تیرا کلا م میرے پا ؤ ں کیلئے چراغ اور میر ی راہ کی روشنی ہے
Our Bible and Learned Muslims
Allama Gulam Masih
مصنّف و مو لّفہ
پادری غلا م مسیح
ایڈ یٹرا خبار نوُرا فشاں
جس کو
مصنّف نے میکلو ڈ روڈ لاہور سے شا ئع کیا
۱۹۲۶
پہلا باب
مسیحی نقطہ خیال سے بائبل کی اصلیت و اعتبار کا بیان
پہلی فصل
بائبل کی اصلیت و اعتبار
ہمارا زمانہ علمی روشنی کا ابتدائی زمانہ ہے۔ہند وستان پر آفتاب علم خصو صاً آفتا ب مغربی علم تھوڑے عرسے چمکنے لگا ہے۔اہل وطن اس کی روشنی سے پریشان ہو کر ہر ایک با ت پر شبہ اور شک کر نے لگے ہیں۔اُن کے شکوک وشبہا ت لا ریب قدرتی ہیں۔یہ شکو ک و شبہا ت ہی علمی دنیا کے بند قفل کی چابی ہیں۔ جس قدر کسی چیز کی با بت لو گو ں کے دلوں میں شکوک پیدا ہو ں اُسی قد ر وہ مفید ہو سکتے ہیں۔بشر طیکہ ایسے شکوک و شبہا ت کا مقصد ومد عا یہ ہو کہ مشکو ک مشتبہ شے کی اصلیت کو دریافت کیا جا ئے تا کہ اہل شک اپنی تلاش و جستجو میں مشکو ک و مشتبہ چیز کی حقیقت و کنہ(کسی چیز کی انتہا) تک پہنچ جائیں۔
مگر ہما رے ہمو طنوں کے شکو ک و شبہا ت کی یہ کفیت نہیں ہے ،کیو نکہ وہ کسی چیزکی اصلیت پر اس لئے شکو ک و شبہات نہیں کرتے کہ وہ خو د مشکو ک و مشتبہ شے کی اصلیت دریافت کر لیں بلکہ اُن کے شکوک و شبہات کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ کسی قا بل قدر چیز کو بد نام کر یں۔اسکی قدر و منز لت کو گھٹائیں۔اسے لو گو ں کی نظر میں بے قدر وبےوقار ظاہر اور ثابت کر یں اور اپنی بے قدر چیزوں کی تو قیر(عزت) بڑھائیں۔ایسے اہل شک ہمارے ہموطنوں میں کثیر ہیں۔اُ ن کا مقصدومدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ اندھو ں میں کا نے بن کر اپنی شہرت وناموری پیدا کر یں۔اپنے آپ کو علامہ عصر بنا کرد کھلائیں اور اپنی روٹیا ں کمائیں ۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ جو چیزیں زمانہ ماضی سے ہما رے زمانہ میں پہنچ چکی ہیں وہ بغیر کسی مستثنٰی(الگ کرنا،علیحدہ کرنا)کے ہما ری پُشت حا ضر ہ کے رو برو اپنی ہستی کی آپ شاید ہیں۔اُن کی اصلیت واعتبا ر پر شک و شبہ کر نا آسا ن کام نہیں ہے۔اُ ن چیزوں میں کسی چیز کی اصلیت و اعتبا ر کے خلاف آواز اُٹھانے کے لئے اس چیز کے گذشتہ توا تر کے سلسلہ کی تمام کڑیوں کا عا لم و ما ہر ہو نا پڑ تا ہے۔اس چیز کے جملہ اجزایِ تر کیبی کی تما م تا ریخ کا جا ننا لا زم ہو جاتا ہے۔جب تک ہما ری پُشت حا ضرہ کا کو ئی شخض زمانہ حاضرہ کی کسی چیز کے با بت مذ کو رہ بالا باتیں نہ جانے تب تک اس چیز کی اصلیت اور اعتبار کے خلاف اس کا منہ کھو لنا عقلمند وں کے نزدیک بک بک اور جھک جھک کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔مگر با وجو د قیودمذ کو رہ بالا کے ہما رے ہمو طنوں میں ایسے اصحاب کثیر مل سکتے ہیں جو زمانہ حاضرہ کی بڑی بڑی چیزوں پر شک و شبہات کی دھول اُڑانے میں سا عی (کوشش کرنے والے)ہیں۔ان بڑی بڑی چیزوں میں سے ایک چیز عیسائیو ں کی بائبل ہے۔
اس با ت کا کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمارے زمانہ میں عیسائیوں کی با ئبل مو جو دہے۔وہ صرف عبرانی و یو نا نی زبا نو ں میں موجود نہیں بلکہ دنیا کی (۸۳۵) زبانوں میں موجود ہے۔ہنوز اس کے ترجمے دنیا کی باقی زبانوں میں ہو رہے ہیں۔اس وجہ سے عیسائیوں کی با ئبل کی نسبت ہی یہ با ت کہی جا سکتی ہے کہ عیسائیوں کی با ئبل عا لم گیر کتا ب ہے۔آج کے دن جو با ئبل کی حیثیت ہے وہ کتا بی دُنیا کسی کتا ب کو حا صل نہیں ہے۔ وہ آ ج کے دن کتابی دُنیا کی شہنشاہ ہو کر موجو د ہے۔یہ بات ایسی ظاہر اور ایسی ننگی ہے جیسا کے آفتا ب عالم تا ب ہے۔
ایسی عا لم گیر کتا ب کی اصلیت و ا عتبا ر کے خلا ف شک و شبہ کرنا۔اسے متغیر و تحر یف شدہ بتا نا یا اُس کی با بت عیسائیوں سے یہ سو ال کر نا کہ تم ثابت کرو کہ تمہا ری اصلی اوراعتبا ر کے لا ئق ہے ایسا احمقا نہ سوال ہے جو آپ ہی اپنی مثا ل ہے۔اس سوال میں سائل کی حما قت اول تو اس با ت میں ہے کہ اُس نے موجو داتِ عا لم میں سے جو ہمارے علم و آگا ہی میں موجو د ہے۔صرف با ئبل کی با بت ہی یہ اعتراض و سوال اٹھا یا ہے ؟ سا ئل کے سوال کر نے میں دوسری حما قت یہ بھی ہے کہ اُس نے کسی چیز کی اصلیت واعتبا ر کا معیا ر قا ئم کئے بغیر بائبل کی اصلیت وا عتبا ر کے خلا ف اعتراض اُ ٹھا دیا ہے۔
سائل خو د ایسی بہت سی متغیر و تحر یف شدہ چیزوں کوا صلی و قا بل اعتبار جانتا اور ما نتا ہو ا با ئبل کے خلا ف سوال اٹھا تا ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ وہ خود جملہ اصلیت واعتبا ر کامطلب نہیں جانتا۔ پس ہمارے زمانہ کے افرا د میں سے بعض کا با ئبل کی اصلیت و اعتبار پر معترض ہو نا ایک احمقانہ اعتراض ہے جس کا جا ئز ہ ہو نا ہی آسا نی سے ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔اگرچہ زمانہ حا ضرہ کی کسی چیز کی اصلیت اور اس کے اعتبار پر اعترا ض اُ ٹھا نا آسا ن کام نہیں کیونکہ وہ چیز یں زمانہ ما ضی سے متوا تر ہمارے زما نہ تک پہنچی ہیں اور اپنی ہستی کی آپ شا ہد ہیں۔ان چیزو ں میں سے با ئبل بھی ایک چیز ہے ،تو بھی لو گ با ئبل کی اصلیت و اعتبا ر کے خلا ف شو ر مچاتے ہیں۔ ان کا مد عا اس سے یہ ہے کہ لو گ بائبل مقدس کی با بت اس کے دعا ویٰ کی با بت اپنے فیصلو ں کو تب تک التوءمیں ڈال دیں جب تک عیسا ئی با ئبل کی تحر یر کےا صلی اور قابل اعتبا ر ہو نے کے تسلی بخش ثبو ت نہ دیں۔ لیکن اِس پر طرہ یہ ہے کہ وہ خو د جن کتب مذ ہبی کو ما نتے ہیں۔اُن کی اصلیت و اعتبار پر بحث کرنا نہیں چا ہتے۔لہٰذا اُن کا با ئبل پر معترض ہو نا ہر گز اُن کی نیک نیتی کا ثبو ت نہیں۔نہ تلا ش حق کی خاطر ہے،بلکہ اُن کی اعترا ض کرنے سے صرف یہ غر ض ہے کہ بند گا ن خدا کو با ئبل قبول کر نے سے رو کیں۔حالانکہ وہ خو د با ئبل کی طرف سے بدظن اور لا علم ہیں۔
فصل دوم
کسی چیز کی اصلیت واعتبار کے معنی
زما نہ ما ضی قر یب یا ماضی بعید سے جواشیا ء مو جو د ات ِعا لم ہما رے زمانہ میں پہنچ چکی ہیں اور ہما رے علم کی معلوما ت قرار پا چکی ہیں ،وہ تما م اشیا ء خوا ہ کسی بھی قسم کی ہو ں اپنی ہستی اور اپنے وجو د کی ہمارے علم وآ گا ہی میں خود گواہ وشاہدہیں۔ اس بات کا ہم پیشتر بھی اشارہ کر چکے ہیں۔مو جود اتِ علم کی موجودہ چیزیں میں خو د ہما ری ہستیاں بھی داخل ہیں کُل اقسام حیو انا ت و نباتات و معدنیا ت ہیں۔کُل اجرام فلکی ہیں ،زمین اور اس کی معمو ری ہے ،علم انسِانی بھی ان اشیا ء شما ر کیا جا سکتا ہے۔کُل نظام سلطنت اور اُن کے قوانین ہیں کل تمسکا ت (اقرار نامہ )وکا غذات سر کا ری ہیں جو لو گو ں کی جا ئداد سے متعلق ہیں۔کُل کتب دینی و دنیو ی ہیں۔ غرض یہ کہ مو جو دات عالم کی کل چیزیں جو ہما رے علم وآگاہی میں موجود ہیں وہ اپنی ہستی کی آپ شاہد و گو اہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک چیز کی با بت یہ سوال اُٹھا کر دیکھو کہ کیا فلا ں چیزا صلی اور قا بلِ اعتبا ر ہے ؟تو ہم جملہ ’’اصلیت و قا بلِ اعتبار ‘‘ کے کچھ معنی معلو م ہو جا ئیں گے ؟
جب ہم زیر نظر چیز کی با بت سوال اُ ٹھا ئیں گے تو ہمارا مطلب یہ ہو گا کہ آیا زیر تحقیق چیز اپنی اُسی حالت میں موجو د ہے، جس حا لت میں اُس نے زمانہ ماضی میں جنم لیا تھا؟آیا زیر تحقیق چیزا پنے حجم وضخامت میں اتنی ہی ہے جتنی کہ اپنی پیدایش کے وقت تھی ؟ آیا زیر ِتحقیق چیز بہ جنس وہی ہے جو اپنے جنم دن کے روز پہلی دفعہ دنیا کی آگاہی میں آئی تھی ؟اس کے حجم و ضخا مت میں ،اُس کی صورت و شکل میں ،اُس کی ہستی کے تواتر و سلسلہ میں کو ئی تبدیلی تو نہیں ہو گئ۔اُس کی جگہ کسی دو سری غیر جنس نے تو نہیں لے لی ؟ زمانہ ما ضی میں زیر تحقیق چیز کی ہستی کی اور اُس کے تواتر وسلسلہ کی ہما رے زمانہ میں کو نسی شہادتیں موجو د ہیں ؟ وغیر ہ
سوالات مذ کورہ بالا مو جودات کی ہر ایک چیز کی اصلیت اور اس کے اعتبار کو جاننے کے لئے بغیر کسی مستثنٰی کے کئے جا سکتے ہیں۔جس چیز کی با بت سو ال اٹھاؤ گے اُس چیز کی با بت یہی جوا ب پاؤ گے کہ مو جو دات عا لم کی کوئی چیز تغیر و تبدل سے محفو ظ نہیں اس کی ہرایک چیز ہزار ہا تبدیلیو ں کے ساتھ ہمارے زمانہ میں پہنچی ہے غیر متغیر اور لاتبد یل صرف خدا کی ہی ذات ہے۔جو مو جو داتِ عالم کا اصل واصول ہے۔مو جودات عالم کی جمیع(سب) موجودہ چیزوں کی اصلیت و اعتبا ر کے اُن کے غیر متغیر و لاتبدیل ہونے پر منحصر نہیں ہے۔ کیو نکہ کا ئنات میں زمین پراور آسمان کے نیچے کو ئی چیز نہیں سواخدا کی ذات پا ک کےتغیرو تبدل سے نہ محفو ظ رہی ہے نہ کسی چیز کی بابت ایسا خیا ل کیا جا سکتا ہے۔نہ کوئی چیز ایسی قویِ اور قا در مخلو قا ت میں آج تک متحقق ہوئی ہے جو تغیر و تبدلا ت سے کمی پیشی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکی ہو ،اس وجہ کسی چیز کی اصلیت و اعتبار کا اعتقاد ہمیں اُس کی مو جو دہ ہستی اور اُس کے مو جو دہ و جو د کی شہادت کی بنا پر کر نا اور مو جودات عالم کی مو جو دہ چیزوں میں مسیحیو ں کی بائبل بھی مو جو د ہے جسکی اصلیت و اعتبار کا فیصلہ اُ س کے وجو د کی بنا پر کر ناہے۔
اصلیت و اعتبار کا معیا ر
وہ شخص جو مو جو دات عا لم کی کسی چیز کے اصلی وقا بل اعتبار ہو نے کو جاننا چاہتا ہے اُس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ کسی چیز کی اصلیت و اعتبا ر کا معیا ر مقررکرے۔وہ موجوداتِ عالم میں پہلے کو ئی ایسی چیز مقرر کر ے جو اُس کے مفہو م کی اصلیت اور اس اعتبار کی مثا ل بن سکے۔
ہم ذکر کر چُکے ہیں کہ کا ئنات میں کو ئی چیز ایسی متحقق نہیں ہو سکتی جو سائل کے مفہوم کی اصلیت اور اس کے اعتبار کی مثا ل بن سکے۔بغیر کسی مبالغہ و مستثنٰی کے یہ با ت پایہ ثبو ت کوپہنچ چُکی ہے اور پا یہ ثبو ت کو پہنچائی جا سکتی ہے۔کہ مو جو دات کی ہر ایک چیز ہزار ہا ہزار تبدیلیو ں کے بعد زمانہ حا ضر میں پہنچی ہے۔کو ئی چیز غیر متغیرلا تبدیل ثابت نہیں ہو سکتی، تو بھی ہر ایک چیز اپنی اپنی جگہ حیثیت میں اصلی اور قا بل اعتبا ر ہے۔
اس مطلب کو سمجھنے کےلئے خود با ئبل کے معترض کی شخصیت کو بطو ر مثا ل منتخب کر لو۔معتر ض صاحب شائد تیس یا چا لیس سالہ آدمی ہے اُس کی بابت سوال اٹھا ؤ کہ کیا معترض صاحب اصلی اور قا بل اعتبار شخص ہے؟ کیا وہ تغیرو تبدل سے محفو ظ رہ کر ہمارے زما نہ تک پہنچا ہے ؟کیا اس کے ابتدائی حجم میں فرق تو پیدا نہیں ہو گیا وغیرہ۔اگر ان سوالا ت کا جو اب سو چ کر دیا جائے تو ہر شخص کو ما ننا پڑ ےگا کہ معترض صاحب بھی اصلی اور قا بل اعتبا ر نہیں ہیں۔اُس کے ابتدائی وزن اور مو جو دہ وز ن میں زمین و آسمان کا فرق ہے .اس کی ابتدائی صو ر ت و شکل میں اور مو جو دہ و شکل میں کو ئی مو افقت ہی پا ئی نہیں جا تی۔اس کی ابتدا ئی علم و معلوما ت ہیں اور مو جو دہ معلو ما ت میں انتہا درجہ کا اختلا ف ہے۔اُس کی ابتدائی خو راک و پو شا ک میں اور مو جو دہ خوراک و پو شا ک میں کو ئی مو ا فقت نہیں ہے۔ تو بھی معترض صا حب وہی ہیں جوتین چا ر پو نڈ کے وزن کے سا تھ زما نہ ما ضی میں اپنے والدین کے گھر نمودپذیر ہو ئے تھے۔آپ کی ابتدائی شخصیت اور مو جو دہ شخصیت میں کس قدرتبدیلیاں ہو ئیں۔تو بھی زما نہ مو جو دہ میں اُس کے جا ن پہچان اور دوسرے لو گ اُسے وہی اصل اور قا بلِ اعتبار ز ید و بکر ما نتے ہیں۔جس کی ابتدائی ہستی چراغ لے کر تلا ش کر نے سے نہیں مل سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ جومعترض صا حب کا حا ل ہے وہی کا ئنا ت کی ہر ایک مو جو دہ چیز کا حا ل ہے۔پس معتر ض صاحب اصلیت و اعتبار کا ہر گز معیا ر مقر ر و قا ئم نہیں کر سکتا،جس کے انداز سے با ئبل کی اصلیت و اعتبا ر کو پرکھ سکے۔
فصل سو م
با ئبل مقّد س اور زما نہ ما ضی
با ئبل مقدس ہما رے زما نہ کی تصنیف و تا لیف نہیں ہے۔وہ زما نہ میں کسی وقت تصنیف و تا لیف ہو ئی۔اُس کے کل صحا ئف کسی فرددِاحد کی تصنیف نہیں ہیں۔اس کے مضفوں کا شمار (۳۹) کے قریب ہے۔اس کے کل صحا ئف بھی ایک دو سا لو ں کے عرصہ میں تصنیف و تا لیف نہیں ہو ئے بلکہ (۱۵) سو برس پچیس کے زما نہ میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے پہلے صحیفہ کی عمر قر یباً تین ہزا ر چا ر سو پچیس (۳۴۲۵)کو پہنچ چکی ہے اور اس کے آخری صحیفہ کی عمر قریباً (۱۸۲۵) کو پہنچ چکی ہے۔پس با ئبل مقدس کی تصنیف وتالیف کا زما نہ دنیا کی قدیم سے قدیم مذہبی کی تصنیف و تالیف کا زمانہ ہے۔ جس سے تاحال دنیا آگاہی ہو ئی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس عہد وزمانہ میں اہلِ دُنیا سخت مذہبی تاریکی میں مبتلا تھے۔ زمانہ حال کے علمی ذرائع جس زمانہ میں ناپید تھے۔ جس زمانہ میں بنی آدم کا صرف ایک ہی مذہب تھا ، جسے ہم آج کل بت پرستی اور وہم پرستی سے نامزد کرتے ہیں۔ ایسے تاریک اور پُرظُلمت زمانہ میں بائبل جیسی کتاب کا دنیا میں جنم لینا ، بائبل کے مصنفوں کا پیدا ہونا ، بائبل کے صحائف کے مضامین کو منتخب کر کے لکھنا پھر بائبل کے معنی کی کتاب کو ماننے والوں کا پیدا ہونا وغیر ہ ایسے معاملات ہیں جو ہمارے زمانہ کے لئے اگرمعجزات نہ ہوں تو کم از کم ہمارے زمانہ کی سائنس کے مسلمہ معجزات سے کم نہیں ہیں۔
مانا کہ
با ئبل کی تصنیف کےزمانہ میں ہندوؤں کے وید موجود تھے۔ چینوں کی مذہبی کتابیں اور بدھ کی تصانیف موجود تھیں۔مانا کہ با بل ونینوہ اور مصر وفینکی اور ہندو چین کی تہذیب و شائستگی موجود تھی۔ مانا کہ اس زمانہ کی اقوام میں پڑھنے لکھنے کا ہنر موجود تھا۔ ماناکہ دنیا میں بڑی بڑی اقوام اور ان کی سلطنتیں موجود تھیں ، جن کا مذہب اور جن کےعقیدے بھی قریباً یکساں موجود تھے۔مگر ہمارے زما نہ میں نہ کسی مذہبی کتاب کو وہ عروج نظر آتا ہےجو با ئبل مقدس کو حاصل ہو چکا ہے نہ کسی مذہب کو وہ غلبہ حاصل ہو سکا ہے جو با ئبل مقدس کے مذہب کو حاصل ہے۔ با ئبل اور اس کے مذہب نے ایک دفعہ اپنے مخالفوں پر عالم گیر فتح حاصل کر لی ہے۔آج کے دن با ئبل کی مخالف اقوام زمانہ حاضرہ کے علمی وسائل رکھتی ہوئیں اس کے اثر و غلبہ کے آگے بے مقدور ہو رہی ہیں۔ کیا یہ معجزہ سے کم تر حقیقت ہے۔
زمانہ ماضی میں بائبل کی ہستی کے شاہدوں پر غور کرو
یہ مضمون نہایت طویل ہے۔ بائبل کی زندگی کے( ۳۴۲۵)برسوں سے اس کا علاقہ ہے۔ یہ طول و طویل زمانہ وہ ہے جس میں با ئبل مقدس کی کمی بیشی سے مخالف دنیا سے جنگ کرتی ہوئی ہمارے زمانہ تک پہنچی ہے۔ اس زمانہ میں بائبل پر خطرناک حملے مخالف دنیا نے کیے ہیں۔اُنہوں نے اس کی ہستی مٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ وہ بار بار اپنے دشمنوں کے محاصرہ میں آئی۔ وہ بار بار اپنے مخالفوں کی لوٹ بنی۔ اُنہوں نے کئی دفعہ اسے آگ کے حوالے کیا ۔ اُنہوں نے بائبل ماننے والوں کو دائرہ ہستی سے مٹانےکی سر توڑکوشش کی۔ آج کے دن دنیا کی کوئی قوم نہیں مل سکتی جس کی مادر مہربان نے بائبل اور بائبل ماننے والوں کو فنا کرنے کی کوشش نہ کر دیکھی ہو اور آخر کار بائبل سے شکست نہ کھائی ہو۔ زمانہ ماضی بائبل کی ہستی کی یادگاروں سے اٹا پڑا ہے۔ اس کی شکست و فتح کے کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں پر گنجائش نہیں کہ ہم بائبل کی گزشتہ یادگاروں کی فہرست بھی نقل کر سکیں۔ زمانہ ماضی میں بائبل خدا کی قدرت ظاہر و ثابت ہوتی آئی ہے۔ اس نے اقوام ِ دہر(قسمت،مدت) کو ، اس کی سلطنتوں کو ، اُن کے مذاہب و عقائد کو تہ و بالا کیا۔ اُنہیں اُلٹ کر ڈالا۔ اُن کی طاقتو ں کو فنا کر ڈالا۔ اُن کو اپنا غلام بنا ڈالا۔ آج کے دن ان اقوام کی اولاد بائبل کی محافظ بن رہی ہے۔ ہنوز بائبل کی جنگ دنیا کی مخالف اقوام سے جاری ہے۔ بائبل مقدس نے ابتدا سے آج تک دُنیا سے صلح کی درخوا ست نہیں کی ہے۔
بائبل اور اقوامِ دہر کی جنگ
با ئبل مقدس کو اقوامِ دہر (مدت)سے جنگ کرتے ہوئے( ۳۴۲۵)برس گزر چکے ہیں۔ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ اس طویل زمانہ میں بائبل کے وجود پر دشمنوں کے ہاتھوں سے زخم لگے ہوں۔ اس کے بعض قیمتی اجزاء بائبل سے جدا ہوگئےہوں جو اَب کبھی موجود نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بائبل کے عاشقوں نے بائبل کے بعض خفیف زخموں کی مرہم پٹی کی ہو۔ امتداد (مدت) زمانہ سے وہ جزوِ بائبل خیا ل کر لی گئی ہو۔ لیکن زمانہ بائبل کے جنم سے تاحال بائبل ماننے والوں سے کبھی خالی نہیں پایا گیا۔
جنگِ عظیم میں جو دنیا کی افواج کے افسر ہاتھ ، ٹانگ ، بازو ، آنکھ کٹا کر بیکار ہو کر گھروں کو واپس آگئے تھے۔ اہلِ دُنیا نےان کی شخصیتوں کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ نہ ان کے اصلی و قابل ِ اعتبار ہونے پر سوال اُٹھایا۔ برعکس اس کے وہ زیادہ قابلِ عزت متصور(خیال کیا گیا) ہوئے۔ ایسے ہی بائبل مقدس بھی اپنے انگوں کو اور بعض اجزأ ضائع کرنے سے کم اصلی و قابل ِ اعتبار نہیں ہوگئی۔ بلکہ وہ اہلِ بصیرت کی نظر میں اور ابھی زیادہ اصلی و قابل ِ اعتبار ہوگئی ہے۔وہ تو کتابی دُنیا کی بلکہ مذہبی دُنیا کی فاتح کتاب ہے وہ تو اور بھی زیادہ عزت اور حرمت کی مستحق ہے۔
فصلِ چہارم
زمانہ ماضی سے بائبل اُم الکتاب ہے
جب سے بائبل نے بابرکت ملک کنعان میں جنم لیا ،وہ جب سے اپنے تابعین کے وسیلہ سے دُنیا کی اقوام کے مذاہب سے اور اُن کے ماننے والوں سے جنگ کرنے کو نکلی ہے۔ اس وقت سے غیر اسرائیلی اقوام بھی اپنے ساتھ اپنے اپنے مذاہب کی کتابوں کو اپنے ہمراہ لے آئی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تمام کتابیں ایسی ہی چلی آئی ہوں جیسی کہ اُن کے مصنفوں کے قلم سےلکھی گئی تھیں۔ ممکن ہے وہ کتابیں عوام کی نگاہ میں بائبل سے ہزار چند زیادہ عزت اور حرمت کی نظر سے دیکھی جاتی ہوں ،پر بغیر کسی قسم کے مبالغہ کے اُن کی بابت یہ ایک بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کتابیں اپنی اپنی جگہوں میں تنہا ہی چلی آئی ہیں۔ وہ کبھی اپنے ہی ماننے والوں کی عام ملکیت نہیں بنیں۔ ان سے اور کتابوں نے بہت کم جنم لیا۔ وہ ہر ایک قوم کے چوٹی کے انسانوں کی ملکیت بنی چلی آئی ہیں۔اُن سے کتابیں پیدا نہ ہو سکیں۔اگر کسی کتاب سے دو چار یا آٹھ دس کتابیں پیدا بھی ہوئیں تو وہ بھی اپنی ماں کی طرح بڑے بڑے لوگوں کی میراث بنی چلی آئیں۔ اُنہوں نے اپنی والدہ کی جگہ ہی ہتھیالی۔ جن سے عوام نے کبھی فیض نہ پایا۔
ایسی کتابوں میں ہم ہندوؤں کے ویدو ں کو، مہاتما بدھ کی کتابوں کو ، کانفوشس کی تحریرات کو ،ایرانیوں کی ژنداوست کو ، یونانیوں کے علم و فلسفہ کی کتابوں کو ، مصریوں کی تحریرات کو ، بابل کے لٹریچر کو شمار کر سکتے ہیں۔ یہ اقوام مہذب و شائستہ ہونے کے سوا نہایت قوی اور حکمران اقوام تھی۔ اُن کی کتابیں کُتب خیز کتابیں ثابت نہ ہوئیں اگر بائبل دنیا میں نکل کر ان کی مخالفت نہ کرتی تو نہ معلوم دنیا کی ان مہذب اقوام کی علمی یاد گاروں کا آج کیا حشر ہوتا؟
پر جو دنیا کی مہذب اقوام کی علمی یادگاروں کا حال ہے۔ اس کے مقابل عیسائیوں کی بائبل مقدس کا ہرگز وہ حال نہیں ہے۔برعکس اس کے کہ یہ بابرکت کتاب دنیا میں علم وفضل کے آفتاب روشن کرنے والی ثابت ہوئی۔ وہ جس ملک و قوم میں گئی اس میں اس نے بے انداز کتابیں پیدا کردکھائیں۔ اول تو اس کا اپنامتن ہی عوام کی ملکیت بنتا آیا۔ دوم اس متن کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوتے آئے۔ سوم مسیحی بائبل کی تفسیر و تشریح پر کتابیں لکھتے آئے اور اپنے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے آئے۔ چہارم بائبل کے مخالفین بائبل اور مسیحیت کی تردید میں کتابیں لکھتے آئے۔ یوں ہر ایک قوم کے لوگوں میں جن میں بائبل پہنچی وہاں علم و اِدراک کے اور شائستگی کے دریا بہا دئیے۔ بنی نوع انسان کی خفتہ قوا ءذہنی کو ایسا جگایا کہ وہ آج تک علم و ہنر میں ترقی کرتے چلے آئے ہیں اور آج بائبل کے خروج کے( ۱۹۲۵) برس۔۔بعد اہل دنیا کی کتابی میراث کو دیکھتے ہیں تو سرسری نگاہ سے یہ بات نظر آجاتی ہے کہ آج کے دن دنیابائبل اوربچے بچونگڑوں سےاٹی اور بھری پڑی ہے۔ علم وفضل کے آفتابوں نے جو بائبل مقدس نے تاریک دنیاپر چمکائے۔ اہل بصیرت کی آنکھیں ان کی روشنی کی چکا چوند سے نہیں کھلتی ہیں۔ اکیلی بائبل آج کے دن( ۸۳۵) زبانوں میں موجود ہے اور ہر ایک زبان میں اس کی لاکھوں جلدیں تیار ہیں۔آج کے دن بائبل زمین کے ہر ایک انسان کی کتاب ہے۔ جس قوم اور گھر میں یہ کتاب نہیں وہ سچ مچ اندھیرا ور بے چراغ ہے۔کیا اس بائبل کی بابت یہ بات مشہور کی جاتی ہے کہ یہ کتاب اصلی اور قابلِ اعتبار نہیں ہے ؟ جو اصحاب بائبل مقدس کی بابت ایسی باتیں مشہور کر کے ناموری پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کی ذہنی اور علمی حالت واقعی قابل رحم ہے۔
فصل پنجم
انیس سو پچیس برس کی علمی ترقی اور تہذیب و شائستگی بائبل مقدس کی پیدا کردہ ہے
زمانہ حاضرہ میں ہمارے رو برو ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی اپنی قوم کے گزشتہ زمانہ کے علمی فضائل کے ان کی تہذیب و شائستگی کی فضیلت کے راگ گاتے گاتے نہیں تھکتے۔ وہ اپنی قوم کے گذشتہ ست جگی زمانہ کو یاد کرتے کرتے وجد میں آجاتے ہیں۔ ہم بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ اقوام میں سے بعض کا زمانہ ماضی ان کی موجودہ تہذیب و شائستگی سے ان کے موجودہ علم و فضل سے بہتر تھا۔ ابتدا ہی سے ہر ایک قوم کسی نہ کسی بات میں ترقی کرتی آئی ہے۔لیکن اگر زمانہ حاضرہ کی اقوام کے زمانہ ماضی کے ست جگی (سچائی کا زما نہ)زمانہ کو دیکھا جائے۔ ان کے علم وفضل کا اور اُن کی تہذیب و شائستگی کا زمانہ حاضرہ کی تہذیب سے اور زمانہ حاضرہ کے علم وہنر سے مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک قوم کا زمانہ ماضی ہر ایک بات میں تاریکی و جہالت اور وحشت کا زمانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر ایک قوم کا ست جگی زمانہ بائبل مقدس کی پیدا کردہ تہذیب و شائستگی کے اور بائبل مقدس کے پیدا کردہ علم و فضل کے مقابل ایسی ہی حیثیت کا ثابت ہوسکتا ہے جیسی حیثیت چراغ کی آفتاب عالمتاب کے مقابل ہوتی ہے۔
آج سے پیشتر( ۱۹۲۵)برس کی دنیا کو اپنے روبرو کھڑا کر کے دیکھو ، اس وقت کی مہذب و شائستہ اقوام کی تہذیب اور شائستگی پر ان کے علم و فضل پر ، ان کے مذاہب و عقائد پر، ان کے نظم و نسق پر ، ان کے اپنے اور غیروں سے سلوک پر نظر غائر ڈال کر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائےگا کہ جس علم و فضل پر تہذیب و شائستگی پر تمہیں ناز ہے وہ کیا تھی؟ وہ بائبل مقدس کی پیدا کردہ تہذیب و شائستگی کے مقابل کیا حقیقت رکھتی تھی ؟ اگر اس زمانہ کی اقوام کے حالات غور سے پڑھو گے تو قوی امید ہے کہ اس زمانہ کے خیال سے تمہا را حال پریشان ہوتا رہے گا اور تم سمجھو گے خدا نے ہمیں( ۱۹۲۵)برس کے بعد بنی نوع انسان میں پیداکر کے کمال احسان کیا ہے۔
ہمارا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ بائبل نے( ۱۹۲۵)برس کے اندر اہل دنیا کو فرشتے بنا دیا۔ دنیا سے ظلم و شر کو بالکل ملیا میٹ کر دیا۔ پر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ بائبل مقدس نے زمانہ مذکورہ میں اہل دنیا کی ایسی اصلاح کردی ہے کہ اس زمانہ کےبنی آدم میں اعلیٰ انسانیت رونما ہو گئی۔ انسانی فطرت کو حیوانی گردو غبار سے بہت درجہ تک دھو ڈالا ہے۔ اسے ایسی راہ پر ڈال دیا ہے جو انسانی کمال کو جاتی ہے۔ اس عرصہ میں جن اقوام انسانی نے بائبل کو قبول کر لیا ہے۔ وہ اقوام دیگر اقوام انسانی کے مقابل اعلیٰ درجہ کی مہذب شائستہ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے ہی علم و ہنر میں اعلیٰ ترقی کی ہے۔ جنہوں نے بائبل کو قبول نہیں کیا۔ وہ گو آج تک زندہ ہیں پر نیم وحشی اقوام ہیں۔ بائبل کی پہچان بائبل کا اثر اور اس کا پھل ہے۔ اس میدا ن میں بائبل کے مقابل کوئی دوسری کتاب پیش نہیں کی جا سکتی۔کیا بائبل کی اصلیت اور اس کے اعتبار کے متعلق اس سے بھی بڑھ کر کوئی دلیل ہو سکتی ہے ، ہر گز نہیں۔
چھٹی فصل
زمانہ ماضی میں بائبل کی یادگار برکتیں
بائبل مقدس نے ملک کنعان سے خروج کرنےکے بعد اہل دنیاکو جو کچھ دیا اس کا اجمالاً ذکر تذکرہ پیشتر کیا گیا۔ لیکن ناظرین کرام کی تفہیم و سہولت کے لئے فصل ہذا میں اس کی تھوڑی سے تفصیل پیش کرتے ہیں کہ بائبل نے اہل دنیا کو خاص کر کونسی نعمتیں دی ہیں ان نعمتوں کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ نہیں کیا جاتا پر بعض نعمتوں کا ذکر بطورِ مثال پیش کیا جاتا ہے۔
بائبل نے اہل دنیا کو خدا کا تصور دیا ہے
زمانہ حاضرہ میں اہل بصیرت کی آگاہی میں دنیا کی قدیم اقوام کی تاریخ موجود ہے۔ ان کے مذاہب و عقائد موجود ہیں۔ ان کی مذہبی کتابیں موجود ہیں۔ ان کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ان میں ہزاروں خوبیاں کسی کو نظر آئیں تو آئیں۔ مگر ان میں واحد خدا کا وہ تصورمل نہیں سکتا جس کا ذکر بائبل کے اوراق میں ہوا ہے۔ بائبل میں کسی کو تحریری نقائص نظر آسکتے ہیں۔ مگر اس کے کُل صحائف میں ایک کمال یہ دکھائی دے سکتا ہے کہ اس کے کُل صحائف واحد خدا کے علم و عرفان سے اسکی عزت و عبادت اور اس کی تعظیم و تکریم سے پُر ہیں۔
آج سے( ۱۹۲۵) برس پیشتر کی دنیا پر نظر اٹھا کر دیکھو تو تمہیں اسرائیلوں سے باہر کی اقوام میں سینکڑوں نہیں ، ہزاروں نہیں ، لاکھوں نہیں کروڑوں خدا اور ان کے بیٹے بیٹیاں ، ان کے ناطے ناطیاں، ان کے جور و خصم معبو د ملیں گے۔ مذکرو مؤنث دیوی دیوتا ملیں گے۔ جن میں ہمیشہ جنگ و جدل رہتا ہے۔ بنی نوع انسان خداؤں کی نذرونیاز خیال کیے جاتے تھے۔ مگر بائبل مقدس نے یسوع مسیح کے ساتھ دنیامیں کنعان سے باہر نکل کر ان باطل معبودوں کی خدائی کے وہم سے دنیا کو نجات بخشی۔ اسے واحد خدا کا جلال دیا۔ جس کی طرف سے دنیا بالکل بے خبر تھی۔ مصر ، بابل ، فینکی ، کنعان کی قدیم اقوام عرب ، یونان ، روم ، ہندوستان ، ایران و چین کروڑ ہا کروڑ معبودوں کی وہمی خدا ئی کا غلام تھا۔پر واحد خدا کے اس علم و عرفان سے محروم تھا۔جس کا بیان بائبل میں آیا ہے۔ پس بائبل نے اہل دنیا کوواحد خدا کا علم دے کر اس پر وہ احسان کیا ہے جس کا معاوضہ تا قیامت اہل دنیا دے نہیں سکتے ہیں۔ جن باطل معبودوں کے خوف سے بنی آدم کایونہی خون خشک ہوا کرتا تھا۔ جن کی خوشنودی کے حصول کے لئے بندوں کو بھیڑ بکریو ں کی طرح قربان کیا جاتا تھا۔ جن کی عبادت میں ہزارہا مکروہات عمل میں لائی جاتی تھی۔ ان معبودوں کے بتوں کو بچوں کے کھلونے بنا دکھایا۔ ان کی قوت و طاقت کے وہمی افسانوں کو بنی آدم کے لئے بے سود کر دکھایا۔ عیسائیوں کی بائبل کی یہ پہلی نعمت دنیا کو ملی۔ جس کا انکار کوئی واقف کارشخص ہر گز نہیں کر سکتا۔
بائبل نے اہل دنیا کو اعلیٰ انسانی خصلت و سیرت کا انعام دیا ہے
بائبل کی ہر ایک کتاب اپنے اپنے زمانہ کے خدا پرستوں کی سوانح عمری کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ جس کے بعد ہم ہزاروں پشتوں کے علم و تجربہ کے مالک بن کر بھی کوئی شکل سے عیب و نقص ان سوانح عمریوں میں پا سکتے ہیں۔ پر اگر ہم بائبل کے خداپرستوں کی سوانح عمریوں کو ان کے زمانہ کے دیگر بنی آدم سے مقابلہ کر کے دیکھیں تو بائبل کے دو بزرگ جن کی سوانح عمریاں بائبل میں محفوظ ہیں۔ بلا شک فرشتے نظر آئیں گے۔ حضرت ابرہام و اضحاق و یعقوب اور حضرت یوسف و موسیٰ و ہارون ، حضرت یشوع وسموئیل و سمسون وغیرہ بزرگ ایسے ہی تھے۔ جو اپنے زمانہ میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ان کے سوا عہد جدید میں جس شخص کی سوانح عمری دنیا کے روبرو پیش کی گئی ہے ، جسے یسوع مسیح کہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے سے پیشتر کی دنیا میں اپنی مثال رکھتاتھا وہ نہ صرف اپنے زمانہ میں اپنا مثنٰی نہ رکھتا تھا بلکہ اس کا ثانی تاحال دنیا میں پیدا نہ کر سکی۔ اس کی انسانی شخصیت ایسی عجیب و غریب تھی کہ اہل دنیا اسے خدا یقین کرتے ہوئے اپنی نیک بختی کا یقین کرتے آئےاور ابھی یقین کر رہے ہیں۔ پس بائبل مقدس دنیا میں نہ صرف واحد خدا کااعتقادلے کر ہی نکلی بلکہ ایک واحد انسان کی اعلیٰ کامل خصلت و سیرت لے کر باہر نکلی ، جو خدا پرستی اور انسانیت میں اپنی آپ ہی مثال تھا اور آج تک آپ ہی اپنی مثال ہے۔
بائبل کی اس بے نظیر خصلت و سیرت نے ان اقوام میں اعلیٰ خصلت و سیرت پیدا کی جو فی زمانہ بائبل کو مانتی اور جانتی آئی ہیں۔بائبل کے مسیح کی خصلت و سیرت نے مسیحی افراد اور مسیحی اقوام کی نہایت گندی اور ناپاک خصلتوں کو دھو ڈالا، جو انہوں نے اپنے بت پرست آبا ءسے وراثت میں پائی تھیں۔ ان میں ایسے لوگ فی زمانہ پیدا کر دئیے جوبائبل مقدس کے بزرگوں میں سے کسی نہ کسی کی خصلت و سیرت کی نمائش ہیں۔
بائبل مقدس نے دنیا کی اقوام کو ایک نسل ہونے کا خیال دیا
جس زمانہ میں بائبل کے صحائف لکھے گئے اس زمانہ سے لے کر بنی انسان میں اپنی بابت ایسے بے ہودہ خیال چلے آئے ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ تو بھی ناظرین کرام کی تسلی کے لئے اس قدرکہنا پڑتاہے کہ تمام دنیا میں بائبل سے باہر یہ خیال ناپید تھا کہ تمام بنی آدم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ غیر اسرائیلی اقوام مختلف اقوام کومختلف چشموں سے مان کر اپنی اور دوسری اقوام کے بڑائی چھُٹائی کا اندازہ لگایا کرتی تھیں۔ یہ خیال بُت پرست اقوام میں ایسی جڑ پکڑ گیا تھا کہ ہمارے زمانہ میں ہندو دھرم و آریہ دھرم سے اب تک ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب سے بائبل مقدس کنعان سے باہر نکلی اس وقت سے اقوام دہر میں یہ اعتقاد پھیلا کہ بنی نوع انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ وہ آپس میں بھائی ہیں۔ وہ ایک ہی گوشت و خون ہیں۔ بائبل کی اس عظیم تعلیم نے کم از کم ہر ایک ملک کے باشندوں کو باہم بھائی بنا کر ایک قوم بنا دیا۔ ان کے اونچ نیچ کو ہم قوم بنا دیا۔ مختلف مسیحی اور غیر مسیحی اقوام میں مساوات کا رشتہ قائم کر دیا۔ جس سے زمانہ حال کی دنیا فیض اٹھا رہی ہے۔
ساتویں فصل
بائبل مقدس نے انسانوں میں مرد وعورت کے مساوی حقوق قائم کیے
جب تک بائبل مقدس ملک کنعان میں مقید تھی اس وقت دنیا کے ممالک انسانی آبادی میں مرد بھی مردوں کی نظر میں مساوات کے حقدار خیال نہ کیے جاتے تھے۔ بڑے بڑے لوگ تو چھوٹے اورماتحت لوگوں کے معبو د ہوا کرتے تھے۔ تمام دنیا پر قیاصرہ (قیصر کی جمع)پرستی اور بادشاہ پرستی جاری تھی۔ امیر کبیر دیوی دیوتاؤں میں شمار ہوتے تھے۔ کمزورو ماتحت اقوام ،ان کا مال و متاع ، ان کے مرد اور عورتیں خداوندانِ نعمت کی زرخیز ملکیت سمجھی جاتی تھیں۔ وہ اپنے زمینی معبودوں کے آگے ایسی ہی بے مقدور تھیں جیسی ہماری بھیڑ بکریاں ہمارے مقابل بے مقدور ہیں۔ غریب و ماتحت اقوام خداؤں کی زمینی نسل کی گویا خوراک تھیں۔مگر بائبل مقدس کی قدرت نے آسمان نشین قیاصر کو اور خاک نشین ماتحت اقوام کو ایک ہی پلیٹ فار م پر کھڑا کر کے دکھا دیا۔ بادشاہوں اور قیصرو ں کو ، امیر و غریب کو ، حاکم و محکوم کو انسا ن بنا دکھایا۔ آج کے دن کے بادشاہ اپنی ماتحت اقوام کے خادم بن رہے ہیں۔ ہر ایک بشر کی جان کی ایک ہی قیمت اور اس کاایک معاوضہ مقرر ہے۔
زمانہ قدیم کی اقوام میں اور زمانہ بعد کی غیر مسیحی اقوام میں عورت کو مرد کی ہم رتبہ خیال نہ کیا جاتا تھا۔ وہ ایک ایسا مخلوق خیال کی جاتی تھی جو مرد کی عیش کے اسباب میں صرف اس کی عیش کا ایک اعلیٰ ذریعہ خیال کی جاتی تھی۔اس پر اعتبار کرنا اسکی عصمت و نیک کرداری پر بھروسہ کرنا مرد کی حماقت اور اس کے زن مرید ہونے کا ثبوت خیال کیا جاتا تھا۔مگر بائبل مقدس نے صنف نازک کی وہ عزت و حرمت کی کہ جس کی مثال دشوار ہے۔ عورت کو مرد کے برابر حقوق دے کر ہی نے آج کی مہذب اقوام کی عزت و آبرو کو بنا یاہے۔
بائبل نے اہل ِ دنیا کے عورت مرد کے درست رشتے بندھوائے
بائبل نے اپنی تصنیف کے زمانہ سے آج کے دن تک اقوام دہرکو عورت مرد کے جائز و مناسب رشتے دئیے ہیں۔ یہاں پر نہ تو اس بات کی گنجائش ہے کہ ہم غیر یہودی و غیر مسیحی اقوام کے رشتوں کو بیا ن کریں نہ ان کی مثالیں پیش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان اقوام میں عورت مرد کے رشتے اور تعلقات نہایت مکروہ اور گھناؤنے ہوا کرتے تھے۔جن کی یادگاریں اب تک بعض اقوام میں پائی جاتی ہیں۔ ہم ان رشتوں کا نام تک لکھنا نا مناسب خیال نہیں کرتے ہیں۔ تاہم بطور ثبوت اس قدر اشارہ دے سکتے ہیں کہ بائبل کے ملک کنعان سے باہر آنے کے زمانہ میں صرف ملک ہند میں عورت مرد کے آٹھ قسم کے رشتے تھے۔ جن کو آٹھ قسم کے بواہ(شادی،بیاہ) کہا جاتا ہے۔ ملک عرب میں بھی آٹھ قسم کے نکاح ہوا کرتے تھے۔ یونان ور وم کی حکومتوں میں عورت مرد کے رشتوں کی اور بھی مٹی خراب تھی۔ دیگر غیر مہذب اقوام کا کیا ذکر کرنا ہے۔ زمانہ حال میں اب تک ایسی قوم موجود ہے جسکے حکمران سگی بہنوں سے شادی کرتے ہیں۔ سیلون اور ہند کے پہاڑوں میں اب تک ایسے لوگ موجود ہیں جن کی عورتیں ایک سے زائدمرد رکھتی ہیں۔
ان امثال سے ناظرین کو یہ بات دکھانا مقصود ہے کہ بائبل مقدس نے ملک کنعان سے باہر نکل کر دنیا کی اقوام کو عورت مرد کے بہتر رشتے باندھنے کا عالمگیر سبق پڑھایا۔ جو اقوام مسیحی ہو گئیں ان میں عورت مردکے رشتے تو پاکیزہ ہونے ہی تھے۔ لیکن جو غیر مسیحی رہ گئیں اُن کو بھی بائبل نے مجبور کیا کہ وہ عورت مرد کے شائستہ رشتے قائم کریں۔ اس بات میں تل برابرشبہ نہیں کہ زمانہ حال کی زندہ اقوام کے صحیح النسب (نسل سے ٹھیک)ہونے میں صرف بائبل ہی رہنما بنی چلی آئی ہے ۔ ان کے حسب ونسب کو درست کرنے میں صرف بائبل نے ہی مدد فرمائی۔
بائبل مقدس اقوام دہر کو اعلیٰ اخلاق انسانی سکھاتی آئی ہے
ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ دنیا کی اقوام میں ایسے انسان ضرور پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں اپنے معاصرین (ہم عصر لوگ)کو اخلاق انسانی پر اچھے اچھے سبق پڑھائے اور ان کی تعلیم کو ان کے شاگردوں نے ضائع ہونے نہ دیا۔بلکہ بصورت تحریر انکو محفوظ رکھ لیا۔ ان کی تحریرات ہمارے زمانہ تک پہنچ گئیں۔ ایسی تحریرات میں روم و شام کے مشاہیر کی تحریرات کو بطورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ بدھ کی تصنیفات کا ذکر کیِا جا سکتا ہے۔ کنفوشش کی کتاب کو پیش کیِا جا سکتا ہے۔ جن میں علم الاخلاق پر اچھے سبق مل سکتے ہیں۔ پر دریافت طلب تو یہ معاملہ ہے کہ غیر یہودی اور غیر مسیحی اقوام کی کتابوں نے فی زمانہ دنیا کی دیگر اقوام کو کیاسکھایا۔وہ اقوام جو اپنی کتابوں کو اپنے ہمراہ لئے آئیں انہوں نے دنیا کے اخلاق کو سدھارنےکے لئے کیا کیِا ؟ کنفو شش کی تصنیفات چین سے کبھی باہر نہ نکلی تھیں۔ نہ ان کو چینی زبان سے کسی دوسری زبان کا لباس پہنایا گیا۔ نہ خود اہل چین میں عوام تک پہنچائی گئیں۔ وہ ابتدا سے تاحال بڑے لوگوں کی ملکیت بنی چلی آرہی ہیں۔
مہاتما بدھ کی تصنیفات کا بھی یہی حال چلا آیا۔ بدھ لوگوں نے ہندوؤں کے ویدوں سے جو سلوک کیِا وہ بیان کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کی تصنیفات پالی زبان سے کبھی باہر نہ لائی گئیں۔ بدھ دھرم کے ماننے والوں کی بھی پورے طور سے ملکیت نہ بنیں۔ دنیا کی اقوام نے بدھ کی تصنیفات سے کچھ نہ سیکھا۔
ہندوؤں کی مذہبی اور اخلاقی کتابیں آج تک ہندوصاحبان کی عام ملکیت نہیں بنی ہیں۔ وہ سنسکرت زبان میں لکھی گئیں جسے خود ہندو بھول گئے۔ ان کتابوں کو نہ دنیا نے کبھی سیکھا نہ وہ کتابیں ہند سےباہر گئیں۔ ان کی ہستی معرضِ خطر میں چلی آئی۔ اگر یورپ کے عیسائی ان کتابوں کو نہ بچاتے تو نہ معلوم آج کے دن ان کا کیاحشر ہوتا۔
یونان و روم کے مشاہیر کی تصنیفات کو بھی عیسائیوں نے بچا لیا وہ بھی یونانی اور رومی اقوام تک ہی محدود رہیں۔ بائبل کے دنیا میں نکلنے سے پیشتر جوکچھ مشاہیر یونان و روم نے اہل دنیا کو اخلاق انسانی پر سبق پڑھائے وہ یونان و روم کی تاریخ سے عیاں ہیں۔ جن کا ذکر اس اختصار میں جگہ نہیں پا سکتا۔
غرض یہ کہ آج کل مسیحی او ر غیر مسیحی دنیا میں یہ بات کہنے والے تو بہت مل سکتے ہیں کہ بائبل کے سوا دنیا کی غیر مسیحی اقوام میں ایسی تحریرات مل سکتی ہیں جن کا اخلاق بائبل کے اخلاق سے کم نہیں ہے۔ پر بائبل کا کوئی مخالف نہیں جو یہ بات ثابت کر سکتا ہو کہ دنیا کے اخلاقی معلم بائبل کے سوا بھی کوئی دوسرا تھا۔ جس نے اپنے ملک و قوم سے باہر جا کر اپنی تصنیفات سے غیروں کو اعلیٰ اخلاقِ انسانی پر وہ سبق پڑھائے جو بائبل نے پڑھائے ہیں۔
اس کے سوا بائبل کے مخالفوں کو بائبل کے سوا دنیا کی مذہبی کتابوں کے اخلاق کا موازنہ کرنے کے لئے ان اقوام کے اخلاق پر نظر ڈالنا چاہئے۔ جن کی ملکیت میں و ہ کتابیں چلی آئی ہیں۔ اُن کتابوں کو ماننے والی اقوام میں ذات پات کی لعنت موجود ہے۔ بت پرستی اپنی تمام لعنتوں سمیت موجود ہے۔ دہریت موجود ہے۔ ان میں کیا کچھ موجود نہیں جس نے ان کتابوں کو ماننےوالی اقوام کو بد اخلاق نہیں بنایا۔ہندوستان میں آج تک( ۷) کروڑانسان ہندوستانی اخلاق سوزی کی زندہ مثال ہیں۔ جبکہ غیر بائبل کُتب کو ماننے والی اقوام کے گھر میں اخلاق سوزی کے ایسے نمونے موجود ہیں توان سے غیر اقوام کو جو فائدہ پہنچنا تھا اس کا اندازہ اس سےکیِا جا سکتاہے۔ پس یہ کہنا کہ بائبل جیسا اخلاق دنیا کی دیگر کُتب میں بھی موجود ہے اگر بالکل یہ لغو نہیں تو یہ بات تو ضرور حق ہے ،کہ دنیاکی دیگر کُتب ِ مذہبی کے اخلاق نے کسی بھی قوم کو با خلق قوم نہیں بنایا بلکہ ان کُتب نے ان کو نیک و شائستہ بنانے میں ہرگز وہ کام نہیں کیا جو بائبل فی زمانہ کرتی آئی ہے۔
زمانہ حاضرہ کی اقوام کے افراد آج کل منہ پھاڑ پھاڑ کر بائبل کی اخلاقی تعلیم پر معترض تو ہیں۔ مضحکہ خیزیاں بھی کرتے ہیں۔ اپنی قوم اور اسکے ماضی کے زمانہ کو ست جگی زمانہ بتاتے ہیں اپنی آبائی کتابوں کی تعریفوں میں ان کے گلے بھی خشک ہوتے رہتے ہیں۔ پر زمانہ حاضر ہ کی اقوام کا کون سا فرد ہے جو دنیا کو یہ بات ثابت کر کے دکھا سکتا ہے کہ اس کی آبائی قوم کی گزشتہ پُشتیں بائبل کی اخلاقی تعلیم سے فیض نہیں اُٹھا چکی ہیں۔ اپنے گندے اور گھناؤنے اخلاق کی اصلاح بائبل سے نہیں کرا چکی ہیں ؟ بائبل (۱۹۲۶) برس سے دنیا کی اقوام کی بد اخلاقیوں کی اصلاح کرتی آئی ہے۔ اس میدا ن میں دنیا کی کسی قوم کے کسی بزرگ کی تصنیف کو بائبل کی برابری کا فخر حاصل نہیں ہے۔ آج کے دن بائبل( ۸۳۵)زبانوں میں موجود ہو کر اقوام ِدہر کی بد اخلاقیوں کی اصلاح کر رہی ہے۔ بائبل کے مخالفوں اگر بائبل کے اخلاق پر اعتراض ہوتا ہے کہ تو وہ بائبل کے زمانہ تصنیف میں کھڑے ہو کر اس کے اخلاق پر اعتراض اُٹھائیں۔ تب اس کے اخلا ق کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔
بائبل مقدس نے اہلِ دنیا کو اعلیٰ مذہبی اصول و خیال دئیے
جس وقت و زمانہ میں بائبل ملکِ کنعان سے باہر نکلی لاریب اُسی زمانہ میں ہر ملک و قوم ایک قسم کے مذہب کی ضرور ماننے والی تھی۔ گو مختلف اقوام و ممالک میں وہ مذہب مختلف صورت رکھتا تھا۔ پر دراصل وہ ایک ہی مذہب کی دوسری صورت تھا۔وہ عالم گیر مذہب مصری تھا۔ جس نے بعد کے زمانہ میں بابلی مذہب کی شکل اختیار کر لی تھی۔ننوائی(نینوہ) اور فینکی اقوام کو اپنا مطیع بنالیا تھا۔یونانی ، ایرانی ،رومی مذاہب کا چولا دھارن کر لیا تھا۔ عربی مسابیت و حنفیت (سُنی مسلمانوں کی وہ جماعت جو امام ابو حنیفہ کی پیرو ہے۔)کی صورت اختیار کر لی تھی۔ہندو دھرم کا جامہ پہن لیا تھا۔ ان مہذب اقوام کے سوا وحشی اقوام کو اپنا مطیع بنا رکھا تھا۔ اس مذہب و دھرم کا نام آج کل بت پرستی اور وہم پرستی رکھا جاتا ہے۔ اس عالم گیر بت پرستی کے اصول وعقائدایسے مکروہ تھے ان کا ذکر کرنا بھی درست نہیں ہے
بائبل دنیا کے عالمگیر مذہب کے مقابلہ میں مسیحیت کے ساتھ نکلی( ۱۹۲۶)برس کے عرصہ میں اس نے اہلِ دنیا کے عالم گیر مذاہب کو، اس کی قوت و طاقت کواور اس کی باطل پرستی کو پاش پاش کر ڈالا۔ بائبل و مسیحیت کی مخالف اقوام اپنی تمام طاقت سے بائبل و مسیحیت کا مقابلہ کرنے کے بعدہار گئیں۔ وہ اپنے آبائی مذہب کو بچا نہ سکیں ۔ انہوں نے آبائی مذاہب کو ترک کر کے اور مسیحیت کی بائبل کی اطاعت کر کے اپنی جانیں بچائیں۔ جو اقوام آبائی مذاہب پر قائم رہنے کا اصرار کرتی رہیں وہ بھی آخر کار خالص آبائی مذاہب میں بائبل و مسیحیت کے اعلیٰ اصو ل و خیالات داخل کر کے اسے ہمارے زمانہ میں مشکل سے پہنچا سکی ہیں۔ بائبل و مسیحیت کے مقابل وہ اقوام بھی آبائی مذاہب کو اور اس کی اصل و خالص صورت میں قائم نہ رکھ سکیں۔ اس وجہ سے ہمارے زمانہ کی غیر مسیحی اقوام کے مذاہب اگر زندہ ہیں تو وہ اپنی آبائی و اصلی خوبی کے سبب سے زندہ نہیں ہیں۔ وہ تو مدت مدید سے مر چکے ہیں۔اُن کی زندگی کے باعث وہ اصول اور خیالات جو اُن کے بانیوں نے بائبل و مسیحیت سے لے کر اپنے مُردہ مذاہب پر چسپاں کر دئیےہیں۔ آج کے دن کوئی قوم ایسی نہیں جو اپنے مذہب کو وفاداری سے ماننے والی ہو جو(۱۹۲۶)برس پیشتر اس کے آباؤ اجداد کا مذہب تھا۔ زمانہ حاضرہ کی غیر مسیحی اقوام کے تمام مذاہب بائبل و مسیحیت کے خیالا ت و تصورات کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ جن کی عمر بہت نہیں ہو سکتی ہے۔
بائبل نے اہلِ دُنیا کو علم کی نعمت دی
ہمارا زمانہ علم و فضل کا زمانہ ہے۔ آفتاب ِعلم سمت الراس (بلندی کی انتہا)پر ہے۔ اُس کی ضیا باریوں(روشنی پھیلانے) سے بہت سے لوگ اندھے ہو گئے ہیں۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اہلِ دنیا کو جو روشنی حاصل ہوئی ہےیہ ان لوگوں کے قواءذہنی کی اچانک اور معجزانہ ترقی سے ہوئی ہے۔جو علمی زمانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ ایوولئیوشن(انکشاف) کے نامعلوم اصول کی بدولت ہوئی ہے۔جسے ڈارون نے دریافت کیِا تھا۔ ہم ایسی ایسی باتیں سن کر انسان کی حق کشی پر افسوس کرتے ہیں کہ وہ کیسی جلدی معدن (کان،کھان،وہ جگہ زمین کھود کر دھاتیں اور کوئلہ وغیرہ نکالیں۔)علم و فضل کو بھول گئے۔ جس نے اُن کے آباؤ اجداد کی سینکڑوں پُشتوں کی جہالت و لاعلمی کو اپنے علم و اِدراک کی خوبی سے روشن کیا تھا۔ اُن کی حیوانی جہالت کو اپنے علم و عرفان کے دفاتر سے دُور کیا تھا۔
ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ آج سے( ۱۹۲۶)برس پیشتر دنیا کی بعض اقوام کے پاس ضرور کچھ نہ کچھ علمی روشنی کے چرا غ تھے۔جنکی روشنی میں اسی زمانہ کے مشاہیر زندہ رہے۔ مگر ان چراغوں کی روشنی بادشاہوں کے محلوں اور اکابرینِ زمانہ کے گھروں سے باہر کبھی کسی نے چمکتی نہ دیکھی تھی۔ زمین و آسمان کی مخلوقات اہلِ دنیا کی نظر میں دیوی دیوتا یقین کی جاتی تھی۔ اُن کی خدائی پر شک کرنا موت خریدنا تھا۔ ایسے حال میں انسانی دماغ و دل میں علم سے جو اُنس و محبت ہو سکتی ہے وہ ہرگز بیان کی محتاج نہیں ہے ۔ بنی آدم کےخیالات اور اُن کے دماغ و دہشت کی تاریک قوت سے مقید تھے۔ اُن کا علم اپنے دیوی دیوتاؤں کے وہمی کارناموں تک محدود تھا۔ یا وہ بالکل دہرئیے اور مُنکر ِ خُدا ہوا کرتے تھے۔
مگر بائبل مقدس نے سب سےپہلے اہلِ دنیا کے دلوں سے ان کے دیوی دیوتاؤں کے خوف دُور کیے۔ ان دیوی دیوتاؤں کو خدا کی مخلوقات بنا کر دکھایا اور ان کی بابت انہیں یہ سبق پڑھایا کہ یہ خدا کے کام ہیں۔ ان پر سوچو، انہیں سمجھو ، ان کی خوبی کو پہچانو اور اس صانع(کاریگر) حقیقی کا شکریہ ادا کرو۔ بائبل کی ایسی ایسی تعلیم نے انسان کی مقید قواء ذہنی اور معطل قواء ذہنی کو نہ صرف دہشت کے چنگل سے رہائی بخشی بلکہ اُن کے کام کرنے کا ان پر نیا میدان کھول دیا۔ انسان کی معطل و بے کار ذہنی قوتیں بیدار کر دی گئیں۔ انسان میں تلاش و جستجو کا مادہ پیدا کر دیا۔ بائبل پڑھنے والے بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے میں مصروف ہوئے۔ اس کی تشریح و توضیح کرنے لگے۔ ذہنِ انسانی اُس کی قواء میں بائبل نے کچھ ایسی تحریک و بیداری پیدا کر دی کہ آئے دن اس کی معلومات میں ترقی ہونے لگی۔ حتیٰ کہ بائبل کے وسیلے سے ذہن انسانی علم و معلومات کے اس مرتبہ پر پہنچ گیا جس مرتبہ پر وہ آج کے دن پایا جاتا ہے۔ پس زمانہ حاضرہ کی علمی دولت اہل ِ دنیا کوکسی ایوولئیوشن کےاصول سے نہیں ملی۔ یہ صرف بائبل مقدس کا انعام ہے جو اُن اقوام کے لئے خدا نے مقرر کیا تھا۔ جو بائبل و مسیحیت کو ماننے والی تھیں۔غیر مسیحی اقوام کے علمی وسائل بنی آدم کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ وہ آج کے دن آفتاب ِ صداقت کے مقابل چراغ ِ سحری (چند دن کا مہمان)ہیں۔ اگر کوئی ان پر ناز کرتا ہو کرتا رہے یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔
مزید برآں
بائبل نے( ۱۹۲۶)برس کے گزشتہ زمانہ میں اہلِ دنیا کو اعلیٰ خصلت و سیرت کا لباس پہنایا۔ اعلیٰ تہذیب و شائستگی کے بلند مراتب پہ پہنچایا۔ اقوام ِ دہر کو اپنے اپنے ممالک میں بھائی چارا اور مساوا ت کے اصول سے باندھا۔ان کو اعلیٰ حکمران دئیے جو محض انسان بن کر اقوام کی خدمت کرتے آئے۔ ان کی خدائی کے دعویٰ کو خاک میں ملایا۔اعلیٰ قوانین ملکی بنانے میں بائبل نے اقوام کی رہنمائی کی۔اعلیٰ خیرات و خود انکاری پر اقوام ِ دہر کو آمادہ و تیار کیا۔ غلامی کی لعنت مٹا کر غریب غربا کو انسانی حقوق دلوائے،مذہبی و اعتقادی آزادی بنی آدم کو بائبل نے دلوائی۔ زما نہ ماضی میں بائبل و مسیحیت نے کیا کچھ نہیں کیِا جو بنی آدم کی فلاح و بہبودی سے متعلق ہے ؟ ہاں بائبل مقدس نے سب کچھ کیِا ۔ مگر ہم بخوفِ طوالت اس کا بیان نہیں کر سکتے ہیں۔ زمانہ حاضرہ کی میراث انسانی میں جو انسان کی بہتری و بہبودی کا جزو اعظم خیال کی جاسکتی ہے اس کا کم از کم( ۷۵ )فیصد بائبل مقدس اور اس کے دلداروں کا پیداکردہ ہے۔کیا اسی بائبل کی بابت مخالفین گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچا رہے ہیں کہ یہ بائبل اصلی اور قابلِ اعتبار نہیں ہے۔کیا اسی بائبل کی بابت کہا جاتا ہے کہ بائبل تحریف ہو گئی ہے ؟کاشکہ بائبل کے دشمن دنیا کو کوئی دوسری کتاب دکھا سکتے جو بائبل کی نسبت زیادہ اصلی اور قابلِ اعتبار و غیر متغیر ہوتی۔
آٹھویں فصل
زمانہ حاضرہ میں بائبل
ہم نہایت اختصار کے ساتھ بائبل کوزمانہ ماضی میں دکھا چکے۔ اب تھوڑا ذکر اس کا زمانہ حاضرہ میں کرتے ہیں۔ بائبل بافضل خدا( ۸۲۵)زبانوں میں موجود ہے کم از کم اسے (۸۲۵ )زبانیں بولنے والی اقوام ضرور پڑھتی اور سمجھتی ہیں۔ ان اقوام کےلئے بائبل مقدس زمانہ حاضرہ کی اقوام دہر کے زمانہ ماضی کو۔
روشن و منور کرنے والا اکیلا رہبر ہے
دنیا کی مہذب اقوام کی موجودہ پُشتیں بلا شک اپنی ملکیت میں کوئی نہ کوئی ایسی کتاب رکھتی ہیں جن کو وہ اپنی کتاب کہتی ہیں۔ ان میں اس قوم کے آباؤ اجداد کے قصص و حکایات پائے جاتے ہیں۔ جس قوم کی وہ کتاب ہے۔اُن میں سے بعض کتابوں کی بابت بلند آہنگی سے دعوے کیے جاتےہیں کہ وہ ہماری دنیا کے پہلے انسانوں کو ملی تھیں۔ لیکن جب ان کتابوں کو پڑھ کر دیکھا جاتا ہے تو ان میں اسی قوم کے ابتدائی حالات کا کسی کو کچھ پتہ نہیں لگتا۔ جو قوم اسے مانتی آئی ہے۔ بائبل کو چھوڑ کر مہذب اقوام کی موجودہ پُشت کی کوئی کتاب نہیں جو تاریخ انسانی کی زمانہ ماضی کی تاریکی میں کسی کی رہبر و رہنما ہو سکے۔ اس میدان میں صرف بائبل ہی ایک کتاب ہے جو تاریخ انسانی کی گزشتہ فروگزاشت میں رہبر کامل کا کام دے سکتی ہے۔
ماہرین تاریخ کے علم وآگاہی سے بنی نوع انسان کی کئی ایک عظیم الشان اقوام کی ہستی جاتی رہی تھی۔وہ اقوام مصر و بابل ،نینوہ و فینکی ، کنعان کی سات قومیں اور قدیم عرب اور ایران و آریہ وغیرہ تھیں۔ تاریخ انسانی کو بنانے والے صاحبان نے ان اقوام کی ابتداو عروج و زوال کی فراموش شدہ حکایات دنیا کی کسی مذہبی کتاب کی رہبری سے حاصل نہیں کیں ، پر صرف بائبل مقدس کی روشنی سےدریافت فرمائیں۔ آج کے دن اقوام ِ مذکوراور ان کی مُردہ زبانیں ،ان کا فراموش شدہ لٹریچر ، ان کے مذاہب و عقائد بائبل کے وسیلے سے ایسے زندہ ہوگئے کہ جیسے زمانہ حاضرہ کی اقوام کے۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ بائبل کی صداقت قائل کن طریق سے پایہ صداقت کو پہنچ چکی ہے۔ جس کے ثبوت میں مسیحی لائبریریوں میں دفتروں کے دفتر جمع ہو چکے ہیں۔ پس ہمارا بائبل کو زمانہ ماضی کا اکیلا رہبر قرار دینا ہرگز مبالغہ نہیں ۔ نہ بائبل کی نے جا مدح سرائی ہے۔ بلکہ ایک حقیقت معلومہ کا اظہار ہے۔ جس کے ثبوت ہمارے پاس موجو دہیں۔
بائبل زمانہ حاضر کی رہنما ہے
بائبل نہ صرف زمانہ ماضی کےتاریک زمانوں میں بنی نوع انسان کی رہبر ہے بلکہ وہ زمانہ حاضر میں بنی نوع انسان کی رہنما ہے بلکہ سب سے زیادہ رہنما ہے۔ ہر ملک و قوم زبان میں رہنما ہے۔ بائبل کی رہنمائی کا دنیا کی کسی قوم کی کتاب کو مرتبہ حاصل نہیں ہے۔دنیا کی کسی دوسری قوم کی کتاب کو بائبل کے برابررہبرو رہنما ہونے کا فخرحاصل نہیں۔ نہ فخر حاصل ہوگا۔ آج کے دن دنیا کی جملہ مہذب اقوام بائبل کی روشنی میں زندہ ہیں۔ ہر ایک قوم کا خواندہ بشر بائبل کی روشنی سے روشن ہے۔ اگر زمانہ حاضرہ کی اقوام کی مذہبی کتابیں بھی ان میں سے بعض کو کچھ روشنی دیتی ہیں جو انہیں مانتے ہیں تو وہ بھی مثلِ چراغ کی روشنی کے ہیں۔مگر بائبل مقدس زمین پر آفتاب ِ صداقت بن کر چمک رہی ہے۔ ہر ملک و قوم میں اسے اپنی جان و مال تک دے کر لوگ خرید خرید کرپڑھ رہے ہیں۔ بائبل سچ مچ زمانہ حاضرہ کی رہنما ہے۔ لوگ اسکی رہنمائی پر فدا ہیں۔ اگر آج کے دن اقوام دہرکے افراد کو مذہبی آزادی مل جائےاور بائبل اور دیگر کتب مذہبی میں سے بہتر کتاب انتخاب کرنے کی اجازت ہو جائے ، اگر بائبل پسندوں پر سےجبر و تعدی (حد سے زیادہ، ظلم)موقوف ہونے کا اعلان ہو جائے تو آج ہی ان کتب مذہبی کے دوست کروڑوں کے شمار سے سینکڑوں پر آجائیں گے، جنہیں دنیا بائبل کے مقابل پیش کر کے ان کی جبراً تابعداری کرا رہی ہے اور بائبل پسندوں کا شمار لاکھوں سے کروڑوں پر پہنچ جائےگا۔ پر فی الحال مخالفین بائبل کا مذہبی جبر بائبل پسندوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اعلانیہ بائبل کو اپنا رہبر ظاہر کرنے میں تا مل فرمائیں۔پر
’’وقت آتا ہے کہ پھر یہ نہ زمانہ ہوگا۔‘‘
بائبل اور زمانہ حاضرہ کے مخالفین
ہم پھر کہتے ہیں کہ بائبل مقدس ہمارے زمانہ میں موجود ہے۔ وہ اپنی ہستی کی آپ شاہد وگواہ ہے۔ زمانہ ماضی میں اہل دنیا کی کایا پلٹنے والی کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ انیس سو چھبیس(۱۹۲۶) برس سے بنی آدم کے کثیر گروہ کے دلوں پر حکمرانی کرتی آئی ہے۔ اس وقت اس کی عزت وحرمت کا سکہ کم از کم پچاس کروڑ بنی آدم کے دلوں پر جما ہوا ہے۔ وہ( ۸۳۵) زبانوں میں پڑھی جارہی ہے۔ چھاپہ خانو ں میں جس قدر بائبل چھپ رہی ہے اس قدر دنیا کی کوئی کتاب نہیں چھپتی۔ ریل گاڑیوں ،جہازوں پر جس قدر بائبل سفر کر رہی ہے اس کا کروڑ واں حصہ کسی دوسری کتاب کا سفر نہیں کرتا۔دنیا میں جس قدر بائبل کی بکری ہے ،کسی دوسری کتاب کو نصیب نہیں ہے۔ دنیا میں جس قدر بائبل کے پڑھنے والے مل سکتے ہیں، اُس کا کروڑواں حصہ کسی دوسری کتاب کو نہیں ملا۔ دنیا میں جس قدر مخالفت بائبل کی ہو رہی ہے کسی کتاب کی نہیں ہورہی۔ غرض یہ کہ زمانہ حاضر ہ میں ہر ایک مذہب اور ہر ایک قوم بائبل سے برسر جنگ ہے۔ ایسی عالم گیر جنگ بائبل نے گزشتہ زمانہ میں کبھی نہیں لڑا۔ نام نہاد عیسا ئی اور غیرعیسائی اقوام اپنی تمام قوت و طاقت سمیت بائبل پر حملہ آور ہیں۔ مگر بائبل اس زمانہ میں بھی ہر ایک قوم و مذہب کے مقابل قائم و ثابت ہے۔ اس کی فتوحات گو ظاہر میں بڑے بڑے انقلاب پیدا کرنا نہیں ہیں ، پر اقوام کو اندر ہی اندر کھاتی جار ہی ہے۔ان کے آبائی مذاہب کی قوت و طاقت کو اندر اندر ہی فنا کر رہی ہے۔ دنیا کی غیر مسیحی اقوام اپنے آبائی مذاہب اور ان کے عقائد و رسوم کی بائبل کے مقابل حفاظت کرنا گناہ سمجھتی ہیں۔ ہند کے سناتن دھرم کو ماننےوا لے اس باغی اور سرکش ہو کر آریہ ہیں۔ پھر وہ بجاے سناتن دھرم کی حفاظت و تائید کرنے کے خود اس کی تکذیب (جھٹلانا،جھوٹ کاالزام دینا)پر پل رہے ہیں۔آج سے پچاس برس پیشتر کے اسلام کی محافظت کرنے والے بائبل کے مقابل کتنے مل سکتے ہیں۔ اب تو اہلِ اسلام وہابی ، نیچری ، اہل قرآن اور احمدی وغیرہ ہو کر خود اپنے ہاتھوں سے آبائی اسلام پر گولہ باری کرتے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ بائبل نے غیر مسیحی اقوام کو اپنے آبائی مذاہب عقائد کی بیخ کنی ایسا لگا دیا ہے کہ انہیں خود خانہ جنگی سے فراغت نہیں ہو سکتی ہے۔ پس بائبل مقدس زمانہ حاضرہ کے عالم گیر جنگ میں تاحال فتح مند ہے۔ کیا اس کی اصلیت و اعتبار پر اب بھی شبہ ہو سکتاہے۔
زمانہ حاضر کی ہر ایک موجودہ چیز گو اپنی ہستی و وجود کی خود شاہد و گواہ ہے۔ پر وہ اپنی اصلیت واعتبار کے خارجی گواہ بھی رکھتی ہے۔ زید ہمارے زمانہ میں اپنی ہستی و اصلیت اور اعتبار کا خود مدعی و شاہد ہے۔ مگر اپنے ساتھ وہ اپنے خارجی گواہ بھی رکھتا ہے ۔ ایسے ہی بائبل اگرچہ اپنی اصلیت اور اعتبار کی خود مدعی اور گواہ ہے تو بھی وہ اپنے ساتھ اپنی اصلیت و اعتبار کے شاہدوں کی افواج رکھتی ہے۔ آنے والے بیان میں ہم قارئین کرام کو بائبل ان شاہدوں کی مختصر سی کیفیت سناتے ہیں جن کی تفصیل کرنا اس اختصار کی حد سے باہر ہے۔
زمانہ قدیم سے بائبل کی اصلیت اور اعتبار کے شاہدوں کی فہرست جو ہمارے زمانہ تک پہنچی ہے حسبِ ذیل ہے :۔
(اول) یہودی قوم
(۱)یہودی قوم کی تاریخی کتابیں۔ مثلاً یوسیفس (۲) یہودی قوم کی احادیث و روایات کی کتابیں مثلا ً تالمود وغیرہ۔(۳) پرانے عہد نامہ کی اپاکریفل کتابیں جو شمار میں چودہ ۱۴ کتابیں ہیں (۴) یہودی قوم کے بزرگوں کی دیگر تصنیفات جو انیسویں صدی میں دریافت ہوئی ہیں ۔
(دوم ) مصر کی تاریخ اور تحقیقات جدیدہ کے دو نتائج جو اُنیسویں صدی سے آج تک پیدا ہو چکے ہیں۔ جوبائبل کے بیان کی سچائی و صداقت پر ضیا باریاں(روشنی پھیلانا) کر رہے ہیں۔
(سوم) بابل اور نینوہ فینکی اور عرب اور کنعان کی سات اقوام کے تاریخی حالات جو اُنیسویں صدی سے آج تک دائرہ تحریر میں آچکے ہیں۔ ڈاکٹرسیس وہمل، پنچ و گریسر کی تصنیفات کا ملاحظہ کرنا چاہئے۔
(چہارم ) مسیحی قوم کی تاریخ
(پنجم ) خود بائبل مقدس کی تاریخ
(۱)بائبل کا عبرانی و یونانی زبانوں میں تواتر(۲) توریت کے متن کی سامری زبان کی نقل (۳) بائبل کا پہلا یونانی ترجمہ جسے سپٹو اجنٹ کہتےہیں۔
(۴) بائبل کے دیگر مختلف زبانوں میں ترجمے جن کا شمار ۸۳۵تک پہنچ چکا ہے۔(۵) نئے عہد نامہ کی اپا کریفل کتابیں جو بجا طور پر خود ایک کتب خانہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(۶) مسیحی آبا ءکی تصانیف جو بجایِ خود ایک کتب خانہ ہیں۔(۷) بائبل اور مسیحیت کے مخالفین کی تصنیفات جنہوں نے بائبل اور مسیحیت کی تردید میں اور اپنے عقائد کی تائید میں کتابیں لکھیں۔
مذکورہ بالا فہرست ان شاہدوں کے ہے جو زمانہ قدیم سے چوتھی صدی عیسوی تک گزرے ہیں۔ یہ تمام شاہد و گواہ بصورت تحریر زندہ موجود ہیں۔جن سے مہذب و محقق اقوام کے کتب خانے عجائب خانے میں فسانے بن رہے ہیں۔ ہمارے زمانہ کے کون سے مخالف بائبل کی اصلیت و اعتبار کے ان شاہدوں کا کبھی نام بھی سنا ہے۔ جو بائبل کی
اصلیت و اعتبار کے خلاف شور مچاتے رہتےہیں۔ اگر بائبل کی اصلیت و اعتبار کا معیار خارجی شہا دتیں ہوں تو وہ حق پسندوں کے لئے کثرت سے موجود ہیں اور اس قدر معتبر ہیں کہ کسی مخالف کو ان کے خلاف لب کشائی کی گنجائش نہیں ہو سکتی ہے۔ ایسے حال میں اگر بائبل کے مخالفین اپنی یاد اگوائی پر اڑے رہیں تو ان کا مرض لا علاج ہے۔
بائبل کے تواتر میں سہواً و خطا کا امکان
بائبل مقدس کسی فردِ واحد کی تصنیف نہیں جسے اس کے مصنف نے زمانہ واحد میں لکھا ہو۔ اس کے نوشتوں کی تصنیف کے زمانہ میں سینکڑوں زمانے شامل ہیں اسکے مصنفوں کا شمار( ۳۹) کے قریب ہے۔وہ مختلف زمانوں کے اور مختلف لیاقتوں کے تھے۔ مختلف زبانوں کے بولنے والے تھے جنہوں نے صرف دو زبانو ں میں بائبل کے نوشتے لکھے۔ان زبانوں کو عبرانی اور یونانی زبانیں کہتےہیں۔جن چیزوں پر ابتدا میں ہر ایک مصنف نے اپنے صحائف و کتب لکھی تھیں وہ ہرگز غیر فانی چیزیں نہ تھیں جو زمانہ کی گرمی سردی کے اثر سے۔ آب و ہو اکی تاثیر سے ،ان کے محافظوں کی غفلت ومجبوری سے ان کی جہالت اور لاعملی کے تاثرات سے ابتدائی زمانہ سے بالکل یہ محفوظ چلی آئیں۔ ان میں کسی قسم کی سہو و خطا ہونا نہ پائی۔چونکہ وہ اصل تحریرات امتداد زمانہ کی وجہ سے با جنس فی زمانہ محفوظ نہ رہ سکتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کی نئی چیزوں پر نقل ہوتی آئی۔ پرانی اور بوسیدہ تحریرات بیکار ہوتی گئیں۔ان کی نگرانی کرنا غیر ضرور ی امر ہوتا آیا۔ چونکہ نئی نقل کرنے میں اور پرانی تحریر کو پڑھنے میں امکان غلطی کا تھا۔ لہٰذا بائبل کے اصلی نسخوں میں اگر غلطی راہ پا گئی تو کوئی تعجب نہیں ہے ،پر تو بھی ہزروں برس کے زمانہ کے بعد بائبل کے متن میں ایسی غلطیوں کو دریافت کرنا بھی اس وجہ سے امر محال نہ تھا۔کیونکہ بائبل اپنے پیچھے اپنی ہستی کے شاہد مختلف زمانوں اورزبانوں میں چھوڑتی آئی ہے۔ جو مسیحی علما کی جدید تحقیقات اور زر کثیر کے صرف سے جمع کر لئے گئے تھے۔ ایسے اسباب کی موجودگی میں مسیحی علما نے زمانہ قدیم کی حاصل شدہ تحریرات کو جو مختلف زبانوں میں تھیں بڑی محنت و مشقت سے پڑھا اور بائبل کے متن کی تصیح (درستی)کا کام کیا۔ انہوں نے بائبل کے متن کے ایک ایک لفظ و جملہ کی تاریخ و تواتر کو قائم و ثابت کیا۔ ہر ایک زائد اور غیر متن عبارت کی کامل تحقیق اور چھان بین کی کہ وہ مشتبہ لفظ یا عبارت یا بائبل کے متن کے تواتر میں کب سے اور کیسے راہ پا گئی۔ اس کی بابت اعلیٰ طبق کے مسیحی علما کی قیمتی کتابیں موجود ہیں جن میں انہوں نے بائبل کے متن کی تصیح پر اور تحقیق و تد قیق پر مفصل بیان شائع کر دئیے ہیں انہیں بیانات کا نام بائبل کی تنقید ہے۔
نویں فصل
انجیل کے نئے ترجمے سے خارج شدہ عبارتیں
ناظرین کرام کے لئے ذیل میں ان عبارتوں کو درج کرتے ہیں جو بائبل کی نقل اول میں جس کا ترجمہ پہلی دفعہ اُردو زبان میں ہوا تھا موجود تھیں۔ مگر نقل دوم سے جس ترجمہ ریوائزڈ ورشن کےنام سے اردو میں کیا گیا تھا خارج کی دی گئی ہیں۔
پرانا ترجمہ متی کی انجیل۲۱:۱۷؛۱۱:۱۸ ؛ ۱۴:۲۳ ؛۲۸:۲۱۔۳۱
پُرانا ترجمہ مرقس ۱۶:۷ ؛۴۲:۹ ؛۲۶:۱۱؛۲۸:۱۵؛۹:۱۶۔۲۰
لو قا ۳۶:۱۷؛۱۷:۲۳؛۴۳:۲۲۔۴۴
یو حنا ۳:۵۔۴؛۵۳:۷ سے ۱۱:۸ ؛۱۔یوحنا۷:۵ ،۸ تک یوحنا۸:۷
اعما ل ۳۷:۸؛۲۴:۱۵ ؛۷:۲۴؛۸:۲۴؛۲۸:۲۰؛۲۰:۱۱؛۱۔تیمتھیس۱۶:۳
یہ عبا رات آتھو ر اُ زڈ تر جمہ با ئبل میں مو جو د ہیں۔مگر ریو اُزڈ ور شن سے نکال گئی ہیں۔ کیو نکہ یہ عبا را ت انجیل کے قد یم تر ین نسخو ں میں نہیں ملی ہیں اور بعض عبا رتیں اب تک زیر بحث ہیں۔
جو عبا ر تیں نئے تر جمہ سے نکا لی جا چکی ہیں وہ اس درجہ سے نہیں نکا لی گئی ہیں کہ وہ مسیحیو ں میں مشکلا ت کا اضا فہ کر تی تھیں یا اُن میں یسوُع مسیح کی کسر شان پا ئی جا تی تھیں یا اُن میں غلط با تیں پا ئی جا تی تھیں۔بلکہ صر ف اُن کے نکا لے جا نے کی ایک ہی و جہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ا نجیل کے قد یم ترین نسخوں میں مو جو د نہیں ملی ہیں۔ان میں سے جو عبا رتیں خا ر جی شہا دتو ں سے قدیم تر ین ثا بت ہوئی ہیں ،اُن تک کو انجیل کے موجودہ ترجمہ سے خارج نہیں کیا گیا۔ پس اس سے مسیحی علماء کی دیانت و امانت بخوبی ظاہر ہے۔ ان پر نوشتوں کو تحریف کرنے کا الزام لگانا پرلے درجہ کی بد اعتمادی اور بد گمانی کو رواج دینا ہے۔ ہم پھرکہتے ہیں کہ عبارات مذکور کسی غلطی کی وجہ سے یا کفر آمیز مطالب کی وجہ سے یا بائبل کے متن کے اختلافات دُور کرنے کی وجہ سے یا قابلِ اعتراض ہونے کی وجہ سے یا احمدیت کے اعتراض کا سدِ باب کرنے کی وجہ سے متن سے ہرگز نکالی نہیں گئی ہیں۔ ان کے متن سے نکالے جانے کا صرف ایک ہی سبب تھا اور وہ یہ تھا کہ یہ عبارتیں بائبل کے متن کے تواتر میں متواتر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ اگر کوئی مخالف ان کا متواتر ہونا ثابت کر دےتو کسی عیسائی کو اُن عبارتوں کے قبول کرنے میں ہرگزعذر نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر احمدی اصحاب ان عبارتوں کو جزو بائبل منوانا ضروری سمجھتے ہوں تو اُن کی خاطر زیر بحث عبارتوں کو ہم خوشی سے جزو بائبل تسلیم کرتےہیں۔ اب فرمائیں کہ آپ کے نزدیک بائبل مقدس کی کیا قدرومنزلت ہوگی؟
ہم اس بات کو بخونی جانتے ہیں کہ جب بائبل کا نیا ترجمہ نہ ہوا تھا۔ ہنوز پرانا ترجمہ مروج تھا۔ تب بھی احمدیت کابانی اور آپ کے مرید اور اُن کے دوسرے ہم خیال اصحاب یہی واویلا کیِا کرتے تھے کہ قرآن شریف شاہد ہے کہ بائبل کی تحریف و تنسیخ ہو چکی ہے وہ ہرگز قابلِ عمل نہیں ہے۔ نئے ترجمے کے بعد بھی وہی پرانا اعتراض ہے کہ بائبل کی تحریف وتنسیخ ہو چکی ہے۔کیونکہ اس پر قرآن شریف گواہی دیتا ہے۔بتاؤ کے احمدی اصحاب نےاور دیگر بدگمان برادران ِ اسلام نے خود کیا تحقیق کی ؟ اُن کے نزدیک تو بائبل کی تحریف وتنسیخ کی سند صرف قرآن شریف ہی ہے اور تو کچھ نہیں ہے۔
اگر قرآن شریف سے احمدیوں کے ہاتھ بائبل کی تحریف کے ثبوت میں کچھ لگا ہے توصرف بائبل کی وہ آیات ہیں جو عیسائی علمأ نے بائبل سے اس وجہ سے نکال ڈالی ہیں کہ وہ اُن کی تحقیق میں بائبل کے متن کا جزو ثابت نہیں ہو سکیں۔ اب اگر احمدی اصحاب نے بائبل سے خارج شدہ عبارتوں کو بائبل کی تحریف کا ثبوت بنانا ہے ،تو وہ پہلے ان آیات کی بابت ثابت کریں کہ یہ آیات بائبل کے قدیم ترین نسخوں کا جز و ہیں۔ تب اُن پر اپنے دعویٰ کی بنا رکھیں۔ پر یہ توفیق کسے ہے ؟ اس وجہ سے احمدی اصحاب نے اپنے دعوے کی بِنا قرآن شریف پر ڈالی ہے۔ آیات ِ زیر بحث کی بابت اُن کا شورو شغب محض لاعلموں کو بائبل کی نسبت بد گمان کرنے کی غرض سے ہے۔ورنہ اُن کے دعوے کا ثبوت محض قرآن شریف ہی ہے۔
یہ بات حیرت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی کہ قرآن شریف نے اسلام کے اصول چارکتابیں بتا ئی ہیں ، یعنی توریت ، زبور ، انجیل اور قرآن شریف۔ لیکن بائبل کی تحریف کے مدعی پہلی تین کتابوں کے ایمان و عمل کا صفائی سے انکار کرکے اور ان پر تحریف وتنسیخ کا الزام دے کر بھی مسلم کہلانے کے مدعی بن رہے ہیں۔ اس پرطرہ(انوکھا) یہ بھی ہے کہ اُن کے نزدیک گویا اسلام کی مسلمانی ہی اس بات میں ہے کہ دینِ اسلام کی جملہ مسلمہ کُتب کےایمان و عمل سے انکار کیا جائے۔جن اصحاب کا اسلام ومسلمانی ہی انہیں معانی کی ہو تو اُن سے حق پسندی کی امید رکھنا ہی عبث و بے فائدہ نہیں تو کیا ہے ؟
دسویں فصل
اگر یہودی اور عیسائی تحریف کے مرتکب ہوئے تو اُن کی تحریف کی حکایت بھی سُن لو
عنوان مذکورہ کو پڑھ کر تمام عیسائی تو ہمارے سر ہو جائیں گے پر ہم عیسائیوں کوبافضل خدا سمجھا لیں گے،کہ تھوڑی دیر صبر کر کے ہمارے مسلمہ مذکور کے معانی و مطالب سمجھ کر ہم سے بگڑنا۔ اس مسلمہ سے ہم احمدی اصحاب کی ہمیشہ کے لئے تحریف بائبل کی بابت تسلی کر دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ عیسائیوں کے مقابل تحریفِ بائبل کے مسئلہ کو پیش کرنا بھول جائیں۔
عنوانِ بالا میں ہم نے فراخ دلی سے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ بقول احمد اصحاب یہودی اور عیسائی بائبل کی تحریف کرنے کے ضرور مرتکب ہوئے ہیں۔ یعنی یہودیوں اور عیسائیوں نے بائبل کے بزرگوں کے قصص و بیانات پر ضرور اضافےکیے ہیں۔ مگر یہ اضافے کبھی یہودی اور مسیحی بائبل کے جزو نہیں بنائے گئے اور نہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اُنہیں اپنی بائبل کا جزو تسلیم کیِا ہے۔ وہ قصص و روایات کتابی صورتوں میں بائبل اور اُس کے صحائف سے جدا ہی شائع ہوتی آئی ہیں۔ یہودی اور عیسائی اُنہیں اُسی نگاہ سے دیکھتے رہے جس نگاہ سے مسلمان احادیث کو دیکھتے آئے ہیں۔ ریفارمیشن کے زمانہ تک عوام کی ہدایت کے لئے عموماً یہی قصص اور روایات کی کتابیں زیادہ کام میں آتی تھیں۔مگر یہودیوں او ر عیسائیوں کی بائبل اعلیٰ طبق کے علما ءکی حفاظت میں محدود تھیں وہ تبدیلی وتحریف سے محفوظ چلی آتی تھی۔ عوام اس بائبل مقدس کی صورت و شکل سے آشنا نہ تھے۔ پس گو یہودیوں اور عیسائیوں نے بائبل مقدس کے قصص و روایات پر عجیب و غریب عوام کی تعلیم کے لئے اضافے کیے مگر وہ اضافے بائبل مقدس میں کبھی راہ نہیں پا سکے۔ عیسائی اُنہیں اپا کریفل لٹریچر کے نام سے یاد کرتے آئے ہیں۔ پس اسی اعتبار سے ہم نے یہودیوں اور عیسائیوں کا بائبل کی تحریف کا الزام دیا ہے۔ ورنہ یہودی اورعیسائی اور کسی اعتبار سے بائبل کی تحریف کے الزام کے ملزم قرار نہیں پائے ہیں۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی روایا ت کی کتابیں
روایات مذکورہ بالا کی کتابوں سے مُراد وہ کتابیں ہیں جو بائبل کے مسلمہ نوشتوں کے سوا بائبل کے انبیااور مرسلین کے نام پر لکھی اورشائع کی گئی تھیں۔اُن میں بعض نوشتے ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو قابل ِ اعتبار تو تھے مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ بائبل کے صحائف کے مجموعہ میں جگہ نہ پا سکے۔ ان میں بعض روایات درست ہو سکتی ہیں۔مگر زیادہ تر حصہ موضوع روایات کا جمع کیا گیا ہے۔ ان میں اکثر کتابیں جعلی ہیں جسے مصنفوں نے صرف یہودی اور مسیحی مذہب کی عام اشاعت کے لئے بائبل کے انبیاءاور مرسلین کے نام سے لکھا تھا۔ ایسی موضوعہ تحریرات کا علم کسی زمانہ میں عام تھا۔مگر طبقِ اعلیٰ کے علما ءکی عدم توجہی سے یہ تمام کتابیں ایک زمانہ تک اہلِ علم کی نظروں سے غائب رہیں۔ اُنیسویں صدی کی جدید تحقیقات سے وہ پھر اہلِ علم کی آگاہی میں آئی ہیں، جو آگے کو بالکل محفوظ ہو گئی ہیں۔ ان میں بہت سی ہمارے پاس موجو دہیں۔ باقی کے صرف نام ہی نام ہیں جنکی فہرست ذیل میں درج ہے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی کُتب موضوعہ کی فہرست
اوّل:۔
(۱)عزراہ کی کتاب (۲) عزرا کی دوسری کتاب (۳) توبیت (۴) یودیت (۵) آستر کی کتاب کا باقی حصہ (۶) حکمت کی کتاب (۷)یشوع بن سیرخ کی کتاب (۸) باروخ کی کتاب(۹)تین نوجوانوں کا گیت (۱۰)سوسن کی تاریخ (۱۱)بیل اور اژدہا کا قصہ (۱۲)منسی کی دُعا (۱۳)مکابیوں کی پہلی کتاب (۱۴)مکابیوں کی دوسری کتاب ۔
دوم :۔
مثلاً (۱)باروخ کا مکاشفہ (۲) حنوک کی کتاب (۳ )یسعیاہ کا معراج (۴)جبلی کی کتاب (۵) موسیٰ کا معراج (۶) یعقوب کے بارہ بیٹوں کا عہد نامہ (۷) سلیمان کے زبور (۸) سبلائن کا الہامی کلام (۹) مکابیوں کی تیسری کتاب (۱۰) مکابیوں کی چوتھی کتاب (۱۱)کتابِ تشبیہات (۱۲)آدم کا مکاشفہ (۱۳)ابرہام کا مکاشفہ (۱۴)موسیٰ کا مکاشفہ (۱۵)ایلیا ہ کا مکاشفہ (۱۶)صفنیاہ کا مکاشفہ وغیرہ
سوم :۔
اس کے علاوہ جدید تحقیقات نے نئے عہد نامہ کے اپاکریفل لٹریچر کو بھی پردہ گمنانی سے بلکہ قبضہ فنا سے بچا کر پھر شہرت دے دی ہے۔ جس سے عام طور سے مسیحی دنیا بےخبر چلی آتی تھی۔ اُن کُتب میں کثیر کتابیں شامل ہیں۔جن میں سے مشہور کتابوں فہرست ذیل میں دی جاتی ہے۔ جن میں سے اکثروں کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔
کُتب موضوعہ مذکور کا زمانہ
جن کُتبِ موضوعہ کی فہرست اوپر لکھی گئی ہے وہ حضرت ملاکی نبی کے بعد سے لیکر چوتھی صدی عیسوی کے درمیان لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض کُتب تو حضرت ملاکی نبی کے زمانہ سے بھی پیشتر کی ہیں جن کے معتبرو مستند ہونے پر زمانہ حال کے علمأاتفاق کر چکے ہیں۔ اور ایسے ہی بعض مسیحی کُتب موضوعہ میں ایسی کتب شامل ہیں جن کو علماءنے نہایت قدرو قیمت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔مگر یہ سب کتابیں بائبل مقدس سے جدا اپنی ہستی رکھتی ہیں اور اس وجہ سےلکھی گئی تھیں کہ کتب مقدسہ کے مذہب و مطلب کو عوام اور غیر اقوام تک پہنچائیں۔ زمانہ مذکور میں یہودی اور عیسائی کتب مقدسہ کو نہایت قیمتی اور پاک خیال کر کے اسے عوام و غیر اقوام کو دیتے نہ تھے۔ تو بھی عوام اور غیر اقوام کی ہدایت کتب موضوعہ مذکور کے وسیلے سے کیا کرتے تھے۔ جن میں کتب مقدسہ کے مطالب کے ساتھ عوام پسند بیانات داخل کرکے اپنے اپنے مذہب کی اشاعت کیِا کرتےتھے۔ مگر کتب مقدسہ ویسی کی ویسی رہتی تھیں۔ ان میں تغیّر و تبدل راہ نہ پاتا تھا۔
ہمارے زمانہ میں کتبِ موضوعہ کا فائدہ
یہودی اور مسیحی مذہب کی کتبِ موضوعہ کا ہمارے زمانہ میں یہ فائدہ ہوا ہے کہ یہ تمام کتابیں یہودیوں اور عیسائیوں کی مسلمہ بائبل کے متن کے تواتر کی ،بائبل کے مصنفوں کی ہستی کی ، اُن کے زمانوں کی ، بائبل کی کتابوں کے تاریخی واقعات کی ، زمانہ مذکور کے عام یہودی اور مسیحی لوگوں کے مذہب و عقائد کی ، نئے عہد نامہ کے مصنفوں کی علمی واخلاقی اور مذہبی و اعتقادی معلومات کی ،نئے عہدنامہ کے کتابوں کے بیان و مطالب کی ایسی زبردست شہادت و گواہی ہیں کہ جس کا بیان اس اختصار میں نہں کیا جا سکتا ہے۔ پس اگر بات کو تسلیم کر لیا جائےکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی مسلمہ بائبل کے نوشتوں کو تبدیل کیا تو اُن کی تبدیلی کے یہی معنی ہیں جو ہم بیان کر چکےہیں۔ اس سے زیادہ کا انہیں الزام دینا ہر گز حق کا اظہار نہیں ہو سکتا ہے۔
بائبل مقدس کے نوشتوں پر اعلیٰ تنقید اور اس کے نتائج
ہم برادرانِ اسلا م اور عام مسیحیوں کو یہ بات بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ مسیحی علما ءنے بائبل مقدس کےنوشتوں کی بھی چھان بین کی ہے۔ ہر ایک صفحہ بائبل کےمتن کے لفظ لفظ کی تحقیق کی ہے۔ اُس کے مصنفوں کی بابت ،اس کے زمانہ کی بابت ، اس پیشتر اور بعد کے زمانہ کی نسبت اس صحیفہ کے تواتر کی بابت انتہائی کوشش سے کام لیا گیا ہے۔ موافق و مخالف اسباب و دلائل کو مرتکب کیا گیا ہے۔ ان سے موافق و مخالف نتائج پیدا کر کے رو برو رکھے ہیں۔ جن سے آخری نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ موجودہ بائبل کےکُل صحائف اصل اور قابلِ اعتبار ہیں۔ مگر اُس کے ساتھ ہی بائبل کے بعض صحائف کے زمان و مکان کی بابت ،ان کے بعض مصنفوں کی بابت، علمائے بائبل میں اختلاف رائے بھی ہوا ہے۔ جن پر ہنوز بحث و تمحیص(جانچ) جاری ہے۔ ہر ایک رائے کے علماء اپنی اپنی رائے کے خلاف و موافق تحقیق و تلاش میں مصروفِ کار ہیں۔ پر یہ معاملہ عیسائیوں کی جانچ کا ہے۔ اسے مسلمانوں کی تحریف کے الزام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ عیسائی اپنے دین کے اصول کی تحقیقات اپنے فائدے کے لئے کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی تحقیقات کی بنیاد پر بائبل کو ترک بھی کر دیں تو وہ کر سکتے ہیں۔ عیسائی علما ءکی نہ تو مسلم دنیا مقلد(مرید)و پیرو ہے نہ ان کی تحقیقات کے برے بھلے نتائج کی مقلد ہے۔ نہ مسلم دنیا نے تحریف کا الزام عیسائیوں کو عیسائی علما ءکی تحقیقات کی بنا پر دیاہے۔ لہٰذا عیسائی علما ء کی تحقیقات کے جملہ نتائج کا اس الزام سے جو مسلمان عیسائی علما کو دیتے ہیں ہرگز کوئی واسطہ نہیں ہے۔لہٰذا بائبل اور عیسائیوں کا معاملہ یہاں پر ختم ہے۔ اس پر زیادہ لکھنا فضول ہے۔ عیسائی اپنی بائبل کے نسبت تحقیقات کرتے رہیں یا نہ کریں یہ ان کی اپنی مرضی ہے اس کا احمدیت سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔
یہودی اور مسیحی کتبِ موضوعہ اور قرآن ِ عربی
ہم برادران اِسلام کے اس طعن کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دینا چاہتےہیں کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنی کتاب مقدس کو بدل ڈالا ہے یا اسے تحریف کر دیا ہے۔ اگر ہمارے بھائی اس لاعلمی کے اعتراض کو نہیں چھوڑ سکتے تو عیسائی صاحبان انہیں یہ آخری جواب دینے کےلئے مجبور ہیں، کہ حضرات اگریہ کام کسی نے کیا بھی ہو تو وہ عرب کے فرزند اعظم حضرت محمد ہی نے کیا ہے۔ انہوں نے بائبل کے قصص و روایات کو جس صورت و شکل میں تبدیل کیا ہے وہ صورت و شکل خود مروجہ قرآن عربی میں موجود ہے۔
مزید برآں مروجہ قرآن عربی اگر وہی قرآن عربی ہو جو حضرت محمد نے اپنی زندگی میں پایا اور عربوں کو سنایا تو اس سے بڑھ چڑھ کے تعجب خیز امر کیا ہو سکتا ہے کہ مروجہ قرآن میں یہودیوں اور عیسائیوں کی کتبِ موضوعہ کی روایات کو کلام خدا کی عزت و تعظیم دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو ینا بیع الاسلام۔ اسکے سا تھ ہی یہودیوں اور عیسائیوں کی مستند بائبل کی جسے عام طور سے محرف اور ناقابلِ اعتبار ظاہر کیا جاتا ہے ، وہ تعریف و توصیف کی گئی ہے جس کی مثال صرف عیسائی لٹریچر ہی میں مل سکتی ہے۔ جو کچھ ہم نےابھی کہا ہے وہ کسی دیوانہ کی بات خیال نہ کیا جائے ہم نے یہ بات یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب موضوعہ اور قرآن شریف کا مقابلہ کرنے کے بعد کہی ہے۔ جس کا ثبوت دینا ہمارا ذمہ ہے۔
دوسرا باب
ہم بائبل کوکیوں مانتے ہیں ؟
دنیا میں کثیر مذہبی کتابیں موجود ہیں۔ وہ بڑی قوموں کے مذاہب و عقائد کی بنیاد ہیں۔ ہمیں اگر ان کا کامل علم نہ ہو تو بھی ہمیں ان کا کم از کم اسی قدر علم ہے جس قدر بائبل کا ہے۔ ان میں بعض کتابوں میں ایک حد تک مفید باتیں اور سچائیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پھر ہم کس وجہ سے بائبل کو ہی مانتے اور دیگر کتب مذہبی کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس کی بابت نہایت اختصار کے ساتھ گزارش باب ہذا میں پیش کیا چاہتےہیں۔ اس گزارش میں دیگر کتب مذہبی کو نہ ماننے کی تو ایک دو باتوں میں وجہ بیان کریں گے۔ مگر بائبل کو ماننے کے وجوہات کسی قدر مفصل عرض کرتے ہیں ۔
پہلی فصل
بائبل کو دیگر کتب مذہبی پر کس بات میں فوقیت ہے
ہم یہاں پربائبل اس فوقیت کا جو اسے دیگر مذہبی کتب پر حاصل ہے۔ محض طوالت کے خوف سے مفصل بیان نہیں کر سکتےنہ دیگر کتب مذہبی کی خامیوں اور کمیوں کا مشرح ذکر کر سکتے ہیں۔ دیگر مذاہب کی کتابوں کی ایک خامی اور کمی یہ ہے ،کہ وہ کتابیں انہیں بزرگوں کی ہیں جن کی طرف وہ منسوب کی جاتی ہیں۔ وہ ان کی زندگی کے حالات و اقوالات(قول کی جمع) پر ختم ہیں۔ ان کے سواان میں کسی مومن ومعتقدکا ان میں کچھ حصہ نہیں ہے۔ نہ وہ عوام کی ملکیت ہیں۔ نہ ان کی زبانیں عوام کی زبانیں ہیں۔ مگر بائبل ایک قوم کے عوام سے لے کر خاص کی خصلت و سیرت کی ترقی وزوال کے اسباب کا ایک ایسا نقشہ و خاکہ ہے جس کے حکم و احکام اور واقعات و سوانح کے ہر ایک بشر کی روز مرہ کی رفتار خواہ کسی درجہ و لیاقت کا شخص ہو گہرا تعلق ہے۔ وہ ہر ایک بشر اور ہر ایک درجہ و لیاقت کے انسان کی اس وجہ سے کتاب ہے کہ اس میں ہر ایک درجہ و لیاقت کے انسان کی نیک و بد خصلت کا خاکہ مل سکتا ہے اور ہر ایک درجہ کی نیک خصلت و سیرت خواہ کسی درجہ و لیاقت کے انسان کی ہو گھٹانے۔ اصلاح پر لانے کا اس میں بکثرت سامان ملتا ہے۔اس وجہ سے ہم بائبل کو ماننے کے لئے مجبور ہیں۔
دیگر مذاہب کی کتب دینی انسان کے لئے پینل کوڈ کی ہم معنی ہیں۔ ان میں ایشوردیوتاؤں اور خدا کے نام سے انسان کے لئے صرف ضابطہ فوجداری اور دیوانی(وہ عدالت جس میں زر ،جائیداد اور قرضہ وغیرہ کے مقدمات کی سماعت ہو) مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے ہر ایک فعل کی تکمیل پر اسے نیک و بد قرار دے کر سزاوجزا تجویز کی گئی ہے۔ اس پینل کو ڈ کی جملہ اقسام میں انسان کو نیک کردارفرض کر لیا گیا ہے اور انسانی زندگی کے جملہ مصائب اور خوشیوں کو اس کے نیک و بداعمال کا ثمرہ قرار دے لیا گیا ہے۔خداکو اور دیوتاؤں کو محض ایک مقنن (قانون بنانے والا)و منصف کی حیثیت دی ہے۔ جو انسان کی خوشامد اور چاپلوسی سے انسان کی بدکاریاں اور بد اعمالیاں بخشنے یا نہ بخشنے والے دکھائے گئے ہیں۔ پر اس قسم کی جملہ کتب مذہبی کوانسان کی زندگی کی اندرونی اصلاح سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں دکھایا گیا۔
انسانی زندگی جس دم سے زمین پر رونما ہو تی ہے اس وقت سے اس کی موت کے دن تک ہزار ہا ہزار مختلف و متضاد حالتوں میں سے اس کا گزر ہوتا ہے۔ ہزار ہا ہزار دل شکن حادثات و واقعات سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف مزاج و طبیعت کے ہزار ہا ہزار انسانوں سے اس کا تعلق ہوتا ہے۔ ہزار ہا ہزار دکھ بیماریوں سے اس کا رشتہ ہوتا ہے۔ ہزار ہا اقسام کی نفع و نقصان اس کی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں۔ ہزار ہا اقسام کے خوشی و رنج کے مواقع درپیش آتے رہتے ہیں۔ ہزار ہا قسم کی تکالیف و راحتیں اسے ملتی ہیں۔ ہزار ہا اقسام کی نا امیدیاں اور مایوسیاں انسانی زندگی کاپیچھا کرتی ہیں۔ انسان کی زندگی کی راہ پر ہزار ہا اقسام کی ہولناک اور تباہ کن گمراہیاں آ ملتی ہیں۔ جہاں زندگی کی راہ کا مسافر انسان دانستن یا نا دانستن ان میں مبتلا ہو کر ہلاک و تباہ ہونے کے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ حواسِ خمسہ(پانچ حواس دیکھنا،سننا،سونگھنا،چکھنا اور چھونے کی پانچ قوتیں) اُس کی رہبری کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ عقل و فکر بیکار رہ جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ مذاہب کی کثیر کتب میں انسانی زندگی کی ان تمام حالتوں سے کوئی رشتہ ہی نہیں دکھا گیا۔ وہ انسانی زندگی کے طرزِ عمل میں کسی انسان کی تل برابر رہنما ئی نہیں کرتی ہیں۔ وہ انسان پر مختلف عقائد و فرائض کے بوجھ لادنے والی ہیں۔ پر اس کی زندگی کے سفر اورزندگی کی مشکلات اور سہولتوں میں مطلق اعانت نہیں کرتی ہیں۔
مگر بائبل مقدس دیگر کتبِ مذہبی جیسی کتاب نہیں ہے جو غریب انسانوں پر عقائد و فرائض کے اورانسان کے ہر ایک فعل کی سزا و جزا ٔکے بوجھ لاد کر اس سے ایسی کنارے ہو جائے کہ گویا اسے انسان کی زندگی سے اور اسکے طرزعملی سے اور اس کے رنج و راحت سے اور اس کی تعلیم وتربیت سے سروکار ہی نہیں ہے۔بلکہ مذہبی کتابوں میں صرف بائبل مقدس ہی ایک کتاب ہے جسے انسان کی زندگی کی ہر ایک حالت میں اس کا رہبر اور رہنما ہونے کادعویٰ ہے۔ مثال کے طورپر ہم ڈاکٹر آر بسن صاحب کے نوٹ کو ذیل میں درج کرتے ہیں۔ جس سے ہمارا مقصد و مدعا بخوبی روشن ہو جائے گا۔ ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ
’’اگر تم سخت رنج و غم میں مبتلا ہوتو یوحنا کی انجیل کے( ۱۴ )باب کو پڑھو۔
اگر کسی گناہ کا بوجھ ستاتاہو تو زبور( ۵۱ )کو پڑھو۔
جب تم فکر مند ہو تو متی(۶: ۱۹۔۲۴ )کو پڑھو۔
جب تم کسی آفت و وبا کے خوف میں ہو تو زبور( ۹۱ )کو پڑھا کرو۔
جب تم پست ہمت ہو جاؤ تو زبور( ۶۰)کی تلاوت کیا کرو۔
جب تم پر خارجی دباؤ پڑے تو زبور(۳۴ ) پڑھا کرو۔
جب تم سخت خوف میں متبلا ہو جاؤ تو زبور( ۲۳)پڑھا کرو۔
جب تم گھر چھوڑ کر سفر میں جاؤ تو زبور( ۱۲۱)پڑھا کرو۔
جب تم اپنی برکات کو فراموش کر بیٹھو زبور( ۱۰۳)پڑھا کرو۔
جب تمہیں ایما ن کی تقویت درکار ہو تو عبرانیوں کے نا م کاخط اس کا( ۱۱باب) کوپڑھا کرو۔
جب تمہارا دل کسی کی دشمنی میں کڑوا ہوتا نظر آئے تو( ا۔کرنتھیوں۱۳باب )کو پڑھا کرو۔
جب امن و سلامتی کی تمنا ہو تو متی کی انجیل کے پانچویں باب کوپڑھو۔
جب تم مذہب کی اصلیت سمجھنا چاہو تو یوحنا کی انجیل کے( ۱: ۱۹۔۲۷ )تک پڑھ۔
اگر تم سچے عیسائی کو جاننا چاہو تو متی کی انجیل کے( ۵)ویں باب کو پڑھو۔
مندرجہ صدر امثال محض اس بات کا نمونہ ہیں کہ بائبل میں انسانی زندگی کے لئے ،اس کی ہر ایک حالت کے لئے ، اس کی زندگی کی اصلاح کے لئے اس قدر قیمتی اور غیر فانی اسباب موجود ہیں ،کہ جس کا کروڑواں حصہ دنیا کی تمام مذاہب کی کتابوں میں نہیں مل سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بائبل کی بابت یہ بات یقین کی جاتی ہے کہ صرف بائبل ہی انسانی زندگی کا حقیقی و اصلی رہبر ہے۔ انسانی زندگی کے تمام سفر میں اور اُس کی تمام حالتوں میں بائبل کے سوا کوئی کتاب نہیں جو انسانی ضرورت کو پورا کرے۔
دوسری فصل
بائبل نظام عالم کے معانی و مطالب کا مجموعہ ہے
بائبل انسان کی زندگی کی حالتوں میں محض مشیر ہی نہیں ہے بلکہ صداقتوں کا ایسا بیش قیمت خزانہ ہے جو کبھی ضائع ہونے والا نہیں ہے ، کم ہونے والا نہیں، جس میں جملہ مذہبی ،اخلاقی ، ذہنی ، روحانی ، علمی ، مجلسی ، تاریخی ، اعتقادی و عملی صداقتوں کی کانیں موجود ہیں۔ مثلاً
۱۔ غور کرو کہ بائبل میں کس قدر وسیع و اعلیٰ اور انسانی عقل و فکر سے بلند و بالا الٰہی تصور پایا جاتا ہے۔ خد اکی وحدانیت کا اعتقاد کیسا مکمل اور پاک ہے۔اس سے کس قدر بائبل کا متن وابستہ ہے۔ اس کی ذات و شخصیت ، اس کی صفات کا بیان کیسا پاک و مقدس بیان ہے۔ بائبل کے بیان میں خدا کی وحدانیت و شخصیت اس کی صفات اور اس کے کام اس کے تمام متن کی شان اور اس کا حیرت خیز جلال ہے۔ جس کے بیان سے طالبِ حق کی سیری ہو جاتی ہے۔
بائبل میں خدا کی وحدانیت کا بیان اپنے آپ میں یہ کمالیت رکھتا ہوا دکھا یا گیا ہے کہ اس میں خدا کی واحد ذات میں کثرت کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ جسے باپ ،بیٹا یا کلام اور روح القدس کے پاک اسماء سے ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ کثرت کسی غیر ذات خداکو ذات ِ الوہیت میں داخل کرنے سے نہیں بنائی گئی۔ بلکہ ذات ِ الٰہی کی وحدت میں ہی اس کا امتیاز کیا گیا ہے۔ جملہ صفات الٰہی میں ہر سہ اقنوم مساوی مانے گئے ہیں۔ خد اکی وحدانیت کا یہ عقیدہ ایسا کامل اور جامع وما نع ہے کہ اس میں تین سے زیادہ الٰہی امتیاز قائم نہیں ہو سکتے اور نہ تین سے کم ہو سکتے ہیں۔ کامل توحید کا اعتقاد رکھنے کے لئے خدا کی واحد ذات میں باپ۔ بیٹا یا کلام۔اور روح القدس کا امتیاز ماننا پڑتا ہے۔
بائبل میں جہاں جہاں خدا کے واحد ہونے کا ذکر آیا ہے وہ ذات ِ الٰہی کی وحدت پر دلالت کی غرض سے آیا ہے۔ اسما ء باپ بیٹا یا کلام اور روح القدس کے سوا جس قدر اسماء الٰہی بائبل میں مذکور ہوئے ہیں وہ بالکل یہ ذات ِ الٰہی کے اسماء میں مثلا ً الوہیم ،یہوے، الشدائے وغیرہ اور اوصاف الٰہی کا اطلاق ہر سہ اقانیم پر یکساں طور سے ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل نے صفات ِ الٰہی کو عین ذات ِ باری ظاہر کیا ہے۔
بائبل نے اسماء باپ ،بیٹا یا کلام اور روح القدس کوخدا کی واحد ذات کی صفات قرار نہیں دیا بلکہ اسما ء قرار دیا ہے۔ خدا کی واحد ذات کا نام’’ باپ ‘‘متکلم یا صاحب ِ کلام ہونے کی وجہ سے ہے اور کسی وجہ سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ چشمہ کلام ہونے کے اعتبار سے باپ کہلائی ہے۔ جس سے کلام نفس کلام لفظی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ چونکہ خدا کی ذات ِ واحد ہمیشہ سے صاحبِ کلام ہے اس وجہ سے اس کا نام اسی وقت سے باپ ہے جب سے وہ متکلم ہے۔
بیٹا یا کلام صرف کلام ِ خدا ہی کا نام ہے۔وہ کلام و متکلم میں تقدم و تاخر (عمر یا رتبے میں کم ہونا)زمانی نہیں مانا جاتا ہے۔ کلام ِ ربانی کی دو کیفیتیں بیان ہوئی ہیں۔ جن کو کلام ِ نفسی اور کلام لفظی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کلام ِ لفظی کلا مِ نفسی کا اظہار ہے۔چونکہ کلام اللہ خدا کی واحد ذات سے تولد شدہ حقیقت ہے۔ اس وجہ سے کلام اللہ کو بیٹا کہا گیا ہے۔ جو کلام ِنفسی ہو کر خدا کی واحد ذات میں خفی(پوشیدہ) رہتا اور کلام ِ لفظی ہوکر مظہر اللہ اور مخلوقات کی پیدائش کا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ پس جیسا کہ باپ ازلی و ابدی حقیقت ہے ویسا ہی بیٹا ازلی و ابدی حقیقت ظاہر ہے۔
روح القدس خد اکی ذات کا تیسرا اقنوم یا تیسرا اسم ہے۔ جو خدا کی واحد ذات کے حَیّ و زندہ ہونے کا مظہر ہے۔ بائبل مقدس نے جس واحد خدا کی تعلیم دی ہے۔اُسے ہرگزمُردہ خدا نہیں مانا ہے بلکہ زندہ خدا ظاہر وبیان کیا ہے۔جیسے کلام ِ خدا کی صفت نہیں ہے۔ ویسے ہی بائبل نے زندگی بھی خدا کی صفت تسلیم نہیں کی۔ کیونکہ کسی ہستی کی زندگی ہی تواس ہستی کی جملہ صفات کا موصوف ہوا کرتی ہے۔ پس خدا ئی زندگی خدا ہی ہے تو اُس کی جملہ صفات کا وہی موصوف ہے۔اسی زندگی کا مقدس اسم روح القدس ہے۔ پس روح القدس بھی ذات ِ الٰہی کا ایک اقنوم ظاہر ہے جو خدا کی طرح ازلی و ابدی ہے۔
خدا باپ، بیٹا اورروح القدس کا بیان مافوق پڑھ کر کون ایسا بے شعور ناظر ہوگا جو بائبل کی تعلیم مافوق سے تین خداؤں کے خیال کا وہم نکالے گا بلکہ باشعور ناظر بیان مافوق میں خدا کی وحدانیت کا ایسا اکمل تصور پائے گا کہ جس میں کمی وبیشی کو دخل ہی نہیں ہے۔ تمام بائبل کا متن انہیں معانی کی واحد خدا کی ذات و صفات اور اس کے کارہائے عظیم کی تعریف و توصیف سے پُر ہے۔ بائبل مقدس کی توحید الٰہی اس کی قدرو قیمت کا سب سے بڑا خزانہ ہے جسے کوئی حق شناس و حق پسند انسان ہاتھ سے نہیں دے سکتا۔
۲۔ بائبل کی قدروقیمت کا باعث اس کی وہ تعلیم ہے جو اس نے مخلوقات کی تخلیق کی بابت دی ہے۔ بائبل میں آیا ہے کہ
ابتدا میں کلام تھا اورکلام خداکے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ساری چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں۔الخ(جب کسی عبارت کاتھوڑا ساحصہ لکھ کر باقی کو بخوف ِطوالت نہیں لکھتے )(یوحنا ۱: ۱۔۵)۔
ابتدا میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا (پیدائش ۱:۱)۔خدا وندکے کلام سے آسمان بنے اور اس کے سارے لشکر اُس کے منہ کے دم سے (زبور۶:۳۳ امثال۸: ۲۲) مخلوقات کی پیدائش کی بابت جو صداقت ِبائبل کی آیات مافوق (بلندی،عقل سے بالا)میں آئی ہے۔بائبل کے سوا کتب مذہبی اور فلسفہ اور سائنس میں اس کا عشروعشیر (بہت تھوڑا،دسواں حصہ) مذکور نہیں ہے۔ جو لوگ مخلوقات کی تخلیق نیستی سے مانتےہیں وہ بائبل کی تعلیم کے صریح(علانیہ) خلاف مانتے ہیں۔ خدا اور کلام ِ خدا ہرگز نیستی قرار نہیں پا سکتے ہیں۔ بائبل مخلوقات کو خدا اور اس کے کلام سے جنم دیتی ہے۔ وہ ہر ایک مخلوق کو کلام ِ اللہ کا ایک بامعنی لفظ ظاہر کرتی ہے۔نظام عالم کو کتاب ِ اللہ بناتی ہے۔ اس اعتبار سے بائبل کی قدروقیمت اس قدر بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ ہم اس کااندازہ نہیں کر سکتے ہیں۔
۳۔ بائبل نے مخلوقات کی تخلیق کی ترتیب کا جو بیان کیا ہے۔ وہ بیان بائبل کی قدروقیمت میں بےشمار صداقتوں کا اضافہ کرنے والا ہے (پیدائش ۱: ۲)سے آخر تک پڑھو۔ اس کا جواب کہیں نہیں مل سکتا ہے۔
۴۔ تخلیق انسانی کا بیان بائبل کی قدروقیمت کو ہزار گنا زیادہ کرنے والا ہےجس کا مثنیٰ (ثانی)طبع انسانی تاحال پیدا نہیں کر سکی ہے۔ بائبل میں آیا ہے کہ ’’خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔ نر و ناری اس کو پیدا کیا ‘‘(پیدائش ۱: ۲۷ ؛۹: ۶)۔
انسانیت خدا کی صورت اور اس کا عکس و نقش ہے۔ آدم و حوّا کو اس کے پہلے دو افراد پیدا کر کے بنی نوع انسان کی جو شرافت و فضیلت دوسری مخلوقات پر ظاہر فرمائی ہے۔ اس کی بائبل سے باہر کہاں مثال پیدا کرکے دکھائی جا سکتی ہے۔ یہاں پرصرف انسانیت ہی بائبل کا عظیم الشان الہام نہیں دکھایا گیا بلکہ انسانیت کا الوہیت کا عظیم الشان الہام بیان کیا گیا ہے اور افراد انسانی کو برزخ (دو مخالف چیزوں کے درمیان کی چیز،پردہ،وہ عالم جس میں مرنے کے بعد سے قیامت تک روحیں رہیں گی )انسانیت و الوہیت ظاہر کیا گیا ہے۔ کیا بائبل کی اس صداقت کی قدرومنزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔
جب بیان مافوق رو برو رکھ کر بائبل میں خدا کا آنا جانا، اُترنا چڑھنا، بیٹھنا اُٹھنا ، چلنا ، پھرنا ، غصہ ہونا ، خوش ہونا،سر رکھتا اور چہرہ رکھتا دکھائی دینا۔ پُشت اور ہاتھ پاؤں کا ذکر تذکرہ پڑھتے ہیں تو ان تمام باتوں سے انسانیت نما الوہیت کا ایسا دیدار کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا کی صورت و شکل میں صاحب ِ صورت کا کیِا جا سکتا ہے اور یہ تمام افعال کلام اللہ سے منسوب ہیں ،جو کثیر معانی کے ساتھ انسانیت میں بس گیا اور افراد انسانی کی فطرت کے معانی بن گیا۔ کلا م ِ اللہ کے لئے یہ کل امور موزوں ہیں۔ فوٹو گرافر اور فونو گرافر نے انسان کی ظاہری صورت اور اُس کے کلا م کی تصویر لے کر حقیقت مذکور کی اعلیٰ مثال قائم کر دی ہے۔
۵۔ بائبل کی قابلِ قدر صداقت اگر انسانیت نما الوہیت ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی یہ سچائی بھی نہایت قیمتی ہے کہ بائبل کی انسانیت الوہیت نما ہے۔یہی انعام بائبل نے اسی وجہ سے ہر ایک بشر کو دیا ہے کہ وہ انسانیت نما ہو۔ اس کی انسانیت نمائی میں ہی الوہیت نمائی ہو سکتی ہے۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ حضرت آدم و حوا بہت تھوڑے عرصہ تک انسانیت میں الوہیت نمائی کر سکے۔
۶۔ خدا کے تمام کام کی بابت بائبل کا قابلِ قدر یہ فیصلہ بھی ہے کہ جو ہوا وہی پھر ہوگا اور جو چیز بن چکی ہے وہی ہے جو بنائی جائے گی اور سورج کے نیچے کوئی چیزنئی نہیں۔کیا کوئی چیز ایسی ہے جس کی بابت کہہ سکیں کہ دیکھو یہ تو نئی ہے۔ وہ سابق میں اُن زمانوں کے درمیان جو ہم سے آگے تھے موجود تھی۔اگلی چیزوں کی یادگاری نہیں اور ان چیزوں ک جوآتی ہیں۔ ان لوگوں کے درمیان جو ان کے بعد ہوں گے۔ یاد نہ رہے گی (وعظ ۱: ۹۔۱۱)۔
مجھ کو یقین ہے کہ سب کچھ جو خدا کرتا ہے ہمیشہ کے لئے کرتا ہے۔ اس میں کوئی چیز بڑھائی نہیں جا سکتی اور نہ اس میں کوئی چیز گھٹائی جائے۔(وعظ ۳: ۱۴ )پھر لکھا ہے کہ
’’کہ ایمان ہی سے معلوم کرتےہیں کہ عالم خداکے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو‘‘(عبرانیوں ۱۱:۳)۔
۷۔ بائبل کی قدرومنزلت کو بڑھانے والا بیان گناہ کے متعلق بھی آیا ہے۔جس کی بابت بائبل کا بیان ہے کہ گناہ نامی بلا خدا کی پاک خلقت پر بدنما دھبا ہے جو انسانی مخلوق ہے یا مخلوق کا مخلوق ہے۔ وہ خدا کی خلقت کا نہ جزو ہے نہ حصہ ہے،نہ خدا کے فعل سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ خدا نے آدم و حوا کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ آدم و حوا نے کسی اور مخلوق کی ترغیب سے اپنے اور اپنی اولاد کے لئے گناہ کو چن لیا۔ الوہیت نما انسانیت کا روشن آئینہ اپنے ہاتھوں چکنا چور کر لیا۔گناہ کا وقوع گناہ کی لعنتوں کے ساتھ اُن کی ہولناک میراث بن گیا۔ اُن کی انسانیت سے خالص الوہیت نمائی جاتی رہی۔ حضرت آدم و حوا کے گناہ کرنے کے بعد ان کی اولاد خدا کی صورت پر پیدا ہونے کی بجائے آدم کی صورت پر پیدا ہوتی رہی۔ انسانیت میں گناہ و وحشت نمائی آگئی۔شکر کا مقام ہے کہ خدا نے اس پر بھی اس کی انسانیت کو فنا نہ ہونے دیا۔ گناہ اپنی لعنتوں کے ساتھ انسان کی انسانیت کو بالکل برباد نہ کر سکا۔خدا نے ایک موعود کے وعدے کے ساتھ اسے بچالیا۔
پس بیان مافوق سے روشن ہے کہ گناہ نامی حقیقت کاعلاقہ ازروئے بائبل خداکی ذی عقل مخلوق سےہے۔ اسی ذی عقل مخلوق کی آزادانہ مرضی سے اس کا جنم ہوا ہے۔ اس وجہ سے وہی ذی عقل مخلوق اس کے تمام زیان(خسارہ) و نقصان کی جوابدہ اور ذمہ دار قرار پائی ہے۔ خدا ہمیشہ سے گناہ کی تولید کا مزاحم رہا ہے۔ پر انسانی فعل مختاری گناہ کو جنتی ہی رہی ہے۔ جس کا نتیجہ ہر ایک گناہگار انسان کو دیکھنا پڑتا ہے۔ بائبل گناہ نامی بلا کو انسان کا مرض متعدی قرار دیتی ہے جو انسان کی طبیعت ثانی بنا ہوا ہے۔ وہ انسانیت پر غیر موزوں داغ تو ہے پر جزوانسانیت نہیں ہے۔
۸۔ حضرت آدم و حوا کے بعدبائبل اُن کی نسل میں ایک انسان ضرور دکھاتی ہے جو الوہیت نما انسانیت کے قابل ِ تعظیم افراد تھے۔ جنہوں نے اپنے زمانہ کے بنی آدم کے مقابل اعلیٰ انسانیت کے انسان ہونا ظاہر و ثابت کیا۔ انہوں نے انسانیت کی کھوئی ہوئی سچائی میں سے وہ تمام سچائی حاصل کی جو عہدِ قدیم کی موضوع ہے۔ پر وہ قابلِ تعظیم ہستیاں جن کو نبی، رسول کہا گیا ہے انسانیت میں ایسے کامل نہ تھے جیسے یسوع مسیح کامل تھا۔اس کی انسانیت کی کیفیت انجیل میں دیکھی جائے۔
اس سے بڑھ چڑھ کر بائبل کی قدروقیمت اس بات میں پائی جاتی ہے کہ اس میں حضرت آدم کے وقت سے لے کر یسوع مسیح کے زمانہ تک کی اقوام انسانی ، ان کی جدوجہد ، ان کا اقبال و زوال اور ان کے مشاہیر و رہبر اس کے اوراق میں زندہ نظر آتے ہیں۔ بائبل کے وسیلے سے ہم ہم ان سے کلام کر سکتے ہیں۔ یہ وصف دنیا کی کسی دوسری کتاب میں پایا نہیں جاتا ہے۔
۹۔ بائبل میں ان علمی صداقتوں کے سوا جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔سائنٹیفک (تجرباتی)صداقتیں بھی کم نہیں ہیں۔ جن کا لفظ لفظ بیش قیمت ہے۔ان میں سے بطور مثال ذیل کی چند صداقتیں بائبل کے الفاظ میں پیش کی جاتی ہیں۔ جن سے دیگر مذہبی کتابیں محروم ہیں۔
(۱)۔ابتدا میں خدا نے آسمان کو اورزمین کو پیدا کیا (پیدائش ۱:۱؛امثال ۸: ۲۵ ؛زبور ۱۹۹:۹۰؛ایوب ۹: ۶ )۔
(۲)۔چھ دنوں یا زمانوں میں مخلوقات کی پیدائش کا سلسلہ ختم کرنا۔ پیدائش پہلا باب
(۳)۔اس نے زمین کو اس کی بنیادوں پر بنایا کہ اسے کبھی ابد الآباد جنبش نہیں تو نے اسےگہراؤسے ایسا ڈھانپا جیسے لباس سے اورپانی پہاڑوں کے اوپر کھڑے تھے (زبور۵:۱۰۴۔۱۰؛پیدائش ۱: ۲ ؛۴۲ : ۵)
تم تو ملکوم کے خیمہ اور کیوان کے بت جوتم نے اپنے لئے بنائے اُٹھائے پھر تے تھے (عاموس ۵: ۲۶ )۔
یہ سمند ر کی پُرجوش موجیں ہیں جو اپنی بے شرمی کی جھاگ اچھالتی ہیں۔ یہ وہ آوارہ گرد ستارے ہیں ( یہوداہ آیت ۱۳)۔
آفتاب کا جلال اور مہتاب کا جلال اور ستاروں کا جلال اور کیونکہ ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے(ا۔کرنتھیوں۵: ۴ )صبح کے ستارے (ایوب ۳۸: ۷) بیشمار ستارے (پیدائش۱۰: ۴ )ستاروں کی پرستش کی ممانعت( استثنا ۴: ۱۹ )ستاروں اور سورج چاند میں نشانیاں (لوقا ۲۱: ۵)سات ستارے (مکاشفہ ۱: ۶ ؛ ۱۲: )۱۔
کیا تم زمین کی بنیاد کا حال نہیں سمجھے۔ یہ ہے وہ جو زمین کے کنڈل کے اوپر بیٹھا ہے۔جس کے آگے اسکے باشندے ٹڈوں کی مانند ہیں جو آسمانوں کو پردے کی مانند تانتا ہے اورانہیں تنبوؤں کی طرح سکونت کے لئے پھیلاتا ہے ( یسعیاہ ۴۰: ۲۲)زمین وآسمان پرانے ہو جائیں گے وہ بدلے جائیں گے (زبور ۱۰۲: ۲۵۔۲۶ ، یسعیاہ ۵۱: ۶)۔
وہ تو جان بوجھ کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے ذریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے ( ۲۔ پطرس ۳: ۴؛۷؛۱۱ )یوسف کی برکت کا بیان۔ غور سے پڑھو( استثنا ۳۳: ۱۴)۔
اس زبور کی ۸۔۱۰ آیت اور آیت ۳۳ کو غور سے پڑھنا چاہئے
(۴)۔ اس نے شمال کو خلا پر پھیلا یا اور زمین کو بےعلاقہ لٹکا یا۔ وہ اپنے گھنے بادلوں میں پانی باندھتا ہے۔ ان کے نیچے ابر نہیں پھٹتا ہے(ایوب ۲۶: ۷؛زبور ۱۴۷ :۱۶۔۱۷)۔
(۵)۔ اس نے پانیوں کی سطح پر حدیں باندھیں۔ اس جگہ تک جہاں اجالے اور اندھیرے کی تمامی(تکمیل) ہوتی ہے (ایوب ۲۶: ۱۰)۔
(۶ )۔ اس نے اپنی روح سے آسمانوں کو آرائش دی ہے۔اس کے ہاتھ نے پیچیدہ سانپ کو بنایا ہے۔( ایوب ۱۳:۲۶)۔
(۷)۔ ہوا دکھن کی طرف چلی جاتی ہے اور پھیر کھاکر اُتر کی طرف پھرتی ہے یہ سدا چکر مارتی ہے۔ اپنے گھماؤ کے مطابق پھیرا کرتی۔ ساری ندیاں سمندر میں بہ جاتی ہیں پر سمند ر بھر نہیں جاتا۔ اس جگہ جہاں سے ندیاں نکلیں ادھر ہی کو وہ پھر جاتی ہیں (وعظ ۱: ۶۔۷)۔
(۸)۔ جس وقت ہواؤں کا وزن کرتا ہے اور پانیوں کو ترازو میں تولتا ہے ( ایوب ۲۸: ۲۵)۔
(۹)۔ یقیِناً چاندی کی کان ہوتی ہے اورسونےکےلِئےجگہ ہوتی ہےجہاں تایاجاتاہے۔لوہا زمین سےنِکالاجاتاہےاورپیِتل پتھّر میں سےگلایا جاتا ہے۔ (ایوب ۱:۲۸۔۲)۔
(۱۰)۔زمین جس سے خوراک پیدا ہوتی ہے۔ سو اس کے اندر گویا آگ سے اُلٹ پُلٹ ہو جاتا۔اس کے پتھروں میں نیلم پائے جاتے ہیں۔
(۱۱)۔ پھر اس نے دوسراخواب دیکھا اور اپنے بھائیوں سے بیان کیا اور کہا کہ دیکھومَیں نے ایک خواب دیکھا کہ سورج اورچاند اور گیارہ ستاروں نے مجھے سجدہ کیا (پیدائش۳۷: ۹)۔
(۱۲)۔ کیا تو کاٹنے سے لویتان کو کھینچ کر نکال سکتا ہے (ایوب ۴۱: ۱)۔
(۱۳)۔اس نے نبات النعش اور جبار اور ثریا اور جنوب کے خلوت خانوں کو بنایا وہ عجائب کرتا ہے جو بے قیاس ہیں اور غرائب(انوکھے،عجیب و غریب) جو بے شمار ہیں (ایوب ۹:۹ ؛ عاموس ۵: ۸ )۔
(۱۴)۔ کیا تو عقد ثریا کو باندھ سکتا یا جبار کا بندھن کھول سکتا ہے۔ کیا تجھ میں قدرت ہے کہ منطقتہ البروج (وہ بڑھ دائرہ جس پر بارہ برج آسمانی واقع ہیں، راس منڈل ،راس چکر)کو ایک ایک اس کے موسم پر پیش کرے ( ایوب ۳۸: ۳۱۔۳۲ )۔
(۱۵)۔ جنوب سے بگولا اٹھتا ہے اور سردی شمال سے آتی ہے۔ خدا کی سانس سےیخ ہوتاہے اور پھیلے ہوئے پانی منجمد ہو جاتے ہیں (ایوب ۹:۳۷)۔
(۱۶)۔آسمان خدا کا جلال بیان کرتے ہیں اور فضا اس کی دست کاری دکھاتی ہے۔ایک دن دوسرے دن سے باتیں کرتا ہے اور ایک رات دوسری رات کو معرفت بخشتی ہے۔ ان کی کوئی لغت اور زبان نہیں۔ ان کی آواز سنی نہیں جاتی پر ساری زمین میں ان کی تار گونجتی ہے اور دنیا کے کناروں تک ان کا کلام پہنچا ہے۔ان میں اُس نے آفتاب کے لئے خیمہ کھڑا کیا ہے جو دلہے کی مانند خلوت خانے سے نکل آتا ہے اور پہلوان کی طرح میدان میں دوڑنے سے خوش ہوتا ہے۔افلاک کے کنارے سے اُس کی برآمد ہے۔اُس کی گردش اُن کے دوسرے کنارے تک ہوتی۔اُس کی گرمی سے کوئی چیز چھپی نہیں (زبور ۱۹: ۱۔۶)۔
(۱۷)۔ جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاریا ں ہیں دھیان کرتا ہوں اور چاند اور ستاروں پر جو تُو نے بنائے تو انسان کیا ہے جو تُو اس کی یاد کرے اور آدمزاد کیا کہ تُو آکے اس کی خبر لے۔ تُو نے اس کو فرشتوں سے تھوڑا ہی کم کیا اور شان و شوکت کا تاج اس کے سر پر رکھا۔ تُو نے اس کو اپنے ہاتھ کے کاموں پر حکومت بخشی۔تُو نے سب کچھ اس کے قدموں کے نیچے کیِا ہے۔ الخ۔(زبور ۸: ۳۔۶)۔
بائبل کی سائنٹیفک صداقت کے بیان مافوق میں چندمثالیں نقل کی گئی ہیں اگر اُن کی تفصیل کی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جاتی ہے۔ بائبل بلاشک سائنٹیفک کتاب نہیں ہے۔پر وہ سائنس دانوں کی اور سائنس کی ماں کہلانے کا حق رکھتی ہے۔ کیونکہ سائنس دان اور سائنس صرف انہیں اقوام میں پیدا ہوئی جو بائبل کو ماننے والی تھیں۔ انہی اقوام کے مشاہیر نے بائبل کی صداقت مذکورکو سمجھا اور اُن کی اپنی عقل و فکر سے تفسیر مہیا کی۔سائنس کے تمام شعبے بائبل کی صداقت مذکور کی تفسیر ہیں۔بائبل کے سوا اقوام ِ دہر کی کون سی مذہبی کتاب ہے جو بائبل کی سائنٹیفک صداقت کا ہم پلّہ خیال کی جا سکتی ہے؟ اگر بائبل یہ تمام صداقت رکھتی ہوئی روشنی کے اندھوں کے نزدیک بےقدر ہو سکتی ہے ،تو پھر دنیا بھرکے مذاہب کی کون سی کتاب ہے۔جسے بائبل کی جگہ دی جا سکتی ہے ؟ اس کا جواب دینا مخالفین بائبل کے فرض کا حصہ ہے۔
بائبل کہتی ہے کہ عالم خدا کے کلام سے ہست ہوئے ہیں۔ چھ دنوں یا زمانوں میں بتدریج موجودہ حالت پر آئے ہیں۔ سب سے پہلے روشنی اور اندھیرے میں تقسیم ہوئی ہے۔زمین پانی سے نکلی ہے۔ ابتدائی حالت نہایت ویرانی اور سنسانی کی تھی۔ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود تھے۔ اس پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ زمین سے بُخار تک نہ اٹھتا تھا۔ زمین اور آسمانی اجرام کے پانی ایک وقت اکٹھے تھے پھر ان میں تقسیم واقع ہوئی۔زمین اور آسمان کے پانی جدا جدا کیے گئے۔ زمین کے پانی ایک جگہ جمع کیے گئے۔ پھر ان میں سے خشکی بنی اور سمندر پیدا ہوئے۔ خشکی سے نباتات کا اور سمندر سے جاندار حیوانات کا ظہور ہوا۔ چوتھے دن یا زمانہ میں آسمان و زمین کا نظام مکمل ہوا۔ زمین کو بغیرکسی سہارےکے خلا اور فضا میں لٹکا یا۔گہراؤ کواس کا لباس بنایا۔ اس کے اندر آگ رکھی جس نے اس کے اندر کو پگھلارکھا ہے۔ اس کے لئے شمال و جنوب مشرق و مغرب کے اطراف مقرر کئے۔ اس شمال میں سردی اور یخ کا خزانہ جمع کیِا۔ چار ہوائیں مقرر کیں اسے گول بنایا اس کے پہاڑوں میں اور اس کی مٹی میں مختلف دھا توں کو پیدا کیِا۔ ابر و بادل کے انتظام کو قائم کیِا۔ اس پر دریاؤں اور چشموں کو جاری کیِا جو سمند ر سے نکل کر پھر سمند ر میں جا گرتےہیں۔ اسے اسباب خوراک اور سبزی اور زندگی سے بھرپور کیِا۔ اس کے پرانے ہو جانے کا انتظام فرمایا۔ سب کے آخر میں زمین پر آدمی کو پیدا کیِا۔ اسے زمین کی کل مخلوقات پر حکومت بخشی۔اسی طرح اجرام فلکی کے بیان پر غور کرو تو تمہاری اس بات سے عقل دنگ رہ جائے گی کہ بائبل کے بیانات منقولہ بالا بغیر الٰہی ہدایت و راہنمائی کے بائبل کے انبیا ءکے علم و آگاہی میں کیسے آگئے ؟ جن کی تائید و تصدیق زمانہ حاضرہ کی سائنس کر رہی ہے ؟ بائبل کی صداقت مذکور ایسی ہے کہ جس کا انکار کرنا خدا اور اُس کے کام کا انکار کرنا ہے۔
۱۰۔ بائبل ایک اور اعتبار سے قیمتی کتاب ہے کہ وہ علم و ادب کا خزانہ ہے۔ تعلیم و تربیت کا گُر ہے۔ والدین کےبچوں کے متعلق جو فرائض آج تک بنی آدم کے علم و آگاہی میں نہیں آئے ہیں اوربچوں کے جو فرائض والدین سے متعلق ہیں ان کا خزانہ بائبل ہی ہے۔ سلیمان کی امثال کی کتاب انہیں فرائض کی شاہی تفصیل ہے۔جس کی مثال آج تک دنیا پیدا نہیں کر سکی ہے۔
۱۱۔ ایک اور اعتبار سے بائبل نہایت قیمتی کتاب ہے کہ صرف بائبل ہی انسانی زندگی کا ریگولیٹر (باقاعدہ رکھنے والا پرزہ) ہونے کا وصف رکھتی ہے۔ وہ صحیح معنی میں انسانی زندگی کی ضابطہ و ناظم ہے۔ وہ اکیلی انسان کی زندگی کی ہر روش کا اور ہرایک طریق عمل اور اُس کے عذاب و ثواب کا اور اس کی زندگی کی ہرایک حالت کا جس میں سے اس کا گزر ممکن ہے ایک چارٹ و رہبر و امام ہے۔ ایک قطب نما ہے جواُس کی منزل ِ مقصود کو درستی سے دکھا سکتاہے اور اُس کی زندگی کے تمام رشتوں کی خوشحالی اور بد بختی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل ماننے والی اقوام نے ہرمعانی میں اقبال و ترقی حاصل کی ہے اور بائبل کی مخالف اقوام قعرِ مذلت (انتہائی ذلت)میں ڈوبی رہی ہیں۔
۱۲۔ بائبل ایک اور اعتبار سے قدر و منزلت کی کتاب ہے اور وہ اعتبار یہ ہے کہ اس میں گناہ سے نجات پانےکا بیان نہایت معقول طریق کاآیا ہے۔
تمام غیر مسیحی دنیا نیک اعمال سے نجات کا اعتقاد رکھتی آئی ہے اوربائبل نے نیک اعمال پر جس قدر زور دیا ہے اس قدر کسی نے نہیں دیا ہے۔ نیک کردار کی جس قدر مدح و تعریف بائبل نے کی ہے اس کا ہزارہواں حصہ کسی دوسری کتاب نے نہیں کیِا۔ نیک کردار کی بائبل کی نظرمیں بے انداز قدرومنزلت آئی ہے۔ نیکو کاروں کی زندگی کے احوال پر بائبل کی کتابیں لکھی گئی ہیں ،پر بائبل کا اس تعلیم پر کاربند رہنے کا مطالبہ ان سے ہی ہے جنہوں نے خدا کے فضل سے نجات پائی۔جو ابرہام خلیل اللہ اور اضحاق ذبیح اللہ کی نسل سے ہو کر خداکے فضل سے نجات یافتہ تھے۔ پرانا عہد نامہ تو تعلیم کفارہ سے پُر ہے پھر نامعلوم پُرانے عہد نامہ کو کیوں کر نجات بااعمال کی اسی تعلیم کا حامی کہا جاتا ہے ، جس کا شور غیر مسیحی مذاہب مچاتے ہیں ؟ صاحبانِ ہوش بائبل میں نیک اعمال کامطالبہ نجات یافتہ لوگوں سے ہے نہ کہ بدکاروں سے جنہوں نے خدا کے فضل سے نجات ہی نہیں پائی۔ ایسےگنہگاروں سے تو بائبل یہی کہتی ہے کہ خداوند پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانہ نجات پائے گا۔
بائبل نہایت معقولیت کی ساتھ غیر مسیحی دنیا کو ان نیک اعمال کے اجر میں نجات پانے کے امکان کا انکار کرتی ہے۔ کیونکہ اول تو غیر مسیحی مذاہب میں نیکی کا سٹینڈرڈ(معیار) نہایت ادنی ٰ ہے۔ دوم اس پر بھی اُن کے ہاں اُن کی مسلمہ نیکی کے عاملوں کاکا ل ہے۔پھر نامعلوم غیر مسیحی دنیا کس وجہ سے اپنے نیک اعمال کی بنا پر حصولِ نجات کی متمنی ہے۔
۱۳۔ بائبل اس وجہ سے بھی زیادہ قیمتی کتاب ہے کہ اس میں حقائق عقبہ(مشکل گھاٹی) کا بھی معقول بیان آیا ہے۔حقائق عقبہ سے مراد زمانہ مستقبل میں پیش آنے والے حقائق و امور داخل ہیں۔ مثلاً مردوں کی قیامت ، نیک و بد اعمال کی سزا و جزا ، دوزخ اور بہشت وغیر ہ غیر مذاہب نے حقائق عقبہ کا نہایت نامعقول خاکہ کھینچا ہے۔ جسے قلم انداز کیا جاتاہے۔ بائبل نے جو کچھ عقبہ کی بابت بیان فرمایا ہے اس کا ملخص (پاک کیا گیا)پیش کرنے پر کفایت کی جاتی ہے۔
مُردوں کی قیامت کی تعلیم جو بائبل میں آتی ہے وہ اور سز اجزااور دوزخ و بہشت کی تعلیم خدا کے بالکل یہ ایسے افعال نہیں ہیں جن کا علاقہ اور عمل زمین و آسمان کے موجودہ نظام اور اہلِ زمین کی موت و زندگی سے ان کے دکھ سکھ سےان کی خوشحالی وبدحالی سے پایا نہ جاتا ہو۔ یا خدا نے اپنے ان افعال کو جن کا علاقہ حقائق مذکور سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف آنے والے زمانہ کے لئے ہی محفوظ رکھا ہو۔ بائبل کو غور سے پڑھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو سکتی ہے کہ نظام ِ قدر ت میں خدا کے جو کام ہو رہے ہیں انہیں کاموں کی انتہائی کیفیت مُردوں کی قیامت عدل و انصاف ، سزاجزا ، بہشت و دوزخ کی خوشحالی اور بدحالی کی اصطلاحوں میں بیان فرمائی ہے۔یہ ایسے امور ہیں جو انسان کی موجودہ زندگی کے علاقہ میں بھی واقع ہوتے رہتے ہیں۔نظام ِ قدرت میں ان کی زبردست شہادتیں موجود ہیں یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ خدا موجودہ نظام کے ماتحت بھی مُردوں کو جِلاتا ہے۔ عدل و انصاف کرتا ہے۔ سزاجزا دیتا ہے۔ بہشت اور دوزخ میں ڈالتاہے۔ خوشحالی اور بد حالی لوگوں کے حصہ میں دیتا ہے۔ پس بائبل سے ہرگز یہ بات ظاہر نہیں ہو سکتی کہ موجودہ نظام میں خدا بندوں کی طرف سے بالکل بے فکر ہے۔ اس نے بندوں کی تمام فلاح و بہبود کے کاموں کو زمانہ مستقبل کے کسی خاص وقت و زمانہ کے لئے التوامیں ڈال رکھا ہے۔ ایسا خیال و گمان کم از کم بائبل کی تعلیم سے اخذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خداوند یسوع مسیح کا ارشاد ہے کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کا اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے ، کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹےکے سپرد کیِا ہے۔ الخ( یوحنا ۵: ۲۱۔۲۹تک) ’’قیامت اور زندگی مَیں ہوں۔‘‘ میرا باپ ابد تک کام کرتا ہے۔ پس بائبل کے ایسے مقامات سے روشن ہے کہ عاقبت ،قیامت و عدالت ، سزا جزااور دوزخ و بہشت کے متعلق بائبل کے بیانات نظام ِ عالم کے ان کاموں کےسلسلہ کے آخری اور انتہائی کام ہیں جو اب بھی خدا کر رہا ہے اور آگے کو بھی کرتا رہے گا۔ قیامت وغیرہ کی تعلیم نظام ِ عالم کے سلسلہ سے بالکل باہر اور اس سے بالکل یہ غیر متعلق نہیں ہے۔ خدا اب بھی مُردوں کو زندہ کرتا رہتا ہے۔ اب بھی نیک و بد اعمال کی سزا جزا دیتا ہے۔ اب بھی بھلے بُروں کا عدل و انصاف کرتا ہے۔اب بھی لوگ بہشت و دوزخ کی راحت و مصیبت حاصل کرتے ہیں۔ آگے کو بھی کرتےرہیں گے۔ پس حقائق عقبہ کی بابت بائبل کا الہام نہایت روشن ہے۔ جس میں معقولیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
۱۴۔ بائبل کی قدرومنزلت بائبل کی مذہبی اور اخلاقی اور روحانی تعلیم نے ہمیشہ بڑھائی ہے۔ اس کا مذہب نہایت سادہ ہے۔اس کی اخلاقی تعلیم نہایت اعلیٰ ہے۔ اس کی روحانی تعلیم نہایت بلند و وسیع ہے۔ اس کے وعدے نہایت پختہ ہیں۔ اس کی امیدوں میں نہایت پائیداری ہے۔ بد قسمت وہ انسان ہے جو بائبل سے محروم ہے اور بائبل کا مخالف و دشمن ہے۔
تیسری فصل
بائبل کو اس وجہ سے مانا جاتا ہے کہ وہ معقول طور سے الہامی کتا ب ہے
بائبل کے مُلہم (وہ شخص جس کے دل میں غیب سے کو ئی بات پڑے)انسان تھے۔پر وہ اس انسانیت کےافراد تھے جس کا بیان پیشتر ہوا ہے۔ وہ ایسے زمانہ کے انسان تھے جسے اقوام انسانی کی ابتدائی بیداری کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ جس زمانہ میں اقوام ِ انسانی عام طور سے نیم وحشی اقوام تھیں۔ ایسے زمانہ میں بائبل کے مُلہموں کا پیدا ہونا حکمت ِ الٰہی کا ایک شان دار معجزہ تھا۔ جس سے خدا نے اقوام ِ انسانی کی تہذیب و شائستگی میں وہ تعلیم و تربیت کرنا تھی جو زمانہ حاضرہ کی شان و جلال بنی ہوئی ہے۔
بائبل کے مُلہم انسان تھے۔ ان میں انسانی کمزوریاں بھی تھیں مگر اپنے اپنے زمانہ کی نہایت شان دار ہستیاں تھے کہ اُن کے زمانہ میں ان سے بہترو افضل اور انسان ہی ناپید تھے۔ ان کا دل دماغ ، ان کی عقل و فکر ، ان کی دلچسپیاں۔ ان کی خصلت و سیرت ، ان کی نظر و بصیرت جو تھی۔ وہ انہیں سے تعلق رکھتی تھی۔ ان سے افضل یا ان کے مساوی ان کے زمانہ میں اور انسان ہی نہ تھے جو وہ کام کر سکتے جو بائبل کے مُلہم کر گئے۔
اس سے بڑھ کر بائبل کے مُلہم انسانی برگشتگی کے زمانہ کے انسان تھے۔وہ ہر گز یسوع مسیح کے سوا ہر قسم کے گناہ کی لوث سے پاک منزہ ہونے کے مدعی نہ تھے۔ تو بھی وہ اپنے اپنے زمانہ کے افضل و پاک لوگوں سے زیاد ہ افضل و پاک تھے۔ جن کی شخصیتیں اور جن کی زندگیاں اس انسانیت کی بہتر نمائندہ تھیں جو انہوں نے نسل آدم و حوا ہونے کے اعتبار سے وارثت میں پائی تھیں۔
اس بات کا بھی اعتراف کر لینا مناسب ہے کہ بائبل کے مُلہم گو علم و معلومات کے ذریعے وہی رکھتے تھے جو اُن کے زمانہ کے ہر ایک بشر کو حاصل تھے۔یعنی اُن کےوہی حواس ِ خمسہ تھے جو دوسرے انسانوں کی ملکیت تھے۔ پر اُن کے حواسوں میں دوسرے انسانوں کے حواسوں کےمقابل کچھ غیر معمولی تیزی و صفائی اور دُورتک کی رسائی تھی۔ بائبل کی پیشین گوئیوں پر غور کرنے سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ان کے زمانوں کے لوگ جو اپنے حواسوں کے قوت اور ذہنی قواء کے زور سے جن چیزوں تک پہنچنا اپنی اعلیٰ قابلیت کا ثبوت خیال کرتے تھے۔ بائبل کے مُلہم قوا ء ذہنی اور روحانی اور حواسِ خمسہ کے وسیلے سے ان چیزوں کو اپنی عقل و فکر میں نہایت پیچھے چھوڑ کر جو اُن کے زمانہ کےمدبرین(اہل ِ دانش) کے علم کا اعلیٰ معلوم بنی ہوتی تھیں۔ اُن کے سبب اول اور اُن کی علت تامہ (پوراسبب)تک پہنچا کرتے تھے۔ صرف بائبل کے انبیا ءہی اپنے اپنے زمانہ کی ایسی بزرگ ہستیاں تھے جو اپنی تمام تحقیقات میں خدا کی رہبری اور رہنمائی کا احساس رکھتے تھےاور ان کی دریافتیں واقعی حیرت انگیز تھیں جیسا کہ ظاہرہو چکا ہے۔
بائبل کے انبیا ء کی نظر میں کتب خانہ ٔ نیچر نہایت اہمیت رکھتا تھا۔ نظام قدرت کی ہر ایک چیز ان کے لئے ایک ایک کتاب تھی جسے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے بجایِ دوربین و خوردبین ہوتی ،اُن کے پاس صرف وہی حواسِ خمسہ اور قوا ء ذہنیہ و روحانیہ و ایمانیہ تھے۔جن سے اس زمانہ کا کو ئی بشر محروم نہ تھا۔ مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بائبل کے انبیا ء کی دریافتیں آج تک اقوام ِ دہر کے لئے باعثِ تعجب ہیں۔ ان کی ابزرویٹریز(غور وخوض کا مقام)کے نتیجے اقوام ِ دہر کے لئے ایسےبابرکت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کا بیان محال ہے۔
بائبل کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ بائبل کے انبیا ء قدرتی بصیرت کے ساتھ سُپر نیچرل (مافوق الفطرت)بصیرت ضرور رکھتے تھے۔ جس نے ان کو اقوامِ دہر کے بے شمار معبودوں اور دیوی دیوتاؤں کے خوف و دہشت سے بے نیاز کر دیا تھا۔انہیں اپنے اپنے زمانہ کی اقوام کے عقائد و مذاہب کےخلاف واحدخدا کی ہستی و عبادت کا شیدا بنا دیا تھا۔ اُن کو واحد خدا کی خدائی کا اعتقاد و یقین کہاں سے ملا۔ اُن کو دنیا کے معبودوں کے بالکل یہ باطل ہونے کا اعتقاد کہاں سے حاصل ہوا؟ انہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ تمام عالم ایک ہی واحد ذات کے کلمہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ کُل اقوام انسانی کا چشمہ واحد ہے۔ تمام انسان کمی بیشی سے گناہگار ہیں۔ گناہ نامی لعنت مخلوق کا بچہ ہے۔یہ مرض متعدی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان کا صفائی سے اپنا اعتراف ہے کہ انہوں نے بعض باتیں تاریخ سے پائیں۔ بعض باتیں حقائق عالم پر غور و فکر کرنے سے حاصل کیں۔ بعض باتیں روئتوں سے معلوم کیں۔بعض باتیں کشف کی صورت میں جانی۔ بعض باتیں طبائع (طبعیت کی جمع)انسانی کی تلاوت کرنے سے معلوم کیں۔ بعض باتیں مشاہدات سے حاصل کیں۔ بعض باتیں عقل و فکر سے پائیں۔ ان تمام حالتوں میں انہوں نے ان پیغامات کو اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں لکھا تھا۔
بائبل کے مُلہموںمیں ایک یہ بات بھی عظیم الشان نظر آسکتی ہے کہ وہ ایک خاص بُلاہٹ کا احساس کر کے میدانِ خدمت میں نکلتے تھے۔ بعض اوقات ان کی بُلاہٹ ایسے کام کو انجام دینے کے لئے ہوا کرتی تھی کہ جسے نبی کرنا پسند نہ کیِاکرتے تھے لیکن جب اُن کی بُلاہٹ کی طرف سے تسلّی ہو جایا کرتی تو وہ بُلاہٹ دینے والے کی مرضی کے ایسے تابع ہو کر کام کیا کرتے تھے کہ انہیں مخالف دنیا بھی مل کر اس سے روک نہ سکا کرتی تھی۔
بائبل کے انبیا ءکی صداقت کا امتحان اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اپنی بُلاہٹوں اور خدمتوں اور تعلیموں میں سچے اور وفادار تھے یا نہیں۔ جس جس کام کوکرنے کے لئے وہ وقتاً فوقتاً کھڑے ہوئے وہ کام انہوں نے سچائی اوروفاداری سے کیِا تھا یا نہیں۔ ان کے کام کرنے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کے کام بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ تو بھی اُن کی تعلیم اور ان کی خدمت کی سچائی اور وفاداری بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
بائبل کے انبیا ءمختلف مدارج اور مختلف حیثیتوں کےتھے۔ بادشاہ سے لے کر معمولی چوپان اور مچھیروں تک ان میں شامل ہیں۔ گو وہ سب منصبِ نبوُّ ت و رسالت میں مساوی ہیں۔مگر وہ اپنی بُلاہٹ کی خدمات میں اور ان خدمات کے نتائج میں مختلف مدارج پرہیں۔اُن کی خصلت و سیرت اور اُن کی زندگی کی تاثیر بھی مختلف مدارج کی ہے۔ وہ علمی لیاقتوں کی وجہ سے بھی مختلف ہیں۔ مگر وہ مجموعی طورپر خداکی واحد فوج کے سپا ہی ہیں۔ ان کا واحد و مشترکہ دشمن ہے جن سے وہ جنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ دشمن بُت پرستی و وہم پرستی اور گناہ تھا۔ جو ان کے زمانوں میں بنی آدم کا عالم گیر مذہب بنی ہوئی تھی۔ وہ خدایِ واحد کی عزت کے قیام کے لئے اس اکیلے کی عبادت کے استحکام کے لئے تمام دنیا سے جنگ کرتے رہے۔اُس کی پاک مرضی کا بیا ن کرتے رہے۔ اِس میدان میں اُن کا استقلال اور اُن کی شجاعت و بہادری غیر معمولی ثابت ہو سکتی ہے۔گو ان میں سے بعض میں دیگر انسانی کمزوریاں نظر آسکتی ہیں پر وہ مقصدِ رسالت میں خدا کی شمشیر ِبرہنہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنی اپنی خدمات کی انجام دہی میں قتل ہوتے ہیں پر بے وفائی سے فائدہ اُٹھانے کا خیال اُن کے نزدیک نہیں آتا ہے۔
بائبل کے انبیا ء کی رسالتوں اور خدمتوں کا علاقہ صرف یہودی قوم ہی سے نہیں ہے۔ بلکہ اُن کے زمانہ کی معلومہ دنیا کی اقوام سے ہے۔ مصر سے، بابل سے،نینوہ سے ، کنعان سے، عربی اقوام سے بلکہ تمام دنیا کی اقوام سے اُن کی رسالتوں کا تعلق ہے۔ وہ اپنے ا پنے زمانہ میں بادشاہوں اور حکمرانوں کی تادیب (تنبیہ)کرتے ہوئے اُن کے قہر و غضب کانشانہ بنائے جاتے ہیں پر اپنے خدا کی حکم عدولی کر کے کبھی فائدہ اُٹھانے کا خیال تک نہیں کرتے۔
بائبل کے انبیا میں سے بعض میں انسان کی طبعی کمزوریوں کی بھی نمائش آئی ہے۔ لیکن اس میں بھی یہ عظیم الشان حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ انہوں نے ان کمزوریوں کو جائز کرنے کی یہ کہہ کر کبھی کوشش نہیں کی کہ فلاں گناہ یا کمزوری میرے لئے خدا نے جائز ٹھہرادی ہے۔ اُنہوں نے اپنی عدول حکموں کو اپنا ہی گناہ مانا اور اُن کے لئے عوام کی طرح توبہ و استغفار کیا اور خدا سے معافی کے طلب گار ہوئے۔
بائبل کے انبیا ءاور بزرگوں کے سلسلہ میں حضرت آدم پہلا ہے جو خداکی صورت و شکل پر پیدا ہو کر اپنے گناہ سے خداکی ہمشکل انسانیت کے صاف و مقدس آئینہ کو چکنا چُور کرنے والا بیان ہوا اور یسوع مسیح آخری ہے جو اندیکھے خدا کی صورت اور اُس کی ماہیت کا نقش ہو کر نبوت و رسالت کو ختم کرنے والا ثابت ہوا۔حضرت آدم اور یسوع مسیح کے درمیانی زمانہ میں جملہ بزرگ اور انبیا ءیسوع مسیح کی آمدکے اور اُس کی آمد کی برکات کے شاہد و گواہ تھے۔ جس میں اصل انسانیت کی نمائش بتدریج ہوئی۔ یسوع مسیح میں کمال تک رونما ہو گئی۔ جس میں کوئی دھبہ یا داغ پایا نہیں جاتا اور اس میں آلہ نمائی اس درجہ کی پائی جاتی ہے کہ جس درجہ کی الوہیت میں انسانیت نمائی بیان ہوئی ہے۔
انجیل کا الہام یہ نہیں ہے کہ اس میں یسوع مسیح کا وہ کلام پایا جاتا ہے جو اُس نے فرشتوں سے یاخوابوں سے یا رویتوں سے پاتا تھا۔بلکہ انجیلی الہام یسوع ناصری مسیح کا عبد ِِآلہ نما ہو کر انجیل نویسوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا یسوع مسیح کی شخصیت و عبودیت(بندگی،اطاعت) میں ، اس کے کام اور کلام میں، اُس کی زندگی اور اس کے انجام میں، اپنے تابعین پر الوہیت نما ہو کر ظاہر ہونا ہے۔ انبیا ءمتقدمین (متقدم کی جمع،اگلے زمانہ کے)فرشتوں کی رویتوں میں الوہیت نمائی کا احساس کیِا کرتے تھے۔پر نئے عہد نامہ کےمصنفوں نے یسوع مسیح انسان میں الوہیت نما ئی پائی اور پکار اُٹھے کہ ہم نے اس کا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔ یسوع مسیح کے شاگر د اور انجیل کے مصنف تمام یہودی تھے۔ وہ اپنے زمانہ کے یہودی عقائد کوجاننے اور ماننے والے تھے۔ اُنہوں نے یسوع مسیح کی بابت جو کچھ لکھا وہ اگرچہ مروجہ عقائد کے بالکل نا موافق تھا پر عہدِ قدیم کے عین مطابق لکھا۔ ان کی تحریر ،تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے۔اس کی صداقت پر مُہر ان کی وفاداری ہے۔ پس انجیل اس وجہ سے یسوع مسیح کی انجیل نہیں کہ وہ یسوع مسیح کے ہاتھ کی تحریر ہے۔ بلکہ اس وجہ سےیسوع مسیح کی انجیل ہے کہ اس میں یسوع مسیح کا وہ کشف و الہام پایا جاتا ہے جو اُس کی ذات و شخصیت کی بابت ،اس کے کام و کلام کی بابت، اُس کی زندگی اور موت کی بابت ، اس کی الوہیت نمائی کی بابت ،انجیل نویسوں کو ہوا تھا۔ یہ اکمل معانی کا الہام ہے۔ جس میں وہی انسانیت ظاہر و باہر ہوئی ہے۔جو خدا کی صورت کا عکس و نقش اور ہر ایک بشر کی بشریت کا حد اعتدال تھی۔ یہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر بائبل کو ماننا ہم اپنی سعادت مندی یقین کرتے ہیں۔
چوتھی فصل
انجیل عہدِ قدیم کی تکمیل ہے
بائبل کو ماننے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کتاب ہےجو اپنی تکمیل آپ میں رکھتی ہے۔عہدِ قدیم ایک الٰہی وعدہ کی تفصیل ہے اور عہدِ جدید اس کی عجیب و غریب تکمیل ہے۔ اس اعتبار سے انجیل مقدس بائبل کے عہد ِ قدیم کی فضلیت کا ایسا تاج ہے جو ابدالآباد اس کے سرکو زینت اور زیب دیتا رہے گا۔ انجیل مقدس بھی نہایت عجیب و غریب ہے وہ اپنے ہیروخداوند یسوع مسیح کی ہرگز سوانح عمری نہیں ہے۔کیونکہ دراصل اس میں یسوع مسیح کی سوانح عمری پائی نہیں جاتی ہے۔ آپ کی (۳۰) سالہ زندگی کے سوانح اس میں نہیں ملتے ہیں۔ساڑھے تین سالہ زندگی کے بھی اس میں پورے سوانح مذکور نہیں ہیں۔ انجیل نویس خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جو کچھ اُنہوں نے یسوع مسیح کی بابت لکھا وہ جامع و مانع بیان نہیں لکھا(یوحنا ۲۱: ۲۵)تو بھی انجیل مقدس کے واقعات جو اس میں قلم بند ہوئے ہیں۔ اس کی سوانح عمری کاحصہ ہیں۔ جو صرف یسوع مسیح کی شخصیت اور خصلت و سیرت کے بیان کی غرض سے قلم بند کیے گئے ہیں۔
دفعہ ۱
انجیل کے صحائف کولکھنے والے کو ن تھے ؟
انجیل نویس اپنے اپنے صحائف میں اپنا اپنا ضرور پتہ نشان بتاتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے صحیفہ کو اپنے ہی نام سے لکھتے ہیں۔ متی کی انجیل۔ مرقس کی انجیل وغیرہ۔ ان میں ایک صحیفہ یسوع مسیح کی انجیل کے نام کا پایا نہیں جاتا ہے۔تو بھی عجیب معاملہ یہ ہے کہ نئے عہد کے آٹھ یا نو مصنفوں کے کُل (۲۷)صحائف اُن کے مصنفوں کی ذات سے متعلق نہیں ہیں بلکہ یسوع مسیح کی ذات و شخصیت سے۔ اس کے کام و کلام سے اور اس کے اثر و انجام سے اُن کا علاقہ ہے۔ اس وجہ سے انجیل کے مصنفوں کی بابت یہ سوال پہلے رو برو آتا ہے کہ انجیلی صحائف کے مصنف کون تھے؟ اس سوال کا جواب دینا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ کیونکہ انجیل نویس اپنے اپنے صحائف میں اس بات کا خود جواب تحریر کر گئے ہیں۔ وہ اپنی بابت اجمالاًلکھتے۔ ملاحظہ ہو۔متی ۴: ۱۷۔ ۲۲ ؛مرقس ۱: ۱۴۔ ۱۵ ؛ لوقا ۴: ۱۴۔ ۱۵ ؛ یوحنا ۱: ۳۵۔ ۴۲؛ اعمال ۹: ۱۔ ۳۰ ؛ مرقس کی بابت ملاحظہ ہو۔ اعمال ۱۲: ۱۲ ؛ کلسی ۴: ۱۰ ؛ اعمال ۱۲: ۲۵ ؛ ۱۳ :۵ ؛ اعمال ۱۳: ۳ ؛۱۵: ۳۶ ؛ ۴۱ ؛ لوقا کی بابت ملاحظہ ہو کلسی ۴: ۱۴؛ ۲۔تیمتھیس۴: ۱۱ ؛ فلیمون آیت ۲۴۔ پس ان چند مقامات اور دیگر حوالہ جات کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اور اعتقاد و یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ صحف انجیل کے مصنف یسوع مسیح کے شاگرد اور شاگردوں کے عزیز ہی تھے جو مسیحی تھے۔
انجیل نویس اپنے پیشے اور اپنے دنیوی حیثیتیں خود بتاتے ہیں کہ بعض ان میں مچھیرے تھے۔بعض محصول لینے والے تھے۔ بعض حکیم تھے۔ بعض عالم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اُستاد نے انہیں آدمیوں کا شکار کرنے کو بلایا اور اُنہوں نے اپنے اُستاد کی بُلاہٹ منظور کر کے اپنا سب کچھ چھوڑا اور اس کی پیروی کی تھی۔
وہ اپنی اپنی تحریرات میں اس بات کا صفائی سے اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اُستاد کی زندگی میں جو ساڑھے تین سال کی مدت تھی۔ اپنے اُستاد کو، اُس کی باتوں کو ،صفائی سے نہ سمجھتے تھے۔ تو بھی اس سے اور اُس کی تعلیم سے ہمیشہ دنگ اور حیران ہوا کرتے تھے۔ خصوصاً اُنہیں اُن کے اُستاد کا صلیبی موت سے مرنا اور تیسرے دن زندہ ہونا جس کا ذکر اُن کا اُستاد اکثر کیِا کرتا تھا اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔
وہ اِس بات کے مُقر (اقرار کرنے والا) ہیں کہ اُنہوں نے اپنے طرزِ عمل سے اپنے اُستاد کے ساتھ بےوفائیاں بھی کی تھیں۔ یہوداہ اسکریوتی نے اپنے اُستاد کو تیس روپیہ لے کر پکڑوادیا تھا (متی ۲۶: ۱۴۔۱۶؛مرقس ۱۴: ۱۰۔۱۱ ؛ لوقا ۲۲: ۳۔۶ )پطرس نے تین دفعہ اُستاد کا انکارکیِا تھا۔(متی ۶۶:۱۴۔۷۲؛مرقس ۱۴: ۶۶۔ ۷۶ لوقا ۲۲: ۵۵۔ ۶۳ یوحنا ۱۸: ۱۶۔۱۸ ؛۲۵: ۲۷)۔وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یسوع مسیح نے پطرس کو شیطان کہہ کر ملامت کی تھی( متی ۱۶: ۲۳ )وہ اس بات کا بھی صفائی سے اعتراف کرتےہیں کہ وہ اپنے اُستاد کو دشمنوں کے ہاتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ غالبا ً اس کی یہ وجہ تھی کہ اُن کے اُستا د نے اپنے بچاؤ کے لئے اُنہیں تلوار چلانے کی اجازت نہ دی تھی۔ وہ یہ بات بھی صفائی سے لکھتے ہیں کہ انہیں اُن کی کم اعتقادی پر ملامت بھی کی گئی (مرقس ۱۶: ۱۴ یوحنا ۲۰: ۱۹ )۔ یسوع مسیح کے شاگردوں کی یہی کمزوریاں تھیں جو اُن کے اُستاد کی زمینی زندگی کی سنگت و رفاقت کے ایام میں رونما ہوئی تھیں۔ لیکن اس پر بھی وہ اپنے اُستا د کی محبت و وفاداری سے بندھے رہے۔ یہوداہ اسکریوتی اپنے گناہ کے احساس میں اوراپنے استاد کی بے گناہی کی موت کے رنج میں مرگیا ( متی ۲۷: ۳۔ ۱۰ )۔پطرس اپنے گناہ پر تائب ہوتا ہوا زار زار رویا (متی ۲۶: ۷۵ مرقس ۱۴: ۷۲ لوقا ۲۶ : ۶۱۔ ۶۲ یوحنا ۲۱: ۱۰۔ ۱۷ )جب ان حالات پر غور کرتے ہوئے ہم اس بات کو یاد کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کے شاگردوں نے انجیل کا ایک صحیفہ بھی یسوع مسیح کی زمینی زندگی کے ایام میں نہ لکھا تھا تو اس میں حکمت خدا نظر آجاتی ہے۔
دفعہ ۲
صحف(صحیفہ کی جمع) انجیل الہام پانے کے بعد لکھے گئے
انجیل کی صحائف میں ایک صحیفہ ایسا نہیں جو بغیر الہام پانے کے اس کے مصنفوں نے لکھا ہو وہ اپنے کشف و الہام کا خود ذکر کرتے ہیں۔اُنہوں نے اپنے کشف و الہام میں بالکل نرالی حقیقت پائی اور دیکھی۔ وہ کوئی الواح (لوح کی جمع)پر لکھی ہوئی شریعت نہ تھی۔ نہ انہیں حالت کشف میں انجیل کی تحریر ملی۔انہوں نے حالت کشف والہام میں اپنے استاد کی رؤتیں دیکھیں۔ روح القد س کی نعمت پائی۔ جس کی مختصر کیفیت حسبِ ذیل ہے۔
یسوع ناصری کے شاگرد اس کی صلیبی موت کا۔ اس کے کفن و دفن کا یقین رکھتے ہوئے اُس موت کے تیسرے دن سے زندہ ہونے کی روئتیں دیکھتے ہیں (۱) وہ پہلے مریم مگدلینی کو نظر آتا ہے (یوحنا ۲۰ : ۱۱۔۱۷)۔(۲) وہ دیگر عورتوں پر ظاہر ہوتا ہے (متی ۲۸: ۹)۔ (۳) وہ اماؤس جانے والے شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے (مرقس ۱۶: ۱۲ ؛لوقا ۲۴: ۱۳۔۳۱ )۔(۴) وہ شمعون پر ظاہرہوتا ہے (لوقا ۲۴: ۳۴ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵ )۔(۵) بند گھر میں شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے (مرقس۱۶: ۱۴ ؛یوحنا ۲۰: ۱۹ )۔(۶) توماؔ کے ساتھ گیارہ شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے۔مرقس ۱۶: ۱۴؛۱۔کرنتھیوں ۱۰:۵)(۷) پانچ سو شاگردوں پر ہوتا ہے (متی ۲۸: ۱۶ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۶:۱۵)۔(۸) گلیل کی جھیل پر شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے (اعمال ۱: ۴ )۔(۱۱) قیامت کے چالیسویں روز شاگردوں کے رُو برو آسمان پر اُٹھایا جاتا ہے (مرقس۱۹:۱۶؛لوقا ۲۴: ۵۰۔۵۳؛اعمال ۱: ۹)۔ (۱۲)وہ پولس پر ظاہر ہوتا ہے (اعمال ۹: ۱۔ ۹)۔(۱۳)پتمس کے جزیرہ میں وہ یوحنا رسول پر ظاہر ہوتا ہے (مکاشفہ پہلا باب) یہ وہ رؤتیں اور کشف و الہام ہیں۔ جو بعد وفات خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کوہوئے تھے۔جنہوں نے ان کی زندگی میں عظیم تبدیلی پیدا کی تھی اورانہیں یسوع مسیح کا زندہ ہونا نہ صرف معلوم ہوا تھا بلکہ انہیں اس کی قیامت کا غیر متزلزل یقین ہو گیا تھا۔
یسوع مسیح کے بعد وفات جو ظہور ہوئے اُن کا مقابلہ اس کشف کے ساتھ کر کے دیکھو جو شاگردوں کو اس کی صورت کی تبدیلی میں ہوا تھا۔ ملاحظہ ہو (متی ۱۷: ۱۔۸ ؛مرقس ۹: ۲۔۸ ؛لوقا۹: ۲۸۔۳۶ )۔پس بعد وفات یسوع مسیح کے تمام ظہور اور اس کی روئیتں اس کے اسی کشفی و روئتی وجود کی دوسری صورتیں ہیں جو اس نے اپنی زندگی میں اپنے شاگردوں پر ظاہر فرمایا تھا۔ اس کشفی وجود میں اور اس کے قیامتی ظہورات میں ایسی عجیب و غریب موافقت پائی جاتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس کے سوا یسوع مسیح کی صلیبی موت کے تیسرے دن سے جو شاگردوں کو یسوع مسیح کی روئیتں نظر آئیں وہ پرانے عہد نامہ کی ان رؤیتوں کا عکس و نقش معلوم ہوتی ہیں جوخداوند کے فرشتے کے رؤیتوں کے نام سے مذکور ہوئی ہیں۔ ملاحظہ ہو حضرت ہاجرہ (پیدائش ۱۶: ۷) حضرت ابرہام پر ظہور (پیدائش ۱۸: ۲؛ ۲۲: ۱۱۔۱۸ )حضرت لوط پر ظہور (پیدائش ۱۹: ۱۔۱۷ )یعقوب پر( پیدائش۲۸: ۱۲؛ ۳۲: ۱)موسیٰ پر( خروج ۳: ۲)اسرائیلوں پر( خروج ۱۴: ۱۹)بلعام پر( گنتی ۲۲: ۳۱ )یشوع پر یشوع( ۵: ۱۵ )جدعون پر(قضاۃ ۶: ۱۱۔۲۲ )نوحہ پر( قضاۃ ۱۳: ۶ ؛۲۵: ۲۰ )۔داؤد پر( ۲۔ سموئیل ۲۴ :۱۶ )ایلیاہ پر(۱۔ سلاطین ۱۹: ۵ )الیشع پر( ۲۔ سلاطین ۶: ۱۷ )حزقی ایل پر( حزقی ایل ۱ باب)۔ دانی ایل پر (دانی ایل ۶: ۲۲ )۔ سدرک میسک عبدنجو پر (دانی ایل ۳: ۲۵ )زکریاہ پر (زکریاہ ۲: ۳ )یوسف پر( متی ۱: ۲۰)۔
خداوند یسوع مسیح کے ظہورات میں شاگردوں نے یسوع مسیح کے طبعی جسم کو زندہ نہیں دیکھا۔ گو انہیں تحقیق سے اس کی قبر میں یسوع مسیح کا طبعی مُردہ جسم نہیں ملا تو بھی انہوں نےایک غیر مرئی (وہ جودیکھائی نہ دے)جسم میں اُسے بار بار دیکھا۔ اُس کے غیر طبعی جسم پر وہ نشان بھی دیکھے جو مصلوب ہونے کی حالت میں طبعی جسم پر لگے تھے تو بھی شاگردوں کی رؤیتوں کا یسوع مسیح اپنے اظہاروں میں غیر طبعی جسم میں اُن پر ظاہرہواتھا۔
یسوع مسیح کے ظہور محض چالیس دن کی حد میں محدود نہ تھے۔ کئی سال بعد وہ پولس فریسی پر ظاہر ہوا۔اس کے بہت برسوں کے بعد وہ جزیرہ پتمس میں یوحنا رسول پر ظاہر ہوا۔ پس اس کُل بیان سے ان مخالفین کی بد فہمیوں کی جڑ اور بنیاد جاتی رہی ہے۔جنہوں نے یہ بات گھڑ لی تھی کہ یسوع مسیح صلیب پر مرا نہ تھا۔صرف بے ہوش ہو گیا تھا پھر قبر میں ہوش میں آکر قبر سے نکل گیا۔ بعد کو اپنے شاگردوں کو مل کر کشمیر چلا آیا اور وہاں ہمیشہ کے لئے مر گیا۔
اس کے سوا انجیل سے ظاہر وباہر ہے کہ پینتیکوست کے دن سے پیشتر اور یسوع مسیح کی وفات و قیامت کے بعد انہوں نے نہ تو یسوع مسیح کے نام سے منادی کی نہ کوئی انجیل کا صحیفہ لکھا۔وہ اس بات کا صفائی سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے اُستاد نے اُن کو ایسا کرنے سے تب تک منع کیا تھا۔ جب تک وہ روح القدس سے الہام نہ پائیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُن کے اُستاد نے اُنہیں فرمایا تھا کہ
’’ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخثے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا روح جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی۔ کیونکہ نہ اسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے اور تم اسے جانتے۔ کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا‘‘(یوحنا ۱۴: ۱۶؛ ۱۷)۔
’’مَیں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔ لیکن مدد گاریعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہاوہ سب تمہیں یاد دلائے گا‘‘ (یوحنا ۱۴: ۲۵۔ ۲۶ )۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہو کرانہیں ملا تواُس نے پھرانہیں فرمایا کہ
’’تم ان باتو ں کے گواہ ہو۔اور دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیاہے مَیں اُس کو تم پر نازل کروں گا۔ لیکن جب تک عالمِ بالا سے قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو‘‘ (لوقا ۲۴ : ۴۸۔ ۴۹ ؛ اعمال ۱: ۱۔ ۵)۔
کلام مافوق کے موافق وہ یروشلیم میں وعدہ مذکور کی تکمیل کے انتظار میں ٹھہرے رہے اور دعا و مناجات میں مشغول رہے(اعمال ۱: ۲۱: ۱۴)۔ان ایام میں اُنہوں نے صرف اس قدر کام ضرور کیا کہ یہوداہ اسکریوتی کی جگہ ایک رسول چنا جو باقی گیارہ کے ساتھ مل کر رسالت کا کام انجام دے (اعمال ۱: ۱۵۔ ۲۹)۔ اس بعد لکھا ہے کہ
’’جب عیدِ پینتیکوست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھےکہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زورکی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا اور انہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئیں زبانیں دکھائی دیں اوراُن میں سے ہر ایک پر آٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے۔ جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی ‘‘الخ۔(اعمال دوسرا باب تمام)۔
اس باب میں انجیل نویسوں کے الہام پانے اور مسیحی خدمت کو شروع کرنے اور اس خدمت کے پہلے نتیجہ کا بیان آیاہے۔جس سے خدا کی عجیب و غریب حکمت آشکار ا ہوئی ہے ۔جن شاگردوں کو الہام کی نعمت نصیب ہوئی اُن کا ایک سو بیس سے لے کر پانچ سو تک شمار بیان کیا گیا ہے۔ پس انہیں شاگردوں میں سے بعض نے اس الہامی انعام پانے کے بعد صحائف ِ انجیل کو لکھا۔ لہٰذہ انجیل کا ہر ایک صحیفہ ملہم افراد کا لکھا ہوا ثابت ہے۔ صحائف ِ انجیل کے ہر ایک صحیفہ سےاس کی الہامی نعمت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جس سے ہر ایک سمجھ دار انجیل خواں کی عقل و فکر دنگ ہو سکتی ہے۔
یسوع مسیح کے شاگردوں کی زندگی میں اُن کی خصلت و سیرت میں ،ان قواء ذہنی و روحانی میں ، اُن کی زندگی کے طرزِ عمل میں ، الہام پانے کے بعد جو تبدیلی واقع ہوئی۔ وہ دفعہ ماقبل کے بیان کواعمال کی کتاب کے واقعات سےمقابلہ کر کے بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔ وہ جو روح القدس کا انعام پانے سے پیشتر کم سمجھ اور بے علم معلوم ہوتے تھے۔ وہ جو نہایت بُزدل اور کمزور نظر آتے تھے۔وہ جو اپنی جانوں کو بچانے کے لئے یسوع مسیح کو چھوڑ بھاگنے والے دکھائی دیتے اور اس کا انکار کر کے اپنی جانیں بچاتے معلوم ہوتے تھے۔ وہی اشخاص روح القدس کا انعام پانے کے بعد علامہ اجل(جلیل القدر دانشور) بن جاتےہیں۔ بہادری اور شجاعت مجسم ہو جاتے ہیں۔ خداکی ننگی تلواریں دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے معاصرین (ہم زمانہ لوگ)اُن کے علم وفضل کے آگے عاجز ہو جاتے ہیں۔روم کی طاقت انہیں مغلوب کرنے سے عاجز ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے زمانہ کی ہتھیار بند مخالف سے نہتے اور بغیر تلوار وغیرہ کے لڑتے ہیں اور اس پر تعجب یہ ہے کہ وہ غالب رہتے ہیں۔ صاحبان اگر انجیل کے مصنف ان علاما ت کے ساتھ ملہم اور اگر انجیل کے صحائف ان ملہموں کی تحریرات ہو کر قابل اعتماد و اعتبار نہ ہوں تو دنیاکی کون سی کتاب ہے جو کسی کے نزدیک انجیل سے بہتر معانی میں الہامی کتاب قرار پاکر مانی جا سکتی ہے ؟ اگر مخالفین بائبل کے پاس بائبل یا انجیل سے افضل معانی کی الہامی کتاب ہو یا بائبل کے مساوی معانی کی الہامی کتاب ہو تو مخالفین اسےبائبل کے مقابل پیش کرکے دکھائیں تواُنہیں حقیقت معلوم ہو جائے گی۔
دفعہ ۳
انجیل کی انجیل یسوع ناصری کامسیح ہونا ہے
انجیل لاریب (بے شک)الہامی کتاب ہے اوراکمل معانی میں الہامی کتاب ہے۔ البتہ اس کے الہامی پیغام یا مضمون پر غور کرو۔
ہم نے کہا کہ انجیل( ۲۷ )صحائف کا مجموعہ ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ نو(۹) مختلف مصنفوں نے مختلف جگہوں اور مختلف وقتوں میں لکھا ہے لیکن ہرایک صحیفہ کا مضمون واحد ہے اور وہ واحد مضمون صرف یسوع مسیح ہے۔
یہ ایک نہایت حیرت انگیز اور بالکل ایک غیر معمولی حقیقت ہے کہ انجیل کے صحائف کے تمام مصنف یہودی ہو کر اپنے زمانہ کی یہودی قوم کے عقائد اور رسم ورواج سے اور پرانے عہد نامہ کی تعلیم سے اور انبیا ءکےطریقِ الہام سے واقف و آگاہ ہو کر اپنے صحف کو لکھتے ہیں۔ پر کسی مصنف کا مضمون یسوع مسیح سے باہر خداکا تصور نہیں خدا کی شریعت نہیں۔ شریعت کے مسائل کی تفسیر و تشریح نہیں۔ اپنے زمانہ کی یہودی قوم کی غلط کاریوں کی اصلاح نہیں۔ یونانیوں ، رومیوں اور دیگر بت پرست اقوام کی بت پرستی کی تردید و تکذیب (جھوٹ بولنے کا الزام لگانا)نہیں۔انہیں اپنے زمانہ کی ملکی حکومت کے مظالم کے خلاف واویلا نہیں۔ نہ خود ان مصنفوں کے شخصیتیں اُن کی تحریرات کا موضوع ہیں۔ پر ہر ایک مصنف کی تصنیف کی جان اور اس کا ہیرو یسوع مسیح کی شخصیت ،اس کا کام و کلام و انجام ہے۔ اس میں خداکی سچائی و صداقت کی اُس کی حضوری کے ظہورات کی روئتیں اور عہدِ قدیم کے کلام کی تکمیل کے مشاہدے ہی ہیں جن کو وہ معمولی حالت میں اور معمولی زبان میں لکھتے ہیں۔
ہر ایک مصنف کا یسوع مسیح دوسروں سےایک حد تک مختلف ہے۔ ان کے یسوع مسیح کی بابت بیانات ایک دوسرے سے اختلاف و موافقت رکھتے ہیں۔ یہ اختلاف و موافقت ہی انجیل کی وہ خوبی اور صداقت ہے جو فی زمانہ بڑے بڑے مخالفین مسیحیت کا سر نیچا کرتی آئی ہے۔کیونکہ ایک ہی موضوع پر قلیل یا کثیر افراد کا لکھنا ان کے بیان کی مخالفت و موافقت کی بنا پر ہی درست مانا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے انجیلی صحائف کا اپنے موضوع پر اختلاف و موافقت انجیلی بیا ن کی خوبی پردال(کھرنڈ،زخم کا انگور) مانا جا سکتا ہے۔ جس بیان کو ترتیب دے کر خداوند یسوع مسیح کی بابت پوری کیفیت معلوم ہو سکتی ہے۔
مزید برآں انجیلی صحائف کے مصنفوں کے اس بیان پر جو انہوں نے یسوع مسیح کی بابت غور فرمائے ہیں غور کیا جائےاور اُسے یکجا ترتیب دے کر دیکھاجائےتو انسان کی عقل فکر دنگ رہ جاتی ہے کہ وہ یسوع مسیح کی انسانیت میں الوہیت کے وہ انوار دکھاتے ہیں کہ جو کسی کی عقل و فکر میں کبھی نہیں آئےتھے۔ذیل کی باتوں پر غور فرمایا جائے۔
انجیل کےمصنف یسوع ناصری کو آدم قرار دیتے ہیں( ا۔کرنتھیوں ۴۵:۱۵)۔وہ اسے مدد گار ، وکیل ، شفیع کہتے ہیں( ۱۔ یوحنا ۲: ۱) وہ اسے الفا و اومیگا کہتے ہیں (مکاشفہ ۸:۱؛۶:۲۱؛۱۳:۲۲)۔وہ اس کا نام آمین رکھتے ہیں(مکاشفہ۳: ۱۴)۔وہ اس کا نام مسیح رکھتے ہیں ( یوحنا ۱: ۴۱ )۔وہ اسے خداوند کا مسیح کہتے ہیں (عبرانیوں ۳: ۱۳۔۱۴)۔وہ اسے روح القد س سے مسح یافتہ قراردیتے ہیں ( اعمال ۱۰: ۳۸ )۔وہ اسےرسول کہتے ہیں (عبرانی ۳: ۱)۔ وہ اسے ایمان کا کامل کرنے کہتے ہیں (عبرانی۲:۱۲)۔وہ اسے ابدی نجات کا بانی قرار دیتے ہیں ( عبرانی ۵: ۹)۔وہ اسےابتدا اور انتہا کہتے ہیں( مکاشفہ ۲۲: ۱۳)۔ وہ اسےخدا کی خلقت کا مبدا کہتے ہیں (مکاشفہ ۳: ۱۴ )۔وہ اس کا نام باپ کا مولود رکھتے ہیں وہ اسے خدا کا محبوب بتاتے ہیں (متی ۱۲ : ۱۸ )۔وہ اسے خدا کا پیارا بیٹا کہتےہیں(متی ۳: ۱۷ )وہ اسے روحوں کا نگہبان قرار دیتے ہیں(۱۔ پطرس ۲: ۲۵ )۔وہ اسے مبارک حاکم قرار دیتے ہیں (۱۔تیمتھیس۱۵:۶)۔وہ اس کا مقابلہ پیتل کے سانپ سے کرتےہیں ( یوحنا ۳: ۱۴ )۔وہ اس کا نام آسمانی روٹی رکھتے ہیں (یوحنا۶: ۱)۔وہ اسے زندگی کی روٹی کہتےہیں (یوحنا ۶: ۴۸)۔اسے دلہا قرار دیتے ہیں (متی ۹: ۱۵)۔اسے صبح کا نورانی ستارہ قرار دیتے ہیں ( مکاشفہ ۲۲: ۱۶ )۔وہ اسے خدا کے جلال کی رونق بتاتے ہیں (عبرانیوں ۱: ۳ )۔پھر اسے بھائی کہتے ہیں (متی ۱۲: ۵۰)۔ وہ اسے خداکا برگزیدہ کہتے ہیں( متی ۱۲: ۱۸ ؛لوقا ۲۳: ۳۵ )۔وہ اسے اسرائیل کی تسلی کہتے ہیں (لوقا ۲: ۲۵ )۔وہ اسے کونے کا پتھر قرار دیتے ہیں (افسیوں ۲: ۲۰ ؛ ا۔پطرس ۲: ۶ )۔وہ اسے چراغ بتاتے ہیں( ۲۔ پطرس ۱: ۱۹ )۔اسےرہائی دہندہ بتاتے ہیں (رومیوں ۱۱: ۲۶ )۔بھیڑ خانہ کا دروازہ نام رکھتے ہیں ( یوحنا ۱۰: ۷۔ ۹ )۔اس کا نام عمانوایل رکھتے ہیں( متی ۱: ۲۳ )۔اسے ہمیشہ کی زندگی قرار دیتے ہیں( یوحنا ۵: ۲۱ )۔اسے اندیکھے خدا کی صورت اور اس کی ماہیت کا نقش کہتے ہیں (عبرانی ۱: ۳ )۔ایک سچا گواہ اس کا نام رکھتے ہیں ( مکاشفہ ۱: ۵ ؛۳: ۱۴ ؛۱۹: ۱۱ )۔مُردوں میں پہلوٹھا اس کا نام رکھتے ہیں( مکاشفہ ۱: ۵)۔ اپنے بھائیوں میں پہلوٹھا اسے قرار دیتے ہیں (رومیوں ۸: ۲۹ )۔تمام مخلوقات میں پہلوٹھا اس کا نام رکھتے ہیں ( کلسیوں ۱: ۱۵ )۔پہلا پھل اسے قرار دیتے ہیں ( ۱۔ کرنتھیوں۲۰:۱۵)۔گناہگاروں کا دوست اس کا نام رکھتے ہیں (متی۱۱: ۱۹)۔اسے خدا کی بخشش بتایا جاتا ہے یوحنا ۴: ۱۰؛۲۔ کرنتھیوں ۹: ۱۵)۔اسرائیل کا جلال اسے بتایا جاتا ہے (لوقا ۲: ۳۲ )۔اسے مظہر اللہ بتایا جاتا ہے (۲۔ کرنتھیوں۵: ۱۹ ؛کلسیوں ۲: ۹ )۔تمام اختیارات کا سر اس کا نام رکھا جاتا ہے (کلسیوں ۲: ۱۰ )۔اسے ہر ایک آدمی کا سر قرار دیا جاتا ہے ( ۱۔ کرنتھیوں ۱۱: ۳ )۔وہ تمام چیزوں کا سر و سردار بتایا جاتا ہے (افسیوں۱: ۲۳ )۔تمام چیزوں کا وارث بتایا جاتا ہے (عبرانیوں ۱: ۲ ؛ رومیوں ۴: ۱۳ )۔اسے سردار کاہن قرار دیا جاتا ہے (عبرانی ۳: ۱؛۷: ۲۶ )۔نجات کا سینگ اس کا نام رکھا جاتا ہے ( لوقا ۱: ۶۹ )۔اسے زندہ اور مُردوں کا منصف بتایا جاتا ہے (اعمال ۱۰: ۴۲)۔یہودیوں کا بادشاہ اسے قرار دیتے ہیں ( یوحنا ۱: ۴۹ )۔بادشاہوں کا بادشاہ اسے قرار دیتے ہیں (مکاشفہ ۱۷ : ۱۴؛ ۱۹: ۱۶ )۔صیون کا بادشاہ اسے قرار دیا جاتا ہے (متی۲۱: ۵)۔ خداکا برہ اس کا نام رکھا جاتا ہے (یوحنا۱: ۲۹ ،۳۶ )۔روشنی اسے ٹھہرایا جاتا ہے (یوحنا ۱: ۹)۔غیر قوموں کی روشنی اس کا نام رکھا جاتا ( لوقا ۲: ۳۲ )یہوداہ کے فرقہ کا شیر اسے قرار دیتے ہیں (مکاشفہ ۵: ۵)۔ آسمانی خداوند اس کا نام رکھا جاتا ہے( ۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۷ )زندوں اور مُردوں کا خداوند اس کانام رکھا جاتا ہے (رومیوں۱۴: ۹ )۔ خداوند دل کا خداوند اس کی بابت کہا جاتا ہے (مکاشفہ ۱۷ :۱۴؛۱۹: ۱۶)۔ اُستاد اس کا خطاب آتا ہے ( متی ۸: ۱۹)۔وہ درمیانی پکارا جاتا ہے( ۱۔ تیمتھیس ۲: ۵ ؛عبرانیوں ۹: ۱۵ )۔مہربان اور وفادار اسے قرار دیا جاتا ہے (عبرانیوں ۲: ۱۷ )۔نبی اسے قرار دیا جاتا ہے( لوقا ۲۴: ۱۹ ؛اعمال ۳: ۲۲۔۲۳ )۔وہ اسے مختونوں کا خادم کہتے ہیں (رومیوں ۸:۱۵)۔ہیکل کا خادم کہتے ہیں (عبرانیوں ۸: ۲ )۔داؤد کی اصل و نسل کہتے (مکاشفہ ۲۲: ۱۶)۔کلام مجسم بتاتے ہیں( یوحنا ۱: ۱۴ )۔زمین وآسمان کا مختار قرار دیتے ہیں (متی ۱۱: ۲۶۔۲۷ )راہ حق اور زندگی اس کا نام رکھتےہیں (یوحنا ۶:۱۴)۔مقدسوں کی فسح اسے قرار دیتےہیں( ۱۔کرنتھیوں ۵: ۷ )۔قیمتی موتی اس کا نام رکھتے ہیں (متی ۱۳: ۴۶ )۔اسے حکیم ظاہر کرتے ہیں( متی ۹: ۱۲)۔نجات دینےوالا شہزادہ اسے قرار دیتے ہیں ( اعمال ۵: ۳۱)۔اسے اپنے گناہوں کا کفارہ بتاتے ہیں (ا۔ یوحنا ۲:۲ ؛ ۴: ۱۰ )۔ جہاں کا نور بتاتے ہیں۔ دوسرا آدم بتاتے ہیں(۱۔کرنتھی ۱۵: ۴۷ )۔گڈریا قرار دیتے ہیں (یوحنا ۱۰ :۱۱ )۔اسے یوناہ اور سلیمان اور ہیکل سے بڑا ٹھہراتےہیں۔ اسے ابنِ خدا اور ابنِ آدم کےناموں یا د کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
غرض یہ کہ انجیل کے ملہموں کے لئے یسوع ناصری ان معانی میں ’’مسیح‘‘ ہے کہ وہ اکیلا خداکی خدائی کا مظہرہے۔ وہ یسوع ناصری کو جو ایک بشر و انسان تھا۔بشرو انسان ہی دکھاتے ہیں پر اسے ’’مسیحِ موعود‘‘بنا کر خدا کا عجیب و غریب مظہر بنا دیتے ہیں۔ اسی سبب سے وہ نہایت دلیری سے کہہ دیتے ہیں اس میں حکمت و معرفت کے خزانے پائےجاتے ہیں۔
بیان مافوق سے ظاہر ہے کہ انجیلی صحائف کے مصنفوںاور ملہموں کی تحریرات عوام کے لئے انجیل ہیں۔پر اُن مصنفوں اور ملہموں کی انجیل یسوع ناصری مسیح ہے۔جس کی قدروقیمت انسانی عقل و فکر سے بالا تر ہے اور بالا تر رہے گی۔
مزید برآں انجیل کا یسوع مسیح یونانی فلاسفر پلیٹو کے لاگاس کا ،یہودی فلاسفر فیلو کے میمرا ولاگاس کا ،پرانے عہد نامہ کی اُن بشارات کا جو مسیحِ موعود کے متعلق آئی ہیں۔ یہودی روایا ت خصوصاًحنوک کی کتاب کے مسیحِ موعود ایسا اکمل مابدل ہے کہ جس کی آج تک مثال ناپید ہے۔ یسوع ناصری کی شخصیت کو ایک طرف کر کے دیکھ لو تو یونانیوں اور یہودیوں کی تمام امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں اور ان کے فلسفہ کی تمام سچائی دیوانوں کے توہمات بن جاتی ہے۔
پولس کے سوا نئے عہد کے تمام مصنف مچھیرے ثابت ہیں وہ اپنے زمانہ کے علم و فضل سے محروم ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ عوام میں سے تھے جنہوں نے یسوع مسیح سے ساڑھے تین برس تعلیم پا کر اس کی زمینی زندگی میں کسی بات میں نام پیدا نہ کیِا تھا۔ پر یسوع مسیح کی وفات کے بعد اُن کا اپنے اُستاد کو مجسم کلمتہ اللہ بنا کر مظہر اللہ بنا دینا ایک ایسا تاریخی معجزہ ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی ہے۔ وہ اس کی زندگی میں کمال درجہ کے ڈرپوک اور اُس کی باتوں کو سمجھنے میں سُست اور کم فہم ثابت ہوکر اُس کی وفات کے بعد اپنےاُستاد کی زندگی میں خدا کی خدائی کا اسرارِ مخفی پاتے ہیں اوراس اکیلے کو کائنات کے قفلوں کی چابی بنا دیتے ہیں اور پھر عملی طور سے وہ اپنے اُستادِ کامل کے ایسے وفادار وجان نثار بن کر دکھاتے ہیں کہ جن کی وفاداری اور ایمانداری کی مثال ملنا دُشوار ہے۔
اس پر انجیل کا کمال اس بات میں پایا جاتا ہے کہ انجیل نویس اپنی اپنی تحریرات معمولی عقل وفکر کے ساتھ لکھتے ہیں۔ معمولی مشاہدات کے خلاصے قلم بند کرتےہیں۔ معمولی طور سے یسوع کی زمینی زندگی کے کام و کلام و انجام کا بیان کرتےہیں پر اس سادگی میں وہ کچھ ایسا جادو بھر جاتے ہیں جو(۱۹۲۶) برس کی علمی دنیا کے ذہن و فہم سے بلند و بالاہے۔ پس ہم سچائی سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسیحیوں کی انجیل الہامی نہیں تو دنیا کی کوئی کتاب الہامی ہونے کی ڈینگیں نہیں ہانک سکتی ہے۔ انجیل الہامی کتاب ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیگر کتب مذہبی کو چھوڑ کر انجیل کو مانتے ہیں ۔
دفعہ ۴
یسوع مسیح اور مسلم بزرگ
فصوص الحکم کا مصنف لکھتا ہے
’’ پس حق تعالیٰ عالم کی تدابیر صورت عالم کے بھی نہیں کر سکتااور اسی واسطے اللہ نےحضرت آدم کے بارے میں فرمایا جو عالم کے سرنامہ اور نمونہ ہیں اور حضرت الٰہی کے کُل صفات کے جامع ہیں اوراُس کی ذات اور صفات اور افعال کے مظہر ہیں کہ اِن اللہ خَلق اَدَم عَلٰے صُورَتِہ ترجمہ: اللہ نے حضرت آدم کو اپنی صورت پر بنایا اور اللہ تعالیٰ کی صورت سوایِ حضرات الٰہی یعنی اسماء و صفات کی دوسری چیز نہیں ہے۔ پھراللہ نے انسان کامل میں کُل اسمایِ الٰہی کو موجود کیِا اور وہ اسماء اس کی ذاتی نسبتیں ہیں اور اس میں اُن حقائق کو موجود کیِا جو اللہ تعالیٰ سے اس عالمِ کبیر اور مفصل میں ظاہر ہیں۔ اور اس کو عالمِ کبیر(بڑا بزرگ) کے لئے روحِ رواں بنایا اور اعلیٰ اور اسفل کو کمال صورت کے سبب سے اُس کا مسخر بنایا اور جس طرح کُل اشیایِ عالم اللہ کی تسبیح اور تمجید کرتے ہیں ویسی ہی جتنی چیزیں عالم میں ہیں وہ سب اس انسانِ کامل کےمسخر ہیں اور انسان کی خود کمال صورت ان چیزوں کو اُس کی مسخر کر دیتی ہے اور اُس کی حقیقت خود اس کو تقضی ہےبلکہ اللہ نے فرمایا بھی ہے کہ وسخر لکھ مافی السموات و ما فی الارض جمیعامنہ اوراللہ نےاپنی طرف سے تمہاری مسخر (فتح کیا گیا)اُن چیزوں کو کردیا جو زمینوں اور آسمانوں میں ہیں۔ پس جتنی چیزیں کہ عالم میں ہیں وہ سب انسانِ کامل کے زیرِ تسخیر ہیں اور جو اس کو جانتاہےاوروہی جانتاہے اور وہ جو اسے جانےوہ انسان کامل ہےاورجو اس کو نہیں جانتاہےوہی نادان ہے اور وہی انسان صورت حیوان سیرت ہے‘‘۔
)منقول از فصوص الحکم صفحہ ۲۵۷مطبوعہ مجتبائی پریس لکھنؤ)
انسانِ کامل حصہ دوم کا مصنف لکھتا ہے۔ پس اب جاننے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا نسخہ جیسے کہ رسول اللہ صلےاللہ علیہ وسلم نےخبردی ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےآدم علیہ السلام کو رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا ہے اور دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نےآدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ حیّ ہے اور علیم ہے اور قادر ہے اور مریدہے اورسمیع ہے اور بصیر ہےاور متکلم ہے۔ ایسے ہی انسان بھی حیّ ہے اور علیم ہے اورسمیع اور بصیر متکلم ہے۔ پھر ہویت کے ساتھ مقابل ہے اور انیت (بے انصافی ،ظلم)کا انیت کے ساتھ ہے۔کل کا کل ساتھ ۔اور شمول کا شمول کے ساتھ خصوص کا خصوص کے ساتھ مقابل ہے اور اس کا ایک اور مقابلہ ہے کہ حقائق ذاتیہ(شخصی) کے ساتھ حق کا مقابل بھی ہے اور ہم نے اس کتاب میں کئی جگہ اس کا ذکر کیِاہے یہاں اس کا بیان اسی قدر کافی ہے۔
پھر جاننا چاہئے کہ انسان کامل وہ ہے کہ جو اسماء ذاتیہ اور صفاتِ الٰہیہ کا اصلی او رملک کے طورپرمتقضاء ذاتی کے حکم سے مستحق ہو۔کیونکہ وہ ان عبارات کے ساتھ اپنی حقیقت سے تعبیر کیا گیاہے اور ان اشارات کے ساتھ اپنےلطیفہ(اچھی چیز،نیکی،دلچسپ،انوکھا) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کا وجود میں سوائے انسانِ کامل کے کوئی مستند نہیں ہے۔ پس اس کی مثال حق کے لئے ایسی ہے جیسے ایک آئینہ کہ اس میں کوئی شخص اپنی صورت بغیر اُس آئینہ کے نہیں دیکھ سکتا ہے ،ورنہ بغیر اللہ کے اسم کے اپنے نفس کے صورت دیکھنا اُس کو غیر ممکن ہے۔ پس وہ اس کا آئینہ ہے اور انسانِ کامل بھی حق آئینہ ہے کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ امر واجب کر لیا ہے کہ اپنے اسمأ اور صفات کو بغیر انسانِ کامل کے نہیں دکھاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے یہی معنی ہیں اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔
ترجمہ: یعنی اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا کیونکہ اس کو اس درجہ سے اپنے مرتبہ کا نہ جاننے والا نازل کیا اس واسطے کہ وہ امانت الٰہی کی جگہ ہے۔مگر وہ نہیں جانتا؟(سورۃ الاحزاب آیت ۷۲)۔
دفعہ ۵
انجیل کا یسوع مسیح دنیا بھر کی اقوام کی امید کی تکمیل ظاہر کیِا گیا ہے
ہم طوالت کے خوف سے یسوع مسیح کے زمانہ کی دنیا کی امید کا بیان مفصل نہیں کر سکتے تو بھی ناظرین کرام کی تسلی کے لئے کچھ حوالے نقل کرتے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں :۔
ا۔ یہودی قوم کے پاک نوشتوں کی امید یسوع مسیح میں پوری کر کے دکھائی گئی ہے۔
ملاحظہ ہو مثلاً پیدائش ۳: ۱۵؛ متی ۴: ۱۔۱۱ ؛ گلتیوں ۴:۴ ؛کلسیوں ۲: ۱۵ ؛پیدائش ۱۲: ۳ ؛اعمال ۲: ۱۔ ۱۱ ؛پیدائش۴۹ : ۱۰ ؛یوحنا ۱۲: ۳۲ ؛ ۱۹: ۱۵ ؛خروج ۱۲: ۴۶ ؛یوحنا ۱۹: ۳۳؛ احبا ر ۱۶ : ۷۔ ۲۲ ؛یوحنا ۱: ۲۹ ؛گنتی ۲۴: ۱۷ ؛متی ۲:۲ ؛مکاشفہ ۲۲: ۱۶ ؛استثنا ۱۸ :۱۵ ؛متی ۱۳: ۵۴۔۵۶ ؛لوقا ۱۹ : ۴۸ ؛۲۴ : ۱۹ ؛ایوب ۱۹ : ۲۵ ؛یوحنا ۷: ۳۷ ؛ ۸: ۵۸ ؛زبور۶:۲؛ متی ۲۸ :۱۸ ؛زبور ۱۶: ۱۰ ؛متی ۲۸ :۶ ؛زبور ۲۲: ۱ ؛متی ۲۷ : ۴۶ ؛زبور ۲۲: ۱۸ ؛یوحنا۱۹: ۲۳ ؛زبور ۴۰ : ۶۔۸ ؛یوحنا ۵: ۳۰ ؛زبور ۴۵: ۱ لوقا ۴: ۲۲ ؛زبور ۱۸: ۱۸ ؛مرقس ۱۶: ۱۹؛ زبور ۶۹ : ۹ ؛یوحنا ۲: ۱۴۔ ۱۷ ؛زبور ۶۹ :۲۱ ؛یوحنا ۱۹: ۲۸ ؛زبور ۱۱۰ ؛متی ۲۲ : ۴۴ ؛زبور ۱۱۸ :۲۲ ؛متی ۲۱ :۴۳ ؛یسعیاہ ۷: ۱۴ ؛متی ۱: ۲۳ ؛یسعیاہ ۹: ۶؛ متی ۱۱: ۲۷ ؛لوقا ۲: ۱۱؛ ۲۱ : ۲۱؛۱۔ تیمتھیس ۳: ۱۶ ؛یسعیاہ ۳۵ :۴۔۶ ؛متی ۱۱: ۳۔ ۵ ؛یسعیاہ ۴۲ : ۱؛ متی ۱۲: ۱۵۔۲۱ ؛مرقس ۱: ۱۰ ؛ ۱۰ : ۴۵ ؛یسعیاہ ۵۳ : ۷ ؛متی ۲۶ :۳۸ ، ۶۷ ؛لوقا ۲۳ : ۱۸ ؛یوحنا ۱: ۱۱ ؛یسعیاہ ۵۳: ۹ ؛متی ۲۷: ۳۸ ؛ ۵۷۔۶۰ ؛یسعیاہ ۶۱: ۱ ؛لوقا ۴: ۲۱ ؛یرمیاہ ۲۳: ۵۔ ۶ ؛۲: ۴۴ ؛متی ۲: ۲ ؛لوقا ۱: ۲۳ ؛دانی ایل ۹: ۲۶ ؛یوحنا ۱۱: ۵۰ ؛۱۴: ۳۰ ؛ہوسیع ۱۱: ۱ ؛ ۱۳: ۴ ؛متی ۲: ۱۴ ؛ہوسیع ۱۳: ۱۴ ؛متی ۲۸ : ۶ ؛میکاہ ۵: ۲ ؛متی۶:۲؛ حبقوق ۲: ۷ ،۹ ؛لوقا ۲: ۱۴ ؛زکریاہ ۹:۹ ؛یوحنا ۱۲: ۱۲۔ ۱۵ ؛زکریاہ ۷:۳؛متی ۲۶ : ۵۶ ؛ملاکی ۳: ۱ ؛لوقا ۷: ۲۷ وغیرہ
۲۔ہم نے کہا کہ یسوع مسیح کے شاگرد اپنے اُستاد کی زمینی زندگی کے ایام میں نہایت معمولی اور عام اِنسا ن معلوم ہو سکتے ہیں۔ ان میں عام کمزوریاں نظر آسکتی ہیں۔ پر ان کی تحریرات کو غور سے پڑھ کر دیکھو تو تمہیں اُن کی معلومات نہایت وسیع نظر آئیں گی۔ وہ غیر یہودی اقوام کی بابت یہودی قوم سے بالکل نرالہ فیصلہ رکھتے معلوم ہوتے ہیں وہ غیر یہودی اقوام میں خدا کے جاننے والےاور خدا کے گواہوں کا دیدار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ زمانہ ماضی اور حال کی غیر یہودی اقوام بھی اپنی فطرت کی روشنی میں خدا شناسی کے درجہ تک پہنچتی نہیں۔اگرچہ ان اقوام میں آج تک خدا پرستی کی جگہ باطل پرستی نے لے رکھی ہے۔بطور مثال اعمال ۱۶:۱۴۔۱۷؛۴۶:۱۳۔۴۷؛رومیوں ۱۹:۱۔۲۳ کا ملاحظہ فرمایا جائے۔
یسوع مسیح کے شاگرد وں کی یہ وسعت نظری اور وسعت خیالی ہر ایک سلیم الطبع (حلیم،دانش مند)ناظر (محافظ)کے لیے حیران کرنے والی حقیقت ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے غیر یہودی اقوام کے بزرگوں کی واجبی عزت کر کے اُن کی عقلی و طبعی روشنی کی قدرو توقیر قائم کر دی ہے۔ یہ خیال یہودی قوم میں ناپید تھا۔ اس سے اُنہوں نے الہامی اور عقلی روشنی کا مصدر و منبع ایک ہی تسلیم کیا اور وہ اُن کے نزدیک اسرائیل کا خدا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ اِس بات کو بھی ظاہر کر گئے کہ اہلِ عقل فی زمانہ الہامی صداقت کے محتاج چلے آئے ہیں۔ کیونکہ یسوع مسیح کا غیر اقوام کے لیے برکت و نور مقرر ہونا اور ان کا زمین کے کناروں تک نجات کا باعث ہوناہے۔ان نزدیک ایک الہامی صداقت ہے جس کا عقل نے بھی اعتراف کیا ہے۔ یسوع مسیح کے شاگرد غیر اِسرائیلی اقوام میں ان گواہوں کے نام نہیں بتلاسکے جو خدا نے اُن میں پیدا کئے تھے۔ پر ہم اُن کے نام بھی پیش کرسکتے ہیں۔ جو غیر اِسرائیلی اقوام میں عقلی روشنی پاکر خدا پر کسی نہ کسی معافی میں گواہی دے گئے تھے۔ مثلاً Asian Christologyنامی کتاب مطبوعہ مرذرن اینڈ کمپنی لمیٹیڈThe Maheyaua ٹوکیو۔ اساکا یکوہاما واقع جاپان کے مصنف نےصفہ ۱۷۶ پر کنفوشس کی یہ پیشنگوئی لکھی ہے کہ
’’ مغرب میں ایک سا دھو پیدا ہوگا جو مقدس تثلیث یاٹرائنگل کا کھویا ہوا علم بحال کرے گا‘‘۔
گفوتزےیا کنفوشیئس اور مہاتمابدہ دراصل ہم زمانہ تھے۔ مہاتمابدہ کا نردان (۴۷۸)قبل از مسیح ہوا تھا اور کنفوشس کا انتقال( ۴۷۹ )قبل از مسیح ہوا تھا۔
۳۔ اس سے بڑ ھ کر مہاتما بدہ کی پہلی پیشنگوئی ہے جسکا ملحض (خلاصہ)حسب ذیل ہے۔ مہاتما بدہ نے فرمایا تھا کہ
’’میری وفات کے پانچو سو برس بعد ایک دوسرا مذہب کا اُستاد مبعوث ہوگا۔جو اِس پیشنگوئی کے پورا ہونے پر ایمان پیدا کرے گا۔ تم کو جاننا چاہیے کہ ہو اپنی تعلیم کو نہ ایک بد یا(علم،چال،علم کی دیوی ،جادو) پر نہ دو پرنہ تین پر نہ چار پر نہ پانچ پر نہ دس ہزار پر بلکہ تمام بدھا (مرد دانا)پر رکھےگا۔ کیونکہ وہ تمام بدھا کا چشمہ یا مصدر ہے جب میری بشارت کا ثبوت آجائے تب تم کو اس پر ایمان لانا چاہیے اورتب تم بے شمار پرکت پاؤ گے۔
تب آپ کے پیارے شاگرد انندانے کہا کہ جب و ہ آیئگا تو ہم اُسے کیسے جانیں؟
تب اُستا دنے جواب دیا کہ اُس کا نام میتریا ہوگا جس کا ترجمہ محبت ہے‘‘۔
کتاب ایضاً صفہ ۹۷۔
۴۔ مہا بھارت کے ناموں سے کون واقف و آگاہ نہیں۔ اِسکا اُردو میں ترجمہ ملک الشعرامنشی وواسکارشا دانق لکھنوی نے اُردو میں کیا ہے اُس کے (۱۱۴)صفحہ پر یہ پیشین گوئی مذکور ہے کہ اس دورہ میں پیشنگوئی ہے کہ
’’بلدہ سبنل مرادآباد میں بھادوں کرشن ۳ کو مناڈہ برہمن بشن شرما نام کےگھر میں کلکی یعنی نشکلنک ادتا ہوگا‘‘۔
مافوق بیان سے اگر یہ نتیجہ نکالنا بعیداور فہم نہیں کہ خدا نے غیر یہودی اقوام کو جو عقلی روشنی بخشی اُس کا موعود بھی یہودیوں کے مسیح موعود‘‘ کی سی شخصیت ہی تھا جس سے پایا جاتا ہے کہ الہامی نوشتوں کے مسیح مو عود میں اور غیر یہودی اقوام کے لاگاس اور مغربی سادھو اور نشکلنک اوتاراور بدھا کے یشور(خدا) میں کوئی فرق نمایاں نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال تو ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ یسوع مسیح کے معانی کی ہستی کی آمد کی اقوام دہر منتظر تھیں۔ مگر اُن کی انتظاری صرف یہودی قوم کے یسوع مسیح میں پوری ہوئی اسی سبب سے اُس کے شاگردوں نے سچائی سے اس بات کو لکھا ہے ’’اور کسی دوسرے وسیلے سے نجات نہیں۔ کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں ‘‘( اعمال ۱۲:۴)۔
تیسرا باب
بائبل اور قرآن شریف کی بابت تحریف و تنسیخ کے متعقدوں کے عقیدے
پہلے باب میں مخالفین بائبل کے خیالات کو روبرو رکھ کر ہم نے اجمالاً (مختصر)بائبل کی اصلیت واعتبار کا۔ اس کی برکات و فتوحات کا مسیحی نقطہ خیال سے بیان کیا ہے۔ تاکہ ناظرین کرام ان الزامات کی سماعت کے لیے تیار ہوجائیں جو باب ہذا میں پیش ہونے کو ہیں دراصل باب اول کا بیان نہایت مختصر ہے۔ طوالت کے خوف سے اور رسالہ کی ضخامت کو قابو میں رکھنے کو لیے ہم اس میں اضافہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ورنہ بائبل کی اصلیت و اعتبار کا مضمون نہایت وسیع ہے جس پر ہم بافضل خدا بہت کچھ لکھ سکتے تھے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہمارے موجودہ پروگرام کی تکمیل کے لیے کافی ہے۔ اس سے بائبل کے مسلم مخالفین کی اصلیت و اعتبار کی بابت مسیحی خیالات کا نمونہ دکھانا مطلوب تھا۔ سو وہ ہم نے باب اول دوم میں پیش کردیا ہے۔
باب ہذا میں ہم بائبل اورقرآن اور عربی کی بابت مُسلمانوں کے عقائدوبیانات پیش کرنے والے ہیں۔ جو حق پسندوں کے دل ہلانے والے ہیں۔ یہ عقائدو بیانات سب مسلمانوں کے نہیں ہیں۔بلکہ مسلمانوں کے ایک فریق کے ہیں جو بائبل کی تحریف و تنسیخ کامعتقدہے جو مسیحیت کو کفرو دجل (جھوٹ،فریب)کا ہم معنی خیال کرتا ہے۔ جو مسیحیوں کو کافرومشرک ودجال(جھوٹا ،مخالف مسیح۔روایت کے مطابق ایک جھوٹا شخص جو اخیرزمانہ میں پیدا ہوگا۔مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح اسے قتل کریں گے ) یقین کرتا ہے۔ باب ہذا میں اس مسلم فریق کے عقائد وبیان کو پیش کر کے اسکی غلطی کو اس آشکاراکر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ اس فریق کی مسیحیوں اور مسلموں میں نفرت انگیزی کو روکا جائے ناظرین کرام سے امید کرتے ہیں کہ وہ آنے والے بیان کو غور فکر سے دیکھیں گے۔
پہلی فصل
بائبل کی تحریف کے مدعیو ں کامع ثبوت دعویٰ
سنت جماعت کا عقائد نامہؔ شرح عقائد نسفی‘‘ ترجمعہ تہذیب العقائد ایک نہا یت مشہورومعروف کتا ب ہے جس میں لکھا ہے۔
’’یہ انجیل و توریت وہ نہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ اہلِ کتاب جو اُن کو وہی بتاتے ہیں یہ اُن کا فریب ہے۔ نزول قرآن مجید کے وقت اصل توریت و انجیل و دیگر صحفِ انبیایِ سابقین دنیا پر نہ تھے۔ حوادث (حادثہ کی جمع)زمانہ سے صفحہ عالم سے ناپید ہوگئے تھے‘‘۔
صفحہ۱۴۰ و عقائد و السلام مصنفہ مولوی عبدالحق صاحب دہلوی صفحہ ۹۶سے۹۸ تک۔ اس پر پیغامِ صُلح لاہور مطبوعہ ۲۰،۶ ستمبر ۱۹۴۰ء میں حسب ذیل بیان لکھتا ہے۔ جس میں سے بغرض اختصار صرف ۲۰ ستمبر کا بیان نقل کیا جاتا ہے۔ دہومذا۔
کتب سابقہ میں تحریف
قرآن مجید کا یہود نصاریٰ کو باربار تحریف کا مجرم قرار دینا ہی ثابت کرتا ہے۔ کہ یہ تحریف صرف معنوی نہیں۔ کیونکہ تحریف معنوی میں تو اِنسان اپنے قصور فہم اور عقل نارسا (بے اثر)کی وجہ سے ایک حد تک معذور بھی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کتاب یا الفاظ کے معانی کے متعلق اختلافات کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ دنیا میں بہت سے اختلافات اسی بنا پر ہوتے ہیں اور بسا اوقات دونوں مخالف فریق نیک نیتی سے اپنے اپنے مفہوم پراڑے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے اِختلافات تو اِنسان کی فطرت میں داخل ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو يَزَالُونَ یختَلِفِينَکے پُر حکمت الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اس قسم کی تحریف معنوی پر خدا یِ رحیم و کریم کی طرف سے یہ عتاب(ملامت،غصہ) کہ:۔
فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ رحمت خداندی سے بعید معلوم ہوتا ہے۔
متقدمین اگرچہ زمانہ حاضرہ کے انکشافات سے بصیرت افروز (روشن کرنے والا)نہ تھے۔ تاہم تحریف لفظی کے قائل تھے۔ اور آیات کریمہ۔ (۱) يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (۲) يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ اور (۳) يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ سے تحر یف معنوی کے ساتھ تحریف لفظی بھی مراد لیتے تھے۔ چنانچہ بن حرر میں حضرت مجاہد سے روایت ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ تبدیل الیھو التوراۃمیں یہود کا تورات کو تغیر و تبدیل کرنابیان فرمایا ہےاور اسی کتاب میں يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ کی تفسیر میں لکھا ہے کان ناس، من بنی اسرائیل کتبوکتابا باید یھم لتا کلوالناس، فقالواھذامن عند اللہ وما ھو من عنداللہ یعنی بنی اسرائیل میں سے لوگ تھے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے تھے۔ تاکہ اس ڈھب (طور ،طریقہ)سے لوگوں کا مال کھائیں اور کہتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔حالانکہ وہ کتاب خدا کی طرف سے نہ ہوتی تھی۔ پھر ان سب اقوال سے بڑھ کر وہ تفسیرِ نبوی ہے جو خود مہبط (اترنے کی جگہ)وحی ﷺ نے وویل لھم ھما یکسبون کی فرمائی اور جس کو حضرت عثمانؓ نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ وھوالذی انزل فی ایھودلامنہم حر فوالتوراۃ‘ وازدادوا فیھا ما یحبون‘ و مجواعنہاما یکرھون یعنی وہل الہم الخ کی آیت خداوند تعالیٰ نے یہود کے لیے نازل فرمائی ہے۔کیونکہ اُنہوں نے توراۃ میں تحریف کی اور جو نا پسند ہوا و ہ نکال دیا۔
دیکھئے ان الفاظ میں رسول اللہ ﷺ نے کس صفائی سے تحریف لفظی کو بیان فرمایا ہے اور نہایت مشرح اور مفصل طور پر بتادیا کہ توراۃ میں بعض جگہ یہود نے اپنی طرف سے الفاظ داخل کردئیے ہیں اور بعض جگہ کم کردیتے ہیں۔ کیا تحریف لفظی کی اس سے زیادہ وضاحت ہو سکتی ہے؟ اس تفسیرِنبوی کے بعد اب کسی مُسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یکتبون الکتاب با ید یھم سے صرف تحریف معنوی ہی مُراد لے۔ ’’ پیغام صلح‘‘کے ایک نامہ نے کسی گذشتہ اشاعت میں یہ لکھا تھاکہ توراۃ انجیل میں صرف اس قسم کی تحریف ہوئی جس طرح بعض مسلمانوں نے حدیثیں وضع کرلیں۔ لیکن غالباً اس تحریر کے بعد نامہ نگار موصوف اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور ہونگے۔
یہود نے زبانی روایات میں تحریف نہیں کی بلکہ کتاب اللہ یعنی تورات میں تحریری تحریف کی، کچھ اس میں زیادہ کردیا اور کچھ کم۔يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ (مولوی مصطفے خاں بی۔ اے)۔
بیان مافوق اس بات کا شاہد و گواہ ہے کہ ہمارے مسلم بھائیوں میں بائبل کی تحریف و تنسیخ کی بس گمانی عام طور سے مسلمانوں کے اعتقاد کا جزوبن گئی ہے۔ احمدی اصحاب خصوصاً اس بس گمانی سے یہ فائدہ اُٹھانے کی کو شش میں سر گرم کا ر ہیں کہ سادہ لوح مُسلمانوں کو قرآن شریف کے نام سے بائبل کی تحریف و تنسیخ کا سبق پڑھا کر انہیں عیسائیت و عیسائیوں کی طرف سےسخت بد ظن کر دیں تاکہ نہ صرف مسیحیوں اور مسلمانوں میں خوشگوار تعلقات پیدا نہ ہوں۔ بلکہ مسلمان مسیحیوں کو سخت گناہگار اور قصور وار یقین کر کے ان سے وہی سلوک روا رکھیں جو کافروں اور مشرکوں سے روا رکھا گیا ہے۔ مولوی مصطفیٰ خاں کے مضمون پر خصوصیت سے غور فرماؤ کہ آپ کس دلیر ی سے قرآن و حدیث سے اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی بائبل کو بدل ڈالا ہے۔ آپ قرآن شریف سے اور حدیث شریف سے ثبوت نقل کر چکے ہیں۔ جیسا کہ ان کے بیان سے روشن ہے۔ ہم حق پسند ناظرین کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ قرآن و حدیث مولوی مصطفےٰ خاں صاحب کے بیان پر ختم نہیں ہو گئی ہے۔ قرآن و حدیث کے نام سے بائبل کی تحریف و تنسیخ کا اور عیسائیوں کی بددیانتی کا وہ نتیجہ نکالنا جو آپ نے نکالا ہے آپ کی ہرگز دیانت وامانت کا شاہد نہیں ہے۔ یہ نتیجہ ایسا ہے۔جیسا کہ کوئی قرآن شریف کے(لاتقربو الصلوٰۃ) کی سند سے نماز نہ پڑھنے کا نتیجہ نکال دکھائے۔
ہمیں بائبل کی تحریف وتنسیخ کے مدعی اصحاب سے یہی شکایت ہے کہ انہوں نے جو بائبل کی تحریف و تنسیخ کی بابت اور عیسائیوں کی دیانت و امانت کی نفی کی بابت غلط فہمی پھیلائی ہے۔وہ ہرگز قرآن و حدیث کے درست علم اولکانی علم کی بنا پر نہیں پھیلائی ہےنہ کسی تحقیق کی بنا پر پھیلائی ہے۔ بلکہ قبل از تحقیق یہ بد گمانی پیدا کرلی اور بعد کو اُسے ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کی کسی آیت اور موضوع روایت میں پناہ تلاش کرلی۔ جیسا کہ مولوی مصطفیٰ خاں صاحب کے بیان سے روشن ہے۔ ورنہ قرآن و حدیث میں بائبل کی تحریف و تنسیخ کا بیان و ثبوت ایک ایسا دعویٰ ہے جس کو اعلیٰ طبق کے مسلم علماءنے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے جیسا کہ ہم انشاءاللہ آگے چل کر دکھا بھی دیں گے۔
بائبل کی تحریف و تنسیخ کے مدعی اصحاب کا ایک یہ بھی طرزِعمل نرالا ہے کہ وہ بائبل کو محرف اور منسوخ مان کر پھر اسی بائبل سے حضرت محمد کی نبوت و رسالت کی پیشنگویاں تلاش کر کے بیان کیا کرتے ہیں ،کہ بائبل میں احمد کے آنے کی پیشنگوئی پائی جاتی ہےفلاں عبارت جو بائبل میں موجود ہے وہ حضرت محمد کی بشارت ہے۔ ان اصحاب ِعقل و دانش کو یہ بات بھی یاد نہیں رہتی کہ اگر بائبل حضرت محمد کے زمانہ سے پیشتر یا آپ کی آمد سے تحریف محرف و منسوخ ہو چکی ہے۔ تو پھر ایسی کتاب سے حضرت محمد کی نبوت و رسالت پر سند پکڑنا سراسر عبث ہے۔ مگر بائبل کی تحریف کے مدعی بھلا کب کسی کی سنتے ہیں؟
دوسری فصل
بائبل اور قرآن کا رشتہ
وہ مسلم اصحاب جو بائبل کی تحریف و تنسیخ کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ دانستہً یا نا دانستہً قرآن شریف کو بھی تحریف و تنسیخ کی ذیل میں لانے کی کوشش میں سر گرم کار ہیں۔ کیونکہ قرآن شریف اس بات کا شاہد ہےکہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتبِ مقدسہ واحد ہیں یا قرآن عربی عیسائیوں کی بائبل کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر بائبل تحریف و تبدیل ہو گئی ہو۔ اگر بائبل منسوخ ہوگئی ہو تو قرآن عربی جو اُسی محرف و منسوخ کتاب کا ایک حصہ ہے۔ کسی طرح قابل ِاعتبار عمل نہیں مانا جا سکتا ہے۔ قرآن شریف کی ذیل آیات پر غور فرمایا جائے،
مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدۡ قِیۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِکَ
یعنی جو کچھ تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا اُس کے سوا تجھ سے کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔( حم السجدۃ آیت ۴۳)۔
اگر ہمارے مخاطبوں کو اُن رسولوں کی خبر نہ ہو۔جن کے کلام سے حضرت محمد کو خوبصورت عربی کلام سنایا جاتا تھا۔تو ہم قرآن شریف ہی میں آیا ہے۔
وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی
اور جو وحی ہم نے تیری طرف بھیجی ہے وہی ہے جو ہم نے ابراہام و موسیٰ عیسیٰ کو وصیت کی تھی ۔ شوریٰ( ۲ ۱)رکوع۔
قرآن شریف کو اس بات کا صفائی سے اقرار ہے کہ انبیا ء مافوق کی وحی کو بصورت قصص حضرت محمد تک پہنچایا گیا۔ جیسا کہ لکھا ہے۔
وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ
’’ اور ہم نے تمہاری طرف صاف صاف آیات اُتاری ہیں او ر (وہ ) ان لوگوں کی تمیثلات میں جو تم سے پہلےہو گذرے ہیں۔ اور (وہ ) پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہیں۔ ( سورۃ نور آیت ۳۴)۔
پھر یوں بھی لکھا ہےکہ
وَ رُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰہُمۡ عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ رُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡہُمۡ عَلَیۡکَ
’’اور بہت سے رسول ہم بھیج چُکے۔ جن کے قصّے ہم پہلے تجھ بیان کر چُکے ہیں اور بہت سے رسول اور ہیں جن کے قصے ہم نےبیان نہیں کیے‘‘۔
(سورۃ نساآیت۱۶۴ )۔
پھر انبیایِ بائبل کے جو بصورت قرآن حضرت محمد کو قصص سنائے جاتےتھے اُن کی غرض اور ان کے مقصد کا بھی خیال فرمایاگیا ہے۔اُن کے تین اعلیٰ مقصد تھے۔ جن میں سے مقصد اول یہ تھا کہ حضرت محمد کے دِل کو اُن سے تسکین حاصل ہو۔ جیسا کہ لکھا ہے۔
وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ
یعنی اور کُل رسولوں کے قصے تجھ پر بیان کرتے ہیں تاکہ اُن سے تیرادل قائم کردیں۔ ( سورۃ ہو دآیت ۱۲۰)۔
دوم دوسرے لوگوں کے غورو فکر کے لئے قصص بیان کئے گئے تھے۔ مثلاً لکھا ہے۔
فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ
پس ان پر قصص میں سے قصے بیان کرتا کہ وہ ان پر سوچیں۔( الاعراف آیت ۱۷۶)۔
سوم۔ بائبل کی تصدیق اور مومنین کی تعلیم کے لیے قصے سنائے گئے تھے جیساکہ لکھا ہے۔ ’’البتہ تحقیق ہے بیچ قصے اُن کی نصیحت واسطے صاحبوں وعقل کے۔نہیں ہے بات کہ باندھ لی جائے۔ لیکن سچا کرنے والا اس چیز کو کہ آگےاُس کے ہےاور تفصیل ہر چیز کی اور ہدایت اور رحمت واسطے اِس قوم کے اِیمان لاتے ہیں‘‘۔
سورۃ یوسف کی آخری آیت (ترجمعہ مولانہ شاہ رفیع الدین صاحب)
مندرجہ صدر آیات کے اوپر قرآن شریف کا ذیل کااِضافہ بھی موجود ہے۔ لکھا ہے۔
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی
یعنی تحقیق میں قرآن تو صحائف اولیٰ یعنی صحف ابراہیم و موسیٰ میں پایا جاتا ہے۔(سورۃالاعلی آیت ۱۸۔۱۹)۔
قرآن شریف کی مافوق آیات مظہر ہیں کہ حضرت محمد کو انبیاء ما قبل کے کلام کے سوا کچھ سکھایا ہی نہیں گیا۔ وہ انبیاء ماقبل بھی احمدی کے غیر یہودی انبیاء کی مراد نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ صاف بتا دیا گیا ہے کہ جن انبیا کا کلام حضرت محمد کی طرف وحی کیا گیا وہ حضرت ابراہیم کی نسل کے انبیاء تھے۔ جن میں سے حضرت موسیٰ و عیسیٰ زیادہ مشہورہیں۔ پھر جس طریق سے یہودی انبیا ءکا کلام حضرت محمد کی طرف وحی کیا گیا وہ طریق قصص سنانے کا بتایا گیا ہے اور جس مقصد و غرض کے لئے یہودی انبیا ء کا کلا م حضرت محمد کی طرف وحی کیا گیاتھا۔ وہ غرض و مقصدبھی مذکور ہو چکا تھا۔ اس پر بتایا جا چکا ہے کہ جو قرآن حضرت محمد کی طرف وحی کیا گیا تھا وہ ابرہام و موسیٰ کے صحائف میں مذکور ہے۔
اب خدا ترسی اور حق پسندی کو مدِنظر رکھ کر موجودہ متن قرآن کو من و عن حضرت ابرہام موسیٰ و عیسیٰ کے صحائف میں ہر گز نہیں دکھایا جا سکتا۔ بائبل جو یہودی انبیاءکے کلام کا مجموعہ ہے۔ قرآن عربی کے موجودہ متن میں من وعن نہیں دِیکھائی جا سکتی ہے۔ بر عکس اس کے قرآن عربی کا کثیر حصہ خلاف بائبل بیانات سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہ بات حیرت و تعجب سے دیکھی جاسکتی ہے کہ تمام قرآن میں توریت و انجیل کے نام سے صرف آیات ہی قرآن میں مذکور ہوئی ہیں۔ باقی تمام بائبل کو چھوڑا گیا ہے۔ مثلاً لکھا ہے۔
ا۔ وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
یعنی اور لکھ دیا ہم نے ان پر اس (کتاب) میں کہ جی کے بدلے جی اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ور مجروحی کے لئے قصاص اور جس نےبخش دیا اس کے واسطے وہ کفارا ہوا۔(سورۃ المائدۃ آیت ۴۵)۔
(خروج ۱۳:۲۱ ،۲۴)میں آیا ہے۔ اور اگر اس صدمہ سے وہ ہلاک ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے،آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلےدانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا ، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ‘‘۔
۲۔ حضرت ابرہام اور موسیٰ کے صحائف کے نام سے ایک قول یوں لکھا گیا ہےیعنی۔
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی
یعنی بالتحقیق یہی ہے پہلی کتابوں میں ابرہام و موسیٰ کی۔( سورۃ اعلیٰ آیت ۸ اور ۱۹)۔
۳۔ حضرت ابرہام و موسیٰ کے صحائف کے حوالے سےذیل کی آیت بھی آئی ہےیعنی
اَمۡ لَمۡ یُنَبَّاۡ بِمَا فِیۡ صُحُفِ مُوۡسٰی اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
یعنی کیا اسے اُس کی خبرنہ پہنچی جو کتب موسیٰ و ابرہام میں جس نے وفا کی کہ بوجھے والا دوسرے کا بوجھا نہیں اُٹھاتا اور نہیں انسان کے واسطے بجائے اس کے جو اس نے کمایا۔ (سورۃ نجم آیت ۳۷۔۴۰ )۔
وہ شخص جو تحریف کے مُسلم خیال کو روبرو رکھ کر قرآن شریف کی آیات مافوق غور کرتا ہے۔ وہ اُس کے اِس خیال سے عقل و فکردنگ ہو جاتی ہے۔ کہ قرآن شریف جو مسلم صاحبان کے نزدیک یہودیوں اور مسیحیوں کی بائبل کا نعم البدل (اچھا بدلہ)خیال کیا گیا ہے۔ توریت مقدس کےتمام متن کو چھوڑ کر صرف آیات مافوق میں اس کی تین آیات کو ہی نا تمام صورت میں اقتباس کرتا ہے۔توریت مقدس جو ایک ضخیم کتاب اور پانچ کتابوں کا مجموعہ ہے۔ اس کا کہیں ترجمہ پیش نہیں کرتا۔ کیا یہ مثال توریت شریف میں اتنا ہی متن اور اس کا اتنا ہی متن مفہوم تھا جتنا کہ قرآن شریف کے اُن اقتباسوں میں آیا ہے جو توریت اور موسیٰ کی کتاب کے نام سےقرآن عربی میں قبول کئے گئے ہیں؟ کیا قرآن شریف کے اس طرزِعمل کو دیکھ کر کوئی عیسائی مسلم بھائیوں پریہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ اگر عیسائیوں نے بائبل کو تحریف کیا ہے جس کا آج تک ثبوت ندارد (غیر حاضر )ہے۔ تو پھر قرآن شریف کے مصنف نے بھی عیسائیوں کی بائبل کو بدلنے میں ضرور کوشش فرمائی ہے۔ جس کے ثبوت متن قرآن سےمل سکتے ہیں۔
قرآن شریف نے توریت کی چند آیات کا ناتمام اقتباس کر کے باقی تمام متن توریت کو چھوڑا ہی نہیں ، بلکہ قرآن شریف نے زبُورشریف کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا ہے۔ مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے۔
۱۔ زبور کی بابت آیا ہے۔
وَّ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا
(بنی اسرائیل ۱۷۔آیت ۵۵)۔
پھر لکھا ہے۔
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ
یعنی ’’اور بالتحقیق ہم نے ذکر( یعنی توریت) کے بعد زبور میں لکھا ہےکہ میرے بندگانِ صالح زمین کے وارث ہونگے‘‘ (انبیا ءآیت ۱۰۵)۔
بلاشک زبور میں آیا ہے کہ ’’صادق زمین کے وارث ہوں گے‘‘(زبور۲۹:۳۷)۔
جائے غور ہے کہ( ۱۵۰) زبور وں میں سے زبور کے نام سےصرف واحد مقام قرآن شریف میں نقل کیا گیا ہے اور باقی تمام کتاب کا متن قرآن سے غائب ہے۔ کیا اس پر عیسائی صاحبان وہی اعتراض قرآن شریف پر نہیں اُٹھا سکتے جو برادر ران اسلام بائبل کی نسبت عیسایئوں پر اُٹھاتے ہیں ؟ بلا شک عیسائیوں کو بھی مسلم بھائیوں پر اعتراض تحریف کرنے کا زیادہ حقدار سمجھا جاسکتا ہے۔
قرآن شریف نے صف توریت ، زبور کے ساتھ ہی سلوک مذکور نہیں کیا۔ بلکہ صحفِ انبیا اور انجیل کے ساتھ بےوہی برتاؤ روا رکھا ہے جس کا ذکر ہورہا ہے۔ جایِ (موقع محل )تعجب ہے کہ بائبل کو تحریف کرنے کا الزام تو قرآن شریف پر وار دہو اورہمارے مسلم بھائی بائبل کو تحریف کا الزام یہودیوں اور عیسائیوں کو دیں۔ کیا یہی حق پسندی باقی رہ گئی ہے؟
تیسری فصل
بائبل پر تحریف و تنسیخ کا الزام دینے والوں نے قرآن عربی کو بھی نہیں چھوڑا ہے
ہم تو کلام اللہ کی تحریف و تنسیخ کے قائل ہی نہیں ہیں۔ تو بھی احمدیت کے بانی نے اور آپ کے ہونہارمتعقدوں نےمسلمانوں میں مسیحیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیےبائبل کی تحریف و تنسیخ پر بناقرآن عربی سخت شور شر پیدا کیا اور کررہے ہیں۔پھر سُنی اور حنفی المذہب ہو کر کررہے ہیں۔ اور حال یہ کہ اُن کا پیرو مرشد خود قرآن عربی کی بابت لکھ گیا ہے۔
تکدر ما ء السابقین و علیننا الی یوم الاخرلاتتکدر
’’گویا کی قرآن اور حدیث تو مکدر(کدورت آمیز، گدلا ،غمگین) ہو چکے صاف تعلیم تو مرزا صاحب کی ہے‘‘۔
ملاحظہ ہو الذکر الحکیم نمبر ۶ حرف کا ناوجال صفحہ ۴ پھر ازالہ ادہام صفحہ( ۷۲۱)، لغایت (۷۲۵ )
آپ لکھ گئے ہیں کہ
’’ قرآن زمین سے اُٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسمان پر سے لایا ہوں۔‘‘
ملاحظہ ہو معیار عقائد قادیانی صفحہ ۴۱۔
جائے غور ہے کہ مرزا صاحب سے پیشتر تو قرآن عربی بالکل یہ کہ زمین سے اُٹھ چکا ہےاورمرزا صاحب کے پیشتر کے جملہ چشمے مکدر ہوچکے ہوں۔ مرزا صاحب نے دوبارہ قرآن قادیان میں پایا ہو۔ باقی دنیا بھر کے قرآن شریف جو حلقہ قادیان سے باہر موجود ہوں وہ کسی شمار میں نہ لائے گئےہوں۔ مرزاکا قراآن شریف جملہ مسلمانان دھر کے دین و ایمان وعمل کا اصول قرار پایا ہو۔ پھر اس قادیانی قرآن سے عیسائیوں کی بائبل کی تحریف و تنسیخ ثابت کی جائے تو پھر کس مسلم عیسائی کی طاقت ہے کہ مرزا صاحب کے مریدوں کے مقابل قادیانی قرآن سے عیسائیوں کی بائبل کا غیر محرف(بدلنے والا) و غیر منسوخ ہونا ظاہر و ثابت کرے؟ مرزائی قرآن میں تو اُنہیں بائبل کی تحریف تنسیخ کے سوا احمد ی پارٹی کو کچھ مل ہی نہیں سکتا۔توبھی اس بات پر تعجب ہے کہ احمد ی صاحبان قادیانی قرآن سے بائبل کی تحریف و تنسیخ ثابت نہیں کرتے۔ پر اس قرآن شریف سے کرتے ہیں جو قادیان ہیں نازل ہی نہ ہوا تھا۔
چونکہ مرزا صاحب اور آپکےمعتقد اصحاب سُنی اور حنفی المذہب ہو کر عقائد عمومی میں دیگر اصحاب کے ہم مذہب ہونا یقین کرتے ہیں اور ان میں بھی بعض بزرگ بائبل کی تحریف و تنسیخ کے اعتقاد کے حامی پائے گئے ہیں۔ لہذا ذیل کے بیان میں قرآن شریف کی بابت اُن کے عقاد بھی نقل کئے دیتے ہیں۔یہ عقائداخبار اہلحدیث امرتسرمطبوعہ ۱۹ ؛۲۶ ۱۹ء میں مذاکرہ علمیہ بابت حقیقت نسخ شریعت کے عنوان کی ذیل میں شائع ہوئے ہیں۔
مذاکرہ علمیہ بابت حقیقت نسخ شریعت
اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَسُتَعیِن اخبار اہلحدیث مجریہ ۴ ستمبر ۲۵ء میں ایک مضمون بعنوان’’ حقیقت نسخ شریعت ‘‘نظر سے گذرا۔ چونکہ مضمون ہذامذاکرہ علمیہ کے ماتحت چھپا اور مضمون نگار صاحب نے بھی مشروط اجازات عنایت فرمائی ہے۔ لہذا میں بھی مضمون ہذا پر مختصر سا ریمارک(پھر سے نشان کرنا) کرتا ہوں۔ جسے انشاءاللہ تعالیٰ ناظرین شرط مذکورکےمضمون نگار صاحب کی خدمت سے قبل معلوم ہوتا ہے کہ چند تمہیدات ذکر کی جائیں۔ تاکہ مضمون اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ وباللہ التوفیق و بیدہ ازمنہ التحقیق والتدقیق۔
۱۔ معنی نسخ عِلامہ ابن ِخرمؒ فرماتے ہیں۔
قا نسخ فی الغۃ عبارۃ عن ابطال مثئی و اقامۃ اخر مقامہ۔انتہٰی
یعنی ایک شے کو باطل کر کے دوسری کو اُسکےقائم مقام کرنے کا نام نسخ ہے‘‘۔
(رسالہ ناسخ و منسوخ صفحہ ۱۵۱ پر حاشیہ جلالین ج ۲ مطبوعہ مصر)۔
آگے چل کر فرماتے ہیں:ـ
ثم ان النسخ فی الغۃ موضوع بازاء معنیین حدھما الزوال علٰے جھۃ الانعدام انتہٰے مختصرًا
’’یعنی نسخ لغت میں دو معنی کے لیے موضوع ہے۔ ایک تو (کسی شئی کو) زائل کر دینا کسی صورت میں کہ وہ (شئی) معدوم ہوجائے‘‘۔
(رسالہ مذکورہ صفحہ۱۵۳)۔
اصطلاحی معنی۔
ھو رفع الحکم الشرعی بدلیل شرعی
’’یعنی ایک حکم شرعی کو دوسرے حکم متاخر(پیچھے آنے والا) کی دلیل سے اُٹھا لینے کا نام نسخ ہے‘‘۔
(تفسیرنیشا پوری صفحہ ۳۰۲ جابر ماشیہ انب جریر مصری)۔
۲۔ قرآنی اصطلاح میں نسخ کے معنی۔
غیر ان المعروف من النسخ فی القرٰان ھو ابطال الحکم مع اثبات الخط انتہٰی
’’یعنی قرآنی اصطلاح میں حکم کو عبارت کے با وجود بھی باطل کرنے کا نام نسخ ہے‘‘۔
( رسالہ ابن حزم ؒ صفحہ ۱۵۳ ج ۲ بر حاشیہ جلالین)۔
مولاناسید احمد حسن صاحب مرحوم محدث دہلوی (مصنف احسن التفاسیرو تنقیح الرواۃ ، حاشیہ بلوغ المرام) فرماتے ہیں:ـ
’’اگر ایک حکم کسی آیت کے ذریعہ سے نازل ہوکر دوسرا حکم ایسا نازل ہو جس سے پہلے حکم پر عمل موقوف ہوجائے ایسے دونوں حکموں کو ناسخ و منسوخ کہتے ہیں جس حکم پر عمل موقوف ہوگیا اُس کو منسوخ (رد کیا ہوا)کہتے ہیں اور جب حکم پر عمل جاری ہے اُس کوناسخ(منسوخ کرنے والا) کہتے ہیں۔ ناسخ و منسوخ کے یہ معنی جو اوپر بیان کیے گئے۔ صحابہ اور تابعین کے قولوں سے یہی معنی نکلتے ہیں‘‘۔
( تفسیر آیات الاحکام صفحہ ۱۱۴)۔
مولانہ رحمتہ اللہ کی یہ تعریف کسی مزید تشریح کی محتاج نہیں۔
۳۔ نسخ کی تعریف میں یہ داخل نہیں ہے کہ ایک شریعت اپنے سے پہلی شریعت کو بالکل منسوخ کردے۔ یعنی اس کے جملہ احکام اصول فروغ پر عمل کو موقوف کردے۔ کماقال الشوکانی فی ارشادالفحول
(صفحہ ۱۳۴)۔
والمرادان الشریعۃ المتاخرۃ قد نسخ بعض احکام الشریعۃ المتقدمۃ اماکلھافلا لان قواعد العقائد لم تنسخ انتہٰی
’’حا صل یہ کہ شریعت متقدمہ کے بعض احکام (فروعی) کو ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کیونکہ عقائد کا منسوخ ہونا ثابت نہیں‘‘۔
حاشیہ ارشاد میں یوُں وارد ہے۔
قال القرٰانی فی القواعد الکلیۃ ولا فی العقائد الکلیۃ بل فی بعض الفروع صع جواز ہ فی الجمیع الشرائع فمعتاہ فی بعض الفروع خاصۃ انتہٰی
’’یعنی نسخ شریعت بشریعت دیگر صرف بعض فروع میں ثابت ہے۔ اگرچہ عقلاً سب میں ممکن ہے،لیکن واقع میں نہیں ہے ہماری شریعت میں گذشتہ شرائع (شریعت کی جمع)کے بعض فروع کی ہی ناسخ ہے۔‘‘
(صفحہ ۱۳۴)۔
۴۔ نسخ عقلاً جائز و شرعاً واقع ہے۔
قال الشوکانی مع والحاصل ان النسخ جائز عقلاً واقع شر عا من خیر فرق کونہ فی الکتاب اد السنہ وقد حی جماعۃ من اھل العلم اتفاق اھل الشرائع علیہ انتہٰی
یعنی ’’کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ہر دور میں نسخ واقع ہے اور بعض اہلِ علم نے جملہ شرائع کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔ اور عقلاً تو جائز ہے ہی۔‘‘
(ارشاد الفحول ص۱۲۷)(کنانے حصول المامول ص۷۹۔طبع ھند)
علامہ شو کانی فرماتے ہیں کہ جو ازووقوع نسخ پر اہلِ اسلام کا اتفاق ہے۔ صرف ابو مسلم(معتزلی المذھب اومعنزلی الھند) ہی مخالف ہے (اور اُس کے اتباع) ثم قال بمعنی پھر کہا
واذاصح ھٰذا عنہ فھودلیل علے اتہ جاھل بھٰذہ الشریعۃ المحمد یۃ جھلا فظینا
’’یعنی اگر یہ واقعی اس کا مذہب ہے تو اس کی یہ کھُلم کھُلا جہالت ،عدم واقفیت کتاب و سنت پر مبنی ہے‘‘۔
(ارشاد الفحول ص۱۲۷)(کنانے حصول المامول ص۷۹۔طبع ھند)
۵۔ وقوع نسخ شرعًا ثابت ہے۔ بادلہ(سونے چاندی کا تار جس سے گوٹ وغیرہ بنتے ہیں ) کثیرہ شہیرہ (مشہور ومعروف)۔ جن میں سے چند ایک دلیلیں یہاں مستقل ذکر کی جاتی ہیں۔
اول دلیل۔قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ
(ترجمہ) جو موقوف کرتے ہیں ہم آئتوں سے یا بُھلا دیتے ہیں ہم اُن کو لاتے ہیں بہتر اُس سے یا مانند اُس کے۔ کیا نہ جانا تو نے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہر چیز کے قادر ہے‘‘۔
(سورۃ البقرہ آیت ۱۰۶) (ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب مرحوم)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔
و استدل با لاٰیۃ المذکورۃ علے وقوع النسخ خلا فالمن شذ فمنعہ و تعقب بانھا قضیۃ شرطیۃ لا تستلزم الوقوع واجیب بان السیاق وسبب النزول کان فی زٰلک لا نھا نزلت جو ابالمن الکر ذٰلک انتہٰی مافی فتح
(الباری ص ۱۱۷ پ۱۸ )۔
دوئم دلیل۔اقول اشار(رح)
بقولہ ونزلت لمن انکر ذٰلک الٰی ماروی انہم رای الیھود قالو االا تر ون الٰی محمد ﷺ یاس اصحابہ یامر ثم ینھا ھم عنہ و یا مرھم بخلا فہ و یقول الیوم قولا ویرجع عنہ فنزلت و کذافی
’’یعنی جمہور نے آیت مذکورہ سے وقوع نسخ پر دلیل پکڑی ہے۔ بعض مخالف ہیں وجہ کہ آیت کریمہ میں قضیہ (بحث، مقدمہ)شرطیہ ہے۔جو و ال بر وقوع نہیں ہے۔ لیکن یہ بعض کا قول ٹھیک نہیں۔ کیونکہ سیاق آیت و ال بر وقوع ہے۔ چناچہ ذکر ہے کہ یہود نسخ کے منکر تھے اور کہتے تھےکہ کیا محمد اچھا نبی ہے؟ کہ آج ایک کام کا حکم کرتا ہے کل اُس سے خود ہی منع کر دیتا ہے‘‘۔
(التفسیرالنیشاپوری ص۳۵۲۔ج ا)۔
امام رازی نے اپنی تفسیر میں آیت مذکورہ کے وقوع نسخ پر دلیل ہونے پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے۔جس کا حافظ ابن حجرؒ نے بوجہ اُ تم ردّ فرمادیا ہے۔ وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
’’اور جب بدل ڈالتے ہیں ہم ایک کو جگہ ایک آیت کے اور اللہ خوب جانتاہے اس چیز کو کہ اُتار تاہے۔ کہتےہیں سوائے اس کے نہیں کہ تو (جھوٹ) باندھ لینے والا ہے۔ بلکی اکثر اُن کے نہیں جانتے۔‘‘
(سورۃ النحل آیت ۱۰۱) (ترجمہ شاہ صاحب مرحوم)
اس آیت کانشان نزول بھی اُسی طرح لکھا ہے۔ جس طرح دلیل اول میں مذکوہ ہوا (کذافی حاشیۃ الجلالین صفحہ ۲۲۴)
تیسری دلیل۔
یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ
’’مٹا ڈالتا ہے اللہ تعالٰی جوچاہتا ہے اور ثابت کرتا ہے (جوچاہتا ہے )اور نزدیک اس کے ہے اُمّ کتاب‘‘
(سورۃ الرعد۳۹)(ترجمہ شاہ صاحب)
قال فی الکمالین:۔ ای یترک فیہ باقیا مایشا ء بقاء ہ من الا حکام فینخ بعضہ فی وقت و یترک علے وجھہ انتہٰی مختصر اکذاعلٰے
’’یعنی جب تک ایک حکم کو باقی رکھنا چاہتا ہے منسوخ کردیتا ہو اور جنہیں چاہتا ہے۔ بحال رہنے دیتا ہے‘‘
(حاشیۃ الجلالین ص ۲۰۳)۔
راقم کہتا ہے اگر چہ عامہ مفسرین یہا ں کتاب سے مراد لوح محفوظ و اثبات سے مراد۔ ارازق (رزق کی جمع)و اجال وغیرہ لیتے ہیں۔ لیکن آیت کا سیاق سباق ان معنی کا بھی انکار نہیں کرتا۔کما لا یخفی واللہ اعلھ۔
چوتھی دلیل۔اس بارے میں ایک حدیث ہے۔ جس کا صرف ترجمہ ہی نقل کیا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دو آدمی حضور اکرم سے ایک سورۃسیکھ کر پڑھایا کرتے تھے۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ وہ د ونوں ان سورۃ کو نماز میں قرأت کرنےکے وقت بھول گئے۔ صبح آکر آپ کی خدمت میں عرض کیا۔
آپ نے فرمایاانھا ما نسخ فانھوامنھا۔بے شک وہ منسوخ ہو گئی ہے اس کو بُھلا دو
(اتقان صفحہ ۳۱۷)۔
ایک روایت کے الفاظ ایک اور قصہ کے بارے میں اس طرح وارد ہیں کہ آپ نےفرمایا
’’تلک سورۃ رفعت بتلا وتھا و احکامھا‘‘
’’اس سورہ کے احکام اور تلاوت دونوںمنسوخ ہوگئے‘‘۔
(معالم التنزیل صفحہ ۲۴ طبع بمبئی)۔
۶۔ اقسام نسخ۔ اور وہ تین قسم ہے۔
• ۱۔ نسخ تلاوت حکم باقی۔
• ۲۔ نسخ حکم تلاوت باقی۔
• ۳۔ نسخ ہردو۔
اول کی مثالیں۔اول آ یت رجم(سنگسار کرنا)کہ حکم اُس کا باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے۔ (صحیحین)
دوسری مثال صحیح حدیث میں ہے۔
لو کان لابن اٰدم وادیان من زھب لتمنی لھما ثالثالا یملا جوف ابن اٰدم الاالتراب دتیوب اللہ علے من تاب
(اتقان صفحہ ۳۱۷)۔
محقق شوکانیؒ فرماتے ہیں :۔
نان ھذا کان قرٰانا ثم نسخ وسمہ انتہٰی
’’پہلے یہ قرآنی آیت تھی بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ‘‘
(ارشاد الفحول صفحہ ۱۷۷)۔
تیسری مثال۔وثبت فی (صحیح البخاری ص ۵۸ ب۱۱ مع الفتح)۔
انہ نزل فی القرآن حکایۃ من اھل بئر معونۃ انہم قالو ابلغو قومنا ان قد لقینا ربنا فرضی عنا وار منانا۔
(کذافی الارشاد ص ۱۷۷)۔
دوسری قسم کی مثالیں
(۱)۔وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ پہلے اُس کی مدت ایک سال تھی۔ بعدہ یہ منسوخ ہوگئی اور اس عورت کی مدت چار مہینے دس دن مقرر ہوئی۔ یہاں آیت منسوخ کی تلاوت موجود ہے۔ (سیقول)
(۲)۔ پہلے حکم تھا کہ ایک ہزار کفار کا مقابلہ سو(۱۰۰)مسلمان کریں ۔ پڑھو آیت کریمہ
اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ
اگر سو ہوں گے تو ہزار سے مقابلہ کریں۔
(سورۃ الانفال آیت ۶۵)۔
بعدہ (اس کے بعد)حکم ہوا کہ ’’پڑھو آیہ کریمہ
اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ
ایک ہزار مسلمان دو ہزار کفا رکا مقابلہ کریں۔
(سورۃ انفال آیت ۶۶)
(۳)۔عن ابن عباس قال کان الوصیۃ للوالدین فنسخ من ذلک مااحب۔اخرجہ البخاری قال الحافظ وفیہ رد علے من انکر النسخولم ینقل ذلک عن احد من المسلمین
’’یعنی پہلےمال اولاد کے لیے تھا اور وصیت والدین کے لیے تھی۔ ازاں بعد جس کو خدا نے چاہا منسوخ کر دیا۔ حافظ بن حجر فرماتے ہیں کہ یہ منکرین نسخ کی تردید کرتا ہے۔ اور اس کا منکر سوا یِ ابو مسلم معتربی کے اور کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘۔
(فتح الباری ص ۱۵۵ پ ۱۸)۔
تیسری قسم کی مثالیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’
پہلے دس دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوئی تھی۔ اور یہ حکم قرآن مجید میں موجود تھا۔ اس کے بعد یہ (تلاوۃً و حکماً) منسوخ ہوگیا اور پانچ رضعہ(دودھ شریک) سے ثبوت حرمت (حکماً) باقی رہ گیا‘‘۔
(ارشاد الفحول ص ۱۷۶)
اس مختصر تشریح سے واضح ہو گیا کہ قرآن مجید میں تینوں قسم کے نسخ موجود ہیں اور یہی مذہب جمہور کا ہے۔ اب ناظرین ہماری مدلل تحریر کو اور فاضل مضمون نگار کی مہمل تقریر کو سامنے رکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں۔
۷۔ حکمَ نسخ۔حکمت اول۔ چونکہ انسان ایک کام ہمیشہ کرنے سے اُکتا جاتا ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد نئی شریعت جاری کرتا ہے تاکہ و ہ احکام خداوندی کو بطوع قلب ادا کرے۔
حکمت دوسری۔ شریعت اسلام کو شرائع سابقہ کا ناسخ بنانے سے حضور اکرم ﷺخاتمِ النبین صلعم کی شرافت و منقبت(تعریف،کوئی چیز جس پر انسان فخر کرے یا جو اسے ممتاز بنادے) مقصود ہے۔
حکمت تیسری۔ لحاظ مصالح (نیکی،بھلائی)اوقات۔ وغیرہ۔ (ہذا کلہ فی ارشاد الفحول ص ۱۷۳)ان تمہیدات کے ممہد ہونے کے بعد پہلے مولانا صاحب کے مضمون کا ما حصل ِذکر کر کے جواب عرض کیا جاتا ہے۔ آپ کے مضمون کا ما حصل یہ ہے۔
١۔ خدا نے جملہ انبیا ءکو ایک ہی شریعت دے کر بھیجا۔
٢۔ ان شریعتوں میں کچھ تضادوتخالف(مخالفت،دشمنی) نہ تھا۔
٣۔ ہر نبی گزشتہ نبی کی تصدیق کرتا رہا۔آنحضرت ﷺمصدق شرائع گزشتہ ہیں۔
۴۔ تضاد و تحالف ہونا خدا تعالیٰ کے کمال ِ علم پر دھبہ ہے۔
۵۔اختلافِ بیان دلیلِ کذب(جھوٹ) ہے۔
۶۔ کسی نبی نے خدا کی شریعت اولیٰ کو منسوخ و تبدیل نہیں کیا۔ نہ خدا نے خود کوئی پہلی شریعت غلط کی۔
7۔گزشتہ شرائع میں جو بعض احکا م منسوخ پائے جاتے ہیں وہ (منسوخ) دراصل راہبوں کے ساختہ پرداختہ (کرتوت)تھے جنہیں خدا نے باطل کر دیا۔
(اہلِ حدیث مجریہ ۴ ستمبر۱۹۲۵ء)۔
اجوبہ: ۔یہ مولوی صاحب کے مضمون کے ایک حصے کا خلاصہ ہے۔ اب نمبر وار جواب سُنیے۔
(۱)۔ شرائع سابقہ بے شک ایک ہی تھیں۔ لیکن اصولاًنہ فروعاً(وہ مسائل جو عمل سے متعلق ہوں )۔ آپ کے عموم (عام ہونا)پر بہت سے استحالات(حالت تبدیل ہونا) لازم آئیں گے۔ کیونکہ قرآن مجید اور تورات سے تغیرو تبدیل احکام ثا بت ہے۔ جسے آپ بھی دبی زبان سے تسلیم کرتے ہیں۔ حیث قلت احکام کا بلحاظ ضرورت مختلف ہونا امر دیگر ہے۔ (بس جناب! اسی کا نام نسخ ہے۔ پہلی شریعت کو بعد والی شریعت کا بالکل یہ کہ منسوخ کرنے کا نا م نسخ نہیں اور نہ ہی میری نظر میں اس کا کوئی قائل ہے۔ کیونکہ اس کی نظیر ملنی محال ہے)
(۲)۔ جب وقت مقرر کے بعد ایک حکم کو منسوخ کر کے ناسخ پر عمل کو جاری کر دیا تو تحالف و تضاد کیسا؟ تحالف و تناقض تب ہوتا جب دونوں حکموں پر عمل بحال رکھا جاتا۔اب منسوخ پر جب عمل ہی نہیں تو تناقض کہنا اور سمجھنا کسی طرح بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ فافہم فانہ دقیق۔
(۳)۔ تصدیق سے عدم نسخ کلتیہً لازم نہیں آتا اور نہ ہی نسخ سے عدم تصدیق کلتیہ لازم ہے۔کما ھو الظاھر
(۴)۔ صورت نسخ میں تخالف و تضاد پایا ہی نہیں جاتا۔کماھر
(۵)۔ اختلاف بیانی تو جب ہو جب اخبار میں ہو۔ مثلاً اب تو ایک خبر کا اثبات کیا، کچھ دیر کے بعد اس کی نفی کر دی۔ اسی بنا پر محققین علماء آیات اخبار میں نسخ کے قائل ہی نہیں۔کما حققہ العالمالاوحد المولانا السید احمد حسن المرحوم الدھلو ی والشاہ ولی اللہ ؒ المحدث الدھلوی۔
(۶)۔ قائلین(تسلیم کرنے والے ،لاجواب) نسخ اس کے منکر نہیں۔ ہاں یہ کہتے ہیں کہ کسی نبی نے خود بخود شریعت اولی ٰ کو باطل نہیں کیا۔ صرف حکم ایزدی (ایزد سے منسوب،خدائی)سے شریعت کے بعض احکام فروعی منسوخ ہوگئے۔
( تفسیر کبیر اول ) میں ایک حکم توریت سے نقل کیا ہے۔ جس کا حکم نوحؑ کے عہد میں تھا۔ توریت اُسے منسوخ کردیا۔ نیز حضرت آدم ؑ کے زمانہ (یاشریعت) میں بہن سے نکاح جائز تھا۔ بعد والی شرائع میں یہ منسوخ ہوگیا۔ کذافی الکبیر
(والینشاپوری بہامش ابنِ جریر ص۳۵۳ ج ۱)۔
خداوند تعالیٰ کا ایک حکم کو مصالح اوقات کے لحاظ سے تغیر و تبدیل یا با لفاظ دیگر منسوخ کرنے کو تغلیط (غلطی سے منسوب کرنا)خیال کرنا ہی غلط ہے۔فمن ادعی فعلیہ البیان با لتفصیل والنبیان۔
(۷)۔ کلیتہً یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض احکام بحکم خداوندی ہی شرائع سابقہ میں مردج تھے۔ بعد میں اُن کو خدا نے ہی منسوخ کر دیا ور بعض اشیا یہود پر حرام تھیں۔ ہماری شریعت اس میں وہ حلال کی گیئں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہےکہ (حَرَّمُنَا)(ہم نے اُن پر حرام کردی تھیں ) یعنی چربی اور ناخن والے جانور یہود پر خدا کی طرف سے حرام تھے۔ ہماری شریعت اسلام میں حلال ہیں اور عیسیٰ ؑ کی شریعت نے بھی شریعت موسوی کے بعض احکام کو منسوخ کر دیا۔ چنانچہ اللہ عزوجل حضرت عیسیٰ کا ذکر فرماتا ہے کہ اُنہوں نے بحکم الہٰی یہ کہا تھا۔
وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ
’’میری نبوت اس لئے کہ میں تم پر بعض وہ چیز یں حلال کردوں جو قبل ازیں تم پر حرام تھیں‘‘۔
(سورۃ آل عمران آیت ۵۰)۔
قال القاضی (البیضاوی )ھذایدل علی ان شرعہ کان ناسخا شرع موسٰے دلایحل ذلک لکونہ مصدقا للتوراۃ کما یعود نسخ القرٰان بعضہ ببعض علیہ بتناقض وتکاذب
’’یعنی حاصل یہ ہے کہ شریعت عیسوی شریعت موسوی کی ناسخ ہے۔ اور یہ تصدیق میں مخل(خلل ڈالنے والا،فتنہ پرواز) نہیں ہے۔ یہ ایسے یہ ہے جس طرح کہ قرآن مجید میں بعض آیات کا بعض کو منسوخ کرنے سے قرآن مجید پر تناقص و تکاذب کا الزام نہیں عائد ہو سکتا‘‘۔
(حاشیہ تفسیر جلالین ص۴۹ طبع محتبائی )۔
اسی طرح امم سابقہ پر غنیمت کا مال ناجائز تھا۔ شریعت اسلام میں حلال ہے۔ علیٰ ہذالقیاس (اسی طرح)اور بھی بکثرت احکام ہیں جن کی اجازت شریعت اسلام میں ہے حالانکہ شرائع گذشتہ میں ان کی ممانت تھی۔
اب آپ کے مضمون کا دوسرا حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ جس سے آپ کے استدراجی (خلاف ِ معمول)عروج پر اچھی طرح روشنی پڑ سکے گی۔
١۔ بعض الناس بعض متشابہات (متشابہ کی جمع ،قرآن شریف کی وہ آیتیں جن کے معنی سوائے خدائے تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا۔جن کے ایک سے زائد معنی ہو سکتے ہیں)سے استدلال کرتے ہوئے اس امر کے قائل ہو گئے ہیں کہ آنحضرت (صلعم) نے شرائع سابقہ کو منسوخ کردیا۔
٢۔جب خدا کے نزدیک ماضی و مستقبل کی مثال زمانہ حال کی سی ہے تو اُس کو نسخ کی ضرور ت ہی کیا ہے۔ مستقبل سے نا واقف لوگ اپنی رائے کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
٣۔ آیت قرآنی کوئی منسوخ العمل ثابت نہیں ہوئی۔
۴۔ نہ ہی کوئی آیت منسوخ التلاوت ہے جو ان چھ ہزار چھ سو چھیا سٹھ کے علاوہ ہوں۔ ناظرین یہ مولوی صاحب کی تقریر کا خلاصہ ہے۔ اب جو اب ملاحظہ فرما کر حق کی داد دیجئے۔
اجوبہ: (۱)۔ اس کے دو جواب ہیں۔
اوّل یہ کہ آپ کا’’ بغض‘‘ کہنا غلط ہے۔کیونکہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری صفحہ ۱۵۵پ ۱۸ میں ) شریعت اسلام کو شرائع سابقہ کی ناسخ ماننا اجماع کا مذہب بتایا ہے۔
دوسرے یہ کہ آپ نے متشا بہات کا نام لے کر پھر اسے چھوڑ کیوں دیا۔ خیر جب آپ اُنہیں ذکر کر یں گے بندہ بھی حا ضر ِ خدمت ہو جائے گا۔ سردست(فی الحال) اتنا عرض کئے دیتا ہوں۔
وقدثبت بالد لائل القاطعۃ والمعجزات الباھر ۃ نبوۃ محمد وصحۃ نبوۃ یلزم نسخ شرع من قبلہ
’’حاصل یہ ہے کہ حضور ﷺ فداہ ابی دامی کی نبوت دلائل ظاہرہ سے ثابت ہے اور آپ کی نبوت کا ثبوت شرائع سابقہ نسخ کو لازم ہے‘‘۔
(نیشاپوری ص ۳۵۳ ج۱)۔
٢۔ اس کا جواب ایک معتبر معقولی تفسیر سے نقل کیا جاتا ہے۔ تاکہ بندگان عقل کو چون و چرا کی بالکل گنجایش نہ رہے۔
والحاصل ان کل حکم فلہ غایۃ نی علم اللہ تعالٰی ولکن قد یظن المکلف ستمرار دفے الاستقبال من قرائن الاحوال فاذاوردما یعین امدہ و نص لہ علی زحالہ نذلک الوار د ناسخ والاول منسوخ والورود نسخ و کل ھٰذہ التجدوات بانسبۃ اے المکف وامابالامنافۃ الی اللہ تعالٰے دکل من الحکمین موجود فی وقتہ الذی قدبہ لہ فیہ الظھورمتقدما احد ھماومتاخر الاخر۔انتھٰی مافی
’’حاصل یہ ہے کہ ہر ایک حکم کے لیے خدا کے علم میں ایک انتہا مقرر ہےلیکن انسان اُس کو صورت حالات کے لحاظ سے ہمیشہ تصور کر لیتا ہے اور یہ کل تجدید یں ہماری بہ نسبت ہیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے علم میں دونوں کی یکساں حیثیت ہے۔ چونکہ دونوں حکموں کی معیادیں مقرر تھیں۔ لہذا ہر حکم اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوتا رہا‘‘۔
(النیشاپوری ص ۳۵۴ ج۱)۔
اس عبارت کے اوپر کی عبارت یہ ہےکہ جو اسی کے ہم معنی ہے اس لیے اس کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
فالظھور والخفاء والسابق والاحق والاعد ام دالایجاد کلھابالنسبۃ الینا واما بالنسبۃ الی حضرت الواجب جل ذکرہ فقد جف القلم بما ھو کائن الی یوم الدین۔انتھٰی۔
٣۔ آپ کا مطلب اس قول سے یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آیت پر سے عمل ہی متروک (ترک کیا ہوا)ہوگیا تو اُس کی تلاوت کے باقی رکھنے کا فائدہ ہی کیا ہوا۔ علامہ شو کانی اس شبہ کو بعض الناس سے نقل کر کے ارشاد فرماتے ہیں۔
وھذا قصور عن معرفۃ الشریعۃ اجھل کبیر بالکتاب العزیزفان المنسوخ حکمہ الباقیۃ تلاوتہ فی الکتاب العزیز مماک ینکرہ من لہ ادنٰی قدم فی العلیم۔انتھٰی
’’حاصل یہ ہے کہ اس قسم کے نسخ کا منکر قرآن مجید سے جا ہل ہے اور ادنے علم والا بھی اس کا انکا ر نہیں کرے گا‘‘۔
(ارشاد ص۱۷۶)۔
۴۔ اس کی چند مثالیں تمہید (۶) میں گذر چُکی ہیں اور لیجئے۔ابی بن کعب پر نبی ﷺ نے سورہ (لَمَ یکُنَ اَلّذِیَنَ کَفَرُ وا) پڑھی تو یہ الفاظ بھی تلاوت فرمائے۔
کان ذاُت الذِینِ عِنُدَ اللہِ الَحنَیفیّۃُ لا الئیھُودیۃُ وَلاَ الّنصَر انَّیِۃَ و َمَم تعَیل خَیرًافکَن یّکَفُر۔اخرجہ الحاکم د صحح اسنادہ
’’سورہ احزاب سورہ بقرہ کے برابر تھی‘‘
(الفحول،ارشاد صفحہ ۱۷۷)۔
یہ آیات منسوخ التلاوت ہیں۔( کذافی الارشادصفحہ ۱۷۷)۔
چونکہ مولانا صاحب پر کچھ اعتراض ہوتے تھے۔ اس لئے آپ لگے ہاتھ اُن کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں جو قابلِ دید و شیند ہے۔ آیت رجم کا جواب بدیں الفاظ بیان فرمایا ہے۔
ا۔ ’’یہ حکم کسی آیت قرآنی کی بنا پر نہ تھا بلکہ رسول ﷺ نے رجم کیا اور رجم کا حکم دیا تو بعض صحا بہ کرام اس کو آیت سمجھنے لگ گئے ( الی تولہ) حالانکہ وہ قرآن نہ تھا‘‘۔
٢۔ آیت مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ
ترجمہ :ہم آیتوں کو موقوف کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں
(سورۃ البقرہ آیت ۱۰۶) (ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب مرحوم)
کا جواب تو نہایت تعجب انگیز ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ’’ آیت سے مراد قرآنی جملہ نہیں بلکہ لفظ آیت بمعنی نشان یا معجزہ مستعمل ہوا ہے‘‘۔
(جواب) گستاخی معاف فرمائےگا۔ اگر آپ اس حدیث کے جملہ طریق دیکھ لیتے تو انشاءاللہ کبھی اس تاویل ِ(ظاہری مطلب سے کسی بات کو پھیر دینا،بچاؤ کی دلیل) فاسد (فسادی)کی آپ کو جرات نہ ہوتی۔ ہاں اگر آپ نے عبور کیا بھی ہے تو عوذشریف سے کام نہیں لیا۔ خیر بہر حال میں اب اصل الفاظ حدیث کے نقل کرتا ہوں تاکہ سعید(مبارک،بھاگوان) ارواح اُس سے فیض یاب ہو سکے۔
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر نے خطبہ فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا
فکان ماانزل اللہ علیہ اٰ یۃ الرجم قئراناھادووعینا ھا وعقلنا ھا فرجم رسول اللہﷺ ورجمنا بعدہ فاخشےٰ ان طال بالناس زمان ان یقول قائل مانجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بلوک فرےفتہ انزل اللہ وان الرجم فی کتاب اللہ حق
’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے آیت رجم بھی حضور ؐ صلعم پر اُتاری تھی۔ چنانچہ ہم نے اچھی طرح اُس کو پڑھا یا دکیا،سمجھا۔ پھر آپؐ نے بھی رجم کیا۔ ازاں بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ لیکن مجھے اب ڈر ہے کہ مدت دراز کے بعد لوگ کہیں گے کہ رجم کا مسئلہ کتاب اللہ میں سے نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اس کہنے سے یہ لوگ گمراہ جائیں گے۔ کیونکہ یہ مسئلہ قرآن مجید ہی کا ہے۔‘‘
(انتھٰی ملخصاً ومترجماً۔(صحیح مسلم صفحہ ۶۵ ج ۲۔)۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا
لا تشکوافی الرجم فانہ حق ولقد ھممت ان اکتب فی المصحفً
’’لوگورجم میں شک نہ کروہ کیونکہ وہ حق ہے۔ یہاں تک کہ میں نے اُس کو قرآن میں لکھنے کا قصد بھی کر لیا تھا‘‘۔
( اتقان صفحہ۳۱۱ )۔
(آگے چل کر نہ لکھنے کی جو وجہ بتا ئی ہے یہاں اُسے کوئی مزید تعلق نہیں)
بہر کیف ان تصر یحات (تصریح کی جمع،صاف طور سے بیان کرنا)کے سامنے ہوتے تادیل مذکورہ کی بالکل گنجایش نہیں رہتی امید ہے کہ ہمارے نامہ نگار صاحب ان تصر یحات کے ملاحظہ کے بعد کم از کم اس تاویل سے تو ضرورہی رجوع فرمائیں گے۔واللہ الھادی الی الصواب۔(خداہی رہنما اور سب سے نیک ہے۔)
دوسرایہ کہ آیت مذکورہ کو غیر منسوخ قرار دیتے ہوئے حضرت عمرؓ کے قول کی یہ تاویل میرے خیال میں سلف (اگلے زمانے کے،گزشتہ)صالحین (نیک) میں سے کسی نے بھی کی۔ واللہ ا علم(خدازیادہ جانتا ہے مجھے خبر نہیں )۔
٢۔ تفسیر کبیر میں ابو مسلم (معتربی) کا آیت مذکورہ پر صرف یہی اعتراض نقل کیا ہے کہ ’’ آیت سے مراد لوح محفوظ ہے‘‘۔ معجزات کا اُنہوں نے نام تک نہیں لیا۔ پھر نہ معلوم نامہ نگار صاحب نے یہ تادیل کہاں سے اخذ کی ہے؟
پھر اس اعتراض کا جواب علامہ رازیؒ نے یہ دیا کہ ’’ جملہ مفسرین کا اتفاق ہےکہ آیت مذکورہ میں ’’ آتیہ ‘‘سے مراد قرآنی جملہ ہے‘‘۔
آخر میں مودبانہ التماس ہے کہ اگر آپ کو اس مضمون کے متعلق کچھ تحریر فرمانا ہو تو براہ کرم آیات قرآنیہ، احادیث صحیحہ صر یحہ، آثار صحابہ ، تفاسیر سلف سے اپنے دعویٰ کو ثابت کیجیئے اور یہ یاد رہے کہ عقل دین اسلام کے تابع ہے۔ اسلام عقل کے تابع نہیں نا فہم ،منقول ازاہلحدیث امر تسر( ابو الطیب محمد عطا ء اللہ مدرسہ حمیدیہ عرسیہ صدر بازاردہلی)
چوتھی فصل
احمدی اصحاب بائبل پر تحریف کا الزام دے کر قرآن عربی کو تحر یف و تنسیخ کے ماتحت لائے ہیں۔
احمدی اصحاب مذہب کے سنی ،حِنفی، احمدی ہیں۔ ہنوز علم نہیں کہ اور کیا کچھ ہونگے اُن کے نزدیک سنیوں اور حنفیوں کی جملہ کتب مذہبی مسلمہ کتب ہیں۔ سنی وحنفی مذہب ماننے والوں میں سے ایک چو ٹی کے علامہ عالی جناب نواب محسن الدولہ محسن الملک مولوی سید مہدی علی خاں صاحب بہادر میر نواز جنگ وظیفہ خوار سرکار نظام وحال سکریٹری مدرستہ العلوم مسلمانان علی گڑھ ہیں۔ جن کے مضامین کی جلداول تہذیب الا خلاق نامی کتاب ہمارے روبرو ہے جو لاہور سے مل سکتی ہے۔ اُس میں آپ نے ذیل کا اِستفتاء (شرعی حکم دریافت کرنا،فتویٰ چاہنا)شائع فرمایا تھا۔ جس کا جواب آج تک پیدا نہیں ہوا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
استفتاء
کیا فرماتے ہیں حضرات علماء کہ اگر زید معتقد یا قائل ان امور کا ہو جو کہ نیچے بیان کئے جاتے ہیں اور پھر عمر و(فرضی نام)اسے امام و پیشواور مقتدایِ دین سمجھتے تو عمرو کی نسبت شرعاً کیا حکم ہے؟
(۱)۔ اوّلاً اللہ جل شانہ جہت اور خیر اور صورت اور جسم اور مکان سے منزہ نہیں ہے ( ۲ ) قر آن مجید نہ جا مع ہے نہ ما نع یعنی جس قد ر نا زل ہو ا تھا وہ سب محفو ظ نہیں رہا اور جو قر آن نہیں تھا وہ قر آن میں دا خل ہوگیا ( ۳ ) قرآن مو جود ہ غلیطو ں اور کا تب کی بھو لو ں سے بھر ا ہو ا ہے ( ۴ ) پیغمبر خدا ﷺ کی کبھی ایسی حا لت ہو گئی تھی کہ کہنا کچھ چا ہتے اور زبان مبا رک سے اور کچھ نکل جا تا اور بہ سبب مسحو ر(جس پر جادو کیا گیا ہو) ہونے کے خو د نہ جا نتے کہ میں کیا کہتا ہو ں ( ۵ ) آ نحضرت ﷺنے بتو ں کی تعر یف قرآن پڑ ھنے کی حا لت میں مشر کین کےسا منے کی ( ۶ ) خد ا کو بعض آتیوں میں بندوں پر توارد(ایک ہی بات دو لوگوں کو سوجھنا)ہو ا یعنی جو کچھ پہلے کسی بند ے کی زبا ن سے نکلا اسی کو پھر خد انے بذ ریعہ جبرائیل امین کے نازل کیا ( ۷ ) با وجو دنہ لئے جا نے نا م خد ا کے وقت ذ بح کے اور عمد اً تر ک کر نے تسمیہ کے ذبیحہ حلا ل ہے ( ۸ ) سوائے عر بی زبا ن کے تر جمہ قرآن کا نما ز میں پڑ ھتا جا ئز ہے (۹) صحیح بخا ری اور مسلم میں بھی مو ضو ع حد یثیں ہیں (۱۰)صحا بہ کے اقوا ل و ا جب العمل نہیں میں وہ بھی آ دمی تھے اور ہم بھی آدمی ہیں۔‘‘
تہذیب الا خلا ق صفحہ ۲۵۹۔
ہم نے کہا کہ استفتا ءمذ کورہ بالا کا کو ئی جو اب تہذیب الا خلا ق میں نہیں دیا گیا تو بھی سنی وشیعہ صا حبا ن نے کسی نہ کس صو رت میں استفتا ء کی اُن با تو ں کی جو قرا ٓن عر بی کے متعلق بیا ن ہو تی ہیں تا ئید و تصد یق فر ما ئی ہے جس کی تفصیل احمد یت نو ازوں کے لئے ذ یل میں دی جا تی ہے۔
دفعہ ۱۔
احمد یت کے پیر و مر شد
نے قرآن شریف کی با بت جو کچھ لکھا غیر احمد ی مسلما ن اُس پر آ ج تک افسوس کنا ں ہیں۔مثلا ً معیا رِ عقا ئد قا دیا نی کا مصنف ازالہ اوہا م (صفحہ ۷۲۱ سے ۲۰) تک اسی حو الہ سے لکھتا ہے کہ مرز ا صا حب نے لکھا ہے کہ
’’ قرا ٓن زمین سے اُٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسما ن پر سے لایا ہو ں‘‘
(صفحہ۴۱ )۔
مولو ی ثنا ء اللہ صا حب امر تسری رسا لہ ’’نکا ت مرز ا ‘‘میں ازالہ اوہا م صفحہ( ۶۷ سے۳ ۷ )کے حا شیہ کی سند سے مرزا صا حب کا ایک اور الہا م نقل کر تا ہے۔جو یہ ہے کہ
اِنّاَ انُزَ کمُاَقَرِیبٔا مِنَ الَقادِیانِ وَبِالَّحقِ اَنزَلنَاہُ ربالحقَّ نَزَل وَکَان َوَعُدَ اللہِ مُنقولاَ
’’ہم نے اُس کو قا دیا ن کے قر یب اُ تا ر ا ہے۔ اور سچا ئی کے ساتھ اُتا را ہے۔اور سچا ئی کے سا تھ اُتر ا اور ایک دن و عدہ اللہ کا پورا ہو نا تھا ‘‘۔
( صفحہ ۲۳ تا ۴ ۲ )۔
رسا لہ خا تم النبو ۃ کا مصنف بحوالہ (ضمیمہ تر یا ق القلو ب صفحہ۶۱ نشا ن ۴۷ )سے لکھتا ہے کہ
’’ مر زا صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتا ب اور میرے منہ کی با تیں ہیں‘‘
(صفحہ ۳۰۔)۔
اگر منقو لہ با لا اقوا ل مرزا صا حب کے ہو ں تو قر آ ن عربی کے اصلی اور قا بل اعتبا ر ہو نے کے اعتقا د کو جو چو ٹ مرزا صا حب لگا گئے ہیں وہ کسی اور نے نہیں لگا ئی۔شا ید یہ با ت ان وجو ہا ت میں سب سے بڑھ کر ہو جس کی بنا پر غیر احمدی مسلما نو ں نے مر زا صا حب اور احمد ی اصحاب سے وہ سلوک کیا، جس کی احمدی آج تک تلا فی نہیں کر سکے ہیں۔
دفعہ ۲۔
سُنی حضرا ت شیعہ صا حبا ن کہ روایا ت سے قرآن شر یف کا تحریف کیاجاناثابت کر تے ہیں۔
گو سنی صا حبا ن ہمیشہ سے شیعہ صا حبا ن کو تر چھنی نگا ہ سے دیکھتے آئے ہیں۔اس سے بڑ ھ ۱۹۲۴ ، ۱۹۲۵ ء کے اخبا ر اہل حد یث امر تسرنے قرآن شریف کی با بت شیعہ روا یا ت شا ئع فر ما کر خو د پبلک پر ظا ہر کیا۔وہ شیعہ صا حبا ن کے عقا ئد خصو صی میں سب سے بڑی با ت ہے۔جس میں یہ با ت ظا ہر کی گئی ہے ،کہ گو یا شیعہ صا حبا ن مر دجہ قر آن عربی کی با بت کچھ اور طر ح کا خیا ل رکھتے ہیں۔ذیل کی روایا ت ہم اخبا ر مذ کو ر کی فا ئل کے مندرجہ ذیل نمبر وں سے نقل کر تے ہیں۔مثلا ً عنو ان ’’ شیعوں کا قران ‘‘اور’’ شیعو ں کا قرا ٓن اوران کا ایما ن ‘‘اخبا ر اہلحدیث مطبو عہ ۲۷ جو ن ۱۹۲۴ ، ۲۶ستمبر۱۹۲۴، ۱۴نومبر ۱۹۲۴ ء ، ۱۲ دسمبر ۱۹۲۴ ء ، ۱۲ دسمبر ۱۹۶۴ ء ، ۲۳ جنو ری ۱۹۲۵ ، ۶ ما رچ ۱۹۲۵ ،۳ اپریل ۱۹۲۵ ء میں ملا خطہ کیا جائے۔انہیں نمبر وں سے ہم ذیل کی روا یا ت نقل کر تے ہیں۔
شیعوں کا قران
فی الحا ل میں قرآن کو لیتا ہو ں جو اصل وبنیا ددین ہے۔تما م کتب شیعہ اس با ت پر متفق ہیں۔ اوّل یہ کہ موجو د ہ قر آن میں حشو و زائد(بے ہودہ کلام،زائد کلام) مو جو د ہیں۔ دو ؔئم یہ کہ قطعی(کامل) طور پر مکمل بھی نہیں۔سو ؔئم یہ نقؔصان سے مبرّا اصلی اور کا مل کلا م اللہ دواز وہ امام اور مہدی کے پاس تھے اور ہے۔ چنانچہ شیعوں کی سب سے معتبر کتا ب اصول الکا فی جس کی تعر یف میں اس کے سر در ق پر لکھا گیا ہے کہ اما م مہد ی علیہ اسلا م نے اس کے حق میں فر ما یا ہے کہ ھذا کا ف نشیعتنا یعنی بعد ملا حظہ و مطا لعہ اما م صا حب نے اپنی زبا ن سے فر ما یا کی یہ کتا ب ہما رے شیعوں کے لئے کافی ہے۔پس ایسی زبردست اور بے نظیر کتا ب کے(صفحہ۔۶۷با ب فصل القرا ن) میں مر قو م ہے علی بن محمد عن بعض اصحا بہ عن احمد بن محمد بن ابی نصر قا ل و فع الی ابوالحسن علیہ اسلا م مصحفا ًوقا ل لا تنظر فیہ خفتحتہ و قراءت فیہ ( لَمُ یَکُنَ الَّزِیَن کَفُروا) فوجد ت لیھا اسم سبعین رجلا ً من قریش با سما ءابا ء ھو قا ل فبحث الی ابحث الی با لمصحف۔
یعنی’’ احمد راو ی کہتے ہیں کہ مجھ کو اما م ر ضا علیہ اسلا م نے ایک قرآن دے کر فر ما یا کہ اس کو مت دیکھنا۔ پیچھے میں نے کھو ل پڑ ھنا شر وع ک’’یا تو سو رۃ بتینہ ‘‘ پارہ ۳۰ میں جو (لَم یَکُن َ اَ لَذِینَ کَفُروا) سے شر وع ہو تا ہے۔اس میں میں نے نا م پا ئے ستر آد میو ں کے بمعہ ولد یت کے جو قو م قریش میں سے تھے۔
(اہلحد یث امر تسر مطبو عہ ۷ جو ن ۱۹۲۴ ص ۸)۔
وجہ اول۔یہ کہ قرآن موجود ہ نقل و روایات شدہ اصحا ب ثلاثہ یعنی حضرت ابو بکرؓ ،حضر ت عمرؓ ،حضر ت عثما ن رضی اللہ عنہم اور ان کے پیر ووں اور موافقین کا ہے اور شیعہ کے نزدیک وہ معا ذ اللہ۔ دشمنان دین اور مر تد اورمنا فق غیر مو من وغیرہ تھے جیسا کہ میں ہے کہ لکھا ہے۔
کا ن اکنا س اھل ردۃ بعد النبی الاثلاثۃ
’’ یعنی بعد وفا ت رسول اللہ نسب صحا بہ معا ذاللہ مر تد ہو گئے (گو اہل بیت بھی کیو ں نہ ہو ں مگر سہ کس (ابوذرغفاری،مقدادبن اسو د سلما ن فا رسی) ‘‘
( فر وع کتا ب الر و ضہ صفحہ ۱۱۵)۔
توشیعہ کس وجہ سے قرآن شریف کو ان کی دست برد سے محفوظ مان کر مکمل وغیر محرف مان سکتے ہیں۔
وجہ دوم۔یہ کہ شیعہ کا اعتقا د ہے کہ قرآن مو جو د ہ وہ قر آن نہیں ہے۔جو حضر ا ت امیر نے جمع اور تر تیب کیا بلکہ جنا ب امیرکا اور قر آن ہے اور وہی منزل من اللہ تھا اور اُس کی تلا وت کو اپنے ہی وجو د پر منحصر کیا۔زیا دہ سے زیا دہ ا پنی او لا د تک و بس۔چنا نچہ اصو ل کا فی میں ہے ، کہ حضرت علی نے اپنے جمع شد ہ قرآن کو محضر(عام درخواست) صحا بہ میں پیش کیا اور صحا بہ کرام نے قبو ل کر نے سے انکا ر کیا۔چنا نچہ فر ما یا۔
ھذا کتا ب اللہ کما انزل اللہ علے محمد فقالو الاحاجۃ لنا فیہ فقال اماد اللہ ما نزونہ بعد یو مکم ھذا ابدًا
’’یعنی حضر ت علی نے فر ما یا یہ وہی قرآن ہے جس طر ح کہ رسول اللہ پر نا زل ہو ا تھا۔صحا بہ نے کہا کہ ہم کو اس قر آن کی ضرورت نہیں ہے۔ہما رے پا س جو قرآن ہے وہی ہم کو کا فی ہے تو جنا ب امیر نے غصہ میں آ کر فر ما یا کہ خدا کی قسم آج کے بعد تم کو اصلی قرآن کا دیکھنا نصیب ہی نہ ہو گا‘‘۔
(ا صول کا فی صفحہ ۶۷۱ )۔
شیعہ کی معتبر ، مستند کتب میں آئمر معصو مین سے رو ایا ت کثیر ہ و تبصر یحا ت اکا بر علماء و شیعہ مرو ی ہے کہ مو جو د وہ قرآن شر یف محر ف و دبد ل ہے۔جیسا کہ( فر و ع کا فی کتا ب الر وضہ صفحہ ۶۱ ) اور( رجا ل کشی صفحہ۹۳،۳)مطبو عہ بمئبی میں ہے۔
حر فوا کتا ب دبد لوہ
’’ یعنی صحا بہ نے قر آن کی تحریف کر ڈالی اور اس کو بدل دیا ‘‘۔
( فر و ع کا فی کتا ب الر وضہ صفحہ ۶۱ ) اور( رجا ل کشی صفحہ۹۳،۳)۔
مزید براں لکھا ہے کہ
ان القرا ن الذی بین اطہر نا لیس تبامہ کما انزل علے محمد بل فیہ ما ھو خلاف ما انزل اللہ ومنہ ماھو مغیر محرف وانہ حذف عنہ اشیا کثیر ۃ منھا اسم علی و منھا لفظۃٰ ال محمد غیر مرۃ وانہ لیس علے الترتیب المرضی غد اللہ و رسولہ و فیہ کلام الملحدین۔
( تر جمہ ) بیشک جوقرآن درمیا ن ہما رے ہے۔وہ پو ر ا نہیں ہے جس طر ح کہ محمد پر نا زل ہو ا تھا بلکہ اس میں وہ چیز ہے جو محرف و مبدل ہے اور اس سے بہت چیز یں حذف کی گئی ہیں۔ان میں سے ایک علی کا نا م ہے اور لفظ آل محمد بہت جگہ سے حذف کیا گیا ہے۔او ر اس قر آن میں ملحد ین کا کلا م ہے اور خدا رسول کی مر ضی کے موا فق مر تب نہیں اور یہی اعتقا د ہمارے بڑے بڑ ے مشا ئخ مثل یعقو ب کلینی و ابرا ہیم قمی و غیر ہ کاہے۔
( تفسیر صا فی مطلبوعہ طہران صفحہ ۴ ۳ میں ہے )۔
چنا نچہ ان پا ک شیعوں کا مذ ہب ہے کہ اصحا ب ر سول مقبو ل میں صر ف تین آدمی مو من تھے۔ با قی سب مر تد اور کا فر جن کے نا م بردا یت ملا ٰ با قر مجلسی حسب ذیل ہیں( بحار الا نوا ر کتا ب انقن صفحہ۴۶ ،۴۷ میں بردایت زین پد راما م با قر ) کی تحر یر ہے کہ
’’بعد از وفات نبی علیہ السلام تمام لوگ مرتد ہوگئے تھے الا تین شخص۔ سلمان فا رسی ،مقدادبن الا سو د اورابو ذرغفاری‘‘۔
(اہلحدیث امر تسر مطبوعہ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ۸،۷)۔
بقول ردا فض ، بعد وفا ت نبی ﷺ جوسب کے سب مر تد ہو گئے صرف تین شخص اسلا م پر رہ گئے تھے۔اُن کا شجر و نسب حسب ذیل ہے۔
اَول۔سلما ن فا رسی جو نسلاً ایرانی تھا۔اس لئے قر یش میں سے نہ تھا۔
دَوم۔مقدا دبن الا سو د جو کندی مہا جر تھا وہ بھی قریشی نہ تھا۔
سَوم۔ابو ذر غفاری مہا جر قبیلہ غفا ر سے تھا لیکن وہ بھی قر یشی نہ تھا۔
(اہلحد یث امر تسر مطبو عہ ۱۴ نو مبر ۱۹۶۴ ء صفحہ۹)۔
چنا نچہ( اصول کا فی صفحہ ۶۷۱ کتا ب فصل القرا ن) کے اخیر پر درج ہے۔کہ
عن بن الحکم عن ھشام بن سا لم عن ابی عبداللہ قا ل ان القران الذی جاربہ جبرئیل علیہ السلام علی محمد سبعتہ عشر الف اٰیتہ
یعنی کہاامام جعضرنے کہ وہ قرآن جو جبرئیل نے حضر ت محمد رسول کر یم پر نا زل فر ما یا تھا وہ سترہ ہز ار آ تیو ں کا تھا۔
اہلحد یث مطبو عہ ۱۲ د سمبر ۱۹۲۶ ء صفحہ ۸
اصول کا فی کتا ب میں تحریر ہے۔کہ
الحجتہ محمد بن یحیٰی عن احمد بن محمد عن ابن محبو ب بن عمر وبن ا بی المقدام عن جا بر قا ل سمعتُ اباجعفر یقول ما ادعی احد من الناس انہ جمع القرٰان کلہ کما انزل الاکذاب وما جمعہ و حفظہ کما تر لہ اللہ الا علی ابن طالب والائمۃ من بعدہ
حد یث صا ف ہے۔جس میں متشا بہا ت (متشابہ کی جمع،قرآن شریف کی وہ آیتیں جن کے معنی سوائے خدائے تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا۔جن کے ایک سے زائد معنی ہو سکتے ہیں۔)کی گنجایش نہیں۔یعنی کی کا مل قرآن جیسا کہ خدا نے نا زل فر ما یا ہے نہ کسی نے جمع کیا نہ محفو ظ رکھا اور ایسا دعوے ٰ کر نے والا جھو ٹا ہے۔مگر علی او ر اُس کے بعد کے اما مو ں کے پا س وہ مجمو عی حیثیت میں مو جو د ہے۔
(اہلحدیث مطبو عہ ۲۳ جنو ری ۱۹۲۵ ء صفحہ ۸)
(علا مہ نو ری طبر سی اپنی کتا ب فؔصل الخطاب مطبوعہ ایران کے صفحہ ۹۷ )میں فر ما تے ہیں۔
کان لا میر المومنین علیہ السلام قرانا مخصوصاً جمعہ بنفسہ بعد وفات رسول و عرضہ علی القوم فاحر ضوا عنہ نحجبہ عن اعینھمد کان عند ولدہ علیہ السلام یتوام ثونہ امام عن امام کسائر خصائص الامامۃ وخزائن النبوۃ وھو عند الحجۃ عجل اللہ خرجہ یظھر ہ للناس بعد ظھور ہ ویامر ھم بقر أیتہ و ھو مخالف ھذا القرٰان الموجود من حیث التالیف و تر تیب السور والآیات بل الکلمات ایضاً جھۃ الزیادۃ والتصیقۃ و حیث ان الحق مع علی علیہ السلام علی مع الحق نفی القرٰان الموجود تغیر من جھتین وھوالمطلوب
’’ یعنی امیر ا لمو منین علی علیہ اسلام کا ایک مخصو ص قر آن تھا جس کو اُنہو ں نے رسو ل خداﷺ کی وفا ت کے بعد خو د جمع کیا تھا اور ا س کو صحابہ کے سامنے پیش کیا مگر اُن لو گو ں نے تو جہ نہ کی لہذٰ ااُس کو اُ نہو ں نے لوگو ں سے پو شیدہ کر دیا اور وہ قرآن اُ ن کی او لا د کے پا س رہا۔ ایک اما م سے دوسرے اما م کو میر اث میں ملتا رہا مثل اور خصا ئص اور خزا ئن نبو ت کے اور اب وہ قر آن اما م مہدی کے پاس ہے۔خدا اُ ن کی مشکل جلد آسا ن کرے۔ وہ اس قرا ن کو اپنے ظا ہر ہو نے کے بعد نکا لیں گے اور لو گو ں کو اس کی تلا وت کا حکم دیں گے اور وہ قرآن اس مو جو د ہ قر آن کے مخا لف ہے سو ر تو ں اور آیتوں کی تر تیب میں بلکہ الفا ظ کی تر تیب میں بھی او ر کمی بیشی کے لحا ظ سے بھی اور اس لحا ظ سے کہ حق علی کے سا تھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں۔ لٰہذاثا بت ہو گیا کہ قرا ٓن مو جو د میں دو نو ں حیثیتو ں سے تحر یف ہے اور یہی ( ہم شیعوں کا) مقصو د ہے ‘‘۔
علا مہ کے اس قو ل کی تا ئید کلینی کی ا یک حد یث سے بھی ہو تی ہے اور وہ یہ ہے۔
’’سا لم بن سلمہ سے روایت ہے کہ اما م جعفر صا دق کے سا منے ایک شخص نے الفا ظ قرآن کے پڑ ھے وہ اس قر آن کے مطابق نہ تھے جس کو لو گ پڑ ھتے ہیں (یعنی قرآن مو جو دہ کے خلا ف تھے)۔تو اما م جعفر صادق نے فر ما یا اس قرا ۃسے با ز رہ۔اسی طر ح پڑھ جس طر ح او ر لو گ پڑ ھتے ہیں۔اس وقت تک کہ قا ئم (یعنی امام مہد ی) ظا ہر ہو۔جب قا ئم ظاہر ہو گا۔ تو اللہ عزو جل کی کتا ب کو اُس کی حد کے مطا بق پڑ ھے گا اور اس قرآن کو نکا لے گا جس کو علی نے لکھا تھا اور فر ما یا ا ما م نے نکالا تھا اس قر آن کو علی نے لو گو ں کی طر ف جب کہ اس سے فا رغ ہو چکے تھے۔پھر علی نے اُن سے کہا کہ یہ اسدعزدجل کی کتا ب ہے۔جس طر ح اللہ نے محمد ﷺپر نا زل کی تھی اُس کو میں نے دو لوحو ں سے جمع کیا ہے۔( یعنی لو ح دل سے اور لو ح مکتو ب سے) تو اُنہو ں نے کہا ہما رے پا س مصحف(وہ کتاب جس میں رسالے اور صحیفے جمع ہوں) ہے۔ جس میں قرآن جمع ہے ہم کو اُس کی حا جت نہیں تو علی نے فر ما یا خد ا کی قسم اس دن کے بعد تم اس کو کبھی نہ دیکھو گے۔بے شک مجھ پر وا جب تھا کہ میں تم کو آگا ہ کر دوں جب کہ میں نے اس کو جمع کر لیا تھا تاکہ تم اس کو پڑ ھو ‘‘
( ا صو ل کا فی صفحہ ۶۷۱ )۔
(اہلحد یث مطبو عہ ۲۔اکتو بر ۱۹۲۵ ء صفحہ۰ ۱۱،۱ )
دفعہ ۳۔
شیعہ صا حبا ن نے سنیو ں کی کتا بوں سے قرآن کا تحریف ہو نا ثا بت کیا ہے
سنی اصحا ب نے جو کچھ شیعہ صا حبا ن کی کتا بوں سے قرآن شر یف کی تحر یف کے ثبو ت میں پیش کیا ہے اس کا ذمہ دار اخبا ر اہلحد یث امرتسر ہے۔ اب ہم شیعہ صا حبا ن کی تحر یر ات بطور نمو نہ ذیل کے ا قتباس پیش کر تے ہیں جو اس با ت کی مثا ل ہیں کہ شیعہ صا حبا ن کہ شیعہ صاحبان سنی صاحبان کی کتب مقبولہ سے قرآن شر یف ہو نا ثا بت کر تے ہیں۔
شیعہ صا حبا ن کی دو کتا بیں اس مضمو ن و مو ضو ع کے ثبو ت میں ہما رے پا س مو جو د ہیں۔ایک کا نا م مو عظ تحر یف قر آ ن۔ دو سری کا نا م النا ر الحیم لھاتک القرآن التعظیم ہے۔یہ دو نو ں کتا بیں لا ہو ر میں طبع ہو ئی ہیں۔ان میں شیعہ صا حبا ن کی قا بل تعظیم ہستیوں نے سُنی کتب معتبرہ سے مروجہ قرآن کی تحریف کو ایسے اکمل طو ر سےثا بت کیا ہے کہ کسی سنی کو اُن کے جو اب کی آج تک جرأ ت نہیں ہو ئی ہے۔کتاب اوّل سے چند اقتبا س ذیل میں نقل کئے جا تے ہیں۔اگر کسی کو مفصل کیفیت دیکھنا منظو ر ہو تو ان کُتب کو منگا کر ملا خطہ کر یں۔ جناب علا مہ سید علی الحائر ی لکھتے ہیں۔
۱۔ تفسیر اتقا ن مطبو عہ مطبع احمدی صفحہ ۱۶ ، سطر ۹ میں اما م جلا ل الدین سیو طی نے لکھا ہے۔
قال ابو عبید ہ حد ثنا اسمٰعیل بن ابراھیم عن ایوب عن نافع عن ابن عمر قال لا یقولن احد لم قد اخذت القرآن کلہ وما ید ریہ ما کلہ قد ذھب منہ قرآن کثیر انتہٰی۔
’’بلفظ یعنی ابن عمر سے مروی ہے کہ تم میں کو ئی شخص بھی یہ نہیں دعویٰ کر سکتا کہ اُس نے پو ر ا اور مکمل قرآن تمسک(گرفت،اقرارنامہ) کیا ہے اور اس کو کیو ں کر معلو م ہو سکتا ہے کہ مکمل اور پو ُرا قر آن کیا ہے۔کیو نکہ اس قرآن کا بہت سا حصہ اس میں سے نکل گیا ہے‘‘
۲۔تفسیر اتقان صفحہ ۳۱۶ سطر ۱۱ میں علامہ سیوطی نے ام المسلمین حضرت عا ئشہ سے نقل کیا ہے۔
عن عائشہ قالت سورۃ الاحزاب تقرافی زمانہ النبی صلعم مائتی أیۃ فلماکتب عثمان المصاحف لم تقدر منھا الا علےٰ ماھو الا انتھٰی
(بلفظ ،تفسیر در منشور مطبوعہ مصر جلد پنجم صفحہ ۸۰ ۱ سطر ۲۳ )میں عینا یہ روایت مرقوم ہے۔
یعنی جناب ام المسلمین حضرت عائشہ نے فرمایا ہے کہ( سورہ احزاب پارہ ۲۱ میں ہے )حضور پیغمبر اسلام علیہ و آلہ السلام کے عہد اور زمانہ میں پوری دو سو آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن سنی مسلمانوں میں خلیفہ صاحب حضرت عثمان نے قرآن لکھتے وقت۔۔۔۔صرف اسی قدر آیتیں سورہ احزاب میں لکھی ہیں۔جواس وقت قرآن میں موجود ہیں (اب صرف ۷۲ یا ۷۳ آیات ہیں )
(صفحہ ۲۶)
۳۔سورہ توبہ کا نقصان تفسیر در منثور مطبوعہ مصرجلد سوم صفحہ( ۲۰۸ ) سطر( ۱۷ ) میں سیوطی لکھتا ہے کہ اخراج کیا ہے۔ابن ابی شیبہ ،خبرانی ،ابوالشیخ حاکم اور ابن مرودیہ نے حذیفہ سےبیان ہے۔
قال التی تسمون سور التوبہ ھی سورۃ العذاب و اللہ ما تر کنا احد ا الا فالت منہ ولا تقرؤن منھا مما کنا نقر ء الا ربعھا۔انتھٰی بلفظ
یعنی جس سو ر ۃ کو تم تو بہ کے نا م سے یا د کر تے ہو وہ در حقیقت سور ۃ عذا ب ہے۔خداکی قسم ہم ( صحا بہ) میں سے ایک بھی ایسا نہیں چھو ٹا جس کے متعلق کوئی عذاب کی آیت نہ آ ئی ہو اور تم اس سو رۃ تو بہ میں نہیں پڑ ھتے سو جو کچھ کہ ہم پڑ ھا کر تے تھے۔
مگر اس کا چھو تھا حصہ (صفحہ ۲۷ )۔قرآ ن عر بی کے متن کی نسبت شیعہ و سنی صا حبا ن کی روایا ت مذ کور ہ با لا پیش کر کے ہم اپنے احمد ی دو ستو ں سے جو کم از سنی و حنفی روایا ت کے معتقد(اعتقاد رکھنے والا) ہیں جو اسی قرآن عربی کی سند ہے، با ئبل مقدس کا تحریف ہونا ثا بت کر تے ہیں۔یہ با ت عر ض کر نے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر بفر ض محا ل قرآن عر بی با ئبل مقد س کی تحریف و تنسیخ ثا بت بھی کر تا ہو تو قر آن عر بی خو د نا قا بل اعتبا ر ہے۔کیو نکر ایسی کتاب کی سندسے با ئبل جیسی کتا ب پر تحریف و تنسیخ کا الزام کسی باخبر کے لئے کو ئی د لیل ٹھہر سکتا ہے ؟ جبکہ حقیقت یہی ہے تو احمد ی اصحا ب اسنے خو د کس بنا پر ما ننے کے مد عی ہیں۔انہیں پہلے قر آن عر بی کے متن کی با بت فیصلہ کر نا چا ہئے اور پھر با ئبل کے خلا ف لب کشائی(منہ کھولنا) کر نا چا ہئے۔ شا ید ا حمد ی اصحا ب یہ فر ما ئیں کہ ہم سُنیوں اور شیعو ں کی روایا ت کو ما نتے ہی نہیں ہم تو مر ز ا صا حب کے الہا ما ت کے معتقد ہیں۔مر زا صا حب قر آن عثما نی کے غیر متغیر ہو نے کے معتقد تھے۔اس و جہ سے ہم قرآن عثما نی سے بائبل کی تحر یف پر استد لا ل کر تے ہیں۔پر اس کے جو اب میں گذ ار ش ہےکہ مرزا صاحب نے قر آن عثما نی کو آسما ن پر پہنچا دیا تھا۔ اس کی با بت مر زا صا حب کے اقو ال ذیل بھی قا بل غو رہیں۔ غیر احمد ی مسلما ن جنہو ں نے مر زا صاحب کی تصنیفا ت کو غور سے پڑ ھ کر آپ کے عقا ئد و تعلیم پر کتا بیں لکھیں جن کا کسی احمد ی نے آج تک جو ا ب نہیں دیا وہ لکھتے ہیں کہ مر زا صا حب نے اپنی کتا ب ازا لہ اوہا م میں لکھا ہے کہ
’’زما نہ حا ل کے مہذ بین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک گالی ہے۔لیکن قر آن شر یف کفا ر کو سُنا سُنا کر اُن پر لعنتیں بھیجتا ہے ‘‘۔
(از ا لہ حصہ اول صفحہ ۱۳ حاشیہ و صفحہ۲۵ تا ۲۶ ’’خا تم النبوۃ ‘‘صفحہ ۳۰ )۔
پھر فر ما تے ہیں کہ
’’ اُس نے( قرآن شر یف) نے ولیدبن مغیر ہ کی نسبت نہا یت درجہ کے سخت الفاظ خوبصورت گندی گالیاں معلو م ہو تی ہیں استعما ل کئے ہیں‘‘۔
(منقول از فتو یٰ شر یعت عزا نمبراول صفحہ۴ بحو الہ ،زالہ صفحہ ۲۷ پھر خا دم الا سلا م ملامحمد بخش حنفی چشتی اپنے رسالہ درۂ محمد ی مطبو عہ خا د م تعلیم ٔسلیم پریس لا ہو ر از الہ او ہا م صفحہ ۶۶۸۔۶۸۹)کے حو الہ سے لکھتے ہیں کہ
’’ مر زا صا حب کے نزدیک حضر ت محمد ﷺکی بھی وحی غلط نکلی تھی‘‘
( صفحہ۱۴ )۔
اگر یہ تما م با تیں درست ہیں تو انصا ف سے فر ما ؤ کہ مر زا صا حب نے قر آن عثما نی کا کیا اعتبا ر با قی چھو ڑ ا۔سنی و شیعہ صا حبا ن نے تو مر وجہ قر آن کا پھر بھی کچھ اعتبا ر با قی رکھ لیا تھا۔پر مر زا صا حب نے تو اسے آسمان پر پہنچا دیا اُس کا تل بر ابر اعتبا ر با قی نہ رکھا تو پھر احمد ی ا صحا ب اسی قر آن سے کس دجہ سے استدلا ل کر تے ہیں ؟
دفعہ ۴۔
مر زا صا حب کے نئے قرآن کے چند مسائل
۱۔( شیخ عبدا لحق سیکریٹری انجمن احمد یہ ا شا عت اسلا م د ہلی نے ۹ ۲ ستمبر ۱۹۲۳ کے ’’پیغا م صلح ‘‘لا ہو ر) میں ذیل کی با تیں شا ئع فر ما ئی جو مو لا نا ابو الکلا م سے گفتگو کر تےوقت ذکر میں آتی تھیں۔
خا کسا ر جنا ب کی اسلا می ہمدردی کا شکر یہ ادا کر تا ہے۔چند ما ہ کا عر صہ ہو ا کہ دہلی میں قا دیا نی جما عت کا ایک جلسہ ہو ا۔ میر ی طر ف سے ایک اشتہا ر شائع ہو ا۔ جس میں قا د یا نیو ں کے عقا ئد حسب ذیل لکھے تھے۔ ( الف ) حضر ت ر سو ل خد ا ﷺاور حضر ت مر زا صا حب بر ابر ہیں اور بعض کے نزدیک میر زا صا حب افضل بھی ہیں۔(درس الہٰی صفحہ ۱۹ الفضل جلد ۲ نمبر ۴۳ )۔
( ب ) اسم احمد ( بلحا ظ علم ) حضر ت میر زا صا حب کے لئے ہے۔رسول اللہ ﷺاس کے حقدار نہیں ہیں۔(انوا را لخلا فت صفحہ ۱۸ )۔
( ج) کلمہ طیبہ لا الاَالا اللہ محمدرسول اللہ منسو خ ہو گیا۔کیو نکہ اُس کے پڑھنے سے کو ئی شخص مسلما ن نہیں بن سکتا۔جب تک کہ میر زا صاحب کی رسالت و نبو ت کا قا ئل نہ ہو۔( آئنیہ صد اقت صفحہ ۳۵ ) (د) مکہ معظمہ مد ینہ منو ر ہ کی چھاتیوں کا دودھ سو کھ گیا‘‘۔( حقیقت الر دیا صفحہ ۴۶)۔
جس سے صا ف ظا ہر ہے کہ جما عت علما ءجن و جویر ا حمدیو ں کو کا فر کہتی ہے اور تشدد کر تی ہے ان و جو ہا ت کی تردید بلا خو ف لَو مَت لائم(ملامت کرنے والے کی ملامت کرنا،رسوائی) ہم کر تے ہیں۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ میر ز ا صا حب کو مجد د اور وفا ت مسیح کے ما ننے سے ہم بھی کا فر ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
۲۔ صر ف یہی نہیں بلکہ پیغا م صلح کو اپنے مجددکے ذیل کے بیا نا ت بھی معلو م ہیں۔ جو (آئینہ کما لا ت اسلا م صفحہ ۵۶۴ تا ۵۶۵ )میں آ ئی ہے۔ جیسے ہم تشخیدالا ذہا ن سے نقل کر تے ہیں ،مر زا صا حب فر ما گئے ہیں کہ میں اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خو د خدا ہو ں اور یقین کیا کہ وہی ہو ں اور میر ا اپنا کوئی اراد ہ اور کو ئی خیا ل اور کو ئی علم نہیں رہا اور میں ایک سور اخدار بر تن کی طر ح ہو گیا یا اس شے کی طر ح جسے کسی دو سری شے نے اپنے بغل میں دبا لیا اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو یہاں تک کہ اس کا کو ئی نا م و نشا ن با قی نہ رہ گیا ہو۔اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعا لیٰ کی روح مجھ پر محیط ہو گئی اور میر ے جسم پر مستولی(قابو پانے والا) ہو کر اپنے وجو د میں مجھے پنہا ں کر لیا۔ یہاں تک کہ میر ا کو ئی ذ رہ بھی با قی نہ رہا اور میں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میر ے اعضا ءاس کے اعضاء اور میر ی آنکھ اس کی آنکھ اور میر ے کا ن اس کے کا ن اور میر ی زبا ن اُسکی زبا ن بن گیٔ تھی۔ میر ے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ میں با لکل محوہو گیا اور میں نے دیکھا کہ اُس کی قدرت اور قُوت مجھ میں جو ش ما رتی اور اس کی الو ہیت مجھ میں مو جزن ہے۔حضرت عزت کے خیمے میرے د ل کے چا روں طر ف لگا ئے گئے اور سلطا ن جبر وت(جاہ وجلال ،اسم صفات الہٰی) نے میر ے نفس کو پیس ڈالا سو نہ تو میں ہی رہا اور نہ میر ی کو ئی تمنا ہی با قی رہی۔ میر ی اپنی عما رت کر گئی اور ر ب العالمین کی عما رت نظر آنے لگی اور الو ہیت بڑے زور کے سا تھ مجھ پر غا لب ہو ئی اور میں سر کے با لو ں سے نا خن پا (سر سے پاؤں تک)تک اُسکی طرف کھینچا گیا۔پھر میں ہمہ(تمام) مغز ہو گیا۔جس میں کو ئی پو ست نہ تھا اور ایسا تیل بن گیا جس میں کو ئی میل نہیں تھی اور تجھ میں اور میر ے نفس میں جدائی ڈال دی گئی۔پس میں اس شے کی طر ح ہو گیا جو نظر نہیں آتی یا اُس نظر کی طر ح جو د ریا میں جا ملے اور دریا اس کو اپنی چا در کے نیچے چھپا لے۔اس حا لت میں میں نہیں جا نتا تھا کہ اس سے پہلے میں کیا تھا اور میر ا وجو د کیا تھا۔الو ہیت میری رگو ں اور پٹھو ں میں سرا یت کر گئی اور میں با لکل اپنے آپ سے کھویا گیا اور اللہ تعا لیٰ نے میرے سب اعضا اپنے کا م میں لگا ئے اور اس زورسے اپنے قبضہ میں کر لیا کہ اس سے زیا دہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی گرفت سے میں با لکل معدوم ہو گیا اور میں اس و قت یقین کر تا تھا کہ میر ے ا عضا میرے نہیں۔ بلکہ اللہ تعا لیٰ کے اعضا ہیں اور میں خیا ل کر تا تھا کہ میں اپنے سا رے وجو د سے معد وم اور اپنی ہو یت سے نکل چکا ہوں۔ اب کو ئی شر یک اور منا ع ردک کر نے والا نہیں رہا۔ خداتعالیٰ میر ے وجود میں دا خل ہوگیا اور میر ا غضب اور حلم اور تلخی اور شیر ینی اور حر کت اور سکوں سب اسی کا ہو گیا اور اس حا لت میں میں یو ں کہہ ر ہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور آ سما ن اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسما ن اور زمین کو اجما لی(مختصر) صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کو ئی تر تیب اور تفریق نہ تھی۔پھر میں نے منشاحق کے مو ا فق اسکی تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قا در ہو ں پھر میں نے آسما ن اور دنیا کو پیدا کیا اور کہا (انازینا السما ء الدنیا بمصابیح) پھر میں نے کہا اب ہم انسا ن کو مٹی کے خلا صہ سے پیدا کر یں گے۔ پھر میر ی حا لت کشف سےا لہا م کی طر ف منتقل ہو گئی اور میر ی زبا ن پر جا ری ہوا( ارف ان تتحلف فخلفتادم اناخلقنا الانسان فی احسن تقویم )(تشحیذ الاذہان صفحہ نمبر ۸ )
اس کے سوا مر زا صا حب نے ذیل کے اقو ال میں ابنیت کے مسٔلہ حل فر ما یا ہے مثلا ً آپ کا قول ہے کہ( انت منی بمنز لتہ ولد ی ) یعنی تو بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے (انت منی بمنزلت اولامری) یعنی تو بمنزلہ میری اولاد کے ہے۔(انت منی بمنزلت توحیدی و تفریدی)یعنی تو بمنزلہ میری توحید تفرید کے ہے (انت منی وانامنک )تو مجھ سے ہے میں تجھ سے ہو ں ( اسمع ولدی) اے میر ے بیٹے سن۔( انت من مائنا وھم من فشل )یعنی تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ فشل سے ہیں وغیرہ۔
(دافع البلاءصفحہ ۶ تحقیقتہ الو حی صفحہ ۸۶ اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۴ البشریٰ جلدادل صفحہ ۴۹ ) و غیر ہ۔احمد یت کی تثلیت کی با بت تو ضیح المرام صفحہ ۲۰۱ میں یوں لکھا ہے یعنی
ہم دو نو ں ( یعنی مسیح اور مر زا ) کے رو حا نی قواء میں ایک خا ص طو ر یر خا صیت رکھی گئی ہے جس کے سلسلے ایک نیچے کو ایک اوپر کی طر ف کو جا تے ہیں اور ان دو نو ں محبتوں کے کما ل سے جو خا لق اور مخلوق میں پیدا ہو کر نر ، ما دہ کا حکم رکھتی ہے اور محبت الٰہی کی چمکنے والی آگ سے ایک تیسر ی چیز پیدا ہو تی ہے جس کا نا م روح ا لقدس ہے۔اُس کا نا م پا ک تثلیث ہے۔ا س لئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دو نو ں کے لئے بطو ر ابن اللہ کے ہے۔
(نقل ازمعیا ر عقائد قادیا ن صفحہ۱۹۔۲۰)۔
روح القدس نہ جبر ائیل ہے نہ ملاً مکہ میں سے کو ئی ملک (فرشتہ)ہے آپ (تو ضیح المرام صفحہ ۳۰ ) پر لکھتے ہیں۔
جبر ائیل علیہ اسلام جسکا سو رج سے تعلق ہے بذا ت خود اور حقیقتاً زمین پر نہیں اُ تر تا ہے اس کانز ول جو شر وع میں وار دہے اس سے اُسکی تا ثیر کا نز ول مر اد ہے اور جو صو رت جبرائیل وغیر ہ فرشتوں کی انبیا ءعلیہ السلام دیکھتے تھے وہ جبر ائیل و غیر ہ کی عکسی تصو یر تھی جو انسا ن کے خیا ل میں متمثل ہو جا تی تھی۔
( نقل معیا ر عقا ئد قا دیا نی صفحہ ۴۸ )۔
پھر تو ضیح المرام صفحہ ۸۴ پر لکھتے ہیں کہ
’’ جبر ائیلی نو ر کا( ۴۶ )واں حصہ تما م جہاں میں پھیلا ہو ا ہے۔یہ کیونکہ جبرائیلی نور آفتاب کی طرح جو اسکا ہیڈ کواٹر ہے۔تمام معمورہ عالم پر حسب تعداد انکے اثر ڈال رہا ہے اور کوئی نفس بشر ایسا نہیں کہ بالکل تاریک ہو۔مجذوب بھی جبرائیلی نور کے نیچے جا پڑتے ہیں۔ کچھ کچھ ان کی آنکھوں پر اس نور کی روشنی پڑتی ہے‘‘۔
(نقل از معیار عقاید قادیانی صفحہ ۳۶ تا ۳۷)۔
چو تھا با ب
حق پسند مسلم علما کی نظر میں قرآن اور با ئبل کا مر تبہ
با ب ہذا میں اُن مُسلم علما ء کی با ئبل و قرآن کی با بت میں آراء پیش کر تے ہیں جوا س خا ص اعتبا ر سے ہما رے نزدیک اور ہما رے مسلمانو ں ہند و پنجا ب کے نزدیک قا بل عزت و تو قیر ہیں۔خصو صا ً با ئبل و قر آن کی با بت اُن کی تعلیم مسیحی و مُسلم دنیا کے لئے آبِ زر(سونے کا پانی جو نقاشی یا کتابت میں کام آتا ہے) سے لکھنے کے قا بل ہے۔
علما ء مذ کو ر کی آرا ء کو پیش کر کے ہم مسیحی دنیا پر ظا ہر کر دینا چا ہتے ہیں کہ قر آن وا سلا م اور اس کے جاننے والے مُسلم علماءنے ہمیشہ سے بائبل مقدس کی عزت وحرمت کو قرآن و اسلام کا اعلٰی جز ویقین کیا ہے۔اس وجہ سے مسیحی علماء کا قرآن واسلام سے اور مسلم دنیا سے سخت بد ظن ہو نا اور مسلما نو ں کو بائبل و مسیحیت کا خو فنا ک دشمن سمجھنا ہر گز جا ئز و منا سب نہیں ہے۔آنے والی فصو ل(فصل کی جمع) کے بیا ن کو غو ر و فکر سے پڑ ھا جا ئے۔اسے ناظرین کر ام پر یہ حقیقت روزروشن کی طرح ظا ہر ہو باہرہوجا ئے گی کہ مسلمانو ں میں اعلےٰ طبق کے علما ء با ئبل مقد س کے احتر ام میں ہر گز مسیحیو ں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ وہ بعض حالتو ں میں مسیحیوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں۔
ہما رے رسا لے میں اس قدر گنجا یش نہیں کہ ہم کُل مسلم علما ء کے با ئبل کی صحت و صدا قت پر فیصلے نقل کر یں۔تو بھی جن قا بل تعظیم ہستیو ں کے عقائد و خیا لا ت ذیل میں درج کئے جا تے ہیں وہ مسیحیو ں اور مسُلمو ں اس با ت کا یقین دلا نے کے لئے کا فی سے زیا دہ ہیں کہ قر آن ق اسلا م کو جا ننے اور ماننے وا لے علما یِ اسلام با ئبل کی صحت و صدا قت کے ایسے ہی قا ئل و معتقد ہیں جیسے کہ کٹر مسیحی علما ء قا ئل ہیں۔ہما رے اس بیا ن کی صدا قت آنے والی شہا دتو ں پر مبنی ہے۔جو سراسر مسلم علما کے بیا نا ت کی نقل ہیں۔
پہلی فصل
مذا کرٔ ہ علمیّہ
حقیقت نسخ شر یعت
( از محمد شر یف قر یشی )
روز مر ہ کے تجر بہ ومشا ہدہ نے ثا بت کر دیا ہے کہ تمام نبی نو ع انسان بلحا ظ او ضا ع(وضع کی جمع ،طریقہ) و اطوار مدنی الطبع و اقع ہو ئے ہیں لیکن ضعیف البنیا ن(بنیاد) ہو نے کی و جہ سے بطور خو د اپنی صلا حیت کے اصو ل قوانین و ضع نہیں کر سکتے۔جس کو انسا نی زند گی کا بہترین پر و گر ام یا صحیح لا ئحہ عمل کہہ سکیں۔تما م افر اد نہ تو مل کر نہ کو ئی ایک انسا ن منفر دًا ایسا مذہب تجو یز کر سکتا ہے۔جو ہر حا ل اور ہر زما نہ میں یکساں طو ر پر مفید انسا ن ہو سکے کیوں؟ علمی کما ل اس کو حا صل نہیں نہ ہی وہ علم اس کا ذاتی اور کُلّی ہے۔جو تمد نی زندگی کا پرو گر ام یا ارتقاء انسانی کے لئے نصا ب کا مل مر تب کر نے میں اس کی رہبری کر ے۔یہی و جہ ہے کہ خا لق کل اور عا لم الغیب خدا نے اس مر حلہ کو اپنے ذمہ لیا اور اپنی تجو یز کر د ہ شر یعت پر چلنے کے لئےبنی نوع انسان کو دعوت دی۔ابتداآفرنیش سے لے کر تا حال مامور ان الہٰی وداعیان ِ حقانی نےپے درپےآکر ثا بت کر دیا ہے کہ حقیقی نجا ت قو انین آسما نی کی پا بندی پر منحصرہے۔جو تخیلا ت انسا نی کا نتیجہ نہیں بلکہ احکام الہٰی کا مجموعہ ہیں اور یہ احکام و قوانیں کا مل کے بنا ئے ہو ئے ہیں۔ جس کے علم ذاتی میں نقص نہیں۔
العزض جس قدر بھی رسو ل دنیا میں اصلا ح خلق مبعو ث ہو تے ر ہے کسی کی بیا ن کر و ہ شر یعت منجا نب اللہ ہو نے میں مسا وی اور یکساں ہے۔احکام کابلحاظ ضر روت مختلف ہو نا امر دیگر ہے۔اُن کا آپس میں ایک دو سرے کے متضا د اور متبا ئن ہو نا خا لق کے نقص وعلم کی دلیل ہے۔جو خدا کی ذات یا علم (و کما ل فی العلم ) پر ایک دھبہ ہے۔ہر کہ دمہ(سانس کا روگ) جا نتا ہے کہ اختلاف بیا نی دلیل کذب ہے۔جس سےوہ ذات اعلے ٰ منز ہ(پاک) لا ریب (بے شک)ہے۔چنا نچہ قر آن مجید ہمارے بیا ن کی پر زورتا ئید کر تا ہے۔
لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا
(سورہ النساء آیت ۸۲)
ہر ما بعد آنے وا لا گذشتہ انبیا ء کی تصدیق کر تا کہ وہ نبی حقیقی تھے اُن کی اور وہ شریعت منجا نب اللہ تھی۔( مُصَدِقاً لَمِا مَعَھَمُ)اور(لاَ نُفّرِقُ بَینَ احَد مِنُھُم و مُصَدِّ قَالَمِا بَینَ یَدَ یہ) اس پر شا ہد ناطق ہیں۔آنحضر ت مصدق شرائع گذ شتہ ہیں۔کسی نبی نے خدا کی شر یعت اولیٰ (اچھا ،بہتر)کو منسوخ تبدیل نہیں کیا۔نہ خدا نے خو د کو ئی پہلی شر یعت منز لہ خودغلط کی۔
حقیقت نسخ
بعض الناس متشابہا ت سے استد لا ل کر تے ہو ئے اس امر کے قا ئل ہو گئے ہیں کہ آنحضر ت ﷺنے پہلی شر ائع کو منسوخ کیا۔
لٰہذا شر یعت محمد ی گذشتہ شر یعتو ں کی نا سخ ہو ئی ،اپنے دعوےٰ پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ شر اب اگلی اُ متو ں کے لئے حلا ل تھی۔ اب حر ام ہو گئی۔دوبہنوں کو پہلے ایک ہی وقت نکا ح میں لے آنا حلال تھا۔لیکن اب یہ حکم منسو خ ہو گئے ہیں۔تو ریت و انجیل گو منجا نب اللہ تھیں مگر اُن میں ا ور قرآن میں بین فرق ہے۔اس لئے ہم نسخ شریعت کے قا ئل ہیں۔
افسوس ہم اُن کی ہا ں میں ہا ں ملا نے سے قا صر ہیں۔کیو نکہ قرآن مجید میں ہمیں ایسی کو ئی آیت نہیں ملی جس سے یہ ثا بت ہو تا ہو کہ شراب محمد رسو ل اللہ ﷺمعبو ث کر نے سے پہلے ہم نے از روئے شر یعت حلا ل کر دیا تھا۔اب مصلحتاً اس کو حر ام قراردیتے ہیں۔فلا ں نبی کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ دو بہنوں کو ایک سا تھ ایک ہی وقت میں جمع کر نا میر ی شریعت میں جائز ہے۔جہاں تک ہم نے غو ر کیا ہے۔غیر نبی اقوال بلا دلیل جو در حقیقت شر یعت الہٰی کا جزونہ تھے اوربوجہ تحریف کتب آسمانی وشریعت ربانی اصل تعلیم میں خلط ملط ہو کر راہبوں کی کوشش اور تبلیع سے شر یعت ہی سمجھے جا چکے تھے۔حالا نکہ وہ شر یعت سما وی سے اُن کاا نسداد(روک تھام) کیا گیا بلکہ یہ سُنا دیا گیا جن امور غیر تشر یعی(شرع کی پابندی) کو تم اپنی بہتری کا حامی پاتے ہو ہم ان سے بہتر لا دیتے ہیں جس امر کے تم مکلف(بلانے والا،عاقل) نہیں بنا ئے گئے تھے غلطی سے یا بو جہ عدم علم وہ تم میں رواج پا گیا۔ اس سے ہم در گذر کر تے ہو ئے حکم دیتے ہیں کہ آ یندہ ایسا نہ کر نا۔مثلا ً
وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ
( دو بہنوں ایک سا تھ ایک مر د کی زد حبیت میں دنیا تم پر حر ام ہے۔ہا ں جو ہو چکا وہ ہو چکا )
(سورۃ النساءآیت ۲۳)۔
شر یعت الہٰی متبو ع (سردار)اور مطا ع(جس کی اطاعت کی جائے) ہے۔بند وں پر حکمر ان ہے۔ یہ نہیں کہ ما ننے وا لے مل گئے تو شر ا ب او ر خنزیر کو حرام کر دیا۔جب سر کش ادرمتمردوں (باغی)سے واسطہ پڑ ا تو حلا ل کر دیا۔ بے شک خدا کی شر یعت ان نقا ئص سے پا ک ہے۔یہ سب تو ہما ت نفسانی اور قیا سی با تیں ہیں۔جن کا ثبو ت نہ کتب سا بقہ میں ہے نہ مو جو د ہ شر یعت میں ہے نہ موجودہ شریعت اس کی متحمل (صابر)ہو سکتی ہے۔
جن احکا م کی قر آن مجید نے اصلا ح کی وہ را ہبو ں کے سا ختہ پر داختہ تھے۔یہ کہا ں سے نکلا کہ یہ گذ شتہ انبیاء کی شرا ئع تھیں۔ جن کو شر یعت کا مل نے تبدیل کیا ہے۔جب خدا کے نزدیک ما ضی اور مستقبل کی مثا ل زما نہ حا ل ہی کی سی ہے تو اس کو نسخ کی ضر و رت ہی کیا ہے۔مستقبل سے نا و اقف لو گ اپنی پہلی رائے کو تبد یل کر دیتے ہیں۔( لَا تَبدِیُل لخِلَقُ اللہِ) خد ا کی بنا ئی ہو ئی شر یعت میں تغیر و تبدل کو دخل نہیں۔با قی رہا یہ امر کہ بعض آیات قرآنی با ہم نا نسخ و منسو خ ہیں یا نہیں۔بعض آیا ت منسو خ التلا و ت اور متر و ک عمل بیا ن کی جا تی ہیں۔اس امر کوو اضح کر یں جہا ں تک قر آن مجید میں غو ر کیا ہے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کو ئی آیت قرآ نی متر وک العمل ثا بت نہیں ہو ئی۔نہ ہی مو جو د ہ قر آ ن کی کو ئی آ یت منسو خ التلاوت ہے جو ان چھ ہزار چھ سو چھیا سٹھ آیا ت کے سوا ہو۔
بعض النا س کو صحیح بخا ری ص صفحہ ۱۰۰۹ کی اس روایت سے جس میں آیت رجم کا ذکر ہے دھو کہ لگا ہے۔ایسے نکتہ شنا س لو گو ں پر مخضی نہ رہے کہ یہ حکم کسی آیت قر آنی کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ رسول آدم نے رجم کا حکم دیا اور ر جم فر ما یا تو بعض صحا بہ کر ام اس کو آیت سمجھنے لگے۔اور بطو ر قر آن اس کو قرا ٓنی عبا را ت و مضا مین میں حفظ کر نے لگے۔حا لا نکہ وہ قر آ ن نہ تھا بلکہ حد یث نبو ی ہے۔
جہا ں تک سیا ق و سبا ق کلا م کا تعلق ہے اس سے تو یہی معلو م ہو تا ہے آیت۔مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ میں آیت سے مر اد قر آنی جملہ نہیں بلکہ لفظ آیت بمعنی نشان یا معجزہ مستقل ہو اور یہاں اپنی قدر ت اور دستر س کی طر ف متو جہ کیا ہے کہ ہم کو ئی نشا ن تر ک کر دیتے ہیں اور اس کو دہر اتے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ تو اس سے بہتر اس کی مثا ل لے آتے ہیں۔کیو نکہ ہرشے پر اللہ قا در ہے۔( سورۃ البقرہ آیت ۱۰۶ ) مثلا ً مو سیٰ علیہ اسلا م کو لا ٹھی سا نپ بن جا نے کا معجزہ دیا تو اس سے بھی بہتر نشا ن آ نحضر ت ( رو حی فد ا ہ ابی وا می ﷺ )کو دیا اور آپ کے ہا تھ پر شق صدر کیا۔اس سےیہ تو ہر گز مفہو م نہیں ہو تا کہ ہم آیا ت قر آنی سے ہی بعض کو منسو خ کر تے اور اُ ن کی قا ئم مقا م اور آیا ت لا تے ہیں جس سے آیا ت منسوخ شد ہ متر دک العمل ہو جا تی ہیں۔( نقل ازاہلحد یث )
دو سر ی فصل
تحر یف کتب سا بقہ اور قر آن کر یم
راستی مو جب رضا ے خدا است
’’پیغا م صلح ۲۷ ذوالحجہ‘‘ میں ایک آڑ ٹیکل زیر عنوان ان ’’انجیل میں تحر یف‘‘ عا جز کی نظر سے گز ر ا ہے۔چو نکہ یہ مضمو ن ظا ہر میں قرآنی تعلیم کے خلاف معلوم ہے۔اس لئے میں اپنی معلو ما ت کے موا فق چند ر یما رک(تبصرہ) قا رئین کر ام کی خد مت میں پیش کر تا ہو ں۔جن پر غو ر کرنے سے امید ہے کہ مضمو ن میں صحیح و غلط تمیز کر نے کا نا ظرین کو اچھا مو قع ملے گا۔
قر آن شر یف میں شر وع سے آ خر تک تا مل کر نے سے معلوم ہو تا ہے۔کہ کبھی ایک دفعہ بھی قر آ ن شر یف نےا نجیل یا تو ریت کو محر ف ظا ہر نہیں کیا۔ بلکہ بر خلا ف اس کے با ر با ر ان کتا بو ں کی تصدیق کی ہے۔ان کو نو ر اور ہد ا یت اور مو عظتہ اللمتقین(نصحیت والا موعظت) بتا یا ہے۔یہو دو نصا ر یٰ کو اپنی کتا بو ں پر عمل کر نے کا حکم دیا ہے۔بلکہ یہا ں تک ان کتا بو ں کی صحت کی حما یت کی ہے کہ سو رۃ ما ئد ہ کے پا نچو یں رکو ع کے آ خر سے تما م چھٹے رکوع تک صا ف طو ر پر اُن کی صحت کے محفو ظ ر ہنے کا اور اُن کے دا جب العمل(عمل کرنالازم ) ہو نے کا بیا ن کیا ہے اور رسول کر یم ﷺ کو مخاطب کر کے فر ما یا ہے،کہ یہو د تجھ کو کیو نکر حکم بتائیں۔اُن کے پا س تو تو رات مو جو د ہے۔جس میں اللہ کا حکم ہے۔با و جو د اس کے وہ تو رات سے ر دگر دانی کرتے ہیں۔اس لئے اُن کا تو ر یت پر ایما ن نہیں ہے۔ہم نے تو ریت نا زل کی ہے اس میں ہد ایت اور نو ر ہے۔انبیا ء جو مسلم تھے وہ اسی تو ر یت سے یہود کو ہد ایت کیا کر تے تھے اور یہودکے علما ء و فضلا ء کو اس تو ریت کا محا فظ بنا یا ہو ا تھا اور اس کے محفو ظ ر ہنے کے وہ گو اہ تھے۔ وہ بھی اسی تو ر یت سے ہدایت کر تے چلے آئے ہیں۔اے یہود تم لو گو ں سے نہ ڈ را کر و۔ صر ف مجھ سے ڈرا کر و اور میر ی آیتو ں کو دنیا کے قلیل فا ئدہ کے عو ض فر وخت نہ کیا کرو جو اللہ کی اُ تا ری ہو ئی کتا ب پر ( یعنی تو ریت پر ) عمل نہ کر یں وہ کا فر ہیں۔پھر آ گے انجیل کی نسبت فر ما یا وہ تو ریت کی مصد ق ہے اور ہد ایت ہے اور مو غطتہ اللمتقین ہے۔ اہل انجیل کو چا ہئے کہ جو کچھ اللہ تعا لیٰ نے اس میں حکم دیا ہے اور جو اللہ کے نا زل کئے ہو ئے انجیل پر عمل نہ کر یں وہ لو گ فا سق ہیں۔پھر آگے فر ما یا’’ ا ے رسو ل ہم نے تیر ی طر ف ایک حق کتا ب نا زل کی ہے۔جو تو ریت و انجیل کی تصد یق کر تی اور اُن کی محا فظ یا اُ ن پر شا مل ہے۔تو ان کو اس کتا ب کے مو افق حکم دیا کر جو تجھ پر نا زل ہو ئی ہے۔ہم نے تم میں سے ہر ایک امت کو ایک شر یعت اور کُھلا راہ بتلا دیا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چا ہتا تو تم سب کوایک ہی اُمّت بنا دیتا ( یعنے ایک ہی شر یعت پر چلا تا ) لیکن مختلف شر یعتو ں کے رکھنے سے یہ مطلب ہے۔کہ جس جس کو جو شریعت دی ہے اس پر چلنے میں اُن کا امتحا ن کیا جائے۔بھلائی کر نے میں تم کو ایک دو سر ے پر سبقت لےجا نی کی کو شش کر نی چا ہئے ‘‘۔
ان آ یا ت سے تو ر یت و انجیل کا تحر یف سے محفو ظ رہنا بین طو ر پر ثا بت ہو تا ہے۔پھر تو ر یت و انجیل کو محر ف بتلانا قر آنی تعلیم کے مو ا فق کبھی نہیں ہو سکتا۔اللہ تعا لیٰ نے یہو د و نصا ریٰ کو ان با تو ں پر ملا مت کی ہے، کہ وہ اور وں کو نصیحت کر تے ہیں۔اور خو د اس پر عمل نہیں کر تے یا وہ کسی با ت پر ایما ن لا تے ہیں اور عمل کر تے ہیں اور کسی پر نہیں کر تے اور کلا م الہٰی کو پس پُست ڈ ال دیتے ہیں یا بعض کتا بیں خو د وضع کر کے خدا کی طر ف منسو ب کر دیتے ہیں۔( جیسے مسلما نو ں میں بہت لو گ و ضعی حد یثیں بنا لیا کر تے تھے ) لیکن یہ با ت کبھی ظا ہر نہیں کی گئی کہ وہ لو گ اپنی کتا ب کی آیا ت یا الفا ظ بدل لیا کر تے تھے۔صر ف یہود کو ایک اور طر ح کی تحر یف کا الزام دیا ہے اور خو د قر آن شر یف نے اس تحر یف کا مطلب سمجھا دیا ہے کہ جیسے کسی واعظ کا کلا م سُن کر رواج تھا کہ سمعنا اور اطعنا(سُننا اور کھا لینا) کہا کر تے تھے۔ یہود نے رسول کر یم کی کلا م کو سُن کر ایک نئی قسم کا جو اب بنا لیا تھا۔کہ سمعنا و عصینا اور راعنا زبا ن مروڑ کے کہنے سے حقا رت کر تے تھے۔اس کی بجا ئے انظر نا کہتے تو ا چھا ہو تا یا حکم دئیے گئے تھے کہ حطتہ کہتے ہو ئے شہر میں دا خل ہو ں۔ انہوں نے اس کی بجا ( یِ) او ر لفظ بدل دیا کلا م الہٰی کو سُن کر اور سمجھ کر تحر یف کرتے تھے۔اس سے تحر یف معنو ی ظا ہر ہے۔ غر ض تو ر یت میں یا انجیل میں عمداً الفا ظ یا فقر ات کے بد ل دینے کا ذکر کہیں نہیں ہے۔ کہیں جنگ و صلح کے معا ملا ت میں بھی یہو د کی تحر یف کا ذکر آیا ہے۔اس کو تو ریت کی تحریف سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔علا وہ اس کے سو رہ انعام میں کو ئی اٹھا رہ انبیا ء کے نا م اور صفا ت بیا ن کر کے فر ما یا ہے۔یہ لو گ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے۔ ان کی ہد ایت کی پیروی کیا کر ،یہ کہیں نہیں کہا کہ اُن کی کتا بیں محر ف ہیں اُن کی پیر وی کبھی نہ کر نا۔
اور توریت اور انجیل کے تر جمو ں میں جو اختلا ف ہیں یہ کو ئی زیا دہ تو جہ کے قا بل نہیں۔قر آن شر یف کے جتنے تر جمے کئے گئے ہیں۔ اگر اُن کا مقا بلہ کر کے دیکھا جا ئے تو کو ئی تر جمے الفا ظ میں متفق نہ ملیں گے۔لیکن قر آن شر یف مو جود ہے۔اس طر ح کے اختلا فا ت سے قر آن کی ہد ا یت میں خلل و اقع نہیں ہو سکتا ہے۔اسی طر ح سے یو نا نی تر جمہ تو ریت جو( ۷۰ ) علما ،یہو د نے جمع ہو کر کیا تھا اور لا طینی و انجیل کا تر جمہ جو مقد س جیر دم نے کیا اور بھی پرُانے تر جمے اور اصل محفوظ رکھے گئے ہیں۔ ان میں کبھی تبد یلی نہیں کی جا تی ہے۔ہمیشہ تر جمہ کر نے کے و قت ان مستند کتا بوں کو مّدِ نظر رکھا جا تا ہے۔
اس کے سوا ایک اور با ت ہے قر آن شر یف وحی متلو ہے۔اور پہلی کتا بیں وحی متلو نہیں ہیں بلکہ الہا می مضا مین کو انبیا ء اپنی عبا ر ت میں جس طر ح چاہتے تھے بیا ن کر دیا کر تے تھے اور دو سر ے مقدس لو گ بھی ان سے سُنی ہو ئی با تو ں کواپنی عبا رت میں نقل کیا کر تے تھے۔اس قسم کی تحر یر وں کو کتب منزلہ او ر کتب مقد سہ کہا جا تا تھا۔ اگر ان میں عبا را ت و الفا ظ کے اختلا ف ہو جا ئیں۔مگر اصلی کلا م الہٰی کا مضمو ن نہ بدلے تو کو ئی ہر ج نہیں ہے۔ البتہ قرآن جو وحی متلوہے۔اس میں ایک لفظ کی تبدیلی بھی کلا م کو مشتبہ کر دیتی ہے۔ مگر با وجو د قر آن شر یف مختلف عبا ر تو ں میں ر سول کر یم کے روبرو پڑھا گیا اور سب کو ر سو ل کر یم نے صحیح فر ما یا اور قرأتوں کے اختلا ف تفسیر وں میں نقل کئے جا تے ہیں۔ایسے اختلا فو ں کوتحر یف کہنا چا ہئے۔پھر مضامین کاا لہا م جو مختلف عبا ر تو ں میں نقل کیا جا تا ہے ،اُ س کو محر ف کہنے کی کیا ضر ورت ہے ؟
سورہ ما ئد ہ میں اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے کسی قو م کی دشمنی تمہا ر ے سا تھ تم کو اس امر کی طر ف ما ئل نہ کر ے کہ تم معا ملہ میں ان کے سا تھ بے انصا فی کرنے لگو۔ بلکہ سب کےسا تھ ( دو ست ہو یا دشمن ) انصا ف کیا کر و۔یہی عمل تقویٰ کے قر یب ہے۔اسی طرح سے یہو د و نصا ریٰ ہما ری مخا لفت پر کربا ندھ لیں تو اُن کے عمل اُ ن کے سا تھ ہم کو اس کے عو ض میں اُن کی کتا بو ں کو محر ف بنا دینا نہا یت بے انصا فی اور تعلیم الٰہی کے با لکل خلا ف ہے۔
یہو د و نصا ریٰ کتب مقدسہ کے سا تھ کتب مو ضو عہ بھی ہمیشہ سے بنتی چلی آئی ہیں۔ان کو یو نا نی ہیں۔’ ’ ایپو کر ائفا ‘‘ کہتے ہیں۔مگر اُن کے علما ء ہمیشہ سے اُن کو تحقیق کر کے کتب مقد سہ سے ہمیشہ علیحدہ کر نے کی کو شش کر تے رہے ہیں اور انہو ں نے ایسی کتا بو ں کوکتب مقد سہ میں دا خل نہیں کیا ۔اُن کی بعض مو ضو عی کتا بیں ایسی بھی ہیں کہ ان میں حق دباطل دو نو ں طر ح کے کلا م ہیں۔ لیکن اُنہوں نے اُن کو بھی مستند کتا بو ں سے علیحد ہ رکھا ہے غر ض جن مختلف تر جمو ں میں الفا ظ اور آیا ت کے ایسے اختلا ف ہو ں۔کتا بو ں سے علیحد ہ رکھا ہے۔غر ض جن مختلف ترجموں میں الفا ظ اور آیا ت کے ایسے اختلا ف ہو ں جو غردریا ت میں کو ئی فتو ع نہیں ڈالتے تو ہم کو نکتہ چینی کر نے کی کو ئی ضر ورت نہیں ہے۔ کیو نکہ ایسا کر نے میں اند یشہ ہے کہ منصو صا ت (قرآن مجید کی وہ آیت جو قابل ِ تاویل نہ ہو،وہ حدیث جو مکمل طور سے ثابت ہو گئی ہو۔) قرآنی کی مخا لفت کے ہم مر تکب بنتے ہیں۔
اصلی با ت یہ ہے کہ تورات و انجیل دو نو ں کتا بیں صحیح اور عموماً غلطی سے محفو ظ ہیں اور حا شیہ اور متن کے کہیں کہیں ملجانے کے با عث یا مترجم کی غلط فہمی سے کہیں کہیں غلطی وا قع ہو گئی ہے تو اُس نے اصل ہد ایت کے مفہو م میں کو ئی فتور نہیں ڈالا۔ اگر ایسا ہو تا تو قر آن شر یف ان کی تصدیق کبھی نہ کرتا۔کتب مقد سہ سا بقہ میں کلا م انسا نی کلا م الہٰی کے سا تھ کثر ت سے ملی ہو ئی ہے اگر ایسی کلا م میں فقرات کی بھی کمی پیشی ہو جا ئے بشر ط یہ کہ اصو ل دین جب وہ کمی بیشی خلل انداز نہ ہو تو مسلما نو ں کو اس پر اعترا ض نہیں کر نا چا ہئے۔کیو نکہ جب قر آن شر یف نے با و جو د تر جمو ں کے اختلا ف کے اُن کو صحیح تسلیم کر لیا ہے تو اس سے یقینا ً ثا بت ہو تا ہے کہ وہ اختلا ف ہد ایت میں فتو ر ڈالنے وا لے نہیں ہیں اور چند تر جمے قر آن شر یف کے زما نہ سے پہلے صحیح تسلیم ہو چکے اور دو سر ی زبا نو ں میں تر جمہ کر نے کے لئے اُن کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جا تا ہے اور کبھی کسی متر جم سے بڑی غلطی بھی ہو جا ئے تو مقا بلہ کرنے کے لئے مستند نسخے مو جو د ہیں۔پھر تو ایسے ظا ہر ی اختلا فا ت سے کلا م الہٰی کی ہدایت میں کو ئی ہر ج وا قعہ نہیں ہو تا۔
اس میں کلا م نہیں کہ یہو د ونصا ریٰ نے بعض بد عتیں او ر کفر و شر ک تک پہنچا دینے والی با تیں اختیا ر کر لی تھیں۔قر آن شر یف اُن کی اصلا ح کے لئے بھی نا زل ہو ا ہے۔ اگر یہو د مسیح و مر یم پر ایما ن لے آ ئیں اور نصا ریٰ تثلیث و کفا رہ کے غلط اعتقا د کو ُ دو ر کر د یں تو یہ سب مسلما نو ں کے بھا ئی اور ہم مذہب اور نجا ت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ مثلا ً نصا ریٰ کو اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے۔اے اہل کتا ب ایک ہی کلمہ کی طر ف آجا ؤ جو ہما رے اور تمہارے درمیا ن بر ابر ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کی عبا دت نہ کر یں اور نہ کسی کو خدا کا شر یک بنا ئیں اور تم میں سے کو ئی ایک دو سرے کو خدا کے سوا رب نہ بنا یا کرے۔اس طر ح کی ہدایا ت تو قر آن شر یف میں یہو د و نصا ریٰ کو دی گئی ہیں ،لیکن تما م قر آن شر یف میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ جب تک یہو د ونصاریٰ خد ا پر اور قیا مت پر ایما ن لائیں اور عمل نیک کریں تو مسلمان کے برابر نجات کے مستحق ہیں۔خدا پر ایمان ہو نے سے مر اد ہے۔جیسا خدا ہے ویسا اس پر ایما ن ہو نہ کہ تین خدا ؤں پر ایما ن ہو۔
یہ بھی مسر ت کا مقا م ہے۔کہ میں اس خیا ل میں تنہا نہیں ہو ں۔خواجہ کما ل الد ین صا حب بھی اس معا ملہ میں میر ے ہم خیا ل ہیں۔ چنا نچہ ۱۵ فر وری ۱۹۲۵ ء کے ’’پیغا م صلح ‘‘میں اُن کی طر ف سے جو افتتاحیہ ہے اس میں صا حب مضمون نے خو د
ان الذ ین آمنواوالذین یھودو اوالنصاریٰ وا لصائبین من آمن باللہ والیوم الاخر فلھم اجرھم عندر بھم ولا خوف علیھم ولاھم یخرنون
کی روشنی میں جو تفسیر اس کی کی ہے وہ انہیں کے لفظو ں میں یہ ہے۔کہ
’’یہ با ت کچھ ایسی نہیں کہ جس پر میں زور دوں۔مُسلما ن مٹنے سے بچ نہیں سکتے اگر سب سے او ل اپنے اندر اس اتحا د کو پیدا نہ کر لیں جس میں شر کت کے لئے آ نحضر ت صلعم کے الفا ظ قطعی اور آ خری سمجھے جا ئیں قر آن کر یم تو ایمان باللہ اور با لیو م آلا خر و عمل صالح پر جنت کے درواز ے کھو لے اور ایک عیسائی ایک یہو دی اور ایک صا ئبی کو بھی شا مل کر لے ‘‘۔
یہا ں قدرتاً یہ سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ وہ عمل صا لح کہاں سے مل سکتے ہیں جن پر یہو د و نصا ریٰ ٰ جنت میں دا خل ہو سکتے ہیں۔اس کا جو اب یہی ہو سکتا ہے کہ انجیل وتو رات سے۔پس جب یہ با ت ہو ئی تو پھر انجیل و تو رات کو محر ف کو ن کہہ سکتا ہے۔ جب ان پر عمل کر نے سے یہو د و نصا ریٰ بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں تو لا زمی طو ر پر یہ ثا بت ہو گیا کہ تو رات و انجیل بد ستور اپنی اصلی حا لت پر ہیں اور ہد ایت و نو ر میں جیسا کہ قرآن میں خدا فر ما چُکا ہے۔اور جب یہ ما نے بغیر کو ئی چا رہ نہیں ر ہتا تو پھر
جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا
(سورۃ المائدۃ آیت ۴۸)۔
کی تفسیر وضا حت سے ہما رے سا منے ازخو د اَ جا تی ہے کہ ’’اہل کتا ب اپنی اپنی شر یعتوں پر جو کہ محفو ظ ہیں عمل کر کے مستحق نجا ت ہو سکتے ہیں‘‘۔
’’ ایک مُسلم‘‘پیغا م صلح ۲ ستمبر ۱۹۲۵ ء صفحہ ۴ ۔
تیسر ی فصل
انبیا اور ان کی تعلیم
ّ( مو لنٰامو لو ی عبدالستا ر صا حب کے قلم سے )
وَلَقَد وَصّلَنَا لَھُم اَلقُولَ لَعَلّھُم تیذَکَّروُنَ
تحقیق با ر با ر اُتا ر ا ہم نے قو ل ( قر آن ) تا کہ وہ نصیحت حا صل کر یں :۔
خدا وند عالم نے تما م رسو لو ں کے ذ ر یعہ ایک ہی دین بھیجا یا مختلف۔پھر خدا وند عا لم نے اپنے ر سولو ں کو کسی لقب سے متصف(صفت والا) فر ما یا اور اپنے بھیجے ہو ئے دین کا نا م اُس نے کیا رکھا اور مسئلہ کی تفہیم کے متعلق تعلیم خدا وند ی کیا ہے۔
قرآن کر یم پر غو ر اور تدبر(دوراندیشی) کر نے سے با لکل واضح معلو م ہو تا ہے کہ اس خُدا وند قدیر ہا دی خدا نے ایک ہی صراط مستقیم کی ہدایت فر ما ئی اور تما م رسولوں کے ذر یعہ ایک ہی دین بھیجا۔جس کا نا م اسلا م ہے اور جس کے پیر ؤوں کو مُسلم کا لقب عطا کیا گیا ہے۔مفصلہ ذیل آیا ت اس کی شاہدمیں کہ تما م ر سولو ں کو صر اط مستقیم ہی کی ہد ایت کی گئی اور سب کودین اسلام ہی دیا گیا۔
قُلۡ اِنَّنِیۡ ہَدٰىنِیۡ رَبِّیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ۬ دِیۡنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا
’’رسول کہہ دوکہ میرےخدا نے صر اط مستقیم کی طرف ہد ایت کی ہے۔جودرست اور استوار یعنی َ ملت ابرا ہا م جو صر ف خدا ہی کی جا نب ما ئل ہو رہے تھے‘‘۔
(سورۃ انعام آیت ۱۶۱)۔
اور پھر آپ نے اپنی امت کو ہد ایت فر ما ئی اور وہی صر اط اللہ ہے
وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ
اور بیشک تم سیدھا راستہ دکھاتے ہو(یعنی) خدا کا راستہ جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے
(سورۃ الشوری آیت ۵۲۔۵۳)۔
ہم مسلما نو ں کو صراط مستقیم کی تبلیغ کی گئی۔
وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ
تحقیق اللہ تعا لیٰ البتہ مو منو ں کو صراط مستقیم کی طر ف ہدا یت کر نے وا لا ہے۔
(سورۃ الحج آیت۵۴)۔
حضر ت ابرا ہیم کو اللہ تعا لیٰ نے منتخب کیا اور اُسے صراط مستقیم کی جا نب ہدا یت فر ما ئی۔
اِجۡتَبٰہُ وَ ہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ
خدا نے ان کو برگزدیدہ کیا تھا اور (اپنی) سیدھی راہ پر چلایا تھا۔
(سورۃ النحل آیت ۱۲۱)۔
حضر ت مو سیٰ اور حضر ت ہا رون علیہا ا سلا م کی شا ن میں خدا نے فر ما یا ہم ان دو نو ں کو صراط مستقیم کی ہد ایت کی۔
وَ ہَدَیۡنٰہُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ
اور ان کو سیدھا راستہ دکھایا
(سورۃالصافا ت آیت ۱۱۸)۔
حضر ت عیسیٰ علیہ اسلا م کی تبلیغ بھی صراط مستقیم تھی۔
اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ
بے شک اللہ تعا لیٰ ہی ہما را اور تمہا را پر ور دگا ر ہے۔تم اسکی عباد ت کرو۔یہی صراط مستقیم ہے۔
(سورۃ آل عمرا ن آیت ۵۱)۔
آپ نے ا ولا ً امت کو ایک خدا کی طر ف متو جہ کیا ( یعنی تو حید ) پھر عبا دت کی تعلیم فر ما ئی۔ عبا دت صر ف نماز ہی نہیں بلکہ سا رے احکا م وہدا یا ت کی تعمیل کا نا م ہی عبا دت ہے۔آپ نے اسی کو صراط مستقیم فر ما یا اور اسی کی تبلغ فر ما ئی۔
حضر ت ابرا ہا م ،اضحاق ،یعقو ب،نو ح،دا ؤ د ، سلیما ن ،ایو ب ،یو سف ، مو سیٰ ، ہا رون ،زکر یاہ ،یحیٰ، عیسیٰ ،الیا س ،اسمعیل ، یو نس ، لو ط علی نبینا دعلیہ الصلوۃ واسلام کے سب مدارج اور فضا ئل بیا ن کر نے کے بعد خدا تعا لیٰ فر ما تا ہے۔
وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ
’’اور بعض بعض کو ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔ اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا راستہ بھی دکھایا تھا‘‘۔
(سورۃالانعام آیت ۸۷)۔
پھر اسی سلسلہ میں خدا تعا لیٰ آگے چل کر فر ما تا ہے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ
’’یہ وہ لو گ ہیں جنکو اللہ تعا لیٰ نے ہد ایت کی ہے سو تم اُن کی ہد ایت کی اقتدا(پیروی) کر و‘‘۔
( سورۃ الانعام آیت۹۰ )۔
بالاجملہ صراط مستقیم ایک ہی ہے اور وہی تما م رسو لو ں کو ملی اور وہی تما م رسو لو ں کا دین ہے اور تما م رسولو ں نے اُ س کی تبلیغ کی۔خدا تعا لیٰ جو وحدہ لاشریک ہے۔وہ وحد ت کو پسند فر ما تا ہے ،اُس نے دین الہٰی میں کو ئی تفر قہ روا نہیں رکھا۔اس لئے آنحضر ت ﷺکو اقتداکا حکم دیا۔
اب کو ئی قدیم انبیا ء کے صراط مستقیم کو نا قص یا کھوٹی راہ کہے تو کہے ،مر اد لینا اس کے اختیا ر میں ہے۔سو جو چا ہے مرا د لے ور نہ بظا ہر تو یہ الفا ظ خطر ہ سے خا لی نہیں۔
صراط مستقیم اور خط مستقیم با ہم مترادف لمعنی الفا ظ ہیں۔ اب علم ہند سہ کی روسے دو نقطو ں کا وصل کئی متعدد خطو ط کے ذر یعہ کیا جا ئے تو سب سے چھو ٹا خط خط مستقیم ہو گا اور با لکل وا ضح اور رو شن ہے کہ وہ ( خط مستقیم ) دو ہو ہی نہیں سکتا۔
یہی ر شتہ عبو دیت(بندگی،اطاعت) اور عا بد و معبو د میں ہے۔وہی صراط مستقیم ہے۔پس صراط مستقیم ،دین اللہ دین القیم ، دین اسلا م سب مترا دف المعنی الفا ظ ہیں مفہوم ایک ہی ہے جو بلحاظ صفا ت کے مختلف نا مو ں سے مو سوم ۂو ا ہے۔
منجملہ خلا ق فطر ت کا بھیجا ہو ا دین فطر ۃ اللہ یا قو انین فطر ۃ کے خلا ف نہیں ہو سکتا۔ کیو نکہ اس کے قو ل اور فعل میں اختلا ف ممکن نہیں ۔دین و فطر ت میں مطا بقت تا مہ ہو نی چا ہئے۔پس جب فطرۃ نہیں بد لتی تو دین بھی کبھی نہیں بد لتا۔پس معلو م ہو اکہ فطر ت کے مطا بق ایک ہی دین ہو سکتا ہے نہ کہ متعدد اور وہی دین اسلا م ہے۔لہٰذا خدا وند عا لم نے فر ما یا ان الدین عند اللہ الاسلام۔ خدا تعا لیٰ کے نز دیک تو اسلا م ہی دین ہے۔ پس اللہ تعا لیٰ برحق ایک ، اُس کا دین بر حق ایک ،اس کی را ہ بر حق ایک ،اس کے احکا م و ہدایا ت حقہ ایک ،اس کی کتا ب منز لہ ایک اور اس کے تما م رسل بہ حیثیت رسا لت ایک (لا نفرق بین احد منھم)ہم رسو لو ں میں تفر قہ نہیں کر نے۔مگر ہم لو گوں کو یہ و حد ت پسند نہیں۔وہ ہر جگہ تفر قہ کے جو یاں ہیں،وہ دوسر ے دین کی مخا لفت کو دین سمجھے ہو ئے ہیں۔
الغر ض اللہ تعا لیٰ وا حد ہے اور ازلی ابد ی ہے۔ پس اُس کا دین بھی ایک اور ابدی ازلی ہو نا چا ہئے۔اور اگر دین اللہ متعد د ہے۔پس اس کا ازلی اور ابد ی نہ ہو نا ظا ہر ہے۔پس دین صفت قد یمہ خدا کا نہ رہا بلکہ ایک امر حا د ث ہو گا اور یہ ہد ا یتہً با طل ہے۔اس لئے اس مد عا کے اثبا ت کے لئے خدا تعا لیٰ نے جو ازلی ابدی ہے۔بطو ر کلیہّ کے بیا ن فر ما د یا
فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ
’’خدا جسکی ہد ایت کر نی چا ہتا ہے۔تو اُس کا سینہ قبول اسلا م کے لئے کھو ل دیتا ہے‘‘ ۔
( سورۃ الانعام آیت۱۲۵)۔
ازیں جا ثا بت ہو ا کہ اللہ تعا لیٰ ہمیشہ ہر زما نہ اور ہر قو م میں ا سلام ہی کی ہدا یت کر تا رہا ،لہٰذ ا یہ فر ما ن جا ری کر دیا۔
قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
’’اے رسول کہہ د و کہ ہم ایما ن لا ئے اللہ پر اور جو ہم پر نا زل ہوا قرآن مجید اور جو حضر ات ابرا ہا م ،اسٰمعیل ،اسٰحق ،یعقو ب اور اُن کی اولا د پر نا زل ہو۱۔ اور وہ جو حضر ت مو سیٰ ،عیسیٰ اور کُل نبیوں کو خدا کی طر ف سے سب ایما ن لا ئے۔ہم ان پیغمبر وں میں سے کسی ایک میں بھی فر ق نہیں کرتے۔کیو نکہ ہم تو خدا ہی کے حکم بر دار ہیں ( یہی اسلا م ہے ) جو شخص اسلا م کےسوا کو ئی دو سر ا دین اختیار کر ے گا تو وہ اس سے قبو ل نہیں کیا جائے گا۔اور وہ آخر ت میں میں گھا ٹے میں رہے گا‘‘
( سورۃ آل عمران آیت ۸۴۔۸۵)۔
قر آن کریم نے ہی ہم کو سکھا یا کہ سا رے رسول اور تما م کتب منز لہ با ہمی ایک دوسری کی مصدق رہی ہیں۔اس لئے ایک کتا ب پر ایما ن لا نا تما م نامعلوم کتا بوں پر ایما ن لا نا ہے اور کسی ایک کا منکر سا ری کتب اور سا رے پیغمبر وں کا منکر اور کا فر ہے۔ یہی دین ا سلا م ہے جو ازلی دین ہے۔اس کے سوا کو ئی دو سر ا دین مقبو ل ہی نہیں اسی دین اسلا م کو خدا نے ہمارے لئے بھی پسند فر ما یا
ورَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
دنیا ہم نے تمہارے لئے من حیث الد ین اسلا م ہی کو پسند فر ما یا۔
(سورۃ المائدۃآیت ۳)۔
پس معلو م ہو ا کہ تما م رسو لو ں کا دین اسلا م ہی تھا یا بالفاظ دیگر قرآن ہی تھا اور وہی خدا وند عا لم کا کلا م نفس قد یم تھا۔جو مختلف زما نو ں میں ضر ورت کے ما تحت خا ص خا ص ربا نی مصلحو ں کے ذریعہ مختلف زما نو ں کے پیر ایہ میں ظہو ر ہو تا رہا اور یہی اس آیت کے معنی ہیں، جو اس مضمو ن کا سر نا مہ ہے۔جس کا شا ہد قرآن ہے۔وکفٰی باللہ شھیداً تنزیل من رب العٰلمین وانہ لفی زبرالامولین۔(نقل پیغام صلح ۱۹ جولائی ۱۹۲۵ ء)
میر ا ایک مضمو ن یہ عنوا ن ’’ انبیا ء اُن کی تعلیم‘‘’’ اخبا ر پیغا م صلح لاہو ر مو رخہ ۱۹۔ جو لا ئی ۱۹۲۵ ء‘‘ میں شائع ہو ا تھا۔جس کا سر نا مہ آیت ولقد وصلنا لھم القول لعلّھم یتذکرون سے زیب دیا گیا تھا۔اس مضمو ن میں نہ تو میں نے کسی خاص شخص کو مخاطب کیا تھا اور نہ ہی وہ مضمون کسی کے جو اب میں لکھا گیا تھا۔بلکہ میر ا مدعا صر ف آیت مند رجہ صدرکی تفسیر کر نا تھا۔خلا صۃ المرام یہ تھا کہ تما م انبیا ء علیہم الصلٰوۃ والسلام خداوند لایزال کی جا نب سے ایک ہی دین لا ئے تھے اور وہ دین اسلا م ہی تھا۔کیو نکہ اصو ل دین میں کو ئی اختلا ف نہ تھا۔جس پر آیت شر وع
مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ
اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقر ر کیا ہے۔جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے تیری طر ف وحی کی ادرجس کا ہم نے ابرہا م ادر مو سیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا کہ دین کو قا ئم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
(سورۃ الشوری آیت۱۳)۔
ناطق ہے یہا ں تبا یا کہ دین کا اصل اصو ل تو ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔چنا نچہ جو حکم اب دیا جاتا ہے وہی نو ح۔ابراہا م۔مو سیٰ عیسیٰ کو دیا گیا تھا۔یعنی اصل اصو ل سب دنیوں کا یہی رہا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کو ایک جا نیں اور اُسکی فر ما نبر دا ری کر یں۔میر ےاس مضمو ن کی تر دید میں میرے محترم بزرگ ڈاکٹر بشارت احمد صا حب نے ایک طو یل مضمون بہ عنو ان( ’’ قر آن کر یم کی خصو صیت اور فضیلت‘‘ ’’ پیغام صلح ‘‘ مو ر خہ ۲۹ جو لا ئی ۱۹۲۵ ء )میں شا ئع کر ایا ہے۔چو نکہ محتر م محمد وح ہما ری جما عت میں ایک مسلم بزرگ ہیں اور اپنے خیالات کی حمایت میں ضد کرنے کے بھی عادی نہیں۔ اس لیے جناب نے مجھے جوابی مضمون پر قلم اُٹھانے کی اجازت نہ دی۔ لیکن جناب ممدوح کے مطالبے اور بعض احباب کے تقاضا نے مجھے اپنے ماضی الضمیر کے ا ظہار پر مجبور کیا۔
میرے محترم بزرگ اپنے مضمون کے ابتدائی حصہ میں نہایت متعجبانہ(حیران ،ششدر) لہجے میں اسقام (سُقم کی جمع،عیوب ،نقائص)فرماتے ہیں۔ مجھے اس مضمون کو پڑھ کر سب سے پہلے اس بات کی فکر ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف اس مضمون سے ثابت کر نا کیا چاہتے ہیں۔ یا کم سے کم میں نہیں سمجھا کہ ان کا مطلب کیا ہے؟ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ میرے محترم بزرگ بے شک میرے مطلب کو نہ سمجھئے ہوں گے۔ (اول) تومجھے اُردو زبان میں لکھنے پر کما حقہ قدرت نہیں اس لیے ممکن ہےکہ میرے طرز ِ بیان میں کچھ ایسے نقائص ہوں جو تفہیم مطالب میں مخمل ہوں۔ (دوم)۔ میرے محترم بزرگ کے طرزِ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مضمون زیر بحث کے متعلق پہلے سے ہی ایک خیال دل میں قائم کیا ہوا ہے اور وہ خیال یہاں تک پختہ ہوگیا ہے کہ اس کے بالمقابل کسی لیل کی بھی پرواہ نہیں۔ بلکہ بڑے زور اور سختی سے اپنے خیالات منوانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریر میں ضرورت سے زیادہ تلخی پائی جاتی ہے۔
بہرحال ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ آپ نے خصو صیت کے ساتھ میری ذہنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے قلم فیض رقم کو جنبش دی۔
اب میں اپنے محترم بزرگ کے مطالبات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔
1. محترم موصوف مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میں نے اپنے مضمون میں طعن اور تشنیع سے کام لیا ہے۔ سو جواباً عرض ہے کہ جب میرے مضمون کا کوئی خاص شخص مخاطب نہیں تو طعن اور تشنیع کس کے حق میں ہوئی۔ میں نے اپنا مضمون دوبارہ سہ بارہ پڑھا مگر اس میں ایک لفظ بھی طعن اور تشنیع کا میں نے نہ پایا۔ براہ مہربانی وہ الفاظ نقل کردیں جن میں آپکو طعن و تشنیع نظر آتا ہے۔
2. میرے محترم ممدوح ارشاد فرماتے ہیں۔ کہ ’’ وصلنا کے معنی باربار اُتارنا من گھڑت ترجمہ ہے‘‘۔ جواباً عرض ہے کہ یہ میرا ذاتی ترجمہ نہیں۔ بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا ترجمہ ہے۔ دیکھو مترجم قرآن مجید مترجمہ شاہ صاحب ’’پےدر پے آور دیم ایں قرآن را‘‘ اب اگر آپ شاہ صاحب کا ترجمہ مستند مانیں تو تنازعہ ختم اور اگر اس کوبھی من گھڑت ترجمہ ٹھہرائیں تو اس صو رت میں میرا فرض ہو گا کہ شاہ صاحب کی وکالت کر کے آئمہ لغت کی سند پیش کروں۔
3. میرے مضمون میں محترم ممدوح نے یہ الفاظ ’’تمام رسولوں کا دین اسلام یا بالفاظ دیگر قرآن تھا‘‘۔ کو قابل ِ اعتراض ٹھہرا کر ایک طویل بحث سپردقلم کی ہے اور مجھ پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی ہے۔ حالانکہ ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر لفظ ’’قرآن ‘‘ سے خاص وہ حصہ مراد ہے جو اصول دین سے متعلق رکھتا ہے۔ اب ا س صورت میں جناب ممدوح کا یہ اعتراض کہ کتب سابقہ میں جنگ ِ بدر اور جنگ ِ احزاب وغیرہ او ر حضرت رسول ﷺ کے تمدنی حالات کہاں تھے‘‘۔ اور نیز یہ اعتراض کہ ’’ ان تمام مضامین کو قرآن سے خارج ٹھہرائیں اور صرف اخلاقی اور تشریعی امور قرآن قرار دیں ‘‘۔ نقطہ موہومہ(قیاسی) سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔
4. محترم موصوف کا ایک اور اعتراض میرے اس ترجمہ پر ہے جو میں نے (لفی زبرالا ولین) کا کیا ہے۔ میرے ترجمہ کے رو سے اٰتہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع (رجوع کرنا)ہے۔ لیکن محترم موصوف فرماتے ہیں کہ اٰتہ کی ضمیر ان پیشنگوئیوں کی طرف جاتی ہے۔ جو کتب سابقہ میں نزول قرآن کے متعلق پائی جاتی ہے اور میرے ترجمہ کو غلط قرار دینے کی یہ وجہ لکھتے ہیں کہ اس میں اپنی طرف سے الفاظ بڑھانے پڑتے ہیں حالانکہ یہ نقص ا ن کے اپنے ترجمہ میں ہے۔
میرے ترجمہ کی موید(تائید کیا گیا) ایک اور آیت بھی ہے۔ (ان ھذا لفے الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ)۔ نیز اس ترجمہ میِں مَیں اکیلا نہیں بلکہ مفسرّین اور اہل تحقیق کا ایک حصہ میرے ساتھ ہے۔(ملاحظہ ہو بیان القرآن کا نوٹ)
یعنی یہی تعلیم (قدافلح من تذکی۔۔۔۔۔) پہلے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔ بالفاظ دیگر تمام انبیاء کی تعلیم ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اور بعض نے اشارہ ہذا میں ذکر ی یعنی قرآن کی طرف لیا ہے کہ یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ موجود ہے (لفی زبرالا ولین )بیان القرآن کے اس نوٹ سے جناب ڈاکٹر صاحب کا اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔
اگر محترم موصوف کے نزدیک کوئی حصہ مضامین قرآن کریم کا پہلے صحیفوں میں نہیں تو وہ ذیل کی آیات کا کیا ترجمہ کرتے ہیں۔
• (یرید اللہ لیبین لکم ویھد یکم ستبن الذین من قبلکم)
• (ان ھذالقرآن یقص علی بنی اسرائیل کثر الذی ھم فیہ مختلفون )
• (وباانزلنا علیک الکتٰب الالتبیین لھم الذی اختلوافیہ)
5. پھر میرے محترم بزرگ لکھتے ہیں کہ جب ہر نبی کے ساتھ یہ نام بدلتا رہا یعنی جب موسیٰ پر نازل ہوا تو کہہ دیا نزل اعلیٰ موسی ٰ تو پھر اس کلام میں تبدیلی ہوئی۔ جس کلام میں تبدیلی ہوئی۔ جس کلام میں تبدیلی ہو تو وہ حادث ہوا وہ کلام نفسی قدیم نہیں اور جو کلام نفسی قدیم نہیں وہ کلام خدا نعوذ با للہ نہیں۔
میرے محترم کو واضح ہو کہ حدوث(وجود میں آنا) الفاظ اور متعلقات میں ہے۔ نہ کلام نفسی قدیم میں جو اللہ تعالیٰ کی ازلی صفت ہے۔ مزید تشریح کا یہ موقع نہیں۔
6. باوجود اس قدر طنز و طعن کے میرے محترم دوست اپنے آخری میرے پیرے میں میرے مضمون کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’ وہ (قرآن) تمام کتب الٰہیہ کی ان صداقتوں پر مشتمل ہے جن کی ضرورت نوع انسان کو ہمیشہ کے لیے رہے گی جیسا کہ (فیھاکتب قیہ) سے ظاہر ہے اب اس عبارت سے تو آپ میرے اس ترجمہ کی تائید کر رہے ہیں۔ جو میں نے آیت (لفی زبرالا ولین )کے تحت میں کیا تھا۔
7. میں نے لکھا تھا کہ قرآن کریم میں ان تمام صدافتوں کا عربی ترجمہ ہے جو وقتاً فوقتاً نازل ہوئے ہیں۔ اس پر میرے محترم بزرگ سخت اور سُست سناتے ہوئے مجھ سے بے حد ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کہنے کی مجال ہے تو میں عرض کروں گا کہ جب بقول آپ کے یہ صداقتیں عبرانی، سریانی، یونانی وغیرہ زبانوں میں پہلے بھی موجود تھیں۔ تو پھر بالا آخر قرآن کریم ان مضامین کا عربی ترجمہ ہوا یا نہیں؟ کیا(فیھا کتب قیمۃ)کے یہ معنی ہیں کہ قرآن کریم میں عبرانی اور سریانی وغیرہ زبانوں کے الفاظ موجود ہیں یا یہ کہ ان کے معنی موجود ہیں۔ اگر شق اول ہے تو وہ قطعاً صحیح نہیں اور اگر شق دوم ہے تو اس صورت میں فی الحقیقت آپ میرے مضمون کے موئد ہیں( نقل از پیغام صلح)
چوتھی فصل
اناجیل اور تحریف
میں نے یورپین اور امریکن مادہ پرست علماء اور حکماء کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔جنہوں نے کتب مقدسہ کی اور مسیح کی تکذیب(جھٹلانا) کی ہے یا کتبِ مقدسہ کا بالکل محرف اور غلط ثابت کیا ہے اور ایسے مسیحی دیندار لوگوں کی نقادی(تنقید سے بھرپور) کتابیں بھی دیکھی ہیں۔ جنہوں نے کتب مقدسہ کے ترجموں میں ہزاروں اختلاف اور تحریفات دیکھائی ہیں۔ لیکن عبرانی توریت اور اس کے یونانی اور لاطینی معتبر ترجمے موجود ہیں۔ البتہ بعدکے ترجموں میں بہت اختلاف پائے جاتے ہیں۔ مگر ترجموں کی عبارتوں کے اختلاف سے احتراز کرنا کبھی ممکن نہیں اور جو اختلاف الفاظ و عبارت اصلی مطلب کے سمجھنےمیں خلل انداز ہوں ان اختلافوں سے کچھ جرح نہیں ہوا کرتا۔ جو کتب رسول کریم کے زمانے میں یہود و انصار کے پاس موجود تھیں۔ ان کے صحیح اور واجب العمل ہونے کی تصدیق قرآن شریف نے ایسے صاف صاف الفاظ میں کی ہے کہ کسی سچے مسلمان کو کتب مقدسہ کے محرف اور غیر معتبر ہو جانے کا اشتباہ کرنے کی گنجایش نہیں رہتی۔ اب کتب مقدسہ کی صحت میں کلام کرنی قرآن شریف کی صحت میں کلام کرنے کے مساوی ہوگیا ہے۔ اگر تمام دنیا کے یہودی او ر عیسائی اپنی کتابوں کوبالا تفاق محرف اور غیر معتبر ہی دیں تو یہی مسلمان اپنے قرآن شریف کی سچائی کی تائید کرنے کے باعث ان کتابو ں کو صحیح اور معتبر ہی کہتا رہے گا اور کہتے رہنا چاہیے۔ جو مسلمان ان کتابوں کو محرف اور غیر معتبر بتلاتے ہیں ان کو اپنے قرآن شریف کی ان آیات کی پہلے تفسیر کردینی چاہیے جو ان کو سچا بتاتی ہیں۔ ورنہ ان کتابوں کی تکذب کرنے سے قرآ ن شریف کی تکذب لازم آتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالی ٰ قرآن شریف کے کلام الٰہی ہونے کے ثبوت میں فرماتے ہیں۔
وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
’’اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ خدا کے سوا کوئی اس کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (یہ خدا کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں انکی تصدیق کرتا ہے اور اُنہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہوا) ہے‘‘۔
(سورۃ یونس آیت ۳۷)۔
اللہ کے سوا یہ قرآن کسی کا افترا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ توریت کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تفصیل ہے۔ اس لیے اس کے ربِ العالمین کی طرف سے ہونے میں اشتباہ نہیں ہوسکتا۔ جب قرآن شریف توریت و انجیل کے مصدق مفصل ہونے کے سبب کلام الٰہی ثابت ہوا۔ تو توریت و انجیل کا صحیح کلام الٰہی ہونا لازم آیا۔ اگر قرآن مجید محرف کتابوں کا مصدق ہے تو قرآن شریف کی کلام کو نظر انداز کر دینا خالص اسلام کے خلاف ہے۔
اگر کوئی مسیح شخص ان مسلمان علماء کے جواب میں یہ سوال کرکے کہ قرآن شریف سات مختلف عبارتوں میں نازل ہوا ہے اور وہ مختلف عبارتیں آپس میں ایک دوسرے سے ایسی مختلف تھیں کہ ان میں ایک عبارت جاننے والا دوسری عبارت کو بالکل غلط سمجھتا تھا۔ یہ روایت ایک دو صحابہ سے نہیں ہے۔بیت صحابہ سے ہے کہ قرآن شریف سات حرفوں پر نازل ہوا۔ آج دینا میں صرف ایک عبارت قرآنی موجود ہے۔ باقی عبارات جو رسول کریم کی سکھائی ہوئی تھیں رسول کریم کے زمانہ میں رائج تھیں اور ساری اس کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ان سب کا عثمانؓ کے زمانہ سے مفقود(غائب) ہوجانا بلکہ پھونکے جانا یقینی طور پر ثابت کرتا ہے۔کہ جو قرآن شریف رسول کریم کے زمانہ میں تھا اب وہ قرآن شریف دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سات طرح سے نازل ہوا تھا اور یہ صرف ایک طرح پر شائع ہوا ہے۔ کیا اس ایک طرح کو کوئی ترجیح دی جا سکتی ہے۔ جب ساتوں عبارتیں اللہ کی طرف سے تھیں ؟ کیا دوسری عبارتیں صرف محدود زمانہ کے لیے نازل ہوئی تھیں اور یہ موجودہ عبارت ہمیشہ کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اگریہی بات ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟
اگر یہ حضرات مسلمان علماء اس سوال کا جواب قابل اطمینان نہ دے سکیں تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ شیش محلوں میں وہ کر دوسروں کی طرف پتھر پھینکنا ہرگز مقعول نہیں ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ توریت انجیل کی کتابیں قرآن شریف کی طرح وحی متلو نہیں ہیں۔ ان میں الہامی کتاب کے ساتھ دوسرے بزرگوں کا کلام زیادہ شامل ہے۔ جنہوں نے الہامی کلام کو تاریخ واقعات کے ساتھ جمع کردیا ہے۔ مگر ان کے پڑھنے سے الہامی کلام میں اور دوسروں کے کلام میں بخوبی تمیز ہو جاتی ہے۔ اور جب اس طرح کی کلام خدا نے قرآن شریف میں تصدیق کر دی ہے تو اب ہم کو اس میں کلام کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی۔ مغربی علماء زیادہ تر مادہ پرست ہو جانے کے سبب صرف نام کے مسیحی رہ گئے ہیں اور جو مسیحی دیندار ہو کر تحریف یا قرأتوں کا اختلاف ظاہر کرتے ہیں وہ قرآن شریف کی طرح ان کو کلام الٰہی واجب العمل بھی برابر سمجھے جاتے ہیں۔ اس بیان سے ان کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ کتابیں غیر معتبر ہوگئی ہیں بلکہ ایک واقعی امردکھلانا ہوتا ہے کہ ترجمہ میں ایسی مشکلات کا واقع ہو جانا ضروری ہے اگرقرآن شریف ان کے بارے میں ساکت ہوتا تو پھر مسلمانوں کو اختیار تھا ان کی نسبت جو چاہے کہتے۔ مگر قرآن شریف ان کی تصدیق کرتا ہے تو کس طرح مسلمان ہو کر ہم لوگ ان کی کتابوں کو غلط اور محرف کہہ سکتے ہیں۔
اس میں کلام نہیں رسول کریم کے بعثت سے پہلے یہود و انصاری کی کتابوںمیں بہت کچھ بد نظمی تھی۔ یعنی توریت کتابیں جن پر تمام یہود کا اجتماع تھا اور جواب تک موجود ہیں وہ تو شروع سے مسلم چلی آئی ہیں۔ لیکن ان کے سوا بعض فرقوں اور اشخاص کے پاس ان کے سوا اور بھی کتابوں تھیں اور بعض لوگ ان کو بھی کلام ِ الٰہی کہتے تھے۔ لیکن بہت ساری تحقیق و تنقید کی مجلسوں نے ان کو بالکل رد کر دیا ہے۔ اب ان کی کاپیاں کہیں پُرانے کتب خانوں میں ملتی ہیں اور انجیلوں کا بھی یہی حال تھا کہ ان میں جو کتابیں اور خطوط شروع سے صحیح تسلیم کئے گئے تھے۔ وہ تو اب بھی بالا جتماع صحیح تسلیم کئے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے سوا غیر مستندکتابیں بھی بعض گرجوں میں اور بعض اشخاص کے صحیح کتابوں کی طرح تلاوت وغیرہ میں استعمال کی جاتی تھی لیکن تحقیق و تنقید کے بعد وہ بھی رد کر دی گئی ہیں۔جن ازمنہ قدیمہ میں لکھے پڑھے لوگ کم ہوتے تھے اور چھاپہ کی مشین بھی ایجاد نہ ہوئی ان دنوں میں اس قسم کی غلطیاں بہت ہوا کرتی تھیں لیکن شہادت قرآنی انبیاء اور علماء صحیح کتابوں کے محافظ بھی ہمیشہ سے چلے آئے ہیں۔ رسول کریم کے زمانہ تک بھی غیر مستند کتابیں یہو دو انصاری میں بعض فرقوں کے پاس موجود تھیں لیکن ان کی صحت پر اجما ع (اتفاق رائے)نہیں تھا۔ اس لیے وہ صحیح کتابوں سے علیحدہ رکھی جاتی تھیں۔گو بعض فرقے اور بعض اشخاص ان کی تعظیم بھی کرتے تھے۔اب مسئلہ زیر بحث یہ ہے۔کہ رسول کریم کے زمانہ میں جو یہود انصار کی کتابیں بالا جماع کلام الٰہی کہلاتی تھیں ان کی صحت پر تو قرآن شریف نے مہر لگا دی تھی۔باقی رہی بات کہ بعض غیر مستند اورموضوع کتابیں جو کسی کسی فرقہ یا فرد کے پاس موجو د تھیں قرآن شریف نے ان کا ذکر بھی کر دیا اور ان کی تردید کی ہے۔لیکن
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ
(سورۃ المائدہ آیت ۶۸)۔
اس آیت نے توریت و انجیل جو رسول کریم کے زمانہ میں اہل کتاب کے پاس موجود تھی اس کی صحت اور کلام الٰہی ہونے پر مہر لگا دی۔ لفظ کتاب (من کتب اللہ عزوجل ولکھم یحر فونہ بناولونہ علیٰ غیر تاویلہ )امام بخاری ابن عباس سےنقل کرتے ہیں کہ (یحرفون الکلم عن مواضعم)جو یہود کی نسبت وارد ہوا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ غیر صحیح تا ویل کیا کرتے تھے۔ ایسا شخص کوئی نہیں ہے جو اللہ کی کتابوں سے کسی کتاب کا لفظ بدل دے۔ امام بخاری اور ابن عباس دونوں کا یہی مذہب معلوم ہوا ہے،کہ تحریف سے مراد لفظی تحریف نہیں ہے۔ بلکہ معنوی تحریف ہے۔ امام بخاری کی کتاب کہ مسلمان قرآن سے دوسرے درجہ پر گنتے ہیں اور عباس کو قرآن کی تفسیر کرنے میں باقی سارے مفسروں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جب ان دونوں کا مذہب قرآن شریف کی بہت آیتوں کے منطوق (بولا گیا کلام)کے موافق ہے پھر معلوم نہیں کہ علماء کو اس سے عددل کرنے کی کون سی ضرورت داعی ہوتی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب قرآن شریف مقدسہ کی تصدیق کرتا ہے تو ہم کو ان کےنکتہ چینی کی کیا ضرورت ہے۔ جب بت پرستوں کی بتوں کو برا کہنے سے خد تعالیٰ نے منع کیا ہے ،تو اہلِ کتاب کی نکتہ چینی کرنےکی کیا ضرورت ہے۔قرآن شریف نے دوسروں کی کتابوں کی تحقیر اور تکذیب کر کے راہ حق کی طرف بُلانا کبھی نہیں تعلیم دیا۔ بلکہ بُری بات منہ سے نکالنے کی مسلمانوں کی مطلق ممانعت کی ہے۔
وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
(سورۃ بنی اسرائیل آیت ۵۳)۔
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی
دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یاڈر جائے
(سورۃ طٰہ آیت ۴۳۔۴۴)۔
غرض قرآن شریف میں تبلیغ اور وعظ کا طریق تعلیم نہیں دیا گیا کہ دوسروں کی تعظیم کی چیزوں کی تحقیر اور تذلیل کر کے ان کو حق کی طرف بلایا جائے۔
جو لوگ اہل کتاب کے تائید کرتے ہیں وہ ان کے ساتھی ہیں اور جو قرآن شریف کی ہدایت کو مقدم رکھتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں وہ مسلمان کے ساتھی ہیں۔
ایک حق پسند (پیغام ِصلح ، ۱۸نومبر ۱۹۲۵ )
پانچویں فصل
جناب مولانا مولوی محمد امام الدین صاحب اور کتب ِ مقدسہ
آپ نے جلسئہ اعظم مذاہب میں جو برمکان انجمن حمایت اسلام لاہور مؤرخہ ۲۶تا۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ ء میں ہواتھا ایک زبردست تقریر کی تھی۔جو بعد کو رسالہ صورت میں مطبع عزیزی لاہور میں طبع ہو کر شائع ہو گئی تھی۔ اس کی ایک کاپی ہمارے پاس ہے۔ اس تقریر میں سے ذیل کی عبارت نذر ناظرین کی جاتی ہے۔جس کا جواب آج تک مخالفین بائبل کے پاس نہیں اور نہ کبھی ہو گا (ناقل)
فقرہ نمبر ۱۲:۔ قرآن عربی میں جس قدر عزت اور شان توریت امام یعنی شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی بیان ہوئی ہے۔ اس قدر تو اور کسی بھی کتاب کی نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ ایسی ایسی چند آیات کہ جن سے عزت اور شان شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام کے ثابت ہے ۔ ذیل میں بعنوان ضمن لکھی جاتی ہیں۔
پہلا ضمن:۔در باب شان توریت امام۔(آیت مندرجہ ذیل نمبر ۴۴ رکوع ہفتم سورہ مائدہ مدنی نمبری پنجم )میں کسی کے اعلیٰ اعلیٰ شان توریت امام کی کا یوں بیان درج ہے۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ ۚ فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَ اخۡشَوۡنِ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ
اورترجمہ اس آیت مندرجہ صدر کا یوں ہے
(ہم نے توریت کو نازل کیِا ہےہدایت اور نور اسی میں ہے۔ اسی کی رُو سے انبیا مسلم اور ربانی اوراحیاء یہودیوں پر حکومت کیا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔کیونکہ انبیا مسلم اور ربانی اور احیاء سے احکام الٰہی مندرجہ کتاب اللہ توریت امام کی اجراءکی حفاظت اس طرح سے چاہی گئی تھی کہ انہیں کے مطابق حکمرانی کریں اور وہ لوگ اس پر گواہ بھی تھے۔ پس اے محمد ﷺتو مطابق احکام الٰہی مندرجہ توریت امام کی حکومت کرنے میں لوگوں سے مت ڈر مجھ سے ڈر اور میری آیتوں کے عوض کم قدر دنیاوی قیمت مت لو اور جو کوئی احکا م نازل کردہ خدایِ تعالیٰ کی رُو سے حکمرانی نہیں کرتا ہے۔وہی لوگ کافر ہیں)
تنبیہ:۔ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ توریت امام کی یہ بڑی شان ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس کے نازل کرنے کو اپنی ذات ِ پاک سے منسوب کیِا ہے اور پھر اس کی یہ شان بھی بیان ہوئی ہے کہ توریت امام میں ہدایت اور نُور ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گی اور پھر اس کی یہ بھی شان بیان ہوئی ہے کہ اس میں جس قدر شرائع منزل من اللہ ہیں وہ منسوخ اور محرف نہیں ہیں۔بلکہ محفوظ ہیں اور پھر اس میں سے یہ بھی ثابت ہے کہ محمد صاحب کو حکم ملا تھا کہ شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام پر عمل کرنے میں کسی سے بھی نہ ڈرےبلکہ ان پر عمل کرے۔ چنانچہ محمد صاحب نے مسئلہ رجم اور قصاص وغیرہ میں شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام پر بھی عمل کیِااور پھریہ بھی ثابت ہے کہ محمد صاحب نے یہ اقرار بھی کیا کہ مَیں توریت امام کے احکام کی رُو سے حکم کرتا ہوں اورپھر یہ بھی ثابت ہے کہ بسبب حکم الٰہی اورعمل محمد صاحب شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام پر عمل کرنا محمدیوں پر فرض بھی ہوا اور پھر اس میں سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو کوئی شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام کی رو سے حکمرانی نہ کرے وہ کافر ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور واضح رہے کہ یہ مضامین ذیل مضامین مندرجہ ذیل کی بالتفصیل اوربالدلائل بیان کی جاتی ہیں۔
پہلا مضمون:۔ یہ ہے کہ قولہ(اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ)میں کلمہ (انا )کا جو ضمیر متکلم کی ہے اور فعل سے مقدم ہے حصر(گھیرنا،منحصر کرنا) کے واسطے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا پاک فرماتا ہے کہ توریت کا نازل کرنے والاسوا ہمارے اور کوئی بھی نہیں ہے۔ اور تفسیر ابو سعود اور جمل وغیرہ میں درج ہے کہ توریت امام کی یہ اعلیٰ شان ہے کہ خدا پاک نے اس کے نازل کرنے کو اپنی ذات پاک سے مخصوص کیا ہے۔
دوسرا مضمون:۔ یہ ہے کہ قولہ(فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ) جملہ اسمیہ ہے جودوام اورثبوت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے ثابت ہے کہ توریت میں ہدایت مستمر(ہمیشہ رہنے والا،پائدار)ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ توریت امام سے ہدایت اورنُور کبھی زائل نہ ہوگی بلکہ ہمیشہ تک اس میں قائم رہے گی۔
چوتھا اور پانچواں اورچھٹا مضمون:۔یہ ہے کہ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی منسوخ یا محرف نہیں ہیں اور اس پریہ بھی ہےکہ پیرو آں قرآن عربی (قرآن کی پیروی کرنے والے)کو شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام پرعمل کرنا فرض ہے۔کیونکہ تفسیر کبیر میں اسی آیت کی تفسیر میں کلمہ (ھدیً)کے معنے کی نسبت یوں درج ہے (ھدیً)محمول (حمل کیاگیا،لادا گیا ،اُٹھایا گیا ،گمان کیا گیا،علم ِ منطق میں وہ خبر جو مبتداء کے مقابل واقع ہوتی ہے)ہے اور بیان احکام اور شرائع اور تکالیف پر اس لئے جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ احکام اور شرائع اور تکالیف مندرجہ کتاب اللہ توریت امام کی منسوخ نہیں ہیں۔ وہ لوگ اس اعتقاد کو اس آیت سے بھی بدیں وجہ استدلال کرتے ہیں، کہ اگر وہ احکام اور شرائع اور تکالیف منسوخ یا محرف ہوں تو اس سبب سے وہ احکام اور شرائع اور تکالیف ایسی ہوں کہ حکم اس کا بالکل ہی اعتبار کے لائق نہ ہو اور اس صورت میں لازم آتا ہے وہ احکام اور شرائع اور تکالیف ہر گز ہرگز ہدایت اور نُور بھی نہ ہوں۔ حالانکہ قولہ (فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ )سے ثابت ہے کہ توریت میں بھی ہدایت اور نُور ہے اور واضح ہے کہ ہدایت سے مُراد بیان احکام اور شرائع اور تکالیف ہے۔ اس لئےتوریت امام کی جملہ شرائع منزل من اللہ یا بعض ازاں ہرگز ہرگز منسوخ بھی نہیں ہیں اور محر ف بھی نہیں ہیں۔چونکہ یہ مضمون تفسیر کبیر سے ثابت ہو گیا ہے کہ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی منسوخ اور محرف نہیں ہیں بلکہ ہدایت اور نور ہیں اس لئے یہ بھی لازم آگیا کہ پیر و آں قرآنِ عربی کے واسطے شرائع منزل من اللہ اور مندرجہ توریت امام پر عمل کرنا فرض بھی ہے اور واضح رہے کہ تفسیر ابو سعود اور نیشا پوری اوربیضاوی میں بھی اسی مضمون کے قریب قریب ہے درج ہے اور کتاب غائتہ (انتہائی)التحقیق شرح حسامی (حُسّام سے،تلوار،شمشیر بُراں)میں یہی باب التبدیل اور اصول یزودی اور اُس کی شرح کشف میں بھی بذیل (شرع من قبلنا) کے کلمہ (ھدایت)کے معنی ایمان اور شرائع ہر دو لکھے ہیں اور علاوہ بران یہ بھی لکھا ہے کہ شرائع سابقہ کی پیروی واجب ہے۔
ساتواں مضمون:۔ یہ ہے کہ کلمہ (یحکم) کا فعل مضارع کاصیغہ ہے جو استمرار(دوام) کے معنی رکھتا ہے اور اس پر دلالت کرتاہے کہ توریت امام کی رُو سےحکومت کا کیا جانا مستمر رہے گا اور نتیجہ اس کا بھی یہی ہے کہ احکام منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے نہ تو منسوخ ہوئی ہیں اور نہ ہوں گی اور نہ محرف ہوئی ہیں اور نہ ہوں گی۔ کیونکہ شرائع الٰہی مندرجہ توریت امام کے رُو سے حکومت کرنا ایک استمراری امر ہے۔
آٹھواں مضمون:۔ یہ ہے کہ کلمہ (بھا)مقفول بہ بواسطہ حرف جر(وہ لفظ جو کسی فعل کو اسم سے ملائے) کے ہے اور فاعل یحکم سے جو البیون ہے مقدم ہے اور مقدم ہونا مفعول کافاعل پراختصاص (خصوصیت رکھنا)پر دلالت کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسی توریت کی ہی رُو سے انبیا ء حکومت کیا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اور مفسرین نے اس کی تحت میں یہ بھی لکھا ہے کہ محمد صاحب بھی منجملہ انہیں انبیاء کے ہیں جو توریت امام کے احکام کی رُو سے حکومت کیا کرتے ہیں۔کیونکہ محمد صاحب نے یہودیوں وغیرہ کو توریت کی طرف رجوع دلایا۔ اور توریت کاہی حکمران کے حق میں نافذ کیا۔ دیکھئے خصوصا ً سُنن ابوداؤد کی کتاب الحدود کے باب الرجم فی الیہودیں میں کیونکہ اس میں یوں بھی درج ہے (احکمَ بانی التوریتں)اور ایسا ہی تیسرا اصول لی حلمع الا صول میں بھی منقول از ابو داؤ ددرج ہے اور در منشور میں بھی اسی آیت کی تفسیر کے تحت میں مثل ابو داؤد کے درج ہے اور خازن اور معالم التنزیل اور مجمع البیان میں اسی آئینہ کی تفسیر کے ضمن میں ایسا مضمون مندرجہ ابو داؤد کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور روح المانی میں تو اس آیت کی تحت میں یوں بھی درج ہے کہ ( چونکہ محمد صاحب منجملہ عاملان (عمل کرنے والے)توریت کے تھے۔ اس سبب سے کہنے والے استدلال کرتے ہیں کہ پہلی شرائع پر بھی ہم لوگوں کو عمل کرنا لازمی ہے اور(شرع من قبلنا لازم علینا الااذ اقام الناسیل علے صیر ودتد منسوخا ) تو تفسیر کبیر اور نیشا پوری اور ابوسعود اورجمل اور بیضادی اور فتح البیان میں بھی اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میں درج ہے اور واضح ہے کہ شرائع (منزل من اللہ )مندرجہ توریت امام کی رو سے حکومت کرتے رہنا تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ شرائع منسوخ اور محرف نہ ہو ں فا فہم۔
نوواں مضمون:۔ یہ کہ قولہ (النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا)کی قید اس امر کے لیے مفید ہے کہ جو جو انبیاء توریت کے مطابق حکومت نہیں کرتے ہیں وہ مسلم ہی نہیں ہیں۔
دوسواں مضمون:۔ یہ ہےکہ قولہ( بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ توریت محفوظ ہے۔ دیکھئے تفسیر ابو سعود اور روح المعانی۔ پس نتیجہ اس کا بھی یہی ہے کہ توریت محرف نہیں ہے اور نیز یہ بھی نتیجہ ہے کہ انبیاء وغیرہ کو حکم تھا کہ توریت پر عمل کرنا ترک نہ کریں بلکہ اُس کو عمل میں لاتے رہنے سے محفوظ رکھیں دیکھیے تفسیر کبیر وغیرہ۔
گیارھواں مضمون:۔ یہ ہے کہ قولہ(فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَ اخۡشَوۡنِ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلا)میں محمد صاحب کو توریت کا عمل ترک کرنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ دیکھئے در منشور اور مجمع البیان۔
بارھواں مضمون:۔ یہ ہے کہ قولہ( وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ) میں کلمہ(ض) کا متضمن(داخل کیا گیا) معنی عام کا ہے اور وہ اس آیت میں ہر ایک فرد ِ بشر کو شامل ہے۔ خواہ وہ موسائی خواہ عیسائی یا محمدی اور خوا ہ یہودی مسلم اور خوا کوئی نبی یا اُمتی اور خواہ کوئی کسی اور ہی طریق یا مذہب کا ہو دیکھئے تفسیر کبیر اور مجمع البیان اور دُر منشور میں سے ابن ِ عباس کی وہ روایتوں میں سے ایک روایت اور نیز روایت ابن مسعود وغیرہ کی اور خازن میں سے ابنِ عباس اور ابنِ مسعود کی روایت او ر مدارک میں سے ابن مسعود کی روایت اور ذکر عمومّیت کلمہ (ض) کا مجمع البیان او ر فتح البیان میں سے اور کلمہ (ما) کا بھی متضمن معنی عام کا ہے۔ اور وہ اس محل میں ہر ایک حکم منزل من اللہ توریت امام کو شامل ہے تاکہ کسی خاص مسئلہ کے واسطے نہ سمجھا جائے اور کلمہ(اولئک) کا واسطےمعنی انحصار کے آتا ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ وہی لوگ کافر ہیں جو توریت کے احکام کے موافق ہی ایک امر میں حکومت نہیں کرتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہے، کہ توریت امام کا کوئی بھی الٰہی حکم منسوخ اور محرف نہیں ہوا ہےاور نہ ہوگا۔ ورنہ اُس کی نافرمانی کرنے والے کو کافر نہ کہا جاتا کیونکہ کلمہ (ض) کا شرطیہ ہے۔ دیکھیے تفسیر فتح البیان اور وہ ماضی کو بمعنی مستقبل کر دیتا ہے۔ اس لیے یہ حکم اس آیت کا آیندہ کے واسطے بھی ہے۔ فا فہم۔
دوسرا ضمن:۔ دربار ب شان توریت امام۔ اور لیجیے کہ( آیت مندرجہ ذیل نمبر ۱۳ رکوع دوم سورۃ شوریٰ )کی نمبری حیل و دوم سے بھی ایک اور ہی اعلیٰ شان توریت امام کی یہ ثابت ہے کہ اس کا ہر ایک حکم منزل من اللہ پیرو ان قرآن عربی کے واسطے (شریعۃ اللہ واجب الاتباع) قرار پایا ہے۔
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ
اور ترجمہ اس آیت کا حسب ذیل ہے۔ ہم نے جو جو احکام نوح کو وصیت کئے ہیں اور نیز جو جو احکام ( اے محمد ہم نے تیری طرف وحی کئے ہیں او ر نیز جو جو احکام ابر ہام اور موسیٰ اور عیسیٰ کو اے محمد ہم نے وصیت کئے ہیں ان جملہ دین احکام کو جو مجموعہ احکاِم الٰہی موصولہ معرفت ہر پانچ انبیاء متذکرہ صدر کا ہے۔ قائم کرو اور اس میں تفرقہ مت ڈالو۔ ہاں وہ لوگ جو شرک فی الحکم کر نے والے ہیں ان کو مجموعہ احکام دین کی طرف دعوت کیا جانا گراں معلوم دیتا ہے۔ اوراللہ جس کو چاہتا ہے اس مجموعہ احکام دین کے پیروے کے واسطے چن لیتا ہے اور جو کوئی اس مجموعہ احکام دین کی طرف رجوع لاتا ہے اللہ اس کو ہدایت کرتا ہے۔
تنبیہ:۔ وجوہات اس امر کی کہ آیت مندرجہ کا جو کچھ ترجمہ گیا ہے وہی صحیح ہے۔ حسبِ ذیل ہیں۔
پہلی:۔ وجہ یہ ہے کہ قولہ (شَرَعَ لَکُمۡ) میں کلمہ (شرع )کا فعل ماضی معروف کا صیغہ ہے او ر مصدر اس کا شرع اور شرعتہ اور شریعت ہیں۔ جن کے معنی’’ پانی کا راستہ ‘‘ہیں کہ جس کے پینے سے انسان کی زندگی کو مدد ملتی ہے۔ اس لیےحیات ِ ابدی یعنی نجات کے چشمہ کے راستہ کو بھی جو وہ بجاآوری احکام ِ الہٰی کی ہے۔ اسی تشبیہ کے سبب سے شریعت کہتے ہیں اور یہ معنی کلمہ شریعت کی تفسیر بیضاوی میں بھی تحت (آیت نمبر ۴۸ رکوع ہفتم سورہ مائدہ مدنی نمبری پنجم) (جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا) کے درج ہیں۔ جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہارے واسطے نجات کا راستہ مقرر کیا ہے اور سوا اس کے اور کسی نے بھی مقر ر نہیں کیا ہے۔
تیسری وجہ:۔ یہ ہے کہ قولہ(مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی) میں کلمہ (ما) کا متضمن معنی عام کا ہے۔ اس لیے معنی اس کے یہ ہیں کہ ہر ایک امر جو نوح کو اور تجھ کو اور ابراہام اور موسیٰ اورعیسیٰ کو ہم نے دیا۔ ان جملہ امور کا مجموعہ ہم نے تمہارے واسطےشریعۃ اللہ یعنی راستہ نجات کا مقرر کیا ہے او رجب یہ معنی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ شرائع منزل من اللہ علی موسیٰ میں سے جس کسی امر شرعی الٰہی کو ترک کیا جائے تو لو گویا شریعۃ اللہ واجب العمل کو ترک کر کے راستہِ نجات سے بہک جانا اور حکم مندرجہ اس آیت سے نافرمان ہونا ہوگا۔
تنبیہ:۔ اب دیکھ لیجئے کہ دوسرے ضمن اور اس کی وجوہات میں ثابت ہو گیا کہ آیت (شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا الاٰیتہ) اس امر پر دال ہے کہ ہر ایک امر منزل من اللہ موسیٰ کا پیرواں قرآن عربی کے واسطے بجانا فرض ہے۔
ضمیمہ نمبر(۱) ضمن دوم فقرہ نمبر ۱۲:۔ (آیت نمبر ۹رکوع سورہ بنی اسرائیل ) (اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ)سے ثابت ہے کہ قرآن عربی کا ہر ایک حکم بڑا ہی محکم ہے۔یعنی منسوخ ہونے والا نہیں ہے۔اس لئے یہ حکم اس آیت (شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا الاٰیتہ)کا بھی جو یہ ہے کہ (ہر ایک منزل من اللہ علےٰ موسےٰ کا پیرواں قرآن عربی کے واسطے ہم نے شریعت بنائی ہے۔)منسوخ اور محرف ہونے والا نہیں ہے۔چونکہ یہ حکم اس آیت کا منسوخ اور محر ف والا نہیں ہے۔ اس لیے ثابت ہے کہ ہر ایک امر منزل من اللہ علیٰ موسےٰ یعنی مندرجہ توریت امام کا بھی منسوخ اور محرف ہونے والا نہیں ہے۔بلکہ تا قیامت قائم اور بر قرار رہنے والا ہے۔
ضمیمہ نمبر(۲) ضمن دوم فقرہ نمبر ۱۲:۔اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ شرائع منزل من اللہ نوح و محمد و ابراہام وموسیٰ و عیسیٰ کے باہم مختلف ہیں۔ اس لیے ان کے مجموعہ پر عمل کرنا محا ل ہے۔ پس اس سبب سے آیت مندرجہ صدر میں شرع اور دین سے ایسے ایسے احکام مراد ہیں جو باہم مختلف نہیں ہیں اور جو احکام ایسے ایسے معلوم ہوں کہ باہم مختلف فیہ ہیں۔ تو انہیں سے پہلوں کو منسوخ اور پچھلوں کو ناسخ سمجھنا پڑے گا۔ سو جواب اس اعتراض کا دو وجہ سے بیان کیا جاتا ہے۔
ایک وجہ:۔ یہ ہے کہ قرآن عربی میں کئی ایک آیات ایسی ایسی ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے اور پچھلے شرائع الٰہی موا فق ہیں۔ مثلاً ایک (آیت نمبری ۳ رکوع اول سورہ آل عمران مدنی نمبری سوم )کی(نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ) ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیر کثاف اور مجمع البیان اور بیضاوی اور مظہری سے دیکھئے۔ اور دوسری مثال( آیت نمبر ۸۲ سورۃ نساء مدنی نمبری چہارم) (اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا) ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیر کبیر بضمن تفسیر ( سورۃ آل عمران آیت ۳تا ۴) (نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ ۬ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ)کی دیکھئے۔ اور تیسری مثال( سورۃ انعام آیت ۹۰ )کی (اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ)ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیر کبیر میں بذیل تفسیر ( سورۃ مائدہ مدنی آیت۴۸)(جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا)کی دیکھئے اور چوتھی مثال(سورۃ یونس آیت۹۴ مکی نمبری دہم )کی (فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ) ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیر کشاف میں سے دیکھئے اور پانچویں مثال( سورۃ انبیاء آیت۹۲) (اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۫ وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ) ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیرفتح البیان میں سے دیکھئے۔ اور چھٹی مثال (سورۃ مومنون ۵۲ ) (وَاِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاتَّقُوۡنِ)ہےاور تفسیر اس کی تفسیرفتح البیان میں سے دیکھئے اور ساتویں مثال نحن فیہ( سور ۃ شوری آیت۱۳) (شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ) ہے اور تفسیر اس آیت کی تفسیر کبیر میں بضمن ہے(سورۃ المائدہ آیت ۴۸)(جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا) کی دیکھئے۔اور اسی طرح سے اور بھی کئی ایک آیات قرآن عربی میں ایسی ہی موجود ہیں جو شرائع الٰہی سلف اور خلف کے اتحاد پر دلالت کرتے ہیں۔ فا فہم۔
دوسری وجہ یہ ہے:۔ کہ بروی قواعد شناخت کلام ِ الٰہی مندرجہ فقرہ نہم تقریر ہذا کی ثابت ہے کہ جو کوئی حکم شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے بعد کا ان کےبر خلاف ہو تو ایسا حکم الٰہی ہی نہیں ہے۔ اگرچہ کسی ہی نبی نے بیان کیا ہو اور یہی حاصل مطلب (سورۃ بقر آیت۴۱) (وَاٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ) کا ہے۔ اس لیے ثابت ہوا کہ جس قدر احکام ِ شرعی منزل من اللہ ہیں وہ تو توریت امام کے مخالف ہی نہیں ہیں۔ جو جو احکام مندرجہ کتب ما بعد توریت امام کے ایسے ہیں کہ احکام شرعی منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے مخالف ہیں۔ وہ وہ احکام من اللہ ہی نہیں ہیں۔ پس اس صورت میں اختلاف ہی کوئی نہ رہا بلکہ محض اتحادہی اتحاد ثابت ہوا۔
ضمیمہ سوم ضمن دوم فقرہ نمبر ۱۲:۔ کئی ایک علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ قولہ، (شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ)میں کلمہ (اصول) کا مقصد ہے۔ گویا یوں پڑھنا چاہیے (شرع لکم من اصول الدین) اور غرض ان کی ایزادی اس کلمہ (اصول) سے یہ کہ احکام شرعی عملی کو یہ آیت شامل ہی نہیں ہے۔ اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ شرائع عمل جملہ انبیاءکے باہم مختلف ہیں۔اس لئے اس آیت میں اصول دین مثل توحید وغیرہ کے وہ امور مراد ہیں جو باہم مختلف نہیں ہوتے ہیں۔ سوتر دید اس قول علماء کی اس طرح کی جاتی ہے کہ بروی قرار داد علم معانی کے کسی کلمہ یا کلام کو اس حالت میں مخدوف(حذف کیا گیا) کیا جاتا ہے کہ جب اس کےحذف کرنے سے معنی کلام کے مشتبہ نہ ہو جائیں۔ حالانکہ یہاں پر تو معنی کلام کے مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ قولہ(شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ) سے اصول ِ دین نہیں سمجھے جاتے ہیں بلکہ مطلق احکام دین کی بلا قید اصول اور فروع کے سمجھے جاتے ہیں اس لیے اس محل پر کلمہ ا صول کا مخدوف قرار دینا کسی طرح سے بھی جائز نہیں ہے۔
علاوہ براں کلمہ اصول کا محذوف قرار دینے میں نص پر ایزادی ہو جا تی ہے اور منار اور اس کی شرح نور الانوار میں تبدیل بیان کی (نسخ وصف فی الحکم) کو بھی نص ایزادی کا ہو نا یوں بیان کیا ہے۔(ونسخ وصف فی الحکمربان ینسح عمومہ و اطلاقہ وبیقی اصلہ ذلک مثل الزیادۃ علی النص) اور نص پر ایزادی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ حسا می میں بذیل بیان التبدیل کے یوں لکھا ہے۔ (وامابیان التبدیل وھو النسخ فیجوز ذلک من صاجب الشرع ولا یجوز من العباد) اور اس امر کی موید وہ حدیث ہے کہ جا مشکٰوۃ کے باب الاعتصام کی فصل تیسری میں منقول ازوار قطنی (روئی کا بنا ہوا)مردی از جابر ہے۔یعنی(قال رسول اللہ کلامی لا ینسخ کلام اللہ وکلام اللہ ینسخ کلامی و کلام اللہ ینسخ بعضہً بعضاً) اس لیے قید اصول کو اس حکم مطلق پر ایزاد کر نا گوی قرآن عربی کو منسوخ یا محرف کر کے پایہ اعتبار سے ساقط(نامنظور) کر دینا ہے اور یہ تو واضح ہی ہو چکا ہے کہ جو لوگ نص پر ایزادی کرتے ہیں وہ لوگ اس ایزادی کرنے کے محاذہی نہیں ہیں۔ فا فہم۔
تیسرا ضمن درباب شان توریت امام:۔ اور لیجئے کہ (سورۃ الاحقاف آیت۱۲ ) (وَ مِنۡ قَبۡلِہ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ) میں توریت کی یہ صفت اور شان بھی درج ہے کہ اس کو امام کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔
میں توریت کی یہ صفت اور شان بھی درج ہے کہ اس کو امام کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔میں توریت کی یہ صفت اور شان بھی درج ہے کہ اس کو امام کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔(ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ)میں توریت امام کی یہ صفت اور شان بھی درج ہے کہ اس میں ہر ایک شے کا حکم با تفصیل درج ہے۔
پانچواں ضمن درباب ِشان توریت امام:۔ اور لیجئے کہ آیات مندرجہ ذیل سے توریت امام کی یہ صفت اور شان بھی ثابت ہے کہ قرآن عربی تو توریت امام کا تصدیق کرنے والا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ توریت امام میں جس قدر احکام منزل من اللہ درج ہیں وہ سب کے سب حق اوردرست ہیں نا حق یا محرف یا مبدل نہیں ہیں۔چنانچہ ازاں جملہ ایک تو (سورۃ النساء آیت ۴۷) (اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ) ہے اوردوسری آیات( سورۃ بقرہ آیت ۸۹ ،۹۱)(وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ) ۹ (وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ یَکۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَہٗ وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ ) ہیں۔ اور تفسیری آیات (سورۃالبقرہ آیت۹۷) (قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ)(سورۃ البقرہ آیت ۱۰۱)(وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ کَاَنَّہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ) ہیں اور چوتھی آیت(سورۃ آل عمران آیت ۳) کی (نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ) ہے۔ اور پانچویں آیت (سورۃ آل عمران آیت ۸۱)کی (وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ)ہے۔اور چھٹی آیت(سورۃ المائدۃ آیت ۴۸)کی(وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ) اور ساتویں آیت( سورۃ الانعام آیت۹۲) کی (وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ) ہے اور آٹھویں آیت (سورۃ یونس آیت ۳۷) کی (وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ)ہے اور مضمون اس آیت کا یہ ہے کہ قرآن عربی تو ریت امام کی تصدیق اور تفصیل کے ہی واسطے نازل ہوا ہے۔ اور نویں آیت( سورۃ یوسف آیت ۱۱۱)کی (مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ) ہے او ر دسویں آیت (سورۃ فاطر آیت۳۱) کی (وَ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ) ہے۔ اور گیارھویں آیت (سورۃ الصافات آیت۳۶۔۳۷)کی (وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ بَلۡ جَآءَ بِالۡحَقِّ وَ صَدَّقَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ) ہے۔ اور بارھویں آیت (سورۃالاحقاف آیت۱۲) کی (وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ)ہے اور تیرھویں آیت( سورۃ الاحقاف آیت۳۰)کی (قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ) ہے۔
چھٹا ضمن درباب شانِ توریت امام:۔ اور لیجیئے کہ آیت( سورۃ النمل آیت۷۶) (اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَکۡثَرَ الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ) سے یہ صفت اور شان توریت امام کی ثابت ہے کہ قرآن عربی ان اختلاف کے دور کرنے کے واسطے نازل ہوا ہے۔ جو گمراہ لوگوں نے توریت امام کے احکام کی بجا آوری یا آنکہ ان کے مطلب کے قرار دینے میں ڈالی ہوئی ہیں۔ نہ کسی ایسے ایسے اغراض کے واسطے کہ جو محمدی سمجھے بیٹھے ہیں۔
فقرہ نمبر ۱۳:۔ توریت امام میں جس قدر شرائع من اللہ ہیں ان کے منسوخ یا محرف ہونے کی نسبت تمام قرآن عربی میں ایک ہی آیت نص نہیں ہے۔ کیونکہ نص کے معنی تفسیر اتقان کے پچاسویں نوع میں یہ ہیں(وان افاد معنے لا یحتمل غیر ہ فالنص) الا جو لوگ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی منسوخ یا محرف ہونے کے قائل ہیں۔ یا تو وہ ایسے ہی ہیں کہ ایسی ایسی آیات معنی سمجھنے سے بے بہرہ ہیں اور تمیز حق و باطل کو جواب دے بیٹھے ہیں اور زیادہ ایسے ہیں، کہ ہو انفسانی کی پیروی میں ایسی ایسی آیات قرآن عربی کے معنوں میں تحریف کرتے ہیں اور شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی تکمیل سے بذریعہ تحریف ایسی ایسی آیات قرآن عربی کی کہ جن سے شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام پر عمل کر نا فرض ثابت ہوتا ہے اغواہ کرنے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں اور بغرض اعواء عوام کی چند آیات قرآن عربی کی براہ مغالطہ (دھوکا)دہی پیش کر کے بیان کرتے ہیں۔ کہ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت نام کی محرف اورمبدل ہیں۔ چنانچہ ان آیات قرآن عربی کو کہ جس کے ذریعہ سے عوام کو مغا لطہ دیا جاتا ہے۔ذیل میں بعنوان ضمن پیش کر کے مغالطہ دہی ایسوں کو پوست کندہ(کھال اُتارنا) بیان کر کے یہ ثابت کر کے دکھلایا جاتا کہ تمام قرآن عربی میں ایک بھی ایسی آیت نہیں ہے کہ جو درباب تحریف شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی نص ہو۔ فافہم۔
پہلا ضمن درباب مغالطہ دہی علما محمدی کے:۔ از اں جملہ ایک آیت جو بغرض اثبات تحریف لفظی شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے ایسی ہے لوگ براہ مغالطہ دہی پیش کرتے ہیں۔ جو کہ(سورۃ البقرۃ آیت۷۵)کی (اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ) ہے۔وجوہات تردید مغالطہ دہی ایک وجہ یہ ہے۔ کہ اس آیت کی تفسیر میں بعض تو یوں کہتے ہیں کہ تحریف کرنے والے وہ ستر (۷۰)آدمی تھے جو منتخب ہو کر موسیٰ کلیم اللہ کےہمراہ کو ہ طور تک گئے تھے او ر بعض کہتے ہیں کہ یہاں پر تحریف کرنے والوں سے محمد صاحب کے زمانہ کے یہودی مراد ہیں۔ پس اس اختلاف سے ظاہر ہے کہ یہ آیت ان دونوں حالتوں میں سے کسی بھی ایک حالت کے واسطے نص نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ تحریف لفظی کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ تحریف معنوی بذریعہ تاویلات با طلہ کی کرتے تھے۔ اس لیے اس صورت اختلاف میں بھی یہ آیت تحریف لفظی کے واسطے کسی طرح سے بھی نص نہیں ہے۔ دیکھئے تفسیر بیضادی اور کبیر اور مجمع البیان اور خوب سمجھئے۔
دوسرا ضمن درباب مغالطہ دہی علماء محمدی کے:۔ ازا ں جملہ دوسری آیت جو بغرض اثبات تحریف لفظی شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے ایسے ہی لوگ براہ مغالطہ پیش کرتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ آیت۷۹) (فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ)
وجوہات تردید مغالطہ دہی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں کلمہ( کتاب) کا بمعنی مکتوب ہے۔دیکھئے تفسیر جمل ا س لئے اس آیت میں کلمہ کتاب کو کتاب توریت سے مخصوص کرنا شایان حال اہل ِعلم کے نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کتاب سے کتاب تا ویلات با طلہ کی بھی مراد لی گئی ہے۔ دیکھئے تفسیر بیضادی۔ اس لیے یہ آیت احکام منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی تحریف لفظی کے حق میں نص نہیں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کاتب سے محمد صاحب کا کاتب بھی مراد لیا جاتا ہے۔دیکھئے تفسیر مجمع البیان پس اس صورت میں تو ریت امام کی نسبت تحریف کا ہونا منسوب ہی نہیں ہوسکتا ہے اور اس سبب سے بھی یہ آیت بغرض اثبات تحریف لفظی کے نص نہیں ہے۔ فا فہم۔
تیسرا ضمن درباب مغالطہ دہی علماء محمدی کے:۔ ازا ں جملہ تیسری آیت جو بغرض اثبات تحریف لفظی شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی ویسے ہی لوگ براہ مغالطہ دہی پیش کرتے ہیں۔ (سورۃ النساء آیت ۴۶) (مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ) ہے۔ وجوہات تردید مغالطہ دہی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تفسیر بیضادی میں اس آیت کی تفسیر میں یوں درج ہے کہ تادیلات با طلہ کر تے تھے اور تفسیر کبیر میں بحوالہ قول ابن ِ عباس کے درج ہے کہ تحریف معنوی کرتے تھے۔ تحریف لفظی نہیں کر تے تھے۔ اور تفسیر کبیر میں یہ بھی درج ہےکہ توریت کے نسخہ تو کئی ایک ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس لیے بعید از عقل ہے کہ ان تمام نسخوں تو ریت میں ایک ہی جیسی تحریف لفظی ہوجائے۔ اور پھر تفسیر کبیر میں یہ بھی درج ہے کہ اصح (درست ترین)قول یہی ہے کہ تحریف معنوی ہوئی تھی۔ اس لیے بھی یہ آیت بغرض اثبات تحریف لفظی کی نص نہیں۔ فافہم۔
چوتھا ضمن درباب بیان مغالطہ دہی علماء محمدی کے:۔ ازا ں جملہ چوتھی آیت جو بغرض اثبات تحریف شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے ویسے ہی لوگ براہ مغالطہ دہی پیش کرتے ہیں۔ (سورۃ المائدۃ آیت ۱۳) (فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ) ہے۔ و جہ تردید مغالطہ دہی کی یہ ہےکہ تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر میں یوں درج ہے کہ یہاں پر تحریف سے مراد تاویلات با طلہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ آیت بغرض اثبا ت تحریف لفظی کے نص نہیں ہے۔ فا فہم۔
پانچویں ضمن ور با ب بیان مغالطہ دہی علماء محمدی:۔ ازا ں جملہ پانچویں آیت جو بغرض اثبا ت تحریف لفظی منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کے ویسے ہی لوگ براہ مغالطہ دہی پیش کرتے ہیں۔( سورۃ المائدۃ آیت ۴۱) (یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا ۚۛ سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ لَمۡ یَاۡتُوۡکَ ؕ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ)وجوہات تردید مغالطہ دہی۔ایک وجہ یہ ہے۔ کہ تفسیر مجمع البیان اور خاز ن میں اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی درج ہے کہ وہ لوگ محمد صاحب کے کلام میں تحریف کرتے تھے۔ اس لیے اس مضمون سے ثابت ہے کہ یہ آیت احکام الہیٰ مندرجہ توریت امام کی تحریف کے بارے میں ہرگز ہرگز نص نہیں ہے اور سیاق کلا م کا بھی اسی بات کو چاہتا ہے۔ اس سبب سے بھی یہ آیت توریت امام کی تحریف کی نسبت نص نہیں ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ تفسیر فتح البیان میں یہ بھی درج ہے کہ ابن عباس صاحب اور شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کا بھی یہی قول ہء کہ تحریف معنوی کرتے تھے تحریف لفظی نہیں کرتے تھے اور علاوہ برآں تفسیر فتح البیان میں یہ بھی درج ہے کہ جس قدر احادیث اس امر کے متقضی (تقاضا کرنا) ہیں کہ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام پر عمل نہ کیا جائے بلکہ اُن سے نفرت کی جائے وہ جملہ احادیث ضعیف ہیں۔پس اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ شرائع منزل من اللہ مندرجہ توریت امام کی تحریف لفظی کی نسبت یہ آیت کسی طرح سے بھی نص نہیں ہے۔
فقرہ نمبر ۱۴ :۔ اظہار الحق مصنفہ مولوی ؒ صاحب ہیں اور سوا اس کے اور بھی کئی ایک کتب مباحثہ محمدیوں یا عیسایئوں میں درج ہے کہ اصل توریت بخت نصر بادشاہ کے حملہ میں کم ہو گئی تھی۔ اور یہ بھی ہے کہ سند متصل موسےٰ کلیم اللہ صاحب تک نہیں پہنچتی ہے۔ اور یہ بھی درج ہے کہ توریت موجودہ حال دہ ہے۔ جو عزیز صاحب (عزرا کاہن)کی لکھی ہوئی تھی اور پھرتس(باوجود اس کے)پر طرفہ یہ ہے کہ وہ بھی تحریف اور تبدیل سے خالی نہیں ہے۔ سو جواب اس کا یہ ہے۔ کہ بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ ایسا کہنے اور لکھنے والے اپنے ہی گھر سے بے خبر ہیں۔ کیونکہ تفسیر معالم اتمتریل اور خازن اور حینی اور قادری اور موضح القرآن اور جامع البیان اور عمدۃ البیان میں تحت (سورۃ التوبہ آیت ۳۰) (وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ) کی میں یوں درج ہے کہ ایک اصل نسخہ توریت کا مل گیا تھا اور جب عزیز صاحب(عزرا کاہن) کی لکھائی ہوئی توریت کو اصل نسخہ توریت سے مقابلہ کیا گیا تو عزیز صاحب کی لکھائی ہوئی تو ریت اصل نسخہ توریت کے مقا بلہ میں حرف بحرف صحیح اور درست نکلی۔ تب اس سبب سے عزیز صاحب کو ابن اللہ کہا گیا۔ اور تفسیر ابو سعود اور جمل اور سراج المنیر میں یوں درج ہے کہ تابوت نازل ہواتھا اور اس سے عزیز صاحب والی توریت کا مقابلہ جو کیا گیا تو وہ صحیح اور درست نکلی اور اس سبب سے عزیز صاحب والی توریت کو صحیح سمجھا گیا۔ اور عزیز صاحب کو ابن اللہ کیا گیا۔
نتیجہ:۔ روایات متذ کرہ صدر سے ثابت ہے کہ اصل توریت مل گئی تھی اور اس سبب سے جس کو عزیز صاحب والی توریت کہا جاتا ہے۔ وہ تو ریت عزیز صاحب والی توریت نہ رہی بلکہ ایک نقل اصلی توریت کی نکلی۔ کیونکہ عزیز صاحب والی توریت تب ہی صحیح سمجھی گئی تھی کہ جب وہ اصل توریت کے مقابلہ میں صحیح نکلی تھی۔ فافہم۔
چھٹی فصل
مولوی محمد چراغ الدین جموی اور بائبل
لیکن با ایں ہمہ (باوجود ان باتوں کے)اہل قرآن بھی کتب مقدسہ کے درس سے مستعفی (معافی چاہنے والا ،استعفیٰ دینے والا)نہیں۔ کیونکہ یہ ہر کتب الہامیہ معہ دیگر صحف ِانبیاءایک دوسرے کے لیے بطور اعضا ہیں اور ظاہر ہے کہ جس شخص کے اکژ اعضا کٹ جائے وہ بےکا ر اور نکما ہو جاتا ہے۔ سو ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہے۔ جو قرآن شریف کے ساتھ کتب مقدسہ کے درس کو معیوب اور مطعون (بدنام ،رسوا)خیال کرتے اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
(اوّل )۔بلاشبہ کتب مقدسہ قرآن شریف کی موید مصدق اور بعض خاص خاص امور میں مفسر ہیں۔ بلکہ جب قرآن شریف کے ساتھ توریت و انجیل و دیگر کتب مقدسہ پر نظر ڈالی جاتی اور بعض کی تصدیق سے ظاہر ہوتی تو اس صورت میں خدا تعا لیٰ کی ہستی اور اس کی وحدا نیت ا ور سلسلہ نبوت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کے عجائب غرائب کام اور معجزات کی بابت ایک حیرت انگیز ایمان پیدا ہوتا ہے اور تمام شکوک و شبہات کی تاریکی بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتی ہے۔ کیونکہ جب تمام کتابیں توریت سے قرآن تک یک زبان ہو کر خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت و سلسلہ نبوت کی صداقت و انبیا ءالسلام کی اطاعت و مخالفت کے نتائج کی بابت پوری پوری شہادت ادا کرتی ہیں تو اس صورت میں اِنسان کا ایمان حق الیقین تک پہنچ جاتا اور معتقدات کی بابت ایک کامل ذخیرہ عرفان ہاتھ آتا ہے ۔ لہذا ہر ایک طالب حق کو اپنی عرفانی طاقت بڑھانے کے لیے قرآن شریف کے ساتھ کتب مقدسہ کا درس ایک کافی اور کامل ذریعہ ہے۔ کیونکہ اِنسانی طبائع کا کلی اصول ہے کہ وہ ترقی ایمان و ایقان کے لیے کثرت شہادت کا محتاج رہتا ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے قرآن شریف کے اکثر مقامات میں (فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون) کا ارشاد واردہے۔ یعنی جس صداقت کی بابت تم کو شک ہو اہل ِ کتاب سے اپنا شک رفع کرا لو۔ پس جب رفع شکوک کے لیے اہل کتاب سے دریافت کرنے کا حکم ہے۔ تو اس صورت میں کتب مقدسہ کے درس سے اپنی معلومات کو بڑھانا کس قدر ضروری ہے۔
(دوم)۔ قرآن شریف پہلی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے اور ان کے تعظیم وتکریم کرنے کا حکم دیتا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ
یعنی اے ایمان والو ایمان لاؤ خدا اور اس کے رسولوں پر اور ایمان ا س کتاب پر جو اُتاری گئی اوپر رسول اُس کے محمد صلعم پر۔ اور ایمان لاؤ اُن کتابوں پر جو اُتار دی گئی اس سے پہلے
(سورۃ النساءآیت ۱۳۶)۔
پس جب اُن کتب مقدسہ پر ایمان لانے کا حکم ہے تو ان کا درس کیوں کر معیوب ہوا۔کیونکہ جب قرآن شریف اور کتب پر ایمان لانے کا حکم مساوی ہے۔ تو یہ کہاں سے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ قرآن کا درس باعث ثواب اور کتب مقدسہ کا موجب عذاب ہے۔ بلکہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اِتباع ایمان جیسا قرآن کریم کا پڑھنا اور اس پر عمل کرنا موجب نجات ہے۔ ویسا ہی کتب مقدسہ کا درس بھی باعثِ ثواب ہے ورنہ (یومنون ببعض) فتویٰ اس جگہ بھی صادق آتا ہے کیونکہ جب ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے تو اس صورت میں ان کے درس کو معیوب سمجھنا خطرہ ایمان ہے۔ علاوہ اس کے جب (اھدناالصراط المستقیم ) میں اللہ تعالیٰ ہیں۔ اِتباع انبیاء کا حکم دیتا ہے پھر کس قدر ضروری ہے کہ ہم اِن کی راہ دریافت کرنے کے لیے کتب مقدسہ کی تلاوت اپنا ورد ٹھہرائیں۔ کیونکہ اگرچہ قرآن شریف نے تعلیم انبیاء کا لبِ لباب پیش کر دیا ہے۔ لیکن تو بھی با تباع ایمان کتب مقدسہ کا درس مزید ایقان و ترقی عرفان کا باعث ہے۔
غرض یہ کہ کتب مقدسہ کا درس اور اُن کی تکریم کے بغیر اتباع انبیاء اور اُن پر ایمان لانے کا دعویٰ بے دلیل ہے۔ کیا جائز ہے کہ انبیاء سے محبت اور ان کی تعلیم سے عداوت رکھی جائے یا خالی طور سے کتب مقدسہ پر ایمان لانے کا دعوی ہو۔ مگر عملی صورت میں ان کے وجود سے انکار ور نفرت کی جائے۔
یہ تو ویسی ہی بات جیسا کہ اہل یہود مسیح اور نبی آخری زماں علیم الصلوات واسلام کےظاہر ہونے کی بابت ایمان رکھ کر اُن کے وجون سے کافر ہو گئے۔ ہاں اگر یہ سوال ہو کہ موجودہ تورات انجیل اصل کتابیں نہیں ہیں۔ اس لیے ہم ان کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس بات پر کوئی کافی دلیل موجود نہیں کہ یہ وہ کتابیں نہیں۔ کیا جن لوگوں کے ہاتھوں میں یہ کتابیں نسلاً بہ نسلاً اُسی زمانے سے چلی آرہی ہیں اُن کی شہادت غلط ہے۔ کیا وہ لوگ جو صد ہاسال سے ان کو کتابیں مانتے ہوئے چلے آ رہے ہیں غلطی پر ہیں۔ پھر اگر ایسا ہے تو دوسرے لوگوں کے خیالات کی صحت پر کہ یہ اصل نہیں کیا دلیل ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے؟ کہ وہ اصل کتاب کہاں ہیں۔ آسمان پر یا زمین پر بلکہ قرآنی شہادت سے صاف ظاہر ہےکہ رسول ﷺ کے زمانے میں یہود انصار کے ہاتھ میں وہ اصل کتابیں موجود تھیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن شریف (فاتو بالتوراۃ فاتلوھا لیحکم اھل الانجیل بما انزل فیہ) کا حکم نہ دیتا۔ کیا یہ جائز تھا کہ بصورت عدم موجودگی تورات انجیل قرآن شریف ان کے لانے اور اہل ِ کتاب کو ان پر عمل کرنے کا حکم دیتا۔ ہرگز نہیں۔ پھر جب نزول ِ قرآن کے وقت اصل تورات انجیل اہل کتاب کے پاس موجود تھیں۔ تو بعدمیں تبدیل یا تلف ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں۔کیونکہ جو اعتراض اہل کتاب کے عقیدے پر قرآن شریف نے اُس وقت کئے تھے وہی آج بھی وارد ہوتےہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ وہی کتابیں ہیں۔ کیونکہ اگر نزول قرآن کے بعد تبدیل ہوئیں۔ تو ضرور تھا کہ آج ان پر دہ اعتراض وارد ہوتے جو قرآن شریف نے پیش نہیں کئے۔ سرسید احمد نے عام مسلمانوں کے مسئلہ تحریف کتب مقدسہ کے خلاف ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ تفسیرتابعین الکلام جلد اول ہے مسلمانوں میں سے کسی نے ایسی پرزور کتاب اس مسئلہ پر نہیں لکھی۔ اور انہوں نے امام رازی کے ایک قول سے استدلال کیا ہے۔ جو واقعی نہایت ہی معقول ہے کہ متکلمین(کلام کرنے والے) کے نزدیک جو مذہبی امور کی تحقیق کرنے والے ہیں یہ بات یعنی توریت اور انجیل کی عبارت کا بدل ڈالنا ممتنع(روکا گیا،منع کیا گیا) ہے۔ کیونکہ وہ دونوں کتابیں نہایت مشہور ہوگئی ہیں اور تو اتر کو پہنچی ہیں۔ یہاں تک کہ ان عبارتوں کو بدلنا متعذر(دشوار) ہوگیا ہے۔
پس جب قرآن شریف نے ان پاک کتابوں کا وجود تسلیم کیا اور مان لیا کہ اوہ اس کے ہم عصر اہلِ کتاب کے ہاتھوں میں موجود او ر اس وقت واجب التسلیم تھیں۔ تو کوئی قرینہ (انداز)یہ بات زبان سے نکالنے کا باقی نہ رہا کہ ما بعد وہ تحریف و تبدیل ہو کر ساقط عن الاعتبار ہو گئیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ وہی کتابیں ہیں جن پر قرآن شریف ایمان لانے کا حکم دیتا ہے پس ان کتابوں کی تحقیر کرنی اور ان کے درس کو معیوب سمجھنا کس قدر گستاخی اور قرآنی تعلیم کے مخالف ہے۔
(سوئم)۔ جمہور اہل اسلام کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ جمیع انبیاء اور ان کے پیرو اسلام پر تھے۔ لیکن لفظ اسلام کا اطلاق کسی سابقہ شریعت پر قرآن شریف میں مذکورہ نہیں اور نہ کسی گذشتہ امت کو اہل اسلام کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ بلکہ موسوی شرا ئع کے پیروں کا نام قرآن کریم میں یہود و نصاریٰ مذکورہ ہے۔ جس کی خاص وجہ یہی تھی کہ اسلام کا مفہوم کامل اتباع ہے اور یہ بات شرائع سابقین میں موجود نہ تھی۔ کیونکہ اُن کے بعد جو انبیاء اور کتابیں آنے والی تھیں۔ ان کی اتباع سے وہ لوگ محروم تھے۔بر خلاف قرآن شریف کے سلسلہ تعلیم میں یہ آخری کتاب اور اُس کا شارع محمد علیہم الصلواۃ والسلام خاتم الانبیا ء ہیں۔ جن کی ابتاع میں کل انبیاء اور کتابوں کی اطاطت شامل ہے۔ پس جب کل انبیاء اور جملہ کتب سماویہ کی اتباع شریعت قرآنی کی اتباع میں شامل ہوئی تو بالطبع اس کا نام اسلام ہوااوراس کے پیرو مسلمان ٹھہرے۔یعنی جمیع انبیاء و جملہ کتب ِسماویہ کے ماننے والے بلکہ اگر نظر غور سے دیکھا جائے تو ان علاوہ ان تمام کمالات کے کہ کتب سابقہ کی نسبت با لخصوص قرآن شریف کو حاصل ہیں۔ ایک کھلی کھلی دلیل اسلام کے جامع اور کامل مذہب ہونے پر یہ ہے کہ قرآن شریف سب نبیوں اور تمام کتابوں کے ماننے کی تعلیم دیتا ہے۔ پر خلاف شریعت موسوی و عیسوی کے کہ ان کو فخر حاصل نہیں۔ چنانچہ یہود آج تک انجیل اور قرآن سے منکر ہیں۔ اور ایسا ہی نصار اسلام سے۔ پس یہ فضیلیت اور فخر اہل اسلام یہ کے لیے خاص ہے۔ جس کی نظیر نہ یہودیوں میں موجود ہے اور نہ نصار ا میں اور وہ یہی ہے کہ اہل اسلام با اتباع قرآن تمام انبیاء اور جملہ کتب سماویہ کو مانتے ہیں جس سے یہودو نصار ا محروم ہیں۔ پس جس کمال کی وجہ سے ہم مسلمان کہلائے اور ہمارے مذہب کا نام اسلام ہوا اسی کو ہاتھ سے چھوڑنا اور یہود نصار یٰ کے متعصبانہ خیال کی پیروی کر کےبر خلاف تعلیم قرآن اپنے فخر کو کھو دینا خلاف عقل ہے۔ کیا جب یہودانصاری اسی رافض(وہ گروہ جو اپنے سردار کو چھوڑ دے) اور تعصب کے باعث مطعون ٹھہرے۔تو اس صورت میں ہم جو اپنی مسلمہ تعلیم کے خلاف ان کے خیال کے نقش قدم پر چل کر اپنے ایمان کو معرض خطر میں ڈالیں بلکہ مطابق تعلیم قرآن شریف جملہ کتب سماویہ(آسمانی) کو مساوی نظر سے دیکھیں اور درس کو معیوب نہ سمجھیں۔ اور جیسا کہ اسلام کا مفہوم ہے اپنے تیئں سلسلے تعلیم انبیاء کا پورا فرمانبردار بنا کر قوم اہل کتاب کے لیے ایک کامل نمونہ ظاہر کریں تاکہ جیسا اسلام اور مسلمانی کا خاص لقب ہمارے ہی لیے ہماری کتاب قرآن شریف میں مذکورہ ہے۔ ایسا ہی ہماری عملی صو رت اس پر شایدہو۔ نقل از
(منارۃ المسیح)
ساتویں فصل
مولوی محمد سعید صاحب اور بائبل
مولوی صاحب پنجاب کے ایک معزز مسلم ہیں۔جو گجرانوالہ گورنمنٹ ہائی سکول میں سکینڈ ماسٹر رہے ہیں۔ بعد ہ انسپکٹر سکولس بھی رہے ہیں۔ آپ نے ایک کتاب ’’سعادت مریمہ‘‘ نامی لکھی جسے مولوی نور الدین صا حب خلیفہ اول قادیان نے پسند فرما یا تھا۔ ذیل کی عبارت اسی کتاب سے منقول ہے۔
میرا اس کتاب لکھنے کا ایک تومد عایہ ہے کہ جناب حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت مبارک کے عقیدہ پر کامل روشنی ڈالوں اور وہ عقیدہ جو بنی نوح انسان کو ہلاکت تک پہناتا رہا ہے اس کی بیخ کنی(جڑ سے اُکھا ڑ نا) کروں اور دوسرا خاس الخاص مدعایہ ہے کہ اس مسئلہ مبارک کے ثبوت کرتے ہوئے ضمنی طور پر یہ بات بھی ثابت کروں کہ قرآن شریف الہامی کتاب ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ اصحابہ نبی بر حق ہیں اور دنیا کے طبقے پر کسی آدمی کی روحانی و جسمانی نجات نہیں ہوگی جب تک اس کو ان ہر دو بزرگوں کی رسالت کی حقانیت (صداقت)پر کامل ایمان نہ ہو اور تمام خواندہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن شریف اور اس کے ترجمے سے بھی آگاہ کریں اور سخت تاکید کریں کہ اُن کے بچے بڑے ہوکر اپنے بچوں کو یہ کامل کتاب پڑھائیں اور اس طرح سے نسلاً بعد نسل اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ او ر اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو دین ودُنیا میں خائب(نا امید،نادار) وخاسر(نقصان اُٹھانے والا) ناکام و نامراد رہیں گے۔ اور نہ صرف قرآن شریف کو ہی مطالعہ میں رکھیں بلکہ انجیل شریف کا بھی مطالعہ رکھیں تاکہ ان پر اللہ تعا لیٰ کی رحمت کا نزول ہو۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے جیسا قرآن شریف پر ایمان لانا فرض ہے ویسا ہی انجیل شریف پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف کے عین شروع شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ)
(ترجمہ۔ اور ( اے پیغمبر) جو (کتاب) تم پر اُتری اور جو تم سے پہلے اُتریں ان (سب) پر ایمان لاتے)
(سورۃ البقرۃ آیت ۴)۔
اس جگہ بعض مسلمانوں کو یہ وہم لگا ہوا ہے کہ انجیل شریف محرف مُبدّل ہے۔ حالانکہ تحر یف و تبدیل کے بارے میں جس قدر آیات کلام اللہ شریف میں ہیں۔ اُن میں سے ایک میں بھی ذکر نہیں ہے۔ کہ انجیل یا توریت محرف مبدل ہو بلکہ ان مقامات پر لکھا ہوا ہے کہ یہودی لوگ ہاں ہاں یہودی لوگ نہ کہ عیسائی صاحبان توریت شریف کی باتیں بتانے کے وقت اُلٹ پلٹ کر کے بتا جاتے ہیں۔ پس اس الزام سے کم از کم عیسائی صاحبان تو بالکل پر ہیں۔ لہذا انجیل شریف محرف مبدل نہیں ہے۔ ملاحظہ ہوں قرآن شریف کے مقامات ذیل۔( سورۃ النساء پارہ ۵ رکوع، سورۃ مائدہ پارہ ۶ رکوع۳ ورکوع ۶۔۱۰ ، سورۃ البقرہ پارہ اول رکوع ۹۔۹ )اور توریت شریف بھی محرف مبدل نہیں ہے۔ کیونکہ چند نا فہم لوگوں کی غلط بیانی سے یہ لازم نہیں آجایا کرتا کہ اُن کی کتاب بھی بدل گئی ہو اور ان ترجموں کا غلط ہونا نہ صرف انجیل یا توریت ہی میں ممکن ہے۔ بلکہ قرآن شریف میں بھی ممکن ہے۔ اور یہ ایک جُدابات ہے۔
الغرض قرآن شریف اور انجیل مقدس کی یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان میں تدبّر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ہی الہامی کتابیں ہیں اوراُن کی شدید مماثت اس بات کو با لبداہت ثابت کرتی ہے کہ دونوں ہی ایک چشمے سے نکلی ہوتی ہیں۔ پس انجیل شریف بھی ہے۔
بھر دونوں کتابوں یعنی انجیل شریف کی تعلیم کا چرچا آج تک چلا آتا ہے اور بوجہ احسن چلاتا آتاہے۔ اور ان دونوں کے نزول کے مدت میں کوئی چھ (۶) سو سال کا فرق اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ دونوں مختلف کتابیں کسی کمیٹی نے افترا(تہمت ،بہتان) کے طور پر تحریر نہیں فرمائی ہیں۔ بلکہ اس اتحاد سے ان اک منجائب اللہ ہونا بوجوہ احسن ثابت ہے اور کسی دہریہ کو بھی یہ شک نہیں رہتا کہ بے شک یہ انسانی افترا نہیں ہیں۔
پھر اگر اس بات کا خیال کیا جائے کہ حضرت محمد صاحب کوئی فاضل اجل نہیں تھے ۔ نہ کوئی شاعر تھے۔ آج حدیثوں میں آپ کا کلام موجود ہے اور حجم میں آپ کی حدیثیں کلام اللہ شریف سے کوئی دس گنا زیادہ موجود ہیں۔ اُن کے کسی ایک فقرے میں بھی وہ شوکت، وہ سطوت(رعب) وہ فصاحت ، وہ بلاغت ، وہ قادر الکلامی نہیں ہے جتنی کہ قرآن کریم کے ایک چھوٹے فقرے میں ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ صرف بسم اللہ الرحمان الرحیم کہ معنی مکمل طور پر لکھ کر ثابت کرتے۔ لیکن پھر بھی اختصار کے طور پر لکھتے ہیں کہ کس طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے عیسویٰ تثلیث کو توحید کا جامہ پہنایا ہے۔ اللہ ، اس کا ذاتی نام ہے۔ الرحمنٰ اس کا پہلا وصفی نام ہے اور اس وصف کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کے ذریعہ ، مخلوقات پر بلا خیال عو ضانہ و شکرانہ اپنا سایہ رحمانیت وفضل ڈالتا ہے جسکو عیسویٰ اصطلاح میں ابنیت اکہی کے نام نامی سے پکارا گیاہے۔ جیسا کہ قرآن نے بھی (قالو اتخذ الرحمن ولدا)کہہ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے ،کہ عیسائی صاحبان عیسیٰ کو رحمان کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور انجیل میں بھی ہے۔ ’’خداوند نے دنیا سے ایسا پیار کیا کہ اُسے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا‘‘ اور الرحیم اس کا دوسری وصفی نام ہے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنی مخلوقات پر اس و قت رحم فرماتا ہے۔ جب کہ اس کو اُن کے اعمال کے بدلے ان پر خاص الخاص فضل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسا کہ اُس نے تمثیل کے طور پر حضرت مریم ؑ کے با رے میں فرمایا بھی ہے۔
(وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ)
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرماں برداروں میں سے تھیں۔
(سور ۃ التّحریم آیت ۱۲)۔
کہ اس پر نفخ(پھونکنا) روح محض اس وجہ سے کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی پاکیزگی پسند آئی خدا تعالیٰ کے اس وصفی نام کو انجیل شریف میں روح القد س کے نام سے پکارا گیا۔ گویا جو مطلب باپ ،بیٹے، روح القدس کا ہے۔ وہی اللہ الرحمنٰ الرحیم کا ہے۔ لیکن موخرالذکر کر اصطلاحات صرف خاص الخاص لوگوں کو سمجھ میں آ سکتی ہی ہیں اور ناپاک لوگوں کے خیال میں شرک مجسم کا جامہ پہن لیتی ہیں۔
آٹھویں فصل
مولانا مولوی عبداللہ صاحب چکڑ الوی اور بائبل
مولوی عبداللہ چکڑالوی صاحب کے نام نامی واسم گرامی سے پنجاب کے تمام مسلم آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’روالنسخ المشہورفی کلام اللہ الغفور ‘‘ لکھی۔ جس میں آپ نےنہایت قابلیت کے ساتھ ناسخ و منسوخ کے مسئلہ پر بحث کی ہے۔ گو ہمیں آپ کی تمام باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔ پر تو بھی جوکچھ بائبل کی بابت آپ نے رقم فرمایا ہے وہ تمام بیان آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔جسے پڑھ کر اس حق پسند مسلم عالم کو داد دئیے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ہے۔ ہم ناظرین کرام کے ملاحظہ کے لیے آپ کا بائبل کی بابت پورا بیان نقل کرتے ہیں آپ لکھتے ہیں۔
(تمت کلمت ربکُ صدقا وعدہً لا مبدل لکتہ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ )
تقلید علمائے اور مسئلہ نسخ:۔
زمانہ سلف کے مسلمانوں کی یہ عادت ہو گئی تھی کہ جو مسئلہ کسی مولوی صاحب کے قلم سے نکل گیا۔ بشرطیکہ وہ عالم اور مجتہد (جدوجہد کرنے والا)مسلم ہو چکے ہیں۔ تو دوسرے جس عالم کی نظر سے وہ مسئلہ گذرا اس نے اس سے پہلےکی نہ صرف تقلید کی بلکہ تائید، اعتراض اور تردید کا توکیا ذکر ، اس کا سبب زیادہ تر لوگوں میں عادت تحقیق کی کمی۔ اور علماء کا رعب و تسلّط اور فتویٰ کفر سے قتل کئے جانے کا خوف تھا۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسی باتوں یا مسائل کی بھی نقل در نقل کتب احادیث و تفسیر میں دیکھی جاتی ہے کہ جس کو ایک جنگلی آدمی بھی تسلیم نہ کر سکے۔اسی قسم کے مسائل سے کلام الہٰی میں نسخ کا تسلیم کرنا بھی ہے ،جس کی تردید و تکذیب مفصل و مشرّح طور پر ذیل میں صرف قرآن مجید ہی سے بیان کی جائے گی۔ انشا ءاللہ تعالیٰ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن مجید سے پیشتر جس قدر کتابیں دنیا بھر کی ایمانی تربیت و مصلحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں۔ مثلاً تورات ، زبور، انجیل اورصحف ابرا ہام وغیرہ غیرہ ان سے کو قرآن مجید کے اتارنے سے منسوخ و ترک کردیا۔ کیا معنی کہ نزول قرآن مجید کے بعد ان پہلی کو ردی از عمل کر دیا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر غضب کی بات اس کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن مجید سے بھی بہت اسے احکام منسوخ کیے گئے ہیں۔ جس کی وہ تین طرح پر تقسیم کرتے ہیں۔
اقسام نسخ۔
اوّل :۔ قرآن مجید کی آیات یعنی عبارت تو موجود ہے لیکن اس کا حکم منسوخ ہے۔ یعنی اُس پر عمل کرنا منع ہے۔
دوم:۔ عبارت تو منسوخ کی گئی یعنی قرآن مجید سے اٹھا ئی گئی۔ لیکن اس کا حکم جاری و ساری ہے۔
سوم:۔ عبارت بھی منسوخ اور اُس کا حکم بھی منسوخ۔
یہ تین قسم کی نسخ جو قرآن میں بتائی گئی اس کی ایک ایک مثال بھی مشتے نمونہ از خروارے (ڈھیر میں سے مٹھی بھر)یہاں بیان کر دی جاتی ہے۔
اقسام ِثلاثہ نسخ کی مثالیں:۔
مثال نسخ قسم اّول :۔(وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ)(سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۴)اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ آیت تو قرآن مجید میں موجود ہے۔ لیکن اس پر علم کرنا یعنی روزہ کے طعام مسکین دینا منسوخ و مترک از عمل ہو چکا ہے۔
مثال نسخ قسم دو م:۔ یہ مسئلہ رجم پیش کیا جاتا ہےاو رکہا جاتا ہے کہ پہلے رجم یعنی زانی غیر مجرّد کو سنگسار و قتل کر نے کا حکم قرآن مجید میں اُترا تھا ۔ لیکن پھر وہ عبارت منسوخ کی گئی۔ یعنی قرآن سے اُٹھا ئی گئی اور اب قرآن مجید میں موجودہ نہیں ہے ۔ لیکن اُس کا حکم (رجم ) برابر جاری و قائم ہے۔ یعنی شرعاً زانی مذکور کو سنگسار کرنا فرض ہے۔
مثال نسخ قسم سوئم :۔میں کہا جاتاہے کہ پہلے قرآن مجید میں حکم ہوا تھا کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھا کریں۔ پھر ایک مدت کے بعد وہ اصل عبارت بھی منسوخ کی گئی اور اس کا حکم بھی منسوخ کیا گیا۔ یعنی عبارت بھی قرآن مجید سے اُٹھائی گئی اور اس پر عمل کرنا بھی منع کیا گیا اور اس کی بجائے قبلہ مسجدالحرام بیت مکہ مقرر کیا گیا۔
اہلِ القران کا اعتقاد و مدعا:۔
ان تین مثالوں کے علاوہ او ر بھی قدرِ آیات، آیات و احکام منسوخ بتائے جاتے ہیں۔ ان سب کو جمع کر کے انشاء اللہ آگے یہ دِکھایاجائے گا کہ وہ ہرگز ہرگز منسوخ نہیں ہیں اور ایسا ہی یہ بھی بخوبی واضح کیا جائے گا کہ تو رات و انجیل وغیرہ کتب سماویہ سے بھی کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا۔
تردید نسخ کے مختصر وجوہات:۔
مگر جن وجوہات سے نسخ مذکورہ سے انکار اور آیات و احکام منسوخہ پر فکرو غور کرنے کا اہل القرآن کو موقع ملا ہے۔ اس کا یہاں بیان کر دنیا خالی از فا ئدہ نہیں ہے۔ بلکہ امید کامل ہے کہ جو شخص ان وجو ہات پر غور کرے گا ا س کو ضرور ہی یہ مسئلہ نسخ۔ بالکل منسوخ ومردود کرنا پڑے گا۔
وجہ اول پہلے حکم کو منسوخ و متروک از عمل کر دینے کے باعث معاذاللہ ،ماشا اللہ،خداوند تعالیٰ نادان اور الایعلم الغیب بن جاتا ہے۔ کیونکہ جس وقت اس کو پہلا حکم جس باعث سے ردی کرنا پڑا اُس کی اُسے سابق مطلق خبر نہ تھی۔ ورنہ وہ ایسا حکم نازل ہی نہ کرتا۔ جس کو آخر منسوخ کرنےکی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے قائم رکھنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسے ناپاک خیال کا تمام آیات ا بطال(باطل قرار دینا) کرتی ہیں۔ اور بتاتی ہیں کہ وہ
(صفحہ۱۶۴ اور ۱۶۵ غائب ہے)
ضرورت نسخ کی تردید:۔
ان چند وجوہات سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں نسخ مروجہ کا وار د ہونا بالکل محال اور سراسر ناممکن ہے۔ نہ تو پہلی آسمانی کتابوں میں سے کوئی حکم اس کا ردی ہوا ہے اور نہ ہی قرآن مجید میں سے کوئی مسئلہ اس طرح منسوخ ہوا۔ پس یہ مہایت ہی غلط اور باطل وہم و خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ حسب مصلحت و متقضی ِ وقت (وقت کے تقاضہ کے مطابق)اپنے احکام کو یوں منسوخ ورد کر دیتا رہا ہے۔ جس کو بدلا ئل ثابت کرنا محال ہے۔ بھلا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ فلاں مسئلہ کی پہلے یہ ضرورت تھی اور پھر وہ رفع ہوگئی اور ایسی رفع ہوئی کہ پھر قیامت تک اس کے در پیش آنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ یا اس کا درپیش آنا ناممکن ہے۔ مثلاً حکم فدیہ روزہ کی ایسی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ جو پیچھے ہمیشہ کے لیے رفع ہو گئی ہو۔سو ایسا ہی دیگر آیات و احکام کا بھی حال ہے۔ جنہیں منسوخ و مردود سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ حاکم بھی وہی، خالق بھی وہی اور مخلوق بھی وہی اور دن رات بھی وہی جو پہلے تھے۔ پھر حسب مصلحت کے کیا معنی ؟ اور مناسب وقت کوکیا دخل ؟ اگر بالفرض ایسا مان بھی لیا جائے کہ ایسا زمانہ آجاتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا پہلا حکم ضروری ردی کرنے کے قابل ہوجاتا ہے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے یا یہ ممکن ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر احکام اب قائم وثابت رکھےگئے ہیں کوئی ایسا وقت بھی آ جائے کہ یہ منسوخ ہونے کے قابل ہوجائیں۔ اس سے تو نہ سلسلہ نزول کتاب رباّنی ختم ہوتا ہے اور نہ ہی اسی کا آنا پس ہو سکتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں صاف و صریح طور پر یہ امر واردو صادرہے کہ:۔
(مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ)(سورۃ الا حزاب آیت ۴۰)اب مسئلہ نسخ مروجہ کے مضمون کو بیان کرنےکے لیے دو حصوں پر تقسیم کیا جاتا۔
حصہ اوّل:۔ میں جملہ کتب سمادیہ سابقہ کے غیر منسوخ و غیر مردود ہونے کے دلائل ہیں
حصہ دوم:۔ میں خاص قرآن مجید کے تمام احکام کا غیر منسوخ و غیر مردود ہونا ثابت ہے
حصہ اوّل:۔ جملہ کتب سمادیہ سابقہ کا فروعاً و اصولاً غیر منسوخ وغیر مردودہونا
(وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ)(سورۃالبقرۃآیت ۴۔۵)
اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن مجید سے پہلی جملہ کتب سماویہ تورات ،زبور،انجیل و دیگر صحفِ انبیاء سلام علیہم میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی فروعی یا اصولی منسوخ ومردود نہیں ہوا۔ مختلف دلائل خاص قرآن مجید ہی سے پیش کئے جاتے ہیں۔
سابقہ کتب سماویہ پر ایمان۔ دلیل اول:۔ ان کتابوں کو قرآن مجید واجب الاایمان بتاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے متقین مومنین قرآنی کی نسبت کہ
(وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ)
(ترجمہ )عموما ً جو ایمان رکھیں او ر قرآن مجید کے جو اتار ا گیا ہے تیری طرف اور اوپر ہر ایک کتاب کے جو اُتاری جا چکی ہے آگے تجھ سے خصوصاً اور دن قیامت کے۔ وہ ضرور ہی یقین رکھیں۔
(سورۃالبقرۃآیت ۴)
اس آیت میں جیسے قرآن مجید ایمان رکھنے کا ارشاد ہوا ہے۔ ویسے ہی اس سے تمام پہلی کتب منزلہ من اللہ پر ایمان رکھنے کا حکم ہے۔ ایمان کے معنی میں صدق دل سے ماننا۔ اور اس مانی ہوئی بات پر پورا پورا عمل کرنا نہ کہ صرف زبان سے ماننا اور اس پر عملاً کا ر بند نہ ہونا۔ اس کا ثبوت بھی ابھی بیان ہوگا۔ انشاء اللہ تعا لیٰ۔ پس جیسے کہ قرآن مجید واجب العمل ہےویسی ہی تمام پہلی کتابیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں سب کی سب برابرواجب العمل ہیں۔ پھر جو کتابیں کہ بالکل واجب العمل او رواجب الایمان ہوں ان کے منسوخ و مردود ہونے کا وہم و گمان کیوں نہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہو۔ اگر با لفرض وہ کتابیں قرآن مجیدکے اترنےکے وقت منسوخ و مردود ہو چکی تھیں تو اللہ تعالیٰ متقین قرآنی کی صفت یوں فرماتا کہ (یُومِنُونَ بِمَا اُنزِلَ اَلُیکَ وَ یکَفَروُنَ بِمَا اُنزِلَ مِن قَبلِکَ)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید و صحف ِ اولیٰ ایمان و عمل کے رو سے یکساں ہیں ۔تو کیوں اہلِ قرآن لوگ ان سابقہ کتابوں کو نہیں پڑھتے۔ نہ قرآن مجیدکی طرح ان کی تدریس کرتے ہیں اور نہ ان سے احکا م سناتے ہیں۔ اس کا جواب با صواب(نیکی) یہ ہے ۔جیسا کہ دلیل سوم کی آیات سے واضح و روشن ہے کہ جو مسائل ان کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں وہ سب کے سب قرآن مجید میں جمع کر دئیے ہیں اور اس لئے جو شخص قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے او ر خالص اسی پر عمل کرتا ہے۔ وہ بلاریب ان سب کتابوں پر بھی برابر ایمان رکھتا اور عمل کرتا ہے۔ چناچہ پڑھو:۔
(۱) وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ(سورۃ الشعَرَاءآیت۱۹۶)
(۲) اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی(سورۃ الاعلی آیت ۱۸۔۱۹)
ان آیات کا صحیح صحیح ترجمہ ،ترجمہ القرآن آیات الفرقان میں اچھی طرح دیکھو۔علاوہ ازیں اور سنو قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کیا ارشاد فرماتاہے۔
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ
ترجمہ:۔(اےخاص قرآنی مومنو) تم کہا کرو کہ ہم تو ایمان رکھتے ہیں اوپر اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید پر جو اُتارا گیا ہے ہماری طرف اور ہر ایک کتاب پر جو اُتاری گئی ہے طر ف ابراہام اور اسمعیل اور اسحقٰ اور یعقوب پر اور ہر ایک کتاب پر جو دی گئی موسی ٰ اور عیسیٰ کو اور اس پر بھی جو دیئے گئے تما م انبیاء سلام علیہم اپنے رب کی طرف سے تمہیں فرق سمجھتے ہم درمیان کسی کے کچھ بھی ان میں سے اس لیے کہ ہم ہمیشہ صرف اسی کی ہی فرمانبرداری کرنے والے ہیں‘‘۔
(سورۃ البقرۃ آیت ۱۳۶)۔
اس آیت بابر کت میں صریح حکم ہے کہ تم قرآن مجید پر ایمان رکھو اور اسی طرح اس سے پہلی تمام آسمانی کتابوں پر بھی جو جملہ رسل انبیاءسا بقین پر نازل کی گئی ہیں یکساں ایمان رکھو اور ساتھ ہی یہ بھی تعلیم ہے کہ تم کسی نبی رسول میں فرق نہ سمجھو یعنی اس کی نبوت و رسالت کتابِ الہیٰ پر ایمان و عمل درآمد سمجھنے میں فرق نہ جانو۔ کیونکہ یہ سب میرے ہی نبی رسول تھے اور میں نے ہی ان کی طرف اپنے پیغام بھیجے تھے۔ پس تم کو ہر طرح میرا تابعدارو فرمانبردار رہنا چاہیے۔ یعنی میری سب کتابوں کو یکساں تسلیم کرنا چاہیے۔
ایسی ہی اور بھی کئی ایک آیات بنیات قرآن مجید میں کثرت سے موجود مذکور ہیں۔ جن سے یہ صاف صاف واضح و روشن ہوتا ہے کہ جیسے قرآن مجید پر ایمان و اسلام رکھنا فرض ہے ویسے ہی ان تمام سابقہ آسمانی کتابوں پر بھی جو کہ اس سے پہلےاللہ تعالی نے اپنے سب پیغمبروں پر نازل فرمائی تھیں۔ ایمان و اسلام رکھنا مفروض(فرضی) و مکتوب من اللہ ہے۔
ایمان بلاعمل:۔
مگر یاد رہے کہ ایمان واسلام کے معنی یہ نہیں کہ صرف زبان ہی سے کسی بات کو مان لینا اور اس پر عمل نہ کر نا۔ کیونکہ ایسا ایمان و اسلام تو سراسر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور غضب ہی کا باعث ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے کہ :۔
(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ)
(سورۃ الصَّف آیت ۲۔۳)۔
ترجمہ:۔ اے خالص قرآنی مومنو۔ کیوں کہتے ہو تم ایسی بات کہ جس پر تم عملدرآمد نہیں کرتے بہت ہی بڑھ کر سخت غضب و قہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جرم پرکہ کہو ایسی بات کہ جس پر تم عملدرآمد نہ کرو۔
پس باعث نجات وہ ایمان و اسلام ہے جس کے مطابق عمل بھی کیا جائے ورنہ وہ ایمان و اسلام تو موجب قہروغضب الہی ہی ہوجاتا ہے جس کے مطابق عمل درآمد نہ کیا جائے۔ لہذا قرآن مجید کتب سماویہ سابقہ پر ایمان و اسلام رکھنے سے منشا یہ ہے کہ ان کے مطابق پورا پورا عمل بھی کیا جائے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ان کتابوں پر ایمان و اسلام رکھنے سے مراد صرف ان کو منجانب اللہ مان لینا ہی ہے اور بس وہ صریح غلطی کرتے ہیں۔کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن مجید پر صرف ایمان رکھنے کا ہی حکم ہے او ر عمل کرنے کا نہیں۔ اس لئے کہ جیسا کتب سابقہ پر ایمان واسلام کا حکم ہے ویسا ہی قرآن مجید پر بھی ایمان و اسلام کا ارشاد ہےدونوں کے ایمان و اسلام میں کوئی فرق نہیں۔ (کلّا وحاشا ھٰذبھتانَ عظیم اور سبحٰن ربک رب العزۃ عمایصفون)(پ۲۳۔۹ع)
اور جس قدر یہ آیات لکھی جاچکی ہیں۔ ان سب میں پہلی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان و اسلام رکھنے اور عملدرآمد رکھنے کا حک ارشاد ہو۔ اور کسی آیت میں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ تم ان کتابوں کے صرف اصولوں ہی کو مانو اور فروعوں کو نہ مانو۔ کیونکہ قرآن مجید ان کتابو ں سے جس طرح کہ اصولاً متفق ہیں اسی طرح فروعاً بھی متحد ہے۔ پس نہ توان کے فروعات ہی میں سے کوئی ایک مسئلہ مباح (جائز،حلال)تک بھی منسوخ و مردود ہوا ہے اور نہ ہی اُن کے اصول میں سے گواصولوں کا غیر منسوخ وغیر مردود ہونا تو تمام لوگ مانتے ہی ہیں۔ لیکن فروعات کے منسوخ و مردود ہونے کے لیے علیحدہ کوئی دلیل اُن کے پاس نہیں ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہی ہے جو کہ بالکل غلط اور سراسر باطل۔
قرآن مجید سابقہ کتب سماویہ کا مصدق ہے۔
دلیل دوم۔ قرآن مجید بڑے زور سے متعد و مقامات پر اپنے سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور تصدیق بالکل ضدو نقیض ہے۔ تنسیخ و تردید و تکذیب کی۔ پس قرآن مجید ان جملہ سابقہ آسمانی کتابوں کے ہر مسئلہ کا عموماًو خصوصاً مصدق ہے تو ناسخ و تکذب ہر گز نہیں جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ (وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ)
ترجمہ:۔ اور ایمان رکھو اوپر اس قرآن مجید کے جو اتار میں نے بالکل تصدیق کرنے والا ہر ایک منزل من اللہ مباح تک کا بھی جو تمہارے پاس پہلے منزلہ من اللہ موجود ہے۔
(سورۃ البقرۃ آیت ۴۱)۔
اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے۔ کہ (نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ)
ترجمہ: اے صاحب ِ قرآن اللہ تعالی ہی نے اُتاری اوپر تیرے عالیشان کتاب اپنی قرآن مجید جو بالکل حق ہی حق ہے۔ اور یہ قرآن مجید بالکل مطابق و موافق ہے ہر ایک مسئلہ مباح تک بھی جا کچھ کہ اس سے آگے اتارا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے۔
(سورۃ آل عمران آیت ۳)۔
علاوہ ازیں قرآن مجید میں آیات ذیل مذکورہ موجودہ ہیں۔
۱۔ (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ)(سورۃ النساء آیت ۴۷)۔
۲۔(وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ)(سورۃ المائد آیت ۴۸)۔
۳۔(وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ)(سورۃ الانعام آیت۹۲)۔
۴۔(اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ)(سورۃفاطرآیت ۳۱)۔
ان سب آیات کا صحیح ترجمہ بھی ترجمہ القرآن یا آیات الفرقان میں اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح سے دیکھو)
ان تمام آیات میں اور ایسا ہی اکثر و دیگر آیات میں (مُصَدِّقاَ لَمِاَ مَعَکُمُ)اور(مُصَدِّقَا لَماِ بیَنَ یَدَیُہِ) آتا ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ قرآن مجید کے پہلے جو احکام خواہ فرضی تھے یا نفلی یا مباح اور خواہ اصولی تھے یا فروعی۔ جس قدر اللہ تعالی نے نازل فرمائے ہیں ان سب کی قرآن مجید تصدیق ہی کرتا ہے۔ تنسیخ وتردید ہرگز نہیں کر تا یا یوں سمجھو کہ کتب سابقہ منزلہ من اللہ احکام میں سے کسی ایک فروعی حکم مباح تک کا بھی قرآن مجید ناسخ و مکذب نہیں ہے۔ الغرض قرآن مجید جملہ کتب سماویہ کا سابقہ کا مصدق ہے نہ کہ ناسخ و مکذّب۔ دیگر ان آیات میں تصدیق کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید آسمانی کتابوں کے طرف منجانب اللہ ہونے ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ یعنی محض یہ شہادت دیتا ہے کہ وہ کتابیں بھی اللہ تعالی ہی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ لیکن اب وہ ایمان عمل کے لیے منسوخ ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اس غلط وہم و خیال کی بھی دلیل اول کی آیات سے کافی تردید ہو چکی ہے۔ تاہم تصدیق کا اصلی مطلب ا س مو قع پر ذرا بھی تفصیل و تشریح کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
تصدیق قرآن کا مطلب:۔
قرآن مجید جو جا بجا اپنے سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسائل و بیان اصول و فروع ان کتابوں میں رب العالمین نے نازل فرمائے تھے خاص وہی اور بعینہ قرآن کریم میں بھی نازل فرماتے ہیں۔ ان میں اور ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں کیا۔ ہاں زبانوں کا فرق ضرور ہے۔یعنی قرآن کریم عربی مبئین زبان میں نازل فرمایا گیا ہے اور پہلی آسمانی کتابیں دوسری مختلف زبانوں میں۔پس اس طرح قرآن مجید پہلی تمام آسمانی کتابوں کا ہم بیان ہونے سے مصدق ہے۔ جب تک وہ بلحاظ مضمون اور مسائل کے ان کتابوں سے متفق و متحد نہ ہو تب تک اس پر یہ صادق نہیں آتا کہ (مُصَدِّقَا لَماِ بیَنَ یَدَیُہِ)کہ وہ اپنے سے پہلے نازل شدہ مسائل کو سچا کر نے والا ہے جیسا کہ جب تک قرآن مجید میں ہر ایک مسئلہ فروعی و اصولی یا فر ضی۔ نقلی و صباح تک بھی مفصل طور پر مذکورو موجود نہ ہو تب تک اس کی شان میں یہ صادق نہیں آسکتا کہ(تبیا نا لکل ِ شی) وہ ہر ایک مسئلہ اسلام کو واضح طور پر بیان کرنے والا ہے۔ لیکن جب کہ لیکن وہ فی الحقیقت ہی تمام مسا ئل دین اسلام میں کافی اور بس ہے تو پھر بلاریب(بغیر شک کے) اس کی صفت میں (تبیا نا لکل ِ شی) ہر طرح موزوں ہے۔ اسی طرح جب اس کے جملہ مسائل تمام پہلی آسمانی کتابوں کے کل مسائل کو سچا کرتے ہیں یعنی یہاں قرآن مجید میں مثلاً حکم ہے، کہ تم زنا نہ کرو ،چوری نہ کرو، اپنے پڑوسی سے احسان کرو،والدین کی عزت کرو وغیرہ و غیرہ۔ تو بھی مسائل جو پہلی آسمانی کتابوں میں بھی نازل ہوئے ہیں۔ اس سب کی وہ قرآنی مسائل تصدیق کرتے ہیں پس خاص اسی واسطے قرآن مجید کی صفت میں یہ وارد ہو ا ہے کہ (مُصَدِّقَا لَماِ بیَنَ یَدَیُہِ)
لغرض جب تک قرآن مجید اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے سب مسائل مباح تک بھی عموماً و خصوصاً آپس میں واحد نہ ہو ں۔ تب تک قرآن مجید ان کتابوں کا مصدق یعنی سچا کر نے والا ہرگز نہیں بن سکتا اور جب وہ مصدق ہے تو ناسخ و مکذب ہرگز نہیں ہے جس کا اس سے بھی زیادہ ثبوت دلیل سوم کی آیات سے مل سکتا ہے۔
قرآن مجید سابقہ کتب آسمانی میں :۔
دلیل سوم۔ قرآن مجید میں جا بجا بکثرت آیات میں یہ جتا یا گیا کہ اسی قرآن مجید سے احکام تمام سابقہ کتب منزلہ من اللہ میں نازل ہوتے رہے ہیں یعنی خاص یہی مسائل ان کتابوں میں بھی اتارے گئے ہیں جو کہ قرآن مجید میں مذکورہ موجود ہیں۔ پس جب کہ یہ صورت و حالت ہے تو پھرقرآن کریم کا ان کتابوں کو منسوخ ومردود کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو منسوخ و مردود۔۔۔کرتا ہے۔ ماشااللہ پس قرآن مجید ان سابقہ آسمانی کتابوں کا ہرگز ہرگز ناسخ و مکذب نہیں ہے بلکہ ان کے تمام مسائل کو رائج کرنے والا اور ان پر نگہبانی کرنےوالا ہی ہے۔ چنانچہ فرمایا اللہ تبارک و تعالی نے (وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ)
ترجمہ: اور تحقیق یہ قرآن مجید سراسر اُترا ہو ارب العالمین ہی کی طرف سے ہے ۔ سابقہ آسمانی کتب کی طرح۔ اُتارا ہے ا س کو بھی جبرائیل نے جو ہمارے دربار میں بھاری امانتی ہے تجھ پر تاکہ ہو تو بھی عذاب الہیٰ کے ڈرانے والوں میں سے۔ تیری قوم کی زبان میں اُترا ہے۔ جو نہایت ہی بڑھ کر فصیح و بلیغ اور طرح مفصل مشرح ہے اور عقیق یہ قرآن مجید پور ا پورا ہی تمام آسمانی کتابوں میں مذکورہ موجود ہے۔ جو سابقہ رُسل انبیاء پر اتاری گئیں۔
(سورۃ الشعَراء آیت ۱۹۲ تا۱۹۵)۔
اِس جگہ اس آیت کے الفاظ(وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ) سے استدلال کرنا ضروری ہے۔ فی کا متعلق کا ئِن (موجود،ہونے والا)مانا جائے یا موجود یا انزل سب سے یہی مطلب نکلتا ہے۔کہ قرآن مجید ہی تمام پہلی آسمانی کتابوں میں اُترا ہے یعنی اسی کے مسائل ان تمام کتابوں میں مختلف زبانوں سے نازل فرمائے گئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ قرآن مجید کے تمام مسائل ان کتابوں میں نازل نہیں فرمائے گئےبلکہ اس میں بعض ایسے مسائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ جو ان کتابوں میں نہیں اُترے تو اوّل تو یہ خیال بے دلیل ہے۔ دوم۔ اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو اس سے بھی ہرگز قرآن مجید کا ناسخ و مکذب ہونا لازم نہیں آتا۔ ہاں ان کتابوں سے زائد ہونا ثابت ہوتا ہے مگر زائد ہونا اور بات ہے اور ناسخ و مکذب ہونا اور پھر اگر اس کے بر عکس یوں کہا جائے کہ ان کتابوں میں زیادہ مسائل تھے۔ اور قرآن مجید میں کم تو اس کے تسلیم کرنے سے قرآن مجید ناقص کتاب بن جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کی متعدو آیات سے یہ ثابت ہے کہ وہ ایک مکمل و مفصل کتاب ہے۔ معہذا اس سے قرآن مجید کا ناقص ہونا لازم آتا ہے نہ کہ ناسخ و مکذب ہونا۔
پس اصل بات یہ ہے جو آیت مذکورہ سے صاف سمجھی جاتی ہے قرآن مجیدکے تمام مسا ئل کل پہلی آسمانی کتابوں میں انبیائے سابقین پر اترے ہیں اور ان تمام کتابوں کے کل مسائل قرآن مجید میں جمع کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ (مھیمنا علیہ) سے صاف ثابت ہے یعنی قرآن مجید ان سب کتابوں پر محافظ و نگہبان ہے سو جملہ مسائل فروعی و اصول کے لحاظ سےقرآن مجید پہلی تمام آسمانی کتابوں سے بالکل متفق ہی ہے۔ لہٰذا یہ ہرگزہرگز ان کا ناسخ و مکذب نہیں ہے۔
یہ بات بالکل من گھڑت اور غلط ہے کہ قرآن مجید اصول میں تو پہلی آسمانی کتابوں سےمتفق ہے۔ لیکن فروع میں مختلف ہے۔ یہ دعویٰ ایسا ہی بے دلیل ہے جیسا کہ فرضاً اگر کوئی یہ کہہ دے کہ قرآن مجید فروغ میں تو پہلی کتابوں سے اتفاق رکھتا ہے لیکن اصول میں مختلف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو کچھ اصول ہی میں اختلاف ہے اور نہ ہی فروع میں۔ جُوجُو مسائل قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔ وہی خواہ فروع ہیں یا اصول۔ اس نے اپنی پہلی کتابوں میں بھی نازل فرمائے تھے۔ سو جب کہ خاص اللہ تعالی ٰ نے فروعات کو مستثنٰی نہیں فرمایا بلکہ( وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ ) سے اصول و فروع سب کو ہی شامل کر لیا ہے۔ تو پھر یہ کسی شخص کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ الفاظ (الاالفروع)ملاکر اس میں ترمیم کرسکے۔
الغرض حاصل کلام یہ ہے کہ جب قرآن کریم ان کتابوں کا ناسخ ومکذب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہاں البتہ مصدق اور موید ضرور ہوسکتا ہے اور ہے جیسا کہ دلیل دوم کی آیات سے بخوبی ثابت ہوچکا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ تائید و تصدیق تنسیخ اور تردید و مکذب کی ضد ہوا کرتی ہے۔
اب پھر اچھی طرح سے ملا حظہ کیجیئے آیات ذیل:
(الف)۔(وَامامَن جَا ءکَُ یَسعٰی وَھُوَیَخشیٰ فَاَنُتَ عَنَہ تَلَھّی کلَّا اَنھَا تَذکَرۃُ فَمَن شَاءَ ذکَرَہُ فِی صُحف مُکَرمَۃ مَرفُوعَۃ مطَھّرۃ باَیدِی سَفَرۃ کَرام بَررَۃ)(پ۳۰۔ع۵)
خلاصہ مطلب ان آیات بینات (روشن دلائل)کا یہ ہے کہ جملہ رسل انبیاء پر جو کتاب اللہ نازل ہوتی رہی ہے۔ وہ ہر ایک محض قرآن مجید ہی سے منزل من اللہ ہوئی۔ بوجہ من الوجوہ کسی حکم مباح(پاک) تک میں بھی۔ علاوہ قرآن مجیدکے ہرگز ہرگز کسی میں کوئی بھی حکم منزل من اللہ نہیں ہوا۔
(پ)۔(اَوَ لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی)
ترجمہ۔ کیوں انکار کرتے ہیں مخالف لوگ قرآنی احکام سے حالانکہ ضرور ہی پہنچ چکا ہے۔ل ان کے پاس یہ بالکل روشن بیان قرآن مجید جوکہ جملہ سابقہ کتب منزلہ من اللہ میں یہی مذکور و موجود ہے۔
(سورۃ طہ آیت ۱۳۳)۔
(ج)۔( اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی)
ترجمہ: تحقیق یہی قرآن مجید ، بلاریب تمام آسمانی کتابوں میں مذکورہ موجود ہے جو کہ ا س سے پہلے منزل اللہ ہوتی رہی ہیں۔ خصوصاً ابراہام رسول اللہ اور موسیٰ رسول اللہ سلام علیہما والی کتابوں میں۔
(سورۃالاعلی آیت ۱۸۔۱۹)۔
آیات مذکورہ بالا کی طرح آیت مندرجہ ذیل بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب نازل کرنے سے پہلے پہلی کتاب کو منسوخ و مردود ہرگز نہیں فرمایا۔ بلکہ وہ اپنی ایک ہی پاک کتاب سے مختلف اوقات اور علیحدہ علیحدہ زبانوں میں اپنے وہی احکام نازل کرتا رہا ہے۔ اور اسی واسطے ہر پچھلی آسمانی کتابوں کا مصدق و موید(تائید کرنے والا)ہی ہے نہ کہ ناسخ و مکذب۔ بہر حال وہ آیت یہ ہے۔
(د)۔( وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ)
ترجمہ: اور یہ بھی سنو کہ تحقیق نازل کرتا رہا ہے اللہ تعالیٰ یہ بھاری حکم تمام نبیوں پر کہ البتہ ضرور ہی دوں گا میں تم کو احکام وغیرہ اپنی کتاب میں سے ایمانی حکمت میں سے ۔پھر آئے گا تمہارے پاس اور پیغام ہمارا جو کہ بالکل تصدیق کر نے والا ہوگا ہر ایک مسئلہ منزلہ من اللہ مباح تک کا بھی جو کہ تمہارے پاس موجود ہو توضرورہی ایمان لے آنا اس پر بھی اور ضرور ہی امداد کرنا اس کی اشاعت و اجر ہیں۔
(سورۃ آل عمران آیت ۸۱)۔
یہاں تک جس قدر آیات اس قسم کی لکھی جا چکی ہیں ان سب سے یہ بات بالکل واضح و روشن طور ثابت ہے کہ قرآن مجید کل پہلی آسمانی کتابوں کا یا ان کے تمام مسائل کا ہرگز ہرگز ناسخ و مکذب نہیں ہے بلکہ ہر طرح پورا پورا مصدق وموید ہی ہے اور ان کتابوں میں بھی خاص یہی نازل ہوا ہے۔ نیز قرآن مجید تمام سابقہ آسمانی کتابوں کو واجب الایمان اور واجب العمل بھی بتاتا ہے۔ پس یہ ساری باتیں مروجہ نسخ کے وہم و خیال کی سراسر مخالف اور بالکل مغائر(مخالف ) ہیں۔
چند آیات کے متعلق سوال وجواب:۔
اب اس جگہ ان آیات کو بھی لکھ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جن سےاس کا باطل وہم گمان کیا گیا کہ پہلی تمام آسمانی کتابیں مسائل کے لحاظ سے آپس میں یا قرآن مجید کے خلاف ہیں۔
سوال :۔( ۱)۔ عیسٰی علیہ سلام کی پیدایش کے حالات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔کہ (وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ)
ترجمہ: اور وہ یہ بھی کہے گا کہ میں بالکل تصدیق کرنے والا ہوں ہر ایک مسئلہ مباح تک کا بھی جو مجھ سے پہلے منزل من اللہ ہوئے ہیں۔ جملہ کتب منزلہ من اللہ میں خصوصاً تورات کتاب اللہ کے ہو ایک مسئلہ کو اور میں ضروری ہی حلال بیان کر وں واسطے تمہارے بعض چیز یں جو کہ بند کی گئی تھیں تم پر تمہاری بغاوت کی سزا میں۔
(سورۃ آل عمران آیت ۵۰)۔
اس آیت سے مروجہ نسخ ماننے والے لوگ وہم و گمان کرتے ہیں کہ بعض چیزیں تو رات میں حرام تھیں اور انجیل میں وہ حلا ل کی گئیں۔ پس اس طرح تو کلامِ الہٰی میں نسخ مروجہ ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟
جواب:۔ اگر دماغ میں کچھ بھی عقل باقی ہو تو اس آیت سے تو صاف طور پر اس بے بنیاد خیال کا ابطال ہو جاتا ہے نہ کہ اثبات (وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ) (سورۃ آل عمران آیت ۵۰)سے صاف ظاہر ہے کہ تورات میں جو مسائل اللہ تعالیٰ نے نازل فرماتے تھے۔ عیسٰیؑ ان سب کو تصدیق کرتے تھے نہ کہ تردید وتکذیب۔پس اس بات سے یہ با آسانی سمجھ میں آجاتا ہے کہ جس چیز کو عیٰسی سلام علیہ حلال بتاتے تھے وہ ان لوگوں پر درحقیقت تربیت و مصلحت فطرت اللہ کے لیے حرام نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ وہ کسی جرم کے عوض ان پر سزا کے طور سے بند فرمائی گئی تھی۔ جو چیزیں کہ تربیت و مصلحت فطرت اللہ کے لئے حلال ہیں وہ ہمیشہ سے حلال ہی رہی ہیں اور ہمیشہ تک بُجز حالت اضطراری (بے قراری)کے حلال ہی رہیں گی۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز کسی قوم پر ان کی بغاوت اور ظلم کے باعث بند کی جائے کہ تم پر فی الحال اس کا کھانا بند کیا گیا ہے اور پھر مناسب وقت پر اس سزا کی مہلت گذر جانے کے باعث وہ بندش دور کی جائے تو اس احکام الہٰی میں قطعاً تنسیخ و ترمیم اور تردید و تکذیب کا ہرگز کوئی وہم و گمان نہیں ہوسکتا۔سوبعینہ یہی واقعہ حلت(حلال ہونا) وحرمت زیر بحث میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ آیت ذیل سے بھی مذکورہ بالا آیات کی تشریح و تفصیل ہوتی ہے۔(وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا کُلَّ ذِیۡ ظُفُرٍ ۚ وَ مِنَ الۡبَقَرِ وَ الۡغَنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ شُحُوۡمَہُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتۡ ظُہُوۡرُہُمَاۤ اَوِ الۡحَوَایَاۤ اَوۡ مَا اخۡتَلَطَ بِعَظۡمٍ ؕ ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِبَغۡیِہِمۡ ۫ۖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ )
ترجمہ: اور یہودیوں پر بند کر دیا تھا ہم نے ہر ایک ناخن دار جانور ان کا اور گائے کی مثل صرف انگوریاں کھا نے والے جانوروں سے اور بکری اور بکری کی مثل صرف انگوریاں کھانے والے جانوروں میں سے بھی ۔بند کی تھیں ہم نے ان پر ان کی تمام چربیاں۔ مگر وہ جو لگی ہوتی ان کی پیٹھوں پر انتڑیوں پر یا وہ جو کہ ملی ہوئی ہوتی ان کی ہڈی کے ساتھ۔ یہ چند روزہ سزا تھی۔ ہم نے ان کو ان کے ظلم و اتم کے بدلہ میں۔ کیونکہ ہم سچا کر دکھاتے ہیں اپنے ہر ایک وعدہ عہد کو۔
(سورۃ الانعام آیت ۱۴۶)۔
اس آیت میں پہلی آیت کے الفاظ(حَرَّمَ عَلَیکُم) کی تشریح و تفصیل کی گئی ہے یعنی یہ بتایا کہ کیا کیا حلال چیزیں ان یہودیوں پر ان کے جرم کی سزا میں بند کی گئی تھی یعنی (کُلَّ ذِیۡ ظُفُرٍ ۚ وَ مِنَ الۡبَقَرِ وَ الۡغَنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ شُحُوۡمَہُمَاۤ)
(کُلَّ ذِیۡ ظُفُرٍ) سے مراد چار پایوں میں سے کھُر دار چار پائے ہیں۔یعنی اونٹ، گھوڑا، گدھا، گائے، بکری اور بھیڑ وغیرہ اور پرندوں میں سے پنجوں والے جانور جو شکاری نہیں ہیں۔ یعنی مرغی ، تیتر، بٹیر وغیرہ غیرہ۔ غرض یہ کہ یہاں وہ تما م جانور مراد ہیں جو کہ چار پایوں اور پرندوں میں سے شکار نہیں کرتے۔ کیونکہ شکاری جانوروں کی ذی مخلب کہا جاتا ہے۔ جو پرندوں میں باز، باشہ، شاہین اور شکر وغیرہ ہوتے ہیں اور چوپایوں میں شیر ، گیڈر، بھیڑ اور کتا وغیرہ وغیرہ ہیں۔
چونکہ ذی ظفر یعنی کھُردارجانوروں میں سے چند ایک جانورتو فی الحقیقت بالکل حرام ہی ہیں جیسے کہ سور، گدھا ، خچر اور گھوڑا وغیرہ تو اس لیے یہاں یہ فرما دیا گیا کہ(وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا کُلَّ ذِیۡ ظُفُرٍ)یعنی بعض ذی ظفرتو اصلاً یہود اور غیر یہود سب پر حرام ہی ہیں۔لیکن خاص یہودیوں پر ہم نے تمام ذی ظفر بند کر دیئے یعنی جو ذی ظفر حقیقتہً حلال ہیں وہ بھی ان کی بغا وت کی سزا میں بند کئے گئے مگر (وَ مِنَ الۡبَقَرِ وَ الۡغَنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ شُحُوۡمَہُمَاۤ)سے یہ بھی ثابت ہے کہ چوپایوں میں سے گائے۔ بکری یہودیوں پر کُلّاً (مکمل طور پر)حرام نہیں فرمائی گئی تھی۔ بلکہ ان دونوں کی صرف چربی ہی ان پر بند کی گئی تھی۔ یعنی ذی ظفر میں سے ان دو جانوروں کی بجُز ان کی چربی کے جو کہ پیٹھ اور آنتوں کی ہوحکم حرمت سے مستثنیٰ کیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ حرام جانور تو تمام لوگوں پر اور ہمیشہ حرام ہی ہیں، لیکن جو جانور حلال ہیں و ہ بھی سب کے سب بجُز گائے اور بکری کے یہودیوں پر کھا نے بند کر دیئےگئے تھےاور ان دو نوں جانوروں گائے اور بکری کی چربی بھی یہودیوں پر بندکی گئی تھی۔ مگرصرف پُشت اور آنتوں اور ہڈی کی ملی ہوئی چربی حلال تھی۔ الغرض ذی ظفر سے یہودیوں پر حلال کیا رہا تھا۔ صرف گائے یا بکری یا ان کی پیٹھ اور آنتوں اور ہڈی کی چربی باقی ان کی تمام چربی اور دیگر سب کے سب ذی ظفر جانوروں یہودیوں پر کھانےبند کر دیئے گئے تھے۔ اور یہ حکم کوئی تر بیت فطرت اللہ کے نہیں تھا۔ بلکہ محض ان کی سزا کے طور پر تھا۔ جیساکہ ( ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِبَغۡیِہِمۡ ۫ۖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ) سے صاف ظاہر ہے۔
علاوہ ازیں آیت مندرجہ ذیل میں بھی اللہ تعالی اسی حرمت کا بیان فرماتا ہے اور ساتھ ہی ان یہودیوں کی شرارت اور بغاوت کا بھی ذکر کرتا ہے۔ جس کی سزا میں ان پر یہ حکم دیا گیا۔ قولہ،تعالیٰ
(فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا وَّ اَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا)
ترجمہ: پس بہ سبب طرح طرح کے ظلموں کے جو یہودیوں سے ظاہر ہو رہے تھے بند کر دیں۔ ہم نے ان پر کچھ حلال موافق مزاج چیزیں جو کہ بالکل حلال تھیں ان کو اور لینے کےبہ سبب سے بھی۔ حالانکہ تحقیق منع کئے گئے تھے وہ اس ہر ایک بات سے اور بہ سبب ان کے کھانے مال اپنے لوگوں کے اپنے خانہ ساز طریقوں سے سو اس لیے مقرر کریں گے ہم تمام کافروں پر جو ان میں تھے۔ عذاب قیامت کا جو کہ بہت ہی درد ینے والا ہوگا۔
(سورۃ النساء آیت ۱۶۰۔۱۶۱)۔
اس آیت میں بھی ان یہودیوں کی بغاوت و شقاوت (بد نصیبی)کا ذکر ہے۔ جس کے عوض ان کو یہ سزا دی گئی۔ نسخ مروجہ کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ پس اس سے بھی یہی صاف ثابت ہے کہ جملہ سابقہ کتب آسمانی کو بھی کوئی حکم ہرگز کبھی منسوخ و مردود نہیں بلکہ ان کے بھی سب کے سب احکام ِ اعلیٰ یومِ القیا مت بد ستور جاری ساری ہی رہنے ہیں۔
نویں فصل
قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری اور بائبل
قاضی موصوف کے نام نامی اور اسم گرامی سے کوئی خواندہ مسلم بے خبر نہیں ہے۔ آب کتاب رحمتہ اللعلمین کے مصنف ہیں اور ریاست ِ پٹیا لہ میں سیشن جج کے عہدے پر سرفراز ہو چکے ہیں۔ آپ (تہذیب الاخلاق شمارہ (۱) جلد ا) میں تحریر کرتے ہیں۔
’’درحقیقیت آپ کسی معتقد مذہب سے یہ توقع تو نہیں کر سکتے کہ وہ اسلام کو اپنے مذہب پر فوقیت دے لیکن یہ بھی ایک عجیب خصوصیت ہوگی کہ دنیا کا ہر ایک مشہور مذہب اپنے بعد کو دوسرا درجہ دینے پر آمادہ ہے‘‘۔
مثلاً خیال فرمایئے۔
اول عیسائیت کو لیجیئے۔ وہ اگرچہ اسلام سے اس لیے دور دور ہےکہ اسلام تثلیث ، کفارہ ، الوہیت مع ابنیت کے مسائل کو پسند نہیں کرتا۔
لیکن عیسائیت کو معلوم ہے کہ مسائل ِ بالا کو اسلام کے سوا دیگر ادیان نے بھی پسند نہیں کیا۔ اب جو مسائل کہ اسلام کر عیسائیت سے دوسرا درجہ علانے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔
• اسلام حضرت مسیح کو مقدس بزرگوار تسلیم کرتا ہے۔
• اسلام مسیح کی ولادت فوق ازعادت کو تسلیم کرتا ہے۔
• اسلام انجیل کو ہدایت دوز(ہدایت دینے والا) تسلیم کرتا ہے۔
• اسلام پادریوں کی نرم د لی۔ انکسارمزاج اور علمی توغل (پُر مشق ،دُھن)کا اقرار کرتا ہے۔
• اسلام عیسائیوں کے اوصاف باہمی اعانت، انصاف پروری اوررعایا نوازی کو تسلیم کر تا ہے۔
• اسلام کو اقرار ہےکہ جملہ ِ اقوام کی نسبت عیسائی ان سے محبت اور مودّۃ(دوستی) کے بارہ میں قریب تر ہیں۔
• اسلام اس شخص کے ایمان کو مکمل نہیں ٹھہراتا جو مسیح کو خدا کا برگذیدہ اور ان کی ماں کو صدیقہ تسلیم نہ کرتا ہو۔
یہ سب مذہب کے وہ امور ہیں جو عیسا ئیت کو اسلام کے سوا اور کسی مذہب میں نہیں ملتے اور اس لیےعیسائیت مجبور ہے کہ دنیا میں اپنے بعد اسلام کا درجہ تسلیم کرے۔
اب یہودیت کو لیجیئے۔
وہ اگرچہ اسلام کو اس لیے پسند نہیں کرتی کہ۔
• اسلام مسیح کو مقدس شمار کرتا ہے۔
• اسلام عیسائیوں کو اہل ِکتاب کے معزز خطاب سے مخاطب کرتا ہے۔
• اسلام خود اپنے پاس موسیٰ کی شریعت جیسی یا اس سے کامل ترشریعت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ تاہم جو مسائل یہودیت کو مجبور کریں گے کہ اپنے بعد اسلام کا دوسرا درجہ تسلیم کرے۔ وہ یہ ہیں۔
• اسلام حضرت موسیٰ کے مسائل عشرہ کی تصدیق و توثیق کرتا ہے۔
• اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے کہ توحید کی سبق کو جو حضرت موسیٰ نے دیا تھا تمام دینی کے لیے مکمل کرتا ہے۔
• اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے توراۃ کو نورِو ہدایت کہا ہے اورپال (پولس رسول)یا اُس کے بعد آنے والے عیسا ئیوں کی طرح اُسے لعنت قرار نہیں دیا۔اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے حضرت موسیٰ کی نبوت و تبلیغ و معجزانہ حالات کا بیان تو راۃ سے بھی بڑھ کر کیا ہے۔
اسلام ہی وہ مذہب ہے جو یہودیوں کے ذبیحہ کو حلال اور ان کے ہاں نکاح کرنے کو جائز سمجھاتا ہے۔
یہ وہ امور ہیں جنکی توقع یہود یت دنیا کے دیگر مذاہب سے نہیں کر سکتی اور اس لیے وہ اسلام کا دوسرا درجہ ضرور تسلیم کریگی۔
(تہذیب الاخلاق بابت ماہ محرم الحرام ۱۳۲۹ء ص۲ )
دسویں فصل
شیعہ صاحبان اور بائبل
آل رسول کی طرف سے قبلہ مجتہد علی الحائری کو شہادت میں پیش کرتے ہیں آپ کی شہادت کو جملہ شعیہ صاحبان کی شہادت کا مجموعہ تسلیم کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی (کتاب فلسفتہ الااسلام) میں حسب ِ ذیل بیان لکھا ہے۔
’’ایک قادر مطق کا یقین دین اسلام کے اہم کے ترین ابتدائے اصول اسلام سے ہے۔ جو تمام دیوتاؤں اور بتوں سے بالا تر تمام عالم کا پرور دگار ہے۔نہ کسی نے اُس کوجنا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اوار نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ یہ وحدانیت خدا کی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو قرآن اور علم بر داران قرآن خاص طور پر اہمیت دیتے ہیں ۔ پیغمبرِاسلام نہ تو کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالی ہے اور نہ اُنہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ۔ قرآن نے بائبل کو منسوخ نہیں کیا۔ بلکہ کتب مقدسہ کی تصدیق کرتا ہے۔ اسلام یسوع ؔ کا مُنکر نہیں ہے۔ نہ اُن کی تعلیمات سے انکار کرتا ہے۔ ان کو نبی مانتا ہے اور حضرت عیسیٰ کے نام سے پکارتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ روز ِ جزا پہلے مادی شکل میں زمین پر آئیں گے۔ اسلام نے صرف اس کو بلکہ اس سے پیشتر جس قدر مذاہب دنیا میں موجود اور اللہ کی طرف سے نازل ہوئے تھے سب کو الہامی مانتا ہے اور قرآن اسکی تصدیق کر تا ہے۔
(فلسفتہ الاسلام صفحہ ۱۴، ۱۵)
گیارھویں فصل
الہامی کتب پر چند خیالات
از قلم جناب لارڈ ہیڈ لے الفاروق صاحب با لقابہ
جناب لارڈ ہیڈ لے الفاروق صاحب بالقابہ کے نام ِ نامی اوار اسم گرامی سے کونسا پنجابی اور ہندی مسلم بے خبر ہے۔آپ خواجہ کمال الدین صاحب کی یورپی مسلم خدمات کا اعلیٰ پھل ہیں۔ آپ بائبل مقدس کی ہر گز رعایت نہ کر سکتے تھے۔ آپ کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے کہ یورپی عیسا ئی بائبل کی بابت کیا اعتقاد رکھتے ہیں۔ آپ کا بیان ’’اشاعت اسلام‘‘ نامی رسالہ کی جلد ۹ نمبر ۲ میں شائع ہوچکا ہے۔ اس میں سے ذیل کی عبارت نقل کی جاتی ہے۔
’’بہت سے عیسائی پرانے اور نئے عہد نامہ کے ہر ایک لفظ کی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ایک کثیر تعداد ایسی ہے جنہیں پرانے عہد نامے پر توشک ہے، لیکن نئے عہد نامے پر متی کی انجیل سے لے کر الہام کی کتاب تک وہ پورا ایمان ہے۔ ایک اور طبقہ جس میں بہت سے مذہبی لوگ شامل ہیں۔ وہ دونوں عہد ناموں کو اپنی رائے کے مطابق کرنا چاہیے ہیں اور انہیں حصص پر ایمان لاتے ہیں جو اس کے موافق ہیں۔ بہت سے نیک دل انسان جنہیں اگر کہا جائے۔ کہ اُنہیں بائبل کی سچائی پر شبہ ہے تو وہ ضرور رنج کریں گے۔ حالانکہ اُنہی میں سے اکثر حضرت یونس اور مچھلی اور پانی پر چلنے کے معجزات کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو حضرت مسیح کے بن باپ پیدا ہونے اور کفارہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اب یہ دریافت کر لینا کوئی مشکل امر نہیں عیسائی مذہب کے عقائد جو اناجیل کے ایک ہی ترجمہ کی مختلف تشریحات پر مبنی ہیں ایسے فرقوں کو پیدا کر دیا ہے جو بالکل متضاد عقاید رکھتے ہیں‘‘۔
(اشاعت اسلام ماہ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۴ )
قرآن کریم جو اناجیل کی صداقت پر ایک دلیل ہے اور اُسے مکمل کرنے والا ہے۔ ان تمام فرقوں کے لیے ایک سر بمہر خزانہ ہے۔
بارھویں فصل
سر سید احمد خاں مرحوم اور بائبل
سر سید احمد کا نام تمام عالم میں مشہور ہے اور مشہور رہے گا۔ آپ کی آنکھ سے بائبل مقدس اوجھل نہیں ہو سکتی تھی۔ آپ نے اپنی بے نظیر (کتاب تبین الکلام) میں بائبل کی بابت مسلمانوں کا عقیدہ صفائی سے بیان فرمایا ہے۔ چونکہ یہ کتاب فی الحال ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ لہذا جو کچھ آپ نے خطبات احمدیہ میں بائبل مقدس کی بابت لکھا ہے اس پر کفایت کر ذیل کا بیان آپ کی اسی کتاب سے نقل کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔
’’مسلمان کل عہد ِ عتیق کو جس میں حضرت موسیٰ کی پانچویں کتابیں اور زبور و صحف انبیاء داخل ہیں توریت کہتے تھے۔ کیونکہ اُن سب کے سرے پر جو کتاب تھی اس کا نام توریت تھا اور عہد ِ جدید کی کتابوں کو سوائے اعمال و حواریوں کے ناموں کی انجیل کہتے تھے۔ کیونکہ وہ سب کتابیں انجیل کے نام سے موسوم تھیں۔ قرآن و حدیث میں بھی انہی معنوں میں لفظ توریت و انجیل وارد ہوا ہے۔ پس قرآن مجید سے تو یہ پایا گیا کہ توریت و انجیل میں ہمارے پیغمبر ﷺ کا ذکر ہے۔ اور لقب بھی مذکور ہے۔ مگریہ نہیں معلوم ہوا کہ کس جگہ توریت و انجیل میں یہ ذکر ہے۔ اس سبب سے مسلمان عالموں نے توریت و انجیل میں اس کی تلاش شروع کی‘‘۔
(الخطیات الاحمد یہ صفحہ ۳۰۴ )
اور جب اُن کو قرآن مجید کی یہ آیت یاد آئی کہ ’’یہودی بدل ڈالتے ہیں(یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ) ( سورہ مائدہ آیت ۴۱)لفظوں کو ان کی جگہ سے ’’تو ان کا وہ شبہ درجہ یقین کو پہنچ گیا اور انہوں نے توریت و انجیل میں زیادہ تر تفتیش کرنے کی اہمیت نہ کی اور یہ خیال کر کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے توریت و انجیل میں تحریف کر دی ہے اور خصوصاً وہ مقامات جہاں جہاں ہمارے پیغمبر ِخدا محمد ﷺ کی بشارتیں تھیں بدل دی ہیں، تلاش کرنی چھوڑ دی اور اپنی کم محنتی اور کاہلی اور ہمت چھوڑ دینے کے الزام سے بچنے کے لیے تحریف کے الزام کو بطور سپر(ڈھال) بنا لیا۔
مگر یہ خیال انہی لوگوں کا تھا جو علم اور تحقیق کے اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور استقلال کے ساتھ تحقیقات بھی نہیں کی تھی بلکہ اوپر ی اوپری(سطحی) باتوں میں پھنس رہے تھے۔ بر خلاف اس کے بڑے بڑے عالم اور فاضل اور دیندار لوگوں جن کا نام دنیا میں بھی مشہور تھا اور آخرت میں بھی مشہور ہوگا۔ نہایت استقلال اور تحمل سے اس کی تحقیقات میں مصروف تھے اور اس کی جڑ تک پہنچ گئے تھے۔ ان کا یہ قول تھا کہ قرآن مجید میں جو تحریف کا الزام یہودیوں و عیسائیوں پر خدا نے لگایا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہوں نے جان بوجھ کر قصد اً توریت و انجیل کے لفظوں کو بدل دیا ہے۔ بلکہ یہ مطلب کہ لفظوں کے معنی پھیر دیئے ہیں۔ چنانچہ( امام محمد اسمعیل بخا ری ؒ )نے بھی (یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ)کی تفسیر میں لکھا ہے۔
’’(ای یاد لونا علی غیر تا ویلہ) پس وہ لوگ تحریف لفظی کے قائل نہ تھے ‘‘۔
البتہ یہ بات تسلیم کے قابل تھی کہ قلمی نسخوں میں کاتبوں کی سہو ًاور غلطی سے بہت سی غلطیاں پڑ گئی تھیں۔ اس لیے ان بزرگوں نے پہلی قسم کےعالموں کی مانند ہمت نہیں ہاردی اور تلاش و تفتیش سے باز نہیں رہے۔ اور خدا تعالیٰ نے ان کی سعی کو مشکور کیا اور نہایت کامیابی سے انہوں نے توریت اور انجیل میں اور یہودیوں کی روایتوں میں وہ مقام ڈھونڈ نکالے جہاں پیغمبرِخدا محمدﷺکے مبعوث(نبی کا بھیجا جانا) ہونے کی بشارتیں موجودہ تھیں۔ چنانچہ وہ سب روایتیں ہم مسلمانوں کی مذہبی کتابوں میں اور قرآن مجید کی تفسیروں میں اور کتب سیرو تواریخ میں مندرج چل آتی ہیں۔
(الخطبات الاحمدیہ صفحہ ۳۰۰)
تیرھویں فصل
سید احمد حسین شوکت میرٹھی اور با ئبل
آپ جناب نے افغان پشاور مطبوعہ یکم نومبر ۱۹۱۱ء میں ’’خدا کی کتابوں اور رسولوں کی اہانت‘‘ کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا جسے نورافشاں مطبوعہ۱۷ نومبر ۱۹۱۱ء نے ایک حد تک اقتباس کیا تھا اور نورافشاں سے ہم آپ کے قیمتی خیالات کو نقل کرتے ہیِں، آپ فرماتے ہیں۔
یہودی انجیل مقدس اور مسیح ؑ کے دشمن ہیں۔ عیسائی توریت کو تو مانتے ہیں۔ مگر قرآن مجید کو نہیں مانتے حالانکہ کوئی دلیل ان کےپاس نہیں کہ توریت اور انجیل تو آسمانی کتابیں ہیں۔ مگر قرآن معاذاللہ آسمانی کتاب نہیں۔ جب کہ یہودی ، عیسائی اور مسلمان سب اہلِ کتاب ہیں۔ اہل کتاب کو اہلِ کتاب سے اُلجھنا خلاف انصاف اور خلاف ِ عقل ہے۔ کتابیں خود ناطق ہیں کہ ہم خدا کا کلام اور وحی اوار الہام ہیں۔ خدا کا کلام انسانی کلام سے بالکل ممتاز ہے۔ اس میں انسانی کلام کا خلط ملط ہونا محالات (مشکل)سے ہے۔ سادہ لو اور ناواقف مسلمان یہ تو مانتے ہے کہ انجیل خدا کاکلام ہے۔ مگر یہ تقلیدی عقیدہ بھی ان کے دلوں میں ہے ہ انجیل تحریف ہوگئی ہے۔ اگرچہ ثابت نہیں کر سکتے کہ جس آیت میں او ر کس زمانے میں تحریف ہوئی اور کس نے تحریف کی۔ کیا دنیا میں بد بخت قوم ایسی ہےکہ اپنے ہاتھوں سے اپنی آسمانی کتاب کو بگاڑے اور کمخواب(ایک قسم کا ریشمی کپڑا) میں ٹاٹ کا پیوند لگا لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکناچاہے ہاں بعض قو میں تحریف معنوی ضرور کرتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسالہ پنجاب ریویو میں رفع انجیل پر عرصہ سے ایک پادری اور ایک مولوی صاحب میں بحث ہو رہی ہے۔ صراطِ مستقیم سے دونوں برکراں ہیں۔ اگر رفع انجیل سے یہ مراد ہے کہ خدا نے انجیل کا مرتبہ بلند کر دیا تو درست ہے۔ کیونکہ خدا ہمیشہ اپنا بال بالا یا اونچا رکھتا ہے۔ پڑھو(الیہ یصعد الکلم الطیب اور کلمۃ ھی العلیاالایتہ) اور ظاہر ہےکہ انجیل اور توریت کلمات اللہ ہیں۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ خدا نے انجیل و توریت کو اٹھا لیا ہے او رمنسوخ کر دیا ہے توخدا پر اختراع(نئی بات نکالنا) اور بہتان ہے اور نہ صرف قرآن مجید بلکہ کتابوں کی توہین ہے پڑھو(لامبدل الکماتہ الایتہ اور پڑھو مایبدل القول الذی دما انا بظلام للعبیدالامیتہ)یعنی نہیں بدلا جاتا قول میرے نزدیک اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ کیونکہ ابھی کچھ اور ابھی کچھ حکم بندوں کے لیے تکلیف مالایطاق کا باعث ہے اور بچوں کا گھروند اور نسخ ہمیشہ غلطی کی وجہ ہوتا ہے۔دنیاوی سلطنتوں کےقوانین اس لیے منسوخ ہوتے رہتےہیں کیونکہ تجربہ سے مضر ثابت ہوتے ہیں۔ مگر خدا غلطی نہیں کرتا نہ اسے تجربہ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
ہمارے علماء مرحوم (مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا)(سورۃ البقرۃ آیت ۱۰۶) سے خود استدلال کرتے ہیں اور اہلحدیث کی محبت میں یہاں تک مملو (غلو) کیا ہے ،کہ حدیث سےقرآن کا نسخ جائز کردیا الامان۔ میں تو ایسے کفر یا عقیدے سے پناہ مانگتا ہوں۔ حالانکہ مشکوٰۃ اس حدیث سے ان کا عقیدہ باطل کرتی ہے کہ (کلامولا نیسخ کلام اللہ) یعنی ’’میرا کلام خدا کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا ‘‘۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ جب حدیث نے قرآن کو منسوخ کردیا تو رسول کا مرتبہ خدا سے بڑھ چڑھ کر ٹھہرا۔ خدا مجسٹریٹ ٹھہرا اور رسول جج بلکہ پریوی کونسل (انگلستان کے بادشاہ کی خاص مجلس ِ مشاورت ،جو قانون کی رو سے آخری اور قطعی مجلس ہے)کا جج جس کی اپیل ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جب کہ اہل حدیث سے قرآن کو اور قرآن سے قرآن کو رد کرتے ہیں تو تورات اور انجیل کے رد کرنے میں ان کو کیا باک (خوف)ہے؟۔۔۔۔خدا اور رسول تو کتب الہیٰ کو منسوخ نہیں کرتے مگرنام کے مسلمان اپنے شیطانی قیا س و وساوس(اندیشے) خناس(وسوسہ ڈالنے اور بہکانے والا،شریر) سے ان کو رد کرتے ہیں۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔انتہی۔
چودھویں فصل
احمدیت اور بائبل
اعلیٰ طبق کے مسلم علماء کے بائبل مقدس کی بابت فیصلے پیش کرکے آخر میں احمدیت کی روشنی میں بائبل کو رکھ کر دیکھتے ہیں کہ بائبل احمدیت کی نظر میں کیا چیز ہے ؟اسکی نگاہ میں بائبل کیا قدروقیمت رکھتی ہے؟
ان سوالات کا جواب دینا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ احمدی اصحاب قرآن عربی کی سند سے بائبل کا محرف و متغیر ہونا مانتے ہیں وہ اسے ایمان و عمل کے قانون میں اسی طرح داخل نہیں کرتے ہیں، جس طرح محقق علماءِ اسلام کرتے ہیں۔ بظاہر اُن کے طرزِ عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں بائبل کی تِل برابر قدر و منزلت نہیں ہے۔ پر دراصل معاملہ یہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ۱۹۲۵ کے پیغام صلح میں جو حق پسند بائبل کی حمایت میں نکلے تھے۔ جن کا ذکر پیشتر ہو چکا ہے وہ غالباً احمدی ہی تھے۔ جن کو جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے کچھ کہہ سُن کر خاموش کرالیا تھا اور جن کی آزاد انہ تحریر کو پیغام ِ صلح میں شائع کرنا بند کروایا گیا تھا اور ایسے اصحاب اور بھی پیغام صلح کے کالموں میں رونما ہوئے تھے۔ جن کی تحریرات پیشتر اقتباس کی جا چکی ہیں۔ جن سےجناب ڈاکٹر بشارت احمدصاحب تنہائی میں ہی نپٹے تھے۔ پس ہم احمدی اصحاب میں بھی حق پسندوں کی ہستی موجود پاتے ہوئے یہ بات باور نہیں کر سکتے کہ جملہ احمدی صاحبان بائبل کے دشمن و مخالف ہی ہیں۔ البتہ ہی بات مانی جاسکتی ہے کہ احمدیوں کو مسیحیوں کے مقا بل بائبل کی اصلیت و اعتبار کا صفا (پاکیزہ)انکار ہے جو تقیہ(خدا کا ڈر) کا ہم معنی ہے۔ کیونکہ یہاں تک ہمیں علم ہے وہاں تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے احمدی ہی زیادہ بائبل کو پڑھتے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔
اس کے سوا احمدیوں کے اعتراضات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی بائبل سےمخالفت و مکاذبت(جھوٹ ) طِفلانہ اور جاہلانہ ہے۔ جس سے یہی بات خیال میں آتی ہےکہ انہوں نے مسیحیوں کو تنگ کرنے کا یہ راہ تجویز کیا ہوا ہے۔ ورنہ اگر احمدی بائبل کی صحت و صدا قت کے بالکل منکر ہوں تو احمدیت کا کچھ باقی ہی نہیں رہتا ہے۔
ہم نے کہا کہ احمدیوں کا بائبل پر معتر ض ہو نا ان کا طِفلانہ فعل ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اعتراضات کی بنیاد بائبل میں اختلاف پائے جانے کی بنیاد پر ہے۔ یہ بات کسی و اقف کار سے پوشیدہ نہیں کہ بائبل مقدس قریباً۔ (۴۰) مصنفوں کی ۶۶ کتابوں کا مجموعہ ہے جو مختلف مقاموں اور زمانوں میں لکھی گئیں۔ ان کتابوں میں اختلاف ایسا ہی لازمی ہے جیسا کہ موافقت لازمی ہے۔بائبل کے تراجم کا اختلاف بنامی(رہن یا بیع کی وہ معاملت جو دوسرے کے نام سے کی جائے اور اصل شخص کوئی اور ہو) اعتراض نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اعتراض بائبل کے اصل متن سے علاقہ رکھتا ہے۔پس کسی کی سمجھ میں یہ اعتراض خود نہیں آسکتا کہ( ۴۰) مصنفوں کی تحریرات میں اختلاف تو لازم ہے۔ پھر یہ اختلاف اعتراض کی بنیاد کیسے بنایا جاتا ہے؟
بائبل ( ۴۰ )مصنفوں کی تصنیفا ت کا مجموعہ ہے۔ جن کے اختلاف کو اس کی اصلیت کا خیال کیا جاتا ہے۔ پر قرآن فردِواحد کا کلام ہے۔ حدیث کی ہر ایک کتاب ِواحد مصنف کی جمع کردہ ہے۔ تفاسیر کی کتابیں ایک ایک مصنف کی لکھی ہیں۔ چاروں اماموں کی کتابیں ایک ایک مصنف کی تصنیف مانی جاتی ہیں۔ اختلاف کی ان کتب دینی میں کوئی حد ہی نہیں ہے اگر اختلاف کا وجود کسی کتاب کی اصلیت و اعتبار کی نفی ہی تسلیم کر لیا جائے تو ہم نہیں جانتے کہ ہمارےاحمدی دوست ان کتب ِ دینی کی بابت کیا فیصلہ فرمائیں گے؟
شاید احمدی اصحاب فرمائیں کہ ہمیں صرف مرزا صاحب کی تصنیفا ت سے سروکار ہے۔ ان میں اختلاف کو تل برابرا دخل نہیں ہے۔ اچھا ہم احمدی دوستوں کی خاطر بائبل مقدس کی بابت ذیل میں مرزا صاحب کے اقوال نقل کر کے مرزا صاحب کی تصنیفات میں متخالف و متضاد بیانات دکھا دیتے ہیں۔ کیا اس پر آپ مرزا صاحب کی تصنیفات کا جعلی و متغیر ہو نا تسلیم کر لیں گے؟ لیجیےآپ کے مرزا صاحب صرف بائبل کی بابت لکھتے ہیں۔ آپ ان کی تصنیفات کا فیصلہ فرمائیں۔
نمبر ۱۔ یہ انجیلیں مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال و عقل کے موافق لکھا ہے۔ اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہے۔نمبر۲۔ کیونکہ سلاطین اور ملاکی آسمانی کتابیں ہیں۔ اگر ان مقامات میں ان کے ظاہری معنی معتبر ہیں تو ان معانی کے چھوڑنے سے وہ سب کتابیں نکمی اور بیکار ٹھہر جائیں گی۔
(ضرور ۃ الامام صفحہ ۱۴کی آخری سطریں)۔
میر ے دوست مولوی محمد حسین صاحب اس مقام میں بھی غور کریں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ سلاطین اور ملاکی کے وہ مقامات محرف و مبدل ہوں تو جیسا کہ ابھی میں لکھ چکا ہوں یہ تو سرا سر وہم و گمان باطل ہے۔ کیونکہ اگر وہ محر ف و مبدل ہوتے تو مسیح بن مریم کا یہودیو ں کے مقابل پر یہ عمدہ جواب تھا کہ جو کچھ تمہاری کتابوں میں ایلیاہ کا آسمان پر جانا اور پھر اترنے کا وعدہ لکھا ہے۔ یہ بات ہی غلط ہے اور یہ مقامات تحریف شدہ ہیں۔ بلکہ مسیح نے تو ایسا عذر نہ پیش کرنے سے ان مقامات کی صحت کی تصدیق کر دی۔ ماسوا اس کے وہ کتابیں جیسی یہودیوں کے پاس تھیں ویسے ہی حضرت مسیح اور ان کے حواری ان کتابوں کو پڑھتے تھے اور ان کے نگہبان ہو گئے تھے۔ اور یہودیوں کے لیے ہم کوئی ایسا موجب عندالعقل (عقل کے نزدیک)قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ ان مقامات کے محرف کرنے کے لیے انہیں بے قرار کرتا۔ اب حاصل کلام یہ کہ مسیح کی پیشنگوئی کے بارے میں ایلیاہ کے قصے نے یہودیوں کی راہ میں ایسے پتھر ڈال دئیے کہ اب تک وہ اپنے اس راہ کو صاف نہیں کر سکے اور بے شمار روحیں ان کی کفر کی حالت میں اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔
(ازالہ او ہام صفحہ ۲۷۷، سلسلہ تصنیفات احمدیہ جلد سوم صفحہٍ۱۰۰۰ )۔
نمبر۳۔یہ بات با تفاق جمیع کتب الہٰی ثابت ہے کہ انبیاء واو لیا مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں۔۔۔ اسی طرح وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ خداِ تعالیٰ مجھے قبر میں میت رہتے نہیں دے گا اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا لےگا اور زبور نمبر (۱۶ )میں بھی حضرت داؤد ؑ با وحی الٰہی یہ فرماتے ہیں کہ تو میری جان کو قبر میں رہنے نہیں دے گا۔ اور تو اپنے قدوس کو سڑنے نہیں دیکھے گا۔
( کتاب ایضاً صفحہ۹۸۸ )۔
نمبر۴۔کہ جیسے مسیح بن مریم نے انجیل کے لیے آیا تھا کہ توریت کا صحیح خلاصہ اور مغزاصلی پیش کیا تھا۔۔۔مسیح صرف اسی کام کے لیے آیا تھا کہ توریت کے احکام شُدومد(شان وشوکت،دھوم دھام) کے ساتھ ظاہر کرے۔
( کتاب ایضاً صفحہ ۸۹۰) ۔
نمبر۵۔اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالت سے مشرف کر کر پھر بطور اکرام و انعام خلافت ظاہری اور باطنی کا ایک لمبا سلسلہ ان کی شریعت میں رکھ دیا جو قریباً چودہ سو برس (۱۴۰۰) تک ممتد (لمبا،طویل)ہو کر آخر حضرت عیسیٰ ؑ پر اس کا خاتمہ ہوا۔ اس عرصہ میں صدہا بادشاہ اور صاحب وحی و الہام شریعت موسویٰ میں پیدا ہوئے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ شریعت موسویٰ کے حامیوں کی ایسے عجیب طور پر مدد کرتا رہا جو ایک حیرت انگیز یادگار کے طور پر وہ باتیں صفحات تاریخ پر محفوظ ہیں۔ جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔ (وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ثُمَّ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ۙ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً)
یعنی ہم نے موسی ٰ کو کتاب دی اور بہت سے رسل اس کے پیچھے آئے پھرسب کے بعد عیسیٰ ابن ِ مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور اس کے تابعین کے دلوں میں رحمت اور شفقت رکھ دی۔ یعنی وہ تلوار سے نہیں بلکہ اپنی تو اضع اور فروتنی اور اخلاق سے دعوت دین کرتے تھے۔
(سورۃ البقرۃ آیت ۸۷اورسورۃ الخدید آیت۲۷)۔
ان آیات میں اشارہ یہ ہے کہ موسویٰ شریعت اگرچہ جلالی تھی اور لاکھوں خون اس شریعت کے حکموں سے ہوئے۔یہاں تک کہ چار لاکھ کے قریب بچہ شیرِِِِ ِ خوار بھی مارا گیا ۔لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس سلسلہ کا خاتمہ رحمت پر کرے اور انہیں میں سے ایسی قوم پیدا کرے کہ وہ تلوار سے نہیں بلکہ علم اور خلق سے اوار محض اپنی قوت قدسیہ کے زور سے بنی آدم کو راہ راست پر لا دیں۔
(شہادۃ القرآن صفحہ ۲۰۔ ۲۶، ۴۴:۴۳ کی سطر۱۰ سے آخر تک ، صفحہ ۵۹ کی سطر ۶ سے آخر تک )۔
نمبر۶۔یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو (یسوع مسیح کو ) کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔ جن جن پیشنگوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توریت میں پایا جانا آپ نے فرمایا ہے۔ ان کتابوں میں ان کا نام و نشان نہیں پایا جاتا۔بلکہ وہ اوروں کے حق میں تھیں ، جو کہ آپ کے تولد سے پہلے پوری ہو گئیں اور نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چُرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔
(انجام آتھم ضمیمہ ۵ سے ۶کا حاشیہ)۔
نمبر۷۔کیونکہ جب ان کے بزرگ عیسائی ایک مردہ کو خدا بنانے کے لیے کئی جھوٹی انجیلیں بنا کر چھوڑ گئے تو جھوٹ بولنا ان کی وراثت ہے۔
(انجا م آتھم صفحہ ۱۱۔ ۱۲ )
نمبر۸۔عیسائیوں کی بابت لکھتے ہیں۔ نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کہ اس قوم کے پادریوں نےنبیوں کی کتابوں میں بڑی گستاخی سے دخل بیجا کیا اور ایسی بے با کانہ مداخلت کی کہ گویا وہ آپ ہی نبی ہیں۔ جس طرف چاہا ان کی عبارات کو پھر لیا اور اپنے مدعا کے موافق شرحیں (شرح کی جمع،تفسیر)لکھیں اوار بے باکی سے ہر ایک جگہ مفتریانہ(الزام لگانے والا ،شریر) دخل دیا۔ موجود کو چھپا یا اور معدوم کو ظاہر کیا۔ اور دعویٰ کے ساتھ ایسےمحرف طور پر معنی کئے کہ گویا ان پر وحی نازل ہوئی اور وہ نبی ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ مناظرات اور مباحثات کے وقت ایسے بیہودہ اور دوراز صدق جواب عمدہً دیتے ہیں۔کہ گویا وہ ایک نئی انجیل بنا رہے ہیں اور ایسا ہی ان کی تالیفات سے بھی کسی نئے عیسیٰ اور نئی انجیل کی طرف رہبری کر رہے ہیں اور وہ جھوٹ بولنے کے وقت ذرہ ڈرتے نہیں اور چالاکی کی راہ سے کروڑہا کتابیں اپنے اس کا ذبانہ دعویٰ کے متعلق بنا ڈالیں۔گویا وہ دیکھ آئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ خدائی کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔
(شہادت القرآن صفحہ ۲۰ سطر ۱۰ سے ۱۷ تک)۔
نمبر۹۔یاد رہے کہ انجیل کی تعلیم میں کوئی نئی خوبی نہیں بلکہ یہ سب تعلیم توریت میں پائی جاتی ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ یہودیوں کی کتاب طالمود میں اب تک موجود ہے اور فاضل اب تک روتے ہیں کہ ہماری پاک کتابوں سے یہ فقرے چورائے گئے ہیں۔۔۔محقق عیسائی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ درحقیقت انجیل یہودیوں کی کتابوں کے ان مضمامین کا ایک خلاصہ ہے جو حضرت مسیح کو پسند آئی ۔
( ریویو آف ریلیجیز جلد ۲ نمبر ۵ صفحہ ۱۸۴ )
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
نمبر۱۰۔(یتلو صفحا مطھرۃ فیھا کتب قیمہ)یعنی ’’یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تما م کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں‘‘۔ اس آیت سے مطلب یہ ہےکہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھرجیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں۔ تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔
مر زا صاحب کی تصنیفات کی نسبت فیصلہ
احمدی اصحاب اور خصو صاً مرزا صاحب نے بائبل کے اختلاف کی بنا پر اس کی تحریف و تغیر کا شور مچایا تھا۔ بائبل کے صحائف کے(۴۰)مصنفوں کے بیانات میں اختلاف کا پایا جانا لازمی امر تھا۔ پر مرزا صاحب جو اپنی کثیر کتب کا واحد مصنف مانا گیا ہے۔ اپنی کتابوں کے واحد مضمون پر جسے بائبل کہتے ہیں۔ اس درجہ کی خلاف بیانی کر چکا ہے جس کی مثال بائبل میں بھی مل نہیں سکتی ہے۔ پس ہمیں مرزا صاحب کی تصنیفات کے محرف و متغیر ہونے کا بائبل کے مقابل ہزار چند زیادہ احتمال (شک وشبہ)ہے۔ کیونکہ جب ہم (حقیقت ِالنبوۃ کے صفحہ ۲۶۔ ۲۸) تک کا بیان پڑھتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے مسودے خود نہ لکھاکرتے تھے ۔بلکہ دیگر اصحاب سے لکھایا کرتے تھے۔تویہ احتمال یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ جو کتاب احمدی جماعت میں مرزا صاحب کے نام سے منسوب ہیں۔اس میں ضرور تغیر وتبدل راہ پاگیا ہے۔وہ اصلی اور قابل اعتبار نہیں رہی ہیں۔ایک بائبل کی بابت مرزا صاحب کی خلاف بیانی اس حقیقت کی شاہد ہے۔ کون سلیم العقل (پوری عقل)اِنسان مرزا صاحب جیسے عالم شخص کی بابت ایسی خلاف بیانی کو منسوب کر سکتا ہے۔ جب تک آپ تک مرزا صاحب کی عقل و فکر میں فتور (خرابی) کا گمان نہ کرے ؟ ایسے متحا لف(ایک دوسرے کے خلاف) و متضاد بیان کی کتابوں کو اگر صحیح اور قابلِ اعتبار اور اصلی مان لیا جاتا ہے اور اس کے مصنف کو خدا کی خدائی کا مجموعہ تسلیم کر لیا جاتا ہے تونا معلوم احمدی دوستوں کو بائبل کے اختلاف سے بائبل کی تحریف و تنسیخ کر خواب کس وجہ سے ستاتے ہیں۔ وہ کس وجہ سے پیغام صلح اور الفضل میں بائبل کی تحریف کے شور مچاتے رہتے ہیں؟
احمدی اصحاب کی مشکل کا حل
مرزا صاحب کی تصنیفات میں جو مشکل رونما ہوئی ہے ہم تو اس کا حل بھی پیش کر سکتے ہیں اور وہ نہایت سادہ اور آسان ہے جو یوں ہے کہ مرزا صاحب نے جو کچھ بائبل کی تعریف میں بیان کیا ہے وہ مرزا صاحب کا اپنا مذہب تھا اور جو بیان بائبل کی تحقیرو توہین میں لکھا وہ آپ کا آبائی مذہب ہے جو قرآن شریف کی واضح تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے بمنز لہ کفر ہے۔ جو آپ کے دائرہ اسلام سے باہر ہونے کا ثبوت ہے۔ پس مرزا صاحب کی کلام اللہ کے خلاف گوئی ہرگز احمدی دنیا کےلیے سن نہیں ہوسکتی ہے۔
بائبل کی بابت آخری فیصلہ
بائبل مقدس کے متعلق جو روئد اد(کہانی،قصہ) ناظرین کرام کی نظر سے گذری ہے وہ روز ِ روشن کی طرح اس بات کو ظاہر و ثابت کرتی ہے کہ مسیحیت اور اسلام میں صرف بائبل مقدس ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر سچے مسیحیوں اوار مسلموں کا اتحاد و اتفاق ہے۔ ہر دو مذاہب کے مُسلمات و مقبولات میں با ئبل اصلی اورقابل ِاعتبار ہے وہ مسیحیت و اسلام کی سچی بنیاد ہے۔ اس کے ایما ن و عمل کے بغیر نہ کوئی عیسائی عیسائی نہ کو ئی مسلم مسلم ہے۔ جو عیسائی مسلمانوں کو بائبل کا دشمن و منکر سمجھے اور اسلا م و قرآن ِ محمدی کی ہتک و توہین کا مر تکب ہو۔ اُسے عیسائیوں اور مسلمانوں کا بد خواہ تصور کرنا چاہیے۔ اور جو مسلمان کہلاکربائبل و مسیحیت و یسوع مسیح کا مکذب (جھٹلانے والا)ہو اُسےہر گز مسلم یقین نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی مُسلم نہیں جو بائبل کی تکذیب و توہین کا روادار ہے۔ جیسا کہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہو چکا ہے۔ پس ہم مسلم محققین کی عزت و تعظیم کرتے ہوئے۔اس بات کااعلان کر دیتے ہیں کہ با ئبل مقدس کی بابت ان کا اور ہمارا مذہب واحد ہے اور قرآن عربی کی بابت جو ان بزرگوں کا مذہب ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے اس سے ہمارا بھی اتفاق ہے۔ باقی مختلف امور کا بعد کا تصفیہ (صاف کرنا ،واضح کرنا)ہوتا رہے گا۔ ہماری دلی دعا ہے کہ جو مسلم قوم بائبل کی بابت وہ ایمان و یقین رکھتی ہے۔جس کا بیان ہوا ہے خدا سے برکت پر برکت بخشے اور جو مسلم با ئبل کی بابت ہنوز مذکورہ بالا صداقت تک نہیں پہنچے خدا ان کی اس کتاب کے ذریعہ سے ہدایت فرمائے۔
آمین۔
احقرالبعاد۔ پادری۔ غلام مسیح۔ ایڈیٹر نورِافشاں
میکلوڈروڈ۔ لاہور