد ا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ ظاہر کیا۔ کیونکہ رُوح (رُوح الہٰی) ساری باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کرلیتا ہے۔۔۔اِسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا خُدا کی باتیں کوئی نہیں جانتا (۱۔ کرنتھیوں ۲:۹- ۱۱)۔

رُوح خود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے (رومیوں ۸: ۱۶) انسانی عقل گویا منفی اورالہام الہیٰ(۲۔ تیمتھیس ۳: -۱۶ ۱۷)۔ مثبت ہے جب ان دونوں کاملِاپ ہوا تو عقل انسانی میں نور آیا۔ اورالہام الہٰی وہ سلسلہ حقائق وددائق لطیفہ رُوحانیہ اورنکات ومعارف قُدسیہ الہٰیہ ہے جس کے ذریعے خُداتعالیٰ تدریجی طورپر حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح بنی نوع انسان پر اپنی مرضی ومنشا کا اظہار وانکشاف بذریعہ انبیاء مُہلین کے فرماتا ہے۔ اورخُدا کی رُوح منزل علیہ کے ذہن عقل کو مکاشفہ دینے سے پہلے اس قابل بنا لیتی ہے ۔ کہ وہ پیغام ِالہٰی کو قبول کرکے اُس کے مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت رکھے۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی۔بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۲۱ ) اورعقل ِانسانی الہام الہٰی کے وصال سے لاا نتہا تورانیت کے عالم میں پہنچ جاتی ہے۔ اورمعرفت ِالہٰی کے اسرار سربستہ ورموز مخفیہ کو سمجھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔



عقل الہام کی متقاضی ہے

جس طرح امراض جسمانی وعوارض جسدانی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اورہر شخص اُن کے متعلق ذاتی تجربہ رکھتا ہے اسی طرح عوراض رُوحانیہ بھی ہرشخص میں حقیقتاً اوربدیہی طورپر ظاہر ہیں۔ رُوح وجسم کے اجتماع کا نام انسان ہے۔ رُوح لطیف اوراشرف وجود ہے۔ اورجسم کثیف وادنی ٰ شے ہے۔ چنانچہ رُوح کے بگاڑ سے جسم کا بگاڑ لازم آیا۔ جب رُوح پر مرض گناہ نے ڈیرے ڈال لئے تو جسم پربھی اُس کے آثار ظاہر ہوئے۔ اورجسم بھی طرح طرح کے امراض میں پھنس کر قبضہ موت میں آگیا۔ اب یہ ہر دانشمندپر ظاہر ہے کہ امراض جسمانی کی مدافعت وازالہ کے لئے خُدا نے حکیم وقدیر نے بیشمار ادویہ۔جڑی بوٹیاں وغیرہ پید اکردی ہیں۔ اورماہرین طب اورحکما واطباء نے اُن کے خواص و فوائد کی مفصل تشریحات کتب طب میں فرمادی ہیں۔ یہ خُدا تعالیٰ کا وہ بے نظیر انتظام ہے جس سے جسم کے تما امراض کی مدافعت اورجسمانی زندگی کے استحفاظ واصلاح کے بارے میں اُس کی قدرت وحکمت ظاہر ہے۔ جس حال کہ انسان کی جسمانی زندگی کی صحت وقیام کے با ب میں اُس نے اِس قدرسخاوت کے دریا بہادئے ہیں۔ توبڑے افسوس اورحیرت کا مقام ہو اگر وہ انسان کی رُوحانی زندگی کی بہتری۔ اصلاح اورحفاظت کے با ب میں بخل واغماض سے کام لے۔ بلکہ جس طرح رُوح بہ نسبت جسم کے اعلیٰ اورانمول شئے ہے اُسی طرح اُس کی صحت وبقا کے لئے فطرہ میں جسمانی اسباب کی بہ نسبت اعلیٰ رُوحانی اسباب ووسائل کا پیدا کرنا اوراعلیٰ قوانین کا نفاذ زیادہ ضروری ولازمی ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ خُدا وند کریم نے ایسا ہی کیا اوررُوحانی امراض کی تشخیص ومدافعت کے لئے روحانی حکمت کی کتاب بھی نازل فرمائی۔ اوروہ کتاب بائبل مقدس ہے۔ ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اورالزام اوراِصلاح اورراست بازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مرد خُدا کامل ہے اورہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے (۱۔ تمتھیس ۳: ۱۶- ۱۷)۔ کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں۔ تاکہ صبر سے اور کتاب ِمقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔(رومیوں ۱۵: ۴)۔

پس عقل کے اس واجبی تقاضا کو اِلہام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اگررُوحانی طب کی کتاب (الہام) اورروحانی اصلاح کے اسباب خُداوند کریم اس دُنیا میں ہمیں نہ بخشتا اورصرف جسمانی اسباب ہی کے دینے پر اکتفا کرتا تو اُس کی قدرت وحکمت پر دھبہ آتا تھا۔ لیکن اُس نے دونو قسم کے انتظام کرکے ہمارے لئے عُذر کی کوئی وجہ نہیں چھوڑی۔

اِلہام اورباطنی شریعت

اِنسان فطِرتا ً عقلی اوراخلاقی وجود ہے اورخُدا نے اُسے اپنی صورت پر پاک وراست صاحب ارادہ۔اورفاعل مختار بنایا۔ اوراپنی مرضی کا اظہار اُس پر فرمایا۔ یعنی اخلاقی شریعت اُس کو بخشی۔ وہ شریعت کسی ظاہر ی وتحریری صورت میں نہ تھی۔ بلکہ انسان کی عقل وضمیر پر مرتسم کی گئی تھی۔ جب انسان نے وہ باطنی اخلاقی شریعت کھودی۔ اورگناہ کی تاریکی میں وہ انمول وبیش بہاشئے گُم ہوگئی۔ اورانسان کے دل سے خُدا کی وہ صورت جس کی مانند وہ بنایا گیا تھا جو ہوگئی تو اس کے لئے یہ مشکل پیش آئی کہ وہ کس طرح اُس گم شدہ الہٰی پاکیزہ صورت کی مانند خود کو پھر سے بنائے۔


کیونکہ جب اصل شئے گم ہوجائے تو نقل کو اُس کے مطابق بنانا محال ہے۔ جب نمونہ نادیدہ ہو تو دیدنی صورت کو اُسکے مشابہ کرنا مشکل ہے۔ اب اِلہام الہٰی باطنی شریعت کی وہ ظاہری صورت ہے۔ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان کمدر الصورت اورمفصد الطبع پھر سے اصلی پاکیزہ حالات پر آسکتا ہے۔ شریعت الہامی (ظاہری ) شریعت باطنی سے غیر نہیں۔ بلکہ اُسی کا اعادہ ہے ۔الہام کی ضرورت یہی ہے کہ وہ انسان کو اس کی اصلی سرشت کی طرف دوبارہ رجو ع کرائے۔اگر ابو البشر (آدم) باطنی شریعت کو کھونہ دیتا تو کبھی انسان کو ظاہری الہامی شریعت دئے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ انسان کی اُس شوکت گذشتہ اور جااِلت رفتہ کے آثار کچھ نہ کچھ اب تک موجود ہیں۔ اورہونا بھی یوں ہی چاہئے۔ بقول شخصے۔

از نقش ونگار ور ودیوار شکستہ۔۔۔۔۔۔ آثار پدید ست حنادید عجم را

چنانچہ خلیفہ خُدا (انسان ) کی ابتدائی پاکیزہ حالت اورشرع باطنی کا ثبوت تمام اقوام ِعالم میں نیکی وبدی کا وہ احساس وامتیاز ہے جو وہ خُدا کی ہستی اورالہام کے منکر ہونے کے باوجود فطری طورپر رکھتی ہیں۔جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے (رومیوں ۱: ۱۹)۔ وہ نیکی کو نیکی اوربدی کو بدی کہتی ہیں۔ اگرچہ نیک وبداعمال کے تعین کے متعلق سب کے خیالات میں اتفاق کلی نہیں۔ تاہم نیکی کا خیال اورعلم وعمل اوربدی سے نفرت ہر جگہ ہر قوم میں ظاہر ہے۔ اورباطنی شریعت کا بقیہ ہر منکر دملحد کے باطن میں موجود ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبعیت سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔ تو باوجود شریعت (یعنی الہامی شریعت ) نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اوراُن کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے۔ اوراُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں اوریا اُن کو مغدور رکھتے ہیں(رومیوں ۲: ۱۴ – ۱۵)پس ثابت ہو اکہ الہامی شرع انسان کی ابتدائی شرع باطنی کا اعادہ ہے۔اُس سے علیٰحد ہ نہیں بلکہ اُسی کے مطابق ہے اورالہام کی ضرورت ہی اس لئے ہوئی کہ شرع باطنی کو انسان نے گناہ کی تاریکی میں کھودیاتھا۔ گواُس کا کچھ بقیہ ہر ایک کے دل میں موجود ہے پر وہ انسان کی کامل رہنمائی میں قاصر ہے۔ کیونکہ امتداد زمانہ اوراظاہری وباطنی انقلابات نے اُس میں بہت سی تبدیلی کر دی ہے۔ اب الہام خُدا کی طبیعت۔مرضی اوررحمت ومحبت کا ظہور ہے۔جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان محبوب الطبع ومدر الفطرہ پھر ابتدائی پاکیزہ ومبارک حالت پر بحال ہو سکتا اوراپنی بگڑی ہوئی رُوحانی صورت کو آئنیہ الہام میں سنوار کردوبارہ خُدا کی صورت پر بن سکتاہے گناہ کی تاریکی میں انسان خُدا سے بچھڑا گیا اوراپنے محبوب حقیقی کی فرفت سے بے قرار ہو کر اُس کی جستجو وتلاش میں مارا مار اپھراکیا۔ لیکن اُس کے دیدارفیض آثار سے لطف اندوز نہ ہوسکا۔ دل میں آرزوئے دید کروٹیں لے رہی تھی۔ مگر اس حرماں نصیب کو اپنے پردہ نشین نادیدہ اورلامکاں محبوب کی آستاں بوسی کو فخر کبھی حاصل نہ ہوا۔ آخر خُدا نے خطوط اسلات (صحائف مطہرہ) کے ذریعے خود کو اُس پر آشکار افرمایا اوراُس کی خواہشات کا جواب دیا۔ پس الہامی صحائف گویا خُدا کے مکتوب ہیں۔

شخصی مذہب

ہم گذصفحات میں دلیل وبراہین سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا چکے ہیں کہ انسانی عقل محدود ضعیف اوربگڑی ہوئی ہونے کے باعث معرفت حقانیہ اورحقائق رُوحانیہ کے افہام و تفہیم میں قاصر ہے۔ اوریہ بھی دکھا چکے کہ الہام ہی ایک ایسا ممکن اورمعقول ذریعہ ہوسکتا ہے جو عقل ِانسانی پر غیر مرئی اورفوق الفطرت روحانی حقیقتوں کو مُنکشف کرسکتا ہے۔چنانچہ الہام ِالہٰی پہلے شخصی طورپر خاص اشخاص پر نازل ہوا۔ ازمنہ سابقہ میں جبکہ مذہب الہٰی انفرادی صورت میں تھا خُداوند تعالیٰ نے خاص خاص اشخاص کے ساتھ کلام کیا۔ا ور اپنی مرضی ومنشاء کو اُن پر شخصی طور سے ظاہر فرمایا۔


چونکہ تمام دُنیا اُس وقت گناہ کی غلامی اورتاریکی میں مبتلا تھی اس لئے خُدا نے اُس میں سے خاص اشخاص کو انتخاب کرکے صراطِ مستقیم پر قائم کیا۔مثلاً اُس نے ابراہام کو بُت پرستوں میں سےچُن لیا اوراُس سے یوں مخاطب ہوا (الہام دیا) تُو اپنے وطن اوراپنے ناطے داروں کے بیچ سے اوراپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جاجو میں تجھے دکھاوں گا۔ اورمیں تجھے ایک بڑی قوم بناوں گا اوربرکت دونگا اورتیرا نام سرفراز کرو ں گا۔ سوتو باعث برکت ہو۔ جو تجھے مبارک کہیں اُن کو میں برکت دُونگا۔ اورجو تجھ پر لعنت کرے اُس پر میں لعنت کروں گا۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے (پیدائش ۱۲: ۱-۳) اورا براہام نے اُسی جگہ پر جہا ں خُدا اُسے کسی دیدنی صورت میں نظر آیا تھا ایک قربا ن گاہ بنائی اوروہاں خُدا کی عبادت کی (۱۲: ۷-۸) پھر یعقوب کے ساتھ خُدا ہمکلام (الہام) ہوا۔ ملاحظہ ہو(پیدا ئش ۲۸: ۱۳- ۱۵) اوراُس نے بھی اُسی جگہ جہاں خُدا اُس سے ہمکلام ہو ایک پتھر کا مذبح بناکر اُس کا نام بیت ایل (خُدا کا گھر ) رکھا اورخُدا کی عبادت کی ۲۸: ۱۸-۱۹ ) پھر کو ہ ِحورب کے نزدیک خُدا موسیٰ پر ایک جھاڑی میں نگی ہوئی آگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اوراُس سے کلام کیا۔ اوراُس کے آباو اجداد کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کودوہرا۔اورموسیٰ نے الہٰی حضور کو محسوس کرکے ازراہ ِ تعظیم اپنے پاوں سے جوتی اُتاری اورمُنہ چُھپا یا۔خروج ۳ باب

قومی مذہب

پہلے الہام الہٰی شخصی تھا اور مذہب الہٰی بھی شخصی۔ اس لئے خُدا خاص اورچیدہ اشخاص کے ساتھ تنہائی میں ہمکلام ہوتا اوراُن سے اپنے احکام کی تعمیل طلب کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہی مذہب الہٰی انفرادی خصوصیت سے نکل کر قومیت میں منتقل ہوگیا۔ اورمذہب الہٰی ایک قومی مذہب اور الہام الہیٰ ایک قومی الہام ہوگیا۔ اورخُدائے تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جوابراہام سے کیا تھا اُس کی نسل کو جواب ایک قومی صورت اختیار کرچکی تھی چن کر تمام بت پرست اورمشرک اقوام سے الگ کیا۔ اوراپنی خاص قوم بنایا اورفرمایا۔ کیونکہ تُم خُد اوند اپنے خُدا کے لئے ایک مقدس قوم ہو۔ خُداوند تمہارے خُدا نے تُم کو رُوئے زمین کیاورسب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ تم اُس کی خاص اُمت ٹھرو۔

(استثنا ۷: ۶) اوراس خاص قوم (بنی اسرائیل) پر موسیٰ ک وسیلے اپنی مرضی کا اظہار فرمایا۔ اوراپنے اوامر و نواہی کو اُن پر نازل فرما کے اُن پر اُن تفصیل طلب کی۔ اس لئے جو فرمان اورآئین اوراحکام میں آج کے دن تم کو بتاتا ہوں تم اُن کو ماننا اوراُن پر عمل کر نا (استثنا ۷: ۱۶) اوروہ شرع الہٰی تین قسم کی تھی۔ یعنی شریعت ملکی۔شریعت رسمی اورشریعت اخلاقی۔اورملکی ورسمی شرائع کی رُوح رواں اورمرکز شرع ِ اخلاقی تھی۔ اب ہم نہایت مختصر طورپر شرائع ثلاثہ کا جُدا جُدا بیان کریں گے۔

شریعت رسمی

قربانیاں،ختنہ۔عبدیں نئے چاند۔نذریں،حلت وحرمت،طہارت ِبدنی،۔روزہ اورکاہن وسردار کاہن اورلاویوں اورعام قوم کے فرائض وغیرہ سب رسمی شریعت میں شامل ہیں۔ اس شریعت کابیان پیدا ئش کی کتاب کے سوا توریت کی چاروں کتابوں میں موجود ہے۔



شریعت اخلاقی

اس میں احکام عشرہ موجو د ہیں۔جو خُدا نے پتھر کی دونو لوحوں پر لکھے لکھائے موسیٰ کو سوپنے (خروج ۳۱: ۱۸،۳۲ ۱۵: ۱۶ ؛۳۴: ۲۸) اوریہ دس احکام خروج ۲۰: ۱- ۱۷) میں پائے جاتے ہیں۔ اور احبار ۱۹ باب اور استثنا کے چند ابتدائی ابواب میں اُن کی مفعقل شرع موجود ہے۔ اواس شرع اخلاقی کا خلاصہ بدیں الفاظ موجود ہے۔ تو اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے محبت رکھ استثنا ۶: ۵ یہ دس احکام کی لوح اول کے چار احکام کا خلاصہ ہے۔ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت رکھ (احبار ۱۹: ۱۸) یہ لوح ثانی کے چھ احکام کا خلاصہ ہے۔ اورخُداوندمسیح نے بھی اخلاقی شریعت کو ہرقسم کی شریعت رسمی وملکی کی جان ٹھہرایا۔ اواسی خلاسہ شرع اخلاقی کا اعادہ فرماتے ہوئے یہ کہا کہ ان ہی دوحکموں پر تما م توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے (متی ۲۲: ۴۰)۔

ملکی شریعت

اس میں بادشاہوں،قاضیوں اورحاکموں اوررعیت کے فرائض ہیں۔ اورحکام قوم اسرائیل شرائع رسمی اخلاقی کے محافظ تھے۔ شرع کی خلاف ورزی کرنے والے تغریرات ملکی ک ماتحت مختلف سزائیں پاتے تھے۔ تاکہ احکام ِالہٰی کی پابندی کی رُوح اُن میں پیدا ہو۔ اورقوم خُدا کی مرضی ومنشاء کی قدر ومنزلت کو پہچانے۔

اخلاقی وجسمانی ہر دوقسم کے قوانین پہلو بہ پہلو اس قوم میں چلے آئے۔ اوربہت سے انبیاء یکے بعد ویگر ے مختلف زمانوں اورمتفرق حالتوں میں پیغام ِالہٰی لے کر اس قوم میں مبعوث ہوتے رہے۔ اور اپنے اپنے وقت میں قوم کی معاشرتی واخلاقی اِصلاح مختلف طریقوں سے کرتے آئے۔ اورہزاروں برس کے طویل عرصہ میں خُدا کی اس برگزیدہ وچنیدہ قوم کی مذہبی واخلاقی حالت نے کئی رنگ پلٹے۔ کی بار شرع ِالہٰی سے تابی وانحراف کرکے مور ورعتاب ٹھہری۔ کئی بار تو بہ و استغفار کے ذریعے بحال کی گئی۔ خُدا کا عادل ہے۔ اوراُس عادل نے قوانین کا نفاذ فرما کے اُن پر اس مخصوصہ گروہ کا مخصوص عمل طلب کیا۔ لیکن اُس نے بجائے فرمانبرداری کے عدول حکمی کی۔ اس لئے خُدا نے عادل ہونے کی حیثیت میں قانون شکن کو سزا دی۔ اورمعیاد تغریرکے اختتام پر اُن کررہائی دیتا رہا۔ اس قوم کا سب سے بڑا گناہ جو خُدا ئ غیور کی غیر ت کو جوش دِلاتا رہا بُت پرستی تھا۔ جب جب اس قوم کو اردگرد کی دیگر بے خُدا اوربُت پرست اقوام ہوئے بغیر نہ رہی۔ اورخُدا نے ان ہی معائب ونقائص کے زنگ کو اُن کو طبائع سے مٹانے کے لئے بار ہا اُنہیں مصیبت کی آگ میں ڈالا۔ تاکہ وہ کندن کی طرح صاف اورخالص ہوجائیں۔ جب وہ مجھے تالے گا تو میں سونے کی مانند نکل آوں گا۔ (ایوب ۲۳: ۱۰،زبور ۶۶: ۵۰)۔



شریعت کا مرکز

بنی اسرائیل قوم کے فرائض مذہبی کی انجام دہی کا مرکز پہلے توخیمہ تھا جس کا مفصل احوال خروج با ۲۵ میں پایا جاتا ہے۔ خیمہ کو دینی امور کا مرکز اُس وقت اس وجہ سے بنایاگیا۔ کہ ابھی قوم اسرائیل خود آوار ہ غربت تھی۔ اورخیموں میں قیام کرتی تھی۔ اس لئے اُن کی مذہبی ضرورت کو عارضی طورپر پورا کرنے کے لئے خُدا نے خیمہ بنانے کا حکم دیا۔ اورہرقسم کی شرع رسمی۔ ملکی واخلاقی کا تعلق اُسی سے تھا۔ اورجب یہ قوم رفتہ رفتہ ملک موعود کنعان پر قابض ہوئی اوروہاں ہر سکونت کے لئے مکان بنائے اورقصبے وشہر آباد کئے تو عبادت ِالہٰی کے لئے بھی ایک مکان بنایا گیا ۔ اوروہ ہیکل تھی جو سیلمان بن داود نے شہر یروشلیم میں کوہ مور یا پر تعمیر کی تھی۔ اورعبادت کے تمام لوازمات واسباب خیمہ موسوی سے اس ہیکل میں منتقل ہوئے اورہیکل کی تعمیرکےمتعلق خُدا نے پہلے ہی اُن کے ایام مسافرت میں فرمای دیاتھا۔ لیکن جب تم یردن پار جا کر اُس ملک میں جس کا مالک خُداوند تمہارا خُدا تم کو بناتا ہے بس جاو۔ اوروہ تمہارے سب دشمنوں کی طرف سے جو گردا گرد ہیں تم کو راحت دے اوتم امن سے رہنے لگو۔ تو وہاں جس جگہ کو خُداوند تمہارا خُدا اپنے نام کے مسکن کے لئےچن لے وہیں تم یہ سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں لے جایا کرنا۔ یعنی اپنی سوختنی قربانیاں اوراپنے ذبیحے اوراپنی دو یکیاں۔اوراپنے ہاتھ کے اُٹھائے ہوئے ہدئے اوراپنی خاص نذر کی چیزیں (استثنا ۱۲: ۱۰ – ۱۱،۱۸، ۲۶)۔

اس ہیکل کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کے سوا اورکسی قوم کا کوئی تعلق نہ تھا۔اورنہ ہی عام اجازت تھی کہ غیر اقوام اُس سے تعلق رکھیں۔ اورنہ ہی شرع ِالہیٰ کی نشرو اشاعت کا دیگر اقوام میں حکم تھا۔ ہیکل ایک مختص بالقوم وزمان عبادت گاہ تھی۔ اورقوانین وشرع الہٰی بھی محدود بالقوم ومان تھی۔ مدتوں تک مذہب ِالہٰی اُس خاص قوم کے ساتھ خاص رہا۔ اورقوم اسرائیل کو ختنہ۔قربانی۔روزہ سبت طہارت اورحلت وحرمت کے احکام دینے اوران تمام فرائض کی انجام دہی کا مرکز یروشلیم کی ہیکل کوٹھہرانے سے خُدا کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اردگرد کی تمام دیگر بت پرست اقوام سے قوم مخصوصہ الہٰیہ کا افتراق امتیاز صاف نظر آئے۔ جس طرح فوجی لوگ خاص امتیازی نشانات وعلامات کے باعث بادشاہ کی رعیت کے عام افراد سے جُدا گانہ اورممتاز نظر آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اُن ظاہری اور رسمی دستورات اور ابتدائی اصولوں کی پابندی سے اُن کے اندر متابعت الہٰی کی بنیاد رکھی جائے۔ تاکہ جہاں وہ اپنے مویشی اورمال واسباب کو عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان کرتے ہیں وہاں کسی وقت اپنی شخصیت کو نثار کرنے میں بھی دریغ نہ کریں۔ چنانچہ خُداوند تعالیٰ نے یہ ابتدائی سبق اُنہیں انبیاء کے ذریعے خوب سکھایا۔ اورا ن رسمی قربانیوں اوردیگر ظاہری اورجسمانی رسومات کی تکمیل وتعمیل کے مطالبہ سے مقصد ِالہٰی یہ تھا کہ فرمانبرداری اوراطاعت کے بیج کو اُن کے دلوں میں بویا جائے۔ اوروہ خاص روحانی مقصدد جوان عارضی وظاہری رسوم کے دائرہ کا مرکزز تھا۔ بدیں الفاظ ظاہر کیاگیا ہے۔ تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے محبت رکھ (استثنا ۶: ۵)۔

عہد عتیق مختص بالقوم اور مختص بالزمان تھا

اگرکوئی متلاشی حق وصدق صاف باطنی سے عہد عتیق کا اول سے آخر تک مطالعہ کرے تو وہ یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ توریت کا مذہب ایک مختص بالقوم ولزمان تھا۔ توریت میں ذاتی طورپر ایک عالمگیر مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اورنہ ہی اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہرزمانے اورہرقوم کے لئے دی گئی ہے۔ اُس کے تمام احکام و شرائع اوردستورات واصولات خاص قوم بنی اسرائیل سے ہی مختص تھے۔


اورشریعت موسوی کی تعمیل وتکمیل کا مرکز تروشلیم کی ہیکل تھا۔ یہودیت کے دائرہ خاص سے باہر نہ تو اُس کی تبلیغ واشاعت کا حکم کہیں موجود ہے۔ اورنہ ہی کبھی یہودی انبیاء نے اُس کو غیر اقوام میں جائز رکھا۔ بلکہ و توبُت پرست غیر اقوام کے درمیان خُدا کا نام لینا بھی خُدا کی بے عزتی وحقارت سمجھتے تھے۔ جب شاہ نبو کدنظر تمام یہودیوں کو اسیر کرکے بابل لے گیا تو اُس وقت اُن کی دینی غیر ت اورخُدا کے نام کی توقیر کا اظہار ان الفاظ سے عیاں ہے۔ ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے۔ اورصیون کو یاد کرکے روئے ۔وہاں بید کے درختوں پر ہم نے اپنی ستاروں کو ٹانگ دیا۔ کیونکہ وہاں ہم کواسیر کرنے والوں نے گیت گانے کا حکم دیا۔ اورتباہ کرنے والوں نے خوشی کرنے کا۔ اورکہاصیون کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سُنا و۔ہم پردیس میں خُداوند کا گیت کیسے گائیں۔زبور ۱۳۷ : ۱- ۴) وہ غیر اقوام میں خُدا کا نام لینا خُدا کو ٹھٹھوں میں اُڑانے کے برابر سمجھتے تھے۔ ملکی ورسمی شرائع بہ نفسہ کمزور اور مختص بالقوم ولزمان تھیں۔ اوراُن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی مفقو دتھی۔ اورشرع اخلاقی قوم وزمان کی قیود سے آزاد تھی۔ چنانچہ وہ اب تک یہودی مسیحی اورکئی دیگر مہذب اقوام کا دستور العمل بنی ہوئی پہلی آتی ہے۔ عہد عتیق کے انبیاء خود توریت کی قربانیو ں اوردیگر رسموں کو کمزور اورناقص بتاتے گئے ہیں۔ مثلاً سموایل نبی کہتا ہے کہ کیاخُداوند سوختنی قربانیوں اورذبیحوں سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اس بات سے کہ خُداوند کا حکم مانا جائے ؟ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اوربات ماننی مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے (۱۔ سموایل ۱۵ : ۲۲ ) داود نبی کا قول (زبور ۵۱: ۱۶- ۱۷) سلیمان نبی کا قول (امثال ۲۱: ۳) ہوسیع نبی کا قول (ہوسیع ۶: ۶) دانی ایل نبی کا قول مرادانی ایل ۹: ۲۴- ۲۷) نبی اسرائیل میں قربانیاں چڑھاتے چڑھاتے یہ سُو عقیدت پیدا ہوگئی کہ قربانی کی اصل رُوح اورغر ض وغایت سے لاپرواہ ہوکر گناہ کرنے میں آزاد اوربے خوف ہوگئے۔ اورعمد اً وقصد اً گناہ کرکرکے قربانیوں اوردیگر رسُوم کو رواجی ورسمی پر انجام دینے لگے۔ اور اس بات کو بھول گئے کہ خُدا کی فرمانبرداری قربانی چڑھاتے سے بہتر ہے۔ اُنہوں نے عمداً گناہ کرکرکے اُن کی تلافی کے لئ قربانیاں چڑھانا ایک دستور العمل ہی بنالیا۔ اوراس لئے خُدا نے انبیاء کے ذریعے اس دستور کو نامقبول ٹھہرا کے تنبیہہ وہدایت فرمائی۔ خُداوند فرماتا ہے لیکن میں اُس شخص پر نگاہ کروں گا۔ اُسی پر جو غریب اورشکستہ دل ہے۔ اورمیرے کلام سے کانپ جاتا ہے۔ جو بیل ذبح کرتا ہے اُس کی مانند ہے جو کسی آدمی کو مار ڈالتا ہے اورجو برہ کی قربانی کرتا ہے اُس کےبرابر ہے جو کتے کی گردن کاٹتا ہے ۔جو ہدیہ لاتا ہے گویا سور کالہوگذرانتا ہے جو لُبان جلاتا ہے اُس کی مانند ہےجو بُت کو مبارک کہتا ہے۔ ہاں انہوں نے اپنی اپنی راہیں چن لیں اوراُن کے دل اُن کی نفرتی چیزوں سے مسرور ہیں (یسعیاہ ۶۶: ۲- ۳ ؛ ۱: ۱۱- ۱۴) یہودی لوگ سال میں تین مرتبہ عیدیں منانے کے لئے یروشلیم میں جایا کرتے تھے۔ اوران تینوں عیدوں یعنی عید فسح۔ عید خیام اور عید پنتیکست کا تعلق ہیکل کے ساتھ تھا۔ اان عیدوں۔قربانیوں اوردیگر تمام مذہبی رسوم کی ادائیگی کا مرکزہیکل تھی۔ اُس کے علاوہ اورکسی جگہ ان فرائض کی انجام دہ ممنوع تی۔ اورخبردار رہنا تا ایسا نہ ہوکہ جس جگہ کو دیکھ لووہیں اپنی سوختنی قربانی چڑھاو بلکہ فقط اُسی جگہ جسے خُداوند تمہارے کسی قبیلہ میں چن لے تم اپنی سوختنی قربانیوں گذراننا اوروہیں سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں کرنا استثنا ۱۲: ۱۳- ۱۴ اورہیکل کا ایک خاص مقام یروشلیم ہی سے متعلق ہونا اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اُس میں عالمگیر دینی مرکز ہونے کی قابلیت نہ تھی۔ کیونکہ بالفرت اگرتمام دُنیا توریت کی پیروی پر آمادہ ہوتی تو تمام دُنیا کا عیدوں،قربانیوں اوردیگر رسموں کی ادائیگی کے لئے یروشلیم میں سال میں تین مرتبہ حاضر ہونا محال ہوتا۔ اول تواس قدر ہجوم کی وہاں گنجائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔ اورجو وہاں نہ جاتا وہ خُدا کا نافرمان ٹھہرتا۔ اور پھر تین مرتبہ سال میں وہاں حاضر ہونا لازمی تھا۔ تو اس صورت میں ہزاروں کو س سے دور دراز ممالک ک باشندے وہاں کیسے پہنچ سکتے۔ اُن کا تو سال بھر آمد ورفت ہی میں ختم ہوجایا کرتا۔ اورپھر ذرائع آمد ورفت کی دشواریاں توریت کی توسیع اشاعت میں سد ِ راہ تھیں۔ اورہیکل کاتمام عالم کے لئے مرجع دینی ہونے سے اُمور معاشرت میں سخت نقصان ہوکر جسمانی زندگی معرض خطر میں پڑجاتی۔ پھر آمدورفت کے بھاری اخراجات ومصارف سے محروم رہنے کے علاوہ خُدا کے مجرم ٹھہرتے۔


اور یہ ایک سخت ترین آسمانی سزا بنی نوع انسان کے لئے ہوتی۔ چنانچہ کعبہ اورتیرتھوں کا وجو داسلام اورہندو از م کے مختص بالقوم وملک ہونے کی ایک بین اورمسکت دلیل ہے۔ ہم پیچھے خوب دِکھا چکے ہیں کہ مذہب الہٰی کس طرح انفرادیت سے قومیت میں منتقل ہوا۔ اب عقل خواہ مخواہ یہ سوال کرتی ہے کہ کیا خُدا صرف ایک خاندان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیا وہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیاوہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان سے ےمستفید فرما کر فقط اُسی سے اپنی عبادت وطاعت اوربندگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟ کیا خُدا صرف یہودیوں ہی کا ہے۔ غیر قوموں کا نہیں ؟ بیشک غیر قوموں کا بھی ہے رومیوں ۳: ۲۹ وہ تمام دیدنی ونایدنی عالم کا خالق و رازق ہے۔ اوراُس نے اییک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رُوئے زمین پررہنے کے لئے پیدا کی۔اعمال ۱۷: ۲۶ تُونے آسمان اورآسمانو کے آسمان کو اور اُن کے سارے لشکر کو اورزمین کو اورجوکچھ اُس پر ہے۔ اورسمندر وں کو اورجو کچھ اُن میں ہے بنایا اورتُو سبھوں کا پرور دگار ہے اورآسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔نحمیاہ ۹: ۶ چنانچہ اسی بنا پر وہ تمام دُنیا سے استحقاق عبادت رکھتا ہے۔ اس لئے لازمیی امر ہے کہ اُس کا مذہب انفرادی اورقومی نہ ہو بلکہ عالمگیر ہو۔

توریت میں ایک عالمگیر

نئے عہد کی خبر

عہد عتیق کے حدِ رواج اورمُختص بالقوم وزمان ہونے کا مفصل ذکر ِ ہم نے اُوپر کردیاہے۔ صحائف عتیقہ اپنے حدِ رواج کی خبر کے علاوہ ایک اورعہد کی خبر بھی دئے گئے ہیں۔ تاکہ جب اُس ک رواج کا زمانہ اختتام کو پہنچے تو وہ عہد شروعع ہوجائے۔ اورجس طر ح پہلے پہل مذہب الہٰی انفرادیت کی صورت میں تھا اورپھر قومیت میں بدل گیا تو ضروری گامزن ہو۔ اوربجائے قومی ہونے کے عالمگیر ہو۔ چنانچہ اُس آنے والے نئے عہد کے متعلق عہد عتیق یہ خبر دیتا ہے۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھر انے اوریہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو میں نے اُن کے باپ دادا سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اِن دنو ں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔۔۔۔۔ یر میاہ ۳۱: ۳۱- ۳۴ خط عبرانی کا مصنف اپنے خط میں اسی مقام کو اقتباس کرکے آخر میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے نیا عہد کیا تو پہلے کر پُرانا ٹھہرایا۔ اورجو چیز پُرانی اورمُدت کی ہوجاتی ہے وہ مٹنے کے قریب ہوتی ہے۔ عبرانی ۸: ۱۳ اوریہ عہد قومیت کی انقیادی خصوصیت سے آزاد اورعالمگیر بیان کیاگیا ہے۔ جو یسعیاہ نبی نے خُدا سے بذریعہ الہام خبر پا کے اس طرح بیان کیا ہے۔ اوربیگانے کی اُولاد بھی جنہوں نے آپ کو خُداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اُس کی خدمت کریں اورخُداوند کے نام کو عیز یز رکھیں۔اوراُس کےبندے ہوں وہ سب جو سبت کو لفظ کرکے اُسے ناپاک نہ کریں۔ اورمیرے عہد پر قائم رہیں مَیں اُن کو بھی اپنے کو ہ ِمقدس پر لاو ں گا۔ اوراپنی عبادت گاہ میں اُن کو شادمان کروں گا اوراُن کی سوختنی قربانیاں اوراُن کے ذبیحے میرے مذبح پر مقبول ہوں گے کیونیہ میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔ خُداوند خُدا جو اسرائیل کے پراگناہ لوگوں کو جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ مَیں اُن کے سوا جو اُسی کے ہوکر جمع ہوئے ہیں اَوروں کو بھی اُس کے پاس جمع کروں گا۔ یسعیاہ ۵۶: ۶- ۸ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل ِلغت کو جمع کرو ںگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اورخُداوند فرماتا ہے کہ مَیں اُن میں سے بھی کاہن اور لاوہی ہونے کے لئے لوں گا۔۔۔۔ اوریوں ہوگا خُداوند فرماتا ہے کہ ایک نئے چاند سے ددسرے تک اورایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے میر ے حضور آئیگا۔ یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ، ۲۱، ۲۳ اورجس طرح عہد عتیق کا بانی اورضامن موسیٰ تھا۔ اُسی طرح اُس نے عہد کے بانی وضامن کی خبر بھی توریت میں بالتصریح وتفصیل موجود ہے۔ ہم توریت ہی کے الفاظ میں اُس کو مفصل طورپر قلمبند کریں گے۔



نئے عہد کے بانی کے متعلق مفصل خبریں

قول المسیح ۔ تُم کتاب ِمقدس میں ڈھونڈتے ہو۔ کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے۔ اوریہ وہ ہے جومیری گواہی دیتی ہے (یوحنا ۵: ۳۹)۔

۱۔ وہ یہوداہ کے فرِقہ داود کے خاندان سے ہوگا۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے کہ میں داود کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا۔ اوراُس کی بادشاہی ملک میں اقبال مندی اورعدالت اورصداقت کے ساتھ ہوگی۔ اُس کے ایام میں یہوداہ نجات پائیگااور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا۔ اوراُس کا نام یہ رکھا جائے گا خُداوند ہماری صداقت ہے۔یرمیاہ ۲۳: ۵ – ۶ یسعیاہ ۱۱: ۱- ۲ زکریاہ ۱۳: ۱ مطابق یوحنا ۷: ۴۲۔

۲۔ اُس کا ایک پیشر وہوگا۔ دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اوروہ میرے آگے راہ درست کریگا۔ (ملاکی ۳: ۱) پکارنے واے کی آواز ! بیابان میں خُداوند کی راہ درست کرو۔ صحرا میں ہمارے خُداکے لئے شاہراہ ہموار کر و۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا یسعیاہ ۴۰: ۳ مطابق متی ۳: ۱- ۳

۳۔ وہ کنواری سے پیدا ہوگا۔ ۔ لیکن خُداوند آپ تُم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اوربیٹا پیدا ہوگا۔ اوروہ اُس کا نام عمانوایل رکھیگی۔ یسعیاہ ۷: ۴ مطابق متی ۱: ۲۳۔

۴۔ شہر بیت الحم میں پیدا ہوگا۔ لیکن اَے بَیت الحم افراتا ہ اگرچہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے۔ تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلیگا۔ اورمیرے حضور اسرائیل کا بادشاہ ہوگا۔ اوراُس کا مصدر زمانہ مطابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔میکاہ ۵: ۲ مطابق متی ۲: ۱ لوقا ۲: ۴۔

۵۔ اُٗس کو سجدہ کرنے کے لئے مجوسی آئیں گے۔ وہ سب سبا سے آئیں گے اورسونا لوہان لائیں گے اورخُداوند کی حمد کا اعلان کرینگے۔ یسعیاہ ۶۰: ۶ مطابق متی ۲: ۱ -۲

۶۔ مِصر میں پناہ پائیگا۔ جب اسرائیل ابھی بچہ ہی تھا مَیں نے اُس سے محبت رکھی۔ اوراپنے بیٹے کو مِصر سے بلایا۔ہوسیع ۱۱: ۱ مطابق متی ۲: ۱۳- ۱۴۔

۷۔ معصوم بچوں کا قتل۔ رامہ میں ایک آواز سُنائی دی نوحہ اورزار زار رونا۔ راخل اپنےبچوں کو رورہی ہے۔وہ اپنے بچوں کی بابت تسلی پذیر نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ نہیں ہیں۔ یرمیاہ ۳۱: ۱۵ مطابق متی ۲: ۱۶- ۱۸۔

۸۔ وہ رُوح القدس سے ممسوح ہوگا۔ خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے۔کیونکہ اُس نے مجھے مسَح کیا۔ تاکہ خوشخبری (انجیل ) سُناوں۔ یسعیاہ ۶۱: ۱ اورخُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرئے گی۔ حکمت اورخرد کی رُوح مصلحت اور قدرت کی رُوح معرفت اورخُداوند کے خوف کی رُوح۔یسعیاہ ۱۱: ۲ مطابق متی ۳: ۱۶۔

۹۔ قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے۔ پیدائش ۱۲: ۳ مطابق اعمال ۳: ۲۵- ۲۶۔

۱۰۔ گلیل میں اُس کا نام۔ لیکن اندوہگیں کی تیرگی جاتی رہے گی۔ اُس نے قدیم زمانہ میں زبلون اورنفتالی کے علاقوں کو ذلیل کیا۔ پر آخری زمانہ میں قوموں کی گلیل میں دریا کی سمت یردن کے پار بزرگی دے گا۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جوموت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نور چمکا۔یسعیاہ ۹: ۱- ۲ مطابق متی ۴: ۱۲- ۱۷۔

۱۱۔ اُس معجزات۔ اُن کو جو کچھ لے ہیں کہوہمت باندھو مت ڈرو۔۔۔۔۔اُس وقت اندھوں کی آنکھیں دا کی جائیں گی۔ اوربہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھر ینگے۔ اورگونگے کی زبان گائے گی۔ یسعیاہ ۳۵: ۴- ۶ مطابق متی ۱۱: ۴ – ۵ اعمال ۲: ۲۲۔

۱۲۔ گدھے پر سوا ہوکر یروشیلم میں داخل ہونا۔ اَے دُختر ِیروشلیم خوب للکار۔ کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوا ہے۔ زکریاہ ۹:۹ مطابق متی ۲۱: ۵- ۷۔

۱۳۔ یہودو غیر اقوام اُسے رد کرینگے۔ قومیں کس لئے جوش میں ہیں اورلوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں۔ خُداوند اوراُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کرکے اورحاکم آپس میں مشورہ کرکے کہتے ہیں۔۔۔ زبور ۲: ۱-۲ اعمال ۴: ۲۵- ۲۸۔

۱۴۔ اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں گرفتار ہوگا۔ بلکہ میرے دلی دوست نے جس پر مجھے بھروسہ تھا اورجو میری روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی۔ زبور ۴۱: ۹، ۵۵ : ۱۲ مطابق یوحنا ۱۳: ۱۸ ، ۲۶ – ۲۷۔


۱۵۔ تیس روپے میں بیچا جائیگا۔ اوراُنہوں نے میری مزدوری کے لئے تیس روپے تول کردئے۔ اورخُداوند نے مجھے کہا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے۔یعنی اُس بڑی قیمت کو جو انہوں نے میرے لئے ٹھہرائی۔ اور میں نے یہ تیس روپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دئے۔ زکریاہ ۱۱: ۱۲- ۱۳ مطابق متی ۲۶: ۲۷- ۳- ۱۰

۱۶۔ شاگرد اُس سے بیوفائی کرینگے۔ رب الافواج فرماتا ہے اَے تلوار تُو میرے چرواے یعنی انسان پر جو میر ارفیق ہے بیدار ہو۔ چرواہے کو مارکہ گلہ پراگندہ ہوجائے۔ زکریاہ ۱۳: ۷ مطابق متی ۲۶ : ۳۱ ، ۵۶،

۱۷۔ جھوٹے گواہوں کی شہادت۔ جھوٹے گواہ اُٹھتے ہیں اورجو باتیں میں نہیں جانتا وہ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ وہ مجھ سے نیکی کے بدلے بدی کرتے ہیں۔زبور ۳۵ : ۱۱ ۱۲، ۲۷ : ۱۲ مطابق مرقس ۱۴ : ۵۵ – ۵۸۔

۱۸۔ اُس کے منہ پر طمانچے مارینگے۔ ہمارا محاصرہ کیا جاتا ہے۔وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں۔ میکاہ ۵: ۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۰۔مرقس ۱۵: ۱۹۔

۱۹۔ اُس کے منہ پر تھوکیں گے اورٹھٹھے مارینگے۔ مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اوراپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کی۔ میں نے اپنا منہ رسوائی اورتھوک سے نہیں چھپایا۔ یسعیاہ ۵: ۶ مطابق مرقس ۱۵: ۱۹- ۲۰۔

۲۰۔ وہ تمام اذیتوں کو خاموشی سے سہیگا۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اورمنہ نہ کھولا۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں۔ اورجس طرح بھیڑ بال کُترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔یسعیاہ ۵۳: ۷ مطابق متی ۲۷ : ۱۲- ۱۴۔

۲۱۔ اُس کی صلیبی حالت۔ مَیں پانی کی طرح بہ گیا۔ میری سب ہڈیاں اُکھڑ گیئیں۔ میرا دل موم کی مانند ہوگیا۔ وہ میرے سینہ میں پگھل گیا۔ میری قوت ٹھیکرے کی مانند خشک ہوگی۔اورمیری زبان میرے تالو سے چپک گئی۔ اورتونے مجھے موت کی خاک میں ملادیا۔ کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیاہے۔ بدکاروں کا گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں وہ مجھے تاکتے اورگھورتے ہیں۔زبور ۲۲: ۱۴- ۱۷ مطابق متی ۲۷: ۲۷- ۴۴۔

۲۲۔ اُس کی پوشاک پر قرعہ اندازی ۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۸ مطابق متی ۲۷ : ۳۵۔


۲۳۔ پت اورسرکہ پلانا۔ اُنہوں نے مجھے کھانے کوپت دیا۔ اورمیری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مجھے سرکا پلایا۔ زبور ۲۹: ۲۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۴ و یوحنا ۱۹: ۲۸ – ۳۰۔

۲۴۔ وہ چھید ا جائیگا۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۶ اوروہ اُس پر جس کو اُنہو ں نے چھید ا ہے نظر کرینگے۔ زکریاہ ۱۲: ۱۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۴، ۳۷۔

۲۵۔ اُس کی ہڈی توڑی نہ جائیگی۔ وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُ ن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔ زبور ۳۴: ۲۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۲: ۳۶۔

۲۶۔ برضا ورغبت وفات پائیگا۔ قربانی اورنذر کو توپسند نہیں کرتا۔ تونے میرے کان کھول دئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کتاِب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے۔اَے میرے خُدا میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے۔زبور ۴۰ : ۶- ۸ مطابق یوحنا ۱۰ : ۱۷ – ۱۸۔

۲۷۔ ہمارے گناہوں کے بدلے مریگا۔ یقیناً اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں۔ اورہمارے غموں کو برداشت کیا پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اورستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاوں کے سبب سے گھائل کیاگیا۔ اورہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی۔ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔۔۔۔۔ خُدا وند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاوی۔یسعیاہ ۵۳: ۴- ۶ دانی ایل ۹: ۲۶ مطابق مرقس ۱۰: ۴۵ ،اعمال ۸: ۳۰ – ۳۵۔۱۔ پطرس ۲: ۲۴۔

۲۸۔تیسرے روز قبر سے زندہ ہوگا۔ وہ دو روز کے بعد ہم کو حیات تاز ہ بخشیگا اورتیسرے روز اُٹھا کھڑا کریگا۔ اورہم اُس کے حضور زندگی بسر کریں گے۔ ہوسیع۶: ۲ اسی سبب سے میرا دل خوش اورمیری رُوح شادمان ہے۔میرا جسم بھی امن وامان میں رہیگا۔ کیونکہ تونہ میر جان کو پاتال میں رہنے دے گا نہ اپنے مقدس کو سٹرنے دیگا۔ تو مجھے زندگی کی راہ دکھائے گا۔ زبور ۱۶: ۹- ۱۱ مطابق اعمال ۲: ۳۱- ۳۲ ، ۲: ۲۴- ۲۸،لوقا ۲۴: ۵- ۷۔

۲۹۔ تُوما کو اپنے زخم دکھانا۔ اورجب کوئی اُسے پوچھے گا کہ تیری چھاتی پر یہ زخم کیسے ہیں تو وہ جواب دیگا۔ یہ وہ زخم ہیں جو میرے دوستوں کے گھر میں لگے۔ زکریاہ ۳۱: ۲ مطابق یوحنا ۲۰: ۲۴- ۲۵ ،۲۷۔

۳۰۔ زندہ ہوکر آسمان پر صعود فرمائے گا۔ تُونے عالم ِ بالا کو صعود فرمایا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا۔ زبور ۶۸ : ۱۸ یہواہ نے میرے خُداوند سے کہا تو میرے داہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاوں کی چوکی نہ کردوں۔زبور ۱۱۰: ۱ مطابق لوقا ۲۴ : ۵۱ ،اعمال ۱: ۹ ،۲ ۳۴- ۳۵۔


۳۱۔ دوبارہ آئیگا اور تاابد سلطنت کرے گا۔ خُداوند میرا خُدا آئیگا۔ اورسب قُدسی اُس کے ساتھ۔زکریاہ ۱۴: ۵ مطابق ۲۔ تھسلنکیوں ۱: ۷ و،متی ۱۶: ۲۷ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اورقدیم الایام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اورسلطنت اورحشمت اور مملکت اُسے دی گئی۔ تاکہ سب لوگ اوراُمتیں اوراہل لغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔دانی ۷: ۱۳- ۱۴ مطابق متی ۲۸: ۱۸ ،یوحنا ۵: ۲۲- ۲۳ ،فلپی ۲: ۹- ۱۱ و۲۔ پطرس ۱: ۱۱۔

اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا۔ اورسلطنت اُس کے کاندھے پرہوگی۔ اوراُس کانام عجیب مشیر۔ خُدا ئے قادر ابدیت کا باپ۔سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اورسلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی۔ وہ داود کے تخت اوراُس کی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہے گا۔ اورعدالت اورصداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رب الافواج کی غیوری یہ کرے ےگی۔ یسعیاہ ۹: ۶ مطابق لوقا ۱: ۳۱ – ۲۳۔

عہد عتیق اورعہد جدید

کے بانیوں کی باہمی مشابہت

قول المسیح۔ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اورنبیوں کے صحیفوں اورزبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔لوقا ۲۴: ۴۴۔ ہم اُوپر عہد جدید کے ہونے والے بانی کی تمام زندگی کی مکمل تصویر نبیوں کے صحیفوں اورزبور کی پیشین گوئیوں میں دکھاچکے ہیں۔ اب صرف توریت کی شہادت باقی ہے جو ہم ابھی پیش کرنے والے ہیں۔ تما م الہامی انبیاء اپنے صحائف منزلہ الہٰیہ میں بانی عہد جدید کی تصویر کے جدا جدا پہلو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرناظرین مندرجہ بالا اکتیس پیشین گوئیوں میں کھنچی ہوئی تصویر کو بانی عہد جدید کی تصویر کےساتھ جو انجیل مقدس (عہد جدید ) میں موجود ہے ملا دیکھیں تو دونوں میں سِر موفرق نہ پائیںگے۔ وہ تصویر جو موسیٰ اورمابعد کے متعدد انبیاء نے اُس موعود کی کھینچی ہے اُس کے تمام خط وخال خُداوند مسیح کے ساتھ پورے پورے طورپر ملتے ہیں۔ تمام اخبار عتیق واذ کا رسابقہ کا کھوج سوائے سرور کائنات وسرچشمہ حسنات جناب فضیلت مآ ب خُداوند مسیح کی عدیم النظیر اورفقید المثال ہستی کے کسی بھی دوسری ہستی اصلاً نہ ملیگا۔ ہم اپنے اس دعویٰ کی صداقت اورحقیت کو عہد عتیق کے بانی موسیٰ نبی کی زبانی اوربھی زیادہ صفائی سے پایہ ثبوت کو پہنچائیں گے۔ موسیٰ توریت کی پانچویں کتاب میں یوں فرماتا ہے۔ اورخُداوندنے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سوٹھیک کہتے ہیں۔ مَیں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ اوراپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اورجو کچھ مَیں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہیگا۔ اورجو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو مَیں اُن کا حساب اُس سے لونگا۔(استثنا۱۸: ۱۷- ۱۹ اس کے ساتھ مسیح کا قول بھی ملاحظہ ہو۔ کیونکہ اگرتم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ یوحنا ۵: ۴۶ خُداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اُن ہی کے بھائیوں میں تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسیٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ تواب نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسی ٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ توا ب یہ دیکھنا مناسب ہے کہ موسیٰ اورمسیح میں کن کن باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔


اور اگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہو ں تو پائی جاتی ہے۔ اوراگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہوں تو مشابہت قائم نہیں رہ سکتی۔ اورنہ ہی ہم مسیح پر اس مشین گوئی کو چسپاں کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر مشابہت ثابت ہوجائے تو پھر خُداوند مسیح ہی اس خبر کے مفہوم کا مصداق ہوگا نہ کوئی اورمندرجہ ذیل امور متقابلہ پر غو ر کیجئے۔

۱۔ مسیح کی پیدائش کے وقت شاہ ہرودیس کے حکم سے لڑکے قتل کروائے گئے۔متی ۲: ۱۶ ۱۔ موسیٰ کی پیدائش کے وقت اسرائیلوں کے لڑکے شاہ فرعون کے حکم سے مروائے جاتے تھے۔ خروج ۱: ۱۵- ۱۶ ،۲۲
۲۔ مسیح کو بچپن میں خُدا نے فرشتے کے ذریعے آگاہی دیکر عجیب طورپر شاہ ہرودیس کے دست ِ ستم سے بچایا۔اورلطف یہ کہ موسیٰ نے بھی مصر میں پنا ہ پائی اورمسیح نے بھی مصر ہی میں پناہ پائی۔ متی ۲: ۱۳ – ۱۵ ۲۔ موسیٰ کی بچپن میں خُدا نے عجیب حکمت سے بادشاہ کے دست ِ ستم سے بچایا۔ خروج ۲: ۵- ۱۰
۳۔ مسیح کےشاگرد بھی بارہ تھے۔بعدازاں وہ تمام دُنیا کا ہادی ٹھہرا۔ ۳۔ موسیٰ بارہ قبیلوں کا ہادی تھا۔
۴۔ مسیح کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو مے بنایا۔یوحنا ۲: ۷- ۹ ۴۔ موسیٰ کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو خون بنا دیا۔ خروج ۷: ۱۹-۲۰
۵۔ مسیح نے اعجازی قوت سے جھیل کے طوفان کو روکا اوراپنے شاگردوں کی جانیں ہلاکت سے بچائیں۔ لوقا ۸: ۲۲- ۲۵ ۵۔ موسیٰ نے معجزانہ طورپر بحرِ قلزم کے دو حصے کردئے۔ اور بنی اسرائیل سلامتی سے اُس میں سے گذرگئے اوردریا سے کسی جان کا بھی نقصان نہ ہوا۔خروج ۱۴: ۲۱- ۲۲
۶۔ خُداوند مسیح نے فرمایا زندگی کا پانی میں ہو ں۔جوکوئی مجھ سے پیتا ہے وہ کبھی پیا سا نہ ہوگا۔ یوحنا ۴: ۱۴ اورپولوس رسول حورب کی چٹان کو جس سے موسیٰ نے پانی نکالا خُداوند مسیح سے ملاتا ہے۔۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۶ ۶۔ موسیٰ نے حورب کی چٹان سے پانی نکالا اورقوم کی پیاس بجھا کر اُنہیں مرنے سے بچایا۔خروج ۱۷: ۳- ۶
۷۔ مسیح نے ایک دفعہ پانچ ہزار کی بھیڑ اور دوسری دفعہ چار ہزار کی بھیڑ کو معجزانہ طورپر صرف چند روٹیوں سے آسودہ کیا اوربہت روٹی بچ بھی رہی متی ۱۴: ۱۵ – ۲۱ ، ۱۵۔۳۲- ۳۸اور پھر فرمایا تمہارے باپ دادو ں نے بیابان میں مَن کھایا اورمرگئے۔ میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔اگر کوئی اس روٹی میں سے کھائے توابد تک زندہ رہیگا۔ یوحنا ۶: ۴۹- ۵۱ ۷۔ موسیٰ نے قوم اسرائیلل کو مَن کھلایا جو معجزانہ طورپر آسمان سے نازل ہوتا تھا۔خروج ۱۶ : ۱۴- ۱۵

۸۔ مسیح نے ابلیس ،گناہ اورموت کی غلامی سے ایمانداروں کو آزاد کیا۔یوحنا ۸: ۳۴- ۳۶ ،عبرانیوں ۲: ۱۵ ۸۔ موسیٰ نے اسرائیلوں کو شاہ ِمصر کی غلامی سے چھڑا یا۔
۹۔ مسیح نے فرستاوہ خُدا ہونے کے ثبوت میں معجزات پیش کئے۔یوحنا ۵: ۳۶ ،اعمال ۲: ۲۲ ۹۔ موسیٰ نے اپنے مِن جانب خُدا نبی ہونے کو معجزات سے ثابت کیا۔استثنا ۳۴: ۱۰ – ۱۲
۱۰۔ مسیح چالیس روز تک بلا خور دنوش جنگل میں خُدا کی قربت میں رہا۔ متی ۴: ۱- ۲ ۱۰۔ موسیٰ چالیس روز تک بغیر کھائے پیئے خُدا کے حضور میں رہا۔خروج ۳۴: ۲۸
۱۱۔ مسیح کی صورت کوہ حرمون پر تبدیل ہو گئی اور سورج کی مانند چمکنے لگی۔ اوراُس کے شاگرد نہایت خوفزدہ ہوئے اورلطف یہ کہ موسیٰ بھی اُس وقت ایلیاہ کی ہمراہی میں مسیح کے ساتھ پایاگیا۔متی ۱۷: ۲- ۸ ، مرقس ۹: ۲- ۸ لوقا ۹: ۲۸ – ۳۶ موسیٰ کی صورت کو ہ سینا پر نورانی ہوگئی۔ موسی ٰ کی صورت کوہ سینا پر تبدیل ہوئی اور مسیح کی صورت کوہ ِ حرمون پر نورانی ہوگئی۔ دونوں نظارے پہاڑی ہیں۔ ۱۱۔ موسیٰ کا چہر ہ خُدا کےجلال کی تجلی سے چمکنے لگا۔ اوراُس کی صورت تبدیل ہو گئی۔ یہا ں تک کہ لوگ اُس سے ڈرنے لگے۔خروج ۳۴: ۲۹- ۳۵۔۲۔ کرنتھیوں ۳: ۸
۱۲۔ نیا عہد مسیح کے خون سے باندھا گیا۔ لوقا ۲۲: ۲۰۔ا۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۵ عبرانیوں ۹: ۱۱ – ۲۲ ۱۲۔ پرانا عہد موسیٰ کے ذریعے خون سے باندھا گیا۔خروج ۲۴: ۸ عبرانیوں ۹: ۱۸۰ ۲۰
۱۳۔ مگر فضل اورسچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔یوحنا ۱: ۱۷ ۱۳۔ شریعت تو موسیٰ کے ذریعے دی گئی۔ یوحنا ۱: ۱۷
۱۴۔ مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو برکت دی۔ اوررُوح القدس سے مَسح کرکے اپنی جگہ قائم مقام بنا کر وصیت کی۔متی ۲۸: ۱۸- ۲۰ ،یوحنا ۲۰ : ۲۱- ۲۳ ۱۴۔ موسیٰ نے آخری وقت یشوع پر ہاتھ رکھ کر اُسے مخصوص کیا۔ اور اپنی جگہ اُسے قوم کا ہادی بنا کر وصیت کی۔گنتی ۲۷: ۱۵- ۲۳ ، استثنا ۳۴- ۹
۱۵۔ خُداوند مسیح کی قبر بھی معدو م ہے۔اگر ہے تو خالی ہے۔مسیح زندہ ہوگیا۔ متی ۲۸ : ۵-۷ ،لوقا ۲۴: ۳- ۷، ا۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۰ ،اعمال ۲: ۳۴۔ ۱۵۔ موسیٰ کی قبر عدیم الپتہ ہے۔کوئی اُس کی بابت نہیں جانتا۔استثنا ۳۴: ۶ ،خط یہوداہ ۹ آیت۔

اُوپر ہم نے پندرہ اُمور میں موسیٰ اورخُداوند مسیح کی مُشابہت دکھائی ہے جس سے ہتمام وکمال طور سے ثابت ہوتا ہے کہ موسی کی وہ خبر جو اُس نے اپنی مانند ایک نبی کے برپا ہونے کے متعلق دی تھی وہ بجز خُداوند کے اورکسی نبی کی بعثت کا اشارہ تک نہیں ہے۔ بلکہ برعکس اس کے یوں لکھا ہے۔ اوراُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبھی موسیٰ کی مانند جس سے خُداوند نے روبرو باتیں کیں نہیں اُٹھا۔ استثنا ۳۴: ۱ اوراُس کے بعد بھی کسی نبی نے نہ تو بالصراحت اورنہ بالا ِشارت اُ س موعود نبی کے آ چکنے کا کہیں ذکر کیا۔ اس لئے عہد عتیق کے سب سے آخری نبی نے بھی موسوی شریعت ہی کی طرف قو م کی وجہ جی رہنمائی کی۔اگر وہ موعود نبی اُسکے زمانہ تک آچکا ہوتا تو وہ قوم کی اُس کی طرف توجہ دلاتا نہ کہ موسیٰ کی طرف۔ لیکن وہ شرع موسوی ہی کی یاددہانی کرواتا ہے۔ تم میرے بندے موسیٰ کی شریعت یعنی اُن فرائض واحکام کو جو میں نے حورب پر تمام بنی اسرائیل کےلئے فرمائے یاد دکھو۔ ملاکی ۴:۴ پس ثابت ہوا کہ توریت کے سب سے آخری نبی یعنی ملاکی کے زمانہ تک بھی وہ نبی ظاہر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اُس نبی کی کھوج ہمیں ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں کرنی پڑےگی دریں عالیکہ ملاکی نبی نے بھی اُس موعودہ نبی اور اُس کے پیشرو (یوحنا بیٹسپٹ ) کے ظہور آیندہ کی صریح خبربدیں الفاظ دی۔ دیکھو مَیں اپنے رسول کو بھیجوں گا۔ اورمیرے آگے راہ درست کرےگا۔ اورخُداوند جس کے تم طالب ہو نا گہاں اپنی ہیکل میں آموجود ہوگا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم منتظر ہوآئے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے۔ ملاکی ۳: ۱ مطابق مرقس ۱: ۲ ،لوقا ۷: ۲۷ ،یوحنا ۲: ۱۳ – ۱۷ چنانچہ ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں خُداوند یسوع مسیح کا ظہور ہوا۔ اوروہ عدیم اُلہیم شخصیت اورفقید المثل ہستی تمام انبیاء کی پیش خبریوں کو پورا کرنے اورقوم کے طویل انتظار کاجواب دینے کے لئے زینت افزائے کا شانہ گیتی ہوئی۔ پُرانے عہد کے ےموعود نبی وبادشاہ اورنئے عہد کے خُداوند مسیح کی فوٹو میں سر فرق نہیں۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک جواب ہے تو دوسرا اُس کی تعبیر ہے۔ اگرعہد عتیق انتظار کی دراز تبرہ شب ہے تو عہد جدید اُس انتظار کا جواب اورحصول ِمقصود کا روز ِروشن ہے۔اورخُداوند مسیح نے بارہا اخبار انبیاء سابقہ کو خود اپنی ذات پر چسپاں کیا۔ ملاحظہ ہو لوقا ۲۴: ۴۴، ۴: ۱۷ – ۲۱۔ متی ۲۲: ۴۲ – ۴۶ ،یوحنا ۵: ۳۹۔ پس ثابت ہوا کہ توریت میں جو ایک عالمیگر نئے عہد کی خبر پائی جاتی ہے وہ عہد مسیحیت ہے۔ اورجس بانی عہد جدید کی خبریں عہد عتیق نے دی ہیں۔ وہ بانی خُداوند یسوع مسیح ہے جس نے اس عالم آب دنگل کو اپنےمبارک قدموں کی برکت سے سرفراز فرمایا۔

اِلہام ومذہب الہٰی کی تدریحی کمالیت

اگر صحیفہ فطرت پر ایک خائز اورتحقیقی نظر ڈالی جائے تو ایک قانون نظر آتا ہے جو تمام موجودات عالم میں مشترک طورپر جاری وساری ہے۔ وہ قانون ہے تدریجی ارتقاء ہرشئے ادنی ٰ سے اعلیٰ اورناقص سے کامل کی طرف ترقی کرتی ہوئی صاف نظر آتی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ رات کو جامن کا بیج بویا جائے اورصبح کو وپچاس فُٹ اُونچا درخت ہوکر پھل دینے لگے۔ بلکہ رفتہ رفتہ درجہ بدرجہ ایک مخصوص وقت پر کمال کو پہنچتا ہے۔


ہر شئے کی پیدائش۔،وسطی اورانتہائی حالت اس حقیقت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔جبکہ جسمانی ومادی عالم میں تدریجی ارتقاء کا قانون خالق نے موضوع کردیا ہے۔ تو لازمی امر ہے کہ اخلاقی وروحانی امور میں بھی ایسا ہی ہو۔ کیونکہ صحیفہ فطرت اورصحیفہ الہام دونوں کجا مصنف خُدا تعالیٰ ہے۔ کائنات جس خُدا کا فعل ہے الہام اُسی کا قول ہے۔ لہٰذا دونوں میں مطابقت ومناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ عقلی وعلمی ارتقا ء میں بھی تدریجی ترقی وکمالیت کا اٹل قانون وساری نظر آتا ہے۔۔طالب علم جوں جوں عقلی منازل کو طے کرتا جاتا ہے ہر مرحلہ پراُس کےحسب لیاقت کُتب درسی پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ پہلے ہی روز بچے کے ہاتھ میں گلستان بوستان دے دی جائیں۔ یہی حال نزول الہام الہٰی کا ہے۔ خُدا اہل ِ دُنیا کی حالت اساسی وسطی اورانتہائی کے تناسب سے اپنے مکاشفے والہام نازل فرماتا ہے۔ اُس نے اپنا الہام ومکاشفہ انفرادیت سے شروع کیا۔ اورخاص اشخاص کو چند سادہ احکام وقوانین دے کر اُن سے اُن کی تعمیل طلب کی۔ پھر اُس نے ایک خاص قوم کو چن لیا اوراپنے احکام وقوانین زیادہ تعداد میں موسیٰ کی معرفت اُن پر نازل کئے۔ اوراُن کی تعمیل وتقلید کی تاکید زمانہ بہ زمانہ طرح بہ طرح انبیاء کی معرفت فرماتا رہا۔ وہ الہام صرف قوم اسرائیل ہی سے متعلق تھا اور مذہب الہٰی قومی مذہب تھا۔اور ضروری تھا کہ مذہب الہٰی انقیادی خصوصیت سے نکل کر عمومیت میں تبدیل ہوجائے۔ اورایسا ہی ہوا جیسا ہم پیشتر یا لتفصیل دکھاچکے ہیں۔ چونکہ خصوصیت عمومیت کی ایک فردہے۔ لہٰذا خُدا نے اپنا الہام ومکاشفہ ابتدائی خاص سے شروع کرکے عام تک پہنچایا۔ پہلے اُس نے خاص افراد کو چُنا۔ پھر اُس نے ایک خاص قوم کو چُن لیا۔ جس طرح خُداوند مسیح نے بھی پہلے بارہ شاگردوں کو چن لیا اوراُنہیں فرمایا مَیں نے تمہیں چن لیا اورتُم کو مقرر کیا کہ جاکر پھل لاو۔ (ا۔یوحنا ۱۵: ۱۶ ) اوراس عالمیگر مذہب کے بانی نے اپنی خدمت کو اُسی جگہ سے شروع کیا جہاں انبیاء عہد عتیق نے اپنے کام کو چھوڑا تھا۔ یعنی یہودی قوم سے شروع کرکے تمامم اقوام عالم تک اوریروشلیم سے شروع کرکے تمام دُنیا کی حدود تک اپنی خدمت کو وسعت دی (لوقا ۲۴: ۴۷ ) مرکز سے شروع کرکے محیط کی طرف بڑھنا مسیح کا مقصد تھا۔ اسی لئے آپ نے ایک جگہ فرمایا۔ مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔(متی ۱۵: ۲۴ ) یہ ہی تھا مرکز سے شروع کرنا۔ یروشلیم سے شروع کرنا ۔لیکن بعد میں آپ نے فرمایا۔ میری اوربھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے (قوم اسرائیل ) کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اوروہ میری آوا ز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔ یہی تھا محیط تک پہنچنا۔ زمین کی انتہا تک گواہ ہونا۔ (یوحنا ۱۰: ۱۶۔اعمال ۱: ۸) دُنیا کی ہرشئے مرکز سے محیط کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اورخُداوند مسیح نے بھی اس مقررہ قانون کے مطابق اپنے کام کو مرکز سے آغاز کرکے دائرہ کی طرف بتدریج بڑھایا۔ اورقومی مذہب کو بتدریج عالمگیر مذہب میں منتقل فرمایا۔ اوالہام الہٰی کی تدریجی کمالیت کے متعلق خط عبرانی کا مصفنف یوں فرماتا ہے۔اگلے زمانے میں خُدا نے باپ دادوں سے حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اس زمانے کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا (عبرانیوں ۱: ۲)۔

(۶)


عالمگیر مذ ہب

عالمگیر مذہب وہ ہوسکتا ہے جو جغرفائی حدود وقیود سے آزاد ہو۔ تمام نسلوں اورقوموں کی روحانی اوراخلاقی زندگی پر یکساں طورپر اثر انداز ہو اورجس میں مِن کُل الوجو ہ ہو۔اور بنی نوع انسان کی اخلاقی ضروریات اور رُوحانی جذبات کی تسکین وسودگی کا ضامن ہو۔ اور کامل تحقیق کے بعد فرد واحد بھی یہ کہنے کی جرات نہ کرسکے کہ اس مذہب میں میری رُوحانی حوائج وضرورت کاجواب نہیں ہے۔ ہم مسیحی مذہب کو اس معنی کا عالمیگر مذہب ادلہ یقینیہ وبراہین شا فعیہ قطعیہ سے ثابت کریں گے۔ ذراء انصاف پروری اورصدق دلی سے تمام دلائل پر غور فرمائے۔

عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پر

عہد جد ید کی بنیاد عہد عتیق پر رکھی گئی ہے۔ اور نئے عہد کے بانی نے پُرانے عہد کے سلسلے کو توڑا نہیں۔ بلکہ اُسی کی بنیاد پر رد سے لگا کر قومی مذہب کی عمارت کو بتدریخ تکمیل تک پہنچا یا ہے۔ اورجہاں عہد عتیق کے انبیاء نے اپنا کام چھوڑا تھا۔ خُداوند مسیح نے اُسی جگہ سے شروع کرکے اُسے قومی دائرہ سے نکال کو بتدریج عمومیت کی طرف ترقی دی۔ اورجو مخالفین مسیحیت ہٹ دھرمی اورتعصب کی سیاہ عینکیں لگا کر اصل حقیقت کومشکوک نظروں سے دیکھتے اوریہ کہا کرتے ہیں۔ کہ خُداوند مسیح نے توریت کو رد اورباطل کردیا ہے۔یہ اُن کی خوش فہمی ضد اورمحض کو تاہ اندیشی ہے۔ اورحقیقت اس کے برعکس ہے توریت کی خبر ملاحظہ ہو۔دیکھ وہ دن آتے ہیں۔ خداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھرانے اوریہوداہ کےی گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا (یرمیاہ ۳۱: ۳۱ ) پھر اس آنے والے عہد کی عمومیت کی خبر ہر غور کرو۔ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروونگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔ (یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ) الفاظ وہ دن آتے ہیں اورو ہ وقت آتا ہے قابل غور ہیں۔ اوریہ اُس آنے والے نئے عہد اوراُس کے ہونے والے بانی کے متعلق صریح پیش خبری ہیں۔ خُدا کے علم وارادہ میں توریت کا حدِ رواج مسیح تک تھا۔ لیکن جب وقت پورا ہوگیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا۔ اورشریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔ تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے اورہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے۔ (گلتی ۴: ۴- ۵) اور لازم تھا کہ عہد جد ید کابانی شریعت کے ماتحت پیدا ہو۔ تاکہ شریعت سابقہ کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔جو شریعت موسوی کوکامل کرنے آیا تھا وہ پہلے خود اُس کا پابند ہوا۔ چنانچہ آٹھویں روز اُس کا ختنہ ہوا۔ لوقا ۲: ۲۱ مطابق احبار ۱۲: ۳ اورمریم مقدسہ شرع موسوی کے مطابق پاک ہونے کے دن پورے ہونےپر ہیکل میں قربانی چڑھانے گئی۔لوقا ۲: ۲۲- ۲۴ مطابق احبار ۱۲: ۶ -۸ مسیح نے بپتسمہ بھی لیا۔ متی ۳: ۱۳- ۱۷ وہ ہرسال عیدوں کے لئے یروشلیم کو جایا کرتا تھا۔ لوقا ۲: ۴۱- ۴۲ مطابق خروج ۳۰ : ۱۴، ۱۷ وہ ہیکل کا محصول ادا کرتا تھا۔ متی ۱۷ : ۲۴ – ۲۷ مطابق خروج ۳۰ : ۱۳ یہودی روزہ رکھتے تھے مسیح نے بھی چالیس دن روز ہ رکھا۔متی ۴: ۱ لوقا ۴: ۲ مطابق احبار ۱۶: ۲۹ ،یسعیاہ ۵۸: ۳- ۷ آپ نے ایک کوڑھی کو معجزانہ طور سے شفا دی اوراُسے موسوی دستور کی ہدایت فرمائی۔متی ۸: ۱- ۴ مطابق احبار ۱۴: ۱-۷ اور آپ نے اپنی خدمت کے آغازہی میں فرمایا۔


یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔متی ۵: ۱۷ چنانچہ آپ نے شریعت دی۔اُس کی تردید وتنسیخ نہیں بلکہ تکمیل فرمائی اوراُس کو انقیادی خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں تبدیل کیا۔ اورتمام اقوام عالم کادستو ر العمل ہونے کی صلاحیت اُس میں پیدا کردی۔ جس طرح ایک گورنر کا رُعب واقتدار اورحکومت واختیار صرف ایک ہی صوبہ تک محدود ومختص ہوتا ہے۔ اوراُس کے اپنے صوبہ سے باہر اُص کے احکام وقوانین کچھ اثر نہیں رکھتے۔ اسی طرح موسوی شرائع و احکام کا دائرہ اثر صرف یہودی قوم تک ہی محدود تھا۔ اوریہودیت کے باہر انبیاء کے قوانین اوراُن کی آواز کا کچھ اثرنہ تھا۔ تعزیرات پاک وہند کے قوانین و دفعات صرف ان ممالک کی حدود کے اندر ہی زور رکھتے ہیں۔ اورفرانس جرمنی اورامریکہ کے لوگو ں سے اُن کی تعمیل کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح شریعت موسوی تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی ہنفسہ کوئی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اورخُدا وند مسیح کی آمد اورظہور کا سب سے اعلیٰ مقصد یہی تھا کہ مذہب الہٰی عالمیگر ہوجاتے۔ چونکہ خُدا تمام دُنیا کا واحد مالک اورشہنشاہ ہے اس واسطے مسیح شریعت کو جو مختص بالقوم والزمان ہونے کے باعث کمزور اور ادھوری تھی کامل کرنے آیا۔ اورفرمایا کہ میں توریت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔ ہم آگے چل کر اچھی طرح دکھائیں گے کہ توریت کی تکمیل مسیح نے کس صورت میں فرمائی۔ اورکس طرح قومی مذہب کو عالمیگر مذہب کی صورت دے دی۔

توریت کا تجزیہ

توریت کا تجزیہ کیا جائے تواُس میں تین قسم کے مضامین دستیاب ہوتے ہیں۔ اول۔ احکام۔دوم۔اخبار ،سوم تعلیم ، اَحکام کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی اَمر اورنہی اَمر وہ احکام ہیں جن پر عمل کرنے کی تاکید پائی جاتی ہے۔ مثلاً توسبت کادن پاک ماننا۔ تُواپنے باپ اوراپنی ماں کی عزت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے تمام احکام کو اوامر کہتے ہیں۔ اورنہی وہ احکام کہلاتے ہیں جن میں کسی کام کےے کرنے کے کی ممانعت پائی جائے۔مثلا ً تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بناتا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا۔اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے امتناعی احکام کو نواہی کہتے ہیں۔پھر اخبار تین قسم کی ہیں۔ یعنی حال کی ،ماضی کی ،اورمستقبل کی۔

اول۔ اخبار حال وہ ہیں جو موسیٰ اوردیگر انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں واقعات موجودہ اورتجارب مشہودہ کی بنا پر لکھیں۔

دوم۔ اخبار ماضی جیسے موسیٰ نے دُنیا کی پیدا ئش۔ آدم کی نافرمانی و استخراج ازجنت العدن اورطوفان نوح کے واقعات لکھے۔ اوراُن اخبار سابقہ کو الہام الہٰی کی روشنی میں قلمبند کیا۔

سوم۔ اخبار مستقبل۔جیسے موسیٰ اوراُس کے ماقبل ومابعد کے انبیاء نے خُداوند مسیح کے متعلق خبریں دیں۔ یہ خبریں انبیاء خُدا سے حاصل کرکے بوساطت الہام لکھتے تھے۔ اور انہیں کو پیشین گوئی کہتے ہیں۔ اوامر ونواہی اوراخبار باقسام ثلٰثہ توتمام صحائف عتیقہ وجدیدہ کومِن حیث المجوعہ شامل ہیں۔یعنی انجیل میں بھی توریت کی طرح موجود ہیں۔ لیکن احکام کی دو اور خاص قسمیں ہیں جو صرف توریت ہی سے متعلق ہیں۔ یعنی :۔ احکام خاص اوراحکام عام۔ اب ہم اُن کا مفصل بیان کریں گے۔



اَحکام خاص

قربانیاں ،ختنہ۔روزہ ،نذریں ،طہارت بدنی ، سبت ، عیدیں اورحلت وخرمت وغیرہ جوھ سب ہیکل کے ساتھ متعلق تھے۔ اوراحکام وقضاۃ وشاہان نبی اسرائیل کے متعلق سیاسی قوانین وفرائض سب احکام خاص میں شامل ہیں۔ اور شرائع رسمی وملکی ان ہی سے متعلق تھیں۔ ان کا تعلق صرف قوم اسرائیل کے ساتھ تھا۔ دیگر اقوام میں نہ تو کبھی ان کی تردیج کی کوشش کی گئی اورنہ ایسا کرنے کا کوئی حکم ہی تھا۔ احکام خاص اپنی ذات اورمقصد میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے تھے۔ ان کا تعلق صر ف یہودی مذہب۔تمدن ومعاشرت اورقومیت سے تھا۔ مثلاُعیدیں یہودی تاریخ کے خاص واقعات کی یاد گاہیں تھیں۔

یہودیت سے باہر کی دنیا کو اُن سےکوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اُس کی تاریخ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتیں۔ مثلاً ایک فوجی آدمی اگراپنے لباس پر تمغے لگاتا ہے تووہ اُس کی جنگی زندگی کے واقعات کی یاد گاریں اورنشانیاں ہیں۔ اگر دوسرے لوگ جن کو محاریہ ومکاربر ہ سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا اُس فوجی کی دیکھا دیکھی اپنے لباس پر تمغے لگالیں۔تو وہ بے مطلب اور بے معنی ہونگے۔فوجی لوگوں کے چند خاص ظاہری امتیازات ہوتے ہیں۔ جن کے باعث وہ عوام الناس سے متماز نظر آتے ہیں۔ اور وہ امتیازی علامات اُن ہی کے لئے خاص ہوتی ہیں نہ کہ تمام لوگوں کے لئے۔اسی طرح توریت کی رسمی وملکی شرائع یہودیت کواُس وقت کی تمام دیگر اقوام سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوردوسری وجہ احکام خاص کے نفاذ کی یہ تھی ک ہان ظاہری اورجسمانی قوانین کے ذریعے اُن میں الہٰی متابعت وفرمانبرداری کی رُو ح پیدا کی جائے۔ یہ گویا ایک ابتدائی تربیت تھی۔اور اس تربیت اولہ سے منتہائے مقصود یہ تھا کہ اخلاقی وروحانی شریعت کی پا بندی کرنا سیکھیں۔ جیسے حروف تہجی بچوں کو محض اس لئے کھائے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے وہ کسی وقت اعلیٰ علمی کتابیں پڑھ سکیں۔ اسی طرح اَحکام خاص بھی اُس قوم کے لئے بطور ابتدائی سبق کے تھے۔ اورجب کوئی طالب علم مولوی فاضل بن جاتا ہے تو پھر اُسے حروف تہجی پر مغز مارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اورقاعدہ حروف تہجی کے متروک ہونے سے وہ قاعد ہ رد و باطل نہیں ہو جاتا بلکہ جس حدتک پہنچا نا اُس کا مقصود تھا اُس تک پہنچ کر اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح احکام خاص اعلیٰ اخلاقی وروحانی شریعت تک پہنچا کر متروک العمل ہوگئے۔ اور پھر پھر کر اُن کی رَٹ لگانا ایسا ہی عبث ہے جیسے کوئی مولوی فاضل ہوکر دوبارہ حروف ِ تہجی کی مشق شروع کرے۔ چراغ کی ضرورت اُس وقت تک ہوا کرتی ہے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو۔لیکن آفتاب کی آمد سے چراغ رد وباطل نہیں ہوجاتا بلکہ اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس سورج کی موجودگی میں مٹی کے چراغ جلانا نادانی ہے ۔اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا۔اورتُم اچھا کرتے ہوجو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہوکہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔جب تک پَونہ پھٹے اورصبح کا ستارہ تمارے دلوں میں نہ چمکے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۱۹) اوروہ شرعی زمانہ مذہب الہٰی کی طفولیت کا زمانہ تھا۔ اورخُدا وند مسیح نے اُسی کو شباب کےی عہد تک پہنچایا۔ جب میں بچہ تھا بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔بچوں کی سی سمجھ تھی لیکن جب جوان ہوا تو بچپن کی باتیں ترک کردیں(۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۱) پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی۔ تاکہ ہم ایمان کے سبب راستباز ٹھہریں۔ مگر جب ایمان آچکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے۔ (گلیتوں ۳: ۲۴- ۲۵) اب ذرالفصیل کے ساتھ دکھا یاجائے گا کہ کس طرح احکام خاص کا تکملہ عہد جدید میں آکر ہو گیا۔ اورشرع رسمی میں سے چند بڑی بڑی رسوم کو لے کر انجیل مقدس میں اُن کی تکمیل دکھائی جائے گی۔ یعنی اُس کا آغاز کا انجام دکھایا جائے گا۔ اُسی خواب کی تعبیر پیش کی جائے گی۔



قربانیاں

لفظ قربانی کامادہ قرب (نزدیکی ) ہے۔یعنی قربانی ایک ایسا شرعی فعل ہے جس کےذریعے انسان خاطی۔عاصی تقریب الہٰی کوحاصل کرسکے۔ شرع موسوی میں بنی اسرائیل قوم کو قربانی چڑھانے کے خاص احکام تھے۔ اوروہ بموجب فرمان ِ الہٰی پانچ قسم کی قربانیاں گذرانتے تھے۔ احبار کی کتاب میں اُن کا مفصل بیان مل سکتا ہے۔ واضح ہوکہ انسان اس دُنیا کی کسی بھی شئے کا مالک نہیں بلکہ مختار ہے۔اور خُدا سب دُنیا کا واحد مالک ہے۔ زمین اوراُس کی معموری خُداوند کی ہے۔ جہان اوراُس کے باشندے بھی (زبور ۲۲: ۱) اورہزاروں پہاڑوں کے چوپائے میرے ہی ہیں۔ اگر میں بھوکا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ کیونکہ دُنیا اوراُس کی معموری میری ہی ہے (زبور ۵۰: ۱- ۱۲) اورانسان کے قبضے میں ان اشیاء کی ذاتوں کے منافع اور فوائد ہی ہیں۔ اورانسان کو یہی حکم تھا کہ ان جانوروں کی ذاتوں کے فوائد کو قربان کرکے۔ اورچونکہ اُن کی ذآت کے فوائد کوقربان کرنے کے لئے اُن کو ذبح کرنا پڑتا تھا۔ اوربغیر ذبح کئے وہ فوائد عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان نہیں کئے جاسکتے تھے۔ اس واسطے قربانی کے لئے جانور ذبح کئےجاتے تھے۔اور یہ ایک طرح کا ایثار تھا جو وہ خُدا کے حکم کے مطابق اُس کی خوشنودی ورضا جوئی کے لئے کرتے تھے۔ اوراس سے مقصود یہ تھا کہ تقریب الہٰی کے حصول کی خاطر ان معمولی منافع کو قربان کرتے کرتے اُن میں خُدا کی محبت یہاں تک بڑھ جائے کہ کسی وقت وہ اپنی جان بھی اُس کی خاطر قربان کردینے میں دریغ نہ کریں۔ اورایک طرف تو خود انکاری وایثار کی رُوح اُن میں پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف وہ یہ احساس کرنے لگ جائیں کہ خُدا کی شریعت کا عدول کرنے سے جو موت اُنہو ں نے کمائی وہ جانورں پر وارد ہورہی ہے۔ اورخُداہماری جانوں کو اس قدر عزیز رکھتا ہے کہ ان بیگنا ہ جانوروں کی جانوں کو ہماری جانوں کا مبادلہ ٹھہراتا ہے۔ تو بھی ممکن نہیں کہ بیلوں اوربکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔(عبرانیوں ۱۰: ۴)۔ بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دِلاتی ہیں۔(عبرانیوں ۱۰: ۳)۔ چونکہ خُدا عادل ہے۔اورعدل کا تقاضا ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے۔اس لئے عارضی طورپر یہ حیوانی مجازی قربانیاں مسیح کی حقیقی قُربانی کے انبیاء کے طورپر قائم رہیں۔ اورجب خُداوند مسیح نے حقیقی اوراصلی قُربانی دے دی تو اُن مجازی قربانیوں کا رواج اُسی وقت سے بند ہوگیا۔ اورموسوی قربانیاں مسیح کی قربانی کی ایک تمثیل ہی تھیں۔ کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اوراُن چیزوں کی اصلی صورت نہیں۔ عبرانیوں ۱۰: ۱۔ اگر بالفرض محال حیوانی قربانی عدل الہٰی کے تقاضا کو پورا کرسکتی ہے تو سوال لازم آتا ہے کہ قربانی سے عابد کو فائدہ پہنچتا ہے یا معبود کو اوریا مذبوح کر؟ اگرکہا جائ کہ عابد کو تو یہ خلاف انصاف ہے۔کیوننکہ مجرم کو فائدہ پہنچاتا عدل نہیں۔ بلکہ ازروئے عددل مجرم کو خسارہ کا متحمل ہونا لازمی ہے۔ اورجبکہ گناہ کے باعث مجرم انسان سزائے موت کا مستحق ہے۔(رومیوں ۶: ۲۳) تو اُس کی جان کا مبادلہ حیوان کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ بھی عدل کو پورا نہیں کرتا۔ او ر پھر جانور کسری طورپر قربان کیا جاتا ہے۔ اورفعل کسری نہ تو نیک ہوسکتا ہے نہ بد۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ایک خونی کی جان کے عوض میں سرکار کو ایک بکرابا بیل پیش کیا جائے۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سے خُدا کو فائدہ پہنچتا ہے تو یہ اُس کی ذات بے نیاز ، لااحتیاج کے منافی ہے۔ اُس میں کوئی کمی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ اوراگر کہا جائے کہ جانور کی ذات کو فائدہ پہنچتا ہے۔ تو یہ خلاف عقل ہے۔کیونکہ ہلاکت کسی ذی جان کے لئے فائدہ مند ہونہیں سکتی۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سےکسی کو بھی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ تواس صورت میں قر بانی ایک فضول اوربے بنیاد کا م ٹھہرتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حیوانی قربانی اگر خُدا وند مسیح کی حقیقی واخلاقی قربانی کی علامت نہ سمجھ جائے تو وہ ظلم وتشد د کے سوا کچھ نہ تھی۔ اورخُداوند مسیح کی آمد پر قربانیوں کے رواج بند ہوجانے کی خبر خود عہد عتیق میں موجود ہے۔


ملاحظہ ہو۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد مسیح تقل کیا جائے گا۔ اوروہ ایک ہفتہ کے لئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا۔ اورنصف ہفتہ میں ذبیحہ اورہدیہ موقوف کرے گا۔(دانی ایل ۹: ۲۶- ۲۷) جس طرح موسم برسات کی بافراط وبہتات بارشیں فصلوں کو چاہی آبپاشی کی طرف سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ اورپھر آبیاشی کے محدود انسانی ذرائع بند ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح کی حقیقی اورکامل قربانی کے بعد پھر کسی حیوانی قربانی کی ضرورت نہ رہی۔ جانور کی قربانی کسری اورمجہول ہوتی تھی۔ اورخُداوند مسیح کی قربانی اختیاری اورمعلوم قربانی ہے۔ آپ کا فرمان ملاحظہ ہو۔

باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتاہوں۔ تاکہ اُسے پھر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں۔ بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے۔ اوراُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا (یوحنا ۱۰: ۱۷- ۱۸)۔

ختنہ

ختنہ کا آغاز ابراہام سے ہوا۔ خُدا تعالیٰ نے اُس کے ساتھ عہد باندھا تھا۔ اورختنہ اُس عہد کے لئے بطور ایک نشان کے ٹھہرایا۔خُداوند نے ابراہام سے فرمایا۔ اورمیرا عہد جو میرے اورتیرے درمیان اورتیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے۔ اورجسے تُم مانو گے سویہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے۔ اورتُم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا۔ اوریہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اورتمہارے درمیان ہے۔ (پیدائش ۱۷: ۱۰-۱۱) اورختنہ کاحکم صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص تھا۔ ابرہام کی نسل سے باہر کسی اور قوم کو اُس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اورظاہر ہے کہ تمام اقوام عالم ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں۔ بلکہ اقوام کی تفریق تو نوح کے بیٹوں سمِ۔حام اوریافت ہی سے ہوجاتی ہے۔ صرف یہودی قوم ہی ابراہام کی نسل تھی۔ اس لئے ختنہ کا حکم صرف اُ سی کے لئے دیا گیا تھا۔ اوراس رسم کاروحانی مطلب بھی توریت میں بدیں الفاظ موجود ہے۔ اس لئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اورآگے کو گردن کش نہ رہو (استثنا ۱۰ : ۱۶) اورخُداوند تمہارا خُدا تمہارے اورتمہاری اولا د کے دل کا ختنہ کرے گا۔ (استثنا ۳۰: ۶ ،یرمیاہ ۴: ۴) اگرچہ وعدے ک ینسل ہونے کے سبب سے یہودی قوم کے لئے ختنہ لازمی تھا۔ لیکن اگر تمام دُنیا کی اقوام کے لئے ختنہ کا حکم خُدا دیو سے تو وہ روحانی معنی میں ہی ہوسکتا ہے۔ اورختنہ کا روحانی مفہوم ہی دل کی غلاظت کو کاٹ پھینکنا تھا۔ روحانی مفہوم ومطالب کا محسوسات وجسمانیات کے پیرایہ میں متمثل ہونا کوئی امر جدید اوردور ازفہم بات نہیں۔ پولوس رسول فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے۔ اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہر ی وجسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہ ہے جو باطن میں ہے۔ اورختنہ وہی ہے جو دل کا اورروحانی ہے نہ کہ لفظی (رومیوں ۲: ۲۸ )نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نامختونی بلکہ نئے سرے سے مخلوق ہونا (گلیتوں ۶: ۱۵۔۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ گلیتوں ۵: ۲-۳ کلیسوں ۲: ۱۱ ) ختنہ بعض حافتوں میں طبی لحاظ سے مفید ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی روحانی فائدہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ مختون اورنامختون ہر دوقسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دونوں فریق گناہ کے ماتحت ہیں۔ اگرختنہ سے روحانی اخلاقی زندگی کی اصلاح وبہبود ممکن ہوتی تو لازم تھا کہ مختون بلحاط روحانیت وپاکیزگی کے نامختونوں سے بدرجہا افضل ہوتے۔ لیکن مشاہد ہ اس کے خلاف ہے۔ خُداوند مسیح کا ختنہ ابراہام کی نسل ہونے کے سبب ہوا لیکن غیر یہودی چونکہ ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں اس لئے اُن پر ختنہ کر وانا لازمی نہیں ہے۔ اسی واسطے مسیحیت کے قیام پر ختنہ موقوف ہوگیا۔ اوراُ س کی جگہ نئے عہد میں بپتسمہ کی رسم قائم ہوئی(متی ۲۸: ۱۹)۔



سبت

آفزنیش عالم کےی عظیم الشان اورلاثانی واقعہ کی یاد گار کے طورپر سبت کو مقدس ٹھہرا گیا۔ اُس روز خُد ا نے تمام بے جان اورجاندار۔دیدنی اورنادیدنی اشیاء کو بنا کر فراغت پائی (پیدا ئش ۲: ۳) اورخُدا نے سبت کا دن شریعت میں دو جوہات کے ماتحت شامل کیا۔

اول۔ سبت کو آفرینش عالم کی یاد گار ٹھہرانے ےاورشریعت میں داخل کرنے سے خُدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ مابعد زمانوں میں اس دُنیا کی علت فاعلی کسی وہمی ہستی کو نہ ماننے لگ جائیں۔ اورخیالات باطلہ و توہمات مظنونہ میں نہ پھنس جائیں۔ بلکہ جب جب سبت کومنائیں تو یہ یاد کریں کہ یہ وہ دن ہے۔ جس میں خُدا نے تخلیق عالم سے فراغت پائی تھی۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ تمام عالم خُدا کے کہنے سے ہے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو۔(عبرانیوں ۱۱: ۲)۔

دوم۔ سبت کے دن کو مقدس ٹھہرانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قوم اسرائیل دُنیوی دھندوں اورفکروں و الجھیڑوں میں یہاں تک نہ پھنس جائے کہ خُدا ک یادی ہی بسر جائے۔ اس واسطے مصلحناً پابند ی اورعبودیت کی رُوح اُن میں پیدا کرنے کے لئے یہ خاص دن اُن کے واسطے جسمانی دھندوں سے قراغت پانے اورعبادت میں صرف کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔لیکن جو شخص سیدھی اورصاف نیت سے خُدا کی عبارت نہیں کرتا اُس کے لئے سبت اورباقی سب دن برابر ہیں۔ یہودیوں میں سبت کے متعلق ایسی سو ء عقیدت پیدا ہوگئی کہ وہ اُس روز میں نیکی کرنا بھی گناہ سمجھنے لگے۔ اسی واسطے خُداوند مسیح نے بارہا اُن کے اس غلط خیال کی اصلاح کی کوشش کی۔ اورایک دفعہ فرمایا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ آیا سبت کے دن نیکی کرنی روا ہے یا بدی کرنا ؟ جان کو بچانا یا ہلاک کرنا۔(لوقا ۶: ۹) اورجب آپ نے اُس مریض کو تندرست کردیا تو وہ آپے سے باہرہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یسوع کے ساتھ کیا کریں؟ (آیت ۱۱) ایک اورموقع پر مسیح نے سبت کے روز ایک کبڑی عورت کوجو ۱۸ برس سے کسی بدروح کے باعث مریض تھی شفا بخشی توعبادت خانے کاسردار ناراض ہوکر کہنے لگا۔ چھ دن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے۔پس اُن ہی میں آکر شفا پاو نہ کہ سبت کے دن۔ لوقا ۱۳: ۱۴) وہ سبت کیے روز سوئی تک کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ اُن کی سُو عقیدت اورفضول نمائش کو مٹانے کےلئے مسیح کے زندہ ہوکر صعود فرمانے کے بعد رسولی عدہ میں سبت کی جگہ ہفتے کا پہلا دن (اتوار ) مقرر ہوا۔ اور جس طرح سبت آفرینش عالم کے عدیم النظیر واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح ہفتے کا پہلا دن مسیح کے گناہ موت اور قبر پر فوق الفطرت طاقت سے غالب آنے کی فقید المثل واقعہ کی یادگار ٹھہرا۔ سبت وہ دن ہے جوتمام دنیا میں زندگی کا مبداء سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اُس روز خُدا تعالیٰ نے قالب گیتی میں رُوح پھونکنے کے کام کو تمام کیا۔ اورہفتے کا پہلا دن وہ ہے جس میں انسان بلکہ تمام مخلوقات کو گناہ موت اوربطالت وفنا کے قبضہ سے چھڑا کر کھوئی ہوئی زندگی کو پھر سے سبحال کیاگیا۔(رومیوں ۸: ۲۰-۲۱) اورخُدا وند مسیح نھے فرمایا۔ سبت آدمی کے واسطے بناہے زآدمی سبت کے واسطے۔پس ابن ادم سبت کا بھی مالک ہے (مرقس ۲: ۲۷- ۲۸ ) اورصرف سبت کے روز ہی عبادت کوکافی نہیں ٹھہراتا بلکہ فرمایا۔ ہر وقت دُعا مانگتے رہنا اورہمت زبانی چاہئے۔ لوقا ۱۸: ۱ اور ہروقت اورہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے رہو۔ اوراسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مقدسوں کے واسطے بلاناغہ دُعا مانگا کرو(افیسوں ۶: ۱۸) اگر اب کوئی سبت کے دن کو دُنیا کی تخلیق کی یاد گار سمجھ کر اُس کی تعظیم کرے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ پر یہودیوں کی طرح اُس کی سطحی وظاہری پابندی جس میں نیکی کرنا بھی گناہ میں داخل ہے سراسر معیوب ہے۔ اس لئے سبت تمام عالم کا دستور العمل ہونے کے ناقابل ہے۔اسی لئے پولوس رسول فرماتا ہے۔ پس کھانے پینے یا عید یا نئے چاند یاسبت کی بابت کوئی تم پرالزام نہ لگائے۔کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں۔ (کلسیوں ۲: ۱۶ ،گلتیون ۴: ۹-۱۰) خُداوند مسیح نے سارے دن پاک رکھنے اوراُن میں عبادت کرنے کی تاکید فرمائی۔ پس سبت کی کوئی خصوصیت نہ رہی۔



ظاہری طہارت

شریعت موسوی میں بدنی طہارت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (گنتی ۱۹: ۷- ۲۲) اوراس ظاہری وجسمانی طہارت سے منشائے الہٰی یہ تھا کہ وہ لوگ باطنی اورروحانی پاکیزگی کے طالب ہوں۔ اور اُس کے لئے کوشش کریں۔ اگرچہ جسمانی صفائی ، تندستی وصحت کے زایہ نگا۔ سے نہایت ضروری ولازمی ہے۔ اورایسی صفائی سے خُدا نارواض نہیں ہوتا۔ اورنہ ہی خوش ہوتا ہے۔ تاہم روحانی زندگی کے ارتقاء میں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ باطنی پاکیزگی وہ ہے جس کے لئے داود نبی خُدا سے یوں التجا کرتا ہے۔

اے خُدا ! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے بالن میں ازسر تو مستقیم رُوح ڈال۔ (زبور ۵۱: ۱۰) اگرچہ ہندو لوگ تیرتھوں پر جاکر باطنی پاکیزگی کی بے کار اورموہوم اُمید پر اشنا ن وغیرہ کرتے ہیں۔ تو بھی تیر تھ اشنا ں کرنے والوں اورنہ کر نیو الوں میں بلحاظ پاکیزگی کوئی مابہ الامتیاز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ہر دوقسم کے لوگ گناہ کی غلامی میں خوب پھنسے ہوئے ہیں۔ کہنیوں تک ہاتھ دھونے ،وضو کرنے۔اور اشناں کرنے سے باطنی طہارت ناممکن ہے۔اسی واسطے ظاہر دار فقیہ وفریسی خُداو ندمسیح کے سامنے اُس کے شاگردوں کی بوں شکایت کرنے آئے کہ۔تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ روٹی کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔(متی ۱۵: ۲) تو خُداوند مسیح ن اُنہیں یوں جواب دیا کہ۔جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(آیت ۱۱) اورشاگردوں کی فرمائش پر اپنے جواب کی یوں تفصیل فرمائی جو کچھ منہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتااور پاخانے میں نکل جاتا ہے۔ مگر جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں۔ اوروہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ برے خیال ،خون ربزیاں ، زناکاریاں حرام کاریاں ،چوریاں ،جھوٹی گواہیاں ،بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھاناکھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔(متی ۱۵ : ۱۷- ۲۰ ،مرقس ۷: ۱۷- ۲۲) اور فقہیوں اورفریسیو! تُم پر افسوس ہے کہ پیا لے اوررکابی کواوپر سے صاف کرتے ہو۔ مگر وہ اندر بوت اورناپرہیز گاری سے بھر ے ہیں(متی ۲۳: ۲۵ ) (۲۶- ۲۸) تمام اناجیل باطنی طہارت اوراندرونی پاکیزگی کی تعلیم وتلقین سے ملو ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہیں تو زیادہ حق ہوگا کہ مسیح کی تعلیم کا تماتر مقصد د مدعا ہی باطنی پاکیزگی تھا۔ پس مسیح کی کامل شریعت کی آمد سے توریت کی ظاہری اور اُدھوری شریعت خود بخود متروک ہوگئی۔ اورجس اعلیٰ مقصد کی انجام دہی کے لئے خُدا نے وہ ابتدائی اورناکامل شریعت دی تھی اُس نے مسیح کی مال واکمل شریعت کے ذریعے تکمیل پائی۔ اوروہ مختص بالقوم وزمان شرع (احکام خاص ) عالمیگر اورابدی ودائمی شرع کی آمد پر متروک العمل ہوگئی۔ کیونکہ وہ صرف کھانے پینے اورطرح طرح کے غسلوں کی بناء پر جسمانی احکام ہیں جو اصلاح کے وقت تک مقرر کئے ہیں۔ عبرانیوں ۹: ۱۰ خُداوند مسیح کی کامل شریعت کا حکم طہارت باطنی کے متعلق ملاحظہ ہو۔ پس اَے عزیزو ! چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے۔ تو آو۔اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اورروحانی آلودگی سے پاک کریں۔ اور خُدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔ (۲۔ کرنتھیوں ۷: ۱)۔



حدتِ وحُرمت

توریت میں بعض اشیاء کھانے پینے کے لحاظ سے حلال اور بعض حرام ٹھہرائی گئی تھیں۔ (استثنا ۱۴: ۳- ۲۱ ) امُور ِ معاشرت میں حلال و حرام اورپاک وناپاک کے متعلق اومرونواہی خُدا نے دو اعلیٰ رُوحانی مقاصد کے تحت فرمائے۔اول یہ کہ وہ منازل جسمانیہ سے شروع کرکے بتدریج منازل رُوحانیہ کی طرف قد م اُٹھائیں۔ ادنی ٰ سے آغاز کرکے اعلیٰ کی طرف بڑھنا سیکھیں۔ اورجسم سے شروع کرکے روح کی طرف بڑھیں۔حرام کا رُوحانی مفہوم گناہ اورحلال کاروحانی مطلب نیکی وپاکیزگی ہے۔ بَدی سے نفرت رکھو نیکی سے لپٹے رہو۔ (رومیوں ۱۲: ۹) دوم یہ کہ خُدا کی برگزیدہ قوم اورغیر اقوام میں امتیاز نظر آئے۔ اوررفتہ رفتہ رُوحانی واخلاقی امتیاز جسمانی اورمعاشرت امتیازات کی جگہ لے لے۔ اورکسی وقت وہ روحانی امتیاز خصوصیت کی قیود سے نکل کر عمومیت میں منتقل ہوجائے۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔ تاکہ لوگ تمہارے نیک کامون کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جوآسمان پر ہےبڑائی کریں۔(متی ۵: ۱۶ ) بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے ہیں نہ جتو۔ کیونکہ راستبازی اوربے دینی میں کیا میل جول ؟ یا روشنی وتاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح کو بلی یعل کے ساتھ کیا موافقت ؟ یا یماندار کا بے ایمان کے ساتھ کیا۔ اورخُدا کے مَقِد س کو بتوں سے کیامناسبت ہے ؟ (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴- ۱۶ ) یہ امتیاز تھا جو اُس معاشرتی وجسمانی امتیازات کی جگہ لینے والا تھا۔ اسی واسطے جلت وحرمت کے قومی اورزمانی اَحکام کا باطنی اوررُوحانی مفہوم خُدا وند مسیح نے یوں ظاہر فرمایا۔ جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔ مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(متی ۱۵: ۱۱ ) مقدس پطرس رسول نے بھی توریت کے حکم کے مطابق خُدا کی اُتاری ہوئی چیزوں میں حلال وحرام کا امتیاز ظاہر کیا تھا۔ لیکن خُدا نے فرمایا۔ کہ جن کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو اُنہیں حرام نہ کہہ۔ (اعمال ۱: ۱۱- ۱۵) ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب خُدا خود پاک ہے تو اُس نے ناپاک چیزیں کیسے پیدا کردیں؟ کیا کبھی سورج سے تاریکی برآمد ہوسکتی ہے ؟ ایک نقیض دوسرے نقیض کی علت ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں لہٰذا جب خُدا پاک ہے تو اُس نے کوئی شے بذاتہ ناپاک پیدا نہیں کی۔ اورحلت وحرمت کے احکام کا نفاذ محض فرمانبرداری اورپابندی کی رُوح بنی اسرائیل میں پیدا کرنے کی غرض سے ہوا تھا۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہرچیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکرگزاری کے ساتھ کھائی جائے۔ (ا۔ تمتھیس ۴: ۴) کوئی بذاتہ حرام نہیں۔ لیکن جو اُ س کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۴ ) پھر فرما تا ہے۔کھانا ہمیں خُدا سے نہیں مِلائے گا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں۔ (ا۔ کرنتھیوں ۸: ۸ ) کیونکہ خُڈا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۷ ) البتہ اگر ہمارے کھانے پینے سے کسی کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا اجتمال ہو تو اس نیت سے کہ کسی کوٹھوکر نہ لگے اورمحبت کا قاعدہ نہ ٹوٹے احیتاط لازمی ہے۔(رمیوں ۱۴: ۱۵ ؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۱۳ ) کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہوجاتاہے۔یعنی اس سے کہ تُونے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ (گلتیوں ۵: ۱۴ )۔

روزہ

جس روحانی مقصد سے روز کا حکم قوم یہود کو دیاگیا وہ بہت گہرا تھا۔ اس میں اییک توعابد کے جسمانی ایثار کی علامت پائی جاتی ہے۔کہ عابد اپنے معبود حقیقی کے عشق ومحبت میں یہاں تک محو ہوجائے کہ کوئی جسمانی فکر اُس کی اس عقید ت ومحبت پر غالب نہ آسکے۔


بلکہ اگر اُس کو اپنی تمام لذایذ وحظا یظ نفسانی اورآرئش وزیبا ئش جسمانی اپنے محبوب حقیقی کی قربان گاہ عقیدت ومحبت پر نثار کرنی پڑھائیں تو مطلق دریغ نہ کرے۔ اوروہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ آدمی صرف روٹی سے جیتا نہیں رہتا۔ بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نکلتی ہے (متی ۴: ۴) دوم یہ کہ بعض دفعہ عابد اپنے معبود کی طبیعت اورمرضی کے خلاف کوئی گناہ کرکے اُس کی ناراضگی کو محسوس کرتا ہے۔ اور اُس کی ناراضگی کے باعث طبیعت میں بے چینی۔اضطراب اور قلق اس درجہ بڑھ جاتا ہے۔ کہ کھانا پینا قدرتی طورپر اچھا نہیں لگتا۔اور انسا ن خور د ونوس اورآسائش وزیبا ئش کو یکسر ترک کرکے سوگوار حالت میں بیٹھتا ہے۔ جیسے داود نبی سے جب خلاف مرضی خُدا گناہ سرزد ہوا ور اُس نے خُدا کی ناراضگی کو محسوس کیا تو نہایت غمگین اوربے چین ہو کر روزہ رکھا اورتخت کو چھوڑ کر ٹاٹ اوڑھا اورفرض پر پڑا رہا۔ (۲۔ سموایل ۱۲: ۱۶- ۱۷ ) یوناہ ۳: ۵) سوم۔ حضرت ابوالبشر (آدم ) کے گناہ میں گر جانے کے باعث تمام بنی آدم مورثی ناپاکی میں مبتلا ہیں۔ اورگناہ تمام دُنیا پر مرض کی طرح غالب ہے۔ اوراس مرض نے زندگی کے شیریں چشمہ کو کڑوا کردیا ہے۔ اورانسان اپنی ذاتی کوشش وتدبیر سے پاک بننے میں قطعی قاصر ہے۔ اس واسطے جب تک اُن کے اس مرض روحانی کاکوئی حکیم وشافی ظاہر نہ ہو تب تک مریضان گناہ کا غمگین حالت میں رہنا اورروزہ رکھنا ضروری ہ۔ اورمرض کی حالت میں ویسے بھی کھانا پینا اچھا نہیں لگتا۔ اورخُداوند تعالیٰ نے زکریاہ نبی کی معرفت گویا مرض ِ گناہ کے حکیم حاذق خُدا وند مسیح کی خبردی اورفرمایا۔ کہ چوتھے اورپانچویں اورساتویں اوردسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اورخُرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا (زکریاہ ۸: ۱۹) اوریوحنا کے شاگرد اورفریسی جو روزہ کے بڑے پابند تھے مسیح کے شاگردوں کی شکایت کرنے لگے کہ وہ روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟ خُداوند مسیح نے اُنہیں جواب دیاکہ۔ کیا بَراتی جب تک دُولھا اُن کے ساتھ ے روزہ رکھ سکتے ہیں؟ (مرقس ۲: ۱۹) گویا مسیح کی آمد سے مریضان گناہ کے دلوں میں ایک زبردست اُمید اس بات کی جھلک رہی تھی کہ اب غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارے گناہوں کو مِٹانے والا ظاہر ہوگیا ہے۔ اب کیوں مایوس رہیں۔یسوع نے سُن کر اُن سے کہا تندرستوں کوحکیم درکار نہیں۔ بلکہ بیماروں کو میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہو ں(مرقس ۲: ۱۷) یہودی لوگ دیگر دینی رسوم کی طرح روزہ کی رَسم پر بھی ظاہرداری اورریاکاری کی رنگ آمیزی کو چکے تھے۔ اس لئے خُدا نے اُنہیں یوں ملامت کی۔ اورروزہ کی اصل غایت کو اُن پر بدیں الفاظ ظاہر فرمایا۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے ؟ ایسا دن ہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دیکھ دے۔ اوراپنے سَر کو جھاوکی طرح جھکائے۔ اوراپنے نیچے ٹاٹ اورراکھ بچھائے ؟ کیا تو اس کو روز ہ اورایسا دن کہیگا جو خُداوند کا مقبول ہو؟ کیاوہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اورجوئے کے بندھن کھولیں۔ اورمظلموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں ؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بھوکون کو کھلائے اورمسیکنوں کو جوآوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اورجب کسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے۔ اورتُواپنے ہم جنس سے رو پوشی نہ کرے (یسعیاہ ۵۸: ۵- ۷) اورخُدا وند مسیح نے بھی فرمایا۔ اورجب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناو۔ کیونکہ وہ اپنا مُنہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اَجر پاچکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تواپنے سر میں تیل ڈال اور مُنہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔۔۔(متی ۶: ۱۶- ۱۸) انجیل ِ مقدس میں روزہ کےمتعلق نہ تو تاکید ہے اور نہ امتناع بلکہ عابد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ جب ایسے حالات پیش آئیں جن سے روزہ کی نوبت پہنچے توروزہ رکھے۔ اورایسا ہی ہوتا بھی ہے پر کسی خاص دن یا مہینہ یا موسم کی تخصیص کی کوئی ہدایت نہیں اورنہ ہوتی چاہئے۔ روزہ ایمانداروں کی تمام زندگی پر حادی ہے۔ پس نئے عہد کی کامل شریعت میں آکر روزہ لازمی حکم نہ رہا اختیاری امر ہوگیا۔



عیدیں

یہودیوں کے لئے تین عیدیں مقر رتھیں۔ تُوسال بھر میں تین بار میرے لئے عہد منانا (خروج ۲۳: ۱۴ ) اوریہ عید یں اُن کی گذشتہ تاریخ کے واقعات کی یادگاریں تھیں۔

  • پہلی عید فسح تھی جو مارچ یا اپریل میں ہوتی تھی۔ یہ بنی اسرائیل کے مصر کی غلامی سے چھٹکارے کی یاد گات تھی۔ اس موقع پر بھنا ہوا گوشت بے خمیری روٹی اورکڑوی ترکاری کے ساتھ کھانے کے حکم تھا(خروج ۱۲: ۸) اس کے بعد ہی مسات روز تک خمیر کو گھروں سے جُدا کرنے کا حکم تھا۔ اسی واسطے اس کو عید فطیر بھی کہاگیا۔ کڑوی ترکاری کھانے سے مراد یہ تھی کہ جب جب یہ عید مَنائی جائے مصر کے گذشتہ دکھوں کو یاد کیاجائے۔ اورخمیر کو جُدا کرنے سے مراد تھی کہ گناہ وشرارت کو اپنے دلوں سے نکالیں۔عین اُس وقت جبکہ عید فسح کا موقع تھا خُداو ند مسیح نے اپنی جان تمام جہان کے اسیران گناہ کی خاطر دے کر انہیں شیطان اورگناہ کی شیدید غلامی سے آزاد فرمایا۔ (عبرانیوں ۲: ۱۴ – ۱۵) اوریہودی عید فسح کا تکملہ مسیح کی قربانی میں ہوگیا۔ اور کڑوی ترکاری کھانے کی رسم اوربھُنا ہوا گوشت کھانے میں مسیح کے صلیبی دُکھوں اوراُس کے جسمانی ورُوحانی صدمات کی پیشین گوئی موجود ہے۔پھر اُس نے روٹی لی اورشُکر کرکے توڑی اوریہ کہہ کر اُن کو دی کہ یہ میرا بدن ہے۔ جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔میری یادگاری کے لئے یہی کیاکرو۔ اسی طرح کھانے کے بعد پیالہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ میرے اُس خون میں نیا عہد ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے۔ (لوقا ۲۲: ۱۹ – ۲۰)۔ جس طرح فسح کی عید یہود کے لئے مصر کی غلامی سے آزاد ہونے کی یاد گاری تھی۔ اُسی طرح پاک عشا ء ربانی کی رسم ابلیس وگناہ کی غلامی سے چھٹکارے کی ابدی اوردائمی یادگار ٹھہری مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ پرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کرلو۔ تاکہ تازہ گندھا ہوا آٹا بن جاو۔ چنانچہ تُم بے خمیر ہو۔ کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا۔ پس آو عید کریں نہ پرانے خمیر سے اورنہ بدی وشرارت کے خمیر سے بالکل صاف دلی اور سچائی کی بے خمیر روٹی سے (۱۔ کرنتھیوں ۵: ۷- ۸) اوریوں ہو مختص بالقوم و زمان یادگار ایک عالمگیر اوردائمی روحانی عید میں منتقل ہوگئی۔
  • عید پنتی کوست یاہفتوں کی عید۔ یہ عید مصر کی غلامی سے چھٹکارے کے پچاسویں دن قائم ہوئی۔ ماہ مئی یا جون کے درمیانن میں ہوتی تھی۔ یہ ایک طرف مصر سے آزادی کی اوردوسری طرف شریعت الہٰی کے دئے جانے کی یادگاری تھی۔ اس میں یہودی لوگ اپنے گہہوں اورجو کے پہلے پھل خُدا کی لئے نذر کرتے تھے۔ یہ عید روح ہے وہاں آزادی ہے۔ (۲۔کرنتھیوں ۳: ۱۷ ) چنانچہ خُداوند مسیح کے صعود کے دس روز بعد روح القدس اسی عید کے موقع پر نازل ہوا تھا۔ اورروحانی معنی میں پہلے پھل وہ تین ہزار مرد تھے جنہو ں نے اپنے آپ کو خُدا کے نذر کردیا(اعمال ۲: ۴۱) انجیل میں اپنی شخیصت کو نذر کرنے کا حکم ہے (رومیوں ۱۲: ۱؛ کلیسوں ۱:۱ ؛ عبرانیوں ۱۳: ۱۵) عید پنتی کوست کا تکملہ رُوح القدس کے نزول پر ہوگیا اورروح القدس اُن پر آگ کی پھٹی ہوئی زبانوں کی صورت میں نازل ہوا۔ اور وہ غیر زبانیں بولنے لگے۔ ہر ایک اپنے اپنے مُلک کی بولی وہا ںسنتا تھا۔ یہ گویا الہٰی اشارہ تھا کہ خُدا کا مذہب قومی دائرہ سے نکل کر تمام اہل لغت کا دستور العمل بن جائے۔ اورپاک صحائف کے تراجم تمام دُنیا کی زبانوں میں ہوجائیں ۔تاکہ سب قومیں بلا امتیاز وخصوصیت اُن سے فائز المرام ہو سکیں۔ اورمذہب ِالہٰی تمام دُنیا کا مذہب ہوجائے۔

  • عید ِخیام یہ عید قوم یہود کی غریب الوطنی اوردشت نور دی کی یادگار تھی۔ستمبر یا اکتوبر میں ہوتی تھی۔ اُ ن کی مسافرت کے ایام اورخیموں کی سکونت کے دوران میں فیوض الہٰی وبرکات سمادی کے نزول کی یادگار تھی۔ آخر اُن کی دشت گردی اوربادیہ پیمائی ملک کنعان کی مستقل سکونت پر منتج ہوئی۔ اگرچہ اُن کی مسافرت کانشانہ ملک کنعان تھا۔ مگر حقیقت میں وہ ایک بہتر۔ یعنی آسمانی ملک کے مشتاق تھے۔ (عبرانیوں ۱۱: ۱۶ ) اور تمام ایمانداروں بندوں کا بھی وہی نصبت العین ہے۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خُداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔(۱۔ کرنتھیوں ۵: ۶)۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمے کا گھر جو زمین پر ہے گِرا یا جائے گا۔ تو ہم کو خُدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنایا ہوا گھر نہیں۔ بلکہ ابدی ہے(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱ ) اوراُسی آسمانی وطن کی بابت خُداوند مسیح نے فرمایا۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ کیونکر میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں (یوحنا ۱۴: ۲) مقدس پطرس رسول فرماتا ہے اپنے آپ کو پردیسی اورامُسافر جان کراُن جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو رُوح سے لڑائی دیکھتی ہیں (۱۔ پطرس ۲: ۱۱) ان تین بڑی عیدوں کے علاوہ دو اورچھوٹی عیدیں بھی تھیں۔ یعنی عید پوریم اورعید تجدید۔لیکن یہ خُدا کی مقرر کردہ نہ تھیں۔ بلکہ ایک ملکہ آستر کے زمانے میں اوردوسری یہوداہ مکابی کے وقت میں یہودیوں نے خود مقر ر کرلی تھیں۔ ان دونوں موخرا لذ کر عیدوں کا یروشلیم کی ہیکل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سب عیدیں جن واقعات کی یادگاریں تھیں وہ صرف بنی اسرائیل کی تاریخ سے متعلق تھے۔اور تمام دُنیا کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔اس لئے وہ تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کے قابل نہ تھیں۔ اس لئے وقت پورا ہونے اوراپنے حد رواج کے اختتام پر وہ بند ہوگئیں۔ اورہیکل کے بغیر اُن پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا۔ اس لئےجب ہیکل نہ رہی تو عید یں کیسے وہ سکتی تھیں۔ خُداوندمسیح کی قربانی اورمحبت کا تعلق تمام دُنیا کے ساتھ ہے (انجیل یوحنا ۳: ۱۶ ،خط ،۱۔ یوحنا ۲: ۲) الہٰذا اُس کے متعلق تمام واقعات کا تعلق عام طور پر تمام افراد عالم کے ساتھ ہے۔

طریق ِعبادت

ہم پیچھے کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ یہودی مذہب کا مرکز ہیکل تھی۔جس میں اُن کی تمام مذہبی رسوم اورعبادت قومی صوررت میں انجام پاتی تھیں۔ اورخُدا کا یہ حکم تھا کہ اگر تم غیر معبودوں اوربتوں کی پرستش کروگے اورنیک نیتی سےمیری عبادت بجانہ لاوگے۔ تو مَیں اِس ہیکل کو گرادوں گا اور تمہیں اس زمین سے نکال دوں گا۔ (۱۔ سلاطین ۹:۶-۹) اوراس انتظام سے اُن کے اندر عبادت الہٰی کی خالص رُوح پیدا کرنا مقصود تھا۔ اورجب وہ خُدا کی خالص عبادت کے کھنڈرات پر بت پرستی کی عمارت اُٹھانے لگے۔ اور غیرمعبودوں ک طرف مائل ہوئے۔ تو خُدا نے بھی اُنہیں ترک کردیا۔ اورایک بُت پرست کسدی بادشاہ نبوکدنظر کے ذریعے اسری ہوکر بابل لے جانے گئے۔ اورمقدس ہیکل بھی برباد کی گئی (یرمیاہ ۵۲: ۱۳) ایماندار یہودی اُس غریب الوطنی اوراسیری کے زمانہ میں بھی خُدا کو نہ بھولے اورکثرتین مرتبہ دن میں یروشلیم کی طرف رخ کرکے نماز کیا کرتے تھے۔ اورجب دانی ایل نے معلوم کیا کہ اُس نوشتہ پر دستخط ہوگئے۔ تو اپنے گھر میں آیا۔ اوراپنی کوٹھڑی کا دریچہ جو یروشلیم کی طرف تھا کھول کردن میں تین مرتبہ حسب معمول گھٹنے ٹیک کر خُدا کے حضور دُعا اوراُس کی شکر گذاری کرتا رہا۔ (دانی ایل ۶: ۱۰ ؛۱۔سلاطین ۸: ۴۸)اس بیان سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ ہیکل کے رُخ پر تین دفعہ دن میں نماز پڑھتے تھے۔ اوبانی اسلام نے رُخ کعبہ پر نماز گنا رنا یہودیوں سے سیکھا۔


اورکئی ماہ تک بیَت المقدس (ہیکل ) کے رُخ پر نماز ادا کرتے اورکرواتے رہے۔ اوریہود کی نماز عبرانی زبان میں ہوتی تھی۔ اہل اسلام بھی عربی زبان کے سِوا اورکسی زبان میں نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ اس سے اِسلام کا ایک قومی مذہب ہونا ظاہر ہے۔ بھلا اہل عرب تو اپنی ملکی زبان عربی میں نماز پڑھیں۔ دیگر ممالک کے مسلمان تو عربی نہیں ہیں۔ اُن پرعربی زبان کی قید لگانا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے ؟ کیا خُدا سوائے عربی زبان کے او رکوئی زبان نہیں جانتا ؟ مسیحیت کی عمومیت اور عالیگر ی کی یہ کیسی بین دلیل ہے کہ مسیحی ہر زبان میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔اور تما دُنیا کی زبانوں میں انجیل کا رواج پایا جاتا ہے۔یہ صرف مقدان آخداند کی کوئی اپنی ایجاد کردہ تجویز نہ تھی جس پر اُنہوں نے عمل کر لیا۔ بلکہ رُوح القدس ک ہدایت کے ماتحت انجیل مقدس کے دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمے کئےگئے (اعمال ۲: ۳-۸) اورزبان کی تخصیص کسی مذہب کے عالمگیر ہونے کی محدود مانع ہے۔اسی واسطے مقدس پولوس رسول بیگانی زبان میں دُعا مانگنے اورکلام کرنے و معیوب ٹھہراتا ہے۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۴: ۱-۲۳) یہودی ہیکل کے رُخ پر نماز پڑھتے تھے اور اہل اسلام کعبہ کے رُخ پر۔ لیکن خُداوند مسیح نے تخصیص جہت وسمت کا جھگڑا ہی ختم کردیا۔ جس میں ظاہرداری کا بھی امکان نہیں رہتا۔(ملاحظہ ہومتی ۶: ۵- ۶) یعنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کرکے پوشید گی میں دُعا مانگنے کا حکم دیا۔ شریعت موسوی پر عمل درآمد کے لئے ہیکل کا وجود لازمی تھا۔ اوربغیر ہیکل کے یہودی مذہب ایک قالب بے جان کی مثال تھا۔ خُداوند مسیح چونکہ عالمگیر مذہب کابانی ہوکر آیا تھا۔ اس لئے جب ایک دفعہ اُس کے شاگردوں نے ہیکل کی زیارت کے لئے اُس سے سوال کیا تو اُس نے فرمایا۔ میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا جو گرایا نہ جائے۔ (متی ۲۴: ۲) اور پھر سامری عورت نے آپ سے کہا کہ۔ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی۔اور تُم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر ستش کرنی چاہئے یروشلیم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا اَے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تُم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلیم میں۔۔۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اورسچائی سے کریں گے۔ (یوحنا ۴: ۲۰-۲۳) اورایمانداروں کےدلوں کو خُدا کا مَقِدس (ہیکل ) کہا گیا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۶- ۱۷) اورآپ کے قول کے مطابق ہیکل سلیمانی ۷۰ عیسوی میں برباد ہوگئی اور مذہب الہٰی خصوصیت کی قیود سے آزاد ہوگیا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل بن سکے۔

ہم بالتفصیل دکھاچکے کہ کس طرح اورکن معنوں میں خُداوند مسیح نے شریعت موسوی کی تکمیل فرمائی۔ اوراحکام خاص کس طرح اورکیوں متروک العمل ہوگئے۔ رد نہیں کئے گئے بلکہ اُن کی ضرورت نہ رہی۔ شباب کی آمد سے طفلی رد نہیں ہوجاتی بلک شباب کی کمالیت میں گُم ہوجاتی ہے۔جب بنیاد پر رد ے لگا کر عمارت کو انجام تک پہنچا یا جاتا ہے تو بنیاد رد نہیں ہو جاتی بلکہ چھپ جاتی ہے۔ توریت کی ناکامل شریعت مسیح کی کامل شریعت (یعقوب ۱: ۲۵) کی آمد پر رد وباطل نہیں ہوئی بلکہ اُس کی کمالیت میں چھپ گئی۔ اس واسطے کامل اورعالمگیر شریعت کےی رواج پانے سے موسوی ناکمل شریعت ایسے ہی غائب ہوگئی جیسے آفتاب کے طلوع ہونے پر چراغ گُل کردیا جاتا ہے۔ خُداوند مسیح نے شرع اِلہٰی کے حقیقی اورباطنی معنوں کی روشن کر دیا۔ اوراُس کے قالب میں ایک نئی رُوح پھونک کر اور اُس کے حجاب خصوصیت کو اُتار کر عمومیت کے وسیع میدان میں بے نقاب کرکے اورتمام دُنیا کے لئے نور ہدایت بنا کر دکھ دیا ہے۔ اب اس متروک شُدہ شرع موسوی احکام خاص پر عمل کرنے کے خلاف انجیل مقدس کی تعلیم ملاحظہ ہو۔ مگر اب جو تم نے خُدا کو پہچانا۔ بلکہ خُدا نے تُم کو پہچانا تو اُن ضیعف اورنکمی ابتدائی باتوں کی طرف کس طرح پھر رجوع ہوتے ہوجن ک دوبار ہ غلامی کرنا چاہتے ہو۔تُم دنوں اورمہینوں اورمقررہ وقتوں اوربرسوں کو مانتے ہو۔ (گلیتوں ۴: ۹- ۱۰) پس کھانے پینے یا عید یاکئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تُم پرالزام نہ لگائے۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں (کلسیوں ۲: ۱۶- ۱۷) جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا اوراُسے ہاتھ نہ لگانا (کلسیوں ۲: ۲- ۲۱) اوراُس عالمگیر نئے عہد کی آمد اوراُس کی شرع کامل کے رواج پانے پر نہ یونانی رہانہ یہودی۔


نہ ختنہ نہ نامختونی نہ وحشی نہ سکوتی۔نہ غلام نہ آزاد صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے (کلیسوں ۳: ۱۱) جیسے ایک معمار جب امکان کی محراب بناتا ہے اوراُس کے نیچے اینٹوں کا ایک عارضی سہارا لگاتا ہے اورجو نہی وہ محراب پختہ ہوجاتی ہے وہ ماتحت قالب کوگراد یتا ہے۔ اسی طرح توریت کے احکام خاص کامل مذہب اورکامل شریعت کے قیام پر متروک العمل ہوگئے۔

اَحکام عام

اخلاقی شریعت کے احکام عشرہ جو خُدا نے موسیٰ کو لکھے لکھا ئے سونپے (خروج ۳۱: ۱۸) اُنہیں کو احکام عام کہا جاتا ہے۔ اوریہ احکام ہیں جو ہرزمانے میں متبوع اورمطالعہ ہے اوررہیں گے۔ یہ احکام خاص کا مرکز اوررُوح رواں تھے۔ اور اِن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل صلاحیت موجود ہے۔جس طرح انسان کی جسمانی زندگی کے لئے خُدا تعالیٰ کے عطا کردہ طبعی وفطری سامان کافی ودانی ہیں۔ اسی طرح ہماری روحانی اورمجلسی زندگی کے لئے یہ احکام نہایت ضروری اورمفید ہیں۔ اِ ن اَحکام کا بیان (خروج ۲۰: ۱-۱۷ ) اورمفصل تشریض (احبار با ب ۱۹) میں موجود ہے۔ اورخُداوند مسیح نے ان کاخلاصہ بدیں الفاظ پیش کیا ہے۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اورپہلا حکم یہی ہے۔ اوردوسرا ا س کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔ (متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) جیسے توریت کے احکام خاص ظاہر بات سے تعلق رکھتے تھے۔اُسی طرح احکام عام انسان کی باطنی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔مسیح کی تمام تعلیم باطنیت سے متعلق ہے۔تمام مامور ان ربانی اورداعیان حقانی ایک ہی قومی مرکز کے گرد چکر لگاتے رہے۔ اوراپنی قومی حدود سے نہ تو وہ خود آگے بڑھے اورنہ ہی اُنہیں خُدا کی طرف سے ایسا ختیار ہی دیا گیا تھا۔ لیکن عہدجدید کے بانی ومبدا نے تمام دُنیا کو اپنا دائرہ عمل بنایا۔ اورتوریت کے قومی مذہب کی معیاد کو یوحنا تک محدود ٹھرایا۔ کیونکہ سب نبیوں اورتوریت نے یوحنا تک نبوت کی (متی ۱۱: ۱۳) شریعت اورانبیاء یوحنا تک رہے اُس وقت سے خُدا کی بادشاہت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۹) اورشریعت اخلاقی (احکام عام ) کے متعلق فرمایا۔آسمان اورزمین کاٹل جانا شریعت کے ایک نقطے کے مٹ جانے سےآسان ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۷ ،متی ۵: ۱۸- ۱۹) اورجس طرح ایک گورنر کے اختیارات کا زور صرف ایک ہی صوبے تک محدود ہوتا ہے۔اسی طرح انبیائے توریت کا اختیار اورمنصب قوم یہود سے باہر اثر انداز نہ ہوسکتا تھا اور نہ ہوا اُن کا یہ سلسلہ یوحنا اصططاﷺی ایک اُسی خصوصیت سے چلا آیا۔ ایک شہنشاہ کے اختیارت ایک گورنر کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہیں۔ چنانچہ اسی طرح عالمگیر عہد کے بانی کے اختیارات اورذاتی قابلیت انبیاء عہد عتیق سے بہت زیادہ ہونی چاہئے۔ اوردرحقیقت ایسا ہی ہے۔آپ نے اپنے آپ کو تمام انبیاء سابقہ سے بہر صورت افضل ظاہر کیا۔ مثلاً یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے۔(متی ۱۲: ۴۱) یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے (آیت۴۲) داود سے بڑا ہونا (متی ۲۲: ۴۲- ۴۵) یہاں وہ ہے جوہیکل سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۶) پیشترع اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔ (یوحنا ۸: ۵۸) موسیٰ پر فضیلت (عبرانیوں ۳: ۳-۶) فی الحال ہم مسیح کے فضائل کے متعلق ان چند امثلہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی مُناسب مقام پر مفصل بیان کریں گے۔

واضح ہوکہ خُداوند مسیح نے اپنی مختصر سی زمینی زندگی میں عالمگیر مذہب کی صرف بنیاد ہی رکھی۔ اورجس طرح توریت کا زمانہ مذہب کی ابتدائی حالت کا زمانہ تھا۔ اُسی طرح مسیح کا زمانہ مذہب الہٰی کی وسطی حالت کا زمانہ تھا۔ اورجس طرح توریت کے تمام انبیاء مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عالمیگر وسعت کی خبردے گئے تھے ،اُسی طرح خُداوند مسیح بھی اپنے بعد ایک دوسرے مددگار کے نزول وظہور کی خبردے گئے۔


مجھے تُم سے اوربھی بہت سی باتیں کہنی ہیں۔ مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دِکھائےگا۔۔۔۔ وہ میرا جلال ظاہر کرگے گا۔ اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا۔ (یوحنا ۱۶: ۱۲- ۱۴ ، ۱۵: ۲۶ ) اور مذہب الہٰی کو انتہائی کمالیت تک پہنچا نا رُوح القدس کا کام تھا۔جس کا خُداوند مسیح نے وعدہ فرمایا تھا۔ مذہب کی ارتقائی حیثیت سے توریت کا زمانہ ابتدائی مسیح کی زمینی زندگی کا زمانہ وسطی۔ اوررُوح القدس کا زمانہ انتہائی کمالیت کا زمانہ ہے۔ خُداوند نے اپنی زمینی زندگی میں عالگیر مذہب کی صرف بنیادیں رکھیں۔ اورکسی قدر خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں بدل دیا۔ مثلاً یہودی قوم تمام دیگر غیر اقوام کا نامختون بے دین۔ لامذہب اورگمراہ سمجھ کر اُ ن سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ اوربالخصوص یہودی لوگ سامریوں سے بہت زیادہ متنفر تھے۔ اور اُنہیں حقیر اورناچیز جانتے تھے۔ مگرمسیح نے سامریوں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا۔ اور اُن کی قدر کی یہود کو اُن کی ظاہری داری۔خود پرستی اورتعصب پر بارہا ملامت کی۔ایک رَحم دلِ سامری کی تعریف کی اورمغرور کاہن اورخود سرلادی کو ملامت کی (لوقا ۱۰: ۲۵- ۳۷) پھرایک دفعہ دَس کوڑھی آپ سے شفا پاکر گئے۔ اُن میں سے ایک نے جو سامری تھا لَوٹ کرخُداوند کی شکر گزاری ک۔آپ نے اُس کے ایمان کی تعریف کی (لوقا ۱۷: ۱۵- ۱۹)۔ ایک دفعہ جب سامریوں نے آپ کو اپنے گاوں میں ٹکنے نہ دیااورشاگردوں کا پارہ طیش بہت چڑھ گیا اور اُس گاوں پر آسمان سے آگ برسانا چاہتے تھے توآپ نے شاگردوں کو جھڑکا اورفرمایا ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے۔(لوقا ۹: ۵۱- ۵۶) اورپھر یوحنا ۴: ۷- ۲۶) میں سامری عورت کا مشہور قصہ سب جانتے ہیں۔ کہ مسیح نے کیسے محبت سے اُس کے ساتھ برتاو کیا تھا۔ اورسُورفینکی عورت جو غیر قوم تھی مسیح کے پاس آئی۔ آپ نے اُس کی مُراد کوپورا کرنے کے علاوہ اُس کے ایمان کی تعریف کی (متی ۱۵: ۲۱- ۲۸) اورایک دفعہ جب ایک غیر قوم صوبہ دار کے نوکر کو آپ نے شفا دی تو اُس صوبہ دار کے ایمان کی بدیں الفاظ تعریف کی۔میں نے ایسا ایمان اسرائی میں بھی نہیں پایا (لوقا ۷: ۹) اورآپ نے ایک جگہ جو انگور ی باغ کے ٹھیکداروں کی تمثیل کہی ہے۔اُس میں باغ سے مُراد یہودی قوم اور ٹھیکیداروں سے مُراد اُس کے رہبر اورکرتا دھرتا یعنی فقیہہ اورفریسی۔ اورباغ کو اُن ٹھیکیداروں سے چھین کر اَوروں کو دے دینے مُراد غیر اقوام کو دینے سے ہے۔ یہ مذہب کی عالمگیر ہی کی ایک تمثیلی پیشین گوئی تھی۔ (لوقا ۲۰: ۹- ۱۸ ،تمی ۲۱: ۳۳- ۴۵) پھر آسمان کی بادشاہت کورائی کے دانہ اورخمیر سے تشبیہہ دے کر مسیحیت کی عمومیت و ہمگیری کی خبردی (متی ۱۳: ۳۱-۳۳) غیرضیکہ مسیح نے ہر پہلو اورہر صورت سے شریعت کو کامل کیا۔ اورعالمگیر مذہب کی بنیادیں پختہ کرکے اُن پرعملی طورسے کام بھی کیا۔اگرچہ اس عظیم مہم کی راہ میں حاسداورمخالف طاقتیں دیوار بن کر حائل ہوئیں۔ مگر آپ کے عزم آہنی نے اپنی مقدس خدمت کے لے اس خادزار میں رستہ تلاش کرہی لیا۔ اوربے پنا ہ نفرت کے جنوبی دھارے جو یہود کے اعصا ب میں تیر رہےتھے۔ اورمخالف ومنافرت کا مہیب سمندر جواُن کے اعماق قلب میں طوفان خیز تھا آپ کے لئےپائے استقلال کو مثل نہ کرسکا۔ اگرچہ وہ ہمیشہ آپ کی شدید مصیبت مظلومیت اورموت میں اپنے سارہ اقبال کی فال نکالتے تھے۔ اوراُس نور کے سامنے اپنی پوشید ہ ذلتوں کو مجوب مصائب ونقائص کو بے نقاب دیکھ کراُس کو بجھا دینے کے ہر وقت درپے رہتے تھے۔ اوراپنی اِن مکروہ مساعی میں کامیاب بھ ہوئے لیکن پھر بھی جس پتھر کو معماروں نے رَدکیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوا۔ اُس نئے عہد کے بانی کونئے عہد کی بنیاد رکھنھے کے لئے اپنی جان دینی پڑی۔ اس لئے پہلا عہد بھی بغیر خون کے نہیں باندھا گیا۔ (عبرانی ۹: ۱۸ ) مطابق خروج ۲۴: ۱۸) ذر شریعت موسوی کی تکمیل کا تمام ترد اردمدار آپ کی پاک اور بے عیب عالمگیر قربانی پر تھا۔ اسی واسطے آپ مذہب الہٰی کو عالمگیر کی انتہائی حدود تک اپنی زمینی زندگی میں پہنچا نہ سکے۔ بلکہ انتہائی کمالیت کی ابتداء آپ کی موت قیامت اورصعود کے بعد ہوئی۔ کیونکہ آپ کی قربانی کے بغیر شریعت عتیقہ کا مل نہ ہوسکتی تھی۔ اور وہ آپ کی صلیب پر کامل ہوئی۔اور آپ نے کہا۔ پورا ہوا۔ اور سرجھکا کرجان دے دی۔ (یوحنا ۹: ۳۰) اورقبر دعوت پر کامل فتح پاکر اپنے حواریوں کو یہ وصیت کی کہ آسمان اورزمین کا کُل اختیار مجھے دیاگیا ہے۔ پس تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔


اور اُنہیں باپ اور بیٹے اوررُوح القدس کے نام پر بپتسمہ دو۔ اوراُنہیں یہ تعلییم دو کہ اب سب باتوں پر عمل کری ں جن کا میں ن تُم کو حکم دیا۔ دیکھو میں زمانے کے آخر تک ہمیشہ تمارے ساتھ ہوں (متی ۲۸: ۱۸-۲۰) اوراُس نے اُن سے کہا کہ تُم تمام دیان میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اوربپتسمہ لے وہ نجات پائے گا۔ اورجو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا(مرقس ۱۶: ۱۵-۱۶) اوراُن سے کہایوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔ اورتیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھیگا۔اوریروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے گی (لوقا ۲۴: ۴۶- ۴۸)۔

رُوح الُقدس کا نزول اور مذہب الہٰی کی

انتہائی کمالیت

ہم پیچھے دکھاچُکے کہ عہد عتیق نے مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عمومیت کی خبریں دیں چنانچہ وقت پورا ہونے پر خُداوند مسیح آیا۔ اوراُس نے اُسی مذہب کی ابتدائی حالت سے اُٹھا کر وسطی حالت تک پہنچایا۔ اوراپنی جان تمام جہان کے گناہوں کے لئے دے کر شریعت کی تکمیل فرمائی۔ لیکن دُنیا کی حدود تک اُس مذہب کو وسعت نہ دے سکے۔ بلکہ آپ نے بھی اپنے ایک اور قائم مقام یعنی رُوح القدس کے نزول کی خبر اپنے شاگردوں کو دی۔اور مذہب کو وسطی حالت سے نکال کر انتہائی کمالیت تک پہنچانا اپنے ہونے والے قائم مقام کے لئےچھوڑ گئے۔ اورزندہ ہوکر اپنے شاگردوں کو یہ وصیت کی۔اوردیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازل کروں گا۔ لیکن جب تک عالم ِبالا سے تُم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو۔ (لوقا ۲۴: ۴۹) اورقبر سے زندہ ہوکر چالیس دن تک اُن پر طرح بہ طرح ظاہر ہوتے رہے۔ لیکن صعود فرمانے سے پہلے پھر اُسی خبر کو دہرایا۔ لیکن جب رُوح القدس تُم قوت پاو گے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوئے (اعمال ۱: ۸) آپ کے ان الفاظ سے خوب روشن ہے کہ آپ نے مذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت کو رُوح القدس کے نزول کے ساتھ مشروط ٹھہرایا۔ اورحسب وعدہ اپنے صعود کے دس روز بعد ہی رُوح القدس کو اُن پر عید پنتی کو ست کادن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔ کہ یکایک آسمان سے ایسی آیا جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے۔ اُس سے سارا گھر جہاوہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اوراُن میں سے ہرا یک پر آٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اورغیر زبانیں بولنے لگے۔ جس طرح رُوح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی (اعمال ۲: ۱-۴) اوردیگر غیر مسیحی لوگوں نے جو لاکھوں کی تعدا د میں اُس وقت وہاں عید کے لئے جمع تھے یہ تمام ماجرا دیکھا۔ اورسب حیران اورمتعجب ہوکر کہنےلگے۔ دیکھو یہ بولنے والے کیا سب گلیلی نہیں ؟ پھر کیو نکر ہم سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے ؟(اعمال ۲: ۷- ۸) اوررُوح القدس نے نازل ہوکر اُسی وقت لوگوں کی ایک کثیر تعداد مسیح پر ایمان لے آئی۔ پس جن لوگوں نے اُس کا کلام قبول کیا اُنہوں نے بپتسمہ لیا اوراُسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں ہل گئے۔(اعمال ۲: ۴۱) اورمقلدان مسیح کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر کلام کے سننے والوں میں سے بہترے ایمان لائے۔ یہاں تک کہ مردوں (عورتوں کا شمار شامل نہیں ) کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہوگئی (اعمال ۴: ۴) اوررُو ح القدس نے جو اُن کو ملک ملک کی غیر زبانیں بولنے کی قوت بخشی۔


تویہ گویا خُدا کا ایک صاف وصریح اشارہ اس امر کا تھا کہ کلام ِ مقدس کے ترجمے دُنیا کی تمام زبانوں میں کردئے جائیں تاکہ کوئی بشر خُدا کی رُوحانی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے۔چنانچہ خُدا کی اسی ہدایت کے ماتحت مسیح کی شمع عشق کے پروانوں کے انجیل جلیل کے ترجملے دُنیا کی ہر زبان میں کردئے۔ اوریسعیاہ نبی کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ۔وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروں گا۔ اوروہ آئیں گے اورمیراجلال دیکھیں گے (یسعیاہ ۶۶: ۱۸) اورجس طرح یہودیوں نے خُدا وند مسیح کو دُکھ دیا اورستایا تھا اُسی طرح اب اُس کے شاگردوں کو ستانے لگے۔ اُن کو قیدوں میں ڈالنے اورطرح طرح سے ایذائیں دینے لگے۔تاکہ وہ مسیح کےنام کی منادی بند کردیں۔ لیکن مسیح کی محبت کا شعلہ اُن کے دل کے مذبح پر اور بھی تیزی سے جلنے لگا۔ اورسب سے پہلے مسیح کےخادم ستفنس نے جام شہادت نوش کیا۔ تاہم خُدا کا کلام پھیلتا رہا۔ اور یروشلیم مَیں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا۔ اورکاہنوں کا بڑا گروہ اس دین کے تحت میں ہوگیا (اعمال ۶:۷) اوروہ ہیکل میں اورگھروں میں ہرروز سکھانے اوراس بات کی خوشخبری دینے سے کہ یسوع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔(اعمال ۵: ۴۲)۔

مسیحیت غیر اقوام میں

آخر وہ وقت آگیا کہ یروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے(لوقا ۲۴: ۴۷) چنانچہ شاگردوں نے یروشلیم میں اپنی خدمت کو شروع کیا۔ اوررُوح القدس کی طاقت سےمعمور ہوکر بہت کا میابی حاصل کی۔ اب وہ یروشلیم سے باہر نکلتے ہیں۔ سامریہ میں جاتا ہے اورسامری لوگ اُس کے کلام سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں(اعمال ۸: ۴-۸) پطرس بھی غیر قوموں میں منادی کرنے لگا اوراُن پررُوح القدس نازل ہوا (اعمال ۱۰: ۴۵) اوراُنہوں نے بپتسمہ لیا۔ (آیت ۴۸) مگر جب رسولوں نے غیر اقوام کی طرف رُخ کیا اور اُنہیں خُدا کی بادشاہت کشادہ دلی سے شامل کرنےلگے تو یہودی مسیحی اُن پر اعتراض کرنے ہے اوراُن میں بڑی بحث ہوئی (اعمال ۱۱:۱-۲) اورپطرس نے دُن کو یوں جواب دیا۔ پس جب خُدا نے اُن کو بھی وہی نعمت دی جو ہم کوخُدا وند یسوع مسیح پر ایمان لاکر ملی تھی تو مَیں کون تھا کہ خُدا کوروک سکتا۔ وہ یہ سُن کر چپ رہے اورخُدا کی بڑائی کرکے کہا۔ توبےشک خُدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے (اعمال ۱۱: ۱۷- ۱۸) اوجب یہودیوں کی مخالفت ومخاصمت اوربغض و حسد کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگا تو پولوس اوربرنبادلیر ہوکر بولے۔ کہ ضرور تھا ہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنا یا جائے۔لیکن چونکہ تم اُسے رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو۔ تودیکھ ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (اعمال ۱۳: ۴۶) چنانچہ اُس وقت سے رسول دلیرانہ طورپر غیر اقوام میں مسیح ک گواہی دینے گئے اورپولوس رسول اپنے آپ کو غیر قوموں کا رسول کہتا ہے (اعمال ۱۸: ۶ ،رومیوں ۱۱: ۱۳،گنتی ۲: ۸- ۹۔ افیسوں ۴: ۱، ۸) اورخُدا وند مسیح کا وہ قول پورا ہوکہ۔۔جب رُوح القدس تُم پر نازلل ہوگا تو تم قوت پاوگے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔

(اعمال ۱: ۸) اورمذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت اورانتہائی کمالیت کا زمانہ رُوح القدس کے نزول سے لے کرقیامت کے دن تک وسیع ہے۔ چنانچہ پہلی صدیی عیسوی سے لے کر آج تک جو عالمیگر ترقی مسیحیت نے کی ہے وہ کسی منطقی دلیل سے ثابت کئے جانے کی محتاج نہیں۔ عیاں راچہ بیاں۔ قالب ِ دُنیا کے اعضائے رئیسہ اسی کے حلقہ بگوش ہیں۔ علمی ،عقلی ، مذہبی اورمالی ہر قسم کی ترقی بھی اُنہی کے ہاتھوں کو چوم رہی ہے۔ اورہر ملک وقوم میں مسیح کے گواہ تمام زبانوں میں انجیل مقدس کا اشتہار نہ لے رہے ہیں۔ خُدا وند تعالیٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت اور صداقت کو تمام رُوئے زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی قدرت کاملہ وحکمت بالغہ سے ذرائع وہ وسائل بھی ایسے زبردست مہیا کردے ہیں کہ اُس کی نشر واشاعت باآسانی تمام ہوسکے۔


مثلاً اُس نے اپنے خادموں کو پریس اورمطابع ایجاد کرنے کی حکمت بخشی۔ تاکہ وہ انجیل کو ہرزبان میں بہ تعداد کثیر تھوڑے عرصہ میں چھاپ کر تیار کریں۔ اورموٹر وریل گاڑی اورہوائی جہاز اوربحری جہاز وتاربرقی کے ذریعے انجیل ِمقدس دُنیا کے ہر حصے میں پہچا سکیں۔ ذرائع آمد ورفت کی آسانیاں ، اورپریس کی اختراع کچھ ایسے خُداداد عجیب وغریب سامان ہیں کہ جن سےبڑھ کر انجیل کی ترویخ وتوسیع اشاعت کے معاون بلنے محال ہیں۔ ریڈیو کی دریافت نے مبشران ِکلام کے حوصلوں کی اوربھی بلند کردیا ہے۔یہ ہیں وہ ذرائع جو مسیحیت کی ترویج اورتشہیر عامہ کے لئے خُدا تعالیٰ کی حکمت ودانش پر دلالت کرتے ہیں۔ آج اقوام ِعالم اورادیان دہر تمام امور میں مسیحیت کی تقلید پر جھکے ہوئے ہیں۔ اگرچہ زبان سے مسیح اورمسیحیت کو طعن ودشنام کرتے ہیں مگر باطن میں اُس کی تایثر سحرِ تخمیر کوخوب محسوس کرتے ہیں۔ اورمسیحیت کے آفتاب ِصداقت کے سامنے تمام دیگر مذاہب کے چراغ گل ہوئے جاتے ہیں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ سب اپنے اپنے مدھم عارضی چراغوں کو پھونک مار کے کر بھجادیں گے۔اور مسیحیت کے نیودرخشاں کی ضیا باریوں سے بہر ہوں گے۔ اورخُداوند مسیح کو جو تمام دُنیا کے پیر طریقت میں اپنے دلوں کےپرسریر آرا فرمائیں گے۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹکے۔ خواہ آسمانیوں کو خواہ زمینوں کا۔خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اورخُدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔(فلپوں ۲: ۱۰-۱۱)۔

مسیحیت ہند میں

اس وقت متعد و مذاہب پاکستان ہندوستان میں نظر آتے ہیں۔ اورروز بروز بہت سے مذہبی فرقے برپا ہوتے جاتے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں مذاہب اورہر فرقہ یہی دعوے ٰ کرتا ہے کہ وہ واحد عالمگیر الہیٰ مذہب ہے اوردوسرے مذاہب باطل اورانسانی اختراع ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب خُدا واحد مسلم ہے تو وہ ایک ہی خُدا اتنے متناقض ومتضاد مکاشفے کیسے دے سکتا ہے ؟ اگر تمام مذہبی کتابیں الہامی مان لی جائیں توماننا پڑیگا۔ کہ اُن سب کا الہام خُدا کی طرف سے نہیں ہوا۔ اورتعجب انگیز امریہ بھی ہے کہ عام طورپر مسیحیت کے باہر تمام مذاہب امور معاشرت کو بھی مذہب کا جز بنائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ کھانا پینا۔ پہننا اورچند امتیازی علامتیں رکھانا سب جسمانی باتیں ہیں۔ آج جو لوگ اپنے اپنے مذاہب کی عالمگیر ی کے دعویدارہیں۔وہ محض مسیحیت کی تقلید پر خالی ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اورعالمگیر مذہب جیسا ہم ثابت کرچکے مسیحیت سے باہر اورکوئی نہیں۔ انجیل ہی کے آفتاب فیضان صداقت کی ضیا بارویوں سے دُختر کشی۔رسم متی۔اورغلامی نسواں و یردہ فروشی کی ستم رانیوں کو سرپرپاوں رکھ کر بھاگنا پرا۔ اوروہی رسوم بوجو کو تاہی نظر وفکر وارخساست وانقباض طبائع مجموبہ عندالخواص نا باعث صداافتخار ومباہات اورموجب حسنا ت سمجھی جاتی تھیں۔ آج مسیحیت خواض عجیبہ اورتایثرات غریبہ کے طفیل معیوب ومذموم سمجھی جاتی ہیں۔اگرتُم تھا تو اس قدر کہ آہنسا پر مودھر ما کے خیالا ت مروج تھے۔ اوراگر ظلم تھا تو اس انتہا کا کہ ستی اوردختر کُشی کی قبیح رسُوم کو ثواب ِ عظیم سمجھا جاتا تھا۔ اوررحم وقہر کی ضدین پر بطور افراط وتفریط عمل در آمد ہوتا تھا۔ مسیحیت نے ہر شبعہ انسانیت میں مِن کل الوجود اعتدال ومیانہ روی کی عملی صورت میں رواج دیا۔ راجہ رام موہن رائے جب یونانی وعبرانی کی تعلیم حاصل کرنے کےلئےسیرا مپور گئے تو وہاں ولیم کیئری صاحب نے ستی کی رسم کے خلاف اُن کو اُبھارا اورآخر کار اُن دونوں کی کوشش سے سرکار اس رسم کے خلاف قانون نافذ کرنے پر مجبور ہوئی۔اورولیم کیئری صاحب کے تبلیغی اثر سے سرکار ہند نے ہندوستان کی قبیح رسُوم کو مثلاً دُختر کُشی وغیرہ کو قانو ناً بند کیا۔ جس طرح مکان کے اندر چراغ کے داخل ہونے سے چھت کے جالے۔دیواروں کی گرد آلودگی و گندگی شہتیروں کی بوسیدگی اورفرش کی ناہمواری وغلاظت صاف نظر آتی اور صاحب ِخانہ کو اپنے مکان کی ایسی ردی حالت سے نفرت وکراہیت پیدا ہوکر اُس کی قطع وبُرید اورصفائی کا فوری خیال پیدا ہوتا ہے۔ ا


اسی طرح مسیحیت جو ایک چرا غ معرفت الہٰی اورمفارق سفید ی وسیاہی ہے۔جب ظلمت کوہ ہند میں داخل ہوا تو ہر مذہب کو اپنے اپنے معائب ونقائس صاف صاف نظر آنے لگے۔ اوراُس چراغ ِمعرفت وحقیقت اورشمع فیضان صداقت کی آمد سے ہر کسی کو ا پنے اپنے گھر کی پڑگئی۔ اورمسیحیت کے اخلاق فاضلہ اورشمائل ِحسنہ کی روشنی میں ہر مذہب وملیت نے اپنے اپنے مذہبی عقائد ورسوم اوراخلاق وآداب کی کنز پیونت اورنئی نئی تاویلیں وتشریحیں کرکے مسیحیت کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردیا۔ اورتمام ہندوستان میں سوشل ریفرمیشن کے آثار نظر آنے لگے۔ اورمسیحیت نے نہ صرف پاکستان وہندوستان کے خارستان کو گُل وگُلزار بنایا بلکہ ہمہ اقوام عالم ہیں باوجود انتہائی مشکلات کے اپنی ترویخ واشاعت کےلئے میدان تلاش کرلئے۔ اس وقت انجیلِ مقدس کے تراجم قریب نوصد (۹۰۰) زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اوریہ ترجمے وتفسیریں دوسری صدی عیسوی سے ہی ہوتے آئے ہیں کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ آج مسیحیت کی تقلید برقرآن شریف بھی چند زبانوں میں چھپنے لگاہے تاکہ مسیحیت کی طرح اپنی عالمیگری کا دعوےٰ کرسکے۔ اورویدہ وغیرہ اول توجرمنی علماء کی جاز کاہیوں اورویدہ ریزیوں سے انگریزی اورچند دیگر زبانوں میں نظر آئے۔ اوراب چند مشرقی زبانوں میں بھی ملبس نظر آنے لگے ہیں۔ یہ سب مسیحیت کی خوش چینوں کے نتائج ہیں۔ آج سے پیشتر کبھی دیدوں نے سوائے سنسکرت کے کسی اورزبان کا منہ بھی دیکھا؟ کبھ یادنیٰ اقوام میں اُن کی منادی کی گئی ؟ اوراچھوتوں کی وید کے واعظ ہونے کا حق دیاگیا ؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اُ ن کو وید سُنا نا گناہ کبیرہ سمجھا گیا۔ آج کیوں اچھوتوں کو وید پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا ؟ آج کیوں گھر گھر میں وید پڑے ہیں ؟ آج کیوں شدھی سنگٹھن قائم ہیں ؟ صرف مسیحیت کی نظر فیض اثر ک نتائج ہیں۔ مسیحیت بغیر کسی سیاسی غر ض کے صرف خُداوند مسیح کے ارشادِ فیض بنیاد کی تعمیل کی خاطر اچھوت وپسماندہ اقوام کو وقت قابلیت اورسم وزر خرچ کرکے اپنے میں ملا کر اونچ نیچ کے مذموم امتیازات کو علام رہی ہے۔ ہندومسلم اقوام دوبڑے درخت ہیں۔ اورپسماندہ گروہ چھوٹی کمزور پودجو اُن کے سایہ میں صدیوں رہ کر نشوونما پانے کے قابل رہی مسیحیت اس کمزور اورنیم جان یود کو اُن کے نیچے سے اُکھاڑاُکھاڑ کر علیٰحدہ لگاتی اورتعلیم وتہذیب کے پانی سے سینچتی ہے۔ تاکہ وہ بھی اُن تناور درختوں کی طرح پرورش پاکے سر بلند سرفراز ہوجائے۔ انجیل تمام اقوام ِعالم کو ایک دوسرے کے بھائی اورایک ہی نسل وخاندان کے آدمی بیان کرتی ہے۔ اوراُس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تما م رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔ (اعمال ۱۷: ۲۶ ؛کُلیسوں ۳: ۱۱ ؛گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) اورمسیحیت ہی واحد عالمگیر مذہب ہے۔ اورتمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل اوراکمل۔قابلیت وصلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔کھانے پینے پہننے کے متعلق کوئی قید نہیں لگاتا۔ ذات پات کے مُنافرت ومخاصمت کے برخلاف سخت ِ امتناعی اَحکام لگاتا ہے۔مسیحیت ایک خورشید رخشاں ہے اورتمام دیگر مذاہب ستارے۔مسیحیت ایک بحڑ بیکراں ہے اورتمام دیگر مذاہب ندی نالے۔ آخر ان سب ندی نالوں اوردریاوں اورنہروں کو اُسی ایک سمندر (مسیحیت ) میں آکر گِرنا ہے۔ پھر ایک ہی گلہ اورایک ہی چرواہا ہوگا(یوحنا ۱۰: ۱۶ ؛فلپیوں ۲: ۱۰- ۱۱، افیسوں ۱: ۱۰ ؛متی ۲۸: ۱۸- ۱۹؛ اعمال ۴: ۱۲)۔

لوگ مذہب سے کیوں بیزار ہیں

آج کل لاکھوں مذہب سےبیزار نظر آتے ہیں اورایسے حضرات تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ اورمذہب کی جان کا فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اوراس بیجا ئیت کی اولیت کا سہرا بالخصوص اُن سیا سی پاریٹوں اورتحریکوں کے سر ہے جنہوں نے اس بیسویں صدی کے آغاز سے آج تک جنم لیا ہے۔ اوربالعموم ہندومذہب کی ناستک تعلیمات کے سر ہے۔ جس نے لوگوں کو خُدا اورمذہب کی طرف سے لاپرواہ کردیا ہے۔ اورتیسری وجہ مذہب سے بیزاری کی مغربی خیالات ونظر یا ت کی ہند ترویخ ہے۔ مذہب توانسانی فطرت کا ایک جُز وغیر منفک ہے۔


اوراُٗس سے پیچا چھڑانا فطرۃ کے خلاف جہاد ہے۔البتہ یہ بات سوفیصدی درست ہے کہ نقلی مذاہب جولوگوں کے خود ساختیں ضرور موجود انحطاط وتخریب کے ذمہ دار ہیں۔ اوراُن کا استیصال ہی تعصب۔ مخاصمت ومنافرت۔حسد وکنیہ اورخود غرضی کےوجود کے لئے جو اس وقت انسانیت کے شرائین میں خون حیات بن کر تیر رہے ہیں موت کا پیغام ہوسکتا ہے۔ لیکن اس اقدا سے پہلے نقلی واصلی مذاہب کی تحقیق ضروری ہے۔ ہم آگے چل کر مناسب مقام پر اس موضوع کو چھیڑ یں گے۔ فی الحال انسان کی مذاہبی بیزاری کے موجبات کا سُراغ لگانا ! نسب اورضروری ہے۔

وجہ اول

لوگ چاہتے ہیں کہ خُدا ہماری حسب منشاء ہو۔ جو ہم چاہیں وہ فوراً کرے۔ اورجدھر چاہیں اُسے پھیرلیں۔ وہ ہماری جائز وناجائز خواہشات کے پورا کرنے میں ذرا پس وپیش نہ کرے۔ اگر آدھے لوگ چاہیں کہ بارش نہ ہو اورآدھے چاہیں کہ بارش ہوتو خُدا اُن واحد میں ان دونوں کی خواہش کو پورا کرے۔ لوگو ں نے خُدا کو لیجسلیٹو اسمبلی کا ممبر سمجھ رکھا ہے۔جس کا انتخاب رائے عامہ پرمنحصر ہے۔ اورجس کی عبادت مشروط اس بات سے ہے کہ پہلے وہ اُن کی ہر طرح کی نیک وبدخواہشات کوبلاحیل وحجت پورا کرے۔ چونکہ حرص وہا کے بندوں کی نفسانی خواہشات کاجواب خُدا کی طرف سے دیا نہیں جاتا۔ اس لئے وہ جھٹ ایسے یک طرفہ خُدا سے مُنکر ہوکے کسی ایسے نئے خُدا کو ایجاد کرنا چاہتے ہیں جو ہر وقت اُن کی ہاں میں ہاں ملایا کرے۔

وجہ سوم

مذہبی احکام اورتعلیمات کا رُوحانی نکتہ نگاہ بہت بلندو بالا ہے۔ اسل ئے عامتہ الناس اُن تعلیمات کوصرف سُن اورپڑھ کر ہی محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔ اُن پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ انسان کا عملی پہلو بہت پست اورکمزور ہوچکا ہے۔ اب ان مذہبی درس وتدریس اورقوانین پر عمل کرنا محال وناممکن سمجھ کر مذہب سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُس تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُ س تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کی فضیلت کا اقرار اوراپنی قابلیت کا انکار ہوتا۔ لیکن یہا ں مذہب کا انکار اوراپنی قابلیت کا اقرار کیاجاتا ہے۔ یہ تو اُس شخص کا ساحال ہوا۔ جو کسی اُستاد کامل کے آگے زانوئے شاگردطے کرنے سے توعار کرے اورجب علم حاصل نہ ہوسکے تو کہے کہ علم فضول شے ہے اواس کاوجود و عدم برابر ہے۔


وجہ چہارم

لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں خُدا دِکھاو بغیر دیکھے ہم اُس کوکیسے مان لیں؟ اگر خُدا اپنی شان ِکبریائی والوہیت کےساتھ نادیدہ وپوشیدہ اورفوق افلیم وادراک رہے تو لوگ اُس کو کسی دیدنی وظاہری صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ دیدنی صورت میں ظاہر نہ ہو تو اُس کی ہستی کے متعلق شکوک میں پڑاکر آخر اُس سے مُنکر ہوجاتے ہیں۔ اوراگروہ کسی دیدنی مظہر میں تجسم اختیار کرکے مرئی ومجسم ہوجائے اورانسان کی فہم وسمجھ کے مطابق اُس کی خُدا بینی کی خواہش کا جواب دے تولوگ اُس کو محض ایک خُدا رسیدہ اور راستباز آدمی سمجھ کر اُس کی الوہیت وخُدا ئی کا یکسر انکار کرتےہیں۔ اب تبائے ان دوصورتوں کے علاوہ اورکونسی تیسری صورت ممکن ہے جس سے خُدا انسان کی آرزوں کو پورا کرسکے۔

وجہ پنجم

درحقیقت لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون مُرکب سے بیزار ہیں۔ آپ یہ خوب ذہن نشین کر لیجئے کہ امور معاشرت ہرگز مذہب کا جُز نہیں ہیں۔ جس طرح لوہا زر نہیں اورنہ زر لوہا ہے۔ اسی طرح معاشرت مذہب نہیں اور مذہب معاشرت نہیں ہے۔ روٹی سے بھوک مٹتی اورپانی سے پیس تو بجھتی ہے مگر جس طر ح روٹی سے پیاس نہیں بجھ سکتی اورپانی سے بھوک دور نہیں ہوسکتی۔ اُسی طرح معاشرت کو مذہب کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی مذہب معاشرت کی جگہ لے سکتا ہے۔ دونوں کے اغراض ومقاصد میں بعد المشر قین ہے۔ کھانا پینا اورپہننا (امور معاشرت) حوائج جسمانیہ ونفسانیہ کی آسودگی کے لئے ضروری ہے۔ اورمذہب حوائج رُوحانیہ وخواہشات اخلاقیہ کی تسکین وآسود گی کا ذمہ دار ہے۔ دونوں کے مقاصد میں مغائرت وتفادت اظہر ہن الشمس ہے۔ خُدا کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے خُداوند نے ہر ایک چیز خاص مقصد کے لئے بنائی (امثال ۱۶: ۴) دراصل امُور معاشرت کو غلطی سے مذہب کا جز سمجھ کر لوگوں نے تمدنی معاشرتی اورسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مذہب کی آڑ میں جھگڑے کھڑے کرکے مذہب کو بدنام کررکھا ہے۔ اوراسی قسم کے جھگڑے ہمارےملک میں لا انتہا قتل خون اور غارت گری اورمنافرت کا صریح سبب ٹھہرےہیں۔ خون کرواتے ہیں۔ ان میں سے ایک سور اورگائے کا مسئلہ ہے حیوانی جانوں کی حفاظت کی خاطر انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ اگرحیوان کو ن مارنا گناہ صغیرہ ہے تو انسان کو مارنا گناہ کیسی نامعقول فلاسفی ہے۔ جب تک کھانے پینے اورمختلف ظاہری امتیازی نشانات رکھنے کو مذہب کا جُز سمجھا جائیگا تب تک ہماری سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔ اوراتحاد تعاون واشتراک کے الفاظ ایک قالب ِمردہ کی طرح رُوح ِمعافی سے تاابدخالی رہیں گے۔ ان الفاظ کو اگر شرمندہ معانی بنانا مقصود ہے تو معاشرت کو مذہب سے جُدا کرکے دونوں میں امتیازی حدولگادو۔ افسوس کا مقام ہے کہ غیر مسیحی اکثریت کا ظالمانہ دُنیوی اقتدار انجیل کے ہمہ گیر وہمہ رَس رُوحانی مذہب کو گوشہ لحد میں لٹادینے کے لئے محض اس واسطے تُلا ہوا ہے کہ وہ معاشرت کو مذہب کو جُز نہ سمجھتے ہوئے دونوں کو الگ الگ رکھتا ہے۔ انجیل کا فرمان ملاحظ ہو۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں۔ اوراگرکھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸؛۱۳) کوئی چیز بذاتہ ِ حرام نہیں۔ لیکن جو اُس کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ اگر تیرے بھائی کو تیرے کھانے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تو محبت کے قاعدے پر نہیں چلتا۔(رومیوں ۱۴: ۱۴- ۱۵) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۱۴:۱۷) کیونکہ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکر گزاری کے ساتھ کھائی جائے۔(۱۔ تمیتھیس ۴:۴)۔


جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گُزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا۔ اُسے ہاتھ نہ لگانا۔(کُلسیوں ۲: ۲۰- ۲۱) پھر ختنے کے امتیازی نشان کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ نہ ختنہ کوئی چیز ہے۔ نامختونی بلکہ خُدا کے حکموں پر چلنا ہی سب کچھھ ہے (۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ ؛کلسیو ں۳: ۱۱) طبی نُکتہ نگا ہ سے گائے وسور کے گوشت اورحقہ نوشی کے فوائد یا نقائص کچھ ہی ہوں پر۔طبعی ومعاشرتی معاملات پر رائے زنی کرنا مذہب کاکام نہیں۔ شراب کو اگر مذہب ناجائز قرار دیتاہے تومحض اس لئے کہ اُس کے معائب ونقائص کا پلڑا اُس کے فوائد کی بہ نسبت بہت بھاری ہے۔ انسان شرابی ہوکر بدکلامی کرتا۔ گالیاں دیتا لڑائی دنگا کرتا۔ اورمدہوش ہوکر خُدا کی عبادت سے اضطراری طورپر غافل ہوجاتا ہے۔ لیکن گوشت خوری وحقہ نوشی سے نہ تو مدہوش ہوکر عبادت میں غفلت کرسکتا اورنہ ہی اُن سے کسی قسم کی بے ہوشی طاری ہوکر کسی ناجائز حرکت یا فعل کے صدور کا امکان ہوتا ہے۔اگر شراب نیک نیتی سے حالات پیش آمد ہ کے مطابق جائز فائدہ کے حصول کے لئے (مثلاً نمونیہ ) استعمال کی جائے۔ تو کم ازکم مسیحیت اُس کی مخالف نہیں ہے۔ دیکھئے سنکھیا شراب کی بہ نسبت زیادہ خطرناک اور مہلک شئے ہے۔ لیکن ہر مذہب کا مریض اطباء سے دوا کے طورپر لے کر استعمال کرتا ہے۔ صرف نیت کی نیکی یا بدی کی بات ہے۔ اگر کوئی نیک نیتی سے سنکھیایا استعمال کرےتو مرض سے شفا پاتا ہے۔ اوراگر بدنیتی(خود کُشی کے لئے ) سے استعمال کرے تو نتیجہ ہلاکت ہوتی ہے۔ اوریہی گناہ ہوتا ہے۔ یہی حال شراب کا ہے ہر شئے میں حدس ے تجاوز کرنا مضرت رساں ہے۔اور امور معاشرت میں یہ اصول بالکل درست ہے۔ پھر ذات پات اوراُونچ نیچ کے امتیازات مسیحیت کے باہر تمام مذاہب میں خاص اُبھری ہوئی جگہ رکھتے ہیں۔ اس امتیاز پسندی کے اختلال وخبط نے مذہبی دیوانوں کے دما غ کے ساتھ بہت بُرا سلوکک کیا ہے۔ اورہر منصف مزاج شخص اپنی ضمیر سے جنگ کئے بغیر ان کو انسان نمادرندے کہہ سکتا ہے۔ دُنیا کے اس حرماں نصیب برصیغر کی تباہ حالی۔ عدم تعاون عدم ، اشتراک اورعدم مساوات کی حمایت کرنے والی یہی ذات پات کی واہیات ریت ورسوم ہیں۔ یہاں ہر پیشہ ایک مستقل مذہب کا قائم مقام ہے۔ یہ سب معاشرتی امُور ہیں۔ مذہب کے اند ان کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اورمسیحیت واحد حقیقی مذہب ہے جو ذات پات کے امتیازات کی جان پر ذاتحہ پڑھنے میں نہایت سنگدل واقع ہوا ہے۔ ملاحظ ہو۔ اُٗس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہرایک قوم تمام رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی (اعمال ۱۷: ۲۶) نہ یہودی رہانہ یونانی نہ ختنہ نامختونی نہ وحشی ، نہ سکوتی نہ غلام نہ آزاد۔ صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے۔(کلسیوں ۳: ۱۱ ) اورتم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی۔نہ کوئی غلام نہ آزاد نہ کوئی مُروز عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) مسیحیت کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب آقا وغلام اورمحمود ایاز کو سلک ِاتحاد واشتراک میں منسلک کرکے ایک ہی ضف میں کھڑا کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔ البتہ آج ہر مذہب مسیحیت کی اُٗدھوری اورناتمام سی نقل ضرور اُتا ر رہا ہے۔ تاہم نقل نقل ہی ہے اوراصل اصل۔

کچھ سال ہوئے ایک شخص میرے ساتھ مذہب کے متعلق بات چیت کرنے آیا۔ اور اُس نے حسب معمول گوشت خوری کے جواز وعدم جواز کے متعلق گفتگو چھیڑوی۔ مَیں اُس بحث کا خلاصہ ! اس جگہ پیش کرتا ہوں تاکہ معاشرت و مذہب کے موضوع پر زیادہ روشنی پڑے۔

ہندو صاحب۔ صاحب تُم لوگ گوشت کھاتے اور جیو ہتیا جیسے مہاں باپ کے مرتُکب کیوں ہوتے ہو۔

راقم۔ پہلے میرے سوالات کا جواب دیں۔ پھر مَیں آ پ کے سوال کا ہعقول اورتسلی بخش جواب دوں گا۔


ہندوصاحب۔ بہتر ! فرمائے۔

راقم۔ آپ انسانی اجسام۔حیوانی اجسام اورنباتی اجسام میں کیا فرق مانتے ہیں ؟

ہندوصاحب۔ انسانی اجسام کو ہم ارواح کے اصلی گھر مانتے ہیں۔ اور حیوانی ونباتی اجسام کو قید یں۔۔ یا یوں سمجھیں کہ جسم انسانی کرم حونی اورجسم حیوانی ونباتی بھوگ جونی ہیں۔ جب رُوح انسانی جسم میں رَہ کر بُرے اعمال کرتی ہے۔ تو وہ اُن کا پھل بھوگنے کے لئے حیوانی ونباقی اجسام (قیدوں ) میں ڈالی جاتی ہے۔

راقم۔ بہت خوب ! مَیں نے آپ کا مطلب سمجھ لیا ہے۔ اب مجھے یہ بتائے کہ کسی قیدی کو قید سے رہا کر نا یا کروانا رَحم میں داخل ہے یا نہیں ؟

ہندو صاحب۔ جی ہاں ! قیدیوں اورمظلوموں پر رَحم کرنانہایت مستحسن فعل ہے۔ اسی واسطے ہم لوگ اندھوں لیگڑوں اورپاہجوں اور حیوانا ت پررحَم کرتے ہیں۔ ہمارے گئو شالہ اوریتیم خانے اس بات کا بین ثبوت ہیں۔

راقم۔ بہت بہتر ! تو اب اپنے سوال کاجواب سنئے۔ ہم نباتا ت کو کھاتے ہیں تاکہ قیدی ارواح کو نباتی اجسام سے آزاد کریں۔ لیکن وہ ارواح نباتی قیود سے چھوٹ کر فوراً حیوانی اجسام میں داخل ہوجاتی ہیں۔

ہماری ہمدردی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اُٗنہیں حیوانی قیود میں رہنے دیں۔ چنانچہ ہم حیوانات کوکھا لیتے ہیں۔ حیوانی قیود سے نکل کر ارواح انسانی قالبوں میں یعنی اپنے اصلی گھر وں میں آجاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے۔ کہ ہم انسانوں کو نہیں کھاتے ہم اُن قیدیوں کو آزاد کرکے اُن کے اصلی گھر وں میں پہنچا کروم لیتے ہیں۔ آپ بھ یاس پَر م پکار میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ یعنی نباتات کو کھاتے ہیں۔ لیکن پہلی ہی منزل پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اورہم اُن کی آزادی کی خاطر ایک اورکٹھن منزل کو طے کرتے ہیں۔ کہو صاحب پھر گوشت کھانا کیسے پا پ ٹھہرا ؟

ہندو صاحب۔ واہ صاحب ! آپ نے نئی فلاسفی سے اس مسئلہ کو حل کیا۔ لیکن میرا دل قائل نہیں ہوا۔ ہم تو آہنسا پر مود ھرما کلے قائل ہیں۔

راقم۔ خیر آپ قائل رہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی حمایت سے آپ کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

ہندو صاحب۔ وہ کیسے ؟

راقم۔ اول تو یہ بُدھ مت کی تعلیم ہے۔ اورویدوں کے صریح مخالف ہے۔ ویدوں میں اسومیدھ یگ گئو میدھ یگ اورنرمیدھ یگ(انسانی قربانی ) کے احکام صاحب موجود ہیں۔ اوراُن پر صدیوں عمل در آمد ہو تا رہا ہے۔ مغربی مسیحی علما ء کے علاوہ ڈاکٹر راجندرلال مترجیسے وحدی العصر اوریگانہ روز گار سنسکرت عالم نے بھی ویدوں کی کامل تحقیق موشگافی کے بعد صاف اقرار کیا۔


کہ ویدوں میں جانورں کی قُربانی کا ویسا ہی حال ہے جیس اتوریت کی کتاب احبار ہیں( دیکھو ڈاکٹر مذکور کی تصنیف انڈو آرنیس ) بُدھ مذہب کے عروج اورہمہ گیروہمہ ہیں رسوخ واثر نے ان ویدوں کی تعلیم کو زوا پہنچایا۔ اُسی وقت سے یہ قُربانیاں توبند ہوچکیں۔ لیکن ویدو ں میں اُن کے احکام اب بھ یاُصی طرح موجود ہیں۔

دوم۔ لیکن اب بُدھ کی تقلید سے بھی آپ کادامن چھوٹ نہیں سکتا۔ یعنی آہنسا پر مودھر یا کے اصول پر عملدر آمد قطعاً محال ہے۔ دیکھئے پانی اورہوا اور نباتا ت میں بیشمار جیو موجود ہیں لیکن آپ ان کو استعمال کرتے ہیں۔ پلیگ کے دنوں میں کروڑوں چوہے عدم آباد پہنچائے جاتے ہیں۔جراثیم کی برکت سے ملیریا اورہیضہ وتپ دق وغیر امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے امراض میں مریض کو دوادینے یا ٹیکہ کرنے سے یہی مقصد ہوتا ہے کہ بیماری کے جراثیم دوا کے زہر سے ہلاک ہوجائیں۔ کپڑوں یا بالوں میں جوئیں پڑجائیں یا گند ے پانی پر مچھر پیدا ہوجائیں۔ یا مکھیاں ہیضے کے ایام میں بڑھ جائیں تو اُن کو فنا کردیا جاتا ہے۔ زہر یلے جانوروں کو ہلاک کیاجاتا ہے۔ ٹڈی دل کلے انڈوں بچوں کو زندہ دبا دیا جاتا ہے۔ کیا کوئی آریہ یا ہندو ڈاکٹر اس خلاف فطرہ اصول پر عمل کرسکتا ہے ؟ ہاں ! اگر حکمت وطبابت کو بند کردیا جائے۔ اور انسانی زندگی کی قیمت ایک صفر کے برابر سمجھی جانے لگے تو یہ ہوسکتا ہے۔

سوم۔ آپ رُوح کو قدیم اورناقابل فنا سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں گوشت خوری سے جیو ہتیا تو نہیں البتہ پر کرتی (مادہ ) ہتیا ہوسکتی ہے۔ پھر آپ پر کرتی کو بھی قدیم اورغیرفانی مانتے ہیں۔ تو اس صورت میں جیو ہتیا پر کرتی ہتیا دونوں ناممکن ہیں۔ کیونکہ ارادہ وراواح ناقابل فناہیں۔

چہارم۔ جیو ہنسا خلاف فطرہ نہیں بلکہ موافق فطرہ ہے۔ ایک زندگی کا قیام دوسری زندگی کی فنا پر منحصر ہے۔ مثلا ً بڑی مچھلیاں چھوتی مچھلیوں کو کا کر جیتی ہیں۔ اس طرح تمام موجودات پر غور فرما لیجئے۔

پنجم۔ اگر کہو کہ یہ قانون صرف حیوانات کے لئے ہے انسان کے لئے نہیں۔ تو اول تو اس میں یہ قباحت آئے گی کہ انسان بھی حیوانات میں شامل ہے۔ وہ حیوان ناطق مسلم ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ امر قابل غور ہے۔ کہ دُنیا کے بعض حصص ایسے سرد ہیں کہ وہاں نباتی زندگی قطعی ناپید ہے۔ مثلاً سائبیریا کے میدان کے باشندے اوراسکمیو لوگ صرف گوشت کھاتے اورکھالیں پہنتے ہیں۔ اب اپ کا یہ استقرا ٹوٹ گیا کہ انسان کے لئے گوشت کھانا گناہ ہے۔ کُل انسانوں کے لئے گوشت خوری گناہ ہے یہ غلط ہے۔ اگر کُل کی جگہ بعض استعمال کریں تو خیر ہ بعض انسانوں سے ہندو آریہ مُراد لے لیں گے۔ یعنی انسان کُلی کے بعض افراد (ہندو) کے لئے گناہ ہے۔ اگر آہنسا پر مود ھر ما۔ خُدا کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ تو ا س پر عمل در آمد ناممکن ہے۔ اورنیچر کی یہ کیا دل لگی ہے کہ بعض اقوام (اسکیمو وغیرہ) کاجینا صرف گوش خوری ہے۔ مسیحی کھانے پینے کو مذہب کو کوئی حصہ نہیں سمجھتے۔ مذہب رُوحانی زندگی سے متعلق ہے ہ کہ جسمانیات سے۔ اگر ہم گوشت کھائیں تو مذہب کی خلاف ورزی نہیں اور اگر نہ کھائیں تو مذہب کی اطاعت نہیں۔ حکم دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک امر دوسر انہی جیسے گناہ نہ کر و یہ نہی نہے۔ نیکی کر و یہ امر ہے۔ لیکن گوشت کے متعلق یہ دونوں قسم کے حکم نہیں ہیں۔ اس لئے امور معاشرت اختیاری باتیں ہیں اورمذہب کاجُز نہیں ہیں۔ پس تُم کھاو یا پیو یا جو کچھ کرو۔ سب خُدا کے جلال کےلئے کر و(۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳۱)

وہ صاحب ان دلائل سے قائل ہوکر چلے گئے۔ اورپھر کبھی درشن نہ دئے۔ میرا مقصد یہ نہ تھا کہ اُس کو دلائل سے ہرادوں۔ بلکہ صرف اظہار ِحق سے غر ض تھی۔ا ور مَیں چاہتا تھا کہ وہ معاشرت ومذہب کی تفادت ومغائرت کو سمجھ لے۔ اب مَیں پھر۔ پہلے جملے کو دوہر اتا ہوں کہ لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون ِمرکب سے بیزار ہیں۔



ششم۔ حضور خُداوند مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔(متی ۲۸: ۱۹) اورکہ تُم زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔(اعمال ۱: ۸) جب اُس قادر ہستی نے یہ حکم د یا تو اس کی تعملی کے لئے اس قسم کی آسانیاں بھی بہم پہنچادیں کہ جن سے مذہب الہیی کی تردیج واشاعت ہر جگہ بلاوقت ہوسکے۔ اورمبشر ان انجیل کے ذہنوں کو اس قدر روشن کردیا کہ وہ دنیا کے گمنام حصص اوردردراز اقالیم وممالک کی دریافت میں کامیاب ہوگئے۔ اورتمام ملکوں کے راستے کھل گئے اور ذرائع آمدورفت نہایت آسان ہوگئے۔ اورچھاپہ کی مشین کی ایجاد سے انجیل کی اشاعت کو بہت مدد ملی۔ اورچھاپہ کی ایجاد سے وہ تمام مشکلات جو مختلف فلسفوں کی تردیج وتشہیر عامہ کی سیدراہ تھیں مکیسر دور ہوگئیں۔ اورذرائع سفر کی آسانیاں ایک ملک کے فلسفوں وخیالوں کو دوسرے ملکوں میں لے گئیں۔ پہلے ایک دوفلسفوں سے ایک ذ ہن آشنا ہوتا تھا۔ کیونکہ ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں ایک توگِراں قیمت پر مکتی تھیں۔ اورپھر دوسرے ممالکک کے راستے نامعلوم ہونے کے باعث ہر جگہ مروج نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لئے بہت کم لوگ اُن سے واقف ہوسکتے تھے۔ اورلوگ غیر ممالک کے مذہبی فلسفوں سے نابدوبے نصیب رہتے تھے۔ اب سینکڑوں فلسفوں اورنظریوں نے دماغ کو متعدد مختلف خیالات کی گھڑ دور کا میدان بنارکھا ہے۔ اورمختلف فلسفوں اورعلوم نے باہم اخذاب وتجذیب اورئاثر وتاثیر کرکے ایک نیا خمیر اُٹھایا ہے جس کو مذہب سے بیزاری کہنا درست ہے۔ اب لوگ اس شش وپنج میں ہیں کہ کس خیال یا نظر یہ کو اپنائیںاور کس کوتر ک کردیں۔ اتنے کثیر خیالات کاموازنہ ومقابلہ کرکے کسی صحیح عقیدہ کی بنیاد رکھنا لوگوں کے لئے مشکل ہورہا ہے۔ آخر انسان کامحدود دماغ کیا کرے۔ اس ذہنی کشمکش وبے چینی سے لاچار ہوکر لوگ مذہب سے بیزار ہو رہے ہیں۔ عقائد کی روز افزوں کثرت بھی مذہب کی بے قدری کو موجب ہے کیونک جب قدر کسی چیز کی زیادتی ہواُسی قدر لوگ اُس کی بے قدری کرتے ہیں۔

مذہبی بیزاری کا علاج

ہم ماس بیان کے آغاز میں ذکر کرچکے کہ مذہب انسان کی فطرت کا جزو اعظم ہے۔ اوراُس سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔ جب لوگ خُدا کو چھوڑ دیتے ہیں تو اُن کو ایک عوضی معبود ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ ویو سماجیوں نے خُدا کو چھوڑا تو اُنہیں ستیہ نند اگنی ہو تری موجد یود سماج کے منگین مجسمہ پر جبین نیاز رگڑنی پڑی۔ اسی طرح بُت پرستوں نے خُدا کی جگہ عوضی بُت بنا کر اُن کی پرستش کرنی شروع کردی۔ اس سےثابت ہوتا ہے کہ مذہب انسان کی فطرت ہے۔ اوراُس کی قیود سے آزاد ہونامحال۔ جب مذہب کی ضرورت ثابت ہوگئی تو اب موازنہ مذاہب سے اس امر کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ کونسا مذہب خُدا کا عطاکرد ہ ہے۔ ہم عقل اورمذہب کےبیان میں بخوبی ثابت کرچکے کہ خُدا ایک ہے اورا ُس کا مذہب بھی ایک ہے۔ اب ہمایک سادہ سامعیار پیش کریں گےجس سے ناظرین کو مذہب الہٰی اورانسان کے اختراعی مذاہب میں نمایاں امتیاز نظر آئے گا۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ عقلمند والدین اپنے بچوں کو ہمیشہ وہ چیز دیتے ہیں۔ جس کی اُن کےپاس کمی ہو۔ اورضرورت بھی اُسی شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ تُم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگر اُص کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے۔یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے۔ پس جبکہ تُم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتا ہو۔ تو تُمہارا آسمانی باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دیگا ؟(متی ۷:۹-۱۱) اگر ایک بچے کے پاس دس جوڑی کپڑے ہوں۔ اوروہ پاوں سے بالکل ننگا ہو۔ اور اُس کے والدین اُس کو کپڑے دوجوڑی اوربنادیں مگر جُوتی نبوا کر نہ دیں۔ تو کیا اُس بچے کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔؟ ہر گز نہیں جس چیز (جوتی ) کی ضرورت اورکمی تھی وہ اُسے دی نہیں گئی اورجس شے کی کمی نہ تھی بلکہ افراط تھی وہ دے دی گئی۔


لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ایک اورمثال تھی وہ دے دی گئی۔ لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ ایک اور مثال لیجئے۔ فرض کیجئے ایک شخص فاقہ زدہ گرسنگی سے لاچار ہوکر لب دریا بیٹھا ہوا ہے۔ اس حالت میں اگر کوئ ازراہ ِرحَم پانی کا گلاس اُسے لاکر دیوے تو کیا اُس کی ضرورت پوری ہوجائے گی ؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ پانی کی توا ُس کےپاس پہلے ہی قلت نہیں بلکہ افراط ہے۔ اورروٹی جس کی سخت حاجت تھی وہ اُسے ملی نہیں۔ اورضرورت اُس شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ خُدا دُنیا کا با پ ہے وہ بھی دُنیا کو ایسا ہی مذہب دیتا ہے جس کی دُنیا کو ضرورت ہو۔ اس وقت دُنیا میں نااتفاقی۔عداوت۔خصومت فساد تکبر۔ خود غرضی لنبع وتپر کی محبت اورسیاسی وتمدنی مخصوں کی کثرت ہے۔ اب اگر کوئی مذہب دُنیا کو یہی چیزیں دیوئے تو ظاہر ہے کہ ان کی توآگے ہی کیا کمی ہے۔بلکہ اُن کی کثرت نے اہل دنیا پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ اب دیکھیئے۔ کہ دُنیامیں کمی کس شئے کی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ محبت اورمیل ملاپ کا اس وقت قحط پڑا ہوا ہے۔ لہٰذا خُدا کا عطا کردہ مذہب وہ ہوسکتا ہے جس میں میل ملاپ اوررمحبت ک تلقین ہو۔ اوردشمنی عداوت اورشمیشر زنی کے خلاف سخت امتناعی احکام ہوں۔کیونکہ معاشرت وسیاست ہوگز مذہب کے جُز نہیں ہیں۔ اب مختلف مذاہب کی تعلیمات کو اس معیار پر رکھ کر دیکھ لیجئے۔ کرشن بھگوان گیتا میں ارجن سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں۔ اَے ارجن جو تُو بدھ بکھے لڑکر مریگا تو سُرگ کوجائے پر اپت ہوگا۔ اورجوجیتے گا تو راج کے بھوگے گا۔ اس کا رن سے اُٹھ کر بدھ کر لابھ اورہان اورسُکھ اوردُکھ اورجیت ہار کر سمان جان کر بُدھ کر (بھگوت گیتا دوتیہ ادھیائے آیت ۳۷ ،۳۸) یہاں سُرگ اورراج کے بھوگوں کی تحریص دلا کر ارجن کوجنگ وجدل کے لئے اُبھاا جاتا ہے۔ حالانکہ شمیشر زنی اورقتل وغارت کا انعام سُرگ نہیں ہوسکتا۔ محض ودُنیوی اغراض کے حصو ل کی خاطر سُرگ کا لالچ دیکر شمیشر زنی وخون ریزی پر آمادہ ودلیر کیاگیا ہے۔ لٰہذا گیتا نے دُنیا کو وہ چیز دی جس کی دُنیا میں پہلے ہی کثرت تھی۔ اور سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا۔ اب قران شریف کی تعلیم پر غور فرمائیے جو گیتا کے مندرجہ بالا خیال کےساتھ ہو بہوملتی ہے۔ جب تُم کافروں سے بھڑوتو اُن کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب تُم اُن میں خوب خون ریزی کو چکو تو اُن کی مشکیں باندھ لو۔ اس کے بعد یا تو احسان کرکے چھوڑ دو۔ یا فدیہ لے کر۔ یہاں تک کہ لڑائی اپنے اہتھیار رکھ دے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کے اعمال وہ ہرگز نہ کھوئے گا۔ اُنہیں ہدایت کرے گا اوراُن کا ال درست کرے گا۔ اوراُنہیں بہشت میں داخل کرے گا۔ جس کابیان اُس نے اُن کے لئے کردیا ہے (سورۃ محمد ۴- ۷ آیت وبقر ۱۸۶- ۱۸۹، ۲۱۲ ) جولوگ ایمان لائے اورگھر چھوڑ آئے اورلڑ ے اللہ کی راہ میں۔ اورجن لوگوں نے جگہ دی (نبی کو پناہ دی ) اوراُس کی مدد کی وہی ہیں مسلمان ٹھیک۔ اُن کو بخشش ہے اورروزی عزت کی۔ (سورۃ انفال آیت ۷۵) قرآن شریف نے بی شمیشرزنی اوردشمنی و خون ریزی کو مذہب کو جُز بنادیا۔ اورجنگ وجدل کے ساتھ بہشتی خوشیوں کو مشروط ٹھہرایا۔ الہٰذا قرآن نے دُنیا کی ضرورت کو پورا نہیں کیا۔ سکھ ازم اگرچہ ویدک دھرم کی ایک شاخ ہے۔ تاہم اُس کی تعلیم بھی اس بارہ میں ہم پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ربیہ راس مُکھ واک پادشاہی دس۔

ہمرے دُٗسٹ سبھی تُم گھادو۔۔۔۔ آپ ہاتھ دے سوہے کرتارا
موراچھا نج کَردے کرئے۔۔۔ سب بیرن کو آج سنگھر یئے
پُورن ہوئے ہماری آسا۔۔۔ توربھجن کی رہے پیاسا
تُمھیں چھاڈ کو اورنہ دھیاوں۔۔۔ جو بَرچا ہوں سو تُم نے پاوں
سیوک سکھ ہمارے تاریئے۔۔۔ چُن چُن سِترہ ہمارے ماریئے
وسٹ جیتے اُٹھوت اٗتپاتا۔۔۔ سگل ملیچھ کر ورَن گھاتا
اپنا جان مجھے پرت پرئیے۔۔۔ چُن چُن سترو ہمارے مرئیے
ویگ تیغ جگ میں دود چلے۔۔۔ راک آپ ہو ہے اورنہ دلے۔


ناظرین خودغور کر کے دیکھ لیں کہ سِکھ ازم کس حدتک دُنیا کی ضرورت کو پرار کتا ہے تیغ وتبر کی ہدایات اوردُشمنوں کے حق میں بددعائیں مانگنے سے میل ملاپ اورباہمی محبت ہرگزترقی نہیں کرسکتی ۔ اب ہم انجیل ِمقدس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اورابتداہی میں نہایت عجزو انکسار سے گذراش کرتے ہیں کہ انجیل ِجلیل کےکُل ۲۷ صحیفوں میں باوجود گہری تحقیق وتدقیق کے ہمیں ایک بھی آیت ایسی نہیں ملی جو مندرجہ بالاتین کتابوں کی مذکورہ آیات وتعلیمات کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت ومشابہت رکھتی ہو۔ اگر ایک بھی آیت ایسی مل جاتی تو ہم اُس کو ایماندار سے پیش کردیتے ۔ اگر اورکوئی مسیحی یا غیر مسیحی صاحب انجیل ِمقدس سے کوئی ایک بھی آیت جس میں عداوت شمیشر زنی۔ خون ریزی اورخود غرضی سکھائی گئی ہوپائیں تو راقم کومطلع فرما کر مشکوری کاموقع دیں ۔اب ہم انجیل کی وہ امتیازی تعلیم جو مسیحیت کو تمام دیگر مروجہ مذاہب ِعالم سے ممتاز کردیتی ہے پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ذرا صدق دلی اور انصاف پروری سے ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلے ہم انجیل سے وہ تعلیم پیش کریں گے جو شمیشر زنی وخون ریزی کے خلاف ہے ۔ جب خُداوند مسیح کو گرفتار کیاگیا تو آپ کے ایک حواری پطر س نے تلوار سے سردار کاہن کے نوکر ملخس کا کان اُڑادیا۔ یسوع نے اُس سے کہ اپنی تلوار میان میں کرنے ۔کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلا ک کئے جائیں گے۔ (متی ۲۶: ۵۲؛ مکاشفہ ۱۳: ۱۰) خُداوند مسیح نے مذہب کی مختصر سی تعریف اس طرح پیش کی ہے ۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اوردوسرا اُس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ ان ہی دوحکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے ۔(متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) خُدا محبت ہے ۔ اورجو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خُدا میں قائم رہتا ہے۔ اورخُدا اُس میں قائم رہتا ہے ۔(۱۔ یوحنا ۴: ۱۶) اگرکوئی کہے کہ مَیں قائم رہتا ہے ۔ اورخُدا سے محبت رکھتا ہوں ۔ اوروہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے ۔ کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خُداسے بھی جسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا(۱۔ یوحنا ۴: ۲۰) اورخُدا اوراپنے ہم جنس مخلوقوں کی محبت کو لازم ملزوم ٹھہرایا گیا ہے ۔جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کی اولاد سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵: ۱) قول المسیح '' مَیں تم سے یہ کتہا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ اوراپنے ستانے والوں کے لئے دُعا مانگو۔۔ اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرے (متی ۵: ۴۴، ۴۶ ) اگرتیرا دُشمن بھوکا ہو تواُس کو کھانا کھِلا ۔ اگرپیا سا ہوتو اُصے پانی پلا (رومیوں ۱۲: ۲۰) محبت کی جامع تعریف ملاحظہ ہو(۱۔کرنتھیوں ۱۳ باب ) محبت کا مفصل بیان دیکھئے (اول خط یوحنا تمام )۔

ایک دفعہ ایک اچھے تعلیم یافتہ غیر مسیحی شخص سے میری گفتگو ہورہی تھی ۔ اور ہماری گفتگو کا موضوع مذہب اورمحبت تھا۔ جب مَیں نے محبت کے متعلق انجیلی تعلیم کوپیش کیا۔ تو وہ فرمانے لگے کہ بھئی وہ کونسا مذہب ہے جو محبت کی تعلیم نہیں دیتا ؟ اروکس مذہب میں شمیشر زنی وخونریزی جائر ہے ؟ مَیں نے کہا کہ انجیل کے باہر تمام مذاہب میں (یہاں سے یہ گفتگو مکالمہ کی صورت میں چلیگی )

سائل ۔ اگرمَیں اپنی مذہبی کتا ب میں سے وہ آیات پیش کردوں جن میں محبت کرنے کی تعلیم ہے تو پھر کیا کہو گے ؟

راقم ۔ آخر ایسی کتنی آیات پیش کروگے ؟

سائل ۔ خواہ دوتین ہی ہوں۔ آخر خُدا ہی کی دی ہوئی ہوں گی۔


راقم ۔ ہاں سچ ہے کہ آپ کی کتاب میں دو تین سے زائد آیا ت محبت کی تعلیم نہیں دیتیں ۔ پر اس سے آپ کامذہب محبت پر مبنی ثابت نہ ہوجائیگا۔

سائل ۔ کیوں نہیں ؟ آخر وہ تین آیات بھی تو خُدا کے الہام سے ہیں۔

(اُن کی منطق دیکھئے) آپ کے قائم کردوہ معیار کے مطابق جس کتاب میں محبت کی تعلیم ہو وہ الہامی ہوسکتی ہے ۔ میری کتاب کے اندر (نہ کہ باہر) محبت کی تعلیم ہے ۔ لہٰذا وہ خُدا کی دی ہوئی کتاب اور دُنیا کا مذہب ہے ۔

راقم ۔ واہ صاحب ! آپ کا فلسفیانہ استدلال خوب ہے ۔دیکھئے اگرکنکروں کے بڑے سے ڈھیر میں تین چار گندم کے دانے پڑ ے ہوں توکیا وہ گندم کا ڈھیر کہلائے گا۔ ؟ ہر گز نہیں ! اسی طرح جس کتاب میں معرکہ آرائیوں نبرد آزمائیوں اورجدال وقتال کی تعلیم کا حصہ غالب ہو۔ اورمحبت کی تعلم محض تین چار آیات تک محدود ہو وہ ہر گز محبت کی تعلیم نہیں ہوسکتی اورنہ ہی وہ خُدا کی عطا کردہ کتاب اوردُنیا کا روحانی دستور العمل ہونے کے قابل ہے ۔ اب انجیل شریف میں متی سے لے کر مکاشفہ تک ۲۷ صحائف میں ایک بھی آیت تلوار ۔ خون ریزی اورعداوت کی موید نہیں ہے ۔ اوراُس کی تمام تعلیم میل ملاپ ،محبت ،برداشت وصبر ،حلِم و فروتنی ۔خود انکاری وایثار ، ہمدردی اورنیکی وپاکیزگی سے بھری پڑی ہے ۔ اس لئے مسیحیت ہی واحد عالمگیر الہٰی مذہب ہے ۔

سائل ۔ گیارھویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک مسیحیوں نے مسلمانوں کے سات جنگیں کیں جن کو '' صلیبی جنگ '' کہا جتا ہے ۔ تو آپ کس صورت میں ا س داغ کو مسیحیت کے پاکیزہ دامن سے دھو سکتے ہیں۔ کیونکہ تاریخی واقعات کاانکار اہل دانش سے بعید ہے ۔

اقم ۔ چونکہ مسلمانوں نے عمداً وقصد اً مسیحیوں کے معابدمقاسہ اورمقامات متبرکہ پر قبضہ جماکر اوراُن کی زیارت وعبادت پر ناحق پابندیاں لگا کر مسیحیوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ اوراُن کی امن پسندی ۔ صرب پروری اورشرافت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اس لئے اگرمسیحی اپنے جائز مطالبات کے حصول کی خاطر لڑے تو محض اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنی تحریصات ِنفسانیہ اوراغراض جسمانیہ کے زیر اثر خود اُن کو اس قسم کا قدم اُٹھانے پر مجبور کیا۔

دوم۔ حروب ِصلیبیہ کی علت غائی ملک گیری نہ تھی۔ اورنہ دولت وثروت اوربیگانی عورتیں چھیننے یا بلاوجہ جہاد کرنے کی ہو س نے اُن کے جذبات کو جنگ کے لئے متحرک کیا۔ جیسا کہ مسیحیت کے باہر تمام دیگر اقوام میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے ۔

سوم۔ ہندو مسلمان اقوا نے حق تلفی وظلم اورمحاربہ ومکابرہ کرکے ہمیشہ اپنی مذہبی کُتب کے فرامین کی تعمیل کی ہے ۔ لیکن مسیحیوں نے صلیبی جنگوں کے ذریعے انجیل ِمقدس کی خلاف ورزی اورمخالفت کی ۔ کیونکہ انجیل میں ایک بھی ایسا حُکم نہیں جو جو حروب صلیبیہ کا محرک وہودی ہو۔ بلکہ صاف لکھا ہے ۔تُم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکومت چلاتے اورامیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ تُم میں بڑا ہونا چاہئے وہ تمہارا خادم بنے ۔ اورجوتم میں اول ہونا چاہئے وہ تمہاراغلام بنے (متی ۲۰: ۲۵- ۲۷) کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جسم کے طورپر لڑتے نہیں ۔ اس لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں (۲۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳- ۴ ،افیسوں ۶: ۱۰ – ۱۸)


چہارم۔ اگرکوئی شخص نسخہ استعمال نہ کرے اورمرض سے صحت یاب نہ ہو تو اس سے کُتب حکمت کانقص ثابت نہ ہوگا ۔ اسی طرح اگرکوئی مسیحی لڑائی جھگڑے کرے تو اُس کی اس کجروی کی علت انجیل کی تعلیم کو قرار دینا محض خوش فہمی اورضدہے ۔

جنگی ہتھیاروں کی موجودگی محبت پر دلالت نہیں کرتی ۔ بلکہ زور اورزبردستی پر ۔ اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار ہی سے مارے جائیں گے(متی ۲۶: ۵۲) ''مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیرے دے ۔ (متی ۵: ۳۹) اگر اہل دُنیا مسیح کے ان اقوال کی تعمیل کرنے لگ جائیں تو آج یہی خارستان (دُنیا ) جنت کا نمونہ بن جائے۔ سائل ۔ پُرانے عہد نامے میں یہودیوں نے مختلف قوموں کے ساتھ متعدد لڑائیاں لڑیں۔ اورتوریت میں جنگ کے خلاف امتناعی احکام کا وجود نابود ہے ۔

راقم۔ توریت کا مذہب مذہب الہٰی کی ناقص حیثیت تھا۔ خُداوند مسیح عہد جدید کے بانی ہوکر اُسی کو کامل کرنے آئے تھے۔ ہرشے کاکمال یہ ثابت کرتا ہے ۔ کہ وہ کسی وقت ناقص اورادھوری تھی۔ مسیحی مذہب توریت کے ناقص مذہب ہی کی کامل حالت ہے ۔اس لئے انجیلی کامل مذہب کے مقابلے میں توریت کے ناکامل مذہب کو رکھ کر اُس کے نقائص بیان کرنا تحصیل لا حاصل ہے ۔ جس طرح ایک گُنبد کو تعمیر کرنے کے لئے اُس کے نیچے انیٹوں کا عارضی ساسہارا لگایا جاتا ہے ۔ اور جونہی وہ گُنبد مکمل ہوجاتا ہے تو اُس ماتحت قالب کو گِرا دیاجاتا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ عہد جدید میں آکر مذہب الہٰی کمالیت کو پہنچا اورمعاشرت کو اُس سے جد کیاگیا ۔جس طرح پھول اورپھل ایک خاص معیاد تک اکٹھے رہتے ہیں۔ اورجونہی پھل ترقی کرنے لگتا ہے پھول کود بخود جھڑ جا تا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ اورخُداوند مسیح نے دونوں کویکسر جُدا کردیا۔ اس لئے اس قسم کا اعتراض کرنے سے پہلے انجیل ِمقدس کی پوری واقفیت حاصل کرلینا ضروری ہے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ توریت میں خُون ریزی کے خلاف حُکم نہیں ۔ لکھا ہے ۔تو خون نہ کر۔

دوم۔ ہم لوگ یہودی یا موسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں۔

سوم۔ یہ مانا کہ پُرانے عہد میں یہود کے قومی جنگوں کا ذکر موجود ہے مگر اُن جنگوں کی نوعیت قرآن اورویدک محاربات سے غیر ہے ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہود نے کبھی بھی اپنے مذہب کی جبری اشاعت کی غرض سے دیگر اقوام سے جنگ نہیں کی ۔ اگرمذہبی اشاعت اُن کی جنگوں کی علت غائی تھی تو آپ بائبل مقدس میں سے کوئی ایسا مقام پیش کرکے ثابت کریں۔ اوردوسری بات قابل غور یہ ہے کہ کبھی ان جنگوں کے صاد میں خُدا نے اُنہیں بہشت کی خوشیاں عطاکر نے کا وعدہ نہیں کیا۔ جیسے کہ قرآن وید اورگیتا میں نہایت کھلے الفاظ میں ایسے انعامی اشتہار خُدا کی طرف سے موجود ہیں۔ یہودیوں نے صرف تمدنی وسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر غیر اقوام سے محاربے کئے ۔ پس جس سے کی کمی ہو اُسی کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ دُنیا میں محبت کا سخت افلاس بلکہ قحط ہے ۔ اورمسیحیت صرف یہی شے دُنیا کو بخشسی ہے ۔ اس واسطے وہ دُنیا کی سب سے بڑی روحانی واخلاقی ضرورت کو پورا کرتی اورجنت کے دروازے اُس کے لئے کھولتی ہے ۔اَے منکراِ ن مذہب ! مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوکر اطمینان قلبی اورسکون باطنی کوجلد حاصل کریں۔ مذہب سے بیزاری کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ اوراُن کا شافی اوربے خطا علاج بھی ہم نے لکھ دیا۔ اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ اُس سے فائدہ اُٹھائیں یا نہ اُٹھائیں۔


مطلب ۔ ہر اعلیٰ سے اعلیٰ چیز ہر عزیز سے عزیز ہستی جس سے تمہیں جُدا ہونا پڑے اس دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں اُس کو عوض مل سکتا ہے ۔ لیکن یاد رکھو اگر اللہ سے جُدا ہوجاو گے تو اُس کا بدل کہیں نہیں پاو گے۔

مسیحیت کی مخالفت

لوگ مسیحیت پر واہبات اعتراضات کی بوچھاڑ کرکرے اُس کی شان کو گھٹانے کی ہمیشہ اس لئے کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ۔

اول ۔ وہ جانتے ہیں کہ مسیحیت کا معیار روحانی بہت بلند ہے ۔ جب وہ اپنے مذہبی اصولوں کو مسیحیت کی لاثانی تعلیمات کے مقابلہ میں کمزور اورحقیر دیکھتے ہیں تو اُن کو جھٹ یہی تجویز سوجھتی ہے کہ چونکہ ہمارے اصول تومسیحیت کی بلند ی تک پہنچے سے قطعی قاصر ہیں۔ اس لئے کس طرح انجیلی اصولوں کی جاو بیجا تاویلیں کرکے اوراُن کو گھٹا کرا پنے برابر کرلیں۔ وہ مسیحیت کے ججج قطعیہ اوربراہین شافیہ کے بالمقابل مشککا نہ دلائل سے صف آراء ہیں۔ لیکن مسیحیت کے نور کر پھونکوں سے بھجنا محال ہے ۔

دوم۔ وہ مسیحیت کو ایک بدیشی مذہب سمجھتے ہوئے بدیشی حکومت کی طرح اُس سے بھی دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مذہب صرف حوائج روحانیہ واخلاقیہ کی تسکین وآسودگی کا ذمہ داری ہے ۔ اورحکومت محض جسمانی ونفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ جس قدر رُوح جسم سے اعلیٰ ہے اُسی قدر مذہب کا نکتہ نظر حکو مت سے بدرجہا اعلیٰ وارفع ہے ۔ ایسے لوگوں کو خوب جان نینا چاہئے کہ مسیحیت مغربی مذہب نہیں بلکہ ایشیائی ہے ۔یعنی اُس نے جنم ایشیا میں لیا تھا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل ہوکر اپنی روحانی واخلاقی برکات وحسنا ت کو من حیث الاجتماع تمام صفحہ گیتی پرپھیلادے ۔ اورتمام اقوام عالم کو واحد برداری بنا کر ذات پات اوررنگ ونسل کے امتیازات کی جان فاتحہ پڑھ دے۔

سوم۔ لوگ مسیحیت کے اس لئے بھی مخالف ہیں کہ مسیحی مذہب ادنی ٰ واعلیٰ کے امتیازات کی نفی کو ایک آنکھ دیکھ نہیں سکتا ۔ اورمسیحیت کا سب سےبڑا مدعایہی ہے کہ آقا وغلام اورمحمود وایاز کو ایک ہی سلک اتحاد واشتراک میں منسلک کرکے دنیا کو ایک واحد برداری بنادے ۔تُم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہانہ یونانی ۔ نہ کوئی غلام نہ آزاد ۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تُم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸ ؛کلسیوں ۳: ۱۱) چونکہ اس قسم کے مسادات کے قیام کادوسرا نام اعلیٰ اقوام کی امتیازی عظمت اوربزرگی کی نفی ہے ۔اس لئے لازمی امر ہے ۔ کہ وہ مسیحیت کی پنپتی ہوئی دیکھ کر گل حکمت کی ہنڈیاں کی طرح اندر ہی اندر چرغ کھایا کریں۔ اس کامقاطعہ کریں اورا سکی جلاوطنی کی دعائیں مانگا کریں لیکن اگردعائے فطلاں مستجاب بودے یک معلم درعالم زندہ نہ ماندے۔

چہارم۔ جب ایک ڈاکٹر مریض پر جراحی عمل کرتا ہے ۔ توشدت درد کے باعث مریض اکثر بے اختیار ہوکر ڈاکٹر کو کوستا ہے ۔ اورڈاکٹر کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تاہم ڈاکٹر مریض کی بھلائی کی خاطر اس طعن وتشنیع کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ اسی طرح روحانی مریضوں کو مرض عصیاں اورعارضہ جہالت سے آزاد کرنے کے لئے جو عمل مسیحیت کررہی ہے وہ ہے تو اُن کے لئے کثیر المنفعت لیکن عارضی طورپر وہ بلاوجہ مسیحیت کے خلاف شور مچار رہے ہیں۔ لیکن مسیحیت کروڑوں جانوں کی سلامتی اوربہتری کی اُمید پر اس تمام مخالفت ومخاصمت اورمُنافرت کی طرف سے آنکھیں بند کرچکی ہے ۔


ہم تو سمجھتے ہیں کہ مخالفین مسیحیت معازنین مسیحیت ہیں۔ اگروہ منفی ہیں تو مسیحیت مثبت ،برق ہمیشہ منفی ومثبت کے اتصال ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ جس قدر مخالفت شدید اوراُس کے خطرات عظیم ہوتے ہیں۔ اُسی قدر خود حفاظتی اورمقابلہ کے سامان عظیم ہوتے ہیں۔ اگر مخالفت اورخطرہ نہ ہوتو مضبوطی اوراستقلال کی نفی ہوگی ۔ ہم مشکور ہیں اُن مخالفین کے جو مسیحیت کے لئے وجہ استحکام ہیں۔

(۷)


مِعیارِ الہام

گذشتہ ابواب میں ہم مسئلہ الہام پر روشنی ڈالتے ہوئے الہام کی اشد ضرورت کو ثابت کرچکے ۔ اوردِکھاچکے کہ حقائق ودقائق الہٰیہ اوررموز اسرار لطیفہ رُوحانیہ کے ادراک وتفہیم کے لئے عقل مجرد کی رہنمائی کافی نہیں ہے ۔ اور نہ ہی عقل کے حاصلات ونتائج میں مطابقت تام ہے ۔ اس لئے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا قطعی ناممکن اورمعلومات ِعقلیہ پر اپنے ایمان ویقان کی بنیاد رکھنا سراسر غیر معقول ہے ۔ جس طرح دُنیا میں سچ کی بہ نسبت جھوٹ کا دائرہ اثر وسیع ہے اُسی طرح دُنیا میں سچے انبیاء کی بہ نسبت جھوٹے نبیوں کے دعویٰ نبوت کرنے کا زیادہ احتمال ہے ۔ چنانچہ ایا ہی ہوتا رہا۔ ۱۔ سلاطین ۲۲: ۶- ۲۸ میں جھوٹے نبیوں کا نقشہ موجود ہے ۔ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ اُن نبیوں کی باتیں نہ سُنو۔ جو تُم سے نبوت کرتے ہیں۔ وہ تُم کو بطالت کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ اپنے دبوں کے الہام بیان کرتے ہیں۔ نہ کہ خُداوند کےمُنہ کی باتیں (یرمیاہ ۲۳: ۱۶، ۲۱، ۳۲، ۱۴: ۱۴ ) اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں۔ مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیئے ہیں(متی ۷: ۱۵) اسی طرح صحائف مطہرہ میں بار بار جھوٹے نبیوں سے محتاط رہنے اوراُن کے گمراہ کُن خیالات و باطل تعلیمات سے خبردار رہنے کے متعلق تاکید پائی جاتی ہے ۔ پس ہم کس طرح جانیں کہ جو بھی نبی دعویٰ نبوت کرے وہ سچا ہے یا جھوٹا جس طرح کھَرے اورکھوٹے سونے میں تمیز کرنے کے لئے ایک معیار یا کسوٹی ہوتی ہے۔ اُسی طرح کلامِ مقدسس میں ہردوقسم کے انبیاء کی جانچ کا معیار رکھا گیا ہے ۔اگر اُس معیار پر پرکھے بغیر کسی نبی کی اندھا دُھند تقلید کی جائے تو راہ ِحق سے گمراہ ہونے کا سخت اندیشہ ہے ۔ چنانچہ میری ذاتی تحقیقات کے مطابق الہام اورنبوت کی جانچ کا معیار ان پانچ اصولوں پر مشتمل ہے ۔ یعنی ۱۔ معجزہ ۲۔ پیشینگوئی ۳۔ نیک سیرتی ۴۔ مطابقت بہ الہام ماقبل ۵۔ مسیح کا اقرار ۔

معجزہ

الہام ِالہٰی فوق العادت امر ہے ۔ جب کوئی فوق العادت ظہور منصہ شہود پر جلوہ گرہوتا ہے تو انسانی عقل فطری طورپر اُس کی صحت کا ثبوت طلب کرتی اورجب تک ثبوت نہ ملے مشکوک ومشتبہ نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔ دُنیا ہی میں دیکھئے کہ جب کسی سلطنت کا سفیر کسی دوسرے بادشاہ کے پاس کوئی شاہی پیغام لیکرجاتا ہے ۔ تواُس وقت تک اُس کو شاہی نمائندہ تسلیم نہیں کیا جانا جب تک وہ اپنے ثبوت ِسفارت میں کوئی شاہی تصدیق نہ دکھائے ۔

جب وہ بادشاہی مُہر دکھاتا ہے توا ُس کے دعویٰ ِسفارت کو حق سمجھا جاتا اور اُس کے الفاظ کو عین بادشاہ کے الفاظ سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ عقل ِ انسانی دُنیوی معمولی باتوں کی صحت وعدم صحت کے متعلق تصدیق اوریقینی ثبوت کا مطالبہ کرتی ہے ۔ تو کِس قدر فوق العادت امور کے متعلق اُس سے زیادہ قوی ثبوتوں کی ضرورت نہ ہوگی۔ جب کوئی نبی مِن جانب اللہ ہنوے کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کو اپنے دعویٰ کا ثبوت معجزات کے ذریعے دینا ہوتا ہے ۔ اورلازم ہے کہ وہ فوق العادت پیغام کو فوق العادت نشانوں کے ساتھ اہل دُنیا کے سامنے پیش کرے ۔ اوراگر وہ ایسا نہ کر ے تو دُنیا کو حق حاصل ہے کہ اُس کے پیغام کو الہٰی پیغام نہ مانے ۔ موسیٰ پر جب توریت نازل ہوئی تو اُس نے اپنے الہام اوردعویٰ نبوت کو بڑے بڑے معجزات سے ثابت کیا (استثنا ۳۴: ۱۰- ۱۲) اورجو نبی معجزات سے اپنی نبوت نہ دے پر سابقہ الہامی صحائف سے اُس کا پیغام مطابقت رکھے تو وہ پہلی کتابوں کا واعظ ہی ہوسکتا ہے ۔ نہ کہ اس سے زیادہ جب پُرانے عہد کا حدرواج اختتام پذیر ہوا ۔ تو نئے عہد کی بنیاد خُداوند مسیح نے رکھی ۔اور وہ ہزار معجزوں کا ایک معجزہ تھا۔ اُس کی تمام زندگی فوق العادت حقائق واظہارات کا ایک حسین وجمیل مجسمہ تھی۔ اُس نے اپنے پیغام کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں بے شمار معجزے دکھائے ۔ اورفرمایا کہ '' جو کام باپ نے مجھے بھیجا ہے (۱۔ یوحنا ۵: ۳۶ ) اورآپ کے صعود فرمانے کے بعد رسول یہ گواہی دیتے ہیں۔ اَے اسرائیلی مردو ! یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک مرد تھا۔ جس کا خُدا کی طرف سے ہونا تُم پر ثابت ہوا ۔ اُن معجزات اوراچنبھوں اورنشانیوں سے جو خُدا نے اُس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائیں ۔ جیسا تُم آپ بھی جانتے ہو۔(اعمال ۲: ۲۲) پھر مسیح کے رسولوں نے اپنی رسالت کو معجزات سے ثابت کیا۔ ملاحظہ ہو (اعما ل ۳: ۱- ۱۰ ؛ ۳۶-۴۲ ؛۱۴: ۱۱- ۲۰ ؛۱۶: ۱۶-۱۸؛۲۰:۹- ۱۴) پس معجزات کسی نبی کے مِن جانب خُد ا ہونے کا ڈائر کٹ ثبوت ہیں۔ اور جو نبی پیغمبر یا رسول معجزات نہ دکھائے ۔ وہ انبیاء وہ مُرسلین کی فہرست میں شامل کئے جانے کئے ہرگز ہرگز لائق نہیں۔ہاں البتہ جلد باز اورسریع الاعتقاد لوگ ایسے دعویداران نبوت کی کورانہ تقلید پر ایکدم کمربستہ ہوجاتے اورضلالت وگمراہی کے لق ودق صحرا کی خاک چھا نتے ہیں۔ اوربعض مذہبی کتب کے ذاتی وعادی سے بڑھ کر دعوے کرتے ۔ اورخواہ مخواہ بعض لوگوں سے معجزات منسوب کرکے اُنہیں انبیاء صادق کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت متصدقہ کو چھوڑ کر توہمات کو حقیقت کا لباس پہنانا عبث ہے ۔ عہد عتیق اورعہد جدید ہردو کی بنیاد یں معجزات پررکھی گئی ہیں۔ اورانجیل میں آکر الہام کا مل ہوگیا۔ اوراُس کے وسعت رواج کا زمانہ تاقیامت ہے ۔ اورانجیل نے کسی مزید الہامی کتاب کے نزول کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔ بلکہ کُل واقعات جو ابتدائے عیسویت سے تاقیامت انسان اورخُدا کے درمیان ظہور میں آنے چاہئیں اُس میں بالتفصیل وتشریح قلمبند ہیں۔ اورمعجزات بالخصوص اُس نبی کے لئے ضروری ہیں جو ایک نئی کتاب کا مُلہم اورکسی نئے دین کا بانی ہونے ک داعی ہو۔ موسیٰ عہد عتیق کا بانی تھا۔ اس لئے اُس نے اپنی نبوت کو معجزات سے ثابت کیا ۔ اُس کے بعد کے انبیاء کے لئے معجزات دکھانا لازمی شرط نہیں بلکہ معجزہ یا پیشین گوئی میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے اگرچہ وہ یہ دونوں کام کریں ۔ اسی طرح عہد جدید کے بانی نے اس نئی کتاب (انجیل ِمقدس ) اور نئے عہد کی بنیاد معجزات پررکھی ۔ اب اگر کوئی تیسری کتاب انجیل کے بعد آئے تو اُس کے مُلہم ومنزل علیہ کے لئے معجزات دکھانا ضروری ولابدی ہے ۔ لیکن انجیل نے کسی تیسری کتاب ِ کے لئے بالکل گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔ اس لئے مقدس پولوس رسول فرماتاہے ۔ اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ بھی اُس خوش خبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سُنائی کوئی اورخوش خبری تمہیں سنائے تو معلون ہو۔ (گلتیوں ۱: ۸)۔

پیشینگوئی

لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا مَیں نے اُس کو حکم نہیں دیا۔ یا اورمعبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیاجائے ۔ اوراگر تم اپنے دل میں کہو ہ جو بات خُداوند نے نہیں کہی ہے اُسےہم کیونکر پہچانیں ۔


تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خُداوند کے نام سے کچھ کہے اوراُس کے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہوتو وہ بات خُداوند کی کہی ہوئی نہیں۔ بلکہ اُس نبی نے وہ بات خودگستاخ بن کر کہی ہے ۔ تُم اُس سے خوف نہ کر نا (استثنا ۱۸: ۲۰- ۲۳)۔

وہ نبی جو سلامتی کی خبر دیتا ہے جب اُس نبی کا کلام پورا ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ فی الحقیقت خُداوند نے اُسے بھیجا ہے (یرمیاہ ۲۸: ۹) ان حوالہ جات سے خوب روشن ہے کہ نبوت کی صحت اورعدم صحت کی جانچ کی معیار پیشنگوئی بھی ہے ۔ اتنی طاقت نہ تو قلم میں اورنہ ذہن میں ہے کہ بائبل کے تمام انبیاء کی تمام پیشنگوئیوں کو حیطہ تحریر میں لایا جائے ۔ ناظرین خود تحقیق کرسکتے ہیں۔ ہم صرف خُداوند مسیح کی چند پیشینگوئیوں کے پورا ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ جھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی اُٗٹھ کھڑے ہوں گے۔(متی ۲۴: ۲۳- ۲۴) چُنانچہ۔

۱۔ بعہد اثر جان ۱۱۴ء میں ایک شخص انڈر یونے مسیحائی کا دعویٰ کیا۔
۲۔ ایڈریان کے عہد ۱۳۲ ء میں بار کو کہب کو مسیح سمجھا گیا ۔ اور یہود پر اُس کے باعث بہت تباہی آئی۔ آخر تنگ آکر یہود نے اُسے جھوٹا مسیح سمجھا ۔
۳۔ ۴۳۴ء میں جزیرہ کریٹ میں ایک جھوٹا نبی اُٹھا ۔اُس نے موسیٰ ہونے اورلوگوں کوسمندر سے پار کرنے کا دعویٰ کیا۔ آخر جھوٹا ثابت ہوا۔
۴۔ ۵۲۰ء میں عرب میں ایک ڈونان نامی جھوٹا مسیح اُٹھا ۔اور اپنے یہودی پیروکاروں کے ہمراہ نگرا شہر میں مسیحیوں پر حملہ کردیا۔ آخر مارا گیا۔
۵۔ ۵۲۹ ء میں جولیا ن نامی ایک جھوٹے مسیح نے یہودیوں اورسامریوں سے بغاوت کرائی۔ اوربہتیرے ہلاک ہوئے ۔ حضرت محمد صاحب کی بعثت کا بھی یہی زمانہ تھا۔ اورآپ نے فرمایا تھا کہ مجھے پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس توریت اورانجیل میں ۔ (سورۃ اعراف ۱۵۸)۔
۶۔ ۷۲۱ء میں ایک سُریانی مسیحائی برپا ہوا اورجھوٹا ثابت ہوا۔
۷۔ ۱۳۷ ء میں یہود نے فرانس میں کسی کو مسیح مان لیا اورملک بدر ہوئے ۔
۸۔ ۱۱۵۷ ء میں یہود نے مُلک ہسپانیہ میں کسی بناوٹی مسیح کے زیر ہوکر بغاوت کی اورقریباً کُل تباہ ہوئے۔
۹۔ ۱۱۶۷ء میں سلطنت فیز کے اندر یہود نے ایک جھوٹے مسیح سے دھوکا کھا کر بہت دُکھ اُٹھایا ۔ اسی صدی میں عرب میں بھی ایک مسیح اُٹھا۔ اورپھر اسی سن میں دریائے فرات کے پار ایک مسیح اُٹھا ۔ اوردعویٰ کیا کہ مَیں کوڑھی ہو کر سورہوں گا اورتندرست ہوکر اُٹھوں گا ۔
۱۰۔ ۱۲۲۲ ء میں جرمنی میں یہود نے ایک شخص کو مسیح سمجھا اوراُسے ابن داود کہنے لگے ۔ اسی برس وہ ایک عورت سے جو ورمس کی تھی مسیح کے پیدا ہونے کی اُمید یں رکھتے تھے۔ لیکن اُٗس کے لڑکی پیدا ہوئی ۔ چودھویں صدی میں ابھی اسی طرح ایک نقلی مسیح اُٹھا۔
۱۱۔ ۱۵۰۰ ء میں ربی اسخر لیملا جرمنی میں مسیح پیشتر و ہونے کا داعی ہوا۔ اوریہودیوں میں اُس کی باتوں سے بہت سرگرمی اوراُمید پیدا ہوئی ۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے روزوں اورنمازوں کے باضابطہ اوقات مقرر کرے اُس کی انتظاری کی ۔مگر لاحاصل ثابت ہوئی ۔
۱۲۔ ۱۶۲۲ ء میں وہ مشہور جھوٹا سیتہائی زیوی اُٹھا۔ اوراپنی جان بچانے ےکی خاطر آخر محمدی ہوگیا۔
(منقول از کتاب عدم ضرورت قرآن مصنفہ جی ۔ایل ٹھا کر داس۔ )

اوراُنیسویں صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی دعویٰ مسیحائی کا شوق چرایا ۔ اورہزاروں بندگان خُدا کو گمراہی میں ڈالا ۔ آپ ے تحصیل لاحاصل میں اپنی سعی گرانما یہ صرف فرمائی ۔تاہم آپ کا خیالی قصر ویسے کا دیسا گبند بے در بنا رہا ۔ اسی طرح قیامت تک جھوٹے مسیح ونبی اُٹھتے اورخُداوند مسیح کی پیشین گوئی پر مہرصداقت لگاتے ےرہی گے ۔

-------------
(1)مرزائت کی مزید تفصیل ضروری ہے۔


پھر خُداوند مسیح کی یوحنا ۱۶: ۲ کی پیشین گوئی اعمال ۸: ۱ ؛۹: ۱-۲ کے علاوہ ہر زمانے میں پوری ہوتی رہی ۔ ہیکل کی بربادی کی خبردی مرقس ۱۶: ۱۷- ۱۸ جو ہمیشہ پوری ہوتی رہی ۔ اپنی صلیبی موت کی خبردی وہ پوری ہونے والی ہے ۔ برخلاف اس کے مرز قادیانی کی مردم آزاد پیشین گوئیوں کا جوحشر ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم مسیحی مناظر کی موت ۔محمدی بیگم کا نکاح۔ سلطیان احمد ی کی موت اورپھر شیخ محمد حسین۔جعفر زٹلی اور مولوی ابوالحسن تبتی کی موت کی پیشین گوئیاں سراسر باطل اوربے بنیاد ثابت ہوئیں۔ پس آپ کے دعویٰ مسیحائی دنبوت کے بطلان کی اورکیادلیل ہوسکتی ہے ۔ نبی صادق کی ہر پیشنیگوئی کا سچا ہو نا اُس کے دعوےٰ کی صداقت کی دلیل ہے ۔

نیک سیرتی

فرستادہ خُدا اورمدعی نبوت کا نیک سیر ت ہونا ضروی ہے ۔ اور یہاں نیک سیرتی سے وہ نیکی و پاکیزگی مُراد نہیں جو خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے۔ بلکہ مُراد یہ ہے کہ نبی ورسول کی زندگی بہ نسبت عامتہ لناس کے بہترین ہو۔ خُداوند مسیح نے فرمایا۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ ۔۔۔۔اُن کے پھلوں (اعمالوں ) سے تُم اُنہیں پہچان لوگے ۔ کیا جھاڑیوں سے انگور اور اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا بعض لاتا ہے اوربُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے ۔ (متی ۷: ۱۵- ۱۷) پولوس رسول فرماتا ہے ۔کیونکہ ایسے لوگ جھوٹے رسول اوردغا بازی سے کام کرنے والے ہیں۔ اوراپنے آپ کو مسیح کے رسولوں کے ہم شکل بنالیتے ہیں(۲۔ کرنتھیوں ۱۱: ۱۳) پھر پطرس رسول فرماتا ہے ۔ اور جس طرح اُس اُمت میں جھوٹے نبی بھی تھی ۔ اُسی طرح تُم میں بھی جھوٹے استاد ہوں گے ۔۔۔۔ اوربہتیرے اُن کی شہوت پرستی کی پیروری کریں گے۔ جن کے سبب سے راہ ؐحق کی بدنامی ہوگی۔ اوروہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔

(۲۔ پطرس ۲: ۱-۳ ) مندرجہ بالا مقامات سے نبی کو اُس کی اخلاقی اورعملی زندگی کے نکتہ نگاہ سے سچایا جھوٹا کہنا ظاہر ہے ۔ اورکوئی یہ نہ سمجھے کہ سب نیک سیر ت نبی ہوتے ہیں۔ سب نیک سیرت نبی نہیں پر سب نبی نیک سیرت ہوتے ہیں اورنیک سیرتی کے ساتھ معجزہ یا پیشینگوئی دونوں میں سے اییک قابلیت ضرور اُ ن میں ہونی چاہئے محض نیک سیرتی نبی ہونیکے لئے کافی نہیں۔ کیونکہ وہ تو غیر نبی میں بھی ہوسکتی ہے۔ اب ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ اس معیار کے مطابق کون کون نبی صادق کہلانے کا حقدار ہے ؟

مطابقت بہ الہام ماقبل

جو نبی خُدا کی طرف سے الہام لے کر مبعوث ہو اورنبی ہو نے کا دعویٰ کرے تو نہایت لازمی ہے کہ اُ س کی تعلیم وتلقین اورمضامین وخیالات اپنے سے ماسبق نوشتوں کے ساتھ مطابقت تام رکھیں۔ اوراگر برعکس اس کےاختلاف وتناقض دِکھائیں تووہ نبی ہرگز خُدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خُدا متناقض مکاشفے نہیں دے سکتا۔ اُس کے مکشوفات میں تعلیم کے لحاظ سے تدریجی ترقی وکمالیت تولازمی ہے۔ مگر تردید وتنسیخ محال ہے ۔ چنانچہ یہ معیار کسی مدعی نبوت کی صداقت کی جانچ کو اُس کی تعلیات وخیالات کی مطابقت بہ صحائف مُلہمہ سابقہ پر مبنی ٹھہراتا ہے ۔ واضح ہو کہ عہد جدید کی دیوار عہد ِعتیق کی بُنیاد پر اُٹھائی گئی ہے ۔ اور اس نئے عہد کے قیام کی وجہ خود عہد ِعتیق میں یو ں مرقوم دیکھ وہ دن اتے ہیں خُداوند فرماتا ہے کہ مَیں اسرائیل کے گھرانے اوریہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔یرمیاہ ۳۱: ۳۱ اورعہد ِعتیق کی آخری کتاب کے آخری باب میں یوں مرقوم ہے ۔ تُم میرے بندے موسیٰ کی شریعت یعنی اُ ن فرائض واحکام کو جو مَیں نے حورب پر تمام بنی اسرائیل کے لئے فرمائے یاد رکھو ۔


لاکی ۴:۴ اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ عہد ِعتیق کے ابتدائی ۔وسطی اورانتہائی صحائف مابعد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آخری صحائف میں توریت کی تنسیخ نہ تردید کی گئی ہو۔ بلکہ آخری کتاب بھی توریت ہی کی طرف رجوع کرواتی ہے ۔ اب عہد جدید کی مطابقت عہد عتیق کے ساتھ ملاحظہ ہو۔ خُداوند مسیح کا قول ۔ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوں کی منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔(متی ۵: ۱۷ : لوقا ۱۶: ۱۶ ) اورایک عالم شرع فریسی کو تمام توریت کاخلاصہ بتا ر کرفرمایا کہ ۔ اِن ہی دو حُکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے کہ (متی ۲۲: ۴۰) عہد عتیق کی تقسیم ثلاثہ کی تائید فرمائی ۔ اوراپنے حق میں اُ ن کی خبروں کا پورا ہونا ثابت کیا۔ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اورنبیوں کے صحیفوں اورزبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں(لوقا ۲۴: ۴۴) مقدس پطرس رسول خُداوند مسیح کو عہدعتیق کے تمام انبیاء کی نبوتوں کا نشانہ ٹھہراتا ہے ۔ اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تُم پر ہونے کو تھا نبوت کی (۱۔ پطرس ۱: ۱۰) مگر جن باتوں کی خُدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خبردی تھی کہ اُس کا مسیح دُکھ اُٹھائے گا وہ اُس نے اس اس طرح پوری کہیں۔ (اعمال ۳: ۱۸؛۲۴؛۷: ۵۲) پس خُداوند مسیح کے اپنے اقوال اور اُس کے رسولوں کی گواہیوں سے یہ حقیقت خوب روشن ہوتی ہے کہ عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پررکھی گئی ہے ۔اس لئے ان دونوں میں مطابقت تام ہے ۔ اگر مخالفت و مغائرت ہوتی تو توریت کے انبیاء کی نبوتوں کو عہد جدید کےے واقعات کے ثبوت میں پیش کرنا عبث ہوتا ۔ ہم بزیر عنوان عالمگیر مذہب اس حقیقت کو بدلائل قاطع وبراہین ساطع ثابت کرچکے ہیں۔ پس اگر دونوں کتابوں میں مطابقت دیکھنی ہو تو اُس مضمون پر پھر سے غور فرمالیں۔ انجیل کے بعد اگر اورکوئی نبی کوئی مزید الہامی کتاب لے کر نازل ہو تو اُس کتاب کی تعلیمات وخیالات کی مطابقت انجیل کے ساتھ لازمی امر ہے ۔ انجیل تعلیم دیتی ہے کہ خُدا مجسم ہوا۔ مسیح کا کفارہ حصول نجات کے لئے شرط ہت ۔ مسیح خُدا کا بیٹا ہے خُدا کی واحد ذات میں تین اقانیم ہیں۔ مسیح مصلوب ہوا مرگیا ، تیسرے روز زندہ ہوکر آسمان پر صعود فرماگیا۔ وہی دوبارہ آ کر تمام دُنیا کی عدالت کریگا۔ اورعدالت انجیل کے مطابق ہوگی۔ ختنہ کروانا اورقربانیاں چڑھانا غیر ضروری باتیں ہیں۔ ان کو چھوڑ کر صرف مسیح کی قربانی پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ سوائے مسیح کے کوئی دوسرا نجات وہندہ نہیں۔ یہ ہیں انجیل کی اصولی تعلیمیں ۔ اب اگر انجیل کے بعد کوئی اورنبی برپا ہو اور ان تعلیمات واصولات کا قائل ہوا ور اُنہیں کی تلقین کرے ۔ تو ہم ہزار جان سے اُس پر نثار ہونے کی تیار ہیں۔ اوراگر اُس کی تعلیم اس کے خلاف ہو تو ہم اپنے مذہبی معتقدات کی بنا پر مجبور ہیں کہ اُسے نبی برحق نہ مانیں بلکہ جھوٹا نبی سمجھیں۔ کیونکہ انجیل کی یہ تاکید ہمیں اجازت نہیں دیتی کہ ہر مدعی نبوت کے قائل ہوجائیں۔ اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ بھی اُس خوشخبری (انجیل ) کے سوا جو ہم نے تمہیں سُنائی کوئی اورخوشخبری تمہیں سُنائے تو ملعون ہو (گلتیوں ۱: ۸)۔

مسیح کا اِقرار

انبیاء عہد ِعتیق اِس شرط کے ماتحت نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ مسیح کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے ہوئے ہیں۔ لیکن مسیح کے بعد جو بھی کوئی رسالت یا نبوت کا دعویدا ر ہوکر اُٹھے اُس کی پہچان کا یہ حقیقی اورصحیح معیار ہے کہ وہ خُداوند مسیح کا اقرار زبان اورعمل دونوں سے کر ے ۔اَے عزیزو ہر ایک روح کا یقین نہ کرو۔ بلکہ روحوں کو آزماو کہ وہ خُدا کی رُوح کو تم اس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے ۔وہ خُدا کی طرف سے ہے ۔ اورجو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خُدا کی طرف سے نہیں۔ اوریہی مخالف ِمسیح کی رُوح ہے (۱۔ یوحنا ۴: ۱-۳) پس مَیں جتانا ہوں کہ جو کوئی خُدا کی رُوح کی ہدایت سے بولتا ہے ۔و ہ نہیں کہتا کہ یسوع ملعون ہے ۔ اورنہ ہی کوئی روح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے (۱۔ کرنتھیوں ۱۲: ۳) مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی نے اپنی عمر عزیز مسیح کو ملعون ثابت کرنے کی کوشش میں ضائع کی مگر ناکام ہی رہے ۔ او


اور قنوطیت ویاسبت کی حالت میں اس عالم آب وگل سے بصد حسرت چل دِئے ۔ انجیل اُس پر اور اُس کے ہم خیالوں پر لعنت کاحکم لگاتی ہے ۔ پس اگر کوئی تمہارے پاس آئے اور یہ تعلیم نہ دے تو نہ اُسے گھر میں آنے دو اورنہ سلام کرو۔(۲۔ یوحنا ۱: ۱۰) جس طرح عہد ِعتیق کے انبیاء اپنے الہامی پیغام کو ہمیشہ خُدا سے منسوب کرتے ہیں۔ اُسی طرح عہد ِجدید کے رسول اپنے الہام وکلام کو خُداوند مسیح سے منسوب کرتے ہیں ۔(گلتیوں ۱: ۱۱- ۱۲؛افسیوں ۱:۱ وغیرہ ) اورانجیل کے بعد جو بھی کو ئی نبی اُٹھے ضروری ہے کہ وہ مسیح کا اقرار کرے اوراپنے کلام کو مسیح سے منسوب کرے ۔ ورنہ اُس کی نبوت بے ثبوت ۔ ناقابل قبول و فضول سے منسوب کرے ۔ ورنہ اُس کی نبوت بے ثبوت ۔ناقابل قبول و فضول اورتمام ماقبل وماسبق صحائف کے استقرائی اصولوں کے خلاف ہوکر باطل ٹھہرے گی۔

یہ امر مخفی نہ رہے کہ مندرجہ بالا پانچ شرائط کا ہر نبی میں موجود ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ بعض انبیاء میں دو۔ بعض میں چار ۔ اوربعض میں پانچوں بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً پولوس رسول نے معجزات دکھائے پیشین گوئیاں کیں۔ نیک سیرت تھا ۔ اُس کا کلام باقی تمام صحائف مطہرہ سے مطابقت تام رکھتا ہے ۔ اوراُس نے زبان اورعمل سے مسیح کا اقرار کیا۔ یادر رہے کہ تمام نیک سیرت نبی نہیں بلکہ تمام نبی نیک سیرت ہوتے ہیں۔ اوراس نیک سیرتی سے مُراد معصومیت تام نہیں ۔ اورتمام جو مسیح کا اقرار کرتے ہیں رسول نہیں پر تمام رسول مسیح کا اقرار کرتے ہیں۔ اورپانچویں وآخری شرط صرف مسیح کے رسولوں کے لئے لازمی ہے ۔ عہد ِعتیق کے انبیاء اس سے آزاد ہیں۔ اگر اب بھی کوئی بائبل کی صحت پر شک کرے اورہمارے دعویٰ کی مزید تحقیق کرنا چاہئے تو مسیحیوں کے کُتب خانے اورلائبریریاں اُن کی تسلی کے لئے ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ اورمسیحی علماء نے صحت صحائف مطہر ہ کے باب میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ مندرجہ ذیل مشہور کتابیں اس موضوع پرزیادہ روشنی ڈالتی ہیں۔ ہماری بائبل ومسلم علماء میزان الحق '' کلام ِحق '' اورتصحیف التحریف '' وغیرہ ۔

(۸)


تجسم الہٰی


کلام مجسم ہوا (یوحنا ۱: ۱۴)

عقل اورمذہب کے زیر عنوان ہم نے یہ ثابت کیا کہ عقل طبعی خُدا کے صحیح اوریقینی علم کے حصول میں قطعی قاصر ہے ۔ اورموجودات کے محدود دائرہ میں ہزار رہاسال سے گردش کرنے کے بعد اُس کی تحقیق و تدقیق کے حاصلات ونتائج وہی ہیں۔ اوراُس کے بعد الہام کی ضرورت کے زیر عنوان یہ ثابت کیاگیا کہ جب محدود متنزل عقل کے ذریعے خُدا کی ہستی کا صحیح علم حاسل نہ ہو سکا تو خُدا نے الہام کے ذریعے یہ مقصد حل کردایا۔ اب یہاں پر ہم دلائل یقینیہ وبراہین قطعیہ سے ثابت کریں گے کہ عقل محض اورالہام محض سے بھی خُدا کی ماہیت و حقیقت کا یقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ او ر پھر وہ آخری اورصحیح طریقہ پیش کریں گے جس سے یہ مطلب کُلی طورپر حاصل ہوسکتا ہے ۔ اور سلسلہ وارتینوں مسائل پر مختصر پر بحث بھی کریں گے ۔



موجودات اورخُدا کا علم

جب ہم موجودات کی تمام اشیاٰ پر ایک تحقیقی اورہمہ گیر نظر ڈالتے ہیں ۔ تو اتنا معلوم ہوا ہے کہ اس قطر فطرت کاضرور کوئی معمار ہے ۔ اورہم بطور استدلال اِنی معلول سے علت اورمصنوع سے صانع کا تصور کرسکتے ہین۔ کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کردیا ۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں ۔یہاں تک کہ اُن کوکچھ عذر باقی نہیں ۔(رومیوں ۱: ۱۹- ۲۰ ) لیکن مشاہد ہ فطرۃ سے صرف اُس کی موجودگی ہی ثابت ہوتی ہے نہ کہ ماہیت اورحقیقت ۔مثلا ً کسی جنگل میں ہاتھی کے نقش پا دیکھ کر کوئی عقلمند یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس جنگل میں ہاتھی ضرور موجود ہے ۔ لیکن اُس ہاتھی کے قدوقیامت ۔قوت وضعف اوررنگ اورتذکیر وتانیث اوردیگر کئی امور کے متعلق اُن آثار پا سے کچھ علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ صرف ہاتھی کی موجود گی ہی ثابت ہوسکتی ہے ۔ کسی عالیشان عمارت کے دیکھنے سے اُس کے بنانے والے معمار کی محض ہستی ہی ثابت ہوگی مگراُس کی شکل وشباہت ۔خدوخال ۔ عادات وخصائل اور طبعیت ومزاج کا علم عمارت کے مشاہد ہ ہی سے حاصل ہونا ناممکن وبحال ہے ۔ اسی طرح مشاہد ہ دُنیا مافیہا سے من حیث الآثار صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ خُدا موجود ضرور ہے ۔ پر یہ نہیں جان سکتے کہ وہ کیسا ہے ؟ مصنوعات کے مشاہد ہ سے اگر خالق کا یقینی اورقطعی تصور حاصل ہوسکتا تو دُنیا میں خُدا کی ہستی وماہیت کے متعلق مختلف ومتضا د عقائد وجود میں نہ آتے ۔ جہاں تک انسان نے اپنی عقل ناقصہ وفکر وفکر محدود و پر بھروسہ کرکے خُدا کی ماہیت وحقیقت کی تحقیق کی وہاں تک وہ ضلالت وگمراہی میں پڑگیا۔ یعنی اُن کے بے سمجھ دلوں پر اندھیر اچھاگیا۔ وہ اپنے آپ کو دانا جتا کربے وقوف بن گے ۔ (رومیوں ۱: ۲۱- ۲۲) مشہور یونانی حکیم سینکا کا عندیہ اس عقلی گمراہی کے نتیجہ کے طورپر یوں ہے ۔ ایک طرح پرفلاسفر کا مرتبہ خُدا سے کم نہیں ۔ پھر آرین کا عندیہ انسانی عقل کی گمراہی کا یوں آئینہ دار ہے ۔ جہاں تک عقلی واخلاقی زندگی کا تعلق ہے دانشمند شخص خُدا سے کم نہیں ہوتا ۔ پس ثابت ہوا کہ عقل دور بین مشاہد ہ فطرت سے اُس ذالت ِالہٰی اوروجود لامتناہی کو جوفوق الفہم والعقل ہے جان نہیں سکتی۔

الہام اورخُدا کا علم

لیکن جب دُنیا ئے اپنی حکمت سے خُدا کو نہ جانا (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۲۱ ) تو خُدا نے بذریعہ الہام اپنی ذات صفات کو انسان پر ظاہر فرمایا۔ اورجو حقدہ عقل مشاہد ہ کا ئنات سے حل نہ کر سکی وہ الہام نے حل کروایا ۔ یعنی جس منزل پر پہنچ کر عقل دور بین دنگ اورفہم تیز رو لنگ ہوگئی اُس سے آگے مشعل الہام نے اُس کی رہبری ورہنمائی فرمائی ۔ یعنی جو چیز یں نہ آنکھوں نے دیکھیں ، نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں ۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلے (بذریعہ الہام) ظاہر کیا (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۹- ۱۰) عقل کی روشنی میں تو انسان حقائق روحانیہ اوردقائق غیر مرئیہ کی تفہیم وتعقیل میں قاصر رہا۔ کیونکہ عقل کا دائرہ تحقیق محسوسات ومرئیات تک ہی محدود ہے ۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے نادیدنی رُوحانی حقیقتیں بذریعہ الہام انسان پر ظاہر فرمائیں۔ اب الہام چونکہ حقائق الہٰی کا محض لفظی بیان ہے ۔ اورالفاظ انسان کے وضع کئے ہوئے اورمحدود وہیں۔ اس لئے الہام سے بھی اُس کی ماہیت وکنہ کا ثبوتی تصور اوریقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ لفظ خُدا سے خُدا کے متعلق کچھ علم اس کے سوا حاصل نہیں ہوسکتا کہ لغت کے واضح نے یہ لفظ آفر ینند ہ کا ئنا ت کے لئے وضع کردیا ہے ۔ اگر کسی ایسے شخص کو جس نے کبھی شیر نہیں دیکھا ایک کا غذ پر لفظ شیر لکھ کر دکھائیں تو کیا اُس شہزور رندہ کا صحیح تصور اُس کو ہو جائے گا۔ ؟


اگر ایسا ہونا ممکن ہوتا تو کبھی کسی کو شیر ہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہتی بلکہ ان تین حروف میں بشکل اصلی نظر آجا یا کرتا ۔ اوربچے جو جماعت اول میں پڑھتے ہیں وہ خ دا کے مُرکب سے خُدا کو جان لیتے اوریوں بے علم لوگوں کے سوا کوئی بھی دُنیا میں خُدا کا مُنکر نہ ہوتا۔ جس طرح جغرافیہ کی کتاب میں امریکہ ۔جرمن ۔ آسٹریلیا ۔ انگلینڈ اوردیگر صد ہا ممالک کے نقشے اورحالات موجود ہیں ۔ مگر باوجود اس کے جغرافیہ کے مطالعہ سے ہم اُن ممالک کی بابت کمال علم حاصل نہیں کرسکتے ۔ اورنہ کتاب کے ذریعے اُن کی سیرہی ہوسکتی ہے ۔ اور جیسے جغرافیہ کے علم کے باوجود انسان میں یہ زبردست خواہش پائی جاتی ہے کہ کسی صورت اُن ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لطف اُٹھائے۔ اُن کی سیر وسیاحت سے بہرہ اندوز ہو اور اپنے جغرافیائی علم میں اپنے ستجرباتی علم کا اضافہ کرے ۔ اسی طرح الہام محض سے عالم لانبوت اورخُدا کی ماہیت وکنہ کا تجربی علم انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اوراُس کے دل میں دیدار الہٰی کی زبردست خواہش بے قرار ہوکر ویٹں لیا کرتی ہے۔الہام سے صرف وہ فیوض غیبی اورحقائق لاریبی لفظی طورپر معلوم ہوسکتے ہیں۔ جن کے جاننے میں عقل مجرد معطل ثابت ہوتی ہے ۔پس ثابت ہوا کہ خُدا کا یقینی اورصحیح تصور دلانے میں الہام بھی قاصر رہتا ہے ۔ انسانی فطرت ایک متشکل ومتشخص وجود میں خُدا بینی کاتقاضا کرتی ہے ۔ اورنظریات سے آسودہ نہیں ہوسکتی۔

ایک سعید ہ خواہش

خُدا ئے حکیم وقدیر وقادر نے انسا ن کی ذات میں خواہش بھی پیدا کردی ہے ۔ اورجتنی خواہشات انسان رکھتا ہے اُن کے پورا کرنے کے لئے نیچر میں سامان بھی ویسے ہی پیدا کردئے ہیں ۔اگر کسی کو علم کی خواہش ہے تو علم موجود ہے ۔ اگر کوئی سیم وزر چاہئے تو وہ بھی موجود ہے ۔ اگر کچھ سننا چاہے تو کان بھی ہیں راگ اوراصوات بھی ہیں ۔ اگر اعلیٰ مراتب کی خواہش ہوتو وہ بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ جیسی جیسی انسان کی خواہش ہیں ویسے ویسے اُن کے جواب بھی فطرت کے عجائب خانہ میں موجود ہیں ۔ایسی کوئی بھی خواہش نہیں کہ جس کا جواب نہ ہو۔ خواہش کا وجود اشیاء خواہیدہ کے وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ اب انسان فطری وجبلی طورپر یہ خواہش اپنے دل میں رکھتا ہے کہ وہ کسی صورت اپنے معبود حقیقی ابدی وازلی کے دیدار فیض آثار سے اپنی تشنئہ دید آنکھوں کی ضیافت کرسکے ۔ الہامی صحائف خُدا کی چھٹیاں ہیں لیکن خطوط ومراسلات انسان کی خُدا بینی ویزداں پذدہی کی زبردست خواہش کی تسکین کو موجب نہیں ہوسکتے ۔ یہ جذبہ سعیدہ انسانی نیچر کا وہ جبلی خاصہ ہےہے جس کے معصوم وکیف آگیں اثرات سے مسحور ہوکر انسان اپنے پردہ نشین محبوب کے اشتیاق ویدار میں تڑپ جاتا۔ اوراُس کے تخیل وتصور کی معصوم وسحر آگیں تجلی میں اپنے آپ کو کھو دیتا ہے ۔اور اُس کے خیالی حسن وجمال کے کیف زاتا ثرات اُس کے لطیف جذبات پرکھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کے روحانی وجسمانی قویٰ کو سیکڑ کر ایک مرکز پر جمع کردیتا ہے ۔ اورجب انسان کسی صورت اپنی اس عزیز ترین آروز کو پورا ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو ناکام تمنا ہو کر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گویا وہ پھٹ جائے گا۔ چنانچہ اسی پاکیزہ جذبہ کی ترجمانی موسیٰ چند الفاظ میں یوں کرتا ہے ۔ مَیں تیری منت کرتا ہوں مجھے اپنا جلال دِکھادے۔ (خروج ۳۳: ۱۸ ) پھر داود نبی اپنی ہستی کو خُدا کی محبت کی قربان گاہ پر نثار کرکے یوں یوں اُٹھتا ہے جیسے ہرنی پانی کے نالوں کو ترستی ہے ۔ویسے ہی اَے خُدا! میری روح تیرے لئے ترستی ہے۔ میری روح خُدا کی ۔ زندہ خُدا کی پیاسی ہے (زبور ۴۲: ۱-۲) صبح کا انتظار کرنے والوں سے زیادہ ہاں صبح کا انتظار کرنے والوں سے کہیں زیادہ میری جان خُداوند کی منتظر ہے (زبور ۱۳۰: ۶) پھر فلپس خُداوند مسیح سے یہی سوال کرتا ہے ۔ اَے خُداوند باپ کو ہمیں دِکھا یہی ہمیں کافی ہے ۔ (یوحنا ۱۴: ۸) جبکہ انسان کی تمام جسمانی اورروحانی خواہشات کا جواب اُس قادر وکریم نے اسی فطرت کے کارخانے میں دے دیا ہے تو نہایت مناسب اورضروری ہے کہ وہ انسان کی اس نیک ترین اورواجبی خواہش کا بھی کوئی تسلی بخش جواب دے ۔



مظہر اورخُدا کا علم

قبل ازیں ہم اچھی طرح سےثابت کرآئے ہیں کہ موجودات کے مشاہد ہ سے صرف خُدا کے وجود باجود ہی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی صرف ہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہے ۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیسا ہے ۔ اورالہام سے صرف لفظی اورتمثیلی علم اُس کی حقیقت کا حاصل ہوتا ہے ۔ لہذا ان دونوں صورتوں میں وہ ایک نامظہور اورنامعلوم خُدا رہتا ہے ۔ اس لئے جو لوگ موجودات کے مشاہد ہ سے بطور استدلال انی یا الہام محض سے لفظی وتمثیلی طورپر خُدا کا ناکامل اوردھندلا ساتصور لے کر اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ ۔ وہ یقیناً ایک نامعلوم خُدا کی پرستش کرتے ہیں۔ اورنامعلوم کی پرستش کسی حقیقت کی نہیں بلکہ ایک وہم کی پرستش ہے ۔ جیسے مقدس پولوس رسول اتھینے والوں کو فرماتا ہے ۔ مَیں نے سیر کرتے اورتمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی ۔ جس پر لکھا تھا کہ نامعلوم خُدا کے لئے ۔ پس جس کو تُم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو۔ مَیں تمہیں اُسی کی خبردیتا ہوں (اعمال ۱۷: ۲۳) اورخُداوند مسیح نے سامری عورت کو فرمایا ۔ تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں (۱۔ یوحنا ۴: ۲۲) پس لامحالہ انسان کی خُدا طلبی اورخُدا بینی کی فطری خواہش کا جواب دینے اورخُدا کی ماہیت وحقیقت کے یقینی علم کے حصول کے لئے مظہر کی ضرورت ہے ۔تاکہ ایک تو انسان اُس کے دیدار فیض آثار سے لطف اندوز ہوکر اپنی خواہش کا جواب پائے ۔اوردوسرے اس لطف وادق اورنادیدہ وجود کی خصائص ذاتیہ اورشمائل باطینہ سے بحد امکان واقفیت حاصل کرسکے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ انسان محدود العلم اورناقص العقل تو اپنے محدود قویٰ سے اس بے حد ومحیط کُل وجود کو جان نہیں سکتا ۔ اس لئے ضرور ہے کہ خُدا تعالیٰ اپنے آپ کو کسی دیدنی اورمحدود مظہر میں ظاہر فرمائے ۔ اوروہ مظہر انسان اورخُدا کے درمیان برزخ کامل ہوکر رشتہ حادث بالقدیم قائم کرے ۔ چنانچہ وہ مظہر الہٰی خُداوند مسیح ہے ۔ اُس نے فلپس کے جواب میں فرمایا۔ اَے فلپس میں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ۔ تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا ؟ کیا تویقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے ؟(یوحنا ۱۴: ۹-۱۰ ) یوحنا رسول فرماتا ہے کہ خُدا کو کسی نے بھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا (یوحنا ۱: ۱۸) بعض حضرات کہا کرتے ہیں کہ تجسم مستلزم قبائح عقلیہ ہے ۔ یعنی کہ خُدا ئے بے حد ۔ محیط کُل ،ازلی ، ابدی اورقدیم کیونکر حدو حدوث میں آسکتا ہے ۔یعنی لامحدود خُدا محدود کیسے ہوسکتا ہے ۔ اس کے متعلق اس قدر عرض ہے کہ اگر خُدا ئے بیحد کا کسی حد میں آجانا ممتنع ہے ،تو انسان محدود کابے حد ہوجا نا اُس سے زیادہ محال ہے ۔ اوراُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اورخُدا کا ملاپ محال ہے ۔محدود انسان اُس لامحدود ہستی کے دیدار سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ۔ جب تک وہ کسی دیدنی مظہر میں ظاہر ہوکر حڈوحیز کی قیود میں نہ آئے ۔ ملاپ کی ان دوصورتوں میں سے ایک صورت ہی ممکن ہے ۔یعنی کہ یا تو محدود بے حد ہو جائے یا بے حد محدود ہوجائے ۔ یہ تو عین قرین عقل ہے کہ محدود ومتناہی وجود تو کبھی بے حد ہو نہیں سکتا۔ اورذات نے حد کی قدرت واختیار میں ہے کہ حد میں آجائے ۔ دراصل حد اوربے حدی میں خصوص وعموم کی نسبت ہے ۔ اورخصوصیت عمومیت کی ایک فرد ہے ۔ خصوصیت ایک خاص کُلی ہے اورعمومیت عام کُلی ہے۔حد میں خصوصیت ہے اوربے حدی میں عمومیت ۔ ازیں جہت تمام حدود بے حد ی کے حیطہ لامتناہی میں شامل ہیں ۔ اُس سے باہر نہیں ۔ پس بےحد کا کسی حد میں آجانا محا ل ن ٹھہرا ۔

دوم: جب خُدا کی ذات بے حد ہے تو ضرور اُس کی صفات بھی بے حد ہوں گی۔ اوراُس کی جملہ صفات کا ملہ میں سے ایک صفت قدرت ہے ۔ اوراُس کی اس بے حدازلی صفت کا نتیجہ یہ محدود اورحادث کائنات ہے ۔ جبکہ اُس کی بے حد صفات کے نتائج محدود وحادث ہوسکتے ہیں۔


تو اُس کی ذات کا حد وحدوث میں آجانا کیسے محال ہوسکتا ہے ؟ اوراُس کی حد میں آنا اُن شرائط کے ماتحت ہوسکتا ہے جن سے اُس کی ذاتی خاصیت وطبیعت میں فرق نہ آئے ۔ اوراگر بے حد کا حد میں آنا امر ممتنع ہے تو اس سے اُس کا نقص قدرت لازم آئیگا ۔ جبکہ محدثات و ممکنات اُس کی بے حد قدرت کے آثار ہیں ۔ تو مسیح خُداوند اُس کے جلال کا پر تو اوراُس کی ذات کا نقش ہے (عبرانی ۱: ۳) جناب رفعت مآب خُداوند مسیح کی رفیع القدر ذات کے ماسوا اورکوئی خُدا تعالیٰ کا مظہر اکمل ،افضل نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہوسکتا ہے تو ماہ نخشپ بھی ماہ حقیقی ہوسکتا ہے ۔ اگر ہو سکتا ہے شیر قالین بھی شیر نیستان ہوسکتا ہے ۔ آفتاب کی شعاعیں پتھر لکڑی ،مٹی اوردیگر تمام اجسام پر پڑتی ہیں۔ اورآئنیہ پر بھی پڑتی ہیں۔ لیکن جس خوبی سے تور خورشید آئنیہ میں ظاہر ہوتا ہے اوراُس سے منعکس ہوکر مقابل کی اشیاء پر پڑتا اوراُنہیں محبط انواراوربقہ تجلی بنادیتا ہے ۔ اُس حُسن وخوبی سے اُس کا ظہور اورکسی بھی شئے میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا آئینہ ہی اپنی انتہائی آبداری وصفائی کے لحاظ سے سورج کا مظہر کامل ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح خُداوند مسیح کی عدیم الہیم ہستی اور فقید المثال ذات اپنی انتہائی پاکیزگی اورخصوصیات کاملہ الہٰیہ کے باعث تمام دیگر افراد عالم سابقہ وموجود ہ سے ممتاز اورافضل واکمل ہے اور انوار الوہیت کو قبول کرکے اس منصہ شہود پر منعکس کرنے کی قابلیت وصلاحیت تام رکھتی ہے ۔ لہٰذا خُداوند مسیح ہی خُدا کا مظہر جامع ہوسکتا ہے ۔ اورا سی واسطے عقل ِسلیم اُس کے کے اس دعویٰ کی حقانیت وصداقت کو بلاعذر قبول کرتی ہے کہ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ۔ا ورکوئی بیٹ کو نہیں جانتا سوائے باپ کے اورکوئی باپ کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اوراُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کیا چاہئے (متی ۱۱: ۲۷) مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیا ہوں پھر دُنیا سے رخصت ہوکر باپ کے پاس جاتا ہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛ ۸: ۴۲)۔

ایک بدیہی مثال

خُدائے تعالیٰ الطف وادق اورغیر مرئی وجود ہے اورانسان کی طبعی کثیف آنکھیں اُس حقیقت لطیفہ مخفیہ اوروجود نامظہوری کو تجربہ بصارت میں نہیں لاسکتیں ۔ لیکن انبیاء ومرسلین ومقربین نے اُس کی آواز جانفز ا کو ازمنہ سابقہ میں طرح بطرح سُنا ۔ اوراُس کے پاک پیغام کو صحائف مطہرہ میں قلمبند فرمایا ۔چنانچہ اُس نامظہور ونادیدہ مگر متکلم وجود کی مثال گراموفون ہے ۔ ا س میں متکلم کی صرف آواز سنائی دیتی ہے مگر صورت نظر نہیں آتی ۔ اس حقیقت کے اظہار کے لئے ایزد تعالیٰ نے فونوگرافر کی عقل کی روشن کیا کہ وہ ایک ایسی ایجاد کرے جو اُس کی نادیدہ مگر متکلم حیثیت کی آئینہ داری کرے ۔ چنانچہ وہ عارضی مظاہر میں کبھی کبھی ظاہر ہوتا رہا ۔ پر وہ ظاہر جامع اورمستقل نہ ہونے کے باعث انسان کی خُدا بینی ویزداں پژوہی کی فطری خواہش کو آسودہ نہ کرسکتے تھے ۔

ٹاکیز فلم میں ادا کاروں کی آواز شکل اورحرکات وسکنات تینوں باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ خُدا کی حیثیت ظہوری (تجسم) کی مثال ٹاکیز فلم میں اداکاروں کی آواز شکل اورحرکات وسکنات تینوں باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ خُدا کی حیثیت ظہوری (تجسم کی مثال ٹاکیز فلم ہے ۔ وہی حقیقت نامظہوری ملبوس مجاز میں کثیرمعانی کے ساتھ بشریت میں بس گئی ۔ وہی لطیف ہستی مادی ظاہری جسم میں سماگئی ۔ اُسی غیر مرئی لطیف وجود نے انسانی شکل اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا (فلپیوں ۲: ۸ ) چنانچہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے اُس خُدا نے فلم کے موجود کے ذہن وعقل کو منور کیا کہ ایک ایسی ایجاد کرے جو اُس کے تجسم اورظہور کی ایک واضح مثال قائم کردے ۔ چنانچہ گراموفون اورٹاکیزفلم کے ذریعے ہم خُدا کے بطون وظہور کی حیثیات ِ متناسبہ کا صحیح تصور کرسکتے ہیں۔ بلہ بہیات ومرئیات ہی کے ذریعے نادیدنی روحانی حقیقتوں کا ثبوتی تصور ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں (کلیسوں ۲: ۱۷) پس مظہر کے ذریعے خُدا کی ذات وصفات کا ثبوتی تصور اورماہیت وحقیقت کا یقینی علم حاصل ہوتا ہے ۔


اس لئے بذریعہ مظہر وہ ایک معلوم خُدا ثابت ہوا ۔ اوراُس کی عبادت ایک معلوم خُدا کی عبادت ہے ۔ اورذات ِمظہر چونکہ مراۃ الحق ہے ۔ (یوحنا ۱۴: ۹؛ کلیسوں ۱: ۱۵) اس لئے خُدا کی صفات ِ کاملہ وبالغہ کا ظہور اُسی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہم خُدا وند مسیح کی الوہی صفات کو بھی مجملاً حیطہ تحریر میں لاتے ہیں تاکہ ناظرین بخوبی سمجھ سکیں کہ کلمتہ اللہ (مسیح ) کن معانی میں خُدا کا مظہر جامع و کامل ہے ۔

قدرت واختیار

خُداوند مسیح نے اپنے اختیار وقدرت کو خُدائی قدرت و اختیار کے ساتھ ملایا اوریہ دعویٰ کیا ۔ کیونکہ جس طرح باپ مردوں کو اُٹھاتا اورزندہ کرتا ہے ۔ اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے (یوحنا ۵: ۲۱ ) اوراُس نے اپنے اس دعویٰ کو عملی طورپر ثابت بھی کیا۔ یعنی اُس نے بعد اکو اپنی قدرت اوراختیار سے زندہ کیا۔ اور یہ کہکر اُس نے بلند آواز سے پکار کہ اَے لعذر نکل آ (یوحنا ۱۱: ۴۳) اوروہ چاردن کا مردہ ایکدم قبر سے باہر نکل آیا۔ اورعبادتخانے کے سردار یائر کی مُردہ لڑکی کو یہ الفاظ کہہ کر زندہ کیا۔ اَے لڑکی میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (مرقس ۵: ۴۱ ) پھر نائن شہر کی ایک بیوہ عورت کے مُردہ بیٹے کو یہ کہہ کر زندہ کیا۔ اَے جوان مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (لوقا ۷: ۱۴) اور وہ لڑکا فوراً زندہ ہوگیا اورسبت کے روز کفر نحوم کے عبادت خانے میں ایک شخص میں بدروح کو یہ کہکر نکالا ۔ چپ رہ اور اس میں سے نکل جا (مرقس ۱: ۲۵ ) اورجب بدروح اُس میں سے نکل گئی تو لوگ حیران ہوکر بحث کرنے لگے کہ یہ کہ ہے ؟ یہ تو نئی تعلیم ہے وہ ناپاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے ۔ اور وہ اُس کا حکم مانتی ہیں (لوقا ۱: ۲۷) اور بھی دیکھو ، یہ کیساکلام ہے ؟ کیونکہ وہ اختیار اورقدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا اوروہ نکل جاتی ہیں (لوقا ۴: ۳۶) نہ صرف وہ آپ ہی ایس اخیتار رکھتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی وہ اختیار دے سکتا اوردیتا تھا ۔ ملاحظہ ہو۔ پھر اُس نے اپنے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کر انہیں ناپاک روحوں پر اختیار بخشا کہ اُن کو نکالیں ۔ اورہر طرح کی بیماری اورہر طرح کی کمزوری کودور کریں (متی ۱۰: ۲) اور انہوں نے مسیح کے دئے ہوئے اختیار کو ہمیشہ اُسی کی ذات قدرت سمجھ کر استعمال کیا۔ اوراُسی کے نام سے معجزات کئے ۔ چنانچہ پطرس اوریوحنا ایک جنم کے لنگڑے کو تندرست کرتے وقت یہ کہتے ہیں۔ یسوع مسیح ناصری کے نام سے چل پھر (اعمال ۳: ۶) اورجب اس معجزہ کے باعث اُن کی مخالفت ہوئی ۔ اوریہودی سردار فقہیہ اورکاہن اُن سے پوچھنے لگے کہ تُم نے یہ کام کس قدرت اورکس نام سے کیا ؟ اُس وقت پطرس نے رُوح القدس سے معمور ہوکر اُن سے کہا ۔ ۔۔۔۔ تُم سب اوراسرائیل کی ساری اُمت کو معلوم ہو کہ یسوع مسیح ناصری جس کو تُم نے صلیب دی اورخُدا نےمُردوں میں سے جلایا ۔ اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے (اعمال ۴: ۷- ۱۰) اوراس معجزہ کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ مخالفین ِمسیح بھی اُس کا انکار نہیں کرسکے ۔ اوراُن کو گواہی یہ ہے ۔ کہ ہم ان آدمیوں کے ساتھ کیا کریں ؟ کیونکہ یروشلیم کے سب رہنے والوں پر روشن ہے کہ اُن سے ایک صریح معجزہ ظاہر ہوا۔ اورہم اُس کا انکار نہیں کرسکتے (اعمال ۴: ۱۷ ) خُداو ند مسیح کے معجزات سے بھی کبھی کسی مخالف نے انکار نہ کیا تھا ۔ جب اُس لعذر کو قبر سے زندہ کیا تو عوام الناس متعجب ہوکر اُسے دیکھنے آئے ۔ لیکن سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعذر کو بھی مارڈالیں۔ کیونکہ اُس کے باعث بہت سے یہودی چنے گئے اوریسوع پر ایمان لائے ۔(یوحنا ۱۲: ۱-۱۱ ) پس فریسوں نے آپس میں کہا۔ سوچو تو کہ تُم سے کچھ نہیں بن پڑتا۔ دیکھو جہان اُس کا پیرو ہو چلا۔(آیت ۱۹ ) وہ اُس کے کلام کو انسانی طاقت سے بالا سمجھتے تھے ۔ (یوحنا ۷: ۴۰) اگر عہد ِعتیق کے انبیاء نے معجزات کئے تو خُدا کے نام سے لیکن مسیح نے اپنے ذاتی اختیار وقدرت سے اورمسیح کے شاگردوں نے مسیح کے نام سے اوربھی بہت سی مثالیں اور نظریں مسیح کے خُداوند نہ اختیار وقدرت کے متعلق پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ہم اسی قدر بیان کوکافی سمجھ کر تے ہیں۔



محبت

جو محبت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا ۔ کیونکہ خُدا محبت ہے (۱۔ یوحنا ۴: ۸؛۱۹)اورالہٰی محبت کا مظہر خُداوند مسیح ہے ۔ کسی راستباز کی خاطر مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا۔ مگر شاہد کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے لیکن خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر ہوا (رومیوں ۵: ۷ ؛یوحنا ۳: ۱۶ ) کلام کی گواہی یہی ہے کہ خُدا اپنی محبت کی خوبی کو ہم پر مسیح کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔ اورمحبت کی انتہا اورکمال قربانی ہے ۔چنانچہ خُداوند مسیح نے اپنی پاک قربانی کے ذریعے الہٰی محبت کے کمال کی آئینہ داری کی۔ ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی۔ (۱۔یوحنا ۳: ۱۶ ) خُداوند مسیح نے اپنی زبان حقائق ترجمان سے فرمایا۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں ۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے ۔ اورمَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں (یوحنا ۱۰: ۱۱ ؛۱۰ ) کیونکہ ابن ِ آدم بھی اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے ۔ اوراپنی جان بہتروں کے بدلے فدیہ میں دے ۔

۱۔۔۔مرقس ۱۰ : ۴۵ ،متی ۲۰ : ۲۸ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے (یوحنا ۵: ۱۳ ) اگر خُدا وند مسیح کی بے غرض پاک اور کامل قربانی خُدا کی محبت کا ظہور ہے ۔ توتجسم محبت کے خُدا کا ظہور ہے ۔ اورقربانی کے لئے تجسم ضروری ہے ۔ خُدا کی محبت یہی کیا کم ہے کہ وہ انسان کی خاطر جسم اختیار کرتا ہے ۔ قربانی دینے میں توا لہٰی ایثار کی حد ہے ۔ مسیح کی محبت بے غر ض تھی ۔ پاک تھی بلاوے دال تھی ۔ دوست ودشمن کے لئے مساوی تھی ۔ راست وناراست دونوں پر حادی تھی ۔ کامل تھی۔ اُس سے بہتر محبت کا نمونہ عظیم سے عظیم شخصیت نہ قدیم سے قدیم کتا ب اورنہ کسی اور معبود میں پایا گیا ۔ جس طرح تمام ستاروں کی مجموعی روشنی خورشید خاور کے بالمقابل ہیچ اورماند ہے ۔اُسی طرح تمام افراد ِعالم کی محبتوں کو مسیح کی لاثانی وغیر فانی محبت کے سامنے کوئی قد ر وقعت نصیب نہیں۔

۲۔ ۔۔مشہور کہاوت ہے کہ کُند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر یا کبوتر باز یباز ۔ یہ قدرت کا مسلمہ اصول ہے کہ محبوب اورمحب کا ہم جنس ومساوی لمرتبت ہونا ضروری ہے ۔ خُدا کی ذات سراپا لطیف اوروار الور اء اورفہم وادرک انسانی سے باہر ہے اورانسان خاکی ہے ۔ یعنی ذات ِ الہٰی اورذات ِ انسانی میں جنسی مغائرت ہے ۔ اوریہی امر محبت وملاپ کے مانع ہے ۔ محبت کے لئے ہم جنسی ضروری ولازمی ہے ۔ بغیر ہم جنسی کے میل ملاپ اورمحبت کا وجود محال ہے ۔ بلکہ ہم جنسی کے ساتھ ہی ہم مرتبہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ ایک شہر یا ر کامگار کے ساتھ ایک دردیش بوریہ نشیں کی دلی محبت اوردوستی ہوسکے ۔ دل ماننے کو تیار نہیں ۔ خُدا اورانسان کے درمیان رشتہ محبت وملاپ قائم کرنے کے لئے خُداوند مسیح اپنی شان الہٰی کو چھوڑ کر انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔

انسانوں کا ہم جنس بن گیا۔ ابن ِ خُدا ہوتے ہوئے ابن ِ آدم بن گیا۔ اسی باعث وہ اُنہیں بھائی کہنے سے نہیں شرماتا (عبرانیوں ۲ : ۱۱ ) پھر وہ انسانی شکل اختیار کرکے کسی شاہا نہ تجمل اوردنیوی شان وشوکت کے ساتھ نہیں آیا۔ بلکہ نہایت مفلس گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اُس کے سرپرست معاشرت وتمدن کے لحاظ سے مشہور نہ تھے ۔ بلکہ لوگ حیرت سے کہتے تھے کہ کیا ناصرۃ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے ؟ اُس کے سردھرنے کے لئے جگہ نہ تھی ۔ اُس نے اپنی تمام زندگی فقیری حیثییت میں بسر کی ۔ غرباومسکین اورروحانی وجسمانی دردمندوں کی ہمدردی اورخدمت کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بنایا ۔ اوربالآخر تمام جہان کے گناہوں کے عوض میں اپنی قیمتی جان کو عدل کے مذبح پر قربان کرکے الہٰی محبت کے کمال کو بے نقاب کردیا۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خُدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی ۔اورہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا (۱۔ یوحنا ۴: ۱۰) ۔



قدوسیت

یہ صفت خُدا کی تمام صفات کاملہ بلیغہ کی درۃ التاج ہے ۔ اور وہ پاکیزگی جو خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے خُداوند مسیح میں جو خُدا کی ذات کا نقش ہے کامل طورپر پائی جاتی ہے ۔ جبرائیل فرشتے ےکی گواہی ۔ اورفرشتے نے جواب میں اُس (مریم ) سے کہا کہ رُوح القدس تجھ پر نازل ہوگا۔ اورخُدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالنے گی۔ اوراس سبب سے وہ پاکیزہ جو پیدا ہونے والا ہے ۔ خُدا کا بیٹا کہلائے گا (لوقا ۱: ۳۵) خُداوند مسیح کا اپنا اقرار ۔ تُم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے (یوحنا ۴: ۴۶) پطرس رسول کی گواہی ۔ نہ اُس نے گناہ کیا۔ اور نہ اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔(۱۔پطرس ۲ : ۲۲ ) پولوس رسول کی گواہی ۔ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہوسکے ۔ بلکہ ساری باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا ۔ تاہم بے گناہ رہا۔(عبرانیوں ۴: ۱۵ ) رُومیوں گورنر پیلاطوس کی گواہی ۔ مَیں اس راستباز کے خون سے بری ہوں ۔ تم جانو ۔ (متی ۲۷: ۲۴ ) پیلاطوس کی بیگم کی شہادت ۔ اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ۔ کیونکہ مَیں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دُکھ اُٹھایا ہے ۔ (متی ۲۷: ۱۹ ) پہرہ داروں اوررومی صوبہ دار کی گواہی ۔ بہت ہی ڈرے اور بولے کہ بے شک یہ خُدا کا بیٹا تھا۔(متی ۲۷: ۵۴ ) بدروح کی گواہی ۔ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے ۔ خُدا کا قدوس ہے ۔ (مرقس ۱: ۲۴) اَے یسوع خُدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام (مرقس ۵: ۷ ) نہ صرف آپ پاکیزگی اورتنزہ تام میں خُدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام (مرقس ۵: ۷) نہ صرف آپ پاکیزگی اورتنزہ تام میں خُدا کے ہمسر تھے ۔ بلکہ گناہوں کی معافی کا بھی اختیار رکھتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک گنہگار عورت حقیقی تائب دلی سےآپ کے پاک قدموں پر آکر گرہی تو آپ نے فرمایا۔ تیرے گناہ معاف ہوئے (لوقا ۷: ۴۸ ) پھر ایک دفعہ چند آدمی ایک مفلوج کو آپ کے پاس لائے ۔ آپ نے اُن کا ایمان دیکھ کر اُس مفلوج سے کہا۔ اَے ادمی تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ لیکن شرع کے علماء اورفقہا ء نے اس حکم کو کفر سے تعبیر کیا۔ اورکہا کہ سوا خُدا کے کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اس پر خُداوند نے اُن سے سوال کیا کہ '' آسان کیا ہے ؟ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معا ف ہوئے ۔ یایہ کہنا کہ اُٹھ اورچل پھر ؟ لیکن اس لئے کہ تُم جانو ک ابن آدم کو زمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے(اُص مفلوج سے کہا ) مَیں تجھ سے کہتاہوں اُٹھ ! اوراپنا کھٹولا اُٹھا کراپنے گھر جا(لوقا ۵: ۲۰ – ۲۴) جب آپ نے اپنے فوق العاد ت فعل کے ذریعے اپنے پہلے قول کو ثابت کردیا۔ تو وہ سب بڑےحیران ہوئے ۔اورخُدا کی بڑائی کرنے لگے ۔اوربہت ڈرگئے اورکہنے لگے کہ آج ہم نے عجیب باتیں دیکھیں (آیت ۲۶) ابتدائے آفرینش سے از آدم تاایں دم کسی بھی ہستی نے سوائے خُداوند مسیح کے یہ خُدا وند انہ دعویٰ نہیں کیا۔ اس سے آپ کے الہٰی اختیار ،قدرت اورقدوسیت کا بین ثبوت ملتا ہے ۔ اسی واسطے آپ نے یہ فرمایا۔ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہو(متی ۹: ۱۳ ؛ مرقس ۲: ۱۷ ) اوراسی واسطے مقدس یوحنا رسول کا قول آپ کی عدیم النظیر ذات کے متعلق کیا ہی موزوں تھا کہ '' دیکھو یہ خُدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے ۔(یوحنا ۱: ۲۹) پس ایزو تعالیٰ کی قدوسیت کے کمال کو بنی نوع انسان پر ظاہر کرنے کے لئے خُداوند مسیح مظہر تھا اور ہے ۔

تمام انبیاء کرام پر فضلیت

بمقامیکہ رسیدی نرسد پیچ نبی انجیل کی تعلیم کا سرمایہ غرائب ونا دردُنیائے مذہب میں اس لئے ایک انوکھی شان اورامتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کی ہیرو وہ عدیم لنظیر اورفقید المثل ہستی ہے ۔ جس نے زینت افزائے کا شانہ گیتی ہو کر مذاق روحانیت کے لذت شنا سوں اورخُدا بینی کے طالبوں کی سب سے عزیز خواہشات کوجواب دے کر اُن کے دلوں کو گہوار ہ مسرت بنا دیا۔


اورخُدا کےدُھند لے تصور کو اپنے ظہور پر نور سے ایسے روشن کردیا جس طرح پرانے مبہم مخطوطات پر قلم پھیر کر اُنہیں پھر سے روشن کیا جائے ۔ حقائق ومعارف روحانیہ اورشمائل وخصائل قدسیہ تامہ ۔ حرکات وافعال پسندیدہ ،خیالات وجذبات سعیدہ اورالوہیت کے تمام سربستہ اسرار وانوار اور ذات ِحق تعالیٰ کا پاک ترین حُسن آپ کے نقاب ِانسانیت میں سے رہ رہ کر چھنتا رہتا تھا۔ آپ کی پر محبت اوروقف ایثار زندگی الہٰی محبت کا ایک حسین وجمیل مرفع تھی ۔ آپ کی مقدس وپاک ترین اورمعصوم رفتار وگفتار الہٰی حُسن ِ تقدس کی ایک عریاں تصویر تھی ۔ اورحضرت انسان کی ابتدائی پاکیزہ حالت اورمعصومیت کا بے نقاب مجسمہ ۔ آپ کے پیکر خاکی میں ملکوتی صفات کا عکس صاف نظر آتا تھا۔ اسی واسطے آپ کی جامع الصفات زندگی میں ایک ہمہ گیر جاذبیت تھی ۔ وہ قدرت ِکاملہ اورحکمت بالغہ جو صرف خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے آپ کی پُرحکمت وجلال جسمانی زندگی سے فوق العادت اظہارات کی صورت میں ایسے پھوٹ نکلا کرتی تھی جیسے سحاب مشکیں میں سے برق خاطف کے نورانی ڈورے ۔ وہ نور کا ستون جو ابرسیاہ کے نقاب میں ہوکر شب کے وقت بنی اسرائیل کی رہبری فرمایا کرتا تھا اُسی سرور کائنات اورسرچشمہ اکرام وحسنات کے جامہ انسانیت کو مشرف ومفتخرفرمانے کی ایک تشبیہ تھی ۔ اور آپ نے اپنی زبان ِحقائق ترجمان سے بارہا فرمایا۔ مَیں دُنیا کا نور ہوں ۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔ یوحنا ۸: ۱۲ اُس کی نورانی وجلالی زندگی نے واقعی اس عالمِ آب وگل کو مہبط انوار بنادیا۔ یہی الہٰی صفات ہیں جو آپ کو تمام انبیاء ومرسلین اورمقدسین ومتامہین سے ممتاز کردیتی ہیں ۔ اگران صفات ِ قُدسیہ الٰہیہ اورخصائص لطیفہ روحانیہ کو آپ کی ذات پاک سے الگ کردیا جائے تو آپ صرف ایک نبی یا رسول ہی رہ جاتے ہیں۔ اورہم رسولو ں اورنبیوں کو معصوم مطلق اورمنزہ عن الخدا نہیں مانتے اورنہ ہی ماننے کی کوئی وجہ ہے ۔ کیونکہ اُن کے گناہوں اورتوبہ واستغفار کا بیان صحائف مطہرہ میں بالتصر یح موجود ہے ۔ البتہ وہ اپنے اپنے زمانے کے عم لوگوں کی بہ نسبت خُدا ترسی اورنیکی کے لحاظ سے بہترین اشخاص تھے ۔ اسی واسطے خُدا کی طرف سے اُنہیں نبوت ورسالت کے فضائل ومدارج حاصل ہوئے ۔ خُدا وند مسیح نے اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل اورقدیم ثابت کیا۔ اوراپنی پیش ہستی وقدامت کا یوں دعویٰ کیا۔ مَیں تُم سے سچ سچ کہتاہوں ۔ پیشتر اس کے کہ ابراہیم پیدا ہوامَیں ہوں (یوحنا ۸: ۵۸ ) اوراب اَے باپ تو اس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنادے (یوحنا ۱۷: ۵ ) موسیٰ پر فضیلت ۔وہ موسیٰ سے اس قدر زیادہ عزت کے لائق سمجھا گیا ۔ جس قدر گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتا ہے ۔ موسیٰ گھر کا خادم اورمسیح گھر کامختار (عبرانیوں ۳: ۳؛ ۵- ۶) داود نبی پر فوقیت (مرقس ۱۲: ۳۵- ۳۷ ) سُلیمان نبی پر فضیلت یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۴۲ ) پونس نبی پر فضیلت یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۴۱ )یوحنا اصطباغی کی گواہی میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زور آور ہے ۔ مَیں اس لائق نہیں کہ جھک کر اُس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں ۔ مَیں نے تو تمہیں پانی سے بپتسمہ دیا۔ مگرو ہ تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ (مرقس ۱: ۷- ۸ ) اورجب مسیح ظاہر ہوا تو اسی یوحنا نے اُس کی پیش ہستی کی گواہی دی ۔حالانکہ پیدائش جسمانی کےلحاظ سے یوحنا مسیح سے چھ ماہ پہلے پیدا ہوا تھا۔ تو بھی وہ مسیح کو اپنے سے قدیم کہتا ہے ۔ یہ وہی ہے جس کی بابت میں نے کیا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آتا ہے ۔ جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ۔ کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا (یوحنا ۱: ۳۰ ) یوحنا رسول کی گواہی ۔ابتدا میں کلام تھا اورکلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا ۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ ساری چیزیں اُس کے واسطے سے پیدا ہوئیں ۔ ۔۔۔۔(یوحنا ۱: ۱- ۳) و ہ لاتبدیل ہے ۔ یسوع مسیح کل اورآج بلکہ ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں ۱۳: ۸ ) یوحنا اُس کو اول وآخر اورابدالآ باد زندہ رہنے والا ۔اور موت وعالم ارواح کی کنجیوں کا مختار کہتا ہے (مکاشفہ ۱: ۱۷ – ۱۸ ؛ ۲: ۹) وہ قدوس اوربرحق ہے (۳: ۷ ) وہ آمیں اورسچا اوربرحق گواہ اورخُدا کی خلقت کا مبداء ہے (۳: ۱۴ ) وہ اَن دیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے ۔ تمام آسمانی وزمینی مرئی وغیر مرئی چیزوں کا میل خُدا کے ساتھ اُسی کے ذریعے ہوسکتا ہے (کلسیوں ۱: ۱۵ – ۲۱) وہ خُدا کا بھید ہے ۔اور خُدا کے بھید یعنی مسیح کو پہچانین ۔ جس میں حکمت و معرفت کے سارے خزانے چھپے ہوئے ہیں (کلیسوں ۲: ۲- ۳ ) وہ تمام دُنیا کی نجات صرف اُس ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے ۔


اوربغیر اُس کے نجات محال ہے ۔ (اعمال ۴: ۱۲ ) وہ تمام دُنیا کی عدالت کرنے والا اکیلا منصف ہے ۔ باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا ۔ بلکہ اُس نے عدالت کا سار ا کام بیٹے کے سپردکیا ہے (یونا ۵: ۲۲ ) خُدا کے ملاپ لئے مسیح ضروری وسیلہ ہے ۔ راہ اورحق اورزندگی مَیں ہوں ۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا (یوحنا ۱۴: ۶ ) جس طرح عہد عتیق کے زمانہ میں انبیاء پر خُدا کی طرف سے الہام ہوتا تھا ۔اُسی طرح نئے عہد کے رسولوں پر خُداوند مسیح کی طرف سے الہام ہوتا ہے ۔ چنانچہ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے ۔ اَے بھائیو مَیں جتائے دیتا ہوں کہ جو خوشخبری (انجیل ) مَیں نے سُنائی وہ انسان کی سی نہیں ۔ کیونکہ وہ مجھے انسان کی طرف سے نہیں پہنچی ۔ اورنہ مجھے سکھائی گئی ۔ بلکہ یسوع مسیح کی طرف سے مجھے اُس کا مکاشفہ ہوا (گلیتوں۱: ۱۱- ۱۲ ) پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۲۰ ) پولوس کی طرف سے جو خُدا کی مرضی سے مسیح یسوع کا رسول ہے (۲۔ کرنتھیوں ۱: ۱ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱: ۱؛ افسیوں ۱: ۱ ؛ کلیسوں ۱: ۱ ؛ ۱۔ تمتھیس ۱: ۱ ؛ ۲۔ تموتھی ۱: ۱ ططس ۱: ۱ ) پطرس رسول کی گواہی پطرس کی طرف سے جو یسوع مسیح کا رسول ہے (۱۔ پطرس ۱: ۱ ؛ ۲۔ پطرس ۱: ۱) خُداوند مسیح کے اپنے الفاظ ۔ اَے باپ وہ گھڑی آپہنچی ۔ اپنے بیٹے کاجلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے ۔ چنانچہ تونے اُسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے ۔ تاکہ جنہیں تونے اُسے بخشتا ہے اُن سب کو وہ ہمیشہ کی زندگی دے ۔ اورہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خُدائے واحد اوربرحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ (یوحنا ۱۷: ۱- ۳ ) تاکہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا (یوحنا ۵: ۲۳ ) اورامثال ۸: ۲۲- ۳۱ ) میں کلمتہ اللہ کی قدامت وازلیت کابیان خوب واضح الفاظ میں موجود ہے ۔وہاں پر لفظ دانائی مستعمل ہے اور یونانی لفظ لوگاس (کلمہ ) کے معنی دانائی اورکلام کے ہیں۔ اوریہ مسیح کا خطاب ہے ناظرین مذکورہ بالا بیان سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ خُداوند مسیح صرف نبی اوررسول ہی نہ تھے بلکہ نبیوں کو الہام دینے والے دُنیا کے خالق ومالک ۔نجات دہندہ اورقابل پرستش ۔جب اس قسم کے الہٰی القاب ۔الہٰی اقوال وافعال ،الہٰی قدرت واختیار ۔الہٰی صفات وحسنات اورپاکیزگی وقدوسیت تام اُس کی ذات ِ مقدس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ اُسے مظہر ِخُدا اورمراۃ الحق تسلیم کرکے سرنیاز اُس کے پاک ومبارک قدموں پر نہ رکھ دیا جائے ۔

عہد عتیق ایک کشفی سلسلہ ہے جس میں مکشوفات ِ قدسیہ الہٰیہ ملہمین پر مختلف طرح ظاہر ہوئے ۔ اورعہد جدید میں اُسی حقیقت کشفی مگر نا ۔ مظہوری کا ظہوری تجسم ظاہری اورتجسم بجسد عنصری موجود ہے ۔ اگرچہ خُدا تعالیٰ نے اُس وقت بھی مختلف عارضی مظاہرات میں ظاہر ہوتا رہا ۔ لیکن وہ خُدا بینی کے خواہشمندوں کی چشم اشتیاق کا خاطر خواہ جواب نہ تھے ۔ کوئی مستقل وجامع مظاہر نہ تھے ۔ خُداوند مسیح وہ مستقل وجامع مظہر ہے جس میں حق تعالیٰ کی تمام صفات ِقدسیہ اوررموز روحانیہ سجدا مکان ظہور پذیر ہوئیں۔ گوایا حقیقت برنگ ِمجاز منصہ ء شہود پر جلوہ فگن ہوئی ۔ اورانسان کے اس جذبہ سعیدہ اورآرزوئے پسندیدہ کا جواب دیا۔ کہ

کبھی اَے حقیقت منتظر نظر آلباس ِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجد ے تڑپ رہے ہیں میر ی جبین ِنیاز میں

ہم کہاں تک اُس کے شمائل حسنہ وخصائل قدسیہ کی آئینہ داری کریں ۔ اُس سراپا نور کی لاثانی اوربے مثل زندگی کے چہرے کا ایک گوشہ بے نقاب کرنا بھی طاقت قلم سے باہر ہے ۔ ہماری مندرجہ بالا تمام تحریر شاعرانہ حمد و سپاس نہیں ہے ۔ بلک برخلاف اس کے انجیل مقدس کے بحربے کنار کو کوزے میں بند کرنے کی ایک ناکام سی کوشش ہے ۔ کلام ہماری تحریر سے بدرجہا زیادہ اُس کے لئے وقف ِمحامدت ہے ۔ بلکہ کلام بھی یہ اعتراف کرتا ہے ۔ کہ خُداوند مسیح کی جامع انصفات زندگی اوررفیع القدر ذات کا پورا بیان نہیں کرسکا (یوحنا ۲۰ : ۳۰؛ ۲۱: ۲۵ )



تمام انبیاء کرام پر فضلیت

اکثر مکدر الطبع اورمحجوب الفہم لوگ مقلدان آنخداوند کے ایمان ویقان کی بنیاد کو جنبش دینے کی نیت سے آپ کی عصمت تامہ پر کہنے ہتھیاروں سے حملہ کر نا موجب ِحسنات ِ کثیرہ سمجھتے ہیں۔ اورآفتا ب کی طرف خاک دھول اڑالے یعنی مسیحیت کامقابلہ کرنے کو اپنے عقائد کے استحکام کی وجہ تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔ اورشیر قالین کو شیر نیستان کے بالمقابل کھڑا کرکے اصل کونقل اورنقل کو اصل ثابت کرنے کی ناکام کو ششوں پر فتحمند انہ نعرے لگاتے ہیں۔ ہم یہاں پر اُن کو جواب دینے میں اختصار سے کام لیں گے ۔ کیونکہ اس کتاب کا اختصار جو ہمیں منظور ہے اجازت نہیں دیتا کہ مخالفین کے تمام اعتراضات کو رفع کریں۔ اورطول بیانی وتصنیع اوقات کے علاوہ سردرد مول لیں۔ مسیحی مصنفین نے اس امر میں کوئی دقیفہ اُٹھا نہیں رکھا۔ مخالفین خُداوند مسیح کے اس بیان کی بنا پر اعتراض اُٹھا یا کرتے ہیں کہ یسوع نے اُس سے کہا تومجھے کیوں نیک کہتا ہے ے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا (مرقس ۱۰ : ۱۸ ؛ لوقا ۱۸: ۱۹ ؛ متی ۱۹ : ۱۶ )

اول ۔

اس مقام میں خُداوند مسیح نے اپنی نیکی کا نہ تو اقرار کیا اورنہ انکار ۔ کیونکہ خُدا کے نیک ہونے اورانسان کے نیک ہونے میں بڑا فرق ہے ۔ خُدا ا س معنی میں نیک نہیں کہ وہ بے گناہ ہے ۔ بلکہ وہ قدوس اوربالذاتہ پال ہے اورتمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔پس الہٰی نیکی کا اقرار انسانی نیکی کا انکار نہیں ہوسکتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خُدا کی نیکی اورمسیح کی نیکی کوئی دو باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ مسیح خُدا کی راست بازی ہے (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۳۰ ) الہٰذا مسیح نے اپنے نیک ہونے کا انکار نہیں کیا۔

دوم۔

وہ سائل مسیح کو دیگر مذہبی اُستادوں اورعالموں کی طرف محض ایک استاد ہی مانتا تھا ۔ اسی لئے وہ کہتا ہے ۔ اَے نیک اُستا د ۔اور جیسے بعض استادوں کے متعلق لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ بڑا شریف النفس ہے ۔ وہ بہت نیک ہے لیکن اُس نیکی سے مراد معصومیت تام نہیں ہوتی بلکہ اُن میں بعض اوصاف عامتہ الناس کی بہ نسبت اچھے ہوتے ہیں ۔ جب کسی استاد یا ہادی کو نیک کہا جاتا ہے تواس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ نیکی میں خُدا کاہمسر ہے ۔اورجب کسی استاد کو عالم فاضل کہا جاتا ہے تواُس سے یہ مُراد نہیں ہوتی کہ وہ خُدا کی مانند علیم کُل یاہم دان ہے ۔ پس اسی طرح اُس سائل نے عام استادوں کی طرح نیک استاد کہا۔ اورآپ نے اس ظاہری ناکامل اورعام نیکی کوا پنی کو اپنی ذات کے متعلق قبول نہ کیا۔ کیونکہ آپکی بے نقص اورکامل نیکی کو انسان کی سی ناکامل اورناقص نیکی کے زاویہ نگا ہ سے دیکھنا بے انصافی ہے ۔ کیونکہ انسان کی ادھوری نیکی کے متعلق تو کلام یہ گواہی دیتا ہے ۔ کیونکہ زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے ۔ (واعظ ۷: ۲۰ ) اس لئے مسیح نے اُسے گویا یوں کہا۔ کہ اگر تو مجھے دیگر مذہبی استادوں کی طرح محض انسان سمجھ کر ہی نیک استاد کہتا ہے ۔ تو کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا تاکہ سائل یہ غلط خیال اپنے دل سے نکال دے کہ مذہبی اُستاد بھی نیک مطلق ہوسکتے ہیں۔ اوراُس کا اس عام لقب سے مسیح کو خطاب کرنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی حضور وائسرائے کوکہے ۔ سلام تھا بیدارجی ۔



سوم۔

متی ۱۹: ۱۶ کو پڑھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ خُداوند نے نہ تو اپنی نیکی کا اقرار کیا اور نہ انکار ۔ بلکہ صرف ایک طر ح سے نیکی کے معنی بتائے۔اورفرمایا کہ '' تو مجھے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے ۔یعنی کہ اعمال حسنہ چن کو تُم نجات اورہمیشہ کی زندگی کی شرط سمجھے ہوئے ہو خُدا کی نظر میں پورے نہیں۔ اورایسی ادھوری نیکیوں سے ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنا عبث ہے ۔ حقیقی نیکی تو گناہ آلودہ طبیعت سے ہو ہی نہیں سکتی بلکہ سراپا نیک وپاک طبیعت سے صاد ر ہوا کرتی ہے ۔ کیونکہ '' کیا انجیر کے درخت میں زیتون اورانگور میں انجیر پیدا ہو سکتے ہیں ؟ اسی طرح کھاری چشمے سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا (یقوب ۳: ۱۲ ) اوراگرنیک بن جانا اپنی ذاتی کوشش سے ممکن ہے تو '' کامل بنو جیسے تمہار ا آسمانی باپ کامل ہے (متی ۵: ۴۸ ؛ افسیوں ۵: ۱) ایسی کمالیت ہی ہمیشہ کی زندگی کے لائق انسان کو بنا سکتی ہے ۔ لیکن انسانی کوشش کا یہ حال ہے ۔ مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں ۔ البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے (رومیوں ۷: ۱۸ ) اعلیٰ درجہ کی بے نقص نیکی کا تو کیا ذکر اُس سائل سے تو معمولی درجہ کی نیکی بھی نہ ہوسکی۔ یعنی جب مسیح نے فرمایا کہ '' جا اپنا سارا مال غُربا کوبانٹ دے ۔ اورمیرے پیچھے ہولے۔ تو وہ جواب یہ بات سُن کر غمگین ہوکے چلاگیا ۔ کیونکہ بڑا مالدار تھا (آیت ۲۱؛ ۲۲) اُس کی اس روش سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بتائی ہوئی معمولی اورمُمکن العمل نیکی کو ناممکن العمل سمجھا ۔ اور نتیجہ یہ حاصل ہو اکہ وہ معمولی کاموں کو جن پر سینگ لگے نہ پھٹکڑی نیکیاں سمجھتا تھا ۔ اسی زاویہ نگا ہ سے اُس نے آپ کو '' اَے نیک اُستاد '' کہا ۔ اور آں خُداوند نے اس قسم کی ظاہری اوررسمی ورواجی نیکی کوا پنے اُوپر عائد ہونے نہ دیا۔ اورا س لئے مسنیک اُستاد کے الفاظ کو اپنے حق میں قبول نہ فرمایا۔

چہارم۔

اگر آپ اس قسم کی ادنیٰ کا اطلاق اپنی ذات پر جائز ٹھہرا لیتے تو یہودی گند م نما جو فروش اُستادوں اورربیوں کو ملامت وتنبیہ نہ کرسکتے ۔ بقول خود کو فضیحت اوروں کو نصیحت اول درجہ کی حماقت ہےہ ۔ کیونکہ خٖتہ راخفتہ کے کند بیدار ۔ اور اسی واسطے آپ ایسے درس دے سکے ۔ کہ کیا اندھے کو اندھا راہ دکھا سکتا ہے ؟ کیادونوں گڑھے میں نہ گریں گے ؟ (لوقا ۶: ۳۹ ) اورجس کی آنکھ میں شہتیر ہے وہ اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو نہیں نکال سکتا (متی ۷: ۱- ۵) یہ باتیں آپ کی عصمت تامہ کی گارنٹی ہیں۔

پنجم۔

اگر آپ کا دامن عصمت گناہ کے گرد غبار سے ذرابھی آلودہ ہوتا تو آپ دوسروں کے گناہ معاف کرنے کا اختیار نہ رکھتے ۔ آپ نے گنہگاروں کے گناہ بخشے (لوقا ۵: ۲۰ – ۲۴ ؛ ۷ : ۴۸ ) اور گناہ سے حاجت توبہ کی لازم آتی ہے ۔ لہٰذا مخالفین اپنے اس ردی دعویٰ کے ثبوت میں آپ کی توبہ واستغفار کے متعلق کوئی مقام انجیل ِجلیل سے پیش کریں ۔ ورنہ سورج پر تھوکنے سے باز رہیں ۔ وہ اپنے ہی منہ پر پڑے گا

ششم ۔

قرآن شریف اوراحادیث معتبر ہ خُداوند کی عصمت تامہ پر زبردست گواہی دیتے ہیں۔ جو تحقیقات کا شائق ہو اسلامی لٹریچر کی درق گردانی کردیکھئے ۔ اورمسیحی صحائف مطہرہ کو بھی اچھی طرح مطالعہ کرے ۔ اگرچہ مسیح کی الوہیت و قدوسیت کو ثابت کرنے کے لئے مخالفین کی آراء ضروری نہیں۔ کیونکہ انجیل مقد س کی تائید وتصدیق ہی کافی سے زائد ہے ۔ اورمحتاج نہیں کہ غیر مسیحی علماء کی تائید ہمارے دعویٰ کو تقویت دے۔تو بھی ہم مصلحتا ً اسلام کے ایک جید عالم کی رائے مسیح کے متعلق یہاں قلمبند کرتے ہیں ۔


مولوی سید وحید الدین خان آزاد اپنی کتاب '' حد تحقیق بہ مشرب ِ سُنی '' کی فصل ۳ صفحہ ۴ میں اپنا شخصی اعتقاد خُداوند مسیح کے متعلق یوں قلمبند فرماتے ہیں۔ مختصر اً اپنا اعتقاد ہم یہ لکھتے ہیں۔ کہ کتاب ِبائبل یعنی مجموعہ توریت وانجیل وغیرہ کابہت حق ہے ۔ اورسلسلہ انبیاء بنی اسرائیل میں خصوصا ً ذات حضرت مسیح علیٰہ السلام کی ایسی ملکی صفات ہیں۔ کہ اگر ہم اُن کو خُدا نہ کہیں تو اُن کو مجرد آدمی بھی نہیں کہہ سکتے ۔ کہ اُن کی صفات عام ظاہر اقوت ِبشری سے بہت زائد ہیں۔ اورسوائے اس کے چارہ نہیں کہ اُن کو ہم ایک آدمی معہ اللہ تسلیم کرلیں۔ اورقرآن شریف میں جو ذکر اُن کا بلفظ کلمتہ اللہ روح اللہ کے ہے ۔ سواس سے زیادہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ اورتوریت و زبور وغیرہ میں پیشن گوئیاں نسبت اُن کی اس کثرت سے ہیں کہ قوم یہود کو خود انتظار ایک مسیح کا ہے ۔

کیا تجسم خُدا کی کسِر شان ہے

اُس نے اگرچہ خُدا کی صورت پرتھاخُدا کے برابر ہونے کو قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سجھا ۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا۔ اورخادم کی صورت اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ اورانسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا(فلپیوں ۲: ۶-۱۸ )

مسیحیت کے عظیم الشان اورمایہ ناز مسئلہ تجسم کو غیر معقول ثابت کرنے کی غرض سے غیر مسیحی لوگ اس پر بہت سے لچر پوچ اعتراضات اُٹھایا کرنے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ '' تجسم خُدا کی کبر شان ہے ۔ یہ اعتراض بہت دفعہ ہمارے سُننے میں آتا ہے ۔ لیکن ہم مخالفین کی اس اچھی ذہنیت پر حیران میں کہ انہوں نے ۔۔

۱۔ طبقہ جمادات میں پتھر کو خُدا کا مظہر تسلیم کیا۔ اورپتھر کی مورتیوں کو مظہر خُدا سمجھ کر اُن کی پرستش پرضمیر فروشی کی ۔ اہل اسلام حجراِ سود کو جو خانہ کعبہ میں ہے چومتے ہیں۔ اورہندوں کا توجہ کر ہی کیا۔ اُن کے سر بفلک سنگین صنم خانے کروڑ ہا پتھر کے بُت اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ یہاں تک کہ عابدوں کی تعداد سے معبودوں کی تعداد بڑھی ہوئی ہے ۔ بھلا پتھروں سے خُدا کی ذات وصفات کا ظہور کیسے ہوسکتا ہے ۔ اور اصنا م سنگین کو انسان کی نجات سے کیا واسطہ ۔

۲۔ طبقہ نباتا ت میں خُدا کے مظاہر مانتے ۔ اورخاص خاص درختوں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ کور اعتقادی تاحال زوروں پر ہے ۔ حالانکہ درخت خُدا کی صفات کا ملہ کے مظہر نہیں ہوسکتے ۔ اورنہ ہی وہ انسان کا خُدا کے ساتھ ملاپ کرواسکتے ہیں ۔کہاں مظہر اورنجات انسانی اورکہاں نباتا ت !

۳۔ طبقہ حیوانات میں خُدا کے مظاہر مانے ۔گئو ۔بیل اورسانپ وغیرہ کی پرستش ہورہی ہے ۔ اورمصری میفس کے متبرک سانڈ کو پوجتے تھے ۔ ہند میں بھی متبرک سانڈ پوجے جاتے ہیں۔ کیاکوئی عقلمند آدمی مان سکتا ہے کہ حیوان خُدا کی ذات ِ کاملہ اورصفات ِ قدسیہ الہٰہ کے مظہر ہوسکتے ہیں۔ پھر اُن کوتعظیم الہٰی کی جگہ دینا کفر وشرک نہیں تواور کیا ہے ؟

۴۔ طبقہ انسانی میں سینکڑوں مظاہر مانے ۔ راجاوں ،سور بیروں ۔ بزرگوں ، رشیوں ،مینوں کو اوتار (مظہر خُدا) تسلیم کیا ۔ اوراُن کی پرستش ممانوں سے ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اُن کے سنگین مجسمے قریب قریب ہر شہر اور اورمند ر میں موجود ہیں ۔ اور کروڑوں کی تعداد میں خلق خُدا اندھا دھند شبانہ روزاُن کی عبادت میں مصروف ہوکر موردعتاب الہٰی ہورہی ہے ۔ جس طرح ہر ایک ہرن کی ناف میں کستوری نہیں ہوتی۔ ہر ایک سیپی میں موتی نہیں ہوتا ۔ ہر دھات سونا نہیں ہوتی ہرشفاف شے آئینہ نہیں ہوتی ۔ اُسی طرح ہر انسان خُدا کا مظہر نہیں ہوسکتا ہے ۔ بلکہ وہی جس میں میں الہٰی صفات اورالہٰی طبعیت موجود ہو۔ دُنیا دار عیش پرست اورجنگجو لوگ خُدا کے مظہر نہیں ہوسکتے ۔ ذات ِ مظہر میں انسانی والہٰی ہر دو طرح کی صفات کا وجود ضروری ہے ۔ اُس کی ایک حیثیت خُدا سے اور دوسری حیثیت انسان سے مقرون ہو۔ تاکہ ربط حادث بالقدیم قائم کرسکے ۔ مظہر خُدا میں ان دوحیثیات کا اجتما ع لابدی ہے ۔ اُس کا انسان کامل اورخُدا کامل ہونا ضروری ہے ۔


واضح ہو کہ تجسم اختیار کر نا خُدا کی کسر شان تب ہو اگر وہ جمادی ، نباتاتی اورحیوانی طبقات میں مجسم ہو۔ انسان خُدا کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے ۔ اور مظہر خُدا سے استفاد ہ بھی وہی کرسکتا ہے ۔ نجات کا انتظام بھی اُسی کے لئے کیاگیا ہے ۔ خُدا کا ملاپ بھی صرف طبقہ انسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے تو اندریں صورت اگر خُدا مجسم ہرکر انسانی جامہ پہنے تو اس میں خُدا کی شان نہیں گھٹتی ۔ بلکہ برعکس اس کے انسانیت کی شان بڑھ جاتی ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقیت ہے ۔ کہ اگر اشرف وجود ادنی ٰ وجود کے ساتھ متحدو مقرون ہوجائے توادنیٰ کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے ۔ مثلاً رُوح کے ساتھ اتحاد رکھنے کے باعث ہمارے جسم کی اس قدر قدر وقیمت ہے ۔ اگر روح جسم کو چھوڑ جائے تو اس کی ساری قدرومنزلت یکسر جاتی رہے ۔

۱۔ اگر لعل یا جواہر کاایک ننھا ساذرہ پیتل کی انگوٹھی پر بطور رنگینہ لگایا جائے تو اُس انگوٹھی کی قیمت کس قدر بڑھ جاتی ہے ۔ ایک دریتیم کی وجہ سے ایک صدف کی قدروقیمت کس قدر زیادہ ہوجاتی ہے ۔ لیکن جب وہ در بے بہا اُس میں سے نکال لیا جاتا ہے تو خالی سیپی کام کی نہیں رہتی ۔ اسی طرح خُداو ند مسیح جب مجسم ہوکر انسانیت سے مقرون ہوگئے تو انسانیت کا مرتبہ بڑھ گیا۔

۲۔ پرانے زمانے میں بعض بادشاہ فقیرانہ بھیس بدل کر رات کے وقت اپنی رعیت کے پست ومظلوم طبقہ کے دُکھ درد جاننے کی خاطر ادھر اُدھر اُن کی جھونپڑیوں میں گشت لگایا کرتے تھے ۔ اور اُن کی مظلومیت ومصیبت کے موجبات کا سراغ لگا کر اگلے روز تخت ِ عدالت پر بیٹھ کر اُن کا انصاف کردیتے تھے ۔ اگر بادشاہ شاہی شان وتجمل میں اُ ن کے پاس جاتا تو وہ حواس باختہ ہی ہو جاتے ۔ اُن میں کب یہ حوصلہ رہتا کہ بادشاہ کو بلاخوف اُن مظالم ومصائب سے آگاہ کرتے جو زبردستوں کی طرف سے اُن پرروار رکھے جاتے تھے ۔ اب ظاہر ہے کہ فقیرانہ بھیس بدلنے سے بادشاہ کے اختیار ومرتبہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی ۔ بلکہ بے کس ومظلوم لوگوں کے حق میں اُس کا یہ ایثار کثیر المنفت اورمصائب سے نجات دلانے کا موجب ہوجاتا تھا۔ اسی طرح مسیح کے جسم ِانسانی میں اس عالم آب وگل پر ظہور فرمانے سے ابزد تعالیٰ کا حد درجہ ایثار ظاہر ہوتا ہے ۔ جس سے دُنیا کے تھکے ماندے اوربوجھ سے دے ہوئے لوگوں کے لئے آرام ومسرت اورحقیقی آزادی کا دروازہ کھل گیا ۔

۔ ۳۔ ایک لعل وجواہر کے سوداگر (جوہری ) کے پاس ایک نہایت خوبصورت ہنس تھا جس کو وہ بہت عزیز رکھتا تھا۔ بہت لوگوں نے اُسے خریدنے کی کوشش کی مگر اُس سوداگرنے ہمیشہ اُس کے بیچنے سے انکار کیا۔ اُس کے کئی دوست ناراض ہرکر چلے گئے ۔ ایک روزہ اُس نے سوچا کہ اس ہنس کی وجہ سے میرے کئی دوست مجھ سے نارا ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ میں نے اس کو اُن کے ہاتھ بیچنے سے انکار کیا ۔مناسب ہے کہ مَیں اس کی قیمت دوہزار روپیہ ٹھہرالوں۔ نہ کوئی اتنے دام دے گا اور نہ ہنس لے جائے گا۔ بھلا دوہزار روپیہ دے کر اس مشت پر کا کوئی کیا بنائے گا؟ ایک روز ایک ایک جوہر ات کا گاہک کوئی قیمتی جو اہر خریدنے کے لئے اُس کی دوکان پر آیا۔ سوداگر اُس وقت دوکان کے اندرونی حصے میں کوئی کام کررہاتھا۔ گاہک کے دیکھتے دیکھتے اُس ہنس نے ایک لاکھ روپیہ کا ایک قیمتی لعل نگل لیا۔ جب سوداگر باہر آیا تواُس نے گاہک سے پوچھا کہ آپ کیا خریدیں گے ؟ اُس نے کہا کہ '' یہ ہنس'' سوداگر نے جو اصل حقیقت سے ناواقف تھ اکہ کہ اس کی قیمت دوہزار روپیہ ہے ۔ گاہک نے فوراً دو ہزار روپیہ ڈھیری کردیا۔ اورہنس اُٹھا لیا۔ سوادگر بہت خوش تھا کہ اچھا بے وقوف ملا ہے ۔ جو پانچ د س روپے کی چیز کے دوہزار روپےدے کر چلاگیا ہے ۔ چلو کیا خسار ہے ۔ سراسر نفع ہی ہے ۔دیکھئے اُ س لاکھ روپے کے لعل نے اس ہنس کی قدروقیمت کوبڑھا دیا۔ اگر اُس کے پیٹ کے اندر وہ قیمتی لعل نہ ہوتا تو کون اُس کو اتنی گراں قیمت پر خرید نا ؟ اورہنس کے پیٹ میں پڑنے سے لعل کی قیمت گھٹی نہیں بلکہ قائم رہ ۔


کلمتہ اللہ (مسیح ) وہ لعل بہشتی تھا۔ (امثال ۸: ۱۱؛ ۱۹ ؛متی ۱۳: ۴۵،۴۶ ) جو مقدسہ مریم کے بطن میں پڑا تو اُس کی قدروقیمت بڑھ گی ۔ آج اُس نادار عورت کو کروڑوں نفوس مسیح کی ماں سمجھ کر نہایت عزت واحترام سے یاد کرتےہیں۔ مریم کا اپنا اقرار ملاحظہ ہو۔'' میری جان خُداوند کی بڑائی کرتی ہے ۔ اورمیری روح میرے منجی خُدا سے خوش ہوئی ۔کیونکہ اُس نے اپنی بند ی کی پست حالی پر نظر کی ۔اور دیکھ اب سے ہرزمانے کے لوگ مجھ کو مبارک کہیں گے (لوقا ۱: ۴۶-۴۸) وہ جب اس عالم سفلی میں انسانوں کے مشابہ ہو کر آیا تو اُس وقت جتنوں نے اٰسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند ننے کا حق بخشا (یوحنا ۱: ۱۲ ) وہ ابن ِآدم بن گیا تاکہ انسانوں کو خُدا کے بیٹے بنائے ۔ وہ خاکی بن گیا تاکہ ہم خاکیوں کو افلاکی بنائے ۔ وہ اپنی اُس قوت کی تایثر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کرسکتا ہے ۔ ہماری پست حالی کے بد کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پربنائے گا ۔ (فلپیوں ۳: ۲۱ ) وہ صلیب پر چڑھا تو اُس لعنت کے نشان کو برکت کا نشان بنا کر اُس کی شان کر بڑھا گیا ۔ اُس کو پسماندہ لوگ قبول کریں تو اُ ن کی شان بڑھ جاتی ہے ۔ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا ۔ تاکہ تُم اُس کی غریبی کے سبب سے دولتمند ہوجاو(۲۔ کرنتھیو ں ۸: ۹ ) وہ مرگیا تاکہ گناہ وہ موت ہمیشہ کے لئے نیست ہوجائیں وہ زندہ ہوگیا تاکہ ہم حیا تِ ابدی کو حاصل کریں۔

پس اَے ناظرین ! تجسم خُدا کی کسِر شان نہیں ہے بلکہ ہم عالم خاکی کے باشندوں کی قدروقیمت کو بڑھانے اورہمیں خاک ِ مذلت سے اُٹھا کر عرش بریں پر پہنچانے کے لئے خُداتعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتا ہے خُداوند مسیح عرش ِ بریں کو چھوڑ کر اس عالم سفلی میں آیا تاکہ ہم الوہیت (خُدا ) سے متحد ہوکر حیات ِ ابدی اورراحت ِ سرمدی کو حاصل کریں۔ آمین !

مسیح کامل انسان

انجیل کی رُو سے انسان ِ کامل وہ ہے جس کی ذات ارثی ، متعدی ، کسبی ،عملی اورخیالی ہر قسم کے گناہ سے بکلی آزاد ہو۔ اورعمد وسہو کے گناہ سے قطعی مبرا ومنزہ ہو۔ گنہگاروں کی صحبت میں رہے پر گناہ اُس کی پاک طبیعت پر مطلق اثر انداز نہ ہو۔ اورخُداوند مسیح اس معیار کے مطابق انسان کا مل ہے ۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جوہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہوسکے ۔ بلکہ ساری باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا ۔ تاہم بے گناہ رہا (عبرانیوں ۴: ۱۵ ) اور اُس کی ذات میں گناہ نہیں (۱۔ یوحنا ۳- ۵ ) اُس بیٹے کو مقرر کرتا ہے جو ہمیشہ کے لئے کامل کیاگیا ۔ (عبرانیوں ۷: ۲۸ ) اسی واسطے ہر مسیحی ایماندار کو اُس کے قد کے انداز ے تک پہنچنے کاحکم ہے ۔ جب تک ہم سب کے سب خُدا کے بیٹے کے ایمان اوراُس کی پہچان میں ایک نہ ہوجائیں ۔ اورکامل انسان نہ بنیں ۔ یعنی مسیح کے پورے قدکے انداز ے تک نہ پہنچ جائیں (افیسوں ۴: ۱۳ ) ۔

خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پاک وراست پیدا کیا تھا ۔ لیکن حضرت انسان نے گناہ کی کالک سے اپنی وہ فطری جلالی صورت بگاڑلی ۔ اور الہٰی صورت کے وہ نورانی خدوخال اورنقش ونگار گناہ نے اُس کے حافظ سے مٹادئیے ۔ اب دوبارہ وہ خُدا کی صورت کے ساتھ مشاہبت پیدا کرے تو کیونکر کرے ؟ اورمشکل یہ ہے کہ جس کی صورت پر (مشابہ ) وہ بنا تھا وہ نادیدہ ہے ۔ وہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی گذر نہیں ہوسکتی نہ اُسے کسی انسان نے دیکھا اورنہ دیکھ سکتا ہے (۱۔ تمیتھیس ۶: ۱۶ ) پس جس جال کہ اُس شبیہ اللہ کا کوئی مرئی نمونہ ہی انسان کے سامنے نہیں تو نادیدہ کی صورت پر کیسے اپنی صوررت کوبنائے ؟ انسان کی اس بھاری مشکل کو حال کرنے کے لئے کلمتہ اللہ نے ملبوس ِ انسانی اختیار کیا ۔ اوراُس کی کامل انسانیت میں اُس کھوئی ہوئی الہٰی صورت کا پورا پورا سراغ ملتا ہے ۔کیونہ الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے (کلیسوں ۲: ۹) وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے (کلسیوں ۱: ۱۵ ) الٰہذا وہ نادیدنی خُدا دیدنی نمونہ ہے ۔ اوراُس کی صورت پر بحال ہونا ہی خُدا کی صورت پر بننا ہے ۔


لازم ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کے ہم شکل ہوں (رومیوں ۸: ۲۹ ) وہ اُس گمشدہ الہٰی صورت کانمونہ ہے جس کے مطابق انسان بنایا گیا تھا ۔ اورجس طرح ہم اُس خاکی کی صورت پر ہوئے ۔ اُسی طرح اُس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹ ) ۔

علامہ جامی شرح خصوصی الحکم میں ایک بہت ہی جامع معیار انسان کامل کا پیش کرتے ہیں ۔ اورفرماتے ہیں کہ انسان ِ کامل میں تین نشایتں ہیں۔ اول نشاۃ روحانی ۔دوم نشاۃ عنصر ی ، سوم نشاۃ مراء تی (ماخوداز انسان کامل یا مظہر خُدا ) چنانچہ اس بیان کر دہ معیار کے مطابق بھی خُدوند مسیح کے سوا اورکوئی انسان کامل نہیں ہوسکتا ۔ اورانجیل مقدس سے خُداوند کے متعلق یہ دعویٰ پورے طورپر ثابت ہے ۔ملاحظہ فرمائے ۔

اول ۔نشاۃ روحیہ : مَیں اورباپ ایک ہیں (یوحنا ۱۰ : ۳۰ ) مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیاہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛ ۸: ۴۲ ) روہ حق اورزندگی مَیں ہوں (یوحنا ۱۴: ۶) الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے(کلسیوں ۲: ۹) ۔

دوم ۔نشاۃ عنصر یہ ۔ اب سے ابن ِ آدم قادر مطلق خُدا کی داہنی طرف بیٹا رہے گا ۔ (لوقا ۲۲: ۶۹ ؛۱۷ ۲۲ ؛۲۴؛۲۶؛۳۰)

سوم۔ نشاۃ مرائتیہ : جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ۔ (یوحنا ۱۴: ۹ وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے (کلسیوں ۱: ۱۵)

خُداوند مسیح کی نشاۃ روحیہ ونشاۃ عنصریہ کا قرآن شریف بھی مصدق ہے ۔ اوراُسے روح اللہ اورانسان بھی کہتا ہے ۔ پس خُداوند مسیح کے سوا اورکوئی نبی رسول ۔ آوتار ۔ بھگت ۔گرو رشی مُنی اورمہاتما وغیرہ انسان کامل نہیں ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے بھی تو بے ثبوت ہوگا۔ لوگ انپی مذہبی کتابوں کے دعویٰ سےبڑھ کر دعوے کرکے حق کو چھپاتے ۔خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اوریونہی لفظی کھینچا تانی سے بانیاں ِ مذاہب کو اُ ن کے شخصی دعادی سے بڑھ کر دکھانے کی فضول کوشش کرتے ہیں۔ واضح ہوکہ اس بیسویں صدی کے مسیحی خُداوند مسیح کی زمینی زندگی کے ایام میں موجود نہ تھے ۔ اس لئے وہ اپنے نجات دہندہ کے چشم دید گواہ نہیں ہوسکتے ۔ اسی طرح اس زمانہ کے تمام حامیان ِمذہب اورمقدان اویان بھی اپنے اپنے بانیاں ِ مذہب کے ایام ِزندگی میں موجود نہ تھے ۔ وہ بھی اُن کے چشم دید گواہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہم سب کے دعادی کی بنیاد مذہبی کُتب ہی ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا صدقِ دلی اورانصاف پروری سے برائے انفصال اورتحقیق ِصداقت اپنی اپنی کُتب کی ورق گردانی کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ آپ کے اپنے مذہبی بانیوں کے متعلق دعادی خوش فہمی وہٹ دھرمی کے مبالغ اورشاعرانہ محامد سے زائد نہیں ہیں۔ ہم نے تو خُداوند مسیح کا انسان کا مل ہونا اپنے صحائف ِ مطہر ہے سے ثابت کردیا ہے ۔ اورآیند ہ کوجوکچھ ثابت کریں گے اپنے معتقدات سے سنددے کرکریں گے ۔

مسیح کن معانی میں خُدا کا بیٹا ہے :

وہ پاکیزگی کی رُوح ک اعتبار سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب قدرت کے ساتھ خُدا کا بیٹا ٹھہرا (رومیوں ۱: ۴ ) بیٹے کے بغیرباپ باپ نہیں کہلا سکتا۔ یہاں تک کہ بیٹے کے بغیر باپ کا لفظ بے معنی ہے ۔ اس لفظ میں معنی ڈالنے کے لئے بیٹے کا وجود لازمی ہے ۔ اس صورت میں بیٹا گویا باپ کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔ بغیر بیٹے کے باپ کا تعارف لوگوں سے کروانا محال ہے ۔ پس خُدا کا دُنیا پر باپ کی حیثیت میں ظاہر کرنے کے معنی میں بھی مسیح خُدا کا بیٹا ہے ۔ '' خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا ۔ (یوحنا ۱: ۱۸ ) وہ فرمانبرداری کے اعتبار سے خُدا کا بیٹا ہے ۔


مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں (یوحنا ۵: ۳) انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا ۔اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی (فلپیوں ۲: ۸) اسی واسطے باپ نے فرمایا کہ '' یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں (متی ۳: ۱۷) وہ الہٰی ذات ہونے کے سبب سے خُدا کا بیٹا ہے ابتدا میں کلام تھا اورکلام ِ خُدا کے ساتھ تھا اورکلام ِ خُدا تھا ۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ (یوحنا ۱: ۱- ۲) وہ اندیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے ۔ (کلیسوں ۱: ۱۵ ) وہ اُس کے جلال کا پر تو اور اُص کی ذات کا نقش ہے ۔ (عبرانیوں۱: ۳) خُدا سرچشمہ کلام ہونے کی حیثیت سے باپ کہلاتا ہے ۔اور کلام (مسیح ) اُس سے صادر ہونے کی حیثیت سے بیٹا کہلاتا ہے ۔ یہ روحانی اصطلاح ہے ۔ اس لئے باپ اوربیٹے کے اس رشتہ کو روحانی طورپر پرکھنا چاہئے ۔ اورکلام جب تک متکلم کی ذات میں مخفی رہے حکمت (لوگاس ) کہلاتا ہے اور جب ظاہر ہوتو کلام ۔ وہ کلام نفسی (حکمت ) ہوکر خُدا کی واحد ذات میں خفی رہتا اورکلام لفظی ہوکر مظہر ِخُدا اورمخلوقات کی پیدائش کی علت ٹھہرتا ہے ۔ باپ ازلی و ابدی حقیقت ِ مخفیہ ہے ۔ اوربیٹا اُسی کی حیثیت ِ ظہوری ۔

بہت سے کوتاہ نظر لوگ مسیح کو خُدا کا بیٹا کہنے میں خُدا کی جو رُو کو وجود لازمی سمجھتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اُ ن کے اس خیال کی غیر معقولیت کو مبرہن کرکے مسیحی مسلمات کے مطابق ابن اللہ کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالی جائ ۔ سب سے پہلے ہم یہ پوچھ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ کہ اگر جو رُو کے بغیر بیٹا ہونا ممتنع ہے ۔ توحضرت ابوالبشر (آدم ) کی ماں کون تھی ۔ باپ کون تھا ؟ جیسے آدم کی ماں اورباپ نہ تھے۔ ویسے ہی مسیح کا باپ جسمانی طورپر کوئی نہ تھا کیونکہ وہ مریم باکرہ سے پیدا ہوئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ابن اللہ کہنے میں خُدا کی جورو کا وجود لازمی ہے ۔ تو عربی محارو میں ابن البیل(سٹرک کا بیٹا ) کہنے سے سڑک کی جوروکا وجود بھی ضروری ہے ۔چونکہ مسافر کو سٹرک کے ساتھ خاص تعلق اورمناسبت ہوتی ہے ۔ اس لئے عربی محاورہ میں مجازی طورپر اُس کو ابن السبیل کہتے ہیں۔ نہ یہ کہ سٹرک کی بھی کوئی جورُو ہے۔ جس سے مسافر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح مسیح کو خُدا کا بیٹا کہنے میں خُدا کی جو رُو کا جود ضروری نہیں ۔ پھر یہ مسلمات سے ہے کہ خُدا اورانسان کی صفات میں بجز مشارکت لفظی کے اورکوئی حقیقی اشتراک نہیں ہے۔ مثلاً خُدا سمیع ہے ۔ بصیر ہے ۔ عقیل ہے مُرید ہے ۔ اورانسان بھی سامع ،باصر۔ عاقل ۔صاحب ارادہ اوربادشا ہ ہے ۔ انسان کانوں سے سنُتا ۔ آنکھوںن سے دیکھتا ۔ دماغ سے سوچتا ۔ دل میں ارادہ کرتا اورتخت پربیٹھ کر عدالت کرتا ہے ۔ تو کیا خُدا بھی انسان کے سے کان ۔ آنکھ ،دماغ ، دل اورجسم رکھتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ خُدا سُنتا دیکھتا سوچتا اوراراد کرتا اورعدالت کرتا انسان سے بالکل مختلف ہے ۔ اورانسان کے ساتھ وہ ان اُمور میں محض مشارکت لفظی رکھتا ہے ۔ اسی طرح خُدا کا بیٹا ہونے اور انسان کا بیٹا ہونے میں بہت فرق ہے ۔ انسان کا بیٹا بغیر جو رُو کے نہیں ہوسکتا جس طرح بغیر آنکھوں کے انسان نہیں دیکھ سکتا خُدا کا بیٹا بغیر جو رو کے ہوسکتا ہے ۔ جیسے وہ بغیر اعضاء کے یہ سارے کام کرتا ہے ۔

دراصل خُدامصدر ہونے کے لحاظ سے باپ ہے ۔ اوربیٹا صادر ہونے کے لحاظ سے بیٹا ہے ۔ خُداوند مسیح کاقول ملاحظہ ہو۔ مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیا ہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛۸: ۴۲) اورابن اللہ مخلوق نہیں بلکہ مولود ہے ۔ وہ اندیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے (کلسیوں ۱: ۱۵) اگروہ محض ابن آدم ہی ہوتا تو لازم تھا کہ قانون ارثی کے مطابق اُس میں دنیوی والدین کی سی عادات وخصائل پائی جاتیں ۔ لیکن ہم خوب دکھاچکے کہ اُس کی زندگی بھر کے تمام افعال واقوال اورعادات وخصائل الہٰی زندگی ۔ الہٰی خصلت اورالہٰی صفات کے عین مشابہ تھے ۔ اسی لئے وہ


  • جبرائیل کی گواہی کے مطابق خُدا کا بیٹا تھا ۔ اس سب سے وہ پاکیزہ جو پیدا ہونے والا ہےخُدا کا بیٹا کہلائے گا (لوقا ۱: ۳۵)
  • یوحنا اصطباغی کی گواہی ۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا اورگواہی دی ہے ۔ کہ یہ خُدا کا بیٹا ہے (یوحنا ۱: ۳۴)
  • یوحنا رسول کی گواہی ۔ یسوع ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے ۔(یوحنا ۲۰ : ۳۱ ) نتن ایل کی گواہی ۔ اَے ربی تو خُدا کا بیٹا ۔ تُو اسرائیل کا بادشاہ ہے (یوحنا ۱: ۴۹) شاگردوں کی گواہی اُنہوں نے اُسے سجدہ کرکے کہا ۔یقینا ً تُو خُدا کا بیٹا ہے (متی ۱۴: ۳۳)۔
  • پطرس کی گواہی ۔ تُو زندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے (متی ۱۶: ۱۶)
  • رومی صوبہ دار کی گواہی ۔ ۔ یہ آدمی بےشک خُدا کا بیٹا تھا۔(مرقس ۱۵: ۳۹)
  • پولوس رسول کی گواہی ۔ اورفوراً عبادت خانوں میں یسوع کی منادی کرنے لگا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے (اعمال ۹: ۲۰ )
  • شیاطین کی گواہی ۔ ۔ اَے یسوع خُدا تعالیٰ کے بیٹے (مرقس ۵: ۷ ؛ متی ۸: ۲۹ ؛لوقا ۸: ۲۸ )
  • مسیح کا اپنا اقرار ۔ مَیں خُدا کا بیٹا ہوں (یوحنا ۱۰ : ۳۶ )
  • خُدا کی گواہی ۔ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں( متی ۱۷: ۵ )

پس خُداوند مسیح ابن اللہ کی ابنیت کو جسمانی وانسانی طورپر قیاس کرنا کفر اورجہالت ہے ۔ اگرچہ مسیحی ایماندار لوگ جنہوں نے نئی پیدائش حاصل کی ہو خُدا کی بیٹے کہلاتے ہیں۔ مگر مجازی معنی ہیں۔ اورمجاز حقیقت کی فرع ہے ۔ ازیں جہت اگر خُدا کا کوئی حقیقی بیٹا نہ ہو تو مجازی کبھی نہیں ہوسکتا ۔ اورحقیقی بیٹا مسیح ہے جس کو اکلوتا بیٹا کہا گیا ہے ۔ اورر الفاظ اکلوتا بیٹا ہی سے بخوبی ثابت ہے کہ جس معنی میں مسیح خُدا کا بیٹاہے اُس معنی میں اور کوئی شریک نہیں۔ (یوحنا ۱: ۱۴ ؛ ۱۸؛۳: ۱۶ ) اورایماندار لوگ تو مسیح پر ایمان لاکر اُس کی معرفت خُدا کے بیٹے کہلاسکتے ہیں۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا (یوحنا ۱: ۱۲ ) اورمسیح کی معرفت ایماندار خُدا کے نے پالک (لے کر پالے ہوئے ) فرزند بن جاتے ہیں نہ کہ حقیقی (گلیتوں ۴: ۵) اب جو کوئی بیٹے کا انکار کرتا ہے اُس کے پا س باپ بھی نہیں ۔ اورجو بیٹے کا اقرار کرتا ہے اُص کے پاس باپ بھی ہے(۱۔یوحنا ۲: ۲۳) جو بیٹے پرایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے ۔ لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا ۔بلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے ۔ (یوحنا ۳: ۳۶) یہ ہیں ابن اللہ کے صحیح معنی جو مسیحی لوگ مانتے ہیں۔ اورچغد طینت لوگ خواہ مخواہ کی بھونڈی اورکُفر آمیز تاویلیں اس مبارک مسئلہ ک کرکے اپنی اوچی ذہنیت کااظہار کیا کرتے ہیں۔ دراصل وہ نور کے مخالف ہونے کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ کیونکہ نوردنیا میں آیا ہے اورآدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا۔ اس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے ۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور دشمنی رکھتا ہے ۔ اورنور کے پاس نہیں آتا ۔ ایسا نہ ہوکہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے (یوحنا ۲: ۱۹- ۲۰ ) ۔

مسیح انسان اور 2خُدا کا برزخ کامل

خُدا ئے واجب الوجود اورالامحدود ومحیط ِکُل کا ممکنات ومحدثات اورمحدودات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوسکتا جب تک ایک واسطہ فی مابین الواجب وممکن نہ ہو۔ اورواسطہ بھی وہی ہوسکتا ہے جوبوجہ حادث اوربوجہ قدیم ہوکر ربط حادث بالقدیم قائم کرنے کی صلاحیت رکھے ۔ اس مسئلہ کے متعلق کہ آیا واجب وممکن میں واسطہ کی ضرورت ہے یا نہیں ؟تین فریق ہیں۔ اورسب کےخیالات میں اختلاف ہے ۔

-------------
2اس عقلی فلسفہ کے لئے ہم علامہ ایس۔ ایم پال صاحب کی تصنیف " انسان کامل یا مظہر خدا" کے قرضدار ہیں۔ اوراُس کو نقل کرنے میں بعض جگہ معمولی سی لفظی تبدیلی اختصار کے لئے ۔ پورا تذکرہ اُن کی تصنیف میں ملے گا" (مصنف)


  • واحدۃ الوجود کے قائلین کے نزدیک توواسطہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ وہ دوئی کے مطلق قائل نہیں ۔ چنانچہ جب دوئی نہ ہوئی تو واسطہ کی ضرورت نہ رہی۔
  • وہ لوگ ہیں جو واسطہ کو تو ضروری مانتے ہیں۔ مگراُن کاماننا اورنہ ماننا دونوں برابر ہیں۔ جیسا کہ ابھی ظاہر ہوجائے گا۔ اوروہ واسطہ کی تین صورتیں مانتے ہیں۔

اول ۔ واسطہ فی العروض۔ ۔ کسی صفت کے ساتھ حقیقتاً وبالذات واسطہ ہی متصف ہو۔ اور ذی واسطہ میں وہ صفت مطلقاً نہ ہو۔مگر چونکہ واسطہ وذی واسطہ میں ایک طرح کا تعلق وملبس ہے اس بنا پر ذی واسطہ کی طرف بھی اُس صفت کی نسبت کرسکتے ہیں ۔ مثلاً ریل گاڑی کے بیٹھنے والے حقیقت میں متحرک نہیں ہیں۔ بلکہ ریل گاڑی متحرک ہے ۔ لیکن ایک خاص مناسبت کے لحاظ سے ہم ریل گاڑی کے بیٹھنے والوں کو بھی متحرک کہہ سکتے ہیں۔

دوم ۔واسطہ فی الاثبات ۔ کوئی صفت ذی واسطہ میں موجود ہو اور واسطہ میں اصلا موجود نہ ہواور واسطہ میں اِصلا موجود نہ ہو۔ بلکہ ذی واسطہ کے موصوف کردینے میں سقیر محض ہو۔ مثلا ً رنگریز واسطہ ہے ۔ لیکن صفت رنگینی ذی واسطہ یعنی کپڑے میں پائی جاتی ہے ۔ لیکن خود رنگریز میں یہ صفت موجود نہیں ہوتی ۔ ہاں یہی ممکن ہے کہ وہ خوداپنے آپ کو کلا یا جزا رنگین کردے ۔ مطلب یہ کہ جو صفت مستقل طورسے ذی واسطہ یعنی کپڑے میں موجود ہے وہ بعینہ واسطہ یعنی رنگریز میں موجود نہیں ہے ۔

سوم ۔ واسطہ فی الثبوت ۔ وہ صفت واسطہ و ذی واسطہ دونوں میں حقیقیہ موجود ہو ۔لیکن واسطہ میں بطور عِلت اورذی واسطہ میں بطور معلول ہو۔ مثلاً لکھتے وقت قلم کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے ۔ پس ہاتھ حرکت میں واسطہ اور قلم ذی واسطہ ہے۔ حرکت دونو ں کے ساتھ قائم ہے۔ لیکن ہا تھ کی حرکت علت اور قلم کی حرکت معلول ہے۔وسائط ثلاثہ کی تشریح و تفصیل سے خوب ر وشن کہ خدا کا واسطہ ہو تاعالم کی ذات و صفات میں بمعنے فی العرو ض الثبوت ممکن نہیں۔ اس لئے کہ واسطہ فی العروض سے لا زم اآتاہے کہ جتنی صفات مخلوقات میں ہیں حقیقتہً خداہی کی صفات ہیں۔ اور مخلوقات کی طرف ان کی نسبت محض مجازی ہے۔ اس کے ماننے میں یہ قباحت ہے کہ مخلوقات میں اکثر صفات ِذمیمہ اور او صاف ِدُنیہ ایسی ہیں جن کی نسبت خدا کی ذات کی طرف کر ناسراسر کفر و گستا خی ہے۔ واسطہ فی الثبوت ہو نا اس لئے غلط ہے کہ اول تو اس میں وہی قباحت پا ئی جا تی ہے جس کی تر دید ا بھی کی جاچکی ہے۔ دوسری خرابی یہ لا زم اآتی ہے ، کہ چونکہ معلول تخلف علت سے محال ہے ، اس لئے مخلوقات کی صفات قدیم اتنی پڑیں گی ، اور یہ عقلی و نقلی طور پر باطل ہے۔ پس واسطہ فی الا ثبات میں کسی قدر گنجائش ہے ، یعنی کی باری تعالی ٰجو صفات اپنی مخلوقات کو دیتاہے خود ان صفات سے مبرہ ہے۔ اور خالق و مخلوق کی صفات میں بحبز مشارکت لفظی کے اور کو ئی منا سب و مشابہت نہیں ہے۔ لیکن اس قسم کا واسطہ صرف خالق کے وجو د کی ثابت کر تاہے۔ جیسے مصنوع اپنے صانع اور مکتوب اپنے کا تب پر دلا لت کر تاہے ، اس قسم کے واسطہ کو مظہر ناقص کہتے ہیں۔ اور یہ اسلئے مفید مطلب نہیں کہ یہ ہم پہلے ہی مانتے ہیں۔ واسطہ تو ایسا چاہیے جوحادث و قدیم اور ممکن و واحب دونو ں کو ملا ئے۔


  • وہ فریق ہے۔ جو واجب اور ممکن کے درمیا ن ایک ایسے واسطہ کے قائل ہیں جس میں وجو ب اور امکا ن دونو ں صفتیں موجو د ہوں۔تاکہ ربطِ حادث با لقدیم قائم کرسکے۔اور اس واسطہ کو وہ انسان کا مل اور مظہرجامع اور برزح کبری کہتے ہیں۔

لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ "انسان کا مل :مخلوق اور حادث ہے۔ اور واجب و ممکن کے درمیان برزخ و ہ ہو سکتاہے جو وجو ب و امکان ہر دو طرح کی صفات سے متصف ہو۔ چنانچہ حکمامتفسفین اور ماہرین طبعیا ت دور ِحاضرہ نے تجربیات کی بنا پر مو جو د ات کے ہر طبقہ کو دوسرے طبقہ کےساتھ ربط دینے کے لئے برزخ کے وجود کو لا بدی ماناہے۔ مثلا ً

  • البتہ جمادات و نباتات کا برزخ مر جان(مو نگا)کوما نا ہے۔ مونگا پتھر ہو نے کے لحاظ جہا زی خاصیت رکھتاہے۔ اورقوت ِنامیہ رکھنے کے با عث نباتی خاصیت بھی رکھتاہے۔ لہٰذا جمادی و نباتی خصا ئص کا اس میں اجتما ع ہے۔ اس لئے وہی ان برنہ و طبقات کا برزخ ہے۔
  • زمانہ حاضرہ میں بعض مغربی ممالک میں ایک گوشت خور درخت دریا فت ہو اہے جو حیوانو ں اور پر ند وں کا گوشت ایسے ہی کھاتاہے ، جیسے شکاری درندے گوشت کھانا درندوں کی خاصیت ہے۔ پس یہ درخت طبقات ِنباتات و حیوانا ت ہر دو کی خصائص رکھتاہے۔اس لئے یہی ان ہر د و طبقات کا برزخ ہے۔
  • طبقہ حیوانا ت طبقہ انسانی کا برزخ بندرما نا گیا ہے۔ اس جانو ر میں بعض ایسی صفات پا ئی جا تی ہیں۔ جن کو خواہ مخواہ خصائص فوق الحیوانا ت کہناپڑتاہے۔ ایک طرف تواس کی معمولی حیوانی خاصیات دیگر تما م حیوانا ت سے ملتی ہیں۔ اور دوسری طرف اس کی خاص اعلے ٰ صفات ہیں۔ انسانی طبقہ کی دانی ٰخاصیتوں کے مشابہت کو دیکھ کر ہی ڈارون صاحب نے بند ر سے انسان کا ہو ناثابت کر نے کی کو شش کی۔
  • اب طبقات انسانی و الہٰی کے درمیاں "انسان کا مل "کو برزخ ما ناجاتا ہے لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ انسان کا مل کا وجوب وقدامت سے کوئی تعلق نہیں وہ محض ممکن اورحادث ہے۔ وہ اگر چہ بدرجہ انتہا کمالیت کوحاصل کرلے تو بھی وہ مخلوق اورحادث ہی رہے گا۔ اس صورت وہ گڑھا جو حدوث وقدامت اوروجوب وامکان کے درمیان حائل ہے کس طرح بھرا جاسکتا ہے ؟ چنانچہ انسان وخُدا کا برزخ وہی ہو سکتا ہے جو بوجہ حارث اوربوجہ قدیم ہوکر ربطِ حادث بالقدیم قائم کرنے کی کامل واکمل صلاحیت رکھے۔ یعنی وہ کامل انسان اورکامل خُدا ہو۔ پس کلمتہ اللہ جو تکوین کائنات کی علت ہے۔ اوربحثیت تخلیق خُدا اور کائنات کا درمیانی ہے وہی جسم دھار کرانسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ تاکہ وہ خُدا کامل ہونے کے ساتھ انسان کامل بھی ہوسکے اوربرزخیت کے فرض کو بطریق احسن انجام دے سکے۔ چنانچہ خُداوند مسیح کے سوا اور کوئی انسان و خُدا کا برزخ نہیں ہوسکتا۔

کیونکہ خُدا ایک ہے اورخُدا اورانسانوں کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے (۱۔ تمیتھیس ۲: ۵)۔

بالفرض محال اگرانسان کامل بھی برزخ ہوسکتا ہے تو پھر بھی خُدا وند مسیح کے سوا کسی انسان کامل کا وجود نابود ہے۔ جیسا ہم پیشتر نشاۃ ثلاثہ میں علامہ جامی کا نظریہ دربارہ انسان کا مل پیش کرکے ثابت کرچکے ہیں۔ اُس معیار کے مطابق سوائے مسیح کے کسی اورکوانسان کامل ثابت کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ پس انجیل کا دعویٰ ہے کہ خُدا وند مسیح کامل انسان اورکامل خُدا ہیں اورخُدا اوردُنیا کے حقیقی درمیانی۔چنانچہ آپ نے فرمایا۔ راہ حق اورزندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا (یوحنا ۱۴: ۶)۔ یہ ایک کھلی اورناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب تک کسی شخص کے ساتھ واقفیت نہ ہو۔ اُس سے محبت کرنا ناممکن ہے۔ واقفیت اورمحبت دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری کاوجود محال ہے۔ جہاں واقفیت ہوگی وہاں محبت ہوسکے گی اورجہاں محبت ہوگی وہاں ضرور پہلے ہی سے واقفیت ہوگی۔ دُنیا میں سینکڑوں ایسے شہر ہیں جن کے میں نام سے بھی واقف ہوگی۔ دُنیا میں سینکڑوں اسیے شہر ہیں جن کے میں نام سے بھی واقف نہیں ہوں۔ اور نہ اُن کے باشندوں کو جانتا ہوں۔ اس لئے میں اُن سے محبت نہیں کرسکتا۔ جب تک کوئی شخص میرا جان پہچان نہ ہو۔ روشناس نہ ہو میری اوراُس کی کبھی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو۔ تو بھلا کس صورت مَیں اُس سے محبت کرسکتا ہوں ؟


پس اسی طرح اگر ہم خُدا سے واقف نہیں اور اُس کو جاننے نہیں۔ تو اُس کی عبادت جو محبت پر مبنی ہے کیسے کرسکتے ہیں ؟ اگر کرسکتے ہیں تو ایک نامعلوم خُدا کی اور ایسی عبادت کسی حقیقت کی نہ ہوگی بلکہ وہم کی۔ ناواقف ہستی کی نامعلو م خیالی خُدا کی پس خُدا سے محبت کرنے اوراُس کی عبادت کرنے کے لئے اُس سے واقفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اوراُس سے واقفیت نہ تو محض مشاہد ہ فطرۃ سے ہوسکتی ہے۔ نہ عقلی دلائل اُس نادید ہ پردہ نشین ہستی سے ہمارا تعارف کرواسکتی ہیں اورنہ ہی الہام کے لفظی وتمثیلی بیانات اُس کا یقینی علم ہمیں حاصل کرواسکتے ہیں اُس سے واقفیت حاصل کرنے۔ اُس کی ماہیت اورصفات کا صحیح تصور کرنے کے لئے مظہر ِخُدا کی ضرورت ہے۔ اوربغیر مظہر کے خُدا کا صحیح اوریقینی تصور ہی محال ہے۔ اوروہ مظہر ِ جیسا ہم پہلے یقینی دلائل اسے ثابت کرچکے خُداوند مسیح ہے جس نے فرمایا جس نے مجھے دیکھا اُس نے باب کو دیکھا۔ پس جو کوئی خُداوند مسیح ( مظہرِ خُدا ) میں ہوکر خُدا کی عبادت کرتا ہے۔ وہ یقینا ایک معلوم ایک واقف خُدا کی عبادت کرتا ہے۔

اب شاہد کوئی یہ سوال کرے کہ خُداوند مسیح اگر نادیدہ خُدا کی ظاہری صورت ہے۔ جس کو دیکھ کر ہم خُدا سے روشناس ہوسکتے ہیں۔اورہماری خُدا بینی کی خواہش کا جواب مل سکتا ہے۔ تو اب صدیوں سے مسیح بھی زادیدہ ہے۔ وہ ظاہری مادی صورت میں ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ دوہزار برس قبل جب وہ مجسم صورت میں موجود تھااُسی وقت لوگ اُس میں خُدا کو دیکھ سکتے تھے۔ اب اس زمانے کے لوگوں کے لئے خُدا پھر نامعلوم ہے۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل ! مور قابل ِ غور ہیں۔

  • فوق العادت امور میں استمرار ودوام جائز نہیں۔ ورنہ وہ اپنے اعلیٰ مقاصد میں ناکام رہیں گے۔ اورفطرت کے عام معمولی واقعات میں شامل ہوکر فوق الفطرت نہ رہیں گے۔ اورلوگوں کو اُن سے حیرت و استجاب بھی ہوگا۔ مثلاً سورج کا وجود اگر چہ سرمایہ غرائب وہ نوادرہے۔لیکن چونکہ ہم اُسے روز دیکھتے ہیں اس لئے نہ تو اُس کے طلوع وغروب سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں اورنہ ہی اُس سے حیران ہوتے ہیں۔ مظہر ِخُدا (مسیح ) کا زینت افزائے کا شانہ گیتی ہونا سب سے بڑا نادر اورفوق العادت واقعہ تھا۔ اگر وہ ہمیشہ ظاہری ودیدنی صورت میں قائم رہتا تو لوگوں کی دلچسپی کا باعث نہ ہوتا۔ دُنیا نے آگے ہی اُس کی کیا قدر کی کہ وہ اوراس دنیا میں رہتا۔ خُدا اپنے بیٹے کو ہمیشہ جسمانی صورت میں اس خرابستان میں رکھ کر اپنی بے قدری اورتحقیر گوارا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ غیور خُدا ہے۔
  • خلقت اورخُدا کے درمیان بہت سے واقعات کا ظہور اُس کے صعود فرمانے کے ساتھ وابستہ اورمشروط ہے۔ اس لئے اگر وہ اس دیدنی عالم کو چھوڑ کر صعود نہ فرماتا تو وہ واقعات ظہور میں نہ آتے۔ علاوہ ازیں عہد عتیق وجدیدی میں اُس کے دوبارہ اس دنیا میں آنے کے متعلق پیشین گوئیاں موجو د ہیں اُن کا پورا ہونا بھی ضروری تھا۔
  • انجیل ِ مقدس اُس کا مکمل فوٹو ہے۔ اُس کے مطالعہ سے اُس کا دیدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔
  • ُدا کا مظہر مسیح اورمسیح کا مظہر اُس کی کلیسیاہے۔ نادیدہ مسیح کی دیدنی صورت کلیسیاء ہے۔

لیکن موجود ہ کلیسیاء مسیح کی ناقص حیثیت ہے۔ اس لئے وہ اُس کے نورانی خدوخال کو زیادہ صفائی کے ساتھ دُنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکتی یعنی پورے طورپر یہ نہیں کہہ سکتی کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے مسیح کو دیکھا۔ دُھند لے آئینے کی طرح مسیح کی کامل مظہر نہیں ہے۔ اب ہم کو آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔ اورجب کلیسیاء اُس جلالی صورت پر درجہ بدرجہ بدلتی اورترقی کرتی جائے گی۔ تو ایک دن اُس کے چہر ے سے مسیح کا جلال ایسے منعکس ہوگا جیسے صاف آئینے میں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ ) ایک مصور ایک تصویر کو جوفنی نکتہ نگاہ سے نہایت اعلیٰ ہے سامنے رکھ کر اُس کی نقل ایک دوسرے کا غذ پر بناتا ہے۔ اُس کا خاکہ کھینچتا ہے۔ گاہے مٹاتا اورگاہے پھر بناتا ہے۔

اگر اُس کی اُس نامکمل تصویر کو دیکھ کر کوئی کہے کہ یہ تصویر اچھی نہیں بہت بھدی ہے تو اس سے اصل تصویر کا نقص ثابت نہ ہوگا۔ اورعقلمند آدمی فوراً سوچ لے گا کہ یہ نقل ابھی نامکمل ہے۔ کسی وقت یہ ہوبہو اصل کے مطابق بن جائے گی۔ اسی طرح کلیسیاء کا اصل نمونہ مسیح ہے جس کے سانچے میں وہ ابھی دھل رہی ہے۔ اورتاحال ناقص حالت میں ہے۔ لیکن جب کامل آئیگا تو ناقص اتا رہیگا (۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۰ ) پس کلیسیا ء مسیح کا مظہر ہے اور درجہ بدرجہ اُس کی ہم شکل بن رہی ہے۔

خُداوند مسیح کی آمد نے خُدا کے وجود باجود کے متعلق پیدا شد ہہ ہتمام توہمات ِفاسدہ اوراظانین باطلہ کو خرقہ پارنیہ کی طرح تار تار کرکے رکھ دیا۔ اگر کوئی گوشئہ تنہائی میں یکسوئی قلب کے ساتھ بیٹھ کر اپنی فُرصت کی قیمتی گھڑیوں میں اس تعلیم سعادت تنظیم پر صفا باطنی اورمنصف مزاجی سے غور وخوض کرے تو وہ بغیر ضمیر سے جنگ کئے خُداوند مسیح کو مظہر ِخُدا اوربرزخ کُبری تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس طریق پر ثواب اورمسئلہ لاجواب کو سمجھنے کے لئے دیدہ بینا اورذہن رسا چاہئے۔ چونکہ تعصب اورمسئلہ تجسم باہم ضدین ہیں۔ اس لئے ایک ہی وقت میں یہ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ پس غرض ہے کہ تعصب کو چھوڑ کر اس پر غور فرمایئے اوریونہی کسی نااہل شخصیت کو کُرسی برزخیت پر زبر دستی بٹھانے کی سعی نہ فرمایئے۔

کلام مجسم کی تین صورتیں

کلام مجسم کی تین صورتیں ہیں۔ اوراُنہیں کو ہم ن اس کتاب کےگوایا عضا ئے رئیسہ ٹھہرا کراب تک بحث کی ہے۔ اب ان کی اجمالی طورپر معرض تحریر میں لانا مناسب اورگویا کتاب کے منتہائے مقصود کو خلاصہ بیا ن کرناہوگا۔ وہ تین صورتیں یہ ہیں۔

  • کائنات کلام مجسم ہے خُدا نے کہا اوروہ موجود ہوگئی۔ یعنی جو کلام اُس کے منہ سے صادر ہوا اُس نے کائنات کی صورت میں جسم اختیار کرلیا۔ اس کا مفصل بیان عقل اور مذہب کے زیر عنوان کیا جاچکا ہے۔ اور تجسم الہٰی کے بیان میں چھوتی سرُخی موجودات اورکُدا کا علم کے ماتحت اجمالی طورپر اس پر بحث کی جاچکی ہے۔
  • بائبل مقدس کلام مجسم ہے۔ کلام نفسی جو ذات ِالہٰی میں خفی تھا کلام لفظی کی صورت میں ظاہر ہو کر کتابی شکل میں مرتب ہو ا۔ اس کو الہام کہتے ہیں۔ الہام کی ضرورت کے زیر عنوان اس کو بالثفصیل بیا ن کیاگیا۔ اورتجسم الہٰی کے بیان میں چھوٹی سرخی الہام اورخُدا کا علم کے ماتحت اجمالی طورپر اس پر بحث ہوچکی ہے۔
  • کلام مجسم کے تیسرے معنی ہیں کہ ذات ِ الہیی کے اقنوم ثانی نے جسم اختیار کیا جس کا مظہرِخُدا کہا جاتا ہے۔ یہ کلام مجسم کی انتہائی کمالیت ہے جس سے خُدا کی ذات وصفات کا ثبوتی تصور اوریقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ تجسم الہٰی کے زیر عنوان اس پر مفصل بحث کی گئی ہے۔

تجسم کے فوائد

  • خُدا کی ذات وصفات کا یقینی اورصحیح علم حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ ایک معلوم خُدا ثابت ہوتا ہے۔
  • انسان فطرتی طوپر پنکر محسوس کاخوگر ہے۔ اس لئے اُس کی خُدا بینی کا جواب مظہر دیتا ہے۔
  • جنسی مغائرت محبت کی مانع ہے۔ خُدا اورانسان میں جنسی مغائرت مسلم ہے۔ تجسم کے ذریعے یہ وقت دور ہوتی اور انسان صیح معنوں میں خُدا سے محبت کرسکتا ہے۔
  • تجسم کے ذریعے ذات ِالہٰی کے اقانیم ثلاثہ کا سربستہ راز رکھلتا ہے جو بصورت دیگر محال ہوتا ہے۔

  • تجسم کے ذریعے انسان کی نجات کا انتظام ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تقاضا ہے عدل الہٰی انسان کی جان کے عوض میں ایک عوضی قربانی کی ضرورت تھی۔ تاکہ انسان کی جان موت سے رہائی پائے۔ اورقربانی کے لئے جسم کی ضرورت ہے۔ پس اقنوم ثانی جسم میں ظاہر ہوا تاکہ انسان کی جان کا مبادلہ ٹھہرے۔
  • خُدا نے انسان کو اپنی صورت بگاڑیلی اورضرور ہے کہ وہ دوبارہ خُدا کی صورت پر بنے۔ مگر جس کی صورت پر اُس کو بننا چاہئے وہ نادیدہ ہے۔ اس لئے نادیدہ کی صورت پر کیسے ہے ؟ ضرور ہے کہ الہٰی صورت کا کوئی ظاہری ودیدنی نمونہ اُس کے سامنے ہو۔ پس وہ نمونہ مظہر ِ خُڈا (مسیح ) میں ملتا ہے۔ اُس کی صورت پر بننا ہی خُدا کی صورت پر بحال ہونا ہے۔
  • خُدا ئے واجب الوجود اورانسان ممکن الوجود محدود کے درمیان حد فاصل ہے۔ جو دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا رکھتی ہے۔ ان دونوں کے ملاپ کے لئے ایک واسطہ کی ضرورت ہے۔ اور واسطہ وہی ہو سکتا ہےجو بوجہے حادث اوربوجہے قدیم ہو۔ تاکہ ربط ِحادث بالقدیم قائم کرسکے۔ پس یہ مشکل بھی تجسم کے ذریعے دور ہوتی ہے۔ اورانسان کا اُس کے ذریعیے سے خُدا سے ملاپ ہوجاتا ہے۔
  • تجسم کے ذریعے انسان کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ مظہر کے ایک معنی ہیں '' انسانیت نما الوہیت '' جس نے ایمانداروں کو الوہیت نما انسان بنا دیا۔ وہ انسانوں کے مشابہ ہوگیا جس سے ایماندار انسان خُدا ک مشابہ ہوگئے۔

اب دُنیا کی عقلیں گناہ کی شدت سے اس قدر فاسد اورتاریکک ہوگئی ہیں کہ وہ کسی صورت اس تعلیم سعادت تنظیم کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اگر خُدا نادیدہ وپوشیدہ اورفوق الفہم وادراک رہے تو لوگ اُس کو کسی دیدنی وہ ظاہری اورممکن الفہم صورت میں دیکھنا چاہتے ےہیں۔ اوراگروہ کسی صورت ظاہری میں ظاہر نہ ہو تو اُس کی ہستی کے متعلق شکوک میں پڑ کر آخر اُس سے مُنکر ہوجاتے ہیں۔ اوراگروہ کسی دیدنی صورت میں تجسم اختیار کرکے مرئ ومجسم اورممکن الفہم ہوجائے اوراُن کی خُدا بینی کی فطری خواہش کا جواب دے تو لوگ اُس کو محض ایک خُدا رسیدہ اورراستباز آدمی سمجھ کر اُس کی الوہیت وخُدا ئی کا یکسر انکار کرتے ہیں۔ اب بتایئے ان دوصورتون کے علاوہ اورکون سی تیسری صورت ممکن ہے جس سے خُد ا انسا ن کی خُدا بینی کی خواہش کو پورا کرے ؟ مَیں نے تیری خبرکا ن سے سُنی تھی۔پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔(ایوب ۴۲ : ۵ ) ۔



(۹)


گناہ



  • ہر گناہ زنگیست برمزاتِ دل
  • دل شودزیں زنگ ہاخوار وخجل
  • چُوں زیادت گشت دل راتیرگی
  • نفس دوں راپیش گردوخیرگی

آغاز ِ گناہ

تمام مذاہب ِعالم اورادیان دہر کسی نہ کسی صورت میں گناہ کے وجود کے قائل ہیں۔ اگرچہ گناہ کے آغاز کے متعلق سب کے خیالات اورآراء میں اتفاق کُلی نہیں۔ بلکہ بعض خیالات اورفلسفے ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ تاہم یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ گناہ دُنیا میں ضرور موجود ہے۔ بعض اُس کو اگیا ن اودیا اوربھرم مانتے ہیں۔ بعض اُس کو طبع انسانی کا خاصہ ذاتی مانتے ہیں اورخُدا کو نیکی وبدی ہردو کا موجد تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔ گناہ کا وجود مسلم الثبوت ہے۔ اورکوئی صاحب ِ بصیر ت اس حقیقت سے انکار نہیں کر کرسکتا۔ اوربدی ونیکی ایسی دو متضاد اشیاء ہیں جن میں تاحشر کبھی اتحاد ومطابقت نہیں ہوسکتی۔ کافہ انام پر کوئی ایسی زبان اورلُغت یاکتاب نہیں جس میں گناہ کے وجود کے ثبوت میں الفاظ چاہئے '' نہ چاہئے '' واجب '' ناواجب '' جائز '' ناجائز'' روا '' ناروا'' مناسب '' نامناسب '' اچھا '' اوربُرا'' وغیرہ نہ پائے جاتے ہیں۔ اورآج تک کوئی ایسی سوسائٹی معرض ِ ظہور میں نہیں آئی جس نے ان الفاظ کے مفہوم کو وہم سے تعبیر کرکے ان کے زور کوکھودیا ہو۔ ہر فر د بشر اپنے وجدانیات میں اس حقیقت نفس الامری کو بزور محسوس کرتا اوران ٹیو ئشنل گواہی رکھتا ہے۔ ضعیف سے ضعیف ضمیر بھی جائز وناجائز اورواجب وناواجب کی کیفیت سے آگاہ ہے۔ گناہ ایک ایسی حقیقت ہے جو گویا جبری طورپر انسان کو اپنے وجود کا قائل بناتی ہے۔ زبان سے کوئی اس کا انکار کرے تو کرے لیکن دل سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اب جس طرح یہ صحیح ہے کہ گناہ کے آغاز کے متعلق تمام مروجہ عقائد اورفلسفے باہمد گرمتضاد متبائن ہیں۔ اُسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ایک ہی وقت میں ہم اُن سب کو صحیح ودرست نہیں سمجھ سکتے۔ اب اس جگہ ہم تمام دیگر خیالات ونظریات کو چھوڑ کر صر ف بائبل مقدس کی روشنی میں آغاز ِ گناہ کے خیال کو بدلائل عقلیہ اوربراہین نقلیہ پیش کریں گے۔ جس سے گناہ کی پوری حقیقت ناظرین پر کھل جائے گی۔

بائبل مقدس کا بیان ہے کہ خُدا تعالیٰ پاک وقدوس ہے۔ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تُم پاک رہو۔ کیونکہ مَیں جو خُداند تمہار اخُدا ہوں پاک ہوں (احبار ۱۹: ۲ ) اورایک (فرشتے ) نے دوسرے کو پکار ا اورکہا۔ قدوس۔قدوس۔قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے (یسیعاہ ۶: ۳؛ مکاشفہ ۴: ۸ ؛ ۱۵: ۴ خُداوند کا شکر کرواس لئے کہ وہ نیک ہے (۱۔ تواریخ ۱۶: ۳۴ ) خُدائے قدوس وبرحق جو تمام مصنوعات ِ مرئیہ وغیر مرئیہ اورمخلوقات ِ سفلیہ وعلویہ کی علت فاعلی ہے وہ اپنی طبیعت وفطرت کے خلاف کسی شئے کو ناپاک نہیں پیدا کرسکتا۔ کیونکہ پاک طبیعت کی علت سے ناپاک طبعیت کےمعلول کا صدور عقلاً اورنقلاً محال ہے۔ جب وہ خود پاک ہے تو اُس نے مخلوقات کو بھی پاک ہی پیدا کیا۔


چنانچہ بائبل مقدس کا بیا ن ہے کہ جب خُدا نے سب کچھ پیدا کیا تو کہا کہ '' اچھا ہے '' (پیدائش ۱: ۱۰ ؛ ۱۲؛ ۱۸ ) اورانسان کی پیدائش کے متعلق بائبل کا بیان ہے کہ پھر خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبہیہ کی مانند بنائیں (پیدائش ۱: ۲۶ ) اورخُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا(آیت ۲۷ ) خُدانے انسان کو راست بنایا۔ (واعظ ۷: ۲۹ ) یعنی خُدا نے انسان کو پاک راست صاحب ارادہ اورفاعل مختار بنایا۔ خُدا کی صورت پر پیدا کئے جانے سے ہی مراد ہے۔ اورخُدا نے انسان کو تمام مخلوقات پر خلیفہ اورسردار مقرر کیا(پیدائش ۱: ۲۶ ؛زبور ۸: ۵- ۸ ) اورخُدا کی حکومت دیگرانی مخلوقات کے علاوہ انسان فرشتگان پر بھی تھی اورہے۔ اورانسان بطورنائب خُدا کے تمام دُنیا پرحکمران ٹھہرا یاگیا۔ اورخُدا نے خالق وحاکم ہونے کی حیثیت سے آدم کو چند اوامر نواہی بھی دئے کیونکہ اُس میں اخلاقی وجود وفائل مختار ہونے کے باعث خُدا کی مرضی کے مطابق یا مخالف عمل کرنے کی قوت فطرتاً موجود تھی۔ شجر ِ ممنوعہ کا پھل اُس نے کھایا اورخُدا کے فرمان کی نافرمانی کی۔ شجر ِ ممنوعہ کےبیان کو تمثیلی سمجھئے یا اورکوئی اُس کی تاویل کیجئے۔ تاہم یہ ضرورت ثابت ہے کہ خُدا کا حکم آدم وحوا نے عدول کیا۔ اوروہ خُدا کی حضور ی سے خارج کئے گئے۔ پس گناہ مخلوق کا مخلوق ہے۔ خُدا کا مخلوق آدم اورآدم کا مخلوق گناہ۔ جس طرح پوتا اپنے دادا کامولود نہیں ہوتا بلکہ اُس کے مولود کا مولود ہوتا ہے۔اسی طرح گناہ کی ابتدا انسان سے ہوئی نہ کہ خُدا سے جب انسان کی طبیعت گناہ کے باعث بگڑ کر ناپاک وفاسد ہوگئی تو خُدا کی پاکیزہ طبعیت کے ساتھ اُس کی مطابقت وموافقت قائم نہ رہی۔ اس واسطے تضاد وتفادت ِطبائع کے باعث خُدا وانسان میں جُدائی ہوگئی۔ کیونکہ دومتضاد طبائع کا اجتماع واتحاد ناممکن ہے۔ یعنی اجتما ع ضدین محال ہے۔ یہ ہے آغاز ِ گناہ کے متعلق بائبل کی معقول فلاسفی۔

ایک اعتراض کاجواب

بعض لوگ نافہمی سے یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جبکہ خُدا نے علام الغیب اورہمہ دار ہے تو ضرور اُس کو آدم کے گنہگار ہونے کا اُسکی تخلیق سے پہلے ہی علم ہوگا۔ اورجب یہ علم تھا تو اُس نے دیدہ ودانستہ اُس کو گناہ میں گرنے ہی کیوں دیا؟ اگرآدم گنا ہ میں نہ گرتا تو آج دُنیا کو گناہ اوراُس کے نتائج دُکھ وموت کے تلخ تجربے اُٹھانے نہ پڑتے۔ اس سوال کے جواب میں اس قدر عرض ہے کہ خُدا عالم الغیب ہے اورساتھ ہی اُس کا علم لاتبدیل بھی ہے۔ خُد ا کی صفت ِعالم الغیب ہے اورساتھ ہی اُس کاعلم لاتبدیل بھی ہے۔ خُدا کی صفت ِعالم الغیب کے متعلق بائبل کا بیان ملاحظہ ہو۔ مَیں خُدا ہوں اورمجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبردیتا ہوں۔ اورایام ِقدیم سے وہ باتیں جواب تک وقو ع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں (یسعیاہ ۴۶: ۹- ۱۰ ؛زبور ۱۳۹ ؛ ۱۵- ۱۶ ) خُدا کو پورا علم تھا کہ آدم گناہ میں گِرے گا۔ اب اگروہ گناہ میں نہ گرتا تو خُدا کا علم تبدل پذیر پر ثابت ہوتا۔ یعنی اُس کے علم کے مطابق واقع نہ ہوتا۔ خُدا قدیم سے جانتا تھا کہ آدم پیدا ہوگا۔ میری نافرمانی کریگا اوردُکھ اورموت کی سزا اُٹھائے گا۔ چونکہ خُدا کا علم لاتبدیل ہے اس لئے عین اُسی طرح تمام واقعات معرض ظہور میں آئے نہ کہ اُس کے علم ِ قدیم کے خلاف اورساتھ ہی یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ خُدا کی علم تو تھا کہ آدم گناہ میں گرے گا لیکن اُس کی مرضی یہ نہ تھی کہ آدم گنہگار ہوجائے۔ علم اور مرضی میں بہت فرق ہے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر کوعلم ہے کہ یہ مریض نصف گھنٹے کےبعد مرجائے گا۔ لیکن تو بھی اُس کی مرضی نہیں کہ وہ مرجائے۔ اگر اس پر یہ سوال بڑھایا جائے کہ خُدا کی مرضی کیوں پوری نہ ہوئی ؟ تو اس کا جواب ہر ایک کے ذاتی تجربہ پر مبنی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دُنیا خُدا کی مرضی کو پورا نہیں کررہی۔ گناہ کا وجود خُدا کی مرضی کی مخالفت کا ثبوت ہے۔ اور یہ بات انسان کی کامل فعل مختاری پر دلالت کرتی ہے۔ مرضی خُدا کی ہے کہ گناہ نہ ہو۔ اوراس الہٰی مرضی کو پورا کرنا یا نہ کرنا انسان فاعل مختار کے ہاتھ میں ہے۔ خواہ پورا کرے یا نہ کرے۔ اوراسی تناسب سے سز ا وجزا بھی اُس کے لئے موجود ہے۔ اگر خُدا جبری طورپر اپنی مرضی منوائے تو انسان کی فعل مختاری کہاں رہے گی ؟ اورنیکی وبدی اورجزا وسزا وغیرہ مہمل وبے معنی الفاظ ہونگے اورنیکی وبدی ایسے مفہوم ہوں گے جن کا کوئی مصداق نہ ہو۔


قسری افعال نیک یا بد نہیں ہوا کرتے بلکہ اختیاری افعال نیک یابد کہلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کتابت میں نقائس ہیں تو یہ قلم کاقصور نہیں۔ اورخوش خطی میں قلم کی نیکی نہیں۔ کیونکہ قلم فاعل مضطر ہے۔ کتابت کی اچھائی یابرائی کا ذمہ دار ہاتھ ہے جو کہ متحرک بالا رادہ اورفاعل مختار ہے۔ ہم ایک مثال سے واضح کریں گے کہ حضرت ابوالبشر نے اپنی آزاد مرضی واختیار سے خُدا کے حُکم کو ٹھکرا دیا۔ فرض کرو کہ ایک مالک اپنے نوکر کو کچھ دام دیتا ہے اورحُکم دیتا ہے کہ باغ میں جاکر میرے لئے آم خرید لاو۔ اورساتھ ہی یہ تاکید کرتا ہے کہ اگر تُم خرید کرلاوگے تو ہم خوش ہوں گے۔ اوراگر چوری کرکے لاو گے تو ہم ناراض ہونگے۔ اورتمہیں اپنے گھر سے نکال دیں گے۔ اب حُکم اُس کو مل چکا اوروہ خوب جان گیا کہ تعمیل میں میری خیر اورعدول حُکمی میں میرا نقصان ہے۔ وہ ایک باغ میں جاتا ہے اورباغبان سے آنکھ بچا کر چوری سے آدم توڑتا اورمالک کے حضور لاتا ہے۔ اب مالک اُس کی بدیانتی کے باعث اگر اُسے اپنے گھر سے نکالدے تومالک کس صورت قابل ِالزام ہے ؟ اورنوکر کس صورت بے قصور ہے ؟ اگر اُس کو دام نہ دئے جاتے اورپھر اُس سے یہ توقع کی جاتی کہ وہ آم لائے تو البتہ مالک کا قصور ہوتا۔ مگر اُس کو آم خریدنے کی قابلیت مالک کی طرف سے دی گئی تھی۔ لیکن وہ اُس قابلیت (دام ) کو کام میں نہ لایا۔ اسی طرح خُدائے تعالیٰ نے آدم میں قابلیت نیکی اورفرمانبرداری کی پیدا کرکے پھر اُس سے حُکم کی تعمیل طلب کی۔ لیکن آدم نے اُسی نیک قابلیت کو غلط راہ پراستعمال کرکے خُدا کی مرضی کو ٹھکر ادیا۔ جب حُکم مل چکا اوروہ توڑا گیا تو عدل پیدا ہو گیا۔ اوروہی عدل قانون شِکن کو مُجرم ٹھہراتا ہے۔ اس واسطے ابو البشر وام اُلبشر کو عدل الہٰی کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ اورگُنا ہ کی سزا دُکھ وموت اُن کے حصے میں آئی۔ اگر حُک نہ دیا گیا ہوتا توعدول حکمی بھی نہ ہوتی۔ کیونک جہاں شریعت (حکم ) نہیں وہاں عدول حُکمی بھی نہیں (رومیوں ۴: ۱۵ ) اوردوسری بات یہ ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو نیکی وپاکیزگی کی قدرقیمت انسان نہ جان سکتا۔ ضد کی حقیقت ضد ِ ہی سے کھلتی ہے۔

اگر اب بھی مُعترض کے پاس کوئی اعتراض ہے تو عرض ہے کہ اُس کو دُنیا میں کوئی امرایسا نہ ملے گا جس پر نُکتہ چینی نہ ہوسکے۔ مثلاً اگر کوئی مسیح کے اس قول پر غور کرے کہ '' جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پرنگاہ کی۔ وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کرچکا۔ تو وہ یہ اعتراض کو سکتا ہے کہ اگر آنکھ کے ذریعے بدنظری کا گُنا ہ صآدر ہوتا ہے تو خُدا نے آنکھ کو بنایا ہی کس لئے ؟ اوراگر ہاتھ سے تلوار پکڑ کر کسی کا خُون کردیا تو کہ دیا کہ ہاتھ خُدا نے کیوں بنادیا جس سے خُون ہوجاتا ہے۔ اسی قسم کے یہ سوال ہیں کہ خُدا نے شجر ممنوعہ کو اٗگایا ہی کیوں۔ یا اگر آدم نے گِرنا ہی تھا تو اُسے پیدا ہی کیوں کیا؟ اگر ایک مکان کو جلتے ہوئے دیکھ کر اُس کے مکین یہ سوچنےبیٹھ جائیں کہ اس آتشردگی کے اسباب ووجوہات کیا ہیں؟ کیوں آگ لگی۔کس نے لگائی۔ کس غرض سے لگائی۔ کب لگائی۔کبھی پہلے کیوں نہ لگائی ؟ تو کون ہے جو اُن کی نادانی پر نہ ہنسے۔ سب سے پہلےآگ کو بجھانے کی تدابیر کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ورنہ اسباب وموجبات کی تلاش کرتے کرتے مکان جل کر خاک ہوجائے گا۔ ہم ناظرین سے گذارش کرتے ہیں کہ ایسے توہمات باطلہ میں پڑکر حق سے رو گردانی نہ کریں۔ اس کا نتیجہ پہلے گمراہی اورپھر ہلاکت ہے۔

گناہ کیا ہے ؟

آدمی کا ضمیر خُدا وند کا چراغ ہے۔جو اُس کے تمام اندرونی حال کو دریافت کرتا ہے (امثال ۲۰ : ۲۷ )

ایک تعریف گناہ کی یوں ہوسکتی ہے کہ جو کچھ انسان اپنے ضمیر کی روشنی میں بُراسمجھا ہے اُس پر عمل کرنا گناہ ہے۔ضمیر خُدا نے انسان کو ایک عجیب حس ِ بخشی ہے جو اُس کو فطر تا ً جائزو ناجائز افعال میں امتیاز دکھاتی ہے۔ اورساتھ ہی ناجائز افعال کے ارتکاب سے روکتی ہے۔پھر بھی بعض کام ایسے ہیں جو بذاتہ بُرے نہیں اورجن کو انسان محض سوسائٹی کے زیر اثر بُرئے سمجھنے لگتا ہے اُن پر بھی ضمیر ناجائز ہونے کا فتویٰ لگاتا ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اکثر اوقات انسان بچپن سے ایک ہی قسم کی سوسائٹی کے زیر اثر تربیت پاتے پاتے ایک ہی قسم کی باتوں کو سنتے سنتےایک ہی طریق پر چلتے چلتے اورسوسائٹی کے پوشیدہ مگر قوی اثرات کے ماتحت ایک ایسے مصنوعی طریق کا عادی ہوجاتا ہے کہ اُس کو وہ تمام باتیں جو اُس طریق کے برخلاف ہوں گناہ معلوم ہوتی ہیں۔


مثلاً ایک بُت برست اگر بت پرستی کر ترک کرنا چاہے تو اُس کا ضمیر اُس کے اس خیال کا ناجائز ٹھہراتا ہے۔ ایک سکھ اگر اپنے کیس (بال ) کٹوانے کا ارادہ کرے تو اُس کا ضمیر اُس کے اس ارادہ پر ناجائز ہونے کا فتویٰ لگائے گا۔ تاہم درحقیقت یہ دونوں باتیں گنا ہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہر وہ فعل جس کو ضمیر ناجائز ٹھہراتا ہے گناہ نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ضمیر اپنے فرض ِ منصبی کو درست طریق پر انجام نہیں دیتا ؟ وجہ یہ ہے کہ گناہ نے اپنے زبردست عمل تخریبیہ سے جہاں عقل ، دل اوردماغ کو بگاڑ دیا ہے۔ وہاں ضمیر پر بھی اثر انداز ہوکر اُس کی مقررہ رفتار میں فرق ڈال دیا ہے۔ عقل اوردل دونوں گناہ آلودہ ہیں (ططس ۱: ۱۵ ) عقل بگڑی ہوئی ہے (۲۔ تمتھیس ۳: ۸؛ ۱۔ تمتھیس ۶: ۵ ) تو بھی ضمیر کو قطعی معطل اورانکار رفتہ سمجھنا درست نہیں۔ اُس کی رہنمائی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ پر ہمیشہ نہیں۔ گوضمیر نقصان سے خالی نہیں تو بھی وہ اپنے فرض منصبی کو بہت حدتک درستی سے انجام دیتا ہے۔ اصل مضمون کو چھوڑ کر ضمیر کی ماہیت پر بحث کرنا اس وقت مناسب نہیں۔ ورنہ ہم اس کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالتے۔ پھر دوسری تعریف گناہ کی یہ ہے کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے۔ اورگناہ شرع کی مخالفت ہی ہے (۱۔ یوحنا ۳: ۴) جس طرح گناہ حضرت ابوالبشرسے وراثنا ً تمام نسل انسانی میں چلا آیا (رومیوں ۵: ۱۲ ) اُسی طرح وہ اخلاقی شرع جو خُدانے اُس کی پیدائش کے وقت بخشی تھی کسی نہ کسی صورت میں وراثناً تمام بنی نوع انسان میں منتقل ہوتی آئی ہے۔ اوروہ شریعت کسی تحریر ی صورت میں نہ تی بلکہ آدم کے دل پر مرتسم کی گئی تھی۔ چنانچہ اُس کا کچھ نہ کچھ بقیہ تمام اقوام عالم کے دل میں فطرتی طورپر موجود ہے۔ اوراس ابتدائی باطنی شریعت کا بیان کلام ِ مقدس میں یوں ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت (ظاہری الہامی شریعت ) نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت (باطنی شریعت ) کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں (رومیوں ۲: ۱۴- ۱۵ ) الہامی شریعت اُس ابتدائی باطنی شریعت کا اعادہ ہے۔ پس شرع خواہ باطنی ہو یاظاہری اُس کا ہر تجاوز گناہ ہے۔ اورگناہ کے چار اقسام ہیں۔

  • سیاسی گناہ یعنی جو حکومت وقت کے خلاف عمل میں آئے۔ جیسے کوئی شخص جعلی سکے بنائے۔ اشیائے ممنوعہ کی چھپ کر تجارت کرے۔ ان صورتوں میں وہ حکومت کا مجرم ہے۔ اورسیاسی مکزم کا جب تک سراغ نہ ملے ےوہ سزا سے بچا رہتا ہ۔ مجرم ثابت ہونے پر اُس کو سزا دی جاتی ہے۔
  • سوسائٹی کا گناہ یعنی جو کسی سوسائٹی کے مقررہ قوانین وضوابطہ کے خلاف کیا جائے۔ جیسے کیس (لمبے بال ) رکھنا سکھ سوسائٹی کا قانون ہے اگر کوئ سکھ ہوتے ہوئے بال کٹوادے تو وہ سوسائٹی کا مجرم ہوگا۔ اورسوسائٹی سے خارج کیا جائے گا۔ مگر توبہ کرکےبحال ہوسکتا ہے۔
  • فطرۃ کا گناہ یعنی قوانین طبعیہ کی خلاف ورزی۔ جیسے کوئی شخص قانون کشش ِزمین کے خلاف عمل کرنے سے بلند ی سے گر کر مر جائے۔ یا آگ میں ہاتھ ڈالنے سے جل جائے۔ یہ قوانین اپنے تجاوز کے ساتھ ہی سزا دیتے ہیں۔ توبہ کرنے یا معافی مانگنے کا ان پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔
  • خُدا کا گناہ یعنی خُدا کی طبعیت کے خلاف عمل کرنا۔ جیسے اُس کی ہستی سے مُنکر ہونا۔بُت پرستی۔کفر والحاد کا ارتکاب۔ الہٰی گناہ باقی سب گناہوں پر حاوی ہے۔ اور اُس کی سزا سب سے زیادہ ہولناک ہے۔لیکن شرع الہٰی کے تجاوز کے نتائج نے الفور ظہور میں نہیں آتے۔ کیونکہ خُدا رحیم ومہربان ہے۔ اور ہر گنہگار کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی بدکرداری سے تائب ہو۔ اس لئے واعظ کہتا ہے کہ '' چونکہ برے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیاجاتا۔ اس لئے بنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بہ شدت مائل ہے۔ (واعظ ۸: ۱۱) لیکن انسان اپنی کو تاہ اندیشی سے خُدا کے صبر وتحمل سےنا جائز فائدہ اُٹھا کرمورد ِ عتاب ِ الہٰی ٹھہرتا ہے۔ مندرجہ بالا تین قسم کے گناہوں کی سزائیں جسمانی اورایں جہانی ہوتی ہیں۔ مگر خُدا کے خلاف گناہ کرنے کی سزا ایک تو جسمانی و روحانی دونوں طرح کی ہوگی دوسرے اُس نے عدالت کا ایک خاص دن ٹھہرایا ہے اگرچہ وہ جسمانی طورپر بدکاروں کو اس جہان میں بھی عارضی سزائیں دیتا ہے۔

مسیحیت محض عدم نیکی وعدم پاکیزگی کو گناہ نہیں کہتی۔ جیسا کہ غیر اقوام سمجھتی ہیں۔ بلکہ ازروئے انجیل گناہ ایک امر وجودی اورنفس الامری حقیقت ہے۔ نہ کہ اعتباری محض وعدمی شے۔ محض نیکی کی نفی گناہ نہیں ہے۔ بلکہ نیکی کی نفی اورگناہ کا اثبات دونوں باتیں مل کر گناہ ہیں۔ گناہ منفی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اثباتی غیر مسیحی لوگ بھاری غلطی میں مبتلاہیں کہ وہ محض عدم نیکی کو گناہ سمجھے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ چند ظاہری نیکیاں کرکے سمجھتے ہیں کہ اب ہم نیک ہیں۔ لیکن مسیحیت کا خیال یہ ہے کہ ممکن کہ ایک آدمی نیکی کرے مگر خود نیک نہ ہو۔ نیکی کا فقدان گناہ کے وجود کی دلیل نہیں۔ بلکہ گناہ کا وجود سبب اورعدم نیکی اُس کا نتیجہ ہے۔ گناہ نے انسان کی فطرت پر قبضہ جماکر نیکی کو اُس سے خارج کر دیا ہے۔ اب نیکی وپاکیزگی کا تسلط اس صورت میں ممکن ہے کہ پہلے گناہ فطرت انسانی سے قطعی خارج کردیا جائے۔ کیونکہ جب تک ایک بھرے ہوئے برتین میں سے پہلی چیز نکال نہ دی جائے تب تک دوسری اُس میں سما نہیں سکتی۔

انسان کی اصل فطرت کے بگڑ جانے کا نام گناہ ہے۔ خُدا نے انسان کو اس لئے پیدا نہ کیا تھا کہ وہ اُس سے برگشتہ ہوکر اُس کی مرضی کے خلاف کام کیا کرے بلکہ اس لئے کہ وہ خُدا کے ساتھ پوری مطابقت ویگانگت رکھے اوراُس کی مرضی کے مطابق چلے۔ چونکہ اس وقت انسان سراسر خُدا کی مرضی کے خلاف چل رہا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اصلی فطرت پر قائم نہیں ہے بس یہی گناہ ہے گناہ وہ ہے جو انسان کے تمام افعال واقوال کو ملوث کردینا ہے۔ اور بدافعال کا صدور ارتکاب انسان کے اعماق ِ طبع میں ایک ایسے مکروہ چشمے کا آئینہ دار ہے جس میں ڈوب ڈوب کروہ افعال صادر ہوتے ہیں۔ وہ افعال اگر ظاہر نہ بھی ہوں تو بھی اُس گندے چشمہ کے وجود کا انکار محال ہے۔ صرف ظاہری افعال جیسے خون کرنا چوری کرنا اور گالی بکنا وغیرہ ہی گناہ نہیں ہیں بلکہ یہ تو گناہ کا عملی ظہور میں نہ بھی آئیں (گومحال ) تو بھی ہم کسی انسان کو پاک ِ مطلق نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً اگرسانپ کسی کو نہ ڈسے تو بھی اُس کے زہریلا ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ ڈسے خواہ نہ ڈسے بہر حال زہر اُس کے اندر موجود ہے۔ اسی طرح انسان سے خواہ کسی فعل بدکا ارتکاب نہ بھی ہوتو بھی گناہ اُس کی طبعیت میں موجود ہوتا ہے۔ پس شرع الہٰی کا ہر چھوٹے سے چھوٹا تجاوز گناہ ہے۔ اورشریعت انسان کو گناہ سےآزاد نہیں کرسکتی۔ بلکہ وہ توصرف گناہ کی پہچان ہی بخشتی ہے۔ شریعت کے وسیلے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے (رومیوں ۳: ۳۰) جس طرح تھرمامیڑ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ بخار کتنے درجے کا ہے اوراُس بخار کو دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت گناہ کے وجود کا علم بخشتی ہے۔ اُس سے آزاد نہیں کرسکتی۔

بہت سے لوگ جن کی فطرت بالکل مسخ اورضمیر مردہ ہوچکا ہے گناہ کے وجود کا سرے سے انکار کرتےہیں۔ حالانکہ گناہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ذرا غور کر و کہ لوگ مکانوں اورصندوقوں کو قفل کیوں لگاتے ہیں ؟ سرکاری خزانے پر دن رات پہرے کیوں لگے رہتے ہیں ؟ روپیہ بنکوں میں کس لئے جمع کیا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ دُنیا میں چور موجود ہیں۔ کیاچوری کرنانیکی ہے ؟ کیاپولیس کا انتظام۔عدالتیں ،ہتھکڑیاں ، جیلیں ،پھانسیاں اورشکنجے راست بازوں کو سزائیں دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ بلکہ صرف مجرموں کے لئے تمام ممالک واقوام عالم میں حکومتوں اورتغریری قوانین کا وجود زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ گناہ دنیا میں ہمہ گیر طورپر موجود ہے۔اورحکومت اُس کی روک تھام کا ایک جبری وظاہری انتظام ہے۔ تاکہ دنیا میں اندھیر نہ مسچ جائے اوردنیا میں کوئی زبان کتاب اورکوئی لغت ایسی نہ ملیگی کہ جس میں گناہ کے مترادف الفاظ موجود نہ ہوں۔ پس گناہ ضمیر کی مخالفت ہے۔ شرع الہٰی کی مخالفت ہے۔ انسان کی خودی براظہور ہے۔ ایک نفس الامری حقیقت ہے۔ انسان کی اصلی فطرت کے بگاڑ کا نام ہے۔ انسان کی طبعیت کو عارض ہے۔ اورایک روحانی مرض ہے۔ پس اب اگر ہم کہیں کہ ہم بیگنا ہ ہیں و اپنے آپکو فریب دیتے ہیں۔ اورہم میں سچائی نہیں (یوحنا ۱: ۸)۔



گناہ کی علت

جیسے پیشتر اس کے پانی پیاجائے پیاس ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ مٹھائی کھائی جائے کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح پیشتر اس کے کہ خون کیا جائے قتل کی خواہش ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ چوری کی جائے چوری کی خواہش ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ زنا کیا جائے زنا کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ہرفعل کے ارتکاب سے پیشتر ہی اُس فعل کی خواہش انسان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ اورخواہش ہر فعل پر مقدم ٹھہرتی ہے۔ لہٰذا خواہش علت اورفعل یعنی خواہش کا عملی ظہور معلول ہے۔ پس گناہ کی علت بری خواہش ہے۔ تاکہ اُن کے وسیلے سے تم اُس خرابی سے چھوٹ کر جودُنیا میں بُری خواہش کے سبب سے ہے۔۔۔ وغیرہ۔(۲۔ پطرس ۱: ۴) ہر شخس اپنی ہی خواہشوں میں کھینچ کر اورپھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جتنی ہے۔ (یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵ ) اوریہی بُری خواہش ہے جو حضرت ابو البشر سے وراثناً اُس کی تمام نسل کو ملی ہے۔ اسی واسطے خُداوند مسیح نے گناہ کی علت (بُری خواہش ) کو روکنے پر زور دیا اورصرف نیت کی بُرائی کو ہی گناہ ٹھہرایا۔ آپ نے فرمایا۔ مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کرچکا (متی ۵: ۲۷ ) اوریہ بُری خواہش انسان کی فطرۃ اولہ نہیں بلکہ فطرۃ ثانیہ ہے۔ اوراس کے اعماق ِ قلب میں ایک گناہ کا منبع ہے جس میں سے افعال بدپھوٹ پھوٹ کر صاد ر ہوتے اورفضائے عالم کو متعفن کرتے ہیں۔بدافعال کا ظہور گویا اعماق ِ قلب کا اعلان ہے۔ اورخواہش بد کوئی اکتسابی شئے نہیں بلکہ موروثی ہے۔ اسی واسطے انسانی تدابیر سے اس کا ازالہ محال ہے۔ مذہبی تعلیم۔وعظ ونصحیت اورحکومت کی تغریری تجاویز و عوامل صرف بری خواہش کے معلولات (بدافعال ) یعنی چوری ،زنا ، حق تلفی ، ظلم ،لڑائی فساد اورخون ریزی وغیرہ کو عارضی طورپر روک سکتے ہیں ،لیکن ان کی علت (بری خواہش ) اندفاع وازلہ میں قطعی قاصر ہیں۔ جب تک انسان کی نیت بدنہ تب تک ارادہ بُرا نہیں ہوسکتا۔ اورجب تک ارادہ بُرا نہ ہوفعل بد کا صدورمحال ہے۔ اگربدرون ارادہ بد کے افعال بدکا صدور ممکن مانا جائے تو وہ افعال اضطراری ٹھہریں گے نہ کہ اختیاری اور یہ باطل ہے۔ پس فعل بد کے صدور کی علت بُرا ارادہ اوربرے اردے کی علت بُری خواہش ہے۔ انسان کی خواہش وارادہ گناہ سے اس قدر مانوس ہوچکے اورطبعیت گناہ کی طرف اس درجہ مائل ہوچکی ہے کہ جب تک اُس کی خواہش ،میلان طبع اورارادہ کو کسی فوق العادت طریق سے تبدیل نہ کردیا جائے حقیقی نیکی اُس س صادر ہوہی نہیں سکتی۔ اگر کوئی نیکی صادر بھی ہوگی تو وہ گندی دھجی کی مانند ہوگی (یسعیاہ ۶۴: ۶ ) گناہ انسان کی فطرت میں اس قدر رچ گیا ہے کہ یرمیاہ نبی اُسے انسان کی ایک فطرتی ناقابلیت سے تشبیہ دیتا ہے (یرمیاہ ۱۳: ۲۳ ) فخر بانہ میلانات ومذموم رجحانات گناہ آلودہ طبعیت کے لازمی نتائج ہیں۔ اکثر لوگ گناہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ وہ گناہ صرف اُس کو سمجھتے ہیں جو ظہور میں آئے میں آئے لیکن نیت کی سفلیت کو گناہ نہیں سمجھتے۔حالانکہ نیت و خواہش کی بدی تمام جرائم وذمائم کو مرکز ہ۔ ذرا سوچئے کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کی نیت کی بُرائی سے کسی صورت آگاہ ہوجاتاہے۔تو باوجود اُس سے کوئی فعل بدسرزد ہونے کے اُس سے نفرت کرتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیت کی برائی واقعی نفرت کا موجب ہے۔ اوراگر انسان ایک دوسرے کے باطنی خیالات کےجان لینے پر قادر ہوتا تو ضرور ایکدوسے سے نفرت کرتا۔ اب دیکھئے کہ خُدا ہمارے باطن سےے اس قدر آگاہ ہے جس قدر ہمارے ظاہر سے۔ مَیں تمہارے دل کے خیالات کو جانتا ہوں (حزقی ایل ۱۱: ۵ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۴: ۵) تو بتائے کہ ہماری بُری نیت اوربُری خواہش سے وہ کیوں نفرت نہ کرے گا؟ اوربُری خواہش (علت گناہ ) کا مرکز دل ہے۔ اس لئے کلام میں آیا ہ ےکہ دل بھی شرارت سے بھرا ہے (واعظ ۹: ۳ ؛ ۸: ۱۱ ) اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں۔ وہ دل سے نکلتی ہیں۔ اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال ،خون ریزیاں ،زناکاریاں ،حرام کاریاں۔چوریاں ،جھوٹی گواہیاں ،بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔


یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ (متی ۱۵ : ۱۸ – ۲۰ ) انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے (پیدائش ۸: ۲۱) اس لئے انسان کے لئے ہدایت الہٰی یہ ہے کہ اپنے دل کی خوب حفاظت کر۔ کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہےے (امثال ۴: ۲۳ ) اورداود نبی اس گناہ آلود دل کی تبدیلی کے لئے خُدا سے یوں التجا کرتا ہے۔اَے خُدا میرے اندر پاک دل پیدا کر۔اور میرے باطن میں از سر نو مستقیم رُوح ڈال (زبور ۵۱: ۱۰ ) دیگر مزاہب صرف عملی گناہ پر زور دیتے اوربدخیالی و بداندیشی کو گناہ نہیں سمجھتے۔لیکن مسیحیت کی فضیلت و امتیاز اسی سے ظاہر ہے کہ وہ انسان کی نیت کی بُرائی او ر خواہش ورادہ کی نجاست وخباچت پر گناہ ہونے کا فتویٰ دیتی اوربدخیالی وبداندیشی کو شرع الہٰی کا عدول ٹھہرا کر فعل سے زیادہ ارداہ فعل کو معیوب ٹھہراتی ہے۔ کیونکہ خُدا باطن کی صفائی پسند کرتا ہے نہ کہ ظاہری کی۔ نادان لوگ عملی گناہوں کے محض دوسروں کی نظر سے بچکر پوشیدہ طورپر مرتکب ہوتے اورچند ظاہری داری کی نیکیاں کرکے خود کو پاک ونیک سمجھنے لگتے ہیں اوردل کو یونہی تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم گنہگار نہیں ہیں۔ کلام ِ مقدس ایسوں کے متعلق یوں فرماتا ہ۔ ایک پشت ایسی ہے جو اپنی نگاہ میں پاک ہے۔لیکن اُس کی گندگی اُس س دھوئی نہیں گئی (امثال ۳۰ : ۱۲ ) انسان کی ہر ایک روش اُس کی نظر میں راست ہے۔ پر خُداوند دلوں کو جانچتا ہے (امثال ۲۱: ۲؛ ۲۰: ۹ ؛ واعظ ۷: ۲۰ ) جب مصدر ہی ناپاک ہوتو اُس سے نیکی و پاکی کا صدور کیسے ممکن ہے ؟ (یعقوب ۳: ۱۲ ) پس گناہ کی علت بُری خواہش ہے اوربغیر علت کی تبدیلی کے معلول کی تبدیلی محال ہے۔ جب تک انسان کی بُری خواہش وبری طبعیت نئے سرے سے نیک اور پاک نہ ہو ہوجائے تب تک حقیقی نیکی اُس سے صادر ہی نہیں ہوسکتی (متی ۷: ۱۸ )۔

گناہ ہمہ گیرہے

گناہ کی ہمہ گیر کے متعلق عقلی دلائل :۔

۱۔ دُنیا میں کوئی ایسی کتاب ،لغت یا زبان نہیں ہے۔ جس میں گناہ کے مترادف الفاظ موجود نہ ہوں۔ ہم اس مضمون کے آٖغاز ہی میں اس کا ذکر کرچکے ہیں کہ ہر زبان میں ایسے الفاظ بکثرت موجود ہیں جن سے گناہ کا ہمہ گیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اوریہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی لفظ تب تک ایجاد نہیں ہوتا جب تک خارج میں اُس کا کوئی مدلں نہ پایا جائے۔ واقعات پیش آمدہ کے مطابق اُن کے اظہار کے لئے الفاظ بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً لفظ عداوت کبھی ایجاد نہ ہوتا اگر دُنیا میں عداوت وردشمنی نہ ہوتی۔لفظ غم کبی ایجاد نہ ہوتا اگ غم کوئی شئے یاکیفیت نہ ہوتی۔ اگر دُنیا میں کبھی کوئی بیماری ہی نہ ہوتی تو الفاظ ہماری۔مرض ، علالت اورحکیم وطبعیت اورنُسخہ ودو وغیرہ ہرگز ایجاد نہ ہوتے۔ اورسرسام ،بُرص ،طاعون ،ہیضہ۔تمونیہ اوربُخار وغیرہ الفا ظ کا وجود نابود ہوتا۔ اسی طرح گناہ کے مترادف یا اُس کی مختلف فروعات کے اظہار کے لئے دُنیا کی ہر زبان میں بکثرت الفاظ موجود ہیں۔ اگر گناہ کوئی ہمہ گیر شئے نہ ہوتا تو اُس کے مفہوم کے اظہار کے لئے ہر مُلک کی زبان میں کثیر التعداد الفاظ ہر گز نہ ہوتے۔ لہٰذا گناہ ایک نفس الامری حقیقت ہے اور ہمہ گیر ہے۔

۲۔ ہر مُلک اورہرقوم میں کسی نہ کسی صورت میں حکومت اورتغریری انتظام کاوجود گناہ کی ہمہ گیری کا زبردست ثبوت ہے۔ عدالتیں۔ حکومتیں اورتغریرات گناہ کوقوت ِبازو سے روکنے کے لئے معرض ِ وجود میں آئیں۔ چونکہ یہ انتظام ہمہ گیر ہے لہٰذا گناہ بھی ہمہ گیر ہے۔

۳۔ گناہ ایک متوارث شئے ہے۔ یعنی جس طرح صحت ِ و سقم۔ضعف و قوت ،شکل وشباہت اورعادات وخصائل اورمزجہ وطبائع قانون ارثی کے مطابق والدین سے بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اُسی طرح گناہ کی علت (بری خواہش ) بھی ارثی طور پر اولا میں منتقل ہوتی ہے۔ اورطبیعت ِموروثی کا ہمہ گیری ہونا مسلم ہے۔لہٰذا گناہ ہمہ گیر ہے۔


۴۔ تجربہ نوعی نے گناہ کی ہمہ گیری کوخوب ثابت کردیا ہے۔ گناہ کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اورکوئی ملک کوئی شئے کوئی قوم۔کوئی جماعت۔کوئی خاندان اورکوئی فردِ واحد بھی اس سے ثابت ہے۔ ہندومذہب میں عقیدہ تنا سخ مسلم ہے اورازروئے تناسخ تمام جیوبندھ میں آتے ہیں۔ اوراُن کا بندھ میں آنا کسی گذشتہ جرُم کے بغیر ممکن نہیں۔لہذا اُن کے مسلمات کی رُو سے تمام جیو گنہگار ہیں۔ پھر اسلامی مسلمات کی رُوسے بھی گناہ کی ہمہ گیری مسلم الثبوت ہے۔ قُرآن کی سورہ نحل میں مرقوم ہے۔ کہ اگر اللہ انسانوں سے اُن ظلم کی باز پُرس کرے تو زمین پر ایک متحرک کو بھی نہ چھوڑے۔ پھر حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں بھی اسی مطلب کا مضمون ہے جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ تُم میں سے کسی کا عمل اُس کو ہرگز جنت میں داخل نہ کرے گا۔ تو آپ کے ساتھیوں نے پوچھا کہ اَے رسول اللہ کیا آپ کو بھی آپ کو عمل جنت میں داخل نہ کرے گا؟ آحضرت نے فرمایا۔ کہ مجھ کو بھی میرا عمل جنت میں داخل نہ کرے گا۔ خُدا کی رحمت وفضل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پس اسلامی متعقدات سے بھی گناہ کی ہمہ گیری ثابت ہے۔

گناہ کی ہمہ گیری کےمتعلق بائبل مقدس کی منقولی دلائل۔

۶۔ بائبل سے گناہ کی ہمہ گیری کا ثبوت ملتا ہے۔ کلام میں آیا ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں ۶: ۲۳ ) چونکہ تمام انسان مرتے ہیں۔ لہٰذا سب گنہگار ہیں گناہ سبب ہےہ اورموت اُس کانتیجہ ہے۔ اگر گناہ نہ ہوتا تو موت بھی نہ ہوتی۔ جبکہ گناہ کا نتیجہ (موت ) ہمہ گیری ہے۔ توخود سبب گناہ کیوں ہمہ گیری نہ ہوگا؟ اورکوئی نتیجہ بغیر سبب کے نہیں ہوتا۔ گناہ کی ہمہ گیری کے ثبوت میں چند مقامات بائبل مقدس سے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

۱۔ جس طرح پانی میں چہرہ چہرے سے مشابہ ہے۔اُسی طرح آدمی کا دل آدمی سے (امثال ۲۷: ۱۹ )۔

۲۔ انسان ہےکیا کہ وہ پاک ہو؟ اوروہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ہو۔(ایوب ۱۵: ۱۴)۔

۳۔ خُداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئی دانشمند کوئی خُدا کا طالب ہے یانہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوئے وہ باہم نجس ہوگئے۔ کوئی نیکو کار نہیں۔ایک بھی نہیں (زبور ۱۵: ۲- ۳ ؛ ۵۳: ۲- ۳ )۔

۴۔ اوراپنے بندے کو عدالت میں نہ لا۔کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہرسکتا (زبور ۱۴۳: ۲ )۔

۵۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل کو صاف کرلیا ہے۔ اورمَیں اپنے گناہ سے پاک ہوگیا ہوں (امثال ۲۰ : ۹ )۔

۶۔ کیونکہ زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے (واعظ ۷: ۲۰ )

۷۔ قول المسیح۔کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا (لوقا ۱۸: ۱۹ )

۸۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کی اورخُدا کے جلال سے محروم ہیں۔(رومیوں ۳: ۲۳ ؛ ۵ : ۱۲ )

۹۔ اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو قریب دیتے ہیں۔ اورہم میں سچائی نہیں (۱۔ یوحنا ۱: ۸ )

ہم نے گناہ کی ہمہ گیری کو معقولات ومنقولات سے پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ اب ہر شخص اپنے گریمان میں منہ ڈال کر اپنی باطنی خالت کا امتحاج کر ے۔ اوراپنے آپ کو خوب جانچ لے کہ واقعی وگنہگار ہے یا نہیں۔ اگر کوئی اب بھی اپنے آپ کو بکلی پاک و راستباز سمجھے تو وہ جان لے کہ گنا ہ کی شدید تیرگی نے اُس کے ضمیر کو جو اُس کےباطن کے لئے بمنزلہ ایک چراغ کے ہے (امثال ۲۰ : ۲۷ ) یہاں تک مدھم کردیا ہے کہ وہ اپنے باطن کی گناہ آلودہ تاریک حالت کوجان نہیں سکتا۔ اورایسا شخص قابل ِرحم ہے۔



کیا گناہ انسان کی اصلی فطرت ہے؟

اگرچہ پیچھے کئی جگہ ثابت کر آئے کہ گناہ انسان کی نیچر کا خاصہ ذاتی نہیں ہے۔ پر شائد کوئی اورزیادہ وضاحت سےاس امر کا ثبوت چاہئے۔ الہٰذا ہم چند دلائل سے اس خیال کی کہ گناہ جُز وانسانیت ہے تردید کریں گے۔

۱۔ جو بات کسی ذی حیات جنس کی ذات کا خاصہ نہیں وہ اُس کے لئے نقصان وہ اورمضرت رساں ثابت ہوگی۔ اب دیکھئے کہ صحبت جسمانی انسان کی طبعیت کا خاصہ ہے۔ اس سے اُس کاکوئی تکلیف یانقصان نہیں ہوتا۔ لیکن مرض جزو انسانیت نہیں بلکہ ایک ہے۔ اس لئے اُس سے سے دُکھ اورنقصان ہوتا ہے۔ سانپ کازہر سانپ کےلئے مضت ِ رساں نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اُس کے خاصہ ذاتی ہے۔ سانپ کسی کو ڈس کر خوش ہوتا ہے ہم کانوں سے کچھ سُن کر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بہر ہ ہوجائے تو وہ بہت ناخوش اور رنجیدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بہرہ بن فطری خاصہ نہیں ہے۔ اسی طرح گناہ سے انسان کو دُکھ اوررنج محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ فطرت انسانی کا خسہ ذاتی نہیں ہے۔

۲۔ چونکہ گناہ کرنے کے بعد انسان کو ایک تورنج ہوتا ہے۔ اوردوسرے اُس فعل ناکردنی پر پچھتانا پڑتا ہے۔ اس سےثابت ہوتا ہے کہ گناہ انسانی فطرت کا خاصہ نہیں ہے۔ پطرس نے مسیح کا انکار کیا اورپچھتا کر زا ئ زار رویا۔ یہوداہ اسکر یوملی نے مسیح کے ساتھ غداری کی اوراُس کا غم اورپچھتا وا خود کشی پر منتج ہوا۔ پس اگر گناہ ذاتی خاصہ ہوتا تو اُس سے خوشی ہی حاصل ہوتی نہ کہ رنج اورپچھتاوا۔ اگر کوئی خوشی ہوتی بھی ہے تو بہت تھوڑے عرصہ کی جیسے شراب پینے سے ایک آدھ گھنٹے کے لئے سُرور ہوتا ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا گنہگار بھی کسی نہ کسی وقت اپنے گناہ پر ضرور نادم ہوتا اورپچھتاتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ چور کو چوری کرنے سے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اورپچھتا وا کبھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ چوری سے جومال ودولت ہاتھ آتا ہے وہ اُس کی طبعیت پر رنج وپچھتاہ لے کر غالب آنے نہیں دیتا تو اس کے جواب میں اس قدر عرض ہے کہ اگر خود چورکے گھر میں چوری ہوجائے تو کیا پھر بھی اُسے خوشی حاصل ہوگی؟ ہر گزنہیں۔ اُس کو ضرور رنج اورافسوس ہوگا۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چوری کرنا گناہ ہے۔ اوررگناہ فطرت ِانسانی کا خاصہ نہیں بلکہ غیر شئے ہے۔ لہٰذا اس سے آزاد ہونا اصلی فطرت کا تقاضا ہے۔

۳۔ گناہ تمام افراد ِ عالم میں یکساں نہیں ہے۔ اس لئے طبعیت اولہ نہیں بلکہ ثانیہ ہے۔ کسی میں ایک گناہ ہے اور دوسرے میں وہ نہیں کوئی اورہے۔ ایک شخص خونی تو ہے مگر غُربا ء کے ساتھ بہت ہمدردی کرتا ہے۔ ایک آدمی زانی تو ہے مگر خونی نہیں ہے۔ ایک آدمی لالچی تو ہے مگر سچ بولنے میں مشہور ہے۔ا یک آدمی بُت پر ست تو ہے مگر جھوٹ۔فریب۔ خو ن ریزی اقورظنم وغیرہ سے نفرت کرتا ہے۔ جس طرح سانس لینا۔ سُننا ،سونگھنا۔سونا ، جاگنا اور کھانا پینا وغیرہ ذاتی خصائص تمام افراد عالم میں یکساں میں اُسی طرح اگر گناہ انسان کی ذاتیات کا جُز ہوتا تو تمام نوع ِ انسانی میں یکساں ہوتا۔ یعنی اگر ایک شخص چوری کرنا تو تمام دُنیا چوری کرتی۔ اگرا یک شخص جھوٹ بولتا تو ضرورتھا کہ دُنیا کے تمام لوگ جھوٹ بولا کرتے۔ مگر ایسا نہین ہے۔ لہٰذا گناہ حُزو انسانیت نہیں ہے۔

۔ ۴۔ خُدائے قدوس سے ناپاک طبعیت کے معلول کا صادر ہونا قطعی ممتنع ومحال ہے۔ کیونکہ قدوسیت اورناپاکی باہمدگر نقیضین ہیں۔ اورایک نقیض دوسرے نقیض کی علت نہیں ہوسکتا۔ جیسے آفتاب میں سے تاریکی کبھی صادر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا گناہ انسان کی فطرت اولہ نہیں۔

۵۔ گناہ کو جُزو فطرت انسانی ماننے سے احکام وشرائع اوراوامر ونواہی الہٰیہ کا بطلان لازم آئے گا۔ خُدا خود گناہ کو انسان کی طبعیت میں پیدا کرکے اُس کے خلاف احکام صادر نہیں کرسکتا۔


۶۔ اگر گناہ عرض ِ ذاتی ہے تو خُدا تعالیٰ کسی کو سز اوجزا نہیں دے سکتا۔اورعدالت وابدی زندگی سے انکار لازم آئے گا۔

۷۔ خُدا کے تمام انتظامات دربارہ ازالہ گناہ اورنجات ِبنی نوع انسان باطل ٹھہریں گے۔ کیونکہ خاصہ ذاتی کا انفکاک اپنی ذات سے محال ہے۔

۸۔ گناہ بدی کے حامل ہونا خُدا کی عین فرماں برداری ہوگی۔ اورنیکی کے عامل ہونا خُدا سے سرکشی ومخالفت کرنا ہوگا۔

جبکہ گناہ کو انسان کی اصلی فطرت ماننے سے مندرجہ بالا قباحتیں لازم آتی ہیں۔ تو یہ خیال کوخود باطل ہوکر محال ٹھہرا۔ اورثابت ہوا کہ گناہ انسان کی طبیعت کا خاصہ ذاتی نہیں۔ طبیعت اولہ نہیں بلکہ طبعیت ثانیہ یاعرض انضمام ہے۔ یعنی خُدا نے تو ابوالبشر کو پاک وراست پیدا کیا تھا۔ لیکن وہ خود الہٰی نافرمانی کرکے گنہگار ہوگیا۔ تو مَیں نے صرف اتنا پایا کہ خُدا نے انسان کو راست بنایا۔ پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں۔ (واعظ ۷: ۲۹) اور اُس گناہ سے انسان کی طبیعت بگڑگئی۔ اوروہ طبعی بگاڑ وراثناً آدم سے تمام نسل ِ انسانی میں منتقل ہوگیا (رومیوں ۵: ۱۲)۔

اس دُنیا میں بے شمار جسمانی امراض پائے جاتے ہیں۔اور وہ امراض یا تو موروثی ہوتے ہیں۔ یعنی آباو اجداد سے اولا د کر وراثناً ملتے ہیں۔ جیسے تب دق کے مریض والدین کے بچے بھی تب دق میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یا متعدی ہوتے ہیں۔ یعنی مریضوں کی صحبت وسنگت سے لاحق ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی تندرست آدمی کسی کو ڑھی یا تپ دق کے مریض کی صحبت میں رہنے سے خود بھی اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اوریاکسبی ہوتے ہیں۔ یعنی اپنی ہی غفلت ونادانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی آدمی گرم گرم چاہے پی کر اُوپر سے فوراً برف کا ٹھنڈا پانی پی لے اورگر سرد ہوکر بیمار ہوجائے۔جس طرح یہ جسمانی بیماریاں جسم کے لئے مضرت رساں ہیں نہ اُسیی طرح گناہ ایک روحانی مرض ہے اور رُوح کی تخریب وتنزل کا موجب ہے۔ اوریہ روحانی مرض(گناہ) بھی تین ہی طرح پر ہے۔

طبعی موروثی گناہ

آدم اورحواکے گناہ میں گِرنے سے اُن کی طبیعت ناپاک اورگناہ آلود ہوگئی۔ اوراُس بُری طبیعت کا اثر وراثناً اُن کی نسل میں منتقل ہوتا آیا۔ دیکھ مَیں نے بدی میں صورت پکڑی۔ اورمَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا(زبور ۵۱: ۵) شریر پیدائش ہی سے کجروی اختیار کرتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی جھوٹ بول کرگمراہ ہوجاتے ہیں۔ (زبور ۵۸: ۳) میں جانتا تھا کہ تو بالکل بے وفا ہے۔ اوررحم ہی سے خطا کا رکہلا تا ہے (یسیعاہ ۸: ۸ ) انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے برا ہے(پیدائش ۸: ۲۱ ) پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا۔ اورگناہ کے سبب موت آئی۔ اوریوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا (رومیوں ۵: ۱۲) گناہ کو موروثی کہنے سے یہ نہ سمجھا چاہے کہ اولا داپنے والدین کے گناہوں کی سز ا میں بھی مبتلاہوتی ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ بدی کا میلان وراثناً والدین سے اولا د میںمنتقل ہوتا ہے نہ کہ سز ا بھی۔ گناہ تو کردی وبدرت بہ قتل گاہ رسیدوالا معاملہ نہیں۔ اس کے متعلق کلام ِ الہٰی کا فیصلہ ملاحظہ ہو۔ اُن ایام میں پھر یوں نہ کہیں گے کہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اوراولاد کے دانت کھٹے ہوگئے۔ کیونکہ ہرا یک اپنی ہی بدکرداری کے سبب سے مریگا۔ ہر ایک جو کچے انگور کھاتا ہے۔اُسی کے دانت کھٹے ہوں گے(یرمیاہ ۳۱: ۲۹-۳۰) گلیتوں ۶: ۵) اگر کوئی ہمارے اس دعویٰ کی تردیدمیں خروج ۲۰: ۵ کو پیش کرکے یہ ثابت کرنا چاہے کہ اولا د اپنے آباو اجداد کی سزا میں مبتلا ہوتی ہے تو اُس کے متعلق عرض ہے۔ کہ سزا دو قسم کی ہوتی ہے۔ یعنی سزائے نظامت اورسزائے عدالت۔خُدا اس دنیا میں کبھی کسی کو عدالتی سزا نہیں دیتا۔ بلکہ اُس کے لئے ایک خاص دن مقرر ہے۔ لیکن سزائے نظامت جسمانی اور ایں جہانی ہوتی ہے۔ اُس میں بے شک بچے بھی والدین کے ساتھ سزاپاتے ہیں۔ جیسے طوفان ِ نوح میں بدکرداروں کے ساتھ اُن کی اولا د بھی ہلاک ہوئی۔ لیکن اس سے اُن کا کوئی روحانی نقصان نہیں ہوا۔ وہ سزائے عدالت کے لئے باقی رکھے گئے ہیں۔


جب بدی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے توخُدا بدکاروں کو اُن کی نسل سمیت مٹادیتا ہے۔ جیسے ایک مصور اپنی تصویر کو جس میں نقص پیدا ہوجائیں ربڑ سے مٹا دیتا ہے۔ جو سزائیں حاکموں کی طرف سے بدکاروں کی اصلاح کے لئے دی جاتی ہیں وہ بھی خُدا کی انتظامی سزا میں شامل ہیں۔ سزائے نظامت توبہ کرنے سے ٹل بھی جاتی ہے۔ جیسے نینو ا کے لوگوں نے جب اپنی بدکرداری سے توبہ کی اورخُدا کی کے حضور خاکساری اختیار کی تو اُن کی سزا ٹل گئی (یوناہ ۳: ۵-۱۰ ) لیکن سزائے عدالت رُوحانی سزا ہے اوراٹل ہے۔ اُس سے کوئی بدکار بچ نہیں سکتا۔

متعدی گناہ

یعنی بدکرداری کی قُربت وصحبت سے بھی انسان کی طبیعت بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے کلام میں آیا ہے کہ '' فریب نہ کھاو بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۵: ۳۳ ) اورزبور ۱: ۱ میں اُس آدمی کو مبارک کہاگیا ہے جو شریروں کو صحبت سے پرہیز کرتا ہے (امثال ۱۳: ۲۰؛ ۲۲: ۲۴: ۱ )۔

کسبی گناہ

ہرشخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اورپھنس کر آزمایا جاتا ہے۔پھر خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جنتی ہے(یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵ ؛۲۔پطرس ۱: ۴ ) گناہ نے فطرت ِانسانی پر اثر انداز ہو کر زندگی کے شیریں چشمہ کو زہریلابنا دیاہے۔ کے سبب اس دُنیا میں انسان ہر قسم کے مصائب جسمانی وآلا م ِ روحانی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اورزندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ معلوم ہوتی ہے۔ ریاضت ِ بدنی اورتزکیہ نفس وغیرہ کے ہمہ گیر خیالات گناہ کے وجود اوراُس کے باعث انسان کی روحانی بے چینی اورقلبی اضطراب کے مظہر ہیں۔ بلکہ ان جسمانی ورحانی آلام ومصائب سے تنگ آکر انسان نے خود کشی کو ذریعہ نجات سمجھا۔ یونانی حکماء کا یہ خیال ہے کہ طبعی موت خود کُشی کو ذریعہ نجات سمجھا۔ یونانی حکما ء کا یہ خیال ہے کہ طبعی موت خود انسان کے پاس آتی ہے۔ اورخودکشی انسان کو موت کے پاس لے جاتی ہے۔ فیثا غورث افلاطون اورارسطو خودکُشی کے بظاہر مخالف ہیں۔ اورافلاطون خود کشی کی مخالفت کے باوجود دبی زبان سے یہ کہتا ہے کہ '' شدت ِافلاس ومصائب سے جب زندگی ناقابل برداشت ہوجائے تو خود کشیئ جائز ہے۔ مارکس اُریلئیس کہیں خود کشی کا مخالف اورکہیں حامی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہرشخص کو اپنی جان پر کامل اختیار حاصل ہے۔ حکم ایپی کیورس کا یہ عند یہ ہے کہ۔'' خوب غور کرلو موت کا تماہرے پاس آنا بہتر ہے یا تمہارا موت کے پاس جانا۔ اس کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ اُص کے پانچ شاگر خودکشی کے مرتکب ہوئے۔ پلینسی بڑے فخر سے کہتا ہے کہ موت کے بارے میں عبد کو معبود پر فضیلت حاصل ہے کہ وہ اپنی حسب مرضی زندگی کا خاتمہ کرسکتاہے۔ اوریہ فطرت کی فیاضی کاسب سے بڑا ثبوت ہے کہ دُنیا میں ایسی جڑی بوٹیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ جن کی مدد سے انسان اپنے مصائب کا آسانی سے خاتمہ کرسکتا ہے ہییچی ایک مشہور فاضل گذارا ہے جسے خطیب مرگ کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔یہ شخص ایک طرف تو حصول ِلذت کو انسانی حیات کی غرض وغایت ٹھراتا ہے۔ اوردوسر ی طرف موت کی بہترین نعمت قرار دیتا ہے۔ یہ بڑا سجر بیان خطیب اورعظیم آتش نوامقرر تھا۔ اسکی خطا بت کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں آدمیوں نے خود کُشی کرنا شروع کردی۔ روزانہ خود کُشی کے واقعات ظہور پذیر ہونے لگے۔ ان اموات کا ملک کی آبادی پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اس لئے حکومت نے ہحیپی کو سکندریہ سے جلاوطن کردیا۔ رُوم کے شعرا ء خرین میں سیلیس اٹالیکس کو بڑا درجہ حاصل تھا۔


وہ بھی خود کشی سے مرا۔ رُوم کا مشہور جزل لایگنس زہر کھاکر ہلاک ہوگیا۔ اُس کے اس فعل کو ایثار۔اوروطن دوستی سے تعبیر کیاگیا۔ کلی پر می گرنس جب زندگی سے اُکتا گیا۔ تواُس نے خود کُشی کے وقت بہت سے دوستوں کو دعوت دی۔ اوراُن کی موجود گی میں آگ میں کود کرہلاک ہوگیا۔

اے پکٹٹس کہتا ہے۔ یہ خُوب یا درکھو کہ دروازہ کُھلا ہوا ہے بچوں سے زیادہ تربزدل نہ بنو۔ جس طرح جب بچے کھیل کُود سے اُکتا جاتے ہیں تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ اب نہ کھیلیں گے۔ اسی طرح جب تو زندگی سے عاجز آجاو تو فوراً زندگی ترک کردو۔ حکیم سنیکا کے خطبہ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

اگر موت نہ ہوتی تو یہ زندگی کیسا ناقابلِ برداشت عذاب ہوتی۔ موت پر میرے موذ ی سے موذی دشمن کا بھی دسترس نہیں۔ درحقیقت موت ایسی شئے ہے جو تمام مصائب کے لئے سپر ہے۔ تم تکالیف سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تو اس کے لئے جس طرف نظر اُٹھاو تمہیں وسائل وذرائع یہ افراط ملیں گے۔ پہاڑ اورچٹان کی بلندی۔ دریا۔ کوئیں اورسمندر کی تہ جہاں چاہو ذریعہ نجات موجود ہے۔ (یعنی جس طریقہ سے چاہو خود کشی کرسکتے ہو۔ جب مجھے طریقہ موت میں انتخاب کرنا ہے۔ توکیوں نہ مَیں آسان موت کو تکلیف د ہ موت پر ترجیح دے کر اختیار کر یوں ؟ جس طرح مجھے اپنے رہنے کے لئے مکان کے اتنخاب کا اورسفر کے لئےجہاز کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اُسی طرح طریقہ موت کے انتخاب کا بھی حق حاصل ہے۔ جس طریقہ پر تمہیں اچھا معلوم ہو زندگی کوخیر باد کہو۔ خواہ تلوار کی کاٹ سے خواہ رسی کے پھندے سے خواہ زہر کے گھونٹ سے۔ بہر حال اپنی مشکل آسان کرو۔

طریق زندگی میں تُم دوسروں کی خوشی ومرضی کی پرواہ کرتے ہو۔ لیکن طریق موت بالکل تمہاری ذاتی خوشی پر منحصر ہے۔ جب تک تمہاری خوشی ہے زندہ رہو۔ جب دیکھو کہ زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے تو پھر بھی اُسے جھیلتے رہنا خود تمہارا قصور ہے۔جہاں سے تم آئے ہو وہاں واپس چلے جانا بالکل تمہارے قدرت واختیار میں ہے۔ اوراس حق سے فائدہ اُٹھانے سے تمہیں کون روک سکتا ہے ؟

خودکشی کے متعلق اس قدر لمبے چوڑے اقتباسات پیش کرنے سے غرض صرف یہ ہے کہ ناظرین کو گناہ کے ہولناک نتائج کی تصور کھینچ کر دکھائی جاتے۔

کلام میں آیا ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔ اورگناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے پس موت خواہ طبعی ہو خواہ غیر طبعی اورچاہے جسمانی ہو یاروحانی وہ ضرور گناہ کا لازمی نتیجہ ہے۔جب مرض ِ گناہ عام ہوگیا تو مریضان ِ گناہ نیم حکمیوں(دنیو فلاسفروں ) کی ستم ظریفیوں کا تختہ مشق ہے۔ اوربمصداق نیم حکمی خطرہ جان اُن کی حالت بد سے بدتر ہوگئی۔ یعنی فلاسفروں نے جہاں اس زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے کئی غلط طریقے بتائے وہاں خود کشی کو بھی ذریعہ نجات قرار دیا۔ اور بنی آدم کو قعر ضلالت میں گرادیا۔

خارجی عالم کی طبعی اشیاء اورجاندار مخلوق جن پر خُدا نے انسان کوحکمرانوں ٹھہرایا تھا اب حضرت انسان کے مخالف نظر آتی ہیں۔ اوراس مخالت کی اصل وجہ بھی گناہ ہے۔ اور انسان اورنیچر کی اشیاء کے مابین نامواقفیت کی دو وجوہات ہیں۔

۱۔ انسان کا طبعی بگاڑ

ایک شخص جب بخار میں مبتلا ہوتا ہے توبخار نہیں ہوتا۔وہ اصلی حالت میں ہوتے ہیں۔ صرف علالت ِ طبع کے باعث مریض کو وہ چیزیں بدمزہ اورخلاف ِ طبع معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی طبعیت گناہ کے مرض سے بگڑ گئی ہے۔اور وہ روحانی طورپر مریض ہے۔


اس لئے فطرت کی وہ عام چیزیں جو کسی وقت اُس سے موافقت رکھتی تھیں اب خلاف ِ طبع معلوم ہوتی ہیں۔ مثلا ً سانپ اُس کی ڈسنا چاہتا ہے۔ شیر اُس کے خون کا پیا سا ہے۔ اسی طرح چیتا ، بھیڑیا ، بچھو ،مکھیاں وغیرہ سب اُس کو اپنے مخالف نظر آتے ہیں۔ پرور اصل یہ تمام چیزیں تو ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ بگاڑ صرف انسان کی اپنی طبیعت میں ہے۔ اگر گناہ کا م ض اُس کی طبعت سے خارج ہوجائے تو کوئی شئے اُس کی مخالف نہ رہے۔ اورایک وقت آنے والا ہے جس میں ایسا ہی ہوگا۔ یعنی انسان مرض گناہ سے آزاد ہوکر اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ فطرت بربحال کیا جائےگا۔ اوراُس وقت بھیڑیا برے کے ساتھ رہیگا اورچیتا بکری کے بچے کے ساتھ بیٹھے گا۔ اوربچھڑا اورشیر بچہ اورپلا ہوا بیل مل جُل کر رہیں گے۔ اورننھا بچہ اُن کی پیش روی کرے گا۔ گائے اورریچھنی مل کر چریں گی۔ اُن کے بچے اکٹھے بیٹھیں گے۔ اورشیر بیل کی طرح بھومہ کھائے گا۔ اوردودوھ پیتا بچہ سانپ کے بل کے پاس کھیلے گا۔ اوروہ لڑکا جس کا دودھ چھڑایا گیا ہوا فعی کے بل میں ہاتھ ڈالے گا۔ وہ میرے کو ہ ِمقدس پر نہ ضرور پہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے(یسعیاہ ۱۱: ۶- ۹ )

۲۔ انسان کی اصل مرتبہ سے تنزل

انسان اوراشیائے نیچر کے مابین نامواققت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان نے خُدا کا گناہ کرکے اپنا اصل مرتبہ کھودیا۔ خُدا نے اُسے پاک وراست پیدا کرکے تمام موجودات پرحکمران ٹھہرایا تھا۔ (زبور ۸: ۵- ۸ ) لیکن اُس نے گناہ کرکے اپنی طبعیت کو خُدا کی طبیعت کا مخالف بنالیا۔ اورحُکم عدولی سے اپنا وہ تمام اختیار واقتدار رکھو دیا اور اپنے عہد ہ سے معزول ہوگیا۔ اس لئے اب نیچر کی اشیاء اُس متنزل ومعزول شدہ حاکم کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتیں کیونکہ اگرکوئی گورنر شہنشاہ کے برخلاف سراُٹھانے کے باعث اپنے عہد ہ سے معزول کردیا جائے تو رعیت اُس کے رُعب واختیار کو خاطر میں نہ لائے گی اورنہ ڈرے گی۔ یہی حال خلیفہ خُدا حضرت انسان کا ہوا۔ اُس نے خُدا سے بغاوت کی اس لئے نیچر کی ادنیٰ مخلوق پورے طورپر اُس کے تابع نہیں رہی۔ درندے اُس کو پھاڑنا چاہتے ہیں۔ سانپ اُس کو ڈسنا چاہتے ہیں۔ دریا اُس کو ڈبو دینا چاہتا ہے۔ جراثیم اُس کے خون کے پیاسے ہیں۔ اگریہ مخلوق کبھی اُس سے خوف بھی کھاتی ہے تویہ اُس کی شوکت ِ گذشتہ اورجلالت رفتہ کا اثر ہے۔ اب اگر وہ کسی طرح پھر اپنی وفاداری کا ثبوت دے کر سابقہ منصب پر بھال نہ کیا جائے تو اُس کی اختیار پورے طورپر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

گناہ کے نتائج

اب تک ہم نے گناہ کے جسمانی نتائج کا جابجاذکر کیا ہے۔ منجلہ ان تمام جسمانی نتائج کے گناہ کے تین نہایت ہولناک روحانی نتائج ہیں۔ جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

۱۔ طبعی بگاڑ۔ خُدا نے انسان کو پاک وراست پیدا کیا تھا۔ یہ انسان کی اصلی فطرت تھی۔ لیکن گناہ نے اُس کی پاکیزہ فطرت پر اثر انداز ہوکر اُسے پاک سے ناپاک بنا دیا۔ لہٰذا وہ اصل فطرت پر قائم نہ رہا۔ پاکیزگی کے کھنڈرات پرگناہ نے اپنی عمارتیں اُٹھائیں۔ اورزندگی کے شیریں چشمہ کو زہر یلا بنا دیا۔ پس گناہ کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کی طبعیت کو بگاڑ دیا۔

۲۔ خُدا تعالیٰ پاک وقدوس ہے (استثنا ۳۲: ۴) اورانسان ناپاک اورگنہگار ہوگیا۔ اورخُدا اورانسان کی طبائع باہمد گرمتضاد ہوگئیں۔ اورضدین کا اجتماع محال ہے لہٰذا خُدا وانسان میں جُدائی واقع ہو گئی۔ کیونکہ راست بازی اوربے دینی میں کیا میل جول ؟ یاروشنی اورتاریکی میں کیا شراکت ؟(۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴ ) اوراس جُدائی سے مُراد بعد مکانی نہیں۔ کیوں کہ ہر چند کہ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں۔ کیونکہ اُسی میں ہم جیتے اورچلتے پھرتے اورموجود ہیں (اعمال ۲۷ : ۲۷- ۲۸ ) بلکہ یہاں جُدائی سے مُراد طبعی نامواقفیت ہے (زبور ۵: ۴ ؛یسعیاہ ۵۹ : ۲ ) اورخُدا سے جُدائی کا نتیجہ انسان کے لئے سب سے زیادہ ہولناک ہے۔


۳۔ سزائے عدالت۔خُدا العادل ہے اور انسان اُس کی عدول حکمی کرکے اُس کا مجرم ٹھہرا خُد اکی شریعت کا عدول کرنا ہی گناہ ہے۔(۱۔ یوحنا ۳: ۴ ) اب وہی شریعت ِالہٰی جس کو حضرت انسان نے توڑا اُس کومجرم ٹھہرا کر اُس پر سزا کا حکم لگاتی ہے۔ اس لئے کلام فرماتا ہے کہ '' شریعت تو غضب پیدا کرتی ہے (رومیوں ۴: ۱۵ ) اس لئے گنہگار ابدی ہلاک کا سزا وار ہے۔ اورگناہ کی مزودی موت ہے (رومیوں ۶: ۲۳ ) اورگناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے (یعقوب ۱: ۱۵ ) اور وہ موت جو گناہ کی مزدور ی ہے صرف جسمانی اورطبعی موت نہیں کیونکہ ؛

۱۔ اس صورت میں جسمانی موت گناہ کی مزدور ی یا سز ا نہیں بلکہ حزا ٹھہرے گی۔ کیونکہ سزا تو موت ِطبعی پر ہی ختم ہوجائے گی۔ اورموت کے بعدایک راست وناراست جنت کا وارث ٹھہرے گا اورجسمانی موت بہشت میں داخل ہونے کا دروازہ ٹھہرےگی۔

۲۔ بہشت میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہوگا کہ گناہ کریں۔ تاکہ طبعی موت آئے۔ اوربہشت میں پہنچادے اورنیک کردار لوگ بدنصیب ٹھہریں گے۔ کیونکہ نیکی کرنے سے موت نہ آئے گی اوراُنہیں جنت کی بجائے اس دنیا کے آلا م ومصائب میں رہنا پڑےگا۔

۳۔ خُدا کی بخشش کوئی چیز نہ ٹھہرائے گی۔ اورراست وناراست ہر دو کو ایک دفعہ موت کے منہ میں جانا پڑے گا۔ اورساری دُنیا کے لئے مرنا ضروری ہے۔ تو اس حالت میں خُدا کی بخشش کیا فائدہ رکھے گی۔ ہر ایک کےلئے ضرورہے کہ مرے۔ خُدا کی رحمت کسی کا بھلا نہ کرےگی۔

۴۔بچوں کا خوروسالی میں مرنا یہ ثابت کرے گا کہ وہ بالغوں کی بہ نسبت زیادہ گنہگار ہیں۔کیونکہ اُن کی موت جلد اورقبل ازوقت واقع ہوتی ہے۔ جیسے قاتل جو سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتا ہے وہ چور کی بہ نسبت جو چھوٹا مجرم سے جلد مارا جاتا ہے۔ یعنی اُسے قبل از مرگ پھانسی دی جاتی ہے۔

۵۔ پھر بڑے بڑے گنہگاروں کا عرصہ درارتک زندہ رہنا یہ ثابت کریگا کہ گناہ کی زیادتی عمر کی درازی کا موجب ٹھہری۔اوربچوں کا صغر سنی میں مرنا یہ ثابت کرسگا (گناہ) کی کمی عمر کی کوتاہی کا باعث ہوئی۔ پس ثابت ہوا کہ گنا ہ کی مزدور (مزا) یہ جسمانی اورطبعی موت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ روحانی جس کو انجیل ِ مقدس میں دوسری موت کہاگیا ہے۔ یہ دوسری موت ہے (مکاشفہ ۲۱: ۸؛ ۲۰: ۱۴) خُداوند مسیح نے بھی اس رُوحانی موت (مزدگناہ) کا بیان صفائی سے کیا ہے۔ جو بدن کر قتل کرتے ہیں۔ اوررُوح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح وبدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ (متی ۱۰: ۲۸) جس طرح فطرت کے اسباب ِ خارجہ کے ساتھ جسم کی مطابقت وموافقت قائم نہ رہنے سے جسمانی اورطبعی موت آتی ہے۔ اورقوانین طبعیہ کی مخالفت سے جسمانی موت بطور نتیجہ کے لازمی ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح قوانین ِروحانیہ (احکام وشرائع الہٰیہ) کی عدولی اورخلاف ورزی رُوحانی موت کاموجب ٹھہرتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اشرف وجود کے فساد سے ادنی ٰ وجود کا فساد لازم آتا ہے۔ اس لئے رُوح کے فساد سے جسم کا فساد بطور لازم وملزوم کے ضروری ٹھہرا۔ پس جسمانی موت نتیجہ ہے رُوحانی موت کا۔روحانی موت کی علت گناہ اورجسمانی موت کی علت رُوحانی موت ہے۔ اوریہ رُوحانی اصطلاح ہے۔ خُدا کی زندگی سے خارج ہوکر انسان میں بقا کی تایثر قائم نہ رہی۔ جیسے ایک برقی تار کا تعلق پاور ہاوس سے منقطع ہوجانے پر اُس میں برقی قوت مفقود ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے۔ اوروہ اُس نادانی کے سبب جو اُن ہے اوراپنے دلوں کی سختی کے باعث خُدا کی زندگی سے خارج ہیں(افیسوں ۴: ۱۸) ایک مچھلی سمندر سے جُدا ہوکر زندہ نہیں رہ سکتی۔ گو اُس کے مرنے میں کچھ عرصہ بھی لگ جائے۔ تو بھی موت کے قبضہ میں وہ اُسی وقت سے آجاتی ہے جب سمندر سے جُدا ہوجاتی ہے۔ موت اُس پر آہستی آہستی اثر کرکے آخر اُسے فنا کردیتی ہے۔

------------- 3روحانی موت سے مُراد روح کی فنا یا نیستی نہیں ہے بلکہ خدا سے جُدا ہونا روحانی موت ہے۔


اسی طرح انسان جب خُدا سے گناہ کے باعث جُدا ہوگیا تواُس کی رُوحانی موت اُسی وقت سے شروع ہوگئی۔ اوراگرکسی صورت اُس کا خُدا سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے جوڑا نہ جائے وہ موت کے یقینی راستہ پر ہے۔ اورایک وقت ضرور فنا ہوجائے گا۔ ادنیٰ وجود ہمیشہ اشرف وجود کے ساتھ متعلق رہ کر قائم رہ سکتا ہے۔ اور اس سے جُدا ہو کر فنا ہوجاتا ہے۔ جس طرح جسم رُوح کے سہارے زندہ رہتا ہے اُسی طرح رُوح خُدا کے سہارے زندہ رہتی ہے۔ رُوح سے جُدا ہوکر جسم فنا ہوجاتا ہے۔اورخُدا سے ہوکر رُوح کا فنا ہونا ضروری ہے۔ پس رُوحانی موت کے یہی معنی ہیں۔ اب ہم رُوحانی مُردگی کے متعلق کلامِ مقدس کی سند بھی پیش کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین ہمارے اس بیان کر محض ذہنی فلسفہ ہی نہ سمجھیں۔بلکہ جان لیں کہ اس حقیقت کی بنیاد کلام ِ مقدس پر ہے۔ اوراُس (خُدا) نے تمہیں بھی زندہ کیاجب اپنے قصوروں اورگناہوں کے سبب مُردہ تھے (افیسوں ۲: ۱ جب قصوروں کے سبب مُردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا (افسیوں ۲: ۵، ۶) اوراُس نے تمہیں بھی جو اپنے قصوروں اورجسم کی نامختونی کے سبب سے مُردہ تھے اُس کے ےساتھ زندہ کیا (کلیسوں ۲: ۱۳) پس جب تُم مسیح کے ساتھ چلائےگئے (کلیسوں ۳: ۱ اوررومیوں ۶: ۵) اوروہ کام جو انسان رُوحانی مُردگی کی حالت میں کرتا ہے کلام اُنہیں مُردہ کام کہتا ہے۔ پس آو۔ مسیح کی تعلیم کی ابتدائی باتیں چھوڑ کر کمال کی طرف قد م بڑھائیں۔ اورمُردہ کاموں سے توبہ کرنے اورخُدا پر ایمان لانے کی۔۔۔۔۔۔وغیرہ (عبرانیوں ۶: ۱) مسیح کا خُون جس نے اپنے آپ کی ازلی رُوح کے وسیلے خُدا کے سامنے بے عیب قُربان کردیا تمہارے دلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرےگا (عبرانیوں ۹: ۱۴)۔

اَے ناظرین ! ہم نے گناہ کی حقیقت وماہیت کی تحقیق وتدفیق میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا۔ بلکہ نہایت وضاحت سے اُس کے تمام پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب تک کسی مرح کی نوعیت وماہیت کی صحیح تشخیص نہ کی جائے اُس کا علاج محال ہوتا ہے۔مسیحیت کے باہر تمام فلسفوں نے گناہ کی ماہیت کے سمجھنے میں غلطی کھائی۔ اوراُس کے اسباب وموجبات اورنتائج کا صحیح سراغ لگانے میں قطعی قاصر رہے۔ اسی واسطے اُن کے نجات کے طریقے ادھورے ارونادرست ہیں۔ اوریہی وجہ ہے کہ مسیحیت کے طریقہ نجات اوردیگر تمام مذاہب کے طریق نجات میں بعد المشرقین ہے۔ پس اپنے دل ودماغ کو تعصب سے خالی کرکے مسیحی طریقہ نجات پر جو آئندہ صفحوں میں مدخل طورپر بیان کیاگیا ہے غور فرمائے۔

(۱۰)


نجات

جس طرح گناہ کے وجود کو تمام مذاہب اورتمام فلسفے کسی نہ کسی صورت میں تسلیم کرتے ہیں۔ اُسی طرح اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت کے بھی سب بزور قائل ہیں۔ اورسب مانتے ہیں کہ گناہ سے آزاد ہونا ضروری اوراصلی فطرت پر بحال ہونا لابدی ہے۔ جو شخص صدق دلی سے گناہ کے مسئلہ پر جو ہم نے گذشتہ اوراق میں پیش کیا غور وخوض کرے گا وہ اس حقیقت کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب کہ واقعی انسان کی ایسی ابتر حالت ہے تو اُس سے آزاد ہوناضروری اوراصلی فطرت کا واجبی تقاضا ہے اوراگر کسی صورت اس ہلاکت آفریں حالت سے آزادی حاصل نہ کی جائے تو ہلاکت لازمی ہے۔ اورگناہ سے آزاد اوراصلی پاکیزہ حالت پر بحال ہوکر تقرب ِالہٰی کو حاصل کرنا ہی نجات ہے۔


اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر فطر ی (گناہ آلودہ) حالت سے کس طرح آزادی حاصل کی جائے۔ اور مقاربت ِ الہٰی ومواصلت ِوجود لامتناہی کے مُشکل سوال کا کیا حل ہے ؟ دُنیا کے تمام رائج الوقت مذاہب اورفلسفے اس سوال کے مختلف جواب دیتے ہیں۔ یعنی حصول ِنجات کے متعلق سب مذاہب کے طریقے باہم متضاد ومتبائن ہیں۔ اوراُن میں بعد المشرقین ہے۔ ان کثیر التعداد عقائد کو دیکھ کر متلاشی نجات کے دل میں جودوسرا سوال قدرتی طورپر اُٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا یہ سب عقائد صحیح ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ؟ اگر سب صحیح ہیں تو ایک شخص آن واحد ہیں ان سب متضاد خیالات وعقائد کا کیسے حامی ہوسکتا ہے ؟ دیہ بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی شخص فی نفسہ ان تمام عقائد کو ایک ہی وقت میں درست تسلیم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ سراسر محال ہے۔ اوراگر صرف ایک عقیدہ ہی درست ہے توہوکونسا ہے ؟ یہ قدرنی سوالات ہیں جو ایک متلاشی حق کے دل کربے چین کردیتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہایت ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ ہم مختصر طورپر یہاں نجات کے متعلق چند مروجہ عقائد کی تحقیق کریں۔ اورسب سے اول دو بدیہی اورمشہور طریقے جو تمام اہل ِ دنیا مشترک طورپر ازالہ گناہ اورحصول ِ نجات کے لئے قدیم سے عمل میں لاتے رہے ہیں پیش کریں گے۔ایک اُن میں سے اختیاری اوردوسرا جبری طریقہ ہے۔

اختیاری طریقہ

جب سے دُنیا میں گناہ کا احساس ہوا ہے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے ریفارمر ہرقوم میں پیدا ہوتے آئے جن کا نصب العین یہ رہا کہ اپنی اپنی قوم کو تہدید وتلقین کریں۔ بدی سے روکیں نیکی کی ترغیب دلائیں۔چوری ،حق تلفی۔ جھوٹ فریب ، زنا۔ خون ریزی۔ بدخواہی ، بداندیشی ، بے انصافی اورظلم وستم وغیرہ گناہوں کو مٹانے کے لئے مصلحان ِ قوم ، ہادیان دین اورمقننان ِ زمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اپنی جانیں چھڑک دیں۔ اِ ن عیوب و ذلوب کی مدافعت کے لئے کروڑ ہامن کتابیں لکھیں گئیں۔ ہرزمانے میں تقاریر کی گئیں۔ سوسائٹیاں قائم کی گئیں۔ قومی ومذہبی مجالس وجود میں لائی گئیں۔ ہر مذہب نے امصار ودیار میں مبلغ ومبشر بھیجے۔ مدارس قائم کرے تعلیم کو تمام کا فہ انام پر پھیلا دیاگیا۔ تہذیب کو ترقی کی اعلیٰ منازل پر پہنچایا گیا۔ خُدا ترس لوگوں نے بدی کے تخم کو مٹانے اورنیکی کے پودے دُنیا میں لگانے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف ِ ایثار کردیا۔ روزے رکھے گئے۔ نمازیں پڑھی گئیں تہوار منائے گئے متبرک مقامات کی زیارتیں کی گئیں۔ مذہبی رہنماوں کی سرگرم تقریریں اوردل ہلادینے والے وعظ ونصحیت ہرزمانے کے لوگوں کے کانوں پر دستک دیتے رہے۔ یہ سب کچھ کس لئے ہوا ؟ صرف اس لئے کہ نوع انسان گناہ کی آہنی زنجیروں سے آزاد ہوکر نیکی اورراست بازی کی جستجو کرے اورحقیقی اخلاقی شائستگی کو حاصل کرے۔ لیکن ذرا انصاف سے کہئے کہ ان سرگرم کوششوں ،انتھک محنتوں اورجگر کاویوں نے کون سے خوشگوار نتائج اب تک پیدا کئے ؟ کیا یہ مخلصانہ وسائل گناہ کے استیصال میں کامیاب ہوئے ؟ اورکیاگناہ کے سیاہ داغوں سے دُنیا کا دامن صاف ہوگیا ؟ ہر گز نہیں گناہ بیش از پیش موجود ہے بقول مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

جبری طریقہ

تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں راعی ورعیت کاسلسلہ بہت قدیم سے چلا آیا ہے۔ اوربادشاہ کا ہمیشہ یہ کام رہاہے کہ وہ زور ِبازو سے بدی کو اپنی سلطنت میں سے مٹائے۔چنانچہ اسی مقصد کے ماتحت ہرزمانہ میں بادشاہوں نے تعزیری قوانین بنائے۔ پولیسیس قائم کیں ،فوجیں تیار کیں، ہتھکڑیاں اوربیڑیاں بنائیں۔ پھانسیاں اورشکنجے تیار کئے۔ جیلیں وجود میں لائے۔ خونیوں اورقاتلوں کو پھانسیاں دیں۔ چوروں اورغداروں سے جیلوں کو بھردیا۔ ڈاکووں کو گولیوں سے اُڑا دیا۔ غرضیکہ شجر گناہ کے استیصال اورجرائم کے انسدادکے لئےجبرو تشدد اوررعب وداب کوبحد ِامکان استعمال کیاگیا۔


مگرچوروں نے قید خانہ سے نکل کر پھر چوری پر کمرباندھی۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ڈاکووں کو نہایت عبرتناک۔ طریقوں سے شکنجوں میں کھینچا گیا تو بھی دیکھنے والوں نے عبرت حاصل نہ کی۔ بلکہ وہ تمام جرائم وذمائم اُسی صورت میں بلکہ اُس سے بھی زیادہ اس وقت بھی موجود ہیں۔ کیا جبر اورقوت ِبازو سے گناہ مٹ گیا ؟ ہر گز نہیں تجربہ شاہد ہے کہ جرائم کے تعزیری داصلاحی طریق ِعلاج یقیناً ناقص ہیں۔ کیونکہ وہ گناہ کے اصل منبع ومخرج تک نفوذ نہیں کرتے بلکہ اُس کے مظاہر پر مواخذہ کرتے ہیں۔ جس حال کہ انسانی کوشش کے بازو صدیوں آزمالئے گئے۔ تو اب آیند ہ کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انسانی طاقت گناہ کی طاقت پر ہر گز غالب نہیں آسکتی۔ اس لئے کلام فرماتا ہے۔ ہر چند تو اپنے کو سجی سے دھوئے اوربہت ساصابون استعمال کرےے۔ توبھی خُداوند فرماتا ہے۔ تیری شرارت کا داغ میرے حضور عیاں ہے (یرمیاہ ۲: ۲۲؛ ۱۳: ۲۳)

تناسخ : ہم ہندوں کے ختم نہ ہونے والے مسئلہ تناسخ کے سلسلہ کی تفصیل سے ناظرین کے صبرو سکون کا امتحان لینا نہیں چاہتے۔ اس لئے چند مختصر مگر معقول دلائل سے یہ ثابت کریں گے کہ عقیدہ آو اگون (تناسخ) کے مطابق گناہ کی طبیعت سے رہائی اورحقیقی نجات کا حصول محال ہے۔ یہ محض ایک ذہنی فلسفہ ہے جو عالم اسباب کی ناہمواری اورغیر یکسانیت کو دیکھ کر گھڑا گیا ہے اور جس پر یقین کرنے سے انسان کی رُوحانی پریشانی ذہنی اضطراب اورقبلی بے قرار ی بدستور قائم رہتی ہے۔ اوروہ حقیقی اطمینان رُوحانی اورتسکین قبلی سے قطعی محروم رہتا ہے۔ مندرجہ ذیل دلائل سے اس وہمی مسئلہ کی غیر معقولیت مبرہن ہوتی ہے۔

۱۔ اگر تمام موجودات کا تجزیہ کیا جائے تو دو اجزا حاصل ہوتے ہیں۔یعنی رُوح اورمادہ۔ اورحامیا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ خُدا ان دونوں چیزوں کا خالق نہیں ہے۔ بلکہ وہ دونوں خُدا کے ساتھ قدیم ہیں۔ اس صورت میں رُوح ومادہ خُدا کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ اپنی ہستی کی ازخود علت ہوکر خُدا کے دائرہ حکومت سے خارج ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ خُدا اس دُنیا کا خالق نہیں بلکہ صرف ترتیب دہندہ ہے۔ اورجب خُدا ان (رُوح ومادہ) پر حق ِ خالقیت نہیں رکھتا تو اُس کا کیا حق ہے کہ آزادرُوحوں کے متعلق سزا وجزا کے احکام صادر فرما کر اُنہیں تناسخ کے لامتناہی چکر میں تاابد گھماتا رہے ؟ اورنہ وہ کسی سے استحقاق ِعبادت رکھتا ہے۔

۲۔ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ خُدا کو سز اوجز دینے کا حق حاصل ہے۔ تو اس صورت میں اندھوں ، لنگڑوں ، محتاجوں اوراپاہجوں پر رحم کرنا اوراُن سے ہمدردی کرنا خُدا سے مخالفت وبغاوت کرنے کے مترادف ہوگا ، کیونکہ خُدا تو اُن کو اُن کے سابقہ اعمال ِبد کے باعث دُکھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اورانسان ہمدردی کےجذبہ سے متاثر ہو کراوراُن کے دُکھوں کو کم کرکے عدل الہٰی کا مخالف ارخُدا کا مجرم ٹھہرتا ہے۔ اس صورت میں رحم ، ہمدردی اورمحبت کے مواقع ہی نہ رہیں گے۔ اورنیکی کا وجود ہی دُنیا سے نابود ہوجائے گا۔ کیونکہ نیکی کے مفہوم میں جتنی باتیں شامل ہیں اُن کا غالب حصہ مظلوموں لاچاروں اوربے کسوں ہی سے متعلق ہے۔ پس خُدا کے قیدیوں کو آرام دینا اوراُن کی استمدادو معاونت کرنا خُدا کی مخالفت ٹھہریگی اوراعمال ِ حسنہ (نیک کرم) جن پرتناسخ کی نجات کا مدار ہے ملیامیٹ ہوجائیں گے۔

۳۔ جیو کی طبیعت کو اُس کے متعلقہ جنم کے مطابق بنا دینا کوئی سزا نہیں۔ کیونکہ وہ تو اُس کی طبعی حالت ہوگی، اوریہ ظاہر ہے کہ طبعیت ہرگز سز ا نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک غریب مزدور کو مجرم ہونے پر یہ سزادی جائے کہ وہ سٹرک پر پتھر کو ٹا کرے تو یہ اُص کے لئے سزا نہ ہوگی۔ کیونکہ یہ کام وہ پہلے بھی کیا کرتا ہے ، یاکسی مجرم کو یہ سزادی جائے کہ تُم رات بھرسویا کرو، یہ بھی طبعی بات ہے ارواس سے سزا کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر ایک گورنر کو اُس کے جُرم کی پاداش میں سٹرک پر پتھر کو ٹنے پر لگا دیاجائے تو اُس کے لئے یہ ضرور سزا ہوگی۔ کیونکہ اُس کی اپنی شاہانہ طبیعت اورسزا کی نوعیت میں بہت اختلاف ہے۔ اوراس صورت میں اُس کے نفس کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے۔ مگر سز ا کو طبیعت بنادینے سے نہ تو وہ سزا ہی رہے گی اورنہ اُس سے کسی اصلاح کی اُمید ہوسکتی ہے۔ تمام حیوانات اپنی حیوانی حالت میں خوش ہیں۔اگر کسی کُتے یا کسی اورجانور کو قتل کرنا چاہو تو وہ اپنے بچاو کےلئے فوراً بھاگتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس جسم (قید) میں وہ ہے اُس سے آزاد ہونا نہیں چاہتا ، بلکہ اُسی میں خوش ہے۔ جس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی اُس حالت کو قید۔ بند ھ یا سزا نہیں سمجھتا ،بلکہ طبعی حالت ، پس طبیعت سزا نہیں ہو سکتی ، اورا س طریقہ سے تہذیب النفس اورارتقا ء رُوحانین واخلاقی کا امکان ہی محال ہے۔


۴۔ کسی مجرم کو ہتھکڑیاں اوربیٹریاں لگانے اورقید میں بند رکھنے سے دو مقصد ہوتے ہیں۔ ایک توسزا دینا جس سے اُس کی اصلاح بھی ہوی ہے۔ اوردوسرے اُس کی آیند ہ نقل وحرکت پرپابند یاں لگا کر اُسے اورجرائم کے ارتکاب سے کچھ عرصہ کے لئے روکنا۔ تاکہ اس کی مجرمانہ عادت جاتی رہے۔وہ پچھلے جرائم کی سزا بھگتا اورآیندہ جرائم کے ارتکاب کا راستہ اُس پر کچھ عرصہ کے لئے بند کیا جاتا ہے۔ اوروہ قید کی حالت میں واقعی کسی اورجُرم کا ارتکاب کرنے کے ناقابل ہوتا ہے۔ مگر خُدا کے قیدیوں کاحال دیکھئے کہ وہ قید میں رہ کر بھی دوسرو ں کا نقصان کرسکتے ہیں بلکہ انصاف ِخُدا وند ہی اورانتظام ِ الہٰی ملاحظہ فرمائیے کہ جرائم کے ارتکاب میں سہولت بہم پہنانے کے لئے اُن کی قوت کو کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شیر گراس قدر شہزور نہ ہو تو اپنی زندگی میں ہزاروں جانوں کو ہلاک نہ کرسکے۔ اگرشیر کی جون فی الحقیقت جیو کے لئے کوئی قید ہوتی تو لازم دتھا کہ ایک تو شیر کی قوت بہت کم ہوتی اوردوسرے اُس میں کسی دوسرے کوہلاک کرنے کی قابلیت نہ ہوتی۔ اس لحاظ سے انسانی عدالت و انتظام کو الہٰی انتظام میں معدلت پر فضیلت حاصل ہے۔ چونکہ عقیدہ تناسخ کی رُوسے خُدا کے انتظام میں نقص ثابت ہوتا ہے ہے۔ اس لئے یہ عقیدہ خود سراسر لغو اوربے بنیاد ہے۔

۵۔ کسی مصیبت زدہ انسان یاکسی بھی حیوان کو یہ علم نہیں کہ کس خاص گناہ کی پاداش میں وہ اُس خاص جسم (سزا یا بند ھ) میں مقید ہے۔ اس لئے بلااظہار جرم کسی کو سزا دینا ایک توبے انصافی اورظلم ہے اوردوسرے اس سے مجرم کی اصلاح محال ہے۔ اگر جرم سے آگاہی ہوتو سزا صلاح کا کام دے سکتی ہے ورنہ نہیں۔

۶۔ عقیدہ تناسخ کے مطابق کُل ۸۴ لاکھ جو نیں (اجناس) مسلم ہیں۔ اور انسانی جون اُن میں سےا یک ہے۔انسانی جون کرم جونی (فعل کی جگہ) ہے۔ اورباقی ۸۳۹۹۹۹۹ جُونیں بھوگ جونیاں (قیدیں) ہیں۔ جبکہ ۸۴ لاکھ اجناس میں سے ۸۳۹۹۹۹۹اجناس تو قیدوں میں ہیں اوررصرایک جنس (انسانی جون) آزاد ہے۔ اورانسانی جون میں بھی بیماروں۔ لاچاروں ،اندھوں۔لنگڑوں اورمفلسوں وبیکسوں کی تعدا دغالب ہے۔ اوروہ بھی خُدا کے قیدی ہیں تو اس صورت میں قیدیوں کی تعداد آزادوں کی تعداد سے لاکھوں گنا زیادہ ہوئی۔ اس کی کوئی بدیہی مثال عالم میں نہیں ہے کہ قیدی آزادوں سے زیادہ ہوں۔ اوروہ بھی کروڑوں بلکہ سنکھوں کی تعداد میں۔ یہ بھی اس عقیدہ کے بطلان کی دلیل ہے۔

۷۔ آواگون کی رُو سے کسی نیچ قوم میں پیدا ہونا بھی سابقہ بُرے اعمال کی سزا ہے۔ توا س صورت میں ہندووں کا شدھی سنگٹھن کا ڈھکو سلہ قائم کرکے اچھوٹ اُدھار کرنا حدل الہٰی کی مخالفت وبغاوت نہیں تو اورکیا ہے۔ خُدا نے اُنہیں سزا دی ہے کہ نیچوں کے گھر پیدا ہوں اورآریہ پرچارک اُنہیں شُدھ کر تے پھرتے ہیں۔ یہ کیا اندھیرہے ؟ شاہد خُدا کی ناراضگی کو اس امر میں وہ بھی محسوس کرتے ہیں اوراسی لئے اچھوتوں کو چکمے جھانسے دے کر سطی طورپر شُدھ کرتے پھر تے ہیں اور دراصل اُن کے ساتھ مُرتبط ہونے سے گھبراتے ہیں۔

نجوف ِ طوالت اتنے ہی دلائل پر اکتفا کیا جاتاہے اوراسی قدر بیان سے ناظرین پر خوب روشن ہوگیا ہوگا کہ عقیدہ تناسخ محض مفروضات وتوہمات ِ ذہنیہ کا مجموعہ ہے۔ اورحصول ِ نجات کے لئے اُس پر اپنے ایمان کی بنیاد رکھنا خُدا کی ہستی سے انکار کرنے کےبرابر ہے۔ تناسخ کی نجات مادیات کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ اورحظائظ جسمانیہ ولذائد نفسانیہ کو زندگی کی غایت سمجھا گیا ہے اوراعمال حسنہ کو نجات کی شرط قرار دیا گیا ہے۔


حالانکہ گناہ آلود ہ طبیعت سے حقیقی نیکی کاصدور محال ہے۔ہم نے اس مبحث کے آغاز ہی میں دو طریقے اختیار ی وجبری) گناہ کی مدافعت کے متعلق درج کئے ہیں۔ اوراُن میں دکھایا ہے کہ گناہ کا ازالہ انسانی تدابیر سے محال ہے۔ پس جب گناہ ہی کا ازالہ واندفاع محال ہے تونیکی کہاں سے آجائے گی ؟ جیسے گناہ آلودہ طبعیت سے گناہ ہی صادر ہوتا ہے ویسے ہی نیک طبیعت سے نیکی کا حصول ضروری ہے۔ اب ہم اس بیان کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ اعمال حسنہ بیان میں اس مبحث پر مزید روشنی ڈالی جائیگی۔

تنرکیہ نفس

گناہ کی موجودگی دُنیا میں ہر قسم کے دُکھ درد۔ رنج وآلام اورمصائب وعقوبت کا باعث ہے اورتمام لوگ دل سے متمنی ہیں کہ کسی طرح جسمانی آلام سے اُن کا دامن چھوٹ جائے اورحقیقی خوشی اوراطیمنان قلبی حاصل ہوجائے۔ یہ واقعی بہت سعیدہ خواہش ہے او انسان کی ابتدائی پر سکون واطیمنان فطرت کا واجبی تقاضا ہے۔ لیکن اُس مسرت مقصود ہ کی نوعیت کے اعتبار سے دو قسم کے خیال دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اوران خیالات کی حمایت میں دوگروہ پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو روحانی خوشی اورابدی مسرت کے جویاں ہیں۔ اورجسم کو حقیر اورناچیز سمجھ کر اُسے بے درد انہ طورسے ریاضت کے شکنجوں میں کھینچتے ہیں اورتزکیہ وریاضت جسمانی کو اُس روحانی خوشی کے حصول کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اوروجود عنصر ی کو اُس اعلیٰ روحانی مقصد کے حصول میں سدِ راہ سمجھ کر اُس سے ایسی دُشمنی کرتے ہیں کہ بعض دفعہ تو وہ مجبور ہوکر طائر رُوح کو پرواز کرنے کے لئے آزاد کردیتا ہے۔ یہ فطرت ِ کے خلاف جہاد ہے اورخُدا کی ناشکر گذاری۔ خُدا نے جب خود ہی جسم بنایا اوراُس کے قائم رکھنے کے لئے اس کارخانہ فطرت میں ہرطرح کے سامان پیدا کر دئے۔ کھانے کے لئے خوراک پہننے کے لئے پوشاک۔ بیماریوں کے علاج کے لئے ہرنوع کی جڑی بوٹیاں اورادویہ بنادیں۔ حکماء واطباء کو حکمت و ذہانت سے بہر ہ ورفرمایا تاکہ وہ انسانی اجسام کو قائم رکھنے کے لئے ان ادوی کادرست استعمال کرسکیں۔ یہ تمام سامان اس جسد خاکی کی حفاظت کو ضروری سمجھتا ہے اوراُس کی مرضی یہی ہے کہ جسم تادیر قائم رہے۔ اب اگر ا س جسم کو ریاضیت کے ذریعہ اذیت دی جائے۔ اس کی پرورش بند کردی جائے اورفاقہ کشی اختیار کی جائے تو کیا یہ خُدا کی مرضی کی مخالفت نہ ہوگی ؟ ضرور ہوگی دوسری بات یہ ہے کہ جسم کو دُکھ اورایذا دینے سے گناہ جو آلام ومصائب کا موجب ہے ہرگز مُردہ نہیں ہوسکتا۔جیسے سانپ کے بل کو مارنے سے سانپ نہیں مرسکتا۔ اورترک ِدُنیا سے فعلی اورعملی گناہوں کا امکان گومٹ جاتا ہے تاہم خیالی اورادادی گناہ سے کبھی چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔ جیسے ایک مبروص کو دیگر کوڑھیوں سے الگ رکھنے پر بھی اُس کا مرض دور نہیں ہوتا۔ ایک سانپ کو دوسرے سانپوں سے جُدا رکھنے سے اُس کا زہر دور نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اگر کسی سانپ کو غیر آباد ویرانے میں چھوڑ آئیں تو اُس کا ڈس لینے کا امکان مٹ جاتاہے۔ مگر زہر تو دور نہیں ہوتا۔

اسی طرح سے و ہ بُری طبعیت اورگناہ کا متوارث اعلان جو نوع ِ انسانی کے ہر ہر فرد میں موجود ہے تزکیہ نفس اورترک ِ دُنیاسے دور نہیں ہوسکتا۔ لہٰذاان ذرائع سے گناہ کا ازالہ محال اورنجات کا حصول ناممکن ہے۔ اس طریق میں افراط ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو جسمانی اورنفسانی خوشی ہی کو سب کچھ سمجھے بیٹے ہیں۔ اگر کسی طرح نجات کے قائل بھی ہیں تو جنت میں نفسانیات ومادیات کو ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ وہ نفس ِ امارہ کے یہاں تک غلام ہوچکے ہیں کہ روحانی خوشیوں کو بھی نفسانیات پر ہی قیاس کرتے ہیں۔ اوراس زندگی کے بعد کسی اعلیٰ رُوحانی زندگی اوراعلیٰ اورغیر فانی رُوحانی خوشی کے قائل نہیں۔ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ کھائیں پئیں۔ کیونکہ کل تو مرہی جائیں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۳۲) انجیل ِجلیل اُن ک حق میں فرماتی ہے۔اُ کا نجام ہلاکت ہے۔اُن کا خُدا پیٹ ہے۔ وہ اپنی شر م کی باتوں پر فخر کرتے ہیں۔


اوردُنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں (فلپیوں ۳: ۱۹) اوروہ حق سے محرو م ہیں اوردینداری کو نفع ہی کاذریعہ سمجھتے ہیں (۱۔ تیمھتیس ۶: ۵) ایسے لوگ اس دنیا کی عیش وعشرت اورچندروہ آرام وخوشی کو مُکتی اورنجات سمجھے بیٹھے ہیں تناسخ کے حامی بھی اسی دُنیا کے آرام وراحت اور مدارج ومعارج کو حقیقی خوشی سمجھ کر یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ اگر پرماتما نیائے کاری ہے تو اُس نے بعض کو غریب اوربعخ کو امیر کیوں پیدا کیا اورخوش حالی وتنگدستی کو انسان کے گذشتہ جنم کے بھلے یابُرے اعمال کانتیجہ مانتے ہیں۔ حالانکہ اس دُنیا کی جسمانی ونفسانی خوشی وراحت کسی صورت نجات کی خوشی نہیں ہوسکتی۔ اورنہ اس دُنیا کا دُکھ درد خُدا کی عدالت کے باعث ہے۔ یہ چیزیں اگر دُنیا کو ملتی ہیں تو محض جسم کو کسی عرصہ تک قائم رکھنے کے لئے۔نیک اعمال جو خاص روح سے متعلق ہیں وہ رُوحانی نجات اوررُوحانی خوشی کاموجب ہوسکتے ہیں نہ کہ نفسانی وجسمانی خوشی کا۔ اگر یہ تمام فوائد ومنافع کرموں ہی کا پھل ہیں تو ایسے لاکھوں آدمی موجود ہیں جو دہریہ والدین کے بیٹے اوردہریہ دادا کے پوتے ہیں۔لیکن باوجود دہریہ ہونےکے دُنیوی جاہ وثروت اورآرام وآسائش ورثنا ً اُن کے حصہ میں آتے ہیں۔یہ سراسر دھو کا ہے۔ انجیل اس ضیال کی بزور مخالف ہے۔ اُوپر کے خیال میں افراط ہے اور اس خیال کی بزور مخالف ہے۔ اُوپر کے خیال میں افراط ہے۔ اوراس خیال میں تفریط ہے۔ فریق اول جسم کو ناچیز وحقیر سمجھ کر اُس کا مٹانا چاہتا ہے تاکہ روحانی اطمینان کو حاصل کرے۔ا ور فریق ثانی جسم کی بُری خواہشات کا غلام ہے۔اوررحو اوررُوحانی خوشی کی طرف سے قطعی لاپرواہ ہے۔ ان دونوں خیالوں میں افراط وتفریط ہے جو کہ معیوب ہے۔ انجیل ان دونوں خیالات کے بین بین چلتی ہے۔ وہ ریاضت جسمانی کے خلاف فرماتی ہے۔ ان باتوں میں اپنی ایجاد ک کی ہوئی عبادت اورخاکساری اورجسمانی یاضت کے اعتبار سےحکمت کی صورت تو ہے۔ مگر جسمانی خواہشوں کے روکنے میں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا (کلیسوں ۲: ۲۳) دینداری کے لئے ریاضت کر۔ کیونکہ جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے۔ لیکن دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مند ہے۔

اس لئے کہ اب کی اورآیندہ کی زندگی کا بھی وعدہ اسی کے لئے ہے (۱۔ تمتھیس ۴: ۷- ۸) اورموخر خیال کے متعلق انجیل یہ فرماتی ہے۔ کیونکہ زہم دُنیا میں کچھ لائے اورنہ کچھ اُس میں سے لے جاسکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی برقناعت کریں۔ لیکن جو دولت مند ہوناچاہتے ہیں۔وہ ایسی آزمائش اورپھندے اوربہت سی بہبودہ اورنقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں۔

جو آدمیوں کو تباہی اورہلاکت کے دریا میں غرق کردیتی ہیں۔ (۱۔ تمتھیس ۶: ۷- ۹) زبور ۴۹ : ۱۶- ۱۷ واعظ ۵: ۱۵-۱۶) صفنیا ہ ۱: ۱۸) تُم پہلے اُس کی بادشاہت اوراُس کی راست بازی کی تلاش کر وتو یہ سب چیزین بھی تمہیں مل جائیں گی (متی ۶: ۲۳) پس امور ِ معاشرت کوئی نیکی نہیں ہیں اورنہ ا کو تباک دینا ہی نیکی ہے۔ کیونکہ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائے گا۔ اگرنہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں اور اگرکھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸) پس نجات نہ تو ترک ِدُنیا اورتزکیہ نفس پر منحصر ہے اور نہ ہی دُنیا میں اُلجھے رہنے پر خُدا نے نہ تو دُنیا تیا گنے کے لئے بنائی ہے اورنہ اس لئے کہ انسان زخارف ِدُنیا کا غلام ہوجائے اورغاقبت کی طرف سے قطعی آنکھیں بند کرلے۔ ان انسانی بناولوں اورواہی خیالات کو نجات سے کوئی سروکار نہیں اور دور کابھی واسطہ نہیں۔نجات کے متعلق جو طریقے اب تک ہم نے پیش کئے وہ سب لوگوں کی اپنی گھڑت ہیں۔ اسی واسطے لوگوں نے مرض گناہ سے رہائی نہیں پائی اوراُن کا قلبی اضطراب اورروحانی بے چینی دور نہیں ہوئی۔

اعمال ِحسنہ

واضح ہوکہ نیک اعمال ِا نسان کے لئے ضروری ہیں۔ خُدا اُس سے ان کا مطالبہ کرتا ہے۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔ تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے بڑائی کریں (متی ۵: ۱۶) کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں۔


اورمسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئےتیار کیاتھا (افیسوں ۲: ۱۰) اورشرع الہٰی کے مطابق چلنے ہی کا دوسرانام اعمال ِحسنہ ہے۔ کتب مقدسہ کیا ہیں ؟ شرع الہٰی ! شرع الہٰی کیا ہے ؟ خُدا کے احکام وفرامین اورادامر ونواہی کا مجموعہ ! یہ شرع ِالہٰی کیا ہے ؟ خُدا کےاحکام وفرامین اوراوامر ونواہی کا مجموعہ ! یہ شرع ِ الہٰی کس کے لئے ہے ؟ انسان کے لئے ! کیا انسان اس پر پورا عمل کرتا یا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب اس جگہ دیا جائے گا۔ اگر اعمال ِحسنہ و حصول ِنجات کی شرط قرار دیاجائےئ تو اس صورت میں انسان سے شریعت کی کامل فرماں برداری مطلوب ہے۔ ایسی کامل اوربے نقص نیکی جس میں گناہ کا قطعی امکان نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا کرنے پر قادر ہو تو اُس کو توبہ و استغفار کی ذرا بھی حاجت نہی ںوہ بلاروک ٹوک سیدھا جنت میں جاسکتا ہے۔ اورایسے کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ تندرستوں کو حکیم درکا ر نہیں۔ اوروہ خُدا کی بخشش کا بھی محتاج نہیں۔ بلکہ نجات کو اُس نے اپنی ذاتی قوت سے خود کما کر اپنا حق بنالیا ہے۔۔جس سے کوئی اُسے محروم نہیں رکھ سکتا۔ کام کرنے والے کی مزدوری بخشش نہیں بلکہ حق سمجھی جاتی ہے (رومیوں ۴: ۴) اس سے ایک بات یہ حاصل ہوتی ہے کہ خُدا کی بخشش کوئی شئے نہیں اورنہ انسان اُس کی رحمانیت کی ضرورت رکھتا ہے کیونکہ جب نجات اعمال سے کمائی جاسکتی ہے تو خُدا کے رَحم وفضل سے فائدہ اُٹھانے کی حتیاج ہی نہیں رہتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی واقعی ایسی مبارک حالت ہے کہ وہ جُزی وکلی طورپر من وعن شریعت پر عمل کرسکتا ہے ؟ مشاہد ہ اورتجربہ نوعی کی بنا پر کوئی اس سوال کاجواب اثبات میں دینے کے قابل نہیں ہے۔ مسئلہ گناہ کے بیان میں ہم نے بدیہی دلائل سے اس حقیقت کو ثابت کردیاہے کہ کوئی فرد ِبشر گناہ کی قید سے آزاد نہیں ہے۔ مرضِ گناہ ہمہ گیر ہے اوریہ بھی ثابت کردیا کہ انسان اپنی تجاویز وعوامل کے ذریعے اُس کی قیود سے ہرگز آزاد نہیں ہوسکتا۔ جیسے جسمانی صحت جسم کی اصل حالت ہے نہ کہ بیماری اوربیماری کی مدافعت کی تدابیر سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کو اصل حالت پر لایا جائے۔ اسی طرح رُوح کی اصل پاکیزگی اورگُنا ایک غیر فطری شئے اوررُوحانی مرض ہے۔ اس سے رہائی پانا بھی ضروری ہو راصلی فطرت کا داجبی تقاضا ہے۔ اورگناہ کی طبعیت سے آزادی اور نیک وپاک طبیعت کا حصول ہی نجات ہے۔ مسیحیت کے علاوہ قریب قریب تمام مذاہب وفلسفے اعمال ِحسنہ کو نجات کی شرط قرار دیتے ہیں۔لیکن انجیلی فلسلفہ نجات اُن کے بالکل برعکس ہے۔

۱۔ غیر مذاہب کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال کرنے سے نجات حاصل ہوتی ہے۔

۲۔ مسیحی مذہب کا عقیدہ ہے کہ نجات حاصل ہونےسے نیک اعمال ہوسکتے ہیں۔

نجات کے معنی ہی گناہ کی قیود سے آزاد ہوناہے۔ اس لئے جب تک گناہ کی طبیعت سے کامل رہائی نہ ہے نیک اعمال کرنا محال ٹھہرےگا۔ دوسری بات قابل ِغور یہ ہے کہ جب حضرت ابوالبشر سے باوجود ایک ہی گناہ سرزد ہونے کے یہ نہ ہوسکا کہ حقیقی نیکی (اعمال حسنہ) کرکے دوبارہ جنت العدن (خُدا کی قُربت) کو حاصل کرلیتا تو اب مدتوں تک طبائع انسانی کے ساتھ عناصر ِ گناہ کے باہم تاثر وتاثیر اورانجذاب وتجذہیب کرتے رہنے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ انسان ضعیف البیان اورپتلہ سہوونسیان حقیقی نیکی کرسکے۔ جب چند اوز کے بخار کے بعد مریض دومن بوجھ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتا۔ توبھلا برسوں مرض ِ موذی کے تھپیڑے کھانے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ وہ دومن بوجھ اُٹھاسکے۔ جب مصدر اورمخرج (طبع انسانی) ہی ناپاک ہے تو اُس سے نیکی وپاکی کا صدورچہ معنی وارد ؟ کیا کھاری چشمے سے آب ِ شریں برآمد ہوسکتا ہے ؟ (یعقوب ۳: ۱۲) گناہ آلود طبعیت سے بے نقص نیکی کا صدورایسا ہی محال ہے جیسے جوب اوردسمبر کے مہینوں کو ملاکر ایک معتدل موسم پیدا کرنا محال ہے۔ پس اعمالِ حسنہ کو نجات کی شر ط قرار دیان باطل ٹھہرا۔ اورخُدا کی یہ آواز ہے کہ شریعت کے اعمال سے کوئ بشر راستباز نہ ٹھہرےگا۔(گلتیوں ۲: ۱۶) اورگناہ سے نجات حاصل کئے بغیر شریعت پر عمل کرنا ہی ناممکن ہے۔


کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو رُوحانی ہے مگر مَیں جسمانی اورگناہ کے ہاتھ بکا ہواہوں (رُومیوں ۷: ۱۴) اوراگر فرامین ِالہٰی پر عمل کرن کے لئے کمر ہمت کس بھی لیتا ہے اورچند نیک کام کرکے اپنے ےدل میں خوش ہوتا ہے۔ توآواز ِالہٰی یہ کہہہ کر اُس کی کمرہمت کو توڑ دیتی ہے۔ کہ ابھی ایک بات کی تجھ میں کمی ہے (مرقس ۱۰ : ۲۱) کیونکہ زمین پرکوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے (واعظ ۷: ۲۰)۔

خُدائے قدوس وبرحق جو نیکی وپاکیزگی کا سرچشمہ ہے ہم سے ایسی بے نقص لمبے داغ اورکامل نیکی طلب کرتا ہے جس میں ایک بات کی بھی کمی نہ وہ۔ اور اس قسم کی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی ونیکی کا نمونہ خُداوند مسیح کی بیداغ رفتار و گفتار اوربے عیب زندگی میں ملتا ہے۔ ایسی نیکی بلاشبہ نجات کا استحقاق دلا سکتی ہے۔ مگر کون ایسی نیکی کا سرمایہ دار ہے ؟ کوئی بھی نہیں۔ یہ مانا کہ بعض خُدا پر ست اورپرہیز گار لوگ عملی وفعلی گناہوں سے کسی حدتک بچے رہ سکتے ہیں۔ لیکن ارادی اورخیالی گناہوں سے کسی کو تنزہ تام حاصل نہیں ہے۔ چوری ،خون۔ریزی ،حق تلفی ، بدگوئی ،اوربددیانتی وغیرہ بدافعال توگناہ کا عملی ظہور ہیں۔ گناہ انسان کی طبیعت کو عارض ہے۔ اگر یہ افعال ظہور میں نہ بھی آئیں تو بھی انسان کی طبیعت ک سفلیت وکراہیت کا انکار محال ہے۔ گناہ کا منبع انسان کے اعماق ِقلب میں ہے۔ اورخُدا باطن کی صفائی چاہتا ہے نہ کہ ظاہر کی۔دیکھ توباطن کی سچائی پسند کرتاہے (زبور ۵۱ : ۶) اس لئے خُدا ہماری باطنی ناپاکی۔ بداندیشی اوربدخیالی سے سخت نفرت کرتا ہے۔ جب تک انسان اورخُدا میں طبعی مطابقت وموافقت نہ ہوجائے انسان خُدا کو پسند نہیں آسکتا۔ انسان کا ارادہ کیسا ہی نیک کیو ں نہ ہو۔ پھر کبھی اُس سے طبعی ناپاکی کا ازالہ محال ہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں۔ البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کرلیتا ہوں (رُومیوں ۷: ۱۸ – ۱۹) یہ ہے انسان کی باطنی مکروہ حالت کی اقر ب الی الفطرت تصویر۔ اکثر لوگ اوامر پر عمل کرتے اورنواہی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ خُدا کہتا ہے کہ دُشمنوں سے محبت کرو۔ یہ امر ہے لوگ اپنے بدخواہوں سے ظاہری محبت کا اظہار کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اخلاقی فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ پھر خُدا کہتا ہے کہ نیکی کرکے جتاو نہ۔ یہ نہی ہے۔لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بعض اوامر کی تعمیل کرتے اور نواہی کوتآل دیتے۔ اور بعض نواہی کو مان لیتے اور اوامر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اورکلام کا فرمان ہے کہ جوکوئی بھلائی کرنی جانتا ہے اور نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے (یعقوب ۴: ۱۷) ایسی جامع اورمامل نیکی انسان سے ہر گز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اورایک ہی بات میں خطا کی وہ ساری باتوں میں قصور وار ٹھہرا۔ اس لئے کہ جس نے یہ کہ اکہ زنا نہ کر۔ اُسی نے یہ بھی کہا کہ خون نہ کر۔ پس اگر تونے زِنا تو نہ کیا مگر خون کیا تو بھی تو شریعت کا عدول کرنے والا ٹھہرا (یعقوب ۲: ۱۰- ۱۱) یہ درست ہے کہ نیک عمل کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔لیکن یہ ٖغلط ہے کہ نجات نیک اعمال سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے جو لوگ اعمال ِ حسنہ کو حصول نجات کی لازمی شرط قرار دیتے ہیں اُن کے متعلق انجیل ِ مقدس کا یہ فرمان ہے کہ جتنے شریعت کے اعمال پرتکیہ کرتے ہیں وہ سب لغت کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جوکوئی اُن سب باتوں کے کرنے پر قائم نہیں رہتا جو شریعت کی کتاب میں لکھی ہیں۔ وہ لعنتی ہے (گلیتوں ۳: ۱۷) شریعت سے گنہگار کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اُس کی مددگار نہیں بلکہ مجرم ٹھہرانے والی ہے۔ ایک خُونین جب خون کر چکا تو تعزیرات ہند سے اُس کو کیا حاسل ہوتاہے ؟ وہ اُسے مجرم ٹھہرا کر موت کا فتوے ٰ اُس پر لگاتی ہے۔ کیونکہ شریعت توغضب پیدا کرت ہے اورجہاں شریعت نہیں وہاں عدول حکمی بھی نہیں (رومیوں ۴: ۱۵) شریعت شاقول ہے۔ جس طرح شاقول دیوار کا ٹیڑھا پن دکھا سکتا ہے اوراُس کو سیدھی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت انسان کی کجردی کو ظاہر کرسکتی ہے اوراُس کی درستی واصلا ح ہرگز نہیں کرسکتی۔ شریعت آئنیہ ہے جس طرح آئینہ چہرے کے بدنما داغ دِکھا دیتا ہے پر اُن داغوں کو دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت کے وسیلے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے (رومیوں ۳: ۲۰ ؛ یعقوب ۱: ۲۳ -۲۴) شریعت ترازو ہے۔ترازوکسی وزن کی کمی بیشی کوظاہر کردیتا ہے لیکن خود اُسے پورا نہیں کرسکتا۔ اس لئےئ شریعت کا فرمان گنہگار انسان کےک حق میں یہ ہے کہ نوترازو میں تولاگیا اورکم نکلا (دانی ایل ۵: ۲۷) شریعت چراغ ہے۔


کیونکہ فرمان ِچراغ ہے اورتعلیم نور۔ (امثال ۶: ۲۳؛ زبور ۱۱۹ : ۱۰۵) اگر چراغ کورات کے وقت کسی گندے اورغلیظ مکان میں لایا جائے تو وہ اُس کی گندگی اورغلاظت وغیرہ کو ظاہر کردیتا ہے اُسے دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت چراغ کی مانند انسان کی باطنی گناہ آلودہ مکروہ حالت سے اُسےآزاد نہیں کرسکتی۔جس طر ح تھر مامیٹر صرف یہ دِکھا دیتا ہے کہ بخُار کتنے درجہ کاہے اور بُخار کتنے درجہ کا ہے اور بُخا کو دُور نہیں کرتا۔ اسی طرح شریعت انسان پر یہ روشن کردیتی ہے کہ وہ گنا ہ کامریض ہے ،لیکن مرض ؐ گنا ہ سے آزاد نہیں کرسکتی۔البتہ وہ گنگار کو گناہ کا قائل کرکے اور نجات (گناہ سے رہائی) کی ضرورت محسوس کروا کے کسی طبیب ِرُوحانی کا متلاشی بنا دیتی ہےاورشریعت کے بغیر گناہ مُردہ ہے (رومیوں ۵: ۱۳) چنا نچہ شریعت اگر دُنیا جومُجرم نہیں ٹھہراتی تو اورکیا کرتی ہے ؟ اورکیا یہ حماقت نہیں کہ جس شرع (قوانین ِالہٰی) کا عدول کیا اُسی کا پھر سہار ڈھونڈا جائے ؟ جب ایک شخص نے چوری کرلی تو تعزیرات کی عدولی۔ اب اگر وہ تعزیرات کی کتاب کو ہاتھ میں لے کر خوشی کے نعرے لگاتا پھر ے تو کون ہے جو اُس کو سٹری اوردیوانہ سمجھے گا؟ جس کتاب پر وہ فخر کرتا ہے وہی اُس کو مجرم ٹھہرا کر تین سال کی سزا دلواتی ہے۔پس کوئی دھوکے میں نہ رہے۔کُتب مقدسہ یاشریعت کسی کی حمایت ورعایت نہ کرے گی اوروہ کمزور ہونے کے باعث گنہگار کی مدد کرنے میں قاصر ہے۔اس لئے ےکہ جو کام شریعت جسم کے سبب کمزور ہوکر نہ کرسکی وہ خُدا نے کیا (رومیوں ۸: ۳) کیونکہ اگرکوئی ایسی شریعت دی جاتی جو زندگی بخش سکتی تو البتہ راست بازی شریعت کے سبب سے ہوتی۔ مگر کتاب ِ مقدس نے سب کو گناہ کا ماتحت کردیا۔ (گلتیوں ۳: ۲۱- ۲۲)پس شریعت زندگی نہیں بخش سکتی بلکہ سب کوا یک ساتھ مجرم ٹھہرا کرغضب ِالہٰی ک ماتحت کرتی ہے اورکہتی ہے۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیاور خُدا کے جلال سے محروم ہیں (رومیوں ۳: ۲۳)۔

اب شاہد کوئی کہے کہ پھر تو شریعت بہت بری چیز ہے جو انسان کے ساتھ اسیا شدید ظالمانہ برتاو کرتی ہے۔ اورسب کو غضب ِالہٰی کے ماتحت کرکے سزاوار دوزخ بناتی ہے۔ جناب ِ من ! شریعت ہرگز بُری نہیں بلک شریعت کو عدول کرنے والے بُرے ہیں۔ جس طرح تعزیرات ہند بُری چیز نہیں بلکہ چور، زانی۔ ذیبی ،باغی ،خونی اورظالم بُرے ہیں۔ آئینہ بُرا نہیں زنگی کی شکل بُری ہے۔ بخار کے بریض کی طبعیت بگڑ جانے کے باعث اُس کو پانی اورکھانا کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ پردراصل پانی پانی اورکھانے میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ مریض کی اپنی طبیعت میں فساد کے باعث وہ کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر مریضان ِ گناہ کوشریعت ِالہیٰ خلاف ِ طبع اوربُری معلوم ہوتو کیا تعجب ہے۔ یہ اُن کی اپنی روحانی فطرت کے فساد کا نتیجہ ہے۔ شریعت گنہگار کے لئے اس لئے فائدہ مند نہیں کہ وہ اُس کی اپنی حالت اورطبیعت کے مخالف ہے۔،مثلاً سورج اچھی چیز ہے پرالو کو اُس سے کچھ فائدہ نہیں۔بجلی کی روشنی اچھی چیز ہے مگر اندھے کو اُس سے کیا فاعدہ ہوسکتا ہے۔ موسیقی ایک رُو پرور اورجان نواز شئے ہے مگر بہرہ اُس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ شریعت اچھی ہے۔ بشر طیکہ کوئی اُسے شریعت کے طورپر کام میں لائے۔ یعنی یہ سمجھ کر کہ شریعت راست بازوں کے لئے مقرر نہیں ہوئی۔ بلکہ بے شرع اورسرکش لوگوں اوربے دینوں اورگنگاروں اورناپاکوں اورزندوں اورماں باپ کے قاتلوں اورخونیوں اورحرام کاروں اورلونڈے بازوح اوربردہ فروشوں اورجھوٹوں اورجھوٹی قسم کھانے والوں اوراِنکے سوا صحیح تعلیم کے اوربرخلاف کام کرنے والوں کے واسطے ہے۔ (۱۔ تمتھیس ۱: ۸- ۱۰ ) پس شریعت تو گناہ کی کراہیت کوانسان پر روشن کرتی ہے اورگناہ کو مٹا نہیں سکتی۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ وہ رومیوں ۷: ۷- ۲۵ ) تک ضرور غور سے مطالعہ کریں۔ شریعت خُدا کی طبیعت اورمرضی کا آئینہ ہے۔ اور اُس کا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ تجاوز بھی سزا لازمی ٹھہراتا ہے۔ جس نے شریعت کے تمام احکام کاعدول کیا وہ خُدا کا مخالف ٹھہرا اورجس نے صرف ایک حُکم سے تجاوز کیاوہ بھی مخالف ِخُدا ٹھہرا۔ پس اَے ناظرین اعمال ِ حسنہ سے نجات کی اُمید رکھنا اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔


اہل ِسلام کا خیال ہے کہ نیکیاں دور کرتی ہیں بدیوں کو (سورۃ ہود آیت ۱۱۵ ) چونکہ یہ مضمون ہمارے اس مبحث سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ہم اس جگہ اس خیال کو بھی پرکھیں۔ اوردیکھیں کہ نیکیوں کو ہدیوں کا مبادلہ ٹھہرانا نیکیوں کے ذریعے بدیوں کو مٹانا کہاں تک ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیکی کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ مگر یہ خیال خلاف ِ عقل ہے کہ نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں۔ کونکہ جہاں تک انسان نیکی کرتا ہےوہ اپنا واجبی فرض ادا کرتا ہے نہ کہ کچھ زائد الفرض ،نیکی کرنا تو انسان کافرض عین ہے۔ نہ کہ خُدا پر احسان ،اگر توصادق ہے تو اُس کو کیا دے دیتا ہے۔ یا اُسے تیرے ہاتھ سے کیا مِل جاتا ہے ؟(ایوب ۳۵: ۷ ) خُداوند مسیح نے فرمایا۔ تُم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تُمہیں حُکم ہوا تعمیل کر چکو۔ تو کہو کہ ہم نکمے نوکر ہیں۔جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے (لوقا ۱۷: ۱۰ ) گناہ اپنی جگہ رہ کر انسان کو مجرم ٹھہراتا ہے اورنیکی اپنی واجبی جگہ پر رَہ کر محض ادائیگی فرض ہے۔

نہ کہ زائدالفرض کا م فرض کروکہ ایک شخص ایک وقت دیانتداری سے دس روپے کماتا ہے۔اوردوسرے وقت بدیانتی سے دس روپے چُرالیتا ہے تو عدالت اُس کو اس خیال سے رہانہ کرے گی کہ اُس نے چوری سے پہلے دس روپے محنت کرکے کمائے تھے۔ یا اسی مثال کو اُلٹ کر لو کہ پہلے وہ دس روپے چرائے اوراُس کے بعد ہی محنت سے دس روپے کمالے۔ تو اُس کا موخر فعل مقدم فعل کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اُس کی نیک کمائی سے حاکم پر کچھ احسان نہیں ہوا۔ بلکہ اُس کا ذاتی فائدہ ہوا۔ لیکن اُس کی چوری اُس کی سزا کا موجب ٹھہری۔ دونوں قسم کے نیک وبد ) افعال ایک دوسرے کا بدل نہیں ہوسکتے۔ بلکہ اپنی اپنی جگہ پر رہ کر یا تومجرم ٹھہراتے ہیں اور یابے قصور تعزیرات ہندپر عمل کرنا ہرہندو پاکستانی فرض ہے نہ کہ زائد الفرض کام عامل ِ تعزیرا ت کا سرکار انعام نہیں دیتی لیکن قانون شکن کو ضرور سزادیتی ہے۔اگر یہ درست مان لیا جائے کہ نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں تو وہ چور راست باز سمجھا جانا چاہئے جو چوری کرکے اُسی مال مسروقہ میں سے کچھ حصہ غربا ء کو خیرات کردیتا۔ یا مسجد ومندر کی تعمیر پر لگاتا ہے۔ ایک کسبی اگراپنی ناپاک آمدنی میں سے ایک خاص رقم کسی مسجد کی مرمت پر خرچ کرتی یا محتاجوں کو کھانا کھِلا دیتی ہے تو کیا اُس کی ایسی خیرات اُس کی حرام کاری کے گُناہ کو دور کرسکتی ہے ؟ اورکیا خُدا اُس کی پنید اورنفرتی حالت کے باوجود صرف ایسی گناہ آلودہ نیکی کے عوض میں اُسے جنت میں داخل کرلے گا؟ اگر نیکیاں یہی ہیں تو کسی کو دوزخ کے خیال سے حواس باختہ نہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ اس صورت میں یقیناً حصول ِنجات کے کام سے آسان ترکام دُنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اَے ناظرین ! اگر آپ ایسے بے بُنیاد خیالات کے حامی ہیں تو یقیناً آپ اپنی جانوں پر ظلم کررہے ہیں۔نجات کے صرا ط المستقیم کو چھوڑ کرایک ہلاکت خیز راستہ پر گامزن ہیں۔

پھر یہ بھی یاد رکھنے کے لائق بات ہے کہ نجات سے صرف بہشت کی خوشیاں ہی مُراد نہیں ہیں۔ بلکہ نجات کے معنی ہیں ناپاک طبیعت سے رہائی اورپاک طبیعت کا حصول۔ بہشت کی رُوحانی وغیر فانی خوشیاں تونجات کے ساتھ مشروط ہیں۔ یعنی بہشت (قُربت ِالہٰی ) میں داخل ہونے سے پیشتر پاک طبیعت (نجات ) کو حاصل کرلینا ضروری ہے تاکہ انسان اورخُدا کی طبائع میں مطابقت قائم ہوجائے۔ ہمارے اس دعوےٰ کے کہ نجات اعمال ِ حسنہ سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ معنی ہوئے کہ نیک اعمال کرنے سے پاک طبیعت (نجات ) حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر پاک طبیعت حاصل ہوجائے تو نیک اعمال خود بخود لازمی نتیجہ کے اُس سے صادر ہوں گے۔ اوریہ بھی یاد رکھیئے کہ صرف گناہ کے نتائج (سزائے دوزخ ) سے بچنا ہی نجات نہیں۔ بلکہ خود گناہ کے قبضہ سے ناپاک طبیعت سے آزاد ہونا نجات ہے۔ اب شائد کوئی یہ کہے کہ نجات تو اعمال ِ حسنہ کے ساتھ مشروط ہے۔ اور اگر کچھ بدیاں بھی ہوتی رہیں تو خُدا رحیم وآمر زگا رہے وہ اُن کوبخشد ے گا۔ اورنیکیوں کو نجات کے حسا ِب میں محسوب کرلے گا۔ تو واضح ہوکہ کوئی فخر اعمال کے ساتھ خُدا کے رحم وبخشش کا اُمید وار ہوتو وہ رحم کا حقدار نہیں۔ رحم کا حقداروہ ہوسکتا ہے جو واقعی قابل ِ رحم ہو۔


اور جو اپنی لاچاری وبے کسی کا اظہار خُدا کے سامنے یوں کرکے کہ اَے خُداوند کریم۔ تو جو رَحم وفضل کا سرچشمہ ہے مجھے اپنے فضل ہی سے نجات دے۔ کیونکہ میرے اپنے اعمال اس قابل نہیں کہ مَیں اُن کے ذریعے نجات کا حقدار ہوسکوں۔ اگر نجات کو نیک اعمال کے ساتھ مشروط ٹھہرایا جائے تو اس کا محال ہونا ہم اچھی طرح ثابت کرچکے اور اگر فضل سے مانو تو اعمال ِ حسنہ کو شرط ِنجات ٹھہرانا محال ہوگا کیونکہ اگر فضل سے برگزیدہ ہیں تو اعمال سے نہیں۔ ورنہ فضل فضل نہ رہا (رومیوں ۱۱: ۶ ) اگر کوئی اس تمام بیان سے یہ نتیجہ نکالے کہ ہم نے اعمال ِحسنہ کو بُرا قرار دے کر اُن سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تو وہ سخت غلطی میں مبتلاہے۔ اوراُس نے ہمارے منشاء کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ واضح ہو کہ نیک اعمال کرنا ہرانسان کا فرض عین ہے۔ حق انسانیت ہے اور اگر کوئی نیکی سے نفرت کرے تو وہ ضرور گناہ کو پیار کرتاہے اور ایسا شخص خُدا کا مخالف ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیئے کہ نجات اعمال حسنہ کا پھل نہیں ہے۔ بلکہ اعمال حسنہ نجات کا پھل ہیں۔ اس لئے جب تک نجات (گناہ سے رہائی ) حاصل نہ ہو حقیقی نیکی انسان سے نہیں ہو سکتی۔ اورگناہ آلود ہ طبیعت سے رہائی (نجات ) حاصل کرنا انسانی کو شش سے محال ہے۔ اعمال ِحسنہ سے نجات کے امکان کا سامعہ فریب جُملہ ہماری تسلی نہیں کرواسکتا۔ اس لئے اس غلط خیال کو پہلی فُرصت میں اپنے ذہن ودل سے خارج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

توبہ محض

مذہبیات میں توبہ کا درجہ تمام باتوں سے افضل ہے اور طالب ِنجات کے لئے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے خُدا کی طرف مائل ہو۔ جب گنہگار انسان شریعت کی روشنی میں اپنی باطنی مکروہ حالت کو دیکھتا ہے تو اُس کو اپنی اُس حالت سے نفرت ہوجاتی اوروہ اپنے گناہوں سے دل شکستہ ہوکر پچھتاتا اورآیندہ اُس حالت میں رہنا نہیں چاہتا۔ بلکہ اُس سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔

ایوب نبی فرمایا ہے اس لئے مجھے آپ سے نفرت ہے۔ اور میں خاک اورراکھ میں توبہ کرتا ہوں (ایوب ۴۲: ۶ ) اورخُدا توبہ سے بہت خوش ہوتا اورتائب ِدلوں کو پسند کرتا ہے ملاحظہ ہو (یسعیاہ ۵۵: ۷ حزقی ایل ۱۸: ۲۱- ۲۳ یوایل ۲: ۱۲- ۱۳ ملاکی ۳: ۷ لوقا ۱۵: ۷ اعمال ۳: ۱۹ ؛۲۔ کرنتھیوں ۷: ۱۰ ۲۔ پطرس ۳: ۹ ) توبہ ایک ایسی چیز ہے جو خُدا کے رحم وفضل کو جوش میں لاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گناہ پر اس لئے کمر بستہ ہوجائے کہ وہ دم نزع توبہ کرکے نجات کا حقدار ہوجائے گا تو جان لیجئے کہ وہ ایک سنگین غلطی میں مبتلا ہے۔ توبہ کے معنی میں سابقہ بدکرداریوں پر پچھتانا اورآیندہ اُن سے باز رہنے کا تہیہ کرنا۔ توبہ محض حصول ِنجات کے لئے کافی نہیں ہے۔ قوانین ِ طبعیہ کا مقنن خُدا تعالیٰ ہے۔ اس لئے وہ خُدا کی ذاتی طبیعت کے مخالف نہیں بلکہ مطابق ہیں۔ اور اُن سے خُدا کی صفت ِ عدل کا انداز ہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر قوانین ِطیبہ کو خُدا کی طبیعت کے نقیض مانا جائے تو خُدا اُن کا مقنن ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک نقیض دوسرے نقیض کی علت نہیں ہوسکتا۔ اب فرض کیجئے کہ ایک شخص قانون کشش زمین سے اس صورت میں تجاوز کرے کہ کسی بلند ی سے اپنے آپ کو گِرادے تو اُس کی ٹانگ ٹوٹ جائے گی۔ اب اگر وہ اپنے اس فعل ناکردنی پر متاتف ہوکر پچھتائے اورآیندہ ایسے فعل سے باز رہنے کا تہتیہ کرے اورحتیاط کو کام میں لائے تو اُس کی اس توبہ اورپچھتاوے سے اُس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ توبحال نہ ہوجائے گی بلکہ تادم ِ مرگ وہ لنگڑارہے گا۔ ہاں اگر آیند ہ محتاط رہے تو مزید نقصان سے بچارہے گا۔ اسی طرح توبہ محض سے گذشتہ گناہوں کا فدیہ نہیں ہوسکتا۔ کوئی ہزار روپے کا قرضدار ہے اوریباعث ناداری ادا کرنے کے ناقابل ہے۔ اب وہ پچھتانا ہے کہ کیوں قرض لیا۔ لیکن اس پچھتاوے سے اتنا تو ہوسکتا ہے کہ وہ آیند ہ کو قرض سے احراز کرے۔ تاہم توبہ سے ہزار روپیہ کو قرض دور نہیں ہوسکتا۔ وہ ادا کرے اور آیندہ قرض سے پرہیز کرے۔ پس انسان کے توبہ سے پہلے کے گناہوں کو خُڈا عدل میں لائے گا۔ کیونکہ خُدا وند قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھ کر ہے۔ اورمجرم کو ہرگز بری نہ کرے گا۔


(ناحوم ۱: ۳ خروج ۳۴ : ۷ ) اوریہ بھی ناممکن ہے کہ کسی تائب کی بعد کی زندگی ایسی بے نقص بے داغ اورکامل ہوکہ جس میں خطا کا مطلق امکان نہ رہے۔ سابقہ قرض انسان ادا نہیں کرسکتا اورتوبہ کے بعد کامل نیکی اُس سے صادر نہیں ہوسکتی تو کس صورت خُدائے قدوس وتبارک وتعالیٰ سے ملاپ ممکن ہے ؟ لہٰذا توبہ محض سے جُدائی کی وہ سنگین دیوار جو گناہ کے باعث انسان اورخُدا کے درمیان حائل ہے ٹوٹ نہیں سکتی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ توبہ کرنا بُرا کام ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ نجات کو مشروط بالتوبہ محض ماننا غلطی ہے۔ ہم آغاز ہی میں عرض کرچکے کہ مذہب میں توبہ سے بہتر کوئی شئے نہیں۔ جس طرح نیکی کرنا ہرانسان کا فرض ہے اُسی طرح توبہ کرنابھی ہرگنہگار۔۔۔ کے لئے ضروری ہے۔ توبہ کے ذریعے ہم نجات کو اپنا حق نہیں بنا سکتے بلکہ خُدا اپنے رَحم وفضل سے ہمیں اُس کے حقدار بنا سکتا ہے۔ اور تائب انسان خُدا کی بخشش کا اُمیدوار توہوسکتا ہے مگرحقدار نہیں ہو سکتا۔ پس توبہ کرو اوررجوع لاو۔ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اوراس طرح خُداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں (اعمال ۳: ۱۹ ) توبہ نجات کی تمہید ہے۔ توبہ ابتدا اورنجات اُس کی انتہا ہے بشر طیکہ توبہ حقیقی ہو۔

عدل ورحیم

خُدا عادل ہے رحیم ومہربان بھی اُس کی جتنی بھی صفات ِ ہیں وہ سب ذاتی اورقدیم ہیں اکتسابی اورحادث نہیں۔ وہ کبھی اپنی ایک صفت کو چھوڑ کر دوسری صفت کا اظہار نہیں کرتا۔ جب وہ کسی پر رَحم فرماتا ہے تو عدل کو چھوڑ کر رَحم نہیں فرماتا۔ بلکہ اُس کا رحم وعدل دوش بدوش چلتے ہیں۔ لیکن جو فخر کرتا ہے اُس پر فخر کرے کہ وہ سمجھتا اورمجھے جانتا ہے۔ کہ مَیں ہی خُداوند ہوں جو دُنیا میں شفقت وعدل اورراست بازی کو عمل میں لاتا ہوں۔کیونکہ میری خوشنودی اپن ہی باتوں میں ہے۔ خُداوند فرماتا ہے (یرمیاہ ۹: ۲۴ ) آپ اپنی تمام فصاحت وبلاغت کو تمام فلسفہ ومنطق کو صرف کردینے کے باوجود بھی خُدا کی صفات کو ہرگز تبدیل نہیں کرسکتے۔ خُدا عادل ہے اوراُس کی صفت عدل ہرگز رَحم میں تبدیل نہیں ہوسکتی ۔خُدا رَحیم ہے اوراُس کی صفت ِ رحمانیت ہرگز عدل میں تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح خُدا کا سمیع و بصیر ہونا واحد مفہوم نہیں رکھا اُسی طرح عدل ورحم کا مفہوم واحد نہیں اور اسی طرح خُدا کا عادل ہونا اوربات ہے رحیم ہونا اوربات اوردونوں صفات کا تقاضا پورا ہوناضروری ہے۔ خُدا کی یہ دونوں صفات ِ اپنا اپنا عمل برمحل دکھاتی ہیں۔ اگر گُناہ وسزا لازم وملزوم ہیں تو کوئی شخص بھی سزائے دوزخ سے بچ نہیں سکتا۔ اگر لازم ملزوم نہیں تو سزا اورعدالت ِ الہٰی کا انکار لازم آئے گا۔ اور گناہ کوئی مُکروہ اورقابل ِنفرت شئے نہ رہیگا اس صورت میں ایک تو عدل ِالہٰی پر د ھبہ پڑتا ہے اوردوسرے راستبازوں وخُدا ترسوں کوراہ ِ خُدا میں ریاضت کرنا اور دُکھ اُٹھانا فضول اورلاحاصل ٹھہرتا ہے۔ اور کوئی گنہگار گناہ سے ہرگز نفرت نہیں کرسکتا۔ پس گناہ وسزا ضرور لازم وملزوم ہیں۔ اسی واسطے سب دُنیا عدل ِ الہٰی کے ماتحت سزائے دوزخ کی مستحق ہے۔ اگر خُدا ئے عادل گنہگار کو بِلا معاوضہ مُعاف کرے تو وہ عادل نہ ربلکہ راحم محض۔ اگر عدل کرے تو تمام دُنیا سزائے دوزخ کی مستحق ہے۔ ایک بھی بچ نہیں سکتا۔ اورخُدا عادل محض ٹھہرابے شک رَحم کا درجہ عدل سے افضل ہے (یعقوب ۲: ۱۳ ) تاہم حقیقی راحم کے لئے عادل ہونا شرط ہے۔ یعنی رحم بلاعدل نہ صرف راستی نہیں بلکہ ظلم ہے۔مثلاً زید نے تلوار سے بکر کا بازو کاٹ دیا اور بکرنے عدالت میں زید پر نالش کردی۔ اب اگر حاکم ازرُوئے رحم زید کو بلا مبادلہ رہا کردے تو بکر پر ظُلم ہوگا۔ یعنی زید پر رحم بلامبادلہ کرنا بکر پر ظلم کرنا ٹھہرے گا۔ اوراگر زید کو سزادے تو یہ محض عدل ہوگا۔ کیونکہ مجرم کو سز ا دینا کوئی رَحم نہیں۔ عدل کے معنی ہیں طرفین کے حالات کو اعتدال پر لانا۔ یعنی ظالم ومظلوم کی حیثیات کو مساوی (معتدل ) رکھنا اسی طرح انصاف (مادہ نِصف ) کے معنی ہیں نصفا نصفی کردینا۔ تاکہ ظالم ومظلوم کی حیثیات مساوی رہیں۔ پس اگر خُدا انسان کے کُل گنا ہ کا بدلہ لے تویہ عدل ہی ہوگا۔ اوراگر بلامبادلہ سب کو بری کردے تو یہ رَحم بلاعدل ہوگا۔ اگر کچھ گناہوں کا بدلہ نے اورکچھ معاف کردے تو یہ عدل نہ ہوگا نہ رحم۔ اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ تقاضا ئے عدل بھی پورا ہو اورگنہگار پررَحم بھی ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ذات ِ راحم اپنی طرف سے کچھ ایثار کرے۔ کیونکہ رحیم ہونے کے لئے ایثار شرط ہے۔


یعنی اگر حاکم مجرم پر رَحم کرنا چاہئے تو ضرور ہے کہ اُس کا فدیہ (معاوفہ ) اپنی طرف سے دے اور یہی اُس کا ایثار ہوگا۔ خُدائے عادل ورحیم کے اس ایثار کا پورا بیان آگے چل کر نجات بالکفارہ کے زیر عنوان کیا جائے گا۔ جس سے خُدا کی عدالت ورحمانیت کا بھید ناظرین پر کُھل جائے گا۔ اصل مقصد کو سمجھنے کے لئے خیالات کے سلسلے وترتیب کو یاد رکھیئے۔

قسر ی ملاِ پ

اب شاہد کوئی یہ سوچے کہ کیوں نہ خُدائے پاک جبری وہ قسری طورپر اپنی قدرت ِ کاملہ سے انسان کو پاک بنالے اوراپنی قربت سے اُسے قسری طورپر بہرہ اندوز فرمائے۔ واضح ہوکہ اس خیال میں یہ بھی بھاری نقص ہے کہ انسان کی فعل مختاری قائم نہیں رہتی۔ خُدانے اُسے فاعل مختار بنایا۔ نیکی وبدی کی تمیز بخشی تاکہ اپنی آزاد مرضی سے دونوں میں سے جس کو چاہے پسند کرے۔ اور اوامر ونواسی بخش دئے۔ جن کے عدول کی سز ا اورتعمیل کی جزا ٹھہرائی۔ اگر انسان کی فعل مختاری اورآزادی میں نچل دیا جائے تو نیکی نیکی نہ رہے گی اورنہ بدی بدی۔ اورجب نیکی بدی نہ رہی تو عدالت نہ رہی۔ جب عدالت نہ رہی تو سزا وجزا نہ رہی اوردوزخ دہشت دوا یسے مفہوم ہو ں گے جن کا کوئی مصداق نہ ہو۔ اورخُدا کے احکام دربارہ ترک ِگناہ اورختیار نیکی باطل ٹھہریں گے۔ اور نجات بے معنی لفظ ہوگا۔ حتی ٰ کہ خُدا کی خُدا ئی سے ہاتھ دھوئے پڑیں گے اورپھر اگر خُدا نے انسان کو بالجبر ہی پاک وراست بنانا ہوتا آدم وحوا کو اوائل ہی میں بنا لیتا۔ اوراس موجودہ دِل لگی کی بہ نسبت یہ بہتر ہوتاکہ تمام دُنیا میں یہ مرض نہ پھیلتا۔ فعل مختاری ہی تو ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف ٹھہراتی ہے۔ ورنہ حیوان وانسان میں کی مابہ الامتیاز ہوتا اوراس قسم کے انسان کو خُدا کی قُربت سے کیا فائدہ ہوتا۔ اگرخوشی ہوتی تو جس قدر ایک بیل کو شاہی محلوں میں رہنے سے ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ خیال سراسر غیر معقول ثابت ہوتا ہے اوراس سے کنارہ کرنالازمی ہے۔

طبعی مِلاپ

بالفرض محال اگر ہم یہ مان لیں کہ خُدا ئے قدوس انسان خاطی وعاصی کو اُس کی گناہ آلودہ طبیعت کے ساتھ ہی اپنی قُربت ورفاقت میں قبول فرماے گا تو بھی یہ عُقدہ حل نہ ہوگا۔ کیونکہ متضاد طبائع (پاک وناپاک ) کے مِلاپ کا انجام خُوشی کی بجائے نفرت ہوگا۔ جس طرح اُلو کی طبیعت کی آفتاب کی تجلی کے ساتھ موافقت ومُناسبت نہ ہونے کے باعث الو کو سورج کی قُربت سے خُوشی کی بجائے دُکھ اورتکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسا ن کو ناپاک طبیعت کو خُدائے قدوس کے تقریب سے بجائے مسرت وشامادنی کے انتہائی دُکھ محسوس ہوگا۔ اورایسے مِلاپ کی بہ نسبت زخارفِ دُنیا اورجیفہ جہان ہی اطمینان بخش اورمسرت افروز معلوم ہوں گے۔ اورخُدا کی قُربت ایک اطمینان سوز اوردلاوز حالت جس میں وہ ایک لمحہ بھر رہنے کی برداشت نہ کرسکےگا۔ جب تک خُدا اورانسان کی طبائع میں باہمد گرمواققت ومطابقت تام نہ ہوجائے مِلاپ قطعی ناممکن ہے۔ جب تک مغنی اورسا ز کی آواز میں ہم آہنگی نہ ہومغنی کبھی خُوش نہیں ہوسکتا۔ ایک ڈاکو حاکم کے سایہ سے بھاگتا ہے کیونکہ ڈاکؤ کی طبیعت اورحاک کی طبیعت میں اختلاف ہے۔ محبوب اپنے محب اورعاشق اپنے معشوق میں ہمیشہ وہی طبیعت اورخصلت دیکھنا چاہتا ہے جو وہ اپنی ذات میں خود رکھتا ہے۔رحمدل سنگدل وظالم سے نفرت کرتا ہے۔ خلیق بدخلق کو پسند نہیں کرتا۔ مُنصف مزاج لئے انصاف سے راضی نہیں ہوتا۔ پرہیز گا رعیاش کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ اسی طرح انسان اورخُدا کی طبعی ناموافقت کو یسعیاہ نبی یوں بیان کرتاہ ے۔ ''تمہاری بدکرداری نے تمہارے اورتمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کردی ہے۔ اور تمہارے گناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کیا (یسعیاہ ۵۹ : ۲ اب طبعی ملاپ کی دو صورتوں میں سے ایک صورت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔


۱۔ خُدا کی طبیعت گناہ آلودہ ہوجائے تاکہ انسان کی طبیعت کے ساتھ اُس کی موافقت ہوسکے۔

۲۔ یاانسان کی طبیعت خُدا کی سی پاک ہوجائے تاکہ اُس کی طبیعت کے ساتھ مطابقت ہوسکے۔

توبہ توبہ ! خُدائے قدوس وبرتر تو کبھی ناپاک نہیں ہوسکتا۔ یہ اُس کی صفت قدوسیت اورالوہیت کے سراسر منافی ہے۔ یہ ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خُدا کی شرارت کاکام کرے۔ اور قادر ِمطلق بدی کرے (ایوب ۳۴ : ۱۰ ) اورانسان ضیعف البنیان جو گناہ کو کیڑا ہے اپنی ذاتی کوشش اورجد وجہد سے پاک ہو نہیں سکتا۔ انسان ہے کہ کہ وہ پاک ہو ؟اور وہ جو عورت سے پیدا ہو اکیا ہے کہ صادق ٹھہرے ؟ (ایوب ۱۵: ۱۴ ) غرضیکہ جیسے خُدا کا ناپاک ہونا ممتنع ہے ویسے ہی انسان کاپاک ہونا محال ہے۔ اگر ملاپ ممکن ہے تو صرف طبعی ملاپ۔ اَے ناظرین ! آپ نے خرب جان لیا کہ اگرخُدا اپنی جگہ رَہ کر انسان کی نجات کاکوئی انتظام نہ کرے تو انسان میں یہ صلاحیت مفقود ہے کہ اُس پاکیزگی کو حاصل کر جس کے بغیر کوئی خُدا کو نہ دیکھے گا۔ ہرشخص اپنے باطن میں اپنی ایسی بے بسی اورلاچاری کا وجدانی احساس ضرور رکھتا ہے۔ یہ انسان کی واقعی ناگفتہ بہ حالت کی اقرب الی الفطرت تصویر ہے۔ اس لئے طفل تسلیوں سے کام نہیں چل سکتا۔ اپنی عیب دار اورگناہ آلود ہ زندگی پر رَحم کھانا چھوڑ دیجئے۔ اپنے آپ کو برابر ملامت کریں۔ اپنے آپ پر رَحم کھانے اوراپنی بُری حالت کو رعایت کرنے سے زیادہ رُوح کی ہلاکت کا اورکوئی موجب نہیں۔ شریعت ِالہٰی انسان کی اسی مکروہ حالت کو اُس پر روشن کرتی ہے۔ تاکہ اُس کاگناہ ہونا ظاہر ہو۔ اورحکم کے ذریعے سے گناہ حد سے زیادہ مکروہ معلوم ہو(رومیوں ۷: ۱۳ ) تاکہ وہ ایک طیب ِرُوحانی کی ضرورت کا قائل ہوکر اُس کا متلاشی بن جائے۔

نجات بالکفارہ

ہم نے دلائل وبُراہین سے یقینی اورقطعی طور سے ا س امر کو پایہ ثبوت تک پہنچایا دیا کہ انسان اپنی ذاتی جدوجہد سے وہ پاکیزگی اورتنزیہہ وتبریہہ عن الخطاحاصل نہیں کرسکتا جو اُسے اَبدی زندگی غیر فانی خوشی اورخُدا کی مواصلت ومقاربت کا استحقاق دلا سکے (امثال ۲۰: ۹ ) اورمنقولی شہادت سے بھی اس دعویٰ کی صداقت و حقیت کو خوب ثابت کردیا۔ ایک دفعہ جب خُداوند مسیح نے اِلسانی جدوجہد کو حصول ِ نجات کے متعلق ناکافی ومحال ثابت کیا تو لوگ حیران ہوکر کہنے لگے کہ پھر کون نجات پاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا۔ یہ آدمیوں سے تو نہیں ہو سکتا لیکن خُدا سےہوسکتا ہے کیونکہ خُدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ (لوقا ۱۸: ۲۷ ٭ چنانچہ خُدائے رَحیم والعادل نے انسان خاطی وعاصی اورفاسد الخیال کی ذاتی لاچاری وبے بسی کی حالت پر رَحم فرمایا۔ اوراُس کے گناہوں کا مبادلہ اپنی طرف سے پیش کیا۔ کیونکہ وہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے (۲۔ پطرس ۳: ۹) اوریہی ایک آخری اورمعقول طریقہ ہے جس سے خُدا عادل بھی اور رَحیم بھی ثابت ہو۔اور انسان خاصی وعاصی کو نجات بھی دے۔ اُسے (مسیح کو ) خُدا نے اُس کے خُون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ ِ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر (مسیح سے پہلے ) ہوچکے تھے۔ اورجن سے خُدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔ بلکہ اسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو۔ تاکہ وہ خود بھی عادل رہے۔ اورجو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راست بازٹھہرانے والا ہو (رومیوں ۳: ۲۵- ۳۱ ) انسان دُنی الُہمت اور فاسد الطبع کی ناداری استعداد دربارہ حصول نجات نے خُدا کی محبت کو مجبور کردیا کہ وہ خود اُس کا فدیہ دے ۔ اور اُس کو تمام آلودگیوں س پاک کرے اپنی قربت میں قبول فرمائے اورابدی عذاب وہلاکت سے بچائے۔ چنانچہ۔خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس ن اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔ تاکہ جوکوئی اُس پر ایمان لائےہلاک نہ ہوبلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا ۳: ۱۶ ) کسی راست باز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دگے گا۔ مگر شائد کسی نیک آدمی کے لئ کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جُرات کرے۔


لیکن خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پریوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہمار ی خاطر موا (رومیوں ۵: ۷ – ۸ ) ایک بچہ جب گندگی سے اپنے لباس اورتن کو آلودہ کو لیتا ہے تو ماں اُس کی اس گندگی سے نفرت کرتی ہے۔ اوراگرچہ بچہ آغوش ِ مادر میں جانے کے لئے ہاتھ پسارتا اورروتا ہے۔ تاہم ماں اُس کی غلاظت کو دھوئے بغیر اُسے گود میں نہیں لیتی۔ لیکن ماں کو بچہ کی ذات سے نفرت نہیں ہوتی پر اُس کی غلاظت سے۔اور بچے میں خود کو صاف کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی۔ بلکہ ماں خود اُسے دھوکر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اسی طرح خُدا انسان کی گناہ آلودہ ومکروہ حالت سے نفرت دگھن کرتا ہے۔ کیونکہ وہ پاک و قُدوس ہے۔ اور اُس کی محبت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ انسان ایسی مکروہ حالت میں مبتلا رہ کر ابد تک اُس سے جُدارہے۔ اورانسان میں خود کو پاک بنا لینے کی قابلیت وصلاحیت مفقود ہے۔ اس لئے خُدا ئے رَحیم اور سرچشمہ الطاف واکرام نے خود اُس کی ناپاکی کو مسیح کے پاک ترین لُہو سے دھویا۔ اوروہ وعدہ جو اُس نے بنی نوع انسان کے ساتھ مسیح کے ظہور سے صدیوں پیشتر کیا تھا مسیح کی قُربانی میں پورا کیا۔ وہ وعدہ یہ تھا مَیں نے تیری خطاوں کو گھٹا کی مانند اورتیرے گناہوں کو بادل کی مانند مٹاڈالا میرے پاس واپس آجا۔ کیونکہ مَیں نے تیرا فدیہ دیا ہے (یسیعاہ ۲۴: ۲۲؛ ۴۳: ۲۵ ) خُداوند مسیح نے خُدا کے عدل کو اس صورت میں پورا کیا۔ کہ جو موت گناہ کے باعث انسان نے کمائی تھی وہ اپنے جسم پر لے لی۔ اوریوں اُس کا کامل فدیہ دے کر تقاضا ئے عدل ِ الہٰی کو پورا کیا۔ اوررحم ومحبت الہٰی کو اس صورت میں پورا کیا کہ گنہگار جو ابدی ہلاکت کے حقدار ومحبت ِالہٰی کوا س صورت میں پورا کیا کہ گنہگار جو ابدی ہلاکت کے حقدار تھے ہمیشہ کی زندگی کے وارث ٹھہرے۔ کہاں ابدی عذاب اورکہاں ابدی زندگی وخوشی۔ مگر اُس ک فضل کے سبب اُس مخلصی کے وسیلے سے جو اُس یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں (رومیوں ۳: ۲۴ ) کفارہ کے معنی میں ڈھانپ دینا۔ خُداوند مسیح نے اپنے پاک کفارہ کے ذریعے انسان خاطی وعاصی کے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اوراُنہیں خُدا کی نظر سے چھپا دیا۔ کفارہ کی تعریف داود نبی یوں کرتا ہے مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی۔ اورجس کا گناہ ڈھانپا گیا (زبور ۳۲: ۱، ۸۵: ۲ ) آفرینش ِعالم کے اوائل ہی میں جب آدم اورحوا گناہ میں گِرنے کے باعث ننگے پائے گئے کفارہ کی ایک علامت ملتی ہے۔ وہ مجازی کفارہ تھا اور مسیح کے اس حقیقی اورعالمگیر کفارہ کی گویا تمثیل لکھا ہے۔ اورخُداوند خُدا نے آدم اوراُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُنہیں پہنائے (پیدائش ۳: ۲۱ ) وہ چمڑا کسی جانور کو مار کر لیا گیا تھا۔ اور اُس سے اُن کی عریانی کو جوگناہ کے باعث محسوس ہوئی تھی ڈھانپا گیا۔ اس سے ایک طرف تو اُنہیں دکھایا گیا کہ وہ موت جو تُم نے گناہ کرکے کمائی ہے کیاچیز ہے۔ کیونکہ اب تک اُنہیں موت کی کیفیت کا علم نہ تھا اوروہ عبرت ناک کیفیت حیوان کی موت سے اُن پر وشن کی گئی کہ تمہاری موت اس طرح ہوگی۔ اوردوسری طرف چمٹرے سے خوداُن کا ننگ ڈھانپ کر یہ ظاہر کیا کہ باوجود تمہاری اپنی خطا اورشقاوت ِ قبلی کے مَیں خُود (خُدا ) تمہاری عُریانی کو ڈھانپوں گا۔ مگر دُوسرے کی موت کے وسیلے جو تمہارے گناہ کا شریک نہ تھھا۔ تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعے سے نہیں ہوئی۔بلکہ ایک بے عیب اوربے دا غ برے یعی مسیح کے پیش قیمت خون سے (۱۔ پطرس ۱: ۱۸- ۱۹ ) مسیح پر درمیانی ہونے کی حیثیت سے جو سزا وار رد ہوئی وہ یہ طاقت رکھتی ہے کہ گویا گنہگاروں نے خود وہ سزا اُٹھایاجیسے دو امریض نہ میریض دونوں کے درمیان آکر فنا ہوجاتی اوراپنی ہستی کھودیتی ہے اورمرح کو مریض سے جُدا کردیتی ہے۔ اسی طرح مریضان ِ گناہ اورمرح ِ گنا ہ کے درمیان میں آکر مسیح نے اپنی ہستی کھودی۔ اوران دونوں کو ایک دوسرے سے یکسر جدا کر دیا۔ اگر مسیح ہردو کے درمیان میں آکر دوا کی طرح اپنی ہستی نہ مٹا دیتا تو گناہ گنہگار کےمابین جدائی کا ہونا ناممکن ومحال تھا۔ اورجیسے مریض کسی طوریل عرصہ کی شدید مرح سے شفاپالینے کے بعد بہت عرصہ تک کمزور ونحیف رہتا ہے اوراُس کو مقوی ولحم پرو اغذیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح خُداوند مسیح نے اپنی قُربانی کے ذریعے مریضان ِ گناہ کو شفا کُلی تو بخش دی۔ اب بعض بعض میں صرف کمزوری باقی رہتی ہ۔ وہ کمزوری (رُوحانی کمزوری ) رفتہ رفتہ رُو ح القدس کے طفیل جو طاقت رُوحانی کا سرچشمہ ہے دور ہوجائے گی۔ جب رُوح القدس نازل ہوگا تو تُم قوت پاوگے۔


(اعمال ۱: ۸ ) رُوح بھی ہماری کمزوری میں مد دکرتا ہے (رومیوں ۸: ۲۶ ) اُس کاپاک کفارہ گنہگاروں کے گناہوں کو ڈھانپ لیتا اور چھپا دیتا ہے۔ اُس کا پاک خون توبہ سے پہلے اوربعد کے تمام گناہوں کو دھوتا ہے۔ اور اُص کے بیٹے یسوع کاخُون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے (۱۔ یوحنا ۱: ۷ ) اوراُس کی قیمتی ولاثانی قُربانی گنہگاروں کو پاک وصاف کرکے خُدا ئے قدوس کی قُربت میں لے جاتی ہے۔مگر تُم جو پہلے دور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہو۔ کیونہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دونوں کوایک کرلیا۔ اورجُدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھادیا (افسیوں ۲: ۱۳-۱۴) ہم نے مسئلہ گناہ کے آخر میں گناہ کے تین نتائج بیان کئے ہیں۔ یعنی اول ، طبعی بگاڑ ،دوم ،خُدا سے جُدائی۔ اورسوم سزائے عدالت پس خُداوند مسیح کا کفارہ گنہگار کو ان ہر سہ نتائج سے بلکی آزاد کرتا ہے اوربُری خواہش جو گناہ کی علت ہے اُس پر اثر انداز ہوکر اُس کو نیکی وپاکیزگی میں تبدیل کردیتا ہ۔ تاکہ علت ِ کی تبدیلی سے معلول (صدور گناہ ) میں تبدیلی ہوجائے۔ اورجب تک انسان کی طبعی خرابی کو معدوم کوکرکے اُس میں حصول کمال کی استعداد پیدا نہ کی جائے وہ حقیقی اوربے نقص نیکی کرنے کے قطعی ناقابل ہے۔عمل سے پہلے قوت ِ عمل کی ضرورت ہے اورجب طبیعت پاک ہوگئی تو خُدا سے خود بخود میل ہوگیا۔ اورجب میل ہوگیا توجُدائی نہ رہی اورنہ سزائے عدالت۔جیسے ایک جنگی انگور کے ساتھ ایک اصلی اورشیریں انگور کی شاخ کا پیوند لگانے سے اُس کی تُرش خاصیت رفتہ رفتہ شریں ہوجاتی ہے۔ا ورانگور کی پُرانی فطرت مٹ کرایک نئی فطرت اُس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح خُداوند مسیح کے ساتھ جو خُداد انسان کا درمیانی اورپاک ہے ایمانی رنگ میں پیون ہوجانے سے ایماندار لوگ درجہ بدرجہ خُدا کی صورت پر بدلتے جاتے ہیں۔ اوراُن کی پُرانی انسانیت (گناہ آلودہ طبیعت ) مسیح کی قدرت وقدوسیت کی تاثیر سے زائل ہوکر نئی انسانیت (پاکیزہ طبیعت ) پیدا ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنی اُس قوت کی تایثر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کر سکتا ہے ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال لے بدن کی ضرورت پربنائے گا (فلپیوں ۳: ۲۱؛ عبرانیوں ۱۲: ۲ )

آپ نے فرمایا'' مَیں انگور کا حقیقی درخت ہوں تُم دالیاں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اورمَیں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے۔کیونکہ مجھ سے جُدا ہوکر تُم کچھ نہیں کرسکتے(یوحنا ۱۵: ۵ ) اس لئ کہ جب تو زیتوں کے اُس درخت سے کٹ کر جس کیااصل جنگی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتون میں پیوند ہوگیا۔ اورجب جڑپاک ہے تو ڈالیاں بھی ایسی ہی ہیں (رومیوں ۱۱: ۱۶؛۲۴ ) مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے مُراد ہے دُعا میں لگے رہنا۔ کلام کی تلاوت کرتے رہنا اورمراقبہ ہونے سے مُراد میں بیٹھ کر ہرروز مسیح کی حضوری کو محسوس کرنا اورا ُس کی قُربانی اورلانتہا محبت کا تصور کرتے ےرہنا۔ شبانہ روز مسیح کے ساتھ ایسا زندہ ایمانی تعلق رکھنا رُوحانی اصطلاح میں اُس کے ساتھ پیوند ہونا کہلاتا ہے۔ اورایماندار کی رُوحانی تبدیلی کا راز اسی تعلق میں پوشیدہ ہے۔ رُوح القدس ایماندار کے اندر رہ کر اُس کودرجہ بدرجہ خُدا کی صورت پربناتی ہے۔ اوروہ الوہیت نُما انسانیت جو انسان نے گناہ کی تاریکی میں کھودی تھی دوبارہ انسان کے اندر پیدا کرتی ہے اس کے بگڑے ہوئے خط وخال۔بگڑی ہوئی طبعیت اوربگڑی ہوئی صورت کو نئے سرے سے خُدا کی صورت پربناتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان کے اندر گناہ مُردہ ہوتا جاتا ہے اوررُوح جو گناہ کےے باعث مُردہ تھی زندہ ہوتی جاتی ہے۔ اگر مسیح تُم میں ہے توبدن تو گناہ کے سبب سے مُردہ مگررُوح راست بازی کے سبب سے زندہ ہے (رومیوں ۸: ۱۰ ) اورُروح القدس ایک خارجی موثر ہے اور مسیح کا قائم مقام۔ مسیح نے گنہگاروں کامبادلہ ومعاوضہ عدل ِالہٰی کو دے دیا۔ اوروہ پچھلے قرضہ سے توآزاد ہوگئے۔ لیکن اگر اُن میں آیندہ کے لئے حصول کمال کی استعداد پیدا نہ کی جائے تو ضرور وہ پُرانی کمزوری کے زیر اثر پھر گناہ کریں گے۔ اس لئے اُن کی طبعی خرابی کو مٹانے اورایک نئی پاکیزہ طبیعت اُن کے اندر پیدا کرنے کے لئے ضرور ایک زبردست خارجی فاعل درکار ہے۔ اوروہ رُوح القدس ہے۔چنانچہ رُوح القدس یہ کام کرتی ہے اورایماندار کے باطن میں درجہ بدرجہ ایک نئی انسانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنی تمام زندگی ایک ہی دن میں بسر نہیں کرسکتا۔


بلکہ رفتہ رفتہ عمر کے ابتدائی وسطی اورانتہائی مدراج کو طے کرنا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی رُوحانی زندگی بھی بتدریج تمام عمر ترقی کرتی آخری کار رُوحانی کمالیت کو حاصل کرتی ہے۔ اُس خُداوند کے وسیلے سے جو رُوح ہے ہم اُسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹)۔

اس چمنسان ِ فطرت میں پیدائش دو طرح کی ہے۔ ایک بیج کی اور دوسری پیوند کی۔ہرشے بیج سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جس جنس کا بیج بویا جائے تو اُس کے پودے میں انگور نہیں الگ سکتے بلکہ گہیوں۔ کیا انجیر کے درخت میں زیتون اورانگور میں انجیر پیدا ہوسکتے ہیں ؟ (یعقوب ۳: ۱۲ ) اوریہ بدیہی حقیقت ہے کہ بیج کی خاصیت بھی ہتمام وکمال پھل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک تُرش خاصیت کا بیج بویا جائے و اُس کے پودے میں ضرور تُرش پھل ہی لگیں گے۔ یہ تو ہے بیج کی پیدائش اب دوسری پیوند کی پیدائش ہے۔ یہ امر زیادہ تشریخ کا محتاج نہیں کہ پیوند لگانے سے کسی بھی پھل کی خاصیت تبدیل کی جاسکتی ہے۔ وہ درخت جو تُرش خاصیت کے بیج کی پیدائش ہے اورجس میں ہمیشہ تُرش پھل کا لگناضروری ہے شیرں خاصیت کی شاخ سے پیوند لگانے سے یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اورآیندہ اُس میں کبھی کھٹے پھل نہیں لگتے۔ اس مثال سے ہمیں انسان کی نئی پیدائش کا ثبوتی تصور حاصل ہوتا ہے ۔انسان کی پیدائش بھی دو طرح پرہے۔ جسمانی یا تخمی پیدائش۔اورروحانی پیدائش (نئی پیدائش ) حضرت ابوالبشر (آدم ) جنس ِانسانی کا گویا بیج تھا جس سے تمام نوع ِانسانی کی پیدائش ہوئی۔ وہ خاکی تھا اوراُس کی طبیعت گناہ آلودہ ہوگئی۔ اس لئے اُس کی ناپاک طبیعت کا اثر اُس کی تمام نسل میں پشت درپشت متوارث طورپر چلا آیا۔ جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا۔ اورگناہ کے سبب موت آئی اوریوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا (رومیوں ۵: ۱۲) پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔۔۔۔ اورجس طرح ہم اُس خاکی کی صورت پرہوئے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۷؛ ۴۹ ) یہ ہے انسان کی جسمانی (تخمی ) پیدائش کا حال جس میں گناہ کا متوار ث میلان اورنوع ِ انسان کے فردِ اول کی طبعی ناپاکی کا اثر بدیہی طورپر ظاہرہے۔ اس لئے کلام ِ الہٰی کا یہ فرمان حقیقت پر مبنی ہے کہ '' سب نے گناہ کیا اورخُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ (رومیوں ۳: ۲۳؛ واعظ ۷: ۲۰ ) اسی واسطے انسان میں حقیقی نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اب رہی رُوحانی پیدائش وہ گویا پیوند کی پیدائش ہے جس طرح تُرش پھل کو بدلنے کے لئے ایک شیریں شاخ کا پیوند لازمی ہے۔ کیونکہ تُرش کے ساتھ تُرش ہی پیوند لگانا تحصیل حاصل ہے۔ اس سے کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اسی طرح انسان کی موروثی گناہ آلودہ طبیعت کو تبدیل کرنے کے لئے ایک بے گناہ اورپاکیزہ شخصیت کی ضرورت ہے جس کے ساتھ رُوحانی طورپر پیوند ہوجانے سے انسان کی پُرانی مائل یہ بدی طبیعت ایک نیک وپاک طبیعت میں تبدیل ہوجائے۔ اس کے متعلق کلام کا فرمان ملاحظہ ہو۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص (آدم) کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سےبہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے (رومیوں ۵: ۱۹ ) پس لامحالہ وہ نئی پیدائش ہمیں خُداوند مسیح کے ساتھ پیوند ہونےسے حاصل ہوتی ہے۔ اُس نے فرمایا ،مَیں اُس میں دہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جُدا وکر تُم کچھ نہیں کرسکتے۔(یوحنا ۱۵: ۵ ) اس لئے کہ جب تو زیتون کے اُس درخت سے کٹ کر جس کی اصل جنگی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتون میں پیوند ہوگیا تو وہ جو اصل ڈالیاں ہیں اپنے زیتون میں ضرور ہی پیوند ہوجائیں گی۔(رومیوں ۱۱: ۲۴ )

بیج والی پیدائش ہمیشہ نیچے سے ہوتی ہے اورپیوند والی اُوپر سے خُداوند مسیح نے فرمایا۔ تُم نیچے کے ہومَیں اُوپر کا ہوں۔ تُم دُنیا کے ہو مَیں دُنیا کا نہیں ہوں (یوحنا ۸: ۲۳ ) جس طرح ہم اُ س خاکی کی صوت پرہوئے اُسی طرح اُس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹) اورجو لوگ اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کرکے خُداوند مسیح پر ایمان لاکر اُس کے سات روحانی رنگ میں پیوند ہوجاتے اور نئی پیدائش حاصل کرتے ہیں اُن کے متعلق کلام فرماتا ہے۔تُم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خُدا کے کلام (مسیح ) کے وسیلے جو زندہ اورقائم ہے۔ نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو (۱۔پطرس ۱: ۲۳ ) جو کوئی خُدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔کیونکہ اُس کا تُخم اُس میں بنا رہتا ہے بلکلہ وہ گناہ کرہی نہیں سکتا۔


کیونک خُدا سے پیدا ہوا ہے(۱۔ یوحنا ۳: ۹ ؛کلسیوں ۳: ۹- ۱۰ ؛فلپیوں ۳: ۲۱؛ ۲۔ کرنتھیوں ۴: ۱۶ ) جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے۔ اورجو روح سے پیداہوا ہے رُوح ہے (یوحنا ۳: ۶) جس بیج (آدم ) سے نسل انسانی کی پیدائش ہوئی وہ ناپاک تھا۔ اس لئے تمام نسل کا ناپاک ہونا عقلی ونقلی ہر دو طریق سے ثابت ہے۔ اس لئے خُدا کا فرمان انسان کے لئے ہے۔ مَیں جانتا تھا کہ تُوبالکل بے وفا ہے اوررَحم ہی سےخطا کار کہلاتا ہے(یسعیاہ ۴۸: ۸) زبور ۵۱: ۵ ۵۸ : ۳ ؛پیداش ۸: ۲۱) اوربغیر نئی پیدائش حاصل کئے انسان کا خُدا سے ملاپ ممتنع ہے کیونکہ اجتماع ضدین بحال ہے۔ اس لئے خُداوند مسیح نے نیکدیمس سے کہا۔ مَیں تجھ سے سچ سچ کہتاہوں کہ جب تک کوئی نئے سے سے پیدا نہ ہووہ خُدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا (یوحنا ۳:۳ )۔

اوررجس طرح وضاحات مافوق سے ظاہر ہے نئی پیدائش خُداوند مسیح کے ساتھ ایمانی ورُوحانی رنگ میں پیوند ہونے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ ایزد تعالیٰ کا مقرر کردہ واحد ذریعہ ہے جس سے نوع انسان کو مرض گناہ سےنجات اورخُدا کی مقاربت مونسلت حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم نے مسئلہ گناہ کے بیان میں یہ بھی ذکر کیا تھا کہ چونکہ ہمیشہ اشرف کے بگاڑ سے ادنیٰ کا بگاڑ لازم آتا ہے۔ لہٰذا گناہ نے انسان کی رُوحانی زندگی پر اثر انداز ہوکر رُوح کو مُردہ کردیا۔ جس سے جسم بھی بطور لازمی نتیجہ کے قبضہ موت میں آگیا۔ اگر گناہ زندہ رہے تو روح مُردہ رہے گی اورجب رُوح مُردہ ہوگی تو جسم بھی موت کے قبضہ میں رہے گا۔(رومیوں ۷: ۹ ) خُداوند مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے گناہ مُردہ ہوجاتا اوررُوح زندہ ہوجاتی ہے۔ اور رُوح کے طورپر زندہ ہونے سے جسم بھی قبضہ موت سے چھوٹ کر بقا کوحاصل کرتا ہے۔ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں (لوق ۲۰: ۳۶ ) اس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ دُنیا مخلوق ہے۔پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہوگئیں (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۱۷)۔

خُلاصہ مطلب

۱۔ ج اختیار طریقہ سے گناہ کا ازالہ اورنجات محال ہے۔

۲۔ جبری طریقہ سے گناہ کا ازالہ اورنجات محال ہے۔

۳۔ بذریعہ تناحقیقی نجات اس لئے محال ہے کہ اس کا تمام تر دار ومدار کرموں (اعمال ) پر ہے۔ لیکن عمل سے پہلے قوت ِ عمل درکار ہے۔

۴۔ تزکیہ نفس وریاضت ِ جسمانی سے نجات محال ہے۔

۵۔ اعمال حسنہ سے نجات ملتی ہے۔ اس عقیدہ کے حامی اعمال ِحسنہ کو شرط ارنجات کو مشروط ٹھہراتے ہیں۔ لیکن دراصل نجات شرط اوراعمال ِ حسنہ مشروط ہیں۔ یعنی نیک اعمال سےنجات حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ نجات حاصل ہونے سے نیک اعمال ہو سکتے ہیں۔

۶۔ توبہ محض سے نجات محال ہے۔اگرچہ حصولِ نجات کے لئے توبہ ضروری ہے۔

۷۔ خُدا کی صفات عدل ورحم کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان خود اپنی نجات کا انتظام نہیں کرسکتا۔

۸۔ قسری ملاپ سے انسان کی فعل مختاری قائم نہیں رہتی۔ لہٰذا حصول نجات کا یہ طریقہ معقول ہے۔

۹۔ طبعی موافقت نجات کے لئے ضروری ہے لیکن پاک طبیعت کوحاصل کو لینا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔

۱۰۔ نجات بالکفارہ حصول ِ نجات کے لئے آخری صحیح اورمعقول طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔


ایک اعتراض کاجواب

اکثر غیر مسیحی لوگ ہمارے معتقدات سے عدم واقفیت کے باعث یہ اعتراض کیا کرتے ہیں۔ کہ جب خُداوند مسیح نے خطاکاروں کے عوض میں اپنی جان بطور مبادلہ کے دے دی تواب وہ آزاد ہیں کہ کفارہ مسیح کی آڑ میں رُوسیاہی کے کام کیا کریں۔ کیونکہ کفارہ ہوچکا اور یہ سوال ہمیشہ مقلدان ِمسیح پر ہی کیا جاتا ہے۔ واضح ہوکہ مُقدس پولوس رسول خود ہی اس سوال کو پیدا کرکے اُس کا معقول جواب دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو(رومیوں ۶: ۱- ۴ ؛ ۱۵- ۱۸ ) ہم ایسے معترضوں سے مود بانہ طورسےپوچھتے ہیں کہ ایک مریض جو مرض سے تندرست کیاگیا کیا وہ اس لئے بار بار بیمار ہونے کی کوشش کرے کہ ادویہ اورحکیم اُس کے علاج کے لئے موجود ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ کوئی صحت یافتہ آدمی کبھی دوبارہ بیمار ہونےکی خواہش نہیں کرتا اگرچہ اُس کی شفاء کے سامان بکثرت موجود ہوں۔ اوراگر کوئی اسی غلط فہمی کے زیر ِ اثر مسیح پر ایمان لانے کے بعد بھی دیدہ ودانستہ گناہ پر دلیر ہوجائے تو مسیح کا کفارہ اُس کو پناہ نہیں دے سکتا۔ وہ سزائے عدالت سے ہرگز بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار رو شن ہوگئے اور وہ آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اوررُو ح القدس میں شریک ہوگئے اورخُدا کے عمدہ کلام اورآئندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے۔ اگروہ برگشتہ ہوجائیں تو اُنہیں توبہ کے لئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے۔ (عبرانیوں ۱: ۴- ۸ ) کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہ ہوں کی کوئی اورقُربانی باقی نہیں رہی (عبرانیوں ۱۰ : ۲۶ ) اُن پر یہ سچی مثل صادق آتی ہے کہ کُتا اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے اور نہلائی ہوئی سورنی دلدل میں لوٹنے کی طرف (۲۔پطرس ۲: ۲۲)۔

جب ایک مُفلس ونادار کا ایک ہزار روپے کاقرضہ کسی رحمدل صاحب ِ حیثیت نے ایک دفعہ بھردیا اورا ُس سےتاکید اً کہہ دیا کہ جا پھر قرض نہ لینا ورنہ مَیں ذمہ دارنہ ہوں گا۔ توباوجود اس احسان اورتاکید کے اگر وہ دیدہ ودانستہ پھر مقروض ہوجائے تو اپنے کئے کا پھل پائے گا۔ بقول ہرروز عدہ نیست کہ حلوہ خورد کسے۔ خُداوند مسیح اپنی زمینی زندگی میں جب کبھی کسی کے گناہ معاف کرتے تھے تو فرماتے تھے۔ جاپھر گناہ نہ کرنا (یوحنا ۸: ۱۱) پھر گناہ نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے (یوحنا ۵: ۱۴ )۔

ایک اور اعتراض کی امکانی گنجائش نظر آتی ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ شاہد کوئی موجود ہ مسیحیوں کی کوتاہیوں اورخامیوں کودیکھ کر یہ کہے کہ جب کہ مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے انسان نیا مخلوق ہوجاتا ہے اورپُرانی ناپاک طبیعت سے اُس کو بکلی نجات حاصل ہوجاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مسیحیوں کی عملی زندگیوں سے اس دعویٰ کا عملی ثبوت نہیں ملتا ؟ اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ تبدیلی پورے طورپر پیوند ہوئے بغیر نہیں ہوا کرتی۔ اگرپیوند میں کوئی نقص رہ جائے توتبدیلی محال ہے۔ بے شمار ایسے مسیحی بھی موجود ہیں جو صرف نام کے مسیحی ہیں اور اُن کا چلن وہی ہے جو مسیح پر ایمان لانے سے پیشتر تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں مسیح کے ساتھ پیوند نہیں ہوئے۔ ایک تُرش انگور کا پودا شیریں انگور کے نزدیک لگا دیا جاتا فہے۔ اوراُس میں مطلق تبدیلی واقع نہیں ہوتی اوردوسرے ترش پودے کو شیریں انگور کے ساتھ پیوند کردیا جاتا ہے۔ اُس میں رفتہ رفتہ تبدیلی ہونی شروع ہوجاتی ہے یہی فرق نقلی اوراصلی مسیحی کا ہے۔ پس بعض نام نہاد نقلی مسیحیوں کی بُری یسرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لاکھوں دیندار مسیحیوں کو بھی ویسے ہی گندم نما جو فروش سمجھنا جائز نہیں۔ ایک ضعیف البصر کی قدتِ بصارت کے لحاظ سے اصحاب ِ بصارت قویہ کے مرئیات سے انکار سے ایک صاحب ِ سماعت صحیحہ کی قوت ِ سماعت کا انکار لازم نہیں آتا۔ کھوٹے اورکھرے روپے میں بناوٹ وزن ، مقدار اورچہرہ شاہی کے لحاظ سے مطلق فرق نہیں ہوتا۔ لیکن اُن کی آوازوں سے اُن کا کھوٹا یاکھر ا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح نقلی اور مسیحی میں وجہ امتیاز اُن کی بدسیرتی اورخُوش سیرتی ہے۔اچھا درخت پھل لاتا ہے۔ا وربُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے (متی ۷: ۱۷ )۔


علاوہ ازیں ایسے مسیحی بھی ہیں جو مسیح کے ساتھ اچھی طرح پیوند ہوچکے۔ اوراُس کی پیوند کی تایثر واقعی اُن کی عملی زندگیوں سے ظاہر ہوتی ہ ے۔ تبدیل شُدہ ہیں لیکن بعض وففہ پُرانی طبیعت کا خفیف سااثر اُن میں باقی رہ جاتا ہے۔ اوراُسی اثر کے ماتحت و شازونادر ناکردنی افعال کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔ مسیح کے ساتھ پیوند ہوجانے کے بعد بھی اکثر اُن میں پرانی طبیعت کی کوئی جڑ پھوٹ نکلتیت ہے۔ جیسا پولوس رسول فرماتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی کڑوی جڑپھوٹ کرتمہیں دُکھ دے اوراُس کے سبب سے اکثر لوگ ناپاک ہوجائین (عبرانیوں ۱۲: ۱۵ ؛استثنا ۲۹: ۱۸ ) اگرچہ چراغ بجھا دیا جائے تاہم اُس کی کالک کانشان چراغدان پررہ جاتا ہے۔ لیکن جب مکان کی سفیدی کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ کالک بھی مٹ جاتی ہے۔ اگرچہ ایک قلعہ توڑدیا جائے تاہم اُس کے کھنڈرات کچھ دیر تک پڑے رہتے ہیں۔ لیکن کھنڈرات میں قلعہ کی شان موجود نہیں ہوتی۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ کھنڈرات بھی اُٹھادئے جاتے ہیں۔ اگر چہ کمان میں تیرے نکل جاتا ہے پر کچھ دیر تک سابقہ وقت کے اثر سے پھر بھی چلا متحرک رہتا ہے۔ وقت پاکر خود ہی ساکن ہوجاتا ہے۔پیوند لگانے کے بعد اُسی روز درخت تبدیل ہوکر اچھے پھل دینے نہیں لگ جاتا بلکہ اُس کی تبدیلی بتدریج ہوتے ہوئے ایک خاص اورمقررہ وقت میں انجام کو پہنچتی ہے۔ اس حال انسانی طبیعت کی تبدیلی کا ہے۔ نجات ایک مسلسل تدریحی حالت حام ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنی تمام عمر ایک ہی دن میں بسر نہیں کر سکتا۔ اُسی طرح روحانی کمالیت کامل پاکیزگی اورالوہیت نما انسانیت بات یافتہ لوگوں کے اندر فوراً پیدا نہیں ہوجاتی۔ نجات کے بھی مدراج ہیں۔ مگر جب ہم سب کے بے نقاب چہروں سے خُداوند کا جلال اس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینے میں تو اُس خُداوند کے وسیلےل سے جو رُوح ہے ہم اُسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ )۔

نجات کے مدارج

انسان کے اندر چار قوتیں مسلم ہیں۔ یعنی قوت ِ شہوانی۔قوت ِ بہمی قوت ِ ملکی مسیح پر ایمان لانے سے پیشتر اُس کی قوت ِ ملکی ہرسہ قوتوں سے یہاں تک دبی ہوئی ہوتی ہے کہ اصلی نیکی وپاکیزگی کی صورت اُس سے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور وہ بت پرستی گورر پرستی ،عناصر پرستی اور فطرت پرستی کاوالا و شیدا اورخالص توحید پرستی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اور ایسی باطل پرستی اورہرقسم کا گناہ اُس کا مرغوب معلوم ہوتا ہے۔ اورایسی مکروہ زندگی بسرکرتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو پاک سمجھا کرتا ہے۔ لیکن مسیح پر ایمان لاتے ہی اُس کی زندگی میں ایک انقلاب ِعظیم برپا ہوجاتا ہے اوراُس کی زندگی بتدریج مندرجہ ذیل چار مدراج کو طے کرتی ہے۔

درجہ اول۔ اس پہلے درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی ایک حصہ اورگناہ تین حصہ ہوتا ہے۔اور وہ ہمیشہ یہ محسوس کرتارہتا ہے کہ مَیں بڑا گنہگار ہوں۔ یہاںتک کہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا۔ مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کرلیتا ہوں (رومیوں ۷: ۱۹ ) وہ اپنی گناہ آلود مکروہ زندگی سے نفرت کرتا اور اپنے آپ کو سب سے بڑا گنہگار سمجھتا ہے (۱۔تمتھیس ۱: ۱۵ ) اورمسیح کی نزدیکی میں رہنا زیادہ پسند کرتاہے۔

درجہ دوم۔ اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی دو حصہ اورگناہ بھی دو حصہ ہوتا ہے۔ یعنی نیکی اورگناہ کا میزان مساوی ہوتا ہے۔ اور ایماندار مسیح کے ساتھ پیوند ہوکر اپنے اندر پہلے کی بہ نسبت زیادہ قوت محسوس کرتاہے۔ اوررگناہ پر غالب آنے کے لئے رُوح القدس کی امداد حاصل کرتا ہے (رومیوں ۸: ۲۶ ) اورکمزوری میں زور آور ہوتا جاتا اورگناہ کی کراہیت کو بزور محسوس کرتاہے۔ اس درجہ میں رُوح کے اندر ِسفلی وعلوی عناصر میں جنگ ہوتی ہے۔ اوروہ گا ہے گناہ ہر غالب اورگاہے اُس سے مغلوط ہوتا رہتا ہے۔


درجہ سوم۔ اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی تین حصہ اورگناہ صرف ایک حصہ رہ جاتا ہے۔یعنی مسیح کی قوت کی تایثر سے وہ روحانی طورپر کافی قوی ہوجاتا اوربہت شازو ناد ہی گنا سے مغلوب ہوتا ہے۔ اورجب کبھی کسی خفیف سے خفیف گناہ کا ارتکاب بھ اُس سے ہوجاتا ہے تو اُس کے دل میں ا س قدر اضطراب پشیمانی اورپچھتاوا پیدا ہوتا ہےکہ وہ پھر کبھی اُ س گناہ کے نزدیک نہیں پھٹکتا۔ اوررُو ح القدس ضمیر کو گناہ کے زنگ سے صاف کرکے اس قدر ذکی الحس بنادیتا ہے کہ وہ معمولی کوتاہیوں پر بھی اپنے فرائض کو نہایت سختی سے انجام دینے لگتا ہے۔ اس درجہ میں پہنچ کر ایماندار کو خیالی گناہوں سے بھی جنگ کرناپڑتا ہے۔اُس کی نفسانی خواہش قریب قریب مردہ ہوجاتی ہے۔ اُس کا میلان ِطبع گناہ کی طرف سے ہٹ کر نیکی کی طر ف لگ جاتا ہے۔پھر اُس س عملی گناہ تو شاز ونادرہی سزد ہوتا ہے۔ صرف خیالی گناہ کبھی کبھی اُس کی ضمیر کو ٹھوکر لگاتا ہے۔ اورضمیر بدی کے خیال ہی چونک اُٹھتا ہے۔ اورا س قدر قوی اورسریع الحس ہوجاتا ہے ک انسان کو کبھی دائرہ جائز سے نکل کر دائزہ ناجائز وناواجب میں جانے نہیں دیتا۔ اورانسا ن کی ہرسہ سفلی قویٰ قوت ِ ملکی کے تابع ہو جاتی ہیں۔ اوروہ اپنی زندگی کو ایک غالب زندگی سمجھتا ہے۔ تو بھی پُرانی انسانیت کا خفیف سااثر اُس کے اندر باقی رہ جاتا اور اکثر اوقات اُس کی رُوح پر خلش لگاتا ہے۔لیکن ایماندار اب گناہ کا غلام نہیں بلکہ راست بازی کاغلام ہوجاتا ہے۔اوردیگر گناہ زدہ رُوحوں کو بچانے کی تڑپ اُس کے اندر بہت بڑھ جاتی ہے۔

درجہ چہارم۔ اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی چار حصہ اورگناہ صفر ہوتا ہے۔ یعنی وہ سراسر پاک وراست بن کرخُدا کی طبیعت پر مطبوع ہوجاتا اورگناہ ونفسانیت کی غلامی سے کلی طورپر آزاد ہوجاتا ہے۔ اب خیالی گناہ کا بھی امکان مٹ جاتا ہے۔ بداندیشی اوربدخیالی کے لئے اُس کے دل میں مطلق گنجائش ہی نہیں رہتی اور وہ کامل ِ انسان اورخُدا کے بیٹے کا ہم شکل بن جاتا ہے۔تمام سفی طاقتیں اُس کی قوت ِ ملکی کے تابع ہوجاتی ہیں۔ اورخیالی یاعملی گناہ کا پھر کوئی امکان نہیں رہتا۔ اوراس چوتھے درجہ کے کامل ایماندار کے متعلق کلام یہ فرماتا ہے جو کوئی خُدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اُس کا تخم اُس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کرہی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خُدا سے پیدا ہوا ہے (۱۔ یوحنا ۳: ۹ ) وہ الوہیت نما انسانیت یا خُدا کی صورت جو گناہ کے باعث مٹ چکی تھی۔ ایسے ایمانداروں کو پوری کمالیت کے ساتھ حاصل ہوجاتی ہے۔ اوروہ پھر خُدا کی مانند اورخُدا کی صورت پربن کر اُس کے فرزند کہلاتے اوروصال ِالہٰی وہ مقاربت ِ وجود لامتناہی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ نجات کا کمال ہے۔

کفارہ مسیح کی وسعت بلحاظ تاثیر

خُداوند مسیح نے تمام جہان کے گناہوں کی معافی کی خاطر کفارہ دیا۔ یہ نہیں کہ اُس کی قربانی کے وقت سے لے کر قیامت کے زمانے تک کے درمیانی عرصہ کی دُنیا کے لئے بلکہ آدم سے لے کریوم الحشر تک کی تمام دُنیا کے لئے اُس نے اپنی قیمتی قُربانی دی۔ کوئی ایسا زمانہ نہیں جس کے گناہوں پر اُس کی قُربانی اثر انداز نہ ہوسکے۔ یعنی اُس کا کفارہ آفرینش ِ عالم سے لے کر روز ِ عدالت تک کے گناہوں کو ڈھانپ دینے اور دھودینے کے لئے خُدا ئے حکیم وقدیر کے ازلی ارادہ میں موجود تھا۔ لیکن اُس کا ظہور ایک خاص زمانہ میں ہوا۔ چونکہ تقدم وتاخر زمانی خُدا کے لئے بے حقیقت ہیں۔


یہ تین زمانے تو محدودات ومحدثات ہی سے متعلق ہیں۔ خُدا کے لئے ہمیشہ حال ہی حال ہے۔ اس لئے اُس کی وسیع العلمی کے مطابق مسیح کا کفارہ ازل سے ہوچکا تھا۔ اورزمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اُس برے (مسیح کی کتاب ِ حیات میں لکھے نہیں گئے جو بنائے عالم کے وقت سےذبح ہوا ہے۔ اُس حیوان (ابلیس ) کی پرستش کریں گے۔ (مکاشفہ ۱۳: ۸ ) جس نے ہمیں نجات دی اورپاک بُلاوے سے بلایا۔ ہمارے کاموں کے موافق نہیں بلکہ اپنے خاص ارادے اوراُس فضل کے موافق جو مسیح یُسوع میں ہم پر ازل سے ہوا۔ مگر اب ہمارے منجی مسیح یُسوع کے ظہور سےظاہر ہوا جس نے موت کو نیست اورزندگی اوربقا کو اُس خُوش خبری (انجیل ) کے وسیلے سے روشن کردیا (۲۔ کرنتھیوں ۹: ۹ – ۱۰ ؛ ۱۔ پطر س ۱: ۲۰ ؛کلیسوں ۱: ۲۶ ؛رُومیوں ۱۶: ۲۵- ۲۶ ؛ افیسوں ۳: ۹ ؛ ططس ۱: ۲ ؛ افسیوں ۱: ۹-۱۰ ؛رُومیو ں ۳: ۲۵ )۔

کفارہ مسیح کے تحقق خارجی سے پیشتر خارجی سے پیشتر کی دُنیا اُس الہٰی انتظام پر جواُن کی مغفرت ونجات کے لئے خُدا کی رحمانیت عامہ اورفیضان تامہ سے ظہور پذیر ہوا ایمان لاکر اپنے گناہوں کی بخشش اورتقرب الہٰی کو حاصل کرسکتی ہے۔ اُسے خُدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مندہو تاکہ جو گناہ پیشتر (قبل از کفارہ مسیح ) ہوچکے تھے۔ اورجن سے خُدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔ بلکہ اسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو۔ تاکہ وہ خود بھی عادل رہے ۔ اوریُسوع پرا یمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو (رُومیوں ۳: ۲۵- ۲۶) اب کوئی سوال کرے گا کہ مسیح کے ظہور سے پہلے کی دُنیا اُس کے کفارہ پر کیسے ایمان لاسکتی ہے جس حال کہ وہ اُن کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھا۔ واضح ہو کہ ہم مسیحی یہ مانتے ہیں اورکلام بھی اس کی شہادت دیتا ہے کہ خُداوند مسیح نے مُردوں میں سے زندہ ہوکر اورعالم ِ ارواح میں پہنچ کر اپنے ظہور سے پہلے کی تمام دُنیا کو بشارت دی۔ اِسی میں اُس نے جاکر اُن قیدی رُوحوں میں مُنادی کی جو اُس اگلے زمانہ میں نافرمان تھیں۔ جب خُدا نُوح کے وقت میں تحمل کرکے ٹھہرارہا تھا (۱۔ پطرس ۳: ۱۹- ۲۰ ؛ ۴: ۶ ) چُنانچہ اُن روحوں میں سے جو خُداوندمسیح کے پاک کفارہ پر ایمان لائی ہوں گی وہ بچ جائیں گی اورنجات پائیں گی۔ اورجوایمان نہ لائیں وہ سزائے عدالت کی مستوجب ٹھہریں گی۔ عدالت کا ایک خاص دن ہے اُس میں تمام باغی اورنافرمان رُوحیں سزا پائیں گی۔ یہ نہ سمجھ جائے کہ ازمنہ سالفہ کیارواح نیست ہوچکیں ہرگز نہیں۔ بلکہ خُدا نے ہرزمانے کی ارواح کوعدالت کے دن کے لئے قائم رکھا ہے۔ مگر اس وقت کے آسمان اورزمین اُسی کلام (کلمتہ اللہ ) کے ذریعے سے اس لئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں۔ اوروہ بے دین آدمیوں کی عدالت اورہلاکت کے دن تک محظوظ رہیں گے (۲۔ پطرس ۳: ۷ ) وہ بدکاروں کو عدالت کے دن تک سزا میں رکھنا جانتا ہے (۲۔ پطرس ۲: ۹ ؛ ۲: ۴ یہوداہ ۱: ۶ ) پس خُداوند مسیح کی قُربانی تمام زمانوں کے گنہگاروں کے واسطے دی گئی اورجیسے ایک قیمتی لعل اکیلا ہی لاکھوں روپے کے قرض سے سبکدوش کردیتا ہے اُسی طرح اُس واحد پاکیزہ اوربیش بہاالہٰی شخصیت کا فدیہ تمام زمانوں اورجہانوں کے قرضوں اورگناہوں کے لئے کافی ٹھہرا۔جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے (رومیوں ۵: ۱۹ )۔

خُداوند مسیح کی قُربانی میں دُنیا کی و ہ سب قُربانیاں جوکسی نیک اورراست اصول کی وفادری اورحمایت میں دی گئیں ایسے چھپپ جاتی ہیں جیسے آفتاب کے لااتنہا نُور میں ستاروں کی ننھی ضیا پاشی چھپ جاتی ہے۔ مسیح کی موت میں ابدی اورغیر فانی زندگی کا راز سربستہ تھا جو اُس کے زندہ ہونے پر بے نقاب ہوگیا۔ جو موت نالائق حرکات اورناراست افعال کے ارتکاب کانتیجہ ہو وہ واقعی قابل ِ نفرت اورلعنتی موت ہوسکتی ہے لیکن وہ موت جو ناراستوں اورگنہگاروں کو بچانے کے لئے ایک راست باز پرآتی ہے وہ بذاتہ ِ لعنتی موت نہیں جو زر ِ فدیہ کسی قیدی کی آزادی کی خاطر دیاجاتا ہے۔ وہ روپیہ لعنتی نہیں ہوتا بلکہ اُس کی لعتن کو دھودینے اورمٹادینے والا۔لعنت بلحاظ جُرم کے ہوتی ہے نہ کہ فدیہ کے لحاظ سے۔مسیح کی موت کو لعنتی حالت کی نسبت سے کہا گیا ہے۔ لعنت کے اصل مفہوم کا اُس کی ذات پاک پر اطلاق مطابقی اورواقعی نہیں ہے۔


اُس راست باز نے ناراستوں کی خاطر دُکھا اُٹھایا (۱۔ پطرس ۳: ۱۸ ) نہ کہ اپنی کسی ناراستی کے باعث۔ اسی واسطے موت کا دُکھ سہنے کے سبب جلال اورعزت کاتاج اُسے پہنایا گیا ہے (عبرانیوں ۲: ۹ ؛فلپیوں ۲: ۹ – ۱۱ ) پس اَے مریضان گناہ ! اورعاصیان بے پناہ ! آج ہی بنیہ غفلت کانوں سے نکالئے۔ اورذرا ہوش سنبھالئے۔ دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے دیکھو یہ نجات کا دن ہے (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۲ )۔

ابدی زندگی اورابدی سزا

اکثر غیر مسیحی لوگ ہمارے متعقدات ومسلمات سے عدم وافقیت کے باعث ابدی زندگی اورابدی سزا(بہشت ودوزخ ) کے مسئلہ کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ ہم نہایت اختیصار سے اس مسئلہ لاجواب اورطریق ِصواب پر روشنی ڈالیں گے۔ جس سے شکوک وشہبات کی تاریکی دور ہوکر مطلع صاف ہوجائے گا۔ بشرطیکہ معرضین ومشککین تعصب وہٹ دھرمی کی سیاہ عینکوں کو چشم بصیرت سے اُتار کو امور ِ غیبیہ اورحقاق مخفیہ کی جستجو صدق دلی سے کریں۔

واضح ہوکر جولو گ اس لائق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصل کریں اورمردوں میں سے جی اُٹھیں اُن میں بیاہ شادی نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔ اس لئے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اورقیامت کے فرزندہ ہوکر خُدا کے بھی فرزند ہوں گے (لوقا ۲۰ : ۳۵- ۳۶ ) اوراُن کی سکونت کے لئے نیا آسمان اورنئی زمین ہوگی جن میں راستبازی بستی رہے گی۔ (۲۔ پطرس ۳: ۱۳ ) اُن کو بھوک اورپیاس نہ لگے گی۔ نہ دھوپ اورگرمی ستائے گی (مکاشفہ ۷: ۶ ) پھر وہاں موت نہ ماتم نہ درد نہ آہ نالہ رہے گا۔ پُرانی چیز یں جاتی رہیں گی اور کچھ نیا ہی ہوگا(مکاشفہ ۲۱: ۳- ۴ ) وہان اس مادی دُنیا کے لذائذوہ حظا ء خواہشات وعادات گناہ وظلمت مصائب وشدائد اوررنج وآلام وغیر اکی لازوال ابدی اورغیرفانی رُوحانی خوشیوں میں رخنہ اندازہی نہ کرسکیں گے۔ بلکہ اِلی تمام کدورات ِ سفلیہ۔ اغثیہ جسمانیہ اوراہویہ نفسانیہ کا وہاں قطعی امکان وگنجائش نہ ہوگی۔ اورراستباز جنتی لوگ خُدا کی عین ذات نہ ہوں گے بلکہ غیر ذات اور طبائع قدسیہ وصفات ِ ملکوتیہ کے باعث خُدا ئے قدوس سے مشابہت ومماثلت قریبی رکھیں فے۔ اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہت میں آفتاب کی مانند چمکیں گے (متی ۱۳: ۴۳) اوردو تاابد خُدا کی مقاربت ومجالست میں رہیں گے اوراُس کی عبادت کریں گے (مکاشفہ ۲۲: ۳- ۵ ) جب راستباز اس فانی زندگی کو چھوڑ کر ابدیت کی پُرسر ولاانتہا عملداری میں داخل ہو کراس جسمانی زمانہ کی طرف دیکھیں گے تو وہ ایسا ہی مختصر نظر آئے گا گا جیسا وہ دواڑ ھائی گھنٹہ کا عرصہ سنیں میں فہلم کے اد کار ایک طول طویل زندگی کے واقعات دکھا ِ کر ڈراپ سین کرد یتے ہیں۔ اورتما اشیاء غیرفانی ہوکر خُداوند مسیح میں اُن کا مجموعہ ہوجائے گا (افسیوں ۱: ۱۰ ) لیکن خبیث الطنت وشریر النفس لوگ اسفل السافلین میں گرِ ائے جائیں گے۔ اورارستبازوں سے بالکل الگ رہ کر ابدی عذاب میں دانت پیسیں گے اورروئیں گے۔ اور کلام ِ مقدس میں جو دوزخ کی ہولناک تصویر آگ گندھگ اوردیگر ضرو ر رساں اشیاء کے پیرائے پیش کی گئی ہے۔ وہ محض تشبیہی بیانات ہیں۔ دراصل منکر ان خُدا کی طبائع کدورار تِ سفلیہ اورخواہشات ذمیمہ وقبیحہ کے باعث خُدا کی پاکیزہ طبیعت کے مخالف ومتضاد ہوں گی۔ اُن کا دُکھ وعذاب ہوگا کہ جس طرح تو اورچمگا دڑ بیاعث ِ تخایف طبائع آفتاب کے طلوع خوش نہیں ہوتے بلکہ بہت دکھ محسوس کرتے اور اندھیرے میں چھپ ہیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بدرجہا زیادہ سیاہ کار لوگ اپنی چُغد طینتی وخفاش فطرتی کے باعث خُدا کے جلال کی تجلی کی برداشت نہ کرسکیں گے۔ جیسے جب موسیٰ کا چہرہ خُدا کی حضوری میں رہنے کے باعث نہایت نورانی ہوگیا تھا تو لوگ اُس سے دہشت کھاتے تھے۔ یہاں تک موسیٰ کو اپنے چہرے پرنقاب ڈالنا پڑا۔ (خروج ۳۴: ۲۹ -۳۵ ؛ ۲۔ کرنتھیوں ۳: ۷ ) اورخُداوند مسیح کی شبیہ مبارک جب کوہ جرمون پر نورانی ہوگئی تو شاگرد بہت ڈرگئے تھے۔


(متی ۱۷: ۶ ؛ مرقس ۹: ۶) اسی طرح راست بازوں کے نورانی چہرے بھی ہلاکت کے فرزندوں کے خرمن ِ امن وطمانیت پر بجلیاں گرائیں گے۔ خُدا کی زندگی سے خارج ہونا ہی اُن کی ہلاکت ہے۔ اورخُدا کی طبیعت کے اُن کی طبائع کا مخالف ہونا ہی اُن کا انتہائی دُکھ ہے۔ اسی وجہ سے خُدا کی تشہیاً بھسم کرنے والی آگ کہا گیا ہے۔ملاحظہ ہو استثنا ۴: ۲۴ ؛ ۹: ۳ ؛خرون ۲۴ : ۱۷؛ یسعیاہ ۳۳: - ۱۴ ؛عبرانیوں ۱۲: ۲۹ ) وہی آگ تھی جو جھاڑی میں لگی ہوئی موسیٰ کو نظر آئی۔ وہی آگ کا ستون بدلی میں ہوکر رات کو بنی اسرائیل کی رہبری کرتا تھا وہی آگ تھی جس کے متعلق مسیح نے فرمایا کہ مَیں دُنیا میں آگ لگانے آیا ہوں۔ وہی آگ عید ِ پنتکوست کے دن شاگردوں پر ظاہر ہوئی۔ اُسی نور نے دمشق کی راہ پر ظاہر ہوکر پولوس رسول کی ہدایت فرمائی تھی۔ وہی آگ تھی جر جزیرہ پتمس میں یوحنا پر ظاہر ہوئی۔ اوراُسی آگ (خُدا کی تجلی ) کا بیان منکر ان ِ خُدا کے خلاف یوں ہے۔ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتطام اورغضب ناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھائے گی (عبرانیوں ۱۰: ۲۷ ) صرف تضاد طبائع کی بات ہے ورنہ درزخ کسی آگ کی بھتی کا نام نہیں ہے۔ بندہ ان خیالات کا خود ذمہ داری ہے اوراس تعلیم کی جواز یا عدم جواز کی ذمہ داری میرے سوا اورکسی پر عائد نہیں ہوتی۔

آخری التماس

پیارے ناظرین ! آپ نے اس کتاب نے اس کتاب کے مطالعہ سے انجیل کے اسرار ِ سربستہ اوررموز دقیقہ کو کافی طورپر سمجھ لیا۔ اب نہایت غور طلب امریہ ہے کہ جس قدر رُوح جسم سے اعلیٰ ہے اُسی قدر رُوحانی بھی جسمانی غلامی سے بڑی ہے۔ جسمانی امراض تو جسم کے فنا ہونے پر مِٹ جاتے ہیں۔ لیکن رُوح غیر فانی ہے۔ اس لئے رُوحانی مر ض (گناہ ) رُوح کے ساتھ تاابدرہ کر اُس کو خُدائے قدوس سے ہمیشہ کے لئے جُدا رکھے گا۔ اورابدی سزا کا مستوجب ٹھہرایگا۔ تمام مذاہب کی غرض ِمُشترک نجات ہے۔ اور سب نجات نجات پکارتے بھی ہیں۔ لیکن حقیقی نجات دلانے کی صلاحیت سے بے نصیب ہیں۔ جس طرح ہماری مادی وجسمانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خُدائے قدیروحکیم نے کار خانہ فطرت میں ایک ہی سے سامان پیدا کردئے ہیں۔ اوروہ ہماری جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس قدر مکتفی ہیں کہ سے بہتر کی حاجت نہیں۔ اُسی طر ح ہماری رُوحانی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی ایک ہی ایسا کافی ودانی اورکامل اتنظام ہونا چاہئے کہ جس سے بہتر کو امکان نہ ہو۔ اوروہ مسیحیت اوراُس کا ہیرو خُداوند مسیح ہے۔ واضح ہوکہ گھڑی اپنے بگڑے ہوئے پُرزوں کو خود ہی درست نہیں کرسکتی بلکہ گھڑی ساز جس کے ہاتھوں نے اُس کو بنایا۔ اسی طرح جس قدرت نے اس انسانی مشینری کو بنایا وہی قدرت اُس کے بگڑے ہوئے پرزوں کو درست کرسکتی ہے۔پس کلمتہ اللہ (مسیح ) تمام کائنات کا آفرنیندہ ہے (یوحنا ۱: ۱-۳ ؛کلیسوں ۱: ۱۵- ۱۷ ) اوروہی انسانی مشینری کے زنگ خوردہ (گناہ آلودہ ) پُرزوں کو درست کرکے دوبارہ اُس کو شبیہ اللہ پر بحال اورخُدا کی طبیعت پر مطبوع کرنے والا ہے (فلپیوں ۳: ۲۱؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۹ ) مُردہ نیبوں اورپیغمبروں اوراوتاروں سے اپنی نجات وشفاعت کی اُمید رکھنا ایسا ہی عبث ہے جیسے کوئی مجرم مردہ وکیل کی قبر پر جاکر اُس سے اپنے مقدمے کی پیروی کی التجا ئیں کیا کرے۔ مُردہ زندہ کی وکالت نہیں کرسکتا۔ خُداوند مسیح ابد تک گنہگاروں کی شفاعت ورستگاری کے لئے زندہ ہے۔ اسی لئے جو اُس کے وسیلے سے خُدا کے پاس آتے ہیں۔ وہ اُنہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے (عبرانیوں ۷: ۲۵ )

پس اَے مُتلا شیان ِ جادہ حق اورطالبان راہ ِ نجات صحرائےضلالت کی بادیہ پیمائی سے باز آیئے۔ تعصب ،بٹ دھر می اورفضول کی نکتہ چینیوں کی گرد وغبار کو اپنے دامن دل سے جھاڑ یئے۔ اورمسیحیت کی مخالفت ہمیشہ اندھے ہوکر نہ کیجئے۔کب تک آپ سچائی کی تحقیرپر کمربستہ رہیں گے اورملک کی یہ ذلیل وپست ذہنیت کب تک فضائے امن کو مُکدر بنائے رکھے گی۔ یاد رکھو مسیحیت کی مخالفت کرنا خُداکی ہستی سے مُنکر ہونے کے مترادف ہے۔ آیئے اوراپنے گناہوں سے توبہ کیجئے۔ خُداوند مسیح پر جو خُدا کے رَحم وفضل کا ظہور ہے صدق ِ دل سے ایمان لاکر بپتسمہ پایئے۔


تو آپ نجات پائیں گے اورکسی دوسرے کے وسیلے سے نجات نہیں کیونکہ اس آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں (اعمال ۴: ۱۲) خُدا آپ کی ہدایت ورہنمائی فرمائے۔

آمین !

-------------