1889-1970

Allama Rev. Abdul Haqq

Professor North India Theological College

قادیانی بہتان

مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے ہمارے منجی خداوند کے بارہ میں لکھا ہے کہ " آپ کا خاندان نہایت پاک اور مطہرہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔۔۔۔آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شائد اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان رہے۔ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگائے۔" (حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۹)۔

بنائے بہتان

اس میں شک نہیں کہ مرزا صاحب قادیانی نے اپنے ادّعای کسرِ صلیب کا خالی ڈھول پیٹتے ہوئے محض مسیحیوں کی دلآزاری اور ان کو چڑانے کی غرض سے آنخداوند کی نسبت ایسے تہذیب واخلاق سے گرے ہوئے اور ہتک آمیز کلمات قلمبند کئے ہیں۔ جیسا کہ ان کے اس بیان سے معلو م ہوتا ہے کہ " نادان پادریوں کو چاہیے کہ بد زبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑدیں ۔ ورنہ نا معلوم خداکی غیرت (1) کیا کیا ان کو دکھلائیگی۔" (حاشیہ ضمیمہ صفحہ ۹)

مگر ان کی امت کے لوگ اس " بدزبانی اور گالیوں" کے طریق کی مذمت کرنے اور اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرنے کی بجائے محض حسن عقیدت کی بنا پر بے سوچے سمجھنے کی مرزا صاحب آنجہانی کے اس ناروافعل کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں ۔ بلکہ ایسے ناگفتہ بہ کلمات کو کسر ِ صلیب کا کوئی بڑا کارنامہ خیال کرکے کورانہ تقلید میں ابھی تک اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار دہرانے (1) سے باز نہیں آتے اور اپنی اس خلافِ حق کارروائی کو حق بجانب قرار دینے کے لئے یہ بے بنیاد دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ موجودہ انجیل کے بیانات کی بنا پر آنخداوند کے بارہ میں ایسے ناشائستہ کلمات اور گستاخانہ لب ولہجہ کا طریق درست ہے۔ حالانکہ اگر وہ عقل وانصاف سے کام لیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ جب خود انجیل نویسوں کی نظر میں آنخداوند کی یہ شان ہے کہ ۔


(1) گویا مرزا صاحب قادیانی کسی پادری کی گالیوں کے مقابل اپنی طرف سے گالیوں کا طریق اختیار کئے جانے کو خدا کی غیرت کا اظہار قرار دیتے ہیں مگر یہ تین وجہ سے باطل ہے (اوّل) اگر کسی پادری نے بالفرض گالیوں کا طریق اختیار کیا تھا تو قصور اس پادری کا تھا نہ کہ آنخداوند کا ۔پس کسی پادری سے بدلہ لینے کی غرض سے آنخداوند کی ہتک کرنا کسی صورت میں بھی حق بجانب نہ ٹھہریگا۔ (دوم) اگر بدی کا بدلہ بدی کےاصول کےصحیح فرض کریں تو اس سے خدا ئے تعالیٰ کی قدوسیت یا قدرت ِ مطلقہ میں سے کسی کا انکار لازم آئیگا۔ کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ قدوس ہے اور اس کی ذات ہر قسم کی بدی سے منزہ ہونے کےباوصف قادر مطلق ہے تو ماننا پڑیگا کہ نیکی ہی حقیقی قدرت اور قوت ہے اور اس کے مقابل بدی فی الحقیقت عجز اور ضعف ہے اگر چہ ظاہری اور عارضی طور پر بدی ہی قدرت اور قوت کیوں نہ دکھائی دے ) پس اگر بدی پر غلبہ پانے کے لئے بدی سے اس کا مقابلہ کرنا ہی الہیٰ غیرت کا اظہار ہو تونیکی کی قدرت اور قوت کا انکا رلازم آئیگا ۔ ازیں جہت اصولی طور پر بدی کو قوت اور غلبہ کا سبب ٹھہرانا اور الہیٰ غیرت کا اظہار قرار دینا خدائے تعالیٰ کی پاک مرضی وطبعیت سے موافقت نہیں رکھ سکتا ۔ اسی لئے کلامِ مقدس میں بدی کو عجز اور مغلوبیت کا باعث اور نیکی کوقوت کا اور غلبہ کا سبب قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ " اے عزیزو انتقام نہ لو۔۔۔۔۔ بلکہ اگر تیرادشمن بھوکا ہو تو اس کو کھانا کھلا ۔اگر پیاسا ہو تو اسے پانی پلا ۔ بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔(انجیل شریف خطِ رومیوں ۱۲،آیت ۱۹تا ۲۱)۔ پس جسمانی نظام میں عارضی طور پر تو بدی کسی صورت میں قوت اور غلبہ کا سبب ہوسکتی ہے مگرروحانی نظام اور مذہبی عالم میں بدی کو بطور قوت اور غلبہ کے کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ برعکس اس کے وہ عجز او رکمزوری کا سبب اور نشان ہوگی ( سوم ) اگر گالی بدلہ گالی جائز ہو تو بھر چوری اور زنا کے معاملہ میں کیا عملدرآمد ہوگا؟ کیا جس شخص کے برخلاف یہ برے کام سرزد ہوں اس کے لئے چور اور زانی کے ہاں بدلہ میں ایسی بدکرداری کا ارتکاب جائز ہوگا ؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو چوری اور زنا ناجائز فعل ہیں کبھی جائز بھی ٹھہرینگے ؟ اور اگر جواب نفی میں ہو تو بدی کے بدلہ میں بدی کا اصول باطل ٹھہریگا۔ اور اس لئے بدزبانی اور گالیوں کے طریق کے مقابل یہی طریق اختیار کرنے والے لوگ خدا کے بارہ میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کے ساتھ نہیں۔ اس لئے کہ وہ خدا کی راستبازی سےناواقف ہوکر اپنی راستبازی قائم کرنے کی کوشش کرکے خدا کی راستبازی کے تابع نہ ہوئے ۔ منہ

شہادت ِ اناجیل

" دیکھو بادل میں سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔" (انجیل شریف بہ مطابق حضرت ۱۷،ٍآیت ۵)۔

" خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی انجیل کا شروع (مرقس ۱،آیت ۱)۔

" اور یسوع حکمت اور قدوقامت اور خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔" (لوقا ۲،آیت ۵۲)۔

" یہ اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خداکا بیٹا مسیح ہے۔ او رایمان لاکر اس کے نام سے زندگی پاؤ۔" (یوحنا ۲۰،آیت ۳۱)۔

غیر مرزائی نقطہ نگاہ

اور جبکہ بیشمار مسیحیوں (جن کے مقابل دنیوی علم وفضل کےلحاظ سے بھی مرزائی صاحبان کسی شمار وقطار میں نہیں ) کے علاوہ کثیر التعداد اہل عقل ورائے مسلمانوں ۔ ہندوؤں بلکہ دہریوں تک کو انہی اناجیل میں سیدنا مسیح کی نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی بے لوث اور عدیم المثال قابل نمونہ زندگی کی تصویر دکھائی دیتی ہے تو اگر مرزا صاحب قادیانی اور ان کے معدودے چند پیروؤں اور ان کے ہم خیال آنخداوند کے چند دیگر مخالفوں کو خود انجیل نویسوں کی منشا اوربے شمار مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کے نقطہ نگاہ کے برخلاف اسی انجیل مقدس میں سیدنا مسیح کی بے عیب تصویر معیوب دکھائی دے ۔

حقیقت انجیل اور مرزائی نقطہ نگاہ

تو لامحالہ اس حق ناشناسی کا باعث ان کی اپنی ہی نظر کا فتور اور قصور ہوسکتا ہے نہ کہ انجیل مقدس کے بصیرت افروز بیانات ۔ بفحوائے قول قایل ۔

گرنہ بیند بروز شپرہ چشم ۔ چشمہ آفتاب راچہ گناہ؟

اور کلام ِ مقدس میں ایسے مخالفوں کے متعلق یہی لکھاہے کہ


(1) مرزائیوں کی لاہوری پارٹی کے سہ روزہ آرگن پیغام صلح مطبوعہ ۱۹ مئی ۱۹۳۲ء میں بھی " اناجیل مروجہ اور یسوع مسیح " کے عنوان کے ماتحت " یسوع کا نسب نامہ آباو اجداد کے لحاظ سے " کی سرخی دیکر انہی خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ منہ

اگر ہماری خوشخبری (یا انجیل ) پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں کے واسطے ہی پڑا ہے۔ یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کردیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اس کے جلال کی خوشخبری (یا انجیل ) کی روشنی ان پر نہ پڑے " (۲ کرنتھیوں ۴،آیت ۳تا ۴)۔

پس مرزائی نقطہ نگاہ کے زیر اثر حقیقت ِ انجیل سے کماحقہ آگاہ ہوجانا از حد مشکل ہے ہے ۔ اس لئے کہ

نفسانی آدمی خداکے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے نزدیک بیوقوفی کی باتی ہیں۔ اور نہ وہ انہیں سمجھ سکتا ہے ۔کیونکہ وہ روحانی طورپر پرکھی جاتی ہیں۔( ۱۔ کرنتھیوں ۲آیت ۱۴)۔

ایسا شخص اپنا جسمانی عقل پر بے فائدہ پھول کر دیکھی ہوئی چیزوں میں مصروف رہتا ہے ۔" (خط ِ کلسیوں ۲،آیت ۱۸)۔

جسمانی عقل اور روحانی بصیرت

علاوہ بریں جو شخص ضرورت الہام کا قائل ہوگا اسے لامحالہ ماننا پڑیگا کہ جسمانی عقل اور دینوی حکمت محض دیدنی چیزوں اور جسمانیت سے متعلق ہیں۔ او رانہی کے بارہ میں ان کا حکم یقینی اور قطعی ہوسکتاہے۔ مگر الہی ٰ عرفان کے حصول کے لئے محض جسمانی عقل اورروحانی حقائق (مثلاً روحانی خوبی وعیب کی حقیقت ) کو جانچنے کے لئے محض دینوی حکمت اور نفسانی خیالات صحیح آلہ کار نہیں ہوسکتے اور نہ روحانی امور کے متعلق ان کا حکم یقینی اور قطعی مانا جاسکتا ہے ۔ ورنہ کسی قسم کے الہامی کلام وآسمانی ہدایت وروحانی بصیرت کی ضرورت ہی باقی نہ رہیگی ۔ مگر

" جب خدا کی حکمت کے مطابق دنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ جانا ۔" (۱ کرنتھیوں ۱،آیت ۲۱)۔ تو

" جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں ، نہ کانوں نہ سنیں ۔ نہ آدی کے دل میں آئيں۔ وہ سب خدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار رکردیں۔ لیکن ہم پر خدا نے ان کو روح کے وسیلے سے ظاہر کیا۔ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان ک باتیں جانتا ہے۔ سو انسان کی اپنی روح کے جو اس میں ہے۔ اسی طرح خدا کے روح کے سوا کوئی خداکی باتیں نہیں جانتا۔"( ۱ کرنتھیوں ۲،آیت ۹تا ۱۱)۔

مرزائی سو ء فہمی کا سبب

پس روحانی حقائق نہ محض جسمانی عقل سے سمجھ میں آسکتے ہیں اور نہ ان کے پرکھنے کے لئے محض دینوی حکمت اور نفسانی خیالات کو بے خطا معیار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر چونکہ مرزائی صاحبان روحانی بصیرت کی رہنمائی اور انجیلی طرز بیان کی روشنی میں انجیل مقدس کے بیانات پر غور کرنا نہیں چاہتے ۔ بلکہ نفسانی خیالات کے زیر اثر اور مرزائی طرز بیان کے مطابق ( جس کے وہ عادی ہوچکے ہیں ) محض عیب جوئی کی نیت سے ان پر مخالفانہ نظر ڈالنا اور اصول ِ تفسیر کی پابندی سے قطعاً آزاد رہ کر من مانی تاویلیں گھڑنا پسند کرتے ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کتاب مقدس کے محاسن بھی ان کی نظرمیں معائب دکھائی دیں۔ لیکن انہیں ازراہ انصاف اس امر واقعی کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ نہ صرف اس وجہ سے کہ جسمانی عقل کی رسائی محض جسمانی عالم تک ہی محدود ہے اور وہ صرف ظاہر پر قطعی ویقینی حکم لگاسکتی ہے۔ اور روحانی عالم وباطنی حقائق کے متعلق قطعی حکم لگانا اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ بلکہ اس لئے بھی کہ

کلام مقدس کی خصوصیت

کلامِ مقدس کے بیانات روحانی امور کے متعلق بمقابلہ دیگر ساری کتابوں کے نرالی طرز اور نوعیت کے ہیں حتی کہ بصورت ظاہر اس کے بعض بیانات باہم متناقص دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن ایسے بیانات کی بخلاف ِ ظاہر ایسی روحانی اورباطنی تعبیر کو قبول کریں۔ جو خود کلام مقدس کی عبارات سےمنکشف ہوتی ہے۔ تو ان میں تطبیق کلی دکھائی دیگی۔ مثلاً مکاشفہ ۵،آیت ۵ میں جس شخص کو" یہوداہ کے قبیلے کا ببر " کہا گیا ہے اسی اس سے اگلی (یعنی چھٹی آیت میں " ذبح کیا ہوا برہ قرار دیا گیا ہے۔ پس بصورت ظاہر ان دونو بیانوں کا مقابلہ کریں تو آپس میں متنافی ٹھہرینگے کیونکہ " ذبح کئے ہوئے بره" کو " شیر ببر " کےساتھ کوئی مناسبت نہیں۔ کہاں ایک ہیبت ناک اور خونخوار درندہ اور کہاں بیچارہ برہ اور وہ بھی ذبح کیا ہوا ؟ اور اسی طرح پر جس مسیح بادشاہ کو کلام مقدس میں " خدائےقادر ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ " کہا گیا ہے۔ اور جس کی بابت لکھاہے کہ " وہ قوموں کو لوہے کے عصا سے توڑیگا۔ اور کمہار کے برتن کی مانند انہیں چکنا چور کریگا۔ اس کا دہناہاتھ اسے مہیب کام دکھائیگا۔ اور اس کے تیز تیر دشمنوں کے دل کو چھیدینگے ۔ اور کہ اس کی بادشاہی کا آخرنہ ہوگا۔(یسعیاہ ۹،آیت ۶تا ۷، زبور ۲،آیت ۹۔ زبور ۴۵،آیت ۳تا ۵،لوقا ۱،آیت ۳۲تا ۳۳)۔

ایسے جلالی بادشاہ کو جسمانی عقل کےرو سے اور دینوی حکمت کی بنا پر ایسے شخص سے کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی " جس کی کوئی نمائش بھی نہیں کہ ہم اس کے مشتاق ہوں۔ وہ آدمیوں میں ذلیل وحقیر ۔ مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ جس کے لئےسر دھرنے کو بھی دنیابھر میں جگہ نہ تھی۔ اور جسے نہایت ذلت کے ساتھ ٹھٹھوں میں اڑایا گیا ۔ اور انتہا درجہ کی بیکسی کی حالت میں کوڑے لگاکر دو ڈاکوؤں ک درمیان صلیب پر لٹکایا گیا۔(یسعیاہ ۵۳،آیت ۲تا ۳)۔لوقا ۹،آیت ۵۸، متی ۲۷،آیت ۲۷تا ۳۰و ۳۵و ۴۴۔ یوحنا ۱۹،آیت ۱تا ۳)۔

جس کے پیرو عام لوگ تھے اور سرداروں یا فریسیوں میں سے کوئی اس پر ایمان نہ لایا( یوحنا ۷،آیت ۴۸تا ۴۹)۔ اور اس کے رسولوں کی چھوٹی سے جماعت میں بھی خاص لوگ غریب اور ان پڑھ مچھوے تھے۔ (متی ۴،آیت ۱۸تا ۲۲)۔ان میں ایک محصول لینے والا بھی تھا۔(متی ۹،آیت ۹) انہی بارہ میں سے ایک نے اسے پکڑوابھی دیا ( متی ۲۶،آیت ۴۷تا ۵۰)۔اس کو مصیبت میں گرفتار دیکھ کر وہ سارے شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔(متی ۲۶،آیت ۵۶)۔ پطرس رسول جس نے بڑی دلیری اور ایمان کی پختگی کےساتھ اس کے زندہ خدا کا بیٹا ہونے کااقرار کیا تھا۔(متی ۱۶،آیت ۱۶)۔ اور جس کو آسمان کی بادشاہت کی کنجیاں دی گئی تھیں (متی ۱۶،آیت ۱۹)۔ اور جس نے موت تک وفاداری کا عہد کیا تھا۔ اس نے تین دفعہ اس کا انکار کیا۔ (متی ۲۶،آیت ۶۹تا ۷۶)۔ پس ظاہری صورت میں " مسیح بادشاہ موعود " کو " یسوع مسیح " کےساتھ کوئی مناسبت نہیں ۔ لیکن اگر کلامِ مقدس کی ان عبارات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے کہ

" آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بودیا۔" (متی ۱۳،آیت ۳۱)۔

" ایک چھپے ہوئے خزانے کی مانند ہے۔"( متی ۱۳،آیت ۲۴)۔

"خدا کی بادشاہت ظاہر طور پر نہ آئیگی " (لوقا ۱۷،آیت ۲۰)۔

" میری بادشاہت دنیا کی نہیں ۔ اگر میری بادشاہت دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے ۔"( یوحنا ۱۸،آیت ۳۶)۔

مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی انہیں کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تمہیں ستائے لعن طعن کرینگے اور ستائینگے ۔ اور ہر طرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تم مبارک ہوگے ۔ خوشی اور شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا بڑا اجر ہے ۔اس لئے کہ لوگوں نے نبیوں کو جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا۔" (متی ۵،آیت ۱۰تا ۱۲)۔

" تم دنیا میں مصبیت اٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو۔ میں دنیا پرغالب آیا ہوں۔" (یوحنا ۱۶،آیت ۳۳)۔

"ہم تیر ی خاطر دن بھر جانے سے مارے جاتے ہیں۔ ہم تو ذبح ہونے والی بھیڑوں کے برابر گنے گئے۔مگر ان سب حالتوں میں اس کے وسیلے سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتاہے۔" (رومی ۸،آیت ۳۶تا ۳۷)۔

" انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا۔ اور یہاں تک فرمانبردار رہا۔ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی ۔ اسی واسطے خدا نے بھی اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔"( خط ِ فلپیوں ۲،آیت ۸تا ۹)

" اس نے حکومتوں اور اختیاروں کو اپنے اوپر سے اتار کر ان کا برملا تماشا بنایا اور صلیب کےسبب سےان پر فتحیابی کا شادیانہ بجایا۔" (خطِ کلیسیوں ۲،آیت ۱۵)۔

"یسوع کو کہ موت کا دکھ سہنے کے سبب جلال اور عزت کا تاج اسے پہنایا گیا۔"(خط ِ عبرانیوں ۲،آیت ۹)۔

" جس نے اس خوشی کے لئے جواس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا ۔"( عبرانیوں ۲۱،آیت ۲)۔

" ذبح کیا ہوا برہ ہی قدرت اور دولت اورحکمت اور طاقت اور عزت اورتمجید اور حمد کے لائق ہے۔" (مکاشفہ ۵،آیت ۱۲)۔

" میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔" (۲ کرنتھیوں ۱۲،آیت ۹)۔

" خدا کی بادشاہت باتوں پر نہیں بلکہ قدرت پر موقوف ہے۔"( ۱کرنتھیوں ۴،آیت ۲۰)

" میں آدمیوں سےعزت نہیں چاہتا ۔"( یوحنا ۱۵،آیت ۴۱)۔

" آدمی ظاہر کو دیکھتا ہے ۔ پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔"( ۱سیموئیل ۱۶،آیت ۱۷)۔

" جو چیزیں آدمیوں کی نظر میں عالی قدر ہے وہ خدا کے نزدیک مکروہ ہے ۔" (لوقا ۱۶،آیت ۱۵)۔

" تم جسم کے مطابق فیصلہ کرتے ہو۔"( یوحنا ۸،آیت ۱۵)۔

"ظاہر کے موافق فیصلہ نہ کرو بلکہ انصاف سے فیصلہ کرو۔"(یوحنا ۷،آیت ۲۴)۔

" تاکہ تم انکے جواب دے سکو جو ظاہر پر فخرکرتے ہیں اور باطن پر نہیں۔"( ۲ کرنتھی ۵،آیت ۱۲)۔

"زندہ کرنے والی تو روح ہے ۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں ۔"( یوحنا ۶،آیت ۶۳)۔

" جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں اور جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔"( خطِ رومیوں ۸،آیت ۶)۔

" خدا نے دنیا کے کمینوں اور حقیروں بلکہ بے وجودوں کو چن لیا کہ موجودوں کو نصیحت کرے تاکہ کوئی بشر خدا کے سامنے فخر نہ کرے (۱ کرنتھیوں ۱،آیت ۲۸تا ۲۹)۔

" تاکہ تمہارا ایمان انسانوں کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔"( ۱ کرنتھیوں ۲،آیت ۵)۔

" تم تو ان چیزوں پر نظر کرتے ہو جو آنکھوں کے سامنے ہیں ۔"(۲ کرنتھیوں ۱۰،آیت ۷)۔

" گو ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روز بروز نئی ہوتی جاتی ہے۔ کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصبیت ہمارے لئے ازحد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے۔ جس حال میں کہ ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں بلکہ ان دیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں۔"( ۲ کرنتھیوں ۴،آیت ۱۶تا ۱۸)۔

" اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا اپنوں کو عزیز رکھتی۔ لیکن چونکہ تم دنیا کے نہیں ۔ بلکہ میں نے تم کو چن لیا ہے اس واسطے دنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔" (۱۔یوحنا ۱۵،آیت ۱۹)۔

"عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو۔ نہ زمین پر کی چیزوں کے۔"(خطِ کلسیوں ۳،آیت ۲)۔

" روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے ۔ کیونکہ جسم روح کے خلاف کوشش کرتا ہے اور روح جسم کے خلاف۔"( گلتیوں ۵،آیت ۱۶تا ۱۷)۔

" اگر کوئی خدا کے خیال سے بے انصافی کے باعث دکھ اٹھاکر تکلیفوں کی برداشت کرتے توپسندیدہ ہے اس لئے کہ اگر تم نے گناہ کرکے مکے کھائے اور صبر کیا توکونسا فخر ہے؟ ہاں اگر نیکی کرکے دکھ پاتے اور صبر کرتے تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔

(۱ پطرس ۲،آیت ۱۹تا ۲۰)۔

" جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائيگا وہ چھوٹا کیا جائیگا۔ اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائیگا وہ بڑا کیاجائےگا ۔"(متی ۲۳،آیت ۱۲)۔

" ننانوے راستبازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گنہگار کی بابت آسمان پر زیادہ خوشی ہوگی۔"( لوقا ۱۵،آیت ۷)۔

" جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا ۔"( رومیوں ۱۵،آیت ۲۰)۔

" خداوند یہوداہ فرماتاہے کہ مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سےباز آئے اورزندہ رہے۔"( حزقیل ۳۳،آیت ۱۱)۔

" حکیم تندرستوں کو درکار نہیں بلکہ بیماروں کو میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں۔"( مرقس ۲،آیت ۱۷)۔

"خدا نے مجھ پر ظاہر کیاکہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔"( اعمال ۱۰،آیت ۲۸)۔

"محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خداوند کی بادشاہت میں داخل ہوتی ہیں۔" (متی ۲۱،آیت ۳۱)۔

الغرض اگر مذکورہ بالا عبارات کو ملحوظ رکھا جائے تو آنخداوند کی بے لوث زمینی زندگی کے متعلق کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ سکتا ۔ او ران بیانات کی روسے نہ صرف ثابت ہوتا ہے کہ یسوع ہی وہ " مسیح بادشاہ موعود " ہے جس کی روحانی بادشاہی کا کبھی آخر نہ ہوگا۔ بلکہ یہ بھی مبرہن ہوتا ہے کہ آنخداوند کے سوا اور کوئی شخص ان پیش خبریوں کے مفہوم کا حقیقی مصداق ٹھہر نہیں سکتا ۔

جسمانی عقل کے مطالبات

پس روحانی حقیقتوں کے سمجھنے کے لئے محض جسمانی عقل پر تکیہ کرنا کسی طرح بھی درست نہ ہوگا ۔ اور جبکہ مرزائی صاحبان بھی اس امر واقعی کاانکار نہیں کرسکتے کہ انبیاء اور مقدسین عموماً ظاہری طور پر پستی اور ذلت کی حالت میں رہے ۔ ٹھٹھوں میں اڑائے گئے۔ اور بعض بحالت بیچارگی وبیکسی شہید بھی ہوئے تو ایسے لوگوں کو وہ کونسی جسمانی عقل کی بنا پر ذی مرتبت او رکامیاب انسان قرار دے سکتے ہیں؟ کیا جسمانی عقل کی رو سے وہی شخص عالی مرتبہ ثابت نہ ہوگا؟ جوکہ

۱۔دینوی علوم وفنون میں یکتا ہو۔

۲۔ جسمانی شکل وصورت اور ڈیل ڈول کے لحاظ سے نہایت وجیہہ ہو۔

۳۔ پرلے درجہ کا بہادر۔ زبردست پہلوان اور بڑان جنگجو شخص ہو۔

۴۔ کل روئے زمین کے باشندوں کو مغلوب کرکے اکیلا ان پر مسلط وحکمران ہو۔

۵۔ ظاہری تہذیب کےلحاظ سے وہ ایسا بے عیب ہو کہ کوئی شخص کسی طرح بھی عیب ونقص اس کی طرف منسوب نہ کرسکے ۔ اور اس کی قدرت وشوکت۔ جاہ وجلال کا ہر کس وناکس پر ایسا رعب طاری ہو کہ کسی شخص کو اس کی تحقیر یا کسی کی کسر ِ شان کی مجال نہ ہو۔

۶۔ اس کی پرہیزگاری کی نمائش کا یہ عالم ہو کہ وہ ہر ایک گنہگار کی شکل وصورت سے بیزار دکھائی دے ۔ اور ہر گنہگار کے سایہ تک سے نفرت کرے ۔ بلکہ اس کا ذکر کرنے یا سننے تک کا روادار نہ ہو کسی گنہگار کو کبھی اور کسی صورت میں بھی اس تک پہنچنے اور اس سے دوچار ہونے کی جرات ہوسکے ۔

۷۔ اس کے کل نسب نامہ سے ہر ایک انسان (1) پورے طور پر واقف ہو اور اس کے بزرگوں سے ہر ایک مرد اور عورت کی زندگی کے سب چھوٹے بڑے واقعات وحالات سے آگاہ ہو۔ اور باایہنمہ ان میں سے کسی ایک میں بھی کسی طرح کا کوئی عیب ونقص نہ پایا جائے۔ تاکہ قادیانی منطق کے مطابق اس کا خاندان نہایت پاک اور مطر " ثابت ہوسکے جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا اور ورنہ " جدی مناسبت درمیان" ہونے کا احتمال باقی رہیگا اور نبوت وعصمت اور قادیانی پرہیزگاری کا یقین باطل ٹھہریگا۔


(1) کیونکہ مرزائی مسلمات کے مطابق نبی کی صداقت وعصمت پر یقین لانا ہر ایک انسان پر فرض ہے ۔ منہ

مرزائی صاحبان کی بے انصافی

پس اگر مرزائی صاحبان کے نزدیک مذکورہ بالا علامات سے ہی کسی نبی یا مقدس کی صداقت او رپرہیزگاری کی جانچ ہوسکتی ہو تو یہ ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان علامتوں کے رو سے بیشک بائبل مقدس کے مقدسین وانبیاء موئد ومامور من الله ثابت نہیں ہوسکتے ۔ مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی عرض کردینے سے باز نہیں رہ سکتے کہ ان علامات کے رو سے مرزائی صاحبان بھی اپنے کسی مسلمہ نبی یا رسول کی صداقت وپرہیزگاری ثابت کرنے سےتا ابد عہد برآ نہیں ہوسکتے لیکن اگر مرزائی صاحبان امر واقعی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان علامات کو غلط قرار د یں تو ہم ان سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ پھر کیوں آپ لوگ کلمتہ الله کی مخالفت میں ایسے غیرمنصفانہ اعتراضات پیش کرتے ہیں کہ اسے ٹھٹھوں میں اڑایاگیا۔دار پر کھینچا گیا وغیرہ ذالک؟ اور کیوں مرزا صاحب قادیانی نے آنخداوند کے نسب نامہ کے متعلق تمسخرانہ انداز میں یہ اعتراض پیش کرنے کی جرات کی کہ

" آپ کا خاندان نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔الخ"۔

اورکیوں انہوں نے ایک گنہگار عورت کے نہایت عجزو انکسار کے ساتھ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوکر بطور شکستہ دلی کے اظہار کے منجئی گنہگاراں کے پاؤں کو آنسوؤں سے بھگونے اور بطور اظہار عقیدت کے ان پر عطر ڈالنے اور بطور اظہار عجزو نیاز کے اپنے سر کے بالوں سے پونچھنے کے واقعہ پر ہتک آمیز مبالغہ کا رنگ چڑھا کر اس مکروہ صورت میں پیش کیا کہ

کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقعہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے بلکہ انہوں نے کلمتہ الله کے برخلاف اپنے معاندانہ جذبات کا اظہار اس غلو کے ساتھ کیا کہ اس واقعہ کو وہ جس قدر انتہائی گھنونی صورت میں توڑ مروڑ کر پیش کرسکتے تھے اسی میں پیش کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی او ریہاں تک لکھدیا کہ کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلواکر اور اس کو یہ موقعہ دیکر کہ وہ اس کے بدن سے بدن لگادے(2) (انجام آتھم صفحہ ۳۸)۔ پس کلمتہ الله کے برخلاف ایسی بے بنیاد افترا پردازی کسی خدا ترس منصف مزاج اور حقیقی پرہیزگار انسان سے یقیناً مستبعد ہے۔


(1)مرزاصاحب کی دیانتداری اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف تو جس یونانی لفظ کا صحیح ترجمہ "بد چلن عورت " کیا گیاہے ۔ باوجود یونانی زبان سے نابلد محض ہونے کے کبھی اس کا ترجمہ " جوان کنجری " اور کبھی "بدکارکنجری " کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف دوسروں کی عورتوں کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اورپھر بغیر کسی واقعہ کا حوالہ دیئے منجی جہان کی عداوت کے جذبات کے زیر اثر اس بے بصری سے کام لیتے ہیں کہ آنخداوند کے ان الفاظ کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں کہ " میں تم سے یہ کہتاہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کہلائے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے ۔کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے ۔"(متی ۵،آیت ۲۸تا ۲۹)۔ کیا دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھنے کے خیال کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ (2) مرزا صاحب قادیانی نے "بدن سے بدن لگانے " کا قابل نفرین محاورہ آنخداوند کے متعلق دیدہ دانستہ استعمال کرکے اپنے مخالفانہ جذبات کے اظہار کو حد کمال تک پہنچادیا جس سے کسی گھنونی طبعیت کے مخالف مسیح کو آنخداوند کے بارہ میں گندے سے گندے نتائج اخذ کرنے کا بھی موقع مل جائے اور اگر کوئی یہ پوچھ لے کر " بدن سے بدن لگانیکا موقعہ" دینے کا کہاں ذکر ہے تو یہ جواب بھی دیا جاسکے کہ چونکہ سرکے بال اور پاؤں بھی بدن کا حصہ ہوتے ہیں اس لئے اگر ہم نے بطور دلالت تضمنی کے بدن کے حصوں پر بدن کے لفظ کا اطلاق کردیا تو کونسا غضب ہوگیا۔

کیا کسی نبی یا پرہیزگار انسان کے لئے

ضرور ہے کہ اس کے آباؤ اجداد میں کبھی کوئی گنہگار نہ ہوگذرا ہو؟

اب ہم مرزائی صاحبان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کہ اگر سیدنا مسیح کے نسب نامہ میں گنہگار عورتوں کا وجود آنخداوند کی نیکی او رپرہیزگاری کے منافی ہے تو آپ لوگ جو ہر ایک نبی کو معصوم عن الخطا مانتے ہیں کیا مرزا صاحب کے اس استدلال کے مطابق ہر ایک نبی کے متعلق یہ ثبوت بہم پہنچاسکینگے کہ آپ کے مسلمہ انبیاء میں سے کسی بھی نبی کے آباؤ اجداد میں کبھی کوئی شخص گنہگار نہیں گذرا؟ تاکہ اس نرالی مرزائی منطق کے مطابق اس پہلو سے ہر ایک نبی کی عصمت پایہ ثبوت کو پہنچ سکے اور کیا ہر ایک نبی کی تصدیق سے پہلے یہ یقین حاصل کرلینا ضروری امر ہے کہ اس کی کل دادیوں اور نانیوں بلکہ دادوں اور نانوں کی زندگی کے حالات واقعات سے بکلی واقفیت حاصل کرکے یقینی طور پر یہ معلوم کرے کہ ان میں سے کسی کے بزرگوں میں سے کبھی کوئی فرد گنہگار نہیں ہو گذرا ؟ اور پھر جس شخص کا یقینی طور پر نسب نامہ ہی معلوم نہ ہو اس کو نبی کیونکر یقین کیا جاسکیگا ؟ پس جبکہ مرزائی صاحبان کسی نبی کے بارے میں تا ابد ایساثبوت بہم پہنچا نہیں سکتے تو پھر آنخداوند کی پرہیزگاری کے برخلاف ایسے غیر معقول اور بھونڈے خیال کی بنا پر اعتراض کرنا کیونکر حق بجانب ٹھہرسکتا ہے؟

خدا کی بادشاہت میں جسمانی نسب ناموں کو دخل نہیں

کلام ِ مقدس کی رو سے تو خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے ساتھ جسمانی نسب ناموں کا کوئی تعلق ہی نہیں ۔ اس کے ثبوت میں ہم چند آیات بنظر اختصار پیش کرتے ہیں" جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔"( یوحنا ۳،آیت ۶)۔

" گوشت اور خون خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوسکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہوسکتی ہے ۔"(۱ کرنتھیوں ۱۵،آیت ۵۰)۔

" جسمانی فرزند خدا کے فرزند نہیں بلکہ وعدہ کے فرزند سے نسل گنے جاتے ہیں "( رومیوں ۴،آیت ۸)۔

"جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی انہیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے ۔"(یوحنا ۱۔آیت ۱۲تا ۱۳)۔

"جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔"( رومیوں ۸،آیت ۱۵)۔

"کیونکہ تم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلے جو زندہ اور قائم ہے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو۔"( ۱۔ پطرس ۱،آیت ۲۳)۔

" جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا (یوحنا ۳،آیت ۳)۔

" وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن کا ہے۔(متی ۲،آیت ۲۸تا ۲۹)۔

" اگر تم مسیح کے ہو تو ابراہیم کی نسل اور وعدے کے مطابق وارث ہو۔"( گلتیوں ۳،آیت ۲۹)۔

" ان کہانیوں اور بے انتہا نسب ناموں پر لحاظ نہ کریں جو تکرار کا باعث ہوتے ہیں ۔ اور اس انتظام الہیٰ کےموافق نہیں جوایمان پر مبنی ہے۔"( ۱ تمتھیس ۱۔آیت ۴)۔

"بیوقوفی کی حجتوں اور نسب ناموں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پرہیزکرو اس لئے کہ یہ لاحاصل اوربے فائدہ ہیں۔"( طیطس ۲،آیت ۹)۔

لیکن اگر مرزائی صاحبان نسب نامہ کے متعلق اعتراض کرنا چاہیں تو ہم ان سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ پہلے اپنے کسی مسلمہ نبی(1) کا صحیح او رکامل نسب نامہ پیش کرکے اس کے آباؤ اجداد کی عصمت ثابت کر دکھاؤ۔ تب آنخداوند کے نسب نامہ پر حرفگیری کی جرات کرو۔

جسمانی زناکاری سے روحانی زناکاری بدترفعل ہے

مرزائی صاحبان نے غالباً اس امر پر کبھی غور نہیں کیاکہ جسمانی زناکاری کی بہ نسبت روحانی زناکاری یعنی شرک اوربت پرستی کہیں زیادہ مکروہ اور خداکے حضور قابل نفرت فعل ہے۔ کلامِ مقدس میں شرک او ربت پرستی کو روحانی زناکاری سے تعبیر کیا اور خدا تعالیٰ کے حضور نہایت ہی قابل نفرت فعل قرار دیا گیا ہے (یرمیاہ ۳،آیت ۱و۲و۶و۹۔ ۲۰۔آیت ۵تا ۷۔ ۱۱۔آیت ۱۷)۔ حزقی ایل ۲۳،آیت ۳و۳۷وغیرہ)۔ یہ ازروئے عقل بھی تسلیم کرنا پڑیگا کہ جسمانی زناکاری کی بہ نسبت روحانی زناکاری کہیں زیادہ مذموم فعل ہے۔ کیونکہ جسمانی زناکاری میں کوئی عورت یا مرد کسی اجنبی کے ساتھ وہ جسمانی تعلقات قائم کرتاہے جس کے ساتھ عقد مناکحت باندھا گیا اور اس جوڑے سے جس سے اس نے عہد باندھا ہے بیوفائی کرتا ہے جب تکہ موت یا طلاق واقع ہوکر اس عہد سے بری نہ ٹھہرے مگر روحانی زناکاری میں ایک انسان اپنے خالق اور حقیقی مالک سے منہ موڑ کر اور اس سے بیوفائی کرکے کسی غیر الله سے اپنا رشتہ جوڑتا اور خالق ومالک کے مختص حق کا انکار کرکے عہد الست کو توڑ دیتا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ پہلی قسم کی بیوفائی کے مقابل دوسری قسم کی بیوفائی اس قدر بدترین ہے کہ جس سے زیادہ کا امکان ہی نہیں کیا جاتا ۔ اور ازروئے اسلام بھی شرک سب سے بُرا اور ناقابل معافی گناہ ہے جیسے کہ قرآن شریف سے ظاہر ہے کہ :

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ

"یعنی الله یہ نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک مقرر کیا جائے اور اس کے سوا جس کو چاہے بخش دیتا ہے۔(سورہ نساء آیت ۱۱۵رکوع ۷)۔

اور حدیث سے بھی یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی زناکاری کے مقابل شرک کا گناہ کہیں زیادہ ہے۔ " من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، أو لم يدخل النار، قال: وإن زنى وإن سرق ۔" یعنی بخاری میں ابوذر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ جو میری امت میں اس طر پر مریگا کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اگرچہ وہ زانی اور چور ہو ۔"( مشارق الانوار حدیث ۱۷۲)۔ اوراسی مضمون کی صیحین کی ایک متفق علیہ حدیث بھی ہے۔(دیکھو مشارق الانوار حدیث ۱۶۴۵)۔ پس لامحالہ شرک اور بت پرستی جو روحانی زناکاری ہے وہ ازروئے عقل وایمان جسمانی زناکاری سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور قابل نفرت بلکہ ناقابل معافی ہے اور جب کہ حضرت ابراہیم خلیل الله جیسے عظیم الشان نبی او رایمانداروں کے باپ کے متعلق مرزائی صاحبان انکار نہیں کرسکتے کہ ان کا باپ مشرک تھا اور دیگر انبیاء کے آباؤ اجداد کا مشرک ہونا ثابت ہے اور باابہنمہ وہ ان کی عصمت اور پرہیزگاری کے قائل ہیں تو پھر وہ کس منہ سے کلمتہ الله کے نسب نامہ پر اعتراض کرکے اس کی بدپرہیزی کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟ تلکہ اذاً قہمتہ ضینری۔

اعتراض نہیں بلکہ عامیانہ گالی

مرزاصاحب قادیانی کے آنخداوند کی تین دادیوں اور نانیوں کو زناکار اورکسبی عورتیں قرار دینے کوکسی طرح پر معقول اعتراض نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ یہ صرف مخالفانہ طبعیت کا اظہار اور نری دشنام دہی ہے۔ چنانچہ آپ کی نیت کا فتو ر اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ اگرچہ الہی ٰشریعت کے رو سے زناکاری جیسے عورتوں کے لئے معیوب ہے ویسی ہی مردوں کے لئے بھی ہے ۔ نیز سلسلہ ء نسب میں مردبہر حال عورتوں پر مقدم ہونے چاہئیں۔ مگر باایہنمہ آپ نے زناکار مردوں یعنی دادوں اورنانوں کا ذکر چھوڑ کر صرف عورتوں کے برخلاف زبان تشنیع دراز کرنا ہی پسند کیا ہے۔ کیونکہ نفسانی لوگوں کے نزدیک مرد کا گناہ باعث شرم نہیں بلکہ عورت کا گناہ ہی شرمناک سمجھاجاتا ہے۔ پس یہ کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ دراصل مرزا صاحب نے آنخداوند کو ویسی ہی عامیانہ گالی دی ہے جیسے کہ پنجاب کے دیہاتی اوربالخصوص ضلع گورداسپور کے گنوار غصے کی حالت میں اپنے مقابل کو اکثر دادی اورنانی کی گالی دینے کے عادی ہیں۔

مرزا صاحب مخالف مسیح

پھر اس کے بعد " کنجریوں سے میلان اور صحبت " کا ذکر آپ کو اس لئے کرنا ضروری معلوم ہوا کہ آنخداوند کی اہانت کے میدان میں آپ یہودیوں سے بھی گوئے سبقت لے جائیں۔ عام طورپر تین ہی قسم کے عیاش اور بدترین اخلاقی بدکردار مشہور ہیں۔ یعنی شرابخوار ، قمار باز اور رنڈی باز، اب خداوند مسیح کی عزت افزائی کے بارہ میں مرزا صاحب قادیانی کی مذہبی غیرت کے زير اثر مجدددانہ کارستانی ملاحظہ ہو۔ کہ آپ نے وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ کو ان تینوں شرمناک برايئوں کا مرتکب ٹھہرانے کی غرض سے انجیلی بیانات کو قادیانی الفاظ کا لباس پہنا کر اور حسب ضرورت صریح جھوٹ اور افترا سے بھی دریغ نہ کرکے اپنی طرف سے دینی غیرت کا ثبوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ :

" جس نے شرابخواری اور قمار بازی او رکھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز (1)رکھ کر بلکہ آپ ایک بد کار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلواکر اور اس کو یہ موقع دیکر کہ وہ اس کے بدن سے بدن لگائے ۔"(انجام آتھم صفحہ ۳۸)۔

حالانکہ بدباطن یہودیوں کے الزامی الفاظ کے سوا ہماری انجیل مقدس میں کسی ایک جگہ بھی آنخداوند کے شراب پینے کا کوئی واقعہ تو کیا ذکر تک موجود نہیں۔ اور نہ آنخداوند کا کوئی ایسا قول ہی منقول ہے کہ جس میں اس نے دوسروں کے لئے ہی شربخواری کو جائز رکھاہو۔ چہ جائیکہ وہ شرابخواری یعنی شراب پینے کی عادت میں خود مبتلا ہو۔ یا دوسروں کے لئے اس نے اس عادت کو جائز رکھا ہو۔ اور اگر مرزا صاحب کے اس بہتان کی بنیاد پانی کومےبنانے کے معجزانہ واقعہ پر ہو تو

۱۔ کیا مرزائی صاحبان موسوی شریعت سے کوئی ایسا صاف اور صریح حکم دکھا سکتے ہیں جس کے رو سے قانائے گلیل کی شادی کے و اقعہ تک شراب کا ہر حالت میں قطعاً ممنوع ہونا ثابت ہوسکے ؟ ورنہ بغیر ایسے شرعی حکم کی موجودگی کے کسی بیسویں صدی عیسوی کے اسلامی مجدد کا موسوی شریعت کے پیروؤں پر اعتراض کرنا کہاں کی ایمانداری ہے؟

۲۔ یہ بھی یاد رہے کہ وہ معجزانہ مے کسی کلاری کی بھٹی کی کشیدکر دہ شراب نہ تھی جسے آنخداوند نے کہیں سے لاکر پیش کردیا ۔ بلکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی قدرت سےپانی ہی معجزانہ طور پر مے میں مبدل ہوگیا تھا۔ پس یاتو اس واقعہ کی ہی صحت کا انکار کرکے شرابخوار کو جائز رکھنے کا الزام واپس لے لو۔ ورنہ اس معجزانہ مے (شراباً طہورا) کو مرزاصاحب کی مزعومہ قابل اعتراض شراب فرض کرلینے سے خود ذات الہیٰ پر یہی ایرادوارد ہوگا۔ جس کے ارادہ وقدرت سے وہ معجزہ ظہور پذیر ہوا اور متعلقہ لوگوں کی حاجت براری کے لئے پانی مبدل بہ مے ہوگیا تھا۔

۳۔ صرف اس ایک معجزانہ واقعہ کی بنا پر کوئی نیک نیت اور منصف مزاج انسان کسی بدترین قسم کی غلط فہمی کا شکار ہوکر بھی آنخداوند کو شرابخوار یا شراب پینے کی عادت کو جائز رکھنے والا قرار نہیں دے سکتا۔

پھر آنخداوند کے متعلق قمار بازی کا اتہام تو بدطینت یہوودیوں کو بھی نہ سوجھا۔ یہ کلمتہ الله کی مخالفت او راہانت کی مساعی میں یہودیوں کو بھی مات کرنے والا مرزا صاحب کا اپنا مجددانہ بلکہ مفتریانہ اضافہ ہے۔ اور شرابخواری اور قماربازی کا اضافہ بلیغ غالباً آپ کو اس لئے سوجھا ہے کہ آنخداوند کی مفروضہ عیاشی کے قادیانی قصیدہ کی بلاغت کے کمال میں کوئی درجہ باقی نہ رہ جائے ۔ اس کے متعلق ہم مرزائی صاحبان سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ :

۱۔ کس صورت میں آنخداوند کے قماربازی کو جائز رکھنے کا مرزا صاحب کو یقین حاصل ہوا ؟

۲۔ کب آنخداوند نے خود قماربازی کی یا دوسروں کو قمار بازی کی تعلیم دی؟

۳۔کس کس کے ساتھ قمار بازی کی اور اس میں کس قدر جیتا یاکیا کچھ ہرادیا؟

اور کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھنے کا اعتراض صرف اسی صورت میں کس قدر قابل تسلیم ہوسکتا ہے جبکہ یہ ثابت ہوجائے کہ اس وقت موسوی شریعت کے مطابق تو دوسروں کی عورتوں کی شکل دیکھنا بھی قطعاً حرام تھا مگر آنخداوند نے اس کو جائز رکھا۔ ورنہ کسی عورت پر "برُی خواہش سے نگاہ کرنے " کے برخلاف آنخداوند کےصاف اور صریح حکم سے کسی طرح بھی مرزا صاحب چشم پوشی نہ کرسکتے تھے۔لیکن درحالیکہ موسوی شریعت میں عورتوں کو چار دیواری کے اندر بند رکھنے اور کسی اشد ضرورت سے باہر نکالتے وقت برقعہ کے ساتھ از سر تاپا ڈھانپ دینے کے احکام کانام ونشان تک نہیں پایا جاتا۔ اور نہ ان دنوں فلسطین میں عورتوں کو چار دیواری میں بند رکھنے یا برقعہ اڑھانے کا رواج ہی تھا۔ اور ازیں جہت بغیر اندھے یا کسی ایسے شخص کے جو کسی عورت کو دیکھنے سے پہلے ہی اپنی آنکھیں موندھ لینے کی مشق نہ کرلے اور کسی شخص کے لئے دوسروں کی عورتوں کی شکل دیکھنے سے بچے رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ تو مرزا صاحب کا کسی معمولی واقعہ کو کھلے طور پر دیکھنا جائز رکھ کر " کے کائدانہ الفاظ میں چھپا کر آنخداوند کے برخلاف خواہ مخواہ کے بیہودہ اعتراضات گھڑلینا عقل وایمان کے رو سے کیونکہ جائزہوسکتا ہے؟ پس یہ امر واقعی قبول کرنا پڑیگا کہ درحقیقت مرزا صاحب اپنی دینی غیرت کے جوش میں عقل وایمان سے دیدہ دانستہ آنکھیں پھیر کر ہر ممکن صورت میں انجیل مقدس کے الفاظ کو بگاڑ کر شرابخواری اور قمار بازی کے ساتھ تیسری آور آخری شرمناک برائی بھی آنخداوند کے سر تھوپنے پر تکے ہوئے تھے تاکہ مسیح کی عزت افزائی کے باب میں کوئی ارمان آپ کے دل میں باقی نہ رہ جائے ۔ اور آپ کا یہ بیان بھی اسی کوشش میں تمہیدی قدم ہے۔ چنانچہ آپ نے ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہ لکھ مارا کہ :


(1) یہ قادیانی چالبازی کا ایک ادنے ٰ کرشمہ ہے۔ کہ مکروہ تین برائیوں کی فہرست گناہ کر پھر اس کو "جائز رکھ کر " کے گول مول الفاظ سے ڈھانک دیا تاکہ اگر کوئی گرفت کرے تو چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہرطرح کی حیلہ سازی کی راہ نکل سکے ۔ منہ

" آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلواکر "۔

اور اگرچہ اس مہم میں آپ کو موزون الفاظ گھڑنے میں بڑی دقت کا سامنا تھا۔ گو آفرین ! آپ کی مرد انہ ہمت !! اور مفتر یانہ عقل پر !! کہ آپ نے کسی طرح جوڑ توڑ لگاکر ایسے الفاظ گھڑ ہی لئے جن سے آپ کا مطلب بھی برآئے اور انہیں انجیل مقدس کے بیان سے منسوب بھی کرسکیں۔ چنانچہ انجیلی بیان میں آپ کو بد چلن عورت کا لفظ شائد اس لئے پسند نہ آیا کہ اس سے آنخداوند پر صرف زناکاری کاالزام اتہام لگ سکتا تھا۔ اگر آپ شربخواری اور قماربازی کے لازمہ کے طور پر اس کو تیسری خاص شرمناک برائی سے متہم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ نےبیک جنبش قلم " بد چلن عورت" کو کنجری بنا ڈالا۔ کیونکہ آپ کو اس کا معمولی بازاری عورت یا کسبی ہونا نہیں بلکہ خاندانی طور پر کنجری ہونا ہی مطلوب تھا۔پھر اس خیال سے کہ مبادا ! لوگ پنجاب کی بعض کنجریوں کی مثال دیکر یہ نہ کہدیں کہ شائد وہ صرف گانے کا کام کرتی ہوگی۔ آپ نے اس پر لفظ "بد کار" کا اضافہ کردیا۔ اور صرف اسی قدر تشریح کو کافی نہ سمجھ کر کسی اور مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوسری جگہ اس بد کا ر کنجری کو " جوان " بنا دکھایا۔ اور چونکہ پاؤں پر عطر ڈالنے کے الفاظ آپ کی مطلب برآری کے لئے موزوں نہ تھے اس لئے آپ نے " پاؤں" کے لفظ کو " سر " میں تبدیل کردیا۔ اور سر پر عطر ڈلوانا بے معنی ٹھہرانے کے اندیشہ سے آپ نے عطر کو تیل میں بدل ڈالا۔ اور الہامی نگاہ سے انیس صدی بعد قادیان میں بیٹھے بٹھائے اس " بد کار جوان کنجری "کے پرائیوٹ بہی کھاتہ کی جانچ پڑتال کرکے آپ نے یہ یقین بھی حاصل کرلیاکہ وہ تیل ضرور حرام کی کمائی کا ہی تھا۔اور پھر یہ واقعہ بھی کسی فریسی کے گھرکا نہ تھا جیساکہ انجیل مقدس کا بیان ہے۔(لوقا ۷،آیت ۳۶تا ۵۰)بلکہ مرزا صاحب نے کشفی حالت میں ۔

" حضرت مسیح کا کسی فاحشہ کے گھر میں چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا۔

دیکھ لیا۔ اور معاملہ یوں ٹھہرا کہ آنخداوند نےاس بدکار جوان کنجری کے گھر جاکر" آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر حرام کی کمائی کا تیل" ڈلوایا۔پھراتنے پر بس نہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب کےدل میں اس سے کہیں زیادہ آنخداوند کی عزت افزائی کا خیال موجزن تھا۔ مگر آپ جو کچھ اس سے زیادہ کہنا چاہتے تھے اس کو کھلے الفاظ میں پیش کردینے سے آپ کوکوئی خاص مصلحت مانع ہوئی ۔ اس لئے اپنے غیر معمولی ذہن رسا سے کام لے کر صرف تھوڑی سی لفظی تبدیلی کےساتھ بطور کہنا یہ کہ اپنا مافی الضمیر پیش کردینے ہی پر اکتفاکیا اور سر کے بالوں سے پاؤں پونچھنے کےبیان کو " بد ن سے بدن" لگانے کا موقعہ دینے کا لباس پہنا کر باقی جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے اس کے متعلق اپنےہمسایوں کو ایک دوسرےمقام پربدیں الفاظ خبردار کردیا۔

" سمجھنے والے سمجھ لیں۔ کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے؟ (حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۷)۔

پس اس سارے بیان کو بغور پڑھ چکنے کے بعد کوئی نکتہ سنج انسان یہ کہنے کی ہرگزجرات نہیں کرسکتا کہ آنخداوند کو تینوں شرمناک برائيوں سے دامن آلود ٹھہرانے میں مرزا صاحب نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی رکھی۔ یا آپ نے مخالف مسیح کے فرائض کی انجام دہی میں کس طرح کوتاہی کی۔

اس واقعہ پر اعتراض کنندہ مرزا صاحب کے

نزدیک خبیث اور شیطان کا ہمجنس ہے

طرفہ یہ کہ بمصداق " درغگو را حافظہ تباشد"جس واقعہ کی بنا پر مرزا صاحب قادیانی نے ایسے مکروہ اورقابل نفرین الفاظ میں آنخداوند کی اہانت کی ہے اسی واقعہ کے معترض کو آپ بقلم خود" خبیث" اور "شیطان" کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر " لکھ چکے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ

"یادر ہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت اقوال وافعال انبیاء میں سے ظہور میں آتے رہے کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام ہے جیسا کہ ۔۔۔۔حضرت مسیح کا کسی فاحشہ کے گھر جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا۔۔۔۔ پھر اگرکوئی تکبر اور خود ستائی کی راہ سے اس بنا پر ۔۔۔۔حضرت مسیح کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسے خبیث کی نسبت اورکیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔" (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۴۷۸ وصفحہ ۴۷۹)۔

آنخداوند کی توہین کاسبب مرزا صاحب کی خاص نظر ِ عنایت

اگرچہ مرزا صاحب قادیانی نے اپنے دینی غیرت کے جوش میں غیر معمولی گرمی دکھا کر آنخداوند کو ان ساری مکروہ ترین بدکرداریوں کا مرتکب ٹھہرانے کی کوشش کی جو آپ کے ذہن میں آسکتی تھیں۔ اور اس گندی مدح سرائی میں آپ نے یہاں تک دریاد لی سے کام لیا کہ کوئی بدی اور شرارت بھی جس کا کوئی بدترین اخلاقی گنہگار مرتکب ہوسکتا ہے وہی آپ نے آنخداوند پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔ مگر آپ کی یہ نظر عنایت صرف آنخداوند کے حال ہی مخصوص تھی۔ ورنہ دیگر مذہبی لیڈروں کے متعلق خواوہ ہندوؤں ، پارسیوں اور چینیوں کے ہی کیوں نہ ہوں آپ کسی دوسرے "نیک اصول" کے پابند تھے۔جیساکہ آپ کے ذیل کے بیانات سے ظاہر ہے۔

" یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک ۔۔۔۔ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پاگیا اور کروڑہا لوگ اس مذہب میں آگئے ۔ یہ اصول نہایت نیک اصول ہے۔۔۔۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی مذہب کے پابندوں کو ایک ایسے شخص کا پیروخیال کرتے ہیں جو ان کی دانست میں دراصل کاذب اور مفتری ہے تو وہ اس خیال سے بہت سے فتنوں کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اور وہ ضرورتوہین کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔اور اس نبی کی شان میں نہایت گستاخی کے الفاظ بولتے ہیں۔ اور اپنے کلمات کوگالیوں کی حد تک پہنچاتے ہیں۔اور صلحکاری اور عامہ غلائق کے امن میں فتور ڈالتے ہیں۔ حالانکہ یہ خیال ان کا بالکل غلط ہوتا ہے اور وہ اپنے گستاخانہ اقوال میں خدا کی نظر میں ظالم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ پس یہ اصول نہایت پیار اور امن بخش اور صلحکاری کی بنیاد ڈالنے والا اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں ۔ جو دنیا میں آئے۔خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی او رملک میں۔ اور کہ خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذاہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں سے وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سےہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جس کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ۔۔۔۔پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دیکر برا کہتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ صلحکاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں ۔کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں۔ ۔۔۔۔اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہیے کہ اس مذہب کےنبی کی عزت پر حملہ کریں اور نہ یہ کہ اس کو برُے الفاظ سے یاد کریں۔ بلکہ چاہیے کہ صرف اس قوم کے موجودہ دستور العمل پر اعتراض کریں اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کروڑہا انسان میں عزت پاگیا اور صدہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے ۔ یہی پختہ دلیل اس کےمنجانب الله ہونے کی ہے اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدرعزت پاتا۔۔۔۔۔ سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پاجائے وہ اپنی اصلیت کے روسے ہرگز جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ پس اگر وہ تعلیم قابل اعتراض ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ اس نبی کی ہدائتوں میں تحریف کی گئی ہے۔ اور یا یہ سبب ہوگاکہ ان ہدائتوں کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اور یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود ہم اعتراض کرنے میں حق پرنہ ہوں۔"( تحفہ قیصریہ صفحہ ۶و۷)۔

" اسی لئےسچے کی اول علامت یہی ہے کہ خدا کی دائمی تائیدوں کا سلسلہ اس کےشامل حال ہو۔ اور خدا اس مذہب کے پودہ کو کروڑہا دلوں میں لگادیوے اور عمر بخشے ۔ پس جس نبی کے مذہب میں ہم یہ علامتیں پاویں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی موت اور انصاف کےدن کو یاد کرکے ایسے بزرگ پیشوا کی اہانت نہ کریں بلکہ سچی تعظیم اور سچی محبت کریں۔(ایضاً صفحہ ۸)۔

مرزا صاحب کی تمام تصنیفات میں مسیح کی مخالفت

فی الحقیقت جب سے مرزا صاحب قادیانی نے اپنے دعویٰ مسیحیت کا کھلے الفاظ میں اعلان کیا اس کے بعد آپ نے کسی تصنیف میں (تحفہ قیصریہ کےسوا جس میں آپ نے کسی مصلحت سے اپنے عام طرز تحریر کے برخلاف آنخداوند کا ذکراچھے الفاظ میں کیا) کبھی بھولے سے بھی آنخداوند کو کلمہ خیر کے ساتھ یاد نہیں کیا۔ بلکہ جہاں تک حالات نے اجازت دی آپ نے خوب دل کھول کر اس کی توہین کی۔ اور اگر عامہ مسلمین کے جوش ِ غیرت کے بھڑک اٹھنے کا خوف دامنگیر نہ ہوتا تو آپ ضرور اس میدان میں اور بھی کھلے کھیلتے ۔مگر بامر مجبوری جو کچھ آپ دلی جذبات سےناچار ہوکر لکھ چکے اس کی پردہ پوشی کے لئے بھی آپ کو عیسايئوں کے یسوع اور مسلمانوں کے عیسیٰ کو دو مختلف شخص قرار دینے کے پوچ حیلے میں پناہ ڈھونڈنی پڑی اور لکھنا پڑا کہ :

" مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔"(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۹)۔

" اور اگر کبھی اپنے اس طرز عمل کے برخلاف صاحب فراست مسلمانوں کے جو ش غیرت کو کسی قدر ٹھنڈا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ناچار آنخداوند کے متعلق چند کلمات المدح یشبہ بالذم کےرنگ میں لکھ دینے کی کرم فرمائی کی مثلاً یہ کہ:

" مفس اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں۔۔۔۔۔ بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تیئں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہائت اصرار سے بوجہ حمل نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح ہوگیا۔ اور بتول کے عہد کو کیوں توڑا گیا۔ اور تعدد ازدواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی ۔۔۔۔مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگیئں ۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض ۔" (کشتی نوع صفحہ ۱۶)۔

حالانکہ مسیحی اور اسلامی مسلمات کے رو سے نہ آنخداوند کا کوئی حقیقی بھائی یا حقیقی بہن ہوسکتی ہے (کیونکہ آنخداوند کا بغیر باپ کے پیداہونا مسلم ہے ) اورنہ مرزا صاحب سےکسی کبھی مانس نے یہ مطالبہ ہی کیا تھا کہ آپ مسیح کے بھائی اور بہنوں کی عزت کیوں نہیں کرتے ؟ نہ آپ نے ان کی کبھی بے عزتی کی ہی تھی (جیسی آنخداوند کی کرتے رہے ) کہ جس سے لوگوں کے اس خیال کو دور کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ۔ نہ آپ سے کسی نے یہ درخواست ہی کی تھی کہ مہربانی سے آپ ہمیں لوگوں کا اعتراض سنادیں ! بلکہ دراصل " یہ سب مجبوریاں تھیں۔" جو مرزا صاحب کو " پیش آگئیں۔" ورنہ آپ کی نیت ہر گز مسیح کی عزت افزائی کی نہ تھی۔ چنانچہ اس اظہار ِ عزت کے ضمن میں بھی آپ دبی زبان سے اور آخر میں کسی فرض معترض کے نام سے کھلےالفاظ میں ڈنک چلانے سے باز نہ آئے ۔او ربحالت ِ مجبوری ایک اور پیرایہ میں آنخداوند کی شان کے متعلق اپنے گرے ہوئے خیالات کا اظہار کر ہی دیا۔ اور آپ کے یہ الفاظ اس امر پر دال صریح ہیں ان کے لکھتے وقت کسی خارجی مجبوری کے زیر اثر آپ کے قلم نے آپ کے دل کا ساتھ نہیں دیا۔

الغرض جب سے مرزا صاحب قادیانی نے اپنے مسیح موعود ہونے کا بیانگ دہل اعلان کیا اور کسر صلیب کے واحد ٹھیکہ دار بن گئے اس وقت سے آپنے آنخداوند کی کسر شان میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کیا۔ اور اگر اس ستم ظریفی کے عملدرآمد میں آپ نے کبھی آنخداوند کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا بھی تو ایسے گرے ہوئے الفاظ میں کہ :

" زیادہ تر قابل ِ افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشینگوئیاں غلط نکلیں اس قدر صحیح نہ نکل سکیں ۔"( سلسلہ تصنیفات ِ احمدیہ جلد سوم صفحہ ۸۹۷)۔

"غائت مافی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیشگوئیاں اوروں سے زیادہ غلط نکلیں۔(ایضاً ایضاً)

" گو حضرت مسیح جسمانی بیماروں کو اس عمل کےذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدائت اور توحید اور دینی استفامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرتےکے بارے میں ان کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام رہے ۔"(ایضاً صفحہ ۱۰۶)۔البتہ جب کبھی آپ پر مخالفوں نے کوئی ایسا اعتراض کیا جس کا جواب آپ سے براہ راست نہ بن پڑا تو اس وقت بجائے حلی جواب دینے کے نقضی جواب سے مخالفوں کامنہ بند کرنے کی خاطر آپ نے آنخداوند کے حال پر ضرور یہ مہربانی دکھائی کہ دیگر چند انبیائے اولعزم کے ساتھ مسیح کو بھی شامل کرکے ویسا ہی اعتراض کسی فرضی معترض کے منہ سے آنخداوند کے حق میں بھی کہلوادیا۔ اور پھر بہشت مجموعی اس اعتراض کا جو دیگر انبیاء پر بشمولیت مسیح وارد کیا اپنی طرف سے جواب دیدیا۔ مگر اس لئے نہیں کہ اس اعتراض سے مسیح کی برائت مطلوب تھی بلکہ بدیں غرض کہ جیسا اعتراض خود آپ کی ذات پر وارد کیا گیا ویسا ہی خود ساختہ اعتراض مسیح کی نسبت سنا کر مخالفوں سے سہولیت کے ساتھ اپنا پیچھا چھڑالیں۔ ورنہ آنخداوند سے آپ کو ایسی طبعی دشمنی تھی کہ جس اعتراض سے اپنے بچاؤ کی خاطر ایک جگہ آنخداوند کو بری ٹھہرایا دوسری جگہ وہی اعتراض اس کی نسبت نہائت مکروہ صورت میں خود پیش کردیا پس مرزا صاحب قادیانی نے اپنی مزعومہ دینی غیرت کے زیر ِ اثر آنخداوند کی عزت افزائی کے باب میں از حد سرگرمی دکھائی ۔

حتیٰ کہ کسی بھی بڑے یا چھوٹے نبی سے آنخداوند کا مقابلہ کرنے کا آپ کو جب کبھی ناگوار اتفاق ہوا تو آپ نے اپنی طرف سے ہر ایک کو بلااستشنا ء آنخداوند سے افضل ٹھہرانے اور اس کو ہرطرح سے کم تر ہی قرار دینے کی کوشش کی ۔ اور اس امر میں نوبت یہاں تک پہنچادی کہ کشلیا (1) کے بیٹے کو بھی آنخداوند کے مقابل رکھ کر اپنے اسلامی ایمان کا اظہار کیا کہ :

مریم کا بیٹا کشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا۔"( انجام آتھم صفحہ ۴۱)۔ حالانکہ اور کسی بھی اسلام کے مسلمہ نبی کی عزت افزائی کے لئے آپ کو یہ کبھی جرات نہیں ہوئی کہ اس کا مقابلہ ہندوؤں یا پارسیوں کے کسی مذہبی لیڈر سے کرکے اسے اس کے مساوی قرار دیں اور صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ خود بدولت آنخداوند سے افضل اور پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر " ہیں ۔

الغرض آپنے اگر عمر بھر میں کسر ِ صلیب کے بارہ میں کوئی حقیقی کارنامہ دکھایا ہے تو یہ کہ تعلی وخودستائی کی ڈینگیں ہانکنے کے ساتھ ہی حتی الوسع آنحداوند کی کسر شان اور تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اور یوں گویا آپ نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی عظمت کا سکہ جمانے اور مسیحیت کے مقابل اپنی فتح کا ڈنکا بجانے کی غرض سے آنخداوند کی پیٹ بھر کر توہین وتحقیر ہی کو اپنی کامیابی او رکسر ِ صلیب کا حقیقی اور واحد ذریعہ سمجھا اور تازیست اسی نقطہ پر جمے رہے ۔


(1) اکثر مرزائی صاحبان یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے معتقدات کے موافق راجہ رامچندر بھی اسلام کے مسلمہ نبیوں میں سے تھے۔ اور اس کے ثبوت میں قرآن شریف کی یہ آئتیں پیش کیا کرتے ہیں " وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی اور ہر قوم کے لئے کوئی ہادی ہوا ہے۔" (سورہ رعد آیت ۸رکوع ۱)۔ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌ یعنی اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی نذیر نہیں ہوا۔"( سورہ فاطر آیت ۲۴ رکوع ۲)۔ اوریعنی ہر امت کے لئے کوئی رسول ہے۔"( سور ہ یونس ۴۸،رکوع ۵)۔ حالانکہ ان آئتوں میں ہر امت کے لئے کوئی ہادی ونذیر اور رسول ہونا بتایا گیا ہے نہ کہ ہر امت کے لئے کوئی نبی ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ ہادی ونذیر عام ہے اور نبی خاص ۔ او ران میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے ۔ یعنی ہر نبی ضرور ہادی ونذير بھی ہوگا۔ مگر ہرہادی ونذیر کا نبی ہونا ضرور نہیں۔ اور اسی طرح رسول کا لفظ بھی قرآن شریف میں نبی سے عام طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی کبھی نبی کے لئے اور کبھی غیرنبی کے لئے ۔ اور ازیں جہت وہ بھی ضرور نبی سے عام تر ہے جیسے کہ ذیل کی آیات سے ظاہر ہے : قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاء مَلَكًا رَّسُولاً یعنی کہہ اگر فرشتے پھرتے بستے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ رسول اتارتے ۔"( سورہ بنی اسرائیل آیت ۹۷رکوع ۱۱)۔ اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ یعنی فرشتوں اور آدمیوں میں سے رسولوں کو الله چن لیتا ہے ۔(سورہ حج آیت ۷۵رکوع ۱۰)۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ "یعنی پس میں نے رسول کے نقش پاسے ایک مٹھی بھرلی۔"( سورہ طہ آیت ۹۶ رکوع ۵)۔ فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ "یعنی جب اس کے پاس رسول (فرستادہ بادشاہ) آیا۔ کہا اپنے مالک کے پاس لو ٹ جا ۔" (سورہ یوسف آیت ۵۰رکوع ۴)۔ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا یعنی اور وہ رسول نبی تھا" ( سورہ مریم آیت ۵۳ رکوع ۴)۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ یعنی او رہم نے تجھ سے پہلے جو رسول یا نبی بھیجا"(سورہ حج آیت ۵۱ رکوع ۷)۔ ۔ پس جبکہ ہر امت کے لئے کوئی نبی ہونے کا ذکرقرآن شریف میں مذکور نہیں۔ اورراجہ رامچندر جی کا ہادی یا نذیر یارسول ہونا بھی یقینی طور پر ثابت نہیں تو عام سے خاص مراد لیکر اور مطلق کو مقید کرکے ہادی یا نذیر ورسول کے لفظوں سے بہر حال کوئی نبی ہی مراد لینا اور اس بنا پر بغیر کسی قطعی ثبوت کے راجہ رام چندر جی کو نبی قرار دینا سراسر خلاف اصول ہے۔ اور صرف ایک ظنِ فاسد کی بنا پر کسی مظنون بلکہ مفروض نبی کو ایسے اولوالعزم نبی کے برابر ٹھہرانا کسی طرح بھی اسلامی متعقدات کے مطابق اور ایماندارانہ دخل نہیں ٹھہرسکتا کہ جس کا نبی ہونا منوحص ہے ۔ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا یعنی اس نے مجھے کتاب دی او رمجھے نبی کیا۔"( سورہ مریم ۳۱ رکوع ۲)۔ لیکن اگر بقول شماراجہ رام چند ر جی اسلام کے مسلمہ انبیاء میں سے تھے اور رامائن وغیرہ کتب ہنود منزل من الله ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ ۱۔ قرآن شریف سے کوئی ایسی آیت پیش کرو۔ جس سے یہ ثابت ہو کہ ہر امت میں سے ضرور کوئی نہ کوئی نبی معبوث ہوا ہے۔ اور کہ راجہ رامچندر جی ضرور ان انبیاء میں سے ایک ہیں (۲۔)کوئی ایسی قطیعتہ الدلالتہ آیت قرآنی پیش کرو۔ جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ ہندوؤں کی کسی دھرم پستک کا منزل من الله ہونا اور اس کے دھارمک پیشواؤں کا بالعموم اور راجہ چندرجی کا بالخصوص نبی ہونا ثابت ہو(۳) قرآن شریف میں ابراہیمی ملت سے خارج کسی نبی کا اور بالخصوص پیشوا یا ہنود کا ذکر کیوں مذکور نہیں ہوا؟ جبکہ وہ بقول شماسب کے سب نبی تھے۔ کیا الله تعالیٰ کو ان میں سے کسی خاص کا علم نہ تھا؟( ۴) قرآن شریف کے اس حکم میں کہ " قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ (سورہ بقرہ آیت ۱۳۰ رکوع ۱۶)۔ کیوں راجہ رامچندر جی وغیرہ ہندو پیشواؤں اور رامائن وغیرہ ہندو گرنتھوں پر بالتصریح ایمان کے اظہار کا حکم پایا نہیں جاتا (۵) اگر یہود ونصاریٰ کےسوا کسی اور گروہ پر بھی قرآن شریف سے پیشتر کوئی آسمانی کتاب اترچکی تھی تو اس کے حصر کے کیا معنی ہونگے ؟ أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ یعنی تانہ کہو کہ کتاب تو دو ہی گروہوں پر اتری "(سورہ انعام آیت ۱۵۶رکوع ۲۰)۔ (۶) اگر قرآن شریف سے پیشتر کتاب اور نبوت بنی اسرائیل سے مختص نہ تھی تو " یعنی میں نے تم کو سارے جہان پر فضیلت دی "( سورہ بقرہ آیت ۴۴،۱۱۶) اور کونسی فضیلت مراد ہوسکتی ہے جو کتاب اورنبوت کے سوا سارے جہان پر بنی اسرائیل کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بخشی گئی " (۷) قطعی دلائل سے ثابت کرو کہ اہل کتاب کے خطاب میں ہندو بھی شامل ہیں۔(۸) مرزا صاحب کےاس قول کو حق بجانب ٹھہرانے کے یقینی دلائل سے راجہ رامچندر جی کا نبی ہونا ثابت کرو۔ او ریہ بھی ثابت کرو کہ وہ رتبہ میں ضرور آنخداوند کے برابر تھا۔

آنحداوند کی توہین کی وجہ

ہماری دانست میں آپ اس وجہ سے بامرنا چاری آنخداوند کی توہین وتذلیل میں زندگی بر کوشاں رہے کہ آپ کو کھلے الفاظ میں اپنے تیئں مسیح موعود قرار دینے اور حقیقی مسیح کی دوسری آمدکا صاف الفاظ میں قطعی انکار کرنے کے لئے ضروری معلوم ہوا کہ آپ آنحداوند کی حیات کا انکار کریں۔ اور اس کی شان کو اس قدر کم کر دکھائیں۔ اور اس کی فضیلت کے متعلق مسلمہ امور کو اس طرح پر اسلامی مسلمات کے منافی ظاہر کریں کہ آپ کا مثیل مسیح کے ادعا سےشروع کرکے بتدریج

"پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہونے "

تک پہنچ جانے کی بڑہانکنا کم از کم آپ کے دام ِ تزویر میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو چنداں ناگوار نہ گذرے ۔ نیز اس طرح سے دیگر مسلمانوں کی نظر میں بھی آپ کے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کی کراہیت کسی قدر کم ہوجائے۔ اور اس میں شک نہیں کہ آپ کو اس امر میں ہمت مرادنہ سے کام لیکر متعدد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مختلف افترا پر دازیوں سے مجبوراً کام لینا پڑا ۔ مثلاً

۱۔ آپ نے انجیل مقدس کے بیانات بلکہ الفاظ بھی مطلب کے موافق بگاڑ کر نیز حسب ضرورت اپنے کشف والہامات سے کام لے کر آنخداوند کوموسیٰ کا خلیفہ اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کا شاگرد اور مرید اور اولوالعزم انبیاء میں شمار کرنا تو در کنار ہر نبی سے کہتر بلکہ خودبدولت کی شان سے بھی کہیں کمتر اورراجہ رامچندر جی سے بھی کچھ زیادت نہ رکھنے والاثابت کرنے کی کوشش کی۔

۲۔ آپ کو مسیح کی تمام مسلمہ فضیلتوں کے جھٹلانے اور مسلمانوں کے دلوں سے مسیحی فضائل کے آثار مٹانے کی ضرورت محسوس کرکے یہ چال کھیلنا پڑی کہ آپ نے عامہ مسلمین کے اس عقیدے سے کہ آنحضرت دیگر تمام انبیاء سے افضل ہیں نارو ا فائدہ اٹھا کر ان کے جذبات سے یوں اپیل کی کہ اگر مسیح کی فلاں فلاں فضیلتوں کو مان لیں تو اس سے آنحضرت کی تحقیر بلکہ توہین ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے آپ نے ان تمام قرآنی بیانات کی جو مسیح کے فضائل سے متعلق تھے وہ تاویلیں کر دکھائیں۔جو شروع زمانہ اسلام کے آج تک کسی کو نہ سوجھیں۔ اور بعض صحیح حدیثوں کو جھٹلانا پڑا۔ بلکہ بعض حالتوں میں ناچار ہوکر آپ کو آنحضرت سےبھی اجتہادی غلطیاں منسوب کرنا پڑیں۔

۳۔ مسیح کے زندہ آسمان پرموجود ہونے اور دوبارہ واپس آنے کا انکار کرنے کے لئے آپ کو اسکی موت ثابت کرنا پڑی۔ اور اس کی قبر کی نشاندہی کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے آپ کو کشمیر کے شہر سرینگر کے محلہ خان یار کے ایک چبوترہ میں کشفی نگاہ سے مسیح کی لاش جھانکنا پڑی۔اور اس ظنِ فاسد کو درجہ یقین تک پہنچانے کے لئے آپ کو جوڑ توڑ لگاکر انجیل مقدس کے بعض واقعات کو مطلب کے موافق لباس پہنانا اور بعض واقعات سے عمداً چشم پوشی اختیار کرنا پڑا اور قرآنی الفاظ کی حسب منشاء تاویلیں کرکے اور بعض صورتوں میں عام سے خاص مراد لیکر اور احادیث اور مفسرین کے اقوال کو حسب ِ ضرورت بعض کو ردا اور بعض کو قبول کرکے اور اس کے سے بھی کام نہ نکلتا دیکھ کر نوٹووش روسی کے فسانہ کو صحیح تاريخوں پر ترجیح دینا۔ اور اس پر ذہنی مخترعات کا ملمع چڑھا کر اس مشکل مہم کو بہرا دقت و دشواری انجام دینا پڑا ۔

۴۔ مسیح کے معجزات کا انکار کرنے کے لئے آپ کو بھی انجیل مقدس وقرآن شریف کے صریح اور واضح بیانات کو قادیانی عبارات کا جامہ پہنا کر ازحد رکیک اور بھونڈی تاویلوں سے کام چلانا پڑا۔

۵۔ مسیح کے متعلق گندے سے گندے بہتان گھڑنے کے لئے بھی آپ کو انجیلی بیانات کو بالکل قادیانی لباس پہنانا پڑا۔اور حسب ِ ِضرورت یہودیوں کے مغلظات کو بھی اپنانے سے آپنے دریغ نہ کیا۔ اور اس کے متعلق مسلمانوں کے جوش ِ غیرت کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے آپ کو یسوع اور عیسیٰ کو متغائرین قرار دینے کے لئے لچر حیلہ کی پناہ ڈھونڈنا پڑی۔

۶۔بعض اسلامی مسلمات کا انکار کرکے ان کو نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کے لئے آپ کو قرآن شریف کے اکثر مقامات کی ایسی من مانی تاویلیں گھڑنا پڑیں جو ابتدائی اسلام سے آج تک کسی کو نہ سوجھی تھیں۔ اور بسا اوقات صحیح احادیث کو مطلب کے موافق نہ پاکر رد کرنے اور ضعیف حدیثوں سے کام نکلتا دیکھ کر ان کو قبول کرنےبلکہ بعض حالتوں میں عوام کے اقوال کو بھی احادیث پر ترجیح دینے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔

۷۔ اپنی نبوت اور مسیحیت کے دعووں کو اسلام کی برتری اور آنحضرت کی عظمت کے ساتھ بالکل وابستہ ظاہر کرنے کے لئے بھی آپ کو قرآنی آیات کی نرالی تاویلیں کرنا اور احادیث کو مطلب کےموافق قبول یا رد کرنا اور حسب ِ ضرورت عوام کے اقوال کا بھی سہارا ڈھونڈنا پڑا۔ اور معہذا مسلمانوں کے جذبات کو اپیل کرکے بھی کام نکالنا پڑا۔ کیونکہ

اول ۔ اگر مسیح کی شان وعظمت کو کم نہ دکھا تے تو مسلمانوں میں آپ کے ہوا خواہوں کا وجود کالعدم ہوجاتا۔ اور آ پ کا مثیل مسیح ہونے اور رفتہ رفتہ زمانے کی رفتار کےموافق چل کر

" پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر "

ہونے کا دعویٰ اہل اسلام کی نظروں میں مکروہ معلوم ہوتا۔ اور اگر پہلے مسیح کو موسوی خلیفہ نہ ظاہر کرتے تو دوسرے مسیح کا محمدی خلیفہ ہونا نا مانا جاسکتا ۔

دوم۔ اگر آپ مسیح کی تمام مسلمہ فضیلتوں کو جھٹلانے کی کوشش نہ کرتے تو نہ آپ مسلمانوں کےدلوں میں مسیحیت کی عداوت کا بیج بونے میں کامیاب ہوسکتے اور نہ کے ان کے دلو ں پر اپنی فضیلت کا سکہ ہی جماسکتے ۔اور بصورت ِ دیگر آپ کو موسیٰ جیسے اولوالعزم نبیوں بلکہ بعض صورتوں میں آنحضرت پر بھی فضیلت کا دعویدار ہونے کی ضرورت ہوتی۔ اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں آپ کی کامیابی قطعاً نا ممکن تھی۔`

سوم۔ اگر مسیح کی موت کو ثابت کرنے کی کوشش نہ کرتے ۔ تو اصل مسیح کی آمد کا انکار کرکے اس کے بجائے اپنے تيئں بطور مثیل کے پیش کرنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا۔

چہارم ۔ اگرمسیح کے معجزات کاصاف انکار نہ کردیتے۔ اور بعض کو ناچار عمل الترب کہکر اس سے نفرت کا اظہار نہ کرتے تو معجزات کے مطالبات سےآپ کا پیچھا چھڑالینا یقیناً غیر ممکن تھا۔

پنجم۔ اگر آنخداوند کے متعلق مکروہ بہتان نہ گھڑتے ۔ اور اس کے لئے یہودیوں کے آستانہ پر جبیئں سائی نہ کرتے تو مسیحیت کو نیچا دکھانے اور صلیب توڑنے کا خالی ڈھول پیٹنے کی آپ کو ہرگز جرات نہ ہوسکتی۔ کیونکہ مسیحیوں کے مقابل صحیح دلائل سے کام لیکر سرخروئی حاصل کرلینا آپ کے لئے ٹیڑھی کھیر تھی۔

ششم۔ اگر بعض ان اسلامی مسلمات کا (جن کا جواب دینا آپ کے لئے آسان نہ تھا)انکار کرکے آپ ان پر ایسا رنگ چڑھا کر پیش نہ کرتے جس سے کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے تو آپ کے لئے مسلمانوں کےسامنے اسلام کی حمائت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہونے کی ڈینگیں ہانکنا دشوار تھا ۔ پس اس امر میں آپ نے حقیقی اسلامی مسلمات کی حمائت کرسکنا مشکل تصور کرکے سہل ترین پہلو اختیار کیا کہ ایسے اسلامی مسلمات کو اپنے ذہنی سانچے میں ڈھال کربالکل نئی صورت میں پیش کردیاکہ نہ قابل اعتراض مسائل کو صحیح تسلیم کریں اور نہ اعتراضات کی گنجائش باقی چھوڑیں ۔ یعنی نہ سر رہے اور درد سر لاحق ہو۔

ہفتم ۔ آپ کو اپنی نبوت ومسیحیت کےدعووں کو اسلام کی برتری اور آنحضرت کی عظمت کے ساتھ وابستہ کرنے کی اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمان یہ خیال کرکے کہ جس قدر آپ کی فضیلت وبرتری کو تسلیم کرینگے اس سے اسلام ہی کی شان دوبالا ہوگی اور آنحضرت ہی کی عظمت ظاہر ہوگی۔آپ کے دام ِ تزویر میں آسانی سے پھنس سکیں۔ ورنہ کسی اورصورت میں مسلمانوں کا آپ کی شخصیات کو قبول کرنا اور اپنے دلوں میں آپ کی عظمت وبرتری کو جگہ دینامحال تھا۔

پس " گولوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت و انجیل وقرآن کے مسیح کی شان وعظمت کو گھٹانے اور اس کی مسلمہ فضیلتوں کو جھٹلانے اور اس کے زندہ آسمان پر موجود ہونے اور دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا انکار کرنے اور اس کے صاف اور صریح معجزانہ واقعات کی رکیک تاویلیں گھڑنے اوراس پر مکرہ وبہتان لگا کر یسوع اور عیسیٰ کو متغائرین ظاہر کرنے اور یوں عبرانی زبان اور اسرائیلی انبیاء کےناموں کی نوعیت سے بے بصری دکھانے کی کیوں کوشش کی گئی ؟ اور قرآن شریف کی صریح دلالتوں کے برخلاف اپنے مجدد انہ عقائد اختراع اور بعض حالتوں میں احادیث صحیحہ کا انکار کرنے اور حسب ضرورت ضعیف حدیثوں اور عام اقوال پر اپنے معتقدات کی بنیادر کھنے اور " ظلی اور بروزی اورامتی نبی اور مثیل مسیح کے نئے محاورات تراشنے کی کیوں جرات کی گئی ؟

" مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ ۔۔۔ قابل ِ رحم تھے نہ قابل ِ اعتراض ۔"

غرضیکہ جس قدر زیادہ اہل اسلام کی طرف سے آپ کے دعویٰ مسیحیت کی مخالفت ہوئی اسی قدر زیادہ آپ نے اپنی مسیحیت کےبراہین پیش کرنے کی بجائے حتی الامکان مسیح کی موت کو ثابت کرنے اور اس کی قدر ومنزلت کو ازحد گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اور آپ کی یہ کوشش ایسی مفید ٹھہری کہ آپ کی امت کے لوگ بھی آپ کی پیروی میں ہمیشہ آپ کی مسیحیت کے بارہ میں بحث کرنے کی بجائے مسیح کی موت پر ہی بحث کرکے اصل مطلب کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالانکہ بفرض محال اگر مرزائی صاحبان مسیح کی موت ثابت بھی کرد کھائیں اور اس کے جی اٹھنے کے واقعہ سے قطعاً انکار کردیں تو بھی مرزا صاحب کے مسیح ہونے کو اس سے سر مو متعلق نہیں۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ مسیح کی موت کا اثبات امر دیگر ہے اور مرزا صاحب قادیانی کے مسیح موعود ہونے کا اثبات امرِ دیگر ۔ اور یہ بطور لازم اور ملزوم کے اس طرح پرایک دوسرے کے ساتھ ہرگز وابستہ نہیں کہ مسیح کی موت سے یقینی طور پر مرزا صاحب قادیانی کا مسیح موعود ہونا ثابت ہوجائے جبکہ دعویٰ بھی صرف مماثلت کا ہے۔ بنا بریں کوئی انصاف پسند شخص آنحداوند کی موت کا فائل اور اس کے جی اٹھنے کامنکر ہونے کی صورت میں بھی بغیر یقینی اور قطعی دلائل کے مرزا صاحب قادیانی کو مسیح نہیں مان سکتا ۔ بمصداق

کس نیاید بزیر سائہ بوم

در ہمااز جہاں شود معدوم

مرزا صاحب قادیانی جیسے مخالف ِ مسیح

کے ظہور کے لئے آنخداوند کی روح بیقرار

لیکن اگر مرزا صاحب قادیانی نے آنخداوند کو پیٹ بھر کر گالیاں دینے سے اس کی عزت وشان کو چار چاند لگادئيے تو اس میں کچھ آپ کا قصور نہیں۔ کیونکہ جیساآپ پر کشفاً کھولا گیاآنخداوند کی روح خود ہی آپ کے ظہور کے لئے بیقرار تھی۔ اور اس نے خدا تعالیٰ سے خود درخواست کی کہ آپ جلدی دنیا میں پہنچ کراس کی توہین کریں اور اس کی درخواست پر ہی آپ بھیجے گئے ۔ چنانچہ مرزا صاحب پر

کشفا ً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے ۔ اپنے مثالی نزول (مراد مرزا صاحب ) کے لئے شدتِ جوش میں تھی۔ اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتے تھے کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو۔ سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا ۔"( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۷۸)۔

مرزا صاحب کے مخالف ِ مسیح ہونے پر انکا دستخطی اقبال

اگر خداوند کی پیشگويئوں پرغور کیاجائے جو جھوٹے مسیحیوں کے متعلق کی گئیں۔ اور جو ان کےزمانہ کے نشانات بتائے گئے ۔او رپھر ان پیشگوئیوں کے تمام وکمال پورا ہونے کے بارہ میں مرزا صاحب قادیانی کے اقبالی بیانات پر غور کریں تو آپ کا مخالف ِ مسیح ہونا اظہر من الشمس ہوجاتاہے۔ چنانچہ ان میں سے چند ایک ذیل میں نمبروار درج کرتے ہیں۔

اقبالِ مرزا پیشگوئی
" جو یسوع مسیح کے نام پر ۔۔۔۔ آیا ہے" ( تحفہ قیصریہ صفحہ ۱) ۱۔ بہتیرے میرے نام سے آئینگے۔"( متی ۲۴،آیت ۵)۔
" جو دنیا میں یسوع مسیح کےنام پر آیا ہے " صفحہ ۲۔ ۲۔ "کہینگے کہ میں مسیح ہوں۔( متی ۲۴،آیت ۵)۔
" میں مسیح موعود ہوں" (کشتی نوح صفحہ ۱۶) میں وہی ہوں "(کشتی نوع ۱۳) مکرر صفحہ ۱۵ ۳۔ " کہینگے کہ وہ میں ہی ہوں ۔"( مرقس ۱۳،آیت ۶،لوقا ۲۱،آیت ۸)۔
" خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زيادہ آسمانی نشان ظاہر کئے ( حقیقت الوحی صفحہ ۱۶۴)۔ ۴۔ " جو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا او رمعبود کہلاتا ہے اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے ( یہاں تک کہ ۔۔۔۔) اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتاہے ۔۔۔۔( ۲ تسسلنیکوں ۲،آیت ۴)۔
" ہم محض بطور نمونہ کے ایک سو چالیس نشان ان میں سے لکھتے ہیں ۔" (حقیقت الوحی صفحہ ۱۹۴)۔
" جن سے دو سو آٹھ نمبر نشانوں کا پورا ہوتا ہے "( تتمہ حقیقت الوحی ۱۶۴)۔
" جن سے دو سو آٹھ نمبر نشانوں کا پورا ہوتا ہے "( تتمہ حقیقت الوحی ۱۶۴)۔
" جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور عجیب کاموں کے ساتھ او رہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح
کے دھوکے کےساتھ ہوگی( ۲ تسسلنکیوں ۲ آیت ۲)
" اور نشنان اور عجیب کام دکھائينگے ۔" ( مرقس ۱۳،آیت ۲۲)
" اور آسمان پر بڑی بڑی دہشتناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہونگی ۔"( لوقا ۲۱،آیت ۱۱)
" کچھ زیادہ تین لا کھ سے اس جماعت میں داخل ہوچکے ہیں۔( حقیقتہ الوحی ۱۶۷)۔ (۵) "بہتیروں کو گمراہ کرینگے ۔" (متی ۲۴،آیت ۱۱)
" کچھ زیادہ تین لا کھ سے اس جماعت میں داخل ہوچکے ہیں۔( حقیقتہ الوحی ۱۶۷)۔
" یہاں تک کہ امریکہ میں کئی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوچکے ہیں۔۔۔۔ اور یورپ کے بعض لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں۔"( حقیقت الوحی ۱۶۷)
(۶) " اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرلیں۔"( متی ۲۴،آیت ۱۴)
(۷) " اور تم لڑایئاں اور لڑائيوں کی افواہیں سنوگے ۔"( متی ۲۴،آیت ۶)۔ " اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلینگی ۔"( حقیقت الوحی ۲۵۶)
" ماسوا کے اگر پہلے دنیا میں طاعون ہوتی رہی اور زلزلے آتے رہے ہیں اور لڑائياں ہوتی رہی ہیں تو اسوقت مسیح موعود ہونے کا کوئی مدعی موجود نہ تھا۔ پس جبکہ ایسے غیر معمولی زلزلوں اور طاعون سے پہلے ایک مدعی مسیحیت موجود ہوگیا اور بعد اس کے یہ سب علامتیں انجیل کے موافق ظہور میں آئیں تو کیوں اس سے انکار کیا جائے "( حاشیہ حقیقت الوحی صفحہ ۲۰۲)
" میں نے ۔۔۔ یہ خبردی تھی کہ میرے زمانہ میں دنیا میں غیر معمولی زلزلے آئينگے اور دوسری آفات بھی آئینگی اور ایک دنیا ان سےہلاک ہوجائیگی ۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دنیا میں زلزلوں اوردوسری آفات کا سلسلہ شروع ہوجانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے۔"( حقیقت الوحی ۱۶۱)۔ (۸)" جگہ جگہ کال پڑینگے اور بھونچال آئینگے " (متی ۲۴،آیت ۸)
" حضرت عیسیٰ  کی پیشگوئی زلزلوں اور طاعون کی جیسا کہ ابھی لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود کا اس وقت ظاہر ہونا ضرور ہے (حقیقت الوحی ۲۰۲)۔
" اب کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ جیساکہ طاعون سے ظہور میں آئیں پہلے اس ملک میں کبھی ظہور میں آیا تھا؟ ہرگز نہیں ۔ رہا زلزلہ وہ بھی میری طرف سے کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی۔ بلکہ پیشگوئی میں یہ الفاظ تھے کہ ایک حصہ ملک کا اس سے تباہ ہوجائیگا جیساکہ ظاہر ہے کہ وہ تباہی جو اس زلزلہ سے کانگڑہ اور بھاگسو خاص جوالہ مکھی پر آئی دوہزار برس تک اس کی نظیر نہیں ملتی(حقیقت الوحی ۱۶۰)۔
(۹) " بڑے بڑے بھونچال آئینگے اور جا بجا کال اور مری پڑیگی ۔" (لوقا ۲۱،آیت ۱۱)
" زمین پر اس قدر سخت تباہی آئیگی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی نہیں آئی ہوگی ۔"( حقیقتہ الوحی ۲۵۶)۔
تلکہ عشرة کاملة
(۱۰) کیونکہ وہ دن ایسی مصیبت کے ہونگے کہ خلقت کے شروع سے جسے خدا نے خلق کیا نہ ابتک ہوئی ہے نہ کبھی ہوگی۔۔۔۔اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔(متی ۲۴،آیت ۲۱تا ۲۳)۔

حقیقت مرزا بقلم خود

مرزا صاحب فرماتے ہیں :

"اور چونکہ اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا اور نوازدطبع کے لحاظ سے یسوع کی روح سے میرے اندر رکھی تھی۔"( تحفہ قیصریہ صفحہ ۱۷)۔

" میں وہ شخص ہوں جس کے روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے ۔"( تحفہ ۱۸)۔

"اور چونکہ اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا اور نوازدطبع کے لحاظ سے یسوع کی روح سے میرے اندر رکھی تھی۔"( تحفہ قیصریہ صفحہ ۱۷)۔

" میں وہ شخص ہوں جس کے روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے ۔"( تحفہ ۱۸)۔

"ایک شریر مکار جس میں سراسر یسوع کی روح تھی ۔"(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۵)۔

(صغریٰ) مرزا صاحب میں یسوع (1) کی روح تھی (قول مرزا )

(کبریٰ) جس میں یسوع کی روح تھی وہ شریر مکار تھا (قول مرزا )

(جد ِ اوسط)۔ یسوع کی روح + اصغر = مرزا صاحب + اکبر = شریر مکار )

(نتیجہ ) پس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنخداوند کی کوئی حقیقی دادی یا نانی نہیں ہوسکتی

جبکہ یہ امر بالکل قرین عقل وانصاف ہے کہ مخالفوں پر ان کے مسلمات کے مطابق ہی اعتراض کیا جاسکتاہے ۔ اور مرزا صاحب اور ان کی امت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جن مسیحیوں کو وہ مخاطب کرتے ہیں وہ خداوند مسیح کی معجزانہ پیدائش کے قائل ہیں۔ اور جن انجیلوں میں آنخداوند کے نسب نامے پائےجاتے ہیں انہی سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ اس کا کوئی جسمانی باپ ہی نہ تھا۔ بلکہ وہ بلاواسطہ جسمانی باپ کے خدا تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوا تو پھر آنخداوند کی کوئی حقیقی دادی قرار دیکر اس کے واسطہ سے اسے گالیاں دینا ہی عقل وایمان کے دعویدار کو کیونکر زیب دیتا ہے۔ پس مرزائی صاحبان کو آئندہ ایسے لچر اور مکروہ استدلال کو کام میں لانے سے پہلے یہ امر ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مسیحی بلکہ اسلامی مسلمات کے مطابق بھی ( بجز ان چند مطلبی دیوانوں کے جن کا کام ہی مذہبی کتابوں کے الفاظ کو کھینچ تان کر دنیا کےد وسرے لوگوں سے نرالے معنی تجویز کرنا ہے ) نہ آنحداوند کا کوئی حقیقی جسمانی باپ تھا۔ اور نہ اس کی کوئی حقیقی دادی ہوسکتی ہے پس کیونکہ ان کے

" خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔؟"

اور ہمارے منجی نے خود اپنے متعلق فرمایاکہ

" جب داؤد اُسکو خداوند کہتاہے تو وہ اس کا بیٹا کیونکہ ٹھہرا۔"( متی ۲۲،آیت ۴۵)۔

پھر انجیل مقدس سے ہی معلوم ہوتا ہےکہ خداوند کےفرشتے نے یوسف سے کہا کہ:

" جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔"( متی ۱،آیت ۲۰)۔

بنا بریں یہ ماننا پڑیگا کہ آنخداوند کےوجودیا ماہیت جسمی کا مادہ ازروئے انجیل مقدس کسی انسانی جسم کے اجزا ء سے مرتب نہیں ہوا بلکہ وہ اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے کلمہ قدرت سے بلاواسطہ خلق ہوا جیسے ابتدائی آفرینش کی مادی چیزیں یعنی آنخداوند کا مادہ جسمی روح القدس سے وہ وجود پذیر ہوا۔ پس مریم مقدسہ کے اخرای جسمی کا دخل آنخدواند کے جسم کی ساخت اور نشوونما میں بمنزلہ غذائیت کے ماننا پڑیگا۔ اور یہ امر تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ غذا سے ماہیت جسمی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ ہر ایک جسم اپنی ماہیت کے مطابق غذا کو تبدیل کرلیتا ہے۔ ازیں جہت مریم مقدسہ دیگر ماؤں کی مانند آنخداوند کی ایسی ماں نہیں قراردجاسکتی کہ جس کےجسمی مادہ سے بشمولیت اپنے شوہر کے جسمی مادہ کے بچے کا وجود مرتب ہوا ہو۔ اورجب آنحداوند سے کسی نے کہا کہ


(1) بعض مرزائی صاحبان کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یسوع کو دو مفہوم مراد لئے لیکن یہ بالکل لچر تاویل ہے ۔ کیونکہ جب مصدق ایک ہے یعنی یسوع کی روح توایک مصداق کے مغائر مفہوم قرار دینے کا کسی مرزائی کا کوئی حق نہیں ۔ منہ

"دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کےجواب میں کہا کون ہے میری ماں اورکون ہیں میرے بھائی؟ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ۔ دیکھو میری ماں اورمیرے بھائی یہ ہیں۔"( متی ۱۲،آیت ۴۷تا ۴۹)۔

پس جن انجیلوں میں آنخداوند کا نسب نامہ مندرج ہے انہی کی رو سے نہ داؤد اور سلمون اور یہوداہ اس کے حقیقی دادے او رنانے کہلاسکتے ہیں اور نہ ان کی بیویاں اس کی حقیقی دادیاں اور نانیاں کہ

" جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔"

مانا جاسکے ۔ اس لئے یہ امر عقل وانصاف ودیانت سے کس قدربعید ہے کہ مسیحی مسلمات کے برخلاف محض مسیحیوں کی دلاآزاری کی نیت سے ناحق آنحداوند کی تین دادیوں اور نانیوں کوزناکار بلکہ بعض کو خلاف واقعہ کسبی عورتیں قرار دیا جائے اور پھر اس سے آنخداوند کے لئے اخلاقی بدیرہیزگاری کا الزام ثابت کرنے کی جرات کی جائے؟

وہ تین عورتیں کونسی ہیں؟

آنخداوند کا نسب نامہ جو انجیل میں مندرج ہے ۔ اس میں چار عورتوں یعنی تامار، راحاب ، روت اور بنت سبع کے نام مذکور ہیں۔ پس مرزا صاحب کا اشارہ ان میں سے غالباً تامار، راحاب اور بنت سبع کی طرف ہوگا۔ کیونکہ روت اگر چہ موآبی عورت تھی مگر وہ کسی طرح سے بھی زناکار اور کسبی عورت ثابت نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ نہائت نیکدل اور دیندار عورت ثابت ہوتی ہے۔ (روت ۱،آیت ۱۶ + ۴،آیت ۱۱تا ۱۳)۔ اس لئے ہم روت کے علاوہ باقی تینوں کے متعلق مرزا صاحب کے بہتان کی حقیقت فاش کرینگے ۔

مسیحی نسب نامہ میں ان عورتوں کے ذکر کی غائت

مگر اس سے پیشتر یہ عرض کردیناضروری ہے کہ ہر ایک حق پسند جو ان تینوں بلکہ چاروں عورتوں کے واقعات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے کتاب مقدس کا بنظر غائر مطالعہ کریگا اور ساتھ ہی انجیل متی کو بھی غور سے پڑھیگا اس کو اس امر واقعی میں ہمارے ساتھ اتفاق کرنا پڑیگا کہ دوسری عورتوں کا ذکر چھوڑ کر ان چاروں عورتوں کا خصوصیت کےساتھ آنخداوند کے نسب نامہ میں ذکر کرنے سے انجیل نویس کی یہ غرض ہرگزنہیں ہوسکتی کہ ازارہ توہین وتضحیک ان عورتوں کے نام اپنے منجئی وخداوند کے نسب نامہ میں مندرج کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ ازروئے نسب ایسی گنہگار عورتوں سے متعلق ہونے کی بنا پر گنہگاروں کا منجی نہیں ہوسکتا۔ نہ اس نے نسب نامہ میں ان عورتوں کے گنہگار ہونے کا ذکر ہی کیا۔ حتی ٰ کہ راحاب کو بھی راحاب فاحشہ نہیں لکھا۔ بلکہ اس کی غرض صاف طورپر یہ ثابت کرتی ہے کہ اگرچہ تینوں عورتیں پہلے گنہگار تھیں۔اور چوتھی عورت ایک موآبی عورت تھی۔ مگر باایہنمہ خدا تعالیٰ جوہر ایک سچی توبہ کرنے والے گنہگار کو معاف کرنے کو تیار اور اسے راستباز ٹھہرانے پر قادر ہے اس نے نہ صرف ان گنہگار عورتوں کو راست باز ٹھہرا کر قبول کیا اور اپنی برگزیدہ قوم میں شامل ہی کیا۔ بلکہ ان کو اس قابل ٹھہرایا کہ وہ مریم صدیقہ کے نسب نامہ سے نسبت رکھیں کہ جس سے منجئی جہان پیدا ہوا۔ اور یوسف کے نسب نامہ سے بھی جو مریم صدیقہ کا شوہر اور آنخداوند کا مجازی باپ تھا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ گنہگاروں کی ہلاکت یقینی اور نجات محال نہیں۔ او رنہ کسی تائب گنہگار سے خدا تعالیٰ نفرت رکھتا ہے بلکہ وہ ہر ایک سچی توبہ کرنے والے گنہگار کو قبول کرنے کو تیار ہے (لوقا ۱۵،آیت ۱۰)۔ چنانچہ

" اس نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔( یوحنا ۳،آیت ۱۶)۔

اور چونکہ انجیل کے معنی ہی خوشی کی خبر ہیں اس لئے نہ صرف منجئی جہان کانسب نامہ ہی انجیل مقدس کے شروع میں مذکور ہے تاکہ وہ نوشتوں کے مطابق ابن ابراہیم اور ابن داؤد ثابت ہو بلکہ اس نسب نامہ میں ایسے مردوں اور عورتوں کے نام مندرج ہیں جن کے پہلے گنہگار ہونے اور پھر راستباز ٹھہرائے جانے کا ذکر بالصراحت کلامِ مقدس میں مذکور ہے تاکہ منجئی گنہگاروں کے ساتھ پہلے ایمانداروں کا نہ صرف روحانی علاقہ ازروئے ایمان ہی ظاہر ہو(خط عبرانیوں ۱۱،آیت ۳۰)۔ بلکہ اس کے ساتھ ان کا جسمانی علاقہ ازروئے نسب بھی ظاہر ہو۔

"پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی ان کی طرح ان میں شریک ہو اتاکہ موت کے وسیلے سے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی۔یعنی ابلیس کو تباہ کردے ۔اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے انہیں چھڑالے"( عبرانیوں ۲،آیت ۱۴و ۱۵)۔

اور اس طرح پر اس امر میں ہر ایک گنہگار کے لئے یہ خوشخبری پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی نجات سے مایوس ہونے کی بجائے اس گنہگارروں کو راستباز ٹھہرانے والے پر ایمان لاکر نجات حاصل کرسکتا اور اس کےساتھ بذریعہ ایمان پیوستہ ہوسکتاہے۔ کیونکہ وہ گنہگاروں کو قبول کرنے اور انہیں راستباز ٹھہراکر ان سے روحانی تعلق قائم کرنے کو تیار ہے جیسے کہ اس نے گنہگاروں کےساتھ جسمانی طور پر متعلق ہونے سے بھی نفرت نہ کی ۔

راستباز ہونے کی متعلق مسیحی مرزائی

نقطہ نگاہ میں اختلاف

دراصل مرزا صاحب قادیانی کی نگاہ میں آنحداوندکا نسب نامہ اس لئے قابل ِ اعتراض ٹھہرا کہ راستباز ہونے کے متعلق مسیحی اور مرزائی نقطہ نگاہ میں بھاری اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مرزائی نقطہ نگاہ کے مطابق راستباز اور مقدس انسان وہ کہلاسکتا ہے جس نے زندگی بھر میں کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو او رنہ کبھی کسی آزمائش سے دوچار ہوا ہو۔ اورنہ کسی گنہگار سے ملنے بلکہ اس کی شکل تک دیکھنے کا روادار ہوا ہو۔مگر برعکس اس کے مسیحی نقطہ نگاہ کے مطابق بنی آدم میں سے کسی کے لئے اس جہان میں اس طرح پر حقیقی راستبازی کا حصول ممکن نہیں کیونکہ کسب ِ آدم سے اس کی اولاد کی طبعیت چونکہ موروثی طور پر بگڑ چکی۔ اوربنی آدم کے کسب سے اس طبعی بگاڑ میں اور اضافہ ہوتا گیا۔ اور اس طرح سے انسان باطنی طور پر نہائت ہی ضعیف ہوگیا اس لئے اس کی حالت یہ ہوگئی کہ جب تک اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حقیقی نیکی کا علم نہ بخشا جائےاور اس کی روشنی میں وہ اپنے طبعی بگاڑ سے نجات حاصل کرنے کی فکر سے بے پروارہیگا۔ اور چونکہ اس گناہ آلودہ دنیا میں گناہ سے دوچار ہونا اس کے لئے امر ناگریز ہے۔ اور وہ اپنے ذاتی ضعف اور طبعی بگاڑ کی وجہ سے فضل الہیٰ کا سہارا لئے اور نئی طبعیت حاصل کئے بغیر گناہ پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا او رکسی آزمائش کے مقابلہ میں شکست کھانے کے بغیر نہ وہ اپنے اس ذاتی ضعف اور اندرونی بگاڑ سے آگاہ ہوسکتا ہے اور نہ اپنی مکروہ حالت سے واقف ہوکر حصول نجات کے لئے بیقرار ہوسکتا ہے۔ اور نہ وہ گرجائے کے بغیر اپنی بیچارگی اور بے بسی کا یقین حاصل کرسکتا اور بنا پر بریں شکستہ دل ہوکر فضل الہیٰ کا سہارا ڈھونڈنے پر مائل ہوسکتا ہے۔ اور فضل الہیٰ پرتکیہ کئے اور روح القدس کی تائید پاکر گناہ کا مقابلہ کئے بغیر نہ وہ روحانی طور پر مضبوط ہوسکتا ہے اور نہ گناہ پر غلبہ پاسکتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ ہر ایک انسان آزمائش سےدو چار ہو۔ اور اس میں گر کر اپنی باطنی کمزوری اور طبعی بگاڑ کے متعلق الہیٰ ہدائت کی روشنی میں پوری آگاہی حاصل کرے تاکہ وہ حقیقی توبہ ( جس سے مراد اپنی مکروہ حالت پر پچتانا اور اپنی بے بسی کا یقین رکھتے ہوئے فضل الہیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہے ) اور خدا تعالیٰ کے مفت فضل پر ایمان رکھنے کے وسیلے سے اس تباہ حالی سے نجات درستگاری حاصل کرے ۔ اور نئی طبعیت پاکر روح القدس کی تائید سے روحانی قوت اور باطنی زور میں بڑھتا جائے ۔ پس صادق اور راستباز انسان سے مراد ایسا شخص نہیں جو کبھی گناہ میں گراہی نہ ہو سنبھل جائے اور رفتہ رفتہ باطنی انسانیت میں ایسا قوی اور زور آور ہوجائے کہ پھر بڑی سے بڑی آزمائش کا بھی مقابلہ کرسکے اور نہ گرے۔ چنانچہ صادق اور شریر میں یہ فرق ہے

"کہ صادق آدمی سات بار گرتا ہے اور پھراٹھتا ہے ۔ پر شریر بلا میں گرکے پڑا رہتا ہے" (امثال ۲۴،آیت ۱۶)۔

"اگرچہ وہ گرجائے پر پڑا نہ رہیگا کیونکہ خداوند اس کا ہاتھ تھا متا ہے"( زبور ۳۷،آیت ۲۴)۔

" وہ مجھے ہولناک گڑھے اور دلدل کی کیچ سے باہر نکال لایا اور میرے پاؤں اس نے چٹان پر رکھے اورمیرے قدموں کو ثابت کیا۔" (زبور ۴۰،آیت ۲)۔

" اے میرے دشمن تو مجھ پر شادمانی مت کر۔ کیونکہ جب میں گرونگا تو اٹھونگا جب اندھیرے میں بیٹھونگا تو خداوند میرے لئے نور ہوگا۔ میں خداوند کے قہر کی برداشت کرونگا۔ کیونکہ میں نے اس کا گناہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میرے لئے حجت ثابت کرے اور میرے لئے انفصال کرے وہ مجھے اجالے میں لائیگا اور میں اس کی راستبازی کو دیکھونگا "( میکاہ ۷،آیت ۸تا ۹)۔

"اس نے مجھ سے کہا کہ میرا فضل تیرے لئے ہی کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے ۔ پس میں بڑی خوشی سے اپنی کمزوریوں پر فخر کرونگا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔"( ۲ کرنتھیوں ۱۲،آیت ۹)۔

جیسے کہ پطرس رسول اور یہوادہ اسکریوتی کی حالتوں میں فرق پایا جاتا ہے کہ مقدس پطرس گرگیا مگر پھر سنبھلا اور روحانیت میں ایسا قوی بلکہ اپنے نام کے مطابق چٹان بن گیا کہ پھر اس سے کہیں بڑی بڑی آزمائشوں پر بھی غالب آتا رہا۔مگر اس کے برعکس یہوداہ اسکریوتی ایسا گرا کہ پھر سنبھل نہ سکا بلکہ مایوسی کی حالت میں اس نے خود کشی کرلی۔ الغرض مسیحی مسلمات کے مطابق راستبازوہ انسان ہے کہ جس کا انجام بخیر ہو۔ یعنی وہ ایمان کی حالت میں مرے اور راستباز اور مقدس بن کر اس دنیا سے رخصت ہو۔ اور ان مبارک لوگوں میں شامل ہوکہ جن کے گناہ بخشے گئے اور خطائیں ڈھانپی گئیں۔ اور جن کے گناہوں کو خداوند حساب میں نہیں لاتا (زبور ۳۲،آیت ۱و۲)۔پھر

مرزائی نقطہ نگاہ

کے مطابق گنہگار کہلانا بے عزتی اور شرم کا باعث ہے اور اس لئے ان کےنزدیک کسی شخص کے گناہوں کا پرد ہ فاش ہونے سے وہ بےعزت ٹھہرتا ہے۔ اورنہ صرف گناہ سے بلکہ گنہگاروں کی ذات سے خداتعالیٰ کو نفرت ہے۔ مگر مسیحی نقطہ نگاہ کے مطابق گناہ ایک مہلک روحانی بیماری ہے۔جس کا اثر موروثی طور پر کل بنی آدم میں سرائت کئے ہوئے ہے۔ اور اسی روحانی بیماری کی باطنی تاثیر کا ہولناک نتیجہ فعلی گناہ کی صورت میں صدور پذیر ہوتا ہے۔ پس جب اس خارجی اثر بد کے ذریعہ سے گنہگار اپنے اندرونی بگاڑ پر آگاہی پاکر توبہ اور ایمان کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع لاتاہے تو خدائے تعالیٰ جوشافی مطلق ہے اور نہ صرف اس بدکرداری کے نتیجہ یعنی سزا سے اس کو بچالیتا ہے۔بلکہ اس بیرونی اثر کے اندرونی سبب سے بھی چھٹکارا دیتا ہے۔ اس لئے گنہگاروں کو نجات دیکر انہیں راستباز ٹھہرانے میں خداتعالیٰ کی نجات بخش قدرت کا اظہار ہوتاہے۔ اور یہ ذکر کلام مقدس میں مندرج ہونے سے ان کی بےعزتی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے ان کی باطنی تقدیس وتطہیر کاثبوت ملتاہے۔ اور اس سے دوسرے گنہگاروں کو بھی یہ خوشخبری ملتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں سےسچی توبہ کرکے اور بذریعہ ایمان خدا تعالیٰ کےمفت فضل میں پناہ لے کر نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نیز مسیحی نقطہ نگاہ کے مطابق خدا تعالیٰ گناہوں سے تو نفرت رکھتاہے ۔ اور جب تک گنہگار خود بھی اپنے گناہوں سے ویسی نفرت نہ کرے اس وقت تک خدا تعالیٰ اپنی ذاتی قدوسیت کےباعث ایسی طبعیت کے انسان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر گنہگار اپنے گناہوں پر پشیمان ہوکران سے متنفر ہوجائے تو خدا تعالیٰ اس سے ایسی محبت رکھتا ہے کہ جس قدر زیادہ وہ گناہ کے اثر میں مبتلا ہوچکا ہو اسی قدر اس پر وہ اپنے فضل کی بہتات دکھاتاہے ۔(خط ِ رومیوں ۵،آیت ۲۰)۔ اوراسے اٹھاکر کھڑا کرنے میں وہ اپنی نجات بخش بیحد قدرت کا اظہار کرتاہے۔ اورایسے توبہ کرنے والے گنہگار کی بابت ننانوے راستبازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے اس کے حضور زیادہ خوشی ہوتی ہے۔"( لوقا ۵،آیت ۷)۔ الحاصل مرزائی صاحبان اگر مسیحی نقطہ نگاہ کے مطابق آنخداوند کے سلسلئہ نسب پر نہ صرف ابراہیم بلکہ آدم تک بھی نظر غائر ڈالیں تو ان کو تسلیم کرناپڑیگا کہ آنخداوند کانسب نامہ سراسر ایمانداروں اور راستبازوں اور مقدسوں پر مشتمل ہے۔ اور ان میں ایک فرد بھی ایسا نہیں پایا جاتا جو نجات حاصل کئے بغیر گناہوں کی حالت میں مرا ہو اور نہ ان میں کوئی ایسا شرک پایاجاتا ہے جو شرک وبت پرستی کی حالت میں تادم مرگ مبتلا رہا ہو اور جس نے ایمان کی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کیاہو۔

تامار پہلی دادی اورنانی

تامار کا ذکر پیدائش ۳۸،آیت ۶تا ۳۰ مذکور ہے۔ اور پورا بیان پڑھنے سے صاف روشن ہوجاتاہے کہ وہ عورت کوئی کسبی نہ تھی۔ بلکہ یہوداہ کے پہلوٹھے عیر کی بیوی تھی (پیدائش ۳۸،آیت ۶)۔ عیر مرچکا تھا( آیت ۷)۔اور یہوداہ کا بیٹا ادتان ازراہ شرارت اپنے بھائی کی نسل قائم رکھنا چاہتا تھا(آیت ۸و۹)۔ اسی لئے خداوند نے اسےہلاک کیا(آیت ۱۰)۔ تامار بہت دنوں تک نہایت صبر کے ساتھ اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ کر یہوداہ کے اس وعدہ کےایفاء کاانتظار کرتی رہی کہ یہوداہ کا چھوٹا بیٹا سیلہ جب جوان ہوگا تو وہ اسے دیدیگا۔(آیت ۱۱)۔ یہوداہ نے اپنے اس وعدہ کو پورا نہ کیا (آیت ۲۶) جیسے تامار بیوہ تھی اسی طرح یہوداہ کی بیوی بھی مرچکی تھی ۔ اور وہ بھی رنڈوا تھا (آیت ۱۲) یہوداہ کو تامار سے ہمبستری وقت یہ معلوم نہ تھاکہ وہ اس کی اپنی بہو ہے (آیت ۱۶)۔ سوائے ایک دفعہ کے پھر کبھی یہوداہ اس سے ہمبستر نہ ہوا( آیت ۲۶) اس وقت تک شریعت ِ موسوسی نازل نہ ہوئی تھی۔ اور لامحالہ جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا (خطِ رومیوں ۵،آیت ۱۳)۔ ان دنوں دیندار گھرانوں میں بھی حقیقی بھتیجی تک سے بیاہ ہوتا تھا۔ چنانچہ ابراہیم کے بھائی نحور کی بیوی ملکہ اس کےدوسرے بھائی حاران کی بیٹی تھی۔(پیدائش ۱۱،آیت ۲۹)۔ بلکہ ایمانداروں کے باپ ابراہیم کی بیوی سارہ بھی اس کے اپنے باپ تارح کی بیٹی تھی۔ البتہ دونوں کی مائيں الگ الگ تھیں (پیدائش ۳۰،آیت ۱۲)۔ علاوہ بریں خود " یہوداہ نے اقرار کیا اور کہا کہ وہ مجھ سے زيادہ صادق ہے کیونکہ میں نے اسے اپنے بیٹے سیلہ کو نہ دیا۔ لیکن وہ آگے کو اس سے ہمبستر نہ ہوا۔"(پیدائش ۳۸،آیت ۲۶)۔ پس مذکورہ بالا حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی منصف مزاج اور ایماندار انسان تامار پر طعن وتشنیع کرنے اوراسے زناکار بلکہ بالکل خلاف واقعہ کسبی قراریدنے کی جرات نہیں کرسکتا۔

راحاب دوسری دادی اورنانی

اگربالفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ سلمون کی بیوی اور داؤد کے پردادا بوعز کی ماں راحاب وہی راحاب فاحشہ تھی جو یریحو کے رہنے والی تھی ۔ اور جس نے اپنے تیئں خطرہ میں ڈال کر خداوند کی قوم کےجاسوسوں کو اپنے ہاں پنادہ دی تھی۔(یشوع ۲،آیت ۱)۔ تو بھی یہ ماننا پڑیگا کہ الہیٰ حکم کے ماتحت شہر یریحو کو بکلی حرم کردینے کے باوجود خدا کے برگزیدہ نبی یشوع نے اس راحاب کی بلکہ اس کے سبب سے اس کے گھرانے کی بھی جان بخشی کی (یشوع ۶،آیت ۱۶و۱۷و۲۵)۔ اورراحاب نے اپنی گزشتہ حالت کو بالکل ترک کرکے اپنے گھرانے سمیت خدا کی برگزیدہ قوم بنی اسرائيل کے درمیان بودو باش اختیار کی (یشوع ۶،آیت ۲۵)۔ اور جبکہ صحیحین کی ایک متفق علیہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ گرمیوں کے ایام میں صرف ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے ایک فاحشہ عورت کے گناہ معاف ہوگئے (دیکھو مشارق الانوار حدیث نمبر ۳۱۸)۔ تو راحاب جس نے اپنے تیئں خطرہ میں ڈال کر خدا کے بندوں کی جانوں کو بچایا۔ اور یریحو کے کل جانداروں کے حرم کئے جانے کے الہی ٰ حکم کے باوجود خدا کے ایک برگزیدہ نبی نے جس کی گھرانے سمیت جان بحشی کی ۔ اور جو پہلے موسوی شریعت سے یقیناً ناواقف تھی۔ اور جس نے بعد کو سچی توبہ کرکے اور خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر اس کی برگزیدہ قوم بنی اسرائيل میں بدووباش اختیار کی۔ ایسی خدائے تعالیٰ کی ایماندار اور راستباز بندی کےبرخلاف "(جس کا گناہ بخشا گیا اور جس کی خطا ڈھانپی گئی اور جس کے گناہ کو خدا حساب میں نہیں لاتا ۔") زبان تشنیع دارز کرنا کہاں کی عقل اور شرافت اور ایمانداری ہے ؟ کیا کسی کےگناہ بخشنے کے لئے خدا تعالیٰ کو ضروری ہے کہ پہلے مرزائی صاحبان کی رضامندی حاصل کرلے؟ بھلا جس کے گناہوں کو خدا تعالیٰ نے بخش کراسے راستباز ٹھہرایا ایسی راستباز عورت کی آخری دیندارانہ او رپاکیزه زندگی کو نظرانداز کرکے ا سکی پہلی زندگی پر حرف گیری کرنا کسی خدا ترس انسان سے کیونکر ممکن ہے؟

بنت ِ سبع تیسری دادی اور نانی

بنت ِسبع کا ذکر ۲ سموئیل کے ۱۱ اور ۱۲ باب میں پایا جاتا ہے جس کو بغور پڑھنے سے صاف آشکارا ہوتاہے کہ یہ عورت عام طور پر زناکار بھی نہ تھی چہ جائیکہ کوئی بے انصاف شخص اسے کسبی قرادینے کی جرات کرے ۔ بیشک داؤد اس کے ساتھ اوریاہ کی زندگی میں ہمبستر ہوا(۲ سموئیل ۱۱،آیت ۳)۔ مگر اس کے بعد خدائے تعالیٰ سے تنبیہ پاکر اس نے سچی توبہ کی۔ اور خدا تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی حاصل کرلی (۲ سموئیل ۱۲،آیت ۱۳)۔ اور اپنی شکستگی کی حالت کو ان الفاظ میں بیان کیا۔

" میں چپ رہا تو میری ہڈیاں سارے دن کراہتے کراہتے گل گئیں۔ کیونکہ تیرا ہاتھ رات دن مجھ پر بھاری تھا۔ میری تراوت گرمیوں کی خشکی سے مبدل ہوئی۔ میں نے تجھ پاس اپنے گناہ کا اقرار کیا اورمیں نے اپنی بدکاری نہیں چھپائی ۔ میں نے کہا میں خداوند کے آگے اپنے گناہ کا اقرار کرونگا۔ سو تو نے میری بدزاتی کے گناہ کو بخش دیا۔"( زبور ۳۲،آیت ۳تا ۵)۔

اور وہ لڑکا جو اس حالت میں بنت ِ سبع کے بطن سے پیدا ہوا وہ باوجود داؤد کی آہ زاری کے مرگیا( ۲ سموئیل ۱۲،آیت ۱۴)۔ اور جس وقت سلیمان پیدا ہوا( ۲سموئیل ۱۲،آیت ۱۴)۔ اس وقت وہ داؤد کی جائز بیوی تھی ۔ پس بنت ِ سبع کا حوالہ دیکر بھی آنحداوند کی تین دادیوں اور نانیوں کو زناکاربلکہ کسبی عورتیں قرار دینا کسی صاحب عقل وانصاف اور خدا ترس انسان کا کام نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہم بھی اس قادیانی منطق سے کام لے کر مرزائی صاحبان سے پوچھیں کہ کیا انبیاء کی بیویاں بھی تمہارے عقیدہ کے مطابق معصوم عن الخطا ہوتی ہیں؟ اور کیا انبیاء کی بیویوں میں سے ہر ایک کے متعلق مومن کے لئے یہ یقین حاصل کرلینا ضروری ہے ؟ کہ وہ پہلے ایسی عورتیں تھیں جو بالکل کسی مرد سے نا آشنا ہوں۔ یا ان کے متعلق صرف اسی قدر یقین حاصل کرلینا ضروری امر ہے ؟ کہ ان کی پہلی زندگی میں (خواہ وہ زندگی ایام جاہلیت سے ہی متعلق ہو) چال چلن کے متعلق ان سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو؟ تو کیا مرزائی صاحبان ان سوالوں کا جواب اثبات میں دیکر کل نبیوں اور راستبازوں کی ہر ایک بیوی کے متعلق ایسا یقین دلانے کو تیار ہونگے ؟ اور اگرجواب نفی میں ہو تو پھر پہلے راستبازوں اور نبیوں کی بیویوں کے ان گناہوں کے متعلق جو بخشے گئے زبان تشنیع دراز کرکے اس سے آنخداوند کی بد پرہیزی ثابت کرنے میں مرزا صاحب قادیانی کہاں تک حق بجانب ہیں؟ کیا بعض راستباز عورتوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے اور بعض کو ناحق کسبی عورتیں قرار دینے میں کسر ِ صلیب کا راز مضمر ہے ؟ اورکیا ایسے کام کے لئے کسی مسیح بلکہ مسیح موعود کی ہی ضرورت تھی؟ یہودی یا آریہ اس کے لئے کافی نہ تھے؟ اور کیا یہ گالی گلوچ ہی مرزاصاحب کے " لبوں پر رحمت جاری " ہونے کے ذہنی مفہوم کا خارجی مصداق ہے؟ اورکیا خداکی غیرت نےپہلے بھی کبھی یہ دکھایا کہ مخالفوں کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی طرف سےکوئی ایسانبی بھیج دیا جو دوسروں کو گالیاں دیکر کہے کہ یہ الہیٰ غیرت کا اظہار ہے؟

مرزا صاحب کے من گھڑت اعتراضات

پس جو شخص بنظر ِغور وانصاف کلامِ مقدس کا مطالعہ کریگا وہ ضرور ہماری اس رائے پر صادر کریگا کہ آنخداوند کے متعلق مرزا صاحب قادیانی کے ناگفتنی الفاظ محض ان کے اپنے من گھڑت خیالات کا آئینہ ہی ہوسکتے ہیں۔ ورنہ

۱۔کلامِ مقدس میں نہ یہ بیان کیاگیا ہے کہ خداوند مسیح کی تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔

۲۔ کلام ِ مقدس میں یہ پایا جاتا ہے کہ آنخداوند کا وجود کسبی عورتوں کے خون سے ظہور پذیر ہوا۔

۳۔ نہ کلامِ مقدس میں کسی بیان میں آنخداوند کےکنجریوں سے میلان اور صحبت کا ذکر موجود ہے۔

۴۔ اور نہ کسی گنہگار عورت کا ذکر ہی بدیں غرض کلامِ مقدس میں مذکور ہواکہ اس کی بنا پر کسی مخالف مسیح کو آنخداوند کی شان میں گندی گالیاں اور گستاخانہ کلمات لکھنے کا موقع ملے۔

اور جس واقعہ سے مرزا صاحب قادیانی نے آنخداوند کی بد پرہیزی کانتیجہ اخذ کیا ہے اس واقعہ کو لکھنے سے بھی انجیل نویس کی یہ غرض ہرگز نہ تھی کہ اس سے اپنے منجی اور خداوند کو بدپرہیزثابت کرے اور نہ اس کل واقعہ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد کوئی صاحب خردو انصاف یہ کہہ سکتا ہے کہ جس عورت نے آنخداوند کے پاؤں پر عطر ڈالا۔ اور پیچھے کھڑی ہوکر روتے ہوئے اپنے آنسوؤں سے اس کے پاؤں بھگوئے اور اپنے سر کے بال سے پونچھے(لوقا ۷،آیت۳۸)۔وہ کوئی " جوان کنجری " یا "بدکارکنجری" نہ تھی۔ اور نہ یونانی لغت کی رو سے کسی مرزائی عالم کے لئے یہ ثابت کردینا ممکن ہے کہ جس یونانی لفظ کا صحیح ترجمہ " بد چلن عورت " کیا گیا ہے (لوقا ۷،آیت ۳۷) اس کا ترجمہ "جوان کنجری " یابدکارکنجری" ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس کا کنجری ہونا تو درکنار ہرکس وناکس اس کی نسبت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ واقعی بد چلن بھی ہے جیساکہ میزبان فریسی کے اس خیال سے ظاہر ہے کہ :

"اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے؟(لوقا ۷،آیت ۳۹)۔

حالانکہ کسی " جوان کنجری" یا " بدکارکنجری" کے جاننے کے لئے خصوصاً اس زمانہ میں کسی طرح کی نبوت یا غیب دانی کی ہر گز ضرورت نہ تھی۔ اور پھر کٹر سے کٹر مخالف مسیح بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ان دنو ں کسی فریسی جیسے پابند شرع اور ازحد ظاہرداری یہودی کے گھر میں کسی " جوان کنجری "يا بدکار کنجری" کا یوں کھلے بندوں داخل ہونا کس طرح ممکن بھی تھا۔ اور پھر اس مفروضہ کنجری کا اتنی دیر تک وہاں ٹھہرے رہنا اور فریسی کا اس کی موجودگی کو گوارا کرلینا اور بھی عجیب ہوگا۔ پس باوجود یونانی زبان نہ جاننے کے مرزا صاحب قادیانی کا واقعات سے چشم پوشی کرکے اس عورت کو "جوان کنجری " یا بدکارکنجری" قرارد ینا کسی طرح بھی جائز نہیں ٹھہر سکتا اور ماننا پڑیگا کہ آنخداوند کی مخالفت میں آپ اندھا دھند ہر طرح کے جائز اور ناجائز اعتراضات گھڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ اور صرف یہی نہیں کہ مرزا صاحب نے تحکم محض کے طورپر" جوان کنجری " یا بدکار کنجری" ہی لکھ دینے پر اکتفا کیا بلکہ آپ کی نظر میں وہ فریسی بھی غالباً کوئی جوان یا بدکار کنجر ہی تھا جس کے گھر آنخداوند تشریف لے گئے اور یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ جیساکہ آپ کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ

" حضرت مسیح کا کسی فاحشہ کے گھر جانا اور اس کا عطر جو حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا۔"( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۴۷۸)۔

کسی " جوان کنجری" کے آنخداوند کے پاؤں کو ہاتھ لگادینے سے بھی کلمتہ الله ناپاک نہیں ہوسکتے

لیکن اگر بالفرض بقول مرزا صاحب یہ مان بھی لیں کہ وہ عورت واقعی کوئی " جوان کنجری " ہی تھی ۔پھر بھی مرزا صاحب یا ان کے مرید یہ ثابت کرنے سے قاصر رہینگے کہ " کسی جوان کنجری " کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا غیر ممکن ہے۔ او رکہ ایسی عورت کے گناہ معاف ہی نہیں ہوسکتے۔ مرزاصاحب نے غالباً آنحداوند کو بھی قادیان کے کسی فتو خیر ا جیسا ہی پرہیزگار سمجھ لیا ہوگا جبھی آپ نے نہائت بیباکی سے یہ لکھ دیاکہ

" کوئی پرہیزگار انسان کسی جوان کنجری کو یہ موقعہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے۔"

گویا مرزا صاحب کے نزدیک کسی جوان کنجری کے کسی پرہیزگار کے سر یا پاؤں کو چھوتےہی اس پر ہیزگارکی پرہیزگاری غت ربود ہوجاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا صاحب جیسے کسی پرہیزگار انسان کا ( بخیال خود ش) کسی جوان کنجری کے ناپاک ہاتھ لگانے سے بدپرہیزہوجانا ممکن ہو تو ہو مگر کلمتہ الله کی پرہیزگاری کی عنان اگر ایسی باتوں سے ہی دوست رفتہ ہوجاتی تو وہ گنہگاروں کا حکیم اور شافی کیونکر مانا جاسکتا ؟ وہ تو دنیا میں آیا ہی گنہگاروں کے لئے تھا۔ جیساکہ اس نے خود فرمایاکہ :

تندرستوں کو حکیم درکار نہیں بلکہ بیماروں کو ۔ مگر تم جاکر اسکے معنی دریافت کروکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں ۔ کیونکہ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں ۔"( متی ۹،آیت ۱۲تا ۱۳)۔

مرزا صاحب کی امت سے ہم پوچھتے ہیں کہ جو شخص کسی گنہگار کے چھونے سے خود ہی ناپاک ہوجائے وہ گنہگاروں کامنجی ہونے کے قابل کیونکر ٹھہرسکتا ہے؟

اور پھر ایسی پرہیزگاری کے حقیقی اور اصلی ہونے میں بھی کیا شک ؟ کہ کسی بد چلن عورت یا کنجری کا ہاتھ لگا نہیں اورکسی حقیقی پرہیزگار کی پرہیزگاری رفو چکر ہوئی نہیں۔ ایک پرہیزگار انسان کے پاؤں کو کسی کنجری کے صرف ہاتھ لگادینے سے ہی اس کو بدپرہیزقراردینے سے غالباً یہ مراد تو ہوسکتی کہ مرزا صاحب کے نزدیک چھوت چھات کے عقیدے کی بنا پر کسی گنہگار عورت یا جوان کنجری کے ایک نیک اور پرہیزگار انسان کے سر یا پاؤں کو محض ہاتھ لگادینے سے ہی وہ روحانی طورپر ناپاک اور گنہگار بن جاتا ہو اور اس کی حقیقی پرہیزگار کی پرہیزگاری رفو چکر ہوئی نہیں۔ ایک پرہیزگارانسان کے پاؤں کو کسی کنجری کےصرف ہاتھ لگادینے سے ہی اس کو بدپرہیزگار قرار دینے سے غالباً یہ مراد تو ہو نہیں سکتی کہ مرزا صاحب کے نزدیک چھوت چھات کے عقیدے کی بنا پر کسی گنہگار عورت یا جوان کنجری کے ایک نیک اور پرہیزگار انسان کے سر یا پاؤں کو محض ہاتھ لگادینے سے ہی وہ روحانی طور پر ناپاک اور گنہگار بن جاتا ہو اور اس کی حقیقی اور روحانی پرہیزگاری باطل ٹھہرتی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کی یہی مراد ہوسکتی ہے کہ ایک پرہیزگارکے سر یا پاؤں کو کسی جوان کنجری کے ہاتھ لگادینے سے اس مفروضہ پرہیزگار کے دل میں گندے خیال پیدا ہوجاتے ہیں۔پس اگر مرزائی صاحبان کے نزدیک حقیقی پرہیزگاری یہی ہے تو واضخ ہو کہ یہ کلام مقدس کے روسے ایسی پرہیزگاری یقیناً گندی دھجی کی مانند ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں ٹھہرسکتا ۔ اور ایسا شخص " سفیدی پھری ہوئی قبر کی مانند" صرف ظاہری اور نمائشی پرہیزگاری ہوسکتا ہے جس کی حقیقی پرہیزگاری یعنی تہذیب باطن کا مرتبہ حاصل نہ ہو۔ ورنہ حقیقی پرہیزگار بلکہ انسان کا مل پرہیزگار ہونا بھی اگر صرف اسی وقت تک تسلیم کیا جائے جب تک کہ وہ کسی آزمائش سے دوچار نہ ہو۔ یعنی جب تک کہ وہ صدور گناہ کا امکان ہی نہ پایا جائے ۔ اور جونہی صدور ِ گناہ کا موقع ملایا کسی آزمائش سے سابقہ پڑا وہ مفروضہ پرہیزگار چاروں شانے چت گرا!۔