Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz
1830−1900
پادری مولوی عماد الدین لاہز
Mirta-ul-Insan
The Mirror of Man
The Sketch of Anthropology and Psychology
By
Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz
The wisdom of the prudent is to give thought to their ways
Proverbs 14:8
دانا انسان کی حکمت یہ ہے کہ اپنی راہ پہچانے
(کتاب مقدس ۔امثال ۸:۱۴)
مراۃ الانسان
یہ کتاب انسانی کیفیت وغیرہ کے بارے میں
پادری مولوی عماد الدین لاہز۔ڈی۔ڈی
نے اس مراد سے لکھی کہ اس کے پڑھنے والے خود شناسی میں
ماہر ہو کے خدا شناسی کی دولت تک رسائی حاصل کریں اور
۱۸۸۹ ء
مطبع ریاض ہند امرتسر میں چھپی
دیباچہ
حق تعالےٰ جل شانہ کی حمدوثنا کے بعد بند ہ عمادالدین لاہزاظرین کتاب ہذاکی خدمت میں یوں عرض کرتا ہے کہ اب تک مجھے کوئی ایسا رسالہ نظر نہ آیا جس میں انسان کا ضروری بیان کچھ توہوجس کے وسیلہ سے عوام الناس اپنی روح کی کیفیت سے اور اپنی اندرونی حالت سے کسی قدر آگاہی حاصل کریں۔ یہ میں جانتا ہوں کہ میں اس لائق نہیں ہوں کہ یہ بھا ری کام کرسکوں اوراس بحث کے تمام پہلو جیسےچاہئے ویسے دکھلاؤں .تو بھی میں نے ارادہ کیا کہ خُدا سے دعامانگ کے جوکچھ لکھ سکتا ہوں لکھوں اوردوسرے ذی علم لائق آدمیوں کو جو مجھ سے بہتر کام کرسکتے ہیں اُبھاروں کہ وہ اس مہم کی طرف متوجہ ہوں اوریہ میرا رسالہ خود شناسی کے بارےمیں ایک ابتدائی کتاب ہوجائے۔ پس میں نے یہ رسالہ لکھ دیا اوراس کا نام ’’مِراۃ الانسان‘‘ رکھا۔
’’مِراۃ ‘‘کے معنی ہیں’’شیشہ‘‘۔ وہ سب شیشے جولوگوں کے گھروں میں ہیں اُن میں وہ اپنی ظاہری صورت کو دیکھ کے درست کیاکرتے ہیں تاکہ وہ اچھے معلوم ہوں۔ یہ کتابی شیشہ ہے ۔چاہئے کہ وہ اس میں اپنی اندرونی اورپوشیدہ کیفیت وحالت کو فکر کی آنکھ سے دیکھیں اوراپنی اصلاح کے درپے ہوں تاکہ خُدا کو پسند آئیں جس کی نگاہ انسان کے دل پر ہے۔
دفعہ ۱
خود شناسی کے بیان میں
عربی زبان میں ایک قدیم کہاوت ہے اوراہل تصوف اُس کا استعمال بہت کرتے ہیں اوروہ صحیح کہاوت ہے جو یہ ہےہے (مَن عرف نفسہ فقد عرف ربہُّ)ییعنی’’ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نےاپنے رب کو پہچا نا‘‘۔ ’’رب‘‘ کے معنی ہیں’’ پرورش کنندہ‘‘۔ ’’ربیب‘‘ کے معنی ہیں’’ پرورش یافتہ‘‘۔ ہم سب ربیب ہیں ہمارا کوئی رب ہے اُسی کا دوسرا نام خُدا تعالیٰ ہے اور ربوبیت وہ کام ہے جو رب اورربیب کے درمیان رب سے ہوتا ہے۔
اگر آدمی اپنےآپ کو پہچانیں کہ ہم کون ہیں ؟اور کس حال میں ہیں؟تو اس شناخت کے وسیلہ سے خُدا کی شناخت کہ وہ کون ہے؟ اورکیسا ہے؟آسان ہوجاتی ہے۔رب کی شناخت سے مراد یہ ہے کہ اُس کی کچھ شان اورمرضی معلوم ہوجائے کہ وہ کیسا ہے؟ اورکیا چاہتا ہے؟یہ معلوم کرکے جب کوئی اُس کی مرضی کے تابع ہوتا ہے تب وہ شخص اپنی ٹھیک وضع کے منشاء میں قائم ہوکے خُدا کا مقبول اورمبارک بندہ ہوجاتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ اس کہاوت کا مطلب بعض صوفیوں نے غلط سمجھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’اپنے نفس کا پہچا ننا رب کا پہچاننا ہے‘‘ یعنی’’ تمہارا نفس ہی تمہارا رب ہے‘اوریو ں وہ ہمہ اوست کاد م بھرتے ہیں۔ یہ اُن کا خیال اس لئے غلط ہے کہ خود شناسی سے حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ خود فراموشی سے یہ جہالت نکلتی ہے۔
رات دن کے تجربوں سے ہمیں معلوم ہے کہ جس کسی آدمی پر خُدا کا فضل شروع ہوتا ہے۔ پہلی بات جو وہاں نظر آتی ہے یہی ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو پہچاننے لگا کہ میں بڑا گنہگار، سخت ناتواں ،نہایت محتاج ہوں، نادان ہوں، نکما ہوں ۔ خود شناسی خُدا شناسی کی پہلی منزل ہے جس قدر ہم معرفت ایزدی (خُدائی)میں بڑھتے جاتے ہیں اُسی قدر ہم آپ کو زیادہ پہچانتے جاتے ہیں۔آخر کار ہم بڑےعارف ہوکے یوں کہتے ہیں یقیناً ہم سب سے زیادہ خطا کار، سب سے زیادہ نادان ،سب سے زیادہ ناتواں اوربالکل رحم کے محتاج ہیں اور خُدا تعالیٰ نہایت مہربان، نہایت پاک ،بڑا دانا ،بڑا حکیم ،بڑی قدرت اورطاقت والا ہے۔اُس نے یسوع مسیح میں ہمارے لئے بڑا ہی رحم کا دروازہ کھولدیا اورہم اُس میں داخل ہوکے ضرور بچ گئے ہیں۔
کلامِ اللہ سے جو معرفت ہمیں حاصل ہوتی ہے اُس کا خلاصہ تویہی ہے جو میں نے اوپر سُنایا لیکن یہ بھید جس پر کھلتا ہے وہی اِ س کا لطف اُٹھاتا ہے اوراپنے کو ایسا او ر خُدا کو ویسا دریافت کرکے اپنی رُوح کو بڑے چین کے مقام میں پاتا اورخُدا میں خوشی مناتا ہے۔
اس بیان سے میرا یہ مطلب ہے کہ کتاب اللہ یعنی بائبل شریف جو سارے جہان کی ہدایت کے لئے خُدا نے نبیوں سے لکھوائی
ہے اُس میں بھی یہی طریقہ برتا گیا ہے کہ لوگ وسیلہ خود شناسی کے خُدا شناسی تک پہنچ جاتے ہیں اوریہ وہی بات ہے کہ جب تک کوئی اپنے آپ کو بیمارنہ جانے طبیب کے پاس نہیں آتا۔۔ یہ سب لوگ جو مذہبوں کی بابت جھگڑتے پھرتے ہیں بے فائدہ کام کرتے ہیں۔چاہئے کہ سب تکرار اورمباحثے چھوڑ کے ذرا اپنی طرف متوجہ ہوں اور دریافت کریں کہ ہم کون ہیں؟ اورکیسے ہیں؟ تو اُ ن کے سامنے سے بہت سی مشکلات خودبخود حل ہوجائیں گی اوروہ اپنے اندرونی امراض سے آگاہ ہوکے علا جِ مناسب کےجویاں (تلاش کرنے والے) ہوں گے اوراُس وقت اُنہیں معالج نظر آجائیگا اوروہ اُس کے پاس آکے صحت بھی پائیں گے۔
دنیا میں یہی حال ہورہا ہے کہ ہرتکراری اوربکو اورجھگڑا لوآدمی جب اپنی بکواس سے چپ کرکے اپنے گریبان میں سر ڈالتا ہے اوراپنی طرف دیکھتا ہے۔ تب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہے صرف کلام اللہ میں روشنی ہے۔ بلکہ کلام اللہ کے کسی ایک ہی فقرہ کا جلال اس کی روح کو خُدا کی طرف کھینچ لاتا ہے اورزندگی کے سوتے تک پہنچا دیتا ہے۔کس کو ؟ اُس کو جو اپنی حالت پر متوجہ ہوکے اور اپنےآپ کو بیمار دریافت کرکے صحت کا طالب ہوتا ہے۔
دفعہ ۲
ماخذ خیالات کتاب ہذا کے بیان میں
اس کتاب کے ماخذ خیالات کے بارےمیں چند مہینوں تک میں فکر مندرہا۔ اگرچہ میں یہ جانتا تھا کہ بائبل شریف کے سوا دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ انسانی کیفیت کو پورا پورا بیان اُس میں ہو۔لیکن بعض آدمی بائبل شریف پر ایمان نہیں رکھتے اوراُس کی دلیلوں پر توجہ نہیں فرماتے۔وہ ہمیشہ دنیا وی حکیموں کے عقلی خیالات کی طرف تاکا (دیکھنا )کرتے ہیں پس اُن کے لئے مجھے ایسے خیالات کی تلاش اورتنقید میں کچھ عرصہ تک رہنا پڑا اورجہاں تک اُن کے ایسے خیالات میں نے پائے اورپر کھے اُن میں میری کچھ سیری نہیں ہوئی اوربہت ہی تھوڑا ساذخیرہ تنقید کے بعد میرے ہاتھ میں رہ گیا۔اگر صرف اُسی کو اس کتاب میں لکھتا تو یہ کتاب ’’مِراۃ الانسان‘‘ نہ ہوسکتی تھی کیونکہ وہ بہت ہی تھوڑی باتیں ہیں۔
پس میرا وہ اعتقادی خیال اس وقت اوربھی زیادہ پختگی کو پہنچ گیا کہ انسان کی کیفیت اوراُس کی پوری حالت کا بیان صرف اُ س کا خالق ہی کرسکتا ہے جو انسان سے واقف ہے یہ کام بھی آدمیوں سے پورا نہیں ہوسکتا ہے۔عقلی اورعلمی روشنی سے آدمی آپ کو جیسا چاہے پہچان نہیں سکتے۔ الہٰی آسمانی الہامی روشنی جب آدمیوں پر چمکتی ہے تب وہ آپ کو پہچانتے ہیں کہ ہم کیسے ہیں ؟پس میں حکمائی خیالات کی طرف سے بہت ہٹ گیا اورکلام کی طرف متوجہ ہوا کہ اُس کی ہدایت کے سامنے کسی حکیم کی رائے تسلی بخش چیز نہیں ہے۔
اوراس وقت میں ناظرین سے یہ بھی کہتا ہوں کہ انسان کی کیفیت اورحالت کابیان جو بائبل شریف میں ہے تین قسم پرمنقسم ہے۔
(۱)انسان کی ابتدائی حالت کابیان ہے کہ وہ کیونکر اورکس مطلب سے پیدا کیا گیا؟
(۲)اُس کی انتہائی حالت کا بیان ہے کہ اُس کا انجام کیاکچھ ہوگا؟
(۳)اس کی حالت موجودہ کابیان ہے کہ آدمی فی الحال کیسے ہیں ؟اُن کی حالت کیسی بگڑی ہوئی ہے اور اُن کی اصلاح کیونکر ہوسکتی ہے؟
پس ان تین قسموں کے بیان میں سے پہلی اوردوسری قسم کا بیان حکما(حکیم کی جمع)سے کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو عقل سے نہیں کھل سکتیں۔ ہاں وہ کچھ امکانی تجویزیں سنایا کرتے ہیں جن کا کچھ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔
البتہ تیسری قسم کا بیان دنیا کے لوگ کچھ کرسکتے ہیں اور کچھ کیا بھی ہے ۔لیکن یہ بھی پورا پورا بیان اُن سے نہیں ہوا ۔جہاں تک اُن کی عقل دوڑی وہ کچھ بولے ہیں اوراس بیان کے دوسرے حصہ میں انسان کی اصلاح کیونکر ہوسکتی ہے؟ بڑے اختلاف ان لوگوں میں ہیں اوریہ سب مذہب جو دنیا میں جاری ہیں ۔یہ سب اُن کے اختلافات کی وجہ سےجاری ہیں اوراصلاح کی راہ کچھ نہ کچھ دکھاتے ہیں۔
لیکن ا س مقام پر دو سوال کرنے لازم ہیں
اول
اُن کی بیماری کیا ہے اورتُم اُس کا علاج کیا بتاتے ہو اوراُس علاج کو کیا نسبت اس بیماری سے ہے ؟
دوم
ان کے اُس علاج سے جو تم بتاتے ہو کس کس نے صحت پائی ہے؟ اُن کے نام بھی پیش کیجئے ؟
یہ دونو ںسوال دنیا کے سب جھوٹے مذہبوں کو گرادیتے ہیں اورعیسائی دین کی عظمت دکھاتے ہیں۔دنیا وی مذاہب نہ انسان کی بیماری کا حال پورا پورا سناتے ہیں نہ اُس کا علاج مناسب دیکھاتے ہیں نہ صحت یا فتوں کے نمونے پیش کرسکتے ہیں ۔اُن کے اہل ناحق لڑنے پھرتے ہیں۔
کلام اللہ جو بائبل شریف ہے اُ س میں انسان کی نسبت ماضی اورحال واستقبال کا پورا بیان لکھا ہوا ہے اورتسلی بخش ہے اوراصلاح کی راہ ایسی دکھلاتا ہے جو کیفیت بیان شدہ یا تشخیص شدہ کے مناسب ہے اوراُس سے ہزار ہا ہزار آدمی صحت یافتہ ہیں اورہم نے خود اس راہ سے صحت پائی ہے۔ پس اب فرمائیے کہ یہ کونسی عقل کا حکم ہے کہ ہم اس کلام اللہ کی طرف سے جوایسا ہے چشم پوشی کرکے اُن حکماکے اُن چند بے سروپاخیالات ہی کی طرف تکا کریں اوراُن ہی کو اعلیٰ درجہ کی دلیلیں سمجھیں اُن میں کیا عُلویت (بُلندی)گھس رہی ہے وہ تو وہم سے ہیں۔
ہاں یہ میں کہتا ہوں کہ جو کچھ ان لوگوں نے درست طور سے کہا ہے۔ ہم بہ شکر اُسے قبول کریں گے اورتکمیل وترقی کے لئے کلام اللہ کی طرف متوجہ ہونگے اورکلام میں انسان کی حالت ِموجودہ کا جوذکر ہے اُس پر غور کریں گے ۔کہ فی الواقع انسان ایسا ہی ہے یا نہیں۔ اگر انسان ایسا نہیں ہے تو خیر جانے دو کلام کو نہ مانواوراگر وہ ایسا ہی ہے تو عیاں راچہ بیاں (ف ۔مثل ۔ظاہرا اور علانیہ چیز کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں )اپنی چشم دیداور تجربہ کی گواہی سے اس بیان کو قبول کرلو اوراصلاح کی فکرکرواوراگر اپنی اصلاح آپ کرسکتے ہو تو کرلو اورجو اُسی بدحالت میں مرنا منظور ہے تو اختیار باقی ہے اوراگر اصلاح چاہتے ہو اورخود نہیں کرسکتے تو اُس معالج کے پاس چلے آؤ جو بائبل میں ظاہر ہوا ہے اوراُس کی دوابھی کھاؤ تب دیکھو گے کہ کیا ہوگا۔
دفعہ ۳
ایمان کے بیان میں
انسان کی ابتدا اور انتہا کی بابت جو بیانات بائبل میں ہیں وہ سب ایمان سے مانے جاتے ہیں آپ لوگوں میں ایمان ہے یا نہیں؟ ایمان نام ہے اُس یقین کا جو اُن نادیدہ اورمعتبر اشخاص سے شنید ہ باتوں کی نسبت ہوتا ہے جو خُدا سے علاقہ رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ وہاں تک عقلی تحقیقات کو رسائی نہیں ہوتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سب آدمیوں کو ایمان کی ضرورت ہے اورصحیح ایمان جو لا ئق بھروسہ کےہے۔ وہ صرف بائبل شریف میں بیان ہوا ہے۔ بعض آدمی ایمانی ضرورت کے توقائل ہیں ،لیکن بائبل کے باہر کچھ اَورطرح کے ایمان رکھتے ہیں جن کے وہ خوگر (عادی) ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے ایمانوں میں مقابلہ کرکے صحیح ایمان کی تلاش کبھی نہیں کی۔وہ لکیر کے فقیر ہیں اورتحقیقات کے نام سے جلتے ہیں اوراگر بہ مجبوری عقل کچھ تحقیق کرتے بھی ہیں تو اُس جانب کو جھکتے ہیں جس میں اُن کی غرض قائم رہے۔ وہ حق کے طالب نہیں ہیں کہ راستی کی طرف جھکیں۔ بعض ایسے ہیں جو کچھ بھی ایمان نہیں رکھتے سب ایمانوں سے بیزار ہیں کیونکہ اُنہوں نے بعض ایمانوں کو جھوٹا پایا ہے۔اس لئے سب جھوٹے ایمانوں میں سچے ایمان کو بھی ملا کے کہتےہیں کہ سب ایمان غلط ہیں جو کچھ اُن کا دل چاہتا وہ کرتے ہیں۔
ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اگر انسان میں بائبل والا ایمان نہ ہو اَورکوئی ایمان ہو یا نہ ہو وہ بے ایمان ہے اور اُس کی روح ہلاک ہوجائے گی۔
اس رسالہ کے ناظرین باایمان قسم اول اور قسم دوم کا بیان بھی قسم سوم کے ساتھ ضرور مانتے ہیں۔لیکن وہ جو با ایمان نہیں ہیں میں اُن سے کہتاہوں کہ آ پ لوگ قسم سوم کے بیان میں ضرور غور کیجئے اورسوچئے کہ آ پ اُسی قسم کے آدمی ہیں یا نہیں۔ اتنی خود شناسی بھی مفیدہوگی اورایمان بھی اس سے پیدا ہوجائےگا پھر آپ لوگ بہت کچھ خُدا سے پاسکتے ہیں۔
تینوں قسم کے بیان اس کتاب میں رلے ملے آتے ہیں ناظرین کو خود سمجھناہوگا کہ یہ کس قسم کا بیان ہے ؟
اوریہ بھی یادر ہے کہ پہلی ا وردوسری قسم کا بیان اگرچہ ایمان سے مانا جاتا ہے اورتیسری قسم کا بیان معائینہ فکر ی سے۔ توبھی ہماری حالت موجودہ کا معائینہ ابتدائی وانتہائی بیانات کے درمیان ہوکے ایک خاص نسبت وعلاقہ ہم میں اوراُن دونوں بیانوں میں ظاہر کرتا ہے۔ اگر سنجیدگی سے بغور کچھ دیکھ سکتے ہو تو دیکھو اوریقین کرو کہ بائبل اپنے بیان میں برحق ہے ۔
دفعہ ۴
خُدا تعالیٰ جل شانہ کے بیان میں
جہاں تک موجودات خارجیہ کی کیفیت آدمیوں کو معلوم ہوئی ہے یہی دریافت ہوا ہے کہ ہرخارجی موجود قائم بالغیر ہے۔پھر وہ غیر بھی قائم بالغیر ہے اورہو نہیں سکتاکہ یہ تمام قائم بالغیروں کا سلسلہ بھلاکسی علت ’’’ قائم بالذات ‘‘کے قائم اورموجود ہوسکے۔ علتہ العلل قائم بالذات کا ہونا عقلاً ضرور ہے۔ اُسی کا نام اہل علم نے’’واجب الوجود ‘‘رکھا ہے اوریہ نام ایک ماہیت کی واجب ہستی کا ہے نہ کسی خاص شخص کا۔ اُس ہستی کا ہمسر کوئی نہیں ہوسکتا ،اس لئے اُس کے ہمسر کانام اُنہو ں نے’ ممتنع الوجود‘‘ ‘‘ رکھا ہے اورتمام جہان کی اشیاء مخلوقہ(خلقت) کواُنہوں نے ’’ممکن الوجود‘‘ کہا کہ اُن کی ہستی کا ہونا یا نہ ہونا امر ضروری نہیں ہے بلکہ واجب الوجود صانع (خالق)کی مرضی پر موقوف ہے اورہر چیز ایسی ہی ہے۔
دنیا کے شروع سے سب قوموں میں یہ خیال برابر چلا آتا ہے کہ ایک ہستی ہے جو از خود ازل سے ابد تک موجود ہے۔اُسی سے سب ہستیاں موجود ہوئی ہیں۔ ہر زبان میں اُس ہستی کے لئے دو چار لفظ نہایت عمدہ پائے جاتے ہیں جنہیں اُس زبان کے اہل نے اپنے محاورات میں بہ تکریم (تعظیماً)استعمال کیا ہے اور اپنی روحوں کے لئے اُن کے مفہوم کو جائے پناہ دیکھایا ہے مثلاً عبرانی میں لفظ ’’الوہیمؔ‘‘ہے بمعنی ’’معبودان‘‘ صیغہ جمع کا ہے اوراُس ماہیت واحدہ کی نسبت استعمال ہوتا ہے۔ اورلفظ ’’یہوواؔ ہ‘‘بمعنی ’’ہستی قائم بالذات‘‘ اُس کا اسم اعظم ہے۔ایسا ہی لفظ ’’ خُدا‘‘ ہے اصل میں ’’خودآ‘‘تھا کہ اسم فاعل ترکیبی ہے بمعنی ’’خود آیندہ کہ از خود موجود است ‘‘۔
اِس ہستی کا ثبوت ہمیشہ استدلال اِنّی سے ہوتا ہے۔جس میں معلول (اصطلاح منطق میں نتیجہ) سے علت کا سراغ لگاتے ہیں اور اس طرح اس کی صفات کا ثبوت ہوتا ہے اوردلائل اِنیہ اس مقصد پر جہان میں بکثرت موجود ہیں کیونکہ یہ بےشمار معلولات اس قسم کے دلائل پیدا کرتےہیں۔لیکن ان دلائل سے صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ہستی قائم بالذات ضرور کہیں موجود ہے ،جس کا نظیر معدوم ہے اور جس میں حکؔمت، قدؔرت اوراراؔدہ ہے۔ کیونکہ ہر معلول میں یہ تین صفتیں مستعمل نظر آتی ہیں۔ لیکن اُس ہستی کا علم بالکہنہ (پکارنے یانِدا دینے کا طریق ) کسی انسان اورفرشتہ کے بھی ذہن میں نہیں سماسکتا۔ اے برتر از خیال وقیاس وگمان ووہم۔ وزہرچہ گفتہ اندشنید یم وخواندہ ایم۔اگر اُسکی ذات وصفات کا علم بالکہنہ کما ہو ہو کسی مخلوق کے ذہن میں سما سکتا تو وہ خُدا نہ ہوتا۔مخلوقات کے احاطہ فکر ی میں خالق کا علم محدود ہوجاتا۔وہ جو کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں سمجھا دو کہ خُدا کیا ہے؟ تب ہم ایما ن لائینگے۔ اُن کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ہم خُدا کے ہمسر یا اُس سے بڑے ہوجائیں ،تب اسے مانیں گے۔ سوچوکہ یہ حماقت ہے کہ نہیں؟ کہ وہ لوگ لاانتہا کو اپنے ذہن کی نِہَتی ڈبیا میں بند کرنا چاہتے ہیں۔کیا ایسا ہونا کبھی ممکن ہے ؟
خُدا نے آپ کو بذریعہ ہماری عقل کے اوربذریعہ کتب الہامیہ کے ہمارےظروف کے اندازہ پر ہمارے سامنے ظاہر کیا ہے۔ اورجس قدر اُس کے فضل سے ہمارے دلی اورخیالی طرف فراخ ہوتے جاتے ہیں، اس قدر زیادہ سے زیادہ ہم اُسے پہچانتے جاتے ہیں اورمعلوم نہیں کہ کہاں تک ترقی ہماری ہوگی؟
بڑی بحث جو اہل دنیا خُدا کی بابت ہم سے کرتے ہیں وہ وحدت اورتثلیث کے بارے میں ہے۔ جس کا مفصل بیان اِس مختصر رسالہ میں نہیں ہوسکتا۔ انشاء اللہ آئندہ کسی کتاب میں ہوجائیگا اس وقت چند فقرے اجمالاً (اِختصار کے ساتھ) یہاں لکھنا کافی ہے۔
عقل سے جہاں تک خُدا معلوم ہوسکتا ہے آدمی جانتے ہیں اور جان سکتے ہیں لیکن زیادہ ترقی اس بارےمیں عقل سے نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خود نہ بتلائے کہ میں کیاہوں ؟ اوریہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یقیناً اُس نے دنیا میں پیغمبر بھیجے اورالہام دیا جو بائبل میں ہے۔ پس ہم عقلی ہدایت سے کچھ زیادہ اس بارے میں اُس کے کلام سے سیکھتے ہیں اور زیادہ روشنی اورتسلی حاصل کرتے ہیں۔کیونکہ جو کچھ کلام سکھاتا ہے وہ عقل کے خلاف نہیں ہے ۔یا عقل کے مناسب ہے یاعقل سے بلند ہے۔ اوریہ بات ہمیں خوب معلوم ہے کہ ضرور خُدا تعالیٰ ہمارے فہم سے بلند وبالا ہے۔
خُدا واحد ہے۔یہ بات برحق ہے اورہم ایمان سے کہتے ہیں لااِلہ الاللّٰہ ہ لیکن یہ کہنا کہ خُدا واحد ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ غور طلب بات ہے۔ خُدا نام ہے ایک ماہیت کا جیسے انسانیت، حیوانیت ،ملکیت وغیرہ ماہتیں ہیں۔الوہیت بھی ایک ماہیت ہے اورسب ماہیتیں قائم بالغیر اورمرکب ہیں۔وہ ماہیت غیرمرکب اورقائم بالذات ہے۔ ممتاز بے نظیر اورازلی وابدی سب ماہتیوں کی موجد اورسب کے اوپر حاکم ہے۔
لیکن اس کی وحدت کیسی ہے ؟عقل سے اس کا بیان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وحؔدت فردؔی اورنوؔعی اورجنسی کو وہاں دخل نہیں ،ورنہ خُدا ئی کی شان نہیں رہتی ہے اورنہ وحدت وجودی ہے جو مغایرت (اجنبیت)کو معدوم کرتی اوراپنے قائل کو بڑا مشرِک بلکہ منکرِ خُدا بناتی ہے۔ یہی کہنا پڑتا ہے کہ اس کی وحدت کچھ اورہی قسم کی ہے جو فہم سے بلند وبالا ہے۔
کلام سے ثابت ہو اکہ اس کی ماہیت واحدہ ہے اوراس میں تین اقنوم ہیں یعنی تین شخص ’’ اؔب ‘‘،’’ ابؔن‘‘، ’’روؔح القدس‘‘ اُن کے نام ہیں۔ ۔ جو ماہیت’’ابؔ تعالیٰ‘‘ کی ہے وہی ماہیت’’ابؔن‘‘ اور’’ روحؔ القدس‘‘ کی ہےکیونکہ اُن کا جو ہر ذات ایک ہے۔ صفات بھی ایک ہیں۔ حکمت، قدرت اورارادہ ایک ہے۔ صرف تعدد شخصی ہے ،ورنہ ہر طرح سے ایک ہیں اوریہی واحد خُدا ہے۔ خُدا نے اپنی ذات کابیان اپنے کلام میں یوں ظاہر کیا ہے اورہم اُس کے فضل سے سمجھے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اِسی کا ماننا خُدا کا ماننا اوراس کا انکار خُدا کا انکار ہے۔ یہ خیال خُدؔا نے ظاہر کیا پیغمبرؔوں سے پہنچا اوربائبل شریف میں بہ تفصیل بیان ہو ااور مومنؔین کے دلوں اورخیالوں میں زندگی اورروشنی بخش نظرآیا اور فکؔر سے دریافت ہوا کہ خُدا اِس عقیدہ کا حامی ہے۔ بلکہ ساری پاک روحانی برکتیں اورمعرفت ِ الہٰی کے اسرار اُنھیں آدمیوں کے حصہ میں ہیں جو اِس واحد فی التثلیث خُدا کو مانتے ہیں۔ تم خود سوچو کہ تمام دنیا کے اہل مذاہب میں معرفت الٰہی اورخُدا شناسی کے بارےمیں کونسا فرقہ بڑھا ہوا ہے؟ صرف عیسائی لوگ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ حقیقی اورزندہ خُد ابھی بائبل والا خُدا ہے جو ان کی روحوں میں بوسیلہ اس ایمان کے موثر ہے اورنوربخش ہے۔ اُوراہل مذاہب جو تاریکی میں رہتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے فرضی اوروہمی یا عقلی خُدا جو فی الحقیقت ناچیز شے ہیں کچھ روشنی اورزندگی اُن میں داخل نہیں کرسکتے۔ جب سب بطلان دفع ہونے کا وقت آئےگا یہ سب لوگ بے خُدا کھڑے رہ جائیں گے اورحقیقی زندہ خُدا اہل انجیل کے ساتھ سب کو معلوم ہوجائیگا۔
دفعہ ۵
لفظ انسان کے بیان میں
لفظ انسان کی اصل’’ اِ نسی‘‘ ہے۔ لفظ ’’ انسی‘‘ پر زیادتی معنی کی غرض سے الف نون زیادہ کیا گیا جیسے رحما ں میں کثرت رحم دکھانے کے لئے الف نون زیادہ کیاگیا ہے۔پس ’’اِنسی‘‘ سے ’’انسیان ‘‘بناکثرت استعمال سے یائے تحتانی (وہ حرف جس کے نیچے نقطے ہوں) گرگئی (یعنی ختم کر دی گئی) انسان رہ گیا۔لفظ’’ اِنسی‘‘ ضد ہے ’’وحشی‘‘ کی۔ ’’انسان‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ شخص جو بڑے محبت واُنس والا ہے‘‘۔ مذکر، مونث، واحد وجمع سب اس میں یکساں ہیں۔ انسان کی حالت تمدنی کا بیان اس لفظ میں خوب ہے۔ اب آپ سوچیں کہ اگر ہم کینہؔ توز اورخود غرؔض اور بے محبت اور وحشی مزاج ہوں تو ہم اسم بامُسمّٰی (جیسا نام ویسے گُن)انسان ہیں یا نہیں اورایسے لوگوں نے کہاں تک اپنی وضع سے انحراف کیا ہے؟
دفعہ ۶
لفظ آدم کے ذکر میں
’’آدم‘‘ نام ہے اُس شخص کا جو پہلا انسان اورسب انسانو ں کا باپ تھا۔ اس لفظ کےمعنی ہیں ’’مٹی یا سرخ مٹی ‘‘کیونکہ وہ شخص سرخ مٹی سے بنایا گیاتھا۔ اگرچہ اس کی بناوٹ میں اور سب مخلوقات ارضی کی ساخت میں بڑا امتیاز ہے کہ وہ عجیب طور سے بنا ہے اوراس میں زندگی کا دم خُدا نے پھونکا ہے۔ اور وہ سب ارضی مخلوقات پر حاکم ہے بلکہ تمام کا رخانہِ زمین اسی کے لئے تیار ہوا ہے ۔تو بھی اُس کا نام ’’آدم‘‘ ہے یعنی ’’مٹی‘‘۔ اس لفظ میں اُس کے جُز اسفلی کا بیان ہوتا ہے کہ وہ یادرکھے کہ میں آدم ہوں یعنی مٹی۔پس ہم سب کو چاہئے کہ اس لفظ کے معنی یادرکھیں اورخاکسار رہیں۔ مغروری کی سربلندی کو دل میں جگہ نہ دیں کہ ہم خاک ہیں اورخاک میں جائیں گے۔ ’’خاک شوپیش ازآں کہ خاک شوی ‘‘۔
دفعہ۷
لفظ حوا کابیان
اس لفظ کے معنی ہیں ’’زندگی‘‘۔ یہ نام آدم نے اپنی بی بی کو دیا تھا کیونکہ وہ سب زندوں کی ماں ہے (پیدائش۲۰:۳)۔ اِس عورت کی پیدائش نر میں سے ہوئی تھی۔اسی لئے ناری کہلاتی ہے کہ نرمیں سے نکلی۔ خُدا نے آدم کو ایک ہی عورت دی تھی۔اس سے خُدا کا قانون معلوم ہوا کہ ہر مرد کو ایک ہی عورت چاہئے۔ عورتوں کی کثرت کا دستور آدم کےپوتےلمک بن قائن نے سب سے پہلے دنیا میں نکالا ہے۔ عدہ اورضِلہ اُس کی دو بیویاں تھیں (پیدائش ۱۹:۴)۔یہ آدمی خونی تھا اوراس کا باپ قائن بھی خونی تھا۔ اب جو کوئی ایک سے زیادہ عورتیں جمع کرتا ہے وہ اس شخص کی سنت پر چلتا ہےخواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی۔ یہ سچ ہے کہ پرانے عہد نامہ کے انتظام میں یہ دستور کچھ معیوب نہ تھا اورخُدا تعالیٰ نے بھی اس معاملہ میں کچھ طرح(درگزر) سی دی تھی۔ کسی حکمت کے سبب سے لیکن جب پاکیزگی کا کمال ظاہر ہوا تو سب کچھ صاف روشن ہوا ہے۔ خُدا نے ایک جوڑا آدم اورحوا کا شروع میں پیدا کیا اوراب دیکھو کہ یہ زمیں اُس جوڑے کے بچوں سے کس قدر معمور ہے۔
دفعہ ۸
وحدت ابوی کا بیان
سب آدمی بنی آدم کہلاتے ہیں۔’’ بنی‘‘ اصل میں ’’بنیں‘‘ تھا۔ نون جمع کا باضافت گرگیا یعنی آدم کے فرزند۔یہ آواز دنیا کے شروع سے چلی آتی ہے کہ سب آدم کے بچے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال تھوڑے دنوں سے مشہور ہوا ہے۔
ہم نے سُنا ہے کہ آدم ایک خاص شخص تھا اوراُس کی ایک خاص زوجہ تھی اوراُن دونوں کو خالق نے کچھ اورہی قاعدہ سے پیدا کیا تھا۔اُن سے یہ سب آدمی پیدا ہوئے ہیں اوراسی آدم کی طرف منسوب ہوکے’’ بنی آدم ‘‘کہلاتے ہیں۔ اگر یہ خیال درست ہے تو’’وحدت ابوی‘‘ کے سبب سے ہم سب ایک ہی گھرانے کے بچے ہیں۔
بعض اشخاص نے ’’وحدت ابوی‘‘ کے بارےمیں اختلاف ظاہر کیا ہے۔پس ان کے گمان میں کئی ایک آدم ہوں گے لیکن اُن کی دلیلیں جو اس بارے میں ہیں تسلی بخش نہیں ہیں۔ اُنہیں عقل سلیم قبول نہیں کرتی۔ ’’وحدت ابوی ‘‘ کا خیال بہت صحیح معلوم ہوتا ہے اورا لہامی تواریخ میں ہے اورجہانگیر ہے۔ دلکش بھی ہے اوراس کے ثبوت کی تائید میں ہمارے پاس ذیل میں خیالات موجود ہیں۔ ان پر بھی غورو فکر کرو۔
۱۔ سب دنیا کے آدمیوں میں بدنی ساخت یکساں ہے۔
۲۔ ہر درجہ کے آدمیوں میں اخلاقی ا وروحی کیفیت کے اصول مساوی ہیں۔ اوراس سے اتحاد نوعی ظاہر ہوکے منبع کی وحدت دکھاتا ہے۔
۳۔ آدمیوں میں کچھ تفریقیں بھی ہیں، لیکن ایسی تفریقیں نہیں ہیں جیسی مختلف انواع کے جانوروں کی آمیزش سے اُن کےپھلوں میں ہوتی ہیں۔ آدمیوںمیں جو تفریقیں ہیں وہ مختلف ممالک کی آب و ہوا اورمختلف اطوار معیشت اورتاثیرات ملکیہ کے سبب سے ہیں۔ چنانچہ افریقہ ،ایشیا اوریورپ کے باشندوں میں کچھ فرق سا نظرآتا ہے مگرا نسانیت کے ذاتی اصول برابر ہیں۔
۴۔ علم ترکیب ارضی سے ثا بت ہوگیا ہے کہ ترکیبی نسلیں آگے نہیں بڑھتیں ،صرف فطری نسلیں آگے چلتی ہیں۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک کے آدمی آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور اُنکی نسلیں برابر دنیا میں چلتی ہیں۔ اس سے وحدت ابوی ظاہر ہے۔
۵۔ کل بنی آدم میں نوعی موانست ہے اوریہ سرچشمہ کی وحدت کے سبب سے ہے اوراَور قیاس بھی اسی طرح کے نکلتے چلے آتے ہیں۔ ہمارے دلوں کو مستعد کرتے ہیں کہ ہم بموجب ہدایت بائبل شریف کے آدمیوں میں وحدت ابوی کے قائل ہوں اورکہیں کہ ہم سب آدم کےبچے ہیں۔ کسی کا باوا آدم نرالا نہیں ہے اوریہ جدائیاں جو باطل تعلیمات نے آدمیوں میں ڈالی ہیں نادانی اورمغروری کے سبب سے ہیں اوربہت مضر ہیں۔
انجیل شریف ان جدایوں کو دور کرتی ہے اورسب آدمیوں میں ایک ہی لہوثابت کرتی ہے۔ ۔ اب وہ سب لوگ جنہیں دنیا کے خود پسند لوگوں نے ذلیل ٹھہرا کے الگ کھڑا کررکھا ہے چاہئے کہ خوشی کا نعرہ مار کے مسیح یسوع خُداوند کی جماعت میں چلے آئیں کہ وہی ہے جو سب کا حق دیتا ہے۔
دفعہ ۹
اِنسان ایک خاص وقت سے دنیا میں ہے
آدم کسی خاص وقت میں موجود ہوا تھا وہ ہمیشہ سے نہ تھا۔لیکن وہ کب پیدا ہوا تھا؟ اُسے کتنے برس کا عرصہ گزرا؟ اس کے سن سال کا قطعی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔ احتمالی ثبوت ہے نہ قطعی۔اوروہ یہ ہے کہ عہد عتیق کے عبرانی نسخوں کے نسب ناموں پر فکر کرکے ہمارے بزرگ عالموں نے یوں دریافت کیا ہے کہ آدم ہمارے خُدا وند یسوع مسیح سے (۴۰۰۴)برس پہلےدنیا میں پیدا ہوا تھا ور اس تعداد کے ساتھ اس وقت (۱۸۸۹)مسیحی برس ملانے سے (۵۸۹۳)برس آدم کو ہوتے ہیں۔عموماً کلیسیاء میں یہ تعداد مسلم ہے بلکہ کلام اللہ کے حاشیہ پر بھی مرقوم ہے۔ کیونکہ پرا نے نسب ناموں کے حساب سے بھی تعداد اتنی ہے۔
سپتو اجنتSeptuagint اورتواریخ یوسیفس Josephusسے جہاں حدیثوں کی بھی رعایت ہے۔آدم سے مسیح تک (۵۵۰۰)برس کا عرصہ نکلتا ہے۔اس لئے ہم برسوں کی تعداد قطعاً معین نہیں کرسکتے اور نہ کسی تعداد پر زور دیتے ہیں کیونکہ ہمارا کوئی ایمانی مسئلہ کسی تعداد پر موقوف نہیں ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہی حساب درست ہو جو عبرانی نسخوں سے آتا ہے۔
ہاں اس بات کا ثبوت ہم پر واجب ہے کہ جہاں کی پیدائش میں آدم خُدا تعالیٰ کی آخری مخلوق تھا اور کہ چھٹے دن میں آدم اورحوا کی پیدائش ہوئی ہے۔ ان کی پیدائش کے بعد کسی اورچیز کی پیدائش کا ذکر نہیں ہے۔ یہاں سے دوباتیں نکلتی ہیں۔
اولآنکہ وہ جوڑا آدم اور حوا کا تمام پیدائش میں آخری مخلوق تھا۔
دومان کی ساری جسمانی پیدائش کا مقصد وہی جوڑا تھا جس پر خالق نے پیدائش کا کام تمام کردیا تھا۔
وہ جوکہتے ہیں کہ آدمی ہمیشہ سے یوں ہیں، برابر چلے آتے ہیں غلطی پر ہیں کیونکہ ان کے لئے ابتدا ضرور ثابت ہے۔
علم ترکیب ارضی ثابت کرتاہے کہ انسان کا وجود ایک خاص وقت میں نظر آیا ہے۔وہ لاانتہا عرصہ سے نہیں ہے اورجب کہ علمی طور سے یہ بات معلوم ہوگئی تو پھر کلام اللہ پر ایمان لانے میں کیا حجت ہے ؟
ہر ابتدا کے لئے انتہا ہے اورا نسان کے لئے ابتدا ثابت ہے پس انسان کے لئے انتہا بھی آئےگی۔ اورچونکہ انسان کی رُوح غیر فانی مخلوق ہے، اس لئے اُس کی انتہائی بھی ہے کہ وہ دوسری حالت میں جائے۔ اُسی کا نام آخرت ہے۔اُس وقت ولادت کا قاعدہ بند ہوجائیگا اور جہان کے کام تمام ہوجائیں گے۔ قدرت الہٰی کچھ اورہی رنگ دکھائے گی۔اگر مرضی ہوتو نبیوں کی بات مان لو کہ آخرت آنے والی ہے ورنہ نسان کے لئے علمی طور سے ازلیت ثابت کرو اورعلم ترکیب ارضی کو جو انسان کے لئے ابتدا ثابت کرتا ہے خاک میں دبادوجہاں وہ پہلے دباتھا یا کہو کہ ہر ابتدا کے لئے انتہا ثابت نہیں ہے اوراپنی تمیز کو آپ ہی جواب دو۔
دفعہ ۱۰
آدم کیونکر پیدا ہوگیا
دنیا کے سب آدمی قاعدہ معمولی کے موافق والدین سے پید اہوتے ہیں اوریہ اُن کے لئے فطری قاعدہ ہے۔ چنانچہ سب حیوانات کے لئے بھی قواعد فطریہ مقرر ہیں۔اگر یہی قاعدہ شروع سے ہے تو پہلے جوڑے کے والدین کون تھے؟ اوراُن میں سے بھی ہر فرد کے لئے ایک جوڑا چاہیئے۔ دَور تو کسی طرح سے ہوہی نہیں سکتا کہ اُ س جوڑےکا وجود ہم پر موقوف ہو اورہمارا وجود اُس پر۔
اورتسلسل بھی باطل ہے اوریہ خوب ثابت ہے کہ انسان سب سے پیچھے پیدا ہوا ہے۔پس وہ پہلا جوڑ ایقیناً قاعدہ معلومہ کے خلاف کسی اورقاعدہ سے پیدا ہوا ہوگا اوریہ قاعدہ معمولی اُس کی پیدائش کے بعد جاری ہوا ہے۔
اب حجت اس میں ہے کہ وہ جوڑا کس قاعدہ سے اورکیونکر پیدا ہوا تھا؟ اگرکوئی آدمی اپنی عقل سے کہے کہ اِس طرح سے یا اُس طرح سے ہوا ہوگا تو یہ سب اُس کے بیان عقلی امکان ہوں گے یا قوت واہمہ کے توہمات ہونگے جن سے کسی امر کا ثبوت نہیں ہوا کرتا ہے۔اور کوئی نظیر بھی دنیا کی تواریخ میں نہیں ہے کہ کوئی انسان کبھی اتفاق سے یا ترکیب بہائمی وغیرہ سے پیدا ہوکے آدمیوں کے جُھنڈ میں آملا ہو جس پر قیاس کرکے اُس پہلے جوڑ ے کو بھی ایسا ہی سمجھیں۔ حالانکہ اس وقت جو انسانی جوڑے دنیا میں موجود ہیں اُس پر غور کرنے سے اُنکی بناوٹ میں عجیب حکمت اورارادہ صانع کا پایا جاتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا جوڑا جوان سب جوڑوں کا سانچا تھا اور کچھ اَور ہی قاعدہ سے بنا تھا۔وہ قاعدہ اپنے وقت پر ظاہر ہوکے پوشیدہ ہوگیا ہے اوریہ معمولی قاعدہ جاری کرگیا ہے۔ چنانچہ تمام دنیا وی فطری قواعد مقررہ کی جڑوں میں کچھ اَورہی قاعدے صانع کے پاس بچشم غور نظر آتے ہیں جو آدمیوں کی سمجھ سے باہر ہیں اوروہ اپنے وقتوں پر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ عام نہیں ہیں کہ ہر وقت نظرآیا کریں۔اُنہیں قواعد مخفیہ سے بوقت مناسب معجزات بھی ہوتے ہیں جو سچے معجز ے کہلاتے ہیں۔
کوتاہ اندیش لوگ جو خُدا کی معرفت سے بے نصیب ہیں اُنہیں چند فطر ے معلومہ قواعد میں خُدا کی ساری قوت کو منحصر سمجھ کے گمراہی کے گرداب میں ناحق ڈبکوں ڈبکوں کررہے ہیں۔
بیدار مغز آدمی گہری نگاہ سے دیکھتا ہے کہ کیا ہے؟ بائبل شریف کی صدہا باتیں اسی دنیا میں برحق ثابت ہوچکیں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اُس جوڑے کی پیدائش کا ذکر جیسے کہ اُس میں لکھا ہے مانا نہ جائے ؟حالانکہ عقل ِ سلیم صاف کہتی ہے کہ یہ بیان خُدا کی شان کے مناسب ہے۔
(پیدائش ۷:۲) میں لکھا ہے کہ خُدا نے آدم کو خاک سے بنایا۔ یہ اُس کے جسمی مادہ کاذکر ہے اوراس با ت کا بیان ہے کہ وہ حیوانی ترکیب سے نہیں نکلا بلکہ خُدا نے خاک کا ایک پتلا بنایا اوراُس میں خُدا نے زندگی کا دَم پھونکا۔ یہ اُس کے دوسرے جز کا ذکر ہے جس کو ’’نفس ناطقہ ‘‘کہتے ہیں جو عالم بالا سے اُس میں ڈالا گیا۔ (پیدائش ۲۷:۱) میں مرقوم ہے کہ خُدا نے اُسے اپنی صورت پر بنایا۔ ’’صورت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی ظاہری اورباطنی روحانی واخلاقی صورت ایسی بنائی کہ خُدا کے ساتھ ایک خاص نسبت اورمشابہت اورعلاقہ اُس کا ہوا۔
مُشبہَّ اورمُشبہّ بِہٖ میں موافقت کلی تو کبھی نہیں ہوتی ہے ورنہ دوئی نہ ہوگی لیکن کسی قدر موافقت اورمناسبت بعض امور میں ہوا کرتی ہے۔ انسان میں اورخُدا میں پوری دوئی ہے۔ لیکن وہ ایسی صورت میں پیدا ہوا ہےکہ صفات ِالہٰی کا گو نہ مظہر اورتجلیات کا مہبط اورالہٰی مرضی واحکام کی بجا آوری کے لائق وضع میں ہے اورآزاد بھی ہے نہ مجبور اورعقل قبول کرتی ہے کہ ضرور انسان ایسی وضع میں ہے۔اگرچہ وہ صورت اُس کی بعد گناہ کے بگڑگئی ہے تو بھی شعر
ازنقش ونگار درودیوار شکستہ۔ اثار پدیداست صنا دیدعجم را۔
اوراس سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اتفاقی مخلوق نہیں بلکہ ارادی ہے۔ آدم کا جسم خاک سے بنا اوررُوح اللہ نے پھونکی لیکن اُس کی زوجہ کو اُس کی پسلی سے نکالا اوراُس کی روح کا ذکر نہیں ہےکہ کہاں سے آئی؟ قیاس چاہتا ہے کہ جیسے جسم سے جسم نکلا ویسے رُوح سے رُوح پیدا کی۔ اسی لئے وہ مرد کی دبیل اوراُس سے کمزور ہے۔
اولخُدا نے زمین وآسمان کو حُکم سے پیدا کردیا اوروہ بے مادہ صرف حکم سے موجود ہوگئے ثانیاً اُس نے زمین کو حکم دے کر اُ س سے حیوانات اورنباتات نکلوائے۔ ثالثاً آدم کو خود پیدا کیا۔رابعاً آدم میں سے حوا کو نکالا۔ خامساً تولید کا قاعدہ جاری کیا۔ پس پہلا آدمی قا ئن پیدا ہو جو معمولی قاعدہ سے ہے۔
پہلے چار قاعدے عمل میں آئے ۔تب پانچواں قاعدہ جاری ہوا اوروہ قوت جس سے یہ کچھ ہوا خُدا میں ازل سے مخفی تھی اوراب بھی اس میں مخفی اورموجود ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ توکیا کرتا ہے ؟یا تونے ایسا کیوں کیا؟ کس کا منہ ہے جو ایسا بولے؟ البتہ کا فر آدمی جو چاہتا ہے سو بکتا ہے اوراپنا نقصان کرتا ہے۔ لیکن خُدا کے عارف لوگ جانتے ہیں کہ اُس کے سارے کام راستی اورانصاف اورحکمت اورمحبت کے ہیں۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ہاں جنہوں نے اُس کی کتاب بائبل شریف کو اُس سے پڑھا ہے وہ غیروں کی نسبت زیادہ سمجھتے اورتسلی سے بھرے ہیں۔
دفعہ ۱۱
ہم سب کیونکر پیدا ہوتے ہیں
اُسی قاعدہ سے جو پہلے جوڑے کی پیدائش کےبعد جاری ہوا ہے سب آدمی پیدا ہوتے ہیں۔(پیدائش۲۸:۱) خُدا نے اُس جوڑے کو پیدا کرکے برکت دی اوربرکت میں چار لفظ فرمائے تھے۔
’’پھلو اور بڑھو اورزمین کو معمور و محکوم کرو۔۔۔‘‘ (پیدائش۲۸:۱) لفظ ’’پھلو‘‘ میں خُدا نے ہم سب کو اُس جوڑے میں یاد کیا تھا اورلفظ ’’بڑھو‘‘ میں سلسلہ تولید کے اجراء کا ذکر کیاتھا اورلفظ’’ معمور‘‘ میں خُدا کی نگاہ اُس بڑی آباد ی پر تھی جو دنیا میں اب نظر آتی ہے اورلفظ’’محکوم ‘‘میں وہ اختیارات اورتصرفات (قبضے)یاد کیے گئے تھے۔ جو اب دنیا میں آدمیوں سے ہورہے ہیں اوربڑ ھتے جاتے ہیں اورجن کی تکمیل کا وقت چلا آتا ہے۔
ان الفاظ پر اوردنیا کی تورایخ اورحالت پر غور کیجئے کہ وہ برکت جو خُدا نے اُس جوڑے کو دی تھی کیونکر بتدریج پوری ہوتی اورترقی کرتی چلی آئی ہے اور ان الفاظ ِبرکت میں کچھ صداقت نظر آتی ہے یا نہیں اورکہ یہ برکت کا بیان اوریہ کتاب پیدائش اُس وقت کی ہے یا نہیں کہ جس وقت دنیا میں اندھیرا تھا، نہ اس قدر آبادی تھی اور نہ ایسی حکمت تھی ۔لیکن ایک وقت آیا کہ یہ مضمون سچ نکلا تو اوپر کا بیان بھی جس کا یہ مضمون ایک حصہ ہے کیوں نہ سچ ہوگا۔
آدمی سے آدمی پیدا ہوتا ہے اس لئے تو آدم ہماری جسمانی موجودگی کا ایک ظاہری وسیلہ ہے۔(ا۔کرنتھیوں ۴۵:۱۵)۔ جسم سے جسم پیدا ہوتا ہے اور رُوح سے رُوح پیدا ہوتی ہے (یوحنا ۶:۳) اوروالدین کی جسمانی ساخت اورکچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ مزاجی اوراخلاقی کیفیت بھی اورامراض متعدیہ (متعدّی امراض۔چھوت چھات سے پیدا ہونے والی بیماریاں)بھی اولاد میں نظر آتی ہیں جن کا انکار نہیں ہوسکتا ۔اسی لئے یہ کہاوت مشہور ہوئی ہے کہ ’’باپ پر پوُت پتا پر گھوڑا‘ بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘(ہندی مثل۔ہر شخص پر کچھ نہ کچھ خاندانی اثر ضرور ہوتا ہے)۔
ظاہر ہے کہ والد سے رحم والدہ میں ایک قطرہ گرتا ہے۔ اُس میں ایک نقطہ ہے جو اس پیدا ہونے والے کی زندگی کا مرکز سا ہے ۔اُس میں الہٰی قدرت کا کچھ تصرف (دخل دینا۔عمل)ہوتا ہے جو انسانی سمجھ سے بلند ہے’’تو نہیں جانتا ہےکہ۔۔۔ حاملہ کے رَحِم میں ہڈیاں کیونکر بڑھتی ہیں۔۔۔‘‘ (واعظ ۵:۱۱)۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یوں یوں ہوتا ہے لیکن نہیں کہہ سکتے کہ یوں کیوں ہوتا ہے؟ کلام اللہ بتاتا ہے کہ انسان کی پیدائش امراتفاقی نہیں ہے۔ خُدا کے ارادہ سے انسان رحم ماد رمیں ڈالا جاتا ہے (ایوب۱۵:۳۱) جس نے مجھے رحم میں ڈالا اُس نے اسے بھی بنایااوراُسی وقت سے الہٰی کمک اُس جنین یا بچہ کی نسبت معلوم ہوتی ہے ۔’’ خُدا وند تیرا خالق جس نےرَحِم ہی سے تجھے بنایا اورتیری مدد کر ےگا یوں فرماتا ہے۔۔۔‘‘(یسعیاہ۴:۴۴) ۔ زبور نویس داؤد لکھتا ہے ’’جب مَیں پو شیدگی میں بن رہا تھا اورزمین کے اسفل میں عجیب طور سےمُرتّب ہو رہا تھا تو میرا قالب تجھ سے چھپا نہ تھا۔ تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادےکو دیکھا اورجو ایام میرے لئے مقرر تھے وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے‘‘(زبور۱۶،۱۵:۱۳۹)۔ یہ قدرتی کام مٹی میں شروع ہوتا ہے اورآدمی مٹی سے بنتا ہے ۔’’ ۔۔۔میں بھی مٹی سے بناہوں‘‘(ایوب ۳۳: ۶)۔ آدم اورحواکے سوا سب آدمی والد کے صُلب سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یعقوب کے چھیاسٹھ صُلبی فرزند مصر میں آئے تھے(پیدائش۲۶:۴۶)۔ اسی طرح ہر آدمی کے لئے اوپر کی طرف ایک صُلبی سلسلہ ہے جو اُس کا ’’نسب‘‘ کہلاتاہے۔ وہ نسب نامے جوانجیل متی ولوقا میں ہمارے خُداوند مسیح کے مذکور ہیں۔ وہ مریم اوریوسف کے ہیں۔ یوسف مسیح کا شرعی با پ تھا نہ جسمانی۔ مریم خداوند مسیح کی جسمانی والدہ تھی۔ مسیح کا بدن اُس کے خون سے بنا۔ لیکن وہ فقط جو اُس کے رحم میں آیا اُسی قدرت سے آیا تھاجس قدرت سے آدم بنا تھا (لوقا۳۵:۱) ۔
پس یوسف اورابرہام و داؤد وغیرہ مسیح کے شرعی باپ تھے نہ صلبی اورمریم کے ساتھ خونی مشارکت (باہم شرکت کرنا۔حصہ داری)کے سبب سے مسیح کا جسم اُن بزرگوں کا خون تھا اورمشارکت شرعی وجسمانی کے سبب سے وہ اُن کا فرزند کہلاتا ہے ۔سب آدمیوں میں ایک ہی لہو ہے اورا یک خاص قسم کا لہو ہے جو صرف آدمیوں میں ہے ۔اس کے اجزا تمام حیوانات کے خون سے الگ قسم کے اجزا ہیں۔ اس زمانہ میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آدمی کا خون خاص قسم کا ہے اب آدمی دھوکا نہیں کھا سکتا کہ جانور کے خون اورآدمی کے خون میں امتیاز نہ کرسکیں۔ یہ آد م کا خون کل دنیا کے آدمیوں میں یکساں ہے اور اُس سے بھی وحدت ابوی ظاہر ہوتی ہے۔ خُدا نے ایک ہی لہو(اَصل) سے آدمیوں کی سب قوموں کو تمام سطح زمین پر بسنے کےلئے پیدا کیا ہے (اعمال۲۶:۱۷)۔ اوریہ بھی درست بات ہے کہ خون میں جوش ہے اورموانست (محبت ۔اُنس)کا ایک یہ بھی سبب بنی آدم میں ہے اورجَدّی خون کا جوش اقرب موانست کا باعث ہے وہ کہاوت درست ہے ’’آخر لہو نے جوش مارا ‘‘۔
دفعہ ۱۲
انسان کی اصطلاحی تعریف
انسان کیا چیز ہے؟یایوں کہو کہ ہم جو بنی آدم کہلاتے ہیں ہم کیا ہیں ؟اس سوال کا جواب اہل علم یوں دیتے ہیں ’’انسان حیوان ناطق (بولنے والا جانور ) ہے‘‘ ۔انسان کی تعریف سب نے یہی کی ہے اوریہ تعریف درست اورصحیح ہےکیونکہ یہ جنس قریب اورفصل قریب سے انسان کی حدتام (مکمل) ہے اور اس سے بڑھ کر کامل تعریف اُس کی ہو نہیں سکتی۔
اب مناسب ہے کہ ہم سب اپنی جنس اورفصل پر غور کرکےآپ کو خوب پہچانیں اوراُس سے کچھ عمدہ نتائج نکالیں نہ یہ کہ عام لوگوں کی مانند اپنی تعریف کا فقرہ ہی سن کے چُپ کررہیں۔
واضح ہو کہ جب ہم اپنی اجناس)جنس کی جمع) میں غور کرتے ہیں تو ہمیں نیچے کی طرف بہت اُترنا پڑتا ہے اورجب فصول (فصل کی جمع)کی طرف دیکھتے ہیں تب اوپر چڑ ھتے آتے ہیں۔
پہلے’’ حیوان‘‘ کے مفہوم کو ٹٹو لو کہ وہ کیا ہے؟ یہ کہنا پڑےگا کہ (حیوان ایک جسم ہے نامی ؔ، حساؔس ،متحرؔک بالا رادہ ) یہ حیوان کی تعریف ہوئی اس میں جز اعظم یا جنس جسم ہے اور نامی حاس اورمتحرک بالا رادہ فصلیں ہیں انہیں چھوڑ کے جسم کو دیکھو کہ وہ کیا ہے ؟یہی کہوگے کہ (جسم ایک چیز ہے جس میں العباد ثلثہ ہیں ) یہ جسم کی تعریف ہوئی۔ العباد ثلثہ سے مراد ہے طوؔل عرض عمؔق اس سے نیچے اُترنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر کچھ اوربھی نیچے اُتریں تو عناصر کی اورجو ہر کی بحث پیش آجاتی ہے اوریہی کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ہے تو لیکن عقل سے صاف صاف معلوم نہیں ہوسکتا۔ امکانی خیالات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جن سے صرف حیرانی پیدا ہوتی ہے اورحقیقی بات انسانی فہم سے پیدا نہیں ہوتی ہے۔ یہ مقام ایک ورطہ یا گرداب ہے جس میں بہت لوگ ڈوب مرے ہیں اورگوہر مراد پاکے کوئی غوط زن نہیں نکلا۔ یہ خوف خطرہ کامقام ہے اسی جگہ پر کھڑے ہوکے کسی نے کہا کہ ہمہ اُوست ہے اورکسی نے کہا نہیں ہمہ ازاُوست ہے ۔پہلا خیال زہر قائل اوردوسرا خیال تریاق ہے جو اسی جگہ سے آدمی نکالتے ہیں۔ لہٰذا اس بحث کو طول دینا بے فائدہ دردسری ہے۔
ہم جو عیسائی(مسیحی) ہیں اس مقام پر اُس انبیائے قول کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ خُدائے قادر نے مادہ کو بے مادہ صرف اپنے حکم کی تایثر سے موجود کیااور مادہ کا مادہ گویا وہ حکم الہٰی تھا کہ اُس نے کہا ہو جااورہوگیا کچھ نہ تھااورسب کچھ ہوگیا۔
دیکھو نیچے کی طرف اُترنے میں تنزل پر تنزل چلا آتا ہے اورتمام تنزلات کے نیچے یہی آتا ہے کہ کچھ نہ تھا۔ تو بھی اب ہم سب کچھ موجود دیکھتے ہیں اور کلام اس میں باقی رہتا ہے کہ یہ سب کچھ کہاں سے اورکیونکر ہوگیا؟ ’’کہاں ‘‘سے کاجواب توہمارے پاس صرف یہی ہے کہ نیستی سے نکلا جو انسانی خیال میں محال ہے مگروہ فطری نور جو خُدا نے ہم میں رکھا ہے یہ دکھاتا ہے کہ خُدا کی قوت کے سامنے محال نہیں ہےاورلفظ’’ کیونکر‘‘ کا جواب یہ ہے کہ قادر کی قدرت سے ہوا ۔اُس کی قدرت کے سامنے بہت سی وہ باتیں جنہیں ہم محال کہتے ہیں محال نہیں ہیں۔
پس میں جسم ہی پر اس بحث کو چھوڑتا ہوں اور یوں کہتا ہوں کہ اس طرف تحقیقات عقلیہ کا وروازہ بند ہے اورجو جو کچھ اہل خیال بولتے ہیں وہ اُن کی امکانی تجویزیں ہیں ۔پس چاہئے کہ ہم اس خیالی غار میں سے نکلیں اوراپنی ماہیت کے مفہوم میں اوپر کی طرف چڑ ھیں جہا ں تک چڑھ سکتے ہیں اور خوب ٹٹو لیں کہ ہمارے وجود میں کیا کچھ ہے اورکہا ں تک ہمیں امید ہے؟پس معلوم ہوجائے کہ ہم سب جسم مطلق میں شامل ہوکے ٹھوس بے جان پتھروں اوراینٹوں اورخاک کے ہم جنس یا ہم رتبہ یا رشتہ دار ہیں ۔خُدائے قادر ہمیں ایک خاص شکل میں لایا اوراُس نے قدرتی تصرف سے ہم میں قوت نامیہ جس سے بڑھتے اورنشوونما کی شادابی حاصل کرتے ہیں پیدا کی ۔تب ہم جمادات کے درمیان ممتاز ہوئے اوردرختوں میں شامل ہوگئے اورجمادات ہمارے نیچے آئے تو بھی حیوانات اوپر رہے۔
یہ قوت نامیہ ہم میں کہاں سے آگئی کیا صرف جمادات میں سے نکلی ہر گز نہیں بلکہ یہ ہوا کہ ہماری جمودیت کو کوئی خارجی قوت ترتیب خاص میں لائی اورمادہ کے درمیان سے نمی اورہوا اوردھوپ نے اُسی ترتیب میں تایثر کی اوراُس خارجی قوت کی مرضی اورارادہ کے موافق ایک خاص قوت ہم میں موجود ہوگئی جس کو قوت نامیہ کہتے ہیں۔ اس قوت کے سبب سے ہم نباتا ت کی جنس میں شامل ہوگئے اورجسم نامی ٹھہرے۔ ’’جسم نامی‘‘ کے معنی ہیں وہ جسم جس میں نمو کی قوت ہے پھر بھی بے حس وحرکت تھے صرف نموکی شان آگئی تھی۔
اس کے اوپر ایک اورچیز جس کو ’’حیات ‘‘کہتے ہیں اوراُسی کانام فارسی میں ’’جان ‘‘ہے ہم میں آگئی جس کے سبب سے ہم حساس اور متحرک بالا رادہ ہوگئے اورنباتات کی برادری میں سے نکلتے حیوانات میں شامل ہوئے۔
’’حیات ‘‘کے معنی ہیں’’ زندگی‘‘۔ حیوان وہ ہے جس میں حیات ہے ۔’’حساس ‘‘کے معنی ہیں’’ حِسّوں والا ‘‘اور’’متحرک بالا رادہ‘‘ وہ ہے جو اپنے ارادہ سے حرکت کرتا ہے ۔یہ دونوں باتیں یعنی حِسّوں والا ہونا اورحرکت کنندہ ہونا حیات کو لازم ہیں ۔یہ حیات یا جان حیوانوں میں کہاں سے اورکیونکر آگئی ہے ؟ظاہر تو ہے کہ عنصروں کی خاص ترتیب سے نکلی ہے تو بھی اُس قوت خارجی کا جو جہاں میں ہر کہیں موثر نظر آتی ہے اس حیات کے ایجاد میں صاف صاف دخل معلوم ہوتا ہے کیونکہ حیوان کی جان اوراُس کے جسم پر غور کرنے سے اوراُس کے خصائص کے دیکھنے سے موجد کے آثارِ ارادہ اُس میں نظر آتے ہیں اوروہ ارادے ہر جانور کی زندگی میں پور ے بھی ہوتے ہیں۔
البتہ حیوانات کی جانوں میں ادراک اورتعقل نہیں ہے۔ صرف زیست کے بحال رکھنے کا اورتلاش معیشت کا تھوڑا ساشعور فطری ہے جس کو عقل حیوانی کہنا چاہئے اوروہاں تک انسان بھی حیوانوں کے برابر رہتے ہیں۔
حیوانوں میں سے ایک قسم کا حیوان انسان ہے اوراُس میں ایک خاص چیز ایسی دکھائی دیتی ہے جو اورحیوانوں میں نہیں ہے ۔اُس چیز کو اہل علم ’’نطق‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کوئی اورہی چیز ہے جو اُس حیوان یعنی انسان کی جان کے اوپر کہیں سے اُس میں آگئی ہے اوراسی چیز کے سبب سے یہ دیگر حیوانوں میں ممتاز ہوا ہے اوراُن میں سے نکل کے اعلیٰ رتبہ کا پہنچاہے اور اُس کی تعریف حیوان ناطق ٹھہری ہے۔
دیکھو ہمارا انچلا حصہ خاک ہے اوراُس کے اوپر نمو ہے اورنمو کے اوپر جان ہے اور جان کے اوپر نطق ہے اوریہ ہمارا اوپر کا حصہ ہے یہ سب کچھ تو صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا خالق ہمیں ترقی دیتا ہوا کہاں سے کہاں لایا ہے؟ اب کون کہہ سکتا ہے کہ آگے کو ترقی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ شاید ہم اوربھی ترقی کرتے کرتے خالق کی حضوری میں پہنچیں گے اورخاک سے افلاک پر چڑھیں گے یا اسفل السا فلیں میں گریں گے۔
دفعہ ۱۳
نطق کے بیان میں
اب ’’نطق ‘‘کی طرف دیکھئے کہ وہ کیا چیز ہے؟ عربی زبان میں ’’نطق ‘‘کے معنی ہیں ’’بولنا‘‘ لیکن اصطلاح میں صرف ’’بولنا ‘‘ہی نہیں بلکہ ادراک ِمعنی کی بھی اُس میں شرط ہے اور اس صورت میں ’’نطق ‘‘نام ہواا ُس قوت کا جوادراک معنی کی قوت انسان میں ہے اوراسی قوت کے لحاظ سے انسان کی رُوح کو ’’نفس ناطقہ‘‘ کہتے ہیں۔
جب کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کانفس ناطقہ یا بولتا نکل گیا تو یہ مراد ہے کہ اُس کی رُوح نکل گئی۔ لفظ’’ نفس‘‘ کےمعنی ہیں’’ حقیقت شے‘‘۔ ’’انسانی نفس‘‘ سے مراد ہے انسانی حقیقت یعنی وہ اصلی چیز جو انساں میں ہے۔
اُس کا دوسرا نام ’’ رُوح‘‘ ہے۔ لطافت کےسبب سے اس وقت یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حقیقت ِانسان جس کو’’ نفس انسان ‘‘کہتے ہیں وہ ایک ہی چیز ہے اوراُس کے نام چھ ہیں۔ بلحاظ اُس کی چھ صفتوں کے قوت ِادراک کے لحاظ سے اُس کو ’’نفس ِناطقہ ‘‘کہتے ہیں کیونکہ اُس میں ادراک کی قوت ہے۔ اورجب وہ نفس دنیا وی لذتوں کی طرف بشدت مائل ہوتا ہے تو اُس صورت میں اُس کو’’ نفس امارہ‘‘ کہتے ہیں۔ اورجب وہ نفس اپنی بدکرداری سے پچھتا تاہے اورشرمسار ہوتا ہے اُس کا نام ’’نفس ِلوّامَہ‘‘ ہوتا ہے اورجب وہ خُدا سے مغفرت اورتسلی حاصل کرکے خوشی میں ہوتا ہے اُس وقت اُس کو ’’نفسِ مُطمئنّہ‘‘ کہتے ہیں اورجب اس پر ہدایت غیبی کے انوار الہٰی فیضان سے نازل ہوتے ہیں یا اُس پر چکمتےہیں تب اُس کا نام ’’نفس ملہمہ ‘‘ہوتا ہے اور لطافت کے لحاظ سے ہر کوئی اُسے رُوح کہتا ہے۔ پس چیز ایک ہی ہے نام چھ ہیں۔
یہ حقیقت انسان یعنی رُوح جس میں یہ چھ کیفیتیں ہیں اورجس کے سبب سے انسان ارضی مخلوقات میں اشرف نظر آتا ہے ۔تمیزی ادراک کہتا ہے کہ وہ حیوانی جان کے اوپر کوئی شے ہے لیکن اُس کی ماہیت کہ وہ کیا ہے؟عقل انسانی سے پوری پوری دریافت نہیں ہوسکتی ہے۔ مگر بائبل شریف نے اس بارے میں ہماری تسلی کردی ہے یہ دِکھا کے کہ یہ ’’نفس ناطقہ‘‘ یا ’’رُو ح ‘‘عالم بالا کا ایک شخص ہے اورمخلوق ہے جسے خُدا نے پیدا کیا اورانسان کے بدن میں اُسکی جان کے اوپر رکھا ہے۔ اُسی کانام کلام اللہ میں ’’زندگی کا دم‘‘ ہے جو خُدا نے آدم میں پھونکا یعنی پیدا کیا گیا تھا۔ پس ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ یہ نفس ناطقہ جو انسان میں ہے مثل ِنمو اورحیات کے ترکیب عناصر کا حاصل نہیں ہے بلکہ عالم علوی کا ایک جو ہر بڑا شریف اوربیش قیمت ہے۔
دفعہ ۱۴
جان اوررُوح کا بیان
لفظ’’ رُوح ‘‘کے معنی ہیں’’ ہوا‘‘ لیکن نہ وہ ’’ہوا ‘‘جو ہمارے چاروں طرف بہتی ہے کیونکہ آدمی کی رُوح میں کچھ کیفیت ہے جو عام ہوا میں نہیں ہے تو بھی اس عام ہوا کے ساتھ اُس کی رُوح کا کچھ علاقہ ہے ۔لطاؔفت اورسکونت کے لحاظ سے چنانچہ اگر کسی مکان میں خلا کردیا جائے اورہوا کھینچ لی جائے تو وہاں کوئی جانور اورانسان جی نہیں سکتا، فوراً جان نکل جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوسکتا کہ رُوح انسانی محض’’ ہوا‘‘ ہے بلکہ یہ بات ہے کہ گویا رُوح ’’ہوا‘‘ پرسوار ہے اور’’ہوا ‘‘اس کا مسکن ساہے جب ’’ہوا‘‘ پہنچے گی تو رُوح کے لئے مسکن نہ رہا اس لئے وہ غائب ہوجاتی ہے اورکہیں چلی جاتی ہے ہوا میں رَل مِل بھی نہیں جاتی۔
لفظ’’ رُوح ‘‘کے اصطلاحی معنوں میں اوراس کی ماہیت کے بیان میں اہل علم میں آج تک بہت سا اختلاف کیا ہے اور ان لوگوں کا سارا بیان پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رُوح کی ماہیت آدمیوں کو اب تک معلوم نہیں ہوئی ہے۔ ہاں یہ بات تو خوب معلوم ہے کہ انسان میں مثل سب حیوانات کے ایک حرارت ہے جس کو یہ حکیم ’’حرارت غریزی ‘‘کہتے ہیں۔’’ غریزہ‘‘ نام ہے ’’سرشت یا طبیعت ‘‘ کا اورسرشتی حرارت جو عناصر کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے وہی ’’حرارت غریزی یا سرشتی‘‘ ہے۔
یہ حرارت قلب میں کہ گوشت کے ٹکرا سے پیدا ہوتی ہے اورنسوں کے وسیلہ سے سارے بدن میں پھلتی ہے۔ اسی کو طبیب لوگ ’’رُوح حیوانی‘‘ کہتے ہیں اوربیماری کی حالت میں اسی کے سنبھالنے کی کوشش ہوتی ہے کیونکہ ہر جاندار کی زندگی اُسی پر موقوف ہے اوراُس کا نام جان ہے جس کے سبب سے سب حیوان ’’جانور‘‘ یعنی’’ جان والے ‘‘کہلاتے ہیں۔ لیکن یہ جسمانی ہے اور جسم کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے ۔اُس کو کوئی حکیم’’ ہوائی جسم ‘‘کہتا ہے اورکوئی’’ آتشی‘‘ اورکوئی’’ آبی‘‘ بتاتا ہے اوریہاں تک انسان میں اورسب حیوانات میں مساوات رہتی ہے ۔اورجب کہا جاتا ہے کہ انسان میں دو چیزیں ہیں یعنی رُوح اورجسؔم تو جسم کی غایت اُس کے اعضا ئے کثیفہ سے لے کے اُس کی ایسی جان تک مراد ہوتی ہے یعنی جسم کی حد میں یہ جان بھی آجاتی ہے اور رُوح سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو حد جسمانی سے باہر ہے۔
خُداوند یسوع مسیح کی نسبت اتھناسیس کے عقائد نامہ میں لکھا ہے (فقرہ۳۷) کا مل خداکامل انسان نفس ناطقہ اورانسانی جسم کی ترکیب میں موجود۔ یہا ں لفظ جسم میں یہ حیوانی جان بھی شامل ہے۔
اس جان میں بھی کسی قدر شعور معیشت کی روشنی خالق سے ڈالی ہوئی نظر آتی ہے لیکن وہ شعور ہے نہ عقل۔ جانور اس شعور محدود کے وسیلہ سے دنیا میں گزارہ کرتے ہیں اورمعمولی طریقہ میں اُس سے کام لیتے ہیں۔ نہ اُس میں ترقی کرسکتے ہیں نہ اسے اشکال ِ متنوعہ میں استعمال کرسکتے ہیں۔ پس وہ ایک خاص حد میں رہتے ہیں۔
آدمی میں اس جان کے اوپر کوئی اورچیز ہے اوروہ صرف انسان ہی میں پائی جاتی ہے اوروہی فصل ہے جو کہ انسان کو حیوان مطلق میں سے نکالتی ہے۔ جمادات میں سے نکالنے کے لئے نموفصل تھا اورنباتا ت میں سے نکالنے کے لئے یہ جان فصل ہوئی تھی۔ اب حیوانات میں سے نکالنے کے لئے یہ چیز فصل ہے جس کو ’’نفس ناطقہ ‘‘کہتے ہیں۔
یہ رُوح کیا چیز ہے ؟کوئی کہتا ہے کہ وہ ایک نور ہے اُس میں تعقل اورادراک ہے اورحرکت وارادہ کی استعداد ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ کوئی شے قدیم ہے لیکن ایسا بولنے والا کچھ ثبوت نہیں دے سکتا ۔کوئی کہتا ہے کہ وہ حادؔث (نئی چیز جو پہلے نہ ہو۔فانی)ہے لیکن غیر فانی ہے خالق نے اُسے ابد تک زندہ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اُس کے لئے ابتدا تو ہے لیکن انتہا نہیں ہے۔ ایسا بندوبست خالق نے اس کے لئے کیا ہے۔ ہمارا بھی رُوح کی نسبت ایسا ہی یقین ہے اور یہی خیال سب پیغمبروں کا تھا اورثبوت اس خیال کا اسی رُوح کی صفتوں میں سے نکلتا ہے۔ بعض اہل فکر نے کہا ہے کہ یہ رُوح عالم تجرد کا ایک شخصؔ ہےجو خاکی بدن میں رہتا ہے جیسے جسمانی اعضابدن میں ہیں ویسے ہی رُوح میں بھی اعضا ہیں۔ لیکن یہ خیال صوفیہ کا ہے اوراُس کا ثبوت کچھ نہیں ہے۔ کلام اللہ میں اس رُوح کو ’’باطنی انسان‘‘ کہا گیا ہے ۔’’۔۔۔گوہماری ظاہر ی انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روز بروز نئی ہوتی جاتی ہے‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۶:۴)۔ ’’کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سےتو مَیں خُدا کی شریعت کو بہت پسندکرتاہوں‘‘(رومیوں۲۲:۷) ۔ اِسی باطنی انسانیت کے ذمہ افعال کی جو ابدہی ہے۔ سارے پیغمبر اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ یہ باطنی انسان ابدی دکھوں سے بچایا جائے ۔اسی کی اصلاح کے لئے مسیح خُداوند مجسم ہوکے دنیا میں آیا اورمصلوب ہوا، مرگیا ،دفن ہوا ،تیسرے دن جی اُٹھا اوراپنی اس بیش قیمت موت اورحیات کی تاثیروں سے وہ ہمارے اس باطنی انسان کو نیا بناتا ہے (افسیوں ۵:۲؛۲۴:۴) اوریہی باطنی انسان ہے جو خُدا کی قربت اوررفاقت حاصل کرتا ہے اوریہ ہر انسان کی جان یا رُوح حیوانی پر سوار سا ہے لیکن اس کا جلال دماغ میں زیادہ ظاہر ہے۔
دفعہ ۱۵
رُوح اورجان کی زیادہ توضیح
ایک فارسی شاعر نے یوں کہا ہے اوربہت خوب کہا ہے اُس پر خوب غور کیجئے۔
آدمی زادہ طرفہ معجونی ست
گر کند میل اینؔ شووبد زیں
از فرشتہؔ سر شتہ وز حَیوَانؔ
درکند میل اَن شود بہ زاں
اس جگہ لفظ ’’فرشتہ‘‘ سے مراد ’’فرستہ ‘‘یعنی ’’فرستادہ ‘‘ہے جو خُدا سے بھیجا گیا یا پیدا ہوا ہے یعنی رُوح جسے خُدا نے انسان میں پھونکا کہ اس خاکی بدن میں کچھ عرصہ تک رہے اورکچھ خاص کام کرے۔ لفظ’’ سرشتہ‘‘ جو’’ سرشتن‘‘ مصدر سے ہے اس میل ملاپ کا بیاں کرتا ہےجو اُس فرشتہ کو رُوح حیوانی سے ہوا ہے ۔گویا اُس کے ساتھ گوند ھاگیاہےاورا س ترکیب سے جو پیدا ہوا ہے وہی آدمی زادہ ہے۔ اُس میں دومیلان صاف نظر آتے ہیں جن میں سخت مخالفت ہے ۔جسم کی خواہش رُوح کے مخالف ہے اوررُوح کی خواہش جسم کے مخالف ہے(گلیتوں ۱۷:۵) اوراس مرکب شخص کا اپنا اختیار ہے ۔جدھر چاہے زیادہ متوجہ ہو وہ کسی تقدیر کا مجبور نہیں ہے۔ اگر وہ حیوانیت کی طرف مائل ہوتا ہے جیسے کہ سب نفس پرور اورعیاش اوردنیا کے مغلوب لوگ ہیں توحیوان سے زیادہ ذلیل اورخوار ہے کیونکہ حیوان سے زیادہ عزت دار چیز اُس میں تھی یعنی رُوح اور اگر وہ فرشتہ کی طرف مائل ہوتا ہے یعنی رُوحانی خواہشوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دیگر آسمانی فرشتوں سے زیادہ رتبہ پاتا ہےکیونکہ اُس نے وہ بہادری کی جو اور فرشتوں نےنہیں کی ہے۔ اُن میں کچھ حیوانیت نہ تھی ،اس میں تھی پھر بھی یہ غالب آیا اوربہادر نکلا۔ اب ناظرین سوچیں کہ یہ بیان سچ ہے یا نہیں؟ اگر سچ ہے تو فکر کرو کہ آپ لوگ کیسے ہیں؟ آپ کے مزاج شریف کس طرف مائل ہیں؟ آپ حیوان سے بدتر ہیں یافرشتوں سے اچھے ہیں مرنے سے پہلے ابھی فیصلہ کرلیجئے۔
یادرہے کہ مقربان(مقرب کی جمع۔دوست،ہمراز) درگاہ الہٰی کی بھی شناخت ہے کہ اُن کی سفلیت (پستی)پر اُن کی علویت(بلندی) غالب آتی ہے اوربُرے آدمی اسی لئے بُر ے ہیں کہ وہ سفلیت کے مغلوب ہیں عُلویت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ایسے خیالوں کو ٹھٹھہ میں اڑاتے ہیں۔
سفلیت اُس وقت غالب آتی ہے جب آدمی اپنی روحانی قوتوں اورخواہشوں کا کام چھوڑ دیتا ہے اورسفلی قوتوں اور خواہشوں کو کام میں لاتا ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ میں اپنی سفلیت پر غالب آؤں تو چاہئے کہ وہ اپنی ساری طاقت سے اس بارے میں ساعی(کوشش) ہو اورخُدا سے مدد مانگے وہ اُسے طاقت بخثے گا۔
دفعہ ۱۶
نفس ناطقہ میں کچھ علوی کرنیں چمکتی ہیں
اس شاعر نے ’’نفس ناطقہ‘‘ کو’’ فرشتہ‘‘ بتایا ہے۔ حکمااُسے ’’فطری نور‘‘ کہتے ہیں۔ کلام اللہ میں اُس کو’’ زندگی کا دم‘‘ کہا گیا ہے۔ لیکن بعض آدمی جو بے ایمان ہیں اُس کو ترکیب امتزاجی کی کیفیت کا حاصل بتاتے ہیں ۔یہ خیال ذلیل ہے اوربے فکر ی کا خیال ہے یا غلط مقدمات کا غلط نتیجہ ہے اورآدمی کی زندگی کے دائرہ کو خراب کرڈالتا ہے۔ وہ جوکہتے ہیں کہ نفس ناطقہ ترکیب امتزاجی کا حاصل ہے اُن کی دلیلیں یہ ہیں کہ ترکیب امتزاجی کی بربادی کے ساتھ نفس ناطقہ بھی برباد ہوجاتا ہےاورکہ جسمانی قوت کی ترقی سے اُس میں ترقی اورتنزل سے تنزل ہوتا ہے ا س لئے ترکیب مذکورہ کا حاصل ہے۔
میں کہتا ہوں کہ کوئی مرکب شئے اپنے اجزاکی کیفیت سے الگ کوئی صفت پیدا نہیں کرسکتی ہے۔ ترکیب امتزاجی کے اجزا عناصر ہیں اورعناصر میں ادراکؔ و اراؔدہ کی استعداد بھی نہیں ہے۔پس جو چیز اجزا میں مطلق نہیں ہے و ہ ترکیب میں کہاں سے نکل سکتی ہے ۔رُوح حیوانی یا جان ضرور ترکیب عناصر کا حاصل ہے تو بھی بتائیے کہ اُس میں حساسی اور تحرک کون سی جز کی خاصیت ہے ۔وہ تو ایک روشنی سے ہے جو خارج سے اُس میں آئی ہے ۔اسی طرح رُوح انسانی کی نہ بعض بلکہ تمام خصلیتں ایسی ہیں کہ مادہ سے کچھ بھی لگاؤ نہیں دکھاتیں۔ البتہ انسان کے مزاج میں اجزا مادہ کی تاثیرات دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن نفس ناطقہ میں کچھ اورہی معاملہ نظر آتا ہے ۔خیالات ذیل پر غور کیجئے۔
ا۔ مدارج اورمناصب عُلیا (اعلیٰ مرتبے)کے حاصل کرنے کی ایک خاص اِ ستعداد سب آدمیوں کی رُوحوں میں موجود ہے جس سے بعض آدمیوں نے حسب کوشش ہر ہر کام میں تعجب کی لائق ترقی بھی دکھائی ہے ایسی استعداد نہ کسی ارضی مخلوق میں ہے نہ رُوح حیوانی میں ہے نہ مادہ کے مناسب ہے۔ پھر یہ استعداد نفس ناطقہ میں کہاں سے ہے ؟اب اس استعداد کی بنیاد یا تو مادہ میں سے نکالو یامان لو کہ نفس ناطقہ کسی غیر جہان کا شخص ہے۔
۲۔سب حیوانوں کی طرف دیکھو صرف سفلی اورجسمانی صفات اُن میں ہیں۔ ہاں اتنی بات اُن میں ہے کہ حساسی اورتحرک اورکسی قدر معیشت کا ناقص ساشعور کھتےہیں اورمیں اس کو بھی بالائی چمک کہتا ہوں ۔باقی تمام صفتیں جو اُن کی جانوں میں ہیں سفلی ہیں کیونکہ اُن میں صرف وہی جان ہے جو ترکیب امتزاجی سے پیدا ہوئی ہے اور یہ ترکیب مادہ سے ہے اور مادہ اپنی تاثیریں مسلمہ اُن میں دکھارہا ہے ۔لیکن انسانی رُوح میں علویت کی خواہش کہاں سے ہے؟
۳۔حیوانات کی جانوں میں جو خواہشیں ہیں وہ سب اسی زمین کی چیزوں سے پوری ہوجاتی ہیں اورتکمیل پاتی ہیں اورجانور اپنی خوشی اسی جہان میں پوری کرلیتے ہیں۔ لیکن انسان کی رُوح میں جو خواہشیں ہیں وہ اس جہان کی چیزوں سے آسودہ اورمکمل نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس کا یہی سبب ہوسکتا ہے کہ نفس ناطقہ عالم بالا کا شخص ہے اوراپنے دیس کی چیزوں سے جو اُس کی طبع کے مناسب ہیں وہ آسودہ اورخوش ہوتا ہے کیونکہ ہر چیز کا میلان اُس کے کرہ کی طرف ہوتا ہے۔
مثلاً آدمی کی رُوح ابدی بقا اورحقیقی خوشی کی یقیناً طالب ہے اوریہ دونوں چیزیں یعنی ابدیت اورحقیقی خوشی اس دنیا میں کہاں ہیں ؟ہم تو سب مرنے والے ہیں نہ آگے کوئی رہا ہے نہ ہم رہیں گے ۔پھر وہ ابدی بقا کہاں ہے؟ جس کی یہ رُوح طالب ہے اوریہاں جو خوشی ہے وہ فانی اورتلخی آمیز ہے۔ پس حقیقی خوشی دنیا میں کہاں ہے جس کی طالب رُوح ہے ؟پھر فرمائیے کہ رُوح انسانی کے درمیان ان دونو ں چیزوں کی اُمنگ کیونکر پیدا ہوگئی ہے؟ ہم نہیں کہہ سکتے کہ انسانی روح دیوانی ہے یا اُسے وہم ہوگیا ہے کیونکہ یہ امنگ اُس میں طبعی ہے نہ عارضی ۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ وہ علوی ہے اورعالم بالا میں حقیقی خوشی اورابدیت کے وجود کی خبر ہماری تمیز بھی ہمیں دیتی ہے۔ پس رُوح وہ چیزیں مانگتی ہے جو دنیا میں نہیں ہیں لیکن اللہ میں ہیں اوراس کا سبب یہی ہے کہ رُوح انسانی اللہ کی طرف سے ہے ، مادہ سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ناظرین بہت فکر کریں اورگمراہ نہ ہوں۔ نفس پروروں کی واہیات باتوں میں پھنس کے اپنی روحوں کو برباد نہ کریں۔
۴۔عام اورخاص آدمیوں میں سے اُن آدمیوں کی رُوحیں جنہیں اس جہان کے غبار نے دبا کے بالکل اند ھا نہیں کردیا ہے بلکہ اُن کی آنکھیں کچھ ٹمٹماتی ہیں۔ وہ سب اپنے ضروری فائدہ کےلئے بوسیلہ نیک اعمال کے یا ریاضت بدنی اورایمان واعتقاد کے کچھ ثواب جمع کرتے ہیں ۔ہندؔو ،مسلماؔن ، یہودیؔ اورعیسائی ؔ وغیرہ تمام اہل مذاہب یہی کچھ کرتے ہیں۔ یہ بحث جدا ہے کہ کون مناسب اورکون نامناسب مشقت کھینچتا ہے لیکن کچھ نہ کچھ مشقت یہ سب کھینچتے ہیں اس امید پر کہ بعد انتقال خُدا سے کچھ پائینگے اورکیا پائینگے وہی ابدی بقا اورخوشی مانگتے ہیں۔
لامذہبوں ،تعلیم یا فتوں کی اخلاقی وتہذیبی کوششیں بھی کچھ ایسے ہی مطلب پر معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں ان سب کی رُوحیں آئندہ دکھوں سے تھرتھراتی ہیں ؟کیوں ان رُوحوں میں ایسا یقین ہے کہ بعد فنا اس ترکیب بدنی کے ہم باقی رہیں گے اوروہ کیوں کسی نہ کسی وسیلہ سے چھٹکارے اورآرام کے امیدوار ہیں۔ سب حیوانوں کی ایسی کیفیت کیوں نہیں ہے ؟صرف آدمیوں ہی کی ایسی کیفیت کیوں ہے؟ اسی لئے کہ حیوانی رُوح فانی اورمادہ کی ترکیب سے ہے اوراُس میں ادراک نہیں۔ انسانی رُوح غیرفانی اورعالم بالا سے ہے اوراُس میں ادراک ہے اور وہ اس جہان میں آپ کو مسافر سمجھتی ہے اوربعد انتقال آپ کو شے باقی جانتی ہے اورجہاں جاکے باقی رہنا ہے اُسے اپنا گھر اوردیس سمجھتی ہے اور یہ رُوح کا خیال طبعی ہے اوردرست ہے۔
دفعہ ۱۷
ایک فائدہ ہے یاد رکھنے کے لائق
چند آدمی سقیم(بیمار۔خستہ) الارواح یا مغلوب دنیا یابہایم سیرت یاوہمی لوگ یا کج فہم یا بے ایمان کہ بے راہ روی کرکے ناامید ی اور نادانی کےغار میں جاپڑے ہیں۔ اگرچہ وہ بظاہر خوش پوشاک اورخوش خوراک بلکہ خوش اخلاق اورتعلیم یا فتہ اورصاحب مدارج کیوں نہ ہوں لیکن اُن کے دلوں اورخیالوں کی وہی کیفیت ہے جو اوپر کے سخت لفظوں میں پردہ ہٹا کے میں نے سنائی یا دکھائی ہے (اگر مرضی ہو تو غور کرکے اُن کی طرف تاکنا کہ وہ ایسے ہی ہیں یا نہیں )۔ ایسے لوگوں نے آئندہ کی امید کو اپنے دلوں اورخیالوں میں سے زبردستی کھینچ کھینچ کر نکالا ہے اورحیوانوں کے ساتھ اسی جہان میں برباد ہونے کے شوقین ہوئے ہیں۔ ان کی رُوحوں میں کیفیت مذکورہ بالا کا نہ ہونا رُوح انسانی کی فطری حالت کا بیان نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ اُن میں کسی انحطاط کا ظہور ہے اوررُوح کی فطری کیفیت وہی ہے جو جم ِ غیفر کی رُوحوں میں پائی جاتی ہے۔
اورمیں اس بات پر بھی توجہ نہیں کرتا جو وہ لوگ کہتے ہیں کہ وحشی آدمیوں کی رُوحوں میں ایسی علوی کرنیں کیوں نہیں چمکتی ہیں جیسی تم مذہبی تعلیم یافتوں کی رُوحوں میں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ وہاں کچھ توہے جو بہت غور سے نظر آتا ہے مگر آپ لوگ علمی روشنی اورآسائش کے ملکوں اورمکانوں میں آرام سے بیٹھے ہوئے اُن وحشیوں کے حق میں دور سے جو چاہتے ہو سوکہتے ہو، ذرا اُن کے نزدیک جانا اوراُن کے محاورات دوستورات میں مشق کرکے اُن کی کیفیت سے آگاہ ہونا جیسے ہمارے بھائی مشنری لوگ کرتے ہیں۔ تب معلوم ہوگا کہ اُن کی رُوحوں میں بھی ایسی ہی استعداد اورطلب ہے۔
اوریہ کہنا کہ ہماری رُوحوں کی ایسی کیفیت تعلیم کے سبب سے ہے نہ کہ رُوح کی طبع کے اس لئے جائز نہیں ہے کہ تعلیمی دستور صانع(کاریگر۔خالق) نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ اگر آدمی کا بچہ تعلیم نہ پائے تو وہ کچھ نہیں سیکھتا۔پیدا ہوتے ہی بچہ کی تعلیم والدین سے شروع ہوتی ہے۔ وہ سکھاتے ہیں کہ دو دھ یوں پینا چاہئے ، یہ باپ ہے ،یہ ما ں ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہاں تک کہ والدہ کی چھاتیوں سے شروع کرکے بڑھاپے کی موت تک انسان سیکھتا اورتعلیم پاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مرجاتا ہے اورتعلیم تمام نہیں ہوتی ہے۔ پس تعلیم انسان کے لئے کوئی عارضی امر نہیں ہے بلکہ اس کے کمال کا طریقہ اورامر فطری ہے ۔ جو کوئی تعلیم سے محروم ہے خواہ وحشی ہو یا شہری وہ اپنے کمال کے طریقہ سے گرا ہوا ہے ۔پس اُس کی رُوح کی طرف دیکھ کے ہم ایسا حُکم نہیں دے سکتے کہ خصائص مذکورہ امور فطری نہیں ہیں کیونکہ ایسا قیاس غلط ہے ۔ہم کو چاہئے کہ انسان کامل کی طرف دیکھیں اوروہاں سے رُوح کی شان دریافت کریں نہ کہ بچوں ، وحشیوں ،سقیم الارواح ملحدوں(بے دین) ،بدتعلیم یا فتوں ،احمق ،جاہلوں اورجو گیوں وغیرہ کی طرف دیکھ کے نیچے گریں۔ ہم توترقی کرتے چلے آئے ہیں اور بھی زیادہ ترقی کرینگے۔ تعلیم کو فطری طریقہ سمجھیں گے اورسب تعلیموں پر غور کرکے عمدہ تعلیم کے پابند ہوں گے اوراس طریقہ سے صیقل شدہ (صاف شفاف)ارواح میں رُوحوں کے جو ہر دریافت کریں گے اور کہیں گے کہ تمام ارواح بنی آدم میں ایسے ایسے جوہر ہیں جو علویت دکھاتے ہیں اوریوں انسان کی رُوح کا علوی جوہر ہونا ثابت ہے۔
دیکھو درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ اچھا اورمفید درخت ہے یا بُرا اورمضر۔ لیکن کچے اورہوا سے ٹوٹے اورگِر کے سو کھے پھلوں سے ہم پوری شناخت درخت کی حاصل نہیں کرسکتے ہیں بلکہ کامل اورپختہ پھلوں سے جو مناسب وقت پر درخت سے اُترتے ہیں درخت پہچانا جاتا ہے۔ پس رُوح انسانی کے جو ہر کامل آدمیوں میں دیکھنا چاہئے، وحشیوں اورشریروں اوربچوں میں جو ناکامل ہیں اوردرخت انسانیت کے کچے یا گرے اورسوکھے پھل ہیں کیا دریافت کرسکتے ہو ؟تو بھی جو کچھ اُن میں نظر آتا ہے وہی ہمارے مطلب پرمفید ہے۔ ناظرین کو چاہئے کہ ملحدوں کے بہکانے سے گمراہ نہ ہوں مگر خود کامل ہونے کی کوشش کریں اورکامل شخصوں کی طرف دیکھیں۔
دفعہ ۱۸
انسانی حواس عشرہ کے بیان میں
’’حواس ‘‘جمع ہے ’’حاسہ‘‘ کی اُس کے معنی ہیں ’’دریافت کرنے کی قوت ‘‘۔انسان میں پانچ حواس ظاہری صاف نظر آتے ہیں لیکن حکیم کہتے ہیں کہ پانچ حواس باطنی بھی ہیں۔ قدیم محمدی ان پانچ حواس باطنی کے قائل نہیں ہیں ۔لیکن ہم اگر اُن کے بھی قائل ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ پس میں اس مقام پر ظاہری اورباطنی حواس کو ملا کے دس حواس کا ذکر کرتا ہوں ۔انسانی رُوح بوسیلہ ان حواس عشرہ کے اس جہان کی چیزوں کو دریافت کیاکرتی ہےاورجوکچھ دریافت کرتی ہے بموجب اُس کے تجویزیں اورارادے اوربندوبست باندھتی ہے اور اپنے بدنی اعضاکو ہلاتی اورکام بھی کرتی ہے۔ حواس خمسہ ظاہری یہ ہیں’’ قوتؔ لامسہ ‘‘،’’قوتؔ باصرہ ‘‘،’’قوتؔ سامعہ‘‘،’’ قوتؔ ذائقہ‘‘،’’ قوتؔ شامہ‘‘۔
قوتِ لامسہ کا بیان
’’ لمس‘‘ کے معنی ہیں ’’چھونا‘‘ پس چھو کے دریافت کرنے کی قوت کو لامسہ کہتے ہیں۔ یہ قوت انسان کے سارے بدن میں ہے۔ کوئی چیز انسان کو کسی جگہ سے چھوئے یا انسان کا کوئی عضو کسی چیز کو چھوئے رُوح کو معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی نے مجھے چھوا اوریہ کہ وہ چیز سخت ہے یا نرم ، سرد ہے یا گرم ،نوکدار ہے یا مسطح۔ اگرچہ یہ قوت سارے بدن میں ہے لیکن ہاتھوں میں خصوصاً انگلیوں کے سروں میں زیادہ ہے ۔اسی لئے حکیم انگلیوں کے سروں سے نبض کو دیکھتا ہے اورسردی ،گرمی، سستی وسرعت (پُھرتی)نبض کی معلوم کرلیتا ہے۔ اگر یہ قوت اللہ تعالیٰ ہمارے سارے بدن میں نہ رکھتا تو ہم مضر چیزوں کے صدمات سے کیونکر بچتے۔ رُوح کو خبر بھی نہ ہوتی اوربدن کہیں سردی یا آگ میں تلف ہوجاتا۔ پس اس قوت کے لئے خُدا کے شکر گزار ہو یا نہیں۔
’’لمس‘‘ کے وسیلہ سے جب رُوح کو کچھ خبر ملتی ہے تب وہ فوراً بدن کو حرکت دیتی اور اس شے کی طرف متوجہ ہوکے پہلے آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ کیا ہے پھر جو مناسب سمجھتی ہے سوکرتی ہے۔
قوتِ باصر ہ کابیان
یہ دیکھنے والی قوت ہے اورصرف ان دو آنکھوں میں ہے اوربدن کے کسی ٹکڑے میں نہیں ہے۔ ان میں خُدا کی تجویز سے ایک تروتازہ شیشہ سا ہے جس کے نیچے صاف پانی کا ایک چشمہ سا ہے۔ رونے کے وقت آنسو اُسی چشمہ سے بہتے ہیں اور اس پانی سے وہ شیشہ یا پردہ تروتازہ رہتا ہے ۔اس پردہ کی حفاظت اورروشنی کی کمی بیشی کے لئے پلکیں ہیں۔ ہرپیش آئندہ شےکی تصویر بطور عکس کے اس پر دہ یا شیشہ میں منقش ہوتی ہے۔ اُس کے آگے دماغ میں ایک نقطہ ہے اور نقطہ انسانی رُوح اوراس شیشہ کے ساتھ ایک خاص نسبت میں واقع ہے۔ پس رُوح انسانی بوسیلہ اُس نقطہ کے اُس عکس منقوش کو صاف دیکھ لیا کرتی ہے۔
تمام چیزیں جو تم دیکھتے ہو وہ چیزیں تو نہیں دیکھتے ہو مگر اُن کے عکوس (عکس) دیکھتے ہو۔ رُوح شئے لطیف ہے اورعکوس بھی جو نظروں میں آتے ہیں لطیف ہیں۔ خُدتعالیٰ سب کثیف اوربڑی بڑی چیزوں کو لطیف شکل میں لاکے اس لطیف رُوح کو دکھاتا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ کی حکمت۔ جب دور کی چیز دیکھنا ہے تورُوح انسانی آنکھ کا مُنہ زیادہ کھولتی ہے اورزیادہ ترخارجی روشنی کی طالب ہے۔ اگر نزدیک کی چیز دیکھنا ہے تو آنکھ کا منہ کچھ تنگ کھلتا ہے اور اسی حساب پر لوگوں نے دور بین اورخورد بین بنائی ہیں، جن کے شیشوں میں چیزوں کے عکس پڑتے اور بوسیلہ آنکھ کے اُن عکسوں کے عکس رُوح کو نظر آتے ہیں۔ اگر آدمی اُس چیز سے جو بوسیلہ آنکھ کے معلوم ہوئی ہے واقف تھا تو اُسے پہچان لیتا ہے کہ وہ فلاں چیز ہے ورنہ اورزیادہ دریافت کے درپے ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے؟
قوتِ سامعہ کا بیان
یہ سُننے کی طاقت ہے اورصرف دوکانوں میں ہے اورکہیں نہیں اوربغیر خارجی آواز کے سُن بھی نہیں سکتے۔ کان سلامت ہوں اورآواز بھی کہیں سے آئے تب سُن سکتے ہیں۔ آواز خواہ دیمی ہو یا بلند، مگر کچھ آواز ہو اور آواز بھی بامعنی معلومہ ہو ورنہ صرف ایک کھڑکا ساکان میں پہنچے گا اوررُوح اُس کا مطلب نہ سمجھے گی۔ جانوروں کی آوازیں ،ہوا کے سناٹے ،بادلوں کی گرج ،بجلی کی کڑک ،چیزوں کے ٹکرانے کے کھڑ کے اوراجنبی زبانوں کے الفاظ سُننے سے رُوح کو کچھ مطلب معلوم نہیں ہوتا صرف آوازیں پہنچتی ہیں۔
عربی میں ’’لفظ‘‘ کے معنی ہیں’’ پھینکنا‘‘۔جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے بات کرنا چاہتا ہے توا پنے دل کا مطلب کلمات معلومہ میں لپیٹ کر بوسیلہ اپنی زبان کے ہوا میں مخاطب کی طرف پھینکتا ہے۔ اوردیکھتے ہو کہ جیسے پانی کے تالاب میں پتھر مارنے سے ایک حلقہ سا بندھ جاتا ہے اسی طرح اس ہوا کے سمندر میں جو ہمارے چار طرف بھرا ہے جوکلمہ یا لفظ رُوح سے بوسیلہ زبان کے پھینکا جاتا ہے وہ ہوا میں ایک حلقہ یا دائرہ پیدا کرتا ہے اورحلقہ صدمہ کی طاقت کے موافق بند ھتا ہے جس قدر لوگ کانوں والے اوراُن الفاظ کے سمجھنے والے اس حلقہ کے درمیان ہوتے ہیں وہ سب سُن اورسمجھ لیتے ہیں۔ اورسُننے کا طور یہ ہے کہ یہ دوکان مثل دوپنکھوں کے ہیں جو ہوا کی جنبش کو جمع کرلیتے ہیں یا روک لیتے ہیں اوراُن کے آگے ایک سوراخ ہےجسکے سرے پر ایک جلی سی ہے اسی کو کان کا پردہ کہتے ہیں۔ یہ پردہ ایسا کسا ہوا ہے جیسے ڈھولک کا چمڑا کسا ہوا ہوتا ہے ۔پس ان پنکھوں کی جمع کی ہوئی یارُکی ہوئی جنبش اُس ڈھولک میں جاکے بجتی ہے اوروہ پرد ہ اُس کے صدمہ سے ہلتا ہے۔ اُس کے آگے ایک زنجیرسی ہے اوروہ زنجیر اُس جنبش کو مغز کے اندر پہنچا دیتی ہے وہاں سے نفس ناطقہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں شخص نے یوں کہا ہے۔ پس میں پوچھتا ہوں کہ خالق کی اس حکمت پر فکر کرکے اُسے سجدہ کرنا چاہتے ہو یا نہیں۔
قوتِ ذائقہ کا بیان
یہ چکھنے کی قوت ہے جوصرف زبان میں اللہ نے رکھی ہے ۔جب کوئی چیز زبان پر آتی ہے اوراُس کے اجزاتھوک میں کسی قدر گھلتے ہیں تو اس حِس کے وسیلہ سے اُس شے کا مزہ رُوح کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس مزہ کی ہے؟
زبان سے تین کام نکلتےہیں مزے چکھتی ہے، بولتی ہے اوردانتوں سے چبائی ہوئی غذا کو ٹٹول کے معدہ میں اُترنے کی اجازت رُوح سے دلواتی ہے اوریہ زبان بڑی پھر تیلی ہے جلد جلد کام کرتی ہے۔
قوتِ شامہ کا بیان
یہ سونگنے کی قوت ہے اورصرف ناک میں ہے۔ جب کسی چیز کے لطیف اجزا بوسیلہ ہوا کے اُڑ کے ناک میں آتے ہیں یا آدمی کسی چیز کو ناک کے پاس لاکے بوسیلہ ہوا کے اوپر کی طرف دَم کھینچ کے اُس چیز کے اجزا لطیفہ کو ناک میں چڑھاتا ہے تب اُس چیز کی خوشبو یا بدبو بوسیلہ اس حس کے رُوح کو معلوم ہوجاتی ہے ۔یہ حواس خمسہ ظاہری ہیں اوراُن کے کام بھی خاص خاص ہیں۔ حکیم کہتے ہیں کہ پانچ حواس باطنی اَوربھی ہیں اوروہ ان حواس ظاہری سےدریافت شدہ امور میں اپنا اپناکام کیاکرتے ہیں۔ اُن کے نام یہ ہیں’’حِس مشترک ‘‘،’’خیال‘‘ ،’’ وہم‘‘ ، ’’قوت متصرفہ‘‘ ،’’قوت حافظہ‘‘۔
حِس مشترک کابیان
حکماکہتے ہیں کہ انسان کے دماغ میں تین خانےیا تین بطن ہیں اوراُن کو’’ بطن اول ‘‘،’’بطن دوم ‘‘اور’’بطن سوم ‘‘کہتے ہیں ۔ہر بطن میں دو مقام بتاتے ہیں اور اِن کو ’’درجہ اول‘‘اور’’ درجہ دوم ‘‘کہتے ہیں۔’’حِس مشترک ‘‘ایک قوت ہے ۔دماغ کے بطن اول کے پہلے درجہ میں اُس کو حِس اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ایک قوت ِحاسہ ہے اورمشترک اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حواس خمسہ ظاہری اورنفس ناطقہ کے درمیان ہے۔ دونوں طرف اس کا علاقہ ہے جو کچھ حواس ظاہری دریافت کرتے ہیں اولاً اسی حِس کے سامنے آتا ہے اوریہی حِس رُوح کو خبر دیتی ہے۔
خیال کابیان
’’ خیال‘‘ کے لفظی معنی ہیں پندؔار وانچہ درخواب دیدہ شود دیا دربیداری تخیل کردہ اید وانچہ درآئینہ دیدہ شود۔ لیکن یہاں خیال سے مراد’’قوت متخیلہ‘‘ ہے اوروہ ایک قوت ہے۔ بطن اول کے درجہ دوم میں جو کچھ حِس مشترک کو بوسیلہ حواس کے معلوم ہوتا ہے یہ قوت اس معلوم کے تصور کو اپنے اندر کچھ عرصہ تک محفوظ رکھتی ہے۔
وہم کابیان
وہم کے معنی ہیں’’ انچہ دردل گذرد۔ یارفتن دل بسوئے چیز ے بے قصد اَِن ‘‘ لیکن یہاں مراد وہم سے قوت واہمہ ہے اوریہ قوت بطن دوم کے آخر میں ہے اوراس کا یہ کام ہے کہ اپنے اندر تصورات کی تصویریں کھینچا کرتی ہے خواہ غلط ہوں یا صحیح۔
حواس خمسہ ظاہری سے دریافت ہوکے بوسیلہ حس مشترک کے جو کچھ خیال ہیں وہ حِس مشترک کے مخزن سے پہنچا کرتا ہے۔ یہ قوت واہمہ اُسے دیکھ کے شک وشبہ اورجو جو کچھ چاہتی ہے اپنی وہمی عمارتیں بنانا شروع کرتی ہے اورکبھی کسی دلی خواہش پر خواہ وہ خواہش نیک ہو یا بد بنیاد قائم کرکے اپنی وہمی عمارت کا ایک محل سا بنا کھڑا کرتی ہے ۔اس کا میدان بہت فراخ ہے۔ وہ لوگ جو اپنے دل ہی دل میں باتوں کا سلسلہ باند ھاکرتے ہیں وہاں یہی قوت کام کیاکرتی ہے۔ کتاب الف لیلہ اورسب زٹلی مضمون جو دنیا میں ہیں اسی قوت کی تصنیف سے ہیں ۔ساری بے ایمانی کی جڑ یہی قوت ہے ۔یہ قوت نہ خُدا کے تابع ہوتی ہے نہ عقل کے ۔یہ رات دن بھونکتی رہتی ہے جب تک کہ انسان کی رُوح اس کو دھمکا کے چُپ نہ کرائے یہ چُپ نہیں کرتی ہے سارے وسوسے اورشکوک اورخوف اورسب جھوٹے مذہب اورتمام بھوتوں اورجادو ٹونوں کے واہیات خیال اسی سے نکلے ہیں۔ اسی نے بعض آدمیوں کو دہریا بعض کو ہمہ اُوست بولنے والا بنایا ہے اورقسم قسم کے واہیات اس نے آدمیوں کے خیالوں میں بھر رکھے ہیں۔ بعض صاحب علم آدمی کہتے ہیں کہ ایمانی عقائد کے بارے میں جیسے جاہلوں کےیقین واثق نظر آتے ہیں ہمارے ایسے یقین نہیں ہوتے ہیں۔ اس کاسبب میں یہی جانتا ہوں کہ ان لوگوں نے اس قوت واہمہ کی بہت اطاعت کی ہے اوراپنےآپ کو اسکے تابع کردیا ہے ۔اس لئے شک میں شک اُن کے دلوں میں چلے آتے ہیں ۔اگر چاہو اُن سے کلام کرکے دیکھ لو کہ وہم پر وہم وہ اگلتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آدمی اپنےآپ کو اس قوت کی تابع کرے جو کہ نہ خُدا کے اورنہ عقل کے تابع ہوسکتی ہے اورپھر وہ آدمی یوں بھی کہے کہ میں سچا محقق ہوں۔
ہاں یہ قوت کچھ مفید بھی ہے اگر اس کو ایک حد میں کام کرنے دیں تاکہ ہم دھوکا نہ کھائیں۔ جو شکوک یہ پیش کرے اُن پر فکر کیا جائے نہ یہ کہ اُس سے مطلق العنان کرکے ہم خود اُس کے پیچھے ہولیں۔ پھر وہ تو کبھی کسی بات پر بھی قائم نہ ہونے دےگی۔ ہمیشہ کہے گی شاید یوں نہ ہویوں ہو ،پھر بھی یوں ہو، یوں ہو۔
یہ قوت حیوانات میں زیادہ ہے۔ اس لئے کہ یہ خاص رُوح حیوانی کی قوتوں میں سے ہے ۔نفس ناطقہ کی یہ قوت نہیں ہے ۔نفس ناطقہ کی خدمت میں تو ہی پر خود حیوانی صفت ہے نہ ملکی۔ بعض اوقات اس کے کام سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر آدمی یہ باتیں سُن کے ہوشیار ہوجائے کیونکہ اس قوت نے بہتوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اگراُس کو قابو میں نہ رکھا جائے تو وہ بعض صداقتوں کو بھی ماننے نہ دے گی ۔جب یہ قوت زیادتی دکھائے اُس کو دھمکا نا چاہئے۔ صرف دھمکی سے اُس کا منہ بند ہوتا ہے اورہم اس کا کان پکڑکے اس کو خُد ا کےاورعقل کے تابع کرتے ہیں اورجب یہ بیہود ہ بکتی ہے تو ہم کہتے ہیں چُپ رہ مت بَک۔ ہم اپنےآپ کو اس کے حوالہ ہر گز نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو اپنے تابع رکھتے ہیں۔
قوتِ متصرفہ کا بیان
یہ وہ قوت ہے جو خیالات میں اُلٹ پلٹ کرکے نتیجے نکالا کرتی ہے۔ یہ بطن دوم کے درجہ اول میں ہے۔ یہ نہایت خوب چیز ہے اوریہ حیوانی قوت نہیں ہے بلکہ نفس ناطقہ کی قوت ہے ۔اس کی بہت پرورش چاہئے۔ اس کا کام یہ ہے کہ بعض حاصل شدہ شکلوں کو بعض مطالب کے ساتھ مرکب کرکےاوراُن سے نتیجے نکال کے کہا کرتی ہے کہ ان شکلوں کا مقصد اورمطلب مجھے یوں معلوم ہوتا ہے سو میں نفس ناطقہ کے سامنے پیش کرتی ہوں ،فتوی دینا اُس کا کام ہے۔ پس یہ قوت نفس ناطقہ کے لئے صلا ح کار اورمشیر ساہے۔ تجویزیں اس سے ہوتی ہیں اورحکم نفس ناطقہ سے ملتا ہے اورکبھی کبھی نفس ناطقہ اس کی تجویزوں میں بھی مرمت کرتا ہے۔ اس قوت کے دونام ہیں کیونکہ دو طرح کے کام اس سے ہوتے ہیں جبکہ یہ قوت معلومات کی ترکیب میں نفس ناطقہ کے ساتھ مل کے کام کرتی ہے۔ تب اس کا نام’’ قوت متفکر ہ‘‘ ہوتا ہے اور یہ اس کا کام اعلیٰ درجہ کاکام ہے لیکن جب یہ اپنا کام قوت واہمہ کے ساتھ مل کے کرتی ہے اُس وقت اُس کو’’قوت متخیلہ‘‘ کہتے ہیں اوراس کا م میں خطرے ہوتے ہیں۔
سب محققوں پرفرض ہے کہ تفکر وتخیل میں امتیاز کیا کریں تاکہ غلطی سے بچیں ۔تخیلات نے ایمان میں بڑا افساد مچارکھا ہے ۔تفکرات بہت کم نظر آتے ہیں۔
قوتِ حافظہ کا بیان
یہ قوت بطن ِسوم کے درجہ اول میں رہتی ہے اورتصورات خیالیہ اورواقعات کی شکلوں کو یادرکھتی ہے اوریہی دماغی دفتر کا آخری مخرن ہے اوریہ قوت واہمہ کی چیزوں کو بھی رکھ چھوڑتی ہے۔ پچاس برس گزرے یا کم زیادہ کہ زید نے عمر کو ایک خاص لباس میں جوا ن دیکھا تھا۔ اب عمر بوڑھاہوکے اَورطرح کا ہوگیا لیکن زیدکی قوت حافظہ میں اس کی وہی پہلی صورت محفوظ ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اوراورمثالیں خود سوچ لو۔ یہ پانچ قوتیں جنہیں باطنی حواس کہاگیاانسان میں بچشم غور دکھائی تودیتی ہیں تو بھی رُوح ایک شے ممتاز رہتی ہے۔ ان قوتوں ہی میں رَل مل نہیں جاتی۔ سب سے زیادہ بلند رتبہ کی قوت قوت متصرفہ ہے اوروہ بھی اپنے کام میں کبھی واہمہ کی طرف اورکبھی رُوح کی طرف جھکی ہوئی نظر آیا کرتی ہے۔ ایسی باتوں سے رُوح میں اورقوتوں میں امتیاز ہوتا ہے اوررُوح سب قوتوں پر حاکم رہتی ہے۔ غور سے اپنی اندرونی کیفیت پر سوچو۔
دفعہ ۱۹
انسان کے دل کا بیان
’’دل‘‘ فارسی لفظ ہے۔ عربی میں اس کو’’ قلب‘‘ کہتے ہیں اوریہ عربی کا لفظ نہایت خوب اورپُرتعلیم ہے ۔’’قلب‘‘ کے معنی ہیں’’ پلٹے کھانا اوراُلٹ پلٹ ہونا ‘‘۔چونکہ انسان کا دل قسم قسم کے اثروں سے اُلٹ پُلٹ ہوتا رہتا ہے اس لئے اُس کا نام اچھا ہے اورخُدا کو بھی مقلب القلوب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دلوں کو اُلٹ پلٹ کردیا کرتا ہے۔ دوسرے معنی قلب کے ہیں درمیانی جگہ یا صدر جگہ اورچونکہ یہ دل انسان میں گویا صد رجگہ ہے جہاں سے ارادے اورخواہشیں نکلتی ہیں ا س لئے بھی اس کا نام قلب اچھا ہے۔ عام اصطلاح میں’’ دل ‘‘نام ہے اُس گوشت کے ٹکڑے کا جس کی شکل صنوبری یا گاجر جیسی ہے اور وہ انسان کے سینہ میں بائیں طرف ہے اوروہ ایک عضو رئیس ہے۔
صوفی کہتے ہیں کہ ’’دل ایک ربانی لطیفہ ہے اُس کا علاقہ اس جسمانی دل کے ساتھ ایسا ہے جیسا عرضوں اورصفتوں کا علاقہ اجسام اورموضوفات سے ہوتا ہے‘‘۔
ایک اورمحقق نے کہا ہے’’ حقائق روحانی اورخصائص نفسانی کے درمیان اورحقائق جسمانی وقوائی مزاجی کے درمیان ایک حقیقت ہے جامعہ اُس کو دل کہتے ہیں‘‘۔
ایک اورعالم نے کہا کہ ’’دل ایک نورانی جو ہر ہے۔ مجرد اوروہ رُوح حیوانی اورنفس ناطقہ کے درمیان ہے اوراسی سے انسانیت قائم ہوتی ہے۔گویا یہ دل ملکیت اورحیوانیت کے درمیان کامقام ہے جو دونوں ماہیتوں سے علاقہ رکھتا ہے‘‘۔ یہ بات توصاف ہے کہ انسان کے دل ہی سے ساری بدی اورنفسانی وحیوانی خواہشیں نکلتی ہیں اوردل ہی میں سے بہت سی خوبیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں اوریہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب دل سے خوبیاں نکلتی ہیں تب اس دل کو نفسانی حیوانی بدخواہشوں سے بڑا جنگ کرنا پڑتا ہے اورجب دل سے بدی آتی ہے تب اُس سے ملکیت کی مخالفت ہوتی ہے۔ اسی سےظاہر ہے کہ دل درمیان میں ہےملکیت اورحیوانیت کے اوراس کا علاقہ دونوں طرف ہے۔
کلام اللہ میں انسان کے دل کا بیان بہت ہوا ہے۔ بائبل کے درمیان تخمیناًدو سو آیتیں ہونگی جن میں دل کا بیان ہو اہے ۔اورکوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں ہے جو دل کا ایسا بیان دکھائے جیسا بائبل شریف نے دکھایا ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ بائبل خُدا سے ہے اورخُدا تعالیٰ سب آدمیوں کے دلوں کی کیفیت سے پوری واقف ہے ۔اس کی نگاہ میں سب اولین وآخرین کے دلوں کی کیفیت پوری پوری موجود ہے۔ اسی لئے وہ آدمی کے دل کا بیان اپنی کتاب میں پورا پورا کرسکا ہے۔
خُدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر ایک انسان کی رُوح اپنے دل کی حفاظت خوب طرح سے کرے کیونکہ جنگ کا مقام وہی ہے اسی جگہ سے فتح یا شکست ہوتی ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ آدمی اپنادل اُس کو دے تاکہ وہاں بیٹھ کے وہ اُس پر حکومت کرے اورقابض ہو کے اپنے ساتھ اُسے جہنم میں لےجائے۔
خُدا فرماتا ہے کہ تم سب اپنا دل مجھے دو تاکہ میں تمہارے دلوں میں سکونت کروں اورتم میرے ساتھ ہمیشہ خوشی میں رہو۔
اورانسان کی رُوح کا یہ اختیار ہے کہ اپنا دل جس کو چاہے دے اور یہ اختیار اس لئے ہے کہ انسان آزاد پیدا کیاگیا ہے تاکہ اس پر عدالت واجبی ہوسکے۔ قیامت اورعدالت کےدن سے پہلے دوزخی اوربہشتی لوگ اسی سے پہچانے جاسکتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں حاکم کون ہے؟ اورکہ وہ کس کی حکومت کے تحت میں موئے ہیں؟ وہ جسکی حکومت میں موئے ہیں اُسی کے ساتھ، اُسی کے سپاہی اوراسی کی چیزوں کے وارث ہوتے ہیں۔ اب ناظرین اپنے دلوں کی طرف غور کرکے آپ کو پہچانیں کہ وہ کس کے لوگ ہیں؟
بہ نسبت محمدی اہل شرع کے صوفیوں نے دل کا فکر زیادہ کیا ہے اور اُس کے درست کرنے کی کچھ تدبیریں بھی سوچی ہیں۔ میں نے جب تک بائبل شریف سے روشنی نہ حاصل کی تھی میں بھی صوفیوں کی تدبیروں پر فریفتہ تھا۔ اب مجھے معلوم ہوگیا کہ صوفیوں کی باتیں اگرچہ محمد یوں کی باتوں سے بہتر ہیں مگر فی الحقیقت نکمی ہیں۔ وہ لوگ بعض ریاضتوں اوربعض تصورات اوربعض وظائف کے وسیلہ سے دلوں کو سدھارنے کے درپے رہتے ہیں لیکن یہ چیزیں اس مرض کی دوا نہیں ہیں۔
دل پاک ہوتا ہے صرف مسیحی ایمان سے کیونکہ وہ ایمان خُدا کی بخشش ہے اورمسیح کی صلیبی موت کی تاثیر سے جو بوسیلہ ایمان کے مومن میں اثر کرتی ہے ۔دل کی بدخواہشیں مردہ سی ہوجاتی ہیں اورمسیح خُداوند کی قیامت کی تاثیر سے دل میں ایسی تازگی اورقوت اوررروشنی آتی ہے کہ مسیحی مومن بدی پر اوردنیا ،نفس اورشیطان پر غالب آتا ہے اورفتح پاتا ہے اورخُدا کا مقرب ہوجاتا اوردُنیوی دکھ سکھ میں خُدا کی مرضی کا مطیع ہوکے اپنی زندگی بسر کرتا ہے اوریہی بڑی نعمت ہے جس کے سب محتاج ہیں۔
دفعہ ۲۰
دماغ، جگر، گُردوں اورانتڑیوں کا بیان
دماغیہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے کبھی سر کے اندر کے پردوں کی چربی اورگودے کو دماغ کہتے ہیں اوروہاں کچھ حس نہیں ہے۔ کبھی تمام کھوپڑی کو دماغ کہتے ہیں اورچو نکہ وہاں پٹھے بھی ہیں اس لئے وہاں حِس بھی ہے۔ کبھی سارے سر کو دماغ کہتے ہیں۔ لیکن جب کہا جاتا ہے کہ فُلاں بڑے دماغ کا آدمی ہےتب اُس کی عقل کی گہرائی اوربڑی رسائی پراشارہ ہوتا ہےاورکبھی اُس کے غرور پر اورکبھی اس کی حماقت پر بھی اسی لفظ سے اشارہ کرتے ہیں۔
حکیم کہتے ہیں کہ ’’دماغ وہ عضو رئیس ہے جو کھو پڑی میں ہے اوراُس کی شکل مثلث مخروطی ہے ۔وہی رُوح کا محل ہے جہا ں وہ رہتی ہے۔ کان اورآنکھیں زبان اورناک جو پیشی کے خادم ہیں اُس کےبہت ہی نزدیک ہیں صرف ایک قوت لامسہ بطور جاسوسی کے سارے بدن میں چھوڑی ہوئی ہے۔ دیکھو اللہ کی شان‘‘۔
جگریعنی’’ کبد‘‘ دہنے پہلو میں ایک عضو ہے اوروہ بھی عضو رئیس ہے۔ دل ،دماغ اورجگر یہی تین عضو رئیس کہلاتے ہیں۔ ان کی بہت حفاظت چاہئے کیونکہ جب ان میں سے کسی میں خلل آیا تو پھر آدمی کی زندگی نہیں ہے۔ جسمانی دلاوری جگر کی قوت پرمنحصر سمجھتے ہیں۔ جب کہتے ہیں کہ وہ بڑے جگرے کا آدمی ہے تب اس کی دلاوری پر اشارہ ہوتا ہے۔
گُردے وہی دوگولے سے ہیں جوجانوروں میں دیکھتے ہو۔ عربی میں واحد کو’’ کلیہ‘‘ یا ’’کلوہ‘‘ کہتے ہیں اوردونوں کو کلیتیں کہا کرتے ہیں۔(زبور۹:۷) میں ہے کہ خدائے صادق دلوں اور گردوں کو جانچتا ہے۔
انتڑیاںجنہیں عربی میں’’ معا‘‘کہتے ہیں جس کی جمع’’ امعا‘‘ ہے ۔انسان کے پیٹ میں چھ انٹریاں بتاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ گہرا غم اوربڑی خوشی انتڑیوں تک محسوس ہوتی ہے ۔(نوحہ ۲۰:۱)میں بیان ہے کہ میری انتڑیاں اُبلتی ہیں۔ اُس زمانہ کے لوگ ایسا سمجھتے تھے کہ دل کی پوشیدہ باتیں گردوں میں چھپی رہتی ہیں اور گہرا غم اور گہری خوشی دل سےآگے بڑھا کے انتڑیوں تک موثر ہے۔ پس یہ اگلے زمانہ کا محاور ہ تھا اوراسی محاورہ پر کلام اللہ میں کہاگیا ہے کہ خُدا دل اورگُردوں کا جاننے والا ہے اورکہ غم سے میری انتڑیاں کلپتی ہیں۔ اورکبھی کبھی محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ انتڑیاں اسیسں دیتی ہیں۔
دفعہ ۲۱
غم کے بیان میں
غم ایک کیفیت ہےناپسندیدہ جو انسان کے دل پر طاری ہوتی ہے ۔جس سے دل سُست اورچہرہ افسردہ ہوجاتا ہے اورزیادہ غم سے جسمانی قوت میں ضعف آجاتا ہے (امثال۲۵:۱۲)۔ انسان کے دل کا غم اُسے جھکا دیتا ہے اورشکستہ خاطر کرتا ہے (امثال۱۳:۱۵) ۔
دل کے کمزور آدمی غم کی برداشت نہ کرکے کڑکڑاتے اور واویلا کرتے اورکبھی کبھی حدِاعتدال سے باہر ہوجاتے ہیں لیکن بردبار اشخاص جو صابر اورجفاکش ہیں برداشت کرکے اعتدال میں رہتے ہیں۔ غم کھانے کا ایک وقت ہے (واعظ۴:۳)۔ سب جانتے ہیں کہ انسان کو غم کبھی کبھی ہوتا ہے ہمیشہ نہیں رہتا۔ اگر کوئی آدمی اپنی زندگی کے گذشتہ وقت پر فکر کرے اورسوچے کہ کس قدر وقت غم اوردُکھ میں کٹا اورکتنا وقت آرام میں گزرا تو اُسے معلوم ہوجائیگا کہ خوشی وآرام کےلئے بہت وقت تھا اورغم کے لئے بہت ہی تھوڑا وقت تھا۔ لیکن نادانی سے یا مبالغہ سے بعض آدمی کہا کرتے ہیں کہ میری تو ساری عمر غم میں گزری ہے یہ ناشکر ی کی بات ہے اوردرست نہیں ہے۔
غم جو کبھی کبھی دلوں میں آجاتا ہے اچھا نمونہ ہے ۔اُس آئندہ دکھ کی حالت کا جو گناہوں کے وبال کے سبب سے بے ایمانوں اوربدکاروں کا حصہ ہوگا جسے آدمیوں نے ابھی نہیں دیکھا چاہئے کہ ہم سب ان دنیاوی غموں کی تلخی کوچکھ کے ہوشیار ہوجائیں اوروہ کام نہ کریں جن کے سبب سے آئندہ ابدی غموں کے سزاوار ہوتے ہیں۔
لوگ ہنسی خوشی کو بہت پسند کرتے ہیں اوراپنی زندگی کا وقت خوشی میں بسر کرنا چاہتے ہیں بلکہ بعضوں کے تو ہروقت دانت پسرے ہی رہتے ہیں۔ قہقے مار مار کر ہنستے اور ایسی ایسی باتیں دل سے نکالتے ہیں جن سے آپ ہی ہنسیں اوردوسروں کو بھی ہنسائیں۔ لیکن کلام اللہ میں لکھا ہے ۔’’ غمگینی ہنسی سے بہتر ہے‘‘(واعظ۳:۷)۔ بہت ہنسی سے آدمی کا دل مردہ سا ہوجاتا ہے اورغم دل کو سدھا رتا ہے خُداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ غمگین لوگ مبارک ہیں(متی ۴:۵)۔ پس غم نشان برکت ہے۔غم دو قسم کا ہوتا ہے ۔
اول دنیا کا غم ہے کہ دنیاوی چیزوں کے لئے اہل دنیا کے دلوں میں موثر ہوتا ہے اوریہ بہت ہے۔ چاروں طرف اہل دنیا اسی غم میں مبتلا ہیں۔ کبھی کبھی یہ دنیا وی غم بھی آدمیوں کو خُدا کی طرف کھینچ لاتا ہے لیکن اکثر یہ غم ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔
دوسرا الہٰی غم ہےجو اپنے اوردوسروں کے گناہوں کی یادگاری سے دلوں میں آتا ہے اورتوبہ کی برکت دل میں پیدا کرتا ہے یہی غم مبارک ہے (۲۔کرنتھیوں۱۰:۷)۔غم کی پھر اورطرح پر دو قسمیں ہیں ’’بیوقوفی کا غم‘‘ اور’’دانشمندی کا غم‘‘۔
بیوقوفی کا وہ غم ہے جو قاضی صاحب کو تھا کسی نے پوچھا قاضی جی آپ دُبلے کیوں ہوگئے ہیں؟ فرمایا کہ شہر کے غم نے مجھے دُبلا کردیا ہے۔ جو باتیں الہٰی انتظام کے واقعات سے دنیا میں ہوتی ہیں اوریوں ہی ہوا کریں گی جب تک کہ آخرت آئے۔ پس اُن کے لئے بے حد واویلاسے کیا فائدہ ہے مثلاً زوال دولت کا غم یا موت احباب کا غم یابعض رشتہ داروں اوردوستوں کی طرف سے بے مروتی اوربے انصافی اورجفاودغا دیکھنے کا غم وغیرہ ۔بہت باتیں ایسی ہیں جن سے دل پر چوٹ لگتی ہےلیکن ایسی چوٹوں کے نیچے دانت پسار کے گرجانا بیوقوفی ہے کچھ عقل کو بھی کام میں لانا چاہئے۔
دانشمندی کا وہ غم ہے جس کا ذکر (واعظ ۴:۷) میں ہے کہ ’’دانا کا دل ماتم کے گھر میں ہے اوراحمق کا دل عشرت خانہ سے لگا ہے‘‘۔ دانشمند آدمی ہر وقت ہرامر میں انجام بخیر کے لئے دور اندیش اورفکر مند رہتا ہے اوریہ دور اندیشی وفکرمندی اس کے دل کے لئے گویا ایک ماتم خانہ سا ہوتا ہے اوریہ ماتم خانہ اچھا ہے۔ بیوقوف آدمی نادان بچوں کی مانند کچھ دور اندیش نہیں ہے ۔ادنیٰ فانی چیزوں کو پاکے خوش ہوتا اور اُن کے زوال سے بچوں کی طرح چِلا چِلا کر روتا ہے۔ پس اِس (بیوقوف آدمی)کی خوشی اوراس کا غم بیوقوفی کے ساتھ ہے اوراُس (دانش مند آدمی)کی خوشی اورغم دانشمندی کے ساتھ ہے اورکامیاب بھی وہی ہوگا۔
بعض غم اوردکھ انسان کی صحت روحانی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے جو حقیقی مدبر اورپیار اباپ ہے آیا کرتے ہیں۔ وہ انسان کے حق میں بمنزلہ دوا کے ہوتے ہیں اُن کی تحقیر نہ چاہئے۔ ہر ایک غم اوردکھ جو انسان پر آتا ہے اگر وہ اُس سے کچھ نصیحت حاصل نہ کرے تو وہ غم فی الحقیقت غم ہے اورجو وہ اُس سے کچھ اصلاح پذیر ہو تو وہ نہ صرف غم ہے بلکہ برکت ہے۔
غم اگرچہ تلخ چیز ہے مگر اُس میں کچھ مزہ بھی ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے ’’غم کھاتا ہوں لیکن میری نیت نہیں بھرتی‘‘۔ کیا غم ہے مزہ کا کہ طبیعت نہیں بھرتی ۔اگرچہ ا س شاعر نے دنیاوی غم کی نسبت ایسا کہا ہے لیکن فی الحقیقت الہٰی غم میں مزہ ہے ۔دنیا کے غم میں محض تلخی ہے ۔ مسیح خُداوند کی صلیبی موت کے وقت مسیحیوںکو بھی بڑا غم اورالم ہوا تھا لیکن بموجب ارشاد مسیح کے اُن کا وہ غم مبدل بخوشی ہوگیا تھا (یوحنا ۲۰:۱۶) اوروہ خوشی اب تک ہماری روحوں میں برابر چلی آتی ہے اورابد تک بجلال رہے گی۔ غم اورالم کا وجود تو معدوم نہ ہوگا بلکہ بے ایمانوں کے لئے غم کا سمندر ظاہر ہوگا اوروہ ابد تک مغموم رہیں گے۔ ہاں مسیحی مومینن کے لئے غم ایسا معدوم ہوگا کہ وہ پھر اُس کا منہ نہ دیکھیں گے ۔’’اور جن کوخُداوند نے مخلصی لوٹیں گے اورصیون میں گاتے ہوئے آئینگے اورابدی سرور اُن کے سروں پر ہوگا ۔وہ خوشی اورشادمانی حاصل کرینگے اورغم واندوہ کافور جائیں گے‘‘(یسعیاہ ۱۰:۳۵) ۔ ’’اور وہ (خُدا) اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دےگا ۔اس کے بعد نہ موت رہے گی اورنہ ماتم رہے گا ۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔پہلی چیزیں جاتی رہیں ‘‘(مکاشفہ۴:۲۱) ۔ اس وقت بھی مسیحیوں کے غموں میں غیرمسیحیوں کے غمو ں کی نسبت بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کے غم ہلکے اوراُن کے غم بھاری ہیں۔ دیکھو کیا لکھا ہے تم اوروں کی مانند جو نا امید ہیں غم نہ کرو(۱۔تھسلینکوں۱۳:۴)۔ وہ قوی امید جو عیسائیوں کو مسیح میں ہےان کے غموں کا بوجھ ہلکا کرتی ہے۔ ناامید شخص کے لئے کیا آسرا ہے کچھ نہیں پورا بوجھ غم کا اُسے اُٹھانا ہوتا ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ غم کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ اگرکوئی تم میں غمگین ہو وہ دعا مانگے(یعقوب۱۳:۵)یعنی خُدا کےحضور میں جائے اوراپنا بوجھ اُس کے سامنے رکھے وہاں سے قوت صبری اورتسلی حاصل کرےگا۔
دفعہ ۲۲
خوشی کے بیا ن میں
خوشی ایک شیریں کیفیت ہے جو دل پر آتی ہے۔ سب آدمی رات دن خوشی کی تلاش میں ہیں۔ وحشی بھی اوربچے بھی ،احمق بھی اوردانش مندی بھی، ایماندار اوربے ایمان بھی سب خوشی چاہتے ہیں۔ لیکن خوشی دو قسم کی ہے فانی اورغیر فانی۔ ’’فانی خوشی‘‘ فانی چیزوں میں ہے ۔یہ فریبی خوشی ہے جو چند روزہ ہے اورآخر کا ریہ خوشی مبدل نعم ہوجائے گی اورمسلوب (نابود)ہوگی ۔یہ خوشی جسمانی خواہشوں کی تکمیل میں ہے کسی قدر تو اس کی حاجت دنیا میں انسان کو ہے مگر یہ نادانی کی بات ہے کہ ہم اس کے ہورہیں۔ دانشمند کی رُوح اس خوشی سے کبھی سیر نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے۔
’’غیرفانی خوشی‘‘ غیر فانی چیزوں میں ہے ۔یہ خُدا کے پاس ہے اور خُدا کی قربت سے حاصل ہوتی ہے۔یہ رُوح کا پھل ہےجو مسیح بخشتا ہے اور اس کا بیاں انجیل شریف میں ہے۔وہ مومنین کی رُوحوں میں موثر ہوتی ہے اورمسیح اپنے خاص بندوں کو اس خوشی سے بھر دیتا ہے۔ فانی خوشی اس غیر فانی خوشی کے سامنے ایسی حقیر ہوتی ہے کہ خُدا کے بندے ا سکے لینے کو اُسے چھوڑ دیتے ہیں اوران کا ایسا کام بیجا نہیں بلکہ بجا ہے۔ ہاں مناسب طور سے کبھی فانی خوشی کو بھی وہ عمل میں لاتے ہیں مگر اُسے مغلوب بغیر فانی رکھتے ہیں۔
لیکن وہ دنیا دار جو غیر فانی خوشی کی طرف سے اندھے ہیں۔ فانی خوشی کی تلاش اورتکمیل میں تمام زندگی بسر کرکے مرجاتے ہیں اوراُن کی خوشی اسی جہان میں فنا ہوجاتی ہے اوراُن کی روحیں بے خوشی کے اندر تک ہائے ہائے کرتی ہوئی دُکھ میں چلی جاتی ہیں۔ ناظرین کتاب ہذا کو چاہئے کہ غیرفانی خوشی کو تلاش کریں فانی خوشی پر فریفتہ ہوکے چُپ نہ کررہیں۔
دفعہ ۲۳
جسم کے بدکاموں کے بیان میں
یہا ں جسم سے مراد رُوح حیوانی ہے کیونکہ وہ جسم کی حد میں داخل ہے ۔رُوح حیوانی کے کاموں کو خُدا کے کلام میں جسم کے کام کہاگیا ہے اوریہ ظاہر کیاگیا ہے کہ رُوح حیوانی جب بُر ے کام کرتی ہے اورنفس ناطقہ اُسے دبا کے نہیں رکھتا بلکہ اُس کی خواہشوں کا خود مطیع ہورہتا ہے توخُدا کاغصہ اُس شخص کی طرف ہوتا ہے۔
رُوح حیوانی ایک فانی چیز ہے ۔وہ بدن کے ساتھ فنا ہوجائے گی۔ اُس پر کچھ ملامت نہیں اور نہ اسے ماخذمیں آنا ہے۔ لیکن رُوح انسانی جو باقی اورغیرفانی ہے اورجس میں ادراک اورتمیز ہے وہ کیوں ایک جانور کی مطیع ہوجاتی ہے اس لئے وہ آفتوں کی سزا وار ہے۔
اس بات کو یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی گھوڑے کا سوا ر جو انسان ہے گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ رکھے اوراپنی مرضی کے موافق جہاں چاہے اُسے نہ لے جائے بلکہ لگام ڈھیلی چھوڑ کے آپ گھوڑے کا مطیع ہوجائے کہ جدھر چاہے خود گھوڑا اُسے لے جائےتو کیا وہ بچے گا؟یا خود کش ہو کے مرے گا؟اور قصور کس کا ہوگا؟ گھوڑے کا یا اُس شخص کا جس نے اس کے ہاتھ گھوڑا بیچا تھا یا خود یہ حضرت ملامت کے لائق ہوں گے جنہوں نے اُس جانور کو قابو میں نہ رکھا؟ یہی حال جسمانی بدخواہشوں کی اطاعت سے آدمیوں کی روحوں کا ہورہا ہے۔ جسم کی اصولی بدخواہشوں کی فہرست یہ ہے۔
۱۔شہوت اُس خواہش کانام ہے جو نر اورمادہ میں میل کی خواہش کہلاتی ہے۔ اصل تو اُس کی خوب ہے کہ تناسل کی غرض سے اللہ نے یہ قوت جانوروں میں رکھی ہے اورانسان میں بھی ہے ۔جب یہ قوت انسان میں ظاہر ہوتی ہے اُس وقت کو بلوغت کا وقت کہتے ہیں اورجب آدمی بڈھا ہوجاتا ہے اورقوتیں کمزور ہوجاتی ہیں اُس وقت یہ قوت بھی منقطع ہوجاتی ہے۔
نادان ،احمق، ناتجربہ کا رجوان جو نہ خُدا سے ڈرتے اورنہ اہل تجربہ بزرگوں کی نصیحتیں سُنتے ہیں وہ اس قوت میں آکے بہت اُچھلتے ہیں ۔ا س کو دباتے نہیں بلکہ اس میں مگن ہوجاتے ہیں اوراپنی دیگر قوتوں کو اس کا مغلوب کرتے ہیں اورایسا مغلوب کرتے ہیں گویا اُن کے حواس خمسہ پر بھی شہوت چھا جاتی ہے۔ بُرے گیت گاتے،بُری باتیں خوشی سے سُنتے سناتے، بدصحبتوں کو پسند کرتے اورنفس امارہ کو مزہ دیتے پھرتے ہیں ۔شریر عورتوں کے درپے ہوتے ہیں حرامکاری پر کمرباندھتے ہیں اور سخت بےحیا ہوجاتے ہیں ۔چاروں طرف تاک جھانک کرتے پھرتے ہیں۔ گھوڑوں کی طرح ہنہناتے اورکُتوں کی طرح کتیوں کے درپے پھر تے ہیں۔ آپس میں لڑتے بھی ہیں، بند شیں بھی باندھتےہیں، نعرے مارتے ،فریب دیتے اورفریب کھاتے پھرتے ہیں۔
بڑی بڑی آفتیں بھی ان پر آجاتی ہیں اوران کی خوب خانہ خرابیاں ہوتی ہیں ۔آتشک کی بیماری اوربرص یا کوڑھ اسی سے ہوتا ہے اورایسی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ ان بیماریوں میں مبتلا ہوکے انسان موت مانگتا ہے اورنہیں آتی۔ اگر کسی عیاش کو ایسی بیماریوں نہ ہوں اوروہ کچھ عرصہ تک اُچھل کو د کے بیٹھ رہے تو بھی وہ باقی عمر بھر رویا کرتا ہے ۔اس لئے کہ اُس میں سے اصلی قوت نکل جاتی ہے اوراُس کی اولاد کمزور پیدا ہوتی ہے اوراُس کے بچے آئے دن بیمار رہتے بلکہ کم عمر میں مرجاتے ہیں۔ یہ آفت باپ کی شرارت سے اولاد میں آتی ہے اوراُس سز اکے سوا جو ایسےلوگوں پر خُدا سے آنےوالی ہے یہ حرامکار لوگ ایسی دنیا میں اپنا بہت نقصان کرلیتے ہیں۔ اکثر اُن کی نسلیں منقطع ہوجاتی ہیں اوراُن کے ابا کا نسبی سلسلہ نیست ونابود ہوجاتا ہے۔
ان لوگوں میں بعض تو غریب بدکار ہیں جو بے تہذیب اورجاہل ہوتے ہیں ۔وہ زیادہ رسوا اورخوار ہوجاتے ہیں۔ بعض مہذب، ذی علم اوردولتمند بدکار ہیں اوروہ کچھ سنجیدگی اوردانائی اورثروت خفیتہ ً ایسے کام کیا کرتے ہیں اوروہ اُن غریبوں کی نسبت کچھ کم رسو اہوتے ہیں تو بھی الہٰی غضب،آتشک وکوڑھ، کمزوری نسل اورانقطاع نسب وغیرہ آفات میں سب کابرابر حصہ ہے۔ بعض دینداری کے لباس میں چھپ کے ایسے بدفعلوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ سب سےزیادہ بُرے ہیں۔ ایسوں کے حق میں کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔
لمبی ڈاہڑیوں پہ نہ جادِلا
یہ شکار کرتے ہیں برملا
یہ سب آہوؤں کے ہیں مبتلا
انہیں ٹٹیوں کی آڑ میں
(ٹٹی۔آڑ،پردہ،لمبی ڈاڑھی)
خُدا کا بند وبست جو انسان کے لئے سراسر مفید ہے اس بارے میں یوں ہے کہ جوان آدمی ایک شادی کرے اوراپنی اُس بی بی کو جومناسب طور سے اُس نے پائی ہے محبت اورعزت سے رکھے اوراُسی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ ہاں اگر دونوں میں سے ایک مرجائے اوردوسرا پھر شادی کے لائق رہے۔ اگر وہ چاہے تو پھرا پنا بندوبست پاک طورپر کرلے تاکہ گناہ سے بچے اوراس قوت کوقابو میں رکھے۔ خُدا سے ڈر ے اور اپنے بدن کی بھی حفاظت کرے اور دانائی سے رہے ۔ایسا آدمی خُد اسے برکت پائے گا۔ دنیا میں بھی خوش رہیگا اورآخر کو اُس کا بھلا ہوگا اوراس کی اولاد بھی بہت بیماریوں سے بچی رہے گی۔تمام سچے عیسائی ایسا ہی کرتے ہیں ۔
۲۔طمع جس کو لالچ کہتے ہیں اصل اس کی بھی خوب ہے اوروہ یہ ہے کہ آدمی اپنی حاجتوں کے رفع کرنے میں مناسب کو شش کرے اوراپنے آرام کی چیزیں تلاش کرکے جائز طورپر لے۔ اگر اُسے ہوکا(کسی چیزکی بے انتہا خواہش) لگ جائے تب وہ طامع اورلالچی ہے۔ اُس کی نگاہ انصاف اورحق پر نہیں رہتی جس قدر پاتا ہے اُس سے سیر نہیں ہوتا بلکہ خُدا کو چھوڑ کے زرپرست ہوجاتا ہے۔ ایسے آدمی کا دل ہمیشہ دکھ میں رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا ہی مرگیا تو خُدا کے غضب کی آگ میں چلا جائیگا۔ طمع خواہش حیوانی ہے ۔نفس ناطقہ کی یہ خواہش نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف قناعت نفس ناطقہ کی خواہش ہے جو نہایت اچھی چیز ہے۔
۳۔حسد کیا ہے؟ دوسرے شخص کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھ کے اپنے دل میں جلنا ہے۔ یہ بھی حیوانی خواہش ہے۔ تنگ دل لوگوں میں حسد بہت ہوتا ہے کشادہ دل لوگ حاسد کم ہوتے ہیں۔ خیر خواہی اورخیر اندیشی اوربرادرانہ محبت جونفس ناطقہ کی صفتیں ہیں حسد اُن کے خلاف ہے۔
۴۔غرور یہ خیال رکھنا کہ میں بھی کچھ ہوں آپ پر فریفتہ ہونا ہے اوریہ حیوانی صفت ہے۔ ہر ایک سانڈ یہ سمجھتا ہے کہ’’ ہم چومن دیگرے نیست‘‘(فارسی مثل۔میر ی مثل دوسرا نہیں )یہی حال اہل تکبر کا ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی جانتے ہیں اوردوسرے لوگوں کو جو خاکسار ہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ غرور پیدا ہوتا ہے۔ قومی شرافت کے خیال سے اوردولتمندی کی وجہ سے اورعلمی لیاقت سے بھی بلکہ بعض دینداروں میں بھی اُن کی دینداری اُن کی جان کاوبال ہوجاتی ہے جبکہ اُن میں بجائے فروتنی کے غرور پیدا ہوتا ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ میں کچھ ہوں۔ سچی دینداری کا پھل یہ ہے کہ میں کچھ نہیں ہوں لیکن جھوٹی دینداری کہتی ہے کہ ہاں میں کچھ ہوں۔ بعض خُدا کے بندے قوم سے بھی شریف ہیں ،دولتمند اورصاحب علم بھی ہیں تو بھی خاکسار فروتن رہتے ہیں اورغرور کو دل میں ہرگز جگہ نہیں دیتے ہیں۔
۵۔کینہکسی کے ساتھ دل میں پوشیدہ دشمن رکھنے کا نام ’’کینہ‘‘ ہے ۔یہ ایک آگ ہے جو آدمی کے دل میں پوشیدہ یا دبی ہوئی رہتی ہے اوراُسی کے دل کو اندر اندر جلاتی رہتی ہے۔ پھر موقع پاکے بھڑکتی ہے تاکہ اُس کو بھی جلادے جس کی نسبت یہ کینہ ہے ۔یہ بھی حیوانی صفت ہے۔ نفس ناطقہ کی خواہش یہ ہے کہ انسان کا دل سب کی طرف سے صاف ہو۔ یادر کھنا چاہے کہ کینہ ور آدمی مسیحی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل سے کینہ نکل نہ جائے اوروہ لوگ جومسیحی کہلاتے اوردلوں میں کینہ رکھتے ہیں وہ ابھی تک موت میں رہتے ہیں۔ مسیح کی رُو ح اُن میں نہیں ہے اوروہ خدا کے سامنے مسیحی نہیں ہیں۔
۶۔غضب یعنی’’ غصہ‘‘ یہ صفت عام ہے ۔ یہ حیوانوں میں بھی ہے اورنفس ناطقہ انسانی میں بھی ہے بلکہ خُدا میں بھی ہے کہ وہ شریروں پر غصہ ہوتا ہے اوراُن کی شرارت کے سبب سے ناراض ہوکے اُن پر آفتیں نازل کیا کرتا ہے اورسب شریروں کو ابد تک اپنے غصہ کے سایہ میں رکھے گا یہی مقام دکھ کا ہے۔ مگرنادانی کا غصہ اور بے جا غصہ اورحیوانیت کے جوش کا غصہ اورزودرنجی کا غصہ اوربے حلم غصہ مکروہ بلکہ حرام اورخون ریزی کے برابر ہے۔ اُسی سے آدمی گنہگا ر ہوتا ہے۔ ہاں دانشمندی اورخیر اندیشی کے ساتھ انتظام کے لئے جو غصہ ہے وہ جائز اورمفید بھی ہے چاہئے کہ ہم سب اپنےغصوں کوبھی پر کھیں۔
۷۔دشنام دہی یعنی ’’گالیاں بکنا‘‘یا کچھ اوربُری باتیں کسی کی نسبت منہ سے نکالنا اَورکوسنانایا بد دعائیں دینا یا اپنے اُوپر آپ یاکسی غیر پر لعنت بھیجنا یہ سب کام بُرے ہیں اور آدمیوں کے دلوں پر اپنے منہ سے چوٹ مارنا ہے۔ ایسی باتوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس شخص کا دل اندر سے ناپاک ہےاور وہ بُری باتیں جو اس کے منہ سے نکلتی ہیں اُس کے ناپاک دل کی بدبو ہیں اوردِلی بدبو اُس کے منہ سےباہر آتی ہے اورسُننے والوں کے مزاج خراب کرتی ہے اوراُس آدمی کی بے دینی ظاہر ہوتی ہے ۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس شخص کے دل میں شیطان رہتا ہے۔ وہی اُس کے اندر بیٹھا ہوا ہےجوایسی بُری باتیں بولتا ہے۔خدا نے اُس کے دل کو نہیں چھوا۔ اُس کی عبادات ،نماز(دعا)اور روزہ سب واہیات ہیں۔ کچھ اثر نیکی کا اُس کے دل پر نہیں ہوا ہے۔ سچے مسیحی جن کے دل پاک ہیں ایسے کام ہرگز نہیں کرتے ۔اُن کے اندر سے صرف خوبی نکلتی ہے اورظاہر کرتی ہے کہ اُن کا دل خُدا کےساتھ ہے۔ طالبان ِحق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جو ہندوؤں اورمُسلمانوں وغیرہ میں’’ بزرگ ‘‘کہلاتے ہیں اورمقطع شکل رکھتے اورہاتھ میں تسبیح لےکر’’ سبحان اللہ‘‘ ، ’’سبحان اللہ ‘‘پڑھا کرتے ہیں جب اُن کے ساتھ تم تنہائی میں ہوتے ہو اوراُن کے منہ سے مسیحیوں وغیرہ کو گالیاں نکالتے سُنتے ہوتو معلوم کرجاؤ کہ وہ کس قسم کے آدمی ہیں ؟اور سچے مسیحیوں سے بھی رفاقت کرکے معلوم کرنا کہ اُن کے اندر سے دشمنوں اورموذیوں کے لئے کیا نکلتا ہے،محض خیر اندیشی اوردعا ہے۔ یہ مسیحی دین کی پاک تاثیر ہے جو اُن پرہوئی ہےاوروہ جو اُن غیر مذہب کے بزرگوں کی کیفیت ہے وہ بھی اُن کے دین کی تاثیر سے ہے۔اس سے ثابت کرسکتے ہو کہ دین ِحق کی تاثیر کیسی ہے؟
۸۔قسمانسان کو خُدا کے سوا غیر شے کی قسم کھانا عقلاً وشرعاً حرام ہے ۔ وہ جو کہاکرتے ہیں کہ مجھے اپنے پیر کی قسم یا اپنے سروجان واولاد کی قسم وغیرہ یہ سب گناہ کرتے ہیں ۔بُت پرستوں سے ایسی قسموں کا رواج جاری ہوا ہے۔ وہ جو ایسی قسمیں کھاتے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ چیزیں اُنہیں زیادہ پیاری ہیں اوراُن کے گمان میں یہ بڑی چیزیں بھی ہیں۔ لیکن فی الحقیقت خُدا بڑا ہے اوروہی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے۔
پس خُدا کے سوا غیر چیز کی قسم کھانا بے ایمانی ہے اورخُدا کا حق غیر کو دینا ہے۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ صرف خُدا کی قسم کھانا چاہئے اور سوا خُدا کے اورکسی چیز کی قسم کھانا حرام اورناجائز ہے۔ لیکن خُدا کی قسم بھی بار بار کھانا اوراُسے تکیہ کلام بنار کھنا خُدا کی بے عزتی اورٹھٹھوں میں اُڑانا ہے اور اپنےآپ کو لوگوں کی نظروں میں بے اعتبار کرنا ہے۔ سخت ضرورت کے وقت آدمی سچائی اورسنجیدگی سے خُداکی قسم کھا سکتا ہے۔ ورنہ ہر حال میں جب وہ بولتا ہے تو اُس کی ہاں اورنہیں بمنزلہ قسم کے معتبر ہونا چاہئے۔
ف۔ خُدا تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں ابرہام وداؤدسے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کےبات کی ہے اوروہ بڑی بھاری بات تھی ۔چنانچہ تم خود اُس بیان کو پیدائش ۱۶:۲۲؛ زبور۳:۸۹میں دیکھ سکتے ہو۔ قرآن شریف ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے اپنی چند مخلوق چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات خُدا کی شان سے بعید ہے کہ وہ ان مخلوق چیزوں کی قسم کھائے اوران فانی چیزوں کو اپنی بات کی صداقت میں پیش کرے۔ یہ خیال جو قرآن شریف میں ہے انسان کی تجویز ہے خُدا سے نہیں ہے۔
۹۔غیبت یعنی پیٹھ پیچھے لوگوں کے حق میں بُری باتیں بولنا یا اُن کی تحقیر کرنا ،اُن پر ہنسنا، اُن کا نقصان کرنا۔ یہ بدآدمی کاکام ہے ۔بھلے لوگ جیسے سامنے ہوتے ہیں ویسے ہی پیچھے بھی رہتے ہیں۔ یہ غیبت بڑی فساد کی صورت ہے۔ یہ کبھی مخفی نہیں رہتی۔ ظاہر ہوجاتی ہے اور اُس کے کان تک بھی جاپہنچتی ہے جس کے حق میں وہ ہوئی۔ تب اُس کا دل خراب ہوجاتا ہے اوردشمنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ جو غیبت کیاکرتا ہے دانشمندوں کی نگاہ میں حقیر ہے۔وہ خود اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس خیال سے کہ یہ آدمی اُس شخص کی غیبت ہمارے سامنے کرتا ہے ہماری غیبت کہیں اَورجاکے کرے گا۔ یہ نالائق ہے اس سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔پس غیبت سے کیا ہوتا ہے؟ اپنے بھائی کا نقصان ،خُدا کا گناہ اوردانشمندوں کے سامنے خود ذلیل ہونا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ کوئی کسی کی غیبت نہ کرے بلکہ جو کچھ کہنا ہو اُس کے منہ پر صاف صاف کہے۔ یہ صفائی کی بات ہے اوراُس کا جواب بھی اُس سے سُنے۔ شریروں کی مجلسوں میں غیبت کرنے والے اورغیبت سننے والے لوگ اکثر جمع ہوا کرتے ہیں اور اس قسم کے بہت چرچے وہاں ہوتے ہیں ۔بعض لوگوں کو غیبت سُننے میں اوربعض کو غیبت کرنے میں مزہ آتا ہے ۔اس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے دلوں میں شیطان رہتا ہے۔
۱۰۔نفاق اس لفظ کے معنی ہیں’’ بظاہر دوستی اوربباطن دشمنی ‘‘۔خالص دوستی کی خوشبو اورنفاقی دوستی کی بدبو ہرگز چھپی نہیں رہتی۔میں اپنے اُن دوستوں کو خوب پہچانتا ہوں جو مجھ سے خالص دوستی رکھتے ہیں اوراُن کو بھی نام بنام جانتا ہوں جو مجھ سے نفاقی محبت رکھتے ہیں اوریہ میں نے کیونکر جانا ہے صرف اسی سے کہ بعض کی دوستی میں سے خلوص کی اورپاک نیت کی خوشبو دماغ تک پہنچی ہے اوربعض کی دوستی میں سے نفاق کی بوآگئی ہے۔ تب میں بھی اُن کی طرف سے ہوشیار ہوگیا ہوں ۔اُن کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خُدا اُن کے دلوں کو پاک کرے اوراُن کے پھندوں سے بچنے کے لئے ہروقت ہوشیار رہتا ہوں اورمیں خیال کرتا ہوں کہ اور لوگ بھی اس طرح اپنے خالص اورنفاقی دوستوں کو پہچانتے ہونگے۔ نفاقی دوست دشمنوں سے زیادہ بُرے ہیں اوربڑے نقصان کا باعث ہیں۔ چاہئے کہ کوئی آدمی اپنی روح میں نفاق کو جگہ نہ دے۔
۱۱۔ بدگمانی ،بدگوئی ،ایذارسانی ، الزام لگانا ، بےحیائی، بددیانتی ، بے ایمانی ، بسیار خوری (بسیار خور۔بہت کھانے والا،پیٹو)، باطل عقائد، بُت پرستی ، قبر پرستی ، پیر پرستی ، بے انصافی ، تعصب ،خصومت (عداوت۔دشمنی)،خود غرضی، دُزدی(چوری) ، دروغ گوئی ، دغا ، ریاکاری، شراب خوری، سُستی ، ظلم، عیاشی ،ناشکری ، نافرمانی وغیرہ۔ یہ سب کام غلبہ حیوانیت کے سبب سے ہوتے ہیں جبکہ نفس ناطقہ اپنا کام پس انداخت کرکے رُوح حیوانی کا مطیع ہوجاتا ہے۔ یہ سب جسم کےکام کہلاتے ہیں۔ یہ رُوح کے کام نہیں ہیں اور رُوح انسانی جب جسم کی تابع ہورہتی ہے توا ن سب کاموں سے وہ ملامت کے لائق ٹھہرتی ہے۔
دفعہ ۲۴
انسانی جسم کے ناموں کا بیان
تمام دنیا کی زبانوں میں جسم کے کچھ ایسے نام ملتے ہیں جو رُوح انسانی کو جسم سے جدا ظاہر کرتے ہیں اوریہ بات بھی غور طلب ہے کلام اللہ میں انسانی جسم کے لئے چھ نام مذکورہیں۔ پیدائش ۷:۲میں جسم کو ’’مٹی‘‘،ایوب ۱۹:۴میں اُسے ’’مٹی کا مکان‘‘، (ایوب۱۱:۱۰) میں جسم کو’’چمڑا،گوشت،ہڈی اور نسیں‘‘ ، ۲۔ کرنتھیوں ۱:۵میں جسم کو’’ خیمہ کا گھر‘‘،۲۔کرنتھیوں۷:۴میں جسم کو ’’مٹی کا برتن‘‘ ،۲۔ پطرس۱۳:۱میں اُسے ’’خیمہ‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ ان ناموں میں بدن کو ’’مکان ‘‘اوررُوح کو’’ مکیں‘‘ ظاہر کیا ہے جس سے بدن اوررُوح میں صاف صاف فرق دکھایا گیاہے۔ پھر جب رُوح بدن سے نکل جاتی ہے تو اس جسم کا نام ’’لاش‘‘ ہوتا ہے اورلفظ’’ لاش ‘‘کی اصل ’’لاشی‘‘ یعنی’’ کچھ چیز نہیں ہے‘‘ کیونکہ شے وہی تھی جو اُس میں سے نکل کے چلی گئی ہے۔
دفعہ ۲۵
رُوح انسانی کی صفات کے بیان میں
امثال ۲۷:۲۰میں ’’آدمی کی رُوح (ضمیر)‘‘کو ’’خُداوند کا چراغ‘‘ کہاگیا ہے کیونکہ اس تمام کارخانہ بدنی میں روشنی بخش چیزرُوح ہے ۔ متی۲۳:۶میں خُداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’۔۔۔اگر وہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہوجائے تو تاریکی کیسی بڑی ہوگی‘‘۔یہ اُسی روحانی روشنی کا ذکر ہے ۔ ا۔کرنتھیوں۱۱:۲میں لکھا ہے کہ’’ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سوائے انسان کی اپنی رُوح کےجو اُس میں ہے؟ اسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا ‘‘۔ پس انسانی رُوح میں علمی روشنی ہے اپنی نسبت۔
تب یہ رُوح انسانی ایک روشنی سی ہے جس میں زندگی ہے اوراُس میں حِسؔ ،ادؔراک ،ارادؔدہ اورقوؔت بھی ایک حد میں ہے۔ مصنوعات کی طرف دیکھ کے رُوح انسانی جو صانع کا سراغ لگاتی ہے ۔اس کا یہی سبب ہے کہ اُس میں خُدا کی طرف سے یہ استعداد رکھی ہوئی ۔رومیوں۲۰:۱ میں لکھاہے کہ ’’اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکرصاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُ ن کو کچھ عذر باقی نہیں‘‘۔ یہ علم کس کو حاصل ہوتا ہے’’ انسا ن کی رُوح‘‘ کو ؟ نوحہ۲۴:۳ میں ہے کہ ’’میری رُوح (جان)نےکہا میرا بخرہ خداوند ہے‘‘۔ وہ ایسا کیوں کہتی ہے ادراک کے سبب سے اوراُس کی خاص مہربانی اپنی طرف معلوم کرکے ۔آستر۱۴:۴میں بیان ہے کہ’’۔۔۔خلاصی اور نجات یہودیوں کے لئے کسی اَور جگہ سےآئےگی‘‘۔ یہ کون کہتا تھا؟ اُس کی انسانی رُوح ،اُس ادراکی استعداد سے جو اُس میں تھی۔ زبور۱۴:۱۳۹ میں زبور نویس کہتا ہے کہ ’’۔۔۔میرا دل اسے خوب جانتا ہے‘‘۔یہ یقین کیونکر پیدا ہوا؟روحی ادراک سے۔امثال۳:۲۳میں’’دغا کے کھانے‘‘ کابیان ہے اورامثال ۳۰:۶ میں ’’بھوکے چور کو حقیر نہ جاننا‘‘لکھا ہوا ہے۔یہ سب ہدایتیں روحی استعداد ادراکی سے ہیں ۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی روح نیکی پر آفرین اوربدی پر نفرین کرتی ہے ، ظلم سے ایذا پاتی ہے، انصاف سے خوش ہوتی ہے اور فانی خوشی سے آسودہ نہیں ہوتی ۔یہ سب کچھ اس کی ذاتی استعداد کے سبب سے ہے۔
دفعہ ۲۶
انسانی روح غیر فانی ہے
عبرانیوں۹:۱۲میں لکھا ہے کہ خدا’’روحوں کا باپ ‘‘ہے۔زکریاہ۱:۱۲میں ہے کہ ’’خداوند انسان کے اندر اس کی روح پیدا کرتا ہے‘‘۔گنتی۲۲:۱۶میں لکھا ہےکہ ’’خدا سب بشر کی روحوں کا خدا ہے‘‘۔اسی طرح کے بہت سے اور حوالہ جات میں بھی بیان ہے کہ انسانی روح خداکی طرف سے ہے اور اُسی کی طرف واپس لوٹ جاتی ہےمثلاً’’جانیں جو میں نے بنائیں‘‘(یسعیاہ۱۶:۵۷)،’’توان کا دَم روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں‘‘(زبور۲۹:۱۰۴)، ’’وہ اپنی روح اور اپنے دَم کو واپس لے لے ۔تو تمام بشر اکٹھے فنا ہو جائیں گے‘‘(ایوب۱۵،۱۴:۳۴)،’’اس وقت خاک خاک سے جا ملے گی جس طرح پہلے ملی ہوئی تھی اور روح خداکے پاس لوٹ جائے گی جس نے اسے دیاتھا‘‘(واعظ۷:۱۲)۔
ان آیتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی روح میں اور خدا میں ایک خاص قسم کا علاقہ ہے اور کہ جب انسان مر جاتاہے تو اس کا بدن خاک میں مل جاتا ہےاور اس کی روح اللہ کے پاس چلی جاتی نیست نہیں ہو جاتی۔
دفعہ۲۷
انسان کی روح مجبور نہیں آزاد ہے
پیدائش۲۲:۳میں لکھاہے ’’۔۔۔ایسانہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائےاور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کرکھا ئےاور ہمیشہ جیتا رہے‘‘کیونکہ آدم مجبور نہ تھا ۔وہ ارادہ اور فعل میں آزاد تھا۔بائبل مقدس کے بیشتر حوالہ جات سے انسان کی اس آزادی کا ثبوت ملتا ہے۔۱۔ پطرس۱۶:۲میں لکھا ہے کہ ’’اوراپنےآپ کو آزاد جانو مگر اس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ‘‘۔زبور ۳:۱۱۰میں ہے کہ’’لشکر کشی کے دن تیرے لوگ خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرتےہیں‘‘ ۔’’ اپنی مستعد رُوح سے مجھے سنبھال‘‘(زبور۱۲:۵۱) ، ’’جہاں کہیں خُداوند کا رُوح ہے وہاں آزاد ی ہے‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۷:۳) ،’’میری رُوح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘(پیدائش۱:۶۔۴)۔ اس لئے کہ وہ آزاد ہے اورکبھی کبھی اللہ کی رُوح کی ہدایت کو بھی نہیں مانتا اوراپنے منصوبوں کی طرف جاتا ہے۔ یہ سزا اورجزا اسی آزادی پر مرتب ہےاورگناہوں پر ملامت کا اورہدایت کا طریقہ اسی سبب سے جاری ہے کہ آدمی آزاد پیدا ہوئے ہیں ۔وہ ہرگز کسی تقدیر کے مجبور نہیں ہیں۔ اورخُدا کی مرضی یہ ہے کہ سب آدمی اپنی آزادی کے ساتھ اپنی خوشی سے اُس کے تابع فرمان ہوں۔
ف۔ جس خُدا نے آدمیوں کو آزاد پیدا کیا کیا عقل مانتی ہے کہ اُس کی طرف سے کوئی جبری شرع آدمیوں کے لئے نکلے کہ ضرور کلمہ پڑھو یا جز یہ دو یامارے جاؤ؟
دفعہ ۲۸
رُو ح انسانی میں ہمیشہ دوطرفہ توجہ ہے
ہر آدمی اپنے آپ کو ایک شخص موجود سمجھتا ہے اورمَیں بولتا ہے اوردنیا کی چیزوں کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میں یقیناً قائم بالذات نہیں ہوں ۔کسی دوسرے کے ہاتھ میں میری زندگی ہے اوریہ دوسرا وہی ہے جو قائم بالذات اورجہان کا مالک ہے۔ پس انسانی رُوح ہردو طرف دیکھتی ہے۔ اپنی طرف اورخُدا کی طرف اوراس کی یہ دونوں تو جہات اُس کی ذاتی خصلتیں ہیں۔
دفعہ ۲۹
انسانی رُوح جب گناہ میں ہے ،مردہ ہے ،مسیح اُسے جلاتا ہے
ایسا ’’مردہ‘‘ نہیں کہ بے حس وحرکت مثل لاش کے ہومگر موت کے سایہ میں ہے اورموت کا زہر اُسے چڑھا ہوا ہے۔ اسی لئے خُدا کے کلام میں بے ایمانوں اوربدکرداروں کو’’ مردہ ‘‘کہاگیا ہے ۔’’یسوع نے اس سے کہا تو میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کرنے دے‘‘(متی۲۲:۸) ، ’’اوراُس نے تمہیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اورگناہوں کے سبب سے مردہ تھے‘‘(افسیوں۱:۲)،’’جب قصوروں کے سبب سے مردہ ہی تھے توہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا‘‘(آیت ۵)،’’ ۔۔۔اے سونے والےجاگ اورمردوں میں سےجی اُٹھ ‘‘(افسیوں۱۴:۵)، ’’۔۔۔گناہ کے سبب سےموت آئی اوریوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا‘‘(رومیوں۱۲:۵)،’’ جسمانی نیت موت ہے‘‘(رومیوں۶:۸)۔
یہ مردہ روحیں جب تک کہ آدمیوں کے بدنوں میں ہیں اُن کا علاج ہوسکتا ہے کہ موت ان میں سے نکل جائے اورزندگی آجائے اورپھر وہ ابدتک زندہ رہیں ۔لیکن یہ کام صرف یسوع مسیح سے اوراُس کی رُوح سے ہوتا ہے اوریہی بات مسیحی دین کی بڑی فضیلت ہے۔ دنیا میں اَورکوئی تدبیر دفع موت کے لئے نہیں ہے مگر صرف یسوع مسیح کا نام ہےجس سے لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی روحوں میں سے موت نکل گئی ہے اورزندگی آگئی ہے۔
جب سچے مسیحی بنتے ہیں تب گناہ دل میں سے نکلتا ہے اورموت رُوح میں سےنکلتی ہے۔ اندھیرا دفع ہوتا ہے اورگناہ کا وبال مسیحی کفارہ سے جاتا رہتا ہے اورجب فرمابنردار ہوکے مسیح کے پیچھے ہولیتے ہیں تب اُس کے نور سے منور ہوتے ہیں اورمسیح کی رُوح سے ہماری روحوں میں زندگی آجاتی ہے۔ تب ہم خُدا کی عبادت رُوح اورراستی سے کرتے ہیں (یوحنا۲۴:۴) ۔
توبھی جب تک دنیا میں ہیں جسم فانی میں اور جنگ روحانی میں پھنسی ہیں۔ لیکن دلوں اورخیالوں میں روشنی اورآنند ہے ۔آئندہ کو فرشتوں کی مانند ہونگے (لوقا ۳۶:۲۰)۔ بقا اورجلال اورقدرت اورروحانی جسم خُدا سے پائیں گے۔ فنا اورحقارت ناتوانی اورنفسانیت جاتی رہے گی (۱۔ کرنتھیوں ۴۲:۱۵۔۴۴) ،بلکہ ہم مسیح کی مانند ہونگے (۱۔ یوحنا۲:۳) ،خداکے بیٹے کے ہمشکل ہونگے (رومیوں۲۹:۸)، آسمانی صورت پائیں گے (ا۔کرنتھیوں۴۹:۱۵)، ہمارے خاکی بدن بھی اُس کے جلالی جسم کی مانند ہونگے (فلپیوں۲۱:۳) اورہم جلال میں ظاہر ہونگے (کلسیوں ۳۔۴)۔
ان باتوں کا یقین ہمیں اِس لئے ہے کہ ہم نے مسیح سے اپنی روحوں میں اس وقت بطور بیعانہ کے کچھ پایا ہے۔اورکہ ہم مسیح کو پہچان گئے کہ وہ کون ہے؟ اورکہ اُس کی قو ت سے بھی آگاہ ہوگئے ہیں اوراُس کا کلام حق ثابت ہوچکا ہے اور جب کہ یہ سب باتیں امور واقعی ہیں تو ثابت ہے کہ ہماری رُوحوں کی اصلیت ملکی ہے کہ ہم اپنی تکمیل فرشتوں کی مانند ہونے میں دیکھتے ہیں۔
دفعہ ۳۰
آدمیوں کی روحوں پر کچھ اندھیرا سا ہے جس کے چار مخزن ہیں
نہ سب آدمیوں کی روحوں پر مگراکثروں کی روحوں پر۔ہاں وہ جو اَب منور نظر آتے ہیں پہلے اُن کی روحوں پر بھی اندھیرا تھا۔اُن کو مسیح نے اب روشن کیا ہے۔اِس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی روحوں میں اندھیرا ہے۔لیکن یہ اندھیرا کہاں سے آگیا ہے؟یہ قابلِ غور بات ہے۔
اولاًیہ دیکھتے ہیں کہ آدمی کے اندر سے اندھیرا نکلتا ہے۔جب آدمی اپنی خواہشوں اور بد منصوبوں اور خود غرضیوں وغیرہ کا مغلوب ہو کے برے کام کرتا ہے تو یہ اندھیرا اُسی کے اندر سے نکلتا ہے۔’’۔۔۔کیونکہ انہوں نے اپنے غضب میں ایک مرد کو قتل کیا۔اور اپنی خود رائی سے بیلوں کی کونچیں کاٹیں‘‘(پیدائش۶:۴۹)۔’’۔۔۔اوراپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔چین کر اورکھاپی۔خوش رِہ‘‘(لوقا۱۹:۱۲)۔دیکھو یہ سب اندھیرے کی باتیں ہیں اور انسان کے اندر سے نکلتی ہیں۔
ثانیاًخارج میں بہکانے والے بھی ہیں۔شریر دوست ،بدکار ہم نشین اور بد نمونے جو دنیا میں نظر آتے ہیں اندھیرے کا باعث ہیں۔
ثالثاً ایک اور پوشیدہ بدروح ہے جو انسان کی دشمن ہے جس نے حوّا کو بہکایا تھا(پیدائش۱۳:۳)اور یہی بد روح انسان پر غالب آکے دنیا میں ایسی مسلط ہو گئی ہے کہ مسیح نے اُسے اس ’’جہان کا سردار‘‘ اور پولس رسول نے اُسے اس ’’جہان کا خدا ‘‘کہا ہے۔کیونکہ وہ بد ارادے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور بہتوں سے اپنی پرستش کراتا ہے۔ اُس کا نام شیطان ہے۔اُس نے بہت سا اندھیرا لوگوں کی روحوں میں ڈال رکھا ہے۔انجیل شریف میں لکھا ہے’’یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہےتاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے‘‘(۲۔کرنتھیوں۴:۴)۔وہ لالچ دیتا ہے اور باطن میں تاثیر کرتا ہے(متی۸:۴)۔
رابعاًجب آدمی گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے اورخُدا کی ہدایتوں کے تابع نہیں ہوتا ہے تب ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ خُدا اُس آدمی کو چھوڑ دیتا ہے ۔ مہربانی اورفضل کو اس کی طرف سے ہٹالیتا ہے۔ تب اُس آدمی کے دل پر بڑا اندھیر اسا آجاتا ہے اوروہ سنگدل ہوجاتا ہے ۔یہاں تک کہ ہلا ک ہوجائے۔فرعون اورحسبون کا حال ایسا ہی ہوا اورہر زمانہ میں گردن کش شریر جو خُدا کی طرف آنا نہیں چاہتے اورہمیشہ ہدایت الہٰی کی تحقیر کرتے اوربجائے الہٰی ہدایتوں کے اپنے دل سے خیال نکالتے ہیں اورجھوٹی راہوں کے حمایتی ہورہتے ہیں ۔اسی طرح خُدا سے چھوڑے جاتے ہیں اورفرعون بے سامان ہوکے مرتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی ایک ہمارے دوست خُدا سے چھوڑے گئے ۔اُن کی طرف سے روشنی ہٹ گئی اوروہ سخت تاریکی میں پھنس کے ہلاک ہوگئے۔ اس لئے مناسب اورفرض ہے کہ ہم ان اندھیرے کے چار مخرجوں سے خبردار ہیں۔
دفعہ۳۱
خُد اتعالیٰ ہمارا نشانہ ہے
یعنی وہ چیز جس کی طرف آدمیوں کو ہمیشہ تاکنا چاہئے کہ اُس کی مشابہت ہوکے اپنے کمال کو پہنچیں خُدا تعالیٰ ہے اور اس سے ہماری روحوں کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کس رتبہ کی ہیں؟ اگرچہ خُداتعالیٰ کے کام دنیا میں کچھ نظر آتے ہیں مگر اُس کی ذات پاک غیر مرے یا نادیدنی ہے۔ یسوع مسیح خُدا کی صورت ہے ۔وہ نادیدہ خُدا کو اپنی ذات میں دکھاتا ہے اور یوں ہدایت کرتا ہے کہ’’ تم کامل ہو جیسا تمہاراآسمانی باپ کامل ہے ‘‘(متی ۵: ۴۸ )۔ آدمی اس سے کامل ہوتا ہے کہ خُدا کی صفتوں کا مظہربنے۔اس طرح سے کہ خُدا کی طرف بدل وجان متوجہ ہو اوراپنےمزاج کو اُس کے مزاج کے مشابہہ کرنے میں کوشش کرے ۔خُدا نیک، پاک ، حلیم، صابر ،بردبار ،غیو ر ،رحیم ،منصف اور عادل وغیرہ صفتوں کے ساتھ موصوف ہے اوریہ سب صفتیں کامل طورپر اس میں ہیں اوریہی صفات ہیں جن سے آدمی لائق ہوتا ہے۔ اگر یہ صفتیں انسان میں نہ ہوں تو وہ آدمی بڑا نالائق اورنفرتی ہوتا ہے۔ اس بیان سے سمجھ لو کہ ہماری روحوں میں اورخُدا میں کیا علاقہ ہے؟ لیکن اس بات کا لطف انسان پر اُس وقت کھلتا ہے کہ وہ گناہ کے نشے سے ہوش میں آتا ہے۔ تب کہتا ہے کہ میں اپنے باپ پاس جاؤں گا (لوقا۱۸،۱۷:۱۵) ۔کلام اللہ میں خُدا تعالیٰ کی نسبت تین خاص باتوں کا ذکر ہے۔
اوّل خُدا رُوح ہے (یوحنا ۲۴:۴) ۔
دوم خدا نور ہے اور اُس میں تاریکی ذرہ بھر بھی نہیں(ا۔یوحنا۵:۱)۔
سومؔ خُد امحبت ہے (ا۔یوحنا۱۶:۴) ۔
اورانسان کے اعلیٰ فرائض بھی یہی تین ہیں کہ آدمی اپنی رُوح سے خُدا کے سامنے جھکے اورالہٰی نور کی روشنی میں چلے پھر ے اوریہ کہ خُدا کی محبت اوربرادرانہ محبت کے احاطہ میں ہروقت رہے ۔اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ جو خُدا تعالیٰ کی خاص خوبی ہے اُسی میں قائم رہنا انسان کی خوبی ہے۔
ایک قسم کے آدمی ہیں جن کو کلام خدا میں ’’خدا‘‘کہاگیا ہے مجازاً دیکھو۔ ’’میں نے کہا تھاکہ تم خُدا(الٰہ) ہو‘‘ (زبور ۸۳: ۶)۔یوحنا۱۰: ۳۴۔۳۵میں لکھا ہے کہ’’۔۔۔۔مَیں نے کہا کہ تم خدا ہو؟ جب کہ اُس نے اُنہیں خدا کہا جن کے پاس خُدا کا کلام آیا ‘‘۔ یہ وہی کلام ہے جس کا ذکر (یوحنا ۱:۱) میں ہے کہ ’’ابتدا میں کلام تھا اورکلام خُدا کے ساتھ تھا اورکلام خُدا تھا‘‘۔ یہ یسوع مسیح کی نسبت لکھا ہے جو مجسم ہوکے ظاہر ہے۔وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے۔ جب وہ آدمی کے دل میں آتا ہے توآدمی کو خُدا کی صورت میں اور الہٰی طبیعت اور مزاج میں لاتا ہے اورآدمی اتنا بڑا خطاب پاتے ہیں ۔بائبل کی عبارت کو جو’’ کلام اللہ ‘‘کہاگیا ہےاس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اُس کا کلام ہے (یوحنا۲۳:۱۴) اوریہ زندگی کاکلام ہے جو اُسی سے آتا ہے اورجب یہ عبارتی کلام دل میں آتا ہے ،تو وہ آتا ہے ،جس کا وہ کلام ہے ۔آدمی جو پیدا ہوتا ہے روحانی نہیں بلکہ جسمانی پیدا ہوتا ہے۔ پھر ایک خاص وقت بعض آدمیوں پر ایسا آتا ہے کہ وہ جسمانی سے روحانی ہوجاتے ہیں جبکہ تولید جدید اُن کی رُوحوں میں ہوتی ہے (۱۔ کرنتھیوں۴۶،۴۵:۱۵) اورجب یہ ہوتا ہے تو انسان کی رُوح موت سے گزر کے زندگی میں آجاتی ہے (ا۔یوحنا۱۴:۳) ۔
دفعہ۳۲
نیند اورغنودگی کے بیان میں
نیند ایک حالت ہے ہر ایک حیوان کو عارض ہوتی ہے۔ اُس میں یہ سب حو اس کچھ معطل سے ہوجاتے ہیں اورغیر ضروری حرکات چھوڑ دیتے ہیں صرف ضروری حرکتیں مثلاً سانس لینا وغیرہ قائم رہتے ہیں ۔کیونکہ تھکان کے سبب سے لطیف ابخر ے (بُخار کی جمع ۔بخارات،بھاپ)دماغ میں گھس جاتے ہیں اورحیوانی رُوح کو ایسا غلیظ کرتے ہیں کہ وہ پٹھوں میں نہیں بہتی۔ جب تک کہ نیند کا وقت پورا نہ ہوجائے یاوہ آدمی صدمات سخت سے جگایا نہ جائے۔ نیند صحت کے لئے مفید ہے اگر اپنی حد میں ہو اُس سےحیوان تروتازہ ہوکے پھر اُٹھتا ہے۔
’’غنود گی ‘‘یا ’’’’نوم متململ‘‘ ایک اورحالت ہے جو نیند اوربیداری کے درمیان ہوتی ہے جس میں حیوان کچھ سوتا ہے کچھ جاگتا ہے۔ نیند کو تشبیہً موت کی چھوٹی بہن سمجھنا چاہئے۔ بڑی بہن موت ہے جس میں تمام کا رخانہ اُلٹ پُلٹ ہوجاتا ہے۔ روز روز سونا اورپھر جاگنا مرکے جی اُٹھنے کا ایک نمونہ سا ہے۔
دفعہ ۳۳
خواب کے بیان میں
کبھی کبھی سوتے وقت آدمی کچھ دیکھتے ہیں یا اُنہیں کچھ معلوم ہوتا ہے اورجب جاگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ خواب دیکھا۔ یہ تو سچ ہے کہ اُنہوں نے خواب دیکھا۔ مگر واقعات کے تجربوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خواب کئی طور پر ہوا کرتے ہیں ۔چاہئے کہ ہم خوابوں کی قسموں سے بھی آگاہ ہوجائیں۔ اول ’’ اَضغاثِ اَحلام‘‘(پریشان خواب جن کی کوئی تعبیر ہو) ہیں۔ اس لفظ کے معنی ہیں’’ سوکھے گھاس کے مٹھے‘‘ ۔خوابوں کے یہ وہ واہیات پریشان خواب ہیں جو معدہ کی خرابی سے نظر آتے ہیں جب کہ پیٹ میں قبض ہے یاکوئی ایسی غذا کھائی ہے جس سے خراب ابخرے دماغ کی طرف چڑھے ہیں۔ یا وہ شخص اپنی بدنی کیفیت اوردماغی واہمی خیالات کے موافق کچھ دیکھتا ہے مثلاً دموی مزاج (وہ شخص جس میں خون کی خِلط بڑھ جائے)آدمی اکثر خواب میں سرخ رنگ کی چیزیں دیکھتا ہے اورصفراوی مزاج(تلخ مزاج) کو آگ وانگار ے نظر آتے ہیں۔ اورجب ریح (معدہ کی ہوا۔باد)کا غلبہ ہے اورمزاج میں کچھ بادی ہے تب دیکھتا ہے کہ گویا ہوا میں اُڑتا ہوں اوراحمق سمجھ لیتا ہے کہ میں شایدولی اللہ ہوگیا ہوں۔ سودا وی مزاج (جنونی آدمی)کو پہاڑ اوردھوئیں کے غبار نظر آتے ہیں اوربلغمی مزاج(وہ شخص جس میں بلغمی خلط زیادہ ہو۔ موٹا) کو پانی کی نہریں اوربارش اورسفید رنگ کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو یاچند کیفیتوں میں ترکیب ہوجاتی ہے۔ نفسانی خواہشیں اوررُوح کی بُری کیفیت اوربدنی امراض وغیرہ مل کے عجیب شکلیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب واہیات خواب ہیں اورخُدا کے کلام میں ان خوابوں کو ناچیز بتایا گیا ہے ۔ بھو کا اورپیاسا آدمی خواب دیکھتا ہے کہ کھاتا اورپیتا ہوں(یسعیاہ۸:۲۹ )۔ ’’کیونکہ خوابوں کی زیادتی اور بطالت اور باتوں کی کثرت سے ایسا ہوتا ہے لیکن تُو خدا سے ڈر‘‘(واعظ ۷:۵)۔
ف۔ وہ جو دانشمند آدمی ہے وہ خوابوں کے وسیلہ سے اپنی اندرونی بگڑی ہوئی کیفیت سے خبردار ہوکے صحت اورصفائی کےدرپے ہوتا ہے اورمزاج کو اعتدال پر لانے کی جلابوں وغیرہ سے کوشش کرتا ہے۔ لیکن بیو قوف آدمی کبھی کبھی ایسے خوابوں کا معتقد ہوکے اپنے دین کا اوردنیا کا بھی نقصان کرلیتا ہے۔
بعض وقت وہ مشائخ جو خلوص سے بے بہر ہ ہیں اوردینداری کے لباس میں ہوکے دنیا کماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آج ہم نے ایک خواب دیکھا اُس کی تعبیر یہ ہے کہ یوں یوں ہوگا۔ اورایسے لوگ نہ صرف باطل مذہبوں کے مشائخوں میں ہیں بلکہ خُدا کی جماعت کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ ان کی شکایت خُدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں یوں کی ہے’’ خداوند فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں اُن کا مخالف ہوں جو جھوٹے خوابوں کونبوت کہتے اور بیان کرتے ہیں اوراپنی جھوٹی باتوں سے اورلاف زنی سے میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ‘‘(یرمیاہ۳۲:۲۳ )۔ یرمیاہ۸:۲۹میں ہے کہ اپنے خواب بینوں کو جو تمہارے ہی کہنے سے خواب دیکھتے ہیں مت مانو۔
مطلق ان جھوٹے اورواہیات خوابوں کا ذکر سن کے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ خواب غلط اورباطل ہی ہوتے ہیں۔ ایسی بات ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جو حقیقی خواب ہیں اورخُدا کی طرف سے بعض آدمیوں کی رُوحوں پر ظاہر ہوتے ہیں برحق اورراست ہیں ۔محمد ی لوگ ان کومبشرات کہتے ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ صرف نیک اورخدا پر ست دیندار اورباایمان آدمی ہی دیکھتے ہیں بلکہ کافر اوربُت پرست بھی کبھی کبھی سچے خواب دیکھتے ہیں۔ دیکھو فرعون اورنبوکدنضر نے بھی جو بُت پرست لوگ تھے سچے خواب دیکھتے ہیں۔ اورفرعون کے نان پز اور ساقی نے بھی جو دیکھا تھا سچ تھا (پیدائش۸:۴۰۔۲۰؛۱:۴۱۔۸؛دانی ایل باب۲) ۔نبو کدنضر کے خواب کا بیا ن کیسی تعجب کی بات ہے کہ دانی ایل نے اس کا خواب بھی بتایا اورتعبیر بھی کہی اورویسے ہی ظہور میں آیا ۔اب کون کہہ سکتا ہے کہ وہ خواب نہ تھا خیال تھا؟ پھر دیکھو ایک آدمی بُت پرست پیلاطس کی زوجہ نے جو عدالت کے وقت اپنے شوہر کے پاس یسوع مسیح خُداوند کی نسبت اپنےخواب کی خبر پہنچائی کیسی صحیح خبر تھی؟ (متی۱۹:۲۷) ۔دنیا میں سچے خوابوں کا وجود بھی ضرور پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اپنے سچی خوابوں کے ایسے معتقد ملیں گے کہ اُن کے اس اعتقاد کو کوئی فلاسفر ہرگز ہٹا نہ سکے گا۔ وہ کہیں گے کہ البتہ دنیا میں باطل خواب خیال بھی ہوتے ہیں مگر ہمارا فلاں خواب ضرور سچاتھا۔ پس اگرچہ اس کا وہ خواب سچا ہو لیکن غیر شخص کے لئے وہ سندی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ اگرکچھ سندی بات ہے تو اُسی کے لئے ہے جس نے وہ خواب دیکھا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات آئندہ واقعہ کا عکس ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کے دل پر گرے اورمدبر عالم کے ارادہ سے گرے جبکہ خُداکوئی بات کسی پرظاہر کرنا چاہے۔
لیکن آدمیوں کی نجات کے بار ےمیں جو تعلیم ضرور ی تھی وہ سب پیغمبروں اورصاحبان الہام کے وسیلہ سے بائبل شریف میں خُدا کی طرف سے بیان ہوچکی ہے اورکامل ثبوت کو پہنچ گئی ہے اوریہ کام ختم ہوگیا ہے ۔اب جو کچھ ا س بار ے میں کوئی آدمی بائبل کے خلاف کہے گا وہ ہرگز خُدا سے نہ ہوگا ۔ ’’اگرہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ سوائے اُس انجیل کے جو ہم نے سنائی دوسری انجیل تمہیں سنائے سو ملعون ہو‘‘( گلیتوں۸:۱)۔
یہ اوربات ہے کہ کوئی کہے میں نے ایک خواب دیکھا ہےفلاں شخص پر کوئی آفت یا برکت آتی ہوئی نظر آتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید ایسا ہو دیکھا جائےگا۔ جب ویسا ہوتو کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا خواب سچا تھا۔ لیکن ہمیں اورتمہیں دونوں کو کلام اللہ کا مطیع ہونا ضرورہے نہ خواب خیالوں کا۔
دفعہ ۳۴
پیغمبروں اورمومنین کےخواب کابیان
چونکہ یہ لوگ بھی انسان ہیں۔ اُنہیں بھی بدہضمی اوربیماری وغیرہ اسباب سے باطل خیال آسکتے ہیں اورآتے بھی ہیں۔ مگر ان لوگوں کے وہ خاص خاص خواب جو کلام اللہ میں مذکور ہیں الہام کی قسم سے ہیں۔ اس لئے اُن کےاُن خوابوں کو حقیقی خواب ماننا واجب ہے۔ دیکھو کیا لکھا ہے’’خواب میں رات کی رویا میں جب لوگوں کو گہری نیند آتی ہے اوربسترپر سوتے وقت۔تب وہ لوگوں کے کان کھولتا ہے اوراُنکی تعلیم پر مُہرلگاتا ہے‘‘(ایوب۱۶،۱۵:۳۳) ۔
اب سوچئے کہ یہ تعلیم درست ہے یا نہیں۔ تجربہ سے یقین ہے کہ درست ہے ۔اُس وقت آدمی کے حواس معطل سے ہوتے ہیں تو بھی اُس کی رُوح کچھ سنتی ،کچھ دیکھتی، کچھ سیکھتی ہے۔ اگر رُوح انسانی ایک مستقل جو ہر نہ ہوتا تو ایسا معاملہ کس طرح ہوسکتا تھا ؟
(ایوب۱۲:۴۔۲۱پڑھو)دیکھو جب وہ سوتا تھا اورآنکھیں بند تھیں حواس معطل تھے تب اس کی رُوح نے ایک اَوررُوح کو دیکھا اوراُس سے متاثر ہوئی اورایک آواز بھی سُنی اس حالت میں جو دیکھنا اورسُننا ہوا نفس ناطقہ سے بلا توسط حواس ظاہر ی کے ہوا ۔(گنتی ۶:۱۲۔۹)خُدا تعالیٰ نبی کو اپنے تین رویا میں معلوم کراتا ہے اوراُس سے باتیں کرتا ہے اورموسیٰ سے آمنے سامنے بولتا ہے۔ اوریہ بھی لکھا ہے کہ سچے خواب والا نبی جو بدتعلیم دے قبول نہ کیاجائے کہ وہ آزمائش کا مقام ہے (استثنا ۴،۳:۱۳)۔
دفعہ ۳۵
اطوار تعلیم وتعلم
انسان محض جاہل پیدا ہوتے ہیں اورپیدا ہوتے ہی اس جہا ن کی باتیں سیکھنا شروع کرتے ہیں اور وہ سُننے ،دیکھنے ،قیاس اورتجربہ سے تعلیم پاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ بدی بھی سیکھتے ہیں اورنیکی بھی سیکھتے ہیں۔ اُن کی تعلیم کبھی پوری نہیں ہوتی کہ وہ مرجاتے ہیں اورسیکھنے کے لئے بہت کچھ باقی رہ جاتا ہے۔ اُنہیں نہ اس قدر فرصت ہے نہ اس قدر طاقت ہے کہ سب کچھ سیکھ سکیں۔
ضروری بات انسان کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی مرضی کو دریافت کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اوراُسی کے موافق اپنی زندگی بسر کرکے اِس سے رخصت ہو۔ ہاں دنیا کی اَورباتیں بھی جہاں تک وہ سیکھ سکتا ہے سیکھے اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اعلیٰ غرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ خُدا کی مرضی کو دریافت کرےکیونکہ بہبودی اس کی اُسی پر موقوف ہے۔عام طریقہ تعلیم آدمیوں کے لئے اکتساب اوراستفاضہ (فائدہ اٹھانا)اورفکر ہے اوریہ طریقہ حواس سے علاقہ رکھتا ہے اورپورا ہوتا ہے۔ لیکن خُدا کی مرضی اس طریقہ سے پوری پوری دریافت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے خُدا نے ایک اورطریقہ تعلیم کا دنیا میں ظاہر کیا ہے جسے ’’الہام ‘‘کہتے ہیں ۔یہ طریقہ خاص الہٰی مرضی کے اظہار کے لئے ہے اور یہ عام آدمیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خاص لوگوں کو بخشا گیا تھا جن کے وسیلہ سے الہٰی مرضی بائبل شریف میں قلم بند ہوگئی ہے۔ اس طریقہ سے جو تعلیم ہوتی ہے اس کے لئے الفاظ ذیل دنیا میں مشہور ہیں یعنی الہام ،مکاشفہ، القا،وحی ،وجد، وجد ان، فیض۔
’’الہام ‘‘کے معنی ہیں کہ’’ کوئی مطلب انسان کے دل میں خُدا کی طرف سے آئے جس میں اکتساب اوراستفاضہ اورفکر کو اورقوت واہمہ کو دخل نہ ہو‘‘۔
’’مکاشفہ‘‘ کے معنی ہیں’’ پردہ ہٹا کے کچھ دکھانا‘‘۔
’’القا‘‘کے معنی ہیں’’ خُدا کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈالا جانا‘‘۔
’’وحی‘‘کے معنی ہیں’’ خُدا کا پیغام‘‘۔
’’وجد‘‘کے معنی ہیں’’ بوسیلہ چشم دل کے خُدا کو دیکھنا‘‘۔
’’وجدؔ ان‘‘ کے معنی ہیں’’ گم شدہ کو پانا‘‘۔
’’فیض‘‘کے معنی ہیں’’ خُدا کی طرف سے دلوں میں برکت کا بہہ کے آنا ‘‘۔
دنیا میں بڑا مباحثہ اس بار ے میں ہورہا ہے کہ آیا یہ دو طریقے یعنی ’’اکتسابی‘‘ اور’’الہامی‘‘ فی الحقیقت جہان میں ہیں یا نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف اکتسابی طریقہ ہے الہامی طریقہ فرضی بات ہے یا وہ مغالطہ دے کے الہامی طریقہ کو اکتسابی میں شامل کردیتے ہیں۔ چنانچہ برہمواور نیچر یوں کا یہی حال ہے ۔یہ سب الہام کے منکر ہیں۔ اُن کی باتیں ہمیں کچھ سنجیدہ نظر نہیں آتیں اورنہ اُن لوگوں میں کچھ خیر خوبی دکھائی دیتی ہے ۔دنیا کے درمیان جس قدر خیر خوبی نظر آتی ہے وہ صرف اسی الہامی طریقہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔اس لئے ایسے منکر ہمیں بطلان پر نظر آتے ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ ہاں الہام کا طریقہ توموجود ہے مگر وہ عام ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کو الہام ہوا کرتا ہے۔ خاص زمانہ میں خاص لوگوں پر اور خاص کتابوں میں منحصر نہیں ہے۔ یہ قول فریب کا ہےجومنکرین الہام نے قایلیں الہام کو فریب اورمغالطہ دے کے اپنے جال میں پھنسانے کے لئے بنایا ہے تاکہ اپنی واہمی باتوں کو اس زمانہ کا الہام کہہ کے اُن سے قبول کروائیں اورحقیقی الہام کو اُن سے چُھڑائیں۔ ایسے لوگوں کو منکر ین الہام کہنا چاہئے۔
میں پوچھتا ہوں کہ الہام کی ہمیں ضرورت کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ ہم خُدا کی مرضی کو معلوم کریں کہ ہماری اُخر وی اورحال کی بہبو دی کیونکر ہوسکتی ہے؟ اورعقل اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کہ خُدا کی مرضی ہر زمانہ میں لوگوں کی نسبت بدلا کر ے آج کچھ مرضی ہے اورکل کچھ اور مرضی ہوجائے۔ اُس کی ایک مرضی ہے جو اول سے آخر تک سب آدمیوں کی نسبت ہے۔ سو ایک دفعہ ایک زمانہ میں اُس کا اظہار کافی ہے۔ ہر زمانہ میں الہام کی کچھ ضرورت اورحاجت نہیں ہے ۔ہاں فیض کی حاجت ہے کہ ہرزمانہ میں ہر کوئی اپنے دل میں برکت پانے کا محتاج ہے کہ الٰہی مرضی ظاہر شدہ میں مستقیم ہو۔ خُدا کی طرف سے جو پیغام آنا تھا وہ پیغمبروں کے وسیلہ سے آچکا ہے۔ اُس کی مرضی ظاہر ہوگئی ہے جو بائبل میں مندرج ہے اوربرکت روحانی ایمانداروں کو ہرزمانہ میں برابر ملتی رہتی ہے جس سے وہ دینداری میں قائم اورایمان میں خوش وقت رہتے ہیں۔بائبل کے سوا اورلوگ بھی ہیں جو ایک ایک کتاب لے کے اُس کے الہامی ہونے کے مدعی ہیں اس کا فیصلہ کیونکر ہوسکتا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ بعض آدمیوں کو وہم بھی ہوتے ہیں کیونکہ قوت واہمہ اُن میں ہے۔بعض آدمی دھوکا بھی کھاتے ہیں کیونکہ وہ انسان ’’ضعیف البنیان‘‘(جس کی بنیاد کمزور ہو) ہیں اوردنیا میں فریب بہت ہے۔ بعض آدمیوں کو مالیخو لیا بھی ہوجاتا ہے ۔صفر اوی غلبہ سے بعض آدمی خود بھی فریب دینا چاہتے ہیں کہ اپنی کوئی غرض پوری کریں ۔بعض آدمی بیوقوف بھی ہیں کیونکہ سب نے مناسب تعلیم نہیں پائی ہے ۔بعض آدمی شریر بھی ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں شر ہے۔ بعض آدمی بجائے خود نیک اورخُدا ترس اور سچے بھی ہیں اس لئے ہر مدعی کا قول بے تامل قبول کرنا یا ردکرنا مناسب نہیں ہےجب تک کہ مناسب تحقیق نہ ہو جائے ۔پس جو کوئی چاہے اُٹھے اورتحقیق کرے کہ کونسی کتاب اللہ سے ہے اورایسی سچائی سے دریافت کرے کہ خُدا کے سامنے روسیاہ نہ ہو جائے۔ بے ایمان اوربے انصاف منصف ہوکے فیصلہ نہ کرے۔ بائبل شریف کی کیفیت کا مقابلہ سب اہل مذاہب کی کتابوں کی کیفیتوں سے بہ ہزار کوشش اورانصاف لائق آدمیوں سے ہوگیا ہے اورثابت ہو چکا ہے کہ صرف بائبل ہی حق ہے۔وہی خدا سے ہے۔اسی میں الہام ہے۔اسی میں انسان کے لئے زندگی اورتسلی ہے۔اسی میں روشنی ہے ۔چاہو تو باانصاف خود مقابلہ کر کے دیکھو۔
.دفعہ ۳۶
اطوار تحقیقات
دنیا میں جھوٹ اور سچائی یہ دونوں موجود ہیں بلکہ جھوٹی تعلیمات بکثرت پھیلی ہوئی ہیں۔کیا کریں کہ گمراہی سے بچیں اور غلطیوں میں سے نکلیں؟ اُس کی راہ صرف یہی ہے کہ اولاًہم ہر طرف سے نگاہ ہٹا کے اپنے دل میں اور خیال میں سچے بنیں یعنی سچائی کے سچے طالب ہوں۔
یہاں تین الفاظ ہیں جنہیں خوب یاد رکھنا چاہیئے۔اول سچائی،دوم اس کی طلب،سوم سچی طلب۔ سچائی نام ہے امر واقعی کا اور کذب کے خلاف ہےاور اپنے نمونے یا سایہ کا عین بھی ہے۔مثلاًزید جو فی الواقع اندھا ہےاگر کہیں کہ وہ آنکھوں والا ہےتو یہ جھوٹ ہےاور جو کہیں کہ وہ اندھا ہے یہ سچائی ہے۔اس طرح اگر زید کی تصویر کو کہیں کہ یہ زید ہے یہ امر واقعی نہیں ہے۔زید فی الحقیقت وہ شخص ہے جس کی وہ تصویر ہے۔عقلاًو نقلاً سچائی عمدہ شے ہےاور کذب مکروہ ہے۔انسان کی تمیز کو اور سب زندہ تمیز شخصوں کو اور خدا کو بھی سچ پیارا ہے۔سچائی خدا کی صفت ہے اور جھوٹ شیطان کی صفت ہے۔سچائی پر الہٰی رحمت کا سایہ رہتا ہے اور جھوٹ پر خدا کے غصے کی گھٹا چھائی رہتی ہے۔سچائی سےدل پاک اور کذب سے ناپاک ہوتا ہے۔پس چاہیئے کہ ہم سچ بولیں اور ہر بات میں سچا انصاف کریں اور سچے خیال اپنے ذہن میں رکھیں اور ہر بات میں سچ کے طالب رہیں اورسچ کو عزت دیں اور دلوں میں محبوب رکھیں اورخود اُس میں قائم ہوں۔
ہر کوئی منہ سے تو کہتا ہے کہ سچائی خوب چیز ہے کیونکہ انسان کی تمیز ایسا کہتی ہے۔ لیکن ہر کوئی اُس کا طالب نہیں ہے، اُسے تلاش نہیں کرتا، ا سکے لئے دن رات ایسا مشتاق نہیں جیسا اپنی اورغرضوں کا مشتاق ہے۔ اس کایہی سبب ہے کہ سچائی اُس کی نظر وں میں کچھ قیمتی اورعزیز شے نہیں ہے۔ وہ محاور ہ کے طور پر کہتا ہے کہ سچائی خوب چیز ہے۔ ایسا آدمی سچائی کو نہ پائیگا بلکہ جھوٹ کے جال میں پھنسا ہوا مرےگا اوروہاں جائیگا جہاں جھوٹ کا باپ یعنی شیطان رہتا ہے۔ چاہئے کہ سچائی کی طلب ہم میں ہو اورسچی طلب ہو ،جھوٹی طلب سے سچائی ہاتھ نہیں آتی ہے۔ وہ جو سچائی کا طالب ہے چاہئے کہ پہلے اپنی جیب سے جھوٹ کو نکال کے دور پھینک دے تاکہ سچائی کا عاشق کامل ہوتب اس کا محبوب اُسے نظر آئیگا کہ کہاں ہے؟ سچائی نظر آتی ہے، سچی آنکھوں والے کو۔ پس چار چیزوں کو جو سچائی کے خلاف ہیں اپنے اندر سے نکا ل اوردوباتوں کو عمل میں لا۔تب تو حق کو خوب پہچانے گا۔
اوّلبے جا طرفداری کو چھوڑدے، حق کا طرفدار ہو۔
دومخود غرضی کو نکال کہ یہ شیطان کی رسی ہے جو آدمیوں کو شیطان کے پاس باندھے رکھتی ہے۔
سوم کج بحثی کا طور چھوڑ دے کہ یہ شیطان کا جال ہے جس میں صد ہا آدمی مگس(مکھی) سیرت پھنسے رہتے ہیں۔ بات کے مغز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ مغز کو پھینک دیتے اورپوست کوچبا یا کرتے ہیں۔
چہارمغرور نہ کر۔ مت کہہ کہ میں بڑا عالم ہوں یا بڑا خاندانی شریف یا زیادہ نیکو کارہوں۔
یہ سب باتیں سچائی کے خلاف اور گمراہی کی دلدل ہیں۔غرور ایک نشہ سا ہے جو آدمی کے دماغ کو مکدر (کدورت آمیز۔گدلا)رکھتا ہے۔ان چار باتوں کو چھوڑ کہ جو دو باتیں تجھے عمل میں لانا لازم ہیں یہ ہیں۔
اولاًتُو اپنی روح میں خداسے جو خالق ہے سچائی کے لئے انکشاف کا طالب ہو تاکہ تجھے غیبی مدد اوپر سے ملے۔
ثانیاًاگر تو صاحب علم ہے یا کسی قدر خواندہ شخص ہےتو تُو مخالفوں اور موافقوں کی کتابوں پر متوجہ ہو ۔ اگر تو بے علم ہے اور نا خواندہ ہے تو ان دونوں قسم کےلوگوں کی باتیں بغور سُن اور جو کچھ تُو خود نہ سمجھے وہ بات جس گروہ کے لوگوں کی ہے اُسی گروہ کے لوگوں سے پوچھ کہ آپ لوگ اس بات کو کیونکر سمجھتے ہیں؟اور دوسری جانب کے سامنے ان کا بیان پیش کر اور سب کی سُن کے یا پڑھ کے اپنی تمیز سےآپ انصاف کر۔اور آہستگی اور نرمی سے ایک ایک بات کو سلجھا۔بہت سی باتوں کا ہجوم اپنے سامنے نہ آنے دے کہ تیرا دماغ برداشت نہ کر سکے گا اور تیرے سامنے غوغا ہو گا اور غوغے میں حق پوشیدہ ہو جائے گایا تُو خود دیوانہ سا ہو کے کہے گا کہ یہ تو سب جھگڑے ہیں ۔میں سب سے کنارہ ہو کے یوں یوں کروں گاتب تُو خود اپنی طرف سے ایک گمراہی کا نکالنے والا ہوگا۔اگر تُو ایک ایک بات کا فیصلہ آرام کے ساتھ کرے گا تو چند روز میں چند صداقتیں تیرے ہاتھ میں آ جائیں گی۔اور تیرے خیال میں عجیب روشنی کا باعث ہوں گی اور وہ جھگڑے کا بڑا جنجال تیرے سامنے حل ہو جائے گا۔لیکن تجھے خوب معلوم ہو جائے کہ تجھے بوسیلہ اپنی تمیز کے غور سے انصاف کرنا ہے کیونکہ یہ تمیز اللہ کی طرف سے ایک روشنی ہے۔اسی کا دوسرا نام نور فطرت ہے اور یہی پہلا ہادی انسان کے لئے خدا کی طرف سے مقرر ہے اوراُس میں تاریکی بھی چھا جاتی ہے۔ انہیں چار مکروہ چیزوں کے سبب سے جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ جب تُونے اُن چاروں کو اپنے اندر سے نکال ڈالا ہے تو اب تیری تمیز صاف ہوگئی ہے اورسچائی کی طرف خوب ہادی ہوسکتی ہے۔ اب ہر بات کا مناسب فیصلہ تیری ہی تمیز سے ہوگا اورتو اُس فیصلہ پر بااستحکام قائم بھی رہےگا کیونکہ تو سچائی کا طالب تھا۔
ہاں اگر تو اپنی جان کو فریب دےگا اوران بد صفتوں مذکورہ بالا میں سے کوئی بدصفت چھپا کے اپنے دل میں رکھے گا۔ اس صورت میں تیر ے فیصلہ کے درمیان اُس پوشیدہ بدصفت کی کچھ بدبو ضرور نکلے گی اورتیرا ہی دل تجھے اندراندر الزام دیگا اوردیگر مبصران روشن ضمیر حق پسند تیرے فیصلہ میں تیری اس بدصفت کا خمیر تجھے دکھائیں گے اورتوبے انصاف ہوکے عدالت الہٰی میں سزا کا سز اوار ہوگا۔ ہزاروں آدمی ہیں جواپنے آپ کو حق کا طالب کہتے ہیں مگر کذب کو بغل میں دبائے ہوئے ناپاک بحث کیا کرتے ہیں۔ وہ جو فی الحقیقت سچائی کے سچے طالب ہیں وہ ضرور سچائی کو پاتے ہیں۔
دفعہ ۳۷
کامل انسان کے بیان میں
کامل انسان وہ ہے جس کی انسانیت کے سب مدارج جسمانی اورروحانی پورے پورے اورٹھیک مناسبت میں ہوں۔ یعنی اُس کی انسانیت کے کسی حصہ میں کمی بیشی نہ ہو۔ جب کہتے ہو کہ اس تھیلی میں پورے سوروپے ہیں ۔اس کے یہی معنی ہیں کہ سوسے نہ کچھ کم ہے نہ زیادہ مگر سوا کائیاں پوری ہیں۔ لفظ ’’کامل‘‘ کے معنی ہیں’’ پورا‘‘،’’بے نقص‘‘۔کامل انسان کے لفظی معنی ہیں وہ انسان جس کی انسانیت میں کچھ نقص نہیں۔
ہمارے ملک کے کج فہم لگ جو مرشدِ کامل کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ وہ اکثر مرتاض (ریاضت کرنے والے)اور کچھ پرہیزگار لوگوں کوجب اُن سے کوئی اچنبھے کی بات دیکھتے ہیں کامل آدمی کہا کرتے ہیں بلکہ اپنی روح کو بھی ان کے سپرد کر دیتے ہیں جو وہ فرماتے ہیں یہ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں کامل انسان مل گیا ہےاور ان کا پیرو مرشد ہوا ہے۔یہ نہایت نازک معاملہ ہے۔اس میں بڑی غلطیاں ہوتی ہیں ۔اکثر اندھے لوگ اس اندھے مرشد کےپیچھے چل کے اس کے ساتھ دوزخ کی غار میں جا گرتے ہیں۔پس کامل انسا ن کی تعریف بغور سمجھ کے ناظرین کو ہو شیار ہونا چاہیے۔
محمدی لوگ کہتے ہیں کہ محمد صاحب کامل انسان تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں نےکامل انسان کےمفہوم پر غور نہیں کیا ہے۔صرف شیفتگی (عشق) کے سبب سے اور اس لحاظ سے کہ وہ ان کے پیشوا ہیں۔انہوں نے حضرت کو کامل انسان کہہ دیا ہے۔اب زمانہ روشنی کا ہے اور بہت کچھ صاف صاف نظر آتا ہے ۔اس لئے ہم خوب دریافت کر کے کہیں گے کہ کامل انسان کون ہے؟کامل انسان کی وہی تعریف ہے جو اس دفعہ کی پہلی سطروں میں میں نے لکھی ہے۔اس کو حفظ رکھنا چاہیے۔اس کے موافق اگر کوئی شخص نظر آئے تو اس کو کامل انسان سمجھنا مناسب ہو گا۔
لفظ’’انسان ‘‘ پر بہت بحث ہو چکی ہے اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ انسان ایک چیز ہےمرکب حیوانیت اور ملکیت سے خاکی جسم اس کا خیمہ سا ہے۔پس چاہیے کہ جسمانی اعضاسب درست ہوں اور حیوانی قوتیں بھی مناسب صورت میں موجود ہوں اور صفات ملکیہ کی رُو یا نفس ناطقہ کی قوتیں یا صفتیں ہیں۔سب کی سب مناسب شکل میں اور یہ کل مجموعہ بہ تر تیب مناسب قائم ہوکے اُس اپنی خاص نسبت یا علاقہ میں جو اُس کو اپنے خالق سے اپنی وضع میں ہے وہ شخص بیداغ صورت میں قائم ہو۔وہی کامل انسان ہے۔ تو ضیح اُس کی یوں ہے کہ جسمانی اورحیوانی اورملکی سب حصوں کے وجودی تکملہ کے بعد یہ بھی ضرور ہے کہ اُن میں نسبتیں بھی مناسب ہوں ،نہ ان کا کوئی حیوانی صفت تعدی کرکے کسی ملکی صفت میں خلل انداز ہو۔ اور یہ بھی چاہئے کہ وہ اپنی بنی نوع اوراُن سب دنیاوی خارجی اشیاء کے درمیان بھی مناسب حالت میں رہے۔ پھر اپنے خالق کی نسبت بھی ٹھیک ہو اورعین وقت پیدایش سے موت تک ہرحال میں یہ کیفیت تم اُس میں ثابت کرسکو تو وہ کامل انسان ہوگا۔
اب بتاؤ کہ دنیا میں کون ایسا شخص کبھی ظاہر ہوا ہے؟ کس کی تاریخ ایسی ہے؟ کس کو ایسا شخص بدلیل بتا سکو گے؟ صرف ہم عیسائی لوگ دلاوری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خُداوند یسوع مسیح ایسا ہے کیونکہ یہ سب مدارج مذکورہ اُس میں ثابت ہیں ۔پاک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کیونکہ ہم نے اُس کی تواریخ کے ہر ہر فقرے اورہر ہر لفظ کو بغور دیکھا اورسمجھا ہے۔ اُن نکتوں اورباریکیوں کے ساتھ جو وہاں مذکور ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہیسوع مسیح کامل انسان ہے اوریہ بیان اُس کی ماہیت انسانی کا ہے۔ الوہیت کی ماہیت اس کی جَدّی (آبائی ۔ موروثی)بات ہے اوروہ بھی پوری خُدائی ہے۔ پس وہ کامل خُدا اورکامل انسان ہے۔ آدم بھی کامل انسان پیداہوا تھا اورکچھ عرصہ تک کامل رہا ۔پھروہ کمال کے رتبہ سے گناہ کے سبب گرگیا اوراُس کی نسبتوں میں خلل آگیا اورخلل کے سبب سے روحانی قوتوں میں اندھیرا چھاساگیا اورسارا کارخانہ درہم برہم ہو گیا ۔تمام اولاد میں بدی اور گمراہی پھیل گئی اور لعنت کے نشان ظاہر ہوگئے اور ہم سب کےسب نکمے اور ناقص ٹھہرے۔ البتہ کبھی کبھی بعض شخص دنیا میں ایسے بھی ظاہر ہوئے جنہیں خُدا کے کلام میں کامل کہا گیا مثلاًنوح اپنے زمانہ میں راستباز تھا(پیدائش۹:۶)،داود کا دل کامل ہوا (۱۔سلاطین۳:۱۵) ،ایوب کامل اور صادق تھا(ایوب۸:۱)۔یہ سب لوگ حقیقی کامل نہ تھے، دیندار اور بھلے آدمی تھے۔ اضافی اور مجازی طور پر کامل تھے اور مسیحی لوگ بھی دنیا میں ایسے ہی کامل ہوتے ہیں۔آخر کو وہ اور ہم سب اپنے کمال کو پہنچیں گے ۔ حقیقی کامل صرف یسوع مسیح ہے۔وہ دنیا میں پیدا ہو کے حکمت میں اور قد میں خدا کے اور انسان کے نزدیک مقبولیت میں ترقی کرتا گیا(لوقا۵۲:۲)۔وہی خدا کا اور اسرائیل کا قدوس ہے۔اللہ کا بے عیب برّہ ہے ۔اس نے خدا کی مرضی پر پورا پورا ایسا عمل کیا کہ خدا کی نگاہ میں اپنے اورخدا کے درمیان کسی دقیقہ(معمولی بات) کے بھی قصور نہ آنے دیا۔اس نے آدمیوں کے حقوق بھی پورے کیے بلکہ اپنے جائز حقوق بھی چھوڑ کے آدمیوں کے لئے بے حد فضل تیار کر دیا۔اسی لئے تمام اولین اورآخرین کی نگاہ اس پر ہے۔اولین بہ ہدایت الہٰی اُدھر سے اور ہم آخرین اِدھر سے اُسی کو تکتے ہیں اور وہ سب کی نگاہوں کا نشانہ ہے۔اور جب ہم اُسے تکتے ہیں تو اس کا عکس ہم پر پڑتا ہے اور ہم سدھرتے اور کامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے کمال کو پہنچیں گےاور تمام نقص ہم میں سے نکل جائیں گے۔کامل انسان یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازے تک پہنچے (افسیوں۱۳:۴)۔
پس وہ سب لوگ جو کامل مرشد کے طالب ہیں چاہیئے کہ مسیح یسوع کو تاکیں ۔ناقص آدمیوں کی طرف تاکنے سے کیا فائدہ ہے۔ناقص سے ناقص بنتے ہیں اورکامل سے کامل ہوتے ہیں۔ وہ جو کامل خُدا اورکامل انسان ہے اوراولین وآخرین کی نگاہوں کا نشانہ خُدا سے مقر ر ہے اوروہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے ۔اُس کا تصور عین خُدا پرستی ہے اورغیر کا تصور جو تصور شیخ کہلاتا ہے بُت پرستی ہے۔آدمی جب بُت پرستی کرتے ہیں تو خود مثل بُت کے ہوجاتے ہیں اورجب خُدا پرستی کرتے ہیں تو خُدا کی صورت میں بحال ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہ صرف یسوع مسیح کی طرف تاکنے سے ہوتا ہے اوروہ تاکاجاتا ہے اپنی تواریخ میں جوکتاب انجیل میں مذکور ہے۔
دفعہ ۳۸
انسان کے پیدا کرنے سے خُدا کا کیامطلب ہے؟
ہر موجود شے کے لئے یہ حکیم لوگ چار علتوں یا سببوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
اول’ علتِ مادی‘‘ ہے مثلاً تخت کے لئے علت مادی لکڑی ہے جس سے وہ بنا ہے۔ انسان کے لئے علت مادی کیا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے کیونکہ انسانی جسم کے لئے توہم جلدکہہ سکتے ہیں کہ اربع عناصر اس کی علت مادی ہیں ۔لیکن اس کی رُوح کا مادہ عناصر نہیں ہیں وہ کوئی عالم بالا کی شے ہے جس کی حقیقت معلوم نہیں ہے ۔پس یہی کہنا پڑتا ہے کہ انسان کا مادہ مرکب ہے، سفلیت اورعلویت سے ۔
دوم’’علتِ صور ی ‘‘ہے یعنی اُس شے کی صورت مثلاً تخت کی خاص صورت جو نظر آتی ہے یہ اُس کی’’ علت صوری ‘‘کہلاتی ہے ۔انسان کی بھی جو صورت دیکھتے ہو یہ اُس کی علت صوری ہے۔
سوم’’علتِ فاعلی‘‘ جس سے وہ شے بن گئی مثلاً تخت بن گیا ہے۔ بخار سے انسان کو کس نے بنایا؟ عقل کہتی ہے کہ خُدا نے بنایا۔ تب اس کی علت فاعلی خُدا ہے۔
چہارم’’علتِ غائی‘‘ ہے یعنی اُس شے کی وضع سے جو غرض اورمطلب ہے اس کا نام ’’علت غائی‘‘ ہے مثلاً تخت کی علت غائی یہ ہے کہ اُس پر بیٹھیں۔ انسان کی پیدائش سے کیا مطلب ہے؟ خُدا تعالیٰ تو چیزوں کے پیدا کرنے میں کسی غرض اورمطلب کا ہرگز محتاج نہیں ہے۔ توبھی صاف دیکھتے ہو کہ چیزیں موجود ہیں اوراُن کی پیدائش سے جو غرضیں ہیں وہ ان کو چسپاں ہیں، بے غرضی کوئی چیزہی نہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ خُدا ن چیزوں کامحتاج تھا اس لئے بنایا۔ اُس نے اپنی خوشی سے انسان کو پیدا کیااور سب کچھ اُس کے فائد ہ کے لئے بنایا ہے۔
حجت اس میں ہے کہ انسان کو کیو ں پیدا کیا؟ اُس کی علت غائی کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ سب کچھ انسان کے لئے پیدا ہوا پھر انسان کس مطلب کے لئے پیدا ہوا؟ وہ بہت ہی بڑا اوربھاری مطلب ہوگا۔ کرہ ارضی کی پیدائش اورجوکچھ اُس میں ہے ضرور انسان کے لئے ہے ۔ہر انسان کی پیدائش جس مطلب پر ہوگی وہ مطلب سب مطلبوں کے اوپر ہوگا جس کے لئے اتنا بڑا کا رخانہ قائم کیاگیا ہے۔ بھائیو! اُس مطلب کو دریافت کرو اور اُس میں قائم ہو تاکہ تمہاری پیدائش کا مطلب تم میں پایا جائے۔
محمدصاحب نے اپنی حدیث میں یہ بتا یا ہے شاید کسی رہبان سے اُنہوں نے سُنا ہوگا کہ (کنت کنزاً مخفیاً فأحببت أن اُعرف فخلقتُ الخلق) گویا خُدا کہتا ہےکہ’’ میں پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چا ہا کہ ظاہر ہوجاؤں پس میں نے جہان کو پیدا کردیا‘‘۔ قرآن میں محمدصاحب نے کہا ہے کہ آدم کو خُدا نے اس لئے پیدا کیا کہ اپنا خلیفہ یا نائب دنیا میں بنائے۔
ہمہ اُوست والے کہتے ہیں کہ خود اس ساری پیدائش میں جلوہ گر ہے۔ تب اپنا تماشا آپ ہی دیکھ رہا ہے، آپ ہی مادہ ہے ،آپ ہی صورت ہے ،آپ ہی فاعل ہے، آپ ہی غایت ہے۔ یہ خیال احمق بھنگڑوں کا ہے نہ اُس کے لئے کوئی دلیل، نہ حجت۔
یہ ایسی بات ہے جسے ایک غم زدہ شاعر نے اپنے دل کا بخار نکالنے کو کہا ہے کہ
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
اوراُن عقلمندوں میں سے بھی جس کے خیال میں جو کچھ آتا ہے وہ کہتاہے۔ لیکن نفس پرور اورپیٹو لوگ اپنے کاموں سے ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کھاؤ، پیو کہ کل مریں گے۔ ہماری عقل نہ تو یہ بات مانتی ہے کہ یہ سب خُدا ہی خُدا ہے اور نہ یہ کہ ہم دکھوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں، نہ یہ کہ شکم پروری اورعیاشی ہماری علت غائی ہے۔ کیونکہ اتنا بڑا کا رخانہ اور انسان کی یہ عجیب پیدائش اورصورت کسی ذلیل مقصد پر تو ہرگز نہیں ہے۔
اولاًکلام اللہ کی طرف دیکھو کہ انسان کی پیدائش سے وہاں خُدا کا کیا مطلب مذکور ہے؟ (پیدائش باب۱۔ ۲ ) ظاہر ہے کہ آدم کو خُدا نے اپنا ہم شکل اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ سب چیزوں پر حاکم اورصرف خُدا کا محکوم ہوکے ابد تک زندہ آرام میں رہے۔ لیکن اس نے باختیار خود اس غرض کو برباد کردیا، اپنی صورت بھی بگاڑی اوراپنی حکومت بھی کھوئی اورخُدا کا محکوم نہ رہ کے اپنے اوپر موت بھی لی۔ کیونکہ خُدا کا نافرمان موت کا مستحق ہے۔
ثانیاًاُس کا مل انسان یعنی یسوع مسیح کی طرف دیکھوجو دنیا میں یگا نہ ظاہر ہوا ۔اُس کی تواریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ بیشک نادیدہ خُدا کی صورت تھا اورسب چیزوں پر اُس کی حکومت بھی تھی ۔وہ بااختیار خود ہوااوردریا ، ارواح مردم ،شاطین ،امراض اورموت وحیات وغیرہ سب چیزوں پر حاکم تھا اور خُداتعالیٰ کا بھی بے قصور ،محکوم اورتابع فرمان رہا۔ اس پر موت کا فتویٰ نہ تھا کیونکہ وہ بےگنا ہ تھا تو بھی اُس نے ہمارے لئے موت کو اپنے اوپر آنے دیا مرگیا، دفن ہوا ،تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا اورابدتک زندہ ہے اورخُدا تعالیٰ کے عرش مجید پر تخت نشین ہے۔ اُس کے سارے کام جو ہمارے لئے ہوئے ،اُس کی تمام تعلیم جو اُس نے ہمیں دی ،اس کی رُوح کی تاثیریں جو ہم پر ہوتی ہیں یہ سب کچھ اسی ایک مطلب پر ہے کہ ہمیں موت میں سے نکالے اورپاک صاف کرکے اورخُدا کا ہمشکل بنا کے صرف خُدا کا محکوم اورسب چیزوں پر حاکم ٹھہرادےتاکہ ہم ابدتک آرام میں زندہ رہیں اورکہ خُدا ہم میں سکونت کرے۔
پس انسان کی پیدائش سے مطلب اورمقصد اورعلت غائی یہی ہے کہ انسان ایسا ہو اورایسے کام کرے تب وہ خُدا کا نائب بجائے خویش(قرابتی) ہوسکتا ہے۔ یہ کیسی عمدہ اوراعلیٰ اورافضل غرض انسان کی پیدائش سے ہے جو ٹھیک اس عظیم دائرہ پیدائش کے مناسب اورہماری علت مادی اورصوری اورفاعلی کے بھی موافق ہے۔ ایسی علت غائی کا اظہار کبھی کسی دانشمند کی دانائی سے ہوا تھا ،ہر گز نہیں اور نہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ا س غلت غائی کو قبول نہ کرے اورکچھ علت غائی سنائے اُس کا بیان اس بیان سے کچھ نیچے ہی گرا ہوا ہوگا۔ کا ش کےہر کوئی اپنی اس علت غائی سے آگاہ ہوجائے اوراس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے یسوع مسیح کے پاس چلاآئے کہ وہ اس کو بحال کریگا اوروہ مقصد حاصل کرادےگا۔
ف۔یہ سچ ہے کہ خُدا کسی غرض کا محتاج نہیں تو بھی تمام کا رخانہ پیدائش میں ہرشے کے لئے کچھ علت غائی ہے۔ اس سے اُس کی خُدائی محتاج باغراض نہیں ہوجاتی بلکہ اس کی محبت اورقدرت اورحکمت وغیرہ صفات کا اظہار اوربیان ہوتا ہے۔
ف۔وہ غرض جو انسان کی پیدائش سے ہے ہر فرد بشر میں ہرگز پوری نہ ہوگی کیونکہ وہ جبری غرض نہیں ہے بلکہ آزادی کے ساتھ آدمیوں میں مطلوب ہے صرف اُن کے فائدہ کے لئے۔ اگر آدمیوں میں سے کوئی شخص خود اُس غرض سے الگ ہونا پسند کرے تو اُس کا اختیار ہے اورا سی لئے لکھا ہے کہ بنی آدم میں سے ایک بقیہ نجات پائیگا۔
ف۔وہ غرض جو ہماری پیدائش سے ہم میں مطلوب ہے اورجس سے ہم سب آدمی بہت ہی دور جاپڑے ہیں جس میں آدمیوں کو پھر بحال کرنے کے لئے یسوع مسیح خُدا وند دنیا میں آیا ہے، اسی زندگی کے درمیان عیسایوں میں مکمل نہیں ہوتی ہے ۔ہاں ہمارے اندر بوسیلہ مسیحی ایمان کے وہ غرض کچھ جلوہ گر اور اورموثر ہوتی ہے اور اس کا بیعانہ ساہم میں آجاتا ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ آئندہ جہان میں وہ غرض ہم میں خُداتعالیٰ پوری کریگا۔ تمام ایماندار اورمعتبر مقدس اسی امید میں دنیا سے چلے گئے کہ ہم آئندہ وقت میں اس غرض کو حاصل کریں گے۔ دیکھو کیا لکھا ہے’’پرمَیں صداقت میں تیرادیدار حاصل کروں گا۔مَیں جب جاگو ں گا تو تیری شباہت سےسیر ہوں گا‘‘(زبور۱۵:۱۷) ۔
ف۔مسیح خُداوند بااعتبار الوہیت خُدا باپ کے برابر ہے اوربااعتبار انسانیت وہ خُدا تعالیٰ کا پورا خلیفہ اورزمین وآسمان کا پورا اختیار اُس کےہاتھ میں ہے۔ ہم سب عیسائی بوسیلہ ایمان کے اُس سے اولاً گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں ۔پھر ہم آپ کومع اپنی سب خواہشوں کےاُس کا مطیع کرکے قُدوسیت کے رتبہ میں بتدریج ترقی کرتے اور خُدا کی صورت بنتے چلے جاتے ہیں اورتکمیل ہماری اُس صورت میں اُس وقت ہوگی جبکہ ہم قیامت کے فرزند ہوکے پھر نئے بدن میں مسیح سے اُٹھائے جائینگے۔ اس وقت ہم سب اُس کی مانند ہوں گے اورہماری بحالی کامل ہوگی۔
ف۔اس مطلب کے لئے ایک خاص دن خُدا سے مقرر ہے۔ اُسی دن کا نام ’’خُدا کے فرزندں کے ظاہر ہونے کا دن ‘‘ہے ۔اُس دن وہ غرض ہم میں بوسیلہ مسیح کے پوری ہوگی اورہم ابد تک اس جلال میں رہیں گے۔ اس وقت دنیا میں اُس غرض کی تیاری بوسیلہ مسیح کے رُوح سےہم ہورہی ہے اور کچھ ایسا کام ہم میں خُدا سے ہورہا ہے جس سے ہمیں یقین ہے کہ تکملہ اس کام کا ہم میں اُس غرض کو ضرور پورا کریگا۔ اُس وقت مسیح کے سب مخالف خوار اوررسوا ہونگے اورشیطان کے ساتھ جس کے وہ دنیا میں ساتھی تھے ابدی دُکھ میں چلے جائیں گے ۔زیادہ حسرت اُنہیں اس بات پرہوگی کہ خُدا کی طرف سے اُن کی بحالی کاانتظام مسیح ہوا اوروہ بلائے بھی گئے مگراز خود نہ آکے اُنہوں نے اپنی بہتر ی کا موقع کھو دیا۔
دفعہ۳۹
.موت کے بیان میں
کسی حیوان کی زندگی کاجا تا رہنا’’ موت‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان کے سواسب حیوان مطلق فانی ہیں۔ پس اُن کی موت یہ ہے کہ اُن کی زندگی بالکل معدوم ہوجائے یعنی بدن ٹوٹ کے عناصر میں مل جائے اورجان بھی کہیں نہ رہے ،بالکل نیست نابود ہوجائے۔انسان کی موت کچھ اورچیز ہے۔ اس لئے کہ وہ محض حیوان نہیں ہے بلکہ اُس کی حیوانیت کے اُوپر کچھ اورچیز اُس میں ہے جو غیر فانی ہے ۔پس جہاں تک انسان میں حیوانیت ہے وہاں تک اُس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوتا ہے جو سب حیوانوں کے ساتھ موت میں ہوا کرتا ہے لیکن اُس چیز میں جو حیوانیت سے بلند اس میں ہے نیستی کامعاملہ عمل میں نہیں آتا ہے صرف اخراج کامعاملہ ہوتا ہے۔ اسی واسطے انسان کی موت کے لئے ایک دوسرا لفظ ’’انتقال‘‘ دنیا میں مروج ہوا ہے۔ کلام اللہ میں پانچ لفظ انسان کی موت کے لئے استعمال میں آئے ہیں جن سے کچھ کچھ موت کی کیفیت معلوم ہوجاتی ہے۔
۱۔بدن سے رُوح کانکلنا (ایوب ۲۰:۱۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوح انسانی اُس کے مردہ بدن ہی میں تحلیل نہیں ہوجاتی مگر اُس سے الگ ہوجاتی ہے۔
۲۔رُوح کا انڈیلا جانا جیسے پانی ایک برتن سے دوسرے برتن میں اُنڈ یلتے ہیں (یسعیاہ ۵۳: ۱۲) ۔اس لفظ میں اشارہ ہے کہ رُوح انسانی بدن سے نکل کے کوئی اوربدن اللہ سے پاتی ہے (۱۔ کرنتھیوں۳۵:۱۵۔۴۴)۔
۳۔ چلاجانایعنی اس جہان کو مع بدن کے چھوڑ کے کسی دوسرے جہاں میں چلا جانا (زبور۱۳:۳۹) ۔
۴۔سوجانا یا موت کی نیند میں آجانا یا خواب دائمی میں چلے جانا (یوحنا۱۱:۱۱؛ زبور۳:۱۳؛ یرمیاہ۳۹:۵۱) ۔یہ الفاظ بدن کی نسبت معلوم ہوتے ہیں کیونکہ رُوح کبھی نہیں سوتی۔ دنیا میں دیکھتے ہیں کہ نیند کے وقت بدن سوتا ہے رُوح بیدار رہتی ہے ۔ہاں اعضا کو کچھ حواس کے کاموں سے معطل کرکے چپ چاپ ہوجاتی ہے۔
۵۔ سورج کا ڈوبنا یا غروب ہونا ۔یرمیاہ۹:۱۵میں لکھا ہے’’ اُس کا سورج ڈوب گیا ‘‘۔یہاں ’’رُوح ‘‘کو ’’سورج ‘‘ کہاگیا ہے اوردنیا کا سورج جب ڈوبتا ہے تو وہ معدوم نہیں ہوجاتا لیکن زمین کی دوسری طرف چلا جاتا ہے۔
ف۔ کلام اللہ سے اورعقل سے بھی موت کی دو قسمیں بلحاظ شخص مردہ کے معلوم ہوتی ہیں ۔
اول صادقوں کی موت ہے دوم بے ایمانوں کی موت ہے۔ صادقوں کی موت یہ ہے کہ انسان ایمان میں مغفرت حاصل کرکے مرے۔ بلعام نے بھی اس موت کی تمنا کی تھی مگر نہ پائی (گنتی۱۰:۲۳) ۔اس دنیاوی زندگی کے انجام پر بھی موت انسان کے لئے فتح یابی کا پہلا دروازہ ہے۔ بے ایمانوں کی موت کیا ہے؟ یہ کہ آدمی اپنے گناہوں میں لپٹا ہوا بغیر ایمان اورمغفرت کے مرجائے (یوحنا۲۴:۸)۔ یہ موت جہنم میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ ہے۔
ف۔موت کے ظاہری اسباب پر نگاہ کرکے حکیموں نے اُس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ اول ’’موت طبعی‘‘ وہ ہے کہ جسم کے فطری انتظام میں کچھ خلل آجائے یا وہ شخص اپنی پوری عمر کو پہنچ کے مرجائے جیسے درختوں کے پکے پھل گرجاتے ہیں۔ دوم’’موت اخترامی‘‘ وہ ہے کہ بھلے چنگے آدمی کی موت کسی اَورسبب سے آجائے مثلاً میں وہ دشمنوں سے یا حاکم سے قتل کیا جائےیا ڈوب مرےیا آگ میں جل جائے یاکوئی اورناگہانی صدمہ سے مرجائے۔ خیر کسی طرح مرجائے مگر بغیر اجازت اللہ کےکوئی نہیں مرتا۔ مسیح خُداوند فرماتا ہے کہ کوئی چڑیا بھی بے اجازت اللہ کے زمین پرنہیں گرتی۔
ف۔موت کا وجود انسان کی پیدائش سے پہلے معلوم ہوتا ہے ۔علم ترکیب ارضی سے ظاہر کرتے ہیں کہ انسان سے پہلے زمین پر حیوان رہتے تھے اوروہ مرتے بھی تھے۔ تب موت کا وجود پہلے سے تھالیکن آدم کو جب خُدا نے پیدا کیا تو اپنی شکل پر بنایا تھا۔ اُس کے لئے موت نہ تھی اوراُس سے کہاگیا تھا کہ اُس درخت سے نہ کھانا ورنہ تو مرے گا ۔پس اگر وہ نہ کھاتا تو ہرگز نہ مرتا اورہمیشہ زندہ رہتا اوراولاد بھی نہ مرتی۔ موت اُس کے لئے امر طبعی نہ تھا جیسے حیوانات اورنباتا ت کے لئے امر طبعی ہے ۔لیکن آدم نے نافرمانی کرکے اپنے اوپر موت کا تسلط ہونے دیا اوریوں موت اُس کو لاحق ہوگئی اورایسی لاحق ہوئی کہ گویا اُس کے لئے امر طبعی ہے،اُس وقت تک کہ سب کچھ نیا ہو نئی زمین، نیا آسمان اور نیابدن ظاہر ہو۔ ابھی تمام حقیقی عیسایوں کی رُوحوں میں اوراُن کے دلوں میں نوزادگی ظاہر ہوئی ہے تو بھی وہ سب موت کے بدن میں رہتے ہیں یعنی اُس بدن میں جس پر موت کا فتویٰ ہے اور جس کے لئے یہ موت ایک امر طبعی ہوگیا ہے ۔وقت چلا آتا ہے کہ ہم موت کے بدن سے بھی مخلصی پائینگے بوسیلہ مسیح کے۔
ف۔خُدا کا کلام موت کی دوقسمیں دکھاتا ہے’’ جسمانی موت‘‘ جس کا بیان ہوچکا۔’’ روحانی موت ‘‘جس کا یہ بیان ہے کہ انسان کی رُوح میں موت کازہر چھوڑا جائے اوراس پر موت چھا جائے ۔چنانچہ جس وقت آدم نے گناہ کیا تھا روحانی موت سے وہ اُسی وقت گیا تھا۔ جسمانی موت ۹۳۰ بر س بعد آئی تھی اور اس عرصہ میں وہ جسمانی زندہ اورروحانی مردہ رہا تھا جب تک کہ بوسیلہ مسیحی ایمان کے موت اُس کی رُوح پر سے نہ ہٹی ، وہ روحانی مردہ تھا کیونکہ فتوی ٰموت کا اُس پر آگیا تھا اورنسبت الہٰی ٹوٹ گئی تھی اورخُدا کی حضوری سےنکالاگیا تھا۔ اس لئے برکت الہٰی کی اَوس اس پر گرنی موقوف ہوگئی تھی اوررُوح میں تاریکی چھاگئی تھی اورمزاج میں جسمانیت غالب آگئی تھی اوریہی روحانی موت ہے۔پولس رسول کہتا ہے کہ ’’جسمانی نیت موت ہے‘‘ (رومیوں۶:۸)۔ یہی بڑی موت ہے اوریہ سب آدمیوں کی رُوحوں میں ہے۔ اگریہ موت آدمیوں کی رُوحوں میں سے اسی زندگی کے دوران نکل نہ جائے تو اُن شخصوں کو ابدالآباد موت میں رہنا ہوگا ۔جہاں خُدا سے جدائی اورشیطان سے قربت ہے ،رات دن رونا اوردانت پیسنا ہے۔ صرف مسیح خُداوند ہے جو اس موت سے آدمیوں کی رُوحوں کو چھڑا تا ہے اوربدنوں کو مرنے دیتا ہے کیونکہ نئے بدن ان لوگوں کو ملنے والے ہیں۔
ف۔مسیح پر موت کا فتویٰ نہ تھا۔ وہ ہمارے لئے موا کہ موت کےفتوے کو مکمل کرکے ہم پر سے ہٹائے ۔دیکھو کیالکھا ہے ’’ کوئی اُسے (یعنی میری جان کو) مجھ سے چھینتانہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں ۔مجھےاُس کے دینےکا بھی اختیار ہےاور اُسےپھر لینے کابھی اختیار ہے ۔یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا‘‘(یوحنا ۱۔۱۸)۔مسیح خُداوند جو کامل انسان اورمحض بےگناہ شخص تھا اُس پر موت کا فتویٰ نہ تھا کیونکہ موت گنہگار کے لئے ہے اوروہ بےگنا ہ تھا اس لئے اُس کا حصہ موت میں نہ تھا ۔اُس نے اپنی مرضی اورخوشی سے ہمارے فائدہ کے لئے اپنی جان دی اورپھر اپنی جان کو لےلیا۔ اگر مسیح پر بھی موت کا فتویٰ ہوتا جیسے سب آدمیوں پر ہے تو وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ نہ ہوسکتا ۔ہمارے قرض وہی شخص ادا کرسکتا ہے جو خود قرضد ار نہیں ہے جو خود قرضدار ہے وہ اپنا قرض ادا نہیں کرسکتاہمارے قرض کیسے ادا کرےگا ؟پس مسیح خُداوند موت کا مطلق قرضدار نہ تھا اوراسی لئے اُس نے آیت بالا میں صاف بتایا ہے کہ میں اپنی جان پر اختیار رکھتا ہوں مروں یا نہ مروں ۔خُدا باپ کی مرضی تو یہ ہے کہ میں اپنی جان کفارہ میں دو ں مگر جبر نہیں ہے۔ مجھے اختیار دیاگیا ہے۔ سومیں اپنے با پ کی مرضی کو اپنے اختیار سے قبول کرتا ہوں اورجان دیتا ہوں اورپھر اپنی جان کو موت کے نیچے سے نکال کے آپ لےلوں گا۔
(۱۔ پطرس ۳: ۱۸) راستباز نے ناراستوں کے لئے دکھ اُٹھایا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵۴) موت کو فتح نے نگل لیا۔ (یسعیاہ ۲۵: ۸) وہ موت کو ہمیشہ کے لئےنابود کرےگا۔ آدم کے سبب سے آدمیوں میں موت آئی ہے مسیح کے سبب سے موت دفع ہوئی اورزندگی آئی اورساری بحالی کی صورت دکھائی دی۔ فی الحال موت جہان میں نظر آتی ہے لیکن اس کی جڑیں کٹ گئی ہیں اورایک وقت چلا آتا ہے کہ یہ موت ،غم ،رونا اور آہ و نالہ مطلق اس جہان سے دفع ہوجائےگا۔ سارے بے ایمان لوگ اوریہ سب آفتیں ہٹ جائیں گی اورسب کچھ نیا اورنہایت خوب اور پُر جلال ہوگا۔
ف۔موت کی چابی مسیح یسوع خُداوند کے پاس ہے ’’۔۔۔مَیں مر گیاتھا اور دیکھ ابدالآباد زندہ ر ہوں گا اور موت اور عالم ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں ‘‘(مکاشفہ۱۸:۱) ۔ موت سے رہائی بخشنا یہووا ہ خُداوند ہی کاکام ہے(زبور ۶۸: ۲۰ )۔ مسیح خُداوند’’ یہواہ‘‘ ہے اس لئے موت کی چابیاں اُس کے پاس ہیں اوراس لئے بھی کہ وہ موت پر غالب آیا ۔اُس کا سارا زور اُس نے سہا ۔اُس کا تمام زہر نوش کرلیا ۔اپنےآپ کو اس کے قبضہ میں کردیا اوراس کی ساری کیفیت کا لطف دیکھ کے اُس کے نیچے سے از خود نکل آیا اور قیامت اپنی آپ کرلی اورمردوں میں سے پہلوٹھا ہو کے جی اُٹھا اورخُدا تعالیٰ کی دہنی طرف اُس کے عرش مجید پر جا بیٹھا۔ اب وہ سب اولین اورآخرین کو موت کے قبضہ سے نکال کے زندہ کرےگا اوراُن کے بدنوں میں اُنہیں کھڑا کرےگا اوراپنے سب بندوں کو اپنے ساتھ جلال میں اورحقیقی خوشی و آرام میں لائےگا اور سب شیطان کے فرزندوں کو اوراُن سب آدمیوں کو جو عیسائی ہوکے نہیں مرتے تھے ،ابدی موت کے حوالہ کردےگا کہ ہمیشہ دیکھ میں رہیں۔
دفعہ ۴۰
تعلقا ت ارواح مومنین باخُداوند یسوع مسیح
مومنین کو بوسیلہ ایمان اوربرگزیدگی کے خُداوند مسیح کے ساتھ ایک خاص علاقہ حاصل ہوجاتا ہے جس کے سبب سے وہ لوگ مسیح میں پیوند ہوکے خُدا کے متبنیٰ فرزند ہوجاتے ہیں اورالہٰی میراث میں شریک ہوتے ہیں ۔اسی علاقہ کے سبب سے مسیحی برکتیں ان میں آجاتی ہیں اوران کی کمزوریاں اورخطائیں دفع ہوتی ہیں ۔’’تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا‘‘(گلیتوں۲۷:۳) ۔’’ اورنئی انسانیت کو پہنو جو خُدا کے مطابق سچائی کی راست بازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے ‘‘(افسیوں ۲۴:۴)۔’’اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہےجو معرفت حاصل کرنے کے لئے اپنے خالق کی صورت پرنئی بنتی جاتی ہے‘‘(کلسیوں۱۰:۳) ۔’’کیونکہ ہم جیتے جی یسوع کی خاطر ہمیشہ موت کے حوالہ کئے جاتے ہیں تاکہ یسوع کی زندگی بھی ہمارے فانی جسم میں ظاہر ہو‘‘(۲۔ کرنتھیوں ۱۱:۴) ۔’’اورتم بھی اُس میں باہم تعمیر کیے جاتےہوتاکہ رُوح میں خُداکا مسکن بنو‘‘(افسیوں۲۲:۲) ۔’’پس اے بھائیو!چونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔ جو اُس نے پردہ یعنی اپنے جسم میں سے ہوکرہمارے واسطےمخصوص کی ہے‘‘(عبرانیوں ۲۰،۱۹:۱۰)۔’’غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم کوبدن کے وطن سے جدا ہو کرخداوند کے وطن میں رہنا زیادہ زیادہ منظور ہے‘‘(۲۔ کرنتھیوں ۸:۵)۔ اسی طرح کے اَوربہت سے مقام کلام اللہ میں ہیں جنہیں ناظرین خوددیکھ سکتےہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سچے مومنین کی ارواح میں درمیان اسی دنیا کے بعلاقہ ایمان برکات ِذیل نمودار ہوتی ہیں۔ نئی پیدائش، نئی زندگی ، نئی انسانیت خُدا کی صورت پر بنتی چلی جاتی ہے اوردل خُدا کا گھر ہوتا ہے۔ مسیح کی موت اورزندگی کی تاثیر سے گناہ کی نسبت مردہ اور راستبازی میں زندہ ہوتے ہیں اورلائق قربت اورحضوری کے ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ مسیح کی رُوح سے اوراُس کے کفارہ کی تاثیر سے ان میں ہوتا ہے۔
ف۔اس میں کچھ شک و شبہ نہیں ہے کہ ضرور ایسا ہوتا ہے۔ تواریخ کلیسیا سے ظاہر ہے کہ ہزار ہاہزار آدمیوں کی رُوحوں میں ایسی تاثیریں ہوئی ہیں اورہر زمانہ میں خاص بند گان ِمسیح خُدا کے گواہ ایسی تاثیروں سے بھرپور پائے جاتے ہیں۔ اب بھی موجود ہیں اور آئندہ کو بھی ملیں گے۔ اگر کوئی چاہے کہ ایسےلوگوں کو دیکھے تو حقیقی مسیحیوں کے ساتھ رفاقت اوردوستی پیدا کرکے وہ دریافت کرسکتا ہے کہ ایسی تاثیریں مسیح سے اُس کے مومنین کی ارواح میں فی الحقیقت موجود ہیں اوروہ کچھ بات نہیں ہے جو بعض مخالف بیٹھے ہوئے تعصب کی راہ سے حق کے خلاف ایسی تاثیروں کا انکار کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے آدمی کلیسیامیں کہیں کہیں صاف نظر آتے ہیں اور ہم اپنے اند ر بھی ایسی پاک تاثیریں مسیح کی طرف سے دیکھتے ہیں اورصاف کہتے ہیں کہ کلام اللہ کا بیان حق ہے۔
یہ سب پاک تاثیریں اورتبدیلیاں جو مسیح سے مومنین میں ہوئی ہیں یہ سب مسیح کی رُوح سے ہیں جو اُن میں موثر ہے۔ اورجب کہ یہ بات ثات ہے کہ مسیح کی رُوح نے اُن میں موثر ہوکے اُنہیں کیا سے کچھ کردیا تو ہم کیونکر قبول نہ کریں کہ آئندہ کو اُسی کی رُو ح سے ان میں کیا کچھ نہ ہوگا۔ جس رُوح سے ہماری رُوحوں میں فی الحال زندگی آئی ہے، اُسی رُوح سے ہمارے بدنوں کی قیامت بھی جلال کے لئے ہوگی۔’’اوراگر اُسی کا رُوح تم میں بسا ہوا ہےجس نےیسوع کو مردوں میں سے جلایا توجس نے مسیح یسوع کومردوں جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اُس رُوح کے وسیلہ سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے‘‘(رومیوں ۸: ۱۱)۔ یہ ایک دم میں، ایک پل میں، پچھلا نرسنگا پھونکتے وقت ہوگا (ا۔کرنتھیوں ۵۲:۱۵) اورجو مسیح میں ہوکے موئے ہیں وہ پہلے جی اُٹھینگے(ا۔ تھسلنیکیوں ۴: ۱۶)۔ مسیح خداوند’’اپنی اس قوت کی تاثیر سے۔۔۔ ہماری پست حالی کےبدن کی شکل بدل کراپنے جلال کےبدن کی صورت پر بنائےگا‘‘(فلپیوں ۳: ۲۱) ۔یوحنا رسول بیان کرتا ہے کہ ہم اُس کی مانند ہوں گے (۱۔ یوحنا ۲:۳)، جہاں مسیح ہے وہاں ہونگے اوراُس کا جلال دیکھیں گے (یوحنا ۱۷: ۲۴)۔
ف۔اگر تم نے اس دنیا میں عیسائی ہوکے مسیح کی رُوح پائی ہے اوروہ روح تم میں اب موثر ہے اورتمہیں وہ رُوح خُدا کی رفاقت کا لطف اب دکھارہی ہے تو یقین کروکہ اسی رُوح سےتمہارے بدنوں کی قیامت بھی جلال کےلئے ہوگی ۔اوراگر رُوح نہیں پائی تو قیامت تو ہوگی مگر رسوائی اورذلت اورابدی دکھ کے لئے۔
اگرچہ بعد موت رُو ح اوربدن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ رُوح بدن سے نکل کے یا ابرہام کے پاس یا شیطان کے فرزندوں کے جھنڈ میں چلی جاتی ہے اوربدن خاک میں مل جاتا ہے۔ تو بھی کلام اللہ کے بعض مقاموں سے ثابت ہے کہ رُوحوں کوا پنے بدنوں سے ایک اضافی علاقہ باقی رہتا ہے اورآخر کو رُوح اپنے ہی بدن میں آئے گی ۔ہاں ایماندار کا بدن جلال میں اوربے ایمان کا بدن ذلت میں اُٹھے گا تو بھی وہی بدن ہوگا اوروہی صورت اُس شخص کی ہوگی جو پہلے تھی ۔جلال میں صورت سابقہ نمایاں ہوگی اورذلت میں وہی پہلی صورت دکھائی دے گی جس سے وہ پہچانا جائیگا کہ فلاں شخص ہے ۔پس جسم اوررُوح کے علاقہ کو موت معدوم نہیں کرتی ہے۔ایوب کہتا ہےمیری یہی آنکھیں اُسے دیکھیں گی نہ بیگانہ کی(ایوب ۱۹: ۲۷)۔( ۲۔ سلاطین ۱۳: ۲۱)میں دیکھو کیا لکھا ہے کہ جب وہ مردہ الیشع نبی کی قبر میں گرایاگیااورالیشع کی ہڈیوں سے لگا تو وہ جی اُٹھا اوراپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔
الیشع کی رُوح کو اُس کی مدفون ہڈیوں کے ساتھ علاقہ تھا تب ہی تو یہ ہو اکہ غیر مردہ اُس سے محسوس ہوکےجی اُٹھا۔ اس بات کے ثبوت کے لئے غور کیجیئے ۔اُس لڑکے کی جان اُس میں پھر آئے(۱۔ سلاطین ۱۷: ۲۱) ، اُ ن کی لاشوں پر جو مجھ سے باغی ہوئے نظر کریں گے(یسعیاہ ۶۶: ۲۴) ،میں اُسے آخری دن میں پھر زندہ کروں گا(یوحنا ۶: ۴۰)، قبریں کھل گئیں اور بہت سے جسم ان مقدسوں کے جو سو گئے تھے جی اٹھے (متی ۲۷: ۵۲)۔ بدن اوررُوح کے درمیان جو اضافی علاقہ ہے اس کا ذکر بہت آیتوں میں ہے۔
دفعہ۴۱
انسانی رُوح کے لباس کے بیان میں
جبکہ سچے ایماندار عیسائی کی رُوح اُس کے بدن سے نکل جاتی ہے تو خُدا تعالیٰ اُس کو اَورایک بدن دیتا ہے اور وہ بدن جسمانی نہیں ہے بلکہ نورانی ہے اورایک لباس بھی رُوح کو عنایت ہوتا ہے جس سے اُس کی برہنگی پوشیدہ ہوتی ہے اوروہ رُوح اُس لباس میں خوبصورت نظر آتی ہے۔ہم حقیقتاً ملبس ہوں گے نہ کہ ننگے پائے جائیں گے (۲۔ کرنتھیوں ۳:۵) ۔ آسمانی جسم بھی ہیں اورزمینی بھی ہیں، آسمانیوں کاجلال اَور ہے اور زمینیوں کا اَور ہے (۱۔کرنتھیوں ۴۰:۱۵)۔یہ فانی جسم بقا کو اورغیر فانی کوپہنے گا(آیت ۵۳) ، سب مبدل ہوجائیں گے (آیت ۵۱)، ایک عمارت خُدا سے پائیں گے (۲۔ کرنتھیوں ۱:۵)۔ یہ رُوح کے بدن کا ذکر ہے۔ موت کا بدن چھوٹ جائیگا(رومیوں ۷: ۲۴)، جیسا وہ آسمانی ہے ویسے وہ بھی جو آسمانی ہیں (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۸) ، جس میں ہوکے (یعنی روحانی بدن میں ہوکے ) اُس نے اُن روحوں کے پاس جو قید تھیں جاکے منادی کی(۱۔ پطرس ۳: ۱۹)۔
پھر لکھا ہے کہ وہ جلال میں ظاہر ہوئے یعنی موسیٰ اورایلیاہ (لوقا ۳۱:۹) ۔جلالی اور ٖغیر فانی بدن کی پوشاک سفید ہوگی(لوقا ۴:۲۴؛ مکاشفہ۱۸،۴:۳)۔ خُداوند مسیح کی صورت جب تبدیل ہوگئی تھی تو اُس کا چہرہ آفتا ب سا چمکا تھا اوراُس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہوگئی تھی (متی ۲:۱۷)۔ سموئیل نبی جب بلایا گیا تو وہ اپنی پرانی وضع کے لباس میں آیا تھا تاکہ ساؤل سےپہچانا جائے (۱۔ سموئیل ۱۴:۲۸)۔ مسیح کی راستبازی تمام مومنین سلف وخلف (سلف: آباؤاجداد۔اگلے زمانے کے لوگ،خلف:جانشین،پیچھے آنے والے) کی رُوحوں کا خوبصورت لباس ہے اوریہی شادی کا لباس ہے جو بادشاہ کی طرف سے ہمیں بخشا جاتا ہے۔ چاہئے کہ اسی دنیا میں ہم اس لباس کو رُوحوں میں پہنیں اوراس لباس کی حفاظت کریں۔ یہ لباس اب بھی خوش نما ہے اورآئندہ کو اس کا جلال خوب ظاہر ہوگا۔فقط
تمت