Rev William Goldsack

Australian Baptist Missionary and Apologist

1871–1957

Muhammad and the Bible

By

Rev. W. Gold sack

حضرت محمد اورکتابِ مقُدس

یعنی

اس دعویٰ کی تحقیق کہ توریت شریف اورانجیل شریف میں آنحضرت کے متعلق پیشن گوئیاں پائی جاتی ہیں

مصنفہ

علامہ ڈبلیو۔گولڈ سیک صاحب

1955

حضرت محمد اور کتابِ مُقدس

بہت سے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے پیغمبر حضرت محمد صاحب کے حق میں توریت شریف اورانجیل شریف میں پیشینگوئیاں موجود ہیں اور بعض مسلمان مصنفین نے چند حوالے بھی کتاب مقدس سے پیش کئے ہیں جن کی بنا پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان میں پیغمبر عرب کی بابت پیشینگوئیاں پائی جاتی ہے۔ محمد صاحب کی بابت پیشینگوئیاں کتاب مقدس میں تلاش کرنا خالی ازعلت نہیں ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے خیال کے مطابق حضرت محمد صاحب واقعی آخری اور سب سے بڑے نبی ہیں تو جس طرح سیدنا مسیح کی بابت یہودیوں کے صحیفوں میں پیشینگوئیاں مندرج ہیں اسی طرح ضرور صحائف انبیاء میں حضرت محمد صاحب اپنے اپ کو اُمی نبی سے ملقب کرنا پسند کرتے تھے اور اگرچہ اس لفظ کے صحیح معنی پر اب تک لوگوں میں اختلاف ہے تو بھی اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ نے خود بھی موسوی اورمسیحی صحیفوں کو نہیں پڑھا تھا لیکن ساتھ ہی یہودیوں اورمسیحیوں میں سے ایسےنو مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں تھی جنہوں نے حضرت محمد صاحب کو یہ یقین دلادیا کہ آپ نبی تھے اور آپ کی آمد کی پیشینگوئی کتاب مقدس میں نہایت واضح طور سے پائی جاتی تھی۔ یہودیوں کے اپنے مسیح کی انتظاری کے بیانات اورمسیحیوں کے مسیح کی دوسری آمد کے خیالات ملا کر ان لوگوں نے ایک آنے والے نبی کے حق میں ایک عام دلیل بنائی جس کے یہودی اورمسیحی دونوں منتظر تھے اورجس کی بابت تمام صحیفوں میں پیشینگوئیاں درج ہیں ۔ ان وجوہ کی موجودگی میں یہ کوئی حیر ت انگیز بات نہیں ہےکہ حضرت محمد صاحب نے اپنی نسبت قرآن میں یوں تحریر کردیا کہ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِترجمہ: اُس رسول کہ جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں(7۔سورہ اعراف 157آیت)اور پھر ایک جگہ اوربھی صریح الفاظ میں اپنی پیشینگو ئیوں کا ذکر کیا ہے کہ وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ترجمہ: یعنی اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کے اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمدﷺ ہوگا (61۔سورہ صف ۶آیت )۔

ان واقعات کی موجودگی میں مسلمانوں کے لئے یہ بالکل فطری وقدرتی بات ہے کہ عہد عتیق اور عہد جدید کے صحیفوں میں ان پیشینگوئیوں کو تلاش کریں جن کا حضرت محمد صاحب کو ۔۔۔۔یقین تھاکہ وہ ان صحیفوں میں مستتر تھیں ہماری غرض یہ ہے کہ ہم اس چھوٹے سے رسالہ میں کتاب مقدس کے ان خاص مقامات کا مطالعہ کریں جو اہل اسلام بطور حوالہ پیش کرتے ہیں اورجن میں پیشینگوئیوں کے ہونے کے دعوے دار ہیں اورہمیں یہ دکھانا ہے کہ اس آیت میں بھی کسی ایسے سچے نبی کی بابت پیشینگوئی نہیں ہے جو سیدنا مسیح کے بعد آگے آگا۔

۔ استشنا کی کتاب ۱۸باب ۱۵سے ۲۱آیت تک

حضرت محمد صاحب کے حق میں کتاب مقدس کاجو مقام اہلِ اسلام سب سے زیادہ پیش کرتے ہیں وہ استشنا کی کتاب کے ۱۸ باب کی ۱۵ آیت سے ۲۱ آیت تک ہے جہاں یوں لکھا ہے " خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔۔۔۔میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اوراپناکلام اس کے منہ میں ڈالونگا اورجو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہیگا ۔ اورجو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہیگا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوگا۔"

مسلمان مناظرین یہ دکھانے کوکہ اس مندرجہ بالا عبارت میں حضرت محمد صاحب کے حق میں پیشینگوئی ہے ان الفاظ پر زور دیتے ہیں کہ " ان ہی کے بھائیوں میں سے " ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ آنے والا نبی جس کی بابت یہاں پیشینگوئی ہے وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں میں سے برپاہوگا اوران سے مراد بنی اسماعیل ہیں جن سے حضرت محمد صاحب پیدا ہوئے ۔اس لئے اس نبوت کا مصداق سوائے نبی اعظم عربی کے اور کوئی نہیں ہوسکتا نیز ان الفاظ پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ " تجھ سا " یعنی موسیٰ کی مانند وہ نبی برپا ہوگا چنانچہ بہت سی باتوں میں ان کے درمیان مشابہت بتائی جاتی ہے مثلاً دونوں نے شادی کی اوران کی اولاد ہوئی اور دونوں نے تلوارچلائی۔ مسیحیوں کو یاد دلایا جاتا ہےکہ ان میں سے ایک کام بھی مسیح نے نہیں کیا۔

"بھايئوں " سے بنی اسرائيل مراد ہیں

جب ہم مندرجہ بالا آیات کو اسلامی تاویل کی روشنی میں جانچتے ہیں تو یہ تاویل ایک بڑے مغالطہ پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ سوائے تعصب کے اور کوئی بات اس کے ماننے پر مجبور نہیں کرسکتی کہ " تیرے ہی بھائیوں میں سے " کے فقرہ سے غیر یہود مراد ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ "بھائیوں " اسی استشنا کی کتاب میں برابر اس معنی میں مختلف مقامات میں استعمال ہو ا ہے۔ اس قسم کے مقامات کے چند حوالوں سے صاف ظاہر ہوجائیگا کہ یہ دعویٰ کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے بنی اسماعیل مراد ہیں بالکل بے بنیاد ہے۔ استشنا کی کتاب کے ۱۷ ویں باب کی ۱۴ویں اور ۱۵ویں آیت میں " بھائیوں " کا لفظ صریحاً خود اسرائیلیوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے " جب تو اس ملک میں جسے خداوند تیر ا خدا تجھ کو دیتا ہے پہنچ جائے اوراس پر قبضہ کرکے وہاں رہنے اورکہنے لگے کہ ان قوموں کی طرح جو میرے گرد اگرد ہیں میں بھی کسی کو اپنا بادشاہ بناؤں توتو بہر حال فقط اسی کو اپنا بادشاہ بنانا جس کو خداوند تیرا خدا چن لے۔ تو اپنے بھائیوں میں سے ہی کسی کو اپنا بادشاہ بنانا اور پردیسی کو جو تیرا بھائی نہیں اپنے اوپر حاکم نہ کرلینا۔" ان آیتوں کی تشریح کی چنداں ضرور ت نہیں کیونکہ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہودیوں کا پہلا بادشاہ سموئیل نبی نے خود خدا کی ہدایت کے مطابق ممسوح کیا۔ وہ کوئی اسماعیلی نہیں بلکہ ساؤل بن قیس اسرائیل کے قبیلہ بنیمین میں سے تھا۔ یہ ۱ سموئیل دسویں باب کی ۲۰، ۲۱، ۲۴ ویں آیت سے صاف ظاہر ہے چنانچہ یو ں مرقوم ہے۔ "پس سموئيل اسرائيل کے سب قبیلوں کو نزدیک لایا اور قرعہ بنیمین کے قبیلہ کے نام پر نکلا۔ تب وہ بنیمین کے قبیلہ کو خاندان خاندان کرکے نزدیک لایا تو مصریوں کے خاندان کا نام نکلا اور پھر قیس کے بیٹے ساؤل کا نام نکلا۔۔۔۔۔ اورسموئیل نے ان لوگوں سے کہا تم اسے دیکھتے ہوجسے خداوند نے چن لیا کہ اس کی مانند سب لوگوں میں ایک بھی نہیں؟ تب سب لوگ للکار بول اٹھے کہ بادشاہ جیتا رہے ۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ " بھائیوں کا اطلاق اسی قوم یعنی یہود پر آیا ہے۔

علاوہ بریں استشنا کی کتاب کے ۱۵ باب میں بھی یہ لفظ بالکل اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ مرقوم ہے " اگر تیرا کوئی بھائی خواہ عبرانی مرد ہو یا عبرانی عورت تیرےہاتھ بکے اور وہ چھ برس تک تیری خدمت کرے تو تو ساتویں سال اس کو آزاد ہوکرجانے دینا۔"( ۱۲ ویں آیت )پھر احبار کی کتاب کے ۲۵ویں باب کی ۴۶ ویں آیت میں لکھا ہے کہ "لیکن بنی اسرائیل جو تمہارے بھائی ہیں ان میں سے کسی پر تم سختی سے حکمرانی نہ کرنا۔" ان مقامات سے اوران کی مانند بہت سی دیگر عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ جب خدا نے حضرت موسیٰ کو فرمایا کہ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کرونگا تو اس سے عرب کا قبیلہ قریش مراد نہیں تھابلکہ خود بنی اسرائیل جو تمہارے بھائی ہیں ان میں سے کسی پر تم سختی سے حکمرانی نہ کرنا۔" ان مقامات سے اور ان کی مانند بہت سی دیگر عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ جب خدانے حضرت موسیٰ کو فرمایا کہ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کرونگا تو اس سے عرب کاقبیلہ قریش مراد نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل ہی مراد تھے اوریہ بات ایسی صاف اور واضح ہے کہ اس کو راز تعصب پر حیرت ہوتی ہے جو اس کے خلاف تاویل کرنے پر مجبور کرتاہے۔

مسلم مناظرین کی یہ غلطی اوربھی قابِل عفو نہیں ہے کیونکہ خود ان کے اپنے قرآن شریف میں یہ لفظ " بھائی " اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ سورہ اعراف کی ۸۴ ویں آیت میں یو ں مرقوم ہے " وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ " ترجمہ یعنی اورمدین کو بھیجا ان کابھائی شعیب بولا اے میری قوم ۔ قرآن شریف کی اس آیت میں شیعب اپنے قبیلہ کو " اے میری قوم " کے الفاظ سے خطاب کررہے ہیں اورپھر بھی خدا کہہ رہا ہے کہ ہم نے مدین کے پاس ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس آیت پر زیادہ لکھنا فضول ہے کیونکہ الفاظ سے خود ظاہر ہے کہ لفظ"بھائی "سے یہاں خود اپنی قوم مراد ہے اسلامی دلیل کے مطابق تو لفظ " بھائيوں" سے ادومی مراد ہونگے اس لفظ "بھائیوں" کے متعلق ایک اوربات پر غور کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرہم بفرض محال یہ مان بھی لیں کہ استشنا کے ۱۸ویں باب میں " بھائیوں" کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس میں اہل اسلام پیش کرتے ہیں تو بھی حضرت محمد صاحب اس سے خارج رہ جاتے ہیں کیونکہ یادر ہے کہ اسماعیل اسرائیل کے بھائی نہیں بلکہ چچا تھے ۔اسرائیل یعنی یعقوب کے بھائی عیسو تھے۔ یہ پیدائش کی کتاب کے ۲۵ویں باب کی ۲۴ ویں آیت سے ۲۶ویں آیت تک کی عبارت سے صاف ظاہر ہے " ۲۴اور جب اُس کے وضعِ حمل کے دِن پُورے ہُوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اُس کے پیٹ میں تَوأم ہیں۔ ۲۵اور پہلا جو پَیدا ہُؤا تو سُرخ تھا اور اُوپر سے اَیسا جَیسے پشمِینہ اور اُنہوں نے اُس کا نام عیسو رکھّا۔ ۲۶اُس کے بعد اُس کا بھائی پَیدا ہُؤا اور اُس کا ہاتھ عیسو کی ایڑی کو پکڑے ہُوئے تھا اور اُس کا نام یعقُوب رکھّا گیا ۔ " لہذا مسلمانوں کی تاویل کے مطابق اسی نبی کو بنی اسماعیل سے نہیں بلکہ ادومیوں میں سے ہونا چاہیے اورکتاب مقدس کے الفاظ سے یہ صاف ظاہرہے ۔ چنانچہ لکھا ہے " تو کسی ادومی سے نفرت نہ رکھنا کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے۔"( استشنا ۲۳باب ۷آیت ) ۔

" تجھ سے یا تیری مانند " سے مراد روحانی اور منصبی مشابہت ہے

اس پیشینگوئی کے الفاظ کے مطابق کہ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سے ایک نبی برپا کروں گا۔" مسلمانوں کا حضرت موسیٰ اورحضرت محمد صاحب کے درمیان مشابہت ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی لایعنی ہے۔ یہاں جس مشابہت کی طرف اشارہ ہے وہ کوئی جسمانی مشابہت نہیں ہے بلکہ روحانی اورمنصبی مشابہت ہے مسلمان جو جسمانی مشابہت پر زور دیتے ہیں ان کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس مشابہت کو مانے سے پیش آتی ہیں مثلاً اہل اسلام کو فخر ہے کہ حضرت محمد صاحب اُمی نبی تھے جس کا مطلب ان کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن کتاب مقدس میں موسی ٰکی بابت لکھاہےکہ " موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی "(اعمال ساتواں باب ۲۲ویں آیت )۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس بات میں مشابہت دکھانے میں نہایت دقت پیش آئے گی۔

پھر قرآن شریف میں یہ بھی آیا ہےکہ حضرت موسیٰ نے بہت سے معجزے دکھائے چنانچہ مرقوم ہے کہ وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ یعنی اور موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات لے کر آئے (2۔ سورہ بقرہ آیت 92)۔ لیکن خود قرآن شریف کی شہادت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت محمد صاحب نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا چنانچہ یوں مرقوم ہے " إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ یعنی نشانیاں تو الله کے اختیار میں ہیں اور میں تو صاف صاف آگاہ کرنے والاہوں (سورة العنکبوت ۴۹ویں آیت) پھر سورہ بنی اسرائیل کی ۶۱ویں آیت میں مرقوم ہے " وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآيَاتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الأَوَّلُونَ یعنی اے محمد ہم کو کسی بات نے نہیں روکا کہ تجھے معجزات کے ساتھ بھیجتے سوا اس کے کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا ۔

اگر اس قسم کی شخصی مشابہت پر اصرار کیا جائے تو پھر یہ دکھانے میں نہایت دقت پیش آئیگی کہ کس لحاظ سے حضرت محمد صاحب کوموسیٰ کی مانند کہا جاسکتا ہے؟ یہ کہنا کہ دونوں نے شادیاں کیں اورتلوارچلائی بہت کم اہمیت رکھتاہے کیونکہ اسی طرح تو جھوٹے نبی مسیلمہ اور دوسرے کذاب نبیوں نے بھی یہی کیا۔ یہ بشارت اس نبی کے لئے ہے جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا جانے کو تھا ۔ لیکن اس پیشینگوئی کے متعلق ایک اوربات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس باب مذکورہ کی ۱۵ویں آیت میں لکھاہےکہ خدا فرماتا ہے کہ "تیرے لئے " یعنی بنی اسرائيل کے لئےوہ نبی مبعوث ہوگا ۔ اب خوب واضح ہے کہ حضرت محمد صاحب نے ایک خاص معنی میں یہودیوں کے لئے نہیں بلکہ عربوں کے لئے اپنے آپ کو پیغمبر بتایا چنانچہ سورہ توبہ میں مرقوم ہے کہ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ" یعنی آیا ہے کہ تم پاس رسول تمہارے میں کا (۱۹ویں آیت) اورپھر سورہ ابراہیم کی چوتھی آیت میں لکھاہے کہ" وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ" اور کوئی نہیں رسول بھیجا ہم نے مگر بولی بولتا اپنی قوم کی ۔ پھر سورہ قصص کی ۴۶ویں آیت میں یوں مندرج ہے " وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ یعنی اور تونہ تھا طور کے کنارے جب ہم نے آواز دی لیکن یہ مہر ہے تیرے رب کی کہ تو ڈر سنادے ان لوگوں کو جن پاس نہیں آیا کوئی ڈر سنانے والا تجھ سے پہلے۔ جب ناظرین مذکورہ بالا تینوں آیات قرآنی کا بغور مطالعہ کرینگے تو صاف معلوم ہوجائیگا کہ یہ دعویٰ کس قدر سچائی سے بعید ہے کہ حضرت محمد صاحب اس بشارت کے مصداق ہیں جس کے مطابق " تیرے لئے " یعنی یہودیوں کے لئے نبی کا برپا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد صاحب عبرانی سے ناواقف تھے اورمشہور مشکواة المصابیح کی کتاب الاداب میں بیان ہےکہ حضرت محمد صاحب نے اپنے کاتب زید کو عبرانی سیکھنے کی ہدایت کی تاکہ یہودیوں کے ساتھ خط وکتابت کرسکیں۔ اگر حضرت محمد صاحب ایسے لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے جن میں آپ سے پہلے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تو آپ یہودیوں کے لئے ہرگز مبعوث نہیں ہوئے تھے کیونکہ خود قرآن شریف کی شہادت کے مطابق ان میں پیغمبروں کا طویل سلسلہ جاری رہ چکا تھا۔ یہ دو پر ُمعنی الفاظ " تیرے لئے " اس دعویٰ کی تردید کو کافی ہیں کہ حوالہ زیر بحث میں حضرت محمد صاحب کے لئے پیشینگوئی ہے۔ اس آیت کاصریح مطلب یہ ہے کہ اس بشارت سے مراد سیدنا مسیح ہیں جوایک خاص معنی میں یہودیوں کے لئے بھیجے گئے جیساکہ خود مسیح نے ان الفاظ میں دعویٰ کیا ہے " میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کےسوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا"(متی ۱۵باب ۲۴آیت ) ۔

اس بشارت کے مطابق یہ نبی یہودیوں میں سے برپا ہونے والا تھا

استشنا کا حوالہ صاف طور سے بتاتا ہے کہ نبی معہود یہودیوں کے " درمیان سے " برپا ہونے کو تھا۔ یہ بشارت کسی معنی میں بھی حضرت محمد صاحب پر صادق نہیں آسکتی کیونکہ وہ یہودیہ میں نہیں بلکہ سینکڑوں میل کے فاصلہ پر مکہ میں عرب کے بُت پرستوں کےد رمیان پیداہوئے ۔ برعکس اس کے اس پیشینگوئی میں مسیح کی بابت بشارت ہے کیونکہ وہ داؤد کےشہر بیت لحم میں پیداہوا اور تمام عمران کے درمیان رہا جن میں مرسل ہوکر آیا تھا ۔ مسیح بالکل لفظی معنی میں بنی اسرائیل کے " درمیان سے " برپا ہوا اورموسیٰ کی اس عجیب پیشینگوئی کی ہربات اس میں پوری ہوئی ۔اس کا سب سے بڑا کام اپنے لوگوں کو گناہ کی غلامی سے مخلصی بخشنا تھا ۔ٹھیک جس طرح موسیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی کے جوئے سے بچایا تھا اور عین جس طرح موسیٰ نے اسرائیل کی نا فرمانی کے سبب سے خدا سے سفارش کی تھی اسی طرح اب مسیح بھی اپنے لوگوں کے لئے بڑا شفیع بن کر خدا تعالیٰ کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔

انجیل میں یہ پیشینگوئی سیدنا عیسیٰ مسیح کے حق میں دکھائی گئی ہے

آخری بات اس بشارت کے متعلق یہ ہے کہ کلام الہیٰ یعنی انجیل مقدس میں یہ صاف طور سے بتایا گیا ہے کہ موسیٰ کی یہ پیشینگوئی سیدنا عیسیٰ مسیح کے حق میں ہے ۔چنانچہ اعمال کی کتاب میں لکھاہے ۔" موسیٰ نے کہا کہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کریگا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا۔ اوریوں ہوگا کہ جو شخص اس نبی کی نہ سنیگا وہ امت میں سے نیست ونابود کردیا جائیگا بلکہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب نے ان دنوں کی خبردی ہے ۔تم نبیوں کی اولاد اوراس عہد کے شریک ہوجو خدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابراہیم سے کہاکہ تیری اولاد سے دنیا کے سب گھرانے برکت پائیں گے ۔ خدا نے اپنے خادم کو اٹھا کر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہرایک کو اس کی بدیوں سے ہٹا کر برکت دے۔"( اعمال ۳باب ۲۲ ۲۶آیت ) اس کے علاوہ خود سیدنا مسیح نے ایک موقع پر قطعی طور سے ان الفاظ میں کہاکہ" اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اس لئے کہ اس نے میرے حق میں لکھاہے " (یوحنا ۵ ۴۶آیت )۔ پس اب نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ استشنا کے اٹھارھویں باب کی بشارت سوائے عیسیٰ ابن ِ مریم کے اور کسی کے لئے نہیں ہے اور ہر زمانہ میں یہ الہیٰ پیغام لوگوں کو آگاہ کرتا رہا ہے کہ " جو کوئی میری باتوں کو جو وہ میرے نام سے کہیگا نہ سنیگا تو میں اس کا حساب اس سے کہونگا ۔"

(۲) استشنا باب ۳۳آیت ۲

کتاب مقدس کا دوسرا مقام جو اہل اسلام حضرت محمد کے حق میں پیشینگوئی کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ استشنا کی کتاب کے ۳۳ باب کی ۲ آیت ہے جس میں یوں مرقوم ہے " خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا۔" اس آیت کے متعلق مسلم مناظرین یوں لکھتے ہیں کہ " مذکورہ بالا حوالہ تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔ پہلے حصہ کے الفاظ کہ " خداوند سینا سے آیا ان ہیبت ناک قدرت کے کاموں میں جو حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ہوئے اور اس مذہب میں جس کی تبلیغ حضرت موسیٰ نے کی پورے ہوئے ہیں اور دوسرے حصہ کے الفاظ کہ " شعیر سے ان پر آشکارا ہوا " حضرت عیسیٰ میں اوراس انجیل میں جس کی آپ نے منادی کی پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ اس کے بعد الله تعالیٰ اپنے خادم کی زبانی ایک آنے والے واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور اس تیسرے حصہ کے یہ الفاظ کہ " وہ کوہ ِ فاران سے جلوہ گر ہوا" عجیب اور لفظی طور پر حضرت محمد پورے ہوتے ہیں۔

(دیکھو بائبل محمد۔ مطبوعہ کلکتہ ۱۳۲۰ھ صفحہ ۱۷)

فاران اپنی جغرافیائی حالت کے اعتبار سے محمد صاحب اور سیدنا مسیح کی بشارت کا موضوع نہیں ہوسکتا

اگریہ مسلمان مصنف جس نے مذکورہ بالا عبارت کو لکھاہے اس بیابان کے جغرافیہ کا مطالعہ کرلیتا جس میں بنی اسرائیل مصر سے نکل کر کنعان کے ملک موعود کی طرف جاتے وقت گردش کرتے رہے اورکم از کم سر سری طور پر قدیم دنیا کے اس حصہ کا نقشہ بھی دیکھ لیتا تو ذی فہم لوگوں میں اپنی ہنسی کرانے سے بچ جاتا۔ اس خطہ ارض کے خاکہ پر نظر ڈالتے ہی معلوم ہوجائیگا کہ سینا۔ شعیر اور فاران جزیرہ نمائے سینا کے تین پہاڑ ہیں جو فلسطین اوربحیرہ احمر کے درمیان آس پاس واقع ہیں۔ اس حوالہ مذکورہ میں حضرت موسیٰ اور سیدنا مسیح اور حضرت محمد صاحب کے حق میں بشارت نکالنا نہ صرف خیالی اور جغرافیائی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس مقام کے اصل مطلب سےبھی گریز کرنا ہے جس میں کسی نبی کی طرف ذرا بھی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ اس آیت میں گذشتہ تواریخی واقعات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں بنی اسرائيل کو اس الہیٰ جلال اور قدرت کے عجیب اظہار کی یاد دلائی گئی ہے جو انہوں نے بیابان میں مسافرت کے دوران میں مختلف مقامات پر دیکھاتھا۔ ناظرین عبارات ذیل سے اس آیت کا مقابلہ کرکے اس کی تصدیق کرسکتے ہیں خروج کی کتاب ۱۹باب گنتی کی کتاب ۱۳، ۱۴اور ۱۶باب۔

کسی ایک لفظ یا آیت کو مسیحی صحیفوں میں سے لے کر اسے اصل عبارت سے بالکل جداکرکے اس کی خالی تاویل کرنا ایسی سخت غلطی ہے جو مسلمان مناظرین برابر کیا کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہےکہ ان کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ان ناموں اورجگہوں کے حوالوں کو کتاب مقدس کے ان دوسرے مقامات میں بھی دیکھ لیں جن سے شاید سوالات زیر بحث پر کچھ روشنی پڑے ۔ اب اس آیت سےجوفی الحال زیر نظر ہے معلوم ہوجائیگا کہ اس کا نتیجہ بالکل غلط نکلتا ہے۔اگر " بائبلے محمد" کے مصنف جناب ادھو میاں کتاب مقدس میں ان بہت سے مقامات کا مطالعہ کرلیتے جن میں شعیر اور فاران دونوں کا ذکر آیا ہے تو ہر گز ایسی بیوقوفی نہ کرتے کہ ان پہاڑوں سے سیدنا مسیح اور حضرت محمد صاحب کی رسالت کی بشارت مراد لیتے۔ اس خطہ ملک کے جغرافیہ کے مطالعہ سے صاف ظاہرہےکہ مسیح نے "شعیر کا سفر ہرگز نہیں کیا اور حضرت محمد صاحب کو فاران کا کچھ علم نہ تھا۔اصل واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبل ِ شعیر ادومیوں کا ملک تھا اور بحر مردار کے جنوب میں کچھ فاصلہ پر یہ پہاڑ واقع ہے۔ پیدائش کی کتاب ۳۲باب کی ۱۳ آیت سے یہ بخوبی ظاہر ہے جہاں یوں لکھاہےکہ اور"یعقوب نے اپنے آگے آگے قاصدوں کو ادوم کے ملک کو جو شعیر کی سر زمین میں ہے اپنے بھائی عیسو کے پاس بھیجا اور" یہی بات پیدائش کے ۳۶ باب کی ۸، ۹ آیتوں سے اوربھی زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ " پس عیسو جسے ادوم بھی کہتے ہیں۔ کوہ شعیر میں رہنے لگا اور عیسو کا جو کوہ شعیر کے ادومیوں کا باپ ہے یہ نسب نامہ ہے۔

علاوہ بریں بیابان میں بنی اسرائیل کی مسافرت کے احوال کا مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ ان کوملک ِکنعان میں بنانے کے لئے ادومیوں کے درمیان سے ہوکر گذرنا ضرور تھا۔ چنانچہ لکھاہے تب موسیٰ نے قاوس سے ادوم کے بادشاہ کے پاس ایلچی روانہ کئے اور کہلا بھیجا کہ تیرا بھائی اسرائیل یہ عرض کرتا ہے کہ تو ہماری سب مصیبتوں سے جو ہم پر آئیں واقف ہے۔۔۔۔۔۔۔ سوہم کو اپنے ملک میں سے ہوکر جانے کی اجازت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ ادوم نے کہلا بھیجاکہ تو میرے ملک سے ہوکر جانے نہیں پائیگا ۔ ورنہ میں تلوار لے کر تیرا مقابلہ کرونگا ۔(گنتی ۲۰باب ، ۱۴، ۱۷، ۱۸آیتیں )اب اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ مصر سے نکل کر مسافرت کرتے وقت ادومیوں کی سرزمین میں اوراسی طرح کوہ ِ شعیر کنعان پہنچنے سے پیشتر راستہ میں تھے۔

علاوہ بریں استشنا کی کتاب کے پہلے باب کی دوسری آیت میں یو مرقوم ہے کہ" 2کوہِ شعیر کی راہ سے حورِب سے قادِس بَرنِیعَ تک گیارہ دِن کی منزِل ہے۔"اب اس حوالہ سے یہ بات اوربھی مستحکم ہوجاتی ہے اورہم ثابت کر چکے ہیں کہ جب شعیر حورب اور قادس برنیع کے درمیان واقع ہے اوریہ ددنوں آخر الذکر مقامات بحر مردار کے جنوب میں ہیں۔ اب ناظرین پر اس مسئلہ کی خرافات بخوبی واضح ہیں اور حیرت تو یہ ہے کہ بہتیرے مشہور مسلمان مصنفوں نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ لفظ جبل شعیر کا علاقہ سیدنا مسیح کی رسالت سے ہے۔ چنانچہ ایک اورمسلمان مصنف رقمطراز ہے کہ " شعیر ملک شام کے ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر مسیح جایا کرتے تھے اورجہاں آپ کو فرشتوں کی معرفت انجیل کے متعلق احکام ملے " (پروف آف پروفٹ محمد فروم دی بائبل مطبوعہ لاہور صفحہ ۱۲) ہم کو معلوم ہے کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہوا ہے اور شمالی صوبہ گلیل کے شہر ناصرت میں پرورش پائی اور تمام عمر اپنے آبائی ملک میں لگوں کو تعلیم دیتا رہا۔ مسیح کا ادوم میں ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ برعکس اس کے حزقیل نبی نے صاف طور پر بتادیاہے کہ اہل ادوم یعنی جبرئیل شعیر کےباشندے یہودیوں کے سخت مخالف تھے۔ اس نبی کی کتاب کے ۳۵ باب میں ان کے شہر کی تباہی کی پیشینگوئی نہایت ہی صفائی سے درج ہے۔ لہذا یہ دعویٰ کہ یہ الفاظ " وہ شعیر سے ان پر آشکاراہوا" سیدنا مسیح میں اورانجیل میں جس کی آپ نے منادی کی پورے ہوتے ہیں بالکل بے بنیاد ہے اور عقل اور کتاب سے بالکل اس کا کوئی تعلق نہیں۔

یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ مصنفین مذکورہ فاران کی جغرافیائی حالت سے بھی ایسے ہی ناواقف ہیں جیسے جبل شعیر سے۔ حضرت محمد صاحب کا فاران میں پیدا ہونا یا ان کا وہاں رہنا تو دور کی بات ہے لیکن برعکس اس کے کافی ثبوت موجود ہے کہ جبل فاران مکہ سے جوکہ حضرت محمد صاحب کا مسلمہ پیدائشی مقام ہے جنوب کو پانچ سومیل کے فاصلے پر واقع ہے اور نہ صحیفہ میں اورنہ تواریخ میں کوئی ایسی بات ہے جس سے پیغمبر اسلام کا کوئی بھی علاقہ جبل فاران سے ہونا ثابت ہوسکے۔ فاران کے متعلق کتاب مقدس کی عبارت کو دیکھنے سے یہ بات اوربھی صریح طورپر واضح ہوجائیگی۔ اصل بات یہ ہے کہ فاران سینا کے شمال میں ایک پہاڑ تھا جیساکہ کتاب مقدس کے اس مقام سے ظاہر ہے کہ " تب بنی اسرائیل دشت ِ سینا سے کوچ کرکے نکلے اَور وُہ اَبر دشت ِ فاران میں ٹھہرگیا" (گنتی ۱۰باب ۱۲آیت )علاوہ بریں نہایت صفائی کےساتھ بیان ہوا ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے سفر کرکے کنعان کے جنوبی حصہ کے قریب پہنچے تو موسیٰ نے " دشت فاران" سے وعدے کی سرزمین میں مخبری کے لئے چند جاسوس بھیجے۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے " اس کے بعد وہ لوگ حصیرات سے روانہ ہوئے اور دشت ِ فاران میں پہنچ کر انہوں نے ڈیرے ڈالے۔۔۔۔۔۔۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا تو آدمیوں کو بھیج کر وہ ملک کنعان کا جو میں بنی اسرائیل کو دیتا ہوں حال دریافت کریں (گنتی باب ۱۲: ۱۶)آیت سے باب ۱۳ ۱، ۲آیت ) ان جاسوسوں کا واپس آنا خدا کے جلال کے ظاہر ہونے کاایک خاص موقع تھا۔ چنانچہ لکھاہے کہ " اس وقت خیمہ اجتماع میں سب بنی اسرائیل کے سامنے خداوند کاجلال نمایاں ہوا" (گنتی باب ۱۴ ۱۰آیت )۔ اب ناظرین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ان الفاظ سے کہ " فاران ہی کے پہاڑ سے وہ آشکارا ہوا" کوئی بھی اشارہ اس کی ذات کی طرف پایا جاتا ہے جومکہ میں فاران سے پانچ سومیل کے فاصلہ پر جنوب کی طرف پیدا ہوا؟ یا اس سے خدا کا وہ خاص جلال مراد ہے جو بنی اسرائیل پر فاران میں بموجب تحریر مذکورہ نمایاں ہوا؟

(۳ )پینتالیسواں(۴۵) زبور

چند مسلمان مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ ۴۵ زبور میں حضرت محمد صاحب کے حق میں بشارت ہے اور وہ خاص کر تیسری چوتھی اور پانچویں آیت اس زبور کی پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں حضرت محمد صاحب کا صریح ذکر موجود ہے چنانچہ وہ الفاظ یہ ہیں"" اے زبردست ! تو اپنی تلوار کو جو تیری حشمت وشوکت ہے اپنی کمر سے حمائل کر۔ اور سچائی اورحلم اور صداقت کی خاطر اپنی شان وشوکت میں اقبال مندی سے سوار ہو اور تیرا داہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا۔ تیرے تیر تیز ہیں۔ وہ بادشاہ کےد شمنوں کے دل میں لگے ہیں۔"

اس زبور میں ایک الہیٰ ہستی کا ذکر ہے

اگر ناظرین اس تمام زبور کو جس میں یہ آیتیں پائی جاتی ہیں غور سے پڑھیں گے تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اس میں حضرت محمد صاحب کا کوئی ذکر نہیں ہے غالباً اس میں پہلے سلیمان بادشاہ کے ایک غیر ملکی شاہزادی کے ساتھ شادی کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس شادی کا ذکر سلاطین کی پہلی کتاب میں موجود ہے چنانچہ لکھاہے کہ " اورسلیمان نے مصر کے بادشاہ فرعون سے رشتہ داری کی اور فرعون کی بیٹی بیاہ لی اور جب تک اپنا محل اور خداوند کا گھر اور یروشلیم کے چوگرد دیوار نہ بنا چکا اسے داؤد کےشہر میں لا رکھا (۱سلاطین ۳باب ۱)۔ لیکن اگر غور کے ساتھ اس زبور کا مطالعہ کیا جائے ۔ تو ظاہر ہوگاکہ اس کا مطلب اوربھی گہرا ہے اورایک ایسے شخص کی طر ف اشارہ ہے جوسلیمان سے بہت بزرگ وبرتر ہے اورجس میں پر اسرار طورسے الوہیت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ چھٹی آیت میں جسے مسلمان مصنفین اقتباس کرتے وقت بڑی احتیاط سےچھوڑدیتے ہیں اس شخص کویوں خطاب کیا ہے" تیرا تخت اے خدا ابدلاآباد ہے" صرف یہی آیت مسلمانوں کےد عویٰ کی بے بنیاد ی ثابت کرنے کے لئے کافی ہےکیونکہ یہ تو سب مانتے ہیں کہ حضرت محمد صاحب نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔

انجیل میں اس زبور کا حوالہ مسیح کے حق میں پیش کیا گیا ہے

برعکس اس کے انجیل میں بڑی صفائی کے ساتھ یہ زبور سیدنا عیسیٰ مسیح کی شان میں استعمال ہوا ہے جس کی تعظیم مسلمان کلام الله وروح الله کے خطابوں سے کرتے ہیں ۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے ۔" مگر بیٹے کی بابت کہتاہے کہ اے خدا تیرا تخت ابدالاآباد رہیگا" ۔ (عبرانیوں ۱باب ۸)۔ خدا کے کلام کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ زبور مسیح کی شان میں ہے اوردلہن سے مسیحی کلیسیا مراد ہے اوریہ خیال کہ مسیحی کلیسیا مسیح کی دلہن سے پاک نوشتوں میں بار بار پایا جاتا ہے اوراس سے زبور زیر بحث کے متعلق جوہماری رائے ہے اس کی اوربھی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ پولوس رسول کرنتھیوں کی کلیسیا کو لکھتے وقت کہتا ہے " میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ تم کو پاک دامن کنواری کی مانند مسیح کے پاس حاضر کروں " (۲ کرنتھیوں ۱۱باب ۲) اوراسی طرح یوحنا رسول اپنی رویا قلمبند کرتے ہوئے لکھتاہے " پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس اترتے دیکھا اور وہ اس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے سنگار کیا ہو۔" (مکاشفہ ۲۱باب ۲)۔

مسلمان مناظرین اس زبور میں " تلوار" اور " تیر " کے ذکر سے حجت پیش کرتے ہیں کہ یہ مسیح کے حق میں نہیں ہے اورپھر فخر کےساتھ پوچھتے ہیں کہ کیا حضرت عیسیٰ بھی کبھی جنگی سپاہی تھے گویا اسی بات پر زبور کی بشارت کے مسیحی یا محمدی ہونے کا دارومدار ہے۔ ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ لفظ تلوار روحانی معنے بھی استعمال ہوتاہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اسی معنی میں یہ لفظ انجیل میں استعمال ہوا بھی ہے چنانچہ پولوس رسول اپنے مسیحی نومریدوں کو" اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں " جنگ کی ترغیب دیتا ہوا کہتا ہےکہ " روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو"(افسیوں ۶باب ۱۷)اورجس خوبی کے ساتھ سیدنا مسیح نے اس روح کی تلوار کا استعمال کیاوہ شیطان سے آزمائے جانے کے اس بیان سے ظاہر ہے جومتی کی انجیل کے چوتھے باب میں مرقوم ہے جہاں شیطان کی ہر آزمائش کا جواب مسیح نے الہیٰ نوشتہ سے دیا اوریوں اس کے ہر حملہ کو روکا۔

(۴) غزل الغزلات ۵باب ۱۰ سے ۱۶ آیت

غزل الغزلات کے پانچویں باب کی ۱۰ ویں آیت سے ۱۶ویں آیت تک بطور بشارت محمدی کے مسلمان پیش کرتے ہیں ۔ یہ عبارت یوں ہے "

10میرا محبُوب سُرخ و سفید ہے۔وہ دس ہزار میں مُمتاز ہے۔11اُس کا سر خالِص سونا ہے۔اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔12اُس کی آنکھیں اُن کبُوتروں کی مانِندہیں جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بَیٹھے ہوں۔13اُس کے رُخسار پُھولوں کے چمن اور بلسان کیاُبھری ہُوئی کِیارِیاں ہیں۔اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جِن سے رقِیق مُر ٹپکتا ہے۔14اُس کے ہاتھ زبرجد سے مُرصّع سونے کے حلقےہیں۔اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جِس پر نِیلم کےپُھول بنے ہوں۔15اُس کی ٹانگیں کُندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کےسُتُون ہیں۔وہ دیکھنے میں لُبنا ن اور خُوبی میں رشکِ سرو ہے۔16اُس کا مُنہ از بس شِیرِین ہے ۔ ہاں وہ سراپاعِشق انگیزہے۔اَے یروشلِیم کی بیٹیو!یہ ہے میرا محبُوب ۔ یہ ہے میرا پِیارا۔

اب تعجب ہے کہ ایک بنگالی زبان کی کتاب " بائبلے محمد" کا مسلمان مصنف اس عبارت مذکورہ کے متعلق یوں لکھتاہے " اگرچہ حضرت سلیمان دانانے شخص موصوف کی تعریف شاعرانہ پیرایہ میں کی ہے توبھی پورا بیان آخری نبی کے نوراورحسن وجمال کے بالکل مطابق ہے۔ یہی نہیں بلکہ عبارت مرقومہ کے آخری جملہ میں حضرت سلیمان نے روح القدس کی تحریک سے اپنے اس مجبوب کا نام بھی بتادیا کہ وہ محمد ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آج کل کی مروجہ بائبل میں عبرانی لفظ " محمدیم" کا جو ترجمہ درج ہے وہ بسبب لاعلمی کے ہے یافریب دینے کے لئے ۔ انگریزی میں لفظ" محمدیم" کا ترجمہ لولی ہے۔ اگر یہ غلط ہے چاہیے تھاکہ انگریزی میں اس کا ترجمہ معزز یا محمود کیا جاتا ۔ ہماری رائے میں مناسب تو یہ تھاکہ اس کا ترجمہ بالکل کیا ہی نہ جاتا" (بائبلے محمد صفحہ ۱۸، ۱۹)۔

یہ عبارت خدا اوراس کے لوگوں کی باہمی محبت کو ظاہر کرتی ہے

اس مسلمان مصنف کی مذکورہ بالا عبارت میں جو جہالت دکھائی گئی ہے ہم کو اس کے جواب میں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کتاب مقدس کی ان آیات زیر بحث میں حضرت محمد صاحب کا کچھ بھی ذکر نہیں ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ غزل الغزلات استعارہ کے پیرایہ میں لکھی گئی ہے۔ اس میں ایک اعلیٰ شاعرانہ رنگ میں اس محبت کے رشتہ کا ذکر ہے جو خدااورخدا کے برگزیدوں کے درمیان ہے اوریہ مذکورہ بالا عبارت اس بیان کا صرف ایک حصہ ہے۔ کتاب "بائبلے محمد" کے مصنف نے عبارت کے سلسلہ کو چھوڑ کر صرف لفظ "محمدیم" لے کریہ حجت قائم کرنا چاہا ہے کہ یہ ایک ذاتی نام ہے اوراس سے مراد حضرت محمد صاحب ہیں ! دراصل یہ لفظ علم یعنی کوئی خاص نام نہیں ہے اورنہ اس کا ترجمہ محمد ہے۔ یہ اسم نکرہ ہے اور اس کا اسم مشترک ہونا اس سے ظاہر ہے کہ یہ بطور واحد کے نہیں بلکہ جمع کےصیغہ میں استعمال ہواہے اوراکثر کتاب مقدس میں چیزوں اور لوگوں دونوں کے لئے پایا جاتا ہے۔ ہم یہ دکھانے کے لئے یہ لفظ نہ اسم خاص ہے اورنہ اس کے معنی محمد ہیں چندحوالے پیش کرتے ہیں جہاں یہ لفظ آیا ہے اور اس دعوےٰ مذکورہ کا پتہ لگ جائے گا۔ اگرناظرین حزقیل نبی کی کتاب کے ۲۴ویں باب کی ۱۶ ویں آیت پڑھینگے تویوں لکھا پائینگے " اے آدم زاد دیکھ میں تیری منظور نظر (محمدیم) کوایک ہی ضرب میں تجھ سے جدا کرونگا ۔لیکن تونہ ماتم کرنا اورنہ رونا۔ اورنہ آنسو بہانا۔" پھر اسی باب کی ۱۸ویں آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حزقیل نبی کی منظور نظر سے مراد اس کی بیوی ہے جسے خدا نے وفات دی ۔ کیا یہاں بھی یہی دلیل پیش کی جائے گی کہ چونکہ اس باب مذکورہ کی سولھویں آیت میں عبرانی لفظ " محمدیم" ہے اس لئے یہ بھی بشارت محمدی ہے !

علاوہ بریں اسی طرح پہلے سلاطین کے بیس باب کی چھٹی آیت میں چیزیں ہیں چنانچہ لکھاہے " لیکن اب میں کل اسی وقت اپنے خادموں کو تیرے پاس بھیجونگا سووہ تیرے گھر اورتیرے خادموں کے گھروں کی تلاشی لینگے اورجو کچھ تیری نگاہ میں نفیس (محمدیم) ہوگا وہ اسے اپنے قبضہ میں کرکے لے آئینگے ۔"پوری عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ارام کے بادشاہ بن ہدد کا ذکر ہے جس نے شاہ اسرائیل کے پاس قاصد بھیج کر دھمکی دی کہ وہ اسرائیل کے گھروں کی تمام چیزیں جو ان کی نگاہ میں نفیس ہیں لوٹ لے جائيگا اب ہم پوچھتے ہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ چونکہ یہاں عبرانی لفظ محمدیم آیاہے اس لئے یہ بشارت محمد ی ہے؟ عبارت کے سلسلہ کے علاوہ جس سے مطلب صاف ظاہر ہوتاہے کیا تواریخ سے کہیں بھی اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ کسی غیر ملکی بادشاہ نے حضرت محمد صاحب کو قید کیا اوران کو بطور اسیر غیر ملک میں لے گیا؟ غرضیکہ مسلمان مصنف کی سب باتیں مہمل ہیں اوران سے صرف یہ ظاہر ہوتاہے کہ جو لوگ بغیر عبرانی کا علم حاصل کئے چند عبرانی الفاظ کے معنوں کے ذریعہ سے دلیل نکالنے کی جرات کرتے ہیں وہ اپنے علمی افلاس کا ثبوت دیتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہےکہ یہ ساری دلیل ہی طفلانہ ہے اور قابل توجہ نہیں ۔ اگر لفظ محمدیم اور لفظ محمد میں مشابہت ہونے کے سبب سے حضرت محمد صاحب کےلئے بشارت سمجھی جاتی ہے توپھر قرآن میں ہندورام اوتار کے لئے بشارت موجود ہونے کی دلیل کیوں نہ پیش کریں کیونکہ قرآن میں لفظ روم آیا ہے۔

(۵)یسعیاہ باب ۲۱آیت ۷

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان لوگ اکثر حضرت محمد صاحب کی بشارت کی تلاش کے شوق میں کتاب مقدس کے مقامات کی عجیب وبےمعنی تاویل کرتے ہیں۔اگرپاک کتاب میں کہیں ان کو لفظ "تلوار " مل جاتاہے توبس پھر کیا ہے ؟ حضرت محمد صاحب کی بشارت کا ایک غل مچ جاتاہے اسی طرح اگر لفظ اونٹ ان کو کہیں نظر پڑجاتا ہے تو اس پر بھی کہنے لگتے ہیں کہ آخرش ایک عربی شریعت دینے والے کی صریح پیشینگوئی مل گئی ۔ یسعیاہ نبی کے ۲۱باب ۷آیت کی جو تاویل مسلمانوں نے کی ہے اسے دیکھ کرہم نے یہ باتیں لکھی ہیں اورجس غلطی کی ہم نے شکایت کی ہے اس کی یہ تاویل ایک عمدہ نظیر ہے۔ چنانچہ وہاں مرقوم ہے " اس نے سوار دیکھے جو دودو آتے تھے اور گدھوں پر اور اونٹوں پر سوار اوراس نے بڑے غور سے سنا۔"یہ سن کر تعجب ہوتاہے کہ چند مسلمان مصنفوں کو اس میں بھی بشارت محمدی معلو م ہوئی ہے اورہم کو بتایا جاتا ہے کہ گدھوں پر سوار سے حضرت عیسیٰ مراد ہیں کیونکہ وہ ایک مرتبہ گدھے پر سوار ہوکر یروشلیم میں داخل ہوئے اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ اونٹوں پر سوار سے حضرت محمد صاحب مراد ہیں کیونکہ آپ اکثر اونٹ کی سواری کیا کرتے تھے۔ گویا کوئی اور سوائے حضرت محمد صاحب اونٹ پر سوار ہی نہیں ہوا اور نہ مسیح کے سوا اور کوئی گدھے پر سوار ہوکر کبھی یروشلیم میں داخل ہوا؟

کتاب ِ مقدس کی اس عبارت میں بابل کی بربادی کی پیشینگوئی ہے

عہد عتیق اور جدید میں حضرت محمد صاحب کی نسبت پیشینگوئی کے پتہ لگانے کی بہتیری کوششیں ہم نے دیکھی ہیں مگر یہ سب سے بڑھ کر مضحکہ خيز ہے ۔اس میں تو ذرا بھی عقل سے کام نہیں لیا گیا کیونکہ اس تمام عبارت میں عربی نبی کی طرف اشارہ تک بھی پایا نہیں جاتا۔ اس بات کو غور سے پڑھنے سے معلوم ہوگاکہ اس میں بابل کی آنے والی تباہی کی پیشینگوئی ہے اورجب سوبرس بعد دارائے فارس نے اس پر قبضہ کیا تویہ نبوت پوری ہوئی۔ اگر مصنف موصوف اس باب کی ۹ویں آیت کو پڑھ لیتے تو جو انہوں نے لکھاہے اس کے وہ ہرگز مجاز نہ تھے کیونکہ وہاں صاف طور سے بابل کا ذکرآیا ہے چنانچہ لکھاہے" اور دیکھ سپاہیوں کے غول اوران کےسوار دو دو کرکے آتے ہیں پھر اس نے یوں کہا کہ بابل گر پڑا گرپڑا۔" ایسے ایسے مقامات سے مسلمانوں کو نبوت ڈھونڈ کر نکالتے دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کو اپنے نبی کے لئے بشارت کی بڑی کمی محسوس ہورہی ہے۔

(۶)یسعیاہ ۴۲باب ۱آیت

یسعیاہ کا ۴۲واں باب بھی اکثر حضر ت محمد صاحب کی بشارت کی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ پہلی آیت میں لکھاہے " دیکھو میرا خادم جس کو میں سنبھالتاہوں ۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے۔ میں نے اپنی روح اس پر ڈالی ۔ وہ قوموں ۔۔۔میں عدالت جاری کریگا۔

انجیل میں یہ عبارت سیدنا عیسیٰ مسیح کے لئے بتائی گئی ہے

ہم اس عبارت ِ مذکورہ کی زیادہ تشریح کرکے ناظرین کا وقت ضائع نہ کرینگے اتناہی بتادینا کافی ہے کہ یہ بشارت صفائی کے ساتھ انجیل میں سیدنا عیسیٰ مسیح میں پوری ہوتی ہوئی ظاہر کی گئی ہے اورچونکہ خدا نے اپنے کلام کی خود تشریح کردی ہے اس لئے اس کے متعلق انسانی تصورات لے کر زیادہ بحث کرنا فضول ہے انجیل کی عبارت مذکورہ جس سے یسعیاہ کی اس نبوت کی تشریح ہوتی ہے وہ یہ ہے " اور اس نے (سیدنا عیسیٰ نے )ان کو تاکید کی کہ مجھے ظاہر نہ کرنا تاکہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوکہ دیکھو یہ میرا خادم ہے جسے میں نے چنا۔ میرا پیارا جس سے میرا دل خوش ہے۔ میں اپنا روح اس پر ڈالوں گا اور وہ غیر قوموں کو انصاف کی خبردیگا۔"

یسعیاہ ۴۲واں باب ۱۱ویں آیت

اکثر اوقات مسلمان مذکورہ بالا باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتےہیں کہ یسعیاہ نبی کے بیالیسویں باب کے دوسرے حصہ میں ایک اور شخص کی صریح بشارت موجود ہے اور وہ حضرت محمد صاحب ہیں۔ خاص کر وہ اس باب کی گیارھویں آیت پیش کرتے ہیں جس میں لکھا ہے"بیابان اور اُس کی بستِیاں ۔قِیدار کے آباد گاؤں اپنی آواز بُلند کریں ۔سلع کے بسنے والے گِیت گائیں۔پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں"۔مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں لفظ قیدار سے صریحاً عرب کے لوگ مراد ہیں اوراس لئے اس میں محمد صاحب کی بشارت پائی جاتی ہے۔

اس عبارت میں مسیح کی سلطنت کو پھیلانے کا بیان ہے

مذکورہ بالا سلامی تاویل کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اس میں حضرت محمد صاحب کا بیان بالکل نہیں ہے بلکہ مسیح کی سلطنت کی وسعت کے تذکرہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی مرضی ہے کہ ایک روز اہل قیدار بھی اس سلطنت کی خوشی میں شریک ہوں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ حضرت محمد صاحب قبیلہ قیدار میں سے نہیں بلکہ قبیلہ قریش سے تھے اوراس لئے اس آیت میں حضرت محمد صاحب کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ علاوہ بریں دسویں آیت میں لکھاہے " خداوند کے لئے ایک گیت گاؤ" لیکن اسلامی عبادت میں گانا بالکل منع ہے اس لئے عبارت زیر بحث سے اسلام مراد نہیں ہوسکتا حضرت محمد صاحب کا ایک مشہور قول یہ ہےک قال ابن مسعود -رضي الله تعالى عنه-: الغناء يُنْبِت النفاق في القلب؛ كما يُنْبِت الماءُ الزرعَ " یعنی گیت گانا اسی طرح دل میں نفاق پیدا کرتاہے جس طرح پانی زراعت پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بات کیسے مان لی جائے کہ ایک ایسی بشارت جس میں لوگوں کے اپنے منجی کے لئے گاکر خوش ہونے کا ذکر ہے بشارت محمدی ہے؟

(۷ )حبقوق ۳باب ۳آیت

عہد عتیق کا ایک اور مقام جو حضرت محمد صاحب کی بشارت کی دلیل میں مسلمان پیش کرتے ہیں و ہ حبقوق نبی کی کتاب کے تیسرے باب کی تیسری آیت ہے جس میں یوں لکھا ہے " خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہ ِ فاران سے ۔"

تیمان مکہ سے جہاں حضرت محمد صاحب پیدا ہوئے تھے پانچ سو میل کے فاصلہ پر ہے جنہوں نے کتاب مقدس کے قدیم جغرافیہ کا مطالعہ کیا ہے ان کو معلوم ہے تیمان فاران کے قریب تھا اورہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ آخز الذکر مقام مکہ سے شمالی جانب کو ۵۰۰ میل کے فاصلہ پر تھا اورتیمان حقیقت میں ادومیوں کے ملک کاایک حصہ تھا اوریہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے " ادوم کی بابت رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ کیا تیمان میں خرد مطلق نہ رہی " (یرمیاہ ۴۹باب ۷آیت )اورپھر مرقوم ہے " اس لئے خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ میں ادوم پر ہاتھ چلاؤ نگا ۔اس کے انسان اورحیوان کو نابود کرونگا اورتیمان سے لے کر اسے ویران کرونگا۔ (حزقیل ۲۵باب ۱۳)۔ان حوالوں سے تیمان کا موقع صاف ظاہرہے جو بحیرہ مردار سے کئی میل کے فاصلہ پر نہ ہوگا۔ اس میں حضرت محمد صاحب کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے اب رہا ان الفاظ کے متعلق کہ " قدوس کوہ فاران سے (آیا)"سو پیشتر دکھا چکے ہیں کہ حضرت محمد صاحب کا تعلق فاران سے اتنا ہی تھا جتنا کہ ہندوستان سے کیونکہ یہ جگہ مکہ سے کم از کم پانچ سو میل دور تھی اور غالباً حضرت محمد صاحب کو اس کی خبر تک نہ تھی۔

اس آیت میں الہیٰ وجود کا بیان ہے

اگرہم بڑے غور سے اس آیت زیر بحث کا مطالعہ کریں اورسلسلہ کی آیتوں کوملا کر پڑھیں تو معلوم ہوجائیگا کہ اس میں کسی انسانی ذات کا بیان نہیں ہے بلکہ خود خدا کا ذکر ہے۔ یہ خدا تھا جو تیمان سے آیا اور وہ قدوس جو کوہ ِ فاران سے آیا۔ قرآن اور حدیثوں میں بہت سے مقامات ہیں جو حضرت محمد صاحب کی بے گناہی کے برخلاف گواہی دیتے ہیں پس حبقوق نبی کے صحیفے کی آیت مذکورہ کا بیان محمد صاحب کے لئے ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اورنہ حضرت محمد صاحب کی نسبت یہ کہا جاسکتا ہے کہ" اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا یا یہ کہ اس کی قدیم راہیں ہیں" (۱۶ویں آیت) غرضیکہ ساری عبارت کا موضوع خدا ہے اوراس آیت کو حضرت محمد صاحب کی بشارت بتانا سخت تعصب پر مبنی ہے۔

(۸) مرقس کی انجیل کا پہلا باب اور ساتویں آیت

مسلمان نہ صرف عہد عتیق میں حضرت محمد صاحب کی بشارتوں کے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ وہ اسی طرح عہد جدید میں بھی بتاتے ہیں کہ حضرت محمد صاحب کے حق میں پیشینگوئی صفائی سے درج ہے۔ اب ہم انجیل کے چند خاص ایسے مقامات پر غور کرینگے پہلی پیشنگوئی جس کاہم مطالعہ کرینگے مرقس کی انجیل کے پہلے باب کی ساتویں آیت میں بتائی جاتی ہے جہاں لکھاہے" میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زور آور ہے۔ میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں۔"مسلمان کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ نے صاف لفظوں میں سب سے آخری نبی اعظم محمد صاحب کے آنے کی بشارت دی ہے۔

یہ الفاظ حضرت یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ہیں

جس نے مسیح کے حق میں شہادت دی

چند مسلمان مصنفوں کے دعویٰ مذکورہ کی اس چالبازی کی نظیر ملنا نہایت مشکل ہے کیونکہ یہ توایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم کرنا محال ہے کہ جن مصنفوں نے آیت مذکورہ کو حضرت محمد صاحب کے لئے بتایا ہے انہوں نے اس مقام کی پوری عبارت کو نہیں پڑھا ہوگا ان کو اپنے مسلمان ناظرین کی لاعلمی کا پورا یقین ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا کر ان کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اس آیت کے الفاظ مذکورہ کا قائل مسیح ہے اور مراد اس سے حضرت محمد صاحب ہیں۔ کیونکہ اصل عبارت سے صاف ظاہرہے کہ یہ الفاظ حضرت عیسیٰ کے نہیں بلکہ ان کا قائل یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے یعنی یحییٰ نبی ہے۔ چنانچہ چوتھی اور چھٹی آیتوں میں یو ں مرقوم ہے " یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا اور یوحنا اونٹ کے بالوں کا لباس پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا اور ٹڈیاں اورجنگلی شہد کھاتا تھا اوریہ منادی کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زورآور ہے میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں۔"

علاوہ بریں یوحنا نے یہ گواہی حضرت محمد صاحب کے لئے نہیں دی جو چھ سوبرس بعد ہوئے بلکہ مسیح کے حق میں جوان کے درمیان زندہ موجود تھے۔ چنانچہ دوسرے مقام میں یوں لکھاہے " یوحنا نے جواب میں ان سے کہا کہ میں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں۔ تمہارے درمیان ایک شخص کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے یعنی میرے بعد کا آنے والا جس کی جوتی کا تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں"(یوحنا ۱باب ۲۶ ، ۲۷) اب اس عبارت مرقومہ سے شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ آیت زیر بحث کے الفاظ کاکہنے والا یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے اوراس نے سیدنا عیسیٰ مسیح کے لئے ان الفاظ کو استعمال کیا اور کسی صورت میں بھی حضرت محمد صاحب کی طرف اس میں اشارہ نہیں پایا جاتا اور مسلمان مصنف سے اگر یہ دریافت کیا جائے کہ حضرت محمد صاحب نے روح القدس سے لوگوں کو کیونکر بپتسمہ دیا تو اسے جواب دینا نہایت مشکل ہوگا۔

(۹) یوحنا ۱باب آیت ۱۹ سے ۲۱تک

ایک اورمقام جو اہل اسلام حضرت محمد صاحب کی بشارت کی دلیل میں پیش کرتے ہیں وہ یوحنا رسول کی انجیل کے پہلے باب کی ۱۹ویں آیت سے ۲۱ویں آیت تک ہے چنانچہ وہاں لکھاہے " اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلیم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ توکون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اورانکار نہ کیا بلکہ اقرار کیاکہ میں تو مسیح نہیں ہوں انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا توایلیاہ ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نےجواب دیاکہ نہیں۔"

مسلمان عام طور پر اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ یہاں تین نبیوں کا ذکر ہے یعنی مسیح ، ایلیاہ اورایک تیسرا غیر معروف نبی جس کے لئے " وہ نبی " کیا گیا ہے اوربڑے وثوق کے ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ اس سے مراد نبی آخر الزماں حضرت محمد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودی مسیح کے علاوہ ایک اوربڑے نبی کے منتظر تھے اورجب یوحنا نے انکار کیا کہ نہ میں مسیح ہوں اورنہ ایلیاہ توانہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ ضرور وہ نبی ہوگا دوسرے لفظوں میں وہ حضرت محمد کے منتظر تھے (بائبلے محمد۔ صفحہ ۲۸۔ ۳۲)۔

بدقسمتی سے ذی فہم لوگوں کو اس تاویل مذکورہ کے قبول کرنے میں چند مشکلات پیش آتی ہیں ۔ اول تو یہ غلط ہے کہ یہودی کسی ایسےنبی کے منتظر تھے جومسیح کے بعد آئیگااورنہ اس اعتقاد کا کتاب مقدس میں کہیں نام ونشان ہے۔

یہودی مسیح کے ایک پیشروکے منتظر تھے ان کو اس کے کسی جانشین کا انتظار نہ تھا

علاوہ بریں یہ بیان کہ وہ مسیح کے بعدکسی نبی کے منتظر تھے اس سوال کے خلاف ہے جوانہوں نے یوحنا سے کیا کیونکہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یوحنا سے سوال کرنے والوں کی رائے میں مسیح خود اس وقت تک نہیں آیا تھا اس لئے یہودیوں کا یوحنا سے یہ پوچھنا کہ کیاتو وہ نبی ہے جو مسیح کے بعد آنے والا ہے بڑی بے وقوفی ہے۔یہ صحیح ہے کہ یہودی مسیح کی آمد سے پیشتر نبیوں کا انتظار کررہے تھے بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ استشنا کے اٹھارھویں باب میں جس نبی کی بشارت ہے اس سے خود مسیح مراد ہے۔بلکہ ان کا خیال یہ تھاکہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی مانند وہ بھی مسیح کے نقیبوں میں سے کوئی ہے چنانچہ یہ بات انجیل کے اس بیان سے صاف ظاہرہے " پس بھیڑ میں سے بعض نےیہ باتیں سن کر کہا بیشک وہ نبی ہے اوروں نے کہا یہ مسیح ہے"(یوحنا ۷باب ۴۰)غرضیکہ یہودیوں کے پیش نظر جوسوال تھا وہ یہ تھاکہ یوحنا مسیح ہے یامسیح کے نقیبوں میں سے ایک نقیب ۔ مسیح کے بعد کسی نبی کے آنے کا سوال اس وقت تک نہیں اٹھ سکتا جب تک مسیح خود نہ آجائے۔ ایک دوسرے مقام سے پتہ لگتا ہے کہ بعضوں کا خیال تھاکہ یرمیاہ یا کوئی اورنبی مسیح کے پیشرو کی حیثیت سے پھر ظاہر ہوگا چنانچہ لکھاہے "جب یسوع قیصریہ فلپی کے علاقہ میں آیا ۔ تو اس نے اپنے شاگرد وں سے یہ پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیاکہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں۔ بعض ایلیاہ یرمیاہ یا نبیوں میں سے کوئی " (متی ۱۶باب ۱۳، ۱۴)ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس سارے مسئلہ پر یہودیوں کا خیال کس قدر غیر واضح اور غیر قابلاعتبار تھا اوراس لئے یہ بات مدِ نظر رکھ کر کہ انہی یہودیوں نے یسوع کو نہ پہچانا اوراسے مسیح تسلیم کرنا تو در کنار خدا کا نبی بھی اس کو نہیں مانا بلکہ اس کا انکار کیا اور آخر کار اسے مار ڈالا کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے صحیفے سمجھنے میں غلطی کی اوریہ بھی سمجھے کہ وہ نبی جس کی بشارت موسیٰ نے دی وہ مسیح کے سوا کوئی اور ہے۔

کتاب مقدس سے پتہ لگتا ہے کہ بعض یہودی زیادہ صاف دل تھے اور بعد میں جب انہوں نے سیدنا مسیح کے معجزے دیکھے تو ان کو مجبوراً اپنی غلطی کااعتراف کرنا پڑا اوران کوماننا پڑاکہ" وہ نبی " یہی ہے۔ چنانچہ لکھاہےکہ " پس جو معجزہ اس نے دکھایا وہ لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے جو نبی دنیا میں آنے والا تھا فی الحقیقت یہی ہے" (یوحنا ۶باب ۱۴)۔

مسیح اور وہ نبی سے ایک ہی شخص مراد ہے ۔

اگر اس بات کے ثبوت کی اور ضرورت ہے کہ مسیح اور وہ نبی سے ایک ہی شخص مراد ہے تویہ پطرس رسول کے ان الفاظ سے بالکل واضح ہے جو اس نےخدا کی طرف سے کہے اورجن سے اس نے ان کا ایک ہی شخص کے لئے ہونا ظاہر کیا اور وہ الفاظ یہ ہیں" چنانچہ موسیٰ نے کہاکہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سےتمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کریگا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا اوریوں ہوگاکہ جو شخص اس نبی کی نہ سنیگا وہ امت میں سے نیست ونابود کردیا جائیگا ۔ بلکہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب نے ان دنوں کی خبردی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نے اپنے خادم کو اٹھاکر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہرایک کو اس کی بدیوں سے ہٹا کر برکت دے"( اعمال ۳باب ۳۲آیت سے ۳۶)۔

اب ان مذکورہ بالا باتوں سے صاف ظاہرہے کہ مسیح کے زمانہ کے یہودیوں کی طرح آج کل کے مسلمان بھی مسیح اورموسیٰ کی بشارت کے اس نبی سے دو مختلف اشخاص مراد لے کر بڑی غلطی پر ہیں۔ پاک صحیفوں سے صاف ظاہر ہےکہ ان سے ایک ہی شخص کی ذات مراد ہے۔ اس لئے یہ اختراع کہ اس میں حضرت محمد صاحب کی بشارت ہے بالکل لایعنی ہے۔

(۱۰) یوحنا کا ۱۴ ، ۱۵، و ۱۶ باب

اب ہم کتاب مقدس کی ان عبارتوں پر پہنچے ہیں جو پیروان اسلام بہت ہی زیادہ حضرت محمد صاحب کی بشارت کی سند میں پیش کرتے ہیں۔ ہماری مراد یوحنا ۱۴، ۱۵، ۱۶ باب کی ان آیتوں سے ہے جن میں " پارقلیط" کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ تسلی دینے والاہے۔ وکیل اورمددگار ہے۔ جو آیتیں مسلمان حضرت محمد صاحب کی بشارت میں پیش کرتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

"اور میں باپ سے درخواست کرونگا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشیگا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے اورنہ جانتی ہے۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتاہے اورتمہارے اندر ہوگا"(یوحنا ۱۴باب آیت ۱۶ سے ۱۷)۔

"لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجگا وہی تمہیں سب باتیں سکھائيگا اورجو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا (یوحنا باب ۱۴، آیت ۲۶) "لیکن جب وہ مددگار آئیگا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجونگا یعنی روحِ حق جو باپ سے صاد ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دیگا"( یوحنا ۱۵باب آیت ۲۶)۔

" لیکن جب وہ یعنی روح حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائیگا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہیگا لیکن جو کچھ سنیگا وہی کہیگا اورتمہیں آئندہ کی خبریں دیگا"(یوحنا ۱۶باب آیت ۱۳)۔

انجیل کی مذکورہ بالا آیتیں مسلمان مصنفوں کے بیان کے مطابق پیغمبر آخر الزمان نبی اعظم حضرت محمد صاحب کے لئے بشارتیں ہیں جو خدا کے عرش کے حضور لوگوں کے لئے شفاعت کرنے کےسبب سے تسلی دینے والا یا صلح کرانے والا ہوگیا ہے۔صرف انہی کی ذات میں سیدنا مسیح کی یہ بشارتیں پوری ہوتی ہیں اور ان کا نام یونانی لفظ پاراقلیطاس سے ملتا جلتا ہے۔

یہ دعویٰ بار بار ایسے زور سے پیش کیا گیاہے کہ بعض کم فہم لوگوں نے یقین کرلیاہےکہ اس دعوےٰ کی بنیاد واقعی پاک نوشتوں کی تحریر ہے۔ اس سوال پر ہم دیگر آیات سے زیادہ تفصیل کے ساتھ غور کرینگے ۔" بائبلے محمد " کا مصنف یہ حجت پیش کرتاہے کہ یوحنا کے ان مقامات کی مسیحی تفسیر اگر درست ہے اور اگر واقعی مسیحی کلیسیا کی تعلیم کے لئے روح پاک دی گئی ہے تو مسیحیوں میں پھر جنگ کا نام تک نہ ہوتا اوران میں فرقہ بندی نہ پائی جاتی اور پھر بلا کسی شک وشبہ کے یہ مصنف بتاتا ہے کہ یہ پارا قلیط معہود خود محمد صاحب ہی ہیں۔ لیکن اب وہ نہیں بتاتاکہ پھر مسلمان آپس میں کیوں جنگ کرتے ہیں اور شیعہ اورسنی آپس میں ایک دوسرے پر کیوں تبرا کہتے اور لعنت بھیجتے ہیں ؟اگر اس مصنف کے بیان کے مطابق پاراقلیط معہود کا یہ منصب ہے کہ ان باتوں سے اپنے لوگوں کو بچائے تو آنحضرت کیوں اس میں ناکامیاب رہے ؟ اورخود انہوں نے کیوں پیشینگوئی کی کہ اسلام میں تہتر فرقے ہوجائينگے جن میں ایک کے سوا تمام دوزخی ہوں گے۔ اس کاجواب صرف یہی ہے کہ معترض کی دلیل بالکل غلط ہے ۔خدا نے زبردستی لوگوں کو ایک ہی عقیدے پر رکھنے کا وعدہ نہیں کیا اورنہ اس نے یہ کہا ہے کہ میری روح مسیحی کلیسیا کے نام نہاد مسیحیوں کی خواہشات کو دور کردیگی سوال واقعی یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالا آیتوں کی صحیح اور راست تاویل کرنے سے حضرت محمد صاحب کی بشارت ان میں پائی جاتی ہے یا نہیں اوراب ہم اس سوال کے جواب کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

(۱) پارا قلیط الہیٰ رو ح ہے

پہلی بات جو ہم دکھانا چاہتے ہیں اس میں تاویل کی کوئی ضرورت نہیں صرف آیت کو پڑھنے سے ہی یہ مطلب صاف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ یہ پاراقلیط معہود" روح ِ حق " (یوحنا ۱۴باب ۱۷)اور "روح القدس" (یوحنا ۱۴باب ۲۶آیت)۔

اب ان الفاظ سے صاف ظاہرہے کہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے وہ کوئی بشر نہیں بلکہ الہیٰ روح ہے اور حضرت محمد صاحب نے کبھی الہیٰ روح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ اپنی انسانیت کا ہمیشہ بار بار اعتراف کرتے رہے چنانچہ اس قسم کا فقرہ اکثر قرآن میں ملتا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌیعنی کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ (18۔ سورہ الکھف آیت 110)

(۲) پارا قلیط ابد تک رہیگا

ان الفاظ سے یہ بات اوربھی تقویت پاتی ہے کہ یہ پارا قلیط جس کا وعدہ ہے انسان سے کہیں افضل ہے "وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشیگا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے"( یوحنا ۱۴باب ۱۶)۔

اب سوال یہ ہےکہ یہ بات حضرت محمد صاحب کے لئے کیونکر سچی ہوسکتی ہے جومدینہ میں مدفون ہیں۔ کیا حضرت محمدصاحب نے اُحد کے میدان میں اپنے لوگوں کو یہ کہہ کرتنبیہ نہیں کی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ یعنی محمد توایک رسول ہے۔ ہوچکے اس سے پہلے بہت سے رسول توپھر کیا اگر وہ مرگیا یا مارا گیا تو الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟(آل عمران آیت ۱۴۴)۔

(۳) پارا قلیط دکھائی نہیں دیگا

اب ایک اوربات اس روح معہود کے متعلق یہ ہےکہ وہ لوگوں کی آنکھوں سے نہاں ہوگا چنانچہ لکھاہے کہ وہ ایک روح ہے " جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ نہ اسے دیکھتی اورجانتی ہے" (یوحنا ۱۴باب ۱۷)۔ اس قسم کے الفاظ حضرت محمد صاحب کے لئے استعمال نہیں ہوسکتے اورنہ ہی کسی انسان کی نسبت یہ باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ یہ صرف اس روح ِ الہیٰ پر ہے صادق آتی ہیں جس کے متعلق کلامِ الہیٰ سکھاتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ مسیح کے وعدہ کے مطابق وہ بھیجا گیا۔

(۴) پارا قلیط لوگوں کے دلوں میں سکونت کرے گا

پھر یوں مرقوم ہے کہ پارا قلیط روحانی طور سے لوگوں کے دلوں میں رہیگا۔ چنانچہ لکھاہےکہ " وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اورتمہارے اندر ہوگا"( ( یوحنا ۱۴باب ۱۷) اب یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں قسم کے الفاظ حضرت محمد صاحب کے لئے استعمال کرنا بالکل غیرممکن ہے۔

(۵) پارا قلیط مسیح کے رسولوں کے زمانہ ِ حیات میں نازل ہوا

اعما ل کی کتاب کے پہلے باب کی چوتھی اورپانچویں آیتوں میں لکھاہے کہ پارا قلیط معہود چھ سوبرس بعد دوُر ملک عربستان میں نہیں بلکہ خود انہی شاگردوں پر جن سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تھوڑے دنوں کے بعد یروشلیم میں نازل ہوگا۔"چنانچہ لکھاہے"4اور اُن سے مِل کر اُن کو حُکم دِیا کہ یروشلِیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پُورا ہونے کے مُنتظِر رہو جِس کا ذِکر تُم مُجھ سے سُن چُکے ہو۔ 5کیونکہ یُوحنّا نے تو پانی سے بپتِسمہ دِیا مگر تُم تھوڑے دِنوں کے بعد رُوحُ القُدس سے بپتِسمہ پاؤ گے"۔۔اس سے صاف ظاہرہےکہ شاگردوں کو مسیح کے وعدہ کے پورا ہونے کا انتظار کرنا تھا اور اس کے پورا ہونے کے بعدہی وہ تمام دنیا میں انجیل کی تبلیغ کےبڑے حکم کی تعمیل کرسکتے تھے۔ یہ بھی لکھاہےکہ سیدنا مسیح نے دنیا چھوڑنے سے پیشتر شاگردوں کو اکٹھے کرکے کہا ۔" دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے میں اس کو تم پر نازل کرونگا لیکن جب تک عالم بالا پر سے تم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو"( لوقا ۲۴باب ۴۹)مسیح کے ان الفاظ سےصاف ظاہر ہے کہ پارا قلیط ان کے زمانہ حیات میں نازل ہونے کو تھا جن سے مسیح مخاطب ہوا اوریہ سب سے پہلے یروشلیم میں ہوا۔ انجیل کے الفاظ سے یہ بالکل واضح ہے اور صرف وہی جن کو تعصب نے اندھا کر رکھاہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں حضرت محمد صاحب کی بشارت ہے

(۶) پارا قلیط آئندہ کی خبریں دے گا

انجیل مقدس بہ مطابق حضرت یوحنا کے ۱۶باب کی ۱۳آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ روحِ معہود" تم کوآئندہ کی خبریں دیگا"لیکن ہر شخص جو قرآن سے واقف ہے جانتا ہے کہ حضرت محمد صاحب آئندہ کی باتوں سے بالکل بے خبر تھے۔چنانچہ سورة الاحقاف کی دسویں آیت میں لکھا ہے وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ کیا کیا جائيگا میرے اورتمہارے ساتھ ۔ پھر سورة الانعام کی ۵۰آیت میں ہے قُل لاَّ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ یعنی میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں الله کے اور نہ یہ کہ میں جانتا ہوں چھپی ہوئی باتیں۔ اب اس روح کا بیان جومسیحی کلیسیا کی تعلیم کے لئے بخشا گیا تھا کیسا مختلف ہے اس روح کی بابت ہم پڑھتے ہیں کہ پولوس رسول افسس کی کلیسیا کے بزرگوں سے خطاب کرکے کہتا ہے " روح القدس" ہر شہر میں گواہی دےدے کر مجھ سے کہتا ہے کہ قید اور مصیبتیں میرے لئےتیار ہیں ۔"

پھر دوسرے مقام پر لکھا ہے " اگبس نام ایک نبی یہودیہ سے آیا اس نےہمارے پاس آکر پولوس کا کمر بند لیا اوراپنے ہاتھ پاؤں باندھ کر کہا کہ روح القدس یوں فرماتا ہے کہ جس شخص کا یہ کمر بند ہے اس کو یہودی یروشلیم میں اسی طرح باندھیں گے اور غیر قوموں کے ہاتھ میں حوالہ کرینگے " (اعمال ۲۱باب ۱۰، ۱۱)۔

یہ پیشینگوئیاں چند دنوں بعد حرف بحرف پوری ہوئیں اوریوں صفائی سے ظاہر کیاکہ سیدنا عیسیٰ مسیح نے جس " روح " کا وعدہ اپنے شاگردوں سے کیا تھا نازل ہوا اور وعدہ کے مطابق اس نے آنے والی باتوں کی خبردی۔

(۷)پارا قلیط کے آنے کاواقعہ اعمال کے دوسرے باب میں مرقوم ہے

انجیل مقدس کی کتاب اعمال کے دوسرے باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ مسیح کے وعدہ کے مطابق روح القدس کے نزول کاواقعہ وہاں مرقوم ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ خاص مسیح کے شاگردوں پر وح کانزول ہونے کو تھا اورپھر اعمال کے پہلے باب میں لکھاہے کہ روح پاک کی یہ آمد بڑی طاقت اور قدرت کے ساتھ ہونے کو تھی۔ مسیحی نے ان سے کہا تھا " جب روح القدس تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے "(۸آیت) اس پیشینگوئی کے مطابق چند دنوں کے بعد جب شاگرد ایک خاص مقام پر جمع تھے تو یکایک " سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی" (اعمال ۲باب ۴) اور یوں یہ بڑا وعدہ پورا ہوا اور شاگرد اس نئی طاقت سے معمور ہوکر ہر جگہ زندگی کے کلام کی منادی کرنے کو نکلے اور" ہر شخص پر خوف چھاگیا اوربہت سے عجیب کام اورنشان رسولوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے تھے "(اعمال ۲باب ۴۳)۔

پس عیاں ہے کہ یہ تھا روح القدس کا وعدہ جسے حضرت یوحنا نے ظاہر کیا اور یوں یہ وعدہ پوراہوا جسے حضرت لوقا نے تحریر کیا۔ اب ناظرین خودہی فیصلہ کرلیں کہ اس پیشینگوئی کو حضرت محمد صاحب کی بشارت بتانا جو جسم اورخون میں ایک انسان تھے اورجن کو ہزاروں نے دیکھا اورجوملک عرب میں وقت معہود سے چھ سو برس بعد پیدا ہوئے بالکل ناممکن ہے۔

(۸) یوحنا چودہ باب ۳۰آیت

اس رسالہ کو ختم کرنےسے پیشتر ایک اور بشارت پر ہم غور کرینگے ۔ یہ یوحنا کے چودہ باب کی ۳۰ویں آیت میں ہے جہاں پر لکھا ہے "دنیا کا سردار آتاہے اورمجھ میں اس کاکچھ نہیں" بہتیرے مسلمان مصنفوں نے یہ حوالہ حضرت محمد صاحب کی بشارت میں پیش کیا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ کتاب مقدس کی سب سے عمدہ تفسیر خود کتاب مقدس ہے اور اس آیت زیر بحث پر یہ بات خوب صادق آتی ہے اگرہم ناظرین کوکتاب مقدس کے وہ مقامات بتادیں جہاں دنیا کے سردار کا ذکر آیاہے توان کو فوراً معلوم ہوجائیگا کہ یہ خطاب پیغمبر عرب محمدصاحب کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ شیطان کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ یوحنا کےبارھویں باب کی ۳۱آیت میں لکھاہے " اب دنیا کا سردار نکال دیا جائيگا"اورپھر یوحنا کے ۱۶باب کی ۱۱آیت میں ہے "دنیا کاسردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے" اور دوسرے کرنتھیوں کے ۴باب کی ۴آیت میں مرقوم ہے " ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے سردار نے اندھا کردیاہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر پڑے" اورپھر افسیوں کے دوسرے باب کی پہلی دوسری آیتوں میں یوں آیا ہے " اس نے تمہیں بھی زندہ کیا۔ جب اپنے قصوروں اورگناہوں کےسبب سے مردہ تھے جن میں تم پیشتر دنیا کی روش پر چلتے تھے اورہوا کی عملداری کے حاکم یعنی اس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے"اب ان مقامات پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اوربلاکسی شک وشبہ کے ان سے صاف ظاہرہے کہ جہان کے سردار سے شیطان کے سوا اور کوئی مراد نہیں ہے۔ یو ں اس آیت مذکورہ کو حضرت محمد صاحب کی بشارت کی سند میں پیش کرکے مسلمان نہایت ہی سخت غلطی میں پڑے اوربڑی صفائی کےساتھ یہ ثابت کیا ہےکہ کتاب مقدس کی کسی ایک عبارت کو اس کے سلسلہ سے الگ لے کر اس سے مطابقت رکھنے والی آیتوں سے قطع نظر کرکے کسی قسم کی تاویل کرنا فہیم لوگوں میں مضحکہ اڑانا ہے۔

سیدنا عیسیٰ مسیح آخری پیغمبر ہیں

حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کتاب مقدس کا مطالعہ غور سے کریگا اس پر نہایت صفائی سے واضح ہوجائيگا کہ مسیح کے بعدکوئی نبی نہیں آئیگا۔آپ نے خود فرمایا ہے " آسمان اور زمین ٹل جائینگے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی۔" (مرقس باب ۱۳:۳۱) آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا " اوربادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو اور تب خاتمہ ہوگا (متی باب ۲۴: ۱۴آیت) اس لئے جب تک انجیل یعنی مسیحی مذہب کی منادی واقعی تمام دنیا میں نہ ہولے اس وقت تک خدا کی طرف سے کوئی اورطریق مسیحیت کو منسوخ کرنے کے لئے نہیں آئیگا۔ علاوہ بریں جبرائيل فرشتہ نے جب کنواری مریم کو سیدنا عیسیٰ مسیح کی پیدائش کی خبردی توخدا کا یہ پیغام پہنچایا" اس کی (یعنی مسیح کی ) بادشاہی کا آخر نہ ہوگا"(لوقا باب ۱آیت ۳۳)۔ مسلمانو ں کو چاہیے کہ ان باتوں پر غور کریں اوران کو پتہ لگ جائے گا کہ سیدنا عیسیٰ مسیح آخری نبی ہیں۔ اوریہ کہ ان کے سوا "آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں "(اعمال باب ۴آیت ۱۲)۔