THE NATURE OF SIN
Rev.W.Hooper
رسالہ
حقیقتِ گناہ
مولفہ
پادری ہوپر صاحب سابق پرنسپل ڈونٹی کالج لاہور جس کے اکثر مطالب ڈاکٹر جے مولر صاحب کی اسی مضمون کی کتاب سے لئے گئے ہیں۔
پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی
انار کلی لاہور
۱۹۰۵ء
حقیقتِ گناہ
پہلا حصّہ گناہ کی ماہیت
پہلا باب
گناہ شریعت کی مخالفت ہے
اس دُنیا میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں ایک عیب (بُرائی)بھی ہے۔ جس سے غم اور نقصان پیدا ہوتے ہیں اور جس سے اس دُنیا کی بہت سی روشنی پوشیدہ اور تاریک ہو گئی۔ اُسے بدی کہتے ہیں۔ اس پر غور کرنا اگرچہ خوشی کا باعث نہیں ہے ۔ مگر پھر بھی ضرور ہے کیونکہ جب تک اس کی ماہیت (حقيقت)نہ جانیں کس طرح اس پر غالب (فتح مند ہونا) آسکتے ہیں۔ درد و مصیبت سے بے فکر رہنا رُوح کی بزرگی و شرافت کا نشان ہے ۔لیکن بدی سے بے فکر رہنا بدی کے اور بڑھنے کا سبب ہے۔ اپنی کم عقلی یا نادانی یا کمزوری کے پہچاننے سے افسوس تو ہوتا ہے۔ لیکن اپنے پر عیب نہیں لگایا جاتا مگر جو اپنی بدی سے واقف ہوتا ہے۔ وہ اپنے تئیں معذور بھی جانتا ہے۔ جتنی خرابیاں اور مصیبتیں ہیں ہم یہ سوچ کر ان پر راضی ہو سکتے ہیں کہ ان سے ہمارا حقیقی اور آخری فائدہ ہو گا مگر بدی کا کتنا ہی سوچیں کتنا ہی سیکھیں اُس کی بُرائی کچھ کم نہیں ہو گی۔
وہ قوت جس سے ہم اپنے حال اور افعال(کام۔اعمال۔خواص) پر اختیار رکھتے ہیں ۔ خود مختاری کہلاتی ہے ۔ مرضی تو حیوانوں کی بھی ہوتی ہے لیکن خود مختاری اُن ہی کو حاصل ہوتی ہےجو اپنے تئيں جانتے ہيں اور جو فعل(کام) وہ کرنے والے ہیں اُس کو پہلے سے سوچ سکتے ہیں۔
خود مختاری (آزادی)کے سوا ہم لوگ ایک شریعت سے بھی واقف ہیں۔ خواہ وہ کسی کتاب میں ہو خواہ صرف دل کے اندر ہو وہ شریعت یہ نہیں کہتی ہے کہ کیا ہوتا ہے بلکہ یہ بتائی ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ اس سے ہماری خود مختاری محدود محکوم(ماتحت) تو ہوتی ہے لیکن روکی نہیں جاتی ۔
یہ شریعت سراسر نیکی پر مبنی ہے اور اسی سبب سے ہم لوگ اس کے مطيع (فرمانبردار) ہوتے ہیں نہ اس وجہ سے کہ وہ حکومت کرنے والی ہے۔
اِنسان کے جتنے اختیاری فعل ہیں۔ سب پر یہ شریعت حکومت کرتی ہے ۔مگر پھر بھی وہ يہ نہيں کہتی کہ کس کس حالت ميں کيا کيا کرنا چاہيے۔ اس کے دوسبب ہیں۔
۱۔ایک یہ کہ ہر آدمی کا ہر وقت ایک نیا حال ہوتا ہے ۔
۲۔ دوسرا یہ کہ تمام اِنسان کا حال شریعت کی مندوں سے بہت جُدا ہے۔
ہاں نوزادوں کو بھی صرف شریعت کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لئے بھی ہادی(ہدايت کرنے والا۔رہنما) ضرور ہے۔
یہ شریعت سب کے واسطے ایک ہی ہے اور بدلی نہیں جا سکتی۔ اگر چہ شریعتیں بہت سی کہلاتی ہیں۔ لیکن وہ اصل میں اسی شریعت کی کم و بیش کامل(مکمل) یا نا تمام نقلیں ہیں۔ شریعت کے جو حکم ہوتے ہیں اگرچہ وہ بالکل قطعی(کامل۔يقينی) نہیں ہوتے ۔ لیکن جب ہم انہیں اپنے حال سے مقابلہ کرکے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اس حاصل میں ہم کو کیا کرنا چاہیے تو بہت سے شک پیدا ہو سکتے ہیں اور ان شکوں کو دُور کرنا ہمار ی تمیز (جانچ۔عقل)ہی کا کام ہے۔
شریعت کی واقفیت کسی قدر ہر ایک آدمی میں موجود ہے اگر کسی ميں مطلق(آزاد۔بے قيد) نہ ہوتی تو اس کی آدمیت میں شک ہوتا ۔ جو لوگ اپنے کاموںمیں اس کا حکم نہیں پہچانتے ہیں وہ بھی اوروں کے کام کی نسبت خصوصاً ان فعلوں(کاموں) کی نسبت جو انہیں پر واقع ہوں اس کا نام جانتے ہیں ۔
اسی شریعت کی مخالفت بدی ہے۔ ( جہاں ایسی شریعت کی جس کا اختیار کُلی(کامل) ہے۔ اور جس کی ضرورت میں شک نہیں ہے مخالفت نظر آتی ہے وہاں بدی کا ظہور(اظہار) معلوم ہوتا ہے ) ۔ اور بدی یہ ہے کہ جو شریعت سب پر فرض ہے اس کے برخلاف کوئی آدمی اپنی ہی مرضی پر چلنے کی جرأت کرے۔ ہماری خواہشیں کتنا ہی زور کریں ۔ اور شریعت پر چلنا ہم کو کتنا ہی ناگوار معلوم ہو۔ مگر اس پر چلنا ہی ہماری سعادت (خوش نصيبی)ہے۔ اور اس سے منہ موڑنا باعث ِ ندامت(شرمندگی)۔ بے شک ہزاروں نیک کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے کرتے وقت شریعت کاخيال نہیں ہوتا لیکن اگر وہ شریعت کے مطابق نہیں ہیں تو نیک نہيں ہیں۔ شریعت ہم سے غیر اور ہماری مرضی اور خیالوں سےآزادہے لیکن ہماری خودمختاری کے سبب ہم پر حکومت رکھتی ہے۔ اور جہاں خود مختاری نہیں ہے وہاں وارد نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ نادانوں اور دیوانوں کو بدی کے ساتھ منسوب نہیں کر سکتے۔ اور نہ الحقیقت چھوٹے بچوں سے بھی بدی کے کام ہو سکتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں جو خود مختاری اور شریعت کی واقفیت کے بیج موجود ہیں۔
اس سے گناہ بھی اُن کے ساتھ ناقص طور پر منسوب ہو سکتے ہیں مقدس کتاب میں گناہ کی یہی تعریف پائی جاتی ہے۔ یوحنا کے پہلے خط کے ۳: ۴ (1)’’ گناہ شریعت کی مخالفت ہے ‘‘ ۔ یونانی میں جو حرف تعریف مکر ر (دوبارہ)لایا گیا اس سے یہ قول فی الحقیقت حد یعنی تعریف ٹھہرا۔
اس مقام میں میں شک پیش آتے ہیں۔
۱۔ کیا سب طرح کا گناہ شریعت کی مخالفت ہے؟ کیا بدی کاکام اور دل کی حالتِ بد دونوں شریعت کے برخلاف ہیں؟
جواب۔ ہاں ۔ کیونکہ نہ صرف کام دل کی حالت سے پیدا ہوتا ہے بلکہ دل کی حالت بھی کام سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور اگر کام شریعت کے برخلاف ہے تو جو کچھ کام سے پیدا ہوتا ہے وہ بھی اس کے برخلاف ہو گا۔ مقدس کتاب کی بھی گواہی اسی طرح کی ہے۔ ہاں رُسول شریعت کی نسبت کہتا تو ہے کہ جو اس کو کرتا ہے سو اس کے سبب سے جیئے گا۔ لیکن ان لفظوں میں کام اور حالت کے فرق کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ اپنی محنت اور ایمان کے فرق کا ذکر ہے ۔ رومیوں کے خط کے ۷: ۴ ۱۔ میں شریعت کو رُوحانی یعنی رُوح القدس کی مرضی اور خیالوں کے موافق لکھا ہے۔ اگر تمام دل کی حالت شریعت کے اختیار میں نہ ہوتی تو کس طرح اس سے گناہ کی شناخت(2) پیدا ہوئی۔ اور نیز اس صورت میں پابند شریعت آدمی کا راستباز نہ ہو سکنا شریعت ہی کی ناتمامی کے سبب سے ہوتا ۔ لیکن رومیوں کے خط کے ۸: ۳ میں صاف لکھا ہے کہ شریعت جسم کے سبب سے کمزور تھی۔ رومیوں کے خط کے ۷: ۱۳ اور ۱۴ کو دیکھو۔ مسیح کی نجات کا یہی مطلب ہے کہ شریعت کے لوازم ہم
(1) ۔ اے اوّل عد یعنی ۳ سے باب اور دوسرے یعنی ۴ سے آیت مراد ہے ۔ آئندہ بھی اس کتاب میں ایسا ہی سجھنا چاہیے۔ (2) ۔رومیوں کے خط کے ۳: ۲۰ کو دیکھو۔
سے پورے ہو سکیں۔ رومیوں کے خط کے ۸ : ۱۴ کو دیکھو اور گلتیوں کے خط کے ۳: ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں جو نقص ہے ۔ سو یہ نہیں ہے کہ وہ ہر طرح کی ۔ راستبازی کا حکم نہیں کرتی بلکہ یہ ہے کہ وہ خود زندگی نہیں بخش سکتی ۔ اور جب اس (1) جوان نے مسیح سے پوچھا کہ کیا چیز ہے جس سے میں ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو سکتا ہوں ؟ تو مسیح نے فرمایا کہ احکام کو پورا کر ۔ اس مقام پر ایک یہ بھی شک پیدا ہو تا ہے کہ اگر شریعت ہر طرح کی نیکی کو حاوی (غالب) نہیں ہے ۔ تو شاید بعض نیک کام ایسے بھی پائے جائیں گے ۔ جو مافوق الفرض یعنی شریعت کے احاطہ سے خارج ہوں ۔ رومی کلیسیاء کی تو یہی رائے ہے اور اس کے خاص معلم یوں کہتے ہیں ۔کہ مسیحیوں کی محبت شریعت کی پابند نہیں ہے بلکہ ہمیشہ شریعت کے لوازم (اسباب۔ضروری چيزيں)سے بڑھ کر اور زیادہ کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ذکر خصوصاً ریاضت (مشقت۔پيشہ وری)کی ذیل میں ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ریاضت کرنی اس کے نہ کرنے سے بہتر اور خُدا کو زیادہ پسندیدہ ہوتی تو ہم پر فرض ہی ہوتی ۔ اور جب کہ شریعت کا خلاصہ یہی کہ پوری محبت کریں تو کس طرح محبت شریعت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس غلطی کا سبب یہ ہے کہ رومی کلیسیاء میں دل کی حالتِ بد پر لحاظ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف افعالِ بد پر لحاظ ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے علما کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں گناہ بھی کرے اور زائد الفرض کام بھی لیکن وہ اس غلطی کے ثبوت کے واسطے متی ۱۹ : ۲۱ پیش کرتے ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ جب اس جوان نے کہا کہ ’’ میں نے سب احکام پورے کئے ‘‘ تو مسیح نے اس کو جھٹلایا نہیں بلکہ شریعت کے علاوہ کمال کی راہ اس کو بتائی ۔ لیکن جب اس نے وہ راہ اختیار نہ کی تو مسیح کے کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ کسی خاص کمال سے بلکہ خُدا کی بادشاہت ہی سے محروم رہا ۔ مسیح کا یہی مطلب تھا کہ وہ فی الحقیقت شریعت کو پورا نہیں کرتا تھا۔ بلکہ (2) پہلے حکم کے برخلاف اپنے دل میں ایک غیر معبود رکھتا تھا۔ پھر وہ لوگ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۹: ۱۲، ۱۸ سند اً پیش کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ پولوس اس کو ثواب سمجھتا تھا کہ مزدوری کے واسطے نہیں بلکہ بے اُجرت انجیل سناتا تھا۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو اپنے اختیار کو بُر ی طرح استعمال کرتا تو پھر کس طرح ایسا کرنا زائد الفرض ہو سکتا ؟ اس رائے کا زیادہ تر ثبوت اسی مقام سے ہو سکتا ہے جس پر استناد(سند پيش کرنا) کر کے اکثر پرو ٹسنٹنٹوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ یعنی لوقا ۱۷: ۱۰ میں مسیح کا جو یہ قول ہے کہ بندہ تمام احکام کو پورا کر کے اپنے تئیں نکما بندہ جانے کیونکہ ابھی تک اس نےصرف وہی کیا ہے جو اس پر فرض تھا ۔ اس سے یہ ُشبہ گذرتا ہے کہ اگر فرض سے کمال مراد ہے تو خود مسیح بھی نکما بندہ تھا اور نہیں تو یہ ثابت ہو تا ہے کہ کمال مافوق الفرض ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کمال کا کچھ ذکر نہیں ہے بلکہ صرف ظاہر ی طور سے شریعت پر عمل کرنے کا مذکور ہے اور مسیح کا یہ مطلب ہے کہ کمال اس طرح عمل کرنے سے مافوق ہے۔
۲۔ کیا بدی صرف شریعت کی مخالفت ہی ہے۔ یا اس میں نا تمام رہنا بھی بدی ہے؟ ۔
جواب۔ نہیں کیونکہ کمال اور بے عیبی میں بڑا فرق ہے اور اسی طرح ناتمامی اور بد ی میں بھی ناتمامی کا اصلی حال ہے۔ بدی اس کا اصلی حال نہیں ہے۔ کمال منزل کے طور پر اُس آگے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اس تک رفتہ رفتہ پہنچے۔ خُداوند مسیح ناتمام تھا اور رفتہ رفتہ کامل (مکمل)ہوتا گیا لیکن بے عیب ابتداء ہی سے تھا۔ ناتمامی کمال کا راستہ ہے ۔ بدی سے کبھی کوئی کمال کو نہیں پہنچتا ۔ کیونکہ وہ بالکل دوسرے راستے پر ہے۔
(1) ۔ متی کے ۱۹: ۱۶، اور ۱۷ کو دیکھو ۔ (2) ۔پہلے دوسرے وغیرہ حکم سے ان دس احکام کی طرف اشارہ ہے جو موسیٰ کو ملے تھے ۔
شریعت اور فرائض میں فرق ہے۔ شریعت سب کے واسطے برابر ہے اور اس میں حالتوں اور وقتوں کا کچھ لحاظ نہیں۔ فرض وہ ہے جو کسی ایک شخص کو کسی خاص وقت اور خاص حالت میں کرنا چاہیے ۔ ہر وقت اور ہر حالت میں ہر ایک آدمی پر کچھ نہ کچھ فرض ہے چاہے کسی کام سے باز رہنا ہی کیوں نہ ہو۔ اسی واسطے اگر ہم شریعت کا ذکر چھوڑ کر پوچھیں کہ کیا فرض کی صرف مخالفت ہی بدی ہے۔ یا اس میں نا تمام رہنا بھی بدی ہے؟ ۔ تو اس سوال کا جواب ہاں ہو گا ۔ کیونکہ اگر ہر لمحہ کا فرض پورا نہ ہوا تو اس کی مخالفت یعنی گناہ ہوا۔ لیکن اگر چہ ہم ہر وقت کے فرض کو ادا کریں پھر بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارا حال بالکل شریعت کے مطابق ہے یعنی ہم کامل ہیں۔
۳۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کی واقفیت بدی کی واقفیت کا سبب نہ ہو بلکہ شریعت کی واقفیت بدی کی واقفیت کا نیتجہ ہو۔ یعنی جب آدمی اپنے اصلی حال سے بگڑ کر بدی کی طرف مائل(متوجہ) ہوا۔ تو کیا اسی وقت شریعت اس کو نہیں معلوم ہونے لگی یہاں تک کہ بدی کو شریعت کی مخالفت کرنےو الی نہیں بلکہ شریعت کو بدی کی مخالفت کرنے والی کہنا چاہیے۔
جواب۔ نہیں ۔ یہ تو سچ ہے کہ شریعت راستباز(ايماندار) کے واسطے نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول تيمتھيس کے پہلے خط کے ۱: ۹ میں فرماتا ہے یعنی اگر ہم کامل ہوتے تو شریعت سے ہم کو کچھ واسطہ نہ ہوتا ۔ لیکن ناتمامی اور بدی ایک ہی نہیں ہے۔ اگر گناہ نہ ہوتا تو بھی جب تک ہم کامل نہ ہوتے شریعت ہمارے واسطے درکار ہوتی ۔ اگر گناہ نہ ہو تا تو شریعت کا ہر ایک حکم جس وقت فرض کے طور پر معلوم ہو جاتا اسی وقت عمل میں آکر رفتہ رفتہ ہم کو کمال تک پہنچا دیتا اور یہ معلوم نہ ہوتا کہ شریعت جبراً حکم کرتی ہے۔ مسیح کا یہی حال تھا اور اسی طرح سے وہ اپنے واسطے شریعت کی سندوں کا ذکر کرتا تھا۔ ناتمامی میں گناہ کا امکان تو ہے لیکن کسی چیز کے امکان اور ظہور(ظاہر ہونا) میں بڑا فرق ہے۔
دُوسرا باب
گناہ خُدا کی نافرمانی ہے
شخصیت (1) میں دو باتیں ہیں خود دانی اور خود مختاری ۔ خوددانی میں غیر دانی بھی شامل ہے کیونکہ ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر ہم غیر سے واقف نہ ہوتے تو اپنے تئیں اس سے الگ نہ کر سکتے ( خود دانی بغیر غیر دانی کے نہیں ہو سکتی اور اسی واسطے غیر دانی سےپیدا ہو تی ہے) ۔
لیکن وہ غیر کیا ہے؟ کیا و ہ دُنیا ہو سکتی ہے ؟ نہیں ۔ دُنیا نادان ہے یعنی اپنے تئیں نہیں پہچانتی اور نادان سے خود دانی ہرگز نہیں پیدا ہو سکتی ۔ پس یقیناً ہماری خود دانی اس خود دان سے پیدا ہوئی ہے جو دُنیا اور سارے شخصوں کا خالق ہے ہماری خود دانی کی بنیاد خُدا دانی ہے ۔ جتنا ہم اپنے میں غور کرتے ہیں اتنا ہی خُدا سے قریب ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم اپنے تئیں خوب سوچتے ہیں اس وقت دُنیا دانی کا پردہ پھاڑ کر اس کو پاتے ہیں ۔ جس سے ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔ خُدا کو ہم از خود پہچانتے ہیں۔ اور سب چیزوں کو صرف قیاس یا دلیل (خيال يا ثبوت)سے جانتے ہیں۔
اسی طرح ہماری خود مختاری (آزادی)میں تمیز یعنی شریعت کی پہچان شامل ہے اور وہ اس سے محدود ہے یہ دو چیزیں یعنی خُدا دانی اور شرع دانی آپس میں بڑا علاقہ رکھتی ہیں۔ سبب خُدا دانی کسی میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وقت اس کی تمیز بھی موثر ہوتی ہے ۔ جو خُدا دانی کو صحیح نہیں مانتا وہ شریعت کا بھی ادب نہیں کرتا ۔ اگر کہیں ایسے نیک آدمی ملیں جو خُدا کو نہ پہچانتے ہوں تو یہ شاذ (انوکھا۔غير معمولی)ہے۔ کسی قوم یا گروہ کا ایسا حال نہیں ہو سکتا۔
ان باتوں سے یہ ثابت ہے کہ شریعت کا بانی اور حاکم خُدا ہے۔ پس جو کچھ شریعت کی رو سے ہم پر فرض ہے وہ خُدا ہی کی طرف سے ہم پر فرض ہے۔ اور شریعت کی تابعداری خُدا کی فرمابنرداری ہے ۔ اگر شریعت کا بانی ایسا نہ ہوتا جو سب کا خالق اور مالک ہے تو کس طرح اس کا اختیار سب لوگوں پر ہوتا ۔ کس طرح شریعت سب کے واسطے یکساں (برابر)ہوتی ۔ اور خُد ا اس واسطے بھی شریعت کا بانی ہونے کے لائق ہے۔ کہ شریعت اس کی ذات کے واسطے نہیں ہے یعنی اگرچہ اس کا حال اور اس کے افعال (کام)بالکل شریعت کے مطابق ہیں لیکن شریعت کے محکوم ہون2ے کے سبب سے نہیں ہیں۔ بلکہ از خود ہیں ۔ وہ بالذات کمال نیک ہونے کے سبب سے شریعت کا محتاج(ضرورت مند) نہیں ہے۔ لیکن اور شخصوں کی جس طرح ہستی کا بانی ہے اسی طرح شریعت کا بھی بانی ہے۔ اِنسان تو اپنے اپنے واسطے قاعدہ نکال سکتے ہیں اور جب تک وہ ان کو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر چل بھی سکتے ہیں ۔ لیکن وہ جو فی الحقیقت شریعت ہے اور جس میں متفرق رازوں کے بدلتے رہنے سےتغیر و تبدل (فرق۔تبديلياں)نہیں ہوتا ۔ اور ہر چند اس کو ٹالو مگر وہ اپنا اختیار جتائے بغیر نہیں رہتی وہ آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ صرف خُدا ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے۔
ان باتوں سے یہ ثابت ہوا کہ بدی نہ صرف شریعت کی مخالفت ہے بلکہ خُدا کی نافرمانی بھی ہے اور اسی سبب سے وہ گناہ کہلاتی ہے۔ اگر شریعت خُد اکی طرف سے نہ ہوتی تو ہم اس کی نافرمانی کو بدی تو کہہ سکتے لیکن گناہ نہ کہہ سکتے۔
(1) ۔اس کتاب میں ہم نے شخص اس سے مراد رکھی ہے جس میں خود دانی اور خود مختاری ہو۔ اس واسطے خُدا اور فرشتے اور اِنسان لفظ شخص کے ساتھ تعبیر کئے جائیں گے ۔ حیوان اور مخلوقات جو اِنسان سے ادنیٰ ہے وہ شخص میں داخل نہیں ۔ آدمی کی شخصیت اس کی رُوح ہی میں ہے۔ جسم سے غرض نہیں۔
تیسرا باب
گناہ خود غرضی ہے
اُوپر ہم گناہ کی یہ تعریف کر چکے ہیں کہ وہ شریعت کی مخالفت اور خُدا کی نافرمانی ہے لیکن یہ تعریف دلالت(ثبوت) (1) التزامی(کسی بات کو ضروری قرار دينا) کے طورپر تھی۔
اب ہم اس کی تعریف دلالت مطابقی کے طور پر کرتے ہیں۔ جس سے اس کی ذاتِ کما ہو معلوم ہو گی یعنی یہ بتاتے ہیں۔ کہ گناہ کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ اس کے واسطے پہلے یہ دریافت کرنا چاہیے کہ نیکی کیا ہے؟ ان دونوں کی انواع (اقسام)بے شمار ہیں۔ اور اسی سبب سے ان دونو ں میں سے ہر ایک کی ایک حقیقت ٹھہرانی بہت مشکل ہے مگر غیر ممکن نہیں ہے ۔ ورنہ سب طرح کی نیکی کو کیوں نیکی کہیں اور سب طرح کی بدی کو کیوں بدی کہیں۔ نیکی اور بدی کی حقیقتیں تجربہ کيےبغیر معلوم نہيں ہو سکتیں بلکہ اس کے بعد تامل (سوچ بچار)کرنے سے دریافت (معلوم)ہوتی ہیں۔ اور اکثر آدمی کسی طرح ان کو نہیں پہچانتے ۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یہاں ایک یہ شک پیدا ہوتا ہے ۔ کہ کیاخُدا کی مرضی اور خلافت ِمرضی کے سوا نیکی اور بدی کی اورحقیقتیں ٹھہر سکتی ہیں یعنی کیا یہ کافی نہیں ہے۔ کہ جو کچھ خُدا چاہتا ہے وہ نیک ہے اور جو کچھ وہ نہیں چاہتا وہ نیک نہیں ہے بلکہ بد ہے۔ یہ رائے یورپ کے بعض معلموں کی ہے۔ بلکہ دے کرت کا یہ مذہب ہے کہ علم ِریاضی اور علمِ منطق کے قواعد بھی خُدا کی محض مرضی سے ہیں یعنی اگر خُدا چاہتا تو انہیں بدل سکتا ۔
لیکن خُدا کی خود مختاری بے قاعدہ نہیں ہے۔ خُدا کے حکم نہ صرف فرمان ہیں بلکہ اس کی ذات و صفات کے ظاہر کرنے والے بھی ہیں ۔ ورنہ ہم کبھی نہ جان سکتے کہ خُدا کیسا ہے ۔ دُنیا اور ہمارے دل کی گواہی بالکل بے فائدہ ہوتی ۔ صرف اس کی قدرت ہی معلوم ہوتی ۔ اور ایسے خیال سے بے دینی کچھ دُور نہیں ہے۔
ایسی خو د مختاری آزادی نہیں بلکہ اتفاقات کی تابعداری ہے۔ جو کوئی محض اس وجہ سے کچھ کرنا چاہتا ہے کہ اس فعل (کام) کو اس کا جی چاہا ہے وہ صرف وہی کرنا چاہتا ہے جو اسی وقت کی اتفاقی حالت سے اس کے دل میں آیا ہے۔ لیکن جس کو اس بات کا علم بھی ہے کہ یہ میری خواہش کیوں ہے وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے خود مختاری کے ساتھ چاہتا ہے۔ بے قاعدگی آدمی کے ساتھ تو منسوب ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں علم اور مرضی دونوں جُدا جُدا ہو سکتی ہیں لیکن خُدا کے ساتھ نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ اس کے خیالوں کی سچائی اور حکمت اور راستی کے مطابق ہی اس کی مرضی بھی ہمیشہ ہوتی ہے۔
(1) جس شے کے لئے کوئی لفظ وضع ہوا ہوا گر وہ اس شے کے تمام معنی پر دلالت کرے تو اس دلالت کو دلالت مطابقی کہتے ہیں جیسے اِنسان کی دلالت حیوان ناطق پر اور اگر وہ لفظ ایسے معنوں پر دلالت کرے جو اس سے کی ذات میں نہیں بلکہ خارجاً اس کو لازم ہیں تو ایسی دلالت کو دلالت الزامی کہتے ہیں جیسے اِنسان کی دلالت خُدا ۔۔۔۔ہنسنے والا )پر۔
ہاں خُدا کو مانے بغیر شریعت کو ماننا محض نادانی ہے۔ مگر پھر بھی شریعت خُدا کی محض مرضی سے نہیں ہے بلکہ اس کے علم ہی میں ا س کی بنیاد ڈالی گئی ہے ۔ جب ا س کی یہ مرضی ہوئی کہ جو اس کے علم میں ہے۔ وہ مخلوقات پر ظاہر کرے تو اس وقت شریعت کا ظہور(ظاہر ہونا) ہوا ۔ جو لوگ خُدا کے بالکل منکر(انکار کرنا) ہیں ۔ وہ بھی اس کی شریعت کو بالکل اپنے دلوں سے نہیں مٹا سکتے۔ اگرچہ آدمی نے خُدا کو چھوڑ دیا ہے۔ مگر پھر بھی اس کی طرف سے ایک ایسا علاقہ (تعلق)رہتا ہے جس سے آدمی پھر اس کی طرف آسکے ۔ بعض لوگ تو رومیوں کے ۴: ۱۵ سے یہ بات نکالتے ہیں کہ نیک و بد کا فرق شریعت ہی سے ہوا نہ کہ شریعت نیک و بد کے ازلی ابدی فرق کے مطابق بنی ہے۔ لیکن یہ بات اس آیت سےثابت نہیں ہو سکتی ۔ اس میں تو شک نہیں کہ جہاں کچھ شریعت نہیں ہے وہاں اس سے عدول (انکار)بھی نہیں کیا ہے۔ لیکن اس میں نیک و بد کی اصل کا کچھ ذکر نہیں ہے۔
رومیوں کے ۷: ۷ ، ۱۲ میں جو لکھا ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ باوجود شریعت جو بُرے کام ہوتے ہیں ۔ ان کی بانی شریعت نہیں ہے کیونکہ یہ پاک اور بے عیب(بے نقص) ہے۔ اور رومیوں کے ۸ : ۷ سے ثابت ہے کہ بدی شریعت سے نہیں پیدا ہوئی ورنہ پولوس اگرچہ یہ لکھ سکتا ’’ وہ تابعدار نہیں ہے‘‘ ۔ مگر نہ لکھ سکتا کہ ’’ وہ تابعدار ہو سکتا بھی نہیں ‘‘۔
اگر نیکی کی حقیقت ہم سے دریافت نہ ہو سکتی تو شریعت ہمارے لئے ظاہر ی حروف ہی رہتی اور ہمیں اس کے مختلف احکام کو جُداگانہ ماننا ضرور ہوتا ہے ۔ لیکن چونکہ مسیحی لوگ شریعت کے جوئے سے سبکدوش (آزاد۔بَری)ہیں ۔ اور رُو ح (1)القدس اُن سے شریعت کے اعمال کراتا ہے تو یقین ہے کہ ہم شریعت کا وہ خلاصہ سمجھ بھی سکتے ہیں جس سے اس کے مختلف احکام کا اتحاد(ملاپ۔ايکا) معلوم ہو جائے۔
نیکی کیا چیز ہے؟ اس سوال کا جواب اس بات کے دریافت کرنے سے معلوم ہوگا کہ کس سبب سے اسے کرنا ضرور ہے ۔ جو کچھ شریعت پر عمل کرنے کا سبب ہونے کے لائق ہے وہی شریعت کا خلاصہ بھی ہو گا۔ شریعت پر اس کی خوبی کے سبب اور جہنم کے ڈر اور بہشت کی اُمید اور سببوں سے عمل کیا جاتا ہے ۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسا لائق سبب نہیں معلوم ہوتا جس سے ہر وقت اور ہر حالت میں اس پر عمل کیا جائے ۔ جب یہ بات ہے تو پھر وہ کون سا لائق سبب ہے ؟ وہ لائق سبب خُدا کی محبت کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔
جب مسیح سے پوچھا گیا کہ شریعت کا سب سے بڑا حکم کون ساہے تو اس نے فرمایا کہ ’’ محبت کرنی ۔ خُدا اور اپنے پڑوسی سےمحبت رکھو‘‘۔
(1) ۔رومیوں کے ۸: ۴ کو دیکھو۔
اور اس لئے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ حکم اور حکموں سے صرف بڑا ہے مسیح نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ ان ہی دو احکام پر ساری شرع اور سب نبیوں کی باتیں موقوف (ٹھہرايا گيا)ہیں ‘‘ ۔ یہاں اگرچہ مسیح نے دو حکم فرمائے لیکن پھر جب خُدا کی محبت کے حکم کی نسبت یہ کہا کہ ’’ پہلا اور بڑا حکم یہی ہے ‘‘ ۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسی ایک پہلے حکم میں دونوں کی اصل پائی جائے گی۔
پس خُدا نہ صرف سب سے زیادہ بلکہ صرف وہی اکیلا ہمارے محبت کرنے کے لائق ہے۔ جو محبت اُ س کی محبت میں محو (مصروف)ہے وہی محبت قائم اور حقیقی ہے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے سارے دل سے خُدا سے محبت رکھ سکتے ہیں۔ ایسی محبت کے ساتھ اور کوئی محبت شریک نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں محو ہو گی۔
یہ بات کہ نیکی کی اصل خُدا کی محبت ہے بائبل کی اور آیتوں سے بھی ثابت ہے۔ مسیح نے( یوحنا ۱۴ :۳۱ ۔۱۵ :۱۰ ) ميں خُدا کی محبت کو اپنی نيکی کی اصل کہا۔اور يوحنا ۱۴: ۱۵، ۲۱، ۲۲، ۲۴ اور ۱۵: ۱۰ میں اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ میری محبت ہی سے تم میرے حکموں پر چل سکو گے۔
اسی طرح متی ۱۹: ۱۷ میں جب اس جوان نے نیکی کو کوئی ظاہر ی چیز اور خُدا سے علیٰحدہ سمجھ کر پوچھا کہ کون سا نیک کام کرکے میں ہمیشہ کی زندگی پاؤں تو مسیح نے ( صحیح نسخوں کے موافق) اسے جواب دیا کہ ’’ تو مجھ سے نیکی کے باب میں کیا پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے ‘‘ ۔ اور وہ چیز کام نہیں بلکہ شخص یعنی خُدا ہے۔ اس سے مسیح کا یہ مطلب تھا کہ تو اسی نیک شخص سے ملے گا ۔ تو ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔ لیکن خُدا کی محبت کس طرح ظاہر ہو گی ؟ اس کے حکموں کے ماننے سے ۔
اور جب اُس جوان نے کہا کہ ان سب کو میں مان چکا ہوں تو مسیح نے اسے ایک ایسا حکم بتایا جس سے معلوم ہو کہ آیا وہ جوان خُدا سے فی الحقیقت ایسی محبت رکھتا تھا یا نہیں جس کے بغیر اور کوئی حکم درستی سے مانا نہیں جاتا ۔
آدمیوں میں محبت اوّل انصاف کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ جب بچہ رفتہ رفتہ یہ پہچانتا ہے کہ اور لوگوں کے بھی حق ہیں اور ان کے واسطے اپنی خواہشوں کو روکنا ضرور ہے۔ اور جب بالغ اپنے ملک کے قانونوں یا اپنے بادشاہ کے فرمانوں کی تعمیل کئے جانے کے لئے سرگرم ہوتا ہے ۔اس وقت فی الحقیقت محبت کے سایہ اور عکس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ لیکن جب آدمی خُدا کو اپنا مقصود(غرض۔ارادہ) جانتا ہے۔ اور سب چیزوں کو اس کے تحت میں دیکھتا ہے اس وقت محبت اپنی ذات اور اصلی صورت دکھا دیتی ہے۔ جو خُدا سے محبت رکھتا ہے اس میں نہ صرف جوش اور سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ جو پھر ٹھنڈی ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس کو وہ قطب نما(قطب کی سمت معلوم کرنے والا آلہ) مل گیا ہے جس سے وہ اس دنیا کے اندھیرے سمندر سے بے خطر پار ہو سکتا ہے ۔
جو کچھ خُدا کا ہم پر فرض ہے۔ ادب ۔ فروتنی ۔ فرمانبرداری، تو کل اُمید وغیرہ سب اس کی محبت ہی سے پیدا ہو ا ہے۔ بلکہ یہ سب محبت کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایمان بھی جو اکثر ساری دینداری کی جڑ معلوم ہوتی ہے ۔ محبت پر موقوف ہے۔ محبت کوئی دوسری چیز نہیں جو ایمان سے بڑھ جائے بلکہ جو چیز بغیر محبت کے ایمان معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایمان نہیں ہے ۔ پس اور نیکیاں جس قدر خُدا کی محبت سے پیدا ہوتی ہیں اسی قدر نیک ہیں کیونکہ اور نیکیاں خاص وقت یا خاص حالتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ لیکن محبت کسی وقت یا حالت کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتی کیونکہ خُدا کی محبت نہ صرف اس کی نعمتوں کی احسان مندی ہے۔ بلکہ اس کی ذات ہی سے اس کے کمال کے سبب محبت رکھنی ہے۔
اگرچہ خُدا کی محبت ہماری مرضی پر موقوف ہے پھر بھی ایک دفعہ چاہنے سے نہیں ہو سکتی ۔ خُدا کی طرف سے اس کی محبت کا سبب اس کا فضل ہے اور آدمی کی طرف سے اس فضل کو قبول کرنا۔
محبت صرف شخص ہی سے ہو سکتی ہے کیونکہ اسی میں اپنی بہبودی(بہتری ۔بھلائی) پیدا کرنے کی قابلیت ہے۔ اور محبت کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص اپنی بہبودی پیدا کر سکتا ہو اور پھر نہ کرے بلکہ اپنےمحبوب کی بہبودی اور خیر خواہی میں اس قدر محو ہو جائے کہ اپنی بہبودی کی پروا نہ کرے۔ جو ہم اور تم کا فرق جانتے ہیں وہی محبت کر سکتے ہیں۔
جب آدمیوں میں غایت درجہ(انتہائی۔حد درجہ) محبت ہوتی ہے۔ تو کبھی کبھی اس کے ساتھ کامل اتحاد(مکمل ملاپ) کی خواہش پیدا ہوتی ہے یعنی وہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے تئیں اپنے محبوب میں فنا کر دیں۔ لیکن ایسی محبت اندھی ہے اور اپنی غرض کو نہیں پہچانتی ۔ اگر اس کی خواہش کے موافق ہوتا تو محبت ہی معدوم (فنا)ہو جاتی ۔ محبت کی غرض فی الحقیقت یہ ہے کہ محبوب کی مقاربت(نزديکی ۔صُحبت) میں کوئی مانع(انکار) نہ ہو ۔ بلکہ کب اپنے محبوب پر اپنے تئیں بخوبی ظاہر کر سکے۔ اور اسی طرح اس کو بھی بخوبی پہچان سکے۔
بیان مذکور کے مطابق ان لوگوں نے جو یورپ میں سُتک اور آسیہ (1)میں صوفی کہلاتے ہیں ہر زمانہ میں یہ سمجھا کہ خُدا کی محبت اسی وقت کامل ہوتی ہے جب آدمی اس طرح خُدا میں مل جائے جس طرح سمندر میں قطرہ خواہ زندگی میں وجد (بے خودی کی حالت)کے سبب ( جس کو یورپ میں اکستاسی کہتے ہیں ) ۔ صرف اپنی دانست(سمجھ) میں خواہ موت کے بعد فی الحقیقت یہ غلطی ایک بہت عمدہ خیال سے پیدا ہوئی ہے۔ لیکن جب اس خیال کی کشتی محبت کے بڑے سمندر کا سفر کر کے ساحل مقصود کے نزدیک پہنچی اسی وقت پنتھے اسما (2)کی چٹانوں سے ٹو ٹ گئی ۔ اگر خُدا میں ملنا ہی اِنسان کا کمال ہے تو یہ کمال اِنسان کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اس کے حاصل کرنے کے واسطے اِنسانیت کو چھوڑنا ضرورہے ہر ایک شخص کی رُوح ایسی ہے ۔ کہ جس کی تقسیم نہیں ہو سکتی اوراس سبب سے وہ دوسرے میں نہیں مل سکتا ۔ اگر محبت کا کمال اس کی فنا پر موقوف ہوتا تو محبت بے معنی ہوتی ۔ برعکس اس کے جو خُدا کی محبت سے اپنے تئیں اسے سونپ دیتا ہے وہ اپنے تئیں کھوتا نہیں۔ بلکہ اسی وقت اپنے تئیں پاتا ہے یعنی اسی وقت اس کی شخصیت اپنا پھل دیتی اور بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ خُدا کی محبت سے غرض یہی ہے کہ ہم بے مزاحمت اس کے ساتھ مقاربت(نزديکی) رکھیں۔ اور مقدس کتاب میں جو سب سے عمدہ انعام موعود (وعدہ کيا گيا)ہے۔ وہ یہی ہے۔ بعض کی یہ رائے ہے کہ کرنتھیوں پہلے خط کے ۱۵: ۲۸ سے جس میں لکھا ہے کہ ’’ تا کہ خُدا سب میں سب کچھ ہو ‘‘ یہ ثابت ہے کہ آخر سب کچھ خُدا میں مل جائے گا ۔ لیکن اگر ایسا ہو تا تو کس طرح خُدا سب میں سب کچھ ہو سکتا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی نہ رہتا ۔
(1) ۔ جس کو عام لوگ ایشیاء کہتے ہیں۔ (2) ۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ خُدا ہی سب کچھ ہے اور دنیا صرف اس کی صورت ہے اور خالق اور مخلوق میں کوئی حقیقی فر ق نہیں ان کو یورپ میں پنتھے اسٹ کہتے ہیں اور ان کی رائے کو پپنتھے اسماوید انت ایک قسم کا ۔۔۔۔اسما ہے۔
نہ ہو سکتی یعنی اس سے کوئی بے شمار شاخوں والا درخت پیدا نہ ہوتا کیونکہ ان کی رائے کے مطابق خُدا کی محبت ہی ایک نیکی ہے اور اس دُنیا سے کچھ بھی علاقہ رکھنا اس کے برخلاف ہے لیکن جب کہ خُدا نے اور چیزیں پیدا کیں اور اپنے علاقہ میں رکھیں تو جو آدمی اپنے تئیں خُدا کو سونپ کر اپنے پر اس کا حق مانتا ہے اس پر ان چیزوں کا بھی حق ہوگا۔
مخلوقا ت کے ساتھ جو کچھ کرنا ہم کو لازم ہے وہ خُدا کے تین کاموں پر موقوف ہے۔
۱۔ خلقت ۔ خُدا نے اپنے سے علیحدہ طرح طرح کی چیزیں پیدا کیں۔ اور وہ انہیں اپنے علاقہ میں رکھ کر اپنے تئیں ان سے ظاہر کرتا اور ان سے خوش رہتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے ۔ کہ مخلوقات کا خُدا کی محبت کے سبب سے ہم پر حق ہوتا ہے۔
۲۔ اشخاص کو اپنی صورت پر پیدا کرنا ۔ اس سبب سے ہم پر آدمیوں کا حق باقی تمام مخلوقات کے حق سے نہایت زیادہ ہے۔ اسی واسطے خُدا کی محبت کے بڑے حکم کے ساتھ مسیح نے دوسرا حکم بھی دیا کہ ’’ اپنے پڑوسی کو اپنے برابر دوست رکھو ۔ ‘‘ ہم جنسی کے سبب اس حکم کا ماننا تو آسان ہوتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی فرضیت(فرض ہونا) اس سے ہو ۔ لیکن جب ہم یہ جانتے ہیں کہ آدمی میں خُدا کی صورت ہے تو یہ بھی بہت صاف ہے کہ جو خُدا سے محبت رکھتا ہے وہ اس کے سب ہم صورتوں سے بھی محبت کر تے گا۔ پیدائش کے ۹: ۶ میں آدمی کے قتل اور( یعقوب کے ۳: ۹ سے ۱۱ تک) آدمی کے لعن طعن کرنے کی بدی اسی پر موقوف کی کئی ہے کہ آدمی خُدا کی صورت پر پیدا ہو ا ہے۔
۳۔ کلام اللہ کا مجسم ہونا اور اس کے سبب گنہگار آدمیوں کا نجات پانا اور پھر اسی سے زمین پر خُدا کی بادشاہت قائم ہوئی ۔ جو لوگ ان باتوں کو مانتے ہیں انہیں اور آدمیوں کی نسبت سب طرح کی نیکی کرنی نہایت آسان ہے۔ اور پھر ان پر آپس میں ایک دوسرے کا حق ایسا ہوتا ہے کہ اور باقی مخلوقات کا نہیں ۔
پس جب کہ یہ بات قرار پا گئی کہ نیکی کی جڑ خُدا کی محبت ہے تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس محبت کا نہ ہو نا یعنی خُدا سے دل کو پھیرے رکھنا سب طرح گناہ کی جڑ ہے ۔
رومیوں کے خط کے پہلے با ب سے ثابت ہے کہ جب آدمیوں نے خُدا کو چھوڑ کر مخلوقا ت کی پرستش کرنی شروع کی اسی وقت اور اسی سبب سے وہ مخلوقات کے غلام ہو کر طرح طرح کی خراب شہوتوں میں پھنس گئے۔ یہاں تک کہ اپنی عقل اور خود مختاری کو جن کے سبب وہ حیوان سے ممتاز(برتر) ہیں۔ ایسے ذلیل کاموں میں خرچ کیا کہ حیوانوں سے بدرجہ ہا بدتر ہو گئے ۔ لیکن پولوس کے کہنے سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ ساری خرابیاں صرف اسی سبب سے نکلیں کہ آدمی خُدا سے پھر گیا اور خُدا کے لائق اس کی بزرگی نہ کی اور نہ اس کی شکر گزاری کی اور خُدا کی سچائی کو جھوٹ سے بدل ڈالا اور صانع (خالق)کی نسبت مصنوع (مخلوق)کی زیادہ پرستش اور بندگی کی۔ اس مقام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدمی پہلے خُدا سے محبت رکھتا تھا کہ جس طرح خُدا نے آدمی ہی کو پید ا کر کے آرام پایا۔ اسی طرح آدمی بھی خُدا ہی کو پا کر آرام سے رہ سکتا ہے ۔ جب خُد ا کی خواہش کسی ایک شخص کے دل سے جاتی رہتی ہے تو اوروں کی دینداری کے سبب ممکن ہے کہ وہ بہت سی طرح کی بدی سے بچا رہے۔ لیکن جب کسی قوم سے جاتی رہتی ہے تو وہ گناہ کے رو سے ضرور ڈوب جائیگی ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہے ۔ کہ خُدا کی واقفیت کچی اور پکی بھی ہوتی ہے اسی سبب سے جب انجیل کسی کو سنائی اور سمجھائی جاتی ہے۔ اور وہ قبول نہیں کرتا تو اس وقت گناہ اپنی حقیقت بالکل ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ اس حال میں خُدا کی سب سے زیادہ صاف محبت دیدہ و دانستہ(جان بوجھ) رو کی جاتی ہے۔ اسی سبب سے مسیح یا اس کے کلام کے دُنیا میں کسی جگہ آنے سے اس جگہ عدالت ہوتی ہے یعنی وہاں کے لوگوں کی اندرونی حالت ظاہر ہوتی ہے۔ دیکھو یوحنا کے ۹: ۳۹ اور متی کے ۲۱: ۴۲ اور ۴۴ اور پطرس کے پہلے خط کے ۲: ۶ سے ۸ تک ۔
لیکن محبت بالکل معدوم (نابود)نہیں ہے بلکہ ضرور ہے کہ آدمی کسی نہ کسی سے محبت رکھے ۔ اگر وہ اس سے محبت نہیں رکھتا جو محبت کے لائق ہے تو خواہ مخواہ اس سے رکھے گا جو محبت کے لائق نہیں ہے۔ جب خُدا اس کا معبود نہ ٹھہرا تو کوئی بُت اس کا معبود ہو گا۔ یہ بُت کیا ہے؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ دُنیا ہے۔ لیکن دنیا سے کیا مراد ہے ؟ دُنیا کے شخص یا بے جان چیزیں ۔ جو شخص نہیں ہے اس سے تو فی الحقیقت محبت نہیں ہو سکتی ۔ بلکہ آدمی صرف اس لئے اس کا طالب ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوشی وغیرہ کا وسیلہ سمجھتا ہے۔ پھر ممکن نہیں ہے کہ جو شخص اس سے جو کمال محبت کرنے کے لائق ہے اپنا دل روک رکھے دو آدمیوں سے محبت کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ آدمی کا بُت خود آدمی ہی ہے کیونکہ وہ اپنے ہی واسطے دُنیا کی چیزوں کو چاہتا ہے ۔ اور اپنے ہی واسطے وہ آدمیوں کی صحبت اور کسی قدر ان کا فائدہ بھی چاہتا ہے۔
پس گناہ کی اصل اور حقیقت خود غرضی ہے۔ ظاہر ا ًمعلو م ہوتا ہے کہ اکثر کام نہ تو خُدا کی محبت سے کئے جاتے ہیں ۔ نہ خود غرضی سے ۔ یہ سچ ہے کہ دونوں مطلب اکثر صدور(صادر ہونا) فعل(کام) کے وقت فاعل(کام کرنے والا) پر ظاہر نہیں ہو ئے۔ لیکن جب کسی سبب سے اپنے دل کو آزمایا ہوتا ہے تو اس وقت وہ یہ جان لیتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک نہ ایک ہر ایک کام کی اصل ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ نہ صرف بے انتظامی ہے بلکہ بد انتظامی بھی ہے ۔ نہ ظاہر ی طریق کا غبار(گرد) ہے۔ جس کو جھاڑ ڈال سکیں بلکہ ایک حقیقی بگاڑ ہے جو ہمارے دل کے اندر پھیل گیا ہے ۔ گناہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے تئیں خُدا سے علیحد ہ دیکھتا ہے اور اپنے تئیں اپنا مقصود بناتا ہے ۔ایسے آدمی بھی ہیں جو ایسے گناہ بہت ہی کم کرتے ہیں جن کے سبب ان کا دل ان پر الزام لگائے ۔ لیکن وہ نہ خُدا کے واسطے زندگی گزارتے ہیں اور نہ اور آدمیوں کے واسطے ۔ جب ان میں سے کوئی خُدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور خُدا کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس وقت اپنا تمام پچھلا حال جو ظاہر میں بے عیب (پاک۔صاف) تھا گناہ آلودہ اور مکروہ دیکھتا ہے کیونکہ گناہ اگرچہ اندر ہی مخفی(پوشيدہ۔چُھپا ہوا) ہوتا ہے۔ اور دُنیا کو عبرت(نصحت پکڑنا۔خوف) نہیں بخشتا پھر بھی اپنی ساری قدرت سے دل پر حکومت کرتا ہے۔
اس سے یہ نیتجہ نہیں نکلتا کہ اپنا فائدہ اور بہتری چاہنی گناہ ہے بلکہ خُدا نے ایسا قاعدہ باندھا ہے کہ شریعت ہی پر چلنے سے آرام اور خوشی ملتی ہے۔ لیکن جب کسی نے اپنے آرام اور خوشی کو اپنا خاص مطلب اور مقصد بنایا تو نہ وہ حاصل ہوئی اور نہ نیکی۔
خود خواہی (1)دو طرح کی ہے ۔ ایک تو سب جانداروں کی ہے جس سے وہ اپنی زندگی اور خوشحالی کی حفاظت کرتے ہیں ۔ دوسری صرف آدمیوں کی ہے یہ پہچان سکتے ہیں کہ خود ہمارا بھی حق ہم پر ہے اور کسی قدر اپنی بہتر ی میں کوشش کرنی نہ صرف جائز ہے بلکہ ہم پر فرض بھی ہے ۔ یہ دونوں طرح کی خود خواہی گناہ نہیں ہے ۔ مقدسِ کتاب کے اس بیان سے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے برابر پیار کر صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ اپنے تئیں بھی پیار کرنا چاہیے ۔ ورنہ یہ حکم ہوتا کہ تو اپنے تئیں نہیں بلکہ صرف اپنے پڑوسی کو پیار کر۔
(1) ۔ یعنی اپنے تئیں چاہنا اور پیار کرنا۔
اس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ جب خود خواہی صفت نیک ٹھہری تو خود غرضی کس طرح گناہ کی حقیقت ہو سکتی ہے؟ پس کیا نیکی اور بدی کا فرق صرف درجوں ہی کا فرق ہے؟ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ ہم کو اپنی بہتری اسی غرض سے چاہنی چاہیے کہ ہم سے اوروں کا زیادہ فائدہ ہو۔ لیکن اگر اس وجہ سے کہ ہم قیدی ہوں یا اور کسی سبب سے آدمیوں کے دل میں کچھ اثر نہ کر سکتے ہوں تو بھی ہم کو اپنے نفس کا حق ادا کرنا ضرور ہے۔ مگر صحیح جواب یہ ہے کہ جس طرح پہلے خُدا سے محبت رکھنی چاہیے اور پھر اس کے سبب اور آدمیوں سے اسی طرح خُدا کی اسی محبت کے سبب اپنی ذات کو بھی جو خُدا کی صورت پر ہے چاہنا چاہیے۔ جو کوئی اپنے تئیں بگاڑتا ہے وہ خُدا کی صورت کو بگاڑتا ہے جو اپنی بے عزتی کرتا ہے وہ خُدا کی صورت کی تحقیر(حقارت۔نفرت) کرتا ہے۔ اور جو اپنے تئیں خُدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ وہ خُدا کےہاتھ سے اپنے تئیں پھر پاتا ہے یعنی وہ حقیقی خود مختاری اور آزادی حاصل کرتا ہے اور اس طرح اپنی حقیقی بہتری کے لئے کوشش کرتا ہے۔ جو خود خواہی اس طرح کی نہیں ہے وہ خود غرضی یعنی عین گناہ ہے۔
یہ بات کہ خود غرضی گناہ کی اصل ہے مقدس کتاب سے خوب ثابت ہے۔ جب گناہ کا پہلا خیال آدمی کو پیش (1) آیا ۔تو اس نے خُدا سےآزادی بلکہ اس کی برابری کا ارادہ کیا۔ پھر گمراہ (2) بیٹے کی تمثیل کہ اس کی خرابی اس سے شروع ہوئی ۔ کہ اس نے اپنے باپ سے الگ اپنے لئے مال چاہا اور پھر اس کو پا کر اپنے باپ کے گھر سے بالکل جُداہو گیا۔ اور جب پولوس نے غایت درجہ (انتہائی درجہ)کے گناہ یعنی دجال(مخالفِ مسيح) کا حال بیان کیا تو کہا کہ ’’ وہ (3) مرد ِگناہ خُدا کی ہیکل میں خُدا بن بیٹھے گا اور اپنے تئیں دکھائے گا کہ میں خُدا ہوں ‘‘۔ اوریہ صاف ظاہر ہےکہ دینداری کےواسطے جس چیز کا ترک کرنا ضرور ہے وہ گناہ کی حقیقت ہے۔ لیکن جب مسیح اپنی کامل نیکی ظاہر کرنا چاہتا تھا تو یوں فرما تا تھا کہ ’’ میں (4) اپنی مرضی نہیں بلکہ باپ کی مرضی چاہتا ہوں ‘‘۔ اور میں اپنی بزرگی نہیں بلکہ باپ کی بزرگی ڈھونڈھتا ہوں۔ اسی طرح پولوس مسیح کے حق میں کہتا ہے کہ ’’ وہ اپنی خوشی نہیں چاہتا تھا ‘‘ ۔ اور اسی طرح ہم لوگوں کی نئی پیدائش کا بھی یہ بیان ہے کہ ہم خو د غرضی چھوڑ کر صرف خُدا کے واسطے زندگی بسر کریں ( لوقا ۱۴ : ۲۶ ۔یوحنا ۱۲: ۲۵ ، کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۵: ۱۵ کو دیکھو ) اور مسیحیوں کا چال چلن یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی خود غرضی میں نہیں بلکہ خُدا کی مرضی اور آدمیوں کی بہبود میں صرف کریں ( رومیوں کے خط کے ۱۴ : ۷، ۸ ۔ اور کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۰ : ۲۴، ۳۳ ، فلپیوں کے خط کے ۲: ۴، ۲۱ کو دیکھو۔
(1) ۔ پیدائش کے ۳: ۵ کو دیکھو۔ (2) ۔لوقا ۱۵: ۱۲ کو دیکھو ۔ ۲ تھسلینکیوں کے دوسرے خط کے ۲: ۴ کو دیکھو ۔ (3) ۔یوحنا ۵: ۳۰ ، ۷: ۱۸ ، ۸: ۵۰ کو دیکھو ۔ (4) ۔ رومیوں کے خط کے ۱۵ : ۳ کو دیکھو۔
اوگتسین سے لے کربہت سے مسیح معلم غرور کو گناہ کی اصل کہتے آئے ہیں۔ لیکن وہ غرور کا بیان اس طرح کرتے ہیں کہ ’’ غرور فی الحقیقت خُدا کے عوض اپنےسے محبت رکھنی ہے ‘‘۔ اور لوتھر اور کانوین اوراَور مصلحوں نے بے ایمانی کو گناہ کی اصل کہا ہے لیکن بے ایمانی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا خُدا کو چھوڑ کر اپنے تئیں پسند کرنے سے نکلتی ہے۔
بعضوں کی رائے یہ ہے کہ گناہ کی دو اصلیں ہیں یعنی جسم اور خود غرضی ۔ لیکن ان کو یہ اقرار کرنا ضرور ہے کہ جسمانی گناہ کو خود غرضی لازم ہے اور خود غرضی کو جسمانی گناہ لازم نہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود غرضی ہی اصل ہے۔
اب یہ دریافت کرنا چاہیے کہ خود غرضی سے کس طرح ہر ایک قسم کا گناہ پیدا ہوتا ہے پہلے یہ یاد رکھنا ضرور ہےکہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اکثر جان بوجھ کر خود پسندی کو اپنا مقصد اور غرض نہیں بناتا۔ بلکہ اس حال میں بناتا ہے جب کہ گناہ میں بہت ترقی کر چکتا ہے۔ اور اکثر خود غرضی پوشیدہ اپنا اثر کرتی ہے۔
آدمی میں طرح طرح کی خواہشیں خُدا کی طرف سے پیدا ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض رُوحانی ہیں اور بعض جسمانی ۔ خواہشیں اس سبب سے ہیں کہ حاجتیں ہیں اور حاجتیں(ضرورتيں) اس وجہ سے کہ آدمی مخلوق ہے۔
یہ خواہشیں دو قسم کی ہیں۔ پہلی قسم کی وہ ہیں جو اپنی حفاظت اپنی ترقی اپنی خوشی کے لئے ہیں۔ ان میں علم کی خواہشیں بھی شامل ہے۔ ان خواہشوں کو خود غرضی نہیں کہنا چاہتے کیونکہ یہ خُدا کی طرف سے ہیں۔ اور ہر ایک کی ہستی کےلئے ضرور ہیں بلکہ ان کے بغیر محبت غیر ممکن ہے ۔اور نہ صرف اپنی حفاظت بلکہ اپنی ترقی کی بھی خواہش ضرور ہے کیونکہ جانداروں کی حفاظت بغیر ان کی ترقی کےنہیں ہو سکتی ۔ اور اپنی اس ترقی کےلئے یہ بھی ضرور ہےکہ دُنیا کی چیزوں کو اپنے کام میں لانے اور اپنے تابعدار کرنے کی خواہش ہو کیونکہ کوئی اپنے ہی سے سیر اور خوش نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے واسطے دُنیا کی چیزیں ضرور ہیں۔
دوسری قسم کی خواہشیں یہ دو ہیں۔
اوّل نیکی کرنے یعنی شریعت پر عمل کرنے کی خواہش جو تمیز یعنی شرع دانی سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری خُدا کی خواہش جو خُدا دانی سے پیدا ہوتی ہے ۔ پھر شریعت پر عمل کرنے کی خواہش میں تین خواہشیں شامل ہیں یعنی ایک تو اپنے تئیں دُنیا سے آزاد رکھنے کی خواہش جس سے پرہیز گاری ہو شیار ی اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے اوروں کے حق پہچاننے اور اد ا کرنے کی خواہش تیسرے اپنے حققوق کا اوروں کے حقوق کے ساتھ محبت کی رو سے مقابلہ کر کے دونوں کے ادا کر نے کی خواہش ۔
اس دوسرے قسم کی خواہشوں کو پہلی قسم کی خواہشوں سے اس بات سے امتیاز (فرق)ہے کہ وہ اپنے ہی وا سطے ہیں اور یہ غیر یعنی خُدا اور اُس کی شریعت کے واسطے ان خواہشوں کے بھی پورا کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن یہ خوشی ان کا مقصد نہیں ہے۔
حیوانوں میں صرف خواہشوں سے فوراً اور خواہ مخواہ کام ہوتے ہیں۔ مگر آدمیوں میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ارادے کے وسیلے سے ہوتے ہیں ۔ آدمی اپنی خود مختاری (آزادی)سے اپنے ارادہ کو اپنی خواہشوں پر جاری کر کے پیچھے ان کو پورا کرتا یا ان سے باز رہتا ہے۔ اسی سبب سے آدمی کے کام نیک یا بد کہلاتے ہیں۔
پہلی قسم کی خواہشوں کو مار کر دوسری قسم کی خواہشوں کو پورا کرنا آدمی کی خوشحالی نہیں ہے۔ بلکہ یہ مناسب ہے کہ پہلی قسم کی خواہشیں دوسری قسم کی خواہشوں کی تابعدار رہیں۔ جیسا پولوس فرماتا ہے کہ ’’ چاہیں کھائیں چاہیں پیئیں چاہیں جو کچھ کریں سب خُدا کے جلا ل کے لئے کریں ‘‘۔ لیکن نہ صرف تابعداری ہی چاہیے بلکہ دوسری قسم کی خواہشیں پہلی قسم کی خواہشوں کو گویا اپنے میں لے لیں ۔ اور ان کو اپنے وسیلے بنا کر اپنا کام کریں یہاں تک کہ پہلی قسم کی کوئی خواہش اکیلی پوری نہ ہو سکے۔ یہی مسیح کا حال تھا ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ آدمی کا کام دُنیا اور اس کے کاروبار سے علیٰحدہ رہنا نہیں ہے۔ بلکہ خُدا کے پہلے حکم کے مطابق یہ ہے کہ خُدا کی صورت پر ہو کر دُنیا کی حکومت کرے اور اسے اپنے تابع کرے ۔پیدا ئش ۱: ۲۶ کو دیکھو۔
اس حکومت کے لئے یہ ضرور ہے کہ آدمی دُنیا سے آزاد ہو اور اس آزادی کے واسطے یہ ضرور ہے۔ کہ دُنیا سے ایک بالاتر عالم یعنی خُدا کی مقاربت (نزديکی) اس کا مسکن و ماوا (گھر)ہو ۔ جب اس کا یہ حال ہے تو وہ دنیا میں ہر جگہ خُدا کو دیکھتا ہے ۔ اور اپنے مقدور بھر دنیا کو خُدا کی مرضی اور مطلب کے مطابق کر دیتا ہے۔ اسی طرح آدمی دُنیا پر حکومت کر سکتا ہے اور خُدا کا کاہن ہوئے بغیر دنیا کا بادشاہ نہیں ہو سکتا ۔ جو آج کل دنیا کی حکومت کہلاتی ہے یعنی ریل تار وغیرہ کے ذریعہ سے دنیا کو ظاہر ی طور پر اپنا تابعدار کرنا اس حکومت کے ساتھ فی الحقیقت دنیا کی غلامی ممکن ہے بلکہ اگر آدمی اس پر کفایت (کافی سمجھنا)کرتے ہیں تو اس سے دنیا کی غلامی بہت زیادہ ہی ہوتی ہے۔
جب آدمی اپنی زندگی کے ازلی چشمہ سے جُدا ہو کر اپنا ہی مالک ہونا اور اپنی ہی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ دُنیا کی چیزوں میں اپنے تئیں کھو دیتا ہے ۔ جس پر اس کو حکومت کرنی چاہیے وہ اب اس کا محکوم(غلام) ہو گیا ہے۔ اور اس کی خواہشیں اپنے مقصد اور مرکز کو کھو کر پریشانی میں پڑی اور دُکھ کا باعث ہوئی ہیں۔ آگے وہ حاکم تھا اب محکوم ہو گیا ہے۔
اب وہ دنیا کی چیزوں کو خُد اسے الگ جان کران کے حاصل کرنے میں کوشش کرتا ہے اور ان میں پھنس جاتا ہے۔ اور ان سے اندھا ہو جاتا ہے۔ وہ گمان (خيال)کرتا ہے کہ میں ان پر حکومت کرتا ہوں لیکن فی الحقیقت ان کا غلام بنتا ہے۔اسی طرح خود غرضی کے ساتھ کوئی نہ کوئی دنیاوی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔ جیسا ططس کے پہلے خط کے ۲: ۱۲ اور یوحنا کے پہلے خط کے ۳: ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ دُنیا وی خواہش آدمی کو پھسلا کر اور منا کر اس سے گناہ جنتی ہے جیسا کہ یعقوب اپنے خط کے ۱: ۱۴ ، ۱۵ میں فرماتا ہے۔
۱۔ اگرچہ ہر طرح کی دُنیاوی خواہش سے خود غرضی ظاہر ہو سکتی ہے۔ تاہم چونکہ آدمی نہ صرف رُوح بلکہ جسم سے بھی بنا ہے۔ جسمانی خواہش کا زیادہ خطرہ ہے جب تک آدمی کی رُوح خُدا کی تابعدارہےاس وقت تک اس کا جسم اس کی رُوح کا تابعدار رہا۔ اور فوراً اس کے حکموں کو مانتا رہا لیکن جب سےآد می کی رُوح نے خُدا سے سرکشی کی اس وقت سے اس کے جسم نے اس کی رُوح سے سرکشی کی۔ بلکہ اس کے برخلاف ایک طرح سے خود مختار ہو گیا جیسا کہ پولوس رومیوں کے خط ۷: ۲۳ میں فرماتا ہے۔ ’’ میں اپنے اعضاء میں دوسری شریعت دیکھتا ہوں‘‘۔
جب یہ پھوٹ پڑ گئی تو پھرصلح ہوئی لیکن اس طرح کو رُوح جسم کی تابعدار ہو گئی اور اس کے حکموں کو ماننے لگی۔
جب جسمانی خواہش کسی پر غالب آتی ہے۔ تو دو طرح سے ظاہر ہوتی ہے ۔ بغیر جسمانی خوشی اور جسمانی آرام پیدا ہوتا ہے ۔ جسمانی خوشی اپنی خواہش ہی تک رہتی ہے جہاں خواہش پوری ہو گئی خوشی جاتی رہی ۔ اس سبب سےجو اس کی پیروی کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ اور زیادہ بے چینی میں گرفتار ہوتے ہیں اور ان کو بے فائدہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ آرام کی خواہش میں سُستی بزدلی غفلت شامل ہے۔
جب خود غرضی اس طرح جسمانی خواہشوں سے ظاہر ہوتی ہے تو ان کے سبب آدمی سے پوشیدہ رہتی ہے ۔کیونکہ آدمی جب ہمیشہ ایسی چیزوں کو ڈھونڈتا رہتا ہے۔جن سے اس کی خواہش پوری ہو تو اکثر یہ نہیں دیکھتا کہ میں اپنی پرستش کرتا ہوں۔ سو جسم کے سبب آدمی بالکل شیطان بن جانے سے رُک جاتا ہے اور جسمانی گناہ اور گناہوں کی نسبت کچھ چھوٹے ہیں۔
۲۔ برعکس اس کے دولت اختیار اور عزت کی خواہشوں سے خود غرضی بہت ہی کم پوشیدہ رہتی ہے اور اسی سبب سے یہ گناہ زیادہ بڑے ہیں ۔جسمانی خواہشیں اکثر پل بھر کی خوشی بخشنے والی ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ خواہشیں سوچنے اور بندوبست کرنے ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ پھر جسمانی خواہشیں اکثر دوسرے آدمیوں سے نہیں رُکتیں اور اس سب سے ان کی عداوت(دُشمنی) دل میں پیدا نہیں ہوتی ۔ بلکہ جو لوگ باہم ان خواہشوں کی پیروی(پيچھے چلنا) کرتے ہیں۔ ان میں اکثر دوستی بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ خواہشیں جہاں تک ایک کی پوری ہوتی ہیں وہاں تک دوسروں کی پوری نہیں ہو سکتیں ۔ اس سبب سے دوسروں کی خواہشوں کو روکنا اور ان کا نقصان کرنا اس کو ضرور ہوتا ہے ۔ اور اس کا سبب بالکل پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔یعنی یہ کہ وہ اپنے ہی واسطے یہ سب کچھ کرتا ہے۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جولوگ جسمانی خواہشوں کی خوب پیروی کرتے ہیں وہ اوروں کے ساتھ بہت مہربانی اور درد مندی کرتے ہیں ۔ اور خاص کراپنے گھر والوں کےساتھ بے شک یہ خود غرضی تو ہے کیونکہ آدمی اپنے گھر والوں کو اپنے برابر دیکھتا ہے لیکن یہ محض خود غرضی نہیں ہے ۔ اس طرح آدمی کا جسم جو اس کو خُدا کا تابعدار ہونے سے روکتا ہے شیاطین کی طرح ہمیشہ کی لاعلاج خرابی میں پڑنے سے بھی اس کو بچاتا ہے۔ اور لالچی وغیرہ کی نسبت شہوت پر ست کی تو بہ زیاد ہ آسان ہے کیونکہ وہ اپنی خرابی سے زیادہ واقف ہو سکتا ہے۔
۳۔ خود غرضی ایک طرح کا جھوٹ بھی ہےکیونکہ جب تک آدمی خُدا سے ملا ہو ا تھا وہ اپنے سےبھی ملا ہوا تھا ۔ اور اس کی حقیقی زندگی تھی۔ جب وہ خُدا کو چھوڑ کر خود غرض ہوا اس وقت سے اس کی زندگی جھوٹی ہو گئی ۔ کیونکہ جیسی اس کی ذات ہےویسا اس کا حال نہیں ہے۔ وہ دُنیا میں ہمیشہ اپنی خوشی اور آسودگی (خوشحالی)ڈھونڈتا ہے۔ لیکن ان کے نہ ملنے سے اس کی پیاس جوں کی توں رہتی ہے۔وہ تلاش میں اور چیز کی ہے۔ اور ملتی اور چیز ہے ۔ یہ جھوٹ کبھی کبھی کم و بیش اس کو معلوم بھی ہو تا ہے۔
مقدس کتاب کی گواہی بھی اسی طرح ہے۔ جو لوگ سچائی کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں وہی خُدا کےساتھ بھی منسوب ہوتے ہیں۔ یوحنا کے ۸: ۴۷۔ اور ۱۸: ۳۷ ۔ اور یوحنا کے پہلے خط کے ۳: ۱۹ اور ۴:۴ اور ۶ کودیکھو۔ بہت سی جگہ گناہ کو فریب یا فریب دینے والا کہا گیا ہے۔ مثلاً رومیوں کےخط کے ۷: ۱۱ اور کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۱۱: ۳ اور افسیوں کے خط کے ۴: ۲۲ اور تيمتھيس کےپہلے خط کے ۲: ۱۴ اور عبرانیوں کے خط کے ۳: ۱۳ میں ۔ اور جہاں مسیح نے ابلیس کو آدمی کا ہلاک کرنے والا کہا وہاں یہ بھی کہا کہ ’’ اس میں سچائی نہیں ہے وہ جھوٹھا ہے اور جھوٹ کا باپ ‘‘۔ یوحنا کے ۸ : ۴۴ کو دیکھو۔
لیکن اس بات سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ گناہ آدمی کا قصور نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ جھوٹ اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ آدمی بدی کو نیکی سمجھتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ خُدا سے الگ دُنیا کو اپنی خوشی کا باعث جانتا ہے ۔لیکن اس کی یہ خوشی چاہنی بُری ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی خوشی کو نیکی سے زائد پسند کرنا کچھ تعجب(حيرانگی) کی بات نہیں ہے ۔ لیکن اسی کو پسند کرنے سے آدمی کی خرابی ظاہر ہوتی ہے۔آدمی پہلے خود غرضی سے بگڑتا ہے پیچھے گناہ سے فریب کھاتا ہے۔ نہ یہ کہ گناہ سے فریب کھا کر خود غرض ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ امید بے بنیاد ہے کہ جب یہ دھوکا جاتا رہے گا ۔ گناہ آپ سے آپ دُور ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ آدمی گناہ کے دھوکے سے بالکل آگاہ ہو اور پھر بھی اس کا تابعدار رہے ۔ کیونکہ جاننا اور ہے اور کرنا اور ہے ۔ عقل سے دل نہیں بدلتا ۔ بہت سے لوگ گناہ کی بطالت(بے ہودگی) کو خوب جانتے ہیں۔ اور پھر بھی اس میں آلودہ ہوئے جاتے ہیں ۔ مسیح نے بے شک کہا ہے کہ ’’تم حق کو جانو گے اور حق تم کو آزاد کرے گا‘‘۔ لیکن یہ اس کے کلام پر قائم رہنے پر موقوف ہے۔ یوحنا کے ۸ : ۳۱ اور ۳۲ کو دیکھو۔
چونکہ خود غرضی اپنی ذات ہی سے جھوٹ ہے اس لئے اس سے دورغ گوئی(جھوٹ بولنا) اور دروغ سازی (جھوٹی بات بنانا)بھی پیدا ہوتی ہے۔ تھوڑے آدمی تو ایسے ہو ں گے ۔ کہ ان کو اور آدمیوں کی طرف کچھ احتیاج (ضرورت)نہ ہو۔ اور دروغ (جھوٹ)کی کچھ ضرورت نہ پڑے بلکہ وہ اپنی خود غرضی کو بے شرمی سے ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن اکثر آدمیوں کو اور آدمیوں کی مدد ہزاروں طرح سے درکار ہوتی ہے۔ اس واسطے اپنی خود عرضی کو چھپا کر ہزاروں طرح سے فریب دینا انہیں ضرور ہوتا ہے۔ دورغ جو خود غرضی کا بچہ ہے ۔ پیچھے بڑا ہو کر اپنی ماں سے جُدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جہاں کچھ مطلب نہیں ہو تا وہاں بھی آدمی جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آخر کو سچ اور جھوٹ کی پہچان بھی کھو دیتے ہیں۔
سب گناہوں سے زیادہ غرور میں خود غرضی ظاہر ہوتی ہے۔ لالچ جھوٹ اور عداوت میں آدمی کے خیال اوروں کی طرف جاتے ہیں ۔ لیکن مغرور آدمی اوروں سے قطع نظر(نظر انداز) کر کے اپنی ہی بڑائی کرتا ہے۔
گویا اوروں کا حاجت مند(ضرورت مند) ہی نہیں ہے۔ جو دنیا کی ظاہر ی چیزوں کے سبب سے غرور کرتا ہے۔ وہ صرف اسی واسطے نادان ہے کہ وہ چیزیں ناپائيدار ہیں۔ لیکن جو باطنی چیزوں مثلاً علم تاثیر کلام نیک اعمال رُوحانی حال وغیرہ کے سبب غرور کرتا ہے یہ اس کی نسبت بہت زیادہ نادان ہے۔ کیونکہ ان چیزوں میں سب شریک ہو سکتے ہیں ۔ آدمی کی خرابی اس سے صاف ظاہر ہے کہ خُدا کے جس علاقہ سے فروتنی پیدا ہونی چاہیے ۔ اس سے اُلٹا غرور پیدا ہو تا ہے ۔ اور خود فروتنی میں بھی غرور کا بیج چھپا ہو اہے۔ جو اُگ کر فروتنی کو نیست(تباہ) کر سکتا ہے۔ جب مغرور آدمی کو اپنے سے کمتر لوگوں سے کام پڑتا ہے ۔ تو وہ ظالم ہو جاتا ہے اور جب اپنے سے برتر سے پڑتا ہے تو ضدی ہو جاتا ہے ۔
۵۔ خالص انصاف تو محبت ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہی کسی کے ساتھ خالص انصاف کر سکتا ہے ۔ جو محبت کے سبب اپنا حال ویسا ہی خیال کرتا ہے جیسا دوسرے آدمی کا ہے ۔ لیکن جہاں محبت نہیں ہے وہاں بھی اکثر انصاف کا کچھ لحاظ پایا جاتا ہے۔ اس واسطے جو بالکل بے انصاف ہے اور اپنے ہی حقوق کی فکر کرتا ہے ۔ اور اوروں کو گویا بے حق سمجھتا ہے اور گویا اپنے ہی تئیں شخص اور اوروں کو حیوان جانتا ہے اس میں خود غرضی نے بڑی ترقی کی ہے۔
۶۔ خود غرضی سے عداوت بھی پیدا ہوتی ہے بلکہ خود غرضی جب کہ اور آدمیوں کی مزاحمت سے بھڑک اُٹھی ہے تو خو د عداوت ہو جاتی ہے۔ بے انصاف اسی حالت میں اوروں کا نقصا ن کرتا ہے۔ جب ان سے اس کی خواہشیں رُکتی ہیں لیکن عداوت کرنے والا بے فائدہ بھی اوروں کا نقصان کرنے لگتا ہے۔ ہاں ایسے تو خود غرض لوگ ہوتے ہیں ۔ کہ خود غرضی کے سبب عداوت رکھنے سے با ز آتے ہیں اور یہ دو طرح سے ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو یہاں تک اپنے نفع یا اپنی بڑائی کی فکر و بندوبست کرتے ہیں کہ جب عداوت کرنے سے ان کے مطلب پورے نہیں ہوتے تو وہ اس سے باز آتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں عداوت جوں کی تو ں رہتی ہے۔ اور جب موقع ملتا ہے۔ تو اس وقت ظاہر بھی ہو جاتی ہے اور بعض لوگ یہاں تک آرام کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کہ صرف اس خیال سے عداوت رکھنے سے باز رہتے ہیں کہ اس سے طرح طرح کی تکلیف اور بے آرامی ہو گی ۔ لیکن ان کے دلوں میں محض خود غرضی حکوت کرتی ہے۔
عداوت نہ صرف آدمیوں کے ساتھ بلکہ خُدا کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ جب خود غرضی کسی پر غالب ہو جاتی ہے تو بھی خُدا دانی جاتی نہیں رہتی۔ اور اگر خُدا دانی و شرع دانی کے بیچ میں جو علاقہ ہے وہ جھوٹے مذہب کے سبب ٹوٹ نہیں گیا ۔یعنی اگر آدمی خُدا کو نیک اور نیکی کا چاہیے والا اور بدی سے نفرت کرنے والا سمجھے تو خود غرضی خُدا دانی کو نہایت مزاحم (مزاحمت کرنے والا)سمجھتی ہے۔ اور یہ چاہتی ہے کہ خُدا نہ ہوتا ۔ جتنا زیادہ کسی نے خُدا کو پہچانا اور اس کی مقاربت(نزديکی) کا مزا چکھا اگر اس سے پھر جائے تو اتنا ہی اس سے غافل(غفلت کرنے والا۔لاپرواہ) رہنا مشکل ہے ۔اور اتنی ہی اس کی عداوت پیدا ہوتی ہے۔ ( یوحنا ۳: ۲۰ اور ۱۵: ۲۴ کو دیکھو ۔ چنانچہ ان دنوں یورپ میں بعض کی رائے یہ ہے کہ خُدا سے عداوت رکھنے کے سبب اس سے محبت رکھنے کے سببوں سے زیادہ ہیں۔ بلکہ ایسی جماعتیں ہیں ۔ کہ جن کے شریک یہ وعدہ کرتے ہیں ۔ کہ ہم خُدا سے دشمنی رکھیں گے۔
جیسا جھوٹ کا بیان اوپر ہوا ویسا ہی عداوت کا حال ہے یعنی عداوت اس حالت میں ہوتی ہے جب خود غرضی کسی دوسرے آدمی سے رُک جاتی ہے بلکہ اپنی پیدا ئش کے سبب گو یا بھول کر بالکل بے سبب بھی ہوتی ہے یعنی آدمی بے فائدہ بھی اوروں کو دُکھ دینے اور ان کے دُکھ دیکھنے سے خوش ہوتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ جو کچھ آدمی پسند کرتا ہے اسے اچھا سمجھ کرپسند کرتا ہے اور جو کچھ وہ ناپسند کرتا ہے۔ اسے بُرا سمجھ کرنا پسند کرتا ہے۔ لیکن آدمی کی خرابی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اوروں کے دُکھ کو نرا اچھا سمجھتا ہے۔
بہت لوگوں کی رائے ہے کہ شہوت پرستی اور بے رحمی آپس میں ضدہیں ۔ لیکن برعکس اس کے ان دونوں میں بڑا علاقہ ہے ۔ ایک تو یہ کہ شہوت پرست آسانی سے اپنے معشوق کو بلکہ اپنے (1) اپنے جسم کو بھی بے رحمی سے ہلاک کر سکتا ہے دوسرے یہ کہ اوروں سے بے رحمی کرنے اور انہیں ہلاک کرنے سے ايک طرح کی جسمانی خوشی پیدا ہوتی ہے۔
مسیح نے جو ابلیس کو خونی اور جھوٹا کہا اس سے اس نے عداوت اور جھوٹ کو اصلی گناہ ٹھہرایا ۔ یہ دونوں خودغرضی سے اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ جب اس کے ساتھ خوف ہوتا ہے۔ تو جھوٹ پیدا ہوتا ہے۔ اور جب اس کے ساتھ ہمت ہوتی ہے۔ تو عداوت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر عداوت جھوٹ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے کہ خُدا حق کا طرفدار ہے اور جھوٹ عداوت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جھوٹ کے وسیلے سے عداوت کامیاب ہوتی ہے۔
(1) ۔ سلاطین کی پہلی کتاب کے ۱۸: ۲۸ کو دیکھو۔
۷۔ اسی طرح سے وہ گناہ بھی جو عقل سے تعلق رکھتے ہیں اسی خود غرضی سے نکلتے ہیں۔ کیونکہ عقل دل کی حالت پر بہت موقوف ہے جس طرح وہ جواب جو کسی شے کی حقیقت کی نسبت ملیں اس شے کی حقیقت کے سوالوں پر موقوف ہیں ۔اسی طرح وہ سوال بھی دل کی حالت پر بہت موقوف ہوتے ہیں ۔اور دل اور عقل کا یہ علاقہ محض عقلی باتو ں کی طرح منطق کے قاعدوں کا پابند نہیں ہے۔ ہاں یہ علاقہ علم کی سب باتوں میں یکساں نہیں ہے بلکہ جتنی وہ زیادہ خیالی ہیں اتنا ہی علاقہ کم ہے۔ مثلاً علم ِریاضی جو بالکل خیالی ہے دل کی حالت پر کچھ بھی موقوف نہیں۔ لیکن علم کی باتیں خود آدمی سے اور خاص کر اس کی حقیقت سے جورُوح ہے جتنی زیادہ نسبت رکھتی ہیں اتنی ہی زیادہ عقل پر موقوف معلوم ہوتی ہے ۔بلکہ دینی باتیں دل ہی کے راستہ سے عقل کو پہنچتی ہیں۔ چنانچہ پہلے انہیں پسند کرنا ہوتا ہے ۔اور اس کے بعد سمجھنا ۔ سب سے زیادہ مسیحی دین کا یہ حال ہے۔ یوحنا کے ۱: ۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اللہ آدمی کا نُور صرف اس لئے ہے کہ وہ آدمی کی زندگی ہے۔ یوحنا کے ۷: ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جو کوئی خُدا کی مرضی پر عمل کرنے کی خواہش رکھے وہی مسیح کی تعلیم مانے گا۔ یوحنا کے ۸: ۴۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا دل خُدا کی طر ف نہیں وہ خُدا کا کلام قبول نہیں کرسکتا ۔ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۲ : ۱۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس پرست آدمی خُدا کی رُوح کی باتیں قبول نہیں کرسکتا ۔ جو کوئی اپنی خواہشوں کو خُدا کی شریعت کے مطابق نہیں کرتا ۔ وہ خُدا کی شریعت کو اپنی خواہشوں کے مطابق کرنے میں کوشش کرتا ہے۔ مسیح اپنی تعلیم کی سچائی کو اپنی بے گناہی پر موقوف کرتا تھا ۔ یوحنا کے ۸: ۴۶ کو دیکھو۔ پر وتا گوارا ایک پُرانے یونانی فیلسوف نے تمام بنی آدم کے حق میں کہا کہ ’’ اِنسان سب چیزوں کا پیمانہ ہے ‘‘۔ مگر یہ فی الحقیقت مسیح ہی پر صادق (سچا)آتا ہے۔
۸۔ دو گناہ اور بھی ہیں جو معاملات سے نسبت رکھتے ہیں یعنی بے وقوفی اور بے تدبیر ۔ بیوقوفی ناجائز مقصدوں کو پسند کرناہے۔ اور بے تدبیری کسی مقصد کے واسطے نامناسب تدبیر کرنی ۔خود غرضی محض بیوقوفی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص خُدا کا خیال چھوڑ کر اپنے ہی فائدہ اور ترقی کے واسطے نہایت ہوشیاری سے بھی تدبیریں سوچے اور انہیں عمل میں بھی لائے مگر جب کہ اس کا مقصد ہی نہایت کمتر اور ناچیز ہے تو اس میں دانائی کہاں؟ ۔
بے تدبیری فی الحقیقت کم عقلی کا نتیجہ نہیں ہے۔ کیونکہ جو کم عقل آدمی خود غرضی سے اندھا نہ ہوا ہو اور اپنی کم عقلی کو پہچانتا ہو ۔وہ ان کاموں کو جنہیں وہ درستی سے نہیں کر سکتا اپنے ذمہ نہ لے گا۔ پس بے تدبیری خواہ سُستی کا نیتجہ ہو خواہ غرور و جلد بازی کا دونوں صورتوں میں خود غرضی سے پیدا ہوتی ہے (لوقا ۱۲: ۴۲ اور ۱۶ : ۸ )کو دیکھو۔
گناہ دو قسم کا ہے ایک دائمی حالت کا اور دوسرا کسی خاص وقت کا کام۔ مقدس کتاب میں اکثر گناہ کے یہ دوسرے معنی لئے گئے ہیں ۔ لیکن رومیوں کے خط میں ۵: ۱۲ سے ۸ باب تک اور خصوصاً ۷ باب کی ۷ آیت سے ۲۵ تک پہلے معنی مرادہیں۔ دوسری قسم کاگناہ دو طرح کا ہے۔ بالعمد اور بلا عمد ۔ البتہ جو شریعت کے برخلاف ہے وہ گناہ ہے بشرطیکہ آدمی اس شریعت کو سمجھتا ہو۔ ہر طرح کے گناہ کی بنیاد آدمی کی خود مختاری میں ڈالی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ہر ایک گناہ جس وقت کیا جاتا ہے ۔ عمداً نہیں کیا جاتا ۔ مثلاً دوسرے آدمی کی اقبال مندی سے جو حسد ہوتا ہے۔ اور شہوت اور غضب کی جو حرکتیں دل میں آپ سے آپ پیدا ہوتی ہیں۔ وہ گناہ کی دائمی حالت سے نکلتی ہیں۔ اور بے شک گناہ ہیں۔ اور اسی طرح جو ہم پر فرض ہے اسے نہ کرنا گو اس میں عمداً شریعت کی مخالفت نہ ہو گناہ ہے۔
اگرچہ خود غرضی فی الحقیقت سارے گناہوں کی اصل ہے۔ پھر بھی ممکن ہے کہ کوئی آدمی اپنی غرض کے خیال سے نہیں بلکہ اوروں کے فائدہ کے واسطے گناہ کرے مثلاً غریبوں کو کھلانے کے واسطے امیروں کا مال چرائے اگر کوئی کہے کہ ایسا کام گناہ نہیں ہے۔ تو شاید کوئی گناہ بھی ایسا نہ ہوگا ۔ جس میں کسی نہ کسی طرح کا عذر(بہانہ) نہ نکل سکے ۔ گو بارہا ایسے خیالوں سے گنہگار کا قصور کم معلوم ہوتا ہے لیکن وہ گناہ ضرور ہے۔ اور اس کی خود غرضی اس سے ظاہر ہے کہ اس نے اوروں کو فائدہ پہنچانے میں اپنی ہی رائے کو شریعت کے احکام سے زیادہ پسند کیا۔
دُوسرا حصّہ گناہ کی قصور واری
چوتھا با ب
قصور واری کی ماہیت
اب یہ دو باتیں تو ثابت ہو چکیں کہ نیکی وہ ہے جو ہونی چاہیے اور بدی وہ ہے جو نہ ہونی چاہیے ۔ لیکن یہ ان کی تعریف نہیں ہے۔ خوش سلیقگی اور شائستگی بھی وہ ہے جو ہونی چاہیے اور بدسلیقگی اور نا شائستگی وہ ہے جو نہ ہونی چاہیے۔ البتہ نیکی اور خوش سلیقگی اور بدی اور بدسلیقگی کے خیالات میں بڑا علاقہ ہے کیونکہ آدمی خود بخود سمجھتا ہے کہ نیکی ظاہر میں بھی نیک اور بدی ظاہر میں بھی بد ہونی چاہیے ۔ لیکن پھر بھی ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ جس آدمی کو خوش سلیقگی کا شوق نہیں ہے۔ اس پر عیب نہیں لگا یا جاتا لیکن جس کو نیکی کا شوق نہیں اس پر ضرور عیب لگایا جاتا ہے۔ اور وہ معذور نہیں ہوتا کیونکہ نیکی سب آدمیوں پر برابر فرض ہے پھر بدسلیقگی نا شائستگی کا کام فاعل پر موقوف نہیں ہے۔ گو فاعل(کام کرنے والا) کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کا م کی بدسلیقگی یا نا شا ئستگی میں فعل(کام) نہیں آئے گا۔ لیکن گناہ ہمیشہ گنہگار پر موقوف ہے بلکہ اس سے الگ ہو کر گناہ نہیں ہے ۔پس ہم اس علاقہ کو جو گناہ اپنے فاعل سے رکھتا ہے اس کی قصورواری کہتے ہیں ۔ یعنی جب گناہ ہوا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جو ہوا سو ہوا اب کچھ اس کا فکر نہیں۔ بلکہ اس کا فاعل اس کے سبب سے قصور وار ہے اور فاعل کی قصورواری یعنی وہ علاقہ جو وہ اپنے گناہ سے رکھتا ہے جاتی نہیں رہتی ۔ گناہ تو دم بھر میں ہو چکا لیکن اس میں جو قصور واری ہے وہ دائمی (ابدی)ہے۔
قصور واری کے خیال میں دو باتیں شامل ہیں۔ ایک یہ کہ گنہگار اپنے گناہ کا بانی ہے ۔ اور گناہ صرف گنہگار کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کاکام بھی ہے ۔ اسی واسطے وہ اس کا جواب دہ ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرا کام تو بدہے لیکن میں بد نہیں ہوں۔
دوسرے یہ کہ گنہگار اپنے گناہ کے سبب مستو جب(لازم ہونے والی) سزا ہے۔ عہد نامہ جدید(نيا عہد نامہ) میں گناہ کی قصورواری کو قرض کے مشابہ لکھا ہے ۔متی کے ۶ : ۱۲ اور لوقا کے ۷ : ۴۱ اور ۱۲ : ۵۹ ۔ اور ۱۳ : ۴ کو دیکھو ۔ عہد نامہ عتیق (پُرانا عہد نامہ)میں گناہ کی مغفرت(نجات) ایسے لفظوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کہ جن کے اصلی معنی اُٹھا لے جانا چھپانا اور ڈھانکنا ہیں۔ ان سب استعمالوں سے صاف ظاہر ہے کہ بائبل کے موافق بھی گناہ کی قصور واری ہے۔
اب یہ شک پیدا ہوتا ہے ۔کہ کیا سب گنا ہوں کی قصور واری برابر ہے۔ مستو اک لوگوں کی تو یہی رائے تھی۔لیکن علی العموم (عام طور پر) اِنسان کی تمیز اس سے انکار کرتی ہے۔ اور موسوی شریعت میں جو مختلف گناہوں کے واسطے مختلف کفار ے مقرر ہوئے۔ اس سے اور متی کے ۵: ۲۱ اور ۲۲ اور ۱۰: ۱۵ اور ۱۲: ۲۱ اور ۲۲ اور لوقا کے ۱۲ : ۴۷ اور ۴۸ اور یوحنا کے ۱۹: ۱۱ اور یوحنا کے پہلے خط کے ۵: ۱۶ سے صاف ظاہر ہے کہ بائبل بھی اس سے انکار کرتی ہے۔
پس قصور واریوں میں کیا فرق ہو گا؟ گناہوں کی دو قسمیں جو مسلمانوں نے کبیرہ و صغیرہ(بڑے اور چھوٹے) اور رومی کلیسیاء والوں نے مہلک (خطرناک)اور قابل العفو(قابلِ معافی)ٹھہرائی ہیں۔ یہ تو نادانی ہے اور بڑے نقصان کا بھی باعث ہے۔ کیونکہ ایک تو قصورواری کے درجے ہی دو سے زیادہ بلکہ بے شمار میں دوسرے اس طرح کی تقسیم میں گناہ کی صرف ظاہری صورت پر نظر ہوتی ہے۔
قصور واری کا فرق دو طرح سے دریافت ہوتا ہے ایک یہ کہ گناہ کس قدر قصداً (ارادہ کے ساتھ)کیا گیا دوسرے یہ کہ خود غرضی کس قدر اس سے ظاہر ہوئی ۔ پھر قصور واری صرف قصد(ارادہ۔نيت) کی مقداری ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ خود گناہ کے بھی درجے ہیں۔ بالکلیہ جو ابدی کے لئے ضرور ہے کہ آدمی گناہ بالکلیہ خود مختاری سے اور اس کو بالکل گناہ ہی جان کر کرے ۔ پس جس قدر ان دونوں میں سے کوئی کم ہو گا ۔ قصور واری بھی کم ہوگی۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ نادانی سے تمام گناہ کی قصور واری دور ہو جاتی ہے۔ لیکن نادانی دو طرح کی ہے ایک صغرے (1)یعنی امورِ دینوی میں دوسری کبُرے یعنی امور ِ شریعت میں۔ مثلاً دو آدمیوں کی دو ہم شکل چیزیں ہیں ان میں سے ایک آدمی دوسرے کی چیز کو اپنی سمجھ کر لے لے تو یہ چوری نہیں ہے۔ اور نہ اس کی کچھ قصور واری ہے۔ اور جس صورت میں کہ وہ سوچنے اور پوچھنے سے جان سکتا ہے کہ یہ میری چیز نہیں ہے۔
(1) ۔ آدمی کی تمیز میں ایک طرح کی شکل بد یہی الا نتاج پیدا ہوئی ہے ۔ مثلاً صغرے ۔ یہ کام کرنا چوری کرنی ہے۔ کُبرے ۔ چوری کرنی ناجائز ہے۔ نیتجہ ۔ پس یہ کام کرنا ناجائز ہے ۔ یہاں کُبرے شریعت سے معلوم ہوتا ہے اور صُغرے امور دینوی سے۔
تو اس کی کچھ قصورواری ہے۔ اور جتنا یہ دریافت کرنا آسان ہے اتنی ہی قصور واری بھی زیادہ ہے۔ لیکن اُمور دینوی کی نادانی سے جوقصور واری ہوتی ہے۔ وہ اس قصورواری سے کم ہے جو اُمور شریعت کی نادانی سے ہوتی ہے۔ پھر یہ نادانی بھی یکساں نہیں ہے ۔ جن آدمیوں کی تمیزان کی بچپن کی تعلیم سے تاریک ہوئی ہو ان کی قصور واری ان لوگوں کی قصورواری سے کم ہے جنہوں نے اپنی ہی بدچلنی سے اپنی تمیز کو تاریک کر دیا ہو۔ اور اگر کوئی آدمی جب سے کہ تمیز کی آواز اس کے کان میں پہنچتی اس کی فرمانبرداری کرتا تو اس کی تمیز رفتہ رفتہ روشن ہو جاتی اور امورِ شریعت کی نادانی کم ۔ اسی واسطے جو لوگ غیر مذہب سے مسیحی مذہب میں آتے ہیں وہ اپنی جہالت کے وقت کے گناہوں کے سبب سے اپنے تئیں قصور وار سمجھتے ہیں ۔ البتہ بائبل غیر مذہب والوں کی قصورواری کو بہت کم تو کہتی ہے۔ متی کے ۱۱: ۲۱ سے ۲۴ تک اور اعمال کے ۱۷ : ۳۰ ۔ اور رومیوں کے خط کے ۲: ۹ کو دیکھو لیکن قصور واری ان کی بھی ضرور ہے۔ ان کے دلوں میں اصلی خُدا دانی ہےاور وہ خُدا کے کاموں سے جو دنیا میں ہوتے ہیں۔ تازہ ہوتی ہے۔ اعمال کے ۱۴: ۱۶، ۱۷ ۔ اور ۱۷ : ۲۷ سے ۲۹ تک اور رومیوں کے خط کے ۱: ۱۹ ، ۲۰ اور ۲۱، ۲۲ ۔ اور ۲: ۱۵ اور ۳: ۲۳ کو دیکھو۔ پولوس جب اپنے پچھلے حال کا ذکر کرتا ہے۔ تو کہتا ہے۔ کہ میں اس وقت نادان تھا لیکن پھر بھی اپنے تئیں اوّل درجہ کا گنہگار ٹھہراتا ہے ۔ اور اس رحمت اور تحمل(برداشت) کا جو خُدا نے اس پر ظاہر کیا شکر کرتا ہے۔ تمیتھیس کے پہلے خط کے ۱: ۱۲ سے ۱۶ تک دیکھو۔
رومیوں کے خط کے ۱۴: ۲۳ سے بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ پولوس کی رائے میں قصور واری بالکل گنہگار کی تمیز پر موقوف ہے۔ لیکن پولوس نے یہ نہیں لکھا کہ جو کچھ ایمان سے ہے وہ نیک ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ جو کچھ ایمان سےنہیں وہ گناہ ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ جو کچھ تمیز حکم دے اس کا کرنا لازم ہے۔ اور نہ کرنا گناہ ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس کا کرنا ہمیشہ نیک ہے۔ گناہ کے ساتھ یہ ایک سخت خرابی لگی ہوئی ہے۔ کہ جب تمیز اس کے سبب سے بگڑ گئی تو کرنا اور نہ کرنا دونوں گناہ ہیں۔ جنہوں نے خُدا (1) بندگی سمجھ کر حواریوں (شاگردوں)کوقتل کیا انہوں نے گنا ہ کیا لیکن اگر وہ ان کو قتل نہ کرتے تو بھی گناہ ان پر رہتا ہے۔
مسیح نے بے ایمان یہودیوں کے حق میں کہا کہ ’’ اگر (2)میں آکر ان سے نہ بولتا ۔۔۔۔ تووہ گنہگار نہ ہوتے ‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس گناہ کی ( یعنی مسیح کو رد کرنے کی ) قصور واری ان سے نہ ہوتی کیونکہ یوحنا کے ۶: ۳۶ میں بے ایمان کے حق میں لکھا ہے۔ کہ ’’ خُدا کا قہر اس پر قائم رہتا ہے ‘‘۔ اور یوحنا کے ۹: ۴۱ سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ کسی قدر مسیح کی تعلیم کو سمجھتے بھی تھے۔ بالکل نادان نہ تھے۔ لوقا کے ۱۲: ۴۷ اور ۴۸ سے ظاہر ہے کہ دانائی اور نادانی سے قصور واری کے صرف درجے ہی کا فرق ہوتا ہے۔ مسیح نے اپنے قاتلوں کے حق میں یہ کہا ہے کہ ’’ وہ نہیں جانتے تھے۔ کہ کیا کرتے ہیں ‘‘ ۔ لیکن اگر وہ انہیں بالکل بے قصور سمجھتا تو یہ کیوں کہتا کہ ’’ اے باپ انہیں معاف کر ‘‘ ان سب باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ داؤد نے جو دُعا مانگی کہ غیر معلوم (3)باتوں سے مجھے بے قصور وار ٹھہرا ۔ وہ صرف یہودیوں کے لئے نہیں بلکہ ہمارے اور سب لوگوں کے لئے بھی نہایت مناسب دُعا ہے۔
قصور واری اور اس کی واقفیت میں بڑا فرق ہے۔ قصور واری اور اس کی واقفیت یہ دونوں بالکل علیحدہ ہیں یعنی اگر آدمی اپنے تئیں مطلق(بالکل) قصور وار نہ جانتا تو بھی اس کی قصور واری میں کچھ فرق نہ آتا ۔ کیونکہ جب شریعت یہ فرمان جاری کرتی ہے۔ کہ ’’ چاہیے ‘‘ تو جہاں اس کی فرمانبرداری نہیں ہوئی وہاں دوسرا فرمان ضرو ر جاری ہوگا۔ کہ ’’ یہ چاہیے تھا‘‘۔ یعنی آدمی قصور وار ہے ۔ آدمی شروع ہی سے شریعت کا قرض دار ہے۔ لیکن گناہ کرنے سے یہ قرض داری ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
مگر معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اپنی قصورواری کی واقفیت مطلق(آزاد) نہ ہو ۔ جہاں کہیں شریعت کی کچھ واقفیت ہے وہاں قصورواری کی بھی کم و بیش واقفیت رہنی ضرور ہے۔
پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جہاں گناہ ہے وہاں اس کی قصور واری کی واقفیت بھی ہے۔ برعکس اس کے اکثر لوگ جب عام گناہ کرتے ہیں تو اپنے تئیں کچھ بھی قصور وار نہیں جانتے اور صرف اس وقت اپنے تئیں قصور وار جانتے ہیں جب کہ ان سےکوئی عجیب یا خلاف قاعدہ گناہ ہوتا ہے۔
(1) ۔ یوحنا کے ۱۶: ۲ کو دیکھو۔ (2) ۔ یوحنا کے ۱۵: ۲۶ اور ۴۴ کو دیکھو ۔ (3) ۔زبور ۱۹ : ۱۳ کو دیکھو۔
مگر جس کو قصور واری کی بالکلیہ واقفیت نہیں ہے اس کے بھی دل میں ایک طرح اضطرا ب(بے چينی) رہتا ہے۔ کیونکہ خود غرض آدمی کو پوری تسلی نہیں ہو سکتی اور کبھی کبھی وہ اپنے خطر ناک حال کو پہچان کر گھبراتاہے۔
تو بہ میں اور قصور داری کی واقفیت میں بڑا فرق ہے۔ قصور داری کی واقفیت خواہ مخواہ ہوتی ہے۔ آدمی اس کو پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ آدمی میں خود پیدا ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں رکھتی ہے۔ اور انہیں جو شریعت کی پابندی کو ہیچ (نکما)جانتے ہیں ۔ بغیر ظاہر ہوئے اپنا پابند رکھتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ایسا زور کرتی ہے۔ کہ آدمی کو خود اپنے گناہ کا اقرار کر کے اس کی سزا اور آدمیوں سے پانی ضرور ہوتی ہے۔ برعکس اس کے تو یہ آدمی کا فعل(کام) ہے جو وہ خود مختار ہو کر کرتا ہے۔ تائب آدمی (توبہ کرنے والا آدمی)قصور واری کی واقفیت کے دُکھ کو واجب(لازمی) سمجھ کر اس کوقبول کرلیتا ہے۔ تو بہ نجات کا پہلا کام اور خُدا کی طرف پھرنے کا پہلا کام ہے۔ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۷: ۹ سے ۱۱ تک دیکھو۔ وہاں جو دُنیاوی غم مذکور ہے اس میں قصور واری کی واقفیت کا دُکھ شامل ہے مگر جب توبہ اس کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ تو عقباوی غم ہو جاتا ہے۔ ورنہ پشیمانی ہی رہتی ہے۔ جو یہودا اسکریوتی سے بھی ہوئی اور توبہ یہی ہے۔
پانچواں باب
خُدا کی پروردگاری اور آدمی کی قصورواری
اگر چہ گناہ کی قصور واری کی واقفیت خود قصور واری سے بہت کم ہوتی ہے۔ پھر بھی قصورواری اسی واقفیت سے ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم اسی واسطے اپنےتئیں(واسطے) قصور واری سمجھتے ہیں کہ ہمارا دل اس پر گواہی دیتا ہے ۔ مگر پھر بھی یہ یقین کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ عقل اس کے برخلاف بہت سی قوی (مضبوط)دلیلیں لاتی ہے۔ مثلاً چونکہ خُدا ہر جگہ حاضر ہے اور بغیر اس کے سہارے کےکچھ نہیں ہو سکتا تو جو کچھ آدمی سے بھی نیکی یا بدی ہوتی ہے۔ کیا خُدا اس میں شریک نہیں ہے؟ لیکن اگر ہم اس دلیل کے سبب سے اپنی قصورواری کی واقفیت کو غلط سمجھیں تو گناہ کی بدی بھی کس طرح ثابت ہو گی۔ یعنی اگر خُدا فی الحقیقت ہمارے گناہ کا بانی ٹھہرے تو کیا گناہ سے نفرت کرنی چاہیے؟ کیا نیکی اور بدی دونوں کو پسند نہ کرنا چاہیے ؟ لیکن اس حال میں تو نیکی اور بدی میں کچھ فرق نہ رہے گا ۔ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ خُدا دونوں کا بانی تو ہے۔ لیکن چونکہ اسے بدی نیکی سے کم پسند آتی ہے۔ اس واسطے اس نے بدی کے ساتھ قصورواری کی واقفیت کا دُکھ لگا دیا ۔تا کہ آدمی اسی کی پیروی(پيچھے چلنا)کرے جو خُدا کو زیادہ پسند ہے۔ لیکن یہ ظلم و بے رحمی کی بات ہے کہ خُدا بدی تو آپ کرے اور اس کی سزا اور دُکھ اوروں کو دے۔ پس اس صورت میں خُدا ( نعوذباللہ) ظالم اور بے رحم ٹھہرے گا۔ اور اگر یہ امر فرض بھی کرلیا جائے تو یہ ڈھنگ (رويہ)اسی وقت تک چل سکتا ہے۔ جب تک آدمی اس سے آگاہ نہ ہو اور جب آدمی نے اسے اپنی ہوشیاری سے دریافت کرلیا تو پھر وہ کس کا رہا ۔ بلکہ اس وقت ( نعوذ باللہ) خُدا کی طرف نہ فقط بے رحمی بلکہ احمق بھی منسوب ہو سکتا ہے۔
پس اس صورت میں کیا آدمی کی قصورواری کے بچانے کے واسطے خُدا کی غیر محدود پر وردگاری سےانکار کریں؟ نہیں ہرگز نہیں ورنہ دینداری بالکل جاتی رہے گی۔
خُدا کی خالقی اور اس کی پروردگاری میں بڑا فرق ہے۔ اگرچہ خُدا ان دونوں سے اس دنیا میں کام کرتا ہے۔ اور اس کے بعض کاموں میں ( مثلاً معجزوں میں ) خالقی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اور بعض کاموں میں پروردگاری ۔ پھر بھی جب اس نے دنیا کو پہلے پہل پید اکیا تو محض خالقی کو کام فرمایا اور اس کے بعد پھر محض خالقی عمل میں نہیں آئی۔ اگر خُدا نےآدمی کو گنہگار مخلوق کیا ہوتا ( نعوذ باللہ ) بے شک وہ گناہ کا بانی ہوتا لیکن گنہگار آدمی کی پرورش کرنے یعنی ان قوتوں کے برقرار رکھنے سے جواس نے اس کو دی ہیں۔ وہ آدمی کےگناہ کا بانی نہیں ٹھہرتا۔
فی الحقیقت خُدا کی پروردگاری اس کی ایک یکساں تاثیر (نتيجہ)ہے جس سے ساری مخلوقات ہر دم سنبھل اور اس کے ماتحت محفوظ رہتی ہے۔ وہ سب کے سارے کاموں کی بنیاد ہے لیکن ان کو ذرا بھی ادھر اُدھر مائل(متوجہ کرنا) نہیں کرتی۔ ا س سے ایسا بندوبست ہوتا ہے کہ آدمی کے کاموں کے نیتجے خُدا کی مشیت(خواہش) کی حدوں سے تجاوز(حد سے بڑھنا) نہیں کرنے پاتے بلکہ خُدا کی مشیت ہی پوری ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ ناطق(صاحبِ عقل) و غیر ناطق ۔ بھلوں اور بُروں سے بالکل برابر علاقہ رکھتی ہے۔ لیکن کسی شخص کو کچھ رغبت (توجہ۔آرزو)نہیں دلاتی ۔ پس آدمی کی قصور واری اور جوابدی میں خواہ مزاج کے سبب ہو خواہ قصد(ارادہ) خواہ فعل(کام) کے سبب خُدا کی پروردگاری سے کسی طرح فرق نہیں آتا ہر دم آدمی کوکام اور ارادہ اور خواہش کرنے کی قوت خُدا سے ملتی ہے ۔لیکن وہ بُرا کام یا ارادہ یا خواہش آپ ہی سے کرتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ خُدا بُرا کام یا ارادہ کرنے کے وقت کرنے والے کو کیوں سنبھالتا ہے۔ تو اس سوال کے يہ معنی ہوئے کہ خُدا کرنے والے کو کيوں نيست (تباہ ) نہيں کر ديتا۔کيونکہ اس شخصیت میں جو مخلوق ہے ۔ گناہ کا امکان شامل ہے۔
اس بات میں البتہ بائبل کے اندر ایسی آئتیں ہیں جن کا مطلب سمجھنا مشکل ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام بائبل کے پڑھنے سے یہ یقین ہوتا ہے۔ کہ اس میں یہی عقیدہ ہے کہ خُدا کسی طرح گناہ کا بانی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے نہایت نفرت رکھتا ہے اور اسی سبب سے قہار(بڑا قہر کرنے والا) ہے۔ کفارے کے عقیدہ پر کچھ ہی اعتراض ہو مگر اس کی بنیاد یہی ہے۔ کہ گناہ کی مغفرت(نجات) نہایت ہی مشکل ہے۔ رومیوں کے خط ۸: ۷ اور کلسیوں کے خط کے ۲۱:۱ میں گناہ کی حالت خُدا کی دشمنی کہلاتی ہے۔ یوحنا کے پہلے خط کے ۱: ۵ میں لکھا ہے کہ خُدا میں تاریکی ذرا بھی نہیں ہے۔ یعقوب کے خط کے ۱: ۱۳ میں مذکور ہے کہ وہ بُرائی کے واسطے کسی کو نہیں آزماتا اور اسی باب کی ۱۷ آیت میں جو لکھا ہے کہ ’’ سب طرح کا اچھا انعام ۔۔۔۔ اوپر سے ملتا ہے ‘‘۔ قرینہ(مناسبت) سے اس کا یہ مطلب نکلتا ہے۔ کہ اوپر سے صرف اچھے ہی انعام ملتے ہیں ۔ ابلیس کی نسبت جو یہ عقیدہ ہے۔ کہ وہ بد ی(1) کا بانی ہے۔ اور خُدا کے بالکل برخلاف ہے اس سے بھی یہ صاف ظاہر ہے کہ خُدا بدی کا بانی نہیں ہو سکتا۔
جو آئتیں اس کے برخلاف معلوم ہوتی ہیں وہ عہد نامہ عتیق میں ہیں۔ اس کے ظہور (ظاہر ہونا)کے وقت جب آدمی کی شخصیت کی بزرگی خُدا کے مجسم ہونے سے بالکل ظاہر نہ کی گئی تھی خُدا کی قدرت مطلق اور ہر جگہ تاثیر کرتی دینداروں کے دلوں پر ایسی غالب آئی تھی ۔ کہ یہ بخوبی ظاہر نہیں ہوا تھا کہ بدی اس تاثیر سے بالکل الگ ہے۔ اس واسطے سموئیل کی دوسری کتاب کے ۲۴: ۱ میں لکھا ہے کہ خُدا نے بنی اسرائیل پر غصہ ہو کر داؤد کو ان کی مردم شماری کے لئے ترغیب (کسی کام کو کرنے پر آمادہ کرنا۔لالچ دينا)دی۔ اس طرح کی اور بھی آئتیں ہیں لیکن اس سے آسان تر ہیں مثلاً سموئیل کی دوسری کتاب کے ۱۶: ۱۰ اور ۱۱ ۔ سلاطین کی پہلی کتاب کے ۲۲:۲۲ ۔ یسعیاہ کے ۶۳ : ۱۷ ۔ یسعیاہ کے ۴۵: ۷ اور عامو س کے ۳: ۶ میں بُرائی سے مراد ظاہر ی نقصان ہے۔ پیدائش کے ۴۵ : ۸ کی تفسیر پیدائش کے ۵۰: ۲۰ میں ہے یعنی یہ کہ ’’ تم نے تو میرے لئے بُرائی کا خیال کیا لیکن خُدا نے اسی بات کو بھلائی کے لئے خیال کیا‘‘۔ جن گناہوں کی طر ف بائبل میں خاص اشارہ ہے۔ مثلاً آدم اور حّوا کی نافرمانی ۔ قائن کی بر ادر کشی ۔ طوفان کے وقت کی خرابی سدوم اور عمورا کی شرارت ۔ داؤد کا خون اور زنا کرنا ۔ بنی اسرائیل اور یہود اور ان کے بادشاہوں کا پشت در پشت زیادہ بُرا ہونا وغیرہ ان کے ارتکاب (جُرم کرنا۔عمل کرنا)کے بیان میں خُدا کا نام کبھی نہیں آتا۔
(1) ۔ یوحنا کے ۴: ۲۴ کو دیکھو۔
مسیحی دین کے خاص ان دو عقیدوں یعنی عدالت اور نجات کے عقیدوں سے یہ ثابت ہے کہ گناہ کی قصور واری مطلق خُدا میں نہیں ہے۔
۱۔ اس زندگی میں دینداروں کے اندرونی اور بیرونی حال میں بڑا فرق ہے۔ یعنی ان کے دل تو خُدا کی محبت سے آراستہ ہیں اور ظاہر ی حال دنياکی تکلیفوں سے پریشان ۔ لیکن چاہیے کہ بیرونی حال اندرونی حال کے مطابق ہو۔ اور یہی وہ کمال ہے جس کا عاقبت (آخر)میں وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کمال کے لئے یہ ضرور ہے کہ خُدا کے بندوں اور اس کے دشمنوں کی وہ رفاقت جو اس دنیا میں خواہ مخواہ ہوتی ہے۔ بالکل اور ہمیشہ کے لئے بند ہو۔ آدمیوں کے باہم جو رشتے ہیں وہ اسی حال میں دائم (ہميشہ) رہ سکتے ہیں ۔جبکہ وہ رشتے خُدا کے رشتہ میں شامل اور اس کے تابعدار ہو گئے ہوں۔ اور جس صورت میں ایک رشتہ دار خُدا کا تابعدار ہو اور دوسرا اس سے سرکش ہو تو ان کا رشتہ ضرور منقطع (اختتام کو پہنچا ہوا)ہو جائے گا۔ چنانچہ بہت زبانوں میں عدالت کے اصل معنی جُدا جُدا کرنا ہیں۔ مثلا ً ہندی میں اس کو بچا رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لڑکوں کا خیال ہے کہ سب آدمی مطلق نیک یا مطلق بد کہلائیں کیونکہ ہر ایک اِنسان میں نیکی اور بدی ملی ہوئی ہے۔ لیکن بعض وقت لڑکوں کی سادگی سے ایسی عمیق(کامل۔گہری) باتوں کی حقیقت پہچانی جاتی ہے ۔ جو بالغ اور عقل مندوں کو جنہیں صرف اسی دنیا کا زیادہ تجربہ ہے نظر نہیں آتی ہیں۔ یہ تو سچ ہے ۔ کہ زندگی میں نیکی اور بدی ہر اِنسان میں ملی ہوئی ہے ۔ اور ہم کسی کو مطلق نیک یا مطلق بد نہیں کہہ سکتے لیکن کیا اس سے یہ بھی نیتجہ نکلتا ہے۔ کہ ان کا ہمیشہ ملا رہنا ضرور ہے اور خُدا ہم سے زیادہ ہر اِنسان کی حقیقی طبیعت نہیں جانتا اگر نیکی اور بد ی ما ہيتيں(حالتيں) بالکل جدُ ا جُدا نہیں ہیں تو ہمارا سارا بیان عبث (فضول)ہے اور نیز اگر ایسی ہی ہیں ۔ تو ضرور ہے کہ کسی وقت تو بظا ہر ایک دوسرے سے جُداہوں ۔ جیسا کہ اس زندگی میں اِنسان کی طبیعت یا نیک ہے یا بد یعنی یا وہ خُدا کا فرمانبردار ہے یا نہیں ۔ ضرور ہے کہ وہ نیکی یا بدی جو یہاں اس کے دل میں مرکوز ہے عاقبت میں بھی اس کے تمام دل پر حاو ی ہو کر اس کی بیرونی حالت میں بھی ظاہر ہو۔ متی ۶: ۲۴ اور ۷: ۱۷ و ۱۸ ۔ اور ۱۲ : ۳۲ سے ۳۵ تک دیکھو۔
اس واسطے خُدا کی عدالت میں نہ صرف جد ا جُدا کرنا بلکہ سزا و جزا بھی شامل ہے اور سزا و جزا یہی ہے کہ کسی کا بیرونی حال اس کے اندرونی حال کے مطابق کر دیا جائے۔
بُرائی دو طرح کی ہے ۔ شرارت اور بلا ۔ یہ دونوں طرح کی بُرائی زندگی اور ترقی کی مزاحم (مزاحمت کرنے والا) ہے۔ شرارت زندگی کی وہ مزاحم ہے جو اِنسان کی خود مختاری(آزادی) سے ہوتی ہے اور بلا وہ مزاحم ہے جو خارج سے اِنسان پر آتی ہے۔ لیکن جس طرح بلا کی مزاحمت فوراً معلوم ہو جاتی ہے۔ اس طرح شرارت کی مزاحمت معلوم نہیں ہوتی ۔ اسی سبب سے سز ا ضرور ہوئی کیونکہ سز اسے وہ بُرائی جو خوشی کے ساتھ کی گئی تھی ۔ انجام کو اپنی حقیقی صورت پکڑ کر یعنی زندگی کی مزاحم معلوم ہو کر فاعل(کام کرنے والا) کی طرف رجو ع کرتی ہے۔ یہ سزا اوّل تو وہ دُکھ ہے جو قصور واری کی واقفیت سے قصور وار کے دل میں پیداہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ سزا کافی ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ سزا ہمیشہ گناہ کے برابر نہیں ہوتی بلکہ جتنا زیادہ کوئی گناہ میں پھنسا ہوتا ہے اتنی ہی یہ سزا کم پاتا ہے پس اس طرح سے زیادہ گنہگار کم سزا پائے گا اس سبب سے آئندہ کے لئے سزا ماننی ضرور ہے جس سے گنہگار کے اندرونی و بیرونی حال کا وہ فرق جس کا قائم رہنا خُدا کی نیک حکومت کے برخلاف ہوتا ہمیشہ کے واسطے موقوف ہو جائے اور جیسا کہ اس کا اندرونی حال خراب ہے ویسا ہی بیرونی حال بھی ہو جائے۔
پس جب کہ خُدا گناہ پر سز ا دینے والا ٹھہرا تو ممکن نہیں کہ وہ کسی صورت سے اس کا بانی بھی ہو ورنہ صرف نیک و بد ہی کی نہیں بلکہ خُدا کی بھی واقفیت میں بڑی ابتری (خرابی)ہو گی ۔ لیکن خُدا کی خالقی اور آدمی کے گنا ہ کے درمیان جتنے وسیلے ہیں ۔ اگر ان میں سے ایک خود مختاری نہ ہو تو خُدا گناہ کا بانی ٹھہرے ۔ پس آدمی خُدا کے اختیار میں ہے ورنہ خُدا اسے سزا نہ دے سکتا لیکن پھر آدمی خود مختار بھی ہے اس لئے اس کو سزا دینی بے انصافی نہیں ۔
پھر سزا اور تنبیہ میں بڑا فرق ہے ۔ ہاں یہ تو صحیح ہے کہ ایک ہی کام یعنی دُکھ دینا ان دونوں سے ہو سکتا ہے۔ لیکن مطلب دونوں کا جُداجُدا ہے ۔ تنبیہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا فائدہ ہو اور سزا کا منشا(مرضی)یہ ہے۔ کہ شریعت کا حق ادا ہو یعنی یہ ظاہر ہو کہ شریعت کی عدول حکمی (نافرمانی)سے اس کی شان میں کچھ فرق نہیں آیا۔ شریعت زبردستی سے تو اپنی فرمانبرداری نہیں کرا سکتی ۔ لیکن نافرمانی کی سزا کے سبب اپنا حق ادا کر لیتی ہے۔
یونانی زبانی میں جو انجیل ہے اس میں یہ دونوں مطلب جُدا جُدا لفظوں سے مذکور ہیں۔ تنبیہ الہٰی نجات سے متعلق ہے۔ ططس کے پہلے خط کے ۲: ۱۱ اور ۱۲ کو دیکھو۔ بائبل میں تنبیہ صرف ان ہی کی نسبت مذکور ہے جو ایمان سے خُدا کے تابعدار اور فرزند ہو گئے ہیں۔ اور سزائے الہٰی صرف دُنیا دار لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ مذکور ہے جو ایمان سے خُدا کے تابعدار اور فرزند ہو گئے ہیں اور سزائے ِالہٰی صرف دنیا دار لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ خواہ وہ کبھی ایماندار نہ ہوئے ہوں اور خواہ ایمان سے گر گئے ہوں ۔ یہ خاص کر کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۱ : ۳۰، ۳۲ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’ ہم خُدا سے تنبیہ پاتے ہیں۔ کہ مبادا(خُدا نہ کرے)ہم پر دنیا کی طرح سزا کا حکم ہو۔ اس واسطے بائبل میں ہے کہ تنبیہ الہٰی محبت سے اور سزا الہٰی غضب سے ہوتی ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ خد اسب سےمحبت کرتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ایمانداروں کے لئے ’’ خُدا(1) بھی بھسم کرنے والی آگ ہے‘‘۔ مگر يہ دونوں اصل ایک ہی ہے یعنی محبت خواہ مخواہ اپنی ضد کی مخالفت کرتی ہے۔ اگر خُدا گناہ پر غضبناک نہ ہوتا تو اس کی محبت میں بڑا خلل آتا ۔ سز ا سے اس کے پانے والے کی عزت ہوتی ہے۔ اگر حاکم قصوروار کے محض فائدہ کا لحاظ کر کے فتویٰ سے یہ ثابت کرتا کہ قصور وار نے وہ جرم ایک کل کی طرح ناچاری کی حالت میں کیا ہے۔ اور اگر خُدا گنہگار کو سز انہ دیتا یعنی اگر صرف اس کو تنبیہ کرتا تو اس کی بڑی بے عزتی کرتا اور اپنی صورت یعنی آدمی کی خود مختاری سے گویا انکار کرتا ۔ جو اپنی خود مختاری سے خُدا کی مخالفت کرتا ہے۔ اسے وہ سزا دیتا ہے اور جو اپنی خود مختاری سے خُدا کے اختیار میں رہتا یا رہنا چاہتا ہے اسے وہ تنبیہ کرتا ہے تا کہ اس کی بہتری ہو ۔ یوحنا کے ۱۵ : ۲ اور رومیوں کے خط کے ۵ : ۳، ۴ اور ۸: ۲ اور عبرانیوں کے خط کے ۱۲ : ۱۱ کو دیکھو۔
جب لوگ ملکی انتظام میں سزا کو موقوف کرنا چاہتےہیں تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی کی قصور واری میں شک کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں وہ خونی جس نے یہ جان کر خون کیا کہ اس سے میں قتل کا مستوجب (لائق)ہوں گا ۔ اس منصف سے بہتر ہے جو عذر (بہانہ)ڈھونڈ کر اس کو چھڑاتا ہے کیونکہ وہ تو اپنے قصور کی سزا پانے کو تیار ہے ۔ مگر یہ اپنے مقدور بھر شریعت ہی کی شان کو مٹاتا ہے۔
(1) ۔عبرانیوں کے خط کے ۱۲: ۲۹ کو دیکھو۔
۲۔ نجات کا عقیدہ بھی اگر ہم گناہ کی قصورواری کو نہ مانیں تو بے معنی ہو گا ۔ یہ تو سچ ہے کہ اگر گناہ میں قصور واری نہ ہوتی یعنی اگر خُدا نے کسی سبب سے گناہ کو مقر ر کیا ہوتا تو بھی وہ آدمیوں کو اس سے رہا ئی دے سکتا ۔ لیکن ایسی رہائی اور مسیحی دین کی نجات میں بڑا فرق ہے۔ نجات بائبل میں خُدا کے فضل ہی کا ایک کام مذکور ہے ۔لیکن اگر گناہ خُدا کی جانب سے ہوتا تو کچھ یہ نہیں کہ اس کا فضل اس سے رہا ئی دینے سے ظاہر نہ ہوتا بلکہ اس کا کچھ انصاف بھی ظاہر نہ ہوتا ۔ اگر ہمارا گناہ کسی قدر بھی ہمارے سبب سے نہ ہوتا تو ہمارے ساتھ انصاف کیا ہوتا ۔ اور جہاں انصاف کی جگہ نہیں وہاں فضل کی بھی کچھ گنجائش نہیں ہے۔ پس خُدا کا اختیار کلی(تمام) باقی رہا ۔ پھر اگر گناہ میں قصور واری نہ ہوتی ۔ تو گناہوں کی مغفرت(رہائی۔نجات) کس طرح ہو سکتی ۔ کیونکہ گناہ کی مغفرت سے یہ مطلب نہیں ہے کہ خُدا فی الحقیقت ہم کو بے قصور ٹھہراتا ہے۔ بلکہ وہ ہمیں قصور وار ٹھہرا کر اپنے فضل سے کہتا ہے۔ کہ باوجود قصورواری کے میں قصور وار کو اپنی مقاربت (نزديکی)سے خارج نہ کروں گا۔ اگر گناہ خُدا کی طرف سے مقرر ہوتا تو خُدا سے اس کی مغفرت چاہنی نہ صرف بے وقوفی بلکہ سر کشی بھی ہوتی ۔
لیکن خاص کر مسیح کے کفارہ سے گناہ کی قصور واری ثابت ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کہ فقط زمانہ حال کا گناہ آدمی کو خُدا سے الگ کرتا ہے اوراس گناہ کو چھوڑ کر خُدا کی طرف رجوع کرنی مغفرت کے لئے کافی ہے وہ دو طرح سے غلطی میں پڑے ہوئے ہیں ایک تویہ کہ جو شخص گنا ہ کرتا ہے۔ وہ گناہ کا غلام ہو جاتا ہے اور آدمی اپنے تئیں اس کی غلامی میں تو دے سکتا ہے مگر پھر اس سے اپنے تئیں چھڑا نہیں سکتا ۔ دوسرے یہ کہ اگر بالفرض کوئی گناہ کے بندسے خودبخود چھوٹ بھی جائے تو بھی گناہ کی قصور واری رہ جاتی ہے۔ جو گناہ ہو چکا وہ اگر چہ ازروئے واقعہ گزر چکا مگر قصور واری کے لحاظ سے جب تک اس کا کفار ہ نہ ہو وہ موجود رہتا ہے ۔ اس واسطے اس مقام میں جہاں نجات کے عقیدہ کا سب سے زیادہ صاف بیان ہوا یعنی رومیوں کے خط کے ۳: ۲۴ اور ۲۵ اور ۲۶ میں گذشتہ گناہوں کا خاص ذکر ہے کہ ان ہی کے واسطے مسیح کا کفار ہ ضرور تھا ۔اور اس اعراض (منہ پھيرنا)کے سبب جو خُدا نے ان سے کیا تھا ان کا کفارہ دینا خُدا کے انصاف کے ظہور کے واسطے لابد تھا۔ اور کفارہ فقط مسیح ہی سے ہو سکا ایک تو اس واسطے کہ وہی اکیلا بے گناہ تھا ۔ اور دوسرے اس لئے کہ خُدا کا بیٹا ہو کر وہ تمام آدمیوں سے ایسا علاقہ(تعلق۔لگاؤ) رکھتا تھا کہ جس کے سبب وہ اپنی محبت کے زور سے ان کے ساتھ شامل ہو کر ان کی سز ا اُٹھا سکا ۔ اس سبب سے خُدا کی ساری سزاؤں کی نسبت مسیح کا مصلوب ہونا زیادہ تر گناہ کی حقیقی قصور واری کو ثابت کرتا ہے۔
اس لئے اس کفارہ سے پہلے خُدا اور اِنسان کے درمیان اس جُدائی کا وقوع (واقع) جو عہد نامہ عتیق(پرانا عہد نامہ) سے ظاہر ہے ضرور تھا۔ غیر مذہبوں کا یہ خا ص نقص ہے کہ ان میں اس جُدائی کا کم لحاظ ہوتا ہے۔ اور اگرچہ کفارہ نہیں ہوتا پھر بھی آدمی خُدا کی عبادت بے پروائی سے کر نے کو راغب(مائل) ہو تا ہے ۔ برعکس اس کے بنی اسرائیل میں اگرچہ خُدا کے عہد سے ۔ قربانیوں سے عبادت کے ٹھہرائے ہوئے سامان سے۔ مسیح کی اُمید سے۔ اور سببوں کی ناتمامی کی وجہ سے دیندار لوگ اپنےتئیں خُدا سے جُدا جانتے تھے۔
تيسرا حصّہ کيا گناہ ضروری ہے
چھٹا باب
آدمی کی ناتمامی
اب تک ہم نے اپنے ہی دل کی گواہی سُن کراور اپنے تجربہ کی طرف توجہ کر کے گناہ کا حال دریافت کیا اور دیکھا کہ بائبل کا مضمون بھی اس کے مطابق ہے ۔اور بے شک ہم اپنے تجربہ ہی سے گناہ کو معلوم کرتے ہیں ۔ لیکن ہماری عقل خواہ مخواہ یہ سوال کرنا چاہتی ہے۔ کہ گناہ کس طرح سے ہوا۔ جب خُدا نے اپنی پاک مرضی اور قدرتِ مطلق سے دُنیا کو پیدا کیا تو ایسی دنیا میں اس کی ایسی دشمنی کہ جس کے بدلے میں آدمی کو ابدی سزا مل سکتی ہے۔ اور جس کے کفارہ میں خُدا کے بیٹے کو بے انتہا دُکھوں کے ساتھ مرنا ہوا کس طرح سے ہے؟ اس سوال کے جواب دو قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ایک قسم کے جوابوں کا توخلاصہ یہ ہے کہ گناہ کسی نہ کسی طرح کی ضرورت کے سبب ہوا۔ دوسری قسم کا ایک ہی جواب ہے یعنی یہ کہ گناہ آدمی کی خود مختاری(آزادی) سے ہوا۔ پیشتر ہم کو پہلی قسم کی رایوں کو رد کرنا ضرور ہے پھر اس کے بعد ہم دوسری قسم کی رائے کو بیان کریں گے۔
اُ ن راؤں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کی ناتمامی کے سبب گناہ کا ہونا ضرور تھا۔ خُدا ہی کی ذات کامل(مکمل) ہے اور مخلوق ناتمام ہے۔ اور اس ناتمامی کے سبب جس طرح اس کے سُکھ کے ساتھ دُکھ اور اس کے علم کے ساتھ غلطی ملی ہوئی ہے اس طرح نیکی کے ساتھ بدی بھی ملی رہنی کچھ تعجب کی بات نہیں ہےیعنی جیسے کی تاریکی ۔ سردی ۔ غلطی کی ہستی نہیں ہے بلکہ یہ صرف نفی کی صورتیں ہیں اسی طرح بدی کی بھی ہستی نہیں اور چونکہ نفی کا کوئی بانی نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے خُدا گناہ کا بانی نہیں ٹھہرتا ۔
اس رائے کا پہلا جواب یہ ہے کہ اگر گناہ مخلوق کی ناتمامی کا ضرور نیتجہ ہے۔ تو جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ آدمی غیر فانی ہے۔ ان کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ گناہ غیرفانی ہے۔ اگرچہ رفتہ رفتہ ابدتک کم ہو جاتا ہے۔ پھر بھی چونکہ آدمی ابد تک مخلوق ہی رہے گا۔ اس واسطے اس کو ابدتک گنہگار بھی رہنا ہو گا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر سب گناہ کمزوری کے سبب سے ہوتے تو شاید رائے مذکور صحیح ٹھہر سکتی۔ لیکن بد خواہی اور بدی کی بے شرم پيروی(پيچھے چلنا)اور نیکی اور نیکوں کی دشمنی کس طرح اس حال میں ہو سکتی۔ اور اگر گناہ نفی ہے تو کس طرح اس میں ترقی ہو سکتی ہے؟ ۔ کس طرح ایک گناہ سے اور بہت سے گناہ پیدا ہو سکتے ہیں ؟ کس طرح گناہ سے دل سخت ہو سکتا ہے؟
تیسرا جواب یہ ہے کہ جب گناہ کسی پر یہاں تک غالب آتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر خود غرضی کرتا ہے۔ تواس کی عقل اکثر کمزور نہیں ہوتی اور نہ وہ سست ہو جاتا ہے بلکہ بڑی عقل مندی اور چالاکی کے ساتھ اپنی خواہشیں پوری کرتا ہے۔ تھسلنیکیوں کے دوسرے خط کے ۲: ۱۱ میں آدمی کی کامل خرابی ’ ’ دُعا کی تاثیر ‘‘ کہلائی ہے اور جیسا کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۲: ۱۰ میں خُدا کی عمیق(گہری) باتیں مذکور ہیں ویسا ہی مکاشفہ کے ۲: ۲۴ میں شیطان کی عمیق باتیں بھی مذکور ہیں ۔ اور مسیح کہتا (1) ہے کہ ’’ اس دنیا کے فرزندنو ر کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیا ر ہیں‘‘۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ اگر گناہ نفی اور کمزوری کا نتیجہ ہوتا تو ہم اس سے نفرت نہ کر سکتے بلکہ گنہگار پر شفقت(رحم) کرتے ۔ یہ تو سچ ہے کہ جتنی زیادہ رائے پھیلے گی اتنی ہی کم گناہ سے نفرت ہو گی ۔ اور یہ بھی سچ ہے۔ کہ گناہ کی تاثير کے سبب سب لوگ گناہ سے بہت ہی تھوڑی نفرت کرتے ہیں۔ لیکن جب دستور کے خلاف کوئی بہت بڑی بدی نظر آتی ہے تو خواہ مخواہ نفرت ہوتی ہے۔ بلکہ اس رائے کے پیرو بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔
(1) ۔لوقا کے ۱۶: ۸ کو دیکھو۔
پانچواں جواب یہ ہے۔ کہ یہ رائے بائبل کے بالکل برخلاف ہے اس میں خُدا کی شفقت اور رحمت جو گنہگاروں پر ہوتی ہے اس کا کثر ت سے ذکر تو ہے مگر پھر بھی گناہ کو خُدا کے غضب کا سبب اور گنہگار کو خُدا کا دشمن اور شیطان کا ساتھی اورعذاب کا مستوجب لکھا ہے۔ مسیح بھی اہلِ یروشلیم کی حالت پر رویا تھا ۔ لیکن اس کے اکثر کلام سے یہ ثابت ہے ۔
کہ وہ گناہ سے نہایت نفرت کرتا تھا اور اس پر بڑا غضب ناک ہوتا تھا ۔ اور تمام بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ خُدا چاہتا کہ ہم گناہ پر نہ صرف افسوس کریں بلکہ جان فشانی کے ساتھ اس کی مخالفت بھی کریں اور جب تک وہ کچھ بھی باقی رہے آرام نہ کریں۔ پھر اس میں دجال کی نسبت پیشین گوئی ہے کہ آخر میں بدی نہایت زور پکڑے گی یہ سب باتیں اس رائے کے بالکل برخلاف ہیں کہ گناہ نفی ہے ۔ مسیحی دین کے اندر نیکی اور بدی میں آسمان و زمین کا فرق ہے نہ کہ درجوں ہی کا یعنی یہ نہیں ہے کہ بدی صرف کم اچھی نیکی ہو۔
اس تمام غلطی کا ایک یہ سبب ہے کہ نیکی اور بدی کے دونوں معنوں کو ملا دیا ہے۔ ہستی ایک طرح کی نیکی ہے اور جتنی وہ کامل یعنی نیستی (فنا۔ناداری)سے دور ہے۔ اتنی ہی وہ زیادہ ایک طرح سے نیک ہے ۔ لیکن یہ نیکی اور بدی شخصوں کے خو د مختاری کے کاموں سے اور نیز ان کی شریعت سے کچھ علاقہ رکھتی ۔ ایک طرح سے تو شیطان بھی نیک ہے کیونکہ اس میں بھی ہستی ہے مگر دوسری طرح سے وہ بالکل بد ہے۔
البتہ ایک طرح سے گناہ بھی نفی کہلا سکتا ہے یعنی آدمی کو جیسا ہونا چاہیے۔ اور جو اس کی پیدا ئش سے مقصد ہے اس کا ویسا نہ ہونا گناہ ہے۔ لیکن ہم پوچھے ہیں کہ اس نفی کا سبب کیا ہے؟ اگر کہو کہ اس کا سبب وہ نفی ہے جو اوپر مذکور ہوئی یعنی نیکی کا عدم (نہ ہونا)تو یہ صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ نفی جو آدمی کی ذات کے برخلاف ہے اس نفی سے جو اس کی ذات میں شامل ہے پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ رائے ستو اک اور لو پلا تو نک فیلسوفوں کی ہے اور کلیسیاء کے بعض معلموں کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اگلی کلیسیاء میں بادی النظر(ابتدائی نظر) میں اس کا خاص طرف دار اوگستین معلوم ہوتا ہے ۔ چونکہ اوگستین کو حاصل کر مانیخایوں کی مخالفت کرنی پڑی جو گناہ کو ایک حقیقت سمجھتے تھے۔ اس واسطے اس نے اس کو کوئی شے نہیں بلکہ نیکی کی نفی کہا۔ لیکن جب زیادہ غور سے اس کے نوشتوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ بدی ہستی اور کمال کی روکنے والی اور برباد کرنےوالی ہے ۔ جیسا کہ آگ لکڑی کی فنا کرنےوالی ہے ۔ اس مثال سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اوگستین گناہ کو خُدا کی مخالفت جو مخلوق ہی کی طرف سے ہوتی ہے سمجھتا تھا۔
ساتواں باب
آدمی کی جسمانیت
اب یہ بات ثابت ہوئی کہ گناہ نفی نہیں ہے ۔ گووہ آدمی کی پیدائش کے مقصد کے برخلاف ہے پھر بھی اس مخالفت کا کوئی حقیقی سبب ہونا چاہیے۔ مگر جب یہ پوچھتے ہیں کہ وہ کیا ہے تو بہت سے لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ وہ جسم ہے۔ اور چونکہ آدمی نہ صرف رُوحانی بلکہ جسمانی بھی ہے۔ تو کچھ تعجب(حيرانگی) نہیں کہ وہ گنہگار ہے ۔ یہ رائے اس پہلی رائے سے کچھ بہتر ہے اس واسطے کہ اس کو مان کر ہم گناہ کی مخالفت تو کر سکتے ہیں۔
لیکن اس رائے کا مطلب کیا ہے؟ ۔ کیا یہ ہے کہ فی الحقیقت جسم بد ہے؟ مگر یہ تو کوئی نہیں سمجھتا کہ حیوانات کا بھی جسم بد ہے۔ تو کیا یہ مطلب ہے کہ جو جسم رُوح کے ساتھ مقید (قيد)ہے ۔وہ اس رُوح کے واسطے گناہ کا باعث ہے یعنی جسم آپ تو گناہ نہیں کرتا مگر رُوح اس کی تابعدار ہو کر گنہگار ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے کہ جو شے بالذات اعلیٰ اور حاکم ہے وہ اپنے سے با لذات ادنی ٰ اور محکوم کی تابعدار ہوتی ہے۔ شاید کوئی یہ جواب دے کہ جسم تو آرام چاہتا ہے۔ اور رُوح حق چاہتی ہے۔ اور حق اکثر تلخ (سخت)معلوم ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ رُوح اور جسم کے درمیان اکثر مخالفت رہتی ہے بلکہ کبھی کبھی جسم رُوح پر غالب بھی آ جاتا ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کیو نکر رُوح جسم سے اس قدر مغلوب(عاجز۔شکست خوردہ) ہو سکتی ہے ۔ کہ صرف جسمانی آرام کے حاصل کرنے کے کام آئے اور یہ حال برابر بلکہ تا دم مرگ(مرتے دم تک) رہے جیسا اکثر آدمیوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ آدمی اپنی خود مختاری سے رُوح کی نہیں سنتا بلکہ جسم ہی کی سنتا ہے تو پھر جسم گناہ کا باعث نہیں رہا کیونکہ یہ تو سب پر روشن ہے کہ جسم شریعت کی مخالفت کرتا ہے۔ اور اکثر گناہ اسی سے ہوتے ہیں۔لیکن یہاں ہم اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ گناہ کی حقیقت کیا ہے بلکہ صرف اسی کا ذکر کرتے ہیں کہ اس کا سبب کیا ہے۔ تعجب انگیز (حيرت انگيز) اور نہایت مشکل بات یہی ہے کہ جب آدمی کی شرع دانی اور خود مختاری دونوں اس کی رُوح میں شامل ہیں تو رُوح اپنی شریعت کی نہ سن کر بے ضرورت ایک ادنیٰ چیز کی غلامی کیوں اختیار کرتی ہے۔ اگر یہ کہیں کہ وہ اپنی بدی ہی سے ایسا کرتی ہے۔ تو پھر گناہ کی اصل جسم میں نہیں بلکہ رُوح ہی میں ہے۔ اور اگر یہ کہیں کہ وہ اپنی کمزوری سے ایسا کرتی ہے تو پھر گناہ آدمی کاکام نہیں صرف اس کی ناچاری(مجبوری) ہے اور اس سے اس کی قصور واری نہیں رہتی۔
لیکن شاید اس رائے کا مطلب یہ ہو کہ جسم ہر شخص میں رُوح سے بہت پہلے ترقی کرتا ہے اور زور پکڑتا ہے اور جب تک رُوح جاگے اور اپنی شریعت سے واقف ہو اس وقت تک جسم اتنا زور پکڑ لیتا ہے۔ کہ رُوح کااس پر غالب ہونا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔
رُوح جسم سے بالکل علیحدہ شے ہے۔ ہاں اس میں تو شک نہیں کہ ان دونوں کا ایسا اتفاق ہونا چاہیے کہ جو یہاں نفسانی بدن ہے وہ قیامت کے دن رُوحانی بدن ہو جائے جیسا کہ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۵ باب میں مفصل بیان ہوا ہے یعنی بالکل رُوح کے لائق آلہ بلکہ اس کا مظہر(ظاہر کرنے والا)ہو۔ خد انے رُوح اور بدن میں ایسا علاقہ (تعلق) نہیں رکھا جیسا پرند ہ اور پنجرے میں ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں وہ علیحد ہ علیحدہ ہیں۔ رُوح ہی خُدا کو پہچان سکتی ہے۔ رُوح ہی کے سبب ہم اس (1)کی نسل ہیں۔ اور جب رُوح اورجسم کا فرق آدمی کے خیال سے مٹ گیا تو اس کا جسم رُوحانی نہیں ہوا بلکہ رُوح جسمانی ہوگئی۔
اسی سبب سے جب کسی کی رُوح جاگ کراپنی شریعت اور اس علاقہ سے جو اس کو خُدا کے ساتھ ہے واقف ہو تو چاہیے کہ اُسی وقت سے جسم کو مغلوب کر کے اسے اپناتا بعد ار بنالے۔ یہ تو صحیح ہے کہ بچہ پہلے اپنے جسم کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس کا جسم رُوح کی مخالفت کرتا ہے۔ پھر اکثر یہ جاگ اُٹھنا آہستہ آہستہ نہیں بلکہ یک بارگی ہوتا ہے یک بارگی(اچانک) ہی بچہ پہلے اس بات سے واقف ہوتا ہے۔ کہ جو آگے ماں باپ وغیرہ کی مرضی معلوم ہوتی تھی وہ خُدا کی مرضی ہے اور کلیتہً مجھ پرفرض ہے۔
پھر اگر ہم فرض کریں کہ گناہ جسم کے پہلے ہی ترقی پانے کے سبب سے ہوتا ہے تو تین نتیجوں میں سے ايک نہ ایک ضرور پیدا ہو گا۔ اگر رُوح کی ترقی شروع ہونے کے وقت سے دونوں کی ترقی برابر تیزی سے مانی جائے تو نیکی کبھی آدمی سے نہ ہو سکے گی ۔ اور اگر اس وقت سے جسم کی تاثیر جوں کی توں رہے تو جسم زندہ نہ رہ سکے گا۔ اور اگر اس وقت سے رُوح کی ترقی زیادہ تیزی سے ہو اور جسم کی تاثیر کی ترقی آہستہ آہستہ تو کسی نہ کسی وقت دونوں برابر ہو جائیں گی اور اس وقت سے پہلے تو آدمی خواہ مخواہ گنہگار رہے گا۔ اور بعد خواہ مخواہ نیک یعنی لڑکپن میں زیادہ گناہ ہو گا جو سب کے تجربہ اور متی کے ۱۹ : ۱۴ ، ۱ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۴: ۲۰کے صاف برخلاف ہے اور پھر جتنا کوئی علم اور باقی رُوحانی صفتوں میں ترقی کرے اتنا ہی کم گنہگار رہو گا ۔ لیکن اس کے برعکس ایسے ہی لوگوں میں سب سے بڑے گنہگار ملتے ہیں علم سے گناہ گھٹتا مطلق نہیں صرف چھپتا ہے۔ بلکہ اگر علم کے ساتھ تاثیر الہٰی نہ ہو تو اس سے آدمی کے دل میں گناہ کا اختیار زیادہ ہی قرار پکڑتا ہے۔
(1) ۔ اعمال کے ۱۷: ۲۸ کو دیکھو ۔
اب تک ہم نے یہ فرض کیا ہے کہ گناہ جسم ہی کے اختیار پانے سےہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ بلکہ بہت لوگوں نے رُوحانی خود غرضی کے واسطے اپنی جسمانی خواہشوں کوخوب مارا اور دبارکھا ہے۔ مثلاً کتنوں ہی نے صرف اسی واسطے کہ ہمارے پیچھے ہمارا بڑا نام دنیا میں ہو بڑی حکمت اور چالاکی اور ہوشیار ی کے ساتھ خوب عزم (ارادہ)کرکے اپنی حکومت پھیلا ئی ۔ کیا ہم اس کو جسم کا رُوح پر غالب آنا کہہ سکتے ہیں ؟ اور اگر نہیں تو کیا یہ بُرا نہیں ؟ بے شک رُوح کی بڑائی جب تک خد اکی تابعدار ی نہ کرے بدی کی بڑائی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جسم گناہ کا سبب ہے وہ صرف موٹے موٹے گناہوں کا ذکر کر کے۔ غرور ، حسد ۔ دنیاوی اختیار کی خواہش وغیرہ رُوحانی گناہوں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ گناہ کو صرف آدمی کی مجبوری و پست حالی سمجھتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت گناہ اس کی جھوٹی عظمت(عزت) بھی ہے۔ وہ گناہ کو صرف رُوحانی قوت کی کمی سمجھتے ہیں لیکن فی الحقیقت وہ اس کی زیادتی بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رُوحانی گناہ اسی سبب سے کہ وہ جسمانی گناہوں سے زیادہ پوشیدہ ہیں ان سے زیادہ مہلک(ہلاک کرنے والے) بھی ہیں ۔چنانچہ آدم و حوا کے پہلے گناہ کے بیان سے۔ بنی اسرائیل کی تواریخ سے۔ اور مسیح کی منادی کے احوال سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے۔ مسیح نے فریسیوں سےکہا کہ خراج گیر (خراج دينے والا)اور کسبیاں تم سے پہلے خُدا کی بادشاہت میں داخل ہوتی ہیں۔
لیکن اس رائے سے سب سے زیادہ یہ نقصان ہوتا ہے کہ اس لئے سبب قصورواری کی واقفیت بہت کم ہوتی ہے۔ آدمی خواہ مخواہ اپنے تئیں گنہگار جانتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے گناہ کا سبب اپنے جسم کو بنا سکتا ہے تو آپ معذور ہو جاتا ہے کیونکہ گناہ کا چشمہ وہ نہیں بلکہ ایک غیر شے ہے۔ اس کے نزدیک دل اپنے آپ تو ہمیشہ پُر نور ہے مگر صرف جسم کے سبب اس کی تجلی(عظمت) رُکتی ہے۔ بے چار ہ دل ایسا کمزور ہے کہ گناہ کرتا تو نہیں لیکن سہتا ہے ۔ اور اس کا سبب وہ علاقہ ہے جو رُوح اور جسم کے بیچ میں ہے۔
لیکن اس کے برعکس مسیح فرماتا ہے کہ گناہ دل ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔ اور اسی طرح آدمی کو ناپاک کرتا ہے۔ اس آیت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جب بُرے خیال وغیرہ ناپاک دل سے پیدا ہوتے ہیں تو مسیح کس طرح یہ فرما تا ہے کہ وہ آدمی کو ناپاک کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح یہ نہیں کہتا کہ وہ دل کو ناپاک کرتے ہیں بلکہ یہ کہتا ہے کہ ان سے آدمی ناپاک ہوتا ہے یعنی پہلے اس کی خود دانی ۔ اور پھر اس کی گفتار(بول چال۔قول) اور رفتار ناپاک ہوتی ہے۔ بدن بھی گناہ سے ناپاک ہوتا ہے جیسا کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۶ : ۱۳ سے ۲۰ تک لکھا ہے ۔ اسی واسطے کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۷ : ۱ میں لکھا ہے کہ جسم اور رُوح کی سار ی نجاست(گندگی) سے اپنے تئیں صاف کرو۔
پس جب کہ رُوح اپنے تئیں معذور ٹھہراتی ہے۔ تو گویا بے چارہ جسم کو جس کا کچھ قصور نہیں بلکہ جو رُوح ہی کی تابعدار ی کرتا ہے اپنے گناہ کا مجرم ٹھہراتی ہے۔
اس رائے سے ایک اور بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو گناہ سے بچنا چاہتے ہیں ۔ وہ خواہ مخواہ گوشہ نشینی (تنہائی ميں رہنے والا)وغیرہ اختیار کر کے اپنے جسم کو ہر طرح سے ناحق ستاتے ہیں۔ اور اس سے اکثر یہ نیتجہ نکلتا ہے کہ دشمن قلعہ کے باہر تو مارا جاتا ہے مگر قلعہ کے اندر زیادہ طاقت پاتا ہے ۔ یعنی شہوت اور دنیاوی لالچ تو شکست پاتے ہیں مگر ان کی شکست ہی کے سبب غرور وغیرہ رُوحانی گناہ بڑھ جاتے ہیں۔
(1) ۔ متی ۲۱: ۱۲ کو دیکھو۔ (2) ۔ متی ۱۵: ۱۹ ور ۲۰ کو دیکھو ۔
اس رائے میں خاص یہی غلطی ہے کہ اس میں جسم کا رُوح پر غلبہ جو گناہ کی ایک بہت ظاہر صورت ہے گناہ کا سبب ٹھہرا ۔ اور اس غلبہ(برتری) کا سبب تلاش نہ کیا گیا۔ اس سبب سے اس رائے کے پیرو (پيچھے چلنے والے)گناہ کا بخوبی بیان نہیں کر سکتے ۔ گنا ہ کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی خد اپرستی کے درجہ سے گر کر خود پرست ہو گیا اور اس کے سوا گناہ کے سارے بیان ناقص ہیں۔
لیکن ان سب دلیلیوں کا جواب یہ ہو گا کہ عہد نامہ جدید کا ظاہر اً یہی عقیدہ ہے کہ گناہ آدمی کےجسم سے پیدا ہوتا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسیح نے خو د متی کے ۲۶ : ۴۱ اور یوحنا کے ۳: ۶ میں یہ سکھایا اور پولوس بہت جگہ بدن اور اس کے اعضاء کو گناہ کا مسکن کہتا ہے اور خاص کر رومیوں ،گلتیوں اور کلسیوں کے خطوں میں سارک (1) کا ایسا بیان کرتا ہے۔ کہ وہ گناہ کا چشمہ ہے اور گنہگار آدمی کو سارکک (2)کہتا ہے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی کوشش کو پنومت (3) کی سارک کے ساتھ لڑائی کہتا ہے۔
لیکن متی کے ۲۶: ۴۱ میں مسیح سب آدمیوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ صرف اپنے شاگردوں کا کرتا ہے۔ وہ ان کو وفا دار اور مستعد(ہوشيار) تو جانتا تھا لیکن یہ بات ظاہر کرتا تھا کہ ایسے خطرے آئیں گے ۔ جن میں خاص تمہارے جسم کے وسیلہ سے امتحان ہو گا۔ پھر یوحنا کے ۳: ۶ میں پنومت (روح)سے مراد سب آدمیوں کی رُوح نہیں ہے۔ ورنہ مسیح یہ نہ کہتا کہ وہ رُوح القد س سے پیدا ہوئی کیونکہ قرینہ سے صا ف ظاہر ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا ذکر کرتا ہے پس جب پنومت سے مراد سب آدمیوں کی رُوح نہیں ہے تو سارک(جسم) سے بھی مراد سب آدمیوں اس کا جسم نہ ہو گا۔
جب پولوس نے عقیدوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اولاً اس بات کا اقرار کرنا ضرور ہوتا ہے کہ پوپوس جسمانی گناہوں پر خاص زور دیتا ہے بلکہ بہت جگہ ان کو سارے گناہوں کی مثال کر کے بیان کرتا ہے۔ مثلاً رومیوں کے خط کے ۶: ۱۲، ۱۳ ، ۱۹ ۔ اور ۷: ۵، ۲۳ ، ۲۴ میں۔ اور اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ اس وقت اس طرح کے گناہوں کا خاص رواج اور بہت کثرت تھی ۔لیکن گناہ چشمہ اورگناہ کا وسیلہ یہ دونوں باتیں بالکل جُد اجُدا ہیں اور انہیں ملانا نہیں چاہیے ۔ شک تو اتنا ہی ہے کہ آیا پولوس کے نزدیک گناہ کا سبب یہ ہے کہ جسم یعنی بدن کی حرکتیں وغیرہ رُوح یعنی آدمی کے ان دیکھے جزو سے مغلوب نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ اس پر غالب آتی ہیں کیونکہ رومیوں کے خط کے ۸: ۸،۷ ۔ اور گلتیوں کے خط کے ۵: ۱۶ ، ۱۷ اور افسیوں کے خط کے ۲: ۳ ۔ اور آیتوں سے صاف ظاہر ہے ۔ کہ پولوس سارک(جسم) کو گناہ کا سبب سمجھتا ہے۔ لیکن اس کا کچھ ثبوت نہیں ملتا کہ پولوس کے نوشتوں میں سارک سے مراد بدن یا اس کی حرکتیں ہیں۔ بلکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ یہ نصیحت نہ کر سکتا کہ ہم اپنے بدن اور اعضاء خُدا کو سونپ دیں تاکہ وہ اس کی بندگی کے وسیلے ہوں۔ اور نیز مسیحیوں کے بدنوں کو اس زندگی میں بھی رُوح القدس کی ہیکل نہ کہہ سکتا ۔ رومیوں کے خط کے ۶: ۱۳، ۱۹ ۔ اور ۱۲ : ۱ اور کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۶: ۱۳ ، ۱۵، ۱۹، ۲۰ کو دیکھو۔ خیال کرنا چاہیے کہ ان آیتوں میں وہ نہ صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ بدن خُداوند کے واسطے ہے ‘‘ ۔ بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ خُدا وند بدن کے واسطے ہے ‘‘۔ پھر قیامت کا عقیدہ خاص پولوس ہی کے نوشتوں میں مذکور ہے کہ یہی نجات کا مقصد ہے اور اسی وقت ہم گناہ سے پوری رہائی پائیں گے ۔ جب ہمارے بدن جی اُٹھیں گے ۔ لیکن اگر بدن گناہ کا چشمہ ہوتا تو یہ کیو نکر ہو سکتا ۔ پھر پولوس کے عقیدوں میں یہ ایک بڑی بات ہے کہ مسیح الحقیقت آدمی تھا مگر پھر بھی بے گناہ تھا۔ اگر کہیں کہ اپنی الوہیت (خُدائی) ہی کے سبب وہ ہر وقت گناہ سے بچتا تھا۔ ورنہ مبتلا ہوتا تو اس کی حقیقی اِنسانیت میں خلل آئے گا ۔ اور اس کی بے گناہی اس کی اِنسانیت کے اعتبار سے نہ ٹھہرے گی بلکہ یہہ ہو گا کہ گناہ ایک غیر چیز کے جبر(ظلم) سے ظاہر ہونے سے رُکتا تھا۔ پھرپولوس کے نزدیک جن رُوحوں کا جسم نہیں ہے ان میں سے بھی بعض شریرہيں۔ بلکہ آدمیوں سے بھی بہت زیادہ شریر ہیں۔
(1) ۔ ۱، ۲، ۳ یہ سب یونانی لفظ ہیں جو انجیل میں انجیل میں مستعمل ہیں ۔ سارک کا ترجمہ جسم اور سار کک کا ترجمہ جسمانی ۔۔۔۔کا ر ہو ۔رُوح اور پنو مائک کا ترجمہ رُوحانی ہے لیکن چونکہ یہ نہیں کر سکتے کہ ان لفظوں کے صحیح معنی یہی ہیں اس واسطے ہم انہیں الفاظ کا استعمال کریں گے اور ان کا مفصل بیان اسی باب میں آئے گا۔
ان سب دلیلیوں سے ظاہر ہے کہ سارک(جسم۔بدن) سے اور کچھ مراد ہوگی نہ کہ صرف بدن ۔ یہ نتیجہ پولوس کی بعضی آیتوں کے مطالعہ کرنے سے صاف معلوم ہوگا۔ گلتیوں کے خط کے ۵: ۱۳ میں اگر سارک سے مراد بدن ہوتا تو وہ یہ کہہ کر کہ ’’ آزادی کو سارک کےلئے فرصت نہ سمجھو ‘‘ ۔ یہ کیونکر کہہ سکتا کہ ’’ بلکہ محبت سے ایک دوسرے کی خدمت کرو ‘‘۔ پھر گلتیوں کے خط کے ۵ : ۱۹ سے ۲۱ تک سارک کے کام جو مذکور ہیں۔ ان میں نہ صرف زنا وغیرہ جسمانی گناہ بلکہ ’’ دشمنی ‘‘ سے لے کر ’’خون ‘‘ تک جتنے مذکور ہیں اور بدن سے نہیں ہوتے وہ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ کام جسمانی خواہشوں سے کم وبیش علاقہ (تعلق)تو رکھتے ہیں ۔مگر پھر بھی ان کو بدن کے کام کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ اسی طرح کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۳: ۱ سے ۴ کرنتھی لوگ سارکک کرکے مذکور ہیں ۔اسی واسطے کہ وہ مسیح کے عوض آدمیوں کے پیرو ہوتے تھے۔ اور گلتیوں کے خط کے ۳:۳ میں جب پولوس یہ کہتا ہے۔ کہ تم سارک سے کامل ہوتے ہو ۔ تو اس سے جسمانی خواہشیں مراد نہیں ہیں۔ بلکہ شریعت کے کاموں پر بھروسا کرنامراد ہے ۔ پھر کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱: ۲۶ میں جن کا یہ ذکر ہے کہ سارک کی رُوح سے دانش مند ہیں وہ ہیولانی (1) فیلسوف نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جو خُدا کے فضل کو رد کر کے کسی طرح کے فلسفہ پر بھروسا رکھتے ہیں ۔
پھر کلسیوں کے خط کے ۲: ۱۸ میں پولوس نےجن کا یہ بیان کیا کہ ’’ وہ اپنی سارکک عقل سے بھولے ہوئے ہیں ‘‘۔ انہیں کا پھر اسی باب کی ۲۳ آیت میں یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ’’ وہ اپنے بدن پر شفقت (رحم)نہیں کرتے ‘‘۔ مگر پھر بھی ان کے کاموں کا یہی نتیجہ ہے کہ ’’سارک آسودہ ہوتی ہے ‘‘۔ پس یہ دیکھنا چاہیے کہ پولوس اس لفظ کو کس معنی میں استعمال کرتا ہے۔ مگر پہلے یہ دیکھو کہ عبرانی میں با سار (2)کیا معنی ہیں۔ بعض جگہ تو اس کے اصلی معنی گوشت پائے جاتے ہیں اور پھر بعض مقاموں میں تمام بدن اور خاص کر دل اور نفس (3) اور رُوح کے برخلاف ۔ پھر بہت سے مقاموں میں باسار اور نفس کا فرق مٹ گیا ہے۔ اور با سار سے مراد تمام جاندار ہیں۔ اور بہت سی جگہ خاص کر اِنسان سے مراد ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس لفظ سے یہ خیال بھی پید ا ہوتا ہے کہ اِنسان کمزور اور ناپائيدار ہے۔ مثلاً ایوب کے ۳۴ : ۱۵ زبور کے ۷۸ : ۳۹ ۔ یسعیاہ کے ۴۰ : ۶ اور خصوصا جہاں خُدا کی قدرت مطلق کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً استثنا کے ۵: ۲۶ یسعیاہ کے ۳۱: ۳ یرمیاہ کے ۱۷ : ۵ زبور کے ۵۶ : ۵ میں لیکن ان مقاموں میں سے یہ نہیں نکلتا کہ با سار آدمی کی رُوح کے برخلاف ہو کر گناہ کی طرف مائل ہے۔ بعض تو سمجھتے ہیں کہ یہ واعظ کے ۵: ۶ کے معنی ہیں۔ لیکن اس سے يہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جسم بہت گناہوں کا آلہ ہے۔ اور بعض لوگ پیدائش کے ۶ : ۳ کے بھی یہی معنی سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سے آدمی کی صرف کمزوری اور ناپائيدار ی ثابت ہوتی ہے۔
(1) ۔ فیلسوف جن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہیولی کے سوا اور کوئی شے نہیں ہے۔ (2) ۔ باسا ر عربی میں بشر ہو گیا ہے۔ اور اس کے اصلی معنی گوشت کے ہیں۔ (3) ۔ نفس عربی میں نفس اور نفس ہو گیا ہے او ر اس کی اصلی معنی جانداروں کی جان کے ہیں۔
اُپکروفا (1)میں بھی سارک کے وہی معنی ہیں جو عہد نامہ عتيق میں باسار کے ہیں۔
عہد نامہ جدید میں بھی سارک کا ویسا ہی استعمال ہے۔ بعض جگہ اس سے جاندار وں کا بدن مراد ہے ۔ اور بہت سی جگہ آدمی کا جسم اور اس کی حرکتیں اور بدن بھی اس معنی میں آیا ہے۔ اور یہ دونوں لفظ سومت کے برخلاف مستعمل (استعمال ميں آنا) ہیں۔ مثلا کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۷: ۱ میں اور اس سے ایک اور معنی بھی نکلتے ہیں یعنی آدمی کا وہ حال جو اس دنیا میں خواہ مخواہ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ پولوس گلتیو ں کے خط کے ۲: ۲۰ میں کہتا ہے کہ ’’ میں سار ک میں جيتا ہوں اور کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۱۰ : ۳ میں کہ ’’ہم سارک میں چلتے ہیں ‘‘ ۔ اور فلپیوں کے خط کے ۱: ۲۲ ۔ اور ۲۴ میں کہ سارک میں جیتا رہنا اور سارک میں باقی رہنا ‘‘۔ اور جہاں مسیح کی سارک مذکور ہے مثلاً کلیسیوں کے خط کے ۱: ۲۲ اور عبرانیوں کے خط کے ۵: ۷ اور ۱۰ : ۲۰ میں وہاں بھی اس کے یہی معنی ہیں ۔ پھر کرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۱۱ :۱۸ ۔ اور گلتيوں کے خط کے ۶: ۱۲ ،۱۳ ۔اور افسيوں کے خط کے ۶: ۵ اور فلپیوں کے خط کے ۳: ۳ اور ۴ اور فلیمون کے خط کی ۱۶۔ آیت میں بھی مراد ہے ۔ لیکن ان آیتوں میں وہ علاقہ جو آدمی اس دُنیا سے رکھتا ہے اور وہ علاقہ جو خُدا سے رکھتا ہے باہم ضد کے طور پر مذکور ہیں۔ اور اس سے ایک اور معنی نکلتے ہیں ۔ یعنی خود اِنسانیت جیسے کہ خواہ مخواہ اس دنیا میں ہے ۔مثلاً یوحنا کے ۱: ۱۴ اور تیمتھیس کے پہلے خط کے ۱۳ : ۱۶ میں ۔ لیکن ان سب معنوں کےسوا لفظ باسار کی طرح عہد جدید میں لفظ سارک کے ایک اور معنی پائے جاتے ہیں ۔یعنی اِنسان کا وہ حال جو خُدا کے بندوبست سے نہیں اِنسان ہی کی بدی سے ہے دنیا کا وہ علاقہ نہیں جو خُدا کے علاقہ سے صرف جُدا ہے بلکہ وہ علاقہ جو اس کے برخلاف ہے یعنی آدمی کا وہ میلان جس سے وہ خُدا کی طرف سے پھر کر دنیا کی طرف متوجہ ہوا ۔ سار کک ہونا سارک کے مطابق رہنا۔ یا جینا یا چلنا یا سپا بگری کرنا۔ بلکہ رومیوں کے خط کے ۷: ۵اور ۸: ۸ میں سارک میں رہنا بھی ۔ ان سب محاورات کے عہد نامہ جدید میں بھی معنی پائے جاتے ہیں۔ اس واسطے جس کو یوحنا اپنے پہلے خط کے ۲: ۱۷ میں دنیا کی خواہش کہتا ہے اسی کو پولوس گلتیوں کے خط کے ۵: ۱۶ ۔ اور افسیوں کے خط کے ۲: ۳ میں سارک کی خواہش کہتا ہے لیکن یوحنا کے نزدیک سارک کی خواہش دنیا کی خواہش کا صرف ایک جزو(حصّہ) ہے۔ غرض سارک کی بنیاد وہ خود غرضی ہے جو تمام گناہ کی اصل ہے۔
پس جہاں جہاں سارک اور پنومت اس طرح آپس میں ضد کے طور پر مذکور ہیں کہ سارک سے بُرائی اور پنومت سے نیکی نکلتی ہے وہاں پنومت سے اِنسانی رُوح مراد نہیں ہے بلکہ خُدا ہی کی رُوح مراد ہے جو اِنسان رُوح میں سکونت کر کے اپنا کام کرتی ہے ۔ کیونکہ جو کچھ بعض جگہ بغیر خُدا کے نام کے رُوح کے حق میں کہا گیا ہے ۔وہ اور جگہ خُدا کے نام کےساتھ ہی پایا جاتا ہے ۔ بلکہ بعض جگہ اِنسان کی رُوح کی نسبت یہ آیا ہے کہ اس کے لئے پاکیزگی چاہیے مثلاً کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۷: ۳۴ اور دوسرے خط کے ۷: ۱ اور تھسلینکیوں کے پہلے خط کے ۵: ۲۳ میں ایمانداروں کے بدن کے حق میں پولوس اتنا ہی کہتا ہے کہ اسے (2) غلامی میں رکھنا چاہیے ۔لیکن ان کی سارک کے حق میں یہ کہتا ہے کہ وہ مصلوب ہوئی ۔ اور کرنتھیو ں کے پہلے خط کے ۳: ۳ میں پولوس سارکک ہونے کا یہی مطلب بیان کرتا ہے کہ ’’ تم اِنسانی طور پر چلتےہو ‘‘ یعنی تم خُدا کی مرضی کو اپنا مقصد کر کے نہیں چلتے بلکہ اِنسان ہی کی مرضی کو اپنا مقصد کر کے چلتے ہو۔ اور جیسا پولوس رومیوں کے خط کے ۸: ۷ میں کہتا ہے کہ سارک کا مزاج یا خیال خُدا کی دشمنی ہے ویسا ہی یعقوب اپنے خط کے ۴: ۴ میں اور یوحنا اپنے پہلے خط کے ۲: ۱۵ میں دنیاوی محبت کا یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ خُدا کی دشمنی ہے ہاں رومیوں کے خط کے ۸: ۱۳ سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ بدن کے کاموں سے جو کچھ مراد ہے وہی سارک کے مطابق زندگی گزارنے سے بھی ہے لیکن یہ کچھ ضرور نہیں ہے بلکہ بدن کے کام سارکک چال چلن کی ایک قسم ہی ہو سکتے ہیں۔
(1) ۔ یہ یہودیوں کی ان کتابوں کے مجموعہ کا نام ہے جو عہد عتیق کے پیھچے اور مسیح سے پیشتر لکھی گئیں۔ یہ یونانی میں لکھی گئیں اور نہ یہودی ان کی سند مانتے ہیں ۔ پروٹسنٹ لوگ۔ (2) ۔ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۹ : ۲۷ کو دیکھو۔
وہ مقام ہیں جن میں بدن کے بھی وہی معنی معلوم ہوتے ہیں جو سارک کے ہیں یعنی رومیوں کے خط ۶: ۶ اور کلیسیوں کے خط کے ۲: ۱۱ ۔ لیکن رومیوں کے خط کے ۶: ۶ ۔ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ نیست کرنا ہے ۔ اس کے لغوی معنی بے کار کر دينا ہیں اور کلیسیوں کے خط کے ۲: ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُتار پھینکنے سے بھی یہی مراد ہے یعنی جو چیز بطور لباس ہم پر پڑی اور ہم کو قابو میں کيے ہوئے ہے ۔ اس کو اُتار کر پھینک دینا اور اس کے قابو سے نکل جانا ۔
شاید اسی سبب سے پولوس سارک کا اس معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ گناہ کا سبب آدمی کی خلقت کا کچھ نقص نہیں ہے بلکہ یہی ہے کہ وہ خُدا سے الگ ہو کر اپنے دُنیاوی حال میں پھنس گیا ہے۔
آٹھواں با ب
آدمیت کے متضاد احوال
ایک اور رائے جس پر غور کرنا چاہیے یہ ہے کہ گناہ ان متضاد(خلاف۔برعکس) چیزوں میں سے ہے جو آدمی کی ذات ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اس سبب سے ضرور ی ہیں۔ اس رائے کا بیان یہ ہے ۔کہ قوت اور زندگی تمام خلقت میں جہاں کہیں ہے متضا د چیزوں کے اختلاط (ميل جول)سے پیدا ہوئی ہے۔ اور جس کا حال ایسا نہیں ہے ۔ وہ بے جان اور بے تاثیر (بےاثر)ہے۔ اگر نورا کیلا ہوتا تو اچھا نہ ہوتا ۔ نور اور تاریکی دو نو ں کے ہونے سے خوشی ہوتی ہے۔ درختوں اور جانداروں میں سے جتنا کوئی کامل تر ہے ۔ اتنا ہی زیادہ اس میں متضاد چیزوں کا اختلاط ظاہر ہوتا ہے ۔
بلکہ متضاد چیزوں کے ملانے ہی سے ان کی ترقی ہوتی ہے۔ پس اگر آدمی کی رُوح میں بھی ایسی متضاد چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ اور اس کے واسطے ضرور ہیں۔ تو کچھ تعجب(حيرانگی) کی بات نہیں۔ اگر دُکھ نہ ہوتا تو سکھ کی قدر نہ ہوتی ۔ اگر بیماری نہ ہوتی تو تندرستی کی خوبی نہ کھلتی ۔ اگر محنت نہ ہوتی تو آرام کا مزا نہ آتا ۔ اسی طرح اس رائے کے مطابق نیکی اور بدی کا بھی حال ہے ۔ صرف بدی ہی کا مزا چکھنے سے نیکی کے واسطے بدی بھی ضرور ہے۔ نری نیکی اور نری بدی صرف خیال ہے اور دونوں کے ملنے سے ترقی ہوتی ہے ۔ پھر اگر بدی کی مخالفت نہ کرنی ہوتی تو نیکی بے کار اور سست ہو جاتی ۔ ہاں جب بدی حد سے زیادہ ہوتی ہے ۔ تو البتہ نفرت کے لائق ہو جاتی ہے ۔ ورنہ جب تک محدود رہتی ہے۔ اس وقت تک اس سے اچھا ہی نیتجہ نکلتا ہے۔ اگر چہ بدی کی حقیقت خود غرضی ہے پھر بھی اس میں کچھ نقصان نہیں۔ جس طرح جنگل میں مضبوط درخت بہت سے پیڑوں کو دبا دبا کر اور زمین کی تری اور دھوپ ان سے کھینچ کھینچ کر بڑا اور عمدہ درخت ہو جاتا ہے اسی طرح ضرور اور مقرر بلکہ مفید بھی ہے کہ ہر شخص اپنی ہی ترقی چاہے کیونکہ اسی سے سب لوگ ترقی کی طرف راغب (مائل)ہوتے ہیں۔ اور اگرچہ جنگ سے نقصان تو بہت ہوتے ہیں۔ لیکن اگر صلح ہی ہمیشہ رہتی تو زیادہ نقصان ہوتا مثلاً ہوا اور سمندر اگر آندھیا ں نہ چلتیں ۔ تو خراب ہو جاتے پھر اس رائے والے یہ تمیثل بھی دیتے ہیں کہ اگر سیارے صرف سورج کی طرف کھینچے جاتے اور اپنی اپنی طرف نہ کھینچے تو ان کی سطح پر کچھ نہ رہ سکتا بلکہ وہ سورج میں غرق(تباہ) ہو جاتے اس طرح آدمیوں کو نہ صرف کل بنی آدم کی اور خُدا کی بلکہ اپنی اپنی محبت بھی کرنی بہت ضرور ہے ۔ اور اگر بدی سے بہت سے شخص مغلوب ہو کر برباد بھی ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے عموماً بنی آدم کا فائدہ اور ترقی ہی ہوتی ہے۔
یہ رائے البتہ ایک بات میں اوپر والی رائے سے بہتر ہے کیونکہ اس رائے سے یہ نکلتا ہے کہ بدی نہ اِنسان کی ناتمامی سے ہوتی ہے اور نہ جسم کے غلبہ سے بلکہ خود اس کی رُوح ہی میں سکونت رکھتی ہے ۔ یہ رائے پنتھے اسمے اور دو آلسمے (1) دونوں سے علاقہ رکھتی ہے جب اس کے ماننے والوں میں نیکی اور بدی کی تمیز بڑی ہوتی ہے۔ تو وہ دو آلسمے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ اور جب تھوڑی ہوتی ہے تو پنتھے اسمے کی طرف ۔پہلی قسم کے لوگوں میں لک تنتی جو ۳۰۰ عیسوی کے قریب گزرا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں میں ستوک فیلسوف ایری گنا اور اپنی پہلی کتابوں کی تصنیف کے وقت مانی خایوں کے ڈر کے مارے اوگستین بھی تھا ۔ حال کی صدی میں اس رائے کی بڑی ترقی ہوئی۔
اس رائے کا لحاظ کرنا خصوصاً تین سببوں سے نہایت ہی ضروری ہے۔
۱۔ اگر گناہ دنیا کی ترقی کے واسطے ضرور ہے تو اس کی اصل ہم میں نہیں ہے اور نہ ہم اس کے جواب دہ ہیں۔
۲۔ اس رائے کو تسلیم کر کے اگر ہم مسیح کی بے گناہی کو مانیں تو اس کی حقیقی آدمیت نہیں مان سکیں گے۔ اور اگر اس کو حقیقی آدمی سمجھیں تو اس کو بے گناہ نہیں سمجھ سکیں گے۔
۳۔ اگر اِنسانی زندگی اور ترقی کے واسطے گناہ ضرور ہے تو ہمیشہ کی زند گی کی ہم کو کیسی اُمید ہے ۔پس بے گناہی اور بے دردی اور محض محبت سے ہم کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا۔ لیکن کیا یہ رائے صحیح ہے ؟ کیا نیکی اکیلی ہو کر سچ مچ سست ہوتی ہے؟
اگر نیکی بدی ہی کے ساتھ ہو کر موثر ہوتی تو فی الحقیقت نہ نیکی نیک ہوتی اور نہ بدی بد ۔ وہ محبت کیا جس کا اثر محبوب کی دشمنی بغیر نہ ہو اور یہ بھی صحیح نہیں کہ نیکی کی حقیقت سستی ہےاور بدی کی حقیقت زبردستی بلکہ سستی اور زبردستی دونوں بُری ہیں اور نیکی کے واسطے استقامت(مضبوطی) اور چُستی دونوں چاہیں۔
دو عقیدے ہیں جن سے اس رائے کی نادرستی پہچانی جائے گی ۔
۱۔ یہ کہ بغیر گناہ کے آدمیت جو متضاد باتوں سے بھر ی ہوئی ہے خُدا کے انتظام کے مطابق اپنے کام کے لئے کافی ہے۔ پتھر میں دو متضاد قوتیں ہیں اس کا سکون اور وزن ۔ درخت میں بھی یہ دونوں قوتیں ہیں لیکن اس کی رُوح نباتی سے مغلوب رہتی ہیں۔ جانداروں میں نہ صرف درخت کی مانند باہر کی تاثیروں کے قبول کرنے کی قوت ہے بلکہ بالا رادہ حرکت کرنے کی بھی قوت ہے۔ یہ ساری متضاد باتیں اِنسان کے بدن میں پائی جاتی ہیں۔ آدمی کی رُوح میں بے شمار متضاد میلان ہیں ۔اور یہ نہ صرف ہر شخص کا حال ہے بلکہ جس قدر کسی شخص میں ان متضاد چیزوں میں سے کوئی چیز غالب ہو اسی قدر وہ اور شخصوں سے متضاد ہو گا۔ اس طرح آدمیت کی تمام خوبیوں کا ایک چھوٹا سا حصّہ کسی ایک آدمی میں پایا جاتا ہے۔ اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ لیکن ان ساری متضاد باتوں میں کچھ گناہ نہیں ہے۔ وہ خُدا کی طرح سے مقرر ہوئی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ ایک دوسرے کو رو کے اور نیست کرنا چاہیے ۔بلکہ اس لئے کہ سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کریں اور سب مل کرتمام اِنسان کو فائدہ پہنچائیں پس صرف اوروں کی محبت ہی سے اپنی ترقی کر سکتا ہے۔
(1) ۔ دو آلسما اس رائے کا نام ہے کہ دنیا کے دو اصول ہیں ایک نیک دو سر ا بد ۔پُرانا فارسی مذہب دو ا لسمے کا خاص مظہر ہے ۔
لیکن نیکی اور بدی کا اختلاف(فرق) ان سببوں سے الگ ہے ہاں خُدا کے ٹھہرائے ہوئے ایسے بھی اختلاف ہیں جو نیکی اور بدی کے اختلاف کے مشابہ ہیں مثلاً نور اور تاریکی ۔ گرمی اور سردی کا اختلاف ۔ لیکن تشبیہ کچھ دلیل نہیں ہے۔ نیکی وہی ہے جو آدمی از خود اپنی ہی ترقی سے کرے اور جب اس ترقی کے واسطے وہ ساری متضا د باتیں ضرور ہیں تو نیکی ان سببوں سے علاقہ رکھتی ہے ۔ اور ان سببوں سے یعنی ان کے ملانے سے اپنا کام کر لیتی ہے۔ ہاں نیکی کی اصل یعنی خُدا کی محبت یکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی یکتائی میں رہ نہیں سکتی بلکہ خُدا کی ٹھہرائی ہوئی ساری متضاد باتوں سے ظاہر ہونا چاہتی ہے۔ اسی طرح استقامت اور چالاکی۔ محافظت اور ترقی ۔ تنہائی۔ اور رفاقت ۔ تفریق اورجمع ۔ صبر اور زور کے میلان اور نیز اور سب متضاد میلان نیکی کےکام آ سکتے ہیں ۔
ایک طرح سے بدی نیکی کی پہچان کا سبب ہوئی ہے یعنی جولوگ بد سے نیک ہوتے ہیں ان کو بدی کے اختلاف کے سبب نیکی بہت زیادہ معلو م ہوتی ہے۔ لیکن یہ صرف خُدا کے فضل سے ہوتا ہے۔ جیسا رومیوں کے خط کے ۵ : ۲۰ میں لکھا ہے کہ جہاں گناہ بڑھا وہاں فضل بہت زیادہ بڑھا ۔ ایک پُرانے گیت میں آدم کے گناہ کو مبارک لکھا ہے۔ اس واسطے کہ وہ مسیحی کی نجات کا سبب ہوا لیکن ایسا کہنا خطر ناک ہے۔ گناہ نہ صرف نیکی کی ضد ہے ۔ بلکہ اس کا جانی دشمن ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کو نیست و نابود(تباہ و برباد) کرنے کے لئے کمر باندھے رہتے ہیں ۔ اگر نیکی بدی کے وسیلہ سے اپنا کا م کر لینا چاہتی تو وہ نیکی نہ رہتی ۔
یہ تو بالکل غلطی ہے کہ نیکی صرف استقامت اور صبر ہے چنانچہ مسیح بڑے زور کے ساتھ بد ی کا مقابلہ کرتا اور مکاروں کو ڈانٹتا تھا۔
اگر گناہ آدمیت کے واسطے ضرور ہے اور اس ضرورت کے سبب یہ دُنیا ایسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے تو جلال کی بادشاہت کی اُمید جو خُدا کے کلام میں مذکور ہے یا باطل (جھوٹی)ٹھہرے گی یا بُری بلکہ آدمی کے واسطے یہی اچھی اُمید ٹھہرے گی اور بدی کی اس لڑائی سے چھٹ کر چاہے نروان (نجات) حاصل کرے اور چاہے بر ہما میں لین ہو جائے اور ان دونوں کا نتیجہ فی الحقیقت ایک ہی ہے۔
لیکن کلیسیاء خُدا کے کلام اور رُوح القدس کی ہدایت سے ایسے جھوٹ سے محفوظ رہی۔ چنانچہ وہ گناہ کو کسی طرح ضرور نہیں بلکہ ہر صورت سے مزاحم (مزاحمت کرنے والا)سمجھ کر خُدا کی اس بادشاہت کے کمال کی امید وار رہتی ہے۔ جس کی اس دنیا میں ابتداہی ہے اور جانتی ہے کہ جب اس بادشاہت کا کمال ہو گا اسی و قت آدمی کا حال جیسا چاہیے ویسا ہونا شروع ہو گا۔
۲۔ وہ عقیدہ جو اس رائے کے برخلاف ہے یہ ہے کہ گنا ہ صرف الگ الگ فعل نہیں ہے بلکہ ایک تاثیر بھی ہے جس سے تمام آدمیت بگڑی اور اپنے مقصد پر پہنچنے سے رہ گئی ہے ۔ ( یہ ابھی صرف فرضاً کہا جاتا ہے۔ بعد ثابت کیا جائے گا) ۔ گناہ کی جڑ جو آدمی کے دل ہی میں لگی ہوئی ہے اس کی شاخیں جس طرح کوئی بیل درخت پر لپٹ کر اس کو خشک اور بے کار کر دیتی ہے۔ اس طرح آدمی کی تمام زندگی اور حالات میں لپٹی ہوئی ہیں۔ اس کی عقل میں غلطی ۔ اس کے خیالوں میں ناپاکی ۔ اس کے جسم میں دُکھ سما یا ہوا ہے۔ بلکہ گناہ کی تاثیر آدمی کے سوا اور مخلوقات میں بھی پھیل گئی ہے۔ مخلوقات کہیں بالکلیہ آدمی کی تابعدار نہیں ہے ۔ بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود آدمی مخلوق کا تابعدار بن جاتا ہے۔ اور نہ صرف وہ علاقہ جو اور مخلوقات کو آدمی سے رکھنا چاہے ۔ فاسد(ناقص) ہو گیا ہے بلکہ آدمی کے علاقہ سے علاوہ بھی مخلوقات میں گناہ کی بہت تاثیر پھیلی ہوئی ہے۔ خوبصورت اور بدصورت چیزیں اکٹھی پیدا ہو کر رہتی ہیں اور کسی جنس کا مقصد کسی فرد سے پورا نہیں ہوتا ۔ بلکہ آدمی کے جو سب سے زیادہ مکر وہ گناہ ہیں ۔مثلاً حسد۔ فریب ۔ عداوت ۔ خونریزی اور اوروں کے دُکھوں سے خوشی کرنی ان کی پیروی بعض قسم کے جانور اپنی طبیعت ہی سے کرتےہیں۔ غرض جو کچھ ہم ہیں اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ۔ وہ یہاں تک گناہ کا پابند اور آس سے بھرا ہوا ہے کہ ہم خیال بھی نہیں کر سکتے کہ بے گناہ آدمی کی ترقی اور زندگی کیا چیز ہے۔ ہاں مسیح کی بے گناہ زندگی کا بیان تو انجیل میں موجود ہے لیکن ایک تو یہ بیان بہت ہی مختصر ہے اور دوسرے چونکہ مسیح گنہگاروں کے درمیان رہا اس واسطے اس کی اندرونی بے گناہی کامل(مکمل) طور پر کام نہیں آ سکی۔
اس سبب سے جب ہم بے گناہ آدمیت کا خیال کرنے لگتے ہیں۔ اور ترقی اور سب طرح کے کاموں کے ان اسباب سے قطع نظر کرتے ہیں ۔ جو گناہ سے ہوتے ہیں۔ تو جو اِنسانی زندگی ہمارے خیالوں میں باقی رہتی ہے۔ اس کا کسی قدر بے لطف معلوم ہونا کچھ تعجب(حيرانگی ) کی بات نہیں۔ اور جو لوگ خُدا کی مقاربت (نزديکی)سے ناواقف ہیں ان کو خاص کر ایسا معلوم ہو گا وہ یہ سمجھ بھی نہیں سکتے کہ بُری خواہشوں سے الگ ہو کر آدمی پھر کیا کر سکتا ہے۔
پس کچھ تعجب نہیں کہ جب گناہ آدمیت پر غالب ہو گیا تو وہ متضاد باتیں جو از خود آپس میں مخالف نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور ترقی کے لئے ہیں گناہ کی تابعدار ہو کر مخالفت کی بھی باعث ہوں ۔ اسی سبب سے حق ہزاروں غلطیوں کی راہ سے اور آرام ہزاروں دُکھوں کے وسیلہ سے حاصل ہوتا ہے ۔پس زور آواروں کو نیکی کی منزل پر پہنچنا اوروں کی نسبت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی متضاد باتیں آپس میں زیادہ مخالفت ہوتی ہیں۔ اور اگر اس لڑائی سے تھک کر وہ یہ قول پیش کریں۔ کہ سامر تھی کو دوش نہیں لگتا توان پرا فسوس ہے۔
تواریخ سےمعلوم ہوتا ہے کہ کسی طرح کی ترقی برابر نہیں ہوتی رہی بلکہ یہ قاعدہ رہا ہے۔ کہ کبھی تو آدمی بڑے زور سے ایک طرف چلے جاتے ہیں۔ اور کبھی اتنے ہی زور سے دوسری طرف پھر جاتے ہیں ۔ اور ہر پشت کے لوگ نہ صرف پچھلی پشتوں کی بنیاد پر اپنی عمارت قائم کرتےہيں بلکہ اس کو بالکل مٹا کر اس کی جگہ اپنی نئی بنیاد بھی ڈالتے ہیں ۔ ہاں جب سے مسیحی دین کا چشمہ کھل گیا ہے۔ اس وقت سےآدمی کے حالات میں اس چشمہ سے برکتوں کا ایک دریا جاری ہے۔ اور اس کے سبب سے وہ ہلاکت سے محفوظ رہا ہے اور جس طرح طوفان سے زمین پھر نہیں ڈوبے گی اسی طرح کلیسیا ء ہلاک نہیں ہونے کی مگر پھر بھی اس کی ترقی آدمیت کی مخالفت متضاد باتوں سے ہمیشہ رُکی رہتی ہے اور کبھی اس طرح کبھی اس طرف جوش و خروش کے ساتھ چلی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا سبب یہ ہے کہ گناہ آدمیت کے رگ و ریشہ میں بیٹھ گیا ہے۔ جنگ سےکیوں فائدہ ہوتا ہے ؟ اس واسطے کہ صلح سے اور طرح کے گناہ ترقی پاتے ہیں۔ لیکن جنگ سے اگرچہ بعض بُرائیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے مگر پھر اور بہت سی بوئی جاتی ہیں۔
جب اس رائے کے طرف دار یہ دیکھتے ہیں کہ رائے مذکور اِنسان کے افراد پر صادق نہیں آتی تو وہ کہہ کر اس کو عموماً اِنسان کی جنس پر صادق کرنا چاہتے ہیں ۔کہ بہت سے فردوں کی ہلاکت سے باقی آدمیوں کا یعنی عموماً بنی آدم کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ رائے کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۱: ۱۹ اور تیمتھیس کے دوسرے خط کے ۲: ۲۰ ۔ اور رومیوں کے خط کے ۹: ۲۱، ۲۲، ۲۳ سے ثابت ہے۔ لیکن کرنتھیوں کےپہلے خط کے ۱۱: ۱۹ میں پولوس یہ کہتا ہے۔ کہ جب پھوٹیں ہو چکتی ہیں تو خُدا کی مرضی سے بدعتیں بھی ان سے پیدا ہوتی ہیں تاکہ جو بُرائی موجود ہے اس کے ظہور پانے سے اچھے لوگ اس سے زیادہ الگ ہوں اور تیمتھیس دُوسرے خط کے باب ۲ میں وہ خُدا کی مرضی کا کچھ ذکر نہیں کرتا بلکہ کلیسیاء کا جو حال اب ہے اسی کا ذکر کرتا ہے۔ رومیوں کے خط کے ۹ باب سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ سب آدمی تو گنہگار ہیں لیکن گناہ کے پیدا ہونے کا اس میں کچھ ذکر نہیں ہے۔ اور چونکہ ہر شخص خُدا کی صورت پر پیدا ہوا اس ليے ممکن نہیں ہے۔ کہ خُدا باقی آدمیوں کے واسطے ایک کو ہلاک کرے۔
نواں باب
دُو آلِسما
ایک اور رائے پر غور کرنی چاہیے جو یورپ میں دُوآلسِما کہلاتی ہے۔ اور پنتھے اسمے کی ضد ہے اور جس سے نیکی اور بدی کا فرق نہ صرف مٹایا ہی نہیں جاتا۔ ( جیسا کہ پنتھے اسمے میں مٹایا جاتا ہے ) بلکہ حد سے زیادہ بڑھایا بھی جاتا ہے ۔ لیکن پھر بھی پنتھے استون کا دُوالسمے ہو جانا بہت مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ جب یہ ماننا ضرور ہے کہ نیکی اور بدی کا ظہور دُنیا میں متفرق ہے تو جو لوگ خُدا کو دونوں سے بے فکر سمجھتے ہیں۔ ان کو یہ بھی ماننا آسان ہوتا ہے۔ کہ اس بے فکر برہما کے سوا دو اور آلہ ہیں جن میں سے ایک نیکی پر حکومت رکھتا ہے اور دوسرا بدی پر ۔لیکن بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ کہ دو آلسمے کے اختیار کرنے کا سبب نیکی کے لئے سر گرمی ہوتی ہے۔ کیونکہ جو ایسے سرگرم ہیں وہ بدی کو نیکی سے بالکل علیحدہ سمجھنا چاہتے ہیں چنانچہ یہی مانی کا مقصد تھا ۔ جس کے پیرؤں سے کلیسیاء کا بڑانقصان ہوا ۔ لیکن یہ اچھی مراد نہ صرف پوری ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کےخلاف ہی ہوتا ہے کیونکہ جب بدی کی کوئی حقیقت سمجھی جاتی ہے تو آدمی کا اس کے قبضہ میں پڑنا اور پھراس سے چھوٹنا آدمی کی مرضی پر نہیں۔ بلکہ دُنیا کے کسی جبر پر موقوف معلوم ہوتا ہے مسیحی دین میں نہ صرف خُدا کی مخالفت کا امکان مانا جاتا ہے۔ بلکہ دنیا میں اس کا ایک خاص مخالف بھی مانا جاتا ہے لیکن دو آلسمے میں یہ مخالف اس سے آزاد ہے اور اس کی مانند ازلی ہے اور اس طرح سے خُدا نہ صرف اپنے تئیں محدود کرتا ہے۔ ( جیسا مسيحی لوگ بھی مانتے ہیں ) بلکہ دوسرے سے بھی محدود کیا جاتا ہے۔
جب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نیکی گناہ سے آزاد ہے تو دو آلسما صاف رد ہو جاتا ہے۔ ہاں جب سے بدی کا ظہور ہوا ہے اس وقت سے اکثر نیکی اس کے برخلاف ہی ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اگر بدی نہ ہوتی تو بھی نیکی کی ہستی میں کچھ خلل نہ آتا ۔ مگر برعکس اس کے بدی نیکی سے آزاد نہیں ہے۔ بلکہ صرف نیکی کے برخلاف ہی ظاہر ہو سکتی ہے۔
اگر نیکی نہ ہوتی تو بدی ہرگز نہ ہو سکتی ۔ نیکی اپنے تئیں اور بدی کے تئیں بھی ظاہر کرتی ہے۔ جیسا حق اپنے تئیں اور جھوٹ کے تئیں بھی ظاہر کرتا ہے گناہ کی خاص بدی یہی ہے کہ جو شخص ساری چیزوں کی اصلی حقیقت اور پاک محبت سے بھر پور ہے۔ اس کی مخالفت گنا ہ سے ہوتی ہے۔ اسی سبب سے پشیمانی (افسوس) اور اپنے سے نفرت کرنی ممکن ہے اگر خُدا محبت سے پُر نہ ہوتا تو فساد اور بطلان(جھوٹ) تو ہو سکتا مگر گناہ نہ ہو سکتا ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ ازلی نہیں ہو سکتا۔
اس کے سوا گناہ نیکی کی مدد ہی سے ہو سکتا ہے ۔ گناہ از خو د لوگوں کو ایک دوسرے سے ملا نہیں سکتا ۔ صرف جب تک بد لوگ نیکی کی مخالفت کرتے ہیں اس کی مخالفت کے واسطے ملےجلے رہتےہیں اور اسی واسطے مسیح شیطان کی بادشاہت کا ذکر کرتا ہے۔ متی کےباب ۱۲: ۲۵، ۲۶ کو دیکھو۔ لیکن جب یہ مخالفت اور زیادہ نہیں ہو سکتی یا وہ اس کوچھوڑ دیتے ہیں ۔ اس وقت وہ آپس میں مخالفت کرنے لگتے ہیں اور گناہ کا بھید ظاہر ہو جاتا ہے یعنی یہ کہ اس میں کچھ محبت یا میل نہیں ہے۔ پھر اس دنیا میں اگر کوئی کم و بیش اوروں کو خوش نہ کرے ۔ تو اس کی غرض کبھی پوری نہ ہو گی ۔ غرض گناہ کو خواہ مخواہ نیکی کی شریعت کا کم و بیش تابعدار ہونا پڑتا ہے۔
اس سبب سےگناہ ہمیشہ چھپنا چاہتا ہے اور اپنے تئیں جیسا ہے۔ ویسا ظاہر کرنانہیں چاہتا بلکہ نیکی کا بھیس بدل کراپنا کام کرتا ہے یہاں تک کہ جو ظالم بادشاہ بالکل خود مختار اور اپنی مرضی پر چلنے والا ہے اس کو بھی کم و بیش رعیت کی بہتر ی کا بھیس بدل کر کام کرنا ضرور ہے۔
گناہ سےنہ صرف آدمیوں کا ایک دوسرے سے میل نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ ہر گنہگار کے دل میں یہی صلح غیر ممکن ہے۔کیونکہ ایک خواہش دوسری خواہش سے لڑتی ہے۔ اور اگرچہ گنہگار اپنےتئیں کسی ایک خواہش کے سپرد کرے پھر بھی وہ اتنا زور نہیں پکڑ سکتی کہ اور سب خواہشیں اس سے دب جائیں ۔ خاص کر گناہ کےجو دو اصول ہم دریافت کر چکے ہیں ۔ یعنی غرور اور جسمانی خواہش ان میں میل یا صلح کبھی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ دونوں آدمی پر قابض ہونے کےلئے ہمیشہ لڑکر ایسی کھینچا تا نی کرتے ہیں۔ کہ وہ نیست(تباہ۔برباد) ہو جاتا ہے جیسا کہ مسیح کے دشمنوں نے کہا جب کوئی دیو نکلتا ہے تو دیووں کا سردار ہی اس کو نکالتا ہے۔ لیکن برعکس اس کے نیکی میں ہمیشہ میل رہتا ہے ۔ ہر ایک نیک چیز سے دوسری نیک چیز رُکتی نہیں سنبھلتی اور مدد پاتی ہے۔ نیک مقصد بُرے وسیلے سےکبھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ نیکی کا ایک ہی دشمن ہے یعنی بدی لیکن بدی کے دشمن دو ہیں یعنی نیکی اوربدی۔
بد(بُرائی) اس پر چند ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ خُدا سے الگ ہو کر رہے مگر رہ نہیں سکتی۔ لیکن اگر خُدا ایسا ہو نے دیتا اور گنہگار سے ایسا الگ ہوتا جیسا گنہگار اس سے الگ ہونا چاہتا ہے تو گنہگار نیست ہو جاتا اور اس کے ساتھ اس کی بدی بھی نیست ہوجاتی ۔ پس اس طرح بد ی ہمیشہ اپنی نیستی کےلئے کوشش کرتی ہے ۔ وہ اس بیل کی مانند ہے جو درخت پر چڑھی اور اس پر لپٹی ہوئی رہتی ہے اور اس کا سارا رس چُوس کر آخر اس کو ہلاک کر ڈالتی ہے لیکن جب درخت ہلاک ہوا تو پھل کہا ں رہا۔
چوتھا حصّہ گناہ کا امکان
دسواں باب
آزادی اور خود مختاری
یہاں تک یہ ثابت ہو چکا کہ آدمی گنہگار ہے اور گناہ اس کے خالق کی مرضی اور قواعد کے برخلاف ہے۔کیونکہ جتنی رائیں ہم اس باب میں سوچیں کہ گناہ کسی نہ کسی طرح خالق کی مرضی کے موافق ہے سب بے بنیاد ٹھہریں۔ لیکن جب ہم خالق کو مانتے ہیں اور یہ بھی تسلیم (مانتے)کرتےہیں۔ کہ ہم بالکل اس کے اختیار میں ہیں۔ تو کس طرح گناہ کا بھی باعث اصلی اس کو نہ ٹھہرائیں۔ پس اگر خود آدمیت میں ہم کوئی ایسی چیز دریافت کریں کہ جو فی الحقیقت گناہ کا باعث اصلی ہو تو ہماری قصور واری اور خُدا کا اختیار کل دونوں ثابت رہیں گے۔ نہیں تو نہیں۔
بلا شبہ یہ چیز آدمی کی آزادی ہو گی ۔ لیکن آزاد ی دو طرح کی ہے ایک توحقیقی آزادی ہے اور دوسری کو خود مختاری کہنا بہتر ہو گا۔
حقیقی آزادی یہ ہے کہ آدمی کے احوال و افعال(حال و کام) اس کی اصل فطرت کے مطابق ہوں ۔ اور آدمی کی اصل فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ بالکل نیک ہو اور خُدا کی شریعت کا بالکل تابعدار ہے۔ جو آدمی خُدا سے برگشتہ (پھرا ہوا)ہے اور جو آدمی نیکی اور بدی دونوں کے بیچ میں لٹک رہا ہے۔ یہ دونوں آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ خُدا نے آدمی کو نیک اور اپنا تابعدار بنایا ہے۔ اور اپنی اصل فطرت کے مطابق رہنا ہی اس کے لئے آزادی ہے۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے۔ کہ آدمی اسی صورت میں حقیقتاً آزاد ہے جب وہ بالکل تابعدار ہے ۔ آزادی کےلئے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی کاہر ایک کام اس کی طبیعت ہی سے ہو کسی غیر کے جبر (ظلم)سے نہ ہو بلکہ یہ بھی ضرو ر ہے کہ اس کی طبیعت اس کی اصل فطرت کےمطابق ہو۔ اور حقیقی آزادی کے واسطے یہ بھی ضرور ہے کہ یہ کلیہ تابعداری جبر نہ معلوم ہو بلکہ اس کی کلیت (پورے طور پر)ہی کے سبب آدمی کی مرضی بالکل اس بات کے مطابق ہو جو اس پر فرض ہو ۔ جب محبت کامل ہے تو آزادی اور پابندی میں کچھ فرق نہیں۔ اس آزادی سے نہ یہ مراد ہے کہ کسی غیر شے سے علاقہ(تعلق) نہ رہے۔ اور نہ یہ کہ بے فائدہ ارادوں کی کثرت ہو بلکہ یہ ہے کہ خُدا کی مقاربت (نزديکی)سے قائم رہ کر اورسب چیزوں سے آزادی رہے۔ مقدس کتاب میں آزادی کا لفظ صرف اسی حقیقی آزادی کے لئے مخصوص ہے۔ یہ آزادی مسیح کی نجات سے حاصل ہوتی ہے اور کہیں تو اس کا یوں بیان ہوا ہے۔ کہ آدمی اپنی خوشی سے خُدا کی شریعت کا تابعدار ہو کرشریعت کےلفظ سےآزاد ہے اور کہیں اس طرح کہ آدمی گناہ کی حکومت سے آزاد ہے۔ کرنتھیوں کےپہلے خط کے ۷: ۲۲۔ اور پطرس کے پہلے خط کے ۲:۱۶ میں لکھا ہے۔ کہ یہ آزادی خُدا کی بندگی ہے بلکہ متی کے ۷: ۱۸ ۔ اور یوحنا کےپہلے خط کے ۳: ۹ سے ثابت ہے کہ اس میں خُدا کی بندگی کرنا ضروری کام معلوم ہوتی ہے اور رومیوں کے خط کے ۸: ۲۱ سے یہ پایا جاتا ہے کہ آئندہ دنیا میں وہ کامل ہو گی۔
لیکن اس آزادی سے اس مقام پر ہم کو بحث نہیں کیونکہ اس وقت ہمارا یہ مطلب ہے کہ گناہ کے امکان کا سبب دریافت کریں اور اس آزادی میں گناہ کا امکان نہیں ہے۔
خود مختاری کےیہ معنی ہیں کہ جو کام کیا جائے اس کے عوض دوسرا کا م بھی ہو سکتا ہو ۔ اور یہ بات کہ کون ساکام کیا جائے صرف فاعل پر موقوف ہو۔ اگرچہ یہ بائبل میں آزادی نہیں کہلاتی مگر پھر بھی اس میں جو ہر جگہ کی قصور واری کا ذکر ہے۔ اس سے آدمی کی خود مختاری بھی ثابت ہے خاص کر پہلے گناہ کے بیان میں یعنی خُدا نے جو خُدا کے حکم کو جان بوجھ کر بلکہ پہلے اس کو مان کر اور اس کی طرفدار بن کر پھر اسے ٹال دیا اس سے خود مختاری مذکور ہ ثابت ہے۔
خود مختاری کی بہت سی غلط تعریفیں بیان کی گئی ہیں ۔ مثلاً ایک یہ ہے کہ آدمی کے فعل میں کسی چیز با خیال کا لگاؤ نہ ہو۔ بلکہ صرف اسی کی طرف سے اس کے فعل کا صدور(صادر ہونا) ہو۔ اور چونکہ اکثر اوقات آدمی کا ایسا حال نہیں رہتا اس واسطے کہتے ہیں کہ جب آدمی چاہتا ہے اسی وقت ایسا ہوتا ہے ۔ لیکن اس تعریف کا مطلب ہو گا کہ آدمی اس واسطے کوئی کام اختیار نہیں کرتا کہ وہ کام نیک ہے۔ بلکہ وہ کام اس واسطے نیک ٹھہرتا ہے کہ آدمی اسے اختیار کرتا ۔ غرض شریعت کوئی چیز نہیں ہے۔
دوسری تعریف یہ ہے کہ آدمی اسی حال میں خود مختار ہے جب وہ کوئی سی دو چیزوں کی طرف برابر میلان (توجہ۔خواہش)رکھتا ہے اور کسی کی طرف زیادہ جھکاؤ نہیں ہوتا ۔ لیکن اس صورت میں ایک تو یہ بات ہے۔
کہ آدمی صرف کبھی کبھی خود مختار ہو گا۔ دوسرے کیا یہ آدمی کی صفت میں داخل ہے کہ وہ نیکی اور بدی دونوں کی طرف برابر میلان رکھتا ہو؟
تیسری تعریف یہ ہے کہ آدمی اسی وقت خود مختار ہے جب کہ وہ جو چاہتا ہے سو کر سکتا ہے۔ اور چونکہ ہم کو غیر چیزوں میں ایسا اختیار بہت کم حاصل ہے اس واسطے خود مختاری خاص کر یہ ہے کہ ہم اپنے دل کا حال جیسا چاہیں ویسا بنا سکیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے ۔ کہ یہ چاہنا آزادی ہی ہو ۔ اور جس صورت میں مقید (قيد)بھی ہوا تو اِنسان اور حیوان میں کیا فرق ہو گا۔ ہر ایک ارادہ جیسا حیوانوں میں ہو تا ہے ویسا ہی اِنسان میں بھی کسی گذشتہ سبب کا ضروری نتیجہ ہو سکتا ہے۔ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ اِنسان اپنے سے واقف رہتا ہے اور اسی سے اس کی آزادی ثابت ہے لیکن یہ ہر گز ممکن نہیں کیونکہ جو خود پابند ہے۔ وہ اپنے حال کے پہچاننے سے آزاد نہیں ہو تا۔
لیکن جب ہم خود مختاری کی وہ تعریف کرتے ہیں جو اُوپر لکھ آئے ہیں یعنی ہر ایک فعل کےوقت دوسرے فعل کا امکان فاعل میں موجود ہو تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ خود مختاری اور حقیقی آزادی بالکل دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ خود مختاری حقیقی آزادی کا وسیلہ ہے اور حقیقی آزادی خود مختاری کا نتیجہ ہے ۔ حقیقی آزادی جب تک ناتمام ہے خود مختاری ہے اور خود مختاری جب کامل(مکمل) ہو گئی تو حقیقی آزادی ہے۔کیونکہ اگر پہلے بدی کرنے کا امکان نہ ہو تا تو وہ ضرورت جس سےنیک آدمی نیکی کرتا ہے کسی طرح کی آزادی نہ ہوتی بلکہ محض پابند ی ہوتی ۔
گیا رھواں باب
ہم کس قدر خود مختار ہیں
آدمی کی خود مختاری(آزادی) کےدرست خیال کے دونوں طرف ایک ایک غلط رائے ہے جس سے خبر دار رہنا ضرور ہے۔ ایک طرف تو پلا گیانوں کی رائے ہے کہ آدمی کے ہر ایک فعل (کام)میں بالکل آزادی ہے اور کوئی فعل اس کے گذشتہ کاموں یا کسی خیال یا اور کسی سبب کے ساتھ مقید(قيد) نہیں ہے۔غرض ہر ایک فعل گویا ایک نئی ابتداء ہے لیکن اگریہ رائے صحیح ہوتی تو نہ تعلیم اور نصیحت سے کچھ فائدہ ہوتا نہ کوئی آدمی دوسرے پر کچھ اعتماد(يقين) کر سکتا نہ وہ کسی دوسرے کے کاموں کی امید کے مطابق اپنا برتاؤ رکھ سکتا ۔اور نہ کسی کی نجات ہو سکتی بلکہ انجیل بالکل بے فائدہ ہوتی اور جس کو مسیح (1) نے غیر ممکن ٹھہرایا یعنی ایک آدمی کا دو مالکو ں کی بندگی کرنا اور جس کو رسو (2)ل نے غیر ممکن ٹھہرایا یعنی نور اور تاریکی کے درمیان رفاقت(اتحاد۔ہمدردی) ہونی وہ ممکن ہو جاتا۔
دوسری طرف یہ رائے ہے کہ آدمی کا ہر ایک فعل کسی سبب کا ضروری نتیجہ ہے ۔ اور چونکہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے کام خارجی اسباب کے ساتھ مقید ہیں ۔اس واسطے اس رائے کے طرفدار یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ہی مزاج کے ضروری نتیجے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ہمارے کام ہمارے مزاج کے نتیجے ہیں۔ یعنی ہم اکثر اپنے مزاج کے مطابق کام کرتے ہیں بلکہ جو کام فاعل (کام کرنے والا) کے مزاج کے برخلاف معلو م ہوتا ہے ۔ وہ اتفاقیہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس کے سبب فاعل کی تعریف نہیں ہوتی ۔
لیکن اس کے ساتھ دو اور باتیں یاد رکھنی ضرور ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا مزاج کم و بیش ہمارے پچھلے کاموں کا نتیجہ ہے مگر ہاں بالکل ایسا نہیں ہے کیونکہ ہر ایک آدمی کی ایک تو جبلی (فطری۔پيدائشی)طبیعت ہے ۔جس میں کچھ تو عام اِنسانی طبیعت شامل ہے اور کچھ اس کی قوم کچھ اس کے خاندان کچھ اس کے والدین کی اور کچھ اسی کی خاص طبیعت ہے ۔اور اس جبلی طبیعت کی بابت وہ مطلق جواب دہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے سو ا ہر ایک آدمی کی ایک اور طبیعت یا مزاج ہے جو رفتہ کم و بیش بچپن سے لے کر مرتے دم تک ظاہر ہوتا ہے ۔ کم و بیش سے یہ مراد ہے کہ سب آدمیوں میں برابر ظاہر نہیں ہوتا ۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ مزاج خود مختاری کے ساتھ جو کام ہوتے ہیں ۔ ان کا نتیجہ ہے اور جتنی زیادہ وہ جبلی طبیعت اس مزاج ميں ہے ۔ جو ر فتہ کم وبیش بچپن سے لے کر مرتے دم تک ظاہر ہوتا ہے۔ کم و بیش سے یہ مراد ہے کہ سب آدمیوں میں برابر ظاہر نہیں ہوتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ مزاج خود مختاری کے ساتھ جو کام ہوتے ہے ان کا نتیجہ ہے اور جتنی زیادہ و ہ جبلی طبیعت اس مزاج سے مغلوب ہو جاتی ہے۔پس اسی میں خود مختاری اور جو ابدہی ہے بلکہ جن لوگوں میں یہ بہت کم ظاہر ہوتا ہے اور جبلی طبیعت سے اکثر مغلوب رہتا ہے ان میں یہ مزاج کی کمزوری ہی خود مختاری کا نتیجہ ہے اور اسی واسطے یہ ایک طرح کا مزاج ہے۔
(1) ۔ متی کے ۶: ۲۴ کو دیکھو ۔ (2) ۔ لرنتھیوں کے دوسرے خط کے ۶: ۱۴ کو دیکھو۔
دوسری بات یہ ہےکہ جب تک مزاج پختہ (پکا)نہیں ہوتا یعنی اس تمام زندگی میں وہ افعال پر ایسا غالب نہیں آتا کہ خواہ مخواہ وہ اس کے مطابق ہوں۔ قیاساً تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں آدمی فلاں حال میں کیا کرے گا لیکن یقیناً نہیں کہہ سکتے اور اگر بالفرض یہ ہم کو یقیناً بھی معلوم ہوتا کہ نیک آدمی فلاں گناہ نہیں کرے گا تو بھی ہم یہ نہ کہہ سکتے کہ وہ کیا کچھ کرے گا ۔ اس واسطے تعلیم ہر چند بہت مفید (فائدہ مند)ہے مگر ہم یقیناً نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کیا فائدہ ہو گا۔
عادت کا اختیار نہ صرف ہماری جسمانی حرکتوں اور دل کے خیالوں پر ہوتا ہےبلکہ ہمارے نيک یا بد مزاج پر بھی وہ بڑا اختیار رکھتی ہے۔
لیکن مزاج جو چیز ہے وہ عادت سے جُدا ہے۔ حیوان صرف عادتوں ہی سے کام کرتے ہیں اور مزاج اِنسان کا خاصہ ہے کیونکہ مزاج میں خود مختاری ہے یہاں تک کہ اگر ہم کسی کی نسبت یہ کہیں کہ اس نے فلاں کام عادت ہی سےکیا تو یہ عیب(بُرا) سمجھا جائےگا۔ عادت سے تو ایک ہی طرح کا کام بار با ر ہوتا ہے۔ لیکن مزاج ایک ایسا چشمہ ہے کہ اس سےبہت سے مختلف کام ظاہر ہوتےہیں۔ اسی واسطے آدمی کی گنہگاری اس کی عادتوں پر موقوف نہیں بلکہ اس کے مزاج پر ہے۔
ہر ایک کام کی غرض کسی قدر اس کام کا سبب ہوتی ہے۔ لیکن پھر اس غرض کا سبب آدمی ہی ہوتا ہے۔ یعنی آدمی اپنےمزاج کے مطابق مختلف باتیں اپنی طرف کھینچ لاتا اور اپنے میں ملا لیتا ہے۔ اور اس طرح یہ باتیں اس کے کاموں کی اغراض ہوتی ہیں۔
ہر ایک چیز کی ترقی میں دو طرح کےمیلان(رُحجان۔توجہ) ضرور ہیں۔ ایک تو اس کی حفاظت کا دوسرا اس کی خاص ترقی کا حفاظت کے میلان کا یہ مقصد ہے ۔کہ وہی چیزرہے اور ترقی کےمیلان کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نئی نئی صورتیں بنتی جائیں ۔ غیر ناطقوں کی ترقی ان کی جنس ہی کےمطابق ہونی ضرور ہے مگر آدمی کےمزاج کی ترقی اس کی خود مختاری (آزادی)سے ہوتی ہے اور جو کچھ ترقی کے میلان سے آدمی میں نیا حال پیدا ہو تا۔ وہ حفاظت کے میلان کےسبب آدمی کےمزاج میں ملتا جاتا ہے۔ پس آدمی کا مزاج رفتہ رفتہ (آہستہ آہستہ)پختہ ہو جاتا ہے ۔ آدمی اس ترقی کے قاعدہ کا پابند ہے خواہ شریعت کی پیروی میں ہو خواہ اس کے عدول (انکار)میں۔ چنانچہ مسیح متی کے ۱۲: ۳۳ میں فرماتا ہے ’’ درخت کو اچھا بناؤ تو اس کا پھل اچھا ہو گا اور درخت کو بُرا بناؤ تو اس کا پھل بُرا ہو گا ‘‘۔
بارھواں باب
پوری خود مختاری
جب کسی کو گناہ پہلے پہل معلوم ہوتا ہے تو وہ اپنے تئیں اس کی نسبت بالکل خود مختار اور جوابدہ جانتا ہے ۔ لیکن جب اس گناہ کا سبب سوچتا ہے۔ اور دُنیا کا زیادہ تجربہ اسے ہو جاتا ہے تو اس پہلی رائے کے برخلاف اس کےدل میں خیال پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی وہ اپنے تئیں گناہ کی نسبت بالکل مجبور سمجھتا ہے۔ پھر جب اس سے بھی زیادہ علم اس کو حاصل ہوتا ہے۔ تو وہ ان دونوں راؤں (رائے کی جمع) کی درستی اور نادرستی کو پہچانتا ہے۔ اور ہر ایک فعل(کام) میں کسی قدر آزادی اور کسی قدر مجبوری جانتا ہے جیسا کہ گیارھویں باب میں بیان ہو چکا ہے۔
لیکن پوری قصور واری کے واسطے پوری خود مختاری ضرور ہے۔ یہ تو کچھ ضرور نہیں کہ ترقی کے ہر وقت میں خود مختاری پوری ہو کیونکہ اگر ترقی کےپہلے فعل میں پوری خود مختاری تھی تو اس فعل سےجو قصور واری ہوتی ہے وہی قصور واری ان سب کاموں میں بھی موجود ہوتی ہےجو اس فعل سے پیداہو ں۔
لیکن ترقی کے شروع میں پوری خود مختاری چاہیے نہیں تونہ اس وقت کے فعل میں اور نہ اس کےبعد کسی دوسرے فعل میں پوری قصور واری ہو گی ۔
اس سے دو نتیجے نکل سکتے ہیں ایک یہ کہ آدمی کی پوری قصور واری نہیں ہے دوسرا یہ کہ اگرچہ آدمی اب بالکل خود مختار نہیں ہےمگر کبھی پہلے ضرور تھا۔ ان دونوں میں سے ایک نہ ایک کو ماننا ضرور ہے۔پس کس کو مانیں؟ پہلی بات البتہ زیادہ آسان ہے لیکن اس کے برخلاف دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے دل اگر فلسفہ سے خراب نہیں ہوئے تو وہ ہم کو نہ صرف ہمارے فعلوں (کاموں)سے بلکہ اس مزاج اور ان عادتوں سےبھی جن سےہمارے فعل نکلتے ہیں قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً فلا ں آدمی نے کوئی بُرا کام کیا۔ کیوں ؟ اس واسطے کہ اس کا دل بُرائی کی طرف مائل (متوجہ) ہے ۔ لیکن اس سبب سےکسی سیدھے سادے آدمی کا دل کبھی اس کو معذور نہیں ٹھہرائے گا۔ بلکہ اس بُرے میلان(خواہش) کا بھی اس کو جواب دہ ٹھہرائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آدمی کی پوری قصورواری نہیں ہے تو یہ شک ہو تا ہے۔ کہ کس طرح خُدا گناہ کے سبب ایسا غضب ناک ہو سکتا ہے کہ نہ صرف اپنے کلام میں ہمیشہ کے عذاب (دُکھ)کی و عید (سزا دينے کا وعدہ)کرے بلکہ اس دنیا میں بيدار آدمی کے دل میں اس کا قہر بے انتہا معلوم ہو ۔ اگر ہم اقرار کریں کہ آدمی ابتداء میں بالکل خود مختار تھا تو اس ابتداء سے کون ساز زمانہ مراد ہے۔ اس کے دو جواب دئیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب کبھی گناہ باوجود تمیز(جانچ۔پہچان) کی روشنی کے ہوتا ہے اس وقت بُری عادت کی سب سے پہلی ابتداء ہوتی ہے اور کمال خود مختاری سے گناہ ہوتا ہے۔لیکن اس میں دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ یہ ٹھیک ٹھیک پہچاننا مشکل ہے بلکہ محال (دُشوار۔غير ممکن)ہے کہ ہر ایک گناہ کس قدر باوجود تمیز کے ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ باوجود تمیز کے بھی جو گناہ ہوتے ہیں۔ وہ پہلے گناہوں کے کم و بیش نتیجے ہو سکتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ابتداء اس وقت ہوتی ہے جس وقت پہلے پہل بچہ شریعت سے واقف ہو کر گناہ کرتا ہے لیکن اس میں یہ بات ہے کہ کوئی یقیناً یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کس وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگرچہ بہت سے لوگوں کو کسی خاص طرح کا اپنا پہلا گناہ یاد رہتا ہے۔
لیکن پھر بھی جب زیاد ہ غور کر کے سوچتے ہیں تو اس سے پہلے گناہ کی طرف میلا ن(رُحجان) یاد آتا ہے۔ اور جب اس کی اصل دریافت کرنی چاہتے ہیں۔ تو اور اس سے پہلی ابتداء نظر نہیں آتی بلکہ جو ں جوں نظر دوڑاتے ہیں زیادہ دُھندلا سا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم یہ کہہ سکتے کہ کب اور کس طرح گناہ شروع ہوا۔ پس اگر ایسی سب سے پہلی ابتداء ہوتی تو کیا بہت صفائی سے ہمیشہ یاد نہ رہتی ۔ اور یہ بھی بڑے تعجب (حيرانگی)کی بات ہے کہ خُدا ایسی کمزوری کے زمانہ یعنی لڑکپن کوایسے بھاری کام کا وقت ٹھہرائے ۔ کہ جس پر ساری زندگی کی جواب دہی موقوف ہو۔
پس اس سوال کا کوئی جواب نہ رہا کہ کس طرح سےہماری پوری قصور واری ہے۔ ہماری عقل میں تو یہ بات نہیں آتی لیکن چونکہ ہمارا دل صاف گواہی دیتا ہے کہ ہم پورے پورے قصور وار ہیں تو ایسا ہی ماننا چاہیے۔
تیرھواں باب
خُداکی خالقی اورآدمی کی خود مختاری
دہریوں(خُدا کو نہ ماننے والے) اور پنتھے استوں کو گناہ کا حال بیان کرنا کچھ مشکل نہیں ہے مگر جو ایک خُدا کو دُنیا سے علیحدہ اور ساری چیزوں کاخالق سمجھ کراس کی پرستش کرتے ہیں۔ انہیں گناہ کی اصل بیان کرنا ایسا سر بستہ بھید(راز) معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کھولنے میں ان کو حیران و پریشان ہونا پڑتا ہے۔ اس باب میں ہم کو اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرنی چاہیے کہ باوجود خُدا کے کس طرح گناہ کا وقو ع(واقع ہونا) ممکن تھا ۔ پس پہلے ہم یہ غور کریں کہ خُدا کیا ہے؟ خُدا تو ایک شخص ہے خود دان اور خود مختار(آزاد) ۔ لیکن خُدا کے سوا اور بھی خوددان اور خود مختار شخص ہیں تو خُدا کی شخصیت میں خصوصیت کیا ہے یعنی کس طرح خُداکی شخصیت مطلق (آزاد۔بے قيد)ہے؟ شخصیت کے واسطے یہ ضرور ہے کہ شخص اپنے تئیں ایک جانے اور بہت بھی جانےیعنی اپنی بہت صفات اور احوال میں اپنے تئیں ایک جانے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خُدا کو محض ایک سمجھنا غلطی ہے۔ خُدا ایک تو ہے لیکن اس میں مختلف صفتیں ہیں نہ صرف ہماری دانست(سمجھ) میں بلکہ فی الحقیقت ورنہ ہم اس کو کسی طرح نہ جان سکتے ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دنیا کےبنانے سے خُدا کی الگ الگ صفتیں ہوئیں وہ پنتھے اسمے سےدور نہیں ہیں برعکس اس کےانجیل کا یہ ایک اصو ل ہے کہ ’’ خُدا (1) اپنے میں زندگی رکھتا ہے‘‘۔
اور وہ ہستی سےمعمور(بھرا ہوا) ہے اور صفتوں کی بے قیاس(بے شمار) دولت اپنے میں رکھتا ہے چنانچہ نازی انزی گرےگوری نے خُدا کو ہستی کا سمندر کہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ صرف خُدا میں خود دانی نہایت کم ہو تی یعنی اس میں تھوڑی ہی ایسی چیز ہوتی جس سے وہ واقف ہو سکتا بلکہ خُدا خود مختار بھی نہ ہو سکتا کیونکہ جب اس میں فرق ہو سکتا ہے اور اگر وہ اپنے پر اختیار نہیں رکھتا تو کس طرح اور کسی چیز پر اختیار رکھے گا۔
(1) ۔ یوحنا کے ۵: ۲۶ کو دیکھو۔
آدمی کے لئے نہ صرف یہ ضرو رہے کہ وہ اپنی بہت سی صفات اور احوال میں اپنے تئیں ایک جانے بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنےتئیں کیا رُوح کیا مادہ سب چیزوں سے الگ جانے ۔ خود دانی سے آدمی اپنے تئیں گویا غیر سے کھینچ لیتا ہے اور خود مختاری سے وہ اپنے تئیں گویا غير ميں داخل کردیتا ہے تاکہ اپنے تئیں نہ صرف اس سے الگ بلکہ اس میں بھی رکھے۔ لیکن یہ بات خُدا پر صادق(سچ) نہیں آ سکتی ورنہ وہ کامل(مکمل) خود مختار نہ ہو سکتا ۔ اگر خُد ا کی شخصیت غیر پر موقوف ہے تو یہ لازم آتا ہے ۔ کہ دنیا کی پیدائش سےپہلے وہ بے شخصیت تھا۔ اگر کہیں کہ اس نے اس واسطے دنیا کو پیدا کیا کہ اپنے تئیں اس سے الگ جان کر پور ی شخصیت حاصل کرے تو بغیر شخصیت کےکس طرح وہ کوئی ارادہ کر سکتا تھا۔ مگر پھر بھی یہ شک باقی رہتا ہے۔ کہ خُدا بغیر غیر کے خود دان شخص کس طرح ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی میں تو یہ اس واسطے ممکن نہیں کہ وہ فی الحقیقت اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ اور چیزوں سے گھرا ہوا ہے ۔ اور اگر اور مخلوقات نہ ہوتی تو بھی اس کا خالق ہوتا ۔ لیکن خُدا کا یہ حال نہیں ہے۔ خُدا کی خود دانی میں بے حد مخصوصات ہیں ۔ جو ایک دوسرے سے الگ تو ہیں ۔ مگر ایک دوسرے سے بالکل متفق ہیں اور خُدا کی غیر محدودی اسی طرح کی ہے ۔ اگر دنیا مکان کے اعتبار سے بے حد ہوتی تو بھی فی الحقیقت غیر محدود نہ ہوتی کیونکہ اس کی سب چیزیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ۔ یعنی جہاں ایک چیز ہے وہاں اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اگر خُدا محض ایک ہوتا تو غیر محدود نہ ہو سکتا کیونکہ دنیا سے محدود(گھرا ہوا۔حد کيا گيا ) ہوتا ۔لیکن چونکہ اس میں بے حد مخصوصات ہیں وہ اپنے میں غیر محدود ی رکھتا ہے۔ اور دنیا کے ظاہر ہونے سے اس غیر کا وجود تمام شخصوں کے واسطے ضرور نہیں صرف مخلوق شخصوں کے واسطے ضرور ہے۔خُداازل سے ابدتک اپنے لئے بالکل کافی(وافر) ہے۔
پھر یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ آیا خُدا کی خود مختاری اس کی خود دانی کا سبب ہے یا اس کا نتیجہ ہے۔ یعنی کیا خُدا اور اس کی صفتیں بغیر اس کی مرضی کےہیں یہاں تک کہ جب خُدا اپنے تئیں جاننا ہے۔ اسی وقت وہ مختلف ارادے اور کام کرتا ہے۔ یہ تو لوگوں کا حال ہے اور اسی واسطے ہم اپنے تئیں بالتمام کبھی نہیں جان سکتے کیونکہ ہم اپنی خود دانی سے پہلے موجود تھے۔ کچھ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ غیر کی مرضی سے۔ لیکن اگر خُدا کا بھی یہی حال ہوتا تو کس طرح وہ ’’نوروں (1) کا باپ ‘‘ہوتا اور کیونکہ اس کی رُوح(2) اس کی عمیق چیزوں کو دریافت کر سکتی ۔ اور پھر خُدا کا مل خود مختار کیو نکر ہو سکتا ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خُدا کو صرف غیر مخلوق کہنا کافی نہیں۔ بلکہ اس کو از خود مخلوق بھی کہنا چاہیے ۔ اس بات کو یونانی کلیسیا ء کے معلوم لوگ اؤت اوسیا یعنی از خود ہستی کہتے تھے۔ یہ از خود مخلوق کسی خاص وقت کی نہیں بلکہ ازلی و ابدی ہے۔ اسی بات کے ماننے سے خُدا کی ہستی کی یہ دلیل (گواہی) ثابت ہوتی ہے۔ کہ سببوں کا کوئی سبب چاہیے کیونکہ اگر خُدا اپنا سبب نہ ہونا تو اس کا اور کوئی سبب ضرور ہوتا۔
پس خُدا کی شخصیت آدمی کی شخصیت سے نہ صرف اس طرح جُداہے کہ دونوں کی خوددانی ایک چیز کی دانش(حکمت۔دانائی) نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح بھی کہ دونوں کی خود دانی جن چیزوں کی دانش ہے ان کی اصل جُدا جُدا ہے۔ آدمی جو کچھ اپنے تئیں پہچانتا ہے اس کی اصل صرف کسی قدر اس میں ہے۔ لیکن خُدا جو کچھ اپنے تئیں پہچانتا ہے۔ اس کی اصل فقط وہی ہے اور کوئی نہیں۔ اسی سبب سے خُدا کامل مختار (مکمل اختيار والا) ہے کہ وہ جو کچھ ہے سو اپنی مرضی سے ہے ۔ بلکہ علمِ ریاضی کے اصول بھی جو خُدا کی ذات و صفات کے اتحاد(ملاپ) کی پرچھائیں ہیں۔ خُدا کی مرضی پر موقو ف ہیں لیکن ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کبھی ان کو بدل دے کیونکہ اس صورت میں اسے ہماری عقلوں کو بھی بدلنا پڑے گا ۔ اگر سب سے پہلے پابندی ہوتی تو آزادی کبھی کامل نہ ہو سکتی لیکن اگر آزادی کو پہلے مانیں تو پابندی کی پیدائش کو سمجھ سکتے ہیں۔
(1) ۔یعقوب کے خط کے ۱: ۱۷ کو دیکھو۔ (2) ۔کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۲: ۱۰ کو دیکھو۔
کیونکہ آزادی پابندی کو بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اگر خُدا اس طرح اپنا سبب نہ ہوتا یعنی اگر وہ اصل الاصول نہ ہوتا ۔ تو ہم نہ پوری تابعداری کے ساتھ اپنے تئیں اس کے سپرد کر سکتے نہ آئندہ کے واسطے اس پر پورا بھروسا رکھ سکتے ۔ اگر وہ الف (1) نہ ہوتا تو کیونکہ ہم اسے اویگہ (2)جان سکتے اور اگر یہ درست نہ ہوتا کہ سب کچھ اس سے ہے ’’ تو کیونکر ہم جان سکتے کہ سب کچھ اس کےلئے ہے‘‘۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خُدا کا غیر کو بنانا کسی طرح ضرور نہ تھا بلکہ صرف اس کی مرضی سے یہ ہوا جب خُدا اپنی نسبت کامل خود مختار ہے تو غیر کی نسبت کیونکر نہ ہو۔ اور اس کی یہ مرضی بھی کسی ضرورت سے نہیں ہوئی بلکہ محض محبت سے جس کے سبب اس نے چاہا کہ میر ی مقاربت (نزديکی)میں اور کچھ شریک ہو۔ خلق کرنا کیا ہے ؟ کامل خود مختار ی ہے کسی مفید چیز کو بنا نا ۔ پس خُدا ہی سے ایسا کام ہو سکتا ہے خلقت کے فعل سے خُدا جو اکیلا بھی رہ سکتا ہے محبت سے ایک غیر چیز اپنے میں سے بنا تا ہے۔
لیکن اس سے یہ شک پید اہوتا ہے کہ جب محبت خُدا کی ذات ہی میں ہے تو کیا محبت سے خلق کرنا ضرورت سے خلق کرنا نہیں ہے۔ اس کا کیا جواب ہو گا؟ کیا یہ اس کی محبت بھی اس کی مرضی پر موقوف ہے یہ تو سچ ہے لیکن اگر اس حال میں یعنی جب کہ محبت اس کی ذات میں ہے غیر کا خلق کرنا اس محبت کے سبب ضرور ی ہے تو محبت کے پیدا کرنے سے خُد ا کی کا مل خود مختاری جاتی رہی اور خُدا غیر محتاج(غير ضرورت مند) نہیں رہا۔
اس شک کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے۔یعنی تثلیث کا عقیدہ مسیح یوحنا کے ۱۷: ۲۴ میں خُدا باپ سے کہتا ہے کہ ’’ تو دنیا کی ابتداء سے مجھ سے محبت رکھتا تھا‘‘۔ اگر خُدا ایک ہی شخص ہوتا تو خُدا میں دُنیا کے خلق کئے بغیر محبت ممکن نہ ہوتی کیونکہ محبت کے لئے دو شخص ضرور ہیں ایک محب(محبت کرنے والا دوست) دوسر ا محبوب (دلدار۔معشوق)۔ پھر اگر خُدا کی ذات ایک ہی نہ ہوتی یعنی اگر ( نعوذ باللہ ) دو یا تین خُدا ہوتے تو ایک خُدا دوسرے خُدا کی محبت کا محتاج (ضررت مند) ہو تا یعنی خُدا نہ رہتا ۔ اس واسطے کلام اللہ کے حق میں یوحنا میں دونوں باتیں لکھی ہوئی ہیں یعنی یہ کہ وہ خُدا کے پاس تھا اور یہ کہ وہ خُدا تھا ۔ اگر تثلیث نہ ہوتی یعنی اگر خُدا محبت کی نسبت بھی کامل خود مختار نہ ہوتا تو نہ صرف یہ ہوتا کہ وہ اپنے میں محبت نہ رکھ سکتا بلکہ یہ بھی ہوتا کہ دنیا سے بھی کامل محبت نہ رکھ سکتا کیونکہ جہاں کچھ محتاجی ہے وہاں کامل محبت نہیں ہے ۔ لیکن جب کہ خُد ا نہ صرف اپنی خود دانی بلکہ محبت کی نسبت بھی اپنے لئے آپ بالکل کافی ہے تو خُدا کی وہ کامل محبت جو مسیح کی انجیل میں بیان ہوئی ہماری سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ خُدا نے دُنیا کو اتفاقاً بنایا کیونکہ محبت کسی مقصد ہی کے سبب کام کرتی ہے لیکن یہ مقصد خالق میں نہیں یعنی اس کو کچھ احتیاج(ضرورت۔محتاجی) نہ تھی بلکہ مخلوق میں ہے۔
(1) ۔مکاشفہ کے ۱: ۸ کو دیکھو ۔ (2) ۔رومیوں کے خط کے ۱۱ : ۳۶ کو دیکھو۔
خُدا نے اپنی محبت سے خلق تو بہت سی چیزیں کیں۔ لیکن سب میں سے شخصوں کی خلقت میں اس کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔کیونکہ اشخاص سب مخلوقات سے زیادہ تر کامل ہیں۔ اس واسطے کہ وہ نہ صرف خد اکی مخلوق ہیں بلکہ کم و بیش خود مختار (آزاد)بھی ہیں اسی طرح وہ خُدا کی مانند ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے تئیں خُدا کو سونپ سکتے ہیں اور اسی طرح وہ اس سے مقاربت(نزديکی) رکھ سکتے ہیں۔ ضرور ہے کہ مخلوق شخص بھی کسی قدر خُدا کی مانند از خود اور اپنا سبب ہو یعنی نہ صرف اس کے افعال(کام) میں بلکہ اس کی طبیعت میں بھی کسی قدر اسی کا تصرف (اختيار)ہو۔ کسی قدر ہم اس واسطے کہتے ہیں کہ اگر مطلق ایسا ہوتا تو آدمی خُدا ہوتا ۔ خُدا نے آدمی کو خلق کرنے کےوقت ایک خاص ذات یعنی اِنسانیت دی۔ یہ ذا ت تو آدمی کے قبضہ میں نہیں ہے۔ لیکن اگر آدمی خُدا کی محبت سے اور اپنے تئیں خُدا کا تابعدار سمجھ کر خُدا کی ٹھہرائی ہوئی قیود(پابندياں) یعنی قاعدوں کو پسند کرتا تو وہ پھر اس کو قیود نہ معلوم ہوتیں ۔ اسی باب میں اور اسی قدر آدمی کامل خود مختار ہے کہ چاہے خُدا کی محبت کو پسند کرے چاہے اپنی خود غرضی کو یہیں تک آدمی خُد ا کی مانند ہے اور یہیں تک وہ بالکل اس کی صورت ہے۔
عموماً خود مختاری میں تو گناہ کا امکان ضرور نہیں ہے۔ چنانچہ خُدا کامل خود مختار ہے اور ہم گناہ کا امکان بھی اس کی طرف منسوب(نسبت کياگيا) نہیں کر سکتے۔ یہ بات نہیں ہے کہ نیکی کی ضرورت خارج سے خُدا کے لئے ثابت ہوئی ہے بلکہ صرف یہی ہے کہ ہماری دلی شریعت اورساری خلقت اور وہ کلام جو ان دونوں کی گواہی پر مبنی ہے گواہی دیتے ہیں کہ وہ نیک ہے ۔ پس اگر وہ ( نعوذ با للہ ) بد(بُرا) ہوتا تو ہم اور سب مخلوق فوراً نیست (تباہ) ہو جاتے۔
لیکن آدمی کی خود مختاری میں گناہ کا امکان ہے کیونکہ وہ اصل میں اپنے لئے نیکی نہ ٹھہرا سکا ۔ نیکی اصل میں اس میں نہیں ہے۔ بلکہ خُدا ہی میں ہے ۔ اور آدمی صرف خُدا ہی کے ساتھ علاقہ (تعلق۔رابطہ)رکھ کر نیک ہو سکتا ہے۔ پس چونکہ آدمی کی ذات از خود نیک نہیں ہے اس واسطے اس میں نیکی اور بدی دونوں کا امکان ہے۔ ہاں خُدا نے تو آدمی کو نیکی اور اپنی مقاربت کے لئے بنایا مگر وہ اپنی مختاری کے فعل یعنی اس کو جو نیکی اور بدی دونوں میں سے جسے چاہے پسند کرنے کا اختیار (حق)ہے اس کے بغیر ایسا نہیں ہو سکا ۔ اور اس فعل میں گناہ کا بھی امکان رہا۔ اس خود مختاری کے فعل سے پیشتر آدمی خُدا کا تابعدار تو تھا ورنہ مخلوق نہ ہوتا لیکن اس تابعدار میں نہ نیکی تھی ۔ نہ بدی بلکہ یہ صرف خواہ مخواہ تھی اور یہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ دونوں کے بیچ میں لٹک رہا تھا کیونکہ یہ بھی گناہ ہے ۔ اگر خُدا گناہ کے امکان کو دفع کرنے کے لئے شخص پیدا نہ کرتا یعنی آدمی میں خو ددانی و خود مختاری نہ ہوتی تو نقصان تو کچھ نہ ہوتا مگر دنیا میں کوئی شے ایسی نہ ہوتی کہ اپنے تئیں اور اپنے خالق کو پہچان سکتی ۔ جب خُدا کا یہ مقصد تھا کہ دنیا میں پہچانا جائے تو یہ ہرگز ممکن نہ تھا کہ شخص پید ا نہ ہو۔
پھر آدمی کی اس خود مختاری میں گناہ یعنی خود غرضی کا تخم(بيج) نہیں ہے۔ بلکہ یہ نیکی کے لئے بھی شرط ہے اگر چہ خود نیکی نہیں ہے ۔آدمی جب گنہگار ہوتا ہے تو اسی خود مختاری کے سبب وہ نہایت خراب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسی کے سبب وہ اپنے تئیں اپنا مقصد بنا سکتا ہے ۔ آدمی کی اس خود مختاری کے سبب جتنا سرفراز(بلند) تھا اتنا ہی اس کے بُر ے استعمال سے خراب حال ہوا۔ خُدا نے آدمی کی خلقت اور سب کی خلقت جُدا رکھی ہے۔ بلکہ ايک طرح سے آدمی کی خلقت کامل تر ہے کیونکہ اس کے خلق کرنے میں خُدا نے اپنی خود مختار ی سے ایسا کام کیا کہ جس سے اس کی خود مختاری آئندہ کو ایک طرح سے کچھ کم رہ گئی۔
گناہ کا امکان خُدا نے اس واسطے نہیں رکھا کہ وہ دائم(ہميشہ) رہےبلکہ اس واسطے کہ ہم گناہ کی مخالفت برابر کرتے رہنے سے آخر اس کے امکان کو موقوف کریں۔ بہت سے آدمیوں کا قول یہ ہے کہ ہر مخلوق کی حالت ضرور بدلتی رہتی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقی آزادی یہی ہے کہ گناہ کو بالکل ترک(چھوڑ ) کر کے پھر اس کی طر ف میل(توجہ) نہ کرے یعنی اس کاامکان پھر نہ رہے ۔ لیکن اگر آدمی پہلے گناہ کے امکان سے واقف نہ ہوتا تو ہرگز اس حقیقی آزادی کو نہ پہنچ سکتا۔ اور سب قواعد جو خُدا نے دنیا میں مقرر کئے ہیں ہماری خود مختاری پر خبر کرتے ہیں۔ اور ہماری خود دانی سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے اور ان کی اغراض خود بخود پوری ہوتی رہتی ہیں ۔لیکن نیکی کا قاعدہ یعنی شریعت ان کے برعکس ہے کہ وہ آدمی کی خود مختاری پر جبر(ظلم) نہیں کرتی بلکہ صرف اس کی خود دانی ہی کے ساتھ رہتی ہے اور اس سبب سے شریعت کے ساتھ ہی اس کی نافرمانی کے امکان کی واقفیت بھی ضرور ہوتی ہے۔ ورنہ جس طرح وہ قواعد مثلاً ہضم وغیرہ معلوم نہیں ہوتے اور ان کی اغراض خود بخود پوری ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح شریعت بھی معلوم نہ ہوتی ۔ غرض جب تک آدمی شریعت سے واقف ہے یقین ہے کہ وہ خود مختار تو ہے ۔ مگر اب تک حقیقتا ً آزاد نہیں اور جس وقت وہ بالکل شریعت کے مطابق ہو جائے اس وقت وہ شریعت سے واقف نہیں رہے گا۔
بعضوں کی رائے یہ ہے کہ گناہ کے امکان کی واقفیت بغیر گناہ کرنے کے ممکن نہیں۔ لیکن اگر امکان بغیر وقوع (واقع ہونا)کےممکن نہ ہوتا ۔ تو پھر امکان ہی نہ رہتا ۔ گناہ کی ترقی کی حالت میں تو بہتیر ے گناہ نا معلوم ہوتے ہیں۔ اور آدمی کا حال بھی گناہ آلود ہو جاتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ پہلا گناہ کوئی دانستہ فعل ہو۔ اور اس بُرے کام کی نسبت یہ خیال دل میں پیدا ہو کہ اسے نہیں کرنا چاہیے۔ اور پھر یہ بھی ضرور ہے کہ اس بُرے کام کی نسبت یہ خیال بھی ہو کہ اس کا کرنا مجھ سے ممکن ہے اور اگر چہ اب تک وہ بُرا کام ہوا نہیں لیکن اُس کا امکان صاف ظاہر ہے اگر ان لوگوں کی رائے درست ہوتی تو مسیح بے گناہ نہ ٹھہر سکتا ۔ اگر گناہ کی مخالفت کرنے کے واسطے ذرا بھی گناہ کرنا ضرور ہوتا تو یہ ذرا سا گناہ کرنا چونکہ بے گناہی سے ہٹنا ہے نہایت بڑا گناہ ہوتا اور مسیح نے جو اپنے تئیں بے گناہ اور گنہگاروں کی پناہ ٹھہرایا اس سے اس کا یہ ذرا سا گناہ نہایت بڑا ہوتا ۔ لیکن جب کہ گناہ کے امکان کی واقفیت بغیر گناہ کے ہو سکتی ہے تو اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں ۔ کہ مسیح کافی الحقیقت امتحان ہوتا تھا اور پھر بھی وہ بے گناہ رہا۔
ان باتوں کے ساتھ جو اس با ب میں بیان ہوئیں ایک اور شک متعلق ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کیا گناہ بالکل ہماری سمجھ میں آسکتا ہے یعنی کیا ہم نے اس کا کوئی ایسا سبب نکالا ہے جس سے اس کا پیدا ہو نا صاف روشن ہو۔
دُنیا میں اگر کوئی سبب بالکل سمجھا جائے تو اس کا نتیجہ بھی بالکل سمجھ میں آئے گا کیونکہ نتیجہ اپنے سبب یا سببوں سے خواہ مخواہ نکلتا ہے۔ مثلاً ہم گرہنوں کا بھید (راز)بخوبی سمجھتے ہیں۔ پس اگر گناہ اسی طرح خواہ مخواہ خود مختاری سے نکلتا تو وہ بھی سمجھ میں آتا لیکن اگر ایسا ہوتا تو پھر خُود مختاری نہ رہتی ۔ خود مختاری میں نہ نیکی کی طرف میلان (رُحجان) ہے نہ بدی کی طرف اور نہ دونوں کی طرف کیونکہ یہ کچھ میلان ہی نہ ہوتا ۔ لیکن اگرچہ خود مختاری نیکی اور بدی دونوں سے برابر علاقہ رکھتی ہے۔ پھر بھی چونکہ وہ حقیقی آزادی کا رستہ نکلنے کے لئے خلق ہوئی ہے۔ تاکہ اس سے بدی نہیں بلکہ صرف نیکی ہی پیدا ہو۔ا س واسطے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نیکی اور بدی دونوں بالکل ایک ہی طرح خود مختاری سے پیدا ہوتی ہیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیکی کا پیدا ہونا سمجھا جاتا ہے۔ اور بدی کا پیدا ہونا سمجھ میں نہیں آتا ۔ کیونکہ جب خود مختاری سےنیکی پید ا ہوتی ہے۔ تو آدمی کے خلق ہونے کے مقصد کے موافق پیدا ہوتی ہے اور اس واسطے اس کا پید ا ہونا معقول(واجب۔مناسب) ہے لیکن جب خود مختاری سے بدی پیدا ہو تی ہے تو آدمی کی خلقت کے مقصد کے برخلاف بے غرض اور بے سبب پیدا ہوتی ہے کیونکہ آدمی کا خُدا سے الگ اور اپنا ہی مقصد ہونا محض بے عقلی ہے ۔پس بدی کا پیدا ہونا معقول نہیں ہوتا ۔ دنیا کے واقعات کے اسباب ان سے پیشتر کی قوتیں ہیں ۔ مگر فعلوں کے اسباب ان کی غرضیں ہیں جو ان کے بعد وقوع میں آتی ہیں۔ اس واسطے جس طرح لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا کا فلاں واقعہ مثلاً ہوا کا ایک دن شمال سے دوسرے دن جنوب سے چلنا سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ جن قوتوں سےیہ ہوتا ہے ان سے ہم واقف(1)نہیں ۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔
کہ گناہ سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اگرچہ ہر گناہ کسی نہ کسی غرض کے واسطے تو کیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی کوئی غرض اس کا کافی سبب نہیں ہے اس لئے کہ وہ آدمی کی خلقت کا مقصد نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف ہے ہاں ہر قسم کا گناہ ایک طرح سے تو سمجھا جاتا ہے یعنی وہ اصلی گناہ یعنی خود غرضی سے نکلتا ہے۔ لیکن یہ اصلی گناہ خود بے سبب یعنی بے مطلب ہے اور اس واسطے سمجھ سے باہر ہے جب ہم اپنے یا دوسرے آدمی کے کسی عذر (بہانہ) کے لئے اس کے سبب بتلاتے ہیں تو ہمیشہ ان میں سے خاص سبب اپنی یا اس کی طبیعت یا عادت پیش کرتے ہیں ۔ غرض ہم گناہ کا سبب گناہ ہی کو بتلا تے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ سمجھ سے باہر ہے اور دنیا کی تمام چیزوں میں وہی محض پوشید ہ اور تاریکی سے ڈھکا ہوا ہے دنیا کے واقعات کی سمجھ تو علم اور تجربہ سے رفتہ رفتہ بڑھتی ہے۔ مگر بدی کا بھید(راز) کبھی نہیں کھلتا بلکہ جتنا کوئی پاکی میں ترقی کرتا اور خُدا سے مقاربت رکھتا ہے اتنا ہی زیادہ گناہ بے عقلی کی بات اور بے مطلب معلوم ہوتا ہے؟
دوسری قوتو ں سے رُک نہيں جاتيں اپنے نتيجے خوا مخواہ پيدا کيے جاتی ہيں اور آپ سے آپ رُک نہيں سکتيں۔اور خُدا شخص ہے اور جو لوگ اُس کی بُڑائی کے بڑھانے کے واسطے اس کی شخصيت سے انکار کرتے ہيں۔وہ فی الحقيقت اُس کی بزرگی کو گھٹا ديتے ہيں۔جو شخص ہے وہ اپنے تيئں روک سکتا ہے۔ہاں مخلوق شخص اپنے فعلوں پر پورا اختيار نہيں رکھتا۔بلکہ اس کے ليے خُدا کی مرضی کو خواہ پسند کرنا خواہ رد کرنا ۔يعنی ان دونوں ميں سے ايک نہ ايک ضرور ہے۔ليکن جب خُدا کامل خود مختارشخص ٹھہرا تو اس کی طرف اتنی ضرورت بھی منسوب نہيں ہو سکتی۔ليکن اس موقع پر کوئی يہ کہہ سکتا ہے۔کہ اگرچہ ضرورت تو نہيں مگر پھر بھی يہ بہتر نہيں۔کہ جو خُدا کے امکان ميں ہو اُس ميں سے وہ کچھ بھی باقی نہ چھوڑے۔بلکہ اس کا کام بالکل پورا ہو۔اس کا جواب يہ ہے کہ نہيں يہ بہتر نہيں ہے۔کيونکہ جب خُدا اپنے ميں کمال رکھتا ہے۔تو کچھ کم يا زيادہ کام کرنے سے اُس کمال ميں کچھ فرق نہ ہو گا۔جو کچھ خُدا کرتا ہے محبت ہی سے کرتا ہے۔اور يہ بھی اُس کے واسطےضرور نہيں ہے۔جيسا کہ اوپر بيان ہوا۔
يہ بھی ہم نہيں کہہ سکتے کہ جو کچھ خُدا کے امکان ميں ہے۔اُس ميں سے اُس کو کچھ چھوڑنا ضرور ہے۔اس بات کا فيصلہ يعنی وہ کچھ باقی چھوڑتا ہے يا نہيں۔صرف اُن واقعات سے ہو سکتا ہے۔جو دنيا کے تجربہ سےاور بائبل سے ہم کو معلوم ہوتے ہيں۔جب خُدا کا خاص کام يہ ٹھہرا۔ کہ ايسی مخلوق کرے جو اپنی خود مختاری سے اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس سے پوری مقاربت رکھے۔اور اس سے بڑا کام کوئی ہماری سمجھ ميں بھی نہيں آسکتا۔تو بيشک ہم ايک طرح سے کہہ سکتے ہيں۔کہ جو کچھ خُدا کر سکا سو اُس نے کيا۔ليکن يہ قول صرف خُدا کےکام کے کمال سے نسبت رکھے گا۔
اور جب ہم کو جو اُس ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ايسا معلوم ہوتا ہے تو خُدا کو کيسا معلوم ہوتا ہو گا۔؟
چودھواں باب
خُدا کی قدرت مطلق اور آدمی کی خود مختاری
اوپر کے باب میں جو کچھ ثابت ہوا اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح کوئی تابعدار مخلوق اپنی نیکی یا بدی کی بانی ہو سکتی ہے۔ لیکن جب خُدا صرف خالق ہی نہیں بلکہ قادر مطلق بھی ہے تو کس طرح آدمی کی خود مختاری (آزادی) اس کی قدرت کے ساتھ ر ہ سکتی ہے۔ اگر کہیں کہ خُدا نے اپنی قدرت مطلق سےآدمی کو خود مختار بنا یا تو اس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کر کے خُدا پھر قادر مطلق نہیں رہا۔
قادر مطلق وہ ہے کہ جو کچھ وہ چاہے کر سکے اور جب اس نے اپنے لئے نیک ذات اختیار کی تو ممکن نہیں ہے۔ کہ وہ بدی کا ہونا چاہیے بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ جو کچھ خُدا کے امکان میں ہے اس کو وہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر ایسا ہو تو پھر آدمی کی خود مختاری کا نام ہی نام رہ جائے کیونکہ اس کو کسی کام کے کرنے کی مجال(جراّت) نہ رہے بلکہ خُدا ہی کی طرف سے سب کچھ ہو ۔ اگر خُدا کی قدرت دنیا کی قو توں کی مانند بے علم اور بے خود ہوتی ۔ تو البتہ ویسا ہی ہوتا یعنی جو کچھ ا س کے امکان میں ہوتا وہ ضرور وقوع میں بھی آتا۔ چنا نچہ وہ قوتیں جب تک دوسری قوتوں سے رُک نہیں جاتیں اپنے نتیجے خواہ مخواہ پیدا کرتی جاتی ہیں۔ اور آپ سے آپ رُک نہیں سکتیں ۔ لیکن خُدا شخص ہے اور جو لوگ اس کی بڑائی کے بڑھانے کے واسطے اس کی شخصیت سے انکار کرتے ہیں ۔ وہ فی الحقیقت اس کی بزرگی کو گھٹا دیتے ہیں۔ جو شخص ہے وہ اپنے تئیں روک سکتا ہے ۔ ہاں مخلوق شخص اپنے فعلوں(کاموں) پر پورا اختیار نہیں رکھتا بلکہ اس کے لئے خُدا کی مرضی کو خواہ پسند کرنا خواہ رد کرنا یعنی ان دونوں میں سے ایک نہ ایک ضرور ہے۔ لیکن جب خُدا کامل خود مختار شخص ٹھہرا تو اس کی طرف اتنی ضرورت بھی منسوب نہیں ہو سکتی ۔ لیکن اس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے۔ کہ اگرچہ ضرورت تو نہیں مگر پھر بھی کیا یہ بہتر نہیں کہ جو کچھ خُدا کے امکان میں ہو اس میں سے وہ کچھ باقی نہ چھوڑے بلکہ اس کا کام با لکلیہ پورا ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں یہ بہتر نہیں ہے۔ کیونکہ جب خُدا اپنے میں کمال رکھتا ہے تو کچھ کم یا زیادہ کام کرنےسے اس کمال میں کچھ فرق نہ ہوگا ۔ جو کچھ خُدا کرتا ہے وہ محبت ہی سے کرتا ہے اور یہ بھی اس کے واسطے ضرور نہیں ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
یہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ خُدا کے امکان (اختيار )میں ہے ۔ اس میں سے اس کو کچھ باقی چھوڑنا ضرور ہے ۔ اس بات کا فیصلہ یعنی وہ کچھ باقی چھوڑتا ہے یا نہیں صرف ان واقعات سے ہو سکتا ہے۔ جو دُنیا کے تجربہ سے اور بائبل سے ہم کو معلوم ہوتے ہیں۔ جب خُدا کا خاص کام یہ ٹھہرا کہ ایسی مخلوق پید ا کرے جو اپنی خود مختار ی سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوری مقاربت رکھے اور اس سے بڑا کام کوئی ہماری سمجھ میں بھی نہیں آسکتا تو بے شک ہم ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں ۔کہ جو کچھ خُدا کر سکا سو اس نے کیا لیکن یہ قول صرف خُدا کے کام کے کمال (لياقت۔خوبی)سے نسبت رکھے گا۔ نہ ان سارے کاموں سے جو اس کے امکان میں ہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ جتنے کام خُدا کر سکا اتنے اس نے کئے بلکہ یہ ہو گا کہ جو اس نے کیا ہے اس سے کوئی بڑ ا کام وہ نہیں کر سکتا ۔
پس خُدا کی قدرت مطلق کے واسطے یہ ضرور نہیں ہے۔ کہ جو وہ پید ا کر سکے پید اکرے اور اس نے جو ایسا نہیں کیا۔ اس سے اس کی قدرت کچھ کم نہیں ٹھہرتی ۔ لیکن البتہ جب اس نے شخص پیدا کئے ۔تو اس نے اپنی قدرت میں کچھ خلل (خرابی۔بگاڑ)تو نہیں ڈالا مگر اسے ظاہر ہونے سے کچھ روک رکھا۔ خُدا نیک ہے اور نیکی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا ۔ لیکن جب اس نے شخص پید اکئے جو صرف خود مختاری سے نیکی کر سکتے ہیں تو اس کی مرضی جو اور سب مخلوقات سے خواہ مخواہ اپنا مقصد پورا کرتی ہے۔ ان شخصوں کی نسبت حکم کی صورت پکڑتی ہے جس کو وہ چاہیں تو پورا کر سکتے ہیں اور نہ چاہیں تو ٹال(بہلا) سکتے ہیں ۔مگر یہ خُدا کی محبت کے سبب ضرور تھا۔
(1) ۔ مثلاً کشش کی قوت جس سے ہر مادی شے اور سب اشیا ء کو اپنی طرف کھنیچی ہے لیکن اس قوت کا کچھ علم اس شے کو حاصل نہیں ہو تا اور یہ اس کے اختیار میں رہتی ہے۔
لیکن پھر بھی ہمیں نہیں چاہئے کہ بعض معلموں کی طرح خُدا کی ناکامیاب مرضی کا ذکر کریں۔ کیونکہ یہ اس کی قدرت مطلق کے برخلاف ہو گا۔
خُدا کی جو مرضی شخصوں سے نسبت رکھتی ہے اس میں دو باتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ نہ صرف نیکی ہو بلکہ نیکی کی شریعت آدمی کو معلوم بھی ہو اور یہ بھی کہ نہ صرف گنہگار آدمی کی نجات کا کامل (مکمل)بندوبست مسیح سے ہو۔ بلکہ یہ سب آدمیوں کو کسی نہ کسی طرح سے معلوم بھی ہو جائے اور یہ مرضی ضرور پوری ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ نیکی صرف آدمی کی خود مختاری (آزادی)سے عمل میں آئے اور نجات اس کو صرف اس کو خود مختاری کے ذریعے سے ملے اور یہ مرضی بھی ضرور پوری ہوتی ہے۔ پس کسی طرح خُدا کی مرضی ناکامیاب نہیں ہے۔
اگر کوئی کہے کہ خُدا کی قدرت مطلق کسی کو اپنے سے آزاد نہیں بنا سکتی تھی ۔ تو پھر وہ قدرت مطلق کہاں رہی خُدا کے کاموں کا خاص سبب اس کی قدرت نہیں بلکہ اس کی محبت ہے۔پس جب کہ وہ ازل سے ابد تک اپنے مقصود (ارادہ)کو یعنی اس بات کو کہ خود مختار شخص اس سے پوری مقاربت(قريب آنا۔نزديکی) رکھیں دیکھتا ہے تو اس مقصود کے پورا ہونے کے لئے جو کچھ ضرور ہے۔ وہ محبت سے اس کی برداشت کرتا ہے۔ مثلاً اپنی خود مختاری کو کسی قدر کم کرنا اور گناہ ہونے دینا جیسا کہ پچھلے باب میں مذکور ہوا۔
بعض معلموں نے خُدا کی نسبت اجازت سے انکار کیا اور کہا ۔ کہ اگر خُدا گناہ کرنے کی اجازت دیتا ہے تو وہ اس کا بانی ٹھہرا ۔ البتہ اس طرح سے خُدا گناہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ کہ وہ گناہ کی کچھ پروا نہ کرے اور گویا یہ کہے کہ چاہو تو گناہ کر و مگر اس اجازت سے مراد یہی ہے کہ وہ گنہگار کو گناہ کرنے سے جبراً نہیں روکتا ۔ اور یہ ضرور ہے کیونکہ جہاں حکم ہے وہاں حکم کے ٹالنے کی اجازت ضرور ہے۔ یعنی اس کی نافرمانی سے نہ روکنا ورنہ حکم دینا نہ ہو تا بلکہ خود کام کرنا ہوتا ۔ ہاں رضا مندی سے تو خُد اگناہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ورنہ وہ اس کا جوابدہ ہوتا ۔ لیکن وہ فقط اس کی برداشت کر لیتا ہے۔ اور خُدا جو ہر ایک آدمی کو ہر ایک گناہ کرنے دیتا ہے۔ تو اس گناہ کےظہو ر(اظہار۔وقوع) کی حد باندھ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ خُدا کا مقصود (ارادہ)اگر چہ اس سے رُک جاتا ہے۔ مگر پھر بھی آخر کا ر ضرور پورا ہو گا۔
پندرھواں باب
خُدا کا علم مطلق اور آدمی کی خود مختاری
ایک شک اور رہا ہے یعنی خُدا کے علمِ مطلق کے ساتھ آدمی کی خود مختاری کس طرح رہ سکتی ہے۔ کیونکہ جب آدمی خود مختار ٹھہرا تو اس سے ثابت ہے۔کہ جو کچھ اس نے اختیار (ماننا۔منظور)کیا اس کے عوض اور کچھ بھی اختیار کر سکتا تھا۔ لیکن اگر خُدا پہلے سے جانتا تھا۔ کہ آدمی کس کو اختیار کرے گا تو آدمی وہی اختیار کر سکتا ہے جس کا خُدا کو علم تھا۔ یہ دونوں نتیجے آپس میں صاف ضد ہیں۔
سوکن کے پیرو جو آج کل اکثر یو نے ٹیرین کہلاتے ہیں اس بات سے انکار کرتے ہیں ۔ کہ خُدا آدمی کی خود مختاری کے افعال پہلے سے جانتا ہے۔ لیکن یہ رائے بالکل خُدا کے کمال کے برخلاف ہے۔ خُدا کی پیش بینی علمِ مطلق سے ہوتی ہے نہ کہ قیاس(خيال) ورنہ ا گرچہ خُدا کروڑوں دفعہ درست قیاس کرتا ۔پھر بھی کبھی نہ کبھی غلطی ہوتی ۔ اس واسطے شک مذکور کا یہ جواب کہ اگر چہ ہم نے پیشتر سے جانا ہو کہ فلا ں آدمی فلاں حالت میں کیا کرے گا۔ پھر بھی اس کا فعل ہماری پیش دانی پر موقوف نہیں ہے۔ پختہ جواب نہیں کیونکہ ہماری یہ پیش دانی فقط قیا س ہے۔ مگر پھر بھی اتنا کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ایک آدمی کا فعل (کام)دوسرے آدمی کے قیاس پر ہرگز موقوف(منحصر) نہیں ہے۔ تو غالباً خُدا کے علم مطلق پر بھی موقوف نہ ہو گا ۔ کیونکہ آدمی میں کتنی ہی پیش دانی کیوں نہ ہو پھر بھی واقعہ کچھ اس پر موقوف نہ ہو گا ۔ پس جب پیش دانی مطلق ہوئی تو اس صورت میں بھی ظاہر واقعہ اس پر کچھ موقوف نہ ہوگا۔
اکثر معلموں نے اس شک کا یہ جواب دیا ہے کہ فی الحقیقت خُدا کی پیش دانی نہیں ہے ۔ بلکہ صرف علم مطلق ہے یعنی اس کی نسبت نہ ماضی ہے۔ نہ مستقبل ۔بلکہ وہ ازل سے ابدتک سب واقعات حال ہی میں دیکھتا ہے۔ لیکن کیا خُدا کی ازلیت و ابدیت سے یہ لازم آتا ہے۔ کہ اس کے علم میں ماضی اور حال اور استقبال کا فرق یعنی زمانہ کی روانی کی واقفیت نہیں ہے۔ ہر گز نہیں ۔ ہاں جس طرح ہم لوگوں کو یہ فرق اور یہ روانی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح تو خُدا کے علم میں معلوم نہیں ہو سکتی ۔ لیکن زمانہ نہ صرف ہمارے علم کے لئے ایک ضروری ظرف ہے ( یعنی ہم لوگ خواہ مخواہ جو کچھ جانتے یا سوچتے ہیں ماضی یا حال یا استقبال میں جانتے یا سوچتے ہیں)۔ بلکہ تمام مخلوقات کی ہستی کے لئے ایک ظرف ہے جیسا کہ مکان اس کا ایک دوسرا ظرف ہے۔ یعنی ان دونوں کے بغیر مخلوقات رہ نہیں سکتی اس سبب سے اگر ہم اقرار کرتے ہیں کہ خُدا مخلوقات کو جانتا ہے تو یہ بھی اقرار کرنا ہوگا ۔ کہ مایا (مخلوق)کے بس ہو کر نہیں بلکہ جیسی وہ ہے ویسی ہی وہ اسے جانتا ہے یعنی زمانہ کا پابند ۔ خُدا کی خود دانی میں تو زمانہ نہیں ہے یعنی وہ اپنے تئیں ہمیشہ صرف حال ہی میں دیکھتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے اس علم میں جو وہ دنیا کی نسبت رکھتا ہے زمانہ نہیں ہے۔ اگر خُدا دُنیا کو زمانہ کا پابند نہ دیکھتا تو وہ اس کو ویسا یعنی زمانہ کا پابند نہ دیکھتا تو وہ دنیا کی نسبت رکھتا ہے زمانہ نہیں ۔ اگر خُدا دنیا کو زمانہ کا پابند نہ تو وہ اس کو ویسا یعنی زمانہ کا پابند خلق بھی نہ کر سکتا ۔ جیسا خُدا ساری مخلوقات کو مکان کا پابند دیکھتا ہے۔ لیکن نہ وہ اور نہ اس کا علم مکان کا پابند ہے۔ بلکہ اس سے بے نہایت زیادہ ہے ویسا ہی وہ ساری دنیا کو زمانہ کا بھی پابند دیکھتا ہے۔ لیکن نہ وہ اور نہ اس کا علم زمانہ کا پابند ہے بلکہ اس سے بے نہایت زیادہ ہے۔ وہ ازل سے ابد تک ہر ایک واقعہ کو اس کے خاص وقت میں دیکھتا ہے وہ آگے کی بات کو آگے اور پیچھے کی بات پیچھے ہمیشہ دیکھتا ہے ۔ ان باتوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔
پانچواں حصّہ گناہ کی تاثير
چھٹا باب
آدمی کس قدر گنہگار ہے
یہ تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ گناہ کا اصل سبب کیا ہے یعنی آدمی کی خود مختاری پس اب بھی یہی دریافت کرنا باقی ہے کہ گناہ نے اس اصل سے پیدا ہو کر آدمیت میں کتنی اور کیسی تاثیر (اثر۔عمل)کی ہے۔ اس باب میں ہم دو باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک یہ کہ کوئی آدمی اس دنیا میں سراسر گنہگار نہیں ہے دوسرے یہ کہ سب آدمی اس دُنیا میں گنہگار ہیں۔
۱۔ بہت سے معلمو ں نے کہا ہے کہ خُدا کے خاص فضل کے ہونے سے پیشتر یعنی جب تک مسیح کی رُوح اپنی تاثیر نہیں کرنے لگتی آدمی میں مطلق نیکی نہیں رہتی ۔ لیکن اس رائے کے برخلاف یہ دلیلیں ہیں۔
۱۔ یہ تو سچ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے خُدا کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا ۔لیکن اگر اس میں خُدا کے فضل کے قبول کرنے کی قوت نہ ہوتی تو آدمی کے اس فضل کے رد کرنے کا عیب خُدا ہی پر لگتا ۔ اور اگر خُدا کا فضل قبول کرنے کی قوت ہے تو خُدا کی طرف کچھ نہ کچھ میلان(رحجان) بھی ہو گا۔ کیونکہ بے سبب تو ہم کچھ قبول نہیں کرسکتے ۔ اورجب خُدا کا فضل آدمی کے پاس آتا ہے ۔ تو وہ اپنی خود مختاری سے اس میلان کو یا عمل میں لا سکتا ہے۔ یا دبا سکتا ہے ۔ مقدس کتاب میں و ہ آدمی جو نوزادہ نہ ہو اگرچہ مُردہ کہلا تا ہے۔ مگر پھر خفتہ (سويا ہوا)اور بیمار بھی کہلاتا ہے اور ایک آیت میں یعنی افسیوں کے خط کے ۵: ۱۴ میں ایسے آدمی کو مُردہ اور خفتہ دونوں سے تشبیہ دی گئی۔
۲۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سےلوگ ایسے ہیں جن میں خُدا کی محبت کچھ اثر نہیں کرتی مگر ان کی یہی تمیز اور نیکی کی خواہش ان میں بہت تاثیر کرتی ہے۔ ایسے لوگ خُدا کی شریعت کے تابعدار تو نہیں ہیں ۔ لیکن اکثر اس شریعت پر عمل کرنا انہیں پسند آتا ہے اور کبھی کبھی خود غرضی کے بالکل برخلاف کام کرتے ہیں۔ اعمال کے ۱۰ : ۳۵ رومیوں کے خط کے ۲: ۱۰ ، ۱۴، ۲۶ لوقا کے ۱۰ : ۳۴ ، ۳۵ کو دیکھو۔
۳۔ جو لوگ شریر سے شریر ہیں وہ بھی کبھی کبھی بڑی شرارت کے کاموں سے اگرچہ ایک لمحہ کے واسطے ہو متنفر(نفرت کرنے والے) ہوتے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ بدی کی انتہا تک نہیں پہنچے ہیں یعنی ان میں کچھ نہ کچھ نیکی ہے۔
۴۔ یہی بات اس بے چینی سے بھی ثابت ہے جو مسیح کے فضل سے ناواقف لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں کے خط کے ۷: ۱۴ سے لے کر ۲۵ تک ایسے ہی آدمی کا بیان ہے۔ جس کے دل میں خُدا کی شریعت کی تاثیر تو ہے اور اس پرعمل کرنے کی خواہش بھی ہے مگر وہ آدمی گناہ کے زور سے گویا قید ی رہتا ہے۔ کیونکہ اس کو مسیح کی رُوح نے رہائی نہیں بخشی ۔ چونکہ خُدا سے اس کا میل(ملاپ) نہیں ہوا اس واسطے ایسا آدمی اپنے سے بھی میل نہیں رکھ سکتا ۔ یسعیاہ۵: ۲۰، ۲۱ کو دیکھو۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ جوانی یا دولتمندی یا خاص مزاج کے سبب یہ بے چینی پوشیدہ رہے مگر کبھی نہ کبھی موقع پا کر وہ ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس بے چینی سے جو خُدا کی غیر منطفی(نہ بجھنے والی) خواہش کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ یہ نتیجہ تو کبھی نہیں پیدا ہو سکتا کہ آدمی خُدا کو پسند اور شریعت پر عمل کرنے لگے مگر ہاں یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ ا س بے چینی کے سبب آدمی مسیح کی نجات کو قبول کرے۔ اور جب ایسا نہیں ہوتا تو خود خُدا دانی اور شرع دانی ہی سے اپنی نیکی پر فخر کرنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ کہ اس بے چینی کے سبب آدمی مسیح کی نجات کو قبول کرے۔ اور جب ایسا نہیں ہوتا تو خود خُدا دانی اور شرع دانی ہی سے اپنی نیکی پر فخر کرنے کا نتیجہ جو سب سے زیادہ خراب حالی ہے پیدا ہوتا ہے۔
۲۔ اب ہم دوسری بات ثابت کرتے ہیں یعنی یہ کہ سب آدمی اس دُنیا میں گنہگار ہیں ۔یہ تو صحیح ہے کہ گنہگار کئی درجے کے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی بالکل بے گناہ بھی ہے؟ ا س سوال کے ہم یہ جواب دیتے ہیں۔
۱۔ جتنا کوئی نیک ہے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے تئیں گنہگار جانتا ہے ۔کیونکہ جب وہ گناہ کرتا ہے تو اتنا ہی زیادہ تمیز کے برخلاف کام کرتا ہے۔ اکثر لوگوں کی تمیز سست اور گویا نیند سے بھری ہوئی ہے لیکن جب کوئی نیکی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی تمیز اپنا کام کرنا شروع کرتی ہے۔ اور جو گناہ پیشتر نادانستہ (نہ جان کر) کئے جاتے تھے وہی گناہ اب تمیز کی روشنی سے دیدہ ودانستہ(جان بوجھ کر) کئے جاتے ہیں۔
۲۔ یہ بڑے تعجب(حيرانگی) کی بات تو ہے کہ ایسا کوئی نہیں ملتا جس نے بالغ ہو کر اپنی تمیز کے برخلاف یعنی دیدہ و دانستہ بھی گناہ نہ کیا ہو مگر سچ ہے۔ پس اگر ہم صرف ان ہی گناہوں کو گناہ سمجھتے جو دیدہ و دانستہ کئے جائیں تو بھی اس سے سب آدمیوں کی گنہگار ی ثابت ہوتی ۔
۳۔ کوئی از خود اپنی ناچاری (مجبوری)نہیں سمجھ سکتا بلکہ اگر کچھ نیک ہونا چاہتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں آپ سے آپ نیک ہو سکتا ہوں۔ اس کا سبب آدمی کی بے پایاں (بے حد)خود غرضی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی کسی کسی بات میں نیکی پیدا کر سکتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ خود غرضی کا غلا م رہتا ہے۔
۴۔ یورپ میں ایک مثل مشہور ہے کہ ہر ایک آدمی کی کم و بیش قیمت ہے ۔ اور ہر ایک آدمی میں ایک کمزور جگہ ہے۔ یعنی کوئی آدمی ایسا نیک نہیں ہے کہ اگر کوئی خاص موقع یا امتحان پیش آئے تو وہ بدی میں نہ پھنسے۔ یہ بات بالکل تجربہ کے مطابق ہے۔ ایک شخص نے خوب کہا ہے کہ ’’ ایسے تو بہت سے ہیں جن کا کوئی گناہ بے دیکھے یقین نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن ایسا کوئی نہیں جس کو گناہ کرتے دیکھ کر تعجب کرنا چاہیے ‘‘۔ اگر کسی کو اس بات میں شک ہو تو وہ خیال کرے کہ اگر والدین اور اور سب لوگ جن کی صحبت یا تعلیم سےمیرے لڑکپن کی حالت میں تاثیر ہوئی خراب ہوتے تو میں اب کیسا ہوتا ۔ یا اپنا پچھلا حال سوچے جب کہ بڑی خرابی کا بیج جو اس کے دل میں ظاہر ہوا تھا خراب چال چلن کا پھل لانے سے اس کی نیکی کے سبب نہیں بلکہ صرف اتفاقاً یعنی خُدا کے فضل سے رُک گیا تھا۔
۵۔ جو عقیدے گناہ کے اقرار کے مخالف ہیں یعنی پنتھے اسمے اور دے اسمے ان سے بھی سب کی گنہگار ی ثابت ہو سکتی ہے۔ پنتھے اسما گناہ کی حقیقت سے تو انکار کرتا ہے یعنی اسے ضروری سمجھتا ہے۔ لیکن جسے ہم گناہ کہتے ہیں اس سے وہ انکار نہیں کرتا ۔ اور نہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس میں اور نیکی میں رات دن کا فرق ہے ۔ پس چونکہ وہ اسے گناہ نہیں کہتا اس واسطے یہ کہنا کہ سب آدمی اس میں مبتلا ہیں اس کو بُرا نہیں لگتا ۔ دے اسما بڑے اور چھوٹے گناہوں کے فرق پر بہت لحاظ کرتا ہے دہ صریحی گناہوں سے جو بعض آدمیوں سے ہوتے ہیں۔ بڑی نفرت رکھتا ہے اور ان کے لئے آدمی کو قصور وار ٹھہراتا ہے۔ مگر چھوٹے گناہوں کو جو سب آدمیوں سے ہوتے ہیں ۔ کمزوریاں کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ آدمی کی ناتمامی سے خواہ مخواہ ہوتے ہیں اور ان میں اس کی کچھ قصوروار ی نہیں لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ کمزوریاں شریعت کے مطابق ہوتیں اور و ہ نیکی جو ان سے آزاد ہو شریعت سے بڑھ کر ہوتی ۔ اس کے علاوہ یہ بات ہے کہ جس چیز کا سبب دریافت کرنا ہے اسی سے دے اسما انکار کرتا ہے یعنی اس عجیب اور افسوسناک امر کا سبب دریافت کرنے کے قابل ہے کہ چھوٹے گناہ سب آدمیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور دے اسما ان کی نسبت یہ کہتا ہے۔ کہ چونکہ یہ چھوٹے گناہ سب آدمیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس سبب سے گناہ نہیں ہیں۔ لیکن اس جواب کی کیا دلیل ہے اور اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔ اور پھر صریحی اور چھوٹے گناہوں کی حد کون باندھ سکے گا۔ کون اس طرح کسی کو گنہگار اور کسی کو بے گناہ ٹھہرا سکے گا۔ صریحی گناہ اسی واسطے ہم کو گناہ معلوم ہوتے ہیں۔ کہ ہم اکثر انہیں نہیں کرتے لیکن جو انہیں کرتا ہے ۔ وہ اس حد کو اور آگے بڑھا دیتا ہے یعنی جن گناہوں کو ہم صریحی (صاف۔ظاہری)سمجھتے ہیں ان میں سے بعض کو وہ چھوٹے گناہوں میں شامل کر لیتا ہے ۔
۶۔ صاف ظاہر ہے کہ مقدس کتاب میں بھی اس بات کی گواہی پائی جاتی ہے کہ سب آدمی گنہگار ہیں۔ عہد نامہ عتیق(پُرانا عہد نامہ) میں سلاطین کی پہلی کتاب کے ۸: ۲۶ اور زبور کے ۱۴۳: ۲ اور امثال کے ۲۰: ۹ اور واعظ کے ۷: ۲۰ میں یہ صاف لکھا ہوا ہے۔ عہد نامہ جدید (نيا عہد نامہ)میں پولوس رومیوں کے خط کے ۳: ۹ ، ۱۹، ۲۰، ۲۳ ۔ اور ۵: ۱۲ اور گلیتوں کے خط کے ۳: ۲۲میں یہ بات فرماتا ہے اور یوحنا انہیں جو مسیحی بھی ہو کر اپنے تئیں بے گناہ سمجھتے ہیں خود فریب کہتا ہے۔ اور اس کے علا وہ نئی پیدائش کی ضرورت جو سب کے لئے بیان ہوئی۔ گناہوں کی مغفرت(رہائی۔نجات) کی خبر جو سب کو پہنچانے کا حکم ہوا۔ مسیح کی نجات کا جو بیان ہوا کہ وہ سب آدمیوں کے لئے ضرور ہے اور تیار بھی ہے۔ ان باتوں سے وہ عقیدہ ثابت ہے۔ اور نیز اس سے بھی ثابت ہے کہ یوحنا بپتسمہ دينے والا کہتا ہے۔ کہ ’’ جو مسیح (1) پر ایمان نہیں لاتا خُدا کا قہر(عذاب) اس پر قائم ہے ‘‘۔ یعنی مسیح کی خبر پانے سے پیشتر بھی خُدا کا قہر اس پر تھا اور نیز مسیح اپنے شاگردوں کو بھی بڑا (2)کہتا ہے ‘‘۔
ان سب دلیلیوں کے جواب میں بعض لوگ اعمال کے ۱۰: ۳۵۔اور متی کے ۹: ۱۲، ۱۳ کو پیش کرتے ہیں ۔ ہاں ان میں سے دوسرے مقام میں بعضوں کا ایسا ذکر توہے کہ توبہ کے حاجت مند (ضرورت مند)نہیں ۔ لیکن قرینہ(طور طريقہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فریسی تھے۔ اور یہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ مسیح فریسیوں کو فی الحقیقت بے گناہ جانتا تھا۔ اور پہلے مقام کے قرینہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پتر کرنيلی کو بے گناہ نہیں سمجھتا تھا ورنہ کیوں وہ فوراً گناہوں کی مغفرت(نجات) کی منادی کر کے اسے بپتسمہ دلواتا ۔ البتہ کرنيلی راستبازی کا بھوکا تھا ۔ اور اس سبب سے وہ خود خُدا کی طرف تھا اور اس کے افعال(کام) خُدا کی مدد سے ہوئے تھے۔ اور وہ اس کے بیٹے کی بادشاہت میں شامل ہونے کے واسطے ’’ مقبول ‘‘ تھا تا کہ اپنے گناہوں کی مغفرت حاصل کرے۔
(1) ۔یوحنا کے ۳: ۳۶ کو دیکھو۔ (2) ۔لو قا کے ۱۱: ۱۳ کو دیکھو۔
سترھواں باب
گناہ آدمی کی طبعی خرابی ہے
جب یہ ٹھہرا کہ سب آدمی گنہگار ہیں تو اب یہ ثابت کرنا ہو گا ۔ کہ سب آدمیوں کا گناہ ان کی طبعی خرابی ہے یعنی آدمی کی ذات تو خُد اکے ہاتھ سے بے گناہ بنی مگر پھربھی ہر ایک آدمی جب سے پیدا ہوا اس وقت سے گنہگار ہی ہے۔
یہ تو تھوڑا سا غور کرنے سے بھی صاف ظاہر ہے کہ آدمی سے متفرق بُرے افعال جو صادر(نافظ) ہوتے ہیں گناہ ان سے کچھ زیادہ ہے۔ یعنی وہ اس کے دل کا ایک بُرا میلان(رحجان) یا کئی بُرے میلان ملے ہوئے ہیں۔ تو کیا ہم اس گناہ کو اپنی نیکیوں سے جُدا کر کے اسے اکیلا سوچ سکتے ہیں ۔ ہاں خیال میں تو ایسا جُدا کرنا نہ صر ف ممکن بلکہ ضرور ہے یعنی نیکی اور گناہ دونوں کو الگ الگ چیزیں خیال کرنا ضرور ہے ۔ لیکن کیا ہم فی الحقیقت اپنی نیکی اور اپنے گناہ کو جُدا جُدا سوچ سکتے ہیں؟ نہیں بلکہ ایسا کرنے کی ہم جتنی زیادہ کوشش کرتے ہیں اتنا ہی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ بھی لیں کہ ہم نے اپنی نیکیوں کو اپنی بدیوں سے بالکل جُد ا کر لیا ہے تو بھی جب ہم ان نیکیوں کو دیکھیں گے تو یقیناً ان میں کچھ نہ کچھ بدی پائیں گے ۔ اور یہ بار بار ہوتا رہے گا۔ یہاں تک کہ یہ امید منقطع (قطع ہونے والا۔کٹنا)کر دینی ہو گی کہ ہماری کوئی نیکی نری نیکی پائی جائے گی ۔اور یہ ماننا ہو گا کہ ہم میں گناہ کی ایک جڑ لگی ہوئی ہے جس کی شاخیں کم و بیش ہمارے سب افعال اور ہمارے دل کی سار ی حالتوں کے ساتھ الجھی ہوئی ہیں۔ بلکہ اگرچہ کسی وقت ہم اپنے میں کوئی بدی نہ دیکھ سکیں پھر بھی ہم اس وقت اپنے تئیں بے گناہ نہ ٹھہرا سکیں گے ۔ کیونکہ گناہ کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ ہم کو اندھا کر دیتا ہے۔ اور اس سبب سے وہ کم پہچانا جاتا ہے۔ پھر جو لوگ پاکیزگی کے حاصل کرنے میں کوشش کرتے ہیں ان سے یہ بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ جتنی ان کی نیکیاں ہیں سب نادانستہ(نا جان بوجھ کر) بگڑ کر بدیا ں ہو جاتی ہیں۔ مثلا جو سرگرم ہونا چاہتا ہے وہ سخت ہو جاتا ہے اور جو حلیم(نرم مزاج)ہونا چاہتا ہے وہ گناہ کا تحمل(برداشت) کرنے لگتا ہے۔ اور جو بے خوف ہونا چاہتا ہے وہ گھمنڈ (غرور)کرنے لگتا ہے۔ اور جو ہوشیار ہونا چاہتا ہے وہ بزدل اور فکر مند ہو جاتا ہے۔ جب ہم اپنے میں نیکیوں کے بیج بوئیں۔ تو خواہ مخواہ کڑوے دانے بھی ان کے ساتھ جم کر اُگیں گے ۔ اور نیز جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ نیک لوگ بھی کبھی طرفدار ی سے بالکل آزاد نہیں ہیں ۔ بلکہ کم و بیش اپنے ہی حال کو نیک ٹھہرا کر اوروں کے حال میں جو بات ان کے حال کے خلاف ہے اس کو بد(بُرا) ٹھہراتے ہیں۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی نیکی کو اپنی بدیوں سے الگ کر کے اس کو خالص نہیں پا سکیں گے۔ اچھا پھر یہ کہو کہ ہمار ا یہ گناہ آلود (صاف۔پاک)کس طرح ہو گیا ؟ مگر یہ کوئی اپنے تجربہ سے نہیں کہہ سکتا ۔ کسی کو ایسا وقت یاد نہیں جس میں وہ پاک سے ناپاک ہو اور نہ ہم لڑکوں میں ایسی دفعتاً تبدیل دیکھتے ہیں۔ جب لڑکا پہلے پہل شریعت سے واقف ہوتا ہے اس وقت وہ اپنے تئیں اس شریعت کا مخالف جان لیتا ہے بلکہ اکثر اس مخالفت ہی کے سبب وہ شریعت کوپہلے پہل پہچانتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں کسی نہ کسی وقت اس کا پہلا گناہ ہونا ضرور ہے لیکن اس پہلے گناہ سے لڑکے کا حال دفعتہً نہیں بدلتا اور نہ اس میں ایسا زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جیسا اس صورت میں ضرور ہوتا جب کہ وہ آگے بےگناہ ہوتا بلکہ غور سے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ کہ یہ گناہ کی ابتداء نہیں صرف اس کا ظہور (اظہار)ہے۔ البتہ لڑکے بالغوں کی نسبت معصوم ہیں کیونکہ ان میں گناہ نے اتنا زور نہیں پکڑا ہے جتنا ان میں اور اسی واسطے مسیح نے فرمایا کہ چاہیے کہ میرے سب شاگرد لڑکوں کی مانند ہوں ۔ لیکن سب لڑکوں کا بھی یہ حال نہیں ہے۔ بلکہ بعضوں سے نہایت چھپٹنے میں بھی بدی کینہ (حسد۔عداوت) اور فریب ڈراؤ نے طور پر ظاہر ہوتے ہیں ۔ اورنیز اگر لڑکے ابتدائے پیدائش سے گنہگار نہ ہوتے بلکہ صرف بد نمونے اور بُری تعلیم سے خراب ہو جاتے۔ تو اس کا کیا سبب ہوتا کہ جنہوں نے بُرا نمونہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ بد تعلیم کبھی پائی ان میں سے بھی بہت سے لڑکے نہایت خراب نکلتے ہیں۔ ہم یہ تو ثابت کر چکے ہیں کہ آدمی کاگناہ اس کے مجسم ہونے پر موقوف نہیں ہو سکتا ۔بلکہ اگر ہوتا تو بھی رُوح کا جسم کے تابعدار ہونا اس کا گناہ ہوتا اور اس گناہ کا سبب پھر ڈھونڈنا پڑتا ۔ پس جب آدمی کے لڑکپن کی بے گناہی ثابت نہیں ہو سکتی ۔ تو یہ اقرار کرنا ضرور ہے کہ آدمی اپنی ابتدائے پیدا ئش سے گنہگار ہے۔
اس کے علاوہ اس عقیدے کی اور بھی دلیلیں ہیں۔
۱۔ اس کا کیا سبب (وجہ)ہے کہ جس کسی آدمی سے ہم ملتے ہیں اس کو گنہگار سمجھتے ہیں اور اگر چہ اس کی طرف کوئی خاص گناہ منسوب نہیں کرنا چاہتے پھر بھی ہم اس سے ہمیشہ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ کہ گویا ممکن ہے کہ ہم اس سے یااس کی نسبت دھوکھا کھائیں بلکہ اگر کوئی آدمی ہم سے اپنے تئیں بے گناہ بیان کرے تو فوراً اسی سبب سے اسے زیادہ تر بُرا سمجھیں گے بشرطیکہ اس کا ظاہر ی چال چلن بالکل اس دعویٰ کے مطابق نہ ہو ۔ اس کا ایک بڑا سبب تجربہ ہے اور اسی واسطے چھوٹا لڑکا اپنے والدین اور بزرگوں کو گنہگار سمجھتا ۔ لیکن یہ بڑا یقین بالکلیہ ہمارے تھوڑے تجربہ پر موقوف نہیں ہو سکتا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی از خود اپنی طبیعت کو گناہ آلود جانتا ہے اور اسی سبب سے اوروں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔
۲۔ پھریہ خیال کریں کہ نیکی کرنی ہمیشہ مشکل اور بدی کرنی ہمیشہ آسان ہوتی ہے۔ اگر بدی کی ترقی چاہیں تو صرف اس کو بڑھنے دینا کافی ہے لیکن اگر ہم نیکی کی ترقی چاہیں تو بے انتہا تکلیف مشقت اور لڑائی کرنی پڑے گی۔ اگر گناہ آدمی کی طبعی خرابی نہ ہوتی تو کیوں ایسا ہوتا ۔ پھر نہ صرف شخص واحد میں بلکہ خاص کر دنیا میں یہ حال دیکھا جاتا ہے ۔ اگر کوئی بُرا خیال یا دستور(رواج) جاری کرنا چاہیے تو کیسا آسان ہو گا۔ لیکن اگر وہ کوئی عمدہ خیال یا دستور جاری کرنا چاہے تو کتنی اس کی مخالفت کی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر اسے اپنا سارا آرام و دولت بلکہ اپنی زندگی بھی کھونی ہو تو کچھ تعجب(حيرانگی) نہ ہو گا۔ مسیح نے اگر چہ خود مختار(آزاد) ہو کر اپنے تئیں موت کے حوالہ کیا ۔لیکن اگر ہم اس کی موت پر دوسری طرح سےغور کریں تو وہ ایک ضروری بات معلوم ہو گی ۔ یعنی چونکہ اس نے اس دنیا میں کامل(مکمل) پاکی قائم کرنے کا قصد (ارادہ)کیا۔ اس لئے اس کو مرنا پڑا۔ پھر یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ جس لڑکے کو بُری تعلیم اور بدنمونہ ملتا ہے وہ ہمیشہ خراب ہوتا ہے لیکن جس کو نیک نمونہ اور اچھی تعلیم ملتی ہے وہ ہمیشہ نیک نہیں نکلتا ۔
۳۔ آدمی کی طبعی خرابی کا اس سےبڑھ کر کوئی پختہ (پکا)ثبوت نہیں ہو سکتا کہ نوزادوں میں بھی گناہ بڑا زور کرتا ہے۔ ان کو ہمیشہ بڑی کوشش اور سخت لڑائی کرنی پڑی ہے ۔کہ مبادا (ايسا نہ ہو)خُدا کی محبت جو ان میں پیدا ہوئی ہے گھٹ جائے اور خود غرضی جو ان میں مغلوب ہوئی ہے پھر غالب ہو جائے ۔بلکہ وہ گویا از خود جانتے ہیں کہ اس زندگی میں ہم بے گناہ نہ ہوں گے۔ لیکن اگر گناہ اس زندگی میں شروع ہوتا تو کس واسطے یہ اُمید نہ ہو سکتی کہ اسی زندگی میں و ہ ختم بھی ہو جائے گا۔
۴۔ مقدس کتاب نہ صرف ان عہدوں سے جن میں سب آدمیوں کی گنہگار ی مذکور ہے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بلکہ ان خاص آیتوں سے بھی اس پر صاف گواہی دیتی ہے۔
۱۔ زبور کے ۵۱: ۵ ۔ ’’ دیکھ میں نے بُرائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا۔ اس میں شک نہیں کہ جو بات داؤد نے یہاں اپنے حق میں کہی وہ صرف یا خاص کر اسی پر صادق نہیں آتی بلکہ علی العموم (عام طور پر)سب پر صادق آتی ہے ۔اور بعضوں نے جواس کے یہ معنی سمجھے ہیں کہ بچوں کا جننا جنانا ہی گناہ میں شامل ہے۔ یہ صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک تو یہ عہد نامہ عتیق کے عقیدوں کے بالکل برخلاف ہے اور دوسرے جب داؤد کا یہی مطلب تھا ۔ کہ اپنے گناہ کی بڑائی بیان کرے تو کس طرح وہ اس کا ایسا بیان کر سکتا تھا جس سے اس کی گنہگار ی بہت کم ہو جاتی ۔ پس اس بات کے یہی معنی ہوں گے۔ کہ آدمی پیٹ میں پڑنے ہی سے لے گناہ میں مبتلا رہتا ہے۔ خصوصاً اس واسطے کہ چھٹی آیت میں داؤد یہ اقرار کرتا ہے کہ ’’ خُدا اندر ہی کی سچائی چاہتا ہے ‘‘ ۔ اور یہ دُعا مانگتا ہے کہ باطن میں مجھے دانش(عقل) سکھلا‘‘۔
۲۔ ایوب کے ۱۴ : ۴ ’’ کون پاک کو ناپاک سے نکال سکتا ہے ؟ کوئی نہیں۔
۳۔ پیدائش کے ۸: ۲۱ ’’ آدمی کے دل کا تصور لڑکپن ہی سے بالکل بُرا ہے ‘‘۔
۴۔ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۷: ۱۴ ’’ ورنہ تمہارے لڑکے ناپاک ہوتے لیکن اب پاک ہیں ‘‘۔ اگر مسیحیوں کے لڑکوں کےلئے ان کے والدین ہی کےسبب ایک طرح کا تقدس ہے تو اوروں کے لڑکے جنمی ناپاک ہیں۔
۵ ۔ افسیوں کے خط کے ۲: ۳ ’’ ہم طبیعت سے اوروں کی مانند غضب کے فرزند تھے‘‘۔ طبیعت سے وہ اس لئے کہتا ہے کہ یہودی لوگ خُدا کے فضل سے اس کے رحم کے فرزند ہو گئے تھے لیکن ان کی بھی طبیعت غیر قوموں کی طبیعت کے برابرتھی۔ اس آیت سے نہ صرف آدمی کی طبعی گنہگاری بلکہ اس کی طبعی قصورواری بھی ثابت ہے یعنی یہ گنہگاری صرف کمزوری یا بد نصیبی نہیں بلکہ فی الحقیقت گناہ ہے ورنہ خُدا کا غضب اس پر نہ ہو سکتا ۔
۶۔ یہ عقیدہ مسیح کے کنواری سے پیدا ہونے سے بھی ثابت ہے ۔ اگر آدمی پیدا ئش ہی سے بلکہ پیٹ میں پڑنے ہی سے لے کر ناپاک نہ ہوتا تو کیا ضرور ہو تا کہ مسیح معجز ہ سے پیدا ہوا۔ و ہ کیوں دستور کے موافق پیدا ہو کر اپنے تئیں بے گناہ نہ رکھ سکتا۔ اسی سبب سے لوقا کے ۱: ۳۵ میں فرشتہ اس کی نسبت کہتا ہے کہ ’’ وہ پیدا ہونے والا قدوس ‘‘۔
۵۔ پھر یہ خیال کریں کہ یہ طبعی خرابی کیا ہے؟ اصل میں یہ خود غرضی ہے جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ گناہ کی حقیقت خود غرضی ہے ۔جو لڑکے سب سے اچھے ہیں ا ن کے چال چلن میں بھی اوروں کے ساتھ برتاؤ کے وقت کم و بیش خود غرضی معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ بات اس سے اور زیادہ صاف معلوم ہو جائے گی ۔کہ اگرچہ آدمی اپنی ذات سےخُدا دان اور خُدا کا خواہش ہے مگر پھر بھی خُدا دانی اور خُدا کی خواہش دونوں سب آدمیوں میں ابتداء ہی سی دبی رہتی ہیں اور ان کی عوض خُدا سے بے فکر ی خُد ا کی حقارت (نفرت)۔ بے خوفی نااُمیدی ۔ خُدا سے غصہ اور عداوت(دُشمنی) رکھنی دل پر غالب آتی ہے۔ خُدا سے مقاربت(نزديکی) رکھنی بالکل ہماری ذات کے اصلی حال کے مطابق ہے لیکن کیسی نہایت مشکل ہے۔ کتنا اپنے دل سے لڑلڑکر اس مقاربت کورکھنا ہو تا ہے اور دینداری جو ہمارے سارے کاموں اور خیالوں میں موثر ہونی چاہیے اپنی تاثیر(اثر) سے کتنی دور ہے۔ یہ تو کچھ ضرور نہیں کہ ہماری جسمانی اور دنیاوی خواہشیں کچھ کمزور ہو جائیں بلکہ وہ جتنی طاقتور ہوں اتنا اچھاہو گا ۔مگر خُدا کی محبت اور اس کی شریعت کی تابعدار رہیں۔ ان کا زور آدمی کی خرابی کا باعث نہیں ہے ۔لیکن ان کا خُدا کی محبت اور اس کی شریعت کا تابعدار نہ رہنا آدمی کا گناہ ہے ۔کیونکہ آدمی خود یعنی اس رُوح خُدا اور اس کی شریعت سے برگشتہ ہوئی ۔ اور یہی اس کی خرابی کا باعث ہے۔ اس سبب سے کہ آدمی کی خُدا دانی کمزور اورناچار(مجبور) ہو گئی دو طرح کے نتیجے نکل سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کبھی کبھی آدمی اپنی گنہگاری اور برگشتگی سے واقف ہو کر خُدا سے ڈرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نسبت غور کرنے بلکہ اس کا ذکر سننے کو بھی ناپسند کرتا ہے اور یہ خصوصاً ان مقاموں میں ہو تا ۔ جہاں خُدا کا سچا علم انجیل کے وسیلہ سے بہت پھیلا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ کبھی کبھی آدمی کی خُدا دانی خود اس کی نفسانی خواہشوں کی تابعدار ہو کر اس امر کا باعث ہوتی ہے ۔ کہ وہ ان خواہشوں کو بے کھٹکے اور دین کی اجازت اور رضا مندی سمجھ کر پورا کرنےلگتا ہے اور یہ غیر مذہب والوں کا وہ حال ہے جس میں بنی اسرائیل بار بار مبتلا ہوتےتھے۔
۶۔ ان سب دلیلوں کے علاوہ آدمی کی طبعی گنہگاری کی ایک اور بڑی دلیل (گواہی)ہے ۔یعنی موت اس پر اگر کوئی یہ کہے کہ پھر حیوان کیوں مرتے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے ۔کہ حیوانوں کی موت کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک صرف اپنی جنس کا ایک نمونہ اور مظہر (گواہ) ہے ۔اور جیسے اس کے وجود کی ابتداء ہوئی ویسے ہی اس کا ختم ہونا بھی عجب نہیں ۔لیکن آدمی جو شخص ہے ۔ آدمی جو خود مختار فرد ہے اور صرف اپنی جنس کا نمونہ نہیں ہے ۔ آدمی جو خُدا دان ہے اور ازلی وابدی باتوں کا خیال کر سکتا ہے وہ کس طرح مر سکتا ہے ۔ اگر کہیں کہ آدمی نہیں مرتا یعنی اس کی رُوح نہیں مرتی بلکہ موت کے سبب اس کی مخلصی(بخشش)ہوتی ہے۔ تو موت جتنی کم تعجب کی باعث ہوئی ۔ مسیحی دین کا تو ایک خاص عقید ہ یہ ہے کہ خُدا نے آدمی کو مجسم خلق کیا اور اس کے کمال کے واسطے جسم ضرور ہے ۔یعنی جب تک اس کا جسم پھر جی نہ اُٹھے گا۔ اس وقت تک اس کا کمال(خوبی) نہ ہو گا۔ پس کیوں آدمی کا جسم رفتہ رفتہ اس کی رُوح سے مغلوب (عاجز۔زير)ہو کر ایسے کمال تک نہیں پہنچتا کہ کھانا پینا وغیرہ ضرو رنہ ہو بلکہ وہ بالکل رُوح کا تابعدار اور گویا اس کا آلہ (ہتھيار)ہو جائے؟ کیوں ضرور ہے کہ بیچ میں یہ موت آ جائے جو اکثر بڑے دُکھ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ رُوح اور جسم کی مدت تک جُدا جُدا رہنے کا باعث ہے؟ کیونکہ پہلے جسم کا سڑنا اور رُوح کا اس سے برہنہ ہونا اورپیچھے قیامت ہونی ضرور ہے؟ اس سوال کا جواب بائبل تو یہی دیتی ہے کہ آدمی گنہگار ہے اور کیا عقل کوئی اور جواب دے سکتی ہے؟ نہیں رومیوں کے خط کے ۵: ۱۲ ۔ اور کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۵ : ۲۱۔ ۲۲ کو دیکھو ۔ رومیوں کے خط کے ۸: ۱۰ میں صاف لکھا ہے کہ نوز ادے جن کی رُوح راستبازی کے سبب زندہ ہے ان کا بدن بھی گناہ کے سبب مُردہ یعنی مرنے والا ہے ۔ اور پیدائش کے ۲: ۱۷ میں خُدا نے جو آدم سے کہا کہ ’’جس دن تو اس پھل کو کھائے گا مر جائے گا ‘‘۔ اس میں اگرچہ شاید رُوحانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے تو بھی خصو صاً جسمانی موت کا اس میں ذکر ہے پیدائش کے ۳: ۱۹ کو بھی دیکھو ۔ اور زبور کے ۹۰ : ۷، ۹ ، ۱۱۔ اور گنتی کے ۱۶ : ۲۹ ، ۳۰ ۔ اور شاید گنتی کے ۲۷ : ۲ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔
مگر پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آدمی کا جسم گناہ ہی کے سبب فانی ہے کیونکہ آدمی کا جسم تو ایسا ہی فانی بنایا گیا ہے جیسا کہ اور جانداروں کا لیکن ہاں اگر وہ گنہگار نہ ہوتا تو اس کی یہ فنا پذیری خُدا دفع کر دیتا ۔ آدمی کا جسم جس حال میں کہ خُدا کےہاتھ سے پیدا ہو اس میں موت کا امکان تو تھا مگر اس کی ضرور ت گناہ ہی کے سبب ہو گئی ۔ خُدا نےآدمی سے گناہ ہی کے سبب اس سے کہا کہ ’’ تو پھر خاک میں مل جائے گا‘‘ اور پھر خُدا نے یہ بھی فرمایا کہ تو خاک ہے تو پھر زمین میں مل جائے گا ۔ جس سے تو لیا گیا ‘‘۔ پیدائش کے ۳: ۲۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آدم و حوا نے گناہ کیا ہے اس وقت تک انہوں نے درخت حیات کا پھل نہیں کھایا تھا اور اگر وہ اس کو کھا لیتے تو ان کا جسم غیرفانی ہو جاتا ۔
معلو م ہوتا ہے کہ مسیح کا بدن بھی رفتہ رفتہ ہی غیر فانی ہوا۔ یہ غیر فنا پذیری اس کے مرنے سے پہلے تو پوشید ہ طور پر ترقی کرتی تھی۔ اور جب اس کی صورت بدل گئی اس وقت ایک گھڑی کے واسطے ظاہر ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جی اُٹھنے سےبھی فنا پذیری دفعتہً جاتی نہیں رہی ۔ بلکہ صرف یہ ہوا کہ غیر فنا پذیری اس پر غالب آگئی یہاں تک کہ وہ پھر نہیں مر سکا۔ چنانچہ اس نے کھایا پیا اور پانچوں زخم اس کے جسم میں موجود تھے۔ لیکن صعود (آسمان پر جانے) کے وقت اس کی فنا پذیری بالکل جاتی رہی اور وہ بالکل غیر فانی ہوگیا ۔ پس مسیح کی موت اس کی ذات کے واسطے ضرور نہیں تھی کیونکہ وہ بے گناہ تھا بلکہ اس نے اپنی ہی خوشی سے اسے اختیار کیا ۔
جب یہ ثابت ہو چکا کہ موت گناہ کے سبب ہوتی ہے ۔تو پھر ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کس گناہ کے سبب ہوتی ہے؟ اس زندگی کے بُرے افعال (کام)کے سبب(وجہ) سے تو نہیں ہوتی۔ کیونکہ آدمی اس سے پہلے کہ گناہ کرنے کے قابل ہو بلکہ پیدا ہونے سےبھی پہلے مر سکتا ہے ۔پس معلوم ہوا کہ آدمی کی طبعی گنہگاری ہی اس کا سبب ہو گا ۔اور چونکہ سب آدمی مرتےہیں اس واسطے یہ طبعی گنہگاری سب میں ہو گی ۔ اسی طرح سے رسول فرماتا ہے کہ ’’ ایک آدمی کے سبب گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے وسیلہ سے موت اور اسی طرح موت سب پر پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا ۔یعنی سب لوگ نہ صرف اپنی طبعی گنہگار ی کے سبب موت کے محکوم ہوئے بلکہ اپنےاپنے بُرے احوال کے سبب بھی اس کے مستوجب(لائق۔قابل) ہوئے۔
اٹھارھواں باب
موروثی بُرا میلان
جیسا کہ ہم گیارھویں باب میں ذکر کر چکے ہیں ہر ایک آدمی کی ایک جبلی(فطری۔پيدائشی) طبیعت ہے۔جو اس کےفعلوں(کاموں) یا خود مختاری (آزادی) پر موقوف (منحصر)نہیں ہے۔ یہ طبیعت کچھ تو اس کی خاص طبیعت ہے کچھ اس کے خاندان کی کچھ اس کی قوم کی ( اور خاندانوں اور قوموں کے بے شمار درجے ہیں ) اور کچھ تمام بنی آدم کی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ طبیعت موروثی ہے ۔یعنی والدین کے وسیلہ سے ہر ایک کو پہنچتی ہے۔ اکثر تو والدین ہی کی خاص صفتیں ان کی اولاد سےظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ماں باپ کی نہیں بلکہ داداؤں اور نا ناؤں یا ان سے بھی پیشتر کے بزرگوں کی صفتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور کبھی ایسی صفتیں بھی جو خاص ان ہی کی ہیں۔ مگر پھر بھی والدین ہی ان صفات کے نادانستہ پہنچانے کے وسیلے ہوتے ہیں ۔خُدا اپنی مرضی کے موافق ہر ایک آدمی کو کل صفاتِ اِنسانی میں سے وہ صفتیں دیتا ہے۔ ( خواہ اس کے والدین یا خاندان یا قوم سے ظاہر ہوئی تھیں خواہ نہیں ) جن سے وہ وہی کام اس دُنیا میں کرے جس کےواسطے خُدا نے اس کو پیدا کیا ہے اور اس طرح خُدا دُنیا کےقواعد(قانون) سےآزاد ہو کر اس دنیا میں اپنی مرضی پوری کرتا ہے اور اپنی بادشاہت کو ترقی دیتا ہے۔
غرض یہ سب صفتیں(خوبياں) خواہ عام ہوں یا خاص جس وقت کہ نطفہ رحم میں قرار پکڑتا ہے۔ اسی وقت آدمی کو پہنچتی ہیں اگر چہ حمل کے تمام زمانہ میں بچہ کی زندگی اس کی ماں کی زندگی پر موقوف رہتی ہے۔ مگر پھر وہ اس سے علیحدہ ہے اور ماں کی طبیعت میں سے صرف اسی چیز کو جو اس کی طبیعت سے مناسبت (باہمی تعلق) رکھتی ہے اپنے سے ملا لیتا ہے۔ اور باقی سب کچھ رد کرتا ہے کیونکہ اس کی طبیعت اسی وقت بن چکی جس وقت اس کا نطفہ رحم میں ٹھہرا ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لڑکوں کاجسم اور مزاج جتنا ماؤں سے مناسبت رکھتا ہے اتنا ہی باپوں سے بھی رکھتا ہے۔
پھر جس طرح صفتیں موروثی ہوتی ہیں اسی طرح عیب (گناہ)بھی موروثی ہوتے ہیں۔ اور نہ صرف بعض جسمانی مرض بلکہ مختلف بدیوں کےمیلان بھی موروثی ہوتےہیں ۔جس کے والدین میخوار یا شہوت پر ست یا تند مزاج تھے اس سے ان بدیوں کے میلان ظاہر ہوں گے ۔ پھر ا گروہ ان میلانوں کا بخوبی مقابلہ نہ کرے تو اس کے والدین سے بھی زیادہ اس میں زور پکڑیں گے۔ اور اگر ان کو ان کے سبب اس دنیا میں کچھ سزا نہیں بھی ملتی تو ان کی اولاد کو ضرور ملیں گی ۔ اسی سبب سے خُدا نے توریت میں وہی کہا جو روز مرہ ہمارے سامنے بھی واقع ہوتا ہے کہ ’’ میں باپ اور داداؤں کی بدیوں کی سزا تیسری چوتھی پشت کی اولاد کو جو مجھ سےکینہ(حسد۔عداوت) رکھتے ہیں دیتا ہوں ‘‘ ۔ اور مسیح نے اپنے ہم عصر یہودیوں سے فرمایا کہ ’’ ہابل کے خون سے لے کر جتنے بے قصوروں کا خون زمین پر بہایا گیا سب اس قوم کے سر پر آئے گا ۔ اور یہ بُرے میلان(خواہش) بھی کبھی کبھی بیتے بیٹوں سے نہیں بلکہ پوتوں ا ور نواسوں سے ظاہر ہوتےہیں۔
یہ تو ہرگز ہمارا مطلب نہیں ہے کہ مباشرت میں کچھ گناہ ہے یاوہ گناہ کا نتیجہ ہے۔لیکن وہ علاقہ (تعلق)جو خُد ا نے آدمی کی غیر فانی رُوح اور اس کےکثیف(ناپاک۔گندہ) جسم کے درمیان رکھا ہے ۔ اور جس میں ہر طرح گناہ کےحملوں سےخاص خطرہ ہے اس سےخاص کر مرد اور عورت کی صحبت میں زیا دہ تر خطرہ ہے کیونکہ وہ رُوحوں کی محبت اور دوشخصوں کی جسمانی خواہش یہ دونوں اسی کام میں اور سب کاموں سےزیادہ ظہور میں آتی ہیں۔ اور اسی واسطے آدمی کی طبعی خرابی کے سبب اکثر رُوحانی محبت جسمانی خواہش سے مغلوب ہوتی ہے۔ بلکہ اس کی تابعدار اور گویا اس کا آلہ (ہتھيار)ہو جاتی ہے ۔لیکن یہ خُدا کی مرضی نہیں تھی بلکہ اب بھی ممکن ہے۔ کہ مباشرت کا کام خاص رُوحانی اور نہایت ہی پاک کام ہو اور اس کے وسیلہ سےاچھی صفتیں بچوں کو پہنچائی جا ئیں ۔مگر ہاں یہ ممکن نہیں ہے کہ کئی پشت تک والدین کےپاک ہونے سے رفتہ رفتہ یہ موروثی بُرا میلان بالکل دفع ہو جائے ۔کیونکہ کوئی شخص اس بُرے میلان سےبالکل دفع ہو جائے کیونکہ کوئی شخص اس بُرے میلان سے بالکل آزاد نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ مغلوب بھی ہو جائے تو بھی اس کا معدوم (نابود۔نيست کيا گيا)ہونا ممکن نہیں ۔پس ضرور ہے کہ آدمی اپنی نیکیوں کے ساتھ اپنا بُرا میلان(رحجان۔خواہش) بھی اپنی اولاد کو پہنچائے گا۔ جب خُدا نے آدم اور حوا کو برکت دے کر کہا کہ پھلو اور بڑھو اس وقت وہ بیگناہ تھے۔ لیکن جب سے آدمی بگڑ گیا اس وقت سے بُرے میلان اسی مباشرت سے جو بے گنا ہی کے وقت مقرر ہوئی تھی پہچانے جاتے ہیں۔
اسی سبب سےضرور تھا کہ مسیح جو بنی آدم میں شمار ہونے کےواسطے عورت سے پیدا ہونے والا تھا مر د کے مباشر ہو نے سے پیدا نہ ہو ورنہ خواہ مخواہ بُرے میلان اس سےظاہر ہوتے۔جب تک وہ مریم کےپیٹ میں رہا ۔ اس کی صفتوں میں سے صرف وہی اپنے سے ملا تار رہا جو اس سے مناسبت رکھتی تھیں۔
اس بُرے میلان کا اوّل سبب آدم اور حوا کا گناہ تھا جب تک انھوں نےممنوع(منع کياہوا)میوہ نہیں کھا یا تھا اس وقت تک یہ بُرا میلان ان میں موجود نہ تھا۔ اس وقت آدمی کی ساری قوتیں اور خواہشیں ایک دوسرے سے میل رکھتی تھیں۔ اور جسمانی خواہشیں رُوحانی خواہشوں کی تابعدار ی کرتی تھیں ۔ اور رُوحانی خواہشیں خُدا کی تابعدار کرتی تھیں ۔ اور چونکہ رُوح میں کمال صحت تھی ۔ اس واسطے ان کے بدن میں بھی ویسی ہی صحت تھی اور اگر آدمی کا حال اسی طرح رہتا تو نہ کبھی بیمار ہوتا اور نہ مرتا بلکہ آخر اس کا بدن مجلے ہو جاتا لیکن گناہ کے سبب یہ سب باتیں بدل گئیں اور وہ خرابی جو آدم اور حوا کے گناہ کے سبب مختلف قوموں اور خاندانوں اور افراد اِنسانی میں موجود ہے ۔اگرچہ جُدا جُدا ہے خاص کر اس بات سےظاہر ہوتی ہے کہ جسم رُوح کے اختیار میں نہیں رہتا ۔
یہ موروثی بُرا میلان مباشرت کےسبب بڑھ سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض قوم ساری کی ساری جسمانی خرابی میں پشت در پشت زیا دہ تر پھنستی جاتی ہے۔یہاں تک کہ تقریباً کل نیست(تباہ) ہو جاتی ہے۔ مگر ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قوموں اور خاندانوں کے خاص بُرے میلان کبھی نہ کبھی دور ہو جاتےہیں ورنہ تمام بنی آدم کی خرابی پشت در پشت زیادہ ہوتی جاتی ۔اور یہ تجربہ کےبرخلاف ہے لیکن آدمیت کےسب عام بُرے میلان جو آدم کے گناہ کےسبب ہوئے ہر ایک آدمی میں پائے جاتے ہیں۔
اُنیسواں باب
طبعی گنہگار ی اور موروثی بُرا میلان
اوپر ہم دو باتیں ثابت کر چکے ہیں ایک تو یہ کہ آدمی میں گنہگاری طبعی ہےجو ابتدائے پیدائش سے اس میں موجود رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ آدمی میں بُرا میلان موروثی ہے۔ جس سے اس کے بہت سے نقصان ہوتے ہیں اور خاص کر یہ کہ جسم رُوح کی تابعدار ی میں نہیں رہتا ۔ اب یہ کہنا باقی ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی نہیں ہیں کیونکہ طبعی گنہگار ی رُوح کی خرابی ہے جو خود مختاری (آزادی)سےپیدا ہوئی ۔ اور یہ بُرا میلان جسم یا نفس کی بدحالی ہے جوہمارے اختیار سے نہیں ہوئی ۔ اگرچہ ہم اب کم و بیش اس پر اختیار (قابو)رکھتے ہیں۔ غرض وہ فی الحقیقت گناہ ہے اور یہ اگرچہ آدم و حوا کے گناہ کےسبب ہوا اور ان کےبعد والدین کے سبب بڑھ بھی سکتا ہے جیسا کہ ہم بیان چکے ہیں پھر بھی گناہ نہیں ہے بلکہ بدحالی ہے۔
آدمیوں کی رُوحوں کی پیدائش کی نسبت کلیسیاء میں مختلف رائیں پیش ہوئی ہیں۔ بعضوں نے تو یہ سمجھا ہے کہ خالی جسم ہی والدین سےپیدا ہوتا ہے۔ اور باقی سب کچھ خُدا کی طرف سےنیا خلق ہو تا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف یہ بات ہے کہ جیسا ہم اوپر کے با ب میں کہہ چکے ہیں آدمیوں کی بہت صفتیں اور عیب ان کے والدین یا خاندان یا قوم سےملتے ہیں ۔اور اور بہت سی صفتیں اور عیب تمام بنی آدم میں عام ہیں۔ اور بعضوں کی یہ رائے ہے کہ آدمی بالکلیہ رُوح اور جسم سمیت صرف والدین سےپیدا ہوتا ہے اور خد ا کی نئی خلقت کچھ نہیں ہوتی ۔ لیکن اس کےبرخلاف یہ بات ہے جیسا کہ ہم بہت دفعہ کہہ بھی چکے ہیں کہ ہر رُوح واحد اور سب رُوحوں سےعلیحدہ ہے اور یہی بات خُدا کی صورت کی خاصیت ہے۔
اس امر کی نسبت درست عقیدہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ رُوح مباشرت کے وقت خُدا کی طرف سے خلق ہوتی ہے۔ اور والدین سےکچھ علاقہ نہیں رکھتی اور خالی جسم نہیں بلکہ نفس بھی یعنی وہ ان دیکھی چیز جو جسم کےساتھ ہی رہتی ہے اور جس کےوسیلے سے جسم رُوح پر تاثیر(اثر) کرتا ہے جسم کے ساتھ والدین سےپیدا ہوتا ہےاس سےمعلوم ہوتا ہےکہ وہ رُوحانی خرابی جو آدمی کا گناہ ہے اور جس کو کوئی آدمی دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا اس نفسانی بُرے میلان سے جو فی الحقیقت گنا ہ نہیں ہے ۔اور موروثی ہوتا ہے۔ بالکل علیحدہ ہے۔
اس عقیدے کے برخلاف دورا ئیں ہیں جنہیں نےکلیسیاء میں بہت رواج پا یاہے ۔ یعنی بعضوں نے اور رُوحانی طبعی خرابی کو موروثی گناہ کہا ہے ۔اور بعضوں نے اس کو نہ موروثی ٹھہرایا ہے اور نہ گناہ یہ دونوں اس بات میں تو ہمارے ساتھ متفق ہیں۔ کہ جہاں فی الحقیقت گناہ ہے وہاں قصورواری بھی ہےاور اس واسطے پہلی رائے والوں نے تو یہ سمجھا ہے۔ کہ موروثی خرابی کےگناہ ہونے ہی سے اس کے سبب قصور واری بھی ہو گی اور دوسری رائے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ اسی سبب سےکہ قصورواری موروثی نہیں ہو سکتی وہ رُوحانی طبعی خرابی گناہ نہیں ہو گی ۔پہلی رائے کے طرف دار خصوصاً اگستین کے پیرو(پيچھے چلنے والے) ہیں۔ اور دوسری رائے کے طرفدار خصوصاً آرمنی کےپیرو ہیں اب ہم ان دونوں راؤں کا جواب دیتےہیں ۔
۱۔ اوگستینی لوگ یہ خیال کریں کہ ہم میں جو خرابی ہے ہم سے نہیں بلکہ دوسرے آدمی کے سبب ہوئی اس کےواسطے ہم قصور وار نہیں ٹھہرسکتے ۔ اور اس واسطے جب کہ یہ خرابی ہمارے سب عملی گناہوں کا سبب ہےتو ہم اپنے کسی عملی گناہ کےلئےبھی بالکل قصور وار نہیں ٹھہریں گے ۔ پس جب ہم اس طبعی گناہ کےسبب قصور وار نہیں ٹھہرسکتے تو یہ گناہ گناہ کیونکر رہے گا۔ لیکن وہ گناہ تو ہے جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں اور جب گناہ ہے تو اس کے ساتھ قصور واری بھی ہو گی مگر بات یہ ہے کہ وہ گناہ موروثی نہیں ہو سکتا ۔
اس رائے کی ایک دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ بنی آدم ایک ہی جنس اور ایک ہی جماعت کےہیں ۔اور ممکن نہیں کہ کوئی فرد ِبشر اور افراد سے الگ رہے۔ ہزاروں طرح سےہرایک کو بہت سےآدمیوں سے اثر پہنچتا ہے اور خصوصاً اپنے والدین اور بزرگوں سے۔ پس کیا تعجب ہے کہ گناہ بھی آدم سےاس کی ساری اولاد میں پھیلا ہوا ہےاگرچہ ہر ایک آدمی اپنے گناہ کو اپنا ہی سمجھتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر گناہ صرف ایک طرح کی بدحالی یا گویا بیماری ہوتی تو یہ دلیل مقبول ہو سکتی لیکن ہمارا سوال تو یہ ہے کہ کس طرح آدمی اپنے طبعی(قدرتی۔خلقی) گناہ کےواسطے جواب دہ ہے؟ جہاں جواب دہی کا ذکر ہے وہاں جنس اور جماعت کا لحاظ کرنا بجا ہے کیونکہ جواب دہی کے واسطے فردیت اور شخصیت ضرور ہے اور وہی جواب د ہ ٹھہر سکتا ہے جو ا ولاً خود مختار تھا۔
اس کےجواب میں بہت سے لوگوں نے یہ کہا ہے ۔کہ اگرچہ موروثی گناہ بغیر ہماری مرضی کےہوا پھر بھی ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے۔ بلکہ خوشی سےاس کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کے سبب قصوروار ہیں۔ لیکن ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا سبب ہے کہ ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے ؟ اس کا سبب یہی ہے کہ یہ بات ہماری طبیعت میں داخل ہو گئی ہے۔گناہ غیر چیز نہیں معلوم ہوتا بلکہ ہماری طبیعت ہی میں بیٹھ گیا ہے۔ لیکن اگر ہم اسی سبب سے قصور وارہیں کہ ہمارے افعال (کام)ہماری طبیعت کےمطابق ہوتے ہیں تو غیر بھی قصوروار ٹھہرائے گا اس واسطے کہ وہ اپنی طبیعت کے مطابق خونریزی کرتا ہے ۔ ہاں البتہ اور آدمیوں سے اور خاص کر والدین وغیرہ سے گناہ کی طرف بہت میلان حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اگر گناہ کا تمام میلان ان ہی سےحاصل ہو تا یعنی اگر آدمی شخص واحد نہ ہوتا بلکہ صرف کل آدمیت کا ایک حصّہ ہوتا ( یعنی اِنسان کی جزئی نہ ہوتا بلکہ جزو ہوتا ) تو پھر ہر ایک کی جُدا جُدا عدالت کس طرح ہو سکتی؟ جو کچھ صرف اسی سبب سےہر ایک شخص میں ہے کہ وہ بنی آدم میں شامل ہے۔ اس کے سبب قصور وار ی ممکن نہیں یعنی وہ فی الحقیقت گناہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے جواب میں وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ محبت اور ہمددری کا کام ہے کہ ہم اپنے تئیں سارے بنی آدم سے الگ نہیں بلکہ ان کےگناہ میں شریک سمجھیں لیکن کیا خُدا کو بھی جو محبت سےپُر ہے چاہیے کہ اپنے تئیں آدمیوں کے گناہ میں شریک سمجھے ؟ پس صرف اس واسطے ہم لوگوں کو ایسا سمجھنا مناسب ہے کہ ہم فی الحقیقت ویسے ہی ہیں ۔ یعنی گنہگار و رنہ مناسب نہ ہوتا ۔
اس رائے کی دوسری دلیل(گواہی) مقدس کتاب یعنی رومیوں کے خط ۵: ۱۲۔ ۱۹ سے نکالی جاتی ہے۔ اس مقام سے یہ نتیجہ تو بےشک نکلتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ گناہ جو آدم کے سبب دُنیا میں داخل ہوا آدم ہی سے مسیح کے سوا تمام بنی آدم میں پھیل گیا ہے ۔ لیکن رسول یہ نہیں کہتا کہ آدمیوں کا گناہ صرف آدم کے گناہ کا نتیجہ ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب اس مقام میں آدم اوّل اور آدم ثانی کا اور ان سےجو تاثیریں آدمیوں پرہوئیں یا ہوتی ہیں ان کا آپس میں مقابلہ ہو ا تو ضرور ہے کہ جس طرح راستبازی اور زندگی کی تاثیر صرف مسیح ہی سے ہوتی ہے اسی طرح گناہ اور مو ت کی تاثیر صرف آدم ،اوّل ہی سےہوئی ہے۔ لیکن یہ نتیجہ صحیح طور پر اس مقام سے نہیں نکلتا چنانچہ آدم اور مسیح کی تاثیروں میں اور بہت سے فرق ہیں ۔ مثلاً یہ کہ آدم کی تاثیر تو خواہ مخواہ ہر ایک آدمی کو پہنچتی ہے لیکن مسیح کی تاثیر صرف قبول کرنے ہی سے حاصل ہے۔
۲۔ اوگستینی لوگوں کے برخلاف آرمنی کے پیرو کہتےہیں کہ جس وقت آدمی نیک و بد کی پہچان حاصل کرکے اپنی خودمختاری سےبدی کوپسند کرتا ہے اسی وقت سےوہ گنہگار ہوتا ہے۔ اور اسی وقت سے وہ رُوحانی طبعی خرابی جو اس میں موجود ہے۔ زور پکڑتی ہےپس آدمی اس خرابی کے سبب جو صرف میلان ہے قصوروار نہیں ہے ۔ بلکہ صرف اس سبب سے قصور وار ہے ۔ کہ وہ اس میلان کا پیرو(پيچھے چلنے والا) ہوتا ہے اور نیز اس کی پیروی کرنے سےجو کچھ نتیجہ پیداہو تا ہے۔ اس کے سبب سے بھی قصوروار ہے۔ لیکن یہ رائے کہ آدمی خود اس میلان کے سبب قصوروار نہیں ہے خاص کر افسیوں کے خط کے ۲: ۳ کے برخلاف ہے جہاں لکھا ہے کہ ہم اپنی طبیعت سے یا پیدائش سےغضب کے فرزندتھے۔ یعنی قصور وار تھے۔ اس کے سوا ہم بارھویں باب میں کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم اس زندگی میں بے گناہی کی حالت سے یک بارگی گناہ کرنا شروع کرتے تو یہ ضرور ہم کو یاد رہتا ۔ اس سے پورے ہوتے ہیں یا نہیں۔
۱۔ اس رائے کا ایک مقصود (ارادہ کيا گيا)اس بات کا ثابت کرناہے کہ وہ خراب میلان(رجحان) جو ہم میں پیدا ہوتا ہے گناہ نہیں بلکہ دوسری چیز ہے۔ لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے پہلے کہ لڑکے کے دل میں تمیز پیدا ہوتی ہے اس لڑکے سے بہت سے بُرے کام ہوتے ہيں جو اس میلان کے نتیجے ہیں گو کہ تمیز نہ ہونے کے سبب ہم اکثر انہیں گناہ نہیں کہتے ۔ پس جب تمیز پیدا ہوتی ہے تو کیوں یہ سب بُرے کام غائب نہیں ہو جاتے بلکہ جو ں کے توں اور زیادہ شدت سے بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ابتدائے پیدائش سے بے گناہ ہیں تو کس واسطے ہم پیچھے اس خرابی کے پابند ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب پہلے پہل تمیز کے ساتھ کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ اس وقت بھی کم و بیش اس کی قید میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔
پھر جب بالغ ہو جاتے ہیں تو بھی جلد بازی اور کمزور ی کے سبب بہت سے گناہ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کسی قدر تو اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ہم نے پیشتر اپنی تمیز کی نہ سنی لیکن کسی قدر اس بُرے میلان سے بھی ہوتے ہیں جو ابتدائے پیدائش سے ہم میں ہے پس اگر اس بُرے میلان میں گناہ نہیں ہے تو ہم کیونکر جانیں کہ ایسے گناہوں کے واسطے ہم کس قدر قصور وار ہیں اور کس قدر بے قصور ہیں۔ ہمارا دل تو ہمیں ان کے سبب بالکل قصور وار ٹھہراتا ہے اور اگر ہم اپنے دلوں کی گواہی کو رد کریں تو بھی کسی طرح کا قانون نہیں ہے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ کس کام کے لئے جواب دہ ہیں اور کس کے لئے نہیں کس فعل کی واسطے مغفرت (معافی۔نجات)چاہیں اور کس کی واسطے نہ چاہیں۔
۲۔ اس رائے کا دوسرا مقصود اس بات کا ثابت کرنا ہے کہ اگرچہ ہر ایک آدمی جس میں تمیز ہو گنہگار ہے اور اس واسطے قصور وار بھی ہے پھر بھی ایک آدمی کی قصورواری اس کی خود مختاری پر موقوف(ٹھہرايا گيا) ہے لیکن یہ ثابت کرنا آرمنی کے پیرؤں کو مشکل ہے کیونکہ اگر لوگ اسی سبب سے گنہگار ہیں کہ انہوں نے ہوشیار ہو کر گناہ کو پسند کیا تو یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ کروڑوں آدمی جو پہلے ہو گزرے ہیں ان میں سے ہر ایک نے جہاں تک ہم کو معلوم ہو سکتا ہے گناہ کو پسند کیا۔ اگر کہیں کہ اس بُرے میلان کے سبب نیکی کو پسند کرنا بہت ہی مشکل ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا۔ کہ ہم بالکل خود مختار نہیں ہیں اور اس واسطے بالکل قصوروار بھی نہیں ہیں اور اس طرح سے وہ قصور واری جس کے ثابت رکھنے کے واسطے یہ رائے نکالی گئی ہے ترک ہو جاتی ہے۔
بیسواں باب
شخص واحد میں گناہ کی ترقی
اب تک جو کچھ ثابت ہو ا اس سے ہم دُبد ا ہی میں رہے ۔ ایک دُبد ا تویہ ہے۔
کہ ہمارا دل تو یہ گواہی دیتا ہے کہ ہم بالکل جواب دہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ پوری جواب دہی کے واسطے پوری مختاری بھی ضرور ہے لیکن پھر اس پوری خود مختاری کا کوئی خاص وقت ہم کو معلوم نہیں ہوتا کیونکہ جب سے ہم اپنے حال سے واقف ہوئے اس وقت سے ہماری خود مختاری کسی کسی قدر ہمارے مزاج کے ساتھ مقید (قيد ہونا)معلوم ہوتی ہے۔ اور دوسرا دُبدا یہ ہے۔ کہ ہم کو اس بات کا تو پختہ ثبو ت حاصل ہوا کہ ہم ابتدائے پیدائش سے بلکہ پیٹ میں پڑنے ہی سے لے کر گنہگار ہیں اور یہ گنہگاری نہ صرف بُرا میلان ہے بلکہ فی الحقیقت گنہگاری ہے یعنی اس کے سبب ہم قصور وار ہیں لیکن پھر یہ ہماری دریافت سے باہر ہے کہ کس طرح ہمارا حال ایسا ہو گیا کیونکہ وہ جبلی طبیعت جو والدین سے ہم کو حاصل ہوتی ہے۔ اس طبعی (قدرتی۔خلقی)گنہگاری سے جُدا ہے۔ پس دونوں طرح سے ہمارے نکلنے کی راہ بند معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ شک نہ عقل سے دور ہو تا ہے اور نہ کتاب مقدس سے۔
پس راز مذکو ر کو اور اس امر کو کہ آدمی کس طرح سے گنہگار ہو گیا اس اُمید پر چھوڑ کر کہ شاید آئندہ دنیا ميں وہ ہم پر کھولا جائے اب اسی بات پر غور کرتےہيں کہ جب شخص واحد گنہگار ہو چکتا ہے تو گناہ اس میں کیسا ترقی پذیر ہوتا ہے۔ اگرچہ آدمی کی خود مختاری (آزادی)اس زندگی میں بالکلیہ نہیں معلوم ہوتی مگر پھر بھی وہ موجود رہتی ہے ۔ اگر چہ ہم اپنے تئیں گناہ سے آزاد نہیں کر سکتے بلکہ صرف مسیح ہی ہمیں اس سے آزاد کر سکتا ہے۔ پھر بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ چاہیں تو اپنے گناہ کے زور کو گھٹائیں اور چاہیں اس کو بہت بڑھائیں۔
خُدا نے آدمی کا ایسا حال بنا یا ہے کہ ایک گنا ہ کرنے سے دوسرا گناہ زیادہ آسانی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ممکن نہیں ہے کہ ہم گناہ کر کے اتنے خود مختار رہیں جتنے گناہ کرنے سے پیشتر تھے۔ بلکہ ہماری خود مختاری کا فعل(کام) ہماری خود مختاری کو گھٹا دیتا ہے ہر ایک گناہ میں گویا ایک بڑا گہرا گڑھا ہوتا ہے۔ جس کو گنہگار اور گناہ کرنے سے بھر دینا چاہتا ہے۔ لیکن یہ غیر ممکن ہے کیونکہ و ہ بے پایاں(بے اندازا۔بے حد) ہے۔ اس لئے جب کسی کےدل میں کسی خاص گناہ کے سبب تو بہ پیدا ہوتی ہے۔ تو وہ نہ صرف اس گناہ کے بلکہ اپنے اور تمام حال سبب بھی اپنے تئیں قصور وار جانتا ہے۔ نکلا نامی چودھویں صدی کے ایک یونانی مصنف نے لکھا ہے۔ کہ گناہ پیدا ہوتابھی ہے اور پیدا کرتا بھی ہے۔ اور اس سبب سے گناہ لا انتہا ہے کیونکہ عادت فعلوں کو پیدا کرتی ہے اور پھر فعلوں کے ہونے سے عادت زیادہ زور آور ہوتی ہے۔
بے شک کسی ایک گناہ کے کرنے سے ویسے ہی اور گناہ کا خیال آپ سے آپ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کی خواہش بھی زور پکڑتی ہے یہاں تک کہ ویسا گناہ دوبارہ نہ کر نا ناممکن تو نہیں ہے لیکن بہت مشکل ہے اور اسی طرح جوں جوں گناہ ہوتے جائیں گے ان سےرہائی دشوار (مشکل)ہوتی جائے گی۔
آ دمی اس ترقی کے قاعدہ کا جیسا نیکی کرنے میں پابند ہے ویسا ہی گناہ کرنے میں بھی ہے جیسا کوئی نوزادہ آدمی دفعتاً کامل (مکمل)نہیں ہو سکتا ۔ ویسے ہی کوئی گنہگار بھی یک لخت(ايک دم) گناہ میں کمال نہیں پیدا کر سکتا ۔
ہاں کبھی کبھی ایساہوا ہے کہ کسی نےمایوس ہو کر دیدہ و دانستہ(جان بوجھ کر) اپنےتئیں کسی سخت خرابی میں ڈال دیا لیکن وہ بھی اسی وقت گناہ میں پختہ نہیں ہو سکا اگرچہ ایسا ہونا چاہتا تھا۔
پھر دُنیا کا بھی حال ایسا ہے کہ اکثر ایک گناہ کے سبب آدمی اور گناہوں میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً ایک جھوٹ کو اور بہت جھوٹ بولنے سے چھپانا ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے ابتداء میں تو صرف غفلت(لاپرواہی) سےکوئی کام کیا مگر بعد اس کے سبب ہمارا ایسا حال ہو گیا۔ کہ اپنے تئیں بڑے خطرہ اور نقصان سے بچانے کےلئے بہت بھاری گناہ کرنا پڑا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اس ترقی کے ہر ایک درجہ سے اُلٹا پھرآئے لیکن یہ صرف اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ بلکہ اپنی زندگی کو بھی کھو دے تا کہ اسے خُدا کے ہاتھ سے بھر پائے۔
گناہ کی ترقی کے خاص تین درجے معلوم ہوتے ہیں یعنی غفلت اور مخالفت کا علم یا غلامی کی واقفیت اور سخت دلی غفلت سےاکثر اپنی غلامی کی واقفیت پیدا ہوتی ہے یعنی آدمی یہ جان لیتا ہے۔ کہ میں گناہ کا غلام ہوں اور میرے دل کی خواہشوں میں مخالفت ہے اور اگر یہ واقفیت نجات کا وسیلہ نہیں ہوتی یعنی اگر آدمی اپنے تئیں غلام جان کر نجات دہندہ کو قبول نہیں کرتا تو اس کا نتیجہ سخت دلی ہوتی ہے۔
مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ یہ سخت دلی خُدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ یعنی جب کوئی شخص گنہگار ہو چکتا ہے۔ وہ آخر کار خُدا کی طرف سے سخت دل ہو جاتا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ جیسا اوپر ذکر ہوا خُدا نے آدمیت میں ایسا قاعدہ ٹھہرایا ہے کہ اگر گناہ کی مخالفت نہیں ہوتی تو اس کی ترقی خواہ مخواہ ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ دلی شریعت کے سوا خُدا اپنا کلام الہام سےبنی آدم کےپاس بھیج دیتا ہے۔ اور آد می کے دل کا یہ حال ہے کہ اگر خُدا کے کلام کو قبول نہیں کرتا تو خواہ مخواہ زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ اس سبب سے جہاں جہاں یہ ذکر بائبل میں ہے کہ خُدا نے کسی کو سخت کر دیا وہاں خواہ تو ریت ہو خواہ انجیل خُدا کے خاص الہامی کلام کا بھی ذکر ہے۔ ممکن نہیں کہ کوئی خُدا کا کلام رد کر کے اسی حالت میں رہے جس میں وہ پہلے تھا۔ کیونکہ غفلت سے خواہ مخواہ عداوت اور مخالفت پیدا ہوتی ہے ۔ جب خد اکے کلام کی ایک کرن کسی پر پڑتی ہے۔
تو پھر اگر وہ وہاں سے ہٹ کر تاریکی میں آرام سے رہنا چاہے تو یہ کبھی ممکن نہ ہو گا۔ بلکہ وہ ضرور یہ چاہے گا کہ اس روشنی کو ہٹائے اور نیست (ختم)کرے۔ اس واسطے لکھا ہے کہ پہلے فرعون نے اپنا دل سخت کیا بعد اس کے خُدا نے اس کو سخت کر دیا۔ اور پطرس (1) نے کہا ہے کہ جو مسیح پر ایمان نہ لانے سےاس چٹا ن پر ٹھوکر کھا کر گر تےہیں۔ وہ اس کے لئے مقر ر بھی ہوئے تھے۔
اوگستین سے لے کر بہت سے معلموں کی یہ رائے ہوئی ہے۔ کہ خُدا ایک گناہ کی سزا دوسرے گناہ سے دیتا ہے۔ یہ کہنا تو گناہ کے خاصہ سے انکار کرنا ہے۔ کہ وہ آدمی کی خود مختاری سے ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ گناہ کی ترقی اور غلامی میں بڑا دُکھ اور بڑی پریشانی ہوتی ہے اس واسطے ہم کہہ سکتے ہیں ۔ کہ یہ دکھ اور پریشانی نہ صرف ان ہی گناہوں کی سزا ہے جن کے سبب یہ پیدا ہوتی ہے بلکہ ان گناہوں کی بھی جن سے وہ گناہ پیدا ہوئے یعنی گناہ تو گناہ کی سزا نہیں ہے مگر ایک گناہ کا دکھ دوسرا گناہ کرنے کی سزا ہو سکتی ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے علاوہ مسیح نے ایک گناہ کو ناقابل عفو(معافی) کہا ہے۔ اور یوحنا نے اس کو مہلک(خطرناک) گناہ کہا ہے۔ مسیح نے تو اس گناہ کا یہ بیان کیا ہے۔ کہ و ہ رُوح القدس کی نسبت کفر کہتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی صرف منہ سے کفر کے الفاظ نکالے تو یہ ناقابل عفو گناہ ہو گا۔ بلکہ یہ گناہ صرف اسی حال میں ہو سکتا ہے جس آدمی نے گناہ میں خوب ترقی کی ہو بلکہ اس ترقی کو حد تک پہنچا دیا ہو ۔ مگر یہ کس کس کا حال ہو سکتا ہے ؟ اسی کا جس نے خُدا کی ساری شریعت اور نجات کی خبر اور اور جو کچھ خد انےبنی آدم پر روشن کیا اس کو بخوبی اور کمال صفائی کے ساتھ جان کر دیدہ و دانستہ(جان بوجھ کر) رد کیا ہو۔ رُوح القدس کی نسبت کفر نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ سب سے زیادہ رُوحانی گناہ ہے ۔جو غفلت کی نیند میں پڑا ہے اس سے یہ گناہ نہیں ہو سکتا ۔ اس گناہ کا خاصہ کچھ جسمانی خواہشوں کی طرف میلان نہیں ہے۔ بلکہ خُد ااور جو باتیں اس سے متعلق ہیں ان کی عداوت(دشمنی) ہے اور اس عداوت ہی کئے سبب کفر منہ سے نکلتا ہے اس کا سبب محض خود غرضی ہے۔ جس سے آدمی بالکل خو د مختار یعنی خُدا سے آزاد ہونا چاہتا ہے اور جب خُدا ایسی خود مختاری سے منع کرتا ہے تو اسی سبب سے آدمی اس سے کینہ(دشمنی) رکھتا ہے اور اگر خُدا کو اُٹھا دینا اس کے امکان میں ہوتا تو اُٹھا دیتا مگر چونکہ یہ ناممکن ہے اس لئے ا س کو بُرا کہہ کر ایک طر ف کی تسلی حاصل کرتا ہے۔پولوس نےدجال(مخالفِ مسيح ) کا بھی یہی گناہ بیان کیا ہے کہ وہ ان سب باتوں کی مخالفت کرےگا۔ جو خُدا سے متعلق ہیں اور خُدا کی جگہ وہ آپ خُدا بن بیٹھے گا ۔ اور اسی سبب سے وہ ابن ِہلاکت کہلاتا ہے یعنی اس کا گناہ نا قابل عفو(معافی) ہے اس حال میں اور عام سخت دلی میں یہ فرق ہے کہ عام سخت دلی تو عموماً خُدا کے کسی حال میں اور عام سخت دلی میں یہ فرق ہے کہ عام سخت دلی تو عموماً خُدا کے کسی الہامی کلام کے سننے سے ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا خاص کر انجیل ہی میں ذکر ہے۔ کیونکہ یہ فقط انہی کا حال ہو سکتا ہے۔ جو خُدا کے سب سے بڑے مکاشفہ کے قائل ہو چکے ہیں یہ ضرور نہیں ہے کہ وہ نوزادہ ہوئے ہوں اور نجات کا مزہ چکھ چکے ہوں جیسا کہ عبرانیوں کے خط کے ۶: ۳ ۔ ۶۔ اور ۱۰ : ۲۶ ۔ ۳۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کا بھی حال ہو سکتا ہے۔ بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ وہ اپنی عقل سےانجیل کے بخوبی قائل ہو چکے ہوں اور ان کے دلوں میں بھی اس کی تاثیر ہو چکی ہو۔ چنانچہ جن فریسیوں سےمسیح نے کہا کہ یہ گناہ نا قابل عفو ہے۔وہ نہ تو مسیحی تھے اور نہ یقیناً ہونے والے تھے۔
(1) ۔پطر س کےپہلے خط کے ۲: ۷، ۸ کو دیکھو۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ گناہ اسی واسطے ناقابل عفو ہے کہ اس سے تو بہ کا امکان جاتا رہتا ہے۔ اور یہ سمجھناچاہیے کہ اگر اس گناہ سے تو یہ کی جاتی تو بھی اس کی مغفرت(معافی) نہ ہوتی ۔
لیکن اگر کوئی گناہِ قابل عفو ہے تو گناہ غیر فانی ہے اور اس سےجو خلقت میں فساد ہے وہ کبھی نہیں مٹے گا بلکہ ابدالآباد تک رہے گا۔ یہ عقیدہ بہت سے لوگوں کو بڑا سخت معلوم ہوتا ہے ۔ا ور اتنا ہم بھی مانتے ہیں کہ حیرانی کا باعث ہے لیکن پھر بھی اسے سچ ماننا ضرور ہے۔ یہ تو ہم بھی ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ خُدا کا مقصد کیاہے؟ اور کس طرح ساری مخلوقات کے کمال بغیر خد اکی مرضی پوری ہو سکے گی ۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ خُدا کا مقصد ضرو ر پورا ہو گا ۔ اور خُدا اپنی غیر متناہی(جس کی انتہا نہ ہو) حکمت سے اس مقصد کو پہنچ سکتا ہے سزا کا خاصہ یہ ہے ۔ کہ بدی مغلوب ہو جائے اگرچہ نیست نہ ہوئی ہو اوربدکار اپنی بدی کاپھل حاصل کرتا ہے اور اپنی بدی دوسروں کو پہنچانےنہ پائے ۔ خُدا کی خلقت کامل تو ہو جائے گی۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کا مليت میں کون کون شریک ہو گا ۔ کیونکہ یہ آدمی کی خود مختاری پر موقوف ہے۔ اس پر لوگ یہ کہتے ہیں۔ کہ یہ خُدا کی محبت کے برخلاف ہے کہ کوئی شخص ابدالآباد تک عذاب میں پڑا رہے۔ لیکن محبت کے لئے کیا چیز لازم ہے؟ محبت کے واسطے طرفین (دونوں طرف کے لوگ)کی آزادی ضرورہے کیونکہ محبت میں زور نہیں ہے۔ اور نہ وہ جبراً پنا کام کر سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ اس زندگی میں خُدا کی محبت کو رد کرتے ہیں پس آئندہ دنیا میں بلکہ ہمیشہ کے لئے ایسا کرنا ان کے واسطے کیونکہ غیر ممکن ہو گا۔ اگر خُدا کسی کو ابدی عذاب سے خواہ مخواہ بچا نے والا ہے تو کیوں اس زندگی میں بھی گنہگار کو جبراً نیک نہیں کرتا ۔ اس طرح سے ہم ابدی عذاب کا امکان تو عقل سے ثابت کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بات صرف خُدا کلام ہی سے جانتے ہیں کہ فی الحقیقت کسی کا ایسا حال ہو گا ۔ خُدا کی بادشاہت کامل ہو جائے گی ۔ اور اسی سبب سے گنہگاروں کا اس بادشاہت میں رہنا نہ ضرور اور نہ ممکن ہو گا ۔ جیسا ہم کہہ چکے ہیں کہ نیکی خود مختاری سے لے رفتہ رفتہ حقیقی آزاد ی تک پہنچتی ہے۔ جس میں گناہ کرنا پھر غیر ممکن ہوتا ہے اسی طرح بدی بھی اسی خود مختاری سے رفتہ رفتہ ترقی کر کے ایسے حال تک پہنچتی ہے کہ نيکی کرنی پھر غیر ممکن ہو جاتی ہے۔ یہی (1)وہ آگ ہے جو کبھی بجھتی نہیں اور وہ کيڑا ہے جو کبھی مرتا نہیں یعنی ابد تک خُدا سے کینہ (دشمنی)رکھنا اور پھر بھی خواہ مخواہ اس کے اختیار کا اقرار کرتے رہنا۔
اس وقت صادق لوگ آفتاب کی طرح اپنے باپ کی بادشاہت میں چمکيں گے۔ ابھی تو ان کی حقیقی آزادی فقط مسیح ہی میں ہے۔ وہ اسے اپنے میں نہیں رکھتے لیکن اس وقت جو کچھ اب ان کا مسیح میں ہے۔ وہ اپنے میں بھی رکھیں گے ۔ اور گناہ کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا ۔ آمین
تَمّت
(1) ۔ مرقس ۹: ۴۸ کو دیکھو ۔ ۲۔ متی کے ۱۳: ۴۳ کو دیکھو۔