مسیح کو بلعال کے ساتھ کونسی موافقت ہے
(انجیل شریف خطِ دوم اہل ِ کرنتھیوں رکوع ۶ آیت ۱۵)
What harmony is there?
Between Christ and Belial (2 Cor.6:15)
THE LIFE OF
MUHAMMAD & JESUS CHRIST
CAMPARED
By
ALLAMA.G.L. THAKKUR DAS
رسالہ
سیرتِ المسیح والمحمد
منصفہ
علامہ جی ۔ ایل ۔ ٹھاکر داس
۱۸۸۶
Rev Allama G.L.Thakur Das
1852 - 1910
تمہید
تجربہ سے اور صریحاً بھی یہ بات قابل تسلیم ہے کہ جب کوئی شخص کسی عہدہ یاکام پر ممتاز ہوتا ہے تو اس میں اس عہدے یا کام کے لائق اوصاف ہونے چاہیے۔کیونکہ اگر مناسب خاصیت کا شخص نہ ہوگا تو مدعا عہدہ کی تحصیل میں شکست ہوگی یا کجی پائی جائیگی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ والدین ہونے لئے خصلت اورپرورش کرنیکی خاصیت ہو۔ دوست میں وفا ہو۔ مرد سپاہی میں جو انمردی ہو ۔ عالم میں علم ہو۔ منصف میں انصاف ہو ۔ بادشاہ میں حوصلہ اور دانائی ہو ۔ مصلح میں اصلاح کا ملکہ ہو۔ کسی گروہ یا ملک کے سفیر میں دانائی اور تجربہ اور حبِ وطنی ہو۔ تب یہ کام جو ان کے سپرد ہیں بخوبی انجام کو پہنچینگے ۔ مگر انسانوں میں دیکھا اور سنا جاتا ہے ۔ کہ اکثر اوقات ان امور میں نقص آجاتا ہے۔ دوست میں بے وفائی اور منصف میں بے انصافی ۔ سپاہی میں بزدلی ، عالم میں بے علمی اور مصلح میں کمزوری وغیرہ نمایا ں ہوتی ہیں۔
مگر جب خدائے حکیم وقدیر کسی کام کو کرتا ہے تو اس میں نقصان اور شکست کا دخل نہیں۔ اور نہ اس کے کاموں کی نسبت ایسا خیال واجب ہے۔ یا جب وہ کسی شخص کو کسی کام پر ممتاز کرتا ہے ۔ تو اس عہدے اور عہدہ دار میں نسبت ہوتی ہے ۔ اس میں وہ سیرت پوری کی جاتی ہے جواس کو مدعا مقصود کے لائق کرے اور یہ بات خصوصاً اس کی پیغمبری میں پیشتر ظہور دکھائی ہو۔ جب کسی کو کسی کا م کے لئے رسول مقرر کیا تو اس میں اس کام کے لئے قابلیت نمایاں کی گئی۔ ذرا خیال کرو کہ موسیٰ کون تھا جو بنی اسرائیل کو مصر سے نکالتا اور ان کو وہ خدا اور وہ شرع بتاتا جو اس نے ظاہر کیا ہے ۔ خدا ہی نے اس کو اس کام کے لائق کیا اور اس نے وہ مقاصد پورے کئے ۔" پس اب تو جا ۔ میں تجھے فرعون پاس بھیجتا ہوں میرے لوگوں کو جو بنی اسرائیل ہیں مصر سے نکال"۔ (توریت شریف کتاب خروج رکوع ۳ آیت ۱۰) ہر چند موسیٰ نے عذر کئے کہ میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکالوں پھر یہ کہ جب بنی اسرائیل پاس پہنچوں تو انہیں کیا بتاؤں۔ پھر یہ وہ مجھ پر ایمان لائینگے اور نہ میری بات سنیں گے ۔ اور پھر یہ کہ اے میرے پروردگار میں فصا حت نہیں رکھتا نہ تو آگے سے اور نہ جب سے تونے اپنے بندے سے کلام کیا اور میری زبان اور باتوں میں لکنت ہے۔ مگر خدا نے اس کو ہر عذر کا جواب دیا اور اسے تیار کیا اور اس میں وہ سیرت اور اوصاف موجود کئے جن سے وہ اس کام کے لائق ہوگیا۔ اور وہ یہ تھےکہ میں تیری اور اس کی بات کے ساتھ ہونگا اور تم جو کچھ کرو گے تم کوبتلاؤ نگاوغیرہ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جناب ِ مسیح کی شخصی خاصیت اس کام کے لائق تھی ۔ جس کے لئے آپ بھیجے گئے اوروہ کا م یہ تھا کہ باغی اور گمراہ انسان کو خدا سے ملادے۔ اور اب ہم اس امر کو معہ اس بات کے دریافت کرینگے کہ حضرت محمدکی ذاتی سیرت کیا تھی۔ آیا وہ بھی اس کام کے لائق خاصیت رکھتے تھے جس کے لئے مسیح آئے اور اگر وہ اس کام کے لئے نہ آئے تو ان کا آنا بے ٹھکانہ ہے ۔ کیونکہ وہی ایک کام تھا جسکی بنی آدم کو ضرورت تھی ۔سو اگر مسیح اس کام کے لائق نہ تھے یا ان سے نہ پورا ہوا تب تو خدا نے حضرت محمد کو ان اوصافِ ضروری سےپُر کرکے بھیجا ہوگا اس لئے دونوں کی سیرتِ ذاتی اور مصنوعی سے آگاہ ہونا مقدم ہے ۔
اب پیشتر اس سے کہ ہم ایسی سیرت کی واقعی صورت دیکھیں اس بات کا خیال رکھیں کہ دنیا کو کیسے صلح اور استاد اورمنجی کی ضرورت تھی اور ہے ۔ اگر انسان عموماً پیسے ٹکے کے قرضدار ہوتے ایسا کہ کل ساہوکاروں کے بھی دیوالے نکلے ہوتے تو البتہ ایسے شخص کی ضرورت ہوتی جو اس قسم کی تکلیف سے رہا کرے ۔اگر کل انسان کسی جسمانی مرض میں گرفتار ہوتے تو کسی صاحب ِ طب کی حاجت تھی۔ اگر ننگے اور بھوکے ہوتے تو کسی سیر کنندہ کا آنا لازم تھا۔ اگر قوانین قدرت سے جن کو جسمانی قوانین کہتے ہیں۔ جن سے انسان علی العموم مقید ہیں۔ اور اگر جن سے تجاوز کرنا گناہ میں داخل ہو ۔ تو کسی نیچرل فلاسفر کی ضرورت ہوتی ۔ جو بتلاتا کہ آگ کو مت چھونا، ہاتھ جل جائے گا۔ پانی میں بے سامان مت جانا ڈوب جاؤ گے۔بلندی سے مت گرنا۔ ضرب لگیگی۔ اپنے جسم کو کسی آلے سےمت کاٹنا کٹ جائیگا۔ غرضیکہ اسی قسم کی بھول چوک کے لئے ایسا ہادی ضرورتھا۔ مگر خداوند کریم انسان کی ایسی حاجتوں کو اور ہی طرح رفع کرتا ہے۔ لیکن انسان تو گناہ سے خراب ہوگئے۔ گناہ سے اور گناہ میں پلید ہوگئے۔ ہوا وہوس کے حملوں اور غلبوں میں عقل اسیر ہوگئی اور نفسانی رغبت ہی نے شرع ہونیکا قرار واقعی پایا۔ اپنے فرائض کو انسان بھول گیا۔ صداقت کو پائمال کیا اور ان کے عوض برگشتگی اور بطالت اصول ٹھہرے پس وہ نجات دہندہ اور استاد ہونا چاہیے جو ان باتوں سے نجات دے اور نجات دہندہ میں ہم وہ خاصیتیں تلاش کرینگے اور چاہینگے جو اس کام کے لائق ہوں۔ ورنہ پیشدستی سے یا اندھا دھند ہر کس وناکس کومنجی اور استاد اور ہادی نہیں مان سکتے پر اگر اُس کی ذاتی سیرت اوروں کے ہو تو اس کام کے لائق نہ ہوگا۔مثلاً اگرکوئی سپہ سالار کسی بُزدل فوج کا سرگروہ ہو تو اُس کو لازم ہوگا کہ آپ دلیر ہو۔اوراگر ناخواندوں کا اُستاد ہو تو ضرور اُس میں خواندگی کی خوبی ہونی چاہیے۔ اسی طرح خیال کرو کہ ہمسار گنہگار انسانوں کے لئے کیسا ہادی اورمنجی درکار ہے۔ انسان کی ذاتی حالت تو ظاہر ہے منجی کی حالت معلوم کرنی چاہیے اورہم دیکھیں گے کہ سوائے جناب مسیح کے کسی میں یہ ذاتی سیرت یہ خوبی اور خصلت نہیں ہے ۔اوراس بار ہم اکثروں کا ذکر نہیں سنائینگے۔ مگر صرف جناب مسیح اور جناب محمد کا۔ اوراُن کی نسبت صرف(Macaulay's, Cicero and Molana Rumi )سسرو ورومی سخنور اورمکالی صاحب کے قول پر اکتفا کیا جائے گااور وہ یہ ہیں۔ مقدم الذکریوں کہتاہے کہ " کوئی ایسا فلاسفر کیسا نایاب ہے جسکی زندگی اوردل ایسے ہوں جیسا عقل طلب کرتی ہے جو اپنی تعلیم کوایک علمی دکھلاوا نہیں مگر قانون ِ زندگی سمجھتاہو۔ جو اپنا تابعدار ہو اوراپنے حکموں کا لحاظ کرتاہو(یعنی جیسا حکم کرتاآپ خود اُسکے تابع ہواوراسکی تعمیل کرتاہو) حالانکہ یہ کیسا عام ہے کہ بغضے بُطلا ن اور غرور سے اِس قدر پُر میں اُن کے لئے بہتر تھا کہ اگروہ سکھلائے نہ جاتے۔ بعضے زر کے غلام بعضے تکبر کے ۔ بہتیرے اپنے ہواوہوس کے۔ ایسا کہ اُن کی زندگی اُن کی باتوں کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔ مکالی صاحب کہتاہے" کہ اُنہوں اُس بات کا وعدہ کیا جو ہو نہ سکے اورجوہوسکے اُس کی تحقیر کی۔ اُنہوں نے دیا کولمبے لمبے لفظوں اورلمبی لمبی ڈاڑھیوں سے بھردیا اور اُس کو ویسا ہی جاہل اور شریر چھوڑکے جیسا پایا تھا"(life of Johnson)۔
واضح رہے کہ ہم صرف نجات کی نسبت نہیں بلکہ تعلیم اور تعمیل کی نسبت بھی جونجاتکے متعلق ہیں اُس مُنجی میں کھوجینگے۔جن سے کسی منجی کی فوقیت اور قابلیت ذاتی یعنی اُس کی واجبی سیرت ذاتی معلوم ہوگی۔ اور یہ نہ ہوگا کہ اگر کسی نے کہہ دیا کہ بدی نہ کرو اورنیکی کرو اور ایک آدھ باتیں بھلائی کی اور چند ایک بُرائی کی کہہ سنائیں توبس ہم انسان اتنی بات پر اپنی روحیں اُن کے ہاتھ بیچ ڈالیں۔ اس کی زندگی میں اس کی تعلیم کی عدم تعمیل ہم کو بیدل کریگی اور اس تعلیم کا اثر کھودیگی۔ وہ تعلیم مردہ تعلیم نظر آئیگی جو اس کی زندگی میں ظاہر نہ ہوئی۔ اس لئے ہم اپنی ایسی حالت میں ایسے باتونی بھائیوں سے چوکس رہیں کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک قوم نہیں کل غیر قومیں اس دھوکے میں قابو میں اور اس چھوٹے رسالہ میں ہماری عرض برادران ِ اہل ِ اسلام کو رہا کرنیکی ہے ۔ امید ہے کہ کمترین کی گذارشوں اور آگاہیوں کو بگوش اور دل سے سنیں گے ۔ اور خدا کے فضل سے یہ بات کچھ بعید نہیں ہے ۔کہ لوگوں کو توبہ بخشے۔
1.
https://www.google.com/books/edition/Macaulay_s_Life_of_Samuel_Johnson/wZnZAAAAMAAJ?hl=en&gbpv=۱&pg=PR۵&printsec=frontcover
پاکیزگی کیا ہے کون ا سکی تعریف کرسکتا ۔ کون ہے جو اس کی خیالی ہی تصویر کھینچےہے۔کب اور کس کی نسبت کبھی ایسا ہوا تھا۔ جس بات کا کسی انسان کو تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہواوہ اس کا کامل نمونہ کیونکر سنائے یا دکھائے ؟ الا یہہ بھی وہ وصف ہے جو ہر احسن اور عمدہ خیال اورکلام اور کام کا دائمی مبدا ہے ۔ عقل اور ارادہ اور خواہشیں جو ایسی ایسی بد اندیشی اور بد خواہیاں اور خرابیاں ظاہر کرتی ہیں ایسا ہر گز نہ کرتے اگر دل میں سراسر پاکیزگی رائج ہوتی۔ ایسا ہر گز وقوع میں نہ آتا ۔ اگر پاکیزگی کا دلوں پر تسلط مطلق ہوتا ۔ نبیوں نے اور بڑے بڑے عالموں نے اکثروں کی زندگی کا احوال اور اخلاق کا تذکرہ قلمبند کیا۔ لیکن کسی نے پاکیزگی اور اخلاق کا کامل نمونہ یا واقعی صورت نہیں دکھائی ۔ اور اس بات میں ہر ایک ہمپایہ ہے ۔ عبث میں وہ تقریر یں اور تحریریں جو واقعی صورت تو یک طرف خیالی صورت بھی نہیں بناسکیں ۔ وہ ہمارے کس کام میں ؟ایسی تقریریں تو قریباً ہر ملک میں کم وبیش موجود ہیں لیکن وہ اخلاق اورپاکیزگی کا پیمانہ نہیں۔ وہ اس بات میں عاجز ہیں کہ ایسی محسن صورت کی واقعی ہستی بتلائیں۔ البتہ اگر کسی نے فی الواقع ایسا دیکھا ہویا سنا ہو تب یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے اور اگر یہ بات کسی کو حاصل نہ ہو تو کسی کی پیروی کرنا اس غرض سے کہ ہم بھی پاک ہوجائیں بے فائدہ ہیں۔ یہ دھوکا ہے ۔ اس امر کی تلاش فقط کسی کی باتوں ہی میں نہیں بلکہ بیشتر اس کی زندگی میں کرنی چاہیے۔
اگرچہ پاکیزگی کی کامل اور واقعی صورت کا خیال مشکل ہوگیا ہے۔ مگرپھر بھی دنیا کے لوگ اپنے پیشواؤں کی زندگی کو پاک زندگی کہا کرتے ہیں۔ اوراُنکے مطابق عمل کرنے کو عین سعادت خیال کرتے ہیں۔ مگر لوگوں کی یہ رائے یا مدح کسی قومی یا خاص سوسائٹی کی طرز معاشرت یا صحبت یا تربیت یا دباؤ کے باعث ہے۔ مثلاً ہندوستان میں جو لوگ ذات پات کے بڑے پابند ہیں ۔ بُت پرستی میں بڑے سرگرم ہیں۔ رامچندر جی کی بہادری اور کرشن جی کے کلولوں پر بڑے فیر نقہ ہیں۔وہ لوگ ایسی باتوں میں کوئی بُرائی محسوس نہیں کرتے اُ ن کے ضمیر پر اُسی قسم کا اثر اور دباؤ پڑگیا ہے اور وہ گویا سُن ہوگیا ہے۔ اب یہ اوراِس قسم کی باتیں عیسائیوں اور مسلمانوں میں نہایت ہی زبون سمجھی جاتی ہیں اورگناہ ہیں۔ پھر اسی طرح بہتیری باتیں اور عادتیں اہل عرب کی اور بعد ازاں مسلمانان عجم کی بواعث مذکورہ کے سبب ایسی ہوگئی ہیں کہ وہ اُن کو اچھا اور پُرثواب مانتے ہیں۔ مگر عیسائیوں کی کتابوں کی رُو سے وہ بُری اور گناہ ہیں۔ مثلاً کعبہ پرستی ۔ کثرت ازدواجی ۔ کثرت طلاق ۔ غلامی ۔ اُنکارِ کفارہ مسیح ۔ اُنکار الوہیت مسیح -کلمتہ پرستی ۔ قبرپرستی -حج -دیگر ملتِ کے لوگوں قتل کرنا مسلمانوں میں شرعاً اعمال حسنہ اور ایمان صادق میں داخل ہیں اورجنت کو پہنچانے والے ہیں دیکھو سورہ بقرہ آیت ۲۱۷۔ سورہ عمران آیت ۱۹۶۔ اور سورہ صف آیت ۲۔ حالانکہ عیسائیوں کے نزدیک یہ نفسانی کام اور غلط ایمان ہیں اور خدا تعالیٰ کی پاک حضوری سےانسان کو دُور رکھنے والے ہیں۔پس گناہ اور پاکیزگی کی نسبت ایسے باہم برعکس خیالوں اور عادتوں اور تربیتوں کے سبب سچی پاکیزگی کی کامل صورت معین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور نہ صرف لوگ خود اپنی مرضی کی باتوں اور کاموں کو نیک ثواب سمجھتے ہیں۔ بلکہ اپنے ایسے خیال خدا کے نزدیک بھی پسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ اوراسی لئے اپنے اپنے طریق میں قائم رہتےہیں۔ ناظرین اس بات کا اندازہ صرف اتنی بات سے کرسکتے ہیں۔ کہ ہرمذہب کے لوگ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے کہتے ہیں۔ ہاں اسی سبب سے ایک کہتا ہے کہ بت پرستی خدا کو منظور ہے۔دوسرے کہتے ہیں کہ رہزنی اور خونریزی خدا کا حکم ہے کوئی عیب نہیں۔ کعبہ پرستی ثواب ہے۔ تیسرا کہتا ہے شہوت پرستی عین نیچر کے مطابق ہے۔ اور خدانے اس کو پاس کردیا ہے۔ پس یہی سبب ہے کہ لوگ اپنے اپنے پیشواؤں کی ایسی حرکتوں کی معیوب نہیں جانتے بلکہ اُن کو پاک کہا کرتے ہیں۔
اس حال میں نہایت ضروری امر ہے کہ ہم خوب غور کریں کہ پاکیزگی کا انکار یعنی گناہ کس کو کہتے ہیں؟ بائبل فرماتی ہے کہ " گناہ خلاف شرع ہے"۔ اب شرع کیا ہے؟ شرع خدا ئے خالق کا وہ اخلاقی اور راست قانون ہے جو اخلاقی بندوں کے لئے انسان کے ضمیر اور خدا کے کلام بائبل مقدس میں موضوع کیاگیا ہے۔ضمیر کے دھندلے اور سست ہوجانیکے کے سبب خداوند نے شرع الہام کے ذریعے ازسر نوفرمائی۔ وہ شرع بذاتہ ایسی راست اور واجب ہے کہ خداوند تعالیٰ اُس سے غیر یا برعکس شرع نہیں دے سکتا تھا۔ کیونکہ خداراست ہے اور راستی کا بانی اوراُسکا محافظ ہے اور محافظت وہ انسان سے طلب کرتاہے۔ کیونکہ انسان کو اُس نے اخلاقی وجود بنایا ہے۔ وہ شرع توریت کی کتاب خروج ۲۰باب میں مندرج ہے اور اس شرع کا خلاصہ جناب مسیح شارع اعظم نے متی کی انجیل ۲۲باب ۳۷سے ۴۰ آیت میں فرمایا ہے۔ شرع اخلاقی کے راست ہونے کا وزن اور خوبی یہ ہے کہ جب خدا نے فرمایا کہ" میرے حضور تیرے لئے دوسرا خدا نہ ہوئے" تو یہ حکم اپنے میں راست ہے اور راستی کا خدا نے یہ حکم دیا ۔ اس کا برعکس حکم وہ دے نہیں سکتا۔ پھر جب فرمایا کہ توزنا مت کر۔ لالچ نہ کر وغیرہ ایسے اور فقط ایسے احکام اس لئے فرمائے کہ یہ باتیں بذاتہ بھلی ہیں اورخدا یہ حکم دے ہی نہیں سکتا کہ تو زنا کر۔ تولالچ نہ کر۔ توخون نہ کر وغیرہ۔ اوریہی باعث ہے کہ جب انسان نے عموماً اور خدا کی خاص قوم نے خصوصاً ان حکموں سے تجاوز کیا تو خدا نے تجاوز کی سزا ٹھہرائی یعنی لازمی عذر اور دکھ کسی قسم کا۔ پس جبکہ خدا نے گناہ کو پہچاننے کے لئے شریعت دی ہوئی ہے تولوگوں کے خیالوں اور عادتوں اور خواہشوں کوجانے دو اور یادرکھو کہ خدا کسی کو ایسا پیار نہیں کرتاکہ اُس کو گناہ کرنے کی اجازت دے یعنی شریعت سے تجاوز کرنا جائز کرے۔ لوگ اپنی بے قوفی یا نفسانیت کی وجہ سے ایسا جواز بتائیں تویہ کوئی سند نہیں ہے۔ چاہیے کہ ہم لوگوں کے فعلوں کے خدا کی شریعت سے جانچیں نہ کہ اپنی یا اُن کی عادتوں اور کمزوریوں اورناپاکیوں کے اثر سے گناہ کو گناہ ہی نہ جانیں ظاہر ہے کہ دنیا میں کئی آدمی گذرے ہیں جنکی تعظیم کی جاتی ہے۔ یہاں تک اُن کے گناہ گناہ نہیں سمجھے جاتے اوریوں وہ اُن کے ساتھ برابر کئے جاتے ہیں ۔ جوگناہ سے بالکل پاک تھا۔ اب ہم دو شخصوں کی سیرت بطور مقابلہ پیش کرتے ہیں جن کی پیروی میں دنیا کا قریباً نصف حصہ آبادی کا فریفتہ ونازاں ہورہا ہے اور وہ یہ ہیں۔
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
۔۱.بذاتہ گنہگار | ۔۱.بذاتہ گناہ سے پاک |
تجربہ زندگیوں کا اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ سلسلہ تولید مروجہ میں سے کوئی شخص پاک نہیں نکل سکتا۔ اس سلسلہ کی پلیدگی ہر ایک پر داغ لگاتی ہے اور یہ ناپاک سرشت اس بات کا سبب ہے کہ انسان سوچنے کی عمر کو پہنچ کر خود بخود گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اور یہ ایک ملک میں نہیں ہرایک بات ملک میں کسی ایک شہر میں نہیں ہر شہر میں کسی ایک گاؤں میں نہیں اور ایک گاؤں میں بازاروں اور پوشیدہ مکانوں میں عالیشان مکانوں جھونپڑوں میں یہی حال ہے ۔ اور اس حالت میں ہوکر بھی اگر کوئی اخلاقی خوبی کسی میں پا ئی جاتی ہے تو وہ بھلا ئی کی طرف ترقی کرنے کا سبب ہے۔ البتہ یہ بات معقول ہے کہ بھلائی کی طرف ترقی کرنا چاہتا ہے اور جہاں نہیں چاہتے وہاں برائی ہی کو بھلائی سمجھ کے اسی کو چاہتے ہیں۔ مگر یہ خواہش یوں ہی رائیگاں جاتی کیونکہ آخر انسان خدا کے سامنے برائی کی غبت دکھاتا ہے ۔ اب چونکہ جناب ِ محمد اسی سلسلہ میں پیدا ہوئے اور ان کے اس طور سے پیدا نہ ہونے کا کوئی ذکر وثبوت نہیں ہے لہذا جنابِ محمد بذاتہ گناہ سے پاک نہیں ہوسکتے۔ اور نہ تھے محمدیوں کی تاویلیں نابکار ہیں۔ جب تک عبدالله اور آمنہ بے گناہ نہ ثابت ہوں۔ اگر چہ ہمیں پختہ یقین ہے کہ موروثی گناہ کچھ چیز ہے اور اس کا اثر نسل پر ہوتا ہے ۔ تاہم اس موقع پر اس کی امر کی بابت گفتگو اور اپنی تحقیقات پیش کرنا ملتوی کرتے ہیں اور یہ گذراش کئے دیتے ہیں کہ اگر کوئی انسان میں روح کو اس کی ابتدا ء ہستی سے تامرگ گناہ کے اثر وآلودگی سے مبرا معرا سمجھتا ہو اور کہے کہ گناہ صرف جسم کے متعلق ہے اور ایک جسمانی یا ظاہری بات ہے اور اس لئے عبدالله اور آمنہ کے گنہگار ہونے سےحضرت محمد گنہگار نہیں بنتے ۔ تو اس یہ نتیجہ ہوگاکہ سب انسان ایسے ہیں اور حضرت محمد بھی صرف ان کے مثل ایک ہیں اور بس ۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو ہر ایک رسول اور شفیع کا اس دنیا میں آنا اور شورمچانا فضول ہے۔ | اگرچہ انسانی تجربہ اس امر میں مایوس کرتا ہے کہ کوئی شخص گناہ سے پاک ہوتا ہم ایک شخص اور فقط وہی عالم اخلاق میں نظر آتے ہیں جو بذاتہ گناہ سے پاک ہے۔ اس کی زندگی ایسے ڈھب پر ہوئی کہ گناہ کا اس میں دخل نہیں ہوسکتا تھا۔غور کرو کہ آدم اول کیوں پاک تھا۔ اس لئے کہ وہ گویا خدا سے پیدا ہوا۔ وہ ہستی جو آدم سے پہلے تھی پاک تھی اور اس لئے وہ جو ایسی ہستی سے نکلا بذاتہ پا ک تھا۔ یعنی خدا کی صورت پر تھا۔ لیکن پھر انسانی سلسلہ تولید کا شروع ہوا تو آدم کا بیٹا آدم کی صورت پر پیدا ہوا اور اس پیدائش سے پیشتر چشمہ بگڑ گیا تھا اور اس لئے آدم کا بیٹا اس کی ناپاک صورت پر پیدا ہوا پس اگر مسیح اس سلسلہ میں پیدا ہوتا تو وہ بھی آدم کی صورت پر پیدا ہوتا اور بذاتہ گناہ سے پاک نہ ہوتا۔ مگر اس کا پاک ہونا اس لئے ممکن ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت تھا مثل آدم کے اس کی پیدائش معجزانہ تھی۔ خدا نے اس کی نسبت اس ذاتی سلسلہ تولید میں دخل دیا۔ تاکہ اس سلسلہ کی پلیدگی کو جو اصلی قانون قدرت کے خلاف ہوگئی تھی اصل کےموافق پاک کرے اور انسان کو معلوم کرادئے کہ بنی آدم کی موجودہ حالت اصلی حالت نہیں ہے ۔ یہ حالت ناپاک اور وہ پاک تھی۔ اور اس طور سے انسان کو پاکیزگی کا کامل نمونہ دکھادے جس کی انسان تلاش وآرزوکرتا ہے مگر ایسا حاصل نہ ہوا۔ اور یہ پلید سلسلہ تولید جو اولین سرشت کے خلاف ہے مسیح میں اس طرح منقطع ہو اور فرشتہ نے جواب میں مریم سے کہا کہ روح القدس تجھ پر اتریگی اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا۔ اس سبب سے وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کہلائیگا ۔ غرض کہ مسیح میں پاکیزگی شروع ہی سے کامل ہے ۔ وہ خدا باپ سے نکل کر دنیا میں آیا نہ باپ آدم سے ۔ |
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
۔۲.عملاً گنہگار تھے | ۔۲.عملاً گناہ سے پاک تھے |
قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے (سورہ ضحیٰ آیت ۷)۔ او رپایا تجھو کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی ۔ یہ گنہگار ی کی بڑی بھاری علامت ہے ۔ اور اس میں حضرت محمد کی پہلی حالت کا حوالہ ہے ۔ پھر سورہ نصر کی آیت ۳ یعنی آ خری آیت یوں کہتی ہے کہ اب پاکی بول اپنے رب کی خوبیاں اور گناہ بخشوااپنے اس سے تحقیق وہ ہے معاف کرنے والا ۔ اس میں گناہ اور گنہگار بخشنے والا تینوں مصرح ہیں۔ سورہ فتح پہلی دو آئتیں یوں ہیں۔ ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تا معاف کرنے تجھ کو الله جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور پورا کرتے تجھ پراحسان اپنا اور چلاوے تجھ کو سیدھی راہ یہاں پھر حضرت محمد کی پہلی گمراہی اور گنہگار ی کی نسبت صاف مذکور ہے ۔ اور ان کے گناہوں کو معاف کرنیکے لئے الله تیار ہے ۔ یہ تو اور انسان گنہگاروں کی حالت کی سی حالت ہے ۔ مسیح سے اس کو کیا نسبت۔ چہ نسبت خاک راہا عالم پاک ؟ سورہ محمد رکوع ۲ آیت ۲۱ اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسھے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے یہاں سے امت اور پیشوا دونوں یکساں گنہگار ثابت ہیں۔ اسی طرح سورہ مومن رکوع ۳ اور سورہ توبہ رکوع ۷ میں پڑھتے ہیں۔ اور بحشوا اپنا گناہ اور الله بخشے تجھ کو۔ان قولوں منقولہ سے ظاہر ہے کہ حضرت محمد عملاً گنہگار تھے۔ اور گناہ سے معافی مانگنے کے لئے باربار حکم آیا کرتا تھا۔ اور اس بات پر حضرت محمد کا بڑا خیال تھا کہ الله بخشنے والا ہے۔ اور اس خیال میں پڑ کر ارادة گناہ کر بیٹھے تھے۔ اور یوں اپنے گناہ اس کی بخشش سے ڈھانپا کرتے تھے۔ اتنی عبارت یا مثل اس کے کہیں بھی نہیں کہ حضرت محمد گناہ سےپاک تھے۔ یاد رہے کہ گناہ بخشا جانا اور گناہ سے دل پاک ہونا دو جدا چیزیں ہیں۔ اور فرض کیا کہ حضرت محمد کو پہلی بات حاصل تھی مگر دوسری بات پھر بھی اپنا زور جیوں کا تیوں رکھتی ہے ۔ یعنی ان کو گنہگار ثابت کرتی ہے اور بخشش تو صرف سزا کا دور ہونا ہے ۔ غرضیکہ حضرت محمد کی حالت اس امر میں ویسی ہی تھی جیسی اور انسانوں کی ہے۔ جیسےہم تم اور سب اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اسی طرح حضرت محمد نے کیا۔ اور ظاہر ہے کہ مثل اوروں کے وہ بھی ایک عاجز اور گنہگار تھے۔ اور پاکیزگی اور بخشش کے محتاج تھے۔ پس اس حال میں حضرت محمد پاکيزگی اور اخلاق کا کامل نمونہ نہیں لیکن اس کا ایک ناقص پیرو تھا۔ اور حضرت تجربہ اور الہام کے اس فتوے کے زیر حکم ہیں کہ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں ۔ خداوند کریم ایسے شخصوں کے پیروؤ کو کامل نمونہ کی طرف لائے ۔ کیونکہ ا یسے شخص کی پیروی سے کسی گنہگار کو کیا فائدہ ہے ۔ | مسیح کہتے ہیں کہ تم میں سے مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے ( انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت یوحنا رکوع ۸ آیت ۴۶)۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے مدعی ہیں۔ پر انہوں نے اپنے گناہوں کے لئے کبھی دعا نہ مانگی لیکن اوروں کےگناہ معاف کرتے (حضرت متی رکوع ۹ آیت ۲)۔ اور اس قدرت اور سیرت کا اسطرح ثبوت دیتے تھے لیکن تاکہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنےکا اختیار ہے ۔آپ نے جھولے کے مارے سے کہا اٹھو اپنی چارپائی اٹھالو اور اپنے گھر چلے جاؤ۔ آیت ۶ اوروں کو فرمایا کہ توبہ کرو پر آپ کبھی گناہ کے لئے توبہ نہ کی ۔ اوروں کو فرمایا اور ہمیشہ تاکید کی تمہیں سر نو پیدا ہونا ضرور ہے ۔ مگر یہ ضرورت اپنے اوپر کبھی عائد نہ کی ۔ او ریہ سب کچھ اسلئے تھاکہ آپ گناہ سے مبرا تھے ۔ اور ایسی حالتوں میں پڑنے کے محتاج نہ ہوئے۔ اور اس لئے کہ آپ کے سامعین اور ناظرین آپ میں گناہ ثابت نہ کرسکے برخلاف اس کے آپ کے شکی حواریوں نے آخر یہ گواہی دی کہ تم نے اس قدوس اور راستکار کا انکار کیا (اعمال ارسل رکوع ۳ آیت ۱۴)۔ پھر یہی گواہ کہتا ہے کہ اس نے گناہ نہ کیا اور اس کی زبان میں چھل بل نہ پایاگیا۔ وہ گالیاں کھانے کے بعد گالی نہ دیتا تھا اور دکھ پاکے دھمکاتا نہ تھا بلکہ اپنے تئیں اس کے جو راستی کے ساتھ انصاف کرتا ہے سپرد کرتا تھا۔ ( انجیل شریف خط اول حضرت پطرس رکوع ۲آیت ۲۲و۲۳)۔ حضرت پولوس گواہی دیتے ہیں کہ ایسا سردار کاہن (امام اعظم) جو ہمارے لائق تھا ۔ جو پاک اور بے بد اور بے عیب اور گنہگاروں سے جدا اور آسمانوں سے بلند ہے (خطِ عبرانیوں رکوع ۷ آیت ۲۶)۔ اسی طرح مسیح کا احوال اور بہتیرے مقاموں میں مذکور ہوا ہے ۔ مسیح ایسا نمونہ تھے کہ جب انسان اپنے غائت درجہ کی کاملیت کو پہنچے تو اس کےموافق ہوگا۔ یوحنا رسول لکھتے ہیں کہ پیارو اب ہم خداوند کے فرزند ہیں اور یہ اب تک ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم کیا کچھ ہونگے ۔ پر ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا ہم تو اس کی مانند ہونگے کیونکہ ہم اسے جیسا وہ ہے ویسا دیکھیں گے (خط اول حضرت یوحنا رکوع ۳ آیت ۲)۔اس بات کا خیال نہیں کرسکتے کہ وہ کیونکر پاک تھے کیونکہ اور کسی کو پاک نہیں دیکھتے گنہگار ی ہم انسانوں کے لئے ایک سہل اور عام خیال ہے اور اسی لئے پاکیزگی کا کامل نمونہ دیا گیاکہ گنہگاروں کو اس پاکیزگی کی امید اور شوق ہوا اور اندازه کرسکیں کہ فلاں حد یا پیمانہ تک کی پاکیزگی کامل پاکیزگی ہے ۔ غرضیکہ مسیح کی پاک زندگی انسان کے دلوں پر پورا اثر جمانے والی ہے ۔او رہمارے ایمان پختہ کرنے وا لی ہے ۔ اور مسیح کی یہ سیرت ان کو لوگوں کے پیشواؤں پر بدرجہ ادلیٰ ترجیح دیتی ہے کیونکہ وہ پاکیزگی کا واقعی نمونہ اور حقیقی صورت ہے۔ اور ان کی یہ سیرت کل انسانوں کی پیروی کی متقاضی ہے ہاں صرف وہی ایک راستباز ہے اور کوئی بھی نہیں ایسے شخص کی پیروی سے صریجاً فائدہ ہے۔ |
قرآن کے مطالعہ سے یہ بات بالکل صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس میں پاکیزگی پر چنداں زورنہیں دیا ہے ۔ صرف ظاہری باتوں میں سے بعض سے بچنا اور بعض کو کرنا درگاہ الہیٰ میں مقبول ہونے کے موجب کہے ہیں۔ مگر روحی پاکیزگی کی طرف حضرت کا خیال کچھ کم معلوم ہوتا ہے ۔ بلکہ یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ حضرت اس کی ماہیت اور ضرورت سے ناواقف سے معلوم ہوتے ہیں۔ قرآن سے یہ مصرح نہیں کہ حضرت محمد کسی انسان کے پاک ہونے یا ہوسکنے کا خیال رکھتے ہوں ۔ کیونکہ اس میں کسی انسان کو پاکیزگی منسوب نہیں کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ مسیح کو بھی سراسر اور حقیقت میں پاک تھا پاکیزگی کا نمونہ کرکے پیش نہیں کیا ہے ۔ اس بات کا موید امر یہ ہے کہ اپنے افعال غیر محسن کو برانہ سمجھا بلکہ ان کے جواز کے لئے رضا ء الہیٰ نازل کرلیا کرتے تھے۔ پس حضرت محمد نے نزدیک پاکیزگی یہی تھی۔
علاوہ اس کے وہ طور جو حضرت محمد نے اختیار کئے اسے گنہگار ہونے سے روکنے والے نہ تھے ہمارا گمان ہے اور جو تجربہ پر مبنی ہے کہ جب تک انسان آزمائش میں نہ پڑے عملی گناہ ا س سے صاد ر نہیں ہوتا اور خیالی گناہ کی شدت کا بھی کم زیر بار ہوتا ہے مگر اس میں قابل غور یہ بات ہے کہ خواہ وہ کبھی آزمائش میں پڑا خواہ نہ پڑا ہو اور اگر پڑ کر گناہ نہ کیا ہو تو پھر جب پڑے اور گناہ کرے تو یہ بات ثابت کریگی کہ وہ گنہگار آدمی ہے ایک گناہ سے اس کی ساری سرشت ہوگی مسیح نے اپنی زندگی میں ایسے طور اختیار نہ کئے جو اس کوگناہ میں ڈالتے مگر حضرت محمد نے اپنی زندگی میں ایسے طور آنے دیئے کہ وہ آپ کو امتحان میں پڑنے سے روک نہ سکتے تھے بلکہ اس میں ڈالنے والے تھے۔ کمترین کی رائے میں باوا نانک کی نسبت حضرت محمد کی گنہگاری زیادہ ثبوت رکھتی ہے مگر یہاں تو مقابلہ مسیح اور محمد کا ہے ۔ یہ کیونکر برابر ہوگا۔
ماہرین ِ انجیل مقدسہ جانتے ہیں کہ کہ اس میں پاکیزگی مقدم اصول ہے ۔ مسیح نے بھی اس کو مقدم بنایا اور باقی سب باتیں اس مدعا کو برآمد کرنے والی ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ جیسا کہ علم ہوگا یا جیسی عقل کی رسائی ہوگی اور جیسا جس کا باطن ہوگا وہ ویسے ہی اعمال ظاہرکرے گا اس لئے کچھ عجب نہیں اگر حضرت محمد کی زندگی ایک گنہگار زندگی ٹھہرے۔ اور مسیح کی زندگی بے عیب او رپاک۔
اب چونکہ ان دو شخصوں کی ذاتی اور عملی حالت ایسی تھی تو ان کی زندگی بھی اپنی اپنی حالت کے موافق ہوگی اور دونوں میں فرق ہوگا۔ اور وہ فرق ذیل کی باتوں سے معلوم ہوجائے گا۔
دفعہ ۲۔ انسان بسبب گناہ کے اپنی گفتار ورفتار میں ثابت قدم اور استوار نہیں ہیں کیا جناب ِ مسیح اور جناب ِ محمد بھی ایسے ہی تھے۔
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
۔۲.اپنی گفتار ورفتار میں ثابت قدم نہیں تھے | ۔۲.اپنی گفتار ورفتار میں ثابت قدم تھے |
گفتار ورفتار میں ثابت قدم نہیں۔ ابھی کچھ پھر کچھ۔ اور یہاں کچھ وہاں کچھ اور یہ قاعدے کی بات ہے ۔ کہ جب انسان میں ادنیٰ خواہشیں اعلیٰ خواہشوں پر غالب ہوتی ہیں یعنی جب مرضی یا ارادہ مغلوب ہوتے ہیں۔ اور نفسانی خواہشیں غالب تو یہی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ انسان اپنے پر قابض نہیں۔ اور نیز اس کی اعلیٰ خواہشوں کی کمزوری پر دال ہیں۔ اور زندگی میں اگر کسی وقت بھی ایسا واقع ہو تو اس کا نام استواری اور ثابت قدمی نہ ہوگا۔ بلکہ گناہ والی نفسانیت اور محض انسانیت کا ظہور گردانا جائیگا۔ مگر حضرت محمد کی زندگی میں ایسی ہی بے قیامی ہے۔ (۱) حرص دنیاوی بانئ اسلام میں یہ صورت رکھتی ہے ۔ کہ دین کے بھیس میں دنیا پر مسلط ہونا بالکل صاف نظر آتا ہے ۔ اور اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ اس معاملہ میں آپ جس طرح پہلے ظاہر ہوئے اس ظہور پر قائم نہ رہے ۔ مگر طمع دنیاوی نے آخر کار اپنا ظہور دکھایا۔ مثلاً آپ کا جنگ اور لڑائیاں مارنی اور اپنے پیروؤں کو بھی یہی شوق دلانا اس کے شاہد ہیں۔ اس بات میں کئی ایک انسانی کمزوریاں ظاہرہوتی ہیں ایک آدھ کا پھر ذکر کیا جائےگا۔بالفعل معلوم ہوکہ حضرت محمد میں یہ حرص بڑھتی گئی اور لڑائیاں اور فساد کرنیکا حکم آتا گیا۔ لڑايئوں کے فوائد اور ثواب بیان کرکے اس شوق کو خوب ظاہرکیا۔ اس کو ایمانداری کی علامت بتلایا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ عرب کے بادشاہ ہوگئے۔ اور لڑائی کرنا اوراس کے وہ محسن فوائد مقامات ذیل سے مصرح ہے ۔ سورہ نساء رکوع ۱۰ آیت ۷۲، اور رکوع ۱۱ آیت ۷۶، سورہ عمران رکوع ۱۴آیت ۱۴۰، اور رکوع ۱۹ آیت ۱۹۲، اور آخر جب ملک عرب کو اپنی حین حیات میں فتح کرچکے تو اس قسم کے وسیع حکم دیئے گئے اور خراج گیر مقرر ہوئے ۔ پھر مال غنیمت کا حکم دیا جیسا دنیا کے بادشاہ کرتے ہیں۔ اور آپ بھی اس میں حصہ دار تھے۔ دیکھو سورہ انفال آیت ۱ اور ۴۲ ۔ مال غنیمت الله کا ہے اور رسول کا وغیرہ ۔ یہ باتیں دنیاوی حرص کی صریح علامتیں ہیں۔ اپنی خواہش اور حرص پوری کرنے کے لئے دوسروں کی جان ومال کا نقصان کرنا اور اس کو اپنے تصرف میں لانا تو وہی بات ہے جو ہم اکثر انسانوں کو کرتے دیکھتے ہیں ۔ پس حضرت محمد مثل ان کے ایک ہی یعنی حریص ۔ | گفتار ورفتار میں یکساں استوار اور ثابت قدم ہی مسیح میں اعلیٰ خواہشیں ہمیشہ مقدم اور مسلط نظرآتی ہیں اور کوئی بات ان کو ان کے طریق قائیمہ سے دائیں بائیں نہیں کرسکتی ۔ کوئی خیال یا نظارہ نفسانیت کا اس کے پاک ارادے کو مغلوب نہیں کرتا اس کے لئے آزمائش پر پڑنا اور نہ پڑنا برابر ہے وہ آزمائش میں استوار ہے۔ زندگی بھر میں وہ کسی بدی کے مغلوب نہیں ہوئے ۔ بلکہ انسان کے دل کی خرابی کے برخلاف سکھلانا اور کرنا ان کا دائمی اور قائمی اصول رہا ۔ (۱)حرص دنیاوی اس میں ناپدید ہے ۔ جب شیطان نے انہیں دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی ساری شان وشوکت دکھلاتا ہے اورسجدہ کرنے کے وعدہ پر سب کچھ انہیں دیتا ہے ۔ تو حرص دنیاوی ان میں نہیں بھٹکتی ۔ ان چیزوں کے لئے وہ مغلوب نہیں ہوجاتا۔ بلکہ کہتے ہیں کہ اے شیطان دور ہواور خداوند کو جو تیرا خدا ہے سجدہ کر اس اکیلے کی بندگی کر(حضرت متی رکوع ۴ آیت ۸تا۱۰)۔پھر جب لوگ چاہتے تھے کہ آئیں اور اسے زبردستی بادشاہ کریں تو آپ اکیلے پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ (حضرت یوحنا رکوع ۶ آیت ۱۵)۔اور بجائے اس کے وہ ایسی حرص کا مغلوب ہو وہ اپنی خدمت کے شروع سے برابر فرماتے رہے اور اس بات پر ثابت قدم ہے کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت ہے۔ ان سب تمثیلوں کا مدعا یہی ہے جو آسمان کی بادشاہت کی بابت فرمائی تھیں۔ دیکھوانجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ۱۳۔ اور اپنےپیروؤں سے ہمیشہ اس بات کا متقاضی ہیں کہ اپنا انکار کرو اور اپنی صلیب اٹھاکے میری پیروی کرو۔ (حضرت متی رکوع ۱۶ آیت ۴۶)۔ اور بھی دیکھو حضرت متی رکوع ۲۰ آیت ۲۱تا ۲۸)یہودی مسیح کے منتظر تھے۔ اس کے دنیاوی بادشاہ ہو نے کے منتظر تھے ۔ (بائبل مقدس صحیفہ حضرت ذکریا رکوع ۹ آیت ۹ اور صحیفہ حضرت میکاہ رکوع ۵ آیت ۲) تو یہ خوب موقع تھاکہ ان کی اس قسم کی انتظاری پوری ہو۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونا ان کے لئے بہت سہل تھا۔ اگر دنیاوی بادشاہت کی حرص اس پر غالب ہوتی مگر۔ وہ مثل انسانوں کے عمدہ اور سہل موقع اور حالتیں دیکھ کر پھول نہ اٹھا۔ پر اپنے تیئں ویسا ہی ظاہر کیا۔ اور کرتا رہا ۔ جیسا اس نے اپنے تئیں ایک مرتبہ جتایا۔ |
پھر جاننا چاہیے کہ اس بات کا مسیح نے واقعی ثبوت دیا کہ میں دنیاوی بادشاہ نہیں ہوں۔ چنانچہ جب یہودیوں نے جو آنے والے مسیح کو ایک دنیاوی بادشاہ ہونے کی امید لئے بیٹھے تھے ۔ جب جناب مسیح نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے اس سے ایک ایسا سوال کیا جس سے وہ اس کے بادشاہی منصب کو جانچیں۔ اور سوال یہ تھاکہ آیا قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہ روا ؟ یہ بات جناب مسیح کو یہود کی پست حالت پر غیرت دلانے کی غرض سے پیش کی گئی ۔ مگر مسیح نے ان سے صاف فرمایا کہ قیصر کا حق قیصر کو دو۔ اور خدا کا حق خدا کو دو۔ پھر یہوادہ کے بادشاہوں کا ایک کام یہ تھا کہ قاضیوں کا کام کرتے اور فتویٰ دیتے تھے۔ سو لوگوں نے اس خیال سے کہ اگر یہ مسیح بادشاہ ہے تو مثل ان بادشاہوں کے ان کے ملکی اور قومی جھگڑے فیصل کریگا ۔ اس غرض سے انہوں نے چند ایک مرتبہ ایسے جھگڑے پیش کئے جیسے زانیہ عورت کا عین فعل کے وقت پکڑا جانا۔ مگر مسیح نے اس پر فتویٰ نہ دیا اور یوں بادشاہوں کے اس منصبی کام سے بھی انکار کیا ۔ پھر یہوداہ کے بادشاہوں کا ایک کام یہ بھی تھا کہ لشکر کشی کرتے اور دشمنوں کے ساتھ خونی مقابلہ کرتے تھے۔ مگر مسیح نے اس بات کے بر خلاف سکھلایا اور کہا ۔ جیسا ہر ناظر اناجیل پر روشن ہوگا ۔سچ ہے کہ اگر مسیح یہ کام کرتے اور یہ منصب اپنے میں دکھاتے تو وہ پرانے بادشاہوں کے موافق ایک ہوتے اوربس۔ مگر آپ نے ایسا نہ کیا اور اپنے تیئں ان سے ایک اعلیٰ بادشاہ پیش کیا جس کے کام اور منصب سوائے مذکورہ کے تھے۔
پس اگر چہ مسیح نے دنیاوی بادشاہ ہونے کا شوق نہ دکھایا اور اس بات کے لئے ذرہ بھی کوشش نہ کی تاہم انجیل مقدس سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے تیئں یہودیوں کا بادشاہ کہتے تھے اور فرشتے بھی کہا کرتے تھے کہ خداوند خدا اس کے باپ داؤد کا تخت اسے دیگا اور وہ سدا یعقوب کے گھرانے کی بادشاہت کریگا اور اس کی بادشاہت آخر نہ ہوگی۔ سو اس کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ اس نے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کی مانند اپنے نام کا سکہ نہ چلایا اور نہ زمینی تخت پر سرفراز ہوکر عدالت کی اور نہ ان کے لئے لشکر کشی کی اس کے لئے یہ کمینی باتیں تھیں۔ اگر ایسا کرتے تو محض موسیٰ اور داؤد کی مثل ایک ہوتے۔ مگر ان کا بادشاہ ہونا لہیٰ ٰ طور پر تھا ۔ اس طور پر تھا جس طرح خداوند یہوواہ بنی اسرائیل کا بادشاہ تھے۔ اور مسیح نے وہ کام کئے جیسے خداوند یہوواہ بادشاہ نے کئے ۔ ہاں مسیح نے وہ کام کئے جو اسے اس الہیٰ بادشاہ کے موافق ٹھہراتے ہیں۔ اب وہ کونسے کام تھے جو یہوواہ نے اسرائیل کا بادشاہ ہوکر کیے اور جو دنیاوی بادشاہوں کے متعلق نچھوڑے گئے۔ اول یہ کہ بنی یعقوب کو ایک قوم بنایا اور کسی دوسری قوم کا شروع صحیح طور سے نہیں معلوم ہوسکتا کہ کس سے اور کیونکر ہوا مگر قوم اسرائیل کو خدا نے قوم بنایا۔ اور اس لئے اس قوم میں وہ اس نام سے نامزد ہواکہ ابرہام کا خدا اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا۔ یہ کام کسی بادشاہ اسرائیل نے نہ کیا۔ بلکہ خدا نے خود کیا۔ ایک شخص کو چن لیا اور اس سے ایک بڑی قوم بنائی۔ دوم۔ یہ کہ اس قوم کو ایک شرع دی شرع بنانا بادشاہوں کا کام نہ ہوا مگر لوگوں اور بادشاہوں کے لئے اس نے خود ایک قانون مقرر کیا ۔ سوم نادیدنی طور سے ان میں ظاہر ا انتظام کرتا رہا۔ سزا اور جزا دینا۔ اور ان کے لاحل جھگڑوں کو فیصل کرنا وغیرہ۔
اسی طور سے مسیح نے کیا۔ یہی کام مسیح نے کئے ۔ اور یوں اپنے تیئں ان بادشاہوں سے افضل ظاہر کیا۔ اول اس نے ایک قوم یعنی ایک کلیسیا بنائی۔ کل بنی آدم کے لئے ایک نئی قومیت کھولی ۔ دوم ۔ ایک نئی شرع دی جو اس نئی قوم کے لئے قانون ہدایت ہوا اور لوگوں اور بادشاہوں کے اختیار میں نہ چھوڑا کہ شرع بنادیں۔ بلکہ خود ہی ایک قانون بخشا کہ وہ سب اس کے موافق عمل کریں۔ سوم۔ وہ نادیدنی طور سے ایسا انتظام کرتا رہتا کہ ظاہر ا نتیجے ہدایت اور تنبیہ کے لئے دکھاتا ہے ۔ کلیسیا کو ہرطرح ترقی دیتا ہے ۔ بیدنی کو کم کرتا ہے کہ وغیرہ۔ پس مسیح دنیاوی بادشاہوں کے موافق انابت کے کام نہ کرتا تھا۔ بلکہ الہیٰ بادشاہ کے کام اس کے مد نظر تھے۔ موسیٰ اور داؤد اور مسیح کے بادشاہ ہونے میں یہی فرق ہے ۔ موسیٰ اور داؤد کے نائب ہوکر بادشاہت کرتے تھے۔ مسیح نائب نہیں الہیٰ بادشاہ ہوکر بادشاہت کرتے ہیں اور اس لئے اس نے دنیاوی بادشاہوں والے طریق اختیار نہ کئے اور نہ یہ حرص اس میں جگہ پاسکی۔
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
۔۲.اپنی گفتار ورفتار میں ثابت قدم نہیں تھے | ۔۲.اپنی گفتار ورفتار میں ثابت قدم تھے |
(ب) نفسانی شہوت جو انسا ں میں ذاتی کہہ سکتے ہیں حضرت محمد بیشتر تھی حتیٰ کہ وہ اس کے ہمیشہ مغلوب رہے۔ سیل صاحب کہتے ہیں کہ حضرت محمد مثل اور عربوں کے شکل ہی سے عورتوں کے عاشق معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کی عورتوں اور لونڈیوں کے قصے جو تاریخ محمدی مولفہ عمادالدین میں مندرج ہیں اس کی مثال ہیں۔ اور اس نفسانیت کے جواز کی قرآن میں ہدائتیں آئی ہیں۔ چونکہ ان کے بیان سے طبعیت خراب ہوتی ہے ۔ ا سلئے ہم ان کا ذکر نہیں کرتے پھر اوروں کے لئے چار چار کا حکم ہوا اور اپنے سہ چند روا رکھیں یہ ایسی نفسانیت کا بڑا نمونہ ہے ۔ اور بیشتر شہوت کا شاہد ہے ۔ اور اس بات میں حضرت نے نہ صرف اپنی تعلیم کی ایک گونہ عملی مخالفت کی بلکہ خود غرضی کو خوب ثابت کیا اور شہوت رانی میں آوروں کی شہوت کی ہمواری نہ کی۔ اوروں کی شہوت کو اپنے برابر نہ جانا۔ پھر جس ڈھب سے یہ کام پورا کرتے رہے وہ بالکل نفسانیت کی تدبیریں تھیں۔ ہاں خود غرض نفسانیت کے اور ایسا کرکے حضرت محمد نے مسیح کی تعلیم کی تہہ کو نہ پایا اور اس سے نفسانی مخالفت دکھائی ۔ اور نہ صرف خود ایسا کیابلکہ پیروں کو بھی سکھلایا ۔ کہ عورتیں تمہاری کھتیاں ہیں تمہاری وغیرہ۔ (ج)حضرت محمد کی تعلیم موقعوں اور حالتوں سے بنتی رہی اور بنی ۔ اس کا شروع اور انجام یکسا نہیں ہوا۔ تغیر پذ یر رہی ۔ ایسی متغیر تعلیم کا جب معلم کی کو نہ اندیشی اور کمزوری اور بے اعتباری ہے ۔ یہ تو محض انسانی طریقے ہیں۔ ہم اس کی چند نظریں پیش کرتے ہیں۔ (۱) متبنی بیٹے کی جورو سے نکا ح کرنیکے شرع کا موقع اور موجب زینب کو ننگی دیکھ کر اس پر حضرت محمد کی شہوت کا بھڑکنا تھا۔اگر یہ موقع جس کو آپ دیکھ کر سبحان الله پکار اٹھے ہاتھ نہ آتا تو یہ شرع کب ایجاد ہوتی ۔اور اس شہورت کے جواز کے لئے یہ شرع بنائی جو سورہ احزاب رکوع ۵ میں مسطور ہے ۔ اور جب تو کہنے لگا اس شخص کو جس پر احسان کیا الله نے اور تونے احسان کیا۔ رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو کو اور ڈر الله سے اور چھپا تا تھا اپنے دل میں ایک چیز جو الله اس کو کھولا چاہتا ہے اور تو ڈر تا تھا لوگوں سے اور الله سے زیادہ چاہیے تجھ کو ڈرنا ۔ پھر جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے وہ تیرے نکا ح میں دی تانہ رہے سب مسلمانوں کو گناہ نکاح کرلینا جوروؤں سے اپنے لے پالکوں کی جب دے تمام کرچکیں ان سے اپنی غرض ۔ پس اپنی شہوت اور لوگوں کےخوف نے یہ شرع بنوائی ۔ (۲) آپ تو اول صرف دین کے واعظ تھے۔ اورشائد لڑائی کا کچھ خیال بھی نہ تھا۔ مگر کچھ عرصہ ایسے ہی رہ کر آخر دین کے جنگی پہلوان بن گئے ۔ اور یہ نوبت اس وقت پہنچی جب کچھ پیرو ہاتھ آگئے ۔اور دیکھاکہ تقریر سے کام نہیں چلتا اور لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ملک گیری کی حرص نے جوش مارا۔ مگر شروع ہی میں ایسا نہ کیا۔ پس یہ بات بھی آ پ کی گفتار اور رفتار کی رنگا رنگ حالت کا ثبوت ہے ۔ )۳) رخ نماز کی نسبت کئی بار تبدیلیاں ہوئیں۔ اور آپ ایک بات پر قائم نہ رہے ۔ دیکھو ایک مرتبہ کہا کہ الله کی ہی مشرق اور مغرب ۔سو جس طرف تم نہ کرو۔ وہاں ہی متوجہ ہے الله )سورہ بقر رکوع ۱۴ آیت ۱۱۵) پھر اسی سورہ کے رکوع ۱۷ میں آپ کی بیقراری کا احوال پایا جاتا ہے ہم دیکھتے ہیں پھر پھر جانا تیرا منہ آسمان میں سو البتہ پھیر ینگے تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے ۔ اب پھیر منہ اپنا مسجد الحرام کی طرف اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی کی طرف الخ۔ اس تبدیلی کا سبب یہ تھا کہ یہودیوں کی طرف سے آپ کی امید منقطع ہوئی تو وہ میلان جو ان کے قبلہ یعنی یروشلم کی طرف تھا اب اس طرف سے ہٹ کر عربوں کے قبلہ کی طرف غالب ہوا۔ اور قرآن خود ہی کہتاہے کہ محمد اس امر میں چکرا رہے تھے۔ کبھی ادھر ادھر غرض کہ یہود کی خاطر یوں تھا اور عربوں کی خاطر کچھ اور ہوگیا۔ دیکھو کس بات پر ڈول گئے ۔ )۳) جیسی گذشہ ذکر سے آپ کی لغرش ظاہر ہوئی۔ڈاکٹر میرور صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت محمد نے لوگوں کی خاطر ان کے الہوٰں کو قبول کیا اور جب قریش کعبہ کے نیچھے بیٹھے تھے آپ نے سورہ ۵۳ یعنی نجم ان کے سامنے پڑھنا شروع کردیا۔ اور کہا تم نہیں دیکھتے لات اور عزا۔ اور منات تیسرا پچھلا یہ عالی مومنتیں ہیں اور یقیناً ان کی سفارش کی امید رکھنی چاہیے۔ اس اجابت سے سب راضی ہوگئے اور حضرت محمد کے خدا کے آگے سجدہ کیا۔ مگر اندر سے ان کا دل مارتا تھا۔ اور بعد ازاں بہت جلد پچھلی باتیں جبرائیل نے باز طلب کیں۔ کہ شیطان کی طرف سے تھیں۔ ماسٹر را مند چندر نے بھی تحریف ِقرآن میں مفصل بحث کرکے اس بات کو تمام کیا ہے ۔ اور اس کے عوض یہ دیا کہ کیا تمکو بیٹے اوراس کو بیٹياں ۔ تو تو یہ بانٹا بھنڈا۔ یہ سب نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ داداوں نے ۔ یہاں سے حضرت محمد کا لغرش کھانا اور بھی ظاہر ہے ۔ علاوہ اس کے وہ سب باتیں جو قرآن میں ناسخ اور منسوخ واقع ہوئی ہیں۔ اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت محمد کا دین حالتوں اور موقوں سےبنا تھا۔ اور ثابت قدمی معدوم ہے ۔ اور ظاہرہے کہ آپ کا طریقہ پھر بھی ہر ملک اور ہر انسان کے شامل حال نہیں۔ تاہنوز اس میں بہت باتیں ہیں جوتر میم طلب ہیں۔ کیونکہ بعض ان میں سے حقیقتوں کے خلاف ہیں اور بعض صداقتوں کے اگر ۲۵ برس اور پیغمبری کرتے تو شائد یہ نقص جاتے رہتے ۔ لیکن جہاں تک اور جس طرح ردو بدل کا ظہور ہے اور آپکے کامل اور ثابت قدم ہونیکے برخلاف ایک زندہ ثبوت ہے ۔ اور آپ کی یہ قبیح سیرت قابل نمونہ نہیں ہے ۔ ایسا تو انسانوں میں ہوا کرتا ہے۔ دیکھو بابو کیشب چندرسین کا حال اب تک ان کے برہمو سماج کے اصولوں میں قیام نہیں۔کانٹ چھانٹ ہوتی چلی جاتی ہے ۔ حضرت محمد کی زندگی کی رنگا رنگی کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ کہ آپ کا علم باہر سے تھا۔ موقعوں اور حالتوں نے اس کو سکھایا کہ اب یوں کہو پھروں اب کہہ دے پھر بدل دے ۔ اور اس لئے وہ ایک بات ہر حالت کے لئے نہ کہسکا اور ازآن موجب عمل بھی نہ کیا۔ غرض کہ اس امر میں بھی حضرت محمد مثل گنہگاروں کے گفتار ورفتار میں ثابت نہ تھے۔ ایک بھولتا بھکٹتا انسان تھا۔ | (ب) نفسانی شہوت جو انسانوں پر غالب ہوتی ہے ۔ اورخصوصاً آزمائشوں میں پڑتے ہیں۔ مگر مسیح یہ بات نا پدیدہ ہے ۔ ان کے لئے کوئی عورت یا عورت کی کوئی حالت آزمائش نہیں۔ حسن اور بد صورتی ان کے سامنے یکساں ہیں۔ ان سب کے جو اس کے باپ (پروردگار) کی مرضی کے موافق چلیں وہ اپنی ماں اور بہنیں کہتا ہے ۔ (حضرت متی رکوع ۱۲ آیت ۵۰)۔ عورتوں کی قسم سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی گفتار ورفتار میں فرق نہ آیا جس طرح مردوں سے اسی طرح ان سے بھی کلام کرتے ہیں۔ مثلاً جب سماری عورت سے اکیلے میں گفتگو کرتے تھے کہ جو کوئی یہ پانی پیے پھر پیاسا ہوگا۔ پر جو کوئی وہ پانی جو میں اسے دونگا پئیے وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ الخ۔ اور اسی طرح اپنی نئی بادشاہت کی اور باتیں اس پر ظاہر کریں۔(حضرت یوحنا رکوع ۴ آیت ۲۶)۔ پھر جب اور موقع پر لوگوں سے کلام کرتے تھے تو ان کو بھی اسی طرح فرمایا ۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا ۔ اسی طرح جب اور موقعہ عورتوں سے ہم کلام ہوئے تو آسمان کی بادشاہت کی باتیں ان سے کہیں اور سمجھائیں اور وہ جو اس کی یہ باتیں مانتی تھیں انہیں پیا ر کرتا تھا ۔ اور نفسانی شہوت کے برخلاف یہ قائم اصول پیش کیاکہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ کرے وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا ۔ (حضرت متی رکوع ۵ آیت ۲۸)۔ اور آپ اس اصول کے دائیں بائیں نہ ہوئے ۔ اور نہ اس میں سے کچھ کم کیا۔ (ج) مسیح کی تعلیم کا شروع اور درمیان اور انجام یکسا ں ہے۔ اس کی تعلیم موقعوں اور حالتوں سے نہیں بنی اپنی کسی تعلیم کی نسبت وہ کبھی متعیر اور پیشمان نہ ہوئے ۔ جو شروع سے سکھایا وہی آخر تک قائم رکھا اور کسی موقع یا حالت کی عمدگی یا قباحت اس کے لئے سہولت یا سدراہ نہ ہوئی۔ ایسی استواری اور ثابت قدمی زندگی او رکلام کی پختگی ہے ۔پس پیشتر اس سے کہ مسیح نے اپنا کام شروع کیا۔ اور پھر جب شروع کیا تو جانتے تھے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اور جو کام شروع کیا تو اس کے آخر تک کسی بات میں اپنے کہے اور کئے ہوئے سے بازگشت مکرنی پڑی۔ اول ان کے نئے انتظام کے متعلق یہ بات تھی کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں۔ دوم۔ یہ کہ ان کی بادشاہت ایک روحانی بادشاہت ہے ۔ سوم۔ یہ کہ میں سچ پر گواہی دینے آیا ہوں ۔ یہ تین امور ان کی زندگی کا مدعا تھے ۔ اور یہ ان کی تعلیم اور عمل کو شامل کرتے ہیں۔ اور ابتدا ہی سے آپ نے ان کا اظہار کیا اور کبھی دورنگی نہ ظاہر کی۔ پہلے امر کی نسبت ہم پیشتر بھی کچھ بیان کرچکے ہیں ۔ اور تھوڑا سا اور یہ ہے ۔ کہ مسیح نے اپنی خدمت کے شروع ہی میں ۔ جب شیطان نے انہیں آزمایا اس امر کا اظہار کردیا ۔ پھر حضرت یوحنا اصطباغی کو آگاہ کیا کہ مبارک وہ جو مجھ میں ٹھوکر نہ کھائے ۔ حضرت یوحنا کے لئے یہ نیا روحانی انتظام ایک نئی بات معلوم ہوئی اور اس سبب سے اس کو مسیح کی سچائی کی نسبت قدرے شک گذرا تو مسیح اس کو سمجھاتا ہے کہ مجھ میں ٹھوکر نہ کھانا۔ یعنی میری بادشاہت کو دنیاوی بادشاہت نہ سمجھنا۔ اور اور موقعوں پر بھی برابر اس یہود کی غلطی کو درست کرتے رہے ۔ پھر ان کی تمثیلیں آسمانی روحانی بادشاہت کی بابت ہیں اور ان کی بڑھتی مظہر ہیں۔ اور دنیاوی بادشاہت بالکل خارج ہے ۔ پھر دیکھو جب موت کے لئے گرفتار کیے گئے اس وقت بھی فرمایا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں۔ اگرمیری بادشاہت اس دنیا کی ہوتی تو میرے نوکر لڑائی کرتے ۔ تاکہ میں یہود یوں کے حوالہ نہ کیا جاتا پر میری بادشاہت یہاں کی نہیں ہے ۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنار کوع ۱۸ آیت ۳۶)۔اس بیان سے بعض لوگوں کو وہم کہ مسیح نے جب دنیاوی بادشاہ ہونے میں کامیاب نہ ہوئے تب یہ طریق اختیار کیا تھا بالکل رد ہوتاہے۔ بر خلاف اس کے اگر مسیح کبھی بھی ایسی کوشش کرتے تو وہ جو اپنے کام اور کلام کی شہرت کے اوج پر تھے بالکل کامیاب ہوتے۔ اور اسکے ساتھ یہ بھی یادر ہے کہ مسیح نے یہودیوں کی مخالفت اور ضد کو ہلکا کرنے یا انکی پاس خاطری کرنے کے لئے بھی اپنی اس تعلیم کو نہ بدلا اور نہ غیر قسم یا اس کے مخالف تقریر یا تدبیر اختیار کی۔ بلکہ اسی پر قائم رہے وہی سچ تھا اور مسیح سچ پر گواہی دینے آئے تھے ۔(حضرت یوحنا رکوع ۱۸ آیت ۳۷)۔ اسی طرح آپ نے دوسے امر کو ابتدا ہی سے قائم رکھا اور اس پر ثابت قدم رہے۔ اس کے اصرار اور خوبیوں کا بیان کیا۔ اور اس بات کی پروانہ کی کہ کوئی اس کی روحانی بادشاہت کی باتیں مانیگا یا نہیں۔ (حضرت متی رکوع ۱۵ آیت ۱۲) اور اس لحاظ سے اس میں یا لوگوں کی خاطر اس میں اس قسم کی سہولت یا تبدیلی کردی ہو۔ نہیں بلکہ جیسا اس بادشاہت کی نسبت حق تھا اس حق پر گواہی دی ۔ وہ تعلیم جو آپ نے پہاڑ پرفر مائی صاف ثابت کرتی ہے کہ اس کے اجزا آسمانی اور روحانی بادشاہت کے ضابطے ہیں۔ نہ کہ دنیاوی بادشاہت کے ۔ جو مرید آ پ نے اپنی اس بادشاہت کے پھیلانے کے لئے چنے وہ شاہانہ اور ملکی سامان نہ رکھتے تھے۔ بلکہ غریب اور حقیر اور کمزور تھے ۔ اور ایسے شخصوں کو ساتھ لے کر ہر گز نہ پچھتائے ۔ اور ان کو قیصر یا پلاطوس کے ضابطے نہ سکھلائے تاکہ آپ کی بادشاہت کے لائق رکن بن جائیں۔ لیکن آسمانی بادشاہت کی باتیں سکھائیں ۔ اور ہر طرح سے اس کے لائق کیا غرض کہ اس امر میں بھی مسیح کی یکسانی ظاہر ہے ۔ تیسرا امر آپ کے ہر کلام و کام کو شامل کرنا ہے جس میں یہ باتیں بھی ہیں کہ جب ایک مرتبہ کوئی تعلیم دی تو اس سے نہ پھرے اور نہ اس کو بدل کر کچھ اور سکھایا۔ مگر ایک ہی وہی تعلیم رکھی اور دوسری بات یہ ہے کہ جیسا سکھایا اس کے مطابق خود عمل کیا۔ کسی قسم کی حالت اس کو تعمیل تعلیم سے عاجز نہ کرسکی۔ آپ کی تعلیم کا مجموعہ جو انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ۵و۶و۷ میں مرقوم ہے غور سے اور دل سے دیکھنے کے لائق ہے ۔ اس کو دیکھو اور مسیح کی زندگی کا ملاحظہ کرو اور کہو کہ اس میں یکسانی اور استواری ہے یا نہیں۔ اور تحقیقاً یہی بات قائم ہوگی کہ جوکچھ آپ نے ایک بار فرمایا وہ یوں فرمایا جیوں کوئی عالم الغیب فرمادے۔ایسا سکھایا کہ کچھ کمی بیشی کی حاجت ونبوت نہ پہنچی۔ اور صرف یہی نہیں۔ دیکھو آپ نے اس تعلیم کا کیسا کامل برتاؤ دکھایا ہے بدی کی آزمائشیں آپ کو مغلوب نہ کرسکیں ۔ وہ ہر قسم کے لوگوں سے ملتے اور ان سے کلام کرتے تھے۔ بازاروں اور گھروں میں ویرانوں اور آبادیوں میں۔ دریاؤں او رپہاڑوں پر اکیلے میں دکیلے میں مجلسوں میں۔ اور یہ نہیں کہ کہیں الگ گوشہ نشین ہوکر بیٹھے رہے اور دنیا سے سروکار نہ رکھا اور اس لئے کسی آزمائیش میں نہ پڑے ۔وہ پاک ذات اور کامل سرشت خواہ کہیں ہوتی غلطی اور گناہ اور دیگر انسانی کمزوریوں سے بری رہتی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جب آپ نے سکھایا کہ شہوت سے کسی عورت کی طرف نگاہ نہ کرنا تو خود بھی اس بات سے بری رہے ۔ اور کبھی شہوت کا مغلوب ہوکر اس کا حکم نہ بدلا۔ اور نہ اس میں سے کچھ کم کیا۔اگر آپ نے سکھایا کہ ابتدا میں خدا نے ایک مرد اور ایک عورت کو جوڑا کیا۔ تو پھر لوگوں کا لحاظ نہ کیا اور نہ ان کے نفسانی غلبوں کی رعائت کی اور نہ ان کی سخت دلی سے ڈول گئے بلکہ وہی برابر قائم رکھی اگر آپ نے کہا کہ دشمنوں کو پیار کرو تو کبھی اس کے برخلاف عمل نہ کیا۔ اگر آپ نے سکھایاکہ ایک خدا کی روح وراستی سے پرستش کرو تو دوسروں کے معبودوں کو عزت نہ دی۔اگر آپ نے سکھایا کہ دل کے غریب اور حلیم ہو۔ تو آپ کبھی ظلم وغرور نہ کیا اور نہ ایسی ترغیب دی۔ اس پر محبت نے دکھ ورنج اٹھاکر بھی اس سیرت کو اپنے میں ضائع نہ کیا۔ وغیرہ اس موخر الذکر امر کی زیادہ تفصیل دفعہ ذیل آتی ہے مسیح میں ایسے اوصاف کاملہ کا یہ سبب تھا ۔ کہ آپ کا علم اپنے باطن سے تھا۔ موقع اور حالتیں اور طبیعتیں آ پکی استاد نہ تھیں۔ برعکس اس کے آپ کی کوشش اس بات کے لئے تھی کہ وہ حالتیں اور طبیعتیں جوا نسان کی زندگی میں ردو بدل کی موجب ہیں اس کی تعلیم کے سانچے میں ڈھالی جائیں۔ پس مسیح ہر بات میں کامل اور ثابت قدم تھے۔ |
تلک الغرانیق العلی رہان شفا عتھن لیر تجی۔ اس کا ترجمہ بموجب ماسٹر رام چندر صاحب کے یوں ہے " یہ نہایت نازک اور نوجوان عورتیں اعلیٰ مرتبہ کی ہیں۔ اور ان کی شفاعت کیاامید کرنی چاہیے از تحریف قرآن تصنیف ماسٹر رام چندر دہلوی صاحب دفعہ ۱۷۳ صفحہ ۱۹۰۔
دفعہ ۳۔ انسان ایک دوسرے کے بد خواہ اور مخالف ہوتے ہیں۔
کیا مسیح اور محمد بھی ا یسے ہی تھے۔
اخلاق کی کتابیں دیکھنے سے اور دنیاوی رواج اور قوانین سے بھی یہی معلوم ہوتا ہےکہ کوئی ناجائز یا ناشائستہ یا رنج پہنچانے والی بات یا حملہ کرنا۔کرنے والے کو معیوب ٹھہرانا اور ان حالتوں میں وہ جو معمول ہوتا ہے یعنی جس کے برخلاف یا جس پر یہ امور وارد کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے بچاؤ کرنیکا مستحق گردانا جاتا ہے اور ایسے رنج رسیدوں کا حق پہنچانے کے لئے کوشش کی جاتی ہے ۔ اخلاقی فلسفہ اور ملکی فلسفہ اس بات کی حامی اور موید نظر آتی ہیں۔ سیلف رسپکٹ یعنی توقیر نفسی ۔ اور سیلف ڈیفینس یعنی حمایت نفسی لوگوں کے منہ پر چڑھا ہوا ہے ۔اور انسان چاہتے بھی ہیں کہ ایسا ہی ہوئےہرا یک کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی عزت اور بچاؤ کے لئے کوئی مخالف تدبیر کرے اور اس حالت میں کہتے ہیں کہ یہ باتیں خود غرضی اور بدخواہی میں داخل نہیں ہیں لیکن ہماری قدرتی سرشت کا تقاضا ہے کہ ہم ایسا چاہیں اور کریں۔ مگر اس معاملہ میں کمترین سمجھتا ہے کہ یہ غلط بات ہے ۔ کیونکہ یہ ہماری اصلی سرشت کا تقاضا نہیں۔ الا اس موجودہ حالت میں ہم کو اپنی یہ کارروائی پسندیدہ معلوم ہوتی ہے اور ہم ان کی بڑائی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری وہ سیرت اور صورت نہیں جو اصل میں تھی اور اگر وہی حالت قائم ہوتی تو ان لفظوں کو کو ن ایجاد کرتا ۔ ان کی ثنا کا موقع ہی نہ ملتا۔ اگر چہ یہ امر انسان کے لئے ازحد مشکل ہو۔ تاہم یہی امر ہے ۔ جو انسان کے دل میں پورے قسم کی خیر خواہی اور حلیمی کو بحال کرسکتا ہے ۔ اور جب تک کسی کے دل میں اتنا بھی خیال وگمان وغرور ہے تو وہ ہستی کامل نہیں ہوسکتی اور انسان کی کامل حالت کی یہ واجبی صورت بیان ذیل میں دکھلائی جاتی ہے ۔
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
بدخواہ اور مخالف تھے | کسی کے بدخواہ اور مخالف نہیں تھے |
حضرت محمد یکطرفہ اور خود غرض خیر خواہی المعروف ہے۔ یہ وصف انسان میں عام ہے۔ اور اگرچہ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ کوئی شخص بڑا خیرہ خواہ نظر آتا ہے تاہم وہ خیر خواہی کسی وقت یا موقع پر بدخواہی اور خود غرضی سے بدل جاتی ہے اور یہ حالت ظاہر کرتی ہے کہ اس شخص میں بھی یہ سیرت قائم ودائم نہیں ہے ۔ حضرت محمد کی تعلیم اور کام ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کے موافق بھی نہ تھے۔ بلکہ مثل اور انسانوں کے اس میں بھی یکطرفہ اور خود غرضی خیرخواہی تھی۔ البتہ کبھی کوئی کار خیر ہوگیا تو ہوگیا اور وہ بھی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور خصوصاً اپنی عورتوں کے حق میں ۔ اس امرآپ کی تعلیم یہ ہے ۔ (سورہ بقرہ رکوع ۲۴ ) لڑو الله کی راہ میں ان سے جولڑتے ہیں تم سے اور مار ڈالو ان جس جگہ پاؤ۔اور نکال دو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ۔ اور دین سے بچلانا قتل کرنے سے زیادہ ہے ۔ اور لڑو ان سے جب تک باقی نہ رہے فساد اور حکم رہے الله کا ۔ پھر جس نے تم پر زیادتی کی۔ تم اس پر زیادتی کرو جیسے اس نے زیادتی کی تم پر۔ یہ حضرت محمد کی تعلیم ہے اور اتفاقاً منہ سے نکل گئی لیکن اس مقدم تعلیموں میں سے ایک ہے اور بار بار ایسا ہی سکھایا ہے۔ اب اس میں تقریباً سب ہی باتیں بری ہیں۔ دشمن کو قتل کرنا۔ بدلا لینا۔ خود غرضی اور بد خواہی سب ہی اس میں پائی جاتی ہیں اور اسی طرح اور مقاموں میں ہے کہ غیروں کو رفیق نہ کریں ان سے محبت نہ کریں۔ اور عدم محبت بدخواہی سے واقع ہوتی ہے۔ سورہ مائدہ رکوع ۸ میں ہے ۔ اے ایمان والو مت پکڑو یہود اور نصاریٰ کو رفیق یہ محمد کے دل کا خبث تھا۔ اور اس میں زیادہ تر بری بات یہ ہے کہ آپ ایسا ہی عمل میں لائے ۔ اس امر میں آپ نے اپنے کہے کہ مطابق خوب عمل دکھایا۔ اس مختصر میں آپ کی لڑائیوں کا مفصل احوال درج نہیں ہوسکتا ہے۔ اور درج کیا کروں جو ناظرین ماہرین کو نہ معلوم ہو۔ اس لئے صرف یہ عرض ہے کہ ڈاکٹر میور صاحب کی لائف آف محمد اور مثل اس کے اوروں کی تصنیفات کا مطالعہ کیا جائے۔ ان میں حضرت کی اس کارگذاری کی پوری پوری کیفیت موجود ہے۔ میزان الحق باب تیسرا فصل چوتھی کو بھی دیکھنا چاہیے اس میں تھوڑا سا بیان اس بات کا پایا جاتا ہے ۔ اور اگر فرصت نہ ہو سکے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہ اکثر جہاں کہیں منکروں وغیرہ سے لڑائی کا حکم اور ترغیب ہے یا فتح کی تعریف ہوئی ہے ۔ تو کسی نہ کسی خونریزی یا جھگڑے کے بعد کا حکم اور اس کی یادگار ہے ۔ مثلاً جب ابو صفیان نے مدینہ پر چڑھائی کی تو اس کےگروہ نے ایک یہودی گروہ کو جو بنی قریظ کہلاتا تھا۔ ترغیب دیکر حضرت محمد کی طرف سے ہٹادیا ۔ کیونکہ اس سے پیشتر یہ گروہ حضرت محمد کے خوف کے سبب حضرت محمد کے ساتھ ظاہری رفاقت کئے ہوئے تھے۔ تس پر بھی بنی قریظہ ابو صفیان کے حملہ میں حضرت محمد کے مقابلہ میں شریک نہ ہوئے تھے بلکہ الگ خاموش رہے تھے اور جب یہ شخص لوٹ گیا تو حضرت محمد نے بنی قریظہ کے ساتھ سخت سلوک کیا یعنی ان کے آٹھ سو شخص بیٹھے بٹھائے کو اپنے سامنے قتل کروادیا۔ اور دل میں ذرہ ترس نہ کھایا۔ حضرت محمد ان کو اس جگہ سے خارج کرسکتے تھے تاکہ اس ظالمانہ خونریزی کی جگہ نہ ہوتی۔ مگر اس پر حق ناحق خون سوار تھا اور ان کو جیتا نچھوڑا اور اپنے میں اس موقعہ کے لئے مرحبا کہا ۔دیکھو سورہ ۳۳ یعنی احزاب آیت ۲۲ و۲۷ یہ عذر پر لوچ ہے کہ حضرت محمد نے اپنے بچاؤ کے لئے یا بدلہ لینے کی غرض سے ایسا سکھایا او رکیا اور اس لئے برا نہ کیا۔ ایسی ہی نیت اور اس کا عملی ظہور اور ایسی ہی خودغرضیاں دنیا میں تمام فسادوں کی جڑہیں۔ اور آپ نے بھی وہی چال دکھائی ۔ تو بھی وہ علاوہ اس کے واضح رہے کہ حضرت محمد کے جنگ اور خون صرف اپنے بچاؤ کی حالت میں نہ ہوتے لیکن اپنے بچاؤ کے لئے اور کبھی یوں ہی جملہ کرنیکی غرّض سے ۔ اور کبھی مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے فتوحات پر کمر بستہ ہوتا تھا۔ اور ان سب کاموں کی قرآن میں خوب تعریف کی گئی ہے ۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ مسیح سے محمد کو کچھ نسبت نہیں۔ وہ خیر خواہی اور رحم دلی کا نمونہ ہے ۔ اور محمد خونریزی اور بدخواہی اورغرض کانمونہ ہے ۔ ہاں ہم اتنا مان سکتے ہیں کہ دونوں نمونے اپنے اپنے دائرہ اور قسم میں کامل نمونے ہیں۔ مگر کیا محمد کی تعلیم اور نمونہ دنیا کو چین وآرام دے سکتا ہے ۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ کیا آگے ایسے نمونے دنیا میں کچھ کم تھے۔ ۔ نہیں کیاا یسے شخص کے نقش قدم پر چلنے سے روحانی ترقی ہوسکتی ہی نہیں۔ اس طرح تو ہم اپنی روحانی اور انسانی منزلت و فضیلت کو خود ہی ذ لیل اور بدنام کرتے ہیں۔ اے اہل اسلام تم کیوں نہیں سوچتے ؟ سو چو اور پھرو۔ اب تو لوگو۔ | مسیح خیر خواہی اور حلیمی میں بے نظیر نمونہ ہیں یہ وصف انسان میں بہت ہی کم ہوتی ہے ۔ بنی آدم اکثر ایسا کام اور کلا م کرتے ہیں جس میں اپنی ہی خیر مد نظر ہوتی ہے ۔ اوروں سے نیکی اور محبت کرنا انسان میں ایک اتفاقی بات ہے ۔ مگر مسیح میں یہ خوبی مقدوم ہے۔ اور وہ لوگوں کی مخالفت کے سبب یا اپنے بچاؤ کے لئے اس ذاتی سیرت کو ضائع نہیں کرتے اور اس بات میں ہمیشہ ثابت قدم رہے ۔ اس میں بد خواہی اور خود غرضی کی بوتک نہیں ۔ یہ عجیب شخص ہے جو دنیا میں اور ایسی دنیا میں رہ کر سراسر حلیم اور خیر خواہ رہا دیکھو اس امر میں ان کے باطن سے کیسی تعلیم نکلی۔ یہ فرمایاکہ ظالم کامقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تمہارے دہنے گال پرطمانچہ مارے ۔۔۔۔ دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو وغیرہ(حضرت متی رکوع ۵ آیت ۳۹)۔ اپنے دشمنوں کو پیار کرو۔ اور جو تم پر لعنت کریں ان کے لئے برکت چاہو۔ اور جو تم سے کینہ رکھیں ان کا بھلا کرو۔ اور جو تمہیں دکھ دیں اور ستائیں ان کے لئے دعا کرو تاکہ تم اپنے پروردگار کے جو آسمان میں ہےفرزند ہو ۔ کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر اگاتا ہے اور راستوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔ اگر تم انہیں کو پیا ر کرو جو تمہیں پیار کرتے ہیں تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ۔کیا محصو ل لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں کوسلام کرو تو کیا زیادہ کیا ؟ کیامحصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے پس تم کامل ہو جیسا تمہارا پروردگار جو آسمان پر ہے کامل ہے (حضرت متی رکوع ۵ آیت ۴۳ تا ۴۸) اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشو گے تو تمہارا پروردگار بھی جو آسمان پر ہے تمہیں بخشے گا۔وغیرہ (حضرت متی رکوع ۶ آیت ۱۴و۱۵)۔ دیکھو ان باتوں کو مسیح نے کاملیت کا اور خدا کی صورت پر بحال ہونے کا سامان ٹھہرایا۔ اس میں بدخواہی اور خود غرضی اور خون کرنا وغیرہ کہاں رہا۔بیشک انسان کے لئے یہ مشکل باتیں ہیں۔ اور اس کی موجودہ حالت ان کو قبول نہیں کرتی۔ ہاں ان کا ہونا انسان میں نا ممکن سمجھا جاتا ہے۔ مگر مسیح نے اس عقدہ کو حل کیا اس مشکل کو آسان کیا کیونکہ آپ پاک سیرت تھے۔ تو بھی انسان کے لئے یہ باتیں کیوں انہونی اور مشکل سی معلوم ہوتی ہیں جو اسی لئے کہ انسان اس کامل روحانی حالت پر نہیں جو خدا کے موافق تھی۔ پس چونکہ اسی حالت پر بحال ہونا انسان کی روحانی ترقی کی غرض ہونی چاہیے ۔ لہذا یہ تعلیم قابل ہے کہ ہم کو وہ بات حاصل کرائے ۔ مسیح میں صرف تعلیم کی عمدگی نہیں مگر بیشتر ان کی رفتار میں ہے ۔ دیکھو جب مخالفوں نے ان کے گال پر طمانچہ مارے تو آپ ان ظالموں کا مقابلہ نہ کیا۔ بلکہ دوسرے کو بھی صدمہ ثانی کے لئے گویا دیدیا۔ جب لوگ کینہ اور دشمنی کے طور دکھا رہے تھے اور قتل کرنے پر آمادہ تھے تو وہ ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار انہیں معاف کرکیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں۔ (حضرت لوقا رکوع ۲۳ آیت ۳۴)۔آپ نے ان کے گناہ بخشے اور بدی کا بدلہ لینے کے بجائے ان کے بیماروں کو شفا بخشی ۔ ا ن کے بھوکوں کو کھانا کھلایا ۔ ان کے مردوں کو جلایا۔ سب کو جو غلط فہمی اور گمراہی میں تھے سکھایا۔ جب آپ کے حواری نے آپ کی خاطر تلوار چلائی اور مخالفوں میں سے ایک کا صرف کان ہی کاٹا تھا اس کو آپ نے بند کردیا اور فرمایا ۔ اپنی تلوار میان میں کرلو اور اس شخص کے کان کو شفا بخشی۔ وہ انسان کی گنہگاری پر گردن کش کے لئے رنجیدہ خاطر ہوتے تھے۔ ہاں انسان کی اس حالت کے لئے وہ روئے آہیں کھینچیں کیونکہ انسان کی موجودہ حالت خدا کے حضور خطرنک ہے اس نے اپنی عزت اور بچا ؤ کو کاملیت کے اجزا نہ گردانا بلکہ اپنی زندگی سے ان کو خارج کیا۔ اور دکھادیا کہ یہ باتیں بھی روحانیت اور کاملیت میں شامل نہیں ہیں۔ ہاں اس کے طور خدا ئی طور تھے۔ آؤ ہم بھی ایسے ہمدرد منجی کے پاس چلیں تاکہ اپنے درد گناہ کی دوا پائیں۔ اب خیال کرو اے ناظرین کہ اگر کل بنی آدم اسی طرح خیر خواہاں ہو تو بد خواہ کون ہوگا؟ اگر سبھی دشمنوں کو پیار کریں تو دشمن کون ہوگا؟ کون جانے کہ میں دشمن کو پیار کرتا ہوں یا دوست کو ؟ اگرسبھی دشمنوں کو پیار کریں تو دشمن کون ہوگا ؟ کون جانے کہ میں دشمن کو پیار کرتا ہوں یا دوست کو ؟ اگر سبھی مار کھانے والے ہوں یا بنیں تو ما رنے والا کون ہوگا؟ اگر ہر ایک حلیم ہو تو ظالم کوئی نہ رہیگا۔ اگر کل دعا گوں ہوں لعنت کرنے والا کون ہوگا؟ ڈھونڈے نہ ملیگا اگر سب ہی گالی کھانے والے ہوجائیں ۔تو گالی دینے والا معدوم ہوگا۔غرضکہ دونوں قسموں میں سے کوئی بھی نہ ہوگا۔ اور آدمزاد کی وہ حالت ہوجائے ۔ اسی آرام اورمحبت میں چین کریں جس میں خالق نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ اور جو انسان کی اصلی قدرتی حالت تھی۔ مسیح وہ نمونہ ہے جس سے دنیا اپنی بدعا دتوں سے چھٹ کر خدواند خالق کے حضور پسندیدہ ٹھہرے۔ ہاں اس نمونہ کے مطابق عمل کرنے سے تمام بد خواہیاں اور خود غرضیاں دفع ہوتی ہیں۔ اور وہ تمام قوانین تعزیرات جو دنیا میں میں مروج ہیں بے اثر ہوتی ہیں اور ہم اپنے ہی عہد میں اس عہد کو دیکھیں جس کی خبریوں ہے کہ آخری دنوں میں وہ اپنی تلوار کو توڑکے پھالے او راپنے بھالوں کے ہنسو ئے بنا ڈالینگے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائیگی اور وہ پھر کبھی جنگ نہ سکیھنگے (حضرت یسعیاہ رکوع ۲ آیت ۱تا۴) پس ایسے خیر خواہ اور ہمدرد کو چھوڑ کر کسی ظالم او ربے دردد کے پیچھے جائیں۔ یہی ہمارے لائق منجی ہے۔ |
دفعہ ۴۔ انسان فریب دیتے اور فریب کھاتے ہیں کیا مسیح اور محمد بھی ایسے ہی تھے ۔
جناب محمد | جناب مسیح |
---|---|
۔۴.شیطان کے فریب میں آئے | ۔۴.شیطان کے فریب میں نہیں آئے |
سورہ حج رکوع ۷ میں شیطان سے فریب نہ کھانے کا یہ عذر مسطور ہے۔ اور جو رسول بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے یا نبی سو جب خیال باندھتے شیطان نے ملا دیا اس کے خیال میں پھر ہٹاتا ہے شیطان کا ملایا۔ پھر پکی کرتا ہے اپنی باتیں اس واسطے کہ ایک شیطان کےملائے سے جانچے ان کو جن کے دل میں روگ ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور گنہگار تو ہیں مخالفت میں دو ر پڑے اور اس واسطے کہ معلوم کریں جن سمجھ ملی ہے یہ تحقیق ہے تیرے رب کی طرف سے پھر اس پر یقین لائیں اور وہیں ان کے دل یہ اس تعریف ہونے کے لئے عذر کیا جس کا ہم پہلے دفعہ ۲ میں ذکر کرچکے ہیں۔ آپ نے تو شیطان سے فریب کھایا اور اوروں کو بھی اپنی صفائی کے لئے دھوکے کی باتیں کہتے ہیں کہ اگلے رسولوں اور نبیوں کے خیال میں شیطان اپنا خیال ملادیتا تھا۔ لوگوں کو بہکانے کے لئے یہ عجب جھوٹ باندھا ہ اس سے ظاہر ہے کہ محمد شیطان کے جھانسے میں آجا تا تھے اور بذاتہ اس کی ملو ینوں اور آمیزش کو نہ روک سکتا تھا۔ پھر ماسٹر رام چند صاحب ایک فریب کا ذکر کرتے ہیں جو محمد نے یہودیوں سے کھایا۔ ہم بھی ناظرین کی خاطر ان کی کتاب الجواب تحریف القرآن سے اس بیان کو اخذ کرتے ہیں۔سورہ ۱۷۰ ہم بنی اسرائیل کی آیت ہفتا دوہشتم یہ ہے کہ اور وہ تو لگتے تھے گھبرانے تجھ کو اس زمین سے کہ نکالیں تجھ کو وہاں سے اور تب نہ ٹھہرینگے تیرے پیچھے مگر تھوڑا ۔ تفسیر معالم میں اس آیت کی نسبت یہ لکھا ہے ۔ اور اس آیت کے معنوں میں مفسروں نے اختلاف کیا ہے کہ پس بعض نے ان میں سے کہا ہے کہ یہ مدینہ کی آیت ہے ۔ کلبی نے کہا جب رسو ل الله مدینہ کو تشریف لائے تو یہود نے ان کے قیام سے مدینہ میں کراہت کی بسبب اپنے حسد کے پس وہ اس کے پاس آئے او رکہا ۔ اے قاسم کے باپ (یعنی اے محمد) تو تحقیق جانتا ہے کہ یہ زمین (مدینہ یا عرب ) نبیوں کی نہیں ہے اور تحقیق زمین نبیوں کی شام ہے اور وہی زمین مقدس ہے اور اس میں ابراہیم اور انبیا تھے۔ کہ ان پر دعا اور سلامتی ہو ۔ پس اگر تو مثل ان کے نبی ہے تو شام کو جا اور تحقیق جو باز رکھیگا تیرے جانے کو اس طرف وہ تیرا خوف ہے روم سے ۔ (یعنی روم کے بادشاہ اور خلقت سے کہ عیسائی تھے اور بیت المقدس ان کے قبضہ میں تھا۔) پس تحقیق الله عنقریب باز یعنی محفوظ رکھیگا تجھ کو روم سے اور لشکر کے ساتھ کوچ کیا ۔ (یعنی محمد صاحب نے ) تین میل مدینہ سے اور ایک راوئت میں آیا ہے کہ مقام دی الخلقیہ کی طرف حتیٰ کہ جمع کئے اپنے پاس اپنے صحابی یا رفیقوں کو اور (ملک شام کو ) چلے ۔ پس خدا نے نازل کی یہ آیت (جو اوپر نقل ہوئی ) اور زمین (جس میں سے یہود لوگ محمد صاحب کو خارج کیا چاہتے تھے ) مدینہ ہے ۔ بیضاوی میں بھی قریب اسی کے لکھا ہے کہ اب ناظرین پر واضح ہوگاکہ حضرت محمد فریب میں یہود مکار کے اس واسطے آگئے کہ ان کو زبردستی نبی اور رسول بن جان کا زیادہ ازحد شوق تھا۔ اور اس مکر کی تقریر میں یہود اہل مدینہ نے اپنے اعتقاد باطل کی بھی ایک بات کہدی اور وہ یہ ہے کہ محمد صاحب کے زمانے سے پہلے یہود کا اعتقاد یہ تھا کہ ایک ایسا نبی آخر الزمان ہوگا کہ ان کو کفارپر یعنی عیسائیان روم پر فتح دلوادے اور ملک شام کو اور بیت المقدس کو اس میں ہی چھین کر یہودیوں کے قبضہ میں کرواتے تاکہ وہ اپنی ریاست قدیم قائم کریں اور بیت المقدس کو پھر تعمیر کراکے احکام توریت کو بدستور قدیم کے عمل کریں ۔ وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کو رسول ِ خدا یا نبی آخر الزماں یامسیح ہر گز نہیں مانتے تھے اور اس میں فخر کرتے تھے ہماری قوم نےعیسیٰ کو قتل کیا اور بری باتیں خلاف ان کے کہتے تھے جیسے قرآن میں مذکور ہے اور اس واسطے وہ سخت دشمن امت حضرت عیسیٰ کے تھے۔ وہ ایک اور مسیح کے متوقع بیٹھے تھے اور آج تک بیٹھے ہیں اور اس کا وہی نام بیان کرتے تھے جو حقاً ایک ناموں میں سے ہمارے سیدنا عیسیٰ کا ہے یعنی اپنے آخر الزمان کو وہ مسیح ابن داؤد کہتے تھے کہ اور آج تک کہتے ہیں کہ وہ آکر ان کو مالک بروبجر یعنی سارے جہان کا کردے اور چونکہ حضرت محمد صاحب خاندان اسرائیل سے نہ تھے۔ اور اس واسطے خاندان حضرت داؤد سے نہیں ہوسکتے تھے پس غیر ممکن تھا کہ وہ حضرت محمد کو اپنا آخر الزماں نبی قرار دیں لیکن اس شوق کے مارے کہ ان کا نبی آخر الزماں جلد ظاہر ہوکر ان کو جھٹ پٹ ریاست زمین مقدس اور بیت المقدس کی بحال کرائے انہوں نے خیال کیاکہ حضرت محمد صاحب خاندان اسرائیل سے نہیں ہیں بلکہ غیر قوم عرب سے ہیں پھربھی کیا مجال ہے کہ وہ دونوں سے بھی زیادہ دوست مذہب یہودی کے اور دشمن عیسی ٰ او ران کی امت کے ہوجائیں کیونکہ انہوں نے بھی بہت قانون یہودی مثل حلال وحرام جانوروں وغیرہ کے اختیار کئے ہیں اور بیت المقدس کو اپنا قبلہ نما ٹھہرایا ہے پس اگر وہ سچے نبی آخر الزماں ہیں کہ جیسے کہ یہود منتظر بیٹھے ہیں تو وہ بیشک شام میں جاکر نصاریٰ اور روم غلبہ پاوینگے وغیرہ۔ پس اس خیال سے یہود مدینہ نے حضرت محمد سے یہ کہہ کر کہ آپ شام کو جائیں کہ زمین مقدس ہے اور وہی سب نبی اور رسول ہوئے ہیں اور قیصر روم سے خوف نہ کریں اگر آپ نبی ہیں تو قیصر روم سے آپ محفوظ رہینگے اور ان کے دل میں یہ تھا کہ اگر حضرت محمد کا دعویٰ نبوت کا جھوٹا ہے تو روم میں جاکر وہیں کھپ جائیں اور اس طرح مدینہ سے خارج ہونگے ۔ اور جب آپ کو یہودیوں کا فریب معلوم ہوگیا تو تھوڑی دور سے لوٹ آئے اور یہود کو سزا دی۔ پس اس بیان سے ظاہر ہے کہ نبی بن جانے کے شوق کے کے مارے یہودیوں کے فریب میں آگئے دیکھو کس بات کے لئے فریب میں آگئے ایسے شخص کی پیروی کرنے کو کس کا دل چاہتا ہے ۔ یہ تو مثل اور انسانوں کی سی حالت ہے ۔ انسان کبھی ایک دوسرے کو فریب دے لیتے ہیں اور کبھی خود فریب میں آجاتے ہیں۔ پس اے ناظرین ہوشیار ہو کہ کہیں تم محمد کے فریب میں نہ آجاؤ۔ پس صاحبو ۔ جس شخص میں ہمسار انسانیت بھری ہے اور ہر طرح ہماری مانند قصور مند ہوتا تو اسکا کس مطلب کے لئے مانیں وہ ہمارا کیا سنوار سکتا ہے اس کے آنے سے دنیا کو کیا فائدہ ہے اور تو اوروں کو اپنی تعلیم اور نمونہ سے صرف اپنے موافق کرسکتا ہے اور بس۔ | انجیل متی رکوع ۴ میں مسیح کا شیطان کے فریب میں نہ آنا مسطور ہے ۔ تب سیدنا عیسیٰ روح کی ہدایت سے بیابان میں گئے تاکہ شیطان انہیں آزمائے اور جب چالیس دن رات روزہ رکھ چکے آخر کو بھوکے ہوئے۔ تب آزمائیش کرنے والے نے آپ کے پاس کر کہا کہ اگر تم ابن الله ہو تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائے آپ نے فرمایا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے جیتا ہے ۔ تب شیطان آپ کو مقد شہر میں ساتھ لے گیا اور بیت الله کے منڈیر پر کھڑا کرکے آپ سے کہا اگر تم ابن الله ہو تو اپنے تیئں نیچے گرادو کیونکہ لکھا ہے وہ تمہارے لئے اپنے فرشتوں کو فرمایئگا کہ تمہیں ہاتھوں پر اٹھالیں ایسا نہ ہو تمہارے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔ سید نا عیسیٰ نے اس سے فرمایا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے مت آزما ۔ پھر شیطان آپ کو ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیاک ی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اسے دکھائیں اور کہا اگر تم جھک کر مجھے سجدہ کرو تو یہ سب کچھ تمہیں دونگا۔ تمہیں دونگا تب سیدناعیسیٰ نے اسے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے سجدہ کر اور اس اکیلے کی بندگی کر ۔ تب شیطان آپ کو چھوڑ گیا۔ اس بیان سے صاف مصرح ہے کہ شیطان مسیح کے دل میں کوئی بات نہ ڈال سکا جس سے وہ اسکے فریب میں آجاتے ۔ ہم سارے انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمارے خیال اور کلام میں ملونی کر پائے پھر مسیح کبھی انسان کےفریب میں بھی نہ آئے ۔ کسی کلام او رکام میں جب لوگوں نے آپ کو پھنسانا چاہا تو وہ ان کے فریب میں نہ آئے ۔ بلکہ اس کے برخلاف وہی کام کیا جوراست اور درست تھا۔ مثلاً جب مسیح صلیب پر چڑھائے گئے اور لوگ کہتے تھے کہ اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پر سے اتر آئے تو ہم اس پر ایمان لائينگے ۔ (حضرت متی رکوع ۲۷ آیت ۴۶)۔ مگر مسیح کو ان کا وہ بادشاہ جیسا وہ چاہتے تھے بننے کا شوق نہ ہوا۔ اورنہ ان کے فریب میں آئے۔ مگر فریب کیونکر کھاتے وہ تو ان کے فریبوں سے واقف تھے ۔ پھر دکھو جب فریسی آپ کی آز مائیش کرنے کے لئے آئے اور سوال کیا کہ کیا روا ہے کہ مرد ہر ایک سبب سے اپنی جورو کو چھوڑدے۔ (حضرت متی رکوع ۱۹ آیت ۳۰وغیرہ۔) مگر وہ ان کے فریب میں نہ آئے اور جس نیت سے انہو ں نے سوال کیا اس نیت کو تو ڑ ڈالا ۔ پھر ایک موقعہ پر فریسیوں نے صلاح کی کہ آپ کو آپ کی باتوں میں پھنسائیں (متی رکوع ۲۲ آیت ۱۵)۔ وغیرہ اور پہلے آپ کی بڑ ی تعریف کہ اے استاد ہم جانتےہیں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی سے خدا کی راہ بتاتے ہیں اور کسی کی کچھ پروا ہ نہیں کرتے وغیرہ۔ پس ہم سے فرمائیں کہ آپ کیا خیال کرتے ہیں قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں۔ پھر سیدنا عیسیٰ نے ان کی شرارت سمجھ کر ان سے فرمایا (دیکھو فوراً فریب معلوم کیا)اے منافقو مجھے کیوں آزماتے ہو ؟ جزیہ کا سکہ مجھے دکھاؤ وہ ایک دینار آ پ کے پاس لائے تب آپ نے ان سے فرمایا یہ مورت اور سکہ کس کا ہے۔ انہو ں نے کہا قیصر کا پھر آپ نے ان سے فرمایا جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور خد ا کا ہے خدا کو دو۔ پھر دیکھو وہ فریبی خود ہی جواب سن کر حیران ہوئے اور چلد ئیے۔ اور اس طرح صدوقیوں نے اپنا داؤ چلایا اور قیامت کے انکاری ہو کر قیامت ہی کی نسبت ایک پیچیدہ سوال گھڑ لائے۔مسیح نے ان کی بھی غلطی کو درست کیا۔(متی رکوع ۲۲ آیت ۲۳)۔ الحاصل اے ناظرین مسیح کبھی کسی فریب میں نہ آئے اور نہ کسی کو فریب دیا بلکہ سچائی سے خدا کی راہ بتاتے تھے۔ پس ایسے کامل شخص کا آنا اس دنیا میں کس لئے ہوا ۔ کیا یہ امر اتفاقی امر تھا یا اس سے کوئی مقصد مد نظر تھا۔ ایسا شخص اس دنیا میں بلاارادہ اوربلا مطلب نہیں آسکتا ۔ جس کی ہر تعلیم عمدہ او رکامل اور جس کے کام نہایت محسن اور کامل روحانیت کا نمونہ ہیں کیا اس کا آنا بے فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اور ہم جیسے گنہگار گمراہ اور فریبی چاہے ہمیشہ آیا کریں ؟ نہیں یہ ہر گز نہیں ہوسکتا مسیح کا آنا کسی اور کے آنے کو موقوف کرتا ہے۔ ہاں محمد کے آنے کی گنجائش نہ چھوڑی تھی یہ بہت بڑا تحکم ہے جو مسیح کے مقابل میں لوگ محمد کو مانتے یا پیش کرتے ہیں محمد کی سیرت تو اس کو مسیح کا پیرو بننے کا محتاج بتلاتی ہے ہم نے دونوں کی سیرت ناظرین کے سامنے بیان کردی ہے اور اگر مسیح کو محض استاد ہی مانیں تاہم بھی وہ محمد سے اعلیٰ اور عمدہ استاد ہے ۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اس کو بے فائدہ نہ بھیجا ا یک بے گناہ اور ایسا شخص جس کی زندگی میں ہر نوع کی خوبی تھی اور جو کاملیت کا نمونہ ہے کیا کہہ سکتے ہیں کہ کیوں آیا۔ کیاخداوند نے ایسے شخص کو بھیج کر انسان سے کھلی کی ؟ پلید اور گناہ آلودہ دنیامیں ایک بے عیب پاکيزگی کے کیامعنی ہیں؟ کیوں خدا کی صورت جہاں شیطان کی صورت کی آشنائی ہے ؟ یقیناً اسمیں کچھ مصلحت ہے مسیح کی سیرت ظاہر کرتی ہے کہ وہ فضل کے کسی بڑے پیغام کو پہنچانے کے لئے بھیجا گیا۔ ہاں اس کی سیرت ثابت کرتی ہے کہ انسان کا اخلاقی اور روحانی استاد نجات دینے والا بن کر بھیجا گیا۔ پس آؤ ہم حق تعالیٰ کا یہ مقصد ضائع نہ کریں۔ اپنی روحانی ترقی اور کامل ہونیکے لئے ہم اس کے پاس جائیں جس میں ذاتی خوبیاں ہیں۔ہم نے پیشتر لکھا تھا کہ ایسی سیرت کاآدمی کسی نے بھی نہ بتلایا او رنہ انسان بتلاسکتاہے کیونکہ اس اس امر میں تجربہ نہیں ہے تو کیونکر مسیح جیسے کامل شخص کی سیرت دنیا میں معلوم ہوئی اس بات کا جواب اول یہ ہےکہ جنہوں نے جیسا اس پاک سرشت کی نسبت دیکھا اور سیکھا وہ بیان کرسکتے تھے اور کیا بھی۔ اور دوم ان راویوں میں الہام کی مدد ہوئی کہ مسیح کی تصویر کھینچے میں کچھ ملونی یا کمی نہ کریں بلکہ جیسا وہ تھا اس کو بجنسہ پیش کریں ۔ پس اس سہولت میں ہوکر ان راویوں نے کاملیت کی واقعی مورت دکھائی۔ اور اسی لئے انسان کو یقین ہوسکتاہےکہ فقط مسیح وہ شخص ہے جس کا نمونہ ہمارے لائق ہے ۔ |
ناظرین کرام ! کامل نمونہ ڈھونڈھنے میں کسی کا لحاظ کرو ؟ اپنے آبا ؤ کے بڑوں کے رواج کے سبب نہ مانے جاؤ۔ کامل استاد اس کو نہ کہو جسکے عیب چھپائے گئے ہوں۔ یا جن کے عیب ان کی خوبیوں میں ڈھنپے ہوں۔ اس امر میں چاہیے کہ ہم پاسداری نہ کریں بلکہ لحاظ اور طرفدار ہوکے اپنے کامل استاد کو ڈھونڈھیں۔ خواہ وہ ناصرت ہی میں ملے ۔ کیونکہ جیوں جیوں ہم اس بات سے تغافلی کرتے ہیں تیوں تیوں ظاہر کرتے ہیں کہ روحانی ترقی کی ہمیں کچھ غرض نہیں۔ کا ملیت اور اس کا نمونہ ہمارے کس کام ہے او رایسے خیالوں میں پڑ کے ہم روحانی اور اخلاقی زندگی میں کوشش نہیں کرتے ۔ بلکہ مثل حیوان مطلق کے اپنے نفسانی ہوس کو قانون ہدا ئت اور شرع قدرتی مانتے ہیں مگر ایسا نہ ہونا چاہیے۔ یہ ہماری ہستی کی غرض نہیں۔ آؤ ہم اپنی اصلی قدرتی حالت آئیں۔ اور اس بات کا مقدور فقط مسیح کی پیروی سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ حق تعالیٰ یہ ذریعہ ہر ایک کے سامنے رکھے۔ یہ نمونہ ہر ایک دل کی آنکھیں دیکھیں۔
آخر میں ہم چند ناموروں اور عالموں کی رائے سیرت مسیح کی نسبت کتاب لائف اینڈورڈ آف کرائسٹ مصنفہ ڈاکٹر کننگ ہام گیکی سے پیش کرتےہیں جن سے ناظرین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ ۔
ٹامس کا ر لائل ۔ بڑے ادب سے کہتا ہے کہ عیسیٰ ناصری ہمارا الہیٰ نمونہ ۔ اس سے بڑ ھ کر تا ہنوز انسانی خیال نہیں پہنچا۔ ایک بالکل پائدار اور بے حد سیرت کی صورت جس کے معنی ہمیشہ اور از سر نو استفسار کئے جانے اور از سر نو ظاہر کئے جانے کے متقاضی نہ ہونگے ۔
علامہ ہر ڈر کہتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ مسیح عمدہ ترین او رنہایت کامل معنی میں انسانیت کی خیالی صورت کا واقعی ظہور ہے۔
شاہ نپولین پہلا جوایک وسیع العقل انسان تھا۔ جزیرہ سینٹ ہلینہ میں ایک دن اپنے دستور کے موافق بپشین ناموروں کی بابت گفتگو کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ اپنا مقابلہ کرتے ہوئے دفعتاً گھوم کر اپنے ساتھی سے پوچھنے لگا کہ کیا تم مجھے بتلاسکتے ہو کہ مسیح کون تھے ۔ افسر نے اقرار کیاکہ میں نے ایسی باتوں کی بابت اب تک کچھ خیال نہیں کیا۔ نپولین نے کہا اچھا میں تمہیں بتلاؤ نگا۔ تب اس نے اپنے اوریلان قدیم کے ساتھ مسیح کا مقابلہ کیا اور دکھایا کہ وہ کیونکر ان پر غالب ہے اور کہا کہ مجھے گمان ہے کہ ذات انسانی کی بابت کچھ جانتا اور سمجھتا ہوں۔ اور میں تمہیں کہتا ہوں کہ وہ سب انسان تھے اور میں بھی ا نسان ہوں۔ لیکن ایک بھی مسیح کے موافق نہیں ہے ۔ سیدنا عیسیٰ مسیح انسان سے زیادہ تھے ۔ سکندر اور سیزر او چارلی مین نے اور میں نے بڑی بڑی بادشاہتیں قائم کیں لیکن ہماری عقل کے نیتجے کس بات پر منحصر تھے۔ زور پر فقط سیدنا عیسیٰ ہی نے اپنی بادشاہت محبت پر قائم کی اور آ ج کے دن تک لاکھو ں اس کے لئے خوشی سے مرنے کو تیار ہیں۔
ایک اور موقع پر نپولین ان سے کہا کہ انجیل کوئی مجہول کتاب نہیں ہے ۔ لیکن ایک زندہ مخلوق ہے ایسا قوی اور توانا کہ مخالف کو مغلوب کرتا ہے پھر ادب سے چھوکر کہا کہ میز پر یہ کتاب الکتب ومصری ہے میں اسے پڑھتے تھک نہیں جاتا اور یکساں خوشی سے ہر روز ایسا ہی کرتا ہوں۔ روح انجیل کے حسن سے فریقتہ ہوکر اپنی نہیں رہتی۔ خدا اس پر سراسر قابض ہوتا ہے۔ وہ اس کے خیالوں اور قوتوں کی ہدایت کرتا ہے ۔ وہ اس کی ہی سیدنا عیسیٰ کی الوہیت کلیہ کیسا ثبوت ہے ۔ مگر اس حکومت میں اس کا صرف ایک مدعا ہے یعنی فرد بشر کی روحانی کاملیت اس کے ضمیر کی صفائی سچائی کے ساتھ اس کا میل ۔ اس کی روح کی نجات ۔ لوگ سکندر کی فتحیابیوں پر حیران ہوتے ہیں۔لیکن یہاں ایک ایسا فتح مند بہادر ہے جو انسانوں کو ان کی عالی ترین بہتری کے واسطے اپنی طرف کھینچتا ہے جو اپنے سے ملاتے ہے اپنے میں ملاتا ہے ۔ ایک قوم کو نہیں کل انسانو ں کو ۔
روزون کہتا ہے کہ اناجیل کے مقابلہ میں فلاسفروں کی کتابیں باوجود اپنی دھوم دھام کے کیسی ادنیٰ ہیں کیا ممکن ہے کہ وہ نوشتے جو ایسے اعلیٰ اور ایسے سادہ ہیں ۔ انسان کا کام ہوں۔ کیاہوسکتاہے کہ وہ جس کی زندگی وہ بیان کرتی ہیں محض انسان سے زیادہ نہ ہو۔ ؟ کیا اس کی چال چلن میں کوئی بات خارجی انتھنوزی اسٹ یا حرص والی ہے ا سکے اطوار میں کیسی تلاوت کیسی طہارت ہے اس کی تعلیم میں کیسی موثر خوبی ہے ۔ یا اس کی مثلوں میں کیسی بالائی اس کے لفظوں میں کیسی گہری حکمت ہے کیسی دلیری او راس کے جوابوں میں کیسی ملائمت او رمناسبت ہے اپنی خواہشوں پر کیسا تسلط ہے ۔ کہاں وہ انسان اورکہاں وہ حکم جو بلا کمزور ہوئے اور بلا دکھائے کے عمل کرنا سہنا اور مرنا جانتا ہے ؟ اے میرے دوست آدمی اس طرح کی باتیں تو ایجاد نہیں کرتے۔ اور سقراط کی وارداتیں جن پر کوئی شبہ نہیں کرتا ایسی مصدق نہیں ہے اور مرنا جانتا ہے کہ اے میرے دوست آدمی اس طرح کی باتیں تو ایجاد نہیں کرتے۔ اور سقراط کی وارداتیں جن پر کوئی شبہ نہیں کرتا ایسی مصدق نہیں ہیں جیسے واقعات مسیح ہیں۔ وہ یہودی اس اخلاق کا کبھی خیال نہیں کرسکتے تھے۔ اور انجیل اپنی صداقت کی ایسی اعلیٰ اور قطعی اور بے نظیر علامتیں رکھتی ہے کہ ان کے ایجاد کرنے والے اس سے عجیب ترہونگے جس کی وہ تصویر کھینچتے ہیں۔ (یعنی انجیل کسی کی ایجاد کی ہوئی کہاوت نہیں ہے مگر واقع صداقت سے پر ہے ۔)
ناظرین خدا کرے کہ ہم سب اس طور سے بلکہ بڑھ کر اپنے مولا اور نجات دینے والے مسیح کی توقیر کریں اور اس ے مل جائیں۔ اس وسیلے سے اس جہان کی آلودگیاں خود ہی چھوٹ جائینگی۔ اور ہم خدا کے لائق خاندان بن جائیں گے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
تنبیہ۔ خیال رہے کہ ہم نے اس رسالہ میں قرآن اور انجیل کو اپنی اپنی جگہ پر صحیح ودرست فرض کرکے ان کے حوالے دئیے ہیں۔ اگر کوئی صاحب اس معاملہ میں عقلی بحث کرنا چاہے۔ تو لا حاصل ہے ۔ ایسی تقریر کسی دوسرے موقع پر کار آمد ہوگی ۔
مصنف جی ۔ ایل۔ ٹھاکر داس