Reliability of the Four Gospels

Vol. 1

By

The Venerable Archdeacon Barakat Ullah. M.A

قدامت واصلیتِ اناجیل اربعہ


جلد اوّل

علامہ برکت اللہ صاحب ایم ۔اے

پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی

انارکلی۔ لاہور

۱۹۵۹ء


The Venerable Archdeacon Barakat Ullah. M.A

1891-1972

علامہ برکت اللہ


تمام طالبانِ حق کے نام

جو

تلاشِ حق میں سرگرداں ہیں

" راہ ،حق اور زندگی میں ہوں"۔ (قول المسیح)

"بطلبید کہ خواہید یافت ۔ زیرا کسیکہ طلبد می بابد'۔

(انجیلِ اوّل ۷/۷)


پہلی ایڈیشن
کا

دیباچہ

قریباً تیس (۳۰)سال کا عرصہ ہوامیں نے مسئلہ تحریف پر کتاب " صحتِ کتُبِ مقُدسہ" لکھی تھی جس کی دوسری ایڈیشن ۱۹۵۱ء میں شائع ہوئی۔ میں نے اس میں یہ ثابت کیا تھاکہ یونانی اناجیل جوہمارے ہاتھوں میں موجود ہیں نہایت صحتِ کے ساتھ دوہزار سال سے من وعن (حرف بحرف) محفوظ چلی آتی ہیں۔ تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ جہاں تک یونانی متن کی صحِت کا تعلق ہے روئے زمین کی کوئی قدیم کتاب انجیل جلیل کی صحِت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ پس اس لحاظ سے انجیل ایک لاجواب اوربے نظیر (جس کی کوئی مثال نہ ملے)کتاب ہے۔

لیکن اُس کتاب میں اس موضوع کے دوپہلوؤں پربحث نہیں کی گئی ۔ یہ دو پہلو حسب ذیل ہیں جن پر اس رسالہ میں بحث کی گئی ہے:

اوّل۔اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات جواناجیل اربعہ میں مندرج ہیں بعینہ وہی ہیں جو آپ کی زبانِ معجز بیان سے نکلے تھے؟ کیا ان کلمات کے فرمائے جانے اوراُن کے اناجیل میں لکھے جانے کے درمیانی عرصہ میں کوئی ایسا فتور(خرابی) تواُن میں واقعہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے وہ ساقط عن الاعتبار(خرابی کی وجہ سے ناقابل اعتبار) ہوگئے ہوں؟

دوم۔حضرت کلمتہ اللہ کی مادری زبان صوبہ گلیل کی ارامی بولی تھی جس میں آپ لوگوں کوتعلیم دیا کرتے تھے لیکن موجودہ اناجیل کی زبان یونانی ہے جس کا اردو ترجمہ ہم پڑھتے ہیں ۔پس اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے کلمات جو یونانی لباس میں ہمارے پاس موجود ہیں درحقیقت وہی کلمات ہیں جو آپ نے ارامی زبان میں فرمائے تھے؟

یہ دونوں سوالات اہم قسم کے ہیں ۔ اگر آنخداوند کے الفاظ میں احاطہ تحریر میں آنے سے پہلے ہی کسی قسم کا فتور واقع ہوگیا ہو یا اُن کے ارامی بولی سے یونانی زبان میں ترجمہ ہوتے وقت کوئی اہم تبدیلی واقع ہوگئی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا اثر اُن کے پایہ اعتبار پرپڑے گا۔ لیکن اگریہ ثابت ہوجائے کہ آپ کے کلمات کے فرمائے جانے اور احاطہ تحریر میں آنے کے درمیانی وقفہ میں کسی قسم کے فتور کے پیدا ہونے کا احتمال نہیں ہوسکتا اورکہ ان کے یونانی لباس کی وجہ سے ان کی صحت میں فی الحقیقت کوئی فتور واقع نہیں ہوا تواناجیلِ اربعہ کی بےنظیر صحت اور رفیع پایہ اعتبار میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

گذشتہ چالیس(۴۰) سال سے علماء ان دوسوالوں پر غور کررہے ہیں ۔ ان کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس نے ان تمام کتابوں کا مطالعہ کیاہے۔میں اس مسئلہ کا گذشتہ تیس(۳۰) سالوں سے مطالعہ کرتا چلا آیا ہوں۔ اس کتاب کے آخر میں حوالوں کی فہرست گواہ ہے کہ اس موضوع پر بیسیوں (بے شمار)مضامین ، رسالے ،کتابچے اورکتابیں میری نظر سے گزری ہیں۔ پھربھی میں اپنی کم مائیگی (بے حیثیت ہونا)سےبخوبی واقف ہوں ،خوش قسمتی سے کسی مصنف کی کتاب کے مفید ہونے کے لئے لازم نہیں کہ وہ عالمِ کُل اورہمہ دان(ہر بات سے واقف) بھی ہو۔

مقدس خرسسٹم (از ۳۴۷ء تا ۴۰۷ء) اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں


" جس طرح معطر اشیاء کو جتنا رگڑا جائے اُتنا ہی زیادہ اُن میں سے خوشبو نکلتی ہے ۔اسی طرح جتنا زیادہ کتبِ مقدسہ کی چھان بین کی جائے اتنا ہی حقائق ومعارف کے پوشیدہ خزانے ہم پر کھلتے جاتے ہیں "۔

مغرب کے مسیحی اورغیر مسیحی علماء کی جانچ پڑتال ،چھان بین اور تنقیداس صداقت کی زندہ مثال ہے۔ اُن کی تنقیح وتنقید (تحقیق کرکے عیوب سے پاک کرنا)نے اَب یہ ثابت کردیا ہے کہ آنخداوند کے کلماتِ طیبات، معجزات بینات اور سوانح حیات من وعن اناجیل میں اَیسے محفوظ ہیں کہ اس ماجرے کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد میں ہم نے اناجیل متفقہ یعنی پہلی تین انجیلوں پر بحث کی ہے۔چونکہ پہلی تینوں اناجیل سیدنا مسیح کی سہ سالہ خدمت کے صرف اُس حصہ کےذکر کرنے پر اتفاق کرتی ہیں جو صوبہ گلیل میں گذرا ۔لہذا ان اناجیل کو" اناجیل متفقہ" کا نام دیا گیا ہے۔اس کتاب کی دوسری جلد میں انجیل چہارم پر اوراناجیل اربعہ کی اصل زبان اوراس کے یونانی ترجمہ پربحث کی گئی ہے اوریہ ثابت کیا گیا ہے کہ مروجہ اناجیلِ اربعہ کی صحت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔

ہم نے اس کتاب کے متن کو حوالوں سے پاک رکھاہے اورکتاب کی ہرجلد کےآخر میں تمام حوالوں کو ہرباب اور فضل کے عنوان کے ماتحت درج کردیا ہے تاکہ شائقین ان کا خود مطالعہ کرکے ان کتابوں اور رسالوں سے فائدہ حاصل کرسکیں۔

مجھے واثق یقین ہے کہ حق کی تلاش کرنے والے اس کتاب کے نتائج اور دلائل کو قبول کرنے کے قابل پائیں گے۔ ان سے میری درخواست ہے کہ بائبل مقدس کے جو حوالے اس کتاب میں جا بجا درج کئے گئے ہیں ضرور پڑھیں کیونکہ اُنہی پر دلائل(دلیل کی جمع) کی پختگی کا دارومدار ہے۔ اگر میں اُن کو نقل کرتا تویہ کتاب ضرورت سے زیادہ طویل ہوجاتی ۔ پس متلاشیانِ حق (حق کی تلاش کرنے والوں)سے التجا ہے کہ وہ ہر حوالہ کا پہلے مطالعہ کریں اور پھر آگےپڑھیں اورخالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے کتاب کے دلائل پر غورکریں۔ میری دعا ہے وہ بھی مصنف کی طرح منجی عالمین کے قدموں میں آکر ابدی نجات حاصل کریں۔

احقر العباد

۱۵ جنوری ۱۹۵۵ء

برکت اللہ

کورٹ روڈ، امرتسر


دُوسری ایڈیشن
کا

دیباچہ

تین سال کا عرصہ ہوا ہے کہ اس کتاب کی پہلی ایڈیشن چھپی تھی۔ اس کا شائع ہونا تھا کہ شمالی ہند اورپاکستان کے مختلف کونوں سے اس کی مانگ اس قدر ہوئی کہ دو سالوں کے اندر پہلی ایڈیشن ختم ہوگئی ۔میں اپنے منجی خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے اِ س کتاب کو متلاشیانِ حق کے لئے استعمال کیا ہے۔

جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا تو میری آنکھوں میں موتیا بند اُتر آیا تھا ور میں نے بصد مُشکل اس کو ختم کیا تھا۔ دریں حالت کتابت اور طباعت کی خامیوں کا وجود ناگریز تھا۔ خدا باپ کا لاکھ لاکھ شکر ہو جس نے مجھے دوبارہ بینائی عطا فرمائی ہے ۔ میں نے اس ایڈیشن میں اُن خامیوں کودوُر کیا ہے اور ایزادیاں(اضافہ) بھی کی ہیں۔ اُمید ہے ک قارئین کرام اِ س کتاب سے بیش ازپیش فائدہ اٹھاسکیں گے۔

میری دُعا ہے کہ خدا طالبانِ حق کی چشم بصیرت کو کھولے تاکہ وہ خدا کے کلامِ حق پر جو" زندہ اور قائم ہے" ایمان لاکر خدا کی معرفت اوراَبدی زِندگی حاصل کریں ۔ آمین۔

احقر العباد

برکت اللہ

ہنری مارٹن سکول۔ علیگڑھ

۲۹۔ دسمبر ۱۹۵۵ء


حصّہ اوّل

دَورِ اوّلین

(از ۳۰ء تا ۴۰ء)

باب اوّل

گواہوں کے بادل

آنخداوند نے صرف ۳۳ سال کی عمر پائی اور ۳۰ء میں مصلوب ہوئے ۔ تیس(۳۰) سال تک آپ نے محنت ومشقت کرکے اپنے خاندان کی پرورش کی اورجب آپ کےبھائی روزی کمانے کے لائق ہوگئے اوربہنوں کی شادی ہوگئی (مرقس ۶: ۳ وغیرہ) اورآپ ان دُنیاوی تعلقات کے فرائض سے سبکدوش (آزاد، جس پر کوئی بوجھ نہ ہو،فارغ)ہوگئے تو آپ نے خدا کی لازوال محبت اورابوت کا پرچار کرنا شروع کیا(لوقا ۴: ۲۳؛ مقابلہ گنتی ۴: ۳؛ مرقس ۱: ۱۵)۔ آپ نے ہر مقام اور ہرطبقہ میں منادی کی ۔ شہروں میں (مرقس ۱: ۳۲؛ ۱: ۳۸)گاؤں میں بستیوں میں (مرقس ۶: ۵۶)۔ ویران جگہوں میں (مرقس ۶: ۳۳) صوبہ گلیل میں (مرقس ۱: ۳۹)، گنیسرت کےعلاقہ میں (مرقس ۶: ۵۳)۔صور اور صیدا کی سرحدوں میں (مرقس ۷: ۲۴) دلمنوتہ کے علاقہ میں (مرقس ۸: ۱۰)قیصریہ فلپی کے گاؤں میں (مرقس ۸: ۲۷)۔یہودیہ کی سرحدوں میں اور یردن پار کی جگہوں میں (مرقس ۱۰: ۱)۔سامریہ کےعلاقوں میں (لوقا ۱۷: ۱۱، یوحنا ۴باب) ۔یہودیہ میں (یوحنا ۳: ۲۲)۔ یروشلیم اوراس کی ہیکل میں آپ نے خدا کی محبت کا پیغام دیا(مرقس ۱۱و ۱۲باب)(یوحنا ۲: ۲۳ وغیرہ) جہاں کہیں آپ گئے آپ نے ہر قسم کے بیماروں کو شفا بخشی (مرقس ۱: ۳۴؛ ۳: ۱۰۔) آپ نے ناپاک روحوں کو نکالا (مرقس ۱: ۳۶)۔ اندھوں (مرقس ۸: ۲۵؛ ۱۰: ۵۲) بہروں لنگڑوں (لوقا ۷: ۲۲) کوڑھیوں (مرقس ۱: ۴۲؛ لوقا ۱۷: ۱۴) ۔مرگی والوں (مرقس ۹: ۲۷)۔لنجوں، مفلوجوں(مرقس ۲: ۱۱؛ ۳: ۵)پاگلوں (مرقس ۵: ۴،) گونگوں (لوقا ۱۱: ۱۴)، ہکلوں(مرقس ۷: ۳۵)۔ عورتوں (مرقس ۵: ۲۹؛ لوقا ۸: ۲؛ ۱۳: ۱۳) ۔غرض سبھی قسم کے بیماروں کو (متی ۴: ۲۳)آپ نے اچھا کیا۔ آپ نے مردوں کو زندہ کیا (مرقس ۵: ۳۵؛ لوقا ۷: ۱۵؛ یوحنا ۱۱: ۴۴) ہزاروں بھوکوں کو اعجازی طور پر کھانا کھلایا (مرقس ۷: ۴۴؛ ۸: ۸) آپ کی شہرت ہر چہار طرف پھیل گئی (مرقس ۱: ۲۸ وغیرہ) آپ جہاں جاتے لوگ" سارے علاقہ میں چاروں طرف دوڑتے اوربیماروں کو چارپائیوں پر ڈال کر جہاں کہیں سنا کہ آپ ہیں لئے پھرتے " (مرقس ۶: ۵۵) ۔وہ آپ کے معجزاتِ بینات اورآپ کے کلمات طیبات کوسن کر انگشت بدنداں (دانتوں میں انگلی دینا،تعجّب)رہ جاتے اور کہتے " یہ کیا حکمت ہے جواسے بخشی گئی اورکیسے معجزے اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے ہیں"(مرقس ۶: ۲) وہ دنگ ہوکر کہتے " جو کچھ اس نے کیا سب اچھا کیا " (مرقس ۷: ۳۷) ۔سب لوگ آپ کی تعلیم کو سن کر " حیران ہوتے کیونکہ وہ ان کو فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح تعلیم دیتا تھا"(مرقس ۱: ۲۲)۔


آپ کی شہرت گلیل ، یہودیہ ، سامریہ غرض یہ کہ تمام ارضِ مقدس میں پھیل گئی ۔ آپ جہاں جاتے بھیڑوں کی بھیڑیں آپ کی زیارت کو اورآپ کی تعلیم سننے اورآپ کے معجزات دیکھنے کو (یوحنا ۱۲: ۱۸) چاروں طرف سے جمع ہوجاتیں۔ ایساکہ آپ کسی شہر میں ظاہراً داخل نہ ہوسکتے (مرقس ۱: ۴۵) ۔لوگ " شہروں سے اکٹھے ہوہوکر پیدل دوڑتے" (مرقس ۶: ۳۴) ۔جس گھر میں آپ جاتے " سارا شہر دروازہ پر جمع " ہوجاتا (مرقس ۱: ۳۳) اور " دروازہ پر جگہ نہ رہتی"(مرقس ۲: ۲)" اتنے لوگ جمع ہوجاتے کہ آپ کھانا بھی نہ کھاسکتے (مرقس ۳: ۲۰)آپ کے مصاحبین کا بھی یہی حال ہوتا اور" اُن کو کھاناکھانے کی بھی فرصت نہ ملتی تھی"(مرقس ۶: ۳۱) اگرآپ گھر سے باہر نکلتے توبھیڑ اس قدر ہوتی کہ آپ پر " گر پڑتی (مرقس ۵: ۳۱) ۔جب آپ تعلیم دینے کی خاطر " جھیل کے کنارے" چلے جاتے تو جمعِ غفیر جمع ہوجاتا(مرقس ۲: ۱۳؛ ۳: ۷) اوراکثر اوقات" یہودیہ اوریروشلیم اورادومیہ سے اوریردن کے پار صور اور صیدا کے آس پاس سے ایک بڑی بھیڑ جمع ہوجاتی " ایسا کہ آپ کواپنے رسولوں سے کہنا پڑتا کہ ’’بھیڑ کی وجہ سے ایک چھوٹی کشتی میرے لئے تیار رہے تاکہ بھیڑ مجھے دبا نہ لے ‘‘(مرقس ۳: ۸تا ۱۲) اورآپ کشتی میں بیٹھ کر (مرقس ۴: ۱)" یا بھیڑ کودیکھ کر پہاڑ پر چڑھ کر" (متی ۵: ۱) سب کو خدا کی لازوال محبت کا فرحت افزا پیغام سُناتے ۔

انجیل چہارم سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ آنخداوند عید کے موقعہ پر یروشلیم جایا کرتے تھے اور ارضِ مقدس کے اندر اورباہر کے زائرین کو جو عید کے موقع پر جمع ہوا کرتے خدا کی محبت کا پیغام دیتے تھے(یوحنا ۲: ۱۳، ۷: ۱۴، ۸: ۲، ۱۰: ۲۲، ۱۱: ۵۵ ، ۱۲: ۱۸ وغیرہ)۔ آپ نے " علانیہ ہمیشہ عبادت خانوں اورہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے تھے تعلیم دی(یوحنا ۱۸: ۲۰)جوزیفس ہم کوبتلاتا ہے ۔ CESTIUS GALLUSزیسٹیس گیلیس(۶۳ء تا ۶۶ء) کے عہد میں جب ان زائرین(زیارت کرنے والے) کی مردم شماری کی گئی جو یروشلیم آتے تھے تو وہ شمار میں ستائیس لاکھ دوسو تھے ۔ (اعمال ۲: ۹تا ۱۱ )سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زائرین کس قدر دُور دراز مقامات سے آتے تھے۔ پس اہالیانِ ارضِ مقدس(پاک سرزمین کے رہنے والے) آنخداوند کی تعلیم او رمعجزات سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس پولُس جو یروشلیم میں بھی رہے تھے(اعمال ۲۲: ۳) منجیِ عالمین کی زندگی کے واقعات اورکلمات سے واقف تھے(اعمال ۱۳: ۲۴۔ ۲۵؛ ۱۳: ۵۱؛ ۲۰: ۳۵؛ ۲۲: ۳ وغیرہ) ۔اور وہ بادشاہ اِ گرپا سے کہتے ہیں" بادشاہ جس سے میں دلیرانہ کلام کرتا ہوں یہ باتیں جانتا ہے اورمجھے یقین ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی اُس سے چھپی نہیں کیونکہ یہ ماجرا کہیں کونے میں نہیں ہوا" (اعمال ۲۶: ۲۶)۔

مذکورہ بالا چند مقامات سےناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ حضرت کلمتہ اللہ کے سامعین اگر لاکھوں کی تعداد میں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں تو ضرور تھے(لوقا ۱۲: ۱؛ مرقس ۷: ۴۴) ۔ پس ہزاروں مردوں اور عورتوں نے آپ کا جانفزا(دل کو خوش کرنے والا) کلام سنا اور آپ کے معجزات کودیکھا۔ بالفاظِ دیگراناجیلِ اربعہ کے مندرجہ واقعات اورکلمات کوسننے اوردیکھنے والے ہزاروں چشم دید گواہ تھے جو آپ کی شہادت کے بعد زندہ تھے جنہوں نے " زندگی کے کلام کو سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا" تھا(۱۔یوحنا ۱: ۱)۔

ان ہزاروں چشم دید گواہوں نے " جو کچھ کہ انہوں نے دیکھا اورسنا اُس کی خبردوسروں تک پہنچائی " (۱۔یوحنا ۱: ۳) کیونکہ یہ ناممکن تھا کہ وہ ایسے زندگی بخش کلمات سنتے اور خاموش رہتے یا وہ اپنی بیماریوں سے چھٹکارا پاتے اورچپکے اپنے گھروں کی راہ لیتے۔(مرقس ۷: ۳۶؛ متی ۹: ۳۱؛ لوقا ۴: ۳۷؛ ۵: ۱۵، ۲۵؛ ۱۷: ۵؛ یوحنا ۹: ۳۰ وغیرہ)۔پس آنخداوند کی وفات کے بعد ہزاروں ایسے چشم دید گواہ موجود تھے جنہوں نے " ان باتوں کو جو اُن کے درمیان واقع ہوئیں"(لوقا ۱: ۱) دوسروں تک پہنچایا اور یوں یہ واقعات چشم دید گواہوں اوراُن کے سامعین کےدلوں اور دماغوں میں ہمیشہ تازیست تازہ رہے کیونکہ یہ باتیں غیر معمولی ، حیران کُن اور خوارقِ عادت(خلافِ عادت باتیں، معجزات) تھیں جو آسانی سے کسی کی یاد سے مٹ نہیں سکتی تھیں ۔بالخصوص جب کہ مابعد کے واقعات (جن کا اعمال کی کتاب میں ذکر ہے) اُن کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھنے میں ممدومعاون (مددگار)رہے۔


یوحنا ۱۲: ۴۲سے ظاہر ہے کہ یہودی قوم کے" سرداروں میں سے بھی بہتیرے سیدنا مسیح پر ایمان لائے مگر فریسیوں کے سبب سےاقرار نہ کرتے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ عبادت خانہ سے خارج کئے جائیں (نیز دیکھو یوحنا ۳: ۱؛ ۷: ۱۳ وغیرہ)۔یہ سب کے سب صاحبِ ثروت واقتدار (مالدار اور عہددار)تھے اوراُن میں سے بعض قومِ یہود کی صدرِ عدالت کے ممبر تھے(یوحنا ۱۹: ۳۸۔ ۳۹؛ ۷: ۵۰ وغیرہ)۔

ان ہزارہا ہزار چشم دید گواہوں میں سے بعض بوڑھے تھے (لوقا ۱: ۱۸؛ ۲: ۳۳۔ ۳۶) بعض اُدھیڑ عمر کے تھے (یوحنا ۵: ۵؛ لوقا ۸: ۴۳؛ ۱۳: ۱۱) بعض ابھی نوخیز تھے(یوحنا ۴: ۵۱؛ ۶: ۹ ؛متی ۹: ۱۸؛ ۱۵: ۲۸)۔لیکن ان گواہوں کی ایک بہت بڑی اکثریت جوان عمر لوگوں کی تھی (مرقس ۹: ۳۴ وغیرہ)۔ اناجیلِ اربعہ کو سرسری نظر پڑھنے سے بھی یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آنخداوند کے چشم دید گواہوں کی عمر بیس(۲۰) اور تیس (۳۰)سال کے لگ بھگ تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگریہودی مردوں اور عورتوں کی اوسط عمر کی معیاد ۷۰، ۸۰ برس کی ہو (زبور ۹۰: ۱۰) تو یہ ہزاروں چشم دید گواہ یروشلیم کی تباہی اورہیکل کی بربادی (۷۰ء) کے وقت زندہ تھے۔ اوراگراناجیلِ اربعہ اس واقعہ ہائلہ(ہائل کی تانیث،ہولناک) سےپہلے ہی احاطہ تحریر میں آچکی تھیں تو یہ ہزاروں اشخاص انجیلی بیانات کے مصدق تھے۔

(۲)

ان ہزارہا چشم دید گواہوں کے ہجوم کے علاوہ ہزاروں مردوں کی ایک اور بھیڑ تھی جو آپ کے خون کی پیاسی تھی(مرقس ۱۵: ۱۱؛ متی ۲۷: ۲۰؛ لوقا ۲۳: ۲۳) جب آپ مصلوب ہوئے تو وہ یہودیوں کی عید کے دن تھے (لوقا ۲۲: ۷)۔جب ہریہودی بالغ پرفرض تھا کہ وہ یروشلیم حج کرنے کےلئے جائے (خروج ۲۳: ۱۵)۔ پس آپ کی صلیبی موت کے روح فرسادا (خطر ناک)واقعہ کودیکھنے والوں کی" ایک بڑی بھیڑ" جمع تھی(لوقا ۲۳: ۲۷)۔ جو اس واقعہ کی چشم دید گواہ تھی جس کو وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے تھے۔ اس " بڑی بھیڑ" کا ایک بہت بڑا حصہ بھی یروشلیم کی تباہی کے زمانہ میں زندہ تھااورانجیلی بیان کا مصدق تھا۔

اِ ن مخالفوں کے ہجوم کے علاوہ فریسیوں ، فقیہوں ، ہیرودیوں ، صدوقیوں ، صدرِ عدالت کے ممبروں، کاہنوں اور سردار کاہنوں کی ایک بڑی جماعت تھی جو تین سال تک ہر شہر اور قصبہ میں آنخداوند کی مخالفت پر تلے رہے اوربالاآخر اُنہوں نے آپ کو مصلوب کرکے چھوڑا ، فقیہوں اور فریسیوں کا فرقہ ابتدا ہی سے حضرت کلمتہ اللہ کے اقوال وافعال پر حرف گیری کرتا رہا (مرقس ۲: ۶، ۱۸، ۲۴) اور وہ ہمیشہ " اس تاک میں رہے کہ آپ پر الزام لگائیں "(مرقس ۳: ۲) ۔ اس غرض کے لئے فقیہہ یروشلیم شہر سے دور دراز صوبہ گلیل کو گئے(مرقس ۳: ۲۲) اور وہ آپ کے رویہ کودیکھ کر "فریسیوں اور ہیرودیوں کے ساتھ آپ کے برخلاف مشورہ کرنے لگے کہ آپ کو کس طرح ہلا ک کریں" (مرقس ۳: ۶) ۔ یہ باتیں جو آپ کی خدمت کے شروع میں ہی واقع ہوئیں اس مقتد ر گروہ کے عندیہ(منصوبہ) کا پتہ دیتی ہیں(متی ۱۳: ۳۹)۔ تین سال تک یہ گروہ برابر آپ کی مخالفت پر تلا رہا اورہمیشہ منہ کی کھاتارہا(لوقا ۱۳: ۱۷، متی ۲۲: ۴۶، ۲۲: ۳۴۔ وغیرہ) بالاآخریہ مقتدر اوربارسوخ طبقہ غالب آیا اوراس نے رومی گورنر کے ہاتھوں آپ کو مصلوب کرواکے دم لیا۔


ظاہر ہے کہ اس طبقہ کا کوئی فرد بھی آپ کے اقوال وافعال کو بھول نہیں سکتا تھا ۔ آپ کے اقوال اُن کے لئے جگردوز تھے ۔(متی ۲۳باب وغیرہ) پھر وہ اُن دلخراش کلمات کو کس طرح فراموش کرسکتے تھے ؟ آپ کے افعال ، یہودی بزرگوں کی روایات کے عین ضد تھے (مرقس ۷باب وغیرہ) پھر وہ اُن کو اپنے دلوں سے کس طرح محو کرسکتے تھے؟ وہ خود سنتے تھے اوردیکھتے تھے اور دوسروں کوآپ اُن حرکتوں سے مطلع کرتے تھے ۔ پس وہ چاروانجیلی بیانات کے چشم دید گواہ بن جاتے ہیں (اعمال ۳: ۱۳تا ۱۵؛ ۴: ۱۰، ۱۶؛ ۵: ۲۷تا ۲۸؛ ۷: ۵۱تا ۵۲وغیرہ)۔ جن کی شہادت کو کوئی صحیح العقل شخص رد نہیں کرسکتا ۔ان مخالفین کی اکثریت آ پ کی ہم عمر تھی۔پس وہ یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) کے زمانہ میں انجیلی بیانات کے جیتے جاگتے زندہ گواہ تھے۔

(۳)

مذکورہ بالا ہزارہا مخالف وموالف گواہوں کے علاوہ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ اُن کی تعداد اس قدر بڑی تھی کہ سردار کاہنوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ" اگرہم اس کو یونہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے"(یوحنا ۱۱: ۴۷تا ۵۳؛ لوقا ۶: ۱۷ وغیرہ)۔ فریسی چلا اٹھے کہ " سوچو تو تم سے کچھ بن نہیں پڑتا۔ دیکھو جہاں اس کا پیرو ہوچلا "۔(یوحنا ۱۲: ۱۹) مقدس پولُس نے مسیحی ہونے کے بعد ایمان داروں کی ایک جماعت سے ملاقات کی جس کی تعداد" پانچ سو سے زیادہ " تھی (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۶) مقدس لوقا ایمان داروں کی ایک اورجماعت کا ذکر کرتے ہیں جو " تخمیناً ایک سوبیس (۱۲۰)شخصوں کی جماعت تھی (اعمال ۱: ۱۵) جن میں ایسے ایمان دار بھی تھے جو " یوحناکے بپتسمہ سے لے کر خداوند کے ہمارے پاس اٹھائے جانے تک برابر ہمارے ساتھ رہے "(۱: ۲۲)۔

ایک اور جماعت تھی جس کی بابت لکھاہے کہ خداوند نے ۷۰ آدمی مقرر کئے" جن کو آپ نے اپنے آگے آگے بھیجا (لوقا ۱۰: ۱) تاکہ وہ خوشخبری کی منادی کریں۔

ان کے علاوہ آپ نے بارہ رسول خاص مقرر کئے (لوقا ۶: ۱۳) جو شب وروز آپ کی صحبت کا فیض حاصل کرتے رہے ۔ جو آپ کے ساتھ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے رہے اور سفر وحضر میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اورآپ کے ہر لفظ کے لب ولہجہ تک سے واقف تھے۔(لوقا ۲۲: ۲۸، مرقس ۳: ۱۴)۔ ان آخری دوجماعتوں کو آپ خاص ہدایات دیتے تھے(لوقا ۱۰: ۱، ۳۴۔ متی ۱۰باب)۔ لیکن سب سے زیادہ توجہ آپ نے اپنے دوازدہ رسولوں کی تعلیم وترتیب کی طرف دی(مرقس ۴: ۱۰تا ۳۴ ، ۶: ۳۰، ۷: ۱۷تا ۲۳۔ متی ۶: ۱۳تا ۲۸۔ لوقا ۹: ۲۸تا ۳۶۔ مرقس ۹: ۳۳تا ۳۷۔ لوقا ۹: ۴۴ تا ۴۸۔ مرقس ۱۰: ۳۳تا ۴۵۔ مرقس ۱۳باب یوحنا باب ۱۴تا ۱۸: ۱۲وغیرہ)۔

اوّل الذکر ایمان داروں کا گروہ یروشلیم کی تباہی کے وقت آنخداوند کا جیتا جاگتا زندہ گواہ موجود تھا(متی ۱۶: ۲۸ وغیرہ) دوسرا تیسرا اوربالخصوص دوازدہ رسولوں کا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے آپ کی ظفریاب قیامت کے بعد تمام دنیا میں ہندوستان سے لے کر ہسپانیہ تک پہلی صدی کے اندر اندر آپ کی انجیل کی بشارت ممالکِ مشرق ومغرب اوراقوامِ عالم میں پہنچادی۔

(۴)

پس انجیل بیانات کے مصدق ہزارہا ہزارگواہ ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ان واقعات کو دیکھا اور ان کلمات کو سنا جن کاذکر اناجیل اربعہ میں موجود ہے۔ یہی لوگ ان واقعات کو بتلانے والے اور ان کلمات کودوسروں تک پہنچانے والے تھے۔ اُن میں بوڑھے، اُدھیڑ عمروالے ، جوان ،

مردعورتیں ، آنخداوند کے شیدائی اورآپ کے جان لیواغرض سبھی قسم کے لوگ شامل تھے ۔ اُنہوں نے اناجیل اربعہ کے مندرجہ واقعات کو اپنی زبان سے بتلایا ۔ اوراپنے قلم سے قلمبند کیا۔ یہ سب کے سب چشم دیدگواہ تھے جن کے مرنے سے پہلے نہ صرف اناجیل لکھیں گئیں بلکہ یہوداور غیر یہود اقوام میں ارضِ مقدس کے اندراورباہر مخالف وموالف کے ہاتھوں میں مختلف ممالک کے دور دراز مقامات اوررومی سلطنت کے کونے کونے میں پہنچ گئیں۔

ہم یہ امر ناظرین کے ذہن نشین کردینا چاہتے ہیں کہ اناجیل اربعہ کے واقعات کو بتلانے والے اورلکھنے والے خود چشم دید گواہ تھے "جو شروع سے خود یکھنے والے اورکلام کے خادم تھے " (لوقا ۱: ۲)۔ ان اناجیل میں کوئی واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جو روایت پر مبنی ہو اورجس کی نسبت کسی نے کہا ہو کہ مجھ سے بیان کیا زید نے اوراس سے بیان کیا بکر نے اوراس سے بیان کیا عمر نے کہ اس نے سنا اپنے باپ سے کہ اس نے کہا میں نے سنا اپنےباپ سے جس کو بتلایا فلاں نے کہ حضرت کلمتہ اللہ نے فلاں مقام پر فلاں اندھے کی آنکھیں اس طرح کھولیں۔ اناجیل اربعہ میں نہ تو " تابعین کے اقوال پائے جاتے ہیں اورنہ "تبع تابعین" کے اقوال مندرج ہیں۔ اناجیل کے بیانات میں نہ توکوئی حدیث مقطوع(تراشا ہوا) ہے اورنہ مقطع (چھانٹا ہوا)ہے۔ ان میں نہ حدیث مرسل (ارسال کیاگیا)ہے اور نہ مبہم(وہ جس کا مطلب صاف نہ ہو) ہے۔ ان میں کوئی بیان ایسا نہیں جو " عن فلاں" وعن فلاں" سے بیان کیا گیا ہو۔ یعنی جس میں صرف سماعی(سُنی سنائی،روائتی) اسناد ہوں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جن اندھوں ،لنجوں، مفلوجوں وغیرہ کو آنخداوند نے اپنی معجزانہ طاقت سے شفا بخشی تھی انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں ، دوستوں اورواقف کاروں کے حلقہ سے ضرور ان عجیب معجزوں کا چرچا کیا ہوگا اوراُن کے عزیز واقارب اوراحباب نے اپنے بیٹوں پوتوں وغیرہ سے ضرور کہا ہوگاکہ میرے بھائی یا باپ دادا کو سیدنا مسیح نے فلاں مقام پر شفا بخشی تھی اوریوں روایات کا سلسلہ قدرتی طورپر تیسری چوتھی پشت تک بلکہ اس سے بھی آگے چلا ہوگا۔ چنانچہ جیسا ہم آگے چل کر بتلائیں گے۔ بشپ پے پئیس جیسے اشخاص ہمیشہ اس جستجو میں لگےرہتے تھے کہ " ایلڈروں (تابعین) کی زبان سے یہ معلوم کریں کہ اندریاس یا پطرس نے کیاکہا۔ یا یوحنا یا متی اور سیدنا مسیح کے شاگردوں میں سےکسی اورنے کیاکہا ۔۔۔۔کیونکہ میرا یہ خیال تھاکہ میں زندہ گواہوں کے بیانات سے کتابوں کے صفحوں کی نسبت زیادہ سیکھ سکتا ہوں" لیکن انجیلی بیانات جیسا ہم اوپر بتلاچکے ہیں اس قسم کی روایات سے بالکل مستغنی (آزاد، بری)ہیں اوران بیانات کا روایات سے رتی بھر تعلق نہیں۔ کیونکہ ان بیانات میں تابعین یا تبع تابعین یعنی دوسری یا تیسری یا چوتھی پشت کے بیانات کاشائبہ (شک)بھی نہیں پایا جاتا۔ اناجیلِ اربعہ کو سمجھنے کے لئے نہ کسی روایت کی ضرورت ہے اور نہ راویوں کے سلسلہ کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں نہ توراویوں کے بیان کے صدق وکذب(سچ اورجھوٹ) کو جانچنے کے لئے اصول قائم کرنے کی ضرورت ہے اورنہ اسماالرجال(لوگوں کے نام ،اصطلاح محدثین میں احادیث کے راویوں کے نام ،علم حدیث کا شعبہ جس میں راویانِ حدیث کے نام اور حالات سے بحث کی جاتی ہے) کے علم کی ضرورت ہے ۔ اس نکتہ کو ہم انشاء اللہ جلد دوم کے حصہ چہارم کے باب ہشتم میں مفصل طورپر واضح کریں گے۔ انجیلی بیانات سیدھے سادے معتبر بیانات ہیں جو سب کے سب بغیر کسی استثناء(دوہرائی) کے صادق چشم دید گواہوں کےبتلائے ہوئے اورلکھے ہوئے ہیں۔ دو راولین کی پہلی پشت اور رسولوں کے گذرنے سے پہلے(جیسا ہم انشاء اللہ ثابت کردیں گے) نہ صرف اناجیل اربعہ بلکہ رسولو ں کے اعمال ،مقدس پولُس کے خطوط وغیرہ لکھے گئے اورنقل ہوکر آنخداوند کی وفات کے چالیس پچاس سال کے اندر اندر پہلی صدی کےاختتام سے بہت پہلے دوردراز کے مقامات اور کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں پہنچ گئے تھے۔


(۵)

اس سلسلہ میں ایک اور امر ناظرین کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔یہ ہزاروں مخالف وموالف گواہوں کی جماعت سب کی سب خواندہ(وہ جو پڑھنا لکھنا جانتا ہو) تھی۔ اہل یہود میں بچوں کی تعلیم جبریہ اورلازمی تھی ۔ بچوں کو پہلے اُن کے گھروں میں تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ پیدائش ہی سے مذہبی فضا میں تعلیم پاتے تھے۔ تورات اور صحائفِ انبیاء کے مطالعہ پر زور دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ربی جنائی (Jannai) کایہ قول تھاکہ

بچہ تورات کا علم ماں کے دودھ کے ساتھ حاصل کرتاہے‘‘۔ کتبِ عہد عتیق وجدید اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ یہودی مائیں اپنے بچوں کی روحانی تربیت اورذہنی پرورش میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کرتی تھیں (۲۔تمیر۱: ۵ وغیرہ)۔

ہر یہودی باپ پر یہ فرض عائد تھاکہ وہ اپنے بیٹے کو تورات اورکتبِ عہد عتیق کا علم سکھلائے ۔جونہی یہودی بچہ بولنے کے قابل ہوتا اس کو کتابِ مقدس کی آیات حفظ کرائی جاتیں اورجُوں جُوں وہ قدوقامت میں بڑھتا اُس کو کتابِ مقدس کے حصص اور مزامیر حفظ کرائے جاتے تھے۔ یہودی فلاسفر فائلو1ہتا ہے

" یہود گویا اپنی پیدائش ہی سے والدین ، استادوں اورمعلموں سے یہ سیکھتے ہیں کہ خدا جو دنیا کا خالق ہے وہ ایک ہے۔ یہ حقیقت اُن کو پہلے سکھلائی جاتی ہے اور اس کے بعد ان کوموسوی شرع اور یہودی رسوم کی باتیں بتلائی جاتی ہیں"۔

یہودی مورخ یوسیفس کہتاہے 2۔

" ہماری قوم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیں اور وہ شریعت کےقوانین اورآئین پر عمل کریں تاکہ کسی کوبھی یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ وہ شریعت سے بے خبر ہے "۔

پانچ چھ سال کی عمر میں یہودی بچہ مکتب کو بھیجا جاتا تھا۔پہلی صدی مسیحی میں ارضِ مقدس کے ہر شہر قصبہ اورگاؤں میں یہ مکتب موجود تھے۔ چھ برس کے اُوپر کے بچوں کی جبر یہ تعلیم لازمی تھی اوراُن کی تعلیم پر اس قدر زوردیا جاتا تھا کہ ربیوں کا یہ فتویٰ تھاکہ کسی یہودی کے لئے ایسے مقام میں رہنا حرام ہے جہاں مکتب نہ ہو۔ عبادت خانے اکثر اوقات مکتب کا کام بھی دیتے تھے اورعبادت خانہ کا خادم یا امام مکتب کا استاد اوربچوں کی ذہنی ترتیب اور شریعت کی تعلیم کا ذمہ دار ہوتا تھا۔

انجیل جلیل کی کتب سے ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے زمانہ میں ارضِ مقدس کے کونے کونے میں عبادت خانے موجود تھے جن میں آپ اورمقدس پولُس اکثر تعلیم دیا کرتے تھے (لوقا ۴: ۱۱؛اعمال ۱۳: ۱۵، ۴۴؛ ۱۷: ۱، ۱۲؛ ۱۸: ۴، ۱۹ وغیرہ)۔ آنخداوند کے دنوں میں فقط یروشلیم میں عبادت خانوں کا شمار چار اور پانچ سو کے درمیان 3تھا۔ جو مکتبوں کا کام بھی دیتے تھے ۔ تمام ارضِ مقدس میں ان عبادت خانوں نے یہودیت کو ایک واحد قوم بنادیا تھا ۔پس وہ قوم کی تقویت ، اتحاد اوریک جہتی کا باعث تھے۔ اُن کے مکتبوں کے تعلیمی نصاب کی واحد غرض یہ تھی کہ یہودی قوم کا تحفظ ہو اوریہودیت

______________________

1Philo, Leg ad Caium 31
2Josephus, Against Apion, 1,12, and 2,26
3Fairweather, The Background of the Gospels pp.25-26


پائندہ اور زندہ رہے۔ او روہ اسی مقصد کے تحت مرتب کیا جاتا تھاکہ قوم اسرائیل میں قومیت کا جذبہ اور قومی اتحاد پھلے پھولے ۔ دیہات اور قصبات کے مکتبوں سے طالب علم ابتدائی اورثانوی تعلیم حاصل کرکے یروشلیم کے " کالجوں" میں جایا کرتے تھے (اعمال ۲۲: ۳) ۔ان تعلیمی اداروں کے طفیل ارضِ مقدس کے مختلف صوبوں میں اور یروشلیم کے درمیان نہ صرف تبادلہ خیالات ہوجاتا بلکہ طلباء کی تمام زندگی ایک خاص ڈھانچہ میں ڈھل جاتی جو قوم اسرائیل کی مضبوطی اوراستحکام کا باعث تھی1۔

ان مکتبوں اورکالجوں میں قوتِ حافظہ پر خاص طورپر زوردیا جاتا تھا۔ تعلیمی نصاب میں نہ صرف کتابِ مقدس کے حصص(حصہ کی جمع) حفظ یا دکرائے جاتے تھے بلکہ اداروں کے ربی اپنی اوربزرگوں کی خاص تعلیم کے الفاظ اپنےشاگردوں کو رٹایا کرتے تھے۔ قدرتاً حافظہ کی قوت بڑھ جاتی اوران تعلیمی اداروں کے شاگرد کتبِ تورات اور" بزرگوں کی روایات" کو ازبر کرنے میں طاق ہوتے تھے ، اورطوطے کی طرح رٹ کر سنایا کرتے تھے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ہزاروں چشم دید مخالف وموالف گواہ سب کے سب لکھے پڑھے خواندہ لوگ تھے جن کی قوتِ حافظہ سالوں کی تربیت سے نہایت تیز ہوگئی تھی۔پس اگر ان ہزاروں گواہوں میں سے ایک یا دوتین سو شخص بھی ایسے ہوں جنہوں نے "اس پر کمر باندھی جوباتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں" اُن کو قلمبند کریں اور حضرت کلمتہ اللہ کے کلمات کو احاطہ تحریر میں لائیں یا ان کو حفظ یاد کرکے دوسروں تک پہنچائیں تویہ ایک نہایت قدرتی بات ہوگی کیونکہ بالفاظِ مقدس پطرس " ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اورسنا ہے وہ نہ کہیں"(اعمال ۴: ۲۰)۔ بالخصوص جب ایمانداروں کی جماعت کے اُستاد نے اُن سے فرمایا تھا کہ " تم میرے گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو"(یوحنا ۱۵: ۲۷) پس آنخداوند کی ظفریاب قیامت کے بعدیہ جان کرکہ" آسمان اور زمین کا کُل اختیار" سیدنا مسیح کودیا گیا ہے"(متی ۲۸: ۱۸) یہ چشم دید گواہ پہلی صدی کے ختم ہونے سے قبل " تمام قوموں" میں گئے اوراُن کو خوشخبری دی کہ " جو کچھ ہم نے دیکھا اورسناہے تم کو بھی اس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو"(۱۔یوحنا ۱: ۳)۔اُنہوں نے انجیلی واقعات کو قلمبند کیا اورکہاکہ " یہ اس لئے لکھے گئے ہیں کہ تم ایمان لاؤ کہ عیسیٰ ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اس کے نام سے زندگی پاؤ"(یوحنا ۲۰: ۳۱)۔ ایمان داروں کی جماعت کےصدہا گواہوں میں سے ہر ایک کو یہی احساس تھاکہ " یہ میرے لئے ضروری بات ہے کہ خوشخبری سناؤں بلکہ مجھ پر افسوس اگر خوش خبری نہ سناؤں " (رومیوں ۹: ۱۶) وہ کہتے تھے " یہ باتیں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہوجائے"(۱۔یوحنا ۱: ۴)۔

______________________

1Edersheim, Jesus the Messiah vol.1 Ch.9pp.227-232

باب دوم

مسیحی کلیسیا کا آغاز اورانجیل جلیل کی اشاعت

باب اوّل میں ہم بتلاچکے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ( ۳۰ء )میں مصلوب ہوئے اور آپ کی جوانامرگ کےواقعہ جانکاہ کے بعد ہزارہا لوگ جو آپ کےسوانح حیات ، معجزاتِ بینات اورکلمات طیبات کےچشم دید گواہ تھے آپ کی وفات کے بعد کم از کم چالیس(۴۰) برس تک یعنی یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) تک زندہ رہے۔

یہ چالیس (۴۰)سال کا عرصہ انجیلِ جلیل کے بیانات اوران بیانات کی صحت کے لئے نہایت اہم زمانہ ہے۔کیونکہ اگرانجیلی بیانات میں کوئی فتور پڑ سکتا تھا توان ہی پہلےچالیس سالوں کےعرصہ میں پڑ سکتا تھا۔ یہ زمانہ گویا زنجیر کی اولین کڑیاں ہیں اور اگر یہ کڑیاں کمزور ہیں تو ان کے بعد کی کڑیوں کا مضبوط ہونا عبث ہے ۔ ہم نے اپن کتاب" صحتِ کتُبِ مقدسہ" میں ثابت کردیاہے ۔ کہ پہلی صدی کے بعد انجیلِ جلیل کے متن میں کسی قسم کا فتور واقع نہیں ہوا۔ اس کے برعکس اس کے متن کی صحت بے مثال ہے، لیکن اگر پہلی صدی کے دوران میں انجیلی بیانات کی صحت میں فتور واقع ہوگیا ہو تو مابعد کی صدیوں میں ان کی صحت کا ثابت کرنا بیکار ہے ۔ پس اصل سوال وہ چالیس(۴۰) یک سال کا وقفہ ہے جو واقعات کے رونما ہونے اوراناجیل کے لکھے جانے کے درمیان حائل ہے۔ یہ زمانہ اناجیل اربعہ کی تالیف اورمسیحی کلیسیا کےوجود میں آنے اوراُس کی حیرت ناک ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ پس لازم ہے کہ ہم اس زمانہ کےخیالات ،واقعات اورحالات کا مطالعہ کریں تاکہ ہم معلوم کرسکیں کہ اناجیل اربعہ کا وجودکن حالات میں رونما ہوا اور وہ ضرورت کیا تھیں جن کے تحت یہ امر ناگریز ہوگیاکہ کلمتہ اللہ کے کلمات اورسوانح حیات یونانی زبان میں لکھے جائیں۔ اس زمانہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے مقدس لوقا کی تصنیفات کی جلد ثانی" رسولوں کے اعمال"اورمقدس پولُس رسول کے خطوط اوریہودی مورخ یوسیفس کی تصانیف خاص طورپر قابلِ اعتبار اور کارآمد تواریخی ماخذ ہیں۔

ان کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ جب آنخداوند آسمان کو صعود فرمائے گئے توآپ کے رسول، ایمانداروں کی جماعت دس روز" دعا میں مشغول " رہی۔ دسویں دن اہل یہود کی عید تھی اوراس دن روح القدس سےمعمور ہوکر انہوں نے اپنی تبلیغی مہم شروع کی۔ عید کو منانے کےلئے نہ صرف ارضِ مقدس کے یہودی آئے ہوئے تھے بلکہ یروشلیم شہر میں " پارتھی، مادی ، عیلامی اورمسوپتامیہ، کپدکیہ، پنطس آسیہ، فروگیہ ، پمفولیہ ، مصر اور لیوا کے رہنے والے اورکریتی اورعرب" بھی تھے۔ مقدس پطرس نے ایک زبردست تقریر کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ " اسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں مل گئے"۔ اوراس کے بعد جونجات پاتے تھے اُن کو خداوند ہر روز اُن میں ملادیتا تھا (اعمال ۲باب) ۔لوگ چاروں طرف سے رسولوں اور مبلغوں کے "پاس دوڑے " آتے تھے (اعمال ۳: ۱۱) ۔جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہواکہ " کاہن اورہیکل کے سردار اور بزرگ اورفقیہ اورسردار کاہن حنا اورکائفا اور یوحنا اوراسکندریہ اورجتنے سردار کاہن کے گھرانے کے تھے یروشلیم میں جمع ہوگئے "(اعمال ۴: ۱تا ۵)۔ایک قیامتِ صغریٰ برپاہوگئی ۔ رسولوں کو عدالت میں گھسیٹا گیا۔ دھمکایا ،پٹوایا گیا۔ حوالات میں قید کردیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ الٹا مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دواکی ، کلام کے سننے والوں میں سے بہتیرے ایمان لائے یہاں تک کہ مردوں کی تعداد پانچ ہزار کےقریب ہوگئی "(اعمال ۴: ۴)۔


تین سال کی متواتر سزاؤں کے باوجود تعداد بڑھتی ہی گئی "اورایمان لانے والے مرد وعورت خداوند کی کلیسیا میں اوربھی کثرت سے آملے"(اعمال ۵: ۱۴)۔ " خدا کا کلام پھیلتا گیا اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھ گیا " معاملہ یہاں تک بڑھاکہ " کاہنوں کی بڑی گروہ اس دین کی تحت ہوگئی (اعمال ۶: ۷)۔تب تو سردار کاہن، وغیرہ تلملا اٹھے اوراُنہوں نے " اُن کوقتل کرنا چاہا"۔ہر جگہ پروانے بھیجے گئے کہ " جو اس طریق پر پائے جائیں خواہ مرد خواہ عورت اُن کو باندھ کر یروشلیم میں " لایا جائے "۔ یروشلیم میں بڑا ظلم برپا ہو"۔ ستفنس جوایک عالم شخص اورجوشیلامبلغ تھا شہید کردیا گیا ۔پس رسولوں کے سوا سب لوگ یہودیہ اور سامریہ کی اطراف میں پراگندہ ہوگئے"(اعمال ۸: ۱)۔کیونکہ سردار کاہن کے ایجنٹ کلیسیاؤں کو " اس طرح تباہ کرتے کہ گھر گھر گھس کر اورمردوں اورعورتوں کو گھسیٹ کر قید " کرتے تھے (اعمال ۸: ۳) لیکن ان تمام آفتوں کے باوجود مسیحی کلیسیادن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی گئی، کیونکہ " جو پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخبر ی دیتے پھرے"۔ (اعمال ۸: ۴) اور یوں یہودیہ گلیل، سامریہ انطاکیہ ، کپرس ، فینیکے،لسترہ، دربے، قیصریہ ، حبش وغیرہ دوُردراز کےمقامات کے رہنے والوں کو نجات کا پیغام مل گیا۔

۳۳ء میں اہل یہود کا سب سےزبردست جوشیلا ایذادینے والا ایجنٹ دمشق کی کلیسیا کو ایذادینے گیا لیکن مسیحی ہوگیا اوراس کا نام پولُس رکھا گیا (اعمال ۹: ۱۸) ۔وہ جو پہلے مسیحیوں کو قتل کرنے کی "دھن " میں لگا رہتا تھا اب نہایت جوش وخروش سےہر یہودی مرد اورعورت کوصلیب کا پیغام سنانے لگ گیا۔ اس پراہل یہود بھڑک اٹھے اوربادشاہ ہیرودیس کے پاس فریاد پہنچی جس نے( ۴۳ء )میں ستانے کے لئے کلیسیا میں سے بعض پر ہاتھ ڈالا اور یعقوب کو تلوار سےشہید کردیا"(اعمال ۱۲: ۲)۔ مقدس پولُس جہاں کہیں گئے اہل ِیہود نے آپ کوہر جگہ ستایا اورفتنہ برپا کردیا(اعمال ۱۳: ۵۰؛ ۱۷: ۵؛ ۱۸: ۱۲؛ ۲۰: ۳؛ ۲۱: ۲۷تا ۳۰ وغیرہ)۔آپ کوبینتوں سے پٹوایا گیا، قید کرایا گیااور سنگسار کردیا گیا حتی کہ آپ کی جان لینے کی باربار کوشش کی گئی (اعمال ۱۴: ۱۹؛ ۱۶: ۳۳؛ ۲۱: ۳۶؛ ۲۲: ۲۲؛ ۲۳: ۱۲ وغیرہ)۔ لیکن کوئی حکمت کارگرثابت نہ ہوئی۔ اس کا الٹا نتیجہ یہ ہواکہ منجی جہاں کی موت کے پندرہ سال بعد مقدس پولُس نے نہ صرف یہود بلکہ غیر یہود میں بھی پرچار کرنا شروع کردیا (اعمال ۱۳: ۱؛ ۱۳: ۴۶؛ ۱۸: ۶ وغیرہ)۔آپ سلطنتِ روما کے مختلف شہروں اور قصبوں میں گئے ۔ اورہر جگہ تقریریں کیں اور " ایسی تقریر کی کہ یہودیوں اوریونانیوں کی ایک بڑی جماعت ایمان لے آئی؟ (اعمال ۱۴: ۱)۔ ’’ خدا نے غیر یہود کےلئے بھی ایمان کا دروازہ کھول دیا‘‘(اعمال ۱۴: ۲۷)۔ اور وہ ہرجگہ ایمان لے آئے(اعمال ۱۳: ۴۸)بالخصوص انطاکیہ اورسوریہ اورکلکیہ میں ہر جگہ کلیسیائیں قائم ہوگئیں (اعمال ۱۵: ۲۳)۔ اوریہ " کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اورشمار میں روز بروز زیادہ ہوتی گئیں " (اعمال ۱۶: ۵)۔ ان کے ساتھ ساتھ سلطنت روما کے مختلف شہروں میں " خدا پرست یونانیوں کی ایک بڑی جماعت اوربہتیری شریف عورتیں بھی اُن کے شریک ہوگئیں(اعمال ۱۷: ۴)۔اوریہ ایماندار ہر جگہ انجیل جلیل کے جانفزا پیغام کے علمبردار ہوگئے اورانہوں نے بے شمار لوگوں کو خداوند کا حلقہ بگو ش کرلیا(اعمال ۱۹: ۱۸) اور"اسی طرح خداوند کاکلام زور پکڑ کر پھیلتا اورغالب ہوتا گیا"(اعمال ۱۹: ۲۰)۔ یوں خداوند کی نجات کا پیغام مقدونیہ، تھسلنیکے، بیریہ، کرنتھس ،افسس ، روم غرض یہ کہ سلطنتِ روم کے ہر بڑے شہر اور دوردراز کے مقامات بلکہ ہسپانیہ تک پھیل گیا۔ مقدس پولُس نے ان شہروں میں( ۴۶ء )کے بعد دوتین بار دورہ کیا ۔ کلیسیاؤں کو خطوط لکھے تاکہ اُن کو ایمان کی استقامت حاصل ہو اور وہ دوسروں کی نجات کا باعث بنیں۔

پس دوازدہ رسولوں اوراُن کے مرُیدوں نے ارض مقدس کےمختلف صوبوں کے شہروں ، قصبوں اورگاؤں میں انجیل جلیل کی اشاعت کردی۔ خاص "یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھ گیا اورکاہنوں کی بڑی گروہ" منجی جہان کے قدموں میں آگئی (اعمال ۶: ۷؛ ۱۰: ۴۵؛ ۱۴: ۱؛ ۱۸: ۲۸ وغیرہ)۔


سیدنا مسیح کے یہ جوشیلے مبلغین اپنے منجی کی محبت میں اس قدر سرشارتھے کہ انہوں نے صلیب کے پیغام کی خاطر ہر طرح کی ایذائیں برداشت کیں۔ اُن کو بینت لگے۔ اُنہوں نے کوڑے کھائے ، سنگسار کئے گئے ۔ قید خانوں میں ڈالے گئے۔ وہ سمندر اور دریاؤں کے خطروں میں ، خشکی اور ڈاکوؤں کے خطروں میں ،بیابانوں کے خطروں میں پڑے۔ بھوک اورپیاس کی شدت ، فاقہ کشی ، سردی اورننگے پن وغیرہ کی اُنہوں نے مطلق پر وانہ کی ، اُنہوں نے جان بکف ہوکرتیس (۳۰)سالوں کے اندر اندر ارضِ مقدس اوردیگر ممالک کے کٹر یہود کو اوریونانی مائل یہود کو اوربُت پرست مشُرک غیر یہود کو صلیب کے نیچے لاکر کلیسیا میں سب کو شامل کرکے ایک واحد رسولی اور پاک جامع کلیسیا کی بنیادڈال دی۔ اور" یہودی قوم کی ساری اُمید توڑدی"(اعمال ۱۲: ۱۱)۔

(۲)

جب ہم ان تیس (۳۰)سالوں کے واقعات پر تفصیلی نظرڈالتے ہیں توہم پرعیاں ہوجاتاہے کہ ان ابتدائی ایام کی مسیحی کلیسیا میں حسب ذیل گروہ تھے:

(۱۔) دوازدہ رسول:

(۲۔)یہودی مُرید جو ہزاروں کی تعداد میں منجی جہان کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ (اعمال ۴: ۴؛ ۶: ۷؛ ۱۰: ۴۵)۔ نہ صرف ارضِ مقدس کے یہودی سیدنا مسیح پر ایمان لے آئے تھے بلکہ ارضِ مقُدس کےباہر رہنے والے یہود بھی کلیسیامیں جوق درجوق شامل ہوگئے تھے۔۔۔۔(اعمال ۲: ۴۱؛ ۱۴: ۱؛ ۱۳: ۵وغیرہ) ارضِ مقدس کے اندرخاص یروشلیم میں "یہودیہ میں ہزارہا آدمی ایمان لے آئے تھے " (اعمال ۲۱: ۲۰) اوراُن میں خاص طورپر قابل ذکر" کاہنوں کی بڑی گروہ" ہے جو آنخداوند پر ایمان لے آئی تھی (اعمال ۶: ۷) اُن کی مادی زبان ارامی تھی۔

(۳۔) ان کٹر یہودیوں کےعلاوہ" یونانی مائل یہود" ہزاروں کی تعداد میں مشرف بہ مسیحیت ہوگئے تھے۔ یہ یہود یونانی تہذیب اورعلم کے دلدادہ اور فراخ دل کشادہ خیالات کے مالک تھے"(اعمال۲: ۱۰؛ ۶: ۱ وغیرہ)۔ ان کی مادری زبان یونانی تھی ۔کلیسیا کے پہلے ڈیکن اسی گروہ میں سے تھے اورکلیسیا کا پہلا شہیدان ڈیکنوں میں سے ایک تھا(اعمال ۷: ۶۰)۔

(۴۔) ان کٹر یہود اوریونانی مائل یہود کے علاوہ ایک کثیر تعداد اُن لوگوں کی منجی عالمین پر ایمان لے آئی تھی جن کو اہل یہود " خدا پرست نومرید "کہتے تھے۔(اعمال ۲: ۱۰؛ ۱۳: ۴۳ وغیرہ)۔ یہ لوگ مذہب کے یہودی تھے لیکن قوم اسرائیل میں سے نہیں تھے ۔ یہ وہ یہودی " نومرید" تھے جن کی نسبت حضرت کلمتہ اللہ نے فقیہوں اور فریسیوں کو ملامت کرکے فرمایا تھا کہ " تم ایک مرید کرنے کے لئے تری اورخشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہوچکتا ہے تو اسے اپنے سے دوناجہنم کا فرزند بنادیتے ہو"(متی ۲۳: ۱۵)۔ یہ یہودی نومرید عبادت خانوں میں جاتے اوریہودی شرح پر عمل کرتے تھے اگرچہ وہ نامختون تھے۔ یہ لوگ مسیح موعود کے تصور سے واقف تھے۔ کیونکہ انہوں نے مسیح موعود کی بابت یہودی ربیوں سے تعلیم پائی تھی اور وہ عبادت خانوں میں عہد عتیق کی کتُب کوسننے کے عادی ہوچکے تھے۔ اُن کو بعض اوقات " خدا سے ڈرنے والے" کہا جاتا تھا (اعمال ۱۰: ۲؛ ۱۳: ۱۶)ان یہودی نومریدوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں صلیب کے پرچم کے نیچے دنیا۔ نفس اورشیطان سے پناہ لے کر روحانی تسلی حاصل کی۔

(۵۔) مذکورہ بالا چاروں گروہ یہودی مذہب کے ذریعہ منجی جہان پر ایمان لائے تھے لیکن اگرچہ اُن کی تعداد " ہزارہا" لوگوں پر مشتمل تھی تاہم کلیسیا کی اکثریت اُن کی نہ تھی۔ بلکہ کلیسیا کی اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو بُت پرست مشُرک اقوام میں سے منجی جہان پر ایمان لے آئے تھے ۔ مقدس پولُس رسول نے جب دیکھاکہ اہل ِیہود" خدا کا کلام" ردکرتے ہیں اوراپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل" ٹھہراتے ہیں(اعمال ۱۳: ۴۶ وغیرہ) تو آپ نے غیر یہود مُشرک اقوام کو" زندگی کاکلام " سننا شروع کیا جس کی وجہ سے آپ " غیر اقوام کے رسول " کہلائے (گلتیوں ۲: ۹؛ افسیوں ۳: ۷)۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنتِ روم کے ہزارہا ہزار بُت پُرست پردیسی اورمسافرنہ رہے بلکہ مقدسوں کے ہم وطن اور خدا کے گھرانے کے ہوگئے"(افسیوں ۲: ۱۹)۔ یہ تعداد روزافزوں ترقی کرتی گئی حتی کہ پہلی صدی کے اواخر میں لاکھوں پر مشتمل ہوگئی۔


ان ہزراہا ہزار مسیحیوں کو جو بُت پرست اقوام سے آنخداوند کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے قدرتی طورپر یہودی شریعت سے کوئی خاص اُنس نہ تھا۔ یہودی رسوم وروایات اُن کےلئے کوئی معنی نہ رکھتی تھیں۔وہ گناہوں سے نجات پانے کے طالب تھے اوربس۔ لہذا اس گروہ میں اورکٹر یہودی مسیحیوں میں بالخصوص اُن میں جو یروشلیم کے رہنے والے تھے قدرتی طورپر کشمکش شروع ہوگئی۔ پہلا گروہ اُن مختونوں کا تھا جو یہودی رسوم وروایات کے عاشق تھےاور " شریعت کے بارے میں سرگرم" تھے (اعمال ۲۱: ۲۰)۔یہ گروہ کہتا تھا کہ " اگر موسیٰ کی رسم کے موافق تمہارا ختنہ نہ ہو تو تم نجات نہیں پاسکتے "(اعمال ۱۵: ۱تا ۵ وغیرہ)۔ لیکن آخری گروہ مقدس پولُس کے ساتھ اتفاق کرکے کہتا تھا کہ " اگر تم ختنہ کراؤگے تو مسیح سے تم کوکچھ فائدہ نہ ہوگا'(گلتیوں ۵: ۲)۔ پس اِ س بات کو نپٹانے کے لئے کلیسیا کی پہلی کونسل ۴۸ء میں یروشلیم میں منعقدہوئی جس میں یہ فیصلہ ہواکہ " ضروری باتوں کےسوا تم پر(موسوی شرح کا کوئی ) اوربوجھ نہ ڈالیں کہ تم بُتوں کی قربانیوں کے گوشت سے اورلہو اورگلا گھونٹے ہوئے جانوروں اورحرام کاری سے پرہیز کر"(اعمال ۱۵: ۲۹)۔ جوُں جُوں سال گذرتے گئے ان غیر یہود اقوام سےنومرید بڑھتے گئے اوراُن کی تعداد یہودی مسیحیوں کی تعداد سے بڑھتی گئی ۔ یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) کے واقعہ نے یہودی قوم کا شیرازہ بکھیردیا اوروہ پراگندہ ہوکر دنیا کےمختلف ممالک میں جابسے۔اس واقعہ نے مسیحی کلیسیا کی بھی کایا پلٹ دی کیونکہ اس واقعہ کے بعد غیر یہود مسیحیوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے روز بروز اضافہ ہوتا گیا لیکن چونکہ یہودی پراگندہ ہوکر تتر بتر ہوگئے تھے اُن کا رسوخ اوراُن کی تعداد قدرتی طورپر مسیحی کلیسیا میں ہر سال کم ہوتی گئی حتےٰ کہ پہلی صدی کے آخر میں غیر یہود مسیحیوں کی تعداد اس قدر غالب تھی کہ کلیسیا عملی طورپر اُن ہی پر مشتمل تھی۔


باب سوم

اناجیلِ اربعہ کا پسِ منظر

گذشتہ باب میں ہم نے ناظرین کےسامنے ابتدائی ایام کی کلیسیا کے حالات پیش کئے ہیں تاکہ وہ اُن حالات سے واقف ہوکر یہ جان سکیں کہ اناجیل کیوں لکھی گئیں اوروہ کس طرح اورکن حالات کےماتحت لکھیں گئیں اور وہ تقاضائے زمانہ کیا تھے جن کی وجہ سے وہ موجودہ یونانی صورت میں لکھیں گئیں۔

ہم بابِ اوّل میں بتلا چکے ہیں کہ اُس زمانہ میں ایسے ہزارہا لوگ زندہ تھے جنہوں نے آپ اپنے کانوں سے حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کوسُنا تھا اورخوداپنی آنکھوں سے آپ کے معجزاتِ بینات کودیکھا تھا اُن میں سے صدہا(سینکڑوں) تھے جو ایمان داروں کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے اوراپنے ہم مذہب اور قوم والوں کو آپ کی جانفزا تعلیم اور" طریق نجات"(اعمال ۱۶: ۱۷؛ ۱۸: ۲۶؛ ۹: ۹، ۲۳؛ ۲۴: ۱۴) کا پیغام دیتے تھے ۔ جب کلیسیا میں لوگ جوق درجوق شامل ہوگئے تو یہ ضرورت پیش آئی کہ ایمان داروں کی یہ جماعت نومریدوں کو آنخداوند کی تعلیم وسوانح حیات سے مطلع کرے۔ اُن کے ایمان کی استقامت میں مدد دے تاکہ یہودی ایذارسانیوں کے طوفان سے اوراُن کے ایمان کی کشتی ڈگمگانہ جائے۔ پس رسولوں نے اس چشم دید گواہوں کی ایماندار جماعت کو نئی تشکیل وتنظیم دی تاکہ کلیسیا منظم ہوجائے۔ چنانچہ اب کلیسیا میں " رسول " تھے ۔ پھر وہ پہلے شاگرد (یعنی صحابہ) جنہوں نے " خداوند کود یکھا تھا"۔ اور جو " یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر سیدنا مسیح کےہمارے پاس سے اٹھائے جانے تک برابر ہمارے ساتھ رہے"(اعمال ۱: ۲۱)۔اس نظام میں " نبی" تھے جو انبیائے سابقین کی طرح روح القدس کے وسیلے خدا کی مرضی لوگوں پر ظاہر کرتے تھے کلیسیا میں شفا دینے والے پرسبٹر، ڈیکن ، پاسٹر ، مبشر اورمعلم وغیرہ بھی تھے۔چنانچہ لکھاہے ۔ "خدا نے کلیسیا میں الگ الگ شخص مقرر کئے ۔ پہلے رسول دوسرے نبی ، تیسرے اُستاد ، پھر معجزے دکھانے والے ، پھر شفا دینے والے ،مددگار ، منتظم ،طرح طرح کی زبانیں بولنے والے۔ بشارت دینے والے چرواہے بنا کردے دیا تاکہ مقدس لوگ کامل بنیں اورخدمت گزاری کا کام کیا جائے اورمسیح کا بدن ترقی پائے"(اعمال ۱۳: ۱؛ ۱۵: ۲۲؛ ۱۹: ۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۲۸؛ افسیوں ۴: ۱۱ وغیرہ)۔ رسول مختلف آدمیوں کو اُن کی لیاقت کے مطابق مختلف کاموں کے لئے دُعا اوروزہ کے بعد چُن لیتے تھے(اعمال ۱۵: ۲۲؛ ۶: ۳ وغیرہ)۔

ہم ان اقسام میں سے خاص طورپر یہاں دوقسم کے لوگوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں یعنی اوّل وہ جو بشارت یا منادی کرتے تھے اور دوسرے وہ جو معلم اوراستاد تھے اور تعلیم (Didache) دیتے تھے ۔ مقدس پولُس رسول کے خطوط میں ان دونوں قسم کےلوگوں میں تمیز کی گئی ہے۔ مناد مسیحیت کے اُصول کی تعلیم دیا کرتے تھے لیکن معلموں کا یہ کام تھاکہ وہ اس منادی کی تشریح اور توضیح کرکے اپنے علم کے زورسے یہود کو قائل کریں۔

بعض مثلاً پطرس رسول صرف منادہی تھے (اعمال باب ۲ وغیرہ؛ ۲۔پطرس ۳: ۱۵تا ۱۶)۔ لیکن بعض مناد اورمعلم دونوں تھے۔ مثلاً پولُس رسول فرماتاہے کہ " ہم مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں"(۱۔کرنتھیوں ۱: ۲۳)لیکن وہ ساتھ ہی معلم بھی ہے اورکہتاہےکہ "ہم کاملوں میں حکمت کی باتیں کہتے ہیں "(۱۔کرنتھیوں ۲: ۶ وغیرہ)۔ یہ منادی مسیحیت کے اصول پر مشتمل تھی۔ یہ منادی " نیو" تھی جس کو اُس توفیق کے موافق جو خدا نے منادوں کو بخشی تھی " وہ دانا معمار کی طرح رکھتے تھے اوردوسرے اُس نیو پر عمارت اٹھاتے تھے"(۱۔کرنتھیوں ۳: ۱۰)۔ یہ عمارت اٹھانے والےمعلم یا استاد یا مسیحی " ربی " تھے جن کو رسول فرماتاہے " ہرایک خبردار رہے وہ کیسی عمارت اٹھاتاہے "۔ اگر کوئی اس نیو پر سونا یا چاندی یا بیش قیمت پتھروں یا لکڑی یا گھاس یا بھوسے کا ردارکھے تو اُس کا کام ظاہر ہوجائے گا"(۱۔کرنتھیوں۳: ۱۲)۔ پس " نیو " ایک ہی تھی جس کے کونے کےسرے کا پتھر خودمسیح یسوع ہے۔اُسی میں ہر ایک عمارت (یعنی ہرمعلم کی نظامِ تعلیم)مل ملا کر خداوند میں ایک پاک مقدس بنتا جاتاہے "(۱۔کرنتھیوں ۳: ۱۱؛ افسیوں ۲: ۲۱ وغیرہ)۔ ہررسول کی " منادی " کا نفس مضمون ایک ہی تھا۔ چنانچہ پولُس رسول فرماتاہے " خواہ میں ہوں خواہ دوسرے رسول ہوں ہم یہی منادی کرتے ہیں اوراسی پر تم ایمان بھی لائے" (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۱)۔


مقدس پولُس نے یہ خط یہود نومریدوں کو آنخداوند کی صلیبی موت کے ۲۳ سال بعد ۵۳ء میں لکھا تھا ۔ پس ان ۲۳سالوں میں اوران کے پہلے بھی تمام نومریدوں کو خواہ وہ یہود تھے یا غیر یہود ایک ہی منادی کی جاتی تھی۔ اگر" منادی" کے اُصولوں کی تشریح اور توضیح قدرتی طورپر یہود کے لئے ایک طریقہ سے کی جاتی تھی اورغیر یہود کو اُسی منادی کے اُصول دوسرے طریقوں سے سمجھائے جاتے تھے۔

پس سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس منادی کا نفس مضمون کیا تھا؟ لفظ منادی کے لئے انجیل میں یونانی لفظ (Kerygma) " کرگما" استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ کے فعل کےمعنی ہیں" نقیبِ شاہی یا خبردینے والے منادی کرنے والے کے فرائض یا اعلان کرنا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی پیغام کا اختیار کے ساتھ اعلان کرنا۔ پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس " منادی" کا نفسِ مضمون کیا تھا جس کا اعلان اختیار اور قدرت سے کیا جاتا تھا؟

اس منادی کے نفسِ مضمون کو معلوم کرنے کےلئے ہمارے پاس دو ماخذ ہیں۔ اوّل پولُس رسول کے خطوط کےوہ مقامات جن میں وہ ابتدائی کلیسیا کے عقائد کا ذکر کرتے ہیں مثلاً( رومیوں ۱: ۲، الخ؛ ۱۰: ۹؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۳ الخ؛ ۱۵: ۳۔ الخ )وغیرہ ۔ دوم رسولوں کے اعمال کی کتاب کی تقریر جن میں قدیم ترین ایام کے بیانات ہیں جو قدیم سے ہی ارامی زبان میں لکھے گئے تھے۔

پولُس رسول کے خطوط ۵۰ء اور ۶۰ء کے درمیان لکھے گئے تھے ۔لہٰذا وہ بھی قدیم ترین خوشخبری اورمنادی کے نفسِ مضمون کو معلوم کرنے کےلئے نہایت کارآمد ہیں۔ یہ منادی ان خطوط کے احاطہ تحریر میں آنے سے بیس (۲۰)سال پہلے شروع تھی اورکلیسیا میں ابتدا ہی سے رائج ہوتی چلی آتی تھی(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔ مقدس پولُس رسول آنخداوند کی وفات کے صرف تین سال بعد مسیحی ہوگئے تھے لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ مسیحی ہونے سے پہلے ہی اس نئے " طریق" کے اُصولوں سے واقف تھے جب وہ یروشلیم میں ربی گمل ایل کے شاگرد تھے (اعمال ۲۲: ۳تا ۵؛ ۲۰: ۳۵ وغیرہ)۔ اگر وہ ان اصولوں سے واقف نہ ہوتے تو اُن کو مسیحیوں کو " قتل کرنے کی دھن" نہ ہوتی۔

پولُس رسول کے مکتوبات سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس منادی کانفسِ مضمون حسب ذیل تھا:

(۱۔) انبیائے سابقین کی نبوتیں پور ی ہوگئی اوراب مسیح موعود کی آمد سے اس دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔

(۲۔) سیدنا مسیح جو مسیح موعود ہیں وہ ابن داؤد ہیں جنہوں نے خدا کی قدرت سے معجزات کئے۔

(۳۔) گو سیدنا مسیح اہل یہود کے مسیح موعود ہیں لیکن کتابِ مقدس کی نبوتوں کے مطابق ضرور تھا کہ آپ صلیبی موت مریں تاکہ آپ دنیا کو اس بُرے زمانہ سے نجات عطا فرمائیں۔

(۴۔) موت کے بعد آپ دفن کئے گئے ۔

(۵۔)آپ کتابِ مقدس کے مطابق موت پر فتح پاکر تیسرے روز مردوں میں سے جی اُٹھے۔

(۶۔) آپ خدا کے داہنے ہاتھ سرفراز ہیں۔ آپ " خدا کا بیٹا" ہیں اور مردوں اورزندوں پر حکمران ہیں۔


(۷۔) آپ بنی آدم کے منجی ہیں اورمنصف ہوکر عدالت کےلئے پھرآنے والےہیں۔

(۸۔) پیغام سننے والوں کو نصیحت ، کہ وہ توبہ کریں اوربپتسمہ پاکر گناہوں کی معافی حاصل کریں۔

یہ ہے نفسِ مضمون اِ س خوشخبری کا جس کی رسول منادی کرتے تھے۔ انجیل میں اس منادی کو" خدا کی بادشاہت کی منادی" کہا گیا ہے ۔ مقدس پولُس اس منادی کو " مسیح کی منادی" کہتے ہیں۔رسولوں کے اعمال کی کتاب میں یہ دونوں نام موجود ہیں۔ جس کےمطابق رسول" یسوع" کی یا " مسیح " کی یا " خدا کی بادشاہت " کی منادی کرتے تھے۔

مقدس پطرس رسول کی پہلی چار تقریر یں یہ ثابت کردیتی ہیں کہ ابتداہی سے رسول مذکورہ بالا باتوں کی منادی کرتے تھے(اعمال ۲: ۱۶؛ ۳: ۱۸؛ ۳: ۲۴؛ ۲: ۳۰۔ ۳۱؛ ۲: ۲۲؛ ۳: ۲۲؛ ۳: ۱۳۔ ۱۴؛ ۲: ۲۴۔ ۳۱؛ ۳: ۱۵؛ ۴: ۱۰؛ ۲: ۳۳۔ ۳۶؛ ۳: ۱۳؛ ۴: ۱۱؛ ۵: ۳۱؛ ۲: ۱۷۔ ۲۱؛ ۵: ۳۲؛ ۳: ۲۱؛ ۱۰: ۴۲؛ ۲: ۳۸۔۳۹؛ ۳: ۱۹؛ ۲۵۔ ۲۶؛ ۴: ۱۲؛ ۵: ۳۱؛ ۱۰: ۴۳)۔

پس مقدس پطرس رسول بھی مقدس پولُس کی تائید کرتے ہیں۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قدیم ترین ایام سے تمام رسولوں کی منادی کا نفسِ مضمون واحد تھا خواہ وہ اہل یہود کو نجات کا پیغام دیتے تھے اورخواہ وہ بُت پرست غیر یہود اقوام میں منادی کرتے تھے ۔ اناجیلِ اربعہ اس بات کی گواہ ہیں کہ دوازدہ رسولوں کی منادی کا نفسِ مضمون بجنسہ وہی تھا جو حضرت کلمتہ اللہ نے خود اپنی زبان معجز بیان سے ان کو سکھلایا تھا۔ ہم اس نکتہ پر انشاء اللہ آگے چل کر مفصل بحث کریں گے۔

(۲)

منجی کونین(دونوں جہاں کا بچانے والا) کی وفات کے دوسال کے اندر اندر خاص یروشلیم میں ایمان داروں کا " شماربہت ہی بڑھتا گیا " (اعمال ۶: ۷) ۔اس مختصر عرصہ میں ایمان دارارضِ مقدس کے مختلف مقاموں ، شہروں اورقصبوں اورگاؤں میں پھیل گئے تھے اورشمار میں ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ اتنی بڑی تعداد کو تعلیم دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن رسولوں نے ایمانداروں کی جماعت کونئی تشکیل دے دی تھی۔ پس اُن کے حُسنِ انتظام کی خوبی نے یہ مسئلہ حل کردیا ۔ اُنہوں نے قابل اوردیانتدار " خادموں"(کلسیوں ۱: ۷؛ ۴: ۷؛ ۴: ۱۲؛ رومیوں ۱۶: ۶، ۹، ۱۲ وغیرہ)۔اورعالم ایمانداروں کےہاتھوں میں تعلیم کا کام سونپ دیا"۔ مثلاً پولُس رسول نے کلسے کے غیر یہود طالبانِ حق کے لئے اپفراس کو مقرر کیا تھا کہ اُن کو مسیحی طریق نجات کی تعلیم دے"(کلسیوں۱: ۷؛ ۴: ۷، ۱۲ وغیرہ)۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ " کاہنوں کی بڑی گروہ" بھی آنخداوند کی حلقہ بگوش ہوگئی (اعمال ۶: ۷) " فریسیوں کے علم پرور فرقہ میں سے بھی ایمان لے آئے تھے"(اعمال ۱۵: ۵) وہ نہایت مقتدر اوربارسوخ شمارکئے جاتے تھے(اعمال ۲۱: ۱۸۔ ۲۵ وغیرہ)یہ دونو گروہ اُن لوگوں کو جو رسولوں اوردیگر مبلغوں کی " منادی" کے ذریعہ کلیسیا میں شامل کئے جاتے تھے تعلیم دیتے تھے تاکہ " جس طرح انہوں نے مسیح یسوع خداوند کو قبول" کیا اسی طرح اس میں چلتے رہیں اور اس میں جڑ پکڑتے اورتعمیر ہوتے جائیں اورجس طرح انہوں نے تعلیم پائی اسی طرح ایمان میں مضبوط رہیں"(کلسیوں ۲: ۷)۔یہ کاہن اورفریسی آنخداوند کی تعلیم اورسوانح حیات کے چشم دید جیتے جاگتے گواہ بھی تھے۔ اُن میں سے بعض حضرت کلمتہ اللہ کے خفیہ شاگرد بھی رہ چکے تھے اور اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے (یوحنا ۳: ۲، ۲۳: ۵۰)۔ایسے سرداروں کی تعداد بہت تھی جو سیدنا مسیح کی حینِ حیات میں آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ مگر علانیہ اقرار نہیں کرتے تھے (یوحنا ۱۲: ۴۲)۔ اب یہ تمام سربرآوردہ لوگوں کی جماعت علانیہ سیدنا مسیح پر ایمان لے آئی تھی(اعمال ۶: ۷؛ ۱۵: ۵؛ ۲۱: ۲۰ وغیرہ)۔ اورعلماء کا طبقہ کلیسیا میں تعلیم اوردرس وتدریس کےکام پر مامور ہوا۔


(۳)

ظاہر ہے کہ اُن بے شمار ایمانداروں کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم اورکلماتِ طیبات سے واقف ہوں۔ اُن کے استادوں اور معلموں نے خود اپنے کانوں سے سیدنا مسیح کی زبانِ معجز بیان سے مختلف اوقات پر تعلیم سنی تھی۔ پس وہ اس بات کےاہل تھے کہ دوسروں تک آپ کی تعلیم کے اُصول پہنچائیں اوراُن پر انبیائے سابقین اور آنخداوند کی خصوصی تعلیم میں جو فرق ہے تفصیلی طورپر ظاہر کریں۔

حسنِ اتفاق سےان معلموں کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھا جو حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم اور آپ کے کلماتِ طیبات پر مشتمل تھا۔ اس رسالہ میں سیدنا مسیح کے دوازدہ رسولوں میں سے ایک نے یعنی مقدس متی رسول نے آپ کے کلمات کو جمع کررکھا تھا۔ اس رسالہ کا ہم مفصل ذکر آگے چل کر کریں گے۔ ان معلموں کے لئے یہ رسالہ نہایت معتبر اورکارآمد تھا۔ وہ اس کی مدد سے اُن نومریدوں کو ایسی باتیں بتلاسکتے تھے جن کے وہ خو د چشم دید گواہ نہیں تھے ۔ اس رسالہ کی نقلیں کی گئیں تاکہ آنخداوند کی تعلیم سے ہرکس وناکس (تمام لوگ)واقف ہوجائے۔ اس رسالہ کلمات کے علاوہ ان ابتدائی ایام میں حضرت کلمتہ اللہ کے اقوالِ زریں (بیش قیمت باتیں) دیگر پاروں میں بھی تحریر ی شکل میں موجود تھے، مثلاً ہم کو حال ہی میں ملکِ مصر میں بعض پارے(ٹکڑے ) دستیاب ہوئے ہیں جو پیپائرس پر لکھے ہیں جن میں " (سیدنا مسیح کے نئے کلمات) New Sayings of Jesus سب سے زیادہ مشہور ہے1۔

ان کے علاوہ آنخداوند کے بعض ایسے مستند اقوال موجود تھے جو اناجیل اربعہ میں درج نہیں ہیں۔ مثلاً مقدس پولُس افسس کے بزرگوں سے آخری وصیت کرکے کہتاہے کہ " خداوند مسیح کی باتیں یادرکھنا چاہئیں کہ اُس نے خود کہا کہ دینا لینے سے زیادہ مبارک ہے "(اعمال ۲۰: ۳۵)۔ بعض ایسے معتبر اور مستند کلمات غیر مروجہ اناجیل میں بھی محفوظ ہیں جو سینہ بہ سینہ اُن کے مصنفوں تک پہنچے تھے۔

(۴)

رسول اپنی " منادی" میں باربار انبیائے سابقین کی کتابوں اورنبیوں کا حوالہ دیتے تھے (اعمال ۲: ۱۶، ۲۵، ۳۴؛ ۴: ۱۱؛ ۷باب ؛ ۱۰: ۴۳؛ ۱۳: ۲۷، ۳۲۔۳۸ وغیرہ)۔ وہ یہود کے ساتھ" کتابِ مقدس سے بحث کرتے اوراس کے معنی کھول کھول کر دلیلیں پیش" کیا کرتے تھے (اعمال ۱۷: ۲)۔ اہل یہود کو سیدنا مسیح کے قدموں میں لانے کا یہ قدرتی طریقہ تھا تاکہ اُن پر واضح ہوجائے کہ جن باتوں کی رسول" منادی " کرتے ہیں وہ " کتابِ مقدس کے مطابق " ہیں (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔

اُس زمانہ میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے چشم دید گواہوں سے آنخداوند کی بابت سنا تھا۔ ایک ایسے شخص کا اعمال میں ذکر پایا جاتا ہے(اعمال۱۸: ۲۴۔ ۲۸)۔ اپلوس ایک عالم شخص تھا جو " سکندریہ کا رہنے والاخوش تقریر ، فصیح البیان (خوش کلام)اورکتابِ مقدس کا ماہر تھا"۔ جب وہ افسس میں آیا تو وہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا شاگرد تھا ۔ پس اس کو " خدا کی راہ اور زیادہ صحت سے بتائی " گئی اور وہ کرنتھس کی کلیسیا کا استاد بناکر وہاں بھیجا گیا۔اس طریقہ کار سے پتہ لگتا ہے کہ مختلف اور دور دراز کے مقامات کے ایمانداروں کو تعلیم دینے کا کس طرح بندوبست کیا جاتا تھا اوریہ معلم کس پایہ کے عالم ہوتے تھے۔ اپلوس نے " وہاں پہنچ کر ان لوگوں کی بڑی مدد کی جو فضل کے سبب سے ایمان لائے تھے۔ کیونکہ وہ کتابِ مقدس سے یسوع کا مسیح ہونا ثابت کرکے بڑے زوروشور سے یہودیوں کو علانیہ قائل کرتا رہا "(اعمال ۱۸: ۲۷۔ ۲۸)۔

______________________

2Rev.R. Dunkerely, The Reliability of the Gospels, Expositor Aug.1924


اہلِ یہودمیں مسیحی نجات کی خوشخبری کا احسن طورپر پرچار نہیں ہوسکتا تھا تاوقت یہ کہ عہدِ عتیق کے حوالوں سے " منادی" کی تائید ثابت نہ ہو۔ پولُس رسول کا بھی یہی وطیرہ(طریقہ) تھا مثلاً وہ تھسلنیکے میں" دستور کے موافق کتابِ مقدس سے یہود کےساتھ بحث " کرتےرہے اور"کھول کھول کر دلیلیں پیش " کرکے یہ ثابت کرتے تھے کہ یسوع ہی مسیح موعود ہے اورمسیح کے لئے دکھ اٹھانا ضرور تھا اورکہ مسیح کتابِ مقدس کے مطابق مردوں میں سے جی اٹھا(اعمال ۱۷: ۲۔ ۳)۔

پس مسیحی معلموں اوراستادوں کی فاضل جماعت کے مسیحی کاہنوں اور مسیح فریسیوں نے انبیائے سابقین کی کتابوں اورعہدِ عتیق کی دیگر کتُب کا غائر(گہرا) مطالعہ کیا تاکہ کتابِ مقدس کے اُن تمام مقامات کا سب ایمانداروں کو علم ہوجائے جن کی رو سے آنخداوند کی زندگی کے واقعات کا ہونا ضرور تھا۔ پس انہوں نے اپنے استادِ ازل کے نمونہ کے مطابق ایمانداروں کو " موسیٰ سے اورسب نبیوں سے شروع کرکے سب نوشتوں میں جوباتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ اُن کو سمجھادیں"(لوقا ۲۴: ۲۷)۔

ڈاکٹر ہیرس Dr.Rendel Harris نے یہ نظریہ قائم کیا کہ قدیم کلیسیا نے سیدنا مسیح کی مسیحائی ثابت کرنے کےلئے ایک مستقل رسالہ میں کل آیات اورمقامات جمع کردئیے تھے۔ اس رسالہ کو اس عالم نے (Testamonies) (رسالہ اثبات)کا نام دیا۔ تیسری صدی کے درمیان میں مقدس سپرین نے بھی ایک اسی قسم کا رسالہ تالیف کیا تھا۔ لیکن اُس نے یہ کتاب خود تصنیف نہیں کی تھی بلکہ وہ پہلے ہی سے لکھی ہوئی تھی۔اس نے صرف اس کی نظر ثانی کرکے اُس میں چندایزادیاں (اضافت)کی تھیں۔ ڈاکٹر ہیرس نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اس قسم کی آیات کےمجموعے طرطلیان ، آئرنیوس اور جسٹن شہید کی تصنیفات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس عالم نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ

(۱۔) انجیل جلیل کےمختلف مصنفین اس قدیم کلیسیاکے" رسالہ اثبات" سے اقتباسات پیش کرتے ہیں اورکہ

(۲۔) ان اقتباسات کا متن عام طورپر سیپٹواجنٹ کے متن کے مطابق نہیں ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ کسی دوسرے یونانی ترجمہ کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ بھی نظریہ ہے کہ

(۳۔) انجیل کی کتب کے مصنفین کے استعمال سے پہلے ہی اس " رسالہ اثبات" کی بعض مختلف آیات ایک دوسرے سےباہم پیوستہ تھیں۔ اوراسی واسطے انجیل کے مصنفین نے ان آیات کا اکٹھا اقتباس کیا ہے ۔مثلاً (مرقس ۱: ۲، ۳) میں ملاکی اوریسعیاہ کی کتب کی آیات جو اکٹھی لکھی ہیں وہ اس واسطے اکٹھی لکھی گئیں ہیں کیونکہ وہ اس انجیل کے لکھے جانے سے پہلے " رسالہ اثبات " میں اکٹھی کی گئی تھیں۔

ڈاکٹر موصوف کا یہ خیال ہے کہ اس رسالہ اثبات میں اس کے مصنفوں نے کتابِ مقدس کی آیات کو مختلف عنوانات کے ماتحت اُن کے موضوع کے مطابق اکٹھا جمع کیا گیا تھا جس طرح تیسری صدی میں مقدس سپرین نے کیا تھا۔

تمام حالات کو مدِ نظر رکھ کر یہ عالم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہ" رسالہ اثبات" اگر قدیم ترین رسالہ نہیں تو کم از کم قدیم ترین زمانہ سے متعلق ہے اورانجیل جلیل کی تمام کُتب سے پہلے احاطہ تحریر میں آیا تھا ۔1

______________________

1C.H.Dodd, According to Scriptures (1953)


اُن یہودی نومریدوں کے لئے یہ لازمی امر تھا کہ اس بات کو جانیں کہ مسیح موعود کے لئے یہ کیوں " ضرور " تھا کہ وہ " سردارکاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائے اور وہ اس کے قتل کا حکم دیں " اوریہوداپنے مسیح کو" غیر قوموں کے حوالہ کریں جواسے ٹھٹھوں میں اڑائیں اوراُس پر تھوکیں اوراسے کوڑے ماریں اورقتل کریں "(مرقس ۱: ۳۳۔ ۳۴)۔انجیلِ جلیل کے ناظرین کو یاد ہوگا کہ جب آنخداوند نے اپنے رسولوں کو صلیب کی خبر دی تھی تو اُن کا ردِ عمل یہ تھا"۔ اے خداوند ، خدا نہ کرے ۔ یہ تجھ پر ہر گز نہیں آنے کا"(متی ۱۶: ۳۲) ۔ اہلِ یہود کے خیال میں مسیح موعود اورصلیبی موت دومتضاد تصور تھے۔ " مسیح مصلوب یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر" تھا(۱۔کرنتھیوں ۱: ۲۳) ۔ پس مسیحی معلموں کے لئے ضرور ہواکہ وہ نومریدوں کو مفصل طورپر ان واقعات اوراسباب سے مطلع کریں جن کی وجہ سے مسیح موعود مصلوب ہوئے اورآپ کے " دکھوں" کی تفصیلات بتلائیں جوآپ کی زندگی کے آخری چوبیس گھنٹوں میں آپ کے پیش آئیں۔ ان معلموں نے نومریدوں پر یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ " صلیب کا پیغام ہلاک ہونے والوں کے نزدیک توبے وقوفی ہے مگر ہم نجا ت پانے والوں کے نزدیک خدا کی قدرت ہے"(۱۔کرنتھیوں ۱: ۱۸)۔

پس معلموں کو ابتدائی ایام ہی میں یہ ضرورت پیش آئی کہ صلیبی واقعہ کا ایک مربوط اورمسلسل بیان مرتب کریں تاکہ نومرید اس واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ ہوجائیں اوراُن پر ان واقعات کی اصل وجہ اور غائت بھی منکشف (ظاہر)ہوجائے کہ اس قسم کے روح فرسااورجا ں کا واقعات کا مسیح موعود کے درپیش ہونا کیوں ضرور تھا۔

صلیبی واقعہ کی چشم دید گواہ " ایک بڑی بھیڑ" تھی (مرقس ۱۵: ۱۲؛ لوقا ۲۳: ۲۷ وغیرہ)۔جو عید کے موقعہ پر ارض مقدس کے مختلف مقامات سے یروشلیم میں جمع ہوئی تھی۔ اس بھیڑ میں یروشلیم کے رہنے والے بھی تھے۔ جب ان چشم دید گواہوں میں سے صدہا آنخداوند کے حلقہ بگوش ہوگئے تواُنہوں نے جودیکھا اورسنا تھا لوگوں سے بیان کیا۔ اناجیل اربعہ کے غائر مطالعہ سے ثابت ہے کہ جس طرح مختلف مقامات کی کلیسیاؤں نے آنخداوند کے اقوال کو مختلف پاروں میں جمع کر رکھا تھا ، اسی طرح صلیبی واقعہ کے مختلف بیانات مختلف کلیسیاؤں میں مروج تھے ۔ ان بیانات میں قدرتی طورپر تفصیلی اورجزوی باتوں میں معمولی اختلافات تھے تاہم یہ بیانات مجموعی طورپر ایک دوسرے سے اتفاق کرتے تھے۔چنانچہ انجیل مرقس کا بیان بنیادی ہے اورمقدس متی کی انجیل کابیان اس کی محض دوسری ایڈیشن ہے جس میں چند دیگرباتیں ایزاد(اضافی)کردی گئی ہیں۔مقدس لوقا کا بیان زیادہ مکمل ہے اس کی پلان دہی انجیل دوم کی ہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ مقدس مرقس کی انجیل کے صلیبی واقعہ کا بیان قدیم ترین زمانہ سے چلا آتا ہے۔ اوریہ وہ بیان ہے جس کو ابتدائی ایام کی کلیسیا کے معلموں نے مختلف چشم دید گواہوں کے بیانات سے " ترتیب دار" مرتب کیا تھا۔ (لوقا ۱: ۱)تاکہ نومریدوں کو آنخداوند کے صلیبی واقعات اوران کی تفصیلات سے آگاہی ہوجائے ۔ چنانچہ بی۔ ایچ برنیز کومب اپنی تفسیر میں کہتاہے کہ سیدنا مسیح کے " صلیبی واقعہ کا بیان تحریر میں آچکا تھا "۔ 1

دورِ حاضرہ کے نقاد جو" فارم کرٹک" Form Critic کہلاتے ہیں متفقہ آواز سے ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ قدیم کلیسیا میں سب سے پہلے صلیبی واقعہ کے بیان مسلسل طورپر لکھے گئے تھے۔

انگریز عالم ونسنٹ ٹیلر Vincent Taylorکہتاہے2.

______________________

1B.H.Brans Comb Moffat, Commentary on Mark p.xxxiv.
2Vincent Taylor, The Formation of the Gosple Tradition (1933).p45


" صلیبی واقعہ کا بیان جواناجیل اربعہ میں محفوظ ہے دیگر انجیلی بیانات سے اس بات میں مختلف ہے کہ وہ مسلسل اورمربوط ہے جس سے ظاہر ہے کہ وہ شروع سے چلاآتاہے۔ اس کاطرز بیان اور ترتیب اس کی صداقت پر گواہ ہے اورثابت کرتی ہے کہ یہ بیان ایک تواریخی حقیقت ہے"۔

جرمن عالم ایڈورڈ مائر Edward Meyer کہتاہے1کہ " آخری فسح کا بیان انجیل کےقدیم ترین حصص(حصہ کی جمع) سے متعلق ہے گتسمنی اورگرفتاری کے بیان صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مقدس پطرس کی زبان کے بیان ہیں۔ (مرقس ۱۲باب )کے واقعات اس وضاحت سے لکھے گئے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے ان کا سماں بندجاتا ہے اوروہ خارجی حالات کے بھی عین موافق ہیں۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کہ اس بیان کا سرچشمہ معتبر ترین ہے۔ اگریہ بیانات بعد کے زمانہ کے لکھےہوتے تو وہ اس قسم کے نہ ہوتے۔مثلاً لکھا ہے کہ مسیح دورانِ مقدمہ میں تقریباً خاموش رہے لیکن اگریہ بیان بعد کے زمانہ میں لکھے جاتے تو وہ اناجیل موضوعہ کے بیانات کے سے ہوتے ۔ جن میں آنخداوند یوحنا رسول سے ، صدرعدالت والوں سے ، ہیرودیس سے اورپلاطوس وغیرہ سے لمبی چوڑی گفتگو اوربحث کرتے ہیں۔ پس واقعہ صلیب کے انجیلی بیانات قدیم ترین اورصحیح ترین ہیں"۔

ڈاکٹر ونسنٹ ٹیلر اپنی کتاب میں سوال کرتاہے2۔ کہ " جب مقدس پولُس فرماتاہے کہ مسیح کتابِ مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کےلئے موا " (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳) تو وہ کتابِ مقدس کے کس حصہ کی طرف اشارہ کرتاہے؟ بعض کہتےہیں کہ آپ کا مطلب یسعیاہ ۵۳: ۵۔ ۶، ۸ ،۱۱۔ ۱۲؛دانی ایل ۹: ۲۶؛ زکریاہ ۱۳: ۷؛ یوناہ ۱: ۱۷؛ زبور ۱۶: ۸۔ ۱۱ )وغیرہ کےمقامات سے تھا۔ لیکن بس مین Bus Mann کہتاہے کہ نہ صرف ان مقامات میں سے کوئی بھی پولُس رسول کے ذہن میں نہ تھا بلکہ وہ عہدعتیق کی کسی کتاب کی طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ" کتابِ مقدس" سے آپ کا مطلب صلیبی واقعہ کے اُن بیانات سےتھا جو کلیسیا میں موجود تھے۔ آپ کا مطلب درحقیقت اُن ابتدائی بیانات سے ہے جن کا ذکر مقدس لوقا اپنے دیباچہ میں کرتے ہیں (لوقا۱: ۱) ۔یہ عالم کہتاہے کہ( ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳) سے ظاہرہے کہ صلیبی واقعہ کا بیان احاطہ تحریر میں آچکا تھا اورکلیسیاؤں کے ہاتھوں میں موجود تھا۔ شمٹ Schmidt بھی کہتاہے کہ صلیبی واقعہ کا ایک مسلسل اورمربوط بیان، سارے کا سارا عبادت کے دوران میں دردکے طورپر پڑھا جاتا تھا3.

پس ظاہر ہے کہ ابتدائی ایام سے ان معلموں نے جو علم وفضل کے لحاظ سے ممتاز تھے کلیسیا کے ہاتھوں میں نہ صرف " رسالہ کلمات" اور "رسالہ اثبات" دے دیا تھا بلکہ اُن نومریدوں کی خاطر ایک رسالہ میں مسلسل مربوط بیان بھی لکھ دیا تھا ۔جس میں منجی عالمین کی زندگی کے آخری دنوں اورآخری واقعات کا بیان ترتیب وار مرتب تھا۔

چونکہ صلیبی واقعہ یروشلیم کے شہر میں واقعہ ہوا تھا لہٰذا اس کا ترتیب وار مسلسل بیان بھی عالمِ وجود میں جلدی آگیا۔ لیکن آنخداوند اپنی ظفریاب قیامت کے بعد مختلف لوگوں کو ارض ِمقدس کے مختلف صوبوں اورمقاموں میں نظر آئے تھے ۔لہٰذا وہ بیانات جو آپ کی قیامت سے متعلق ہیں مسلسل اور ترتیب وار نہیں ہیں بلکہ منتشر (بکھراہوا)قسم کے ہیں کیونکہ وہ مختلف کلیسیاؤں میں مروج تھے۔ جن کو انجیل نویسوں نے بڑی کاوش کے بعد مختلف لوگوں اور مقاموں سے بعد میں اکٹھا کیا۔ چنانچہ مقدس پولُس کی ایک فہرست ہے (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۔ ۸) اعمال ۲۲اور ۲۶باب میں آپ

______________________

1Ibid.p.46
2Ibid p.49
3Ibid p.48


کے بیانات ہیں۔ بعض بیانات یروشلیم سے مخصوص ہیں۔ لوقا ۲۴باب میں صوبہ گلیل میں دکھائی دینے کے بیان نہیں ہیں۔ (لوقا ۲۴: ۳۴اور ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۵ )میں ذکر ہے کہ آنخداوند مقدس پطرس کو نظر آئے ۔لیکن اناجیل اربعہ میں اس واقعہ کا بیان پایا نہیں جاتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند کے واقعہ قیامت میں کوئی ایسی ترتیب موجود نہیں جیسی واقعہ صلیب میں پائی جاتی ہے جس کا بیان مسلسل اورمربوط ہے۔

(۵)

جب غیر یہود اقوام میں سے بھی نومریدجوق درجوق مسیحی کلیسیا میں داخل ہوگئے تو اُن کے لئے بھی یہ تینوں مندرجہ بالا رسالےبڑے کا م کے تھے۔ پس یہ رسالے اُن نومریدوں کے لئے یونانی زبان میں ترجمہ کئے گئے کیونکہ پہلے پہل جب یہ لکھے گئے تھے تو قدرتی طورپر وہ ارامی زبان میں مرتب کئے گئے تھے۔ ان رسالوں میں سے بالخصوص "رسالہ کلمات" غیر یہود کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔پس اس کے یونانی زبان میں کئی ترجمے کئے گئے ۔ ان میں سے دوترجموں کا ذکر ہم انشاء اللہ آگے چل کر کریں گے۔

جب کلیسیامیں یہودی اور غیر یہودی ہزاروں کی تعداد میں شامل ہوگئے تو استادوں اورمعلموں کی فاضل جماعت کے سامنے طرح طرح کے مسئلے اورقسم قسم کے سوال نومریدوں کی دونوں مختلف جماعتوں نے پیش کئے تاکہ وہ اُن کا حل ڈھونڈیں اوران کےسوالوں کا جواب دیں تاکہ مسیحی کلیسیا کے افرادکی روحانی ضروریات پوری ہوسکیں۔ بعض نقادوں نے جو"فارم کرٹکس" کہلاتے ہیں form critics ان سوالات کو چار اقسام کے بتلایا ہے۔

(۱۔) یہ نومرید چاہتے تھے کہ مسیحی ایمان اور عمل کے بارے میں اُن کی ہدایت ہو سکے۔ مثلاً بزرگوں کی روایات اورسبت کے احکام کے متعلق اُن کا کیا رویہ ہونا چاہیے (مرقس ۷: ۱تا ۶)۔ موسوی شریعت کے متعلق اُن کو کیا کرنا چاہیے (اعمال ۱۵: ۱و غیرہ)۔ فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی اوراُن کی راستبازی میں کیا فرق ہے(متی ۵: ۲۰؛ ۳: ۱۵ وغیرہ)۔دشمنوں سے محبت کیوں کریں؟ خیرات ،دُعا ،روزہ ،حرام حلال وغیرہ کے کیا احکام ہیں۔ بے ایمانوں کا اورایمانداروں کا انجام کیا ہوگا؟ سیدنا مسیح کب واپس آئیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کے جواب میں وہ گواہ اور رسول جنہوں نے آنخداوند سے ان اور دیگر مسائل پر گفتگو کی تھی حضرت کلمتہ اللہ کے اُن کلمات کاذکر کرتے تھےجوانہوں نے کانوں سے سنے تھے۔ ان واقعات اورکلمات کومختلف پاروں میں جمع کیا گیا تاکہ دور دراز کے مقامات کے نومریداُن سے فائدہ حاصل کرسکیں۔

(۲۔) یہ نومریدقدرتی طورپر آنخداوند کے سوانح حیات اورکلماتِ طیبات سےواقف ہونا چاہتے تھے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے "رسالہ کلمات" کی نقلیں کی گئیں۔ تاکہ قصبات، مضافات اور دیاروامصار کی کلیسیائیں ایمان میں مضبوط ہوجائیں۔اس کےعلاوہ ہزاروں چشم دید گواہ زندہ تھے جومختلف مقامات میں رہائش گزیں تھے اور مقامی کلیسیاؤں سےآنخداوند کےمعجزاتِ بینات اور سوانح حیات کا ذکر کرتے تھے اوریوں نومریدوں کے ایمان کی استقامت (قیام)کا باعث تھے۔ اُن کےبیانات مختلف پاروں میں مختلف کلیسیاؤں کے لئے لکھے گئے تھے اورمعلموں کی جماعت ان کو تعلیم دیتی تھی۔

(۳۔)تیسری قسم کے سوالات کا تعلق عبادت کےساتھ تھا۔ اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ یہودی نومُرید قدیم الایام میں ہیکل میں عبادت کرنے کے علاوہ اپنی خاص عبادت کیا کرتے تھے(اعمال۱: ۱۳۔ ۲: ۱، ۴۶؛ ۴: ۲۳۔ ۳: ۱ وغیرہ)۔ ان عبادتوں میں وہ اُن خاص باتوں کو ادا کرتے جو اُن سے مخصوص تھیں یعنی عشائے ربانی وغیرہ (اعمال ۲: ۴۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۰: ۱۶تا ۱۷ وغیرہ)۔ ان عبادتوں میں وعظ بھی ہوتے جن میں منجی عالمین کے کردار وگفتار بتلائے جاتے تھے (اعمال ۲۰: ۹ وغیرہ)۔ یہود اور غیر یہود قربانیاں کرتے تھے اور نذریں گذارنتے تھے۔ پس یہ سوال پیداہوئے کہ کیا بتوں کے آگے قربانی کرنا یاہیکل میں قربانیاں گذارننا جائز ہے؟ کیا قربانیوں کے گوشت کو کھانا جائز ہے وغیرہ وغیرہ۔


(۴۔) چوتھی قسم کے سوالوں کا تعلق بحث سے تھا۔جب یہود یاغیر یہود میں سے کوئی نوُمرید ہوتا تو قدرتاً لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے اور ایذاؤں کے علاوہ اس پر سوالوں کی بوچھاڑ ہوتی تھی۔ پس نومریدوں کوجائز وناجائز سوالوں کا جواب دینا ہوتا تھا۔ اس کے لئے اُن کے پاس بہترین جواب وہ تھے جو آنخداوند نے ایسے موقعوں پر خود دئیے تھے۔ ہزاروں لوگوں نے حضرت کلمتہ اللہ کے جوابات کو خود سناتھا جن کو سن کر وہ " تعجب کرتے تھے"۔(لوقا ۲۰: ۲۶) ایساکہ " پھر کسی کو سوال کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی (لوقا ۲۰: ۲۶) ایسے واقعات اوراقوال بھی قدرتی طورپر مختلف اوقات میں اورمختلف مقامات میں پاروں میں جمع کئے گئے تھے تاکہ کلیسیاؤں کے لئے اورنومریدوں کے لئے شمع ہدایت ہوں۔

پس کلیسیا کے وجود کے ابتدائی ایام کے پہلے دس (۱۰)سالوں میں ہی ان استادوں اورمعلموں کی فاضل جماعت نے وہ تمام بیانات جمع کرلئے جن کا تعلق کلیسیا کی ضروریاتِ زندگی سے تھا۔ اس دوُر اندیش رویہ کی وجہ سے کلیسیا کو بقا اورایمان کی استقامت ملی ۔یہ بیانات چشم دید گواہوں کی بیان کردہ معتبر باتیں تھیں جن کو ہزارہا لوگوں نے خود اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ، اورجن میں سے بعض واقعات کے یہ فاضل معلم خود بھی چشم دید گواہ تھے۔ یہ بیانات مختلف پاروں میں جمع تھے جو مختلف لوگوں اور مقاموں کی کلیسیاؤں اوربالخصوص یروشلیم کی کلیسیا کے پاس محفوظ تھے۔ استادوں اورمعلموں کی فاضل جماعت ہر جگہ اوربالخصوص یروشلیم میں ان پاروں اور رسالوں کی حفاظت کی ذمہ دار تھی۔

(۶)

اسلامی تاریخ میں رسول عربی کی رحلت کے بعد ہی مختلف سیاسی جماعتیں پیدا ہوگئیں جنہوں نے اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل اور فریقِ مخالف کو زک (شکست)دینے کے لئے قرآنی آیات میں کم وبیشی کی اور احادیث کو وضع کیا۔ ان جماعتوں کا اختلاف قومی، مذہبی ، سیاسی اوراعتقادی ، غرض سبھی قسم کا تھا۔ لیکن سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے بعد مسیحی کلیسیا کا یہ حال نہ تھا۔ سب ایمان دار "ایک دل ہوکر جمع ہوا کرتے اورخوشی اورسادہ دلی سے" زندگی گذارتے تھے "(اعمال ۱: ۱۴؛ ۲: ۴۶؛ ۴: ۲۴؛ ۵: ۱۲ وغیرہ)۔ حتیٰ کہ جب غیر یہود کا ختنہ ہونے کی وجہ سے اُن میں افتراق (جُدائی)پیدا ہوا تب بھی "رسول اور بزرگ اور سب ایماندار" ایسے نازک ایام میں " یکد ل " رہے (اعمال۱۵: ۲۲۔ ۲۴) ۔ پس سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے بعد اناجیل اربعہ کی تالیف کے زمانہ تک حالاتِ زمانہ کی وجہ سے ان قدیم ترین پاروں اورسالوں میں کسی قسم کا فرق یا فتور پیدا نہ ہوا ،بلکہ وہ بجنسہ (ویسے ہی)لفظ بلفظ ویسے ہی جیسے اُن کے ثقہ (معتبر)اور چشم دید گواہوں نے لکھا تھا۔ اورکلیسیا کے استادوں اور معلموں کی فاضل جماعت ان پاروں اوررسالوں کی حافظ اورذمہ داررہی۔


باب چہارم

چشم دید گواہوں کے زبانی اورتحریری بیانات

فصل اوّل

زبانی بیانات کے نظریہ کی تنقید

گذشتہ باب میں ہم نے بتلایاہے کہ کلیسیا کے فاضل اُستادوں اورمعلموں کی جماعت نے صدہا چشم دید گواہوں کے بیانات کو جمع کرکے اُن کورسالوں کی شکل میں ترتیب دے دیا تھا اورکہ ارضِ مقدس کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی صدہا(سینکڑوں) چشم دید گواہ موجود تھے، جس کی شہادتیں مختلف پاروں میں اُن مقامات کی کلیسیاؤں نے اُن ابتدائی ایام میں محفوظ رکھی تھیں۔ چنانچہ مقدس لوقا اپنی انجیل کے دیباچہ میں ان رسالوں اورپاروں کی جانب اشارہ بھی کرتاہے لیکن مغربی ممالک کےبعض قابل علماء مثلاً بشپ وسٹکٹ اور ڈاکٹر رائٹ جیسے پایہ کے فاضل کہتے ہیں کہ چشم دید گواہوں کے بیانات احاطہ تحریر میں سالہا سال تک نہیں آئے تھے بلکہ جب تک اناجیل لکھی نہیں گئیں یہ بیانات سینہ بسینہ چالیس پچاس سال تک زبانی حفظ کئے جاتے تھے ۔اوردوسروں تک پہنچائے جاتے تھے۔ اوروہ لوگ بھی اُن کو رٹ کر حفظ کرلیا کرتے تھے اوریوں تواتر اور تسلسل کا سلسلہ اناجیل اربعہ کے لکھے جانے تک جاری رہا۔ یہ تواتر اور تسلسل انجیل کی صحت کا ذمہ دار ہے۔

ان علماء کا خیال ہے کہ آنخداوند نے اپنے شاگردوں اوررسولوں کو اپنے کلمات اورخطبات زبانی یادکروائے اورچونکہ مشرق کے لوگوں کا حافظہ تیز اور زبردست ہوتا ہے، لہٰذا ان لوگوں کے حافظہ میں حضرت کلمتہ اللہ کے خطبات اورکلمات کا نقش فی الحجر (نہ مٹنے والا، پتھر کی لکیر)ہوگئے۔ اوراُنہوں نے اپنی باری میں سیدنا مسیح کے کلمات کو دوسروں کو حفظ کرایا چنانچہ پادری رائٹ صاحب لکھتے ہیں 1.

" زبانی تعلیم اس طرح شروع ہوئی کہ مقدس پطرس نے ایک تختی پر سبق لکھا اوراُس کو اپنے شاگردوں کوپڑھ کر سنایا جنہوں نے اس سبق کو اپنی تختیوں پر لکھ لیااور وہ اُن کو بلند آواز سے پڑھتے رہے ۔ یہاں تک کہ وہ سبق حفظ یادہوگیا۔ اگلے روز وہ حافظہ سے اس یاد کردہ سبق کو سنادیتے تھے اورپھر دوسرا سبق پڑھ لیتے تھے۔ یہ طریقہ کار روز بروز جاری رہا ہوگا جب تک کہ مسیحی تعلیم کا ایک اچھا خاصہ حصہ حفظ یاد ہوگیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ مقدس پطرس کے پاس ایسی نصف درجن تختیاں ہوں گی جن سے وہ اپنی یاد کو بھی تازہ کرلیتے ہوں گے ایساکہ آپ کامل طورپر سب باتیں خود یادہوگئیں۔ آپ نے ان شاگردوں کو جن کے حافظے تیز ہوں گے استاد بنادیا ہوگا تاکہ وہ اسی طرح دوسروں کو بھی سکھلائیں ۔ جب کلیسیاؤں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اُن استادوں کی ضرورت پڑی جن کا ذکر اعمال کی کتاب اور مقدس پولُس کے خطوط میں پایا جاتا ہے "۔

______________________

1Rev.Arthur Wright,” Prof, Stanton on the Synoptic Problem in Exp. Times for Feb.1910. pp.211ff.


" اسی قسم کی عارضی دستاویزیں شروع ہی سے موجود تھیں۔ مقدس مرقس نے بعد کے زمانہ میں مقدس پطرس کے ارامی خطبات کو یونانی میں اس طرح لکھاکہ اس نے پہلے ارامی کے ایک حصہ کو ایک تختی پر لکھا۔ پھر ایک دوسری تختی پر اُس حصہ کا یونانی ترجمہ کردیا۔ تب اس نے اس ترجمہ کی نظرثانی کرکے " یونانیوں " کوسکھلایا۔ جس طرح مقدس پطرس نے " عبرانیوں " کی جماعت کو سکھایا تھا"۔

یہی صاحب ایک اورجگہ لکھتے ہیں1

"مشرقی ممالک میں مغربی ممالک سے زیادہ حافظہ پر زوردیاجاتا ہے ۔ چنانچہ قاہرہ کے ازہر یونیورسٹی میں جوان طلباء قرآن کو حفظ کرتے ہیں"۔

ایک اور مقام میں یہ صاحب حضرت محمد عربی کی نظیر دے کرکہتےہیں کہ " جس طرح آنحضرت نے اپنے صحابہ کو قرآن اورپارے حفظ کرائے تھے اسی طرح حضرت کلمتہ اللہ کاوطیرہ (طریقہ)ہوگا"۔

(۲)

ہم نے باب اول میں یہ ثابت کردیا ہے کہ اہل یہود کا ہر بالغ آدمی اورہر نابالغ چھ سات سال کی عمر سے زیادہ کا بچہ پڑھا لکھا ہوتا تھا کیونکہ ہر بچہ کی تعلیم جبریہ اور لازمی تھی ۔ زبانی بیانات کےنظریہ کے حامی اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ کے ہم عصر یہود حضرت محمد کے ہم عصر عرب کی مانند ناخواندہ اوراُمی قوم تھے اورکہ اہل یہود کے پاس نوشت وخواند کے لئے صرف نصف درجن کے قریب تختیاں ہی ہوں گی جس طرح اہل عرب کے پاس قرآن کو لکھنے کے لئے " کھجور کے پتے ، سفید پتھر کی تختیاں ، چمڑے کے پارچے اورشانوں کی ہڈیاں " وغیرہ تھیں۔ اورکہ حضرت کلمتہ اللہ کے شاگردوں نے آپ کے خطبات کو اسی طرح رٹ لیا ہوگا جس طرح ازہریونیورسٹی کے طلبا قرآن کو حفظ کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ سب اُن کا محض ظن (وہم، تہمت)ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

(۱)اناجیل اربعہ کی بنیاد حافظہ پر قائم نہیں رہی۔ آپ چاروں انجیلوں کو پڑھیں اوراُس کے ایک ایک صفحہ کی ایک ایک سطر کو چھان ماریں آپ کو اس بات کا شائبہ بھی کہیں نہیں ملے گا کہ حضرت کلمتہ اللہ خطبہ دے کر اپنے شاگردوں کو خلوت میں خطبہ کا ایک ایک لفظ زبانی حفظ کرواتے تھے۔ یہ آنخداوند کا طریقہ کارہی نہ تھا اورنہ کوئی صاحبِ عقل شخص اناجیل کے مطالعہ کے بعداس قسم کے طریقہ کوآنخداوند سے متعلق کرنے کا خیال بھی کرسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے سامعین آپ کی تعلیم کو سن کر " حیران رہ جاتے تھے کیونکہ وہ اُن کو فقیہوں کی طرح نہیں ۔بلکہ صاحب اختیار کی طرح تعلیم دیتے تھے"( مرقس ۱: ۲۲ وغیرہ) آپ کے جان لیوا تک اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ" انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا "(یوحنا ۷: ۴۶)۔ سیدنا مسیح کا طریقہ یہودی ربیوں کا طریقہ ہی نہ تھا جن کو بات بات پر اپنے استادوں کے کلام کی سند لانی پڑتی تھی اور بغیر سند کورٹ سنائے وہ ایک قدم بھی نہ چلتے تھے۔ آنخداوند تو استادِ ازل تھے۔ ان کے شاگردوں نے بھی رٹنے کا طریقہ کبھی استعمال نہ کیا۔ عہدجدید کی تمام کی تمام کتب اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ آپ کے شاگردوں نے نہ توکوئی خطبہ طوطے کی طرح خودرٹا اورنہ دوسروں کو رٹوایا۔ ڈاکٹر رائٹ صاحب کا یہ قول کہ مقدس پطرس ایک تختی پر سبق لکھتے اوراپنے مصاحبوں سے حفظ کرواتے تھے محض آپ کی قوتِ متخیلہ کے ظن پر مبنی ہے جس میں رتی بھر حقیقت نہیں۔

______________________

1Quoted in Dr, Sanday’s article, “The Bearing of Criticism upon the Gospel History in Exp. Times, Dec, 1908.pp.103 ff.


اگراناجیل کی بنیاد سینہ بسینہ روایات پر ہوتی تو ویڈ کے الفاظ میں " یہ احتمال رہتا ہے کہ قدیم ترین انجیل بھی قابل اعتماد نہیں۔ جب کسی شخص کے خواوہ رسول ہی کیوں نہ ہوں )گذشتہ مشاہدات صرف حافظہ کی بنا پر ۳۷سال کے بعدایک ایسا شخص لکھے جوان واقعات میں سے صرف ایک دوکا ہی عینی گواہ ہو تو یہ کہنا زیادہ قرینِ عقل ہے کہ واقعات میں شک کی گنجائش رہ جاتی ہے1۔ جو اصحاب حافظہ کے نظریہ پر زوردیتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی حافظہ کسی واقعہ کو صرف اجمالی(مختصر ) طورپر ہی درستی سے پیش کرسکتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ حافظہ ہر لفظ کی صحت کا بھی ذمہ دار ہو۔ حافظہ کے لئے کسی خطبہ یا تقریر کا ایک ایک لفظ صحت کے ساتھ واقعہ کے چالیس (۴۰)سال بعد دہرانا ایک ناممکن امر ہے۔

"فارم کرٹک Form Critic جوزبانی روایات کے حامی ہیں کہتے ہیں کہ جو روائت سینہ بسینہ چلی آئے وہ کچھ مدت کے بعد ایک خاص جامد صورت اختیار کرلیتی ہے اوراس کے الفاظ تک پکے ہوکر جمہور کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور گویا منجمد ہوجاتے ہیں لیکن پروفیسر برکٹ ایک ایسی مثال دیتے ہیں جس سے اس خیال کا کھوکھلا پن ہر شخص پر ظاہر ہوجاتاہے ۔ وہ پوچھتے ہیں " کیا یہ لفظ اس قدر پکے ہوجاتے ہیں کہ پانچ ہزار کے کھانے کے معجزہ کے وقت تو" بارہ ٹوکریاں" اٹھائی جائیں (مرقس ۶: ۴۳)۔ اورچار ہزار کے کھانے کے وقت سات" پٹارے" یا " ٹوکرے" اٹھائے جائیں (مرقس ۸: ۸)۔ انجیل مرقس میں الفاظ " ٹوکریاں اور"ٹوکروں" میں تمیز کی گئی ہے اورانجیل اوّل میں بھی یہ تمیز برقرار رکھی گئی ہے ۔(۱۶: ۹تا ۱۰، مرقس ۸: ۱۹تا ۲۰)۔ حیرت پر حیرت یہ ہے کہ اس معجزہ میں زبانی روایت کے الفاظ تو اس قدر پکے ہوجائیں کہ دونوں انجیلوں میں ان کا الگ الگ ذکر ہواور وہ محفوظ نہ کئے جائیں لیکن واقعہ صلیب اور واقعہ قیامت جیسے اہم ترین واقعات کے بیان کرنے میں ان کی تفاصیل اوران کے الفاظ میں اس قدر اختلاف ہو2.

حق تو یہ ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ نے اپنے رسولوں کو "دعائے ربانی" کے علاوہ اور کوئی شے حفظ نہ کرائی۔ لیکن اس دعا کی بھی دوقرائتیں ہیں جن کے الفاظ میں اختلاف ہے (متی ۶: ۹تا ۱۳؛ لوقا ۱۱: ۲تا ۴)۔ اگرآنخداوند اپنے مبارک منہ کے الفاظ کو رسولوں سے رٹوایا کرتے تھے تو اس اختلاف کے کیا معنی ؟

پروفیسر برکٹ کہتے ہیں " سیدنا مسیح نے اپنے ہاتھوں سے کچھ نہ لکھا ۔ آپ نے اپنے شاگردوں کو دعائے ربانی کے الفاظ کے علاوہ اورکچھ نہ سکھلایا اور یہ دعا بھی دومختلف قرائتوں میں ہم تک پہنچی ہے۔ آپ کا یہ طریقہ ہی نہ تھا کہ شاگردوں کو کوئی مخصوص الفاظ یا مقررہ ترتیب سے جملے حفظ کرائیں ۔ اناجیل یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ آپ نے اپنی تعلیم کو کسی خاص نظام میں نہ ڈھالا اورنہ اس کے مختلف حصوں کو آپ نے مسلسل اور مربوط (وابستہ) کیا۔ آپ کی تعلیم میں کوئی تکلف نہ تھا بلکہ وہ سیدھی سادی غیر رسمی تعلیم تھی جو نہ مبہم اورنہ غیر معین اورنہ غیر واضح تھی۔ وہ ہمیشہ صاف اور واضح تعلیم تھی جس کا صحیح مطلب ہرکس وناکس سمجھ لیتا تھا۔ وہ موقعہ اورمحل کے مطابق اور اقتضائے ضرورت کے موافق تھی۔ اس کا تعلق کسی واقعہ یا تقریب کے ساتھ ہوتا تھا ۔۔۔۔ حافظہ کا تعلق باقاعدہ تعلیم سے ہوتا ہے جو کسی خاص نظام میں مربوط اورمنسلک ہو۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ فلاں ربی کے شاگردوں نے اپنے استاد کے کلام کا ایک ایک لفظ دوسروں تک پہنچایا۔ لیکن یہ ربی اپنے شاگردوں کو اپنی تعلیم رٹاتے تھے جس طرح قرآن کے حافظ کرتے ہیں اور قافیہ بندی وغیرہ کے طریقوں سے وہ تعلیم حفظ کرائی جاتی تھی ۔ لیکن سیدنا مسیح کا یہ طریقہ نہ تھا۔۔ حق تو یہ ہے کہ سیدنا مسیح اور فقیہوں کے درمیان جو تصادم

______________________

1Wade, N.T. History (1922).
2Burkitt, Gospel History and its Transmission (1907)p.35


ہوا اُس کا اصلی سبب یہی یہ تھا کہ وہ بزرگوں کی روایات کو ہر حال میں قائم اوراستوار رکھنا چاہتے تھے لیکن جنابِ مسیح کا کلام انوکھا، فطری طورپر بدیع (ایک علم جس میں کلام کی لفظی اور معنوی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں)اوراپنے اندر تخلیقی قوت رکھنے والا تھا1

اگر ناظرین خود چالیس (۴۰)سال پہلے کے کسی ایک آپ بیتی واقعہ یا تقریر کو قوتِ حافظہ پر زوردے کر یا دکرنے کی کوشش کریں تو وہ خود معلوم کرسکتے ہیں کہ کس حد تک اُن کو اس واقعہ کی تفصیل یا تقریر کے الفاظ صحت کے ساتھ یاد رہ سکتے ہیں ۔ وہ اجمالی طورپر ہی واقعہ یا تقریر کو صحیح طورپر یاد کرسکیں گے لیکن واقعہ کی ہر تفصیل کو یا تقریر کے ہر لفظ کو صحت کے ساتھ دہرانا اُن کے لئے ناممکن ہوگا ۔پس چالیس (۴۰)سال کے عرصہ کے بعد جوایک پُشت سے بھی زیادہ کا عرصہ ہے رسولوں کا آنخداوند کے معجزات کی تفاصیل اورآپ کے خطبات کے الفاظ کو صحیح طورپر یاد رکھنا اعجاز سے کم نہیں۔ ہم کو یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ چالیس(۴۰) سال کا عرصہ گزرنے کے بعددوازدہ رسول بوڑھے ہوگئے تھے اور زندگی کے آخری ایام میں حافظہ جواب دے دیتا ہے۔ ہاں اجمالی طورپر خطبہ یا واقعہ کی صحت اوربات ہے لیکن یہاں توہر لفظ اور تفصیل کی صحت کا سوال ہے۔ چالیس (۴۰) سال کے بعد عقل سلیم کے لئے انجیلی بیانات کے ہر لفظ کو قطعی طورپر درست اورحکمی طورپر خطا سے بری ماننا ایک ناممکن ہے ۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ دنیا میں ایسی ہستیاں بھی ہوئی ہیں جن کی قوتِ حافظہ اعجازی تھی مثلاً پاسکل Paschal کا یہ دعویٰ تھاکہ وہ کبھی کسی شے کو جو اس نے پڑھی ہو یا جس کا خیال بھی اُس کے ذہن میں کبھی آیاہو فراموش نہیں کرتا تھا۔ لیکن یہاں ایک دوغیر معمولی انسانوں کا ذکر نہیں۔ اس نظریہ کے حامی تو یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق کے تمام لوگوں کی قوتِ حافظہ ہی اعجازی ہے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ قرآن کے قاری اورحافظ تو الگ رہے خود حضرت محمدقرآن کی آیات کو بھول جایا کرتے تھے (بخاری کتاب فضائل القرآن باب نسیان القرآن)۔

جرمن نقاد ولہاسن درست کہتاہے 2کہ طویل مکالمات کے معاملہ میں مشرقی ممالک کے رہنے والوں کا حافظہ مغربی ممالک کے رہنے والوں کے حافظہ سے بہتر نہیں تھا۔ مثال کے طورپر وہ حضرت محمد کے اقوال کی نظیر(مثال) پیش کرتاہے جو احادیث میں مندرج ہیں اورکہتاہے کہ یہ احادیث یقینی طورپر قابلِ اعتماد نہیں ہیں اوریہی مسلمان علماء کا متفقہ فیصلہ ہے۔

(۲)بہر حال ہمارے پاس یہ ماننے کی کوئی وجہ موجود نہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ کے سامعین اوررسول اورچشم دید گواہ سب کے سب ایسا حافظہ رکھتے تھے جو اعجازی تھا۔ اس نظریہ کے حامی یہ بھول جاتے ہیں کہ آنخداوند کے ہزاروں چشم دید گواہ سب کے سب لکھے پڑھے انسان تھے اورکہ جیسا ہم گذشتہ باب میں بتلاچکے ہیں تقاضائے وقت ہی ایسا تھا کہ اُن گواہوں کی شہادتیں ابتدا ہی میں قلمبند کی جائیں تاکہ کلیسیاؤں کی روحانی ضروریات اور تقاضے پورے ہوسکیں ۔ اُس زمانہ میں لکھنے کےلئے گوکاغذ نہیں تھے لیکن پے پائرس کے طومار(جس سے انگریزی لفظ Paper بمعنی کاغذ نکلا ہے )ہر جگہ دستیاب ہوتے تھے ۔ جوسرکاری کام، کاروباری معاملات، نجی خط وکتابت ، کتابوں کے لکھنے وغیرہ کے کام آتے تھے۔

پیپائرس پر مستقبل کی تحریریں لکھی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ چرمی کاغذ " رق کے طومار" بھی استعمال ہوتے تھے(۲۔تیمتھیس ۴: ۱۳)۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے ملک ہندوتان میں آریہ لوگ اپنی کتابوں کو بھوج پتر کی کھال پر لکھا کرتے تھے ۔ موجودہ قسم کا کاغذ( ۱۰۵ء) عیسوی میں ملکِ چین میں پہل پہل بنا۔

______________________

1Ibid, pp.143-145 and 174
2Quoted by Rev.G.C Montefiore in the Synoptic Gospels. Vol.I.p.xcix


معلوم نہیں کہ کیوں فرض کرلیا جاتا ہے کہ آنخداوند کے رسولوں اور دیگر شاگردوں نے جب تک آپ اس دنیا میں ان کے ساتھ رہے آپ کےکلمات طیبات کو لکھنے کے لئے قلم کو ہاتھ نہ لگایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب جیسی جگہ میں بھی حضرت محمد کے صحابہ اُن کے منہ کی باتیں لکھ لیا کرتے تھے ۔ پھر حضرت کلمتہ اللہ کے رسولوں کو کون چیز مانع (روکنے والا، روک)تھی کہ وہ ایسا نہ کرتے؟ انبیائے سابقین کاکلام مثلاً حضرت یرمیاہ کاکلام اُن کے مصاحب باروک نے لکھا ۔ فاضل جارج ایڈم سمتھ G.A.Smith کہتاہے 1کہ وہ " دبورہ کا گیت" بغیر کسی شک وشبہ کے اُسی زمانہ کا لکھا ہواہے جس زمانہ میں وہ واقعات ہوئے تھے جواُس میں درج ہیں"۔ عہدِ عتیق کےد یگر حصوں کی نسبت بھی علماء کی ایک بڑی تعداد کا یہی خیال ہے۔ پس ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اناجیل کے متعلق کیوں کلیتہً حافظہ پر زوردیا جاتا ہے اورتحریری مسالہ کو غیر متعلق قرار دے کر اس بحث سے بالکل خارج کیا جاتا ہے؟ اگریہ ثابت ہوجائے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے خطبات وغیرہ اناجیل کے تحریر ہونے سے بہت پہلے احاطہ تحریر میں آچکے تھے توان کلمات کا معتبر ہونا حافظہ کی قوت پر انحصار کرنے سے زیادہ بہتر طورپر ثابت ہوجاتاہے۔

جب انبیائے سابقین کاکلام اُن کی حین حیات میں ہی احاطہ تحریر میں آجاتا تھا تو اس امر میں کونسی بات مانع تھی کہ آنخداوند کے لکھے پڑھے ہزارہا چشم دید گواہ جن کا یہ ایمان تھاکہ " ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے"(لوقا ۷: ۱۶؛ مرقس ۶: ۱۵؛ ۸: ۲۸ ؛ متی ۲۱: ۱۱ وغیرہ)۔ خاموش رہتے اورآپ کی حین حیات میں آپ کے کلماتِ طیبات کو قلمبند نہ کرتے؟ اناجیل اربعہ تو یہ بتلاتی ہیں کہ یہ عوام خاموش رہنے والے انسان نہیں تھے(۷: ۳۶؛ متی ۹: ۳۱؛ لوقا ۴: ۳۷؛ لوقا ۵: ۱۵۔ ۲۵؛ ۱۷: ۵؛ یوحنا ۹: ۳۰وغیرہ)۔ زبانی روایات کے نظریہ کے حامی ان ہزارہا چشم دید جوشیلے گواہوں کی ہستی کو ایسا نظر انداز کردیتے ہیں کہ گویا آنخداوند کی وفات کے فوراً بعد اُن کو پرلگ گئے تھے یا وہ کہیں نقل مکانی کرکے چلے گئے یا اُن کے ہاتھ شل ہوگئے تھے کہ اُن سے ایک لفظ بھی لکھا نہ گیا !! صرف اُن کی قوتِ حافظہ ہی تیز ہوگئی تھی !!!

اگر کوئی دوسرا شخص آنخداوند کے کلماتِ طیبات اورمعجزاتِ بینات کو قلمبند کرنے والا نہیں تھا تو کم از کم آپ کے دوازدہ رسول تو تھے جو اپنے عزیز واقارب ، گھر بار، کام کاج وغیرہ سب کچھ " چھوڑ کر آپ کے پیچھے ہولئے تھے" (مرقس ۱: ۲۰ وغیرہ)۔ کیا یہ رسول جو شب وروز آپ کی رفاقت سے فیض حاصل کرتے تھے لکھے پڑھے نہ تھے ؟ کیا اُنہوں نے جب یہ " نئی تعلیم سنی" جو اُن کا خداوند ایک" صاحب اختیار" شخص کی طرح دیتا تھا (اورجس کو سن کر عوام الناس حیرا ن رہ جاتے تھے)۔ یہ خیال کبھی نہ کیا کہ وہ آپ کے کلماتِ طیبات کوقلمبند کرلیں؟ قیاس تو یہی چاہتاہے کہ جس طرح باروک نے حضرت یرمیاہ کی نبوتوں کو قلمبند کرلیا تھا اورجس طرح مقدس لوقا نے جب وہ مقدس پولُس کے ساتھی تھے اُن کے سفروں کا ایک باقاعدہ روزنامچہ لکھا تھا(جس کی انہوں نے بعد کے زمانہ میں اپنی کتاب اعمال الرسل میں شامل کرلیا)اسی طرح آنخداوند کے شاگرد اوربالخصوص مقدس متی آنخداوند کے خطبات اورکلماتِ کو ضبط تحریر میں لے آتے ۔ ایسا کرنے میں کوئی بات مانع نہیں تھی کہ اس ابتدائی زمانہ میں آنخداوند کی زندگی کے دوران میں شاگردوں میں سے بعض نے دوسروں کو بتلانے کے لئے اور اپنی یاد کو تازہ کرنے کے لئے آنخداوند کے کلمات کو لکھا تھا۔ انشاء اللہ ہم آگے چل کر یہ ثابت کردیں گے کہ مقدس متی نے سیدنا مسیح کی حینِ حیات میں اپنا رسالہ " کلمات" کو مرتب کیا تھا۔ یہ وہی رسالہ تھا جس کو ابتدائی ایام کی کلیسیا کے معلموں کی فاضل جماعت نے ایمانداروں کے ہاتھوں میں دیا تھا اورجس کی نقلیں انہوں نے مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں بھیجی تھیں۔

______________________

1G.A. Smith, Historical Geography of the Holy Land.


یہاں ہم صرف یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مقدس متی رسول کا پیشہ ہی ایسا تھا جس میں یہ ضروری اورلازمی شرط تھی کہ وہ اس بات کے اہل ہوں کہ اشیاء وغیرہ کو اور لوگوں کے اقوال وغیرہ کو فوراً نوٹ کرلیا جائے۔ پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایسی قابلیت رکھنے والے شخص نے آنخداوند کے اقوال اور تمثیلوں کو سننے کے بعد فوراً نوٹ کرلیا تھا۔

(۳۔)ایسا معلوم ہوتاہے کہ جوعلماء زبانی روایات کے حامی ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ آنخداوند کازمانہ گویا دورِ جہالت کازمانہ تھا۔ یہ اصحاب خیال کرتے ہیں کہ نوشت وخواند کوئی حال ہی کی بات ہے اورقدیم زمانہ میں اس کا رواج نہ تھا، لیکن موجودہ زمانہ کی تحقیقات نے اس کا پول کھول دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ فنِ تحریر نہایت قدیم فن ہے اور بحر متوسط کے مشرق کی جانب کے ممالک میں قدیم زمانہ سے مروج تھا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ سیدنا مسیح کے زمانہ میں ارضِ مقدس سلطنتِ روم کا حصہ تھا اورکہ یہ سلطنت نہایت مہذب سلطنت تھی جس کے قوانین اورجس کا کلچر ممالکِ مغرب کی موجودہ کلچر کی بنا ہے۔ اس سلطنت میں مختصر نویسی یا شارٹ ہینڈ کا رواج تھاچنانچہ پلوٹارکPlutarch کہتاہے1Cato کیٹوThe Younger نے جو تقریر Senate (مجلس اکابر)میں کیٹا ٹین Cotatane کے خلاف کی تھی وہ شار ٹ ہینڈمیں لکھی تھی۔ لارڈمیکا لے ہم کو بتلاتا ہے 2کہ سینیکاSeneca کے مطابق شارٹ ہینڈ رُوم میں اس درجہ کے کمال تک پہنچ گیا تھا کہ جلدی سے جلدی بولنے والے کی تقریر کو بھی مختصر نویس احاطہ تحریر میں لاسکتا تھا۔مختصر نویسی کا یہ فن یونانیوں میں بھی رائج تھا۔ مثال کے طورپر اوکس ری نیکسOxyrhnachusکاغذات (جو ۱۵۵ءکے ہیں) ایک ٹھیکہ کا ذکر ہے جس کی رُو سے میونسپلٹی کے ایک افسر نے اپنے غلام کو کسی اُستاد کے سپُرد کیا تھا تاکہ وہ غلام کو دوسال کے اندر مختصر نویسی میں طاق کردے3 ۔ اُن ایام میں کاتب بھی ہوتے تھے۔ چنانچہ پولُس رسول کاتب استعمال کرتے تھے (گلتیوں۶: ۱۱؛ ۱۔کرنتھیوں۱۶ : ۲۱ وغیرہ)ڈاکٹر مافٹ کہتاہے ۔کہ پولُس رسول کا کاتب ترتیس (رومیوں ۱۶: ۲۲) ان عہدیداروں Notaril میں سے تھا جن کو تمسکات کی رجسٹری وغیرہ کرنے کا اختیار تھا جو اکثر اوقات مختصر نویس ہوتے تھے 4 ۔ ڈاکٹر سامن بھی کہتا ہے "یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مختصر نویسی اُن دنوں میں عام تھی 5 ۔ ڈاکٹر A.T.Robertson کہتاہے 6.

" بعض علماء یہاں تک کہتے ہیں کہ مقدس متی نے آنخداوند کے کلمات کو آپ کی حینِ حیات میں ہی قلمبند کرنا شروع کردیا تھا۔ چونکہ وہ ایک محصول لینے والے افسر اورعہدیدار تھے۔ پس ان کا یہ کام تھاکہ وہ جلدی نوٹ لکھیں اورغالباً اُنہوں نے شارٹ ہینڈ میں ان اعجازی الفاظ کو قلمبند کرلیا جوایسے عظیم الشان معلم کی زبان سے نکلے تھے"۔

لیکن اگرہم یہ فرض بھی کرلیں کہ مقدس متی رسول شارٹ ہینڈ نہیں جانتے تھے توبھی یہ امر زیادہ قرین قیاس ہے کہ آپ نے حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کو جس کا ہر سُو چرچاہورہا تھاقلمبند کرلیا تھا۔ اس کا ذکر ہم انشاء اللہ آگے چل کر کریں گے۔

______________________

1Quoted, by Rev. R. Dunkerely in “The Reliability of the Gospels”. Expositor, Aug, 1924
2Macaulay, Essay on Lord Bacon
3Expositor, Aug,1924
4Introd, to Lite of the N.T.p50
5Salmon, Thoughts on the Textual Criticism of the N.T.
6Dr.A.T. Robertson, Expositor, Feb.1922


(۳)

(۱۔) جب ہم اناجیل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو چند اشارات پائے جاتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوجاتاہے 1۔ کہ بعض آیات اور مقامات فوراً اسی وقت لکھے گئے تھے جن کو بعد کے زمانہ میں اناجیل میں شامل کیا گیا۔ مثلاً ہیرودیس کی ضیافت کا احوال مقابلتہً طویل ہے۔ اس کوپڑھنے سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا اس کو حال ہی میں کسی نے لکھاہے۔ اگریہ واقعہ سالوں بعد حافظہ پر زور لگاکر لکھا جاتا تو وہ اس قدر وضاحت سے مفصل اورطویل بیان نہ ہوتا۔ بیت عنیاہ کے گھر کے متعلق اور بالاخانہ کے متعلق اناجیل کی خاموشی نہایت معنی خیز ہے جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ یہ بیان اُس زمانہ میں لکھا گیا تھا جب ان جگہوں کا پتہ بتلانا خطرہ سے خالی نہ تھا(اعمال ۱۲: ۱۱)۔ اگرانجیل مرقس حضرت یعقوب کی شہادت (۴۳ء) کے سالہاسال بعد لکھی گئی ہوتی تو اس میں " پطرس اوریعقوب اوریعقوب کا بھائی یوحنا"(مرقس ۵: ۳۷) اس ترتیب سے نہ لکھے جاتے ۔ کیونکہ اس زمانہ میں مقدس یوحنا کلیسیا کے رُکنِ اعظم تھے۔ چنانچہ مقدس لوقا اس ترتیب کو دو دفعہ الٹا کر مقدس یوحنا کو مقدس یعقوب سے پہلے لکھتا ہے (لوقا ۸: ۵۱؛ ۹: ۲۸؛ دیکھو اعمال ۱: ۱۳)۔ انجیلِ اوّل میں " نیم مثقال" کا ذکر (متی ۱۷: ۲۴) تب ہی موزوں ہوسکتا ہے ، جب یہ بیان کسی ابتدائی تحریری ماخذ سے لیا گیا ہو۔ کیونکہ اگر سالہاسال بعد حافظہ سے یہ بیان لکھا جاتا تواس کی تشریح درکار ہوتی۔ کیونکہ بعد کے زمانہ کے غیر یہودی پڑھنے والے اس سکہ رسم اور قصہ کے کنایہ (اشارہ)سے ناواقف تھے۔ یہی بات ہم (لوقا ۱۳: ۱) کی نسبت کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کی جھڑپیں اورآویزشیں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ (مرقس ۴ اور ۵باب) بھی اسی زمانہ کا لکھا ہوا ہے جب یہ واقعات ہوئے تھے کیونکہ ان میں صرف دودن کے واقعات کاحال بہت طویل اور مفصل ہے۔ حالانکہ مرقس کی انجیل میں تقریباً تین سالوں کے واقعات کو نہایت اختصار سے بیان کیا گیا ہے اور اس تناسب سے سالہاسال بعد دونوں کے واقعات کی طویل بیانی نہایت غیر متناسب ہوجاتی ہے۔ پس بظاہر یہی سبب نظر آتا ہے کہ کسی چشم دیدگواہ نے اُسی وقت ان باتوں کو لکھ لیا تھا۔ یہ امر بھی قابلِ غور اورمعنی خیز ہے کہ اناجیلِ اربعہ میں جب آنخداوند اپنے رسولوں کے ساتھ راہ چلتے باتیں کرتے ہیں تو ان باتوں کا خلاصہ چند فقرات میں ہی ملتا ہے جن میں آپس میں کوئی ربط نہیں ہوتا، لیکن جب کبھی آپ کسی جگہ بیٹھ کر اپنے رسولوں سے گفتگو کرتے ہیں (مثلاً مرقس ۱۳: ۳) تو ان کلمات کی رپورٹ زیادہ طولانی (لمبا، دراز)ہوتی ہے جس سے ہمارے نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ رسول آپ کی ان تقریروں کے نوٹ فوراً بعد لے لیا کرتے تھے۔

(۲۔) ایک اور امر قابلِ غور ہے۔ آنخداوند کا خطاب" ابن آدم" اناجیل اربعہ کے علاوہ انجیلی کتب کے مجموعہ میں کسی اورجگہ نہیں ملتا۔ اوراناجیل میں بھی قیصریہ فلپی کے واقعہ کے بعد پایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات کو انہی ایام میں لکھا گیا تھا۔

(۴)

اس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ گوابنِ آدم کا تصور ، اور فاتح کاہن بادشاہ کا تصور اورابن آدم کے دُکھ اٹھاکر جلال میں داخل ہونے کا تصور تینوں تصورات عہدِ عتیق میں موجود تھے لیکن ان تصورات کو ابتدا ہی سے مسیح موعود کے تصور کے ساتھ یکجا کرنے کا کام صرف حضرت کلمتہ اللہ ہی کا زبردست تخلیقی دماغ کرسکتا تھا۔ علیٰ ہذا القیاس(اسی طرح ) یسعیاہ کی کتاب کے " خادم یہوداہ" کا تصور اور زبور کی کتاب کے " راستباز کے دکھ اٹھانے کا تصور " اورخدا کی برگزیدہ قوم اسرائیل کے گرنے اوربحال ہونے کی نبوتیں انبیائے سابقین کی کتُب میں پہلے ہی سے موجود تھیں لیکن ان مختلف

______________________

1Expositor, Aug.1924


تصورات کو ایک ہی ہستی (یعنی مسیح موعود) سے منسوب کرنے کا کام مسیحی کلیسیا کے استاد اورمعلموں کی فاضل جماعت نے نہ کیا۔ وہ اس قسم کے دل ودماغ کے مالک ہی نہ تھے ۔ اگرچہ ان میں اپلوس ، پولُس اور عبرانیوں کا مصنف اورانجیل چہارم کے مصنف جیسے زبردست عالم موجود تھے۔ ان مختلف تصورات کے تاروپود سے ایک نئے تصور کو حضرت کلمتہ اللہ نے ہی خلق کیا جو ان تمام تصورات کی صحیح تاویل اور درست تفسیر تھا اورجس کی روشنی میں آپ کے تمام کلمات اور سوانح حیات کے پنہائی(پوشیدہ) مطلب واضح ہوگئے۔ اناجیل سے واضح ہے کہ آنخداوند نے رسولوں کی توجہ باربار انبیائے سابقین کے ان تصورات کی جانب مبذول فرمائی تاکہ وہ ان کی روشنی میں آپ کے کلام اور سوانح حیات، آپ کی صلیبی موت اور ظفریاب قیامت کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں۔ چنانچہ آپ نے( ۱۱۰ زبور) کی جانب اشارہ کرکے اپنے رسولوں کو سمجھایا تاکہ وہ آپ کی زندگی اور موت کے حقیقی مقصد کو سمجھ جائیں۔ آپ نے تصور" خداوند" کو اور" خدا کی دہنی طرف" بیٹھنے کے تصور کو اوردانی ایل کی کتاب کے " ابن آدم" کے تصور کو یکجا کردیا۔ جس سے مسیحیت میں ایک نیا باب کھل گیا۔گو اس امر کو سمجھانے کے لئے آپ نے اپنے رسولوں کے ساتھ بہتیر امغز کھپایا لیکن رسولوں نے نہ سمجھنا تھا اور نہ وہ سمجھے (لوقا ۱۸: ۳۴؛ مرقس ۶: ۵۲؛ لوقا ۹: ۴۵؛ ۲۴: ۲۵۔ ۲۷؛ ۴۴: ۴۵و غیرہ)۔ اب ظاہرہے کہ اگراناجیل کے یہ مقامات جن میں آنخداوند نے ان مختلف تصورات کویکجا کردیا تھا اُسی وقت نہ لکھے جاتے تو مابعد کے زمانہ میں کہاں اس قسم کا تخلیقی دل ودماغ تھا جو اُن کو یکجا کرتا۔ بلکہ حق تویہ ہے کہ ان مقامات نے عہدِ عتیق کی نبوتوں وغیرہ کی اصلیت کو سمجھنے کا ایک نیا طریقہ قائم کردیا اورآپ کے بعد کلیسیا کے فاضل معلموں کی جماعت نے اسی طریقہ کا اختیار کیا۔ یہ طریقہ ابتدائی ایام میں اسی واسطے رائج ہوگیا کیونکہ یہ مقامات تحریری شکل میں ان عالموں کے ہاتھوں میں تھے۔ اوراس طریقہ کو نہ صرف مقدس پولُس نے بلکہ انجیل چہارم اور عبرانیوں کے خط کے مصنفوں نے منزل بہ منزل تکمیل تک پہنچایا۔

(۵)

پس آنخداوند کے بہت سے کلماتِ طیبات اور سوانحِ حیات قدیم الایام سے ہی تحریری شکل میں موجود تھے جن کواُن لوگوں نے لکھا تھا جنہوں نے خود ان کوسنا اور دیکھا تھا۔ یہ امر موجودہ زمانہ کےلئے سبق آموز ہے کہ جن باتوں کو گذشتہ پشت کے علماء کہتے تھے کہ وہ سینہ بسینہ روایات سے زبانی چلی آتی تھیں وہ اب پچاس (۵۰)سال کی چھان بین کے بعد موجودہ علماء کے مطابق زبانی روایات سے اخذ نہیں کی گئی تھیں بلکہ تحریری پاروں میں اناجیل کی تالیف سے پہلے موجود تھیں۔ مثلاًاس صدی کے اوائل میں پادری آرتھر رائٹ صاحب نے لکھا تھاکہ " اناجیل کے الفاظ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ابتدائی ایام میں مبشر اور معلم ان الفاظ کو زبانی حفظِ کرلیا کرتے تھے1"۔ لیکن اب سب علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اناجیل کے الفاظ ایک دوسرے سے اس لئے ملتے ہیں کیونکہ ان کے مولفوں نے ایک ہی تحریری ماخذ استعمال کئے تھے جن میں سے ایک تحریری ماخذ "رسالہ کلمات" ہے۔ اس رسالہ کے تحریری شکل میں ہونے پر سب علماء متفق ہیں2۔ چنانچہ ویڈتک یہ تسلیم کرتاہے کہ " غالباً متی کے رسالہ کلمات کا مجموعہ اکیلا مجموعہ ہی نہ تھا اور یہ اغلب ہے کہ یہ رسالہ آنخداوند کے کلمات کے اُن مختصر مجموعوں سے جمع کیا گیا تھا جوبغیر کسی شک وشبہ کے لوگوں میں مسیح کی زندگی کے واقعات لکھے جانے سے پہلے مروج تھے"۔ ویڈ کو اس بات کا بھی اقبال ہے کہ مقدس متی اس بات کے اہل تھے کہ وہ اُن کلمات کو جمع کرتے اور اپنی رپورٹ کے نفِس مضمون کو پرکھ سکتے۔

______________________

1Quoted in Dr. Sanday’s article, “The Bearing of Criticism upon the Gospel History”. Exp.Times Dec.1908
2A.Richardson, The Gospel in the making, (S.C.M 1938)p.20


آکسفورڈ کے دو علماء گرین فیل اورہنٹ Grenfell and Hunt کو گذشتہ صدی کے اواخرمیں مقام آکسی رینلسOxyrhynachus سے آنخداوند کے چند اقوال کے نسخہ کے پارے دستیاب ہوئے 1۔ اس دریافت نے ثابت کردیا ہے کہ مقدس متی کےر سالہ کلمات کے علاوہ قدیم زمانہ میں دیگر لوگوں نے بھی سیدنا مسیح کے مختلف اقوال کو جمع کیا تھا۔ ان پاروں کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہو جاتاہے کہ تیسری صدی میں اس مقام میں اور وادی نیل کے دیگر مقامات میں "یسوع کےکلمات" کا مجموعہ کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں تھا جو عام طور پر مروج تھا۔ اِن پاروں کے اقوال آنخداوند کے اصلی کلمات معلوم دیتے ہیں۔ اگر چہ ان میں سے بعض پر اناجیل اربعہ کے اقوال اور شائد مقدس پولُس کے خطوط اورمکاشفات کی کتاب کا اثر پایا جاتاہے۔ یہ مجموعہ غالباً ۱۵۰ء کے قریب لکھا گیا تھا۔ ان میں سے بعض کلمات سے ظاہر ہے کہ وہ سیدنا مسیح کے اپنے منہ کے ہیں۔ مثلاً " خدا کی بادشاہی آسمان پر ہے لیکن وہ تمہارے اندر بھی ہے"۔ تمام فطرت اوربالخصوص انسانی فطرت مقناطیس کی طرح ہے جو تم کو خدا کی طرف کھینچ لے جاتی ہے"۔ اعمال کے ظاہری فعل کی طرف نہ دیکھو بلکہ ان کے اصلی منبع اورچشمہ کی جانب دیکھو "۔" سچائی انسانی زندگی کی کافی اور وافی ۔۔۔ رہنما ہے۔ اگر تم اس دنیا میں حق کی پیروی کروگے تو تم کو خدا کے دیدار کا کامل علم حاصل ہوگا "۔ مقدس پولُس کی ایک تقریر میں سیدنا مسیح کا ایک اور قول محفوظ ہے ۔ آپ نے کہا " خداوند کی باتیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے خود فرمایا کہ دینا لینے سے زیادہ مبارک ہے"(اعمال۲۰: ۳۵)۔

گذشتہ پچاس (۵۰)سالوں میں مغربی ممالک کے علماء نے اپنی عمر گرانمایہ اناجیلِ اربعہ کے ایک ایک لفظ کی چھان بین میں صرف کردی ہے اوراب وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اناجیلِ اربعہ کی تالیف سے پہلے تحریری بیانات اورپارے کلیسیا کے ہاتھوں میں موجود تھے۔ اورگوزبانی بیانات بھی ان ابتدائی ایام میں ہر مقام میں پائے جاتے تھےلیکن اناجیل کی تالیف کےلئے وہ ایسے اہم شمار نہیں کئے جاتے اورنہ اب ان کی اہمیت پر اس قدر زیادہ زوردیا جاتاہے۔ اناجیلِ اربعہ کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتا ہے کہ ان کے مولفوں نے زبانی اور تحریری بیانات دونوں سے کام لیا تھا اوران میں سے جیسا ہم بتلاچکے ہیں ، بعض مقامات ایسے ہیں جو واقعہ کے فوراً بعد لکھے گئے تھے اور دیگر آنخداوند کی حینِ حیات میں لکھے گئے تھے۔

فصل دوم

سیدنا مسیح کی آمدِ ثانی کا انتظار اورزبانی بیانات کا مفروضہ

عصرِ حاضرہ میں جو لوگ تحریری بیانات کاانکارکرتے ہیں اورانجیلی پیغام کا سینہ بسینہ بیانات پر انحصار رکھتے ہیں اُن کی اکثریت یہ وجہ بتلاتی ہے کہ آپ کے رسُول اورشاگرد آپ کی فوری آمد کے منتظر تھے کیونکہ حضرت کلمتہ اللہ نے ان سے فرمایا تھاکہ آپ ایک نیا دور شروع کرنے کے لئے آنے والے ہیں لیکن آپ کی آمد کے "دن اور گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانا " (متی ۲۴: ۳۶)۔ کیونکہ آپ اچانک آئیں گے جب کوئی آپ کی " راہ نہ دیکھتا ہو"(مرقس ۱۳: ۳۲۔ ۳۶؛ متی ۲۴: ۳۷۔ ۴۴؛ لوقا ۱۲: ۳۵۔ ۳۷؛ ۱۷: ۲۶۔ ۳۶ وغیرہ)۔ " پس جاگتے رہوکیونکہ نہ تم اس گھڑی کو جانتے ہو اورنہ اس دن کو"(متی ۲۵: ۱۳)۔ کیونکہ " ابن آدم اپنے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا۔ اس وقت ہر ایک کو اس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا۔

______________________

1H.B.Swete”The New Oxyrhynchus Sayings.” Exp. Times. Vol.xv No.11.p.488 ff.


میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے وہ موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے "(متی ۱۶: ۲۷؛ ۱۰: ۲۳ ؛ مرقس ۹: ۱؛ لوقا ۹: ۲۷)۔

زبانی بیانات کے حامی کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اورشاگرد سب کے سب آپ کی فوری آمد کے شدید انتظار میں لگے تھے لہٰذا انہوں نے اس بات کی ضرورت ہی نہ سمجھی کہ آنخداوند کے کلماتِ طیبات، معجزات بینات اور سوانح حیات کو بقید تحریر لائیں۔ وہ ہرآن اسی انتظار میں رہتے تھے کہ مولا اب آئے کہ آئے۔ پس انہوں نے زبانی بیانات پر ہی اکتفا کرنا دانشمندی سمجھی لیکن جب پہلی پشت گذرگئی اور وہ ضیعف العمر(عمررسیدہ، بوڑھے) ہوگئے اورانہوں نے دیکھاکہ آنخداوند کی آمد میں تاخیر ہے تو اُنہوں نے آنے والی پشت کےلئے اناجیل لکھیں۔

یہاں ہمیں سیدنا مسیح کی آمدِ ثانی کے وسیع مضمون پر بحث کرنا منظور نہیں ہے۔ پس ہم چند اُمور پر ہی جوہمارے مضمون سے متعلق ہیں غورکریں گے:۔

(۱۔) ہم گذشتہ باب میں رسولوں کی " منادی" کا ذکر مفصل طورپر کرآئے ہیں۔ اگر ناظرین اسی مقام کے حوالوں کا بغور مطالعہ کریں تو اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ گورسول یہ تعلیم ضروردیتے تھے کہ آنخداوند عدالت کےلئے آنے والے ہیں لیکن وہ کسی فوری آمدثانی کی تعلیم نہیں دیتے تھے اعمال کی کتاب میں رسولوں کی کسی تقریر سے یہ نہیں پایا جاتا۔ کوئی شخص جس نے ان تقریروں کو( ۲، ۳، ۵، ۱۰، ۱۳باب) میں پڑھا ہے یہ نہیں کہہ سکتا آنخداوند کی فوری آمدِ ثانی کا عقیدہ رسولوں کی " منادی" کا جزوتھا۔ پس یہ مفروضہ سرے سے بے بنیاد ہے کہ رسول اس قسم کی فوری آمد کے منتظر تھے کہ وہ سیدنا مسیح کے اقوال وسوانح حیات کے لکھنے میں رکاوٹ کا باعث ہو۔

(۲۔)فرض کرو کہ سیدنا مسیح کے شاگرد اوررسول اورتمام چشم دید گواہ جو ایمان لے آئے تھے سب کے سب آمدِ ثانی کے فوراً اوراچانک وقوع میں آنے کے منتظر بھی ہوں پھر بھی قیاس یہی چاہتا ہے کہ سیدنا مسیح کےکلمات ، خطبات اور واقعاتِ زندگی احاطہ تحریر میں آجاتے۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ سیدنا مسیح کے ظہور سے پہلے اہل یہود" خداوند کے دن" کے انتظار میں تھے (صفنیاہ ۲: ۲؛ ۱: ۱۸)۔ چنانچہ یوایل نبی کہتاہے " سیدنا مسیح کا دن نزدیک ہے وہ قادرِ مطلق کی طرف سے بڑی ہلاکت کی مانند آئے گا"(یوایل ۱: ۱۵ وغیرہ)۔سیدنا مسیح کا ہم عصر مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والا بھی اسی " خداوند کے دن " کی طرف اشارہ کرکے اہل یہود کو تنبیہ کرتا ہے (متی ۳: ۷) ۔ لیکن اس کے باوجود اہل یہودنے کتابیں لکھیں جن میں سے بعض مثلاً دانی ایل عہدِ عتیق کے مجموعہ میں موجود ہیں۔ خود مقدس پولُس نے اپنی کلیسیاؤں کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر ان کوخطوط لکھے بلکہ جب آپ نے دیکھا کہ آمدثانی کے انتظار کی وجہ سے تھسلنیکے کی کلیسیا میں گڑبڑ ہورہی ہے تو آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ یہ " سمجھ کر کہ خداوند کا دن آپہنچا ہے تمہاری عقل دفعتہً پریشان نہ ہوجائے اورنہ تم گھبراؤ۔ کسی طرح سےکسی کے فریب میں نہ آنا کیونکہ وہ نہیں آئے گا، جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو۔۔۔۔ کیا تم کو یاد نہیں کہ جب میں تمہارے پاس تھا تو تم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا۔۔۔۔ پس اے بھائیو ثابت قدم رہو"(۲۔تھسلنیکیوں ۲باب)۔

جس طرح پہلی صدی میں ایماندار سیدنا مسیح کی آمدثانی کے منتظر تھے اسی طرح موجودہ زمانہ کے بہت سے مومنین اس بات کے قائل ہیں کہ آنخداوند بس آئے کہ آئے۔ لیکن وہ بھی کتابیں خود لکھتے ہیں کیونکہ اُن کا یہ خیال ہے کہ اگرچہ آپ آنے والے ہی ہیں تاہم چونکہ" اس دن گھڑی کو کوئی نہیں جانتا " اُن کی کتابیں درمیانی عرصہ کے لئے کام آئیں گی۔


موجودہ زمانہ " ایٹمی زمانہ " کہلاتاہے جس میں ہائیڈروجن بم اور سپٹینک وغیرہ پر زوردیا جاتاہے دُنیا کی طاقتور سلطنتوں کے ہاتھوں میں ایسے خوفناک بم ہیں کہ اگر دنیا کے کسی ایک کونے میں بھی جنگ چھڑگئی توسیاسی حالات کی وجہ سے وہ عالمگیر ہوجائے گی اوردنیا کا چندہ(کچھ) لمحوں میں خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ گویا آتش فشاں پہاڑ کے دہانہ پر بیٹھاہے لیکن اس کے باوجود ہرملک اورہرشخص اپنے روزانہ کاروبار میں بدستور مشغول رہتاہے اور دبک کر کسی کو نے میں اس انتظار میں نہیں رہتا کہ اب مرے کہ مرے۔

(۳۔)پس یہ گمان باطل ہے کہ کلیسیا پہلی صدی کے نصف سے زیادہ عرصہ تک اپنے آقا ومولا کی آمدِ ثانی کے خیال میں اس قدر محوتھی کہ وہ آپ کے سوانح حیات میں لکھنے کی جانب سے بالکل بے پرواہ رہی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس عیسیٰ کی آمد کی کلیسیا اس بیقراری سے منتظر تھی وہ وہی مسیح موعود تھا جو آچکا تھا(اعمال ۱: ۱۱)۔کوئی صحیح العقل شخص یہ نہیں مان سکتا کہ ابتدائی زمانہ کے مسیحی آنخداوند کی سی وسہ سالہ (تین سال)زندگی کی طرف سے غافل تھے۔ یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا خاموش بیٹھ رہے اوراُن کو آپ کے کلمات اورمعجزات سے اتنی دلچسپی بھی نہ تھی کہ وہ اُن کو احاطہِ تحریر میں لانے کی زحمت گوارا کرتے۔اعمال کی کتاب (۲: ۲۳؛ ۱۰: ۳۸ وغیرہ) میں آپ کے معجزاتِ بینات کا خلاصہ موجود ہے اوراس کتاب میں کلیسیا کا رویہ صاف بتلارہاہے کہ آپ کی تعلیم اورآپ کا نمونہ کلیسیا میں کارفرما ہے (اعمال۲: ۴۴؛ اعمال ۴: ۳۳ الخ وغیرہ)۔ اگر انجیل مسیح کی " خوشخبری" کے طورپر پیش کی جاتی تھی تو لازم آتاہے کہ آپ کی مسیحائی کااعلان ، موت، قیامت، آمدِ ثانی، آپ کے کلمات اور معجزات وغیرہ وغیرہ کسی خاص شکل میں احاطہ تحریر میں آچکے تھے۔ جن پر یہ " خوشخبری" مشتمل تھی اورپیش کی جاتی تھی اورجورسولوں کی منادی کی تائید کرتی تھی اوران کے مواعظ(نصیحتیں) کو زندہ نقش بناکر اُن میں زندگی کا دم پھونکتی تھی۔

(۴۔)جوں جوں کلیسیا کا شمار بڑھتا گیا تعلیم کا کام بھی ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ معلموں کی زیادہ سے زیادہ تعداد اس کام پر مقرر کی جائے۔ پس قدرتی طورپر ان معلموں کی تعداد چشم دید گواہوں کی تعداد سے بڑھ گئی اورسینہ بسینہ زبانی پیغام بہت جلدی اس مقصد کے لئے ناکافی ثابت ہوا۔ چشم دید گواہ بھی یکے بعد دیگرے مرتے جارہے تھے(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۶)۔لوگ سینہ بسینہ زبانی پیغام کےالفاظ بھول سکتے تھے اوران میں آمیزش بھی ہوسکتی تھی ۔ آمدِ ثانی میں تاخیر واقع ہورہی تھی اور سیدنا مسیح کی فوری آمدکے انتظارکے خلاف کلیسیا کو متنبہ (آگاہ)کیاجارہا تھا (۲۔تھسلنیکیوں ۲: ۲) ۔پس بہت جلدی ان واقعات کو احاطہِ تحریر میں لانے کی ضرورت کا احساس ہرجگہ ہونے لگا اورمختلف مقامات کے لوگوں نے اِس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی اور پہلے پہل چند اوراق اورپارے اوررسالے لکھے گئے جن کو بعد کے زمانہ میں انجیل نویسوں نے (جیسا ہم آگے چل کر بتلائیں گے) اپنی تصانیف لکھتے وقت بطور ماخذ استعمال کئے۔

(۵۔)سیدنا مسیح نے رسولوں اورشاگردوں کو تو حکم دیا تھاکہ " تم یروشلیم سے شروع کرکے سب قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی کرو۔ تم ان باتوں کے گواہ ہو۔ اُن کو شاگرد بناؤ اوران کو تعلیم دوکہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اوردیکھو میں دنیا کےآخر تک تمہارے ساتھ ہوں"(لوقا ۲۴: ۴۷۔ ۴۸؛ متی ۲۸: ۱۹۔ ۲۰)۔ ان رسولوں کی زندگی کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ بڑی سے بڑی تعداد کو سیدنا مسیح کا حلقہ بگوش کریں۔ ان کی تقریروں کا مضمون ہی سیدنا مسیح کی تعلیم، زندگی ، موت اور قیامت کے حیرت انگیز واقعات تھے کیونکہ یہ اشد ضروری تھا کہ وہ دنیا کے لوگوں کو آپ کی آمدِ ثانی کے لئے تیار کریں لیکن یہ مقصد صرف معدودے چند لوگوں کی چند ایک تقریروں سے پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ اُن تقریروں میں صرف موٹی موٹی باتیں جن کو " منادی"Kerygma کہتے تھے لوگوں کو بتلاسکتے تھے۔ ہم اِ س نکتہ پر باب سوم میں بحث کرچکے ہیں۔


مقدس پطرس کی تقریر (اعمال ۱۰: ۳۶۔ ۴۳)۔اس بات کو واضح کردیتی ہے کہ رسول منادی اور تعلیم دونوں دیتے تھے ،لیکن اگرچہ لوگ ہزارہا کی تعداد میں کلیسیا میں شامل ہورہے تھے لیکن ابھی کروڑہا اس کے باہر تھے جنہوں نے نجات کا پیغام سنا بھی نہ تھا۔ پس رسولوں اور مبشروں کی جماعت نے ان سب ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تحریری یادداشتیں اورتحریری شہادتیں بہم پہنچائیں جو چشم دید گواہوں نے لکھیں یا لکھوائیں (لوقا ۱: ۱)تاکہ معلموں اوراستادوں کی فاضل جماعت اور دیگر مقامات کی کلیسیاؤں کے مبُشر اُن کا استعمال کرکے لوگوں کو سیدنا مسیح کے قدموں میں لائیں۔ اس سلسلہ میں مقدس پطرس کے الفاظ ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنے چاہئیں" پس توبہ کرو اوررجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اوراس طرح سیدنا مسیح کے حضور سے تازگی کے دن آئیں اور وہ مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے"(اعمال ۳: ۱۹)۔

(۶۔)سیدنا مسیح کی بعض تمثیلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ کا اپنی آمدِ ثانی سے یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ دنیا ختم ہوجائے گی بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ دور ختم ہوجائے گا اور وہ ایک نیا دور اور زمانہ شروع ہوجائے گا جس میں آسمان کی بادشاہی کے اُصول کا رواج ہوگا جس میں رفتہ رفتہ نیکی بدی کی طاقتوں پر غالب آتی جائے گی۔ یہاں تک کہ خدا کی محبت واحد حکمران ہوگی۔ مثلاً بیج بونے والے کی تمثیل ، کڑوے دانے کی تمثیل، رائی کے دانے کی تمثیل، بیج کے پوشیدگی میں بڑھنے کی تمثیل ، وغیرہ سب سے ظاہر ہے کہ دنیا آنحداوند کی وفات کے کچھ مہینے یا سالوں کے اندر اندر فنا نہیں ہوگی بلکہ خدا کی بادشاہی اس دنیا میں آچکی ہے اور وہ رفتہ رفتہ بڑھتی جائے گی اور ترقی ہی کرتی جائے گی ۔ لیکن سیدنا مسیح نے ترقی کی تکمیل کا زمانہ متعین نہیں کیا جس سے ظاہر ہے کہ آمدِ ثانی فوری نہیں ہوگی بلکہ بتدریج (درجہ بدرجہ)رائی کے درخت کی طرح بڑھتی جائے گی اورآپ کی تعلیم کا خمیر سب میں تاثیر کرکے نیا دور شروع کردے گا۔

(۷۔)یہ بات غلط ہے کہ تمام ابتدائی کلیسیا سیدنا مسیح کی فوری آمد کی منتظر تھی خواہ دنیا اخلاقی طورپر آپ کے آنے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ مقدس پطرس کے الفاظ (اعمال ۳: ۱۹) اس نظریہ کے قطعاً خلاف ہیں۔ آنخداوند کے رسولوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا آپ کا اخلاقی اورروحانی چیلنج قبول کرلے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوجائے گا جس کی بناء ظلم اور استنبداد کی بجائے انصاف پر اوربدی کی بجائے نیکی اورمحبت پر ہوگی۔ لیکن یہ گہرا نکتہ پہلے پہل خودشاگردنہیں سمجھتے تھے جس طرح وہ سیدنا مسیح کی بہتُری دوسری باتیں نہیں سمجھتے تھے(متی ۱۵: ۱۷؛ ۱۶: ۹۔ ۱۱؛ لوقا ۲۴: ۴۵ وغیرہ)۔ پس جب رسولوں نے پہلے پہل منادی شروع کی تویہ ممکن ہے کہ بعض کا خیال ہو کہ اگرچند ماہ میں نہیں تو سالوں کے اندر اندر آنخداوند کی آمدِ ثانی ہوگی لیکن جب سالہاسال گذرگئے اورآپ کی آمد میں تاخیر ہی واقع ہوتی گئی۔ توکلیسیا ئے مقدس پولُس اور مقدس یوحنا جیسے معلموں اور فاضل اُستادوں کی قیادت اوررہنمائی میں واقعات کی روشنی میں آنخداوند کے کلمات پر غور کیا۔ جس طرح رسولوں کو بعد کے واقعات کی روشنی میں سیدنا مسیح کے دیگر کلمات کا اصل مفہوم معلوم ہوجاتا تھا (متی ۲۶: ۷۵؛ لوقا ۲۲: ۶۱؛ ۲۴: ۸؛ یوحنا ۲: ۱۷؛ ۱۲: ۱۶ وغیرہ)۔ اسی طرح کلیسیا کے فاضل معلموں مقدس یوحنا اورمقدس پولُس رسول نے ان کلمات کے اصل مفہوم کو پالیا جن کا تعلق آمدِ ثانی کے ساتھ تھا جو عین سیدنا مسیح کے منشا کے مطابق تھا۔ چنانچہ پولُس رسول دوسرے شاگردوں سے سن کر اول اول یہی خیال کرتے تھے کہ آپ کی آمد فوری ہوگی(۱۔تھسلنیکیوں۴: ۱۴۔ ۱۷، ۲۔تھسلنیکیوں ۱: ۷۔ ۱۰)۔ لیکن جب آمدِ ثانی میں تاخیر واقع ہوتی گئی تو آپ نے خود اس کا گہرا مطلب پالیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مابعد کے خطوط م

______________________

1A.T.Cadoux, Essays in Christian Thinking and Lily Dougal and Emmet’s The Lord of Thought


میں ایسے الفاظ نہیں پائے جاتے 1۔ چنانچہ ۱تھسنلیکیوں(۵۰ء) میں مقدس پولُس سیدنا مسیح کی آمدِ ثانی کے منتظر ہیں لیکن بعد کے خطوط میں آپ کی آمدِ ثانی پر زورنہیں دیتے بلکہ آپ کا تمام زورگناہ سے نجات حاصل کرنے کی تعلیم پر ہے2۔ (۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۶؛ کلیسیوں۱: ۱۳؛ ۶: ۶ وغیرہ)۔

لیکن معلموں میں سے بعض لوگ تھے جوان گہرے مطالب کو نہ پاسکے۔ اُنہوں نے آنخداوند کےکلمات کا انبیائے سابقین بالخصوص دانی ایل اور دیگر مکاشفاتی کتابوں کی اصطلاحات کا استعمال کرکے ایک نیا نقشہ پیش کیا جس کے بعض حصے ہم کو (مرقس ۱۳باب )میں ملتے ہیں۔ اس گروہ کے خیالات نے یوحنا عارف کے مکاشفہ میں تکمیل 3پائی۔

بہر حال یہ ظاہرہے کہ دونوں قسم کے خیالات کے گروہوں کے معلم ان قدیم ترین ایام میں رسالے اورکتابچے لکھتے تھے۔ ہم حصہ دوم کے بابِ اول میں انشاء اللہ ذکر کریں گے کہ مقدس مرقس کی انجیل ۱۳باب میں اسی طرح کا ایک ورق موجود ہے جو تحریری شکل میں 4میں تھا۔ ان کتابوں کی تصنیف اوراشاعت نہایت معنی خیز ہے کیونکہ زبانی بیانات کے حامیوں کے نظریہ کےکلیتہً خلاف ہے اورثابت کرتی ہے کہ آنخداوند کی فوری آمدِ ثانی کا انتظار آپ کے کلمات اور سوانح حیات کے احاطہ تحریر میں آنے اورجمع کئے جانے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث نہ تھا۔

(۸۔)اگر حضرت کلمتہ اللہ کا مطلب یہ ہوتاکہ آپ کی آمدِ ثانی ایک فوری بات ہوگی تو آپ کا اخلاقی تعلیم کو دینا ایک فضول بات ہوجاتی ۔ پہاڑی وعظ وغیرہ عبث ہوجاتی ہے کیونکہ جب دنیاکا خاتمہ ہی فوراً ہونے والا ہے تو لوگوں " نئی تعلیم" کی تلقین کرنے کا کیامطلب ہے؟ پس آنخداوند کی تعلیم اس طرح درحقیقت بے معنی ہوجاتی ہے۔ لیکن آپ اناجیل اربعہ کو ایک سرے سے دوسرے تک پڑھ جائیں آپ کو یہ کہیں نہیں ملے گا کہ آپ کی تعلیم صرف چند سال کے وقفہ کے اس درمیانی مدت کےلئے ہے جوآپ کی وفات اورآمدِ ثانی کے درمیان حائل ہوگا۔ پہاڑی وعظ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اس دنیا میں انسانی زندگی ہزاروں سال چلتی جائے گی۔( مرقس ۱۲: ۹؛ متی ۲۱: ۴۰۔ ۴۱؛ ۲۲: ۸۔ ۹؛ لوقا ۱۴: ۲۲تا ۲۴)سے بھی ظاہر ہے ۔ پس ان ہزاروں مخلوقِ خدا میں سے حضرت کلمتہ اللہ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سننے والے تھے" بہتوں نے اس پر کمر باندھی " کہ اس جانفزا پیغام کو اپنی یادداشت کے لئے اوردوسروں کو بتلانے کے لئے لکھیں۔ اس بات کا ثبوت کہ آنخداوند کے کلمات قلمبند نہیں کئے گئے تھے اُن لوگوں کی گردن پر ہے جو اس زیرِ بحث نظریہ کے قائل ہیں۔لیکن یہ نظریہ حقیقت اورتاریخ دونوں سےکوسوں دُور ہے۔

ہمارا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہزارہا چشم دید گواہوں کی جماعت میں سے ہرایک فرد نے تحریری بیان ہی دیا تھا یا جو اقوال اورواقعات ہر شخص نے دیکھے تھے وہ اُن کو احاطہ تحریر میں لے آیا تھا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زبانی بیانات دینے والے بھی ان قدیم ایام میں موجود تھے جو " خبر دیتے تھے کہ خداوند نے کیسے بڑے کام کئے"(مرقس ۵ : ۱۹) اور وہ " اس بات کاچرچا کرتے " تھے۔ لیکن ہم اس حقیقت پر زوردینا چاہتے ہیں کہ زبانی بیانات کے ساتھ ساتھ تحریری بیانات موجود تھے جو ان قدیم ترین کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں تھے اور ارضِ مقدس کے طول وعرض میں پائے جاتے تھے۔ ہر ذی عقل شخص پر ظاہر ہے ہوجاتاہے کہ ہزارہا مومنین کی جماعت کو (جوان قدیم ترین ایام میں یروشلیم اور ارضِ مقدس کے اندر اورسلطنتِ روم کے مختلف قصبوں اور شہروں میں پھیل گئی تھی ، صرف زبانی بیانات حفظ کرانے سے ایمان کی استقامت واصل نہیں ہوسکتی تھی ۔ جو کام تحریری لفظ کرسکتاہے وہ

______________________

1T.R. Glover, Pual of Tarsus pp.233-234
2C.H. Dodd, Apostolic Preaching pp.65-71
3C.H. Dodd, The Parnkles of the Kingdom (1935) pp.133-134
4C.J. Codoux, The Historic Mission of Jesus (1941) p.12


ایک یا متعدد اشخاص کی تقریروں کے الفاظ سرانجام نہیں دے سکتے ۔ پس جوں جوں سال گذرتے گئے اور دورودراز کی کلیسیا ؤں کا شمار بڑھتا گیا ، تحریری بیان ، پارے ، رسالے اورکتابیں زیادہ استعمال ہونے لگیں اوریہ پارے اوررسالے ہر مقام کی کلیسیاؤں میں مروج ہوگئے(لوقا ۱: ۱)۔

باب پنجم

اناجیلِ اربعہ

گذشتہ ابواب میں ہم ثابت کر آئے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ کے کلمات اور خطبات کو سننے والوں اورآپ کے معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کی تعداد ہزارہا تھی۔ یہ سب کے سب لکھے پڑھے یہودی عوام اور خواص (خاص کی جمع)تھے۔ اُنہوں نے جودیکھا اورسنا اس کی اُن کے رشتہ داروں ، واقف کاروں اور دوستوں کے حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ آپ کی وفات کے بعد اُن میں سے ہزاروں آپ پر ایمان لے آئے، اورکلیسیا میں شامل ہوکر نجات سے بہرہ ورہوگئے ۔ پس رسولوں نے کلیسیا کی تنظیم کی۔ نومریدوں کو مسیحی ایمان کی تعلیم دینے کے لئے اوران کے ایمان کو مستحکم کرنے کےلئے رسالے لکھے گئے۔ اُن میں سے بعض رسالے اورپارے آنخداوند کی حینِ حیات میں ہی لکھے گئے اوردیگر پارے چشم دید گواہوں کے بیانات پر مشتمل تھے جو معتبر تھے ۔ بعض رسالے رسولوں نے اوربعض رسالے معلموں اوراستادوں کی فاضل جماعت نے مرتب کئے۔ بعض پارے یروشلیم کی کلیسیا میں مروج (رائج،جاری)تھے۔چنانچہ اناجیلِ کو غور سے پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ ان کے بعض حصوں میں الفاظ " میں" ہم " ، "تو"، " تم" ، "تجھے " وغیرہ یعنی واحد حاضر، جمع حاضر، واحد متکلم ،اورجمع متکلم کے صیغے آتے ہیں (لوقا ۱: ۳۔ ۴؛ یوحنا ۲۰: ۲۱ وغیرہ)۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ یہ بیانات چشم دید گواہوں کے ہیں جو کلی وثوق کے ساتھ اپنے مخاطبوں کو ان باتو ں کی نسبت تحریر کرتے ہیں جن کو " ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا" (۱۔یوحنا ۱: ۱)۔ یہ سب کے سب بیانات آنخداوند کی وفات کے چند سالوں کے اندر اندر لکھے گئے( لوقا ۱: ۱)۔ یہ پارے اوررسالے جو ابتدائی ایام میں لکھے گئے تھے اناجیل کی تالیف کرنے والوں کے ہاتھوں میں تھے۔ انجیل نویسوں نے ان رسالوں اورپاروں کو جو مختلف کلیسیاؤں میں مروج تھے اپنی انجیلوں کے ماخذ بنایا کیونکہ وہ سب سے معتبر شمار کئے جاتے تھے۔ اس باب میں ہم ان قدیم ترین رسالوں میں سے چند ایک کا مفصل ذکر کریں گے۔

فصل اوّل

رسالہِ کلمات

دوسری صدی کے اوائل میں افسس کے نزدیک شہر ہائراپولُس کے بشپ، مقدس یوحنا کے شاگرد، پے پائس (تاریخ پیدائش ۶۰ء) نے ایک رسالہ لکھا جس میں نہ صرف اُن کے اپنے خیالات درج ہیں بلکہ اس میں انہوں نے روایات بھی جمع کی ہیں جوانہوں نے کلیسیا کے سر برآوردہ قائدین سے پہلے وقتوں میں سُنی تھیں۔ اس رسالہ میں یہ بشپ لکھتے ہیں :۔


" پس متی نے عبرانی زبان میں سیدنا مسیح کے کلام کو جمع کیا اور ہر شخص نے اپنے لیاقت کے مطابق اُن کا ترجمہ کیا"

اس فقرہ میں صرف بشپ پے پئس کا اپنا خیال ہی درج نہیں بلکہ اس کے وقت سے پہلے کے زمانہ کی یعنی ۱۰۰ء کی روایت کا بیان ہے۔ اس مختصر فقرے سے ہم کو چار باتوں کا علم حاصل ہوتاہے : ۔

(۱۔)حضرت کلمتہ اللہ کے کلمات اورخطبات جمع کئے گئے تھے۔

(۲۔)یہ کلماتِ عبرانی زبان میں جمع کئے گئے ۔غالباً" عبرانی" سے مراد ارضِ مقدس کے یہود کی زبان یعنی ارامی زبان ہے۔

(۳۔) ان کلمات کوجمع کرنے والے کا نام متی تھا اوراس سے غالباً متی رسول مراد ہے ۔

(۴۔)مختلف لوگوں نے اپنی لیاقت کے مطابق ان کا ترجمہ کیا۔اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس سےمراد یونانی زبان میں ترجمہ ہے.

پس ۱۰۰ء کی روایت کے مطابق حضرت کلمتہ اللہ کے خطبات اورکلمات مقدس متی رسول نے جمع کئے تھے جس کے ۱۰۰ء سےمدتوں پہلے یونانی زبان میں مختلف ترجمے بھی کئے گئے تھے۔

اس روایت کو ابتدائی مسیحی مورخ بشپ یوسی ئیس اپنی کتاب تاریخِ کلیسیا2میں لکھتا ہے ۔جس میں وہ بشپ پے پئس کی کتاب" خداوند کےکلماتِ سماوی کی تفسیر3" کا اقتباس کرتاہے۔ اس کتاب میں یہ بشپ بدعتی معلموں کی غلط تفسیروں کے خلاف حضرت کلمتہ اللہ کے اقوال کی صحیح تاویل(بیان، بچاؤ کی دلیل) کرتاہے جو کلیسیا کے نزدیک معتبر تھی۔

پس دوازدہ رسولوں میں سے مقدس متی رسول نے آنخداوند کے خطبات اورکلمات کو ارامی زبان میں جمع کیا۔ پروفیسر رمزے کے مطابق یہ مجموعہ حضرت کلمتہ اللہ کے جیتے جی جمع کیا گیا تھا4۔ جس طرح عاموس نبی کی کتاب اس کی حینِ حیات میں ہی لکھی گئی تھی۔ اوریہ مجموعہ اس قدر مقبول عام ہوگیا تھا کہ اس کی بہت نقلیں کی گئیں۔ کیونکہ ایمانداروں کی جماعت کو جوروز بروز بڑھتی ہی چلی جارہی تھی اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ آنخداوند کی تعلیم سے واقف ہو۔بعد میں اس مجموعہ کی کئی ایڈیشن بھی لکھی گئیں جس میں بعض علماء مثلاً ہاکنس، سینڈے، سٹریٹر وغیرہ کے مطابق چندواقعات مثلاً آنخداوند کی آزمائشیں، صوبہ دار کے خادم کا شفا پانا اورچند دُوسری کہانیاں اور سیدنا مسیح کے اقوال کے " شانِ نزول" شامل کے گئے 5۔ یہ رسالہ غیر یہودی کلیسیاؤں میں بھی نہایت مقبول ثابت ا اوراُن کی خاطر مختلف اشخاص نے اس کے " ترجمے" اپنی اپنی لیاقت کے مطابق"۔ یونانی زبان میں کئے ۔

______________________

1The Mission & Message of Jesus p.309
2 Eusebius, H.E.111.p.39
3Expositions of the Oracles of the Lord, by Papias, Bishop of Hierapolis.
4Sir W. Ramsay, Luke the Physician.p.89.
5Vincent Taylor, Formation of the Gospel Tradition (1938) pp.176-185


(۲)

ان مختلف یونانی ترجموں میں سے ایک ترجمہ ہماری موجودہ انجیل اوّل کے یونانی متن میں محفوظ ہے۔ یہ رسالہ انجیلِ اوّل اورسوم کے لکھنے والوں نے اپنی اپنی انجیلوں میں لفظ بہ لفظ نقل کرلیا کیونکہ یہ رسالہ نہایت معتبر تھا۔ اس کو بارہ (۱۲)رسولوں میں سے ایک نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے لکھا تھا اورحضرت کلمتہ اللہ کی حینِ حیات میں جمع کیا تھا ۔یہ رسالہ ابتدائی ایام سے ہی مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں مقبولِ عام ہوگیا تھا۔

یہ رسالہ اُن مقامات پر مشتمل تھا جو پہلی اورتیسری انجیلوں میں پائے جاتے ہیں یہ مقام حسب ذیل ہیں1

(۱۔) یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی(لوقا ۳: ۷۔ ۹، ۱۲۔ ۱۷؛ متی ۳: ۷۔ ۱۳)۔

(۲۔) سیدنا مسیح کی آزمائشیں (لوقا ۴: ۱۔ ۱۳؛ متی ۴: ۱۔ ۱۱)۔

(۳۔) سیدنا مسیح کی تبلیغ(لوقا ۶: ۲۰۔ ۴۹؛ متی ۵: ۱۔۳، ۴، ۶، ۱۱۔ ۱۲، ۴۴، ۳۹، ۴۲؛ ۷: ۱۲؛ ۵: ۴۶۔ ۴۷، ۴۴۔ ۴۵، ۴۸؛ ۷: ۱۔ ۲؛ ۱۵: ۱۴؛ ۱۰: ۲۴۔ ۲۵؛ ۷: ۳۔۵، ۱۶۔ ۲۰؛ ۱۲: ۳۳۔ ۳۵؛ ۷: ۲۴۔ ۲۷)۔

(۴۔) کفرنحوم کا صوبہ دار (لوقا ۷: ۱۔ ۱۰، متی ۸: ۵۔۱۰، ۱۳)۔

(۵۔) حضرت یوحنا بپتسمہ دینے والا اور سیدنا مسیح (لوقا ۷: ۱۸۔ ۳۵؛ متی ۱۱: ۲۔ ۱۱، ۱۶۔ ۱۹)۔

(۶۔) شاگردی کے اُمید وار (لوقا ۹: ۵۷۔ ۶۲؛ متی ۸: ۱۹۔ ۲۲)۔

(۷۔) مبلغوں سے خطاب (لوقا ۱۰: ۲، الخ ۸۔ ۱۶؛ متی ۹: ۲۷، الخ ؛ ۱۰: ۱۶، ۱۵، ۱۱: ۲۰۔ ۲۴؛ ۱۰: ۴۰)۔

(۸۔)شاگردی کے حقوق (لوقا ۱۰: ۲۱۔ ۲۴؛ ۱۱: ۹۔ ۱۳؛ متی ۱۱: ۲۵۔ ۲۷؛ ۱۳: ۱۶۔ الخ ؛ ۷: ۷۔ ۱۱)۔

(۹۔)بعلز بول کی نسبت بحث (لوقا ۱۱: ۱۴۔ ۲۶؛ متی ۱۲: ۲۲۔ ۲۴؛ ۲۵: ۳۰ ، ۴۳۔ ۴۵)۔

(۱۰۔)خوشامد کی ملامت (لوقا ۱۱: ۲۷۔ الخ ؛متی ۱۲: ۴۶۔ ۵۰)۔

(۱۱۔) نشان کے طالب (لوقا ۱۱: ۲۹۔ ۳۶؛ متی ۱۲: ۳۸۔ ۴۱، الخ ؛ ۵: ۱۵؛ ۶: ۲۶۔ الخ)۔

(۱۲۔) فریسیوں کے خلاف (لوقا ۱۱: ۴۲۔ ۵۲؛ ۱۲: ۲۔ الخ؛ متی ۲۳: ۲۳، ۲۷؛۲۳: ۴، ۲۹، ۳۱، ۳۴۔۳۶، ۱۹۔۲۱)۔

(۱۳۔)شاگردوں کی ایذارسانی (لوقا ۱۲: ۴۔۱۲، ۲۲۔۳۴؛ متی ۱۰: ۲۸۔۳۳؛ ۱۲: ۳۲؛ ۶: ۲۵۔۳۳، ۱۹۔۲۱)۔

(۱۴۔) عدالت کا نازک وقت (لوقا ۱۲: ۳۵۔ ۵۹؛ ۱۳: ۱۸۔ ۲۱؛ متی ۲۵: ۱۔ ۱۳؛ ۲۴: ۴۳۔ ۵۱؛ ۱۰: ۳۴۔ ۳۶؛ ۵: ۲۵۔ ۲۶؛ ۱۳: ۳۱۔ ۳۳)۔

(۱۵۔) توبہ نہ کرنے والوں کا حشر (لوقا ۱۳: ۲۲۔ ۳۰، ۳۴۔ الخ؛ ۱۴: ۱۵؛ متی ۸: ۱۱۔ الخ؛ ۲۳: ۳۷، ۳۹۔ ۲۲: ۱۔ ۱۰)۔

(۱۶۔) نازک وقت میں شاگردی (لوقا ۱۴: ۲۵۔ ۲۷، ۳۴۔ الخ؛ ۱۶: ۱۳، ۱۶۔ ۱۸؛ متی ۱۰: ۳۷۔ ۳۸؛ ۵: ۱۳؛ ۶ : ۲۴؛ ۱۱: ۱۲۔ ۱۳؛ ۱۸: ۶۔ ۷)۔

______________________

1The Mission & Message of Jesus (1928) p.45


(۱۷۔) ابنِ آدم کے دن(لوقا ۱۷: ۲۲۔ ۳۷؛ متی ۲۴: ۲۶۔ ۳۹؛۱۰: ۳۹؛ ۲۴: ۴۰۔ ۴۱)۔

اگر ناظرین مندرجہ بالا حوالہ جات کے ایک ایک لفظ کا مقابلہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ دونوں انجیلوں کے مندرجہ بالا مقامات لفظ بلفظ آپس میں ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان انجیلوں کےمصنفوں نے اپنی انجیلوں کے مختلف مقامات میں اپنے اپنے مقصدکے مطابق" رسالِہ کلمات" کے الفاظ کو لفظ بلفظ نقل کیا تھا۔ اوراب اس رسالہ کی تمام آیات ہمارے ہاتھوں میں من وعن ویسی ہی موجود ہیں جیسی مقدس متی نے لکھی تھیں۔ باالفاظِ دیگر حضرت کلمتہ اللہ کے خطبات اورکلماتِ بابرکات نہایت صحت کے ساتھ ہماری اناجیل میں محفوظ ہیں۔ اس رسالہ کلمات کے الفاظ انجیل سوم کا چھٹواں حصہ اورانجیل اوّل کا ۲؍ ۱۱ حصہ ہیں ۔یہ رسالہ قریباً ۱۹۲آیات پر مشتمل تھا۔

بشپ پے پئس نے اپنی کتاب میں بدعتی معلموں کے خلاف حضرت کلمتہ اللہ کے زرین اقوال کی صحیح تفسیر کی جو کلیسیا کے نزدیک معتبر تھی۔ بشپ پےپئس اور اُن کے ہمعصروں کے نزدیک رسالہِ کلمات کےمندرجہ اقوال کو وہی پایہ حاصل تھا جو حضرت موسیٰ کے دس احکام کو حاصل ہے 1۔ اس سے ہم رسالہ کلمات کے پایہ اعتبار اور سند کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

(۳)

جرمن نقاد ہارنیک کہتاہے کہ کلمات کے مضامین پر غور کرنے سے یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ اس کا مرکزی پیغام یہ تھا کہ مسیح موعود ایک زبردست معلم اور خدا کی بادشاہت کا نبی تھا اُس میں صرف کلمتہ اللہ کی تعلیم کا ہی مجموعہ تھا۔ اس کے مضامین صلیب کے واقعہ سے پہلے کے ہیں۔پس اس کا مرکزی پیغام" مسیح ہمارا نجات دہندہ " نہیں ہے2۔ اس ایک بات سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ یہ رسالہ صلیب کے واقعہ سے پہلے احاطہ تحریر میں آچکا تھا۔ کیونکہ اس جانکا واقعہ کے بعد لکھا جاتا تویہ واقعہ اس رسالہ میں لازمی طورپر ہوتا کیونکہ دوزادہ رسول اپنی منادی کے پہلے ایام ہی سے اس واقعہ پرزوردیتے تھے(اعمال ۱: ۲۱؛ ۲: ۲۳ وغیرہ)۔ چنانچہ پروفیسر برکٹ بھی کہتاہے 3کہ ’’رسالہِ کلمات‘‘ میں واقعہ صلیب کا ذکر نہ تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ بکریوں اوربھیڑوں کی تمثیل (متی ۲۵: ۳۱۔ ۴۶) سیدنا مسیح کے خطبات کا نہایت موزوں خاتمہ ہے ۔یہ رسالہ اسی تمثیل پر ختم ہوتا تھا کیونکہ اس کے بعد متی کی انجیل میں رسالہ کلمات سے کوئی قول نقل نہیں کیا گیا"۔

پروفیسر ریمز ے کہتاہےکہ اس قسم کےرسالہ کو کوئی مسیحی آنخداوند کی صلیبی موت کہ بعد نہ لکھتا ۔ کم ازکم عیدپینتی کوست کے بعداس قسم کے رسالہ کا لکھاجانا ناممکن ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ رسالہ حضرت کلمتہ اللہ کی حینِ حیات میں ہی لکھا گیا تھا4.

دیگرعلماء کا خیال ہے کہ یہ رسالہ حضرت کلمتہ اللہ کی وفات کے بعد لکھا گیا تھا۔ ہم نے اوپر دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے۔ بہر حال تم علماء اس بات پر متفق ہیں کہ 5یہ رسالہ قدیم ترین ہے اور پہلی صدی کے درمیان سے پہلے یعنی ۵۰ء سےپہلے کا لکھا ہوا ہے جس کا بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ ان علماء کے خیال میں یہ رسالہ آنخداوند کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر اندر لکھا گیا تھا ۔ لیکن متعدد علماء پروفیسر ریمزے کے ہم نوا ہوکر کہتے ہیں کہ " ہمارے پاس یہ ماننے کے لئے کافی وجوہ(وجہ کی جمع) ہیں کہ سیدنا مسیح کی تمثیلوں اورآپ کے کلمات کا مجموعہ آپ کے جیتے جی آ

______________________

1B.W. Bacon, The Story of Jesus (1928). p.45
2W.C. Allen, Recent Criticism of the Synoptic Gospel’s Exp.Times July 1909 pp.455ff
3 F.C. Burkitt, Gospel History & Its Transmission p.133 also T.W.Manson, The Teaching of Jesus pp.29-34.
4Sir W. Ramsay, Luke the Physician p.89
5A. Richardson, The Gospel in the Making (S.C.M.P.24)


آپ کے زیر اہتمام پوراکیا گیا 1، پروفیسر نسلٹ ٹیلر بھی اس عالم سے اتفاق کرتے ہیں2۔ پروفیسر برکٹ کے الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ وہ کہتے ہیں " میرے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ سیدنا مسیح کے وہ اقوال اور تمثیلیں (جن کا تعلق خدا کی بادشاہی کے اس دنیا میں پورا ہونے سے ہے) سیدنا مسیح کے زمانہ کے بعدکی ہیں ان کی تازگی اوراُن کی فضا کی شگفتگی اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ آپ کے زمانہ کے بعد کی باتیں نہیں ہیں۔ قدیم مسیحی ادب میں اناجیلِ متفقہ کےباہر قدرتی مناظر اورانسانی فطرت کے متعلق اس قسم کا نظریہ زندگی کہیں نہیں ملتا جوآپ کی تمثیلوں میں موجود ہے۔ اعمال کی کتاب میں مختلف رسولوں کی تقریریں لکھی ہیں ان میں ایک بھی تمثیل موجو دنہیں اورنہ اس قسم کے اقوال پائے جاتے ہیں جو آنخداوند کی زبانِ مبارک سے نکلے3.

ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ " منادی" (باب سوم) میں حضرت کلمتہ اللہ کی مبارک تعلیم کی نسبت ایک لفظ بھی موجو دنہیں ہے۔ اناجیل اربعہ میں باربار آیا ہے کہ سامعین آپ کی تعلیم سن کر" دنگ رہ جاتے تھے"۔ اورمخالفین تک اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ " انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا"(یوحنا ۷: ۴۶)۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی تعلیم رسولوں کی " منادی " کا غالب حصہ نہ تھی۔ اس کی صرف یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ یروشلیم اور ارضِ مقدس میں نہ صرف ایک بڑی تعداد اس تعلیم سے واقف تھی بلکہ یہ تعلیم تحریری صورت میں ایمان داروں کی جماعت میں مروج تھی۔ لیکن چونکہ اس رسالہ میں سیدنا مسیح کی تعلیم کے علاوہ اور کچھ نہ تھا لہٰذا رسولوں کی " منادی" اُن باتوں پر مشتمل تھی جو اس رسالہ میں نہ تھیں۔ اس قسم کی ضمنی باتوں سے بھی پتہ چلتاہے کہ آنخداوند کے زرین اقوال آپ کی حینِ حیات میں ہی لکھے گئے تھے اور وہ تحریری صورت میں موجود تھے۔

مقدس پولُس رسول کے خطوط سےبھی یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ کے پاس ’’رسالہِ کلمات‘‘ موجود تھا۔ جس میں آنخداوند کے کلمات اوراحکام موجود تھے(۱۔کرنتھیوں ۷: ۱۰، ۱۲، ۲۵؛ متی ۵: ۳۲؛ اعمال ۱۳: ۲۴؛ ۱۹: ۴؛ ۲۰: ۳۵ وغیرہ)۔ آپ کے خطوط (رومیوں ۱۲: ۱۴۔ ۲۱؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۱ وغیرہ)۔ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ’’رسالہِ کلمات‘‘ رسول مقبول کے ہاتھوں میں موجود تھا۔(۱۔کرنتھیوں کا ۱۳باب )درحقیقت آنخداوند کے کیر کٹر اورخصلت کا بیان ہے۔ آپ آیات ۴تا ۸ میں لفظ" محبت " کی بجائے لفظ " یسوع مسیح" پڑھیں تو آپ پر ظاہر ہوجائے گا کہ کس خوبی سے مقدس پولُس نے آنخداوند کی زندگی کا خاکہ کھینچا ہے اوراس زندگی سے محبت کا سبق پڑھا ہے۔مقدس پولُس بار بار آنخداوند کی حلیمی اورانکساری کا ذکر کرتاہے (۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۱؛ فلپیوں ۲: ۷۔ ۸؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۱ وغیرہ)۔ جس سے ظاہر ہے کہ (رسالہِ کلمات) جس میں (متی ۱۱: ۲۹) کا قول موجود ہے اُن کے ہاتھوں میں موجود تھا۔ آپ کے خطوط سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ’’رسالہِ اثبات‘‘ آپ کےہاتھوں میں تھا جس کا مفصل ذکرہم آگے چل کریں گے۔ یہ رسالہ " کلمات" کے مجموعہ کے بعدلکھا گیا تھا۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ مقدس پولُس اوردیگر رسولوں اورمبلغوں کے ہاتھوں میں رسالہ کلمات نہ ہو۔ ہم کو تعجب ہوتاہے جب کوئی کہتاہے کہ مقدس پولُس منجی جہان کی زندگی کے واقعات اورتعلیمات کی طرف سے بے نیاز تھے۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آپ کے خطوط میں منجی کی زندگی کے واقعات کا ذکر بہت کم پایا جاتا ہے لیکن یہ خطوط اس غرض کے لئے لکھے ہی نہیں گئے تھے۔ آپ کے زمانہ میں کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں یہ رسالے اورپارے موجود تھے جو قدیم کلیسیا میں مروج تھے ۔ پس ہم اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کہ رسولِ مقبول منجی عالمین کی زندگی اورواقعات سے واقف نہ تھے یا آپ کے نزدیک وہ بہت اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ رسول کی زندگی کے انقلابی واقعہ کا مرکز 4ہی یہ تھا کہ مصلوب گلیلی درحقیقت کون تھے اورکیا تھے اوردنیا میں آپ کی اہمیت دراصل کیا تھی۔ آپ کے خطوط سے ظاہر ہے کہ قدیم رسالے اوربالخصوص

______________________

1B.S. Easton, The Gospel before the Gospels (1928) p.41
2Vincent Taylor, Formation of the Gospel Tradition p.94
3Burkit, Gospel-History & Its Transmission p.195-196
4T.R. Glover, Paul of Tarsus p.205


رسالہِ کلمات آپ کےہاتھوں میں موجود تھا۔ پروفیسر برکٹ کا خیال 1ہے کہ پولُس رسول نے سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے اور عشائے ربانی کے جو بیان لکھے ہیں (۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۳) الخ اور(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۔ الخ) وہ تحریری صورت میں موجود تھے۔

حق تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خالی الذہن ہوکر اس سوال پر غور کرے کہ جس قسم کی تعلیم" رسالہِ کلمات" میں موجود ہے وہ کب احاطہ تحریر میں آئی ہوگی تو وہ یہ سمجھ سکتاہے کہ اس ماخذ کی تاریخ پنتیکوست کے بعد کی نہیں ہوسکتی کیونکہ مقدس پطرس کی تقریر صاف ظاہر کردیتی ہے کہ اس وقت رسولوں پر انجیل کا اصل منشا اور آنخداوند کی آمد کی علتِ غائی اورآپ کی صلیبی موت اور ظفریاب قیامت کا عقد ہ(بھید،راز) کھل گیا تھا اوران ایام میں مسیحیت صلیبی موت کی قربانی اورگناہوں سے نجات کی نیو پر پختہ طورپر کھڑی ہوچکی تھی۔ اگریہ رسالہ پینتکوست کے بعد لکھا جاتا تو یہ ناممکن تھاکہ اس میں نجات کی خوشخبری کا یہ طریقہ مذکور نہ ہوتا۔ شائد کوئی کہے کہ یہ رسالہ سیدنا مسیح کی قیامت اورعید پینتکوست کے درمیانی عرصہ میں لکھا گیا تھا لیکن یہ قیاس ایسا غیر معقول ہے کہ کسی نقاد نے پیش نہیں کیا۔ اس بیم ورجا کہ زمانہ میں کس کو یہ حوصلہ ہوسکتا تھا کہ ایسا رسالہ مرتب کرے جس کی فضا بلند معیار اوررنگ ڈھنگ رسالہِ کلمات کا ساہو۔

تمام امکانات پر غور کرکے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ رسالہِ کلمات صرف تب ہی لکھا جاسکتا تھا جب آنخداوند ابھی زندہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ مقدس لوقا جیسا محتاط مورخ اِ س رسالہ کو اپنے دیگر ماخذوں سے بھی زیادہ مستند اورمعتبر سمجھتا ہے اورانجیل اوّل کا مصنف بھی اس کو یکتا خیال کرکے استعمال کرتاہے۔اس رسالہ میں مقدس متی نے آنخداوند کے کلمات اورآنکھوں دیکھے اورکانوں سنے واقعات کو قلمبند کرلیا تھا اورانجیلِ اوّل اورسوم کے مصنف دونوں اس رسالہ کی سند کوقبول کرکے اپنے اپنے نکتہ نظر کے مطابق اس رسالہ کو اپنی اپنی ترتیب کے اختلاف کے مطابق اپنی انجیلوں میں لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں۔یہ رسالہ ایک طرف تو ایسی دستاویز تھی جو مشمولہ واقعات کی ہمعصر تھی۔ جس میں اُن شاگردوں کے تاثرات اورردِعمل کا ذکر تھا جو واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ اوردوسری طرف یہ کلمات اور واقعات تب احاطہ تحریر میں آگئے۔ جب یہ چشم دید گواہ ان الفاظ کی اہمیت اورواقعات کے مطالب ومعانی کو سمجھنا تو درکنار(علاوہ، جُدا) وہ اُن کے خواب وخیال میں نہ آئے تھے (یوحنا ۲: ۲۲؛ ۱۲: ۱۶؛ لوقا ۲۴: ۶۔ ۸؛ مرقس ۹: ۳۲؛ لوقا ۹: ۲۲؛ مرقس ۶: ۵۲؛ لوقا ۱۸: ۳۱۔ ۳۴ وغیرہ)۔ شاگردوں میں ابھی یہ صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ ان کلمات کو سمجھ سکیں جن کا تعلق صلیب کے ساتھ تھا یا اس واقعہ کے حقیقی مقاصد اوراصلی مطالب کو جان سکیں ۔ چنانچہ (متی ۱۶: ۲۱۔ ۲۳) کے واقعہ کے عین بعد(متی ۱۶: ۲۴۔ ۲۵ )آیات کا واقعہ سے یہ ثابت ہے۔ اسی طرح (لوقا ۹: ۴۴۔ ۴۵) کے بعدآیات ۵۴، ۵۶ ظاہر کرتی ہیں کہ آنخداوند اورآپ کے شاگردوں کے نکتہ نظر میں کتنا فرق تھا۔ع

بہ میں تفاوت راہ از کجا ست تاک بکجا۔

انجیل نویس رسالہِ کلمات کے مندرجہ اقوالِ خداوندی کے بعد اپنا نوٹ لکھتے ہیں " اس کی باتیں ان(شاگردوں ) کو یاآئیں"۔" انہوں نے ان میں سے کوئی بات نہ سمجھی اوریہ قول اُن پر پوشیدہ رہا اوران باتوں کا مطلب اُن کی سمجھ میں نہ آیا"۔ حضرت کلمتہ اللہ نے اُن کو بعض اقوال بولنے کے بعد ہی سمجھا دئیے(مرقس ۴: ۱۳، ۳۴ وغیرہ)۔ بعض کے مطلب کا اُن کو بعد کے واقعات کی روشنی میں پتہ چلا( مرقس ۷: ۱۸۔ ۱۹؛ اعمال ۱۰: ۱۴ ۔ ۱۵

______________________

1 Burkitt, Gospel-History & Its Transmission p.263


وغیرہ)۔ان الفاظ کا وجود ہی ان کی صحت کا ذمہ دار ہے اورشاگردوں کے اپنے پرانے خیالات کا آئینہ اور ان کےذہنی ارتقا کا شاہد ہے۔ ان باتو ں سے ثابت ہے کہ آنخداوند کے اقوال اُس وقت لکھے گئے تھے جب آپ نے فرمائے تھے1

(۴)

جب ہم رسالہِ کلمات کے مضامین پر نظر کرتے ہیں تو اس کی خصوصیات ہم پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کا دائرہ نظر، معہودِ ذہنی(وہ اسم نکرہ جوذہن متکلم یامخاطب میں معین ہو) اوراحساسات سب کے سب یہودی فضا اور یہودیت میں رنگے ہیں۔ دوم۔ اس رسالہ میں بتلایا گیا ہے کہ فریسیوں کے فرقہ میں اور آنخداوند میں باہمی آویزش(لڑائی ) رہتی تھی۔ اور سوم اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور مسائل معاد Exchatological سے متعلق ہے۔ اس رسالہ میں آنخداوند کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ خدا کی بادشاہی کے نبی کی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ یہ نبی ابنِ آدم ہے جو خداکی بادشاہی کو قائم کرنے کے لئے آنے والا ہے2

یہ رسالہ کلمات پانچ حصوں پر مشتمل تھا۔ اسی لحاظ سے بشپ پے پئس کی تفسیر بھی پانچ حصوں پر مشتمل تھی۔ پس نیسل Nestle کا یہ خیال درست معلوم ہوتاہے کہ بشپ مذکور کی تفسیر مقدس متی کے رسالہِ کلمات کے پانچ حصے تھے۔جس طرح تورات کی اور زبور کی کتابیں پانچ حصوں میں منقسم تھیں۔ یہ تقسیم اس حقیقت کو بھی ثابت کرتی ہے کہ مقدس متی نے اپنے رسالہ ِکلمات کو پانچ حصوں پر اس بنا پر تقسیم کیا تھا کیونکہ رسولوں کے نزدیک حضرت کلمتہ اللہ کی زبان کا ایک ایک لفظ کتُبِ تورات اور صحائف انبیاء کی طرح الہٰامی تھا۔ (یوحنا ۱۸: ۳۲؛ مرقس ۱۰: ۳۳؛ متی ۱۲: ۸، ۴۱۔ ۴۲؛ یوحنا ۱۸: ۹ ، ۱۳، ۱۸ وغیرہ)۔

جس طرح انبیائے سابقین کے صحابہ ان انبیاء کا کلام موقعہ اورمحل کا ذکر کئے بعیر جمع کیا کرتے تھے اسی طرح مقدس متی نے بھی رسالہِ کلمات میں سیدنا مسیح کے کلام معجز نظام کو جمع کیا اوران کا " شانِ نزول" نہ بتلایا۔ آپ نے یہ نہ لکھا کہ سیدنا مسیح نے فلاں موقعہ پر یا فلاں محل پر فلاں کلمات فرمائے تھے۔

چونکہ رسالہِ کلمات ایک مختصر رسالہ تھا جس میں صرف آنخداوند کے کلمات ہی درج تھے اور اس میں منجی جہان کی صلیبی موت اوردیگر سوانح حیات اور معجزات کا بیان نہ تھا اور مقدس متی اور مقدس لوقا نے اس رسالہ کے ایک ایک لفظ کو اپنی انجیلوں میں نقل کرلیا تھا ،لہٰذا جُوں جُوں وقت گذرتا گیا اس رسالہ کی نقلیں ہونی بند ہوتی گئیں۔

علاوہ ازیں قدیم زمانہ کے مسیحی صرف چند طوماروں کے ہی مالک ہوسکتے تھے۔ پس انہوں نے انجیل متی اورانجیل لوقا کے طوماروں کو ترجیح دی اوریہ رسالہ آہستہ آہستہ نقل ہونا بند ہوگیا اورایک زمانہ آیا جب یہ رسالہ ناپید ہوگیا3

______________________

1 W.M.Ramsay, The Oldest Written Gospel Expositor vol.111 May 1907
2W.C. Allen, Recent Criticism of Synoptic Gospels Exp.Times July, 1909 pp.455 ff.
3Filson, Origin of the Gospels. P.


فصل دوم

رسالہِ اثبات

ہم بابِ سوم میں بتلاچکے ہیں کہ ابتدائی ایام کی کلیسیا کے معلموں نے ایمان داروں کی جماعت کےایمان کی استقامت کے لئے ایک رسالہ مرتب کیا 1جس میں مختلف عنوانات کے ماتحت عہدِ عتیق کی کتابوں کی اُن آیات کو اکٹھا کیا گیا تھا جن کا ایک ہی موضوع تھا اور کہ یہ رسالہ اسی قسم کا تھا جس قسم کا بعد کے زمانہ میں بشپ سپرین2نے نظر ثانی کرکے تیار کیا تھا۔ جس سے متعدد لاطینی مصنفوں نے اقتباس کئے ہیں ان تمام وجوہ کے باعث ڈاکٹر ہیرس Dr. Harris جیسا عالم اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ رسالہ اگر قدیم ترین کتاب نہیں تو کم از کم قدیم تریم زمانہ سے متعلق ہے۔ اورانجیلی مجموعہ کی تمام کتُب سے پیشتر احاطہ تحریر میں آیا تھا اوراس کتاب کا اثر انجیل کی تقریباً ہر کتاب میں نظر آتاہے۔ اس عالم کے خیال میں یہ کتاب عہدِ عتیق کی نبوتوں پر مشتمل تھی اوراس مجموعہ کی بہتیری ایڈیشن ہوئیں اورہر ایڈیشن میں اُس سے پہلی ایڈیشن کی نظر ثانی کی گئی تھی ۔ جس میں بعض آیات کو خارج اوردیگر مقامات کا اضافہ کیا گیا تھا۔ ہم بابِ سوم میں بتلاچکے ہیں کہ اس قسم کے رسالہ کا قدیم ترین زمانہ میں مرتب کیا جانا ایک قدرتی بات بھی تھی۔ دوسری صدی کے اوائل میں جسٹن شہید نے اپنی کتاب " اپالوجی" کی بنیاد بھی عہدِ عتیق کی نبوتوں پر رکھی تھی اور دیگر آبائے کلیسیا نے بھی تبلیغ کا یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔

اس فصل میں ہم اس رسالہ کے مضامین پر مفصل بحث کریں گے ۔

جب ہم انجیلی مجموعہ کی کتُب پر ایک غائر(گہری) نظر ڈالتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ انجیل کے بعض مقامات میں عہدِ عتیق کی کتُب کا اقتباس کرنے سے پہلے انجیل کے بعض مولف ایک خاص فارمولا یامقرری الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلا " جیسا نبی کی معرفت کہا گیا تھا " وغیرہ ۔ لیکن انجیلی مجموعہ کی کتب میں متعدد مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ ظاہر ہے کہ مصنف کا منشاء اقتباس کرنے کا ہے لیکن اقتباس کرنے سے پہلے وہ کوئی خاص فارمولا استعمال نہیں کرتا ۔ بعض اقتباسات لفظ بلفظ یونانی ترجمہ سپٹواجنٹ سے ملتے ہیں لیکن دیگر اقتباسات سیدھے عبرانی اصل متن سے ترجمہ کئے گئے ہیں۔ بعض مقامات سے ظاہر ہے کہ وہ توضیح (شرع وضاحت)کی خاطر اقتباس کئے گئے ہیں۔ دیگر مقامات میں عہدِ عتیق کی کسی کتاب کی جانب صرف اشارہ ہی پایا جاتاہے۔

عہدِ عتیق کی کتب کے چند مقامات حسب ذیل ہیں3

(۱۔) (زبور ۲: ۷) یہ آیت اناجیل میں (مرقس ۱: ۱۱؛ ۹: ۷؛ متی ۳: ۱۷؛ لوقا ۳: ۲۲ )اور اناجیل کے باہر( اعمال ۱۳: ۳۳ ؛ عبرانیوں ۱: ۵؛ ۵: ۵) میں پائی جاتی ہے ۔اس سے ظاہرہے کہ عہدِ جدید کی کتابوں کے تین مختلف مصنف (جن کا ایک دوسرے کی تصنیفات سے قطعاً کوئی متعلق نہیں ) (زبور ۲: ۷ )کا استعمال کرتے ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کتابوں کے لکھے جانے سے بہت پہلے یہ آیت مسیح موعود کے ثبوت میں پیش کی جاتی تھی۔

______________________

1Bishop Blunt, St. Mark, (Clarendon Bible 1935).11
2Cyprian’s Testimony against the Jews
3C.H. Dodd, According to the Scripturess (1935)


(۲۔) (زبور ۸: ۴۔ ۶) کا اقتباس (عبرانیوں ۲: ۶۔ ۸ )(جس کے الفاظ سپٹواجنٹ ترجمہ کے مطابق ہیں )۔( ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۷؛ افسیوں ۱: ۲۲؛ فلپیوں ۳: ۲۱؛ ۱۔پطرس ۳: ۲۲) میں پایا جاتاہے ۔ ۱۔پطرس کے خط کا اقتباس خاص طور پر غور طلب ہے۔ کیونکہ وہ مقدس پولُس یا عبرانیوں کے خط کے مصنفوں کی تشریح کو جو وہ اس آیت کی کرتے ہیں نہیں لیتا۔ بلکہ وہ اس زبور کی مقبولِ عام تفسیر کا قائل ہے۔ پس یہ تینوں مختلف مصنف اس زبور کی آیات کو اپنے اپنے مطلب کو ظاہرکرنے کے لئے ثبوت کے طورپر پیش کرتے ہیں تاکہ ہر کس وناکس یہ جان لے کہ" مسیح کو دکھ اٹھا کر جلال میں داخل ہونا ضرور تھا"(لوقا ۲۴: ۲۶) پس ظاہر ہے کہ ان مصنفوں کی تحریرات سے بہت پہلے کلیسیا کے معلم ان آیات کو اس غرض کے لئے پیش کرتے تھے۔

(۳۔)(زبو ۱۱: ۱ )اس آیت کا اقتباس نہ صرف انجیل (مرقس ۱۲: ۳۶ )میں کیا گیا ہے بلکہ (اعمال ۲: ۳۴ تا ۳۵ )(جس کے الفاظ سپٹواجنٹ کے مطابق ہیں ) اور(عبرانیوں ۱: ۱۳ )میں کیا گیا ہے۔ لیکن عہدِ جدید کی کتب میں اس آیت کی جانب متعدد مقامات میں اشارے موجو دہیں (مثلاً (مرقس ۱۴: ۶۲؛ اعمال ۷: ۵۵؛ رومیوں ۸: ۳۴؛ افسیوں ۱: ۲۰؛ کلسیوں ۳: ۱ ؛ عبرانیوں ۱: ۳؛ ۸: ۱؛ ۱۰: ۱۲؛ ۱۲: ۲ ؛۱۔پطرس ۳: ۲۲) ۔ ظاہر ہے کہ یہ آیہ شریفہ رسولوں کی " منادی" کی بنیادی آیت تھی ۔پس مقدس مرقس، مقدس لوقا ، مقدس پولُس اورعبرانیوں اور۱۔پطرس کے خطوط کے مصنف مختلف مقامات میں اس آیت کا اقتباس کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ان اناجیل کے احاطہ تحریر میں آنے سے پہلے یہ رسالہ لکھاگیا تھا۔

(۴۔) (زبور ۱۱۸: ۲۲۔ ۲۳)۔ ان آیات کو مقدس مرقس(۱۲: ۱۰۔۱۱) استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے الفاظ یونانی ترجمہ سپٹواجنٹ کے مطابق ہیں۔ علاوہ ازیں ان آیات کا اقتباس (اعمال ۴: ۱۱؛ ۱۔ پطرس ۲: ۷) میں کیا گیا ہے۔ پس تین مختلف گواہ اس بات کے شاہد ہیں کہ انجیلی مجموعہ کے وجود میں آنے سے پہلے ان آیات کو اس غرض کے لئے پیش کیا جاتا تھا۔

(۵۔) (یسعیاہ ۶: ۹۔ ۱۰) کا اقتباس اناجیل میں موجود ہے۔ لیکن انجیل اول (متی ۳: ۱۴۔ ۱۵)کے الفاظ یونانی ترجمہ سپٹواجنٹ کے مطابق ہیں۔ انجیلِ چہارم کے الفاظ۱۲: ۴۰ سپٹواجنٹ سے مختلف ہیں ۔ انجیل دوم(مرقس ۴: ۱۲ )کے الفاظ مقدس یوحنا کے الفاظ اور سپٹواجنٹ دونوں سے مختلف ہیں۔ مقدس لوقا بھی ان آیات کا اقتباس کرتے ہیں (اعمال ۲۵: ۲۵۔ ۲۷) الفاظ کے اختلاف سے یہ ظاہر ہے کہ یہ مصنف ایک دوسرے سے نقل نہیں کررہے بلکہ ایک مقام کے تین مختلف اقتباسات نقل کررہے ہیں ۔ جس سے ظاہر ہے کہ قدیم ترین زمانہ میں کلیسیا اس آیت کا استعمال کرتی تھی ، جب اہل یہود نے نجات کے پیغام کو قبول نہ کیا تاکہ اس آیت کی سند سے وہ یہ ثابت کرے کہ انجیل جلیل کی منادی غیر یہود میں کی جائے گی۔

(۶۔) (یسعیاہ ۵۳: ۱ )کا اقتباس انجیل (یوحنا ۱۲: ۳۸ )میں کیا گیا ہے جس کے الفاظ سپٹواجنٹ کے مطابق ہیں اور مقدس پولُس بھی اس آیت کا ذکر رومیوں کے خط ۱۰: ۱۶ میں کرتے ہیں۔

(۷۔) (یسعیاہ ۴۰: ۳۔ ۵) کا اقتباس تین انجیلوں یعنی( لوقا ۳: ۴۔ ۶؛متی ۳: ۳ ؛یوحنا ۱: ۲۳) میں پایا جاتاہے۔ انجیل چہارم کے اقتباس کے الفاظ سپٹواجنٹ کے متن سے مختلف ہیں ۔ ان اقتباسات سے ظاہرہے کہ اناجیل اربعہ کے احاطہ تحریر میں آنے سے پہلے کلیسیا ان آیات کو اسی مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی۔

(۸۔) (یسعیاہ ۲۸: ۱۶؛ ۸: ۱۴ )۔ یہ دونوں مقامات( ۱۔پطرس ۲: ۶۔ ۸) میں موجود ہیں لیکن ان کے الفاظ سپٹواجنٹ سے مختلف ہیں ان آیات کا اقتباس (رومیوں ۹: ۳۳) میں بھی ہے۔


(۹۔) (پیدائش ۱۲: ۳؛ ۲۲: ۱۸) ۔ یہ دونومقامات (اعمال ۳: ۲۵ اورگلتیوں ۳: ۸) میں یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ غیر یہود خدا کی بادشاہت میں داخل ہوکر برکت پائیں گے جس سے ظاہر ہے کہ قدیم زمانہ ہی سے ابتدائی کلیسیا اس غرض کے لئے ان آیات کو استعمال کرتی تھی۔

(۱۰۔) ( یرمیاہ ۳۱: ۳۱۔ ۳۴)۔ ان آیات کااقتباس عبرانیوں کے خط (عبرانیوں ۸: ۸۔ ۱۲) میں کیا گیا ہے اوراس کے لفظ ترجمہ سپٹواجنٹ کےمطابق ہیں۔ ان آیات کی طرف( ۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۵ )میں اشارہ کیا گیا ہے اور( ۲۔کرنتھیوں ۳باب) میں ان آیات سے استد لال کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ قدیم ترین زمانہ کی کلیسیا ان آیات کو کس کس مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی۔

(۱۱۔) (یوایل ۲: ۲۸۔ ۳۲) کا اقتباس (اعمال ۲: ۱۷۔ ۲۱، ۳۹) میں کیا گیا ہے۔ اوران آیات کا ذکر (رومیوں ۱۰: ۱۳) میں بھی آیا ہے۔ان آیات کا زبردست اثر ابتدائی کلیسیا کے اُن خیالات پر پڑا جن کا تعلق آنخداوند کی آمدِ ثانی کے ساتھ ہے۔ ملاحظہ ہو(لوقا ۲۱: ۲۵ ؛مکاشفہ ۹: ۲)۔

(۱۲۔) (زکریاہ ۹: ۹ )کا اقتباس انجیل (متی ۲۱: ۵ ؛ یوحنا ۱۲: ۱۵) میں کیا گیا ہے ۔ ان دونوں مقامات کا متن یونانی ترجمہ سپٹواجنٹ سےمختلف ہے۔ یہ حقیقت اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ یہ دونوں انجیل نویس ایک دوسرے کے مرہونِ منت نہیں ہیں بلکہ ان اناجیل کے احاطہ تحریر میں آنے سے بہت پہلے قدیم زمانہ کے معلم اوراستاد اس آیہ شریفہ کا استعمال کرتے تھے۔

(۱۳۔) (حبقوق ۲: ۳) کا اقتباس عبرانیوں کے خط(۱۰: ۳۷تا ۳۸) میں اور مقدس پولُس کے دوخطوط ،(رومیوں ۱: ۱۷؛ گلتیوں ۳: ۱۱ ) میں کیا گیا ہے اورلطف یہ ہے کہ مقدس پولُس کا ترجمہ یونانی سپٹواجنٹ کے متن سے اور عبرانیوں کے خط کے الفاظ سے دونوں سے مختلف ہے۔ یہ امر ثابت کرتاہے کہ قدیم کلیسیا کے معلموں کا مجموعہ اصل عبرانی زبان میں تھا اوربعد کے زمانہ میں مختلف مصنفین نے حسبِ ضرورت ان آیات کا اپنے اپنے علم کے مطابق یونانی میں ترجمہ کیا۔

(۱۴۔) (یسعیاہ ۴۱: ۱۔۲)کا اقتباس انجیل (لوقا ۴: ۱۸۔ ۱۹) میں کیا گیاہے جو عام طورپر یونانی سپٹواجنٹ کے مطابق ہے۔ اسی آیت کا اقتباس (اعمال ۱۰: ۳۸ )میں بھی موجود ہے۔

(۱۵۔) (استثنا ۱۸: ۱۵۔ ۱۹) کا اقتباس لوقا نے( اعمال ۳: ۲۲۔ ۲۳) میں کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قدیم ترین زمانہ میں رسول اورمعلم ان آیات سے سیدنا مسیح کا مسیح موعود ہونا ثابت کیا کرتے تھے۔

ہم نے اُوپر کی پندرہ آیات کو بطور مشُتے نمونہ ازخروارے (مٹھی بھر)پیش کیا ہے تاکہ ناظرین پر ظاہر ہوجائے کہ انجیلی مجموعہ کی کتُب کے مصنفین اُن آیات کو اوراسی قسم کی دوسری آیات کو اپنے مطالب اورمقاصد کو سمجھانے کے لئے پیش کرتے ہیں جو ان کے لکھنے سے پہلے ہی کلیسیاؤں میں مروج تھیں۔s


(۲)

(۱۔) جب ہم مذکورہ بالا آیات کے اقتباسات پر نظر کرتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ قدیم ترین کلیسیا کے معلموں کے " رسالہ اثبات" کا نفس مضمون کیا تھا اوراس زمانہ کے معلم ، مبلغ اور مبشران آیات کو کن کن اغراض اور مقاصد کی خاطر استعمال کرتے تھے ان اقتباسات سے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ رسالہ مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں مروج تھا۔ اوراناجیل اربعہ کے لکھے جانے سے پیشتر عام مقبولیت حاصل کرچکا تھا۔

(۲۔) جب انجیلی مجموعہ کی کتُب کے مصنف اس رسالہ کی آیات کا اقتباس کرتے ہیں تو وہ کسی خاص یونانی ترجمہ کا اقتباس نہیں کرتے ۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ اس رسالہ کی آیات کا متن یونانی زبان میں نہ تھابلکہ یہ رسالہ اصل عبرانی آیات کا مجموعہ تھا اور عبرانی زبان میں ہی مختلف مقامات کی کلیسیاؤں کے معلموں کے ہاتھوں میں تھا۔

(۳۔) جب ہم اقتباسات پر نظر کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ مصنف اقتباس کرتے وقت کسی آیت کے تمام الفاظ کا اقتباس کرنا ضروری خیال نہیں کرتا۔ اگرایک مصنف کسی آیت کے پہلے حصے کا اقتباس کرتاہے تو دوسرا مصنف اسی آیت کے دوسرے حصے سے استدلال کرتاہے۔ کسی مصنف کا اقتباس طویل ہے ، کسی کا کم اورکسی کا بالکل مختصر ہے۔مثال کے طورپر (زبور ۶۹: ۹) کو (جس کا مندرجہ بالا آیات میں ذکر نہیں کیا گیا ) لے لیں۔ مقدس یوحنا اس آیہ شریفہ کے پہلے حصہ کا اقتباس(یوحنا ۲: ۱۷) میں کرتاہے ۔ لیکن مقدس پولُس اسی آیت کے پہلے حصے کا اقتباس نہیں کرتا۔ لیکن دوسرے حصہ کا اقتباس (رومیوں ۱۵: ۳) کرتا ہے۔ دونوں مصنف الفاظ " لکھا ہے" استعمال کرتے ہیں۔دونوں دلیل دیئے بغیر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان الفاظ کا اطلاق سیدنا مسیح پر ہے۔یہ دونوں مصنف ایک دوسرے کی تصنیفات سے ناواقف ہیں کیونکہ پولُس رسول نے رومیوں کا خط ۵۶ء میں لکھا تھا۔ جس سے ثابت ہے کہ دونوں مصنف قدیم ترین کلیسیا کے اس نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیہ شریفہ میں مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے حالانکہ اہلِ یہود اس زبور کو" مسیحائی" مزامیر میں شامل نہیں کرتے تھے ۔ لیکن قدیم کلیسیا اس زبور کو آنخداوند کی طرف منسوب کرتی تھی چنانچہ اناجیل (یوحنا ۱۵: ۲۵؛ متی ۲۷: ۳۴؛ مرقس ۱۵: ۳۶ ؛اعمال ۲: ۲۰)۔ دونوں سے ظاہر ہے کہ قدیم زمانہ میں کلیسیا اس زبور کو ثبوت کے طورپر پیش کرتی تھی۔ اسی طرح مذکورہ بالا دیگر آیات کے اقتباسات سے بھی ظاہر ہے کہ انجیلی مجموعہ کے مصنفوں کا مقصد محض یہ نہ تھا کہ عہدعتیق کی آیات کے اقتباسات پر ہی اکتفا کیا جائے بلکہ اُن کا مقصد یہ بتلانا بھی تھا کہ ان آیات کا اصل مفہوم کیا ہے اورمسیح موعود کے آنے سے عہدِ عتیق کی تمام نبوتیں پوری ہوجاتی ہیں کیونکہ وہ سب اشارات ہیں جو سیدنا مسیح کے حق میں پورے ہوئے۔

(۴۔) ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ مذکورہ بالا پندرہ آیات کا تعلق رسولوں کی " منادی کے نفس "مضمون کے ساتھ ہے۔ جس کا ذکر باب سوم میں کیا گیا ہے ۔ قدیم ترین معلم رسولوں کی " منادی" کی " نیو" پر عہدِ عتیق کی آیات کی عمارت رکھتے ہوئے کہ سیدنا عیسیٰ ناصری مسیح موعود ہوکر آئے اورآپ کی آمد سے تمام یہود پر آپ کے قول کا صحیح مطلب ظاہر ہوجائے کہ میں" توریت اورنبیوں کی کتابوں کو پورا کرنے آیا ہوں"۔

(۳)

اس باب کی فصلوں میں ہم نے اناجیل اربعہ کے صرف دوتحریری ماخذوں کا بیان کیا ہے تاکہ ناظرین پر ظاہر ہوجائے کہ اناجیل کے مصنفوں نے لکھتے وقت صرف ایسے ماخذوں کا ہی استعمال کیا تھا جو قدیم ترین تھے اور جن کا پایہ اعتبار تمام کلیسیا ؤں میں مسلم تھا۔


یہ دو ماخذ ایسے ہیں جن کو چاروں کے چاروں انجیل نویسوں نے استعمال کیا تھا لہذا ان کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انجیل نویسوں کے سامنے بہت سے ماخذ اوربھی تھے۔ جن کو " انہوں نے شروع سے خوددیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے ترتیب وار " لکھا تھا (لوقا ۱: ۱تا ۴)۔

پس ہزارہا چشم دید گواہوں کے زبانی اور تحریری بیانات ارضِ مقدس کے طول وعرض میں مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں پھیلے ہوئے تھے۔

پہلے پہل جو مجموعے چشم دید گواہوں نے آنخداوند کے کلمات اور سوانح حیات کے لکھے وہ سب شخصی ، ذاتی اور انفرادی قسم کے تھے۔ وہ لوگوں کے اپنے رنج کے مجموعے تھے۔ ان کو کلیسیا کی طرف سے مستند قرار نہیں دیا گیا تھا اورنہ کسی رسول کی مہُر اُن پر ثبت تھی۔ اس بات پر انجیل سوم کا دیباچہ گوا ہے۔چاروں انجیل نویسوں نے نہایت کاوش اورجانشفانی سے اُن مقامات کا دورہ کیا ، جہاں کی کلیسیاؤں میں معتبر بیانات مروج تھے اور ان بیانات کی اُن لوگوں کے ذریعہ جو " شروع سے خوددیکھنے والے اورکلام کے خادم" تھے خوب چھان بین کی اور جانچ پڑتال کے بعد ان انجیل نویسوں نے " مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ترتیب" سے لکھیں۔ اُن کو اس بات کا خوب احساس تھاکہ کسی قول یا فعل کو حضرت کلمتہ اللہ کی ذات سے منسوب کردینا بڑی ذمہ داری کا کام ہے جس کو وہ بے باکانہ انجام نہیں دے سکتے ۔ خدا نے ان کی مساعی جمیلہ کو باور کیا۔ اگلے ابواب میں ہم دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ کہ ہر انجیل نویس نے مندرجہ بالا دو تحریری ماخذوں کے علاوہ اورایسے ماخذ بھی بہم پہنچائے جو دورِ اوّلین میں معتبر ترین تھے اورجن کا پایہ صحت نہایت مسلم تھا۔ ہر انجیل نویس نے مندرجہ بالا دوتحریری ماخذوں کے علاوہ اورایسے ماخذ بھی بہم پہنچائے جو دورِ اوّلین میں معتبر ترین تھے اورجن کا پایہ صحت نہایت مسلم تھا۔ ہر انجیل نویس کے ایسے ماخذ صرف اسی کی انجیل میں پائے جاتے ہیں۔ ہم ان ماخذوں کا مفصل ذکر ہر انجیل کی تالیف کے تحت کریں گے۔


حصّہ دوم

جمع وتالیفِ اناجیل (از ۴۰ء تا ۶۰ء)

باب اوّل

انجیل مرقس کی تالیف

فصل اوّل

انجیلِ مرقس کے ماخذ

ہم حصہ اول کے باب پنجم کی پہلی فصل کے شروع میں بزرگ بشپ پے پئس کا ذکر کرآئے ہیں۔ یہ بزرگ فرگیہ کے ہائراپولس(ایشیائے کوچک)کے دوسری صدی کے پہلے نصف میں بشپ تھے اورسمرنا کے بشپ شہیدپولی کارپ کے (جومقدس یوحنا کے شاگرد تھے) دوست تھے۔وہ فلپس مبشر کے بیٹیوں سے ملے تھے جن کا ذکر (اعمال ۲۱: ۹) میں ہے۔ وہ قیصر M.Aurelius مارکس آریلیس کے زمانہ میں ۱۵۵ء کے قریب شہید ہوئے ۔ اُنہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام " تفسیر کلماتِ خداوندی" Exposition of the Qneclecs the Lord ہے۔ اس کتاب کے چند حصے مورخ یوسی بیئس کی کتاب " تواریخ کلیسیا" Ecclesiastical History میں پائے جاتے ہیں جو قسطنطین اعظم کے زمانہ میں لکھی گئی تھی اس میں بشپ پے پئس کی کتاب سے مرقس کی انجیل کی نسبت حسب ذیل اقتباس ہے1

"اور وہ ایلڈر (پریسبٹر یوحنا کے قول کی یہ بشپ نقل کرتے ہیں) یہ کہا کرتے تھے کہ مرقس ،پطرس کا ترجمان تھا۔ اس نے صحت کے ساتھ جہاں تک اس کو یاد تھا وہ باتیں لکھیں جو سیدنا مسیح نے کہی تھیں یا کی تھیں لیکن ترتیب سے نہیں۔ کیونکہ نہ تو اس نے سیدنا مسیح کی باتوں کو سنا تھا اور نہ وہ سیدنا مسیح کا شاگرد تھا۔ لیکن جیسا میں کہہ چکا ہوں وہ بعد میں پطرس کا شاگرد تھا۔ پطرس حسبِ موقعہ اپنے سامعین کی ضروریات کے مطابق تعلیم دیا کرتا تھا۔ اس کا یہ ارادہ نہ تھا، کہ وہ سیدنا مسیح کے خطبات کو سلسلہ وار ربط دے کر ترتیب سے بیان کرے۔ مرقس نے اُن باتوں کولکھتے وقت جو اُس کو یاد تھیں کوئی غلطی نہ کی ۔ کیونکہ اس نے ایک بات کی خاص احتیاط کی کہ کوئی چیز جو اس نے سنی تھی قلم انداز نہ ہوجائے اور کسی بات میں غلط بیانی نہ ہو"۔

______________________

1 Eusebius, Ecclesiastical History Bk.111.39


اس اقتباس میں صرف پہلا فقرہ ایلڈر کی زبان کا ہے۔ باقی فقرے بشپ پے پئس کے اپنے ہی 1

مرقس کی انجیل کی نسبت یہ قدیم ترین روایت ہے اوراس کے بعد کی کلیسیائی روایات بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس انجیل میں مقدس پطرس کی منادی کا نفس مضمون پایا جاتاہے ۔ اعمال کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا کے آغاز ہی سے مقدس مرقس مقدس پطرس کے ساتھی تھے(اعمال ۱: ۱۳) اور ۴۴ء سے پہلے پطرس رسول قید خانہ سے رہائی پانے کے بعد مرقس کے گھر میں آئے تھے جہاں ایمانداروں کی جماعت دعا کیا کرتی تھی(اعمال ۱۲: ۱۲)۔ دونوں کا تعلق مدت قائم رہا (۱۔پطرس ۵: ۱۳)۔

ایسا معلوم ہوتاہے کہ مقدس مرقس اوراس کا خاندان آنخداوند سے صلیبی واقعہ سے پہلے بھی واقف تھا (مرقس ۱۴: ۱۲۔ ۱۶)۔اور خود مقدس مرقس آنخداوند کی صحبت سے فیض یاب ہوچکا تھا اوربعض واقعات کا چشم دید گواہ بھی تھا ۔(مرقس ۱۴: ۱۵، ۵۱۔ ۵۲)۔ اس کی ماں کا گھر، یروشلیم کے شہر میں ابتدائی شاگردوں اورایمانداروں کے اکٹھے ہونے کی جگہ تھی۔ پس مقدس مرقس کو آنخداوند کے چشم دید گواہوں سے ملنے اور ان سے حالات کا پتہ لگانے کے بے شمار موقعے ۳۰ء سے ۴۳ء تک حاصل تھے2۔ وہ تین رسولوں کے ساتھی رہ چکے تھے اورآخر تک پولُس رسول کے ساتھ تھے (کلسیوں ۴: ۱۰)۔ آپ برنباس کے رشتے کے بھائی اوراس کے ساتھ تبلیغ کا کام کررہے تھے(اعمال ۱۲: ۲۵؛ ۱۵: ۳۹)۔ آپ ایمان میں مقدس پطرس کے بیٹے تھے (۱۔پطرس ۵: ۱۳)۔

بشپ پے پئس کی روایت کے الفاظ" لیکن ترتیب سے نہیں " کا صحیح مطلب کیا ہے؟ اس انجیل کی ترتیب ایسی صحیح ہے کہ جیسا ہم آئندہ ثابت کردیں گے ۔ مقدس لوقا اورمقدس متی اپنی اناجیل کی ترتیب کو اسی انجیل کی ترتیب کی بنا پر رکھتے ہیں۔

قرائن(قرینہ کی جمع، طور طریقہ) سے پتہ چلتاہے کہ مقدس مرقس نے اس ترتیب کو مقدس پطرس سے حاصل کیا تھا کیونکہ مقدس پطرس رسول کی یہ عادت تھی کہ آپ واقعات " شروع سے ترتیب وار بیان" کیا کرتے تھے(اعمال ۱۱: ۴؛ ۱: ۲۱ وغیرہ)۔ پس تینوں اناجیل کی متفقہ اندرونی شہادت ان الفاظ کے خلاف ہے۔ممکن ہے کہ ان الفاظ کا مطلب یہ ہو3کہ اس میں تاریخ وار وہ واقعات درج نہیں ہیں جو سیدنا مسیح کی سہ سالہ (تین سال) خدمت میں یروشلیم میں پیش آئے تھے اورجن میں سے چند ایک کا ذکر چہارم میں پایا جاتاہے ۔

پروفیسر برکٹ 4کہتا ہے کہ بادی النظر(دیکھتے ہی، سرسری نظر سے) میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ مقدس مرقس نے پہلی ترتیب وار انجیل کا بیڑا اٹھایا اوراس بات کی پہلے کوشش کی کہ سیدنا مسیح کی زندگی کے واقعات کو یکجا کرکے لکھے۔ اگریہ درست ہے توظاہر5ہے کہ اس انجیل کے ماخذ متفرق قسم کے الگ الگ پارے ہوں گے جو اس انجیل کے لکھے جانے سے بہت پہلے احاطہ تحریر میں آچکے تھے۔ اس انجیل کے ماخذ قدیم زبانی بیانات پر ہی مشتمل نہ تھے بلکہ یہ کتاب اُن زبانی بیانات اور تحریری ماخذوں سےبنائی گئی ہے جوسب کے سب ابتدائی درجہ اورپایہ رکھتے ہیں جن میں بعد کے زمانہ کے کلیسیائی

______________________

1 A.W.F Blunt, St. Mark (Clarendon Bible 1935) p.27
2Ibid.p.65
3Streetor, Four Gospels p.20
4Burkitt, Earliest Sources of the Life of Jesus .p.83
5A.W.F. Blunt ,St. Mark, pp.42-43


رحجانات اوردینا مسائل کے میلانات کا وجود تک نہیں پایا جاتا۔ اس کی بنیاد ارضِ مقدس کی ابتدائی کلیسیا اوراس کا تاروپود(تانا بانا) عینی شہادت سے بنا ہے جس کا تعلق دورِ اوّلین سے ہے۔

ہم حصّہِ اوّل کےباب پنجم کی فصل اوّل میں بتلا چکے ہیں کہ رسالہ کلمات جو آنخداوند کے جیتے جی لکھا گیا تھا۔ ابتدائی کلیسیا کے ہاتھوں میں موجود تھا ۔ پس یہ رسالہ مقدس مرقس کا ایک نہایت معتبر ماخذ تھا۔ چنانچہ اس رسالہ کے مضامین اورانجیل دوم کے مضامین کامقابلہ کرنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ مقدس مرقس نے حسب ذیل مقامات اس رسالہ سے نقل کئے ہیں ۔1

(۱۔) (مرقس ۱: ۴۔ ۱۳)۔ یہ مقام( متی ۳باب ؛ ۱۴: ۱۱ ؛ لوقا ۳: ۱۔ ۷ ؛ ۲۱: ۲۲ )میں پایا جاتا ہے ۔ اس میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کو احوال اور سیدنا مسیح کی آزمائشوں کا حال موجود ہے۔

(۲۔) (مرقس ۳: ۲۲۔ ۳۰)۔ یہ مقام( متی ۹: ۳۴؛ ۱۲: ۲۴ ۔ ۳۷ ؛ لوقا ۱۱: ۱۵۔ ۲۶)۔ میں پایا جاتاہے اس میں بعل زبول کا ذکر ہے جس کا مقدس مرقس نے اختصار کیا ہے۔

(۳۔) باب چہارم بالخصوص آیات( ۲۱۔ ۲۵ جو لوقا ۸: ۱۶۔ ۱۸؛ ۱۲: ۲؛ ۶: ۳۸ ؛متی ۵: ۱۵ ؛ ۱۰: ۲۶؛ ۷: ۲؛ ۱۳: ۱۲ )میں پائی جاتی ہیں ۔2

(۴۔)(مرقس۶: ۷۔ ۱۳)۔ یہ مقام (متی ۱۰: ۱۔ ۵؛ لوقا ۹: ۱۔ ۵؛ ۱۰: ۴۔ ۱۲) میں ملتا ہے جہاں بارہ(۱۲) رسولوں کو ہدایات دی گئی ہیں۔

(۵۔) (مرقس ۸: ۱۵ ؛ لوقا ۱۲: ۱ ؛متی ۱۶: ۶) میں پائی جاتی ہیں۔

(۶۔) ۸: ۱۰: ۳۵۔ ۴۰)۔

(۷۔) (مرقس۹: ۳۳۔۳۷، ۴۱۔۵۰)۔

(۸۔) (مرقس ۱۰: ۳۵۔۴۰)۔

(۹۔) (مرقس ۱۲: ۳۸۔ ۴۰؛متی ۲۳: ۱۔ ۳۶ ؛ لوقا ۲۰: ۴۵ ۔ ۴۷ )میں ملتاہے ۔ اس میں فریسیوں پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے ۔

(۱۰۔) (مرقس ۱۳: ۹۔ ۱۳)۔

مذکورہ بالا مقامات کل دس ہیں جہاں علماء کے خیال میں مقدس مرقس نے رسالہ کلمات سے اخذ کئے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے قریباً ساٹھ آیات سے زیادہ نقل نہیں کیں۔ لیکن جب ہم اس انجیل کو پڑھتے ہیں تو ہم کو جابجا اس قسم الفاظ ملتے ہیں " یسوع نے گلیل میں آکر خدا کی خوشخبری کی منادی کی "(مرقس۱: ۱۵)۔" وہ عبادت خانہ میں تعلیم دینے لگا اور لوگ اس کی تعلیم سے حیران ہوئے"(مرقس۱: ۲۱) " وہ ان کو کلام سنارہا تھا" (مرقس۲: ۲) " بھیڑ اُس کے پاس ۔۔۔۔آئی اور وہ ان کو تعلیم دینے لگا"(مرقس۲: ۱۳)" وہ جھیل کے کنارے تعلیم دینے لگا(مرقس۴: ۱)۔ " وہ ان کو تمثیلوں میں بہت سی باتیں سکھلانے لگا"(مرقس۴: ۳) وہ ان کو بہت سی تمثیلیں دے دے کر اُن کی سمجھ کے مطابق کلام سناتا تھا (مرقس۴: ۳۳) وہ چاروں طر ف کے گاؤں میں تعلیم دیتا پھرا"(مرقس۶: ۶) "وہ اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا"(مرقس۶: ۳۵)۔ وغیرہ

______________________

1Bishop Rawlinson’s Commentry on Mark. See also Oxford Studies in the Synoptic Problem p.412
2Oxford Studies in the Synoptic Problem pp.xxi 176 & Burney, Poetry of Our Lord p.8 Gores Commentary on N.T.p.39


وغیرہ۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ آنخداوند شہروں ، قصبوں اورگاؤں میں " عبادت خانوں میں جھیل کے کنارے غرض یہ کہ ہر جگہ تعلیم دیتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ انجیل نویس آپ کی تعلیم کی کل(۶۰) ساٹھ آیات سےزیادہ نقل نہیں کرتا اور" بہت سی تمثیلوں" میں صرف تین چارتمثیلوں کے ذکر پر ہی کفایت کرتاہے۔ یہاں تک کہ وہ سیدنا مسیح کی دعا کا ذکر بھی نہیں کرتا اورنہ اُس کی انجیل میں سیدنا مسیح کے خصائل مثلاً حلیمی، انکساری اور محبت کے اقوال کا ذکر پایا جاتاہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ اُن باتوں کو اہم خیال نہ کرتا ہو۔

اس کی وجہ بجز(سوا، بغیر) اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ جب مقدس مرقس نے اپنی انجیل تصنیف کی تو ایمانداروں کے ہاتھوں میں "رسالہ کلمات" موجود تھا۔ پس آپ نے حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کو مفصل نہ لکھا بلکہ مشتے نمونہ ازخروارے آپ کی تعلیم اور تمثیلیں بطور نمونہ درج کریں۔ قریباً تمام علماء اس بات پر متفق ہیں 1کہ رسالہ کلمات مقدس مرقس کی انجیل سے پہلے لکھا گیا تھا اوریہ قدرتی بات بھی ہے کیونکہ ہر شخص یہ ماننے کو تیار ہوگاکہ آنخداوند کی تعلیم پہلے پہل احاطہ تحریر میں آئی ہوگی اوراس کے بعد آپ کی زندگی کے واقعات لکھے گئے ہوں گے۔ چنانچہ ڈاکٹر رابنسن Dr.A.T.Robinson کہتاہے کہ مقدس متی نے رسالہ کلمات کو انجیل مرقس کی تصنیف سے کم از کم بیس(۲۰) سال پہلے لکھا تھا۔ بشپ 2بلنٹ کہتے ہیں

" مرقس کی انجیل غالباً اسی واسطے لکھی گئی تھی تاکہ رسالہ کلمات کا تکملہ ہو جو پہلے سے ایمان داروں کے ہاتھوں موجود تھا اورجس میں صرف تعلیم ہی درج تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس انجیل میں بہت کم تعلیم موجود ہے "۔

بشپ گور کی تفسیر میں ہے " جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسالہ کلمات میں سیدنا مسیح کے سوانح حیات کم ہیں لیکن آپ کے کلمات نہایت کثرت سے ہیں اور کہ انجیل دوم میں سیدنا مسیح کے کلمات کم ہیں لیکن سوانح حیات بکثرت ہیں توہم قدرتی طورپر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس انجیل کے لکھنے جانے کی اصل غرض یہ تھی کہ وہ رسالہ ِکلمات کی کمی پورا کرے۔ پس مقدس مرقس سیدنا مسیح کی خدمت کے ابتدائی واقعات کا مجمل ذکر کرکے ان نئی باتوں کا مفصل ذکر کرتاہے جو رسالہِ کلمات میں نہیں تھیں "۔3

گوگیل کہتاہے " مقدس مرقس رسالہِ کلمات سے واقف تھا اوراس نے اس کا استعمال نہایت احتیاط اور شعور کے ساتھ کیا ۔ یہ رسالہ کوئی ایسی کتاب نہ تھی جو کسی پلان کے مطابق لکھی گئی ہو بلکہ وہ صرف کلمات کا مجموعہ تھا جو نہایت قدیم تھا۔ مرقس نے بڑی کفایت سے اس کو استعمال کیا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ مجموعہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں موجود ہے ، جن کے لئے اس نے اپنی انجیل لکھی "۔4

ڈاکٹر میکن ٹاش کے الفاظ بھی اس سلسلہ میں قابل ذکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں 5" مقدس مرقس نے صرف سیدنا مسیح کے چند اقوال کا ہی ذکر کرتاہے کیونکہ اُس کا مقصد یہ نہ تھا کہ وہ آپ کے تمام اقوال کو لکھے۔ وہ لوگوں کو دوبارہ وہی باتیں بتلانا نہیں چاہتا تھا جن سے وہ پہلے ہی واقف تھے ۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اپنی انجیل لکھ رہا تھا تو اس کےسامنے آنخداوند کے اقوال کا مجموعہ رسالہِ کلمات موجود تھا۔

______________________

1Gores Commentary on N.T.p.39
2Burney, Poetry of Our Lord
3Gore’s one Vol.Commentry N.T.p.39
4M.Goguel, Jesus the Nazarene Myth or History (1926) pp 179-180
5H.R.Mackintosh, in Exp.Time Vol.XV.No.8 pp 356 ff


(۳)

" رسالہ کلمات" کے علاوہ مقدس مرقس نے دیگر چھوٹے چھوٹے پارے اپنی انجیل میں استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ بشپ بلنٹ کہتے ہیں " ممکن ہے کہ اس انجیل کی بعض کہانیاں تحریری شکل میں پہلے موجود تھیں گویہ اغلب نہیں کہ اس انجیل کا اکثر حصہ یا سب کے سب حصے احاطہِ تحریر میں آچکے تھے1۔ بشپ رابنس کہتے ہیں کہ" یوحنا بپتسمہ دینے والے اور ہیرودیس کا واقعہ (مرقس۶: ۱۷تا ۲۹) مقدس پطرس سے حاصل نہیں کیا گیا بلکہ یہ بیان مقامی روایت کا درجہ رکھتاہے"۔

(۲۔) آرچ ڈیکن بکلے کہتے ہیں2۔ کہ اس انجیل میں دو واقعات ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کے دوبیان موجو دہیں۔ پہلا وقعہ پانچ ہزار اور چار ہزار کو کھانا کھلانے کا واقعہ ہے (مرقس۶: ۳۰۔ ۴۴؛ ۸: ۱۔ ۱۰)۔ دوسرا سیدنا مسیح کا قول جو(مرقس ۹: ۳۵ )دین ہے۔ اور(مرقس ۱۰: ۴۳ ۔ ۴۴) میں دہرایا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ انجیل نویس کے سامنے دوتحریری ماخذ تھے جن سے یہ دو مختلف بیانات ماخذ کئے گئے ہیں۔ مقدس مرقس نے دونوں بیانات کو اپنی انجیل میں لکھ لیا کیونکہ یہ بیانات آپ تک پہنچےتھے۔ آپ ان خاص واقعات کے چشم دید گواہ نہیں تھے ۔ پس آپ نے ایمان داری کے ساتھ اپنے تحریری ماخذوں کو اپنی انجیل میں نقل کرلیا۔

(۳۔)پادری کیڈاؤ A.T.Cadou کے خیال میں اس انجیل کے ۱۴باب کی تین آیات ۱۰ ، ۲۰، ۴۳ کے تین مختلف ماخذ ہیں اور(مرقس ۸: ۳۱؛ ۹: ۳۱؛ ۱۰: ۳۳۔ ۳۴) کے بھی الگ الگ ماخذہیں اوریہی وجہ ہے کہ ان آیات کی پیشین گوئیوں کے الفاظ میں اختلاف ہے۔

(۴۔) ایلبرٹزAlbertz کے خیال میں مقدس مرقس کی انجیل کے لکھے جانے سے پہلے ایسے واقعات احاطہ تحریر میں آچکے تھے جن میں یہ پایا جاتا تھاکہ اہلِ یہود میں اور آنخداوند میں تصادم اور آویزش ہوئی تھی3۔ اور یہ واقعات اس واسطے لکھے گئے تھے تاکہ جب ابتدائی ایام میں کلیسیا اوریہود میں باہمی تکرار اور تصادم ہوا تویہ مقامات کلیسیا کے وطیرہ کےلئے چراغ ہدایت ہوں۔ کیونکہ جو مشکلات کلیسیا کے سامنے تھیں ، وہی آنخداوند کے پیش آئی تھیں۔ پس مقدس مرقس نے ان واقعات کوجو پہلےسے احاطہِ تحریر میں موجود تھے اپنی انجیل میں شامل کرلیا(مرقس از ۲باب تا ۳: ۶؛ ۱۱: ۱۵تا ۱۲: ۴۰)۔ ایلبرٹز کا یہ خیال درست بھی معلوم ہوتاہے کہ مقامات مقدس مرقس نے خود نہیں لکھے تھے بلکہ وہ پہلے ہی سے لکھے ہوئے تھے اورکلیسیا میں مروج تھے کیونکہ (مرقس ۳: ۶) جیسی آیت انجیل کے شروع میں ہی ہے اوراس کے بعد ہلاک کرنے کی کوشش کا ذکر نہیں آتا ۔یہ ظاہر ہے کہ آیت(مرقس ۳: ۶ )کا اس جگہ نقل کیا جانا قدرتی بات نظر نہیں آتی4۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اس قدیم تحریری پارے کی آخری آیت تھی جو مقدس مرقس نے نقل کیا تھا اوریہی وجہ ہے کہ وہ آیت اس مقام میں موجود ہے۔

ایک اورامر قابلِ غور ہے کہ مذکورہ بالا مقامات میں خطاب "ابنِ آدم" دو دفعہ وارد ہوا ہے لیکن اس کے(مرقس ۸: ۲۹) سے پہلے کسی جگہ بھی یہ خطاب وارد نہیں ہوا اور(مرقس ۸: ۲۹ )کے بعد یہ خطاب آنخداوند کے ساتھ ۱۲مقامات میں آیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ ظاہر ہے کہ یہ مقامات انجیل کے لکھے جانے سے پہلے ہی پاروں میں لکھے ہوئے موجود تھے جن کو مقدس مرقس نے اپنی انجیل میں نقل کرلیا۔ ورنہ اگر وہ خود ان مقامات کو لکھتے تو وہ " ابنِ آدم" نہ لکھتے۔ پس ایلبرٹز کا کہنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقامات کسی معلم نے پہلے ہی کسی پارے میں لکھے تھے۔ یہ معلم اس اختلاف کی مثالیں

______________________

1 Blunt,St.Mark p.42
2Archdeacon Buckely, “The Sources of the Passion Narratives in St.Mark Gospel in J.T.S April 1933. Also A.T. Cadoux in the Sources of the Second Gospel.
3Vincent, Taylor Formation of Gospel Tradtion p.16.
4M.Goguel, Jesus the Nazarene Myth or History (1926) Ibid p.176


دینا چاہتاتھا جوآنخداوند اوریہود کے درمیان تھا اور روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا تھا۔ اگرہم اس عالم کا یہ نظریہ تسلیم کرلیں تو ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خطاب " ابنِ آدم" اس مقام میں وقت سے پیشتر کیوں وارد ہواہے اورآخری آیت" پھر فریسی ۔۔۔ہلاک کریں " وقت سے پیشتر یہاں کیوں لکھی گئی۔پس سیدنا مسیح کی سہ سالہ خدمت کے بیان کے لئے مقدس مرقس نے اس جماعت کے زبانی اور تحریری بیانات کی طرف رجوع کیا جو " یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر سیدنا مسیح کے اٹھائے جانے تک برابر اس کے ساتھ رہے "(اعمال ۱: ۲۱)۔انجیل کا سطحی مطالعہ غبی (کم عقل)سے غبی شخص پر بھی ۔۔۔۔ یہ ظاہر کردیتا ہے کہ جو واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں اس کے ڈراما کے سین ، ہیرو ، اداکار سب کے سب چلتے پھرتے اور زندہ متحرک شخصیتیں ہیں جن کے اصل ہونے میں کوئی جنونی ہی شبہ کرسکتاہے۔ پس اس انجیل کے شروع سے گیارہ باب تک کے واقعات آنخداوند کی سہ سالہ خدمت کے چند سین ہیں جن کے بتلانے والے وہ لوگ تھے جو شروع سےخود یکھنے والے تھے" اورجو " برابر سیدنا مسیح کے ساتھ رہے" یعنی " جتنے عرصہ تک سیدنا مسیح اُن کے ساتھ آتے جاتے رہے یعنی یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر آپ کے اٹھائے جانے تک جوبرابر ساتھ رہے"(اعمال ۱: ۲۱)۔ یہی وجہ ہے کہ اس انجیل کا شروع یوحنا کے بپتسمہ سے ہوتاہے اور اگراس کے اوراق(مرقس ۱۶: ۸) کے بعد ضائع نہ ہوجاتے تو اُن میں قیامتِ مسیح کے بعد صعودِ آسمانی کا بھی ذکر پایا جاتا۔ ان واقعات کو انجیل نویس نے " ترتیب وار بیان " کیا۔ ان کا شروع قدرتی طور پر گلیل میں منادی ہے (مرقس۱: ۱۴) اس کے بعد کفر نحوم میں منادی(مرقس۱: ۱۶۔ ۳۹) فریسیوں سے تصادم(مرقس باب ۲، ۳) ۔ رسولوں کا تبلیغی دورہ (مرقس۶: ۷) پانچ ہزار کو کھانا کھلانا (مرقس۶: ۳۱) صور کی سرحدوں سےنکل کر صیدا کی راہ سے دکپلس کی سرحدوں سے ہوتے ہوئے گلیل کو جانا(مرقس۷: ۳۱)بیت صیدا کی جانب سفر کرنا اور قیصر یہ فلپی (مرقس۸: ۲۷) جانا اوریروشلیم کو روانگی(مرقس۱۰: ۳۲) یہ تمام واقعات ایک قدرتی ترتیب میں مرتب ہوجاتے ہیں ۔

(۵۔) نوّے (۹۰) سال کا عرصہ ہوا چند علماء نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ اس انجیل کے ۱۳باب میں آنخداوند کے خطبہ کی بناء پر ایک دوورقہ گشتی اشتہار تھا جو ابتدائی کلیسیا میں مروج تھا ۔ اب تمام علماء کےنزدیک یہ نظریہ مسلم ہے ۔1

یہ اشتہار کسی قدیم یہودی مسیحی نے زمانہ کی نازک حالت کو دیکھ کر مسیحی کلیسیا کے لئے قدیم یہودی مکاشفات کی کتابوں کی طرز کی تقلید کرکے لکھا تھا جس میں اس نے سیدنا مسیح کے بعض کلمات بھی شامل کرلئے تھے۔ مقدس مرقس نے اس گشتی اشتہار میں آنخداوند کے دیگر کے دیگر اقوال کو ایزاد(اضافی) کرکے ۱۳باب کا خطبہ مرتب کیا ۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ۱۳باب میں سیدنا مسیح کے اقوال کون کون سے ہیں۔ لیکن بالعموم وہ اس امر پر متفق ہیں کہ اس باب میں آپ کے اقوال موجود ہیں۔اگر چہ وہ دیگر روایات میں شامل کئے گئے ہیں جن کی بناء قدیم کلیسیا کے حالات اورخیالات ہیں۔ اس باب میں آنخداوند کے اقوال زریں کو حالات زمانہ کے مطابق بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تمام ایزادیاں ہم کو کم وبیش معلوم ہوسکتی ہیں کیونکہ ہم کو اس بات کا علم ہے کہ مقدس مرقس نے اپنے ماخذوں کو کس طرح استعمال کرکے اُن کے الفاظ کو ترتیب دیتا ہے۔ نہ صرف ہم کو مقدس مرقس کے طریقے کار کا علم ہے بلکہ ہم ابتدائی کلیسیا کے قدیم خیالات اورحالات سے بھی واقف ہیں جن کا عکس ہم کو ۱۳باب میں ملتاہے۔ ان سے ظاہر ہے کہ ابتدائی کلیسیا کے شرکا آنخداوند کی آمد کا نہایت شوق کے ساتھ انتظار کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھاکہ موجودہ نسل کے ختم ہونے سے پہلے آپ الہٰی جلال کے ساتھ بادلوں پر آئیں گے اورچاروں طرف سے ایمان داروں کو جمع کریں گے(آیت ۲۶۔ ۲۷، ۳۰۔ ۳۳)۔ اس امر کی بار بار نصحیت اورآگاہی دی جاتی ہے (آیت ۵، ۹، ۲۳، ۳۲، ۳۵، ۳۷ )گو اس باب میں مدت کا تقرر نہیں کیا گیا۔

______________________

1 Moffat Itrood, to the Lite of N.T.(1918)p.209


مقدس مرقس کے طریقہ کار سے جس سے وہ اپنے ماخذوں سے انجیل کو مرتب کرتا ہے عیاں ہے کہ وہ اُن کو قریباً لفظ بلفظ نقل کرتاہے۔ اُس کی تخلیقی قوت بہت کم ہے لیکن وہ محتاط اور اعتدال پسند مولف تھا۔ یہ باتیں اس کی انجیل سےثابت ہیں۔ اگر وہ(مرقس ۱۳باب) کو شروع سے آخر تک خود لکھتا تو(مرقس ۱۳باب )اختلاف سے پاک ہوتا۔ مثلاً اس باب کے شروع میں سوال یروشلیم کی ہیکل کی تباہی اوراس کے وقت اورنشان کے متعلق ہے(مرقس ۱۳: ۱۔ ۴) لیکن جواب میں ان سوالات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور وہ غیر متعلقہ امور پر مشتمل ہے جس میں مخالفِ مسیح اورابنِ آدم کی آمد کا ذکر ہے ۔1

شاگردوں نے تو آنخداوند سے سوال یہ کیا تھا" ہمیں بتا کہ یہ باتیں (یروشلیم کی تباہی) کب ہوں گی"(مرقس۱۳: ۴) لیکن آنخداوند ہیکل کی تباہی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے دنیا کے آخر کے سوال پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ اورعجیب بات یہ ہے کہ ہیکل کی تباہی کا ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سوال کو نظر انداز کرکے ہیکل کے ناپاک ہونے کا ذکر فرماتے ہیں ۔2

ایک اور امر قابل ذکر ہے :

(۱۔)آیات(مرقس۱۳: ۹ ۔ ۱۳ )میں مقدس مرقس کلیسیا کو تسلی دیتا ہے کہ گوزمانہ کے حالات کلیسیا کے حق میں نہایت نازک ہیں تاہم مسیحیوں کو حوصلہ رکھنا چاہیے کیونکہ آنخداوند نے پہلے ہی ان خطرات کو بھانپ لیا تھا اوران ایذاؤں کو جان لیا تھا جو کلیسیا کے درپیش ہیں اور سیدنا مسیح اپنی آمد سے ان کی مدد کریں گے۔

(۲۔) آیات(مرقس۱۳: ۱۴۔ ۲۳) میں " اجاڑنے والی مکرہ چیز" کا ذکر ہے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔ ان آیات میں اس سوال کا جواب ہے جو آیات(مرقس ۱۳: ۱۔ ۴) میں پوچھا گیا تھا۔

(۳۔) آیات(مرقس ۱۳: ۵ ۔ ۱۸ ،۲۴۔ ۲۷) اُس گشتی اشتہار کا حصہ ہیں جس میں زمانہ کی نازک حالت اوراُن آفات کا ذکر ہے جو کلیسیا کے سامنے درپیش تھیں ۔ پس مقدس مرقس کے طریق عمل سے اس اشتہار کے الفاظ وخیالات کو آنخداوند کے اقوال وتصورات سے الگ کرکے معلوم کرسکتے ہیں کہ آنخداوند کے اقول کون سے تھے اوراس اشتہار کے الفاظ کیا تھے۔ یوں دونوں میں تمیز کرکے حضرت کلمتہ اللہ کے کلمات بابرکات کا پتہ لگاسکتے ہیں جو(مرقس ۱۳)ابواب کا ماخذ ہیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس باب کی پہلی چھ آیات اورآیات(مرقس۱۳: ۹۔ ۱۳، ۱۵ ۔ ۱۶ ، ۲۱، ۲۳، ۲۸۔ ۲۹ ، ۳۲ ۔ ۳۷) رسالہِ کلمات سے ماخوذ کی گئی ہیں۔

(۴)

ہم حصہ اول کے باب سوم میں بتلاچکے ہیں کہ قدیم کلیسیا میں آنحداوند کے صلیبی واقعہ کے بیانات تحریری شکل میں مروج تھے جن کو کلیسیا کے معلموں نے چشم دید گواہوں سے حاصل کیا تھا ۔ مقدس مرقس کی انجیل میں صلیبی واقعہ کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے اس کا بہت بڑا حصہ صرف اسی ایک واقعہ کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکرآٹھویں باب کے درمیان سے شروع ہوتا ہے اورانجیل کے آخر تک مسلسل چلا جاتا ہے۔

______________________

1 Vincent Taylor, The Apoalyptic Discourse of Mark X111, Exp. Times Jan1949
2Charles Eschatology (2nd ed.1913) p77


انجیل دوم کے پڑھنے والوں نے منجی عالمین کی گرفتاری کے بیان میں ایک آیت کا ملاحظہ کیا ہوگا جس میں لکھا ہے کہ تمام شاگرد آپ "چھوڑ کربھا گئے" مگرایک جوان اپنے ننگے بدن پر مہین چادر اوڑھے ہوئے اس کے پیچھے ہولیا۔ اسے لوگوں نے پکڑا مگر وہ اپنی چادر چھوڑ کر بھا گ گیا"(مرقس۱۴: ۵۱)۔یہ آیت بظاہر بے جوڑ اور واقعات کے سلسلہ سے بے تعلق معلوم ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اناجیل اوّل وسوم کے مولفوں نے اس کو نقل نہیں کیا لیکن ماخذوں کے معلوم کرنے میں یہ آیت بڑے کام کی ہے ،کیونکہ اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہاں مقدس مرقس آپ بیتی (اپنا حال)بیان کررہے ہیں۔یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ انجیل نویس خود اس رات کے تمام واقعات کے چشم دید گواہ تھے اورجب باغ گتسمنی میں مقدس پطرس ، یعقوب اوریوحنا رسول سورہے تھے(مرقس۱۴: ۳۷) تو مقدس مرقس کے کان اورآنکھیں کھلی تھیں اورآپ خود منجی عالمین کی حالت اوردعا کو دیکھ اورسن رہے تھے۔ جس " بالا خانہ " میں منجی جہان نے آخری کھانا کھایا وہ مقدس مرقس کا ہی گھر تھا(اعمال ۱: ۱۲؛ ۲: ۱۲)۔ مقدس مرقس اس آخری ہفتہ میں ربنا المسیح کے ہروقت کے ساتھی تھے اور اس ہفتہ کے تمام واقعات کے خود چشم دید گواہ تھے ۔ جبھی آپ کی انجیل میں اس ایک ہفتہ کےواقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ۔ایسا کہ انجیل کا یہ حصہ ایک روزنامچہ ہوگیا ہے۔ جس میں کھجور کے اتوار سے لے کر عیدِ قیامت تک کے ہر روز کے چشم دید واقعات کا مفصل ذکر موجود ہے۔

مقدس مرقس نے ایک محتاط مولف کی طرح صرف اپنے چشم دید واقعات پر ہی انحصار نہ کیا بلکہ قدیم ایام کے تحریری بیانات سے بھی مدد لی۔ چنانچہ آرچڈیکن بکلے(Burkley) کے خیال میں مقدس مرقس نے باب ۱۴: ۱تا ۱۶: ۸ میں صلیبی واقعہ کو بیا ن کرنے میں دو ماخذوں سے کام لیا ہے۔چنانچہ یہ صاحب ان ابواب کو ذیل کے حصوں میں تقسیم کرکے ان کے ماخذ بتلاتے ہیں1

(۱۔) مرقس باب ۱۴۔ آیات ۱تا ۳۳ (الف)۔

پہلا ماخذ۔ آیات ۱، ۲، ۱۰، ۱۱، ۱۷۔ ۲۱، ۲۷۔ ۳۲

دوسرا ماخذ۔ آیات ۳ ۔ ۹ ، ۱۲۔۱۶، ۲۲۔ ۲۶۔

اگر ان صاحب کی یہ تقسیم درست ہے تو(مرقس ۱۴: ۱۷ )کے الفاظ " جب شام ہوئی " سے مراد وہ تاریخ ہے جس کا ذکر پہلی آیت میں ہے" دو دن کے بعد عیدِ فطیر ہونے والی تھی" اوریوں یہ تاریخ بعینہ وہی ہوجاتی ہے جو مقدس یوحنا کی انجیل میں ہے۔ ان دونوں انجیلوں میں کوئی تضاد نہیں رہتا اس سے یہ بھی پتہ چل جاتاہے کہ پہلے ماخذ کے مطابق مقدس پطرس کے انکار کا ذکر فسح کے کھانے کے کمرہ میں ہوا تھا نہ کہ گتسمنی باغ کو جاتے وقت۔ اوریہی مقدس لوقا اورمقدس یوحنا کہتے ہیں۔ پس یہاں بھی یہ تناقض (ایک دوسرے کی ضد یا مخالف ہونا)دور ہوجاتاہے ۔ علاوہ ازیں اس ماخذ کے مطابق عشائےربانی کی رسم اس فسح کے کھانے پر مقرر نہیں ہوئی تھی اوریہی مقدس یوحنا کا بیان ہے۔اس کے علاوہ اس ماخذ کے مطابق سردار کاہن آنخداوند کو اپنے پہلے ارادہ کے مطابق عید کے دوران میں گرفتار نہیں کرتے اور یوں ایک اوراختلاف دوُر ہوجاتاہے۔ ان باتوں کی وجہ سے ماخذوں کی یہ تقسیم درست معلوم ہوتی ہے۔

ایک اور امر قابلِ ذکر ہے کہ پہلے ماخذ میں رسولوں کے لئے لفظ" بارہ" تین جگہ استعمال ہوا ہےلیکن لفظ " شاگرد" کا استعمال اس ماخذ میں نہیں ہوا۔ لیکن دوسرے ماخذ میں لفظ " شاگرد " چار دفعہ استعمال ہوا ہے لیکن لفظ " بارہ" ایک دفعہ بھی مستعمل نہیں ہوا۔

______________________

1Ven. E.R.Burkley, “The Sources of Passion Narratives in St.Mark’s Gospel in J.T.S1933 pp.138 ff.


(۲۔) (مرقس ۱۴: ۳۲) (ب) تا ۵۳ میں آنخداوند کی جان کنی اورگرفتاری کے دوبیان ہیں :۔

پہلا ماخذ۔ (مرقس ۱۴: ۳۳۔ ۳۴، ۳۶، ۴۰، ۴۳، ۴۵۔ ۴۶، ۴۸۔ ۵۰)۔

دوسرا ماخذ۔(مرقس۱۴: ۳۲(ب)،۳۳(ب)، ۳۷۔ ۳۹، ۴۱۔ ۴۲، ۴۴، ۴۷،آیات ۵۱ ۔ ۵۲، مولف کی ہیں۔

(۳۔) (مرقس ۱۴: ۵۳۔ ۵۴، ۵۷۔ ۵۸، ۶۱ (الف)،۶۵، ۶۸، (ب)تا ۷۲۔

دوسرا ماخذ۔(مرقس ۱۴: ۵۵۔ ۵۶، ۶۱(ب)تا ۶۴، ۶۶۔ ۶۸(الف)۔

پہلے ماخذ میں آنخداوند کے خلاف یہ الزام ہے کہ آپ ہیکل کو تباہ کردیں گے۔ دوسرے ماخذمیں الزام یہ ہے کہ آپ مسیحائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پہلے ماخذ کے مطابق مقدس پطرس دو دفعہ اوردوسرے ماخذ کے مطابق ایک دفعہ آنخداوند کا انکار کرتاہے۔ پہلے ماخذ کے مطابق آنخداوند الزام کا جواب نہیں دیتے لیکن دوسرے کے مطابق آپ جواب دیتے ہیں۔ (مرقس : ۵۴) میں مقدس پطرس " دیوان خانے کے اندر" ہے۔ لیکن (مرقس ۱۴: ۶۶)میں وہ "نیچے صحن " میں ہے۔اگر دونوں بیانات کو الگ الگ کرکے دونوں کو مسلسل پڑھا جائے تو یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ وہ دو جدا ہیں جن کو مقدس مرقس نےیک جاترتیب دے کر مرتب کیا ہے۔

(۴۔) (مرقس ۱۵: ۱۔۱۶: ۸ )آیت میں بھی دونوں بیانات ہیں:۔

پہلا ماخذ۔ (مرقس ۱۵: ۳۔ ۵ ، ۷۔۸، ۱۵، ۲۴، ۲۷، ۲۹۔ ۳۰، ۳۲(ب)۳۹، ۴۲۔ ۴۷، ۱۶: ۲۔ ۴، ۸)۔

دوسرا ماخذ۔(مرقس ۱۵: ۲، ۶، ۹۔ ۱۴، ۱۶۔ ۲۰(الف)، ۲۲، ۲۵، ۳۱ ۔ ۳۲(الف)،۳۳۔ ۳۶، ۱۶: ۱، ۵۔ ۷)۔

یہ دو تحریری ماخذ مقدس مرقس کے سامنے موجود تھے جب آپ نے انجیل تالیف کی ۔ پس مسیح کی زندگی کے واقعات کا قدیم ترین حصہ صلیبی واقعہ کے بیانات پر مشتمل تھا جو انجیل دوم میں ہیں۔ کیونکہ اس واقعہ کی ابتدا ہی سے منادی کی جاتی تھی اورمعلم ثابت کرتے تھے کہ عہدِ عتیق کےمطابق مسیح موعود کا مرنا ضرور تھا۔ یہ تحریری ماخذ چشم دید گواہوں کے مشاہدات تھے اورآخری ہفتہ کے واقعات بھی چشم دید گواہوں کے بیانات تھے ۔ علاوہ ازیں مقدس مرقس خو دان واقعات میں سے بعض کے چشم دید گواہ تھے(مرقس۱۴: ۵۱۔ ۵۲)۔

(۵)

مرقس ۱۲: ۱۵میں سیدنا مسیح فریسیوں اور ہیرودیوں کو فرماتے ہیں " میرے پاس ایک دینار لاؤ تاکہ میں دیکھوں" یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا مسیح ہیکل کے اس حصہ میں تعلیم دے رہے تھے جو" غیر اقوام کا صحن" کہلاتا تھا کیونکہ ہیکل کے اندرونی صحنوں میں رومی سکوں کا لانا ممنوع تھا کیونکہ اُن پر قیصر کا بُت ہوتا تھا۔ یہ تفصیل ثابت کرتی ہے کہ یہ بیان کسی چشم دید گواہ کا ہے۔

______________________

1F.C.Burkitt,J.T.S for April 1935 pp.186-188


(۶)

جب ہم مختلف ماخذوں پر(جن کا ذکر اس فصل میں کیا گیا ہے) غور کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ مقدس پطرس ہی صرف اکیلا واحد شخص نہ تھا جس سے مقدس مرقس نے استفادہ (فائدہ )حاصل کیا تھا بلکہ مقدس پطرس کے علاوہ آپ نے دیگر ماخذوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور یہ کہ مقدس پطرس اس انجیل کے سب سے بڑے ماخذ نہیں ہیں۔ چنانچہ اس انجیل میں بمشکل کوئی ایسا مقام ہوگا جس کا تعلق اس رسول کے ساتھ ہو اور جس کا ذکر انجیل نویسوں نہ کیا ہو۔ علاوہ ازیں جس کسی نے انجیل دوم کو سطحی طورپر بھی پڑھا ہے اس پر یہ ظاہر ہے کہ " قیصریہ فلپی کے علاقہ" میں مقدس پطرس نے جو آنخداوند کی مسیحائی کا اقرار کیا تھا (متی ۱۶: ۱۳۔ ۲۴) وہ اس انجیل میں درج نہیں حالانکہ اس کا تعلق مقدس پطرس کی ذات سے خاص طورپر وابستہ ہے۔ اسی طرح (لوقا ۵: ۱۔ ۱۰) کا واقعہ انجیل مرقس میں نہیں پایا جاتا جس کا تعلق خاص طورپر مقدس پطرس کی زندگی کے ساتھ ہے۔مزید براں جب ہم انجیل اول ودوم کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ مقدس متی کی انجیل میں مقدس پطرس کو جوجگہ حاصل ہے وہ مقدس مرقس کی انجیل میں نہیں ہے ۔مثلاً (متی ۱۰: ۱؛ مرقس ۳: ۱۵؛ متی ۱۴: ۲۲۔ ۳۳؛ مرقس ۶: ۴۸۔ ۵۲؛ متی ۱۵: ۵، مرقس ۷: ۱۶؛ متی ۱۷: ۲۴؛ ۱۸: ۲۱ وغیرہ )۔ آخری دو مقامات کا ذکر مقدس مرقس نہیں کرتے ۔

بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ اس انجیل میں مقدس پطرس جا بجا ملامت کا نشانہ ہیں(مرقس۸: ۳۳؛ ۱۰: ۲۸؛ ۱۴: ۲۹۔ ۳۷، ۶۶)۔لہٰذا آپ کا اس انجیل سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا لیکن مقدس پطرس کو ان باتوں کے بتلانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہوسکتی تھی۔ عید پینتی کوست کے بعد آپ کی خصلت اور طبیعت کی افتاد(فطرت) بالکل بدل چکی تھی۔

اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گو مقدس پطرس سیدنا مسیح کی ماں اور بھائیوں سے واقف تھے لیکن انجیل دوم میں سوائے ان رشتہ داروں کے غیر ہمدردانہ رویہ کے ان کا ذکر نہیں ملتا اورنہ مقدس یوسف کا نام پایا جاتاہے۔ اس قسم کی باتوں سے ظاہر ہے کہ مقدس پطرس انجیلِ دوم کے واحد گواہ نہ تھے۔ بلکہ مقدس مرقس نے رسول کے علاوہ دیگر ماخذوں کا بھی استعمال کیا تھا۔

بشپ پے پئس کے قول میں لفظ" ترجمان" کا کیا مطلب ہے؟ بعض اس لفظ سے" مترجم" مراد لیتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہوسکتی۔ جائے حیرت ہے کہ پینتی کوست کے روز مقدس پطرس کو غیر زبانیں بولنے کی بخشش عطاہوئی اورپھر آپ کو ترجمہ کرنے کے لئے مقدس مرقس کی ضرور پڑے۔ علاوہ ازیں مقدس پطرس کےپہلے خط کی یونانی انجیل دوم کی یونانی سے بہت بلند ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یونانی زبان مشرقی ممالک میں بولی اورسمجھی جاتی تھی اورکوئی وجہ معلوم نہیں دیتی کہ مقدس مرقس اس زبان کو پطرس رسول سے بہتر جانتا ہو۔کیونکہ اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ پطرس رسول غیر یہود کے سامنے یونانی زبان میں خود بلاتوسط غیرے منادی کیا کرتے تھے(اعمال ۱۰: ۳۴باب کےآخر وغیرہ) ۔ یہ بات بھی معقول نظر نہیں آتی کہ مقدس پطرس کو مغربی ممالک یا روم کےشہر میں اپنی تقریر کا لاطینی میں ترجمہ کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی اور اس بات کو ماننے کے لئے بھی کوئی وجہ نہیں کہ مقدس مرقس لاطینی زبان میں رسول کی تقریر وں کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔ تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ روم میں مسیحیت زیادہ ترنچلے طبقہ تک ہی محدود تھی اوریہ لوگ یا تویونانی تھے اوریا مشرق کے رہنے والے تھے جو یونانیت کے رنگ میں رنگے تھے اورسب کے سب یونانی جانتے تھے اور اغلب یہی ہے کہ وہ لاطینی سے بہت کم واقف تھے ۔ پس بشپ پے پئس کی لفظ" ترجمان" سے مراد " خادم" ہوگی کیونکہ اعمال میں مقدس مرقس کی پولُس رسول اورمقدس برنباس کا " خادم" کہا گیا (مرقس۱۳: ۵؛ ۲۔تیمتھیس ۴: ۱۱)۔


پروفیسر بیکن کہتاہے1"پے پئس کی روایت سے اثر پذیر ہوکر لوگ اس قدر مسحور ہوچکے ہیں کہ کسی کو یہ کہنے میں مطلق تامل نہیں ہوتا کہ انجیل مرقس میں پطرس رسول کا خاص طورپر ذکر اورلحاظ موجود ہے"۔ پروفیسر برکٹ بھی کہتے ہیں 2" اس میں کچھ شک نہیں کہ مقدس مرقس نے مقدس پطرس سےبہت کچھ مسالہ جمع کیا ہوگا۔ لیکن ہم کو اس نظریہ کے لئے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اس انجیل کا خاکہ اور ڈھانچہ مقدس پطرس کا ہے"۔

پس گو انجیل مرقس کی اندرونی شہادت قدیم کلیسیائی روایت اوربشپ پے پئس کی شہادت کی ایک گونہ تصدیق کرتی ہے لیکن اس اندرونی شہادت سے یہ پتہ بھی چل جاتا ہے کہ مقدس مرقس نے مقدس پطرس کے علاوہ دیگر تحریری ذرائع سے بھی فائدہ اٹھاکر اپنے ماخذوں کو ایک جگہ جمع کرکے انجیل کو تالیف کیا تھا اور مختلف قسم کے بیانات کو ترتیب دے کر انجیل کو مرتب کیا تھا۔

فصل دوم

انجیلِ مرقس کی خصوصیات

مقدس متی کی انجیل سیدنا مسیح کی پیدائش سے شروع ہوتی ہے (متی۱: ۱۸)۔ مقدس لوقا کی انجیل اس سے پہلے کے واقعہ یعنی حضرت یوحنا اصطباغی کی پیدائش کی پیش خبری سے شروع ہوتی ہے (لوقا۱: ۵)۔ مقدس یوحنا کی انجیل تمام زمانوں سے بھی پہلے شروع ہوتی ہے " جب ابتدا میں کلام تھا"(یوحنا۱: ۱) لیکن مقدس مرقس اپنی انجیل کو حضرت یوحنا اصطباغی کی منادی اوربپتسمہ سے شروع کرکے اُس میں سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت تک کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

اناجیل اربعہ کی یہ ترتیب نہایت معنی خیز ہے کیونکہ اس سے ہم کو یہ پتہ چلتا ہے کہ انجیل مرقس کلیسیا کی تاریخ کے اُن ابتدائی ایام میں لکھی گئی جب رسالت کا معیار یہ تھا کہ رسول ان تمام واقعات کا چشم دید گواہ ہو۔ چنانچہ یہودا ہ غدار کے عوض بارھویں رسول کے تقرر کے موقعہ پر مقدس پطرس کہتے ہیں " اے بھائیو! جتنے عرصہ تک سیدنا مسیح ہمارے ساتھ آتے جاتے یعنی یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر مولا کے آسمان پر تشریف لے جانے تک جو برابر ہمارے ساتھ رہے۔ چاہیے کہ ان میں سے ایک مرد ہمارے ساتھ اس کے جی اٹھنے کا گواہ بننے"(اعمال ۱: ۲۱۔ ۲۲)مقدس مرقس کی انجیل بعینہ اس عرصہ کے واقعات پر مشتمل ہے اور اس میں صرف انہی باتوں کا ذکر ہے جن کی منادی رسولی زمانہ کے ابتدائی دور میں دوازدہ رسول کیا کرتے تھے۔ ہم حصہ اوّل کے بابِ سوم میں ذکر کرچکے ہیں کہ ابتدائی ایام میں " یہ منادی" مسیحیت کے بنیادی اصولوں پر مشتمل تھی۔ یہ منادی" نیو" تھی جس پر مسیحی معلم " دانا معماروں کی طرح عمارت اٹھاتے تھے "(۱۔کرنتھیوں۳: ۱۰)۔ہم نے اس باب میں اس " منادی " کے مضمون پر بحث کرکے بتلایا تھاکہ اس میں "جتنے عرصہ تک سیدنا مسیح ہمارے ساتھ آتے جاتے رہے " یعنی یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر آپ کے ہمارے پا س سے اٹھائے جانے تک " (اعمال۱: ۲۱) کے واقعات کا مسلسل ذکر تھا۔

______________________

1 Bacon, Beginnings p.XXV
2F.C.Burkitt, The Earliest Sources for the Life of Jesus(1910) pp.93-94


انجیل مرقس کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ اس انجیل میں " منادی" کے اُنہی حصوں کا ذکر ہے جن کا خلاصہ مذکورہ بالاآیات میں ہے یعنی اُن تاریخی واقعات کا ہی ذکر ہے جو " منادی" کے جزو اعظم تھے۔ان مقامات کا غائر مطالعہ یہ بھی ظاہر کردیتا ہے کہ ان تواریخی واقعات کو " منادی" کے سیاق وسباق میں ہی مرتب کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس انجیل کی پہلی آیت ہے" یسوع مسیح ابنِ خدا کی خوشخبری کا شروع"۔ پھر نئے دور کاآغاز ، یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی سیدنا مسیح کا بپتسمہ سے ممسوح (مسح کیا ہوا)ہوکر خدا کی بادشاہی کی گلیل میں منادی کرنا اورپھر صلیب کےواقعہ کے اسباب کا بیان اورصلیبی واقعہ کا ذکر اور سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت وغیرہ، غرض یہ کہ اس انجیل کے تمام واقعات اس " منادی" کی ترتیب وار تفصیلی شرح ہیں۔ جیسا ہم گذشتہ فصل میں بتلاچکے ہیں ۔صلیبی واقعہ کا اوراس کے اسباب کا ذکر آٹھویں باب کے درمیان سے انجیل کے آخر تک مفصل بتلایا گیا ہے اورانجیل کا سب سے بڑ ا حصہ ہے۔چنانچہ آنخداوند کی سہ سالہ خدمت کے واقعات کا ذکر اس انجیل کی تین سوگیارہ(۳۱۱) آیات میں ہے ۔ لیکن صرف آخری ہفتہ کےواقعات کا ذکر تین سو پنتالیس(۳۴۵) آیات میں پایا جاتاہے ۔ رسولوں کی ابتدائی" منادی" کا بھی غالب حصہ مسیح مصلوب سے ہی متعلق ہے۔ جس طرح (اعمال ۱۰باب) کی تقریرمیں آنخداوند کے معجزات کا ذکر صرف اجمالی (مختصر)طورپر ہی کیا گیا ہے، اسی طرح انجیل دوم میں سیدنا مسیح کی تعلیم ومعجزات کا بغیر کسی تواریخی ترتیب کے اجمالاً ذکر ہوا ہے ۔لیکن آنخداوند کی الہٰی قدرت اوراختیار اور شیطانی طاقتوں پر اپنی زندگی اور موت میں حکمران ہونے کا اورایمان داروں کو خدا کی بادشاہی کے بھید بتلانے کا مفصل ذکر ہے۔ اس انجیل کی ترتیب رسولوں کی " منادی" کی ترتیب ہے اوریہ انجیل رسولوں کی ابتدائی منادی کا آئینہ ہے 1(دیکھو اعمال باب ،۲، ۳، ۴، ۵ ، ۱۰)۔

پس انجیلِ دوم میں وہ واقعات اور پیغامات موجودہیں جن کی رسول ابتداء ہی سے مناد ی کرتے تھے۔ اس انجیل کی ابتدا نبوت کے پورا ہونے سے شروع ہوتی ہے (مرقس۱: ۲) اوراس میں (اعمال ۱۰: ۳۷ )کی طرح " یوحنا کے بپتسمہ کی منادی کے بعدگلیل سے شروع ہوکر یہودیہ تک " سیدنا مسیح کے کاموں کا ذکر ہے اوراس کے بعد تیسرے حصہ میں صلیبی واقعہ کا ذکر ہے۔ اس انجیل کے واقعات بادی النظر میں جیسا پے پئس کہتا ہے " ترتیب وار نہیں" لیکن یہ واقعات جو بظاہر بے جوڑ اوربےربط نظر آتے ہیں ، درحقیقت ابتدائی زمانہ کی منادی کی ترتیب کے مطابق ہیں ۔ انجیل کے لکھے جانے سے پہلے مسیحی معلموں کی جماعت ان کو تعلیم دیتے وقت مختلف اوقات پر استعمال کرتی تھی(اعمال ۱۰: ۳۶۔ ۴۰؛ ۱۳: ۲۳۔ ۳۱ وغیرہ)۔ مقدس مرقس نے ان جداگانہ واقعات کو باہم منسلک کرکے ایک خاص ترتیب کے مطابق مرتب کردیا2ونسنٹ ٹیلر اس موضوع پر مفصل بحث کرتاہے 3۔ اورکہتاہے ۔

" ظاہر ہے کہ جب مقدس مرقس نے سیدنا مسیح کی زندگی کے واقعات کو قلمبند کیا تو وہ کوئی نئی بات ہیں کررہا تھا بلکہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کررہا تھا جس میں اس نے محتلف تحریرات کو جمع کردیا جو اُس کی انجیل سے پہلے اس غرض سے لکھی گئی تھیں کہ کلیسیا کے کام کے لئے چراغ ہدایت ہوں۔ مقدس مرقس نے ان تحریرات اورمعلومات کو ترتیب دے کر ایک نئی انجیل مرتب کی۔ یہ تحریرات بغیر کسی ربط کے بکھری پڑی تھیں۔ مقدس مرقس نے ان کو ایک لڑی میں پرودیا"۔

______________________

1Dodd, Apostolic Preaching and its Development Lec No.1
2A.Richardson, The Gospels in Making (S.C.M 1928) pp.82-83
3 Formation of Gospels Tradition pp.176-185


مرحوم یہودی عالم ڈاکٹر منوٹی فیوری بھی یہ کہتاہے ۔1

" مرقس کی انجیل نہ صرف قدیم ترین ہے بلکہ وہ پہلی انجیل ہے۔ اس سے پہلے ماخذ تھے جن میں سے بعض تحریری تھے لیکن کوئی انجیل نہ تھی جس میں ترتیب وار واقعات درج ہوں۔ پس گو مرقس صرف ماخذوں کا اکٹھا کرنے والا اور مرتب کرنے والا تھا تاہم اس نے ایک نیا قدم اٹھایا اورایک نئی طرح کی بنیاد ڈالی۔ وہ نہ صرف ماخذوں کو سلسلہ وار ترتیب دینے والا ہے بلکہ وہ اختراعی قابلیت رکھنے والا انسان ہے جس کی تخلیقی قو ت نے ایک نئی راہ کی بنیاد ڈالی"۔

اب مسیحی کلیسیا کے شرکاء اور معلموں کے ہاتھوں میں ایک ایسی تحریرموجود تھی جو زیادہ جامع تھی ۔ پس مسیحی اس کی نقلیں ایک دیار سے سفر کرتے وقت اپنے ساتھ دوسرے ملک میں لے جاتے تھے جہاں کے مسیحی اس کی نقل کرلیتے تھے اوریوں اس انجیل نے مختلف مقامات کی کلیسیاؤں کے معلموں کی ضروریات کو پورا کردیا۔

(۲)

جب ہم اس انجیل کے اسلوبِ بیان اورطرز تحریر کی جانب نظر کرتے ہیں تو ہم وضاحت سے دیکھ سکتے ہیں کہ مقدس مرقس نے اپنے ماخذوں کو اس خوبی سے ترتیب دیا ہے کہ انجیل کے الفاظ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ مصنف کا طرزِ بیان ایسا ہے کہ حالات کا نقشہ آنکھوں کےسامنے آجاتاہے ۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو ۔(مرقس ۱: ۳۹؛ ۷: ۲۴۔ ۳۰؛ ۱۰: ۳۲؛ ۱۴: ۳۲۔ ۵۱، ۶۶، ۷۲ وغیرہ )میں حقیقت نگاری صاف نظر آتی ہے۔ اگرہم(مرقس ۴: ۳۶۔ ۴۱؛ ۹: ۵ ۔ ۶)کو دیکھیں تو ظاہر ہوجاتاہے کہ کوئی چشم دید گواہ بول رہا ہے۔ آیات(مرقس ۱: ۲۰، ۴۱؛ ۳: ۲، ۵، ۲۴؛ ۴: ۳۸؛ ۵: ۴۳؛ ۶: ۳۹۔ ۴۰؛ ۷: ۳۳۔ ۳۴؛ ۸: ۱۲، ۲۳تا ۲۵؛ ۱۰: ۱۶، ۲۱؛ ۱۱: ۱۱ ؛ ۱۴: ۴۰، ۵۱۔۵۲، ۵۴؛ ۱۵: ۲۱ )میں مقدس مرقس نے حالات اور واقعات کا ہو بہو نقشہ کھینچ دیا ہے ۔ ان کی طراوت اس انجیل کی خصوصیت ہے بعض اوقات توایک یا دولفظوں میں ہی ایک دلکش تصویر کھینچ جاتی ہے ۔ انجیل کا بیان ایسا بے تکلف ہے کہ خواہ مخواہ دل کو کھینچ لیتاہے۔ زبان کی سادگی سے ظاہر ہے کہ اس کے ماخذ چشم دید گواہوں کے بیان ہیں مثلاً " میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں(مرقس ۱: ۷)۔ " اس نے آسمان کو پھٹتے دیکھا" (مرقس ۱: ۱۰)۔ " وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا کیا" (مرقس۱: ۱۲) " کشتی مزدوروں کے ساتھ چھوڑ کر " (مرقس۱: ۲۰) الفاظ ہی سے معلوم ہوجاتاہے کہ اس قسم کے الفاظ صرف ایک چشم دید گواہ کی زبان اور قلم سےنکلے ہیں۔ " دنیا میں کوئی دھوبی ویسی سفید نہیں کرسکتا "(مرقس۹: ۳)" یکایک جوچاروں طرف نظر کی"(مرقس۹: ۸) آنخداوند کی آنکھوں سے پیار(مرقس۱۰: ۲۱) اور غصہ (مرقس۳: ۵) کا ذکر ایسے الفاظ میں کیا گیا ہے کہ گویا ہم خود آپ کا مبارک چہرہ دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کی نظر کا باربار ذکر ہے جو دلوں اور خیالوں کو بھانپ لیتی تھی (مرقس۱۰: ۲۷؛ ۳: ۳۴؛ ۱۱: ۱۱؛ ۵: ۳۲؛ ۱۰: ۲۳ وغیرہ)۔آپ کی مبارک آواز کے زیروبم اورنشیب وفراز کا ذکر ہے (۱: ۲۶؛ ۱: ۴۳ وغیرہ)۔ آپ کا اپنا شفا بخش ہاتھ رکھنا ، بچوں کو گود میں لینا ، سامعین کا آپ کی تعلیم کو سُن کر دنگ رہ جانے کا ذکر نوبار آیا ہے۔ اور تین مختلف الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

______________________

1 G.C.Montefiore, The Synpotic Gospels. Vol.1.(1927) P.XXX11
2Blunt, St. Mark pp.34-35


مثال کے طورپر اگرہم انجیل دوم کے مقام (مرقس۶: ۲۱۔ ۲۷) کے ایک ایک لفظ کا مقابلہ انجیلِ اوّل کے مقام(مرقس۱۴: ۱۔ ۱۲) سے کریں تو ہم پر مقدس مرقس کے خصوصی طرزبیان کی کیفیت عیاں ہوجاتی ہے۔تفصیلات کی وضاحت اوران کی شوخی انجیل دوم میں زندگی پیدا کردیتی ہےجس سے یہ پتہ چلتاہے کہ یہ انجیل اوراس کے ماخذ واقعات کے نہایت قریب لکھے گئے تھے مثلاً الفاظ " سکندر اور روفس کا باپ شمعون کرینی" (مرقس ۱۵: ۲۱) زبان حال سے پکارہے ہیں کہ جب یہ انجیل لکھی گئی تھی تب وہ زندہ تھے اورکلیسیا کے مشہور افراد تھے (رومیوں ۱۶: ۱۳)۔ اگر یہ انجیل بہت مُدت کے بعد لکھی جاتی تو ان شخصوں کے ناموں کا ذکر کرنا بے معنی ہوجاتا کیونکہ اگلی پشت میں یہ سب نام بھول بسر گئے تھے۔آیات(مرقس۱۴: ۵۱۔ ۵۲) کے الفاظ" ایک جوان اپنے ننگے بدن پر مہین چادر اوڑھے ہوئے اس کے پیچھے ہولیا۔ اُسے لوگوں نے پکڑا مگر وہ چادر چھوڑ کر ننگا بھاگ گیا "۔ اس بیان میں جن ڈال دیتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ یہاں ایک چشم دید گواہ بول رہا ہے۔ اسی وجہ سےبعض کا خیال ہے کہ یہ " جوان" مقدس مرقس خود تھے جوایک آپ بیتی واقعہ کا ذکر رہے ہیں۔

پس انجیلِ دوم کے بیانات کی تازگی ، تفصیلات کی شوخی، الفاظ کا رنگ وغیرہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ یہ انجیل قدیم ابتدائی زمانہ میں ہی مرتب کی گئی تھی۔ ہم اس بات کو اپنے روزانہ تجربہ سے جانتے ہیں کہ چشم دید گواہ بھی چھوٹے چھوٹے اورباریک نکتوں کو جو اوّل ان کے دماغ میں ہوتے ہیں ، امتداد زمانہ کے ساتھ یا تو بھول جاتے ہیں یا وہ اُن کو دھندلے گڈ مڈطور پر ہی یاد رکھ سکتے ہیں یا وہ ان کو اس قدر قابلِ التفات نہیں سمجھتے کہ ان کو بیان کریں لیکن اس انجیل میں یہ باریکیاں نہایت شگفتہ حالت میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بھری پڑی ہیں جس سے ہر منصف مزاج شخص اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نہ صرف اس انجیل کے ماخذ ابتدائی زمانہ سے متعلق رکھتے ہیں جو یا تو ہر واقعہ کے متصل وقت میں یا واقعہ کے فوراً بعد غیر منفصل (علیحدہ کیا گیا، جُدا)وقفہ میں لکھے گئے تھے بلکہ یہ انجیل بھی ان واقعات کچھ وقفہ کے بعد ہی جلدی مرتب کی گئی تھی جب یہ تفاصیل اورباریکیاں ذکرکرنے کے قابل خیال کی گئیں۔ بہر حال انجیلی مجموعہ کی تمام تصنیفات میں سے اس انجیل کے تذکرے اسی وقت کے ہیں جب آنخداوند کی زندگی میں یہ واقعات رونما ہوئے تھے ۔1

فصلِ سوم

انجیلِ مرقس کا پایہ اعتبار

گذشتہ فصل میں ہم نے انجیلِ مرقس کی چند خصوصیات بیان کی ہیں۔ ان سے ناظرین پراس انجیل کی قدامت ظاہر ہوگئی گی۔ اس کا ترتیب بیان بعینہ وہی ہے جو ابتدائی زمانہ میں رسولوں کی " منادی" کا تھا۔ اس کی تفصیلات کی تازگی ، بیان کی شگفتگی ، الفاظ کی شوخی وغیرہ وغیرہ سب کی سب اسی نتیجہ کی مصدق ہیں کہ یہ انجیل قدیم ترین زمانہ سے متعلق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر لمبی کہتاہے کہ" جو واقعات اس انجیل میں لکھے گئے ہیں وہ اسی زمانہ میں لکھے گئے تھے جب وہ رونما ہورہے تھے"۔

______________________

1Dr.R.Lumby, the Graphic and Dramatic Character of the Gospel of St.Mark. Expositor Vol11.Oct.1875 pp.269-284


اس انجیل کی قدامت اس کے بیانات پر مُہرِ صداقت ثبت کرتی ہے ۔ اس انجیل کے ماخذ اس سے بھی زیادہ قدیم ہیں جو اس میں نہایت ایمان داری سے لفظ بلفظ جمع کئے گئے ہیں۔ لہذا یہ انجیل صحیح ترین اور معتبر ترین تصنیف ہے جس کا تعلق دورِ اولین سے ہے۔

(۲)

چونکہ یہ انجیل نہایت معتبر تھی لہٰذا اس کی نقلیں ارضِ مقدس میں ہر جگہ مروج ہوگئیں اور دور دراز کے مقامات میں ایماند اروں کے ہاتھوں میں آگئیں۔جب دوسرے انجیل نویس اپنی انجیلوں کی تالیف کرنے لگے تو انہوں نے اس انجیل کو جوہر کلیسیا میں معتبر شمار ہوتی تھی اپنا ماخذ بنایا۔ مقدس متی اور مقدس لوقا دونوں اس کو اوّل درجہ کا معتبر ماخذ تسلیم کرکے اس کے الفاظ کو اپنی تصانیف میں نقل کرتے ہیں۔

چنانچہ جب ہم پہلی تین اناجیل کے الفاظ کا باہم مقابلہ کرتے ہیں تو چند ایک اُمور ہم پر منکشف(ظاہر) ہوجاتے ہیں۔ اگرہم ان الفاظ پر سرخ روشنائی سے لکیر کھینچیں جو پہلی اور دوسری انجیلوں میں یکساں ہیں ، اورنیلی روشنائی سے اُن الفاظ پر لکیر کھینچیں جو تینوں انجیلوں میں یکساں ہیں توہم پر عیاں ہوجائے گا کہ مقدس مرقس کی انجیل کے پیشتر الفاظ مقدس متی اور مقدس لوقا کی انجیلوں میں موجود ہیں اور مرقس کے باقیماندہ الفاظ کا ایک بہت بڑ ا حصہ یا تو مقدس متی کی انجیل میں پایا جاتاہے اوریا مقدس لوقا کی انجیل میں موجود ہے۔ اگر ہم زیادہ تفصیل سے مطالعہ کریں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ مقدس مرقس کی انجیل کے الفاظ کا تقریباً دوتہائی حصہ مقدس متی اور مقدس لوقا کی انجیلوں میں پایا جاتاہے ۔ اورباقیماندہ ایک تہائی حصہ سوائے تیس آیات کے یا تو مقدس متی کی انجیل میں موجود ہے یا مقدس لوقا کی انجیل میں پایا جاتاہے اورکہ مقدس متی نے سوائے پچپن آیات کے تمام انجیل مرقس کو نقل کیا ہے 1۔ بالفاظ دیگر:

(۱۔) انجیل اوّل کی تین چوتھائی سےزیادہ حصہ (۱۰۶۸آیات میں سے ۶۱۶آیات مرقس کی انجیل سے نقل کیا گیاہے۔s

(۲۔) انجیل سوم کی دو تہائی سے زیادہ حصہ (۱۱۴۹ آیات میں سے ۷۹۸آیات) اُن آیات پر مشتمل ہے جو مرقس کی انجیل سے نقل کی گئی ہیں ۔2

(۳۔)اگر ہم پہلی اور تیسری انجیلوں کے ایسے باقیماندہ مقامات اوران الفاظ کو جو اُن دونوں انجیلوں میں پائے جاتے ہیں ، نیلی سیاہی سے تحت الحظ کریں توہم پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ مقامات حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم پر مشتمل ہیں اور( ۲۳۶ آیات) پر مشتمل ہیں۔ یہ مقامات " رسالہ ِکلمات" میں سے اخذ کئے گئے ہیں جس کا ذکر ہم مفصل طورپر حصہ اوّل کے باب پنجم میں کر آئے ہیں۔

علماء میں اس رسالہ کی آیات کے تعین میں اختلاف ہے مثلاً سرجان ہاکنس 3کے خیال میں یہ رسالہ( ۸۵آیات) پر مشتمل تھا۔ اس اختلاف رائے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رسالہ اب ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے جس طرح انجیل مرقس ہمارے ہاتھوں میں ہے ہم انجیل متی اور متی انجیل لوقا کا مقابلہ کرکے کسی حد تک ہی اس رسالہ کو مرتب کرسکتے ہیں ۔ جس طرح بفرضِ محال اگرانجیل مرقس دنیا سے گم ہوجائے توہم ان دونوں انجیلوں کے مشترکہ مقامات سے انجیل مرقس کو کسی حد تک مرتب کرسکتے ہیں ۔ لیکن چونکہ مقدس مرقس کی انجیل ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔ لہٰذاانجیل اوّل وسوم کے مشترکہ مقامات میں سے انجیل کے مقامات کو خارج کرکے ہم جان سکتے ہیں کہ باقیماندہ مشترکہ مقامات رسالہ کلمات سے لئے گئے ہیں۔ اوریوں ہم

______________________

1Streeter, Synoptic Problem in Peak’s one Vol.Commentary p.673
2J.C.Hawkins Synoptic Problem ed.by W.Sanday p.29
3Horoe Synoptic (Oxford 1894)p.89


اس رسالہ کے مضامین اورالفاظ کا تعین کرسکتے ہیں اورچونکہ اس گمشدہ ماخذ کی خصوصی طرز ہے اوراس کا نکتہ نگاہ، الفاظ زبان کے محاورات ، اور امتیازی نشانات بالکل جداگانہ ہیں ۔لہٰذا اس کا تعین کرنے میں اوربھی آسانی ہوجاتی ہے ۔ 1

علمائے مغرب مذکورہ بالا نتائج پر ایک صدی کی بحث وتمحیص کے بعد پہنچے ہیں اوراب اس اہم نتیجہ پر سب متفق ہیں کہ مقدس متی اور مقدس لوقا نے انجیل مرقس کو نہایت معتبر ماخذ سمجھ کر اس کی( ۶۶۱آیات) میں سے( ۶۳۱) کو لفظ بلفظ نقل کرلیاہے۔

(۳)

ان انجیل نویسوں نے نہ صرف مقدس مرقس کے الفاظ کو ہی نقل کیاہے بلکہ انہوں نے اس کی ترتیب کو بھی بحال رکھاہے اورانجیل مرقس کے ڈھانچہ کو اپنالیا ہے ۔ اس کا مفصل ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتلانا کافی ہے کہ جس مقام پر یہ دونوں انجیل نویس اکٹھے مقدس مرقس کی انجیل کی ترتیب کی تقلید(پیروی) نہیں کرتے وہاں ان دونوں میں سے ایک اس ترتیب کی ضرور پیروی کرتاہے۔ حق تو یہ ہے کہ انجیل اوّل اورانجیل سوم میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں ہے جہاں یہ دونوں انجیل نویس مقدس مرقس کے بیان کے خلاف اتفاق کرتے ہوں2۔ چنانچہ مقدس متی اپنی انجیل کے پہلے حصے (ابواب ۸تا ۱۳) میں (مرقس ۱: ۲۹تا ۶: ۱۳) کی ترتیب کی مطابقت نہیں کرتے ۔ اگرچہ مقدس لوقا اس ترتیب کے مطابق چلتے ہیں لیکن مقدس متی اپنی انجیل کے دوسرے حصہ میں مقدس مرقس کی انجیل کی ترتیب کے مطابق اپنی انجیل کو مرتب کرتے ہیں۔ جب کبھی انجیل اوّل کا مصنف انجیل مرقس کو نقل کرتے وقت اپنے مقصد اورترتیب کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کی ترتیب کو چھوڑدیتا ہے تو مقدس لوقا اُسی ترتیب کو جاری رکھ کراس کے مطابق اپنی انجیل کو مرتب کرتاہے ۔ علیٰ ہذا القیاس جب کبھی مقدس لوقا اپنے خاص مقصد اور ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھ کر انجیل مرقس کی ترتیب کو چھوڑدیتا ہے ، تو مقدس متی اُس کی ترتیب کو جاری رکھ کر اس کے مطابق اپنی انجیل کو مرتب کرتاہے۔ اِن دونوں انجیلوں میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں ہے۔ جس میں مقدس مرقس کی ترتیب کو چھوڑ کر مقدس متی اور مقدس لوقا نے کسی دوسری ترتیب پر اتفاق کیا ہو۔

پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کیا بلحاظ نفسِ مضمون اورکیا بلحاظ الفاظ، اورکیا بلحاظ ترتیب، مقدس مرقس کی انجیل کو اناجیل اوّل وسوم کی حمایت حاصل ہے۔ ان امور سے ظاہر ہے کہ یہ صرف اس حالت میں ہوسکتاہے۔جب دونوں انجیل نویسوں کے سامنے ان کی انجیلوں کی تصنیف کےوقت مقدس مرقس کی سی سند رکھنے والی انجیل موجود ہو۔ پس عیاں ہے کہ مقدس مرقس کی انجیل پہلی اور تیسری انجیلوں سے بہت پہلے لکھی گئی تھی اورایسی مستند مانی جاتی تھی کہ بعد کے دونوں مصنفوں نے اس کی ترتیب اور مضمون بلکہ الفاظ تک کو نقل کرکے اُن کو اپنا نامناسب خیال کیا۔

گو ان تینوں انجیلوں کے الفاظ ، مضامین اور ترتیبِ واقعات فرداً فرداً یہ امر ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ مقدس متی اور مقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کو نقل کیاہے۔ لیکن جب ہم ان تینوں باتوں پر مجموعی طورپر غور کرتے ہیں تو یہ دلیل اور بھی وزن دار ہوجاتی ہے اور بغیر کسی شک وشبہ کے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ مقدس متی اور مقدس لوقا دونوں نے انجیل مرقس کو نہایت معتبر ماخذ قرار دے کر اس کو لفظ بلفظ (اور سوائے تیس(۳۰) آیات کے) سب کی سب انجیل کو نقل کیا ہے۔

______________________

1W.M.Ramsay, the Oldest Written Gospel, in Expositor Vol.111. May 1907
2Streeter, The Four Gospels.p.157
3Horoe Synoptic (Oxford 1894)p.89


(۴)

جب ہم اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کہ مقدس متی انجیل سوم سے واقف نہ تھے اور مقدس لوقا بھی انجیل اوّل سے ناواقف تھے اور دونوں ایک دوسرے کی تصنیفات سے بے نیاز تھے تو انجیل مرقس کا پایہ اعتبار ہماری نظروں میں اوربھی بلند ہوجاتاہے کیونکہ یہ امر اس حقیقت کو ثابت کردیتاہے کہ ارضِ مقدس کے مختلف کونوں میں انجیل مرقس کی اشاعت ہوچکی تھی اور وہ ہر جگہ مستند تسلیم کی جاتی تھی۔

ڈاکٹرایبٹ نے اس کی ایک دلچسپ مثال دی ہے1وہ کہتاہے" فرض کرو کہ تین لڑکے زید، بکر اور عمر کسی امتحان میں بیٹھے ہیں۔ جب اُن کے پرچے ممتحن (امتحان لینے والا)کے پاس جاتے ہیں تو وہ اُن کے پرچے پڑھ کر معلوم کرتاہے کہ زید اورعمر نے بکر کی نقل کی ہے۔ بسا اوقات(بعض دفعہ) جب دونوں امیدوار بکرکے الفاظ کی نقل کرتے ہیں تب تینوں کے جوابات لفظ بلفظ ملتے ہیں۔ بعض اوقات زید ایسے مقامات بکرکے پرچے سے نقل کرتاہے جو عمر نہیں کرتا اوربکر کے پرچے کے بعض مقامات ایسے ہیں جو زید نقل نہیں کرتا لیکن عمر اُن کو نقل کرتاہے ۔ لیکن یہ تینوں لڑکے اس طور سے بیٹھے ہیں کہ زید اور عمر ایک دوسرے کی نقل نہیں کرسکتے ۔ پس کسی ایک مقام میں بھی وہ دونوں کوئی ایسی عبارت نہیں لکھتے جو بکر کی عبارت کے خلاف ہو۔ ظاہر ہے کہ ہر ہوش مند ممتحن اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ زید اور عمر دونوں نے موقعہ پاکر بکر کی نقل کی ہے"۔

مقد س متی اور مقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کے الفاظ کو نقل کرتے وقت اپنے اس ماخذ کے بعض الفاظ اور فقرات ایسے پائے جو اُن کو ناگوار گزرے ۔پس انہوں نے یاتوایسے الفاظ کو نقل ہی نہ کیا یا اُن سخت الفاظ کی بجائے نرم الفاظ لکھ دئیے (مقابلہ کرو مرقس ۱۰: ۱۸؛ متی ۱۹: ۱۷ وغیرہ)۔ اس کے علاوہ انجیل دوم کی طرز تحریر کی خامی اور نحو ی کا مقابلہ انجیل اوّل اورسوم سے کرتے ہیں تو ان میں اسی قسم کا فرق پاتے ہیں جو کسی شخص کی تقریر میں اوراسی تقریر کی تحریری شکل میں پایا جاتاہے ۔مقدس مرقس کی عبارت اوراسلوبِ بیان ایک فی البدیہہ تقریر کرنے والے کا سا ہے۔ چنانچہ ایک نقاد لکھتاہے کہ" مرقس کی انجیل ایسی ہے کہ گویا کسی شخص نے کسی برجستہ مقرر کی تقریر شارٹ ہینڈ (مختصر نویسی ) میں لکھ لی ہو"۔ لفظ" فی الفور" مقدس مرقس کو بہت مرغوب ہے جو( ۴۱)مقامات میں آیا ہے جس کو دیگر انجیل نویس نقل نہیں کرتے ۔ مقدس متی اور مقدس لوقا اس کے بعض الفاظ کو بدل کر بڑی احتیاط کے ساتھ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو مختصر اورجامع ہیں اور نحوی لحاظ سے بہتر ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اشاعت کی غرض سے لکھے گئے ہیں2۔ کیونکہ ان کے فقرے جچنے تُلے (درست، پورے وزن کا)ہیں ۔ یہ امر بھی ثابت کردیتاہے کہ مقدس مرقس کی انجیل ایسے قدیم وقت میں لکھی گئی تھی ۔جب مقدس مرقس اوراس کے ماخذ دونوں اس بات کی طرف سے بے نیاز تھے ان کی زبان کے الفاظ سخت ہیں یا نرم ، وہ صرف ونحو کے قواعد کے عین مطابق ہیں یا اُن میں نحوی خامیاں پائی جاتی ہیں۔یاکہ وہ ادبی شاہکار ہیں یا نہیں چنانچہ ایلن کہتاہے کہ" انجیل دوم کوئی ادبی تصنیف نہیں ہے جس کو کسی بڑے پایہ کے مصنف نے لکھا ہو3۔ لیکن یہی امر اس کی قدامت اوراس کے پایہ اعتبار کا ایک بین اور زبردست ثبوت ہے۔

______________________

1 E.A.Abbot, The Four fold Gospels Section 1p.12
2Streeter, Four Gospels pp.162-164 ff. also quoted by Butler in The Originality of St.Matthew (1951) p.167
3W.C.Allen, in J.T.S. Jan-April 1946 p.46


(۵)

اس انجیل کا پایہ اعتبار اس بات سے بھی ثابت ہے1۔ کہ اس میں جن سماجی اور سیاسی حالات کا ذکر ہے وہ عین بعین اصل تواریخی حالات کے مطابق ہےمثلاً یہ انجیل بتلاتی ہے کہ گلیل میں " عبادت خانوں کے سردار " مذہبی رہنما تھے لیکن یروشلیم میں سردار کاہن مذہبی رہنما تھے اور کہ فریسی اورفقیہہ ہر جگہ موجود تھے لیکن صدوقی صرف یروشلیم میں تھے اورکہ آنخداوند کے لئے یروشلیم کا شہر صوبہ گلیل سے زیادہ خطرناک تھا۔ مقدس مرقس بتلاتے ہیں کہ آنخداوند کو انتی پاس سے خطرہ تھا(مرقس۶: ۱۴) ۔لہٰذا آپ اس کے علاقہ سے دیگر مقامات کو چلے جایا کرتے تھے (مرقس۳: ۷؛ ۴: ۱؛ ۴: ۳۵؛ ۶: ۴۵؛ ۸: ۱۳؛ ۷: ۲۴؛ ۷: ۳۱؛ ۸: ۲۷ وغیرہ)۔ کیونکہ قیصریہ ،فلپی ، فینیکے ، بیت صیدا میں آپ اس ظالم اور جابر حکمران کے ہاتھ سے محفوظ تھے۔ چونکہ یہ اوردیگر بیانات ارض مقدس کے خارجی حالات کے عین مطابق ہیں ۔لہٰذا ظاہر ہے کہ مقدس مرقس کی انجیل قدیم ترین بیانات پر ہی مبنی ہے۔ کیونکہ یہ حالات بعد میں بدل گئے تھے ۔ پس خارجی تواریخی واقعات بھی اس انجیل کی قدامت اوراس کے پایہ اعتبار کے مستند ہونے کا گواہ ہیں۔

جوزیفس مورخ کی کتُب سے ہم کو ارضِ مقدس کے اُن حالات کا پتہ چلتاہے جو( ۳۰ء) میں پائے جاتے تھے۔یہودی کتُبِ تالمود سے ہم کو اُس زمانہ کے یہود کے خیالات اورحالات کا پتہ چلتاہے ۔ جب ہم ان کا مقدس مرقس کی انجیل سے مقابلہ کرتے ہیں توہم پر عیاں ہوجاتاہے2کہ اس انجیل میں یہی حالات نہایت صحت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل اُن حالات کے دوران میں ہی لکھی گئی تھی۔ کیونکہ جیسا برکٹ کہتا ہے کہ یہ تمام حالات یروشلیم کی تباہی کے صفحہ ہستی سے محو ہوچکے تھے۔ اس انجیل کے حالات کا نقشہ ایسا ہے کہ مابعد کے زمانہ میں قوت متخیلہ (سوچنے کی قوت)اس قدرصحت کے ساتھ ان کو دوبارہ خلق ہی نہیں کرسکتی تھی ۔3

______________________

1Blunt,St.Mark p.36
2Burkitt,Gospel.History & its Transmission p.66
3Ibid.pp.67-68


باب دوم

انجیل متی کی تالیف

فصل اوّل

انجیلِ متی کے ماخذ

ہم گذشتہ فصل میں بتلاچکے ہیں کہ انجیلِ اوّل کے مصنف نے اپنی انجیل کو تالیف (کتاب مرتب کرنا،مختلف کتابوں سے مضامین چن کر نئے پیرائے میں ترتیب دینا)کرتےو قت دو ماخذاستعمال کئے تھے جن کا ہم مفصل ذکرکر آئے ہیں یعنی:

(۱۔)رسالہِ کلمات:۔ جس کا ذکر ہم حصہ اوّل کے باب پنجم کی فصل اوّل میں کر آئے ہیں۔یہاں یہ بتلانا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اہِل یہود اپنی مذہبی کتُب کو بالعموم پانچ حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ مثلاً تورات کی پانچ کتابیں ہیں ۔ زبور کی پانچ کتابیں ہیں جن میں سے ہر ایک کتاب خدا کی حمدو تعریف کے الفاظ سے ختم ہوتی ہے۔ اسی طرز پر مقدس متی کا رسالہِ کلمات بھی پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ انجیل اوّل بھی پانچ حصوں میں منقسم ہے جس کا ہر حصہ خاص مقرری الفاظ سے ختم ہوتاہے " جب یسوع نے یہ باتیں ختم کیں"(متی۷: ۱۸ وغیرہ)۔ یہ پانچ حصے حسب ذیل ہیں:

(۱۔) پہاڑی وعظ (متی باب ۵تا ۷)۔

(۲۔) بارہ رسولوں کو ہدایات (متی ۱۰: ۵ تا آخر)۔

(۳۔) خدا کی بادشاہی کی سات تمثیلیں (متی۱۳: ۳۔ ۵۲)۔

(۴۔) آنخداوند کے مختلف احوال(باب ۱۸)۔

(۵۔) (متی ۲۱: ۲۸تا ۲۲: ۱۴ فریسیوں اور فقیہوں پر سات بارافسوس کرنا(متی ۲۳باب)مسیح کی آمد کی پیشین گوئیاں(متی باب ۲۴) اور عدالت کی تمثیلیں(متی ۲۵باب)۔

مقدس متی نے جورسالہِ کلمات جمع کیا تھا اُس کا شروع مبارکبادیوں سے اورآخر عدالت کی تمثیل سے ختم ہوتا تھا۔

(۲۔) مقدس مرقس کی انجیل:۔ اس انجیل کی( ۶۶۱)آیات میں سے مقدس متی نے( ۶۰۶) آیات انجیلِ دوم سے نقل کی ہیں۔ مقدس متی نے نہ صرف انجیل دوم کی آیات کو نقل کیا ہے بلکہ اس نے انجیل دوم کے خاکہ اور واقعات کی ترتیب کو بھی برقرار رکھا ہے اوراس خاکہ کے ڈھانچہ میں دیگر ماخذوں کے مسالہ (سامان)کو استعمال کیا ہے۔

(۳۔) مقدس متی نے نہ صرف رسالہ ِکلمات کو استعمال کیاہے بلکہ دوسرے قدیم رسالہ یعنی رسالہِ اثبات کو بھی اپنا ماخذ بتایا ہے اوراس کی جابجا بارہ مقامات میں استعمال کیاہے ۔ استعمال سے پہلے وہ خاص مقرری الفاظ" اس وقت وہ بات پوری ہوئی جوسیدنا مسیح نے نبی کی معرفت کہی تھی" لکھتاہے (متی۱: ۲۲؛ ۲: ۵ وغیرہ) اس رسالہ کا مفصل ذکر ہم حصہ اوّل کے باب پنجم کی فصل دوم میں کر آئے ہیں ۔

(۴۔) سیدنا مسیح کا نسب نامہ :۔جس میں ثابت کیا گیاہے کہ مسیح موعود ابنِ داؤد اورابنِ ابراہام تھے(متی باب۱: ۱۔ ۱۷)۔ یہ ماخذ بھی تحریری تھا۔

(۵۔) ایک ماخذ ایسا ہے جس میں مسیح موعود کے یہودی مخالفوں کے اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا گیا ہے۔ مخالفین مسیحیت مقدسہ مریم باکرہ کی عصمت اور مسیح موعود کے طرز پیدائش پر اعتراض کرتے تھے۔ اس ماخذ کے اس خاص حصہ کا سرچشمہ مقدس یوسف کا خاندان معلوم ہوتاہے جو قدرتی طورپر دورِ اولین میں کلیسیا میں ممتاز ترین خاندان تھا۔ بعض عصمتِ مسیح کی حقیقت پر اعتراض کرکے کہتے تھے کہ اگر آپ گناہ سے بری ہوتے تو آپ مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ہاتھ سے بپتسمہ نہ پاتے ۔ بعض یہ اعتراض کرتے تھے کہ اگر آنخداوند مجرم نہ ہوتے تو رومی گورنر آپ کو مصلوب نہ کرتا ۔ بعض مخالفین قیامت مسیح کے منکر تھے۔ اورکہتے تھے کہ آپ کے شاگردوں نے آپ کا مبار ک لاشہ چرالیا تھا اور یہ مشہور کردیا تھا کہ آپ مردوں میں سے جی اٹھےہیں۔

اس ماخذ میں ابتدائی کلیسیا کے فاضل معلموں نے قدیم ترین زمانہ کے معتبر بیانات کو جمع کرکے ان اعتراضات کے جواب دے کر مسیح موعود کے دشمنوں کے دانت کھٹے کردئیے تھے۔ چونکہ یہ جوابات بڑے کام کےتھے لہذا انجیل اول کے مولف نے اس رسالہ کو جس میں یہ جوابات درج تھے ، اپنا ماخذ بنا کر اس کو اپنی انجیل میں شامل کرلیا۔ چنانچہ انجیل کے پہلے تین ابواب میں اور آخری دوابواب میں اس ماخذ سے کام لیا گیاہے۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ ماخذ ابتدائی زمانہ میں لکھا گیا تھا اس بات سے بھی ملتا ہے کہ انجیل کے پہلے دوابواب میں خدا اپنی مرضی کو خواب میں ظاہر کرتاہے جس طرح تورات کے مختلف حصوں میں خدا اپنی مرضی کو پہلے وقتوں میں خواب کے وسیلے ظاہر کیا کرتا تھا ۔ چنانچہ الفاظ" خواب میں" پانچ دفعہ ان دوابواب میں اور(متی ۲۷: ۱ )میں آئےہیں لیکن تمام انجیل میں کسی اورجگہ وارد نہیں ہوئے۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ قدیم ماخذ تحریری صورت میں موجود تھا اورکہ یہ سب مقامات اسی سے لئے گئے ہیں۔

(۶۔) ایک اور ماخذ مقدس متی کے سامنے تھا جس میں یہودیہ کے گورنر پنطوس پلاطوس کی نسبت بیان موجود تھے۔ مقدس متی نے اس ماخذ کو(متی ۲۷: ۲۴۔ ۲۵، ۶۲۔ ۶۶ ، ۲۸: ۱۱۔ ۱۵) میں استعمال کیاہے ۔1

(۷۔) مذکورہ بالا ماخذوں کے علاوہ اس انجیل میں حسب ِذیل واقعات پائے جاتے ہیں جو اس کے مولف نے تحریری اور زبانی بیانات سے حاصل کئے تھے : 2

(۱۔) کفر ناحوم میں منادی کا شروع (متی۴: ۱۲۔ ۱۷)

(۲۔) صوبہ دار کے خادم کاشفا پانا (۸: ۵۔ ۱۳)

______________________

1St.Matthew, The Century Bibl (1922) p.25
2The Mission & Message of Jesus pp.219-250


(۳۔) دو شخصوں کے شاگرد ہونے کی خواہش (۸: ۱۸۔ ۲۲)

(۴۔) دواندھوں کا بینائی پانا (۹: ۲۷۔ ۳۱)

(۵۔) گونگے کو شفا بخشنا (۹: ۳۲۔ ۳۴)

(۶۔)مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پیغامبر(۱۱: ۲۔ ۶)

(۷۔) مقدس پطرس کا پانی پر چلنا(۱۴: ۲۸۔ ۳۱)

(۸۔) مچھلی کے منہ سے سکہ کا برآمد ہونا(۱۷: ۲۴۔ ۲۷)

(۹۔) یہوداہ غدار کا انجام(۲۷: ۳۔ ۱۳)

(۱۰۔) یہودی مقدسوں کا قبروں سے نکلنا (۲۷: ۵۱۔ ۵۳)۔

(۱۱۔) سیدنا مسیح کاقیامت کے بعدگلیل میں دکھائی دینا (۲۸: ۱۶۔ ۲۰)۔

مذکورہ بالا واقعات مقدس مرقس کی انجیل میں نہیں ہیں۔ پس یہ انجیل سے نہیں لئے گئے ۔

(۸۔) مقدس متی نے اپنے رسالہِ کلمات کی تعلیم کے علاوہ دیگر چشم دید گواہوں کے تحریری اور زبانی بیانات سے حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کے حصص (حصہ کی جمع،ٹکڑا)اپنی انجیل میں شامل کئے ہیں۔ کیونکہ آنخداوند کے ہزارہا سامعین میں سے’’ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ‘‘تھی کہ وہ سیدنا مسیح کی تعلیم کو لکھیں اوریہ پارے مختلف کلیسیاؤں میں رائج تھے۔ لیکن ایمانداروں کی تعداد کی کثرت اوراُن کی پراگندگی نے یہ ضرورت پیدا کردی کہ کلیسیا کے معلموں کے لئے ان مختلف پاروں کو جمع کیا جائے۔ ان معلموں کے ہاتھوں میں رسالہِ کلمات اورآنخداوند کی زندگی کے حالات ، معجزات اور واقعہ صلیب کے بیانات موجود تھے۔ انجیل مرقس بھی اُن کے ہاتھوں میں تھی لیکن بعض رسالوں اور پاروں میں جو سیدنا مسیح کی تعلیم تھی وہ جمع نہ تھے ۔ مقدس یعقوب ان پاروں میں سے بعض کی تعلیم سے واقف تھے(یعقوب ۱: ۵؛ ۲: ۸؛ ۳: ۱۲؛ ۴: ۳؛ ۵: ۳، ۹، ۱۲ وغیرہ)۔یہ ماخذ یروشلیم کی کلیسیا کے ہاتھوں میں تھے1۔ مقدس متی نے ان پاروں کو جو اس کے مطلب کے تھے اپنی انجیل میں شامل کرلیا تاکہ یہودی مسیح کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں ایک جامع انجیل ہو۔ چنانچہ ذیل کے مقامات مقد س متی نے ان پاروں سے لئے اوریہ مقامات صرف انجیل اوّل میں ہی پائے جاتے ہیں2

(۱۔) (متی ۳: ۱۴۔ ۱۵)۔ سیدنا مسیح کے بپتسمہ پانے کے متعلق ایک پارہ ہے۔

(۲۔)(متی ۵: ۷۔ ۱۰) کی مبارک بادیاں

(۳۔)(متی ۵: ۱۳۔ ۱۶)۔ نمک اورنور کے استعارات

(۴۔)(متی ۵: ۱۷تا ۷: ۲۹ )کے وہ مقامات جو رسالہِ کلمات سے اخذ نہیں کئے گئے ۔

(۵۔)(متی ۱۰: ۵۔ ۱۶؛ ۱۰: ۲۳۔ ۲۵، ۴۰ تا ۱۱: ۱ )دوازدہ رسولوں کو ہدایات ۔

(۶۔)(متی ۱۱: ۱۴۔ ۱۵) یوحنا بپتسمہ دینے والا اورایلیاہ نبی ۔

______________________

1 B.H.Streeter, Sources of the Gospels, in an Outline of Christinaity ed.Peake & P.Harson Vol1.p309.
2The Mission & Message of Jesus.pp.441-544


(۷۔) متی ۱۱: ۲۸تا ۳۱۔ دعوتِ عام۔

(۸۔)( متی ۱۲: ۵۔ ۷، ۱۱۔ ۱۲) سبت سے متعلق ہیں۔

(۹۔)(متی ۱۲: ۳۴(الف) ۳۶۔ ۳۷) انسان کا قول اور فعل۔

(۱۰۔)(متی ۱۳باب )میں چند اقوال ہیں جو صرف انجیل اوّل میں ہی پائے جاتے ہیں۔

ان کو رسالہ ِکلمات اورانجیلِ مرقس کے ساتھ ترتیب دے کر لکھا گیا ہے۔ یہ اقوال آیات ۲۴۔ ۳۰، ۳۶، ۴۳۔۴۷، ۵۰۔ ۵۱، ۵۳ میں پائے جاتے ہیں۔

(۱۱۔)( متی ۱۵: ۱۲۔ ۱۳) بعض پودوں کا اُکھاڑا جانا۔

(۱۲۔)(متی ۱۵: ۲۲۔ ۲۵) غیر اقوام سے متعلق ہے۔

(۱۳۔)(متی ۱۶: ۲۔ ۳) زمانہ کے نشان۔

(۱۴۔)(متی ۱۶: ۱۷۔ ۱۹) کلیسیا میں مقدس پطرس کا مقام۔

(۱۵۔)(متی ۱۷: ۲۰) مضبوط ایمان کی طاقت ۔

(۱۶۔)(متی ۱۸: ۲۔ ۴) مسیحی رفاقت ۔

(۱۷۔)(متی ۱۸: ۱۰، ۱۲۔ ۱۴) کلیسیا اورگمراہ لوگ۔

(۱۸۔)(متی ۱۸: ۱۵۔ ۲۲) کلیسیا کی اندرونی زندگی۔

(۱۹۔)(متی ۱۸: ۲۳تا ۱۹: ۱) بے رحم مختار کی تمثیل۔

(۲۰۔)(متی ۱۹: ۱۰۔ ۱۲) کنوارہ پن اور بیاہ کی حالت۔

(۲۱۔)(متی ۱۹: ۲۸) بارہ رسولوں کی جزا۔

(۲۲۔)(متی ۲۰: ۱۔ ۱۶) انگورستان کے مزدوروں کی تمثیل۔

(۲۳۔)(متی ۲۱: ۱۴۔ ۱۶) سردار کاہنوں او رفقیہوں کا جوش کو بُرا منانا۔

(۲۴۔)(متی ۲۱: ۲۸۔ ۳۲) دوبیٹوں کی تمثیل

(۲۵۔)(متی ۲۱: ۴۳۔ ۴۴) بادشاہی کا دوسری قوم کو دیا جانا۔

(۲۶۔)(متی ۲۲: ۱۔ ۱۴) شادی کی ضیافت کی تمثیل۔

(۲۷۔)(متی ۲۳: ۱۔ ۷) فریسیوں اور فقیہوں پر ملامت۔

(۲۸۔)(متی ۲۳: ۸۔ ۱۲) شاگردوں کو آگاہی ۔

(۲۹۔)(متی ۲۳: ۱۳۔ ۳۶) فقیہوں اور فریسیوں پر افسوس۔

(۳۰۔)(متی ۲۴: ۱۰۔ ۱۲، ۳۰(الف) آمدِ ثانی سے متعلق ہیں۔


(۳۱۔)(متی ۲۵: ۱۔ ۱۳) دس کنواریوں کی تمثیل۔

(۳۲۔)(متی ۲۵: ۱۴۔ ۳۰) توڑوں کی تمثیل۔

(۳۳۔)(متی ۲۵: ۳۱۔ ۴۶) آخری عدالت۔

جب ہم اس ماخذ کے مضامین میں کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر چند باتیں عیاں ہوجاتی ہیں:۔

اوّل:۔ اس ماخذ کی فضا انجیل نویس کے دوسرے ماخذ یعنی انجیل دوم سے بالکل جداگانہ ہے۔ اس کی فضا یہودیت کی فضا ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ماخذ ارضِ مقدس کے یہودی مسیحی نومریدوں سے تعلق رکھتاہے۔ کیونکہ اس میں شریعت اورانجیل مسیح دوالگ لگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ مسیح موعود کی انجیل خودایک نئی شریعت ہے یا یوں کہو کہ وہ موسوی شریعت کی ایک نئی ایڈیشن ہے۔"انجیل کوئی نئی مے نہیں جو پرانی مشکوں میں بھری ہو بلکہ وہ وہی پرانی مے ہے جس کا عرق مقطر (قطر ہ قطرہ کر کے ٹپکایا اور صاف کیا ہوا)کرکے کھینچا گیا ہے۔ پس وہ تیز اور قوی الاثر ہے ۔1

ادوم:۔ اس ماخذ میں بعض ایسی باتیں ہیں جو یہودی ربیوں کی تصنیفات سے ملتی جلتی ہیں۔ مثلاً(متی ۵: ۷، ۲۸۔ ۳۰، ۳۷) کے خیالات تالمود اور مدراش میں بھی پائے جاتے ہیں 2بعض مقامات میں طرز تحریر ربیوں کی طرز کی سی ہے۔ اس ماخذ میں یہودی اصطلاحات پائی جاتی ہیں مثلاً انجیل کا جُوا اور شریعت کا جُوا ۔ آسمانی باپ وغیرہ جس سے ظاہر ہے کہ یہودی مسیحی ربیوں کی فاضل جماعت نے حضر ت کلمتہ اللہ کے اُن کلماتِ طیبات کو محفوظ رکھا تھا جن کا تعلق یہودی ربیوں کی تصنیفات سے تھا۔ اس کا مفصل ذکر ہم انشاء اللہ آگے چل کر کریں گے۔

سوم:۔ اس ماخذ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تعلیم میں اور مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی تعلیم میں بہت زیادہ تعلق ہے۔نہ صرف مقدس یوحنا کی تعلیم بلکہ اس تعلیم کے الفاظ بھی اس ماخذ میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً(متی ۷: ۹ )کے الفاظ اور خیالات رسالہ ِکلمات سے ملتے ہیں (متی ۳:۱۰ ؛لوقا ۳: ۹) کڑوے دانوں کی تمثیل (متی ۱۳: ۲۴۔ ۳۰، ۳۶۔ ۴۳) بڑے جال کی تمثیل (متی ۱۳: ۴۷۔ ۵۰)۔ بکریوں اور بھیڑوں کی تمثیل (متی۲۵: ۳۱۔ ۴۶)۔ ضیافت کی تمثیل(متی ۲۲: ۱۱۔ ۱۴) کے خیالات کچھ اختلاف کےساتھ وہی ہیں جو بپتسمہ دینے والے کے ہیں اورجو رسالہ ِکلمات میں موجود تھے (متی ۳: ۱۲؛لوقا ۳: ۱۷)۔ان کےمنہ کے الفاظ(متی ۳: ۷؛ لوقا ۳: ۷)۔ جو رسالہِ کلمات میں (متی ۱۲: ۳۴ ؛۲۳: ۳۳ )میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن تمام انجیل میں کسی اورجگہ نہیں ملتے جس سے ظاہر ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کے پیشرو کے خیالات اور آپ کے خیالات میں تفاوت(فاصلہ ، جُدائی) نہیں پایاتھا۔ جبھی آپ نے فرمایا کہ " جوعورتوں سے پیدا ہوتے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑانہیں ہوا"لیکن چونکہ آپ کی انجیل حضرت یوحنا کے ابتدائی خیالات سے بہت آگے بڑھی ہوئی تھی ۔آپ نے ساتھ ہی فرمایا " لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹاہے وہ یوحنا سے بڑا ہے"(متی ۱۱: ۱۱؛ لوقا ۷: ۲۸)۔آپ کا یہ قول رسالہِ کلمات میں تھا، جس سے یہ بھی عیاں ہوجاتاہے کہ مقدس متی کے مختلف ماخذوں میں نہ تفاوت تھی اورنہ تناقض یا تضاد بلکہ وہ ایک دوسرے کے تکملہ تھے جوایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتے تھے ۔ کسی ماخذ میں حضرت کلمتہ اللہ کا ایک قول درج تھا اورکسی میں دوسرا ۔ ماخذوں کے لکھنے والوں نے اپنے اپنے مقصد کے مطابق آپ کے مبارک کلمات کو جمع کیا ہوا تھا۔

______________________

1T.W.Manson, The Teching of Jesus (1939)p.34
2G.F.Moore, Judaism Vol2.pp.267 ff


(۹۔) صلیب کے واقعات کاایک ماخذ مقدس متی کے سامنے تحریری صورت میں موجود تھا ۔ آپ نے مقدس مرقس کے صلیبی واقعہ کے بیان میں اس ماخذ کے الفاظ کو شامل کردیا چنانچہ(متی ۲۶: ۱۴۔ ۱۶؛ ۲۷: ۱۹، ۲۴۔ الخ ۲۷: ۵۱۔ ۵۳ ؛ ۲۷: ۶۲۔ ۶۶ ؛ ۲۸: ۲۔ ۴؛ ۲۸: ۱۱۔ ۱۵)اِس ماخذ کے حصے ہیں ۔1

(۹۔) مندرجہ بالا ماخذوں پر سطحی نظر ڈالنے سے بھی یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ ماخذ کنعان کے ہیں اورسب کے سب قدیم ترین زمانہ سے متعلق ہیں۔ وہ رسالہِ کلمات کے بعد لکھے گئے تھے اور تحریر میں آچکے تھے2۔ چنانچہ جرمن نقاد ہارنیک نے اس انجیل کے ماخذوں کی مفصل تنقید کی ہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچاہے کہ یہ ماخذ ابتدائی قسم کے ہیں ۔3

مقدس متی کا طریقہ تالیف یہ ہے کہ وہ مقدس مرقس کی انجیل کے ڈھانچہ کو برقرار رکھ کر اس ڈھانچہ میں کسی واقعہ یا بیان کو نقل کرتے وقت دیگر ایسے موزوں بیانات واقعات اورکلمات کو ایزاد کردیتاہے کہ جو اس واقعہ یا بیان سے تعلق رکھتے ہوں۔ مقدس مرقس کی انجیل کو نقل کرتے وقت جب یہ دیکھتاہے کہ کسی واقعہ یا بیان کی تفصیل ایسے دیگر بیانات میں پائی جاتی ہے جو" رسالہِ کلمات" میں اُس کے کسی اورماخذ میں موجود ہیں تو وہ اُن ماخذوں کے بیانات یا واقعات اورکلمات کو اُس خاص مناسب اور موزوں موقعہ پر درج کردیتا ہے ۔ مثلاً وہ(متی ۹: ۱۰۔ ۱۲) کےکلمات کو طلاق کے سوال سے متعلق کردیتاہے۔ مقدس مرقس کے الفاظ" اول آخر ہوجائیں گے اور آخر اول" کے بعد وہ تاکستان کے مزدوں کی تمثیل کا ذکر کرتاہے (متی۱۹: ۳۰)۔ شریر باغبانوں کی تمثیل سے وہ شادی کی دعوت اور دوبیٹوں کی تمثیلیں متعلق کردیتاہے (متی ۲۱: ۳۳)۔

اس موقعہ پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مقدس متی حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کو ہر موزوں موقعہ پر اکٹھا کرکے مجمع کردیتاہے ۔ چنانچہ چار مختلف مقامات پر مقدس مرقس کے مختصر مکالمات شروع کرکے وہ دیگر ماخذوں سے کلمات اکٹھے کرکے جمع کردیتاہے جو لمبے مکالموں کی صورت اختیار کرلتیےہیں۔ مثلاً مقدس مرقس کی سات آیات (۶: ۷۔الخ) انجیل متی میں بیالیس آیات ہوجاتی ہیں(متی ۱۰باب)۔انجیل مرقس کی بارہ آیات (متی ۹: ۳۳ ۔ ۳۷ ، ۴۲، تا ۴۸) انجیل اوّل میں ۳۵ آیات ہوجاتی ہیں (متی ۱۸باب)۔ انجیل متی میں مرقس کے ۱۳باب کے بیان کو کھول کر واضح کردیا گیا ہے اور ۲۵باب میں عدالت کی تمثیلیں بڑھا دی گئی ہیں۔ پہاڑی وعظ کے تمام کلمات کو اس طورپر جمع کیا گیا ہے کہ وہ مرقس کی آیت (مرقس ۱: ۲۲؛ متی ۷: ۲۹) کی توضیح (وضاحت)ہوجاتے ہیں۔

فصل دوم

مقدس متی کی انجیل کی خصوصیات

ہم گذشتہ فصل میں بتلاچکے ہیں کہ مقدس متی نے اپنی انجیل میں آنخداوند کی تعلیم کوجورسالہِ کلمات میں درج تھی ۔پانچ مختلف عنوانوں کے ماتحت یکجا جمع کیا ہے۔ یہ طریقہ ابتدائی ایام کی کلیسیا کی ضروریات کے مطابق تھا4۔ کیونکہ ان ابتدائی ایام میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس ن

______________________

1 Vincent Taylor, The Formation of Gospel Tradition p.54
2Barton, “Prof. Torrey’s Theory of Aramic Origin of Gospels.J.T.S Oct,1943.p.358
3W.C.Allen,Harnack and Moffat on the Date of the First Gospel’s Exp. Times , May 1911 pp.349 ff
4Rev.V.C Macmunn, Who Compiled the Sermon on the Mt Exp. Times Feb 1924


نئے "طریق" (اعمال ۹: ۲) کے قوانین وقواعد ضبطِ تحریر میں آئیں تاکہ کلیسیا کے روز افزوں یہودی شرکاء اس نئی شریعت سے واقف ہوجائیں جوایک ایسے شخص نے دی تھی جو حضرت موسیٰ سے بھی بڑا نبی تھا۔ غیر یہودی نومریدوں کے لئے تو یہ ضرورت نہایت اشد تھی تاکہ یہ لوگ جوپہلے بُت پرست اورمشرک تھے ۔سیدنا مسیح کی اخلاقیات کے قوانین اور روحانی معیاروں سے واقف ہوجائیں مقدس متی نے یہودی مومنین کی جماعت کی ضروریات کو مدِ نظر رکھ کر رسالہِ کلمات کے مختلف اور متفرق اقوال کو مختلف عنوانوں کے ماتحت پانچ حصوں میں تورات کی پانچ کتابوں کی تقسیم کو پیش نظر رکھ کر مرتب کیا اورسیدنا مسیح کی تعلیم کو ایک نظام میں منظم کردیا۔

اہلِ یہود میں پانچ کا عدد اکثر استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ جیساہم بتلاچکے ہیں تورات اور زبور کی پانچ کتابیں تھیں اوراسی لحاظ سے اس انجیل میں سیدنا مسیح کے کلمات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ علاوہ ازیں تین کا عدد بھی اکثر استعمال کیا جاتا تھا اوراس انجیل میں اس عدد کی ۳۸مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ مثلاً طفولیت مسیح کے تین واقعات ہیں(متی۲: ۱۔ ۲۳)۔ سیدنا مسیح کی آزمائشوں کی تین مثالیں دی گئی ہیں(متی ۴: ۱۔ ۱۱)۔ پہاڑی وعظ میں راستبازی کی تین مثالیں ہیں(متی ۶: ۱۔ ۱۸) ۔ تین باتوں کی ممانعت ہے (متی ۶: ۱۹تا ۷: ۶)۔ فکر نہ کرنے کی تین مثالیں موجود ہیں(متی ۶: ۲۵۔ ۳۱، ۳۴) ۔ سیدنا مسیح کی زندگی کےواقعات میں شفا پانے کے تین معجزے بتلائے گئے ہیں (متی ۱۸: ۱۔ ۱۵)۔ طاقت کے تین معجزے (متی ۸: ۲۳تا ۹: ۸) اوربحالی کے تین معجزے درج کئے گئے ہیں (متی۶: ۸۔ ۳۴)۔ فریسیوں کو تین نشان(۱۲: ۳۸۔ ۴۲) گتسمنی باغ میں تین دعائیں (متی ۲۶: ۳۹، ۴۲، ۴۴)۔سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے تین گواہ موجود ہیں (متی ۲۸: ۱۔ ۱۰، ۱۱۔ ۱۵، ۱۶۔ ۲۰) وغیرہ وغیرہ۔

مقدس متی نے اس انجیل میں تین پانچ سات اور دس کے عدد کو کثرت سے استعمال کیاہے۔ کیونکہ عہدِ عتیق کی کتب میں یہ عدد کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ تین سب سے چھوٹا عدد ہے جس میں شروع ، درمیان اور آخرپایا جاتاہے اور وہ طاق اورجفت کی جمع بھی ہے۔ ہفتہ کے سات دن ہوتے ہیں جن کاتعلق چاند کی مختلف صورتوں سے ہے۔ پس یہ عد کاملیت اورکثرت کا نشان ہے اوراہلِ یہود میں یہ عدد خاص طورپر مقدس سمجھا جاتا تھا۔

اغلب (ضرور)ہے کہ مقدس متی نے تین ، پانچ ، سات اوردس کے اعداد اس غرض سے استعمال کئے تھے تاکہ معلم اور شاگرد (جو انجیل کو سکھلاتے اورسیکھتے تھے) دونوں کے حافظہ کو مدد مل جائے۔ چنانچہ جان ہاکنس کہتے ہیں1۔ " اہل یہود تعلیم کے لئے اس طریقہ کو استعمال کیا کرتے تھے ۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تورات کی پانچ کتابیں تھیں اورزبور کی پانچ کتابیں تھیں اوراکلی زی ایس ٹیکس Ecclesiastics کے پانچ حصے تھے اورحنوک کی کتاب پانچ حصوں میں منقسم ہے توہم سمجھ سکتے ہیں کہ مقدس متی نے انجیل میں آنخداوند کے کلمات کو بھی پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کے آخر میں لکھا" جب یسوع یہ باتیں ختم کرچکا تو ایسا ہوا"(متی ۷: ۲۸؛ ۹: ۱؛ ۱۳: ۵۳؛ ۱۹: ۱ ؛ ۲۶: ۱)۔پس اس انجیل کی ترتیب واقعات کی تواریخی بنا پر مرتب نہیں کی گئی بلکہ تواریخی واقعات کو یہودی قالب میں ڈھال کر مرتب کیاگیا ہے ۔

پروفیسر بیکن بھی لکھتاہے 2 " یہودی تصنیفات کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ وہ اعداد کے لحاظ سے ان کو تقسیم کرتے ہیں بالخصوص خطبات کو وہ پانچ حصوں میں تقسیم کرتے تھے اوران حصوں کے شروع اورآخر میں خاص مقرری الفاظ کا استعمال یہودی روایات کا حصہ ہے۔۔۔۔ اسی لحاظ سے انجیل متی کے بھی پانچ حصے ہیں۔ تمہید ابواب ۱۔ ۲۔ کے بعد پہلا حصہ شروع ہوتاہے (باب ۳تا ۷)۔ دوسرا حصہ ابواب ۸تا۱۰ پر مشتمل ہے۔پانچواں حصہ ۱۹تا ۲۵ ابواب پر شامل ہے۔ اورباب ۲۶ تا ۲۸ تمتہ (اختتام)ہیں۔ اس انجیل کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ سیدنا مسیح کی یہ پانچ کتابیں تورات شریف کی پانچ ک

______________________

1Sir.J.C Hawkins, Hore Synoptics p.131
2Prof.B.W.Bacon, “Five Books of Matthew against Jews, Expositor, January, 1918 pp.56-66


کتابوں کی تکمیل ہیں"۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ دوازدہ رسول آنخداوند کے کلماتِ طیبات کے تورات کے الفاظ کی طرح الہٰامی گردانتے تھے(یوحنا ۱۸: ۳۲؛ مرقس ۱۰: ۳۲۔ ۳۵؛ متی ۱۲: ۸، ۴۱، ۴۲؛ یوحنا ۱۳: ۱۸؛ ۱۸: ۹ وغیرہ)۔

(۲)

اس انجیل کی تمام فضا یہودی ہے ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم کوہلر(Kohlar) کہتاہے ۔ کہ1

" متی کی انجیل اہل یہود کی طرززندگی اوریہودی خیالات کے قریب ترین ہے۔ وہ یہودی مسیحیوں کے لئے لکھی گئی تھی اوراس میں ارامی اصطلاحات کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے"۔

اس انجیل میں قدیم یہودی محاورات کثر ت سے استعمال کئے گئے ہیں ۔ مثال کے طورپر(۱۔)" آسمانوں کی بادشاہت ۲۲دفعہ۔ (۲۔) ابنِ داؤد(متی ۹: ۲۷؛ ۲۱: ۹) وغیرہ۔یہ خطاب یہودی ربی صرف مسیح موعود کےلئے ہی استعمال کرتے تھے۔(۳۔) مقدس شہر بزرگ بادشاہ کا شہر (متی ۴: ۵؛ ۲۷: ۵۳؛ ۵: ۳۵)۔(۴۔) اسرائیل کا خدا (متی ۱۵: ۳۱)۔ (۵۔) خطاب" باپ جو آسمانوں پر ہے " خدا کے لئے ۱۳ دفعہ وارد ہواہے۔ یہ محاورہ "آسمانوں پر ہے" کسی اورانجیل میں نہیں پایا جاتا(۶۔)" تمہارا آسمانی باپ" ۶دفعہ آیاہے۔(۷۔) " کتے اورسور" (متی ۷: ۶) ۔(۸۔) لفظ " جُوّا" بمعنی تعلیم ، شریعت کا جُوّا۔ بادشاہی کا جُوّا ، یہودی محاورہ ہے (متی ۱۱: ۲۹۔ ۳۰)۔(۹۔) " گوشت اورخون" ۔ عالم ارواح کےد روازے" ، " باندھنا اور کھولنا(متی ۱۶: ۱۷۔ ۱۹)۔ (۱۰۔) " باہر اندھیرے ہیں " (متی ۸: ۱۱؛ ۲۲: ۱۳؛ ۲۵: ۳۰)۔ (۱۱۔)(متی ۲۶: ۲۹) کے تمام الفاظ" میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں"۔ سب کے سب یہودی محاورات ہیں۔ یہ چند مثالیں بطور مشتے نمونہ ازخروارے (بڑے ڈھیر میں سے مٹھی بھر)پیش کی گئی ہیں۔

اس انجیل کے لکھنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ آنخداوند کی مسیحائی عظمت وشان کا سکہ یہودی مسیحیوں پر بیٹھ جائے۔ اور یہ مقصد پہلی آیت ہی سے ظاہر ہے " یسوع مسیح ابنِ داؤد ، ابنِ ابراہام"۔

مصنف مسیح موعود کے دعاوی (دعویٰ)کے ثبوت میں یہ پیش کرتا ہے (۱۔) اس کا نسب نامہ اور پیدائش کے وقت آسمانی مکاشفہ (باب ۱تا ۴)۔(۲۔) اس نے اپنے سہ گونہ منصب (نبی ، کاہن اوربادشاہ) سے مسیحائی کو ثابت کردیا(متی ۵: ۱۶)۔ (۳۔) اس نے اپنی بادشاہی کے اصل مطالب کو اوراس کے مستقبل کو ظاہر کردیا (متی باب ۱۶تا ۲۰)۔ (۴۔) اس کی قربانی عجز اورحلیمی (باب ۲۱تا ۲۴)۔ (۵۔) اس نے یہودی قوم کی تباہی کا فتویٰ دیا اورموجودہ دور پر بھی فتویٰ صادر کیا (متی باب ۲۴تا ۲۵)۔ (۶۔) اس نے اپنی جان کو قربان کردیا(متی باب ۲۶تا ۲۷)۔ (۷۔) اس کی ظفریاب قیامت نے اور کبریا کے دہنے بیٹھ کر اختیار جتلانے نے بھی مسیحائی کے دعویٰ کو ثابت کردیا(متی باب ۲۸)۔ اس انجیل کا یہودی رنگ ڈھنگ اور روپ اس کی ایک ایک سطر سے ظاہر ہے۔ ارضِ مقدس کنعان" اسرائیل کا ملک " ہے (متی ۲: ۲۱)۔ جس کے باشندے قوم " اسرائیل "ہیں(متی ۸: ۱۰)۔ وہ "اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑیں" ہیں (متی ۱۰: ۶)۔ اس ملک کے قصبے اسرائیل کے شہر" ہیں(متی ۱۰: ۲۳)۔ اورا س ملک کا خدا " اسرائیل کا خدا " ہے (متی ۱۵: ۳۱)۔ یروشلیم " مقدس شہر" ہے ۔ انجیل کی ہر سطر سے ظاہرہے کہ مصنف کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہودی مسیحیوں کے لئے ایک انجیل تالیف کرے تاکہ " جن باتوں کی انہوں نے تعلیم پائی ہے۔ ان کی پختگی اُن کو معلوم ہوجائے"۔

______________________

1 Quoted in St.Matthew (Century Bible)p.43


ہم گذشتہ فصل میں بتلاچکے ہیں کہ مقدس متی نے رسالہ ِاثبات سے بارہ مقامات میں پیشینگوئیاں نقل کی ہیں تاکہ یہودی مسیحیوں پر واضح ہوجائے کہ مسیح موعود کے واقعاتِ زندگی کی نبوتیں انبیائے سابقین کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس طرزاستدلال (دلیل کے طریقے)سے ثابت کیا گیا ہے کہ یسوع ناصری عہدِ عتیق کا مسیح موعود ہے جو داؤد اورابراہام کی نسل سے پیدا ہوا ،کیونکہ وہ " یہودیوں کا بادشاہ" تھا(متی ۲: ۲)۔ وہ یروشلیم میں شاہانہ طورپر وارد ہوا (متی ۲۱: ۴۔ ۵)۔ اس کی موت خدا کے عین منشا کے مطابق ہوئی (متی ۱۶: ۱۱، ۲۳)۔ جس کی انبیائے سابقین نے خبردی تھی(متی ۲۶: ۲۴، ۵۴) اوریہ موت گناہوں کی معافی کے لئے تھی(متی ۲۶: ۲۸)۔ چونکہ اس کی پیدائش کنواری کے بطن سے ہوئی لہٰذا وہ خدا کا بیٹا تھا(متی ۳: ۱۷)۔ مسیح موعود خدا کا محبوب تھا(متی ۳: ۱۷)۔ وہ ابنِ آدم تھا جو دانی ایل نبی کے قول کے مطابق آسمان کے بادلوں پر آئے گا۔

پس جیسا کِل پیٹرک (Kilpatrick)کہتاہے1

" جس ماحول میں یہ انجیل لکھی گئی وہ خصوصیت کے ساتھ یہودی مسیحیوں کی جماعت ہے اوریہ مسیحی جماعت اس بات پر تلی ہوئی ہے کہ وہ اپنی کلیسیائی زندگی یہودیت سے الگ بسرکرے۔ اس مسیحی جماعت کا سابقہ ایسی کٹر یہودیت کے ساتھ پڑا تھا جس میں ربیوں کی تعلیم جاری تھی"۔

مقدس متی اس انجیل میں اس حقیقت پر زوردیتاہے کہ انجیل کا پیغام پہلے پہل اہل یہود کےلئے تھا۔ سیدنا مسیح نے اپناکام اہلِ یہودتک محدود رکھا(متی۱۵: ۲۴)۔ جب آپ نے شاگردوں کو بشارت کے لئے بھیجا تو ان کو بھی یہی حکم دیا(متی ۱۰: ۵۔ ۶)۔

اس انجیل میں خاص طورپر بتلایا گیا ہے کہ سیدنا مسیح شرع کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کے لئے آئے ہیں(متی ۵: ۱۷)۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ(متی ۵: ۲۱۔ ۴۸)۔ میں شرع کی اس تاویل کا ذکر ہے جو آنخداوند کے ہم عصر فقیہہ کیا کرتے تھے اور سیدنا مسیح کے حملے موسوی شرع پر نہیں کئے گئے بلکہ فقہا (فقیہہ کی جمع، شرع کا عالم)کی تاویل پر ہیں" جو بھاری بوجھ تھی (متی ۲۳: ۴، ۲۳)۔ غرض انجیل کے واقعات یہودی قوم اوریہودی شریعت کے محورکے گرد گھومتے ہیں ۔ پرانا عہدِ تجدید پاکر " نیا عہد" بن جاتاہے۔ شریعت کی ممنوعات انجیل کے اصول کے ماتحت قائم اوربرقرار رہتی ہیں اورمسیحِ موعود کے وسیلے تمام قومیں برکت پاتی ہیں ۔ کیونکہ مسیح موعود" ابن ابراہیم" ہے(متی ۱: ۱)۔ پرانے عہد نامہ کی نبوت تعلیم میں اورکہانت صلیب کے کفارہ میں پوری ہوجاتی ہے ۔2

______________________

1Rev.G.W.Kilpatrik, The Origin of the Gospel of St.Matthew (Oxford University Press).
2 Helps to the Study of the Bible(2nd ed.1931)pp.141-42


فصل سوم

مقدس متی کی انجیل کی قدامت اورپایہ اعتبار

گذشتہ دو فصلوں میں ہم نے انجیلِ اوّل کے ماخذ اور خصوصیات پر بحث کی ہے جن سے یہ پتہ چلتاہے کہ گویہ انجیل کلیسیا کے ابتدائی ایام میں نہیں لکھی گئی تھی جس طرح مقدس مرقس کی انجیل لکھی گئی تھی۔ تاہم اس کا تعلق کلیسیا کی زندگی کے پہلے بیس تیس سال کے ساتھ ہے۔ اس انجیل کے ماخذ ثابت کرتے ہیں کہ یہ انجیل اس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب کلیسیا ارضِ مقدس کے مختلف مقامات میں سیدنا مسیح کی تعلیم کے لئے رسالہ کلمات اور صلیبی واقعہ کے لئے انجیل دوم، اور سیدنا مسیح کی مسیحائی ثابت کرنے کے لئے رسالہِ اثبات استعمال کرتی تھی اوران رسالوں کے علاوہ مختلف مقامات کی کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے رسالے، پارے اور دو ورقہ یا چار و رقہ رسالے یا دستی ورق تھے۔ جوان لوگوں نے جا بجا لکھے تھے " جو خود دیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے"۔ یہ انجیل اس زمانہ میں لکھی گئی جب ابھی وہ لوگ زندہ تھے جو چشم دید گواہ تھے اور فخریہ کہتے تھے " ہم نے اس زندگی کے کلام کو سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا"۔ کیونکہ یہ انجیل اس زمانہ میں تالیف کی گئی جب آنخداوند کے سامعین کی نسل ابھی زندہ تھی (متی ۱۶: ۲۸)۔ اور وہ " پشت تمام نہ ہوئی " تھی (متی ۲۴: ۳۴)۔ جس نے سیدنا مسیح کے کلمات کو سنا اور معجزات کو دیکھا تھا۔

یہ کلیسیا کے پہلے تیس سالوں کا نقشہ تھا۔ پس مقدس متی نے اپنی انجیل کو تصنیف کیا تاکہ کلیسیا کو چھوٹے چھوٹے اور دو ورقہ یا چار ورقہ رسالے جو مختلف مقامات میں مروج تھے، استعمال کرنے نہ پڑیں۔ پس آپ نے ایک جامع انجیل تالیف کرنے کا تہیہ کیا جس میں آپ نے اپنے رسالہ کلمات اور دیگر اوراق کو نقل کیا اورانجیل دوم کو بھی نقل کرکے کلیسیا کے ہاتھوں میں ایک ایسی انجیل دے دی جس میں آپ نے سیدنا مسیح کی زندگی کے واقعات ، طفولیت سے لے کر آپ کے صعودِ آسمانی تک انجیل دوم کے ڈھانچہ کے مطابق ترتیب سے جمع کئے اور آنخداوند کی تعلیم کو بھی اپنی خاص ترتیب کے مطابق جیسا ہم بتلاچکے ہیں مرتب کیا ۔ جب یہ انجیل لکھی گئی اورمختلف کلیسیاؤں میں نقل ہوکر مروج ہوگئی تو کلیسیا کو اُن چھوٹے چھوٹے رسالوں اور پاروں اوراوراق کی ضرورت نہ رہی جو اس انجیل میں نقل کئے گئے تھے ۔ تاریخ ِکلیسیااس بات کی گواہ ہے کہ جونہی یہ انجیل لکھی گئی وہ مقبول عام ہوگئی۔

مقدس متی کے تمام ماخذ جو اس نے اپنی انجیل میں نقل کئے قدیم ترین ماخذ تھے۔ رسالہ ِکلمات حضرت کلمتہ اللہ کے حین حیات میں ہی لکھ دیا گیا تھا۔ رسالہ ِاثبات کلیسیا کے اوّلین معلموں کی فاضل جماعت نے لکھا تھا۔ مقدس مرقس نے رسولوں کی " منادی" کے مطابق اپنی انجیل کو قدیم ترین ماخذوں سےتالیف کیا تھا اور وہ ہرجگہ مستند تسلیم کی جاتی تھی۔جو ماخذ مقدس متی نے خود جمع کئے وہ بھی سب کے سب قدیم ترین زمانہ کے تھے۔ پس یہ تمام کے تمام ماخذ پایہ اعتبار کے لحاظ سے اوّل درجہ کی معتبر تحریر یں تھیں ۔ مسیحی اورغیر مسیحی علماء گذشتہ پونے دوسوسال سے ان امور پر بحث ک


کررہے ہیں کہ اور اب یہ نتائج ایسے ہی یقینی اوربنیادی شمار ہوتے ہیں جیسے کسی دوسری سائنس مثلاً علمِ کیمیاوغیرہ کے نتائج یقینی اوربنیادی شمار کئے جاتے ہیں ۔ 1

(۲)

گذشتہ فصل میں ہم بتلاچکے ہیں کہ مقدس متی کی انجیل ابتدا سے لے کر آخر تک یہودی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ اس کے تصورات یہودی، اس کی فضا یہودی ،اس کا دائرہ نظر یہودی، اس کے حصوں کی تقسیم یہودی اوراس کا طرز تحریر یہودی غرض یہ کہ اس کا تمام رنگ ڈھنگ یہودیت کے متعلق ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اہلِ یہود کی خاطر مقدس متی نے لکھی تھی تاکہ یہود سیدنا مسیح کے حلقہ بگوش ہوجائیں اوریہودی نومریدوں کا ایمان مستحکم اورمضبو ط ہوجائے۔

اس مقصد سے بھی ہم کومعلوم ہوجاتاہے کہ یہ انجیل اس وقت لکھی گئی تھی ۔ جب " خدا کا کلام پھیلتا گیا اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھ گیا" تھا اوران ایمان لانے والےمرد اور عورت سیدنا مسیح کی جماعت میں کثرت سے شامل " ہوچکے تھے اور " کاہنوں کی بڑی گروہ اس دین کی تحت میں ہوگئی تھی"۔ خاص یروشلیم میں " یہودیوں میں ہزارہا آدمی ایمان " لاچکے تھے۔ ارضِ مقدس کے دیگر مقامات کی کلیسیاؤں میں ہزارہا یہودی شامل تھے اورارضِ مقدس کے باہر بھی کلیسیاؤں کی ایک بڑی اکثر یت یہودیوں پر ہی مشتمل تھی۔ اعمال کی کتاب اورپولُس رسول کے خطوط سے پتہ چلتاہے کہ یہ یہودی نومرید نہایت جوشیلے، بارسوخ، اور مقتدر(اقتدار رکھنے والے، معزز) لوگ تھے(اعمال ۱۵: ۱، ۵، ۲۴؛۱۔کرنتھیوں۷: ۱۸؛ گلتیوں۲: ۱۱، ۱۴؛ ۵: ۲ وغیرہ)۔ یہ نومرید ایسے زبردست تھے کہ رسولوں کو بھی اُن کےآگے بعض اوقات جھکنا پڑتا تھا (اعمال ۲۱: ۱۷۔ ۲۶؛ گلتیوں ۲: ۱۲ وغیرہ)۔ یہ یہودی نومرید موسوی شریعت کے سخت پابند تھے۔" وہ سب شریعت کے بارے میں سرگرم "تھے اوراس بات کی برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی " موسیٰ سے پھر جانے کی تعلیم " دے اور" ختنہ نہ کرائے" اور" موسوی رسموں" پر نہ چلے(اعمال ۲۱: ۲۰۔ ۲۱) بالفاظ انجیل متی ان کا یہ عقیدہ تھاکہ " جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا" (متی ۵: ۱۸)۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی "راستبازی " فقیہوں اور فریسیوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہیے (متی ۵: ۲۰)۔ کیونکہ ان کی راستبازی کی بنیاد عہدِ عتیق کے حقیقی مفہوم کو بہتر طورپر سمجھنے اورجاننے کی وجہ سے زیادہ استوار ہوگی(متی ۵: ۲۱۔ ۴۸)۔

یہ انجیل اُن یہودی نومریدوں کے خیالات ، تصورات اور جذبات کا آئینہ ہے۔ اس سے ہم کو اس فاضل اور زبردست گروہ کے حقیقی مقاصد اورمطالب کا پتہ چلتا ہے۔ اس انجیل کا مصنف انہی خیالات اور تصورات کے رنگ میں ڈوبانظر آتاہے۔ اس کےعقائد وہی ہیں جو اس فاضل جماعت کے تھے۔ اس کے خیال میں شریعت کے تمام احکام ودامی ہیں ۔چنانچہ جب یہ انجیل نویس (مرقس ۷: ۱۴۔ ۲۳) کونقل کرتاہے تو ان آیات کے الفاظ نرم کرکے یہ ثابت کرنا چاہتاہے کہ اس مقام کا تعلق خوراک کے حرام حلال ہونے کےسوال سے نہیں ہے بلکہ اس کا یہ خیال ہے کہ یہ قوانین بدستور قائم رہیں گے(متی ۱۵: ۱۔ ۳۸)۔ علیٰ ہذا القیاس طلاق کے متعلق جب ہم مرقس (۱۰: ۱۔ ۱۲)کا مقابلہ (متی ۱۹: ۱۔ ۹) سے کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ انجیل نویس کتاب (استثنا ۲۴: ۱۔ ۲) کی اجازت کا جواز پیش کرتاہے۔استثنا کا دوگواہوں کی موجودگی کا حکم بھی اس انجیل میں درج ہے (متی ۱۸: ۱۶ دیکھو؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۳: ۱)۔ سبت کا حکم بھی موجود ہے (متی ۲۴: ۲۰) وغیرہ۔ اس انجیل نویس کے دائرہ نظر کی وسعت بھی اتنی ہی ہے جواُن یہودی


نومریدوں کے گروہ کی تھی۔مسیح موعود کے مناد اس سے پہلے کہ وہ اسرائیل کے شہروں میں پھریں مسیح موعود کی آمدکو دیکھ لیں گے(متی ۱۰: ۲۳)۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی " زمانہ کا آخر" ہوگا(متی ۲۴: ۳) اس سے پہلے کہ موجودہ نسل کا خاتمہ ہو(متی ۲۴: ۳۴)۔ سردار کاہن اوراس کے ساتھی " ابن آدم کو آسمان کےبادلوں" پر آتے دیکھیں گے(متی ۲۶: ۶۴)۔ یہ انجیل نویس اسی اُمید میں زندہ تھا کہ وہ مسیح موعود کو اپنی بادشاہی قائم کرتے دیکھے گا۔

بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہودیت اورمسیحی کلیسیا میں روزاوّل ہی سے عداوت اور دشمنی موجود تھی اور کہ یہودی مسیحی یہودیت کے ہرایک تصور کو خیرباد کہہ کر ہی مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوتے تھے ۔لیکن یہ بات حقیقت سے دور ہے۔ اعمال کی کتاب کے پہلے بارہ (۱۲)ابواب کا مطالعہ ظاہر کردیتاہے کہ پہلے پہل کٹریہودیوں اورمسیح موعود کے ماننے والوں میں کوئی ایسی مغائرت (اجنبیت، ناموافقت)نہ تھی ۔ مسیحی یہودی ہیکل میں عبادت کرتے تھے (اعمال ۲: ۴۶؛ ۳: ۱؛ ۵: ۱۲ وغیرہ)۔ اگرچہ اُن کی الگ عبادت بھی ہوتی تھی (اعمال ۱: ۱۳؛ ۲: ۴۶؛ ۴: ۲۳۔ وغیرہ) لیکن یہ جداگانہ عبادت ہیکل کی عبادت کی جگہ نہیں لیتی تھی۔

مرقس کی ماں مریم کا گھر ان مسیحیوں کا مرکز تھا(اعمال ۱۲: ۱۲)۔لیکن یہ گھر یروشلیم کی ہیکل کا حریف(دشمن) نہ تھا۔ کلیسیا کے کوئی گرجا گھر نہیں تھے۔ یہودی صرف اس" طریق" کو بدعتی خیال کرتے تھے (اعمال ۲۴: ۵)۔ لیکن مسیحیت کوئی جداگانہ جماعت نہ تھی۔ یہودیوں کے مختلف حلقوں کے لوگ ا س کے حلقہ بگوش تھے(اعمال ۲: ۴۷؛ ۵: ۱۳؛ ۲۱: ۲۰)۔ فریسی اورکاہن بھی اس فرقہ میں شامل ہوچکے تھے(اعمال۱۵: ۵؛ ۶: ۷)۔ ان کا امتیازی عقیدہ یہ تھاکہ مسیح موعود کا ظہور ہوچکا ہے اور وہ یسوع ناصری ہے (مرقس ۸: ۲۹)۔جس کی مسیحائی پر خدا نے اس کو مردوں میں سے زندہ کرکے مہر لگادی (اعمال۲: ۳۶؛ ۳: ۱۹ وغیرہ)۔ وہ دُنیا کا انصاف کرنے کےلئے (اعمال ۳: ۲۱؛ ۱۰: ۴۲؛ ۱۷: ۳۱) پھر دوبارہ آئے گا۔ تب دُنیا کا موجودہ دورختم ہوجائے گا اورمسیحائی دور کا آغاز ہوگا۔

یہ تصورات کلیسیا میں تب تک ہی غالب رہے جب تک اس میں غیر یہود کی اقلیت اوریہود کی اکثریت رہی لیکن یہ حالات چند سال تک ہی رہے۔ مختلف وجوہ(وجہ کی جمع) کے باعث اورغیر یہودمسیحیوں کی روز افزوں تعداد کی وجہ سے ۵۰ء کے بعد حالات روز بروز دِگرگوں ہوتے گئے ۔ ہزارہا غیر یہود منجی عالمین کے حلقہ بگوش ہوگئے۔جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ ارضِ مقدس کے اندر اورباہر لاکھوں غیر یہود نومرید کلیسیا میں شامل ہوگئے ۔ یروشلیم کی تباہی کے بعد تو کلیسیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہودی قوم پراگندہ ہوکر دُنیا کے چاروں کونوں میں تتر بتتر ہوگئی اور کلیسیا میں جو رسوخ اس کو ۳۰ء اور ۵۵ء کے درمیان حاصل تھا۔ وہ رفتہ رفتہ جاتا رہا اور ہیکل کی تباہی کےبعد ختم ہوگیا۔

پس یہ انجیل یروشلیم کی تباہی کے بعدکسی صورت میں بھی لکھی نہ گئی کیونکہ اس واقعہ کے بعد اس انجیل کا نکتہ نظر کلیسیا کے لئے کسی مصرف(کام، مطلب) کا نہ رہا تھا۔ انجیل کی اندرونی شہادت سے ثابت ہے کہ یہ اُن حالات میں لکھی گئی تھی جو ۵۰ء کے لگ بھگ کے تھے۔ پس یہ انجیل آنخداوند کی وفات کے بیس (۲۰)برس بعد اُن قدیم ترین ماخذوں سے مرتب کی گئی جن میں سے ایک سیدنا مسیح کی حین ِحیات میں لکھا گیا اورباقی دورِ اوّلین میں چشم دید گواہوں نے لکھے تھے اور اُمور اس کے رفیع(اونچا) پایہ اعتبار پر شاہد ہیں۔


باب سوم

انجیلِ لوقا کی تالیف

فصلِ اوّل

انجیلِ لوقا کے ماخذ

مقدس لوقا اپنی انجیل کے دیباچہ میں صاف لکھتے ہیں کہ آپ نے ماخذوں کا استعمال کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں " چونکہ بہتوں نے اس بات کو ہاتھ میں لیا ہے کہ جن باتوں پر ہمارا ایمان ہے اُن کو بیان کریں۔ جیساکہ اُنہوں نے جو شروع سے خود یکھنے والے اورکلام کے خادم تھے اُن کو ہم تک پہنچایا ہے اس لئے اے عزت مآب تھیوفلس مجھے بھی یہ بھلا معلوم ہوا کہ چونکہ میں ابتدا ہی سے سب باتوں سے ٹھیک ٹھیک واقفیت رکھتا ہوں تاکہ ان کو آپ کے لئے ترتیب وار لکھوں کہ آپ کو یہ علم ہوجائے کہ جن باتوں کی آپ نے تعلیم پائی ہے وہ یقینی ہیں" (لوقا۱: ۱۔ ۴)۔

(۱۔) آیت ۳ میں یونانی لفظ " پیراکولوتھیو" کا ترجمہ ہم نے واقفیت کیا ہے ۔ پروفیسر کیڈبری کہتے ہیں 1کہ اس لفظ کے معنی ہیں " کسی کے پہلو بہ پہلو چلنا" گویہاں لفظ معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں استعمال ہواہے لیکن اس مقام میں اس لفظ کے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ مقدس لوقا واقعات کی جائے وقوع پر خود حاضر تھے اوران واقعات میں حصہ لینے والے تھے۔ اگر پروفیسر مذکورہ کے یہ معنی درست ہیں تو اس انجیل کا مصنف یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ خود ان واقعات کا کم ازکم ان میں سےبعض واقعات کا چشم دید گواہ ہے۔ جس طرح وہ اعمال کی کتاب کے ان واقعات کا چشم دید گواہ ہےجن کے ذکر میں لفظ" ہم " آتاہے (اعمال۱۶: ۱۔ ۱۷؛ ۲۰: ۶ تا ۲۸: ۱۶)۔جس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس لُوقا پہلی صدی کے شروع میں پیدا ہوا اور آنخداوند کاہم عصر تھا۔ پروفیسر موصوف کہتے ہیں کہ اس لفظ کا یہ مطلب ہے کہ مقدس لوقا نے اپنی انجیل کو ابتدائی زمانہ میں تالیف کیا تھا اوراس کے بہت سے واقعات کا وہ چشم دید گواہ تھا۔ پس وہ انجیل لکھنے سے پہلے ان واقعات سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ ان سے بلاتوسط (کسی وسیلہ کے بغیر)براہِ راست واقف تھا۔

مقدس پولُس کے الفاظ(کلسیوں۴: ۱۴) سے پتہ چلتاہے کہ مقدس لوقا غیر یہود تھے۔ کیونکہ آیت ۱۱ میں مقدس پولُس ان لوگوں کے نام اکٹھے لکھتا ہے جو " مختونوں" میں سے آپ کے ساتھ تھے۔ وہ آپ کا " پیارا طبیب " تھا۔ وہ نہ صرف آپ کے سفروں میں آپ کا ساتھی تھا (کتاب اعمال ۱۶: ۱۰۔ ۱۸؛ ۲۰: ۵۔ ۲۱: ۱۷ ؛ ۲۷: ۱ ۔ ۱۸: ۱۶)۔ بلکہ اس نے آخری ایام تک آپ کا ساتھ دیا(اعمال۲۸: ۳۱)۔

______________________

1Prof.H.J.Cadbury, The Knowledge Claimed in Luke’s Preface in Expositor December 1922, See also his commentary on Luke’s Preface part 1. Vol11 of Beginnings of Christianity.


مورخ یوسیئبس اور مقدس جیروم ہم کو بتلاتے ہیں کہ مقدس لوقا انطاکیہ کا باشندہ تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ (اعمال ۱۱: ۲۸) میں لفظ" ہم " بھی آیا ہے ڈاکٹر کیڈ بری کا مندرجہ بالا نظریہ درست ہے تو مقدس لوقا آنخداوند کے بعض سوانح حیات کا چشم دید گواہ بھی تھا۔ بہر حال اس کو انجیل کے جمع کرنے کے بیشمار موقعے حاصل تھے۔

(۲۔) مقدس لوقا نے جیسا ہم حصہ اول کے باب پنجم میں ذکر کرچکے ہیں اپنی انجیل میں رسالہ کلمات کو نقل کیا ہے۔انجیل اول کے مصنف نے اس رسالہ کے اقوال کو مختلف عنوانات کے ماتحت ایک جگہ جمع کردیا ہے ۔ لیکن مقدس لوقا ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ مقدس مرقس کی انجیل کے خاکہ اور ڈھانچہ کےمطابق واقعات کو ترتیب دے کر" رسالہِ کلمات" کے اقوال کو ان کی " شان نزول" یعنی موقعہ اورمحل کے مطابق مرتب کرتے ہیں۔ رسالہ کلمات کے جو اقوال مقدس مرقس نے جمع کئے ہیں اُن کو نقل کرتے وقت مقدس لوقا رسالہ کلمات کے الفاظ کو قدرتی طورپر ترجیح دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کا خیال ہے کہ مقدس لوقا کی انجیل میں آنخداوند کے اقوال کی اصل ترتیب موجود ہے۔ چنانچہ مرحوم کینن سٹریٹر کا یہی نظریہ ہے۔

(۳۔) مقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کا بھی استعمال کیا ہے۔ آپ مقدس مرقس سے بخوبی واقف بھی تھے(اعمال ۱۲: ۲۵؛ ۱۳: ۱۳؛ ۱۵: ۳۷؛ کلسیوں ۴: ۱۰، ۱۴ ؛ فلیمون ۲۴؛ ۲۔ تیمتھیس ۴: ۱۱)۔ اس ذاتی واقفیت کی وجہ سے ایک وہ آپ کے معتبر گواہ ہونے سے بھی واقف تھے۔ پس آپ نے اس کی انجیل کو بطور ایک ماخذ استعمال کیا۔ انجیل سوم میں کل آیات کی تعداد( ۱۱۴۹) ہے۔ ان میں مقدس مرقس کی انجیل کی( ۶۶۱) آیات میں سے( ۴۵۵) آیات موجود ہیں۔ مقدس لوقا نے نہ صرف مقدس مرقس کی آیات کو ہی نقل کیا ہے بلکہ " جیسا ہم بتلاچکے ہیں ، اس نے انجیل دوم کے خاکہ اور ڈھانچہ کی ترتیب کو بھی براقرار رکھاہے۔

(۴۔)اس انجیل کے بعض مقامات میں نسوانی (عورتوں کے متعلق)انداز پایا جاتا ہے اور بعض مقامات میں مضامین ایسے ہیں جو صنفِ نازک (عورت)کے لئے ہی دلچسپی کا موجب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مقامات کو مقدس لوقا نے اُن عورتوں سے حاصل کیا تھا جن سے وہ واقف تھا ۔ مثلاً فلپس مبشر کی بیٹیاں " جو نبوت کرتی تھیں" (اعمال ۲۱: ۹) اور" بعض عورتیں جنہوں نے بُری بدروحوں اور بیماریوں سے شفا پائی تھی اور بہتیری اور عورتیں جو اپنے مال سے خدمت کرتی تھیں (لوقا۸: ۲تا ۳) ان میں سے " یوآنہ ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی" سے مقدس لوقا نے(لوقا ۲۳: ۶۔ ۱۲) حاصل کیا کیونکہ یہ واقعہ صرف وہی بیان کرتاہے۔ اسی خاتون سے اس نے(لوقا ۱۳: ۳۱۔ ۳۳) حاصل کیا تھا۔

مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی پیدائش اور حضرت کلمتہ اللہ کی پیدائش کے بیانات کا سطحی مطالعہ بھی غبی سے غبی شخص پر ظاہر کردیتا ہے کہ یہ بیانات کسی عورت کے ہی بتلائے ہوئے ہیں۔اوریہ یا تو مقدسہ مریم خود تھیں یا اُن کی کوئی رازدار سہیلی تھی ۔ الیشع اورحنا ہ(لوقا۱: ۵؛ ۲: ۳۶) انجیل سوم کے زمانہ میں اس دارفانی سے کوچ کر گئی تھیں لیکن مقدس لوقا بہتیری دیگر عورتوں کے نام بتلاتاہے جو ابتدائی زمانہ میں کلیسیا میں مشہور تھیں ،مثلاً مقدس مرقس کی ماں مریم تابیتھا یا ڈارکس ،بیت عنیاہ کی مارتھا اور مریم ، پرسکلہ ، لدیا وغیرہ جوان نسوانی مضامین سے واقف تھیں۔

(۵۔) مذکورہ بالا ماخذوں کے علاوہ مقدس لوقا نے مختلف تحریری پاروں اور رسالوں سے فائدہ اٹھایا جو اُن سے پہلے " بہتوں نے " لکھے تھے۔ لفظ " بہتوں" سے یہ ثابت ہے کہ یہ پارے اوررسالے تعداد میں دو یا تین نہیں تھے کیونکہ دوتین یا چاررسالوں پر لفظ" بہتوں" کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ پس یہ رسالے تعداد میں بہت تھے ۔ گویہ کوئی مستقل کتب خانہ نہیں تھا۔


اس دیباچہ میں لفظ" شروع" کا مطلب اس مصنف کی دوسری تصنیف یعنی کتابِ اعمال سے معلوم ہوجاتا ہے یعنی " یوحنا بپتسمہ سے لے کر سیدنا مسیح کے ہمارے پاس سے اٹھائے جانے تک"(اعمال۱: ۲۲)اس عرصہ کے واقعات کے ماخذوں سے کام لیا گیا ہے ۔ مرقس کی انجیل بھی اس تاویل کی مصدق ہے کیونکہ اس کا بیان " یوحنا کے بپتسمہ" سے شروع ہوتاہے اوررسول اسی واسطے مقرر ہوئے تھے ، تاکہ وہ ان چشم دید باتوں کے گواہ ہوں(اعمال ۱: ۸؛ ۲: ۳۲؛ ۳: ۱۵؛ ۴: ۲۰؛ ۵: ۲۲ وغیرہ)۔پس ان چشم دید باتوں میں سے مقدس لوقا نے حسب ذیل واقعات نقل کئے 1:

یہ واقعات صرف انجیلِ لوقا میں پائے جاتے ہیں :

(۱۔)(لوقا ۱: ۵۔ ۲۵) مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی ولادت کابیان۔

(۲۔)(لوقا۱: ۲۶۔ ۳۸) فرشتے کا مقدسہ مریم کو بشارت دینا۔

(۳۔)(لوقا ۱: ۳۹۔ ۵۶) مقدسہ مریم اوربی بی الیشبع کی ملاقات۔

(۴۔)(لوقا۱: ۵۷۔ ۸۰ ) مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی پیدائش۔

(۵۔)(لوقا۲: ۱۔ ۲۰) سیدنا مسیح کی پیدائش ۔

(۶۔)(لوقا ۲: ۲۲۔ ۳۹) مقدسہ مریم کی طہارت اورہیکل میں سیدنا مسیح کولے جانا۔

(۷۔)(لوقا۲: ۴۰) جنابِ مسیح کا قدوقامت میں بڑھنا۔

(۸۔)(لوقا۲: ۴۱۔ ۵۲) جنابِ مسیح کی ہیکل میں یہودی ربیوں سے ملاقات ۔

(۹۔)(لوقا ۳: ۲۳۔ ۳۸) سیدنا مسیح کا نسب نامہ ۔

(۱۰۔)(لوقا۷: ۱۱۔ ۱۷) نائین کی بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنا۔

(۱۱۔)(لوقا ۷: ۳۶۔ ۵۰) سیدنا مسیح اور وہ عورت جس نے زیادہ محبت کی ۔

(۱۲۔)(لوقا۸: ۱۔ ۳) ان عورتوں کے نام جو سیدنا مسیح کی خدمت کرتی تھیں۔

(۱۳۔)(لوقا ۹: ۵۱۔ ۵۶) بے فیض سامری۔

(۱۴۔)(لوقا۹: ۶۰(ب)۔۶۲ ) شاگردی کی شرط

(۱۵۔)(لوقا ۱۰: ۱۔ ۲۰) ستر(۷۰) شاگردوں کا تبلیغی سفر۔

(۱۶۔)(لوقا ۱۰: ۳۸۔ ۴۲) مارتھا اور مریم

(۱۷۔)(لوقا۱۳: ۱۔ ۵) پلاطوس کا گلیلیوں کو قتل کروانا۔

(۱۸۔)(۱۳: ۱۰۔ ۱۷) کبڑی عورت کا شفا پانا ۔

(۱۹۔)(۱۳: ۳۱۔ ۳۳) سیدنا مسیح اور ہیرودیس اینتپاس۔

(۲۰۔)(لوقا ۱۴: ۱۔ ۶) جلندر کے مریض کا شفا پانا ۔

______________________

1The Mission & Message of Jesus pp.259-295


(۲۱۔)(لوقا ۱۷: ۱۱۔ ۱۹) سامری کوڑھی کا بیان۔

(۲۲۔)(لوقا۱۹: ۱۔ ۱۰) زکائی کا بیان۔

(۲۳۔)(لوقا۱۹: ۱۱) فوری آمدِ ثانی کے خلاف آگاہی۔

(۲۴۔)(۱۹: ۴۱۔ ۴۴)سیدنا مسیح کا یروشلیم پررونا۔

(۲۵۔)(لوقا۲۲: ۳۱۔ ۳۸) پطرس اورشیطان اوردوتلواروں کا بیان۔

(۲۶۔)(لوقا۲۲: ۴۳۔ ۴۴) سیدنا مسیح کا خون کی مانند پسینہ۔

(۲۷۔)(لوقا۲۲: ۴۹۔ ۵۱) سیدنا مسیح کا دشمن کے کان کو شفا بخشنا۔

(۲۸۔)(لوقا ۲۳: ۴۔ ۱۶) سیدنا مسیح کا ہیرودیس کے سامنے لایا جانا۔

(۲۹۔)(لوقا ۲۳: ۲۷۔ ۳۱) یروشلیم کی بیٹیاں

(۳۰۔)(لوقا ۲۳: ۳۴۔ ۴۶) صلیب پر تین کلماتِ طیبات

(۳۱۔)(لوقا ۲۳: ۴۵) سورج گرہن۔

(۳۲۔)(لوقا۲۳: ۴۸) صلیب کے چشم دید گواہوں کا چھاتی پیٹنا۔

(۳۳۔)(لوقا ۲۳: ۵۶ ) عورتوں کا مبارک جمعہ کے روز خوشبودار چیزیں تیار کرنا۔

(۳۴۔)(لوقا ۲۴: ۱۲) مقدس پطرس کا قبر پر جانا۔

(۳۵۔)(لوقا ۲۴: ۱۳۔ ۳۵) سیدنا مسیح کا اماؤس کی راہ پر دکھا ئی دینا۔

(۳۶۔)(لوقا ۲۴: ۳۶۔۴۹) یروشلیم میں سیدنا مسیح کا شاگردوں کو دکھائی دینا

(۳۷۔)(لوقا۲۴: ۵۰۔ ۵۳) سیدنا مسیح کا آسمان کو صعود فرمانا۔

(۶۔) مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ مقدس لوقا کی انجیل میں حضرت کلمتہ اللہ کی مفصلہ ذیل تعلیم درج ہے جو دیگر اناجیل میں موجود نہیں۔ مصنف نے یہ کلمات بھی ان تحریری پاروں سے اخذ کئے جو مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں مروج تھے 1:

(۱۔)(لوقا ۳: ۱۰۔ ۱۴) مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی تعلیم۔

(۲۔)(لوقا ۵: ۳۹) پرانی مے اورنئی مَے ۔

(۳۔)(لوقا ۹: ۵۱۔ ۵۶) سامریوں کی بے مروتی ۔

(۴۔)(لوقا ۱۰: ۱، ۴۔ ۷) رسولوں کو تبلیغی ہدایات۔

(۵۔)(لوقا ۱۰: ۱۷۔ ۲۰) رسولوں کی تبلیغی دورہ سے واپسی ۔

(۶۔)(۱۰: ۲۵۔ ۲۸) زندگی کا راستہ۔

______________________

1Ibid pp.545-638


(۷۔)(لوقا ۱۰: ۲۹۔ ۳۷) نیک سامری کی تمثیل

(۸۔)(لوقا ۱۰: ۳۸۔ ۴۶) مارتھا اورمریم

(۹۔)(لوقا ۱۱: ۱۔ ۴) سیدنا مسیح کی دعا

(۱۰۔)(لوقا ۱۱: ۵۔ ۸) اصرار کرنے والے دوست کی تمثیل

(۱۱۔)(لوقا ۱۱: ۳۳۔ ۴۱، ۵۳ ۔ ۱۲: ۱) بیرونی اور اندرونی پاکیزگی

(۱۲۔)(لوقا ۱۲: ۱۳۔ ۲۱) لالچ کا خطرہ۔

(۱۳۔)(لوقا ۱۳: ۱۔ ۹) انجیل کی تعمیل کی ضرورت

(۱۴۔)(لوقا ۱۳: ۱۱۔۱۶) سبت کا ماننا۔

(۱۵۔)(لوقا ۱۳: ۳۱ ۔ ۳۳) ہیرودیس کی مخاصمت(دشمنی)۔

(۱۶۔)(لوقا ۱۴: ۵) سبت کا ماننا۔

(۱۷۔)(لوقا ۱۴: ۷۔ ۱۱) ضیافت کی خوش اطواری۔

(۱۸۔)(لوقا ۱۴: ۱۲۔ ۱۴) مہمان نوازی کا قانون

(۱۹۔)(لوقا ۱۴: ۲۸ ۔ ۳۳) شاگردی کی شرطیں۔

(۲۰۔)(لوقا ۱۵: ۱۔ ۱۰) کھوئی ہوئی بھیڑ ، اورگم شدہ سکہ۔

(۲۱۔)(لوقا ۱۵: ۱۱۔ ۳۲) دو بیٹوں کی تمثیل۔

(۲۲۔)(لوقا ۱۶: ۱۔ ۹) ہوشیار مختار کی تمثیل۔

(۲۳۔)(لوقا ۱۶: ۱۰۔ ۱۲) دولت کے متعلق۔

(۲۴۔)(لوقا ۱۶: ۱۴۔ ۱۵) خود بینی اورتکبر کے خلاف

(۲۵۔)(لوقا ۱۶: ۱۹۔ ۳۱) دولتمند اورلعزر کی تمثیل۔

(۲۶۔)(۱۷: ۷۔ ۱۰) خدا کی خدمت

(۲۷۔)( لوقا ۱۷: ۲۰۔ ۲۱) بادشاہی کی آمد۔

(۲۸۔)( لوقا ۱۸: ۱۔ ۸) اصرار کرنے والی بیوہ کی تمثیل۔

(۲۹۔)(لوقا ۱۸: ۹۔ ۱۴) محصول لینے والے اور فریسی کی تمثیل

(۳۰۔)( لوقا ۱۹: ۱۱۔ ۲۷) اشرفیوں کی تمثیل

(۳۱۔)( لوقا ۱۹: ۳۷۔ ۴۰) فریسیوں کا ہجوم کے جوش کو بُرا ماننا۔

(۳۲۔)(لوقا ۱۹: ۴۱۔ ۴۴) یروشلیم پر رونا۔


(۳۳۔)(لوقا ۲۰: ۱۸) ایک قول۔

(۳۴۔)(لوقا ۲۱: ۵۔ ۳۶) کی بعض آیات مثلاً( ۵ ۔ ۱۱ (الف)۔ ۱۶۔ ۱۷۔۲۱ (الف) ۲۳(الف)۔۲۶(ب)۔ ۲۷۔ ۲۹۔ ۳۳) مرقس کی انجیل سے لی گئی ہیں۔

باقی مقدس لوقا کے خصوصی ماخذ سے لی گئی ہیں۔

(۳۵۔)(لوقا ۲۲: ۲۴۔ ۳۰) خدا کی بادشاہی میں مراتب۔

(۳۶۔)(لوقا۲۲: ۳۱۔ ۳۳) مقدس پطرس کو نصیحت

(۳۷۔)(لوقا ۲۲: ۳۵۔ ۳۸) تب اوراب کے وقت۔

(۳۸۔)(لوقا ۲۳: ۲۷۔ ۳۱) یروشلیم کا حشر

جب ہم مقدس لوقا کی ترتیب پر غائر (گہری)نظر ڈالتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ مقدس لوقا نے اپنی انجیل کا ڈھانچہ انجیل مرقس کی ترتیب کے واقعات کے مطابق ڈھالا ہے۔اگرچہ اس کا طریقہ تالیف مقدس متی کے طریقہ سے جُدا ہے۔اُس نے سیدنا مسیح کی آزمائشوں کے بیان اور عشائے ربانی کے مقرر ہونے کے بیان کے درمیانی عرصہ میں دیگر ماخذوں سے تین بڑے حصے اکٹھے کرکے تین مختلف مقامات میں جمع کردئیے ہیں یعنی(لوقا۶: ۲۰ تا ۸: ۳۰؛ ۹: ۵۱تا ۱۸: ۱۴ ؛ ۱۹: ۱۔ ۲۷)آیات باقی ہر جگہ اُس نے مقدس مرقس کی انجیل کے الفاظ کو نقل کیا ہے۔

(۲)

ایسے واقعات اورکلمات جو صرف انجیل سوم میں پائے جاتے ہیں ۔ پانچ سو (۵۰۰) آیات پر مشتمل ہیں1 ۔ جب ہم ان پر غور کرتے ہیں توہم پر واضح ہوجاتاہے کہ ان واقعات او رکلمات کا زاویہ نگاہ اُن واقعات اورکلمات کے زاویہ نگاہ سے بالکل مختلف ہے جو صرف انجیل اوّل میں پائے جاتے ہیں۔ دونوں انجیل نویسوں نے اپنے اپنے مقصد کے تحت آنخداوند کے سوانحِ حیات اورکلماتِ طیبات کے خزانہ سے وہ باتیں جمع کی ہیں جو مختلف کلیسیاؤں میں مروج تھیں۔ تاکہ متفرق اوراق اورپاروں کی بجائے وہ باتیں ایک جگہ جمع ہوجائیں۔مقدس لوقا نے یہ ماخذ قیصریہ سے حاصل کئے جہاں وہ ۶۰ء کے قرب مروج تھے۔ یہ ماخذ ارامی زبان میں تھے ، جن کا یونانی میں ترجمہ کیا گیا 2۔ جب ہم دونوں انجیل نویسوں کے جمع کردہ مسالہ کی طرف نظر کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ دونوں کا نقطہ نگاہ ایک دوسرے سے الگ ہے ۔ مقدس متی یہودی مسیحی نومریدوں کے لئے وہ اقوال وواقعات جمع کرتا ہے جس سے اُن پر واضح ہوجائے کہ یسوع ناصری مسیح موعود ہیں جو ابنِ داؤد اورابن ابراہام ہیں۔ لیکن مقدس لوقا غیر یہودی مسیحی نومریدوں کے لئے آنخداوند کے وہ اقوال اورواقعات جمع کرتاہے جس سے یہ واضح ہوجائے کہ آنخداوند یہود اور غیر یہود دونوں قسم کی اقوام کے لئے دنیا میں آئے ہیں اوران کی رسالت ہمہ گیر ہے۔ چنانچہ مقدس متی کا نسب نامہ " یسوع مسیح ابنِ داؤد ابنِ ابراہام" کا ہے(متی ۱: ۱)۔ لیکن مقدس لوقا کا نسب نامہ کے مطابق " یسوع آدم کا بیٹا اور وہ خدا کا بیٹا ہے"(لوقا۳: ۳۸)۔ سیدنا مسیح نہ صرف " قوم اسرائیل کا جلال" ہے بلکہ وہ " غیر یہود کو روشنی دینے والا نور" بھی ہے (لوقا۲: ۳۲)۔ مندرجہ بالا ماخذ مقدس لوقا کی اَن تھک دوڑ دھوپ اورتلاش وتجسس کے زندہ گواہ ہیں۔

______________________

1W.Sanday, The Bearing of Criticism on Gospel History Exp.Times, December 1908
2B.H.Streeter Source of the Gospels, in “An Outline of Christianity,ed by Peake and Parsons.Vol1p309.


(۳)

مقدس لوقا کے دو ماخذ جن سے آپ نے حضرت کلمتہ اللہ کے اقوالِ زرین اکٹھے کئے ایک اورپہلو سے بھی جداگانہ خصوصیت رکھتے ہیں۔ رسالہِ کلمات صرف متفرق کلماتِ طیبات جمع کے گئے تھے اور اس میں واقعات کو بہت کم دخل تھا لیکن مقدس لوقا کے مندرجہ بالا ماخذ ہیں واقعات بھی ہیں ۔ تمثیلیں بھی ہیں لیکن متفرق کلمات کو بہت کم دخل ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ " بہتوں نے اس پر کمر باندھی تھی کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں" ان کو تحریر میں لے آئیں اور یوں مختلف مقامات کی کلیسیاؤں کے معلموں کے ہاتھوں میں مختلف چھوٹے بڑے رسالے اورپارے تھے جن کو مقدس لوقا نے " شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ترتیب" سے سیدنا مسیح کے سوانحِ حیات ، واقعات اورکلمات کو لکھا۔ انجیل نویس کے ان ماخذوں میں تین چوتھائی ایسی باتوں کی ہے جو آنخداوند نے عوام سے کیں اور کہیں ۔ 1

اس انجیل نویس کے ماخذوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان میں مناظروں کا رنگ دیگر اناجیل کے ماخذوں سے جداگانہ ہے۔ دیگر اناجیل کے ماخذوں میں ملامت کے الفاظ میں درشتی (سختی،بے رحمی، بدخُلقی)پائی جاتی ہے2۔ لیکن انجیلِ سوم کے ماخذوں میں ملائمت سے تمثیلوں کے ذریعہ وہی کام لیا گیا ہے۔ مثلاً کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل ، کھوئے ہوئے درہم کی تمثیل یا مسر ف بیٹے کی تمثیل وغیرہ۔ انجیل دوم میں فریسیوں کو اُن کی سو فسطائی (حکما ء کا ایک گروہ جن کے اصولوں کی بنیاد وہم پر ہے اور حقائق سے منکر ہیں)اورباطل خیالات وتاویلات کی وجہ سے ملامت کی گئی ہے۔ انجیلِ اوّل کے ماخذوں میں اُن کی ریاکاری کے باعث ملامت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن انجیل سوم کے ماخذوں میں اُن کو اُن کے تکبر اورخودبینی کے لئے اور اس رویہ کے باعث ملامت کی گئی ہے جو اُنہوں نے عوام الناس کی طرف اختیار کر رکھا تھا ۔(لوقا ۱۸: ۹۔ ۱۴؛ ۱۵: ۲۸۔ ۳۲ وغیرہ)۔

(۴)

جب ہم پہلی تینوں انجیلوں کے ان واقعات کا مقابلہ کرتے ہیں جن کاتعلق آنخداوند کی صلیبی موت کے ساتھ ہے توہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ صلیبی واقعات کے مختلف بیانات پاروں کی شکل میں مختلف مقامات کی کلیسیاؤں میں مروج تھے۔ چنانچہ مقدس لوقا کا صلیبی واقعہ کا بیان مرقس کی انجیل سے الگ ہے۔ اگرچہ اُس نے کہیں کہیں اس انجیل سے بھی استفادہ حاصل کیا ہے۔ لیکن بالعموم مرقس کے صلیبی بیان کا بہت سا حصہ چھوڑ کر مقدس لوقا نے اس کی جگہ اپنا خاص ماخذ استعمال کیا ہے۔ اگرہم انجیل دوم کے مقامات کو مقدس لوقا کے بیان سے الگ کردیں تو مقدس لوقا کے بیان کا باقی ماندہ حصہ ایک مسلسل اور مربوط(ربط کیاگیا، وابسطہ) شکل اختیار کرلیتا ہے3۔ جس سے ثابت ہے کہ یہ بیان الگ تحریری صورت میں مقدس لوقا کے سامنے موجود تھا جب اُس نے انجیل سوم لکھی اوریہ اس کا تحریری صورت میں جدا مستقل ماخذ تھا۔

______________________

1 T.W.Manson, The Teaching of Jesus p.41
2Ibid.p.42
3Vincent Taylor, The Formation of the Gospels Tradtion pp.50-55 See also Prof.A.M.Perry’s “ The Sources of Luke’s Passion Narrative.s


(۵)

مرحوم ڈاکٹر سٹریٹر کا یہ نظریہ ہے کہ مقدس لوقا نے پہلے پہل ایک ایسی انجیل لکھی تھی جس میں سوائے مرقس کی انجیل کے باقی تمام ماخذوں سے کام لیا گیا تھا لیکن بعد وہ جب انجیل مرقس اُس کے ہاتھ آئی تو اس نے اُس کو بھی ماخذ بنا کر اس انجیل کے حصصوں کو جا بجا داخل کرکے اپنی انجیل کی دوسری ایڈیشن لکھی جو اب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس نظریہ سے یہ لازم آتاہے کہ اگر اس انجیل میں وہ تمام مقامات خارج کردئیے جائیں جو انجیل مرقس میں موجود ہیں توباقی ماندہ مقامات ایک مسلسل بیان کی صورت اختیار کرلیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان باقی ماندہ مقامات اورحصص میں کوئی تسلسل پایا نہیں جاتا بلکہ وہ پراگندہ اورپریشان اوراق بن جاتے ہیں جن کا زیادہ تر حصہ (لوقا ۹: ۵۲ ۔ ۱۸باب) بے جوڑ بیانات خطبات اورکلمات کا مجموعہ ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس انجیلِ دوم کے حصص ہی ان باقی ماندہ مقامات کو ترتیب دے کر معنی خیز بنا دیتے ہیں۔ یہی حصے گویا" شانِ نزول" کا کام دے کر ان مقامات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں یوحنا بپتسمہ دینے والے کے حالات میں اور صلیبی واقعات کے بیان میں مرقس کی انجیل کا استعمال واضح طورپر ظاہرہے۔ صلیبی واقعات کے بیان میں نہ صرف اس انجیل کے مقامات موجود ہیں (۲۲: ۷۔ ۱۳، ۵۴۔ ۶۱) بلکہ اس انجیل کے الفاظ بھی اُن مقامات میں موجود ہیں جو مرقس سےاخذ کئے گئے ہیں (لوقا۲۲: ۱۹، ۲۲، ۴۷، ۵۲، ۷۱؛ ۳۳: ۳)۔ مرقس کے یہ الفاظ صرف اسی حالت میں سمجھ میں آسکتے ہیں اگرہم یہ تسلیم کرلیں کہ مرقس کے ڈھانچہ کی ترتیب کوبحال رکھ کر مقدس لوقا نے اس کے متن کو ایک اورترتیب دی ہے اوراس میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سٹریٹر کے نظریہ کے مطابق یہ ترتیب غیر فطرتی ہوجاتی ہے۔ مرقس کی انجیل مقدس لوقا کے بیان کردہ واقعات کی اصل بنیاد ہے اورجو باتیں اضافہ کی گئی ہیں وہ صرف ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔جس سے ثابت ہے کہ انجیلِ دوم ابتدا ہی سے مقدس لوقا کے بیانات کو تعین کرنے والا ماخذ ہے ۔1

ڈاکٹر سٹریٹر کے نظریہ کے مطابق جب مقدس لوقا نے اپنی انجیل کی پہلی ایڈیشن لکھی تھی تب انجیلِ دوم بھی احاطہ ِتحریر میں نہیں آئی تھی لیکن ہم حصہ دوم کے باب اول کی فصل سوم میں ثابت کر آئے ہیں کہ انجیل مرقس قدیم ترین زمانہ کی تصنیف ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جب مقدس لوقا کو انجیل لکھنے کا خیال آیا تب انجیل دوم ارضِ مقدس کے دوردراز مقامات کی کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں موجود تھی اوران رسالوں میں سے ایک تھی جن کا ذکر انجیلِ سوم کے دیباچہ میں آیاہے۔ جب مقدس لوقا اپنی انجیل تصنیف کرنے لگے تو آپ نے اس انجیل کو معتبر ترین ماخذ سمجھ کر اپنی انجیل کو اس کے ڈھانچہ اور خاکہ کی بنا ء پر قائم کرکے دیگر ماخذوں کو اس کے مختلف حصوں میں داخل کرکے ایک نئی اورتازہ تصنیف بنائی۔ پس ڈاکٹر موصوف کے نظریہ کی بنا ہی غلط ہے۔

______________________

1Prof.J.M.Creed, The Gospe according to St.Luke p.LVIII not.


فصل دوم

مقدس لوقا کی انجیل کی خصوصیات

ہم گذشتہ فصل میں بیان کرچکے ہیں کہ مقدس لوقا غیر یہود میں سے مشرف بہ مسیحیت ہوئے تھے۔لہٰذا قدرتی طور پر آپ نے آنخداوند کے سوانحِ حیات اورکلماتِ طیبات کے خزانہ میں سے ان واقعات اورکلمات کاانتخاب کیا جن سے یہ ثابت ہوتا تھاکہ سیدنا مسیح نہ صرف اہلِ یہود کے مسیحِ موعود ہیں بلکہ اقوامِ عالم کے نجات دینے والے ہیں1۔ انجیل کا پیغام افرادِ عالم سے تعلق رکھتا ہے سیدنا مسیح کے مبارک احکام سب پر حاوی ہیں۔ آپ کی انجیل ہمہ گیر اورآپ کی نجات عالمگیر ہے جو بلاامتیاز رنگ، ملک ، قوم اورنسل کے کل بنی نوع انسان کے لئے برکت کا موجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس لوقا رسالہِ کلمات میں سے صرف انہی کلمات کو منتخب کرتاہے جو اس موضوع کے مطابق ہیں اورانجیل اول کے " پہاڑی وعظ" کے وہ کلمات جن کا تعلق خاص قوم اسرائیل اوریہودیت سے ہے اپنی انجیل میں نقل نہیں کرتا (لوقا ۶: ۱۷۔ ۴۹)۔ مقدس متی کی انجیل میں موسوی شریعت کی نئی تاویل (تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا ۔۔۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں ، مقدس لوقا کی انجیل میں نہیں پائی جاتی ۔ علیٰ ہذا القیاس ، دعا، روزہ ، خیرات کے متعلق وہ احکام نہیں ملتے، جو فریسیوں کے قاعدہ کے مطابق نہیں تھے۔ (مرقس ۱: ۲۳؛ متی ۱۵: ۱۔ ۱۱، ۱۵۔ ۲۰) وغیرہ کے سے مقامات اس انجیل میں نہیں پائے جاتے کیونکہ وہ غیر یہودی نومریدوں کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح (مرقس ۷: ۲۴؛ متی ۱۵: ۲۱۔ ۲۲، ۲۶۔ ۲۸) اوراسی قسم کے دوسرے مقامات غیر یہودی کلیسیاؤں کے مصرف کے نہ تھے ۔پس وہ اُن کا انتخاب نہیں کرتا لیکن مقدس لوقا نے نیک سامری کی تمثیل، شکر گزار سامری کوڑھی کا واقعہ ، سیدنا مسیح کا زبدی کے بیٹوں کو سامری گاؤں کو تباہ کرنے کے خیال کو جھڑکنا اوراسی قسم کے دیگر اقوال اور واقعات منتخب کئے ہیں جو غیر یہود اقوام اور ارضِ مقدس کے باہر کے ممالک کے رہنے والوں کے لئے خاص طورپر سبق آموز تھے۔

(۲)

مقدس لوقا ایک مورخ کی طرح بتلاتا ہے کہ آنخداوند کی زندگی کے فلاں فلاں واقعات فلاں قیصر یا فلاں گورنر یا فلاں صوبہ یا فلاں حاکم کے وقت میں ظہور میں آئے(لوقا ۲: ۱۔ ۲؛۳: ۱۔ ۲ وغیرہ)۔ کوئی اورانجیل نویس سیدنا مسیح کے سوانحِ حیات کو اس طوپر دنیا کے تاریخی واقعات سے متعلق نہیں کرتا۔ مقدس لوقا نے اپنی انجیل سلطنتِ روم کے ملکوں اورصوبوں کے مشرکہ غیر یہودبُت پرستوں اور خدا پرست نومرید یہودیوں کے لئے لکھی تاکہ وہ منجئی عالمین پر ایمان لاکر نجات پائیں۔ اوراُن میں سے جو سیدنا مسیح کے حلقہ بگوش ہوگئے ہیں وہ جان لیں کہ" جن باتوں کی تعلیم انہوں نے پائی ہے ، ان کی پختگی اُن کو معلوم ہوجائے"۔

(۳)

انجیل اول میں حضرت کلمتہ اللہ کے معلم ہونے کے پہلو پر زوردیا گیا ہے۔ وہ ایک ربی ہیں جنہوں نے موسوی شریعت کی ایک نئی تاویل کی ہے۔ انجیلِ سوم میں مقدس لوقا نے آنخداوند کے منجی ہونے کے پہلو کو واضح کیاہے۔ پہلی تین انجیلوں میں سے مقدس لوقاہی صرف اس خطاب کا استعمال کرتاہے (لوقا۱: ۴۷۔ ۲: ۱۱؛ اعمال ۵: ۳۱؛ ۱۳: ۲۳)۔ مقدس لوقا خود طبیب تھا لہٰذا اس کوقدرتاً سیدنا مسیح کے سوانحِ حیات اور تعلیم میں وہ باتیں دلکش معلوم ہوئیں جن میں امراض ، دکھ اورگناہ سے نجات کا ذکر موجود تھا اورجن سے انسانی زندگی کو خوشی ، آرامِ قلب، اطمینانِ جان، محبت اُمیداورایمان نصیب ہوتے تھے۔

______________________

1G.C.Monetfiore, The Synoptics Gospels Vol.1 pLXXXVI


فصل سوم

انجیلِ لوقا کی قدامت اورپایہ اعتبار

ناظرین کویاد ہوگا کہ عیدس پنیتکوست کے ایام میں " خدا پرست " یہود جن کی مادری زبان یونانی تھی جوسلطنتِ روم کے مختلف کونوں سے عید منانے کےلئے یروشلیم آئے ہوئے تھے (اعمال۲: ۱۰)۔مقدس پطرس اوردیگر رسولوں کی تبلیغی مساعی (کوششیں)کی بدولت منجی عالمین پر ایمان لے آئے تھے۔بالفاظِ دیگر روزِ اوّل سے ہی " یونانی مائل " یہودی کلیسیا میں داخل ہوگئے اورچند مہینوں کے اندر اندر ارامی بولنے والےیہوداور یونانی مائل یہودی ایمان داروں کی جماعت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرگئی"۔ " یونانی مائل " یہودی خاص طورپر غیر یہود کو سیدنا مسیح کے حلقہ بگوش کرنے میں سرگرم تھے۔ کٹر یہود کی ایذارسانی کی وجہ سے جب کلیسیا پر بڑا ظلم برپا ہوا تو ایمان داروں کی جماعت" پراگندہ" ہوگئی۔ اورجو" پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے اورفلپس شہر سامریہ میں جاکر لوگوں میں مسیح کی منادی کرنے لگا اور لوگوں نے بالااتفاق اس کی باتوں پر جی لگایا اورسامریوں نے خدا کا کلام قبول کرلیا اوراُنہوں نے روح القدس پایا"(اعمال ۸باب)۔ یہی فلپس" حبشیوں کی ملکہ کے وزیر اوراس کے سارے خزانہ کے مختار" کو بپتسمہ دینے کے بعد" قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خوشخبری سناتا گیا"۔مقدس پطرس ہر جگہ پھرتا ہوا"(اعمال۹: ۳۲) قیصریہ میں جا پہنچا جہاں اس نے غیر یہود " دیندار" کرنیلس کو بپتسمہ دیا اور"غیر قوموں پر بھی روح القدس کی بخشش جاری ہوئی "(لوقا ۱۰: ۴۵)۔ اور سب پر عیاں ہوگیاکہ " خدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے"(اعمال۱۱: ۱۸)۔ جو لوگ پراگندہ ہوئے تھے وہ پھرتے پھرتے فینیکے اورکپرس اورانطاکیہ میں پہنچے اورانطاکیہ میں غیر یہود کو سیدنا مسیح کی خوشخبری کی باتیں سنانے لگے اور بہت سے لوگ ایمان لا کر سیدنا مسیح کی طرف پھرے"(اعمال۱۱: ۱۹۔ ۲۱)۔اور غیر یہودبُت پرست اقوام میں" خدا کا کلام ترقی کرتا اورپھیلتا گیا"۔ غیر اقوام کے رسول" مقدس پولُس اور آپ کے ساتھیوں کی تبلیغی مساعی کی وجہ سے غیر یہود" خدا پرست نومرید خدا کے فضل پر قائم ہوگئے "(اعمال۱۴: ۴۳)۔ کٹر یہود کی مخالفت کی وجہ سے رسول مقبول نے اپنی تمام توجہ غیر یہود اقوام پرمبذول کردی اور" اس تمام علاقہ میں خدا کا کلام پھیل گیا "(۱۳: ۴۷۔ ۴۸)۔ اس کے بعد جہاں بھی مقدس پولُس گئے ہرجگہ غیر یہود" کی ایک بڑی جماعت ایمان لے آئی"(اعمال۱۴باب) اور غیر قوموں کے لئے ایمان کا دروازہ" کھل گیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ منجی عالمین کی وفات کے چند سال کے اندر اندر ہزارہا غیر یہودشرک اوربُت پرستی کو ترک کرکے ایمان داروں کی جماعت میں شامل ہوگئے۔یہ تعداد روز بروز بڑھتی گئی اورغیر یہود کلیسیائیں منظم ہوکر (اعمال ۱۴: ۲۳) قوت پکڑتی گئیں۔

مقدس متی نے اپنی انجیل یہودی نومریدوں کے لئے لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھاکہ عیسیٰ ناصری قوم اسرائیل کا مسیح موعود ہے جو انبیائے سابقین اور شاہانِ اسرائیل سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۴۱۔ ۴۲ وغیرہ) اورجس کا وجودِ مبارک یروشلیم کی ہیکل سے بھی اعلیٰ اورارفع ہے(متی ۱۲: ۶)۔ یہاں تک کہ وہ سبت کا بھی مالک ہے (متی ۱۲: ۸)۔ وہ " ابن آدم" ہے جس کو" زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے"(متی ۹: ۶)۔ اورجس نے


موسوی شریعت میں ایک نئی روح پیدا کردی ہے(متی ۵: ۱۷۔ ۴۷)۔ لیکن گویہ باتیں اہل یہود کے لئے " زندگی اورموت" (استثنا ۳۰: ۱۹؛ یرمیاہ۲۱: ۸) کا سوال تھیں پر غیر یہودکو یہ باتیں اپیل نہ کرتی تھیں ۔ جوباتیں اہلِ یہود کے لئے دلفریب اورجاذبِ توجہ تھیں وہ بُت پرست غیر یہود کے لئے دلکش نہ تھیں کیونکہ دونوں قوموں میں مغائرت (ناموافقت، اجنبیت)تھی (اعمال ۱۰: ۲۸ وغیرہ)۔ پس غیر یہود مسیحیوں کے لئے وہ کام کی باتیں نہ تھیں اورنہ اُن باتوں سے متاثر ہوتے تھے۔

پس مقدس لوقا نے" اس پر کمر باندھی" کہ منجی جہان کے سوانح حیات، واقعات اورکلماتِ طیبات کے ذخیرہ کی تحقیق اورتلاش کرئے جو مختلف مقامات کی کلیسیاؤں کے پاس محفوظ تھا اورجس کو اُن لوگوں نے رسالوں، پاروں اور ورقوں کی صورت میں لکھ رکھا تھا " جو شروع سے خوددیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے"۔ آپ سخت دوڑ دھوپ کرکے (جیسا ہم فصل اوّل میں بتلاچکے ہیں ) مختلف مقامات کے مردوں اورعورتوں کو ملے جنہوں نے " زندگی کے کلام کو خود اپنے کانوں سے سنا تھا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ غور سے دیکھا تھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا تھا"(۱۔یوحنا ۱: ۱)آپ مقدس پولُس کے ساتھی تھے اور مقدس پطرس سے بھی ملاقات کرچکے تھے جنہوں نے " خود سیدنا مسیح کی عظمت کودیکھا تھا"(۲۔پطرس ۱: ۱۶)۔ پس آپ نے" خشکی اور تری کا دورہ " کرکے " سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کیا"۔تاکہ ان ماخذوں سے غیر یہود ایمان داروں کےلئے سیدنا مسیح کی سوانحِ حیات اورکلماتِ طیبات کا ایک نہایت معتبر اورمستند مجموعہ تیارکریں تاکہ جن باتوں کی غیر یہود نومریدوں نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی اُن کو معلوم ہوجائے "۔ پس جو کام مقدس متی نے یہودی نومریدوں کے لئے سرانجام دیا وہی کام مقدس لوقا نے غیر یہودی نومریدوں کے لئے پورا کیا تاکہ اُن کے کام آئے۔

اس باب کی فصل اول میں ہم نے ان ماخذوں کا ذکر کیا ہے جن کو مقدس لوقا نے اپنی انجیل کی تالیف میں استعمال کیا ہے۔ یہ ماخذ قدیم ترین تھے۔ ان میں سے دوماخذوں کو جیسا ہم نے ذکر کیا ہے مقدس متی نے بھی استعمال کیا ہے یعنی رسالہِ کلمات اورمقدس مرقس کی انجیل جو قدیم ترین اور معتبرترین ماخذ تھے۔ ان دوماخذوں کے علاوہ مقدس لوقا نے دیگر قدیم معتبر اور مستند ماخذوں سے کام لے کر ان کو ترتیب دے کر ایک ایسی انجیل تیار کی جس کی سند کا معیار بلند اورپایہ اعتبار اعلیٰ تھا۔ ڈاکٹر سٹریٹر کہتاہے کہ مقدس لوقا کے خاص ماخذ سند عین بعین مقدس مرقس کی انجیل کی سن کی سی ہے جو اوّل درجہ کی سند ہے1۔ انشاء اللہ ہم آگے چل کر ثابت کردیں گے کہ اس انجیل میں سیدنا مسیح کے کلمات اورانجیلی بیانات میں ارامی الفاظ اورمحاورات موجودہیں جس سے اس امر کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یہ ماخذ احاطہ تحریر میں آچکے تھے2۔ پس وہ نہایت معتبر تھے۔ اگر ڈاکٹر کیڈبری کی تاویل صحیح ہے کہ مقدس لوقا آنخداوند کی زندگی کےواقعات اورتعلیم سے خود واقف تھا جس کی بنا پر وہ یہ دعویٰ کرتاہے کہ " میں ابتدا ہی سے سب باتوں سے ٹھیک ٹھیک واقفیت رکھتاہوں"(لوقا۱: ۳) تواس کی انجیل کا پایہ اعتبار اوربھی بلند ہوجاتاہے۔

(۲)

اعمال کی کتاب سے جیسا ہم اوپر بتلاچکے ہیں یہ پتہ چلتاہے کہ غیر یہود پہلے دن ہی سے کلیسیا میں شامل ہوگئے تھے(اعمال ۲: ۱۰)۔ اوران کی تعداد ، روز بروز بڑھتی گئی حتیٰ کہ چند سالوں کے اندر اندر غیر یہود میں مسیحیت کا جلال سایہ فگن ہوگیا۔ پہلے انطاکیہ پھر شام اور دیگر مقامات میں مسیحی

______________________

1Streeter, Four Gospels p.222
2J.T.S July-October 1943 p.135


کلیسیائیں قائم ہوگئیں ، جن کی شرکا کی اکثریت بُت پرست غیر یہود پر مشتمل تھی۔ ماحول کے بدل جانے سے کلیسیا کے مسیحی معلموں کے لئے یہ لازم ہوگیاکہ وہ اپنی تعلیم کا طریقہ کاربدل دیں اور " یہودیوں کے لئے یہودی او ر غیر مختونوں کے لئے غیر مختون بن جائیں۔ رسولوں کی " منادی" کے بنیادی اصول ویسے کے ویسے ہی قائم رہے لیکن قدرتی طور پر غیر یہود کے لئے ان کو پیش کرنے کا طریقہ مختلف ہوگیا۔ یہ اصول مسیحی انجیل کے روح رواں تھے۔ چونکہ غیر یہود کے لئے زیادہ تفصیلات کی ضرورت تھی لہٰذا پہلے مقدس پولُس جیسے معلموں نے ان کی اس ضرورت کو پورا کیا۔ لیکن چونکہ ارض مقدس کے اندر اور باہر سلطنتِ روم کے مختلف صوبوں اور شہروں میں ہزارہا غیر یہودبُت پرست منجی عالمین پر ایمان لارہے تھے ۔پس ان روز افزوں ایمان داروں کے لئے ایک انجیل کی ضرورت کا احساس بہت جلد پیدا ہوگیا تاکہ ان کے ایمان کی استقامت ہو اوراس کے ذریعہ دوسروں کو بھی منجی کے قدموں میں لاسکیں۔ اس خلا اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مقدس لوقا نے انجیل لکھی۔ پس یہ انجیل کلیسیا کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دنوں میں رسالہ کلمات اورانجیل دوم اورچند دیگر رسالےاور پارے لکھے گئے تھے لیکن غیر یہود کلیسیاؤں کے لئے یہ ناکافی تھے۔ ان کو ایک ایسی جامع کتاب کی ضرورت تھی جس میں نہ صرف سیدنا مسیح کی پیدائش سے لے کر صعودِ آسمانی تک کے واقعات ہوں بلکہ جس میں آنخداوند کی تعلیم کے وہ حصص جو خاص طورپر غیر یہود کو اپیل کریں درج ہوں۔ مقدس لوقا نے اس کام کو پوراکرنے کا بیڑا اٹھایا۔پس مقدس لوقا کی انجیل ، مقدس مرقس کی انجیل کے قریباً پندرہ (۱۵)سال بعد احاطہِ تحریر میں آئی۔

(۳)

جب ہم مقدس متی کی انجیل اورمقدس لوقا کی انجیل کا مقابلہ کرتے ہیں تو جیسا ہم کہہ چکے ہیں ہم پر عیاں ہوجاتاہے کہ دونوں انجیل نویس ایک دوسرے کی تصنیف سےواقف نہ تھے1۔ پس دونوں ایک دوسرے کی تصنیف کی جانب سے بے نیاز ہیں۔دونوں اپنی اپنی انجیلوں کو مختلف زاوئیہ نگاہ سے لکھتے ہیں۔ مقدس متی کی انجیل میں اُن سوالات کے جواب پائے جاتے ہیں جو کٹر یہودی مسیحی جماعت سے پوچھتے تھے مثلاً تم ایسے شخص کو مسیحِ موعود کیوں کہتے ہو جس کے حالات ہمارے تصوراتِ مسیحائی کے خلاف ہیں۔بعض یہودی مقدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد (اعمال۱۹: ۱۔ ۷۔ ۱۸: ۲۵ وغیرہ) جو مسیح موعود کی راہ دیکھتے تھے ۔ اُن کے سوالات کے جواب بھی اسی انجیل میں ہیں۔لیکن غیر یہود کو ایسے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مُشرک بُت پرس تھے جو گناہوں سے نجات پانے کے طالب تھے۔ ان میں سے جو موحد" خدا پرست تھے وہ مشرکانہ مذاہب کے توہمات اورتعلیمات سے بیزار تھے۔ مقدس پولُس کے خطوط سے بالخصوص جو آپ نے رومیوں، کرنتھیوں، گلتیوں ، کلیسیوں کو لکھے ان سوالات کا پتہ چلتا ہے جو غیر یہود کو مسیحیت کی جانب کھینچ لائے۔ ہم نے اپنے رسالہ نورِالہدیٰ میں ان کا مفصل ذکر کیا ہے ۔لہذا ہم ا ن کا یہاں ذکر نہیں کرتے ۔ مقدس لوقا نے ان غیر یہود کے سوالات کے جواب اپنی انجیل میں لکھے تاکہ ان کو مسیحی ایمان کے اُصول کی پختگی معلوم ہوجائے۔ پس چونکہ دونوں انجیل کا نقطہ نظر الگ الگ ہے ۔ ان کے مصنفوں نے ایک دوسرے کی تصنیف سے کچھ اخذ نہیں کیا۔ حالانکہ دونوں میں مشابہت بھی موجود ہے مثلاً دونوں نے انجیل دوم کا استعمال کیا ہے۔ دونوں نے رسالہِ کلمات کے خطبات کو اپنا ماخذ بنایاہے۔ دونوں نے اپنی انجیل کے شروع میں پیدائش کے حالات بیان کئے ہیں۔ دونوں میں نسب نامے موجود ہیں۔دونوں نے مقدس مرقس کے صلیبی واقعات کے بیان میں اضافہ کیا ہے۔ گو دونوں کے اضافوں میں کوئی مشترکہ بات نہیں

______________________

1Sanday.The Bearing of Criticism upon the Gospels History in Exp.Times, December 1908


ہے اور دونوں انجیل مرقس اوررسالہِ کلمات کو ایک ہی طرح استعمال نہیں کرتے ، جس کی وجہ سے اُن کا الگ الگ زاویہ نگاہ ہے۔ لیکن چونکہ دونوں اناجیل ایک دوسرے سے بے نیاز ہیں اس حقیقت سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ دونوں اناجیل قریب قریب ایک ہی وقت میں لکھی گئی تھیں۔

مقدس مرقس کی انجیل میں ہم آنخداوند کی زندگی کے واقعات کے زمانہ کے قریب ترین ہیں۔ اس میں جو واقعات درج ہیں ان کے بیان کی سادگی، شگفتگی اورتازگی اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ واقعات باقی دونوں انجیلوں سے کم ازکم دس پندرہ سال پہلے لکھے گئے تھے۔ پس مقدس لوقا کی انجیل مرقس کی انجیل سے دس پندرہ سال بعد احاطہِ تحریر میں آئی۔انشاء اللہ ہم آگے چل کر اس موضوع پر مفصل بحث کریں گے۔

(۴)

انجیلِ سوم کی قدامت اورپایہ اعتبار اس امر سے بھی ثابت ہے کہ مقدس پولُس کے خطوط، الہٰیات اورتصورات کا اثر اس انجیل میں کہیں نہیں پایا جاتا حالانکہ مقدس لوقا آپ کے ہم سفر اورساتھی تھے اوراس نے آپ کا ساتھ آخری دم تک دیا۔مقدس لوقا ایک ایمان دار اور دیانت دار مورخ کی طرح ان واقعات کو صحیح صحیح بیان کرنے پر ہی کفایت کرتے ہے جو اس کے ماخذوں میں موجود تھے۔ سیدنا مسیح کے صعودِ آسمانی کے بعد جو تصورات کلیسیا کے معلموں نے پیش کئے ، ان کا شائبہ بھی اس انجیل میں موجود نہیں ہے۔علیٰ ہذا القیاس مقدس لوقا کی انجیل کے پہلے دوباب کا تعلق یہودی ماخذوں سے ہے جس میں بہت سی ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو مقدس لوقا جیسے غیر یہودی مصنف کے خیالات سے بیگانہ ہیں۔ ان میں یہودی رسوم اوریہودی شریعت کا ذکر ہے۔ زکریاہ اورالیشبع کا بیان، ہیکل میں باری باری کا مقرر ہونا، آٹھویں روز ختنہ کی رسم کی ادائیگی اورنام رکھاجانا، زچّہ کا شکرانہ اور نذرانہ ، شمعون اورحنہ کے گیت وغیرہ وغیرہ تحریری ماخذ تھے جن کو وہ نہایت ایمانداری کے ساتھ نقل کرتاہے ۔1

(۵)

ناظرین کو یاد ہوگا کہ ہم نے حصہ اوّل کے باب سوم میں رسولوں کی " منادی" کا خاکہ پیش کیا تھا۔ حصہ دوم کے باب اوّل کی فصلِ دوم میں ثابت کر آئے ہیں کہ مقدس مرقس کی انجیل کے مضامین رسولوں کی " منادی" کے مطابق مرتب کئے گئے ہیں ۔لہٰذا وہ قدیم ترین تصنیف ہے۔ جب ہم مقدس متی اور مقدس لوقا کی انجیلوں کے مضامین پر نظر کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ مقدس مرقس نے آئندہ انجیل نویسوں کے لئے ایک نمونہ قائم کردیا ہے جس کے ڈھانچہ کو باقی انجیل نویس اختیار کرلیتے ہیں۔ انجیلِ اوّل اور سوم میں رسولوں کی ابتدائی" منادی" کے مختلف حصص میں سے بعض پر نمایاں زوردیا گیا ہے اور بعض حصوں پر زور نہیں دیا گیا۔ یہ حقیقت بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ دونوں اناجیل ابتدائی ایام سے ذرا پرے ہٹ کراور اُن کے بعد کی تصنیف کی گئی تھیں۔ مثلاً مقدس مرقس کی انجیل میں صلیبی واقعہ تمام انجیل کا پانچواں حصہ ہے ، لیکن انجیل اوّل کا ساتواں حصہ اور انجیل سوم کا چھٹواں حصہ ہے۔ اگران دونوں انجیلوں کو بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان میں " تعلیم " کے حصص غالب ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ دونوں انجیل نویس اُس زمانہ میں لکھ رہے تھے جب ابھی وہ رسولوں کی " منادی" سے براہِ راست اوربلاواسطہ واقف تھے2۔ابتدائی منادی کے اصول اور اس کا نفس مضمون ان انجیلوں میں زندہ اور جیتا جاگتا ہے ۔ اس حقیقت سے ظا ہر ہے کہ یہ دونوں اناجیل قدیم ہیں ۔ اگرچہ وہ مقدس مرقس کی انجیل کے دس پندرہ سال بعد تصنیف کی گئی تھیں۔

______________________

1Dodd.Apostolic Preaching and Its Development Lecture I.
2The Mission and Message of Jesus p.258


(۶)

مقدس لوقا کی نجیل سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب غیر یہود کے درمیان مقدس لوقا اور اس کے ساتھی انجیل جلیل کی تبلیغ بڑے زور اور شور سے کررہے تھے۔صلیب کے یہ شجاع سپاہی اور دلیر علم بردار سلطنتِ روم کے مختلف مقامات میں صلیب کا پرچم لہرارہے تھے۔ وہ " فتح کرتے ہوئے نکلے اورفتح کرتے گئے "(مکاشفہ ۶: ۲)۔ اعمال کی کتاب کا مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتا ہے کہ انجیلِ سوم اس زمانہ میں لکھی گئی جب وہ واقعات رونما ہورہے تھے جن کا ذکر اعمال کی کتاب میں ہے۔انجیلِ سوم میں بعض ایسی باتیں موجود ہیں جو اُس کتاب کے واقعات کی روشنی میں ہی بخوبی سمجھ میں آسکتی ہیں1

(۷)

مقدس لوقا میں خدا کی بادشاہی کے تصور کونمایاں جگہ حاصل ہے لیکن اس انجیل میں اس سے مراد صرف خدا کی حکومت ہی ہے، جس کی آمد پر موجودہ دور کا خاتمہ ہوجائے گا اوراس کی بجائے خدا کی بادشاہت قائم ہوجائے گی۔ پس یہ امر یادرکھنے کے قابل ہے کہ اس اصطلاح سے مقدس لوقا کا وہی مطلب ہے جو انجیلِ مرقس اوررسالہِ کلمات میں موجود ہے(لوقا ۱۱: ۲؛ ۱۳: ۲۸۔ ۲۹؛ ۱۷: ۲۰؛ ۲۲: ۱۶۔ ۱۸؛ ۲۳: ۵۱)۔ لیکن اس بادشاہی کا جلدی ظہور میں آنے کا خیال ایسا نمایاں اور واضح نہیں جیسا انجیل مرقس میں ہے(دیکھو مرقس ۱۴: ۶۲؛ لوقا ۲۲: ۶۹؛ مرقس ۱۳: ۳؛ لوقا ۹: ۲۷)۔ چنانچہ مقدس لوقا میں سیدنا مسیح کی ایک تمثیل درج ہے جس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو یہ " گمان کرتے تھے کہ خدا کی بادشاہی ابھی ظاہر ہوا چاہتی ہے"۔(لوقا ۱۹: ۱۱ ؛ ۲۱: ۸)۔ ہمیں ان لوگوں سے خبردار کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ " وقت نزدیک آپہنچا ہے" تاہم یہ انجیل نویس تمام ابتدائی کلیسیا کے ایمان داروں کے ساتھ یہ تسلیم کرتاہے کہ موجودہ دورختم ہوجائے گا اورابنِ آدم کا ظہور اچانک ہوگا(لوقا ۱۷: ۲۲؛ ۲۱: ۳۵۔ ۳۶)۔

اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ یہ انجیل تب لکھی گئی تھی جب اس قسم کے خیالات کلیسیاؤں میں پائے جاتے تھے اور مقدس پولُس نے تھسلنیکی کلیسیا کو ان کے خلاف اپنے دوسرے خط میں خبردار کیا تھا(۲باب)۔اگرہم( ۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۲۔ ۸ کا مقابلہ لوقا ۲۱: ۳۴۔ ۳۶)سے کریں تو یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ رسول کی عبارت کے الفاظ تک انجیلی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ یہ انجیل پہلی صدی کے نصف کے قریب لکھی گئی تھی جب یہ خطوط احاطہ تحریر میں آئے تھے۔

ڈاکٹر ڈاڈDodd لکھتے ہیں2۔ " یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ اعمال کی کتاب کی تقریروں میں آنخداوند کی آمد کا ذکرہے(لوقا ۳: ۱۲۔۲۱)تاہم آپ کی فوری آمدِ ثانی کے سوال پر زور نہیں دیا گیا ۔ چنانچہ ابواب ۲، ۴، ۵، ۱۳ میں اس کا نہ تو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اورنہ اس پر خاص زوردیاگیا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ بات رسولوں کی " منادی" کا جزو ضرور تھی لیکن اس پر زور نہیں دیا گیا بلکہ اُن کی " منادی" کا تمام تر زوراس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے لوگوں پر رحم کیا ہے اورنجات بخشی ہے اوراسی بات پر مقدس پولُس زوردیتاہے چنانچہ ۱۔تھسلنیکیوں (۵۰ء) سے ظاہر ہے کہ آمدِ ثانی کا وقت آگیاہے۔ لیکن بعد میں اس پر زور نہیں دیا گیا بلکہ تمام تر زور گناہ سے نجات پانے پر ہے(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۶ ؛ کلسیوں۱: ۱۳؛ ۶: ۶ وغیرہ)"۔ یہی زاویہ نگاہ مقدس لوقا کی انجیل کا ہے جو اس انجیل کی اصلیت اور قدامت کا ایک مزیداور زبردست ثبوت ہے۔

______________________

1J.M.Creed , The Gospel according to St.Luke (1930) p.XII
2Dodd,Apostolic Preaching pp.65-71.


باب چہارم

اناجیلِ کے طریقہ تالیف پر تبصرہ

گذشتہ ابواب سے ناظرین پرظاہر ہوگیا ہوگاکہ ہماری اناجیل نہایت قدیم ہیں اوران کا پایہ اعتبار نہایت بلند اور رفیع ہے کیونکہ وہ اُن ماخذوں سے تالیف کی گئی ہیں جن کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب ابھی واقعات رونما ہورہے تھے۔اوران میں سے اہم ترین ماخذ آنخداوند کی حینِ حیات میں ہی لکھا گیا تھا۔

جب آنخداوند تعلیم دینے لگے تو آپ " قریباً تیس (۳۰)برس" کے تھے (لوقا ۳: ۲۳)۔ آپ کی زندگی کا وہ زمانہ جو خلقِ خدا کی خدمت میں صرف ہوا کم از کم چار سو(۴۰۰)دن کا مختصرزمانہ تھا لیکن جب ہم چاروں انجیلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتاہے کہ اُن چارسو (۴۰۰) دنوں میں سے بمشکل چالیس الگ الگ دنوں کے بعض چھوٹے بڑے واقعات کا ہی ذکر ملتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنخداوند کی اس اعلانیہ زندگی کا(لوقا ۹: ۱۰ )حصہ کی نسبت ہمیں کوئی علم نہیں۔اگرچاروں انجیلوں کا کھنڈ پاٹھ (کتاب کے حصے)کیا جائے اور ان کو لگاتار آہستہ آہستہ پڑھا جائے تو زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے لگتے ہیں1 ۔ چاروں اناجیل آنخداوند کی پہلی تیس (۳۰)سالہ زندگی کو دوباب میں بیان کردیتی ہیں لیکن آپ کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات تیس(۳۰) ابواب پر مشتمل ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ہم بتلاچکے ہیں کہ سیدنا مسیح کے سامعین کی تعداد ہزارہا تھی اورآپ کی زندگی میں آپ کی وفات کے بعد بیس پچیس سال تک ان ہزاروں چشم دید گواہوں کے آپ کے متعلق ہزاروں زبانی اور صدہا (سینکڑوں )تحریری بیانات مشہور ہوں گے۔ پس انجیل نویس کے پاس بہت مسالہ تھا جو بہتوں نے لکھا تھا(لوقا ۱: ۱)۔ لیکن انجیل نویسوں نے ہرایک بیان کو اپنی انجیل میں درج نہ کیا بلکہ آنخداوند کے کلماتِ طیبات ، معجزاتِ بینات اور سوانحِ حیات میں سے صرف اُن کو منتخب کیا جواعلیٰ ترین پایہ اعتبار کے تھے اورجوان کے مطلب کےبھی تھے ۔ مقدس یوحنا نے اس انبار(ڈھیر) میں سے بعض کو منتخب کیا(یوحنا ۲۰: ۳۰؛ ۲۱: ۲۵۔ اعمال ۱۰: ۲۹۔ ۴۱کودیکھو)۔مقدس متی اورمقدس لوقا نے بھی ایسا ہی کیا (لوقا ۱: ۱۔ ۳)۔ مقدس مرقس کا طرق کار یہی تھا(اعمال۱۱: ۴؛ ۲۶: ۱۶؛ عبرانیوں ۲: ۳ ؛یوحنا ۱۵: ۲۷؛ ۲۔پطرس۱: ۱۶؛ ۱۔یوحنا ۱: ۱۔ ۴)۔

حق تویہ ہے کہ ہرمصنف کا یہی طریقہ کار ہوتاہے۔ جب کوئی شخص کتاب لکھنے بیٹھتاہے تو وہ اپنی تصنیف میں ان تمام باتوں کا ذکر نہیں کرتا جن کا اس کو علم ہوتاہے بلکہ صرف ان ہی باتوں کاذکر کرتاہے جو اس کے موضوع کے خاص پہلو سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاًمقدس پولُس نے اپنے خطوط میں منجی جہان کے معجزات کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتا اوربمشکل آپ کے دوچار اقوال پیش کرتاہے اور وہ بھی صرف ضمنی طورپر۔ اعمال کی کتاب میں پولُس رسول کی تبلیغی مساعی کا مفصل ذکر ہے لیکن اس کو پڑھنے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مقدس رسول نے اپنی کلیسیاؤں کو کبھی خط بھی لکھے تھے ۔ اس رسالہ سے ہم کومقدس پولُس کے طرزِ استدلال اوراسلوبِ تحریر کا پتہ بھی نہیں چل سکتا۔ علیٰ ہذا القیاس روم کے مقدس کلیمنٹ نے جو خط پہلی صدی کے آخر میں لکھا تھا اس میں مقدس پولُس کے خطوط کے مجموعہ کا وہ ذکر نہیں کرتا ۔حالانکہ ۴۷باب میں( ۱۔کرنتھیوں۱: ۱۲ )کی طرف اشارہ کرتاہے۔

______________________

1F.C.Burkitt, Gospels History and it’s Transmission p.20.


(۲)

علاوہ ازیں سیدنا مسیح کی زندگی کے اُن واقعات اورآپ کے اُن کلماتِ زرین کو بقا نصیب ہوئی جو رسولوں اورمبشروں کی " منادی" کے جز اوراس منادی کے اجزا کی مثالیں تھیں یا جن کا دورانِ وعظ اکثر ذکر کیا جاتا تھا۔اس زمانہ میں بیان کرنے والے وہ لوگ تھے جوخود چشم دید گواہ تھے اور جوایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے(اعمال۸: ۱، ۱۴، ۲۶۔ ۹: ۳۲وغیرہ)۔ یہ لوگ مختلف کلیسیائی مرکزوں میں آنخداوند کی تعلیم ،زندگی اور قیامت کے حالات سناتے تھے ۔ پس مختلف کلیسیاؤں میں مختلف بیانات مروج تھے جن کو انجیل نویسوں نے اپنے ماخذ بنایا۔ مثلاً سیدنا مسیح کی قیامت کے متعلق کسی جگہ پر یروشلیم میں ، اورکسی جگہ گلیل میں دکھلائی دینے کے بیانات مروج تھے۔ انجیل نویسوں نے ان میں سے بعض بیانات کو لے لیا اور دوسروں کو چھوڑدیا۔ مثلاً مقدس پولُس ہم کوبتلاتاہے کہ آنخداوند اپنی قیامت کے بعد" کیفا کو اور اس کے بعد اُن بارہ کو دکھائی دیا"۔ (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۵)۔ لیکن کسی انجیل نویس نے کیفا کو دکھائی دینے کا واقعہ بیان نہیں کیا اگرچہ اس کا ذکر کیا گیا ہے (لوقا۲۴: ۳۴)۔

آنخداوندکی تعلیم، رسولوں ، مبلغوں اورمبشروں کی " منادی" میں اور کلیسیا کی روزانہ زندگی میں چراغِ راہ تھی۔ وہ ہر جگہ دہرائی اورسکھلائی جاتی تھی۔ مثلاً یہ کہ کلیسیا کا رویہ کیا ہونا چاہیے جب یہودی رسوم، ختنہ، حلال وحرام، سبت کا احترام، نکاح، طلاق، ہیکل اور قیصر کو جزیہ دینے کے سوال وغیرہ درپیش ہوں یا جب زر اوردولت کا سوال، آمدِ ثانی کا سوال، نئے دور کا آغاز کا سوال مسیحی جماعت کے سامنے پیش ہو ۔ یہ زبانی بیانات اورتحریری پارے جودورِ اولین کے تھے، مختلف قیمتی پتھروں کی طرح جا بجا دُور درازمقامات کی کلیسیاؤں میں بکھرے پڑے تھے۔ انجیل نویسوں نے ان قیمتی پتھروں کو جمع کیا اوران سے اناجیل کے تاج بنائے ۔1

(۳)

گذشتہ ابواب سے ظاہر ہوگیا ہے کہ انجیل نویسوں نے چشم دید گواہوں کے بیانات کو قلمبند کیاہے۔ ہرایک انجیل نویس کے پاس مختلف ماخذ تھے۔ اگرچہ ان میں سے بعض نے ایک ہی قسم کے ماخذ استعمال کئے ہیں۔ چونکہ یہ مختلف ماخذ مختلف چشم دید گواہوں کے بیان تھے ۔پس قدرتاً ان کے بیانات کی تفصیل میں اختلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ انجیل نویس ایک ہی واقعہ کو بیان کرتے ہیں توچونکہ ان کے ماخذ مختلف تھے لہٰذا ان اناجیل کے بیانات کی تفصیلات میں اختلاف کا ہونا ایک لازمی اورناگریز (ضروری، لازم)امر تھا۔ مثلاً صلیبی واقعہ کی تفصیلات میں اختلاف ہے چنانچہ پہلی تین انجیلوں میں مرقوم ہے کہ شمعون نے آنخداوند کی صلیب اٹھائی تھی لیکن مقدس یوحنا میں ہے کہ آنخداوند خود اپنی صلیبی اٹھائے ہوئے قتل گاہ کو گئے تھے۔ اس قسم کے تفصیلی اختلافات ہر واقعہ کے چشم دید گواہوں کے بیانات میں پائے جاتے ہیں ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر گواہوں کے بیانات کی تفاصیل میں اختلاف نہ ہوں تو عدالت کے فاضل جج ان بیانات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ قدرتی بات ہے کہ ہر گواہ اپنے خصوصی زاویہ نگاہ سے واقعہ کودیکھے اوراس کو بیان کرے اوریہ بیانات کے اختلاف کا موجب ہوجاتاہے۔چنانچہ رائٹ آنریبل لارڈ شاہ جو لارڈ آف اپیل رہ چکے ہیں کہتے ہیں

" ہر شخص اوربالخصوص ہر جج پر(جس کا سابقہ شہادت اورگواہی سے پڑتا) یہ بات فوراً ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگرچہ صلیبی بیان کی تفاصیل میں فرق ہے اورہر انجیل نویس کے بیان کا طریقہ نرالا اورجداگانہ ہے اور چاروں

______________________

1Taylor, Formation of Gospel Tradtion pp.168-176


بیان کرنے والوں کی سمجھ کے مطابق واقعہ صلیب کے مختلف پہلوؤں پر زوردیا گیا ہے تاہم صلیبی موت کا بیان وزن رکھتاہے اوربیان کردہ واقعات کی صحت میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا"۔

(سیدنا مسیح کا مقدمہ صفحہ۸۔ دی ٹرائیل آف جیزس کرائسٹ)۔

مقدس متی اور مقدس لوقا نے بعض واقعات کے بیان کو دہرایا ہے ۔ سر جان ہاکنس کہتاہے1کہ اس قسم کے بیانات نہایت اہم قسم کے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کو اناجیل کے ماخذوں کا پتہ چل جاتاہے اوراس بات کا علم ہوجاتاہے کہ اناجیل کے مصنفوں نے اپنی انجیل کو مرتب کرتے وقت کیا کیا ماخذ استعمال کئے تھے۔ بعض اوقات سیدنا مسیح کا ایک قول دومختلف ماخذوں میں مختلف سیاق وسباق میں لکھا گیا ہے اور دونوں انجیل نویسوں نے دونوں ماخذوں کو نہایت ایمان داری سے نقل کردیاہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ہی قول یا واقعہ کے دوبیانات بعض اوقات ایک ہی انجیل میں پائے جاتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آنخداوندکے کلمات (سوانح حیات) جواناجیل میں درج ہیں صرف کسی ایک واقعہ یا محل پر ہی بولے نہیں گئے تھے۔ اس نکتہ کو عموماً نظر انداز کیا جاتاہے اوریہ فرض کرلیا جاتاہے کہ آنخداوند نے اپنی سہ سالہ خدمت میں جو کلمہ بھی فرمایا تھاوہ صرف ایک ہی بارآپ کی مبارک زبان سے نکلا تھا اور بس۔ اورجس قسم کا معجزہ آپ نے ایک دفعہ کیا وہ صرف ایک ہی موقعہ پر کیا تھا۔ لیکن یہ مفروضہ سرے سے غلط ہے اورتحقیقِ حق میں بنائے فاسد(خراب ، ناقص) 2ہے۔ مثلاً (متی باب ۱۸: ۱) میں لکھاہے کہ شاگردوں نے سیدنا مسیح سے پوچھا کہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کون ہے "۔ تب آپ نے ایک بچے کو بیچ میں کھڑا کرکے بڑائی کا اصول بتلادیا۔ اورمرقس اورلوقا میں آپ نے یہ اصول بتلایا ۔ جب شاگردوں میں باہم بحث چھڑی (لوقا ۹باب)۔

پس ظاہر ہے کہ آنخداوند نے ایک ہی قسم کا قول اپنی سہ سالہ خدمت کے دوران میں کئی بار اور مختلف موقعہ اور محل پر فرمایا تھا اورایک ہی قول مختلف تحریری ماخذوں اورپاروں میں مختلف موقعہ اورمحل کے مطابق انجیل نویسوں کے سامنے موجود تھا جس کو انہوں نے نقل کرلیا۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر مونٹی فیوری کا قول یاد رکھنے کے قابل ہے ۔ وہ کہتاہے 3کہ آنخداوند کی زندگی کے کسی واقعہ کی سچائی یا آپ کے کسی قول کی اصلیت اس کے ماخذ کی قدامت پر منحصر نہیں ہے۔ یعنی یہ باطل ہے کہ اگرکوئی قول یا واقعہ پہلے لکھا گیا ہے تو وہ صحیح ہے اور اگرکوئی دوسرا قول یا واقعہ اس کے چند ماہ یا سال بعد احاطہ ِتحریر میں آیا ہے تووہ غلط ہے۔ کسی قول یا واقعہ کی صحت کا صحیح معیار دنوں یا مہینوں کی کمی بیشی نہیں ہے۔ مثلاً پہاڑی وعظ کو لے لو۔ یہ مجموعہ انجیل متی میں موجود ہے جس میں سیدنا مسیح کے مختلف زرین اقوال کوایک مقام میں جمع کیا گیا ہے ۔ گویہ اقوال ایک ہی وقت اور ایک ہی موقعہ پر نہیں فرمائے گئے تھے جیساکہ انجیل لوقا سے ظاہر ہے کہ جمع کئے جانے سے پہلے یہ اقوال منتشر تھے اورحسب موقعہ اورمحل بولے گئے تھے۔ پس ان اقوال کی اصلیت کا معیار ان کے جمع کئے جانے کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اس اصلیت کا دروامدار ان کے بولے جانےکے بعد ان کے محفوظ رہنے پر ہے۔

مورخ سیلی Seeley اپنی کتابEcce Homo ’’ایکسی ہومو‘‘ میں کیا خوب کہتاہے کہ

______________________

1Sir.J.Hawkins Horce Synoptica 1st ed.p.64
2G.C.Montefiore, The Synoptic Gospels Vol1.pXCIX
3 Ibid.Vol.I.XCVII-VIII


’’اناجیل کے بہترین اقوال اور زرین کلمات کی اصلیت میں کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ ایسے الفاظ ہیں جو صرف آنخداوند کی زبانِ حقیقت ترجمان سے ہی نکل سکتے تھے۔ آپ کے رسول ایسےتخلیقی دماغ اور ذہن رسا(تیز ذہن) رکھتے ہی نہ تھے کہ وہ اُن کو گھڑ سکتے۔ وہ صرف معمولی سمجھ اور سوجھ بوجھ کے انسان تھے۔بلکہ سچ پوچھو تو وہ اس قابل نہ تھے کہ سیدنا مسیح کے کلمات کی گہرائیوں کوپاسکیں۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ آپ کے اقوال کے سطحی مطلب کو بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ اُنہوں نے تمام حالات کو پوست کندہ (صاف صاف)لکھ دیا ہے اورعالم وعالمیان کو مستفید کردیاہے‘‘۔

(۴)

جب اناجیل احاطہ تحریر میں آئیں اُس زمانہ میں کاغذ ابھی دریافت نہیں ہوا تھا۔ کتابیں اور رسالے طوماروں پر لکھے جاتے تھے جو لپیٹے جاتے تھے۔قدرتاً ہر مصنف یہ چاہتا تھا کہ اس کے طومار کا سائز صرف اتنا بڑا ہو کہ کھولتے پڑھتے اور لپیٹتے وقت پڑھنے والا دِقت محسوس نہ کرے اورطومار بھی نہ پھٹے۔ پس مصنف کو لازمی طورپر واقعات کا انتخاب کرنا پڑتا تھا اور وہ صرف انہی واقعات کو قلمبند کرتا تھا جو اُس کے مقصد کے لئے اہم تھے اور دیگر واقعات کو نظر انداز کردیتا تھا۔چنانچہ اس نقطہ کو نگاہ میں رکھ کر اناجیل کا سائز محدود رکھا گیا۔ اورانجیل نویسوں نے آنخداوند کے ہزاروں واقعات اور کلمات میں سے صرف وہی کلمات اور واقعات لکھے جو اُن کے مطلب کو بدرجہ احسن پورا کرتے تھے۔ پے پائرس (نرسل) کے پارچہ کی تقطیع(کتاب کا سائز) ۵ انچ سے ۱۵انچ تک ہوتی تھی۔ اس کے متعدد ٹکڑے اکٹھے لمبان میں جوڑے جاتے تھے اوریوں ایک لمبا طومار تیار کیا جاتا تھا جو لپیٹا جاتا تھا۔ یہ طومار طول میں عام طورپر تیس یا بتیس فٹ ہوتے تھے۔ پس انجیل نویس کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ جو کچھ اُس نے لکھنا ہے وہ بیس پچیس فٹ لمبے طومار میں لکھا جاسکے ۔چنانچہ مرقس کی انجیل کے لئے ۱۹فٹ کا طوماردرکار ہوتا تھا۔یوحنا کی انجیل کے لئے ساڑھے تئیس فٹ کا اورمتی کی انجیل کے لئے تیس فٹ کا طوماردرکار تھا۔ لوقا کی انجیل کے لئے ۳۲ فٹ کے طومار کی ضرورت تھے۔ پس لامحالہ انجیل نویسوں کو آنخداوند کے کلماتِ طیبات اورمعجزات اور سوانح حیات میں سے انتخاب کرنا پڑتا تھا اوراُنہوں نے نہایت حزم واحتیاط سے کام لے کر اپنے مقصد کے تحت صرف انہی واقعات کو قلمبند کیا جو زیادہ سے زیادہ تیس یا بتیس فٹ کے طومار پر لکھے جاسکیں۔یہی وجہ ہے کہ مقدس متی اور مقدس لوقا انجیل دوم کونقل کرتے وقت بعض الفاظ کوچھوڑدیتے ہیں مثلاً (مرقس ۱: ۲۳) کو نقل کرتے وقت مقدس لوقا الفاظ" اور فی الفور" کو چھوڑدیتاہے۔متی اور لوقا انجیل (مرقس ۱۴: ۵۱یا ۹: ۱۴۔ ۲۹) کو نقل کرتے وقت اس مقام کی تفصیلات کوچھوڑدیتے ہیں (متی ۱۷: ۱۴۔ ۲۰؛ لوقا ۹: ۳۷۔ ۴۱)۔گو یہی تفصیلات ثابت کرتی ہیں کہ یہ تمام بیان کسی چشم دید گواہ کا بیان ہے۔ لیکن چونکہ ان تفصیلات کے بغیر بھی بیان مکمل ہے۔ پس متی اور لوقا ان کو نقل نہیں کرتے ۔ لیکن اس قسم کی غیر ضروری تفصیلات سے ہر روشن دماغ پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ ان کا بیان کرنے والا ایک چشم دید گواہ ہے اور وہ انجیل نویس کے دماغ کی اختراع نہیں کیونکہ ان کے بغیر بھی بیان مکمل ہے۔

(۵)

ہم ابواب بالا میں دیکھ چکے ہیں کہ تینوں انجیل نویسوں نے قدیم ماخذوں کو لفظ بہ لفظ نقل کیا ہے۔ چنانچہ مقدس متی نے مقدس مرقس کی انجیل کی نوے فیصد باتیں تقریباً مقدس مرقس کے الفاظ میں نقل کی ہیں اور مقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کا آدھے سے زیادہ نقل کیا ہے۔اور


تینوں اناجیل کے مشترکہ مقامات میں مقدس متی یا مقدس لوقا یا دونوں انجیل نویس مقدس مرقس کے الفاظ کا ایک کثیر حصہ نقل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مقدس مرقس کی انجیل کے مندرجہ واقعات کی ترتیب کو باقی دونوں انجیل نویس قائم رکھتے ہیں اورجس مقام میں ایک انجیل نویس اس ترتیب کو چھوڑدیتا ہے ، دوسرا انجیل نویس اس کو قائم رکھتاہے1۔ ان امور سے ہم کو انجیل نویسوں کی طرز تالیف کا پتہ مل جاتاہے کہ جہاں تک ہوسکا انہوں نے اپنے ماخذوں کے الفاظ کو قائم اور برقرار رکھا اوراُن میں تبدیلی نہ کی ۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان اناجیل میں بمشکل کوئی لفظ ہوگا جوان کے ماخذوں میں نہ ہو۔ چونکہ ان ماخذوں کے الفاظ کا پایہ اعتبار اعلیٰ ترین ہے اور ان کے ہر لفظ کی صحت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا ان اناجیل کا بھی پایہ اعتبار بلند ترین ہے کیونکہ وہ صرف معتبر الفاظ پر ہی مشتمل ہیں۔

(۶)

بایں ہمہ (ان تمام باتوں کے باوجود)تینوں انجیل نویسوں نے اپنے ماخذوں کو اس حیرت انگیز پر استعمال کیا ہے کہ ان کو اپنالیاہے۔ ایسا کہ ہر ایک طرزِ تحریر الگ ہے۔ ہرایک کا اسلوب بیان جداہے۔ مقدس مرقس کا طرز بیان مقدس متی کا سا نہیں اور مقدس متی کا طورِ تحریر مقدس لوقا کا سا نہیں۔ ہر ایک کی طرز خصوصی ہے ایسا کہ جس شخص نے اناجیل کا ذرا غور وتدبر کے ساتھ مطالعہ کیا ہے وہ فوراً بتلاسکتاہے کہ فلاں آیت لوقا میں یا مرقس میں یا متی کی ا نجیل میں نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا طرزِ تحریر اس مصنف کا سا نہیں ہے۔

حق تو یہ ہے کہ انجیل نویسوں نے اپنے ماخذوں کو اس خوش اسلوبی سے اپنایا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں میں انجیل مرقس نہ ہوتی توہم انجیل اوّل وسوم سے تمام کی تمام انجیل مرقس کو مرتب نہ کرسکتے حالانکہ ان دونوں انجیلوں میں وہ نقل کی گئی ہے۔ ہم بآسانی اس انجیل کے الفاظ بھی متعین نہ کرسکتے ، لیکن چونکہ انجیل مرقس ہمارے ہاتھوں میں موجودہے ہم نہ صرف یہ بتلاسکتے ہیں کہ اس کو باقی دونوں انجیل نویسوں نے نقل کیا ہے بلکہ ان دونوں کے مشترکہ الفاظ سے ہم رسالہِ کلمات کو بھی ایک حد تک معین کرسکتے ہیں حالانکہ یہ رسالہ اب عالم وجود میں نہیں ہے۔ لیکن اگر ہمارے پاس صرف انجیل متی ہوتی یا صرف انجیل لوقا ہوتی توہم ان دونوں میں سے کسی ایک انجیل کے ذریعہ نہ توانجیل مرقس مرتب کرسکتے اورنہ رسالہِ کلمات کے الفاظ کو متعین کرسکتے۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ انجیل نویسوں نے کس خوبی سے اپنے ماخذوں کو اپنالیاہے۔

مقدس متی اورمقدس لوقا نے ماخذوں کو استعمال کرتے وقت نہ صرف ان کے الفاظ کی نحوی(علم نحو کا ماہر) خامیوں کو درست کیاہے بلکہ الفاظ کی دُرشتی(سختی،بے رحمی) کوبھی دور کردیا ہے۔ مثلاً( مرقس ۶: ۵ کا مقابلہ کریں متی ۱۳: ۵۸ سے)۔ مقدس لوقا ان الفاظ کو نقل نہیں کرتا۔ ان لفظی تبدیلیوں کا تعلق اکثر اوقات مقدس مرقس کی انجیل کی یونانی زبان کے طرزِ ادااور اسلوبِ بیان کے ساتھ ہے۔ جیسا ہم بتلاچکے ہیں اس انجیل کی یونانی ایسی ہے ، جیسے کوئی شخص فی البدیہہ تقریر کرتاہے اوردوسرا شخص اس کی تقریر کو " شارٹ ہینڈ" میں لکھ لے۔ پس اس انجیل کی یونانی زبان میں خامیاں موجود ہیں۔لیکن باقی دونوں انجیل نویسوں کی یونانی زبان زیادہ شستہ(پاک خالص)، مختصر اورجامع ہے اور وہ اپنے الفاظ کو تول کر لکھتے ہیں، جس طرح کوئی مصنف اپنی کتاب کو دوسرے لوگوں کے پڑھنے کے لئے سلیس، اور نستعیلق (مہذب، نفیس)زبان میں لکھتاہے ۔ مثلاً مقدس مرقس ایک جگہ لکھتے ہیں " جب شام ہوگئی اور سورج ڈوب گیا"۔ لیکن مقدس متی اس مقام کو یوں نقل کرتے ہیں ’’جب شام ہوئی‘‘۔اور مقدس لوقا " جب سورج

______________________

1Streeter, Four Gospels pp.200ff


ڈوب گیا " لکھتے ہیں۔ سرجان ہاکنس نے اس قسم کی ایک سو (۱۰۰)مثالیں جمع کی ہیں 1۔ یہ مقامات مقابلتاً بہت کم ہیں لیکن وہ معنی خیز ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ انجیل نویس محض کاتبوں کی طرح الفاظ کو نقل کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ زبان اورکلام کے نقاد(کھوٹا کھرا دیکھنے والا) بھی تھے جو اس بات پر قادر تھے کہ ماخذوں کے الفاظ کو اس طور پر نقل کریں کہ وہ اپنائے جائیں ایساکہ ان میں خصوصی طرز پیدا ہوجائے۔

(۷)

اناجیل کے مولفوں نے اپنے ماخذوں کے استعمال کرتے وقت وہی طریقہ اختیار کیا جو اُن سے پہلے عہدِ عتیق کی کتُب کے لکھنے والوں نے استعمال کیا تھا۔ چنانچہ ان کتابوں میں اُن ماخذوں کے نام بھی دئے گئے ہیں جن سے ان کے مولفوں نے واقعات اخذ کئے تھے ۔ مثلاً یشوع کی کتاب اورسیموئیل کی کتاب میں" آشر کی کتاب " کا ذکر آتاہے (یشوع ۱۰: ۱۳؛ ۲۔سیموئیل ۱: ۱۸ وغیرہ)۔ اسی طرح پہلی اور دوسری تواریخ کی کتُب کے مصنفوں نے پہلی اور دوسری سلاطین کی کتب سے واقعات لئے ہیں اور وہ سلاطین کی کتابوں کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔

جس طرح قدیم زمانہ میں " آشر کی کتاب" مشہور تھی لیکن چونکہ اس کے بہترین مضامین بائبل کی دیگر کتابوں میں نقل ہوگئے تھے اس کتاب کا نقل ہونا موقوف ہوگیا اورآہستہ آہستہ وہ کتاب نابود ہوگئی۔ اسی طرح جب انجیل نویسوں نے رسالہِ کلمات اور رسالہِ اثبات کے مضامین کو نقل کرلیا تو ان رسالوں کی ضرورت نہ رہی اوران کا نقل ہونا موقوف ہوگیا۔ ایساکہ یہ رسالہ رفتہ رفتہ نابود ہوگئے۔

علیٰ ہذا القیاس جب مقدس متی اورمقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کے مضامین کو اپنی انجیل میں نقل کرلیا تو یہ انجیل بھی بہت کم نقل ہونے لگی۔ کیونکہ یہ دونوں اناجیل زیادہ مکمل اور مفصل تھیں۔ ان میں وہ سب کچھ موجود تھا جو انجیل مرقس میں پایا جاتا ہے اوراس کے علاوہ ان میں سیدنا مسیح کی تعلیم اورکلمات اور دیگر واقعات بھی درج تھے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابتدائی مسیحی صرف چند ایک طومار ہی رکھ سکتے تھے پس اُنہوں نے انجیل متی اورانجیل لوقا کے طوماروں کو قدرتاً ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجیل مرقس کی نقلیں بھی کم ہونے لگیں اورایک وقت ایسا آگیا کہ یہ انجیل بھی نابود(ناپید، نیست) ہونے لگی۔ہر ایک انجیل خواں اس بات سے واقف ہے کہ اس انجیل کے سولھویں باب کی آٹھویں آیت کے درمیان میں یہ انجیل ختم ہوجاتی ہے ۔ اس آیت کا آخری فقرہ بھی ادھورا ہی رہ گیا ہے جس کے آخری الفاظ" کیونکہ لرزش اورہیبت" ہیں حالانکہ اس میں رتی بھر شک نہیں کہ اس انجیل کے آخر میں سیدنا مسیح کے شاگردوں پرظاہر ہونے کا واقعہ درج تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کی موجودہ اُدھوری حالت محض ایک اتفاقیہ امر ہے کیونکہ اگر یہ بات ارادتاً وقوع میں آئی تو کم ازکم آخری فقرہ تو ادھورا نہ رہنے دیا جاتا بلکہ وہ پورا لکھا جاتا ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ اس انجیل کا نقل ہونا موقوف ہوگیا تھا اورایک وقت ایسا آیا جب صرف ایک ہی نسخہ موجود رہ گیا تھا جس میں یہ فقرہ اُدھورا تھا اور کوئی دوسرانسخہ دستیاب نہ ہوسکا جس کے ذریعہ اس آخری فقرہ کو پورا کرلیا جاتا۔

جب بعد کے زمانہ میں کلیسیا نے اناجیل اربعہ کی مسلمہ فہرست کو تسلیم کرلیا توانجیل دوم پھر سے نقل ہونے لگی اوراب یہ انجیل ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے، اگرچہ اس کو باقی دونوں انجیلوں میں نقل کیا گیاہے۔ جس طرح سلاطین کی دونوں کتابیں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہیں اگرچہ ان کے مضامین اور الفاظ تواریخ کی کتابوں میں نقل ہوگئے تھے۔

______________________

1 Hawkin’s Horce Synoptica p.125


(۸)

انجیل نویس وقائع نگار مورخ (تاریخی واقعات لکھنے والے)نہ تھے۔ اس زمانہ میں تاریخ کا موجودہ تصور ابھی معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا۔ جسٹن شہید دوسری صدی کے پہلے نصف حصہ میں اناجیل کو " تذکرہ" Memoirs کے نام سے موسوم کرتاہے اوریہ انجیل نویسوں کے نقطہ نگاہ کوسمجھنے کے لئے نہایت موزوں لفظ ہے۔ انہوں نے مختلف بکھرے ہوئے ماخذوں کو مختلف گروہوں میں جمع کیا ، سیدنا مسیح کی تعلیم کو مختلف عنوانوں کے ماتحت اکٹھا کیا لیکن شانِ نزول کا یعنی اس بات کا خاص لحاظ نہ رکھا کہ وہ کلمات کب اورکس موقعہ پر فرمائے گئے ۔ انہوں نے ان کلمات کے جمع کرنے میں کسی تواریخی ترتیب کو بھی ملحوظِ خاطر نہ رکھا۔ اُنہوں نے سیدنا مسیح کے کلمات اورسوانحِ حیات کو اس مقصد کے لئے جمع کیا کہ کلیسیا کے ایمان داروں کا ایمان مستحکم اور مضبوط ہو۔ اُنہوں نے سیرتِ نگاری کا کام انجام دیا۔وہ واقعات کو مسلسل تواریخی طورپر جمع کرنے والے نہ تھے ۔ حق تو یہ ہے کہ تاریخ اتفاقیہ واقعات کے محض سلسلہ کا نام نہیں۔ ان واقعات کے پس پردہ الہٰی اٹل قوانین ہوتے ہیں اورمورخ کا کام ان پنہانی قوانین کو بتلانا ہے۔ چنانچہ انجیل نویس اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔

ہمارے ملک ہندوپاکستان کے قدیم لوگوں کی طرح اہل یہود بھی تواریخی واقعات کواس طرح قلمبند نہیں کرتے تھے جس طرح رومی سلطنت کے مورخ کرلیتے تھے ۔ اگرچہ عہدِ عتیق کی تواریخی کتُب یہود میں مروج تھیں تاہم یہود تاریخ کی جانب سے بے نیاز تھے اوریہی وجہ ہے کہ کسی نبی یا یہودی ربی کی سوانحِ عمری موجود نہیں 1۔ کتبِ عہدِ عتیق کی تواریخی کتُب بھی محض واقعات کے ذکر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ ان واقعات کے پس پردہ جو روحانی اوراخلاقی قوانین کارفرما ہیں ، ان کا ہی ذکر کرتی ہیں ۔

سچ پوچھو تو محض واقعات کو تواریخی طورپر جمع کردینے سے کسی شخص کی سیرت کا پتہ نہیں چل سکتا۔ مثلاً اگرکوئی مصنف کسی مشہور شخص کی سیرت لکھنے بیٹھے اور تواریخی طورپر صرف یہ بتلائے کہ وہ فلاں مقام میں اورفلاں سن میں پیدا ہوا۔ اُس نے فلاں سکول سے فلاں سن میں فلاں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ اورفلاں کالج سے فلاں یونیورسٹی میں فلاں سال فلاں امتحان میں اول درجہ پر رہا۔فلاں سال وہ فلاں ہائی کورٹ کا جج اورفلاں سال میں فلاں ملک کا وزیر اعظم بنا۔ اس کے عہدہ وزارت کے زمانہ میں فلاں فلاں قانون بنے اور وہ فلاں سال اچانک مرگیا تو اس قسم کی وہ وقائع نگاری سے کسی کو اس شخص کی سیرت اوراہمیت کا پتہ نہیں چل سکتا اورنہ اس قسم کی تواریخی مسلسل ترتیب کسی مصرف(کام) کی ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ ہر شخص کی زندگی میں خفیف واقعات رختنی اور گذشتنی ہوتے ہیں جو صرف عارضی اور وقتی قسم کے ہوتے ہیں اورچند عرصہ کے بعد وہ بھول بسر جاتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات کا دائمی اثر نہیں ہوتا۔لیکن اس کی زندگی کے بعض حالات تمام زمانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر لازمی ہے ۔ اگراس کی شخصی، خاندانی اورپبلک زندگی کی چند مثالیں دی جائیں اوریہ بتلایا جائے کہ اس کے تعلقات دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کیا تھے، اس کا سلوک قومی کارکنوں اورعامتہ الناس کے ساتھ کیا تھا ۔جس کی وجہ سے وہ اس پر فدا تھے۔ اس کا قومی اوربین الاقوامی مطمح نظر (اصلی مقصد)کیا تھا۔ جس سے اس کے ملک میں انقلاب اوردنیا میں تہلکہ پڑگیا وغیرہ وغیرہ ۔ تویہ اُمور اس کی سیرت کو سمجھنے میں اور اس کی شخصیت کو جاننے میں بڑے کام کے ہوتے ہیں ۔

اس سلسلہ میں پلؔوٹارک کے الفاظ قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب سکندر کے زندگی نامہ کے شروع میں کہتا ہے " اس کے بڑے اورعجیب کام اس کثرت سے تھے کہ میرے لئے یہ ضرور ہے کہ میں اپنے ناظرین کو آگاہ کردوں کہ میں نے اس کی زندگی کا مختصرخاکہ ہی پیش کیا ہے اورہر واقعہ کی

______________________

1Streeter, Sources of The Gospels in Outlines of Christanity Vol1.p.303


تفصیلات سے احتراز کیا ہے۔ یہ یادرکھنا چاہیے کہ میرا مقصد یہ نہیں کہ میں کوئی تاریخ کی کتاب لکھوں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ میں ایک زندگی نامہ لکھوں۔ پس جس طرح مصور چہرے کی اُن لکیروں اور خصوصی باتوں کو پیش کرتاہے جن سے کیر کٹر (کردار)صاف ہو جائے ۔اسی طرح میں نے اُن واقعات کو پیش کیا ہے جن سے اُس کی روح نظر آجائے"۔

اسی طرح یہ انجیل نویس سیرتِ مسیح کو پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ آنخداوند کے تصورات اور روحانی جذبات کا نقشہ اُن کے پڑھنے والوں کی نظروں کے سامنے کھینچ جائے۔

" سیرتِ مسیح" سے ہماری یہ مراد ہے کہ ابتدائی مسیحی اپنے آقا اورمنجی کی تعلیم اور سوانحِ حیات ، آپ کی ظفریاب قیامت اور صعودِ آسمانی سے واقف ہونا چاہتے تھے اوراناجیل اربعہ نے یہ کام بہترین طریقہ سے پورا کردیا ہے۔ لیکن اگر " سیرت" سے یہ مراد لی جائے کہ ایک واقعہ سے کس طرح دوسرا واقعہ رونما ہوا، اوردوسرے واقعہ کا تیسرے واقعہ سے کیا تعلق ہے یا آپ کی ذہنی اورروحانی زندگی نے کس طرح بتدریج(درجہ بدرجہ) ترقی کی تاکہ آپ کے باطنی خیالات اورروحانی جذبات اورمختلف محرکات کا پتہ لگ سکے تو اس قسم کا تصور انجیل نویسوں کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ٹھیک ٹھیک یہ نہیں بتلاسکتے کہ آپ کی عمر کیا تھی۔یا آپ کی علانیہ خدمت کا عرصہ کتنے برس کا تھا یا آپ کا مبارک چہرہ، قدوقامت خدوخال (شکل وصورت)کیا تھے۔ اورآپ کی زندگی کا بیشتر اور متعدیہ(بہت،کئی) حصہ ہم سے پوشیدہ ہے۔

واقعات کو مفصل طورپر تاریخ وار لکھ کر ترتیب دینا ایک بات ہے۔ اورکسی شخص کی شخصیت، سیرت، سبھاؤ وغیرہ کی کردار نگاری دوسری بات ہے۔ تاریخی واقعات صرف بیرونی عالم کے مشاہدات ہوتے ہیں اوران کو لکھنے میں مقابلتہً شعور کو اتنا دخل نہیں ہوتا جتنا ایک امر اورہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت کی سیرت نگاری میں عقل اور شعور کو دخل ہوتاہے۔ واقعہ نگاری میں کوئی آگ نہیں ہوتی لیکن سیرت نگاری کی چنگاریاں تن بدن میں آگ لگادیتی ہیں اور پڑھنے والے کی رگ رگ میں ارتعاش (کانپنا)پیدا ہوجاتاہے۔ اوریہ کام انجیل نویسوں نے بدرجہ احسن انجام دیا ہے ۔1

انجیل نویسوں کے طریقہ کار کم ازکم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ کی زندگی کے واقعات میں اسلامی احادیث کی طرح غلط بیانی ، مبالغہ آمیزی اوررنگ آمیزی سے کام نہیں لیا گیا۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اگرچہ ہمارے پاس دورِ حاضرہ کے مورخوں کے سے بیان نہیں ہیں تاہم انجیل کے پڑھنے والے آنحداوند کی سیرت اور شخصیت سے بخوبی واقف ہیں۔ انجیل نویسوں نے آپ کی زندگی کے اہم واقعات کو لکھا جن کا علم لازمی اور ضروری تھا۔ دیگر واقعات کو قلم انداز کردیا گیا ہے۔ جو واقعات لکھے گئے وہ بالعموم میں موجود تھے کیونکہ زبانی بیانات عموماً مسلسل واقعات کی صورت میں نہیں ہوتے بلکہ وہ الگ الگ اور غیر مربوط ہوتے ہیں ۔2

اناجیل کا سرسری مطالعہ بھی ہم پر یہ واضح کردیتاہے کہ ان کے مصنف آنخداوند کی سیرت نگاری کا کام سرانجام دینے کی استعداد اور قابلیت رکھتے تھے۔ یہ مصنف وہ تمام صفات رکھتے تھے جو کسی اعلیٰ سیرت نگار کے لئے لازمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف دوہزار سال کے بعد روزِ اوّل کی طرح اب بھی ویسی ہی جاذبِ توجہ ہیں اوردنیا کے مختلف ممالک ، اقوام اور زمانوں میں دلکش ثابت ہوکر کروڑوں کی نجات کا باعث ہوتی چلی آئ ہیں۔

(۹)

______________________

1Burkitt, Gospels History and its Transmission pp.23-27.
2Vincent Taylor, Formation of Gospels Tradtion pp.144-167


اگرانجیل وقرآن کے ماخذوں پر اوران کی تالیف پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو دونوں آسمانی کتابوں کے پایہ صحت واعتبار کا فرق خود بخود سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے مسلم برادران قرآن وحدیث میں تمیز کرکے قرآن کو خدا کا کلام اور حدیث کو رسول کا کلام کہتےہیں۔ لیکن ہر عاقل پر یہ بات روشن ہے کہ جس طرح حق تعالیٰ انسان کے بنے ہوئے کسی مکان میں سکونت نہیں کرتا، اسی طرح وہ انسان کی زبان کے بنے ہوئے الفاظ کی بولی بھی نہیں بولتا۔قرآن میں خود آیا ہے۔

(وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن یكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْیا )

ترجمہ: یعنی کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے باتیں کرے مگر بذریعہ وحی کے (سورہ الشعوریٰ آیت ۵۰)۔

قرآن کے مطابق وحی کا مطلب کسی انسان کے جی میں بات ڈالنا ہے ۔چنانچہ لکھاہے

( وَأَوْحَینَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِیهِ)

ترجمہ: یعنی ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ موسیٰ کو دودھ پلائے (قصص آیت ۷)۔

اور سورہ نحل میں ہے کہ خدا نے شہد کی مکھی کی طرف بھیجی وغیرہ۔ لہذا اگر قرآن خدا کا کلام ہے تو وہ اُن معنوں میں نہیں کہ اس کے الفاظ خدا کے اپنے منہ کے الفاظ ہیں کیونکہ خدا کانہ تو کوئی منہ ہے ، نہ زبان، اورنہ الفاظ۔ اس کی ذات ایسی باتوں سے بالا اورمنزہ ہے۔ پس ظاہر ہے کہ قرآن بھی حدیث کی طرح رسول عربی کا کلام ہے جو خدا کی طرف سے القا اورالہٰام کا نتیجہ ہے اور جو ماخذوں سے جمع کیا گیا تھا۔ اوردیگر کتُب کی طرح تالیف کیا گیا تھا۔

جب رسولِ عربی نے ۱۱ہجری میں وفات پائی تو موجودہ قرآن احاطہِ تحریر میں نہیں آیا تھا۔ قرآن کو جمع کرنے والے زید بن ثابت کے پاس یہ ماخذ تھے۔

" وحی کبھی ہرن کی جھلیوں اورکبھی اونٹ کی ہڈیوں اورکبھی کھجور کے پتوں کی کتلوں(پتھرکی کرچ، مٹی کے برتن کا ٹکڑا) پر لکھی جاتی تھی۔ اصحاب میں سے جن کو زیادہ شوق تھا وہ بطورِ خود وحی کو جمع بھی کرتے جاتے تھے۔ لیکن بالا استیواب(تمام) نہیں۔ بلکہ جس کو جو کچھ بہم پہنچا بقدر فرصت جمع کرلیا ۔ پیغمبر صاحب کی زندگی میں پورے قرآن کا کسی ایک شخص کے پاس ہونا ثابت نہیں۔مگر ہاں جماعتِ صحابہ میں پورا قرآن موجو دتھا۔ کچھ لوگوں کے سینوں میں ، کچھ جھلیوں اورہڈیوں اورکتلوں اورپتوں میں۔ اس زمانہ کے لوگ ازبس(بہت زیادہ) پڑھے لکھے نہ تھے ،قوتِ حافظہ کو زیادہ کام میں لاتے تھے "۔

(حافظ نذیر احمد دیباچہ قرآن صفحہ ۳۶)

یہ ماخذ اس قسم کے تھے اورجمع قرآن کا کام ایسا دُشوار تھا کہ زید کہتاہے کہ " خدا کی قسم اگرمجھے مجبور کرتے کہ تم پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کردو تو یہ بات مجھے زیادہ مشکل معلوم نہ ہوتی بہ نسبت اس کے کہ مجھے جمع قرآن کا حکم دیا"۔

(۱۔) پہلی قسم کے ماخذ قرآن کے حافظ اور قاری تھے اور قرآن زیادہ تر اُن کے سینہ میں ہی تھا۔ کیونکہ ’’ جھلیوں اورہڈیوں اورکتلوں اورپتوں ‘‘پر قرآن کا حصہ بہت کم لکھا جاسکتا تھا۔ لیکن اوّل یہ حافظ آخر بشر تھے۔ ان کے حافظہ سے بعض آیات فراموش ہوسکتی تھیں اورہوئیں۔ بلکہ حدیث سے ظاہر ہے کہ خود رسول اللہ بھی بعض آیات بھول جاتے تھے۔ دوم۔ رسول عربی کے جیتے جی ہجرت کے بعد ۹سالوں کے اندر ۸۳ غزوات اورسریا ہوئے اوران کی وفات کی بعد خلفاء کےزمانہ میں بہت جنگیں ہوئیں جن میں یہ حافظِ قرآن مارے گئے۔ معرکہ یمامہ میں بالخصوص بہت سے حافظِ قرآن کا م میں آئے۔پس قرآن کا وہ حصہ جو صرف ان کو ہی یاد تھا ان کے ساتھ ضائع ہوگیا۔ چنانچہ ابن داؤد سے مروی ہے کہ حضرت " عمر نے قرآن کی کسی آیت کو دریافت کیا اُن سے کہا گیا کہ وہ آیت فلاں شخص کو یاد تھی جو جو کہ معرکہ یمامہ میں قتل ہوگیا۔ یہ سن کر عمر نے کہا اناللہ اور قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا"۔

(۲۔) قرآن کے دوسرے ماخذ اس قسم کے تھے، کہ وہ پائدار نہ تھے اور منتشر (بکھرے، پراگندہ)حالت میں تھے جو قریب نصف صدی تک محفوظ رہ سکتے ۔ ان کو جمع کرنے اور جمع کرنے کے بعد ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا۔

(۳۔) قرآن کو جمع کرنے والا زید بن ثابت اس کام کے اہل نہ تھا جو اس کے سپردکیاگیا تھا۔ قرآن کے چاروں مسلم الثبوت استادوں یعنی عبد اللہ بن مسعود، سالم مولا ابن حذیفہ ، ابی بن کعب اور معاذبن جبل سے کسی کو جمع قرآن کے لئے نہ کہا گیا۔لیکن یہ کام زید کودیا گیا جوبعد ہجرت مدینہ میں مسلمان ہوا تھا اور خوردسال ہونے کی وجہ سے جنگوں میں بھی شریک نہ کیا گیا تھا۔ وہ نہ مشہور صحابہ میں سے تھا اورنہ اس کو قرآنی آیات والفاظ کی ترتیب کا علم تھا۔ وہ حافظِ قرآن بھی نہ تھا۔

(۴۔) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قرآن جمع کیا گیا ، اس میں تمام کا تمام قرآن جو رسول کے زمانہ میں تھا درج نہ ہوا بلکہ اس کا صرف ایک حصہ جمع ہوا اور وہ بھی بے ترتیبی اوربے ربطی کے ساتھ۔ مکی آیات مدنی سورتوں میں موجود ہیں اوربالعموم قرآن کے مقامات اورآیات کی جمع اور تقسیم میں کوئی مناسبت پائی نہیں جاتی ۔ امام جلال الدین سیوطی کی کتاب’’ اتقان ‘‘کا سطحی مطالبہ بھی یہ ظاہر کردیتا ہے کہ اصل قرآن نہ صرف آیات کی آیات بلکہ سورتیں بھی موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔اوراس میں بعض آیات ایسی ہیں جو درحقیقت اصل قرآن کا حصہ نہ تھیں اورقرآن وغیرقرآن میں کوئی فرق نہ رہا۔اصل قرآن کے بعض حصے غیر قرآنی سمجھے گئے اورغیر قرآنی حصے قرآن میں داخل ہوگئے۔ اب حالت یہ ہے کہ سورتوں اور آیتوں کا صحیح محل ومقام دریافت کرنا ایک ناممکن امر ہوگیاہے۔ اس بے احتیاطی اوربے ربطی کو علمائے اسلام تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے بعض مقامات میں فصاحت وبلاغت تو الگ، سلیس عربی عبارت کی بجائے لفظی عیوب موجود ہیں۔ تکرار لفظی اورمعنوی موجود ہے اور جابجا بے ربطی پائی جاتی ہے۔ مثلاً بطور مشتے نمونہ ازخروارے (سورہ یونس ع ۹) میں (وَأَوْحَینَا إِلَى مُوسَى ۔۔۔ الخ )میں پہلے حکم تشنیہ کے صیغہ سے دینا شروع ہوا پھر ربوط توڑ کر اس کو جمع کردیا ہے اورپھر دفعتہً اس کو واحد بنادیاہے!(سورہ فتح آیت ۸ )میں ہے (إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا ۔۔۔۔ الخ )میں متکلم حاضر اور غائب کو مخلوط کرکے ضمیروں کو گڑ بڑ کردیا ہے۔ ہم اس موضوع پر ناظرین کی توجہ امام سیوطی کی کتاب ’’اتقان ‘‘ مرزا سلطان احمد کی کتاب’’ تصحیفِ کاتین ‘‘ سید علی حائری کی کتاب ’’موعظہ تحریف قرآن ‘‘ سید امجد حسین کی کتاب ’’تحریف القرآن‘‘ پروفیسر رامچندر کی کتاب ’’تحریف القرآن ‘‘اور مسٹر اکبر مسیح کی کتاب ’’تنویر الاذہان فصاحت القرآن‘‘ اورپادری عماد الدین کی کتاب ’’تقویتہ الاایمان ‘‘وغیرہ کی جانب مبذول کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ہر منصف مزاج شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ اناجیل اربعہ اور قرآن کے ماخذوں اورتالیف کرنے والوں کی قابلیت اورمجموعہ اناجیل اور قرآن میں زمین آسمان کافرق ہے۔ ع

بہ بیں تفاوتِ راہ از کجا ست تا بکجا

حصہ سوم

تاریخ تصنیفِ اناجیلِ متفقہ

ہم نے پچھلے دوحصوں میں یہ ثابت کردیاہے کہ اناجیل کا پایہ اعتبار نہایت بلند اور ان کے مضامین کی صحت کی شان نہایت رفیع ہے۔ان کے بیانات کے ہزارہا چشم دید گواہ تھے جوان کی تالیف وترتیب کے زمانہ میں زندہ تھے۔ان چشم دید گواہوں کے بیانات ہماری اناجیل کے ماخذ ہیں جو نہایت قدیم ہیں اور اولین زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس حصہ میں ہم انشاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ یہ اناجیل منجیِ جہان کی صلیبی موت کے تین سالوں کے اندر اندر اُن قدیم ترین ماخذوں سے تالیف کی گئیں جن میں سے (جیسا ہم حصہ دوم میں ثابت کرچکے ہیں) بعض اُسی زمانہ میں لکھے گئے تھے جب یہ واقعات رونما ہوئے تھے اورجب آنحداوند ابھی مصلوب بھی نہیں ہوئے تھے۔

رسولوں کے اعمال کی کتاب (جوانجیلی مجموعہ میں پانچویں کتاب ہے)انجیلِ سوم کے بعد لکھی گئی(اعمال۱:۱) ہم دوسرے حصہ کے ابواب اوّل کی فصل سوم میں بتلاچکے ہیں کہ انجیل سوم کے مصنف مقدس لوقا نے انجیل دوم کو بطورِ ایک ماخذ کے استعمال کیا ہے۔ پس مقدس لوقا کی انجیل مرقس کی انجیل کے بعد لکھی گئی تھی۔ لہذا اگرہم سب سے پہلے رسولوں کے اعمال کی تاریخ تصنیف کومعین کرلیں تو مقدس لوقا اورمقدس مرقس کی انجیلوں کی تاریخِ تصنیف کومعلوم کرنے میں سہولت ہوجائے گی اورہم وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکیں گے کہ یہ دونوں اناجیل رسالہ اعمال کے فلاں سنِ تصنیف سے پہلے احاطہ تحریر میں آچکی تھیں۔

حصہ سوم

تاریخ تصنیفِ اناجیلِ متفقہ

فصل اوّل

تاریخِ تصنیف کی اندرونی شہادت

عموماً یہ خیال کیا جاتاہےکہ اعمال کی کتاب ۸۵ء کے قریب لکھی گئی تھی1۔ لیکن کتاب کی اندرونی شہادت اس تاریخ کے خلاف ہے اوریہ ثابت کرتی ہے کہ یہ تاریخ درست نہیں ہوسکتی بلکہ اگر ہم رسولوں کے اعمال کی کتاب کا غور وتدبر سے مطالعہ کریں تو اس کے غائر (گہرا)مطالعہ اوراندرونی شہادت سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ یہ کتاب ۶۰ء کے قریب لکھی گئی تھی۔

کسی تاریخ کی کتاب کا سن تصنیف معلوم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ اس میں آخری واقعہ جو درج ہوا ہے وہ کس سال میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ اعمال کی کتاب کے آخری باب میں مقدس پولُس کے شہر روم میں پہنچنے کا ذکر پایا جاتاہے تاکہ وہ قیصرِ روم کے سامنے اپنی صفائی پیش کرسکیں چنانچہ اس کتاب کے آخری الفاظ یہ ہیں" ۔ جب ہم روم میں پہنچے تو پولُس کو اجازت ہوئی کہ اکیلا اس سپاہی کےساتھ رہے جو اس پر پہرا دیتا تھا۔تین روز کے بعد اس نے یہودیوں کے ریئس کو بلوایا۔ وہ اس سے ایک دن ٹھہرا کر کثرت سے اس کے ہاں جمع ہوئے ۔ بعض نے اس کی باتوں کو مان لیا اوربعض نے نہ مانا۔۔۔۔ اور پولُس پورے دوبرس اپنے کرائے کے گھر میں رہا اورجواس کے پاس آتے تھے ان سب سے ملتا رہا اورکمال دلیری سے بغیر روک ٹوک کے خدا کی بادشاہیت کی منادی کرتا اورسیدنا مسیح کی باتیں سکھاتا رہا"۔

یہ آخری تاریخی واقعہ ہے جو اس کتاب کے تتمہ(اختتام) میں پایا جاتا ہے۔"یہ دوسال" جن کا ذکر اس تتمہ میں کیا گیا ہے ۵۸ء تا ۶۰ء کے بعد کسی تاریخی واقعہ کا ذکر موجود نہیں۔ پس نتیجہ ظاہر ہے کہ مقدس لوقا نے یہ کتاب ۶۰ء کے اختتام سے پہلے اُن دوسالوں کے درمیان لکھی جب مقدس پولُس رسول روم میں تھے اور مقدس لوقا آپ کی معیت (ساتھ، ہمراہی)میں رہتے تھے (کلسیوں۴: ۱۴) اور کہ یہ تتمہ (آیات۳۰، ۳۱) ۶۰ء میں لکھا گیا۔

موجودہ تتمہ کتاب کو یکایک اور اچانک بے ربطی کے ساتھ ختم کردیتاہے۔ اس کتاب کا لکھنے والا ایک نہایت قابل مصنف ہے جو فنون لطیفہ میں مہارت تامہ (پوری لیاقت)رکھتا ہے ۔ وہ اعلیٰ ترین انشاء پرداز(ادیب، نثر کو لکھنے والا) بھی ہے۔ اس پایہ کے شخص سے یہ اُمید نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی کتاب کو ایسے بے ڈھنگے طریقہ سے ختم کرے ۔ اس قسم کے مصنف کے قلم سے اس قسم کا بھدا خاتمہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب یہ مان لیا جائے کہ

______________________

1Peake’s Commentary p.744.


جب مصنف روم میں مقدس پولُس کا ساتھی تھا تو اس دوبرس کے عرصہ میں اس نے یہ کتاب لکھی تھی۔صرف اس حالت میں ہی یہ آخری فقرہ ایک موزوں خاتمہ ہوسکتا ہے ۔1

اگر اعمال کی کتاب قیصر نیرو کے فیصلہ کے بیس یا پچیس برس بعد لکھی جاتی تو مقدس لوقا کے پایہ کا انشاء پرداز اس قسم کے خاتمہ سے کتاب کو کبھی ختم نہ کرتا کیونکہ قیصر کا فیصلہ خواہ کچھ ہی ہوتا وہ اس کتاب کے مصنف کے لئے انتہائی درجہ کا موزوں خاتمہ ہوتا جو مقدس لوقا کے پایہ کے مصنف کا منتہائے کمال(انتہا کو پہنچا ہوا، پورا کامل) ہوتا2۔ چنانچہ اگرخاتمہ میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ قیصر نے مقدس پولُس کے مقدمہ کی سماعت کے بعد آپ کوبری کردیا تھا تو یہ حقیقت مسیحیت کی آزادی کا شاہی منشور (شاہی فرمان)اور رسول مقبول کےکارناموں کا تاج ہوتی۔ پس اس قسم کا خاتمہ اس تالیف کا منتہائے کمال ہوتا ۔ لیکن اگر قیصر نیرو مقدمہ کی سماعت کے بعد آپ کو واجب القتل قرار دے دیتا تو آپ کی زندگی کے اس مبارک انجام کا ذکر کتاب کا نہ صرف قدرتی خاتمہ ہوتا بلکہ آپ کی شہادت کا بیان اس کتاب کا شان دار اختتام ہوتا۔

پس موجودہ خاتمہ یہ ثابت کرتاہے کہ اعمال کی کتاب مقدس پولُس کی حراست کے دوران میں لکھی گئی تھی اوراس کا خاتمہ ۶۰ء کے قریب ہوا ۔

(۱۔) ایک اورتواریخی امر قابل غور ہے۔ ان رُومی حکام کے سامنے صرف دو حل طلب سوال تھے: (۱۔) کیا مسیحی کسی ایسے مذہب کے پرستار ہیں جو ازروئے قانون وجود میں رہ سکتا ہے (۲۔) کیا وہ اپنے قول اور فعل سے کسی ایسی بات کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سلطنت کو مداخلت کرنی پڑے (اعمال ۲۳: ۲۹؛ ۲۵: ۱۶؛ ۲۶: ۳۱)۔ اگریہ درست ہے کہ حکام کو صرف انہی سوالوں کا فیصلہ دینا تھا تو لازم آتا ہے کہ اعمال کی کتاب پہلی صدی کے خاتمہ میں نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے لکھی گئی ہو کیونکہ یہ سوال کہ آیا کوئی مذہب ازروئے قانون وجود میں رہ سکتا ہےیا کہ نہیں بڑی تیزی کے ساتھ مٹ رہا تھا ۔1

(۲۔) ہمارے پاس یہ ماننے کے لئے کافی وجوہ (وجہ کی جمع)ہیں کہ ان دو سالوں کے بعد قیصرِ روم نے مقدس پولُس کے مقدمہ کی سماعت کرکے آپ کو بری قرار دے کر رہا کردیا تھا اگریہ کتاب ۶۰ء کے بعد لکھی جاتی تو مقدس لوقا اس مقدمہ کا اور رسول مقبول کی رہائی کا ضرور ذکر کرتے کیونکہ قیصر روم کا فیصلہ مسیحیت کے پرچار کے حق میں نہایت اہم قسم کا تھا۔ مقدس لوقا تفصیل کو کام میں لاکر عدالتوں کی پیشیوں کا ذکر ابواب(اعمال ۲۲ تا ۲۶) میں کرتے ہیں۔ کیا یہ امر قرینِ عقل (وہ بات جسے عقل قبول کرے)ہوسکتاہے کہ اگر کتاب کے لکھنے سے پہلے مقدس لوقا کو شاہنشاہ روم کے بری کرنے کے فیصلہ کاعلم ہوتا تو وہ ایسے زبردست واقعہ کو نظر انداز کردیتے جو کلیسیا کے حق میں نہایت اہم قسم کا تھا۔ قیصر روم کا عدالتی فیصلہ مسیحی کلیسیا کی ہستی ، بقا اور آزادی کے لئے ایک شاہی منشور تھا۔ ایسے اہم اور زبردست واقعہ کے ذکر کا نہ ہونا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ یہ کتاب اس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے احاطہِ تحریر میں آچکی تھی۔

______________________

1Beginnings of Christianity Part I.Vol2 by Foakes Jackson and Kirsopp Lake 1922 p.309
2Adeney St Luke (Century Bible)p.42
3See W.M. Ramsay, The Chruch in the Roman Empire Befor 170 (1893) also Beginnings of Christianity Part1 Vol2 pp.179-187.


ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مقدس لوقا مذکورہ بالا پانچ ابواب میں (اعمال۲۲تا ۲۶) مختلف حکام کے سامنے مقدس رسول کے مقدمہ کی سماعت کا اس لئے ذکر کرتے ہیں تاکہ ہر خاص وعام پر ظاہر ہوجائے کہ ان حکام کی نظر میں مسیحی مذہب کے اصول رومی سلطنت کےقانون کے مطابق قابلِ عتاب(ملامت کے لائق) نہیں تھے(اعمال۲۳: ۲۹؛ ۲۴: ۲۷؛ ۲۶: ۳۰۔ ۳۱؛ ۲۸: ۱۸ وغیرہ)۔ یہ پانچ باب (۲۲تا ۲۶) مقدموں اورکچہریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بلکہ(اعمال ۱۶ باب سے آخر تک) پولُس رسول کی زندگی کے واقعات درحقیقت ایک عدالت سے دوسری اوردوسری سے تیسری عدالت میں جاکر رہائی پانے پر ہی مشتمل ہیں۔ کرنتھ میں گیلیو جورومی سلطنت کے قائدین میں سے تھا۔ مقدمہ کوخارج کردیتاہے۔ افسس کے "ایشیارک" جو اپنے ملک میں صاحبِ ثروت(امیر) اور مقتد ر(اختیار والا)لوگ تھے فساد کے دوران میں مقدس رسول کے حامی نظر آتے ہیں۔ شہر کا " محرر" (کاتب، منشی)آپ کو علانیہ صلح پسند اورامن کا حامی قراردیتا ہے۔ کلاڈیس لسیاس سوائے ایک موقعہ کے جب وہ یہود کے زیر اثر تھا آپ سے نرمی کا برتاؤ کرتاہے۔ فیلکس اور فیسٹس جو " پروکیوریٹر" تھے آپ کو مجرم نہیں گردانتے اورنہ آپ کو دشمنوں کے حوالےکردیتے ہیں۔ اگرپا بادشاہ خود یہودی تھا لیکن وہ بھی آپ کو بری قرار دیتا ہے۔

فیسٹس کے سامنے کی پیشی سے ظاہر ہے کہ اگرچہ مقدمہ یہودی رسوم اورہیکل کو ناپاک کرنے سے متعلق تھا لیکن دراصل الزام پولٹیکل تھا جس طرح کا الزام سیدنا مسیح کے خلاف تھا۔پس مقدس لوقا نے اعمال کی کتاب کے مقدمہ کی صفائی کے لئے لکھی اورکلیسیا کی ابتدا سے اس کا پولٹیکل کے طورپر بے ضرر ہونا ثابت کیا۔ مصنف کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا مسیح اہلِ یہود کا مسیح ہے۔ پس اس کے پیروؤں کو وہی مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے جواہلِ یہود کوحاصل ہے۔ وہ مقدس پولُس کے رومی سلطنت کے شہروں میں جانے اور وہاں فسادات ہونے کا ذکر کرتاہے اورکہتاہے کہ اگرچہ ان شہروں میں فسادات واقع ہوئے لیکن ان کے ذمہ دار یہود تھے اوررومی مجسٹریٹ تک کا یہ فیصلہ تھا کہ مقدس پولُس نقصِ امن کے حامی نہیں تھے بلکہ آپ کے مخالف غیر قانونی کارروائیاں کرتے تھے1۔ ڈاکٹر پلوج(Plooj) کا نظریہ یہ ہے کہ تھیوفلس نیرو کے دربار میں ایک مقتد راوربارسوخ مسیحی تھا اور لوقا نے انجیل اوراعمال الرسل کو اس کے لئے مقدس پولُس کی صفائی کے طورپر لکھا تھا تاکہ اس کومعلوم ہوجائے کہ مسیحیت رومی سلطنت کے حق میں کوئی خطرناک شے نہیں ہے2۔ قیصرِ روم کا عدالتی فیصلہ ایک قطعی فیصلہ تھا جس کے آگے تمام دنیا کا سر جھکتا تھا۔ پس اگراس کتاب کے لکھنے سے پہلے مقدس لوقا کو اس فیصلہ کا علم ہوتا توجہاں وہ معمولی حکام کے فیصلوں کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں وہ نہایت تفصیل کے ساتھ رسول مقبول کی قیصر کے سامنے پیشی کا اورمقدمہ کی سماعت اوراس کے فیصلے کا ذکر ضرور کرتے مصنف کی خاموشی نہایت معنی خیز ہے اورثابت کرتی ہے کہ اعمال کی کتاب اس فیصلے سے پہلے لکھی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس کا اس کتاب میں کوئی ذکر پایا نہیں جاتا۔

(۳۔) ہمارے پاس یہ ماننے کے لئے کافی دلائل ہیں کہ جب قیصرِ روم نے مقدس پولُس کو بری کردیا تو رسولِ مقبول نے کریت ، مقدونیہ اور افسس وغیرہ کلیسیاؤں کا دورہ کیا (طیطس ۱: ۵؛ ۱انطا۱: ۳؛ ۳: ۱۴؛ فلیمون آیت ۲۲۔۲۴)۔ اگر اعمال کی کتاب ان دوروں کے بعد لکھی جاتی تو یقیناً مقدس لوقا اپنی کتاب اعمال کے ۲۰: ۲۵، ۳۸، آیات کے الفاظ کو ان کی موجودہ صورت میں نہ لکھتے۔

______________________

1Dr.J.Ironside Still St. Paul on Trial (S.C.M)
2Foakes Jackson and Kirsopp Lake, Beginnings of Christianity Part1 Vol2 p.309 note.See also Expositor Series 8 VIII pp.511-23. XIIIpp.108-24,Cf M.Jones Expositor Series,8.IXpp.217-34 See also W.M.Ramsay, The Church in the Roman Empire Befor 170 (1893)


علاوہ ازیں کلیسیائی روایت ہے کہ مقدس پولُس نے بری ہوکر ہسپانیہ میں انجیل جلیل کی نجات کا پیغام سنایا تھا۔ اغلباً یہ روایت درست ہے کیونکہ رسول مقبول کی مدت سے یہ خواہش تھی کہ روم سے ہسپانیہ جائے (رومیوں ۱۵: ۲۰۔ ۲۸)۔ اگرآپ نے واقعی ہسپانیہ میں انجیل کی تبلیغ کی تھی اور مقدس لوقا نے اعمال کی کتاب ۸۵ء میں لکھی تھی تو کتاب میں اس واقعہ کا ضرور ذکر ہوتا کیونکہ اس واقعہ کے ذکر سے سیدنا مسیح کے کلماتِ طیبات کی کامل طورپر تشریح اور توضیح ہوجاتی کہ " جب روح القدس تم پر نازل ہوگا تم یروشلیم اوریہودیہ اورسامریہ بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے "( اعمال۱: ۸)۔ اعمال میں یروشلیم، سامریہ ، یہودیہ اور دیگرمغرب کی جانب کے ممالک کا ذکر پایا جاتاہے لیکن ہسپانیہ کا ذکر نہیں ملتا۔ جو" زمین کی انتہا" تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقدس لوقا نے اعمال کی کتاب کورسول مقبول کے بری ہونے سے پہلے یعنی ۶۰ء میں لکھا تھا۔

(۴)جب مقدس پولُس کو قیصر روم نے بری کردیا تو اس کے بعد چار سال تک (جیسا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں)۔ آپ مختلف مقامات میں آزادانہ انجیل جلیل کی بشارت بے کھٹکے دیتے رہے۔ چوتھے سال میں آپ پہلے کرنتھس میں گئے (۲۔تیمتھیس ۴: ۲۰) وہاں سے آپ تروآس گئے۔ جب آپ وہاں تھے قیصرنیرو نے ۶۴ء میں اپنی خوفناک ایذارسانی شروع کردی اورآپ قیدہوکر دوبارہ روم آئے۔ وہاں سے آپ نے کریسکینس کو گلتیہ کی جانب اورطیطس کو دلمتیہ کی جانب اورتخکس کو افسس کی طرف روانہ کیا(۲۔تیمتھیس ۴: ۱۰۔ ۱۲)۔ اسی زمانہ میں آپ نے تیمتھیس کو دوسرا خط بھی بھیجا۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ قید اور تشدد کے زمانہ میں بھی رسول مقبول کو اپنا خیال نہیں بلکہ کلیسیاؤں کا فکرستاتا تھا۔ بالاآخر مقدس رسول زندان(قیدخانہ) سے مقتل کی جانب لے گئے اور ۶۴ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔

اگر اعمال کی کتاب ۸۵ء میں لکھی جاتی تو یہ حیرت کا مقام ہوتا اگرمقدس لوقا اس کتاب میں آپ کی شہادت کا کہیں ذکر نہ کرتے۔ کیا یہ اس بات کا قطعی ثبوت نہیں کہ آپ نے اس کتاب کو مقدس رسول کی شہادت سے پہلے لکھا تھا؟ یہ امر بعید ازقیاس بلکہ ناممکن ہے کہ اگر مقدس لوقا کو کتاب کے لکھنے سے پہلے آپ کی شہادت کا علم ہوتا تو وہ اُن واقعات کا مفصل ذکر نہ کرتے جو آپ کی شہادت کا باعث ہوئے تھے۔ مقدس لوقا مقدس ستفنس شہید کی شہادت کا مفصل ذکر کرتے ہیں(اعمال باب ۶، ۷)۔ اورجو آفتیں دیگر رسولوں پر ٹوٹ پڑی تھیں اُن کی تفصیلات بتلاتے ہیں (اعمال باب ۴تا ۶ وغیرہ)۔لیکن وہ اپنے آقا ، دوست اورہیرو کی شہادت کا بیان نہیں کرتے۔ اگریہ واقعہ سن تصنیف سے پہلے ظہور میں آیا ہوتا تویہ امر قرینِ عقل نہیں کہ وہ دیدہ دانستہ (جانتے بوجھتے،باخبر ہونا)اس واقعہ کا تفصیلی ذکر نہ کرتے۔ آپ کی خاموشی اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ اعمال کی کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب یہ سانحہ روح فرسا (روح تباہ کرنے والا، خطرناک)ابھی واقع نہیں ہوا تھا۔

(۵۔) اعمال کی کتاب میں نہ صرف مقدس پولُس کی شہادت کا ذکر موجود نہیں بلکہ کلیسیا کے دیگر سربرآدردہ(بزرگ) لیڈروں اور رسولوں کی شہادت کا بھی ذکر نہیں مثلاً کلیسیا کے سردار مقدس یعقوب (اعمال۱۵: ۱۹)۔ ۶۲ء میں شہید کئے گئے لیکن اعمال میں ان کی شہادت کا ذکر نہیں پایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس واقعہ سے پہلے ۶۰ء میں لکھی گئی تھی جب وہ ابھی یروشلیم کی کلیسیا پُر حکمران تھے۔

علاوہ ازیں کلیسیائی روایت کے مطابق مقدس پطرس رسول نے بھی قیصر نیرو کی ایذارسانی کے دنوں میں ۶۴ء میں اپنے خون سے اپنے ایمان پر مہر لگائی۔ لیکن ایسی زبردست شخصیت کی شہادت کا ذکر تو الگ اشارہ تک بھی اعمال کی کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ بات ہمارے نتیجہ کی مصدق ہے کہ کتاب مذکورہ ۶۰ء میں لکھی گئی تھی جب مقدس رسول" کمال دلیری سے بے روک ٹوک" اپنے تبلیغی فرائض کو ادا کر رہے تھے۔


(۶۔) جب ہم اعمال کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ ہم اس میں اس وقت کی کلیسیا کے حالات بعینہ(ویسا ہی، جوں کا توں ) وہی پاتے ہیں جو ۶۴ء سے پہلے موجود تھے۔ رومی سلطنت ابھی تک اگر مسیحیت کے حق میں نہیں تھی تو اس کے برخلاف بھی نہ تھی۔ لیکن ۶۴ء کے بعدتمام نقشہ بدل گیا تھا کیونکہ تب قیصر نیرو (از ۵۴ء تا ۶۸ء) نے روم کو ۶۴ء میں آگ لگاکر اس کا الزام مسیحیوں پر لگادیا تھا اوران کو قتل وغارت کرناشروع کردیا تھا اورمسیحیت کے عظیم الشان مبلغین مقدس پطرس اورپولُس کو شہید کردیا تھا۔۶۴ء کے بعد رومی سلطنت اور مسیحیت کے باہمی تعلقات کا نقشہ یوحنا عارف کے مکاشفات میں پایا جاتاہے جہاں قیصر نیرو اور سلطنتِ روم کی نسبت لکھاہے " پس وہ مجھے روح میں جنگل کو لے گیا وہاں میں نے قرمزی رنگ کے حیوان (قیصرنیرو) پر جو کفر کے ناموں سے لپا ہوا تھا اورجس کے ساتھ سر اور دس سینگ تھے۔ ایک عورت(سلطنتِ روم) کوبیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ عورت ارغوانی اور قرمزی لباس پہنے ہوئے اورسونے اور جواہر اورموتیوں سے آراستہ تھی اورایک سونے کا پیالہ مکروہات یعنی اس کی حرام کاریوں کی ناپاکیوں سے بھرا ہوا اس کے ہاتھ میں تھا اوراس کے ماتھے پر یہ نام لکھا ہوا تھا۔ راز، بڑا شہر بابل، کسبیوں اور زمین کی مکروہات کی ماں، اور میں نے اس عورت کومقدسوں کے خون اوریسوع اورشہیدوں کے خون پینے سے متوالا دیکھا اوراسے دیکھ کر سخت حیران ہوا"(وغیرہ ۱۷: ۳تا ۶)۔ان آیات کے الفاظ میں اورمقدس پولُس کے قیصر کی دوہائی دینے (اعمال۲۵: ۱۱) اور تتمہ(اختتامیہ) کے الفاظ" پولُس کمال دلیری سے بے روک ٹوک کے منادی کرتا رہا " میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہی فضا( ۱۔تیمتھیس ۲: ۱۔ ۲) آیا ت کی ہے۔ اگر مقدس لوقا اعمال کی کتاب کو ۸۵ء میں لکھتے تو آپ کے الفاظ مکاشفات کے الفاظ سے بھی زیادہ درشت (سخت)ہوتے کیونکہ نیرو کے جانشین مسیحیت کی ایذارسانی میں اس سے بھی گوئے سبقت لے گئے تھے۔

(۷۔) رومی افواج نے( ۷۰ء) میں یروشلیم کو فتح کرکے ہیکل کو تباہ وبرباد کردیا۔ اس واقعہ نے نہ صرف اہل یہود کی تاریخ پر مستقل اثر ڈالا بلکہ اس نے مسیحی کلیسیا کی بھی کایاپلٹ دی۔( ۷۰ء) کے بعد یہود تمام دنیا میں پراگندہ ہوگئے اور غیر یہودی اقوام جوق درجوق مسیحیت کی حلقہ بگوش ہوگئیں اورہر کہ ومہ (ہر چھوٹا بڑا)پر روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوگیاکہ مسیحیت یہودیت کی شاخ نہیں بلکہ ایک مستقل عالمگیر مذہب ہے جس کے اُصول ہرملک وملت پر حاوی ہیں۔

مقدس لوقا نے اپنی انجیل اوراعمال کی کتاب غیر یہود اقوام کی خاطر لکھی تھی۔اگر کتاب کے لکھنے کے وقت اس کو یروشلیم کی بربادی جیسے اہم ترین واقعہ کاعلم ہوتا تو یہ ناممکن امر تھا کہ وہ اس سے پورا فائدہ نہ اٹھاتا اورہیکل کی بربادی کا ذکر کرکے ان نتائج کو جو اس میں مضمر تھے اپنے ناظرین پر واضح نہ کرتا۔ لیکن کتاب میں اس عظیم واقع اور اس کے نتائج کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا ۔

اگرکتاب کی تصنیف کے وقت شہر یروشلیم اوراس کی ہیکل برباد ہوتے اوراہلِ یہود اطرافِ عالم میں پرگنداہ ہوتے تو مصنف (اعمال ابواب ۳، ۴، ۵، ۲۱ )کے واقعات کو اس قدر اہمیت نہ دیتا اورنہ ان کو ایسی طوالت کے ساتھ لکھتا کہ وہ کتاب کا تقریباً چھٹواں حصہ ہوجائے۔ تمام کتاب میں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ شہر یروشلیم برباد ہوچکا ہے۔ ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے ۔ قوم یہود کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ کتاب میں اس قسم کے انقلابی واقعات کے ذکر کا نہ ہونا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ کتاب ایسے زمانہ میں لکھی گئی تھی جب کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں آیا تھا کہ اس قسم کے واقعات جلدی رونما ہوں گے۔ پس یہ کتاب( ۶۰ء) کے بعد تصنیف نہیں ہوئی۔


اگر اس کتاب کے لکھے جانے سے پیشتر یروشلیم تباہ ہوگیا ہوتا اورآنخداوند کی پیشینگوئی پوری ہوگئی ہوتی تو مقدس لوقا اس کتاب میں سیدنا مسیح کی پیشینگوئی اور اس کے پورا ہونے کا ضرور ذکر کرتے۔ جس طرح آپ نے اگبس کی پیشینگوئی کا ذکر کرکے اس کے پورا ہونے کا بھی ذکر کیا تھا (اعمال۱۱: ۲۸)۔ لیکن مقدس لوقا اس بات کا ذکر چھوڑ اشارہ تک نہیں کرتے۔ جس سے ظاہر ہے کہ شہر یروشلیم اورہیکل دونوں اس کتاب کی تصنیف کے وقت سلامت تھے۔

چونکہ یروشلیم کی بربادی کی دلیل نہایت زبردست دلیل ہے لہٰذا ناظرین کی واقفیت کے لئے ہم اس واقعہ کا مختصر ذکر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔

(۶۲ء سے ۶۶ء) تک رومی گورنروں کی حکومت اہلِ یہود کے لئے نہایت تکلیف دہ تھی۔ چنانچہ گورنر البی نس (از ۶۲ء تا ۶۴ء) اور گورنر فلورس (از ۶۴ء تا ۶۶ء) کے ایامِ حکومت یروشلیم اور قومِ یہود کے لئے نہایت نازک دن تھے۔ ادھر زیلوتیس کے فرقہ اوردیگر فسادی یہود نے حکام کادم ناک میں کر رکھا تھا۔ زیلوتیس رومی حکام کا اطاعت کرنا اور اُن کو ٹیکس ادا کرنا قوم کے خلاف غداری اورجُرم تصور کرتے تھے۔( ۶۶ء) کے موسم بہار میں فلورس کے مظالم کی وجہ سے فساد برپا ہوئے۔ گورنر کو شہر سے باہر نکال دیا گیا۔ بغاوت ہرچہار سوپھیل گئی اور کنعان کے مختلف شہروں میں یہود اور غیر یہود میں خانہ جنگی چھڑ گئی ۔ اس پرشام کا گورنر سیس ٹیئس گیلس ایک لشکر جرار لے کر آیا۔ اس نے یروشلیم پہنچ کر شمال کے مضاقات کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن اس میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ شہر پرحملہ کرے۔ جب وہ واپس جارہا تھا تو (نومبر ۶۶ء) میں یہود اس پرٹوٹ پڑے اور اس کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اس پر شہر یروشلیم کے مسیحی یردن پر پیلؔا میں چلے گئے ۔بغاوت کی آخری منزل( ۷۰ء )کا واقعہ ہائلہ تھا۔ جب طیطس بے شمار افواج کے ساتھ (۷۰ء) کی عیدِ فسح کے تہوار سے پہلے یروشلیم پر حملہ آور ہوا۔ تہوار کی وجہ سے ہزاروں یہودی اور ارضِ مقدس کے مختلف مقامات سے یروشلیم آئے ہوئے تھے ۔ محاصرہ کی وجہ سے کال اور وبا نے یروشلیم میں خوب جشن منایا اورلاکھوں لاشیں فصیل کے باہر پھینکی گئیں۔ طیطس نہیں چاہتا تھا کہ ہیکل جیسی خوبصورت عمارت تباہ ہوجائے۔ پس اس نے سخت احکام جاری کئے لیکن ایک منچلے سپاہی نے جلتی مشعل ہیکل کے اندر پھینک ہی جس کی وجہ سے ہر طرف آگ پھیل گئی اور فوج نے بے لگام ہوکر ہیکل کو ایسا تباہ وبرباد کردیاکہ اس پر پتھر پر پتھر نہ رہا (متی ۲۴: ۲)۔ اس جنگ میں دس لاکھ کے قریب یہودی مارے گئے ۔

(۷۰ء) میں زیلوتیس کا فرقہ برسراقتدار تھا۔لیکن جب طیطس نے شہر کو فتح کرلیا تووہ بھی بے دست وپا (اپاہج، مجبور، لاچار)ہوگئے کیونکہ رومی سلطنت کی قوت وحشمت کے سامنے وہ بے بس تھے۔ پس ان کا خاتمہ ایک لازمی اور ناگریز امر تھا۔( ۱۳۵ء) کے واقعہ کے بعد یروشلیم کا رومیوں نے کلیتہً خاتمہ کردیا اور اس سال بارکوکب کی بغاوت کے بعد فرقہ زیلوتیس کے پیرواہلِ یہود کی تاریخ کے صفحوں سے مٹ گئے ۔

(۷۰ء) کے بعد صدوقیوں کی جماعت کا بھی خاتمہ ہوگیا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ اس پارٹی کا بقا ناممکن ہوگیا تھا۔ ہیکل کی بربادی کے ساتھ ہی سالانہ تہواروں اورکہانت کے فرائض کی ضرورت بھی ختم ہوگئی تھی۔ سیاسی دُنیا میں ان کا وجود نہ رہا۔ اناجیل میں جوباتیں ان کی بابت اورہیرودیس بادشاہوں کے متعلق درج ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

اب( ۶۶ء اور ۷۰ء) کے درمیان کے واقعات کا نہ تواعمال کی کتاب میں اورنہ کسی انجیل میں اشارہ پایا جاتاہے جواعمال سے پہلے لکھی گئی تھیں۔ پس یہ خاموشی نہایت معنی خیز ہے کیونکہ اعمال کی کتاب کی فضا اس جنگ وجدل کی فضا سے بالکل جداہے۔


(۸۔) یہودی اور یونانی فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے پہلی صدی میں چند بدعتیں رونما ہونی شروع ہوگئیں۔ لیکن اعمال کی کتاب میں ان بدعتوں کا کہیں نشان بھی نہیں ملتا۔ اگر یہ کتاب( ۸۵ء) میں لکھی گئی ہوتی تو مقدس لوقا ان کا ذکر مفصل طورپر کرتے کیونکہ اس وقت یہ غنا سطی بدعتیں بہت ترقی کرچکی تھیں۔ چنانچہ مقدس پولُس رسول خود ان بدعتوں کا ذکر کلسیوں کے خط میں کرتے ہیں جو( ۶۳ء) میں لکھا گیا تھا (کلسیوں۲: ۱۶، ۱۸، ۲۰۔ ۲۳؛ ۱۔تیمتھیس۱: ۷؛ ۴: ۳؛ ۶: ۲۰ وغیرہ)۔ چونکہ ان بدعتوں کا اشارہ تک اعمال کی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ پس نتیجہ ظاہر ہے کہ یہ کتاب ان بدعتوں کے ظاہر ہونے سے پہلے( ۶۰ء) میں لکھی گئی تھی۔

(۹۔) جب ہم اعمال الرسل کابنظرِ تعمق (باریک بینی سے )مطالعہ کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعض مقامات میں ایسے نام پائے جاتے ہیں جن کاواقعات کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں۔مثلاً(اعمال ۱۷: ۵؛ ۱۹: ۳۳؛ ۲۱: ۱۶؛ ۲۸: ۱۱)وغیرہ مقامات میں ایسے ناموں کا ذکر ہے جو اگرنہ لکھے جاتے تو بیان میں کسی قسم کا کوئی ہرج واقع نہ ہوتا ۔ یہ نام محض اس وجہ سے یادرہے اورکتاب میں لکھے گئے کیونکہ وہ واقعات (جن میں ان کا ذکر آتاہے) ابھی تازہ ہی تھے لیکن اگر اعمال کی کتاب( ۸۵ء) میں لکھی جاتی تویہ نام کب کے فراموش ہوگئے تھے۔ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی اورمعمولی تفصیلات بھی ہمارے اس نتیجہ کی مصدق ہیں کہ مقدس لوقا نے اعمال کی کتاب( ۶۰ء) میں تصنیف کی تھی۔

(۱۰۔) جب یروشلیم تباہ ہوگیا اوراہل یہود ہر چہار سوپراگندہ ہوگئے (تو جیسا ہم اوپر بتلاچکے ہیں ) صدوقیوں کا مقتدر فرقہ بھی ختم ہوکر ناپید ہوگیا۔ حُریت پسند یہودیت کے عالم یوحنا بن زکی نے جبنہ میں اپنے اسکول (مسلک) کی بنیاد ڈالی ۔ اس جگہ آزاد خیال ربیوں کے خیالات، معمولات اورالہیٰات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ مسلک صلح پسند فریسیوں کانمائندہ تھا اوراس کے بانی کو تمام یہود عزت وتکریم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے لیکن اعمال کی کتاب میں اس مسلک کا نشان تک نظر نہیں آتا۔ اگریہ کتاب( ۸۵ء) میں لکھی جاتی تویہ ناممکن امر تھا کہ اس آزاد خیال پسند یہودی فرقہ کا ذکر تک نہ ہوتا۔ اس کے برعکس تمام کتاب میں صدوقیوں کا فرقہ زندہ اور ہرجگہ اپنے اقتدار اور رسوخ سے کام لیتا نظرآتاہے۔ ہر جگہ فقیہوں کے ساتھ بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور فریسیوں کے برادرکش سخت رویہ کا اور اُن کی سخت دلی اور ایذا دینے کا ہر جگہ چرچا پایا جاتا ہے(اعمال ۲۲: ۲۲ وغیرہ)۔

اعمال کی کتاب کی تمام فضا یہی ہے اوروہ اس فضا سے باہر نہیں جاتی ۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی جب یروشلیم کی ہیکل ابھی کھڑی تھی، صدوقیوں کا فرقہ برسرِ اقتدار تھا، فقیہوں اور فریسیوں کی مخالفت روزبروز ترقی پرتھی اور ہر طرف مسیحیت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ یہ تمام حالات ثابت کرتے ہیں کہ مقدس لوقا نے رسولوں کے اعمال کو( ۶۰ء) میں تصنیف کیا تھا۔

______________________

1The Beginnings of Christianity Part1.Vol1 p.118.


فصل دوم

اعمال کی زبان، خیالات اور معتقدات

اعمال کی کتاب کی زبان، خیالات اور معتقدات اس نظریہ کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب( ۸۵ء) میں نہیں بلکہ اس سے پچیس (۲۵)برس پہلے لکھی گئی تھی۔ جب ہم اس کتاب کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں توہم پر واضح ہوجاتاہے کہ اس میں کلیسیا کی زندگی کےابتدائی ایام کے خیالات اور معتقدات(اعتقاد رکھنے والا) پائے جاتے ہیں۔ اورکہ ان خیالات کی ادائیگی کا طور وطریقہ بھی اُسی زمانہ کا ہے۔کتاب کا اسلوب بیان، الفاظ کی بندش اور اندازِ بیان بالکل اسی قسم کا ہے جو اناجیل اربعہ کا ہے اور یہ طرز پہلی صدی کے اواخر کی تصنیف شدہ کتابوں سے بالکل الگ ہے۔ اس کتاب کے آخری ابواب کے اندازِ بیان میں اور مقدس پولُس کے آخری خطوط میں (جن کو عموماً پاسبانی خطوط کہتے ہیں) بہت مشابہت پائی جاتی ہے ۔1

ذیل میں ہم ان چند خیالات اور معتقدات کا مختصر ذکر کرتے ہیں :۔

(۱۔) اگر اعمال کی کتاب (۸۵ء) میں لکھی جاتی تو اعمال کےپہلے باب کا دوسرا حصہ اس کی موجودہ شکل میں نہ لکھا جاتا۔ کیونکہ جس خیال کے مطابق مقدس متیاہ کا چناؤ ہوا تھا۔ اس خیال کا تعلق کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی زمانہ کے ساتھ ہے۔یہ خیال سیدنا مسیح کے اُس قول پرمبنی تھاجو(متی ۱۹: ۲۷۔ ۲۸؛لوقا ۲۲: ۲۹۔ ۳۰) میں مندرج ہے2۔ یروشلیم کی بربادی سےپہلے ان آیات کو لفظ بلفظ مانا جاتا تھا۔ اس خیال کے مطابق یہوداہ غدار کی خود کشی سے جو جگہ خالی ہوئی تھی اس کو پر کرنا لازم تھا تاکہ عدالت کے دن بارہ (۱۲)رسول بارہ(۱۲) تختوں پر بیٹھ سکیں اور کوئی تخت خالی نہ رہ جائے۔ جب شہر یروشلیم برباد ہوگیا اوریہود کے بارہ (۱۲)قبائل تتر بترہوگئے تو اس خیال کابھی خاتمہ ہوگیا۔ اگراعمال کی کتاب( ۸۵ء) میں لکھی جاتی تو اس قسم کے خیالات کو کبھی اہمیت نہ دی جاتی اور مقدس متیاہ کے انتخاب کا واقعہ بآسانی نظر انداز کردیا جاتا خصوصاً جب پہلے باب کے بعد اس مقدس کا ذکر کہیں پایا نہیں جاتا۔ پس ظاہر ہے کہ یہ کتاب اہلِ یہود کی پراگندگی سےپہلے لکھی گئی تھی۔

(۲۔)اعمال کی کتاب میں مقدس پولُس رسول کی جو تقریر یں درج کی گئی ہیں ، وہ رسولِ مقبول کے خیالات کے ارتقاء کی ابتدائی منازل ہی سے متعلق ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ بھی دیگر یہودی مسیحیوں کی طرح شریعت کے بارے میں سرگرم " تھے (اعمال۱۶: ۳؛ ۲۱: ۲۶ وغیرہ)۔ یہ خیالات اہلِ یہود کی پراگندگی سے پہلے کلیسیا میں رائج ہوسکتے تھے لیکن اس واقعہ کے بعد ان کا وجودناممکن ہوگیا تھا۔ اس واقعہ کے بعدکلیسیاؤں میں (جو زیادہ ترغیر یہود تھیں)۔ رسولِ مقبول کے وہ خیالات اور معتقدات مروج ہوگئے جن کا ذکر آپ نےگلتیوں اورومیوں کے خطوط میں کیا تھا اورجن کے مطابق مسیحیت، موسوی شریعت اوریہودی پابندیوں سے کلیتہً آزاد تھی۔ اگراعمال کی کتاب( ۸۵ء) میں لکھی جاتی تو مقدس لوقا پولُس رسول کے ابتدائی خیالات کامفصل ذکر کرنے کی بجائے حالات کے بدل جانے کی وجہ سے رسول کے اُن خصوصی خیالات اور معتقدات کا مفصل ذکر کرتا جوپہلی صدی کےآواخر میں غیر یہودی کلیسیاؤں میں مروج تھے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب یروشلیم کی تباہی اور قوم یہود کی بربادی سے بہت پہلے لکھی گئی تھی۔

______________________

1Ibid p.299
2H.R.Mackintosh, The Doctrine of the Person of Jesus Christ p.48


(۳۔) اعمال کی کتاب میں سیدنا مسیح کی ذات کے متعلق جو تعلیم پائی جاتی ہے وہ کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے متعلق ہے جب کلیسیا کو ابھی ضرورت نہ پڑی تھی کہ سیدنا مسیح کی ذات کے متعلق غوروفکر کرکے اپنے معتقدات کو فلفسیانہ الفاظ کےذریعہ واضح کرے۔ سچ تویہ ہے کہ اس اوائل زمانہ میں بزرگانِ کلیسیا سیدنا مسیح کی ذات پر غور وفکر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ آپ کے ساتھ والہانہ عشق رکھتے تھے، جس کا منبع اور سرچشمہ وہ تجربہ تھا جو اُن کو فاتح اورجلال نجات دہندہ کے ساتھ شخصی طورپر حاصل تھا1

اوائل ہی سےمنجی عالمین کی ذاتِ پاک پر عہدِ عتیق کی کتُبِ مقُدسہ کے بعض ناموں کا اطلاق کیا گیا تھا ۔ مثلاً ابن آدم، خدا کابیٹا، خدا کا خادم ، موسیٰ کی مانند نبی، اور خداوند۔ جب ہم ان القاب کا بنظرِ تعمق مطالعہ کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ اعمال کی کتاب میں ان تمام اصطلاحات کا اطلاق آنخداوند پر اُن کے ابتدائی معنوں میں ہی کیاگیاہے۔ مثلاً ابن آدم کالقب ،جواناجیل اربعہ میں صرف کلمتہ اللہ کی زبانِ معجز بیان پر پایا جاتاہے ۔ اعمال میں مقدس ستفنس کی زبان پر ہے (اعمال ۷: ۵۶)۔ اوراس کے بعد یہ لقب کہیں نہیں ملتا۔ اسی طرح منجی عالمین کے لئے " خدا کا بیٹا" استعمال کیا گیا ہے(اعمال ۸: ۳۷؛ ۹: ۲۰ وغیرہ)۔ لیکن اس اصطلاح میں تاحال کوئی فلسفیانہ مطالب موجود نہیں۔ اصطلاح " خدا کا خادم"(اعمال ۳: ۱۳ وغیرہ) میں بھی صرف ابتدائی منازل کے خیالات پائے جاتے ہیں ۔حتیٰ کہ گواس کتاب میں سیدنا مسیح کے دکھ اٹھانے کو خادم یہوواہ کے دکھ اٹھانے پر منطبق(برابر، موافق، اوپر تلے ٹھیک آنے والا) کردیا گیا ہے(اعمال ۸: ۲۶۔ ۳۶ ؛یسعیاہ ۵۳: ۷تا آخر)۔ تاہم اس سے بنی آدم کی نجات کے متعلق کوئی نتائج اخذ نہیں کئے گئے۔ مقدس پطرس رسول اورمقدس ستفنس کی تقریروں میں آنخداوند کی موت دیگر انبیاء کی شہادت کی مانند شریروں کی بداعمالی کا نتیجہ ہے (اعمال ۲: ۲۲۔ ۳۶؛ ۳: ۱۷؛ ۷: ۵۱۔ ۵۳)۔ اسی طرح" موسیٰ کی مانند نبی" کی پیشینگوئی کا اطلاق آنخداوند پر کیا گیا ہے (اعمال ۳: ۱۷۔ ۲۶)۔لیکن اس سے کسی قسم کے نتائج اخذ نہیں کے گئے ۔ پس اعمال کی کتاب کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی دور کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔

ایک اورمثال لفظ " مسیح" ہے۔ یہ لفظ مقدس پولُس کے ہر ایک خط میں باربار بطور اسمِ معرفہ یا اسمِ خاص سیدنا مسیح کےلئے استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ آپ کے ہر خط میں جا بجا" یسوع مسیح" ، " مسیح یسوع" یاصرف" مسیح" پایا جاتاہے۔ لیکن اعمال کی کتاب میں یہ لفظ ایک جگہ بھی سیدنا مسیح کے لئے اسم خاص کے طورپر استعمال نہیں کیا گیا ۔ بلکہ صرف خطاب کے طورپر" مسیحِ موعود" کے معنوں میں ابنِ اللہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے(اعمال۲: ۲۶؛ ۳: ۱۵؛ ۴: ۴۱؛ ۹: ۳۰؛ ۲۰: ۴۱؛ ۲۲: ۶۷؛ ۲۳: ۳۵، ۳۹؛ ۲۴: ۲۶، ۴۶ وغیرہ)۔ یہی حال انجیل سوم کا ہے۔ اس میں بھی یہ لفظ صرف خطاب کے طورپر ہی ہر جگہ آیاہےمثلاً(لوقا ۲: ۱۱؛ ۴: ۴۱؛ ۱: ۲۶؛ ۲۴: ۲۶ وغیرہ)۔

مقدس یوحنا کی انجیل میں بھی یہ لفظ صرف خطاب کے طورپر ہی سولہ (۱۶)مقامات میں وارد ہوا ہے۔ انجیل متی میں یہ لفظ خطاب کے طورپر( ۱۳) دفعہ اورانجیل مرقس میں خطاب کے طورپر چھ(۶) دفعہ استعمال ہوا ہے۔ پس یہ لفظ " مسیح" نہ توکسی انجیل میں ، اورنہ رسولوں کے اعمال کی کتاب میں ، سیدنا مسیح کے لئے بطورِ اسم خاص کے ایک جگہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ اس ایک نکتہ سے یہ ثابت ہے کہ چاروں اناجیل اوررسولوں کے اعمال کلیسیا کے اس ابتدائی دور سے متعلق ہیں جب ابھی سیدنا مسیح کو صرف بطور" مسیحِ موعود" مانا جاتا تھا۔ اورابھی لفظ" مسیح" نے بطورِ اسم معرفہ عام مسیحیوں کی زبان پر رواج نہیں پکڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ مقدس پولُس کے خطوط کی نقل، نشر اور اشاعت کی وجہ سے کلیسیا میں سیدنا مسیح کےلئے نام" مسیح" زبان زد (مشہور،معروف)خلائق(خلق کی جمع ،مخلوقات) ہوگیا اوراب دنیا بھر کے لوگ سیدناعیسیٰ کو عموماً مسیح کے نام سے ہی جانتے ہیں۔

______________________

1Foakes Jackson, Acts (Moffat’s Commentary) p.XVI


ایک اورمثال لفظ" خداوند" ہے۔ یہ لفظ" خداوند" پہلی دوانجیلوں میں بطور اسمِ خاص ابنِ اللہ کے لئے کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ انجیل سوم میں لفظ" خداوند" کا اطلاق منجی عالمین کی ذاتِ پاک پر بطور اسمِ خاص کے صرف گیارہ مقامات میں کیا گیاہے ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب میں بھی یہ لفظ صرف کہیں کہیں بطور اسمِ خاص ابن اللہ کے لئے استعمال ہواہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی تھی، جب لفظ" خداوند" منجی عالمین کے لئے ابھی شروع ہوا تھا لیکن وہ ابھی رواج نہیں پاچکا تھا۔لیکن ان مقامات (اعمال ۲: ۳۶؛ ۹: ۵؛ ۱۰: ۳۶) میں بھی اس اصطلاح سے مراد صرف" آقا ہے" اوربس ۔ اگراعمال لرسل( ۶۰ء) کے بعد یاانجیل لوقا( ۹۰ء) کے قریب لکھی جاتی تو " انجیل پطرس" کی طرح یسوع کی بجائے لفظ "خداوند" ہر جگہ استعمال کیا جاتا ۔ ناظرین کو یاد ہوگا کہ مقدس پولُس ہرایک خط میں ابن اللہ کے لئے اکثر لفظ" خداوند" استعمال کرتاہے۔ پس اعمال کی کتاب میں آنخداوند کے لئے ایک اصطلاحی الفاظ موجود نہیں جو پہلی صدی کے اواخر میں آپ کے لئے عام طورپر استعمال ہوتے تھے ۔چنانچہ ڈاکٹر فوکس جیکسن کہتے ہیں ۔s1

" مسیح کی ذات اور شخصیت کے متعلق اعمال کی کتاب میں جو خیالات پائے جاتے ہیں وہ اس قسم کے نہیں جو بعد کے زمانہ میں مروج تھے"۔

ایک اوامر قابلِ غور ہے۔ مقدس پولُس کی تحریرات میں ہر جگہ آنخداوند کی صلیبی موت کا تعلق بنی نوع انسان کی نجات کے ساتھ بتلایا گیا ہے۔ لیکن اعمال کی کتاب میں یہ تعلق موجود نہیں ہے۔اس کتاب میں آپ کی صلیبی موت کو اہلِ یہود کی شرارت سے متعلق کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ جب یہ کتاب لکھی گئی تھی تو اس وقت مسیحی عقائد اپنی ارتقا کی ابتدائی منازل میں ہی تھے۔ میں آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سیدنا مسیح کے کلمات بلاغت نظام کے لئے اعمال کی میں کوئی اصطلاحی لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ صرف الفاظ " خداوند یسوع کی باتیں" استعمال کئے گئے (اعمال ۲۰: ۳۵)۔ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ اس کتاب کا تعلق پہلی صدی کے اواخر سے نہیں بلکہ نصف کے ساتھ ہے ۔ جب حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کے لئے تاحال کوئی خاص لفظ یا اصطلاح تجویز نہیں کی گئی تھی۔ پس یہ نکتہ بھی اس بات کی تائید کرتاہے کہ یہ کتاب( ۶۰ء) میں لکھی گئی تھی۔

(۴۔) پہلی صدی کے اواخر میں الفاظ" مسیحی اور " مسیحیت " عام طورپر مروج تھے۔ لیکن اعمال کی کتاب میں یہ الفاظ مروج نہیں جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب کلیسیا کے ممبروں کے لئے ابھی لفظ" مسیحی " عام استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور سیدنا مسیح کے خصوصی اصولوں کے لئے لفظ" مسیحیت" وضع بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اگر یہ کتاب( ۶۰ء) کی بجائے پچیس (۲۵)سال بعد احاطہ تحریر میں آتی تو اس میں ایمان داروں کے لئے لفظ" مسیحی " زیادہ استعمال کیا جاتا کیونکہ اس صدی میں قیاصرہ(قیصر کی جمع ،بادشاہ روم) روم کے تشدد آمیز رویہ کی وجہ سے لفظ"مسیحی" کی اصطلاح کلیسیا کے اندر اورباہر جڑ پکڑ چکی تھی۔

عہدِ جدید میں لفظ" مسیحی" صرف تین جگہ وارد ہوا ہے یعنی (اعمال ۱۱: ۲۶؛ ۲۶: ۲۸ ؛ ۱۔پطرس ۴: ۱۶ )۔ پہلے مقام میں مقدس لوقا ہم کو بتلاتے ہیں کہ یہ شاگرد پہلے انطاکیہ میں ہی مسیحی کہلائے" ۔ انطاکیہ کا شہر سکندریہ کی طرح ازراہِ تمسخر ہجو(مذاق یا گالی) یہ نام اورحقارت آمیز لقب دینے کے لئے مشہور تھا۔ جب شام کے دارا لسلطنت انطاکیہ کے شہر اور گردونواح میں مسیحیت پھیل گئی اورمنجی عالمین کی وفات کے دس سال کے اندر غیر یہود

______________________

1Harnack, Luke the Physician p.24


جوق درجوق مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوگئے تو بُت پرستوں کے لئے اہلِ یہود میں اورمسیح پر ایمان لانے والوں میں تمیز کرنا ایک لابدی امر(لازم) ہوگیا۔ اُنہوں نے غیر یہود ایمان داروں کو ازراہِ تمسخر" مسیحی" کہناشروع کردیا یعنی مسیح کے پیرو جس طرح ہیردویس کے پیروؤں کو "ہیرودی" کہا جاتا تھا (متی ۲۲: ۱۶؛ مرقس ۳: ۶ وغیرہ)۔

لیکن منجی جہان پر ایمان لانے والے اپنے آپ کو " مسیحی " نہیں کہتے تھے۔ وہ اپنے اوردوسروں کے لئے عام طورپر الفاظ" بھائی" ، " بھائیوں " وغیرہ کا استعمال کرتے تھے(اعمال ۶: ۳؛ ۹: ۳۰؛ ۱۰: ۲۳؛ ۱۱: ۱۲؛ ۱۲: ۱۷؛ ۱۴: ۲؛ وغیرہ۔ رومیوں ۱: ۱۳؛ ۱۲: ۱؛ ۱۶: ۱۴ وغیرہ۔ ۱۔کرنتھیوں ۲: ۱؛ ۷: ۲۹؛ ۱۰: ۱؛ ۱۱: ۲؛ ۱۴: ۲۶؛ ۲۔کرنتھیوں ۹: ۵؛ ۱۱: ۹؛گلتیوں۱: ۲؛ افسیوں ۶: ۲۳؛ فلپیوں۱: ۱۴؛ ۱۔تھسلنیکیوں ۴: ۱، ۱۰؛ ۱۔تیمتھیس ۴: ۶؛ ۱۔پطرس ۱: ۲۲؛ ۱۔یوحنا ۳: ۱۴ وغیرہ)۔

بعض اوقات کلیسیا کے شرکاء کے لئے لفظ" شاگرد" استعمال کیا جاتا تھا (اعمال۹: ۱، ۱۰؛ ۱۶: ۱؛ ۲۱: ۱۶؛ ۱۹: ۱؛ ۲۰: ۷ وغیرہ)۔بعض اوقات لفظ" مقدس" استعمال ہوتا تھا(اعمال۹: ۱۳، ۳۲، ۴۱؛ ۲۶: ۱۰؛ رومیوں ۱: ۷؛ ۱۲: ۱۳؛ ۱۵: ۲۶؛ ۱۔کرنتھیوں ۶: ۱؛ ۱۴: ۳۳؛ ۲۔کرنتھیوں۱: ۲؛ ۱۳: ۱۳ وغیرہ)۔

اہلِ یہود سیدنا مسیح پر ایمان لانے والوں کو " ناصری" اور" گلیلی" کہا کرتے تھے۔ عہدِ جدید کی تمام کتُب میں کسی ایک مقام میں بھی ہم یہ نہیں پاتے کہ کلیسیا کے شرکاءنے اپنے آپ کو " مسیحی " کہا ہو۔ دوسرا مقام جہاں عہدِجدید میں لفظ" مسیحی" وارد ہوا ہے (اعمال ۲۶: ۲۸) ہے۔ اس مقام میں مقدس پولُس رسول اگرپا کو خطاب کرکے کہتاہے " اے اگرپا بادشاہ تو نبیوں کا یقین کرتاہے ۔ میں جانتاہوں کہ تو یقین کرتاہے۔ اگرپا نے پولُس سے کہا ۔ تو تو تھوڑی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کرلینا چاہتاہے"۔ یہ واقعہ اہل انطاکیہ کے لفظ " مسیحی" کو اختراع (نئی بات نکالنا)کرنے کے قریباً بیس(۲۰) سال بعد کا ہے۔ یہاں اگرپا بادشاہ بھی ازروئے تمسخر ایمان داروں کو حقارت آمیز لفظ" مسیحی" سےیاد کرتاہے ۔ جس طرح عصر ِحاضرہ میں پنجاب کے بعض دیہاتی غیر مسیحی ، کلیسیا کے شرکاء کو " کرانی" کہتے ہیں ۔ مقدس پولُس کی تحریرات میں کہیں لفظ" مسیحی" نہیں پایا جاتا۔

تیسرا مقام مقدس پطرس کے پہلے خط (۱۔پطرس ۴: ۱۶)یہاں مقدس پطرس کلیسیا کے ممبروں کو فرماتے ہیں کہ اگر بُت پرست تم کو ازراہِ حقارت" مسیحی" کہتے ہیں یا تم کو مسیح کے نام کے سبب ملامت کرتے ہیں تو یہ امر تمہارے لئے عار(شرم)کا اورشرمانے کا موجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ تم اس نام کے سبب خدا کی تمجید کرو۔ کیونکہ اگرمسیح کے نام کے سبب تم کو ملامت کی جاتی ہے تو تم مبارک ہو(۱۔پطرس۴: ۱۴۔ ۱۶)۔ مقدس پطرس کا یہ خط( ۶۴ء) کے قریب لکھا گیا تھا ۔ جس سے ظاہرہے کہ کلیسیا کے شرکاء( ۶۴ء )تک لفظ" مسیحی" اپنے لئے استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس سال مقدس پولُس اور مقدس پطرس ابھی زندہ تھے۔ مقدس پولُس کی شہادت کے چند بعد اپیکٹٹس Epictetus منجی عالمین پر ایمان لانے والوں کے لئے لفظ "گلیلی " استعمال کرتاہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ اعمال کی کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب کلیسیا کے شرکاء لفظ" مسیحی" کو اپنے لئے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے تھے اورنیک نہاد بُت پرست بھی (جو ایمانداروں کو طعن وتشنیع (گالی گلوچ)کا آماجگاہ بنانا نہیں چاہتے تھے) اس لفظ کو ان کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے۔ پس یہ امر بھی ہمارے نتیجہ کا مصدق ہے کہ اعمال کی کتاب( ۶۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی۔


حقیقت تویہ ہے کہ قیاصرہ روم کے احکام اور ایذارسانیوں کی وجہ سے لفظ " مسیحی" کلیسیا کے شرکاء پر چسپاں کیاجاتا تھا۔ رومی سلطنت کے قانون نے سیدنا مسیح کے مذہب کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ کیونکہ وہ روم کے قومی مذہب ، دیوتا پرستی اور قیصر پرستی کے خلاف تھا۔پس جب کلیسیا کے شرکاء کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا تھا تو اُن سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ کیا تم" مسیحی" ہو؟ اگر گرفتار شدگان انکار کرتے تو کلیسیائی حلقوں میں اس بات کو خداوند کے انکار کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔پس وہ نہایت دلیری سے یہی جواب دیتے کہ وہ مسیحی ہیں۔ یوں رفتہ رفتہ کلیسیا میں لفظ" مسیحی" رواج پاگیا اور ایذارسانیوں کے دوران میں کلیسیا نے اس لفظ کو اپنالیا اور ہر ایمان دار اس حقارت آمیز لفظ کو اب فخریہ استعمال کرنے لگ گیا۔

لفظ" مسیحیت" بھی عہدِ جدید کی کُتب کے مجموعہ میں کہیں پایا نہیں جاتا۔ اعمال کی کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ یہود اس کے لئے حقارت کے طورپر لفظ" طریق" بمعنی" راہ" استعمال کرتے تھے (اعمال ۹: ۲ مقابلہ کرو ۲۴: ۵ وغیرہ) لیکن مسیحی کلیسیا نے ان کے تمسخر تضحیک اور حقارت کی پروانہ کے (اعمال ۲۴: ۱۴)۔لفظ" طریق" کو اپنالیا کیونکہ اُس کے منجی نے یہ لفظ خاص اپنی ذات کےلئے استعمال فرمایا تھا(یوحنا۱۴: ۴۔ ۶)۔ اعمال کی کتاب میں حضرت کلمتہ اللہ کے اُصولوں کے لئے یہی لفظ" طریق" جا بجا استعمال ہواہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اولین اورابتدائی زمانہ سے متعلق ہے(اعمال۱۶: ۱۷؛ ۱۸: ۲۶؛ ۱۹: ۹، ۲۳؛ ۲۴: ۲۲ وغیرہ)قیاصرہ روم کی ایذارسانیوں کی وجہ سے (جس میں پس پردہ اہلِ یہود کا ہاتھ ہوتا تھا) یہودیت اور مسیحیت میں تمیز کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ پس لفظ" مسیحی" کے ساتھ ساتھ لفظ" مسیحیت" بھی استعمال ہونے لگ گیا اورپہلی صدی کے آخر میں لفظ "مسیحیت" عام ہوگیا۔ قدیم زمانہ کا جو مسیحی لٹریچر محفوظ رہ گیا ہے، اس میں پہلے پہل مقدس اگنیشئس کے خطوط میں لفظ " مسیحیت" پایا جاتاہے۔

سطور بالا سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ اعمال کی کتاب اس زمانہ میں لکھی گئی جب کلیسیا نے لفظ" مسیحیت " کو ابھی اپنایا نہ تھا۔ اوریہ وقت نیرو کی تشددانہ پالیسی سےپہلے کا ہے جس کا آغاز( ۶۴ء) میں ہوا تھا۔ پس یہ کتاب( ۶۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی ۔

(۵۔) اس سلسلہ میں لفظ" شہید" کی تاریخ کا بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔الفاظ" شہید" اور " شہادت" کے اصلی معنی گواہی کے ہیں اور اصطلاحی طورپر صرف اُن لوگوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جو اپنے خون سے اپنے ایمان کی گواہی دیتے ہیں۔لفظ شہید کے یونانی لفظ "مارٹر" μαρτυ کے معنی گواہ کے ہیں۔ اور رومی قیاصرہ کی ایذارسانیوں کے دوران میں یہ لفظ ان ایمانداروں کے لئے استعمال ہونا شروع ہوگیاجنہوں نے اپنے خون سے اپنے ایمان کی گواہی دی تھی۔ جب ہم اعمال کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں یہ لفظ ان اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا ہے(اعمال ۱:۲۲؛ ۴: ۳۳؛ ۵: ۳۲؛ ۱۰: ۴۱؛ ۱۳: ۳۱؛ ۲۲: ۱۵؛ ۲۶: ۱۶ وغیرہ)۔

ممکن ہے کہ کوئی صاحب یہ اعتراض کریں کہ مقدس پولُس کی زبان پر یہ لفظ اُن معنوں میں استعمال کیاگیاہے لیکن اگر اس مقام (اعمال۲۲: ۱۹) کاغور سے مطالعہ کیاجائے توہم پر واضح ہوجائے گا کہ اس مقام میں رسول مقبول کامطلب یہ نہیں کہ مقدس استفنس کی گواہی نے موت کی صورت اختیار کی تھی بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ گواہی کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔پس ظاہرہے کہ لفظ" شہید" اس مقام پر اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا ۔ جس طرح مثال کے طورپر وہ مکاشفات (مکاشفہ۲: ۱۳؛ ۱۷: ۶) میں استعمال کیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اعمال کی کتاب قیصر نیرو کی ایذارسانیوں سے پہلے احاطہِ تحریر میں آئی اور یہ نتیجہ ہمارے اس نظریہ کی تصدیق کرتاہے کہ مقدس لوقا نے یہ کتاب( ۶۰ء) کے قریب لکھی تھی۔


(۶۔) جب ہم اعمال کی کتاب کی کلیسیائی تنظیم پر نظر کرتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ کلیسیا کے امورنظام بھی ابتدائی مراحل سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کے کسی صفحہ میں بھی کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ۔ جس سے یہ ظاہر ہو کہ کلیسیائی تنظیم پہلی صدی کے آواخر کی ہے۔ اس کتاب میں الفاظ" ایپسکوپوس" اور" پریسبٹروئے" آتے ہیں لیکن ان الفاظ سے ہم وہ مطلب اخذ نہیں کرسکتے جو ان کے ہم معنی الفاظ" بشپ" اور "پرسبٹر" کے تصورات میں مابعد کے زمانہ میں پایا جاتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس رسولوں کے " ہاتھ رکھنے" کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو مابعد کے زمانہ میں کلیسیا میں مروج تھا ۔ حق تو یہ ہے کہ کلیسیا کی تنظیم اس کتاب کے لکھے جانے کے وقت ابھی ٹھوس اورجامد نہیں ہوئی تھی1۔ بلکہ اپنی ترقی کی ابتدائی منزلوں میں ہی تھی۔

ان اور دیگر وجوہ کے باعث ڈاکٹر سٹل کہتاہے کہ اعمال کی کتاب( ۶۱ء) کے بعد کی نہیں ہوسکتی ۔2

ان تمام اصطلاحات کا مطالعہ یہ حقیقت ثابت کردیتاہے کہ ان کے معافی اورمطالب کلیسیا کی ارتقا کے ابتدائی زمانہ ہی سے متعلق ہیں۔ اگر کتاب اعمال الرسل پہلی صدی کےاواخر میں لکھی جاتی تو یقیناً کلیسیا کے اُس دور کے خیالات اورمعتقدات اورکلیسیائی تنظیم کا عکس اوراثر اس کتاب میں پایا جاتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب( ۸۵ء) سے مدتوں پہلے لکھی گئی تھی اورا سکا زمانہ تصنیف( ۶۰ء) کے لگ بھگ کا ہے۔

فصل سوم

مقدّس پولُس کے خطوط اور اعمال کی کتاب

اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ اس کے مصنف نے مقدس پولُس کے خطوط کا استعمال نہیں کیا ۔ اب اگریہ مان لیا جائے کہ مقدس لوقا نے یہ کتاب رسول کی حینِ حیات میں ہی لکھی تھی تو اس حقیقت کی کچھ وجہ ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ کتاب رسول کی شہادت کے بیس(یا جیسا کہ بعض کہتے ہیں چالیس برس) بعد لکھی گئی تو یہ حقیقت قابلِ توجہ نہیں ہوسکتی۔ اعمال کی کتاب کوایک سرے سے دوسرے تک پڑھ جاؤ کسی پر یہ امر ظاہر نہیں ہوسکتا کہ اس کا مصنف مقدس پولُس کے خطوط سے واقف بھی تھا۔ عبرانیوں کا خط اس کتاب سے غالباً دس پندرہ برس بعد لکھا گیا تھا۔ اس کا مصنف رسول کے خطوط سے واقف نظر آتاہے۔ پطرس کے پہلے خط میں چند حصص ایسے ہیں جو مقدس پطرس کی شہادت کے چند سال بعد اس میں ایزاد (اضافہ)کئے گئے تھے۔ اس میں بھی مقدس پولُس کے خطوط کا صاف اشارہ اور ذکر ہے (۱۔پطرس۱: ۱۴؛ رومیوں ۱۲: ۲؛ ۱: ۳؛ رومیوں ۲: ۱۱؛ ۱: ۲۰؛ رومیوں ۱۶: ۲۵ الخ؛ ۲: ۶۔۸؛ رومیوں ۹: ۳۳؛ ۲: ۱۰؛ رومیوں ۹: ۲۵؛ ۱: ۲؛ افسیوں ۱: ۴؛ ۱: ۴۔ ۵؛ افسیوں ۱ : ۱۱، ۱۸؛ ۱: ۱۴؛ افسیوں ۲: ۳؛ ۲: ۱۸؛ افسیوں۶: ۵ وغیرہ)۔اگراعمال کی کتاب بھی مقدس پولُس کی شہادت کے بیس یا تیس سال بعدلکھی جاتی تویہ ناممکن امر ہے کہ اس کا مصنف مقدس رسول کے خطوط کا استعمال نہ کرتا۔ ہم یہاں تین مثالیں دیتے ہیں ۔ 3

______________________

1 Foakes Jackson Acts (Moffat’s Commentary) p.XVI.
2J.Ironside Still , St. Paul on Trial (S.C.M.)
3George Salmon, Historical Introduction to N.T. pp.317-321.


(۱۔) اعمال کے سفر کے روزنامچہ(ڈائری، کھاتا، ہرروز کے حساب لکھنے کی کتاب) سے ظاہر ہے کہ فلپی ایک ایسی جگہ تھی جہاں اس روزنامچہ کے مصنف مقدس لوقا نے کچھ مدت تک قیام کیا تھا۔ پس وہ قدرتاً اس کی کلیسیا میں نہایت دلچسپی رکھتا تھا۔لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اعمال کی کتاب کا مصنف فلپیوں کے خط سے واقف بھی نظر نہیں آتا۔ اعمال کی کتاب میں کلیسیا کے شرکاء میں سے صرف لُدیا کے ہی نام کا ذکر ہے۔ (اعمال ۱۶باب)۔ نہ اپفردتس کا ذکر ہے ۔ نہ یوودیہ کا نہ سنتخے کا اورنہ کلیمنس کا ذکر ہے جو بعض علماء کے مطابق بعد میں کلیمنٹ آف روم کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ پس کتاب میں فلپیوں کی کلیسیا کارسول مقبول کی حاجتوں کو رفع کرنے کی غرض سے زرنقد بھیجنے کا بھی ذکر نہیں (فلپیوں ۴: ۱۶؛ نیز دیکھو ۲۔کرنتھیوں ۱۱: ۹)۔

(۲۔) اگراعمال کی کتاب( ۸۵ء) میں لکھی جاتی جب رسول مقبول کے خطوط تمام کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں تھے تو مقدس لوقا کم ازکم گلتیوں کے خط کا ضرور استعمال کرتے جو( ۴۹ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس خط کی روشنی میں (اعمال ۹: ۱۹ ۔ ۳۰ )اورپندرھویں باب کو لکھا جاتا تاکہ واقعات کا تواتر اور تسلسل قائم رہے ،مثلاً (گلتیوں ۱: ۱۵۔ ۱۷ )سے ظاہر ہے کہ رسول مقبول عرب کو گئے تھے اوروہاں سے دمشق واپس لوٹے تھے لیکن مقدس لوقا اس سفر کا کہیں ذکر نہیں کرتے اورہم یقینی طورپر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سفر کب کیا گیا۔ آیا یہ سفر(اعمال ۹باب کی ۲۱۔ ۲۲آیات) کے مابین کے وقفہ میں واقع ہوا یا( ۲۲ اور ۲۳آیات) کے درمیانی عرصہ میں کیا گیا۔علاوہ ازیں (گلتیوں ۱: ۲۱؛ ۲: ۱، ۱۱۔ ۱۸) وغیرہ کی آیات کی روشنی میں اعمال کا پندرھواں باب لکھا جاتا۔

اگر مقدس لوقا کے سامنے گلتیوں کا خط ہوتا تویہ ممکن تھاکہ وہ اپنی کتاب میں مقدس پولُس کے سفرِ عرب یا انطاکیہ میں مقدس پولُس اور مقدس پطرس کی باہمی رنجش کا یا طِطس کے فتنہ کاذ کر نہ کرتے۔ پس اعمال کی کتاب کے لکھنے کے وقت گلتیوں کا خط مقدس لوقا کی نظروں کے سامنے نہیں تھا۔ اس کا سبب ظاہر ہے ۔ اعمال کی کتاب کی تصنیف کے وقت گلتیوں کا خط ابھی تمام کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں نہیں تھا اور رسول مقبول خود زندہ تھے۔ پس اس کے مصنف کو جو رسول کے ساتھی تھے اُن کے خطوط کو بہم پہنچانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ اگر مقدس لوقا اس کتاب کو (۶۰ء) کی بجائے پچیس (۲۵)سال بعد( ۸۵ء) میں لکھتے تو وہ مذکورہ بالا واقعات کو جو اہم قسم کے تھے ہرگز نظر انداز نہ کرتے۔

(۳۔) اگر کرنتھیوں کے خطوط مقدس لوقا کے سامنے ہوتے اور آپ نے( ۱۔ کرنتھیوں۱۵: ۶۔ ۷ )کو پڑھا ہوتا تو یقیناً اپنی انجیل لکھتے وقت وہ ان واقعات کا ذکر کرتے اور بتلاتے کہ منجی عالمین اپنی ظفریاب قیامت کے بعد فلاں مقام اور فلاں موقعہ پر " پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیئے جن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں"۔ اور مقدس یعقوب کو بھی فلاں موقعہ اور قیامت کے بعد فلاں روز فلاں جگہ نظر آئے۔

اگر مقدس لوقا نے( ۲۔ کرنتھیوں) پڑھا ہوتا تو وہ اعمال کی کتاب میں ضرور بتلاتے کہ مقدس پولُس نے کہاں اورکس موقعہ پر " یہودیوں سے ایک کم چالیس کوڑے پانچ بار کھائے۔ تین مرتبہ بیدیں کھائیں۔ تین دفعہ جہاز ٹوٹنے کی بلا میں گرفتار ہوئے (۲۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۴۔ ۲۵)۔

اعمال کی کتاب کو" الف " سے " ی " تک پڑ ھ جاؤ۔ تمام کتاب میں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ مقدس پولُس نے کسی کلیسیا کو کبھی کوئی خط لکھا تھا۔ اگر اعمال کی کتاب( ۶۰ء) میں نہ لکھی جاتی بلکہ اس سے پچیس(۲۵) سال (یا جیسا بعض کہتے ہیں چالیس سال سے زائد عرصہ) بعد لکھی جاتی تویہ ناممکن امر ہے کہ اس کا مصنف رسول کے خطوط کا ذکر تک نہ کرتا بالخصوص اس زمانہ تک آپ کے خطوط ہر کلیسیا کے ہاتھوں میں تھے۔ مثلاً جب وہ


کرنتھ کا ذکر کرتا ہے تو ضرور لکھتا کہ یہاں رسول مقبول نے روم کی کلیسیا کو خط لکھا تھا۔ لیکن اگر کوئی غیر مسیحی جو انجیل جلیل کی کتاب کے مجموعہ سے ناواقف ہو اور یہ نہ جانتا ہو کہ اس میں کس شخص نے کیا لکھا ہے اور صرف اعمال کی کتاب کو پڑھے تو اس کے شان وگمان میں یہ بھی بات کبھی نہ آئے گی کہ مقدس پولُس نے کبھی کسی کلیسیا کو کوئی خط لکھنے کے لئے قلم بھی اٹھایا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ یہی سمجھے گا کہ پولُس صرف ایک زبردست مبلغ اورجوشیلا رسول تھا جو جنونی ہوکر جا بجا سرگرداں (آوارہ) پھرتا رہا تاکہ اپنے خدا کی نجات کی بشارت رومی دنیا کےکونہ کونہ میں پہنچادے۔

پس اعمال کی کتاب لکھتے وقت مقدس لوقا کے سامنے مقدس پولُس رسول کے خط موجود نہیں تھے ورنہ آپ ان خطوں کی روشنی میں بعض اُمور کا ذکر ضرور کرتے اور دیگر اُمور کو اچھی طرح واضح کردیتے ۔ اب غبی سے غبی شخص پر بھی یہ ظاہر ہے کہ اگریہ کتاب( ۶۰ء )کے بعد لکھی جاتی تو اس کے مصنف کے ہاتھوں میں ان خطوط کی کاپیاں ضرور ہوتیں۔مقدس پولُس( ۶۴ء) میں شہید کئے گئے تھے۔ کیا یہ امر قرینِ قیاس ہوسکتاہے کہ اگر مقدس لوقا( ۸۵ء یا ۱۰۰ء )میں یہ کتاب لکھتے تو اپ اپنے شہید آقا کے خطوط کو اُن کی زندگی کے واقعات لکھتے وقت اپنے سامنے نہ رکھتے ؟ ان خطوط کا( ۶۰ء) تک مقدس لوقا کےہاتھوں میں نہ ہونا تعجب خیز امر نہیں ہوسکتا، لیکن( ۸۵ء یا ۱۰۰ء )تک ان خطوط کا آپ کے ہاتھوں میں نہ ہونا ایک ناممکن الوقع امر ہے ۔1

فصل چہارم

مخالف علماء کے خیالات کی تنقیع وتنقید

ہم اوُپر ذکر کرچکے ہیں کہ بعض علماء رسالہ اعمال کی تصنیف کے لئے( ۸۵ء )کی بجائے( ۱۰۰ ء) تجویز کرتے ہیں۔ اُن اصحاب کی دلیل یہ ہے کہ مقدس لوقا نے یہودی مورخ یوسیفس کی تصنیفANTIQUITES کو بطور ایک ماخذ کے استعمال کیا تھا جو( ۹۴ء) میں شائع ہوئی تھی۔ اگریہ دلیل صحیح ثابت ہوجائے تو کوئی شخص یہ انکار نہیں کرسکتا کہ رسالہ اعمال( ۶۰ء )کی بجائے( ۹۵ء) یا اس کے بعد لکھا گیا تھا۔ لیکن یہ دعویٰ سراسر غلط ہے اور حقیقت سے کوسوں دورہے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ مقدس لوقا اور یوسیفس دونو ں بعض اوقات ایک ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔چنانچہ (اعمال۵: ۳۶۔ ۳۷؛ ۱۲: ۲۰؛ ۲۱: ۳۸ )میں جن واقعات کا ذکرہے ان کا یہ مورخ بھی ذکرکرتاہے ۔ دونوں مصنفوں کی کتابوں میں بعض الفاظ ایک ہی قسم کے پائے جاتے ہیں۔ جن سے ان علماء کویہ دھوکا ہوگیا ہے کہ مقدس لوقا نے اس یہودی مورخ کو ماخذ کے طورپر استعمال کیا تھا۔ مثلاً یوسیفس نے طبریاس سے کہا " اگر یہی انصاف ہے تو مجھے مرنے سے انکار نہیں 2" مقابلہ کر و(اعمال ۲۵: ۱۱)لیکن اس قسم کے الفاظ ایسے شخص کے منہ سے نکلتے ہیں جس پر جھوٹا الزام لگایا جاتاہے اوران سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوسکتا کہ مقدس لوقا یہودی مورخ کا مرہون منت ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب دومصنف ایک ہی واقعہ کی نسبت لکھتے ہیں تو وہ کسی حد تک ایک ہی قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن ان الفاظ کی متشابہت (ہمشکل)سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک نے دوسرے کی نقل کی ہے ۔ حق تویہ ہے کہ دونوں مصنفوں کےبیانات کو پڑھنے سے یہ ظ

______________________

1 See also Encyclo , Biblica S.V. Acts Col 42 and Moffat’s Introd. To Lit of the N.T. p300
2Vita 29


ظاہر ہوجاتاہے کہ دونوں کے بیانات میں بڑا فرق ہے اوریہ فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک نقاد کہتاہے1کہ اگر مقدس لوقا نے یوسیفس کی کتُب کو پڑھا تھا تو وہ اُن کو پڑھنے کے بعد ہی فوراً بھول گیا ہوگا!!

مقدس لوقا اوریوسیفس دونوں مصنف فاضل تھے۔ اوردونوں کا مطالعہ وسیع تھا۔ پس یہ امر ممکن ہے کہ جب دونوں مصنف زمانہ ماضی کے ایک ہی قسم کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو ان دونوں کا تاریخی ماخذ کسی تیسرے مصنف کی کتاب ہوگی جس کی وجہ سے دونوں کے الفاظ میں مشابہت ہے۔ اور جب دونوں مصنف ایک ہی ملک اور قوم کے ایک ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں توایک ہی قسم کے منظروں کا ذکر کرتے ہیں تو جائے حیرت نہیں کہ دونوں کے قلم سے ایک ہی قسم کے الفاظ نکلتے ہیں اوراس مشابہت سے ہم قطعی اور حتمی طورپر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مقدس لوقا نے یوسیفس کی کتاب کا استعمال کیا ہے اس کے برعکس یہودی مورخ نے مقدس لوقا کی تصنیف کا استعمال کیا ہے۔

حق تویہ ہے کہ مقدس لوقا ایک محتاط مورخ ہے اوراپنی انجیل اور اعمال کی کتابوں میں تواریخی واقعات کا بار بار ذکر کرتاہے۔ مثلاً وہ ہیرودیس کے خاندان کی تاریخ سے واقف ہے۔ وہ رومی قیاصرہ کے ناموں کا ذکر کرتاہے اور اہلِ یہود کی تاریخ کی جانب اشارہ بھی کرتاہے۔ وہ رومی حکام کے صحیح خطاب لکھتا ہے اور رومی سلطنت کے شہروں کا بیان بھی درستی سے کرتاہے۔ اس سے بعض علماء کو یہ گمان ہوا کہ مقدس لوقا کے سامنے تاریخی کتابیں تھیں جو اُس کا ماخذ تھیں اور چونکہ اس قسم کی تاریخی کتُب میں سے صرف یوسیفس کی کتاب کا ہی ہم کو علم ہے لہٰذا انہوں نے یہ نظریہ قائم کیاکہ اعمال یوسیفس کی کتُب کے بعدلکھی گئی ہے۔لیکن یوسیفس کی کتاب کا وہ حصہ جو اعمال کا ماخذ کیاجاتا ہے اس کا آخری حصہ ہے اوراس آخری حصہ کا مطالعہ ہم پر واضح کردیتا ہے کہ اس کتاب کے وہ بیان جو انجیلِ سوم اور اعمال سے متعلق ہیں نہایت قلیل ، ناکافی اورکم مایہ قسم کے ہیں ،کیونکہ اس حصہ کے جزو اعظم کا تعلق ہیردویس اگرپا(xxx) بابل کے یہود کے حالات(xvii) اور شاہ اویابین کی زندگی(xx) کے بیانات پر مشتمل ہے۔پس اگر یہ نظر یہ درست ہو تو ہم کو حیرانگی ہوتی ہے کہ مقدس لوقا جیسے محتاط شخص نے ایک ایسی کتاب کو ماخذبنایا جس سے اُس کو اس قدر کم حالات ملے! ہم کو یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کا مقدس لوقا بالعموم ذکر کرتاہے وہ مشہور ہستیاں تھیں اوراُن کے جاننے کے لئے کسی تاریخی کتاب کے ماخذ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہاں اگر یوسیفس ہم کو یہ بتلاتا کہ' سرجیس پولس Sergius Paulus ایک پروکونسل تھا یا فلپی کے مجسٹریٹ اپنے آپ کو" پریٹر" Proetor کہلانے کے خواہشمند تھے یا گیلیو Gallio آخیہ کا پروکونسل تھا یا افسس شہر کا " محرر" ہوا کرتا تھا تویہ نظریہ زیادہ قابل قبول ہوتا ۔2

اس میں شک نہیں کہ مقدس لوقا کی تصنیفات کی روشنی میں یوسیفس کی کتُب زیادہ واضح ہوجاتی ہیں اور یوسیفس کی طرز ادا اوراس کے بیان کو ہم بہتر طورپر سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس سے یہ الٹا ثابت نہیں ہوتا کہ مقدس لوقا نے یوسیفس کی کتُب کا استعمال کیا تھا ۔3

(۲)

تادمِ تحریر کوئی عالم ایسی مثال پیش نہیں کرسکا جس سے اس دعویٰ کا ثبوت قطعی طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ سکے کہ مقدس لوقا کے ماخذوں میں اس یہودی مورخ کی کتابیں شامل تھیں۔ اس کے برعکس بعض تفصیلات سے ظاہر ہوتاہے کہ دونوں مصنف نہ صرف ایک دوسرے سے بے نیاز ہیں بلکہ دونوں میں شدید اختلاف ہے۔ مثلاً تھووس کے معاملہ میں دونوں میں حددرجہ کا اختلاف ہے(اعمال ۵: ۳۶)۔ پھر مقدس لوقا لکھتاہے کہ مصری کے

______________________

1 Schrur & Salmon Hasting’s Dict, of the Bible Vol1. p.30.
2Foakes Jackson Acts (Moffiat’s Commentary)pp.XIV, XV
3Foakes Jackson $ Kirsopp Lake , Beginnings of Christianity Part1, Vol2 pp.311-312.


پیرو چار ہزار تھے(اعمال۲۱: ۳۸)۔ لیکن یوسیفس اس تعداد کوتیس ہزار بتلاتاہے۔ اور مورخین کا خیال ہے کہ مقدس لوقا کی تعداد زیادہ قرین قیاس ہے۔ ڈاکٹر سینڈےSanday کہتا ہے 1کہ دونوں مصنفوں میں جو اختلافات ہیں وہ ان کی باہمی مشابہت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔۔۔۔ اورمیں اکیلا ہی اس نتیجہ پر نہیں پہنچا۔ یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے"۔ جرمن نقاد ڈاکٹر ہارنیک بھی " کہتا ہے کہ یہ " نظریہ کہ اعمال کے مصنف نے یوسیفس کی کتابوں کو پڑھا تھا قطعی بے بنیاد ہے2"۔ یہ نظریہ ایسی بودی(کمزور) دلیل پر مبنی ہے کہ فی زمانہ مغربی ممالک کا کوئی سنجیدہ مزاج نقاد اس کا قائل نہیں رہا۔ اس دلیل میں یوسیفس کی تصنیفات کو ہم دودھاری تلوار کی طرح استعمال نہیں کرسکتے3۔ اگر الفاظ کی مشابہت کی بناء پر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ مقدس لوقا نے یہودی مورخ کی کتاب کی نقل کی ہے توجہاں دونوں مصنفوں میں حددرجہ کا اختلاف پایا جاتاہےوہاں ہم کو یہ کہنے کا مجاز نہیں کہ ان بیانوں میں یہودی مورخ کا بیان تو درست ہے لیکن مقدس لوقا کا بیان غلط ہے (لوقا۳: ۱؛ اعمال ۵: ۳۵۔ ۳۶)۔ اگر مقدس لوقا کے سامنے بزعمِ معترض یوسیفس کا صحیح بیان موجود تھا توپھر اُس نے مورخ کی کتاب سے اختلاف کیوں کیا؟ حق تو یہ ہے کہ جب موجودہ زمانہ کے نقاد دونوں مصنفوں کے مختلف بیانات کا غیر جانبدارانہ موازنہ کرتے ہیں تو وہ مقدس لوقا کے بیان کو زیادہ قرینِ قیاس اورصحیح پاتے ہیں۔ یہودی مورخ کے بیان مبالغہ اوررنگ آمیزی سے خالی نہیں۔

پس مقدس لوقا کے کتاب اعمال الرسل کو یوسیفس کی کتابوں سے پہلے لکھا تھا۔ اعمال کی کتاب کا مطالعہ یہ امر عیاں کردیتا ہے کہ مصنف نے اس مورخ کی کتُب کو پڑھا بھی نہ تھا اور غالباً اُس کے ماخذ بھی وہ نہ تھے جو یہودی مورخ کے تھے۔

(۳)

حق تو یہ ہے کہ اگر اناجیل اربعہ اوراعمال لرسل پہلی صدی کے اواخر میں لکھے جاتے توانجیلی بیانات میں اسی قسم کے خرافات (فضول بکواس)اور لغویات (بیہودہ باتیں یا اعمال)موجود ہوتیں جو اناجیل موضوعہ میں ہیں۔واقعات کے بعد عرصہ طوالت کی نسبت سے انسان کی قوتِ متخیلہ پرواز کرنے لگ جاتی ہے اورجس قدر واقعات دور ہوتے جاتے ہیں اُسی قدر رنگ آمیزی اور مبالغہ(کسی بات کو بہت بڑھا چڑھا کربیان کرنا) سے کام لیا جاتاہے۔ اگراناجیل اربعہ کے واقعات کا سینہ بسینہ روایات پر ہی انحصار ہوتا اوراگر یہ اناجیل پہلی صدی کے اواخر میں احاطہِ تحریر میں آتیں تو ان کے بیانات میں لغویات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر ہائراپولُس کے بشپ پے پئس کولیں۔اس کی کتاب کا پایہ اسلامی کتُب سیر کا سا ہے۔ جس طرح ان کتُب سیر کے مصنف جو سنتے تھے وہ بغیر جانچے پر کھے لکھ لیا کرتے تھے اسی طرح یہ بشپ اس بات کےشوقین تھے کہ وہ ہر شخص کا بیان بغیر کسی کسوٹی پر پرکھنے کے لکھ لیں۔ چنانچہ اُس نے رسولوں کی زبان کے اوران کے بعد کے آنے والے لوگوں کے اقوال کو ایک کتاب میں( ۱۰۰ء) کے قریب جمع کیا۔جس میں ہر طرح کا رطب دیا بس (نیک وبد)بھر ا ہواہے۔مثلاً وہ کہتا ہے4کہ خداوند نے سعادت کے ہزار رسالہ دور کی نسبت فرمایا ہے کہ "انگور کی پیداوار ہوگی اور ہر پودے کی دس ہزار شاخیں ہوں گی اور ہر شاخ پر دس ہزار گچھے ہوں گے اورہر گچھے میں انگور کے دس ہزار دانے ہوں گے اور ہردانہ میں اڑھائی من رس ہوگا۔ یہی حال اناج کا ہوگا۔ ہر بیج سے دس ہزار ڈنٹھل پیدا ہوں گے اور ہر ڈنٹھل پر دس ہزار بالیاں اورہر بالی میں پانچ سیر آٹا ہوگا"۔ پھر وہ

______________________

1Sanday, Inspiration pp. 278- 279
2Harnack Luke the Physician p.24 note
3Plummer, St. Luke p.XXIX
4Dr.F.Blass The Origin and Character of Our Gospels. In Exp. Times, May 1907


یہوداہ غدار کی نسبت لکھتاہے" اس کا جسم اس قدر پھول گیا تھا کہ وہ کشادہ سے کشادہ دروازے میں سے نہیں گذرسکتا تھا۔ گو اس میں سے ایک چھکڑا بآسانی نکل جاتا تھا۔اس کی آنکھیں اس قدر اندر دھس گئی تھیں کہ وہ اُن سے کچھ دیکھ نہیں سکتا تھا اورنہ کوئی ڈاکٹر کسی نالی کے ذریعہ ان کا معائنہ کرسکتا تھا"۔ اب جائے غور ہے کہ اگرایک شخص جو بشپ کے عہدہ پر فائز ہو اورجس نے انجیل اول وسوم میں غدار کی موت کا حال پڑھا ہو، اس قدر زود اعتقاد ہوسکتا ہے کہ وہ اس قسم کے خرافات کو تسلیم کرکے حوالہ قلم کرے۔تواگریہ اناجیل بھی( ۱۰۰ء) کے قریب لکھی جاتیں تو ان میں لغو قصص اورکہانیاں ضرور موجود ہوتیں۔ لیکن اناجیل اربعہ اوراعمال الرسل ہر قسم کی لغویات سے کلیتہً پاک ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ جو واقعات اُن میں درج ہیں وہ نہ صرف چشم دید گواہوں کے بیانات ہیں بلکہ یہ بیانات واقعات کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی تحریر میں آگئے تھے۔

یہاں یہ بتلادینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ بشپ پے پئس قدیم ترین مصنف ہے اور گوجیسا مورخ یوسی بیئس اس کی نسبت کہتاہے ۔ کہ وہ کوتاہ عقل (کم عقل)تھا اور زوداعتقاد(جلد ایمان لانے والا) ہونے کی وجہ سے ہر عیار اورفریبی کی باتوں میں آجاتا تھا ۔تاہم اس کی کتاب میں ایسے بیانات بھی پائے جاتے ہیں جو سچائی کے معیار پر پورے اترتے ہیں اوریہی وجہ ہے کی یوسی بئیس جیسے محتاط مورخ نے ان کوتسلیم کیاہے۔ان بیانات کو ہم اس رسالہ میں نقل کر آئے ہیں۔

اس تمام بحث کا محاصل (نتیجہ، پھل)یہ ہے:۔

اعمال کی کتاب نہ تو دوسری صدی کے اوائل میں لکھی گئی اورنہ یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) کے بعد لکھی گئی ۔ بلکہ پہلی صدی کے دوسرے نصف کے اوائل میں( ۶۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی۔ کیونکہ (۱) اس میں آخری واقعہ جو درج ہے وہ پولُس رسول کی پہلی قید سےمتعلق ہے۔(۲) اس کا مصنف اس امر سے بے خبر ہے کہ جواپیل مقدس رسول نے قیصر کے ہاں کی تھی اس کا کیا حشر ہوا۔(۳) اس میں سیدنا مسیح کے بھائی مقدس یعقوب کی شہادت کا (جو ۶۲ء میں واقع ہوئی )ذکر نہیں ملتا۔ (۴) اس میں مقدس پطرس اور پولُس کی شہادتوں کا (۶۴ء)اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔(۵) اس میں نیرو کی ایذارسانی (۶۴ء) کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ (۶) اس کتاب میں امید افزا حالات کی جھلک ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اگریہ کتاب ۸۵ء کے قریب لکھی جاتی تو اس کا لب ولہجہ مکاشفات کی کتاب کا سا ہوتا۔ (۷) اس میں مقدس پولُس کے خطوط کی نسبت ایک لفظ بھی نہیں ملتا جس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ مقدس لوقا رسولِ مقبول کے تادم مرگ ساتھی اوررفیق کار تھے۔ اگر یہ کتاب( ۸۵ء )میں لکھی جاتی تو رسول شہید کے خطوط کا ذکر ہوتا اوران کی روشنی میں بعض واقعات (اعمال۹: ۱۹۔ ۳۰ وغیرہ) لکھے جاتے۔ (۸) اس میں ابتدائی قسم کے مسیحی معتقدات پائے جاتے ہیں۔ (۹) اس میں یروشلیم کی تباہی اوراہل ِیہود کی پراگندگی کا ذکر تک نہیں ۔(۱۰) اس کتاب کے ہیرو، ایکٹر اوراداکار سب کے سب ایسی فضا میں سانس لیتے اور چلتے پھرتے ہیں جو مسیحیت کے اولین دور سے متعلق ہے۔ ان وجوہ کے باعث ہم اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ رسولوں کےاعمال کی کتاب( ۶۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی ۔


باب دوم

تاریخِ تصنیفِ انجیلِ لُوقا

ہم نے گذشتہ باب میں شرح وبسط کے ساتھ کتاب اعمال الرسل کی تاریخِ تصنیف پر مفصل بحث کی ہے۔کیونکہ اس کتاب کے زمانہء تصنیف کے تعین پر انجیلِ لوقا کی تاریخ تصنیف کا دارومدار ہے۔ چنانچہ اس کے دیباچہ میں مقدس لوقا لکھتاہے " اے تھیوفلس میں نے پہلا رسالہ (یعنی انجیل ) ان سب باتوں کے بیا ن میں تصنیف کیا جو یسوع (عیسیٰ) شروع میں کرتا اور سکھاتا رہا"۔(لوقا ۱: ۱) پس انجیل سوم پہلا رسالہ ہے اوراعمال کی کتاب دوسرا رسالہ ہے جو انجیل کے بعد لکھا گیا تھا۔ اگریہ دوسرا رسالہ( ۸۰ء یا ۸۵ء یا ۱۰۰ء )کے قریب لکھا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ انجیلِ سوم بھی اس سے پانچ دس سال پہلے لکھی گئی ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ بعض علماء اس انجیل کے زمانہ تصنیف کے لئے( ۷۰ء یا ۸۰ء )کا زمانہ تجویز کرتے ہیں1۔ لیکن اگرہمارے نتائج (جن پر ہم پچھلے باب میں پہنچے ہیں) درست ہیں اوراعمال کی کتاب فی الحقیقت( ۶۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی توانجیل سوم کازمانہ تصنیف اس سے چند سال پہلے کا ہوگا۔ انشاء اللہ اس باب میں ہم یہ ثابت کردیں گے کہ انجیلِ لوقا( ۵۷ء) سے پہلے منجی عالمین کی صلیبی موت کے صرف قریباً پچیس (۲۵)سال بعد لکھی گئی تھی۔

فصل اوّل

مخالف علماء کے دلائل پر تنقید

اس فصل میں ہم پہلے ان علماء کے دلائل کا موزانہ کریں گے جن کا یہ نظریہ ہے کہ انجیل لوقا( ۸۰ء) کے قریب لکھی گئی ۔2

(۱)

ان علماء کا یہ قول ہے کہ یہ انجیل یروشلیم کی تباہی کے بعد احاطہِ تحریر میں آئی ان کی مضبوط ترین دلیل یہ ہے کہ جن الفاظ میں مقدس لوقا یروشلیم کے برباد ہونے کی پیشین گوئی کا ذکر کرتے ہیں اُن سے یہ ثابت ہوتاہے ، کہ شہر یروشلیم اس کتاب کی تصنیف سے بہت پہلے برباد ہوچکا تھا۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ جب ہم انجیل سوم کی پیشین گوئی کے الفاظ کا دیگر اناجیل کے الفاظ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں (لوقا ۲۱: ۲۰۔ ۲۳؛ مرقس ۱۳: ۱۴۔ ۲۸؛ متی ۲۴: ۱۵۔ ۲۲) ۔ توتینوں کے بیانات کے الفاظ میں ہم کو فرق نظر آتاہے ۔ مثلاً مقدس لوقا انجیلِ اوّل کے الفاظ" پڑھنے والا سمجھ لے" (متی ۲۴: ۱۵)۔ نہیں لکھتا اورالفاظ " پس جب تم اس اُجاڑنے والی مکرہ چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا گھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اس کا اجُڑ جانا نزدیک ہے(لوقا ۲۱: ۲۰)۔ اور تفصیلات دیتاہے کہ " وہ تلوار کا لقمہ ہوجائیں گے اوراسیر ہوکر سب قوموں میں پہنچائے جائیں گے۔ اورجب تک غیر اقوام کی معیاد پوری نہ ہو، یروشلیم غیر قوموں سے پامال ہوتی رہے گی"(آیت ۲۴)۔ پھر آگے چل کر نشانوں کے ظہور کی نسبت بتلاتاہے لیکن انجیلِ

______________________

1Grieve, Peake’s Commentary p 724
2 Bishop Gore’s Commentary p.209. and Adeney St. Luke (Century Bible )p.44


اوّل کے الفاظ" اور فوراً اُن دنوں کی مصیبت کے بعد"(متی ۲۴: ۲۹) کوقلم انداز کردیتاہے۔ علاوہ ازیں مقدس (لوقا ۱۹: ۴۳ )میں پیشینگوئی کی تفصیلات بتلاتاہے۔ "کیونکہ وہ دن تجھ پر آئینگے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے۔ اورہر طرف سے تنگ کرینگے اورتجھ کو اورتیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پردے پٹکیں گے ۔ اورتجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑینگے"۔

یہ علماء کہتے ہیں کہ اس قسم کے تفصیلی الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ انجیلِ سوم کی تصنیف سے پہلے یروشلیم تباہ ہوچکا تھا اور مقدس لوقا سیدنا مسیح کی زبانی وہ باتیں کہلواتا ہے جو رومی افواج نے دراصل ۷۰ء میں یروشلیم کو تباہ کرتے وقت اختیار کی تھیں۔ بالفاظ دیگر وہ مابعد کے واقعات کی روشنی میں سیدنا مسیح کی پیشین گوئی کی تشریح کرکے کہتاہے کہ مقدس متی کے الفاظ اس اجاڑنے والی مکروہ چیز ۔۔۔۔ کھڑا دیکھو)سے منجی عالمین کا یہ مطلب تھاکہ " جب تم یروشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو" اور وہ باتیں بتلاتاہے جو رومی افواج نے یروشلیم کے محاصرہ کےوقت کی تھیں (اعمال۱۹: ۴۳)۔

ناظرین کو یاد ہوگا کہ ہم فصلِ اوّل میں یہ دلیل دے چکے ہیں کہ کتاب رسولوں کے اعمال میں یروشلیم کی تباہی اورقوم یہود کی پراگندگی کا اشارہ تک موجود نہیں لہٰذا یہ کتاب اس واقعہ (۷۰ء) سے بہت پہلے احاطہ تحریر میں آچکی تھی۔ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مقدس لوقا اپنی انجیل میں یرشلیم اوراہلِ یہود کی بربادی کا منظر بیان کرتاہے توہمارا دعویٰ غلط ہوگا۔ پس ہم اس دلیل پر ہر پہلو سے غور کرکے انشاء اللہ یہ ثابت کردیں گے کہ مقدس لوقا سیدنا مسیح کی پیشین گوئی کی مابعد کے واقعات کی روشنی میں تشریح نہیں کرتے:۔

(۱۔) پہلی تینوں اناجیل اس ایک بات پر متفق ہیں کہ سیدنا مسیح کی زبانِ مبارک نے یروشلیم کی بربادی کی پیشین گوئی فرما کر کہا تھا کہ موجودہ نسل کے ہوتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعہ رونما ہوگا۔تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ تمام مسیحی ایمان داروں کو اس بات کا پکا یقین تھاکہ شہر یروشلیم تباہ ہوجائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس لوقا کی انجیل لکھے جانے سے پہلے ہی سب ایماندار سیدنا مسیح کی پیشینگوئی کے الفاظ کا یہی مطلب سمجھتے تھے کہ یروشلیم تباہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ مقدس پولُس فرماتاہے" یہودیوں نے سیدنا مسیح اورنبیوں کو بھی مار ڈالا اورہم کو ستا ستاکر نکال دیا۔وہ ہمیں غیر قوموں کو اُن کی نجات کے لئے کلام سنانے سے منع کرتے ہیں تاکہ ان کے گناہوں کا پیمانہ ہمیشہ بھرتا رہاہے۔ لیکن ان پر انتہا کا غضب آگیا"۔ (۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۱۶، نیز دیکھو رومیوں ۱۱: ۲۵)۔یہ الفاظ مقدس لوقا کی انجیل کے الفاظ (لوقا۲۱: ۲۲۔ ۲۳) کی صدائے بازگشت ہیں اور( ۴۹ء )میں یعنی یروشلیم کی تباہی سے اکیس(۲۱) سال پہلے لکھے گئے تھے۔ پس مسیح ایمان داروں کو کسی ایسی تشریح کی ضرورت نہیں تھی جو( ۷۰ء) کے واقعہ کی روشنی میں لکھی جاتی ۔

تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ جب یروشلیم تباہ ہونے کے قریب ہوا تو تمام مسیحی حکمِ خداوندی کے مطابق(لوقا۲۰: ۲۱)۔ شہر یروشلیم کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بعض نے پہاڑوں میں جاکر پناہ لی اورباقی یردن پر شہر پیلؔا میں جابسے۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ یروشلیم کی تباہی سے پہلے انجیل لوقا اُن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی اورایمانداروں نے سیدنا مسیح کے حکم کے مطابق سب کچھ کیا۔ اس موقعہ پر بے شمار یہود جو دیہات میں رہتے تھے بھا گ کر یروشلیم میں پناہ گزین ہوگئے جہاں اُن کی آمد کے سبب قحط پڑگیا 1اور اہالیان یروشلیم کا حال بد سے بدتر ہوگیا۔

یہ دونوں تاریخی واقعات ثابت کردیتے ہیں کہ مقدس لوقا کے الفاظ" جب تم یروشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو توجان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے"۔(۷۰ء )کے واقعات کی روشنی میں قلمبند نہیں کئے گئے تھے بلکہ مسیحی ایماندار واقعہ تباہی سے پہلے ہی اس بات سے واقف تھے کہ یروشلیم

______________________

1 Eusebius Ecclesiastical History 3.C.5


کس طرح تباہ کیا جائے گا۔ اورجب وہ نشان ظاہر ہوئے تو اُنہوں نے ارشادِ خداوندی کے مطابق عمل کیا۔پس انجیل لوقا یروشلیم کی تباہی سے پہلے احاطہ تحریر میں آچکی تھی۔اگر مقدس لوقا نے بربادی کے واقعہ کے بعد لکھا ہوتا تو جن پہاڑوں میں مسیحی بھا گ گئے تھے ، اُن کا نام دیا ہوتا اور شہر پیلؔا کا بھی ذکر انجیل کی ان آیات میں1ملتا ۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ اس مقام میں سیدنا مسیح کی آگاہی کے الفاظ کو واقعات کے مطابق تبدیل نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہے کہ پیشین گوئی کے الفاظ واقعہ بربادی( ۷۰ء )سے بہت پہلے لکھے گئے تھے۔

(۲۔) پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ مقدس لوُقا نے سیدنا مسیح کی پیشین گوئی کے الفاظ کو (جو مرقس ۱۳: ۱۴ میں اس کے سامنے تھے) کیوں بدل کر(لوقا ۲۱: ۲۰) کے الفاظ لکھ دئیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مقدس لوقا نے اپنی انجیل اُن مسیحیوں کو تعلیم دینے کی خاطر لکھی تھی جو غیر یہود سے منجی عالمین کے قدموں میں آئے تھے(اعمال۱: ۱۔ ۴) غیر یہود عبرانی محاورات اوریہودی مسائل معاد(آخرت، قیامت) کی زبان سے قطعی ناآشنا تھے۔ پس وہ (مرقس ۱۳: ۱۴ )کے الفاظ " جب تم اس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو اس جگہ کھڑا ہوا دیکھو جہاں اُس کا کھڑا ہونا روا نہیں(پڑھنے والا سمجھ لے ) اُس وقت ۔۔۔۔ الخ" کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ لہٰذا مقدس لوقا کے ان الفاظ کا ترجمہ عام فہم الفاظ میں کردیا اور لکھا " جب تم یروشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو" ۔ یہ عام فہم ترجمہ ثابت نہیں کرتا کہ مقدس لوقا نے یہ الفاظ تباہی کے واقعہ کے بعد لکھے تھے۔

(۳۔) مقدس لوقا کے تفصیلی الفاظ(لوقا۱۹: ۴۳۔ ۴۴) سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ یروشلیم کی بربادی کے واقعہ کی روشنی میں لکھے گئے تھے ۔ پہلی نصف صدی (جیسا ہم گذشتہ باب بتلاچکے ہیں)ایک نہایت ہی پر آشوب زمانہ(فتنہ فساد کا وقت) تھا۔ جس میں یہودی مورخ یوسیفس کے مطابق جنگ وجدل ہر سو ہوا کرتے تھے ۔ مقدس لوقا اُس سلوک سے بخوبی واقف تھے جو فاتح بالعموم مفتوح(جس پر فتح حاصل کی گئی ہو) کے ساتھ کیا کرتے تھے اورجس کا ذکر ان دوآیات میں کیا گیاہے۔ یروشلیم کا شہر( ۷۰ء) میں پہلی دفعہ برباد نہیں ہوا تھا بلکہ سنِ عیسوی سے قبل ڈیڑھ سو (۱۵۰) سال کے عرصہ میں یہ شہر دو دفعہ تاراج (برباد)ہوچکا تھا۔ دونوں موقعوں پر ہیکل کی بے حرمتی کی گئی تھی اورباشندوں کو قتل اور غارت اوربے انتہا مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انئی اوکس ایپی فینیزAntiochus Epiphanes نے تمام پچھلے ریکارڈ مات کرکے یروشلیم کو تہ وبالا کردیا تھا۔ پس مقدس لوقا جیسا فہم مورخ فاتحین کے سلوک سے بخوبی واقف تھا اورجانتا تھا کہ جب سیدنا مسیح کے ارشاد کے موافق شہر تباہ ہوگا تو " دشمن اس کے گرد مورچہ باندھ کر گھیرڈا لیں گے اورہر طرف سے تنگ کریں گے اوراہالیان یروشلیم کو قتل کریں گے اوربچوں کو زمین پر دے پٹکیں گے۔ اوریروشلیم میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑیں گے۔ اہلِ یہود تلوار کا لقمہ ہوجائیں گے اور اسیر ہوکر سب قوموں میں پہنچائے جائیں گے اوریروشلیم غیر قوموں سے پامال ہوگی"(لوقا۱۹: ۴۳۔ ۴۴؛ ۲۱: ۲۰۔ ۲۴)۔ بفرضِ محال اگر مقدس لوقا دشمن کے سلوک سے واقف نہ بھی ہوتے تو بھی اہلِ یہود کی کتُب (جن سے وہ کماحقہ بمعنی ’’جیسا اُس کا حق ہے، بخوبی‘‘واقف تھے) اُن کو بتلادیتیں کہ یہ سلوک کس قسم کا ہوگا۔ کیونکہ ان تمام تفصیلات کا ذکر ان میں موجود ہے(یرمیاہ ۲۰: ۴؛ استثنا ۲۸: ۶۴؛ ۱۔سلاطین ۸: ۴۶؛ یسعیاہ ۵: ۵؛ ۶۳: ۱۸ ؛دانی ایل ۸: ۱۳؛ زکریاہ ۱۲: ۳؛ ۱۔مکابین۴: ۶۰؛ یسعیاہ ۲۹: ۳؛ ۳۷: ۳۳؛ یرمیاہ ۶: ۶ ؛حزقی ایل ۴: ۲؛ زبور ۱۳۷: ۹؛ ہوسیع ۱۳: ۱۶ وغیرہ۔

______________________

1Ibid, 3,5,8


اس پیشینگوئی کے تمام تفصیلی الفاظ (جو اس انجیل کے یونانی متن میں ہیں ) یہودی کتُب مقدسہ کے یونانی ترجمہ سبعینہ (سپٹواجنٹ) میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ یونانی الفاظ (جو پہلی تینوں اناجیل میں موجود ہیں)صرف اسی مقام سے مخصوص ہیں اورعہدِ جدید میں کسی دوسری جگہ نہیں پائے جاتے 1

ہاں ۔ اگر کوئی شخص سرے سے اس بات کا انکار کردے اورکہے کہ آنخداوند میں معمولی فراست (سمجھ داری، دانائی)بھی نہیں تھی اور وہ یروشلیم کی بربادی کی پیش خبری دے سکتے تھے تو یہ اوربات ہے۔ ایسے اصحاب کی تسلی کے لئے ہم ایک اور تواریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جن سے اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ آنخداوند نے یروشلیم کی تباہی کی پیش خبری دی تھی۔اٹلی کا سیونیروالاSavanarola ایک مشہور مصلح (اصلاح کرنے والا) گزرا ہے۔ اس نے( ۱۴۹۶ء )میں شہر روم کی تسخیر اور لوٹ مار کی پیشین گوئی جواگلے سال( ۱۴۹۷ء) میں چھپ کر شائع ہوگئی ۔ جس میں اس نے دیگر تفاصیل میں یہ بھی نبو ت کی تھی کہ گرجا گھر اصطبل (جانوروں کے باندھنے کی جگہ)بنائے جائیں گے۔ یہ پیشین گوئی( ۱۵۲۷ء) میں پوری ہوئی۔ناظرین کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ یروشلیم کی تباہی( ۷۰ء) سے پہلے واقع ہوچکی تھی اور اہل یہود دشمنوں کے سلوک سے جوانہوں نے ان کےشہر مقدس سے کیا واقف تھے اور قوتِ متخیلہ اس تباہی اس تباہی کی تفصیلوں سے کام لے سکتی تھی، لیکن شہر روم کےساتھ اس قسم کا موقعہ پہلے کبھی ہوا ہی نہ تھا اورنہ( ۱۴۶۹ء) میں کسی کے وہم وگمان میں آسکتا تھا کہ شہر روم کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا۔جیسا فرانس کی افواج نے چارلس ہشتم کے زمانہ میں روم کے ساتھ روا رکھا ۔2

(۴۔) اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہے کہ سیدنا مسیح کی یہ پیشن گوئی کس طرح پوری ہوئی تو وہ یہودی مورخ یوسیفس کی کتُب کا مطالعہ کرے۔ یہ کتُب اس کی بہترین تفسیر اور توضیح کرتی ہیں۔ اگر مقدس لوقا یہودی مورخ کی طرح یروشلیم کی بربادی کے بعد لکھتا تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اس امر کا نہایت تفصیلی طورپر ذکر کرتا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ صرف چار پانچ آیات میں دشمن کےسلوک کا مجمل طورپر ذکر کرتاہے ۔ جس سے ظاہر ہوجاتاہے کہ مقدس لوقا نے یہ باتیں بربادی کےو اقعہ کے بعد نہیں لکھیں۔

یہ امر اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مقدس لوقا نے (جیسا ہم اوپر کہہ چکے ہیں) یہودی مورخ کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اگر اس کی کتُب آپ کی انجیل کا ماخذ ہوتیں تو آپ ان سے ان تفاصیل کو اخذ کرتے (بالخصوص ہیکل کے نذرِ آتش ہونے کے واقعہ کو) جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سیدنا مسیح کی پیشین گوئی نہایت شاندار طریقہ سے پوری ہوئی۔اس کے برعکس وہ آیہ زیرِ بحث میں (اعمال ۲۱: ۲۰) انجیلِ اول کے الفاظ" مقدس مقام" اورانجیل دوم کے الفاظ" اس جگہ جہاں اس کا کھڑا ہونا روا نہیں"(متی ۲۴: ۱۵؛ مرقس ۱۳: ۱۴)چھوڑ جاتے ہیں اورہیکل کے آگ لگنے کے واقعہ کو بالکل نظرانداز کردیتے ہیں ۔

ہم نے ان علماءکی دلیل کی قدرے تفصیل کے ساتھ تنقیح وتنقید (تحقیق)کی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس یہی مضبوط ترین دلیل ہے جو ہمارے دعویٰ کو کہ اعمال کی کتاب( ۶۰ء )اور مقدس لوقا کی انجیل(۵۷ء )کے قریب لکھی گئی غلط ثابت کرسکتی ہے۔ یہ دلیل درحقیقت اس قدر کمزور ہے کہ ب

______________________

1P.N.F.Young, The College St. Luke,p.344
2Dr.F.Blass, The Origin & Character of our Gospels. Exp. Times , May 1907. See also J.M.Creed, The Gospel according to St.Luke,(1930 p.XXIII)


بشپ گور جیسا محتاط نقاد بھی کہتا ہے1کہ " اعمال کی کتاب کے ان مقامات (اعمال ۲۱: ۲۰؛ ۱۹: ۴۳۔ ۴۴) سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ مقدس لوقا نے اپنی تصنیفات کو( ۷۰ء) سے پہلے نہیں لکھا تھا"۔ بشپ لائٹ فٹ بھی کہتے ہیں کہ " میرے خیال میں یہ دلیل کمزور ہے" 2

ان ہر دوعلماء کا یہ فیصلہ ہمارے نتیجہ کے لئے نہایت زوردار ہے کیونکہ دونوں عالموں کا یہ یقین ہے کہ اعمال کی کتاب اورانجیلِ سوم یروشلیم کی تباہی کے بعد لکھی گئی تھیں۔

(۲)

جو علماء مقدس لوقا کی انجیل کے لئے( ۷۰ء تا ۸۰ء) کا زمانہ تجویز کرتے ہیں اُن کی ایک اوردلیل یہ ہے کہ مقدس لوقا اپنی انجیل کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ۔ " چونکہ بہتوں نے اس پر کمرباندھی ہے کہ جوباتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں۔۔۔۔۔ میں نے بھی مناسب جاناکہ ان کو ترتیب سے لکھوں"(لوقا ۱: ۱۔ ۴)۔ یہ علماء کہتے ہیں کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ متعدد لوگوں نے منجی عالمین کے حالات وتعلیمات کو قلمبند کیا تھا اور یہ رسالے مختلف مقامات کی مسیحی کلیسیاؤں میں رواج پاچکے تھے ۔ یہ رسالے مقدس لوقا کے ماخذوں میں سے بھی تھے۔ ان رسالوں کے مصنفوں او رمولفوں کے لئے سیدنا مسیح کی زندگی کے واقعات کی کھوج لگاکر اپنا مسالہ تیارکرنے ، ان کو ترتیب دے کر لکھنے ، اورپھر ان رسالوں کے مروج ہونے کے لئے ایک اچھی خاصی مدت چاہیے جو کم از کم نصف صدی کی ہو3

(۱۔) لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ضرور ہے کہ ان رسالوں کے مسالہ کے جمع کرنے اور ان کی تصنیف وتالیف اوررواج کےلئے نصف صدی کا طویل عرصہ متعین کیا جائے؟ کیا اس غرض کے لئے ایک پوری پشت اور ربع صدی(سوسال کا چوتھا حصہ) کا عرصہ کافی نہیں ہے؟ اس دلیل کے پیش کرنے والے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ابتدائی کلیسیا میں تین تاریخیں4یادگار تاریخیں شمار کی جاتی تھیں۔ اوّل (۳۰ء )جب آنخداوند مصلوب ہوئے پھر " بارہ (۱۲)سال بعد" اگرپا کی ایذارسانی جس کی وجہ سے دوازدہ رسو ل منتشر ہوگئے (۴۲ء) اورپھر پچیس (۲۵)برس بعد پطرس رسول کی شہادت (۶۷ء)۔ اس کے بعد ایک نیا دَور شروع ہوتاہے ۔ جب قدیم مسیحی کلیسیا کے خیال کے مطابق " شروع سے خود دیکھنے والوں اورکلام کے خادموں" کا زمانہ ختم ہو گیا تھا۔ انجیل کا سطحی مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتا ہے کہ یہ اس زمانہ میں نہیں لکھی گئی تھی جب ان چشم دید گواہوں کا زمانہ ختم ہوگیا تھا۔ بلکہ اس انجیل کی پہلی آیت کے الفاظ" ہمارے درمیان" ثابت کرتے ہیں کہ جو باتیں اس انجیل میں لکھی گئیں ، ان کے وقوع میں اور وقتِ تصنیف میں ستر اسی سال کا وقفہ نہیں تھا ۔ ستّر اسّی سال کی پُرانی باتوں کو " ہمارے درمیان" کی" باتیں " نہیں کہا جاسکتا ۔

علاوہ ازیں اہلِ یہود کا ہر بالغ لکھا پڑھا ہوتا تھا۔ لیکن یہ علماء یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سیدنا مسیح کے کلماتِ ہدایات آیات نہ تو حضرت کلمتہ اللہ کی حینِ حیات میں اورنہ آپ کی صلیبی موت کے تیس (۳۰)سال بعد تک احاطہِ تحریر میں آئے اورکہ سیدنا مسیح کے مقدس رسولوں اور شاگردوں نے ایمانداروں کی لکھی پڑھی جماعتوں کو صرف زبانی تعلیم دی تھی جنہوں نے اس تعلیم کوسینہ بسینہ کم از کم دوپشتوں تک دوسروں تک پہنچایا۔

______________________

1Gore’s New Commentary on N.T. p.234 Col a
2J.B.Lightfoot, Smith’s Dict of the Bible Vol1.Part1.p.40,Col.b
3Sanday,Inspiration pp.278-80
4B.W.Bacon, “Their Growth and Conflict” in Outline of Christianity by Peake & Parsons Vol1.p.281.


ایک حد تک تو یہ درست ہے کہ منجی عالمین نے اپنے بعد اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی کتاب نہ چھوڑی اورآپ کے بعد کچھ عرصہ تک رسول جا بجا آپ کی جانفزا(دل خوش کرنے والا) تعلیم اور نجات کی بشارت ، ایمان داروں کو زبانی دیتے رہے۔ ہم نے اس رسالہ کے حصہ اول میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے۔ پس ہم یہاں اس کا اعادہ(دوہرانا) ضروری نہیں سمجھتے۔ یہاں یہ کہنا کافی ہے کہ گو رسولوں نے اوراُن کے سامعین نے بھی دوسروں تک مسیحی نجات کا پیغام سینہ بسینہ ضرور پہنچایا تھا ۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی رسول یا ایماندار نے سیدنا مسیح کی حینِ حیات میں آپ کے کلماتِ طیبات کو کبھی قلمبند ہی نہیں کیا تھا اور سالہاسال تک مسیحی روایات صرف سینہ بسینہ ہی چلی آئیں۔ کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ اگرچہ مسیحی کلیسیا کے یہود وغیر یہود سب لکھے پڑھے اورخواندہ ممبر تھے۔ لیکن ایک پشت کے گزرنے پر یکایک متعدد ایمان داروں کو خیال آیا کہ منجی جہان کی زندگی اور موت اور ظفریاب قیامت کے واقعات کو قلمبند کرنا شروع کردیں۔ اورانہوں نے چھوٹے چھوٹے مختصر رسالے لکھے جو مختلف کلیسیاؤں میں مروج ہوگئے اورچالیس پچاس سال بعد جاکر اِن رسالوں سے موجودہ اناجیل اربعہ مرتب کی گئیں؟ اناجیل کے ماخذوں کی بحث میں ہم نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ تمام مضحکہ خیز مفروضات از سر تاپا غلط ہیں۔

یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ خود انجیل جلیل کا مجموعہ اس امر کا گواہ ہے کہ سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے بعد پہلے چالیس(۴۰) سال میں کلیسیا نے ایسا لٹریچر پیدا کردیا جس کا ثانی روئے زمین کے علمِ ادب کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اُس وقت کے لکھے ہوئے مکتوبات وغیرہ قیامت تک لوگوں کے دلوں کو اپنی مقناطیسی کشش سے کھینچتے رہیں گے۔ انجیلی مجموعہ کی کتُب سے ثابت ہے کہ مسیحی علم وادب پہلی پُشت میں ہی بلوغت کے زمانہ کو پہنچ چکا تھا۔ کیونکہ تھسلنیکیوں کے خط، کرنتھیوں کے خط ،گلتیوں کا خط ، رومیوں کا خط( ۴۹ء اور ۵۴ء )کے درمیان یعنی سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے بعد پہلے چالیس(۴۰) سال ایسے نہ تھے کہ ان میں کسی نے ایک سطر بھی نہ لکھی ہو اور سیدنا مسیح کے کلماتِ طیبات معجزات بینات اور مقدس حالات قطعی(یقینی) قلمبند نہ کئے گئے ہوں ۔

ایک اور امر قابلِ غور ہے۔ انجیلی مجموعہ کے خطوط میں سیدنا مسیح کی زندگی کے واقعات اورآپ کے کلماتِ ہدایت آیات کا صرف کہیں کہیں ذکر آتا ہے۔ یہ خطوط زیادہ تر پندونصائح (نصیحت)پر اور سیدنا مسیح کی ذات، الوہیت اور شخصیت کے مسائل پر اورکلیسیاؤں کی تنظیم اوراُن کی مقامی مشکلات کے حل پر ہی مشتمل ہیں۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ نومریدوں کو سیدنا مسیح کی ذات اور شخصیت کی نسبت تو تعلیم دی جائے لیکن جس بات پر تمام مسائل کا دارومدار ہے یعنی مسیح کی زندگی اور تعلیم اس کا ذکر ہی نہ کیا جائے ؟ یہ خاموشی صرف پولُس رسول ہی اختیار نہیں کرتے بلکہ مقدس پطرس ،مقدس یوحنا، مقدس یعقوب ،عبرانیوں کے خط کا مصنف اوررسولوں کے اعمال کا مولف سب کے سب بلااستثنا خاموش ہیں۔ پس یہ خاموشی نہایت معنی خیز ہے ۔ جس سے ہم صرف یہی نتیجہ مستنبط(چُناگیا) کرسکتے ہیں کہ ان خطوط کے لکھے جانے کے وقت کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں ایسے چھوٹے چھوٹے مختصر رسالے موجود تھے جن میں کلمتہ اللہ کی تعلیم یا آپ کے سوانحِ حیات یا دونوں درج تھے اورچونکہ یہ کلیسیائیں زبانی تعلیم اورتحریری رسالوں کے رواج کے سبب آنخداوند کی تعلیم اور زندگی سے واقف تھیں، لہٰذا انجیلی مجموعہ کے مذکورہ بالا مصنف اپنے خطوط اورتحریرات میں ان کے ذکر کا دہرانا ضروری خیال نہیں کرتے ۔ چنانچہ عبرانیوں کے خط کا مصنف اپنے مخاطبوں کو کہتاہے۔" وقت کے خیال سے تو تم کو استاد ہونا چاہیے تھا۔ مگر اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم کو اس بات کی حاجت ہے ، کہ کوئی شخص خدا کے کلام کے ابتدائی اصول اورکلمات کے عناصر یا استفسارات(دریافت کرنا، پوچھنا) تمہیں پھر سکھائے ۔ سخت غذا کی جگہ تم کو دودھ پینے کی پھر حاجت پڑگئی۔ پس آؤ ہم مسیح کی تعلیم کی ابتدائی باتیں چھوڑ کر کمال کی طرف قدم بڑھائیں " (عبرانیوں ۵: ۱۲۔ ۱۴)۔


اگر ہم ان حالات کا مقابلہ موجودہ زمانہ کے تبلیغی کام سے کریں تویہ امر اور بھی واضح ہوجائے گا ۔ جو مسیحی اُستادگاؤں کی ناخواندہ کلیسیاؤں میں کام کرتے ہیں۔ وہ ان کو صرف سیدنا مسیح کے سوانحِ حیات ، معجزات اور تعلیمات کی نسبت ہی تعلیم دیتے ہیں تاکہ یہ ابتدائی باتیں ان کلیسیاؤں کے (جو اُن سے عموماً ناواقف ہوتی ہیں)ذہن نشین ہوجائیں۔ لیکن وہ اُن کے سامنے سیدنا مسیح کی ذات، الوہیت یا شخصیت پر بحث نہیں کرتے اورنہ اُن کے روبرو مسیحی عقائد کے فلسفیانہ پہلوؤں کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ کیونکہ بقولِ مصنف عبرانیاں " دودھ پینے والے کو راستبازی کے کلام کا تجربہ نہیں ہوتا۔اس لئے کہ وہ بچہ ہے اور سخت غذا پوری عمر والے کے لئے ہوتی ہے"(عبرانیوں ۵: ۱۳)۔ اس کے برعکس جو مبلغ شہروں کی خواندہ کلیسیاؤں میں کام کرتے ہیں وہ اپنی جماعتوں کے سامنے بالعموم مسیحیت کے عقائد پر ہی بحث کیا کرتے ہیں ۔ لیکن سیدنا مسیح کے سوانح حیات کا کبھی کبھار ذکر کرتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ گاؤں کی کلیسیائیں ناخواندہ ہونے کے باعث اناجیل کے مطالعہ سے محروم ہیں اور وہ صرف ابتدائی باتوں ہی کو اپنے دماغ میں جگہ دے سکتی ہیں ۔ لیکن شہروں کی کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں اناجیل موجود ہیں جن کو پڑھ کر وہ ابتدائی امور سے واقف ہوتی ہیں۔پس ان کے سامنے عموماً مسیحیت کے عقائد اور فلفسیانہ پہلوؤں پر بحث کی جاتی ہے۔

پس قیاس یہی چاہتاہے کہ جب مقدس پولُس نے یادیگر رسولوں ، استادوں اور بزرگوں نے اپنے خطوط اورتحریرات کو مختلف کلیسیاؤں کے ایمان کی استقامت (قیام)کی خاطر لکھا تھا اُس زمانہ میں (جیسا ہم حصہ اوّل میں ثابت کرچکے ہیں ) کلیسیاؤں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مختصر رسالے مروج تھے ، جن میں سے کسی میں کلمتہ اللہ کی تعلیم کا۔کسی میں آپ کے معجزاتِ بینات کا ، کسی میں نبوتوں کے پورا ہونے کا اور کسی میں آپ کے سوانحِ حیات کا ذکر تھا(لوقا۱: ۱)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منجی عالمین کی صلیبی موت کے بیس(۲۰) سال کے اندر اس قسم کے رسالے مختلف کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں موجود تھے اور رواج پاکر اناجیل کے ماخذ بھی بن چکے تھے۔

پس ظاہر ہے کہ وہ علماء غلطی پر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے رسالے نصف صدی تک کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں نہیں تھے اور اس دعویٰ کی بنیاد پر مقدس لوقا کی انجیل کی تصنیف کے لئے( ۷۰ء یا ۸۰ء )کا دُور دراز زمانہ تجویز کرتے ہیں۔

فصل دوم

مسیحی اصطلاحات اورانجیلِ لوقا

ہم نے گذشتہ باب میں اعمال کے سنِ تصنیف کو مقرر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی دی تھی کہ اس کتاب میں آنخداوند کے لئے اصطلاحی القاب استعمال نہیں ہوئے۔ یہی حال مقدس لوقا کی انجیل کا ہے۔ اس انجیل میں آنخداوند کی ذات کی نسبت کوئی نظریہ قائم نہیں کیا گیا بلکہ اس معاملہ میں مقدس لوقا کے وہی تصورات ہیں جو آپ کے ماخذوں میں پائے جاتے ہیں1۔ اوران سے آگے انجیل کا مصنف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا۔ اس میں

______________________

1Prof.J.M Creed, The Gospel according to St. Luke (1930) pp.LXXII-V


بنیادی تصور یہی ہے کہ یسوع ناصری ہی مسیح موعود ہے۔ عہدِ عتیق کی کتُب میں مسیح موعود کا خدا کے ساتھ بیٹے کاتعلق ہے۔ پس اناجیل متفقہ میں بعض اوقات یہ دونوں اصطلاحیں" مسیح" اور " ابن اللہ" ایک ہی مقام میں اکٹھی لکھی گئی ہیں (مرقس ۱۴: ۶۱؛ متی ۱۶: ۱۶) اور دونوں ہم معنی ہیں(لوقا ۴: ۴۱)۔ لیکن رفتہ رفتہ " خطاب" ابن اللہ" کا مطلب زیادہ وسیع ہوتا گیا" ۔ " مسیح" کا لفظ ہم خاص یعنی اسمِ معرفہ ہوگیا اور لفظ" ابن اللہ" کی اصطلاح آنخداوند کی ذات اورآپ کے خصوصی مقام کے لئے مخصوص ہوگئی جیسا مقدس پولُس کے خطوط سے ظاہر ہے۔ لیکن مقدس لوقا کی انجیل میں آنخداوند کے ازل سے ہونے کا کہیں ذکر چھوڑا شارہ بھی نہیں پایا جاتا ۔ اس انجیل کے خیالات ایک الگ سطح پر ہیں جس سے آگے وہ پرواز نہیں کرتے اورثابت کرتے ہیں کہ یہ انجیل کلیسیا کے ابتدائی زمانہ کی تصنیف ہے۔ یہ ابتدائی زمانہ اوّلین منازل کا زمانہ تھا جس میں مقدس پولُس، مقدس یوحنا اوردیگرانجیل نویسوں کے تصورات ابھی تک روانی اورسیالی حالت میں ہی تھے اورٹھوس اورجامد نہیں ہوئے تھے ۔ عقائد کی عمارت کا قیام ابھی بہت دوُر تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس انجیل میں " ابنِ آدم" کا خطاب موجود ہے لیکن ہر مقام میں یہ خطاب آنخداوند کی زبانِ حقیقت ترجمان پر ہی پایا جاتا ہے ۔ یہ تمام مقامات مقدس لوقا نے اپنے ماخذوں یعنی انجیلِ مرقس اوررسالہِ کلمات سے اخذ کئے ہیں۔

بنیادی تصور یہی ہے کہ یسوع ناصری ہی مسیح موعود ہے۔ عہدِ عتیق کی کتُب میں مسیح موعود کا خدا کے ساتھ بیٹے کاتعلق ہے۔ پس اناجیل متفقہ میں بعض اوقات یہ دونوں اصطلاحیں" مسیح" اور " ابن اللہ" ایک ہی مقام میں اکٹھی لکھی گئی ہیں (مرقس ۱۴: ۶۱؛ متی ۱۶: ۱۶) اور دونوں ہم معنی ہیں(لوقا ۴: ۴۱)۔ لیکن رفتہ رفتہ " خطاب" ابن اللہ" کا مطلب زیادہ وسیع ہوتا گیا" ۔ " مسیح" کا لفظ ہم خاص یعنی اسمِ معرفہ ہوگیا اور لفظ" ابن اللہ" کی اصطلاح آنخداوند کی ذات اورآپ کے خصوصی مقام کے لئے مخصوص ہوگئی جیسا مقدس پولُس کے خطوط سے ظاہر ہے۔ لیکن مقدس لوقا کی انجیل میں آنخداوند کے ازل سے ہونے کا کہیں ذکر چھوڑا شارہ بھی نہیں پایا جاتا ۔ اس انجیل کے خیالات ایک الگ سطح پر ہیں جس سے آگے وہ پرواز نہیں کرتے اورثابت کرتے ہیں کہ یہ انجیل کلیسیا کے ابتدائی زمانہ کی تصنیف ہے۔ یہ ابتدائی زمانہ اوّلین منازل کا زمانہ تھا جس میں مقدس پولُس، مقدس یوحنا اوردیگرانجیل نویسوں کے تصورات ابھی تک روانی اورسیالی حالت میں ہی تھے اورٹھوس اورجامد نہیں ہوئے تھے ۔ عقائد کی عمارت کا قیام ابھی بہت دوُر تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس انجیل میں " ابنِ آدم" کا خطاب موجود ہے لیکن ہر مقام میں یہ خطاب آنخداوند کی زبانِ حقیقت ترجمان پر ہی پایا جاتا ہے ۔ یہ تمام مقامات مقدس لوقا نے اپنے ماخذوں یعنی انجیلِ مرقس اوررسالہِ کلمات سے اخذ کئے ہیں۔ 1

پس اس اندرونی شہادت سے بھی ثابت ہے کہ مقدس لوقا نے یہ انجیل کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی مراحل میں( ۵۵ء) کے لگ بھگ تصنیف کی تھی۔

مشہور نقاد ڈاکٹر بلؔاس نے اس مضمون پرایک معرکہ خیز مقالہ سپردِقلم کیا 2ہے جس کا اردو ترجمہ ہم ناظرین کی خاطر ذیل میں درج کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:۔

" اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انجیل لوقا کب اورکہاں لکھی گئی ؟ جب تک رسول یروشلیم میں رہے تب تک یروشلیم اوریہودیہ میں ان واقعات کو ترتیب وار اس موجودہ انجیل کی صورت میں قلمبند کرنے کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی۔ مقدس لوقا اپنے دیباچہ میں صاف طورپر بتلاتاہے کہ آپ اس انجیل کو لکھنے کے وقت یہودیہ میں تھے کیونکہ آپ لکھتے ہیں " جوباتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں" اور" جیسا کہ ان کو ہم تک پہنچایا ہے"۔

______________________

1Findlay, Gospel according to Luke p.12
2Dr.F.Blass,”The Origin & Character of our Gospels. Exp. Times May1907


لفظ" ہمارے" اور" ہم" سے ظاہرہے کہ آپ یہودیہ میں تھے جہاں تھیوفلس نہیں تھا۔ جملہ" انہوں نے جو شروع سے خوددیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے"۔ میں فعل ماضی "تھے" استعمال ہوا ہے نہ کہ فعل حال" ہیں"۔ پس اس انجیل کے مرتب ہونے کے وقت سیدنا مسیح کے رسول یروشلیم میں مقیم نہ تھے۔ فعلِ ماضی سے ہر گز مطلب نہیں کہ وہ فوت ہوچکے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دیگر مقامات میں تبلیغ کا فرض اداکررہے تھے تاکہ زمین کی انتہا تک گواہ ہوں(اعمال۱: ۸)۔ اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ جب مقدس پولُس آخری بار( ۵۴ء) میں یروشلیم گئے تو وہاں کوئی رسول موجود نہ تھا۔ صرف سیدنا مسیح کے بھائی مقدس یعقوب ہی وہاں تھے ، جو وہاں کی کلیسیا کے سردار تھے(اعمال ۲۱: ۱۷۔۱۸)۔ لیکن ( ۴۷ء )میں جب مقدس پولُس وہاں گئے تھےتو رسول وہاں موجود تھے(اعمال ۱۵باب ؛ گلتیوں ۲: ۹) پس( ۴۷ء اور ۵۴ء )کے درمیان مقدس یوحنا اور مقدس پطرس وہاں سے چلے گئے تھے۔ مقدس پولُس کے گلتیوں کے خط(گلتیوں۲: ۱۱) الخ سے ظاہر ہے کہ مقدس پطرس کونسل کے بعد ہی یروشلیم سے غالباً( ۴۷ء یا ۴۸ء )کے اوائل (آغاز)میں چلے گئے تھے کیونکہ( ۴۸ء )میں مقدس پولُس اپنے دوسرے تبلیغی سفر کے لئے روانہ ہوگئے تھے ۔ پس اگر مقدس پطرس اور دیگر رسول( ۴۸ء )کے اوائل میں یروشلیم سے چلے گئے تھے تو ظاہر ہے کہ انجیل کی ضرورت درپیش تھی جس میں تمام واقعات اورتعلیمات سلسلہ وار ترتیب سے مرتب ہوں۔ پس جو تذکرے یہودیہ کے متعلق ضبطِ تحریر میں آچکے تھے وہ( ۴۸ء) سے پہلے کے ہونے چاہئیں۔ اوردیگر صوبوں کے تحریر شدہ تذکرے اس تاریخ سے بہت پہلے ہونے چاہئیں۔کیونکہ ستیفنس کی موت کے بعد اوّلین مبلغین جنہوں نے انطاکیہ کا رخ کیا تھا وہ یونانی مائل یہود تھے ، جنہوں نے غیر یہود کی ایک بڑی تعداد کو مسیحیت کا حلقہ بگوش کرلیا تھا۔ لیکن یہ مبلغین سیدنا مسیح کے سوانحِ حیات کے چشم دید گواہ نہ تھے(اعمال ۱۱: ۱۹تا آخر)۔ پس یہ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے پاس تحریری تذکرے ضرور ہوں گے ، گو ان کو وہ بیانات بھی یاد ہونگے جوکہ سینہ بسینہ چلے آئے تھے۔ پس پراگندگی کے زمانہ سے بہت پہلے سیدنا مسیح کے سوانح حیات وغیرہ قلمبند ہوچکے تھے۔مقدس پولُس کے پاس بھی اس قسم کے تذکرات تھے۔ یہ تحریری تذکرے نہ تو مکمل تھے اور نہ ترتیب وار مرتب کئے گئے تھے لیکن اب چونکہ ضرورت پیش آگئی تھی پس لوقا نے ترتیب وار چشم دید گواہوں کے تحریری اور زبانی بیانات کو مسلسل طورپر لکھا"۔

" اعمال کی کتاب سے اس نتیجہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ ۱۸: ۲۴تا آخر میں اپلوس کا ذکر آتاہے جو سکندریہ سے افسس آیا تھا (آیت ۲۴)۔ وہ مسیحی تھا اوریسوع کی بابت صحیح صحیح تعلیم دیتا تھا مگر وہ صرف یوحنا ہی کے بپتسمہ سے واقف تھا"(آیت ۲۵)۔ یعنی اس کا مسیحی طریق کے مطابق بپتسمہ نہیں ہوا تھا۔ اس نے سکندریہ میں مسیحیت کی تعلیم غالباً ان سے حاصل کی تھی" جو لوگ اس مصیبت سے پراگندہ ہوگئے تھے جو ستفنس کے باعث پڑی تھی(اعمال ۱۱: ۱۰)۔ اَب قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر کسی مسیحی مبلغ نے اس کو بپتسمہ دیا ہوتا تو وہ مسیحی طریق بپتسمہ سے ضرور واقف ہوتا لیکن " وہ صرف یوحنا ہی کے بپتسمہ سے واقف تھا" ۔ لیکن یسو ع کی بابت صحیح صحیح تعلیم دیتا تھا"۔ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اپلوس کسی ایسی کتاب کے ذریعہ سیدنا مسیح کے قدموں میں آیا تھا جو کسی مسیحی مبلغ نے اس کو سکندریہ میں پڑھنے کو دی تھی" یوحنا کے بپتسمہ" کا ہی ذکر تھا اور سیدنا مسیح کی بابت" صحیح صحیح تعلیم" درج تھی۔ یہ عین ممکن ہے کہ یہ انجیل مرقس کی انجیل ہو جو اس کو( ۴۹ء) سے پہلے سکندریہ میں دی گئی تھی اورجس کو پڑھ کر وہ جنابِ مسیح کا حلقہ بگوش ہوگیا تھا"۔

پسِ انجیل لوقا تب لکھی گئی تھی جب مقدس لوقا یہودیہ میں ہی تھے۔ آپ مقدس پولُس کے ساتھ یروشلیم میں آئے (اعمال ۲۱: ۱۵۔ الخ ) یہ( ۵۴ء )کا واقعہ ہے۔ آپ نے( ۵۶ء) میں روم جانے سے پہلے ان دو سالوں کے دوران میں یہ انجیل لکھی"۔


انشاء اللہ ہم آئندہ باب میں ثابت کردیں گے کہ انجیل مرقس( ۴۰ء) میں لکھی گئی تھی۔ پس ڈاکٹر بلاؔس کا نظریہ کہ اپلوس اس انجیل کو سکندریہ میں پڑھ کر( ۴۹ء )میں مسیحی ہوگئے تھے ، عین قرینِ قیاس ہے۔ پس مختلف قسم کی دلائل سے ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مقدس لوقا کی انجیل(۵۵ء اور ۵۷ء) کے درمیان قیصر یہ میں لکھی گئی تھی۔

______________________

1Findlay, Gospel according to Luke p.12
2Dr.F.Blass,”The Origin & Character of our Gospels. Exp. Times May1907


فصلِ سوم

انجیل لوُقا کا سنِ تصنیف

اعمال کی کتاب اور مقدس پولُس کے خطوط سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مقدس لوُقا نہ صرف رسول مقبول کے مونس غمخوار(محبت کرنے والا اور دکھ درد میں شریک ) اور رفیق کارتھے(کلسیوں۴: ۱۴؛ ۲۔کرنتھیوں ۸: ۱۸؛ فلیمون ۲۴؛ ۲۔تیمتھیس ۴: ۱۱ وغیرہ)بلکہ ابتدا ہی سے ان کو یہ شوق دامن گیر تھا کہ منجی عالمین کی زندگی کے واقعات اورآپ کے کلماتِ طیبات کی کھوج لگائیں۔ ان باتوں کو معلوم کرنے کے لئے اُنہوں نے کوئی دقیقہ فرد گذاشت (سب کچھ کہہ دینا، کوئی کسر نہ چھوڑنا)نہ کیا۔ انجیلِ سوم کا دیباچہ بتلاتاہے کہ آپ اِس بات کے ہمیشہ جویاں(تلاش کرنے والا) رہے کہ ایسے لوگوں کا پتہ لگا کے ان سے ملاقات کریں" شروع سے دیکھنے والے" تھے۔ چنانچہ اس دارفتگی کی وجہ سے بالفاظ پولُس رسول مقدس لوقاکی" تعریف انجیل کے سبب سے تمام کلیسیاؤں میں ہوتی " تھی (۲۔کرنتھیوں ۸: ۱۸)۔

قیاس یہی چاہتاہے کہ جس طرح مقدس لوقا نے پولُس رسول کی زندگی اور سفروں کے واقعات کی ایک ڈائری (روزنامچہ )بنارکھی تھی اور بعد میں اس روزنامچہ سے کام لے کر اعمال کی کتاب کو لکھا تھا، (اعمال باب ۱۶، ۲۰، ۲۱، ۲۷، ۲۸)۔ اُسی طرح آپ نے اپنی انجیل کی تالیف سے پہلے ایک یادداشت تیار کی ہوگی۔ آپ جس جگہ بھی جاتے ہوں گے وہاں " شروع سے دیکھنے والوں" سے جو کلام کے خادم" تھے ملتے ہوں گے۔ مثلاً جب آپ انطاکیہ گئے ہوں گے (جہاں آپ کی مقدس پولُس سے پہلے پہل ملاقات ہوئی تھی)تو وہاں کی مقامی کلیسیا کے لیڈروں اور" کلام کے خادموں" مقدس پطرس ، مقدس برنباس اورمقدس سیلاس سے مل کر آپ نے سیدنا مسیح کے حالات معلوم کرکے قلمبند کرلئے ہوں گے کیونکہ اُن دنوں میں یروشلیم اورانطاکیہ میں آمدورفت کا سلسلہ عام تھا۔ اس جگہ ہیردویس کا رضا عی بھائی(دودھ شریک بھائی) مینن بھی تھا، جس کی وساطت سے مقدس لوقا نے قابل قدر معلومات جمع کی ہوں گی۔ لیکن سب سے زیادہ ذخیرہ معلومات آپ نے یروشلیم سے جمع کیا ہوگا، جہاں کلیسیا کے مقتدر لیڈر مقیم تھے جو " شروع سے خوددیکھنے والے تھے"۔ پروفیسر ہارنیک کا خیال ہے کہ قیصریہ میں آپ فلپس کے گھر رہے، جو " ساتوں میں سے تھا"۔ اورجس کی " چار کنواری بیٹیاں نبوت کرتی تھیں "(اعمال ۲۱: ۸۔ ۹)۔ اس سے مقدس لوقا نے سیدنا مسیح (ستر) مبشروں کو بھیجنے کا حال (لوقا ۱۰: ۱)۔ اورسامریہ کے واقعات سنے ہوں گے جن کا آپ کی انجیل میں ذ کر ہے۔اس کی بیٹیوں نے آپ کو ان عورتوں کی نسبت بتلایا ہوگا جن کے ذکر سے یہ انجیل بھری پڑی ہے۔ بالخصوص ان کا جو اپنے مال سے سیدنا مسیح کی خدمت کرتی تھیں(لوقا ۸: ۳)" ۔ ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی لوانہ" کے ساتھ آپ کی ملاقات انطاکیہ کے مناہیم کے ذریعہ (اعمال ۱۳: ۱)ہوئی ہوگی، جنہوں نے آپ کو اُن واقعات کا حال بتلایا ہوگا جن کا تعلق ہیرودیس اوراُس کے دربار کے ساتھ ہے۔ کیونکہ صرف آپ ہی کی انجیل میں یہ واقعہ مذکور ہے منجی جہان کو ہیرودیس کے دربار میں لئے گئے تھے۔ غالباً اسی وجہ سے آپ لفظ" ہیرودی" استعمال بھی نہیں کرتے (مرقس ۱۲: ۱۳؛ مقابلہ لوقا ۲۰: ۲۰ سے کرو)یوانہ نے آپ کو سیدنا مسیح ظفریاب قیامت کے بعد عورتوں کی دکھائی دینے کا حال


بھی سنایا ہوگا(لوقا ۲۴: ۱۔ ۱۱)۔ یہ عین ممکن ہے کہ انہی عورتوں (لوقا ۸: ۳؛ اعمال ۲۱: ۹ وغیرہ) سے آپ نے منجی عالمین اوریوحنا بپتسمہ دینے والے کی پیدائش کے حالات پائے ہوں۔ کیونکہ یہ حالات نسوانی نقطہ نگاہ سے لکھے ہوئے ہیں۔ اگر " شمعون جو کالا کہلاتاہے "(اعمال ۱۳: ۱) وہی ہے جو انجیل میں "شمعون کرینی" کے نام سے مشہور ہے ، تو مقدس لوقا اس کو انطاکیہ میں ملے ہوں گے۔ صلیبی واقعات کو جاننے کے لئے اُس سے بہتر اور کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ہم ان اُمور کا مفصل ذکر حصہ دوم کے باب سوم میں کر آئے ہیں ۔لہٰذا ان کا یہاں اعادہ(دوہرائی) نہیں کرتے ۔

قرائن سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جب مقدس لوقا نے فلپی کے مقام پر( ۵۰ء) میں مقدس پولُس کا ساتھ چھوڑا جاتا تھا آپ نے اس کے بعد کے چند سال سیدنا مسیح کے حالات کی کھوج لگانے میں صرف کئے تھے۔ پس ظاہر ہے کہ مقدس لوقا مختلف مقامات اور ذرائع سے اپنی انجیل کے لئے معلومات حاصل کرکے اُن کو اپنے روزنامچہ(ڈائری) اوریادداشت کی کتاب میں درج کرلیتے تھے۔ پس آپ ایک مورخ کی حیثیت سے " سب باتوں کا سلسلہ شروع ہی سے ٹھیک ٹھیک دریافت " کرتے رہے تاکہ بوقتِ فرصت ان کو" ترتیب " دے کر لکھیں۔

(۲)

متنازعہ فیہ(وہ چیز جس پر جھگڑا ہو) سوال یہ ہے کہ مقدس لوُقا نے اس مسالہ کو(جو اُنہوں نے سالہاسال کی جان کاہ ’’محنت طلب‘‘محنت اور دوڑ دھوپ کرکے جمع کیا تھا) کب ترتیب دے کر موجودہ انجیل سوم کی صورت میں لکھا ؟ اس سوال کے مختلف جواب دئے جاتے ہیں :۔

(۱۔) بعض علماء کہتے ہیں کہ مقدس لوقا نے اس تمام مسالے کو اس زمانہ میں جمع کیا تھا جب آپ( ۵۷ء یا ۵۸ء اور ۶۰ء) کے درمیانی عرصہ میں مقدس پولُس کے ساتھ روم میں مقیم تھے۔ پھر( ۷۰ء اور ۸۰ء )کے درمیان آپ نے اس مسالہ کو ترتیب دے کر موجودہ انجیل کی صورت میں شائع کیا۔ لیکن ہم نے ثابت کردیا ہے کہ مقدس لوقا نے اپنا دوسرا رسالہ یعنی اعمال کی کتاب اُن ایام (۶۰ء) میں لکھا تھا۔ پس انہوں نے اپنا پہلا رسالہ اس سے چند سال قبل لکھا ہوگا۔

علاوہ ازیں مقدس لوقا ابتدا ہی سے اس بات کے خواہاں(خواہش مند) تھے کہ " سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ان کو ترتیب وار بیان" کریں اس غرض کے لئے وہ ہرممکن طورپر کوشش کرتے رہے کہ ایسے لوگوں سے خود ملاقات کریں" جو شروع سے خود دیکھنے والے اورکلام کے خادم تھے"چنانچہ انہی والہانہ اوربے غرضانہ کوششوں کی وجہ سے بالفاظ پولُس رسول اُن کی " تعریف تمام کلیسیاؤں میں ہوتی تھی " (۲۔کرنتھیوں۸: ۱۸)۔ مقدس رسول کے یہ الفاظ(۵۴ء) میں لکھے گئے تھے1۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ( ۵۴ء) تک اس قابل مصنف کی اُن تھک کوششوں نے ہر مقام کی کلیسیا میں دوڑ دھوپ کرکے کافی مسالہ جمع کرلیا تھا۔ اگریہ نتیجہ درست ہے توپھر سمجھ میں نہیں آتا کہ بقول ان علماء کے سولہ (۱۶) سال اوربقول دیگر علماء پچیس (۲۵)سال مقدس لوقا کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے؟ پس ہمارے خیال میں انجیل سوم کا( ۷۰ء اور ۸۰ء )کے درمیان لکھا جانا بعید از قیاس امر ہے۔

______________________

1Rackham, Acts CXV


(۲۔)مرحوم ڈاکٹر سٹریٹر Dr. Strater کا خیال ہے1کہ مقدس لوقا نے ان دوسالوں میں جو آپ نے قیصر یہ میں مقدس پولُس کے ساتھ کاٹے اپنا مسالہ جمع کیا اور مقدس پولُس کی شہادت کے بعد آپ نے اپنی انجیل کا پہلا ایڈیشن شائع کیا جو صرف حلقہ احباب کے لئے ہی مخصوص تھا۔ اس زمانہ کے بعد جب انجیل مرقس لکھی گئی تب آپ نے اس انجیل کے چند حصص کو اپنے پہلے ایڈیشن میں شامل کرکے انجیل سوم کو اس کی موجودہ صورت میں لکھ کر عام مسیحیوں کے فائدہ کے لئے شائع کیا۔لیکن اس نظریہ کو قبول کرنے سے پہلے یہ لازم آتاہے کہ ہم دوباتیں قبول کریں۔ اوّل یہ کہ کتاب اعمال الرسل کم از کم( ۸۰ء) سے پہلے نہیں لکھی گئی تھی2اور دوم یہ کہ مقدس مرقس کی انجیل( ۷۰ء) کے قریب لکھی گئی۔ ہم نے گذشتہ باب میں یہ ثابت کردیا ہے کہ پہلی بات قابلِ قبول نہیں ہے اور انشاء اللہ ہم آگے چل کر یہ ثابت کردیں گے کہ مقدس مرقس کی انجیل( ۷۰ء) سے بہت پہلے لکھی گئی تھی۔ پس ڈاکٹر مرحوم کی تاریخ تصنیف ہمارے نزدیک قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ ہم حصہ دوم کے باب سوم کی فصل اول میں ثابت کر آئے ہیں کہ ڈاکٹر سٹریٹر کا نظریہ قابلِ قبول نہیں ہے۔

(۳)

پہلی صدی کے واقعات کا تاریخ وار سلسلہ واقعات کا نقشہ بنانا ایک نہایت دشوار امر ہے۔ مختلف علماء مختلف واقعات کے لئے مختلف اوقات اور سن تجویز کرتے ہیں۔ ہم نے اوپر لکھا ہے کہ مقدس پولُس کے کرنتھیوں کے دوسرے خط سے ظاہر ہوتاہے کہ( ۵۴ء) تک مقدس لوقا نے اپنا مسالہ جمع کرلیا تھا۔ جب وہ اس سال کرنتھ بھیجے گئے تھے۔( ۵۵ء) میں عید فسح کے موقعہ پر مقدس پولُس یروشلیم آئے اورآپ قید ہوکر قیصر یہ بھیج دئے گئے جہاں آپ دوسال( ۵۵ء سے ۵۷ء) کے موسمِ گرما کے آخر تک قیدر ہے اورپھروہاں سے روم بھیجے گئے جہاں آپ( ۵۸ء )کے موسمِ بہار میں پہنچے۔ اور( ۶۰ء) تک زیرنگرانی رہے ۔3

اگر ہم سلسلہ واقعات کی مندرجہ بالا تاریخوں کو قبول کرلیں( ۵۵ء) میں مقدس پولُس قیصریہ میں لائے گئے جہاں آپ کامل دوسال حراست میں رہے۔ قیصریہ پہلی جگہ تھی جہاں مقدس پطرس نے کرنیلس کو بپتسمہ دے کر مسیحیت کا حلقہ بگوش کیا تھا(اعمال ۱۰باب)۔ پس وہ گویا غیر یہودی کلیسیاؤں کی ماں تھی اور مقدس فلپس اپنی بیٹیوں کے ساتھ یہیں مقیم بھی تھے۔ مقدس پولُس کی قید سخت نہ تھی۔ پس قیصریہ کی مسیحی کلیسیا کے شرکاء آپ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ مقدس لوقا اور ارستر خس آپ کے ساتھ تھے(اعمال۲۷: ۱۔ ۲)۔ مقدس لوقا کو سوائے رسول مقبول کی حاضر باشی (موجودگی)کے اورکوئی خاص کام بھی نہ تھا۔پس اغلب یہ ہے کہ آپ نے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر یہ دوسال انجیل سوم کی تالیف وترتیب میں صرف کئے۔ آپ کو یہ احساس تھاکہ رومی یونانی دنیا کو اورمسیحی کلیسیادونوں کو ایسی کتاب کی ضرورت ہے جس میں منجی عالمین کی تعلیم اور زندگی کا " ترتیب وار ذکر ہو۔ ایشیا، آخیہ اور مقدونیہ کی کلیسیائیں اب مقدس پولُس کے قید ہونے کی وجہ سے گویا یتیم ہورہی تھیں۔اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مقدمہ کا انجام کیا ہوگا۔ ان کلیسیاؤں کو اس بات کی فوری ضرورت تھی کہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسی مستند کتاب ہو جس میں سیدنا مسیح کی تعلیم اور سوانحِ حیات دونوں کا مفصل ذکر ہو۔ پس مقدس لوقا نے اس فرصت کے وقت کو غنیمت سمجھا اورکمر ہمت باندھ کرا پنے روزنامچے۔ یادداشت اور دیگر ماخذوں سے اوربالخصوص انجیلِ مرقس سے کام لے کر سب واقعات کو ترتیب دے کر اپنی انجیل کو لکھا۔

پس مقدس لوقا کی انجیل( ۵۵ء اور ۵۷ء )کے درمیان یعنی صلیبی واقعہ کے صرف قریباً پچیس (۲۵)سال بمقام قیصریہ میں لکھی گئی ۔

______________________

1Streeter, The Four Gospels pp. 218-19
2Ibid p.218
3Rackham, Acts p.CXV


باب سوم

تاریخِ تصنیف انجیلِ مرقس

فصل اوّل

انجیلِ مرقس کا پسِ منظر

دورِ حاضرہ میں مغربی کلیسیاؤں کے علماء بالعموم یہی خیال پیش کرتے ہیں کہ مقدس مرقس نے انجیل دوم کو( ۷۰ء) کے قریب لکھا تھا۔ اس سوال کا میں گذشتہ تیس (۳۰)سال سے مطالعہ کررہا ہوں اورجتنا میں اناجیلِ اربعہ کی تاریخ تصنیف پر غور کرتا ہوں اُتنا ہی مجھ کو یقین ہوتا جاتاہے کہ مغربی علماء کی تاریخیں غلط ہیں اور موجودہ اناجیل اربعہ اس تاریخ سے کم از کم ایک ربع صدی یعنی پچیس (۲۵)سال پیشتر لکھی گئی تھیں۔ اور اوّلین انجیل یعنی انجیلِ مرقس منجی عالمین کی صلیبی موت کے صرف دس سال بعد احاطہ تحریر میں آگئی تھی۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ رسولوں کے اعمال کی کتاب کے پہلے حصہ (ابواب ۱۔ ۱۳) میں سیدنا مسیح کے رسول منجی عالمین کی صلیبی موت اور فتحیاب قیامت پر زور دیتے ہیں (اعمال ۲: ۲۲۔ ۴۰؛ ۳: ۱۳۔ ۲۵؛ ۴: ۲۔۱۲؛ ۵: ۲۸۔ ۳۲؛ ۷: ۵۱۔ ۵۳؛ ۸: ۳۲۔ ۳۹؛ ۱۰: ۳۷۔ ۴۳؛ ۱۳: ۲۷۔ ۳۹ وغیرہ)۔ ابتدا میں ہر مرید کو شروع ہی سے اس ایک بات کی تعلیم دی جاتی تھی کہ " مسیح کتابِ مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ مقدس کے مطابق جی اٹھا"(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۔ ۴) ۔اس حقیقت کو ہم پہلے حصہ کے باب سوم میں واضح کرچکے ہیں۔ ابتدائی


" منادی" کے عین مطابق انجیل مرقس میں بھی صلیب کو مرکزی جگہ دی گی ہے۔ ایک مصنف نے خوب کہا ہے کہ انجیل مرقس کا پہلا حصہ صرف دیباچہ ہے۔ اوراصل کتاب میں صلیب کا بیان ہے۔ چنانچہ ارُدو ایڈیشن میں اس انجیل میں آنخداوند کی سہ سالہ خدمت کا بیان صرف سولہ(۱۶) صفحوں پر مشتمل ہے۔ لیکن آپ کی زندگی کے صرف ایک آخری ہفتہ کا بیان بیس(۲۰) صفحوں پر مشتمل ہے۔مقدس مرقس کا اصل مقصدیہ تھا کہ آپ ایک ایسا مختصر رسالہ لکھیں جس میں یہ ثابت ہو کہ سیدنا مسیح ہی مسیح موعود اور ابن اللہ تھے جن کو صلیب پر مرنا ضرور تھا ۔ پس صلیبی واقعہ اس انجیل کا مرکز ہے جس کے گرد تمام واقعات اوربیانات گھومتے ہیں۔ چنانچہ مقدس مرقس اپنی انجیل کے پہلے سولہ (۱۶)صفحوں میں پندرہ(۱۵) واقعات کا ذکر کرتے ہیں ۔ جن کا تعلق مسیح کی مخالفت کے ساتھ ہے اورجن کا لازمی نتیجہ صلیبی واقعہ ہوا (مرقس ۲: ۱؛ ۳: ۶؛ ۳: ۲۲۔ ۳۰؛ ۷: ۵۔ ۱۳؛ ۸: ۱۱۔۱۲؛ ۹: ۱۱۔ ۱۳ ؛ ۱۰: ۲۔۱۲؛ ۱۱: ۲۷۔ ۳۳؛ ۱۲: ۱۳۔ ۴۰)۔ انجیل نویس ان واقعات کو دوٹکڑوں میں یکجا جمع کرتا ہے اورپہلے ٹکڑے کے آخری الفاظ میں" پھر فریسی نے فی الفور باہر جاکر ہیرودیوں کے ساتھ اس کے برخلاف مشورہ کرنے لگے کہ اسے کس طرح ہلاک کریں"(مرقس ۳: ۶)۔ اور دوسرے ٹکڑے کے آخر میں لکھتاہے " پھر کسی مخالف نے اس سے سوال کرنے کی جرات نہ کی"(مرقس۱۲: ۳۴)۔

یہ پندرہ (۱۵)واقعات جو درحقیقت صلیبی واقعہ کا دیباچہ ہیں حسب ذیل ہیں :۔

(۱۔) شفا دینے کا واقعہ (مرقس۲: ۱۔ ۱۲)۔ (۲۔) گنہگاروں کے ساتھ کھانا (مرقس۲: ۱۳۔ ۱۷)۔ (۳۔) روزہ رکھنے کا سوال(مرقس ۲: ۱۸۔ ۲۲)۔ (۴۔) سبت کے احترام کا سوال (مرقس۲: ۲۳تا ۳: ۶) (۵۔) مسیح کی قوت کا سرچشمہ (مرقس۳: ۲۲۔ ۳۰)۔ (۶۔) بزرگوں کی روایات کا سوال (مرقس ۷: ۵۔ ۱۳)۔(۷۔) نشان طلب کرنا (مرقس ۸: ۱۱۔ ۱۲)۔(۸۔) ایلیاہ کا آنا (مرقس ۹: ۱۱۔ ۱۳)۔ (۹۔) طلاق کا سوال (مرقس۱۰: ۲۔ ۹) (۱۰۔) یسوع کے اختیار کے بارے میں سوال(مرقس۱۱: ۲۷۔ ۳۳)۔ (۱۱۔) جزیہ دینے کا سوال(مرقس۱۲: ۱۳۔ ۱۷)۔ (۱۲۔) قیامت کا مسئلہ (مرقس۱۲: ۱۸۔ ۲۵)۔ (۱۳۔) اولین حکم (مرقس۱۲: ۲۸۔ ۳۴)۔ (۱۴۔)مسیح کے ابنِ داؤد ہونے کا سوال(مرقس۱۲: ۳۵۔ ۳۷)۔ (۱۵۔) فقیہوں کی روحانی کمزوری کا الزام(مرقس ۱۲: ۳۸۔ ۴۰)۔

ان ابتدائی بیانات میں انجیل نویس نے ذیل کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے سات مجموعے شامل کئے ہیں:۔

(۱۔) کفر نحوم میں ایک دن کی ڈائری(مرقس۱: ۲۱۔ ۳۹)۔ (۲۔) تمثیلیں(مرقس ۴: ۱۔ ۳۴)۔ (۳۔) بارہ رسولوں کا بلاوا اور تقرر(مرقس۱: ۱۶۔ ۲۰؛ ۳: ۱۳۔ ۱۹؛ ۶: ۷۔ ۱۳ وغیرہ)۔ (۴۔) گلیل کے شمالی حصے کے سفر (مرقس۶: ۲۴؛ ۷: ۳۷؛ ۸: ۱۔ ۲۶)۔(۵۔) صلیب کی شاہراہ (مرقس ۸: ۲۷؛ ۱۰: ۴۵)۔ (۶۔) یروشلیم کو سفر(مرقس ۱۰: ۱؛ ۱۰: ۴۶۔ ۵۲؛ ۱۱: ۱۔ ۲۴)۔ (۷۔) مصیبتوں کا آنا (مرقس۱۳باب)۔

ہم نے سطور بالا میں ذرا تفصیل سے کام لیا ہے تاکہ ناظرین کے یہ ذہن نشین ہوجائے کہ انجیل مرقس کا مرکز صلیبی واقعہ ہے۔ اس انجیل کے پہلے حصہ میں حضرت کلمتہ اللہ کے بعض کلماتِ طیبات بھی ہیں جو اُس تحریری مجموعہ " رسالہ کلمات" میں سے اخذ کئے گئے تھے جو آنخداوند کی حینِ حیات میں لکھا گیا تھا۔ ان کے علاوہ چودہ(۱۴) ایسے مقامات ہیں جو" ابنِ آدم" کے سوال سے متعلق ہیں، جن میں سے سات (۷)مقامات انجیل کے اس حصہ سے متعلق ہیں جس کو ہم نے اُوپر " صلیب کی شاہراہ" کے نام سے موسوم کیا ہے جس میں منجی عالمین تین (۳)بار اپنے مصلوب ہونے کی پیشین گو


گوئی کرتے ہیں۔ کیونکہ مقدس پولُس اورابتدائی ایام کے دیگر "اُستادوں" کی طرح مقدس مرقس بھی اس ایک معمہ کو حل کرنا چاہتے ہیں کہ جلالی ابنِ آدم نے اپنے آپ کو پست کردیا یہاں تک کہ اُس نے صلیبی موت گواراکی۔ یہ چودہ مقامات حسب ذیل ہیں :۔

(مرقس ۲: ۱۰؛ ۲: ۲۸) اس کے بعد سات (۷)مقامات کا تعلق " صلیب کی شاہراہ" کے حصہ سے ہے(یعنی مرقس ۸: ۳۱؛ ۸: ۳۵؛ ۹: ۹؛ ۹: ۱۲؛ ۹: ۳۱؛ ۱۰: ۳۳؛ ۱۰: ۴۵ ) ۔ان کے بعد پانچ باقی ماندہ مقامات حسب ذیل ہیں :۔

(مرقس۱۳: ۲۶؛ ۱۴: ۲۱ دو دفعہ ۔مرقس ۱۴: ۴۱؛ ۱۴: ۶۲)۔

پس ہمارا دعویٰ ثابت ہوگیا کہ مقدس مرقس کی انجیل کا مرکز صلیبی واقعہ ہے (مرقس باب ۱۴، ۱۵) جس سے پہلے تمہید کے طورپر اُن پندرہ (۱۵) واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ، جو یہود کے ساتھ تصادم (جھگڑے)کا باعث تھے۔ چند ایک مقامات میں حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کا بطور مُشتے نمونہ ازخروارے(ڈھیر میں سے مٹھی بھر) ذکر کیا گیا ہے تاکہ انجیل کے پڑھنے والے پر عیاں ہوجائے کہ اس قسم کی تعلیم کا اور فقیہوں اور فریسیوں کی تعلیم کا تصادم ایک ناگریز امر تھا(مرقس۱: ۲۷)۔ پس انجیل مرقس کا اصل مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ منجی عالمین کی صلیبی موت کوئی اتفاقیہ امر نہ تھا جو آپ کی قسمت میں مقدر ہو۔بلکہ آپ اس دُنیا میں قربان ہونے ہی کی خاطر آئے تھے اورآپ نے اُس موت کوبرضا ء ورغبتِ خود قبول فرمایا تھا جس سے خدا کا مقصد پورا ہوا اور دنیا کونجات ملی (مرقس ۸: ۳۱؛ ۹: ۱۲۔ ۱۳؛ ۱۰: ۳۳؛ ۱۴: ۲۱، ۳۶)۔ انجیل نویس نے اس بنیادی امر کو ابتدا ہی سے پیشِ نظر رکھا اور اسی مقصد کے تحت اُس نے اپنے مسالہ کو ترتیب دی۔

(۲)

ہم حصہ اوّل کے باب سوم میں بتلاچکے ہیں کہ مسیحیت کے آغاز ہی سے ایک سوال سب کی زبان پر تھا۔ یہود اور غیر یہود مسیحی اورغیر مسیحی ، سب یہ پوچھتے تھے کہ اگر سیدنا عیسیٰ فی الواقع مسیح موعود تھے تو آپ کیوں مصلوب کئے گئے ؟ صلیب اور مسیحِ موعود کا تصور دونوں متضاد باتیں سمجھی جاتیں تھیں(متی ۱۶باب)صلیب یہودیوں اور غیر یہودیوں کے لئے ٹھوکر اورمضحکہ خیز بات تھی(گلتیوں ۵: ۱۱) ۔پس ہر جانب سے کلیسیا کے مبلغین پر اس سوال کی بوچھاڑ ہوتی تھی کہ اگر یسوع فی الحقیقت مسیحِ موعود تھے تو آپ کا انجام صلیب پر کیوں ہوا؟ مقدس مرقس نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے اپنی انجیل تصنیف کی ۔ اس سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:۔

(۱۔)اہلِ یہود کے لیڈروں نے " حسد کے مارے " سیدنا مسیح کو پلاطوس کے حوالے کیا تھا(مرقس ۵: ۱۰)۔ کیونکہ اُن میں اور سیدنا مسیح میں باربار مختلف اُمور کے متعلق (جن کی مقدس مرقس چند مثالیں بھی دیتے ہیں ) باہمی تصادم ہوا تھا اورہر موقعہ پر وہ بحث میں ہار گئے تھے اورلیڈروں کی تمام کوششوں کے باوجود عوام الناس جوق درجوق سیدنا مسیح کے پیرو ہوتے جاتے تھے۔

(۲۔) سیدنا مسیح نے برضا ورغبتِ خو داپنی جان دی تاکہ " بہتیروں کے بدلے فدیہ ہو" (مرقس ۱۰: ۴۵؛ ۱۴: ۲۴۔ مقابلہ کرو یوحنا ۱۰: ۱۸)۔

(۳۔) مسیح موعود کے حق میں انبیاء اللہ نے پیشینگوئیاں کی تھیں کہ وہ قوم کی خاطر جان دے گا۔(مرقس۸: ۳۱؛ ۹: ۱۲، ۳۱؛ ۱۰: ۳۳؛ ۱۴: ۲۱، ۳۶)۔ مسیح موعود کی زندگی کا آخراورانجام صلیب پر ہونا تھا کیونکہ رضائے الہٰی یہ تھی کہ مسیح موعود اسی طرح اپنی جان دے۔

ان جوابات کی وجہ سے مرقس میں صلیب کو (جیسا ہم بتلاچکے ہیں ) مرکزی جگہ حاصل ہے۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ رسولوں کے وعظ اور منادی میں صلیب کو شروع ہی سے مرکزی جگہ دی گئی ہے۔ رسول باربار مذکورہ بالا سوال کا اپنی تقریروں میں جواب دیتے ہیں۔


مقدس پولُس کی تحریرات میں بھی مسیح مصلوب کے تصور کو مرکزی جگہ حاصل ہے(گلتیوں ۳: ۱؛ ۱۔کرنتھیوں ۲:۲؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۔ ۴؛ فلپیوں ۲: ۶۔ ۱۱ وغیرہ) مقدس پطرس کی منادی بھی صلیب کی منادی ہے (اعمال ۱۰: ۳۷۔ ۴۳)۔

یہ سوال اور دوازدہ رسولوں کے جوابات، سب کے سب کلیسیا کی زندگی کے اوّلین اور ابتدائی دور سے متعلق ہیں، جب مسیحیت کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔پس انجیلِ مرقس اُ س زمانہ میں تصنیف کی گئی تھی جب مذکورہ بالا سوال، یہود اور غیر یہود ، مسیحی اور غیر مسیحی گروہوں کی زبان پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ زمانہ( ۷۰ء) کا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ مسیحیت کا آغاز کا زمانہ ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ انجیل منجی عالمین کی صلیبی موت کے صرف چند سال بعد ہی لکھی گئی تھی۔ لیکن صلیبِ کا واقعہ آنخداوند کی زندگی کا انجام نہیں تھا بلکہ یہ واقعہ آنخداوند کی ظفریاب قیامت اور صعودِ آسمانی کے واقعات کے ساتھ لازم وملزوم کی کڑی میں بطور ایک کامل زنجیر کے وابستہ تھا۔سیدنا مسیح کی قیامت نے ثابت کردیا ہےکہ یسوع فی الحقیقت جلالی مسیح موعود تھا جس نے موت کے بندھنوں کو توڑا۔ ابن اللہ کا مردوں میں سے جی اٹھنا محض کسی مردے کا دوبارہ زندہ ہونا نہیں تھا۔ آپ کا موت کے بندھنوں کو توڑنے کا واقعہ اس قسم کا سا نہ تھا جیسا نائن کی بیوہ کےبیٹے کا یا لعزر کےقبر سے دوبارہ نکل آنے کا واقعہ تھا۔ یہ اور دیگر مُردے جن کو آنخداوند نے اپنی اعجازی طاقت سے زندہ کیا تھا دوبارہ مرگئے تھے لیکن انجیل نویس کے مطابق سیدنا مسیح کا مُردوں میں سے زندہ ہونا آپ کے جلالی مسیحائی مرتبہ کا ثبوت تھا۔ آپ کی ظفریاب قیامت نے عالم اور عالمیان پر واضح کردیا کہ سیدنا مسیح فی الحقیقت مسیح موعود تھے۔ یہ واقعہ اس امر کی بین دلیل ہے کہ آپ ابنِ آدم تھے جو آسمان سے اُترے تھے تاکہ اپنی زندگی اور موت کے وسیلے زمین کے رہنے والوں کو ابدی نجات عطا کریں۔ پس انجیل مرقس کے مطابق منجی جہاں کی ظفریاب قیامت اور صعودِ آسمانی آپ کی مسیحائی کے ثبوت کے آخری اور زبردست کڑیاں ہیں۔ مقدس پولُس کی تقریروں اورتحریروں سے یہی اُمور واضح ہوجاتے ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مقدس پولُس رسول انجیل مرقس کے بخوبی واقف تھے۔ دیکھو (مرقس ۱: ۱۔ ۱۲؛ اعمال ۱۳: ۲۴؛ ۱۹: ۴ وغیرہ)۔ پسدیہ کے انطاکیہ والی تقریر سے ثابت ہے کہ مقدس پولُس( ۴۶ء) سے پہلے انجیل مرقس سے واقف تھے۔ یہی بات (مرقس ۶: ۱۱ اور اعمال ۱۳: ۵۱ )کے مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوجاتی ہے۔

یہ اُمور نہ صرف مقدس مرقس کی انجیل سے ہی ظاہر ہے بلکہ اعمال کی کتاب کے ابتدائی ابواب بھی ثابت کرتے ہیں کہ تمام رسول اسی ایک تعلیم پر متفق تھے ۔ اور سب رسولوں اور مبلغوں کی منادی کا ماحصل یہی تھا (رومیوں ۱: ۱۔ ۴؛ ۶: ۹۔ ۱۱؛ اعمال ۲: ۳۲۔ ۳۳؛ ۵: ۳۱ وغیرہ)۔ یہی تعلیم ابتدائی زمانہ میں ہر نومرید کو دی جاتی تھی (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۔ ۷) اورانجیلی مجموعہ کی تمام تحریرات کی یہی بنیاد ہے۔ مقدس مرقس کی انجیل دورِ اوّلین کے اسی ابتدائی زمانہ کی تعلیم کی تفصیل ہے۔ ابتدا ہی سے رسولوں نے اسی ڈھنگ سے سیدنا مسیح کی پیدائش ، تعلیم ، واقعاتِ زندگی ، صلیبی موت ، ظفریاب قیامت اور صعودِ آسمانی کوسمجھا۔ اوراسی رنگ میں یہود اور غیر یہود سب کے سامنے پیش کیا۔

اَب ناظرین پر ظاہر ہوگیاہوگا کہ مقدس مرقس کی انجیل کی تمام کی تمام فضا شروع سے آخر تک وہی ہے جو ابتدائی کلیسیا کے شروع کے زمانہ میں تھی جس کا نظارہ ہم کو اعمال کی کتاب کے پہلے حصہ میں ملتا ہے۔ اس انجیل میں سیدنا مسیح کی موت کے بعد کے دس (۱۰)سال کے حالات کا عکس نظر آتاہے۔ پس اس کی تصنیف کا زمانہ بھی( ۴۰ء) کے لگ بھگ کا ہے۔

فصل دوم

انجیلِ مرقس اور اوّلین ایام کی معتقدات

مقدس مرقس کوئی بڑے پایہ کے عالم نہ تھے۔ وہ دینیات کے ماہر اورفلاسفر بھی نہ تھے۔ان کی انجیل میں نہ توکوئی دقیق فلسفیانہ نظرئیے پیش کئے گئے ہیں اور نہ کوئی ایسی اصطلاحات موجود ہیں جو مسیحی دینیات کی تشریح کے لئے بعد کے زمانہ میں وضع کی گئی تھیں۔ وہ سیدھے سادے طورپر اپنے منجی کی سیرت لکھنے والے تھے۔ اُنہوں نے دیانت داری سے اُن خیالات کو پیش کیا جو ابتدائی کلیسیا کے آغاز میں مروج تھے۔ چنانچہ پروفیسر ورنرWerner کہتاہےکہ مرقس کی انجیل مسیحیت کے اُن خیالات کا آئینہ ہے جو پہلی صدی کے درمیان میں یہود نومرید اورغیر اقوام کے نومریددونوں مانتے تھے۔ اس میں مسیح کے تجسم یا کفارہ کے متعلق کوئی فلسفیانہ نظرئیے نہیں ہیں لیکن ان حقائق پر زوردیا گیا ہے۔ اس انجیل میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ آنخداوند اپنی خدمت کی ابتدا ہی سے مسیح موعود(مرقس ۱: ۳۴؛ ۸: ۲۹)۔ اورابن اللہ (مرقس۱: ۱) تھے اورالہٰی مقصد کے ماتحت اور بلاوے کی وجہ سے ابنِ آدم تھے۔آپ نے صلیب کا دُکھ اٹھایا کیونکہ آپ ابنِ آدم تھے، جو آسمان سے تھے اورجن کا زمین پر اختیار تھا(مرقس۲: ۱۰، ۲۸)۔ اورکہ آپ اُن باتوں کو پورا کرنے آئے تھے اورجوآپ کی بابت لکھی تھیں۔ اسی واسطے آپ صلیب پر مرے اور پھر زندہ ہوئے اورجلال کے ساتھ منصف ہوکر آئیں گے(مرقس ۸: ۳۸؛ ۱۳: ۲۶آیت الخ)۔

یہ حالات کلیسیا کے معتقدات(اعتقاد کرنے والے) کے ارتقاء (بتدریج ترقی کرنا)کی پہلی منزل سے متعلق ہیں۔ اس منزل میں حضرت ابن اللہ کی شخصیت کے متعلق کسی نظریہ کا وجود پایا نہیں جاتا۔ صرف اس حقیقت کے اظہار پر ہی اکتفا کیا گیا ہے کہ آپ ابن اللہ ، ابن آدم اور مسیح موعود ہیں۔ پس اس انجیل کی تصنیف کا زمانہ منجی جہان کی صلیبی موت کے دس برس بعد کا ہے جو کلیسیا کے خیالات کی ابتدائی منزل تھی۔

انجیلِ مرقس کے بیان کے مطابق جب سیدنا مسیح نے حضرت یوحنا اصطباغی سے بپتسمہ پایا تو لکھاہے کہ " جب وہ (یسوع) پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اُس نے آسمان کوپھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اُوپر اترتے دیکھا اور آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا " محبوب" (ہے اورمیرا) بیٹا ہے۔ تجھ سے میں خوش ہوں"۔ عہدِ عتیق میں "محبوب" اور" بیٹا" مسیح موعود کے دو مختلف نام اورالگ الگ خطابات تھے۔ پس اس بیان کے مطابق بپتسمہ کے وقت آنخداوند پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ آپ خود مسیح موعود ہیں۔ آپ کی اپنی مسیحائی کا احساس اس زمانہ سے شروع ہوا اور آپ نے یہ محسوس کیاکہ خدا نے آپ کو روح القدس سے مسح کیا ہے اس انجیل کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ مصنف کے خیال میں روح القدس سے ممسوح ہونے کی وجہ سے آپ ابن اللہ ہیں۔

آنخداوند کی ذات اور شخصیت کےمتعلق بعینہ یہی نظریہ اعمال الرسل کے پہلے بارہ(۱۲) ابواب میں موجود ہے جو مسیحی کلیسیا میں دورِ اوّلین میں مروج تھا اورجس کا خلاصہ مقدس پطرس کے الفاظ میں موجود ہے" خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے مسح کیا۔ وہ بھلائی کرتا اور اُن سب کو جوابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے شفا دیتا پھر ا کیونکہ خدا اُس کے ساتھ تھا"(اعمال ۱۰: ۳۸)۔

پس مسیحیت کےآغاز میں آنخداوند کی ذات اور شخصیت کی نسبت جو نظریہ کلیسیا کے ابتدائی مراحل ومنازل میں رائج تھا وہ اس آیہ شریفہ کے مطابق یہ تھا کہ جس شخص کی رسول منادی کرتے تھے وہ ایک ایسا انسانِ کامل تھاجس کو ہمیشہ خدا کی قُربت نصیب تھی ، جو مُردوں میں سے جی اُٹھا اورخُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس کو خدا نے اپنے کام وپیغام کے لئے خاص طورپر مسح کیا تھا۔" یسوع ناصری ایک انسان تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا اُن معجزوں اورعجیب کاموں،اورنشانوں سےثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت کئے" (اعمال ۲: ۲۲)۔


مقدس مرقس کی انجیل اوررسولوں کے مذکورہ بالا بیانات کے مقابلہ سے ظاہر ہے کہ اس انجیل کا بعینہ وہی نظریہ ہے جو مسیحی کلیسیا کے آغاز میں کلیسیا کے اولین دور میں مروج تھا۔یعنی کہ یسوع ناصری ایک ایسے انسان تھے جو کامل طورپر نیک تھے۔ جن کو خدا نے مسیح موعود کے عہدہ پر مامور فرمایا اورروح القدس سے ممسوح کیا۔ آپ کی زندگی خدا کی کامل فرمانبرداری میں گُزری جس کی وجہ سے آپ نے موت اور قبر پر فتح پائی اورخدا کے دہنے ہاتھ سرفراز ہوئے اوربنی نوع انسان کی عدالت کرنے کے لئے الہٰی قدرت کے ساتھ پھر آئیں گے۔

آنخداوند کی ذات و شخصیت کا یہ نظریہ کلیسیا کے آغاز میں اُس زمانہ میں مروج تھا جب ابھی مقدس یوحنا نے اپنی انجیل نہیں لکھی تھی اور نہ مقدس پولُس کے خطوط ابھی احاطہِ تحریر میں آئے تھے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظریہ کلیسیا کے شروع زمانہ میں مروج تھا۔ پس انجیلِ مرقس بھی اسی اوّلین دور سے متعلق ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ انجیل منجی عالمین کی ظفریاب قیامت کے دس(۱۰) سال کے اندر لکھی گئی تھی۔

مقدس پولُس اپنی تحریرات میں جو سیدنا مسیح کی وفات کے قریباً پندرہ تیس سال بعد کے درمیانی عرصہ (از ۴۴ء تا ۶۰ء) میں لکھی گئی تھیں بار بار لفظ " مسیح" کو اسمِ معرفہ کے طورپر استعمال کرکے آنخداوند کو کبھی" یسوع" کبھی" مسیح " اورکبھی" مسیح یسوع" کہتے ہیں۔ لیکن مقدس مرقس لفظ" مسیح" کو اسمِ معرفہ کے طورپر کہیں بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اس لفظ کو سیدنا مسیح کے لئے خطاب کے طورپر" مسیح موعود" کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔اس میں لفظ" المسیح" تین جگہ وارد ہوا ہے(مرقس ۸: ۲۹؛ ۱۴: ۶۱؛ ۱۵: ۳۲)۔ پہلے مقام میں مقدس پطرس کا اقرار درج ہے کہ آنخداوند المسیح (موعود) ہیں۔ دوسرے مقام میں سردار کاہن آپ سے سوال کرکے پوچھتا ہے " کیا تو اس ستودہ کا بیٹا المسیح (موعود) ہے"؟ تیسرے مقام میں سردار کاہن ٹھٹھے سے کہتاہے کہ اگر یہ شخص " اسرائیل کا بادشاہ المسیح"(موعود) ہے تو وہ اب صلیب پر اتر آئے۔ پس ان تینوں مقاموں میں کسی ایک جگہ بھی آنخداوند کے لئے " مسیح" کا نام بطور اسمِ خاص یا اسمِ معرفہ نہیں آیا جس طرح دورِ حاضرہ میں ننا نوے فیصدی مسیحی اور غیر مسیحی آنخداوند کا نام " یسوع" نہیں لیتے بلکہ " مسیح" کہتے ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ( ۷۰ء) کے بعد یونانی دُنیا کے لئے لفظ مسیح درحقیقت لفظ " یسوع" کا مترادف تھا اوراس سے زیادہ یہ لفظ غیر یہود کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ صاف اورموٹے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کلیسیا (جس کا اغلب حصہ غیر یہود پر مشتمل تھا) کسی یہودی مسیح موعود میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی1

علیٰ ہذا القیاس اس انجیل میں یسوع ناصری کے لئے لفظ" خداوند" بطورایک خطاب کے کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ جس طرح ہم نے جا بجا اس رسالہ میں آپ کے لئے لفظ آنخداوند " استعمال کیا ہے جس طرح مقدس پولُس کے خطوط میں آپ کے لئے لفظ" خداوند" آیاہے۔ انجیل مرقس میں یہ لفظ" خداوند" صرف چار مرتبہ آیا ہےیعنی(مرقس ۵: ۱۹؛ ۱۱: ۳؛ ۱۳: ۲۰؛ ۱۲: ۳۷ )لیکن ان مقامات میں سے پہلے اور تیسرے مقام میں وہ خدا یعنی رب العالمین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ دوسرے مقام میں لفظ " خداوند" دیدہ دانستہ طورپر ذومعنی ہے، اور چوتھے مقام میں اس کا تعلق عہدِ عتیق کی کتاب زبور کی آیت کی تاویل ہے۔

______________________

1F.C.Grant , The Earliest Gospel.pp.175 ff


پس انجیلِ مرقس میں منجئ عالمین کے لئے نہ فقط" مسیح" بطور آپ کے خاص نام کے استعمال کیا گیا ہے اورنہ کوئی شخص آپ کو مخاطب کرکے یا آپ کی طرف اشارہ کرکے لفظ" خداوند" آپ کے لئے استعمال کرتاہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل اُس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب مسیحی کلیسیا اپنے منجی کےلئے صرف لفظ" یسوع" استعمال کرتی تھی اورابھی تک مسیحی عوام مقدس پولُس رسول کی طرح آپ کو" خداوند" یا خداوند یسوع" یا " خداوند یسوع مسیح " یا " یسوع مسیح " یا " مسیح" نہیں کہتے تھے۔ اُس زمانہ میں یہ الفاظ والقاب وخطابات نہ تو عام طورپر کلیسیا میں تاحال مروج ہوئے تھے اورنہ وہ صراحتاً یا کنایتہً (واضح یا اشارے کے طور پر)بطورِ اسم خاص یا اسم معرفہ یا اسم اشارہ لفظ " یسوع" کی بجائے استعمال ہوتے تھے۔ بالفاظِ دیگر انجیل مرقس کا زمانہ تصنیف رسولی زمانہ کے اوّلین دور سے تعلق رکھتاہے اوریہ انجیل منجی جہان کی صلیبی موت کے دس (۱۰)برس کے اندر احاطہِ تحریر میں آچکی تھی۔

(۲)

علیٰ ہذا القیاس مقدس مرقس حضرتِ ابن اللہ کی صلیبی موت کو نجات کا ذریعہ بتلاتے ہیں (مرقس۱۰: ۴۵؛ ۱۴: ۲۴) لیکن وہ آپ کی موت اور نجات کا کوئی خاص نظریہ پیش نہیں کرتے ۔ وہ یہ بتلانے کی کوشش کہیں نہیں کرتے کہ ابن اللہ کی موت اور بنی نوع انسان کی نجات کس طرح ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ آپ کی انجیل میں یہ مذکور ہے کہ ابنِ آدم کو مرنا ضرور ہے۔ کیونکہ آپ کی صلیبی موت کتابِ مقدس اور رضائےالہٰی کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس منزل سے مقدس مرقس ایک قدم بھی آگے تجاوز نہیں کرتے۔پس یہ منزل مسیحیت کی ابتدائی تاریخ کی اوّلین منزل ہے (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳؛ ۱۔تھسلنیکیوں ۱: ۱۰؛ گلتیوں ۳: ۱۳؛ ۴: ۵ وغیرہ)۔ لہٰذا یہ انجیل مسیحیت کی ابتدائی فضا سے متعلق ہے اور قدیم ترین زمانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ مقدس پولُس اس زمانہ کے بعد (از۴۴ء تا ۶۰ء) اپنے خطوط میں کفارہ کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور مقدس مرقس کی انجیل کے واقعات کی بنیاد پر اپنے عقائد اوردینیات کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔

(۳)

اسی طرح مقدس مرقس اپنی انجیل میں قیامتِ مسیح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ مُردوں کے جی اٹھنے کا کوئی نظریہ یا دلیل قائم نہیں کرتے۔ مسیحی کلیسیا ابتدا ہی سے منجیِ عالمین کی ظفریاب قیامت کے واقعہ پر ایمان رکھی تھی(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۔ ۷)۔ لیکن اس واقعہ کے ثبوت کےدلائل ، توضیح اور تشریح وغیرہ مابعد کے زمانہ سے متعلق ہیں۔(۱۔کرنتھیوں ۱۵باب وغیرہ)۔ پس مقدس مرقس کی انجیل اس زمانہ سے بہت پہلے لکھی گئی جب مقدس پولُس نے( ۵۵ء) کے موسم بہار میں کرنتھیوں کے خط میں واقعہ قیامت کی تشریح کی تھی1۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل واقعہ قیامت کے قریباً دس(۱۰) سال بعد لکھی گئی تھی۔

(۴)

ہم ذکر کرچکے ہیں کہ انجیلِ مرقس میں ان سوالوں کے جواب میں جو مسیحیت کی ابتدائی منزل میں یہود وغیر یہود ، مسیحی اور غیر مسیحی سب پوچھتے تھے اگر خداوند نے یسوع فی الحقیقت مسیح موعود تھے تو آپ کیوں مصلوب ہوئے ؟ پس یہ انجیل ایک خاص زاویہ نگاہ سے لکھی گئی ہے ۔ ممکن ہے

______________________

1T.R.Glover Paul of Tarsus p.201


کہ کوئی صاحب یہ اعتراض کریں کہ اس خاکہ کے مطابق انجیلِ مرقس سیدنا مسیح کا سیدھا سادہ زندگی نامہ نہیں ہے۔ بلکہ ابنِ اللہ کی زندگی کے تمام واقعات کو صرف ایک نقطہ نگاہ سے قلمبند کیا گیا ہے۔ جواباً عرض ہے کہ:۔

جیسا ہم حصہ دوم کے باب چہارم میں بتلاچکے ہیں اناجیل اربعہ محض کتُب تواریخ نہیں ہیں جن میں واقعات شروع سے آخر تک مسلسل طورپر قلمبند کئے گئے ہوں۔وہ " انجیل" ہیں یعنی ایسی کتابیں ہیں جن میں خوشی کی خبردی گئی ہے ۔ ہر انجیل نویس نے اس خوشی کی خبر کو اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے لکھاہے۔ اور منجی جہان کی( ۳۳)سالہ زندگی کے واقعات پر نظر ڈال کر صرف ایسے واقعات کا انتخاب کیا ہے جو اُن کے نقطہ نگاہ کو اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں )کردیتے ہیں۔یہ اناجیل ان ایماندار مصنفوں کے زندہ ایمان کی نشانیاں ہیں جن میں دنیا کی سب سے عظیم الشان ہستی کے مافوق الفطرت اُمور ، واقعات ، تعلیم اور شخصیت کا ذکر ہے۔ مقدس مرقس فرماتے ہیں کہ سیدنا مسیح ایک تاریخی ہستی تھے جو مسیح موعود، ابن اللہ اور مافوق الفطرت ابنِ آدم تھے ، جو دنیا کو نجات دینے کے لئے صلیب پر مرے، تیسرے روز مردوں میں سے جی اٹھے اورآسمان کو صعود فرماگئے ۔ یہ تھا مقدس مرقس کا زاویہ نگاہ ۔ انجیلِ اوّل وسوم کا نقطہ نظر مقدس مرقس کے نقطہ نگاہ سے مختلف ہے اور وہ آنخداوند کے سوانحِ حیات کو اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھ کر عوام الناس کو نجات کی بشارت دیتے ہیں۔ جب ہم ان موخر الذکر (جس کا ذکر بعد میں آئے)دونوں انجیلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ دونوں مصنف انجیلِ مرقس کو لفظ بہ لفظ شروع سے آخر تک اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں جس سے ثابت ہوجاتاہے کہ گویہ تینوں مصنف منجی عالمین کی زندگی کے واقعات اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے انتخاب کرتے ہیں لیکن ان کے زاویہ نگاہ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں اس کے برعکس یہ تینوں زاوئیے ایک دوسرے کے ممدومعاون (مددگار)ہیں اورایک دوسرے کا تکملہ(پورا) کرتے ہیں۔ مقدس مرقس کا زاویہ نگاہ منجی عالمین کی وفات کے پانچ دس سال بعد کے زمانہ سے متعلق ہے۔انجیلِ اوّل وسوم کے مصنفوں کا نقطہِ نگاہ اس سے دس ، پندرہ سال بعد یعنی پہلی صدی کے نصف سے متعلق ہے۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب کا پہلا حصہ (باب اوّل تا باب بارہ) ظاہر کرتاہے کہ مقدس مرقس کی انجیل مسیحی عقائد وتعلیم کے ارتقا کی تاریخ کا پہلا باب ہے۔ انجیل متی اور انجیل لوقا اس تاریخ کا دوسرا اور تیسرا باب ہے اورانجیل یوحنا اس تاریخ کا چوتھا باب ہے۔ہر انجیل نویس کی کتاب اس ایمان کی زندہ گواہ ہے کہ مسیح کے وسیلے نئی زندگی حاصل ہوتی ہے جو انسان کی خفتہ طاقتوں کو بیدار کرکے اس کی تمام اُمیدوں کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے اور ناممکنات کو ممکن کرکے دکھادیتی ہے۔ اس زندگی سے خدا اورانسان کے باہمی تعلقات کلیتہً (مکمل)تبدیل ہوجاتے ہیں اورگناہوں کی معافی کا کامل یقین ہوجاتاہے۔ اس سے ہم کو روح القدس کی خوشی کا تجربہ حاصل ہوجاتاہے اورمسیح کے صعودِ آسمانی کے بعد اس کی جلالی آمد کے انتظار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

اس خوشی کی خبر اور بشارت کا اعلان کرنے کے لئے ہر انجیل نویس قدرتاً اہلِ یہود کی اصطلاحات کو استعمال کرکے اپنے خیالات، جذبات اور تجربات کی منادی کرتے ہیں۔ مقدس مرقس کی انجیل کا سطحی مطالعہ بھی یہ صاف ثابت کردیتاہے کہ یہ انجیل اُن خیالات کی حامل ہے جو مسیحیت کے آغاز میں کلیسیا میں نشوونما حاصل کرکے پھل پھول رہے تھے۔ باقی تین اناجیل جو چند برس بعد لکھی گئیں ، اُن خیالات کا آئینہ ہیں جو پہلی صدی کے نصف میں نشوونما پارہے تھے ۔ لیکن انجیلوں کا مطالعہ ظاہر کردیتا ہے کہ ان تمام خیالات کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جو غنچہ(پھول کی کلی، شگوفہ) کا پھول کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ تمام خیالات جو اناجیل اربعہ میں پائے جاتے ہیں مسیحی عقائد کی پہلی منزلیں ہیں۔ انجیلی مجموعہ کتُب کی بعد کی تحریرات میں دیگر


خیالات کی جھلک ہے جو پہلی صدی کے پہلے نصف کے بعد کے زمانہ سے متعلق ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر سٹریٹر (B.H.Streeter) مرحوم بتلا تاہے کہ انجیلی مجموعہ کی تمام تحریرات میں آنخداوند کی ذات کے متعلق سات (۷)نظریئے پائے جاتے ہیں جومنجی عالمین کی وفات کے تیس پینتیس سال کے اندر مسیحی کلیسیا کے مختلف طبقوں میں رواج پاگئے تھے۔ ان مختلف خیالات اورنظریہ جات میں تضاد نہیں ہے بلکہ وہ مسیحی عقائد کی ارتقا کی مختلف منزلیں ہیں ،جن میں تواتر اوریک جہتی پائی جاتی ہے۔ اس تسلسل ، تواتر اوریک جہتی کا مرکز وہ مسیحی زندگی ہے جو ظفریاب اور فاتح جلالی مسیح سے نکلتی ہے، جس سے روح القدس نے تمام مسیحیوں کو ایک بدن میں منظم کر رکھا ہے (افسیوں ۴: ۱۶)۔ اس ارتقاء کی پہلی منزل وہ خیالات ہیں جو خداوند مسیح کی وفات کے بعد رائج تھے اورجن کا ذکر رسولوں کے اعمال کی کتاب کے پہلے بارہ (۱۲)باب میں پایا جاتا ہے۔ یہی خیالات مقدس مرقس کی انجیل میں پائے جاتے ہیں جس سے اس انجیل کی قدامت ثابت ہے اور ہم پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ انجیل منجی عالمین کی موت کے بعد دس (۱۰)سال کے اندر یعنی اُس زمانہ میں لکھی گئی تھی جس زمانہ وہ حالات تھے جن کا ذکر اعمال کے پہلے بارہ(۱۲) ابواب میں ملتاہے۔

انجیلی مجموعہ کی تمام تحریرات کا غائر(گہرا) مطالعہ یہ واضح کردیتاہے کہ اس تمام مجموعہ میں مقدس مرقس کی انجیل کے خیالات سے زیادہ قدیم خیالات کا وجود کہیں پایا نہیں جاتا۔ اوران کا وجود ہو بھی کیسے سکتاہے؟ کیونکہ اگران قدیم ترین خیالات سے کم کی منادی عوام میں کی گئی ہوتی تو مسیحی کلیسیا معرضِ وجود میں بھی نہ آتی۔ کیونکہ یہی خیالات یہودیت اورمسیحیت میں مایہ الامتیاز کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابتدا ہی سے رسول یہی بشارت دیتے تھے کہ منجی عالمین " ہمارے گناہوں کی خاطر" مصلوب ہوئے (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔ اورآپ نے مُردوں میں سے زندہ ہوکر ثابت کردیا کہ آپ جلالی مسیح موعود ہیں۔ آپ چالیس(۴۰) روز تک مختلف اوقات اورجگہوں میں لوگوں پر ظاہر ہوتے رہے(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۔ ۱۱ وغیرہ)۔ اورپھر آپ نے صعود فرمایا(لوقا ۲۴: ۵۱؛ یوحنا ۲۰: ۱۷ وغیرہ)۔ آپ کے شاگردوں اور رسولوں نے آپ کی جلالی حالت کا ذاتی تجربہ کیا(مرقس ۱۶: ۶؛ لوقا ۲۴: ۳۱، ۳۴ ؛ یوحنا ۲۰: ۱۷۔ ۱۹، ۲۶؛ ۲۱: ۱۴ وغیرہ)۔ یہی باتیں مسیحیت کو یہودیت سے جُدا کرتی تھیں ۔ اگر رسولوں نے ان سے کم کا پرچار کیا ہوتا تو مسیحیت یہودی مذہب کی محض ایک شاخ ہوکر رہ جاتی اوربس ۔ سیدنا مسیح ایمان داروں کی " نجات کے بانی" نہ ہوتے بلکہ یہودی انبیاء کی قطار میں نظر آتے جن کی سہ سالہ تبلیغی خدمت کی یاد بھی دیگر انبیائے یہود کی طرح بھول بسر گئی ہوتی۔

پس یہ انجیل اُس زمانہ کی تصنیف ہے جس میں ابھی تک منجی عالمین کی ذات اور شخصیت کے متعلق یاآپ کی صلیبی موت کے متعلق کوئی خاص نظریہ قائم نہیں ہوا تھا، جس پر تمام کلیسیاؤں کا اتفاق ہو۔ اس انجیل میں اس ابتدائی زمانہ کا نقشہ نظر آتا ہے جس میں صرف سیدنا مسیح کی شخصیت، موت اور قیامت کی حقیقت پر ہی ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس ابتدائی زمانہ کے چند سال بعد وہ زمانہ آیا جب یہود اور غیر یہود مسیحی علماء نے ان حقائق پر فلسفیانہ پہلوؤں سے نگاہ کرکے حکیمانہ نظریہ جات قائم کئے تھے۔ لیکن مقدس مرقس کی انجیل میں اس قسم کے حکیمانہ نظریہ جات اور فلسفیانہ خیالات کا نام ونشان بھی نہیں ملتا جو مقدس یوحنا اور مقدس پولُس اوردیگر انجیلی مصنفین کی تحریرات میں موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انجیل مرقس مقدس پولُس کے خطوط اور مقدس یوحنا کی تحریرات سے بہت پہلے لکھی گئی تھی ۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ اولین انجیل ، منجی عالمین کی صلیبی موت کے دس (۱۰)سال کے اندر اندر احاطہ تحریر میں آگئی تھی۔

فصل سوم

مقدس لوقا اور مقدس مرقس کی اناجیل کا باہمی تعلق

ہم اس کتاب کے حصہ دوم کے بابِ اوّل کی فصل سوم میں ثابت کرچکے ہیں کہ انجیل لوقا کی دوتہائی سے زیادہ حصہ(۱۱۴۹)آیات میں سے (۷۹۸ )آیات اِن آیات پر مشتمل ہے جو مقدس مرقس کی انجیل سے نقل کی گئی ہیں۔ اسی حصہ کے باب سوم کی فصل اوّل میں ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مقدس لوقا نے انجیل لکھتے وقت مقدس مرقس کی انجیل کو بطور ایک ماخذ کے استعمال کیا تھا اورکہ اس نے اپنی انجیل کا ڈھانچہ مقدس مرقس کی ترتیب کے مطابق ڈھالا ہے۔ مقدس لوقا کی انجیل کا غائر مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ اُس نے خداوند کی آزمائشوں کے بیان اور عشائے ربانی کے مقرر ہونے کے درمیانی عرصہ میں دیگر ماخذوں سے تین بڑے حصے اکٹھے کرکے تین مختلف مقامات میں جمع کردئیےہیں (لوقا ۶: ۲۰۔ ۸: ۳ ؛ ۹: ۵۱ تا ۱۸: ۱۴؛ ۱۹: ۱۔ ۲۷ آیات)۔ باقی ماندہ حصص میں مقدس لوقا نے مقدس مرقس کی انجیل کو نقل کیا ہے۔

پس جب مقدس لوقا نے اپنی انجیل کو لکھا تب مرقس کی انجیل اس قدر اعتبار کے قابل سمجھی جاتی تھی کہ آپ نے اُس کے الفاظ اور ترتیب کو قائم رکھا اوراُن کے مطابق اپنی انجیل کو لکھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ( ۵۵ء) تک( جب مقدس لوقا نے اپنی انجیل کو لکھا)۔ مرقس کی انجیل کلیسیا میں ہر چہارطرف مروج تھی اور ایسی مسلم شمار کی جاتی تھی کہ اُس زمانہ میں اس کی ٹکر کا اوراس کی قسم کا کوئی دوسرا ماخذ موجود نہ تھا۔

یہ امر محتاجِ بیان نہیں کہ اس قسم کی کتاب کو یہ رتبہ اور چند ہفتوں یا مہینوں میں حاصل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ اس بات کے لئے ایک طویل مُدت درکا ہے کہ انجیل مرقس ایسی مستند کتاب لکھی جائے اور وہ ہر چہار طرف ایسی رواج پائے جائے کہ مختلف مقامات کی کلیسیائیں اُس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں۔بالخصوص ایسے زمانہ میں جب چھاپہ خانے موجود نہ تھے، اورہر کتاب کا ایک ایک لفظ ہاتھ سے نقل کیا جاتا تھا۔ گذشتہ باب میں ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مقدس لُوقا نے اپنی انجیل( ۵۵ء) کے قریب بمقام قیصریہ میں لکھی تھی۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب اورکلیسیائی روایات سے ظاہر ہے کہ( ۵۵ء) تک مسیحی کلیسیا دُور ودراز مقامات میں یہود اور غیر یہود دونوں میں پھیل چکی تھی۔ پس اگر مقدس مرقس کی انجیل( ۵۵ء) تک تمام کلیسیاؤں میں مسلم اور مستند سمجھی جاتی تھی اوررواج پاچکی تھی تو ظاہر ہے کہ وہ اس سے کم از کم دس پندرہ سال پہلے لکھی گئی ہوگی۔پس قیاس یہی چاہتاہے کہ یہ انجیل( ۴۰ء) کے قریب احاطہ تحریر میں آئی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انجیل مرقس منجی عالمین کی وفات کے قریباً دس (۱۰)سال کے اندر اندر تصنیف کی گئی تھی۔ انشاء اللہ آئندہ فصل میں ہم یہ واضح کردیں گے کہ دیگر اُمور سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ انجیل( ۴۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی۔


فصلِ چہارم

انجیلِ مرقس کا سنِ تصنیف اورتواریخی واقعات

(۱)

ہم گذشتہ باب کی فصل میں بتلاچکے ہیں کہ جب مقدس لوُقا نے اپنی انجیل لکھی تھی اُس زمانہ میں یروشلیم کا شہر ویران وتباہ نہیں تھا اورنہ اُس کی ہیکل نذرِ آتش ہوچکی تھی۔ چونکہ مقدس مرقس نے اپنی انجیل مقدس لوقا سے بہت سال پہلے لکھی تھی ۔پس قیاس یہی چاہتاہے کہ اس میں بھی اس واقعہ ہائلہ(ہائل کی تانیث، ہولناک ،مہیب) کاذکر موجود نہ ہو۔جب ہم انجیل مرقس پڑھتے ہیں توہم بعینہ یہی حالت پاتے ہیں۔ اس میں نہ تو یروشلیم کی تباہی کا ذکرہے اورنہ ہیکل کے برباد ہونے کا اشارہ تک پایا جاتاہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ علماء یقیناً غلطی پر ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انجیل( ۷۰ء) میں لکھی گئی تھی۔

حق تویہ ہے کہ اگرانجیل مرقس خالی الذہن ہوکر پڑھی جائے تویہ بات کسی کے خیا ل میں بھی نہ آئے گی کہ اس کے لکھنے کے وقت ہیکل برباد ہوچکی تھی۔ اِس کے برعکس اس کا مطالعہ یہی ظاہر کرتاہے کہ یہ شہر یروشلیم اورہیکل دونوں صحیح سلامت کھڑے ہیں۔ مثلاً ہیکل کی ناپاکی کا ذکر موجود ہے (مرقس ۱۳: ۱۴)۔ کیا ناپاکی کاذکر یہ ثابت نہیں کرتا کہ جب یہ انجیل لکھی گئی تھی تو خداوند کی ہیکل اُس وقت موجودتھی؟

مقدس مرقس ۱۵: ۲۹ میں لکھتے ہیں کہ کلوری کے مقام پر لوگ مصلوب سیدنا مسیح کو لعن طعن کرتے اورکہتے تھے" واہ! مقدس کے ڈھانے والے اوراُس کو تین دن میں بنانے والے" ۔ اگراس انجیل کے لکھے جانے کے وقت ہیکل برباد ہوچکی ہوتی تو انجیلِ نویس یہاں ضرور بتلاتاکہ دیکھ لو۔ ہیکل برباد ہوچکی ہے!

مرقس ۱۳باب کی پہلی ۱۳آیات میں اُن لوگوں کی جانب اشارے ہیں جو کاذب(جھوٹے) نبی تھے اورمسیحائی کا جھوٹا دعویٰ کرتے تھے۔ ان آیات میں جو ذکر لڑائیوں اورجنگوں کا ہے اُن میں پارتھیا کی جانب اشارہ ہے۔" ان آیات میں قحط، زلزلوں اور ایذاؤں کا ذکر ہے جو اہل یہود مسیحیوں کو دیتے تھے ،لیکن نیرو کی خوفناک اور وحشت انگیز ایذارسانی (۶۴ء) اوراس کے بعد کے واقعات کا کہیں ذکر نہیں پایا جاتا۔ رومی افواج کے حملہ کے جو ملک یہودیہ پر کیا گیا تھا اور یروشلیم کے تاراج (برباد)ہونے کا اور ہیکل کے نذرِ آتش ہونے کے واقعات کی جانب اشارہ تک نہیں ملتا۔ ان جانکاہ تواریخی واقعات کی بجائے صرف ہیکل کی ناپاکی کا ذکر موجود ہے۔ اور وہ ناپاکی بھی ایسی تھی (جیسا ہم ابھی بیان کریں گے) جو وجود میں نہ آئی1۔ مورخ یوسیبئس کا ایک بیان اس مقام پر قابل غور ہے۔ وہ ہم کو بتلاتا ہے کہ یہودیہ کے مسیحی لیڈروں کو الہٰام سے پہلے ہی آگاہی مل گئی تھی۔ پس وہ( ۷۰ء) میں یروشلیم سے پیلؔابھاگ گئے۔یہ الہٰام (مرقس ۱۳: ۱۴۔ ۱۹ )میں موجود ہے اورثابت کرتاہے کہ یہ انجیل یروشلیم کی تباہی کے واقعہ کے بعد تحریر میں نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے کلیسیا کے ہاتھوں میں موجود تھی جس سے آگاہی پاکر وہ پیلؔاکی جانب بھاگ گئے۔

______________________

1C.H.Dodd, The Parables of the Kingdom p.52. note


آیت ۱۲ میں خاندانوں میں پھوٹ پڑنے کا ذکر ہے۔ جب ہم انبیائے سابقین کی کتُب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ خاندانوں کا باہمی نفاق قومی مصائب کی روائتی تصویر ہے1(میکاہ ۷: ۶؛ یسعیاہ ۱۹: ۲؛ یوبلی ۲۳: ۱۶، ۱۹؛ ۲۔ باروک ۷: ۳۔۷؛۲۔ سدرس ۶: ۲۴ وغیرہ)۔ یہ حال ابتدائی اوّلین کلیسیا کا تھا ، جس کا خلاصہ اس آیت میں موجود ہے۔1

یہ ظاہر ہے کہ (مرقس ۱۳: ۵۔ ۱۳) کے مقام کا تعلق مسیحی کلیسیا کی ابتدائی منزل سے ہے، جب مسیحیت ایک نیا بدعتی یہودی فرقہ خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہودی عالم مرحوم ڈاکٹر مونٹی فیوری لکھتاہے2کہ " مسیح کی موت کے بعد بیس (۲۰)برس کا زمانہ مسیحی کلیسیاؤں کے لئے ایذاؤں کا زمانہ تھا جو یہودی عبادت خانوں کی طرف سے تھا۔ گو اوّلین یہودی مسیحی جو یروشلیم میں رہتے تھے شریعت کی تمام رسوم کو مانتے تھے اور شرعی احکام پر چلتے تھے تاہم ان میں اور دیگر یہود میں جوکٹر تھے بڑا فر ق تھا۔ گو یہ یہودی مسیحی عبادت خانوں کےممبر ہوکر رہنا چاہتے تھے تاہم ان کا وجود ہی یہود کے لئے لگاتار برہمی اور برافروختگی کا باعث تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ خاندان کے افراد میں باہمی پرخاش(نااتفاقی) کس قدر خطرناک ہوتی ہے۔ یہودی مسیحیوں کا یہ ایمان کہ مسیح موعود آگیا ہے، بجائے خود کوئی معمولی اختلاف نہ تھا۔ اس پر ان لوگوں میں شریعت کی پابندی میں جو ڈھیل آگئی وہ یہود کو برافروختہ (غصہ میں بھرا ہوا)کرنے کے لئے کافی تھی۔ اس پر طرہ(بڑھ کر) یہ مسیحی یسوع ناصری کو الہٰی صفات سے موصوف(تعریف کیا گیا، ممدوح وہ جس کی تعریف کی جائے) مانتے تھے اوریہ بات ان کٹر موحدوں کے لئے ایک ناقابل برداشت عقیدہ تھا جس سے شرک ٹپکتا تھا۔ فریسی اس قسم کے خیالات سے مصالحت روا نہیں رکھ سکتے تھے۔ ریناؔن دُرست کہتاہے کہ

" اگریہودی رومی سلطنت کے ماتحت نہ ہوتے اوران سے سزائے موت کا حق نہ چھین لیاگیا ہوتا تو وہ مسیحیوں کو زندہ نہ چھوڑتے"۔

پس انجیلِ مرقس کے تیرھویں باب کی مذکورہ بالا آیات کا تعلق کلیسیا کے وجود کے پہلے بیس (۲۰)برس کے ساتھ ہے۔ جب مسیحی "عبادخانوں میں پیٹے" جاتے تھے اور یہودی عدالتوں کے سامنے پیش کئے جاتے تھے۔ اس مقام میں " حاکموں اوربادشاہوں" سے مراد ہے یہودیہ کے گورنر اوریہودی حاکم، جو چوتھائی حصہ کے حاکم تھے۔" جھوٹے نبی اورکاذب مسیح" یہودی لیڈر ہیں۔ آیت ۸کے الفاظ " دردزہ کا شروع" ربیوں کی مشہور اصطلاح 3ہے ۔جس کا مطلب اندرونی اور بیرونی سیاسی مصیبت کازمانہ تھا، جس کا مسیح موعود کےزمانہ سے پہلے وجود میں آنا لازم خیال کیا جاتا تھا۔ اس مقام میں مسیحی کلیسیا کو خبردار کیا گیا ہے کہ سیدنا مسیح کی آمد سے پہلے ان کو دکھ اور مصیبت اورایذارسانی کا سامنا کرنا ہوگا اوراس سے اقوام میں انجیل سنائی جائے گی۔ مقدس پولُس فرماتاہے کہ یہ اس کے زمانہ میں ہوگیا ہے (رومیوں۱: ۸ ؛ کلسیوں۱: ۵۔ ۶ ؛ ۱۔تھسلنیکیوں ۵باب)۔

پس اس مقام سے ظاہر ہے کہ یہ نقشہ وہی ہے جو اعمال کی کتاب کے پہلے ابواب میں کلیسیا کا نقشہ ہے اویروشلیم کی ہیکل کےبرباد ہونے سے کم از کم تیس (۳۰)سال قبل کا ہے۔

علاوہ ازیں مرقس کی انجیل میں آیا ہے " جب تک یہ سب باتیں نہ ہولیں یہ پشت ہرگز تمام نہ ہوگی"(مرقس ۱۳: ۳۱)۔ اورانجیل (متی ۱۶: ۲۸ )میں خداوند فرماتے ہیں ۔ " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہی میں

______________________

1Ibid.p.69
2G.C.Montefiore, the Synoptic Gospels (1927) Vol1.p.CIV also see I, Abraham, Studies in Pharisaism and the Gospels, 2nd series (1924) ch X.”The Persecutions’s pp.56-72
3Manson, Mission & Message of Jesus p.159.


آئے ہوئے نہ دیکھ لیں وہ موت کا مزہ ہر گز نہ چکھیں گے"(نیز دیکھومتی ۲۴: ۳۴؛ ۱۰: ۲۳؛ ۲۳: ۳۶) سیدنا مسیح اُن مقامات میں صاف اور واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ یہ سب واقعات آپ کے سامعین (سُننے والے)کے سامنے ہوں گے ۔ الفاظ" جو یہاں کھڑے ہیں" سے مراد صرف یہی ہوسکتی ہے کہ جو آپ کے سامنے کھڑے تھے اورآپ کے کلمات کو سن رہے تھے(دیکھومتی ۲۶: ۷۳) یہ ارامی محاورہ ہے جس کو اردو دان اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں" ۔ موت کا مزہ نہ چکھیں گے" بھی ارامی محاورہ ہے جو عبرانی کتب مقدسہ میں کہیں وارد نہیں ہوا اور(یوحنا ۸: ۵۲ ؛عبرانیوں ۲: ۹) میں پایا جاتاہے ۔

یہ محاورہ ربیوں کی کتابوں اورکتُب " تراجم" میں اکثر آیا ہے1۔ اردو دان اس محاورہ سے جو قرآن میں بھی آیا ہے مانوس(راغب، پسند) ہے۔

ان واضح مقامات سے ثابت ہے کہ جب انجیل مرقس لکھی گئی تھی اُس وقت یروشلیم کی ہیکل ہنوز کھڑی تھی۔ جرمن نقاد ہارنیک نے زبردست دلائل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اعمال کی کتاب ، مقدس لوقا کی انجیل اورانجیل مرقس یروشلیم کی تباہی کے واقعہ سے بہت پہلے لکھی گئیں2

یہ عالم کہتاہے کہ مقدس لوقا کی انجیل( ۶۰ء) کے لگ بھگ اور مقدس مرقس کی انجیل( ۵۰ء) کے لگ بھگ لکھی گئی 3

پس مرقس کی انجیل تب لکھی گئی تھی جب وہ نسل عالمِ شباب میں تھی جس کی نسبت سیدنا مسیح نے فرمایا تھا کہ " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک وہ نہ دیکھ لیں کہ خدا کی بادشاہی قدرت کے ساتھ آگئی ہے وہ موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے"(مرقس۹: ۱)۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل کلیسیا کے دورِ اوّلین میں احاطہِ تحریر میں آچکی تھی۔ اس سے پہلے ہم دیگر وجوہ(وجہ کی جمع، سبب) سے بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ انجیل( ۴۰ء )میں تصنیف کی گئی تھی۔

(۲)

سلطنتِ روم کے قیاصرہ میں سے ایک قیصر تھا جس کا نام کیلی گیولا تھا۔ جس کے زمانہ میں اگرپا گلیل کا حاکم ہوا تھا۔ سلطنت کے نشہ نے اس کے دماغ میں خلل پیدا کردیا اور ایساکہ اس نے حکم دیا کہ ہر شخص اُ س کی پرستش کیا کرے اوراس کے آگے سرنگوں ہوکر سجدہ کیا کرے۔ وہ مندروں میں دیوتاؤں کی مورتیوں کے ساتھ اُن کےپہلو میں بیٹھ جاتا تھا تاکہ رعایا دیگر معبودوں کے ساتھ اُس کی بھی پوجا کریں۔ بعض اوقات وہ دیوتاؤں کے قاصد عطارد دیوتا کے سے پر لگالیتا اوربعض اوقات اپالو دیوتا کی نقل کرکے سورج کی سی شعائیں زیب تین کرلیتا۔ اکثر اوقات وہ جو پیٹر دیوتا کی مورتی کے کانوں میں سرگوشی کرتا اوراپنے کان اس کے منہ کے پاس لے جاتا گویاکہ وہ دونوں برابر کے دیوتا ہیں اور دیوتا تک بھی اس کو اپنے برابر دیوتا مانتے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ جو پیٹر میرا بھائی ہے اور چاند میری بیوی ہے ۔ اس نے ایک نہایت عالی شان مندر اپنی پوجا کے لئے بنوایا جس میں اُس کے حضور قربانیاں کی جاتی تھیں۔ اس مندر کے باقاعدہ پجاری تھے جن میں سے ایک اس کا گھوڑا بھی تھا جس کے لئے اس نے سونے کی چرنی بنوائی تھی اورجس کے لئے اس نے ایک رہائشی مکان بھی بنوایا جس میں دربار کے امُراء گھوڑے کے ساتھ کھانا بھی کھایا کرتے تھے4

(۴۰ء )کی بات ہے کہ اس پاگل اورظالم قیصر نے احکام صادر کئے کہ یروشلیم کی ہیکل میں اس کا بُت نصب کیا جائے تاکہ موحد(خُدا کو ایک ماننے والا) یہود بھی اس کی عبادت اور پرستش کریں5۔ تمام ارضِ مقدس میں ہلچل مچ گئی اوراہلِ یہود مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ ادھر قیصر بھی اس بات پ

______________________

1CBox, St. Matthew (The Century Bible) p.268 and Allen, St Mark, p.122
2& 7 Archdeacon W.C.Allen, “Moffiat’s Introduction to the N.T.”Exp, Times June 1911 p. 395
3 Foakes Jackson & Kirsopp Lake, Beginnings of Christanity Part 1 Vol 2.p393
4J.B.De Serviez Lives of the Roman Empresses p.142
5Josephus, Wars 2, 10, 184 ff.


پر تلا ہوا تھاکہ وہ اپنا بُت قدس الاقداس میں نصب کرکے رہے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کشمکش کے دوران میں( ۴۱ء )کے شروع میں وہ قتل کیا گیا اوراس کے حکم پر عمل نہ ہوسکا۔

امریکی عالم ڈاکٹر ٹوری کہتا ہے1کہ مرقس کی انجیل کے تیرھویں باب میں قیصر کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے۔" جب تم اس اُجاڑنے والی مکرہ چیز کو اس جگہ کھڑی ہوئی دیکھو جہاں اس کا کھڑا ہونا روا نہیں (پڑھنے والا سمجھ لے)۔۔۔۔الخ (مرقس ۱۳: ۱۴)۔ مسیحی یہودیوں نے رومی قیصرکیلی گیولا کے حکم کو دانی ایل نبی کی پیشین گوئی کا پورا ہونا سمجھ لیا۔ غیر قوم مشُرک بُت پرست قیصرِ روم کا بُت یروشلیم کی ہیکل کی قربان گاہ پر نصب کیا جائے اورموحدیہود اس کی پرستش کریں!! " اس قسم کے حکم کا مسیح موعود کی پہلی آمد کے بعد ہی دیا جانا ایک ایسی بے مثال " اجاڑنے والی مکرہ چیز " تھی جس کا ثانی ہزار سال تو الگ رہے دس ہزار سال میں بھی نہیں مل سکتا تھا اور اگر( ۴۱ء) کے شروع میں کیلی گیولا قتل نہ کیا جاتا توحالات نہایت نازک صورت اختیار کرلیتے"۔

اگر مقدس مرقس کی انجیل( ۴۱ء) یا اس سن کے بعد لکھی جاتی تو اس میں اس واقعہ کی جانب اشارہ نہ ہوتا۔ کیونکہ اس حکم پر عمل ہونے سے پہلے ہی قیصر کیلی گیولا قتل کردیا گیا تھا۔ پس اس عالم کے خیال میں یہ کتاب کیلی گیولا کے حکم کے بعد اوراس کے قتل ہونے سے پہلے درمیانی عرصہ ( ۴۰ء) میں شائع ہوگئی تھی۔

ایک اورامریکی عالم ایف ۔ سی گرانٹ بھی لکھتاہے2

" بہتوں کا خیال ہے کہ" اجاڑنے والی مکرہ چیز" سے اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب (۴۰ء )میں قیصرکیلی گیولا نے حکم دیا تھاکہ اس کا بُت یروشلیم کی ہیکل میں نصب کیا جائے۔ یہودیوں اوریہودی مسیحیوں نے اس واقعہ کو دانی ایل نبی کی پیشین گوئی کی تکمیل سمجھا"۔

مشہور نقاد باوٹن تک کہتاہے کہ اس امر کو ماننے میں ہمیں تامل نہیں کہ( آیت ۱۴ )سے کیلی گیولا کا حکم ثابت ہے گویہ عالم کہتاہے کہ اس ماخذ میں اورانجیل مرقس کی تصنیف کے درمیان وقفہ کی ضرور ت ہے۔ پس وہ یہ خیال کرتاہے کہ یہ انجیل پہلے پہل( ۵۰ء )کے قریب شائع ہوئی 3۔ پروفیسر بیکن ڈاکٹر ٹوری کے نظریہ کے تائید کرتاہے اورکہتاہے کہ" (مرقس ۱۳: ۱۴ )میں کیلی گیولا کے حکم کی طرف اشارہ ہے۔ دانی ایل کی نبوت (دانی ۱۱: ۳، ۳۶) اس کی بناء ہے۔ یہاں قیصر کی پرستش مراد ہے۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ" مکرہ چیز " کیا گیا ہے وہ بے جنس ہے یعنی نہ وہ مذکر ہے اورنہ وہ مونث ہے لیکن فعل " کھڑا ہونا" ، " مذکر " ہے4 ۔ پروفیسر مینسن لکھتا ہے : " مرقس کے الفاظ " اس اجاڑنے والی مکروہ چیز" سے کیا مراد ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ اس حکم کی پیشین گوئی ہے جو قیصرکیلی گیولا نے دیا تھا کہ اس کے بُت کی پرستش کی جائے۔ اہل یہود کے نزدیک " مکروہ چیز" سے مراد بُت یا بُت پرستی کا نشان تھا۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ یونانی متن میں گو وہ لفظ" مکروہ چیز" بےجنس اسم ہے لیکن فعل" کھڑا" مذکر ہے اورایسا معلوم ہوتاہے کہ لکھنے والے کا مطلب یہ تھا کہ کوئی آدمی یروشلیم میں آئے گا تاکہ اس کی پرستش کی جائے۔ بعض کا خیال ہے کہ لفظ " اجاڑنے والی " سے مراد نقیب شاہی یا کوئی شخص ہے

______________________

1G.C.Torrey, The Four Gospels p. 262
2F.C Grant, The Earliest Gospel p.262.
3 Barton, Prof, Torrey’s Theory of the Aramaic Origin of the Gospels in the J.T.S Oct.1935
4Blunt, St.Mark pp. (70-74).


ہے جو ہیکل یا شہر کو اجاڑنے کا سبب ہوگا۔دیگر علماء کا یہ خیال ہے کہ ان الفاظ سے مراد ایسی شے ہے جس سےلرزہ براندام ہوجائے یعنی کوئی نہایت مہیب اورنفرت انگیز قسم کی بُت پرستی ہے، مثلاً قدس الاقداس میں رومی قیصر کے بُت کانصب ہونا" 1

مندرجہ بالا آیات کے الفاظ" پڑھنے والا سمجھ لے" نہایت معنی خیز ہیں اوریہ ظاہر کرتے ہیں کہ انجیل نویس رازداری اور اخفا(پوشیدہ کرنا) کے پردہ میں اپنے ناظرین کوقیصر کے احکام بتلا کر خبردار کرتاہے کیونکہ یہ قیصر نہایت ظالم اورجابر تھا۔ پس اس قسم کے الفاظ( ۴۰ء) کےسن تصنیف ہونے پر بھی گواہ ہیں۔( ۷۰ء) کے بعد رازداری اور اخفا کے پردہ کی ضرورت ہی نہ رہی تھی۔

پروفیسر ڈاڈ کہتے ہیں کہ اگر ٹوری اوربیکن کے دلائل کو تسلیم کرلیاجائے تو " مکروہ چیز" سے مراد قیصرکیلی گیولا کی وہ ناپاک کوشش تھی کہ ہیکل میں اُس کا بات( ۴۰ء) میں نصب کیا جائے۔ لیکن اس کی مراد بر نہ آئی۔ پس (مرقس ۱۳: ۱۴ )سے اس انجیل کی آخری تاریخ متعین ہوسکتی ہے" 2فاضل مصنف پادری کیڈاؤ مقدس مرقس کی انجیل کےمختلف ماخذوں پر بحث کرکے اس نتیجہ پر پہنچتاہے کہ یہ انجیل پہلے پہل( ۴۰ء) میں لکھی گئی تھی ۔3

پس خارجی واقعات اس قدیم ترین انجیل کی اندرونی شہادت کی ہر پہلو سے تائید کرتے ہیں اورہم پر یہ نتیجہ واضح ہوجاتاہے کہ یہ انجیل ( ۴۰ء) میں لکھی گئی ۔ اگر مقدس پطرس کا ہاتھ اس انجیل کے لکھوانے میں تھا تویہ تاریخ مقدس پطرس کی زندگی کے واقعات کےمطابق بھی ہے۔ کیونکہ اعمال کے بارھویں باب میں ہیرودیس اگرپا کے عہدِ حکومت میں پطرس رسول کی قید اور رہائی کا ذکر ہے اوریہ( ۴۴ء) کا واقعہ ہے اوریروشلیم کے قحط سے پہلے کا واقعہ ہے جو مورخ جوزیفس کے مطابق( ۴۵ء) میں ہوا تھا۔ پس مقدس پطرس( ۴۴ء )کے موسم بہار میں کہیں چلے گئے تھے 4اوریہ انجیل اس سے پہلے( ۴۰ء) میں احاطہِ تحریر میں آچکی تھی۔

______________________

1Manson,Mission & Message of Jesus p.159
2Dodd, Parables of the Kingdome p. 52.( note)
3A.T.Cadoux, The Sources of the Second Gospels,See also Exp, Times for Jan,1936 p.161


فصل پنجم

مخالف علماء کے خیالات کی تنقید

ممالک مغرب کے علماء بالعموم کہتے ہیں کہ انجیل مرقس کی تاریخ تصنیف( ۷۰ء) ہے ۔ یہ تاریخ دو وجوہ کی بناء پر مقرر کی گئی ہے جن پر ہم اس فصل میں غور کریں گے۔

(۱)

کلیسیائی روایت ہے کہ یہ انجیل شہر روم میں لکھی گئی تھی۔ اگر یہ روایت درست ہے توہمارا نتیجہ غلط ہوگا کہ مقدس مرقس نے یہ انجیل یروشلیم میں منجی عالمین کی صلیبی موت کے دس(۱۰) سال بعد لکھی تھی۔ لیکن کیا یہ روایت ایسی ہے جس میں کسی قسم کے شک وشبہ یا چون وچرا کودخل نہیں ہوسکتا؟

آبائے کلیسیامیں سے اس روایت کا صرف ایک شخص یعنی سکندریہ کا فاضل مقدس کلیمنٹ صریح، صاف اور غیر مبہم اور واضح الفاظ میں ذکر کرتا ہے1۔ کلیمنٹ( ۱۵۵ء تا ۲۲۰ء )کا ہے۔ گو اس کی تصنیفات کا زمانہ( ۱۹۰ء) سے شروع ہوتاہے ۔پس اس بزرگ کا تعلق درحقیقت دوسری صدی کے آخر اور تیسری صدی کے اوائل سے ہے۔ اگر بالفرض مقدس مرقس نے اپنی انجیل( ۷۰ء) میں بھی لکھی ہو،تاہم اس تاریخ میں کلیمنٹ کی تصنیفات میں کم از کم سوا سو(۱۲۵)سال کا فاصلہ حائل ہے۔

مقدس آئرینوس نے (۱۳۳ء تا ۲۰۳ء) اپنی کسی تصنیف میں واضح طورپر یہ نہیں کہا کہ انجیل مرقس روم میں لکھی گئی تھی۔ مقدس آئرینوس مقدس پولی کارپ کے شاگرد تھے جن کو مقدس یوحنا نے سمرنا کا بشپ مقرر کیا تھا۔ مقدس آئرینوس نے روم میں مختلف بدعتوں اور بالخصوص غناسطی بدعتوں کے خلاف متعدد لیکچر دئے تھے۔ان کی مشہور ومعروف کتاب پانچ جلدوں میں( ۱۸۲ء اور ۱۸۸ء )کے درمیان لکھی گئی جب وہ لائینزLyons کے بشپ تھے۔ جب اس پایہ کا شخص مذکورہ بالا روایت کو بیان نہیں کرتا تو اسی کی خاموشی نہایت معنی خیز ہوجاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ روایت ضعیف (کمزور)ہے۔

علاوہ ازیں یہ روایت ایسی نہیں کہ جس پر کُل آبائے کلیسیا متفق ہوں۔ چنانچہ مقدس خرسستم کا یہ قول ہے کہ یہ انجیل ملک مصر میں لکھی گئی تھی ۔2

ایک اور سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگریہ انجیل روم میں( ۷۰ء) میں لکھی گئی تھی تو مقدس مرقس کو کیاضرورت پڑی تھی کہ وہ( ۱۳باب ) کے پمفلٹ کو اپنا ایک ماخذ بناتا یا اس باب کو لکھتا۔ یہ پمفلٹ یہودیہ کے یہودی مسیحیوں کے لئے لکھا گیا تھا۔( ۷۰ء) میں حالات بدل گئے تھے پس اگر مرقس ک

______________________

1See.H.D.A.Major, Jesus by an Eye witness,p. 11
2Bishope Blunt, St.Mark ( Clarendon Bible) p.29


کی انجیل روم میں لکھی گئی تھی تواس نے ایک ایسے ورق کو کیوں شامل کرلیا جویہودیہ میں لکھا گیا تھا اوریہودیہ کے خاص حالاتِ ماضی سے ہی تعلق رکھتا تھا؟ کوئی سلیم العقل شخص یہ ماننے کو بھی تیار نہ ہوگا کہ یہ ورق تصنیف کے بعداس میں شامل کیا گیا تھا ۔1

پس یہ روایت کہ مقدس مرقس نے اپنی انجیل کو شہر روم میں لکھا بہت بعد کے زمانہ کی ہے جو کم ازکم کسی محل دلیل کی بنیاد نہیں ہوسکتی۔

(۲)

دوسری دلیل بھی ایک ایسی روایت پر مبنی ہے جو راقم الحروف کے خیال میں ضعیف ہے۔ اس روایت کے مطابق انجیلِ مرقس مقدس پطرس رسول کی شہادت کے بعد لکھی گئی تھی۔ روایت یہ ہے کہ مقدس پطرس نے نیرو قیصر روم کی ایذارسانی کے زمانہ میں( ۶۴ء )میں جامِ شہادت پیا اور مقدس مرقس نے آپ کی شہادت کے بعد روم میں اپنی انجیل لکھی جو مقدس پطرس رسول کے خطبات پر مبنی تھی۔

(ا) کیا مقدس پطرس شہر روم گئے تھے؟ اگراس کا جواب اثبات میں ہے تو آپ کس سن میں وہاں تشریف لے گئے تھے؟

(ب۔) کیا مقدس پطرس روم میں شہید ہوئے تھے؟

(ج۔) کیا مقدس مرقس نے اپنی انجیل مقدس پطرس کی وفات کے بعد لکھی تھی؟

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مقدس پطرس رسول شہر روم گئے تھے اور اگر گئے تھے تو آپ کس زمانہ میں گئے تھے؟

روایت ہے کہ مقدس پطرس پچیس (۲۵)برس روم کے بشپ رہے۔ یہ روایت چوتھی صدی میں مروج تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ جب رسول نے قید خانہ سے رہائی حاصل کرکے یروشلیم کو چھوڑاتو لکھا ہے کہ " آپ " دوسری جگہ" چلے گئے (اعمال ۱۲: ۱۷)۔ اس " دوسری جگہ" سے یہ اصحاب مطلب شہر روم سے لیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ تاویل درست ہے تو جب( ۵۰ء )کے قریب یروشلیم میں پہلی کونسل منعقد ہوئی تو آپ یروشلیم میں کیسے پہنچ گئے ۔ یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ جب( ۵۹ء) میں مقدس پولُس روم لے جائے گئے (اعمال۲۸باب) تو مقدس پطرس وہاں نہیں تھے۔ اگر مقدس رسول بروئے روایت( ۴۳ء) میں روم کے بشپ تھے تو آپ( ۵۰ء )کے قریب یروشلیم کی کونسل میں کس طرح حاضر اور( ۵۹ء) میں روم سے کیوں غائب تھے؟ مقدس پولُس نے روم کے مسیحیوں کے نام( ۵۸ء )میں خط لکھا لیکن اس میں مقدس پطرس کا نہ ذکر ہے اور نہ آپ کوسلام بھیجا گیا ہے حالانکہ اس خط کے سولھویں باب میں روُم کی کلیسیا کے سرکردہ اشخاص کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے۔ علاوہ ازیں جوخطوط مقدس پولُس نے زندانِ روم سےلکھے تھے، اُن میں بھی مقدس پطرس کا نام تک نہیں ملتا۔ ان اور دیگر وجوہ کی بناء پر راقم الحروف کا خیال ہے کہ مقدس پطرس رسول شہر روم میں( ۶۳ء) سے پہلے تشریف نہیں لے گئے تھے۔ (ب)روایت کے مطابق مقدس پطرس رسول روم میں شہید کئے گئے تھے۔ اس روایت کے حق میں رُوم کے مقدس کلیمنٹ کی عموماً گواہی پیش کی جاتی ہے۔ لیکن مقدس کلیمنٹ نے جوخط روم سے ۹۶ء میں کرنتھیوں کو لکھا اس میں آپ واضح طورپر یہ نہیں فرماتے کہ مقدس پطرس شہر روم میں شہید کئے گئے تھے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ حسب ذیل ہیں 2

______________________

1 C.J.Cadoux, The Historic Mission of Jesus p. 12.
2 Epistle to Corinthians, Chapter V (Lightfoot’s Translation)


پطرس نے اپنے ناراست حسد کے باعث ایک دونہیں بلکہ بہت محنتیں اور مشقتیں اٹھالیں اوراس طرح اپنی گواہی دے کر اپنے جلال کی مقرری جگہ کوچلاگیا"۔

(ج۔) عام روایت کے مطابق مقدس مرقس نے اپنی انجیل کو مقدس پطرس کی وفات کے بعد لکھا تھا لیکن سکندریہ کے مقدس کلیمنٹ تک اس روایت کے خلاف ہیں۔

چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔ 1

" پطرس نے روم میں علانیہ کلام کی منادی کی ۔ اور روح القدس کی تحریک سے انجیل کی بشارت دی۔ پس بہتوں نے جو وہاں تھے مرقس سے درخواست کی کہ اس کے کلمات کو ایک مسلسل بیان کی صورت میں قلمبند کرے کیونکہ وہ مُدت تک مقدس پطرس کے ساتھی رہ چکے تھے اوراُن کو رسول کے کلمات یاد تھے۔ پس اُنہوں نے اپنی انجیل لکھی اور اُن کودی۔ جب پطرس نے (لوگوں کی درخواست کو) سُنا تو اُس نے نہ تو منع کیا اور اور نہ ترغیب دی"۔

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ مقدس کلیمنٹ کے خیال میں مقدس مرقس نے اپنی انجیل کو مقدس پطرس کی حین ِحیات میں ہی لکھا تھا۔ بعض اصحاب نے مقدس آئر ینوس کے الفاظ کی غلط تاویل کرکے یہ کہا ہے کہ آپ کے خیال میں مقدس مرقس نے اپنی انجیل کو مقدس پطرس رسول کی وفات کے بعد لکھا تھا۔لیکن چیپ مین نے Chapman ایک مبسوط (پھیلاہوا، کشادہ)مضمون میں یہ ثابت کردیا ہے2 کہ مقدس آئر ینوس کے الفاظ کا ہر گز وہ مطلب نہیں جو یہ علماءسمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر ہارنیک اپنی کتاب میں3 اور آرچڈیکن ایلن اپنی تفسیر میں4اس قابل مصنف کی حمایت کرکے کہتے ہیں کہ مقدس آئرینوس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس مرقس کی انجیلِ مقدس پطرس کی وفات سے پہلی لکھی گئی تھی اور یُوں اس رسول کی تعلیم اُس کی موت کے بعد بھی اس انجیل میں محفوظ رہی۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ مقدس آئرینوس مخالفینِ مسیحیت کے جواب میں دلیل کے دورانِ میں فرماتے ہیں کہ سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے بعد رسول انجیل جلیل کے علم سے معمور ہوکر مختلف اطراف میں گئے اوراُنہوں نے مختلف ممالک میں اسی انجیل کی منادی کی جو ہمارے ہاتھوں میں ہے کیونکہ دورسولوں نے تو خود اناجیل لکھیں اور باقی دو اناجیل رسولوں کے شاگردوں نے لکھیں۔ چنانچہ مقدس آئرنیوس کے الفاظ یہ ہیں:۔

متی نے عبرانیوں (یہودیوں ) کے درمیان انجیل کی منادی کرنے کے علاوہ اُن کی اپنی زبان میں انجیل قلمبند کی۔ پطرس اورپولُس نے (کسی انجیل کولکھے بغیر یہود میں) انجیل کی منادی کی لیکن (اگرچہ وہ خود کسی انجیل کو لکھے بغیر وفات پاگئےتاہم ) اُن کی وفات کے بعد (اُن کی منادی کا نفسِ مضمون محفوظ رہا )۔مرقس کی تحریر میں جو پطرس کا شاگرد اور مترجم تھا وہ باتیں موجود ہیں جن کی منادی پطرس کیا کرتا تھا۔ لوُقا نے جو پولُس کا ساتھی تھا

______________________

1Eusebius H.E. VI.14.
2Chapman, J.T.S Vol VIpp.563-569
3Date of Acts,Harnack p. 130
4Archdeacon Allen, Gospel according to St. Mark (Oxford Chruch Bibllical Commentaries) p.2.


ایک کتاب میں وہ انجیل لکھی ،جس کی منادی یہ رسول کیا کرتا تھا اورآخر میں یوحنا نے جو خداوند کا شاگرد تھا اپنی انجیل شائع کی جب وہ شہر افسس میں سکونت کرتا تھا" ۔1

پس مقدس آئرنیوس اس اقتباس میں مخالفین کے اس اعتراض کا جواب دیتا ہے کہ مقدس پطرس نے تو کوئی انجیل نہیں لکھی۔ پس ہم کس طرح معلوم کرسکتے ہیں کہ اُنہوں نے کیا منادی کی تھی؟ وہ جواب دیتا ہے ، کہ اگر مقدس مرقس اورمقدس لوقا نے ان رسولوں کی منادی کو اپنی اناجیل میں اُن کی وفات سے قلمبند نہ کیا ہوتا تو یہ ممکن تھا کہ اُن کی منادی کے نفسِ مضمون کا پتہ نہ چلتا۔ لیکن اُن کی وفات کے بعد بھی وہ اناجیل کلیسیا میں مروج ہیں جو اُن رسولوں کی وفات سے پہلے اُن کی حینِ حیات میں ہی لکھی گئی تھیں۔

پس مقدس کلیمنٹ اور مقدس آئرینوس دونوں اس روایت کو غلط بتلاتے ہیں کہ مقدس مرقس کی انجیل مقدس پطرس کی وفات کے بعد لکھی گئی تھی۔ مقدس اوریجن کہتاہے (اور مقدس جیروم اس بات میں اس کا پیروکار ہے) کہ مقدس پطرس نے اس انجیل کو مقدس مرقس سے لکھوایا تھا2۔ لہٰذا وہ علماء یقیناً غلطی پر ہیں جو اس بنا فاسد(بد، شریر) پر اپنی دلیل قائم کرکے کہتے ہیں کہ انجیل مرقس( ۷۰ء) میں لکھی گئی تھی۔ اس کے برعکس جیسا ہم بتلاچکے ہیں۔ یہ انجیل مقدس پطرس کی حینِ حیات میں سیدنا مسیح کی ظفریاب قیامت کے دس (۱۰)سال کے بعد لکھی گئی تھی۔

(د)ہم اس کتاب کے حصہ دوم کے باب اوّل میں یہ ثابت کرآئے ہیں کہ مقدس پطرس کا مقدس مرقس کی انجیل سے کوئی خاص تعلق نہ تھا۔بلکہ مقدس مرقس نے پطرس رسول کےعلاوہ ایسے دیگر ماخذوں سے بھی کام لیا تھا ،جو قدیم ترین تھے۔ پس ان مخالفوں کی اس دلیل میں کوئی خاص وزن نہیں ہے۔ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ انجیل مختلف معتبر ترین ماخذوں سے تالیف کی گئی تھی، اورکلیسیا کے ابتدائی دور میں خود معتبر شمار کی جاتی تھی۔ اس کا پسِ منظر، اس کی فضا، اس کے مضامین ، اس کے معتقدات ، اس کی اصطلاحات وغیرہ سب کے سب یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ قدیم ترین انجیل( ۴۰ء) میں احاطہِ تحریر میں آئی یعنی سیدنا مسیح کی وفات کے صرف دس (۱۰)برس بعد لکھی گئی اوراس کا پایہ اعتبار اس کے لکھے جانے کے پہلے دن سے ہی مسلم گردانا گیا۔  

______________________

1J.T.S Vol VI pp.565-566
2Beginnings of Christianity Part1, Vol2 pp. 351-356


باب چہارم

تاریخِ تصنیف انجیلِ متی

فصل اوّل

انجیلِ متی کاپسِ منظر

ہم اس رسالہ کے حصہ اوّل کے باب دوم میں بتلاچکے ہیں کہ کلیسیا کا آغاز اُن ایمانداروں سے ہوا جو اہلِ یہود میں سے مسیحِ موعود پر ایمان لے آئے تھے۔چند ماہ کے اندر اندر ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی اوروہ ارضِ مقدس کے مختلف کونوں میں پائے جاتے تھے۔ وہ بڑے زورشور سے تبلیغ کا کام کرتے پھرے کہ یسوع ناصری مسیحِ موعود ابنِ اللہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارضِ مقدس کے اندر رہنے والے یہود اور اس کےباہر سلطنتِ روم کے مختلف شہروں اور قصبوں کے یہود اوریونانی مائل یہوداور خدا پرست نومرید یہود ہزاروں کی تعداد میں چند سالوں کے اندر اندر منجی عالمین کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ ان ہزارہا نومرید یہودیوں کے لئے استاد اور معلم مقرر کئے گئے تاکہ اُن کے ایمان کی استقامت ہو۔ اُن کے لئے سیدنا مسیح کے کلماتِ طیبات کے مجموعہ کی نقلیں کی گئیں اور آپ کی مسیحائی ثابت کرنے کےلئے رسالہِ اثبات لکھا گیا اوربیسیوں نے’’ اس پر کمر باندھی کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئ ہیں اُن کو ترتیب وار بیان کریں" ۔ یوں ارضِ مقدس کے مختلف چشم دید گواہوں نے چھوٹے چھوٹے پارے ، کتابچے اور ورق لکھے تاکہ اُن یہودی نومرید مسیحیوں کے ایمان کومضبوط اورمستحکم کیا جائے۔

ہم حصہ دوم کے باب دوم میں مفصل بحث کرکے ثابت کر آئے ہیں کہ مقدس متی نے ان قدیم رسالوں، پاروں اور کتابچوں کو اپنے ماخذ بنا کر ایک جامع انجیل یہودی نومرید مسیحیوں کے لئے لکھی جس کے خاکہ اورپلان سے ظاہر ہے کہ مصنف اپنے ناظرین پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ" نیا عہد" (پہاڑی وعظ وغیرہ) موسوی شریعت کی مانند ہے اور جس طرح وہ شرع سینا پہاڑ پر دی گئی اسی طرح سیدنا مسیح نے "پہاڑ پر چڑھ" کر اپنی نئی شریعت دی۔ اس کا مصنف عہدِ عتیق میں سے ایک سو سے زائد مقامات کا اقتباس کرتاہے۔ یہ صاحبِ کمال مصنف یہودی ربیوں کی سی طرزِ تحریر اوراُن کی سی طبیعت اور مزاج کی افتادگی (عاجزی)رکھتاہے، حتیٰ کہ یہ تصنیف یہودی رنگ میں رنگی ہے(متی ۱۳: ۵۲)۔ اس انجیل میں یہودی طرز سے اس قدر مماثلت ہے کہ انجیل دو م اور سوم میں اس کا نصف حصہ بھی نہیں ملتا۔ قدیم یہودی محاورات کو ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے جس سے صرف اہل یہود ہی مانوس تھے۔ علاوہ ازیں جن حصوں میں اس مصنف نے انجیل دوم کو نقل نہیں کیا اُن میں یہودی تارگم سے زبردست مشا بہت پائی جاتی ہے۔ بالخصوص جب یہ مصنف مختلف بیانوں یا تمثیلوں کو تین یاسات یادس کے عدد میں جمع کرتا ہے یاجب وہ ضرب الامثال کو بیان کرتاہے یا جب وہ رسمی غیر متبدل Stereotyped الفاظ کو مقررہ ترتیب کے مطابق استعمال کرتاہے ۔ سرجان ہاکنس کےمطابق اس قسم کی تربیتیں پندرہ(۱۵) کے قریب ہیں1انجیل اوّل کےمصنف نے حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کو اس طرح لکھاہے، کہ آپ کے کلمات میں ارامی صنائع من وعن محفوظ ہیں۔ اس کا مفصل

______________________

1Horce Synoptica pp. 168-73


ذکر ہم انشاء اللہ آگے چل کر کریں گے۔ یہاں پر یہ بتلادینا کافی ہے کہ عہدِ عتیق کے عبرانی اقتباسات صاف ثابت کرتے ہیں کہ ان کی ابتدا ارضِ مقدس کنعان میں ہوئی کیونکہ رومی سلطنت کے کسی دوسرے حصہ میں عہدِ عتیق کی کتُب کا علم عبرانی میں موجودنہ تھا ۔ 1

انجیل متی کی تمام فضا یہودی فضا ہے۔ مسیح موعود کی جماعت یعنی کلیسیا کی شریعت موسوی شرع ہے جو دیگر یہود کی طرح سبت کے احکام کی پابند ہے (متی ۲۴: ۲۰)۔ اگرچہ وہ فقیہوں اور فریسیوں کی خود ساختہ تاویلوں اور تفسیری قیود سے آزاد ہے اور بزرگوں کی روایات کی طرف سے بے نیازہے۔ یہ جماعت حرام حلال کی تمیز کو برقرار رکھتی ہے اوریہ خیال کرتی ہے کہ مسیح ِموعود موسوی شریعت کو کامل کرنے والے ہیں، جنہوں نے شرعی احکام کی تاویل(بچاؤ کی دلیل) کے ایسے نئے اُصول وضع کئے ہیں۔ جن سے ان احکام کی قدر ومنزلت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہ فضا اعمال کے پندرھویں باب کی فضا ہے جو یروشلیم کی کلیسیا میں پہلی صدی کے پہلے نصف میں موجود تھی۔ ہم حصہ اوّل کے باب دوم کی فصل سوم میں بتلاچکے ہیں کہ اس انجیل میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ غیر یہود اقوام بھی جوق درجوق شامل ہوکر موسوی شریعت سے آزاد ہوکر زندگی بسرکریں گی۔ یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ جب( ۴۹ء) میں یروشلیم کی کونسل منعقد ہوئی تو حضرت کلمتہ اللہ کے بھائی حضرت یعقوب کی سرکردگی میں روح القدس کی زیرِ ہدایت رسولوں نے یہ فیصلہ کیاکہ " جو غیر اقوام سے خدا کی طرف رجوع ہوتے ہیں ہم اُن کو (شرعی احکام کے ماتحت رہنے کی ) تکلیف نہ دیں"(اعمال ۱۵: ۱۹، ۲۹)۔اس تواریخی حقیقت سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل یروشلیم کی کونسل(۴۹ء) سےکم ازکم ایک دوسال پہلے شائع ہوچکی تھی۔

فصل دوم

انجیلِ متّی کا سنِ تصنیف

انجیل متی میں حضرت کلمتہ اللہ کے ایسے اقوال لکھے ہیں جو آپ نے فریسیوں اور فقیہوں کی ظاہرداری،ریاکاری اورمذہبی نمائش کا پردہ چاک کرنے کے لئے فرمائے تھے(متی ۵: ۲۰؛ ۶: ۲، ۵، ۱۶؛ ۱۲: ۲۴ ۔ ۴۵ ؛ ۱۵: ۳ ۔ ۱۵؛ ۲۱: ۳۱، ۴۲۔ ۴۶؛ ۲۳باب وغیرہ)۔ منجی عالمین کو مصلوب کرنے کے بعد قائدین یہود نے مسیحیوں کو " بدعتی" قرار دے دیا(اعمال ۲۴: ۱۴)۔ اوراُن کےر سولوں اور مبلغوں پرطرح طرح کا ظلم وستم ڈھایا۔ پس اس انجیل میں سیدنا مسیح کے وہ اقوال بالخصوص جمع کئے گئے ہیں جن میں آپ نے حواریوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اہلِ یہود اُن کوستائیں گے اور ایذائیں پہنچائیں گے اورعدالتوں میں پیش کریں گے(متی ۱۰: ۱۴۔ ۳۹؛ ۱۵: ۱۱۔ ۱۲؛ ۲۱: ۲۳ وغیرہ)۔ بایں ہمہ انجیل کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ اس کی تصنیف کے وقت اہلِ یہود کو سیدنا مسیح کے قدموں میں لانے کی کوشش برابر جاری تھی۔ لیکن اس طریقِ کار کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ روسائے یہود نے اُن کو ایذائیں پہنچائیں۔ اُن کو قتل اور سنگسار کا۔ فساد اوربلوے برپا کئے اوراُن کو شہید کرکے کلیسیا کو پراگندہ کردیا۔ چنانچہ کتاب اعمال الرسل ان مسلسل ایذا رسانیوں کی گواہ ہے۔ یہ صورتِ حالات قیصر نیرو کے زمانہ تک رہی جو( ۵۴ء) میں تخت نشین ہوا تھا ۔ لیکن نیرو کی سلطنت کےدنوں میں حالات دگرگوں (اُلٹ پلٹ)ہوگئے۔ روسائے یہود کی بجائے قیاصرہ روم نے مسیحی کلیسیا اورمسیحیوں کا نام ونشان مٹانے کا تہیہ (ارادہ)کرلیا۔

______________________

1F.C. Burkitt, Gospel History and its Transmission p.128


لیکن اس انجیل میں کسی باقاعدہ ایذارسانی کا ذکرتوالگ ،نشان تک ہم کو نہیں ملتا جس سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل نیرو کی ایذا رسانی (۶۴ء) سے بہت پہلے تالیف کی گئی تھی۔ اس ایذارسانی میں مقدس پولُس اورمقدس پطرس رسول کو درجہ شہادت نصیب ہوا تھا۔ اس انجیل کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ تاحال ایسا زمانہ نہیں آیا تھا جب قیاصرہ روم نے کلیسیا کو کچلنے اوراس کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے (جڑ سے اُکھاڑنا، نابود کرنا)کی ٹھان لی تھی۔ اس انجیل میں باربار مسیح کی خاطربرادری(رشتہ داری، جماعت) سے خارج کئے جانے ۔ ترک موالات (آپس کی دوستی چھوڑنا)ہونے ، میل جول کے چھوڑے جانے اور عام حقوق سے محروم ہوجانے کا ذکر آتاہے ۔لیکن قیاصرہ روم کے احکامِ عقوبت وایذارسانی کا نشان تک نہیں پایا جاتا ۔ جس سے ظاہر ہے کہ اس انجیل کے زمانہ تصنیف کا ماحول وہی ہے جس کا ذکر اعمال کی کتاب کے پہلےنو(۹)ابواب میں پایا جاتا ہے۔ پس یہ انجیل ۵۰ء کے لگ بھگ لکھی گئی تھی۔اگر یہ انجیل ۸۰ء یا ۹۰ء میں لکھی جاتی جیسا بعض علمائے مغرب کا خیال ہے1۔ تو اس میں حضرت کلمتہ اللہ کے وہ اقوال موجود نہ ہوتے جن کا تعلق ایک ایسے زمانہ سے تھا جو نہ صرف گذرچکا تھا بلکہ مٹ چکا تھا۔ اوریہودی قوم خود پراگندہ ہوکر روئے زمین کے مختلف ممالک میں منتشر ہوچکی تھی۔ پس اس انجیل میں جو یہودی مخاصمت(دشمنی) کی فضاموجود ہے ۔ وہ پہلے صدی کے پہلے نصف کی فضا ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ انجیل( ۵۰ء) سےپہلے لکھی گئی تھی۔

(۲)

اگر یہ انجیل پہلی صدی کے پہلے نصف کے بعد لکھی جاتی تو وہ ہر گز مقبول عام ہوکر انجیلی مجموعہ میں جگہ نہ پاتی ۔ کیونکہ یروشلیم کی تباہی (۷۰ء) کے بعد اہلِ یہود پراگندہ ہوگئے تھے اورغیر یہود لاکھوں کی تعداد میں مسیحی کلیسیا میں شامل ہوچکے تھے۔ یہ غیر یہود مسیحی تمام موسوی شریعت کی قیود سے آزاد ہوچکے تھے۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب اور مقدس پولُس کے خطوط ثابت کرتے ہیں کہ( ۶۰ء) سے پہلے تمام غیر یہود مسیحی ان بندھنوں سے آزاد ہوگئے تھے۔دریں حالات(ان حالات میں) کلیسیا کو اس بات کی ضرورت ہی نہ رہی تھی کہ وہ ایسی کتاب لکھے یا لکھوائے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہو کہ یسوع ناصری موسوی شریعت کی نئی تفسیر کرنے والا ، اہل یہود کا مسیح موعود ہے۔ غیر یہودی کلیسیا کو کسی ایسی کتاب سے دل بستگی نہ ہوسکتی تھی جس میں وہ خصوصیات ہوں جن کا ذکر ہم نے حصہ دوم کے باب دوم کی فصل دوم کے تحت کیا ہے۔

جب ہم ان خصوصیات پر نظر کرتے ہیں اورپھر دیکھتے ہیں کہ یہ انجیل کلیسیا کی پہلی دو صدیوں میں ایسی مقبولِ خاص وعام ہوگئی تھی کہ اس کوبالخصوص " الانجیل" کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا توہم اس کی مقبولیتِ عامہ کودیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ۔ اس مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ یہ انجیل یروشلیم کی تباہی کےوقت( ۷۰ء) میں ایسی قدیم اورقابلِ اعتبار اورجامع خیال کی جاتی تھی کہ اس کی قدامت کی وجہ سے کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ آیا کہ حالات کے تبدیل ہوجانے کی وجہ سے اورکلیسیا میں غیر یہود عناصر کی اکثریت کی وجہ سے اس انجیل کی تلاوت کرنا یا اس کی نقلیں کرنا بند کردے۔ پس یہ انجیل( ۴۹ء) کے قریب لکھی گئی تھی۔ جب" یہودیوں میں سے ہزارہا آدمی ایمان لے آئے تھے" (اعمال ۲۱: ۲۲) ۔اورکلیسیا کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ یسوع ناصری اہلِ یہود کا مسیح ِموعود ہے " جس کی پیشین گوئی نبیوں نے بھی کی ہے"(اعمال ۲: ۲۲۔ ۳۶؛

______________________

1Peake’s Commentary p. 700 (b)


: ۲۲۔ ۲۳ وغیرہ)۔ تصنیف کے بیس(۲۰) سال کے اندر اس انجیل نے مسیحی کلیسیا کے دل میں ایسا گھر کرلیاکہ یروشلیم کی تباہی کے بعد کلیسیا میں غیر یہود نومریدوں کی زبردست اکثریت کے باوجود اس انجیل نے عہدِ جدید کے مجموعہ میں جگہ پالی۔

(۳)

انجیل متی میں ہی ان سکوں کے نام پائے جاتے ہیں جو ارضِ مقدس میں یروشلیم کی تباہی سے پہلے رائج تھے۔مثلاً نیم مثقال ، اورمثقال(متی ۱۷: ۲۴۔ ۲۷)۔ مثقال کا سکہ تقریباً دوروپیہ کا تھا اورہر ایک یہودی کو یہ سکہ ہیکل کے اخراجات کے لئے سالانہ دینا پڑتا تھا۔ رومی سکہ دینار تھا جس پر قیصر روم کی تصویر ہوتی تھی (مرقس ۱۲: ۱۵)۔ پس اس کا ہیکل میں لے کر جانا ممنوع تھا۔ صرف مثقال کا سکہ ہی ہیکل میں جاسکتا تھا۔ لیکن جب ہیکل تباہ وبرباد ہوگئی تو قدرتاً نہ یہ سکہ مروج رہا نہ لفظ مثقال مروج رہا اورنہ( ۷۰ء) کے بعداس لفظ کو کوئی سمجھ ہی سکتا تھا۔ پس اس سکہ کے لفظ کا استعمال ثابت کرتاہے کہ یہ انجیل یروشلیم کی تباہی سے برسوں پہلے لکھی جاچکی تھی۔

(۴)

ساٹھ (۶۰)سال کا عرصہ ہوا پروفیسر برکسT.R.Birks نے یہ ثابت کیا تھا ۔1۔ کہ متی کی انجیل( ۴۴ء )سے پہلے کی تصنیف ہے۔ اس کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ مقدس مرقس اورمقدس لوقا اور مقدس یوحنا جب کبھی پلاطوس کاذکر کرتے ہیں تو ہمیشہ اس کا نام لیتے ہیں اورکبھی اس کو محض " گورنر" نہیں کہتے لیکن مقدس متی اپنی انجیل میں سات (۷) دفعہ اس کا نام لیے بغیر اس کو صرف ’’گورنر‘‘کا خطاب ہی دیتا ہے(متی ۲۷: ۱۱ وغیرہ)۔ گو وہ اس کا نام بھی بتلاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی مصنف( ۴۴ء) کے بعد پنطوس پلاطوس کاصرف " گورنر" کے عہدہ سے ذکر نہیں کرے گا کیونکہ اس کے بعد پلاطوس کے جانشین گورنر تھے۔ یہ دلیل بطورایک مستقل دلیل کے زور اور وزن نہیں رکھتی ۔ لیکن جب یہ دیگردلائل سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ انجیل( ۵۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی تویہ دلیل اس بات کی معاون ہو سکتی ہے کہ انجیل کی تصنیف کے وقت پلاطوس کی گورنری نزدیک کا واقعہ تھا اوراس کی تصنیف میں اورپلاطوس کی گورنری میں قریباً چالیس (۴۰)سال کا وقفہ نہیں تھا۔

(۵)

ہم گذشتہ باب کی فصل چہارم میں ذکر کر آئے ہیں کہ متعدد علماء انجیل مرقس کے الفاظ" اجاڑنے والی مکروہ چیز" (مرقس۱۳: ۱۴) سے مراد قیصر کیلی گیولا کا بُت لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں اس قیصر کے حکم کی جانب اشارہ ہے جو اس کے قتل ہونے کی وجہ سے پورا نہ کیا گیا۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ جب مقدس متی اس مقام پر (متی ۲۴: ۱۵)۔ انجیل مرقس کی نقل کرتاہے تو وہ جُملہ معترضہ " پڑھنے والا سمجھ لے" کو جو قوسین میں ہے نقل کردیتاہے کہ لیکن وہ الفاظ" جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا" ایزاد(اضافہ) کردیتاہے جو مقدس مرقس کی انجیل میں نہ پائے جاتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقدس متی ان الفاظ سے وہ مطلب نہیں لیتا جو مقدس مرقس لیتا ہے کیونکہ کیلی گیولا قتل ہوچکا تھا اور بلاٹل گئی ہوئی تھی۔ لیکن مقدس متی یہ خیال کرتاہے کہ دانی ایل نبی کی پیشین گوئی (دانی ایل ۱۱: ۳۱) پوری ہونے کو ہے اور قوسین کے الفاظ وہ کسی دُوسرے واقعہ کی جانب اشارہ کرتاہے۔ مقدس لوقا ان الفاظ کو سرے سے نقل ہی نہیں کرتا۔

______________________

1Exp. Times Aug.1910 p. 523 note by Engene Stock on the Date of First Gospel.


یہ بات معنی خیز ہے کہ عہدِ جدید کے مختلف مصنف اپنے اپنے خیال کے مطابق دانی ایل نبی کی پیشین گوئی کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ پہلی صدی کے پہلے نصف میں حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔ چنانچہ مرقس اس کی ایک تاویل کرتے ہیں اور مقدس متی اس کی دوسری تاویل کرتے ہیں ۔مقدس پولُس اس " اجاڑنے والا مکروہ چیز" کو گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند مخالف مسیح" (۲۔ تھسلنیکیوں۲: ۲۔ ۴) خیال کرتے ہیں۔مقدس پولُس کے الفاظ( ۵۰ء) میں لکھے گئے تھے ۔ پس مقدس متی کے الفاظ بھی اسی زمانہ کے قریب کے ہیں۔

مقدس متی کے قوسین کے الفاظ" پڑھنے والا سمجھ لے" ثابت کرتے ہیں کہ جس واقعہ کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں اس کو وہ ظاہراً طور پر بیان نہیں کرسکتے ۔ پس ان الفاظ کو نقل کرکے وہ اخفا کا پردہ اُس واقعہ پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگریہ انجیل( ۸۰ء یا ۹۰ء) میں لکھی جاتی تو اس اخفا کی ضرورت کیا تھی؟ کیونکہ( ۷۰ء) کے بعد حالات کلیتًہ تبدیل ہوچکے تھے بلکہ اس سال سے پہلے ہی وہ ایسے بدل چکے تھے کہ( ۵۷ء) میں جب مقدس لوقا نے اپنی انجیل لکھی تو اس مقام میں ان الفاظ کو نقل کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی تھی۔ اس سے بھی یہ ظاہر ہے کہ یہ انجیل( ۵۰ء) کے قریب لکھی گئی تھی۔

(۶)

انجیلِ متی میں سیدنا مسیح کی آمد ثانی پر خاص طورپر زوردیا گیا ہے۔ آخری عدالت کا موضوع نہایت سنجیدگی سے پیش کیا گیا ہے (متی ۲۵باب ) اورمختلف تمثیلوں کے ذریعہ اس سوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس انجیل کے مطابق آنخداوند کی آمد ثانی بالکل نزدیک ہے(متی ۱۰: ۲۳؛ ۱۶: ۲۸؛ ۲۴ : ۳۴ وغیرہ) آپ کی آمد" دُنیا کے آخر ہونے کا نشان" ہوگی(متی ۲۴: ۳)۔ اوریہ دونوں واقعات یروشلیم کی تباہی کے فوراً بعد ظہور پذیر ہوں گے۔ (متی ۲۴: ۳۰۔ ۳۲) اوریہ سب باتیں موجودہ نسل کی آنکھیں دیکھیں گی(متی ۲۴: ۳۴) سردار کاہن اور قائدین یہودابنِ آدم کو قادرِ مطلق کے دہنی طرف بیٹھے اورآسمان کے بادلوں پر آتے" دیکھیں گے (متی ۲۶: ۶۴) ۔ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس انجیل کے مصنف کا یہ ایمان تھاکہ اس کے خداوند کی آمد بالکل نزدیک ہے۔ ورنہ وہ اس کے اقوال درج نہ کرتا اور آمد ثانی کے قریبی ظہور کے لئے (مرقس ۹: ۱) کےالفاظ کو نہ بدلتا (متی ۱۶: ۲۸)۔ پس یہ انجیل زمانہ انتظار کے دوران میں لکھی گئی (متی ۱۶: ۲۸) جب ابھی سیدنا مسیح کے ہم عصروں کی نسل موجود تھی(متی ۲۴: ۳۴) اورمسیحی مبلغین " اسرائیل کے سب شہروں میں" نہ پھر چکے تھے(متی ۱۰: ۲۳) اور حضرت کلمتہ اللہ کے سامعین میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے ابھی "موت کا مزہ نہیں" چکھا تھا"(متی ۱۶: ۲۸) پس اس انجیل کےلکھنے کے وقت حضرت متی اور دیگر رسولوں کی شوق نگاہیں آنخداوند کی آمدِ ثانی کا انتظار کررہی تھیں ۔ مسیحی کلیسیا میں اس زمانہ کا نقشہ مقدس پولُس کے ان خطوط میں مفصل طورپر موجود ہے جو آپ نے تھسلنیکے کی کلیسیا کو( ۵۰ء) کے قریب لکھے تھے۔ ان خطوط اورانجیل متی کے اس مقام کی فضا ایک ہی ہے۔ پس یہ انجیل بھی( ۵۰ء) کے لگ بھگ احاطہِ تحریر میں آئی تھی۔ علاوہ ازیں پولُس رسول کے کلیسوں کے خط سے ظاہر ہے کہ جب یہ خط لکھا گیا تھا مقدس متی کی انجیل کلیسیا میں مروج تھی۔ چنانچہ (کلسیوں ۳: ۱۳) میں اس انجیل کے مقام (متی ۱۸: ۲۳۔ ۳۵) کی طرف اشارہ ہے۔ یہ خط مقدس پولُس کی قید کے زمانہ کا ہے۔ پس یہ انجیل( ۸۰ء) میں نہیں لکھی گئی تھی۔


(۷)

ہم مقدس لوقا اور مقدس مرقس کی اناجیل کی تاریخوں کے تعین کی بحث میں ثابت کر آئے ہیں کہ ان انجیلوں میں یروشلیم کی تباہی اورہیکل کی بربادی کے واقعہ کا نہ تو ذکر ہے اورنہ اس کی طرف ان میں اشارہ تک پایا جاتاہے۔ جب ہم مقدس متی کی انجیل کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو اس انجیل میں بھی اس واقعہ کا نشان تک نہیں پاتے۔ اگر یہ انجیل( ۸۰ء یا ۹۰ء) میں لکھی جاتی تو یہ ناممکن امر ہے کہ مقدس متی ہیکل کی تباہی کی پیشین گوئی کے پورا ہونے کا ذکر نہ کرتا (متی ۲۴: ۲)۔ جیسا ہم بتلاچکے ہیں یہ انجیل نویس نبوتوں کے پورا ہونے پر نہایت زوردیتاہے ۔پس اگر یروشلیم برباد اورہیکل نذرِ آتش ہوچکی ہوتی تو وہ اس نبوت کے پورا ہونے کا ضرور ذکر کرتا کیونکہ اسی باب میں وہ خداوند کے صادق القول ہونے کا ایک کلمہ درج کرتاہے جس میں سیدنا مسیح نے فرمایا ہے کہ "دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے"(آیت ۲۵)۔

(متی ۲۷: ۲۴۔ ۳۵ )سے ظاہر ہے کہ رسول اورمسیحی کلیسیا سب کے سب یہود کی گردنوں پر سیدنا مسیح کے مصلوب کروانے کی ذمہ داری ڈالتے تھے۔ (استثنا۲۱: ۶؛ زبور ۲۶: ۶؛ ۷۳: ۱۳)۔ اگراس انجیل کی تصنیف کے وقت ہیکل برباد ہوگئی ہوتی تواس کتاب میں یہود کی قوم کی ذمہ داری کے نتیجہ اورالہٰی مواخذہ اور سزا اور عذاب کا ضرور ذکر کیا جاتا۔ ایک اور امر قابل ذکر ہے کہ اس انجیل میں آنخداوند کی آمدِ ثانی کو یروشلیم کی تباہی سے وابستہ کیا گیا ہے(متی۱۴: ۳، ۳۴ ؛ ۱۶: ۲۸)۔ اگریہ انجیل یروشلیم کی تباہی سے پہلے نہ لکھی گئی ہوتی تواس واقعہ کے بعد اس انجیل کا پایہ اعتبار وہ نہ رہتا جو پہلی صدی کے اواخر میں اس کو حاصل تھا۔

حق تو یہ ہے کہ جس طرح ہم اس باب کی پہلی فصل میں بتلاچکے ہیں اس انجیل کی تاریخ تصنیف کا تعلق یروشلیم کی کونسل (۴۹ء) کے ساتھ ہے۔ یروشلیم کی بربادی واقعہ اس انجیل کی تصنیف کے ربع صدی بعدکا ہے۔ پس یہ انجیل اس زمانہ میں لکھی گئی جب کہ اہلِ یہود بحیثیت ایک قوم کے ارضِ مقدس میں رہتے تھے۔اوراُن کا تمدن، تہذیب ، ثقافت وعلم ،ادب روایات وغیرہ سب برقرار تھے اوران کی تباہی اورپراگندگی کا کسی کو سان وگمان بھی نہ تھا بالفاظ دیگر یہ انجیل ۵۰ء کے لگ بھگ احاطہِ تحریر میں آچکی تھی ۔1

ایک اور امر قابل ذکر ہے جو یہ ثابت کرتاہے کہ اس انجیل کا تعلق کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی ایام کے ساتھ ہے۔ پہاڑی وعظ میں ان تمام حالا ت کا عکس پایا جاتا ہے جو آنخداوند کے زمانہ کے حالات تھے اورجو آپ کے گردوپیش کا ماحول تھا۔ اُس وقت ابھی تک فقیہہ اپنے حریف(دشمن) فریسی پارٹی کے ممبر نہیں تھے اور دونوں پارٹیوں کی تنظیم الگ الگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس انجیل میں باربار" فقیہہ اور فریسی" یعنی دونوں پارٹیوں کے نام پائے جاتے ہیں ۔ سیدنا مسیح کے بعد کے زمانہ میں دوپارٹیوں کا وجود ختم ہوگیا تھا2۔ حق تو یہ ہے کہ انجیل متی کا پایہ اعتبار اس قدر بلند ہے کہ جارج موُر جیسا نامور محقق کہتاہے کہ " اناجیل اربعہ میں سے متی کی انجیل ایسی ہے جو پہلی صدی کی یہودیت کے حالات کا علم حاصل کرنے کےلئے نہایت معتبر ماخذ ہے ۔3

1Archdeacon Allen St.Matthew (International Commentary) and A.T. Cadoux, Sources of the Second Gospel, Exp Times Jan.1936 p. 161
2St.Matthew (Century Bible 1922) pp.52-53
3George F. Moore, Judaism in the First Centuries of the Christian Era (Quoted by Filson, Origin of the Gospels) p. 186


اہلِ یہود کی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ ۷۰ء کے بعد سالہاسال تک یروشلیم کی تباہی اورقومِ یہود کی پراگندگی کی وجہ سے فقیہوں اور فریسیوں کے طبقہ میں اور یہود نومرید مسیحیوں میں بحث کا امکان ہی ختم ہوگیا تھا ۔ جس قسم کی بحث کا انجیل متی میں ذکر ہے وہ دوبارہ دوسری صدی میں تب شروع ہوئی تھی جب اہلِ یہود اپنی قومی زندگی کے صدمہ سے سنبھل چکے تھے۔ لیکن اس زمانہ میں تویہ انجیل جابجا کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں تھی اور مقبول عام ہوچکی تھی۔انجیل کا مطالعہ ثابت کرتاہے کہ وہ بحث کی گرما گرمی اور جذبات کی برانگیختگی سے معمورہے۔ پس اگرہیکل کی تباہی زمانہ ماضی کی بات ہوتی اوراس انجیل کی تصنیف سے پہلے وقوع میں آگئی ہوتی توانجیل کا مصنف اس زبردست حربہ کا ضرور استعمال کرتا اور ثابت کرتاکہ قوم یہود کی تباہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ قوم نے اپنے مسیح ِموعود کو رد کردیا تھا اورقوم کو اس کی پاداش میں یہ سزا ملی۔

اس سلسلہ میں اس انجیل کے(متی ۲۷باب کی ۸آیت) کے الفاظ" آج کے دن تک" خاص طورپر قابلِ غور ہیں۔ کیونکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ جب یہ انجیل لکھی گئی تھی تب قومِ یہود ابھی پراگندہ نہیں ہوئی تھی اورنہ ہیکل اورنہ یروشلیم کا شہر مسمار ویران ہوا تھا۔ یہی بات ۲۸: ۱۵سے مترشرح ہوتی ہے۔

پس انجیل کی اندرونی شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ انجیل کی فضا آنخداوند کی وفات کے چند سال بعد کی ہے، جب مقدس پطرس کلیسیا کے عملاً سربرآدرہ قائد تھے اورجب فقیہہ اورفریسی کلیسیا کے جانی دشمن تھے لیکن یہودی نومرید موسوی شریعت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ کیونکہ اُن کا یہ ایمان تھا کہ مسیح موعود نے شریعت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کومکمل کیاہے۔ یہ فضا دورِ اوّلین کی فضا ہے اوراس انجیل کی قدامت اورپایہ اعتبار کی گواہ ہے۔

پس اس انجیل کی یہ تعلیم کہ خدا کی بادشاہی کا قیام عنقریب ہونے والا ہے ثابت کرتی ہے کہ یہ یروشلیم کی تباہی سے بہت پہلے احاطہِ تحریر میں آچکی تھی۔ اس کی یہ تعلیم کہ شریعت منسوخ نہیں ہوئی اور شریعت کے احکام کا جواز ثابت کرتاہے کہ یہ انجیل یروشلیم کی کونسل سے کچھ عرصہ پہلے یا کچھ مُدت بعد لکھی گئی تھی۔ اس کا مصنف (اعمال ۱۵: ۱)کے خیالات کا انسان ہے (۵: ۱۷۔ ۲۰؛ ۱۵: ۲۴؛ ۷: ۶) پس یہ انجیل( ۵۰ء) کے لگ بھگ کی تصنیف ہے۔

فصل سوم

انجیلِ متی اورانجیلِ مرقس کا باہمی تعلق اوراُن کی قدامت

ہم حصہ اوّل کے باب دوم کی فصل سوم میں ثابت کر آئے ہیں کہ مقدس متی نے انجیل مرقس کے نہ صرف ترتیب واقعات اوربیانات بلکہ الفاظ تک کو نقل کیا ہے اوراس خوبی سے اپنالیا ہے کہ اس کی انجیل ایک نئی اور تازہ تصنیف (کتاب لکھنا)ہوگئی ہے۔ اُس نے مرقس کے بیانات کواس طرح ازسرِ نو ترتیب دیا ہے اور اس ترتیب میں حضرت کلمتہ اللہ کے دیگر کلماتِ طیبات ، سوانحِ حیات او رمعجزات وغیرہ کو اس طرح پیوست کردیا ہے کہ انجیلی بیان آراستہ اورپیراستہ ہوگیاہے۔ مرقس کی انجیل میں( ۶۶۱)آیات ہیں۔ مقدس متی نے ان میں سے چھ سو (۶۰۰)سے زائد آیات کا استعمال کیا

ہے لیکن دونوں مصنفوں کی طرزِ تحریر ایسی ہے کہ گو مقدس متی نے ان چھ سو (۶۰۰)آیات کا استعمال کیا ہے پر اُس کی انجیل کی (۱۰۶۸)آیات میں مرقس کی یہ تمام آیات نصف حصہ سے ذرا کم ہیں۔ تاہم انجیلِ اوّل میں مقدس مرقس کی انجیل کے اکیاون(۵۱) فیصد الفاظ موجود ہیں ۔1

ان امور سے ثابت ہے کہ مقدس متی کی انجیل، مقدس مرقس کی انجیل کے بعد لکھی گئی تھی۔ ہم نے گذشتہ باب میں ثابت کردیا ہے کہ مقدس مرقس کی انجیل( ۴۰ء) میں احاطہ تحریر میں آگئی تھی ۔ چونکہ انجیل کے لکھے جانے اوراس کے مختلف شہروں کی کلیسیاؤں میں رواج پاکر مقبول ہونے میں وقفہ درکار ہے اور اگرہم اس عرصہ کے لئے دس (۱۰)سال کی طویل مُدت قرار دے دیں تو ہم اسی نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں جس پر ہم اندرونی شہادت اوردیگر وجوہ کے باعث پہنچے ہیں کہ یہ انجیل( ۵۰ء) کے لگ بھگ لکھی گئی تھی۔

جو اصحاب انجیل اوّل کےلئے ۷۰ء کے واقعہ ہائلہ کے بعد کا زمانہ تجویز کرتے ہیں وہ نہ تو اُس کے زمانہ تصنیف پر متفق ہیں اورنہ اُس کی جائے تصنیف پر اتفاق کرتے ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ " انجیل اوّل مرقس کے بعدلکھی گئی تھی" لیکن اس کے آگے وہ کسی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ بعض کہتے ہیں کہ" شائد وہ لُوقا کے بعد لکھی گئی تھی۔ بلکہ ممکن ہے کہ انجیل یوحنا کے بعد لکھی گئی ہو۔ وہ یہ نہیں بتلاسکتے کہ وہ کب لکھی گئی اورنہ وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کہاں لکھی گئی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ روم میں لکھی گئی تھی ۔ بعض ایشیائے کوچک کا نام لیتے ہیں بعض شام اور یروشلیم بتلاتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ کسی ایسے مرکز میں لکھی گئی تھی جہاں اہلِ یہود ہجرت کرکے چلے گئے ہوئے تھے۔ لیکن یہ سب قیاسات ہی ہیں" ۔ 2

چنانچہ ڈاکٹر مانٹی فیوری لکھتاہے :۔

" بعض کا خیال ہے کہ مقدس متی انجیل لوقا سے واقف تھا ۔ بعض کہتے ہیں کہ لوقا انجیل اوّل سے واقف تھا لیکن اغلب یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی انجیلوں سے ناواقف تھے" ۔3

لیکن حقیقت وہی ہے جو ہم اُوپر بتلاچکے ہیں کہ یہ انجیل( ۵۰ء) کے لگ بھگ لکھی گئی تھی اوریہودی مسیحی کلیسیاؤں میں جو ارضِ مقدس میں ہر چہار طرف تھیں مقبول عام ہوگئی کیونکہ اس کے واقعات کا تعلق اُن سوالات اورمسائل کے ساتھ تھا جو کنعان کی کلیسیا کے سامنے تھے ۔4

فصل چہارم

مخالف علماء کے دلائل کی تنقید

متعدد علماء کا یہ خیال ہے کہ انجیل متی پہلی صدی کے پہلے نصف کے لگ بھگ نہیں لکھی گئی تھی بلکہ اس کی تصنیف کے لئے پہلی صدی کا آخر تجویز کرتے ہیں اوراس کے لئے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ ہم اس فصل میں ان دلائل کا موازنہ اور تنقید کرکے ان کی خامیاں ناظرین پر ظاہر کریں گے۔

______________________

1Oxford Studies in the Synoptic Problem pp. 85 ff
2H.L. Jackson , The Present State of the Synoptic Problem in Camb Biblical Essays p. 424
3G.C. Montefiore, The Synoptic Gospel Vol1.pXCI.
4Burkitt, The Gospel History and its Transmission p. 191


(۱)

ان سرکردہ علماء میں پروفیسر پیک کا نام ان کے علم وفضل کی وجہ سے خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ انجیل متی سے ظاہر ہے کہ اس میں نجات کا تصور یہ ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ پس یہ انجیل ہمہ گیر ہے اورا س کی ہمہ گیری ثابت کرتی ہے کہ یہ انجیل پہلی صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی1۔ علماء کا یہ گرو ہ اس انجیل کی جامعیت کو ثابت کرنے کے لئے چند مقامات پیش کرتاہے ۔ ہم ان مقامات کی یکے بعد دیگرے جانچ پڑتال کرتے ہیں۔

اوّل۔یہ علماء کہتے ہیں کہ اس انجیل میں سیدنا مسیح کے حسبِ ذیل کلمات درج ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا مسیح کی نجات کی خوشخبری یہود اور غیر یہود دونوں کےلئے ہے:۔

(۱۔) " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آکر ابراہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہو ں گے مگر بادشاہی کے بیٹے باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے"(متی ۸: ۱۱۔ ۱۲)۔

(۲۔) " خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی "(متی ۲۱: ۴۳)۔

(۳۔) " بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو تب خاتمہ ہوگا"(متی ۲۴: ۱۴)۔

(۴۔) "سب قوموں کو شاگرد بناؤ"(متی ۲۸: ۱۹)۔

ہم اوپر ذکرکر آئے ہیں کہ یہ انجیل یہودی خیالات ، تصورات اور جذبات سے بھری پڑی ہے اوراس کا دائرہ یہودیت سے باہر نہیں جاتا۔ اس انجیل میں غیر یہود کی نسبت جورویہ اختیار کیا گیا ہے وہ(متی ۱۰: ۵۔ ۶ )کے احکام اور(متی ۱۵: ۲۴۔ ۲۶) سے ظاہر ہے ۔ پس سوال یہ پیداہوتاہے کہ مذکورہ بالا مقامات کا کیا مطلب ہے؟ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی پکا اور راسخ الاعتقاد(مضبوط ایمان کا) فریسی غیر یہود کو یہودیت کے حقوق سے باز نہیں رکھتا تھا ،کیونکہ عہدِ عتیق کی کتُب میں باربار ایسے متعدد مقامات آئے ہیں جن کے مطابق غیریہود اقوام یہودیت کے تمام حقوق سے بہرہ ور (فائدہ اُٹھانے والا)ہوں گی۔ علیٰ ہذا لقیاس ہر یہودی مسیحی خواہ وہ مقدس پولُس کے طریق عمل کا کیسا ہی مخالف کیوں نہ ہو مسیح موعود کے احکام اور فرمان کو بلاچون چرا تسلیم کرتا تھا۔ پس مذکورہ بالا آیات کے الفاظ کو یہ یہودی مسیحی تسلیم کرتے تھے۔ ان کے نزدیک غیر یہود سے مراد " خدا پرست نومرید" (اعمال ۱۳: ۴۳) تھے جن کو مرید بنانے کے لئے فقیہہ اور فریسی" تری اور خشکی کا دورہ" کرتے تھے(متی ۲۳: ۱۵)۔ اورجو " ابراہام اور اضحاق اوریعقوب کےساتھ آسمان کی بادشاہی میں ضیافت میں شریک ہوں گے "(متی ۸: ۱۱)۔ بالفاظ دیگر وہ یہودیت کے تمام حقوق میں برابر کے شریک ہوں گے۔ پس یہودی جو کلیسیا میں شامل ہوکر منجی جہان پر ایمان لے آئے تھے ، وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ غیر یہود کلیسیا میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ وہ شریعت کو مانیں( اعمال ۱۵: ۱، ۵ وغیرہ)۔ مسیحِ موعود کے حقیقی پیرو جو حقیقی اسرائیل ہیں باقی یہودیوں سے اوربالخصوص فقیہوں اور فریسیوں سے جُدا ہیں اوران کے امتیازی نشان یہ ہیں کہ(۱)وہ یسوع ناصری پرجو مسیحِ موعود ہے ایمان رکھتے ہیں۔(۲) اُن کو موسوی شریعت کا علم اوراصل مفہوم حاصل ہے۔ پس وہ اس شریعت سے بہتر واقفیت رکھتے ہیں۔ (۳۔) وہ خدا کی بادشاہی پر جو عنقریب قائم ہونے والی ہے یقین رکھتے ہیں ۔ پس یہ ایمان دار اصلی اورحقیقی اسرائیل ہیں خواہ فریسی

______________________

1Peake, Critical Introd. To N.T. p.123


اُن کو بدعتی (اعمال ۲۴: ۵) قرار دیں اوردیگر یہود اُن کو خارج کردیں۔ لیکن دراصل اُن کے خارج کرنے والے " بادشاہت کے بیٹے ہیں جو باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے"(متی ۸: ۱۲)۔ مسیح موعود پر ایمان رکھنے والے ہی درحقیقت " بادشاہی کے بیٹے ہیں"(متی ۱۳: ۳۸)۔ پس(متی ۲۱: ۴۳ )آیت میں " قوم" سے انجیل نویس کی مراد غیر یہود اقوام سے نہیں بلکہ حقیقی اسرائیل سے ہے ورنہ یہاں فعل صیغہ واحد میں وارد نہ ہوتا۔ یہاں یہودی نسل اور غیر یہودی نسلوں کا سوال نہیں بلکہ روحانی حقوق کا سوال ہے۔ انجیل نویس کے خیال میں لفظ" قوم " سے مُراد مسیح موعود کےوہ تمام پیرو ہیں جو شریعت کو مانتے ہیں اورخدا کی بادشاہی کے منتظر ہیں۔

ان آیات کا اصلی مفہوم جاننے کےلئے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ انجیل نویس کی ان سے کیا مراد تھی نہ اس بیسیویں(۲۰) صدی میں ہم ان سے کیامطلب لیتے ہیں اوران کی کس طرح تاویل کرتے ہیں۔پس سوال یہ ہے کہ مقدس (متی ۲۴: ۱۴ اور ۲۸: ۱۹ )سے کیا مطلب تھا؟ (مرقس ۱۳: ۹۔ ۱۰ )سے جو(متی ۲۴: ۱۴)میں نقل کی گئی ہے (ظاہر ہے کہ " گواہی " کو اسی پشت میں ختم ہونا تھا(متی ۱۶: ۲۸ ؛ ۲۴: ۳۴) اس سے ظاہر ہے کہ انجیل نویس کا مطلب یہاں پراگندہ یہودی قبائل سے ہے اور خوشخبری کی منادی" یہ تھی کہ مسیح موعود آسمان کے بادلوں پر آکر بادشاہی قائم کرے گا جس میں اس کے تمام پیروداخل ہوں گے" جو بادشاہی کے بیٹے " ہوں گے۔

لفظ" دنیا "سے مراد یہاں روئے زمین نہیں ہے۔بلکہ (یوحنا ۱۷: ۶؛ ۱۸: ۲۰ ؛ ۲۱: ۲۵؛ اعمال ۱۷: ۶؛ ۱۹: ۲۷؛ ۲۴: ۵؛ ۱۱: ۲۸ )وغیرہ سے ظاہر ہے کہ یہ یہودی محاورہ تھا جس سے مراد دُنیا کے تمام ممالک نہ تھے بلکہ ارضِ مقدس کا ملک ہی تھا، کیونکہ یہی ان کا موضوع خیال تھا۔ اسی طرح الفاظ "سب قوموں" (متی ۲۸: ۱۹) کی ہمیں موجودہ جغرافیائی خیالات کے مطابق تاویل نہیں کرنی چاہیے، بلکہ انجیل نویس کے موضوع خیال کو مدِ نظر رکھنا واجب ہے۔ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ فریسی اپنا فرض سمجھتے تھے کہ تمام لوگوں کو شاگرد بنائیں اوریہودی مسیحی بھی اس کو اپنا فرض گردانتے تھے لیکن اس پر بھی وہ مقدس پولُس اوراُن کے ہم خیالوں کے مخالف تھے( اعمال ۲۱: ۲۰۔ ۲۲؛ گلتیوں ۲: ۱۲ وغیرہ)۔ یہی وجہ ہے کہ گو اس انجیل میں یہ حکم موجود ہے کہ" تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ" (متی ۲۸: ۱۹) تاہم تمام انجیل میں بُت پرست اقوام اورغیر یہود کلیسیاؤں کی ضروریات اورخصوصی دشواریوں اورمسائل کا ذکر چھوڑ اُن کی طرف اشارہ تک موجود نہیں ۔

دوم۔بعض اصحاب کہتے ہیں کہ اس انجیل میں بالعموم اور(متی ۲۳باب )میں بالخصوص فقیہوں اور فریسیوں پرآنخداوند کے حملے درج ہیں جن سے ظاہر ہے کہ یہ انجیل نویس یہودیت کادشمن تھا ۔پس یہ انجیل ہیکل کی تباہی کے بعدلکھی گئی تھی۔ لیکن اناجیل اربعہ سے واضع ہے کہ سیدنا مسیح کی حینِ حیات میں اور اہلِ یہود کے مختلف طبقوں میں چپقلش اور آویزش ہوتی رہی حتیٰ کہ وہ آپ کے جانی دشمن ہوگئے اوراُنہوں نے آپ کو مصلوب کرواکے ہی دم لیا۔اعمال کی کتاب کا مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتاہے کہ کٹر یہودی سیدنا مسیح کی کلیسیا کے سخت مخالف رہے اوراُنہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ" اس طریق" کو جس کو وہ"بدعت" کہتے تھے (اعمال ۲۴: ۱۴) مٹادیں۔اوراس کے پیروؤں کو ایذائیں دیں، تتر بتر کردیں اور قتل کردیں ۔ اندریں حالات (ان حالات میں )جب ہم انجیل مرقس اورانجیل متی کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ جب انجیل مرقس لکھی گئی اہلِ یہود کی آتشِ عدالت برابر جاری تھی لیکن اس کے چند برس بعد یہ آگ بھڑکتی چلی گئی اورارضِ مقدس میں پھیلتی گئی ۔ان حالات میں انجیل اوّل لکھی گئی ۔ اس وقت یہودی فریسیوں اور فقیہوں اوریہودی نومریدوں میں مخاصمت(دشمنی ) زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس کا مصنف اس یہودی مسیحی جماعت سے تعلق رکھتاہے جو یسوع ناصری کو مسیح موعود مانتی ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ وہ اپنی مسیحائی بادشاہی کو قائم کرنے کےلئے آنے والا ہے ۔پس مومنین کا فرض ہے کہ وہ اس


مسیحِ موعود کی منادی کریں تاکہ ایمان داروں کی جماعت روز افزوں ترقی کرتی جائے اورزیادہ سے زیادہ لوگ مسیحِ موعود کہ حلقہ بگوش(مطیع، غلام) ہوجائیں۔ان کے مخالف فقیہہ اور فریسی جو آنخداوند کی پیدائش اور زندگی پر حرف گیری کرکے کہتے ہیں کہ یسوع ناصری موسوی شریعت کا منکر تھا اورکفر بکتا تھا ، وہ ہر زہ سرائی(بیہودہ گوئی) کرتے ہیں۔ انجیل کا نفسِ مضمون ثابت کرتاہے کہ(متی ۲۳باب) کے حملے جوابی حملے ہیں اوریہ امر ثابت کرتاہے کہ اس انجیل میں وہی فضا ہے ،جو رسولوں کے اعمال کی کتاب میں پائی جاتی ہے اوریہ بات اس انجیل کی قدامت کی دلیل ہے۔ اس کا مصنف اور اس کے پڑھنے والے ابھی کلی طوپر " شریعت سے آزاد" نہیں ہوئے ۔ ان کا نقطہ نظر حضرت کلمتہ اللہ کے اوّلین شاگردوں ہی کا ہے جو آپ کو مسیحِ موعود مان کر آپ کو موسوی شرع کی تکمیل کرنے والا ، نہ کہ منسوخ کرنے والا تصور کرتے تھے ،تاکہ آپ کی تعلیم سے مستفیض (فائدہ اُٹھانا)ہوکر اہلِ یہود موسوی شریعت کے صحیح مفہوم کو لوگوں پر ظاہر کرکے اس کو ایک قدرومنزلت والی کتاب مانیں۔ پس یہ انجیل اس نقطہِ نگاہ سے یروشلیم کے پہلے ایام کی آئینہ دار ہے اور لہٰذا پہلی صدی کے پہلے نصف کی ہے۔

(۲)

(۳۔) ڈاکٹر مافٹ کہتاہے 1 کہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ گمان ہوتاہے کہ یہ انجیل اُس زمانہ میں لکھی گئی تھی جب کلیسیا کی تنظیم بہت بڑھ چکی تھی اوراس کے عقائد اور اموُر ایمانیہ نشوونما پاچکے تھے۔ جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتاہے کہ یہ انجیل پہلی صدی اواخر میں لکھی گئی تھی۔

لیکن جب ہم اس انجیل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ" گمان" صرف ایک ظن (وہم، تہمت، بدگمانی)ہے اوربس۔ انجیل میں کسی جگہ بھی کلیسیا کے رہنماؤں اور رہبروں کے لئے کوئی ایسے لفظ استعمال نہیں ہوئے جو انجیلی مجموعہ کی مابعد کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں (۱۔ تیمتھیس ۴: ۱۴؛ ۲۔یوحنا ۱: ۱ وغیرہ)۔ کلیسیا کے ارکان اور رہبروں کو " نبیوں ، داناؤں اور فقیہوں" کے ناموں سے ہی پکارا گیاہے(متی ۲۳: ۳۴؛ ۱۳: ۵۲ وغیرہ) کیا یہ الٹا ثابت نہیں کرتا کہ یہ انجیل دورِ اوّلین اورابتدائی ایام کی تصنیف ہے۔ اس انجیل میں مقدس پطرس شاگردوں کا نمائندہ اور نیابت(سفارت، نائب ہونا) کرنے والا ہے (متی ۱۶: ۱۶ وغیرہ)۔ اوریہ اعمال کی کتاب کے ابتدائی ابواب کی فضا ہے(اعمال ۱: ۱۵؛ ۲: ۱۴؛ ۳: ۱۱ وغیرہ)۔پس کلیسیا کی تنظیم کا تصور جو اس انجیل میں پایا جاتا ہے وہ ابتدائی قسم کا ہے جس کا تعلق ابتدائی منازل کے ساتھ ہے۔

اس انجیل میں لفظ" کلیسیا" دو دفعہ (متی ۱۶: ۱۸؛ ۱۸: ۱۷) میں وارد ہواہے۔ جس سے بعض علماء کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ اس لفظ سے مراد "کلیسیائے جامع" ہے اوراس کا مفہوم وہی ہے جو بعد کے زمانہ میں اس لفظ سے لیا جاتا تھا۔ پس وہ خیال کرتے ہیں کہ اس لفظ" کلیسیا" سے مسیحی جماعت کی وہ منزل مراد ہے جب اس نے دوسری صدی میں ترقی کرکے باقاعدہ طورپر منظم صورت اختیار کرلی تھی۔ لیکن تازہ دریافت اس قیاس کو غلط قرار دیتی ہے، کیونکہ قدیم کتبوں میں ایک کتبہ ملا ہے جس کی تاریخ( ۱۰۳ء) ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ یہ لفظ ہر قسم کی جماعت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا خواہ وہ منظم ہو یا غیر منظم۔ پس لفظ " کلیسیا" مسیحی جماعت کی اوّلین منزل میں استعمال ہوسکتا تھا۔ مقدس متی کی انجیل سے ظاہرہے کہ کلیسیا کی جامعیت کا تصور ابھی جماعت کے ذہن میں نہ تھا۔ شاگردوں کی جماعت کی تنظیم نہایت سادہ تھی۔ دوازدہ رسول اس جماعت کے " سردار" تھے۔ جس طرح اہلِ یہود کے " سردار" تھے(اعمال ۳: ۱۷؛ لوقا ۲۳: ۱۳، ۳۵؛ ۲۴: ۲۰؛ یوحنا ۷: ۲۶ ، ۴۸ وغیرہ)۔ جو آنے والی بادشاہی میں اسرائیل کے بارہ تختوں پر بیٹھیں

______________________

1W.C.Allen “The Alleged Catholicism of First Gospel, Exp. Times July1910 pp.439 ff


گے(متی ۱۹: ۲۸) ۔باقی لیڈروں کے لئے عہد ِعتیق کی اصطلاحات " نبی " ، " دانا" یا فقیہ" استعمال کی کی جاتی تھیں(متی ۲۳: ۳۴؛ ۱۳: ۵۲؛ ۱۰: ۴۱؛ متی ۱۸: ۱۷) میں لفظ کلیسیا سے مقامی جماعت مراد ہے اور(متی ۱۹: ۱۸ )میں مسیح موعود کے تمام شاگردوں کی جماعت مراد ہے جس میں تمام شاگرد آپس میں بھائی بھائی ہیں، جن کا ایک باپ خدا ہے اورایک آقا اوراستاد مسیح ہے(متی ۲۳: ۸۔۱۰)۔ پس وہ ایک کلیسیا ہیں جن کو بوقت ضرورت ممانعت اور اجازت کا اختیار ہے(متی ۱۸: ۱۷۔ ۱۸)۔ اس منزل کے آگے اس انجیل میں کلیسیا کا تصور نہیں جاتا۔

پس متی کی انجیل میں کوئی ایسا مقام نہیں ملتا جو ہم کو ابتدائی کلیسیا کی اُس منزل سے آگے لے جائے جس کا ذکر اعمال کے پہلے پندرہ(۱۵) باب میں پایا جاتا ہے ۔ اس وقت تک کلیسیا ، کا نقطہ نظر وہی تھا جو انبیائے یہود کا تھا کہ یہودیت اقوامِ عالم کو اپنی جانب کھینچے گی۔ ان کے خواب وخیال میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ " بدعت" اور" طریق" ایک نیا مذہب بن کر یہودیت کی جگہ غضب کرلے گا۔ ابھی تک یہودی مسیحی کلیسیا نے آنخداوند کے اقوالِ مبارکہ کی تہ کو نہ پایا تھا اوراس منزل مقصود کا نظارہ نہ دیکھا تھا جو آنخداوند کا اصلی منشاء تھا کہ اسرائیل اور غیر یہود، کل اقوامِ عالم آپ کی نجات سے بہرہ اندوز ہوں گی۔

پس اس انجیل کے مطابق کلیسیا کے شرکا صرف یہود ہوں گے یا " خدا پرست نوُمرید" ۔ کیا یہ حالات پہلی صدی کے اواخر کے ہیں ،جب قوم یہود تباہ اور پراگندہ ہوچکی تھی اور بُت پرست مُشرک غیر یہود لاکھوں کی تعداد میں منجی جہان پر ایمان لاچکے تھے اور موسوی شریعت کی قیود سے آزاد ہوچکے تھے ۔ اس انجیل کی اندرونی شہادت تو صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ انجیل ان حالات میں لکھی گئی تھی جو یروشلیم کی کانفرنس (اعمال ۱۵باب) اورمقدس پولُس کے یروشلیم میں آنے کے درمیانی عرصہ کے ہیں (اعمال ۲۱باب) یعنی( ۴۸ء اور ۵۷ء) کے درمیانی حالات کی فضا میں یہ انجیل تصنیف کی گئی تھی۔

(۳)

ڈاکٹر مافٹ کہتاہے کہ اس انجیل میں مسیحی ایمان کے اُمور اور عقائد کا ذکر ثابت کرتاہے کہ وہ نشوونما پاچکے تھے۔ لیکن جب ہم اس انجیل کا غائر(گہرا) مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ بھی " گمان" ہی گمان ہے اورحقیقت پر مبنی نہیں۔ چنانچہ اس انجیل میں آمدِ ثانی کے متعلق جوباتیں درج ہیں وہ وہی ہیں جو تھسلنیکیوں کے خطوط(۵۰ء) اوراعمال کی کتاب کے پہلے ابواب میں پائی جاتی ہیں۔ جب ہم( ۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۲۔ ۸ ) کا مطالعہ کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیات مقدس متی کی انجیل کے خیالات اور الفاظ کی صدائے بازگشت(وہ آواز جو پہاڑ یا گنبد سے ٹکرا کر واپس آتی ہے ، نتیجہ، اثر) ہیں(متی ۲۴: ۴۲۔ ۴۳)۔ انجیل اوّل کی تمثیلیں، سب انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں(متی ۲۴: ۲۷تا ۲۵: ۳۰)۔ فرق صر ف یہ ہے کہ مقدس پولُس" ابنِ آدم کے دن" کی بجائے" خداوند کا دن" لکھتاہے۔ اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مقدس پولُس اس انجیل سے واقف تھے۔ پس یہ نکتہ اس کی بجائے کہ یہ ثابت کرے کہ انجیل متی پہلی صدی کے اواخر میں لکھی گئی تھی، الٹا یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ ابتدائی ایام کی تصنیف ہے۔ حق تویہ ہے کہ جیسا ہارنیک کہتاہے1یہ ماننا زیادہ آسان ہے کہ یہ انجیل( ۷۰ء )سے پہلے لکھی گئی تھی کیونکہ اس واقعہ کے دس(۱۰) سال بعد یہ تسلیم کرنا آسان نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آیت(متی ۲۸: ۲۰ )کے مطابق ابھی یہ نسل تمام نہ ہوگی کہ تمام تبدیلیاں واقع ہوجائیں گی۔

______________________

1Allen, “Recent Criticism of Synoptic Gospels.” Exp Times July 1909 pp. 445 ff


علاوہ ازیں اس انجیل میں آنخداوند کی ذات کا عقیدہ اپنی ابتدائی منازل میں ہی ہے۔ یسوع ناصری مسیح موعود ہے جو خدا کا محبوب ہے (متی ۳: ۱۷)۔ وہ " ابن آدم" ہے جو دانی ایل نبی کے قول کے مطابق آسمان کے بادلوں پر آئے گا اورآسمان کی بادشاہی قائم کرئے گا۔ اس منزل سے یہ انجیل ایک قدم بھی آگے نہیں جاتی۔جائے تعجب ہے کہ موجودہ زمانہ کے مصنف اس طرح لکھتے ہیں کہ گویا انجیل اوّل کا مصنف کوئی کٹر خالی قسیس (دینِ مسیحیت کا عالم) تھا1۔ جس کی کتاب بتلاتی ہے کہ سیدنا مسیح نے ان تمام عقائد پر مہرُ ثبت کردی ہے جو آپ کی صلیبی موت کے دوتین پشُتوں کے بعد کلیسیا میں مروج تھے۔

(۴)

ایک اور امر قابلِ غورہے۔ اگریہ انجیل پہلی صدی کے اواخر میں لکھی جاتی تو مغرب کی کلیسیائیں جن کی اکثریت غیر یہود مشرکین سے سیدنا مسیح کے قدموں میں آئی تھی، اس قسم کی انجیل کو قبول نہ کرتیں جس کا مدعا ہی یہ تھا کہ وہ ثابت کرے کہ آنخداوند صرف یہود کے ہی مسیحِ موعود ہیں اورجس کا ہر صفحہ یہودیت کی اصطلاحات سے بھرا پڑاہے۔(۷۰ء )کے بعد کے زمانہ کےساتھ اس انجیل کے مضامین کا تعلق کہیں نظر نہیں آتا۔ اس واقعہ ہائلہ کے بعد کس غیر یہود نومرید کو یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ یسوع ناصری فقط اہلِ یہود کا مسیح ِموعود ہے؟ غیر یہودی کلیسیائیں تو اس سے مدتوں پہلے اس بات کی قائل ہوچکی تھیں کہ آنخداوند نہ صرف اہلِ یہود کے مسیحِ موعود ہیں بلکہ تمام دُنیا کی اقوام کے نجات دینے والے ہیں۔ اگریہ انجیل کلیسیا کے ابتدائی ایام میں نہ لکھی جاتی تو وہ غیر یہودی کلیسیاؤں میں کبھی رواج نہ پاتی۔ لیکن( ۷۰ء) سے پہلے یہ انجیل بکثرت نقل ہوکر ارضِ مقدس کے اندر اورباہر مقبولِ عام ہوکر خصوصیت کے ساتھ " الانجیل" کہلاتی تھی۔ چنانچہ دوسری صدی کے آغاز میں بعض آبائے کلیسیا بھی اس کو یہی نام دیتے ہیں2۔ لہٰذا یہ انجیل اپنی قدامت اورپایہ اعتبار کی وجہ سے ہر جگہ مقبول تھی۔

ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ جو علماء یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ انجیل پہلی صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی اُن کے دلائل درحقیقت زور نہیں رکھتے۔ ان علماء کے برعکس ہمارے خیال میں اُن علماء کے دلائل نہایت وزن دار ہیں جو کہتےہیں کہ انجیل پہلی صدی کے پہلے نصف کے اختتام کے وقت یعنی( ۵۰ء) کے قریب لکھی گئی۔ بالفاظِ دیگر یہ انجیل واقعہ صلیب کے سترہ (۱۷)برس کے اندر اندر احاطہِ تحریر میں آگئی تھی۔

اس حصہ کی بحث کا ماحصل یہ ہے کہ اناجیلِ متفقہ یروشلیم کی تباہی سے مُدتوں پہلے لکھی گئی تھیں جب کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ آیا تھاکہ اہلِ یہود کا مقدس شہر تباہ ویران ہوجائے گا، قدس الاقداس نذرِ آتش ہوجائے گا قومِ یہود خستہ اورپراگندہ ہوجائے گی اور یہود کی قومی روایات ، ملی رسوم ورواج اور شرعی پابندیاں سب کی سب یکسر ختم ہوجائیں گی ۔ قدم ترین انجیل کو مقدس مرقس نے سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے سات(۷) برس کے اند رلکھا ۔ مقدس متی نے اپنی انجیل کو اس جانکاہ واقعہ کے( ۱۷ )برس کے اندر لکھا اور مقدس لوقا نے اپنی انجیل کو منجی عالمین کی وفات کے پچیس(۲۵) سال کے بعد لکھا۔ ان اناجیل کی اور ان کے ماخذوں کی قدامت ان کی اصلیت پر گواہ ہے۔

______________________

1B.W.Bacon, The Story of Jesus (1928) p.33


-------------