التماس مترجم
کشفِ القرآن یعنی سیل صاحب کی کتاب Historical Development of the Quranکا اردو ترجمہ ہدیہ ناظرین کرتے وقت اس قدر عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس ترجمہ میں مصنف کے خیالات اور دلائل کو حتیٰ المقدور(جہاں تک ہو سکے) بغیر کسی طرح کی کمی بیشی کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور طرز بیان بھی ایسا اختیار کیا گیا ہے۔جو ناظرین کو مرغوب (پسندیدہ)ہو اور مصنف کے مدعا ومقصود کو بالتوضیح ظاہر کرے۔ بعض امور میں یہ ترجمہ انگریزی اصل پر فوق (فوقيت)رکھتا ہے۔مثلا ً جس قدر آیات ِ قرآنی اقتباس کی گئی ہیں وہ سب کی سب حرف بحرف اصل قرآنی عربی میں پیش گئی ہیں۔ اور ان کے ذیل عبد القادر بن شاہ ولی الله دہلوی کا اردو ترجمہ مندرج ہے۔ علاوہ بریں تمام مقتبسات کے حوالجات میں وہی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ جو علمائے اسلام میں رائج ہے اور جس کو بآسانی اور بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
مصنف کا طرز بیان قابلِ تعریف ہے۔ وہ اپنے بیان وبراہین کو پیش کرتے وقت نہایت ہمدرد اور منصف مزاج معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مرام ومقصد اور اصلی مطلوب سوائے اظہار حق اور کچھ قصور نہیں ہوتا۔ مترجم نے بھی حتیٰ الوسع کوشش کی ہے کہ اس ترجمہ کا مفہوم بتمامہ وہی ہوجو انگریزی اصل میں متضمن (شامل کیا ہوا)ہے۔ خُدا ئے تعالیٰ اس ترجمہ کے مطالعہ پر برکت بخشے اور اس کو فی الحقیقت کشف القرآن بنادے۔آمین۔
دیباچہِ مصنف
اس کتاب سے آنحضرت ﷺ کے سوانح عمری اور ان کی زندگی کے تمام واقعات مراد نہیں ہیں۔ بلکہ یہ قرآن کے متدارج انکشاف کی تواریخ ہے۔ جس سے اس امر کی توضیح (وضاحت)ہوتی ہے کہ قرآن نے کس طرح بتدریج موجودہ صورت اختیار کی او رکہا ں تک آنحضرت کی اپنی ہی زندگی کے واقعات اس کی بیخ وبن (جڑ۔بنیاد)ثابت ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے قرآن پر نظر کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جن اقوام سےاسے سابقہ پڑا ان کے حق میں کس قدر حسب ضرورت رخ بدلتا رہا ہے۔ اس کے احکام کی مناسبت اس کے عذرات اور زجرو عتاب (غصّہ۔ڈانٹ ڈپٹ)وغیرہ پر غور کرنے سے ہم صاف نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کس نادر طور سے اسلام کی ضروریات کے مطابق قرآن کے مختصر الہامی فقرے نازل ہوتے رہے۔
قرآن کی سورتوں کے نزول کی تاريخ ان کی ترتیب میں نے وہی اختیار کی ہے جو نولدیکی صاحب کی کتاب مسمی بہ گشیختی دس قرآن میں پائی جاتی ہے۔ میری رائے میں یہ تواريخی ترتیب نہایت ہی قابل ِ اعتبار اور قرین صحت ہے۔ فہرست ذیل سے معلوم ہوجائے گا کہ نولدیکی صاحب تمام مکی سورتوں کو تین حصّوں میں منقسم کرتے ہیں یعنی ابتدائی۔وسطی اور زمانہ بعد کی سورتیں۔ اور باقی سورتوں کو سلسلہ چہارم قرار دیتے ہیں۔
مکی سورتیں
سلسلہ اوّل
آنحضرت ﷺ کی بعثت (رسالت)کےپہلے پانچ سال یعنی ۶۱۲ء سے ۶۱۷ء تک کی مکی سورتیں بترتیب ذيل ہیں :
(۱)علق،(۲)مدثر ،(۳)لہب ،(۴)قریش،(۵)کوثر ،(۶)ہمزہ،(۷)ماعون،(۸)تکاثر ،(۹)فیل، (۱۰)لیل ،(۱۱)،بلد (۱۲)انشراح ،(۱۳)ضحیٰ،(۱۴)قدر ،(۱۵)طارق (۱۶)شمس ،(۱۷) عبس ،(۱۸)قلم ،(۱۹)اعلیٰ،(۲۰)تین،(۲۱)عصر ،(۲۲)بروج،(۲۳)مزمل ،(۲۴)قارعہ، (۲۵)زلزال ،(۲۶)انفطار ،(۲۷)تکویر ،(۲۸)نجم (۲۹)انشقاق ،(۳۰)عادیات ،(۳۱) نازعات ،(۳۲)مرسلات ،(۳۳)نباء،(۳۴)غاشیہ ،(۳۵)فجر ،(۳۶)قیامت ،(۳۷)تطفیف ،
( ۳۸)حاقہ،(۳۹)ذریت ،(۴۰)طور،(۴۱)واقعہ ،(۴۲)معارج،(۴۳) رحمن ،(۴۴) اخلاص ،(۴۵)کافرون،(۴۶)فلق ،(۴۷) ناس ، (۴۸) فاتحہ۔
سلسلہ دوم
آنحضرت ﷺ کی بعثت کےپانچویں اور چھٹے سال یعنی ۶۱۷ء سے ۶۱۸ء تک کی مکی سورتیں بترتیب ذیل ہیں:
(۴۹)قمر ،(۵۰)صفت ،(۵۱) نوح ،(۵۲)دھر ،(۵۳)دخان،(۵۴)ق ،(۵۵)،طہٰ،(۵۶)شعرا (۵۷)حجر،(۵۸)مریم ،(۵۹) ص ،(۶۰) یس ،(۶۱)زخرف ،(۶۲) جن (۶۳)ملک ،(۶۴) مومنون ،(۶۵) انبیاء،(۶۶) فرقان ،(۶۷) بنی اسرائیل ،(۶۸)نمل، (۶۹) کہف۔
سلسلہ سوم
آنحضرت کی بعثت کے ساتویں سال سے ہجرت کے زمانہ تک یعنی 619ء سے 622ء تک کی مکی سورتیں بترتیب ذیل ہیں:
(۷۰)سجدہ،(۷۱) فصلت ،(۷۲) جاثیہ ،(۷۳) نحل ، (۷۴)روم ،(۷۵)ہود ،(۷۶)،ابراہیم (۷۷)یوسف ،(۷۸)مومن ،(۷۹)قصص،(۸۰)زمر ،(۸۱)عنکبوت (۸۲)لقمان ،(۸۳) شوریٰ ،(۸۴)یونس،(۸۵) سبا،(۸۶)فاطر،(۸۷) اعراف ،(۸۸) احقاف ،(۸۹) انعام،(۹۰) رعد۔
سلسلہ چہارم
مدنی سورتیں
زمانہ ہجرت سے آخر تک یعنی۶۲۲ ء سے۶۳۲ء تک کی مدنی سورتوں کی ترتیب حسب ذیل ہے :
(۹۱) بقر (۹۲) بینہ ،(۹۳)تغابن ،(۹۴)جمعہ، (۹۵)انفال ،(۹۶) محمد ،(۹۷)آل عمران ،(۹۸)صف ،(۹۹)حدید ،(۱۰۰) نساء(۱۰۱)طلاق، (۱۰۲)حشر (۱۰۳)احزاب، (۱۰۴)منفقون،(۱۰۵)نور ،(۱۰۶) مجادلہ ،(۱۰۷)حج ،(۱۰۸)فتح ،(۱۰۹)تحریم ،(۱۱۰) ممتحنہ ،(۱۱۱) نصر ، (۱۱۲) حجرات ،(۱۱۳)توبہ (۱۱۴) مائدہ۔
آیات قرآنی کے اقتباس کرنے میں میں نے راڈویل صاحب اور پامر صاحب کے ترجموں کا استعمال کیا ہے۔ اور بعض مقامات پر سیل صاحب اور لین صاحب کےترجموں سے مدد لی ہے۔ نیز میں نے حسین اور شاہ ولی الله محدث کے فارسی ترجمہ اور عبدالقادر کے اردو ترجمہ اور خلاصتہ التفاسیر سے ان ترجموں کا مقابلہ کر کے دیکھا اور علاوہ بریں بہت سی تفاسیر کو دیکھ کر ان پر غور وفکر کرنے کے بعد مندرجہ کتاب ہذا کو صحیح قرار دیا ہے۔ ان تفاسیر میں زیادہ تر الفاظ وفقرات کے مختلف معانی کی توضیح وتشریح کا بیان مندرج ہے اور ان سے قرآن کی قراء ت ِمختلفہ وقت ِ نزول اور اجزائے مرکبہ کی کچھ بہت صاف تشریح نہیں ہوتی حالانکہ علمائے اسلام میں نکتہ چینی اور چھان بین کی روح ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ ان کی تفاسیر اور تحقیقات کا دارو مدار بجائے ادلہ عقلیہ کے صرف روایات پر ہے۔
کشف القرآن
باب اوّل
ایام مکہ
آنحضرت ﷺ کے حالاتِ زندگی کی تفہیم نامہ(سمجھانا) کے لئے نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔کہ ان کے تمام تواریخی واقعات کا قرآن کے ان حصص سے جن سے وہ علاقہ (تعلق)رکھتے ہیں اچھی طرح مقابلہ کیا جائے۔ اس مقابلہ سے یہ مراد بوجہ اتم منکشف(ظاہر) ہوجائیگا کہ قرآن نے کس طرح بتدریج زور پکڑا۔ کس نادر (ناياب)طور پر الہامات ومکاشفات نے حسب ِموقعہ موجودہ حالات سے تطابق(مشابہت،مناسبت) کھایا اور آنحضرت ﷺ کے افعال و اقوال متناقضہ (برعکس،خلاف)کو سہارا دیکر اذن الہیٰ کی طرف منسوب کیا۔
سوائے اس متذکرہ بالا طریقہ کے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی جس سے آنحضرت کی متبدل(تبديل کرنے والی) حکمت ِ عملی پر حرف نہ آئے اور خود بدولت بھی زمانہ سازی اور خلاف بیانی ومغائرت (اجنبیت۔بے گانگی)کے الزام سے محفوظ رہیں۔
قرآن کے ابواب یا سورتوں کی ترتیب ازروئے تواريخ بالکل غیر حقیقی ہے طول طویل(بہت لمبی) سورتیں کتاب کے شروع میں درج کی گئی ہیں اور یہ موجودہ ترتیب ایسی غلط ہے کہ قرآن کو اوّل سے آخرتک پڑھنے سے بھی پڑھنے والے پر محمد صاحب کی زندگی اور ان کے افعال وکردار کا حال منکشف(ظاہر) نہیں ہوتا بلکہ بدستور سابق بالکل مکنون ومکتوم(پوشيدہ و چُھپا ہوا) اور سر بہمر(بند) رہتا ہے اور محض پریشانی وگھبراہٹ حاصل ہوتی ہے۔
عربی اور فارسی مفسرین نے مختلف طور پر سورتوں کو مرتب کیا ہے اور علاوہ ازیں میور اور نولدیکی صاحب نے بھی کو شش کی ہے۔کہ قرآن کی ترتیب وتواريخی ترتیب ہو۔ چند سورتوں کے ٹھیک وقت نزول کے باب میں بہت اختلاف ہے اور بعض سورتوں کے چند حصص فی الحقیقت پورے مرکبات (کئی چيزوں کو ملانا)میں سے معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی چند آیات کانازل ہونا مکہ میں بیان کیا جاتا ہے اور باقی کا مدینہ میں۔ لیکن اب ہم تمام عملی ضرورتوں کے لئے ان کو ایسی ترتیب میں مرتب کرسکتے ہیں جو حسبِ نزول(نازل ہونا) ہو۔
صفحات ذیل میں ظاہر کیا جائیگا کہ جب تمام سورتوں کو ان کی اصلی اور حقیقی تواریخی ترتیب سے مرتب کیا جائے تو کس قدر صفائی اور صراحت (وضاحت) سے رسول عربی کی تعلیم اور کارروائی کے سارے معمے (الجھا ہوا مسلۂ)صاف کھل جاتے ہیں۔ قرآن کے پہلے الفاظ وہ ہیں جو کہ حضرت نے غار ِ حرا میں سنے اور اب سورہ علق میں مندرج ہیں کہ پڑھ (1) اپنے رب کے نام سے جس نےبنایا آدمی لہو کی پھٹکی سے۔
بعض کا خیال ہےکہ آنحضرت ﷺ کو وعظ کرنےکا پہلا حکم سورہ شعرا کے گیارھویں رکوع میں ہوا نذر عشيرتک الا قربين ۔یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کر۔یہ الہام اوّل ہے جس کی منادی کا حکم ہوا لیکن اس پر یہ اعتراض ہےکہ مابعد کی آیات میں لکھاہے کہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ یعنی ایمانداروں کے لئے شفقت سے اپنے بازوؤں کو جھکا پھر یہ الفاظ کہ الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ یعنی جب تو عبادت کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے تو کون تجھ کو دیکھتا ہے ( سورہ شعرا آیت ۲۱۹،۲۱۸)ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی ایک چھوٹی سے جماعت موجود تھی علاوہ ازیں اس سورة کا طرز بیان بھی ابتدائی نہیں کیونکہ العزیزا الرحیم اور السمیع العلیم وغیرہ جملے صرف آخری سورتوں میں پائے جاتے ہیں (2)۔
پھر وہ زمانہ آیا جس کو فاطر کہتے ہیں جس میں کچھ نازل نہیں ہوا اور یہ زمانہ تین سال کا بیان کیاگیا ہے۔ اس عرصہ میں حضرت کی حالت نہایت تذبذب (شک و شبہ)کی تھی اور دل میں اپنی رسالت کی نسبت بہت سے شکوک (شک کی جمع)پیدا ہوگئے تھے ۔ قبیلہ قریش نے جو مکہ میں نہایت زبردست قوم تھی اور جس سے آنحضرت کو فخر نسب تھا اس وقت کسی طرح کی ظاہرا مخالفت نہیں کی بلکہ وہ حضرت کو دیوانہ سمجھتے رہے کیونکہ مشرقی ممالک میں الہام والقاودیوانگی وجنون کا ایک جز وخیال کیا جاتا تھا۔
پس جب تک آنحضرت عام طور پر وعظ ونصیحت کرتے اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی ترغیب وتحریص(خواہش و لالچ) دلاتے اور قیامت کا ذکر اذکار کرتے رہے تب تک تو اہل ِقریش ان کو صرف بے پروائی اورنظر حقارت (نفرت کی نظر)سے دیکھتے رہے۔ لیکن جب آپ نے کعبہ کی بُت پرستی پر کھلم کھلا حملے شروع کئے اور ان کی توہین وتردید(رد کرنا) کرنی شروع کی تو معاملہ بالکل معکوس(اُلٹا) ہوگیا اور سخت مخالفت شروع ہوگئی۔ اس مخالفت کا خاص سبب یہ تھا کہ اہل ِمکہ کو اپنے قدیمی رسم ورواج کا بدلنا ازحد ناگوار تھا (3) ۔یہ لوگ اس مذہب کو جس کے باعث شہر مکہ کو اہل ِعرب کے لئے ایک نہایت مقدس مقام خیال کیا جاتا تھا بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کا ازحد پاس وادب انہیں ملحوظ(خيال کيا گيا) رہتا تھا۔اب تک ان کو مطلق خیال(بالکل خيال) نہ تھا کہ محمد صاحب مکہ کے قدیم بُت پرستوں کی رسومات کو جو وہ مانتے تھے اسلام میں داخل کرکے اس خیال کو قائم رکھیں گے۔علاوہ ازیں آنحضرت نے کوئی معجزہ بھی نہیں کیا تھا اور آپ کے دعوؤں کے ثبوت میں جو کچھ انہوں نے سنا تھا وہ آنجناب کی اپنی ہی باتیں تھیں۔
(1) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّ كَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔لفظ اقراء کے استعمال کے باعث بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت صاحب پڑھنا جانتے تھے لیکن عام بول چال میں اس کے معنی محض پکارنے کے اور مرسلانہ بلاہٹ کے بھی ہیں جیسے نبی پکارتا ہے مثلا ً عبرانی میں لفظ قارا کے معنی چلانا۔ چنانچہ یسعیاہ ۱۱باب ۶ آیت میں ہے آواز آئی کہ پکارا اس نے کہا کہ میں کيا پکاروں۔ دیکھو نولدیکی کی کتاب مسمی بہ گشختی قرآن صفحہ ۹، ۱۰ یہ سورة مخلوط سورتوں کا ایک کافی نمونہ ہے۔ چھٹی آیت سے لےکر ایام مکہ سے تعلق رکھتی ہے اور ابوجہل اور اس کے رفقا کی مخالفت کا ذّکر اس میں اشارة درج ہے۔ (2) نولدیکی صاحب گشختی دس قرآن صفحہ ۹۷۔ (3) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل ِ مکہ کی برافروختگی کا باعث محمد صاحب کی نئی تعلیم نہیں تھی بلکہ آپ کی تعلیم میں اہل مکہ کے بزرگوں پر جو حملے کئے گئے تھے ان کے باعث وہ برافروختہ ہوئے نولدیکی قرآن صفحہ ۳۱۔
اس بات کا ظاہر کرنا کچھ دشوار(مشکل) نہیں ہے کہ محمد صاحب ابتدا ہی سے اپنے ہم وطنوں کی خیر خواہی کے خیالات سے موثر تھے۔ اور ان کی یہ کوشش تھی کہ ایک ایسا طریق جاری کریں جس سے اپنے ملک کا بھلا ہو۔
ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں کہ چونکہ لوگ محمد صاحب کی باتوں کو سن کر ان کےرشتہ داروں کی حمایت کے سبب سے برداشت کرتے تھے۔ اس لئے بزرگان ِ قریش نے ان کے چچا ابو طالب سے درخواست کی کہ محمد صاحب سے ان کا باہمی عہدو پیمان کراکر صلح وصفائی کرادیں۔ جب ابو طالب نے اپنے بھتیجے سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ بہت خوب ! آپ مجھ کو ایسا کلمہ بتائیے جس کے وسیلے سے اہلِ عرب پر حکمرانی کروں اور اہلِ فارس مطیع (تابع)ہوجائیں۔ اور علاوہ بریں آپ یہ بھی کہیں کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خُدا یا معبو د نہیں ہے۔ اور بتُوں کی پرستش کو یک لخت (فوراً)ترک کر دیا۔یوں کہیں کہ محمد صاحب کے اس جواب کا لب لباب (خلاصے کا خلاصہ)یہ ہوسکتا ہے کہ میری تعلیم کو قبول کرو۔ اس سے تمام اہلِ عرب میں یگانگت(اتحاد) پیدا ہوگی اور ان کے دشمن مغلوب(شکست خوردہ) ہوجائینگے ۔ چنانچہ اہل ِمکہ نے اس خطرے کو محسوس کرکے جواب دیاکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ سلطنت ہم سے چھین لی جائیگی۔ اسلام کی ابتدائی حالت میں اس کے اس حصّہ کی طرف جو ملک گیری سے علاقہ(تعلق) رکھتا ہے۔ جیسا کہ چاہئے توجہ نہیں کی گئی۔لہذا اہلِ مکہ نے خیال کیاکہ شاید یہ تعلیم محمدی کے قبول کرنے کا نتیجہ لڑائی اور اس لڑائی کا انجام شکست ہو۔ اس خیال سے ان کی مخالفت اور بھی روز افزوں(آئے دن زيادہ) ہوتی گئی۔ اب وہ آنحضرت کو دروغگو (جھوٹا)جادوگر شاعر آسیب زدہ اور فالگیر وغيرہ ناموں سے پکارنے لگے۔ یہ لوگ یہاں تک غضبناک ہوگئے تھے کہ خاص کعبہ کے دروازہ پر بھی انہوں نے آنحضرت پر حملہ کیا۔ ایک دفعہ آنحضرت نہایت طیش میں آگئے اور فرمانے لگے کہ اے قریش کے لوگو اس بات کو یادر کھو کہ میں تلوار لیکر آیا ہوں ۔ (4)اس دھمکی کے مطابق عمل کرنے سے کئی سال تک آپ عاجز (بے بس)رہے لیکن قریش نے اس وقت اس بات کو نہ سمجھا اور دوسرے ہی روز پھر حملہ آور ہوئے اس موقعہ پر حضرت ابوبکر کو آنحضرت کی مدد کے لئے آنا پڑا۔
ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں کہ اس روز کوئی غلام یا آزاد ایسا نہ تھا جس نے آنحضرت کو دروغگو(جھوٹا)نہ کہا ہو اور توہین وبے عزتی میں حتیٰ المقدور(جہاں تک ہو سکے) کوشش نہ کی ہو۔ ان تمام تکلیفات میں آپ کے چچا ابو طالب اگر چہ آپ کی تعلیم اور آپ کے دعاوی کے قائل نہ تھے تاہم آپ کے بڑے حامی اور مددگار تھے۔قبیلہ قریش نے ابو طالب کو بہت کچھ کہا سنا کہ وہ آئندہ محمد صاحب کی مدد نہ کریں۔لیکن ابوطالب نے ان کی تمام ترغیب وکوشش کا نتیجہ اس امر میں دکھلایا کہ محمد صاحب کو کہنے اور سمجھانے لگے کہ مجھ کو اور اپنے آپ کو بچا اور مجھ پر اس قدر بوجھ نہ ڈال جس کی میں برداشت نہیں کرسکتا پر محمد صاحب اپنے ارادے میں جمے رہے۔ اور آخر کار ان کے چچا ابو طالب نے اپنے قریبی رشتہ کے باعث جو ان میں تھا مجبور ہوکر کہا کہ جو کچھ اچھا لگے سو کئے جا۔ بخُدا کسی حالت میں ،میں تجھ کو دشمنوں کے حوالہ نہیں کرونگا۔ حضرت ابوبکر اور آنحضرت کے چند اور پیرو(پيچھے چلنے والے) جو کہ مکہ میں کسی زبردست خاندان سے علاقہ رکھتے تھے۔اگرچہ ان کی حقارت وبے عزتی کی جاتی تھی تاہم وہ سب کے سب ہر طرح کے شخصی خطرہ سے محفوظ تھے۔ خاندانی اتحاد وتعلقات ہر طرح کی ایذا رسانی کے مقابلہ میں ایک عمدہ پناہ گاہ تھی۔ اچھے خاندان کے لوگ نئی تعلیم کو قبول کرنے یعنی محمدی ہونے کے بعد بھی محفوظ تھے لیکن بر خلاف اس کے اگرچہ حضرت محمد اور ان کے چند پیرو ایسے محفوظ تھے تاہم جو لوگ غلاموں اور ادنی قبائل عرب سے ایمان لائے تھے۔ اور جن کے سر پر اہل مکہ کے زبردست سرداروں کی حفاظت کا سایہ نہ تھا نہایت ستائے جاتے اور قید خانوں میں ڈالے جاتے تھے۔
(4) اس واقعہ سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے آنحضرت ﷺ کے خیالات میں معرکہ آرائی کوٹ کو ٹ کر بھری ہوئی تھی۔
محمد صاحب اس حالت میں ان کے ساتھ بہت ہمدردی ظاہر کرتے تھے اور اکثر اوقات ان کو ترغیب دیتے تھے کہ یہاں سے بھاگ جاؤ اور اپنے آپ کو اس ایذا وعذاب سے محفوظ رکھو۔ ایک دن آپ کی ایک شخص عمر ونامی سے جو کہ رورہا تھا ملاقات ہوئی۔ آپ کی باز پرس کے جواب میں اس نے کہا کہ یا رسول الله اگر میں آپ کی توہین اور ان کے معبودوں (بتوں کی تعریف نہ کروں تو میری رہائی نا ممکن ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنے دل کو کیسا پاتا ہے ؟یعنی تیرے دل کا کیا حال ہے ) اس نے عرض کی کہ میرا دل اخلاص (خلوص)سے ایمان پر قائم ہے۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ تجھ پر پھر ظلم کریں تو جس طرح وہ تجھ سے اقرار کرانا چاہیں کردیجیو اور جو کچھ تجھ سے کہلانا چاہیں کہہ دیجیو۔
اس قسم کے لوگوں کا بیان جن سے زبردستی کفارہ اسلام کا انکار کرواتے تھے قرآن میں بھی مذکور ہے چنانچہ سورہ نحل میں مرقوم ہے۔ مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ یعنی جس شخص نے ایمان لانے کے بعد خُدا کا انکار کیا جبکہ اس کو زبردستی مجبور کیا گیا اور وہ دل میں ایمان پر قائم رہا تو اس کا کچھ گناہ نہیں ہے۔ (سورہ نحل ۱۴ رکوع آیت ۱۰۶ )۔اس موقع پر جبکہ آنحضرت کا دل تفکرات(سوچ بچار) کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح جن میں خاص حضرت محمد کی طرف خطاب تھا اور سورة الکافرون اور سورة الاخلاص لوگوں کی طرف خطاب کرکے آپ کی تسلی کے لئے نازل ہوئیں۔ چنانچہ ان میں مندرج ہے ۔ وَالضُّحَىوَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىمَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىوَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاوّلى (سورہ الضحی آیت ۱تا۳)، أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَوَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَالَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَوَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَفَإِنّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًافَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْوَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ(سورہ النشراح)۔ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَلَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَوَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُوَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْوَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَاأَعْبُدُلَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (سورہ الکافرون)یعنی قسم ہے دوپہر کی روشنی کی اور قسم رات کی جس وقت کہ اس کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ تیرا خُدا تجھ سے ناراض نہیں ہے اور اس نے تجھے ترک نہیں کیا۔یقینا ً آئندہ گذشتہ سے بہتر ہوگا۔ کیا ہم نے تیرے لئے نہیں کھول دیا تیرا سینہ اور تجھ سے تیرا بوجھ ہم نے نہیں لے لیا جس سے تیری کمر ٹوٹ رہی تھی ؟ اور کیا ہم نے تیرے مذکور کو بلند نہیں کیا؟ سوالبتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے پھر جب فارغ ہو تو محنت کر اور اپنے رب کی طرف دل لگا ۔ کہہ دے کہ اے کافروجس کی تم پرستش کرتے ہو میں اس کو نہیں پوجتا اور جس کو میں پو جتا ہوں تم اسکو نہیں پوجتے جس کی تم پوجا کرتے ہو میں اسے کبھی نہیں پوجونگا اور وہ جس کی میں پوجا کرتا ہوں تم اس کو نہیں پوجوگے۔ پس تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین کافی ہے۔ (5)کہہ دے کہ خُدا ایک ہی خُدا ازلی ہے وہ کسی کو جنتا نہیں ہے اور نہ کسی نے اس کو جنا ہے۔ اور اسکی مانند کوئی نہیں ہے(6) ۔اسی طرح ان سورتوں سے پژمردگی اور کمال کے زمانہ میں آنحضرت کی کھلم کھلا الہامات سے ہمت بڑھ گئی اور بڑے زور شور سے بُت پرستی کی ترديد(رد کيا گيا )اور خُدا تعالی کی وحدانيت خيالات ميں مصروف و مشغول (شغل ميں لگا ہوا)ہوئے۔
سلسلہ وار سورتوں میں سے جب فاطر ختم ہوگئی تو سورة الاثر (7)نازل ہوئی۔جس کے بعد الہامات ومکاشفات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ یہ سورة اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ حضرت محمد پر لوگ تمسخر (مذاق) اڑاتے اور شاعر فالگیر اور ملحد (کافر۔بے دين)وغیرہ کے ناموں سے نامزد کرتے تھے اور کہتے تھے ۔کہ یہ اپنی لغو بیانی(برکار باتوں۔بکواس) اور بیہودہ گوئی سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ پھر یہ الفاظ کہ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُقُمْ فَأَنذِرْ یعنی اوّلحاف میں لپٹے ہوئے اٹھ اور لوگوں کو خبردار کر (سورہ مدثر کی پہلی آیت ) اس امر پر صاف دلالت(دليل) کرتے ہیں کہ اس کو بلا پس وپیش کئے وعظ نصیحت کرنے کا حکم ملا۔
اہلِ مکہ نہایت تند (سخت)اور سرکش تھے اور مفسرابنِ عباس کے بیان کے مطابق حضرت محمد کی مخالفت میں ان کا سرگروہ مکہ کا ایک بڑا بھاری ریئس ولید بن مغیرا تھا ۔جس کاذکر ذیل کی ملامت (لعن طعن)آمیز آیات میں اشارتاً کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ مدثر کی گيارھويں آیت سے یوں شروع ہوتا ہے کہ ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًاوَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًاوَبَنِينَ شُهُودًاوَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًاثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَكَلَّا إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًاسَأُرْهِقُهُ صَعُودًاإِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ یعنی چھوڑدے(8) مجھ کو اور اس شخص کو جس کو میں نے پیدا کیا اکیلے اور دیامیں نے اس کو پھیلا کر۔ اور اس کے بیٹے اس کے سامنے بودوباش(قيام) کرتے ہیں۔ اور میں نے تیار کردی اس کی خوب تیاری پھر لالچ کرتا ہے کہ میں اس کو اوردوں۔ کوئی نہیں وہ ہے ہماری آیتوں کا مخالف۔ اب اسے چڑھاؤنگا بڑی چڑھائی۔ اس نے سوچ کیا اوردل میں ٹھہرایا۔ سومار ا جائیو کیسا ٹھہرایا۔
ولید بن مغیرا نے کہا تھا کہ حضرت محمد کا کلام جس کو وہ کلام الہیٰ کہتا ہے محض انسانی کلام ہے۔ اور اس کو وہ خود سحری تاثیر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ چنانچہ اس پر اسکے حق میں یہ فتویٰ سنایا گیا کہ سَأُصْلِيهِ سَقَرَوَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُلَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُلَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ یعنی اب اس کو ڈالونگا آگ میں اور تونے بوجھا کیا ہے وہ آگ ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ نظر آتی ہے پنڈے پر( سورہ مدثر ۲۶-۲۹)۔
(5) یہ سورة اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ اہل مکہ میں سے ایک سردار نے یہ بات پیش کی تھی کہ محمد صاحب کے خُدا کی بھی اسی وقت پرستش ہوا کرے جس وقت دیگر اہل ِ مکہ کے معبودوں کی ہوتی ہے یا ہر سال باری باری ہوا کرے۔ حضرت محمد اس دام تزویر میں نہ پھنسے اور اس سورة میں قدیمی بُت پرستی کی صاف تردید کی اور دوسری سورة میں خُدا تعالیٰ کی توحید اور وحدانیت پر نہایت پر زور گواہی دی۔ (6) قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌاللَّهُ الصَّمَدُلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْوَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (7) اہل اسلام کے عام مفسرین کا اس امر میں اتفاق ہے کہ سورہ فاطر کے بعد پہلے یہی صورت نازل ہوئی تھی۔اور پہلی سات آیات اس امر کی تائید کرتی ہیں کیونکہ آٹھویں آیت میں جملہ نقر فی النفقور پہلی سورتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن ساتھ ہی یہ سورة مخلوط المضمون معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ۱۱آیت میں مندرج ہے کہ چھوڑدے مجھے کو اور جس کو میں نے پیدا کیا اکیلے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان مخالفوں کی طرف اشارہ ہے جو کافروں میں سے تھے اور کہتے ہیں کہ اس سے ولید بن مغیر امراد ہے۔ ۳۴،۳۱ویں آیت تک ان مخالفوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں تھے اور ان میں یہودی منکر ریاکار اور بُت پرستی بھی شامل ہیں۔ ان گروہوں کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیتیں ضرور اس آخری زمانہ ميں اس سورة میں درج کی گئی ہونگی۔ (8) یہ ترجمہ شیخ عبد القادر ابن شاہ ولی الله دہلوی کا ہے۔
پھر سور ہ قلم میں اسی شخص کے حق میں لکھا ہے کہ حَلَّافٍ مَّهِينٍهَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍمَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍعُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍأَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْاوّلينَسَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ یعنی قسمیں کھانےوالا بے قدر طعنے دینا چغلی کرتا پھرتا ہے بھلے کام سے روکتا۔ حد سے بڑھتا۔بڑا گنہگار اس سب کےپیچھے بدنام جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلوں کی نقلیں ہیں اب داغ دینگے ہم اس کی سونڈ پر۔
آنحضرت کا ایک اور سخت مخالف آپ کا چچا ابو لہب تھا۔ جس نے اپنی زوجہ سے آپ کی مخالفت کے لئے تحریک پائی اور نہایت برافروختہ ہوکر آپ کے دعویٰ کی تردید میں بڑے زور وشور سے مصروف ہوا۔ سورة اللہب میں ابو لہب اور اس کی زوجہ دونوں کے حق میں نہایت سخت لعنت سنائی گئی چنانچہ لکھاہے کہ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّمَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَسَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍوَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِفِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ آپ۔ نہ کام آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔ اب شعلہ زن بھڑکتی ہوئی آگ تا پیگا اور اسکی جورو بھی جوسر پرایندھن لئے پھرتی ہے۔ اور اس کی گردن میں کھجور کے پٹھے کی رسی ہے ۔ (9)
سورة الہمزہ اجناس ابن شریف ایک مالدار آدمی کی مخالفت میں نازل ہوئی اور یہ بھی اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہے اگر چہ نولدیکی کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ بہت سے علماء اسلام اس کو ایام ِمدینہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس سورة کی عبارت یوں ہے کہ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍالَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُيَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُكَلَّا لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِوَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُنَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُالَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ یعنی خرابی ہے ہر طعنہ دینے اور عیب (نقص،گناہ)چننے والے کی۔ جس نے سمیٹا مال اور گن گن رکھا۔ کیا خیال رکھتا ہے کہ اسکا مال سدا رہیگا اس کےساتھ ؟ کوئی نہیں۔ اس کو پھینکا ہے روندنے والی میں۔ اور تو کیا بوجھا۔کیا ہے وہ روندنے والی ؟ آگ ہی الله کی سلگائی ہوئی جھانک لیتی ہے دل کو۔
پھر سور علق میں آپ کے ایک اور سخت مخالف ابو جہل(10) کے حق میں مرقوم ہے کہ كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىأَن رَّآهُ اسْتَغْنَى یعنی کوئی نہیں آدمی سر چڑھتا ہے یہ اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ دیکھتا ہے۔(سورہ علق آیت ۷،۶)
بیضاوی فرماتے ہیں کہ ابو جہل نے آنحضرت کو یہ دھمکی دی تھی کہ جب آپ نماز میں سجدہ کررہے ہونگے تو اس وقت آپ کی گردن پر کھڑا ہوجائیگا۔ (11)
پھر سورة الحج کی ۸ویں آیت میں یو ںمندرج ہے کہ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ یعنی ایک شخص ہے جو جھگڑتا ہے ان کی بات میں بن خبر بن سوجھ اور بغیر روشن کتاب کے۔واضح رہے کہ یہ سورة مدنی ہے اور اس کا حوالہ تواریخی اور زمانہ گذشتہ سے تعلق رکھتاہے۔ليکن بعد کی سورتوں میں بھی اس قسم کے الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ بعد کی ایک مدنی سورة یعنی سورة الانفال
(9) اگر وہ سب کچھ جو احادیث میں ابولہب کی نسبت بیان کیا گیا ہے ٹھیک ہے تو یہ سورة نہایت دلچسپ اور قابل لحاظ ہے۔کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حالت میں حضرت محمد تھے کس قدر قرآن کے الفاظ پر بھی ان کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو بلایا اور ان کے سامنے اپنے دعاوی کو پیش کیا ۔ ابو لہب نہایت برافروختہ(غصے ميں بھرا ہوا) ہوا اور کہنے لگا کہ کیا تونے مجھ کو اس لئے بلایا ہے؟ تو ہلاک ہووے کہہ کر ابولہب نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک پتھر اٹھا کر محمد صاحب کی طرف پھینکا جس پر اس کے حق میں یہہ کہا گیا کہ تیرا ہاتھ ٹوٹ جاوے۔ ابولہب کی زوجہ ام جمیل نے آپ کے راستے میں کانٹے ڈال دیئے۔ ایک دن وہ ایندھن کی لکڑیوں کا گھٹا سر پراٹھائے ہوئے جارہی تھی اور رسی اس کی گردن میں پڑی ہوئی تھی اور وہ گلا گھونٹ کر مرگئی اس پر اسے آنحضرت نے پھانسی ملی ہوئی کے نام سے نامزد کیا۔ سورة لہب میں ابو لہب کے نام مضحکہ اڑایا گیا ہے کیونکہ ابو لہب کے معنی شعلوں کا باپ ہیں۔ (10) ابوجہل جنگ بدر میں قتل کیا گیا۔ (11) راڈویل کا قرآن صفحہ ۲۔
کی ۴۹ ویں آیت میں لکھا ہے کہ وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاء النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَاللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ یعنی مت ہو جیسے وہ اہل ِمکہ جو کہ نکلے اپنے گھرو ں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھاتے اور الله کی راہ سے روکتے ہوئے اور الله کے قابو میں ہے جوکچھ وہ کرتے ہیں۔ اس تمام مخالفت کے مقابلہ میں حضرت محمد کو فقط یہ کہنے کا ارشاد ہواکہ وہ خُدا کی طرف سے ہے چنانچہ سورہ قلم کی دوسری آیت میں سطور ہے مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ یعنی اے محمد تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے۔
اب ایک دو سال کے عرصہ میں وحی آسمانی کا خیال زیادہ تر تکمیل کو پہنچ گیا اور آنحضرت صحت بیان اور درستی کا نہایت مستعدی (آمادگی،تياری)اور سر گرمی سے دعویٰ ہونے لگا۔ ان الہامات کی عبارت کی نسبت صرف اسی پر اکتفا (اتفاق)نہیں کی گئی کہ اس کو کلام الله اور اسکے الفاظ کو خُدا ئے تعالیٰ کے الفاظ کہیں۔ بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عرش معلیٰ(عالی آسمان) پر ازل سے یہ کلام موجود تھا۔ چنانچہ سورہ بروج کی اکیسویں آیت میں پایا جاتاہے کہ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ یعنی یہ بڑی شان وعظمت والا قرآن ہے جو کہ لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا ہے۔
لوح ِ محفوظ کی نسبت یوں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک خفیہ تختی ہے جو الله جل جلالہ کے تخت ِ بریں اور عرش معلیٰ کے پاس ہے۔ چنانچہ سورہ عبس کی ۱۳ ویں آیت اور ۱۴ ویں آیت میں یو ں لکھا ہے فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍمَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍبِأَيْدِي سَفَرَةٍكِرَامٍ بَرَرَةٍ یعنی لکھی ادب کے ورقوں میں۔ اونچے دھری ستھری۔ہاتھوں میں لکھنے والوں کے جو سردار ہیں نیک۔ مفسر زمکشاری اس کا یوں بیان کرتاہے کہ لو ح محفوظ سے نقل کرکے شیاطین کے ہاتھوں سے پاک اور محفوظ رکھا گیا۔ ا ور صرف پاک فرشتگان ہی اسے چھوسکتے تھے۔ اب آنحضرت کی بڑے شدومد(زور و شور) سے مخالفت ہونے لگی۔ اور ابتدائی زمانہ کی مکی سورتوں میں سے سورة المرسلت میں اس مخالفت کے مقابلہ میں نہایت زجرو تو بیخ (لعنت ملامت) کی گئی۔ پچاس آیت میں دس دفعہ یہ فقرہ دہرایا گیا ہے کہ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ یعنی خرابی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔ انتا لیسویں آیت سے حضرت محمد کا مخالفین کو مقابلہ کےلئے پکارناثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ یوں لکھا ہے کہ فَإِن كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ یعنی اگر تمہارا کچھ دعویٰ ہے تو مجھ پر چلالو (12)۔ پھر اس زجرو عتاب(ملامت و غصہ) کا خاتمہ اس سخت خطاب سے یوں ہوتا ہے کہ انطَلِقُوا إِلَى مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَانطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍلَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ یعنی جس دوزخ کو تم جھٹلا تے تھے اب اس میں داخل ہو اور ایک سایہ کی طرف چلو جو کہ تین پھاٹکوں والا ہے اور تپش کے دن کسی کام نہیں آسکتا۔
پھر سورة النبا میں ۲۱ ویں آیت سے ۲۳ ویں (13) آیت تک اسی مضمون پر یوں مرقوم ہے إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًالِلْطَّاغِينَ مَآبًالَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًالَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًاإِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًاجَزَاء وِفَاقًاإِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًاوَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا کہ بیشک دوزخ ہے تاک (نگاہ)میں شریروں کا ٹھکانہ۔ رہتے ہیں اس میں قرنون۔ نہ چکھیں وہاں کچھ مزا ٹھنڈک کا اور نہ کچھ پینے کو ملے مگر گرم پانی اور بہتی پیپ (ريشہ جو زخموں ميں پڑ جاتا ہے)۔ بدلہ ہے پورا۔ کیونکہ وہ حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور ہماری آیات کو جھٹلا یا اور واہیات کے نام سے نامزد کیا۔ اور ہر چیز ہم نے گن رکھی ہے لکھ کر۔ اب چکھو ! ہم تم پر سوائے مار کے اور کچھ نہیں بڑھائینگے۔
(12) ایسے ہی سورة الطارق کی ۱۵ ویں اور ۱۶ویں آیت میں مسطور ہے کہ وہ تیرے خلاف بندشیں باندھتے ہیں اور میں انکے خلاف بندش باندھونگا ۔ بعض اس سورت کو حبشستان کی طرف مہاجرت کے وقت خیال کرتے ہیں۔ اس تعلق میں ابتدائی مدنی سورتوں میں سے سورہ اعراف کی ۲۳ ویں آیت قابل لحاظ ہے۔ (13) اس سے ابتدائی مکی سورتوں کے بحوروقوانی اور انکے طرز بیان کا کس قدر اندازہ ہوسکتا ہے۔
سورہ بروج میں ان مظالم کا جو شروع میں معتقدان ِ اسلام کا حصّہ تھے اور مومنین کو ستانے اور اذیت پہنچانے والوں کے سزا یا ب ہونے کا ذکر یو ں ہے۔کہ جہنم کا عذاب اور اس کی سوزش(جلن،تکليف) ان کے (مخالفین کے ) انتظار میں ہیں (14) ۔ جنہوں نے آنحضرت کی مخالفت اختیار کی ان کے حق میں اس تمام سخت گوئی کو قائم کرنے کے لئے سامعین سے یوں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت صاحب کی اپنی باتیں نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید کی آیات ہیں جو کہ لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے یعنی یہ خود خُدائے تعالیٰ کا کلام ہے۔
اس قسم کی عام ملامت(لعن طعن) سے جو کفارہ کی آئندہ بد حالی کا بیان کرتی تھی بعض اوقات چند روز ہ وبال اور اسی دُنیا میں عذاب نازل ہونے کی دھمکی کا کام لیا جاتا تھا۔ جس طرح زمانہ قدیم میں خُدا تعالیٰ نے کسی شہر کو برباد نہیں کیا جب تک کہ پہلے اس میں اپنی طرف سے رسول نہ بھیجے اسی طرح اب بھی ہوگا۔ چنانچہ سورہ شعرا کے ۱۱ ویں رکوع میں یو ں لکھا ہے کہ وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنذِرُونَذِكْرَى وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ یعنی کوئی بستی نہیں کھپائی ہم نے جس کو نہ تھے ڈر سنانے والے یاد دلانے کو اور ہمارا کام نہیں ظلم کرنا۔ پھر سورة حجر کی چوتھی اور پانچویں آیات میں یوں مندرج ہے کہ وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلاَّ وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌمَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ یعنی کوئی بستی ہم نے نہیں کھپائی مگر اسکا لکھا تھا مقرر۔ نہ شتابی (جلدی)کرے کوئی فرقہ اپنے وعدہ سے اور نہ دیر کرے۔ جب ان کے دل سخت ہوگئے اور ایمان نہ لائے تو ان پر نگہبان ایسی حالت میں درد ناک عذاب نازل ہوا جبکہ وہ بالکل گمان (خيال)نہ کرتے تھے ۔ (15)
ممکن ہےکہ اہل مکہ پر کچھ عرصہ کے لئے عذاب مذکورہ کی نسبت بار بار سننے سے کچھ رعب وخوف چھاگیا ہو۔لیکن جب مدت تک کوئی عذاب نازل نہ ہوا تو ان کی حیرت دور ہوگئی اور بے ایمانی بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ وہ اب آنحضرت کی معاتب (خفا کرنے والی)تقریروں کے مقابلہ میں بہت برا بھلا کہنے لگے اور عذاب موعودہ کے خواستگار ہوئے اور اختیار من الله کے ثبوت میں معجزات طلب کرنے لگے۔ اب وہ یہ یوں کہنے لگے لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعًاأَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيرًاأَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً یعنی ہم نہ مانینگے تیرا کہا جب تک تو بہا نکالے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ یا ہوجاوے تیرے واسطے ایک باغ کھجور اور انگو ر کا پھر بہالے تو اس کے بیچ نہریں چلا کر۔ یا گرادے آسمان پر ہم جیسا کہا کرتا ہے ٹکڑے ٹکڑے۔
یا لے آ الله کو اور فرشتوں کوضامن (سورہ بنی اسرائیل دسواں رکوع)۔پھر سورہ رعد کی آٹھویں آیت میں یو ں لکھا ہے کہ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلآ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ یعنی اور منکر کہتے ہیں۔ کیو ں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اس کے رب سے ؟
حضرت محمد کو اس امر کا اقرار کرناپڑا کہ اس کے پاس اس قسم کا کوئی نشان نہ تھا۔ لیکن آنحضرت نے ایک اس مضمون کا الہام پیش کیا کہ خُدا تعالیٰ مکہ کے سرکش لوگوں پر کسی قسم کا کوئی نشان ظاہر نہیں فرمائیگا۔چنانچہ اس امر کے اظہار کے لئے جس کو آپ محض خام خیالی خیال فرماتے تھے انجام تک نہیں پہنچ سکتی۔ سورہ حجر کی ۸ ویں آیت میں یوں بیان فرمایا ہے مَا نُنَزِّلُ الْمَلائِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ یعنی ہم نہیں اتارتے فرشتوں کو مگر کام ٹھہرا کر اور اس وقت ان کو مہلت نہ ملیگی۔
(14) اگرآٹھویں آیت سے گیارھویں آیت تک بعد میں نازل ہوئی ہوں جن سے کہ طرز بیان میں کچھ تبدیلی متصور ہوسکے تو یہی مطلب مراد ہو سکتا ہے۔ (15) د یکھو سورہ شعرا ء آیات ۲۰۱و۲۰۲
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان لوگوں کے واقعات دیکھ کر جو ان سے پیشتر گزرگئے ہیں ایمان نہیں لاتے اور اگر حال کے پیغمبر اور اس کے عبرت انگیز پیغام کو رد کرتے ہیں۔ تو وہ پھر اور کسی طرح سے ایمان نہیں لائینگے۔ چنانچہ سورہ حجر کی ۱۴اور ۱۵ آیت میں یو ں مرقوم ہے وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاء فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَلَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ یعنی اگر ہم کھول دیں ان پر دروازے آسمان کے اور تمام دن چڑھتے رہیں تو آخر یہی کہینگے۔کہ ہماری نگاہ ہی بند ہوگئی ہے اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔ اس قسم کی آیات میں سے سب سے بڑھ کر وہ آیت ہے جو کہ ایاِم مکہ کے وسط میں نازل ہوئی اور جس میں یوں استد لال(دليل۔ثبوت) کیا گیا ہے کہ آنحضرت کو معجزات کی طاقت دینا بالکل بے سود تھا ۔(16)
کیونکہ اس قسم کے انعام اور بخششیں انبیائے سلف (سابقہ)کے وقت میں صاف طور پر بے فائدہ ثابت ہوچکی تھیں۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کے چھٹے رکوع میں اس طرح مرقوم ہے وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآيَاتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الاوّلونَ یعنی اور ہم نے اسی سے موقوف(منسوخ کیا گيا) کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا۔ مخالفین نے معجزہ طلب کرنے میں اصرار کیا پر آپ یہی کہتے رہے کہ قرآن بذاتہ ایک خاص معجزہ ہے اور اسی کومہر نبوت گردانتے(تسليم کرنا) رہے۔
قیامت کی تعلیم کو اہل ِمکہ محض توہمات تصورکرتے تھے۔ جب اس سلسلہ میں آیات نازل ہوئیں تو کہنے لگے کہ یہ سب کچھ محمد صاحب نے ان لوگوں سے سنا ہوا ہے جو کہ اور ملکوں سے آکر مکہ میں بودو باش کررہے ہیں۔ اوریہ سب باتیں اگلے لوگوں کی کہانیاں اور شاعرانہ خیال کا نتیجہ ہیں۔ سورة الطفيف (17)جو کہ آنحضرت کی بشارت کے شروع میں مکہ میں نازل ہوئی تھیں۔ اس کی ۱۰ویں آیت سے ۱۷ ویں آیت تک یوں مرقوم ہے کہ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍلِّلْمُكَذِّبِينَالَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِوَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْاوّلينَكَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَكَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُوا الْجَحِيمِثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ یعنی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کی جو جھوٹ جانتے ہیں انصاف کا دن اور اس کو جھٹلاتا ہے وہی جو بڑھہ چلنے والا گنہگار ہے۔ جب سنائی جاتی ہیں اس کو ہماری آئتیں کہتا ہے کہ یہ پہلو کی نقلیں ہیں۔ بے شک انکی بدکاری ان کے دلوں پر غالب(زور آور) ہے۔ البتہ وہ اس دن اپنے رب سے روکے جائینگے ۔پھر وہ ضرور آتش دوزخ(دوزخ کی آگ) کا لقمہ ہونگے۔ پھر ان سے کہا جائیگا کہ یہ وہی ہے جس کو تم جھوٹ جانتے تھے۔
اگر یہ خیال کیا جائے کہ مذکورہ بالا آیات ایک ابتدا کی صورت سے اقتباس کی گئی ہیں توپھر کچھ آگے چل کر یہی عبارت جس کا نازل ہونا مکہ ہی میں ثابت ہے سورہ فرقان کی پانچویں اور چھٹی آیات میں مندرج ہے۔ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْمًا وَزُورًاوَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْاوّلينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ترجمہ۔ او رکہنے لگے جو منکر(انکار کرنے والے) ہیں اور کچھ نہیں یہ مگر جھوٹ باندھ لایا ہے۔ اور ساتھ دیا ہے کہ اس میں اس کا اور لوگوں نے۔ سو آئے بے انصافی اور جھوٹ پر اور کہنے لگے یہ نقلیں ہیں پہلوں کی جو لکھ لیا ہے اور لکھوائی جاتی ہیں اُس پاس صبح اور شام۔
(16)اس امر کے بیان کی کچھ ضرورت نہیں کہ آنحضرت معجزات کے دکھانے سے قاصر رہے کیونکہ قرآن میں یہ امر نہایت صفائی سے مندرج ہے پر تعجب ہے کہ علمائے اسلام اس کو نہیں مانتے سیل کا رسالہ عقیدہ اسلام صفحہ ۲۱۸ (17) بعض مفسرین اس سورت کا مدنی بیان کرتے ہیں اور بعضوں کا خیال ہے کہ یہ بعضوں کا خیال ہے کہ یہی بعد کی مکی سورتوں میں سے ہے لیکن میور اور نولدیکی اس کو آنحضرت کی بشارت کے چوتھے سال کی مکی سورتوںمیں شمار کرتے ہیں۔
ابتدائی زمانہ کی مکی سورتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان کی عبارت نہایت فصاحت(خوش کلامی) سے پُر اور شاعرانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے تاہم آنحضرت کے دل پر شکوک کے بادل چھارہے تھے۔ جن قسموں کی ذریعہ سے آپ اپنی تعلیم کو لوگوں کےدلوں میں بٹھانا چاہتےتھے نہایت عجیب اور قابل ِغور ہیں۔ آنحضرت کے اس زمانہ کی طرز زندگی کو وہ سخت اور قہر آلودہ(زبردستی) حملے جو آپ نے مخالفین پر کئے نہایت صفائی سے ظاہر کرتے ہیں۔ تمام قرآن میں یہ سورتیں سب سے عمدہ ہیں اور ان سے ظاہر ہوتاہے۔ کہ حضرت محمد کے جوش وخروش اور تشویش کی کچھ حد نہ تھی۔ آپ نے اہل ِمکہ سے ان کے حقوق پیش کرکے صلح کی درخواست کی۔ چنانچہ سورہ فیل میں یوں لکھا ہے أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِأَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍوَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَتَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍفَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ترجمہ۔ کیا تونے نہیں دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے ہاتھی والوں سے ؟ نہ کردیا ان کا داؤ غلط ؟ اور ان پر ابابیل پرندوں کو بھیجا۔ پھینکتے ان پر پتھریاں کنکر کی۔ پھر کر ڈالا ان کو جیسا بُھس(کھائے ہوئے اناج کا چھلکا) کھایا ہوا۔
اس مذکورہ بالا سورة میں اہلِ مکہ کے اس لشکر ِجرار سے رہائی پانے کی طرف اشارہ ہے جو شاہ حبش (نجاشی) کی طرف سے آنحضرت کی پیدائش کے وقت کعبہ کو منہدم(گرانا) کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پھر سورة القریش کی تیسری اور چوتھی آیات میں کعبہ شریف اور اس کے علاقہ کی حفاظت کا یوں ذکر ہے فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِالَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ترجمہ : تو چاہئے بندگی کرنی اس گھر کے رب کی جس نے کھانا دیا اور ان کو بھوک میں اور امن دیا ڈر میں۔ نیز سورة التین کی پہلی تین آیات اور سورہ طور کی پہلی چار آیات میں بھی اسی امر کو حلفا ً پیش کیاگیا ہے۔ چنانچہ سورة التین میں مرقوم ہے۔ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِوَطُورِ سِينِينَوَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ترجمہ قسم انجیر کی اور زیتون کی اور طور ِ سینین کی اور شہر امن والےکی اور سورہ طور میں مندرج ہے وَالطُّورِوَكِتَابٍ مَّسْطُورٍفِي رَقٍّ مَّنشُورٍوَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ترجمہ :قسم ہے طور کی اور لکھی کتاب کی کشادہ ورق میں۔ اور آباد گھر کی۔
ان متذکرہ بالا حوالجات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد اپنے ایامِ مکہ کےآغاز میں کعبہ کی جو اہل ِعرب کا مقدس مقام تھا نہایت تعظیم وتکریم (عزت کرنا)کرتے تھے۔
اب حضرت محمد نے ایک نئے پیرایہ تقریر کو اختیار کیا اور انسانی طبعیت کے حیوانی وشہوانی پہلو کی طرف مائل ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے پست ہمت اور خستہ خاطر پیروؤں کی جماعت کی ہمت بڑھانے کے لئے بہشتی خوشياں لینے عروسی پلنگوں مشک وکستوری (وہ خوشبو دار سیاہ رنگ کا مادہ جونيپال، تبت ،تاتار،خطا اور ختن ميں ايک خاص قسم کے ہرن کی ناف سے نکلتا ہے)اور شراب طہور کا نقشہ کھینچ دکھایا اور بیان کیاکہ بہشت کی خاص خوشیوں میں سے مومنین کے لئے ایک بڑی خوشی یہ بھی ہوگی کہ جب وہ عروسی سیجوں پر حور وغلمان کے ساتھ عیش کرینگے اور متلذ ذ (مزہ چکھنے والے)ہونگے۔ اس وقت کفار پر نظر کرینگے اور ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر ازراہ ِ حقارت ہسینگے۔ اس بیان کو مفسرین یوں سمجھاتے ہیں کہ بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک دروازہ کھولا جائیگا اور دوزخیوں کو اس کھلے دروازہ کی طرف بلایا جائیگا۔ وہ بڑی امید وآرزو سے بھاگتے ہوئے آئینگے لیکن جو نہی کہ وہ دروازہ پر پہنچینگے دروازہ بند ہوجائیگا۔ اس پر اہل ِ جنت جو کہ نفسانی خوشیوں میں مشغول(مصروف) ہونگے اہلِ جہنم کی مایوسی پر مضحکہ(مذاق) اڑائینگے اور اسی طرح اپنی عیش وعشرت کو دو بالا کرینگے۔ اس وقت بہشت و دوزخ کے نقشے نہایت مشرح(صاف) اور واضح طور پر بیان کئے گئے تھے اور اس سے محض یہی غرض نہ تھی کہ ابتدائی زمانہ کے مسلمان اپنی مشکلات میں ہمت نہ ہاریں بلکہ کفارہ ومخالفین کو مرعوب ومغلوب(ڈرنے والا۔ہارا ہوا) کرنا بھی بدرجہ عنایت ملحوظ ومتصور(خيال و تصور کرنے والا) تھا۔ بہشت کی خوشیاں یہ ہیں کہ وہاں ہر طرح سے آرام وآسائش مہیا ہوگی۔اہل ِجنت کا لباس حریری (ريشمی)ہوگا۔ خوشبو اور شراب بکثرت ہوگی۔ پلانے کے لئے نہایت خوبصورت غلام خدمت میں کھڑے ہونگے اور علاوہ اس کے یہ تمام عیش وعشرت منانے کا موقع ایسا ہوگا کہ وہاں کے نظارہ سے حواس میں فرحت (خوشی)اور تازگی پیدا ہوگی۔ بہشت کے اس تحریص (لالچ دينے والا)دہ بیان کی کشش کی تکمیل کے لئے ذیل کی آیات پیش کی جاتی ہیں۔ اوّل سورة النبا میں ۳۱سے ۳۴ آیت تک یو ں لکھا ہو ا ہے۔ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًاحَدَائِقَ وَأَعْنَابًاوَكَوَاعِبَ أَتْرَابًاوَكَأْسًا دِهَاقًا یعنی بے شک ڈروالوں کو مراد ملنی ہے۔ باغ ہیں اور انگور اور نوجوان ونارپستان(نوجوان لڑکی کی چھاتياں) عورتیں ایک عمر کی سب۔ اور پیالہ چھلکتا۔ دوم سورة الواقعہ کی ۲۲اور ۳۴ آیات میں مندرج ہے۔ وَحُورٌ عِينٌكَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِفَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًاعُرُبًا أَتْرَابًا ترجمہ :اور گوریاں بڑی آنکھوں والیاں برابر لپٹے موتی کے۔ ہم نے دی عورتیں اٹھائیں ایک اٹھان پر۔ پھر کیا ان کو کنواریاں ۔سوم سورة الطور کی ۲۰ ویں آیت میں مسطور ہے مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ ترجمہ۔ لگے بیٹھے تختوں پر برابر بچھی قطار۔ اور بیاہ دیں ہم نے ان کو گوریاں بڑی آنکھوں والیاں۔ پھر سورة الصافات جو کہ ایام مکہ کے وسط کی خیال کی جاتی ہے اس کی ۴۰ ويں آیت سے ۴۷ ويں آیت تک میں یوں مرقوم ہے کہ اوّلئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌفَوَاكِهُ وَهُم مُّكْرَمُونَفِي جَنَّاتِ النَّعِيمِعَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَيُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِن مَّعِينٍبَيْضَاء لَذَّةٍ
لِّلشَّارِبِينَلَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَوَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌكَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ ترجمہ : جو ہیں ان کو روزی ہے مقرر۔ میوے اور ان کی عزت ہے۔ باغوں میں نعمت کے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے۔ لوگ لئے پھرتے ہیں ان کے پاس پیالہ شراب نتھری کا۔ سفید رنگ مزادیتی پینے والوں کو۔ نہ اس سے سر پھر تا ہے اور نہ اس سے بہکتے ہیں۔اور ان کے پاس ہیں عورتیں نیچی نگاہ رکھتیاں بڑی آنکھوں والیاں گویا انڈے ہیں چھپے دھرے۔ بہشت کے اس بیان کی نسبت گبن صاحب طنزاً فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے اہل جنت کے ہم صحبتان ذکور(مرد) کا بالکل بیان نہیں کیا اور اس کی تشریح سے اس لئے کترا گئے کہ مبادا (خُدا نہ کرے)پہلے شوہروں کےدلوں میں حسد کی آگ مشتعل ہو یا شاید نکاح کے ابدی اور دائمی رشتہ کے شکوک سے کسی طرح ان کے آرام وآسائش میں خلل واقع ہو۔ جبکہ سب مومنین اور مومنات بہشت میں دوبارہ شباب کے عالم میں ہونگے۔ تو انصاف اس امر کا متقاضی (تقاضا کرنے والا)ہے کہ اناث(عورتيں) کو بھی وہی آزادی اور حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ جو کہ ذکور (مرد)کو ہونگے پر آنحضرت اپنی تعلیم کے اس صحیح اور صریح (واضح)نتیجہ کو صاف اڑاگئے اور اس کے بیان سے عمداً پہلو تہی(دامن بچانا) کیا۔
بہشت کے اس مذکور ہ بالا بیان کی نسبت اب خواہ مخواہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ آیا یہ فی الواقعہ لفظی طور پر صحیح اور درست ہے یا اس سے کوئی ایسا بہشت مراد ہے۔ جس کا یہاں تشبیہ اور استعارہ (مانگ لينا)کے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ مسلمان حکما اور عارفین نے اس کو بہت کچھ تشبیہ واستعارہ کے پیرایہ میں رکھ کر حتیٰ المقدور(جہاں تک ہو سکے) مہذبانہ صورت میں پیش کیا ہے۔ اور زمانہ حال کی مہذب اور شائستہ اسلامی جماعت کے لئے جو کہ مسیحیوں کی تہذیب اور مغربی تعلیم سے اثر پذیر ہورہی ہے۔ یہ ایک نہایت ضروری اور طبعی امر ہے کہ اس قسم کی رنگین بیانیوں کو اچھی صورت میں پیش کرے۔لیکن یہ ماننا کہ حضرت محمد کا یہی مطلب تھا یا ان کے سامعین نے اس وقت یو نہی سمجھا بعید از وہم (وہ بات جو خيال ميں نہ آسکے)اور نہایت مشکل ہے۔ کیونکہ حضرت محمد کا دل بدرجہ غایت عملی (عملی وجہ)تھا اور اس میں عرفان وتصوف(صوفيوں کا عقيدہ وپہچان) کا نام بھی نہ تھا۔ انتظام دینوی اور انسانی انسداد میں آنحضرت کو کوئی مشکل نظر نہ آتی تھی۔ اور اس قسم کے امور کو آپ کسی صورت میں راز ومعما(پوشيدہ راز)نہ سمجھتے تھے۔ جہنم کے عذاب کا بیان حرف بہ حرف صحیح اور حقیقی خیال کیا جاتاہے۔ اور کوئی بھی اس امر کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کو تشبہیات واستعاروں کے پیرایہ میں پیش کرے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بہشت کی خوشیوں کے بیان کو ویسا ہی بلا کم وکاست(بغیر کمی بیشی کے ) لفظ بلفظ صحیح اور حقیقی قرار نہیں دیا جاتا اور ان کی کئی طرح سے تاویلات کی جاتی ہیں ؟ یہ بھی خیال رہے کہ اس شہوت رانی اور نفس پرستی کے بہشت کا آپ نے اس وقت بیان کیا تھا۔جب آپ صرف ایک ہی بیوی کے ساتھ پر ہیزگاری اور پاکیزگی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ بعض آپ کی اسی پاکیزہ زندگی کو اس امر کی دلیل(ثبوت) گردانتے (جانتے)ہیں۔کہ آنحضرت نے جو بہشت پُر از لذائذ نفسانی اور عیش وعشرت سے مملو (بھرا ہوا)بیان کیا۔وہ محض تشبیہ اور استعارہ کے طور پر تھا لیکن اس مقام پر یہ یاد رہے کہ اگر چہ آپ بی بی خدیجہ کے ساتھ وفاداری کرتے تھے اور اس کے از حد شیفتہ وفریفتہ (عاشق)تھے تو بھی آپ اس کے تابع اور مطیع ومنقاد (فرماں بردار وتابع دار)تھے۔ خدیجہ آپ کی مالک سمجھی جاتی تھی ۔اسی نے آپ کو افلاس (غربت)سے رہا کیا اور ایک خاصے متمول آدمی (دولتمند آدمی)کے رتبہ کو پہنچایا لیکن پھر بھی تمام جائيداد خدیجہ کے اپنے ہی قبضہ وتصرف(اختيار) میں تھی۔اس عرصہ میں آنحضرت کبھی کسی صورت میں ظاہر نہ کرسکے۔ کہ آپ دیگر زوجات مطہرات یا جہیز وغیرہ کے خواہشمند تھے۔ بعض محققین اور نکتہ رس (تيز فہم)اشخاص کے نزدیک یہ امر اظہر من الشمس (سورج کی طرح ظاہر و عياں)ہے۔ کہ یہ میانہ روی(درميانہ راستہ ) آنحضرت کے لئے ایک مجبوری امر تھی۔ کیونکہ جب آپ کو موقعہ ملا تو آپ نے خوب ہی دل کھول کر حسرتیں نکالیں۔ روضتہ الاحباب میں لکھا ہے۔کہ خدیجہ کی وفات پر حضرت محمد نہایت ہی پژمردہ اور شکستہ خاطر تھے۔ کسی دوست نے پوچھا کہ آپ اور نکاح کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ نےفرمایا کہ میں کس سے نکاح کروں؟ اس پر اس دوست نے کہا کہ اگر آپ کوئی باکرہ (پاک)اور دوشیزہ لڑکی چاہتے ہیں تو آپ کے دوست ابوبکر کی بیٹی عائشہ موجود ہے ۔اور اگر آپ کسی جوان عورت کو ترجیح دیتے ہوں تو سودہ جوکہ آپ کی معتقد (اعتقاد رکھنے والا)ہے اور آپ پر ایمان لائی ہے حاضر ہے۔ آنحضرت نے اس عقدہ لایخل (وہ مشکل مسلۂ جو حل نہ ہو)کو یوں حل کیا اور فرمایا کہ ان دونو ں سے دریافت کرو کہ آیا وہ مجھ سے نکاح کرنے کو خوش ہیں یانہیں۔ خدیجہ کی آنکھ بند ہوئے ابھی دو ہی مہینے گزرے تھے کہ آپ نے سودہ سے نکاح کیا اور عائشہ جو اس وقت ابھی چھ برس کی لڑکی تھی اور تین سال کے بعد آپ کی سلک زوجات مطہرات میں منسلک ہوئی نسبت ٹھہرگئی۔ اب یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بہشت کی ان جسمانی اور نفسانی خوشیوں کی روشن بیانیاں بعد کے زمانہ کی سورتوں میں کیوں نہیں پائی جاتیں ؟ (19) اس کا ایک یہ سبب بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت کے مدنی مرید اب ہر طرح ظلم تعدی(ظلم و ستم) سے محفوظ تھے۔ اس واسطے کچھ ضرورت نہ تھی کہ اس قسم کے وعدوں سے ان کی ہمت بڑھائی جاتی۔ پر بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ جب آنحضرت نے ہرطرح سے حتیٰ المقدور اپنی نفسانی خواہشوں اور شہوات کو پورا کرلیا تو پھر اس قسم کے بیانات کی حظِ نفس(بدنی خوشی) کے لئے چنداں ضرورت نہ رہی۔ جب آنحضرت کو عیش وعشرت کی دست رس نہ تھی۔ تو آپ کی نظر میں اہل جنت کے لئے بہشت میں حور وغلمان سے بڑھ کر کوئی اچھی جزانہ تھی ۔پر جب بے روک ٹوک حسرتیں نکال چکے تو جس قدر عشقیہ مضمون دماغ میں بھرےہوئے تھے سب ہوا ہوگئے ۔ (20)
(19) حضرت محمد کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے بعد تقریباً عرصہ دس سال کی مدنی سورتوں میں اس بات کا صرف دو دفعہ ذکر پایا جاتا ہے کہ حوریں یعنی خوبصورت عورتیں بہشت کی خوشیوں اور عش وعشرت کاایک حصّہ ہونگی۔ بعد ازاں ان کو منکوحہ بیویوں کی حیثیت میں بیان کیا ہے اور حرموں کے پیرایہ میں پیش نہیں کیا۔ سورة بقرہ کی ۲۳آیت میں لکھا ہے وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ یعنی اور وہاں ہیں ان کے لئے عورتیں ستھری۔ جس نفسانیت اور شہوت پرستی کے بہشت کو مکہ میں اس زور وشور سے پیش کیا جاتا تھا اب مدینہ میں یا تو یہودیوں سے میل ملاپ رکھنے سے آنحضرت پر اس قدر ان کے اخلاق کا اثر ہوا کہ آپ کے خیالات تبد یل ہوگئے یا ڈرگئے یا اس کا باعث یہ ہوسکتا ہے کہ اب مدینہ میں مسلمانوں کو بہشت کی عیش وعشرت کا ذکر سنا کر ان کی ہمت بڑھانیکی ضرورت نہ تھی کیونکہ یہ سب کچھ حسب خواہش اور ضرورت سے زیادہ اسی دنیا میں حاصل تھا پس انہوں نے ایسے بہشت کی خوشخبری سے کیا خط اٹھانا تھا۔ (20) آسبرن صاحب کی کتاب مسمی بہ اسلام وعہد عرب کا صفحہ نمبر ۳۶ ملاحظہ کیجئے۔
ایامِ مکہ کے دوسرے حصّہ میں دوزخ اور اس کےعذاب کا بیان نہایت ہولناک ہے۔اہل ِدوزخ ہمیشہ سخت عذاب میں مبتلا رہینگے ان کو سر سے پکڑ کر اورکھینچتے ہوئے دوزخ میں پھینکا جائیگا اور ان کو زبردستی ابلتا ہوا پانی پلایا جائیگا اور آتشی لباس پہنائے جائینگے ، لوہے کے گدزوں سے ان کو مارینگے اور جب وہ چھٹکارے کے لئے بھاگینگے تو ان کو پھر پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں ڈالینگے اور کہینگے ذوقوامس سقر یعنی چکھوں مزا آگ کا۔ پس اسی طرح وہ رہینگے جلانے والی ہوا کے جھونکوں اور کھولتے پانی میں اور دھوئیں کے سایہ میں جو کہ نہ ٹھنڈا ہے اور نہ اس سے کچھ آرام حاصل ہوسکتا ہے۔
پھرایامِ مکہ کے تیسرے حصّہ میں یہی زجرو عتاب(روک وغصہ) اور ہیبت ناک لعنتیں سنائی گئی ہیں۔ جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آپ جب تک مکہ میں رہے اپنے مخالفین کے ساتھ اسی قسم کی دھمکیوں سے پیش آتے تھے۔چنانچہ سورہ ابراہیم کی ۴۴ اور ۵۱ آیت میں یوں لکھا ہے کہ مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لاَ يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءوَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُواْ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىأَجَلٍ قَرِيبٍوَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الأَصْفَادِسَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمْ النَّارُ یعنی دوڑتے ہونگے اوپر اٹھائے ہوئے اپنے سر۔ پھرتی نہیں اپنی طرف ان کی آنکھیں۔ اور دل ان کے اڑگئے ہیں۔ اور ڈراوے لوگوں کو اس دن سے کہ آویگا ان کو عذاب تب کہینگے بے انصاف اے رب ہمارے فرصت دے ہم کو تھوڑی مد ت۔ اور دیکھ تو گنہگار اس دن جوڑے ہوئے زنجیروں میں۔ کرُتے ان کے ہیں گندھک کے اور ڈھانکے لیتی ہے ان کے منہ کو آگ۔
پھر سورہ مومن کے آٹھویں رکوع میں یوں مرقوم ہے الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَإِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَفِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَیعنی جنہوں نے جھٹلا ئی یہ کتاب(21) اور جو بھیجا ہم نے(22) اپنے رسولوں کے ساتھ سو آخر جان لینگے۔ جب طوق(ہار) پڑے ہیں۔ ان کی گردنوں میں اور زنجیریں۔ گھسیٹے جاتے ہیں جلتے پانی میں۔ پھر آگ میں ان کو جھونکتے ہیں۔ علاوہ اس کے سورہ یونس کے تیسرے رکوع میں اس طرح مندرج ہے۔ وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّئَاتِ جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا اوّلـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ یعنی اور جنہوں نے کمائی برائیاں بدلہ برائی کا اس کے برابر ان پر چڑھیگی رسوائی۔ کوئی نہیں انکو الله سے بچانے والا۔ جیسے ڈھانک دیا ہے ان کے منہ پر ایک اندھیرا ٹکڑا رات کا۔ یہ دوزخی ہیں سدا اس میں رہینگے۔
واضح رہے کہ حضرت محمد بلا روک بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نذیر من الله ہوں پر قریش نے ان کی ایک نہ سنی۔چنانچہ سورہ حجر کے پانچویں رکوع میں لکھا ہے کہ وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ یعنی اور کہہ کہ میں وہی ہوں ڈرانے والا کھول کر۔ پھر سور ة ص کی تیسری آیت میں یو ں مرقوم ہے وَعَجِبُوا أَن جَاءهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ یعنی اچنبھا کرنے لگے اس پر کے آیا ان کو ڈرسنانے والا انہیں میں سے اور کہنے لگے منکر یہ جادو گر ہے جھوٹا۔
ایساہی سورہ یسٓ کی ۵ ويں آیت اور سورہ انبیاء کی ۴۶ ويں آیت میں یوں مرقوم ہے۔ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ، قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ یعنی تاکہ ڈراوے تو ایک لوگوں کو کہ ڈر نہیں سنا ان کے باپ دادوں نے۔ سو خبر نہیں رکھتے کہہ تو کہ میں تم کو خُدا کے حکم کے موافق ڈر سناتا ہوں۔
یہ تمام سورتیں جن کی آیات اقتباس کی گئی ہیں ایام مکہ کے وسطی زمانہ کی ہیں جبکہ آنحضرت قبیلہ قریش کی مطیع ومنقاد بنانے میں سرگرم ومصروف تھے۔ پھر ایک آخری مدنی سورة یعنی سورہ فتح کی آٹھویں آیت میں مندرج ہے إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا یعنی ہم نے تجھ کو بھیجا احوال بتانے والا اور خوشی اور ڈرسناتا۔ لیکن بیان کیاجاتا ہے کہ اس ڈر سنانے کا خاص مطلب یہ تھاکہ لوگ الله اور الله کے رسول پر ایمان لائیں۔ جائے غور ہے کہ اس ایمان کی ان اغراض کا بیان عموماً آخری سورتوں میں پایا جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہےکہ مکہ میں جب تک آنحضرت تشریف فرمارہے زیادہ حلیم(نرم) تھے۔ سورہ فلق اور سورہ الناس کی نسبت اگر چہ تحقیق معلوم نہیں کہ وہ مکہ میں نازل(23) ہوئیں پر اگر ان کو مکی تسلیم کرلیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ آنحضرت اپنی معمولی خوش الحانی کو استعمال کرتے تھے۔اور اس قدر زمانہ سازی اور توہمات کے بس میں تھے۔ کہ آپ اس بات کا اکثر اظہار کرتے تھے۔ کہ ان کے دشمن اگر ان کو کسی سحری یاتاثیر (اثر)سے ضرر(نقصان) پہنچانا چاہیں تو وہ اس سے مامون ومصون(محفوظ ونگہبان) رہ سکتے تھے۔ چنانچہ بیان کیاجاتا ہےکہ ایک شخص بعید نامی نے جو کہ یہودی تھا اپنی بیٹیوں کی مدد سے آنحضرت پر جادو کیا اور حضرت جبرائیل نے یہ دونوں سورتیں(24) ۔ (فلق والناس ) پڑ ھ کر آپ کو اس کے جادو کی تاثیر(اثر) اور ضرر (نقصان)سے بچایا۔ چنانچہ سورہ فلق اور سور الناس کی عبارت یہ ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَوَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَوَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِوَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِمَلِكِ النَّاسِإِلَهِ النَّاسِمِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِالَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ یعنی تو کہہ میں پناہ میں آیا صبح کے رب کی۔ ہر چیز کی بدی سے جو اس نے بنائی اور بدی سے اندھیرے کی جب سمٹ آئے۔ اور بدی سے پھونکنے والی عورتوں کی گرہوں میں۔ اور بدی سے برا چاہنے والوں کی جب لگے ہو نسنے۔ توکہ میں پناہ میں آیا لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے پوجے ہوئے کی۔ بدی سے اس کی جو سنکار ے چھپ جاوے وہ جو خیال ڈالتا ہے لوگوں کے دل میں ۔ جنوں یا آدمیوں میں سے۔ ان سورتوں کو سورة المعوذتین یعنی حفاظت ونگہبانی کی سورتیں کہتے ہیں۔ اور دفع ضرر آسیب وبليات(مصيبتوں) کے لئے ان کو لوگ تعویذ کے طور پر کسی چیز پر لکھ کر یا کندہ کرکے پہنتے ہیں۔
21 قرآن (22) زمانہ سلف کی کُتب مقدسہ یعنی توریت ،زبور اور انجیل شریف
باوجود بہشت کی تمام موعودہ عیش وعشرت۔عذاب جہنم کی دھمکیوں اور سحر وجادو پر غالب ہونے کے بیان اور دعوؤں کے حضرت محمد قبیلہ قریش کو اپنا معتقد(اعتقاد رکھنے والا) نہ بنا سکے۔اب آنحضرت اپنے غریب مومنین (25) کی حفاظت سے قاصر (مجبور)تھے اور یہ بھی آپ کو گوارا نہ ہوسکتا تھا۔ کہ ان کو اسلام سے منکر (انکار کرنے والا)اور برگشتہ ہوتے ہوئے دیکھیں۔ اس وقت عرب اور حبش میں تجارتی رشتہ بہت محکم واستوار تھا۔ پس آپ نے اپنے غریب اور مظلوم مومنین کو حکم دیا کہ عرب سے ہجرت کرکے حبش میں چلے جائیں۔ یہ مہاجرین تعداد میں بہت تھوڑے تھے اور انہوں نے اپنے مخالفین کے ظلم وتعدی (ناانصافی)کے باعث اسلام سے منکر ہونے پر جلاوطنی اور غربت کو ترجیح دی۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ فی الحقیقت سچے ایماندار تھے۔
(23) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کے نزول کا وقت مقرر کرنا بہت مشکل ہے اور اس امر کا فیصلہ کرناکہ یہ حضرت محمد کی مکہ سے مدینہ کی طرف مہاجرت سے پہلے کی ہیں سخت دشوار ہے دیکھو نولدیکی صاحب کا گشختی دس قرآن صفحہ ۸۵۔ پھر مندرج ہے۔ واما نیز عک من الشیطن نزع فاستعذ باالله یعنی اور کبھی چوک لگے تجھ کو شیطان کے چوکنے سے تو پناہ پکڑالله کی۔ اور سورہ نحل کی تیرھویں رکوع میں مرقوم ہے۔ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ یعنی جب تو پڑھنے لگے قرآن تو پناہ لے الله کی شیطان راندے ہوئے سے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورتیں مکی ہیں اور اس وقت سے علاقہ رکھتی ہیں جبکہ حضرت محمد ابھی اہل عرب کے توہمات سے نجات یافتہ نہ تھے۔ بہت سے مسلمان مفسرین کہتے ہیں کہ بعید یہودی مدینہ میں رہتا تھا اس واسطے یہ سورتیں یعنی فلق اور الناس مدنی اور ہجرت کے بعد کی ہیں۔ اس قسم کے بیانات سے ان کے نزول کی کوئی ٹھیک تاریخ مقرر نہیں ہوسکتی۔ (24) دیکھو تفسیر حسینی سورہ فلق۔ (25) اس وقت ان تمام غلاموں نے جو خود مسیحی ملکوں سے عرب میں پہنچائے گئے یا جومکہ میں ان مسیحیوں کی اوّلاد تھے اسلام قبول کرلیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت محمد ایک شخص ہے جو غلامی سے چھڑانے اور مخلصی دینے والا ہے تو وہ اس پر ایمان لائے اور ان کاایمان ایسا پختہ تھاکہ ان میں سے کئی اسلام کے اقرار پر شہید ہوگئے۔سورہ علق کی دسویں آیت میں عبدااذا صلے (یعنی بندہ کو جب وہ نماز پڑھے) نولدیکی صاحب کے نزدیک انہی غلاموں کی طرف اشارہ ہے لیکن اس کا عام ترجمہ یہ ہے کہ " خُدا کا خادم جبکہ وہ نماز پڑھتا ہے۔" اور اس سے بعض کے نزدیک خود محمد صاحب مراد ہیں اور میں اس دھمکی کی طرف اشارہ ہے جو ابو جہل نے آنحضرت کو یہ کہہ کر سنائی تھی کہ جب تو نماز میں مصروف ہوگا میں تیری گردن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوجاؤنگا۔ دیکھو نولدیکی صاحب کی کتاب گشختی دس قرآن صفحہ ۶۶ اور تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۴۶۸۔
اے بی سینیا میں جاکر ان میں سے بعض مسیحی کلیسا میں داخل ہوگئے۔کیونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں اس وقت ایسی مخالفت نہ تھی۔جیسی کہ بعد میں ظہور پذیر (ظاہر)ہوئی۔ اور اگر اس کے چند سال بعد خود حضرت محمد بھی مدینہ میں نہ جارہتے تو شاید اے بی سینیا میں تشریف لے جاتے۔ اور بجائے اسلام کے کسی مسیحی بدعتی فرقہ کے بانی ہوتے۔
چونکہ اب قریش کے ساتھ کچھ صلح کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ اس لئے جو مسلمان اے بی سینیا کو چلے گئے تھے تین مہینے کے بعد مکہ میں واپس آگئے۔ سرداران مکہ میں سے ایک شخص مقرر کیا گیا کہ حضرت محمد سے ملاقات کرے۔اور عہدو پیمان کے باب میں اس کو کسی ڈھنگ پر لائے۔ چنانچہ اس نے آنحضرت کے پاس جاکر یوں کہا کہ اے بھائی آپ جانتے ہیں۔کہ آپ ہماری قوم میں اعلیٰ رتبہ پر ممتا ز ہیں۔ اور آپ نے آج کل ہمارے سامنے ایک نہایت نازک معاملہ پیش کیا ہے۔جس سے ہماری جماعت کے اجزا متفرق ہوگئے ہیں۔ آپ نے ہم کو بے وقوف اور احمق کے نام سے نامزد کیا۔ ہمارے دین ومذہب کی توہین کی اور ہمارے متوفی (وفات پائے ہوئے)آباؤ اجداد پر کفر و بے ایمانی کا الزام لگایا ہے۔ اب میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ اس کے نفس ِ مضمون پر بخوبی غور کرینگے تو آپ کو صاف معلوم ہوجايئگا کہ یہ درخواست نہایت معقول(مناسب) اور قابلِ قبول ہے۔ اب عزت ودولت حضرت محمد کے سامنے پیش کی گئیں اور یہ شرط قرار پائی کہ اگر حضرت محمد قریش کے معبودوں کو تسلیم کریں تو وہ بھی الله کو اپنا خُدا مانینگے اور اپنے دیگر معبودوں کی طرح اس کی بھی پرستش کریں گے۔ اس معاملہ میں آنحضرت کے سامنے بڑی بھاری آزمائش تھی ۔(26)
حضرت محمد کی یہ تمنا اورآرزو (خواہش)تھی کہ اہل ِمکہ کو مسلمان کرے۔ لیکن صرف چالیس پچاس آدمی ایمان لائے اور اس وقت ان میں سے بھی بعض جلاوطن تھے۔ قبیلہ قریش کے لوگ اب بھی بدستور سابق بالکل مخالف وضدی تھے۔اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی کا تاحال نام ونشان بھی نہ تھا۔ ہر طرح سے مایوسی اورنا امیدی کی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اور اب مخالف جماعت کی طرف سے دعوے توحید الہیٰ کے بارہ میں کسی قدر رضا مندی حاصل کرنے کا موقع تھا۔ چنانچہ یہ قصہ یوں بیان کیا جاتا ہےکہ ایک حضرت محمد کعبہ کے قریب سرداران مکہ کی ایک جماعت کے پاس پہنچے۔ اور ان کی مجلس میں شامل ہوکر اپنے استقلال واستحکام(خير مقدم و مضبوطی) کے باب میں سورہ نجم سے شروع کی آیات یو ں پڑھیں وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىمَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىوَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىعَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى قسم ہے تارے کی جب گرے۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق(ساتھی) اور بے راہ نہیں چلا۔ اور نہیں بولتا ہے اپنے چاؤ سے۔ یہ تو حکم ہے جو پہنچتا ہے ۔اس کو سکھایا سخت قوتوں والے نے۔ پھر ان رازوں کی طرف اشارہ کرکے جو آپ پر منکشف(ظاہر) کئے گئے۔آپ نے مکہ کے بتوں کا یوں بیان کیا اور فرمایا کہ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىوَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى۔یعنی بھلا تم دیکھو تو لات وعزیٰ اور منواة تیسرا پچھلا۔ بعد ازاں آپ نے قریش کی صلح ویگانگت کا ذکر کیا۔ اس وقت قریش کے لوگ بڑے شوق اور غور کے ساتھ سن رہے تھے اور آپ کی باتوں میں محو ہورہے تھے۔ ان کی خوشی اور حیرانی کی کچھ حد نہ رہی جب انہوں نے یہ سنا کہ سب بزرگ نام ہیں (27)اور ان کی سفارش کی امید رکھنی چاہئے۔
(26) Muir’s life of Muhammad جلد دوم صفحہ ۱۵۰ سے۱۵۶ تک۔
اس سورت کے آخری الفاظ جیساکہ حضرت محمد نے پڑھ کر سنائے یہ ہیں۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا یعنی سجدہ کرو الله کے آگے اور بندگی کرو۔ سب حاضرین نے ایک دل ہو کر خُدا کے حضور سجدہ کیا۔ یہ ایک نہایت دل پسندانہ اور عجیب وغریب نظارہ تھا۔ قریش کے لوگ بہت خوش ہوگئے اور کہنے لگے کہ اب ہم نے جانا کہ صرف خُدا ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہی پیدا کرتا اور برقرار رکھتا ہے۔ یہ ہماری دیویاں اسی کے حضور ہماری سفارش کرتی ہیں اور جب تونے ان کے لئے ایک درجہ مقرر کردیا ہم اس سے خوش ہیں۔ تیری پیروی کرنے پر راضی ہیں۔ لیکن باوجود اس سب کے حضرت محمد نے بہت جلد معلوم کرلیاکہ میں نے اس معاملہ میں بہت دھو کہ کھایا اور بڑی غلطی کی ہے اور جس بے حقیقت رتبہ کو میں نے حاصل کیا ہے مجھے فی الفور اس سے دست بردار ہونا چاہئیے۔ حضرت محمد نے دیکھاکہ لوگ بُت پرستی سے با زنہیں آتے۔ اور اس کی صلح اور عہد وپیمان سے دراصل کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ احادیث کے بیان کے مطابق اس وقت بذریعہ وحی خُدا ئے تعالیٰ نے آپ کی یوں تسلی کی کہ پہلے پیغبروں کو بھی شیطان نے اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے چنانچہ سورہ حج کے ساتویں رکوع آیت ۵۲ میں یو ں مندرج ہے ۔(28) وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ یعنی اور جو رسول بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے یا نبی سو جب خیال باندھتے شیطان نے ملادیا اس کے خیال میں۔ پھرالله ہٹاتا ہے شیطان کا ملایا ہوا۔
جب خُدا نے آنحضرت کے اعتمادو وثوق کو اس طرح پھر بحال کردیا تو ان بتوں کے حق میں جیسا کہ اب قرآن میں مندرج ہے بذریعہ وحی صحیح طور پر آیات نازل ہوئیں أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىوَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىأَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىتِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم (سورہ نجم آیت ۱۹ تا ۲۳) یعنی بھلا تم دیکھو تو لات اور عزیٰ اورمنوہ تیسرا پچھلا۔ کیا تم کو بیٹے اور اس کو بیٹیاں ؟ تو تو یہ بانٹتا بھونڈا۔ یہ سب نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے۔
اب یہ سن کر قبیلہ قریش کے لوگ نہایت ناراض ہوگئے اور کہنے لگے۔ کہ حضرت محمد نے ہماری دیویوں کی نکوئی (راستی)اور خُدا کے حضور ان کی خوبیوں کے باب میں جو کچھ بیان کیا تھا۔ اب اس سے پچھتاتا ہے اور اب اس نے اس بیان کو تبدیل کرلیا ہے۔ پس اس پر قریش نے لوگوں کو برانگیختہ(بھڑکايا ہوا) کیا اور وہ آنحضرت کو تمام مریدوں سمیت سخت ستانے اور اذیت پہنچانے لگے۔اس معاملہ میں حضرت محمد نے خواہ کتنی ہی کمزوی ظاہر کی ہو۔تا ہم اس وقت سے ہمیشہ کے لئے بُت پرستی سے بوجہ اتم دست بردار ہوگئے۔ اور بُت پرستوں کی سزا وعقوبت(عذاب ) کا علانیہ بیان کرنے لگے۔ چنانچہ سورہ الصفت کے تیسرے رکوع میں مندرج ہے أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَوَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَفَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ یعنی کیوں پوجتے ہو جو آپ تراشتے ہو اور الله نے بنایا تم کو اور جو بناتے ہو۔ پھر چاہنے لگے اس پر بُرا داؤ۔ پھر ہم نے ڈالا انہیں کو نیچے ۔ بُت پرستی سے خُدا تعالیٰ کی ناراضگی کے ثبوت میں حضرت موسیٰ ایک گواہ کے طور پر بنی اسرائیل کو سورہ طہٰ کے پانچویں رکوع میں یو ں کہتاہوا پیش کیا جاتاہے ترجمہ : دیکھ اپنے ٹھاکر کو جس پر سارے دن لگا بیٹھا تھا ہم اس کو جلادینگے۔
(27) مسلمان مورخین اور مفسرین یا تو اسکا یوں بیان کرتے ہیں کہ سامعین کے کانوں پر شیطان کی طرف سے کچھ ایسی سحری تاثیر کی گئی کہ انہوں نے یہ الفاظ جو کہ آنحضرت کی زبان سے نہیں نکلے تھے سنے اور یا بیضاوی کی طرح اس قصہ ہی کے صاف انکاری ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مشرکین کی اختراع اور جعلسازی ہے۔ روضتہ الاحباب میں لکھاہے کہ جب سورہ نجم نازل ہوئی تو سرور عالم کعبہ شریف کی طرف گئے اور مجمہ قریش میں اس کوپڑھ کر سنایا پڑھتے وقت آپ ہر آیت پر اس غرض سے ٹھہر جاتے تھےکہ سامعین اچھی طرح سن لیں اور بخوبی یاد رکھ سکیں۔ سب اس مشہور آیت پر پہنچے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا تم دیکھتے ہو لات اور عزیٰ اورمنوٰة کو جو کہ تیسرا ہے ما سوا پہلے دو کے تو شیطان نے منکرین کے کانوں میں یہ الفاظ پہنچائے کہ یہ مبارک اور بزر گ دیویاں ہیں اور ان کی سفارش کی ا مید آرزو اور جائیز ہے۔ اس سے کفارخوش ہوگئے۔ دیکھئے کیلی صاحب کی کتاب Muhammad and Muhammadanism صفحہ 281 اور ویری صاحب کی تفسیر قرآن جلد سوم صفحہ ۱۶۷ جہاں کہ اور بہت سی تفسیروں کے حوالے دئے گئے ہیں۔ (28) یہ سورة مدنی ہے اور اس میں دور کی گذشتہ مکی لغزش کی طرف اشارہ ہے ا ور تواریخ اسکی صحت کی ایک کافی دلیل ہے۔ سیل صاحب الفاظ اذا تمنیٰ کا ترجمہ جب اس نے پڑھا کرتے ہیں او ر راڈویل صاحب کی طرح ان کا ترجمہ یہ نہیں کرتے کہ جس کی خواہشوں یا خیالوں میں۔ تفسیر حسینی میں انکا ترجمہ یوں ہے۔ چو ں تلاوت کر (یعنی جب اس نے پڑھا اور اس ماجرا کی طرف اشارہ کرکے جو مکہ میں گذرا تھا اس کی تشریح کی گئی ہے۔شاہ ولی الله صاحب کے فارسی ترجمہ میں آرزو بخاطر نسبت لکھتا ہے۔ اور تفسیر ابن عباس میں قراة الرسول یعنی رسول کا پڑھنا مرقوم ہے اور یہی معنی سب سے عمدہ معلوم ہوتے ہیں اور اس کے لئے کافی دلائل موجو د ہیں۔
اس لغزش(غلطی ) کے تھوڑی دیر بعد آنحضرت کو بذریعہ وحی آگاہی ملی کہ آئندہ اس قسم کے عہد وپیمان سے دور رہیں۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کے ۸ویں رکوع میں مرقوم ہے۔ وَإِن كَادُواْ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذًا لاَّتَّخَذُوكَ خَلِيلاوّلوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلاً یعنی اور وہ تو لگے تھے کہ تجھ کو پچھلادیں اس چیز سے جو وحی بھیجی ہم نے تیری طرف۔تا باندھ لاوے تو اس کے سوا اور تب پکڑتے تجھ کو دوست۔ اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھ کو ٹھہرا رکھا تو تو لگ ہی جاتا جھکنے ان کی طرف تھوڑا سا ۔ (29)
بُتوں کی سفارش کی بے ہودگی اور اس امر کے معتقدوں کے واہیات خیالات کا بیان سورہ فاطر کے پانچویں رکوع میں یوں مندرج ہے قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْهُ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا یعنی تو کہہ بھلا دیکھو اپنے شریک جن کو پکارتے ہو الله کے سوا۔ دکھاؤ تو مجھ کو کیا بنایا انہوں نے زمین میں یا ان کی کچھ شراکت ہے آسمانوں میں یا ہم نے دی ہے اُن کو کوئی کتاب سو یہ سند رکھتے ہیں اس کی۔ کوئی نہیں پر جو وعدہ بتاتے ہیں گنہگار ایک دوسرے کو سب فریب ہیں۔ اس طرح سے اہلِ مکہ کو بُت پرستی کی جہالت سے متنبہ(آگاہ) کیا گیا۔ جس ماجرے سے یہ تمام نتائج ظہور پذیر ہوئے اسی پر آنحضرت کی آئندہ زندگی کا ظلم وتشدد مبنی تھا۔
اب حضرت محمد اس پستی کی حالت سے پھر جلد اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے مریدوں میں پھر اسی دھوم دھام اور استحکام کے ساتھ اپنا سکہ جمایا پر عوام الناس کے خیالات اس موقعہ پر اور ہی تھے۔ وہ نہ تو اس کے قائل تھے کہ جس شیطانی اثرکا قرآن ذکر کرتا ہے اس کے باعث آپ نے لغزش(خطا) کھائی ہے۔ اور نہ یہ مانتے تھے کہ اس کی تصدیق اس طرح علانیہ طور پر وحی کے وسیلہ سے ہوئی۔ اگر فی الحقیقت قرآن خُدا کا کلام تھا تو یہ تنسیخ وتردید(منسوخ و رد کرنا) اور ادل بدل ہر گز ہرگز کلام الله نہیں ہوسکتا۔ پس حضرت محمد کی تمام کوششیں جن سے آپ ان کو بُت پرستی سے دست بردار کرنا چاہتے تھے ان پر وہ بہت ہنستے اور مضحکہ اڑاتے تھے۔ جب آنحضرت پر یہ الزام لگاکہ آپ نے آیت تبدیل کرلی ہے تو اس کے جواب میں آپ نے ایک اور آیت پڑھ سنائی جو کہ اسلامی تعلیم ناسخ ومنسوخ کی بنیاد ہے۔ چنانچہ سورہ نحل کے ۱۴ رکوع کی پہلی آیت میں یو ں مرقوم ہے وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَقُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ یعنی اور جب ہم بدلتے ہیں ایک کی جگہ دوسری۔ اور الله بہتر جانتا ہے جو اتارتا ہے ۔کہتے ہیں تو تو بنا لایا ہے ۔ یوں نہیں پر ان بہتوں کو خبر نہیں تو کہہ اس کو اتارا ہے پاک فرشتے نے تیرے رب کی طرف سے تحقیق۔
(29) بعض علما کا گمان ہے کہ یہ اس آزمائش کی طرف اشارہ ہے جو ساکنان طائف کی طرف سے آنحضرت کو پیش آئی جبکہ آپ کی درخواست وبلاہٹ کے جواب میں انہوں نے چند حقوق طلب کئے مثلاً یہ کہ خیرات وزکواة سے بری ہیں مقررہ وقتوں کی نمازوں سے معذور رکھے جاویں اور کچھ عرصہ کے لئے ان کے معبود بت لات کو قائم رکھا جاوے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے اس وقت کی طرف اشارہ ہو جبکہ طائف کا محاصرہ کیا گیا تھا۔ پر اس صورت میں اس کا تعلق ۸تا ۹ ہجری سے ہوگا اور یہ سورة مکی ٹھہریگی۔ تفسیر حسینی میں لکھا ہے کہ اس سے وہ وقت مراد ہے جب قریش نے آنحضرت سے کہا تھا کہ جب تک آپ ہمارے بتوں کو خواہ اپنی سرانگشت سے ہی عزت کی راہ سے نہ چھوئیں آپ کو حجر اسود کے بوسہ کی اجاز ت نہیں دینگے اس وقت چونکہ سرور عالم کے دل میں طواف کعبہ کا ازحد شوق تھا آپ نے سوچا کہ اگر میں اس قدر کروں تو اس سے کیا خرابی متصور ہوسکتی ہے۔ چنانچہ تفسیر حسینی کی عبارت یہ ہے کہ قریش بآ نحضرت گفتند کہ نیگذاریم تراکہ استلام حجر کنی تاوقیتکہ مس کنی بتان اور مارا اگر چہ بسرانگشت باشد آنحضرت کہ غایت شوق بطواف حرم داشت در خاطر مبارک خطور کردچہ شود اگرچہ چینں کنم۔ میور صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں اس ادبار وزوال کی طرف اشاراہ ہے جو مکہ میں واقع ہوا اور جس کا اوپر بیان ہوچکا ہے۔
اب بھی قریش کے لوگ آپ پر ہنستے اور ٹھٹھا مار کر یوں کہتے تھے۔کہ دیکھو وہ شخص ہے جس کو خُدا نے رسول مقرر کرکے بھیجا ہے اگر ہم صبرو استقلال کے ساتھ قائم نہ رہتے۔ تو اس نے ہم کو ہمارے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کسی طرح کا کوئی دقیقہ(باريکی،خفيف معاملہ) باقی نہیں رکھا۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اگر آنحضرت کے سر پر ابو طالب جیسے صاحب ِقدرت آدمی کی حمایت کا سایہ نہ ہوتا تو اس وقت آپ نہایت خطرہ میں تھے۔ لیکن اس عم (چچا)مہربان اور شفیق (مہربان)حامی نے باوجود اس کے کہ اپنے بھتیجے کی کارروائیوں سے خوش نہ تھا۔کسی حالت میں اسکا ساتھ نہ چھوڑا ۔اور ہمیشہ مردانہ وار نہایت جوانمردی کے ساتھ اس کی حمایت وحفاظت کرتا رہا۔ ایک دفعہ مخالفین کی مخالفت یہاں تک بڑھ گئی کہ آنحضرت کے ہلاک کئے جانے کا شبہ پڑا۔ بعد میں جب ابوطالب کو خبر ہوئی تو اس نے انہیں بہت دھمکایا او رکہا کہ خُدا کی قسم اگر تم محمد کو قتل کردیتے تو میں تم سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑتا۔
شہر مکہ میں حضرت محمد کی اس وقت جو حالت تھی اس کا بیان یوں ہوسکتا ہے۔ کہ قبیلہ قریش کے لوگ پہلے کی نسبت اب آپ کے زیادہ مخالف تھے اور آپ کے مومنین بیدل اور بے ہمت ہورہے تھے۔ عوام الناس یا تو آپ سے متنفر (نفرت کرنے والے)تھے یا ان کو کچھ پرواہی نہ تھی پر آپ اپنے چچا ابو طالب کے رعب داب کے باعث ہر طرح کے مخاطر ومخافت (ڈر و خوف)سے محفوظ ومامون(بے خوف) تھے۔ان تمام نامساعدو نا موافق حالات کے مقابلہ میں آپ نے دو قسم کےدلائل پیش کرنے شروع کئے۔ پس پہلے آنحضرت نے وحی آسمانی کو پیش کیا اور اس سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زمانہ قدیم میں بھی پیغمبروں پر ایسی مصیبتيں وارد ہوتی رہی ہیں اور اسی کو آپ نے اپنے من جانب الله ہونے کی ایک صاف دلیل گردانا۔ چنانچہ سورہ حجر کی دسویں آیت سے یوں مرقوم ہے وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الاوّلينَوَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِؤُونَكَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَلاَ يُؤْمِنُونَ بِهِ یعنی اور ہم بھیج چکے ہیں رسول تجھ سےپہلے کئی فرقوں میں اگلے۔ اور نہیں آیا پاس کوئی رسول مگر کرتے رہے اس سے ہنسی۔ اسی طرح پیٹھاتے ہیں اس کو دل میں گنہگاروں کے۔ یقین نہ لاوینگے اس پر دوسری دلیل میں آپ بار بار اپنی الہیٰ بلاہٹ اور وحی کی سچائی اور صداقت کو پیش کرتے رہے۔ یہ زمانہ خصوصاً اس لئے بھی کہ آپ اپنے دعاوی کے منکروں کے حق میں نہایت سخت گوئی کو کام میں لاتے رہے اور ازحد غور کے لائق اور قابل ِتوجہ ہے۔
ذیل کی آیات میں زمانہ قدیم کے پیغمبروں کے ساتھ جو کچھ بدسلوکیوں کے بیان مندرج ہیں انہی کو آنحضرت نے اپنے پیغمبری اور رسالت کی دلیل(ثبوت،گواہی) قرار دیا ہے۔ سورہ صٓ کی ۱۱ آیت میں ہے كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ یعنی جھٹلاچکے ہیں ان سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور فرعون میخوں والا۔
اگرچہ سورة الانبیاء کی آٹھویں آیت مدنی خیال کی جاتی ہے۔ پر یہ سورة ایام مکہ کے وسطی زمانہ کی ہے۔ اور اس میں اہل مکہ کو ان شہروں کا حوالہ دے کر جن پر سابق الایام میں خُدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اس امر سے متنبہ(خبر دار) وآگاہ کیا گیا ہے۔کہ ان کا شہر بڑے خطرہ میں ہے۔ چنانچہ ۱۱ آیت میں لکھا ہے
وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ ترجمہ : اور کتنی توڑ ماریں ہم نے بستیاں جو تھیں گنہگار اور اٹھا کھڑے کئے ان کے پیچھے اور لوگ۔ پھر ۲۱آیت میں ان کے معبودوں کی نسبت لکھا ہے۔ أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ یعنی کیا مقرر کئے ہیں انہوں نے معبود وزمین میں سے کہ وہ اٹھاکھڑا کرینگے۔ پھر ذرا آگے چل کر یوں مندرج ہے أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي یعنی کیا پکڑے انہوں نے اس سے ورے اور صاحب۔ تو کہہ لاؤ اپنی سند یہی بات ہے میرے ساتھ والوں کی اور مجھ سے پہلوں کی۔
اب آنحضرت نے سلف کے پیغبروں اور بزرگوں کے حوالے دینے شروع کئے اور زکریا ہ کے زمانہ تک بیان کیا کہ کس طرح خُدا تعالیٰ نے ان کی محافظت اور نگہبانی کی۔ نیز آپ نے یہ بھی بیان کیاکہ کس قدر خُدا تعالیٰ نے کنواری مریم پر اپنا فضل کیا اور کس پاکیزه اورمعجزانہ طور پر یسوع مسیح(30) اس کے رحم میں آئے۔ پس جس طرح یہ تمام بزرگان سلف مقبول الہیٰ تھے اسی طرح اب آپ نے اپنے آپ کو الانبیاء اور مور د عنایت الہیٰ قرار دیا۔ جس طرح انکی تحقیر(بے قدری) کی گئی تھی۔ اسی صورت میں آنحضرت نے اپنے آپ کو ان کا مثیل بیان کیا۔اور مماثلت کےثبوت میں آپ نے اس مخالفت کا بیان پیش کیا جو کہ زمانہ قدیم کے انبیاء کو پیش آئی تھی۔ چنانچہ سورہ قمر کی تیسر ی آیت میں یوں مرقوم ہے وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ ترجمہ : یعنی اور جھٹلایا انہوں نے اور چلے اپنے چاؤں پر۔
حضرت نوح کی قوم نے اسکو مفتری(فريبی) کا خطاب دے کر رد کیا۔اور قوم لوط نے حضرت لوط کی تمام وعظ ونصیحت کو دروغگوئی(جھوٹ بولنا) اور لغو بیانی (بکواس)سے منسوب کیا۔ اور جب قوم فرعون کو غضب الہیٰ سے آگاہ کیا گیا۔تو انہوں نے تمام معجزات کو دھوکہ اور شعبدہ بازی بتایا۔ اب حضرت محمد ساکنان مکہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور اسی سورہ کے تیسرے رکوع میں یوں فرمایا اُلفّا رُکُم خَيڑُمِن اوّلٓکم برٓاَءَۃفِی الزُّہُرِ یعنی اب تم میں جو منکر ہیں۔کیا وہ بہترہیں ان سب سے یاتم کو فارخطی (بے باقی کی رسيد)لکھی گئی ورقوں میں ؟ چکھو مزا آگ کا۔ سورہ شعراء میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ ،نوح ،لوط اور دیگر انبیاء کی کس قدر تحقیر(بےعزتی) کی گئی اور ان میں سے ہر ایک پر مفتری(فريبی) اور کذاب(نہايت جھوٹا) کا الزام لگایا گیا۔ یہ قصے نہایت طویل ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اہل مکہ نے جو آنحضرت کی مخالفت کی اس سے انبیاء سلف کے حالات پر نظر ڈالنے سے یہی ثابت ہے۔ کہ اس قسم کی تکالیف اور مخالفت کا پیش آنا سچے پیغمبر کے لئے از بس ضروری اور لابدی(یقینی) امر ہے لیکن اس سے اہل مکہ کی اصل روش کا ٹھیک پتہ نہیں لگتا۔کیونکہ سورہ شعراء کے ۱۱ رکوع میں ان کو سخت سرزنش(ملامت) کی گئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُتَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ یعنی کیا میں بتاؤں تم کو کس پر اترتے ہیں شیطان۔ اترتے ہیں ہر جھوٹے گنہگار پر۔ پھر سورة الانبیاء کے تیسرے رکوع میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تمام اس استہزائی(ہنسی،مذاق) مزاج کے لوگوں اور تحقیر کرنے والوں کو لازم ہے۔کہ جن لوگوں پر زمانہ قدیم میں خُدا ئے تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ان کے حال پر نظر کرکے عبرت (نصيحت)حاصل کریں ۔کیونکہ ایک وقت آئیگا جب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔چنانچہ لکھاہے کہ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونبَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَوَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون ترجمہ کبھی جانیں یہ ہے منکر اس وقت کو نہ روک سکینگے اپنے منہ سے آگ۔ اور نہ اپنی پیٹھ سے اور نہ ان کو مدد پہنچیگی۔ کوئی نہیں وہ آوے گی ان پر بے خبر پھر ان کے ہوش کھودیگی۔ پھر نہ سکینگے کہ اس کو پھر دیں نہ ان کو فرصت ملیگی۔ اور ٹھٹھے ہوچکے ہیں کتنے رسولوں کے ساتھ تجھ سے پہلے۔ پھر الٹ پڑی ٹھٹھے والوں پر ان میں سے جس چیز کا ٹھٹھا کرتے تھے۔
30 والتی احضت فرجھا فنفحنا فیہا من روحنا وجعلنا وابنہا ایة للعمین ترجمہ: اور وہ عورت جس نے قید میں رکھی اپنی شہوت۔ پھر پھونک دی ہم نے اس عورت میں اپنی جان روح اور کیا اس کو اور اس کے بیٹے کو نمونہ تمام عالم کے لئے سورة (النبیاء رکوع ۶) َاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّافَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَاإِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّاقَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّاقَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّاترجمہ : اور مذکور کر کتاب میں مریم کا جب کنارے ہوئی اپنے لوگوں سے ایک شرقی مکان میں پھر پکڑلیا ان سے درے ایک پردہ پھر بھیجا ہم نے اس پاس اپنا فرشتہ پھر بن آیا اس کے آگے آدمی پورا۔ بولی مجھ کو رحمان کی پناہ تجھ سے اگر تو ڈر رکھتا ہے۔ بولا میں تو بھیجا ہوں تیرے رب کا کہ دے جاؤں تجھ کو ایک لڑکا ستھرا اور سورہ مریم ۱۶تا ۱۹ آیت تک ) مذکور بالا بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح نے انسانی صورت اختیار کی اور سورہ انعام کی نویں آیت و َلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ یعنی اور اگر ہم رسول کرتے کوئی فرشتہ تو وہ بھی صورت ایک مرد کرتے اور ان پر شبہ ڈالتے وہی شبہ جو لاتے ہیں وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرشتہ بھی مرسل من الله ہوکر آتا تو وہ بھی ضرور انسانی صورت اختیار کرتا پس اس لئے کہتے ہیں کہ جس کے مریم کے پاس جانے کا ذکر ہے وہ ضرور جبرائیل فرشتہ تھا پھر سورہ اعراف جو آخری زمانہ کی ایک سورت ہے اس کے ۲۴ ویں رکوع اور آیت ۱۹۰ میں اس بات کا صاف بیان ہے کہ یہ ہے سیدنا عیسیٰ مسیح ایک نیک اور صالح لڑکا پیدا ہوا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ یعنی پھر جب دیا ان کو چنگا بھلا ٹھہرانے لگے اس کے شریک اس کی بخشی چیز میں سو الله بلند ہے ان کے شریک بتانے سے۔ سیدنا عیسیٰ مسیح کی پاکیزگی اور معجزانہ پیدائش کا بیان سورہ آل عمران کے چھٹے رکوع میں یو مندرج ہے یعنی تحقیق عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی مثال کی سے ہے۔ بنایا اس کو مٹی سے۔ پھر کہا اس کو ہوجا۔ وہ ہوگیا۔ مطلب یہ ہے کہ خُدا نے آدم اور عیسیٰ دونوں کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔
سورہ والصفت اس زمانہ کی معلوم ہوتی ہے جبکہ آنحضرت کی مخالفت بہت شدو مد (زور وشور)سے نہ ہوتی تھی بلکہ حقیقی دشمنی اور عداوت کی جگہ ایک گو نہ نا اتفاقی اور بے پروائی پائی جاتی تھی۔ اس صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ میں سے منکرین نے کس طرح ان لوگوں کی قدم قدم پر تقلید وپیری کی۔ جنہوں نے زمانہ قدیم میں حضرت نوح ،موسیٰ ،ہارون ،الیاس ،لوط اور یونس کو جھٹلایا اور رد کیا تھا۔ اور تمام قصے کسی قدر طوالت (درازی)کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ اہل مکہ اپنی بریت (آزادی)کے باب میں یوں عذر(بہانہ) کرتے تھے لَوْ أَنَّ عِندَنَا ذِكْرًا مِّنْ الْاوّلينَلَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ یعنی اگر ہم پاس احوال ہوتا پہلے لوگوں کا تو ہم الله کے چنے ہوئے بندے ہوتے ( آیت ۱۶۸تا ۱۶۹)۔
آنحضرت کو ارشاد ہوا کہ کفارہ سے الگ ہوجاویں کیونکہ ان پر عنقریب ہی عذاب نازل ہونے والا تھا چنانچہ لکھا تھا ہے وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ ترجمہ اور پھر آ ان سے ایک وقت تک اور دیکھتا رہ۔ اب آگے دیکھ لینگے (آیت ۱۷۹)۔
پھر سورہ مومن آخری زمانہ کی مکی سورتوں میں سے ہے اور اس کا نفس ِمضمون اور طرز بیان بھی سورہ الصفت کا سا ہے بلکہ یہاں تک کہ اس میں کفارہ کے لئے توبہ کا بھی موقع نہیں۔ اس کی آخری تین آیتوں میں یوں بیان کیا گیا ہے فَلَمَّا جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُونفَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَفَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِيعِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ یعنی پھر جب پہنچے ان پاس رسول ان کے کھلی نشانیاں لےکر۔ پھر جب دیکھی انہوں نے ہماری آفت بولے ہم یقین لائے الله اکیلے پر اور چھوڑیں جو چیزیں شریک بتاتے تھے۔ پھر نہ ہوا کہ کام آوے ان کو یقین لانا ان کا جس وقت دیکھ چکے ہمارا عذاب۔ رسم پڑی ہوئی الله کی جو چلی آئی ہے اس کے بندوں میں اور خراب ہوئے اس جگہ منکر(انکار کرنے والے)۔
سور ہ صٓ ایام ِمکہ کے وسطی زمانہ کی ایک نہایت مشہور سورت ہے۔ اس کی پہلی دس آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں۔ جبکہ قریش نے ابو طالب سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ آنحضرت کی مدد وحمایت سے دست بردار ہوجائے۔اور ابو طالب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا تھا۔ قریش نے ایک دفعہ تو غالبا ً ۶۱۵ ھ میں یہ درخواست کی تھی اور بعض حدیثوں میں یوں مندرج ہےکہ جب ۶۲۰ھ میں ابو طالب بستر مرگ (مرنے کے قريب)پر پڑا تھا اس وقت اس سے یہ درخواست کی گئی تھی پر زیادہ تر احتمال (شک و شبہ)یہی ہے۔کہ قریش نے یہ درخواست ۶۱۵ھ میں کی تھی۔ اس صورت میں قریش کی پہلی امتوں پر جو جو عذاب نازل ہوئے تھے ان کا حال سنا کر نہایت سختی سے متنبہ(خبردار) کیا گیا ہے چنانچہ پہلی سات آیات میں یوں مرقوم ہے ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِبَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍوَعَجِبُوا أَن جَاءهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌأَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌوَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُمَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌأَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي بَلْ لَمَّايَذُوقُواعَذَابِ قسم ہے اس قرآن کے سمجھانے والے کی۔ بلکہ جو لوگ منکر ہیں۔ غرور میں ہیں اور مقابلہ میں بہت کھپادیں ہم نے ان سے پہلے سنگتیں۔ پھر لگے پکارنے اور وقت نہ رہا خلاصی کا۔ او ر اچنبھا کرنے لگے اس پر کہ ان کو ایک ڈرسنانے والا نہیں میں سے۔ اور لگے کہنے منکر یہ جادو گر ہے جھوٹا۔ کیا اس نے کردی اتنوں کی بندگی کے بدلے ایک ہی کی بندگی ؟ یہ ہے بڑی تعجب کی بات اور چل کھڑے ہوئے کتنے پنچ ان میں سے کہ چلو اور ٹھہرے رہو اپنے ٹھاکروں پر۔ بیشک اس بات میں کچھ غرض ہے۔ یہ نہیں سنا ہم نے اس پچھلے دین میں(31) اور کچھ نہیں یہ بنائی بات ہے ۔ کیا اسی پر اتری سمجھوتی ہم سب میں سے ؟ کوئی نہیں۔ ان کو دھوکہ ہے میری نصیحت میں۔ کوئی نہیں۔ ابھی چکھی نہیں میری مار۔
ایامِ مکہ کے وسطی زمانہ کے وحی والہام کا اظہار قرآن کے متواتر نازل ہوتے رہنے سے بہت توضیح(وضاحت) کے ساتھ کیا گیا ہے۔ قرآن کی تعظیم وتکریم (عزت)کے باب میں بھی آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ اس کو مبارک کتاب۔ روشن کتاب اور قرآن مجید وغیرہ ناموں سے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ کتاب خُدا کی طرف سے ہے اور خُدا نے اس کو عرش معلیٰ(آسمان) سے نازل فرمایا اور سب کتابوں پر فوق (سبقت،برتری) دیا ہے۔ چنانچہ سورہ صٓ کی كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ اوّلوا الْأَلْبَابِ يعنی ایک کتاب ہے جو اتاری ہم نے تیری طرف برکت کی تاد ھیان کریں لوگ اس کی باتیں اور سمجھیں عقل والے۔
اس موقعہ پر حضرت محمد کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ آپ سامعین کی سخت دلی پر غم نہ کھایں اور یہ بھی اطمینان دلایا گیا کہ آپ کی رسالت سچ مچ من جانب الله ہے۔ اور اس کتاب منیر یعنی قرآن کے نشانات سورة شعراء کی دوسری آیت سے پانچویں آیت تک اس طرح مندرج ہیں لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّن السَّمَاء آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَوَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمَنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَفَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنبَاء مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون یعنی شاید تو گھونٹ مارے اپنی جان اس پر کہ وہ یقین نہیں کرتے۔ اگر ہم چاہیں اُتاریں ان پر آسمان سےایک نشانی۔ پھر رہ جائیں ان کی گردنیں اس کے آگے نیچی اور نہیں پہنچی ان پاس کوئی نصیحت رحمان سے نئی جس سے منہ نہیں موڑتے۔ سو یہ جھٹلا چکے۔ اب پہنچیگی ان پر حقیقت اس بات کی جس پر ٹھٹھا کرتے تھے ۔ پھر اس سورة کے گیارہویں رکوع کی چند آیات میں اس امر پر بہت زوردیا گیا ہے۔کہ قرآن حضرت جبرائیل کی معرفت آسمان سے نازل ہوا۔
لیکن چونکہ ان آیات میں کچھ یہودیوں کا حال مندرج ہے جلال الدین السیوطی کے نزدیک اس سورة کا یہ حصّہ مدینہ سے علاقہ(تعلق) رکھتا ہے اور اس لئے ان آیات کو اس جگہ اقتباس کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔لیکن اس سورت کے دیگر چند مقامات میں زمانہ قدیم کے پانچ نبیوں کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا ہے کہ خُدا سے ڈرو اور میری تابعداری کرو۔ اور اس سے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اسی طرح قریش پر فرض ہے ۔کہ حضرت محمد کی اطاعت وفرمانبرداری کریں اور اگرنا فرمانی اور سرکشی سے باز نہیں آئینگے۔ تو اس نا فرمانی کی سزا پاؤگے۔ پس جب وہ آنحضرت کی اطاعت(تابعداری) نہ کریں تو آپ خُدا کی طرف سے ان کو یوں کہہ سکتے تھے۔ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ترجمہ "میں الگ ہوں تمہارے کام سے ( آیت ۲۱۶) مخالفین آنحضرت پر یہ الزام بھی لگاتے تھے کہ آپ قرآن کی آیات خود بنا کر سناتے ہیں اور یہ من جانب الله نہیں ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے سورہ طور سے قرآن کی طرز بیان اور اس کے فوق العادت(عادت سے بڑھ کر) مضامین کو بطور معجزہ پیش کیا۔ اور خُدا کی طرف سے ارشاد پاکر فرمایا أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لَّا يُؤْمِنُونَفَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ یعنی یاکہتے ہیں یہ بات بنالایا ہے۔ کوئی نہیں پر ان کو یقین نہیں۔ پھر چاہئے لے آویں کوئی بات اسی طرح کی اگر وہ سچے ہیں ( دوسرا رکوع ) وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا یعنی تحقیق ان لوگوں کے لئے جو گنہگار ہیں مار ہے۔( آیت ۴۷)۔
(31) حضرت محمد ما سمعیا بھذا افی اللمتہ الاخرة کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ مشرکین کا قول ہے اور طنزاً اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ مسیحی دین بجائے توحید کے تثلیث کی تعلیم دیتا ہے۔ تفسیر حسینی میں لکھا ہے کہ اس سے مسیحی مذہب کے لوگ مراد ہیں جو کہ آخری دین کے لوگ نہیں اور بلاتحقیق ناراستی سے ان کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ تثلیث کے قائل اور توحید کے منکر ہیں چنانچہ لکھا ہے کہ ملت عیسیٰ کہ آخرین مت است چہ ایشاں تثلیث قائل اندنہ بتوحید۔ ابن عباس بھی تفسیر حسینی کے بیان سے متفق ہے پر مجاہد کہتا ہے کہ اس سے قریشی مذہب مراد ہے خلاصہ التفاسیر جلد چہارم صفحہ ۴۴۔
سورة الحاقتہ ابتدائی زمانہ کی مکی سورت ہے اور ہر طرح کی بناوٹ اختلاق سے قرآن کو بری اور محفوظ ٹھہرانے میں اس سورت میں بہت زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ۳۸ ويں آیت سے ۴۷ ويں آيت تک یوں مرقوم ہے۔ فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَوَمَا لَا تُبْصِرُونَإِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍوَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَوَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَتَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَوَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِلَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَفَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ یعنی سو قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو دیکھتے اور ان چیزوں کی جو تم نہیں دیکھتے۔یہ کہا ہے کہ ایک پیغام لانے والا سردار کااور نہیں یہ کہا کہ کسی شاعر کا (32)۔ تم تھوڑ ا یقین کرتے ہو۔ اور نہ کہا پریوں والے کا۔ تم تھوڑا دھیان کرتے ہو۔ یہ اتارا ہے جہان کے رب کا اور اگر یہ بنالاتا ہم پر کوئی بات تو ہم پکڑتے اس کا دہنا ہاتھ۔ پھر کاٹ ڈالتے ہم اس سے رگ گردن کی۔ پھر تم میں کوئی نہیں اس سے روکنے والا۔
یا یوں کہیں کہ لفظ ہم جس کا مفہوم مندرجہ بالا عبارت میں خُدا ہے۔اس کے استعمال سے خاص غرض یہ تھی کہ منکر ین پر ایسا رعب چھاجاوے۔ کہ وہ آنحضرت کو تکلیف دینے اور اذیت پہنچانے سے باز آجائیں۔ اس وقت اہلِ مکہ میں یہ عام خیال تھاکہ آنحضرت پر قرآن خُدا کی طرف سے نازل نہ ہوا تھا۔ بلکہ آپ کی اپنی شاعرانہ لیاقت(قابليت) کا اظہار ونتیجہ تھا۔ اس خیال سے بریت (نجات)حاصل کرنے کے لئے حضرت ازحد متفکر ومتردد (فکر مند و پريشان)تھے چنانچہ متذکرہ بالا سورت میں آپ نے خُدا کی طرف سے یوں علان کیا کہ یہ جو الزام آنحضرت پر لگایا جاتا ہے سچ نہیں ہے تمام قرآن میں کوئی آیت ان آیات سے زیادہ زور وشور سے اس امر کا بیان نہیں کرتی کہ قرآن من جانب الله ہے لیکن اس جوش وخروش اور سرگرمی ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد کے دل میں بجائے اس تسلی واطمینان کے جو ایسے شخص کو نصیب ہوتا ہے۔جس کو اپنی باتوں پر کامل(مکمل) اعتماد ووثوق(بھروسہ) ہو بہت سے شکوک (شک) بھرئے ہوئے تھے۔جو ایمان واعتماد امن وچین خُدا کے پیغمبر ومرسل (رسول)کے دل میں ہونا چاہئے۔ وہ آنحضرت میں مطلق(بالکل) نظر نہیں آتا۔ قرآن کے جن مقامات سے مذکورہ بالا حالات کا پتہ ملتا ہے ۔ان میں سے بعض کو ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
چنانچہ سورہ تکویر کی ۱۵ آیت سے یوں مرقوم ہے فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِالْجَوَارِ الْكُنَّسِوَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَوَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَإِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍمُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍوَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ یعنی قسم کھاتاہوں میں پیچھے ہٹ جاتے سیدھے چلتے دبک جانے والوں کی اور رات کی جب اس کا اٹھان (شروع)ہو۔ اور صبح کی جب دم لیوے۔ تحقیق یہ کہنا پیغام پہنچانے والے بزرگ کا ہے۔ قوت والا نزدیک صاحب عرش کے مرتبے والا۔ کہا مانا گیا اس جگہ با امانت اور یہ تمہارا رفیق(ساتھی) کچھ نہیں دیوانہ۔ پھر سورہ نجم کی ۴تا ۵ آیات میں اس طرح مندرج ہے۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىعَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى یعنی یہ تو حکم ہے جو پہنچتا ہے ۔اس کو سکھایا سخت قوتوں والے نے پھر سورہ واقعہ کے تیسرے رکوع میں پایا جاتا ہے کہ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِوَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌإِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌفِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍلَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی سومیں قسم کھاتا ہوں تارے ڈوبنے کی اور یہ قسم ہے اگر سمجھو تو بڑی قسم۔ بے شک یہ قرآن عزت والا ہے۔ لکھا چھپی کتاب میں۔ اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنے ہیں۔ اور إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا یعنی ہم نے اتارا تجھ پر قرآن سہج سہج اتارنا (سورہ دہر رکوع دوم)۔
(32)جو شاعر آنحضرت کے برخلاف لکھاکرتے تھے انکو آپ نے دیوانے اور جنوں زدہ بیان کیا چنانچہ سورہ الشعراء کے گیارہویں رکوع میں وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَأَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ یعنی اور شاعروں کی بات پر چلے وہی جو گمراہ ہیں تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں سر مارتے پھرتے ہیں لیکن ساتھ ہی طرفہ تر ماجرا یہ ہے کہ آنحضرت شاعروں کی مدد سے ان کو اشعار میں مقابلتہً جواب دیا کرتے تھے اور اپنے شاعروں کی تعریف کرتے تھے۔ چنانچہ سورہ شعراء کی آخری آیت میں یوں مرقوم ہے کہ وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ یعنی اور بدلا لیا اس پیچھے کہ ان پر ظلم ہوا اور اب معلوم کرینگے ظلم کرنے والے کس کروٹ الٹے ہیں۔ معالم کے بیان کے مطابق آخری جملہ میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی ہجو لکھاکرتے تھے خلاصتہ التفاسیر جلد سوم کا صفحہ ۳۸۸ ملاحظہ فرمائیے۔
حموَالْكِتَابِ الْمُبِينِإِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَوَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ یعنی قسم ہے اس کتاب واضح کی ہم نے رکھا اس کو قرآن عربی کا۔ شاید تم بوجھو اور یہ بڑی کتاب (33)میں ہم پاس ہے اونچا محکم ( سورہ زخرف کی پہلی تین آیات )۔اور سورہ فرقان کی چوتھی آیت سے یوں شروع ہوتا ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْمًا وَزُورًوَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْاوّلينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًاقُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یعنی او رکہنے لگے جومنکر ہیں اور کچھ نہیں یہ مگر جھوٹ باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے۔ سوآئے بے انصافی اور جھوٹ پر اور کہنے لگے یہ نقلیں ہیں اگلوں کی جو لکھ لیا ہے۔ سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس پاس صبح وشام۔ تو کہہ اس کو اتارا اس شخص نے جو جانتا ہے چھپے بھید (راز)آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور کہا رسول نے اَے رب میرے میری قوم نے ٹھہرایا ہے اس قرآن کو جھک جھک۔
پھر سورہ سجد ہ کی دوسری آیت میں یوں لکھاہے أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ یعنی کیا کہتے ہیں یہ باندھ لایا ؟ کوئی نہیں وہ ٹھیک ہے تیرے رب کی طرف سے کہ توڈرسناوے ایک لوگوں کو جن کو نہیں آیا کوئی ڈرسنانے والا تجھ سے پہلے شاید وہ راہ پر آویں۔ پھر سورہ نحل کے ۱۴ رکوع اور آیت ۱۰۲کے شروع میں یوں مندرج ہے قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ یعنی تو کہہ اس کو اُتارا ہے پاک فرشتہ نے تیرے رب کی طرف سے ساتھ حق کے۔
سورة الزمر غالباً اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ پہلی دفعہ مسلمانوں نے ابی سینیا کی طرف ہجرت کی۔ اس سورة میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کہ قرآن لاکلام خُدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا۔ نیز اس سورة سے یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔کہ اس قسم کے وحی سے کس قدر لوگوں پر خوف وہراس چھا جاتا تھا چنانچہ دوسری اور ۲۴ویں آیات ميں اس طرح مرقوم ہے إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ یعنی ہم نے اتاری ہے تیری طرف کتاب ٹھیک سو بندگی کر الله کی خالص کرکے اس کے واسطے بندگی۔ اور اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ یعنی الله نے اتاری بہتر بات کتاب آپس میں ملتی دہرائی ہوئی۔ بال کھڑے ہوتے ہیں اس سے کھال پر ان لوگوں کے جوڈرتے ہیں اپنے رب سے۔
(33) ام الکتاب یا کتاب کی ماں سے قرآن وہ اصل مراد ہے جوخُدا کے حضور ہر طرح کے تغیر وتبدل سے محفوظ و مامون رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۳۰۰ میں مندرج ہے کہ دراصل ہمہ کتاب سماوی یعنی لوح ومحفوظ کہ ایمن است وتغیر (34) لفظ متانی یعنی دو دو یا جوڑے جوڑے کا ترجمہ راڈویل صاحب کے نزدیک ایسی تعلیم ہے جو کہ بالتکرا ر ہوا ور پالگر یواؤ پامر صاحب نے اس کا ترجمہ محض دہرانا کیا۔ سیل صاحب اس کےترجمے کے بیان میں قرآن کے موجودہ مروجہ ترجمہ سے متفق ہیں۔ راڈویل صاحب کے قرآن صفحہ ۱۲۶ میں سورہ حجرہ کی ۸۷آیت اور اس پر جو نوٹ ہے ملاحظہ کیجئے۔ ایک اردو ترجمہ میں یوں مندرج ہے کہ ایک مدعا کئی کئی طرح بیان کیا۔کتا باً مشتاَ بھاً مثانی پورے جملہ پر مفسیر حسین فارسی میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ کتابے مانند یکد دیگر یعنی قرآن کے بعضے ازاں مشابہ بعضے بہت در اعجاز زیادہ جو دت لفظ وصحت معنی ٰ یا برخے ازاں مصدق برخے دیگر است دورآں تناقض واختلاف نیست مثانی۔ دوبارہ ودتوکردہ یعنی مشتمل است برزوجات چوں امرونہی وعدد وعید وذکر وفکر رحمت وعذاب وبہشت دوزوخ ومومن کافر دیکھو تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۲۶۲۔ ربی گیگر فرماتےہیں کہ لفظ مثانی کی نسبت تمام تر تشویش وگھبراہٹ کا باعث یہ ہے کہ یہ لفظ عربی خیال کیا گیا ہے اور اس کے اصلی ماخذ کی تحقیق وتدقیق نہیں کی گئی۔ یہودی شریعت مکتوب وغیر مکتوب دو حصوں میں منقسم تھی۔ غیر مکتوب کو مشنا ہ کہتے تھے۔ رفتہ رفتہ تمام تعلیم واحادیث اسی نام سے نامزد ہوگئیں ایک حرفی غلطی کے واقع ہونے سے یہ لفظ مشناہ ایک لفظ کے مشتقات میں سے خیال کیا گیا جس کے معنی دہرانے یا مکر رکہنےکے ہیں۔ سو یہ لفظ بجائے مجموعہ احادیث وروایات کے مرقومہ یا مکتوبہ شریعت کے دہرانے اور مکررکہنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ عربی یہودیوں نے بھی یہی غلطی کی اور مثانی ہوگیا۔ اگر حضرت محمد نے اس لفظ کا درست استعمال کیا ہے تو انہوں نے ضرو ر قرآن کو تمام یہودی شریعت یعنی مشناہ کی جگہ قرار دیا ہے۔ اور ہر گز ہرگز ان کی مراد اس سے دہرانے یا مکرر کہنے کی نہ تھی۔ گیگر کی کتاب یہودیت واسلام کے صفحہ ۴۳ میں مندرج ہے کہ کم از کم طاؤس ایک عربی مفسر اس بات کا قائل ہے کہ تمام قرآن مثانی ہے چنانچہ لکھاہے کہ وقال الطاوس القرآن کلہ مثانی۔ وحی سے جو لوگوں پر خوف طاری ہوتا تھا یہ کچھ تعجب کی بات نہ تھی کیونکہ آسمان پر بھی وحی کی تاثیر اس قدر مانی جاتی تھی کہ وحی کے وقت تمام نظام قدرت پر تشنج کا عالم ہوتا تھا۔ فرشتگان بے حس وحرکت ہوجاتے تھے اور صرف جبرائيل کو پہلے ہوش آتا تھا۔ خلاصتہ التفاسیر جلد چہارم صفحہ ۷۵۔ 35 یہ سورة ایک مرکب المضمون سورة ہے ۲۳سے ۴۱ آیت تک ضرور ایام مکہ سے متعلق ہے اور ۷۵ سے ۸۲ تک اور ۸۷ آیت بھی اسی زمانہ سے علاقہ(تعلق) رکھتی ہے۔
متذکرہ بالا طریقے جو حضرت محمد نے اپنی بریت(نجات،رہائی) اور بے گناہی کے ثبوت میں استعمال کئے ۔ان کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اگلے زمانہ کے پیغمبروں کے ساتھ بھی لوگوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔ قرآن کا عبارتی یا لفظی تکرار (بحث)اور وحی من الله ہونے کا متواتر (لگا تار،مسلسل)دعویٰ اس امر کو ثابت نہیں کرتے بلکہ قرآن کے پڑھنے سے عموماً جو پڑھنے والے کے دل پر تاثیر (اثر)ہوتی ہے وہ یہ کہ قرآن ایک ایسے شخص کی سخن سازی (شاعری)ہے جس کے اپنے دل ہی کو اطمینان حاصل نہیں ہے۔ اور زیادہ گوئی سے اس کی غرض صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے مخالفوں کا منہ بند کرے بلکہ اپنے نا مستقیم(غیرمضبوط) دل کو قرار دینا اور اپنے مقلدوں(تقليد کرنے والوں) کے ایمان کو مضبوط ومستحکم کرنا بھی اس کا مقصد اعلیٰ معلوم ہوتا ہے۔
ایامِ مکہ کے آغاز میں آنحضرت نے مشتہر (مشہور )کیا کہ جو لوگ قرآن کو میری جعلسازی بیان کرتے ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں تو اس کی مانند کوئی کتاب بنا لائیں۔ چنانچہ سورہ طور کے دوسرے رکوع میں مسطور ہے۔أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لَّا يُؤْمِنُونَفَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ یعنی یاکہتے ہیں یہ بات بنا لایا۔ کوئی نہیں۔ پر ان کو یقین نہیں پھر چاہئے کوئی لے آئیں بات اسی طرح کی اگروہ سچے ہیں۔
سورہ بنی اسرائیل (35)ایام مکہ کے دوسرے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے اور اس کے دسویں رکوع میں بھی متذکرہ بالا دعویٰ کا الحاح(گڑ گڑانا) پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یوں لکھا ہے قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا یعنی کہہ اگر جمع ہوویں آدمی اور جن اس پر کہ لاویں ایسا قرآن نہ لاوینگے ایسا قرآن۔اور پڑے مدد کریں ایک کی ایک۔ پھر تھوڑے دن بعد آپ نے اسی طرح سے دعویٰ کیا۔ چنانچہ سورہ ہود کی سولھویں آیت میں یوں مرقوم ہے أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ یعنی کیاکہتے ہیں باندھ لایا ہے اس کو تو کہہ تم لے آؤ ایک دس سورتیں ایسی باندھ کر۔اور پکارو جس کو پکار سکو الله کے سوااگر ہو تم سچے۔
یہ دلیل(گواہی) ایسی قاطع (کاٹنے والا)اور مضبوط خیال کی جاتی تھی کہ مدینہ میں جاکر بھی آنحضرت نے اسی کو پیش کیا۔چنانچہ سورہ بقرہ کی اکیسویں آیت میں یوں مندرج ہے وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ یعنی اور اگر تم ہوشک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تولے آؤ ایک سورة اس قسم کی۔
برادران اہل ِ اسلام اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت سے لےکر آج تک کسی عرب وعجم (عرب کے سوا کوئی ملک)نے اس قرآنی للکار کے مقابلہ کی جرات نہیں کی اورکسی نے کبھی یہ حوصلہ نہیں کیا کہ قرآن کے مقابلہ میں کچھ لکھنے یا اس کی نظیر (مثال)پیش کرنے کا دم مارے۔ لیکن ا س دعویٰ کے بیان میں بہت مبالغہ(زيادہ گوئی) کیا جاتا ہے کہ کیونکہ قرآن کی یہ للکار اس امر کی متقاضی(تقاضا کرنے والی) نہ تھی۔کہ قرآن کی عروض (ظاہر ہونا)اور اس کی منظوم عبارت (ترتيب کی گئی عبارت)کی نظیر(مثال) پیش کی جائے۔ بلکہ اس کا اشارہ نفس ِمضمون یعنی تعلیم توحید ِالہیٰ اور آخرت کی سزا وجزا وغیرہ کی طرف تھا۔
پس قریش کے لئے ان مضامین پر قرآن کی نظیر پیش کرنا ایک امر محال(مشکل) تھا۔ وہ جو کہ بُت پرست وباطل پرست(جھوٹے) تھے۔ اور اس قسم کے مسائل کے معتقد(اعتقاد رکھنے والے) نہ تھے۔ان کے لئے کس طرح ممکن تھا۔کہ ایک ایسی کتاب پیش کریں جو قرآن کی نظیر ہو۔ اور اسی طرح توحیِد الہیٰ کا بیان کرے؟ اگر وہ اس قسم کی کتاب لکھنے کی کوشش بھی کرتے تو اس میں شک نہیں۔کہ وہ ضرور قرآن ہی کی نقل کرتے اور چونکہ نقل کا درجہ ہمیشہ اصل سے کم ہوتا ہے۔ اس لئے حضرت محمد ضرور ان پر سبقت(برتری) (36)لے جاتے۔ تو بھی اگر فوقیت(سبقت،برتری) طرزِ بیان اور عبارت کے ربط ضبط (ميل ملاپ)سے مراد ہے۔ تو بیرن ڈی سیلن صاحب کا بیان بالکل بجا اور تیربہدف(تير کا نشانہ پر لگنا) کا حکم رکھتا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ اگر اب ہم قرآن کو قواعد ِعروض(نظم کے قواعد) کی رو سے بہ نظر غور دیکھیں تو موجودہ اسلامی کالجوں کے علوم کے بموجب قرآن عبارتی نظم ونسق اور ربط ضبط کا ایک اعلیٰ اور بے نظیر نمونہ ہے۔ کیونکہ عروض وغیرہ کے متعلق موجودہ قواعد جس قدر ہیں وہ سب کے سب اسی سے لئے گئے ہیں۔ پامر صاحب فرماتے ہیں کہ اہل عرب کے لائق فائق(لياقت ميں فوقيت رکھنے والے) مصنفین کا قرآن کے مقابلہ میں اس پایہ کی کوئی کتاب پیش نہ کرنا باعثِ حیرت اور جائے تعجب نہیں ہے۔ کیونکہ وہ پہلے ہی سے اس امر کو نا ممکن قرار دے چکے ہیں۔ اور اس کے طرز بیان کو بے نظیر اور عدیم المثال(جس کے برابر کوئی نہ ہو) مان چکے ہیں۔ پس اس سے ہر طرح کا خلاف ونحراف (مخالف و مخالفت)اعلیٰ درجہ کا نقص او ر عیب خیال کیا جاتا ہے۔ قرآن کے کلام الہیٰ ہونے کے مسلمہ دعویٰ کے باعث اہلِ اسلام کے لئے اس کے کسی لفظ یا حرف پر بھی انگشت اعتراض(انگلی اُٹھانا،اعتراض کرنا) اٹھانا نا ممکن ہے۔ اور بر خلاف اس کے کوئی قرآن کی نقطہ چینی کرے قرآن اس درجہ کا اعلیٰ وبرتر تسلیم کیا گیا ہے۔کہ دیگر کتب کا اس کو منصف ومصدق(انصاف کر نے والاو تصديق کرنے والا) قرار دیا جاتا ہے۔ عالمان ِعلم وادب مولفانِ لغت اور تمام فصیح وبلیغ(خوش بيان) عالم وفاضل علمائے اسلام اس امر کو بلا دلیل ہی تسلیم کرچکے ہیں۔ کہ قرآن میں کسی طرح کی غلطی کا امکان ہی نہیں ہے اور دیگر کتب کو وہیں تک فصاحت وبلاغت (خوش بيانی وحسب موقع گفتگو)کا رتبہ حاصل ہے ۔جہاں تک ان میں قرآن کی مطابقت(مشاہبت) اور موافقت (برابری) (37) پائی جاتی ہے۔اہل ِ اسلام نے اب تک بالااتفاق اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ قرآن کن معنوں میں فوقیت(برتری) کا دعویدار ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ فوقیت قرآن کی فصاحت وبلاغت یا اس کے نفس مضمون یا مختلف حصص کی مطابقت اور مشابہ (38) سے ثابت ہوتی ہے۔فرقہ معتذلین کا اعتقاد (يقين)ہے۔ کہ اگر خُدا انسان کو اجازت دیتا تو ضرور لوگ قرآن کی مانند فصاحت وبلاغت اور استدلال (39) سے بھری ہوئی سورتیں بناکر پیش کرسکتے تھے۔
(36) نولدیکی صاحب کی کتاب گشختی دس قرآن کا صفحہ نمبر ۴۴ ملاحظہ فرمائیے۔ (37) Sacred Books of The Past vol vi pp 55 (38) Muir’s Beacon of Truth صفحہ ۲۶ (39) Faith of Islam مصنفہ سیل صاحب صفحہ ۹
سورة الشوریٰ جو کہ آخری زمانہ کی مکی سورتوں میں سے ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ جب تک آنحضرت مکہ میں تشریف فرما رہے ہمیشہ اہل مکہ آپ پر یہ الزام لگاتے رہے کہ قرآن من جانب الله نہیں ہے بلکہ آپ کی افترا واختراع(دماغ کی ایجاد) کا ظہور ہے۔چنانچہ ۲۳آیت میں مرقوم ہے۔أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَإِن يَشَأِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ یعنی کیاکہتے ہیں اس نے باندھا الله پر جھوٹ سو اگر الله چاہے مہر کردے (40)تیرے دل پر۔
آنحضرت کے ایام ِحیات میں یہ اوّل موقعہ تھا۔کہ یہودی دین کے معتقدوں(اعتقاد رکھنے والوں) اور آپ کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوا۔ جب تک آپ مکہ میں رہے آپ کی نظیر میں مذہب یہود اور دین عیسوی اسلام کے ہم پلہ اور ہم رتبہ تھے۔اور آپ کا خیال تھاکہ ان ادیان (دين کی جمع)کے معتقد ان کے مطابق چلنے سے نجات حاصل کرینگے۔ بلکہ زمانہ ما بعد میں آپ نے مدینہ پہنچ کر بھی فرمایا تھا ۔تحقیق جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین ۔جو کوئی یقین لایا الله پر اور پچھلے دن پر اور کا م کیا نیک۔ تو ان کو ہی ان کی مزدوری اپنے رب کے پاس اور نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ غم کھائيں گے۔
سورہ رعد جو کہ آخری زمانہ کی مکی سورت ہے اس میں بھی حضرت محمد ﷺ نے بیان فرمایا ہےکہ آپ پر وحی نازل ہونے کے باعث یہودی بہت خوش تھے۔چنانچہ پانچویں رکوع کی آیت ۳۶میں مندرج ہے۔ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ یعنی اور جو لوگ(41) کہ دی ہے ہم نے ان کو کتاب خوش ہوتے ہیں اس سے جو اتارا گیا تیری طرف۔
اگرچہ آنحضرت کے ایام مکہ میں ظاہری طور پر یہودیوں سے رابطہ اتحاد وقائم تھا۔ تو آپ یہودی دین کو اسلام سے کم درجہ کا قراردیتے تھے اورجب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو اس امر کا صاف بیان کردیا۔ اور دو آخری مکی سورتوں میں اس طرح مرقوم ہے۔ وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ
یعنی او ریہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو۔ (سورہ المومنون رکوع ۴آیت ۵۶)اور إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ یعنی یہ لوگ ہیں۔ تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں رب تمہارا سو میری بندگی کرو (سورة الانبیاء رکوع ششم)۔
عہد عتیق اور تواريخ یہود کی نسبت قرآن میں بہت سی باتیں مندرج ہیں۔ اور ان کا بیان کئی طرح پر ہے قرآن کا مدعا(مقصد) محض یہی نہیں۔ کہ وہ اپنے آپ کو من جانب الله اور کلام الہیٰ ثابت کرے۔ بلکہ پہلی کُتب مقدسہ کی صداقت(سچائی) کا اظہار بھی اس کا مقصد اعلیٰ ہے۔ چنانچہ سورۂ احقاف کے دوسرے رکوع کی دوسری آیت میں یوں مندرج ہے۔ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا یعنی اور اس سے پہلے کتاب موسیٰ کی ہے اور راہ ڈالتی اور رحمت اور یہ کتاب سچا کرنے والی ہے اس کو عربی زبان میں۔
(40) اس آیت کا ٹھیک مطلب بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ غالباً اس کے معنی یہی معلوم ہوتے ہیں کہ اگر خُدا چاہتا ہے توتیرے ایسا کرنے پر تجھ سے رسالت وپیغمبری کو واپس لے لیتا اور اگر یہ الزام ٹھیک نہیں بلکہ محض اتہام ہے تو اپنے دل کو مضبوط کر اور صبر سے برداشت کر۔ تفسیر حسینی کی جلد دوم کے صفحہ ۲۹۵ پر یخم علیٰ قلبک کی یوں تشریح کی جاتی ہے کہ مہر نہد بردل تو اگر افتدا کنی۔ وقرآن برتو فراموش گرداند۔ یا مہر نہد بردل تو بصبر وشیکبائی تا از آزاد وجفائے ایشاں متعزز نہ باشی یا مہر شوق ابدی ومحبت لم یزلی درد دل تو نہد تا التغات بغير دے نہ کنی وازا جابت وابائے خلق فارغ گردی۔ (41) اس جگہ صاحب کتاب سے یہودی لوگ مراد ہیں جو کہ حضرت محمد کی مرسلانہ زندگی کے اس حصّہ میں جب انہوں نے اپنی کتابوں اور تواریخ کی تعریف سنی تو بہت خوش ہوگئے۔ ان باتوں کا بیان آخری زمانہ کی مکی سورتوں میں مندرج ہے۔ راڈویل صاحب کے قرآن کا صفحہ ۴۲۷ ملاحظہ فرمائيے۔
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مکہ میں جن یہودیوں سے آنحضرت کا رابطہ اتحاد قائم تھا۔انہوں نے آپ سے کہا کہ توریت میں خُدا تعالیٰ اکثر رحمن ٰ کے نام سے پکارا گیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں۔کہ آپ اس کو کبھی اس نام سے نہیں پکارتے۔ آپ پر فی الفور وحی نازل ہوئی اور فرمایا۔ قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى یعنی کہہ الله کر پکارو یا رحمنٰ کر جو کہہ کر پکاروگے سو اس کے ہیں سب نام خاصے( سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۲)۔
آخری سورتوں میں لفظ رحمنٰ (42)اس خوف سے کہ مبادا الله والرحمن دو خُدا سمجھے جائیں بالکل استعمال نہیں کیا گیا۔ اس خطرہ کی نسبت قرآن بھی متنبہ(آگاہ) کرتاہے چنانچہ سورہ نحل کی۵۱ آیت میں مندرج ہے۔ وَقَالَ اللّهُ لاَ تَتَّخِذُواْ إِلـهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلهٌ وَاحِدٌ فَإيَّايَ فَارْهَبُونِ یعنی او رکہا الله نے نہ پکڑو معبودو(جس کی عبادت کی جائے،اللہ تعالیٰ) وہ معبود ایک ہی ہے سو مجھ سےڈرو۔
قبیلہ قریش کے لوگوں نے بھی لفظ الرحمنٰ پر اعتراض کیا اور کہنےلگے۔ ما الرحمن السجد لما تا مرنا یعنی کیا ہے رحمنٰ؟ کیا سجدہ کرنے لگیں ہم جس کو تو فرماویگا؟ (سورہ فرقان رکوع پنجم ) جب قریش نے یہ کہا تھا کہ کیا ہم ایک پاگل اور دیوانے شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں؟ تو اس کا جواب یوں دیا گیا تھا کہ نہیں وہ پاگل اور دیوانہ نہیں ہے بلکہ وہ سچائی کے ساتھ آیا ہے۔ اور جو اس سے پہلے بھیجے گئے ان کی باتوں کی تائید (حمايت)کرتا ہے۔ اور ان کے پیغام کو سچ ثابت کرتا ہے۔ مفسرین کےبیان کے مطابق جو اس سے پہلے بھیجے گئے تھے ان سے قدیم زمانہ کےنبی اور پیغمبر مراد ہیں جو آنحضرت سے پہلے الله جلشانہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت ورہبری کے لئے دنیا میں بھیجے گئے۔ چنانچہ سورہ جاشيہ کی ۱۵اور ۱۶ آیت میں یوں مرقوم ہے وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ اور ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا۔یعنی اور ہم نے دی ہے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور پیغمبری۔پھر تجھ کو رکھا ہم نے ایک رستے پر اس کام کے سوتو اسی پر چل۔
بہت سے اس قسم کے جملات پائے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے ۔کہ حضرت محمد صاحب نے زمانہ قدیم کی یہودی تواريخ سے کسی قدر واقفیت حاصل کرلی تھی ۔لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ آنحضرت نے کبھی بائبل شریف کا مطالعہ(43) کیا۔ آنحضرت کے بیانات بائبل شریف سے توکچھ مطابقت نہیں رکھتے۔ پر یہودیوں کے ربیوں کے قصہ کہانیوں اور تذکرة الاوّلیا سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ضرور آپ کی چند یہودیوں سے آشنائی اور دوستی تھی۔ جن سے آپ نے وہ تمام سرمایہ مضامین میں جمع کیا جس کا آپ نے بعد میں قرآنی وحی الہام کے پیرایہ میں ذکر کیا۔ میور صاحب کا بیان ہے۔ کہ قرآن میں سچ اور جھوٹ دونوں ملے ہوئے ہیں۔ یہ وضعی تشریحات وتصورات اور طفلانہ (بچوں کی طرح)بے مغزی سے پُر ہے۔ اس میں بہت سے بناوٹی قصے اور کہانیاں بار بار بیان کی گئی ہیں۔ اور آنحضرت کی یہ متواتر جدوجہد کہ اپنے آپ کو اگلے زمانے کے انبیاء سے مانا ومشابہ ثابت کرے اور آپ کا اپنے زمانہ کی گفتگو اور محاورات کو ان کے منہ میں ڈالنا۔ اور ان کے مفروضہ مخالفین کے جوابات کا بار بار پیش کرنا قرآن کے پڑھنے و۱لے کو مضمحل (کمزور)اور متنفر(نفرت کرنےوالا) کردیتا ہے (44)۔ اس جگہ زیادہ ترقابل ِغور یہ بات ہے کہ آپ کا ان تمام اخبار کو وحی کی زبانی بیان کرنے سے یہ مطلب تھا۔کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ جیسا خُدا کی طرف سے حکم آتا ہے ویسا ہی بیان کرتا ہوں۔چنانچہ سورہ ٔص کے پانچویں رکوع میں یوں مندرج ہے۔ مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَإِن يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ۔ یعنی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی اوپر کی مجلس کی جب آپس میں تکرار کرتے ہیں۔ مجھ کو تو یہی حکم آتا ہے کہ اور نہیں میں ڈرسنانے والا ہوں کھول کر۔
(42) لفظ الرحمٰن کے استعمال سے ان سورتوں کے وقت ِنزول کا بھی کس قدر پتہ ملتا ہے۔ (43)س میں کلام نہیں کہ حضرت محمد نے یہودی یا عیسائی دین کی کوئی کتاب خود نہیں پڑھی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جس قدر عہد عتیق کے قصص درج ہیں وہ سچے اور اصلی ہونے کی نسبت بناوٹی کہانیوں اور افسانوں سے زیادہ تر مشابہت رکھتے ہیں اور عہد جدید کی نسبت جس قدر بیانات ہیں وہ سب کے سب پرانی خیالی کہانیوں کی مانند ہیں اور غیر معتبر اناجیل کے بیان سے ملتے جلتے ہیں۔ نولدیکی صاحب کی کتاب گشختی دس قرآن کا چھٹا صفحہ ملا حظہ فرمائیے سورہ اعراف کی ۱۵۶و۱۵۸ آیت میں النبی الامی یعنی ان پڑھ نبی سے بھی متذکرہ بالا امور کی تائید ہوتی ہے۔ سورہ بقرہ کی ۷۳ ویں آیت میں ومنہم امیون یعنی وہ جو یہودیوں میں سے ان پڑھ ہیں مندرج ہے اور اس سے وہ یہودی مراد ہیں جو توریت شریف سے ناواقف ہیں اور اس سے صاف ثابت ہوتا ہےکہ یہ وہ لوگ تھے جن کو کُتب مقدسہ کا کچھ علم نہ تھا۔ اسی طرح حضرت محمد کے حق میں جو لفظ الامی استعمال کیا گیا ہے اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آنحضرت کو بائبل شریف یعنی قدیمی کُتب مقدسہ کا کچھ علم نہ تھا۔ اہل اسلام کے بیان کے مطابق ہر گز ہرگز اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ چونکہ آنحضرت ایسے لکھے پڑھے اور خواندہ نہ تھے کہ قرآن جیسی کتاب بنالیتے اس لئے قرآن کلام الہیٰ ہے سیل صاحب کی کتاب عقیدہ اسلام کا تیراہواں صفحہ مطالعہ کیجئے۔الامی سے یہ بات مطلق ثابت نہیں ہوتی کہ آنحضرت پڑھنے سےعاجز تھے یا ایک ان پڑھ اور جاہل آدمی تھے۔ دیکھو صفحہ ۱۱ نولدیکی صاحب کا گشختی دس قرآن۔ علاوہ اس کے گیگر صاحب کی کتاب یہودیت واسلام کے بیسویں صفحہ پر ایک نہایت دلچسپ حاشیہ کا بھی مطالعہ کیجئے۔ عہد عتیق سے قرآن میں صرف ۳۷ ویں زبور کی ۲۴ویں آیت اقتباس کی گئی ہے چنانچہ سورة الانبیاء کے ساتویں رکوع میں مندرج ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے بعد کہ آخر زمین پر مالک ہونگے میرے نیک بندے۔
گمان غالب ہے کہ آپ نے یہ باتیں یہودیوں سے سیکھیں ہونگی۔ لیکن ان کو نبی الله ہونے کی دلیل گردانتے ہیں۔ نیز آنحضرت کا دعویٰ ہے کہ حضرت یوسف کا قصہ بھی آپ کو بذریعہ وحی الہیٰ معلوم ہوا۔ چنانچہ سورہ ٔیوسف کی تیسری آیت میں مرقوم ہے۔نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَـذَا الْقُرْآنَ۔ یعنی ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہتر بیان اس واسطے کہ بھیجا ہم نے تیری طرف یہ قرآن۔ اس کے بعد حضرت یوسف کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ اور وہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہودیوں کے تذکرة الاوّلیا میں پایا جاتا ہے ۔ پر سورہ یوسف کے گیارہویں رکوع اور ۱۱۱آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ حضرت محمد کو خود خُدا نے وحی کے وسیلہ سے یعنی فرشتہ جبرائیل کی معرفت سکھلایا (45)چنانچہ لکھاہے۔ ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ۔یعنی یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تجھکو۔
باوجود ان تمام الہیٰ دعووں اور اظہار وحی کے اہل مکہ نے آپ کا اعتبار نہ کیا اور یوں کہنے لگے انما یعلمہ بشر یعنی اس کو تو سکھاتا ہے آدمی۔ آنحضرت اس اتہام (الزام)کا جواب اسی آیت میں یوں دیتے ہیں۔ کہ جس شخص کی نسبت تم کو شک ہے کہ وہ مجھ کو سکھاتا ہے وہ تو اجنبی ہے عرب (46) نہیں یعنی اس کی زبان عربی نہیں ہے اور قرآن صاف عربی زبان میں ہے۔
حضرت محمد کے مندرجہ بالا جواب کی اس طرح بآسانی تردید(رد کرنا) ہوسکتی ہے۔ کہ وہ شخص آپ کو مضامین بتاتا تھا اور آپ ان کو عربی زبان میں پیش کرتے اور سناتے تھے۔ حضرت محمد کو باربار اس قسم کے الزامات کی تردید کرنی پڑی تھی۔ چنانچہ سورہ فرقان کی پانچویں آیت میں یہ الزام پایا جاتا ہے۔وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ۔ یعنی او رکہنے لگے جو منکر ہیں اور کچھ نہیں مگر یہ جھوٹ باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے۔
(44) لائف آف محمد مصنفہ میور صاحب دوسری جلد صفحہ نمبر ۱۸۵۔ (45) سورہ ص کی ۷۰آیت میں پیدائش مخلوقات کے باب میں بھی ایسا بیان پایا جاتا ہے۔ (46) اعجمی کا ترجمہ مفسر حسین کے نزدیک فصاحت سے خالی ہے اور وہ بیان کرتا ہے کہ حضر ت محمد کی تقریر فصاحت وبلاغت سے پر تھی پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ آنحضرت نے ایک ایسے شخص سے قرآن سیکھا ہو جو کہ فصیح وبلیغ نہ تھا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اعجمی سے عبرانی مراد ہے۔ ویری صاحب کی تفسیر قرآن کی جلد سوم صفحہ ۴۵ پر اس آیت پر ایک بہت لمبا چوڑا نوٹ قابل ملاحظہ ہے ۱۱۹و۱۲۰اور ۱۲۵ آیات صاف مدنی ہیں اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورہ نحل مکی ومدنجی ملی جلی ہے۔
قبیلہ قریش کے لوگ اپنے معتقدات پر جمے رہے اور جن قصوں کی بابت آنحضرت کا یہ دعویٰ تھا کہ جبرائيل کی معرفت آپ کو خُدا نے سکھلائے وہ ان سب کو یہودی تواریخ سے منسوب کرتے رہے۔ چنانچہ سورہ فرقان کی چھٹی آیت میں مرقوم ہے ۔وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْاوّلينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا۔یعنی نقلیں ہیں اگلوں کی کہ لکھ لیا ہے ان کو سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس پاس صبح وشام۔
اب قبیلہ قریش کے لوگوں نے ایک نئی روش اختیار کی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے حضرت محمد کے خاندان کو برادری سے خارج کردیا اور ان سے ہر طر ح کی برادرانہ راہ رسم کو منقطع(ختم ) اوربند کردیا اور کچھ عرصہ تک حضر ت محمد اپنے تمام خاندان سمیت شہر مکہ کے ایک حصّہ میں بالکل تنہااور علیحدہ رہے پر اس کے بعد چند قریشی آپ پر ترس کھانے اور نرم دل ہونے لگے۔ عین اسی موقع پر آنحضرت کے حامی وحافظ عم(چچا) مشفق ابو طالب وفات پاگئے اور ان سے پانچ ہفتے بعد آپ کی مہربانی اور پیاری زوجہ خديجہ بھی اس دارناپائدا (فانی دُنيا)سے کوچ کرگئیں۔اور ان حادثات کے باعث اب معاملہ نہایت نازک ہوگیا۔
اب حضرت محمد نہایت غمزدہ بے یار و غمخوار اور ازحد نا امیدی کی حالت میں پڑ کر اس شش وپنج(سوچ بچار) میں تھے۔ کہ اہالیان ِ طائف مجھے اس حالت میں کہ اہل مکہ رد کرچکے ہیں قبول کرینگے یا نہیں۔ طائف مکہ سے مشرق کی طرف قریبا ً ستر میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ آنحضرت اپنے وفا دار غلام زید کے ساتھ جو آپکا متنبیٰ (لے پالک بیتا) بھی تھا طائف میں وارد ہوئے۔ اور روسائے شہر سے ملاقات کی اور اپنے مدعا (مقصد)سے آگاہ کیا پر انہوں نے آ پ کوقبول نہ کیا اور آپ کی تعلیم کے شنوا (سُننے والے)نہ ہوئے۔دس دن کے بعد آنحضرت پر پتھراؤ کیا گیا۔ اور آپ کو نہایت زخمی اور خستہ خاطر ہوکر اس شہر سے بھاگنا پڑا۔ جب آپ مکہ کو واپس آتے وقت نصف راہ طے کرچکے تو وادی نخلہ میں آپ نے قیام کیا۔اور اپنے پیغام کی تردید اور خستہ حالی کے باعث آپ پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ اپنے توہمات وخیالات میں غلطان وپیچان ہوکر آپ نے جنوں کی ایک جماعت کو اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھا۔ اور سورہ جن نازل ہوئی ۔ (47)(قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا )
ترجمہ تو کہہ کہ مجھ کو حکم آیا ہے ۔کہ سن گئے کتنے لوگ جنوں کے۔ پھر کہا ہم نے سنا ہے کہ ایک قرآن عجیب۔ سمجھاتا ہے نیک راہ سو ہم اس پر یقین لائے۔ او ریہ کہ جس وقت کھڑا ہو الله کا بندہ اس کو پکارتا تو لوگ ہونے لگتے ہیں اس پر ٹھٹھہ۔
جب حضرت محمد کے پیغام کو جنات نے اس قدر سر گرمی سے قبول کیا۔ تو آپ کو بہت تسکین(تسلی) ہوئی۔ کیونکہ انسانوں کی حقارت و بے پروائی سے آپ نہایت آزر دہ دل(ناراض دل) اور پژمردہ خاطر (مايوس)تھے۔ اس واقعہ کا بیان سورہ احقاف کے چوتھے رکوع میں یوں مندرج ہے۔ یعنی اور جب متوجہ کردئے ہم نے تیری طرف کئی لوگ جنوں میں سے سننے لگے قرآن باوجود اس سب کے آپ کا طائف میں جانا بے فائدہ تھا۔ حضرت محمد نے بہت کوشش کی اور بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے۔ لیکن آپ کی تمام ترکوششوں کا نتیجہ سوائے ناکامیابی کے اور کچھ نہ ہوا۔ اس خیال کے مطابق میور صاحب فرماتے ہیں۔ کہ حضرت محمد کا طائف سے مکہ کی طرف جوسفر تھا وہ شجاعت وبہادری سے خالی نہ تھا۔ آنحضرت کو اپنے ہی خاندان کے لوگوں نے رد کردیا تھا۔ خاندان سے خارج کئے گئے سب آپ کو حقیر(بے قدر) جانتے تھے۔ لیکن آپ نہایت بہادری کے ساتھ خُدا کی بزرگی وجلال کے لئے جس طرح حضرت یونس نینوہ کے بُت پرست لوگوں کی فلاح وبہتری کے لئے ہمہ تن(بالکل) ساعی وکوشاں(کوشش کرنے والا) تھے۔ اسی طرح آپ اکیلے اپنے ہم وطنوں کو عذاب الہیٰ سے ڈراتے اپنی رسالت اور توبہ واستغفار کی منادی کرتے رہے۔ اور طرح طرح سے ثابت کرتے رہے کہ میں مرسل من الله (اللہ کی طرف سے بھيجا گيا)ہوں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت کے دل میں اس امر کا نہایت ہی پختہ یقین تھا۔ کہ میں خُدا کی طرف سے ہوں۔ جب آپ طائف سے مکہ میں واپس آئے ۔تو قریش کو کمافی السباق سخت مخالف پایا۔ اب یہ بات اظہر من المشس (سورج کی طرح صاف و عياں) تھی کہ فریقین میں سے ایک ضرور مغلوب ہوجائیگا۔ آنحضرت کے خاطر خطیر(کثير خيال) میں رفتہ رفتہ مکہ سے ہجرت(48) کر جانے کا خیال موجزن ہونے لگا۔کیونکہ مکہ میں آپ بالکل ناکامیاب رہے۔ آنحضرت حسب ونسب میں اعلیٰ تھے اور محافظان ِ کعبہ سے آپ کا رابطہ اتحاد قائم تھا۔ آپ میں صبروشجاعت (بہادری) اور فصاحت وبلاغت(خوش کلامی و حسب موقع گفتگو) وغیرہ بہت سی ذاتی خوبیاں تھیں لیکن باوجود اس سب کے پھر بھی بہت تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے۔
(47) راڈویل صاحب کے قرآن کے صفحہ ۱۵۷ کا حاشیہ نمبر ۳ ملاحظہ فرمائے۔ اس سفر کا مفصل حال دریافت کرنےکے لئے لائف آف محمد جلد دوم مصنفہ میور صاحب کو ۲۰۰ سے ۲۰۷ صفحہ تک مطالعہ کیجئے۔
مکہ میں آپ کو کسی طرح سے ذرا بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اور اب آپ کے لئے سوائے اس کے کسی اور جگہ جاکر قسمت آزمائی کریں اور کوئی امید باقی نہ تھی۔
حضرت محمد شہر یثرب سے بخوبی واقف ہی تھے۔ آپ کے دادا اور پڑدادا یثرب کے باشندے تھے اور آپ کے والد صاحب کی قبر اسی شہر میں تھی۔
اہالیان مکہ ومدینہ کے درمیان بہت کچھ حریفانہ خیالات نے جڑ پکڑی ہوئی تھی جس شخص کی مکہ میں تحقیر وبے عزتی کی جاتی تھی ممکن نہ تھا۔کہ مدینہ میں بھی وہی حالت ہو۔ علاوہ اس کے یثرب کی دو بڑی زبردست قوموں کے درمیان سو سال سے زیادہ عرصہ سے جانی دشمنی چلی آتی تھی اور اب وہ وقت آگیا تھاکہ ان کا کوئی بادشاہ یا حکم مقرر کرکے ان تمام جدائیوں اور تفرقات کا خاتمہ کیا جائے۔ ماسوائے اس کے وہاں یہودیوں کی بھی ایک بڑی بھاری بستی تھی۔جس سے دینی اصلاح کے باب میں ایک باب وانظر آتا تھا۔ ساکنان مکہ روحوں کے بالکل منکر تھے اور آنحضرت کی تعلیم کے روحانی حصّہ کو قبول کرنا ان کے لئے از بس مشکل ودشوار تھا۔ پر یثرب کے باشندوں کی یہ حالت(49) نہ تھی۔ مدت تک یہودیوں کےساتھ رہنے سہنے اور راہ رسم رکھنے کے باعث وہ لوگ خُدا کی وحدانیت اور پیغمبروں کی معرفت وحی ومکاشفات اور عالم آخرت وغیرہ مضامین سے کسی قدر واقف ہوگئے تھے۔ یثرب سے اسلا م نے بہت کچھ حاصل کیا اور اگر حضرت محمد یثرب میں نہ چلے جاتے تو اہل مکہ سے مردو د(رد کيا ہوا) ہوکر کہیں ایک سرگرم مست مولا کی طرح زندگی بسر کرتے اور بس۔
(48)سورہ عنکبوت کے چھٹے رکوع میں اشارة اس بات کا ذکر پایا جاتا ہے چنانچہ لکھا ہے َا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ یعنی اے میرے بندو جو یقین لائے ہو میری زمین کشادہ ہے سو مجھ ہی کو بندگی کرو۔ راڈویل صاحب اس کی یوں تفسیر کرتے ہیں کہ اگر تم اپنے وطن سے نکالے جاؤ تو تم کو ضرور زمین میں ایسی پناہ کی جگہ مل سکتی ہے جہاں بلا خوف اکیلے سچے خُدا کی عبادت کرسکو۔ یہ آیت بالکل صاف طور سے ایام مکہ کے آخری حصّہ کی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت محمد کے اس قسم کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی مکہ سے ہجرت بہت قریب الوقوع تھی۔ راڈویل صاحب کے قرآن کا ۳۲۹ واں صفحہ مطالعہ کیجئے۔ مفسرین ارضی واسعتہ کی تفسیر میں کہتے ہیں زمین کشادہ است ہجرت کنیدا موضع خوف بمنزل امن (تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۱۸۳واں )بعض کے نزدیک اس میں خاص مدینہ کی طرف اشارہ ہے (تفسیر ابن عباس صفحہ ۴۶۱واں ) یوں بھی لکھا ہے کہ مکہ کے مصیبت زدہ اور مظلوم مسلمانوں کی تسلی وتشفی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی تھی اور کفارہ سے لڑنے کا حکم ابھی صادر نہیں ہواتھا بلکہ یہ حکم ملا تھا کہ بھاگ کر اپنی جان بچاویں ( خلاصتہ التفاسیر جلد سوم صفحہ ۴۷۱واں ) ان تمام متذکرہ بالا باتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت حضرت محمد اپنے مومنین کو مکہ سے ہجرت کرنے کے لئے تیار کررہے تھے۔ (49) اب حضرت محمد کو چند ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو مکہ میں آپ کو کبھی پیش نہ آئی تھیں قریش کی لاعلمی اور جہالت کے باعث آنحضرت قرآن کو جس صورت میں چاہتے پیش کرسکتے تھے چنانچہ جب آپ نے حضرت نوح اور ابرہیم کی بابت یونہی بے ہودہ اور لغو قصے بیان کئے جوکہ بعض باتوں میں قدیمی کُتب مقدسہ کے قصص کے مشابہ معلوم ہوتے تھے اور جن کی نسبت آپ نے بیا ن کیاکہ آپ کو یہ قصے خُدا نے حضرت جبرائيل کی معرفت سکھائے ہیں تو اہل مکہ اپنی جہالت ولاعلمی کے باعث ان کی تکذیب نہیں کرسکتے تھے لیکن مدینہ میں وہی لوگ اور وہی کتابیں آپ کی مخالفت کرنے لگیں جن کو آپ مکہ میں اپنی رسالت کی صداقت کے ثبوت میں پیش کیاکرتے تھے Osborn’s Islam Under the Arab صفحہ ۴۳
پس اگر یثرب کو اسلام کا مولد(پيدا ہونے کی جگہ)اور عرب کی ملکی تدابیر وفتوحات کا مرکز کہیں تو بالکل بجا اور درست ہے۔ چنانچہ اس کو مدینہ النبی یعنی نبی کا شہر کہتے ہیں۔ اور یہ نام اس پر بالکل صادق (سچا)آتا ہے۔ اس شہر سے جن لوگوں نے آنحضرت کو قبول کیا اور آپ پر ایمان لائے۔ ان کو انصار یعنی حامیوں اور مددگار وں کے خطاب سےممتاز کیا گیا۔ اہل مدینہ کے خیالات اور ان کے موجودہ عام حالات سے معلوم ہوتا تھا اور امید ہوسکتی تھی کہ آنحضرت کو مایوسی اور شکستہ دلی سے نجات حاصل ہوگی۔ چونکہ قریش کی متواتر مخالفت اور اپنی تمام کوششوں کے بے اثر اور لاحاصل ثابت ہونے سے آنحضرت نہایت رنجیدہ دل اور کبیدہ خاطر (رنجيدہ)تھے۔ اس لئے کچھ تعجب کی بات نہ تھی کہ ہجرت کے خیالات آپ کے دل میں جوش زن ہونے لگے۔ چنانچہ سورہ انعام (50) کے تیرھویں رکوع میں مرقوم ہے۔ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ
یعنی تو چل اس پر جو حکم آوے تجھ کو تیرے رب سے کسی کی بندگی نہیں سوائے اس کے اور جانے دے شرک کرنے والوں کو۔ مذکورہ بالا آیت کے آخری الفاظ آنحضرت کی مکہ سے ہجرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چنانچہ آنجناب کے خیالات مطابق اس امر یعنی جواز ہجرت کے بارہ میں وحی نازل ہوئی۔ ۶۲۰ھ میں عین اس وقت جبکہ عرب کے بُت پرستوں کے لئے کعبہ کے سالانہ حج کا موقعہ تھا آنحضرت نے چند مدنی مسافروں کو دیکھا اور ان سے سوال کیاکہ تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہم خررجی ہیں اورمدینہ میں ہمارے درمیان باہمی حسدو کینہ(عداوت) کی آگ مشتعل ہے ۔ شاید ہمارے لوگوں کو تیرے وسیلہ سے خُدا بلائے۔ جس ایمان کے ہم خود معتقد ہیں۔ اس کی طرف ہم ان کو مدعو کرینگے۔ اور خُداان کو تیری طرف کردے اور وہ تجھ پر ایمان لے آئیں۔ تو ضرور تو سب پر غالب ہوگا۔ پھر آپ نے ان سے ایک اور سوال کیا جس کے جواب میں انہو ں نے کہا۔کہ ہم یہودیوں سے رابطہ اتحاد رکھتے ہیں۔ اور ہماری ان سے دوستی ہے۔ اس پر آنحضرت نے اسلام کی تعلیم پیش کی اور قرآن (51)کے چند مقامات انہیں پڑھ کر سنائے۔ اب یہ بات بخوبی واضح ہوجائیگی۔ کہ یہ مدنی لوگ جن سے آنحضرت کی مکہ میں ملاقات ہوئی تھی ان میں سے بعض یہودی (52) بھی تھے۔ چنانچہ سورہ یونس جو کہ آخری زمانہ کی مکی سورة ہے اس کے چوتھے رکوع میں مندرج ہے۔< بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ۔یعنی بلکہ جھٹلاتے رہے ان سے اگلے سودیکھ لے کیسا ہوا آخر گنہگاروں کا۔ پھر ایک اور مکی سورة یعنی سورہ احقاف کی ۹ ويں آیت میں یو ں لکھا ہے۔ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔یعنی اگر یہ ہو الله کے یہاں سے اور تم نے اسکو نہیں مانا اور گواہی دے چکا ایک گواہ (53)بنی اسرائیل کا ایک ایسی کتاب کی پھر وہ یقین لایا اور تم نے غرور کیا اور بے شک الله راہ نہیں دیتا گنہگاروں کو۔
(50) اس سورت میں چند آیات مدنی ہیں کیونکہ ۹۱ویں آیت میں یہودیوں پر کتمان کلام الله کا الزام لگایا گیا ہے اور اس قسم کے الزام اہل مکہ سے کچھ علاقہ نہ رکھتے تھے بلکہ ساکنان مدینہ پر عائد ہوتے تھے ۹۲ویں آیت میں قرآن کی نسبت یوں مرقوم ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے مبارک کتاب ہے اور جو اس سے پیشتر نازل ہوئیں ان کی مصدق ہے اور یہ اسلئے ہے کہ تو شہر ام القریٰ اور اس کے گرد ونواح کے شہروں کے باشندوں کو ڈرسناوے ۔ سیل صاحب فرماتے ہیں کہ ام القریٰ کے معنی شہر کی ماں ہے اس سے عرب کا دارالسطنت یعنی شہر مکہ مراد ہے۔ سیل صاحب نے چند مفسرین کے بیان کو اپنے اس بیان کے ثبوت میں پیش کیا ہے پر قرآن کی عبارت سے زیادہ تر مدینہ کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محمد نے طائف کی ہجرت کے ایام میں مکہ اور اس کے گردونواح کے لوگوں کو وعظ کرنا پسند نہ کیا عموماً جو سورتیں بعد میں نازل ہوئیں ان کی بہت سی آیات پہلی سورتوں میں داخل کردی گئیں ۔ ویری صاحب کی تفسیر قرآن جلد دوم صفحہ ۸۲ اور لائف آف محمد مصنف میور صاحب کی جلد دوم کا صفحہ نمبر ۲۶۸ مطالعہ کیجئے۔ (51) دیکھئے کیلی صاحب کی کتاب محمدو محمدیت صفحہ نمبر ۱۰۸ (52) اس لئے بعض محققین کے نزدیک یہ آیت بلکہ یہ ساری سورت ہی مدنی ہے۔
اب اتفاق یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے جو کہ اپنے مسیح کی آمد کےمنتظر تھے۔ فرقہ خررجیہ کے ہاتھ سے تکلیف اٹھائی تو انہوں نے کہاکہ اب وہ وقت بہت قريب آگیا ہے۔جبکہ خُدا کوئی نبی برپا کریگا اور ہم اس کی پیروی(پيچھے چلنا) کرکے اس کی مدد سے ان کو نیست(برباد) کرینگے۔ جب حضرت محمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ساکنان مدینہ کو خیال ہواکہ شاید وہی نبی ہے۔ جس کی آمد کے یہودی منتظر ہیں چنانچہ انہوں نے مناسب جانا کہ آنحضرت کو اپنا طرفدار بنالیں۔ پس یہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور آپ کو نبی تسلیم کیا۔ حضرت محمد نے ان نومریدوں سے درخواست کی کہ مدینہ میں حمایت ومحافظت کریں۔ انہوں نے عرض کی کہ چونکہ ہمارے لوگوں میں بہت نا اتفاقی اور نا موافقت ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم مدینہ کو جائیں اور لوگوں کو اسلام کی طرف مدعو کریں۔ اور اگر خُدا ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرے۔ اور وہ ایمان لائیں تو اگلے سال حج کے موقعہ پر جو کچھ نتیجہ ہوگا عرض کرینگے۔ جلال الدین السیوطی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔کہ ان نو مریدوں کو آپ نے سورہ یوسف(54) سنائی۔ ساکنان ِ مدینہ یہودیوں سے ملنے جلنے کے باعث حضرت یوسف کے قصہ سے کسی قدر واقف تھے۔ لیکن حضرت محمد نے ان کو اب یہ قصہ اس غرض سے مفصل (تفصيل کے ساتھ)طور پر سنایا کہ ان پر ثابت کرے کہ زمانہ گذشتہ کے قصص وواقعات آپ کو خُدا نے سکھلائے ہیں۔ یہ تمام قصہ محض موسوی بیان کی ایک تمسخر انگیز نقل معلوم ہوتی ہے۔ اور ایسا نظر آتا ہے کہ آنحضرت نے یہ تمام کہانی ایسے لوگوں سے سنی تھی جن کو اس کا ٹھیک علم نہ تھا بلکہ کمزور وغیر معتبر روائتوں کے مطابق بیان کرتے تھے۔ غرض یہ سال ان نو مریدوں کی چھوٹی سی جماعت نے مدینہ میں بڑے استقلال وایمان کے ساتھ بسر کیا۔ دوسرے سال جب پھر حج کا وقت آیا تو مدینہ کے حاجیوں میں ۱۲ انصار تھے۔ انہوں نے بھی آنحضرت سے شرف ملاقات حاصل کیا اور آنحضرت کی تعلیم کوماننے اور فرمانبرداری کے باب میں انہوں نے تسمیہ(بسم ا للہ لرحمٰن الرحيم کہنا) اقرار کیا۔کہ ہم سوائے واحد خُدا کے اور کسی کی عبادت نہیں کرینگے۔
(53) ان امور کے باب میں آیا یہ ہےکہ گواہ اور آنحضرت کے دیگر یہودی حامی آپ کے مقلدوں اور مومنین میں سے تھے یا وہ غلام تھے جو مکہ میں رہتے تھے یا ساکنان مدینہ میں سے یہودی زائد تھے جن کے ساتھ آنحضرت نے رابطہ اتحاد قائم کرر کھا تھا کچھ ٹھیک پتہ نہیں ملتا۔ اور خیال ووہم کے سوا کوئی بات کہی نہیں جاسکتی Muir’s Life of Muhammadجلد دوم صفحہ۱۸۵ معالم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاید ایک یہودی عالم عبدالله بن سلام تھا جو کہ آنحضرت پر مدینہ میں ایمان لایا۔ کبیر کا بیان ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ یہ شاہد بھی مدینہ ہی کا یہودی ہو۔ دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد چہارم صفحہ نمبر ۲۰۱۔ (54) تمام قرآن میں صرف یہی سورة ایسی خیال کی جاتی ہے جس میں شروع سے آخر تک ایک ہی مضمون ہو۔ (55) Muir’s Life Of Muhammad جلد دوم صفحہ ۲۱۶
چوری، زناکاری اور بچہ کشی سے ہمیشہ دست بردار رہینگے۔ ہر حالت میں بد گوئی واتہام (الزام)سے پر ہیز کرینگے ۔اور کسی نیک کام میں رسول خُدا کے نا فرمانبردار نہ ہونگے۔ (55)اس عہد کو عقبیٰ کا عہداوّل کہتے ہیں۔ اور چونکہ اس میں آنحضرت کی حمایت ومحافظت کا کوئی وعدہ نہیں پایا جاتا۔ اس لئے اس عہد کو عہد النسا بھی کہتے ہیں ۔کیونکہ عورتوں سے ہمیشہ صرف یہ ہی عہد لیا جاتا تھا۔اب یہ تمام نومرید نہایت سرگرمی اور جوش سے بھرے ہوئے مدینہ کو واپس گئے۔ اور ان کے ساتھ اس قدر اور لوگ آملے کہ انہیں مکہ سے ایک خاص معلم منگوانا پڑا۔ چنانچہ آنحضرت نے مسعب کو بھیجا اور مدینہ میں اسلام کی بنیاد مستحکم ہوگئی۔ اس سال میں آنحضرت کو بہت کچھ صبر وانتظار سے کا م لینا پڑا اور مکہ میں ہر طرح کی ترقی سے آپ ہاتھ دھو بیٹھے اور بالکل مایوس ہوگئے۔ اب آپ کی تمام تر امیدیں انہیں لوگوں پر تھیں جو ساکنان مدینہ میں سے آپ کے نئے مریدبنے تھے۔ لہذا حضرت محمد نے اب مصمم(پکا) ارادہ کرلیاکہ قریش کو اپنی حالت میں مطلق العنان چھوڑ کر ان سے بالکل علیحدہ ہوجائے۔چنانچہ سورہ انعام کے تیرھویں رکوع میں صاف حکم بھی آگیا۔اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَوَلَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكُواْ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍوَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔یعنی تو چل اس پرجو حکم آوے تجھ کو تیرے رب سے کسی کی بندگی نہیں سوائے اس کے اور جانے دے شریک والوں کو اور اگر الله چاہتا تو شریک نہ کرتے اور تجھ کو ہم نے نہیں کیا ان کا نگہبان اور تجھ پر نہیں ان کا حوالہ اور تم لوگ برانہ کہو جن کو وہ پکارتے ہیں الله کے سوا کہ وہ برا کہہ بیٹھیں الله کو بے ادبی سے نہ سمجھ کر۔
اب اگرچہ آنحضرت کو سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ تو بھی اب آپ کو کامل (مکمل)یقین تھا اور ذرا بھی شک نہ تھا کہ آخر کار مکہ کے ضدی اور ہٹی (ضدی)لوگ مغلوب ہوجائینگے۔ چنانچہ سورہ ابراہیم کے تیسرے رکوع میں مندرج ہے۔وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّـكُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَوَلَنُسْكِنَنَّـكُمُ الأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِوَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ۔یعنی اور کہا منکروں نے اپنے رسولوں کو ہم نکال دینگے تم کو اپنی زمین سے یا پھر آؤہمارے دین میں۔ تب حکم بھیجا ان کو ان کے رب نے ہم کھپادینگے ان ظالموں کو اور بسا دینگے تم کو اس زمین میں ان کے پیچھے یہ ملتا ہے اس کو جوڈر کھڑا ہونے سے میرے سامنے اور ڈرا میرے عذاب کے وعدہ سے۔ اور فیصلہ لگے مانگنے اور نا مراد ہو جو سرکش تھا ضدکرنے والا۔
اس یاس وخستگی (مايوسی و ناداری)کی حالت میں جبکہ حضرت محمد تیرہ سال تک متواتر کوشش کرچکے اور سوائے ناکامیابی وجلاوطنی کے اور کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تو متخیلہ (سوچنے کی قوت)نے خواب کی صورت میں آنحضرت کے سامنے ایک نقشہ یوں پیش کیا کہ گویا آپ شہر یروشلم کی ہیکل میں ہیں اور وہاں پر آپ نے بزرگوں نبیوں اور فرشتگان کو دیکھا اور پھر عرش (آسمان)معلیٰ پر خُدا ئے تعالیٰ کے حضور میں پہنچے۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی ۱آیت اور ۶۲ ويں آیت میں یوں مرقوم ہے۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ۔ یعنی پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو رات ہی رات ادب والی مسجد سے پر لی مسجد تک۔جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھاویں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔ اور جب کہہ دیا ہم نے تجھ سے کہ تیرے رب نے گھیر لیا ہے لوگوں کو اور وہ دکھاوا جو تجھ کو دکھایا ہم نے۔
متذکرہ بالا واقعہ سے شاعروں اور راویوں کو آنحضرت کی معراجی دیدشيند (جان پہچان) (56)کے پرجوش بیان کے باب میں نہایت وسیع میدانِ سخن مل گیا ہے۔ ان شاعروں اور روایوں نے جو آنحضرت کی حد سے زیادہ تعریفیں کی ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ نکالناکہ وہ آنحضرت پر سچ مچ دل سے ایمان لائے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ہندوستان میں زمانہ حال کے باہوش اور فہیم علما(عقلمند علما) ان بیانات کو وہمی اور خیالی باتیں سمجھتے ہیں۔ پر متعصب(بے جا حمایت کرنے والے) اور پکے مسلمان اس قسم کے خیالات کو بالکل قابل ِنفرت(57) جانتے ہیں۔
(56) ان عجائبات کی تشریح کے باب میں کیلی صاحب کی کتاب مسمی بہ محمدومحمدیت کے ۳۰۴ سے ۳۱۴ صفحہ تک مطالعہ کیجئے علاوہ اس کے Devteh’s Literary Remains کے ۹۹ سے ۱۱۲ صفحہ تک ملاحظہ کیجئے۔ (57) معراج کے متعلق مسلمانوں کو صرف یہ ماننا چاہئے کہ حضرت محمد نے ایک رویا یا عالم خواب میں یہ دیکھا کہ اس کو مکہ سے یروشلم میں پہنچایا گیا اور وہاں اس نے خُدا تعالیٰ کے بہت سے عجائبات دیکھے (سید احمد کا چھٹہ لیکچر اور اس کا ۳۴ صفحہ ) پر اہل سنت کہتے ہیں کہ جو کوئی اس بات کو سچ نہیں مانتا کہ حضرت محمد سچ مچ جسمانی طور پر یروشلم میں گئے کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے صاف اور صریح بیان کا منکر ہے۔ جو کوئی آنحضرت کے یروشلم سے آگے آسمان پر جانے اور ان تمام بیانات کو جو احادیث میں مندرج ہیں سچ نہیں جانتا وہ اگرچہ مسلمان کہلا سکتا ہے پر وہ فاسق یعنی گنہگار ہے۔ علمائے اسلام کی تفاسیر دیکھئے اور سیل صاحب کی کتاب Faith of Islam کا صفحہ نمبر ۲۲۰ مطالعہ فرمائیے۔
جب پھر دوسرے سال حج کا وقت آیا تو مسعب نے مکہ پہنچ کر اپنی مدینہ کی کامیابی کا مفصل حال آنحصرت سے بیان کیا۔ اس حج کی آخری رات کو حضرت محمد نے اپنے مدنی مریدوں سے ملاقات کی۔ ان میں ۷۳ مرد اور عورتیں تھیں۔آنحضرت نے ایک تقریر کی اور ان سے یہ درخواست کی کہ آپ کی حمایت وحفاظت کرنے کا عہد کریں۔چنانچہ انہوں نے آنحضرت کی درخواست کے مطابق عہد کیا۔ یہ عہد عقبیٰ کے عہد ثانی کے نام سے نامزد ہوا۔ اب ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں کہ عہدو پیمان کیسا تھا اور اس میں کونسی باتیں شامل تھیں۔ حضرت محمد نے کہا کہ تم اس بات کی قسم کھاکر قبول کرو کہ تم ہر امر میں میری ٹھیک ایسی ہی حمایت وحفاظت کروگے۔ جیسی کہ اپنے زن وفرزند کی کرتے ہو۔ ان میں سے ایک سردار نے کہاکہ بے شک ہم اسی خُدا کی قسم کھاکر جس نے تجھے سچ وبرحق رسول بھیجا ہے عہد کرتے ہیں۔ کہ ہم اپنے جسم وجان کے برابر تیری حفاظت کرینگے یا رسول الله ہم کو قبول کیجئے۔ خُدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ہم جنگی قوم ہیں۔اور شجاعت وبہادری ہم نے اپنے جنگجو اور بہادر آباؤ اجداد سے میراث میں پائی ہے۔پھر ایک اور نے کہا کہ یا رسول الله ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کئی طرح کے تعلقات اور روابط قائم ہیں۔ اور اب ہم کو یہ تمام تعلقات قطع(کاٹنا۔ختم کرنا) کرنے پڑینگے۔سو اگر ہم ایسا ہی کریں اور خُدا تجھ کو فتح نصیب کرے۔تو کیا تو ہم کو یہاں اکیلا چھوڑ کر پھر اپنے وطن مالوف (مکہ ) کو چلائیگا ؟ آنحضرت نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا خون میرا خون ہے۔اور جس قدر تم کو تکلیف ہوگی اسی قدر مجھ کو بھی ہوگی۔ تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں۔جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جس کے ساتھ تمہاری دوستی ہے میں اس کا دوست ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ آنحضرت کے دل میں اس وقت امور دینی اور تدابیر ملکی کا امتزاج بہت ترقی پر تھا ۔اور آپ کے دل میں جو مدت سے یہ خواہش تھی۔ کہ اہل عرب کو تدابیر ملکی میں متفق اور یک جان کردے اب پوری ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ یہ عہد وپیمان زیادہ تر ملکی انتظام اور امور سیاست سے علاقہ(تعلق) رکھتا تھا۔ اس سے حفاظت اور عقوبت (دکھ) دونوں باتیں حسب موقعہ ملحوظ (خيال کيا گيا)تھیں۔ اور بنیاد یا اس کی ضروری شرائط یہ تھیں کہ بُت پرستی سے دست بردار ہوں اسلام کو قبول کریں۔ اور آنحضرت کی فرمانبرداری ومتابعت (پيروی)کو فرض وواجب سمجھیں ۔ پہلے حج پر تو آنجناب کے مدنی ہمدردوں نے صرف عورتوں کی سی وفاداری کا عہد کیا تھا۔لیکن دوسرے حج کے وقت جبکہ ان میں اس قدر ترقی ہوگئی۔ اور ان کی تعداد ستر سے بڑھ گئی۔ تو انہوں نے آپ کی خاطر جنگِ وجدل اور ہر طرح کےخطروں کا سامنا کرنے کا عہد کرلیا۔(59) یہ عہدو پیمان ظاہری روش کی تبدیلی کا اظہار نہیں ہے۔ بلکہ اس سے اسلام کے ابتدائی اصول کی بتدریج ترقی کا حال معلوم ہوتاہے۔ اور شروع کے ان تمام خاص طریقوں کا پتہ ملتا ہے جو آنحضرت کے ہم وطنوں اور غير ممالک کے لوگوں سے سلوک کرنے کےلئے درکا ر تھے۔ مکی سورتوں میں سے سب سے آخری سورہ رعد ہے۔ اس میں اوّل سے آخر تک صرف قبیلہ قریش ہی کا بیان ہے۔ اورمکہ میں ان کے ساتھ آنحضرت کی یہ آخری ردوکد(جدوجہد) ہے۔ چونکہ اس سورة میں آنحضرت کے معجزات سے قاصر رہنے کے اسباب بیان کئے گئے ہیں اس لئے اس کو سورہ معذرت بھی کہتے ہیں۔ جب لوگوں نے آپ سے معجزات طلب کئے تو آپ نے ارشا د الہیٰ کے مطابق فرمایا کہ میں صرف ڈرانیوالا ہوں۔ منکرین نے کہا جب تک تو خُدا کی طرف سے کوئی صریح نشان نہ لائے ہم تجھ پر ایمان نہیں لاینگے۔ اب آنحضرت کو کوئی معجزہ یا نشان عطا نہ ہوا بلکہ یہ فرمان آیا ہے یعنی کہدے الله بچاتا ہے جس کو چاہے اور راہ دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع ہوا۔ ( سورہ رعد چوتھا رکوع )۔
(58) یہ بیان کیلی صاحب نے اپنی کتاب محمد ومحمدیت کے صفحہ ۳۲۵ میں ابن اسحاق سے اقتباس کیا ہے۔ (59) عبید صفحہ ۱۰۹
اب آنحضرت تیرہ سال بے فائدہ وعظ ونصیحت کرنے کے بعد اہل مکہ کو جنہوں نے آپ کو ہر طرح سے رد کیا زجرو توبیخ (ملامت۔ڈانٹ ڈپٹ)سناکر اور ابدی عذاب کی خوشخبری دیکر شہر مکہ سے چل دئے۔
اس کے چند روز بعد آپ نے اپنے تمام مقلدین(پیروکار) کو حکم دیا اور فرمایا۔کہ سب مدینہ کی طرف ہجرت کر چلو اس شہر میں خُدائے تعالیٰ تم کو برادری اور جائے پناہ بخشیگا۔ قریباً دو ماہ کے عرصہ میں سب کے سب مکہ سے مفرور(بھاگ گئے) ہوگئے۔ لیکن چونکہ اب تک حضرت محمد خود مکہ میں تشریف رکھتے تھے قریش کے لوگ نہایت گھبرا رہے تھے اور ان واقعات کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے تھے ۔کہ دیکھیں آخر کیا ہوتا ہے انہوں نے ارادہ کیاکہ آنحضرت کے پاس کوئی اپنا وکیل بھیجیں پر حضرت کسی منصوبہ سے خوف زدہ ہوکر چوری اپنے گھر سے نکل گئے۔ اور رات کے وقت ابوبکر کو ساتھ لے کر شہر مکہ کو چھوڑ گئے۔ اور آنحضرت کی مدنی رہائش کے ایام کی ابتدا میں قبیلہ قریش کی مذکورہ بالا سازش کے باب میں جیساکہ سورہ انفال کے چوتھے رکوع اور ۳۰ ويں آیت میں مندرج ہے آپ کا یاد آتا ہے اور کہتے ہیں۔ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔ یعنی اور جب وہ فریب بتانے لگے(60) کافر کہ تجھ کو بٹھادیں یا مار ڈالیں یا نکال دیں اوروہ بھی فریب کرتے تھے اور الله بھی (61) فریب کرتا تھا اور الله کا فریب سب سے بہتر ہے۔
آنحضرت نے ابوبکر کے ساتھ ایک غار میں پناہ لی۔ اور تین یوم تک یعنی جب تک کفارِ مکہ آپ کی تلاش وجستجو سے دست بردار نہ ہوئے اسی غار میں چھپے رہے کئی سال کے بعد قرآن اس واقعہ کا بیان کرتا ہے۔ کہ کس معجزانہ طور سے خُدا نے خود آنحضرت کو بچایا اور محفوظ رکھا۔ چنانچہ سورہ توبہ کے چھٹے رکوع میں مندرج ہے۔کہ یعنی اس کی مدد کی ہے الله نے جس وقت اس کو نکالا کافروں نے دو جانوں سے جب دونوں تھے غار میں۔ جب کہنے لگا اپنے رفیق(ساتھی) کو تو غم نہ کھا الله ہمارے ساتھ ہے پھر الله نے اتاری اپنی طرف سے تسکین اس پر اور مدد کو اس کی بھیج دی فوجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں اور نیچے ڈالی بات کافروں کی اور الله کی بات ہمیشہ اوپر ہے۔
(60) سیل صاحب چند محدثوں کے بیان کے مطابق فرماتے ہیں کہ قریش نے آنحضرت کو قتل کرنے کے لئے سازش کی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہےکہ یہ احادیث قرآنی آیت کا مفصل بیان ہیں۔ ویری صاحب نے جو قرآن کی تفسیر لکھی ہے اس کی پہلی جلد کے ۸۴ صفحہ میں مرقوم ہے کہ آنحضرت کے قتل کی سازش جس کاقرآن واحادیث میں صاف ذکر پایا جاتا ہے زمانہ ما بعد کی تمام دشمنی اور حسدو عداوت کی بنیاد اور جڑ ہے۔ Muir’s Lif of Muhammad کی جلد دوم کا بھی ۱۲۵ واں صفحہ ملاحظہ فرمائیے۔ (61) اس کی تشریح یوں ہے کہ خُدا نے قریش کی سازش سے آنحضرت کو آگاہ کردیا۔ قریش کے ہاتھ سے اس کو بچالیا اور قریش کو لاکر جنگ ِ بدر میں پھنسادیا (دیکھو تفسیر بیضاوی سے سیل صاحب کا اقتباس )
ثانی اثنین یعنی دو میں سے دوسرا حضرت ابوبکر کے لئے نہایت عزت کا خطاب (62) ۔متصور(تصور کرنےوالا) ہونے لگا۔ محمدی احادیث وروایات میں ان تین دنوں (63) کے متعلق بہت سے معجزات مندرج ہیں۔
غار سے نکل کر آخر الاامر آپ مدینہ میں وارد ہوئے۔ اور مومنین کی مکہ سے مدینہ کی طرف جو ہجرت شروع ہوئی تھی۔ اب اس کی تکمیل ہوگئی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں آپ کا درخت سعی (جدوجہد)کچھ پھل نہ لایا۔اور آ پ کی تمام محنت رائیگاں گئی۔ اہل مکہ نے خیال کیا کہ اگر ہم آنحضرت کی تدابیر تجاويز کو اختیار کرینگے۔ تو اس کا انجام ملکی انتظار اورامور سیاست میں خود سری اور مطلق العنانی ہوگا۔ لہذا انہوں نے آنحضرت کو مجوزہ تدابیر میں سے کسی کو بھی اختیار نہ کیا۔ لیکن برعکس اس کے مدینہ میں آنحضرت کی یاس آس سے مبدل (نا اُمیدی اُمید میں بدل گئی)ہوگئی۔ یہودیوں میں مسیح کی انتظاری کے باعث ایک نبی کے برپا کئے جانے کی عموماً امید کی جاتی تھی۔ قومی عداوت اور خاندانی جھگڑوں سے اہل مدینہ تنگ آئے ہوئے تھے۔اور ان کی یہ بڑی آرزو تھی کہ کوئی شخص جو صاحبِ قدرت ہو ان کا حاکم بنے اور جنگ وجدل کا خاتمہ ہو۔ حضرت محمد جس مرکب طرز اور ملک وملت کے ممزوجہ طریق کی دھن میں لگے رہتے تھے۔ اور ان کی بڑی آرزو تھی کہ دینی امور اور ملکی انتظام کو ایک بنادیں۔ اب اس کے اجراوآغاز کا رستہ کھل گیا۔ مکہ میں آنحضرت کی ناکامیابی بحیثیت نبی تھی۔اور مدینہ میں آپ کی کامیابی اور اقبالمندی ایک سردار اور فاتح کی حیثیت میں تھی۔
جیساکہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اب تک قرآن میں صرف بُت پرستی کی تردید ابطال کے دلائل اور اہل مکہ کی زجرو توبیخ (ڈانٹ ڈپٹ)اور سرزنش (تنبیہ)کے مضامین نازل ہوتے رہے اور ان سے کچھ معقول استدلال نہ ہوا۔کیونکہ حضرت محمد نے اپنے آپ کو مرسلانہ جاہ وجلال میں ملبس کرکے خُدا کی طرف سے اپنے دشمنوں اورمخالفوں کو کوسناشروع کیا اور یہ فتویٰ سنایا کہ وہ نارِ جہنم (جہنم کی آگ)میں ملیں گے۔ مکہ میں قرآن کا مقصد اعلیٰ یہ تھا کہ اوصاف الہیٰ اور صفات ایزدی (خُداوندی)کا اظہار کرے کہ خُدا قادر مطلق ۔ ہمہ دان(ہر بات سے واقف) وغیب دان اور وحدہلاشریک ہے۔ عیش ِ جنت اور عذاب جہنم کا نہایت صفائی اور صراحت (وضاحت)سے بیان کرتا رہا۔ زمانہ سلف(سابقہ) کے بزرگوں اور انبیاء کے قصص کو سناتا اور حضرت محمد کے دعویٰ پر صحت کی مہر کرتا رہا۔ اپنے آپ کو کلام الہیٰ کے پیرایہ میں پیش کیا۔ اثباتی احکام تاحال بہت مختصر تھے۔ صرف اوقات نماز اور اکل(اکيلا) وشرب (پينے کی چيز) (64)کے متعلق چند قوانین وضع کئے گئے۔ طواف ِ کعبہ(65) کے متعلق چند پرانی اور واہیات ونامناسب رسوم سے منع کیا گیا۔لیکن تاحال اسلامی رسومات تکمیل کو نہیں پہنچیں۔ اسلام کے اخلاقی اور شرعی قوانین اب تک پختہ طور سے معین(مددگار) ومقرر نہیں ہوئے۔
(62) سنی فرقہ کے لوگ جو کہ حضرت ابوبکر کی بہت تعظیم وتکریم کرتے ہیں ان کا قول ہے کہ سورہ احقاف کی ۱۴ آیت۔وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ یعنی او رہم نے تقید کیا ہے انسان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی کا پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تکلیف سے اور جنا اس کو تکلیف سے اور حمل میں رہنا اس کا اور دودھ چھوڑنا تیس مہینے میں ہے یہاں تک کہ جب پہنچا اپنی قوت کو اور پہنچا چالیس برس کو کہنے لگا اے رب میرے میری قسمت میں کر کہ شکرکرو ں احسان تیرے کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے۔ مفسر حسین بیان کرتاہے کہ حضرت ابوبکر نے ۳۸ سال کی عمر میں اسلا م قبول کیا اور اس کے والدین نے بھی شرف اسلا م حاصل کیا اور چالیس برس کی عمر میں اس نے یہ دعا کہ اے خُدا مجھ کو یہ نصیب کرکہ تیرا شکر کروں۔ جس نعمت کے شکر کی توفیق کے لئے حضرت ابوبکر نے دعا کی اس نعمت سے نعمت اسلام (باضافت بیانی ) مراد ہے (تفسیر حسینی جلد زدہم صفحہ ۳۲۱ )راڈویل صاحب فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر خلیفہ بنا اس وقت اس آیت کا یہ مذکورہ مطلب گھڑ لیا گیا ہے۔ نولدیکی صاحب کے نزدیک یہ معاملہ شکوک ہے۔ (63) کتاب محمدو محمدیت مصنفہ کیلی صاحب کا ۳۱۵ سے ۳۲۱ صفحہ تک مطالعہ فرمائیے۔ (64) دیکھو سورہ طہ ۱۳۰آیت وسورہ روم ۱۷آیت وسورہ ہود ۱۱۵ آیت وسورہ انعام ۱۴۶ آیت سے ۱۴۷ تک وسورہ نحل ۱۱۹ آیت گمان غالب ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ (65) سورہ اعراف کی ۲۷ سے ۳۳آیت تک ملاحظہ فرمائیے۔
مدنی سورتوں میں مذہبی مسائل کی نسبت مسلمانوں کو زیادہ تر روزمرہ کی زندگی کی بابت ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن بحیثیت مجموعی کسی خاص مطلب یا مقصد کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔بلکہ وقتا ً فوقتاً حسب موقعہ اور حسب الضرورت نازل ہوتا رہا۔ اب مدینہ میں آنحضرت کی وعظ ونصیحت کی فصاحت وبلاغت جاتی رہی۔ اور اس کی جگہ تدابیر ملکی اور سرداری اور سروری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ا ب سے لے کر اخلاقی زندگی خانگی مخمصوں(گھريلو جھگڑوں) اور صلح جنگ کے مضامین آنحضرت کا وردزبان تھے۔اور اگر ان کو قرآن کا قانونی حصّہ قرار دیں تو بجا ہے۔ عام نظر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں قرآن کا طرز بیان باستثنائے چند مقامات بالکل ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ ایام مکہ کے تیسرے حصّہ میں تھا اور اعلیٰ انشاء پردازی اور فصاحت وبلاغت سے خالی ہے۔ سورتیں بہت طول وطویل ہیں اور احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ ولولہ انگیز چھوٹے چھوٹے مختلف بیانات کا مجموعہ ہوں جو وقتا ً فوقتاً وضع کئے گئے اور بعد ازاں ان کو طویل سورتوں میں مرتب کردیا لیکن ان میں کسی طرح کی ظاہری موافقت اور ترتیب نظر نہیں آتی۔
باب دوم
ایامِ مدینہ
اغلباً ماہ جون ۶۲۲ء میں حضرت محمد کھلم کھلا مدینہ میں داخل ہوئے۔ اور قریباً ایک سوپچاس مہاجرین آپ کے ساتھ تھے۔اہل ِمدینہ اگر چہ آپ کے دعویٰ رسالت پر متفق نہ تھے۔ تاہم انہوں نے آنحضرت کو بخوشی قبول کیا۔ چونکہ ان لوگوں میں خاندانی طرفداری اور قومی عداوت وبعض کی روح بدرجہ غایت (انجام)پائی جاتی تھی اسی لئے آنحضرت نے اپنے آپ کو ان سب سے اپنے بیان کے موافق الہیٰ ہدایت پاکر بر طرف رکھا۔ اور ان سب سے الگ سکونت اختیار کی۔ نیز آپ نے اس مقام پر ایک مسجد تعمیر کرائی جس سے مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا۔ اور پھر اس سےمناسب وقت پر بہت سے ملکی اور معرکہ آرائی کے احکام نافذ ہوئے۔
اس وقت مسلمانوں کی جماعت میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔
اوّل وہ جو کہ حضرت محمد کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرکے آئے اور مہاجرین کہلاتے تھے۔
دوم اہل ِمدینہ میں سے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا اور انصار یا مددگار کہلاتے تھے۔
بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ کہ سورہ نحل (66)میں ان مہاجرین کا بیان پایا جاتا ہے۔ چنانچہ پانچویں رکوع کی ۴۱ ويں آیت میں مرقوم ہے۔ وَالَّذِينَ هَاجَرُواْ فِي اللّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ۔ یعنی اور جنہوں نے گھر چھوڑ ا الله کے واسطے اور بعد اس کے ظلم اٹھایا۔ البتہ ان کو ٹھکانا دینگے ہم دنیا میں اچھا اور ثواب آخرت کا تو بہت بڑا ہے اگر ان کو معلوم ہوتا۔
(66) یہ سورة بہر کیف آخری زمانہ کی مکی سورتوں میں سے ہے۔ اگر یہ حوالہ درست ہے تو ضرور یہ آیات اس میں ہجرت کے بعد ایزاد کی گئی ہیں۔ جو اس میں متفق نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ حوالہ ان لوگوں کی طرف ہے جو حبشستان کی طرف چلے گئے تھے۔ مفسر حسین کہتا ہے کہ ۴۳ آیت میں انہیں لوگوں کا ذکر ہے جو حبش کی طرف چلے گئے تھے پر اچھے ٹھکانے سے مدینہ منورہ مراد ہے اور ایک ۱۱۱ آیت میں جس مہاجرت کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف تھی چنانچہ لکھا ہے کہ للذین ہاجرو امر آنا نہ کہ ہجرت کروندبسوئے مدینہ۔ اس سورة میں چند اور آیات بھی مثلا ً ۱۱۹،۱۱۷،۱۱۵ صریحاً ایسی ہیں جو کہ مدینہ میں نازل ہوئیں سورہ انفال کی ۷۳ آیت میں مہاجرین کے ان برادرانہ حقوق کا ذکر پایا جاتاہے لیکن اب اس قسم کے رشتہ کی کچھ ضرورت نہ تھی چنانچہ ۷۶ آیت ایسے حقوق منسوخ کئے گئے اور بمقابلہ مہاجرین اور انصاریوں کے حقیقی رشتہ داروں کو ترجیح دی گئی۔ اس آیت کے بارہ میں مفسر حسین یوں کہتا ہے کہ ایں آیت ناسخ توارث آن جماعت است کہ بہ سبب ہجرت ونصرت میراث میگیرند۔
پھر ۱۴ رکوع کی ۱۱۹ آیت میں مسطور ہے۔ ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُواْ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُواْ إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ یعنی یوں ہے کہ تیرا رب ان لوگوں پر کہ وطن چھوڑا ہے بعد اس کے کہ بچھلائے گئے۔ پھر لڑتے رہے اور ٹھہرے رہے۔ تیرا رب ان باتوں کے بعد بخشنے والا ہے مہر بان۔ چونکہ مدینہ کی آب وہوا نے مہاجرین مکہ کے ساتھ موافقت(برابری) نہ کی۔ اور وہ شب وروز اپنے وطن اور زاد بوم (پيدائش کی جگہ)کی آب وہوا کے ازبس خواہشمند تھے۔ اس لئے یہ نہایت ضروری معلوم ہوا کہ ان کا انصاریوں یعنی مومنین مدینہ سے زیادہ قرابت(رشتہ داری) اور یگانگت(اتحاد) کا رشتہ استوار کرکے ان کو وہاں بودوباش کرنے کی ترغیب وتحریص(خواہش ولالچ) دلائی جائے۔ چنانچہ ان میں ایک برادرانہ دعوت یاضیافت قائم کی گئی۔ اور اس برادرانہ یگانگت کے رشتہ میں دونوں طرف سے پچا س پچاس آدمی شامل ہوئے۔یہ رشتہ یہاں تک استوار تھا کہ اگر ایک فریق کا کوئی آدمی مرجاتا تھا تو دوسرے فریق سے جو شخص اس کا بھائی قرار دیا گیا تھا متوفیٰ(وفات پايا ہوا) کا وارث ہوتا تھا۔ عرصہ ڈیڑ ھ سال کے لئے یہی دستور رہا لیکن بعد میں جب اس دستور کی ضرورت نہ رہی تو پھر عام اور معمولی دستور توارث (وراثت)پر عمل درآمد ہونا شروع ہوگیا ۔(67)
بعد ازاں مسلمانوں میں ایک عہدو پیمان ہوا جس میں ان کی حفاظت اور انتقام کو ملحوظ رکھا گیا۔ اس عہدو پیمان میں جنگی مقاصد کے لئے یہودیوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اس سے غرض عامہ یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کی حمایت کریں۔ اگرایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرتا تو اس پر قصاص(انتقام) لازم تھا اور اُس سے انتقام لیا جاتا تھا۔ نیز اس سے یہ بھی غرض تھی کہ مصار ف جنگ کے وہ خود متحمل (برداشت کرنے والا)ہوں۔ مدینہ کو مقدس اور غیر مسخر قرار دیں۔اور جو لوگ ان کی زیر ِحفاظت ہوں
ان کے لئے حقوق حاصل کریں۔ اور ہر طرح کے جھگڑے قضیہ(تکرار) میں نبی کے فیصلہ پر اکتفا (اتفاق)کریں۔ یہودیوں کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اور اس پر قائم رہنے کی اجازت تھی۔ پر وہ حضرت محمد کی اجازت کے بغیر لڑائی میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔اس طرح آنحضرت شروع ہی میں تمام دینی ملکی اور فوجی امور میں حاکم بن بیٹھے۔ اور جہاد ومحاربہ(لڑائی) میں یہودیوں سے مدد لیتے رہے۔ اس عرصہ میں ان کے درمیان صلح وملاپ کو قائم کرنے کے لئے حضرت محمد نے حتیٰٰ المقدور(جہاں تک ہو سکے) بہت کوشش کی۔ جب قبیلہ بنی نجار کا سردار مرگیا تو یہودیوں نے آنحضرت سے درخواست کی۔کہ ان کے لئے کوئی اس کا جانشین مقرر کرے۔ آپ نے فرمایا کہ بلحاظ رشتہ اناث(عورتيں) تم میرے چچا ہو۔میں تم ہی میں سے ہوں مجھ کو اپنا سردار جانو۔ عین انہی ایام میں جبکہ آپ کو مدینہ میں ا س قدر عروج حاصل تھا یہ مشہور آیت نازل ہوئی۔ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ۔یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے(68) ۔ اس آیت میں خواہ منکرین کے سلوک کی طرف اشارہ ہو خواہ مدینہ کے یہودیوں کی طرف لیکن اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے۔کہ یہ اسی وقت کہا گیا تھا جبکہ آپ نے ابھی اس شہر میں رہائش اختیار کی ہی تھی۔ یہ بات نا ممکن ہے کہ یہ آیت جنگ بدر کے بعد سنائی گئی ہو جبکہ اس کی عملی طور پر کامل تنسیخ( مکمل منسوخ) ہوچکی تھی۔
(67) ابن اسحاق اور روضتہ الاحباب میں سے جو کچھ کیلی صاحب نے کتاب مسمیٰ محمد اور محمدیت کے صفحہ ۳۲۵ میں اقتباس کیا ہے اس کا بمعہ مندرجہ بالا حاشیہ کے ملاحظہ کیجئے۔ (68) اگر چہ سورہ بقرہ ۲۵۶آیت لکھا ہے لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ تاہم ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت صرف ظاہری آزادی کی صورت رکھتی ہے پر فی الحقیقت یوں ہی نہیں ہے۔ اس سے محض یہودی عیسائی مجوس اور صائبین مراد ہیں اور وہ بھی اس حالت میں کہ مطیع ہوں اور جزیہ ادا کریں۔ اہل عرب کے منکرین کے حق میں یہ آیت آیت قتال سے منسوخ ہوگئی۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی ۲۴۴ آیت میں مرقوم ہے کہ جب تک اسلام کو قبول نہ کریں واجب القتل ہیں۔ مفسر حسین کہتاہے کہ اکراہ نباید کردہ ہیچ کس راز یہود ونصاریٰ ومجوس وصابیان ببر آہ دن اسلام بشرط قبول جزیہ۔ گفتہ اند کہ حکم ایں آیت بآیت قتال۔ قتال منسوخت اور تمام قبائل عرب جزو دین اسلام قبول نبود امادہ دیگراں قتال باید کردتا مسلمان شوند ۔ جلد اوّل صفحہ ۴۸۔ پھر خلاصتہ التفاسیر میں یوں مندرج ہے کہ جہاد وقتال اس لئے نہیں ہے کہ خواہ لوگ مسلمان بنائیں جائیں بلکہ اسلام نہ لائیں تو مطیع نہیں۔
اس وقت مدینہ میں جو حالت تھی اس کا مورخ ابن ِاسحاق یوں بیان کرتا ہے۔ کہ جب حضرت محمد نے مدینہ میں امن کی جگہ حاصل کرلی اورمہاجرین نے تقویت کی اور انصاریوں کے معاملات کا بخوبی انفصال (جُدا) ہوگیا۔ تو اسلام کی نہایت استحکام کے ساتھ بنیاد پڑگئی۔ صوم وصلواة کو علانیہ ادا کرنے لگے۔ غربا کے لئے خیرات کے انتظام کئے گئے۔ مجرموں کو سزائیں ملنے لگیں۔ حرام وحلال کا فیصلہ ہوگیا اور اسلام نے خصوصاً انصاریوں میں بہت زور پکڑا۔ فی الحقیقت اس وقت مدینہ میں اسلامی طاقت کو سب پر فوق (سبقت)حاصل تھا۔ تمام مسلمان ہر امر میں مطیع ومنقاد(تابع وفرمانبردار) تھے۔ اور جو لوگ تاحال اس سے برطرف وبرکنار تھے اب ان پر بھی بہت کچھ اثر ہونے لگا۔
اس مقام پر يہ بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ کہ جنہوں نے اسلام قبول کيا تھا۔وہ سب کے سب سچے اور حقیقی ایماندار نہ تھے۔ ظاہراً تو قدیمی حقدو حسد(جلن،عداوت) کو سب فراموش کر بیٹھے تھے پر دراصل یہ معاملہ یوں نہ تھا۔ بہت سے نامی مسلمان پرانی عداوتوں کی یادگار سے اثر پذیر تھے۔ اگر چہ کسی طرح کی صوری مخالفت نظر نہ آتی تھی۔ تو بھی ان کے درمیا ن طرح طرح کے شکوک اور ہزار ہا قسم کی بدگمانیاں تھیں۔ابن اسحاق انکا یوں بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ داداوں کی بُت پرستی سے کچھ دور نہ تھے۔ اور دین اسلام کے وہ دل سے مطلق(بالکل) قائل نہ تھے۔ پر چونکہ زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کرلیاتھا اسلئے وہ غلبہ اسلام سے مغلوب ہوکر اسلامی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ انہوں نے دین ِ اسلام محض اپنے بچاؤ کی ایک سبیل(راہ) سمجھا تھا۔ لیکن دلوں میں وہ لوگ اخلاص سے کوسوں دور اور آنحضرت کی تردید میں یہوديوں کے معاون ومددگار تھے۔ اس طرح شروع میں زبردستی ہوتی تھی اور لوگ اسلام قبول کرنیکو موت سے بچنے کاایک ذریعہ سمجھے تھے۔ ایسے لوگ منافقین یار یاکار(مددگار) کہلاتے تھے۔ اورا یک عرصہ تک حتیٰ الامکان مخالفت کرتے رہے۔
پھر چند سال بعد حضرت محمد کی طاقت بڑھ گئی اس وقت آپ نے علانیہ ان کی تردید وتوہین شروع کردی۔ سو رہ منافقون میں جس کا نازل ہونا ۶ہجری میں بیان کیا جاتا ہے اس کی آیت ۲،۱ اور ۸،۷ ان کے حق میں حضرت محمد کا آخری فتویٰ یوں مندرج ہے۔ إِذَا (69)جَاءكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَاتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاء مَا كَانُوا يَعْمَلُونَهُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُون يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ۔ ترجمہ : جب آویں تیرے پاس منافق (ريا کار)۔ کہیں ہم قائل ہیں تو رسول ہی الله کا اور الله جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے۔ اور الله گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔ انہوں نے رکھی ہیں اپنی قسمیں ڈھال بناکر۔ پھر روکتے ہیں الله کی راہ سے۔یہ لوگ جوکرتے ہیں برے کام ہیں۔ وہی ہیں جو کہتے ہیں الله مت خرچ کرو ان پر جو پاس رہتے ہیں رسول الله کے۔ جب تک کھنڈ جاویں۔ اور الله کے ہیں خزانے آسمانوں کے اور زمین کے لیکن منافق نہیں بوجھتے۔ کہتے ہیں البتہ اگر ہم پھر گئے مدینہ کو تو نکال دیگا جس کا زور ہے وہاں سے بے قدر لوگوں کو۔ او ر زور الله کا ہے اور اس کے رسول کا اور مومنین کا لیکن منافق نہیں سمجھتے۔
پھر یوں لکھا ہے کہ کافر اسیر یا مرتد کا قتل کرنا بطور سزا دہی کہ ہے (دیکھو جلد اوّل صفحہ ۲۰۲)۔ ایک طرح سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت دینی آزادی کی تعلیم دیتی ہے یا آزاد انہ طور پر اپنے خیالات کو بیان کرنیکی اجازت دیتی ہے لیکن اس کا حاصل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ چند قومیں جزیہ ادا کرنے اورملکی مذہب کی مجوزہ شرائط کے لگاہ رکھنے سے قتل کی سزا سے مخلصی حاصل کرسکیں۔ (69) سورہ منافقون کی۱ ،۲ اور ۸،۷ آیات۔
مدینہ یہودی لوگوں کی ایک بڑی بھاری اور سرکردہ جماعت تھی اور ابتدا میں حضرت محمد کی ان پر بڑی امیدیں تھیں۔ اس کا سبب یہ تھاکہ وہ لوگ الہام ووحی کے باب میں بہت کچھ واقفیت رکھتے تھے۔ حضرت محمد نے بیان کیا ہےکہ اسلام یہودی اورمسیحی دین کے سب اپنی اصلیت میں ایک ہی اصل یعنی کتب سماوی (آسمانی کتابوں)پرمبنی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت کو یہ امید تھی کہ یہودی لوگ اسلام کومن جانب الله قبول وتسلیم کرینگے۔اور کم ز کم آنحضرت کو اہل عرب کے لئے رسول من الله مان لینگے۔ جیسا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ آپ نے ان کے لئے بعض حقوق قائم رکھے اور ان کے ساتھ آپ کا ایسا سلوک تھا جیسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن سے باہمی عہدو پیمان ہو۔ علاوہ ازیں دینی امور میں آپ نے یہودیوں کو بہت سی باتوں میں آزاد اورمطلق العنان(آزاد) چھوڑا ہوا تھا۔ نولدیکی صاحب(70) فرماتے ہیں سورہ عنکبوت کے پانچویں رکوع اور اس کی آیت ۴۶ میں جو کہ مکی سورتوں میں آخری زمانہ کی خیال کی جاتی ہے۔اسی وقت کا ذکر پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں یوں مرقوم ہے۔ کہ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ (71)یعنی جھگڑا نہ کرو کتاب والوں سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو۔مگر جو ان میں بے انصاف ہیں۔ یہ بات یوں ہی ہو یا نہ ہو پر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس وقت حضرت محمد اہل یہود سے دوستی پیدا کرنے کے لئے بہت ہی فکر مند تھے اور کئی طرح سے آپ نے ان کو اپنا طرفدار اور حامی بنانے کی کوشش کی۔ چنانچہ جس طرح یہودی لوگ یروشلم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے .آپ نے بھی انہیں کی طرح یروشلم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنی شروع کردی۔ عیدِ کفارہ پر جو کہ مہینے کی دسویں تاریخ کو ہوتی تھی یہودی لوگ روزہ رکھتے تھے۔ اور قربانیاں گذرانتے تھے۔ حضرت محمد نے بھی اپنے پیروؤں کو حکم دیاکہ وہ بھی ایسا ہی کیاکریں۔ اس طرح آنحضرت نے بہت سے یہودیوں کے لئے اسلام میں داخل ہونا آسان کردیا۔ ان اشخاص سے آنجناب کو بہت فائدہ پہنچا۔ اور ان سے آپ نے سلف کی کتب سماوی کی نسبت بہت کچھ سیکھا۔ حتیٰ کہ یقین کرنے لگے کہ ان کتابوں میں آپ کی آمدو تشریف آوری کی نسبت پیشین گوئیاں مندرج ہیں۔ بارہا ان لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان کو آپ اپنی رسالت کے گواہوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ پر باوجود اس کے اکثر یہودیوں نے آپ کو بمعہ آپ کے دعاوی کے قبول کرنے سے انکار کیا۔کیونکہ جس نبی کے وہ انتظار میں تھے وہ داؤد کی نسل سے آنے والا تھا۔ لہذا وہ آپ کے سخت مخالف ہوگئے۔ اور آپ کےدعووں کے مطلق شنوا(سننے والے) نہ ہوئے۔کیونکہ ان کی کتاب کے مطابق آپ کے حق میں ان کا یہی فیصلہ ہوسکتا تھا تاہم یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ جوں جوں اسلام ترقی کرتا جائے گا دوسرے ادیان ومذاہب کا تنزل(زوال) لابدی(یقینی) ہوگا۔ اہل عرب میں بہت سے بُت پرست مدینہ سے بھاگ گئے۔ اور ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ " اس حالت میں کئی یہودی معلم اور ربی حضرت محمد کے سخت دشمن ہوگئے۔ چونکہ خُدا نے اہل ِعرب میں سے اپنے لئے ایک رسول چُنا اس لئے وہ حسد سے بھر گئے پھر بھی بعض یہودیوں نے خائف ہوکر حضرت محمد اور اس کے نئے دین کو قبول کرلیا۔
(70) دیکھو نولدیکی صاحب کا گشختی دس قرآن صفحہ ۱۱۶۔ (71) اس آیت سے کہ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ مفسیرین اسلام بہت گھبراہٹ میں ہیں حسین بیان کرتا ہےکہ اس سے وہ لوگ مردا ہیں جن کے ساتھ حضرت محمد نے عہدو پیمان کیا تھا یعنی وہ لوگ جو کہ اسلام سےمعاہدہ رکھتے تھے اور جزیہ دیتے تھے یعنی ضمی تھے چنانچہ حسین کے یہ الفاظ ہیں کہ یااہل لکتب یعنی کسانیکہ در عہد شمااندیا جزیہ قبول کردہ اند۔ بعض عربی مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ اہل کتاب سے نرمی کی جاوے بلکہ ان سے خائف ہوکر ایسا فرمایا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے یعنی اہل کتاب (یہودی ) عبرانی زبان میں توریت کو پڑھتے ہیں اور اہل اسلام کے لئے عربی زبان میں اس کی تفسیر کرتے ہیں۔ پس پیغمبر نے فرمایا کہ اہل کتاب کو جھوٹا یا سچا کچھ نہ کہو اور صرف یہ کہو کہ ہم ایمان لاتے ہیں ساتھ الله کے اور ساتھ اس چیز کے جس کو اس نے نازل فرمایا۔ پھر یوں مذکور ہےکہ ایک مرتبہ ایک یہودی جو نہی کہ مردہ کے پاس سے گًذرا اس نے حضرت محمد سے کہا کہ اے محمد کیا یہ مردہ بولتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اہل کتاب سے نہ موافقت رکھو اور نہ مخالفت بلکہ یوں کہ ہم ایمان لاتے ہیں ساتھ الله کے اور اس کے فرشتوں اور اس کے کلام اور اس کے رسولوں کے اگر ان کا کہنا جھوٹ ہے تو تم اس کو مت مانو اور اگر سچ ہے تو تم نہ جھٹلاؤ اور ایسی جگہ اختیار کرو جو انکی موافقت اور مخالفت دونوں سے الگ رکھے۔ دیکئھے گایئگر کی کتاب یہودیت اور اسلام کا صفحہ ۱۵ اور ۱۶۔ بعض کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کی پانچویں آیت سے اس کی تنسیخ ہوگئی ہے اور سورہ توبہ سوائے ایک کے قرآن کی ساری سورتوں سے آخر کی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ یہودیوں کی مخالفت حد سے گذرگئی تھی۔چنانچہ سورہ توبہ کی اس پانچویں آیت میں لکھا ہے فاقتلو المشرکین حیث وجد تمو ھمہ یعنی قتل کرو مشرکوں کو جہاں کہیں تم انہیں پاؤ۔ اس آیت کو آیت السیف کہتے ہیں لیکن اس امر کا تحقیق معلوم کرنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ اس سے بر پرستوں یا مسیحیوں کی طرف جو مشرک خیال کئے جاتے تھے اشارہ ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس سے خاص کر وہ آیت منسو خ ہو جو یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی تھی۔
مورخین اسلام لکھتے ہیں کہ یہ محض ظاہری طور پر پناہ لینے کے لئے مسلمان ہوئے تھے۔ پر درحقیقت انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ ریاکار اور منافق تھے۔ اسی طرح نہ صرف ان لوگوں میں سے جو اہل عرب سے مسلمان ہوئے تھے بلکہ ان میں بھی جنہوں نے اہل یہود سے اسلام قبول کیا تھا منافق تھے۔یہودیوں کی دشمنی اور مخالفت آنحضرت کے حق میں ایسی ہی مضر اورخطرناک تھی جیسی بُت پرستوں کی۔ کیونکہ مقدم الذکر یعنی اہل یہود آپ کوصرف لڑائی اور ملکی معاملات میں ہی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اسلام کی سخت نکتہ چینی اور طعن وتشنیع(طنزوطعنہ) کے جان دوز تیروں سے بھی حضرت کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ (72)
سورہ انعام زمانہ اخیر کی مکی سورتوں میں سے ہے پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ۹۱آیت ضرور بالضرور مدینہ میں اضافہ کی گئی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں یوں مسطور ہے۔قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُكُمْ قُلِ اللّهُ۔ یعنی پوچھ تو کس نے اتاری وہ کتاب جو موسیٰ لایا روشنی اور ہدایت لوگوں کے واسطے۔ جس کو تم نے ورق ورق کرکے دکھایا۔ اور بہت کچھ رکھا۔ اور تم کو اس میں سکھایا جو نہ جانتے تھے تم اور نہ تمہارے باپ دادا کہ الله نے اتاری پھر چھوڑدے ان کو اپنی بہک میں کھیل کریں۔
اس مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ حضرت محمد نے ان کے کاغذوں پر لکھنے کے باعث ان پر توریت کی تحریف(تبدیلی) کا الزام نہیں لگایا۔ بلکہ ان پر آنحضرت نے جو الزام لگایا وہ یہ تھا کہ وہ توریت کے بعض حصص کو اس غرض سے چھپا رکھتے تھے کہ کسی طرح آپ کے دعویٰ (73)کے تحت میں نہ آئیں۔ پھر سورہ بقرہ جو کہ ۲ھجری میں(74) میں مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ یہودیوں کے برخلاف کئی مرتبہ وحی نازل ہوئی۔ اگر چہ اس امر کی نسبت طول طویل تشریح کی گنجائش نہیں۔ تاہم سورہ بقرہ اور بعض اور سورتوں کے چند مقامات سے مختصر حوالہ جات پیش کرنے سے یہ معاملہ صاف ہوجائیگا۔ چنانچہ سورہ بقر ہ کے پانچو یں رکوع کی آیت ۴۰ تا۴۲ میں یوں مرقوم ہے۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِوَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ اوّل كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِوَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ یعنی اے بنی اسرائیل یاد کر و میرا احسان جو میں نے کیا تم پر اور پورا کرو قرار میرا تو میں پورا کروں قرار تمہارا اور میرا ہی ڈر رکھو۔ اور مانو جو کچھ میں نے اُتارا سچ بتاتا تمہارے پاس والے کو۔ اور مت ہو تم پہلے منکر اس کے اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا اور مجھ ہی سے بچتے رہو اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور یہ کہ چھپاؤ سچ کو جان کر۔
(72) دیکھو نولدیکی صاحب گشختی دس قرآن صفحہ ۱۲۵۔ (73) راڈویل صاحب فرماتے ہیں کہ محمد صاحب نے یہود و نصاریٰ پر پاک نوشتوں کی تحریف کا الزام نہیں لگایا بلکہ اُس نے یوں کہا کہ یہہ لوگ کلام اللہ کی تفسیریں غلط کرتے ہیں تاکہ مجھ کو جھٹلاویں اور میرے دعاوی کو قبول نہ کریں۔ محمد صاحب کے تمام اقوال اور فتوے جو کہ یہود و نصاریٰ اور اُن کی کتابوں کے حق میں ہیں اُن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک اس کو ان کی نسبت علم تھا وہ اُن کو صحیح اور درست قرار دیتا ہےدیکھو راڈویل صاحب کا قرآن ۴۳۴ (74) اِس سورت کے بہت سے حصے مکہ ہیں اور خصوصاً نفس مضمون سے پتہ لگتا ہے کہ اُنیسویں آیت سے لے کر سینتسویں آیت تک ایام سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اُنیسویں آیت میں الفا ظ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ یعنی اے لوگوپائے جاتے ہیں اور اہل مدینہ کے حق میں آپ نے الفاظ کو استعمال نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کویعنی یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اے ایمان والوں کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
سورہ بقرہ میں خُدا تعالیٰ کے ان احسانات کا بیان جو اس نے بنی اسرائيل پر موسیٰ کی معرفت اور بیابان میں کئے نہایت طوالت (درازی)کے ساتھ مندرج ہے۔ چنانچہ ۵۹آیت میں جس پر اکثر بہت کچھ مناظرہ ومباحثہ ہوتا ہے یوں لکھا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ۔ یعنی یوں ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہود ہوئے اور نصاریٰ اور صائبین(75) جو کوئی یقین لایا الله پر اور پچھلے دن پر اور کام کیا نیک تو ان کو ہے ان کی مزدوری اپنے رب کے پاس اور نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ غم کھاویں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام مذاہب یکساں ہیں اور عوام الناس کا خیال یہ نہیں ہے کیونکہ بعض مفسرین کے نزدیک من امن با الله والیوم الا خرو عمل صالحاً کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں نے اب تک اسلا م قبول نہیں کیا وہ اپنی ناراستی سے باز آویں اور اسلام کوقبول کریں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ سورہ آل عمران کی ۷۹ آیت سے یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں یوں مرقوم ہے کہ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ یعنی اور جوکوئی چاہے سوائے اسلام کی حکم برداری کے اور دین سو اس سے ہر گز قبول نہ ہوگا۔ اور وہ آخرت میں خراب ہے۔
جو یہودی مسلمان ہوگئے تھے ان میں سے بعض کی ریاکاری اور نفاق کا بیان سورہ بقرہ کی ۷۱ آیت سے ۷۵ تک یوں مندرج ہے وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَاوّلاَ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَوَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لاَ يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلاَّ أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَوَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَبَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيـئَتُهُ فَاوّلـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَوَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ اوّلـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ یعنی اور جب ملتے ہیں مسلمانوں سے کہتے ہیں ہم مسلمان ہوئے۔ اور جب اکیلے ہوتے ہیں ایک دوسرے پاس کہتے ہیں۔ کہ تم کیوں کہہ دیتے ہو ان سے جو کھولا ہے الله نے تم پر کہ جھٹلا ویں تم کو اسی سے تمہارے رب کے آگے کیا تم کو عقل نہیں ؟ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ الله کو معلوم ہے جوچھپاتے ہیں اور جو کھولتے ہیں ؟ اور ایک اُن میں ان پڑھ ہیں۔ نہیں خبر رکھتے کتاب (76) کی مگر باندھ لی اپنی آرزوئیں اور ان پاس نہیں مگر اپنے خیال۔ سو خرابی ہے ان کی جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھرکہتے ہیں یہ الله کے پاس سے ہے کہ مول لیویں اس پر مول تھوڑا۔ سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھ کے لکھے سے اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔اور کہتے ہیں کہ ہم کو آگ نہ لگیگی مگر کئی دن گنتی کے۔ تو کہہ کیا لے چکے ہو الله کے یہاں سے قرار۔ تو البتہ خلاف نہ کریگا الله اپنا قرار۔ یا جوڑتے ہو الله اپنا پر جو معلوم نہیں رکھتے۔ کیوں نہیں جس نے کمایا گناہ اورگھیرلیا اس کو اس کے گناہ نے سو وہی ہیں لوگ دوزخ کے وہ اسی میں رہ پڑے۔
(75) صابئین کی نسبت مفسیرین کا عموماً یہ خیال ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت تھی جس کے مذہب میں یہودیت اور مسیحیت دونوں مذہبوں کی باتیں ملی ہوئی تھیں۔ وہ ایک واحد خُدا کی پرستش کرتے تھے (اگرچہ بعض کی رائے اس امر میں اتفاق نہیں کرتی ) زبوروں کی تلاوت کرتے اور مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے اور فرشتوں کو بھی پوجتے تھے۔ اس ساری آیت کا اصل مطلب اور لب لباب یوں بیان کیا جاتاہے کہ کوئی مسلمان یا کتابی یا غیر کتابی جب ایما ن لائے اچھے کام کئے اسے خوف نہیں۔ دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل صفحہ ۴۰۔ راڈویل صاحب کے قرآن صفحہ ۴۳۷ میں یوں مندرج ہے کہ صائبین سے وہ مسیحی مراد ہیں جو یحییٰ کے شاگرد تھے۔ صائيبن کے حالات مفصل طور پر دریافت کرنے کے لئے ایس۔لین پول کی کتاب المطالعہ فی المسجد کو ۲۵۲ سے ۲۸۸ صفحہ تک مطالعہ فرمائے۔ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ اس آیت نے ان دینوں کو منسوخ کردیا جو گذرگئے یا پیدا کئے جائیں ۔ خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کے صفحہ ۲۷۱کو ملاحظہ کیجئے۔ (76) توریت شریف
جو لوگ اس بات پر جمے اور کہتے ہیں کہ پاک نوشتوں میں حضرت محمد کے حق میں کچھ بھی درج نہیں ہے ان کے حق میں آپ نے اسی سورة میں ذرا آگے چل کر یوں فرمایا کہ یعنی کیا مانتے ہو تھوڑی کتاب اور منکر ہوتے ہو تھوڑی سے پھر کچھ سزا نہیں اس کی جو کوئی تم میں یہ کام کرتا ہے۔ مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن پہنچائے جاویں سخت سے سخت عذا ب میں۔
جب انہوں نے قرآن کو من جانب الله قبول نہ کیا تو ان کی ضد سے تنگ آکر آپ نے سورہ بقرہ کے ۱۱ رکوع میں یوں عتاب(غصہ) فرمایا کہ بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّهُ بَغْياً أَن يُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ یعنی برے مول خرید کیا اپنی جان کو کہ منکر ہوئے الله کے اُتارے کلام سے اس ضد پر کہ اُتارے الله اپنے فضل سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے سو کما لائے غصہ پر غصہ (77)
پھر سورہ بقرکے ۱۶ رکوع کی آیت ۱۳۷میں اس وعدہ کا ذکر ہے۔ جو خُدا نے محمد سے روگردان ہونے والوں کی مخالفت کے مقابلہ میں آپ کی حفاظت کے بارہ میں کیا تھا۔چنانچہ لکھا ہے کہ فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ یعنی پس اگر وہ بھی یقین لاویں جس طرح تم یقین لائے راہ پاویں اور اگر پھر جاویں تو وہی ہیں ضدپر۔ سو اب کفایت ہے تیری طرف سے ان کو الله اور وہی ہے سنتا جانتا۔ پھر اسی رکوع ۱۴۰ آیت میں ان پر یہی الزام لگایا گیا ہے۔کہ پاک نوشتوں میں آنحضرت کی آمد کی نسبت جو کچھ درج تھا اس کو انہوں نے درج نہیں کیا بلکہ اس کو پوشیدہ رکھتے تھے۔چنانچہ لکھا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ۔یعنی اور اس سے ظالم کون جس نے چھپائی گواہی جو تھی اس پاس الله کی۔ پھر سورة البینہ جس کو ترتیب کے لحاظ سے سورہ بقرہ کے بعد کی سمجھنا چاہئے اس کی پہلی تین آیات میں یوں مذکور ہے۔لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُرَسُولٌ ِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌوَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَةُ۔ یعنی نہ تھے وہ لوگ جو منکر ہیں کتاب والے اور شریک والے باز آتے جب تک کہ پہنچی ان کو کھلی بات ایک رسول کا پڑھنا ورق پاک اس میں لکھیں کتابیں مضبوط اور پھوٹے وہ جن کو ملی ہے کتاب سو جب آچکی ان کو کھلی بات (78)
پھر سورہ آل عمران کے ۸ رکوع میں اسی خیال کے مطابق الزام لگایا گیا ہے۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔یعنی اور ان میں سے ایک لوگ ہیں کہ زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں کتاب کہ تم جانو وہ کتاب میں ہے اور وہ نہیں کتاب میں او رکہتے ہیں وہ الله کا کہا ہے۔ اور وہ نہیں الله کا کہا اور الله پر جھوٹ بولتے ہیں جانکر۔
(77) غضب علی غضب کے بیان میں مفسر مجاہد کا قول ہے کہ پہلا غضب ان پر ہے جنہوں نے توریت شریف کو رد کیا اور دوسرا غضب ان پر جو حضرت محمد کی رسالت پرایمان نہ لائے خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کا صفحہ نمبر ۵۱ مطالعہ کیجئے۔ مفسرین حسین فرماتے ہیں کہ اوّل غضب ان پر ہے جنہوں نے مسیح اوراناجیل کو قبول نہیں کیا اور دوسران پر جو حضرت محمد اور قرآن کو من جانب الله جان کر ایمان نہ لائے۔ تفسیر حسینی جلد اوّل کا صفحہ نمبر ۱۶ ملاحظہ کيجئے۔ (78) اکثر مفسرین اس کا یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ حضرت محمد کی تشریف آوری سے پہلے ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے کہ جب وہ آوے تو اسکی تقلید وپیروی کریں جب آنحضرت آئے تو بعضوں نے مان لیا اور بعض منکر ہوگئے ۔ چنانچہ تفسیر جلالی اور حسینی میں یوں لکھا کہ پیش از بعثت آنحضرت ہمہ مجمع بووند برتصدیق دے وبعد ازانکہ مبعوث شد مختلف شد ند بعضے گروید ند بوے وبرخے کافر شدند۔
پھر سب سے آخری سورة یعنی سورة المائدہ کے تیسرے رکوع میں یوں مسطور ہے یعنی ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے اور بھول گئے ایک فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو کی تھی۔
نیز مرقوم ہے(79) يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌيَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ۔ یعنی اے کتاب والو آیا ہے تم پاس رسول ہمارا ۔ کھولتا ہے تم پر بہت چیزيں جو تم چھپاتے تھے کتاب کی اور در گذرکرتا ہے بہت چیزوں سے تم پاس آئی ہے الله کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی جس سے الله راہ پر لاتا ہے جو کوئی تابع ہو اس کی رضا کا بچاؤ کی راہ پر اور ان کو نکالتا ہے اندھیرے سے روشنی کی طرف اپنے حکم سے اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ۔
ان مذکورہ بالا آیات میں یہود نصاریٰ پر جس قدر الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان سے ہر گز ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہود ونصاریٰ نے پاک نوشتوں میں تحریف وتبدلات کئے بلکہ ان پر صرف یہی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے توریت وانجیل کی بہت سی باتوں کو جنہیں حضرت محمد اپنی بشارت کی دلیل گردانتے تھے پوشیدہ رکھا اور ظاہر نہیں کیا۔ اس میں بھی محض اس کی امر طرف اشارہ تھا کہ توریت وانجیل میں جو کچھ حضرت محمد کے حق میں مندرج تھا اس کو انہوں نے پوشیدہ رکھا۔
اس امر کا ہرگز ہرگز کوئی ثبوت بیان نہیں کیا گیا کہ توریت وانجیل کی تحریف ہوگئی اور اب و ہ حقیقی اور قابل ِعمل نہیں ہے بلکہ نہایت صفائی اور صراحت (وضاحت)سے اس امر کا بیان اس کے برخلاف اور توریت وانجیل کی صحت درستی پر دال(نشان) ہے۔ چنانچہ سورة المائدہ میں مرقوم ہے کہ ترجمہ نازل کیا ہم نے توریت کو اور اس میں ہدایت اور نور ہے۔ اور نیز یہ کہ اے کتاب والوتم کچھ راہ پر نہیں جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل او رجو کچھ تم کو اترا (80)تمہارے رب سے۔
اب مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ توریت وانجیل پر بھی قرآن کی طرح ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر توریت وانجیل کی تحریف وتنسیخ (بدل ديناو منسوخ کرنا) ہوجاتی تو قرآن ہرگز ہرگز ان کو صحیح اور قابلِ قبول بیان نہ کرتا۔ درحقیقت ان کُتب ِمقدسہ کی صحت ودرستی اور حفاظت من الله کی گواہی حضرت محمد خود قرآن سے سورہ مائدہ کے ۷ رکوع میں یو ں پیش کرتے ہیں۔ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا(81) عَلَيْهِ۔یعنی اور تجھ پر اُتاری ہم نے کتاب تحقیق سچا کرتی اگلی کتابوں کو اور سب پر شامل۔
(79) اس جگہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہودی توریت شریف کے ان حصص اور آیات کو پوشیدہ رکھتے تھے جنہیں حضرت محمد کی تعریف مندرج تھی اور نصاریٰ اس پیشنگوئیاں کو چھپاتے تھے جو مسیح نے اپنے بعد ایک پیغمبر یعنی آنحضرت کےمن جانب الله آنے کی نسبت کی تھی۔ مما کنتمہ تکمنون کے معنی وہی ہیں جو کہ یہود ونصاریٰ کے تعلق میں بیان کئے گئے ہیں چنانچہ تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ نمبر ۱۴۰ میں یوں مرقوم ہے کہ ازانچہ ہستید کہ آنراپنہاں میدا رید من الکتب چو ں نعمت محمد مصطفیٰ وآیت رجم وازنجیل چون بشارت ِ عیسیٰ بہ احمد۔ (80) قرآن۔ (81) مفسر حسین نے لفظ مہیمنا ً کا ترجمہ نگہبان کیا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مھیما علیہ نگاہبانست برکتب کہ محافظت میکند از تضیر ۔ دیکھو تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ نمبر ۱۴۸ اس آیت میں قرآن کی فضیلت تمام کتب آسمانی پر ثابت ہے اس لئے کہ اسے محافظ امین۔ شاہد امانتدار سب کتابوں کا قرار دیا پس قرآن جامع وشامل ہے اور ہدایت میں کامل ۔ خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کا صفحہ نمبر ۵۲۹ ملاحظہ فرمائیے۔
پس اب صاف ظاہر ہے کہ توریت وانجیل کی حضرت محمد سے پہلے تحریف نہیں ہوئی۔کیونکہ قرآن ان کی تائید (حمايت)کرتا ہے اور اگر ازروئے اسلام بھی بہ نظر تعمق(غور کرنا) دیکھا جائے ۔تو جب قرآن توریت وانجیل کی حفاظت ونگہبانی کا دعویٰ کرتا ہے۔ تو ان میں کسی طرح کی تحریف وتخریب (تبديلی و خرابی) کا وقوع میں آنا ہر گز ہر گز ثابت نہیں ہوتا بلکہ نا ممکن ہے۔ جو حامیانِ اسلام اس معاملہ میں تلخ گوئی پراُتر پڑتے ہیں وہ ایک طرح سے صاف اقرار کرتے ہیں۔ کہ وہ قرآن سے بالکل ناواقف ہیں ۔اور نہ صرف یہ بلکہ قرآن کی ازحد بے عزتی اور توہین کا باعث ہوتے ہیں۔ کیونکہ قرآن توریت وانجیل کی محافظت کا ذمہ وار ہوتا ہے۔ اور یہ ان کی تحریف وتخریب پر زور دیتے ہیں۔ یایوں کہیں کہ قرآن کی محافظت اور تکذیب(جھٹلانا) کرتے ہیں۔
لہذا اگر کُتب ِ مقدسہ تحریف ہوگئیں ہیں تو قرآن اپنے فرض کے ادا کرنے سے قاصر رہا۔ یایوں کہیں کہ قرآن نے جو کچھ توریت وانجیل کی حفاظت ونگہبانی کا دعویٰ کیا وہ محض دعویٰ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت محمد کو کُتب ِمقدسہ کی صحت ودرستی کے باب میں کسی طرح کا شک وشبہ نہ تھا۔ لیکن جب آنحضرت نے دیکھا کہ اب یہودیوں سے کچھ غرض ومطلب نہیں ہے تو مناسب جاناکہ ان کو غیر معتبر قرار دے۔ یہ امر نہایت قابلِ توجہ اور غور کے لائق ہے۔ کہ بائبل شریف کی تحریف(بدل دينا) وتخریب کے باب میں جس قدر آیات قرآن میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب مدینہ میں نازل ہوئی تھیں۔
جب یہودیوں کو اس طرح زجرو توبیخ (لعنت و ملامت)کی گئی اور ان کو اپنے مطالب ومقاصد کے لئے غیر ضروری سمجھ کر رد کردیا۔تو پھر آنحضرت کو ان کی مطابقت و موافقت کی کچھ ضرورت نہ معلوم ہوئی چنانچہ آپ نے یروشلم کی جگہ پھر مکہ کو قبلہ قرار دیا۔اور اس تبدیلی کے باب میں حسبِ معمول وحی(82) آسمانی کو پیش کیا۔
اس متذکرہ بالا تبدیلی کی بابت سورہ بقرہ میں بہت سی آیات نازل ہوئیں اور ان میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ کعبہ اور حضرت ابراہیم کا دین جن کو اسلام از سر نوزندہ کرنے کا دعویدار ہے یہودی دین اور یہودیوں کے قبلہ سے بہت بہتر ہے۔ نصاریٰ کی طرف بھی ان الفاظ میں کہ ہم نے لیارنگ (83)الله کا اشارہ کیا گیا ہے اور اس سے یہ مراد ہے کہ صرف اسلام قبول کرنے سے انسان کی حقیقی نئی پیدائش ہوتی ہے۔چنانچہ قبلہ کی تبدیلی کے متعلق مفصل طور پر دوسرے سیپارہ کے پہلے رکوع میں یوں لکھا ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ۔یعنی اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر توتھا نہیں مگر اسی واسطے کہ معلوم کریں کہ کون تابع ہے رسول کا اور کون پھر جاویگا الٹے پاؤں؟
(82) پہلے جب حضرت محمد نے مکہ کی جگہ یروشلم کو قبلہ مقرر کیا تھا اس تبدیلی کا ذکر قرآن میں نہیں پایا جاتا پر اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ سورہ بقر ہ میں دوسرے سیپارہ کی پہلی آیت میں اسی باب میں یوں لکھا ہے کہ سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا یعنی اب کہینگے بے وقوف لوگ گاہے پھر گئے مسلمان لوگ اپنے قبلہ سے جس پر تھے؟ اور اس پر مفسر جلال الدین فرماتے ہیں کہ جب حضرت محمد نے ہجرت کی تو اپنے تمام مومنین کو حکم دیاکہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کریں پر یہ صرف چھ سات مہینوں کے لئے تھا بعد ازاں پھرکعبہ ہی قبلہ ہوگیا۔ (83) سورہ بقرہ میں صرف صبغة الله یعنی خُدا کا رنگ لکھا ہوا ہے اور سیل صاحب نے لفظ ہم نے لیا زیادہ کیا ہے راڈویل صاحب لفظ اسلام کی ایزادی سے لکھتے ہیں کہ خُدا کا رنگ یا بپتسمہ اسلام ہے۔ پامرصاحب فرماتے ہیں کہ اسکے معنی خُدا کے رنگ کے ہیں اور کپڑا رنگنے سے ماخوذ ہے صبغہ کے معنی بپتسمہ کے نہیں ہیں ۔ مفسرین اس کے ترجمہ میں متفق نہیں ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی محض دین الله کے ہیں اور بعض ختنہ کے معنی بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ مسیحیوں نے ختنہ کے عوض میں بپتسمہ کی رسم اختیار کی ہے تو بھی مسلمانوں میں ایک ایسی رسم ہے جو اپنے پورا کرنیوالے کو پاک کرتی ہے۔ اور جو اس خیال میں متفق ہیں اور وہ اس کا یوں بیان کرتے ہیں صبغة الله ختان است وآن تطہر مسلمان است یعنی صبغة الله ختنہ ہے اور وہ مسلمانوں کو پاک کرتا ہے تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ۲۳۔ نیز اسی لفظ کے معنی محض رنگ کے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص دین عیسوی میں داخل ہوتا تھا اس کے جسم اور لباس کو زدرنگ میں رنگتے تھے۔ پر بعض کا یہ خیال ہے کہ اس کے بال بچوں کو زردرنگ گھول کر پانی میں بپتسمہ دیتے تھے۔پھر یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا تھا تو استعارہ کے طور پر اس سے روحانی بپتسمہ مراد لیتے تھے کیونکہ وہ بُت پرستی کی نجاست وآلائش سے پاک وصاف کیا جاتا تھا۔ غرض ان تمام باتوں میں مفسرین اسلام اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خواہ بلحاظ قبلہ دیکھیں یا بلحاظ بپتسمہ عیسائیوں کے درمیان مسلمانوں سے اچھی اور عمدہ رسوم نہیں ہیں۔ خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کا صفحہ نمبر ۸۰ ملاحظہ فرمائیے۔
اور یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دی الله نے اور الله ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا یقین لانا۔البتہ لوگوں پر شفقت رکھتاہے مہربان۔ ہم دیکھتے ہیں پھر جانا تیرا منہ آسمان میں سے سو البتہ پھر ینگے تجھ کو جس قبلہ کی طرف توراضی ہے۔ اب پھیر منہ اپنا مسجد الحرام کی طرف اور جس جگہ تم ہوا کرو۔ پھیرو منہ اسی کی طرف۔
حضرت محمد کی زندگی میں مذکورہ بالا تبدیلی کی نسبت احادیث میں بہت سے قصے مندرج ہیں چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ جب آپ نے یہودیوں کواس درجہ کا ضدی پایا تو جبرائیل فرشتہ سےکہا میں چاہتا ہوں کہ خُدا پھر کعبہ کو ہمارا قبلہ مقررکردے۔ جبرائیل نے جواب دیا کہ خُدائے تعالیٰ کی درگاہ میں تو بہت معزز وممتاز(اعلیٰ) ہے۔ سو بہتر یہ ہے کہ تو خود ہی خُدا سے اس امر کی درخواست کرے۔
اس کے بعد قبلہ کی تبدیلی کے لئے آپ ہمیشہ وحی آسمانی کے منتظر تھے۔ علاوہ ازیں پہلے جو یہودیوں کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ اب ان کے عوض ماہِ رمضان روزوں کا مہینہ قرار دیا گیا۔چنانچہ سورہ بقرہ کے ۲۳ویں رکوع میں لکھا ہے " مہینہ رمضان کا جس میں نازل ہوا قرآن۔ہدایت واسطے لوگوں کی اور کھلی نشانیاں راہ کی اور فیصلہ پھر جو کوئی پاو ے تم میں یہ مہینہ تو وہ روزہ رکھے اور پھر اسی سورت کے انیسویں رکوع میں یہودیوں کو نہایت سختی سے یوں خطاب کیا گیا ہے "یعنی جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ اُتارا ہم نے صاف حکم اور راہ کے نشان بعد اس کے کہ ہم ان کو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب(84) میں۔ ان کو لعنت دیتا ہے الله اور لعنت دیتے ہیں سب لعنت دینے والے۔
یہودیوں میں سے جنہوں نے اسلام کوقبول کیا تھا ان میں سے بعض ان مذکورہ بالا تغیر وتبدیل کے باعث یا چند دوسرے عام اسباب کی وجہ سے یہودی شریعت کی بعض باتوں کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کو سورہ بقرہ کے پچیسویں رکوع میں یوں عتاب (غصہ)کرکے خبردار کیا گیا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ فَاِنۡ زَلَلۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡکُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ سَلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ کَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍۭ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ مَنۡ یُّبَدِّلۡ نِعۡمَۃَ (85) اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِیعنی اے ایمان والو داخل ہو مسلمانی میں پورے۔ (86) اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔ وہ تمہارا صریح(صاف) دشمن ہے۔ پھر اگر ڈگنے لگو بعد اس کے کہ پہنچے تم کو صاف حکم تو جان رکھو کہ الله زبردست ہے حکمت والا۔ پوچھ بنی اسرائیل سے کتنی دیں ہم نے ان کو واضح آیتیں ؟ اور جو کوئی بدل ڈالے الله کی نعمت بعد اس کے کہ پہنچ چکے اس کو۔ تو الله کی مار سخت ہے۔
(84) جس کتاب کا اس جگہ ذکر ہے اس سے توریت مراد ہے اور جو لوگ اس کے معانی کو چھپاتے ہیں ان پر خُدا کی طرف سے لعنت ہے اور دوسرے لعنت کرنے والوں سے فرشتے جن اور آدمی مراد ہیں۔ دیکھئے تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۲۶ اور تفسیر عبدالله ابن عباس صفحہ ۲۹۔ (85) نعمتہ الله۔ سے بعض کے نزدیک خود حضرت محمد مراد ہیں زیادہ صحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مردا ہے۔ (86) مفسرین کا بیان ہے کہ سچے دین یعنی سلم سے دین اسلام مراد ہے اور خطوات الشیطن یعنی شیطان کے قدموں سے شیطان کا فریب اور اس کی وہ دھوکہ وہی مراد ہے جس کے وسیلہ سے وہ یہودیوں کو منسوخ شدہ شریعت کی اطاعت کی طرف ترغیب وتحریص دلاتا ہے۔ جس کا بیان تفسیر حسینی جلد دوم کے ۳۵ ویں صفحہ پر یوں کیا گیا کہ وساوس شیطانی با حکام منسوخہ یعنی منسوخ شدہ شریعت کی بابت شیطان کے وسوسے ہیں۔
حضرت محمد اور یہودیوں کے درمیان یہ دشمنی ایک قدرتی بات تھی۔ اور بالکل امر طبعی کا حکم رکھتی تھی۔ فقط یہی بات نہ تھی کہ یہودی لو گ حضرت محمد کی تعلیم اور ان کے دعویٰ کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ عملی طور پر خاص کر اصولی باتوں میں ان کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔جیساکہ آگے چل کر بیان کیا جائےگا۔ آنحضرت بہت چاہتے تھے کہ اہل عرب کی پرانی رسومات قائم رہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے بُت پرستوں اور منکروں کے بہت سے دستوروں کو اسلام میں قائم رکھا۔ وہ لوگ اپنی شریعت کے مطابق اپنی رسومات کے بڑے حامی تھے۔ اور ان کی اکثر رسومات ان کی شریعت پر مبنی تھیں۔ اب وہ وقت آگیا کہ حضرت محمد یہودیت سے بالکل دست بردار ہوں۔اور بعض عربی مصنف بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آپ نے بہت سے تغیر وتبدل(تبدیلیاں) کرنے شروع کئے۔اور اس سے خاص غرض یہ تھی کہ یہودیت کی مشابہت (87) اسلام سے بالکل جاتی رہے۔جب آپ نے یہودیوں کو اس طرح رد فرمایا تو اس وقت ساتھ ہی ساتھ آنحضرت نے اہل ِمکہ کو حج کعبہ کی اجازت دے کر ان کے ساتھ میل ملاپ اور رشتہ اتحاد قائم کرنیکی کوشش کی۔ چنانچہ سورہ بقر کے ۲۴ رکوع میں لکھا ہے۔ وَا تموا الحج والعمرة الله۔یعنی پورا کرو حج اور عمرہ کو الله کے واسطے۔ پھر اسی طرح بُت پرستوں اور منکرین کی پرانی رسومات کے جاری رکھنے کی خُدا سے منظوری حاصل کی گئی۔ اور صفاومروہ کی پہاڑیوں کے گرد پھر نا برقرار رکھا گیا۔ چنانچہ سورہ بقرہ کے ۱۹ رکوع میں لکھا ہے " صفا اورمروہ جو ہیں نشان ہیں الله کے۔ پھر جو کوئی حج کرے اس گھر کا یا زیارت تو نہیں اس کو کہ طواف کرے ان دونوں میں۔
ایسا معلوم ہوتا ہےکہ یہ مذکورہ بالا آیات بہت مدت بعد پہلے حج کے موقعہ پر نازل ہوئیں لیکن ان کو اس جگہ تحریفاً درج کردیا گیا۔ سورہ بقرہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد جب مدینہ میں وارد ہوئے تو شروع شروع میں بہت کچھ ہوشیاری وعیاری کام میں لائے۔
چنانچہ اس وقت کی تورايخ سے اس امر کی بخوبی تشریح ہوجاتی ہے۔ جس طرح آنحضرت پراخلاقی اور ملکی معاملات کی ضروریات کےمطابق عین وقت پر وحی کا نزول ہوتا تھا ۔آپ کے حسب حال اور حسب ضرورت آپ کے دعویٰ کی تائید ہوتی تھی یہ آیتیں نہایت عمدہ نظیر ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محمد کو مدینہ جاتے ہی اس امر کا کامل یقین ہوگیا تھا۔کہ اپنے ہم وطنوں یعنی اہلِ مکہ سے ضرور بہت جلد علانیہ حرب وصرب(لڑائی و جنگ) اور معرکہ آرائی کرنی پڑیگی۔ پس بہر حال حضرت محمد کو اس وقت ضروری تھا کہ ان آنے والی تکالیف ومصائب کو برداشت کرنے کے لئے مومنین کو تیار کریں اور ان کی ہمت بڑھائیں۔چنانچہ سورہ بقرہ میں یوں مندرج ہے۔ کہ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء (آیت ۱۲۴) أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (آیت ۲۴۶)یعنی کیا تم کو خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے۔ اور ابھی تم پر آئے نہیں احوال ان کے جو آگے ہوچکے تم سے۔پہنچی ان کو سختی اور تکلیف ۔ تونے نہ دیکھے وہ لوگ جو نکلے اپنے اپنے گھروں سے ( اور وہ ہزاروں تھے ) موت کے ڈر سے پھر کہا ان کو الله نے مرجاؤ۔ پھر جلایا ان کو بیشک الله تو فضل رکھتا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
(87)ربی گائیگر جملعہ کراھتہ لمو فقتہ لنفی الشبیہ بالیہود کو اپنی کتاب مسمی Washat Muhamedans dum fuduntmme afgenoun کے صفحہ ۳۸ میں اقتباس کرتے ہیں اور یہ فاضل اس امر کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے کس قدر تغیر وتبدل کئے ۔ پھر وہ نماز عشا کا ذکر بھی کرتے ہیں جو کہ شام کے کھانے کے بعد تالمودی احکام کے برخلاف پڑھی جاتی تھی۔ مستورات کے متعلق جس قدر قوانین ہیں وہ سب کے سب یہودیوں کی نسبت اہل عرب کے دستورات سے زیادہ تر موافقت رکھتے ہیں۔ سورہ بقرہ کے ۲۳ رکوع میں جو یہ اجازت دی گئی ہے کہ احل لکمہ لیلة الصیامہ الرفشا لی نسا لکمہ یعنی حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے پردہ ہونا اپنی عورتوں سے وغیرہ بالکل تالمود ی تعلیم کے برخلاف ہے اور پھر عورتوں کے متعلق اسی سورت میں آگے چل کر جو قوانین مقرر کئے ہیں وہ نہایت ہی نفرت انگیز ہیں یہاں تک کہ سید امیر علی صاحب کے نزدیک ایسی آیات بعد کی آیات سے منسوخ ہوگئی ہیں۔ ( دیکھو لائف آف محمد صفحہ ۲۴۸)پرتاہم اسلام اس سے دستبردار نہیں ہوا بلکہ یہ قانون بدستور جاری ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح حضرت محمد نے اسلام کو یہودیت سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ سید امیر علی صاحب اپنی کتاب Personal Law of the Muhammadan’sکے صفحہ ۳۳۵ پر اس قانون کا ذکر کرتے ہیں۔ اور بحیثیت مورخ قرآنی تحائف پر افسوس کرتے ہیں اور اس کی صحت کو شکوک مبہم قرار دیتے ہیں۔ پر ایک باہر شرعیت دان کی حیثیت میں وہ اس کی ضرورت کے بھی اقراری ہیں۔ قانون کے اس امر کے متعلق فی الحقیقت مستعمل ہے وہ سیلی صاحب کی کتاب Inameea کے صفحہ ۱۴۰ اور Hanifowکے صفحہ ۲۹۲ میں پایا جاتا ہے۔ بہر کیف جو قوانین استشنا کی کتاب میں مندرج ہیں یہ ان کے برخلاف او ر برعکس ہے۔ دیکھو استشنا کے ۲۴ باب کی پہلی چار آیتیں۔
اس ترغیب وتحریص (لالچ وحرص )دلانے اور ہمت بڑھانے کے بعد آنحضرت نے حضرت موسیٰ اور ساؤل کے محاربات(لڑنے والے) اور جنگ و جدل کا جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا ذکر کرنا شروع کردیا۔ اور آپ کے بیان سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ ساؤل وجدعون میں فرق نہیں کرسکے جس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ آنحضرت توریت شریف کی تواريخ سے بالکل ناواقف تھے تاہم زمانہ قدیم کے بہادروں اور شمشیر زنوں کے قصص سے جو آنحضرت نے سنائے مومنین کی ہمت بڑھ گئی اور بہت جوشی میں آگئے۔
مسلمانوں کے دلوں میں یہودیوں سے دشمنی اور عدوات قائم ہوگئی۔ اور جنگِ بدر کے بعد یہ دشمنی بہت بڑھ گئی ۔فتح مندی کے جوش میں آکر حضرت محمد نے ایک اسرائیلی فرقہ بنی قینقاع سے کہا کہ اسلام قبول کرو ورنہ تمہارا وہی حال ہوگا جو جنگ بدرمیں قریش کا ہوا۔ لیکن یہ اسرائيلی فرقہ آپ پر ایمان نہ لایا اور آنحضرت نے ان لوگوں کو ملک سے خارج کردیا اور ان کا تمام مال واسباب ضبط کرلیا۔
بنی ندہر بہت مالدار اور متمول (دولت مند)تھے۔اور جب تک قبلہ کی تبدیلی نہ ہوئی ان کا ایک بڑا معلم حضرت محمد کا دوست تھا۔ لیکن قبلہ کی تبدیلی کے بعد وہ آپ کا مخالف ہوگیا۔اور آنحضرت کی رضامندی سے خفیہ طور پر قتل کیا گیا۔ پھر اس فرقہ کے تمام لوگوں کو آپ نے یوں کہا۔ کہ پیغمبرِ خُدا کا فرمان یہ ہے کہ سات دن کے اندر اندر ملک سے نکل جاؤ۔ جو سات کے بعد یہاں پایا جائیگا اس کا سر قلم کیا جائیگا۔ ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا کہ ہم نہیں جائينگے۔ پر چونکہ مسلمانوں کی جماعت ان کے مقابلہ میں بہت زبردست تھی اسی لئے بیچارے یہودی تاب ِ مقاومت نہ لاسکے(مقابلے کی طاقت نہ رکھ سکے)۔اور ملک سے خارج کئے گئے اور ان کے زرخیز کھیت اور تمام مال واسباب مہاجرین میں تقسیم کیا گیا۔ اور سورة الحشر میں آپ کے اس ناشائستہ فعل کے لئے الہیٰ منظور ی یوں درج ہے۔کہ هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِاوّل الْحَشْرِ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا اوّلي الْأَبْصَارِوَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاء لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِمَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ یعنی وہی ہے جس نے نکال دئے جو منکر ہیں کتاب والوں سے اور اگر نہ ہوتا کہ لکھا تھا الله نے ان پر اُجڑنا تو ان کومار دیتا دنیا میں اور آخرت میں ہے ان کو عذابِ آتش جو کاٹ ڈالا تم نے کھجور کا پیڑیا رہنے دیا کھڑا اپنے جڑ پر سو الله کے حکم سے تار سواکرے بے حکموں کو ( آیت ۲تا ۵)۔
کھجور کے درختوں کو برباد کرنا اور کاٹنا عربی آئین جنگ اور موسوی شریعت (88)دونوں کی رو سے ممنوعہ اور ناجائز تھا۔ لیکن یہ نا واجب کام کرکے آنحضرت نے وحی کے وسیلہ سےاپنے آپ کو بے قصور ثابت کیا۔چنانچہ وحی کی خاص ہدایت کے مطابق لوٹ کے مال واسباب کا بہت سا حصّہ مہاجرین کو دیا۔ سورہ حشر کی ۸ آیت میں مسطور ہے کہ لِلْفُقَرَاء الْمُهَجِرِينَ (89)الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اوّلئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ترجمہ۔ واسطے ان مفلسوں وطن چھوڑنے والوں کے جو نکا لے ہوئے آئے ہیں اپنے گھروں سے اور مالوں سے۔ ڈھونڈتے آئے ہیں الله کا فضل اور اس کی رضامندی اور مدد کرنے الله کی اور اس کے رسول کی وہی لوگ سچے ہیں۔
پھر سورہ نساء کے ۸ رکوع میں یہودیوں کو سخت لعنت وملامت کرکے متنبہ کیا۔ اور نہایت درشت گوئی (سخت بيانی)اور تلخ بیانی سے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ یعنی جو لوگ منکر ہوئےہماری آیتوں سے ان کو ہم ڈالینگے آگ میں۔ جس وقت پک جاویگی کھال ان کی بدل کر دینگے ان کو اور کھال تاکہ چکھتے رہیں عذاب۔
۵ ہجری میں بنی قریضہ یہودیوں کی ایک بڑی زبردست جماعت کا استیصال (جڑ سے اُکھاڑنا)ہوا۔ یہ لوگ بہت چاہتے تھے کہ آنحضرت کے مخالفوں سے مل جائیں اور اس میں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہے۔کہ تمام دیگر یہودیوں کی طرح بنی قریضہ کے لوگ آنحضرت سےنہایت خفا اور سخت ناراض تھے۔ ممکن ہے کہ ان کی موجودگی آنحضرت کے نزدیک خطرہ کا باعث ہو۔ لیکن ان پرجس قدر ظلم وستم کیا گیا اس کے بارہ میں آنحضرت کوئی معقول عذر (مناسب بہانہ)پیش نہیں کرسکتے اور کسی صورت میں آپ کو بریت(آزادی) حاصل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے عرض کی کہ ہمیں قتل نہ کیجئے ہم ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان بیچارے مظلوموں کی یہ سب منت و زاری بےفائدہ تھی۔ بنی قریضہ کے تمام آدمی پانچ پانچ چھ چھ کرکے آنحضرت کی عین حضوری میں نہایت بیدردی اور بے رحمی سے قتل کئےگئے۔ بازا ر میں آٹھ سو آدمیوں کا خون موجزن تھا۔اور آنحضرت کی بے رحمی اور خونریزی سے زمین لال تھی۔ آپ کے حکم کے مطابق خندقیں کھودی گئیں مظلوم قیدیوں کو زبردستی ان کے کنارے پر دوزانو کھڑا کرکے سر قلم کردیا جاتا تھا۔اور لاش کو خندق میں پھینک کر اوپر خاک ڈال دیتے تھے۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد تو مسلمانوں نے آپس میں تقسیم کرلی اور جو باقی رہیں ان کو غلامی میں فروخت کردیا۔ آنحضرت کے پانچویں حصّہ میں قریباً دو سو عورتیں اور بچے آئے اور آپ نے انہیں گھوڑوں اور اسلحہ جنگ کے عوض میں بدوی لوگوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔ ایک مقتول کی نہایت خوبصورت اور حسین بیوہ آنحضرت نے اپنے حرم سرائے میں داخل کرلی۔
(88) دیکھو توریت شریف کتاب استثنا ۲۰ :۱۹ (89) مہاجرین کو آئیندہ جہان یعنی عالم آخرت میں بھی بڑے بدلے کی امید دلائی گئی ہے چنانچہ سورہ آل عمران کےآخری رکوع میں یوں مرقوم ہے ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ پھر جو لوگ اپنے وطن سے چھوٹے اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور لڑے اور مارے گئے میں اتارونگا ان سے برائیاں ان کی اور داخل کرونگا باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں ندیاں بدلا الله کے یہاں سےاور اللہ ہی کے يہاںہی چھا بدلا۔
جب اس طرح دو قومیں جلاوطن ہوگئیں۔ اور ایک کا وہیں قلع قمع(توڑپھوڑ) کیا گیا تو مدینہ میں یہودی لوگ ہمیشہ کے لئے کمزور ہوگئے اور حضرت محمد آئندہ فتوحات کے لئے میدان جنگ میں خوب ہاتھ پاؤں لمبے (90)کرنے لگے۔
سورہ احزاب کی ۹آیت سے لے کر ۲۷ آیت تک یہودیوں پر متذکرہ بالا حملہ کا بیان ہے چنانچہ اس بیان کے آخر میں ۲۶ اور ۲۷آیت میں یوں مندرج ہے۔وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًاوَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ ۔یعنی اور اتار دیا ان کوجو ان کے رفیق(ساتھی) ہوئے تھے کتاب والے ان کی گڑھیوں سےاور ڈالی ان کےدلوں میں دہاک کتوں کو تم جان سے مارنے لگے اور کتُوں کوبندے کیااور وارث کیا تم کو ان کی زمین اور ان کے گھر اور ان کے مال کا۔
اس ماہ جبیں یہودی عورت ریحانہ نےجس کو حضرت محمد نے اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا آپ کےساتھ نکاح کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ حضرت مجھ کوصرف لونڈی اور خادمہ کے طور پر رکھئے اس میں فریقین کے لئے آسانی ہوگی۔ نیز اس عورت نےاپنے قدیمی دین سے دست بردار ہونے اور اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور یہ بات بالکل معقول (مناسب)معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاکہ آنحضرت نے کس طرح پاس کھڑے ہوکر ا س کے مظلوم شوہر اور رشتہ داروں کو قتل کرایا۔ پھر کس طرح ممکن تھا۔کہ وہ ایسے ظالم شخص کو اپنا شوہرقبول کرنے کے لئے خوش ہوتی۔ وہ بیچاری لونڈی بننے سے کسی طرح انکار نہ کرسکتی تھی۔ چنانچہ آنحضرت نے اس کو ایک غیر منکوحہ بیوی کے طور پر رکھا۔اور اپنے اس فعل کواذن الہیٰ کا ملمع(خُدا کی طرف سے اجازت کا پردہ ) چڑھانے کے لئے وحی آسمانی کا پیغام پڑھ سنایاکہ "اے نبی ہم نے حلال رکھیں تجھ کو تیری عورتیں جن کہ مہر تو دے چکا اور جو مال ہو تیرے M(91)ہاتھ کاجو ہاتھ لگاوے تجھ کو الله۔
اب ہم ذرا آنحضرت کے ابتدائی ایام کی نسبت سوچیں اور دیکھیں کہ آپ نے معاملاتِ جنگ اور فو ج کشی کے متعلق کس قدر کوششیں اور جانفشا نیاں کیں۔ جنگ بدر اگر چہ آنحضرت کی محاربانہ(لڑائی،جنگ) زندگی کی پہلی لڑائی نہ تھی۔ توبھی اس میں کلام نہیں کہ آپ کو اب تک جس قدر لڑائیاں پیش آئی تھیں ان میں سے جنگِ بدر سب سے زیادہ مشہور ہے۔ بدر کی لڑائی سے پیشتر چار قزاقانہ حملوں میں آنحضرت خود علم بردار تھے۔ اور تین مرتبہ آپ کے نائبوں کے زیر فرمان مسلمانوں نے لوگوں کو لوٹنے کے لئے چڑھائی کی۔لیکن پورے طور سے فائز المرام(کامياب) نہ ہوئے۔کیونکہ اسے نہ تو قریش کا کچھ چنداں نقصان ہوا۔اور نہ مسلمانوں کو حسب مراد لوٹ مار نصیب ہوئی۔اپنی برادری کے لوگوں پر آپ نے صرف ایک مرتبہ ماہ رجب العرب میں کسی قدر کامیابی حاصل کی۔ ماہ رجب العرب اہلِ عرب کا ماہ حرام ہے۔ اور اس کو اس وقت سے مانتے چلے آتے ہیں۔ جب کہ قومی عداوت وحسد کے باعث صلح وامن کا نام ونشان تک نہ تھا۔ اس مذکورہ بالا حملوں میں مسلمانوں نے قریش کے ایک قافلہ کولوٹا اور چونکہ ان کا یہ فعل عرب کے دستورات کے برخلاف تھا۔اس لئے مسلمانوں کو مال غنیمت سے اس قدر تسلی وخوشی حاصل نہ ہوئی . جس قدر کہ اس مجرمانہ فعل سے ان کے دلوں پر خوف وہراس چھا گیا۔ پہلے تو حضرت محمد نے صاف انکار کیا اور کہا کہ ماہ حرام میں ڈاکہ مارنے کا میں نے ہر گز حکم نہیں دیا پر جب دیکھا۔کہ اس سے لوگوں کو تسلی نہیں ہوئی تو پھر آپ نے وحی آسمانی کا فرمان پڑھ سنایا جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان ڈاکوؤں کو خُدا نے انکا جرم معاف کردیا ہے۔چنانچہ سورہ بقرہ کے ۲۷ رکوع کی آیت ۲۱۷ میں یوں مرقوم ہے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ. یعنی تجھ سے پوچھتے ہیں حرام کے مہینے کواس میں لڑائی کرنی۔ تو کہہ لڑائی اس میں بڑا گناہ ہے۔ اور روکنا الله کی راہ سے اور اس کو نہ ماننا اور مسجد حرام سے روکنا اور نکال دینا اس کے لوگوں کو وہاں سےاس سے زیادہ گناہ ہے الله کے ہاں اور دین سے بچانا مار ڈالنے سے زیادہ بُرا ہے۔
ابنِ اسحاق اس آیت کا مطلب یوں بیان کرتا ہے کہ آنحضرت نے اس آیت سے مومنین کو اس طرح تسلی دی کہ اگر تم نے ما ہ حرام میں لڑائی کی اور کشت وخون (قتل وغارت)کیا تو کونسی بڑی بات ہے وہ تو تم کو خُدا کی راہ سے روکتے ہیں اور خُدا کے نزدیک تمہاری خونریزی سے یہ گناہ بہت بڑا ہے۔ قبیلہ قریش کے لوگ نہایت قہر آلودہ تھے اور کہتے تھے کہ محمد اور اس کے مقلدوں (مريدوں)نے خونریزی اور لوٹ مار سے اور لوگوں کو قید کرنے سے ماہ حرام کو ناپاک کردیا ہے۔
ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے بڑی بڑی مہمات (لڑائياں ،جنگوں) اور معرکہ آرائيوں کی بنیاد پڑگئی۔ اس عرصہ میں وحی قرآنی جس قدر پیغام لایا ان میں انتقام اور لشکر کشی کے مضامین کی روح کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اور ان میں محاربہ(جنگ) ومقابلہ کے باب میں بڑی ترقی نظر آتی ہے۔ سورہ رعد ایک آخری مکی سورة ہے۔لیکن اس کی ۴۱ ويں آیت آنحضرت کے مدنی ایام سے تعلق رکھتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس آیت کے بعد میں یا تو حضرت محمد نے خود کو یا کسی جامع قرآن نے سورہ رعد میں داخل کردیا ہے۔اس آیت میں مسلمانوں کے بُت پرستوں عربوں کے ممالک مقبوضہ کو دبا لینے اور ان میں بیجا مداخلت کرنے کا صاف بیان پایا جاتاہے چنانچہ لکھاہے کہ اوّلمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ۔یعنی کیا نہیں دیکھتے کہ ہم چلے آتے ہیں۔ زمین پر گھٹاتے اس کو کناروں سے اور الله حکم کرتا ہے۔ کوئی نہیں کہ پیچھے ڈالے اس کا حکم۔
پھر سورہ حج اغلباً مکی ہے۔ لیکن بعض آیات آنحضرت کے ایام مکہ کے بعد کی اور صاف مدنی معلوم ہوتی ہے۔ مثلا ً چھٹے رکوع کی آیت ۳۹ میں یوں مندرج ہے۔أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌالَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ یعنی حکم ہوا ان کو جن سے لوگ ڈرتے ہیں اس واسطے کہ ان پر ظلم ہو۔اور الله ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ وہ جن کا نکالا ان کے گھروں سے اورکچھ دعویٰ نہیں سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب الله ہے۔
۲ ہجری میں حضرت محمد نے معلوم کیا کہ اپنے ہم وطنوں سے ضرور لڑائی پیش آئیگی۔ چنانچہ سورہ بقرہ جو شرو ع شروع کی مدنی سورة ہے۔ اس کے ۲۶ رکوع کی ۲۱۶ آیت میں اس طرح مرقوم ہے۔كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ۔یعنی حکم ہوا تم پر لڑائی کا اور وہ بُری لگی ہے تم کو اور شاید تم کو بُری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے لئے۔
سورہ بقرہ میں اسی طرح کی اور بھی کئی آیات ہیں لیکن کسی قدر بعد کے زمانہ کی ہیں۔ اور گمان غالب ہے کہ ۷ ہجری میں پہلے حج کے موقعہ پر نازل ہوئی تھیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ضرور یہ آیات ساکنان مکہ کے حق میں ہیں۔ اور اگر وہ لوگ عہد حدیبيہ قائم نہ رہیں تو ان کے حق میں ۲۴ رکوع کی آیت ۱۹۲،۱۹۱ میں یوں مندرج ہے۔ وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبِّ الْمُعْتَدِينَوَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ اور لڑو بیچ راہ الله کے ان سے جو لڑتے ہیں تم سے اور زیادتی مت کرو۔ الله نہیں چاہتا زیادتی والوں کو۔ اور مارو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا اور دین سے بچلانا مارنے سے زیادہ ہے۔ اسی رکوع کی آیت ۱۹۳ میں پھر مذکور ہے۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (93)وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ۔یعنی لڑو ان سے جب تک نہ باقی رہے فساد اور حکم رہے الله کا۔ پھر اگر وہ باز آویں تو زیادتی نہیں مگر بے انصافوں پر۔
بنی اسرائیل کے جنگ وجدل کا بیان کرکے اور خصوصاً ساؤل کی معرکہ آرائیوں کے حوالے دے کر آنحضرت نے اپنے مریدوں کی ہمت بڑھائی۔ اور ان کے دلوں میں آتش حرب(لڑائی کی آگ) کومشتعل کیا۔ حضرت محمد کا ساؤل اور جدعون میں تمیز کرنا اور ان کا خلط ملط حال بیان کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے۔ کہ آنحضرت کو عہدِ عتیق کی تواريخ کا صحیح علم نہ تھا۔ چنانچہ سورہ بقرہ کے ۲۲ اور ۲۳ رکوع میں بنی اسرائیل کو یوں کہتے ہوئے پیش کیا گیا ہے کہ "یعنی بولے ہم کوکیا ہواکہ ہم نہ لڑیں الله کی راہ میں اور ہم کو نکال دیا ہے ہمارے گھر سے اوربیٹوں سے۔ بہت جگہ جماعت تھوڑی غالب ہوئی ہے جماعت بہت پر الله کے حکم سے اور الله ساتھ ہے ٹھہرنے والوں کے۔
پس جس طرح جدعون کی تھوڑی سی فوج مدیانیوں کے لشکر پر غالب آئی ۔عین اسی طرح سے مسلمانوں کی چھوٹی سے گروہ نے اہلِ مکہ پر غلبہ حاصل کیا۔ اس قسم کی فتوحات آنحضرت کی تعلیم کی صحت وسچائی پر دال(نشان) تھیں۔اور خُدا تعالیٰ کی طرف سے نشان وشاہد کے طور پر پیش کی جاتی تھیں۔ غرض ان تدابیر اور اس طرح کی تعلیم کے وسیلہ سے حضرت محمد نے مومنین کے دلوں کو مضبوط کیا۔اور اپنے آپ کے جھنڈے تلے لڑنے مرنے کو تیار ہوگئے۔
اس میں کلام نہیں کہ قریش نے مسلمانوں کو مکہ سے خارج کردیا تھا۔ اور اس وجہ سے یہ خیال ہوسکتا ہے۔ کہ تمام جنگ وجدل کی بنیاد اسی بات پر تھی اور مسلمانوں کا چنداں قصور نہ تھا۔لیکن اب تو جہاد کا حکم اس حد سے تجاوز (حد سے بڑھنا)کرگیا۔ اور یوں ارشاد ہوا کہ جب تک اکیلے واحد خُدا کی پرستش شروع نہ ہو۔یعنی جب تک اہل مکہ اسلام قبول نہ کریں تب تک تلوار میان میں نہ ہو اور محاربہ ومقاتلہ(لڑائی و قتل) جاری رہے۔ دین ِحق کی اشاعت بزور شمشیر(تلوار کے زور پر) ہونے لگی۔ اور سوائے اسلام کے کسی دوسرے دین کے جواز(اجازت) کا مطلق امکان نہ رہا پر مسلمانوں کی جماعت اب تک بزدل تھی اور شجاعت ومردانگی نے تاحال ان کے دلوں میں جڑ نہ پکڑی تھی۔ منافق یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے مسلمان نہ تھے۔ تدابیر جنگ کے باب میں مخالفت کرنے لگے۔ پھر کچھ عرصہ بعد سورہ محمد نازل ہوئی۔ اور اس کے وسیلہ سے آنحضرت نے سچے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا کر لڑائی پر آمادہ کیا۔ اور بزدلوں اور منافقوں(ريا کاروں ) کو عذاب دوزخ سے ڈرایا اور زجرو معاقبت(لعنت وعذاب) کی۔ چنانچہ چوتھی اور پانچویں آیات میں مندرج ہے۔ کہ فَإِذا(94) لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا۔یعنی سو جب تم بھڑومنکروں سے تو مارنی ہیں گردنیں یہاں تک کہ جب کٹا ؤ ڈال چکے ان میں تو مضبوط باندھو قید۔ پھر یا احسان کریو پیچھے اور یا چھوڑوائی لیجیو جب تک کہ رکھ دے لڑائی اپنے بوجھ۔ پھر سورہ انفال کے رکوع ۵ کی آیت ۳۹ میں مرقوم ہے کہ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه۔یعنی لڑتے رہو ان سے جب تک نہ رہے فساد اور ہوجاوے حکم سب الله کا ۔ (95)پھر سورہ محمد کی ۲۲ اور ۳۷ آیات میں پست ہمت اور بزدل مسلمانوں کی طرف یوں خطاب ہے۔کہ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَاوّلى لَهُمْ، فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ۔ يعنی کہتے ہیں کہ ایمان والے کیوں نہ اتری ایک سورة ؟ پھر جب اتری ایک سورة جانچی ہوئی اور ذکرہوا اس میں لڑائی کا تو تُو دیکھتاہے جن کے دل میں روگ ہے تکتے ہیں تیری طرف جیسے تکتا ہے کوئی بے ہوش پڑا موت کے وقت۔ سوتم بودے (کمزور)نہ ہوئے جاؤ او رپکارنے لگو صلح اور تم ہی رہو گے اوپر اور الله تمہارے ساتھ ہے۔
(93) راڈویل صاحب فتنہ کے معنی مکہ سے مسلمانوں کو خارج کرنے یا بُت پرستی کی ترغیب دینے کےکرتے ہیں اور سیل صاحب کہتے ہیں کہ اس سے بُت پرستی کی ترغیب مراد ہے اور سیل صاحب کا بیان مفسر حسین کے بیان سے مطابقت رکھتا ہے حتیٰ لا تکون فتنہ کا مطلب حسین کے نزدیک یہ ہےکہ تا آن غایت کہ فتنہ نبا شند یعنی از شرک اثر نہ ماند۔ دیگر مفسرین اس کا بہت لمبا چوڑا مطلب بیان کرتے ہیں اور بہت کشادہ معنی مراد لیتے ہیں چنانچہ خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کے ۱۳۶صفحہ میں یوں مندرج ہے کہ جب تک مسلمان نہ ہوں یا جزیہ نہ دیں تلوارمیان نہ کرو۔ الجھاد ما ضی الی یوم القیمہ۔ (94) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سورة جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی اور بہت سے مفسرین کا بیان بھی اسی سورة میں صحیح ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جہاد کا یہ حکم سیدنا عیسیٰ مسیح کی دوسر آمد اور امام مہدی کے ظاہرہونے تک جاری رہیگا۔ چنانچہ احادیث میں مرقوم ہے کہ الجھاد ماصی الیٰ یومہ القیامة یعنی جہاد قیامت تک موقوف نہیں ہوگا۔ بعض کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہوگیاہے اوربعض کہتے ہیں کہ یہ حکم جنگ بدر سے پہلے آیا تھا اور ایک محدود مدت تک اسکا اجرا مراد تھا لیکن یہ حنفی فرقہ کا اعتقاد ہے شیعہ لوگ پہلے خیال کے متعقد ہیں۔دیکھئے تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۳۶۲ اور خلاصتہ التفاسیر جلد چہارم ۲۱۳۔ عبد بن عباس فرماتےہیں کہ حتیٰ تضع الحراب اوزراھا کے معنی یہ ہیں کہ حتیٰ تیر ک الکفارہ اشر کہا یعنی اس وقت تک کہ کافر اپنے شرک سے باز نہ آجاویں لیکن جب وہ چوتھی آیت سے جنگ بدر کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو یہ بات کچھ مشکوک سی رہتی ہے کہ اس 5 آیت سے وہ جہاد کا عام حکم مراد لیتے ہیں یا نہیں۔
اسی طرح آنحضرت کی ان تدابیر وتجاویز سے اسلامی جہاد کی بنیاد پڑگئی۔اور یہ پہلا موقعہ تھا کہ اہل ِمدینہ کھلم کھلا لڑائی میں شامل ہوئے۔ حضرت محمد کے ساتھ اہل مدینہ نے صرف یہ وعدہ کیا تھا۔کہ ہم آپ کی حفاظت کرینگے اور آپ کو پناہ دینگے لیکن اب ان کو اس سے بڑھ کر کھلم کھلا حملوں میں آپ کی مدد کرنا اور آپ کے دشمنوں سے لڑنا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ۶۲۴ ہجری میں بدر (96) کی لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی کے شرح بیان کی کچھ ضرورت نہیں۔
لڑائی سے پہلی رات کو کسی قدر بارش ہوئی۔ اور حضرت محمد نے خواب میں دیکھاکہ دشمنوں کی تعداد بہت کم ہے۔چنانچہ سورہ انفال کے دوسرے اور پانچویں رکوع میں ان دونوں باتو ں کا ذکر یوں مندرج ہے۔ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ ۔یعنی جس وقت ڈالدی تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کو اور اُتارا تم پر آسمان سےپانی کہ اس سے تم کو پاک کرے اور دور کرے تم سےشیطان کی نجاست(گندگی) جب الله نے ان کو دکھایا تیرے خواب میں تھوڑے اور اگر وہ تجھ کو بہت دکھاتا تو تم لو گ نا مردی کرتے اور جھگڑا ڈالتے کام میں لیکن الله نے بچالیا۔
جنگِ بدر میں قریش نے شکست فاش کھائی ۔اور ان میں سے بہتوں کو مسلمانوں نے قید کرکے بے رحیمی سے قتل کر ڈالا۔ لوٹ کا مال بہت تھا اور اس کی تقسیم کے باب میں جھگڑا ہو پڑا۔ایک نہایت نفیس سرخ پیراہن گم ہوگیا اور منافقوں میں سےکسی نے کہا کہ وہ حضرت محمد نے لےلیا ہے۔ لیکن اس الزام سے آنحضرت کی بریت (رہائی)کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ (97) وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّیعنی نبی کا کام نہیں کہ کچھ چھپائے رکھے۔ (سور ہ آل عمران آیت ۱۶۱)۔ مالِ غنیمت کی تقسیم کے باب میں جوتنازعہ ظہور میں آیا تھا۔اسکےاختتام اور انفصال (جُدا ہونا)کے لئے سورہ انفال کی پہلی آیت میں وحی کی معرفت خُداکی مرضی کااظہار اور اسکے آسمانی فیصلہ کا بیان یوں ہوا ہے۔يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ یعنی تجھ سے پوچھتے ہیں حکم غنیمت کا۔ تو کہہ مال غنیمت الله کا ہے اور رسول کا۔ سو ڈرو الله سے اور صلح کرو آپس میں اور حکم میں چلو الله کے اور اسکے رسول کے اگر ایمان رکھتے ہو۔
جب آنحضرت مذکورہ بالا آیت کے وسیلہ سے مال غنیمت پر اپنا کُلی استحقاق ( پوراحق طلب کرنا) اور پورا حق جماچکے تو پھر اپنے اس دعویٰ کو ذرا اہلکار کرکے اسی سورة کے پانچویں رکوع کی آیت ۴۱ میں یو ں پیش کیا۔ وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِیعنی جان رکھو کہ جو غنیمت لاؤ کچھ چیز سو الله کے واسطے اس میں سے پانچواں حصّہ اور رسول کے اور قرابت والے کے اور یتیم کے اور محتاج کے اور مسافر کے اگر تم یقین لائے ہو اور الله پر اور اس چیز پر جوہم نے اُتاری اپنے بندے پر جس دن فیصلہ ہوا ۔(98) جس دن بھڑیں دو فوجیں۔ چنانچہ مال غنیمت کی نسبت آج تک اسلامی شریعت یہی چلی آتی ہے۔
حضرت محمد کو مدینہ میں عزت ووقار حاصل کرنےکے لئے جنگ ِبدر میں فتح مند اور ظفریاب(جيت۔کامياب) ہونا نہایت ضروری تھا۔ کیونکہ گذشتہ مار دھاڑ میں آپ کوبہت کم کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ اور اس سبب سے آپ کا جتھا بہت ضعیف(کمزور) سمجھا جاتا تھا۔ اب جنگ بدر میں فتحیاب ہوکر ہر طرح سے آپ نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی اس جنگ میں معجزانہ طور پر خُدا نے آپ کی مدد کرکے آپ کو فتح مند اور ظفریاب کیا ہے۔ چنانچہ سورہ انفال کے پہلے رکوع کی آخری آیات میں یوں مرقوم ہے کہ (99) إِذْتَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَوَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ۔ یعنی جب تم لگے فریاد کرنے اپنے رب سے تو پہنچا تمہاری پکار کو کہ میں مدد بھیجونگا تمہاری ہزا ر فرشتے لگا تار آنے والے۔ اور یہ تودی الله نے فقط خوشخبری اور تاچین پکڑ یں دل تمہارے اور مدد نہیں مگر الله کی طرف سے۔
پھر آگے چل کر یہی مذکورہ مدد آنحضرت کے دعویٰ کی تائید(مدد) اور مومنین کی تنبیہ(نصيحت) اور دل ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے دوسرے رکوع کی ۱۳ آیت میں یوں مذکور ہے کہ (100) قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاء إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لَّاوّلي الأَبْصَارِ یعنی ابھی ہوچکا ہے تم کو ایک نمونہ دوفوجوں میں جو بھڑی تھیں۔ ایک فوج ہے کہ لڑتی ہے الله کی راہ میں اور دوسری منکر ہے۔ یہ ان کو دیکھتے ہیں اپنی دو برابر صریح آنکھوں سے اور الله زور دیتا ہے اپنی مدد کا جس کو چاہے اسی میں خبردار ہوجاویں جن کو آنکھ ہے۔ پھر سورہ انفال کے دوسرے رکوع کی ۱۷آیت میں مسطور ہے کہ فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى۔یعنی سو تم نے انکو نہیں مارا لیکن الله نے مارا اور تونے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن الله نے پھینکی آنحضرت کی طرف سے جن لوگوں نے جنگِ بدر میں اپنی جانیں دیں۔ ان کو رتبہ شہادت نصیب ہوا چنانچہ سورہ بقرہ کے ۱۹ رکوع میں یوں مندرج ہے (101) وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ یعنی جوالله کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کومُردے نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔
(98) تمام مفسرین کے نزدیک اس فیصلہ یا فتح سے فتح بدر مراد ہے۔ جویوم الفرقان کہلاتا ہے۔ یو م الفرقان کا ترجمہ روز فعل۔ روز فتح اور ہلاکت کا دن مقرر کیا گیاہے یعنی روز بدر جس میں نیک وبد اور خیر وشر میں فرق ہوگیا چنانچہ تفسیر حسینی جلد اوّل کے ۲۴۰ صفحہ میں مندرج ہے کہ روز بدر کے جد اشدن حق ازباطل دربود ربی گیگر اس امر کا بیان کرتے ہیں کہ لفظ فرقان ربیوں کے عبرانی لفظ سے لے لیا ہے اور اسکے معنی خلاصی یا کفارہ کے ہیں سورہ بقرہ کے ۲۲ رکوع میں اس لفظ کا مفہوم ماہ رمضان ہے جوگناہوں سے خلاصی بخشنے والا مہینہ خیال کیا جاتاہے نہ کہ قرآن جوعموماً روشن کنند اور حق وباطل میں فرق کرنےوالا خیال کیا جاتا ہے مفسرین لفظ فرقان کی یو ں تشریح کرتا ہےکہ الفرقان وازحدود احکام وسائر شرائع دین کہ جدا کنند است میان حق وباطل دیکھو تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۳۰ Geiger’s Judaism and Islam صفحہ ۴۱ اور Rodwell Quranصفحہ ۷۶۔ (99) تحقیق معلوم نہیں ہے کہ آیا یہ آیات قبیلہ قریش کے حق میں نازل ہوئی ہیں یا یہودیوں یا مومنین مدینہ کے حق میں (دیکھو بیضاوی کی تفسیر قرآن ) عبدالله ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے ساکنان مکہ یا اہالیان مدینہ مراد ہے۔ یہ نشان حضرت محمد کی نبوت کا ایک صریح ثبوت متصور ہوتا ہے۔ چنانچہ تفسیر حسینی کے صفحہ نمبر۱ ۷ میں مندرج ہے کہ نشانے درست برنبوت محمد۔ (100) یعنی جنگ بدر میں حضرت محمد کی نبوت کا ایک نہایت صریح اور صاف ثبوت دیا گیا چنانچہ کان لکمہ ایة کے تشریح کے باب میں مفسر حسین فرماتے ہیں کہ شمارا علامتے ونشانے درست بر نبوت محمد۔
اگرچہ جنگ ِبدر میں مسلمانوں کی تعداد قریش کےمقابلہ میں بہت کم تھی تو بھی انہوں نے فتح پائی اور قریش کے بعض آدمی جو آنحضرت کے سخت دشمن تھے۔ میدانِ جنگ میں مار ے گئے لہذا اس فتح کی تاویل کے باب میں تائید آسمانی اور الہیٰ مداخلت کا بیان قرین قیاس(وہ بات جسے عقل قبول کرے) اور قابل ِاعتماد معلوم ہونے لگا۔ اسی فتح کے باعث آنحضرت کی زندگی محفوظ ہوگئی۔ اور جس حکمت عملی کے مطابق آپ کارروائی کرنے کے مشتاق (ماہر)تھے۔ اب بلا روک ٹوک اس پر کار بند ہوگئے اور چونکہ اقوام یہود کی اعانت (مدد)کی آپ کو اب کچھ ضرورت نہ رہی۔ اسی لئے ان کو بھی خوب دبانا شروع کیا۔ جب عرب کی بدوی قومیں آپ کی ظفر یابی(کاميابی) سے واقف ہوئیں تو ان پر آپ کا رعب مسلط ہوگیا۔اور انہوں نے آپ کو ایک فوج ظفر موج کا سپہ سالار جان کر آپ سے عہد وپیمان کی استدعا (درخواست)کی۔ان لوگوں کو آپ کی پیغمبری اورنبوت کی چنداں پروانہ تھی۔ لیکن آپ نے ایک جنگی سپہ سالار کی حیثیت میں ان کی توجہ کو کھینچ لیا اور وہ آپ کی تعظیم کرنے لگے۔ جب کبھی کوئی فتح نصیب ہوئی تو آنحضرت نے یہی مشورہ کیا۔کہ یہ سب آسمانی مدد اور الہیٰ تائید کا نتیجہ ہے۔ اس قسم کے دعویٰ سے آپ کی طاقت وشہرت روز افزوں(روزانہ ترقی) ہوتی گئی۔ لیکن ساتھ ہی اس قسم کے اشتہار دینا اور ایسی تدبیر پر چلنا اور ازحد خطرناک تھا۔ کیونکہ جب کبھی آپ شکست کھاتے تھے تو طبعی طور پر جو نتیجہ نکل سکتا تھا وہ یہی تھا کہ خُدا نے آپ کو ترک کردیا۔ چنانچہ کچھ مدت بعد ایسے موقعوں پر فی الحقیقت لوگوں نے یہی نتیجہ نکالا۔
جنگ ِبدر میں شکست کھاکر قبیلہ قریش کے لوگ انتقام کے لئے سخت دانت پیس رہے تھے۔ دوسرے سال انہوں نے مصمم ارادہ(پکا ارادہ) کیا کہ اپنے دشمنوں کو مغلوب کرنیکے لئے ایک دفعہ پھر میدان ِ جنگ میں صف آرا(مقابلہ کرنے والا)ہوں۔ چنانچہ ۶۲۵ ء کے موسم بہار میں پہلے کی نسبت کسی قدر زیادہ فوج فراہم کرکے مدینہ کے قرب وجوار (ارد گرد)میں جا اُترے۔ اب حضرت محمد نے دانشمندی سے ہر چند چاہا کہ قریش پر حملہ نہ کرے بلکہ خود حفاظتی کے لئے مسلح رہے لیکن آپ کے بعض ناتجربہ کار اور سرگرم مومنین نے آپ کو اس تدبیر پر عمل کرنے سے باز رکھا اور کہنے لگے کہ بدوی اقوام کےدلوں میں اب آپ کی طاقت اوربالادستی کے رعب داب کا سکہ بیٹھ چکا ہے۔
اور اس لئے اس وقت حملہ نہ کرنا بزدلی کا اظہار ہوگا۔ آپ کی مشکلات کے وقت مدد آسمانی اور تائید الہیٰ پر شبہ کیا جائیگا۔ آسمانی مدد آنحضرت کی من جانب الله رسالت کا ایسا ثبوت مانی گئی تھی۔کہ اگر اب کسی امر میں آپ ذرا بھی شک وشبہ ظاہر کرتے۔ تو آپ کی تمام شہرت خاک میں مل جاتی۔ آخر الامر آپ نے قریش کے ساتھ معرکہ آرا ہونا منظور کرلیا۔اور مومنین کو فرمایا کہ اگر تم استقلال (مضبوطی)سے لڑوگے تو خُدا تعالیٰ تم کو۱ فتح مندی بخشیگا ۔(102)
(101) تحقیق معلوم نہیں کہ آیا یہہ آیت جنگ بدر سے علاقہ رکھتی ہے یا جنگ اُحد سے مفسر حسین فرماتے ہیں کہ در روز بدر جان شیریں بداد واز نعمت حیات ولذت نصیم دنیا محروم شد۔ عبداللہ ابن عباس جملہ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کے بیان میں فرماتے ہیں کہ یُّقۡتَلُ فی طاعتِ للّٰہِ یوم بدریعنی جنگ بدر میں خدا کی فرمانبرداری کرتے ہوئے مارے گئے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں مندرج ہی کہ شہیدوں کی روحیں خدا کے حضور ان سبز پرندہ کے جسم میں داخل ہوتی ہیں جو کہ بہشت میں اِدھر اُدھر پرواز کرتے اور عرش الہٰی کے گردا گرد کی قندیلوں کے پاس بسیرا کرتے ہیں (دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد اول صفحہ ۹۶ واں) (102) میو ر صاحب نے جنگ احد کا حال نہایت مفصل اور شرح لکھا ہے۔ دیکھو Muir’s life of Muhammad جلد سوم صفحہ ۱۶۰وا
کچھ عرصہ تک بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ لیکن جب دونوں فوجیں اچھی طرح غٹ پٹ(باہم لڑائی ميں گتھ جانا) ہوئیں تو مسلمانوں نے بہت بُری طرح شکست کھائی۔اور آنحضرت خود بھی سخت زخمی ہوئے اور نہایت ناراض ہوکر فرمانے لگے کہ وہ قوم کس طرح ترقی کریگی۔ اور اس کا کیونکر بھلا ہوگا جس نے اپنے نبی کے ساتھ جو خُدا کی طرف بلاتا ہے۔ ایسی بدسلوکی کی ؟ جنہوں نے پیغمبر خُدا کے چہرہ کو خون (103) آلودہ کیا۔ان پر خُدا کے غضب کی آگ نازل ہو۔ قریش کی فوج ظفر موج نے اب فتح احد سے تسکین حاصل کی اور بجائے اس کہ ہزیمت یافتہ مومنین کا تعاقب کرے مکہ کی طرف روانہ ہوئی اور جنگ احد کا خاتمہ ہوا۔
جو مسلمان جنگ احد میں کام آئے تھے احادیث میں انہیں شہدا بیان کیا ہے لیکن اس شکست کی صاف تاثیر(اثر) یہ تھی۔ کہ مومنین نہایت مغموم (غمزدہ)(104) اورمصیبت زدہ ہوگئے۔جنگ ِبدر میں جو آنحضرت کو فتح نصیب ہوئی تھی۔اس کو آپ نے اس قدر تائید الہیٰ اور آسمانی مدد سے منسوب کیا تھا۔کہ اب احد کی شکست سے خواہ مخواہ یہ خیال مسلط ہونے لگا کہ خُدا تعالیٰ آنحضرت کی مدد ویاروی سے دست بردار ہوگیا۔ خصوصاً یہودیوں نے اس دلیل پر بہت زور دیا اور کہنے لگے۔ کہ حضرت محمد شاہی جاہ وجلال کی دھن میں مستغرق (غرق شُدہ)ہورہے ہیں۔ اور کسی طرح سے وہ اپنے آپ کو اس سے برّی نہیں کرسکتے۔آج تک کسی سچے نبی کی یہ حالت نہیں ہوئی کہ اس نے حضرت محمد کی طرح میدانِ جنگ میں شکست کھائی ہو اور آنحضرت کی طرح اپنے مومنین سمیت مجروح وزخمی ہوکر میدان جنگ سے گریزاں (105) ہوا ہو۔اب اس امر کی ضرورت پڑی کہ آنحضرت ہر طرح کی تدابیر وتقریر سے یہودیوں کے اعتراضات کا کافی جواب دیں۔ اور بعض مسلمانوں کے مخفی (پوشيدہ)اور دلی شکوک کو رفع کریں۔ چنانچہ آپ نے نہایت ہوشیاری سے وحی آسمانی کو پیش کیا۔ اور فرمایا کہ جنگِ احد میں شکست کے اسباب یہ تھے۔ کہ اکثر مومنین کے درمیان باہمی لڑائی جھگڑے اور نا اتفاقی تھی۔
سپہ سالار وں کا حکم نہیں مانتے تھے اور اپنی شخصی حفاظت اور سلامتی کے خواہاں تھے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۶ رکوع کی آیت ۱۵۲ میں یوںمرقوم ہے۔ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْیعنی الله تو سچ کرچکا تم سے اپنا وعدہ جب تم لگے ان کو کاٹنے اس کے حکم سےجب تک تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور بے حکمی (106)کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا چکا تمہاری خوشی کی چیز۔ کوئی تم میں سے چاہتا تھا دینا اور کوئی تم میں سے چاہتا تھا آخرت (107) پھر تم کو الٹ دیا ان پر سے اس واسطے کہ تم کو آزماوے۔
(103) دیکھو Muir’s life of Muhammadکی جلد سوم کے ۱۷۵ صفحہ پر مقتبسات واقدی۔ (104) قبیلہ قریش کے لوگوں نے مسلمانوں کی اس شکستہ دلی کو غنیمت جانا اور ان کو آنحضرت سے برگشتہ کرنیکے لئے کوشش کرنے لگے۔ اس کے مقابلہ میں آنحضرت بھی خاموش نہ تھے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کرنا یھا الذین امنوآن تطیعوالذین کفر وایر دو کمہ علیٰ اعقا بکمہ ذتنقلبو اخسرین یعنی اے ایمان والو اگر تم کہا مانو گے منکرونکا تو تم کو پھیر دینگے الٹے پاؤں پھر جا پڑوگے نقصان میں (دیکھو سورہ آل عمران رکوع 16 ) مفسرحسین فرماتے ہیں کہ منافقوں نے سچے مسلمانوں کو اسلام سے روگردان ہونیکی ترغیب دی او رکہنے لگے کہ حضرت محمد کی نبوت کا زمانہ گذرگیا ہے اور کفاران پر غالب آگئے ہیں سو بہتر ہے کہ اب پھر اپنے پرانے مذہب کو اختیار کرو چنانچہ تفسیر حسینی کے ۷۵ صفحہ میں یوں مندرج ہے کہ منافقان مومنان رامیگفتد کہ ایں زمان پیغمبر گذشتہ شد رایت دولت کفارہ استیلا یافت شمارا دیگر بارہ دیں خود رجوع باید کر۔ (105) دیکھو Muir’s life of Muhammadکی جلد سوم کے ۱۸۹ صفحہ پر مقتبسات واقدی۔ (106) حکم رسول کے یا حکم سردار عبدالله بن جبیر کے (خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل صفحہ ۳۱۱)۔ (107) بیضاوی کہتا ہےکہ بعض محار مین صفوف جنگ سے اپنا مقام چھوڑ کر لوٹ مار میں مصروف ہوگئے تھے اور بعض رسول الله کے حکم کے مطابق اپنی اپنی جگہ جمے رہے۔
پھر بیان کیا جاتا ہے کہ خُدا تعالیٰ نے مومنوں کے اخلاص اور ان کے ایمان کی صحت کی آزمائش کی غرض سے یہ شکست بھیجی تھی۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۴ اور ۱۷ رکوع میں مندرج ہے۔کہ إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوّلهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَوَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَوَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَوَلْيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُواْ۔ (آیت۱۴۰ اور ۱۶۶)یعنی اگر تم نے زخم (108)پایا تو وہ لوگ بھی پاچکے ہیں زخم ایسا ہی اور یہ دن بدلتے لاتے ہیں ہم لوگوں میں اور اس واسطے کہ معلوم کرے جن کو ایمان ہے۔اور کرلے بعضے تم میں سےشہید اور الله چاہتا نہیں (109) ناحق والوں کو اور اس واسطے کہ نکھارے الله ایمان والوں کو اور مٹادے منکروں کو اور جوکچھ تم کو سامنے آیا جس دن بھڑیں دو فوجیں سو الله کے حکم سے اور اس واسطے کہ معلوم کرے ایمان والوں کو اور تاکہ معلوم کرے انکو جو منافق تھے۔
یہودیوں کی طعن وتشنیع (چھيڑ چھاڑ)کے جواب میں آنحضرت نے وحی آسمانی کی زبانی یوں بیان کیا ہے۔ کہ آگے بھی انبیاء پر اسی طرح تکالیف مصائب آتی رہے ہیں۔ میں ان سے مستثنیٰ(آزاد) نہیں ہوں۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۵ رکوع کی آیت ۱۴۴ تا ۱۴۶میں مرقوم ہے۔ کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَوَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا(110) مُّؤَجَّلاً وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَوَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ۔ یعنی محمد تو ایک رسول ہے ہوچکے پہلے اس سے بہت رسول پھر کیا اور وہ مرگیا یا مارا گیا تو پھر جاؤ گے الٹے پاؤں اور جو کوئی پھر جائیگا الٹے پاؤں وہ نہ بگاڑیگا الله کا کچھ اور الله ثواب دیگا بھلا ماننے والوں کو اور کوئی جی مرنہیں سکتا بغیر حکم الله کے لکھا ہوا وعدہ اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہوکر لڑے ہیں بہت خُدا کے طالب(111) پھر نہ ہارے ہیں کچھ تکلیف پہنچنے سے الله کی راہ میں نہ سست ہوئے ہیں نہ دب گئے ہیں اور الله چاہتا ہے ثابت رہنے والوں کو۔
(108) بیضاوی کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ اگرجنگ احد میں وہ تم پر غالب آگئے ہیں تو جنگ بدر میں تم ان پر غالب آچکے ہو۔ (109) بیضاوی کے بیان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا اور اصل منکروں کی مدد نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات ان کو محض اس غرض فتح مند کردیتا ہے کہ تاکہ ان کو امتحان میں ڈالے اور مومنین کو آزمائے۔ (110) ان آیات میں آنحضرت کی جنگ احد میں فرضی موت کی طرف اشارہ ہے اور اس میں جو استدلال کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگرحضرت محمد میدان جنگ میں مارے بھی جاتے تو مومنین کے لئے مناسب نہ تھا کہ اسلام کو ترک کریں۔ کیونکہ پہلے تمام بنی مرگئے پر ان کے دین باطل ومنسوخ نہیں ہوئے بلکہ قائم رہے۔ محدثین کا بیان ہے کہ جب آنحضرت جنگ احد میں زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے تو مومنین یوں پکار کر کہنےلگے کہ اگرمحمد صاحب مرگئے ہیں تو کچھ عجیب بات نہیں ہوئی خُدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔اس کا پیغمبر اپنا کام ختم کرچکا تم اپنے ایمان کی خاطر لڑو لیکن منافقین کہنے لگے کہ چونکہ محمد مرگیا ہے آؤہم اپنے گھروں کو واپس چلیں Muir’s life of Muhammad جلد سوم کے صفحہ نمبر ۱۷۳ مقتبسات واقدی۔ بیضاوی بیان کرتا ہے کہ ابن قمیہ نے آنحضرت کے علم بردار مسعب بن عمر کو قتل کیا یہ سمجھ کر کہ میں نے محمد کو مار ڈالا ہے زور سے پکا ر اٹھا کہ میں نے محمد کو قتل کردیا ہے۔ یہ سن کر مسلمان میدان سے بھاگ نکلے۔ لیکن آنحضرت نے ان کو پکارا او رکہا کہ اے خُدا کے بندو میری طرف آؤ پر منافقین نے کہا اگر محمد خُدا کا نبی ہوتا تو مارا نہ جاتا آؤ ہم اپنے بھائی بندوں اور اپنے پرانے دین کی طرف واپس چلیں ان آیات کے ترجمہ پر عبدالقادر کا حاشیہ اور تفسیر حسینی کا صفحہ نمبر ۸۵ ملاحظہ کیجئے۔ (111) لفظ ربیون کےمعنی عالم اور نیکو کار کے بھی ہیں محدثین وکاین من نبی قتل معہ ربیون کثیر کے ترجمہ کے باب میں لکھتے ہیں کہ بسا پیغامبر کہ قتال کروند کفار ہمراہ وخُدا پرستان بسیار عبدالله ابن عباس کے نزدیک ربیون کثیر کے معنی جمو ع کثیر اور حسین کے نزدیک سپاہ فرادان ہیں۔ خلاصتہ التفاسیر میں یوں لکھاہے کہ آپ سے پہلے پیغمبرگذر ےجن کے ساتھ الله والے لڑتے تھے۔ ابن کثیر ابو عمر اور یعقوب وغیرہ قاری قاتل (لڑایا قتل کیا ) کی جگہ قتل (لڑائی کیا گیا یا قتل کیا گیا ) پڑھتے ہیں اور بعض کے نزدیک قتل صحیح ہے سواگر ان قراتوں کے مطابق خیال کیا جاوے تو پہلی سورة میں جو معنی ہونگے وہ یہ ہیں کہ بسا واقات نبی قتل کیا گیا جبکہ نیکوکارو لوگ اس کے ہمراہ تھے۔ دوسری صورت میں یہ ہے کہ بسا اوقات نبی نیکو کاروں کے ساتھ مارا گیا۔ پس اس طرح اس آیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبی نیکو کار لوگوں سے لڑتا تھا بلکہ یہ کہ نیکوکار لوگ نبی کےساتھ ہوکر لڑتے اور دشمنوں کو قتل کرتے تھے یانبی کے ساتھ ہی قتل کئے جاتے تھے درحالیکہ وہ نبی کے ساتھ ہوتے تھے تو بھی نبی قتل کیاجاتا تھا۔
پھر آنحضرت نے مسئلہ تقدیر اور شیطانی تاثیرات کے متعلق تعلیم دے کر اپنے مطلب کی تاویلات کو بہم پہنچایا۔چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۷ رکوع کی آیت ۱۶۰میں یو ں مرقوم ہے کہ إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُؤْمِنُونَ۔ یعنی اگر الله تمہاری مدد کریگا تو کوئی تم پر غالب نہ ہوگا۔ اور جو وہ تم کو چھوڑ دیگا پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کریگا۔ اس کے بعد اور الله پر بھروسہ چاہئے مسلمانوں کو۔ اس آیت سے آنحضرت نے یہ بات سمجھائی کہ اگر خُدا تمہاری مدد کرے جیسی کہ اس نے جنگ ِبدر میں کی تو تم پھر غالب آسکتے ہو پر اگر وہ تم کوچھوڑ دے جیسا کہ اس نے جنگِ احد میں چھوڑدیا تم ضرور شکست کھاؤ گئے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۵ اور ۱۶ رکوع اور سورہ حدید کے ۳ رکوع میں یوں مندرج ہے کہ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا مُّؤَجَّلاًإِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا۔ یعنی کوئی جی مر نہیں سکتا بغیر حکم الله کے لکھا ہوا۔ جو لوگ تم میں ہٹ گئے جس دن بھڑیں دو فوجیں سو ان کو ڈگا دیا شیطان نے کوئی آفت نہیں پڑی ملک میں اور نہ آپ تم میں جو نہی لکھی ایک کتاب میں پہلے اس سے کہ پیدا کریں ہم اس کو۔
آخر الامر جو لوگ جنگِ احد میں مار ے گئے تھے ان کو حضرت محمد نے خطاب شہادت سےممتاز (سرفراز)کیا۔ اور ان کی جزا میں مبالغہ(کسی بات کو بڑھا چڑھا کر بيان کرنا) کرتے کرتے ان کو آسمانی افواج میں شریک کردیا۔چنانچہ سورہ آل عمران کے ۱۷ رکوع میں مندرج ہے۔کہ وَلاَ تَحْسَبَنَّ (113) الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًابَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَفَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَيَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ۔ یعنی تو نہ سمجھ جولوگ مارے گئے الله کی راہ میں مُردے بلکہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزی پاتے۔ خوشی کرتے اس پر جو دیا الله نے اپنے فضل سے اور خوشوقت ہوتے ہیں ا نکی طرف سے جو ابھی نہیں پہنچے ان میں پیچھے سے اس واسطے کہ ڈر ہے ان پر نہ ان کو غم۔ خوش وقت ہوتے ہیں الله کی نعمت اور فضل سے اور اس سے کہ الله ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کی۔
سورہ آل عمران کے آخر میں ایک مغلق المضمون(مشکل مضمون) سی آیت پائی جاتی ہے۔ جس سے آنحضرت پر یہ ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ اگر چہ ساکنان مکہ کو جنگ احد کے وقت سے کافی آزادی حاصل ہے۔ اور وہ اپنے تجارتی کاروبار کے لئے بلا روک ٹوک ادھر ادھر شہروں میں آتے جاتے ہیں تاہم آپ کو بیدل ہونا اور کسی طرح سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے چنانچہ لکھا ہے۔کہ لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ(114) الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِمَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ۔ یعنی تو نہ بہک اس پر کہ آتے جاتے ہیں کافرشہروں میں۔ یہ فائدہ ہے تھوڑا سا پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا بُری تیاری ہے۔
(112) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت سخت مصیبت میں مبتلا تھے اور اس سے صاحب موصوف نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ساری سورة ہی جنگ احدکے بعد نازل ہوئی تھی۔ مفسرین اسلام اس آیت کو کسی خاص واقعہ کی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اس کے عام معنی لیتے ہیں ۔ حسین بیان کرتا ہے کہ اس سے کال وقحط مالی نقصانات بیماری اور افلاس مردا ہیں جو کہ پہلے ہی لوح محفوظ میں مرقوم ہیں۔ دیکھو تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۳۸۱۔ (113) احادیث میں شہید وں کی بہشتی فرخندہ فالی وخوشحالی کی نسبت نہایت عجیب وغریب حکایات مندرج ہیں آنحضرت نے خود فرمایا کہ جب مومنین احد میں شہید ہوئے الله تعالیٰ نے ان کی روح سبز پرندوں کے بدنوں میں کردی جو جنت کی نہروں اور میووں سے کھاتے پیتے ہیں (خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل صفحہ ۳۲۰ اور ۳۲۱) مفسر معالم فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شہیدان بدر کی طرف اشارہ ہے اور اس سے شہیدان احد مراد نہیں ہیں۔ (114) تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِ کے معنوں کے باب میں مفسر عبدالله ابن عباس فرماتے ہیں کہ ذھاب الیھود والمشرکین فی تجارة یعنی یہودیوں اور مشرکوں کا ادھر ادھر تجارت کی غرض سے آنا جانا۔ تفسیر حسینی کی پہلی جلد کے ۱۹۵ صفحہ میں مفسر حسین لکھتے ہیں باید کہ فریب ندہد ترارفتن وآمدن کافران در شہر ہا برائے تجارت۔
ان حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں نے ایسی شکست فاش کھائی تھی۔ کہ عرب کے بُت پرست لوگ بے خوف اپنے معمولی کاروبار کے لئے ادھر ادھر آتے جاتے تھے۔ اس سے آنحضرت بہت بیدل ہونے لگے۔ اور آپ کے مومنین کی بھی ہمت ٹوٹنے لگی۔ لہذا آنحضرت کی ہمت بڑھانے اور آپ کے مریدوں کی دلجمعی کرنے کے لئے مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔
سورہ آل عمران (115) اس مضمون کی آیات سے پُر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ان حالات کے باعث نہایت مشکل میں تھے۔اور آپ نے نہایت جانفشانی سے کوشش کی کہ احد کی شکست سے جو خطرات متصور ہوسکتے تھے۔ان کو مدینہ سے دفع کریں اور ان کے تدفیعہ (دُور کرنا)کے وسیلہ سے اپنے مریدوں کو استقلال (مضبوطی)بخشیں۔
علاوہ اس کے یہ سورة اس امر کی ایک نہایت عمدہ اور صریح نظیر (واضح مثال)ہے۔کہ جب مسلمان اپنی خستہ حالی اور بربادی کے باعث بیدل ہوجاتے اور ہمت ہار بیٹھتے تھے۔ تو ان کی تسلی وتشفی کے لئے کس عجیب طور سے عین وقت پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ تھوڑی دیر بعد پھر آنحضرت کو کامیابی کی امید ہوگئی۔ کیونکہ جنہوں نے جنگِ احد میں پیٹھ دکھائی تھی ان کو آ پ نے خوب دھمکایا (116) اور ملامت کی اوربیان فرمایا کہ اب ضرور اسلام غالب آئیگا۔اور صرف دین اسلام ہی کُل دُنیا کا دین قرار پائیگا۔ چنانچہ سورة صف کی ۹آیت میں یوں مندرج ہے۔ هُوَ (117)الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ۔ یعنی وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ لے کر سچا دین کہ ا س کو اوپر کرے دینوں سےسب سے اور پڑے برا مانیں شرک کرنے والے۔
جنگ احد (118) کے بعد دونوں فوجیں باہم یہ دھمکی سنا کر کہ اگلے سال میدانِ بدر میں پھر دیکھینگے میدان جنگ سے روانہ ہوئیں۔ دوسرے سال جب وقت آیا تو قبیلہ قریش کے لوگ بہت سی فوج لے کر حسب وعدہ بدر کی طرف روانہ ہوئے لیکن گرمی کی شدت اور تمازت(شدت کی گرمی) آفتاب کی تاب نہ لا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔
(115) آنحضرت کی نظر میں یہ سورة احد قابل قدر تھی چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو کوئی سورہ آل عمران کو پڑھیگا اس کو ہر ایک آیت کے ثواب میں یہ حق حاصل ہوگا کہ پل صراط سے سلامت گذر جاوے۔Chrestomathia Baidowaniaصفحہ نمبر ۱۴۲۔ (116) یا ایھا الذین امنوا لمہ تقولون ما لا تفلحون لبر مقتا عندالله ان تقولومالا تفلحون ان یحب الذین یقاتالون فی سبیلہ صفا ً کا نہم بنیان مرصوص۔ یعنی اے ایمان والو کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے۔ بڑی بیزاری ہےالله کے یہاں کہ کہو وہ چیز جونہ کرو۔ الله چاہتا ہے ان کو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر جیسے وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ۔ (117) اس آیت کے آخری حصّہ کا مطلب مفسر حسین کے نزدیک یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ عین اسی وقت ہوگا جب سیدنا عیسیٰ مسیح دوبارہ تشریف لائینگے چنانچہ تفسیر حسینی کی دوسری جلد کے ۴۰۰ صفحہ میں یوں مرقوم ہے کہ تا غالب گرداند رین دین راہ برہمہ کیش وملت بوقت نزول عیسیٰ کہ ہم اہل زمین ودین اسلام قبول کنندہ۔ دوسرا مصنف کہتا ہے کہ اس آیت میں اشارہ ہے کہ اسلام ناسخ ادیان ہے۔ (118) اب بعض مومنین نے آنحضرت کو صلاح دی کہ یہود نصاریٰ سے دوستی پیدا کریں لیکن وحی آسمانی نے اس سے رد کردیا چنانچہ سورہ مائدہ کے رکوع ۸ کی پہلی آیت میں یوں مرقوم ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ترجمہ : اے ایمان والو مت پکڑو یہود نصاریٰ کو رفیق۔ وہی آپس میں رفیق ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں ان سے رفاقت کرے وہ انہیں میں ہے۔ الله راہ نہیں دیتا بے انصاف لوگو ں کو۔
سو جب آنحضرت اپنے بہادروں سمیت بدر میں پہنچے تو وہاں قریش کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ آپ نے آٹھ یوم تک بدر میں قیام کیا اور آپ نے مال واسباب کو فروخت کرنے سے بہت سا نفع اٹھایا۔ اس نیک فرجامی(انجام) کے باب میں جس کے عوض میں سخت کشت وخون (قتل وغارت)کی امید تھی۔فی الفور وحی کا نزول ہوا۔ چنانچہ سورہ آل عمران کے اٹھارويں رکوع میں یو ں مسطور ہے۔الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌالَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُفَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّهِ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍإِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ اوّليَاءهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ یعنی جن لوگوں نے حکم مانا الله کا رسول کا بعد اس کے کہ ان میں پڑ چکا(119) تھا کٹاؤ۔ جو ان میں نیک ہیں اور پر ہیز گار ان کو ثواب بڑا ہے۔ جن کو کہا لوگوں نے کہ انہوں نے جمع کیا اسباب تمہارے مقابلے کو سو تم ان سے خطرہ کرو۔ پھر ان کو زیادہ آیا ایمان اور بولے بس ہے ہم کو الله اور کیا خوب کار ساز ہے۔ پھر چلے(120) آئے الله کے احسان سے اور فضل (121) سے کچھ۔ نہ پہنچی برائی اور چلے الله کی رضا پر اور الله کا فضل(122) بڑا ہے اور یہ جو ہے سو شیطان(123) ہے کہ ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے۔ سو تم مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ہو تم ایمان والے۔
قریش کے علاوہ چند دیگر اقوام پر بھی آپ نے کئی بار حملے کئے۔ان میں سے سوائے ایک کے جس میں آپ نے صلواة الخوف کے قوانین کو قائم کیا کوئی بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ (124)جب فوج کا ایک حصّہ نماز میں مشغول(مصروف) ہوتا تھا۔ تو دوسرا حفاظت کے لئے تیغ برہنہ(ننگی تلوار ليے) کھڑا رہتا تھا۔ اس وقت سے قرآن ایک ذریعہ قرار پایا۔ حرب وضرب(لڑائی و مار) کی تمام خبریں اور ہر طرح کے فوجی احکام خُدا تعالیٰ کی طرف سے براہ راست قرآن ہی کی معرفت تمام معاملات طے ہونے لگے۔
(119) جنگ احد کی ہزیمت وشکست کی طرف اشارہ ہے۔ (120) یعنی میدان بدر سے بغیر لڑنے اور تکالیف وخطرات جنگ کو برداشت کرنے کے واپس آئے۔ (121) یا تو مومنین یہاں لوٹ کے مال سے مالا مال ہوئے یا بیضاوی کے بیان کے مطابق وہاں ایک بڑا بھاری میلہ تھا اور انہوں نے خریدوفروخت کرکے بہت نفع حاصل کیا۔ (122) یعنی ان کو ایمان کی مضبوطی بخشے اور دشمنوں کےمقابلہ میں استقلال وشجاعت عطا فرمانے میں دیکھو بیضاوی کی تفسیر قرآن۔ (123) تحقیق معلوم نہیں کہ یہ شیطان سے کون مراد ہے۔ ابن عباس اور بیضاوی دونوں مفسروں کا خیال ہے کہ اس سے نعیم جو مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا تھا یا ابو سفیان قریشی سردار مراد ہے۔ (124) سورہ نساء کے رکوع ۱۵ میں مندرج ہے وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا یعنی اور جب تو ان میں ہو پھر ان کو نماز میں کھڑا کرے تو چاہے ایک جماعت ان کی کھڑی ہو تیرے ساتھ اور ساتھ لیویں اپنے ہتھیار پھر جب یہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجاویں اور آوے دوسری جماعت جس نے نماز نہیں کی۔ وہ نماز کریں۔ اس امر کے مفصل بیان کے لئے Sell’s Faith of Islamصفحہ نمبر ۲۷۱ ملاحظہ فرمائیں۔
بعض اوقات آنحضرت کی خانگی زندگی(گھريلو زندگی) کےمتعلق آپ کور استکار(ایماندار) قرار دینے کی غرض سے بھی وحی کا نزول ہوتا تھا۔ جو آسمانی فیصلے آپ کے اس وقت کے مدنی معاملات سے علاقہ(تعلق) رکھتے ہیں۔ ان سے اس امر کی بخوبی تشریح ہوجائیگی اگرچہ ان کا واقعی طور پر وقوع میں آنا ۶۲۶ء میں اور جنگ ِاحد کے بعد زمانہ میں بیان کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ اپنے متبنی(بيٹا بنايا ہوا۔لے پالک) زید کے گھر تشریف لے گئے۔ اور اسکی زوجہ زینب کے حسن وجمال کو دیکھ کر اس پر ایسے فریفتہ اور بیدل ہوئے۔ کہ بس پھر نہ سنبھلے زید فی الفور زینب کو طلاق دے کر آنحضرت کی نظر کرنے پر آمادہ ہوگیا۔لیکن آپ نےفرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور خُدا سے ڈر۔ پر زید ایک صاحب بصیرت شخص تھا۔اس نے زینب کو طلاق دیدی۔ عام طور پر آنحضرت کا زینب کو سلک ِ زوجیت میں منسلک کرنا کچھ بڑی بات نہ تھی۔ اور شاید اس سے آپ کے نام پر کسی طری کا کوئی دھبانہ لگتا۔ لیکن کسی شخص کا اپنے متبنی کی بیوی سے شادی کرنا گو اس نے طلاق بھی دیدی ہو اہل ِعرب کی نظروں میں نہایت گھناؤ نا اور مکروہ تھا۔ بمصداق ہرچہ بادا باد ما کشتی درآب انداختیم۔ آنحضرت زینب کے بغیر کب رہ سکتے تھے۔ وحی کا نازل کرانا تو اپنے ہاتھ میں تھا۔ شادی رچادی اور الہیٰ منظوری کے ثبوت میں ایک آیت پڑھ سنائی۔ یہ ایک ضروری امر تھاکہ پہلے آپ متبنوں کی بیویوں سے نکاح کرنے کے متعلق لوگوں کے عام اعتراضات کو خُدا کے نزدیک نا معقول قرار دیں ۔ چنانچہ سورہ احزاب کی چوتھی آیت میں یوں مرقوم ہے وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءكُمْ أَبْنَاءكُمْيعنی الله تعالیٰ نے تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا۔
اہلِ عرب کے دستور اور ان کی مروجہ رسومات کے لحاظ سے حضرت محمد کا زید سے ایسا رشتہ تھا جیسا کہ باپ کا اپنے حقیقی بیٹے سے ہوتا ہے۔لیکن اسلام نے خُدا کے حکم سے اس رشتہ کو برطرف وبالائے طاق رکھ دیا۔ جب آپ کے لئے یہ ایک عام اصول قائم ہوگیا تو پھر زینب کے معاملہ میں آپ کے سامنے کوئی مشکل باقی نہ رہی۔ اور اہل عرب کے خیالات کو آسمانی اختیار سے ہیچ (نکما)اور بے ہودہ ثابت کرنیکے دعویدار ہوئے۔ چنانچہ سورہ احزاب کے رکوع ۵ کی آیت ۳۸،۳۷ میں یوں مرقو م ہے۔وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًامَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۔یعنی اور جب تو کہے اس شخص کو جس پر الله نے احسا ن(125) کیااور تونے احسان(126) کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو اور ڈر الله سے اور تو چھپاتا اپنے دل میں ایک چیز جوالله اس کو کھولا چاہتا ہے او ر ڈرتا(127) تھا لوگوں سے اور الله سے زیادہ چاہئے ڈرنا تجھ کو۔ پھر جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غر ض ہم نے وہ تیرے نکا ح میں دی تانہ رہے سب مسلمانوں پر گناہ نکاح کرلینا اپنے لے پالکوں کی جوروؤں سے جب وہ تمام کریں ان سے اپنی غرض اور ہے الله کا حکم کرنا۔ نبی پر کچھ مضائقہ(ہرج) نہیں اس بات میں جو ٹھہرادی الله نے اس کے واسطے۔
(125) یعنی اس کو مشرف بااسلام ہونے کی اجازت وتوفیق بخشی۔ (126) اسکو اپنا متبنی بنایا۔ (127) تفسیر حسینی اور صحیح البخاری میں مذکور ہے کہ الله مبدیہ سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ زینب آخر کار آپ کے نکاح میں آئیگی اور تحشی الناس سے یہ مراد ہے کہ حضرت محمد اہل عرب کی رسومات کی خلاف ورزی سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے دستور کے مطابق متبنی کی بیوی سے نکاح کرنا نا جائیز تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی تیسری جلد کے ۳۱۲ صفحہ میں مندرج ہے وتحفی فی نفسلمہ الله مبدیہ نزلت فی شان ابنتہ حجش و زید ابن حارثة ۔ تفسیر حسینی کی دوسری جلد کے صفحہ ۲۰۱ میں یوں مرقوم ہے کہ تحفی فی نفسا وپنہاں میکر دی درنفس خود ما الله مبدیہ آنچہ خُدا پیدا کنندہ آن است یعنی آنرا کہ زینب داخل ازدواج طبیات تو خواہد۔ وتحشی الناس وترسیدی از سر زنش مردم کہ گوید زن پسر خواندہ بخواست۔
پھر آنحضرت کو یہ ایک اور مشکل آئی کہ زینب آپکی حقیقی پھوپھی امینہ کی بیٹی تھی۔وحی کے وسیلہ سے پھر آپ کو اور خاص حق جس سے آپ کے سب مرید محروم تھے عطا ہوا۔اور اس سے یہ مشکل بھی رفع دفع ہوگئی۔ چنانچہ سورہ احزاب کے چھٹے رکوع کی آیت ۵۰ میں یوں مرقوم ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ۔ یعنی اے نبی ہم نے حلال رکھیں تجھ کو تیری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا اور جومال ہو تیرے ہاتھ کاجوہاتھ لگاوے تجھ کو الله اور تیرے چچا(128) کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور کوئی عورت (129) جومسلمان ہوکر بخشے اپنی جان نبی کو اگر نبی چاہے کہ اس کو نکاح میں لے یہ نری ہے تجھی کو سوائے سب مسلمانوں کے۔
چونکہ زینب اور اس کا بھائی آنحضرت کی اس کاروائی میں رضامند نہ تھے۔ اس لئے سورہ احزاب کے رکوع ۵ کی آیت ۳۶میں خُدا کی طرف سے آپ نے ان کو یوں ملامت (لعن طعن)کی۔ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا۔ یعنی اور کام نہیں کسی ایماندار مرد کا (130) نہ عورت کا جب ٹھہراوے الله اور اس کا رسول کچھ کام کہ ان کو رہے اختیار اپنے کام کا اور جو کوئی بے حکم چلا الله کے اور اس کے رسول کے سوراہ بھولا صریح چوک کر۔
اس آیت سے معاملہ طے ہوگیا اور زینب کےساتھ آنحضرت کا نکاح جائز قرار دیا گیا۔ اسی سورة میں ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت کو اس وقت موجودہ نو بیویوں کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنے سےمنع کیا گیا۔لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ اجازت ملی کہ جس قدر عورتیں رکھنی چاہیں حرموں کے طور پر رکھ لیں۔ چنانچہ اس امر کے جواز کے باب میں قرآن میں یہ فقرہ مندرج ہے کہ ما ملکت ایمینک ۲* (131) یعنی جو مال ہو تیرے ہاتھ کا اس وقت اس بات کے طول طویل بیا ن کی کچھ ضرورت نہیں۔ سورة النسا ء جو کہ ۴یا ۵ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ اس کی تیسری آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ حرموں کے علاوہ ایک ہی وقت چار سے زیادہ بیویاں نہ رکھیں۔ اور جس آیت میں آنحضرت کے لئے نو کی حد ٹھہرائی گئی ہے وہ اسکے بعد نازل ہوئی تھی۔
پھر کچھ مدت بعد قریباً ۸یا ۹ ہجری میں آنحضرت کے خانگی معاملات(گھريلو معاملات) کے متعلق حضرت جبرائیل یعنی وحی آسمانی لپکتے ہوئے آئے۔ اس وقت سے کچھ عرصہ پیشتر ملک ِمصر کے رومی حاکم نے ایک نہایت خوبصورت وحسین ونوخیز لونڈی آپ کی نذر کی تھی۔ وہ آنحضرت کے نخل(درخت) مراد سے باردار ہوئی اور ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اور آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا۔ اب آنحضرت کی دیگر زوجات مطہرات کےدلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ آنحضرت کی ایک کرتوت آپ کی زوجات میں سے حفصہ کو معلوم تھی۔ اور آپ نے اس کو یہ راز پوشیدہ رکھنے کی سخت تاکید کی تھی۔ لیکن اس نے عائشہ کو بھی بتادیا اس سے آپ سخت ناراض ہوگئے۔ خانگی تنازعہ بڑھتا گیا اور آپ کو مناکحت (نکاح)کے باب میں الہیٰ منظوری اور رضا مندی کی ضرورت پڑی اور آپ کی کارروائیوں کو دائرہ مباحات(جائز ہونا) میں لانے اور جو آپ نے اپنی(132) زوجات مطہرات کے آرام وآسائش کی بابت قسمیہ عہد کیا ہوا تھا۔ ا س سے مخلصی بخشنے کے لئے جبرائیل پیغام لائے۔چنانچہ سورہ تحریم کی پہلی آیتوں میں یوں مندرج ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌقَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ۔ یعنی اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا الله نے تجھ پر چاہتا ہے تو رضا مندی اپنی عورتوں کی اورالله بخشنے والا مہر بان۔ ٹھہرادیا ہے الله نے تم کو کھولڈالنا تمہاری قسموں کا اور الله صاحب ہے تمہارا اور وہی ہے سب جانتا حکمت والا۔
(128) مفسرحسین صاف فرماتے ہیں کہ بنت عمتک میں زینب کی طرف اشارہ ہے چنانچہ تفسیر حسینی کی دوسری جلد کے صفحہ ۲۰۴ میں اس کے بیان میں یوں مرقوم ہےکہ دختران عمہائے تو ازاوّلاد عبدالمطلب ۔ یہ آیت آنحضرت کے زینب سے نکاح کرنیکے وقت یعنی ۶۲۶ء سے بعد کی ہے اور آنحضرت کے کردہ کو دائرہ جواز میں لاتی ہے اور لونڈی کا حوالہ بنی قریضہ کے قتل کی طرف اشارہ کرات ہے جو کہ ۶۲۷ء میں واقع ہوا تھا جبکہ آنحضرت نے اپنی پہلے پہل اسیر کردہ عورتوں میں سے ریحانہ کواپنے حرمین شریفین میں داخل کیا تھا۔ (129) سورة النسا ء میں جو دوسرے مسلمانوں کے لئے حدود اور قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان سےاس کے وسیلہ سے آنحضرت معذور رکھے جاتے ہیں۔ (130)مفسر بالاتفاق اس مرد وعورت سے زید وزینب مراد لیتے ہیں چنانچہ ترمذی اور معالم اور دوسری تفاسیر میں مروی ہے کہ یہ آیت زینب کے حق میں نازل ہوئی۔ دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد سوم صفحہ ۵۵۹ تفسیر ابن عباس کے ۴۸۴ صفحہ پر مرقوم ہے کہ لمومنٍ زید لامومنة زینب۔ مفسر حسین بھی کہتاہے کہ اس سے زینب ہی مراد ہے۔ دیکھو تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ ۲۰۱ ومن یعص الله ورسولہ پر حسین بہت زور دیتا ہے اور قرآن وسنت کو متساوی الحیثیت قرار دیکر یوں لکھتا ہے کہ ہر کہ عاصی شود مخالفت کند خُدا تعالیٰ ورسول الله اور یا ازحکم کتاب وسنت بگذرو۔ (131) کہتے ہیں کہ یہ آیت پہلی آیات سے منسوخ ہوگئی ہے۔ اس آیت پر سیل صاحب کا حاشیہ اور خلاصتہ التفاسیر جلد سوم کے ۵۷۸ صفحہ کو ملاحظہ فرمائے خلاصتہ التفاسیر کے بیان کی تصدیق کے باب میں کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی لہذا بیان تنسیخ مشکوک اور غیر معتبر ہے۔
۵ ہجری میں قبیلہ قریش کے لوگوں نے پھر بڑے زور وشور سے چڑھائی کی اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ جس قدر محاصرین نے زور دیا۔اسی قدر بعض مسلمان بیدل ہوگئے اور ہمت ہار بیٹھے۔چنانچہ سورہ احزاب کی ۱۰ اور ۱۱ آیت میں اس محاصرہ کا بیان اور اسکے خطرات کا نقشہ کھینچ کر یو ں پیش کیا گیا ہے ۔ إِذْ جَاؤُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَاهُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا۔یعنی جب آئے تم پر اوپر کی طرف سے اور نیچے سے اور جب ڈگنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک اور اٹکلنے لگے تم الله پر کئی کئی اٹکلیں۔ وہاں جانچے گئے ایمان والے اور جھڑ جھڑائے گئے زور جھڑ جھڑانا۔
اب حضرت محمد ﷺ بالکل عاجزو بے بس معلوم ہوتے تھے۔ اور جو لوگ شہر کی حفاظت کے لئے باہر نکل کر قریش کو شہر میں داخل ہونے سے روک رہے تھے ان کے دلوں میں آپکی موعودہ آسمانی مد د کی نسبت شکوک پید ا ہوگئے ۔اور وہ کام چھوڑ کر شہر میں آجانے پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ اسی سورة کی ۱۴،۱۳،۱۲اور ۱۷ آیات میں ان کو یوں سرزنش(ملامت) کی گئی ہے۔ وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًاوَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًاقُل لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَارُ۔ یعنی اور جب کہنے لگے منافق (ريا کار)اور جن کے دلوں میں روگ ہے جو وعدہ دیا تھا ہم کو الله نے اور اسکے رسول نے سب فریب تھا او رکہنے لگے ایک ان میں سے اے یثرب والو تم کو ٹھکانا نہیں سو پھر چلو۔ اور رخصت مانگنے لگے ان میں ایک لوگ نبی سے او رکہنے لگے ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں اور وہ کھلے نہیں پڑے۔ غرض اور نہیں مگر بھاگنا تو کہہ کام نہ آویگا تم کو بھاگنا۔
قریش نے یکایک اچانک محاصرہ سےہاتھ اٹھالیا۔ اور آنحضرت نے مسلمانوں کو حوصلہ بڑھانیکے لئے خُدا کی طرف سے ایک اور پیغام جیسا کہ سورہ احزاب کے تیسرے رکوع میں مرقوم یوں مرقوم ہے۔وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا۔یعنی اور پھیر دیا الله نے منکروں کو اپنے غصہ میں بھرے ہاتھ نہ لگی کچھ بھلائی۔
اب ایک سالا رقوم کی حیثیت میں آنحضرت کی طاقت قائم ہوگئی اور آپ نے اپنی قومیت اور بالادستی کا دعویٰ کیا اور یہ حکم دیاکہ سب لو گ آپ کی عزت وتوقیر کریں۔ اور بڑے ادب سے پیش آئیں۔ چنانچہ سورہ نور کے رکوع ۹ کی آیت ۶۳ میں لکھا ہے کہ لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاء بَعْضِكُم بَعْضًا۔ یعنی مت(133) ٹھہراؤ بلا نا رسول کو اپنے اندر برابر اس کے جو بلاتا ہے تم میں ایک کو ایک۔
(132) Muir’s life of Muhammad کی چوتھی جلد کے ۱۶۰ سے ۱۶۳ صفحہ تک ا س کا مفصل بیان مندرج ہے۔ نیز تفسیر حسینی جلد دوم کا ۴۱۱ صفحہ ملاحظہ فرمائیے۔ (133) راڈویل صاحب کے قرآن ۵۸۶ صفحہ کے حاشیہ نمبر ۲ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خیال آپکا راویوں سے اڑایا ہوا تھا۔
قریش نے جنگِ بدر میں شکست کھائی فتح احد میں مسلمانوں کا تعاقب (پیچھا)نہ کیا اور اب مدینہ سے محاصرہ میں بھی ناکامیاب رہے۔ بہت سی عربی اقوام نے ترغیب وتحریص(لالچ۔حرص) پاکر یا شمشیر محمدی (محمدی تلوار)سے خوف زدہ ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ یہودی لوگ کچھ قتل ہوئے کچھ جلاوطن کئے گئے ۔اور جو باقی ماندہ تھے ان کی طاقت وجمعیت (گروہ)ٹوٹ گئی ۔پر اہلِ مکہ تا حال آنحضرت کی کچھ پرواہ نہ کرتے تھے ۔اگر چہ آپ اپنے آپ کو فتح اور بنی آدم کا حاکم سمجھتے تھے۔ اس تمام عرصہ میں حضرت محمد کو قریش کے ہاتھ سے مصائب وتکالیف پہنچتی رہیں۔ لیکن اب انتقام ومکافات کا دن قریب آگیا۔ اس وقت آنحضرت کی توجہ شہر مکہ کی طرف مبذول (لگايا گيا)ہوئی۔ کیونکہ جب تک آپ مکہ میں(134) مختار کُل(مکمل با اختيار) اور مطلق العنان(بے لگام) نہ ہوتے تب تک آپ کو عرب کی شاہنشاہت کا خیال کرنا بیجا ہوس کے سوا اور کچھ نہ تھا۔اب آپ کو اپنے مکی مومنین سمیت مکہ سے نکلے ہوئے پورے چھ برس گذر چکے تھے۔اور ان میں اکثر بعض مکی مقامات کی زیارت کے بصد جان مشتاق (شوقین)تھے۔ علاوہ ازیں کچھ عرصہ سے حضرت محمد نے قبلہ کی بھی تبدیلی کرلی تھی۔ اب بجائے یروشلم کے مکہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔
جو مسلمان مدینہ میں جابسے تھے۔ ان کی نظر میں تاحال کعبہ کی بہت کچھ تعظیم وتکریم تھی۔ اگرچہ عرصہ چھ سال سے وہ کعبہ کی زیارت سے محروم تھے۔ تاہم وہ ہر روز نماز کے وقت کعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوتے تھے۔ ان کے دلوں میں حرم کعبہ میں داخل ہونے اور اس کا طواف کرنیکا شوق ازبس اشتداد پر تھا۔ اب عین وقت پر آنحضرت نے ایک خواب دیکھا جس میں اپنے تئیں تمام مومنین سمیت فرائض حج کو ادا کرتے ہوئے پایا۔ اس خواب کے وسیلہ سے راستہ کھل گیا۔اور چونکہ ماہ محرم الحرام (جس میں عمرہ ہوتا ہے ) نزدیک تھا۔ اسلئے مسلمانوں کی ایک متعدد جماعت (135) مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔ قریش نے ان کو شہر میں داخل ہونے سے (136)روکا اور دونوں طرف سے ایلچی آنے جانے لگے۔ مقام حدیبہ میں مسلمانوں کی حالت کسی قدر خطرناک تھی۔ حضرت محمد نے سب مومنین کو ایک درخت کے سایہ میں اپنے سامنے جمع کیا۔اور ہر ایک سے یہ عہد لیا کہ خوا ہ اس کو اپنی جان بھی دینی پڑے وہ آپکا ساتھ نہیں چھوڑیگا ۔ سبھوں نے بخوشی تمام قسمیہ عہد کیا اور یہ عہد عہد الشجر کے نام سے نامزد ہوا۔ زمانہ بعد میں اس عہد کی طرف بسا اوقات اشارہ کیا گیا۔ اور اس کی بہت کچھ قدرومنزلت بھی کی گئی ہے۔ اس امر کی توضیح (واضح کرنا)کے لئے کہ آنحضرت کے مومنین نے اپنے آپ کو آپ پر نثار کر چھوڑا تھا۔اور ان کے درمیان ہمدردی بدرجہ کمال تھی۔مذکورہ بالا عہد نہایت عمدہ اور صریح دلیل(واضح ثبوت) ہے۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے خُدا تعالیٰ بہت خوش ہوا چنانچہ سورہ فتح کے تیسرے رکوع کی پہلی آیت میں یوں مندرج ہے۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔ یعنی الله خوش ہوا ایمان والوں سے جب ہاتھ ملانے ل(137) گے تجھ سے اس درخت کے نیچے۔
تاہم باہمی صلاح ومشورہ کا نتیجہ یہ تھاکہ قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی مطلق اجازت نہ دی اور مفصلہ ذیل شرائط پر اکتفا ہوئی:
(۱)دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہوگی اور طرفین میں سے کوئی فریق فریق ثانی(دوسرے ) پر حملہ آور نہ ہوگا اور کامل اتحاد ودوستی قائم رکھی جائیگی۔ (۲) اگر کوئی شخص قریش سے حضرت محمد کے ساتھ ملنا چاہے یا کوئی حضرت محمد کو چھوڑ کر قریش میں شامل ہونا چاہے تو اس کے لئے کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ (۳) اگر کوئی شخص اپنی قوم کے (138) سردار کی اجازت کے بغیر حضرت محمد سے جا ملے۔ تو حضرت محمد نے اس کوواپس بھیج دینگے اور اسی طرح اگر کوئی مسلمان قریش میں واپس آجائے تو قریش اس کو حضرت محمد کے پاس واپس بھیجیگی۔ بشرطیکہ حضرت محمد اپنے مومنین سمیت واپس چلے جائیں اور اس سال شہر مکہ میں داخل نہ ہوں۔ نیز قریش نے آنحضرت سے اقرار کیاکہ آئندہ ہم آپ کو مومنین سمیت شہر مکہ میں تین یوم تک جبکہ باہر چلے جائینگے داخل ہونے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ کسی کے پاس سوائے تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہ ہو اور وہ تلوار (139) بھی میان میں ہو۔
اس عہد وپیمان سے پہلے تو مسلمان بہت مایوس ہوگئے اور خیال کرنے لگے کہ مکہ آنے میں کچھ فائدہ نہ ہوا(140) ۔ لیکن حضرت محمد نے فوراً خُدا کی طرف سے وحی کا پیغام سنایا اور سمجھایا کہ عہد حدیبہ سے ہم کو بہت فائدہ ہوا ہے جو مسلمان اس کے برعکس خیال کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ چنانچہ آپ نے اونٹ پر کھڑے ہوکر یوں فرمایا کہ انا افتحا الک فتحا مبنا یعنی ہم نے پہلے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ ( سورہ فتح پہلی آیت )۔
(137) اس عہد کا نام بیعة الرضا لکھا ہے۔ (138) اس شر ط میں ذکور واناث کوئی تشخیص نہیں بلکہ یہ شرط مذکر ومونث دونوں پر یکسا ں عائد ہوتی ہے لیکن جب آنحضرت مکہ سے مدینہ کی طرف واپس چلے آئے تو اس کے تھوڑی دیر بعد ایک قریشی جو ان آپ سے آملا اور قریش کے دعویٰ کرنے پر آپ نے اسے واپس دیدیا پھر ایک عورت اسی طرح آگئی اور اس کے بھائی آپ کی خدمت میں مدینہ پہنچے اور آپ سے درخواست کی کہ اسے ان کے حوالہ کردیں۔ آنحضرت نے خُدا کاحکم پیش کیا اور عورت کو ان کے حوالے کرنے سے صاف انکار کیا۔ چنانچہ سورہ ممتحنہ کی ۱۰ آیت میں مرقوم ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ یعنی اے ایمان والو جب آویں تم پاس ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر تو ان کو جانچ لو۔ الله بہتر جانتا ہے کہ ان کا ایمان پھر اگر جانو کہ وہ ایمان پر ہیں تو نہ پھیرو ان کو کافروں کی طرف یہ عورتیں حلال ان مردوں کو نہ وہ حلال ان عورتوں کو۔ فقرہ فَامْتَحِنُوهُنَّ کی نسبت مفسرین کا بیان ہے کہ ان عورتوں کا اس امر میں امتحان کرنیکا حکم ہوا تھا کہ آیا وہ فی الحقیقت اسلام قبول کرنیکی غرض سے وطن چھوڑ کر آئی ہیں یا کسی اور غرض سے کیونکہ صرف اسی حالت میں کہ وہ اسلام کی خاطر آئی ہوں آنحضرت کو انہیں اپنے پاس رکھنا جائیز تھا۔ لیکن اس حالت میں بھی آپ اپنے منظور کردہ عہدوپیمان کی خلاف ورزی کررہے تھے ا س بیان سے آنحضرت کی ذاتی خوبی اور قرآن کے متدارج نزول کے صفحہ ۱۵۴۔ فوائد کی بخوبی تشریح ہوتی ہے۔ (139) Muir’s Life of Muhammad جلد چہارم صفحہ ۳۴ (140) مذکور ہے کہ حضرت محمد کو اہل مکہ پر اعتماد نہ تھا اور آپ نے یہ اجازت دی کہ اگر وہ عہد وپیمان حدیبہ کی شرائط پر قائم نہ رہیں تو بے شک تلوار سے کام لیا جائے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کے ۲۴ رکوع میں اس کا بیان مفصل طور پر مندرج ہے۔ اگر یہ آیت اسی وقت کی نہیں ہیں تو ضرور بعد میں یہاں داخل کی گئی ہیں ( دیکھو تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۳۲واں)۔
قریش نے آنحضرت سے ایسا سلوک کرنے سے گویا آپ کو ملکی رتبہ کے لحاظ سے اپنا ہمسرتسلیم کیا۔ ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب لڑائی موقوف(ختم) ہوگئی اور لوگ امن وچین کی حالت میں ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو اثنائے گفتگو(گفتگو کے دوران) میں جن جن سلیم الطبع (نرم دل)اشخاص نے اسلام کے اوصاف مانے اور اسکی خوبیوں کو دیکھافی الفور مسلمان ہوگئے۔ فی الواقعہ اس وقت سے اسلام کی ترقی نہایت سریع(تيز) ہوگئی۔ جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا ان کو سخت لعنت ملامت کی گئی۔ اورانہیں اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ اگروہ ایما ن نہیں لائینگے۔ تو آتش دوزخ ان کی خاطر بھڑک رہی ہے۔ چنانچہ سورہ فتح کے پہلے رکوع میں مرقوم ہے ۔اعدلھم جھنم یعنی تیار کی ان کے واسطے دوزخ۔ اور بالمقابل اس کے جنہوں نے آنحضرت سے درخت تلے عہد کیا تھا ان کو امن وچین فتح قریب اور بہت سے مال غنیمت کا وعدہ عنایت ہوا۔چنانچہ تیسرے رکوع کی پہلی دوسری آیات میں اس طرح مندرج ہے۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًاوَمَغَانِمَ كَثِيرَةً ۔یعنی الله خوش ہوا ایمان والوں سے جب ہاتھ ملانے لگے تجھ سے اس درخواست کے نیچے ۔پھر جانا جو ان کے جی میں تھا۔ پھر اتارا ان پر چین اور انعام دی ان کو ایک فتح نزدیک اور بہت غنیمتیں(مفت ملی ہوئی چيزيں) ۔ مومنین آنحضرت کی مذکورہ بالا خواب کا خیال کرکے تعجب(حيرانگی) کرنے لگے کہ اس کے پورا ہونے کی کیا وجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے پورا ہونیکا سال نہیں بتلایا گیا تھا۔اور ساتھ ہی ایک آسمانی پیغام پیش کرکے خواب کے پورا ہونیکی نسبت مومنین کی تسلی کردی۔ چنانچہ سورہ فتح کے چوتھے رکوع کی آیت ۲۸،۲۷ میں یوں مرقوم ہے۔ لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًاهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا۔ یعنی الله نے سچ دکھایا اپنے رسول کو خواب تحقیق تم داخل ہورہوگے ادب والی مسجد میں اگر الله نے چاہا چین سے۔ بال مونڈتے اپنے سروں کے او ر کترتے بے خطرہ۔ پھر جانا جو تم نہیں جانتے۔ پھر ٹھہرادی اس سے ایک فتح نزدیک۔ وہ ہے جس نے بھیجا پیغمبر اپنے کو ساتھ ہدایت کے اور دین حق کے اوپر رکھے اس کو ہر دین سے اور بس ہے الله ثابت کرنے والا۔
جیسا اُوپر بیان ہوا ہے کہ اگر چہ حج ملتوی ہوگیا پر مسلمان فتح مند ہوئے۔ اور چونکہ ہدایت ورہبری آنحضرت کو تفویض(سپردگی) کی گئی۔ اس لئے وہ اب صبر سے انتظار کرنے لگے۔کہ یہ ساری باتیں کب پوری ہوتی ہیں۔ اسلام کا جاہ وجلال بہت بڑھنے والا تھا اور دین عیسوی ومذہب یہود کو اس سے ہمسری (برابری)کا دعوی ٰ نہ رہا۔ دین اسلام ہی تمام (141) دینوں سے افضل اور نجات کا وسیلہ قرار پایا۔ لہذا مومنین کے لئے اب یہ بات کچھ مشکل نہ تھی کہ اپنی آرزوؤں کے پورا کرنیکے لئے ایک سال تک اور انتظار کریں۔ان کے لئے یہ جاننا کافی تھا کہ خُدا کی مرضی یوں ہی ہے۔ سورہ فتح اوّل سے آخر تک قابل ِغور اور آنحضرت کی ضرورت کے لئے اس کا نزول عین حسب ِموقع معلوم ہوتا ہے۔
صرف اسلام ہی کے حقیقی اور سچے دین ہونے کا یہ خاص دعویٰ سورہ آل عمران ابتدائی زمانہ کی مدنی سورة ہی کے دوسرے رکوع کی آیت ۱۹میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔کہ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ یعنی دین جو ہے الله کے ہاں سو یہی مسلمانی حکم برداری اور مخالفت نہیں کتاب والے مگر جب ان کو معلوم ہوچکا آپس کی ضد سے۔
(141) چنانچہ سورہ آل عمران کے رکوع 9 میں یوں مندرج ہے یعنی جو کوئی چاہے سوائے اسلام کے دین سو اس سے ہر گز نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خراب ہے۔ تفسیر حسینی کی جلد اوّل کے ۷۵ صفحہ پر یوں لکھا ہے کہ ایں آیت تہدید جمعی است کہ طالب غیر دین اسلام اندودر شان آنہاکہ بعد وصول بشرف اسلام دست ازدامن دین متین بازو دارئد مرتد شوند۔پھر خلاصتہ التفاسیر کی جلد اوّل کے ۲۷ صفحہ پر یوں مرقوم ہے جو سوائے دین اسلام کے کوئی اور دین اختیار کرے۔ یہودیت یا نصرانیت یاکچھ ہو کو منظور ومقبول نہ ہوگا اور وہ اپنی سعی اور کوشش میں محروم ومخددون رہیگا۔ اس آیت نے تمام دینوں کو منسوخ کردیا جو گذرگئے یا پیدا کئے جائیں۔ اس مندرجہ بالا بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تمام بنی آدم کے لئے اسلام کی اطاعت وانقیاد کا وجوجب ساکنان مدینہ کے سامنے اب صاف طور سے پیش کیا گیا تھا۔
تفسیروں(142) میں مذکورہ بالا آیت کا مطلب یوں بیان کیا جاتا ہے کہ صرف اسلام ہی سچا دین ہے نہ کہ یہودیت ونصرانیت۔ اور یہودونصاریٰ نے اسلام کو اس وقت ردکیا جبکہ قرآن نازل ہوا۔اور وہ بھی انہوں نے یا توازراہ حسد کیا یا اسلئے کہ ان کو فوق(سبقت) حاصل رہے۔
جب آنحضرت مکہ سے لوٹ کرمدینہ میں آئے اس وقت سے آپکی طاقت بڑھتی گئی۔اور اس ترقی کے خیال سے سرشار ہوکر اپنے خواب کی تاویل کے میدان کو بہت وسیع کرنے لگے۔ چنانچہ سورة الاعراف کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت میں یوں مرقوم ہے۔ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا۔ یعنی تو کہہ اے لوگو میں رسول ہوں الله کا تم سب کی طرف۔
مندرجہ بالاآیت سے موثر ہوکر ۶۲۷یا ۶۲۸ء میں آپ نے مختلف ممالک میں مسیحی فرمانرواؤں اور ہیراقلیس (Heraclius)شاہ قسطنطنیہ اور شاہ ایران وغیرہ کے پاس پیغام بھیجے۔ نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ ان خطوط میں آپ نے مسیحی حاکموں کو اسلام کی طرف بلا نے اور اپنی نبوت وصداقت رسالت کا اظہار کرنیکی غرض سے ذیل کی آیات تحریر فرمائیں۔ یعنی تو کہہ اے کتاب والو آؤ ایک سیدھی بات پر ہمارے تمہارے درمیان کی بندگی نہ کریں۔ہم مگر الله کو اور شریک نہ ٹھہراویں اس کا کسی چیز کو اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے الله کے۔
پھر اگر وہ قبول نہ رکھیں تو کہو شاہد (گواہ)ہوکہ ہم تو حکم کےتابع ہیں۔ اے کتاب والوکیوں جھگڑتے ہو ابراہیم (143) پر اور توریت اور انجیل تو اُتریں اس کے بعد کیا تم کو عقل نہیں۔ سنتے ہو تم لوگ جھگڑ چکے جس بات میں تم کو خبر ہے اب کیوں جھگڑتے ہو۔ جس بات میں تم کو خبر نہیں ؟ اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ نہ تھا ابراہیم یہودی اور نہ تھا نصرانی لیکن تھا ایک طرف کا حکم بردار اور نہ تھا شرک والا (سورہ آ ل عمران رکوع ۷)یوں بھی کہتے ہیں کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب نجران کے عیسائی اپنے بشپ کے ساتھ حضرت محمد کی ملاقات کے لئے آئے تھے۔ اس ملاقات کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا ۔(144)
اب چونکہ حضرت محمد قریش کے حملات سے محفوظ اور بالکل بے خوف تھے اسلئے بے تحاشا مختلف بدوی اقوام کو لوٹ ما ر کر گزارہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ عمرہ یعنی حج صغرا کا وقت آگیا اور ۶۲۹ء کے موسم بہار میں آپ نے قریش کی منظوری سے استفادہ (فائدہ)حاصل کیا اور قریباً دو ہزار مومنین کو ساتھ لے کر مکہ جا پہنچے۔ قریش کے لوگ شہر سے باہر آگئے اور مسلمان اپنے آلات ِحرب(لڑائی کے آلات) باہر رکھ کر سات سال بعد شہر میں داخل ہوئے جب آنحضرت کعبہ میں پہنچے تو فرمانے لگے کہ اے خُدا مکہ کےلوگوں کے دلوں میں آج میرے رعب کو مسلط کردے۔ پھر آپ نے رسوم ِحج مثلاً حجرِ اسود کو بوسہ دینے کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرنے اور کو ہ صفا ومروہ کے درمیان دوڑنے کو عربی بُت پرستوں کے دستور کے مطابق پورا کیا۔ جو جانور آپ قربانی کی غرض سے لے گئے تھے ان کو ذبح کیا۔اور اس حج کی رسومات سےفارغ ہوئے۔ جب آپ نے شہر مکہ اور خانہ کعبہ کی اس قدر تعظیم وتکریم کی۔تو اہل مکہ کے دل آپ کی جانب کسی قدر مائل ہوگئے اور آپ کے فوجی جاہ وجلال کو دیکھ کر قریش کے دو سپہ سالار آپ سے آملے۔ پھر آپ نے میمونہ سے نکاح کرکے قریش سے اتحاد بڑھایا۔ اس مقام پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسی سال کے اندر اندر میمونہ چوتھی عورت تھی جو آپ کے حرمین شریفین میں داخل ہوئی۔ آخر کار آنحضرت پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اور اب آپ کو ہر طرح سے اس قدر قوت وطاقت حاصل ہوئی کہ اس سے پیشتر کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔
(142) تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۶۲ پر یوں مرقوم ہے کہ دین پسندیدہ نزدیک خُدا دین اسلام است نہ یہودیت ونصرانیت واختلاف نہ کروند آنکہ دین اسلام حق است ومحمد رسول پیغمبر بحق آنا نکہ دادہ اند بدیشاں کتاب یعنی توریت وانجیل مگر پس ازانکہ آمد بدیشاں وانشے بحقیقت امر یعنی قرآن بدیشاں فرود آمد۔ پھر خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل کے ۲۴۱ صفحہ میں مندرج ہے کہ سوائے اسلام کے اور کوئی طریقہ مقبول نہیں جیسا فرمایا من بیتع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ اسلام کے سو دوسرا دین جو اختیار کرے نہ ما نا جائیگا۔ (143) کہ آیا ابراہیم یہودی تھا یا نصرانی۔ (144) Muir’s Life of Muhammad جلد دوم صفحہ ۲۹۹ سے ۳۰۲تک۔
اب حضرت محمد نے معلوم کیا کہ ساکنان مکہ جنگ وجدل سے تنگ آگئے ہیں۔ قریش کے اکثر سپہ سالار گئے اور باقی ماندوں میں سے بہت آنحضرت سے آملے۔ تمام عرب میں آپ کی طاقت روز افزوں (روزانہ ترقی کرنا)ہورہی تھی۔ اور اب آپ کے لئے ممکن تھا کہ استقلال وثابت قدمی سے ایک سخت حملہ کرکے مکہ کو فتح کرلیں۔اور قریش کی باقیماندہ مخالفت کو ہمیشہ کے لئے نیست ونابود کردیں۔ سورہ رعد سب سے آخری مکی سورة ہے۔ لیکن اس کی ۴۱ ويں آیت غالباً بعد میں داخل کی گئی ہے اور اسی مذکورہ بالا موقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اوّلمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔یعنی کیا نہیں دیکھتے کہ ہم چلے آتے ہیں زمین پر گھٹاتے اس کو کناروں سے اور الله حکم کرتا ہے کوئی نہیں کہ پیچھے ڈالے اس کا حکم۔ ابنِ عباس (145)اور بہت سے دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت اہل مکہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو کہ ایسے اندھے اور کوتہ اندیش(کم فہم) تھے کہ ان کو اہل ِاسلام کا آنا ً فاناً بہت سے عربی ممالک پر مسلط ومتصرف(قابض) ہوتے جانا گویا نظر ہی نہیں آتا تھا۔ مگر مفسر حسین ۱* (146)فرماتے ہیں کہ اس میں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے۔ جن کی اراضیات (زمینیں)قلعے اور مقبوضات اہل اسلام کے قبضہ میں آتے جاتے تھے۔
جب آنحضرت نے فتح مکہ کے لئے حملہ کیا تو جن لوگوں نے اس میں شامل ہونے میں بے پرواہی ظاہر کی ان کو سورہ توبہ کے دوسرے رکوع میں یوں عتاب(ناراضگی) ہوا کہ أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُواْ أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّواْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَؤُوكُمْ اوّل مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤُمِنِينَقَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ۔یعنی کیوں نہ لڑو ایسے لوگوں سے کہ توڑیں اپنی قسمیں اور فکر میں رہیں کہ رسول کو نکال دیں اور انہوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے۔ کیا ان سے ڈرتے ہو؟ سو الله کا ڈر چاہئے تم کو زیادہ اگرتم ایمان رکھتے ہو۔ لڑو ان سے تا عذاب کرے الله ان کو تمہارے ہاتھوں اور سواکرے اور تم کو ان پر غالب کرے۔
جو لوگ اس حملہ میں سرگرمی سے شریک ہوئے اور فتح مکہ کے لئے خوب جان توڑ کر لڑے۔ ان کو بہت تحسین وآفرین (تعریف کرنا)کہی اور جنہو ں نے روپیہ دیا اور فتح مکہ کے بعد ترقی اسلام اور آنحضرت کی طاقت کے اظہار کے لئے لڑے۔ان کے مقابلہ میں اعلیٰ درجہ نصیب ہوا چنانچہ سورہ حدید کی آیت نمبر ۱۰ میں مندرج ہےکہ (147) مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اوّلئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا۔ یعنی جس نے خرچ کیا فتح سے پہلے اور لڑائی کی۔ ان لوگوں کا درجہ بڑا ہے ان سے جو خرچ کریں اس سے پیچھے اور لڑیں۔
اب آنحضرت نے چند اور عربی اقوام پر حملہ کرکے ان کو اپنا مطیع ومنقاد(طابع وفرمانبردار) بنایا۔اور بعد ازاں سلطنت روم کے جنوبی حصّہ پر چڑھائی کی۔لیکن جنگ مُتہ میں مسلمانوں نے سخت شکست کھائی۔ اور آنحضرت نے معلوم کیا کہ آپ کا حملہ قبل از وقت تھا ابھی وہ وقت نہ آیا تھا کہ آپ غیر ممالک کی تسخیر(قابو ميں کرنا) میں مشغول(مصروف) ہوں۔ پیشتر اس کے کہ آپ غیر ممالک کو تاخت وتاراج(تباہ کرنا) کریں۔ تمام عرب میں قرار واقعی تسلط بٹھانا ازحد ضروری تھا۔ چنانچہ اس وقت حضرت جبرائيل یہ پیغام لائے۔ إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُوَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًافَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا۔ یعنی جب پہنچ چکی مدد خُدا کی اور فیصلہ اور تونے دیکھے لوگ داخل ہوتے الله کے دین میں فوج فوج۔اب پاکی بول اپنے رب کی خوبیاں اور گناہ بخشو اس سے بیشک وہ معاف کرنے والا ہے (سورہ النصر )۔
(145) تفیسر ابن عباس صفحہ ۲۸۹ (146) تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۳۴۲۔ (147) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ آیت فتح بدر کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن سوائے معالم کے جو اس آیت کو عہد حدیبہ کی طرف منسوب کرتاہے تمام مفسرین جن کے بیانات کو ہم نے دیکھا ہے اس امر پر متفق ہیں کہ یہ آیت فتح مکہ کا بیان کرتی ہے۔ جو لوگ اس معرکہ میں شامل ہوئے ان کی فضیلت وفوق کے بیان میں خلاصتہ التفاسیر جلد چہارم کے ۳۶۴صفحہ پر یوں مرقوم ہے کہ وہ صحابی جو فتح مکہ سے پہلے مومن ومعین ہوئے دوسرے تمام مومنین بلکہ خیار امت سے افضل ہیں۔
جب آپکی اس طرح ہمت بندھائی گئی تو آپ کے لئے اب شروع کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ اس میں کلام نہیں کہ آنحضرت کے ملکی مدبروں(عقلمندوں) کی جماعت کی یگانگت اور آپ کے مومنین کی باہمی دینی پیوستگی اور یکجہتی اس امر کی متقضی (تقاضا کرنا) تھی۔ کہ آپ کا دارا لحکومت بجائے مدینہ کے کوئی بہتر مقام ہو۔ اب وہ وقت آگیا تھا کہ آنحضرت کی دیر ینہ اور دائمی آرزو کے مطابق اسلام ملک وملت کی ممزوجہ صورت کو غالب طور سے عرب میں اختیار کرنا چاہے تو اس کا مرکز اور صدر مقام مکہ سے بہتر کوئی نہ تھا۔ عہدوپیمان حدیبہ سے اب دوسال کا عرصہ گذر چکا تھا اور اسکی شرائط کے لحاظ سے دس سال تک مکی اور مدنی لوگوں کے درمیان کسی حالت میں لڑائی جائز نہ تھی بلکہ کامل صلح وسلامتی کا ہونا واجب تھا۔ پر یہ مشکل یوں رفع ہوگئی کہ ایک بدوی جو کہ آنحضرت کی تابعدار تھی۔اس پر ایک دوسری قوم نے جس کا قریش سے رسوخ تھا حملہ کیا۔ اس سے آنحضرت کو فساد برپا کرنیکا موقع مل گیا۔ چنانچہ آپ نے قریباً دس ہزار محاربین کے ساتھ مکہ پر فوج کشی کی۔ ابو سفیان نے جو کہ آنحضرت کا بڑا پرانا اور جانی دشمن تھا اب دیکھا کہ مقابلہ کرنا عبث(فضول) ہے۔ چنانچہ اس نے تاب مقاومت نہ لا کر (مقابلے کی طاقت نہ رکھنا) آنحضرت سے ملاقات (148) کی استدعا کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی کلمہ پڑ ھ کر مشرف بہ اسلام ہوا اور اس وقت سے لے کر ہمیشہ بڑا پکا اور وفادار مسلمان رہا۔ چونکہ قریش میں ابو سفیان آباؤ اجداد کے لحاظ سے خاندانی امیر اور ذی رتبہ سرگروہ تھا اور قریش کی نظر میں بہت معزز ممتاز تھا۔
اس لئے اس کے مسلمان ہونے سے ایک طور پر گویا آنحضرت نے مکہ فتح کرلیا۔ جو نہی آنحضرت نے شہر میں قدم رکھا تھا کہ عنان توجہ کو خانہ کعبہ کی طرف اٹھایا اور وہا ں پہنچ کر حجر اسود کے سامنے جھکے اور اسکی تعظیم کی۔ پھر آپ کے حکم سے کعبہ کے تمام بُت ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ بُتوں کو توڑنے اور چکنا چور کرنیکے بعد آپ نے اپنا پورا اختیار جتانیکی غرض سے عثمان ابن طلحہ اور عباس کو خانہ کعبہ کے متعلق دو خاندانی اور موروثی عہدوں پر ممتاز(برتر) فرمایا۔
ایک شخص مکہ کے بازاروں میں منادی کرنے لگاکہ جو کوئی (149) خُدا کو اور قیامت کے دن کو مانتا ہے اپنے گھر میں کوئی بُت نہ رکھے بلکہ اس کو توڑکر چکنا چورکردے۔ اس پر بہت سے مکی اشخاص مضحکہ اڑانے لگے۔ اور تمسخر واستہزا (مذاق اُڑانا)سے پیش آئے اس وجہ سے فوراً وحی کا نزول ہو اور آپ نے بیان فرمایا کہ طبعی طور پر سب انسان یکسا ں ہیں۔ خوف الہٰی کے مقابلہ میں خُدا کے نزدیک عالی خاندان اور اونچی ذات یا اعلیٰ مرتبہ کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ چنانچہ سورة الحجرات کےدوسرے رکوع میں قریش کو یوں سرزنش کی(150) يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ یعنی اے آدمیو ہم نے تم کو بنایا ایک نراور ایک مادہ سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور گوتیں تا آپس کی پہچان ہو۔ مقرر عزت الله کے یہاں اس کو بڑی جس کو ادب بڑا۔
(148) Muir’s Life of Muhammad جلد چہارم صفحہ ۱۱۷ و ۱۱۸ میں اس ملاقات کا مفصل بیان مندرج ہے۔ (149) Muir’s Life of Muhammad جلد چہارم صفحہ ۲۹۔ (150) ان خاص امور کی تشریح وتوضیح کے لئے جن کے سبب سے یہ آیت نازل ہوئی خلاصتہ التفاسیر جلد چہارم کو ۲۶۹سے ۲۷۲ صفحہ تک ملاحظہ کجئيے۔
چند اشخاص کے سو اجنکی نسبت یہ کہہ سکتےہیں کہ وہ واجب القتل (151) تھے آنحضرت نے بالعموم ساکنان مکہ کی جان بخشی کی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلدی آپ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔ مکہ میں مدینہ کی طرح منافقین نہ تھے۔ چنانچہ آپ کے لئے یہ نہایت شان وشکوہ اور ظفر مندی(فتح مندی) کا دن تھا۔ اس سے آٹھ برس پیشتر ایک دن وہ بھی تھا کہ آپ مکہ سے ایک حقیرومردو د بھگوڑے(کمتر۔رد کیا ہوا۔بھاگا ہوا) کی حیثیت میں جان بچانیکے لئے چھپ کر بھاگ گئے تھے۔ اس وقت سے قریش نے بڑے استقلال (ثابت قدمی)سے مخالفت کی۔ لیکن اب اس مخالفت کا خاتمہ ہوگیا۔ اب شہر مکہ آپ کے قبضہ میں تھا اور آپ کا فرمان ہی قانون تھا۔ صدہاسال سے کعبہ لات وغزیٰ اور بہت سے دیگر بتُوں کی پرستش کا مقام تھا۔ اب آنحضرت وہاں تشریف لے گئے اور آپ کے فرمان سے ہمیشہ کے لئے کعبہ سے بُت پرستی کی بیخکنی (جڑ سے اُکھاڑنا)کی گئی۔ آپ نے اپنے اختیار سے کعبہ کی حفاظت کے لئے نئے عہد ہ دار مقرر کئے اور اسے نئے دین کا مرکز قرار دیا۔ ایسی بڑی کامیابی اور فتح عظیم کے بعد اسلام کا آنا ً فاناً ترقی کرنا اور پھیلنا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔ آخر کار تمام باشندگان عرب ایسے متفق اوریکجہت ہوتے ہوئے معلوم ہونے لگے کہ ا س سے پیشتر کبھی یہ حالت نہ ہوئی تھی اور انجام کار ان کو یہ بھی یقین ہونے لگا کہ آنحضرت ان کے سچے ہمدرد اور ملک کے خیر خواہ ہیں۔ اب عرب نے فرمانبردائی ملک اور دینی امور کی امتزاجی صورت اختیار کرکے وہ طاقت وقوت حاصل کی کہ جو دشمن اس سے پیشتر اس کو نیست ونابود کرنیکا دم مارتے تھے اب اس پر نظر کرکے لرزاں وترساں(لرزنے والاو ترسنے والا) ہونے لگے۔
(151) قریباً دس آدمیوں کو آپ نے معاف کرنے سے انکا ر کیا اور ان میں چار قتل کئے گئے ان دس اشخاص میں سے ایک عبدالله ابن سعد تھا جو کہ مدینہ میں آنحضرت کا منشی تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آنحضرت انسان کی پیدائش کی نسبت عبدالله سے لکھوا رہے تھے کہ " او رہم نے بنایا ہے آدمی چن لی مٹی سے پھر رکھا اس کو بوند کر ایک جمے ٹھہراؤ میں پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ اس موقعہ پر عبدالله نے تعجب کی راہ سے کہا یعنی بڑی برکت الله کی جو سب سے بہتر بنانے والا۔ آنحضرت ان الفاظ سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ آسمان سے اسی طرح نازل ہوا ہے یہ بھی لکھ لو۔ عبدالله اس پر شک لایا اور کہنے لگاکہ اگر حضرت محمد سچ کہتے ہیں تو مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ تفسیر حسینی جلد دوم کے ۸۰ صفحے پر یوں مرقوم ہے کہ حضرت رسالت پناہ کفت بنویس کلا ہمچنیں نازل شدہ عبدالله درشک اقتادہ گشت گفت اگر محمد صادقست پس یہ من ہم وحی فرودمے آید۔ آنحضرت اسباب سے نہایت طیش میں آگئے اور عبدالله کی سرزنش کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ترجمہ : یعنی اس سے ظالم کون جو یاباندھے الله پر جھوٹ ۔ یا کہے مجھ کو وحی آئی اور اس کو وحی کچھ نہیں آئی اور جو کہے میں اتارتاہوں برابر اس کے جو الله نےاتارا رسورہ انعام رکوع۱۱ یہ آیت آخری زمانہ کی ایک مکی سورة میں پائی جاتی ہے لیکن جس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ مدینہ میں وقوع میں آیا تھا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ بعد میں یہ آیت سورہ انعام میں داخل کی گئی تھی اور اس کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ اس سے پہلی آیت دیگر کتب مقدسہ پر قرآن کی فضیلت اور اس کےفوق کا بیان کرتی ہے اس لئے اس آیت کی واسطے یہ مناسب مقام خیال کیاگیا۔ اس میں ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک شخص پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت محمد کے مقابلہ میں ویسی ہی آیات پیش کرنیکا دعویدار ہے اور آنحضرت اس پر بھی لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر قرآن خُدا کی طرف سے نہیں ہے تو اس کی مانند بنا کر لاؤ۔ کیا حضرت محمد کا یہ مطلب تھا کہ لوگ قرآن کی نظیر پیش کریں یا محض سوکھی دھمکی تھی۔ (152) اسی عہد کا نام بیعة الرضا ہے۔ (153) مدینہ میں پہلے پہل یہی سورة نازل ہوئی تھی۔
باوجود یکہ سخت مخالفین کی عداوت ودشمنی سے آنحضرت مطمئن ہوگئے۔ تو بھی بعض مقامات کے لوگ تاحال آپ کی دشمنی پر بدستور جمے کھڑے تھے۔ ہوازن فرقہ کے بدوی لوگ جن کو مکہ کے مفتوح ہونے سے ساکنان طائف کی طرح اپنی آزادی کی بربادی کا اندیشہ ہوگیا تھا۔ ان پر آنحضرت نے دو ہفتہ کے اندر اندر فوج کشی کردی اور وادی حنین میں مقابلہ ہوا۔ پہلے تو مسلمانو ںپر ہیبت چھاگئی۔ اور وہ میدان ِجنگ سے بھاگنے لگے۔اور ایسی نازک حالت ہوگئی کہ آنحضرت نے اپنے چچا عباس سے فرمایاکہ جو میدان سے بھاگ گئے ہیں ان کے اے مدینہ کے رہنے والو۔ اے عہد (152) الشجر کے وفادارو۔ اے وہ لوگو جن کا بیان سورہ بقرہ (153)میں ہوا ہے وغیرہ جملوں سے پکارا۔ اس سے بعض لوگ واپس آکر پھر لڑنے لگے۔ جب آ پ نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر کنکروں اور سنگریزوں (چھوٹے پتھروں )کی ایک مٹھی دشمنوں کی طرف پھینکی اور فرمایا کہ تم ہلاک ہوجاؤ تو لڑائی کا رنگ بدل گیا۔اور آخر کار دشمنوں نے شکست فاش کھائی۔اور معمول کے مطابق اس فتح کے متعلق وحی نازل ہوئی اور اس لڑائی میں پہلے مسلمانوں کا پسپا(شکست کھانا) ہونے کا یہ سبب بیان کیا گیا۔کہ وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اپنی تعداد کی زیادتی پر بہت فخر وتکبر(غرور) کرتے تھے۔ چنانچہ سورہ توبہ کے چوتھے رکوع کی پہلی آیت میں یوں مذکور ہے۔ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ۔ یعنی مدد کرچکا ہے تم کو الله بہت میدانوں میں اور دن جنین کے جب اترائے تم اپنی بہتایت پر پھر وہ کچھ کام نہ آئی تمہارے اور تنگ ہوگئی تم پر زمین ساتھ اپنی فراخی کے پھر ہٹے تم پیٹھ دے کر۔ مسلمانوں کے اس آخری فتح میں غالب آنے اور فتحیاب ہونے کا باعث یہ بیان کیا جاتا ہے۔کہ ان کو آسمان سے مدد پہنچی۔چنانچہ اسی مذکورہ بالا رکوع کی دوسری آیت میں مرقوم ہے۔ کہ Mثُمَّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ (154)عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا۔ْ یعنی پھر اتاری الله نے اپنی طرف سے تسکین اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اور اتاریں فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں اور ماردی کافروں کو۔
پھر آنحضرت نے طائف کا محاصرہ کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں باشندگان نے اپنے آپ کو آپ کے حوالہ کردیا اور اطاعت (تابع داری)قبول کرلی۔ اب آنحضرت نے ساکنان ِ مکہ اور بدوی اقوام
(154)اصل لفظ سَكِينَتَهُ ہے سورہ بقرہ کے ۲۲ رکوع میں یہ لفظ استعمال ہوا جہاں سیموئیل بنی اسرائيل سے کہتا ہے کہ ترجمہ " یعنی نشان اس کی سلطنت کا یہ ہے کہ آوے تم کو صندوق جس میں ہے دلجمعی تمہارے رب کی طرف سے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا تعلق شکینہ یا خُدا کے ظہور سے ہے جس کا عہد کے صندوق پر اظہار ہوتا تھا پس اس خوف وخطر کے وقت آنحضرت کے ساتھ خُدا کی فرضی حضوری سے تسکین حاصل ہوتی تھی۔ جب آنحضرت ابوبکر صدیق کےساتھ مکہ سے بھاگ کر ایک غار میں چھپے اور پناہ ٍگزیں ہوئے تھے اس وقت بھی خوف خطر میں آپ کی تسلی کی خاطر فانزل الله سَكِينَتَهُ کا نزول ہوا تھا۔ دیکھو سورہ توبہ چھٹا رکوع پھر چند اور واقعات کے تعلق میں یہی لفظ سورة الفتح کی ۲۶،۱۸،۴ آیات میں استعمال ہوا ہے چنانچہ یوں لکھا ہے کہ ُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ ترجمہ : یعنی وہی ہے جس نے اتارا چین دل میں ایمان والوں کے اور بڑھے ان کو ایمان اپنے ایمان کے ساتھ۔ الله خوش ہو ا ایمان والوں سے جب ہاتھ ملانے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے پھر جانا جو ان کے جی میں تھا پھر اتارا ان پر چین اور انعام دی ان کو ایک فتح نزدیک۔ جب رکھی منکروں نے اپنے دل میں پچ نادانی کی ضد پھر اتارا الله نے اپنی طرف کا چین اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر۔ یہ لفظ صرف مدنی سورتوں میں پایا جاتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے اس خیال کو یہودیوں سے اخذ کیا ہے۔ دیکھو Geiger’s Judaism and Islam صفحہ ۳۹۔
کے سرکردہ اشخاص اور سرداروں کو بیدريغ بڑے بڑے قیمتی تحائف اور نذرانے عنایت کئے۔ جس پر آپ کے پرانے مومنین رنجیدہ خاطر ہوکر کڑکڑانے لگے۔ بڑے تعجب کی بات ہے۔کہ کچھ مدت بعد اس ذرا سی بات کے لئے بھی وحی نازل ہوا چنانچہ سورہ توبہ کے ۷ رکوع آیت ۵۸تا ۵۹میں مندرج ہے۔ وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَوَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَإِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ (155)قُلُوبُهُمْ یعنی اور بعض ان میں ہیں کہ کچھ تجھ کو طعنہ دیتے ہیں زکواة بانٹنے میں سو اگر اُن کو ملے اس میں سے تو راضی ہوں اور اگر ان کو نہ ملے تب ہی وہ ناخوش ہوجاویں اور کیا خوب تھا اگر وہ راضی ہوتے جو دیا ان کو الله نے اور اس کے رسول نے اور کہتے بس ہے ہم کو الله۔ دے رہیگا ہم کو الله اپنے فضل سے اور اس کا رسول۔ ہم کو الله ہی چاہئے زکواة جو ہے سو حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اوراس کا م پر جانے والوں کا اور جن کا دل پر چانا ہے۔
جو قوموں کے سرداروں اور سرگروہوں کو خیرات کے نام سے بڑے بڑے قیمتی تحفے اور نذرانے دئے گئے۔ وہ فی الحقیقت ایک طرح کی رشوت تھی اور مدنی مسلمانوں کا اس قسم کی کارروائی پر اعتراض کرنا کچھ تعجب کی بات نہ تھی۔ وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ کو مفسرین اب منسوخ (156)شدہ بیان کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے نو مسلموں کو اس قسم کے تحائف وہدیہ کا دینا بند کردیا تھا۔ اور بند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اب چونکہ خُدا نے اسلام کو بہت کچھ ترقی اور قوت وغلبہ عطا فرمایا تھا اس لئے اسی طرح نذرانے دینے اور لالچ دلانےکی کچھ ضرورت نہ تھی۔
۹ ہجری سال رسالت یا وکالت کے نام سے مشہور۔ہے کیونکہ اس وقت مکہ وکعبہ پر آنحضرت قابض تھے۔ آپ کی شہرت بدرجہ کمال پھیل گئی تھی ۔اور بہت سی قومیں یکے بعد دیگر آپکی مطیع وفرمانبردارہوگئیں اور اپنی اطاعت وفرمانبرداری کے اظہار واقرار کے لئے انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں اپنے قاصد اور وکیل بھیجے۔
مورخ ابن ِاسحاق لوگوں کے اس طرح مطیع (فرمانبردار) ہونے اور اسلام قبول کرنیکی اخلاقی حقیقت یوں بیان کرتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوگیا۔اور قریش نے اسلام سے مغلوب ہوکر اطاعت(تابعداری) قبول کرلی تو باشندگان عرب نے یہ جانکر کہ ہمیں حضرت محمد کے مقابلہ کی تاب نہیں اور لڑائی میں ہم اس سے عہدہ برا (جیتنا)نہیں ہوسکتے دین اسلام قبول کرلیا۔ جنگی افسروں کے ماتحت افواج اسلام نے ملک کو لوٹ مار کر صاف کردیا اورمنکرین اسلام کے لئے خانہ کعبہ کی زیارت کی قطعی ممانعت (روک۔بندش) ہوگئی ۔چنانچہ سورہ توبہ کی ۵ ويں آیت میں یو ں مرقوم ہے۔ فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ۔یعنی پھر جب گذر جاویں مہینے پناہ کے تو مارمشرکوں کو جہاں پاؤ اور پکڑو اور گھیر اور بیٹھو ہر جگہ ان کی تاک میں۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور کھڑی رکھیں نماز اور دیا کریں زکواة تو چھوڑ دو ان کی راہ۔
(155)وَالْمُؤَلَّفَةِ القلوب کے تمام مفسرین بالا اتفاق یہی بیان کرتے ہیں کہ اس سے وہ لوگ مراد تھے جنہوں نے آبائی دین ومذہب سے تالیف قلبی کے باعث چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور خصوصاً جو سردار ورئیس مختلف اقوام سے مشرف باسلام ہوتے تھے انہی پر اس جملہ کا اطلاق ہوتا تھا۔ (156) ان تحائف وہدایت کی تنسيخ ومقاط کے باب میں مفسر حسین فرماتے ہیں کہ بعد از ظہور اسلام وغلبہ مسلمانان باجماع صحابہ ساقط شدہ است۔ (تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۲۶۰) پھر خلاصتہ التفاسیر جلد دوم کے ۲۷۱ صفحہ پر یوں مرقوم ہے کہ زمانہ ابوبکر صدیق با جماع حصّہ مولفتہ القلوب ساقط ہوگیا اس لئے کہ ضرورت تالیف قلوب کرنیکی باقی نہ رہی۔
کہتے ہیں کہ اس مشہور ومعروف آیت نے جو کہ آیت السیف یا تلوار کے نام سے نامزد ہے۔ ان تمام قیود(157) کو جو مسلمانوں کو لڑائی شروع کرنے سے روکتی اور مانع تھیں۔توڑڈالو نہ صرف یہ بلکہ سورہ عنکبوت کے رکوع ۵ کی دوسری آیت میں جو نرمی کے الفاظ مندرج ہیں کہ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی جھگڑا نہ کرو کتاب والوں سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو ان کو بھی منسوخ کردیا۔
بہر حال اب اہل ِعرب پر روشن ہوگیاکہ آنحضرت کی آئندہ کسی طرح سے مخالفت کرنابالکل بے سو د اور لاحاصل(بے فائدہ) ہے۔ان کےجتھے میں تفرقہ پڑگیا اور اس کی جمعیت (اکٹھ)نہایت ضروری تھی پر اس قسم کے کام کو انجام دینا صرف حضرت محمد ہی کا کام تھا۔ اس طرح اسلامی جنبش نے قومی ترقی کی صورت اختیار کی اور وہی شخص جو مدت مدید(بہت عرصہ) تک نزاع وفساد (لڑائی جھگڑا) اور جنگ وجدل کا باعث تھا۔ اب تمام عرب کا پیشوا اور مختار وحاکم تسلیم کیا گیا۔ اس طور پر آنحضرت کی پہلی آرزوئیں اور خواہشیں پوری ہوگئیں۔
جو شخص ملکی معاملات میں آپ کی اطاعت قبول کرتا تھا۔ اس کے لئے اسلام کا قبول کرنا بھی ضروری تھا اور اس کی ایک ہدایت لابدی (یقینی)شرط یہ تھی کہ اس کو نہ صرف اسلام کی تعلیم اور اس کے اخلاقی مسائل کو تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ بلکہ اس پر ہر امر میں الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری بلاحجت اور بے چون وچرا (کسی عُذر کے بغير)فرض وواجب تھی۔ علاوہ بریں ہر سال اسے اپنی جائيداد کا دسواں حصّہ دینا پڑتا تھا او ر یہ کسی طرح کا خراج یا جزیہ نہ تھا بلکہ دینی سخاوت تھی۔ جس سے ا س کی باقی جائداد ودولت کا پاک ہونا خیال کیا جاتا تھا اور اس میں آنحضرت کی خیرات واخراجات اور سلطنت (158)کی ترقی ملحوظ (خيال کيا گيا)ہوتی تھی۔
کچھ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ۶۳۰ء میں آنحضرت کو یہ خبر ملی۔کہ بادشاہ ہیر وکلیس چھوٹے چھوٹے راجاؤں اور جاگیر داروں کوفراہم کرکے اس خیال اور ارادہ سے بے شمار فوج جمع کررہا ہے۔ کہ مسلمانوں کے حملوں اور یورشوں(فساد) کو آئندہ کے لئے بندکرے یا عرب پر حملہ کرکے اسے تاخت وتاراج(برباد کرنا) کرلے۔ اس پر آپ نے ایک مسلح فوج ملک سیریا (شام)کی حدود کی طرف بھیجی۔آنحضرت کو یہ معاملہ نہایت نازک معلوم ہوا اور یونانی سلطنت روم اس کے مددگاروں کے مقابلہ کی خاطر محمدی فوج اتنی جمع ہوئی۔ کہ اس سے پیشتر کبھی اس قدر مومنین آنحضرت کے جھنڈے تلے لڑنے مرنے کو تیار نہ ہوئے تھے۔ جب بہت سی تکالیف ومصائب کے بعد یہ لشکر تبوک (159)پہنچا تو معلوم ہوا کہ رومی لشکر کشی کی خبر میں بہت مبالغہ(بڑھا چڑھا کر بتانا) کیا گیا تھا۔ بادشاہ اپنے ارادہ کو فسخ (منسوخ کرنا)کرکے وہا ں سے چلا گیا تھا۔ اب حضرت محمد یہود ونصاریٰ کی مختلف ریاستوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایلا کا عیسائی حاکم یوحنا آنحضرت سے عہدوپیمان کرکے آپکا باجگزار (رياست کو محصول دينے والا)بن گیا۔بعض یہودی اقوام نے بھی آپکی اطاعت اختیار کرلی ۔اور باقاعدہ جزیہ(غير مسلم پر سالانہ محصول) اداکرنیکا اقرار کیا اور ۶۳۰ء کے اختتام پر آنحضرت اس آخری یورش(حملہ) سے مدینہ میں واپس آئے۔
(157) ان قیود کا بیان سورہ بقرہ کے ۲۴ رکوع میں یوں مندرج ہے وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ یعنی لڑو الله کی راہ میں ان سے جو لڑتے ہیں تم سے اور زیادتی مت کرو۔ یہ حکم جس کے مطابق مسلمانو ں کو صرف اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لئے ہی لڑنا جائز تھا آیت السیف سے منسوخ ہوگیا چنانچہ تفسیر حسینی جلد اوّل کے ۳۲صفحہ میں مندرج ہے کہ ایں حاکم بآیت سیف منسوخ است پس اب اپنی حفاظت وبچاؤ کےلئے لڑنا ایک پرانی کہانی متصور ہونے لگی اور تمام مشرکین سے دائمی لڑائی کی تعلیم مومنین کے دلوں میں نقش ہوگئی۔ (158) Muir’s Life of Muhammadجلد چہارم صفحہ ۱۷۰۔ (159) تبوک ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے درمیان مساوی فاصلہ پر واقع ہے۔
یہودونصاریٰ پر اس جبرو تعدی (زبردستی)کے جواز(اجازت) کا بیان سورہ توبہ کی ان چند آیات میں پایا جاتا ہے جو نہایت معتبر مفسرین کے نزدیک عین یورش تبوک کےبعد ہی نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ ۲۹ آیت سے ۳۵ آیت سے یوں مندرج ہے۔ قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَوَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ (160)اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَاتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَيُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍيَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ۔ یعنی لڑو ان لوگوں سے جو یقین نہیں رکھتے الله پر نہ پچھلے دن پر۔ نہ حرام جانیں جو حرام کیا الله نے اور اس کے رسول نے۔ اور نہ قبول کریں دین سچا۔ وہ جو کتاب والے ہیں جب تک دیویں جزیہ سب ایک ہاتھ سے اور وہ بے قدر ہوں۔ او ریہود نے کہا عزیر بیٹا الله کا اور نصاریٰ نے کہا مسیح بیٹا الله کا۔ یہ باتیں کہتے ہیں اپنے منہ سے۔ ریس کرنے لگے ا گلے منکروں کی بات کی۔ مار ڈالے انکو الله کہا ں سے پھرے جاتے ہیں۔ ٹھہراتے ہیں اپنے عالم اور دوریشوں کو خُدا (161)الله کوچھوڑ کر اور مسیح مریم کے بیٹے کو او رحکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک خُدا کی کسی کی بندگی نہیں اس کے سوائے وہ پاک ہے ان کے شریک بتانے سے۔چاہیں کہ بجھادیں روشنی (162)الله کی اپنے منہ سے اور الله نہ ر ہے بن پوری کئے اپنی
(160) قَاتَلَهُمُ اللّهُ (خُدا ان کو ہلاک کرے یا مار ڈالے ) سورہ مائدہ کے لائم ونرم الفاظ کےبالکل برعکس ہے چنانچہ سورہ مائدہ کے ۱۱ رکوع میں یوں لکھا ہے کہ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَیعنی اور تو پاویگا سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس واسطے کہ ان میں عالم ہیں اور درویش ہیں اور یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ اس آیت کے بعد کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیحی لوگ اسلام قبول کرنے کو تیا ر تھے۔ چنانچہ یو ں لکھا ہے کہ وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ یعنی اور جب سنیں جو ازا رسول پر تو دیکھے ان کی آنکھیں ابلتی ہیں آنسوؤں سے اس پر جو پہچانی بات حق کہتے ہیں اے رب ہم نے یقین کیا کہ سو تو لکھ ہم کو ماننے والوں کے ساتھ۔ بہر کیف متذکرہ وبالا دونو آیات میں مسلمانو کے مسیحیوں سے عام رشتہ کاذکر نہیں ہے بلکہ ان سے ایک خاص محدود تعلق ظاہر ہوتا ہے کہ علاوہ اس کے ان آیات سے آنحضرت کے خیالات کچھ متین اورآخری معلوم نہیں ہوتے کیونکہ اگرچہ یہ آیتیں سب سے آخری سورة میں مندرج ہیں تاہم ان کا واسطہ بہت پہلے زمانہ سے ہے۔ اس کے ثبوت میں ہم مفسر حسین کا بیان پیش کرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ آیات ان ستر آدمیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جن کو حبش کے بادشاہ یعنی نجاشی نے آ نحضرت کے پاس بھیجا۔ اور جس نے قریباً ۷ ہجری میں ان لوگوں پر جو مکہ سے بھاگ کر اس کے پاس پناہگزین ہوئے تھے بڑی مہربانی ظاہرکی تھی۔ پس اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ عیسائی اس آخری وقت نہیں آئے تو تو بھی یہ اس وقت سے دوسال پیشتر کا ذکر ہے جب سورہ مائدہ میں سخت حکم آیاکہ مسلمان یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی نہ رکھیں۔ چنانچہ اس مضمون پر یہ آخری حکم سورہ مائدہ کے آٹھویں رکوع کی پہلی آیت میں یوں مندرج ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ اے ایمان والومت پکڑو یہود ونصاریٰ کو رفیق۔ وہی آپس میں رفیق ہیں . ایک دوسرے کے اور جوکوئی تم میں رفاقت کرے وہ انہی میں ہے۔ حسین بیان کرتا ہے کہ ان مسیحی زایروں کو آنحضرت نے سورہ یس سنائی جو خوش ہوکر ایک دوسرے کہنے لگے کہ جو کچھ عیسیٰ پر نازل ہوا تھا اس سے قرآن بہت مشابہت رکھتا ہے پھر انہوں نے اسلام قبول کرلیا چنانچہ تفسیر حسینی جلد اوّل کے ۱۵۵ صفحہ پر یوں مرقوم ہے کہ احکام اسلام وایمان کردہ بایکید دیگر گفتند کہ قرآن چہ مشابہت تمام داربآ نچہ بر عیسیٰ نازل شدہ۔ (161)اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ کا ترجمہ مفسر حسین یو ں کرتے ہیں کہ فراگرفتند یہودی نصاریٰ علمائے خورد اوعباد خود اخد ایان ۔ لفظ ارباب رب کی جمع ہے اور لفظ ربی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو یہودونصاریٰ اپنے کاہنوں اور معلموں کے حق میں استعمال کرتے تھے لیکن عربی زبان میں صرف خُدا کے حق میں یہ لفظ استعمال کرسکتے تھے (دیکھو راڈویل صاحب کا قرآن صفحہ ۶۱۶ اور پامر صاحب کا قرآن جلد اوّل صفحہ ۱۷۷) جب کوئی یہودی کسی عالم کو ربی کہتا تھا تو اس میں کسی طرح کا کوئی گناہ مقصود نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس لفظ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ اس کو خُدا جانتا تھا۔ حضرت محمد نے غلطی کھائی اور اس لفظ کے غلط معنی لے لئے۔ اس غلطی کا یہ سبب بیان کیا جاتا ہےکہ آپ عبرانی زبان سے بے بہرہ تھے لیکن ایک اور مشکل پیش آتی ہے کہ یہ امرالہامی تعلیم کے برخلاف ہے کیونکہ آنحضرت کا یہ دعویٰ تھا کہ قرآن آپکا کلام نہ تھا بلکہ خُدا کا کلام جو آپ کے وسیلہ بولتا تھا اس آیت سے قرآن کاوحی کی معرفت نازل ہونا صاف اڑجاتا ہے اور محض غلط ثابت ہوتا ہے۔ (162) اس روشنی سے اسلام۔ قرآن یا حضرت محمد کی نبوت یا خُدا کی پاکیزگی وتقدس (حجت روشن برتقدس تنزہ اوزارین ) کی صاف دلیل مراد ہے بافو اھم سے مجازی اصطلاحی طور پر یہود ونصاریٰ کی درغگوئی مراد ہے جس سے وہ سچے دین کو پھسلنے سے روکتے ہیں اور اسکی اشاعت کے مانع ہوتے ہیں۔
روشنی اور پڑے برامانیں منکر۔ اسی نے بھیجا اپنا رسول ہدایت لیکر اور دین سچا تا اس کو اوپر کرے (163)ہر دین سے اور پڑے برا مانیں مشرک۔ اے ایمان والو بہت عالم اور درویش اہل کتاب کے کھاتے ہیں مال لوگوں کے ناحق اور روکتے ہیں الله کی راہ سے۔ اور جولوگ گاڑ رکھتے ہیں سونا اور روپیہ اور خرچ نہیں کرتے الله کی راہ میں۔ سو ان کو خوشخبری سنا دکھ والی مار کی جس دن آگ دہکا وینگے اس پر دوزخ کی پھر داغینگے اس سے ان کے ماتھے اور کروٹیں اور پیٹھیں ۔(164)
یہ آیتیں جوکہ آنحضرت کی آخری جنگی مہم سے علاقہ(تعلق) رکھتی ہیں۔ جس میں آپ کا مقصد اعلیٰ یہ تھاکہ یہود ونصاریٰ کومطیع وتابعدار بنادیں۔ ان سے بخوبی معلوم ہوتا ہےکہ آپ نے یہود ونصاریٰ اور ان کے عقائد کی نسبت اب بہت اچھی طرح سوچ سمجھ لیا تھاکہ آئندہ ان سے اسلام کا کیا رشتہ ہوگا۔ جن آیات کے ابھی حوالے دئے گئے ہیں ان کے مطابق اور اسی مضمون کی ایک آیت سورہ مائدہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ پر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ یہ آیت بعد میں یہاں داخل کی گئی ہے۔ اور اس کے نزول کے باب میں یہ کہاجاتا ہے کہ وہ عین جنگِ احد کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اگر یہ بات یوں ہے تو اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہےکہ سورہ توبہ میں جو کچھ یہود ونصاریٰ کےمتعلق آخری فرمان جاری ہوا وہ کسی طرح کےخاص اسباب کی وجہ سے جلد بازی اور ناعاقبت اندیشی کا خیال نہ تھا۔ بلکہ کئی سال پیشتر کے ایک فصيل(ديوار) شدہ قانون وضابطہ کی تکمیل کا اظہار تھا۔چنانچہ سورہ مائدہ کے رکوع ۸ کی پہلی آیت میں یوں مرقوم ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اوّليَاء بَعْضُهُمْ اوّليَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔یعنی اے ایمان والو مت پکڑو یہود(165) ونصاریٰ کو رفیق وہی آپس میں رفیق ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں ان سے رفاقت کرے وہ انہیں (166)میں ہے۔ الله راہ نہیں دیتا بے انصاف لوگوں کو۔
(163) ا سکی یوں تفسیر کرتے ہیں کہ خُدا نے حضرت محمد کو اسلام یعنی سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے اور یہ کہ اسلام تمام دیگر ادیان پر غالب آکر انکی شریعت واحکام کومنسوخ کردیگا اور عیسیٰ کی دوسری آمد کے تمام جہان سوائے اسلام کے کوئی دوسرا دین نہیں ہوگا۔ چنانچہ تفسیر حسینی جلد اوّل کے صفحہ ۲۵۳ اور ۲۵۴ میں یوں مندرج ہے غالب گرداند دین خوادر برہمہ دینا منسوخ سازو احکام آنرا وآن بعد انزول عیسیٰ خواہد بود کہ بروئے زمین جزدین اسلام نماند۔ پھر خلاصتہ التفاسیر جلد دوم کے ۲۴۳ صفحہ پر یوں مرقوم ہے کہ اسلام ناسخ الادیان وغالب البرہان است۔ (164) یہ تمام بیان نہایت ہی قابل غور اور توجہ کے لائق ہیں لہذا ہم اسی مقام پر اس کی نسبت مفسرحسین کا بیان درج کرتے ہیں وہ لکھتا ہےکہ اے بشید اے مومناں وکارز اکنید بآنکہ ایمان ندارندبخُدا یعنی یہود کہبہ تثلیہ قائل اندوانصاریٰ کی تثلیث رامتعقد اندنئے گروند بروز قیامت یہود گویند کہ دربہشت اکل وشرب نخوابدبو انصاریٰ معادر روحانی راثبات میکیند ومحرم نمیدا نندو نمید ارند آنچہ حرام کردہ است خُدا ازحمرو ودختر آبچہ ثابت شدہ است وبیان الذین لایو منون میفر ماید کہ باہل کتاب مقاتلہ کنند تاقتیکہ بدہند جزیہ وحال آنکہ ایشاں خورشدگان باشند یعنی جزیہ بدست آرندو نشنیند تاوقتیکہ تسلیم کنند یا ازیشاں جزیہ گیر ندو گردن ایشاں رابسیلی فروکوبند۔ پس اب یہ امر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ اس آیت میں عرب کے بُت پرستوں کا ذکر نہیں ہے بالکل صاف یہود ونصاریٰ کی طرف اشارہ ہے۔ اس آیت سے اور خصوصاً اس کے الفاظ ہمہ ماغرون کے باعث محمد ممالک میں ضمی یعنی جزیہ دینے والوں سے بڑی بدسلوکی ہوتی تھی اس امر میں بہت مختلف رائیں ہیں جزیہ کن سے لینا چاہیے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ صرف یہود ونصاریٰ ہی سے جزیہ لینا چاہئے امام اعظم کا قول ہے کہ تمام مشرکین سے جزیہ لینا چاہئے سوائے عربی بُت پرستوں کے جن کے سامنے یا تیع است یا اسلامہ کو پیش کیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جولوگ اسلام سے منحرف اور برگشتہ ہوجاویں ان کو قتل کرنا چاہئے اور ان کے سو ا سب سےجزیہ لینا روا ہے۔ اس میں قرآن اور سنت کی مساوی الوزن فوقیت وفضیلت کو قائم رکھا گیا ہے اور بہشت کی اصلیت ماہیت کا بیان کیا گیا ہے۔ عزیر کی نسبت مفسر حسین ایک روایت یوں بیان کرتے ہیں کہ نبوکدنصر بادشاہ نے توریت کے تمام نسخے ضائع کردئیے لیکن عزیر نے تمام توریت حفظ کی ہوئی تھی وہ بابل کی اسیری سے واپس آکر مرگیا اور پھر سوسال دوبارہ زندہ ہوکر اس نے تمام توریت لکھوائی یہودی اس پر تعجب کرکے کہنے لگے کہ اس کا باعث یہ ہے کہ عزیر خُدا کا بیٹا ہے۔یہودیوں میں اس روایت کا کہیں نام ونشان بھی نہیں پایا جاتااور آنحضرت کا یہود پر الزام لگانا محض اختراع اور بناوٹ ہے۔ اس مذکورہ بالا روایت کی طرف سورہ بقرہ کے 35 رکوع میں بھی ارشاد پایا جاتا ہے کہ چنانچہ لکھا ہے کہ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا یعنی جیسے وہ شخص زرا ایک شہر پر اور وہ گر پڑا تھا اپنی چھتوں پر بولا کہاں جلاویگا۔ اس کو الله مرگئے پیچھے پھر مار کھ الله نے اس شخص کو سو برس پھر کہا تو کتنی دیر رہا۔ بولا میں رہا ایک دن یا دن سے کچھ کم کہا نہیں بلکہ تو رہا سوبرس اب دیکھ اپنا کھانا اور پینا سڑ نہیں گیا دیکھ اپنے گدھے کو اور تجھ کو ہم نمونہ کیا چاہیں لوگوں کے واسطے اور دیکھ ہڈیاں کس طرح ان کو ابھارتے ہیں پھر ان پر پہناتے ہیں گوشت مفسرین نے اس آیت کو عزیر کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ شہر یروشلم کے کھنڈرات کے پاس سے گذرا اس کے پھر تعمیر ہونے میں اس کے دل میں شکوک پیدا ہوئے یعنی وہ خیال کرنے لگا کہ خُدا اس کو پھر کبھی تعمیر نہیں کریگا پھر خُدا نے اسکو یہ معجزه دکھلایا تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۵۰حضرت محمد اس معاملہ میں عزرا اور نحمیاہ میں امتیاز نہیں کرسکے۔ غالباً اس کہانی کی بنیاد یہ معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت کو کسی نے نحمیاہ کے سوار ہوکر یروشلم کے کھنڈرات کے گرد پھرنیکا کا خیال غیر صحیح طور پر سنایا ہوگا۔ دیکھو نحمیاہ کی کتاب اس کا دوسرا باب ۱۱آیت سے ۱۶ آیت تک۔
اس طرح سے اب حضرت محمد ﷺ نے یہود ونصاریٰ سے تعلق قطع کرلیا۔ اپنی مرسلانہ(رسالت) زندگی کے آغاز میں آپ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور ان کی مقدس کتابوں کا بڑے ادب ولحاظ سے ذکر کیا کرتے تھے۔ اور آپ کی تعلیم میں جس قدر اچھی باتیں ہوتی تھیں وہ سب کی سب انہی کی تعلیم سے اُڑائی ہوئی ہوا کرتی تھیں۔ اب جس وقت آپ کی طاقت سب پر فوق(برتری) لےگئی۔ تو آپ نے اپنی مدد و یاری کے تمام پرانے وسائل کو یکطرفہ ردکردیا اور سب کو اپنے تابع فرمان بنایا۔
اگرچہ یوں بیان کیا جاتاہے کہ اسلام کی اشاعت میں صرف وہی وسائل(167) وطریقے کام میں لائے گئے ہیں۔ جن سے محض صلح وسلامتی متصور تھی۔ تاہم اس کا تسلیم کرنا اور اس بیان کی صداقت (سچائی) کے معتقد(اعتقاد)ہونا محال (مشکل) ہے۔ اس قدر تسلیم کرلیا گیا ہےکہ بعض اوقات ایسا ہی ہوا اور نیز یہ کہ دینِ عیسوی کے بعض مسائل کی بالجبر تلقین کی گئی لیکن ہمارا اعتراض یہ ہے۔ کہ جبرو تعدی (زبردستی)مسیحیت کے بانی کی ذات پاک اور اس کی تعلیم کے بالکل برخلاف وبرعکس ہے۔ البتہ حضرت محمد کی ذات اور اسکے افعال(کام) سے اسکی بہت مطابقت ہے۔ آنحضرت کے مومنین کے لئے آپ کے آخری الفاظ بالکل صاف ہیں۔ جب تک صفحہ ہستی پر اسلام کا نام ونشان باقی ہے ہر ایک پکے مسلمان کے کانوں میں یہی آواز گونجتی رہیگی کہ قاتلھہ الله یعنی
(165) تفسیر حسینی جلد اوّل کے ۱۴۹ صفحہ پر مرقوم ہے کہ ایں سخن غایت تہدید است درمولات یہود ونصاریٰ۔ (166) ساتو رکوع میں کسی قدر ظاہری آزادی کا خیال پایا جاتا ہے کہ لیکن یہ آیت اس کی نقیص معلوم ہوتی ہے کیونکہ ا س سخت حکم کے برعکس ساتویں رکوع میں یو مندرج ہے کہ ہر ایک کو تم میں دیا ہم نے ایک دستور اور راہ اور الله چاہتا تو تم کو ایک دین پر کرتا لیکن تم کو آزمانا چاہتا ہے اپنے دئے حکم میں۔ تفسیر حسینی جلد اوّل کے ۱۴۸ صفحہ میں اس کا بیان یوں ہے کہ آزیدا شمار آنچہ شمار دادہ است از شرائع مختلفہ مناسب ہر عضو ے وزمانے تا مطیع ازعاصی ممتیز شود۔ ان دونوں آیات سےمفسرین نہایت مشکل میں پڑگئے کیونکہ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مذاہب مختلفہ کا بانی اور قائم کرنےوالا خُدا ہی ہے درحالیکہ عبارت متن سے یہ امید بلکہ یقین ہونا چاہیے کہ مختلف مذاہب کی ہستی انسان کے گناہ اور اس کی خود پسندی خود رائی کا نتیجہ ہے حامیان اسلام میں سے پکے یعنی سنی مفسرین لکل کے بیان میں فرماتے ہیں کہ ا سکا مفہوم ہر ایک فرد بشر یاہرایک زمانہ یا قوم نہیں ہے بلکہ ا سے ہر ایک نبی مراد ہے جس کو شریعت ملی اور اسی طرح سے اس ہماری عبارت کا مطلب یہ ہےکہ خُدا نے ہر ایک نبی کو شریعت دی اور اسکی تعمیل وتابعداری اس زمانہ کے لوگوں پر اس وقت تک فرض تھی جب تک کہ وہ شریعت منسوخ نہ ہوجاوے چنانچہ اسی طرح تمام نبی اور دین ایک دوسرے کے بعد خُدا کی طرف سے مقرر ہوتے رہے اور اب یہود ونصاریٰ اپنی اپنی شریعتوں کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ اس زمانہ میں ان کی شریعتیں ان کےدینوں سمیت منسوخ ہوگئیں اور اب صرف اسلام ہی کی اطاعت وتابعداری فرض ہے (دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل صفحہ ۵۳۰) عبدالله ابن عباس لکل کا مفہوم لکل نبی منکمہ یعنی ہر ایک نبی بتاتے ہیں اور شاہ ولی الله محدث اس کا ترجمہ ہر گروہ بیان کرتے ہیں۔ (167) اس مقام پر آیات قرآنی اقتباس نہیں کی گئی۔ سورہ بقر میں جو آیات اس امر کے متعلق ہیں ممکن ہے کہ ان کا حوالہ ۷ ہجری کے حج سے علاقہ رکھتا ہو اگر یوں ہوتو یہ آئتیں بعد میں سورہ بقرہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر اگر یہ سچ ہے تو اس سے صرف آنحضرت کے مکی مخالفین کی طرف اشارہ ہے لیکن سورہ بقرہ کے ۲۴ رکوع میں ان کی نسبت یوں مرقوم ہے کہ اور لڑو ان سے جب تک باقی نہ رہے او رحکم رہے الله کا۔ ذرا خیال کرنا چاہئے کہ فعل قتل ہے نہ جھد کہ اسکے معنی بجائے قتل کرنے یا مارنے کے جہدوکوشش ہوسکھیں۔(دیکھو Sell’s Faith of Islam صفحہ ۳۶۴) تمام دلائل جنکی بنیاد یہ ہےکہ قرآن میں جھد کے معنی لڑائی کرنا نہیں بلکہ سرگرمی سے کوشش کرنا ہیں اس قسم کی آیات پر مطلق عائد نہیں ہوتے اور نہ ان سے اس حکم کی سختی اور خشونت میں کسی طرح کا فرق آتا ہے۔ اگر یہ آیت محض اہل مکہ کے حق میں نازل ہوئی ہو تو تو بھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں اشاعت اسلام تلوار ہی سے ہونی تھی اور تلوار ہی سے ہوئی نہ کہ صلح وامن کے وسائل سےجس لڑائی کا اوپر بیان ہوا ہے یہ محض موجودہ طرز حکومت کے برخلاف ملکی لڑائی ہی نہ تھی بلکہ اہل مکہ سے یہ آپ کی دینی لڑائی تھی۔ ساکنان مکہ آپ کو مدنی حاکم کی حیثیت میں نہ اپنا ملکی حاکم مانتے تھے اور نہ دینی پیشواقبول کرتے تھے۔ اس عبارت کی یہ سب سے ملائم تفسیر ہے لیکن بہت سے مسلمان اس کواس قدر محدود نہیں کرتے۔ان کو جہاد کی آواز ہر زمانہ میں صاف سنائی دیتی ہے۔ الجہاد ماضی الی یوم القیامة کی حدیث کو بسا اوقات بڑی خوشی سے اقتباس کرتے ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت جزیہ دینے والوں اور لوگوں کے سوائے جو مومنین سے رابطہ اتحاد اور عہدو پیمان رکھتے ہوں سب پر محیط ہے لیکن تمام جزیرہ نمائے عرب میں کسی کافر کو رہنے کی اجازت نہ تھی اور ہر ایک مرتد کے لئے قتل کا حکم نافذ ہوچکا تھا۔ (دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد اوّل صفحہ ۱۳۲) لہذا ان آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ خواہ محدود طور پر سمجھاجاوے یا وہ غیر محدود طور پر عائد ہوں ان سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ اشاعت اسلام میں جن طریقو ں اور تدابیر کو استعمال کیا گیا وہ صلح وسلامتی سے خالی اور محض جبر کے نام نامی کے لائق ہیں۔
خُدا ان کو قتل کرے۔ آنحضرت نے اپنے مومنین کوصلح وسلامتی کا ایک حرف بھی میراث میں نہ دیا بلکہ ان میں کشت وخون (168)(خون ريزی)کی ایسی پھونک مارگئے کہ اس سے انکے دلوں میں مذہبی دیوانگی کی روح ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
فی الحقیقت نہایت افسوس کی بات ہے۔کہ ایسے نامور شخص کی زندگی کا ایسا انجام ہو۔ مسلمانوں پر جہاد کا فرض ہونا رفتہ رفتہ قرار پایا۔ اور اس بات کا تصور میں آناکہ صرف الله ہی کا دین ہو۔ اور اسلا م ہی سب پر غالب رہے نہایت اعلیٰ خیال تھا۔اور جس قدر آنحضرت کی ملکی طاقت بڑھتی گئی اسی قدر آپ کے دل میں یہ خیال زیادہ صفائی سے نقش ہوتا گیا۔ ایامِ مکہ کے آخر میں جو آپ کے خیالات تھے اب وہ بالکل جاتے رہے۔ اس وقت آپ نے مومنین کو یوں فرمایا تھا۔وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۔یعنی جھگڑا نہ کرو کتاب والوں سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو ( سورہ عنکبوت ۴۵آیت)۔
اس سے سات آٹھ سال پیشتر جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ گئے۔ اور یہود ونصاریٰ اور بُت پرست عربی اقوام سے سابقہ پڑا اس وقت آنحضرت نے مسلمانوں کو ایک نہایت عمدہ نصیحت کی اور فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین یعنی زور نہیں دین کی بات میں ( دیکھو سورہ بقرہ ۳۴رکوع) لیکن اب آپ اس کو بھی فراموش کر بیٹھے۔
اس وقت آنحضرت کا اور ہی ڈھنگ تھا۔ بدرجہ کمال زبردستی ہونے لگی جس کو عمل میں لانا اور اسکی تعلیم دینا صرف کسی فتح مند اور صاحبِ اقتدار شخص کا کام ہے۔ جب آپ کو یہ رُتبہ حاصل نہ تھا اس وقت آپ ایک بھگوڑے واعظ کی حیثیت میں اس پر قادر نہ تھے(169) لیکن اب تو مدت سے فتح مندی کے نشہ نے آپکی ضمیر کی آنکھوں میں خاک ڈال کر اسے جلاوطن کر چھوڑا تھا۔ اب آنحضرت قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھے۔ اور چلتے چلتے اپنے مومنین کو تمام جہان سے لڑنے اور قتال(قتل) کرنے کا حکم ورثہ میں دے گئے۔ خواہ مخواہ ایک اور دینی پیشوا کا آنحضرت سے مقابلہ کرنا پڑتا (170)ہے۔ جس نے اپنے شاگردوں کو يوں فرمايا کہ تمام قو موں ميں صُلح کی انجيل(خوشخبری) کی منادی کرو۔ماسوائے اس کے دونوں کے فرمان کی تعمیل بھی نہایت سرگرمی اور عجیب طور سے کی گئی۔ اہل ِعرب ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لیکر شہر جو جلاتے اور وہاں کے مظلوم باشندوں میں اسلام کی اشاعت بزو ر شمشیر کرتے تھے۔ لیکن مسیح کے رسول رومی سلطنت کی اخلاقی تاریکی میں نہایت حلم اور عدیم المثال(جس کے برابر کوئی نہ ہو) نور ہدایت کی طاقت سے شائستگی کی بنیاد رکھتے۔اور قومی اور خانگی(گھريلو) زندگی کے ناپاک سوتوں اور سرچشموں کو پاک وصاف کرتے تھے۔
(168) سب سے آخر جو اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ اشاعت اسلام کو جبر وتعدی سے بری کیا جاوے اور ظاہر ہو کہ اسلام صلح وامن سے پھیلاوہ J.W.Arnold صاحب کی کتاب The Preaching of Islam میں پائی جاتی ہے اس میں مصنف موصوف نے غلطی کھائی ہے تاہم یہ کتاب دلچسپ ہے مصنف کو جس قدرقرآن سے نرم وملائم الفاظ کے فقرات ملے ہیں ا س نے اس کتاب میں تیسرے صفحہ سے چھٹے صفحہ تک شروع میں درج کئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اگرچہ اس نے اسی سورة یعنی سورہ توبہ سے کئی آیات اقتباس کی ہیں تو بھی وہ ۲۹سے ۳۵ تک تمام عبارت صاف اڑاگیا ہے جس سے اس کی کتاب کے تمام دلائل درہم برہم ہوجاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مسیحی لوگ مسیح کو خُدا کا بیٹا کہتے ہیں پر حضرت محمد نے ان کے ساتھ کوئی مناسب سلوک نہ کیا بلکہ کہا کہ قاتلھمہ الله اور آپ نے کلمات غضب آیات اپنی آخری عمر میں کہے جب آپکی رسالت اور کارگذاری کا انجام نزدیک تھا اور ضرور آپ نے یہ الفاظ سوچ سمجھ کر اور دل میں فیصلہ کرکے کہے ہونگے۔ ایک حدیث میں واقدی سے روایت ہے کہ آنحضرت اپنے بستر مرگ پر یوں کہتے تھے کہ خُدا یہود ونصاریٰ کو ہلاک کرے لیکن اس بات پر زوردینے کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ یہ حدیث ہی کچھ بہت اعتبار کے قابل نہ ہو جیسا کہ بیان ہوچکا ہے آنحضرت جابرانہ عداوت ودشمنی کے اظہار کے لئے جو آپ نے اپنے ہر ایک مخالف سے رکھتے تھے آخری ایام کا وحی قرآنی ہی کافی ہے دیکھوMuir’s Life of Muhammad جلد چہارم صفحہ ۲۷۰۔ (169) ان تمام سخت ونرم آیات کے نزول کا وقت دریافت کرنا نہایت ضروری ہے۔ صرف تمام نرمی ملائمیت کی آیات جمع کرنا اور ان کے نزول کے محل اور متعلقہ واقعات کا بیان نہ کرنا جیسا کہ بعض اوقات ظہور میں آیا ہے۔ محض مغالطہ میں ڈالتا ہے۔ مثلاً Arnold’s Preaching of Islam تیسرے سے چھٹے صفحہ تک ملاحظہ کیجئے (170) دیکھو Osberni’s faith of Islam صفحہ ۵۴
زیادہ سرگرم مسلمانوں کی بڑی خواہش تھی۔ کہ سیریا (شام)کے عیسائیوں اور مخالف عربی اقوام کے برخلاف لڑائی میں شریک ہوں۔ لیکن ان سب کے لئے سواری اور دیگر مصارف جنگ کا بندوبست نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے جنگی ضروریات کے بہم نہ پہنچنے کے باعث وہ جنگ میں شریک ہونے سے قاصر رہے۔ لہذا جنہوں نے دیکھا کہ ان کی خدمات کا ر آمد یا مفید نہیں ہوسکتیں زار زار رونے لگے۔ چنانچہ اس وقت سے ان کا نام البا کیون یعنی رونے والے مقرر ہوگیا۔ ان کے حق میں ایک آیت نازل ہوئی اور انہیں بتلایا گیا کہ ان کا کچھ قصورنہيں ہے چنانچہ سورہ توبہ کے رکوع ۱۲ میں یوں مرقوم ہے۔ وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّواْ وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلاَّ يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَ یعنی اور نہ ان پرکہ جب تیرے پاس آئے تاان کو سواری دے۔ تونے کہا نہیں پاتا ہوں وہ چیز کہ اس پر تم کو سوار کروں الٹے پھرے اور ان کی آنکھوں سے بہتے ہیں آنسو غم سے کہ نہیں پاتے جو خرچ کریں۔
مدینہ کے چند منافقین نے آنحضرت کی مہمات (لڑائياں)اور تسخیرات(فتوحات۔قابو ميں لانا) (171) میں آپکا ساتھ نہیں دیاتھا۔ جب آپ مدینہ میں واپس تشریف لائے تو آپ نے ان کو خوب دھمکایا۔ان منافقین اور بدوی لوگوں کی سرزنش اور دیگر خاص وعام اشخاص کی آگاہی کے لئے خاص آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ سورہ توبہ کی ۳۹،۳۸ و۸۲ اور ۸۷آیات میں یوں مندرج ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِإِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًافَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَوَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَجَاهِدُواْ مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ اوّلواْ الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُواْ ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِين (172) یعنی اے ایمان والو کیا ہوا ہے تم کو جب کہئے کوچ کرو الله کی راہ میں ڈھہے جاتے ہو زمین پر۔ کیا ریجے دنیا کی زندگی پر آخرت چھوڑ کر۔ اگر نہ نکلو گے تم کو دیگا دکھ کی مار خوش ہوئے پچھاڑی والے بیٹھ رہ کر جدا رسول الله سے اور بُرا لگا اپنے مال اور جان سے الله کی راہ میں اور بولے مت کوچ کرو گرمی میں۔ تو کہہ دوزخ کی آگ اور سخت گرم ہے اگر ان کو سمجھ ہوتی۔ اور جب نازل ہوتی ہے کوئی سورة کہ یقین لاؤ الله پر اور لڑائی کرو اسکے رسول کے ساتھ ہوکر۔ رخصت مانگتے ہیں ان کے مقدور والے اور کہتے ہیں ہم کو چھوڑدے رہ جاویں ساتھ بیٹھنے والوں کے پھر ۹۱آیت میں بدوی لوگوں کو آنحضرت نے یوں دھمکایا۔ َوَجَاء الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ یعنی اور آئے بہانے کرتے گنوار تا رخصت ملے ان کو اور بیٹھ رہے جو جوٹھے ہوئے الله سے اور رسول سے اب پہنچیگی ان کو ان میں جو منکر ہوئے دکھ کی مار۔
اس طرح سے ان سب کو جو گھروں میں بیٹھے رہے اور لڑائی میں شریک نہ ہوئے زجرو توبیخ(لعنت ملامت) کی گئی اور آنحضرت کو اپنے تمام مومنین سمیت جو آپ کے ساتھ گئے بہت تحسین وآفرین(تعریف) نصیب ہوئی۔ اور یہ خوشخبری ملی کہ تمام اچھی چیزیں آپکی خاطر تیار ومہیا بلکہ آپکی منتظر ہیں۔ کیونکہ خُدا تعالیٰ نے آپکی خاطر باغ لگا کر ان میں نہریں جاری کی ہیں۔ اور وہاں آپ اور آپ کے مومنین سدا خوشحال (173) وفرخندوفال(مبارک شگون) رہینگے۔ بعض مسلمانوں نے بعد اپنے قصور کا اقرار کرکے معافی حاصل کی لیکن آنحضرت کو اشارہ ہوا کہ انکا تمام مال واسباب لے لیویں تاکہ وہ پاک وصاف ہوں۔ان کے علاوہ اور بھی تھے جو کہ جب تک ان کے حق میں کوئی خاطرخواہ فیصلہ نہ ہوا منتظر رہے۔ لیکن آخر کار انہوں نے بھی معافی (174)حاصل کی۔
(171) آنحضرت نے اپنی مدنی رہائش کے ایام میں عرصہ دس سال کے اندر اندر ۳۸ مرتبہ لشکر کشی اور ان حملوں میں سے ۲۷ میں آپ نے بذات خو اشاعت اسلام کی خاطر سپہ سالاری کی۔ دیکھو کیلی صاحب کی کتاب Muhammad and Muhammadanism کے صفحہ ۳۲۳ پر ابن اسحاق اور ابن ہشام کے مقبسات۔ (172) ۸۲ آیت سے ۱۰۷ آیت تک ساری عبارت اسی مضمون کے متعلق ہے لیکن ہم نے صرف چند آیات اقتبا س کی ہیں۔ (173) دیکھو سورہ توبہ ۹۰ آیت۔
سورہ توبہ سب سے آخری ہے یا کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بعد صرف ایک ہی سورة نازل ہوئی تھی(175) ۔ یہ سورة نہایت سخت ہے اور اس کے احکام برداشت سے باہر ہیں۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ آنحضرت کا مزاج بجائے نرمی وملائمیت اختیار کرنیکے سال بسال اور بھی سخت ودرشت ہوتا گیا ۔اور آپ کی جنگی روح کو ہمیشہ معر کہ آرائی کے مضامین کے لئے مفروضہ الہیٰ ارشاد کی منتظر کمال تک پہنچ گئی۔ چنانچہ سورہ توبہ کے ۱۰ رکوع کی پہلی آیت میں اسی مضمون پر یوں مندرج ہے۔(176) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ۔ اے نبی لڑائی کر کافروں سے اور منافقوں سے اور تند خوائی کر ان پر اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور بری جگہ پہنچے۔
سب سے آخری حملہ جس میں آنحضرت بذات خود سپہ سالار تھے جنگِ تبوک تھا۔ اور اب ایسا معلوم ہونے لگا کہ تمام مخالفت او ر ہر طرح کے خوف وخطر کا خاتمہ ہوا۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے مومنین نے اسلحہ جنگ فروخت کرنے شروع کردئے او رکہنے لگے اب جہاد کی کچھ ضرورت نہیں۔
جب آنحضرت نے یہ خبر سنی تو ان کو ہتھیار بیچنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جب تک (177)دجال ظاہر نہ ہو میرے مومنین اشاعت حق کے لئے ہمیشہ لڑائی میں مصروف رہینگے۔ خواہ یہ حدیث معتبر ہو یا غیر معتبر ۔ کم از کم اس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ اس وقت جہاد کی نسبت مومنین کا کیا خیال تھا۔علاوہ ازیں یہ حدیث اس دوسری حدیث الجہاد ماضی الی یومہ القیامة کے مطابق ہے۔
سالانہ حج کے معمولی وقت پر حضرت محمد مکہ میں تشریف فرمانہ ہوئے۔کیونکہ ابھی بہت سے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اسلئے ۹ ہجری میں آپ نے حضرت ابوبکر کوحاجیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ روانہ کیا۔مگر اس حالت میں رہنا آپ کو کب پسند تھا۔ فوراً پیغام آیا کہ عرب کے گنواروں(بد زيب۔بد نماؤں) کی عزت وحرمت کی آنحضرت کو کچھ پروا ہ نہیں کرنی چاہئے۔چنانچہ اس آسمانی حکم کے اشتہار کی خاطر ابوبکر اور دیگر حاجیوں کی روانگی کے بعد حضرت علی روانہ ہوئے۔ اور مکہ میں ا ن سے جاملے۔ رسوم حج کے اختتام پر حضرت علی نے وحی کا وہ سارا بیان جو حضرت محمد نے ان کے سپر دکیا تھا۔ حاجیوں کے انبوہ کثیر کو پڑھ کر(178) سنایا۔ چنانچہ سورہ توبہ کی پہلی پانچ آیت میں یوں مندرج ہے سنایا۔ چنانچہ سورہ توبہ کی پہلی پانچ آیت میں یوں مندرج ہے (180)الْحَجِّ الأَكْبَرِ أَنَّ (181)اللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍإِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّواْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَفَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ یعنی جواب ہے الله کی طرف سےاور اس کے رسول سے ان مشرکوں کو جن سے تم کو عہد تھا۔ سو پھر اس ملک میں چار مہینے اورجان لو کہ تم نہ تھکا سکو گے الله کو اور یہ کہ الله رسوا کرتا ہے منکروں کو۔ اور سنا دینا ہے الله کی طرف سےاور اسکے رسول سےلوگوں کو بڑے حج کے دن کہ الله الگ ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول۔ سو اگر تم توبہ کرو تمہارے لئے بھلا ہے اور اگر نہ مانو تو جان لو کہ تم نہ تھکا سکو گے الله کو۔ اور خوشخبری دے منکرو ں کو دکھ والی مار کی۔ مگر جن مشرکوں سے تم کو عہد تھا پھر کچھ قصور نہ کیا تمہارے ساتھ اور مدد نہ کی تمہارے مقابلہ میں کسی کی سوپورے کرو ان سے عہد ان کے وعدہ تک۔ الله کو خوش آتے ہیں احتیٰاط والے پھر جب گذر جاویں مہینے پناہ تو مار و مشرکوں کو جہاں پاؤ۔
(174) سورہ توبہ کی ۱۰۳ آیت سے ۱۰۵ آیت تک اور ۱۱۸ و۱۱۹ آیت۔ (175) اس سورة کا بہت سا حصّہ۹ ہجری سے علاقہ رکھتا ہے اگرچہ ۳۱سے ۱۶ آیت تک اس سے پہلے سال کا حال پایا جاتا ہے ۳۶ آیت ۳۷ دس ہجری سے متعلق ہیں۔ باقی آیات کسی تواریخی ترتیب میں مرتب نہیں کی گئیں لیکن مجموعی طور پر اس سورة سے پتہ لگتا ہے کہ ۹سے ۱۰ ہجری میں جو کہ آنحضرت کی ترقی کا زمانہ تھا آپ کے دل کی کیا حالت تھی اور خصوصاً آنحضرت کا بے حد تکبروغضب جو اس سے سورة سے ظاہر ہوتا ہے قابل غور ہے ( دیکھو نولدیکی صاحب کا گشختی دس قرآن صفحہ ۱۶۵ سے ۱۶۹ تک )۔ (176) نولدیکی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب حضرت محمد تبوک سے واپس آئے تھے ۹ہجری کے آخری میں۔ دیکھو گشختی دس قرآن صفحہ ۱۶۷۔ (177) Muir’s Life of Muhammad جلد چہارم صفحہ ۲۰۳ پر مقتبسات واقدی (178) کہتے ہیں کہ حضرت علی نے ان کے سامنے اس امر کی بخوبی توضیح کردی کہ مومنین وکافرین اور بُت پرستوں اور واحد خُدا کے پرستاروں کے درمیان کسی طرح کے عہدو پیمان اور صلح وامن کا امکان نہیں۔ اور سوائے مسلمانوں کے بہشت میں اور کوئی نہیں ہوگا یعنی صرف مسلمان ہی بہشت میں جائینگے۔ دیکھو خلاصتہ التفاسیر جلد دوم صفحہ ۲۱۵۔
پہلی اور چوتھی آیت میں تناقض (مخالف ہونا)نظر آتا ہے۔ کیونکہ پہلی آیت کی رو سے حضرت محمد ایفائے عہد (عہدِ وفا)سے بالکل آزاد اوربری ہوجاتےہیں۔ اور چوتھی آیت میں مشرکین کے ساتھ آنحضرت کے دوستانہ عہدو پیمان کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اور غالباً اس کا بیان یو ں کیا جاتا ہوگا۔ کہ مشرکین کی حیثیت میں ان کو حج کعبہ کی تواجازت ہی نہ تھی۔ ا س لئے ان کےساتھ جو عہدو پیمان تھا۔ اس کی دیگر شرائط کا ایفا (وفا کرنا)ضروری تھا ۔جن صاحبوں نے تاحال اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ انہوں نے حضرت علی کی ساری تقریر کوبغور سنا۔اس تقریر میں یہ آیت بھی شامل تھی۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا۔یعنی اے ایمان والو مشرک جو ہیں پلید ہیں سو نزدیک نہ آویں مسجد الحرام کے اس برس کے بعد ( سورہ توبہ ۲۸ آیت )۔
یہ حکم ایساصریح اور صاف تھا اور اس کی عملی طور پر اس قدر تائید کی گئی۔کہ باشندگان عرب کو سوائے تابعداری کے اور کوئی صورت نظر نہ آئی چنانچہ انہوں نے اطاعت قبول کرلی۔
اب تمام مخالفت رفع دفع ہوگئی۔ اور کعبہ سے بُت پرستی کے تمام تعلقات منقطع کئے گئے۔ مسلمانوں کے سوا کسی کوکعبہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ رہی۔ لہذا آنحضرت نےبڑے حج پر خودبدولت تشریف لیجانیکا مصمم ارادہ(مضبوط ارادہ) کرلیا۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ہجری میں اس حج کے وقت ایک لاکھ سے زیادہ آدمی آپ کے ہمرکاب(ہم سفر) تھے۔ آنحضرت نے نہایت احتیاط کے ساتھ تمام رسوم حج کو یکے بعد دیگرےپورا کیا۔ حجرِ اسود کو چوما زمزم سے پانی پیا اور اہل ِعرب کی دیگر پرانی رسومات (182) کو بھی آپ نے اداکیا۔اس موقعہ کو آپ نے غنیمت جانا اور توارث(وراثت) وزنا (بد کاری)کے متعلق ایک تقریر (183)کی۔ اور یہ فیصلہ کیاکہ زانیہ (زنا کار عورت)کوکوڑوں سے ماریں پر بہت سختی سے نہ ماریں ۔ نیز آپ نے اس تقریر میں غلاموں کی بابت اور مسلمانوں کے باہمی مساوی درجات کی نسبت تعلیم دی۔ قمری سال کو سالِ شمسی کی طرف تحویل کرنیکے لئے جو تین سال کے عرصہ میں ایک مہینہ زیادہ کیا جاتا تھا آپ نے سورہ توبہ کی ۳۶ اور ۳۷آیت سنا کر اس کو بھی موقوف کیا اور قمری سال کے متبدل موسموں کے مطابق ماہ ذی الحج مقرر فرمایا۔
(179) لفظی ترجمہ یہ ہے کہ خُدا کو کمزور نہیں کرسکتے یعنی اس کو اپنے اس ارادہ کے پورا کرنے سے روک نہیں سکتے۔ (180) یعنی حج نہ کہ عمرہ یا حج اصغر۔ (181) واللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ کا ترجمہ مفسر حسین نے یو کیاہے کہ خُدا بیزار است از مشرکین وعہدو ایشاں وپیغمبر نیز بیزار است ۔دیکھو تفسیر حسینی جلد اوّل صفحہ ۲۴۷۔ (182) ایک حدیث میں یوں مذکور ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ رسومات حج کو پورا کرو اور مجھ سے سیکھو کہ تمہیں انکو کس طرح ادا کرنا چاہئے کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد پھر مجھ کو حج کرنا نصیب ہوگا یا نہیں۔ دیکھو Muir’s Life of Muhammadکے صفحہ ۲۳۴ پر حوالہ جات واقدی۔ (183) آنحضرت کی یہ تقریر Muir’s Life of Muhammad کی چوتھی جلد میں ۲۳۸ سے ۲۴۲ تک مندرج ہے۔
انہی دنوں میں ایک دن آپ کوہ ارافات کی چوٹی پر تشریف لیگئے اور اونٹ پر سیدھے کھڑے ہوکر فرمایا (183) الیومہ اکملت لکم دینکم واتمت علیکمہ نعمتی ورضیت لکمہ الاسلام دیناً۔یعنی آج میں پورا دے چکا دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین مسلمانی۔
اس طرح اس بُت پرستی کی رسم کی شمولیت سے وہ مذہب جسکو آنحضرت اپنے ہم وطنوں کےلئے قائم کرگئے۔ اور جس سے پہلے تمام ادیان کی تنسیخ(منسوخ کرنا) متصور(تصور) ہونے لگی۔ کا ملیت کے درجہ تک پہنچ گیا۔ سورہ حج کی۲۸ و۳۰ و۳۴ آیت میں فرائض حج کا بیان یوں مندرج ہے۔ کہ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ۔یعنی اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے۔ پھر چاہئے نبيڑیں (185)اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں قدیم گھر کا۔ تم کو چاپایوں میں فائدے ہیں ایک ٹھہرائے وعدہ تک پھر ان کو پہنچانا اس قدیم گھر تک۔
سورہ حج کو خالص مکی یا مدنی نہیں کہہ سکتے۔ اس کا کچھ حصّہ مکہ میں نازل ہوا تھا اور کچھ مدینہ میں جن آیات کو ہم نے ابھی اقتباس کیا ہے ان کے وقت نزول کا ٹھیک پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔لیکن اغلباً یہ آیات مدنی ہیں اور ۶ ہجری میں حج صغرا کے موقعہ پر نازل ہوئی تھیں۔بہر کیف(بہر حال) یہ احکام آنحضرت نےپہلے ہی نافذ کئے ہوئے تھے۔
اور اب خود ان پر کار بند ہوکر آپ نے ان کو جواز(اجازت) پر مہر کی اور اس وقت سے حج کعبہ ہر مسلمان کے دینی فرائض میں داخل ہوگیا۔ ان ایام میں حج کرنا بلاشبہ ایک ملکی کارروائی تھی۔ کیونکہ یہ قومی معبد مرکز اسلام اور اس کے جان نثاروں کے سالانہ اجتماع کا مقام ہونے کی حیثیت میں اس عزت وحرمت کو حاصل کرکے تمام باشندگان عرب اور خاص کر قریش کے لوگوں کےخیالات کو جو کہ خاص شہر مکہ ہی میں سکونت پذیر تھے کھینچ رہا تھا۔
صرف حج کعبہ ہی ایک ایسی رسم تھی۔ جس میں وہ سب لوگ مسلمانوں کےساتھ شریک تھے۔ اور اس کے جاری رہنے سے خوش ہوکر رفتہ رفتہ وہ اسلام کے نزدیک ہوتے گئے۔آنحضرت کا حج کی پرانی(186) رسومات کو قائم رکھنا بھی آپکی دانائی اور ہوشیاری کی دلیل (گواہی)ہے۔اہل ِعرب کی نظر میں کعبہ اور اسکے متعلقات کی بالعموم (عام طور)بہت ہی عزت وتعظیم ہوتی تھی۔ حج کا یہ ایک بڑا بھاری مقصد تھا کہ عرب کی مختلف قومیں جن
(184) عبدالله ابن عباس اس آیت کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں کہ میں نے تم کو حلال وحرام اور اومرنواہی کے سب احکام بتادئے ہیں آج کے دن سے لے کر کبھی کوئی مشرک ارافات ومناتک نہ پہنچنے پاوے اور نہ کعبہ کا طواف کرے اور نہ صفا ومردہ کے درمیان دوڑے دیکھو تفسیر ابن عباس صفحہ ۱۲۱۔ پھر تفسیر حسینی جلد اوّل بقیہ حاشیہ ۱۳۷ صفحہ پر یوں مرقوم ہے کہ امروز کامل گردانیدم برائے شمادین شماراکہ دیگر احکام اور راقم نسخ نخواند بود تمام کردم برشمانعمت خودار کہ حج گذارید ایمن ومطمئن باشید وہیچ مشر کے باشما حج نگذاردو اختیار کردم برائے شمار اسلام رادینے کہ پاکیزہ تراز ہمہ دینہا۔ خلاصہ التفاسیر جلد اوّل کے ۴۸۸صفحہ پر تمام مفسرین کے بیان کا خلاصہ اور لب لباب یوں مندرج ہے کہ ہمارے دین میں ازروئے دلائل والہام کسی طرح سے کوئی نہیں کسی نئے مسئلے کی ضرورت نہیں اورکسی طرح کی ترقی وتنسیخ کی گنجائش نہیں ہے۔ (185) یعنی ناسترد ہ جھاڑداڑھی اور ننگا سر Sell’s Faith of Islam صفحہ ۹۱۔ (186) تمام اہل عرب میں جو کعبہ کی عزت وتعظیم تھی وہ بھی اس امر میں آنحضرت کی مدد کا ایک نہایت عمدہ وسیلہ تھی کہ آپ تمام عربی اقوام کو ایک خاص مقصد کو مدنظر رکھ کر اکٹھا کریں۔اب آنحضرت کو ایک مزار ہاتھ آیا جس کی نہایت خصوصیت کے ساتھ صدہاسال سے عزت وحرمت ہوتی چلی آتی تھی اور مقدس مقام کی تعظیم وتکریم کےباب میں تمام عرب جو ملک کےمختلف حصوں میں آباد تھے شراکت رکھتے تھے اور یہی مقام تھا جس سے کبھی ان کے دلو ں میں قومی پاسداری کا خیال آسکتا تھا اور آنحضرت کے لئےاس کی تردید کرنا اور اسکی عزت وتعظیم کے برخلاف تعلیم دینا ایک طرح کی دیوانگی متصور ہوتا اور اس سے آپکی ساری مہمات کا مطلب فوت ہوجاتا۔ دیکھو پامر صاحب کا قرآن صفحہ ۵۳۔
کےدرمیان مدتوں سے بغض وحسد کا راج قائم تھا۔ایک دل اور ایک جان ہوجاویں اور ایک نہایت اعلیٰ وخاص مطلب کے لئے زبردست جماعت مجتمع(جمع ہونا) ہوجاوے لیکن فی الحقیقت یہ نہایت کمزوری اور بودا پن کی دلیل تھی کیونکہ ا س سے یہ حقیقت بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام ایک قومی مذہب تھا اور اس کا آغاز اور تکمیل اس امر کے شاہد (گواہ)ہیں۔ اس کے احکام وقواعد جو کہ ساتویں صدی میں اہل ِعرب کی ضروریات کے مطابق تھے۔ نویں صدی کے لوگوں کےلئے ان پر کاربند ہونا از حد دشوار ومشکل تھا۔ اور یہ اسلام کی ترقی کا سخت مانع ہے۔ اس عقیدہ کی عمارت کے محراب کا سر ایک کالا پتھر ہے جو پہلے ایک بُت خانہ میں تھا۔ اس طرف جانا اور بُت پرستوں کی پرانی رسوم کو اداکرنا نجات (187) کا سچا طریق بیان کیا جاتا ہے۔ اہل اسلام کی عقلیں اور ان کے دل گویا اس کا لے پتھر سےبیابان میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور اسی قسم کی چیزوں کی عزت وتعظیم کرتے ہیں۔ نور ہدایت کے تازٍگی بخش قطرات ان کو تروتازہ ۲*(188) کرنے کے لئے بالکل بے اثر اور بیفائدہ معلوم ہوتے ہیں۔
اس میں ذرا شک نہیں کہ اسلام میں ہر طرح کی بہتری اور اصلاح کا روکنے والا حج ہی ہے۔ اور اسلام میں اصلاح تو ہی ہوسکتی ہے جبکہ اہل ِاسلا م اصلاح کی خواہش کو ظاہر کریں پر حج کی دوامی قید سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ اصلاح کے خواہاں نہیں ہیں(189) بلکہ بر خلاف اس کے یہ ماننا پڑتا ہے کہ حج کی مداومت(قيام) سے مسلمان متعصب (مذہب کی بے جا حمایت کرنے والے)اور دن بدن اپنے عقائد پر زیادہ پختہ ہوتے جاتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ لاکھوں مسلمان جو کہ گذشتہ صدیوں میں گذر چکے ہیں باوجود مختلف زبانوں اور نسلوں سے علاقہ(تعلق) رکھنے کے آپس میں کسی قدر برادرانہ اتحاد اور یگانگت رکھتے تھے۔ علاوہ اسکے حج کے وسیلہ سے حضرت محمد کی ایک نہایت عمدہ یادگارقائم ہوگئی ۔مکہ مسلمانو ں کی نظر میں ایسا ہی تعظیم وتکریم کے لائق ہے۔ جیسا کہ یروشلم یہودیوں کی نظر میں۔ گذشتہ صدیوں کےلوگوں کی عزت وتعظیم کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ اس کے خیال سے ہر ایک مسلمان اپنے ایمان کے آغاز اور اپنے نبی کے ایامِ طفولیت (بچپن کے دن)کو یاد کرتا ہے ۔ نیز مکہ کے خیال سے خواہ مخواہ یہ بات یاد آتی ہے کہ پرانے مذہب اور نئے دین میں کس طرح کشمکش ہوتی رہی۔ اور بُت پرستی کو نیست ونابود اور بُتوں کو چکنا چور کرکے واحد خُدا کی عبادت قائم کی گئی۔
سب سے بڑھ کر ہر ایک مسلمان کویہ جتلاتا ہے کہ اس کے تمام مسلمان بھائی ایک ہی جگہ اور ایک ہی مقدس مقام کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور یہ کہ مومنین کی ایک بھاری جماعت میں وہ بھی شامل ہے جو کہ ان کےساتھ ایمان واُمید میں شریک ہوکر ان ہی چیزوں کی عزت و تعظیم کرتا ہے جس کی وہ کرتے ہیں۔اور اسی خُدا کی عبادت میں کھڑا ہوتا ہے جس کو وہ پوجتے ہیں۔ حضرت محمد نے جب کعبہ کی تقدیس(پاک کرنا) کی تو اس امر کو ظاہر کیا کہ آپ کو انسان کے مذہبی جذبات کا کہا ں تک علم تھا لہذا ایک طرح سے حج کا قائم رکھنا اسلام کی پائیداری کا باعث معلوم ہوتا ہے۔لیکن جس قدر اس پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اسی قدر اصلاح کرنا نہ صرف بُت پرستوں کی خواہشات کے مقابلہ میں کمزوری کا نشان تھا۔بلکہ اس سے عقل وانصاف کا بھی خون ہوگیا۔
(187) دیکھو Sell’s Faith of Islam صفحہ ۲۸۸۔ (188) Osbern’s Islam under the Arabs صفحہ ۸۳ (189) حج فرض ہے اور فرض کی تعریف کے لئے Sell’s Faith of Islamکا ۲۸۸ صفحہ اور ۲۵۱ صفحہ ملاحظہ فرمائیے ۔ مولوی رفیع الدین احمد صاحب نے مطبوعہ اکتوبر ۱۸۹۷ء میں یوں فرمایا کہ حج انسان کے دل کو پاک صاف کرتا ہے اور ایسا بے گناہ اور معصوم بنادیتاہے جیسا کہ پیدائش کے وقت معصوم بچوں کا حال ہوتا ہے۔
اس بیان سے ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ قرآن میں جس قدر تواريخی واقعات کا ذکر پایاجاتا ہے وہ سب سچ ہیں لیکن اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا ہم نے مطلق (بالکل)ذکر نہیں کیا مثلا ً مکی معاملات یعنی عہدو پیمان وغیرہ کا قائم کرنا۔ منافقین سے برتاؤ اور متحدہ اقوام سے سلوک کرنے کا بیان بھی قرآن میں مندرج ہے۔ پھر انتظامی معاملات مثلاً نکاح ،طلاق ،توارث(وراثت)،شہادت اور وصیت وغیرہ کے قانون بھی پائے جاتے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ایسا رجسٹر ہے جس میں ملک وملت کی امتزاجی سلطنت کے آئین وقوانین مرقوم ہیں۔ یہ متذکرہ بالا امور زيادہ تر مدنی سورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔سوائے بقر ،نسا ، اورمائدہ جو کہ قریباً طوالت میں برابر او رکُل قرآن کا ساتواں حصّہ ہیں ان میں دینی اورملکی فرائض اور قوانین فوجداری مفصل طور سے مندرج ہیں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ وہ شخص جو کہ مکہ میں محض واعظ اور نصیحت گوتھا۔ مدینہ میں واضع قوانین اور جنگی سپہ سالار بن گیا۔ اور بجائے اس کے کہ ایک شاعر اور معلم کی حیثیت میں قلم کا استعمال کرےلوگوں کو مطیع ومنقاد (طابع و فرمانبردار)بنانے کے لئے تیغ براں (کاٹنے والی تلوار)ہاتھ میں لئے ہوئے حرب وضرب(لڑائی جنگ) کا نعرہ بلند کرنے لگا۔جب مدینہ میں کار گزاری بڑھ گئی ۔تو نظم کی جگہ نثر کا استعمال ہونے لگا اگرچہ اس میں بھی شاعرانہ خیالات معلوم ہوتے تھے۔ تاہم بعض اوقات بالکل نثر رہ جاتی تھی۔ اور آنحضرت کو یہاں سے شروع کرکے اپنے آپ کو محض (190) شاعر کےالزام سے بری کرنے کے لئے مدت تک کوشش کرنی پڑی پر مدنی سورتوں میں یہ بہت ہی کم نظر آتا ہے ۔جب ہم اس قسم کےفقرات کی اطاعت کرو الله کی اور اس کے رسول کی۔ الله ا ور اس کے رسول کا انعام اور الله کی اور اسکے رسول خوشنودی وغیرہ کو قرآن میں پڑھتے ہیں تو نہایت حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ آنحضرت کس قدر ان اوصاف کو جوقرآن کے اور مقامات میں خُدا کے لئے مخصوص ہیں اپنی طرف منسوب(جوڑنا) کرتے ہیں۔
مدنی سورتوں میں یہ جملہ کہ الله اور اس کا رسول بہت عام ہے اور انہی سے مخصوص ۔ (191)اب آنحضرت نے ایک واعظ(نصیحت کرنے والا) اور متنبہ کنندہ(خبردار کرنے والا) کی حیثیت سے گذر کر فرما نروا اور خُدا کی سلطنت کے کا ر مختار کی حیثیت کو اختیار کیا۔ اور اب آپ کے احساس کا مضمون پہلے کی نسبت بالکل مختلف اور الہیٰ اختیار دکھاتا تھا۔ کفارہ کا ذکر کرتے وقت آپ فرماتے تھے۔ کہ کافروہ ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور خُدا کے الہام ووحی کو نہیں مانتے۔لیکن مومنین کوآپ نے یوں فرمایا۔ امنو باالله ورسولہ النور الذی انزلنا یعنی ایمان لاؤ الله پر اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے اتارا۔ پھر خُدا ورسول کی مخالفت کا ذکر بھی اکٹھا ہی آتا ہے۔ گویا کہ دونوں کے لئے یکسا ں سزا مقرر ہے۔ چنانچہ سو رہ انفال کی ۱۳ آیت میں یوں مرقوم ہے۔وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ یعنی اور جو کوئی مخالف ہو الله کا اور اسکے رسول کا تو الله اسے سخت سزا دیتا ہے۔ پھر مومنین کو ایک اور ہی طرح زندگی اور روش کو اختیار کرنیکا فرمان ہوتاہے۔
(190)دیکھو سورہ النفال ۳۱ آیت۔ (191) صرف ایک مقام اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ سورہ اعراف کی ۱۵۸ آیت میں یہ فقرہ درج ہے سورہ اعراف ایک مکی سورة ہے لیکن ۱۵۶ سے ۱۵۸ تک آخری دنو ں کے الہامات کی آیات درج کی ہوئی ہیں ان میں جو جملہ النبی لامی پایا جاتا ہےکہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات مدنی ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا محاورہ ہے جو صرف مدنی آیات سے مخصوص ہے۔ ان آیات میں انجیل وتوریت کی طرف جواشارہ کیا جاتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ آیت آخری ایام یعنی ایام مدینہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ پھر ان لوگوں کی طرف بھی ایک اشارہ ہے جو تقویت ومدد کرتے ہیں چنانچہ لکھا ہے غرور ونصروہ یہ صاف انصار کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس کا ترجمہ مفسر حسین یوں کرتے ہیں کہ یاری دادند اور برادشمنان۔ عبدالله ابن عباس فرماتے ہیں کہ بالسیف یعنی انہوں نے مدد کی اس کی تلوار پکڑ کر۔ پس ا س سے صاف فیصلہ ہوجاتاہے کہ یہ آیات آخری یعنی ایام مدینہ میں نازل ہوئی تھیں الله ورسولہ یعنی الله اور اسکا رسول ایک فقرہ ہے جو ماقبل اورمابعد کی آیتوں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور نہایت صفائی سے ظاہر کرتاہے یہ آیت آخری زمانہ کی یعنی مدنی ہیں