یسوع کی تمثیلیں
یعنی
روزانہ یادِالہی اور شخصی ذکر و فکر کے لیے سبقوں کا مجموعہ
The Parables of Jesus
مصنفہ
پادری ڈبلیو۔ ایم رائبرن ایم۔اے
پادری جلال اُلدین بی۔اے۔
کھرڑ۔ضلع انبالہ
۱۹۳۸
تمہید
مسیح کی تمثیلیں مسیح کی تعلیم کا حصہ ہیں۔ تمثیلیں یا مثالیں مردوں اور عورتوں کو بہت پسند ہیں۔ اور اُن پر اثر کرتی ہیں۔ یسوع ایک بہت بڑا اُستاد تھا۔اور ایک اعلیٰ اُستاد ہمیشہ کہانیاں پسند کرتا اور کہتا ہے۔ مسیح نے عام لوگون کو خدا کی سچی باتیں سیکھانے اور سمجھانے کے لیے ایسی ایسی باتیں سُنائیں جو زندگی میں ہر روز پیش آتی ہیں۔ اِس طرح مسیح نے تعلیم دی کہ خدا کے نیکی اور پاکیزگی کےاصول ہر روز ایک کی زندگی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
مسیح علمِ الہی کے اصولوں کا استاد نہ تھا، اس نے اپنے تجربے میں خدا کی سچائیاں یعنی نیکی و پاکزگی کے قاعدے دیکھے۔ اور پھر لوگوں کو آسمان اور ان کی سمجھ کے مطابق طریقوں میں ان کی تعلیم دی۔
مسیح کو لوگوں کی عملی زندگی کا زیادہ فکر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مرد اور عورتیں خدا کی طرف دھیان کریں اور مذہب کو زبانی یاد نہ کریں بلکہ ہر روز اپنی اپنی زندگی کے کاموں میں استعمال کریں وہ چاہتا تھا کہ خدا کو لوگ واقعی جان لیں۔ کہ خدا ہر ایک کے ساتھ موجود ہے۔ ہر ایک کی سنتا ہے۔ ہر ایک کو دیکھتا اور ہر ایک کی مدد کرتاہے۔ جب ہم پہ نکتہ سمجھ لیں گے ۔ تو بس تمثیلوں کے بھید کی چابی ہمارے ہاتھ میں آجائے گی۔
یسوع خدا کو کوئی ایسا بادشاہ نہیں مانتا تھا جو انسانوں سے دور اور اس دنیا سے کہیں الگ تھلگ ہو۔ بلکہ اس کا علم و تجربہ یہ ہے کہ خدا ہر ایک مرد عورت اور بچے کا آسمانی باپ ہے۔ جو ہر ایک سے واسطہ رکھتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ سب اعلیٰ قسم کی زندگی بسر کریں۔ سب اس کے پاس جا سکتے ہیں ماں باپ کے پاس جانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا خدا باپ کے پاس جانا۔ یسوع مسیح چاہتا تھا کہ لوگ آسمانی باپ کی عزت کریں ۔ دلوں میں اسے جگہ دیں ۔ اس پر ایمان رکھیں۔ اس کو ہر وقت نزدیک جائیں اور اس کی مرضی پر چلیں۔ یسوع نے انہیں باتوں کی تعلیم اپنی تمثلیوں میں دی ہے۔
بعض اوقات لوگ تمثیلوں کی طرح طرح کی تاویلیں(شرع، بیان،باتوں کو پھیر دینا) کرتے ہیں۔ اور ان سے مسیح دین کے اصول ثابت کرتے ہیں۔ تمثلیوں کو استعارے و اشارے سمجھتے ہیں۔ اور تمثیل کے ہر ایک حصے کی تاویل و اشارے سمجھتے ہیں اور تمثیل کے ہر ایک حصے کی تاویل و تشریح کرتے ہیں ۔ مگر اس طرح ان شچائیوں کی جن کی ان تمثیلوں میں تعلیم دی گئی ہے سمجھ نہیں آسکتی ۔ ان کو سمجھنے کے واسطے بچوں کی طرح خدا کے سامنے حاضر ہونا ضروری ہے۔ یہ سادہ کہانیاں ہیں۔ چاتر(تیز ، چالاک) لوگ ان کے معنی نہیں سمجھ سکتے ۔ ان میں مسیح نے دین کے اصولوں کی تعلیم نہیں دی۔ ان میں مسیح نے سیدھے اور سادہ الفاظ میں خدا کے بارے میں ۔ خدا کی مرضی کے بارے میں اور ایمانداروں کے باہمی سلوک کے بارے میں تعلیم دی ہے۔ ہر ایک تمثیل میں ایک ایک سچائی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہمیں ان تمثیلوں کے مطالعہ میں اسی کی تلاش کرنا چاہیے ۔ کسی تمثیل کی تفصیل اس تعلیم پر جو تمثیل میں دی گئی ہے اثر نہیں ڈالتی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی ایک تمثیل میں مسیح نے کل سچائی کی تعلیم دینے کی کوشش نہیں کی۔ ہر ایک میں جُدا جُدا سبق ہیں۔ انہیں سبقوں سے ہم فائدہ اُٹھا سکتے ۔ اور خدا کی بادشاہت قائم کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام تمثیلیں جدا جدا مقاموں پر جداجدا جماعتوں کے سامنے اور خاص خاص حالات میں کہی گئی تھیں۔ تمثیلوں کو سمجھنے کے لیے ان باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم ان طرح ان تمثیلوں کا مطالعہ کرے گے تو ہم آسانی سے سمجھ سکیں گے کہ یسوع نے یہ تمثیلیں کیوں کہیں۔ نیز ہم زندگی کے ان معاملات کو بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں جن کے متعلق مسیح نے ان تمثیلوں میں دی ہے۔ اور ان سے ہماری زندگی کی راہنمائی ہوگی۔
خُدا کے بارے میں تمثیلیں
(۱)
مصرف بیٹے کی تمثیل
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لُوقا۱۵ باب ۱۱ تا ۳۲
_______________________________________________________________
"پھر اس نے کہا کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے۔ اس نے اپنا مال متاع (سازوسامان، مال ودولت) انہیں بانٹ دیا۔ اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا۔ اور وہاں اپنا مال بد چلنی میں اُڑا دیا۔ اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا۔ اور وہ محتاج ہونے لگا۔ پھر اس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا ۔اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سُور چرانی بھیجا۔ اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سُور کھاتے تھے اُنہی سے اپنا پیٹ بھرے ۔ مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔ پھر اُس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدروروں کو روٹی افراط(زیادتی، کثرت، بہتات) سے ملتی ہے۔ اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہو نگا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر کا میں گنہگار ہوا۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے۔ پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دور ہی تھا کہ ا سے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور بوسے (چوما)لیے۔ بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔اب اس لائق نہیں کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اُسے پہناؤ۔ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی او ر پاؤں میں جوتی پہناؤ۔ اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا اب زندہ ہوا ۔ کھویاہوا تھا اب ملا ہے ۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔ لیکن اسن کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سُنی۔ اور ایک نوکر کر بُلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہاہے؟اُس نے کہا تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے۔ اس لیے کہ اُسے بھلا چنگا پایا۔ وپ غصے ہوا اورا اندر جانانہ چاہا۔ مگر اس کا باپ باہر جا کے اُسے منانے لگا۔ اُس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں او ر کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی۔ مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا۔ تو اُس کے لیے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ۔ اُس سے کہا بیٹا تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اورا جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔ لیکن خوشی منانی اور شادمان ہونا مناسب تھا۔ کیو نکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا ۔اب زندہ ہوا ۔ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے"۔
_______________________________________________________________
"پھر اس نے کہا کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے۔ اس نے اپنا مال متاع (سازوسامان، مال ودولت) انہیں بانٹ دیا۔ اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا۔ اور وہاں اپنا مال بد چلنی میں اُڑا دیا۔ اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا۔ اور وہ محتاج ہونے لگا۔ پھر اس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا ۔اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سُور چرانی بھیجا۔ اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سُور کھاتے تھے اُنہی سے اپنا پیٹ بھرے ۔ مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔ پھر اُس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدروروں کو روٹی افراط(زیادتی، کثرت، بہتات) سے ملتی ہے۔ اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہو نگا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر کا میں گنہگار ہوا۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے۔ پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دور ہی تھا کہ ا سے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور بوسے (چوما)لیے۔ بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔اب اس لائق نہیں کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اُسے پہناؤ۔ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی او ر پاؤں میں جوتی پہناؤ۔ اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا اب زندہ ہوا ۔ کھویاہوا تھا اب ملا ہے ۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔ لیکن اسن کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سُنی۔ اور ایک نوکر کر بُلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہاہے؟اُس نے کہا تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے۔ اس لیے کہ اُسے بھلا چنگا پایا۔ وپ غصے ہوا اورا اندر جانانہ چاہا۔ مگر اس کا باپ باہر جا کے اُسے منانے لگا۔ اُس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں او ر کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی۔ مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا۔ تو اُس کے لیے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ۔ اُس سے کہا بیٹا تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اورا جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔ لیکن خوشی منانی اور شادمان ہونا مناسب تھا۔ کیو نکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا ۔اب زندہ ہوا ۔ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے"۔ اس تمثیل میں مسیح خدا باپ کے بارے میں ایک بڑی سچائی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ سچائی یہ ہےکہ خدا باپ کو ہم سے محبت ہے۔ اور وہ اس محبت کے سبب ان کو جنہوں نے گناہ کئے ہیں اور گناہ کے سبب اپنے تعلقات جو خدا کے ساتھ توڑ لئے ہیں توبہ کی شرط پر پھر قبول کر تا ہے۔ جب ہم اس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ ہم کو بے تکلفی سے اور خوشی سے معاف کر دیتا ہے۔ گنہگار کے لیے جس نے خدا سے اور الہی خاندان سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے گناہ کا اقرار کرے اور خدا کی طرف پھرے ۔ جب گنہگار صاف نیت کے ساتھ ایسا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتاہے کہ خدا باپ واقعی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار تھا۔ اور اس کا انتظار کر رہا تھا۔ خدا ہر ایک گنہگار کی توبہ اور رجوع کا انتظار کرتا ہے۔
مصرف بیٹے کا قصور یہ تھا کہ اس میں ایک لالچی طبعیت قائم ہو رہی تھی۔ خاندان کی طرف سے چھوٹا بیٹا ہونے کے سبب جو فرض اور ذمہ داریاں اس پر آرہی تھیں۔ وہ ان سے بچتا تھا ۔ اس میں وہ روح یا طبیعت جو لالچ سے خالی مگر محبت سے بصری ہوئی ہوتی ہے نہیں تھی۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بچتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خاندان سے تعلق توڑ لیا ۔ علیحدگی کی زندگی بسر کرنے لگا۔ اور مل جل کر زندگی گزارنے کی قابلیت ضائع ہو گئی تھی ۔ تمام بدیوں کا یہی نتیجہ ہوتا ہے اور ہمیشہ ان گناہوں میں ہی ظاہر نہیں ہوتاجو اس نوجوان نے کئے تھے۔
خود غرض طبیعت جو یہ کہتی ہے کہ "لا مال کا میرا حصہ مجھے دے" خُدا کے خاندان کو تباہ کرتی ہے۔ خاندانی یگانگت مسیحی مذہب کی جان ہے۔ خدا سے تعلق توڑنا اور ایمانداروں کی جماعت یا خاندان سے الگ ہو جانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ تمام شخصی گناہوں، جماعتی قصوروں اور قومی بدلوں کی تہ میں یہی خود غرضی کی طبیعت ہے۔ ایسی طبیعت والا آدمی ہمیشہ مصرف بیٹے کی طرح ضد اور بغاوت کی زندگی بسر نہیں کرتا بلکہ جماعت میں رہ کر بھی اپنی طبیعت سے نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔ خاندانی میل ملاپ اور یگانگت کی طبعیت کا نہ ہونا انسان کو مصرف بناتاہے۔
دور ملک میں آخر کار مصرف جوان کو معلوم ہو اکہ یہ اپنے گھر اور خاندانی یگانگت سے علیحدگی کا نتیجہ ہے کہ دل کی شانتی و خوشی اور اطمینان جاتے رہے ہیں۔
اس کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ صرف خاندانی محبت سے ہی کھوئی ہوئی چیز ملے گی۔ اس کو پختہ خیال ہو گیا۔ کہ باپ کے ساتھ پھر میل کرنے کے لیے اگر نوکری اور غلامی بھی کرنی پڑے تو انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور یوں باپ کے گھر کی طرف اس کا راستہ شروع ہوا۔
دوسری طرف ہم بوڑھے باپ کی اُداسی اور غم دیکھتے ہیں جو کئی دنوں سے لگاتار بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہا اور اس کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ جن لوگوں نے جان بوجھ کر خدا کے خاندان سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے خدا ان کے واسطے غم کرتاہے۔
جب باپ نے مصرف جواب کو اپنے گھر میں واپس لیا۔ تو باپ کا دل خوشی سے بھرا ہو تھا اور اُچھل رہا تھا۔اسی طرح جب خدا دیکھتا ہے کہ کوئی گنہگار واپس آرہا ہے اور باپ بیٹے کا رشتہ جو بگڑ گیا تھااب پھر بن رہا ہے تو اس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے ۔ بیٹے کی واپسی کا یہ مطلب ہے کہ بیٹے کو یقین ہو گیا۔ کہ اگر وہ باپ کے گھر میں خاندان کے ساتھ اور خاندان کے لیے زندگی گزارے گا تو حقیقی زندگی بسر کرے گا۔ ایسی حالت کے لیے ہی مسیح نے کہا ہے کہ آسمان پر خدا کے فرشتے خوشی مناتے ہیں۔
واپس آکر مصر ف جواب کی باپ سے تو صلح ہو گئی ۔ بڑے بھائی کے ساتھ نہ ہوئی۔ بڑا بھائی نہ تو باپ سے جدا ہوتا تھا اوت نہ اس نے خاندان سے رشتہ توڑا تھا۔ تو بھی خاندان کے ساتھ اس کی زندگی یگانگت او رصلح کی زندگی نہ تھی۔ اس میں باپ کی طرح معاف کرنے کی صفت نہ تھی ۔اس میں خود غرضی تھی۔ اس میں حسد تھا وہ اپنے حقوق کا بہت خیال کرتا تھا۔ وہ چھوٹے بھائی کی واپسی پر باپ کی محبت حاصل کرنے اور جائیداد پانے پر خوش نہیں تھا۔ ا س میں برداشت کی طاقت نہ تھی خاندان کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار اور پسندیدہ نہ تھے یہ اس ک طبیعت کا نتیجہ تھا۔
غالبا وہ ٍچاہتا تھا کہ چھوڑے بھائی کو سزا دی جائے اس نے نہ دیکھا کہ وہ تو پہلے ہی کافی سزا بھگت چکاہے۔ وہ اپنے آپ کو رازستباز سجمھتا تھا۔ اس کو دل سخت تھا یہی سبب ہے کہ توبہ کرنے اور واپس آنے والے جوان کے باپ اور بڑے بھائی کے سلوک میں زمین آسمان کا فر ق ہے۔ بڑا بھائی خاندان ک اصل محبت سے بالکل خالی تھا۔
اس تمثیل میں بہت سے لوگو ں کے لیے سبق ہے۔ دوسروں کے ساتھ سلوک کرنے میں ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ کہیں اس بڑے بھائی کا سا سلوک نہ کریں۔ ایسی طبیعت خدا کی بادشاہت کے موافق نہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن سے کوئی خطا یا قصور ہے جاتا ہے ہم انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے اعلیٰ سمجھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انصاف کیا جائے ۔ قصور وار کو سزا دی جائے اور ہمیں انعام دیاجائے مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ اگر خدا عدل کرے تو ہم اس لائق نہیں ہیں کہ اس کے حضور ٹھہر سکیں اور نجات پا سکیں۔
بعض اوقات ہم خواہ مخواہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر سلوک ہوتا ہے اور ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ اور ہماری اتنی عزت بھی نہیں ہوتی جو ہمار احق ہے ۔ یقین جانو جب اس قسم کے خیالات ہمارے دل میں آتے ہیں تو ہم گویا اپنے آپ کو بڑابھائی بناتے ہیں ایسے موقع پر ہم میں خاندانی یگانگت کی روح نہیں ہوتی ۔ ہم کلیسیا کے ممبر ہوتے ہوئے بھی اس قسم کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ مقدم بات کلیسیاہ کی شراکت نہیں بلکہ وہ روح اور طبیعت ہے جس سے ہم کام کرتے ہیں۔
ہم میں بالکل وہ طبیعت ہونی چاہیے جو مصرف جوان کے باپ میں تھی جو روزمرہ بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا تھا۔ اور جب ایک دن اُسے واپس آتے دیکھا تو گو وہ خستہ حالت میں تھاتو بھی بھاگ کر اُس کااستقبال کیا اور اسے گلے لگا لیا۔اور پھر سے خاندان میں شامل کر کے سب خوشیوں ،رشتوں اور جائیداد میں حصہ دار بنا لیا۔
مطالعہ کے لیے:
لوقا ۵ باب ۲۹ تا ۳۲ آیت:یسوع مسیح نے کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل یہ ثابت کرنے کو استمعال کی۔ کہ اچھوتون اور رد کیے ہوؤں کے ساتھ اس کا سلوک جائز تھا۔ فقی اورفریسی گلہ شکایت کرتے تھے کہ مسیح ان کے ساتھ اچھے اور اعلیٰ لوگوں کی طرح کیوں سلوک کرتا ہے۔ اسی واسطے مسیح نے یہ تمثیل بیان کی اور دکھایا کہ گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ خدا کا کیا سلوک ہے۔ اس نے کہا کہ وہ بیمار ہیں جنکو حکیم درکار ہے۔ اور اگر حکیم بیمار کے پاس اس کے گھر میں نہ جائے تو وہ بیمار کے کسی کام کا نہیں۔
یسیعاہ ۵۵ باب ۶ تا ۷ آیت:یہاں نبی تعلیم دیتاہے ۔کہ خدا رحیم اور معاف کرنے والا ہے۔ یہودی کہتے تھے کہ خدا غضب اور غصے والا ہے جس کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مگر نبی بتاتا ہے کہ خداکس قدر بلند ہے۔ کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل میں مسیح نے خدا کی نسبت یہی بات ثابت کی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ ہماری بدیوں کی سزا توہم کو مل ہی جاتی ہے۔ تو بھی ہم خدا کے خاندان میں واپس آ جاتے ہیں۔ ۱ کرنتھیوں ۱۳ باب ۴ تا ۸ آیت: جس طرح مصرف بیٹے کی تمثیل میں دکھایا گیا ہے ۔ صر ف وہی خدا ایسا سلوک کر سکتاہے جو سب کو پیار کرنے والا اور سب کو معاف کرنے والا ہو۔ ان آیتوں میں بہت صفائی کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔ کہ خدا ہمارے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتا ہے۔ ساتویں آیت پر غور کرو چو نکہ خدا محبت ہے وہ سب کچھ برداشت کر لیتاہے۔ جس طرح تمثیل میں باپ نے بڑے بیٹے کا طعنہ سہہ لیا۔ وہ سب کی اُ مید رکھتا ہے۔ جس طرح باپ نے بیٹے کی واپسی کی اُمید رکھی ۔ وہ سب کچھ سہہ لیتاہے جس طرح باپ نے خاندان کا ٹوٹنااور سب قسم کی بے عزتی سہہ لی۔
زبور ۱۳، ۱۰ تا ۱۴ آیت:یہاں داؤد نے وہی خیال پیش کیاہے۔ خدا با پ ہے جو آزمائشوں میں بیٹویں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اور رحم کرتا ہے وہ ہمیں سزا دے کر خوش نہیں ہوتا بلکہ معاف کرنے میں اس کی خوشی ہے۔ وہ گنہگار کو اپنے خاندان میں واپس لے لیتا ہے اور اس کی بدیوں کو بالکل بھول جاتاہے۔
مرقس ا باب ۱۴ تا ۱۵ آیت:مسیح نے توبہ پر زور دیا وہ کہتا ہے کہ دل کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جب مصر ف بیٹا ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا ہوگا کہ باپ پیار کرتاہے۔ ورنہ وہ واپس آنے کی جرات اور نوکر رہنے کی درخواست ہرگز نہ کرتا۔خدا کی محبت کا یقین ہمکو توبہ کی طرف لاتاہے۔
یعقوب ۲ باب ۱۲ تا ۱۳ آیت:جس طرح فریسی نے محصول لینے والے پر الزام دیا۔ اسی طرح بڑے بیٹے پر الزام لگایا۔ اس نے یہ خیال نہ کیا کہ وہ حقیقت میں اپنے آپ پر الزام لگا رہا تھا۔ اس نے اپنے رویہ سے ثابت کیا کہ اس کو دل کی تبدیلی کی اتنی ہی ضرورت تھی جتنی مصرف کو ۔ جب ہم دوسروں پر الزام لگائیں تو ہم کو یہ بات یاد رکھنے چاہیے۔
غور اور بحث کے لیے سوالات:
• کیا ہمیں خداکے ساتھ رفاقت کی ضرورت ہے؟ اگر ہامیری رفاقت ہو جائے تو ہماری زندگی میں کیا تبدیلی ہوگی؟
• بڑے بھائی میں کیا قصور یا نقص تھا؟
• مصرف ہونے کا کیا مطلب ہے؟
دُعا: اے مہربان باپ اپنے پاک روح کی خوبیوں اوربرکتوں سے میرا دل بھر دے مجھے اپنی آواز کی پہچان اور سمجھ عطا کر میرے دل کو اپنی پاک محبت اور کشش سے بھر دے ۔ کہ میں تیری طرف پھروں مجھے توبہ کی توفیق بخش۔ کہ میں تیرے خاندان میں آسکوں۔
اے باپ مجھے تعلیم دے کہ میں ان سے پیار کروں جو مجھے حقیر جانتے ہیں ۔ خود غرضی کو میری زندگی سے دور کر تاکہ میں جان سکوں کہ کس طرح دینا لینے سے مبارک ہے اور خدمت کرنا خدمت کرانے سے بہتر ہے۔ تاکہ میں تیرا جو کہ اپنا سورج نیکوں اور بدوں دونوں پر چمکاتا ہے بیٹا ٹھہروں ۔ تیرا جلال ہمیشہ تک ہو مسیح کی خاطر۔ آمین۔
(۲)
کھوئی ہوئی بھیڑ
کھویا ہوا دینار
انجیل شریف بہ مطابق لوقا ۱۵ باب۳ تا ۱۰ آیت
_______________________________________________________________
"اُس نے اُن سے یہ تَمثِیل کہی کہ۔ تُم میں سے کَون سا اَیسا آدمِی ہے جِس کے پاس سو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک کھو جائے تو نِنانوے کو بِیابان میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہُوئی کو جب تک مِل نہ جائے ڈھُونڈتا نہ رہے؟ پھِر جب مِل جاتی ہے تو وہ خُوش ہو کر اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے۔ اور گھرپہنچ کر دوستوں اور پڑوسِیوں کو بُلاتا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ خُوشی کرو کِیُونکہ میری کھوئی ہُوئی بھیڑ مِل گئی۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح نِنانوے راستبازوں کی نِسبت جو تَوبہ کی حاجت نہِیں رکھتے ایک تَوبہ کرنے والے گُنہگار کے باعِث آسمان پر زِیادہ خُوشی ہوگی۔
یا کَون اَیسی عَورت ہے جِس کے پاس دَس درہم ہوں اور ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑو نہ دے اور جب تک مِل نہ جائے کوشِش سے ڈھُونڈتی نہ رہے؟ اور جب مِل جائے تو اپنی دوستوں اور پڑوسنوں کو بُلا کر نہ کہے کہ میرے ساتھ خُوشی کر کِیُونکہ میرا کھویا ہُؤا درہم مِل گیا۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں ایک تَوبہ کرنے والے گُنہگار کے باعِث خُدا کے فرِشتوں کے سامنے خُوشی ہوتی ہے"۔
_______________________________________________________________
ان دونوں تمثیلوں کا بھی وہی مضمون ہے جو پہلی تمثیل کا تھا یعنی خدا کی بڑی محبت ۔ ان دونوں تمثیلوں کی چابی تین لفظ ہیں۔کھویا ہوا، پایا ہوا اور خوشی ۔
بھیڑکھوگئی،دینار گم ہو گیا ۔مسیح تعلیم دے رہا تھا کہ جب ہم میں سے کوئی اس سے الگ اور دور ہو جاتاہے تو خدا اس کو ایک نقصان سمجھتا ہے۔ ہم اس نقصان کو محسوس کریں یا نہ کریں خدا ضرور محسوس کرتاہے ۔ وہ اپنے خاندان کے ایک ایک شخص کے لیے فکر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ کھوئے ہونے کی تلاش کرتاہے۔ وہ جو اس سے الگ ہوجاتے ہیں خدا خود ان کی تلاش کرتا ہے۔ ان دونوں تمثیلوں میں یہی ایک خیال پیش کیا گیا ہے۔ مصرف بیٹے کی تمثیل میں مسیح نے ا س پر بہت زور نہیں دیا۔ ا س میں ہم نے البتہ یہ دیکھا کہ باپ بیٹے کی واپسی کے لیے بے چین تھا۔ یہاں مسیح ہم کو ایک قدم آگے لے جاتا ہے ۔ اور گڈریئے کو بھیڑ کی تلاش میں اور عورت کو دینار ڈھونڈتے ہوئے دکھاتاہے ۔ خدا صرف ہمارے واپس آنے کا انتظار کر ہی نہیں کرتا بلکہ خود گنہگار کی تلاش میں نکلتا ہے۔ مسیح کی تعلیم میں یہ ایک بہت ہی باریک اور بے مثال نکتہ ہے ۔ وہ پہل کرتا ہے مگر مجبور نہیں کرتا۔ وہ کئی طرح سے اپنی محبت ہم پر ظاہر کرتا ہے ۔ مسیح اسی لیے انسان بنا۔ خدا اپنے بندوں کی معرفت اور کتابوں کے وسیلے ہمیں ڈھونڈتا ہے۔وہ دکھوں اور مصیبتوں کے وسیلے بھی جو ہم پر آتے ہیں ہماری تلاش کرتا ہے ۔نیز جو کچھ ہم اس کی بابت سنتے ہیں وہ ابھی اس کی تلاش کا ایک ذریعہ
ہوتاہے دنیا میں جو واقعات گزرتے ہیں۔ان کے وسیلے بھی وہ انسان کی تلاش کرتا ہے۔ اور جب تک و ہ تلاش نہ کرلے دم نہیں لیتا اور نہ ہی بے امید ہوتاہے۔
گنہگار واپس آنے سے انکار کر سکتاہے۔ ان کو اختیار ہے وہ اس کی محبت کو ٹھکرا سکتاہے ۔ گنہگار جتنی چاہے مخالفت کرے کدا جب تک اس کو ڈھونڈ نہ لے تلاش جاری رکھتاہے ۔اور جب وہ ڈھونڈ لیتاہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔ اور آسمان پر بھی خوشی ہوتی ہے ۔ خدا ہر ایک انسان کی قدر کرتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو چاہے حقیر سمجھے اور دورتے اس کی بے قدری کریں مگر خدا قدر کرتا ہے۔ اس کی نظروں میں کوئی بھی حقیر اور بے قدر نہیں ہے۔ خدا کے بارے میں مسیح کی تعلیم بہت ہی ہمت بڑھاتی ہے ہم کیسے ہی کمزور ہوں ۔ حقیر ہوں ۔ گنہگار ہوں۔ پرواہ نہیں ۔ خدا ہمارے لیے سب کچھ سہنے اور کرنے کو تیار ہے۔ گڈرئیے نے ننانوے بھیڑوں کو چھوڑا ایک کی تلاش میں نکلا ۔ اور جب تک وہ مل نہ گئی گھر نہ آیا۔ اسی طرح خدا ایک ایک گنہگار کے لیے آتا ہے ۔ اور جب گنہگار مل جاتاہے اور واپس آجاتا ہے وہ خوشی مناتاہے۔
مطالعہ کے لیے:
حزقی ایل ۳۴باب ۱ تا ۱۶ آیت: نبی کہتاہے کہ خدا ایک گڈریہ ہے جو اپنے گلے کی تلاش کرتاہے ۔ اس میں مسیح والی تعلیم کی جھلک پائی جاتی ہے ۔ خدا اپنی محبت سے کھوئے ہوؤں کی تلاش کرتاہے۔ ان کے زخموں کو باندھتاہے۔ سولھویں آیت میں جس لفظکا ترجمہ "ہلاک کرنا" کیا گیا ہے۔ وہ زخموں کو باندھتاہے ۔ سولھویں آیت میں جس لفظ کا ترجمہ ہلاک کرنا کیا گیا ہے وہ اصل میں "حفاظت کرنا" ہے۔
یوحنا ۴ با ب ۲۳ آیت: یہاں رسول بیان کرتاہے کہ خدا ہم سے اپنی عبادت طلب کرتاہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ ہماری رفاقت ہو خدا کے دل میں دوستی کا اصول ہے یہی سبب ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ انسان عبادت اور رفاقت کے لیے ا سکے پاس آئے۔
یوحنا ۳ باب ۱۵ تا ۱۶ آیت: یہاں پر ذکر ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے مسیح کو دنیا میں کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور بچانے ک لیے بھیجا ۔ مسیح کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے کا خدا کاطریقہ ہے۔
غورو بحث کے لیے سوالات:
• کیا زندگی میں تمہیں کوئی ایسا تجربہ ہوا جس سے معلوم ہو کہ خدا تمہاری تلاش کرتا ہے ۔ وہ کن مختلف طریقوں میں ہماری تلاش کرتا ہے؟
• اگر کوئی انسان کہے کہ اس ک پچھلی زندگی بہت خراب اور خستہ تھی اور اس سے بچنے کی کوئی اُمیدنہیں تو اسے تم کیا جواب دو گے۔
• تمثیلوں میں گڈرئیے نے بھیڑ تلاش کر لی اور عورت نے دینار پا لیا۔ کیا خدا بھی ہمیشہ ہی کھوئے ہوئے کو پا لیتا ہے۔ اگر وہ اس زندگی میں نہ پائے تو کیا اس کے بعد کبھی پالے گا؟
دُعا:اے خدا تو جس نے اس دنیا کی تایک جنگل میں کھوئے ہوئے گنہگار کی تلاش کے لیے یسوع مسیح کو بھیجا تیرا شکر ہے کہ اس نے مجھے ڈھونڈ لیا اور بچالیا اس نے میرے زخموں کو باندھا اور محبت سے مجھے کندھے پر اُٹھا لیا اور باپ کے گھے سلامتی سے لے آیا۔ بخش دے کہ میں اورو ں کو ڈھونڈنے اور تیرے پاس لانے کا وسیلہ بنوں۔ مسیح کی خاطر۔ آمین۔
(۳)
دوست جو آدھی رات کو آیا
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۱باب ۵ تا ۸ آیت
بے انصاف قاضی
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا۱۸ باب ۱تا۸آیت
_______________________________________________________________
"لوقا 5 تا 8 آیت: پھر اُس نے ان سے کہا ۔ تم میں سے کون ہے جس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اس اس کے پاس جاکر اس سے کہے کہ اے دوست مجھے تین روٹیاں دے۔ کیونکہ میرا دوست سفر کر کے میرے پاس آیا ہے۔ اور میرے پاس کچھ نہیں کہ اس کے آگے رکھوں اور وہ انددر سے جواب میں کہے مجھے تکلیف نہ دے ۔ اب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بچھونے پر ہیں۔ میں اٹھ کر رجھے نہیں دے سکتا۔ میں تم سے کہتاہوں۔ اگرچہ وہ اس سبب سے کہ اُس کا دوست ہے اٹھ کر اسے نہ دے تاہم اس کی بےجائی کے سبب آٹھ کر جتنی درکار ہیں اسے دے گا"۔
"لوقا ۱8 باب ۱ تا 8 آیت: پھِر اُس نے اِس غرض سے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمّت نہ ہارنا چاہیئے اُن سے یہ تَمثِیل کہی کہ۔ کِسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ نہ وہ خُدا سے ڈرتا تھا نہ آدمِی کی کُچھ پروا کرتا تھا اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا اِنصاف کر کے مُجھے مُدّعی سے بَچا۔ اُس نے کُچھ عرصہ تک تو نہ چاہا لیکِن آخِر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو مَیں نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمِیوں کی کُچھ پروا کرتا ہُوں۔ تَو بھی اِس لِئے کہ یہ بیوا مُجھے ستاتی ہے مَیں اِس کا اِنصاف کرُوں گا۔ اَیسا نہ ہو کہ یہ بار بار آ کر آخِر کو میرا ناک میں دم کرے۔ خُداوند نے کہا سُنو یہ بے اِنصاف قاضی کیا کہتا ہے پَس کیا خُدا اپنے برگُزِیدوں کا اِنصاف نہ کرے گا جو رات دِن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ اور کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا؟ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ وہ جلد اُن کا اِنصاف کرے گا۔ تو بھی جب اِبنِ آدم آئے گا تو کیا زمِین پر اِیمان پائے گا"؟
_______________________________________________________________
ان تمثیلوں میں مسیح نے یہ تعلیم دی ہےکہ دعا میں صبر اور مانگنے میں لگاتار کوشش کی ضرورت ہے۔لفظی اور رسمی طور پر دعا مانگنا کافی نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعا کا جواب ملے توہماری دعا کے پیچھے کوئی تیز خواہش بھی ہونی چاہیے۔ بے پرواہ دوست رات کے وقت اُٹھنے سے انکار کرتاہے اور بے انصاف قاضی انصاف کے خیال سے نہیں بلکہ بیوہ کی منتوں سے تنگ آکر انصاف کرتاہے۔ مسیح ان دونوں کی مثال سے دکھاتا ہے کہ کس طرح صبر اور لگاتار کوشش سے دونوں مجبور ہو گئے۔
اس سے یہ مطلب نہیں کہ خدا بھی بے پرواہ دوست اور بے انصاف قاضی کی مانند ہے ۔ بلکہ اس میں صرف مقابلہ کر کے دکھایا گیا ہے کہ جب اس قسم کے سخت دل اور بے پرواہ لوگ اچھے کاموں کے لیے صبر اور لگاتار کوشش سے مجبور ہوجاتے ہیں۔ تو خدا جو محبت ہی محبت ہے کس قدر زیادہ مانگنے والوں کی طرف توجہ کرے گااور انکی نیک ضرورتوں کو پورا کر ےگا۔
کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا حالات ہمارے خلاف ہی خلاف ہیں ۔ ہمیں روپیہ پیسہ کی تنگی ہو جاتی ہے۔ بیماری تنگ کرتی ہے ۔ ہم آگے چلنا چاہتے ہیں مگر قدم پیچھے ہی پڑتا ہے۔ چوٹ کے اوپر چوٹ آتی ہے۔ دل بیٹھ جاتاہے ۔ معلوم ہوتاہے کہ کُل جہاں اور قدرت بھی ہمارے خلاف ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں مگر کچھ نہیں بنتا۔ مگر مسیح تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں ایمان میں ایسا کمزور نہیں ہونا چاہیے اورہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ گو خدا جواب نہیں دیتا۔ مگر وہ ہماری سنتا ضرور ہے ۔ وہ جواب تو کوئی نہ کوئی دیتاہے مگر ہم اس کا جواب سمجھتے نہیں۔ یا چونکہ وہ جواب ہماری خواہش کے مطابق نہیں ہم اسے جواب ہی نہیں سمجھتے ہمیں انسانوں کی مخالفت اور ناموافق حالات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ آخر کار خدا ہماری سنے گا۔ غالبا وہ ایسی صورت میں جواب دے گا جس کا ہم کو خیال بھی نہ تھا۔ پھر ہمکومعلوم ہوگا کہ اس نے کیوں دیری کی اور کس طرح ہم کو صبر کا سبق سیکھایا۔
جو کوئی آخر تک قائم رہے گا وہی نجات پائے گا۔ خدا کی بادشاہت میں رہنے والے کی سب سے بڑی صفت یہ ہےکہ تمام حالات میں ایمان کو مضبوط اور قائم رکھے۔ ۷:۱۸ میں جن لفظوں کا ترجمہ کیا گیا ہے " کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا" یہ چاہیے " گو کدا جواب دینے میں دیری بھی کرے"۔
دعا میں صبر کا مطلب ہے لگاتار دعاکرنا۔ پولوس کہتاہے کہ نت دُعاکرو۔ اس سے مراد لگاتار لفظ کہتے جانا نہیں بلکہ اس سے مراد دُعا کی روح میں قائم رہنا ۔ خدا باپ کی سنگت میں رہنا۔ ہر حالت میں اس کی حضوری میں رہنا ۔ تاکہ خواہ جواب ملے خواہ نہ ملے ۔ خدا دانا ہے ۔ اور جواب کے ایسے طریقے اس کے پاس ہیں جن کا ہمکو خواب و خیال بھی نہیں ہوتا ۔ ہمیں اس روح میں دعا کرنا چاہیے کہ میری مر ضی نہیں بلکہ تیری مرضی ہو۔
مطالعہ:
زبور۲۲ ، ۱ تا ۶ آیت: یہاں ایک شخص کا بیان ہے جس نے رات دن لگاتار دعاکی۔ مگر جواب نہ ملا ۔ شاید ہم میں سے کئی ایک کایہ تجربہ ہے۔ بعض دفعہ ہم خیال کرتے ہیں کہ مسیح کی تعلیم ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ اس کاسبب شاید ہوگا۔ کہ ہم نے بے صبری کی اور خدا کو جواب کا موقع ہی نیں دیا۔ یعقوب کہتاہے کہ ہمیں عقل اور سمجھ کے لیے دعا کرنا چاہیے کیونکہ خدا کئی دفعہ ہمارے لیے کچھ کرنے کی بجائے ہماری معرفت کا م کرتا ہے۔ جواب میں دیری کا یہ سبب بھی ہو سکتاہے کہ شاید ہم نے دعا میں یہ نہیں کہا ہوگا کہ" تیری مرضی پوری ہو"۔
لوقا ۵ باب ۱۸ تا ۲۶ آیت: یہ آدمی جو اپنے بیمار دوست کو مسیح کے پاس لائے ان میں صبر تھا۔ انہوں نے کسی روکاوٹ کی پرواہ نہ کی ۔ ان کو ایمان تھا کہ مسیح ان کے بیمار دوست کو صحت دے سکتا ہے ۔ مسیح ان دو تمثیلوں میں اسی صبر والی طبیعت کی تعلیم دیتاہے۔ اس صبر سے ایمان ظاہر ہوتاہے۔
متی ۹ باب ۳۰ تا ۳۳ آیت:یہاں ایک عورت کا بیان ہے جو ایک خواہش رکھتی تھی اور کسی روکاوٹ سے نہ گھبرائی۔ اس کا پختہ ارادہ اس کے ایمان کا ثبوت تھا۔ دعا کا بھی یہی طریقہ ہے ۔ دعا میں ہمارے صبر سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جو کچھ ہم نے مانگا ہے ۔ہم اسے لینے کے لیے تیار ہیں۔ لوقا ۱۸ باب ۳۵ تا ۴۳ آیت: یہاں صبر اورلگاتار محنت کی ایک اور مثال ہے ۔ اس شخص کی مسیح نے تعریف کی۔ بھیڑ اس شخص کو چپ نہ کرا سکی۔ اس کے دل میں ایک خواش تھی اور اس نے یقین کیا کہ اب موقو ہے۔ اسی قسم کی طبیعت اور ایمان خداکو بھی پسندہے۔
متی ۱۵ باب۲۱ تا ۲۸ آیت:یہاں ایک عورت کی مثال ہے ۔ بعض دفعہ ہم خیال کرتے ہیں کہ ایمان اس میں ہے کہ بس ایک ہی بار خدا سےدرخواست کی جائے۔ بعض حالتوں میں یہ درست ہے لیکن جب ہم کوئی خواہش دل میں رکھ کر عرض کرتے ہیں تو پھر ایک بار مانگنا کافی نہیں۔
اس عورت کی طرح لگاتارکوشش کرنے سے ثابت ہوتاہے کہ جو ہم مانگ رہے ہیں ہمیں ضرور اس کی ضرورت ہے۔ خدا چاہتاہے کہ اس کی برکتوں کے لیے ہمارے اندر زبردست خواہش اور چاہت ہو۔
یعقوب ۱ باب ۵ تا ۸ آیت:رسول یہاں اسی بات پر زور دے رہا ہے ۔ اگر بیوہ عورت ایک ہی بار مصنف کے پاس آتی اور پھر نہ آتی تو اس کا کام نہ بنتا۔ اگر ہم صحیح طور پر دعا مانگنا چاہتے ہیں تو ہ کو دل میں ایک خاص خواہش رکھ کر دعا مانگنا چاہیے۔ خواہش سے مراد ہے ایسی چیز یا برکت کی خواہش جس کے بغیر ہم رہ نہیں سکتے۔
افسیوں ۶ باب ۱۸ آیت: یہاں رسول تعلیم دیتاہے کہ لگاتار دعا کرنا ہمارا فرض ہے ۔ ایک جگہ اس نےکہا بھی ہے کہ نت دعا کرو۔ کیا یہ ممکن ہے ؟ ہاں اگر ہم ہمیشہ خدا کی مرضی کو سامنے کھیں تو ایسا ہو سکتاہے۔
غور وبحث کے لیے سوالات:
• کیا ضد سے دعاکرنےسے خدا کی تجویز اور خدا کےارادوںمیں فرق آ جائےگا؟
• کیا تم نے کبھی دعا کی اور دیکھا کہ جواب ایسے طریقہ پر آیا جس کا تم کو خیال بھی نہ تھا؟
• کیا نت(روزانہ) دعا کرنا ممکن ہے؟
دُعا:اے رحیم اور عال باپ مجھ خاکسار کی طرف اپنا کان لگا۔ میں رات بھی کی حفاظت اور میٹھی نیند کےلیےصبح کی روشنی اور ناشتے کےلیے تیرا شکر گذار ہوں۔ تو دھنی ہے اور میں محتاج ہوں۔ تو مانگنے والو ں کو اچھی چیزیں کثرت سے دیتا ہے۔ مگر اے باپ جس طرح کہ مانگنا چاہیے مجھے مانگنا نہیں آتا۔ مجھے سکھا کہ میں صبر اور استقلال سے نت دعا مان سکوں۔ میری زندگی میں میر ی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔ مسیح کی خاطر آمین۔
(۴)
دو دُعائیں
انجیل شریف بہ مطابق لوقا ۱۸ باب ۹ تا ۱۴ آیت
_______________________________________________________________
" پھِر اُس نے بعض لوگوں سے جو اپنے پر بھروسہ رکھتے تھے کہ ہم راستباز ہیں اور باقی آدمِیوں کو ناچِیز جانتے تھے یہ تَمثِیل کہی۔کہ دو شَخص ہَیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فرِیسی۔ دُوسرا محصُول لینے والا۔ فرِیسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یُوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خُدا! مَیں تیرا شُکر ادا کرتا ہُوں کہ باقی آدمِیوں کی طرح ظالِم بے اِنصاف زِناکار یا اِس محصُول لینے والے کی مانِند نہِیں ہُوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دہ یکی دیتا ہُوں۔لیکِن محصُول لینے والے نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہا اَے خُدا! مُجھ گُنہگار پر رحم کر۔مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ شَخص دُوسرے کی نِسبت راستباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کِیُونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا"۔
_______________________________________________________________
" پھِر اُس نے بعض لوگوں سے جو اپنے پر بھروسہ رکھتے تھے کہ ہم راستباز ہیں اور باقی آدمِیوں کو ناچِیز جانتے تھے یہ تَمثِیل کہی۔کہ دو شَخص ہَیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فرِیسی۔ دُوسرا محصُول لینے والا۔ فرِیسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یُوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خُدا! مَیں تیرا شُکر ادا کرتا ہُوں کہ باقی آدمِیوں کی طرح ظالِم بے اِنصاف زِناکار یا اِس محصُول لینے والے کی مانِند نہِیں ہُوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دہ یکی دیتا ہُوں۔لیکِن محصُول لینے والے نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہا اَے خُدا! مُجھ گُنہگار پر رحم کر۔مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ شَخص دُوسرے کی نِسبت راستباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کِیُونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا"۔
اس بیان میں دو دُعاؤں کا مقابلہ ہے۔ ایک شخص اس واسطے دعاکرتاہے کہ اسے دعا مانگنے کی ضرورت تھی۔ مگر دوسرا صرف رسمی طور پر دعا کرتا ہے۔ کیا ہم اس لیےدعا کیا کرتے ہیں کہ لوگ ہمکو بے دین نہ سمجھیں۔ یا ہم خدا کی محبت اور رفاقت کے لیے دعا کرتے ہیں۔فریسی دین کے ہادی تھے ۔ لوگ ان کو اپنا نمونہ سمجھتے تھے۔ وہ شرع پر چلتے تھے۔ اور زندگی پاک رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
محصول لینے والوںسے لوگ نفرت کرتے تھے۔ ان کے دلوںمیں ملک کی محبت نہیں تھی۔ وہ لوگوں کو تنگ کر کے ان سے روپیہ بٹورتے تھے۔ یہاں دو آدمیوں کا مقابلہ ہے۔ ایک وہ جو دیندار ہے اور پاک سمجھا جاتاہے۔ دوسرا ایک حقیر آدمی ہے جو گنہگار اور ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ مسیح دونوں کا مقابلہ کر کے فر ق دکھانا چاہتاہے۔ اس مقابلہ اور فرق کی طرف غور کرنا چاہے ۔
فریسی مغرور تھا اس کو اپنے اوپر بھر وسہ تھا ۔ وہ اپنی نیکیوں کو نام بنا م گن سکتا تھا۔ اس کو اپنی مذہبی زندگی پر بہت فخر تھا۔ مگر وہ اپنے گناہوں کو بھولا ہوا تھا۔
بےچارہ محصول لینے والا اپنے بارے میں ایسی کوئی بات بھی نہین جانتا تھا نہ کہہ سکتا تھا۔ اس کو کسی بات کا فخر نہ تھا۔ وہ اپنی دینداری نہیں جتا سکتا تھا ۔ نہ ہی اپنے مقابلے میں کسی دوسرے کو قصور وار اور حقیر کہہ سکتا تھا ۔ اس کو اپنے گناہ صاف صاف نظر آرہے تھے۔ وہ گنہگار تھا اور
جانتا تھا کہ میں گنہگار ہوں ۔ فریسی بھی گنہگار تھا ۔مگر وہ اپنی گنہگاری سے واقف نہ تھا۔ محصول لینے والے نےاپنی سب سے بڑی ضرورت محسوس کی۔ وہ ضرورت خداکے سامنے پیش کی اور پوری بھی کرلی۔مگر فریسی نے کسی چیز کی ضرورت نہ سمجھی نہ ہی خدا سے کچھ حاصل کیا۔
ہم بھی جب اپنےاپ کو بےقصور سمجھتے ہیں تو فریسی کی طرح کہتے اور کرتے ہیں ۔ اس نے ظاہر داری پر زیادہ زور دیا تھا، وہ روزہ رکھتا تھا، خیرات دیتاتھا ،کھلی جگہوںمیں دعاکرتا تھا، مگر زندگی کی اندرونی باتوں کی طرف اس نےکبھی خیال نہیں کیا تھا، اس نھے اپنی زندگی میں خود غرضی ، بے صبری، خود بینی اور بڑا بننے کے گناہوں کی طرف دھیان نہ کیا،یعنی اس نے حقیقت کی طرف کبھی نگاہ نہ کی، مگر دوسرے میں اتنی جُرات تھی کہ اس نے اپنے دل کی حالت دیکھی ۔ اور اپنی روحانی کمزوری محسوس کی۔
کیا ہماری بھی کبھی یہی حالت نہیں ہوتی ۔کسی وقت ہم صرف گرجے میں حاضر ہونا، چندہ دینا یا لمبی دعا کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ مگر غرور اور خود غرضی کے گناہوں کو اپنی زندگی میں دیکھتے ہی نہیں۔ اگر ہم دلیر ی اور جرات سے اپنے دلوں کا امتحان نہیں کرتے تو ہماری حالت فریسی کی سی ہے۔ دوسری غلطی فریسی نے یہ کی۔ کہ اپنےآپ کا محصول لینےوالے کے ساتھ مقابلہ کیا۔
اس نے کہا شکر ہے کہ میں محصول لینےوالےکی مانند نہیں ہوں۔ اگرہم دوسروں سے اس طرح اپنا مقابلہ کریں تو ہماری حقیقت ہم پر کبھی نہیں کھلتی۔ ایک ہی زندگی ہے جس کے ساتھ ہمیں اپنی زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔یعنی یسوع مسیح کی زندگی ۔ جب ہم مسیح کی تعلیم اور اس کی زندگی کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو ہماری حقیقت ہم پر کھلتی ہے۔ پھر ہمارے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اے خدا مجھ گنہگار پر رحم کر۔ فریسی میں سب سے بڑی بات یہ تھی ۔ کہ وہ محصول لینے والے کو حقیر سمجھتا تھا۔ مسیح کے لوگوںمیں دوسروں کو حقیر سمجھنے کی عادت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ یہ عادت ان میں پائی جاتی ہے۔ جنہوں نے اپنا امتحان نہیں کیا اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ وہ خدا کی نظروں میں کیا ہیں۔ دوسرو ں کے عیب دیکھنا بہت آسان ہے۔مگر چاہیے یہ کہ ہم اپنی زندگی کے نقص اور داغ دیکھیں۔
بُرا ڈھونڈن میں چلی بُرا نہ ملیا کو
جا ں ڈٹھا من اپنا مجھ سے بُرا نہ کو
اپنے عیب دیکھنادوسروں کے عیب دیکھنےسے بہت زیادہ مفید ہے۔ جب ہم خدا کے سامنے آتے ہیں تو یا تو فریسی کی یا محصول لینے والے کی طبیعت سے آتے ہیں۔ مگر اس کا فضل اور روح ہماری زندگی میں تب ہی کام کرتا ہے جب ہم محصول لینےوالے کی طبیعت میں ہو کر اس کے حضور میں جاتے ہیں۔
نہ تھی اپنی گناہوں کی جبکہ خبر
رہے دیکھتے اوروں کی عیب وہنر
پڑی اپنے گناہوں پر جبکہ نظر
تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
مطالعہ کےلیے:
متی۶ باب ۵ تا ۸ آیت: یہاںمسیح آدمیوں کو رسمی دینداری کے خلاف تعلیم دیتا ہے ۔ دعا دل کی حالت ہے نہ کہ لفظ ہی لفظ۔ دعا ہمارے اور خدا کے درمیان ہوتی ہے۔ دعا دکھاوے اور ظاہر داری کی چیز نہیں۔ فریسی کی سی دعا میں رفاقت نہیں ۔ یہ تو صرف اپنی تعریف ہے۔ جس سے دل کو جھوٹی تسلی ہو تی ہے ۔ کیا دعامیں ہم جو کچھ کہتے ہیں ہمیشہ ہمارا وہ مطلب بھی ہوتا یا نہیں۔
متی ۶ باب ۱ تا ۵ آیت: خیرات دینا اور دعا ئیں مانگنا ضروری ہے۔ اچھا ہے ۔ مگر کافی نہیں۔ ہماری دعامیں روح اور راستی ہونی چاہیے۔ ہماری دعا رسمی اور بے رسمی اور بے معنی نہیں ہونی چاہیے۔
رومیوں۱۲ باب ۳ تا ۵ آیت: دعا میں غرور کی گنجائش نہیں ۔ محصول لینے والے نے حلیمی سے دعا کی حقیقی دعا کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد اور مطلب کو پہچانیں۔ فریسی اس بات کی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اور محصول لینے والا ایک ہی کلیسا کے ممبر ہوتے ۔ وہ اسے اپنا بھائی کہنے کو تیار نہ تھا۔ جب دل میں فروتنی اور محبت نہ ہو دعانہیں ہو سکتی۔
عذرا ۹ باب۵ تا ۱۵ آیت:یہ وہ دعا ہے جو دل سے نکلی تھی۔
جو دل سے بات نکلے گی تو دل میں جاکے ٹھہرے گی
دعا وہ ہے جو ع پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اس دعا میں دعا مانگنے والے کی فرو تنی اور خاکساری صاف نظر آتی ہے۔اس میں دعا ویسے ہی ختم ہوتی ہے جس طرح محصول لینے والے کی دعا ختم ہوئی۔لوقا ۱۴ باب ۷ تا ۱۱ آیت: مسیح نے سننے والوں کو غرور اور بیجا فخر کے خلاف تعلیم دی۔ اور خبردار کیا۔ بار بار اس نے فروتنی کی تعلیم دی اور کہا کہ ہمیں چھوٹے بچوں کی مانند ہونا چاہیے۔ اس کو معلوم تھا۔ کہ غرور انسان کو خدا کی رفاقت سے روکتا ہے۔ غرور اور محبت ایک ہی دل میں نہیں رہ سکتے۔
بحث اور غور کے لیے سوالات:
• کیا فریسی کا دل صاف تھا؟
• خدا نے کیوں اس کی مدد نہ کی۔ خدا کی مدد حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
• کیا تمہیں کوئی ایسے نقص یاد ہیں جو تم نے دوسروں میں دیکھے ہوں ۔ اور تم میں بھی پائے جاتے ہوں۔
دعا:اے خدا تو جو میری حقیقت کو جانتا ہے مجھے تو فیق عطاکر کہ تیرے چہرے کے نور میں اپنی زندگی کو دیکھ سکوں۔ مجھے میرے گناہوں کی رویا دکھا۔ مجھے حلیم اور فروتن بنا کہ میں۔ کہ میں عیب جوئی نہ کروں ۔ ا ے باپ مجھ گنہگار پر رحم فرما ۔ مسیح کی خاطر آمین۔
(۵)
عُذر
انجیل شریف بہ مطابق لوقا ۱۴ باب ۱۵ تا۲۴ آیت
_______________________________________________________________
"جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے تھے اُن میں سے ایک نے یہ باتیں سُن کر اُس سے کہا مُبارک ہے وہ جو خُدا کی بادشاہی میں کھانا کھائے۔اُس نے اُس سے کہا ایک شَخص نے بڑی ضِیافت کی اور بہُت سے لوگوں کو بُلایا۔اور کھانے کے وقت اپنے نَوکر کو بھیجا کہ بُلائے ہُوؤں سے کہے کہ آؤ۔ اَب کھانا تیّار ہے۔اِس پر سب نے مِل کر عُزر کرنا شُرُوع کِیا۔ پہلے نے اُس سے کہا مَیں نے کھیت خریدا ہے مُجھے ضرُور ہے کہ جا کر اُسے دیکھُوں۔ مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ مُجھے معذُور رکھ۔دُوسرے نے کہا مَیں نے پانچ جوڑی بَیل خریدے ہیں اور اُنہِیں آزمانے جاتا ہُوں۔ مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں مُجھے معذُور رکھ۔ایک اور نے کہا مَیں نے بیاہ کِیا ہے۔ اِس سبب سے نہِیں آ سکتا۔پَس اُس نَوکر نے آ کر اپنے مالِک کو اِن باتوں کی خَبر دی۔ اِس پر گھر کے مالِک نے غصّے ہوکر اپنے نَوکر سے کہا جلد شہر کے بازاروں اور کُوچوں میں جا کر غرِیبوں لُنجوں اندھوں اور لنگڑوں کو یہاں لے آ۔نَوکر نے کہا اَے خُداوند! جَیسا تُو نے فرمایا وَیسا ہی ہُؤا اور اَب بھی جگہ ہے۔مالِک نے اُس نَوکر سے کہا کہ سڑکوں اور کھیت کی باڑوں کی طرف جا اور لوگوں کو مجبُور کر کے لا تاکہ میرا گھر بھر جائے۔کِیُونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو بُلائے گئے تھے اُن میں سے کوئی میرا کھانا چکھنے نہ پائے گا"۔
_______________________________________________________________
جن لوگوں کو دعوت دی گئی وہ پہلے تو آنے کے واسطے تیار تھے۔ اس وقت کوئی امر انہیں دعوت سے روکنے والا نہ تھا۔ بعد میں انہیں کام یاد آئے جو اُسی وقت کرنے والے تھے۔ جب دعوت ہو رہی تھی۔ اب انہوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ دعوت میں جائیں یا اپنا کام کریں۔ سب نے اپنا اپنا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی جسمانی ضروریات ان کے نزدیک ان کی روحانی ضروریات سے بڑھ کر ضروری تھیں۔ انہوں نے دنیاوی معاملوں کو خدا کی رفاقت پر ترجیح دی یعنی ان کو زیادہ ضروری سمجھا۔مسیح اس تمثیل میں سیکھاتا ہے کہ ہمیں ضروری باتوں کو اول جگہ دینی چاہیے۔ اگر ہم مسیح کےا صلی شاگرد بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ضروری باتوں کو اول جگہ دینی چاہیے۔ اگر ہم مسیح کے اصلی شاگرد بننا چاہتے ہیں تو ہمیں تمام باتوں کو صحیح طور پر رکھنا چاہیے۔ ان لوگوں کا قصور یہ تھا ۔ کہ انہوں نے یہ سمجھا اور فیصلہ کیا کہ جو کام انہیں در پیش تھے وہ دعوت سے زیادہ ضروری تھے۔ بےشک جو کام وہ کر رہے تھےوہ بُرے نہ تھے۔ ان کا کرنا بھی ضروری تھا مگر وہ دعوت کے برابر ضروری نہ تھے۔
کیا ہم سب میں یہ عیب نہیں؟ ہم جسمانی باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ خریدو فروخت میں ، کمانے، جمع کرنے، خوشیاں منانے، موج کرنے، اپنی تجویزوں اور دلچسپیوں میں دل اور دھیان لگاتے ہیں۔ چونکہ ہمارا دھیان ایسی باتوں میں رہتا ہے خدائی باتوں کا موقع نہیں ملتا ۔جب خدا ہمیں کوئی کام دیتا ہے ہم کہتے ہیں فرصت نہیں۔ ہم اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ دعا مانگنے ۔ کلام پڑھنے اور عبادت کرنے کا مو قع ہی نہیں ملتا۔ ہم اس تمثیل کے لوگوں کی طرح عذر بہانے کرتے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہم غلط انداز ے لگاتے ہیں۔ ضروری اور غیر ضروری میں فرق نہیں دیکھ سکتے ۔ ہم دنیا کی چیزوں کو خدا کی چیزوں سے افضل سمجھتے ہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ جو کام ہم کرتے ہیں۔ وہ ضروری نہیں ہوتے بلکہ یہ کہ ہم معاملات کی ترتیب میں غلطی کرے ہیں۔ اول معاملات کو اول جگہ نہیں دیتے ۔ نتیجے یہ ہوتاہے کہ اصلی باتیں پڑی رہ جاتی ہیں۔
جو لوگ دعوت میں بلائے گئے تھے اور وہ جو بعد میں دعوت میں آئے تھے ان میں بہت فرق تھا۔ پہلے مہمانوں نے آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ان کی بھوک نہ تھی۔ ان کو گھر میں آرام تھا۔ دعوت میں ان کے واسطے کوئی کشش یا مزہ نہ تھا۔ مگر وہ جو بعد میں آئے بھوکے تھے۔ انہوں نے کھانے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کے لیے کوئی عذر نہ تھا۔ ان کے لیے موقع اچھا تھا۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان ہوا تھا۔
یہی حال ہمارا ہوتا ہے۔ ہم اس لیے خدا کے پاس نہیں آتے کہ ہم اس کی ضرور ت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ ہم روحانی بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیسی نعمت سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور چونکہ ہم اپنی اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان ہوا تھا۔ یہی حال ہمارا ہوتا ہے ۔ ہم اس واسطے خدا کے پاس نہیں آتے کہ ہم اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ ہم روحانی بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرتے۔ اوار نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیسی نعمت سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور چونہ ہم اپنی اصلی ضرورتوں کو نہیں سمجھتے اور جانتے ہم خدا کی رفاقت اور اس کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ دنیاوی کام، دلچسپیاں اور تعلقات ہمیں مصروف رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسیح کے لیے ہماری زندگی میں گنجائش ہی نہیں رہتی۔ صرف عُذر اور بہانے رہ جاتے ہیں۔
مطالعہ کےلیے:
لوقا ۸ باب ۱۴ آیت: یہاں مسیح نے وہ لوگ دکھائے ہیں جو دنیا کے کاروبار میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں خدا کی بادشاہت کے کاموں کی فرصت ہی نہیں ملتی۔یہ انہیں لوگوں کی حالت نہیں جو روپیہ پیسہ کماتے ہیں یا دنیاوی کاروبار چلاتے ہیں بلکہ وہ جو کسی کام کو بادشاہت کے کام سے بڑا سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے کام کو بادشاہت کے کام سے بڑا بناتے ہیں تو ہم اس کی ترقی کو روکتے ہیں اور دل میں کانٹے اگنے دیتے ہیں جس طرح مالی کو باغ میں ملائی (گوڈی) کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ہم کو بھی دل کے کھیت سے گھاس پھوس اور جھاڑیاں نکالنا ضروری ہے۔
متی ۲۲ باب ۲ تا ۱۲ آیت: ان شخصوں میں بھی وہی نقص ہے کہ وہ غلط اندازہ لگاتے ہیں اور خدا کی باتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے بالکل خیال نہ کیا کہ وہ کیسے بڑے حق اور موقع کو کھو رہے ہیں۔ وہ خدا کی بادشاہت میں بلائے گئے۔ لیکن انہوں نے عزت کی قدر نہ کی۔
یعقوب ۴ باب ۴ تا ۸ آیت: ہم جسمانی چیزوں کو خدائی چیزوں کے مقابلہ میں نہیں رکھ سکتے ۔ایک کو ضرور دوسری پر ترجیح دینی پڑے گی ۔مہانوں نے بلانے والے سے دوستی توڑنی نہ چاہی لیکن اس کی دوستی کا حق بھی ادا کرنا نہ چاہا ۔یہی تماشا ہم خدا سے کرتے ہیں۔ مگر ہم خدا کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ کیا ہم دو مالکوں کی خدمت کی کوشش تو نہیں کر رہے؟
متی ۱۳ باب ۲۲ آیت۔ وہ لوگ جو دعوت میں نہ آئے بالکل ان لوگوں کی مانند تھے جو اس وقت مسیح کے خیال میں تھے۔ جب اس نے جھاڑیوں والی زمین کا ذکر کیا۔ دنیا کی باتوں اور فکروں نے انہیں اس قدر دبا رکھا تھا کہ آسمانی باتوں کے لیے ان کے دل میں جگہ ہی نہ تھی۔ حالانکہ جو کام وہ کر رہے تھے مالک کی نظروں میں نکمے تھے۔
متی ۵ باب ۲۹ تا ۳۰ آیت: بلائے ہوئے لوگوں نے نکمی باتوں کو نہ چھوڑا یہی سبب تھا کہ دعوت کا موقع جاتا رہا۔ خدا کی بادشاہت کے بارے میں بھی یہی حال ہے۔ مسیح نے کہا کہ اگر کوئی چیز جو ہاتھ پاؤں یا آنکھوں کی طرح عزیز اور قیمتی ہو ہمیں بادشاہت سے روکے تو ضرور اس کو الگ کر دینا چاہیے۔
غور و بحث کے لیے سوالات:
• زندگی میں سب سے زیادہ ضروری کونسی ہے؟ کیا وہ باتجس کو تم ضروری سمجھتے ہو؟جُرات کرو اور حقیقت کی پیروی کرو۔
• تم کن باتوں کے عذر پر خدا کی بادشاہت کی خدمت کا انکار کرتےہو؟
• ہم روزانہ خوراک کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ہم روحانی خوراک کی بھوک کس طرح پیدا کریں؟
دعا:اے خدا تو جو مجھے پیار کرتا ہے اور میری جسمانی اور روحانی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ میں تیرا شکر کرتاہوں تیری محبت کے لیے اور اے مہربان باپ میں اقرار کرتاہوں کہ مجھ میں کمزوری ہے۔ میں دیکھی ہوئی چیزوں کو اندیکھی چیزوں پر ترجیح دیتاہوں ۔ فنا ہونے والی چیزیں لے لیتاہوں مگر ہمیشہ رہنے والی چیزوں کے لیے کوشش نہیں کرتا بلکہ عذر کرتا ہوں ۔ مجھے روحانی بھوک اور ہمت عطا کرتا کہ تیرے دستر خوان پر آسکوں اور سیری حاصل کروں۔ مسیح کی خاطر آمین۔
(۶)
دو گھر
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۷ باب۲۴ تا۲۷ آیت
_______________________________________________________________
" پَس جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے وہ اُس عقلمند آدمِی کی مانِند ٹھہریگا جِس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلِیں اور اُس گھر پر ٹکرّیں لگِیں لیکِن وہ نہ گِرا کِیُونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔اور جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل نہِیں کرتا وہ اُس بیوقُوف آدمِی کی مانِند ٹھہریگا جِس نے اپنا گھر ریت پر بنایا۔اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلِیں اور اُس گھر کو صدمہ پُہنچایا اور وہ گِر گیا اور بالکُل برباد ہوگیا"۔
_______________________________________________________________
کہنا آسان ہے کرنا مشکل ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم باتیں بہت کرتے ہیں مگر عمل کم کرتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہے کہ ہم باتیں کرنے کے شوقین ہیں۔ مگر کام سے بچتے ہیں۔ اس بیان میں مسیح یہ تعلیم دیتاہے کہ سچی تعلیم کو غور سے سنے اور یہ کہنےسے کہ ہم اس کو مانتے ہیں کچھ فائدہ نہیں نہ ہی یہ کافی ہے بلکہ اس پر عمل کرنا اصلی بات ہے۔ تعلیم یا اچھی باتیں سننے اور واہ واہ کہنے سے اخلاق نہیں بنتا یعنی آدمی اس طریق سے اچھا نہیں بنتا۔ بلکہ اچھی تعلیم اور نصیحت پر عمل کرنے سے۔ جو کچھ ہم مانتے ہیں کہ اچھا ہے ۔اگر ہم اس پر عمل کریں توہم مضبوط ہونگے اور زندگی کی مشکلوں اور مصبیتوں پر فتح پائیں گے۔ اگر ہم کو سننے ۔ واہ واہ کہنے اور مصیبت کا وقت آئے گا ہم کھڑے نہیں رہ سکیں گے بلکہ ہار جائیں گے۔
مسیح نے عمل کرنے پر ہمیشہ زور دیا۔ ہم اکثر بحث کرتے ہیں۔ کہ درست تعلیم کونسی ہے او ر اصولوں پر جھگڑتےہیں۔ لیکن ان اصولوں اور تعلیم پر عمل کرنے پر کم زور دیتے ہیں بے شک اصولوں کی ضرورت ہے۔ مگر ساتھ ہی عمل کی بھی اشد ضرورت ہے۔ہم تعلیم اور اصولوں پر فخر کرتے ہیں۔ یہ اصلی اور مضبوط مسیحی زندگی نہیں ہے۔
ہم بچوں کو بہت کچھ تعلیم اور اچھی اچھی باتیں زبانی یاد کرا دیتے ہیں مگر ان پر عمل کرنے کا موقع نہیں نہیں دیتے۔ اسی طرح ہم گویا انہیں اپنا اپنا گھر ریت پر بنانے دیتے ہیں۔ بچوں کو یہ تعلیم دینا کہ خود غرضی اچھی بات نہیں بہت اچھا ہے۔ مگر جب تک انہیں تجربے سے سیکھنے کا موقع نہ دیا جائے یہ تعلیم ان کے لیے بے فائدہ اور بے اثر رہتی ہے کرنے سے بچے زیادہ سیکھتے ہیں۔ بڑی عمر والوں کا بھی یہی حال ہے۔ مسیح کی تعلیم کے سیکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ انسان اس پر عمل کرے ۔ عمل کرنے سے وہ تعلیم ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی۔
تعلیم پر عمل کرنے سے یعنی اچھے اچھے کام کرنے سے ہم دوسروں کی مدد اور خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ وہ آدمی جس کے گھر کی نیو چٹان پر تھی طوفان کے وقت دوسروں کی مدد کر سکتاتھا۔ لیکن وہ آدمی جس کے گھر کی نیو ریت پر تھی آپ مدد کا محتاج تھا۔ جب ہماری زندگی کی بنیاد نیک تعلیم ماننے اور اس پر عمل کرنے پر ہوتی ہے تب ہم ان کی مدد کرنے کے لائق ہوتے ہیں۔ جن کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور خدا کی بادشاہت کی بھی خدمت کر سکتے ہیں۔ جب تک مسیح کے لوگ مسیح کی تعلیم پر عمل نہیں کرے گے اس کی بادشاہت اس دنیا میں نہیں آئے گی ۔جس قدر روزانہ زندگی میں مسیح کی تعلیم پر اب عمل کر رہے ہیں اس سے بہت زیادہ ۔کئی گنا زیادہ ہر روز عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
مطالعہ کے لیے:
یوحنا ۱۵ باب ۱ یا ۶ آیت: مسیح بتاتا ہے کہ پھل لانے کا کیا بھید ہے ۔ اگر ہم اس میں قائم نہ رہیں تو ہم اپنا گھر چٹان پر نہیں بنا سکتے ۔ بلکہ ہمارا سارا کام ریت پر ہوگا۔ ہم جس قدر مسیح کے ساتھ بلکہ قریب رہے گے اسی قدر زیادہ بہتر طور پر خدا کی مرضی پوری کر سکیں گے۔ وہ زور کا سر چشمہ ہے۔ اور اس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
متی۱۲ باب ۴۶ تا ۵۰ آیت : مسیح کا سب سے بڑا شوق یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کی مرضی پوری کرے ۔ ہمیں بھی اُس نے یہی تعلیم دی ہے مسیح کی مرضی کو جاننے سے نہیں بلکہ اس کی مرضی پر عمل کرنے سے ہم خدا کے بیٹے بنتے ہیں۔ خدا کی مرضی وہ چٹان ہے جس پر ہم کو زندگی کی نیو رکھنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو خدا ہمیں پیدار کرتا ہے اور مسیح ہم کو عزیز رکھتاہے۔
یعقوب ۲ باب ۱۴ تا ۱۸ آیت : ہم اپنا ایمان عملوں سے ہی دکھا سکتے ہیں ۔ ہمارا ایمان ہمارے کاموں سے آزمایا جاتا ہے۔ اگر ہم جو کچھ مانتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ یعنی اگر ہم چٹان پر نیو نہیں رکھتے۔ اور جن کو ہماری مدد کی ضرورت ہے انکی مدد نہیں کرتے ۔ دُکھیا لوگوں کی خدمت نہیں کرتے تو ہم زبان سے خواہ کتنا ہی اقرار کریں۔ ہمارا ایمان مردہ ہے اور ہم ریت پر گھر بناتے ہیں۔کہتے رہنا اور کرنا کچھ بھی نہ بے فائدہ ہے۔لیکن ہم زیادہ تر ایسا ہی کرتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمل بھی کرنا چاہیے ورنہ زندگی چٹان پر نہیں بنےگی۔
غور اور بحث کےلیے سوالات:
• کیا تم کو مسیح کی کوئی ایسی تعلیم یاد ہے جو تم نے سنی اور سیکھی ہو مگر اس پر عمل نہ کیا ہو۔ کیا سبب ہے کیوں اس کی تعلیم پر عمل نہ کیا جائے۔
• زیادہ ضروری کیا ہے ایمان یا عمل
• اس تمثیل کو سمجھنے سے بچوں کو تعلیم دینےمیں کیا فرق آئے گا۔
دعا:اے آسمانی باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں ۔ کہ تیرے پیارے بیٹے خداوند یسوع مسیح نے ایسی اعلیٰ تعلیم دی ۔ میں وہ تعلیم بہت سی جانتاہوں مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ میں اقرار کرتاہوں ۔مجھے عمل کی توفیق دے ۔ تاکہ تیری مرضی پوری کروں اور ایمان کی بنیاد چٹان پر رکھوں مسیح کی خاطر آمین۔
(۷)
انگوری باغ کے مزدُور
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۲۰ باب ۱ تا ۱۶ آیت
_______________________________________________________________
" کِیُونکہ آسمان کی بادشاہی اُس گھر کے مالِک کی مانِند ہے جو سویرے نِکلا تاکہ اپنے تاکِستان میں مزدُور لگائے۔اور اُس نے مزدُوروں سے ایک دِینار روز ٹھہرا کر اُنہِیں اپنے تاکِستان میں بھیج دِیا۔پھِر پہر دِن چڑھے کے قرِیب نِکل کر اُس نے اَوروں کو بازار میں بیکار کھڑے دیکھا۔اور اُن سے کہا تُم بھی تاکِستان میں چلے جاؤ۔ جو واجب ہے تُم کو دُوں گا۔ پَس وہ چلے گئے۔پھِر اُس نے دوپہر اور تِیسرے پہر کے قرِیب نِکل کر ویسا ہی کِیا۔اور کوئی ایک گھنٹہ دِن رہے پھِر نِکل کر اَوروں کو کھڑے پایا اور اُن سے کہا تُم کِیُوں یہاں تمام دِن بیکار کھڑے رہے؟اُنہوں نے اُس سے کہا اِس لِئے کہ کِسی نے ہم کو مزدُوری پر نہِیں لگایا۔ اُس نے اُن سے کہا تُم بھی تاکِستان میں چلے جاؤ۔ جب شام ہُوئی تو تاکِستان کے مالِک نے اپنے کارِندہ سے کہا کہ مزدُوروں کو بُلا اور پِچھلوں سے لے کر پہلوں تک اُن کی مزدُوری دے دے۔ جب وہ آئے جو گھنٹہ بھر دِن رہے لگائے گئے تھے تو اُن کو ایک ایک دِینار مِلا جب پہلے مزدُور آئے تو اُنہوں نے یہ سَمَجھا کہ ہم کو زیادہ مِلے گا تو اُن کو بھی ایک ہی ایک دِینار مِلا۔جب مِلا تو گھر کے مالِک سے یہ کہہ کر شِکایت کرنے لگے کہ اِن پِچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کام کِیا ہے اور تُونے اِن کو ہمارے برابر کردِیا جِنہوں نے دِن بھر کا بوجھ اُٹھایا اور سخت دھُوپ سہی۔اُس نے جواب دے کر اُن میں سے ایک سے کہا مِیاں میں تیرے ساتھ بے اِنصافی نہِیں کرتا۔ کیا تیرا مُجھ سے ایک دِینار نہِیں ٹھہرا تھا؟جو تیرا ہے اُٹھا لے اور چلا جا۔ میری مرضی یہ ہے کہ جِتنا تُجھے دیتا ہُوں اِس پِچھلے کو بھی اُتنا ہی دُوں۔کیا مُجھے روا نہِیں کہ اپنے مال سے جو چاہُوں سو کرُوں؟ یا تُو اِس لِئے کہ مَیں نیک ہُوں بُری نظر سے دیکھتا ہے؟اِسی طرح آخِر اوّل ہوجائیں گے اور اوّل آخِر"۔
_______________________________________________________________
پطرس نے مسیح سے ایک سوال کیا(متی ۱۹ باب ۲۷ آیت) جس کے جواب میں مسیح نے یہ تمثیل کہی ۔تمثیل کا صحیح مطلب سمجھنے کےلیے یہ سوال ضرور یاد رکھنا چاہیے ۔ پطرس نے کہا کہ چونکہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے مسیح کی پیروی کے لیے بہت کچھ چھوڑا تھا۔ انہیں بہت بڑا اجر ملنا چاہیے ۔ سبب اس کا یہ تھا کہ پطرس اور اس کے ساتھیوں نے سمجھا تھا کہ مسیح اس ملک کا بادشاہ بنے گا اور شاگردوں کو اپنی بادشاہت میں عہدے اور درجے دے گا۔ مسیح نے ان کے غلط خیال کو دور کرنے کےلیے یہ تمثیل سنائی۔
اس تمثیل میں ہم ان مزدوروں کے خیال پر جنہوںنے دن بھر کام کیا اور ان کے خیال پر جنہوں نے آدھا دن یا پہر دن کام کیا غور کریں گے ۔ اسی میں کہانی کا کل لبِ لباب ہے۔ جو مزدور صبح کے وقت گئے انہوں نے مزدوری کے پیسوں کا پہلے ہی فیصلہ کر لیا ۔ وہ صرف پیسوں کی غرض سے کام پر لگ گئے تھے۔ انہوں نے پکا بندوبست اور اطمینان کرلیا۔ کہ ان کو مزدوری ضرور ملے گی۔ لیکن جو مزدور بعد میں آئے۔ انہوں نے ایسا کوئی بندوبست نہ کیا۔ مالک کے کہنے پر چپ چاپ کام پر چلے گئے۔ انہوں نے اعتبار کیا۔ کہ جو کچھ مناسب ہوگا مالک انہیں ضرور دے گا۔ جب انہیں کرنے کو کام مل گیا تو وہ اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے اجرت کا خیال بھی نہ کیا یہی فرق ہے جس کا مسیح سبق دینا چاہتا تھا۔
پہلے پہل تو ہمارے دل میں بھی خیال آتا ہے کہ بات ٹھیک ہے جنہوں نے پورا دن کا کیا تھا ان کو زیادہ ملنا چاہیے تھا ۔ ان کی شکایت درست تھی مگر پیسوں کے خیال اور اجرت کے سوال سے ایک بڑی بات پیش کرتاہے وہ ان لوگوںکے خیال کو پسند کرتاہے جو کام کی غرض سے آئے تھے مسیح نہیں چاہتا کہ ہم بیٹھے حساب لگاتے رہا کریں یا سوچتے اور بات چیت کرتے رہا کریں کہ ہمارے کا م اور کوشش کے بدلے میں ہمکو کیا ملےگا ۔ پطرس ایک خطرے میں تھا۔ خطرہ یہ تھا ۔ کہ وہ اجرت اور انعام کے خیال اور شوق میں پڑ گیا تھا۔ مگر مسیح اس کو یہ تعلیم دینا چاہتاہے۔ کہ اس کو اجرت اور انعام کا خیال نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ صرج مالک کی محبت اور کام کے شوق اور محبت سے ہی کام کرنا چاہیے۔
مسیح کے زمانے میں بہت یہودی یہ خیال کرتے تھے۔ کہ ہم نیکی کریں گے اور زندگی میں ہمکو بہت بدلہ ملے گا۔ اور ضرور ملےگا ہم دعا کرے گے ، خیرات دےگے، روزہ رکھیں گے اور شریعت کے تمام حکم مانے گے ۔ ان کو صرف بدلے کا خیال تھا۔وہ نیکی اس لیے نہیں کرتےتھے کہ یہ نیکی ہے بلکہ بدلے کے شوق سے۔ اس تمثیل میں یسوع مسیح شاگردو ں کے اس غلط خیال کو ان کے دلوں سے نکالنا چاہتا ہے۔
اس میں کوئی ہرج نہیں کہ ہم کبھی کبھی اپنےآپ سے سوال کیا کریں ہ ہم فلان کام کیوں کرتے ہیں کیا ہم اس لیے گرجے جاتے ہیں کہ لوگ ہمکو نیک سمجھیں۔ کیا ہم کلیساہ کے کاموں میں اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ لوگ ہم کو دیکھیں۔ کیا ہم اس لیے چندہ دیتے ہیں کہ لوگ ہم کو سخی سمجھیں ۔ کیا ہم بعض دفعہ اس لیے کلیسیائی خدمت کا انکار کرتے ہیں کہ اس میں ہمارا نفع نہیں ہوتا۔
اگر ہمارے دل میں ایسے ایسے خیال ہوتےہیں ۔ تو اس تمثیل میں ہمارے لیے بہت سبق ہیں۔ ہم پطرس والے خطرہ میں ہیں۔ اگر ہم اپنا خیال نہ کریں اور اپنا نفع ہی نہ ڈھونڈیں تو ہم خدا کے مطلب کو پورا کر سکیں گے۔ ہمدردی اور نیک نیت سے ایک گھنٹہ خدمت کرنا دن بھر اجرت اور نیک نامی کے خیال سے کام کرنے بہتر ہے۔ یہ اس حالت میں ہو سکتا ہے ۔ جب خدا پر ہمارا بھروسہ ہو۔ جب محبت اور ہمدردی سے خدمت کی جاتی ہے۔ تو خدا اس کو پسند کرتا ہے اور اس میں برکت دیتاہے۔ اور ہماری تھوڑی سے تھوڑی خدمت بھی اس کی نظروں میں قدر رکھتی ہے ۔ خدا نے بیوہ کی نذر کو زیادہ قبول کیا۔ کیونکہ اس نے خودی انکاری دکھائی۔ اور محبت سے دیا ۔ آؤ ہم بھی اپنا خیال چھوڑ کر خدا کی بادشاہت کی خدمت محبت سے کریں۔
مطالعہ کےلیے:
یوحنا ۱۰ باب ۱۲ تا ۱۳ آیت: جو آدمی صرف مزدوری کی غرض سے خدمت کرتا ہے۔ دیانتداری سے نہیں کرے گا۔ مزدور جو محبت سے نہیں بلکہ مزدوری کی خاطر بھیڑوں کی خدمت کرتا ہے۔ جب وقت پڑتا ہے تو بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔
متی ۵ باب ۳۸ تا ۴۲ آیت: یہاں مسیح تعلیم دیتاہے کہ ہم کو اپنا حق نہیں جتانا چاہیے۔ دنیا میں بہت ہی تکلیفیں اور مشکلیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے باہمی جھگڑے اور فساد اسی بات سے پیدا ہوتے ہیں۔ مسیح کہتا ہے کہ جب اپنا حق جتانے سے دوسروں کا نقصان ہو اور بادشاہت کا ہرج ہو تو ہمیں حق جتانے سے باز رہنا چاہیے۔ اگر اپنا حق چھوڑنے سے بھائی کا فائدہ ہو۔ تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
متی ۲۰ باب ۲۰ تا ۲۳ آیت: یہاں دو آدمیوں کا ذکر ہے ۔ جن کے خیال مسیح کے خیال سے بالکل جدا تھے۔ وہ کام تو کرتے تھے ۔ لیکن صرف مزدوری کے خیال سے کرتے تھے۔ مسیح نے ان کے خیال بدل دیئے۔ اور وہ کا م کا زیادہ خیال کرنے لگے۔ تب مسیح نے وعدہ کیا کہ میں تم کو کام دونگا۔ کسی انعام یا اجرت کا وعدہ نہ کیا۔ ان کو کا م ہی کافی تھا۔ مسیح چاہتا ہے کہ ہم مسیح کی محبت سے اور کام کے شوق سے کام کیا کریں۔ کیا ہم میں مسیح کے لیے کافی محبت ہے۔ او ر اس پر کافی بھروسہ ہے۔ کہ ہم اس کی خدمت اُجرت کے خیال سے نہیں بلکہ خدمت کے شوق سے کریں۔
متی ۲۰ باب ۲۴ تا ۲۹ آیت: دوسرے شاگرد یعقوب اور یوحنا سے بہتر نہ تھے ۔ دوسرے شاگرد ان سے ناراض تھے کہ انہوں نے کیوں اعلیٰ درجے پانے کی درخواست اور کوشش کی ۔ انہوں نے خیال نہ کیا۔ کہ درجے پانے کی خواہش فضول اور بےکار ہے۔ اور جس چیز کو دنیا کے لوگ مرتبہ اور عزت سمجھتے ہیں۔ وہ خدا کی نظروں میں کچھ بھی نہیں۔ اس طرح مسیح نے تعلیم دی کہ خدا کی بادشاہت کا اصول ایسی خدمت ہے۔ جس میں اُجرت کا فکر نہ ہو۔
ہم خدمت کیسی نیت سے کرتے ہیں۔
۱ کرنتھیوں ۱۳ باب ۴ تا ۱۷ آیت: محبت کی روح سے ایسی خدمت ہو سکتی ہے جب ہم کسی سے محبت رکھتے ہیں تو اس کے لیے بغیر عوض نے اور بغیر شکرانے کےخیال سے خدمت کرتے ہیں۔ جب ہم میں اس قسم کی محبت ہوتی ہے جس کا یہاں بیان ہے ۔ تب ہم خوشی سے خدمت کرتے ہیں اور ہماری خدمت پھلدار ہوتی ہے ۔ اگر مسیح سے ہماری اس قسم کی محبت ہو تو ہم اس کی کی خد مت تن من دھن سے کرے گے۔
غور اور بحث کے لیے سوالات:
• جب تم خداکی خدمت کرتے ہو ۔ تو کیا تمہارے دل میں ان میں سے کوئی خیال ہوتا ہے۔ یعنی کا م کو مسیح کی طرف سے قرض سمجھ کر کرنا، نیک نمونے کے خیال سے کرنا، نیک نامی حاصل کرنا ۔ اثر اور رسوخ پیدا کرنا تعریف کرنا، خدا کی محبت ، ہم جنسوں کی خدمت ۔
• کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اجرت کے خیال کے بغیر کام کریں۔
• کیا کام کرنے سے پہلے اُجرت کا فیصلہ کر لینا اچھی بات ہے یا نہیں؟
o کیوں؟
دُعا:اے خداوند تو جس نے محبت سے ہماری خاطر بے عزتی موت اور صلیب کی مجھے اپنی محبت اور روح میں سےاس قدر دےکہ میں خدمت کروں۔ مگر اجرت کا اندازہ نہ لگاؤں ۔ روحانی جنگ میں لڑوں اور بیٹھ کر زخموں کو نہ دیکھوں۔ دوسروں کے لیے کچھ کروں اور ان شاباش،تریف اور عوضانہ کی امید نہ رکھوں بلکہ محبت کی روح سےسب کچھ کروں۔ مسیح کی خاطر آمین۔
(۸)
توڑوں کی تمثیل
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۲۵ باب ۱۴ تا ۳۰ آیت
_______________________________________________________________
"کِیُونکہ یہ اُس آدمِی کا سا حال ہے جِس نے پردیس جاتے وقت اپنے گھر کے نَوکروں کو بُلا کر اپنا مال اُن کے سُپُرد کِیا۔اور ایک کو پانچ توڑےدِئے۔ دُوسرے کو دو اور تِیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُس کی لِیاقت کے مُطابِق دِیا اور پردیس چلا گیا۔جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے اُس نے فوراً جا کر اُن سے لین دین کِیا اور پانچ توڑے اور پَیدا کر لِئے۔اِسی طرح جِسے دو مِلے تھے اُس نے بھی دو اور کمائے۔مگر جِس کو ایک مِلا تھا اُس نے جا کر زمِین کھودی اور اپنے مالِک کا رُوپِیہ چھِپا دِیا۔بڑی مُدّت کے بعد اُن نَوکروں کا مالِک آیا اور اُن سے حِساب لینے لگا۔جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے وہ پانچ توڑے اور لے کر آیا اور کہا اَے خُداوند! تُو نے پانچ توڑے مُجھے سُپُرد کِئے تھے۔ دیکھ میں نے پانچ توڑے اور کمائے۔اُس کے مالِک نے اُس سے کہا اَے اچھّے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دِیانتدار رہا۔ میں تُجھے بہُت چِیزوں کا مُختار بناؤں گا۔ اپنے مالِک کی خُوشی میں شرِیک ہو۔اور جِس کو دو توڑے مِلے تھے اُس نے بھی پاس آ کر کہا اَے خُداوند تُو نے دو توڑے مُجھے سُپُرد کِئے تھے۔ دیکھ میں نے دو توڑے اور کمائے۔اُس کے مالِک نے اُس سے کہا اَے اچھّے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دِیانتدار رہا۔ میں تُجھے بہُت چِیزوں کا مُختار بناؤں گا۔ اپنے مالِک کی خُوشی میں شرِیک ہو۔اور جِس کو ایک توڑا مِلا تھا وہ بھی پاس آ کر کہنے لگا اَے خُداوند میں تُجھے جانتا تھا کہ تُو سخت آدمِی ہے اور جہاں نہِیں بویا وہاں سے کاٹتا ہے اور جہاں نہِیں بِکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔پَس میں ڈرا اور جا کر تیرا توڑا زمِین میں چھِپا دِیا۔ دیکھ جو تیرا ہے وہ موجُود ہے۔اُس کے مالِک نے جواب میں اُس سے کہا اَے شرِیر اور سُست نَوکر! تُو جانتا تھا کہ جہاں میں نے نہِیں بویا وہاں سے کاٹتا ہُوں اور جہاں میں نے نہِیں بِکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہُوں۔پَس تُجھے لازم تھا کہ میرا رُوپِیہ ساہُوکاروں کو دیتا تو میں آ کر اپنا مال سُود سمیت لے لیتا۔پَس اِس سے وہ توڑا لے لو اور جِس کے پاس دس توڑے ہیں اُسے دے دو۔کِیُونکہ جِس کِسی کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور اُس کے پاس زیادہ ہو جائے گا مگر جِس کے پاس نہِیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہےلے لِیا جائے گا۔اور اِس نِکمّے نَوکر کو باہِر اَندھیرے میں ڈال دو۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہوگا"۔
_______________________________________________________________
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض نوکروں نے خدمت اور کام کے موقع کو کس طرح استعمال کیا۔ اس تمثیل میں تیاری کی تعلیم ہے دیکھئے دو نوکروں نے آنے والے کام کے لیے کس طرح تیاری کی۔
لیکن تیسرے نے تیاری نہ کی اور بےکار رہا۔ خدا نے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی لیاقت دی ہے۔ اور اس لیاقت کے مطابق وہ ہر ایک کو خدمت اور خدمت کا موقع دیتاہے۔ مسیح اس تمثیل میں یہ تعلیم دیتا ہے ۔ کہ ایسے موقعوں سے فائدہ اُٹھانے اور کام کرنے سے روحانی ترقی ہوتی ہے۔ جب ہم کام نہیں کر تے ہم وہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ نو ہمارے پاس ہوتا ہے۔
ہم صرف کام میں کوشش کرنے اور خدمت کرنے سے ہی بڑھ سکتے ہیں اس طریقے سے ہمارا جسم، ہمارا دماغ اور ہماری روح ترقی کرتی ہے ۔ ورزش سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ۔ اگر ہم بیٹھ کر خواہش کریں کہ ہم مضبوط ہو جائیں۔ یا طاقتور ہونے کے بارے میں کتابیں پڑھیں تو ہم مضبوط اور طاقتور نہیں ہو سکتے۔ ہاتھ پاؤں ہلانے سے کام بنتا ہے۔ اگر ہم کوئی زبان سیکھنا چاہیں تو ضرور ہے ۔کہ ہم اپنی گفتگو اُسی زبان میں کریں۔ اگر ہم اپنی زبان استعمال نہ کریں تو زبان کی طاقت او ر قابلیت جاتی رہے گی۔ اگر ہم دماغ اور سمجھ استعمال نہ کریں تو یہ بے کار ہوجائے گے ۔ روح کے بارے میں بھی یہی بات ہے۔ اگر ہم خدمت کی طاقتوں کو نی برتیں تو وہ جاتی رہے گی۔اگر انسان ضمیر کی آواز کو سنے مگر اس کی نہ مانے تو ہوتے ہوتے وہ بے ضمیر بن جائے گا۔ او ر نیکی او ر بدی میں تمیز نہیں کر سکے گا۔ ایک توڑے والے سے توڑا لے لینے کا یہی مقصد ہے۔ اس نے اپنا کا م یا فرض پورا کرنے کی کوشش بھی نہ کی۔
اس کے کئی ایک سبب ہو سکتے ہیں ۔ بعض دفعہ ہم سوچتے ہیں کہ کرنے کے لیے کوئی بڑا کام ہمارے سپرد ہونا چاہیے۔ پھر جب کوئی چھوٹا کام ہمیں دیاجانا ہے ہم اسے ادنی سمجھ کرتے ہی نہیں۔ اور بے کار رہتے ہیں۔ اس آدمی میں بھی یہی کسر تھی۔ ورنہ اس نے کوئی قصور نہ کیا تھا نہ اس نے چوری کی تھی ۔ نہ قتل کیا تھا۔ اس نے کچھ بھی نہ کیا تھا۔ اور یہی اس کا قصور تھا ۔ وہ بے کار رہاتھا۔ اور مسیح اس تمثیل میں سیکھاتا ہے کہ بے کار رہنا خدا کی نظروں میں ایک بھاری گناہ ہے ۔ یہ بے کاری خواہ دشمنی سے ہو۔ غرور سے ہو۔ اور خواہ سُستی اور غفلت سے ہو اس طرح ہم چاہے کوئی عملی گناہ نہ ہی کریں فقط بے کار رہنا ہی گناہ ہے۔
ہر ایک کو کوئی نہ کوئی توڑا ملا ہے۔ بعض کے پاس دوسروں کی نسبت زیادہ توڑے ہیں۔ بعض کے توڑے چھوٹے ہیں۔ بعض کے بڑے ہیں اگر ہمارے توڑے ہیں ۔ بعض کے توڑے چھوٹے ہیں۔ بعض کے بڑے ہیں۔ اگر ہمارے توڑے ہم کو اچھے اور فائدہ مند معلوم نہ دیں ۔ تو بھی وہ ہمارے پاس ہوتےہیں۔ اور خدا نے یہ توڑے ہم کو استعمال کے لیے دیئے ہیں۔ اگر ہم ان کو استعمال کرنے کی نیت رکھیں۔ تو خدا ہم کو موقع ضرور دےگا۔ موقع کے ساتھ خدا ہمت بھی ضرور دے گا۔ خدا ہماری ہمت سے بڑا کام ہمارے سپر دنہیں کرے گا۔ جس طرح ایک رقم سود سے بڑھتی ہے اسی طرح ہماری قابلیت اور قوت استعمال سے بڑھتی ہے ۔ ہمیں اپنی طاقتوں اور لیاقتوں کو خدا کی خدمت کے اور تازہ موقع عطا ہوتےہیں۔ یہ ہمارا سب سے اچھا انعام ہوتاہے۔ اصلی خدمت کا مطلب یہی ہے کہ سچ کی خدمت میں اپنا سب کچھ لگا دینا۔
جب ہم اس طرح کرتے ہیں تو خدا اپنی بادشاہت کی خدمت کے لیے ہم کو زیادہ قوت اور زیادہ شوق دیتا ہے۔
اگر ہم خدا کی خدمت میں دیانتدارہیں۔ تو وہ ہمیں اس قسم کے انعام دیتاہے ۔ اور بڑے برے کام ہمارے سپرد کر کے ہمیں اعلیٰ موقع بھی عطا کرتا ہے۔ جب ہم خدا کے لیے ایک کام دیانتداری سے کرتے ہیں تو گویا کسی دوسرے اور بڑے کام کے لیے تیاری پاتے ہیں۔ اس زندگی کے کام آئندہ زندگی کے کاموں کی تیاری ہیں۔
مطالعہ کےلیے:
۱ کرنتھیوں ۱۲ باب ۴ تا ۱۱ آیت: خدا نہیں چاہتا کہ ہم سب اپنے اپنے توڑے ایک ہی کام میں یا یک ہی طریقہ پر استعمال کریں۔ خدا نے ہر ایک کو الگ الگ قابلیت دی ہے۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ یعنی زمین پر خداکی بادشاہت قائم کرنا۔
لوقا: ۱۹ باب ۱۱ تا ۱۹ آیت: دیانتداری کا انعام خدمت کے زیادہ موقعے ہوتاہے ۔ ہم جو کچھ خدا کے لیے کرتے ہیں اسمیں وہ ہمیں بڑی خدمتوں کے لیے تیار کرتاہے ۔اور وہ ہی ہمارا انعام ہوتاہے۔
لوقا ۱۹ باب ۱۱ تا ۱۹ آیت: دیانتداری کا انعام خدمت کے زیادہ موقے ہوتا ہے ۔ ہم جو کچھ خدا کی لیے کرتے ہیں اس میں وہ ہمیں بڑی خدمتوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ اور وہ ہی ہمارا انعام ہوتا ہے۔
لوقا ۱۹ باب۲۰ تا ۲۷ آیت: قاعدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اگر ہم اسے استعمال نہ کریں تو ہم اسے کھو بیٹھتے ہیں۔ ان تمثیلوں میں مسیح یہی سکھاتا ہے۔ کہ اگر ہم اپنی قابلیت کو استعمال نہ کرے گے تو وہ جاتی رہے گی۔
لوقا۲۱ باب۱ تا ۴ آیت: اس بیوہ کے پاس بہت تھوڑا ۔ شاید اس نے خیال کیا ہوگا۔ کہ میں جو کچھ دے سکتی ہوں اس سے کیا بنے گا۔ تو بھی اس نے دے دیا۔ اور دینے سے خود حاجتمند ہو گئی ۔ سو ہمیں چھوٹی سے چھوٹی خدمت سے بھی منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ اگر ہمارا ایک توڑا ہے تو خدا چاہتا ہے کہ ہم اسی کو استعمال کر دیں۔
یوحنا ۶ باب ۵ تا ۱۴ آیت: اس لڑکے کے پاس ایک ہی توڑا تھا۔ جو اس نے بہت مفیدطریقہ پر استعمال کیا۔ اس کو یقین نہ تھا۔ کہ خوراک جو اس کے پا س تھی بہت لوگوں کی بھوک مٹائے گی۔ لیکن جب موقع آیا۔ اُس نے خوشی خوشی جو کچھ تھا دے دیا۔ہم بعض دفعہ حیران ہو جاتے ہیں۔ کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے۔ اگر ہم وہ خدا کے راہ میں کرچ ڈالیں تو کیاہوگا۔
لوقا ۱۸ باب ۱۸ تا ۲۴ آیت: ا س شخص کے پاس دس توڑے تھے مگر اس نے استعمال کرنے سے انکار کیا۔ اس کے لیے بہت موقع تھا۔ مگر اس نے فائدہ نہ اُٹھایا ۔ معلوم نہیں کہ اس کو بعد میں کوئی موقع ملایا نہ ملاشاید ملا ہو۔ لیکن اکثر صرف ایک ہی موقع آتا ہے۔
قاضیوں ۶ باب ۱۱ تا ۱۸ آیت: یہ شخص سمجھتا تھا کہ میرے پاس بہت کم توڑے ہیں۔ تو بھی اس نے خدا کی آواز سنی ۔ تابعداری کی اور اپنا ملک بچا لیا۔ خدمت اور کام کے موقعے خدا کی طرف سے آتے ہیں۔
پیدائش ۳۹ باب ۲۰ تا ۲۳ آیت: یوسف قید میں تھا۔ تو بھی اس نے اپنا توڑا زمین میں نہ دبایا۔ جو کچھ اُس سے ہو سکا اس نے کوشش سے کیا۔ ہم بعض دفعہ بے دل ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو یہیں کام ختم کر دینا چاہیے
مسیح نے سیکھایا ہے کہ اپنا توڑا زمین میں نہیں گاڑنا چاہیے۔ متی ۵ باب ۱۳ تا ۱۶ آیت: وہ لیمپ جو کہیں چھپا دیا جائے بے فائدہ ہے۔ وپ نمک جس کا مزہ جاتا رہے بے کار ہے۔ جس آدمی نے اپنا توڑا چھپا دیا وہ بھی بے فائدہ تھا۔ مسیح نے کہا یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔
غور اور بحث کے لیے سوال:
• خدا ہمیں کون سے مختلف توڑے دیتا ہے۔ ہمارے پاس کون سے توڑے ہیں؟
• تیسرے آدمی کے دل میں اپنے آقا کے بارے میں غلط خیال تھا۔ کیا ایسا نہیں ہوتا۔ کہ جب ہم خدا کے بارے میں غلط خیال اور تصور رکھتے ہیں تو ہم اسکی خدمت میں کامیاب نہیں ہوتے۔ کیا یہ درست نہیں۔ کہ ہم اپنے آسمانی باپ کو جیسا سمجھیں گے ویسا ہی ہمارا اخلاق اور ہماری سیرت بنے گے۔
• کیا یہ کہنا درست ہے کہ کام کرو تو تم کو آپ ہی طاقت ملے گی۔
دُعا:
میری زندگی تو لے
اُس پر مہر کرتودے
لے تو دن اور وقت بھی سب
ثناء تیری ہوا اے رب
کرقبول ان ہاتھوں کو
ان سے تیری خدمت ہوان سے تیری خدمت ہو
پاؤں بھی کرتو تابعدار
ہوویں تیرا اور خوش رفتار
یہ آواز بھی تیری ہے
تیری حمد میں سیری ہے
میرے دل کو بھی تولے
اُس میں آکے رونق دے
عقل کی کل طاقتیں
کام میں تیرے صرف ہوویں
مرضی اپنی دیتا ہوں
تیری مرضی لیتا ہوں
اُلفت کا خزانہ بھی
لا تا ہوں میں باخوشی
مجھ کو لے سب سرتاپا
تیرانت میں رہونگا
(۹)
نادان کنواریاں
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۲۵ باب ۱ تا ۱۳ آیت
_______________________________________________________________
"اُس وقت آسمان کی بادشاہی اُن دس کُنوارِیوں کی مانِند ہوگی جو اپنی مشعلیں لے کر دُلہا کے اِستقبال کو نِکلیں۔اُن میں پانچ بیوُقُوف اور بانچ عقلمند تھِیں۔جو بیوُقُوف تھِیں اُنہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لِیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لِیا۔مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کُپِّیوں میں تیل بھی لے لِیا۔اور جب دُلہا نے دیر لگائی تو سب اُنگھنے لگِیں اور سو گئِیں۔آدھی رات کو دھُوم مچی کہ دیکھو دُلہا آگیا! اُس کے اِستقبال کو نِکلو۔اُس وقت وہ سب کُنوارِیاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعل دُرُست کرنے لگِیں۔اور بیوُقُوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کُچھ ہم کو بھی دے دو کِیُونکہ ہماری مشعلیں بھُجی جاتی ہیں۔عقلمندوں نے جواب دِیا کہ شاید ہمارے تُمہارے دونوں کے لِئے کافی نہ ہو۔ بہُتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔جب وہ مول لینے جارہیں تھِیں تو دُلہا آ پہُنچا۔ اور جو تیّارتھِیں وہ اُس کے ساتھ شادِی کے جشن میں اَندر چلی گئِیں اور دروازہ بند ہوگیا۔پھِر وہ باقی کُنوارِیاں بھی آئِیں اور کہنے لگِیں اَے خُداوند! اَے خُداوند! ہمارے لِئے دروازہ کھول دے۔اُس نے جواب میں کہا مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ مَیں تُم کو نہِیں جانتا۔پَس جاگتے رہو کِیُونکہ تُم نہ اُس دِن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو"۔
_______________________________________________________________
اس تمثیل میں مسیح نےسریانی (ملکِ شام کی ایک قدیم زبان)شادی کی مثال سے اس تیاری کا سبق سکھایا ہے۔ جو نہایت خبراداری اور دیانتداری سے کی جائے۔ سریانی لوگ بیاہ شادیاں رات ہی کو رچاتے تھے۔ بیاہ میں سب سے زیادہ رونق او ر دھوم دھام والا حصہ دلھن کا ماں باپ کے گھر سے دولھا کے گھر میں لانا ہوتا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں روشنی کے لیے مشعلیں ہوتی تھیں۔ اور وہ سب برات کےساتھ رات کو اندھیرا پڑے دلھن کے مکان پر پہنچتے تھے۔ ادھر دلھن بھی اپنی سہیلیوں اور پہیلیوں کے ساتھ ہاتھوں میں مشعلیں لیے ہوئے دولھا کا استقبال کرتی تھیں۔ اس کے بعد سارا مجمع دولھا کے گھر جاتا تھا اور وہاں شادی کی ضیافت کھاتا تھا۔
اس تمثیل میں وہ کنواری لڑکیاں جن کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں اور جو دولھا کی آمد پر مشعلیں لے کر دولھا کو ملنے والی تھیں سو گئیں۔ کیونکہ دولھا نے آنے میں دیری کی۔ اس تمثیل کی تعلیم کا اصل نکتہ دونوں گروہوں کے فرق میں ہے۔
جب دولھا نے دیر کی تو وہ سب کی سب سوگئیں۔ لیکن سن میں سے پانچ نے عقلمندی کی اور ایسی تیاری کی ۔ کہ وقت پڑے پر ان کو پریشان اور شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ جو باقی پانچ تھیں انہوں نے ایسا نہ کیا۔ پانچ ہو شیار اور آگے کو سوچنے والی تھیں۔ لیکن پانچ سست اور بے پرواہ تھیں۔
اس تمثیل میں مسیح نے اس تیاری کی تعلیم دی ہے۔ جو خبرداری اور عقلمندی سے کی جائے ۔ ہمیں ہر ایک آنے والی گھڑی کے لیے ہر وقت اور ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ خدا کب اور کونسا کام ہم سے طلب کرے گا۔ ہمیں اپنے دنیاوی کار و بار کے لیے بھی ہمیشہ
تیار رہنا چاہیے۔ ہماری تیاری ایسی ہونی چاہیے جو ہر وقت ہوتی رہے اور ہمیشہ کا م دے سکے ۔ ایک ہی بار تیاری رنا ۔ اس تیاری کو کافی سمجھنا اور پھر بے پرواہ رہنا کافی نہیں ہے۔ تمثیل کی پانچ کنواریوں نے اپنی اپنی مشعل میں تیل بھرا ۔ دلھن کے گھر گئیں۔ قدرے انتظار کیا۔ پھ سو گئیں۔ ان کی مشعلوں میں دلھن کے گھر تک آنے اور اس کے ساتھ دولھا کے مکان تک جانے کےلیے تیل تھا۔ مگر وہاں تو انتظار کرنا پڑگیا ۔ یہ اتفاقیہ معاملہ تھا۔ وہ اس لیے تیار نہ تھیں۔ باوجود اس کے وہ سو گئیں۔ مگر باقی پانچ کنواریوں نے پوری تیاری کی مشعلوں میں تیل ڈالا اور عقل مندی کی کہ کپیوں میں تیل ساتھ بھی لے لیا۔
وہ جو خدا کی بادشاہت کے لوگ ہیں انہیں ہر وقت اور ہمیشہ تیار رہنا چاہیے روحانی دنیا میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی ۔ نہ ستانے کی گھڑی ہوتی ہے۔ ہم کبھی یہ نہیں کہہ سکتے ۔کہ ہم نےکافی کر لیا ہے۔ اب او ر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جو ہم نے کل تیاری کی تھی۔ وہ کل کے لیے کافی تھی۔ ہر دن اپنی مشکلات او ر آزمائیش ساتھ لے کر آتا ہے۔ اور ہم کو ہر دن کے مطابق تیاری کرنا ضروری ہے۔ ہماری تیاری ایک لگاتار کام ہے ۔ا گر ہم کلام پڑھنے یا دعا مانگنے میں غفلت کریں تو اچانک ہی ہماری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ ہماری مشعل میں تیل نہ ہو۔ روح کی مشعل ہمیشہ ٹھیک ٹھاک اورتیار ہونی چاہیے۔
خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ جنکے پاس کپیوں میں تیل تھا۔ وہ بہت خود غرض تھیں۔انہوں نے کیاں نہ اپنی ساتھ والیوں کو تیل دیا۔ انکی ضرورت میں کیوں نہ مدد کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک انسان اپنی زندگی کی خوبیوں اور خصلتوں میں دوسرے کو کچھ نہیں دے سکتا ۔ ہاں صلاح اور نصیحت دے سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے زندگی میں تیاری نہیں کی وہ دوسروں کی تیاری سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ۔یہاں خاص خیال پیش کیا گیا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی اعلیٰ اور خوبصورت زندگی سے نہیں بلکہ اپنی ہی زندگی سےپھل حاصل کر سکتاہے۔ ہمیں اپنی زندگی خود ہی بنانی پڑتی ہے۔ دوسرا آدمی ہماری زندگی نہیں بنا سکتا ۔ اپنی زندگی ہمیں خود ہی بنانی پڑتی ہے۔ جب موقع کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تو اس وقت دوسرے کی صفت اور خوبی کام نہیں دے گی ۔ موقع سے پہلے جو دن گزر گئے ان میں تیار ی کا وقت تھا ۔موقع پر فورا ہی اتنے دنوں کا کام یعنی تیاری کا کام کس طرح ہو سکتا ہے۔
اس میں ایک اور خاص خیال اور نکتہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ زندگی میں موقع ایک ہی بار آتا ہے۔ اگر وہ وقت نکل جائے۔ تو سوائے افسوس کے کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا ۔ نہ ہی پھر وہ موقع آتا ہے کسی کو یہ علم نہیں ہوتا ۔ کہ کونسا موقع آئے گا اور کب آئے گا ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ تیار ہیں۔
بعض دفعہ موقع اس لیے نکل جاتا ہے کہ جو محبت ہم نے شروع میں مسیح کے ساتھ رکھی تھی ہم اس میں قائم نہ رہےج۔ ہوتے ہوتے وہ محبت ٹھندٹی ہو جاتی ہے۔ یہ کافی نہیں کہ ہماری محبت کی آگ تھوڑی دیر تک چمکےہمیں سرگرمی پیدا کرے اور پھر ٹھنڈی ہو جائے گی اور وقت پڑنے پر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ایک مسیحی کا یہ مقولہ ہونا چاہیے۔ "لگا تار تیاری"۔
مطالعہ کےلیے:
لوقا ۱۸ باب ۳۵ تا ۴۳ آیت: یہاں ایک شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی عادت بنا رکھی تھی کہ ہمیشہ جب موقع پڑے تو موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔ اس کی ضرورت اس کو موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہر وقت تیار اور ہو شیار رکھتی تھی۔ وہ اپنی ضرورت کو سمجھتا تھا ہم بعض دفعہ اسی لیے موقع کھو دیتے ہیں۔ کہ اپنی ضرورتون کو نہیں سمجھتے اور انہیں محسوس کرتے ۔
کیا ہم مسیح کی رفاقت کے لیے ہر ایک موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تیاری کرتے ہیں؟
متی ۲۴ باب ۴۲ تا ۴۴ آیت: اگر ہمیں علم ہو جائے۔ کہ چور فلاں گھڑی آئے گی تو ہم اس کے آنے سے پہلے تیار رہ سکتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت اور ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اگر ہم مسیح کی آمد کے لیے تیار رہنا چاہتے ہیں۔ تو ہمکو خبرداری کرنی چاہیے۔ جب ہم اپنی یا جماعت کی زندگی میں مسیح کی حضوری محسوس کرتے ہیں تو وہی مسیح کی آمد ہوتی ہے۔ وہ قوم کی یا کل ملک کی زندگی میں بھی آسکتاہے۔ اس کا ہر ایک ظہور اس کی آمد ہے۔ اور اگر ہم اس کی آمد کےلیے تیار نہ ہوں تو سکتا ہے کہ موقع نکل جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
متی ۲۴ باب۴۵ تا ۵۱ آیت: آڑے وقت میں فقط دیانتداری ہی ہمکو بچا سکتی ہے۔ دیانتداری سے کام کرنے اور صبر سے انتظار کرنے سے ہی مسیح کی حضوری سے دل میں ایمانداری اور روحانی جوش پیدا ہوگا۔
متی ۲۶ باب ۳۶ تا ۴۳ آیت: مسیح کو معلوم تھا گو شاگردو ں کو معلوم نہیں تھا کہ امتحان اور آزمائش کی گھڑی آنے والی ہے اس لیے اس نے کہا جاگو اور دعا مانگو۔
ان شاگردوں نے تیاری کرنے اور لگا تار جاگنے یعنی ہو شیار رہنے کی ضرورت کو محسوس ہ کیا۔ نتیجہ یہہوا کہ جب وہ گھڑی آئی تو رہ گئے جب کوئی ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ڈوب مرا رہاہو۔اس وقت تیرنا سیکھنا شروع کرنا بے کار ہے۔ اسی طرح کسی آزمائش کے آنے پر اس کے مقابلہ کی تیاری شروع کرنا بے کار ہے۔
متی ۲۶ آیت۶۹ تا ۷۵ آیت: یہاں تیاری نہ کرنے کا نتیجہ دکھائی دیتاہے جب جاگنے اور دعا مانگنے کا وقت تھا۔ حضرت پطرس ا س وقت نیند کے مزے لے رہے تھے۔ جب وقت پڑا تو بجائے حوصلے اور دلیری کے اس نے بزدلی اور کمزوری دکھائی ۔ جب تک ہم نے ایک مضبوط اور محکم اخلاق نہ بنایا ہو ہم آزمائش کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ تیاری کرنا اور ساری قوت کے سر چشمہ سے تعلق مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔
یعقوب ۱ باب ۱ تا ۴ آیت: امتحان اور آزمائش بے شک خطرہ پیدا کرتے ہیں مگر ساتھ ہی مضبوطی کا موقع بھی ان میں ہوتا ہے۔ آزمائش میں کامیاب ہوکر انسان ترقی کرتاہے اور اعلیٰ درجہ بھی پاتا ہے۔ اسی لیے یعقوب رسول کہتاہے کہ جب جب آزمائش ہو۔ ضرور ہمیں خوش ہونا چاہیے اگر ہماری آزمائش نہ ہو تو ہم ترقی بھی نہیں کر سکتے ۔
غورو بحث کےلیے سوالات:
• اگر تم مسیح کےساتھ یعنی اس کی رفاقت میں زندگی گزارنا چاہتے ہو توہر روز تیاری کےلیے کتنا خرچ کرنا چاہیے۔
• ہم مسیح زندگی کےلیے کس طرح لگاتار تیاری کر سکتے ہیں
• کیا یہ سچ ہےکہ سُستی ایک بڑا گناہ ہے؟
دُعا: اے خدا تو جو سوتا نہیں اور نہ اُنگھتا ہے اور نہ غافل ہوتا ہے بخش دے کہ میں جو تیری صورت پر بنایا گیا ہوں تیری یہ صورت اور صفت مجھ میں پائی جائے۔
اے مسیح تو جس نے فرمایا کہ جاگو او ر دعا مانگو۔ تمہاری کمر کسی رہے اور تمہارا دیا جلتارہے۔ بخش دے کہ میں تیری طرح جاگتا اور دعامانگتا رہوں تاکہ آزمائش میں گر نہ جاؤں ۔
اے پاک روح تو جو ہر دم ایمانداروں کو جگاتا ہے اور سیکھاتا ہے ۔ میری غفلت اور سُستی سے مجھے جگا اور ہوشیار کر۔ کہ ہر ایک آزمائش سے میں مضبوط ہو جاؤں اور جب تو آئے میں تیار پایا جاؤں ۔ مسیح مصلوب کی خاطر ۔ آمین۔
(۱۰)
چھپا ہوا خزانہ
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۱۳ باب ۴۴ آیت
بیش قیمت موتی
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۱۳ باب ۴۵ تا ۴۶ آیت
_______________________________________________________________
متی ۱3 باب 44 آیت:"آسمان کی بادشاہی کھیت میں چھِپے خزانہ کی مانِند ہے جِسے کِسی آدمِی نے پاکر چھِپا دِیا اور خُوشی کے مارے جا کر جو کُچھ اُس کا تھا بیچ ڈالا اور اُس کھیت کو مول لے لِیا"۔
متی ۱3 باب 45 تا 46 آیت: "پھِر آسمان کی بادشاہی اُس سوداگر کی مانِند ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔جب اُسے ایک بیش قِیمت موتی مِلا تو اُس نے جا کر جو کُچھ اُس کا تھا سب بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لِیا"۔
_______________________________________________________________
ان تمثیلوں کو سمجھنے کا بھید ان الفاظ میں ہے کہ "جوکچھ اس کے پاس تھا"۔ جس آدمی نے کھیت میں خزانہ دیکھا۔ اس نے جو کچھ اس کے پاس تھا۔ سب کچھ بیچ دیا۔ تاکہ کسی طرح کھیت حاصل کرے ۔ وہ اس کھیت کو باقی چیزوں سے بڑھ کر سمجھتا تھا۔ اس کے پاس جتنی چیزیں تھی کھیت ان سب سے زیادہ قیمت والا اور قدر والا تھا۔ اسی لیے وہ کھیت کےلیے اپنی ہر ایک چیز دینے کو تیار تھا۔
جس شخص نے اعلیٰ قسم کا موتی دیکھا اس نے اپنے چھوٹے موٹے سب موتی بیچ دئے تاکہ وہ بڑا موتی خریدنے کو اس کے پاس روپیہ ہو ۔ وہ ایک ہی موتی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کو خریدنے کےلیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ یہ اس کی تمام جائیداد سے زیادہ قیمت کا تھا۔ اور اس کو بہت ہی عزیز تھا ۔ اسی لیے اس نے جو کچھ اس کے پاس تھا بیچ ڈالا ۔
ان دو تمثیلوں میں سے مسیح نے یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی شے ہے جو زندگی میں بہت ہی بیش قیمت ہے ۔ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ضرور ہے۔ کہ ہم " اپنا سب کچھ بیچ دیں"۔ ایک ایسا خزانہ ہے جو ہمارے کل سامان سے بڑھ کر قیمتی ہے ۔ جب یہ خزانہ ملے تو جس قیمت پر بھی مل سکے اس کو ضرور حاصل کر لینا چاہیے۔
عام طور پر بھی زندگی میں یہی حال ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خوب گزرے اور خوب کٹے تو ضرور ہے کہ ان چیزوں اور باتوں کو جو مزے سے زندگی گزارنے میں روکاوٹ پیدا کرے گی قربان کیا جائے۔ اگر کوئی آدمی تجارت اور سوداگری میں کامیاب ہونا چاہیے تو اس کو ضروری ہے کہ ہمدردی اور پُن دان کی طبعیت چھوڑ دے اور سخت دل ہو۔ خدائی اور روحانی باتوں کے بارے میں بھی یہی بات ہے ۔ اگر ہم خدا کا
خزانہ یعنی اس کی سچائی اور اس کی محبت کا خزانہ حاصل کرنا چاہیں تو ضرور ہے کہ ہم ان تمام باتوں کو جو ہمیں اس خزانے سے روک سکتی ہیں ترک کریں۔ اگر ہم خدا کا گیان حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب روکاوٹوں کو دور کر کے ہی کر سکتے ہیں۔
ان تمثیلوں میں مسیح نے کس خزانہ کی طرف اشارہ کیا ہے؟
ان تمثیلوں میں مسیح نے خداکی بادشاہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو ہمارے دل میں اور ہمارے اندر ہے۔ یعنی ایشوری گیان اور خدا کی محبت جو صر ف خدا کے ساتھ گہری رفاقت رکھنے سے آتے ہیں اگ رہم ا س خزانہ کو جو دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر ہے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو " سب کچھ جو ہمارے پاس ہے" بیچنا پڑے گا۔ یعنی زندگی زندگی کی روکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ مسیح کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی عزیز اور قدر والی نہیں ہے کہ اس کو چھوڑا نہ جائے۔
مسیح کے ایماندار بندوں کے لیے وہ شے جو سب سے اعلیٰ ہے حاصل کرنے کے لائق ہے۔ جس طرح موتیوں کے سواداگر نے وہ موتی جو اس کے پاس تھے حالانکہ اچھے تھے بیچ ڈالے تھے تا کہ اعلیٰ موتی حاصل کرے ۔ اور جب تک اُسے حاصل نہ کرلیا دم نہ لیا۔ اسی طرح واجب ہے کہ جب تک ہم وہ خزانہ جو خداوند کریم نے ہمار ے لیے رکھا ہے حاصل نہ کر لیں دم نہ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے بہت اچھا ہے ۔ مگر ہمیں اس کی کوشش کرنا چاہیے جو اعلی ہے ۔
کیاہم تیار اور رضا مند ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم اے بیچ دیں؟ کیا اکثر ایسا نہیں ہوتو کہ ہم سب سے اعلیٰ اور پیش قیمت موتی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور جو کچھ ہمارے پاس ہوتاہے اسے بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا مال بھی پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں اورکھیت حاصل کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہیں۔ لیکن تجربے سے معلوم ہو گیا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ نا ممکن ہے کہ جب تک ہم خدا اور اُس کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اُس کو مخصوص نہ کریں ہم اس کے خزانہ کو نہیں پا سکتے ۔ جب تک پوری زندگی کی خصوصیت نہ ہو ہم اس خزانہ کو بالکل حاصل نہیں کر سکتے۔
ہم اکثر چاہتے ہیں کہ ہماری مرضی پوری ہو اور خدا کی مرضی بھی پوری ہو مگر یہ کس طرح ہو سکتاہے۔ یہ نا ممکن ہے۔
دیکھو دونوں طریقے ہیں جن سے خزانہ حاصل ہوا۔ کھیت والا خزانہ اتفاقیہ ملا۔وہ آدمی خزانہ کی تلاش میں نہ نکلا تھا۔ کام کرتے کرتے اچانک خزانہ اس کو مل گیا۔ بعض آدمیوں کو خدا کا خزانہ اسی طرح ملتا ہے ۔ وہ اپنا کاروبارکرتے ہیں۔ اور شاید خدا کی بادشاہت کے بارے میں کبھی سوچتے بھی نہیں نہ فکر کرتے ہیں کہ اچانک ہی خدا اپنےآپ کو ان پر ظاہر کر دیتاہے۔ وہ حیران پریشان ہو جاتے ہیں۔اور اس خوشی میں اپنی زندگی اور اپنا سب کچھ خدا کے قوموں میں رکھ دیتے ہیں۔
دوسرا آدمی خزانہ کی تلاش میں تھا۔ او ر کو شش سے ڈھونڈ رہا تھا۔ اُس کو معلوم تھا کہ کسی جگہ ایک بیش قیمت موتی ہے اور وہ روز روز اُس کی تلاش کرتا رہا۔ کرتے کرتے آخر یہ موتی اس کو مل گیا۔ تب اس نے کہا کہ جس موتی کی زندگی بھر تلاش کی تھی وہ مل گیا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ خد ا کی تلاش کرتے ہیں۔ وہ صبر سے اس کو ڈھونڈتے ہیں۔ اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے خدا کو پا ہی لیتے ہیں۔ ان کی زندگی میں خوشی ۔ سُرور اور لطف آجاتا ہے۔ اور وہ اپنا سب کچھ دے ڈالتے ہیں تاکہ خدا کے ساتھ ساتھ رہ سکیں۔ خزانے کو دیکھ لینا ایک آزمائش ہے۔ جب ہم خدا کے خزانے کو دیکھ لیتے ہیں۔ تو ہم گویا آزمائے اور پرکھے جاتے ہیں کہ ہم کیسے ہیں۔ کہ آیا ہم اس کی قدر کرتے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنے عام حالات میں ہی خوش رہتے ہیں۔ یہ آزمائش ہم میں سے ہر ایک پر آتی ہے ۔ جن شخصوں کا تمثیلوںمیں بیان ہے۔ انہوں نے خزانہ دیکھا۔ اس کی قدر پہچانی ۔ اور اُسے حاصل کیا۔
ہماری کیا حالت ہے؟
فلپیوں ۳ باب ۴ تا ۷ آیت: پولوس سچائی کا متلاشی تھا۔ جس طرح اچھے موتیوں کا متلاشی تلاش کرتارہا۔ اسی طرح پولوس تلاش کرتا رہا۔ آخر ایک دن سچائی اس پر ظاہر ہوئی۔ تب پولوس نے وہ سب کچھ جو پہلے اس کی نظروں میں بیش قیمت تھا چھوڑ ادیا تاکہ وہ اس سچائی کی پیروی اچھی طرح کر سکے ۔ جو باتیں پہلے اس کےلیے پیاری اور ضروری تھیں وہ سب نکمی بن گئیں۔
متی ۹ باب ۹ آیت: یہ اس شخص کی مثال ہے جو سچائی کی تلاش میں نہ تھا بلکہ کھیت میں چھپا ہوا خزانہ پانے والے کی طرح جب وہ اپنا کاروبار کر رہا تھا اس کو سچائی مل گئی ۔ متی محصول کی چوکی پر بیٹھ اپنا کام کر رہاتھا۔ جب اس کو بلاہٹ آئی۔ اُس نے فورا یہ خزانہ پہچان لیا۔ اور اس پر قبضہ پانے کی پوری پوری توجہ کی کوشش کرنے لگا۔ اس کو بے شک شچائی اچانک ملی لیکن اس نے سچائی کو جانے نہ دیا ۔ کیا ہم اسی طرح موقع سے فائدہ اُٹھانے کےلیے ہمیشہ تیار ہو تے ہیں۔
لوقا ۵ باب ۸ تا ۱۱ آیت: یہ لوگ اپنا توجہ اور کوشش سے کر رہے تھے جب حقیقت ان کو مل گئی ۔ جب انہوں نے اس روز سویرے سویرے کا م شروع کیا تو ان کو علم بھی نہ تھا کہ آج ایسی دولت ملے گی ۔ لیکن جب وہ خزانہ ملا تو انہوں نے اس کی قدر کی۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ دولت ایسی ہی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ انہوں نے فورا اس کو حاصل کر لیا۔ انہوں نے مسیح کی بلاہٹ کو اپنے پیشہ سے اور گھر و خاندان سے بھی افضل و بہتر سمجھا اور اس کی پیروی میں نکل کھڑے ہوئے۔
لوقا ۱۹ باب ۱ تا ۱۰ آیت: یہ شخص کا بیان ہے جس نے خزانہ کی تلاش تو کی مگر کوشش کے ساتھ نہیں۔ اُس نے صرف تعجب و تماشہ کے طور پر اس کی تلاش کی۔ اس قسم کی حیرت و انوکھی چیز کو دیکھنے اور پرکھنے کی خواہش سچائی کی تلاش کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ اس کا پہلا قدم تھا اور اس نے وہ چیز پائی جو اس کی امیدوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھی اس کی اس نے قدر پہچانی اور فورا اس کو حاصل کرنے میں لگ گیا کیا ہم بھی زکی کی طرح سرگرمی اور جوش رکھتے ہیں۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ سچائی جو مسیح میں ہے اور مسیح سے حاصل ہوتی ہے دنیا میں سب سے اعلیٰ چیز ہے۔
متی ۱۹ باب ۱۶ تا ۲۲ آیت: ہم اُس آدمی کو ضرور بیوقف کہے گے جو کسی اچھی چیز کی تلاش میں ہو اور جب وہ مل جائے تو اس کو حاصل کرنے یا خریدنے کی کوشش نہ کرے۔ حالانکہ قیمت بھی اس کے پاس ہو۔ وہ شخص جو عمدہ موتی کی تلاش میں تھا۔ جب موتی اس کو مل گیا۔ اگر وہ اس وقت اس موگی کو نہ خریدتا تا ہم اس کو بے وقوف کہتے ۔
یہاں اس کو مل گئی ۔ اس نے سچائی کو قبول نہ کیا۔ اس لیے کہ روپیہ پیسہ کو اور دنیا کے مال کو جو وہ روپیہ سے حاصل کر سکتاتھا۔ وہ زیادہ پیدار کرتا تھا۔ وہ سچائی کو اول درجہ کی چیز نہ سمجھتا تھا۔
ا کرنتھیوں ۳ باب ۲۱تا ۲۳ آیت: خدا کی بادشاہت اور اس کی سچائی ایک ایسا موتی ہے جو سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ اس موتی سے ہمکو یہاں اوردوسرے جہان میں کثرت کی زندگی ملتی ہے۔ اور ہم دکھوں، آزمائشوں اور تکلیفوں کو کوئی شے نہیں سمجھتے ۔ سچائی ہم کو آزاد کرتی ہے۔ اور کامل راہ میں ہماری راہنمائی کرتی ہے۔
کیا ہم نے اس کثرت کی زندگی کا مشاہدہ کیاہے؟
متی ۸ باب ۲۱ تا ۲۲ آیت: مسیح اُس شخص کو کہتا ہے کہ اگر تم خدا کی بادشاہت اور اسکی راستبازی کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کسی چیز کایہاں تک کہ خاندان اور بال بچوں کا بھی دریغ نہ کرو۔
اگر ہم خدا کی بادشاہت کو پیار کرتے ہیں تو ہم کسی چیز کوخواہ وہ کتنی عزیز کیوں نہ ہو دریغ نہ کرے گے۔
متی ۱۰ باب ۳۷ تا ۳۹ آیت: یہاں بھی مسیح وہی تعلیم دیتا ہے کہ اگر ہم نیک نیت اور اخاص سے خدا کی بادشاہت کے موتی کی تلاش کریں تو کسی دنیاوی چیز کی پراوہ نہ کرے گی ۔ جو چیز ہماری نظروں میں نفیس اور قدر والی ہے اس کے حاصل کرنے میں ہم ہمت نہیں ہارے گے۔
متی ۵ باب ۶ آیت:مسیح کہتا ہے کہ جو راستباز ی کے بھوکے اور پیاسے ہیں جب تک اس راستبازی کو حاصل نہ کر لیں دم نہ لیں گے۔ ایسے لوگو کو مسیح نے مبارک لوگ کہا ہے۔
ہمارے دل میں خدا کی بادشاہت اور اس کی راستبازی کی بھوک اور پیاس ہونی چاہیے۔ پھر ہم بہت کوشش کرے گے اور ہماری کوشش ضرورکامیاب ہوگی۔
لوقا ۱۱ باب ۳۱ یا ۳۲ آیت: دنیا میں کامیابی حاسل کرنے کے لیے ایک محقق یعنی چیزوں کی تحقیقات اور نفتیش کرنے والا دماغ ضروری ہے ۔ خدا کی بادشاہت میں کامیاب ہونے کے لیے بھی ایسے دماغ کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم صبر اور استقلال سے نفتیش کرنے کی طبیعت حاصل نہیں کرتے ہم کسی چیز کی تلاش میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مسیح ملکہ سبا کی مثال دے کر کہ کس طرح وہ سلیمان کی حکومت معلوم کرنے کےلیے دور ملک سے آئی یہودیوں کو شرمندہ کرتاہے کہ خداکی بادشاہت تو سلیمان کی حکمت سے بڑھ چڑھ کر ہے تو بھی ہم ملکہ سبا کی طرح تفتیش و تلاش نہیں کرتے ۔
لوقا۱۱باب۹ تا ۱۰ آیت: بعض دفعہ ہمارے دل میں شک کو پیدا ہوتاہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ہمیں کچھ ملے گا تو نہیں کیا ضرور ہماری کوشش کامیاب ہوگی؟لیکن مسیح نے یقین دلایا ہے کہ اگرہم ڈھونڈے گے تو ضرور پائےگے۔ پس شرط یہی ہے کہ ہم ڈھونڈا کریں اور کھٹکھٹایا کریں ۔ دو دلی سے یا بے امیدی سے نہیں بلکہ پوری امید کےساتھ ۔ ہماری سستی او ر لاپرواہی عموما ہمیں کامیاب نہیں ہونے دیتی خدا اپنی بادشاہت کے بھید کاہل اور سست لوگوں پر کبھی ظاہر نہیں کرتا۔
غوروبحث کےلیے سوالات:
• تمہارے خیال میں و ہ کونسی باتیں ہیں جو انسان کو خدا کا خزانہ حاصل کرنے سے روک رکھتی ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی رکاوٹ تمہاری زندگی میں بھی ہے ۔
• تمہارے خیال میں خزانہ کیا ہے؟
زندگی میں کون سی چیز بہترین اوراعلیٰ ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا چاہیے؟
• اگر کوئی تلاش کرے تو کیا وہ ضروری ہی حاصل کرے گا؟
دُعا:اے میرے نجات دینے والے خدا میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے اپنی بادشاہت کے بھید حقیر اور سادہ دل لوگوں پر ظاہر کئے ہیں ۔ اے باپ تجھے پسند آیا کہ تو انہیں آسمان کی بادشاہت کا خزانہ عطا کرے ۔
اے میرے مال مجھ گنہگار پر رحم کر۔ میری آنکھیں کھول میرے دماغ کو روشن کر کہ میں سُستی اور لاپرواہی اور کم ہمتی کو چھوڑ کر جرات ،مردانگی اور استقلال کے ساتھ تیر ےبیش بہا خزانے کی تلاش کروں ۔ اور جب وہ مجھے جہاں بھی ملنے میں اپنا تن من دھن دے کر اُسے حاسل کر لوں۔
اے معاف کرنے والے خدا میں نے زندگی میں کتنے ہی موقعے کھو دئے مجھے معاف کر اور بخش دے کہ جب تیری بادشاہت کے بیش قیمت موتی کو حاصل کرنے کا موقع آئے۔ تو میں اُسے جانے نہ دوں۔ مسیح کی خاطر جو بادشاہت کا شہزادہ ہے۔ آمین۔
(۱۱)
نیک سامری
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۰ باب ۲۹ تا ۳۷ آیت
_______________________________________________________________
" مگر اُس نے اپنے تئِیں راستباز ٹھہرانے کی غرض سے یِسُوع سے پُوچھا پھِر میرا پڑوسِی کَون ہے؟یِسُوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمِی یروشلِیم سے یریحُو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈآکُوؤں میں گھِر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لِئے اور مارا بھی اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔اِتّفاقاً ایک کاہِن اُس راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔لیکِن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نِکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اُس کی خَبر گیری کی۔دُوسرے دِن دو دِینار نِکال کر بھٹیارے کو دِئے اور کہا اِس کی خَبر گیری کرنا اور جو کُچھ اِس سے زیادہ خرچ ہوگا مَیں پھِر آ کر تُجھے ادا کردُوں گااِن تِینوں میں سے اُس شَخص کا جو ڈاکوؤں میں گھِر گیا تھا تیری دانِست میں کَون پڑوسِی ٹھہرا؟اُس نے کہا وہ جِس نے اُس پر رحم کِیا۔ یِسُوع نے اُس سے کہا جا۔ تُو بھی اَیسا ہی کر"۔
_______________________________________________________________
مسیح نے ایک عالم شرع کے سوال کے جواب میں یہ تمثیل کہی تھی۔ یہ عالم شرع یا فریسی مسیح کا جال میں پھنسانا چاہتا تھا۔ وہ مسیح کے پاس آیا اور پوچھا کہ میں ہمیشہ کی زندگی کاوارث کس طرح بنوں ۔ یہ فریسی اُن لوگوں میں سے تھا۔ جو شریعت کی تفسیر کرتے اور اسکا مطلب لوگوں کو سمجھاتے ہیں۔
مسیح کا جواب مکمل اورلاجواب تھا۔ جب اس فریسی کو کوئی اور بات نہ سوجھی تو اُ س نے مسیح سے پوچھا کہ میرا پڑوسی کون ہے فریسی کے خیال میں اس کے مذہب کے مطابق پڑوسی سےمراد صرف یہودی تھے۔ اس لیے کہ وہ سا مریوں اور غیر یہودیوں کو اپنا پڑوسی نہیں سمجھتے تھے۔
اس تمثیل میں مسیح فریسی کی تنگ نظر کی وسیع اور اُس کے تنگ دل کو کشادہ کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ دیکھ سکے کہ وہ خدا جو سب کو پیار کرتا ہے۔ کس نظر سے دنیا کے لوگوں کو دیکھتا ہے۔
اس تمثیل میں مسیح یہودی عالموں او ر اچھوتوں میں ایک صاف مقابلہ دکھاتاہے۔ مذہبی رہنما آئے اور دامن سمیٹ کر پاس نکل گئے۔ اُن میں وہ ہمدرسی اور روح نہ تھی جو پڑوسی میں ہونی چاہیے۔ ان کو اگر فکر تھا تو صرف اپنا ۔ لیکن جب اچھوت سامری آیا۔ اس نے کوئی حیلہ بہانہ نہ کیا۔بلکہ جو کچھ وہ کر سکا فورا ہی اس نے زخمی مسافر کے لیے کیا۔ اُس نے مسافر کی ضرورت کو دیکھا اور اگرچہ وہ زخمی مسافر اُس قوم سے تھا۔ جس قوم کےلوگ اُس سے نفرت کرتے تھے اور ہو سکتا تھا کہ یہ زخمی مسافر تندرست ہو کر بعد میں کسی وقت اُسے تکلیف پہنچائے ۔ تو بھی اس رحمدل سامری نےآؤ دیکھا نہ تاؤ فورا خطرہ میں پڑ کر اپنا وقت اور روپیہ اس کی جان پہچان کےلیے خرچ کر دیا۔
اب عالم شرع کو ماننا پڑا کہ یہ سامری اس زخمی مسافر کا اصلی پڑوسی تھا نہ کہ وہ دو جو کہ یہودی شریعت کے مطابق تو پڑوسی تھے لیکن عمل میں پڑوسی نہ تھے۔
مسیح نے اس تمثی میں یہ تعلیم دی کہ ضرورت اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون ہمارا پڑوسی ہے۔ یعنی جو شخص ہماری مدد کی ضرورت رکھتا ہے ۔ وہی ہمارا پڑوسی ہے۔ اگر ہم میں مسیح کا روح ہے تو ہم ہر ایک محتاج کو اپنا پڑوسی سمجھے گے خواہ وہ غیر دیس کا ہو ، ہمارا مخالف ہو، اچھوت ہو، ہم سے ادنی ہو، عمر میں بڑاہو یا چھوٹا۔ دیکھنے کے لائق صرف یہی بات ہوتی ہے کہ آیا ہم اس حاجتمند کی مددکر سکتے ہیں کہ نہیں۔
جس شخص میں پڑوسی ہونے کی روح اور خواہش ہے وہ کبھی یہ سوال نہیں پوچھتا کہ میرا پڑوسی کون ہے۔ بلکہ وہ یہ سوال کرتا ہے کہ میں کس کے ساتھ دوستانہ اور پڑوسیانہ سلوک کر سکتا ہوں ۔ ایسے شخص کے دوستوں اور پڑوسیوں کا حلقہ تنگ نہیں ہوتا بلکہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں پوچھتا کہ فلاں شخص کو کیا حق حاصل ہے کہ میں اس کی مدد کروں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں کس طرح ہم جنس انسان کی مصیبت اور ضرورت کے وقت مدد کروں۔
چاہیے کہ ہماری زندگیوں میں دوستانہ پڑوسیانہ ہمدری اور الفت ہو۔
مسیح کی زندگی میں یہ ایک اُبھری ہوئی بات تھی ۔ چاہیے کہ ہماری زندگی میں بھی ہو۔
اس دنیامیں یہی صفت مسیحیت کی سب سے بڑی نشانی اور مسیح کی گواہ ہے۔ ہم اسی طرح خدمت کر کے ہی مسیح کی گواہی دے سکتے ہیں۔ جس کو میری مدد کی ٖضرورت ہے ۔ وہی میرا پڑوسی ہے ۔ یہ تمثیل بہت ہی مشہور ہے۔ لیکن اس تمثیل کی تعلیم پر بہت ہی کم عمل ہوتاہے جب ہم کسی حاجت مند کو دیکھتے ہیں تو اپنے دل میں اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کیوں اس کی مدد کریں۔ اور ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے اپنی قوم والوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ نیز ہم اکثر اُن کی مدد کرتے ہیں جن کی بابت ہمیں یقین ہوتا ہے۔ کہ وقت پڑنے پر دہ ہماری مدد کرے گے۔ جس سے ہمیں کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو یا جن سے ہمیں رنجش ہوتی ہے۔ ہم ان کی مدد نہیں کرتے ۔ ہم بعض دفعہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اِس یا اُس کی مددکرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا ۔ اسی لیے جہاں ہمیں کچھ فائدہ نظرنہ آئے یا کچھ خسارہ معلوم دے ہم مدد نہیں کرتے ۔ یہ مسیحی طبعیت نہیں ہے۔ مسیح نے ان کے لیے دعا کی جنہوں نے اُس کو صلیب پر لٹکایا۔ مسیح نے آدمیوں کے درجے قومیت خاندان اور علمیت طبیعت نہیں ہے۔ مسیح نے اُن کے لیے دعا کی جنہوں نے اُس کو صلیب پر لٹکایا۔ مسیح نے آدمیوں کے درجے قومیت خاندان اور علیمت کا خیال نہ کیا اُس نے صرف اُن کی ضرورتوں کو دیکھا اور ان کی حابت روائی کی۔ ہر ایماندار میں یہی طبیعت ہونی چاہیے وہ انسان جس کو میری اور میری مدد کی ضرورت ہے۔ میرا پڑوسی ہے جس طرح مسیح ساری دنیا کےلیے ہے۔ اُسی طرح اس کا شاگرد بھی کل عالم کے لیے ہے۔ مسیح ساری دنیا کے لیے ہے۔ اُسی طرح اُس کا شاگرد بھی عالم کے واسطے ہے۔ مسیح کے بندے کو بغیر چون و چرا کے محتاجوں اور بے کسوں کی مدد اور خدمت کرنا چاہیے مسیح کی آخری نصیحت ہمارے لیے یہ ہے کہ " جا اور تو بھی ایسا ہی کر"۔
مطالعہ کے لیے:
یوحنا ۴ باب ۱ تا ۱۱ آیت: یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے پڑوسی کو محبت کرنے کی تعلیم پر کس طرح عمل کیا۔ جس کسی کو مسیح کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ مسیح کبھی انکار نہیں کرتا تھا۔ نہ دریغ کرتا تھا۔ کوئی خواہ کسی قوم مذہب ملک یا فرقے کا ہو مسیح ہر ایک کی مدد اورخدمت کر دیتا تھا۔ مسیح یہودی تھا۔لیکن غیر یہودی بھی اُس کو یہودیوں کی طرح پیارے تھے۔
لوقا۸ باب ۱ تا ۱۰ آیت: یہ ایک واقعہ ہے جہاں خیال کیا جا سکتا تھا۔ کہ پڑوسیانہ محبت دکھانے میں کچھ عذر ہو سکتا ہے ۔ یہ سرداران لوگوں میں سے تھا جو ملک کو فتح کر کے اب لوگوں پر حکمرانی کر رہے تھے۔ گویہ شخص خود اچھا تھا تو بھی دشمنوں میں سے تھا اور اجنبی تھا۔ لیکن مسیح نے اس بات کی پرواہ نہ کی ۔ اس تمثیل میں اسی قسم کی طبیعت رکھنے اور دکھانے کی تعلیم دی گئی ہے۔
اعمال ۱۰ باب ۹ تا ۱۸ آیت: پطرس مسیح کے پاس رہا مسیح کی تعلیم سنتا اور سیکھتا رہا لیکن وہ بھی اس تمثیل کے معنی اور مطلب کو پورے طور پر نہ سمجھا۔ پس خدا نے اُس پر ایک خواب یا رویا کے وسیلے سے اس تمثیل کی تعلیم ظاہر کی۔ اس رویا میں اُسے وہ کام کرنے کا کہا گیا جو اُس مذہب کے اصولوں اور رسموں کے خلاف تھا۔ اس رویا سے چند روز پیشتر پطرس ایسی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ یہ اُس کے لیے آسان بھی نہ تھا لیکن یہ تعلیم سیکھنے کے بعد اُس نے فورا اُس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا۔
اعمال ۲۲ باب۱۸ تا ۲۲ آیت: تہ یہاں پولوس بیان کرتا ہے کہ وہ کس طرح غیر قوموں کے پاس بھیجا گیا۔ پولوس ایک کٹر یہودی تھا اور غیر قوموں کی نجات کے بارے میں بے اُمید اور لاپرواہ تھا۔ لیکن جب پڑوسی کو محبت کرنے کی تعلیم اُسے ملی تو اُ س میں تبدیلی آگئی۔
یوناہ ۴ باب۱ تا ۱۱ آیت: یوناہ نبی کا واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہودی فقط اپنی قوم ہمدردی رکھتے تھے۔ جب خدا نے نینوا کے لوگوں کو معاف کیا تو یوناہ کو رنج ہوا۔ اس میں اس نیک سامری کی طبیعت نہ تھی۔ اُس کے نزدیک پڑوسی وہی تھے۔ جو اس کی ذات برداری ۔ اُس کے شہر یا اُس کی قوم کے تھے۔ لیکن خدا اُسے دکھایا کہ اُس کا خیال غلط تھا۔
متی ۵ باب ۴۳ تا ۴۸ آیت: یہاں مسیح صاف طور پر دکھاتاہے کہ ہم جو خدا کی بادشاہت کے شہری (لوگ) ہیں۔ یہ ہمارا فرض بلکہ حق اور طبیعت ہے کہ ہم دشمنوں کو پیار کریں ۔ اور بُرا چاہنے والوں کا بھلا کریں اور اُن کے لیے دعا کریں۔
کیا ہم نے کبھی اپنے آپ سے سوال کیا ہے کہ مجھ میں اور غیر مسیحیوں میں کیا فرق ہے۔ نیک سامری کی طبیعت رکھنے سے ہم میں فرق پیدا ہوگا۔
غور و بحث کے لیے سوالات:
• کیا کوئی موقع ایسا یاد ہے جب تم حاجتمند کو چھوڑ کر نکل گئے؟
o تم نے کیوں ایسا کیا؟
o لوگ عموما کیوں ایسا کرتے ہیں؟
• ہم اپنے لیے یعنی خود غرضی کےلیے نہیں بلکہ اپنے جنسوں اور پڑوسیوں کے لیے بنائے گئے ہیں"۔
o کیا تم اس سے متفق ہو؟
• آج مسیحی ہندوستان میں نیک سامری کا سا کام کس طرح کر سکتے ہیں؟
دعا :اے خدا تو جو پاک ہے۔ تو جو سب کو پیار کرتاہے اور سب کی خیر لیتا ہے۔ میں تیرا خاکسار اور خطاکار بندہ اقرار کرتا ہوں کہ مجھ میں خود غرضی اور تنگ نظر ی ہے اور خیر خواہی کی بہت کمی ہے۔ میں نے انسانوں کی مدد خدمت اوربہتری کے کئی موقعے جان بوجھ کر کھو دئے اس لیے کہ ان کی مدد اور خدمت میں مجھے کوئی ذاتی نفع نظر نہ آیا۔
اب اے رحیم باپ مجھے اپنا روح دے ۔ مجھے مسیح کی طرح محبت کرنا سیکھا کہ میں ہم جنسوں کے لیے صلیب اور برداشت کا راستہ اختیار کروں اور ان کی خدمت اور بہتری کے لیے جو ضرور ہو کروں۔
مجھے مسیح کی سی طبیعت دے جس نے کہا کہ میں خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا ہوں ۔ بخش دے کہ خدمت اور خیر خواہی کا کام میری زندگی میں آج بلکہ ابھی شروع ہو۔ اُسی کا مبارک نام لے کر میں یہ عرض کرتا ہوں قبول فرما۔ آمین۔
(۱۲)
بھیڑوں بکریوں کی تمثیل
انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۲۵ باب ۳۱ تا ۴۶ آیت
_______________________________________________________________
"جب اِبنِ آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرِشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بَیٹھیگا۔اور سب قَومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دُوسرے سے جُدا کرے گا جَیسے چرواہا بھیڑوں کو بکرِیوں سے جُدا کرتا ہے۔اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکرِیوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔اُس وقت بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا آؤ میرے باپ کے مُبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تُمہارے لِئے تیّار کی گئی ہے اُسے مِیراث میں لو۔کِیُونکہ مَیں بھُوکا تھا۔ تُم نے مُجھے کھانا کھِلایا۔ میں پیاسا تھا۔ تُم نے مُجھے پانی پِلایا۔ میں پردیسی تھا۔ تُم نے مُجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ننگا تھا۔ تُم نے مُجھے کپڑا پہنایا۔ بِیمار تھا۔ تُم نے میری خَبر لی۔ قَید میں تھا۔ تُم میرے پاس آئے۔تب راستباز جواب میں اُس سے کہنیگے اَے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بھُوکا دیکھ کر کھانا کھِلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پِلایا؟ہم نے کب تُجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ہم کب تُجھے بِیمار یا قَید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں چُونکہ تُم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائِیوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ یہ سُلُوک کِیا اِس لِئے میرے ہی ساتھ کِیا۔پھِر وہ بائِیں طرف والوں سے کہے گا اَے ملعُونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو اِبلِیس اور اُس کے فرِشتوں کے لِئے تیّار کی گئی ہے۔کِیُونکہ مَیں بھُوکا تھا۔ تُم نے مُجھے کھانا نہ کھِلایا۔ پیاسا تھا۔ تُم نے مُجھے پانی نہ پِلایا۔پردیسی تھا۔ تُم نے مُجھے گھر میں نہ اُتارا۔ ننگا تھا۔ تُم نے مُجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بِیمار اور قَید میں تھا۔ تُم نے میری خَبر نہ لی۔تب وہ بھی جواب میں کہیں گے اَے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بھُوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بِیمار یا قَید میں دیکھ کر تیری خِدمت نہ کی؟اُس وقت وہ اُن سے جواب میں کہے گا مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں چُونکہ تُم نے اِن سب سے چھوٹوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ یہ سلُوک نہ کِیا اِس لِئے میرے ساتھ نہ کِیا۔اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زِندگی"۔
_______________________________________________________________
اس تمثیل میں مسیح ہمیں ایک تصویر دکھاتاہے۔ جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ آدمی اور عورتوں کا کس طرح انصاف ہوتوہے ۔ اور کس انتظام سے وہ بھیڑوں اور بکریوں کی طرح دو گروہوں میں بانٹے جاتے ہیں اُنہیں عقیدے یا دینی اصولوں کی بابت کوئی بات نہیں پوچھی جاتی۔ اُن سے سوال نہیں کیاجاتا کہ تم کس پر ایمان رکھتے ہو۔ اُن سے یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ تم کس کلیسیا کے شریک ہو۔ تم کتنی دفعہ گرجے میں گئے اور لوگوں میں تمہاری نسبت کیا خیال تھا۔ اُن کی آزمائش ان کے کاموں سے ہوتی ہے کہ آیا انہوں نے اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق کام بھی کئے یا نہ کئے کیونکہ ہم جس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور ہم بغیر سوچے سمجھے اُس پر عمل کرتے ہیں۔ جب ہم اصولوں پر عمل نہیں کرتے تو اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم ان پر ایمان بھی نہیں رکھتے ۔ اگر واقع اُن اصولوں پر ہمارا ایمان ہو تو ہم ضرور بالضرور اور خواہ مخواہ اُن کے مطابق عمل کرے گے۔
مسیح نے اکثر یہ بات بڑے زور سے کہی کہ اُس کے شاگرد پھلوں سے پہچانے جائے گے ۔ ہمارے دل کی حالت ہمارے کاموں سے جانی جاتی ہے۔ اس تمثیل میں انسانوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ نے کچھ ایسے کام کئے تھے جو دوسرے گروہ نے نہ کیے اُسی سے معلوم ہو گیا کہ اُن کا خدا کے ساتھ اور بندوں کے ساتھ کیا تعلق اور سلوک تھا ۔ جن کو بھیڑیں کہا گیا ہے ان کو تعلق انسانوں کے ساتھ صحیح تھا اور ان کے دلوں میں خدا کی بادشاہت تھی۔
لیکن دوسرے گروہ کے لوگ جو اپنے کاموں میں مگن تھے اور جنہیں دوسروں کی پرواہ نہ تھی ۔ خواہ وہ مریں یا جئیں ان میں محبت اور دوستی جو مسیحوں کی خاص صفت ہیں نہیں تھیں اور اس سے معلوم ہو گیا کہ ان کے دلوں میں خدا کی بادشاہت بھی نہیں تھی۔ جہاں خدا کی بادشاہت ہو وہاں خود غرضی کی بجائے محبت مروت اور خیر خواہی ہی ہوگی ۔ جس دل میں خدا کی بادشاہت ہے وہ کبھی خدمت کے بڑے بڑے موقعوں کی تلاش اور انتظار نہیں کرتا۔ وہ اپنی زندگی میں چھوٹے سے چھوٹے موقع پر بھی ہلکی سےہلکی خدمت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اور جب وقت پڑتا ہے تو وہ رہ نہیں سکتا پیاسے کو ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ دینا کچھ مشکل نہیں لیکن مسیح نے کہا کہ اگر تم میرے نام سے کسی کو ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ پلاؤ گے تو اسی سے پہچانے جاؤ گے کہ تم میرے شاگرد ہو ۔ جہاں خدا کی بادشاہت ہے وہاں ایک طبیعت ہے ۔ جو ہلکی سے ہلکی اور حقیر سے حقیر خدمت کو فخر اور خوشی سے بلکہ ہنس کر قبول کرتی اور انجام دیتی ہے۔ اصلی محبت بڑے بڑے کاموں میں نہیں بلکہ تمام موقوں اور ادنیٰ خدمتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
خیال کرو اُس گروہ نے جس کو بھیڑوں کا گروہ کہا گیا ہے۔ جو کچھ بھی کیا انعام اجر اور شہرت کی غرض سے نہیں کیا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ کیوں خدا کی بادشاہت کےلائق تھے۔ تو حیران ہوئے اس لیے کہ انہوں نے نیکی کے کام نیکی سمجھ کر کئے تھے۔ تاکہ اجر کی خاطر ۔ انہوں نے بہشت کی خاطریہ کام نہیں کئے تھے۔ وہ بھوکوں پیاسوں بیماروں اور محتاجوں پر مہربان تھے۔ کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ ایسا کرنا انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ یوں انہوں نے ظاہر کیا کہ ان میں دوستی نیکی اور خیر خواہی کی روح تھی جو انہوں نے خدا سے حاصل کی تھی۔
اس تمثیل سے ایک اور نقطہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ہماری آزمائش ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم آئندہ عدالت کا انتظار کریں ہماری زندگی کی عدالت محبت کے قانون سے ہر روز ہوتی ہے ۔ ہم اپنے پھلوں سے پہچانے جاتے ہیں ۔ اگر ہم ان کی طرف سے جن کو ہماری خدمت کی ضرورت ہے غافل رہیں اور اگرہم خدمت اور رفاقت کے ادنیٰ موقعوں کو حقیر جانیں تو انہی سے ہم پرکھے جاتے ہیں
اس تمثیل میں بکریوں نے یعنی جس گروہ کو بکریاں کہا گیا ہے اُس نے ظاہرہ کوئی قصور نہیں کیا تھا۔ ہاں اُن کا یہی قصور تھا کہ انہوں نےکچھ بھی نہ کیا۔ ان کی حالت اُس آدمی کی سی تھی جس نے ایک توڑا لے کر زمین میں گاڑ دیا۔ اپنے ہم جنسوں کی خدمت اور مدد کے بارے میں وہ بالکل لاپرواہ اور بے کار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رد کئے گئے۔ مسیحی زندگی بے کار نہیں بلکہ کام کی زندگی ہونی چاہیے۔ بدی نہ کرنا کافی نہیں۔ نیکی بھی کرنا چاہے جسطرح کہ مسیح نے کہا کہ جب آدمی میں سے بد روح نکل جاتی ہے تو اُس کا دل خالی نہیں رہنا چاہیے ۔ اس میں پاک روح آنا چاہیے ۔ اگر پاک روح نہ آئے اور دل کچھ دیر کے لیے خالی پڑا رہے تو اس میں ایک کی بجائے سات بدروحیں آتی ہیں۔
مطالعہ کے لیے:
متی ۲۱ باب ۲۸ تا ۳۱ آیت: یہاں مسیح نے تعلیم دی کہ جو شخص محنتی اور خدمت گزار ہے وہی خدا کی بادشاہت کے لائق ہے ان دو لڑکوں میں پہلا لڑکا نافرمان تھا۔ اُس نے باپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ مگر بعد میں تبدیل ہو گیا۔ اور تابعداری کی۔ دوسرا لڑکا باتوں سے گھر پورا کرتا اور چکنی چپڑی باتوں سے باپ خوش کرتا تھا۔ خدا ہم سے لفظ نہیں بلکہ کام طلب کرتا ہے ۔ چکنی چپڑی باتیں کرنا اور ہاتھ پاؤں سے کچھ نہ کرنا فضول ہے۔
متی ۱۰ باب ۴۰ تا ۴۲ آیت: مسیح چھوٹی چھوٹی خدمتوں کی طرف دھیان دیتا ہے ۔ یہ کہنا کہ ہمیں خدمت کا موقع نہیں ملتا درست نہیں مسیح ہم سے وہی خدمت طلب کرتا ہے جو ہمارے بس میں ہو ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ اگر ہم چھوٹے چھوٹے کاموں میں دیانتدار ہیں تو بڑے موقعوں پر بھی ضرور دیانتدار ثابت ہو نگے۔
متی ۱۸ باب ۶۱ آیت: ہر بات غور کے لائق ہے کہ مسیح بچوں کو کس قدر پیار کرتا تھا۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہم بچوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یعنی محتاجوں اور غریبوں کےساتھ ہمارا کیا سلوک ہے۔ ایسوں کےلیے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی مسیح کی نظروں میں بڑی قدر رکھتی ہے۔
متی ۱۹ باب ۱۳ تا ۱۵ آیت: یہ اس بات کی مثال ہے کہ مسیح بچوں سے کس طرح محبت رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ ا ن کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار تھا۔ خدا کی بادشاہت میں وہ لوگ شامل ہیں جو چھوٹے بچوں کی طرح ہیں۔ یعنی جو سادہ دل محبت والے اور بھروسے کے لائق ہیں مسیح چاہتا ہے کہ ہم چھوٹے بچے کی طرح ہر ایک شخص کو محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض دفعہ بڑی خدمت کی نسبت چھوٹی خدمت کرنا ہوتا ہے۔
متی ۲۰ باب ۲۵ تا ۲۹: مسیح دنیا کے لوگوں کی طرح بڑائی کی چانچ نہیں کرتا تھا۔ مسیح اُس آدمی کو بڑا نہیں کہتا تھا۔ جس کا رتبہ بڑا ہو ۔ جو مالدار ہو زیادہ رسوخ والا ہو۔ وہ اُس کو بڑا سمجھتا تھا جو خوشی سے زیادہ خدمت کرے
یوحنا ۱۳ باب ۱ تا ۱۵ آیت: یہاں مسیح نے ایک نمونہ دیا ہے ۔ شاگرد سمجھتے تھے کہ ادنیٰ خدمت سے ہم سے دوسروں کی نظروں سے گر جائے گی ۔ مسیح نے خود ادنیٰ خدمت کر کے ان کو شرمندہ کیا۔ کوئی کام جس میں دوسروں کا بھلا ہو ادنی ٰ نہیں۔ اگر مسیح چھوٹے چھوٹے کا م کر سکتا تھا تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟ اور اگرہم نہیں کر سکتے تو ہم مسیح کے امتحان میں پاس نہیں ہو سکتے ۔
متی ۲۳ باب ۱ تا ۱۲ آیت: یہاں مسیح نے کہا ہے کہ خدا کی بادشاہت میں بڑائی کی پہچان خدمت سے ہونی چاہیے۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ پس ہم برابر ہیں۔
غور و بحث کے لیے سوالات:
• کہتے ہیں کہ یگا نگت کا نہ ہونا دنیا کی مصیبتوں کا باعث ہے کیا تمہارے خیال میں یہ بات درست ہے؟
• وہ کونسی بات ہے جو ہمیں چھوٹی چھوٹی خدمتوں سے جو مسیح کی نظروں میں قدر رکھتی ہیں روکتی ہے؟ ہم کس طرح اس کا علاج کر سکتے ہیں؟
• مسیح نے اپنے آپ کو محتاجوں میں گنا ہے ۔ کیا ہم میں ہمدردی کی روح ہے؟ ہم کس طرح یہ طبیعت پیدا کر سکتےہیں؟
دُعا:اے بزرگ باپ تو جو اپنی مخلوقات کی خدمت کرتا اور تھکتا نہیں۔ تو جس نے اپنے بیٹے سے بھی گنہگاروں کی خدمت کروائی ۔میں تیرے اُسی بیٹے کا واسطہ دے کر التماس کرتاہوں کہ مجھے طاقت دے اور بخش دے کہ وہ طاقت محتاجوں ، بے کس اور بے سہارہ لوگوں کی خدمت میں خرچ کروں۔ خدمت گزاری میں مجھے مسیح جیسا بنا۔ مجھے برابری اور برادری کی طبیعت دے کہ میں تیری خدمت کروں اور انسان کا لائق خادم بنوں ۔
مسیح کی خاطر ۔ آمین۔
(۱۳)
دولتمند اور لعزر
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۶ باب ۱۹ تا ۳۱ آیت
_______________________________________________________________
"ایک دَولتمند تھا جو ارغوانی اور مہِین کپڑے پہنتا اور ہر روز خُوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔اور لعزر نام ایک غرِیب ناسُوروں سے بھرا ہُؤا اُس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھا۔اُسے آرزُو تھی کہ دَولتمند کی میز سے گِرے ہُوئے ٹُکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کُتّے بھی آ کر اُس کے ناسُور چاٹتے تھے۔اور اَیسا ہُؤا کہ وہ غرِیب مر گیا اور فرِشتوں نے اُسے لیجا کر ابرہام کی گود میں پہُنچا دِیا اور دَولتمند بھی مُؤا اور دفن ہُؤا۔اُس نے عالمِ ارواح کے درمِیان عذاب میں مُبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اُٹھائِیں اور ابرہام کو دُور سے دیکھا اور اُس کی گود میں لعزر کو۔اور اُس نے پُکار کر کہا اَے باپ ابرہام مُجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سِرا پانی میں بھِگو کر میری زبان تر کرے کِیُونکہ مَیں اِس آگ میں تڑپتا ہُوں۔ابرہام نے کہا بَیٹا! یاد کر کہ تُو اپنی زِندگی میں اپنی اچھّی چِیزیں لے چُکا اور اُسی طرح لعزر بُری چِیزیں لیکِن اَب وہ یہاں تسلّی پاتا ہے اور تُو تڑپتا ہے۔اور اِن سب باتوں کے سِوا ہمارے تُمہارے درمِیان ایک بڑا گڑھا واقِع ہے۔ اَیسا کہ جو یہاں سے تُمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی اُدھر سے ہماری طرف آ سکے۔اُس نے کہا پَس اَے باپ! مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ تُو اُسے میرے باپ کے گھر بھیج۔کِیُونکہ میرے پانچ بھائِی ہیں تاکہ وہ اُن کے سامنے اِن باتوں کی گواہی دے۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ ابرہام نے اُس سے کہا اُن کے پاس مُوسٰی اور انبِیا تو ہیں۔ اُن کی سُنیں۔ اُس نے کہا نہِیں اَے باپ ابرہام۔ ہاں اگر کوئی مُردوں میں سے اُن کے پاس جائے تو وہ تَوبہ کریں گے۔ اُس نے اُس سے کہا کہ جب وہ مُوسٰی اور نبِیوں ہی کی نہِیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے"۔
_______________________________________________________________
اس تمثیل کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں دولتمند اور اُس کے مال ، نوکر چاکروں او رعیش و عشرت کا ذکر ہے۔ اُس کے دروازے پر ایک محتاج پڑا ہوا ہے ۔ جس کے پاس دنیا کا مال بالکل نہیں۔ دولتمند یہ نہیں سمجھتے کہ اس کی دولت اس کو اخز کی خدمت کا موقع دیتی ہے وہ ہر روز محتاج لعزر کو اپنے دروازے پر دیکھتا ہے ۔ اس کے پاس سے گزر جاتا ہے ۔ لیکن اپنی دولت سے اس محتاج کی ضرورتیں پوری کرنے کا کبھی فکر نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ وہ ظالم نہیں تھا صرج لاپرواہ تھا۔ اس نے کبھی اس محتا ج کا خیال نہ کیا اور نہ یہ سوچا کہ وہ اس کےلیے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ اور اسی لاپرواہی کے سبب خدمت کا موقع کھو دیا ۔
یہاں بھی وہی حالت ہے جو نیک سامری کی تمثیل میں تھی۔دونوں میں نتیجہ ایک ہی ہے۔ جس طرح لاوی اور کاہن لاپرواہی سے زخمی مسافر کے پاس سے گزر گئے۔ اسی طرح یہ دولتمند اُس محتاج کے پاس سے گزر جاتا تھا۔ جو اس کے دروازے پر پڑا تھا۔ سبب یہ تھا کہ اُس کا تعلق ہم جنس انسانوں کے ساتھ درست نہ تھا۔ اُس میں دوستی اور رفاقت کا شوق نہیں تھا اور نہ ہی ہمدردی تھی۔ کیونکہ وہ اپنی دولت کے نشے میں تھا۔ اُسے صرف دنیا وی چیزوں کا شوق تھا۔ دولت کا یہی خطرہ ہے ۔ دولت ایک اچھا خادم ہے۔ لیکن سخت اور نالائق آقا ہے۔
ایسی آزمائش صرف آزمائش صرف دولتمند پر ہی نہیں آتی ۔ ہر ایک پر آتی ہے۔ ہم سب دولت کے نشے میں مست ہو کر روحانی باتوں کو بھول جاتے ہیں۔جب ایسی آزمائش ہم پر غالب آتی ہے۔ تو ہم دوسروں سے ہمدردی اور دوستی نہیں رکھ سکتے ۔ اگر ہمارے پاس دولت نہ ہو تو کم از کم ہمارے پاس وقت، لیاقت اور کئی چیزیں ہوتی ہیں ۔ جن کو ہم دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو کچھ ہمارے پاس ہے اگر ہم اسے اپنے ہی شوق اور فائدے کے لیے استعمال کرنے میں مگن ہیں تو ہم اس امیر آدمی کی طرح ہیں ۔ ہم دوسروں کو بھول جاتے ہیں۔
تمثیل کے دوسرے حصے میں دولت مند اور لعزر کی حالت بالکل بدلی ہوئی ہے ۔ ہماری آنے والی زندگی کی حالت ہماری اسی زندگی سے بنتی ہے ۔ دولتمند نے اسی زندگی کے بیج کی فصل دوسری زندگی میں کاٹی ہے۔
اس تمثیل میں دوسری دنیا کی بابت تعلیم نہیں دی گئی ۔ بلکہ صرف ایک اصول دیکھایا گیا ہے ۔ اور وہ اصول یہ ہے ہ جو کچھ ہم اس دنیا میں کرتے ہیں ۔ اسی سے ہماری آئندہ زندگی کی حالت بنے گی ۔
اس تمثیل میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ تمام امیر لوگ دوزخ میں جائے گے اور غریب بہشت ہیں ۔ بلکہ یہ سیکھایا گیا ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے۔ اگر ہم اسے دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال نہیں کرتے تو آنے والی زندگی میں ہم خدا کے ساتھ نہیں وہ سکے گے۔
اس تمثیل میں یہی سبق ہے کہ جو تحفے اور انعام خدا نے ہمیں دئے ہیں چاہے دولت ہو، وقت ہو، لیاقت ہو، عزت ہو، جو کچھ بھی ہو، چاہیے کہ ہم اسے دیانتداری اور ہمدردی سے دوسروں کی خدمت کے لیے خرچ کریں۔ خدا کی بادشاہت دوستی اور رفاقت کی بادشاہت ہے۔
مطالعہ کے لیے:
متی ۶ باب ۱۹ تا ۲۳ آیت:یہاں مسیح دکھاتا ہے کہ روپیہ پیسا خدا کی بادشاہت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ یہ ہو سکتی سکتا کہ کوئی آدمی دولت کا نشہ رکھتے ہوئے انسانوں کی خدمت کر سکے۔
متی ۱۶ باب ۲۴ تا ۲۶ آیت: اگر مسیح کے مطلب کو سمجھ لیں تو روکاوٹوں کو جو خدمت سے روکتی ہیں آسانی سے روک سکتے ہیں۔ کیاہم مسیح کی تعلیم کو سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ شاید ہم جواب دینگے کہ ہاں۔ اگر ہم مانتے ہیں تو ہم کیوں اس کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔
متی ۱۹ باب ۱۶ تا ۲۲ آیت: یہ اُس آدمی کا ذکر ہے جو اپنے مال میں مگن تھا۔لیکن اُس کا مال کسی فائدے کا نہیں تھا۔ اپنے مال کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے وہ مال کا غلام بن گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں روحانی باتوں کا شوق تھا۔ لیکن مال اور دولت کی محبت نے جھاڑیوں کی طرح اُس شوق کو دبا لیا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم مسیح کی اتنی ہی خدمت کرتے ہیں جو ہمارے شوق اور ہماری دلچسپیوں میں روکاوٹ پیدا نہ کرے۔
غور و بحث کےلیے سوالات:
• کیا دولت کی آزمائش صرف امیر لوگوں پر آتی ہے یا سب پر آتی ہے؟ دولت کا اصلی خطرہ کیا ہے؟
• ہم کس طرح دولتمند آدمی کی مانند ہیں؟ اس کا کیا علاج ہے؟
• اس تمثیل کی تعلیم کا توڑوں کی تمثیل سے مقابلہ کرو۔
دُعا:اے مہربان باپ تیرا شکر ہے کہ تو نے زندگی اور تندرستی دی ہے۔ اور اس زندگی کی خوشی کےلیے میری ضرورت کے لیے اس زندگی میں تو موقع دیتاہے ۔
اے خدا میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے بہت سے موقعے کھو دیئے ہیں۔ دوستوں ، محتاجوں ،جاہلوں مسیحوں کو نہ جاننے والوں کی خدمت کے کئی موقعے آئے مگر میں نے لاپرواہی سے کھو دئے۔ ایمانداروں کے ساتھ دوستی اور رفاقت کے کئی موقعے آئے وہ بھی میری غفلت سے جاتے رہے۔
اب اے رحیم باپ میں سنجیدگی اور خاکساری سے درخواست کرتاہوں کہ مجھے پاک روح عطا کر جس سے میں تیری باتوں کو سمجھوں ۔ تیرے کلام کو جانوں اور اس زندگی میں غفلت سے بچ کر تیری مرضی پوری کروں ۔ مجھے خطروں سے بچا اور آزمائیشوں میں کامیاب بنا۔
(۱۴)
نادان دولت مند
انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۲ باب ۱۶ تا ۲۱ آیت
_______________________________________________________________
"اور اُس نے اُن سے ایک تَمثِیل کہی کہ کِسی دَولتمند کی زمِین میں بڑی فصل ہُوئی۔پَس وہ اپنے دِل میں سوچ کر کہنے لگا مَیں کیا کُوں کِیُونکہ میرے ہاں جگہ نہِیں جہاں اپنی پَیداوار بھر رکھّوں۔ اُس نے کہا مَیں یُوں کرُوں گا کہ اپنی کوٹھیاں ڈھا کر اُن سے بڑی بناؤں گا۔ اور اُن میں اپنا سارا اَناج اور مال بھر رکھّونگا اور اپنی جان سے کہوں گا اَے جان! تیرے پاس بہُت برسوں کے لِئے بہُت سا مال جمع ہے۔ چین کر۔ کھا پی۔ خُوش رہ۔ مگر خُداوند نے اُس سے کہا اَے نادان! اِسی رات تیری جان تُجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پَس جو کُچھ تُو نے تیّار کِیا ہے وہ کِس کا ہوگا؟ اَیسا ہی وہ شَخص ہے جو اپنے لِئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خُدا کے نزدِیک دَولتمند نہِیں"
_______________________________________________________________
ایک آدمی مسیح کے پاس گیا اور کہا کہ میرے اور میرے بھائی کے درمیان جائیداد کا جھگڑا ہے۔ اُس کا فیصلہ کر دے مسیح نے انکار کیااور اُس شخص کو اور تمام سننے والوں کو کہا کہ لالچ سے خبردار رہو ۔ تب اُس نے انہیں یہ تمثیل سنائی ۔ یہ تمثیل لالچ سے خبرادار کرتی ہے۔ مسیح نے ایک دفوہ کہا تھا جہاں تمہارا خزانہ ہے۔ وہاں تمہارادل بھی ہو گا۔ اب اس آدمی کا دل دنیا کے مال میں تھا اور اس کے دل میں بھائی کے خلاف لالچ بھی تھا۔ اس شخص نے اپنی باتوں میں کئی دفعہ لفظ "میراؔ، میرےؔ اور میںؔ " استعمال کیا ہے۔ مثلا اپنی پیداوار ، میر مال میری جان ، میری کھتے وغیرہ ۔
یہ شخص بہت ہی خود غرض تھا۔ اس نے دوسروں کا بالکل فکر نہ کیا۔ خدا کی بھی پرواہ نہ کی۔ اُس کو اپنا اور اپنی دلچسپیوں کا خیال تھا۔ غرضیکہ اس شخص کا تعلق اپنے ہم جنسوں کےساتھ بہت کمزور تھا ۔ ایک صورت میں اُس کا ہم جنسوں کے ساتھ کوئی تعلق تھا ہی نہیں کسی سے دوستی نہ تھی۔ اور نہ وہ کسی کی مدد کے لیے تیار تھا۔ وہ پہلی تمثیل کے دولتمند کی طرح پرواہ نہ تھا۔ وہ اپنے خیالوں میں اس قدر محو تھا کہ دوسروں کے بارےمیں سوچنے کا موقع تک نہ ملا۔
یہ شخص اپنی کمزوری سے واقف نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی زندگی محفوظ ہےاور اس کو کسی کی پرواہ نہیں ۔ اس کا بھروسہ ایسی چیز پر تھا۔ جو موقع پر اور ہر معاملے میں اس کو مدد نہیں دے سکتی تھی ۔ اب اس کو معلوم ہو گیا کہ مفید زندگی اور خوشی کی زندگی کا دورو مدار دنیا ے مال پر نہیں۔
اس شخص نے یہ سوچا ہ وہ اپنے مال کو جب چاہے اور جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ انسانوں میں یہ خیال عام ہے ۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک چیز ہمیں خدا سے ملی ہے۔ ان کے استعمال میں خدا کی مرضی اور صلاح ضرور ہونی چاہیے۔ اگر خدا ہمیں طاقت، عقل ، وقت اور باقی سہولتیں نہ دے تو ہم کچھ نہیں کر ستے ۔ مال کے استعمال میں اس حقیقی مالک کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ محنت کرنے اور کمانے میں دوسرے
انسانوں کی مدد اور شراکت ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ پس اپنے مال میں کسی حد تک ان کو بھی شریک سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے علم سے روپیہ کماتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سکو ل نے جس میں ہم نے تعلیم پائی اور والدین نے اور کئی مہربانوں نے لیاقت پیدا کرنے میں ہماری مدد کی اسی طرح ہر ایک چیز جو ہمارے پاس ہے۔ دوسروں کی مدد سے حاصل ہوئی ہے۔
اس تمثیل سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمارا مال ہماری ہستی کا حصہ نہیں بلکہ صر ف ہماری زندگی کی ترقی اور خوشی کی چیزیں ہے۔ اصلی چیز ہماری سیرت یا ہمارا چال چلن ہے اور دنیا کامال صرف سیرت اور چال چلن بننے اور بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اس آدمی نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب دنیاکا مال اسے چھوڑنا پڑا تو اس کے پلے کچھ بھی نہ رہا۔ لالچ کا سب سے بڑا خطرہ یہی ہے ۔ یہ ہماری سیرت یا اخلاق کی ترقی کو روکتا ہے ۔ یہ ہمیں اصلی چیزوں سے روک کر نقلی چیزوں کی طرف لگا تا ہے۔
مطالعہ کےلیے:
لوقا ۱۲ باب ۳۱ تا ۳۴ آیت: اگر ہمارے دل میں خدا کی بادشاہت کا خیال اول جگہ رکھتا ہے تو ہم باقی چیزوں کی صحیح قدر سمجھنے میں بھی غلطی ن کرے گے ۔ مسیح نے درست کہا ہے کہ " جہاں تمہارا مال ہے وہاں تمہارا دل بھی لگا رہے گا"۔
متی ۶ باب ۲۲ تا ۳۰ آیت: اس نادان نے خداکا بالکل خیال نہ کیا۔ مسیح کہتاہے کہ وہ جو بادشاہت میں آگئے ہیں۔ وہ روپے پیسے اور مال کو اول جگہ نہیں دیتے ۔ ایسی زندگی کے لیے مضبوط اور زندہ ایمان کی ضرورت ہے۔
زبور ۳۹ باب ۶آیت: ایک صاحب اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں " آدمی صرف ایک وہم اور خیال میں چلتا پھرتا ہے۔ وہ یونہی شور کرتا ہے۔ وہ جمع کرتا ہے ۔ اور جانتا نہیں کہ کون اسے سنبھالے گا" کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہماری بہت سی کوشش اور شور بے فائدہ ہوتے ہیں۔ ہماری بہت سی کوششوں کو یہ نتیجہ ہوت اہے کہ نہ ہمیں فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو۔
یعقوب ۵ باب ۱ تا ۶ آیت: اس میں دکھایا گیا ہے کہ دولت کا شوق انسان کو کس طرح برباد کر سکتا ہے۔ ایسے شخص بہت ہی بد نصیب ہوتے ہیں۔ دنیا کے مال کا شوق ان سے بے انصافی اور جرم کرواتا ہے۔ ہمیں دنیا کے مال کے فکر میں زندگی کا اصلی مقصد بھولنا نہیں چاہیے۔
غورو بحث کے لیے سوالات:
• فرض کرو کہ تمہارا مال تم سے لے لیے جائے جیسا کہ ایک روز ضرور ہوگا تو کیا اُس کے بعد تمہارے پاس اصلی اور ضروری چیزیں ہونگی یا نہیں؟
• نادان دولتمند کو فکر تھاکہ میں اپنا مال کہاں جمع کرونگا ۔ کیا تم اس کا صحیح جواب دے سکتے ہو؟
• کیا تم ان کہاوتوں سےمتفق ہو؟
o جو میں نے بچایا وہ کھویا۔ جو میں نے خرچ کیا وہ جمع کیا اور جو میں نے دیا وہ پایا۔
o اپنی زندگی گزارنے کے لیے اپنے ہی وجود اور ہستی کو کافی سمجھنا بد بختی ہے۔
دُعا: اے خدا ہمارے آسمانی باپ تیر اشکر ہے۔ کہ تو جو زمین اور آسمان کا مالک اور زندگی کا سرچشمہ ہے تو نے مجھے زندگی دی ہے اور زندگی کی روزانہ ضرورتوں کے لیے میری حاجتوں کے مطابق دنیا کا مال بھی عطا کیا ہے ۔ بخش دے اے خداوند کہ میں دنیا وی اور روحانی معاملات کو سمجھ سکوں اور ان کا فرق پہچان سکوں۔ مجھے بینائی دے جو دنیا کی چیزوں کو نہیں بلکہ عالم بالا کی چیزوں کو دیکھ سکے ۔ مجھے وہ دل دے جو دنیاکے مال پر نہ للچائے ۔ بلکہ روحانی چیزوں کی خواہش رکھے۔ ازلی حقیقتوں یعنی سچائی اور محبت کی پیروی کرے ۔ جن کے لیے تو نے اپنا پیارا بیٹا قربان کیا۔ یہ بھی بخش دے کہ میں دنیا کا اطمینان نہیں بلکہ تیرا اطمینان حاصل کروں اور جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کروں۔ میں اس مال سے جو تو نے مجھے عطاکیا ہے وہ دوست پیدا کروں جو مجھے ابدی مکانوں میں جگہ دے گے ۔ جہاں حقیقی اور ابدی ا طمینان ہے۔
مسیح کی خاطر ۔ آمین۔
(۱۵)
بے رحم نوکر
انجیل شریف بہ مطابق متی ۱۸ باب ۲۳ تا ۳۵ آیت
_______________________________________________________________
"پَس آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانِند ہے جِس نے اپنے نَوکروں سے حِساب لینا چاہا۔ اور جب حِساب لینے لگا تو اُس کے سامنے ایک قرضدار حاضِر کِیا گیا جِس پر اُس کے دس ہزار توڑے آتے تھے۔ مگر چُونکہ اُس کے پاس ادا کرنے کو کُچھ نہ تھا اِس لِئے اُس کے مالِک نے حُکم دِیا کہ یہ اور اِس کی بِیوی بچّے اور جو کُچھ اِس کا ہے سب بیچا جائے اور قرض وصُول کر لِیا جائے پَس نَوکر نے گِر کر اُسے سِجدہ کِیا اور کہا اَے خُداوند مُجھے مُہلت دے۔ میں تیرا سارا قرض ادا کروُنگا۔ اُس نَوکر کے مالِک نے ترس کھا کر اُسے چھوڑ دِیا اور اُس کا قرض بخش دِیا۔ جب وہ نَوکر باہِر نِکلا تو اُس کے ہمخِدمتوں میں سے ایک اُس کو مِلا جِس پر اُس کے سو دِینار آتے تھے۔ اُس نے اُس کو پکڑ کر اُس کا گلا گھونٹا اور کہا جو میرا آتا ہے ادا کر دے۔ پَس اُس کے ہمخِدمت نے اُس کے سامنے گِر کر اُس کی مِنّت کی اور کہا مُجھے مُہلت دے۔ میں تُجھے ادا کردُوں گا۔ اُس نے نہ مانا بلکہ جا کر اُسے قَید خانہ میں ڈال دِیا کہ جب تک قرض ادا نہ کر دے قَید رہے۔ پَس اُس کے ہمخِدمت یہ حال دیکھ کر بہُت غمگین ہُوئے اور آ کر اپنے مالِک کو سب کُچھ جو ہُؤا تھا سُنا دِیا۔ اِس پر اُس کے مالِک نے اُس کو پاس بُلا کر اُس سے کہا اَے شرِیر نَوکر! میں نے وہ سارا قرض اِس لِئے تُجھے بخش دِیا کہ تُو نے میری مِنّت کی تھی۔ کیا تُجھے لازم نہ تھا کہ جَیسا میں نے تُجھ پر رحم کِیا تُو بھی اپنے ہمخِدمت پر رحم کرتا؟اور اُس کے مالِک نے خفا ہوکر اُس کو جلادوں کے حوالہ کِیا کہ جب تک تمام قرض ادا نہ کردے قَید رہے۔ میرا آسمانی باپ بھی تُمہارے ساتھ اِسی طرح کرے گا اگر تُم میں سے ہر ایک اپنے بھائِی کو دِل سے مُعاف نہ کرے"۔
_______________________________________________________________
یہ تمثیل کہنے کی ضرورت یوں پڑی کہ پطرس نے سوال کیا بھائی کو کتنی دفعہ معاف کرنا چاہیے ۔ پطرس کا خیال تھا کہ سات بار معاف کرنا کافی ہوتا ہے ۔ مسیح کا جواب یہ تھا کہ معافی کی کوئی حد نہیں۔ جواب کی تشریح کے لیے مسیح نے یہ تمثیل کہی۔
اس تمثیل میں مسیح نے ایک شخص کا اپنے ہم جنس کے ساتھ ناقص او ر غلط قسم کا تعلق دیکھایا ہے۔ ایک آدمی جس کو بہت سا قرض معاف کر دیا گیا تھا۔ اس نے اپنے غیریب بھائی کو ایک ادنیٰ سی رقم معا ف کرنے سے انکار کر دیا۔ اُ س میں صحیح قسم کی دوستی کی روح نہ تھی۔ نہ ہی رفاقت کا جذبہ تھا۔ مسیحی زندگی میں اس کے بغیر گزارہ نہیں۔
حقیقت میں پہلے آدمی نے اپنے مالک کی معافی کو منظور نہ کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اُس نے اپنے مقروض کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔ کیا ہم بھی اکثر ایساہی کرتے ہیں؟
معافی میں دو فریق ہوتے ہیں۔معاف کرنے والا اور معافی پانے والا دونوں کے بغیر معافی ہو ہی نہیں سکتی۔ خدا ہمیشہ ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن جب تک ہم تیار نہ ہوں اور اس کی معافی قبول نہ کریں و ہ ہمیں معاف نہیں کر سکتا۔ معافی سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے قصور معاف ہو گئے اور ہم پھر کچھ خیال ہی نہ کریں کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کدا کی معافی ہم میں تحریک پیداکرتی ہے او ر ہمیں طاقت عطا کرتی ہے۔ اگر ہم سچے دل سے خدا کی معافی قبول کریں تو ہم میں تبدیلی آئے گی۔ ہم جنسوں کے ساتھ ہمارے تعلقات نئے ہو جائے گے اور ہم انہیں ستر کے سات بار معاف کرنے میں دریغ نہیں کرے گے۔
مسیح اس تمثیل میں یہ نہیں سیکھاتا کہ ہم جنسوں کو معاف کرنا خدا کی معافی کی شرط ہے ۔ خدا اس قسم کے سودے نہیں کرتا ۔ مسیح یہ سیکھاتا ہے کہ اگر خدا نے ہمیں معاف کیا ہے۔ یعنی اگرہم نے اس کی معافی قبول کرلی ہے تو ہم میں خواہ مخواہ دوسروں کو معاف کرنے کی طبیعت پیداہو گی ۔ ہم معاف کئے بغیر نہیں رہ سکے گے۔ ہم میں معافی کی عادت نہیں بلکہ طبیعت پیدا ہوگی ۔ عادت اور طبعیت میں بہت فرق ہے۔ انسان حُقہ پیتا ہے۔ یہ اس کی عادت ہے ۔ مگر روٹی کھانا اور پینا انسان کی عادت نہیں بلکہ طبیعت ہے۔ عادت بن سکتی ہے اور پھر بھی چھوٹ سکتی ہے لیکن طبیعت دائمی ہے۔
اس تمثیل کے پہلے شخص نے معافی قبول نہ کی صرف معافی کا مالی فائدہ قبول کیا ان نے مالک کی طبیعت قبول نہ کی اور جب اُس نے اپنے مقروض کو معاف کرنے سے انکار کیا تو اُس کی طبیعت قبول نہ کی اور جب اُس نے اپنے مقروض کو معاف کرنےسے انکار کیا تو اس کی طبیعت کا صاف صاف پتہ لگ گیا۔ اُس میں توبہ کی رُوح نہیں تھی۔ معافی ایک روحانی عمل ہے اور دوسروں کو معاف نہ کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم نے خدا کی بیش قیمت بخشش یعنی معافی قبول نہیں کی۔ چھوٹے بڑے تمام معاملات میں معافی کا اصول ایک ہی ہے ۔ بعض اوقات ہم بڑے بڑے جرم آسانی سے معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور نقصانوں کا بدلہ لیتے ہیں۔ اسی سے ہماری روحانی حالت جانچی جاتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کو معاف نہ کرنا چاہیں ۔ دل میں غصہ اور کدورت(نفرت)رکھیں۔دوسروں کے متعلق من گھڑت قصے اور غلط بیانات مشہور کریں۔ چھوٹے چھوٹے قصور اور عیب بڑھا کربیان کریں تو ہمیں مان لینا چاہیے کہ خدا کی معافی کی روح ہم میں کام نہیں کر رہی ۔ ہماری روحانی حالت خطرے میں ہے اورا ہم نے معافی کو مطلقا نہیں سمجھا۔
خدا کی معافی ہمیں معاف کرنے والا بناتی ہے ۔ ہماری معافی دوسروں کو معاف کرنے ولا بناتی ہے۔ خدا نیک صفات اور الہی عادات اسی طرح سیکھاتا اور پھیلاتا ہے۔ وہ جو ایسا نہیں کرتے نہ خود خد ا کی بادشاہت کے آنے اور اس کی پاک مرضی کو زمین پر پورا ہونے سے روکتے ہیں۔ دیکھئے دوستی اور رفاقت اور معافی کس طرح چپکے چپکے خمیر کی طرح خدا کی بادشاہت زمین پر لاتی ہے۔
مطالعہ کے لیے :
۲ کرنتھیوں ۲ باب ۶ تا ۸ آیت:پولوس کرنتس والوں کو کہتا ہے کہ معافی میں صحت اور شفا کا اخز ہے۔ معافی کی طبیعت غلطیاں اور قصور کرنے والوں کو صحیح راہ پر لاتی ہے۔ اور ناامیدی کا مقابلہ کرتی ہے ۔ خدا کی معافی کا ہم پر اور ہماری معافی کا دوسروں پر بھی اخز ہوتا ہے۔
متی ۶ باب ۱۵ آیت: دعائے ربانی میں مسیح نے ہمیں سیکھایا ہے کہ ہم خدا سے معافی کی درخواست کریں اور جب وہ ہمیں معاف کر ے تو اس کی معافی قبول کر کے دوسروں کو اسی طرح معاف کریں جس طرح خدا نے ہمیں معاف کیا ۔جب ہم دعا کرتے ہیں تو کیا اسی خیال سے کرتے ہیں؟
کلسیوں ۳ باب ۱۲ تا ۱۵ : معاف کرنے کےلیے ہمیشہ تیار رہنا اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم میں مسیح کا روح ہے اور ہم دوسروں کے ساتھ وہی مہربانی اور رفاقت برت سکتے ہیں جو اُس نے ہمارے ساتھ برتی۔
مرقس۱۱ باب ۲۴تا ۲۶ آیت: اگر ہم میں معافی کی طبیعت نہ ہو تو خدا ہمیں معاف نہیں کر سکتا جب تک ہم اس کی معافی قبول کرنے کو تیار نہ ہو وہ ہمیں معاف نہیں کر سکتا ۔ دوسروں کو معاف نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے خدا کی معافی قبول نہیں کی۔
غور و بحث کے لیے سوالات:
• اگر ہم دوسروں کو معاف کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں تو کیاہم " اے ہمارے باپ" کہ کر دُعا کر سکتے ہیں؟
• کیا اوروں کو چھوٹی چھوٹی خطاؤں کے لیے معاف کرنا ہمارے لیے مشکل ہے؟کیوں؟اِس کا کیا علاج ہے؟
• کیا معافی سے مُراد صرف سزا سے بچنا ہے؟
دُعا:اے مہربان آسمانی باپ میں تیرا خطا کار بندہ تیرا شکر گزار ہوں کہ تو میری خطائیں دیکھتاہہے مگر اپنی رحمت اور شفقت کو مجھ پر جاری رکھتا ہے۔ میں تیری حکم عدولی کرتا ہوں ، تیری مخلوقات کے ساتھ صحیح تعلقات نہیں رکھتا اور انسانوں کو حقیر جانتا ہوں ۔ مگر شکر ہے ہ تو جو سب کچھ دیکھتا ہے ۔ چشم پوشی کرتاہے معاف کرتا ہے ۔ اور مجھے زندگی کی راہوں کو بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے۔
اے خدا مجھے معافی کی طبعیت عطا کر۔ معافی کے بارے میں مجھے یسوع مسیح جیسا بنا۔جس نے صلیب پر دشمنوں کی معافی کی درخواست کی اور اس کی درخواست منظور ہوئی جس نے گنہگاروں کو معاف کیا اور خطاکاروں سے محبت رکھی۔
اے خدا باہمی نفرت عداوت اور حسد نے شخصی اور جماعتی زندگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ تو دل کی صفائی ۔ اخلاقی صحت اور روح کی معموری عطا کر ۔ مجھے رفا قت اور یگا نگت کی روح دے مجھ پر رحم کر مسیح کی خاطر۔ آمین۔
-------------