The Arabs before Islam

BY

Allama Ghulam Masih

وَبِذُرِّيَّتِكَ تَتَبَارَكُ جَمِيعُ أُمَمِ الأَرْضِ،

اور تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازوں پر قابض ہوگی اور تیری نسل سےزمین کی ساری قومیں برکت پائینگی

یا

عرب قبل از اسلام

جس میں زمانہ جاہلیت کے عربوں کی شاندار حکومتوں کے ان کی تہذیب اور شائستگی اُن کے مذاہب وعقائد

ورسوم کے نہایت مختصر پر تعجب خیز خیالات۔ بائبل مقدس سے مغربی اشیاء اور آثارقدیمہ سے اور تاریخ اسلام سے مرتب کئے گئے ہیں۔

یہ کتاب قدیم تاریخ عرب کے متعلق نادر معلومات کا خلاصہ ہے۔

مولفہ ومصنفہ

علامہ پادری غلام مسیح صاحب ایڈیٹر نور افشاں۔ لاہور

1925

مقدمہ

بائبل مقدس خصوصاً پرانا عہدنامہ مغربی ایشیاء اور مصر کی مدفون(دفن) اقوام اوراُن کی گئی گزری تہذیب وشائستگی (اخلاق۔ مروّت۔ آدميت) کو دوبارہ زندہ کرنے میں بیمثال طورسے ایک زبردست آلہ کار ثابت ہوچکا ہے جس کی نشاندہی سے اقوام ِبابل، اکاد، نينوہ، اور ، اموری ، حتی، فینکی، کنعان، مصر، عیلام اورآرمینیا اور عرب کے اوراُن کی سلطنتوں کے۔ اُن کی تہذیب وشائستگی کے اُن کے مذاہب وعقائد ورسوم کے عجیب وغریب حالات وفساد معرضِ ظہور میں آچکےہیں جن کے آثار ونشانات وحالات سے یورپ کے عجائب خانےبھرچکے ہیں۔زمانہ حال کی زندہ اقوام کی ماؤں مذکورہ بالا میں سے عرب کی اقوام بھی ہیں جن قدیمی حالات پر آنے والے اوراق میں کچھ تاریخی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بائبل کی اقوام میں اہل عرب بھی نہایت بلند جگہ رکھتے ہیں۔

بائبل مقدس نے بعدطوفانِ نوح جو زمین پر قوموں کے آباد ہونے کا بیان کیا ہے اُس ملک عرب کو حضرت سم بن نوح کی اولاد سے آباد کرکے دکھایاہے۔ اگرچہ حضرت سم بن نوح کی اولاد (مغربی ایشیاء) کے وسط میں آباد دکھائی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی مبالغہ (کسی بات کو بہت بڑھا چڑھا کر بيان کرنا)نہیں ہوگا کہ حضرت سم بن نوح کی اولاد کے مختلف قبائل نے مختلف زمانوں میں آبائی سکونت گاہوں(رہنے کی جگہ) کو چھوڑ کر ملکِ عرب میں سکونت اختیار کی ہوگی۔کیونکہ مغربی ایشیاء کے وسط میں آبادکاروں میں جنگ وجدل کا سلسلہ زمانہ قدیم سے ہی جاری ہوگیاتھا جس کی وجہ سے وہاں کے آباد کار وں کا مال و جان ہمیشہ خطرہ میں مبتلا رہتا ہوگا۔اس وجہ سے سم کی نسل کے امن پسند خاندان ملک عرب میں پناہ گزین ہوئے ہونگے۔

مغربی ایشیاء اور مصر کے اقوام کے آثارِ قدیمہ میں اہل ِعرب کے ذکر اکاد، صابیوں، بدوؤں اور خیبری اور چوپان اقوام کے نام سے زیادہ ترپائے گئے ہیں۔جنہوں نے اقوام مافوق کی حکومتوں پر ابتداء سے اپنی فوقیت (برتری)قائم وثابت کرنیکی ہمیشہ کوشش کی اوروہ اس کوشش میں ناکام نہیں نکلتے تھے۔

مغربی ایشیا کی مافوق سلطنتوں سے جو ملک عرب کی شمال مشرق ،شمال ، شمال مغرب میں زمانہ قدیم سے قائم ہوئی تھیں۔ ان سے قدیم عربوں کے گہرے تعلقات ثابت ہوئے ہیں۔ ان زبردست سلطنتوں میں سلطنت ِبابل او رنينوہ اور مصر کے حکمرانوں کی فہرستیں ذیل میں دیتے ہیں۔ تاکہ ناظرین کرام پر یہ امر واضح ہوجائےکہ اہلِ عرب کن زبردست حکومتوں کا مقابلہ کرکے اپنی ملکی آزادی اور حریت کو قائم رکھتے ہوئے اپنی ہستی کو بچاتے رہے تھے۔ درحالیکہ وہ زبردست حکومتیں فنا ہوگئیں مگر اہل ِعرب آج تک زندہ چلے آئے ہیں۔ ان بڑی بڑی سلطنتوں کے حکمرانوں کی فہرستیں حسب ذیل ہیں جو ہنوز ناتمام خیال کی جاتی ہیں۔

خاندان سم کے بابلی یا اکادی حکمرانوں کی فہرست

مغربی ایشیاء کے آثار قدیمہ کے ماہرین نے اکادی یا بابلی سلطنت کے حکمرانوں کو اعلیٰ تہذیب وشائستگی (آدميت۔اخلاق)کے بانی بتلایا ہے۔ اوراس سلطنت کے پہلے حکمران کا زمانہ قبل از مسیح ۳۸۰۰ برس قرار دیا ہے اور عجیب ترمعاملہ یہ ہے کہ اکادی سلطنت کے پہلے حکمراں کو عرب کی صابی حکومت کے بادشاہ اثمر (انگریز ی اتھمر) نے خراج دیا تھا۔ جس سے یہ بات باخوبی روشن ہوتی ہے کہ عرب میں صابی حکومت اکادی حکومت سے بھی پیشتر قائم ہوچکی تھی۔اکادی حکومت کے حکمرانوں کی فہرست آثارِ قدیمہ سے ثابت ہوچکی ہے سارگون اول نے جو خاندانِ سم سے تھا اس نے قبل از مسیح ۳۸۰۰ اکاد میں عظیم الشان سلطنت قائم کی جو عیلام سے لے کر صور فینکی اور کنعان (جزیرہ کپرس) تک وسیع تھی اور دسری طرف ملکِ عرب کے جنوب تک اس کا اثر تھا۔

نارام سن نے جو سارگون اوّل کا بیٹا تھا اس نے قبل از مسیح ۳۷۵۰ میں مغربی ایشیاء کی تمام سرزمین پر قبضہ کیا تھا۔

قبل از مسیح ۲۷۰۰ میں اُور کے بادشاہ سلطنت بابل پرحکمران تھے۔حمورابی خاندان کا مذکورکا چھٹا حکمران نہایت زبردست حکمران تھا جس کے زمانہ میں سمی تہذیب وشائستگی کمال کو پہنچی تھی اس کی سلطنت تمام مغربی ایشیاء تک وسیع تھی۔ یہ خاندان سلطنت بابل کے تخت پر قبل ازمسیح ۲۳۰۰ تک تمکن (اختيار۔ قابو ميں رکھنا)رہا تھا۔

بابل کے اِ ن بادشاہوں کے خاندان کا یہ بھی دعویٰ تھاکہ وہ اموریوں کے ملک میں بھی حکمران تھے عیلام کے کاسیوں نے بابل کو فتح کیا وہ وہاں ۵۷۳ برس اور ۹ ماہ تک حکمران رہے۔ یعنی قبل از مسیح ۱۷۸۶ تک پھر قبل از مسیح ۷۴۷ میں نبوکد نصر بابل کا بادشاہ ہوا (پھر یلودپل) نے جسے تغلط پلاسر کہا جاتاہے اورجو اسریا کا بادشاہ تھا اس نے قبل از مسیح ۷۲۷ میں بابل کو فتح کیا تھا اس کے بعد الولو جسے شلنضر رابع کہتےہیں قبل از مسیح ۷۲۵ میں اسریا کا بادشاہ ہوا۔ پھر مردوکہ بلد ان ثانی نے قبل از مسیح ۷۲۱ میں حکومتِ بابل پر قبضہ کیا۔اور ۱۲برس تک حکومت کی اسی نے یہوداہ کے بادشاہ عزیاہ کے پاس اپنا وکیل بھیجا تھا۔ قبل از مسیح ۷۰۹ میں اسریاکے بادشاہ سارگون نے پھر بابل کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ پھر قابل از مسیح ۷۰۴ میں سخریب بابل کے تخت پر تمکن ہوا پھر قبل از مسیح ۷۰۲ سے ۶۸۹ تک بابل اور عیلام اوراسریامیں خانہ جنگی رہی اور سخریب نے بابل کو قبل از مسیح ۶۸۹ میں بالکل برباد کردیا جسے قبل از مسیح ۶۸۱ میں اسرہدون نے پھر بنایا تھا قبل از مسیح ۶۶۸ میں اسرہدون نے سلطنت بابل کو اپنے بیٹوں پر تقسیم کیا تھا اور خا ص حکومتِ بابل اپنے بیٹے شمس سم یکین کو دی تھی۔ قبل از مسیح ۶۴۸ میں بابل میں بڑی بغاوت ہوئی تھی جسے اسریا نے مٹادیا تھا قبل از مسیح ۶۲۶ میں بنوپلاسر وایسرا ہی مقرر ہوا تھا۔ قبل از مسیح ۶۰۶ میں اسریا کی حکومت میں بغاوت ہوئی اور شہر نینوہ بالکل مسمار(گرايا ہوا۔برباد) کیا گیا قبل از مسیح ۶۰۵ میں نبوکد نصر نے بابل کی سلطنت میں اقتدار حاصل کیا اوراُس کے بیٹوں نے سلطنت کو مضبوط کیا۔ قبل از مسیح ۵۶۲ میں بدکار مردوک بندان تخت نشین ہوا قبل از مسیح ۵۶۰ میں رگلشریز بادشاہ ہوا قبل از مسیح ۵۵۶ میں اس کا بیٹا ہیلشیندر تخت نشین ہوا۔ قبل از مسیح ۵۳۸ میں فارس کے بادشاہ خورس نے سلطنت بابل پر قبضہ کرلیا تھا۔ (دی السٹریڈ بائبل ٹریژری صفحہ ۱۸۰، ۱۸۱)۔ یوں تختِ بابل پر خاندانوں کے حکمران قابض ہوئے جس کا شمار ۱۰۶ اور زمانہ قبل از مسیح ۲۳۹۶ سے ۵۳۹ تک کا قرار پاچکا ہے۔ (بائبل ڈکشنری جیمس ہیسٹنگ)

اسریا یاحکمران نینوہ کی فہرست

اسریا کے لوگ بھی حضرت سم بن نوح کی نسل سے تھے جنہوں نے پیشتر اکاد اوربابل میں زبردست تہذیب و شائستگی قائم کی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ جب قبل از مسیح ۱۷۸۶ سے پیشتر حکومت اکاد اوربابل میں ضعف(دوگنا۔دوچند) کے آثار نمایاں ہوتے نظرآئے ہونگے تو قبل از مسیح ۱۷۰۰ میں کالاشیر گھاٹ میں جھیل کپکپو نے ننوائی حکومت کی بنیاد ڈالی جس کی ہستی قبل از مسیح ۶۰۶ تک قائم رہی تھی مغربی ایشیاء کے آثار قدیمہ میں حکومت مذکورہ کے مندرجہ ذیل حکمران دریافت ہوچکے ہیں۔

قبل از مسیح ۱۳۳۰ میں شلنضر اوّل نے کالا کو بنایا قبل از مسیح ۱۳۰۰ میں اس کے بیٹے تغلط نتیپ اوّل نے حکومت بابل پر قبضہ کرلیا اور۷ سال تک حکمران رہا۔ قبل از مسیح ۱۰۰۰ میں اسریا کی حکومت تغلط پلاسر اوّل کے ماتحت بحیرہ روم تک وسیع ہوئی اور مصر کے حکمرانوں نے بھی اسے تحفے تحائف دیئے قبل از مسیح ۱۰۰۰ میں اسرار بی تخت پر نشین رہا قبل از مسیح ۸۸۲ میں اس نضریل ثانی نے اسریا کی حکومت کو از سر نوتازہ دم کیا۔ قبل از مسیح ۸۵۸ میں اس کا بیٹا شلنضر ثانی تخت پر بیٹھا اور اس نے دمشق کے بادشاہ ہدوعز کو اوراسرائيل کے بادشاہ احب کو شکست دی۔ قبل از مسیح ۸۵۰۔ ۸۴۵ تک ہن ہدہ کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ قبل از مسیح ۸۴۱ ہزائیل شاہ دمشق اوریاہ ہو بن امری کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ قبل از مسیح ۸۲۵ میں ساردانا پولس شلنضر کے بیٹے کی بغاوت رونما ہوئي۔ قبل از مسیح ۸۲۳ میں شمس رمون ثانی نے بغاوت مذکورہ کا خاتمہ کیا قبل از مسیح ۸۱۰ میں اس کا بیٹا رمون زاری تخت پر بیٹھا اس نے ۸۰۴ میں دمشق کو فتح کیا۔ سامریہ سے خراج وصول کیا۔ قبل از مسیح ۷۴۸ میں پُل نے حکمران خانہ کا خاتمہ کرکے تغلط پلاسرسوم کے نام سے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اوراس نے دمشق کے بادشاہ ریزین اوراسرائيل کے بادشاہ مناہم سے خراج وصول کیا اور یہ قبل از مسیح ۷۳۸ کی بات ہے۔ قبل از مسیح ۷۳۴ میں دمشق کا محاصرہ(چاروں طرف سے گھير لينا) سرلیا گیا اور مشرقی یردن کے قبیلے جلاوطنی کے لئے گرفتار کئے گئے اوریہوداہ کے بادشاہ یہہواخذ کوخراج گذار(ماتحت بادشاہ) بنایا گیا۔ قبل از مسیح ۷۲۷ الولایا شلنضر رابع تخت نشین ہوا قبل از مسیح ۷۲۲ میں شارگون تخت نشین ہوا اور اس نے اسی سال سلطنت اسرائیل پر حملہ کرکے اس کے دارالخلافہ پر قابض ہوگیا ۷۱۱ قبل از مسیح میں اُس کے سپاہ سالا ر نے اشدود کو فتح کرلیا ۷۰۵ قبل از مسیح سخریب سارگون کی جگہ تخت نشین ہوگیا ۷۰۱ قبل از مسیح اس نے سلطنت یہوداہ پر حملہ کیا اور ۶۸۱ قبل از مسیح میں وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں سے قتل ہوا اوراس کی جگہ اس کا بیٹا اسرہدون ہی تخت پر بیٹھا ۶۶۸ قبل از مسیح اُ سکا بیٹا اسر بنی پل تخت نشین ہوا ۶۰۶ قبل از مسیح میں نینوہ برباد کیا گیا یہ کتاب ایضاً ۱۷۹۔

مصری بادشاہوں کی فہرست

ملک مصر کےبادشاہوں کی فہرست اوراُن کی حکومت کا زمانہ نہایت طویل (لمبا)ہے۔ مصری تاریخ میں پہلے تین خاندان جو مصر میں حکمران رہے تھے وہ ان کے معبودیا دیوتا تھے نصف دیوتا تھے اورروحانی ہستیاں تھیں۔ لیکن اصل تاریخ متا بادشاہ سے جو قبل از مسیح ۳۸۰۰ سے ۴۴۰۰ تک مانا گیا ہے شروع ہوئی تھی جو سکندر اعظم ۳۳۲ قبل از مسیح پر ختم کی گئی ہے۔

مصر کی سلطنت کے تخت پر کل ۳۱خاندان کےبادشاہ تخت نشین ہوئے ہیں جن کا کل شمار چوپان بادشاہوں کو چھوڑ کر ۱۳۸ تک بیان کیا گیا ہے اور چوپان بادشاہوں کے پانچ خاندان یعنی ۱۳ سے ۱۷ خاندان تک حکومت کرتے رہے ہیں۔ جنکے بادشاہوں کا پتہ نہیں ہے کہ کتنے تھے۔ ان چوپانوں بادشاہوں نے مصر میں ۵۰۰برس تک حکومت کی تھی جو مصری حکمرانوں کے بارہویں خاندان سے لےکر اٹھارویں خاندان کے درمیانی زمانہ میں حکمران رہے تھے۔انہیں حکمرانوں کے ایام میں حضرت ابراہیم مصر میں گئے اوربنی اسرائيل مصر میں رہے تھے اورانہیں حکمرانوں نے مصر سے خارج ہوکر ملک ِکنعان میں شہر یروشلیم کی تعمیر کی تھی۔ یہ تمام حکمران عرب کی قوم عمالیق سے تھے (دیکھو بائی پاتھس آف بائبل نالج جلد ۵، ۸)۔

شمال اور شمال مغربی کی ان تین زبردست حکومتوں کے سو ا شمال عرب میں اور ریاستیں اورحکومتیں بھی کوڑیوں قائم ثابت ہوئیں۔ ان میں سے ملک کنعان میں بنی اسرائيل کی حکومت وریاست بھی تھی جس کا بیان مسیحیوں کی بائبل میں موجود ہے۔ مگر ہم طوالت کی وجہ سے اس کا ذکر تذکرہ ِقلم انداز کرتے ہیں۔

ملک عرب کی قدیم حکومتیں

مغربی ایشیاء خصوصاً جنوبی عرب کے آثار قدیمہ اس بات کے شاہد(گواہ) ہیں کہ شمالی عرب اورشمال مغربی عرب کی حکومتوں کی ہمزاں حکومتیں زمانہ قدیم میں ملکِ عرب میں قائم ہوئی تھیں جس کے نظام کے ماتحت تمام ملک عرب زمانہ طویل تک امن وسلامتی سے زندگی کا ٹتا رہا تھا اور عرب کی مقامی ریاستیں اورحکومتیں ان جمہوری حکومتوں کے تابع ہوکر نہ صرف اپنے ملک میں خوشحال اور فارغ البال(بے فکر) تھیں بلکہ عربی حکمرانوں کا اثر عرب کی شمالی اور شمال مغربی حکومتوں تک وسیع تھا۔ عرب کی یہ حکومتیں صابی ، عمالیقی اور ماعونی مشہور ہیں ان حکومتوں کے حکمرانوں کے تعلقات اور بابل او رمصر کے چوپان بادشاہوں سے ضرور تھے۔ عرب کی ان تین حکومتوں کے حکمرانوں کے نام ونشان ہنوز(ابھی تک) پورے طور سے ہمیں معلوم نہیں ہوسکے ہیں ڈاکٹر گلیسر نے ۳۳ بادشاہوں کے نام یمن اور حضرت موت کی دریافتوں سے معلوم کئے ہیں جن کے کتبے عرب کی صابی اور ماعونی زمانوں میں سے ملے ہیں۔ عرب کی اندرونی حکومتوں اوران کے حکمرانوں کی فہرستیں ہم نے سرسید مرحوم کے خطبات احمدیہ سے لی ہیں ان فہرستوں سے بات بخوبی ظاہر ہوجائے گی کہ اہل عرب زمانہ قدیم سے اپنی آزادی اور حریت (غلامی کے بعد آزادی)قائم رکھتے آئے تھے۔ زمانہ عیسوی کی پہلی چھ صدیوں میں ہی غیر ملکی حکومتوں نے انہیں غلام بنانے کی پہلے کی نسبت نہایت زیادہ کوشش کی تھی۔

رسالہ ہذا میں جن مسیحی ومسلم کتب سے بیانات نقل کئے گئے ہیں اُن کی فہرست ذیل ہیں دی جاتی ہے تاکہ ناظرین کرام اِہل عرب کے حالات سے زیادہ آگاہ ہونا چاہیں تو ان کتب کا خود مطالعہ فرمائیں مثلاً (۱) بائبل مقدس (۲) دی اینشینٹ جروٹریڈ یشین السٹرٹیڈ بائی دی مانیو منٹس مصنفہ پروفیسر فرینمل (۳) دی اولڈ ٹیسمنٹ اندی لایٹ آف دی ہسٹا ریکل ریکارڈدس آف اسریا اینڈ ببلونیا مصنفہ ڈاکٹر ٹی جی نیچر(۴) دی ہائر کریٹسزم اینڈ دی مانیومنٹس مصنفہ ڈاکٹر اے۔ ایچ۔ سیس (۵) ریکارڈدس آف دی پاسٹ جلد اول وسوم وچہارم وپنجم ۔ایڈٹیڈ بائی اے۔ ایچ۔ سیس (۶) ایکس پوزیشن آف ایجنٹ اینڈ دی اولڈ ٹیسٹمنٹ مصنفہ جے۔ جی ڈنکن۔ بی ڈی۔ (۷) بائی دی پاتھس آف بائبل نالج جلد ۵، ۶، ۸ ان کتب کے سوا ہم نے ذیل کی اسلامی کتب سے بھی کام لیا ہے۔ (۸) خطبات احمدیہ مصنفہ سرسید مرحوم (۹) رسوم جاہلیت ، (۱۰) تاریخ الحرمین الشریفین۔ (۱۱) تواریخ احمدی(۱۲) سیرت ابن ہشام وغیرہ۔

اگر کوئی ناظرین مسیحی کتب مافوق کا مطالعہ کرے گا تو اس پر نہ صرف ناقدیں بائبل(بائبل پر تنقيد کرنے والے) کی بےسرو پاتھیوریوں کی بیہودگی بخوبی ظاہر وروشن ہوجائے گی بلکہ ان پر مغربی ایشیا کی اس قدیم تہذیب وشائستگی کی شان ظاہر ہوجائے گی جن کی بنیاد حضرت سم بن نوح کی نسل نے ڈالی تھی۔ جو تمام ایشیاء اور یورپ، اورمصر وافریقہ کی اقوام کی تہذیب وشائستگی کا اُستاد اوّل تھی جس کی یادگاروں سے یورپ کے عجائب خانے بھرے پڑے ہیں مغربی ایشیاء کی تہذیب وشائستگی کے بانی ہی عربوں کےباپ دادا اوربھائی تھے جن سے جدا ہوکر ملک عرب میں آباد ہوئے تھےاور اُنہوں نے عرب میں آباد ہوکر اُن عربی حکومتوں اورریاستوں کی بنیاد ڈالی جن کا ذکر مسلم مورخین (تاريخ لکھنے والے)نے کیا ہے یہ حکومتیں اورریاستیں ہزاروں برس تک اپنی ہستی قائم رکھ کر آخر کار سن عیسوی کی ابتدا سے ۵۹۰ء تک کے درمیان اپنا سب کچھ غیر ملکی حکومتوں کو دے کر اُن کی غلامی کا طوق اپنے گلوں میں ڈال چکی تھیں۔ وسط ِعرب میں صرف یہودی اور ان کی ریاست اپنے دوستوں کے ساتھ آزادہ رہ گئی تھی جو غیر ملکی حکومتوں کے غلامی کے خطرہ میں مبتلا تھی غرضیکہ حضرت محمد کی پیدائش کے زمانہ کے قریب ملک عرب کی ملکی حالت نہایت مخدوش (مشکوک)تھی جس کا پھر آزاد ہونا خدا کے معجزانہ کام پر ہی موقوف تھا۔

رسالہ ہذا عرب کے فرزند ِاعظم کے زمانہ پر ختم ہوگیاہے جن کی زندگی اورکام اور فتوحات کا بیان کسی دوسرے وقت کےلئے چھوڑدیا گیا ہے۔ مگر آپ کی زندگی کے کام جو اثر ہمارے زمانہ کی انسانی آباد ی پر ہے اُس کا ذکر ہم نے رسالہ ہذا کی پہلی فصل میں ہی کردیا ہے تاکہ ہمارے ناظرین ِ اکرام رسول عربی کی زندگی پر سنجیدگی سے غور فرماسکیں اوراس بات کو صفائی سے دیکھ سکیں کہ رسول عربی ہرگز کوئی معمولی ہستی نہ تھے بلکہ اقوام دہر کی اصلاح ودرستی کےلئے اور ان کی تہذیب وشائستگی کی کایاپلٹ کرنے کےلئے خدا کے انتظام میں ایک منتخب شدہ وسیلہ تھے۔ جس کی عزت وحرمت کی محافظ آج کے دن کم از کم دنیا کی ۲۴کروڑ آبادی موجو دہے جس کا مذہبی طور سے سب سے زياد ہ اشتراک مسیحیت سے ہے۔ اگرہم مسیحی دنیا کی مسلم آبادی کے اس لاثانی اشتراک کی قدرنہ کریں اوراس مذہبی واعتقادی اشتراک سے کوئی بہتر فائدہ اٹھانےکی تجویز نہ کریں توہم بلاشک مسیحیت کے مسلم دوستوں کو ہاتھ سےکھوئیں گے۔ جن کی خالی جگہ کو بھرنے کےلئے قیامت تک ہماری کوششیں کارگر نہ ہوں گی۔

آخر میں یہ بھی گذارش کردینا چاہتے ہیں کہ طوالت کے خوف کی وجہ سے قدیم اہل عرب کی بابت ہم اپنی تمام معلومات رسالہ ہذا میں مرتب نہیں کرسکے جو کچھ رسالہ ہذا میں بیان کیاگیاہے۔ وہ قدیم عرب کی تاریخ کے چشموں کے متعلق ہی لیکن اس میں بھی شُبہ نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ رسالہ ہذا میں ہدیہ ناظرین کیا ہے وہ زمانہِ جاہلیت کے عربوں کی عظمت وشان دکھانے کو کافی ہے۔ اگر کسی کو زیادہ حالات کی تلاش ہو تو وہ۔۔۔۔۔۔ اپنی تلاشِ جستجو کے نتائج کا اضافہ کرسکتاہے۔ فقط زيادہ حد ادب

احقر العباد۔ پادری غلام مسیح۔ایڈیٹر نورِ افشاں۔ لاہور

پہلی فصل

ملکِ عرب کا بیان

ہندوستان جنتِ نشان کے باشندے خصوصاً ہندو اورمسیحی صاحبان جو ہند کی قدرتی نعمتوں کے وارث ہیں۔ جو اس کے پہاڑوں اوراُس کی وادیوں ، اس کے میدانوں کی زرخیزی اوراس کے دریاؤں اور چشموں کی زرریزی (زرخيزی)کے خوگر ہیں۔جوہند کی قدیم ،شاندار تہذیب وشائستگی کے دور اس کی صنعت وحرفت اوراس کے فنونِ لطیفہ سے واقف و آگاہ ہیں۔ جب کبھی عرب اور اہل عرب کا ذکر سنتے تو عموماً ناک بھو چڑھا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ ارے ملکِ عرب بھی کسی مہذب انسان کے غور وفکر کے قابل ملک ہے؟ جس میں نہ کوئی شاندار پہاڑوں کا سلسلہ ہے جس میں نہ کوئی دریا ہے اور نہ کوئی جھیل یا چشمہ یا کوئی آبشار ہے۔ جہاں نہ کوئی ایسا میدان ہے جہاں کھیتی باڑی ہو نہ کوئی تجارت کی منڈی ہے نہ پھول اورپھلوں کے باغات ہیں۔ نہ وہاں صنعت وحرفت نے اور فنونِ لطيفہ نے جنم لیا ہے۔ نہ وہاں کی تہذیب وشائستگی ہی مشہور ہے۔ وہ ایک بنجر زمین ہے۔ جسے ریت کے ٹيلے قدرت نے میراث میں دئیے ہیں۔ وہ جنگلی اور وحشی جانوروں کی بھی سکونت گاہ کبھی نہیں بنا وہاں خدا نے کبھی کوئی خوبصورت پرندہ بھی ایسا پیدا نہیں کیا جو مہذب انسانوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے۔ ایسے عجیب وغریب ملک کی طرف اوراُس کے باشندوں کی طرف کون دھیان دے سکتاہے۔ہندجیسے ملک کے آگے اس کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے؟

اس میں شبہ نہیں کہ ہر ملک کو خدا نے یکساں قدرتی دولت تقسیم نہیں کی ہندوستان کو جن نعمتوں سے غنی(دولت مند) کیا ہے وہ دنیا کے ہرملک کے حصے میں نہیں آئی ہیں۔توبھی ہر ایک ملک اپنی اپنی کسی نہ کسی بات میں خصوصیت رکھتاہے اوراُس کی وہی خصوصیت اس کی شان ِخصوصی ہے۔ ملک عرب کی بابت جو خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں وہی اس کی شانِ خصوصی کے مظہر(ظاہر کرنے والے) ہیں۔ علم دوست انسان کےلئے اس میں بھی بہت کچھ سیکھنے کو موجود ہے۔ کامل اورجاہل انسانوں کیلئے ہندوستان کی شان بھی صفر کے برابر ہے۔اس لئے ہم اپنے ناظرین کرام کے روبرو ملکِ عرب کو پیش کرتے ہیں تاکہ وہ اس بابرکت ملک پر اوراس کے باشندوں پر غوروخوض کریں اور دیکھیں کہ یہ ملک کس بات میں دیگر ممالک کے مقابل اپنی شان خصوصی رکھتاہے؟

ہم یہ بات بھی ذکرکے قابل خیال کرتے ہیں کہ فصل ہذا میں ہم ملک عرب کے مفصل حالات پیش نہیں کرسکتے نہ ہمارا ایسا ارادہ ہے۔ مگرہم ملک عرب کی طرف ناظرین کرام کی اس فصل کے بیان پر توجہ ہی دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ملک عرب کے باشندوں کو اپنے دل میں جگہ دے کر اس پر ضرور غور وفکر کریں۔ اس کی طرف سے دلوں سے نفرت کو نکال ڈالیں۔کیونکہ اس ملک میں بھی قدرت نے ہمارے لئے بصیریتیں اورہمارے لئے عجائب وغرائب رکھےہیں جو عام طور سے ہند کی شان وبڑائی کی روشنی کے مقابل نہایت خفیف (معمولی) اورہلکی چیزیں معلوم ہوتےہیں۔ لیکن اگر ہم ان چھوٹی چیزوں پر غور وفکر کرکے دیکھیں گے تو وہ ضرور عظیم الشان حقائق دکھائی دینگی۔ مندرجہ ذیل بیان میں ملک عرب کی بابت چند سطحی باتیں درج وبیان کی جاتی ہیں۔

دفعہ ۱۔ لفظ عرب کی وجہ تسمیہ

بعض لوگ عرب کے نام کو لفظ عربہ کی طرف جس کے معنی ہموار بیان کے ہیں اور جوصوبہ تھامہ کا ایک ضلع ہے منسوب کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ لفظ عیبر کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جس کے معنی خانہ بدوش کے ہیں کیونکہ زمانہ سابق میں عرب خانہ بدوش تھے۔ اس صورت میں اس اشتقاق لفظ عبرانی جس کی یہی وجہ تسمیہ ہے ثابت ہوتاہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ لفظ عبری مصدر عرب سے نکلا ہے۔ جس کےمعنی نیچے جانے کے ہیں۔ اوراس سے وہ ملک مراد ہے جس میں سیمٹیک یعنی اولادِ سام بن نوح جو دریائے فرات کے کنارے پر رہتی تھی۔ آفتاب غروب ہوتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ بوکارٹ صاحب کے نزدیک لفظ عرب ایک فنیشن لفظ ہے جس کے معنی اناج کی بالوں کے ہیں سے مشتق ہواہے۔ لفظ عربہ ایک عبری لفظ بھ ہے جس کے معنی بنجر زمین کے ہیں۔ اور توریت میں شام اور عرب کی حد فاصل کے طورپر بارہا بولاگیاہے۔ خطبات احمدیہ صفحہ ۱۷ حاشیہ۔

لفظ عرب کی وجہ تسمیہ میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو کسی کے دل کو اپنی طرف مائل کرے۔ بظاہر اس سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ملک عرب ایک ایساملک ہے۔ جس میں دریاؤں ، جھیلوں اور چشموں کی سخت قلت ہے وہ بالکل ایک خشک ملک ہے۔ جس کے پہاڑوں اور ودایاں نباتات کی نعمت سے محروم ہیں۔ اس میں پانی کی جو قدر وقیمت ہے وہ صحرائی اعظم افریقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے توبھی اس کی بابت یہ بات نہیں کہہ جاسکتی کہ اس میں بنی نوع انسان اورحیوانات اور پرندوں وغیرہ کی حیات کیلئے پانی بالکل ناپید ہے۔ قدرت نے اس خشک سرزمین کو بھی پانی کے چشمے عطا فرمائے ہیں۔ جن کے ایک ایک قطرہ کی قیمت زندگی کی ہمعنا ہے۔

دفعہ ۲۔ عرب کا حدود اربعہ

ملکِ عرب براعظم ایشیاکا مغربی حصہ ہے۔ قدرتی طور سے اُس کے حدود نہایت وسیع ہیں۔ پر ملکی طور سے ملک عرب کا حدود اربعہ حسب ذيل ہے۔

اُس کے مشرق میں بحیرہ عرب اور خلیج فارس اور دریا ئےفرات واقع ہیں۔ اس کے شمال میں شام اور شمال مغرب میں ملک کنعان اور مدیان اورکوہ شعیر کا سلسلہ واقع ہے اور مغرب میں خلیج عکابہ اوربحر قلزم ہے۔ اس کے جنوب میں بحر ہند ہے جو سرزمین ان حدود کے اندر واقع ہے اُسی کو ملک عرب کہاجاتاہے۔ سرسید لکھتے ہیں کہ:

عربی جغرافیہ دانوں نے جزیرہ عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ تھامہ ، حجاز، نجد، عروضی ، یمن۔ غیر ملکوں کے مورخ اور جغرافیہ دان جو یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اس ملک کو حجاز اس سبب سے کہتے ہیں کہ حاجی اور زائروں کا عام مرجع(رُجوع کرنے کی جگہ) ہے وہ بڑی غلطی پر ہیں۔ کیونکہ لفظی معنی حجاز کے اُس چیز کے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان واقع ہو۔ تمام ملک کا یہ نام اس پہاڑ کی وجہ سے پڑ گیا ہے جو شام اور یمن کے درمیان بطور محاب کے واقع ہے" خطبات احمدیہ صفحہ ۲۲۔ ۲۳۔

مگر سرسید احمد کا اپنا خیال ہے کہ عرب ٹھیک طور سے دوحصوں میں منقسم ہوسکتا ہے۔ایک عرب الحجر یعنی کوہستانی عرب جو خاکنائے سوئز سے لے کر بحرِ احمر اوربحر عرب تک پھیل رہاہے۔ دوسرا عرب الوادی یعنی عرب کا مشرقی حصہ۔ مگر بطلیموس پُرانے جغرافیہ دان نے عرب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ عرب الحجر یعنی پتھریلا عرب۔ اور عرب العمور یعنی عرب آباد۔ عرب الوادی یعنی ریگستانی عرب"۔

آج کل نقشوں میں عرب الحجر میں صرف وہ حصہ ملک شامل رکھا گیا ہے جو خلیج عقبہ کے درمیان واقع ہے مگر اس تقسیم کےلئے کوئی معتبر سند نہیں۔ بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق عرب الحجر کو خلیج سویس سے لے کر یمن یا عرب المعمور کی حد تک شمار کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جن کے نزدیک بطلیموس نے عرب العمور نقطہ یمن کا ترجمہ کیا ہے بلاشک غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اس پُرانے جغرافیہ دان کے زمانہ میں عرب الحجر کا جنوبی حصہ گنجان آباد تھا اورتجارت کےلئے مشہور تھا۔ جس کی وجہ سے اُس نے تمام جزیرہ کے اس حصہ کا عرب المعمور نام رکھ دیا۔ کتاب ایضاً

ملک عرب کی وسعت ۱۰۰۰۰۰۰ لا کھ مربع میل کی ہے۔ جس کی آبادی یورپ کے عالمگیر جنگ سے پیشتر۵۰۰۰۰۰۰ تھی جو نہایت قلیل معلوم ہوتی ہے۔

ملک عرب کے دوشہر نہایت قدیم سے مشہور ہیں۔ایک کو مکہ اور دوسرے کومدینہ کہتے ہیں۔ مسلم تاریخ اسلام سے ظاہر ہے کہ یہ ہردوشہر عمالیق کے زمانہ کے ہیں غالباً اس قوم کی یادگار ہیں۔ لیکن مسلم روایات سے یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ شہر مکہ اور کعبہ کو حضرت ابراہیم واسماعیل نے بنایا تھا۔ اس اختلاف کی وجہ تاریخ اسلام میں بیان نہیں ہے۔

دفعہ ۳۔ ملکِ عرب کا ہمارے زمانہ کی انسانی آباد پر اثر

ہندوستان جیسے آباد ملک کی نظر میں عرب اورا س کے باشندے بلاشک حقیر خیال کئے جاسکتے ہیں۔ پر اگر عرب اور اس کی آبادی کا خارجی ممالک پر اثر دیکھا جائے تو اُس کے مقابل ہندوچین کے پتے کانپ جاتے ہیں۔ ذیل میں ہم دنیا کے ممالک میں مسلمانوں کا شمار جو مسلمان اخبارات نے شائع کیا ہے دیکردکھاتے ہیں کہ ملک عرب اوراس کے باشندوں نے کس قدر دنیا کے ممالک اوراُن کی آبادی کو زیر اثر کر رکھا ہے۔ مسلمانوں نے کل دنیا میں اپنی آبادی حسب ذیل بیان فرمائی ہے جو مدراس کے ایک انگریزی اخبار "مسلم ہیرلڈ" نے شائع فرمائی ہے۔

ہسپانیہ ۷۰۰ جزائر روس ۱۳۵۸۹
انگلستان ۲۳۰۰ میزان ۱۳۹۰۱۵۶۶
آسٹریا ۲۵۰ دنیا کے دوسرے حصص کی مسلم آبادی حسب ذیل ہے۔
فرانس ۲۵۱۰ اناطولیہ موصل اور ترک کے مشرقی حصص ۱۰۵۵۳۴۲۲۴
ہنگری ۴۴۷ جزیرہ قبرص ۵۹۳۲۱
پرتگال ۱۲۱ عراق ۱۸۵۴۳۳
جبرالٹر ۱۳۰۰ شام وفلسطین ۱۸۱۰۵۲۱
روس ۹۳۹۸۷۴ جزائر عرب اور عرب ۷۳۸۹۰۷۹
رومانیہ ۵۹۴۸۵ ایران ۹۸۸۱۲۰۰
یورپی ٹرکی ۱۶۸۲۰۰۰ بخارا چنوا اور ترکستان وغيرہ ۱۲۴۶۵۲۶۰
البانیہ ۶۶۱۲۴۸ افغانستان ۷۸۰۰۰۰۰۰
بوسنیا وہرزی گوینا۵۷۱۴۸۲ بلوچستان ۸۱۱۰۰۰
سرویا (مانٹی نگرو ) ۵۰۶۴۳۸ ہندوستان ۷۳۲۸۶۵۵۴
بلغاریہ ومشرقی رومیلیا۶۹۷۳۸۶ امریکہ ۸۳۳۳۹
یونان۔ مناستر جنوبی دنیا کے کل مسلمانوں کا شمار ۳۴۰۰۰۰۰۰
مقدونیہ وجزائر ۴۱۰۲۴۰ دیگر مذاہب کے پیروں کی تعداد حسب ذیل ہے
چین خاص ۴۲۹۹۰۰ عیسائی ۴۹۸۰۰۰۰۰۸
ہندوستانی چین ۴۴۲۵۳۳۰ بدھ مذہب ۴۵۴۰۰۰۰۰۰
منگولیا ۲۷۱۰۰۰ ہندو ۲۰۷۰۰۰۰۰۰
ینان وناؤ چین ۴۷۸۰۰۰ یہودی ۱۵۰۰۰۰۰
سیمان دان چین ۴۱۳۰۰۰ دہریہ ۶۵۰۰۰۰۰۰
کنتنج چین ۴۲۲۰۰۰۰ تمام دنیاکی آبادی ۱۷۱۹۰۰۰۰۰۰
سیام ۱۰۹۸۷۲۲ جزائر روس ۱۳۵۸۹
جزائر سماترا وجاوا۳۲۰۲۷۷۵۳
آسٹریلیا ۲۸۱۸۹
افریقہ۱۱۱۸۶۰۴۳۹۰

اور دنیائیِ اسلام کی آبادی اس کے ۱/۵ ہے۔ پیغام صلح لاہور مطبوعہ۷جون ۱۹۲۵ء۔

ملکِ عرب اوراس کے باشندوں کے مذہب کے اثر کو خارجی دنیا پر دیکھ کر کون شخص ہے جو ملک عرب کی عزت کے خیال سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ گویہ ملک دنیا کے دیگر بڑے ممالک جیسی قدرتی خوبصورتی اور دولت نہ رکھتا ہو تو بھی یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ملک عرب کی عزت وحرمت کا خیال کم از کم آج کی دنیا کے ۲۳ کروڑ بنی آدم پر ضرور ہے۔ دنیا میں آج کے دن جو ملک عرب کی عزت ہے وہ ہندوستان جنت نشان کو بھی نصیب نہیں ہے۔ پس یہ وہ بدیہی حقیقت ہے جس نے ہمیں ملک عرب کے قدیم حالات دریافت کرنے او رلکھنے پر آمادہ کیا ہے کہ دریافت کریں کہ قدرت نے اس ملک کو کس وجہ سے یہ عزت وعظمت عطا فرمائی ہے؟ اس میں خدا نے وہ کیا خصوصیت رکھی تھی کہ اسے دنیا میں وہ عزت حاصل ہوئی جو اوپر کے اعداد وشمار سے ظاہر ہے؟

ملک عرب کی بابت خواہ غیر عربی ممالک کے باشندوں کا کیسا ہی ادنیٰ خیال ہو پر اُس کی خصوصیات میں بعض باتیں آج تک ایسی ہیں جو کسی دوسرے ملک اور باشندے کو حاصل نہیں ہیں ملک عرب خارجی ممالک کا کبھی مہمان نواز نہیں بنا۔ نہ اس کے باشندوں نے کبھی دوسروں کی غلام میں رہنا پسند کیا۔ ملک عرب کی آب وہوا غیر ممالک کے باشندوں کے موافق نہیں ہوئی۔ وہاں کسی غیر ملک کے بادشاہ نے اپنے لئے نہ اپنے لشکر کی حفاظت وپرورش کےلئے کچھ پایا۔ نہ خراج ومحصول کے حصول کی اُنہیں اہل عرب سے کبھی امید نہ ہوئی نہ اُنہوں نے کبھی عرب پر حکمرانی کرنا یا اُسے فتح کرنا آسان سمجھا نہ ابتدا سے آج تک غیر عربوں کی ملکِ عرب میں زندگی دراز ہوئی۔ تمام دنیا کے ممالک میں صرف ملک عرب ہی ایک ایسا ملک ہے جو ابتدا سے آج تک غیر ممالک کے مقابل اپنی آزادی اورحریت کا علم(جھنڈا) بلند رکھتا آیا ہے۔ جس کے باشندے آزاد چلے آئے ہیں" جنہوں نے نہ کچھ اپنے ملک میں بنایا جسے دشمن آکر برباد کردیں نہ اپنے دشمن کی لوٹ کےلئے اپنے گھروں میں کچھ جمع کیا۔ جس پر دشمن کو لالچ آسکے۔ انہوں نے جو کچھ بنایا اور کمایا عرب سے باہرنکل کر بنایا۔ پر اپنے وطن کو انہوں نے کبھی زیب وزینت نہ دی جس پر غیر عرب رشک کریں۔

دوسری فصل

بائبل مقدس اور اہلِ عرب

اہلِ عرب کی بابت جو کچھ دنیا کو معلوم ہواہے وہ اسلامی زمانہ کا اورمسلمانوں کی معرفت معلوم ہواہے وہ بھی اس قدر ناتمام ہے کہ قدیم اہلِ عرب کے صحیح حالات مسلم تحریرات سے معلوم کرنا قریباً دشوار ہے۔ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ اسلام قدیم اہلِ عرب کی بابت بالکل خاموش چلی آئی ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاریخ اسلام ایسی روایات پر مبنی ہے کہ جو زیادہ تر درجہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں وہ روایات زیادہ تر راویوں کے اعتبار پر مبنی ہیں۔ جنکی تائید وتصدیق ان اقوام کی تاریخ سے نہیں ہوتی جو عرب کے قرب وجوار (اردگرد)میں آباد تھیں۔ اس وجہ سے اہلِ عرب کے قدیم حالات معلوم کرنے کےلئے ملک عرب کے پڑوس کی اقوام کی طرف رجوع کرنا لازم آیا ہے پڑوس کی اقوام میں سب سے پہلی قوم یہود ی قوم ہے۔ جس کی تاریخ معتبر ہونے کے سوا نہایت قدیم ہے۔ اس تاریخ کا نام بائبل ہے۔ ذیل کا بیان ہم بائبل سے پیش کرتے ہیں اس سے اجمالاً اہلِ عرب کے حالات پر روشنی پڑیگی۔

۱۔ بائبل مقدس کے موافق بعد طوفانِ نوح حصرت سام بن نوح کی اولاد نے فارس ، مسوپتامیہ ، شام ، ملک عرب کو آباد کیا۔ خاص کر حضرت یقطان کی نسل عرب میں ہی آباد ہوئی۔ عوضی ، مس ، ارفکسد، الموداد ، دقلہ ،حوملہ ،سبا اورال ، عوبال اوخیر ، سلف۔ حصا ، مادت ، یوباب ، ابی مائل ، شیبا، نے عرب میں سکونت اختیار کی۔ دیکھو پیدائش کی کتاب کا دسواں باب۔

اب اگر عرب کا نقشہ دیکھا جائے تواسماءمافوق میں سے لے کر کثیر نام ملک عرب کے نقشہ پر لکھے ملینگے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بآسانی سے اخذ کرسکتے ہیں کہ حضرت سام بن نوح کی نسل سے پہلے پہل ملک عرب آباد ہوا تھا۔یہاں اہلِ عرب کی فضیلت وخصوصیت یہ بیان کی جاسکتی ہے۔ کہ یہ ملک واحد خدا کے پرستاروں کی ملکیت بنایا گیا تھا۔ خدا سم کے ڈیروں میں رہنے والا بیان ہواہے۔

پیدائش کی کتاب کے دسویں باب سے یہ پتہ بھی ملتاہے کہ حضرت یافت کی اولاد نے یورپ میں سکونت اختیار کی۔ اورحام کی نسل کے کچھ حصہ نے ایران میں مسوپتامیہ ، اسوریہ ،کنعان، ملک مصر میں رہائش اختیار کی گویا حام اورسام کی نسل ہی ایک دوسرے کے قریب رہ گئی۔ یافت کی تمام نسل اور تمام جھگڑوں سے الگ ہوگئی۔ جوبعد کے زمانہ میں مسوپتامیہ اور مصر اور عرب وکنعان میں پیدا ہونے کوتھے۔

بائبل سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے حکومت وسلطنت کی بنیاد حام بن نوح کے خاندان میں شروع ہوئی۔ نمرود نے اُس کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد مغربی ایشیاء کے ممالک میں زبردست قومیں اورحکومتیں قائم ہوئیں۔ جن کا بیان اس اختصاء میں آنا محال ہے۔ عرب میں بھی زبردست قومیں اور حکومتیں پیداہوئیں جن کا اجمالاً ذکر بائبل میں آیاہے۔ اس اجمال کا بیان بطور مثال ذیل میں بائبل سے کیا جاتاہے۔تاکہ معلوم ہو کہ ملکِ عرب قدیم سے تہذیب وشائستگی میں دیگر اقوام سے ہر گز پیچھے نہ تھا۔

۲۔ عرب کی قدیم اقوام میں ماعونی اورعمالیق قومیں شامل ہیں۔ قوم عمالیق ملکِ کنعان کے جنوب میں اس سرزمین میں آباد دکھائی گئی ہے جو نہر سوئیز اورمدیان اور خلیج عکابہ او رکوہ سینا کےدرمیان ہے۔

جب بنی اسرائیل ملکِ مصر سے نکل کر کوہِ سینا کے پہاڑوں میں پہنچے تو اُن سے اسی قوم عمالیق نے سب سے پہلے جنگ کی تھی۔ موسیٰ کی دعاؤں سے صرف اسی جنگ میں بنی اسرائیل نے کامیابی حاصل کی تھی۔جس سے اس جنگ کی اہمیت کا آسانی سے اندازہ کیا جاسکتاہے۔(خروج ۱۷: ۱۸: ۱۶)

قومِ عمالیق نہ صرف کوہستان سینا میں ہی آباد تھی بلکہ گنتی ۱۳: ۲۹سے معلوم ہوتاہےکہ قوم عمالیق ملکِ کنعان کے دکھن میں کنعان کی دیگر اقوام کے ساتھ آباد تھی۔

اورجب بنی اسرائیل نے ملکِ کنعان کی جاسوسی قادس برنيع سے کی اور جاسوسوں نے کنعان کی بابت دل شکن باتیں اسرائيل کو سنائیں تو بنی اسرائیل کے نافرمانوں نے چاہا کہ وہ کنعان کے جنوب سے ہی کنعان میں جاگھسیں۔ تب موسیٰ نے اُنہیں یہ کہکر منع کیا کہ دیکھو یہاں عمالیق اور کنعانی تمہارے سامنے ہیں تم مارے جاؤ گے۔ اورایسا ہی ہوا۔ گنتی ۱۵: ۴۰تا ۴۵۔

گنتی کی کتاب ۲۰۲۲۴ سے عمالیق کی بابت نہایت بڑی بات معلوم ہوتی ہے جسے ہم بلعام کے الفاظ میں پیش کرتےہیں۔ موسیٰ کہتاہے پھر اس نے عمالیق کود یکھا اوراپنی مثل لے چلا۔ اوربولا عمالیق قوموں کے درمیان پہلا تھا۔ پر اس کا انجام نیستی نابودی ہوگا۔

اس کے سوا حضرت موسیٰ نے عمالیق کی بابت خاص طورپر سے بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب توملکِ کنعان کا وارث ہوجائے توعمالیق کا ذکر آسمان کے نیچے سے مٹادینادیکھو استنثا ۲۵: ۱۰تا ۱۹ تک۔

قاضیوں کے زمانہ میں عمالیق مدیانیوں کے ساتھ ہوکر بنی اسرائیل کو ملکِ کنعان میں ستاتے رہے۔ اُن کی جدعون اسرائیلی نے قوت وطاقت کو توڑا۔ ۶: ۳۳، ۷: ۱۲، ۱۳۔

اس کے سوا قضاۃ ۱۰: ۱۰تا ۱۲ تک بنی اسرائيل کے دشمنوں کی فہرست میں میدانی اورعمالیق اورمامونی صفائی سے مذکور ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں قومیں ہمعصر ہمزبان تھیں۔ جو صاحبِ اقتدار تھیں۔ اورعمالیق کا کنعان میں اس قدر اقتدار تھا کہ افرائیم کےعلاقہ میں پہاڑ عمالیق کے نام سے نامزد تھے۔ قاضی ۱۲: ۱۵۔اس کےسوا بنی اسرائيل کے پہلے بادشاہ ساؤل کی زندگی قوم عمالیق کو ہی فنا کرنے میں ختم ہوئی ۔۱سیموئیل ۱۴: ۴۸، ۱۵: ۳۱۔ آخر کار حضرت داؤد نے عمالیق اوراسکے حلیفوں کی قوت اور طاقت کو ایسا توڑاکہ پھر اُن کی نمائش ملک کنعان میں نہیں پائی۔۱سیموئيل ۲۷: ۸سے ۱۲ ، ۳۰: ۱، ۱۳، ۱۸۔

عمالیق کی سکونت گاہ کی بابت ۱سیموئيل ۲۷: ۸ میں آیاہے کہ" اور داؤد اس کے لوگ چڑھے اورجسوریوں اورجزریوں اور عمالیقیوں پر حملہ کیا کہ وہ صور کی راہ سے لیکے مصر کے سوانے تک اسی سرزمین میں قدیم سے بستے تھے۔پھر یہ کہ سوقینی عمالیقیوں میں سے نکلے اور ساؤل نے عمالیقیوں کو حویلہ سے لیکے صورتک جو مصر کے سامنے ہے مارا۔ ۱سیموئیل ۱۵: ۷۔

بائبل کا عمالیق کی بابت بیان مافوق اس بات کا ضرور شاہد ہے کہ جب بنی اسرائیل ملک مصر سے نکلے اس وقت وزمانہ میں قوم عمالیق ملک کے ہی حصہ پر قابض تھی جس کے شمال میں ملکِ کنعان اور مغرب میں نہر سويز اور جنوب میں بحیرہ قلزم اور مشرق میں خلیج عکابہ اور کوہ حور کا سلسلہ او رملک ادوم ہے۔ مگر اس کے ہر گز یہ معنی نہیں لئے جاسکتے کہ عمالیق کا قبضہ اوراُن کی حکومت اس ملک سے باہر خصوصاً ملک عرب میں مطلق نہ تھی۔ یہ قوم صرف ملک مذکور ہی میں محدود ومقید (قيد)تھی۔ ہمیں بائبل سے معلوم ہوچکا ہے کہ یہ قوم قاضیوں اور ساؤل ودادؤ بادشاہوں کے زمانہ میں دریا یردن کے مشرق ملک پر حملہ آور ہوئی اور خصوصاً ساؤل سے خطرناک جنگ کئے۔

بیان مافوق سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کہ عمالیق کی حلیف اقوام بھی زبردست اور عرب کی ہی رہنےوالی تھیں۔ مثلاً عمالیق کی حلیف اقوام میں عرب کی ماعونی، مدیانی ، صیدانی ، قینی ، جسوری ، جزری، کنعانی اقوام مذکورہوئی ہیں اور عمالیق قوم کو اقوام میں پہلا درجہ دیا گیا ہے۔ پس بائبل کے بیان سے قوم عمالیق کا زور صرف اس بات سے ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قوم حکومتِ مصر اور کنعان کی سرحد اوراُس کے آس پاس ہوکر گویا ملکِ عرب کی محافظت کا کام کررہی تھی۔ جس کی بابت یہ بات بیان نہیں کی گئی۔ کہ عرب میں قوم عمالیق کا اختیار واقتدار کہاں تک تھا؟

بائبل کے بیان سے بخوبی روشن ہے کہ مامونی اورعمالیق ہمعصر اقوام تھیں جو ملک مصر اور کنعان کی سرحد پرزبردست اختیار واقتدار رکھتی ہیں۔

۳۔ عرب میں حضرت ابراہیم عبرانی کی نسل کا آبادہوناحضرت ابراہیم کا زمانہ ملک عرب کے اقبال اور سرفرازی کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ تک عرب میں حکومت وریاست قائم ہوچکی تھی۔ جو نہ صرف عرب کی حفاظت کرسکتی بلکہ ملک ِمصر میں حکومت کو زیر کرکے اس پر پانچ سوبرس تک حکومت کرسکتی تھی پس ایسے زمانہ میں ملک عرب کی بابت ہر گز یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ ملکِ عرب گویا غیر آباد تھا۔ جس میں آباد ہوکر حضرت اسماعیل اورعیسو اور لوط کی اولاد گویا ایک دم ملکِ عرب کی مالک مختار بن گئی تھی۔ ایسا خیال کرنا واقعات وحقیقت کے سراسر خلاف ہے۔

حضرت ابراہیم کے ساتھ واحد خدا کی پرستش کا اعتقاد عالمگیر عقیدہ بننے کیلئے شروع ہوا۔ ابراہیم کی نسل میں جو حضرت اسحاق سے پیدا ہونے کو تھی اس اعتقاد نے جڑ پکڑی۔ حضرت اسماعیل اوراُس کی والدہ کو کسی نہ کسی وجہ سے حضرت ابراہیم سے جدا ہوکر بیرسبع میں سکونت اختیار کرنا پڑی اور حضرت ہاجرہ نے حضرت اسماعیل کےلئے ایک مصری عورت لی۔ جس سے آپ کی شادی کرائی گئی اور وہ بیابان فاران یعنی عمالیق کے ملک میں رہی۔ پیدائش ۲۱: ۱۲۔

ہرسہ ممالک میں خوشگوار ، تعلقات قائم تھے اور حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کا عمالیق کے ملک میں رہنا اور حضرت اسماعیل کا مصری عورت سے شادی کرنا اس کے خاندان سے خدایِ واحد کے اعتقاد کو ضرور دور کرنے کا سبب ہوا ہوگا۔ کیونکہ عمالیق خاص کر مصری بُت پرست تھے۔ غرضیکہ فاران کے بیابان میں حضرت اسماعیل کےبارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ اوربڑھے۔ بعد کو انہوں نے شمالی عرب میں جگہ حاصل کی۔ حضرت اسماعیل کے بیٹوں کے نام حسب ذیل ہیں۔

نبیط، قدار، اوئبل، مبسام ، مسماع، دومہ ، منشا، حدر، تیمہ ، اطور، نفیس ، قدمہ۔ پیدائش ۲۵: ۱۳تا ۱۵ تک اس کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم کےوہ بیٹے بھی عرب میں آباد ہوئے۔ جو حضرت قطورہ سے تھے۔ اُن کے نام حسب ذیل ہیں مثلاً زمران، یقسان، مدان، مدیان، اسباق، سوخ، اوریقسان سےبہا اور ودان پیدا ہوئے۔ اور ودان کے فرزند اسوری، لطوسی، اور لومی تھے۔ اور مدیان کے فرزند عیفہ اور عفر اور حنوک اور ابیداع اور الددعا تھے۔ پیدائش ۲۵: ۱تا ۴۔

حضرت اسماعیل کی نسل اوربنی قطورہ کا عرب میں جگہ حاص کرلینا ہرگز کوئی آسان کام نہ تھا۔ ان دنوں میں عمالیقی حکومت کا تمام عرب پر قبضہ تھا۔ جو مذہبی طور سے بُت پرست حکومت تھی۔ پر چونکہ حضرت اسماعیل اوراس کے بیٹے فن جنگ میں ماہر تھے۔ اور بنی قطورہ بھی اس فن میں کچھ کم قدر نہ تھے۔ عرب کے حکمرانوں نے انہیں اس وجہ سے اپنے ملک میں خوشی سے جگہ دی ہوگی کہ وہ اُن کے معاون ومددگار بن جائیں۔ بعد کو ہمیں حضرت ابراہیم کی عربی نسل کی فتوحات کا بہت کم ذکرملتاہے۔ البتہ حضرت یوسف کی زندگی کے واقعات کی بسم اللہ ،مدیانیوں اور اسماعیلیوں کے ذکر سے ہوتی ہے۔ ہمیں بتلایا جاتاہے کہ لایانی اور اسمعیلی سوداگر حضرت یوسف کو خرید کر مصر میں لے گئے تھے۔ اورانہوں نے اسے فوطیفار مصری حاکم کے پاس بیچا تھا۔ پیدائش ۳۷: ۲۳تا ۳۶۔

اس بیان سے کئی باتیں ظاہر ہیں۔ ان میں سے پہلی بات تویہ ہے کہ جس وقت حضرت یوسف مصر میں بیچا گیا اس وقت حضرت اسماعیل کی عربی اولاد مدیانیوں سے اچھا خاصہ ربط ضبط رکھتی تھی۔ دوم یہ کہ مدیانی اور اسمعیلی اس زمانہ میں تجارت پیشہ تھے۔ سوم یہ کہ اس زمانہ میں ملک ِکنعان اور عرب میں ایسے تعلقات قائم تھے کہ ایک ملک کا سوداگر دوسرے ملک میں آسانی سے آجاسکتا تھا۔ تجارتی مال کی خریدوفروخت کرسکتا تھا۔ چہارم یہ کہ عرب وکنعان و مصر میں تجارت کھلی تھی ایسا معلوم ہوتاہے کہ مصر میں چوپان حکمران حکومت کررہے تھے۔ تعجب نہیں کہ یہ چوپان حکمران عمالیقی ہوں۔

۴۔ حضرت اسماعیل وبنی قطورہ کے عرب میں آباد ہونے کے بعد حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت عیسو اورآپ کی اولاد نے بھی عرب کے شمال مغربی حصہ میں سکونت اختیار کی۔ حضرت عیسو بھی ایک اعلیٰ درجہ کا بہادر اورفنِ حرب (جنگ)کا مشاق وماہر(مشق و مہارت رکھنے والا) تھا۔ آپ نے ابتدا میں کوہ شعیر اور ادوم کو اپنا سکونت گاہ بنایا۔ لیکن بعد کو آپ کی اولاد نے عرب میں پناہ پائی۔ حضرت عیسو کی نسل کی ترقی اورحکومت کی پائداری کا ذکر بائبل میں حیرت انگیز طریق پر آیا ہے۔ بنی اسرائيل کے ملک مصر میں غلام بننے اور غلامی سے رہائی پاکر ملک کنعان پر قبضہ کرنے اور قاضیوں کے زمانہ کے گذرجانے تک کے زمانہ میں آپ کی نسل نے زبردست ریاست حکومت قائم ثابت کرلی تھی۔ جس کا بیان پیدائش کی کتاب کے ۳۶ویں باب میں آیا ہے۔اس بیان کو روبرو رکھتے ہوئے ہم حضرت اسماعیل کی اولاد اورآپ کے بھائیوں بنی قطورہ کی اولاد کی عربی ترقی اور فتوحات کاکچھ اندازہ لگاسکتے ہیں۔ غالباً اس زمانہ میں حضرت ابراہیم کی عربی نسل عمالیقی اقتدار کو فنا کرکے ماعونی حکومت کو قائم کرنے میں ضرور معاون ہوگئی ہوگی اور ماعونی حکومت کے زمانہ میں حضرت ابراہیم کی نسل نے عرب میں خوب ترقی کی ہوگی بعد کو ماعونی حکومت کا خاتمہ صابیوں نے کیا ہوگا۔

۵۔ بنی اسرائيل کی کنعانی حکومت کے زمانہ میں خصوصاً حضرت سلیمان کی سلطنت کے زمانہ میں بائبل ہمارے روبرو عرب کی ملکہ سبا(صبا) کو پیش کرکے صابی حکومت کا اقتدار ظاہر وثابت کرتی ہے۔

صابی حکومت عرب کے جنوبی کنارے سے عرب کی شمالی سرحد اورملک کنعان تک وسیع تھی۔ ہم انبیاء کے صحائف میں ذیل کا بیان پاتے ہیں۔

اور سبا کے لوگ اُن پر آگرے اورانہیں لے گئے اورنوکروں کو تلوار کی دھار سے قتل کیا۔ اورفقط میں ہی اکیلا بچ نکلا کہ تجھے خبردوں۔ایوب ۱: ۱۵۔

خداوند یوں فرماتاہے۔ مصر کی دولت اورکوش کا منافع اورسبا کے قدآور لوگ تيرے پاس آئینگے اور وہ تیری پیروی کرینگے۔ یسعیاہ ۴۵: ۱۴۔

اورلوگوں کا ایک ہجوم شادیانہ بجاتے ہوئے کی آواز اُس میں تھی اور عوام لوگوں کےسوا بیابان سے شرابیوں کو لائے۔ وہ ہاتھوں پر کنگن پہنتے اور سروں پر خوشنما تاج رکھتے تھے۔ حزقی ایل ۲۳: ۴۲۔

اورتمہارے بیٹوں اورتمہاری بیٹیوں کو بھی نبی یہوداہ کے ہاتھ بیچوں گااور وہ اُن کو سبائیوں کے ہاتھ جو دور ملک میں رہتے ہیں بچینگے۔یوئیل ۳: ۸۔ اس کے ساتھ دیکھو۱سلاطین ۱۰: ۱تا ۱۳تک۔ ۲تواریخ ۹: ۱تا ۱۲تک۔ ایوب ۶: ۱۹۔ زبور ۷۲: ۱۰تا ۱۵ تک۔یسعیاہ نبی فرماتاہے کہ اونٹوں کی قطاریں اور مدیان اورعیفہ کی سانڈھنیاں آکے تیرے گرد بےشمارہونگی وہ جو سبا کے ہیں آئينگے۔ وہ سونا اور لوبان لائينگے اور خداوند کی تعریف کی بشارتیں سنائینگے قیدار کی ساری بھیڑیں تیرے پاس جمع ہونگی اور نبیط کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہونگے۔ ۶۰: ۶یا ۷۔

یرمیاہ فرماتاہے کہ کس فائدے کےلئے سبا سے لبان اور دورُ ملک سے خوشبودار اوکھ مجھ تک آتے ہیں۔ تیری سوختنی قربانیاں مجھے پسند نہیں ہیں ۶۰: ۳۰۔

حزقی ایل نبی صورکی شوکت کا خاکہ کھینچتا ہوا اس میں ایک رنگ عربوں کا بھی بایں الفاظ ابھرتاہے۔ ودان اور یادان اوزال سے تیرے باز ار میں آتے تھے۔ آبد ارفولاد اور یتجپات اوربچ تیرے باز ار میں وہ بیچتے تھے ودان تیرا سوداگر تھا۔ سواری کے چار جامے تیرے ہاتھ بیچتا تھا۔ عرب اور قیدار کے سب امیر تجارت کی راہ سے تیرے ساتھ تجارت کرتے تھے۔ سبا اور رعمہ کے سوداگر تیرے ساتھ سوداگری کرتے تھے۔ وہ ہر رقم کے نفیس وخوشبودار مصالح اورہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا تیرے بازار میں لاکے باہم لین دین کرتے تھے۔ حران اور کنہ اور عدن اورسبا کے سوداگر اوراسور اور کلمد کے سوداگر تیرے ساتھ سوادگری کرتے تھے۔ یہ ہی تیرے تجار تھے جو کمخواب اورچوغے اور ارغوانی اورمنقش پوشاکیں اورسب طرح کے بوٹے دار نفیس کپڑے گھٹنو تک ڈوری سے کسے ہوئے اورمضبوط کئے ہوئے تیری نجات گاہ میں بیچنے کےلئے لاتے تھے۔ ۲۷: ۱۹تا ۲۴۔ ۳۸: ۱۳۔

پھر یرمیاہ فرماتاہےکہ ودان اورتیمان اور بوز کو اور ان سبھوں کو جوڈاڑھی کے گوشے منڈاتے اور عرب کے سارے بادشاہوں کو اوران ملے جلے لوگوں کے سارے بادشاہوں کو جوبیابان میں بستے ہیں ۲۵: ۲۳، ۲۴۔

غزل الغزلات کا مصنف قیدار کے خیموں کی تعریف میں لکھتاہےکہ " اے یروشلیم کی بیٹیو قیدار کے خیموں کی مانند ، سلیمان کے پردوں کی مانند ۱: ۵ زبور کا مصنف لکھتاہے کہ میں مسک میں سکونت کرتا اور قیدار کے خیموں کے پاس رہتا ہوں۔ ۱۲۰: ۵۔

یسعیاہ نبی لکھتاہےکہ بیابان اوراُس کی بستیاں ، قیدار اوراُس کے آباد دیہات اپنی آواز بلند کرینگے۔سلع کے رہنے والے ایک گیت گائينگے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر للکا ر کرینگے۔ ۴۲: ۱۱ پھر لکھتاہے۔

عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔ اے دوانیوں کے قافلو، پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو روٹی لیکے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو۔ کیونکہ وہ تلوار وں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی کمان سے اورجنگ کی شدت سے بھاگے ہیں۔کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہیگی۔ اور تیرا اندازوں کے جوباقی رہے۔ قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائینگےکہ خداوند اسرائيل کے خدا نے یوں فرمایا ہے۱۳: ۲۳، ۱۷۔

پھر زبور میں آیاہےکہ " سبا اور سیبا کے بادشاہ ہدئیے گذرانینگے" ۷۲: ۸، ۱۰۔

بیان مافوق میں عرب کی بابت، اس کےباشندوں کی بابت ، اُس کے بادشاہوں اورتجاروں کی بابت۔ اس کی صنعت وحرفت کی بابت۔ اُس کی قدرتی دولت وپیداوار کی بابت حیرت انگیز صداقت کا اظہار آیاہے۔ اُس کی حکومت کی بابت تعجب خیز سچائی کا بیان آیاہے۔جو عام طور سے مسلم دنیا کی نظروں سے چھپی چلی آئی ہے۔

بیان مافوق کی حد زمانہ حضرت ابراہیم کی ہجرت کے زمانہ سےلے کر یہوداہ کی کنعانی سلطنت کی تباہی اوربربادی کے زمانہ تک ہے۔اس زمانہ میں عرب کی صابی سلطنت برباد ہوئی اور عرب میں ماعونی حکومت برسرا اقتدار ہوئی۔ اس کی وسعت جنوبی عرب کے کنارے سے شمالی سرحد تک پہنچی۔ تمام عرب میں امان وامان کی فرادانی ہوئی۔ ماعونی حکمرانوں کاسلسلہ قائم ہوا۔ ان کے اقتدار کو پڑوسی حکومتوں نے تسلیم کیا۔ عربی صنعت وحرفت کی اور تجارت کی کمال ترقی ہوئی۔ بائبل کے انبیاء عربی حکمرانوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں بلکہ صبا یا سبا کی کیفیت سے صابی حکمرانوں کے تعلقات کنعان کی یہودی حکومت سے قائم وثابت کرتے ہیں۔ اُن کے تجارتی رشتے صورفینکی سے ظاہر کرتے ہیں۔

اس حکومت کے دوران میں وہ حضرت اسماعیل کی عربی نسل کے عرب میں اختیار واقتدار پانے کا صفائی سے تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ قیدار کی شان وشوکت کو اسکے بہادروں کی بہادری کو، اس کی دولت وحشمت کو۔ اُ سکے خیموں اور آباد ودیہات کو۔ اس کی بھيڑوں اور نبیط کےمینڈھوں کو خاص طور سے بیان کرتےہیں۔ قیدار کی حشمت کےجاتے رہنے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ غرضيکہ عربی حکومت کے زمانہ میں بائبل کے انبیاء حضرت ابراہیم کی عربی نسل کی ترقی اور اقبال کی گومختصر کیفیت بیان کرتے ہیں توبھی یہ کیفیت حضرت اسماعیل کی عربی نسل کی دولت وحشمت کی زبردست شاہد ہے۔ اس نے زمانہ مذکورہ میں عربی حکومت کے درمیان حکمرانوں کی حیثیت ضرور حاصل کرلی تھی۔ بنی اسرائيل ویہودہ کی حکومت کی تباہی کے بعدبھی عرب کی حکومت برسراقتدار رہی اور حضرت ابراہیم کی عربی نسل برابر ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ جب بنی اسرائيل اسیری کو لوٹ کر اپنے ملک میں آبا دہوئے تو عرب کے حکمران اس وقت بھی برسر ِاقتدار تھے۔ اُنہوں نے یروشلیم کی شہر پناہ بنانے میں بنی اسرائيل کی ضرور مزاحمت کی۔دیکھو نحمیاہ کی کتاب ۲: ۱۹، ۴: ۷۔ ۶: ۱۔

اس کے سوا صابیوں کے اقتدار کا ذکر مکابیوں کی کتابوں میں بھی آیا ہے جسےبخوف طوالت قلم انداز کیا گیاہے۔

مکابیوں کے زمانہ کے بعد سے لے کر حضرت محمد کے زمانہ تک عربوں کا اقتدار بصورت زوال پہنچاہے۔ جس کے اسباب زیادہ تر خارجی اورکچھ اندرونی تھے۔ جن کا بیان ترک کردیا گیا ہے۔ بیان مافوق پرنظر ڈالتے ہوئے ہرایک نا ظر کویہ بات نہایت تعجب خيز معلوم ہوگی کہ حضرت سام بن نوح اور حضرت ابراہیم عبرانی کی عربی نسل ملک عرب میں ہمیشہ باقتدار چلی آئی۔بابل ،نینوہ، سورفینکی، کنعان، مصر، فارس ، یونان کی زبردست حکومتیں پیدا ہوکر فنا کی گود میں سوتی گئیں۔ مگر عربوں نے اپنی آزادگی ہاتھ سے نہ کھوئی کیا یہ تاریخی معجز ہ نہیں ہے؟

تیسری فصل

آثارِ قدیمہ میں اہلِ عرب کی عظمت

اہلِ عرب کی تہذیب وشائستگی پرجو بائبل نے روشنی ڈالی۔ گووہ کسی کی کمزور آنکھ کومدھم اور دھیمی معلوم ہو۔مگر جب اسےآثار قدیمہ کی روشنی سےدیکھا جاتاہے۔ تو وہ ایک عظیم الشان حقیقت نظر آتی ہے۔ فصل ہذا میں ناظرین کرام آثارِ قدیمہ میں اہلِ عرب کی عظمت وفضیلت کو کامل طور سے دیکھ نہیں سکتے۔ کیونکہ آثارِ قدیمہ میں عرب کی شان وشوکت پر بہت کچھ آیا ہے۔جواس اختصار(مختصر بيان) میں سمانہیں سکتا۔ توبھی ناظرین کرام کی تسکین کےلئے اختصار اً ذیل کا بیان نذر کیا جاتاہے۔ جس سے اہلِ عرب کی شان وعظمت کا کچھ اندازہ کرنا آسان ہوجائے گا۔

دفعہ ۱۔ طوفانِ نوح سےقبل از مسیح ۲۰۰۰ برس تک کے زمانہ کےعرب

واضح ہو کہ زمانہ قدیم کی بابلی حکومت جو سنعار کے میدان میں قائم ہوئی تھی۔(پیدائش ۱۴: ۱) علما نے اس کا بیان قدیمی یادگاروں میں اکاد اور شمیر ناموں سے کیا ہے کہ سنعار کے میدان میں ایک عرصہ بعید تک بنی آدم کی اقوام کے باپ دادا اکٹھے رہے۔ آخر ان میں کسی نہ کسی سبب سے انتشار(فساد) پیدا ہوا۔ پیدائش ۱۱: ۱تا ۹۔ اوراس کے سوا بائبل میں آیاہےکہ اور کوش سے نمرود پیدا ہوا۔ وہ زمین پر جبار(قد آور۔مضبوط) ہونے لگا۔ اور خداوند کے سامنے وہ صیاد(قيدی) جبار تھا۔ اس واسطے مثل ہوئی کہ خداوند کے سامنے نمرود سا صیاد جبار ہے۔ اور اس کی بادشاہت کی بنیاد بابل اور آرک اوراکاد اورلکنہ ، سنعار کی سرزمین میں تھی۔ اوراس ملک سے اسور نکلا اور نینوہ اوررجبات اور عیر اور کلح کے درمیان رسن کو جوبڑا شہر ہے بنایا "(پیدائش ۱۰: ۱۸- ۱۲)

اس بیان سے ظاہر ہے کہ زمانہ قدیم میں پہلے پہل سنعار کے میدان میں نمرود بن کوش بن حام نے سلطنت بابل کی بنیاد ڈالی۔ بابل،ارک ، اکاد، الکنہ ، اس کے بڑے شہر تھے۔جو دریا فرات کے کنارے آباد کئے گئے تھے۔ اس سلطنت کی کہاں تک وسعت (وسيع)تھی۔ اس کافی الحال بیان نہیں کیا جاسکتا فی الحال اس قدر کیفیت ظاہر ہے کہ بائبل کے بیان کے موافق بعد طوفان نوح سب سے پہلے سلطنت کی بنیاد نمرود بن کوش نے ڈالی تھی۔

نمرود بن کوش کی سلطنت کے قیام کے بعد سام کی نسل میں سے اسور نے نینوہ کی سلطنت کی بنیاد دجلہ پر سنعار کے شمال میں ڈالی اور رحبات ، عیر ، کلح، اور رسن کے شہر وں کو آباد کیا۔

ہردوسلطنتیں ایک مدت تک ایک دوسری کے مقابل وسیع ہوتی گئی ہونگی ان کی حدود میں غیر سامی(غير يہودی۔غير عرب) اورغیر حامی (مدد نہ کرنا)نسل کی رعیت (کرايہ دار۔کاشتکار)بھی ہوگی۔ تب ان میں باہم تصادم ہوئے ہونگے۔ ایک مدت تک کوش حکمران اورسامی حکمران آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہے ہونگے۔ جن کا نتیجہ یہ ہوا ہوگا کہ کبھی حام کی نسل کے حکمران سام کی نسل پر اور کبھی سام کی نسل کے حکمراں حام کی نسل کے حکمرانوں پر غالب (زور آور۔جيتنے والا)آتے رہے ہونگے۔ ہر دوقوموں کی باہمی جنگ سے دونوں قومیں کمزور ہوکر تیسری قوم کا شکار بنی ہونگی۔ غرضیکہ دوہزار برس قبل از مسیح سے پیشتر کلدیا یا مسوپتامیہ میں عرصہ بعید تک باہمی جنگ وجدل جاری رہا ہوگا۔ یہ امکانات تو بائبل کے بیان سے ہی ظاہر ہے۔ اس پر آثارِ قدیمہ کی شہادت کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

مغربی ایشیاء کے تمام آثار قدیمہ اورملک مصر کے آثار قدیمہ سے پایا جاتاہےکہ کلدیا یا مسوپتامیہ بعد طوفان نوح بنی آدم کےآباء و اجداد کا وطن تھا۔ جہاں ابتدا میں اُنہوں نے کئی سلطنتیں قائم کی تھیں۔ جو بعد کوشمالی سلطنت اکاد اورجنوبی سلطنت سمیر اور سلطنت نینوہ کے نام سے مشہور تھیں۔ بابل کی قدیم سلطنت گردونواح کی دیگر ریاستوں سے گھری تھیں۔ جن پر اسے مدت بعد غلبہ(جيت۔برتری) حاصل ہوا تھا۔

آثارِ قدیمہ سے یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت ابراہیم کےزمانہ سے پیشتر مسوپتامیہ کوشی اور سمی اور عیلامی اقوام کا میدان جنگ تھا۔کبھی حام کے خاندان کےبادشاہ برسرِ اقتدار رہتے تھے۔ اور کبھی سام کی نسل کے حکمران غالب آکر بادشاہ بن جاتے تھے۔ کبھی عیلام کے حکمران بادشاہت پر قبضہ جمالیتے تھے۔ اُن کی حکومتیں مسوپتامیہ سےباہر مغربی ایشیاء کے شمال تک اورسوریہ وکنعان اورملک عرب کے جنوب تک وسیع ہوجاتی تھیں۔ ان حکومتوں کی یادگار میں اور اُن کےبادشاہوں کی طویل فہرستیں بصورت تحریر ہمارے زمانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ جو یورپ کے عجائب خانوں میں موجود ومحفوظ ہیں۔ اس کے سوا انگریزی زبان میں ان قدیم یادگاروں پر کثیر کتابیں موجود ہیں۔

ہم بخوفِ طوالت (لمبا ہونے کے ڈر سے)حضرت ابراہیم کے زمانہ کے پیشتر کے حالات پردہ غیب میں چھوڑ کر حضرت ابراہیم کے زمانہ تک کے قریب بابلی بادشاہوں کا تھوڑا سا ذکر کرتے ہیں جو عرب کے باشندے تھے۔ بابل کی تاریخ میں ان عربی بادشاہوں کا زمانہ نہایت شاندار اور تہذیب وشائستگی کا ایسا اعلیٰ نمونہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جس کی مثال مصری تہذیب وشائستگی میں بھی نہیں مل سکی ہے۔ بابل کے ان عربی حکمرانوں کی فہرست اوراُن کے زمانہ حکومت کے سال مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ سموابی : زمانہ حکومت ۱۵ سال
۲۔ سمولا الو: زمانہ حکومت ۳۵برس
۳۔ صبیح یا ضابم : زمانہ حکومت ۱۴برس
۴۔ ایپلسن : زمانہ حکومت ۱۸برس
۵۔ سنبوط : زمانہ حکومت ۳۰ برس
۶۔ حموربی یا خموربی : زمانہ حکومت ۵۵برس
۷۔ سمسوالونا : زمانہ حکومت ۳۵ برس
۸۔ ابی ایشوء : زمانہ حکومت ۲۵برس
۹۔ عمی سنانا: زمانہ حکومت ۲۵برس
۱۰۔ عمی صدوقہ : زمانہ حکومت ۲۲برس
۱۱۔ سمسوستانا: زمانہ حکومت ۳۱ برس

(ملاحظہ ہوڈی اینشینٹ ٹریڈیشن السٹرٹیڈ بائی مانیومنٹ پروفیسر ، فرہمل صفحہ ۶۹)۔

آثار قدیمہ کے ماہرین نے بابل کے عربی خاندان کے حکمرانوں کے زمانہ کی ابتدا قبل از مسیح ۲۵۰۰ برس قرار دی ہے۔ چونکہ باب کے عربی حکمرانوں کی فہرست نامکمل ہے۔ اس وجہ سے اُن کے زمانہ کے اختتام کا درست سن وسال مقرر کرنا فی الحال دشوار ہے۔ توبھی علماء نے یہ فیصلہ کیاہے کہ یہ خاندان بابل کی سلطنت پر ۱۵۰۰ برس تک حکمران تھا۔ صفحہ ۴۱۔

اس فہرست میں خموربی یا حموربی حکمران حضرت ابراہیم کا ہمزبان ثابت ہواہے ماہرین آثارِ قدیمہ نے اسے پیدائش ۱۴: ۱تا ۱۶ کا امر اخل تسلیم کیا ہے۔ امراخل یا خموربی اپنے زمانہ کا عظیم الشان بادشاہ بلکہ شہنشاہ گذرا ہے۔ جس نے سلطنت بابل کو نہایت اعلیٰ استحکام بخشا تھا۔ اس نے مملک میں قوانین جاری کئے۔ جو خموربی کوڈ کے نام سے مشہور ہیں۔ خموربی کوڈدنیا کے حکمرانوں کے قوانین میں سب سے قدیم ہے۔ جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شائع ہوچکاہے۔ اس کے قوانین نہایت منصفانہ ہیں۔ جسے ایک دفعہ ہم نے خود بھی پڑھا ہے۔ غرضیکہ خموربی سلطنت بابل کا وہ حکمران تھا جس کی عظمت کا آثار قدیمہ کے ماہرین پر سکہ بیٹھا ہواہے۔اس بادشاہ کی بابلی تہذیب وشائستگی کا آفتاب سمت الراس تھا۔ جس کے زمانہ امن میں حضرت ابراہیم نے شہر حاران سے ملک کنعان کی طرف ہجرت کی تھی۔

دفعہ ۲۔ مصر میں سلطنت ہیکساس کا قیام : قبل از مسیح ۲۵۰۰ برس سے ۱۵۰۰ برس تک تخت بابل پر عربی بادشاہ متکمن تھے۔ پر عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں مصر کی عظیم الشان سلطنت کے مالک ومختار بھی عرب کے چوپان بادشاہ تھے۔ جنکو ہیکساس کہا جاتاہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا بیان ہے کہ مصر کے چوپان حکمرانوں کا زمانہ قبل مسیح ۲۱۰۰ سے ۵۸۷ تک تھا۔ مصر کے چوپان حکمرانوں میں بعض کے نام حسب ذیل لکھے ہیں۔

۱۔ سلاطس : زمانہ حکومت ۱۹برس
۲۔ بنون : زمانہ حکومت ۴۴ برس
۳۔ انچناس : زمانہ حکومت ۳۷ برس ۷ ماہ
۴۔ اپافس یا اپیپی : زمانہ حکومت ۶۱ برس
۵۔ ایانیاس : زمانہ حکومت ۵۰ برس ایک ماہ
۶۔: الیسس: زمانہ حکومت ۴۹ برس ۲ ماہ

منتھو مصری مورخ نے بیان کیا ہے کہ یہ چھ حکمراں چوپانوں کے پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے مصریوں پر پے درپے(لگاتار۔متواتر) حملے کرکے ملک مصر کو تباہ کیا تھا۔ چوپان بادشاہوں نے اُن کے قائم مقام ہوکر مصر پر ۵۱۱سال تک حکومت کی تھی۔

تپ چوپان بادشاہوں کے خلاف تھیباس اور مصر کے دیگر صوبوں کے شہزادے بغاوت (نا فرمانی۔سرکشی) پر آمادہ ہوگئے۔ اُنہوں نے چوپان بادشاہ کو شکست پر شکست دينا شروع کی۔ اُنہوں نے چوپان بادشاہوں کےلشکر کو جس کا شمار ۸۰۰۰۰ کا تھا۔ قلعہ دارس میں محصور (قلعہ بند۔گھيرنا)کرلیا۔ تب چوپان بادشاہ مصر نے اصلی مصری دشمن کے مقابل مصر کو چھوڑدینے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اصلی مصریوں نے اُسے ۲۴۰۰۰۰ لوگوں کے ساتھ مصر سے نکال دیا جو یروشلیم کی طرف چلے گئے۔ ملاحظہ ہو۔ دی اولڈ ٹیسٹمنٹ ان دی لائٹ آودی ہٹاریکل ریکرڈ آواسر یا اینڈ ببلونیا۔ مصنفہ ٹی جی۔ پنچز، ایل۔ایل۔ایم۔آر۔اے۔ ایس صفحہ ۲۵۱۔ ۲۵۳۔

اس کے سواٹیٹسمین مطبوعہ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۵ء میں عراق عرب کی ایک تازہ دریافت کی ایک ٹیبلٹ کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ جوایک ہزار ٹیبلٹ میں سے ایک ہے۔ اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ہے۔

One of a thousand-day tablets written including many letters written about 3400 years ago, discovered in Iraq, there are expected to the life his story of a practically unknown people.

یعنی یہ تصویر ہزار ٹیبلٹ میں سے ایک ٹیبلٹ کی ہے۔ جن کے ساتھ بہت تحریری خطوط بھی شامل ہیں۔ جو قریباً ۳۴۰۰برس قبل از مسیح لکھے ہوئے ہیں۔ یہ عراق میں دریافت ہوئے ہیں۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ ان سے نامعلوم لوگوں کی تاریخ اور زندگی کا حال معلوم ہوگا۔

سی۔ ایم۔ جی مطبوعہ ۸ جنوری ۱۹۲۶ء میں عراق کی ایک اور تازہ دریافت کا مختصر حال شائع ہوا ہے۔ جس میں یہ بات ظاہر وبیان کی گئی ہے کہ شہر اور میں جو حضرت ابراہیم کا اصلی شہر تھا۔ اس میں ڈنگی نام بادشاہ کا محل دریافت ہوگیاہے۔ جو قبل از مسیح ۲۳۵۰ اور کی سلطنت پر حکمران تھا۔ یہی بیان سٹیسٹمن مطبوعہ ۷ جنوری ۱۹۲۶ء میں شائع ہوچکا ہی آنے والا زمانہ دیکھیگا کہ بابل کی سلطنت کی قیامت کی ہستی کیسی پَر ستان(پريوں کی رہنے کی جگہ) ہوگی۔ ہم طوالت کے خوف سے فی الحال بیان مافوق پر ہی کفایت (کافی ہونا)کرتے ہیں کیونکہ ہم ناظرین کرام کےلئے اس کو کافی خیال کرتے ہیں۔

اصلی مصر کے خاند ان کے جس بادشاہ نے ملک مصر سے عرب کے چوپان بادشاہوں کو نکالا اور ۵۱۱برس کے بعد مصری حکمرانوں کے ہاتھ میں سلطنت مصر کو قائم و ثابت کیا اُن کاسلسلہ حسب ذیل دیا گیا ہے۔ جو صرف ملک مصر سے بنی اسرائيل کے خروج کے زمانہ تک کا ہے۔

۱۔ اوہمس : ۱۵۸۷قبل از مسیح ۸۔ تھوتھمس رابع: ۱۴۲۳ قبل از مسیح
۲۔ امنھوتف۱: ۱۵۶۲ قبل از مسیح ۹۔ امنھوتف ثالث : ۱۴۱۴ قبل ا زمسیح
۳۔تھوتھمس۱ : ۱۵۴۱ قبل از مسیح ۱۰۔ امنھوتف رابع : ۱۳۸۳ قبل از مسیح
۴۔ تھوتھمس دوم: ۱۵۱۶ قبل از مسیح ۱۱۔ راسمتحا: ۱۳۶۵ قبل از مسیح
۵۔ ہیت شپیت: ۱۵۰۳ قبل از مسیح ۱۲۔ طت انکھ امن : ۱۳۵۴ قبل از مسیح
۶۔ تھوتھمس سوم : ۱۵۰۳ قبل از مسیح ۱۳۔ اے: ۱۳۴۴ قبل از مسیح
۷۔ امنھوتف ثانی : ۱۴۴۹قبل از مسیح ۱۴۔ ہوایمہیب : ۱۳۳۲۔ ۱۳۲۸ تک۔ ایکس پلوریشن آوایجنٹ اینڈدی اولڈ ٹیسمنٹ۔ مصنفہ جے گیرڈ ڈنکن، بی ، ڈی صفحہ ۳۰۔

مافوق فہرست مصر کے ان حکمرانوں کی ہے۔ جنہوں نے چوپان بادشاہوں کو مصر سے نکالنے کے بعد مصر میں بنی اسرائيل کو سخت ایذا ئیں پہنچائی تھیں۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ مصر میں بنی اسرائیل چوپان بادشاہوں کے مقبول نظر تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مصریوں کی نگاہ میں بنی اسرائيل بھی ایشیائی تھے ، تیسری وجہ اُن کو ایذا دینے کی یہ تھی کہ یہ لوگ مصر میں ترقی کررہے تھے۔ ان وجہوں سے مصریوں نے ایک طرف تو چوپان بادشاہوں کی مصری یادگاروں کو مٹایا۔ دوسری طرف بنی اسرائيل کو خوب ستایا۔ مصر کے بادشاہ مافوق ۲۶۰ برس تک بنی اسرائيل کو مصر میں دکھ دیتے رہتے تھے۔

مندرجہ صدربیان زمانہ قدیم کے عربوں کی تہذیب وشائستگی کا شاہدوگواہ ہے کہ انہوں نے عرب سے باہر زبردست حکومتیں قائم کی تھیں۔ جن کی یادگاریں ہمارے زمانہ کی مہذب دنیا کو حیران کررہی ہیں پس اہل عرب زمانہ قدیم سے مہذب وشائستہ تھے۔

دفعہ ۱۔ عرب کی صابی اورماعونی سلطنتیں۔ قدیم عربوں کی تہذیب وشائستگی آثار قدیمہ سےبخوبی ثابت ہوسکتی ہے۔ آثارِ قدیمہ سے پایا گیا ہے عرب کے جنوب میں یمن اور حضرموت میں دوزبانوں کے کثیر کتبے اور نشانات پائے گئے ہیں۔ جو عرب کی صابی اورماعونی حکومتوں کے شاہد ہیں۔ ڈاکٹر گریس نے یہ آثارِ قدیمہ نہایت کوشش اورمحنت سے دریافت کئے ہیں۔ جن کو کتابی صورت میں شائع کردیا گیاہے۔

ان آثارِ قدیمہ سے پایاجاتاہے کہ زمانہ قدیم میں ملک عرب میں صابی حکومت قائم ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اے۔ ایچ سیس صاحب آثارِ قدیمہ کے ماہر کا بیان ہے کہ صابی حکمرانوں میں اثمر صابی بادشاہ نے سارگون کو خراج دیا۔ اثمر کے بعد اس کے جانشین نے تگلت پلاسرسوم کو خاص خراج دیا تھا۔ سارگون ۳۸۰۰ قبل از مسیح بادشاہ تھا اور تگلت پلاسر کی حکومت کا زمانہ قبل از مسیح ۷۳۳ برس تھا۔ ملاحظہ ہودی ہائر کریٹسزم اینڈ دی مانیومنٹ صفحہ ۱۶۲ و صفحہ ۴۰۔

ڈاکٹر سیس کے بیان سے روشن ہے کہ زمانہ قدیم سے ہاں سارگون کے زمانہ سے بھی پیشتر ملک عرب میں صابی سلطنت قائم تھی۔ جس کے ایک بادشاہ اثمر نامی نے قبل از مسیح ۳۸۰۰ برس سارگون کو خراج دیا تھا۔ صابی حکمران اس زمانہ سے لیکر تگلت پلاسرسوم کے زمانہ تک اپنے حکمران رکھتے تھے۔ یمن کی صابی حکمرانوں کی حکومت کی وسعت ہرگز ملک عرب میں محدود نہیں سمجھی جاسکتی۔ کیونکہ ہمیں پیشتر سے معلوم ہوچکا ہے کہ بابل کی وسیع سلطنت کے نہایت بااثر حکمران عرب تھے۔ مصر کی عظیم الشان سلطنت کے حکام عربی چوپان تھے۔ پس ہم یہ خیال کرنے کےلئےمجبور ہیں کہ عرب کے صابی حکمرانوں کی سلطنت کسی زمانہ میں تمام مغربی ایشیاء اورملک مصر تک وسیع تھی۔

ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس بات کو تسلیم کرلیاہےکہ صابی بادشاہوں سے پیشتر ملک صبا میں کاہنی حکومت تھی کاہنوں کے بعد صابی بادشاہ ہوئے تھے۔ اس سے اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتاہے کہ عرب کی صابی حکومت بابل اور مصر کی حکومت کی طرح قدیم اوران حکومتوں کے ساتھ ساتھ اپنی ہستی قائم رکھتی آئی تھی۔

مزید براں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ صابی حکمرانوں کے ناموں کی فہرست ہمیں دستیاب نہیں ہوئی۔ بائبل میں جن صابی حکمرانوں کا اور آثار قدیمہ میں جن کا ذکر آیاہے۔ وہ اوپر مذکور ہوچکاہے۔ اس سے زیادہ کاہمیں آج تک علم نہیں ہواہے۔

یمن اور حضرموت کی دوسری حکومت ماعونی کی دریافت ہوئ ہے۔جس کا زمانہ پروفیسر فرہمل نے حضرت موسیٰ اورسلیمان بادشاہ کے درمیان قرار دیا ہے صفحہ ۷۹ اس حکومت کا خاتمہ یمن کے کاہن بادشاہ کریبا الوتر باوطر نے کیا تھا۔ جو صابی تھا۔ بائبل میں ماعونیوں کا سب سے پہلے ذکر قاضیوں کی کتاب ۱۰: ۱۳میں آیاہے۔

ڈاکٹر اے۔ ایچ سیس۔ ڈاکٹر گریسر کی سند سے لکھتے ہیں کہ عرب کی ماعونی حکمرانوں کی فہرست میں ۳۳ بادشاہ شمار آچکے ہیں۔ جسکی حکومت جنوب سے شمال عرب تک بلکہ غازہ تک وسیع تھی۔ صفحہ ۴۰۔

ماہرین آثار قدیمہ نے عربی تہذیب وشائستگی سے ایک نہایت اہم وبنیادی حقیقت یہ منسوب کی ہے کہ عربوں نے دنیا کو لکھنے کا ہُنر سکھایا ہے۔ سب سے پہلے عربوں نے ابجد(ا،ب کے حرف) کو ایجاد کیا۔ جس سے دوسری اقوام نے اپنی اپنی ابجد بنائی ہے۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ماعونی حکمرانوں کا مصر کے چوپان بادشاہوں سے ضرور تعلق تھا۔ صفحہ ۴۲، ۴۵ ڈاکٹرسیس۔

حالات مافوق سے بخوبی عیاں ہے کہ زمانہ حال کے عرب اُن عربوں کی نسل ہیں جو زمانہ قدیم میں نہایت عظیم الشان تہذیب وشائستگی کے بانی تھے جن کے احسان سے بعد کے زمانہ کی انسانی اقوام آج تک سبکدوش(لا تعلق) نہیں ہوئی ہیں۔ یہ عرب حضرت نوح کے بیٹے حضرت سم اورابراہیم کی نسل کے تھے۔ جن کی اولاد آج تک عرب میں اپنی آپ حکومت رکھتی ہے۔

چوتھی فصل

تاریخ اسلام میں عرب کے قدیم باشندے

مورخینِ اسلام نے قدیم عربوں کا جو بیان کیا ہے وہ زیادہ تر روائتی اور خیالی بیان ہے۔ جس پر پورا پورا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔سرسید مرحوم نے جب قدیم عربوں کے حالات پر روشنی ڈالنا چاہی تو آپ کو ابن اسحاق ابن ہشام طبقات کبیر المشہور ، بواقدی، طبری، سیرت شامی ابوالفدا۔ مواہب لدینہ وغیرہ کتب اس قابل نظر نہ آئیں کہ اُن کی سند سے خطبات احمدیہ کا پہلا خطبہ مرتب فرمالیتے۔ اُن تمام کتُب تاریخ کی بابت آپ کو صفائی سے لکھنا پڑا کہ

یہ سب کتابیں تمام سچی اور جھوٹی روائتوں اور صحیح موضوع حدیثوں کا محتاط مجموعہ ہیں۔ صفحہ ۸۔

جب اسلامی تاریخ کی سرسید جیسے علامہ یہ تعریف کرگئے ہیں تو اس تاریخ سے عرب کے قدیم باشندوں کےدرست حالات کا دریافت کرنا جیسا کہ مشکل کام ہے کسی ر وشن ضمیر ناظر پرپوشیدہ نہیں ہوسکتاہے۔ اسی سبب سے خودسرسید مرحوم نے اپنے خطبات کی بنیاد بائبل اورمسیحی علماء کی تصنیفات پررکھی۔ مسیحی اور اسلامی کتُب سے قدیم عربوں کی آپ نے جو کیفیت بیان فرمائی اس میں سے ضروری اورمفید کیفیت اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کی جاتی ہے جسے ہم اسلامی تاریخ کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سرسید نے عربوں کو تین حصوں پر منقسم فرما کر بیان کیا ہے۔ یعنی عرب البائدہ یعنی بدوعرب۔ عرب العار یعنی ٹھیٹ عرب۔ عرب المستعر بہ یعنی پردیسی عرب ، ان میں سے عرب البائدہ کی بابت ہم سب سے پہلے بیان کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ تاریخ عرب سے بائبل مقدس کا کتنا گہرا تعلق ہے۔

دفعہ ۱۔ عرب البائدہ کا بیان۔ سرسید لکھتے ہیں کہ عرب البائدہ میں سات شخصوں کی اولاد کی سات مختلف گرد ہیں شامل ہیں(۱) کوش پسر حام ، پسر نوح کی اولاد (۲) عیلام پسر سام پسر نوح کی اولاد (۳) لودپسرسام پسرنوح کی اولاد(۴) عوص پسر ارم پسر سام پسر نوح کی اولاد(۵) حول پسر ارم پسر سام پسر نوح کی (۶) جدیس پسر گژ پسر ارم پسرنوح کی اولاد(۷) ثمود پسر گژ پسر ارم پسر سام پسر نوح کی اولاد۔ کوش کی اولاد خلیج فارس کے کنارہ پر اوراس کے قریب وجوار کے میدانوں میں آباد ہوئي۔

جوہم پسر(بيٹا) عیلام بھی اس طرف جاکر رودفرات کے جنوبی کناروں پر سکونت پذیر ہوا۔لودجو ان میں سے تیسرا مورث اعلیٰ ہے۔ تین بیٹے مسمیان طسم عملیق، امیم (ایا میم) تھے۔ جنہوں نے آپ کو تمام مشرقی حصہ میں عرب میں یا یہ سے لیکر بحرین اوراس کےگردونواح تک پھیلادیا۔

عوص پسر عاد اورحول دونوں نے ایک ہی سمت اختیار کی اورجنوب میں بہت دور جاکر حضرت اوراُس کے قرب وجوار کے میدانوں میں اقامت اختیار کی۔

جدیس پسر گشر پسر ارم پسر سام عرب الوادی میں آباد ہوا۔

ثمود پسر گشر پسر ارم پسر سام نے عرب الحجر میں اور اس میدان میں جو وادی القریٰ کےنام سے مشہور ہے اور ملک شام کی جنوبی اورملک عرب کی شمالی حد ہے رہتااور قبضہ کرنا پسند کیا۔ سرسید کا بیان مافوق عربی جغرافیہ دانوں کے بیان کی سند پر کیا گیا ہے جن میں سے ابوالفدا ، معالم المتنزیل ۔ تقویم البدان کتب کے حوالے سند میں پیش کئے ہیں۔ جن میں صرف عاد، ثمود ، طسم ، جدیس ، جرھم کاذکر ہے۔ اورعاد کو عوص کا عوض کو ارام ، ارام کو سام کا بیٹا بیان کیا گیا ہے۔ باقی کے حسب ونسب کا کچھ ذکر نہیں کیا گیا ہے صفحہ ۲۸، ۲۹۔

سرسید پھر فرماتے ہیں کہ بنی کوش، کسی عرب کے مورخ نے بنی کوش کا کچھ حال نہیں بیان کیا سب خاموش ہیں اور اس سبب سے اُن کے حالات کچھ دریافت نہیں ہوئے۔۔۔۔ نویری نے اپنے جغرافیہ میں ایک فقرہ لکھا ہے۔ " وملک شرجیل علی اقدیس وتمیم" اس فقرہ میں نویری نے بنی کوش کا ذکر بشمول بنی تمیم کے کیا ہے۔ جس سے وہ حصّہ سلطنت کا مراد ہے جو الحارث نے اپنے دوسرے بیٹے شرجیل کو بخشا تھا۔ نویری کے اس فقرہ پر ریورنڈ مسٹر فاسٹر یہ استدلال (دليل دينا) کرتے ہیں کہ مشرقی مورخ نبی کوش کو عرب کے رہنے والوں میں شمار کرنے سے خاموش نہیں ہیں الخ۔

مگر ریورنڈ مسٹر فاسٹر نے بڑی کوشش اور تلاش سے اور بڑی صحت اورقابلیت سے نہایت معتبر اور مستند حوالوں سے اس امر کو بیان کیا ہے کہ بنی کوش درحقیقت عرب میں خلیج فارس کے کنارے پر برابرآباد ہوئے تھے اور مشرقی کنارے کے مختلف شہروں کے ناموں کا ناموں سے مقابلہ کرکے جو بطلیموس نے لکھے ہیں اپنے دعویٰ میں قطعی کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن مصنف موصوف نے جبکہ بنی کوش کو تمام جزیرہ عرب میں اور خصوصاً یمن اورخلیج عرب کے کناروں پر پھیلادینے کی کوشش کی ہے تواُس کی دلیلوں میں ضعف آجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ " نمرود " کے سوا جس کا ذکر تنہا کتاب مقدس میں کیا گیا ہے اوراس سبب سے ہم کو یہ متنبط کرنا پڑتاہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آباد ہوا تھا۔ باقی اولاد کوش کی جن کے نام سبا، حویلہ ، سبتاہ، رعماہ ، ستبکا تھے اور رعما کے بیٹے یعنی شبا اور دوان سب خلیج فارس کے کنارہ کنارہ آباد ہوئے تھے۔۔۔ صفحہ ۳۰، ۳۱۔

اس کے بعد سرسید نے بائبل مقدس اور مسٹر فاسٹر کے تاریخی جغرافیہ عرب کی سند سے عربی قبائل کا ایسا بیان کیا ہے جو بائبل کے بیان سے تطبیق(ميل ،مطابقت) کھاتاہے۔ طوالت کے خوف سے باقی بیان قلم انداز کرلیا گیا ہے۔

دفعہ ۲۔ عرب العاربہ یا ٹھیٹ عربوں کا بیان بھی سرسید نے بائبل مقدس اور مسٹر فاسٹر کے جغرافیہ کی سند سے کیا ہے۔ بنی یقطان کے حکمرانوں کا بیان تاریخ اسلام سے کیا گیا ہے۔

۱۔ قحطان اول یمن میں پہلا حکمران مانا گیا ہے جو قبل از مسیح ۲۲۳۴ موجود تھا۔

۲۔ یعرب یا جرھم اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔

۳۔ جرھم کے بعداس کا بیٹا یشحب اس کا جانشین ہوا۔

۴۔ یشحب کے بعد اُس کا بیٹا عبدالمشس تخت پر بیٹھا۔

۵۔ عبدالشمس کے بعد اس کا بیٹا حمیری تخت نشیں ہوا۔ حمیری کو تارح کاہمزماں مانا گیا ہے ۲۱۲۶ قبل ازمسیح موجود تھا۔

۶۔ واثل اپنے باپ کا جانشین ہوا۔

۷۔ واثل کے بعد اس کا بیٹا سکسک تخت نشین ہوا۔

۸۔ سکسک کے بعدا سکا بیٹا جعفر تخت پر بیٹھا۔

۹۔ جعفر کے بعد اُس کا بیٹا نعمان تخت کا مالک ہوا۔ نعمان کا زمانہ حضرت ابراہیم کی ہجرت کا زمانہ مانا گیا ہے۔ قبل از مسیح ۱۹۲۱۔

۱۰۔ نعمان کے بعد اُس کا بیٹا شمع تخت پر بیٹھا۔

۱۱۔ شمع پرشد ادنے حملہ کرکے اُس کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ یہ قبل ازمسیح ۱۹۱۲ کا واقع مانا گیا ہے۔

۱۲، ۱۳۔ شداد کے بعد اس کے دوبھائی لقمان اور ذوشد یکے بعد دیگرے تخت پر بیٹھا۔

۱۴۔ ذوشد کے بعد اس کا بیٹا الحارث بادشا ہوا۔

۱۵۔ پھر الحارث ملقب رایش تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد۔

۱۶۔ صعب ملقب بہ ذوالقرنین۔ ۱۷ اس کے بعد ابرہہ ملقب بہ ذوالمنار۔ ۱۸ اور افریق۔ ۱۹۔ اور عمر وملقب بہ ذوالاذغار یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے

۲۰۔ عمرذوالادغار کی سلطنت پرسرجیل نے قبضہ کرلیا۔

۲۰۔ عمرذوالادغار کی سلطنت پرسرجیل نے قبضہ کرلیا۔

۲۲۔ الہدباد کےبعد ملکہ بلقیس ۲۰برس تک تخت نشین رہی۔ یہ وہی ملکہ سبا ہے جو حضرت سلیمان کے ملنے کوآئی تھی۔

۲۳۔ ملکہ بلقیس کے بعد اس کا چچا زاد بھائی ملقب بہ ناشر النعم تخت نشین ہوا۔

۲۴۔ اس کے بعد اس کا بیٹا شمر برعش بادشاہ ہوا۔

۲۵۔ شمر برعش کے بعد اس کا بیٹا مالک تخت پر بیٹھا۔

۲۶۔ مالک کی سلطنت کو عمران نے چھین لیا۔

۲۷۔ عمران کے بعد اُس کا بھائی عمر مزیقیا تخت پر بیٹھا۔

۲۸۔ عمر مزیقیا کے بعد حمیری خاندان کے الاقرن بن ابومالک نے تخت وحکومت پر قبضہ کرلیا۔

۲۹۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوجشاں تخت پر بیٹھا۔

۳۰۔ اس کے بعد اس کا بھائی تبع اکبر۔ (۳۱) اس کے بعد اس کا بیٹا کلیکر ب تخت پر بیٹھا۔(۳۲) اس کے بعد اس کا بیٹا ابوکرب اسعدتبع اوسط (۳۳) اس کے بعد اس کا بیٹا حسان (۳۴) اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاعواد۔ (۳۵) اس کے بعد اس کا بیٹا عبدکلال (۳۶) تبع اصغر پسر حسان نے اس سے تخت پر چھین لیا۔(۳۷) اس کے بعد اس کا بھتیجا حارث بن عمرو تخت کا مالک ہوا تمام مورخوں کا اتفاق ہے کہ حارث نے یہودی مذہب قبول کرلیا تھا۔(۳۸) اس کے بعد مرثد ابن کلال اور (۳۹) اس کے بعد وکیعہ بن مرثد تخت پر بیٹھا۔

سرسید لکھتے ہیں کہ ان بادشاہوں کی حکومت کا زمانہ حارث بن عمرو کے یہودی مذہب اختیار کرنے کی وجہ سے کسی قدر صحت کے ساتھ معلوم ہوسکتاہے جبکہ بخت نظر فلسطین کو فتح کرکے اوربیت المقدس کو مسمار(گرانا) کرکے حضرت دانیال اوراُنکے دوستوں کو قیدی بنا کربابل کو لے گیا۔ اس وقت کچھ یہودی بچ کر یمن کو بھا گ گئے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت یرمیاہ اور دانی ایل پیغمبر تھے۔ اس لئے یہ بات نہایت قرین قیاس(جلد سمجھ ميں آنے والا) معلوم ہوتی ہے کہ ان مفروریہودیوں کی وجہ سے الحارث نے خدایِ واحد کا اقرار کیا ہوگا۔اوریہودی مذہب کو قبول کیا ہوگا۔ اوریہ امر واقعی ہےکہ الحارث اوروکیعہ اس زمانہ میں حکمران تھے یعنی ۳۴۰۰ دنیوی میں یا ۶۰۴قبل حضرت مسیح میں اس امر کا واقعی ہونا زیادہ تر اس لئے قابلِ اعتبار ہے کہ نسلوں کے پیدا ہونے کے قدرتی قاعدہ کے مطابق بھی یہ زمانہ ٹھیک ٹھیک صحیح آتاہے۔ کیونکہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مالک ناشر النعم ۳۰۰۱ دینوی میں تخت پر بیٹھا تھا۔ مالک اوردکیعہ کے درمیان گیارہ اوربادشاہ گذرے ہیں۔ جن کا زمانہ مجموعاً چار سوبرس خیال کرنا قرین عقل ہے۔ دکیعہ کے بعد چھ اور بادشاہ خاندان حمیر میں سے تخت نشین ہوئے یعنی ابرہہ بن الصباح ، صہبان، بن محرث ، عمر ابن تبع، ذوشناتر، ذونواس ملقب بہ ذو اخدوذ وجدن چونکہ ان بادشاہوں کا خاندانی سلسلہ صاف صاف تحقیق نہیں ہوا۔ اس لئے ہم نے اُن کے ناموں کو شجرہ انساب عرب العاربہ میں شامل کردینے کی جرات نہیں کی۔ بلکہ اُن کے ناموں کو شجرہ کے حاشیہ پر لکھ دیا ہے ان لوگوں کی سلطنت کا ٹھیک زمانہ بھی تحقیق نہیں ہوا۔

ذونواس ایک متعصب(مذہب کی بے جا حمايت کرنے والا) یہودی تھا اوریہودی مذہب والوں کے سواء ہر مذہب کے معتقدوں(اعتقاد رکھنے والا) اور پیروؤں کو آگ میں زندہ جلادیا کرتا تھا۔ اس بات کا خیال کرنے کے واسطے ایک عمدہ وجہ یہ ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جبکہ ارٹازرکسز اوکس نے چند یہودیوں کو جو مصر میں قید ہوئے تھے کیونکہ ملک مصر سے ملا ہوا تھا ہرقانیہ (زندران) کو بھیج دیا۔ اورچونکہ یہ بادشاہ بھی یہودی تھا۔ اس کی سلطنت کوبھی صدمہ پہنچا اورحبشیوں نے اُس پر غلبہ کرلیا اوراُس کی سلطنت سے خارج کردیا۔ پس یہ زمانہ اس خاندان کا آخری زمانہ معلوم ہوتاہےاور ۳۶۵۰دینوی یا ۳۵۴ قبل از حضرت مسیح کے مطابق ہوتاہے۔

اس زمانہ سے ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ وسلم کی ولادت تک نوسوبیس برس ہوتے ہیں۔ اس درمیان میں افریقہ کے لوگوں جو ارباط حبشہ کہلاتے تھے۔ اور نیز بعض عرب المستعربہ اور ابرہونکی حکومت رہی۔۔۔۔۔۔ اس خاندان ابرہہ میں ایک بادشاہ کا نام اسٹر تھا جوابرہہ اشرم صاحب الفیل کہلاتاہے۔ اورجس نے مکہ معظمہ پر ۴۵۷۰ دینوی یا ۵۸۰ عیسوی میں چڑھائی کی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے ہاتھی اس نیت سے لے گیا تھا کہ خانہ کعبہ کو منہدم (گرانا)کردے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ابرہہ مسروق تخت نشیں مگر سیف بن ذی یزن حمیری نے اس کو سلطنت سے بیدخل کردیا۔ جس کو کسریٰ نوشیروان والی ایران نے بہت مدددی تھی جیساکہ آگے معلوم ہوگا۔ اسکے بعد اس خاندان ابرہہ کی حکومت منقطع ہوگئي۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیف بن ذی یزن کو ایک اُس کے درباری حبش مصاحب نے قتل کردیا۔ اس کے بعد اس صوبہ کو نوشیروان نے اپنے ممالک محروسہ میں شامل کرلیا اوراپنی جانب سے وہاں عامل مقرر کرتا رہا۔ ان عالموں میں سے اخیر عامل باذان تھا۔ اُس کا زمانہ اور آنحضرت کا زمانہ متحد تھا۔ چنانچہ وہ آنحضرت پر ایمان لایا اور مسلمان ہوگیا۔ صفحہ ۴۰ سے صفحہ ۵۵ تک۔

دوم۔ صوبہ حیرہ کے حکمرانوں کی فہرست :(۱)مالک بن فہم۔(۲) مالک بن فہم کا بھائی عمرو(۳) جذیمہ بن مالک (۴) جذیمہ کا بھانجا عمر وبن عدی(۵) عمرو بن عدی کے بعداس کا بیٹا امرواالقیس (۶) امروالقیس کا بیٹا عمرو (۷) اس کے بعد ایک یا دوباشاہ اسی خاندان کے تخت نشین ہوئے۔اس کے بعد امروالقیس ثانی بن عمرو نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس شخص نے انسان کو زندہ جلانے کی سزا سب سے پہلے تجویز کی تھی(۸) اس کے بعد نعمان(۹) نعمان کا بیٹا المتداول۔ (۱۰) المتدثانی ، (۱۱) علقمہ ذیلی( ۱۲) امروالقیس ثالث( ۱۳) المنذر ثالث(۱۴) عمرو (۱۵) قابوس (۱۶) المنذر ربع(۱۷) نعمان ابوقابوس یہ نعمان عیسائی ہوگیا(۱۸) ایاس ابن قبیصتہ الطائی (۱۹) زاودیہ (۳۰) المنذر خامس اس بادشاہ کو خالد بن ولید سردار لشکر اسلام نے شکست دیکر سلطنت چھین لی۔

سرسید فرماتےہیں کہ عمر وبن المنذرماء لسماء کی حکومت کے آٹھویں سال میں محمد رسول اللہ آخر الزماں پیدا ہوئے تھے۔اس واسطے یہ بادشاہ ۴۵۶۲ دینوی یا ۵۶۲ عیسوی میں تخت پر بیٹھاتھا۔ صفحہ ۵۵ سے ۵۷۔

سوم۔ عرب عاربہ کی تیسری حکومت غسان کے حکمران۔عرب العاربہ نے ایک اور سلطنت صوبہ غسان میں قائم کی تھی۔ اور اس سلطنت کے حاکم عرب الشام کے نام سے مشہور تھے۔ اگر صحیح طور سےغور کیا جائے تو یہ حاکم قیصر روم کی طرف سے بطور عمال کے تھے۔ مگر شاہی لقب اختیار کرنے کی وجہ سے تاریخ عرب میں بادشاہوں کے ذیل میں بیان ہوتے ہیں۔ چونکہ بعض امور ان لوگوں سے ایسے متعلق ہیں جن سے ہم کو بعض امور کی تحقیقات اور تجسس میں آسانی ہوگی۔ اس لئے ان سلطنتوں کا ایک مختصر سال حال اس مقام پر لکھتے ہیں۔

سوم۔ عرب عاربہ کی تیسری حکومت غسان کے حکمران۔عرب العاربہ نے ایک اور سلطنت صوبہ غسان میں قائم کی تھی۔ اور اس سلطنت کے حاکم عرب الشام کے نام سے مشہور تھے۔ اگر صحیح طور سےغور کیا جائے تو یہ حاکم قیصر روم کی طرف سے بطور عمال کے تھے۔ مگر شاہی لقب اختیار کرنے کی وجہ سے تاریخ عرب میں بادشاہوں کے ذیل میں بیان ہوتے ہیں۔ چونکہ بعض امور ان لوگوں سے ایسے متعلق ہیں جن سے ہم کو بعض امور کی تحقیقات اور تجسس میں آسانی ہوگی۔ اس لئے ان سلطنتوں کا ایک مختصر سال حال اس مقام پر لکھتے ہیں۔

چہارم۔ عرب العاربہ کی چوتھی حکومت کندہ خاندان نے ڈالی تھی۔اس کا پہلا بادشاہ حجر بن عمر ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا عمروتخت نشین ہوا۔اس کے بعد اس کا بیٹا الحرث تخت کا وارث ہوا اُس نے کسریٰ قباد کا مذہب اختیار کرلیا۔ یہ بادشاہ پینتالیسویں یا چھیالیسویں صدی دینوی یا پانچویں یا چھٹی صدی عیسوی میں حکمران تھے۔ صفحہ ۶۰

پنجم۔ سلطنت حجاز کے حکمرانوں کی فہرست ذیل دی گئی ہے۔بوالفدا کے نزدیک اُس کا پہلا بادشاہ جرہم تھا۔ مگر سرسید اس میں ابوالفدا کی غلطی تسلیم کرتے ہیں (۲) یالیل (۳) جرثیم بن یالیل (۴) عبدالمد ان بن جرشم (۵) ثعلبہ بن عبدالمدان (۶) عبدالمسیح بن ثعلبہ (۷) مضامین بن عبدالمسیح (۸) عمرو بن مضاض (۹) الحرث براور مضاض (۱۰) عمروبن الحرث (۱۱) بشر بن الحرث (۱۲) مضاض بن عمر بن مضاض ۔

اگر ابوالفدا کے نزدیک یہ بادشاہ حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم سے پیشتر گذرے ہیں تو وہ بڑی غلطی پر ہے۔ کیونکہ عبدالمسیح کے نام سے بلاریب (بلا شک )ثابت ہوتاہے کہ کہ وہ عیسائی تھا۔ اوراس لئے ممکن نہیں کہ وہ حضرت اسماعیل سے پیشتر گذرا ہو یا اُن کا ہمعصر ہو۔کچھ شک نہیں کہ یہ سلطنت اس وقت قائم تھی جبکہ یمن اور حیرہ اورکندہ کی سلطنتیں زوال کی حالت میں تھیں۔ اورا س لئے ہم کو یقین ہے کہ اس سلطنت کے بادشاہ پینتالیس یا چھیالیس صدی دینوی یا پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں گذرے ہیں۔

یہ بھی واضح ہےکہ عمروبن لاحی ۴۲۱۰ دینوی یا تیسری صدی عیسوی کے آغاز میں اسی سلطنت پر حکمران تھا۔ ابوالفدا کا بیان ہے کہ اسی شخص نے بُت پرستی کو عرب حجاز میں رواج دیا تھا اور کعبہ میں تین بت ھول، کعبہ کی چھت پر اور اساف اورنائلہ اورمقاموں پر رکھے تھے۔

مثل دیگر عرب العاربہ کے جو مجاز میں متوطن(وطن اختيار کرنا والا) ہوئے اورپھر وہیں کے بادشاہ ہوئے۔ زہیرا بن حباب نے بھی لقب شاہی اختیار کیا تھا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جبکہ ابراہہ اشرم نے مکہ معظمہ پر حملہ کیا تھا۔ کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ زہیر بھی ابراہہ اشرم کے ساتھ اس مہم میں شریک تھا۔ اس لئے بآسانی محقق(تحقيق ہونا) ہوسکتاہے اس کا عہد حکومت چھیالیسویں صدی دینوی یا چھٹی صدی عیسوی کے آخری حصہ میں ہوگا۔ سب سے مشہور واقعہ اس کے عہد حکومت کا یہ تھاکہ اُس نے نبی غطفان کے اس مقدس معبد(عبادت گاہ) کو جو اُنہوں نے کعبہ کے مقابلہ کےلئے بنایا تھا۔ بالکل برباد کردیا تھا۔صفحہ ۶۰۔ ۶۱۔

دفعہ ۳۔ عرب المستعر بہ یعنی پردیسی عرب۔سرسید عرب المستعربہ کی ذیل میں حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم کی اولاد کو اور حضرت ابراہیم کی اس اولاد کو جو حضرت قطورہ سے تھی۔ حضرت عیسو کی اولاد کو بنی ناحور کو۔ بنی ہار ان کو شمار کرتے ہیں صفحہ ۶۴ سے ۹۶تک۔

سرسید نے خطبات احمدیہ میں بزرگان مافوق کی اولاد کا بیان بائبل اور فاسٹر صاحب کے تاریخی جغرافیہ عرب کی تطبیق (مطابقت)میں کیا ہے۔ اسلامی روایات کو اس میدان میں قابل اعتبار نہیں گردانا ہے۔ بزرگان مذکورہ بالا کی اولاد کے حضرت فاطمہ بنت حضرت محمد تک ۲۳۷ قبیلے یا قبائل شمار کئے ہیں۔ پر عرب المستعربہ میں حضرت محمد کے زمانہ تک حکمرانوں کی کوئی فہرست نہیں لکھی ہے۔ جس سے بظاہر یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ کہ عرب میں حضرت تارح اور حضرت ابراہیم کی نسل کبھی برسر حکومت نہیں آئی تھی۔ اگر آئی تھی تو کم از کم تاریخ عرب میں اس کے ثبوت پائے نہیں گئے۔ چنانچہ سرسید کا اپنا بیان اس پر شاہد ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔

حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹوں میں سے قیدار کی اولاد نے ایک عرصہ کے بعد شہرت حاصل کی۔ اور مختلف شاخوں میں متفرع (کسی چيز سے اپس کی شاخ کی طرح نکلنے والا)ہوگئی۔ مگر بہت صدیوں تک یہ بھی اپنی اصلی حالت پر رہی اورمدت تک ان میں ایسے لیئق(لائق،قابل) اورنامی اشخاص جنہوں نے اپنی لیاقتوں اور عجیب وغریب قابلیتوں کی وجہ سے نامور ہونے کا اسحتقاق(ورثے کا حق) حاصل کیا ہو یا سلطنتوں اور قوموں کے بانی ہوئے ہوں۔ پیدا نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے قیدار کی اولاد تاریخ کے سلسلہ کو مرتب کرنے میں بہت سی صدیوں کا فصل واقع ہوجاتاہے۔ مگر یہ ایک ایسا امر ہے جس سے عرب کی قومی اورملکی روایات کی جو حضرت اسماعیل کی نسل کی بابت چلی آتی ہے۔ کماحقہ تصدیق ہوتی ہے کیونکہ ایک جلاوطن ماں اوربیٹے کی اولاد کی کثرت اور ترقی کے واسطے جو ایسی بیکس اور مصیبت زدہ حالت میں خانہ بدرکی گئی تھی۔ضرور بلکہ یقیناً ایک عرصہ درکار ہوا ہوگا۔ خصوصاً ایسی ترقی کے واسطے جس نے انجام کار اُن کو دنیا کی تاریخ میں ایک نہایت نامور اورممتاز جگہ پر پہنچایا اور اُن کی اولاد نے ایسے ایسے کارہایِ نمایاں کئے جنکی نظیر کسی قوم میں نہیں ملتی " صفحہ ۱۰۰۔ ۱۰۱۔

بیان مافوق سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہر وثابت ہے کہ حضرت اسماعیل وحضرت ہاجرہ اور حضرت ابراہیم کا مکہ میں آنا اور کعبہ شریف کا بنانا گواسلام سے ثابت ہوسکتاہے۔ مگر تاریخ عرب میں اس کا ثبوت بڑا دشوار ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے زمانہ میں سرزمینِ حجاز زبردست بادشاہوں کی حکومت کے ماتحت تھی۔ جس میں اجنبی آسانی سے سکونت پذیر ہوہی نہ سکتے تھے۔ لیکن سرسید کا بیان مافوق کتاب مقدس کے اس بیان کے خلاف معلوم ہوتاہے جو ہم پیشتر کرچکے ہیں۔ کتاب مقدس کا بیان ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتاہے۔

دفعہ ۴۔ عمالیقی حکومت کا بیان۔تاریخ عرب سے قوم عمالیق کا بھی بڑا تعلق مانا گیا ہے۔ تاریخ اسلام میں اس زبردست قوم کا ذکر آیا ہے۔ عرب کے پڑوس کی اقوام کی تاریخ بھی اس قوم کے کارناموں سے خالی نہیں خیال کی جاسکتی۔ بائبل مقدس میں اس قوم کے کثیر تذکرے آئے ہیں۔ دفعہ ہذا میں مختصرطور سے قوم عماليق کا ذکر کیا جاتاہے تاکہ تاریخ عرب پوری روشنی پڑے اور ناظرین کرام کو معلوم ہوجائے کہ ملک عرب زمانہ قدیم میں اپنی شان رکھتا تھا۔

۱۔ تاریخ اسلام اورعمالیق

مولانا عبدالسلام صاحب ندوی نے ابھی حال میں اپنی کتاب" تاریخ الحرمین الشریفین" لکھی ہے۔ اس کتاب سے ناظرین کرام کے فائدے اورآگاہی کےلئے ذیل کا بیان ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ مولانا مدینہ کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

" لیکن اس کا سب سے قدیم مشہور نام یثرب ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ کے متعلق متعدد اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ یثرب سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی فساد کے ہیں۔ دوسرا اقوال یہ ہے کہ وہ یثرب سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ملامت کرنے کے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یثرب ایک کافر کا نام تھا اوراسی کے نام سے یہ شہر مشہور ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے مدینہ کے اس نام کو مکروہ (حرام)خیال کیا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ یثرب ایک مصری لفظ تربیس کی تحریف(تبديلی) ہے۔

مدینہ کے قدیم باشندے اوراگر یہ نظریہ صحیح ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کو سب سے پہلے عمالقہ نے ۱۰۱۶قبل مسیح یا ۱۲۲۲ قبل ہجرت میں مصر سے نکل کر آباد کیا تھا(الرحلتہ الحجاز یہ صفحہ ۲۵۲) اور خود مورخین کی تفریحات سے بھی یہی ثابت ہوتاہے۔ چنانچہ یا قوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے مدینہ میں کھیتی باڑی کی کھجور کے درخت لگائے مکانات اور قلعے تعمير کئے وہ عمالیق یعنی عملاق بن ارفحشد سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد تھی۔ یہ لوگ تمام ملک عرب میں پھیل گئے تھے۔ اور بحرین، عمان ، اورحجاز سے لیکر شام اور مصر تک ان کے قبضے میں آگئے تھے۔ چنانچہ فراعنہ مصر(مصر کے فرعون)انہیں میں سے تھے بحرین اور عمان میں ان کی جو قوم آباد تھی۔ اس کا نام جاسم تھا۔ مدینہ میں اُن کے جو قبائل آباد تھے اُن کا نام بنو ہفان، سعد بن ہفان ، اور بنومطرویل تھا۔ اور نجد تیمار اوراس کے اطراف میں اس قوم کا قبیلہ بنو عدیل بن راحل آباد تھا اورحجاز کے بادشاہ کا نام ارقم بن ابی الارقم تھا۔ معجم جلد ۷ لفظ مدینہ یثرب۔

وفاء الوفاء میں اوربھی بعض اقوال نقل کئے ہیں۔ مثلاً ایک قول یہ ہے کہ جب حضرت نوح کی اولاد دنیا میں پھیلی تو سب سے پہلے مدینہ کو یثرب میں قانیہ بن مہلابیل بن ارم بن عبیل بن عوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام نے آباد کیا اوراس کے نام پر مدینہ کا نام پڑا۔صفحہ ۱۷۲۔ ۱۷۳ تک۔

مولانا عبدالسلام صاحب تاریخ مکہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ" مکہ کی تاریخ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ ۱۸۸۲ء قبل مسیح میں خدا نے ان کو حکم دیاکہ اپنے فرزند اسماعیل اور اُن کی ماں ہاجرہ کولے کر (جیسا کہ تورات میں آیا ہے) ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ وہ ان دونوں کو لیکر اس خشک غیر آباد میدان میں آئے۔ پانی کی قلت سے اس میں کوئی شخص آیا نہیں تھا۔

صرف عمالیق اس کے شمالی وادی میں جس کو حجون کہتے ہیں آباد تھے۔یہ لوگ یہاں پر بحرین کی طرف سے نکل کر آباد ہوئے تھے۔اور اُن کی سلطنت شبہ جزیرہ سینا تک پھیلی ہوئی تھی۔ بابلی اُن کو مالیق کہتے تھے۔ اور عبرانیوں نے اُس میں لفظ عم (یعنی امتہ) کا اضافہ کرکے" عم مالیق" بنالیا اور عرب نے تحریف کرکے عمالیق بنادیا۔ مصری لوگ اُن کو ہکسوس یعنی چرواہا کہتے ہیں۔

حضرت ہاجرہ کو چاہ زمزم سے جو اس وادی کےلئے ایک زندگی تازہ تھی اطلاع ہوئی تو عمالیق بھی یہاں آئے۔ اوراس شرط پر اُن کے ساتھ قیام کرنے کی درخواست کی کہ حکومت اُ ن کے اوراُن کے فرزند کے ہاتھ میں ہوگی۔ چنانچہ اُنہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا۔۔۔۔ اس دن سے خانہ کعبہ کے آس پاس کے قبائل میں اس کی شہرت پھیلنے لگی اور لفظ مکہ یامکاکا اشتقاق (کسی چيز سے نکلنا)اسی سے ہوا۔ کیونکہ یہ ایک بابلی لفظ ہے۔ جس کے معنی گھر کے ہیں اورعمالیق نے یہ نام رکھاہے صفحہ ۵۷، ۵۸۔

۲۔ سرسید لکھتے ہیں۔ عرب میں جو لوگ آباد ہوئے۔ وہ تین ناموں سے مشہور ہیں۔ ایک عرب البائدہ۔ ایک عرب العاریہ اورایک عرب المستعربہ عرب البائدہ وہ لوگ کہلاتے تھے جن میں عاد ثمود اورجرہم الاولیٰ اور عمالیق اولیٰ تھے۔ وہ قومیں برباد ہوگئیں اور تاریخ کی کتابوں میں اُن کا بہت کم حال ملتاہے۔ اوریہ سب قومیں ابراہیم سے اور بناکعبہ سے پہلے تھیں۔

عرب العاربہ کی وہ قومیں ہیں ، جنکی نسل یقطان یا قحطان سے چلی ہے اور تمام قبائل عرب اسی نسل میں ہیں۔ حمیر بھی اُنہیں ایک قبیلہ ہے۔ اوربنی حمیر میں بھی ایک قبیلہ عمالیق کے نام سے تھا جو مکہ میں بستا تھا۔ اس پچھلی قوم نے بنی جرہم پر غلبہ پالیا تھا۔ اورکعبہ کی مختار ہوگئی تھی۔ اس زمانہ میں اس قوم عمالیق ثانی نے کعبہ کو پھربنایا۔ جو غالباً پہاڑوں کے نالے چڑھ آنے سےٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا۔

سرسید تسلیم کرتے ہیں کہ بعض مورخوں نے ان دونوں قوموں میں تمیز نہیں کی اور عرب البائدہ میں جو قوم عمالیق تھی۔ اس کی نسبت تعمیر کعبہ کو خیال کیا اور چونکہ وہ قوم بنی جرہم سے پہلے تھی۔ اسلئے لکھ دیاکہ عمالیق نے قبل بنی جرہم کے تعمیر کعبہ کی تھی۔ حالانکہ اس زمانہ میں نہ ابراہیم تھے نہ کعبہ تھا"۔خطبات احمدیہ صفحہ ۲۳۳۔

سرسید کی رائے عمالیق کی بابت اپنی ہے۔ وہ کسی شہادت پر مبنی نہیں ہے۔ اس پر خود سرسید فرماتے ہیں کہ عمالیق ثانی کی تعمیر کا زمانہ بھی نہیں معلوم ہوسکتا۔ صفحہ ۳۲۳۔ پھرنا معلوم سرسید نے عمالیق ثانی کا خیال کس فائدے کےلئے ظاہر فرمایا تھا۔ شائد اس سے آپ کا یہ مدعا (مقصد)ہوگاکہ کعبہ کی تعمیر اوّل کو حضرت ابراہیم واسماعیل سے منسوب (جُڑا ہوا)فرمائیں۔ مگرہم اُس کی بابت کیاکہہ سکتے ہیں۔ خود مسلم مورخ کعبہ شریعت کی تعمیر حضرت ابراہیم سے ہزاروں برس پیشتر کراگئے ہیں کیا ان مورخوں کے بیانات اور کعبہ شریف کے متعلق دیگر روایات کو جھٹلائیں ؟ اورایسا کرنیکی کسی کی کیا مجال ہوسکتی ہے۔ جو ان مورخوں اور روائتوں کے خلاف فتویٰ دے۔

سرسید کی رائے خواہ کیسی ہی زبردست ہو پر ہم مولانا عبدالسلام کی رائے کو ترجیح دینے کیلئے مجبو رہیں۔ کیونکہ اس میں زیادہ صداقت نظر آتی ہے۔ اس کے سوا مولانا کی رائے بائبل کے بیان سے زیادہ موافقت رکھتی ہے۔

اس کے سواتاریخ اسلام کی ایک خامی جو حضرت ابراہیم وحاجرہ واسماعیل کے مکہ میں آنے اور کعبہ کو تعمیر کرنے کی بابت ہے وہ تو ویسی کی ویسی روحانی ہے۔ اُسے نہ تو سرسید نے واقعات کی بنأپر پورا کیا ہے نہ مولانا عبدالسلام صاحب نے پورا کرکے دکھایا ہے۔ تاریخی واقعات جن کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ تاريخ ِاسلام کی اس خامی کے پُر کرنے میں کسی صورت میں معاون ومددگار بنتے نظر نہیں آتے تاریخِ اسلام ایسے زبردست قرائن (قر ينہ کی جمع،طريقے) پیش کرتی ہے۔ جن سے یہ امر ثابت ہوتاہے کہ مکہ مدینہ بلکہ کعبہ تک عمالیق قوم کی یادگار میں ہیں۔ان سے حضرت ابراہیم یا اسماعیل کا تعلق اعتقاد تو ثابت ہے مگر تاریخِ اسلام کا مکہ وکعبہ کی خصوصیت سے حضرت ابراہیم واسماعیل سے منسوب کردینا کسی تاریخی ثبوت پر مبنی نہیں کیا گیا ہے۔

اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ عمالیقی اور صابی حکومتوں کے خارجی اور اندرونی اسباب سے کمزور ہوجانے پر حضرت ابراہیم کی عربی نسل نے ضرور ترقی کی ہوگی۔ رفتہ رفتہ اس نے اقبال حاصل کیا ہوگا۔ اور وہ حجاز تک پہنچ کر حکمران بن گئی ہوگی۔ مگر تاریخ اسلام اس ترقی پر خاموش ہے۔ وہ تو وہاں عرب العاربہ کی مستقل حکومت دکھارہی ہے۔

پانچویں فصل

عربوں کا مذہب آثارِ قدیمہ کی روشنی میں

تمام دنیا میں مذاہب حضرت نوح کے تینوں بیٹوں کے تین خاندانوں سے متعلق ہونے سے ابتدائی صورت میں تین مذہب قرار پائے ہیں۔یعنی یافت کی نسل کی اقوام کا مذہب۔ حام کی نسل کی اقوام کا مذہب اورسام کی نسل کی اقوام کا مذہب۔ پھر یہ تینوں مذاہب ہر ایک قوم میں سینکڑوں صورتوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ پر توبھی ہرایک خاندان کے مذاہب اپنے اصلی مذہب سے اشتراک رکھتے آئے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے افتراق(اختلاف ،جُدائی) میں اصلی مذہب کو ضائع نہیں کیا ہے۔

حام بن نوح کی اقوام میں ایک خاص قسم کے مذہب کی بنیاد پڑی۔ جسے مصری مذہب کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ مصری مذہب ہمہ اوستی(ہر چيز خُدا ہے) مذہب تھا جو کائنات دیدنی کی ہر ایک چیز کو خدا مانتا تھا۔ خدا کےلئے موت اورجنم لازمی قرار دیتا تھا۔ سورج اور چاند اُن کے بڑے معبود تھے۔ بادشاہ اُن کے نزدیک سورج دیوتا کے اوتار( ديوتا کاجنم لينا) سمجھے جاتے تھے۔ وہ دنیا کے ہرایک مخلوق کو کسی نہ کسی معانی میں اپنے معبود کا مظہر(ظاہر کرنے والا) خیال کرتے تھے۔ زمانہ قدیم کی اقوام خصوصاً مغربی ایشیاء اور یورپ اورہند کی اقوام تک یہی مذہب مانا جاتا تھا۔ بابلی اقوام میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس مذہب کی پیروی ہوتی تھی مگر حضرت سم کی نسل کی اقوام میں بالکل دوسرا مذہب مروّج تھا۔ اگرچہ سام بن نوح کی نسل کی بعض اقوام مصری اوربابلی مذہب قبول کرچکی تھیں۔ توبھی عام طور سے اُن کے درمیان واحد خدا کا زبردست اعتقاد تھا۔ گو وہ بتوں کو پوجتی تھیں۔ ملک عرب کے قدیم باشندوں کا یہی مذہب تھا۔

جائے افسوس ہے کہ حضرت سام بن نوح کی نسل نے تہذیب وشائستگی کو شروع کرکے اس میں ایسی ترقی نہ کی جیسی کہ حام بن نوح اور یافت بن نوح کے خاندان کی اقوام نے کی تھی۔ خصوصاً باشندگان ِعرب نے فن تحریر کو جنم دیکر اسے ابتدائی حالت میں چھوڑ دیا۔ علم ومعلومات کے بڑھانے اور گذشتہ واقعات وروایات کو ضبط تحریر میں لانے کی کبھی کوشش نہ کی اس کا یہ نتیجہ ہواکہ حضرت محمد سے پیشتر کے عربوں کی تاریخ اورتہذیب وشائستگی مٹ گئی۔ وہ میدان ترقی میں پیچھے رہ گئے۔ اُن کا جیسا حال آج تک دیکھا جاسکتاہے ویسا حال حضرت محمد سے پیشتر ہزارہا برس تک دیکھا جاسکتا ہے اس وجہ سے قدیم عربوں کے مذہب وعقائد کا اوراُن کی تہذیب وشائستگی کا پورا اور صحیح حال دریافت کرنا نہایت دشوار ہے۔ ان کے مذہب وعقائد کے جاننے کےلئے ہمارے پاس تاریخ اسلام اور بائبل او ر مصر اوربابل اور عرب کے آثارِ قدیمہ کے سوا کوئی اور ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے ہم قدیم عربوں کے مذہب وعقائد کو دریافت کریں۔

دفعہ ۱۔ مصر کے آثارِ قدیمہ میں عربوں کی خداپرستی کے شاہد

۱۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ مصر کے چوپان حکمران عرب کے باشندے تھے توہمیں مصری یادگاروں سے اس بات کا سُراغ مل سکتاہے کہ عرب زمانہ قدیم میں مصری مذہب ومعبودوں کے دشمن تھے۔ وہ واحدا خدا کے ماننے والے تھے۔ مثلاً یوسیفس یہودی مورخ نے مصر کے کاہن مورخ سے ایک اقتباس اپنی کتاب میں ان چوپان بادشاہوں کی نسبت ان معافی کا کیا ہے کہ ان چوپان بادشاہوں نے بغیر جنگ مصر پر غالب آکر مصر کے شہروں کو جلا ڈالا۔ مصریوں کے معبودوں کے بُت خانوں یا ہیکلوں کو برباد کر ڈالا اور مصریوں پر سخت ظلم وتشدد روا رکھا دیکھو ڈاکٹر پینچ کی کتاب صفحہ ۳۵۱۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ عرب مصریوں کے مذہب کے اوراُن کے معبودوں کے نہ صرف ماننے والے نہ تھے بلکہ اُن سے سخت نافر تھے۔

۲۔ ڈاکٹر پینچ اس سے بڑھ کر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ چوپان شاہان مصر (واحد خدا کے پرستار تھے۔ اپوپی بادشاہ چوپان بادشاہوں میں سے تھا وہ واحد خدا کا پرستار تھا۔ صفحہ ۲۵۴۔

۳۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے مصر میں عرب چوپان بادشاہوں کا زمانہ حکومت ۲۱۰۰ قبل از مسیح سے ۱۵۸۷ قبل از مسیح تک قرار دیا ہے۔ اس زمانہ میں حضرت ابراہیم ملک مصر میں گئے۔ اسی زمانہ میں حضرت یوسف مصر میں بیچے گئے۔ اسی زمانہ میں حضرت یعقوب اپنی تمام اولاد کو لیکر مصر میں پہنچے۔ اسی زمانہ میں مصر کے حکمرانوں نے اسرائيل سے خوش سلوکیاں کیں۔ یہ تمام باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مصر کے چوپان حکمران واحد خدا کے ماننے والے تھے۔

۴۔ مصر کی قدیم یادگاروں میں ایک تحریر داحدا کی بابت پائی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ مطلب مع بائبل کے حوالوں کے ذیل میں دیا جاتاہے۔ تعجب نہیں کہ یہ تحریر عرب کے چوپان بادشاہوں کے زمانہ میں مشہور ہو۔

مصری زبان میں لفظ " نوتر" خداکےلئے آیاہے۔ گووہ معبود کو نوتر کہتے تھے توبھی ایک تحریر " نوتر" کی حسب ذيل تعریف آئی ہے۔ جس کے ساتھ ہی بائبل کے حوالے بھی نقل کئے جاتے ہیں۔

(۱) خدا واحد اورایک ہے۔ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے(استشنا ۶: ۴، ۲سیموئيل ۷: ۲۲۔ یسعیاہ ۴۵: ۵، ۲۱۔ ملاکی ۲: ۱۰۔ ۱کرنتھیوں ۷ : ۶ افسیوں ۴: ۶)۔

(۲) خداواحد ہے۔ اس ایک نے تمام چیزیں بنائیں یوحنا ۱: ۱۳۔ کلسیوں ۱: ۱۶)

(۳) خدا ایک روح ہے۔ ایک پوشیدہ روح وہ روح الارواح ہے جو مصر کی عظیم روح ہے جوالہیٰ روح ہے۔(یوحنا ۴: ۲۴، عبرانیوں ۱۲: ۹)۔

(۴) خدا ابتدا سے ہے اور وہ ابتدا سے ہست ہے پیدائش ۱: ۱ یوحنا ۱:۱ ، کلسیوں ۱: ۱۷)۔

(۵) خدا اول ہے۔ وہ سب چیزوں سے پہلے ہے۔ وہ تب سے ہے جب ہنوز کوئی چیز نہ تھی۔ اورجو کچھ اُس نے بنایا وہ سب اپنے بعد بنایا۔(مکاشفہ ۴: ۱۱)

وہ ابتداؤں کا باپ ہے۔(مکاشفہ ۱: ۸)

خد ازلی وابدی ہے (استثنا ۳۳: ۲۷۔ ۱تمطاؤس ۱: ۱۲)۔

اس کی ابتدا اور انتہا نہیں ہے۔ وہ ابد آلاباد رہنے والا ہے (زبور ۱۰: ۱۶، ۹۰: ۲، ۱۰۲: ۲۵۔ ۲۷: یرمیاہ ۱۰: ۱۰)۔

(۶) خدا پوشیدہ ہے۔ کوئی اس کی صورت کو محسوس نہیں کرسکتانہ اُس کی مشاکلت(ہم شکل) کی پیمائش کرسکتاہے(خروج ۳۳: ۲۰ یوحنا ۱: ۱۸۔ ۱تمطاؤس ۶: ۱۶۔

وہ دیوتاؤں اورانسانوں سے پوشیدہ ہے۔ جو اپنی مخلوقات کےلئے راز سربستہ ہے۔(۱یوب ۳۷: ۲۳)۔

(۷) خدا برحق ہے۔ (زبور ۲۵: ۱۰۔ ۳۱: ۵، ۵۷: ۳۔ ۸۹: ۱۴۔ ۹۱: ۴۔ ۱۰۰: ۵، ۴۶: ۱۔ یرمیاہ ۱۰: ۱۰۔ یوحنا ۱۴: ۱۶)۔وہ صداقت وسچائی سے زندہ ہے۔ وہ صداقت سے زندہ ہے۔ وہ صداقت کا بادشا ہے۔

(۸) خدا زندہ ہے انسان صرف اسی کے وسیلے زندہ ہے (اعمال ۱۷: ۲۸)۔ وہ زندگی کا دم اُن کے نتھنوں میں پھونکتاہے (پیدائش ۲: ۷ ایوب ۱۲: ۱۰، ۳۳: ۶ ، دانی ایل ۵: ۲۳۔اعمال ۱۷: ۳۵)۔

(۹) خدا باپ ہے اور ماں ہے (استشنا ۳۲: ۶، زبور ۲۷: ۱۰، ۶۸: ۵ ، یسعیاہ ۹: ۶ ملاکی ۲: ۱) وہ باپوں کا باپ ہے اور ماؤں کی ماں ہے۔

(۱۰) خدا پیدا کرتاہے۔(زبور ۳: ۷۔ یوحنا ۱: ۱۴: ۱۸، ۳: ۱۶، ۱۸)۔

لیکن وہ کسی سے پیدا نہیں ہوتا۔ وہ جنم دیتاہے۔ پر اُس کو کوئی جنم نہیں دے سکتا۔

(۱۱) وہ آپ اپنا پیدا کنندہ ہے۔ اوراپنے آپ کو خود جنم دینے والا ہے۔ وہ بناتا ہے۔لیکن خود نہیں بنتا (امثال۱۶: ۱۴۔ یسعیاہ ۴۵: ۱۲۔ یرمیاہ ۲۷: ۵۔ )

وہ اپنی شکل وہستی کا خودموجد ہے اور اپنےجسم کو آپ بنانے والا ہے۔

خدا زمین وآسمان کا خالق ہے۔ گہراؤ ، سمندر ، پہاڑ ، خدا نے آسمان پھیلائے اوراُن کے نیچے زمین کو استوار (زبور ۱۰۴: ۵۔ امثال ۷: ۲۸۔ یسعیاہ ۴۰: ۱۳، ۴۲: ۵ عموس ۴: ۱۳)۔

(۱۲) تاکہ جو اس کی رضا ومرضی ہو اُن سے فوراً تکمیل پائے۔ اورجب وہ ایک دفعہ کہہ دے فوراً وجود نما ہو اورابدآلاباد قائم ثابت رہے (زبور ۱۴۸: ۵، ۶ )

(۱۳) خدا جملہ معبودوں کا باپ ہے اور تمام الہوں کا مورثِ اعلیٰ (سب سے بڑا بزرگ)ہے (استشنا ۱۰: ۱۷ ،زبور ۷۶: ۸، ۱۳۵: ۵)۔

(۱۴) خدا اُن پر مہربان ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں (خروج ۳۴: ۶۔ گنتی ۱۴: ۱۸۔ ۲تواریخ ۱۳: ۹۔ نوحہ ۳: ۲۲، رومیوں ۹: ۱۵)وہ اُن کی سنتاہے جو اسے پکارتے ہیں (گنتی ۲۵: ۱۶۔ زبور ۳۴: ۱۷)۔ وہ زبردستوں کے مقابل کمزوروں کی حفاظت کرتاہے(زڈور ۳۵: ۱۰۔ امثال ۲۲: ۲۲، ۲۳، ملاکی ۳: ۵)۔ خدا اُن کوجانتاہے جو اُسے جانتے ہیں (زبور۱: ۶۔ نحمیاہ ۱: ۷) جو اس کی عبادت کرتے ہیں وہ اُن کو اجردیتاہے(زبور۵۸: ۱۱۔ یسعیاہ ۴۰: ۱۰۔ لوقا ۹: ۱۲۔ ۲۷) جو اس کی پیروی کرتے ہیں اُن کی وہ حفاظت کرتاہے۔

(۱۵) خدا کی فرمانبردای اس سے محبت کرناہے۔ لیکن اس کی نافرمانی اس سے نفرت کرتاہے(۱سیموئیل ۱۵: ۲۲: ۲۳)۔

(۱۶) خدا کی ہیکل میں تیری آواز بلند نہ ہو۔ ایسی باتیں خدا کے نزدیک نفرت انگیز ہیں (واعظ ۵: ۱، ۲، ۶، متی ۶: ۶۔ ۷)۔

(۱۷) خُدا بدکاروں کوجانتاہے۔ وہ اُن کو فناکریگا(زبور ۵۸: ۱۰، ۲۹۔۱: ۴ ،امثال ۳: ۳۳، ۱۴: ۱۱) ملاحظہ ہو بائی پاتھس آؤ بائبل نالج جلد ۸ مصنف ای۔ اے ڈبلیو بج۔ ایم اے۔صفحہ ۱۳۰۔ ۱۳۳۔ ناظرین کرام میں سے کون ایسا شخص ہوسکتاہے جو بیان مذکورہ بالا کو پڑ ھ کر دنگ (حيران)اور متحیر(ہکا بکا) نہ ہوجائے۔ ہمارے نزدیک ہمارے زمانہ میں خدا کی بابت اس عقیدہ سے بہتر عقیدہ بائبل سے باہر ملنا سخت دشوار ہے۔

دفعہ ۲۔ مسوپتامیہ میں عرب واحد خدا کے پرستار نہ رہے۔ اہلِ عرب زمانہ قدیم میں بابل کی سلطنت کے مالک ہوئے وہاں اُنہوں نے زبردست تہذیب وشائستگی کی بنیاد ڈالی۔ پر بابل کی حکومت اوربابل کا بُت پرست مذہب اُن پر غالب آگیا۔وہاں وہ واحد خدا کے پرستار نہ رہ سکے۔ نہ بابلی عرب وہاں پر اپنا کوئی امتیاز قائم رکھ سکے۔

بابل۔ اکاد۔ نینوہ اور کسدیوں کی تہذیب وشائستگی اگرچہ مصری تہذیب وشائستگی میں بعض باتوں میں نہایت ممتاز(نماياں) تھی۔ مثلاً بابلی تہذیب وشائستگی میں یہ وصف خاص تھا کہ اس میں مختلف اقوام کے لوگ اُسے مان کر ایک ہوجاتے تھے۔ ان میں باہمی امتیاز نہ رہتا تھا۔ پر مصر کے مذہب کا یہ حال نہ تھا۔ مصری غیر اقوام کو اپنے مذہب میں داخل ہی نہ کرتے تھے۔ اگر کوئی اُن کے مذہب کو مان بھی لیتا تواُنہیں اپنی مساوات(برابری) نہ دیتے تھے۔ پر بابل تہذیب وشائستگی میں یہ وصف ضرور تھا کہ گویا بابلی مذہب اور مصریوں کا مذہب اصولاً ایک تھا۔ پر بابلی مذہب میں دیگر اقوام کے لوگ داخل ہوکر اپنا امتیاز کھودیتے تھے۔ اس وجہ سے عرب جو بابل میں آئے وہ مذہبی طور سے بابلی ہی بنيں گے۔ مصر کے چوپان بادشاہوں کی طرح وہ اپنی ہستی کو بابلیوں سے جدا قائم نہ رکھ سکے۔

اہلِ بابل ونینوہ علم نجوم کے موجد وماہر تھے وہ اجرام ِفلکی کی عزت و عبادت کیا کرتے تھے۔ اُن کے معبود کثیر تھے۔ جو مذکرومونث تھے اور صاحب اولاد تھے۔ اُن کے بڑے بڑے معبود حسب ذیل تھے۔

مذکور معبود مونث اُن کی اولاد
۱۔انو انات رمون
۲۔ابیایا حیا دمکینا سمس یاشمش
۳۔ بیل بیلتس سن چاند۔ پائی پاتھس آؤ بائبل نالج جلد صفحہ ۱۲۸۔

بابل اورنینوہ اور اکاد اور ادر، اور فینکی اور کنعان کے آثارِ قدیمہ سے پایا جاتاہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ کے قریب مغربی ایشیاء میں بابلی مذہب عام طور سے مانا جاتا تھا۔ اس مذہب کے معبود بے شمار تھے۔ بابل اوراکاد اور سمیر د حاران میں ان معبودوں کےلئے شاندار مناد بنے تھے۔ عرب بھی اس مذہب کے غالب اثر سے محفوظ نہ تھا۔ مصریوں کی طرح بابل کے مذہب میں بھی معبودوں کے ساتھ پیدا ہونے اورمرنے کی بیماری لگی ہوئی تھی۔ بابل میں بھی بادشاہ کو خدا کا مظہر(ظاہر کرنے والا) مانا جاتا تھا۔ باقی جو مکروہات (نفرت انگيز چيزيں)مصریوں کے مذہب میں جائز تھیں۔ بابلی مذہب میں بھی عام تھیں جن کا یہاں پر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔

زمانہ قدیم کی یادگاروں میں ملک عرب کے بعض معبودوں کا ذکر ملتاہے مثلاً الات کی پوجا بابل میں بھی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر پنج کی کتاب صفحہ ۱۸۳

دفعہ ۳۔ قدیم عربوں کا مذہب آثارقدیمہ کی روشنی میں

گوقدیم عربوں کا مذہب عام طور سے مصریوں اوربابلیوں کا ہی مذہب تھا۔پر اس میں کچھ خصوصیت بھی پائی گئی ہے۔ ڈاکٹر گریسر کی اُن دریافت میں جو آپ نے یمن اور حضرموت کے آثار قدیمہ کے متعلق شائع فرمائی ہیں بات معلوم ہوسکتی ہےکہ قدیم صابی یادگاروں میں لوگوں کے ایسے نام ملے ہیں جو ایل۔ ایلی۔ ایلونامی معبود سے مرکب ومنسوب(نسبت کرنا) ہیں۔ ان سے یہ بات ظاہر ہوسکتی ہے کہ قدیم زمانہ کے عربوں میں واحد خدا کا اعتقاد(يقين۔ايمان) عقیدہ ضرور پایا جاتا تھا۔ پر ان اسماء سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم زمانہ کے صابی بُت پرست وشرک پرست (کُفر پرست)نہ تھے۔

۱۔ اسلامی زمانہ کی تحریرات کے زمانہ سے پیشتر قدیم عربی یادگاروں میں خدا کا نام اللہ یا الرحمن کا کہیں پتہ نشان نہیں ملتا ہے۔ ہم نے ان کتب میں جو ہمارے پاس آثارِ قدیمہ کے متعلق موجود ہیں ان دونوں ناموں کے متعلق تلاش وجستجو(کوشش) کی۔ پر ان میں کسی شخص کا نام عبداللہ یاعبدالرحٰمن وغیرہ نہ پایا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خدا کے یہ دونوں مقدس اسم صابی تہذیب و شائستگی کے بعد زمانہ کےہیں۔ ابتدائی زمانہ میں حضرت سام بن نوح کی عربی نسل کے معبود کا نام ایل ہی تھا۔ جو ذیل کے صابی کتبوں کے اسماء میں جزوعظیم بنایا گیا ہے۔ مثلاً الی عزا، الی یداء، الی کریبا ، الی ربی ، الی سعدا وغیرہ یسماء اُلویحرام الُو یحمی الو۔ وہبوالی وغیرہ۔ دیکھو پروفیسر ، فرہمل کی کتاب اینشینٹ ہبروٹریڈیشن صفحہ ۸۳ ، ۸۶تک

یادرکھنا چاہیے کہ یمن اور حضرموت کے آثارِ قدیمہ ایسے رسم الخط میں پائے گئے ہیں جو مروجہ عربی کی رسم کے الخط سے کچھ مشابہت نہیں رکھتے۔ ہم نے اسماء مافوق کو انگریزی رسم الخط سے لیا ہے۔ جسے مذکورہ بالا صورت میں ہم نے لکھا ہے۔ تاکہ ناظرین کرام ملاحظہ فرمالیں کہ عرب کی قدیم تہذیب وشائستگی اس بات کی شاہد(گواہ) ہے کہ قدیم عربوں کا معبود۔ ایل۔ الی اُلود جزو میں بخوبی عیاں(ظاہر) ہے۔ انہیں اسماء کے جزو اوّل یا آخر سے اغلباً (يقينی)عربی زبان کا اسم اللہ بنا ہے جو ہمارے زمانہ تک پہنچا ہے۔ جوخُدا کا پاک و مقدس نام مانا جاتاہے۔

اگرچہ صابی زمانہ کی عربی یادگاروں میں خدا کا نام ایل یا الی یا الو مذکور ہوا ہے تو بھی یمن وحضرموت کی ماعونی یادگاروں میں۔۔۔۔۔ قدیم عربوں کے بعض ایسے معبودمذکور ہوئے ہیں۔ جوبعض بابلی اوربعض خاص عربوں کے معلوم ہوتے ہیں۔مثلاً استردیوی، کباددیوی، ود، انکریہ ، یہرک، لشک کی دیوی وغیرہ۔ استر اورکبادبابلیوں کے معبودوں میں داخل ہیں۔ باقی معبود خاص عربوں کے ہیں (ہمل صفحہ ۸۰، ۸۱)

۲۔ اگراہلِ عرب کو بائبل کی روشنی میں سے دیکھا جائے تو ہمیں حضرت ابراہیم کے زمانہ کے بعد سے ملک عرب کے شمال مغربی ممالک میں اورخاص کر شمال عرب کے وسطہ میں واحد خدا کے پرستاروں کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں جن کی خدا پرستی ہمارے زمانہ تک ایک مسلمہ امر ہے۔ مثلاً

حضرت ابراہیم کے زمانہ میں ملک کنعان میں ملک صدق نامی واحد خدا کا پرستار بادشاہ تھا۔ جس کو حضرت ابراہیم نے بھی دہ یکی دی تھی۔

حضرت ایوب اورآپ کے دوستوں کے حال سے کون بائبل پڑھنے والا نہ ناواقف ہے۔ خدا پرستی میں جو صعوبتیں (مشکليں) اورمصیبتیں اس بزرگ ہستی نے برداشت کیں وہ اپنی آپ مثال ہیں۔ یہ حضرت ایوب ملک عرب کے شہر عوض کے گویا بادشاہ تھے۔ جن کے تمام دوست عربی شہزادے تھے۔ وہ ایک ملک عرب کے موحدین کی چوٹی کے بزرگ تھے۔ جس کی خدا پرستی کی دھوم کنعان کے موحدین تک پہنچی۔ اوراُنہوں نے آپ کی زندگی کے حالات لکھ کر مقدس نوشتوں میں شامل کیا۔

اس کے سوا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تیرومدیان کا ہن تھاجو اپنی خدا پرستی میں اتنی شہرت رکھتا تھاکہ حضرت موسیٰ جیسا خدا پرست اور غیرتمندشخص چالیس برس تک اس کےگھر رہ سکا۔بلعام کو بھی واحد خُدا کے عارفوں(وليوں۔پہچاننے والوں) میں شمار کیا جاسکتاہے۔

اگر اسلامی روایات پر اعتبار کیا جاسکے توہمیں ملک عرب میں۔ حضرت شعیب، ہود، صالح ولقمان جیسی بزرگ ہستیاں ایسی مل سکتی ہیں جو واحد خدا کی پرستار تھیں۔ اُنہوں نے اپنے معاصرین(ہم زمانہ لوگ۔اپنے ہم عصر) عربوں کو واحد خدا کی پرستش کے سبق پڑھائے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ دنیا میں خدا پرستی پھیلانے میں کامیاب نہ ہوئے تھے۔ اور نہ وہ بُت پرستی اور شرک پرستی کی قوت وطاقت پر غالب آسکے۔ اس غلبہ عالمگیر کےلئے خدا نے حضرت ابراہیم عبرانی کو ہی برگزیدہ کیا تھا۔جس کا ذکر آنے والا ہے۔

چھٹی فصل

تاریخِ اسلام کے قدیم عربوں کا بیان

عرب کے پڑوسی ممالک کی تاریخ میں عربوں کا شاندار بیان مل سکتاہے۔ پیشتر کی فصول کا بیان محض ایک مشتے نمونہ ازخروارے(ڈھير ميں سے مُٹھی بھر) کے طورپر ہدیہ ناظرین کیا گیا ہے۔ لیکن اگراس پر تاریخ اسلام کا بیان بڑھایا نہ جائے تو نا تمام رہ جاتاہے۔اس وجہ سے ہم اختصار (کوتاہی)کے ساتھ تاریخ اسلام سے بھی قدیم عربوں کی کیفیت نذر ناظرین کرتے ہیں۔

تاریخ اسلام میں گو قدیم عربوں کی بابت بہت کچھ بصورت روایات جمع کیا گیا ہے۔ توبھی اس سے مستند (تصديق )کرنا ذرا مشکل ہے۔ ملک ہند کے مسلم علمانے تاریخ اسلام کی سند سے جو بیانات قدیم عربوں کی بابت قلمبند فرمائے ہیں ہم اُن میں سےچند بیانات ناظرین کرام کی آگاہی کےلئے نقل کرتے ہیں۔

دفعہ ۱۔ مولانا عبدالسلام اور قدیم عرب

قدیم عربوں کے حالات جناب مولانا عبدالسلام صاحب ندوی نے اپنی کتاب" تاریخ الحرمین الشریفین" میں جناب مرحوم سرسید احمد خاں صاحب نے اپنے خطبات احمدیہ میں رقم فرمائے ہیں۔ انہیں کتب سے صابیوں اورعمالیق کا مندرجہ ذیل بیان اقتباس کیا جاتاہے۔ جس کے حق وباطل(غلط) ہونے کے ذمہ وار یہی صاحبان ہیں۔خانہ کعبہ کے بیان کی ذیل میں مولانا عبدالسلام صاحب صابیوں اورعمالیقیوں کی بابت تحریر کرتے ہیں۔

کہ اسلام سے ۲۷صدی پیشتر تمام عرب کے نزدیک خانہ کعبہ ایک قابل احترام چیز تھا اوراس میں عرب کے بُت پرست اور عرب کے یہودی اور عرب کے عیسائی سب کے سب یکساں حیثیت رکھتے تھے۔صرف عرب کی ہی خصوصیت نہیں بلکہ عزت جزیرہ عرب سے نکل کر ہندوؤں تک کے قلوب (درميان)میں جاگزیں ہوگئی تھی۔ اوران لوگوں کا اعتقاد (يقين) یہ تھاکہ جب ان کے ایک دیوتا بغی شیو۔ نے اپنی بی بی کے ساتھ ملک حجاز کی زیارت کی تواس کی روح سنگ اسود میں حاول کرکے رہ گئی۔ یہ لوگ مکہ کو مکششایا موکشیشانا یعنی شیشا یا شیشانا کا گھر کہتے تھے اور غالباً یہ اُن کے دیوتاؤں کے نام ہیں۔

مروج المذہب میں جہاں بیوت معظمہ پر بحث کی گئی ہے وہاں لکھا ہے کہ فرقہ صائبہ کا یہ اعتقاد(يقين) تھاکہ خانہ کعبہ اُن ساتوں گھروں میں داخل ہےجن کی وہ عزت کرتےہیں اورنیز اُن کا یہ اعتقاد تھاکہ وہ زحل کا گھر ہے۔ اور زحل کے وجود وبقا کے ساتھ ابدالاآباد تک قائم رہیگا۔ ابتداء میں تمام مشرقی ممالک بالخصوص ملکِ عجم ،ملک ہند،اورکلدان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مولد(پيدا ہونے کی جگہ) ومنشا تھا۔ صابی المذہب تھے اور ان میں یہ مذہب اب تک قائم ہے۔ ان میں بعض فرقے آفتاب(سورج) اور سبع سیارہ(سات سيارے) کو خدا مانتے تھے۔ اوران کو مدبرات کے نام سے پکارتے تھے اوراُن کی پرستش کے لئے عبادتگاہیں تعمیر کرتے تھے۔ بعض مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ اپنی عبادت گاہوں کے گرد حرم(شرفأ کا زنانہ خانہ) بناتے تھے تاکہ ان میں اجنبی لوگ نہ داخل ہوسکیں۔ غالباً ہر ستارے کے فلک کے گردجودائرہ اس غرض سے قائم ہے کہ دوسرا ستارہ اس کے حدود میں قدم نہ رکھ سکے۔ اُسی سے ان لوگوں نے حرم کے بنانے کا خیال پیدا کیا۔ غالباً وہ اپنی عبادت گاہوں کا طواف (کسی چيز کے چاروں طرف گھومنا)بھی کرتے ہونگے اور تمام ستارے جو سورج کےگرد گھومتے ہیں۔ اُن سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ وہ اس کے تابع ہیں اسی سے ان لوگوں نے طواف کی رسم قائم کی ہوگی۔ غالباً وہ اپنی عبادتگاہوں کے گرد سات چکر بھی لگاتے ہونگے کیونکہ اس کو سبع سیارہ سے ایک خاص تعلق ہے یعنی یہ کہ وہ ان عبادت گاہوں میں سے ہر ایک عبادت گاہ کے گردسات پھیرےلگاتے ہونگے تاکہ ہر ستارے کےلئے ایک پھیرا ہوجائے(تاریخ الحرمین الشریفین صفحہ ۹۸، ۹۹)۔

0اور درحقیقت یہ کوئی تعجب انگیز(حيرت انگيز) بات نہیں ہے۔ کیونکہ تھوڑے بہت اختلافات کے ساتھ ہر قوم کی شریعت قدیم شریعتوں سے ماخوذ (اخذ کيا ہوا)ہے۔ خود شریعت ابراہیم عمالقہ شمال کی شریعت سے مستفید(فائدہ اٹھانے والا) ہوئی ہے۔جنہوں نے پندرھویں صدی قبل مسیح میں عراق میں ایک نہایت ترقی یافتہ سلطنت قائم کی تھی۔ اخیر میں علمائے آثارِ قدیمہ نے بابل اور اشور کے کھنڈروں میں اُن کے بہت سے آثارِ نکالے ہیں جن میں سے اُن کی تمدنی (مل کر رہنے کا طريقہ۔طرزِ معاشرت)ترقی کا پتہ چلتاہے۔ اورانہی میں ان کی شریعت کے بہت سے مواد بھی شامل ہیں۔ آج ان آثارِ کا بہت سا ذخیرہ برلن اور لندن کے عجائب خانوں میں موجود ہے۔ سب سے پہلے انہی عمالقہ نے علم الفلک کی ایجاد کی تھی اور ستاروں اورآسمانوں کی حرکت کا پتہ لگایا تھا۔ کیونکہ اُن کے یہاں یہ علم صرف ایک مذہبی علم تھا اوریہی وجہ ہے کہ تمام صابیوں میں باوجود اختلاف قومیت کے عام طور پر اس علم کی اشاعت ہوئی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ طواف کے ان سات پھیروں کو ستاروں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ ان کی تعداد اس لئے مقرر کی گئی ہو کہ سات کا عدد اہلِ ریاضی کے نزدیک عدد کامل یعنی تمام اعداد کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ عدد کی دو قسمیں ہیں جفت اورطاق، اورجو اعداد جفت ہوتے ہیں ان میں اول ودوئم کی ترتیب ہوتی ہے۔ مثلاً دوکاعدد جفت اول اورچار کا عددجفت دوئم ہے طاق عددوں کی بھی یہی حالت ہے۔ مثلاً تین کا عدد طاق اول اورپانچ کا عددطاق دوئم ہے۔ اس لحاظ سے اگر جفت اول یعنی دوکا عدد طاق دوم یعنی پانچ کے عدد کے ساتھ طاق اول ہو یعنی تین کا عدد جفت دوم یعنی چار کے ساتھ ملایا جائے تو سات کا عدد پوراہوجاتاہے۔ اسی طرح اگرایک کے عدد کو جو کہ تمام اعداد کی اصل ہے چھ کے ساتھ جو حکماء کے نزدیک عدد تام ہے ملایاجائے تواس سے سات جو کہ عدد کامل ہے پورا ہوجاتاہے اوریہ خاصیت سات کے عدد کے علاوہ اورکسی عدد میں پائی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جب کسی تعداد میں مبالغہ(کسی چيز کو بڑھا چڑھا کر بيان کرنا) کرنا چاہتے ہیں تو اسی عدد کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ" خدا کوسات بار یاد کرو"۔ رسول اللہ پر سات بار درودبھيجو" سات کنکریوں کے ساتھ رمی جمار(کنکرياں پھينکنا) کرو" عرض یہ عدد بہت سی عبادات میں مستعمل (استعمال)ہے اوریہی وجہ ہے کہ آسمان سات ہیں۔ سیارے سات ہیں۔ اور زمینیں سات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب جوہر نے قاہرہ کو بنوایا توتخمیناً اس کے سات دروازے بنوائے۔ جب محل کا جلوس نکلتاہے تو لوگ سات بار اس کے گرد گھومتے ہیں۔ لوگ مبالغہ(بڑھا چڑھا کر) جب کسی کی تعریف کرتے ہیں توکہتےہیں کہ وہ سات زبانیں جانتاہے۔ ساتوں دریا کو عبور کرچکاہے اورہفت اقلیم کا سیاح (سات سلطنتيں کی سير کرنے والا)ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بااینہمہ ہمارے فقہا(علم، فقہ کے عالم)ان باتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ کیونکہ عبادت میں جو اعداد مقرر کئے گئے ہیں۔مثلاً رکعات نماز اور اشواط طواف کی تعداد وہ لوگ ان سے بحث نہیں کرتے بلکہ وہ ان کی بحیثیت ایک قابل تسلیم وقابل احترام حکم خداوندی کے مانتےہیں اوراُن کے علل واسباب(بيماری کے باعث) کا سراغ نہیں لگاتے۔

مسعودی کی تصریحات(تشريح) سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر سے پہلے اہلِ عرب موقع خانہ کعبہ کا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ اس نے جہان قوم عاد کی قحط زدگی(خشک سالی۔قال کا زمانہ) کاذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ یہ لوگ موقع خانہ کعبہ کی عزت کرتے تھے اوروہ ایک سُرخ رنگ کا ٹیلہ تھا۔ اس سے ظاہرہوتاہےکہ تعمیر ابراہیم علیہ السلام سے پیشتر موقع خانہ کعبہ ان لوگوں کے نزدیک قابل احترام تھا۔ غالباً اس جگہ عمالقہ کی کوئی قدیم عبادت گاہ تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنے سے پہلے مٹ چکی تھی۔ اس بناء پر پیغمبر ابراہیم سے پہلے مورخین نے اس عبادت گاہ کی بنیاد کے متعلق مختلف رائیں قائم کرلیں۔ چنانچہ بعض مورخین نے لکھا کہ حضرت ابراہیم سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا اور بعضوں نے اس کے علاوہ اوررائے قائم کی یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ پورا قطعہ زمین اہلِ عرب کے نزدیک مقدس خیال کیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ قدمائے مصر ملک حجاز کو" بلاد مقدمہ" کہتے تھے۔

ایرانی بھی خانہ کعبہ کی عزت کرتے تھے اوران کے اعتقاد کے موافق ہرمز کی روح اس میں حلول(ايک چيز کا دوسری چيز ميں داخل ہونا ) کی گئی تھی۔ یہ لوگ نہایت قدیم زمانے سے خانہ کعبہ کا حج بھی کرتے تھے۔ چنانچہ اسلام کے بعد ان کاایک شاعر کہتاہے۔

ومازلنا نحج البیت قدما

وتلقی بالا باطح امیتنا

ہم نہایت قدیم زمانہ سے خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں

اور باطح میں امن وامان کے ساتھ ملتے جلتے رہے ہیں

وسا سان بن بابک سارحتی

اتی البیت التعیق بطوف دینا

اور ساسان بن بابک آیا

اور مذہبی حیثیت سے خانہ کعبہ کا طواف کیا

فطاف بہ وزمزم عندئیبر

لاسماعیل تروی الشار بینا

اس کااور زمزم کا ایک کنوئیں کے نزدیک جو اسماعیل کا تھا طواف کیا۔ اس حالت میں کہ و ہ پانی پینے والوں کو سیراب کررہا تھا۔

یہودی خانہ کعبہ کا احترام کرتے تھے اوردینِ ابراہیمی کے مطابق اُس میں عبادت بجالاتے تھے۔ نصاریٰ عرب بھی یہودیوں سے کچھ کم اُس کی عزت نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں نے خانہ میں چند تصویریں بھی قائم کی تھیں۔ جن میں ایک تصويرحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اورایک تصویر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تھی۔ جن کے دونوں ہاتھوں میں جوئےکے تیرتھے۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویریں بھی تھیں۔ اور عرب کے مختلف قبائل نے اپنے اپنے بُت بھی اُس میں رکھے تھے۔ اور اس طرح خانہ کعبہ ۳۶۰ بتوں کا مرقع(البم) بن گیا تھا۔ سب سے پہلے خانہ کعبہ کے متولی (انتظام کرنے والا۔منتظم)ہونے کے بعد جس شخص نے مکہ میں بُت پرستی کورواج دیا اور کعبہ میں بُت رکھے وہ قبیلہ خزاعہ کا سردار عمروبن لحی تھا۔ اُس نے شام کے سفر میں بُت پرستی سیکھی۔ اور ثمود سے ہبل، لات اورمنات کی پرستش کا طریقہ اخذ کیا۔ کیونکہ ثمود کے آثارقدیمہ کے نقوش سے ثابت ہوتاہے کہ یہ تینوں بُت اُن کے دیوتا تھے۔ بہر حال اُس نے مکہ میں بُت پرستی کورواج دیا اوریہ تمام قبائل عرب نے اُس کی تقلید(نقل۔پيروی) کی اور اپنے اپنے بت لاکر خانہ کعبہ میں رکھے۔ لیکن عرب میں بُت پرستی کا اثر دوسری قوموں سے کم تھا۔ کیونکہ یہ لوگ ہندوستان ، چین ،روم اور مصر کے بُت پرستوں کی طرح بُتوں کی پرستش اُن کی ذات وصفات کے لحاظ سے نہیں کرتے تھے بلکہ تقرب(نزديکی قرب) الہٰی کےلئے اُن کو پوجتے تھے۔

۸ ہجری تک خانہ کعبہ کی یہی حالت تھی کہ مکہ میں رسول اللہ علیہ السلام کا فاتحانہ داخلہ ہوا اورآپ نے اُس کو بتوں کی آلائیش(غلاظت۔آلودگی) سے پاک کیا۔ حضرت اسامہ سے مروی(بيان کيا گيا) ہے کہ آپ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو چند تصویریں دیکھیں جن کو پانی لگا کر مٹایا۔ ازروقی نے روایت کی ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی تصویریں خانہ کعبہ میں قائم رہ گئیں جن کو بعض غسانی نو مسلم عیسائیوں نے دیکھا۔ ایک بار سلیمان بن موسیٰ نے عطا سے پوچھا کہ تم کو خانہ کعبہ میں تصویریں بھی نظر آئیں؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے حضرت مریم علیہ السلام کی رنگین تصویردیکھی اوراُن کی گود میں ان کے بیٹے عیسٰی تھے۔ (تاريخ الحرمین الشریفین صفحہ ۱۰۰ سے ۱۰۳تک)۔

مکہ کی تاریخ حضرت ابراہیم خلیل کے زمانہ سے شروع ہوتی ہے ۸۹۲ء قبل از مسیح میں خدا نے اُن کو حکم دیا کہ اپنے فرزند اسماعیل اوران کی ماں ہاجرہ کو لیکر جیساکہ تورات میں آیا ہے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ وہ ان دونوں کو لیکر اس خشک غیر آباد میدان میں آئے۔ پانی کی قلت سے اس میں کوئی شخص آباد نہیں تھا۔ صرف عمالیق اس کے شمالی وادی میں جس کو حجون کہتےہیں آباد تھے۔ یہ لوگ یہاں بحرین کی طرف سے نکل کرآباد ہوئے تھے اوراُن کی سلطنت شہ جزیرہ سینا تک پھیلی ہوئی تھی۔ بابلی ان کومالیق کہتے تھے اور عبرانیوں نے اس میں لفظ"عم" (یعنی امتہ) کا اضافہ کرکے" عم مالیق" بنالیا اور عرب نے تحریف (بدل دينا)کرکے اس کو عمالیق بنادیا۔ مصری لوگ ان کو ہکسوس یعنی چرواہا کہتے ہیں۔

حضرت ہاجرہ کو چاہ زمزم سے جو اس وادی کےلئے ایک زندگی تازہ ہوااطلاع ہوئی توعمالیق بھی یہاں آئے اوراس شرط پر ان کے ساتھ قیام کرنے کی درخواست کی کہ حکومت اُن کے اوراُن کے فرزند کے ہاتھ میں ہوگی چنانچہ اُنہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا۔اُنہوں نے اپنے لئے ایک گھر بنالیا تھا جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ رہتی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کی ملاقات کےلئے فلسطین سے آیا جایا کرتے تھے۔ (تاریح الحرمین الشریفین صفحہ ۵۷)۔

اسی دن سے خانہ کعبہ کے آس پاس کے قبائل میں اُس کی شہرت پھیلنے لگی اور لفظ مکہ یا مکاکا اشتقاق(علم ِصرف ميں سے ايک کلمے سے دوسرا کلمہ بنانا۔اصطلاح)اسی سے ہوا کیونکہ یہ ایک بابلی لفظ ہے جس کے معنی گھر کے ہیں اور عمالیق نے یہ نام رکھاہے۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم میں واپس آئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد اُن کی اولاد کو خدمت کعبہ کی تولیت(سربراہی۔نگرانی) حاصل ہوئی۔ لیکن جب ان میں ضعف (دوگنا۔دوچند)آیا تو عمالیق نے اُن پر غلبہ حاصل کرلیا اور خانہ کعبہ اُن کے ہاتھ میں آگیا۔ ایک مدت تک خانہ کعبہ کی تولیت اُن کے ہاتھ میں رہی لیکن سدمارب کے ٹوٹنے کے بعد جب یمن سے قبیلہ جرہم کےلوگ چھٹی صدی قبل میلاد کے نصف حصہ میں مکہ میں آئے توعمالیق سے جنگ کرکے اُن پر غلبہ حاصل کرلیا اورمکہ بلکہ تمام حجاز میں اُن کا اقتدار قائم ہوگیا۔ لیکن اس جاہ اقتدار کے نشے میں جب اُنہوں نے ارضِ الہیٰ میں فساد وطغیان (ظُلم)پھیلایا توایک وبانےپھیل کر اُن کو ہلاک کردیا۔ اس ضعف کی حالت میں بنی اسماعیل اُن پر غالب آگئے خانہ کعبہ کو اُن سے واپس لے لیا اوراُن کو مکہ سے نکال دیا اور وہ شمال ینبع میں جاکر ارض جہینہ میں آباد ہوگئے چنانچہ عمروبن حارث انہی واقعات کے متعلق کہتاہے۔

وکناولاہ البیت من عھد فابت

نطوف بذاک البیت والافرظاہر

ہم نابت (فرزند اسماعیل) کے زمانہ سے خانہ کعبہ کے والی تھے۔

اس گھر کا طواف کرتے تھے اورمعاملہ صاف تھا۔

کان لم یکن مین الحجوان الی الصفا

انیس ولم یسحر بمکتہ سامر

گویانجون کے درمیان سے صفا تک۔ کوئی دوست نہ تھا

اورمکہ میں کسی قصہ گو نے قصہ نہیں کہا تھا۔

بلی تحن کنا اھلھا فا بادفا

صروف اللیابی والجد وداھواثر

ہاں ہم اس کے باشندے تھے

لیکن ہم کو حوادثات زمانہ اور بخت بد (بُرے نصيب)نے برباد کردیا۔

ایک مدت تک بنو اسماعیل خانہ کعبہ کے متولی(منتظم) رہے۔لیکن اس کے بعد خزاعہ کے قبیلہ نے آکر اُن پر غلبہ حاصل کرلیا اوراپنی عصبيت(طاقت۔طرفداری) کی وجہ سے ایک مدت تک خانہ کعبہ کی سدانت یعنی خدمت اور سقایہ یعنی حاجیوں کے پانی پلانے کے متولی رہے۔ اس عصیبت (مضبوطی۔طاقت)کے خلاف بنو اسماعیل اخلاقی اور روحانی حیثیت سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر ایسے اشخاص۔۔۔۔ پیداہوا کرتے تھے۔ جن کے علم وفضل سے اُن کی خاندانی ذہانت اورنسبی(خاندانی نسب سے تعلق رکھنے والی) شرافت کا پتہ لگتا تھا۔ مثلاً ان میں کعب بن لوی ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے فصاحت وبلاغت (خوش کلامی و فصيح کلام۔حسبِ موقع گفتگو)میں نہایت شہرت حاصل کی اور سب سے پہلے یوم عرویہ یعنی جمعہ کے دن لوگوں کو اسی نے جمع کیا اوران کے سامنے اخلاقی خطبے دیئے۔ اس نے عرب میں اس قدر ناموری حاصل کی کہ اُس کی موت کے سال سےعام فیل تک جو چار سوسال سے کم کا زمانہ نہیں ہے۔ اہل عرب نے اپنا سن قائم کیا تھا۔ ایک مدت تک خانہ کعبہ کا اہتمام خزاعہ کے ہاتھ میں رہا لیکن جب قصی بن کلاب جو کعب کےپوتے اور حضرت اسماعیل کی چودھویں پشت میں تھے اوربچپن میں اپنی ماں کے ساتھ شام کو چلے گئے تھے۔ شام سے واپس آئے تو اُن کو نظر آیا کہ قریش میں تفریق وانتشار (تتر بتر ہونا۔پريشانی۔گھبراہٹ)پیداہوگیاہے اوران میں باہمی بغض وعداوت(نفرت و دُشمنی) کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ اسی لئے اُنہوں نے اپنے حسن وتدبیر(سوچ بچار) زور تقریر اورذہانت سے قبیلہ قریش کی شیرازہ بندی(انتظام) کی اور کوشش کرکے خزاعہ سے خانہ کعبہ کی حجابت یعنی کلید برداری کا عہد خرید لیا۔ اُس کے بعد جب اُن کو عصیبت حاصل ہوئی تو اُن کو مکہ سے بطن مریعنی وادی فاطمہ کی طرف جلاوطن کردیا۔ اب اُن کو نہایت جاہ اقتدار حاصل ہوگیا۔ اور سقایتہ حجابتہ، رفادہ اورعلم برداری کے عہدے جو اب تک مجموعی طورپر کسی کونہیں ملے تھے ایک ساتھ مل گئے۔ قصی پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا کامہمان اورپڑوسی سمجھ کر حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا اوراسی وجہ سے عرب میں اُن کی عام شہرت ہوگئی۔ اُنہیں نے قومی معاملات میں بحث ومشورہ کےلئے خانہ کعبہ کے متصل دارالند وہ کو قائم کیا اوراس کے دروازہ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف رکھا۔ ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کا ملکی اقتدار بہت زیادہ بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے اس کے بعد قبائل عرب پر ٹیکس مقرر کردیا۔

(تاریخ الحرمین الشریفین صفحہ ۵۸سے ۶۰تک)

مدینہ کے مختلف نام: مدینہ کے مختلف نام ہیں اورہر ایک نام میں کوئی نہ کوئی لطیف مذہبی ، تاریخی یا ادبی مناسبت پائی جاتی ہے۔

ان میں یاقوت حموی نے معجم البلدان میں صرف انیس نام بتائے ہیں یعنی مدینہ ، طیبہ ، ظابہ، مسکتبہ ، عذرا، جابرہ ، مجتہ ، مجیہ، مجورہ، یثرب، ناجیہ ، سوفیہ، اکالتہ البلدان ، مبارک ، محفوفہ ، مسلمہ ، مجتہ ،قدسیہ ،عاصمہ ، مرزوقہ ، شاقیہ ، خیرہ، محبوبہ ، مرحومہ ، جابرہ، مختارہ، محرمہ ، قاصمہ ، طبایا، لیکن صاحب وفاء الوفا نے نوے سے زیادہ نام گنائے ہیں اورلکھاہے کہ۔ ان کثرہ الاسماء تدک علے شرف المسمی ولمہ واجداکثر من اسماء ھذہ البلدتہ الشریفہ ناموں کی کثرت مسمی کے شرف(بزرگی۔بلندی)پر دلالت(دليل۔ہدايت) کرتی ہے اور میں نے اس شہر سے زيادہ کسی شہر کے نام نہیں پائے۔ ان ناموں کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہر نام کی وجہ مناسبت بھی تفصیل کے ساتھ بتائی ہے۔ لیکن اس کا سب سے قدیم مشہورنام یثرب ہے۔ جسکی وجہ تسمیہ کے متعلق متعدد اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وثرب سے ماخوذ ہے جس کے معنی فساد کے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ تثریب سے مشتق (نکلا ہوا)ہے۔ جس کے معنی ملامت کرنے کے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یثرب ایک کافر کا نام تھا اوراسی کے نام سے یہ شہر مشہور ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے مدینہ کے اس نام کو مکروہ(ناجائز۔نفرت انگيز) خیال کیا ہے۔

لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ یثرب ایک مصری لفظ تریبس کی تحریف (بدل دينا)ہے۔

مدینہ کے قدیم باشندے: اوراگر یہ نظریہ صحیح ہے تواس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس شہر کو سب سے پہلے عمالقہ نے ۱۰۱۶ قبل مسیح یا ۱۲۲۳ قبل ہجرت میں مصر سے نکل کر آباد کیا تھا۔ اور خود مورخین کی تصریحات (تشريح۔تفصيل)سے بھی یہی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھاہے کہ سب سے پہلے جس نے مدینہ میں کھیتی باڑی کی کھجور کے درخت لگائے۔ مکانات اور قلعے تعمیر کئے وہ عمالیق یعنی عملاق بن ازفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد تھی۔ یہ لوگ تمام ملک عرب میں پھیل گئے تھے اور بحرین، عمان اور حجاز سے لیکر شام اور مصر تک اُن کے قبضے میں آگئے تھے۔ چنانچہ فراعنہ مصرانہی میں سے تھے۔ بحرین اورعمان میں ان کی جو قوم آباد تھی اس کا نام جاسم تھا۔ مدینہ میں اُن کے جو قبائل آباد تھے اُن کا نام بنو ہقان، سعد بن ہنفان، اوربنومطرویل تھا اور نجد تیمار اوراس کے اطراف میں اس قوم کا قبیلہ بن عدیل بن راحل آباد تھا اورحجاز کے بادشاہ کا نام ارقم بن ابی الارقم تھا۔

وفاء الوفاء میں اوربھی بعض اقوال نقل کئے ہیں۔ مثلاً ایک قول یہ ہے کہ جب حضرت نوح کی اولاد دُنیا میں پھیلی توسب سے پہلے مدینہ کو یثرب میں قانیہ بن مہلاہیل بن ارم بن عبیل بن عوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام نے آباد کیا۔ اوراسی کے نام پر مدینہ کا نام پڑا اورایک اور روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے مدینہ میں یہودآبادہوئے اور بعد کو چند اہلِ عرب بھی اُن کے ساتھ مل جُل گئے لیکن صاحب وفاء الوفاء نے ان اقوال کو نقل کرکےلکھا ہے کہ۔

وذکر بعض اہل التواریخ ان قوما من العالقہ تکون قبلھمہ (قلت) وھوالہ رحج۔ بعض اہلِ تاریخ نے بیان کیا ہے کہ عمالقہ کی ایک قوم اُن سے پہلے مدینہ میں آکر آبادہوئی اورمیں کہتاہوں کہ یہی قول رائج ہے۔ یہود عمالقہ کے بعد یہودآباد ہوئے اُن کے آباد ہونے کے متعلق روائتیں ہیں۔(تاریخ الحرمین الشریفین۔ صفحہ ۱۷۲، ۱۷۳)۔

دفعہ ۲۔ صابیوں کی بابت روایات اوران کی قدرومنزلت

حضرت محمد کے زمانہ میں صابیوں کی کچھ عجیب کیفیت مذکور ہوئی ہے۔ ہمارے مسلم علماء کے بیانات صابیوں کی بابت عجیب وغریب آئے ہیں جس کو ہم اخبارالفقیہ امرتسر سے ذیل میں نقل کرتے ہیں۔ پڑھنے والے خودہی ان بیانات میں حق وباطل کا امتیاز کرسکتےہیں۔ ہم ان کی بابت زیادہ لکھنا ضروری خیال نہیں کرتے ہیں۔

۱۔ معلوم ہوکہ قرآن شریف میں صابیوں کا صرف تین جگہ ذکر آیاہے مگر بغیر تخصیص (خصوصيت)آیاہے۔ اس لئے ہم اسے بھی نقل کئے دیتے ہیں لکھاہے۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ(سورہ بقرہ ۶۲)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّابِؤُونَ(سورہ المائدہ ۶۸)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ (سورہ الحج ۱۷)

ان آیات میں لفظ صائبین عرب کے قدیم باشندگان کی بابت ہی آیا ہے۔ جو آنحضرت سے پیشتر تمام ملک عرب پر حکمرانی کرچکے تھے۔ مگر آنحضرت کے زمانہ میں وہ حالت زوال کو پہنچ کر اپنی قدیم شان وشوکت کوکھوچکے تھے۔ اور غالباً مسیحیت کو اختیار کرچکے تھے۔ کیونکہ مسلم بزرگ اُن کی بابت کچھ ایسے ہی بیانات لکھ گئے ہیں۔ جن سے پایا جاتاہے کہ صابی آنحضرت کے زمانہ میں مسیحیت کو اختیار کرچکے تھے۔ اوربہت تھوڑے لوگ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہ گئے تھے۔ چنانچہ صابیوں کی بابت مسلم تحریرات میں ذيل کے بیانات ملتےہیں۔جنہیں ہم اختصار (کوتاہی۔خلاصہ۔کمی)کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔

۱۔ صحیح بخاری مطبع احمید لاہور کے پارہ دوم میں ایک طویل روایت آئی ہے جو عنوان بالا پر صفائی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ہم ناظرین کرام کی آگاہی کے لئے اس کا اختصار پیش کرتے ہیں۔

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ تیمم کا بیان ۔ حدیث 341
راوی: مسدد , یحیی بن سعید , عوف , ابورجاء , عمر ان

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ قَالَ حَدَّثَنَا۔۔۔۔۔۔ وَالسَّبَّابَةِ فَرَفَعَتْهُمَا إِلَی السَّمَائِ تَعْنِي السَّمَائَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِکَ يُغِيرُونَ عَلَی مَنْ حَوْلَهَا مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَی أَنَّ هَؤُلَائِ الْقَوْمَ يَدْعُونَکُمْ عَمْدًا فَهَلْ لَکُمْ فِي الْإِسْلَامِ فَأَطَاعُوهَا فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ صَبَأَ خَرَجَ مِنْ دِينٍ إِلَی غَيْرِهِ وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ الصَّابِئِينَ فِرْقَةٌ مِنْ أَهْلِ الکِتَابِ يَقْرَئُونَ الزَّبُورَ

ترجمہ: مسد وبن مسرہد نے بیان کیا۔ کہاہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے۔ کہا ہم سے عوف نے۔۔۔ اُنہوں نے اس سے کہا کہاں چلو۔ اُنہوں نے کہا اللہ کے رسول صلے اللہ علیہ وسلم پاس۔ اُس نے کہا وہ تونہیں جس کو لوگ صابی(ايک دين سے پھر کر دوسرے دين ميں جانا) کہتے ہیں۔ اُس نے کہا اُنہیں کے پاس جن کو توسمجھے۔ آخر وہ دونوں اُس کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے (گھر آنے پر عورت کے رشتے داروں نے پوچھا) ارے فلانی تونے دیر کیوں لگائی۔ وہ کہنے لگی عجیب بات ہوئی۔ دوآدمی (راہ میں ) مجھ کوملے۔ وہ تجھ کو اُس شخص کے پاس لے گئے۔ جس کولوگ صابی کہتے ہیں۔۔۔۔۔ امام بخاری نےکہا صابی صبا نے نکالا گیا۔ صبا کے معنی اپنا دین چھوڑ کر دوسرے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا صائبین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھا کرتے ہیں۔

حاشیہ پر یوں آیاہے۔ اصل میں صابی اس کو کہتے ہیں جو اپنا دین بدل کر نیا دین اختیار کرے۔ عرب کے مشرک(بُت پرست۔شريک کرنے والے) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے۔چونکہ آپ اپنے باپ دادوں کا دین چھو ڑ کر توحید پر چل رہے تھے صفحہ ۳۴۔ ۳۷۔

مزید براں صحیح بخاری مطبع ایضاً پارہ سولہ میں ایک روایت آئی ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ امید اور سعد مکہ میں کعبہ کا طواف(چکر لگانا) کرتے ہوئے ابو جہل نے پالئے۔ یہ دونوں حضرت محمد کے صحابہ میں شامل تھے۔ ابو جہل اُن کو کہنے لگا۔ الا ارک تطوف بمکتہ امناً وقداوایتم الصباتہ ابوجہل نے سعد کو کہا کیا مزے سے بے ڈر ہوکرمکہ میں طواف کررہا ہے اور دین بدلنے والوں کو جگہ دی۔ حاشیہ پر یوں آیاہے۔

حدیث میں صباتہ ہے جو صابی کی جمع ہے۔ مکہ کے مشرک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کو صابی کہا کرتے۔جس کے معنی دین بدلنے والا صفحہ ۲۔

ہمعصر الفقیہ امرتسر مطبوعہ ۱۴فروری ۱۹۲۵ء میں ایک بحث کے ضمن میں صابیوں کی حسب ذيل کیفیت بیان کرتی ہے۔

صابی دو قسم کے ہیں۔ ایک قسم کافر ہیں اُن کا ذبیحہ حلال نہیں تفسیر احمدی میں ہے ھم صنفان صنف یقرون الزبور وبعیبد والمکتہ وصنف لایقرون کمتابا ویعبدون النجوم فھولا، لیسوامن اھل کتاب۔ یعنی ایک قسم تو زبور پڑھتے ہیں اورملائکہ (فرشتے)کی پوجا کرتے ہیں۔ ایک قسم کوئی کتاب نہیں پڑھتے اور ستاروں کی پرستش کرتے ہیں یہ لوگ اہل کتاب نہیں۔

صدیق حسن نے تفسیر فتح البیان صفحہ ۱۲۱ میں ابن تمیہ سے نقل کیا ہے۔ فان الصائبتہ نوعان صابئتہ حنفا موحدون وصائبتہ مشرکون یعنی صابیوں کی ایک قسم تو خفا موحد ہیں اورايک قسم مشرک ہیں۔

امام اعظم رحمتہ نے پہلی قسم کے صابی کا ذبحہ حلال قرار دیا ہے نہ دوسری قسم کا۔ فتاویٰ قاضی خاں صفحہ ۷۵۸ میں ہے۔ انھم صنفات صنف مھم یقرون ینوہ عیسیٰ علیہ السلام ویقرون الزبور فھمہ صنف من النصاروانما احباب ابوحنیفہ یحل ذبحیہ الصابی اذاکان من ھذاالصنف۔ یعنی صابی دو قسم ہیں۔ ایک قسم اول میں عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور زبور شریف پڑھتے ہیں وہ تو نصاریٰ ہیں اور ابوحنیفہ رحمتہ اللہ نے جوصابیوں کے ذبحیہ کی حلت (حلال ہونا)کا فتویٰ دیاہے اور اس وقت ہے جب وہ صابی اس قسم سے ہوں۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے معروف اورکتاب الہیٰ کے ماننے والے۔

ہدایہ کتاب النکاح صفحہ ۲۹۰ میں ہے۔ ویجوز تزوج الصابیات ان کا نوا یوممنون بدین ویقرون بکتاب لا نھمہ من اھل الکتاب وان کا نوا یعبد ون الکواکب ولا کتاب لھم تجزمنا کحتم لانھمہ مشرکون والخلاف المنقول فیہ محموں علیٰ اشتباہ مذھم فکل اجاب علیٰ ماوقع عندہ وعلےٰ ھذا حال ذبحیہ ھم انتھےٰ۔

یعنی صابی اگر دین رکھتے ہوں اور کتاب پڑھتے ہوں تو اُن کی عورتوں سے نکاح درست ہے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں اور اگر ستاروں کی پرستش کرتے ہوں اور کوئی کتاب اُن کےلئے نہ ہو تو اُن کی عورتوں کے ساتھ نکاح درست نہیں کیونکہ وہ مشرک (بُت پرست)ہیں اورجو خلاف امام اعظم وصاحبین پر منقول ہے وہ اُن کے مذہب کے مشتبہ(مشکوک) ہونے پرمحمول (لادا گيا)ہے۔ اُن کے ذبحیہ کا حکم یعنی امام اعظم رضی اللہ عنہ نے صابیوں کی اس قسم کو پایا جو اہل کتاب زبور پڑھتے ہیں تو آپ اُن کے ذبیجہ کی حلت کا فتویٰ دیا۔ صابین نے صابیوں کی دوسری قسم کو جومشرک تھی پایا اورممانعت (روک۔بندش)کا حکم دیا۔ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں۔

تفسیر اکلیل علیٰ مدارک التنزیل صفحہ ۲۱۹ میں بحوالہ تفسیر مظہری لکھاہے قال عمروابن عباس ھم قوم من اھل الکتاب یعنی حضرت عمروبن عباس فرماتے ہیں کہ صابی اہل کتاب کی ایک قوم ہے۔

تفسیر خازن صفحہ ۵۵ میں ہے قال عمر ذبا لحھم دباع اھل الکتاب یعنی حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کا ذبيحہ اہل کتاب کا ذبيحہ (قربانی کا جانور۔شرعی طور پر ذبح کيا ہوا جانور)ہے۔

۲۔ پیغام صلح لاہور مطبوعہ ۲۶ اپریل ۱۹۲۲ء میں ایک روایت حضرت عمر کی بابت حسب ذیل نقل کی گئی ہے۔

حضرت عمر ایمان لائے توپہلے اپنے ماموں کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُنہوں نے دروازہ کھولا توکہا تمہیں معلوم ہے میں صابی ہوگیا! وہاں سے ایک سردار قریش کے پاس آئے اور وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی۔ وہاں سے نکلے تو ایک آدمی نے کہا کہ تم اپنے اسلام کا اعلان کرنا چاہتے ہو؟ بولے ہاں۔اس نے کہا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ جب کفار خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس جمع ہوں تو تم وہاں جاؤ ان میں ایک آدمی ہے جو افشای راز میں بدنام ہے اُس کے کان میں یہ راز کہہ دو وہ اعلان کردے گا۔ اُنہوں نے خانہ کعبہ میں جاکر اُس کے کان میں کہا توبآواز بلند پکاراکہ عمر بن الخطاب صابی ہوگیا کفار دفعتہً ٹوٹ پڑے اور باہم زدوکوب ہونے لگی۔ بلآخر اُن کے ماموں نے اپنی آستین سے اشارہ کرکے کہا کہ میں اپنے بھانجہ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔اب کفاررُک گئے۔

نوٹ ۳۔ اسد انعابہ تذذ کرہ حضرت عمر

کتاب سیرت ہشام ترجمہ اُردو حسب فرمائیش رب الرحیم اینڈ بردرپسران مولوی رحم بخش تاجران کتب لاہور مسجد چینیانوالی۔ مطبوعہ رفاعہ عام سٹیم پریس لاہور میں حضرت عمر کی بابت لکھاہے۔

۳۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں عبداللہ بن عمر خطاب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ جب میرے (و) الدحضرت عمر اسلام لائے پوچھا کہ قریش میں ایسا کون شخص ہے جو ہر ایک جگہ خبر پہنچائے۔ کسی نے کہا کہ جمیل بن معمر حجمی اس کا کام ہے۔ پس میرے والد اس کے پاس گئے۔ عبداللہ کہتےہیں میں بھی اُن کے پیچھے ہولیا اورمیں دیکھتا تھا کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ پس اُنہوں نے جمیل کے پاس جاکر کہاکہ اے جمیل تجھ کوکچھ معلوم ہوا اُس نے کہا کیا۔ اُنہوں نے کہا میں اسلام لے آیا ہوں اورمحمد کے دین میں داخل ہوگیاہوں۔ عبداللہ کہتےہیں کہ پس قسم ہے خدا کی جمیل سنتا ہی اپنی چادر گھسیٹتا ہوا دوڑا اور حضرت عمر بھی اس کے پیچھے ہولئے اورمیں بھی اُن کے پیچھے تھا۔ یہاں تک جمیل خانہ کعبہ کے دروازہ تک آیا اور غل مچاکر کہا اے گروہ قریش عمر بن خطاب نے دین چھوڑ ديا۔ بلکہ میں نے اسلام قبول کیاہے اورمیں گواہی دیتاہوں کہ بے شک خدا کے سواکوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمد اُس کے بندہ اور رسول ہیں۔ عبداللہ کہتےہیں۔ قریش اس وقت اپنی اپنی جگہوں میں بیٹھے تھے۔ اس بات کو سنتے ہی سب حضرت عمر پر دوڑے۔ حضرت عمر نے بھی اُن کا بمردی ومردانگی خوب مقابلہ کیا مگر کہاں تک لڑتے آخر تھک کر بیٹھے اور قریش سے فرمایا کہ میں تو مسلمان ہوں۔ تمہارا جو دل چاہے سوکرو۔ اور وہ سب کے سب آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے کہ اتنے میں عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک بڈھا کالا جُبہ(چوغہ) پہنے ہوئے قریش میں آیا اورکہا کیا بات ہے۔ قریش نے کہا یہ بیدین ہوگیا ہے۔ اُس نے کہا پھرتمہارا کیا ہرج۔ ایک شخص نے اپنے واسطے ایک بات اختیار کی ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ عمر کی قوم کے عمر کے قتل ہونے سے تم سے کچھ باز پُرس(پوچھ گچھ) نہ کریگی۔ قسم ہے خدا کی وہ تمہیں ہرگز نہ چھوڑیگی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ اُس بڈھے کے یہ کہتے ہی وہ سب لوگ حضرت عمر کے گرد سے بادل کی طرح پھٹ گئے الخ صفحہ ۱۱۸ کی سطر ۱۱ سے ۲۸ تک۔

۴۔ ابن اسحاق کہتے ہیں فتح مکہ کےبعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کےسلیم بن منصور اورلالج بن مرہ کے قبائل کی فوج کے ساتھ دعوت اسلام کے واسطے قبائل عرب کی طرف سے روانہ فرمایا اور قتل وقتال کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب خالد فوج لیکر بنی حذیمہ بن عاصر بن عبدہ مناتہ بن کنانہ کے پاس پہنچے تو اُن لوگوں نے اُن کو دیکھ کر ہتھیار اٹھائے۔ اُنہوں نے اُن کو حکم کیاکہ ہتھیار سب ڈال دو۔ کیونکہ مسلمان ہوگئے ہیں۔

بنی حذیمہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ جب خالد نے ہم کو ہتھیار ڈالنے کا حکم کیا توہم میں سے ایک شخص حجدم نام نے کہا کہ اے بنی حذیمہ اگرتم نے ہتھیار ڈال دیئے تو خالد تم کو قید کرکے قتل کرینگے۔ میں تو اپنے ہتھیار نہ ڈالونگا۔ بنی حذیمہ نے کہا اے حجدم توہم سب کا خون کرانا چاہتاہے سب لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اور سب نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اورامن قائم ہوگیاہے۔ پھر ان سب لوگوں نے خالد کے کہنے سے ہتھیار ڈال دئیے۔ جب یہ لوگ ہتھیار ڈال چکے تب حضرت خالد نے اُن کی مشکیں باندھ کر چند لوگوں کو اُن سے قتل کردیا۔ جب یہ خبر حضور کو پہنچی آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے دعا کی اے پروردگار میں خالد کی کارروائی سے بری ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راوی کہتاہے کہ جب خالد اس قوم کے پاس آئے تو اُن لوگوں نے کہنا شروع کیا۔ صباناً صباناً یعنی ہم لوگ بے دین ہوگئے۔ اورہم نے اپنادین چھوڑ دیا۔ سیرت ابن ہشام صفحہ ۴۱۰ سے ۴۱۲ تک۔

مندرجہ صدربیان پر غور کرنے سے صابیوں کی بابت یہ حقیقت روز روشن کی طرح ظاہر معلوم ہوتی ہے کہ گو صابی زمانہ قدیم سے بُت پرست چلے آئے تھے۔ مگر حضرت محمد سے پیشتر اورآپ کے زمانہ میں وہ مسیحی مذہب اختیار کرچکے تھے۔ وہ مسیحی ہوجانے کے سبب سے بُت پرست ہمسایہ قبائل کی نظر میں بدنام ہوچکے تھے۔ بُت پرست قبائل کی نظر میں وہ دین ومذہب کےبدلنے والے مشہور ہوگئے تھے جیساکہ بیان مافوق سے ظاہر وثابت ہے۔ حتیٰ کہ جب حضرت محمد نے اور حضرت عمر نے آبائی مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اسلام کی منادی شروع کی تو بت پرستوں نے آپ کو صابی کہنا شروع کیا جس کے اُن کے نزدیک یہی معنی ہوسکتے تھے کہ حضرت محمد اور حضرت عمر نے آبائی مذہب بدل لیا ہے۔اگرچہ حضرت محمد اور حضرت عمر عیسائی ہونے کا اعتراف کرنے کی جگہ اسلام لانے کا ہی اعتراف کیا کرتے تھےتوبھی حضرت کے معاصرین مخالف آپ کو صابی ہی کہا کرتے تھے۔ یہ بات بعد کو دیکھی جائیگی کہ اسلام اور عیسائیت میں کیا رشتہ ثابت ہوسکتاہے فی الحال بیانات مافوق سے اس قدر حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں صابیوں اور عربی مسیحیوں کا باہمی رشتہ ضرور قائم ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے معاصرین صابیت اورمسیحیت اوراسلام میں مشکل سے فرق کیا کرتے تھے۔

دفعہ ۳۔ حنفاء یا حنفی کا بیان

تاریخ اسلام سے پتہ چلتاہے کہ حضرت محمد کی پیدائش سے پیشتر بت پرست عربوں میں ملت حنیف یا حنفیت رونما ہوئی تھی۔ جس کا قدیم تاریخ عرب میں کچھ سراغ نہیں ملاہے۔ صرف حضرت محمد کی پیدائش کے چند سال پیشتردین حنیف اورحنفاء کا سراغ ملتاہے۔

اگرمسلم روایات کی بناء پر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ بت پرست صابی اور حنفا واحد ملت کے ہی ماننے والے تھے۔ اعتقادی طور سے ان میں کچھ فرق نہ تھا۔ توبھی اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عرب کے حنفاء صابی ہوکر عرب کے قدیم مذہب کو ہی ماننے والے تھے۔ اور صابی حنفاء ہوکر حنفیت کے ماننے والے تھے۔ یہی مذہب قریش اورجملہ بت پرستان عرب کا تھا۔ تاریخ اسلام میں دین حنیف اورحنفاء کاحسب ذيل بیان آیاہے۔

۱۔ خادم العلماء محمد یوسف صاحب نے گذرے سال ایک کتاب بنام " حقیقتہ الفتہ" شائع کی۔ اس کتاب کے صفحہ ۳، ۴ پر ملت حنیف یا ملت ابراہیم حنیف اوراس کے ماننے والوں کی بابت ذیل کی عبارت آئی ہے۔

بالخصوص ملک عرب کے کفر وشرک ، بدعادت وشراب خوری، زناکاری ،قمار بازی(جُوا کھيلنا)، چوری غارتگری اور ظلم وزیادتی وغیرہ وغيرہ ان تمام مہنیات ومنکرات خلاف عقل ونقل کا مرکز بنا ہوا تھا۔جن کاوجود امم سابقہ میں فرداً فرداً پایا جاتاہے اوراہلِ عرب نہ اپنے دین سے خارج بلکہ دائرہ انسانیت سے گذر کر درجہ حیوانیت پر پہنچ چکے تھے اوراُن کے قبیلہ قبیلہ اور گھر گھر میں اور خاص خانہ کعبہ میں جہاں (۳۶۰) بُت رکھے ہوئے تھے خدایِ واحد کے سوا ملائکہ ، انبیاء اور صالحین سابقہ وغيرہ کی تصویروں اوربتوں کی عام پرستش ہوتی تھی اورہمیشہ لوگ اُن کی نذر ونیازمانتے تھے اورخُداوند تعالیٰ سے زیادہ ان سے ڈرتے تھے اور شجرہ حجر وغیرہ مخلوق پرستی کی بھی کوئی حد نہ تھی۔ ہر وقت ہر جگہ اُن کا کوئی نیامعبود ہوتا تھا اورعلاوہ اس کے اُن کے آباؤ اجداد نے دین میں نئے نئے اور فحش(قبل ِشرم) رسم وآئین اپنی طرف سےمقرر کرلئے تھے جن کے یہ سخت پابند تھے۔لیکن بایہنمہ مشرکین عرب خودکو ملتہ ابراہیم حنیفاً وما کان من المشرکین پر قائم سمجھ رہے تھے اور اپنے خود تراشیدہ مذہبی اصول وفروغ کو بالکل درست خیال کئے بیٹھے تھے۔

۲۔ ملتِ حنیف اور حنفاء کا رسالت محمدی سے پیشتر کے زمانہ سےمتعلق بیان۔جناب مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے رسالہ اشاعت الااسلام بابت ماہ اپریل ۱۹۲۰ء میں حسب ذیل الفاظ میں رقم فرمایاہے۔ آپ لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت (رسالت)سے چند ہی سال پیشتر بعض شخصوں نے جوکہ نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی عربوں کی بت پرستی اور توہمات کی سختی سے تردید کرنا شروع کی اورسنت ابراہیم علیہ السلام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان ہونا ظاہر کیا۔ حقیقت میں ملکِ عرب کو سدھارنے کی یہ آخری انسانی کوشش تھی۔ فرقہ حنیف باوجود عربوں کی پُرانی کہاوتوں کا احترام کرتے ہوئے وحدانیت الہیٰ کو قائم کرنا چاہتا تھا۔ چاہے کوئی باہرکا اثر اس پر ہوا یا نہ مگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ سلسلہ محض ملکی تھا۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھاجہاں تک ممکن ہو عربوں کی رسموں وغيرہ سے کوئی تعرض نہ کیا جائے حقیقت میں وہ صرف چاہتے تھے کہ بُت پرستی کسی طرح سے دور ہوجائے۔ مگر اُن کو بھی ناکامی ہوئی۔۔۔۔ فرقہ حنیف کا سنت ابراہیم پر عمل کرنا اور پُرانی باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا غرضیکہ تمام باتیں بے سود ہوئیں۔۔۔۔ اسی طرح فرقہ حنیف نے ایک توحید کے مذہب کا وعظ شروع کیا جو سنت ابراہیم کو ازسرنو زندہ کرنے کا دعویدار تھا اور عربوں کی پُرانی رسموں کہاوتوں کی ہر طرح تعظیم کرتا تھا۔ مگر اس کا بھی دوسروں جیسا حشر ہوا اوریہ اُن سے بھی جلدی مفقود(غائب) ہوگیا کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ ان الفاظ نے جن کی یہودی اور عیسائی سینکڑوں سال تک منادی کرتے رہے ایک بھی انسانی روح کو پاک اور صاف نہ کیا۔ الخ صفحہ ۱۸۲، ۱۸۳۔

۳۔سیرت ابن ہشام مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء میں ابن اسحاق کے قول کے موافق اشعار ذیل ابوصلت بن ازبیقہ ثقفی کے ہیں جو اُس نے فیل کے حالات اور دین ابراہیم کے متعلق کہے ہیں۔

ترجمہ:ہمارے رب کے دلائل واضح وروشن ہیں۔ سوائے کافروں کے کوئی اُن میں جھگڑا نہیں کرتا۔ اللہ نے رات ودن پیدا کئے کہ ہر ایک حساب وانداز سے چل رہاہے۔پھر رب مہربان سورج کےذریعہ سے جس کی شعاعیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ دن کو روشن کرتاہے۔ابرھ کے ہاتھی کو مغمس میں بند کردیاکہ مکہ پرحملہ نہ کرسکے گا گویايہ کہ اس کےہاتھ پاؤں ہی کاٹ دئیے گئے ہیں۔ اگرچہ اُس کے گرد سلاطین کندہ کے بہادر آدمی جو لڑائيوں میں باز کا ساکام دیتے تھے اور اُس کو اشتعال(غُصہ۔بھڑکانا) دیتے تھے۔ آخر جب ہاتھی نے نہ مانا تو ناچار اُنہوں نے اُس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا اور آپ سب بھاگ گئے اور ہرایک پنڈلی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ تمام مذاہب قیامت کے روز سوایِ دین حنیفہ(مذہب توحید ابراہیمی )ہلاک وتباہ ہونگے۔

۴۔ سیرت ابن ہشام میں آیاہےکہ " ابن ہشام کہتاہےکہ بعض اہل علم سے روایت ہے کہ عمروبن لحن مکہ سے کسی ضرورت کے واسطے شام کو گیا۔ جب بلقاء کی زمین میں ایک مقامی مسمی مآب پر پہنچا تو وہاں کے باشندوں کو جوعمالیق کہلاتے تھے بتوں کی پرستش کرتے پایا (یہ عمالیق عملاق یا عملیق کی اولاد ہیں جو لادذبن سام بن نوح کی اوالاد سے تھا) عمر نے اُن سے پوچھا یہ کیسے بُت ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ اُنہوں نے کہا یہ ایسے بُت ہیں کہ جب ہم ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔ اورجب ان سے مددمانگتے ہیں تو مددیتے ہیں۔ عمرو نے کہا کیا آپ ان سے ایک بُت مجھے نہیں دے سکتے کہ میں اسے عرب میں لے جاؤں تاکہ وہاں کے لوگ ان کی عبادت کریں اُنہوں نے اس کو ایک بُت دیدیا جس کا نام ہبل تھا۔ اُس نے اُسے مکہ میں لا کر نصب کردیا۔ اور لوگوں کو اُس کی عبادت وتعظیم کا حکم دیا۔ابن اسحاق کہتاہےکہ جب اول ،او ل مکہ میں بنی اسماعیل کے درمیان پتھروں کی عبادت شروع ہوئی تو اُن کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص سفر میں جاتا توپتھر کو اپنے ساتھ لےجاتا اوراُس کو اپنی قضأ حاجات کا وسیلہ خیال کرتا اورجہاں جاکر مقام کرتا وہاں اس کو نصب کردیتا اوراُس کے گرد طواف کرتا اوراُس کی تعظیم وتکریم(عزت کرنا) کرتا۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اُن کو پتھروں کے اٹھانے سے تکلیف محسوس ہونے لگی تو اُن کو ساتھ لے جانا چھوڑ دیا۔وہ جہاں جاتے وہاں کسی خوبصورت پتھر کولیکر اُس کے گرد طواف (چکر لگانا)وغیرہ رسوم ادا کرلیتے۔ اس حال پر کئی نسلیں گذرگئیں یہاں تک اخیر نسلوں کا اسی بت پرستی پر پورا پورا اعتقاد(يقين) ہوگیا اور ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کے اصل دین کو بھول گئے۔ ہاں چند باتیں ابراہیمی مناسک(حاجيوں کی عبادت کے مقامات) کی مثل تعظیم بیت اللہ ، طواف خانہ ، کعبہ ، حج،عمرہ ، عرفہ میں کھڑے ہونا مزدولفہ میں ٹھہرنا۔ قربانی ، حج وغيرہ کا احرام باندھنا ان میں باقی تھیں اور رسول اللہ کی بعثت (رسالت)کے وقت قبیلہ کنانہ وقریش احرام کے وقت کہا کرتے تھے اللّهُمَّ لَبَّیْکَ، لَ بَّیْکَ لا شَرِیکَ لَکَ الا شَرِیکَ ھُو لَکَ تملکہ وَماَ مَلَکَیعنی یاالہیٰ ہم بدل وجاں تیری خدمت میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگرایک تیرا شریک ہے جس کا تومالک ہے اوران چیزوں کا بھی توہی مالک ہے۔ گویا خدا کی توحید کا اقرار بھی کرتے تھے پھر اپنے بتوں کی بھی اس میں داخل کرتے تھے اور اس کی ملکیت بھی خدا کے قبضہ میں سمجھتے تھے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔وما یومن اکثر ھمہ باللہ الاوھم مشرکون یعنی اللہ کو مانتے بھی ہیں پھر اُس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ قوم نوح بھی بُت پرستی کیا کرتی تھی۔ جس کی خبر خداوند تعالیٰ نے قرآن کی آیت ذیل دی ہے۔

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ترجمہ کہتےہیں کہ اپنے معبودوں کو مت چھوڑو اورنہ دو وسواع ویغوث ویعوق ونسر کوترک کرو اوروہ لوگ جو ان پانچ بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ وہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے الخ صفحہ ۲۴، ۲۷ تک۔

۔ سرسید احمد حاں مرحوم تاج العروس شرح قاموس کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔

یعنی بُت پرست لوگ ایام جاہلیت میں دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حنیف ہیں اورابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہیں جب مذہب اسلام کا ظہور ہوا تو مسلمانوں کو بھی حنیف (حضرت ابراہيم کے دين کو ماننے والے۔مذہبی عقيدے کا پختہ)کہنے لگے۔ اخفش نے کہا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ ختنہ کرتے تھے اورکعبہ کا حج کرتے تھے اُن کو حنیف کہتے تھے۔ کیونکہ اس زمانہ میں عرب کےلوگوں نے سوایِ ختنہ اورحج کعبہ کے ابراہیمی مذہب میں سے کوئی چیز اختیار نہیں کی تھی۔ زجاجی کہتاہےکہ عرب جاہلیت ان لوگوں کو جو کعبہ کا حج کرتے تھے اورجنابت کے بعد غسل کرتے تھے اوران میں ختنہ کی رسم بھی جاری تھی۔ حنیف کہتے جب اسلام شروع ہوا تو مسلمانوں کو بھی حنیف اس لئے کہنے لگے کہ وہ شرک سے باز رہے تھے۔ آخری مضامین صفحہ ۱۰۱۔

۶۔ خلیفہ مامون کے زمانہ کا ایک عربی مسیحی لکھتاہے کہ:

پس ابراہیم اپنے باپ دادؤں اور شہر والوں کے ساتھ اس بت کی پرستش کیا کرتا تھا اوراس پرستش کو حنیفی کہتےہیں۔ جیساکہ تونے اے حنیفی خود اقرار کیا اوریہ گواہی دی کہ " اللہ کی اُس پر تجلیہ ہوئی اور جب وہ اُس پر ایمان لایا اوراُس کے وعدے کو سچا جانا تویہ فعل اُس کے حق میں صداقت سمجھا گیا (پیدائش ۱۵) اورحنیفی مذہب کو اس کہ مراد اس سے بتوں کی بندگی ہے چھوڑ کر موحد(ايک خُدا کو ماننے والا) اورایماندار ہوگیا۔ کیونکہ کتب منزلہ میں ہم نے دیکھا کہ حنفیت بُت پرستی کو کہتےہیں۔ عبدالمسیح ولد اسحاق کندی اردو صفحہ ۳۵، ۳۸، ۳۹،۔ کتاب ایضاً عربی صفحہ ۴۱، ۴۲، ۴۶، کتاب ایضاً فارسی صفحہ ۶۱، ۶۵، ۶۶ اب اگر مافوق بیانات کا کچھ بھی اعتبار کیا جائے تو لفظ حنیف اوراس کے مشتقاق کے معانی ومطالب کا ہمیشہ کےلئے جھگڑا ختم ہوجاتاہے اور ماننا پڑتاہے کہ عرب کے حنفاء وہ لوگ تھے جو بُت پرستی کرتے تھے۔ اُن کی بُت پرستی کا نام حنفیت یا وغیرہ تھا۔ ان معانی کا انکار کرنا گویا تاریخ اسلام کی ایک بڑی حقیقت کا انکار کرنا ہوگا۔ ہم اس پر زیادہ کچھ بھی بڑھانا پسند نہیں کرتے۔ حقائق متعلقہ صابیت وحنفیت بیان مافوق میں موجود ہیں۔ ہرایک ناظر اسے دیکھ کر اپنے لئے کوئی بہتررائے قائم کرسکتاہے۔

۶۔ لفظ حنیف اوراس کے مشتقا ق کے معنی

بیان ماقبل میں جوبیان نذر ناظرین ہوچکاہے گواس سے لفظ حنیف کے معنی واضح ہوچکےہیں مگر مسلم تحریرات میں لفظ حنیف اورحنیفت اورحنفاء کے معنی مندرجہ ذیل بھی آتے ہیں جو ناظرین کرام کے غور وخوص کےلئے لکھے جاتے ہیں۔

۱۔ عربی کی مشہور لغت کے حوالے سے جسے قاموس کہا جاتاہے ایک دفعہ مسٹر غازی محمود دھرم پال نے اپنے رسالہ المسلم لودیانہ جلد دوم صفحہ ۵۵ بابت ماہ مئی ۱۹۱۵ء کے صفحہ پر لکھا تھاکہ قاموس میں الحنیف کے معنی قائل الاسلام۔ الثابت علیہ۔ ونحل من ، حج ، اوکان علی دین ابراہیم علیہ السلام کےآئے ہیں۔

۲۔ تفسیر اتفاق حصہ اول صفحہ ۳۰۸ پر حنیفاً لفظ کے معنی حاجاً کے گئے ہیں۔ صفحہ ۳۸۱ میں ابن المنذر السدی سے روایت کرتاہےکہ قرآن میں جہاں کہیں حنیفاً مسلماً اور حس جگہ حنفاء ملمین آیاہے وہاں حج کرنے والے لوگ مُراد ہیں۔

۳۔ تفسیر حسینی کا مصنف سورہ بینہ اور روم کی تفسیر کرتاہوا لفظ حنفا ء کے معنی ببل کرنے والے باطل عقیدوں سے دین اسلام کی طرف کے کرتاہے۔

۴۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہےکہ ملت حنیف یہودیت وعیسائیت کا غیر تھی۔ جیساکہ لکھاہے وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا یعنی اورکہتےہیں کہ ہو جاؤ یہودی یا عیسائی تو راہ پاؤ گے تو کہہ دے بلکہ پیری کی ہم نے ابراہیم حنیف کی ملت کی (سورہ بقرہ ۱۳۵)۔

۵۔ ان ذات الدین عنداللہ الحنفیتہ غير الیہود الاالنصر انبتہ۔ یعنی تحقیق دین نزدیک اللہ کے خفیت ہے جو یہودیت اور عیسائیت کا غیر دین ہے۔ تفیسر اتقان جلد دوم صفحہ ۶۴۔

۶۔ حضرت محمد کی بابت بھی آیاہےکہ آپ یہودیت ونصرانیت کے ساتھ مبعوث نہیں ہوئے بلکہ حقیقت کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ جیسا کہ لکھاہے

فقال رسول اللہ صلے اللہ علیہ السلام انی المہ البعثت با لییھودیتہ ولا بالنصر انیتہ ولکن بعث بالحنفیتہ۔ الخ۔ یعنی روایت ہے ماسہ سے۔۔۔پس فرمایا رسول خدا نے کہ تحقیق میں نہیں بھیجا گیا ساتھ یہودیت او رنصرانیت کے ولیکن بھیجا گیاہوں ساتھ خفیت کے الخ مظاہر الحق جلد سوم چھاپہ نولکشور صفحہ ۳۵۷۔

جوکوئی بیان مافوق پرگہری نظر ڈالے گا اس پر لفظ حنیف وخفیت اور ملت ابراہیم حنیف اورحنفاء کی بابت یہ امر روزِ روشن کی طرح ظاہر واضح ہوجائے گا کہ لفظ حنفا کے معنی صرف واحد خدا کے پرستاروں کے نہیں ہوسکتے حنفا حنفیت کے معتقدوں او رپیروکاروں کا نام تھا۔ زمانہ نبوی سے پیشتر حنفاء عرب میں موجود تھے جویہودیت وعیسائیت کے مخالف دین حنیف کےماننے والے تھے جو دین یہودیت وعیسائیت کا حضرت محمد کے زمانہ سے پیشتر مخالف تھا اے موحدین کا دین قرار دینا بالاشک مشکل ہے اس بات کو مانا جاسکتاہے کہ حضرت محمد کے زمانہ سے پیشتر دین حنیف کوماننے والوں میں واحد خدا کے ماننے والے بھی ہونگے لیکن مسلم علماء کے بیان مافوق کو روبرو رکھتے ہوئے ہر ایک دین حنیف کے ماننے وا لو ں ميں واحد خدا کا پرستار خیال کرنا دشوار امر (مشکل کام)ہے۔ پس اگربیان مافوق کی سندات کےکچھ بھی معنی ہوسکتے ہیں تویہی ہوسکتے ہیں کہ زمانہ نبوی سے پیشتر بنی اسرائیل کا جو مذہب ودین تھا اسی کا نام دین حنیف یاملت ابراہیم حنیف تھا اسی دین کوماننے والے اسماعیلی حنفاکہلاتے تھے جن کی حنفیت میں ہر قسم کی مکروہات داخل تھی جس کا بیان صابی مذہب کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے اور حضرت اسماعیل کی عربی اولاد اسی حنفیت کو مانتی ہوئی یہودیت وعیسائیت سے برسرِ پیکار(لڑائی) رہتی تھی۔ ان ہردوالہامی مذاہب کے تابع ہونا پسند نہ کرتی تھی۔ غالباً یہودیت وعیسائیت کی باہمی مخالفت عرب کے حنفاء کو اپنی حنفیت پر قائم رہنے کےلئے زیادہ مددگار تھی۔

آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ کومبذول (لگايا گيا۔لگانا)فرمانا چاہیے کہ آنحضرت کی نسبت جو لکھا گیا ہے کہ آپ یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ معبوث نہیں ہوئے بلکہ حنفیت کےساتھ معبوث ہوئے ہیں یہ بات کہاں تک قابلِ اعتماد ہوسکتی ہے؟ ہم اس کا یہاں پر فیصلہ پیش نہیں کرسکتے مگر آنحضرت کی زندگی اور کام کے حالات میں اس کی حقانیت یا عدم حقانیت پر روشنی ڈالینگے۔ یہاں پر اس قدر گذارش کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر حنفیت حضرت اسماعیل کی نسل کے دین کانام تھا تو آنحضرت کا ملتِ حنفیت پر پیدا ہونا ضرور تسلیم کیا جاسکتاہے لیکن آنحضرت کی بابت یہ بات ہرگز قابلِ اعتماد نہیں ہوسکتی کہ آنحضرت نے حنفیت میں پیدا ہوکر تمام عمر حنفیت ہی کی تائید وتصدیق میں وعظ ونصیحت فرمائی اوریہودیت وعیسائیت کی عمر بھر تردید وتکذیب(جھٹلانا) ہی کی۔ کیونکہ اسلام کی معتبر روایات سے اس مسلمہ کی ہرگز تصدیق نہیں ہوسکتی ہے۔

ہم اس بات کا خوشی سے اعتراف کرلیتے ہیں کہ آنحضرت سے پیشتر حنفیت کا مرکز مکہ شریف کاکعبہ تھا جس میں حنفاء کے ۳۶۰معبود موجود تھے۔ اس کعبہ کا حج مردوعورت حالت برہنگی میں کیا کرتے تھے اوراُن کی نمازیں سیٹياں اور تالیاں بجانا ہوتی تھیں۔ جیسا کہ لکھاہے کہ وَمَا كَانَ صَلاَتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاء وَتَصْدِيَةً اورنہ تھی نماز اُن کے نزدیک کعبہ کے مگر سیٹياں اور تالیاں بجانا۔(سورہ انفال آیت ۳۵)۔پس ہم اسلام کی بہتر روایات کی بناء پر حنفیت وحنفاء کی نسبت یہ خیال کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ کل حنفاء آنحضرت سے پیشتر ہرگز واحد خدا کے پرستار نہ تھے اورنہ ملت ابراہیم حنیف کے معنی واحد خدا کی پرستش پر محدود تھے۔

ساتویں فصل

عرب کے حنفاء میں حنفی رسول کی آمد کی انتظاری

عرب میں یہودیت وعیسائیت کا سخت غلبہ(فوقيت۔برتری) تھا۔ یہ دونوں مذاہب مسیح ِموعود کی آمد کے سخت منتظر تھے۔ ہر دومذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی عالمگیر فتح مسیح موعود کی تشریف آوری پر منحصر کررہے تھے۔ یہودی مسیح موعود کی پہلی آمد کا انتظار کرتے تھے مگر عیسائی اُسے سیدنا مسیح کی دوسری آمد یقین کرتے تھے۔ اُن کی اصولی کتابوں میں مسیح موعود کی آمد کے متعلق کثیر بیان آیاہے۔ اس وجہ سے یہودیوں اورمسیحیوں کا اعتقاد مذکور نہ صرف انہیں میں عام تھا بلکہ اُن کے اس اعتقاد کا علم عرب کے حنفاء کو بھی تھا۔ اُنہوں نے بھی مسلم روایت کے موافق ایک حنفی رسول کی آمد کا خیال قائم کرلیا تھا۔ یہودیوں اور عیسائيوں کے پاک نوشتوں میں مسیح موعود کی بابت ذیل کا بیان موجود تھا۔ مثلاً:

۱۔ جوج اورماجوج کی بابت دیکھو حز قی ایل ۳۷باب سے ۳۹ باب تک ۔مکاشفہ ۲۰: ۷ تا ۱۰۔ مخالف مسیح یا مسیح الدجال کی بابت دیکھو متی ۲۴: ۵، ۱۱ ، ۲۴ کو اور ۲ تھسلنیکیوں ۲: ۳، ۱۸۔ ۱۰ تک سیدنا مسیح کی دوسر ی آمد کی بابت لکھاہےکہ وہ اچانک آئے گا۔۱تھسلنیکیوں ۵: ۱۔ ۵۔ مکاشفہ ۱۶: ۱۵۔ کہ وہ نوح کے طوفان کی طرح اچانک آئے گا۔ متی ۲۶: ۳۷۔ ۳۹۔ لوقا ۱۷: ۲۶۔ ۲۷۔ کہ وہ صدوم وعمورہ کی ہلاکت کی طرح اچانک آئے گا لوقا ۱۷: ۲۸۔ ۳۰ تک کہ وہ بجلی کی طرح اچانک آئے گا متی ۲۴: ۲۷کہ وہ شخصی طور سے آئے گا۔ مرقس ۸: ۳۸ ، ۱۳: ۲۶۔ فلپیوں ۲: ۱۶۔ ۳: ۲۰۔ ۱تھسلنیکیوں ۲: ۱۹۔ ۲۰ ،طیطس ۲: ۱۳، اعمال ۱: ۱۱۔ ۱کرنتھیوں ۴: ۵، عبرانیوں ۹: ۲۸۔ کہ وہ مسیحی ایمانداروں کو اجر دینے آئے گا یوحنا ۱۶: ۲۲ کلسیوں ۳: ۳۔ ۴۔ ۲تمھيس ۴: ۸ عبرانیوں ۹: ۲۷۔ ۲۸۔ کہ وہ مسیح الدجال کو فنا کرنے آئے گا ۲تھسلنیکیوں ۲: ۸تا ۱۰ تک کہ وہ شیطان کو قید کرے گا مکاشفہ ۲۰: ۱تا ۶ تک کہ اُس کے آنے کا وقت نامعلوم رکھا گیا ہے متی ۲۴: ۳۶، اعمال ۱: ۱۱ اورکہ وہ بادلوں پر آئے گا اوراُس کے آنے پر نرسنگا پھونکا جائے گا اور کہ وہ فرشتوں کے ساتھ آئے گا اور زمین پر عدل وانصاف کرے گا۔ ان تمام باتوں کا ذکر کتب ِمقدس میں مذکور ہے۔ یہ تمام باتیں عام طور سے عرب کے یہود ونصاریٰ میں مسلمہ تھیں جسے عرب کے حنفاء (حضرت ابراہيم کے مذہب کے لوگ )بھی جانتے ہونگے۔

۳۔ راویوں کے بیان کا حنفی رسول۔

اسلامی روایات کے راویوں نے اپنی روایات وضع کرنے میں ایک بات کا ضرور خیال کیا اور وہ یہ تھاکہ وہ حضرت محمد کو یہودیوں اور عیسائیوں کا مسیح موعود (وعدہ کيا ہوا)بنا کر دکھانا چاہتے ہونگے۔ اس بات کی تکمیل کےلئے اُنہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کی زبانی ایسی روایات ضرور وضع کیں جو حضرت محمد کو اپنی زبانی اُن کی حنفیت(سچائی) کا وہ نبی موعود بنا کردکھائیں جس کی یہود ونصاریٰ بلکہ دیگر عربوں کو بھی انتظاری تھی۔ کچھ روایات پیشتر نقل ہوچکی ہیں۔ باقی اختصار(مختصر) کے ساتھ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔

ابنِ ہشام لکھتاہے : ابن اسحاق کہتےہیں ربیعہ بن نصریمن کا بادشاہ تھا ایک دفعہ اس نے ایک ہولناک خواب دیکھا جس کے دیکھنے سے اُس کو ازحد پریشانی اور خوف وہراس پیدا ہوا اور اس نے اپنی سلطنت کے تمام کاہنوں اور ساحروں(جادوگروں) اورنجومیوں اور عايفوں(یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر حال بتلاتے ہیں ) کو بلا کر کہا کہ میں نے ایک پریشان خواب دیکھا۔ تم لوگ اس کی تعبیر بیان کرو۔ ان سب لوگوں نے بیان کیاکہ آپ خواب بیان کیجئے ہم اس کی تعبیر دینگے۔ بادشاہ نے کہا میں خواب نہیں بیان کرونگا ہر شخص تعبیر کا دعویٰ کرتاہے۔ اُس کو خواب بھی خود بیان کرنی چاہیے اور میرا اطمینان اُس شخص کی تعبیر سے ہوگا جوخواب کا مضمون بھی ادا کرے گا اس وقت ایک شخص نےکہا کہ اے بادشاہ اگر آپ کا یہی ارادہ ہے تو سطیع ومشق (دوشخصوں کے نام ہیں ) کو بلاناچاہیے کہ ان دونوں سے بڑھ کر دوسرا کوئی آدمی اس زمانہ میں موجود نہیں۔ وہ آپ کی خواب وتعبیر ہر دوبتلاسکینگے" سطیع کا دوسرا نام ربیع بن ربعیہ بن مسعود بن مازن بن ذئب بن عدی بن مازن بن حسان ہے۔ اور شق صعب بن یشکر بن رحمم بن افرک بن قیس بن عبقربن انماء بن نزار ہے اور اتمارکی کنیت ابو بجیلت وخشعم ہے۔ ابن قسام کہتاہے کہ اہل یمن کے قول کے مطابق اتمار بن اراش بن لحیان بن عمروبن الغوث بن نابت بن مالک بن زید بن کھلا ن بن سبا ہے۔ اورکہتے ہیں کہ اراش بن عمروبن لحیان بن الغوث ہے" غرضیکہ بادشاہ نے دونوں کو بلا بھیجا مگر سیطح شق سے پہلے آحاضر ہوا۔ بادشاہ نے سیطح سے کہا کہ میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے میں چاہتاہوں کہ تم اس خواب کو بمع اس کی تاویل (دليل)کے بیان کرو کہ اس کام کےلائق تم ہی بیان کئے جاتے ہو۔ اُس نے کہا اے بادشاہ اب آپ نے ایک آگ دیکھی ہے جو تاریکی سے نکل کر زمین پر پھیل گئی ہے اور ہر حیوان کو کھا گئی ہے۔ بادشاہ نے کہا اے سطیح واقعی تونے سچ کہا ہے۔ یہی میری خواب ہے۔ اب اس کی تعبیر وتاویل بیان کیجئے۔ کہا آپ کی سلطنت پر اہل حبش حملہ کرینگے اوریمن سے لے کر جرش تک فتح کرینگے۔ بادشاہ نے کہا یہ تو بڑی دردناک بات ہے۔ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ یہ واقعہ میرے زمانہ میں ہوگا یا میرے بعد۔ کہا آپ کے ساٹھ یا ستر سال بعد۔ پوچھا کہ اہل حبش کی بادشاہی ہمیشہ رہیگی یا منقطع (ختم)ہوجائے گی۔ کہا کہ ستر اسی سال کے درمیان منقطح ہو جائے گی۔ بعض ان میں سے قتل کئے جائینگے اور بعض بھاگ جائینگے۔ پوچھا اُن کو کون قتل کرے گا اور کون نکالیگا کہا کہ قوم ارم جو عدن سے نکلیگی ان کو یمن سے نکال دیگی اور ان میں سے کوئی فردیمن میں نہیں چھوڑیگی۔ پوچھا کہ کیا اس قوم ارم کی بادشاہی ہمیشہ رہیگی یا منقطع ہوجائے گی کہا کہ وہ بھی جاتی رہیگی۔ پوچھا ان کوکون نکالے گا کہا ایک پاک نبی محمد رسول اللہ جس کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہوگی۔ پوچھا وہ نبی کس قبیلہ سے ہوگا کہا کہ غالب بن فہر بن مالک بن نفر کی اولاد سے ہوگا۔ پھر یہ سلطنت اُس کی قوم میں قیامت تک رہیگی۔ پوچھاکہ زمانہ کا خاتمہ ہوگا۔ کہاہاں۔ اس وقت اول وآخر سب جمع ہونگے اورنیکو کاروں کو نیک بدلہ ملیگا اوربدکاروں کو بُرا۔ پوچھا کیا جو کچھ تونے مجھ کو بتایا ہے سب سچ ہے۔کہا کہ خالق لیل ونہار(رات اور دن) کی قسم ہے کہ جوکچھ میں نے بتلایا ہے بالکل سچ درست ہے۔ اس کے بعد دوسرا منجم(نجومی) شق حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اُس سے بھی ویسا ہی سوال کیاجیساکہ سطیح سے کیا تھا اورہ نہ بتلایا کہ میں پہلے اس معاملہ کو سطیح کے سامنے پیش کرچکا ہوں تاکہ معلوم کرلے کہ آیا دونو ں اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف۔ شق نے کہا اے بادشاہ آپ نے ایک آگ دیکھی ہے جو تاریکی سے نکلی ہے اورہر ایک سرسبز وخشک میدان میں لگی ہے اور ہرذی حیات کو کھاگئی ہے۔ بادشاہ نے کہا بے شک اے شق یہی بات ہے۔ اب بتلاؤ کہ اس کا نتیجہ کیا ہے۔ کہاکہ بخدا آپ کی زمین پر حبشیوں کا غلبہ ہوگا اوربایمن سے لے کر نجران تک قابض ہوجائینگے۔ بادشاہ نےکہا یہ توبڑی نا امیدی کرنے والی اور خوفناک خبر ہے۔ بھلا یہ توبتلاؤ کہ یہ واقعہ میرے زمانہ اورمیری زندگی میں ہوگا یا میرے بعد کہا آپ کے بعد۔پھر اہل حبش پر ایک اور قوم عظیم الشان غالب آئیگی۔ پوچھا وہ کون ہونگے۔ کہاکہ قوم ارم آکر اُن کو ہلاک کریگی۔ پوچھاکہ کیا اس کی سلطنت ہمیشہ رہیگی یا منقطع ہوجائے گی کہا کہ اُن کی سلطنت ایک رسولِ خدا کے آنے سے منقطح ہوجائے گی۔ جس کی قوم کےقبضہ میں یہ ملک ابدآلاباد تک رہے گا اور قیامت تک یہی قوم اس پر تسلط رہیگی۔ پوچھاکہ قیامت کا دن کیا ہوگا۔ کہاکہ قیامت تک یہی قوم اس پر تسلط رہیگی۔ پوچھاکہ قیامت کا دن کیا ہوگا۔ کہا کہ قیامت کا روز وہ ہے جس میں اولین وآخرین کے مقدمات فیصل(فيصلہ ہونا) ہونگے۔ اورہر نیک وبد اپنے کیفر کردار (انجام کوپہنچنا)کو پہنچیگا۔ پوچھاکہ جو کچھ تونےکہا ہے آیا واقعی درست وحق ہے۔ کہاکہ خالق ارض وسما (زمين وآسمان)کی قسم کہ یہ واقعات بےکم وکاست(بغير کمی بيشی) برحق ہیں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ ۵، ۶)۔

۲۔ ابن اسحاق کہتاہےکہ اُس نے یمن سے مدینہ تک ایک سڑک بنوائی تھی جس پر آیا جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مدینہ میں اپنا لڑکا چھوڑ گیا اور وہ کسی دھوکے سے قتل کیا گیا۔ پس تبع آخر (یعنی بتان اسعد ابوکرب) نے مدینہ اور اہل مدینہ کی بیخ کنی( جڑ سے اُکھاڑنا) کا ارادہ کیا۔ اس پر مدینہ کے ایک قبیلہ انصار نے جن کا رئیس وافسر عمروبن طلہ تھا۔ اُس کا مقابلہ کیا۔ یہ عمرو بن طلہ بنی نجار کا بھائی ہے اور بنی عمروبن مبذول کی اولاد سے ہے۔ مبذول کا دوسرا نام عامر بن مالک بن النجار ہے اور نجار کا دوسرا نام تمیم اللہ بن ثقلبہ بن عمرو بن الخز زج بن حارثہ بن ثعلبہ بن عمروبن عامر مالک بن النجار ہے۔ اور طلہ اوراُس کی والدہ عامر بن زریق سن عبدحارثہ بن مالک بن عقب جشم بن الخرزج ہے۔ ابن اسحاق کہتاہے کہ بنی عدی بن الجبار میں سے ایک شخص نے جس کا نام احمر تھا تبع کے آدمیوں میں سے ایک شخص پر حملہ کیا تھا اور اُس کومار ڈالا تھا وجہ یہ تھی کہ اس شخص نے تبع کےآدمی کو اپنے کھجوروں کے باغ میں کھجوریں توڑتا ہوا پایا اور اپنی درانتی سے وہاں ہی اس کا کام تمام کردیا اورکہا (انما المترطن ابرہ) یعنی کھجور پیوند لگانے والے کا حق ہے نہ تیرا اس بات سے تبع کا غضب اس قوم پر اوربھی بڑھ گیا اور دونوں طرف اصحاب تبع واصحاب عمروبن طلہ سے لڑائی کا بازار گرم ہوگیا۔ انصار صبح کےوقت ان سے مقابلہ کرتے تھے اوررات کو اُن کی اطاعت کا اقرار کرلیتے تھے انصار کے سردار عمروبن طلہ یہ بات نہایت پسند آتی تھی اورکہتا بخدا ہماری قوم غالب آکر رہیگی۔ اسی اثناء میں جبکہ تبع وعمروبن طلہ کے اصحاب کے مابین لڑائی کی آگ لگی ہوئی تھی۔ بنی قریظہ کے یہودیوں کے دوعالم جو اپنے علم میں راسخ وجید(پکا، مضبوط،کھرا) تھے تبع کے پاس آئے۔ (یہ بنی قریظہ اور نصیر والتحام اور عمروبن الخزرج یہ تمام ابن الصریح ابن اکتومان جن السیط بن الیسع ابن سعد بن لادی بن خیر بن التحام بن تنخوم بن عارز بن عزری بن ہارون بن عمران بن یصر بن قاہت بن ہوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد سے ہیں اورکہا اے بادشاہ مدینہ اور اہل مدینہ کی ہلاکت کے ارادہ سے باز آ۔ اگر آپ اس سے باز نہ آئینگے اورہماری اس ناچیز نصیحت وخیر خواہی کو قبولیت کے کانوں سے نہیں سنیں گے توہمیں اندیشہ ہے کہ کوئی قہر الہیٰ وغضب نامتناہی آپ پرنازل ہوجائے۔ تبع نے پوچھا کیونکر۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ مدینہ ایک نبی کی ہجرت کی جگہ ہوگا جو قوم قریش سے آخرزمان میں پیدا ہوتا۔ پھر یہ جگہ۔۔۔۔ اُس کی جائے قرار ہوگی۔ یہ بات سن کر بادشاہ اپنے ارادہ سے باز آیا اور ان علماء یہود کی علمیت وفضیلت کا قائل ہوکر اُن کا دین قبول کرلیا اورمدینہ سے واپس چلا گیا۔

۳۔ ابن اسحاق کہتاہےکہ یہ تبع اوراُس کی قوم بت پرست تھے۔اس نے مکہ معظمہ پر بھی چڑھائی کی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب اس ارادے سے مکہ کی طرف آرہا تھا اورابھی عسفان وآحج کی حدود کے درمیان پہنچا تھا تو ہذبل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن مسعد کے چند آدمیوں نے آکر کہا اے بادشاہ ہم آپ کو ایک ایسے بیت المال کا پتہ دیتے ہیں جس سے پہلے بادشاہ غافل رہے ہیں۔ جس میں موتی، زبرجد، یاقوت، سونا، چاندی ، وغیرہ بے شمار اموال واسباب ہیں وہ مکہ میں ایک گھر ہے۔ وہاں کے لوگ اُس کی عبادت کرتے ہیں اور اس میں نماز پڑھتے ہیں اوران لوگوں کا یہاں سے یہ مطلب تھاکہ اگر یہ مکہ پردست درازی کرے گا تو ہلاک ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے کہ جو شخص مکہ معظمہ کی بے حرمتی کا ارادہ کیا کرتاہے تو وہلاک وتباہ ہوجایا کرتاہے۔گویا وہ لوگ اس بلا کو اس بہانہ سے ٹالنا چاہتے تھے۔ مگر جب تبع نے ان لوگوں سے یہ تقریر سنی تو اس نے ان دویہودی علماء کو جن کو وہ اپنے ساتھ مدینہ سے لایا ہوا تھا بلایا اوریہ ماجرا اُن کے سامنے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے اس بہانہ سے آپ کی اورآپ کی قوم کی ہلاکت کا ارادہ کیا ہے اگرآپ ان کی بات پرعمل کرینگے توآپ بمع اپنے لشکر کے ہلاک ہوجائینگے۔ اس پر تبع نے دریافت کیاکہ جب میں مکہ میں پہنچوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے۔ علماء نے کہا کہ جو کچھ وہاں کے لوگ اُس کی تعظیم وتکریم کرتےہیں آپ کو بھی ویسا ہی کرنا چاہیے۔ جب آپ وہاں پہنچیں تو سر کے بال حلق کرواکر اس کا طواف (چکر لگانا)کریں اور خشوع وخضوع(عاجزی وگڑگڑانا ) وفروتنی وانکساری سے آداب تعظیم وتکریم بجالادیں (سیرت ابن ہشام صفحہ ۷، ۸)۔

۴۔ میسرہ اور حزیمہ دونوں یہ کیفیت دیکھ کر کمال تعجب میں آئے اورآپ کے اس تصرف پر صدق دل سے یقین لائے۔ بعد اس کے جب شہر بصرہ کے متصل (نزديک)پہنچے توبحیر راہب کے عبادت خانہ کے نزدیک اُترے مگردیکھا تواس عبادت خانہ میں بحیرا نظر آیا اوراُس کی جگہ کسی اور ایک راہب کو مقیم پایا۔ بعد دریافت کے معلوم ہوا کہ بحیرا نے انتقال کیا ہے۔ ابھی چنداں ہوئے اس دارفانی (ختم ہونے والا دُنيا)سے ملک جاودانی (ہميشہ رہنے والا)کا راستہ لیا۔ یہ راہب اسی کا قائم مقام ہے۔ نسطور اُس کا نام ہے۔ یہ شخص بڑا عالم اورعابد (عبادت کرنے والا)قوم نصرانی ہے فی زمانہ اپنی قوم میں لاثانی ہے۔ غرضیکہ اسی مقام پر ایک درخت خشک نظر آیا۔ جناب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نیچے جاکر تھوڑی دیر قیام فرمایا آپ کی برکت سے اُسی وقت وہ درخت ازسرتاپا سبز وشاداب ہوکر پرپارہوا اور گرد بگرد اُس درخت کے خدا کی قدرت سے عجیب دلچسپ سبزہ اور قفا کا برحکم پروردگار ہوا۔ اُس وقت نسطور راہب کسی ضرورت سے اپنے عبادت خانہ کے کوٹھے پر آیا سامنے جو نظر پڑی تواُس درخت کوسراپا سرسبز اورمیوہ ہائے تروتازہ سےپھلا ہوا پایا اوردیکھا توایک جوان نہایت حسین مہ جبین پری پیکر رشک قمر اُس شجر کے نیچے قدمزن ہے اوراس کے سرمبارک پر وہ درخت سایہ فگن ہے جب نسطور کو یہ حال نظر آیا تو بجلدی تمام بام خانہ سے نیچے اُتر آیا اورجلدی سے تورات کوہاتھ میں لیا اور آپ کے حضور میں جاکر اُس کی نشانیوں سے آپ کے حلیہ مبارک کو مطابق کیا توایک سرمو(ذرا برابر)کسی چیز میں فرق نہ پایا۔ پھر تو اس نے بے خود ہوکر یہ شور مچایا کہ عیسیٰ مسیح نے جس پیغمبر افضل البشربنی آخرالززمان صاحب الفرقان کی خبر ہم کو دی ہے اوراس کے معبوث ہونے کی سند توریت وانجیل سے لی ہے خدا کی قسم وہ نبی صاحب الجود والکرم آج اس درخت کے نیچے موجود ہے جو اس کی نبوت ورسالت کا منکر ہے۔ وہ کافر خدا کی رحمت سے کونین میں محروم ومردود (رد کيا ہوا)ہو(تواریخ احمدی صفحہ ۶۰۔ ۱۶)۔

۵۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور کے مبعوث(نبی مقرر ہونا) ہونے سے پہلے یہود ونصاریٰ کے علماء اور عرب کے کاہن حضور کی خبریں بیان کیا کرتے تھے۔ کیونکہ حضور کا زمانہ ظہور قریب تھا یہودونصاریٰ کےعلماء تواپنی کتابوں سے حضور کے اوصاف اورزمانہ ظہور اورانبیاء کاعہد جوانہوں نے اپنی اُمتوں سے حضور پر اسلام لانے کی بابت لیا تھا بیان کرتے تھے اور عرب کے کاہن اپنے شیاطین سے خبریں سنتے تھے اور شیاطین آسمان کے قریب جاکر ملائکہ(فرشتوں) کی گفتگو سن کر اُس میں سے کچھ اڑالاتے تھے اوراپنے دوست کاہنوں کو مطلع(اطلاع دينا) کرتے تھے اور وہ عام لوگوں کو اس سے خبردار کرتے تھے اوراس زمانہ میں شیاطینوں کے واسطے آسمان سے خبر لانے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اور نہ عرب کےلوگ علمِ کھانت میں کوئی برائی سمجھتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور کو معبوث کیا اور شیاطین استراق سمع سے روکے گئے۔ جب کوئی جن آسمان کی طرف جاتا فوراً شہابہ سے اُس کی خبر لی جاتی یہاں تک کہ پھر جنات میں یہ طاقت نہ رہی کہ کسی بات کو عالمِ بالا سے معلوم کرسکیں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ ۶۳)۔

۶۔ ابن اسحاق کہتےہیں مجھ سے عاصم بن عمروبن قتادہ نے بیان کیاکہ ہماری قوم کے لوگ کہتے تھے کہ ہمارے اسلام لانے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تواللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنی رحمت اورہدایت کی جوہم کو اسلام کی توفیق عنایت فرمائی اور دوسری بات یہ کہ ہمارے پڑوس میں یہود رہتے تھے وہ اہل کتاب تھے اور ہم مشرک لوگ بُت پرست تھے۔ جو علم اُن کے پاس تھا وہ ہمارے پاس نہ تھا۔ اورہمارے اُن کے درمیان میں ہمیشہ جنگ وجدل رہتی تھی تو وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ جب اُن کو ہم سے کوئی شکست پہنچتی کہ اب ایک نبی کے معبوث (بھيجا جانا)ہونے کا زمانہ عنقریب ہے اُن کے مبعوث ہوتے ہی ہم اُن کے ساتھ ہوکر تم کو مثل عادارم کے قتل کرینگے۔ پس ہم یہودیوں کی یہ باتیں اکثر سنا کرتے تھے یہاں تک کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد کو مبعوث فرمایا۔ پس ہم نے آپ کی دعوت قبول کی جب کہ آپ نے ہم کو خدا کی طرف بلایا اور ان باتوں کو پہچان گئے۔ جن کا یہودی ہم سے وعدہ کرتے تھے۔ پس اسلام کے اختیار کرنے میں یہودیوں سے ہم نے سبقت کی اورایمان لے آئے اورانہوں نے کفرکیا۔ چنانچہ ہمارے اوراُن کے درمیان یہ آیت نازل ہوئی ہے وَلَمَّا جَاءهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ: یعنی جب ان یہودیوں کے پاس خدا کی کتاب آئی اور خدا نے اپنا رسول بھیجا جو اُن کی کتابوں کی تصدیق کرتاہے۔ حالانکہ پہلے یہ اس کے وسیلہ سے دعاء فتح کیا کرتے تھے اوراس کے ساتھ فتح کے طالب تھے۔ پس جب وہ ان کے پاس آیا اوراُنہوں نے اس کو پہچان لیا اُس کے ساتھ یہ کافر ہوگئے۔ پس لعنت ہے خدا کی کافروں پر۔(سورہ بقرہ آیت ۸۹)۔

۷۔ ابن اسحاق کہتےہیں کہ مجھ کو حضرت سلمہ بن سلامہ بن دقش سے روایت پہنچی ہے اوریہ بدری صحابی تھے۔ کہتے ہیں ہمارے یعنی بنی عبداللہ شہل کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا اورسلمہ کہتے تھے میں اُن امام میں اپنی قوم کے اندر سب سے زیادہ نوعمر تھا ایک چادر اوڑھے ہوئے اپنے لوگوں کے درمیان میں بیٹھا تھا۔ پس اُس یہودی نے آ کر قیامت اور بعث اورحساب اورمیزان اورجنت ودوزخ کا ذکر شروع کیا اور دوزخ اُن لوگوں کے واسطے ہے جو مشرک(بُت پرست) ہیں اور بُت پرستی کرتے ہیں اوریہ نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعد زندہ ہوناہے۔ قوم نے کہا تجھ کو خرابی ہے کیا تو یہ عقیدہ رکھتاہے کہ لوگ مرکر پھر زندہ ہونگے اور اپنے اعمال کا بدلہ پائینگے۔ اُس یہودی نے کہا ہاں میں یہ عقیدہ رکھتاہوں۔ قو م نے کہا تجھ کو خرابی ہواس کی نشانی کیا ہے۔ اُس نے کہا ان شہروں کی طرف سے ایک نبی مبعوث ہونگے اوراپنے ہاتھ سے مکہ اوریمن کی طرف اشارہ کیا۔ قوم نے کہا وہ نبی کب مبعوث ہونگے۔ اس یہودی نے میری طرف دیکھ کرکہا کہ اگر اس بچہ کی عمر نے وفا کی تویہ اُن نبی کو پالیگا سامعہ (سننے والے) کہتے ہیں پس قسم ہے خدا کی تھوڑے عرصہ کے بعد حضرت رسول خدا کا ظہور ہوا اوراس وقت تک وہ یہودی ہمارے اند زندہ تھا۔ پس لوگ تو ایمان لے آئے اور وہ یہودی بغض وحسد وسرکشی کے سبب سے ایمان نہ لایا۔ ہم نے اُس سے کہا تجھ کو خرابی ہو تو ایمان کیوں نہیں لاتا حالانکہ توہی توہم سے حضور کا بیان کیا کرتا تھا۔ پھر اب کیا آفت تیرے سر پر نازل ہوئی کہ ایمان نہیں لاتا۔ اُس نےکہا یہ وہ نبی نہیں جس کا میں ذکرکرتا تھا۔

۸۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عاصم بن عمر ابن قتادہ بنی قریطہ کے ایک شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے مجھ سے کہا تم کو معلوم ہے کہ تعلبہ

بن سعید اور امید بن سعید اوراسد بن عبید جو بنی بدل بنی قریظہ کے بھائیوں میں سے جاہلیت میں اُن کے ساتھی اورپھراسلام میں اُن کے سردار تھے ان کے اسلام لانے کی کیا وجہ ہوئی۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے ان شیخ جس کا نام ابن ہیبان تھا۔ اسلام کے ظہور سے چند سال پیشتر ہمارے پاس اورہمارے اندر ٹھہرا۔ پس قسم ہے خدا کی ہم نے کوئی اس سے بہتر پانچویں نماز ادا کرنے والا نہ دیکھا اور وہ یہودی ہمارے ہاں ٹھہرارہا۔ چنانچہ ایک دفعہ امساک باراں(خشک سالی۔بارش نہ ہونا) ہوا ہم نے اُس سے کہا اے ابن ہیبان تم چل کر ہمارے واسطے دعا نزولِ باران ( بارش نازل ہونا)کرو۔ اُس نے کہا میں ہر گز نہ جاؤنگا۔ جب تک کہ تم کچھ صدقہ نہ نکالوگے۔ ہم نے کہا کس قدر صدقہ چاہیے۔ اُس نے کہا ایک چار سیر کھجوریں یا جولے لو۔ کہتے ہیں کہ ہم نے وہ صدقہ لیا اور اس کے ساتھ دعا کے واسطے چلے۔یہاں تک کہ وہ شہر کےباہر ایک میدان میں آیا وہاں اُس نے دعا کی اور ہنوز(اس وقت تک) وہ اپنی جگہ سے اٹھنے نہ پایا تھاکہ ابرنمودار ہوا اوربارش شروع ہوئی۔ اسی طرح کئی بار موقعہ ہوا پھر جب وہ بیمار ہوا اوراُس نے سمجھا کہ اب زندگانی آخر ہے۔ ہمارے لوگوں کو جمع کیا اورکہا اے گروہ یہود بتاؤ کہ کس چیز نے مجھ کو نعمتوں اوراچھی پیداوار کے ملک سے اس خشک زمین میں پہنچایا۔ کہتے ہیں کہ ہم نےکہا تم ہی جانو۔ ہمیں کیا خبر ہے۔ اُس نے کہا میں اس جگہ ایک نبی کے مبعوث(بھيجا گيا) ہونے کی خاطر آیا تھا۔جس کا زمانہ ظہور(ظاہر ہونا) عنقریب ہے اورمیں امید کرتا تھا کہ وہ مبعوث ہوں تو میں اُن کی پیروی کروں۔ پس اے یہود تم کو لازم ہے کہ تم سب سے پہلے ان کی اطاعت (طابعداری۔بندگی)کرو۔ کیونکہ ان کو حکم ہوگاکہ جو ان کی اطاعت نہ کرے گا اُس کو قتل کرکے وہ اس کی اولاد کو لونڈی اور غلام بنائینگے پس تم بلاعذر وحجت اُن پر اسلام لے آنا۔ شيخ کہتے ہیں پس جب رسول ِخدا معبوث ہوئے اوربنی قریظہ کا آپ نے محاصرہ (گھيرا ڈالنا۔قلعہ بندی)کیا انہیں نوجوانوں نے جنہوں نے اس یہودی کی نصیحت سن کر یاد رکھی تھی اپنی قوم سےکہا اے بنی قریظہ بے شک یہ وہی نبی ہیں جن پر ایمان لانے کے واسطے تم سے ابن ہیبان نے عہد لیا تھا۔ قوم نے کہا بے شک تم سچ کہتے ہو یہ وہی نبی ہیں اور ان میں وہ سب صفتیں موجود ہیں جو اُس نے بیان کی تھیں پھر سب بنی قریظہ اسلام لے آئے اوراپنے جان ومال کو غازیانِ اسلام کی دست وبرو سے محفوظ رکھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو علماء یہود سے ہم کو پہنچی ہیں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ ۶۶، ۶۷)۔

۹۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ کو عمر بن عبدالعزیز بن مردان سے یہ روایت پہنچی ہے کہ جب حضرت سلیمان نے حضور کی خدمت میں اپنا واقعہ نقل کیا تویہ بھی کہاکہ عموریہ کے راہب (عيسائی عابد يا زاہد۔تارک الدُنيا) نے ان سے یہ بھی کہا تھاکہ تم ملک شام میں فلاں جگہ جاؤ۔ وہاں ایک راہب ہے وہ سال بھر میں ایک غیضہ (1) سے نکل کر دوسرے غیضہ میں جاتاہے۔ تمام لوگ اپنے بیماروں کو لیکر اس کے منتظر رہتے ہیں۔ جس کے واسطے وہ دعا کرتا ہے فوراً وہ بیمار تندرست ہوجاتاہے۔ اس سے تم اس دین کی بابت سوال کرو جس کی تم کو تلاش ہے وہ بتلادے گا۔ سلیمان کہتےہیں کہ میں وہاں سے حسب نشاندہی اُس راہب کےاس شہر میں آیا۔ پس میں نے دیکھا کہ لوگ بیماروں کولئے ہوئے جمع تھے۔ یہاں تک کہ رات کے وقت وہ راہب ایک غیضہ سے نکل کر دوسرے میں جانے لگا لوگوں نے اُسکو چاروں طرف سے گھیر لیا اورمجھ کو اُس تک پہنچنے بھی نہ دیا جس مریض کے واسطے اُس نے دعا کی وہ اچھا ہوگیا۔ یہاں تک کہ وہ غیضہ کے دروازہ تک پہنچا اورچاہتا تھا کہ اندر داخل ہوجو میں نے جاکر اس کا بازو پکڑلیا۔اس نے پیچھے مڑکردیکھا۔ میں نے کہا اے شخص خدا تم پر رحم کر ے مجھ کو دینِ ابراہیم اورملت حنیف سے خبردیجئے اُس نےکہا تونے آج مجھ سے ایسی بات دریافت کی ہے جو کسی نے اب تک نہ دریافت کی تھی۔ مگر یہ تو سن لے کہ اب ایک نبی کے ظہور(ظاہر ہونا) کا زمانہ قریب ہے وہ بنی اہل حرم میں سےہونگے اورتجھ کو یہ دین تعلیم کرینگے۔پھر وہ راہب اپنے غیضہ میں داخل ہوگیا۔ سلیمان سے حضور نے یہ واقعہ ذکرفرمایا اگر تونے یہ واقعہ سچ بیان کیا ہے توبے شک تونے عیسیٰ بن مریم سے ملاقات کی۔(سیرت ابن ہشام صفحہ ۷۱)۔

۱۰۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ پھر ابوطالب کوسفر شام کا اتفاق ہوا اوراس کی تیاری کرکے چلنے کو آمادہ ہوئے۔ حضور نے بھی اُن کےساتھ جانے کا اشتیاق (شوق۔خواہش)ظاہر کیا۔ابوطالب چونکہ حضور سے اپنے فرزندوں سے زیادہ محبت رکھتے تھے آپ کے اشتیاق سے نرم دل ہوگئے اورکہنے لگے قسم ہے خدا کی میں اس کو اپنے ساتھ لے جاؤنگا۔ نہ یہ میرے فراق (جدائی)کی طاقت رکھتاہے نہ میں اس کو چھوڑسکتاہوں۔ پس ابوطالب حضور کی بیعت (مريد بننا)میں شام کی طرف راہی ہوئے۔ جب ان کا قافلہ شہر بصریٰ میں جو سرحد شام پر واقع ہے پہنچا تو وہاں ایک راہب بحیرانام اپنے صومعہ (عبادت خانہ۔گرجا)میں رہا کرتا تھا یہ راہب علم نصرانیت کا پورا واقف تھا اوراس صومعہ میں سات راہب پشت بہ پشت گذرچکے تھے۔ جن کا علم یکے بعد دیگرے اس راہب کو پہنچا تھا۔ جب یہ قافلہ اس سال اس راہب کے صومعہ کے قریب جاکر اُترا حالانکہ پہلے بھی قافلے اس کے قریب جاکر اترتے تھے مگریہ راہب کسی سے مخاطب نہ ہوتا تھا۔ اب جو یہ قافلہ اس کے قریب نازل ہوا اس نے اُس کی پرتکلف کھانے سے مہمانی کی۔ لوگ کہتے ہیں اس مہمانی کا یہ باعث تھاکہ بحیراراہب نے جب اپنے صومعہ میں اس قافلہ کو دیکھا تواس کی نظر حضور پر پڑی اوراُس نے دیکھاکہ ابر کا ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ پھر جب لوگ اُترے اور حضور ایک درخت کے نیچے جلوہ افروز ہوئے تو اُس نے دیکھا کہ وہ ابرسایہ افگن آپ کے سرمبارک پر مثل چھتری کے قائم ہوگیا اور درخت کی سب ٹہنیاں آپ پر سایہ کرنے کے واسطے مائل (جُھکنا)ہويئں۔ راہب یہ ماجرا دیکھتے ہی اپنے صومعہ سے باہر نکلا اورکھانا پکاکر اہلِ قافلہ کی دعوت کی اورکہلا بھیجا کہ اے قریش کے گروہ میں چاہتاہوں کہ تمہارے سب چھوٹے بڑے آزاد اور غلام سب میری دعوت میں شریک ہوں کوئی باقی نہ رہے۔ قافلہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا اے راہب آج تم ایسا کام کرتے ہو جوہم نے تم کو کبھی کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ ہم تمہارے پاس بارہا گذرے ہیں مگر کبھی تم نے دعوت تو کیسی ہم سے بات تک بھی نہیں کی۔ بحیرا نےکہا تیرا کہناسچ ہے۔ میری ایسی ہی عادت ہے مگر تم لوگ مہمان ہو میرا جی چاہا کہ میں آج تمہاری اپنے ماحضر (جو کھانا موجود ہو)سے کچھ مدارات (خاطر تواضح) کروں اور قدرے تان جو تیار کرکے سامنے پیش کروں مگر تم سب قدم رنجہ(تشريف لانا) فرما کر میرے کلبہ (چھوٹا سا گھر)تاریک کو اپنے نور سے روشن ومنور کرو۔ سب نے قبول کیا اورراہب کےصومعہ میں اکٹھے ہوئے مگر حضور سرورِعالم بہ سبب کم عمری کے قافلہ میں اپنے اسباب (اثاثہ۔ضرورت کا سامان)کے پاس ہی رہ گئے تھے۔ راہب نے جب سب لوگوں میں بغور نظر کی اوراُس نورِ نظر یعنی حضرت سید البشر کو نہ دیکھا کہا اے قریش میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا تھاکہ دیکھو تم میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ چھوٹے بڑے سب تکلیف کرنا۔ قریش نےکہا اے راہب ہم تمہارے حسب الاشار سب کے سب موجود ہیں کوئی باقی نہیں رہا۔ صرف ایک بچہ جو بہت نوعمر ہے اُس کو قافلہ میں چھوڑ آئے ہیں۔ راہب نے کہا یہ تم نےغلطی کی۔ ایسا نہ چاہیے تھا۔ اُس کو بھی بلاؤ تاکہ وہ بھی شریک طعام (کھانے ميں شريک)ہو۔پس قریش میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اوراُس نےکہا بہت بری بات ہے کہ عبداللہ بن عبدالمطلب کے فرزند ہمارے ساتھ شریک دعوت نہ ہوں۔ پس وہ شخص جاکر حضور کو اپنے ساتھ لے آیا۔ اورکھانے میں شریک کیا(راوی کہتاہےکہ )بحیرا حضور کو باربار دیکھتا تھا اورآپ کے بعض اعضاء جسم کو بغور ملاحظہ کرتا تھا اور اُن علامات کے مطابق پاتا تھا جواس کے پاس لکھی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ جب لوگ آب وطعام (کھانے)سے فارغ ہوئے اور چلنے لگے تو بحیرا نے حضور سے عرض کیا کہ اے صاحبزادے میں تم سے بواسطہ لات وعزیٰ (زمانہ جہالت ميں عربوں کا ديوتا جس کی پرستش کی جاتی تھی۔چاند کی ديوی)کے ایک بات دریافت کرتا ہوں۔ تم مجھ کو اس کا جواب دو۔ اوریہ واسطہ بحیرا نے اس واسطے دیاتھاکہ وہ قریش سے اسی طرح کی گفتگو کیا کرتے تھے اورلات وعزیٰ کے واسطے دیتے تھے۔ پس کہتے ہیں کہ حضور نے یہ گفتگو سن کر فرمایا مجھ کو لات اور عزیٰ کا واسطہ نہ دے کیونکہ اس سے زيادہ دشمنی کی چیز مجھ کو اور کوئی نہیں ہے۔ راہب نے عرض کیا پس میں تم کو خدا کا واسطہ دیتاہوں کہ تم میرے سوال کا جواب دو۔ حضور نے ارشاد کیا دریافت کر کیاکہتاہے۔ اس نے آپ کی عادات کے متعلق آپ سے سوال کرنے شروع کئے اور آپ اُس کو جواب دیتے تھے اورراہب اُس کو اُن صفات سے جو اس کے پاس مکتوب تھیں مطابق کرتا تھا۔ یہاں تک کہ پھر اُس نے خاتم نبوت کی زیارت کی جو حضور کے دونوں شانوں کے درمیان میں مثل ایک گھنڈی کے تھی۔

(1) غیضہ بیشہ اورجگل کو کہتے ہیں۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب وہ راہب حضور کے دیدار فرحت آثار(اقوال وافعال) سے اپنی تشفی(تسلی) خاطر کرچکا۔ آپ کے چچا ابو طالب کی طرف متوجہ ہوا اورکہا یہ صاحبزادے آپ کے کون ہیں۔ ابوطالب نے فرمایا میرے فرزند ہیں۔ راہب نےکہا ان فرزند کے والد زندہ نہیں ہوسکتے۔ ابوطالب نےکہا دراصل یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں۔ راہب نےکہا ان کےوالد کیا ہوئے۔ابوطالب نے جواب دیا جب یہ فرزند حمل ہی میں تھے۔ جو ان کےو الد وصال کرگئے۔ راہب نے کہا تم سچ کہتے ہو۔ پس اب تم کو لازم ہے کہ ان صاحبزادہ کو لے کر گھر واپس جاؤ اور یہودیوں سے ان کی حفاظت رکھو تاکہ وہ کوئی برائی ان کے ساتھ نہ کرسکیں کیونکہ اگر وہ بھی اسی طرح ان کو پہچان لینگے جیسے کہ میں نے پہچان لیا تو ان کی عداوت (دُشمنی)پر مستعد (تيار)ہوجائینگے۔ اس لئے کہ تمہارے ان بھتیجے کا ظہور ہونے والا ہے۔ پس تم جلد ان کو گھر واپس لے جاؤ۔ پس ابوطالب حضور کو بہت جلد مکہ پہنچا گئے۔

لوگ کہتےہیں کہ زریر اورتماما اور دریسا یہ بھی اہلِ کتاب میں سے تھے۔ انہوں نے بھی اسی سفر میں ابوطالب کے ساتھ حضور کو اس طرح پہچان لیا تھا اورآپ کے ساتھ بدی کے ارادہ پر مستعد(آمادہ) ہوگئے تھے۔ مگر بحیرا نے ان کو وعظ ونصیحت کے ساتھ سمجھایا اوران کی کتاب میں جو حضور کی شان وصفت لکھی تھی وہ دکھائی اورکہاکہ اگر تم بدی کروگے تو تمہاری بدی کچھ کارگر نہ ہوگی۔ یہاں تک کہ ان تینوں نے بحیر ا کی تصدیق کی اوراس ارادہ سے وہ باز آئے (سیرت ابن ہشام صفحہ ۵۴، ۵۵)۔

۱۱۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ نے وہ واقعات جو اپنے غلام میسرہ سے سنے تھے اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے بیان کئے۔انہوں نے نصرانیت(عيسائی مذہب) اختیار کرلی تھی اور آسمانی کتابوں کا بخوبی علم حاصل کیا تھا۔ خدیجہ کو جواب دیا کہ اگر یہ باتیں حق ہیں تو اے خدیجہ تو محمد سرور اس امت کے نبی ہیں۔ اورمیں جانتاہوں کہ ضرور اس امت میں نبی ہونے والا ہے اوریہی زمانہ اُس کےظہور کا ہے مگر دیکھئے کس وقت ظہور(ظاہر) ہوتاہے۔ میں اس نبی کا اشد انتظار رکھتاہوں اوراس شوق کی حالت میں ورقہ نے ایک قصیدہ کہا ہے جس کے چند شعر یہ ہیں۔

۱۲۔ ابن کثیر نےکہا ہے سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں اہل بیت حضرت محمد تھے۔ یعنی ام المومنین خدیجہ الکبریٰ اور حضور کے غلام زید بمہ اپنی بیوی ام ایمن اور علی کرم اللہ وجہہ اور ورقہ کے ابن عسا کرنے بروایت عیسی بن یزید لکھاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کہتے ہیں کہ میں ایک روز کعبہ شریف کے پاس بیٹھا تھا اورمیرے پاس زید بن عمر کھڑے تھے کہ امیہ بن ابی الصلت وہاں سے گذرا اور مزاج پرسی کی۔ میں نے شکرکیا۔ اس نےکہا تجھے کچھ خبر ہے میں نےکہا کہ نہیں وہ کہنے لگا (شعر) کل دین یوم القیامتہ الامقضے اللہ فی الحقیقتہ بور۔(ترجمہ)روزِ قیامت خداوند تعالیٰ نے تمام دینوں میں سے ایک دین کو سرفرازی دے گا۔ پھر کہنے لگا کہ نبی موعود جس کے ہم منتظر ہیں تم میں سے ہوگا یا ہم میں سے۔ چونکہ میں نے نبی موعود کا حال پہلے نہ سُنا تھا۔ جس کی بعثت(رسالت) کا انتظار ہے۔ میں اٹھا ہوا ورقہ بن نوفل کے پاس چلا گیا (یہ شخص اکثر آسمان کو تکتا رہتا تھا اس کے سینہ سے ایک طرح کی آواز نکلتی رہتی تھی) اس لئے اس سے اپنی اورامیہ کی گفتگو بیان کی۔ اُس نےکہا اے میرے بھتیجے ہیں کتب سماویہ (آسمانی کتابيں)کے حکم کی رو سے جانتاہوں کہ نبی موعود خاندانِ وسطہ عرب میں سے ہونگے۔ اورچونکہ تمہارا خاندان وسط عرب میں ہے۔ اس لئے وہ تم ہی میں پیدا ہونگے۔ میں نے پوچھا کہ چچا نبی کیاکہینگے۔ اُس نے کہا کہ پس یہی کہ نہ ایک دوسرے پر ظلم کرونہ کسی غیر پر ظلم کرو اور نہ مظلوم بنو۔ میں سن کر چلاآیا اورجیسے ہی کہ رسول اللہ کی بعثت ہوئی میں ایمان لایا اور تصدیق اُن کے فرمان کی کی۔ (تاریخ الخلفاء اردو ترجمہ صفحہ ۲۰)۔

بیان مافوق پرایک نظر

بیان مافوق پر ایک نظر روایات حکایات مندرجہ صدر اس بات کی شاہد (گواہ)ہیں کہ مورخین اسلام نے آنحضرت سے قبل کی حنفیت کو اور اس کے ماننے والے حنفاء (حنيف کی جمع)کو نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاہے۔ آنحضرت سے پیشتر حنفیت زيادہ تر قریش کے قبیلوں کا مذہب ظاہر کی گئی ہے۔ مگر اسلام کی قریش میں ہستی نہیں دکھائی گئی ہے۔ آنحضرت کی وفات کے بعد کےزمانہ کہ مورخین کا آنحضرت کی پیدائش کے زمانہ سے پیشتر کے زمانہ کے دین حنیف اوراُسے ماننے والے حنفاء کا بیان نہایت عزت واحترام سے کرنا اوراس زمانہ میں اسلام ومسلمین کو صرف اشارہ کے طورپر عربی مسیحیوں میں ہی دکھانا اور حنفاء کا اسلام ومسلمانی سے کسی طرح کا رشتہ ہی نہ دکھانا ایک عجیب سا معاملہ ہوتاہے جسے ناظرین کرام ہی سمجھ سکتے ہیں۔

مسبوق الذکر روایات وحکایات گوتاریخ اسلام کا حصہ ہیں مگر روایات اس بات کی خود شاہد ہیں کہ اصل واقعات اور راویوں اوراُن کی روایات میں زبان ومکان کے اعتبار سے سینکڑوں سال کا بعد زمانہ ہے اورجن لوگو ں سے روایات وحکایت کا تعلق ہے اُن میں سے ایک شخص کو چھوڑ کر باقی تمام یہود ومسیحی ہیں۔ جو اپنے مذہب واعتقاد (عقيدہ)میں اپنے مسیح موعود کی پہلی اور دوسری آمد کے منتظر تھے۔ روایات وحکایات مافوق کو پڑھ کر یہ خیال ہوسکتاہے کہ مورخین اسلام نے جس آنے والے نبی کا بیان آنحضرت مکی ومدنی پر چسپاں کرکے دکھانے کی کوشش فرمائی ہے وہ دراصل یہود ونصاریٰ (دين مسيح کے پيرو)کے مسیح موعود کی آمد کا بیان ہی تھا جو آنحضرت کی تشریف آوری سے پیشتر اور تشریف آور کےزمانہ میں یہود ونصاریٰ میں خصوصاً اور حنفاء (مذہبی عقيدے کا پکا۔حضرت ابراہيم کے دين کا ماننے والا)میں عموماً مشہور تھا۔ جیساکہ پیشتر بیان ہوچکاہے۔

مورخین نے اس بات کو بیان کرنے کی بڑی کوشش فرمائی ہے کہ دین حنیف حضرت (ابراہيم کے دين کا ماننے والا )ہی اللہ کا دین ہے اور حنفاء ہی سچے دین کو ماننے والے تھے اور کہ حضرت محمد دین حنیف کے ہی نبی رسول تھے۔ مگر ان باتوں کے ثبوت میں کسی نامور حنفی (سُنی مسلمانوں کی وہ جماعت جو امام ابو حنيفہ کی پيرو ہے)کو پیش نہیں کیا جاتا۔ جو صرف دین حنیف کا ہی ماننے والا ہو بلکہ ان معزز ومعروف بزرگوں کے نام سے حکایات وروایات قبول کی جاتی ہیں جو مسیحی اوریہودی تھے اور حنفا میں بھی مسیحی مشہور تھے۔

حنفیت وحنفاء کی بابت جو کچھ پیشتر بیان ہوچکاہے وہ ان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ یہاں پر اس قدر عرض کرنا۔ بیجا نہ ہوگا کہ چونکہ حضرت محمد کا آبائی دین حنیف ہی تھا اس وجہ سے ابنِ ہشام نے روایات زیر نظر کو بھی اسی خیال سے نقل کیا کہ آنحضرت کےنام سے دین حنیف کی قدر ومنزلت بڑھائے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ آنحضرت نے توآبائی دین کو ترک کرکے اور قبول اسلام فرما کر عرب میں وہ کام کیا تھا جو آج تک آپ کی عظمت کا شاہد ہے۔ اس وجہ سے آنحضرت کو دین حنیف کا حامی (مددگار)کہنا یا دین حنیف کا نبی رسول کہنا اوریہودیت ومسیحیت کا دشمن کہنا ایسی باتیں ہیں جو اسلام کی مستند روایات سے ثابت ہونا مشکل ہے۔

اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتاکہ حضرت محمد عرب کی عظیم الشان شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں وہ کام کرکے دکھایا تھا جس کی مثال ملنا دشوار(مشکل) ہے۔ آزاد اور سرکش عرب کو اپنی زندگی کے اثر اور کام سے اپنی حیات میں ایسا موثر کردینا کہ وہ ایک حکم کے تابع ہوجائیں اورانہیں دنیا کے فاتح ہونے کے قابل بنادینا ایسا عظیم الشان کام تھا جسے آپ ہی کرسکتے تھے۔ عرب کی ایسی عظیم الشان ہستی کی عظمت کے اظہار میں اگر لوگوں نے ایسی ایسی روایات وضع کرلی ہوں جیسی روایات اوپر نقل ہوچکی ہیں تو کوئی تعجب(حيرانگی) کی بات نہیں ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ملکِ ہند میں مہاتما گاندھی عدم تشدد وعدم تعاون کے اصول کو لے کر گورنمنٹ اوراہل وطن کےروبرو نکلے اورآپ نے اعلان پر اعلان کیاکہ میں ایک سال کے اندر اندر ملک ہند کو سوار جیہ دلادونگا۔ ہندوصاحبان نے آپ کوسیدنا مسیح کا اوتار قرار دیا۔ مسلم رہنماؤں نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔ مسیحیوں اورپادریوں نے مہاتما جی کو مسیح صفت گاندھی اور ہند کا سب سے بڑا مسیحی تسلیم کرلیا۔آپ کی تعریف وثنا میں برسوں گذاردئیے حالانکہ سوراجیہ آج تک ہند کےساحلوں سے ہزاروں میل دور ہے۔ اگر مہاتما گاندھی کو سوراجیہ کی امید پر اہل ہند مسیح بناسکتےہیں تو عرب کے فرزند ِاعظم کو اہل عرب کیا کچھ نہیں بناسکتے تھے۔ جنہوں نے عرب جیسے اجہل اور پرنفاق وفساد ملک(بگاڑ و دشمن مللک) کو اپنی ۲۳ سالہ زندگی میں سوراجیہ دلادیا تھا؟ پس گوروایات مافوق اسلام کی مستند روایات(قابلِ اعتبار روايات) کے خلاف ہیں توبھی ان روایات میں عرب کےعوام کے خیالات حضرت محمد کی بابت دیکھے جاسکتےہیں اور ان پر زيادہ جرح قزح(رنگوں کی ملاوٹ) کی ضرورت نہیں ہے۔

آٹھویں فصل

تاریخ اسلام کی روشنی میں قدیم عربوں کا مذہب

عرب قدیم کی ہمسایہ اقوام کی تاریخ میں عربوں کی بابت جو روشنی پائی گی ہے اختصار (خلاصہ)کے ساتھ پیشتر کی فصلوں میں اس کا اظہار کردیا گیا ہے۔ اسے دیکھنے والے عرب کے باشندوں کی بابت اپنے خیالات کی اصلاح (نظر ثانی۔ترميم)کرسکتے ہیں۔ ہم اس تمام بیان کو انصاف پسند ناظرین کے لئے پیچھے چھوڑ کر تاریخ اسلام میں سے عربوں کی تہذیب وشائستگی(اخلاق۔مروت) اورمذہب وعقائد کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

جاننا چاہیے کہ اسلام کے مورخوں نے عرب کے حالات پر ضیغم (شير ببر)کتب تحریر فرمائی ہیں۔ طبری ، ابن کثیر، ابوالفدا وغيرہ کتب عربیہ حالات عرب سے پُر ہیں۔ لیکن ان کتب سے براہ راست اقتباسات پیش نہیں کرسکتے۔کیونکہ یہ تاریخی کتابیں نایاب اور قیمتی ہونے سوا عوام کی آگاہی سےدور ہیں۔ ہم ان کتب سے اقتباسات پیش کرنے پر کفایت(کمی۔حسبِ ضرورت) کرینگے جو ہند کے چوٹی کے مسلم بزرگوں نے کتب مذکور بالا کی سند سے خود اُردو میں تحریر فرمائی ہیں اورہر ایک مسلم کتب فروش کے پاس مل سکتی ہیں۔ ہند کے مسلم بزرگوں کی تحریرات کے اقتباسات ذیل تاریخ اسلام میں قدیم عربوں کے مذہب وعقائد ورسوم پر کافی روشنی ڈالینگے۔ جن سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجائے گی کہ قدیم عرب پڑوس کے ممالک میں عظیم الشان تہذیب وشائستگی قائم کرنے والے تھے مگر اُنہوں نے اپنے گھر میں کوئی ایسا بڑا کا نہ کیا تھا جو انہیں دنیا میں شہرت دینے کا باعث بنادیتا۔

دفعہ ۱۔ قدیم عرب اور سرسید مرحوم

فخر قوم سرسید مرحوم کے خطبات نہایت مشہور کتاب ہے۔ جس میں آنجناب نے عرب کے حالات پر کافی روشنی ڈالی ہے۔اس کتاب سے ذیل کی عبارتیں نقل کی جاتی ہیں۔ جن میں عربوں کا معقول (مناسب)بیان کیا گیاہے۔ مثلاً سرسید لکھتے ہیں:

" یہی غیر محسوس خیالات کی ترقی عرب میں بھی واقع ہوئی اوراس ملک کے باشندوں نے اپنے معبودوں کو ہر جسمانی آسائیش اور روحانی خوشی کے عطا کرنے کا اُس شخص کو جس سے وہ راضی ہوں اختیار کلی (پورا اختيار)دیدیا۔

قدیمی باشندگان عرب کی نسبت یعنی قوم عاد، ثمود، جدیس، جرہم الادنےٰ اور عملیق اول وغيرہ کی نسبت اس قدر محقق (تحقيق کرنے والا)ہے۔ کہ یہ لوگ بت پرست تھے مگر ہمارے پاس کوئی ایسی مقامی روایت عرب کی نہیں ہے جوہم کو ان کی پرستش اقسام کے طریقوں کی تعیین (مقرر کرنا)اور جو قدرتیں کہ وہ اپنے معبودوں کی طرف منسوب(نسبت کيا گيا۔متعلق کيا گيا) کرتے تھے اُن کی تصریح(تشريح) اورجن اغراض (غرض کی جمع)اور ارادوں سےکہ وہ مورتوں کو پوجتے تھے ان کے بیان کرنے میں مطمئن کرے۔ قریب قریب تمام حال جو ہم کو عرب کے بتُوں کی نسبت معلوم ہوتاہے صرف یقطان اوراسماعیل کی اولاد کے ُبتوں کی نسبت معلوم ہے جو عرب العاربہ اور عرب المستعربہ کے نام سے مشہو رہیں اُن کے ُبت دوقسم کے تھے۔ ایک قسم تو وہ تھی جو ملائک اور ارواح اور غیر محسوس طاقتوں سے جن پر کہ وہ اعتقاد رکھتے تھے اورجن کو مونث خیال کرتے تھے نسبت رکھتے تھے اور دوسری قسم کےوہ تھے جو نامی اشخاص کی طرف جنہوں نے اپنے عمدہ کاموں کی وجہ سے شہر ت حاصل کی تھی منسوب(نسبت کرنا) تھے۔

وہ قدرتی سادگی اوربے تکلفی جو ابتدائی درجہ تمدن(مل کر رہنے کا طريقہ) میں آدمیوں کی نشانیاں ہیں اُن کی پرستش کے طریقوں میں قابل تمیز نہیں رہی تھیں۔ علاوہ اس کے اُنہوں نے بہت سے خیالات غیر ملکوں کے اور نیز اپنے ہی وطن اصلی کے الہامی مذہبوں سے اخذ کرلئے تھے اوران سب کو اپنے توہمات سے خلط ملط (ميل جول)کرکے اپنے معبودوں کو دنیا اور عقبیٰ دونوں کے اختیارات دے دئيے تھے لیکن اتنافرق تھاکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ دینوی اختیارات بالکل اُن کے معبودوں کے ہاتھ ہیں اور عقبیٰ کے اختیارات کی نسبت اُن کا یہ اعتقاد تھاکہ اُن کے بُت یعنی وہ جن کی پرستش کےلئے وہ بُت بنائے گئے ہیں اُن کے گناہوں کی معافی کی خدا تعالیٰ سے شفاعت (گناہوں کی معافی کی سفارش)کرینگے۔ ان کی طرزِ معاشرت اوراُن کی خانگی سوشیل اور مذہبی اطوار اور رسوم نے بھی اسی طرح سے گردنواح کے ملکوں سے جن کے باشندے الہامی مذہب رکھتے تھے اثر حاصل کیا تھا غرضیکہ قبل ظہور اسلام کے ملک میں عرب بت پرستی کی یہ کیفیت تھی"۔

لامذہبی

خانہ کعبہ میں سات تیر رکھے ہوئے تھےاو رہر تیر پر ایک علامت بنی ہوئی تھی۔ بعضوں پر کام کرنے کے حکم دینے کی اور بعضوں پر اُس کام کرنے سے منع کرنے کی علامت تھی۔ ہر شخص پیشتر اس سے کہ کوئی کام شروع کرے ان تیروں سے استخارہ(نيکی کی توفيق مانگنا۔طلب خير) کرتا تھا اوراُسی کے بموجب کام کرتا تھا۔ ان تیروں کو " ازلام" کہتے تھے۔

تمام عرب جاہلیت کا شیوہ بت پرستی تھا اورجن بتوں کی وہ پرستش کیا کرتے تھے اُن کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ ھبل۔ ایک بہت بڑا بت تھا جو خانہ کعبہ کے اوپر رکھا ہوا تھا۔

۲۔ ود۔ قبیلہ بنی کلب کا یہ بت تھا اور وہ قبیلہ اُس کی پرستش کرتا تھا۔

۳۔ سواع۔ قبیلہ بنی مذحج کا یہ بُت تھا اور وہ اس کی پرستش کرتے تھے۔

۴۔ یغوث۔ قبیلہ بنی مراد کا یہ بت تھا اور وہ اس کی عبادت کرتے تھے۔

۵۔ یعقوق۔ بنی ہمد ان کے قبیلہ کا یہ بت تھا اور وہ اس کو معبود سمجھتے تھے اور عبادت کرتے تھے۔

۶۔ نسر۔ بنی ہمدان کے قبیلہ کا یہ بت تھا۔ اوریمن کےلوگ اس کی پرستش کرتے تھے۔

۷۔ عزیٰ۔ قبیلہ بن غطفان کا یہ بت تھا اوراس کی پرستش وہ قبیلہ کیا کرتا تھا۔

۸۔ لات (۹۔) منات۔یہ بت کسی خاص قبیلہ سے علاقہ نہیں رکھتے تھے۔بلکہ عرب کی تمام قومیں اُن کی پرستش کیاکرتی تھیں۔

۱۰۔ دوار۔ یہ بت نوجوان عورتوں کی پرستش کرنے کا تھا۔ وہ چند دفعہ اس کے گرد طواف(چکر لگانا) کرتی تھیں اورپھر اُس کو پوجتی تھیں۔

۱۱۔ اساف۔ جو کوہ صفا پر تھا۔ اور (۱۲) فائلہ۔ جو کہ مردہ پر تھا۔ ان دونوں ُبتوں پر ہر قسم کی قربانی ہوتی تھی اور سفر کو جانے اور سفر سے واپس آنے کے وقت اُن کو بوسہ دیا کرتے تھے۔

۱۳۔ عبعب۔ ایک بڑا پتھر تھا جس پر اُونٹوں کی قربانی کرتے تھے اور ذبیحہ کے خون کا اُس پر بہنا نہایت ناموری کی بات خیال کی جاتی تھی۔

کعبہ کے اندر حضرت ابراہیم کی مورت بنی ہوئی تھی اوراُن کے ہاتھ میں وہی استخارہ کے تیر تھے جو" ازلام" کہلاتے تھے۔ اورایک بھیڑ کا بچہ اُن کے قریب کھڑاتھا اور حضرت ابراہیم کی مورت خانہ کعبہ میں رکھی ہوئی تھی اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصویریں خانہ کعبہ کی دیواروں پر کھینچی ہوئی تھیں۔

حضرت مریم کی بھی ایک مورت تھی۔ اس طرح پر کہ حضرت عیسیٰ ان کی گود میں ہیں یا اُن کی تصویر اس طرح خانہ کعبہ کی دیواروں پر کھینچی ہوئی تھی۔

عرب کی دیسی روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ " دو" اور " یغوث" اور " یعوق اور " نسر" مشہور لوگوں کے جو ایام جاہلیت میں گذرے ہیں نام ہیں ان کی تصویریں پتھروں پر منقش کرکے بطور یادگار کے خانہ کعبہ کے اندر رکھ دی تھیں۔ ایک مدت مدید کے بعد اُن کو رتبہ معبودیت دیکر پرستش کرنے لگے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عرب کے نیم وحشی باشندے ان مورتوں پر خدا ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے اوراُن لوگوں کو جنکی یہ مورتیں تھیں معبود سمجھتے تھے بلکہ اُن کو مقدس سمجھنے کی مندرجہ ذیل وجوہات تھیں۔

جیساکہ ہم نے اوپر بیان کیا۔ عرب جاہلیت اُن مورتوں کو اُن شخصوں اوران کی ارواح کی یادگار سمجھتے تھے۔ اورانکی تعظیم اورتکریم (عزت)اس سبب سے نہیں کرتے تھے کہ ان مورتوں میں کوئی شان الوہیت موجود ہے بلکہ محض اس وجہ سے اُن کی عزت اور تعظیم کرتے تھے کہ وہ اُن مشہور اور نامور اشخاص کی یادگار ہے۔ جن میں بموجب ان کے اعتقاد کے جملہ صفات الوہیت یا کسی قسم کی شانِ الوہیت موجود ہے۔ اُن کے نزدیک اُن مورتوں کی پرستش سے اُن لوگوں کی ارواحیں خوش ہوتی تھیں۔ جن کی وہ یادگاریں تھیں۔

ان کا یہ اعتقاد تھاکہ خدا تعالیٰ کی جملہ قدرتیں مثلاً بیماروں کو شفا بخشنا۔ بیٹا ، بیٹی عطا کرنا ، قحط ووبا اور دیگر آفات ارضی وسماوی کا دور کرنا ان کے مشہور ومعروف لوگوں کے اختیار میں بھی تھا۔ جن کی طرف اُنہوں نے صفات الوہیت منسوب کی تھیں اور وہ خیال کرتے تھے کہ اگر مورتوں کی تعظیم اور پرستش کی جائے گی تو اُن کی دعائیں اور منتیں قبول ہونگی۔

اُن کا یہ بھی مستحکم عقیدہ تھاکہ یہ اشخاص خدا تعالیٰ کے مجبوب تھے اور اپنی مورتوں کی پرستش سے خوش ہوکر پرستش کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کرانے کا ذریعہ ہونگے اوراُن کو تمام روحانی خوشی عطا کرینگے۔ اوراُن کی مغفرت وشفاعت کرینگے۔

اُن کا قاعدہ بتُوں کی پرستش کا یہ تھاکہ بُتوں کو سجدہ کرتے تھے اُن کے گرد طواف کرتے تھے اور نہایت ادب اور تعظیم سے بوسہ دیتے تھے اونٹوں کی قربانی اُن پر کرتے تھے۔ مویشیوں کا پہلا بچہ بتُوں پر بطور نذرانہ کے چڑھایا جاتا تھا۔ اپنے کھیتوں کی سالانہ پیداوار اورمویشی کے انتفاع (حاصل۔فائدہ)میں سے ایک معین(مقرر کياگيا) حصہ خدا کے واسطے اور دوسرا حصہ بتوں کے واسطے اٹھا رکھتے تھے۔ اوراگر بتوں کا حصہ کسی طرح ضائع ہوجاتا تو خدا کے حصہ میں سے اُس کو پورا کردیتے اور اگر خدا کا حصہ کسی طرح ضائع ہوتا تو بتوں کے حصہ میں سے اس کو پورا نہیں کرتے تھے۔ (الخ صفحہ ۱۳۳ تک (الخطبات احمدیہ صفحہ ۱۲۶ سے ۱۲۸ تک )۔

دفعہ ۲۔ مولانا مولوی نجم الدین صاحب سیوہاری اور عربوں کا مذہب

مولوی نجم الدین صاحب نے اپنی کتاب رسوم جاہلیت بلوغ الارب فی احوال العرب کی سند سے لکھی ہے۔ جس میں قبل اسلام عربوں کے مذہب وعقائد ورسوم کا بیان کسی قدر تفصیل کےساتھ لکھا ہے۔

ناظرین کرام کواس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم اس میں سے صرف بعض باتوں کاذکر اختصار اً (مختصر)کرتے ہیں۔ آپ رقم فرماتےہیں۔

۱۔ ستارہ پرست: جاہلیت کے بعض فرقے ستارہ پرست تھے۔ بنی تمیم کے بعض اشخاص وبران کو پوجتے تھے اورلخم اور خزاعہ اور قریش کے بعض قبائل شعرایِ کو صفحہ ۳۔

۲۔آفتاب پرست وماہ پرست۔ جاہلیت کے بعض قبائل چاند اور سورج کو بھی پوجتے تھے۔ صفحہ ۳۔

۳۔ ملائکہ پرست اورجنات پرست : دیہات کے بعض طائفہ فرشتوں اورجنات کو بھی پوجتے تھے۔ صفحہ ۴۔

۴۔ مجوس وزنا دقہ : عرب کے بعض دیہات میں مجوس آباد تھے۔ یہ لوگ آگ کو پوجتے تھے۔ اورماں بہن بیٹی وغیرہ محرمات ابدیہ سے نکاح جائز خیال کرتے تھے۔ یہ فرقہ جہاں کے دوخالق مانتا تھا ایک خیر اور نورکا اور دوسراشر اورظلمت کا۔ ابن قتیبہ نے معارف میں اس فرقہ کا ذکر کیاہے۔ لیکن اس کے عقائد کا کچھ ذکر نہیں کیا صرف اتنا لکھا ہے کہ قریش میں کچھ لوگ زندیق تھے جنہوں نے اس مذہب کو حیرہ سے لیا تھا۔ حیرہ چونکہ بلادفارس میں واقع تھا اوراس میں جو عرب رہتے تھے وہ یاپارسی دین رکھتے تھے یا عیسائی۔ صفحہ ۴، ۵،۔

۵۔ دیرہ : جاہلیت میں بعض قبائل دہریہ تھے جو خدا اورجزا سزایِ اعمال کے منکر تھے۔ اور عالم کو قدیم مانتے تھے۔ صفحہ ۶۔

۶۔ بت پرست اگرچہ بتوں کو پوجتے تھے اوراُن کیلئے حج اور قربانیاں بھی کرتے تھےلیکن اس کے ساتھ ہی خالق کے وجود کے قائل تھے۔عالم کو حادث(فانی) مانتے تھے اورمرنے کے بعد ایک قسم کے اعادہ (بار بار کرنا)کے سب مقرتھے۔ گواس کی صورت اور کیفیت میں اختلاف تھا۔ ان کی توحید یہ بھی کہ خالق ، رازق لوگوں کے کام سنوارنے والا ہے۔ نفع نقصان کا مالک اورپناہ دینے والا فقط ایک خدا کوجانتے تھے۔ صفحہ ۱۱۔

۷۔ جنات اور ملائکہ کی نسبت : مشرکین عرب خصوصاً اہلِ مکہ کا یہ اعتقاد تھا۔ کہ خدا تعالیٰ نے جنات کے سرداروں کی بیٹیوں سے شادی کی ہے جن کے بطن سے فرشتے پیداہوئے ہیں۔ فرشتے خداکی بیٹیاں ہیں۔ صفحہ ۱۴۔

۸۔ حاملین عرش کی نسبت مشرکین عرب کا یہ اعتقاد تھاکہ چار فرشتے خدا کا عرش تھامےہوئے ہیں۔ جن میں ایک فرشتہ آدمی کی صورت پر ہے جو اللہ کے ہاں بنی آدم کاشفیع(شفاعت کرنے والا) ہے۔ دوسرا فرشتہ بیل کی صورت پر ہے وہ بہام کا شفیع ہے۔ تیسرا فرشتہ کرگس کی صورت پر جو پرندوں کا شفیع ہے۔ چوتھا شیر کی صورت پر ہے۔ وہ درندوں کا شفیع ہے۔ مشرکین عرب ان چاروں فرشتوں کو دعول یعنی بزکوہی کہتے تھے صفحہ ۱۵۔

۹۔ جاہلیت کے لوگ تقدیر کے ویسے ہی قائل تھے جیسے مسلمان قائل ہیں۔ افلاس، توانگری(دولت مندی)، صحت، بیماری اور ہرامر کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اوریہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جو کچھ ازل سے مقرر ہوچکاہے۔ وہی ہوا۔ وہی ہورہے اور وہی آئندہ ہوگا۔ صفحہ ۱۵۔

۱۰۔ صائبین۔ یہ وہ قوم تھی جس سے رئیس الموحدین سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کواکب پرستی(روشن ستاروں کی پرستش) میں مناظرہ کیا تھا اور ستارہ اور چاند اور سورج کے چھپنے سے اُن کو قائل کیا تھا کہ یہ چیزیں معبود بننے کی قابلیت نہیں رکھتیں کیونکہ یہ چیزیں زوال پذیر ہیں۔ ایک حالت پر قائم نہیں رہتیں اور معبود ہونا چاہیے جو بے زوال ہو۔ غرض جس قوم کی ہدایت کےلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام معبوث ہوئے تھے وہ قوم صابی (ايک دين سے پھر کر دوسرے دين ميں جانا) کہلاتی ہے۔

آنحضرت سے پیشتر صائبین کی دوقسمیں تھیں۔ حنفاء، اورمشرکین۔ حنفاء وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے موحدین میں گذرچکاہے۔ چونکہ آنحضرت بھی لوگوں کو توحید کی طرف بلاتے تھے اس لئے نصار قریش آپ کو صابی کہتے تھے۔ صفحہ دو ملاحظہ ہوتاریخ الحرمین الشریفین صفحہ ۸۸۔

۱۱۔ حنفایا موحدین : اس فرقہ کے لوگ حضرت ابراہیم اوراُن کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کے دین پر تھے۔ بت پرستی ، قتل اولاد، دادبنات وغيرہ امور منکرہ اوران تمام بدعات سے جو عمر بن لحی خزاعی نے نکالی تھیں سخت متنفر تھے یہ لوگ موحد اورحنفاء یعنی تابع ملت ابرہیم کہلاتے تھے۔ لیکن ایسے تعداد میں بہت تھوڑے گذرے ہیں۔ اس فرقہ کے سب سے زيادہ مشہور بزرگ یہ ہیں۔

تُس بن ساعدہ۔ زید بن نفیل۔ امیہ بن ابی الصلت۔ ارباب بن ریاب سویدین مصطلقی۔ اسعد ابوکرب حیری، وکیع بن سلمہ بن زہیرایادی۔ عمیر وبن حندب لجھنی، عدی بن زید، ابوقیس بن ابی انس۔ سیف بن ذی یزن ، ورقہ بن نوفل۔ عامر بن الظرب۔ عبدالطانجہ بن الثلعب۔ علاف بن شہاب۔ متملس بن امیہ۔ زہیر بن ابی سلمہ۔ خالد بن سنان۔ عبداللہ قضا عی ، عبید بن ابرص الاسدی ، کعب بن لوتی ، قصی ، ہاشم عبدمناف۔

ان لوگوں کی نسبت اگرچہ پورے طورپر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کے پاس حضرت ابراہیم یا اسماعیل کا دین کامل ومکمل محفوظ تھالیکن اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ لوگ اللہ اور یوم آخر پر پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ صفحہ ۲، ۳،۔

مشرکین (صابی) سبعہ سیارہ(سات سيارے) اوربارہ برجوں کوپوجتے تھے۔ سبعہ سیارہ شمس، قمر، زہرہ، مشتری، مریخ ، زحل کے لئے اُنہوں نے علیحدٰہ علیحدٰہ ہیکلیں بنائی تھیں۔ جن میں اُن کی تصویریں تھیں۔ ان ستاروں کےلئے ان کے ہاں خاص خاص عبادتیں اور دعائیں مقرر تھیں۔ وغیرہ صفحہ ۵، ۶۔

۱۲۔ یوں تو جاہلیت میں بے شمار بُت تھے جنکی تعداد ناممکن ہے خود خانہ کعبہ میں جو خدا کا گھر ہے ۳۶۰ بُت نصب تھے۔۔۔۔ ان بتوں کے علاوہ مکے کے ہر گھر میں ایک بُت تھا۔ جس کو وہ اپنے گھروں میں پوجتے تھے۔

بتوں کی پوجا میں چند امور کئے جاتے تھے۔ ان کو سجدہ کرتے تھے اور خانہ کعبہ کی طرح ان کے گرد طواف (چکر لگاتے)کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ لگاتے تھے۔ اورنہایت ادب وتعظیم کے ساتھ بوسہ دیتے تھے۔ اُن کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان کو دودھ اورمکھن اور ہر قسم کی نذریں چڑھاتے تھے۔ صفحہ ۱۵۔ ۲۴۔

۱۳۔ جاہلیت کے لوگ عیدیں کرتے تھے۔ ان کے جلسے ہوتے تھے۔ وہ غسل وطہارت(پاگيزگی) کے پابند تھے۔ وہ نمازیں بھی پڑھا کرتے تھے وہ روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ وہ اعتکاف(مسجد ميں معينہ مدت کے لئے گوشہ نشين ہونا) بھی کرتے تھے۔ وہ حج بھی کیا کرتے تھے عورت مرد ننگے ہوکر رسوم حج ادا کیا کرتے تھے صفحہ ۳۹۔ سودلینے دینے کا رواج عرب میں خطرناک تھا۔ وقت مقررہ پر اگراصل رقم مع سود ادا نہ کی جاتی تھی تواگلی مہلت کےلئے وہ کل رقم دوگنی ہوجاتی تھی۔ صفحہ ۶۰ عرب شراب خوری اورجوئے کے سخت عادی (وہ شخص جسے کسی امر کی عادت پڑ گئی ہو)تھے۔ جوابازی اُن کا سب سے بڑا مشغلہ تھا صفحہ ۶۱، ۷۶، ۹۱ تک لڑکیوں کو زندہ دفن کرکے مار ڈالے تھے۔ صفحہ ۱۰۵۔ جنوں اور بد ارواح کے سخت قائل تھے۔ صفحہ ۱۲۶ جنتر منتر وغیرہ اُن کی تمام بیماریوں اور دہشتوں کےعلاج تھے۔ مردوں کی قبروں پر اونٹ اور گھوڑے قربانی کیا کرتے تھے صفحہ ۷۶ امیر کی قبر پر زندہ اونٹنی باندھ دیا کرتے وہاں وہ بھوک پیاس سے خود مرجایا کرتی صفحہ ۷۲ اُن کا اعتقاد تھاکہ جب قبر میں آدمی کی ہڈیاں سڑگل جاتی ہیں تو مردہ کے سرسے الو کی شکل کاایک پرندہ نکلا کرتا ہے۔ صفحہ ۷۸۔

۱۴۔ عربوں میں آٹھ قسم کے نکاح مروج تھے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

۱۔ نکاحِ عام۔ اس نکاح کی صورت آج کل کے نکاح سے جو مسلمانوں میں رائج ہے ملتی جلتی تھی۔ جاہلیت کے شرفاء میں اکثر اسی نکاح کا رواج تھا اور یہ نکاح اورنکاحوں سے بہتر خیال کیا جاتا تھا۔ اس کا طریق یہ تھا کہ ایک مرد دوسرے مرد سے اس کی بیٹی یا اُس عورت کی جو اُس کی ولایت میں ہوتی منگنی کی درخواست کرتا اوراُس کا مہر مقرر کرتا۔ جب وہ شخص منگنی منظور کرلیتا تومہر کی معین مقدار پر جس کا اُس مجلس میں ذکر ہوجاتا۔ اس کے ساتھ عقد(نکاح) کرتا۔ منگنی کی درخواست عورت کے باپ یا بھائی یا چچا یا چچازاد بھائیوں سے کرتے تھے۔ خاطب جب منگنی کی درخواست کرتا تو عورت کے باپ یاولی سے کہتا کہ خدا کرے کہ تم ہر صبح خوش رہو۔ پھر کہتا کہ ہم تمہارے جوڑ گوت اور ذات برادری کے ہیں۔ اگر تم ہم سے اپنی بیٹی بیاہ دو توہماری خوشی پوری ہوجائے گی اورہم تمہارے ہوجائينگے اورتمہاری تعریف کرتے ہوئے ہم تمہاری فرزندی میں داخل ہونگے۔ اوراگر کسی علت (کمی)کی وجہ سے جس کو ہم بھی جانتے ہوں تم ہمیں محروم لوٹاؤ گے تو ہم تم کو معذور سمجھ کر لوٹ جائینگے۔ اگر عورت کی قوم سے خاطب کی قرابت قریبہ (قريب کی رشتہ داری)ہوتی اوراس کی منگنی منظورہوکر اس کے ساتھ عقد(نکاح) ہوجاتا تو رخصت کے وقت لڑکی کا باپ یا بھائی لڑکی سے کہتا۔ کہ خدا کرے جب تو اُس کے پاس جائے تو عیش وآرام سے رہے اور لڑکے جنے نہ لڑکیاں۔ خدا تجھ سے کثیر تعداد اور عزت والے اشخاص پیدا کرے اور تیری نسل ہمیشہ قائم رہے۔ اپنا خلق عمدہ رکھنا اوراپنے شوہر کی عزت اور تعظیم کرنا اورپانی کو خوشبو سمجھنا۔

اگر عورت کسی اجنبی اورپردیسی سے بیاہی جاتی تواس کا باپ یا بھائی اُ سے کہتا کہ خدا کرے نہ تو عیش وآرام میں رہے اور نہ لڑکے جنے۔ کیونکہ تو اجنبیوں سے قریب ہوگی اور دشمنوں کو جنے گی۔ اپنا خلق عمدہ رکھنا اوراپنے شوہر کے عزیزواقارب کی نظر میں پیاری بنی رہناکیونکہ اُن کی آنکھیں تیری طرف اٹھی ہوئی ہونگی اوراُن کے کان تیری طرف لگے ہوئے ہونگے او رپانی کو خوشبو سمجھنا۔

قریش اور عرب کے اکثر قبائل میں یہی نکاح رائج تھا اوراکثر شریف اور خاندانی لوگ اسی نکاح کو پسند کرتے تھے۔

۲۔ نکاح استبضاع : اس کی صورت یہ تھی کہ جب عورت حیض سے پاک ہوجاتی ہو تو اس کا شوہر اس سے کہتا کہ فلاں شخص کو اپنے پاس بلوالے اوراس سے ہم بستر ہوتاکہ اُس سے حاملہ ہوجائے۔ وہ عورت اس شخص کو بلواتی اوراس کے ساتھ ہم بستر ہوتی۔ اس عرصہ میں اس کا شوہر اس سے علیحدہ رہتا اور جب تک اُس عورت کو اس شخص سے حمل ظاہر نہ ہوتا جس سے اس نے استبضاع چاہا تو شوہر اُس کو ہاتھ نہ لگاتا۔جب اس سے اُس کا حمل ظاہر ہوجاتا اس وقت اس کا شوہر جب اُس کا جی چاہتا اُس کے ساتھ ہم بستر ہوتا۔ استبضاع اُن سرداروں اورر ؤساء کے ساتھ کراتے تھےجو شجاعت یا سخاوت وغیرہ اوصاف میں مشہور ہوتے تھے اوریہ اس لئے کرتے تھے کہ بچہ نجیب وشریف پیدا ہو۔ کیونکہ عمدہ نر کے پانی سے عمدہ ہی اولاد ہوتی ہے گویا اکابرداور شرفاء سے تخم لینے کا نام استبضاع تھا۔ آریوں کا نیوگ اور یہ صورت ایک قسم کی ہے۔حیض سے پاک ہونے کے بعد اس لئے کرتے تاکہ اس عورت کو حمل رہ جائے۔ کیونکہ اس وقت نطفہ ٹھہرانا زیادہ یقینی ہے ۔ (2)

۳۔ نکاح کی ایک اور قسم : چند آدمی مل کر جو دس سے کم نہ ہوتے عورت کے پاس جاتے اور نوبت بہ نوبت اُس سے ہمبستر ہوتے۔ یہ کام عورت کی رضامندی اورآپس کے اتفاق سے کرتے۔ جب عورت حاملہ ہوجاتی اورمدت مقررہ کے بعد بچہ جنتی اوربچہ پیدا ہوئے چند دن گذرجاتے تو ان سب کو اپنے پاس بلواتی وہ سب اُس کے پاس جمع ہوجاتے کسی کی یہ مجال نہ ہوتی کہ اُس کے پاس آنے سے انکار کرے جب وہ اس کے پاس جمع ہوجاتے تو اُن سے کہتی کہ تم نے جو میرے ساتھ کیا ہے تمہیں معلوم ہے۔ اب میں نے یہ بچہ جنا ہے سوائے فلانے یہ تیرا بیٹاہے۔ عورت جس کو چاہتی اس کا نام لےدیتی اور وہ اس کا بیٹا قرار جاتا۔ وہ شخص اُس کے قبول کرنے سےانکار نہ کرسکتا تھا یہ اس وقت ہوتا تھا جب بچہ لڑکا ہوگا اوراگرلڑکی ہوتی تو اس کےلئے اُس کی ضرورت نہ تھی کہ کس کی بیٹی قرار دیا جائے۔ کیونکہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔

۴۔ نکاح کی ایک اورقسم : بہت سے آدمی جمع ہوکر عورت کے پاس جاتے وہ کسی کو جو اس کے پاس آتا منع نہ کرتی۔ یہ فاحشہ عورتیں تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں کھڑی کرتی تھیں۔ یہ جھنڈیاں اس بات کی نشانی ہوتی تھیں کہ جو اُن کے پاس آنا چاہے چلاآئے۔ کسی کوممانعت نہیں ہے۔ ان میں سے جب کوئی عورت ان میں سے حاملہ ہوجاتی اوربچہ جنتی تو سب اُس کے پاس جمع ہوجاتے اورایک قیافہ شناس(چہرہ ديکھ کر آدمی کا کردار معلوم کرنا) کو بلاتے۔ قیافہ شناس بچہ کو جس کے مشابہ پاتا اس کا بیٹا قرار دیتا۔ عورت بچہ اس کو دے دیتی اور وہ اس کا بیٹا کہلانے لگتا۔ مرد اس سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ جاہلیت میں اپنے دروازوں پر جھنڈیاں کھڑی کرنے والی عورتوں میں سے ہشام بن ابکلی نے کتاب شاب میں دس سے زیادہ مشہور عورتیں کے نام بیان کئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک عورت ام مہزول تھی جو جاہلیت میں زنا کراتی تھی۔ اسلام کے زمانہ میں بعض صحابہ نے اس سے نکاح کرنا چاہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الزانیتہ لاینکحہما الازان ادمشرک۔یعنی زانیہ عورت سے نکاح کرنا زانی یا مشرک کاکام ہے۔

۵۔ نکاح الخدن ۔ اس کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ فحصنات غیر مافحات دلا متخذات اخدان۔

خدن کے معنی یارانے کے ہیں یعنی مخفی (چھپا ہوا)طورپر کسی عورت سے یارانہ کرنا زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ جونکاح چھپا کر کیا جائے اس میں مضائقہ نہیں ہے لیکن جونکاح ظاہر ہو وہ منحوس ہے۔

۶۔ نکاح متعہ: متعہ کی یہ صورت تھی کہ عورت سے ایک مدت معینہ کےلئے نکاح کرتے تھے جب مدت ختم ہوجاتی تھی تو زوجین کے درمیان خود بخود فرقت(عليحد گی) واقع ہوجاتی تھی۔

(2) بلوغ الارب فی احوال العرب۔

۷۔ نکاح البدل: اس کی یہ صورت تھی کہ ایک مرد دوسرے مرد سے کہتا تھاکہ تومیرے لئے اپنی عورت سے جدا ہوجا۔ میں تیرے لئے اپنی عورت سے علیحدہ ہوتاہوں اس طرح پردہ آپس میں ایک دوسرے سے اپنی بیویاں بدل لیتے تھے۔ اوریہ اُن کے نزدیک نکاح تھا۔

۸۔ نکاح شغار : اس کی یہ صورت تھی کہ آدمی اپنی بیٹی یا بہن یا بھتیجی یا کسی اور عزیز کو اس پر کسی کے ساتھ بیاہ دیتا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن یا بھتیجی یا کسی اور عزیز کو اس کے ساتھ بیاہ دے۔ ان دونوں نکاحوں میں مہر کسی کا مقرر نہیں کیا جاتا تھا بلکہ یہ آپس کا تبادلہ یعنی ایک نکاح دوسرے نکاح کا مہر ہوتا تھا۔ ہندوستان میں اس کو اٹا ساٹی کہتے ہیں۔ لیکن یہاں دونوں نکاحوں میں مہر بھی ہوتا ہے۔ جاہلیت میں سوائے تبادلہ کے مہر کچھ نہیں ہوتا تھا۔

اہل جاہلیت : ماں ،بیٹی ، خالہ ، پھوپھی ، بہن، بھانجی، بھتیجی ،اوران تمام عورتوں سے نکاح نہیں کرتے تھے۔ جن سے شریعت اسلام میں نکاح کرنا حرام ہے۔ ان رشتہ دارعورتوں کو خواہ وہ نسبی ہوتیں یا رضاعی(دودھ شريک بھائی بہن)۔ نکاح میں لانا حرام جانتے خصوصاً قریش اس بارہ میں سب سے زیادہ حیا اور غیرت والے تھے اور ان ازحام قریبہ کی حرمت کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھتے تھے۔ مسلمانوں کےہاں جو عورتیں محرمات میں داخل ہیں۔جاہلیت میں اُن میں سے صرف دوصورتیں مستشنیٰ تھیں۔ اول یہ کہ وہ لوگ اپنے باپ کی منکوحہ سے نکاح میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ اُس کو میت کا ترکہ(جائيداد) تصور کرتے تھے۔ باپ کی بیوی کا سب سے زيادہ مستحق اُس کا بڑا بیٹا خیال کیا جاتا تھا۔ اگر وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تو بے تامل (بلا سوچے)کرلیتا کوئی عیب نہ تھا۔ چنانچہ جاہلیت میں ایسے بے شمار نکاح ہوئے ہیں یہ لوگ اس قسم کا نکاح کرتے تھے اُن کو ضیزن کہا جاتا تھا۔ بنی قیس بن ثعلبہ میں سے تین بھائیوں نے یکے بعد دیگرے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا۔ اوس بن حجر تمیتی اُن کو اُن کے اس فعل پر عار(شرم)دلاتاہے۔

نیکو افیکھتہ وامشواحول قبتھا

فکلمہ لابیہ ضیزن سلف

فکیہ سے ہم بستر ہو اور اُس کے قبہ کے گرد چکر لگاؤ

تم سب اپنے باپ کے میزن سلف۔

اگر میت کا بڑا بیٹا اُس کی بیوی سے نکاح کرنا نہ چاہتا تو اُس کے چھوٹے بھائی کرلیتے اور اگر وہ بھی نہ چاہتے تو میت کا اور کوئی قریبی رشتہ دار کرلیتا اس میں عورت کی رضا مندی کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ وہ میت کا ترکہ (جائيداد)تھی۔ جو کوئی اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا وہی اُس کے نکاح کا مالک ہوجاتا۔ جاہلیت میں اس نکاح کو نکاح مفت کہتے تھے اورجو اولاد اس سے پیدا ہوتی تھی اُس کو مقتی۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے اس نکاح کو حرام فرمایا اوراس کی مذمت میں یہ آیت نازل فرمائی وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًایعنی جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے تم اُن عورتوں سے نکاح نہ کرو۔ پہلے جو ہوچکا سوہوچکا۔ یہ نکاح کرنا بے حیائی اورخدا کے غصے کا باعث ہے۔

دوسری صورت جو شریعت اسلام کے خلاف تھی یہ تھی کہ وہ لوگ نکاح میں دوسگی بہنوں کی ایک وقت میں جمع کرلیتے تھے۔ اس میں بھی اُن کے نزدیک کوئی عیب نہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کو بھی ان تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ نازل فرما کر حرام فرمایا۔ یعنی تم پر دوبہنوں کا ایک وقت میں نکاح جمع کرنا حرام ہے۔

جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد معین (مقرر)نہ تھی۔ مرد جس قدریہ بیویاں چاہتے تھے کرلیتے تھے۔ چنانچہ جب قیس بن حارث مسلمان ہوئے تو اُس وقت اُن کے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں اور غیلان بن سلمہ ثفقی کے اسلام قبول کرنے کے وقت ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں اسلام نے زیادہ سے زیادہ چارنکاحوں کی اجازت دی اوراس سے زیادہ کی ممانعت کردی۔(رسوم جاہلیت صفحہ ۴۲ سے ۴۷ تک)

خطبات احمدیہ مصنفہ سرسید مرحوم اور رسوم جاہلیت مصنفہ مولوی نجم الدین صاحب نے جو کچھ صابیوں کے مذہب وعقائد ورسوم کی بابت فرمایا عام طور سے بت پرست عربوں کے مذہب وعقائد کا بیان فرمایاہے وہ یہودیت وعیسائیت کے اثر سے غیر موثر زمانہ کے عربوں کا یا صابیوں کا بیان ہے جو عرب یہودیت وعیسائیت کے اثر سے موثر نہ ہوئے تھے وہ واقعی ایسے ہی مذہب وعقائد ورسوم کے ماننے والے تھے جیسے مذہب وعقائد ورسوم کا سرسید اورمولوی نجم الدین صاحب نے بیان فرمایا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اس بیان کو پورا بیان نہیں مان سکتے۔

سرسید اورمولوی نجم الدین صاحب نے خصوصاً صابیوں اور حنفاء کے بیان میں صفائی وتکمیل کا بہت کم خیال رکھاہے۔ ان بزرگوں کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ گویا بُست پرست عربوں میں یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا واحد خدا کو ماننے والے عرب بھی موجود تھے جن کو حنفاء کہا گیا ہے۔ پر ہمیں اس قدر اعتراف ہے کہ حضرت محمد کے زمانہ سے پیشتر تمام عرب میں واحد خدا کے عالم وعارف وعابد صرف یہودی اور عیسائی ہی موجود تھے۔یا ان دونوں مذاہب کے متلاشی(تلاش کرنے والے) ہونگے جو واحد خدا کا اعتراف واعتقاد رکھتے ہونگے پھر ان متلاشیوں کو یہودیوں اور عیسائیوں سے الگ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سوا عرب میں کوئی فریق کثر یاقلیل ایسا متحقق (تحقيق کرنے والا) نہیں ہوسکتا جسے عرب کے موحدین کا نام دیا جاسکے۔

نویں فصل

قبل از حضرت محمد عرب میں غیر عربی مذاہب کی ہستی واشاعت

حضرت محمد کی پیدائش سے پیشتر عرب میں غیر عربی مذاہب کی زبردست اشاعت ہوئی تھی۔ان میں ایک تویہودی مذہب تھا۔ دوسرا عیسائی مذہب تھا۔ تیسرا ایرانی مذہب تھا۔ ان ہر سند مذاہب کا بیان ذیل میں کیا جاتاہے۔

دفعہ ۱۔ عرب میں ایرانی مذہب۔ یہ مذہب دراصل یہودیت وعیسائیت کے بعد عرب میں آیا۔ چونکہ ایرانی مذہب تبلیغی مذہب نہ تھا۔ اس وجہ سے عرب میں اس کی بہت اشاعت نہ ہوئی۔ نہ یہودیت وعیسائیت کے مقابل اس کی لوگوں نے کچھ قدرومنزلت کی۔ ابن ہشام میں اس کا ذکر حسب ذيل آیاہے۔

اس کے بعد ملک یمن حبشیوں کے ہاتھ سے نکل کر ایرانیوں کے قبضہ میں آیا تو کچھ مدت تک دہرز حکومت کرتا رہا پھر جب دہرز کا انتقال ہوگیا۔ تو نوشیرواں نےدہرز کے بیٹے مرزبان کویمن کاحاکم مقرر کردیا اور مرزبان کے بعد اس کے بیٹے تینجان کو وہاں کا امیر بنادیا۔ تینجان کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے کو مقرر کردیا۔ پھر اُس کو معزول(برطرف کرنا) کرکے ایک شخص مسمی باذان کو یمن کا امیر مقرر کردیا تھا رسول اللہ کی بعثت(رسالت) کے وقت یہی باذان یمن کا بادشاہ تھا۔ زہری کاقول ہے کہ جب رسول مبعوث ہوئے اور آپ کی شہرت کسرا کے کان تک بھی پہنچی تو نوشیرواں نے یمن کے حاکم باذان کولکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قبیلہ قریش کے ایک شخص نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔

تم اُس کے پاس جاؤ اوراُس سے توبہ کے خواستگار(طلب گار) بنو۔ اگر وہ اپنےدعویٰ سے باز آجائے تو فبہا(بہت خوب) ورنہ اُس کا سر میرے پاس بھیج دو۔ جب باذان کے پاس نوشیرواں کا یہ خط پہنچا تو اُس نے وہی خط رسول اللہ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہ نے اس کے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبردی یہ خط پہنچا تواُس نے وہ جواب نوشیرواں کے پاس نہ بھیجا اورانتظاری کرنے لگے کہ اگر یہ نبی ہوگا تو اس کا قول صحیح ہوگا ورنہ پھر دیکھا جائے گا۔ مگراللہ تعالیٰ نے نوشیرواں کو اسی روز قتل کروایا جس کا وعدہ رسول اللہ وسلم کو دیا گیا تھا۔ابن ہشام کہتاہے کہ جب باذان کو نوشیرواں کے قتل کی خبر پہنچی تواسلام لے آیا اوربہت سے ایرانی بھی اُس کے ساتھ اسلام لانے میں شریک ہوئے۔پھر اُنہوں نے ایک قاصد اپنی طرف سے رسول اللہ کی خدمت میں بھیج کر اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور دریافت کیاکہ اب ہم کس کی طرف منسوب ہونگے۔ رسول اللہ نے فرمایا اوراب تم مجھ سے ہو اور میری طرف منسو ب ہو اور تم میرے اہل بیت ہو۔ اس واسطے رسول اللہ نے سلیمان فارسی کے حق میں کہا تھا (سلیمان منا اہل بیت ) سلیمان ہمارے اہلِ بیت سے یہاں تک تویمن کی کیفیت بیان ہوئی۔ اب یہ بیان کیا جاتاہے کہ عرب میں بُت پرستی کی بنیاد کیونکر پڑی۔ اس کےو اسطے نزار بن معد کی اولاد کا حال قابل ذکر ہے (سیرت ابن ہشام صفحہ ۲۳)۔

دفعہ ۲۔ عرب میں یہودی قوم کی آمد: مولانا عبدالسلام صاحب ندوی لکھتے ہیں۔ عمالقہ کے بعد مدینہ میں یہود آباد ہوئے۔ اُن کے آباد ہونے کے متعلق روائتییں ہیں۔ ایک روایت تویہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی سرکوبی(سر کچلنا) سے فارغ ہوچکے تو اُنہوں نے شام میں کنعانیوں کی سرکوبی کےلئے ایک فوج روانہ کی۔ اوران کو بالکل تباہ وبرباد کردیا۔اس کے بعد ارض حجاز میں عمالیق کی طرف فوج بھیجی اورحکم دیا کہ بجز ان لوگوں کے جو یہودی مذہب کو قبول کرلیں وہاں کسی بالغ شخص کا وجود باقی نہ رہے۔ چنانچہ یہ فوج ارض حجاز میں آکر عمالقہ سے معرکہ آرا ہوئی اوراُن کو شکست دی اور اُن کے بادشاہ ارقم کو قتل کردیا اوراس نے اس بادشاہ کے ایک لڑکے کو بھی گرفتار کرلیا لیکن چونکہ وہ نہایت حسین اورنوخيز تھا اس لئے اُس نے اس کے قتل کرنا پسند کیا اور اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رایِ پر موقوف رکھا لیکن یہ لوگ جب اس نوجوان کو لیکر چلے تو اُن پہنچنے سے پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال ہوچکا تھا اس لئے اسرائيل نے اُن کا خیر مقدم کیا۔ حالات واوقعات پوچھے اورمژدہ فتح(فتح کی خبر) سننے کے بعد اس جوان کا حال دریافت کیا۔ ان لوگوں نے اس کا واقع بیان کیا تو ان لوگوں نے متفقہ کہا کہ یہ ایک گناہ کا کام ہے کیونکہ تم نے اپنے پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اب تم ہمارے ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ کہکر اُن کو شام میں آنے سے روک دیا۔ اب اس فوج نے یہ رایِ اقرار دی کہ اپنے ملک کے بعد ہمارے جدید مفتوحہ ملک (فتح کيا ہوا)سے بہتر کوئی جایِ قیام (رہنے کی جگہ )نہیں ہے چنانچہ وہ حدود شام سے پلٹ کر حجاز اورمدینہ میں آکر آباد ہوگئے۔ اس کے بعد کاہن بن ہارون علیہ السلام کی اولاد بھی مدینہ کے نشیبی حصہ میں آکر آباد ہوگئی اوراس طرح ایک مدت تک مدینہ میں یہود کا قیام رہا۔

اس کے بعد رومیوں نے شام پر فاتحانہ حملہ کیا اوربکثرت یہودیوں کو تہ تیغ(تلوار سے قتل کيا) کردیا۔ اس حالت میں بنوقریظہ اوربنو نضیر شام سے بھاگ کر حجاز میں آئے اوراپنے اسرائيلی بھائیوں کے ساتھ آباد ہوگئے۔

اسی سلسلہ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب شاہِ روم نے شام میں یہودیوں کو شکست دی توبنو ہارون کے خاندان میں شادی کرنا چاہی لیکن یہودی مذہب عیسائیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ لوگ بلطائف الحیل اُس کو دھوکہ سے قتل کرکے حجاز میں بھاگ آئے اوریہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

لیکن طبری کی ایک روایت یہ ہے کہ جب بختصر نے شام میں یہودیوں کو تباہ وبرباد کرکے بیت المقدس کو منہدم (گرانا)اورویران کردیا تو وہ وہاں سے نکل کر حجاز میں آکر آباد ہوگئے۔

انصار : انصار اصل میں یمن کے رہنے والے تھے اور قحطانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یمن میں جب مشہور سیلاب آیا جو سیل عرم کے نام سے مشہور ہے تویہ لوگ یمن سے نکل کر مدینہ میں آباد ہوگئے۔ یہ دوبھائی تھے اوس اور خزرج تمام انصار انہی دوکے خاندان سے ہیں۔ ان لوگوں نے مدینہ میں قیام کیا تو ابتداء میں نہایت تکلیف اور عسرت (تنگی)کے ساتھ محکومانہ اور غلامانہ زندگی بسر کی۔ بنو قریضہ اوربنو نضیر نے یہاں شاہانہ اقتدار حاصل کرلیا تھا اورانصار ان کو خراج دیتے تھے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتاہے۔

نووی الخرج بعد خراج کسری

وخرج بنی قریظہ والنضیر

اس وقت تمام یہود اوس اور خزرج میں بادشاہ کے زیر فرمان تھے اُس کا نام فیطوان یا فیطون تھا اور وہ اس قدر جابرانہ اور مستبدانہ(خود مختار) حکومت کرتاتھا کہ جب کسی باکرہ (کنواری)لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو شوہر کے پا س جانے سے پہلے اس کو مجبوراً اس کے شبستان ِعیش (بادشاہوں کے سونے کا کمرہ)میں ایک رات بسر کرنی پڑتی تھی۔ اس وقت انصار کے سردار مالک بن عجلان تھے جو نہایت غیور اور باحمیت (غيرت مند)تھے۔ چنانچہ اُن کی بہن کی شادی ہوئی اور رخصتی کا وقت آیا تو وہ اپنی پنڈلیوں کو کھولے ہوئے بھری مجلس میں آئی۔ اتفاق سے مالک بن عجلان بھی مجلس میں تھے۔ اُنہوں نے اس کی یہ دیدہ دلیری دیکھی تو اُس کو لعنت ملامت کی لیکن اس نے کہا کہ " آج شب کو جو واقعہ پیش آنے والا ہے وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ کیونکہ مجھے اپنے شوہر کے علاوہ ایک دوسرے شخص کے پاس رات بسر کرنی ہوگی۔ یہ کہکر وہ گھر کے اندر چلی گئی اورمالک بھی جوش وغصہ سے بیتاب ہوکر اُس کے ساتھ گھر میں آئے اورباہم یہ رائے قرار پائی کہ جب فیطون اُس کے پاس آئے تو اُس کا کام تمام کردیں۔ چنانچہ اس قرار داد کے بموجب وہ عورتوں کے لباس میں اُس کے ساتھ گئے۔ اورجب فیطون اُن کی بہن کے پاس آیا تو اُنہوں نے تلوار سے اس کا کام تمام کردیا اور مدینہ سے بھاگ کر شام میں غسانی خاندان کے بادشاہ ابوجلیلہ کے دامن مں پناہ لی اوراس کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ابوجلیلہ نے فیطون کے جبر وتشدد کی یہ پرور وداستان سنی تو قسم کھائی کہ جب تک مدینہ پہنچ کر یہود کوتباہ وبرباد نہ کریگا نہ کسی عورت سے مقاربت(ہم بستری) کرے گا نہ شراب پئے گئے۔ اورجب فیطون اُن کی بہن کے پاس آیا تو اُنہوں نے تلوار سے اس کا کام تمام کردیا اورمدینہ سے بھاگ کر شام میں غسانی خاندان کے بادشاہ ابو جلیلہ کے دامن میں پنا ہ لی اوراس کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ابوجلیلہ نے فیطون کے جبروتشدد کی یہ پرورد داستان سنی تو قسم کھائی کہ جب تک مدینہ پہنچ کر یہود کو تباہ وبرباد نہ کرے گا نہ کسی عورت سے مقاربت کرے گا نہ شراب پئے گا اور نہ خوشبولگائے گا۔ چنانچہ ایک عظیم الشان فوج کے ساتھ شام سے روانہ ہوکر مدینہ کے قریب مقام ذی حرمین میں پڑو ڈالا اوراس اور خزرج کو مخفی(خفيہ)طورپر یہ پیغام کہلا بھیجا کہ وہ تمام یہودی سرداروں کودھوکے سے قتل کردینا چاہتے ہيں۔ لیکن اگر ان کو خبر ہوگئی تو قلعہ گیر ہوجائینگے۔ اس لئے یہ راز کسی پر افشا (ظاہر)نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد یہودیوں کے سرداروں کودعوت دے کر بلایا اور صلہ وانعام کی توقع دلائی۔ چنانچہ یہ لوگ اپنے خدم وحشم کے ساتھ شرکتِ دعوت کےلئے روانہ ہوئے۔ اورجب سب کے سب آگئے تو اُن لوگوں کو خیمہ کے اندر لے جاکر قتل کردیا اوریہ پہلا دن تھا۔ کہ اوس خزرج نے مدینہ میں اقتدار حاصل کیا۔ سال وجائیداد کے کے مالک ہوئے نہایت کثرت سے قلعے بنائے اورایک مدت تک متحدہ طاقت کے ساتھ شاہانہ زندگی بسر کی۔ لیکن اس کے بعد خانہ جنگیوں کا ایک طویل سلسلہ جس کی ابتدا جنگ سمیر سے ہوئی قائم ہوکر تقریباً ایک سو بیس برس تک قائم رہا اوران لڑائیوں میں انصار کی متحدہ طاقت بالکل پاش پاش ہوگئی۔ (تاریخ الحرمین شریفین صفحہ ۱۷۴سے ۱۷۶)۔

مولانا عبدالسلام پھر لکھتےہیں کہ۔ چنانچہ سب سے پہلے سلاطین حمیر تبع بن حسان نے جو یہودی تھا کوشش کی اوراس خزرج کی جنگ سے فارغ ہوکر مدینہ سے واپس آنا چاہا تو خانہ کعبہ کے منہدم (گرانا)کرنے کا قصد (ارادہ) کیا لیکن اس کے ساتھ جو احبار یہود تھے انہوں نے اس کو روک دیا۔۔۔۔ اور واپس چلاآیا۔ صفحہ ۱۱۰ سیرت ابن ہشام صفحہ ۷، ۸ تک تبع بن حسان کا مفصل بیان ملاحظہ ہو۔آپ پھرلکھتے ہیں کہ

عرب کی تجارت تمام تریہودیوں کے ہاتھ میں تھی اوراُن کے مہاجنی کا روبار کا جال تمام ملک میں پھیلاتھا۔ ملک میں غلہ اورسامان شام کے بنطی اوریہودی لاتے تھے اوریہی یہاں کے بیوپاری تھے۔ یہودیوں کی تجارتی کوٹھیاں جو قلعوں کا مقابلہ کرتی تھیں ہر جگہ قائم تھیں "۔ صفحہ ۱۰۔

اپنے خطبات میں سرسید عرب کے یہود کا مندرجہ ذیل بیان لکھتے ہیں۔ یہودی مذہب کوشام کے یہودیوں نے عرب کے ملک میں شائع کیا تھا جو اُس ملک میں جاکر آباد ہوئے تھے۔ بعض مصنف ناواجب جرات کرکے یہ رائ دیتے ہیں کہ ایک قوم قوم بنی اسرائيل کی اپنے جتھے سے علیحدہ ہوکر ملک عرب میں جابسی تھی اور وہاں اکثر قوموں کو اپنا مذہب تلقین کیا۔ مگر یہ رایِ صحت سے بالکل معرا (آزاد) ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہودی مذہب عرب میں اُن یہودیوں کے ساتھ آیا تھا جو 35صدی دینوی میں یا پانچویں صدی قبل حضرت مسیح کے بخت نضر کے ظلم سے جو ان کے ملک اور قوم کی تخریب کے درپے ہوا تھا بھاگ گئے تھے اورشمالی عرب میں بمقام خیرآباد ہوئے تھے۔ تھوڑے عرصے بعد جبکہ اُن کی مضطرب(پريشان ) حالت نے کسی قدر سکون اور قرار پکڑا اُنہوں نے اپنے مذہب کو پھیلانا شروع کیا اورقبیلہ کنانہ اور حارث ابن کعب اورکندہ کے بعض لوگوں کو اپنے مذہب میں لائے جبکہ 3650 دینوی میں 354 قبل مسیح کے یمن کے بادشاہ ذونواس حمیری نے مذہب یہوداختیار کیا۔ تب اُس نے اور لوگوں کو بھی بالجبر اس مذہب میں داخل کرکے اس کو بہت ترقی دی۔ اُس زمانہ کے یہودیوں کو عرب میں بڑا اقتدار حاصل تھا اوراکثر شہر اور قلعے اُن کے قبضے میں تھے۔

اس بات کے یقین کرنے کا قوی قرینہ یہ ہے کہ یہودی بُت پرستی کو گوغصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہونگے مگر عرب کی کوئی مقامی روایت اس مضمون کی نہیں پائی جاتی کہ خانہ کعبہ کی نسبت ان یہودیوں کی رائے عربوں کی رائے سے برخلاف تھی۔ مگر یہ امر تسلیم کیا گیاہے کہ ایک تصویر یا مورت حضرت ابراہیم کی جن کے پاس ایک مینڈھا قربانی کے واسطے موجود کھڑا تھا یہودیوں کے ذریعے سے خانہ کعبہ میں اُس بیان کے مطابق جو توریت میں ہے کھینچی گئی ہوگی یا رکھی گئی ہوگی۔ کیونکہ یہودی اس قسم کی تصویروں یا مورتوں کے بنانے اور رکھنے کوگناہ نہیں سمجھتے تھے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ یہودیوں کے ذریعہ سے ملک عرب میں خدا تعالیٰ کی معرفت کاعلم جیساکہ قبائل عرب میں بالعموم پیشتر تھااُس سے بھی دوچندہوگیا۔ وہ عرب جنہوں نے یہودی مذہب قبول کرلیا تھا اور وہ لوگ بھی جو اُن سے ساہ ورسم رکھتے تھے۔ اس سے فائدہ مند ہوئے تھے۔ کیونکہ یہودیوں کے پاس ایک عمدہ قانونِ شریعت اور سوشیل اورپولٹیکل کا موجود تھا اوراس زمانہ کے عرب اس قسم کی چیز سے بالکل بے بہرہ تھے۔ اس سے ایک مغفول (بخشا گيا)طورپر استنباط (نتيجہ اخذ کرنا)ہوتاہے کہ بہت سے خانگی(ذاتی۔خاص) او رسوشیل آئین اور رسوم کو جو اس قانون میں مذکور ہیں عربوں نے اختیار کرلیا ہوگا۔ خصوصاً یمن کےرہنے والوں نے جہاں کہ اُن کے بادشاہ ذونواس نے یہودی مذہب قبول کرلیا تھا۔۔۔۔۔ اوراس نے یہودی مذہب کی ترویج (رواج دينا۔اشاعت کرنا)میں کوشش کی ہوگی۔

ہم کو اس مقام پر مذہب یہود کےمسائل اور عقائد اوراُن کی رسموں اور طریقوں پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی کیونکہ یہ سب باتیں توریت میں موجود ہیں اورہر شخص اُن سے کسی نہ کسی قدر واقف ہے۔ اور وہ امورجن کا بیان کرنا ہم کو بالتخصیص مدنظر ہے۔ اُس مقام پر بیان ہونگے جہاں کہ ہم مذہب یہود اور اسلام کے تعلق باہمی پر بحث کرینگے۔ (الخطبات احمدیہ صفحہ ۱۴۱، ۱۴۲)۔

بیان مافوق میں چار یہودی بادشاہوں کا ذکر ہوچکاہے یعنی ملکہ سباکا۔تیغ بن حسان کا۔ حارث کا۔ ذونواس کا۔ ان یہودی سلاطین عرب کے زمانوں میں یہودی مذہب کی عرب میں کافی اشاعت ہوئی ہوگی۔ اگرچہ سرسید نے صرف قبیلہ کنانہ۔ حارث بن کعب اورکندہ کا ہی یہودی ہونا مانا ہے۔

مگر ابن ہشام عرب کے یہودی قبائل کی فہرست میں اچھا خاصہ اضافہ کرتاہے۔جن کے نام ذیل میں درج ہیں۔ مثلاً بنی عوف (۲) بنی نجار(۳) بنی حرث(۴)بنی ساعدہ(۵) بنی جشم(۶) بنی اوس(۷) بنی ثعلبہ (۸) بنی شطنہ صفحہ(۱۷۸ سے ۱۸۰) تک قبیلہ طے۔جس میں سے کعب بن اشرف مشہور آدمی تھا۔ (۹) قیقاع (۱۰) بنی قریظ( ۱۱) بنی زریق(۱۲)بنی نضیر(۱۳) بنی حارثہ(۱۴) بنی عمرو ۔ بن عوف صفحہ ۱۸۳ سے ۱۸۴(۱۵) بنی مصطلق صفحہ ۳۵۵ اگران کےساتھ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں سول سرجن پٹیالہ کی تفسیر القرآن بالقرآن کے صفحہ ۵۹۹۔ ۶۱۳ تک پڑھ کر بنی غالب۔ اہل تھامہ۔ غطفان۔ اہل نجد کے نام یہودی قبائل میں شامل کرلیں تو عرب میں یہودیوں کی معقول (مناسب) آبادی ثابت ہوسکتی ہے اس کے سوا بھی ملک میں یہودی آبادی کا سراغ ملتاہے۔ چنانچہ ابن ہشام لکھتاہے کہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور نے (حضرت محمدنے) معاذ بن جبل کو یمن کی طرف رخصت کیا تو وصیت فرمائی تھی کہ لوگوں کے ساتھ نرمی کرنا سختی نہ کرنا اور بشارت(خوشی) دینا متنفر نہ کرنا اورتم ایسے اہل کتاب کے پاس جاؤ گے جو تم سے پوچھینگے کہ جنت کی کنجی کیا ہے؟ تم جواب دینا کہ جنت کی کنجی لا الہ اللہ وحد ہ لاشریک لا کی گواہی ہے صفحہ ۴۷۰۔

مزید براں عرب میں یہود پانچ وقت عبادت کیا کرتے تھے۔ اُن کی پانچ نمازیں غیر یہود عرب کے نزدیک نہایت پسندیدہ تھیں۔ ابن ہشام لکھتاہےکہ ابن اسحاق کہتےہیں کہ عاصم بن عمر ابن قتادہ بنی قریظہ کے ایک شیخ سے نقل کرتے کہ اُنہوں نے مجھ سے کہا تم کو معلوم ہے کہ ثعلبہ بن سعید اور اسد بن سعید اور اسد بن عبید جوبنی قریظہ کے بھائیوں میں سے جاہلیت میں اُن کے ساتھ اورپھر اسلام میں اُن کے سردار تھے اُن کے اسلام لانے کی کیا وجہ ہوئی۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے ان کے شیخ سے کہا مجھ کو نہیں معلوم شیخ نے کہا شام کے یہودیوں میں سے ایک شخص جس کا نام ہیبان تھا اسلام کے ظہور سے چندسال پیشتر ہمارے پاس آیا اورہمارے اندر ٹھہرا۔ پس قسم ہے خدا کی ہم نے کوئی شخص اس سے بہتر پانچوں نمازیں ادا کرنے والا نہ دیکھا اور وہ یہودی ہمارے ہاں ٹھہرا رہا۔چنانچہ ایک دفعہ امساک باراں (بارش نہ ہونا۔خشک سالی)ہوا۔ ہم نے اس سے کہا اے ابن ہیبان تم چل کر ہمارے واسطے دعا نزول بار ان کرو۔۔۔۔ اُس نے دعا کی اور ہنوز (اس وقت)وہ اپنی جگہ سے اٹھنے نہ پایا تھاکہ ابرنمودار ہوااور بارش شروع ہوئی الخ صفحہ ۶۶، ۶۷۔

ہم پیشتر اسلامی روایات سےدکھاچکے ہیں کہ یہودی عرب میں حضرت محمد سے پیشر صدیوں سے آباد چلے آتے تھے۔ یہودی واحد خدا کے پرستار تھے۔ اُن کے پاس پرانے عہدنامہ کے تمام صحائف تھے۔ اس کے سوا ان کے پاس روایات کی صخيم کتابیں(سائز ميں بڑی) تھیں۔ وہ علم وفضل میں غنی (مطمئن۔دولت مند)تھے۔ اُنہوں نے عرب میں اپنے دین کی اشاعت کی۔ ان کے وسیلے سے اہل عرب کو واحد خدا کا علم ہوا۔ عرب کے کئی ایک بادشاہ یہودی مذہب کے حامی ہوگئے۔ اُنہوں نے عرب میں اپنی ریاست قائم کی۔بہت سے قبیلے یہودی مذہب میں داخل ہوگئے۔ عرب میں یہودیوں نے بڑا اقتدار حاصل کیا۔ تمام عرب کی تجارت اُن کے ہاتھ میں آگئی۔

اگرچہ عرب میں یہودی مذہب کو قبولیت حاصل ہوئی۔ توبھی یہ بات سچ ہے کہ عرب میں یہودیوں نے اپنے مذہب کی اشاعت میں کمال غفلت (لاپرواہی)کی۔ اُنہوں نے ابتدا سے اپنے مذہب کو تبلیغی مذہب بنانے سے پرہیز کیا۔ گواُن کے نوشتے آج تک اس بات کے شاہد(گواہ) ہیں کہ اُن کا مذہب تبلیغی تھا وہ حضرت ابراہیم کی نسل کی برکات کو زمین کی اقوام کے گھرانوں تک پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ مگر توبھی یہودی قوم کے اماموں اورمولویوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کو گناہ سمجھا۔ انہو ں نے حضرت ابراہیم کے مذہب کی برکت میں غیر یہودیوں کی شرکت کو کبھی پسند نہ کیا۔ وہ غیر یہودی اقوام کو کتوں کے برابر خیال کرتے رہے اپنے پاک نوشتوں کو کبھی غیر یہودی اقوام کوسنانے پر راضی نہ ہوئے۔ اگروہ اپنی روایات غیر یہودی متلاشیوں کو اُن کے گلے ہی پڑجاتے تھے سنا کر انہیں اپنے مذہب میں شامل کرلیتے تھے۔ پر کبھی پرانے عہد کے نوشتے اُن کو نہ دیتے تھے۔ یہی روش (طور طريقہ)عرب کے یہود کی برابر قائم رہی۔ اسی وجہ سے تمام اہل عرب کووہ یہودی مذہب میں شامل کرنے سے رہ گئے۔ وہ عربوں کی مذہبی پیاس کو نہ بجھاسکے۔

توبھی یہ بات ماننے کے قابل ہے کہ یہودی قوم کے وسیلے سے عربوں کی دیرینہ جہالت وبت پرستی کی تاریکی میں واحد خدا کی صداقت کا ایک مدت تک نور چمکتا رہا۔ عربی یہودی اگرچہ عرب میں سیدنا مسیح کی مسیحائی کے منکر(انکار کرنے والے) رہے۔ توبھی وہ اپنے مسیح موعود کی آمد کے منتظر رہے ان کا یہ انتظار غیر یہود عربوں تک کو معلوم تھا۔ وہ حضرت محمد کے زمانہ کے قریب اپنے مسیح موعود کی آمد کے سخت انتظار میں تھے۔ اُنہوں نے یہودی مذہب کی عالمگیر فتح اور یہودی قوم کی عالمگیر خوشحالی کی تمام امیدیں اپنے مسیح موعود کی آمد کے گلے میں ڈال رکھی تھیں۔ یہ تمام امور ہیں جن سے کوئی تاریخ اسلام کا ماہر انکار نہیں کرسکتا ہے۔ سیرت ابن ہشام صفحہ ۶۶ سے ۶۷تک۔

عربی یہودی گو غیر یہود کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو بھی غير یہود عرب خصوصاً بُت پرست ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ وہ اُنہیں اہل علم یقین کرتے تھے۔ وہ ان کی پانچ وقتی نمازوں کو نہایت پسند کرتے تھے وہ ان سے میل ملاپ اور عہد ومعاہدہ رکھتے تھے وہ ان کے مذہب کے مخالف ومکاذب (جھٹلانے والے)نہ تھے۔ قرائن سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت محمد کے زمانہ کے قریب جو حنفاء ملک عرب میں نمودار ہوئے تھے۔ وہ دراصل یہودیت کے متلاشی یا یہودی مذہب سے متاثر لوگ تھے جنہو ں نے واحد خدا کا اعتقاد یہود سے لیا تھا۔ چونکہ حنفاء نے یہودیوں کے جد ِامجد(حضرت آدم۔پردادا) حضرت ابراہیم کی ملت کا اور واحد خداکا اقرار واعتراف کرلیا تھا۔ اس وجہ سے غیر مسیحی حنفاء کو یہود اور یہودیت سے ایک حد تک خوش اعتقادی ممکن تھی۔ چونکہ عرب میں یہودی مذہب تبلیغی مذہب نہ تھا۔ اس وجہ سے غیر مسیحی حنفاء یہودیت میں داخل ہونے سے محروم ہوکر اپنے ہی حال پر قانع (جو مل جائے اس پر راضی رہنے والے)ہوگئے تھے وہ یہود کی مسیحیت سے نفرت وحقارت کودیکھ کر خود بھی یہودیوں کی طرح مسیحیت سے نفرت کرتے تھے۔ پس یہود اور غیر یہود مسیحی حنفاء ایک دوسرے کے دوست ہوکر مسیحیت کے مخالف بن چکے تھے جس سے مسیحیت کی ترقی عرب میں رک گئی تھی۔

تاریخِ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ عربی یہودیوں نے عربی عیسائیوں پر حضرت محمد سے پیشتر سخت ظلم وستم کئے تھے۔ ذونواس حمیری کے مظالم کی داستانیں عرب میں عوام کی زبانوں پر تھیں مگرہم تاریخ اسلا م میں کوئی مثال ایسی نہیں پاسکتے جس سے یہ معلوم ہو کہ عرب کے یہودیوں نے عرب کے بُت پرستوں پر بھی ایسے ظلم کئے تھے۔ پس بیان مافوق سے ظاہر ہے کہ حضرت محمد کی پیدائش کے زمانہ کے قریب عیسائیت کی ترقی کی راہ میں یہودی اور وسط عرب کے غیر مسیحی حنفاء روک تھے۔ حنفاء کے ساتھ وہ تمام عرب تھے جو بُت پرستی اور شرک پرستی کا شکار بنے ہوئے تھے۔ پس حضرت محمد کی پبلک خدمت شروع کرنے سے پیشتر کے زمانہ میں عربی یہودیت کی یہی فتوحات تھیں۔جن کا ذکر ہواہے۔ مگر خدا عرب کے فرزند اعظم کو دنیا میں بھیج کر وہ کام کرنے کو تھاجو۔۔۔۔ عرب کے یہودیوں کے خواب وخیال میں نہ تھا بلکہ جس کی خبر دُنياکو نہ تھی۔

دفعہ ۳۔ عرب میں عیسائی مذہب کی نشوونما کا بیان

اہل یہود کے بعد ملک عرب میں عیسائی بھی داخل ہوئے۔ اُن کی بھی عرب میں ریاستیں اور حکومتیں قائم ہوئیں۔اس کے متعلق ذیل میں مورخین اسلام کا بیان برائے نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے سرسید کے بیان کو سب سے پیشتر نقل کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

یہ بات محقق ہے کہ عیسوی مذہب نے تیسری صدی عیسوی میں ملک عرب میں دخل پایا تھا جبکہ ان خرابیوں اور بدعتوں کی وجہ سے جو آہستہ آہستہ مشرقی کلیسیا میں شائع ہوگئی تھیں ۔ قدیم عیسائیوں کی تباہی ہوئی تھی۔اور وہ لوگ ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے تاکہ اورکسی جگہ جاکر پناہ لیں۔اکثر مشرقی اورنیز یورپئین مورخ جنہوں نے اس مضمون کو مشرقی مصنفوں سے اخذ کیا ہے اس بات میں پر متفق الرایِ ہیں کہ وہ زمانہ ذونواس کی سلطنت کا زمانہ تھا۔ مگرہم اس رائے سے کسی طرح اتفاق نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے حساب کے موافق جس کا بیان ہم نے خطبہ اول میں کیا ہے ذونواس کا زمانہ قریباً چھ سوبرس پیشتر اس واقع کے گذر چکا تھا اور اسی وجہ سے ہم ان مصنفوں کی اس رائےکو بھی تسلیم نہیں کرتے جنکا بیان ہے کہ ذونواس نے عیسائیوں کی تخریب کی تھی۔

اوّل مقام جہاں تک یہ بھاگے ہوئے عیسائی آباد ہوئے تھے نجران تھا اوراُس سے پایا جاتاہے کہ وہاں کے متعدد یہ لوگوں نے عیسوی مذہب قبول کرلیا تھا۔ یہ عیسائی فرقہ جیکوبائٹ یعنی یعقوبی فرقہ تھا اوراس لقب سے مشرقی فرقہ" مانوفیز ییٹز" کا موسوم کیا جاتا تھا اگرچہ صحیح طورپر یہ لقب شام اور عراق اوربابل کے فرقہ " مانو فریٹیز " پر اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیکوبائٹ کا لقب ایک شام کے راہب کے سبب سے جس کا نام جیکوبس پراڈیس تھا۔ اس فرقہ کا نام پڑگیا تھا اورجس نے کہ یونان کے بادشاہ جسٹی نین کے عہد میں اپنے ملک سے نکلے ہوئے " مانوفزیٹیز" کا ایک علیحدہ فرقہ قائم کرلیا تھا اُن کا عقیدہ یہ تھاکہ حضرت عیسیٰ صرف ایک صفت رکھتے ہیں یعنی ایک انسانی صفت نے اُن میں تقدیس کا درجہ حاصل کرلیاہے۔

عیسائی مصنفوں نے بیان کیا ہے کہ عیسوی مذہب نے اہل عرب میں بہت ترقی حاصل کی تھی۔ مگر ہم اس باب میں اُن سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ باستشنایِ صوبہ نجران کے جس کے اکثر باشندوں نے عیسوی مذہب اختیار کرلیا تھا قبائل حمیر، غسان، ربعیہ، تغلب ، بحرد، توتح ، طے ، قودیہ اور حیرہ میں معدود اشخاص نے اُن کی تقلید(پيروی) کی تھی۔ اور کوئی جماعت کثیر یا قوم کی عیسوی مذہب میں نہیں آئی تھی جس طرح کہ یہودی مذہب میں آگئی تھی۔ اغلب ہے کہ ان متغرق اعراب متنصرہ کی وساطت(ذريعہ) سے حضرت مریم کی تصویر خواہ مورت حضرت عیسیٰ کو گود میں لئے ہوئے خانہ کعبہ کی اندرونی دیواروں پر کھینچی گئی ہو یا اُس کے اندر رکھی گئی ہو۔

خانہ کعبہ میں متعدد قوموں کے معبودوں کی یا بزرگوں کی تصویریں یا مورتیں رکھی ہوئی تھیں اورجس فرقہ سے وہ تصویر یا مورت علاقہ رکھتی تھی وہی فرقہ اُس کی پرستش کرتا تھا۔ جبکہ عرب کے لوگوں نے یہودی اور عیسائی مذاہب اختیار کرلیا تھا تو اسی مذہب کے لوگوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت مریم کی تصویر یا مورت خانہ کعبہ میں رکھی یا کھینچی ہوگی۔کیونکہ جس طرح عرب کے اور فرقوں کو اپنے معبودوں یا بزرگوں کی مورتیں رکھنے یا کھینچنے کا کعبہ میں حق تھا اسی طرح اُن عربوں کو بھی حق تھا جو یہودی یا عیسائی ہوگئے تھے اورکسی کو اس کی ممانعت کا حق نہ تھا۔(الخطبات احمدیہ صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳)۔

سرسید نے عیسائی قوم کی عرب میں بہت ترقی تسلیم نہیں کی۔ آپ نےذونواس یہودی کی سلطنت کا زمانہ جمیع مورخینِ اسلام کے خلاف سیدنا مسیح سے پیشتر کے زمانہ میں ڈال دیا۔ باوجود اس کے آپ کو ماننا پڑا کہ صوبہ نجران کے باشندے قبائل حمیر، غسان، ربیعہ ، تغلب ، بحرد، تونخ، طے، تودیہ اورحیرہ کے لوگ عیسائی ہوگئے تھے۔ حجاز کا بادشاہ عبدالمسیح تھا۔

اس کے سوا یمن میں عیسائی بادشاہوں کی حکومت ہوچکی تھی۔جس کا بیان ذیل ابن ہشام نے کیا ہے۔

ابن اسحاق کہتاہےکہ ان مقتولوں میں سے جن کو ذونواس نے قتل کروایا تھا ایک شخص سبا کا رہنے والا دوس ذوثعلبان نامی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر بھاگ گیا تھا اور ریت کا راستہ اختیار کرلیا۔ ذونواس کے آدمیوں نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہ آیا۔ وہ بھاگ کر قیصر بادشاہ کی خدمت میں آیا اور ذونواس کے برخلاف اُس سے مدد کا طالب ہوا قیصر روم نے کہا تمہارا علاقہ پرلے ملک سے بہت دور ہے۔ میں تمہارے واسطے حبشہ کے بادشاہ کو لکھتاہوں۔ وہ تمہارے ہی مذہب (عیسائی ) پر ہے اورتمہارے ملک کے قریب ہے۔ پس قیصر روم نے بادشاہ حبشی کی طرف ایک رقعہ (خط)لکھا اوراس میں دوس ذوثعلبان کی رعایت وامداد کی تاکید کی۔ دوس قیصر روم سے خط لیکر نجاشی کے پاس آیا۔ نجاشی نے ستر ہزار حبشی اس کےساتھ کردئیے۔ اور اریاطہ نامی ایک شخص کو اُن کا سپہ سالا ر مقرر کیا اور اُس کے ساتھ اس کے لشکر میں ایک شخص تھا جس کا نام ابرھ الاشرم تھا۔ غرضيکہ اریاطہ لشکر حبش کو ساتھ لیکر دریا کے راستہ سے یمن کے ساحل پر آپہنچا اور دوس ذوثعلبان بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس طرف سے ذونواس بھی قبیلہ حمیر کی فوج اور قبائل یمن کو ساتھ لے کر اریاطہ کے مقابلہ پر آموجود ہوا۔ ہر دوطرف ہنگامہ کا بازار گرم ہوا تقدیر نے اریاطہ کی یادری کی اور ذونواس بھاگ نکلا اور اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور دریا کی گہرائی میں پہنچ کر لقمۂ اجل(موت) ہوگیا۔ اریاطہ نے یمن میں داخل ہوکر اُس پر قبضہ کرلیا اور اُس کا خود مختار بادشاہ بن گیا اور چند سال تک بےکھٹکے یمن میں اپنی سلطنت کا ڈنکا بجایا۔ اس کے بعد ابرھ الاشرم اور اریاط کے مابین منازعت(جھگڑا) ومخالفت ہوگئی۔ اس وجہ سے کچھ حبشی ابرھ کی طرف ہوگئے۔ اورکچھ اریاط کے طرف دار بن گئے۔ پھر مقابلہ کےلئے میدانِ جنگ میں آئے۔ ابرھ نے اریاطہ کو کہلابھیجا کہ میں اس طرح سے فوجوں کا مقابلہ کرواکر انہیں ہلاک کروانا نہیں چاہتا اورپہلے میں اورتو میدانِ مقابلہ میں آئیں۔ جو شخص ہم میں سے اپنے مد مقابل کو زک(شکست) دے سکے فریق مغلوب (ہارا ہوا گروہ)کی فوجیں فریق غالب کے پاس چلی جائیں۔ اریاط نے بھی اس شرط کو منظور کرلیا۔ پس ابرھ نے (یہ شخص پست قدبدصورت فربہ بدن تھا) اریاطہ پر ( یہ شخص خوبصورت ودراز قد متوسط البدن تھا) حملہ کرنا چاہا اور اپنے پیچھے اپنے ایک غلام مسمی عتودہ کو کھڑا کرلیا تاکہ وہ پیچھے سے اریاطہ کے حملے کو روکے۔ مگر اریاط نے ابرھ پر حربہ(داؤ) کا وار کیا اور چاہتا تھاکہ اُس کا سر اڑادے لیکن حربہ صرف اُس کے ابردرناک آنکھ اورلب پر پڑا اور قتل ہونے بچ گیا۔ مگر عتودہ نے جوابرہ کے پیچھے کھڑا تھا اریاطہ کو قتل کردیا اوربموجب معاہدہ کے اریاطہ کالشکر ابرھ کے زیر کمان آگیا اور تمام حبشی جویمن میں رہتے تھے ابرھ کے ماتحت ہوگئے جب اریاطہ کےقتل ہونے کی خبر نجاشی حاکم حبشہ کو پہنچی تو وہ بہت خفا ہوا اورابرھ کی اس حرکت پر بڑا ناراض ہواکہ اُس نے اریاطہ کو قتل کرایا۔ پھر نجاشی نے قسم کھائی کہ میں ابرھ کےشہروں کو پامال کرونگا اور اس کے سر کے بال کھینچونگا۔ جب ابرھ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اپنا سر منڈوایا اوریمن کی مٹی سے ایک تھیلی پُر کرکے نجاشی کے پاس بھیج دی اور لکھا کہ اے آقا نامدار کہ اریاطہ بھی آپ کا غلام تھا اوربندہ بھی آپ کا بندہ ہے۔ ہماراباہمی اختلاف ہوگیا تھا۔ بندہ اُس کی نسبت انتظام وضبط رعایا میں زیادہ قابلیت رکھتا تھا وہ میرے مقابلہ کی تاب نہ لایا اور تقدیر الہیٰ سے مقتول (قتل)ہوگیا۔ میں نے آپ کی قسم کا ارادہ سن کر اپنا سرمنڈوا لیا ہے اور اپنی زمین ملکِ یمن کی مٹی آپ کے پاس اس غرض سے بھیجی ہے کہ آپ اس کو اپنے پاؤں سے پامال کریں اوراس ملک کو اپنا ملک سمجھیں اور مجھے ایک وفادار تابعدار غلام تصور کریں۔ نجاشی یہ بات پڑھ کر خوش ہوگیا اوراُس کو لکھ دیاکہ جب تک میرا کوئی حکم تمہارے پاس نہ پہنچے اس وقت تک یمن میں پڑے ہو۔

پھر ابرھ نے صنعا میں ایک قلعہ بنوایا اوراس میں ایک ایسا عالیشان کیسہ (گرجا) بنوایا کہ اس کےزمانے میں روئے زمین پر کوئی گرجا اس کا ثانی نہیں تھا۔ پھر نجاشی کو لکھا کہ اے آقا نامدار میں نے آپ کی خاطر ایک ایسا گرجا بنوایا ہے کہ آپ سے پہلے کسی بادشاہ نے نہیں بنوایا تھا اورمیرا ارادہ ہے کہ لوگوں کو حج مکہ سے باز رکھ کر اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ جب ابرھ کا یہ خط نجاشی کے پاس پہنچا اوراہلِ عرب جو نجاشی کی رعیت تھے اُن کو یہ حال معلوم ہوا تو ایک شخص جو قبیلہ فقیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حرث بن مالک بن کنانتہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر کی اولاد میں سے تھا بڑا حنفا ہوا (اوریہ وہ خاندان ہے جو جاہلیت کے زمانہ میں حرام مہینوں کو اپنی مرضی کے مطابق ان میں سے ایک سال ایک مہینہ کو حرام سمجھتے اورایک مہینہ حرام کو حلال۔۔۔۔ سمجھ کر اس میں لڑائیاں لڑتے اور ایک سال اس کو حرام بناکر دوسرے کو حلال بنالیتے جس کی نسبت قرآن میں آیت ذيل کے اندر اشارہ ہے انما النیتی زيادتہ فی الکفر یفل بہ الذین کفر والحلونہ عاماً ویحرمونہ عاماً لیوا طو عدہ ماحرم اللہ۔ الخ اور جس شخص نے سب سے پہلے عرب میں یہ طریقہ ایجاد کیا تھا اس کا نام حذیفہ بن عبد فقیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حرث بن مالک بن کنانتہ بن حزیمہ ہے۔اس کے بعد حذیفہ کا بیٹا عباداس کام قائم ہوا۔ اس کے بعد عبادہ کا بیٹا قلع اور قلمع کے بعد اس کا بیٹا امیتہ اورامیتہ کے بعدا سکا بیاٹ عوف اور عوف کے بعد اس کا بیٹا ابوتمامہ جنادتہ اس کا م پر قائم رہا۔ یہاں تک کہ اسلام کا زمانہ آگیا اور زمانہ اسلام میں جو لوگ مہینوں حرام میں تاخیر روا رکھتے تھے ان کا سردار یہی ابوتمامہ بن عوف ہی تھا اور غیرت کی تاب نہ لا کر اس گرجے میں جوابرھ نے تعمیر کرایا اس کے اندر پاخانہ کردیا اوراپنے وطن کو بھاگ آیا اورابرھ کو خبر ہوئی۔ دریافت کیاکہ یہ کس نے کیا ہے۔ معلوم ہواہے کہ یہ کسی ایسے شخص کا کام ہے جو اہلِ عرب میں سے بیت اللہ کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہو۔ اس سے ابرھ کے تن میں آگ لگ گئی اورکہا بخدا اب میں بیت اللہ کو مسمار ومنہدم (گرانا)کئے بغیر نہ رہونگا۔ یہ ٹھان کر اہل حبش کو جو اس کا لشکر تھا حکم دیا کہ بیت اللہ کی طرف چلنے کی تیاری کرو۔ فوج روانہ ہوئی اور اُن کے ساتھ ایک مست ہاتھی بھی تھا جو معرکہ میں کام آیاکرتا تھا۔ اہل عرب کے کانوں میں بھی یہ آواز پڑی وہ اس کے سننے سے گھبراگئے۔ کہ اگرچہ ہم اس کے سامنے تابِ مقاومت نہ لاسکیں۔ تاہم اس کو حتی المقدور(جہان تک ہو سکے) روکنا اور مدافعت(دفاع کرنا) کرناہمارا فرض ہے۔ چنانچہ ایک شخص ذوتفرنامی جو اشراف یمن کی اولاد سے تھا ابرھ کے مقابلہ کے واسطے آکھڑا ہوا اوراہل عرب میں سے اُن کو بھی جو اس کی امداد کیلئے تیار ہوئے اپنے ساتھ ملالیا مگر شکست کھائی اوراسیر ہوکر ابرھ کے سامنے لایا گیا۔ ابرھ نے ذوتفر کے قتل کا فتویٰ دیا دوتفر نے کہا اے بادشاہ مجھے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے کہ میری زندگی آپ کے حق میں بہ نسبت موت کے زیادہ مفید ہو۔ یہ بات ابرھ کو پسند آئی۔ قتل سے آزاد کرکے اپنے پاس مجوس(آتش پرست) رکھا پھر وہاں سے آگے بڑھا۔ جب ارض ِخشعم میں پہنچا توایک شخص نفیل بن حبیب خشعم کے دوقبیلوں شہران وناہس کو ساتھ لے کر اُس کے مقابلہ کو آیا۔ مگر اُس نے بھی شکست فاش کھائی اوراسیر ہوکر ابرھ کے سامنے لایا گیا۔ جب ابرھ نے اس کے قتل کا حکم صادر کیا توکہا اے بادشاہ مجھے قتل نہ کرو میں آپ کو عرب کی زمین تک پہنچانے کے واسطے رہبر کا کام دونگا اوریہ دونوں میرے قبیلے شہر ان اورناہس آپ کی اطاعت وفرنبرداری کے لئے ساتھ ہونگے۔ ابرھ نے معاف کردیا اوراُس کو ساتھ لیکر طائف تک آپہنچا۔ یہاں مسعود بن معتب بن مالک بن کعب بن عمروبن سعد بن عوف بن ثقیف نے اپنے لوگوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر لوگوں نے کہا ہم اس کا مقابلہ ہیں کرسکتے۔ہمیں اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ وہ سب ابرھ کے پاس گئے۔ اورکہا اے بادشاہ ہم آپ کے غلام ہیں اورآپ کے برخلاف نہیں۔ جس گھر کو آپ برباد کرنا چاہتے ہیں وہ یہ گھر نہیں ہے جو طائف میں ہے وہ تو مکہ میں ہے (اہل طائف کا بھی ایک گھر تھا جس میں اللمات رکھا ہوا تھا) اورہم آپ کے ساتھ ایک شخص کو کردیتے ہیں جوآپ کو اُس کا نشان مکہ میں بتلادیگا۔ یہ شرط قرار پاگئی اوراُنہوں نے ابورخال کو اس کام کےو اسطے برھ کے ساتھ کردیا۔ جب مقام منعمس پر پہنچے تو ابورخال مرگیا اور عربیوں نے اس کی قبر پر پتھر برسائے۔ ابرھ نے مغمس میں ڈیرے ڈال دئيے اورایک حبشی آدمی کو جس کا نام ابنِ مفعود تھا گھوڑے پر سوارکرکے مکہ میں بھیج دیا۔ وہ مکہ میں جاکر قریش وغیر قبائيل عرب کے بہت سے اموال واسباب کو تاراج کر لایا۔ اسی لوٹ میں عبدالمطلب بن ہاشم (جدرسول اللہ ) کےد وسواونٹ بھی تھے جو ان ایام میں قبیلہ قریش کے سردار تھے۔ اس بات پر قریش وکنانتہ وہذیل وغیرہ قبائل عرب نے ابرھ کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا۔ پھر یہ خیال کرکے ہم اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکینگے اس ارادہ سے باز رہے۔

ابرھ نے حناطہ حمیری کو مکہ میں بھیجا اورکہا کہ تم مکہ میں جاکر اس کے شریف وسردار سے کہو کہ بادشاہ کہتاہے کہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کرنے کو نہیں آیا۔ اس کا ارادہ صرف خانہ کعبہ کو گرانا ہے۔ اگر تم اس کام میں اس کی مزاحمت نہ کرو تو وہ خونریزی نہیں کرے گا۔ اگر وہ اس بات کو مان جائے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔ پس جب حناطہ مکہ میں داخل ہوا تو کسی سے دریافت کیاکہ اس وقت یہاں کا شریف وسردار کون ہے اُس نے بتلایا کہ عبدالمطلب بن ہاشم، اُ س کےپاس جاکر ابرھ کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ ہم لڑائی کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہمیں اس کے مقابلہ کی طاقت ہے۔ یہ خدا کا گھر ہے اوراس کے خلیل ابراہیم کا بنایا ہواہے۔ اگر خدا کو اپنے گھر کی حفاظت منظور ہوئی تواس کو روک دے گاورنہ چھوڑدیگا۔ ہمارا اس معاملہ میں کچھ دخل نہیں ہے۔ حناطہ نےکہا کہ تم میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلو۔ عبدالمطلب اس کے ساتھ ہولیا اوراس کے ساتھ اُس کے چندلڑکے بھی تھے۔ جب عبدالمطلب لشکر میں آیا تو لشکر میں سے دریافت کیاکہ ذونفرکہاں (یہ ذونفرجو ابرھ کے پاس مجسوس تھا عبدالمطلب کا دوست تھا)۔ ملاقات ہونے پر عبدالمطلب نے ذونفر سے کہا اے دوست اس مصیبت سے جو مجھ پر نازل ہوئی ہے رہائی پانے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے کیا تم کچھ سفارش کرسکتے ہو۔ اُس نےکہا میں قیدی ہوں جس کو شام وسحر قتل کئے جانے کا کھٹکا لگا رہتاہے کیا سفارش کرسکتاہوں۔ہاں ہاتھی کا سائنس جس کا نام اینس ہے میرا دوست ہے اُس کے پاس میں آپ کو بھیج دیتاہوں وہ آپ کو بادشاہ کےپاس لیجا کر بڑے زور کی سفارش کردے گا۔ پس وہ عبدالمطلب کو اینس کے پاس لے گیا اور کہاکہ یہ قریش کا سردار ہے اور مکہ کے چشمہ (زمزم) کا مالک ہے۔ غریبوں کو کھانا کھلاتاہے۔پہاڑوں کے جانوروں کی حفاظت کرتاہے بادشاہ ابرھ نے اس کے دوسواونٹ تاوان میں لے لئے ہیں۔ اس کو بادشاہ کے پاس لے جا اورجہاں تک ہوسکے اس کی سفارش کرو۔ اینس نےکہا بہت اچھا۔ پس اینس نے جاکر بادشاہ سے کہا اے بادشاہ عبدالمطلب شریف مکہ وسردار قریش آپ کے دروازے پر کھڑا ہے اورآپ سے کچھ التجا کرنا چاہتاہے۔ ابرھ نے عبدالمطلب کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ جب ابرھ نے اُس کود یکھا تو اس کے دل پر اُس کا رعب طاری ہوا اوراس کی تعظیم وتکریم کے واسطے دل سے مجبورہوا (کیونکہ عبدالمطلب نہایت خوبصورت ووجیہ آدمی تھا)۔ اوراس واسطے نیچے بٹھلانا نہ چاہا۔ پس آپس اپنے تخت سے نیچے اُتر کرعبدالمطلب کے ساتھ فرش پر بیٹھ گیا۔ پھر اپنے ترجمان سے کہاکہ عبدالمطلب سے اُس کی درخواست دریافت کرے۔ ترجمان نے عبدالمطلب سے دریافت کرکے بتلایا کہ یہ اپنے دوسواونٹ واپس کئے جانیکی التماس کرتاہے۔ ابرھ نے ترجمان سےکہا کہ عبدالمطلب کو کہے کہ بادشاہ کہتاہے کہ میں تمہاری اس درخواست سے بڑا حیران ہوں تو اپنے اونٹوں کو دئیے جانے کی خواہش کرتاہے اوراپنے مذہبی گھر کے بارے میں (جو تیرا اورتیرے آباؤ اجداد کا دین ہے) کچھ کلام نہیں کرتا اوراُس کے نہ گرائے جانے کی سفارش نہیں کرتا۔ عبدالمطلب نے کہا مجھے اس گھر سے کچھ واسطہ نہیں جو اس کا رب ہے خود اُس کی حفاظت کرے گا۔ میں تو اونٹوں کا مالک ہوں اس واسطے اُنہیں کے واپس کئے جانے کی التجا کرتاہوں ابرھ نے یہ معقول جواب سن کر اُس کے اونٹ واپس دیدئیے۔ عبدالمطلب نے مکہ میں واپس آکر لوگوں کو اس واقع کی خبردی اور مشورہ دیاکہ ہم میں ابرھ کے مقابلہ کی طاقت نہیں بہتر ہے کہ ہم یہاں سے نکل جائیں اور پہاڑوں اور گھاٹیوں کے غاروں میں جاکر چھپ جائیں پھر عبدالمطلب نے جانے وقت چند قریش کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کے دروازہ کا حلقہ پکڑا اور ابرھ اوراس کے لشکر کے حق میں بددعا کی۔ پھر قریش کے ساتھ پہاڑوں میں جاکر محفوظ ہوگیا اور انتظار کرنے لگا کہ ابرھ مکہ کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اُدھر سے ابرھ نے صبح کے وقت مکہ پر چڑھائی کردی اوراُس کے گرانے کے واسطے اُس ہاتھی کو جو ساتھ لائے ہوئے تھے تیار کیااُس کا نام محمود تھا۔ جب ہاتھی مکہ کے گرانے کے لئے تیار کیا گیا تو نفیل نے (جس کا ذکر اُوپر ہوچکاہے ) ہاتھی کا کان پکڑلیا اورکہا اے محمود بیٹھ جایا یہاں سے آیا ہے اُسی طرف سیدھا لوٹ جا۔ کیونکہ تو بلدحرام میں ہے۔ یہ کہکر اُس کا کان چھوڑ دیا اورہاتھی بیٹھ گیا اور نفیل بن حبیب مذکور بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا۔ ہاتھی کے وارثوں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو اُنہوں نے ہاتھی کو ماراتاکہ کھڑا ہوجائے مگر اس نے نہ مانا۔ پھر اُنہوں نے اُس کے اٹھانے کے واسطے اُس کے سر پر کلہاڑی ماری مگر وہ نہ اٹھا۔پھر اُنہوں نے اُس کا منہ یمن کی طرف کردیا اور وہ اٹھ کر دوڑنے لگا۔ پھر شام کی طرف متوجہ کیا ادھر بھی چلنے لگا۔ پھر مشرق کی طرف اُس کا منہ پھیرا اُدھر بھی ایسا ہی کام آیا۔ پھر مکہ کی طرف متوجہ کیا تو بیٹھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کی طرف سے ابابیل جیسے جانور بھیجے جن کے پاس تین تین سنگریز ے(چھوٹے) تھے۔ ایک ایک تو اُن کی چونچوں میں اور دودو ان کے پنجوں میں جنکی مقدار چنے یا مسور کی سی تھی۔ جس کو وہ سنگریز ہ لگتا تھا ہلاک ہوجاتا تھا۔ اب خوف کے مارے بھاگنے لگے اورجس راستے آئے تھے اُس کی طرف دوڑنے لگے اور نفیل کو جو انہیں راستے لایا تھا تلاش کرنے لگتے تاکہ اُن کو یمن کا راستہ بتادے مگر اب نفیل کہاں۔ نفیل تو پہاڑوں پر اُن کی درُگت ہوتے ہوئے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔

این المفروالا الہ الطالب

ولا شرم المغلوب لیس الغالب

ترجمہ : اے بدکردارواب کہاں بھاگتے ہو۔ خدا کی تلاش وقہر سے کہاں جاسکتے ہو۔ ابرھ مغلوب ہوگیا اوراپنے خیال کے موافق غالب نہ رہا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ ۱۵ سے ۱۹تک)۔

ابن ِہشام کے بیان سے پایا جاتاہے کہ ذونواس یہودی بادشاہ کی حکومت یمن میں تھی۔ جس نے نجران کے عیسائیوں کو آگ میں جلایا تھا اور اس بادشاہ کو حبش کے عیسائی بادشاہ نے یمن میں شکست دے کر وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اور ابرھ الاشرم وہاں کا عیسائی بادشاہ ہوا جس نے کعبہ کو منہدم کرنے کیلئے مکہ پر فوج کشی کی اورابابیل کے لشکر سے شکست کھائی پس سرسید کا بیان نادرست ہے۔ کیونکہ ابن ہشام کا بیان ہے کہ :

غرضیکہ واقعہ فیل کے بعد جب ابرھ ہلاک ہوگیا تواُس کا بیٹا یکوم بن ابرہ حبش کا مالک ہوا اورجب وہ بھی مرگیا تواُس کے بعداس کا بھائی مسروق حبش میں یمن کا مالک ہوا۔ پھر جب اہلِ یمن پر نہایت تکالیف ومصائب آنے لگیں اوراپنے ظالم حکام کے ہاتھ سے بہت تنگ آگئے توایک شخص جس کا نام بن ذی یزن حمیری تھا اور جس کی کنیت ابوترۃ تھی اپنی قوم کی طرف سے بادشاہ روم کے پاس شکایت لیکر آیا اورکہا کہ ہم لوگ حبشہ کے ہاتھ سے جو اس وقت ہمارے ملک یمن پر حکمران ہیں نہایت تنگ ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کوہمارے ملک سے نکالدیں اورروم میں سے کسی کو ہمارا بادشاہ مقررفرمائیں۔ مگربادشاہ روم نے اُس کی شکایت رفع نہ فرمائي۔صفحہ ۲۱۔ اریاطہ ، ابرھ، یکوم ، مسروق نے یمن پر ۷۲ سال حکومت کی تھی صفحہ ۲۳۔

رحمتہ اللعلمین کے مصنف جلد اول میں خلاصہ تاریخ العرب صفحہ ۳۹ کے حوالے سے لکھتاہے کہ عیسائیت کو ۳۳۰ء میں بنو غسان نے قبول کیا اور پھر عراق عرب بحرین، اور صحرای فاران ودومتہ الجندل اور فرات دجلہ کے دوآبہ میں یہی مذہب پھیل گیا اوراس دین کی اشاعت میں نجاشی اور قیصر روم نے باہم مل کر کوشش کی تھی۔ ۳۹۵ء و ۵۱۳ء میں اس کی اشاعت پر بڑا زور دیا گیاتھا اوریمن میں اناجیل بکثرت پھیل گئی تھی"۔ جلد اول صفحہ ۸ پھر یہی مصنف لکھتاہےکہ

اس کے (عرب کے ) جنوب پر سلطنت حبش اور مشرقی حصہ پر سلطنت فارس کا اور شمال اقطاع پرروما کی مشرقی شاخ سلطنت قسطنطنیہ کا قبضہ تھا اندرونی ملک بزعم خود آزاد تھالیکن ہرایک سلطنت اس پر قبضہ کرنے کے لئے ساعی تھی۔ جلد اوّل صفحہ ۶، ۷۔

پھر یہی مصنف جلد اوّل صفحہ ۱۴۳ کے حاشیہ پر لکھتاہے کہ فلاڈلفیا کا قدیم کلیسیا جس کا ذکر مکاشفہ ۳: ۷تا ۱۳۔ میں ہے تبوک کے ہی متصل تھا عرب اسے الفضر کہتے تھے۔ حجاز ریلوے کی سڑک میں اس کے کھنڈربھی پائے گئے زمان نبوی میں اس جگہ عیسائی قومیں آباد تھیں۔ اس لئے ایام قیام تبوک میں ) ان اقوام میں تبلیغ اسلام بھی کی گئی اوراُن سے معاہدات بھی کئے گئے۔ عیسائیت پر قائم رہنے والی اقوام کو مذہب کی آزادی دی گئی اوراُن کے جان ومال کا ذمہ مسلمانوں نے اپنے اوپر لے لیا اس طرف چند چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی عیسائيوں کی تھیں۔مثلاً کیدر دومتہ الجندل میں حکمران تھا اوریوحنا ابلہ کا فرمانروا تھا۔ ان کی حکومتوں کو قائم رکھا گیا۔ اہل اذرج بھی عیسائی تھے۔ اور آزاد قبائل تھے۔ الخ

۱۔ قبل از اسلام عرب میں عیسائی مذہب کی اشاعت وترقی کا بیان جومورخین ِاسلام نے کیا ہے وہ ہر طرح سے تعجب خیز اورحیرت انگیز ہے۔ خصوصاً جب اس بات کو دیکھا جاتا ہے عرب میں یہود کی آبادی اوراُس کی ترقی واثر عرب میں مسیحیت نے مسیحیت کی مخالفت ومکاذبت میں کوئی کسرباقی بھی نہ چھوڑی تھی توایسے اسباب وحالات کی موجودگی میں مسیحیت کا عرب میں وہ غلبہ اوثر حاصل کرتاجس کا ذکر اسلامی مورخوں کے بیان میں گذرا ہے کوئی ہلکا معاملہ نہیں ہے۔ جسے آسمانی سے نظر انداز کیا جاسکے۔

عیسائیت کی عربی عیسائی لاریب (بلا شک)انہیں عقائد کے ماننے والے تھے جو اس زمانہ کی عیسائی دنیا مانا کرتی تھی۔ اس بات کا ثبوت خود قرآن عربی اور مسلم روایات میں موجود ہے۔ جس کا ذکر بعد کو آنے والا ہے۔ اسکے ساتھ ہی وہ سیدنا مسیح کی دوسری آمد کے یہودی قوم کی طرح سخت منتظر تھے ممکن نہیں کہ اُن کا عقیدہ صرف عیسائیوں میں ہی محدود رہاہو۔ اوراس کی خبر عرب کے غیر عیسائی عربوں تک نہ پہنچی ہو۔

اسلام کے مورخوں کے بیان کے۔۔۔۔ قرینہ سے پایا جاتاہے کہ عرب میں عیسائیت کی اشاعت ہرگز جبرواکراہ سے نہیں ہوئی بلکہ پادریوں اورراہبوں کی پرُ امن اشاعت کے طریق سے ہوئی۔ اس شاعت میں لاریب(بلا شک) روم اورحبش کے مسیحی سلاطین نے بڑا حصہ لیا تھا۔ اُنہوں نے ضرور مسیحی مبشرین ومنذرین کی روپیہ پیسہ سے اعداد کی ہوگی۔ جیساکہ مسلم مورخین نے ذکر کیاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے کہ مسیحیوں کی ان تمام کوششوں میں کلام اللہ کی وہ بشارات جو عرب کی ہدایت وروشنی کے متعلق وارد ہوئی تھیں۔ لفظاً ومعناً تکمیل کو پہنچی تھیں۔ بُت پرست عربوں نے مسیحیت کے وسیلے سے خدا کا اورانسان کا مذہب اوراُس کی صداقت کا گناہ اورنجات کا علم وعرفان ضرور حاصل کیا تھا۔

۲۔عرب میں مسیحی مذہب کی اشاعت کی دوبڑی صورتوں کا ذکر مسلم مورخوں نے کیا ہے۔ جن میں سے ایک صورت عرب پر مسیحی حکمرانوں کی فتوحات سے تعلق رکھتی ہے مثلاً عرب کے شمال اور مشرق اور مغرب میں روم کی عیسائی سلطنت نے قبضہ کرلیا تھا اور جنوب میں ملِک یمن کی یہودی حکومت کو حبش کے عیسائی بادشاہ نے فتح کرکے وہاں سے یہودی اقتدار اٹھادیا تھا۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ ملکِ یمن پر حبش کی طرف سے چار عیسائی بادشاہ حکومت کرتے رہے۔ جن کی حکومت کا زمانہ ۷۲ سال کا تھا۔ ان عیسائی حکمرانوں کو ایرانیوں نے وہاں سے نکالا تھا۔

عرب کے شمال مشرق میں رومی عیسائی غالب تھے۔ شمال اور شمال مغرب میں تبوک تک رومی حکمرانوں کی حکومت تھی۔ وسطِ عرب میں حجاز کی حکومت کے حکمران اگر سب عیسائی نہ تھے توکم از کم ایک حکمران عبدالمسیح نامی توضرور عیسائی تھا۔پس عرب میں عیسائی حکمرانوں کی حکومت کے اثر کا لازمی نتیجہ تھاکہ غیر یہود وعرب عیسائيت سے متاثر ہوں۔ عیسائی حکومت نے عربوں کو مذہبی آزادی دی۔ اس وجہ سے بحرین ، حیرہ، غسان، دومتہ الجندل ایلہ ، صحرای فاران کے حکمران عیسائی ہوگئے۔ ان کے ساتھ ان کی رعیّت(رعايا) میں سے بہت سے لوگ بھی عیسائی ہوئے ہونگے۔یمن نجران حجاز میں بھی حضرت محمد کی پیدائش کے زمانہ کے قریب بہت سے عیسائیوں کا پایا جانا قرین قیاس(جس کو عقل تسليم کرےص) ہے۔ عیسائیت کا اثر انہیں ایام میں حجاز میں اس قدر غالب ہوگیا تھا کہ بُت پرست عربوں نے اپنے کعبہ کی دیوار پر اپنے معبودوں کے درمیان سیدنا مسیح اورآپ کی والدہ ماجدہ کی تصاویر ضرور بنوالی تھیں۔ جن کی عزت وہ اغلباً اپنے معبودوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

۳۔ عرب میں عیسائی حکومتوں کے سوا مسیحیت کی اشاعت کے دیگر وسائل بھی تھے۔ جن میں سے ایک وسیلہ مسیحی مبشرین (منذرین ، پادری صاحبان کا تھا جو عربوں کے میلوں میں وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے۔ تاریخ اسلام میں اس بات کی بھی چند مثالیں ملتی ہیں جن کا یہاں پر ذکر کرنا ضروریات میں سے ہے مثلاً:

۱۔ یمن کے پاس ایک نجرانی علاقہ ہے۔ وہاں کے لوگ کسی زمانہ میں بت پرست تھے۔ پھر اُنہوں نے دین ِعیسوی قبول کرلیا تھا۔ اوراُن کاایک سردار تھا جس کو عبداللہ الثامر کہتے تھے۔ اہل نجران کے مذہب عیسوی قبول کرلینے کی مجمل کیفیت یہ ہےکہ ایک شخص فیمیون عابد وزاہدان کے درمیان آگیا اس نے ان کو مذہب عیسوی کے قبول کرنے پر برانگیختہ (اُکسانا)کیا اوراُس کی تفصیل ابن اسحاق نے مغیرہ بن ابی لبید مولی الاخفس سے اور اُس نے دہب بن متیہ یمانی سے اس طرح بیان کی ہے کہ مذہب عیسوی کا پابند ایک شخص فیمیون نامی تھا جو بڑا عابد پرہیزگار ،مجتہد(کوشش کرنے والا)، مستجاب(مانا گيا)، الدعوات تھا اور گاؤں بہ گاؤں پھرا کرتا تھا۔ جب گاؤں کے لوگ اس ک زہد وتقویٰ وکرامت (پرہيز گاری و معجزات )سے واقف ہونے لگے تو دوسرے گاؤں میں چلا جاتا اوراپنے ہاتھ کی کمائی یعنی معمار کا کام کرکے اپنی معاش پیداکرتا اور اتوار کےروز کوئی دنیاوی کام نہ کرتا۔ بلکہ کسی جنگل میں نکل جاتا اور سارا روز عبادت ونماز میں گذاردیتا اور شام کو واپس آتا۔ ایک دفعہ ملک شام کے گاؤں میں سے ایک گاؤں میں اپنے معمول کے موافق عبادت وتقویٰ میں مصروف تھا کہ اس گاؤں کا ایک شخص مسمی صالح اس کے حال پر واقف ہوگیا اور اس کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوگئی۔ فیمیوں جہاں جاتا صالح بھی اُس کے پیچھے ہولیتا۔ مگر فیمیون کو خبر نہ ہوتی۔ایک دن وہ اپنی عادت کے موافق اتوار کو کسی جنگل میں نکل گیا اورصالح بھی اُس کے پیچھے گیا۔ وہ اپنی نماز میں مصروف ہوگیا اور صالح ایک پوشیدہ جگہ بیٹھ کر اسکو دیکھتا رہا۔ جب وہ نماز میں تھا۔ توایک سات سرکاسانپ اس کی طرف آیا۔ فیمیون نے اُس کےلئے بددعا دی اور وہ مرگیا۔ صالح سانپ دیکھ کر چلا یا کہ اے فیمیون سانپ سانپ اور اُسے یہ خبر نہ تھی کہ سانپ اُس کی بددعا سے مرچکا ہے۔ فیمیون اپنی نماز میں مصروف رہا لیکن اس کومعلوم ہوگیاکہ صالح اس کی کرامت پر مطلع(اطلاع ملنا) ہوگیا ہے جب شام کو واپس ہونے لگے تو صالح نےکہا اے فیمیون آپ جانتے ہیں کہ مجھے آپ سے ازحد محبت ہے۔ اس واسطے میں آپ کی مفارقت (جُدائی) گوارا نہ کرسکا۔ آپ اندیشہ نہ کریں کہ آپ کا راز فاش ہوجائے گا۔ میں اُسے افشا نہ کرونگا۔ مگر شہر کے لوگ بھی اس کے حالات سے واقف ہوتے جاتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجاتا تو وہ اس کے حق میں دعا کرتا اور وہ اچھا ہوجاتا۔ اوراگر کسی کو کسی آفت ومصیبت آنے کا اندیشہ ہوتا تو اُس کی دعا سے وہ ٹل جاتی۔ اُس گاؤں میں ایک شخص تھا اوراس کا بیٹا اندھا تھا۔ اس نے اُس کی کرامت کا شہرہ سن کر اس سے استدعا(درخواست) کا ارادہ کیا۔ مگر لوگوں نے اُس سے کہا کہ وہ کسی کے گھر پر نہیں آیا کرتا۔ وہ تعمیر عمارت کا کام کیا کرتاہے۔ اُس کو تعمیر یا مرمت کے طریقہ سے گھر میں بلالو اورپھر اس سے دعا کرو۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو ایک کوٹھری میں بند کردیا اور فیمیون کے پاس آکر کہا کہ میرے گھر میں تھوڑا سا کام ہے فرصت ہے توآکر کرجاؤ۔

اس طرح سے اُس کو اپنے گھر لے گیا اورلڑکے کونکال کر پیش کردیا۔ کہ اے فیمیون اس خدا کے بندے(مراد اپنی بیٹا) کو یہ مصیبت ہے جس کو آپ دیکھ رہے ہیں ۔(یعنی اندھا ہے ) اس کے حق میں دعا کیجئے۔ اُس نے دعا کی اور وہ اچھا ہوگیا۔ فیمیون نے دل میں کہاکہ اب یہاں سے نکلنا چاہئے۔ پس ا س گاؤں سے نکل پڑا۔ مگر صالح نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب راستہ میں چلے جاتے تھے توایک بڑے درخت سے کسی نے فیمیون کہکر پکارا۔ فیمیون نے جواب دیا۔ اس شخص نے کہاکہ میں تیری ہی انتظاری میں تھا اورتیری آواز سنی چاہتا تھا۔ ایلواب میں مرتاہوں اورتجھے میرا جنازہ دفن کرکے جانا ہوگا۔ وہ مرگیا اورفیمیون نے اُس پرنماز ادا کرکے دفن کردیا چلتے چلتے عرب کی کسی زمین میں پہنچ گیا اور صالح بھی اُس کے پیچھے تھا۔ اہلِ عرب نے ان دونوں پر حملہ کیا اور عرب کے ایک قافلہ نے انہیں لے جاکر نجران میں ہردو کو فروخت کردیا۔ ان دنوں میں اہلِ نجران ایک لمبی کھجور کی عبادت کیا کرتے تھے اورہرسال عید کیا کرتے تھے اوراس کھجور کوعورتوں کے زیور اور اچھے کپڑے پہنایا کرتے تھے پس اہلِ نجران میں سے ایک شخص نے فیمیون کو خریدلیا اور دوسرے نے صالح کو۔ اس آقا کے گھر میں جب فیمیون تہجد کی نماز پڑھتا تو وہ گھر بغیر چراغ کے روشن ہوجاتا اور صبح تک روشن رہتا۔ ایک روز اُس کے آقا نے یہ کیفیت دیکھ کر بڑا تعجب ظاہر کیا۔ اوراس سےپوچھا تمہارا کیا دین ومذہب ہے۔ فیمیون نے اپنا مذہب عیسوی ظاہرکرکے اس کو بطور خیر خواہی کہا کہ تمہارا مذہب باطل ہے۔ یہ کھجور تمہیں کوئی نفع ونقصان نہیں پہنچاسکتی۔ اگر میں اپنے خدا سے جس کی میں عبادت کرتاہوں اس کےلئے بددعا کروں تواس کو جلادے۔ اس کے آقا نے کہاکہ اگر تو ایسا کردکھائے توہم تیرے دین میں داخل ہوجائینگے۔ پس فیمیون نے اٹھ کر وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر دست بدعا اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت آندھی بھیجی۔ جس نے اس کھجور کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اس وقت اہلِ نجران نے مذہب عیسوی کو قبول کرلیا۔ پس اس روز سے زمین عرب میں نجران کے اندر نصرانیت پیدا ہوگئی۔ ابن اسحاق نے یزید بن زيادہ سے اور زیاد نے محمد بن کعب القرطی سے اورنیز بعض اہلِ نجران سے اس طرح روایت کی ہےکہ اہلِ نجران مشرک بُت پرست تھے اور نجران کے قریب ایک گاؤں میں ایک ساحر(جادوگر) رہا کرتا تھا جو اہل نجران کو جادو سیکھایا کرتا تھا۔ اتفاقاً فیمیون عیسائی راہب نے اس گاؤں کے نزدیک اپنا خیمہ گاڑدیا۔ جب نجران کےلڑکے اس جادوگر کے پاس جادوسیکھنے جاتے تو راستہ میں اس عیسائی راہب کونماز وعبادت میں مصروف پاتے اوراس کی حرکت سے متعجب (حيران) ہوتے۔ ایک روز کاذکر ہے کہ نجران کے ایک ثامر نامی نے اپنے بیٹے عبداللہ کودوسرے لڑکوں کے ساتھ اس جادوگر کے پاس بھیجا۔ راستہ میں جب اس نے اس راہب فیمیون کونماز وعبادت کرتے دیکھا تو اس پر اُس عبادت کا اثر ہوا وہ اُس کے پاس آنے جانے لگا اور اس کے اقوال وخیالات سننے لگا۔ یہاں تک مسلمان ہوگیا اور خدا کی توحید کا قائل ہوگیا اوراللہ کی عبادت کرنے لگا۔ پھر اس راہب سے احکام اسلام دریافت کرنے لگا۔ جب علم دین ماہر ہوگیا تو ایک روز اُس نے فیمیون سے اسم اعظم دریافت کیا۔ اس نے کہا اے عزیز اس کا جانناتیرے حال کے مناسب نہیں تو کمزور ہے۔ تو اس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکیگا۔ عبداللہ نے جب دیکھا کہ راہب اسم اعظم سکھلانے سے بخل (لالچ)کرتا ہے تواُس نے تمام اسماء الہیٰ کوجوراہب نے سکھائے ہوئے تھے تیروں پر لکھ کر آگ میں ڈالنے شروع کردئیے۔تاکہ جس پر اسم اعظم ہوگا وہ آگ میں نہیں جلیگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہواکہ وہ تیر جس پر اعظم لکھا ہوا تھا۔ آگ سے کود کر باہر آپڑا اور اس طرح سے اس کو اسم اعظم معلوم ہوگیا پھر راہب کے پاس آکر کہا میں نے اسم اعظم معلوم کرلیاہے۔ راہب نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیا ہے کہا کہ فلاں کہا تونے کس طرح معلوم کیا۔ اُس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ راہب نےکہا اے عزیز اس کو پوشیدہ رکھیو اور ضبط سے کام لیجیو۔ اب عبداللہ بن ثامر کا یہ کام ہوگیا کہ جب نجران میں کسی کو مصیبت یا بیماری لاحق ہوتی تواُس کو کہتا اے فلا نے اللہ پر ایمان لے آ اورمیرے دین میں داخل ہوجا۔ میں اللہ سے دعا کرونگا وہ اللہ تجھے اس مصیبت سے نجات دیگا۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتا توعبداللہ اس کے حق میں دعا مانگتا اور وہ اچھا ہوجاتا۔اس طرح سے نجران کے بہت سے آدمی اس کے تابع ہوگئے اوراس کے دین کو قبول کرلیا۔ رفتہ رفتہ اُس کی شہرت نجران کے بادشاہ کے کان تک پہنچی۔ بادشاہ نے اُس کو ہلا کر کہا تونے میری رعیت کا مذہب خراب کردیاہے اور میرے دین اوراپنے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے۔ اب میں تجھے اس کا بدلہ دونگا اور تجھے سخت عذاب میں مبتلا کرونگا۔ عبداللہ بن ثامر نے کہا۔ بادشاہ تو مجھے کوئی تکلیف نہیں دے سکیگا۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کو اونچے پہاڑ پر لے جاکر سر کے بل گرادیں اسے گرایا گیا مگر اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا اور صحیح وسلامت زمین پر آپہنچا۔پھر اُس کو نجران کے گہرے پانیوں میں گرادیا تھا تاکہ وہ ڈوب جائے مگر وہ بلاضرور وہاں سے بھی نکل آیا۔ جب بادشاہ اس پر کسی طرح غالب نہ آسکا توعبداللہ نےکہا اگر تومجھ کومارنا چاہتاہے تواللہ پر ایمان لے آاور جس چیز کو میں مانتاہوں توبھی مان لے۔ اس کے بعد تو میرے قتل پر قادر ہوسکیگا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے عبداللہ کے مذہب کو قبول کرلیا۔ پھر اپنے عصا سے ہی عبداللہ کا کام تمام کردیا۔ پھر آپ بھی اسی مقام پر ہلاک ہوگیا۔ اورنجران کےلوگوں نے عبداللہ بن ثامر کے دین کوقبول کرلیا یعنی عیسیٰ اوراُس کی کتاب وحکمت کو ماننے لگ گئے پھر ان میں بھی بدعات کا ظہور ہوا۔ جیساکہ ہرمذہب میں اخیر پر ہوا کرتا ہے۔ پس اس طرح سے نجران کی نصرانیت کی بنیاد پڑی تھی۔ جب نجران کی یہ حالت تھی تو ذونواس کے بھائی احسان بادشاہ یمن نے لشکر لیکر اہل نجران پر چڑھائی کی اوریہودیت کی طرف بلایا اورانہیں اختیار دیاکہ یا یہودی ہوجاؤ یاقتل کو پسند کرو۔ اُنہوں نے قتل پسند کیا۔پس اُس نے اُن کیلئے آگ کی خندق کھدوائی اور ان لوگوں کو آگ میں جلادیا۔ جو آگ سے بچے رہے اُن کو تلوار سے قتل کردیا۔ یہاں تک کہ بیس ہزار آدمی اسی طرح سے ہلاک کئے گئے۔ اسی ذونواس اوراس کے لشکر کے حق میں اللہ نے آیت ذیل اتاری تھی قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ وَهُمْ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (ترجمہ) خندق والوں پر خدا کی مارجنہوں نے خندق میں آگ بھڑکائی اوراس پر بیٹھ کرمومنوں کا عذاب مشاہدہ کررہے تھے اورمسلمانوں سے انتقام لینے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اللہ عزیز حمید پر ایمان لائے آئے تھے (بھلا یہ بھی کوئی وجہ انتقام ہوسکتی ہے۔

ابن اسحاق کہتاہے کہ وہ مقتول جنکو ذونواس نے قتل کروایا تھا۔ ان عبداللہ بن ثامر ان سردار بھی شامل تھا۔ ابن اسحاق نے عبداللہ بن ابوبکر محمد بن عمرحزم سے روایت کی ہے کہ اہل نجران میں سے ایک شخص نے حضرت عمر کے زمانے میں نجران کی خرابہ زینوں میں سے ایک خراب کھودا۔ اس کے نیچے سے عبداللہ بن ثامر دفن کیا ہونکلا کہ اس کا ہاتھ اپنے سر کی ضرب پر رکھا ہوا تھا۔ وہ شخص بیان کرتا۔ تھاکہ جب میں اس کا ہاتھ وہاں سے ہٹاتا تھا تو خون جاری ہوجاتا تھا اورجب پھر اس کے ہاتھ کو اسی جگہ رکھ دیتا تھا تو خون بند ہوجاتا تھا اوراُس کے ہاتھ میں انگشتری تھی۔ جس پر(ربی اللہ ) لکھا ہوا تھا۔ اس شخص نے یہ ماجرا حضرت عمر کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ حضرت عمر نے لکھ بھیجا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو اوراس کو ویسا ہی دفن کردو(سیرت ابن ہشام صفحہ ۱۲، ۱۶)۔

۲۔ خاص مکہ میں حضرت ورقہ بن نوفل جیسے علامہ عصر مسیحی موجود تھے۔ جن کی بابت تاریخ اسلام میں بہت کچھ موجودہے۔بطور مثال ذيل کا بیان پیش کیا جاتاہے۔ مثلاً:

صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ خواب کی تعبیر کا بیان ۔ حدیث 1908

وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَکْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنْ الْإِنْجِيلِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا

ترجمہ: یعنی وہ خدیجہ کے چچا کے بیٹے تھے۔ اورجاہلیت کے زمانہ میں عیسائی ہوگئے تھے اور وہ عربی زبان میں ایک کتاب یعنی انجیل لکھا کرتے تھے جتنا کہ اللہ کو منظور ہوتا تھا اور وہ بہت بوڑھے تھے۔ دیکھو صحیح مسلم کتاب الایمان باب بداء الوحی۔

۳۔ امیہ بن ابی الصلت ۔ عرب کے اس مشہور شاعر کی بابت آیاہےکہ امیہ بن ابی صلت ایک شاعر تھا کہ ابی جاہلیت تھا اور ہواے تدین وتالہ سر میں رکھتا تھا یعنی خواہش دین جاری کرنے کی اور خدا پرستی کرنے کی رکھتا تھا اور قدیم کتابیں پڑھا ہوا اورنصاریٰ کے دین پر آیا ہوا تھا۔ اوربُت پرستی سے اعراض یعنی سرپھرایا تھا"۔ منابیح النبوت جلد دوم چھاپہ زلکشورواقع کانپور صفحہ ۲۳۰۔

ایک اور بزرگ لکھتے ہیں کہ امیہ بن ابی الصلت عرب کا مشہور شاعر تھا اس نے قدیم مذہبی کتابوں کا اچھی طرح مطالہ کیا تھا۔ اُس کے مذہبی رنگ کے ساتھ اُس کی زبان پر سب سے قدیم مذہبی لٹریچر کے الفاظ چڑھ گئے تھے۔ اس کے کلام میں آیا ہے۔

یہ قصیدہ غائیت مسطول ہے۔جس میں اُس نے مذہبی رہنگ وآب سے خدا کی قدرت اور فرشتوں کی کثرت غیر ذی روح چیزوں کی تسبیح تحلیل کی تصویر کھینچی ہے۔ لیکن ہم نے اُس کے عقائد کے اظہار کے صرف چند شعر نقل کئے ہیں۔ امیہ ابن الصلت نے جناب رسالت پناہ کا زمانہ پایا تھا۔جب آپ کے سامنے اس کے یہ اشعار پڑھے گئے۔

تو آپ نے فرمایا صدق ضیاء السلام مراد آباد جلد نمبر ۳ کو دیکھو۔

صحیح بخاری مطبوعہ احمدی لاہور کے پارہ ۱۵ کے صفحہ ۲۷ کے حاشیہ پر صحیح مسلم کی ایک روایت یوں آئی ہے۔ صحیح مسلم میں شرید سے روایت ہے۔ آنحضرت نے فرمایا مجھے امیہ بن ابی الصلت کی شعر میں سناؤ۔ میں نے آپ کو سوبیتوں کے قریب سنائیں۔ آپ نے فرمایا یہ تو اپنی شعروں میں مسلمان ہونے کے قریب تھا امیہ جاہلیت کے زمانہ میں عبادت کیا کرتا۔ آخرت کا قائل تھا۔ بعضوں نے کہا نصرانی ہوگیا تھا۔ اس کے شعروں میں اکثر توحید کے مضامین ہیں۔

۴۔ قیس بن ساعدہ۔ قیس بن ساعدہ عرب کا مشہور خطیب تھا اور سوق عکاظ میں عموماً مذہبی اوراخلاقی خطبے دیا کرتا تھا۔ جناب رسول اللہ نے اس کا خطبہ سنا تھا اوراُس کی تعریف فرمائی تھی۔ قیس بن ساعدہ کے خطبات اور اشعار تمام تر ان عقائد سے بھرے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم اس کے چند شعر نقل کرتے ہیں۔

ترجمہ: بلند اور اٹل پہاڑ پر پانی سے لبریز دریا اور ستارے جو رات کی تاریکی میں چمکتےہیں اور سورج جو دن میں گردش کرتا ہے لڑکے اور ادھیڑ شیر خوار بچے سب کے سب ایک دن قبر میں ملینگے۔ یہ تمام چیزیں خدا کی طرف ان نفوس کی رہنمائی کرتی ہیں۔جو ہدایت پذیر ہیں۔ اے داعی موت اس حالت میں کہ مردے قبر میں ہیں اوراُن کے بچے کچے کپڑے پرزُے پررُے ہوگئے ہیں ان کو پڑا رہنے دے کیونکہ ایک دن وہ پکارے جائینگے۔ پس خوفزدہ ہوکر بیدار کی طرف رجوع کرینگے۔ جیساکہ پہلے مخلوق ہوئے تھے۔ بعض ان میں ننگے ہونگے اور بعض نئے پُرانے کپڑے پہنے ہوئےہونگے"۔ ضیاء السلام جلد ۵ نمبر ۳۔

۶۔ حضرت زید بن عمرو بن نفیل بھی عیسائی تھے۔ جن کے کلام میں سے ذيل کاکلام ہدیہ ناظرین ہے:

ابن ِاسحاق کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ روایت پہنچی ہے کہ زید بن عمر وبن نفیل کے فرزند سعید بن زید اورعمر بن خطاب نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ حضور آپ زید بن عمرو بن نفیل کے واسطے دعا مغفرت کیجئے۔ فرمایا ہاں وہ تنہا قبر سے اٹھایا جائیگا۔

زید بن عمروبن نفیل نے اپنی قوم کا دین ترک کرنے اوران کی تکالیف کے سہنے کو نظم کیا ہے جس کے چند شعر ہم نقل کرتے ہیں۔

اشعار

بیان مافوق میں اس بات کی بخوبی تشریح ہوچکی ہے کہ عرب میں عیسائیت نے عربوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ ملکی ریاست جو حنفاء ہی عرب کی واحد خود مختار ریاست بھی جس میں وسط ِعرب کی آبادی شامل تھی حضرت محمد کی دینی خدمت شروع کرنے سے پیشتر ہی مسیحیت کے غالب اثر کے آگے ایک حد تک سرجھکا چکی تھی وہ مسیحی راہبوں اور خطیبوں اور شاعروں اور محققتوں (تھقيق کرنے والوں)کے آگے سرادب خم (ادب سے سر جھکانا)کر چکی تھی۔ خود حضرت محمد کے اپنے عزیز مسیحیت کا اثر قبول کرچکے تھے۔ پس حضرت محمد کی دینی خدمات شروع کرنے سے پیشتر عرب میں مسیحیت ایک زبردست اور غالب ملت(قوم) تھی۔ مسیحیت نے عرب کی چوٹی تک شرفاء میں مقبولیت پانا شروع کرلیا تھا۔

۷۔ مکہ شریف کے حنفاء میں مذہبی ریوائول یا تروتازگی

بیان ماقبل میں ہم نے ملتِ حنیف اور صابیت کا اور صابیوں اورحنفاء کا کافی بیان کردیا ہے۔ جس سے حنفاء اور صابیوں کی بابت اس قدر حقیقت ظاہر ہوچکی ہے کہ وہ اصولاً ایک ہی مذہب کو ماننے والے تھے۔ جس میں بُت پرستی کا عنصر عظیم پایا جاتا تھا لیکن صابی حضرت محمد کے زمانہ کے قریب اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرنے کی وجہ سے اپنے آبائی مذہب کے منکر(انکاری) مشہور ہوچکے تھے۔ اس پر بھی صابیوں کا ایک گروہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہ گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی ہم نے حنفاء اور انکی حنفیت کی بابت یہ حقیقت اسلامی تحریرات سے ظاہر کی تھی کہ گو اُن کا دین حنفیت حضرت محمد کی پیدائش سے پیشتر عرب میں مشہور ومعروف تھا اور لوگ اُسے مانتے تھے مگر وہ بھی بُت پرستی سے پاک نہ تھا۔ حضرت محمد کی پیدائش کے زمانہ کے قریب اسی دینِ حنیف کو ماننے والوں کےدرمیان خاص مکہ شہر میں ایک عظیم الشان مذہبی ریوائول شروع ہوا تھا۔ جس کا ذکر ابن ہشام نے کیا ہے۔ اس مذہبی تروتازگی اور جستجو اور تلاش کی اہمیت پینٹیکوست کے واقع کے اگر برابر نہیں تو اس کے دوسرے درجہ پر ضرور تسلیم کی جاسکتی ہے۔ جو مذہبی تحریک زمانہ کور میں شروع ہوئی تھی وہ پھر کبھی نہیں رکی اور عجب معاملہ یہ ہے کہ اس تحریک کے محرک قبیلہ قریش کے حنفا ہی تھے۔ ابن ہشام نے اس تحریک مذہبی کا بیانِ حسب ذيل کیا ہے۔

حضرت کے اقوال واعمال قلمبند کرنے والوں میں سب سے پہلا مورخ زہری گزرا ہے جس نے ۱۲۴ء میں وفات پائی تھی۔ اس نے جو کچھ لکھا تھا آنحضرت کے اصحاب کی متواتر روایات سے حاصل کیا تھا بالخصوص عروہ کی سند سے جو حضرت عائشہ کے عزیزوں میں تھا۔ اس میں تو شک نہیں کہ اس قدر مدت گذرجانے کی وجہ سے ان روایات میں بہت کچھ مبالغہ اور اشتباہ (مشابہ ہونا)مل گیا تھا تو بھی اگر زہری کی کتاب اس وقت موجود ہوتی تو غالباً اس سے ان لوگوں کا بڑا کام نکلتا جواسلام کی ابتدا کے متعلق حقیقت کھوج وتلاش میں ہیں۔ کیونکہ وہ کتاب سب سے قدیم اوراس لئے سب سے معتبر سمجھی جاتی۔ زہری کی کتاب توبالکل ناپید(ختم) ہوگئی لیکن اس کا ایک شاگرد ابن اسحاق تھا جس نے ۱۷۱ہجری میں وفات پائی۔ اُس نے اسی مضمون پر ایک اور کتاب لکھی تھی جو کتاب بھی بعد ازاں گم ہوگئی۔ مگر اس کے اکثر اجزا ابن ہشام کی کتاب سیرت الرسول میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ اس ابن اہشام نے ۲۱۲ھجری میں وفات پائی۔ اس وقت ہم اسی کتاب سے حنفاء کا کچھ تھوڑا سا حال یہاں نقل کرتے ہیں۔

(سیرت الرسول جلد ۷۶، ۷۷)۔ ترجمہ: ابن اسحاق نے کہا کہ ایک روز اپنی عید کے دن قریش اپنے ایک بت کے پاس جمع ہوئے سو وہ لوگ اُس کی پوجا کرتے تھے اس پر اونٹ قربان کرتے اوراس کے پاس اعتکاف میں بیٹھتے۔ اورگرد اُس کے پرکما (چکر لگانا) کرتے تھے اور یہ عید اُن کی ہرسال ایک دن ہوتی تھی۔ ان میں چار شخص تھے جنہوں نے خفیہ مشورت کرلی اوران لوگوں سے جدا ہوگئے۔ تب آپس میں اُنہوں نے ایک دوسرے سے کہا آؤ ہم لوگ عہد باندھ لیں کہ ایک دوسرے کا راز فاش نہ ہونے دیں ان لوگوں نے کہا بہت خوب۔ ان لوگوں کے نام یہ ہیں۔

ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرتہ بن کعب بن لوی اورعبید اللہ بن حجش بن رکاب بن یعر بن عبرتہ بن مرتہ بن کبری بن غنم بن ودوان بن اسد بن خریمہ (اس کی ماں امیمہ عبدالمطلب کی بیٹی تھی اور عثمان بن الجویر ث بن اسد بن عبدالعزی بن قصے اور زید ابن عمرو ابن نفیل بن عبداالعزی بن عبداللہ بن قرط بن ریاح بن رازح بن عدی بن کعب بنی لوی ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔ تم کو معلوم ہے کہ خدا کی قسم تمہاری قوم کچھ دین پر نہیں۔ یقیناً وہ لوگ اپنے باپ ابراہیم کے دین سے برگشتہ (پھرنا) ہوگئے۔پتھر کیا ہے کہ ہم اس کی پرکما کریں۔ نہ وہ سنے نہ دیکھنے نہ ضرر پہنچانے نہ نفع۔ اے قوم اپنے والوں میں غور کرو کہ بخدا تم کچھ راہ پر نہیں ہو۔ یوں وہ لوگ الگ الگ ہوگئے۔ اورمختلف ملکوں میں چلے گئے کہ حنفیت یعنی دین ابراہیم کی کھوج کریں۔ ورقہ بن نوفل تو دین عیسائي میں پکا ہوگیا اوران لوگوں کی کتابوں کی کھوج میں لگا یہاں تک کہ اس نے اہلِ کتاب کا علم سیکھ لیا۔ عبید اللہ بن حجش جو تھا وہ جس شبہ میں تھا اُسی میں قائم رہا۔ حتی کہ مسلمان ہوگیا پھر اُس نے مسلمان کے ساتھ حبشہ میں ہجرت کی اوراُسی کے ساتھ اس کی جورو ام حبیبہ ابی سفیان کی بیٹی بھی گئی تھی جو مسلمان تھی لیکن جب وہ اس ملک میں گیا تو وہاں عیسائی ہوگیا اوراسلام کو ترک کردیا اوردین مسیحی پر وفات پائی۔ ابن اسحاق نےکہا کہ محمد بن جعفر ابن الزبیر نے مجھ کو خبر دے کرکہا جب عبید اللہ بن حجش عیسائی ہوگیا تو وہ اصحاب رسول اللہ صلعم کے پاس جو اس وقت سرزمین حبشہ میں تھے آتا اوراُن سےکہا کرتاکہ ہماری آنکھیں توکھل گئیں اورتم اب تک چوندھیاتے ہو۔ یعنی ہم تو آنکھوں دیکھنے لگے اور تم ابھی بینائی کی تلاش ہی میں ہو۔ اس کے معنی لفظی یہ ہیں کہ جب کتُے کا پلہ اپنی آنکھ کھولنا چاہتاہے کہ دیکھے تو پہلے صاء صاء کرتاہے یعنی چوندھیاتا ہے اوریہی لفظ فتح کے معنی ہیں کہ آنکھیں کھولیں ابن اسحاق نےکہا ہے کہ اس شخص کے بعد رسول اللہ نے اس کی جورو ام حبیبہ دختر ابی سفیان بن حرب کو لے لیا۔۔۔۔۔ ابن اسحاق نے کہا رہا عثمان بن الحویرت تو وہ ققیر رسوم کے پاس گیا اور عیسائی ہوگیا۔ وہاں کے بادشاہ کی درسگاہ میں اس کو بہت عزت حاصل ہوئی اورابن ہشام نے کہا کہ اس عثمان بن الحویرث کے قیصر کے پاس ٹھہرنے کے متعلق ایک روایت ہے جس کا ذکر یہاں ترک کرتاہوں۔ کیونکہ اس کا بیان حدیث فجار میں ہوچکا۔ ابن اسحاق کہتاہےکہ ولیکن زید ابن عمروابن نفیل جو تھا وہ ٹھہرارہا۔ نہ دین یہودی اُس نے اختیار کیا نہ دین نصرانی۔ اس نے صرف اپنی قوم کے دین کو ترک کردیا اور بُتوں اور مردار اور خون اور قربانی سے جوبتوں پر چڑھائي جاتی پرہیز کرتا تھا اور دختر کشی (بيٹی کا قتل)سے منع کرتا اور کہتا تھاکہ میں ابراہیم کے خدا کی بندگی کرتاہوں اورجن برائیوں کی اس کی قوم مرتکب ہوتی تھی وہ اُن کو رد کرتا تھا۔ ابن اسحاق نےکہا کہ مجھ کو خبردی ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے جس نے سنا تھا اپنی ماں اسماء بنت ابی بکر سے وہ کہتی تھی کہ میں نے زید بن عمروبن نفیل کو دیکھا جب وہ بہت بڈھا ہوگیا کہ کعبہ سے پیٹھ ٹيکے ہوئے کہہ رہا تھا اے قوم قریش قسم ہے اُس کی جس کے ہاتھ زید بن عمر کی جان ہے کہ بجز میرے تم میں کوئی بھی نہیں جودینِ ابراہیم پر ثابت ہواورپھر کہتا تھا بارِ خدایا اگرمجھ کو معلوم ہوکہ کونسا طریق تیری بارگاہ میں زيادہ پسندیدہ ہے تو میں اسی طریق سے تیری بندگی کرتالیکن میں نہیں جانتا۔ پھروہ دونوں ہتھیلیاں زمین پر ٹیک کر سجدہ میں جاتا۔ ابن اسحاق نے کہا مجھ کو خبر ملی ہے کہ اس کے بیٹے سعید بن زيد بن عمروبن نفیل نے اور عمر بن الخطاب نے جو اس کا عمزادہ تھا دونوں نے رسول اللہ سے کہا کہ زید بن عمرو کے لئے مغفرت مانگئے۔ آپ نے کہا بہت خوب وہ یقیناً مثل ایک امت کے تنہا قیامت میں اٹھیگا اور زید بن عمروبن نفیل نے اپنی قوم کا دین ترک کرنے پر اورجوکچھ اس وجہ سے اُن کے درمیان اس پر بیتا اشعیار ذیل کہے ہیں۔

ابن ہشام خبردیتاہےکہ خطاب نے جو زید کا چچا تھا زید کومکہ سے نکال باہر کیا تو مجبور ہوکر وہ کوہِ حرا میں جارہا جواس کے شہر کے سامنے واقع ہے۔ خطاب زید کو مکہ کے اندر گھسنے نہیں دیتا تھا۔ (سیرت الرسول جلد اول صفحہ ۷۹) اوراسی کتاب سے یہ خبر ملتی ہے کہ حضرت محمد بھی گرمیوں کے موسم ہرسال تخنث (تزکيہ نفس)کرنے کی خاطر اسی کوہ ِحرا کے ایک غار میں اہلِ عرب کی رسم کے موافق جاکر رہا کرتے تھے جس سے گمان غالب ہوتاہے کہ آپ جو اپنی قوم کے دین سے بیزار تھے وہاں جاکر زید ابن عمر و سے جو علاوہ خداپرست اورمصلح قوم ہونے کے آپ کے قریبی رشتہ داروں میں بھی تھے ملاقات کیاکرتے تھے ۔(3) اس خیال کی تائید کے ایک قول سے بھی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ جس وقت آپ پر وحی آئی آپ اسی غار میں تھے۔ ثمہ جاء جبرئیل بما جائہ من کر امتہ اللہ وھو بحراء فی شھر رمضان۔۔۔۔کان رسول اللہ صلعمہ یجادرنی حراء من کل سنتہ شھر اوکان ذالک بما تحنث بدقریش فی الجاھلیہ والتحنث التبرو۔۔۔۔۔ قال بن ہشام تقول العربالحتنث والتحیف یریدون الحنیفہ نیبہ لون الفاء آمن الثاء (صفحہ ۸۰، ۸۱)۔ ترجمہ پھر جبرائيل اُن کے پاس آئے اورجوکچھ خدا کی کرامت سے تھا لائے اور آپ اس وقت حراء میں تھے۔ ماہ رمضان کے دنوں میں۔۔۔ اور رسول اللہ ہرسال ایک ماہ حرا میں گوشہ نشینی کرتے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ایام جاہلیت میں قریش اسی طرح تحنث کرتے تھے۔ تحنث کے معنی میں تزکیہ نفس۔ ابن ہشام کہتاہےکہ اہل عرب تحنث اور تخف دونوں کہتے تھے اورمراد اس سے خفیت لیتے تھے۔ پس یوں اُنہوں نے ف کوث سے بدل دیا۔ (ازینابیع الاسلام)۔

۸۔ ابنِ ہشام نے قریش کے چاروں محقففین کی تحقیقات کے نتائج میں سے تین کی تحقیقات کے نتائج بیان کردئیے کہ وہ عیسائیت کو ملت ابراہیم جان کر قبول کر بیٹھے تھے مگر حضرت زید بن عمروبن نفیل کی بابت ناتمام بیان چھوڑ دیا گیا اورآپ کی بابت صرف اس قدر لکھدیاکہ اُس نے نہ یہودیت کو مانا نہ عیسائیت کو اپنے آبائی دین کو بھی ترک کر بیٹھا۔ اس پر کہا کرتا تھا کہ صرف میں ہی دین ابراہیم پر ہوں مگر ہمیں زید بن عمروبن نفیل کی بابت زیادہ دریافت کرنا ہے کہ وہ کیوں عیسائی نہ ہوا تھا؟ مسلم روایات میں آپ کی بابت مزید بیان ذیل آیاہے۔

صحیح بخاری میں ہےکہ مجھ سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نےکہا۔ ہم سےموسیٰ بن عقبہ نےکہا۔ ہم سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے اُنہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمرسے کہ آنحضرت زید بن عمر وبن فضیل سےبلدح میں ملے۔ ابھی آپ پر وحی اترنا شروع نہ ہوا تھا۔ آپ کےسامنے کھانے کا دسترخوان چنا گیا۔زید نے وہ کھانا کھانے سے انکار کیا پھر کہنے لگا میں ان جانوروں کا گوشت نہیں کھانے کا۔ جن کو تم تھانوں پر کاٹتے ہو۔ میں اس جانور کا گوشت کھاؤنگا جو اللہ کےنام پر کاٹا جائے اور زید قریش کے لوگوں پر ان جانوروں کو کاٹنے کا عیب دھرتا تھا۔ کہتا تھا بکری کو تواللہ نے پیدا کیا۔ آسمان سے پانی بھی اُسی نے برسایا (جس کو بکری پیتی ہے) چارہ بھی زمین سے اُسی نے اُگایا۔(جس کو بکری کھاتی ہے) پھر تم لوگ اُس کو اوروں کے نام پر کاٹتے ہو وحدان مشرکوں کے کام پر انکار کرتا تھا اوراس کو بڑا گناہ خیال کرتا تھا۔ موسی بن عقبہ نے کہا مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا۔میں سمجھتاہوں انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا کہ زید بن عمرونفیل دین حق کی تلاش میں مکہ سے شام کے ملک کو گئے۔ وہاں یہود کے ایک عالم سے ملے اس سے کہنے لگے مجھے اپنا دین بتلاشاید میں تیرا دین اختیار کرلوں فقال لاتکون علی دینا حتی تاخذ بنصیبک من غضب اللہ اس نےکہا اگر توہمارا دین اختیار کرے گا تو اللہ کے غضب میں سے اپنا حصہ لیگا۔ یعنی خدا کے غضب میں گرفتار ہوگا) زید نےکہا واہ میں توخدا کے غضب سے بھاگ کر آیاہوں (اس سے بچنا چاہتاہوں )پھر خدا کے غضب کو تو میں اپنے اوپر کبھی نہ لونگا اورنہ مجھ کو اُس کے اٹھانے کی طاقت ہے۔اچھا اور کوئی دین تو مجھ کو بتلاسکتاہے۔ اُس نے کہا میں نہیں جانتا (کوئی دین سچا ہو) ہو تو حنیف دین ہو۔ قال ما الحلمہ الا ان یکون حنیفا) قال زید وما الحنیف قال دین ابراہیم لویکن یھودیا ولا نصرانیا ذلا یعبد الا اللہ۔ زید نے کہا حنیف دین کیا ہے۔اس نے کہا حضرت ابراہیم کا دین جونہ یہودی تھے۔ نہ نصرانی اکیلے اللہ کی پرستش کرتے تھے۔ خیر زید وہاں سے چلے گئے۔ایک نصرانی پادری سے ملے۔ اس سے بھی یہی گفتگو کی فقال لن تکون علی دیننا حتی تاخذ نصیبک من تعنہ اللہ۔ اس نے کہا توہمارے دین میں آئے گا تو اللہ کی لعنت میں سے ایک حصہ لیگا۔ زید نےکہا (راہ) میں تو خدا کی لعنت سے بھاگنا چاہتاہوں۔مجھ سے نہ خدا کی لعنت اٹھ سکیگی نہ اُس کاغضب کبھی اٹھ سکیگا۔بھلا مجھ میں اتنی طاقت کہاں سے آئی۔ اچھا تو اور کوئی (سچا) دین مجھ کو بتلاسکتاہے ؟ قال ما اعلمہ یھودیا والا نصرانیاً ولا یعبد الااللہ۔ پادری نے کہا میں نہیں جانتا اگر ہوتو دین حنیف سچا دین ہو زید نے کہا و ہ کیا؟ کہنے لگا ابراہیم کا دین نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اکیلے اللہ کو پوجتے تھے۔ جب زید نے یہودیوں اور نصرانیوں کا یہ قول حضرت ابراہیم کے باب میں سنا اور وہاں سے نکلے تو اپنے دونوں ہاتھ (آسمان کی طرف) اٹھائے۔ کہنے لگے یااللہ میں گواہی دیتاہوں میں ابراہیم کے دین پر ہوں۔

اور لیث بن سعد نے کہا مجھ کو ہشام نے اپنے باپ کی یہ روایت اسماء بنت ابی بکر سے لکھ بھیجی وہ کہتی تھیں۔ میں نے زید بن عمروبن نفیل کو دیکھا کھڑے ہوئے کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کہہ رہے تھے۔ قریش کے لوگو خدا کی قسم تم میں سے ابراہیم کے دین پر میرے سوا اور کوئی نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو جیتا نہیں گاڑتے تھے وہ اس شخص سے جو اپنی بیٹی کو مارنا چاہتاہوں یوں کہتے تو اُس کو مت مار (مجھ کو دے ڈال) میں پال لونگا۔ پھر اُس کو لیکر پالتے۔ جب وہ بڑی ہو جاتی تو اُس کے باپ سے یوں کہتے اگر تو چاہے تو اپنی بیٹی لے لے میں دیدونگا۔ اگر تیری مرضی ہو تو میں اُس کے سب کام پورے کردونگا"۔ صحیح بخاری مطبوعہ احمدی لاہور۔ ۱۵پارہ صفحہ ۲۱۔ ۲۳۔

قبیلہ قریش کے چار سرداروں کی حنفیت

اگر صابیت اور حنفیت کو واحد مذہب تسلیم کرلیا جائے اورملت حنیف اور صابیت میں بُت پرستی کاایک عظیم عنصر مان لیا جائے جیساکہ روایات وبیانات ما فوق سے روشن ہوچکا ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کرلیاجائے کہ قریش حنفیت کو ملتِ ابراہیم جان کر ہی مانا کرتے تھے توپھر حضرت زید بن عمرو نفیل کی " ملت ابراہیمی' یا حنفیت ایک وسیافت طلب امر رہ جاتی ہے۔ گو عام طور سے ملت ِحنفیت میں بت پرستی وشرک پرستی پائی جاتی تھی۔ گو اس بات پرستی کے ساتھ دیگر مکروہات کا بھی تعلق ہے۔ جس کے سبب سے اس کے ماننے والے عربی یہودیت ومسیحیت ماننے والوں سے جدراہنا پسند کرتے تھے۔ مگر اس پر بھی یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت زید بن عمر وبن نفیل کی حنفیت اُس کی دیگر اقسام ہے نہایت افضل واعلیٰ تھی۔ اس میں آبائی حنفیت کانام کے سوا کچھ پایا ہی نہیں جاتا تھا۔ آپ کی حنفیت کی بابت مورخوں نے صاف لکھاہے کہ حضرت زید بن عمروبن نفیل کچھ عرصہ تک نہ یہودی ہوئے نہ مسیحی ہوئے تھے۔ توبھی آپ آبائی حنفیت کوبالکل ترک کرکے صرف و احد خدا کا اعتبار رکھتے ہوئے اُسی کی عبادت میں مصروف رہتے تھے اور اپنی قوم کے روبرو صفائی سے اعلان کرتے رہتے تھے کہ تم میں میرے سوا کوئی ملت ابراہیم پر یاملت حنیف پر یا ملت ابراہیم حنیف پر نہیں ہے اوریہی حضرت ورقہ بن نوفل اور دیگر محققین قریش کی تحقیق کا نتیجہ تھا کہ ملت ابراہیم تو مسیحیت ہے۔اس سے یہ بات روزروشن کی طرح ظاہر ہوجاتی ہے کہ گو حضرت محمد کی زندگی کی ابتدامیں ملت حنیف یاملت ابراہیم حنیف میں بہت پرستی یا شرک پرستی کا عنصر عظیم پایا جاتا تھا مگر قریش کے چار سرداروں کی تحقیق وتلقین سے اصلی ملت ابراہیم یا ملت حنیف ان معانی کی رونما ہوچکی تھی جس میں بُت پرستی وشرک پرستی کا مطلق دخل نہ تھا جواعلیٰ درجہ کے محققین کی تحقیق میں مسیحیت کی ہمعناملت قرار پاچکی تھی۔ جیساکہ بیان مافوق سے عیاں ہوچکاہے۔

مزید براں یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ قریش کےاعلیٰ طبق میں ملتِ حنیف اورملتِ مسیحیت میں جو تطبیق دی جاچکی تھی وہ قریش کے عوام اور عرب کےجہلاء کے خیالات وعقائد سے نہایت بلند تھی۔ عوام کی آبائی ملت حنیف کے ہی دلداہ تھے وہ ملت حنیف میں اصلاح پسند نہ کرتے تھےاوریہی اصلاح کا وہ کام تھا جس کی تکمیل عرب کے فرزند اعظم نے دنیامیں رونما ہوکر کرنا تھی۔ آپ کی اصلاح کا بیان انشاء اللہ کتاب کے دوسرے حصہ میں آئے گا۔

بیان مافوق میں دین حنیف کی تلقین ایک یہودی اورایک مسیحی عالم کی زبانی حضرت زید بن عمروبن نفیل کو کرائی گئی ہے۔ جو خود بچپن سے ہی دین حنیف کو مانتے آتے تھے جو دین حنیف سے ہی بیزار ہوکراُس کی اصلیت دریافت کرنے کو عرب سے شام پہنچے تھے۔ یہودی اور مسیحی عالموں کا حضرت زید کو یہودی یا مسیحی ہونے سے روکنے کی تلقین کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جو کسی ناظر کی سمجھ میں نہیں آسکتا اس کا فیصلہ خود ناظرین کرام کرسکتے ہیں۔ بیان مافوق میں دوسری بات قابلِ غور دین حنیف کی تعریف کی ہے۔ اگرایک یہودی اور مسیحی عالم نے دین حنیف کی وہ تعریف کی ہو جو روایت مافوق میں مذکور ہے تو اس سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہےکہ معانی مذکور کا دین حنیف زید بن عمروبن نفیل نے یہودیوں اور مسیحیوں سے سیکھاتھا اور آپ نے اپنے وطن میں آکر کچھ عرصہ تک اسی اعتقاد پر اعتماد کیا تھا۔ لیکن ابن ہشام اور دیگر مسلم علماء کے بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہےکہ معافی مذکورہ بالا کا دین حنیف عام طور سے قریش کے لوگوں کو معلوم نہ تھا جیساکہ فضول ماقبل سے عیاں ہوچکاہے۔ غرضیکہ صحیح بخاری کی روایت کا مطلب اگر کچھ ہوسکتاہے تویہی ہوسکتاہے کہ حضرت زید بن عمر نے دین حنیف خاص کی تعلیم یہود ونصاریٰ سے پائی تھی مگر آپ کا یہودی یامسیحی ہونے سےباز رہنا معقول وجہ پر مبنی نہیں ہے۔اس میں یہودی اورمسیحی علماء کے عذرات(بہانے) غیر معقول ہے۔

اس کے سوا مسلم روایات سے اس بات کی بھی دلالت ہوتی ہےکہ حضرت زید بن عمروبن نفیل کو مسیحیت سےکمال اُنس(محبت) تھا۔ آپ اپنی مکی زندگی میں کھانے پینے کی چیزوں کی بابت کتاب اعمال ۱۵: ۲۰ پر عامل(عمل کرنا) تھے۔

اس کے سوا ابن ہشام کے بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت زید بن عمر وبن نفیل معانی مذکورہ بالا کے دین حنیف کومانتےہوئے اپنی قوم کی نظر میں نامقبول تھے۔ آپ مکہ میں اپنے گھر میں ہی نہ رہ سکتے تھے۔ آپ کے بزرگ آپ سے بیزارتھے۔آپ غارِ حرا میں ایام گزاری کیاکرتے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت زید کا دین حنیف اور حضرت زید کے آباؤ اجداد کا اور عام قریش کا دین نہ صرف ایک نہ تھا بلکہ نہایت مختلف تھا۔

مزید براں مولانا مولوی نجم الدین صاحب سیوہاری اپنی کتاب" رسوم جاہلیت" مطبوعہ خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور کے صفحہ ۲ کےحاشیہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن عمر وبن نفیل بھی آخر کار مسیحی ہوگئے تھے۔

غرضیکہ اگراسلامی روایات منقولہ بالا کا اعتبار کیا جاسکے تو حنفاء کے مکی ریوالول کو تاریخ اسلام میں عظیم الشان اہمیت دی جاسکتی ہے۔ قریش کےچار سرداروں کا جو اپنے علم وفضل میں گویا یگانہ روزگار تھے۔ اپنے آبائی دینِ حنیف کی تحقیق وتدقیق(سوچ بچار) پر آمادہ ہوکر اس دین کی اصلیت مسیحیت میں پانا اور اعلیٰ دین حنیف اورمسیحیت میں موافقت ومطابقت تلاش کرلینا ایک ایسا تاریخی معاملہ ہے جسے کوصاحب ِبصیرت ہلکی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتاہے اس کے ساتھ ہی جب ہم اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ قریش کے سردار وں نے دین حنیف کی اصلاح وپاکیزگی کی جوتحریک شروع کی تھی وہ کبھی بند نہ ہوئی تھی۔ اس میں ترقی کا اضافہ ہی ہوتا گیا تھا توہمیں تحریک مذکور کے لئے خدا کا شکرکرنے کے بجائے اور دوسری بات سوجھتی ہی نہیں ہے۔اس وجہ سے ہمیں اس بات کا صفائی سے اعتراف کرنا پڑتاہےکہ مکہ میں دینِ حنیف کی بابت جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ ضرور خدا کی طرف سے تھی۔ جس نےعرب کے فرزندِ اعظم کی معرفت دنیا کےکناروں تک پہنچنا تھا۔ کیونکہ عربی دین حنیف کی اصلاح کے معنوں میں گویا اس زمانہ کی دنیا کےمذاہب کی اصلاح مضمر (چھپی)تھی۔

قریش میں دینِ حنیف کیااصلاح کا جو کام ان چارہ قریشی علماء سے شروع ہوا تھا اس کی مخالفت بُت پرست حنفاء اور صائبہ کی طر ف سے لازمی تھی ہمیں اس کامفصل بیان مورخین اسلام نے نہیں سنایا ہے صرف ابن ہشام کے بیان مندرجہ صدر میں اجمالاً اس پر دلالت ہی کی گئی ہے۔ کہ بُت پرست قریش نے حضرت زید بن عمر وبن نفیل سے جو سلوک روا رکھا تھا وہ ُبت پرست حنفاء کی اُس مخالفت کا جوانہیں تحریک مذکور سے پیدا ہوئی تھی ایک ادنیٰ نمونہ تھا۔ بُت پرست حنفاء کی یہی وہ مخالفت تھی جس کا قلع قمع(خاتمہ) کرنے والا اس زمانہ میں انہیں پرورش پارہا تھا۔ جس نےآنے والے زمانہ میں نہ صرف عرب کے بُت پرستوں کو علم اسلام کے آگے جھکانا تھا۔ اس وقت کے بعد کی دنیا نے اُس کے آگے جھکنا تھا۔ مگر ہنوز اُس کی ہستی کاکسی کو علم نہ تھا۔

دسویں فصل

حضرتِ محمد کی زندگی کے ابتدائی زمانہ کا عرب

ملکِ عرب اوراُس کےباشندے خواہ اپنے ملک میں کیسے ہی تھے اور کیسی ہی مکروہات(نا پاک،نفرت انگيز) میں مبتلا تھے۔ خواہ خارجی دنیا کی نظروں میں وہ کیسے ہی خیال کئےجاتے تھے مگر اس بات میں بھی شک وشبہ کا مطلق دخل نہیں ہے کہ وہ ملکِ کنعان کے انبیاء برحق کی نبوتوں اور بشارتوں کا موضوع بنے رہے۔ بائبل مقدس کی کثیر عبارتیں ملک عرب اوراُس کے باشندوں کی خوشحالی کی خبروں سے مملو (بھرا ہوا)ہیں۔ اُن کی گمراہی اور ضلالت(تباہی) کے دور ہونے کی خبرو ں سے پُر ہیں۔اسرائيل کے واحد خدا کی طرف پھرنے اور علمِ توحید الہیٰ کے نیچے خدا کی بشارتیں سنانے کی خبروں سےلبریز ہیں۔ جس کی مثال ہم فصل اول میں پیش کرچکےہیں۔ یہاں پر ہم ناظرین کرام کویہ بتلانا چاہتے ہیں کہ حضرت محمد کے زمانہ سےسینکڑوں برس پیشتر سےکلام خدا یہود اورمسیحیوں کے عرب میں آبادہونے کے ساتھ پورا ہونا شروع ہوگیا تھا تو بھی کلام خدا کی تکمیل عرب کے فرزند اعظم کی وساطت سے ہونےکوباقی تھی۔ جس کےلئے قدرت وحکمت الہیٰ نےملک عرب میں سخت مشکلات پیدا ہونے دی تھیں۔ جن میں سے ایک مشکل

عرب کی غيرملکی حکومتوں کی موجود گی تھی

حضرت محمد کےبچپن کے زمانہ میں عرب کے شمال مشرقی کنارے سے لیکر جنوبی مغربی کنارے تک کے تمام زرخیز اورآباد علاقے اورریاستیں ایشیاء کی زبردست ایرانی حکومت کی ملکیت بن گئی تھیں اوریمن کی تمام مسیحی آبادی ایران کی محکوم ہوچکی تھی۔ ان علاقوں میں ایرانی بستیاں آبادہوکر عرب کو ایرانی مذہب میں بھرتی کرتی جاتی تھیں۔

عرب کے شمال اورشمال مشرق سےلیکر شمال مغرب کے تمام ملک پر خلیج عقابہ تک سلطنتِ روم نے قبضہ کرلیا تھا۔ وہاں کے امراء اور شرفاء اور بادشاہوں تک نے مسیحی مذہب اختیارکرلیا تھا جس کی وجہ سے وسط عرب اورمدینہ کی یہودی ریاست ہی آزاد رہ گئی تھیں لیکن وسط کی یہ تمام آبادی اور اُس کا مقبوضہ ملک ایرانی اور رومی حکومتوں کے پنجروں میں یوں بند نہ تھا جیسے پرندہ بند کیا جاتا ہے گو وسط عرب کی آبادی ان حکومتوں سے تجارتی معاہدےرکھتی تھی۔ مگر اُن کی تجارت پر بھی پابندیاں عائد تھیں۔ ان حکومتوں نے ملک عرب کی آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ جس سے ہرسہ حصہ کے آبادکارآپس میں میل جو نہ رکھ سکتے تھے شمال وجنوب کی غیر ملکی حکومتوں سے وسط عرب کی آبادی کا سخت تنگ ہونا ایک قدرتی بات تھی جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا ہے یعنی اس کے ساتھ ہی یہ بات کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ مدینہ کی یہودی ریاست وسط عرب کی آزاور ریاست کے ساتھ اُس کے دکھ سکھ میں شریک کار تھی اوراپنی تجارت سے وسط عرب کی آبادی کی بہت مشکلات حل کرنے کا وسیلہ تھی جسے وسط عرب میں معقول اقتدار حاصل ہوگیا تھا توبھی وسط عرب کی آبادی کی جملہ مشکلات کاحل مدینہ کی یہودی ریاست تجویز نہ کرسکتی تھی۔ کیونکہ وسط عرب کی مشکلات کوظاہر کرنے والا پیغام قرآن شریف کی معرفت ذیل کے الفاظ میں ہم تک پہنچ گیا ہے جو ان لوگوں کی دشواریوں کا خلاصہ ہے جو وسط عرب میں آباد تھے لکھاہے۔

ام لھمہ نصیب من الملک فاذ لاھیوتون النا من نقیراً۔ یعنی کیا ان کے واسطے ملک میں کوئی حصہ ہے۔ پس وہ لوگوں کو تل برابر جگہ نہیں دیتے ہیں نساء ۸ رکوع۔

ایران اور سدوم کی زبردست فتوحات ِ عربیہ نے وسط عرب کی ریاستوں پر جو دباؤ ڈالا ہوا تھا اس نے نہ صرف وسط عرب کے امراء اور شرفاء کا خون خشک کررکھا ہوگا بلکہ اُن میں خود غرضی اورتنگ نظری اورباہمی بےاعتباری اورباہمی نفاق(اختلاف) کی بلائیں بھی پیدا کردی ہونگی۔ قرآن شریف میں اُن کےباہمی نفاق کا زور دار الفاظ میں ذکر آیاہے۔ چنانچہ لکھا ہے الاعراب اشد کفراً ونفاقاً۔ ایسےحالات واسباب کی موجودگی وسط عرب کی آزاد ریاستوں کےلئے جیسی کہ مہلک (خطرناک)تھی بیان کی محتاج نہیں ہے۔

بیان مافوق میں جو کچھ وسط عرب کی آبادی کی بابت لکھا گیاہے وہ ہمارا ہی خیال نہیں بلکہ مورخین ِاسلام (اسلام کی تاريخ لکھنے والے)کےبیان کا خلاصہ ہے۔ ذیل کا بیان بطورمثال ملاحظہ ہو۔ جسے آئینہ الاسلام مولفہ عالیجناب آغا مختار حسین صاحب سلمہ ربہ میرآبپاشی ریاست جموں وکشمیر، مطبوعہ یوسفی پریس دہلی ۱۹۱۱ء سے ہدیہ ناظرین کیا جاتاہے۔ آپ لکھتے ہیں :

اس وقت عرب کی یہ حالت تھی کہ سات سو سال سے اس ملک کے باشندہ قتل وغارت کواپنا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ عیش وعشرت اُن کا شیوہ(رواج) تھا۔ رعایا کوکوئی ملکی ومالی حقوق میسر نہ تھے۔ بیچارے غریب کا شتکار اورمفلس لوگ امیروں کاشکار ہوتے تھے۔ اگرچہ زراعت پیشہ لوگوں کےپاس زمینیں بھی تھیں لیکن اعلیٰ مالکان اراضی کو اختیار تھاکہ جس وقت چاہیں زمینیں ان سے چھین لیں اوربیچارے کاشتکاروں کو بھوک سےمرنے دیں۔غلاموں کی یہ حالت کہ ہر وقت اُن کےگلوں میں بھاری طوق پڑا رہتا تھا اور وہ چوپاؤں کی طرح جگہ بجگہ ہانکے جاتے تھے عام طورپر بردہ فروش غلاموں کی خریدوفروخت میں مصروف تھے اوراس انسانی ریوڑ کو ایک بڑے چابک کےساتھ اِدھر اُدھر لئے پھرتے تھے۔ مردوعورت چتھڑے لگائے سروپابرہنہ(ننگے) دیار بدیار لیجائے جاتے تھے۔ اگر کوئی چلنے سے معذور ہوجاتا تو اُسے چابکو سے اس قدر مار پڑتی کہ وہ بیدم ہوجاتا تھا۔ اہل عرب بالعموم خانہ جنگی اور فتنہ وفساد میں مشغول تھے۔ انسانی خون بہانا یتیموں کا مال کھاجانا ان لوگوں کے آگے معمولی بات تھی۔ غرضیکہ دنیا کی کوئی بدکاری اور بد خصلتی(بُری عادت) ایسی نہ تھی جو اُن میں موجود نہ ہو" صفحہ ۶

حالات مندرجہ صدر اس بات کے شاہد(گواہ) ہیں کہ حضرت محمد کے زمانہ کا عرب غیر ملکی حکومتوں کے اختیار واقتدار کی زنجیروں سے جکڑ بند تھا۔ آزاد ر يا ستوں کی اندرونی حالت اوربھی خطرناک اور دہشت انگیز تھی۔ان ریاستوں میں ہرگز یہ دم خم نہ تھاکہ وہ اپنے آپ کو تباہی اوربربادی سے بچالیں۔

زمانہ جاہلیت کے عربی مذاہب پر غور کرو

عرب کے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے اہم اہلِ عرب کے مذاہب وعقائد ورسوم کو فراموش (بھول)نہیں کرسکتے۔ بائبل مقدس کے بیان سے یہ بات ظاہر وثابت ہوسکتی ہے کہ ملکِ عرب ہی ایک ایسا ملک تھا جو واحد خدا کے پرستاروں کی اولاد کے ورثہ میں آیا تھا۔ حضرت سم بن نوح کی اولاد ہی زیادہ تر ملک عرب میں آباد ہوئی تھی۔ جس کے ڈیروں میں خدا کی سکونت ظاہر کی گئی تھی۔ پر خاص کر ملک عرب تو اس کا گویا موروثی حصہ تھا۔ عجیب تر معاملہ یہ بھی ہے کہ اس ملک میں بعد کے زمانوں میں حضرت ابراہیم کی نسل بھی آباد ہوئی۔ لیکن موحدین کی عربی نسل واحد خدا کی پرستش چھوڑ کر بت پرستی کی تاریکی میں ضرور مبتلا ہوگئی۔ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتاہے۔

عربوں کے بتُوں کا ان کے معبدوں(عبادت گاہوں) ، اُن کی پرستش کے رسوم وغیرہ کا جب دیگر بُت پرست اقوام کے بتوں، معبدوں اوران کی پرستش نہایت سادہ معلوم ہوسکتی ہے۔ جس کے ساتھ نہایت کم مکروہات شامل تھیں تمام ملک عرب میں صرف مکہ شہر کا کعبہ ہی ایک ایسا معبد تھا جس میں ۳۶۰ بتوں سے زیادہ بت رکھے تھے اور تعجب ہےکہ تمام ملک میں اس کے سوا کوئی دوسرا معبد ہی نہ تھا۔ تمام عرب اسی کعبہ کی عزت وحرمت کیا کرتے تھے۔ اسی میں یہود وقریش کے جدِ امجد(باپ دادا) کی تصاویر رکھی تھیں۔ اسی میں مسیحیت کے بانی اورآپ کی والدہ ماجدہ کی تصویریں موجود تھیں۔ اسی میں دیگر اقوام عرب کے بت دھرے تھے۔ واقعی مکہ کا کعبہ اپنی نوعیت میں عجیب وغریب معبد(عبادت گاہ) تھا جس کی مثال زمین پرناپید (ختم)تھی۔

اس کےسوا عرب کے بُت پرستوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے بُت پرستوں میں ایک بات میں یہ بھی کھلا امتیاز (فرق)تھاکہ جہاں دوسرے ممالک کے بُت پرست اپنے بتوں اور بناوٹی معبودوں کوہی الوہیت مجسم مانتے تھے۔ وہاں عربی بُت پرست کاایک خدا کا اقرار کرتے ہوئے اپنے باطل معبودوں کو خدا کے حضور اپنے لئے شفاعت کنندے خیال کرتے تھے۔ اگرچہ دیگر اقوام کی طرح وہ بھی اپنے باطل معبودوں کو مذکر ومونث مانتے اوراُن کی بُت پرستی میں بابل اور مصر کے معبودوں کی شمولیت پائی جاتی تھی۔ لیکن اصل عربوں کے اپنے معبود بہت کم تھے۔

سرزمین عرب کو گوزمانہ قدیم سے بُت پرستی کی مکروہات نے ظلمت کدہ بنایا ہوا تھا۔ مگر اسے اس بات میں بھی نمایاں امتیاز حاصل تھاکہ اسی سرزمین کی سطح پر شہر اور آباد تھا۔ جہاں سے رئیس الموحدین حضرت ابراہیم عبرانی کا خاندان نکلا تھا کہ وہ برکت ابراہیمی سے زمین کے کناروں تک کوروشن کرے۔ اس کی اولاد سے زمین کی اقوام کے گھرانے برکت پائیں۔ گو حضرت ابراہیم سے لے کر یہود کے ملک عرب میں آباد ہونے کہ دن تک اورمسیحیوں کے ملکِ عرب میں پناہ پانے کہ دن تک یا حضرت محمد کے پیدا ہونے کے دن تک عام طور سے اہلِ عرب بُت پرست ہی رہے توبھی اس طویل زمانہ میں ملکِ عرب میں حضرت ایوب اورہود صالح جیسی ہستیاں ضرور پیدا ہوئیں جو واحد خدا کی پرستار تھیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ماننا پڑتی ہے کہ عربوں کی بُت پرستی کی جہالت نے عرب کی ان بلند مرتبہ ہستیوں کی تمام کوششیں بے اثر کر ڈالی تھیں۔

حضرت محمد کے زمانہ کے قریب وسط عرب کی آزاد ریاست میں یہودیت خصوصاً مسیحیت کے اثر سےموثر ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض کی کوششیں واقعی شاندار تھیں۔ اگرچہ ان کی زندگی اوراُن کے کام کا احاطہ نہایت محدود تھا۔ لیکن اس میں کلام نہیں ہوسکتا کہ اُنہوں نے ہی ایک دفعہ پھر ملکِ عرب کی آزادی اورحریت کی ایسی بنیاد رکھ دی تھی جس پر بعد کے ایام میں عرب کے فرزند اعظم نے اسلام کی شاندار عمارت تعمير کرنا تھی جسے آنےوالے زمانوں کی دُنیا نے ہزاروں سال تک عزت واحترام سے دیکھنا اوراس میں پناہ لینا تھا۔ توبھی حضرت محمد کی خدمات سے قبل وسط عرب کی آزاد ریاست بُت پرستی کی تمام مکروہات(نفرت انگيز کام) کے نشہ میں مخمور(مدہوش) تھی اوراپنے حقیقی خیراندیشوں کاآخری مقابلہ کرنے کوتیارہورہی تھیں۔

ہم پیشتر اس بات کا باربار ذکر کرچکے ہیں کہ عرب کی آبادی حضرت سم بن نوح اور حضرت ابراہیم عبرانی کی نسل سے تھی۔ سمی اقوام میں عورت مرد کے وہ رشتے ناپید (ختم)تھے جو حضرت محمد کے زمانہ کے قریب عربوں میں پائے جاتے تھے۔ واقعی یہ رشتے نہایت مکروہ تھے۔ اس کے سوا ان میں لڑکیوں کو زندہ درگور(زندہ دفن ) کرنے کا رواج انتہادرجہ تک ظالمانہ تھا۔ یہ رواج بھی سمی اقوام میں ناپید(ختم) تھالیکن عربوں میں عام تھا۔ سوال پیدا ہوتاہےکہ عربوں نے یہ مکرورواج کہاں سے لئے تھے؟

اگران باتوں کی بابت دریافت کیا جائے توعورت مرد کے رشتوں زیر نظر کی ہستی اورلڑکیوں کو مارنے کا دستور مہذب ہند کے درمیان مل سکتا ہے۔ منوکے دھرم شاستر میں عورت مرد کے وہی آٹھ بواہ مذکور ہیں جوعربوں میں مروّج تھے۔ ہندوستان میں لڑکیاں بھی ہلاک کی جاتی تھیں جوزمانہ حکومت انگلشیہ سے ہی بچنی شروع ہوئی ہیں محرمات سے نکاح کی رسم غالب ایرانی اقوام سے جاری ہوئی ہوگی۔ پس ایسے حالات کی موجودگی میں ہمارا یہ کہنا بے جانہیں ہوسکتا کہ عربوں میں عورت مرد کے رشتے ملک ایران اورہندوستان سے ہی اخذ کئے گئے ہونگے۔ جن کے مکروہ ہونے کے سوا عربوں کی بربادی کا ایک بڑا چشمہ یہی رشتے تسلیم کئے جاسکتے ہیں۔ اوران کے سوا شراب خوری،جوابازی، اوردیگر بدرسوم وسط عرب کو برباد کررہی تھیں۔ جن کا ذکر پیشتر ہوچکا ہے۔

زمانہ زیرنظر میں اہلِ عرب کی گذشتہ شان ہی مفقود(کھويا ہوا )نہ تھی۔ بلکہ اس زمانہ میں خارجی اوراندرونی آفتیں وسط عرب کی آبادی کا خون چوس رہی تھیں۔ جن سے خلاصی اوررہائی پانا انسانی عقل وفکر اور قوت وطاقت کی حدود سے باہر ہوچکا تھا۔ اہل عرب کا اپنے بندھنوں سے آزادہونا اوراپنی آزادی وحریت(آزادی کو قائم رکھنا) کو پھر حاصل کرنا واقعی قدرت کے معجزانہ کام پر منحصر تھا۔ جس کا کوئی حق پسند انسان ہر گز انکا رنہیں کرسکتا ہے۔ چونکہ خدا نے یہ عظیم الشان کام حضرت محمد مکی ومدنی کی معرفت کیا تھا اس وجہ سے ہمارے زمانہ کی ۲۴کروڑ انسانی آبادی عرب اوراس کے فرزندِ اعظم کی عزت وحرمت کررہی ہے۔

احقر العباد۔ پادری غلام مسیح ۔ایڈیٹر۔نورِ افشان۔ لاہور