The Holy Spirit
In Qur’an & Bible
Rev. C. J. Mylrea & Sheikh Iskandar Abdul Mashi
By Kind Permission of the C.L.S
Approved by C.L.M.C
Examines the 20 references to the Spirit in Quran and shows how ideas, though borrowed, are misused and misunderstand; a final section leads from the” unknown” to the Holy Spirit of Christian faith and experience.
رُوح الُقّدس
ازروئے قرآن وبائبل
مصنف
علامہ پادری سی ۔جے۔ ملر وشیخ اسکندر عبدالمسیح صاحبان
کرسچن لٹریچر سوسائٹی کی اجازت سے
پنجاب رلیجِس بک سوسائٹی ۔انارکلی۔ لاہور
۱۹۲۴
روح القدس ازروئے قرآن وبائبل
دیباچہ
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً
تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں توان سے کہہ دے کہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اورتم لوگوں کو صرف تھوڑا ہی سا علم دیا گیاہے۔
(سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۵)
جنہوں نے قرآن پڑھاہے اُن کو یادہوگا کہ یہ سارے انسانوں کےلئے نورہدایت ہونے کا مُدّعی ہے۔اورنیز اس امر کاکہ جو علم آدمیوں کےلئے ضروری ہے وہ سب اس میں پایا جاتاہے ۔ چنانچہ ایک آیت میں یہ لکھاہے کہ ’’ہم نے اپنی کتابوں میں کسی بات کی کسر نہیں رکھی‘‘۔ اس لئے ایماندار بادی النظر (ابتدائی نظر میں)میں یہ ماننے لگ جاتاہے کہ انسانی روح کی تشفی کےلئے جو کچھ درکارہے وہ سب قرآن میں مُندرج ہے۔توبھی مسلم مفسرین نے حضرت محمد کے زمانے سے لے کر آج تک اس دعویٰ کو پرکھنے کی جُرات نہیں کی اورنہ اس امر کی تحقیق کی کوشش کی یاتوشاید اس خوف سے کہ کہیں یہ دعویٰ بے بنیاد نہ نکلے یا محض ناعاقبت اندیشی سے چونکہ اس مضمون کے متعلق وہ اسلامی قیاسات کے دائرے سے کبھی باہر قدم نہیں مارتے اس لئے پوری صداقت کی دریافت میں وہ کبھی ترقی نہیں کرتے۔
اب اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن میں بعض ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن کا بہت سرسری ذکر ہے اورجوسمجھ میں نہیں آتے۔
ان میں سے اکثروں کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ وہ مضامین دیگر چشموں سے لاپروائی کے ساتھ لے لئے گئے اوراس بات کا کچھ لحاظ نہ کیا گیا کہ اصلی مصنف کا حقیقی منشا کیا تھا اورنہ اُس کے مقصد کو ٹھیک طور سے سمجھا۔لائق سے لائق مفسرین کو ان متشابہ آیات کی تفسیر کرنے میں لایخل مشکلات پیش آئیں کیونکہ وہ خود اُن دیگر عقائد کی اصطلاحات سے ناواقف تھے جن سے اُن کی تشریح ہوسکتی تھی۔ اُنہوں نے اسلامی ذرائع سے باہر اُن کے معنی دریافت کرنے کی کوشش نہ کی۔یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت محمد نے ارادتاً ان مضامین کو اس لئے داخل کیاہوکہ ان باتوں سے اُن پر گہرا اثر کیا تھا۔لیکن اُن کےحقیقی معنی خود اُن کومعلوم نہ تھے اورمفسرین نے بھی نادانستہ اس اصلی مشکل کو زیادہ بڑھادیا۔
اس کی ایک مثال قرآن میں روح کا مسئلہ ہے۔یہ لفظ تولاکلام اُن یہودیوں یا مسیحیوں سے لیاہوگا جوعہدِعتیق اورعہدِجدید کے ذریعے سے اس لفظ سے آشنا تھے۔ لیکن اس کا مطلب سمجھے بغیر لفظ لے لیا گیا۔بائبل میں تواس مضمون کا بہت ذکر پایا جاتاہے کیونکہ وہاں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔لیکن قرآن نے جوان سے بہت پیچھے تیار ہوا اس مسئلہ کو بہت مشکل اورمبہم بنادیا۔شائد ان الفاظ کو پڑھ کر مسلمان صاحبان تعجب کریں لیکن جب ہم اس مضمون کی پوری تشریح کردیں گے تواس کا مطلب اُن کی سمجھ میں آجائے گا اور وہ اپنی رائے بدل ڈالیں گے۔اس لئے ہماری اُن سے یہ درخواست ہے کہ جو ثبوت اس کتاب میں دئے گئے ہیں اُن پر توجہ کئے بغیر اس کو پھینک نہ دیں گے۔
اس لئے جوآیات روح کے بارے میں آئی ہیں ہم اُن کو نقل کریں گے اورمسلمان مفسرین نے جواُن کی تفسیریں کی ہیں وہ بھی مندرج کریں گے جس سے ظاہر ہوجائے گا کہ حضرت محمداور مفسرینِ قرآن اس کی ٹھیک تشریح نہ کرسکتے تھے۔ اس امر سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اُن کے خیالات وتصورات میں کچھ پریشانی تھی۔ چونکہ خدا نے ہم کو بائبل میں روح کا صاف تصور دیاہے اس لئے ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے اسی طرح مخاطب ہوں جیسے مقدس پولوس اہل اتھینے سے مخاطب ہوا تھا۔’’ اے اتھینے والو! میں دیکھتاہوں کہ تم ہر بات میں دیوتاؤں کے بڑے ماننے والے ہو۔چنانچہ میں نے سیر کرتے اورتمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی جس پر لکھا تھا کہ نامعلوم خدا کےلئے۔ پس جس کو تم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو۔ میں تم کو اُسی کی خبر دیتاہوں‘‘(اعمال ۱۷: ۲۳)۔اسی طرح ہم یہ کہیں گے کہ ’’اے مسلمان صاحبان روح کا مسئلہ جسےتم نہ معلوم سمجھتے ہو عین وہی مسئلہ ہے جسے ہم آپ کو معلوم کرایا چاہتے ہیں‘‘۔
قرآن کی تقریباً بیس آیتوں میں یہ لفظ روح آیاہے اور ان میں سے ہرآیت کی تفسیر میں مفسرین کو حیرت کا منہ دیکھنا پڑا جیساکہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔اس مضمون کے متعلق ان ساری آیتوں میں اُنہوں نے کئی ایک مختلف تشریحیں پیش کی ہیں ۔ اسی ایک امر سے ظاہر ہے کہ اصلی معنوں کے بارے میں وہ کس قدر شبہ میں تھے۔
ہم یہ کہنے کے توہرگز مجازنہیں کہ حضرت محمد کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ روح کو مختلف معنوں میں استعمال کرتے ۔یایہ کہ قرآن میں ایسا پایا نہیں جاتا۔مسیحی مقدس نوشتوں میں لفظ روح ہمیشہ نہ تو انسانی روح کےلئے آیاہے اورنہ روح القدس کے معنی ہیں۔لیکن سیاق عبارت سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ وہاں اُس سے کیا مُراد ہے۔
مگرقرآن کی تفسیروں میں اس امر کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس کے معنی صاف کردئے جائیں اورپھر بتایا جائے کہ اُس قرینے(ترتیب) میں کون سے معنی ٹھیک چسپاں ہوں گے۔ خاص کر لفظ روح القدس کے استعمال کے بارے میں یہ قابل غور ہے۔ یہ تو بالکل عیاں ہے کہ یہ لفظ نئے عہدنامے سے لیا گیا توبھی اس کا کچھ پتا نہیں لگتا کہ ’’مخلوق روح ‘‘سے یہ کوئی متفرق وجود تھا۔اورنہ اس امر کا کہ اصلی عبارت میں یہ لفظ خود خدا کے لئے مستعمل تھا۔
اس کی ایک عمدہ مثال (سورہ بقرہ آیت ۸۱)جس کا یہ ترجمہ ہے’’ اورمریم کے بیٹے عیسیٰ کو ہم نے کھلے کھلے معجزے عطا فرمائے اوروح القدس سے اُن کی تائید کی‘‘ تفسیر بیضاوی میں اس لفظ روح القدس کے چار مختلف معنی دئے ہیں۔
’’(۱) فرشتہ جبرائیل (۲) جناب مسیح کی روح(۳) جناب مسیح کی انجیل (۴) وہ اسم اعظم جس کے وسیلے جناب مسیح مردوں کو جلایا کرتے تھے‘‘۔
ناظرین بآسانی معلوم کرلیں گے کہ بیضاوی صاحب کو خود معلوم نہ تھا کہ اس کے ٹھیک معنی کیا ہیں اوراس کی یہ وجہ تھی کہ انہوں نے اسلامی چشموں کے باہر کسی دوسرے چشمے سے مدد نہ لی۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے یہ حیرانگی حاصل ہوئی کہ اس آیت کے ٹھیک معنی کیاہوں گے۔آیا حضرت محمد کو اس لفظ" روح القدس" کے ٹھیک معنی معلوم تھے یانہیں۔ البتہ اُن میں ایسا ایما ن پایا جاتاہے کہ اُن کو معلوم نہ تھے۔
اس آیت کی جو تفسیر الطبری نے کی وہ اوربھی حیر افزاہے (دیکھو جلد تیس صفحہ ۱۳)۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے بانی روح کی اہمیت کے بارے میں بتدریج زيادہ زيادہ آگاہ ہوتے گئے۔لیکن اُنہوں نے یہ معلوم کیاکہ اس میں کوئی بیرون ازقیاس سرتھا۔اس لئے جب لوگوں نے اس کی نسبت سوال کیا تواُنہوں نے یہ جواب دیا کہ یہ ’’ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ۸۵)۔ہم اب اسی سرکو کشف کرنا چاہتے ہیں۔
بیضاوی نے (سورہ الحجر آیت ۲۹ اورسورہ السجدہ آیت ۸)کی تفسیر کرتے وقت یہ ظاہرکردیا کہ خدائے قادر مطلق کی نسبت جوتعلیم اسلام میں پائی جاتی ہےاُس کو اس تعلیم سے تطبیق(مطابقت) دنیا محال ہے کہ خدا کا کوئی رشتہ اُس کی مخلوق کے ساتھ ہو(نیز دیکھو رازی جلد پنجم صفحہ ۴۴۷)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیضاوی اور رازی اس مضمون کے متعلق مادی اور روحانی پہلوؤں کے درمیان امتیاز نہ کرسکے اورایسے امتیاز کے بغیر ان دوباتوں کو تطبیق دینا محال تھاکہ خدا آدم کو زمین کی مٹی سے پیدا کرے اوراپنی روح اُس میں پھونکے ۔یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ مسلمان مفسرین ان اسلامی تنگ آرائے کے حلقے سے جس قدر باہر نکل کرقدم مارتے ہیں اُسی قدر زیادہ وہ صداقت کے قریب آجاتے ہیں۔
مگر یہ تو عجیب بات ہے کہ بانئے اسلام کو خودیہ تحقیق معلوم نہ تھاکہ سیدنا عیسیٰ خود روح تھا یااُسے روح کےذریعے سے قوت دی گئی تھی۔اوراس سے بھی بڑھ کر یہ تعجب ہے کہ قرآن کے مفسرین کویہ پتا نہ لگایا کہ آیا خودیہ روح مادی تھا یا روحانی۔
اس کے علاوہ یہ نہایت قابل غور وعیاں امر ہے کہ قرآن میں سیدنا عیسیٰ کا گہرا تعلق اس روح کے ساتھ پایا جاتاہے ۔ اس امرواحد ہی سے مسیح کا درجہ باقی سارے انبیا سے اعلیٰ ٹھہرتاہے اورمسیح کی ذات کے بارے میں جومسیحی تصور ہے اُس کے بہت قریب جاپہنچتے ہیں۔
سورتوں کی شان نزول کا تعلق اس مضمون سے
ہم یہ امر مسلمہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کی سورتوں کی ترتیب اُن کے نزول کے مطابق مقرر ہوچکی ہے۔ اس ترتیب کے ذریعہ ہم کو حضرت محمد کے تصورات وخیالات کے نشوونما پرغورکرنے میں مددملتی ہے اور خاص مضمون زیربحث کے مطالعے میں وہ روح کا ذکر جن سورتوں میں ہوا ہے اُن کی ترتیب نزول کو ہم مفصلہ ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
(۱۔) وہ آیات جن میں لفظ روح کو عموماً فرشتوں سے منسوب کیا اورخاص کر جبرائیل سے ۔
(۲۔) جن آیات میں روح کو خلقت سے اورخاص کر انسان سے منسوب کیا ہے۔
(۳۔) جن آیات میں روح کو عموماً الہٰام یا وحی سے منسوب کیا۔
(۴۔) جن آیات میں روح کو عموماً سیدنامسیح سےمنسوب کیا ۔
ترتیب (راڈویل صاحب) | سورہ |
۲۱ | سورہ القدر(۴) |
۳۷ | سورہ النبا(۳۸) |
۴۷ | سورہ المعارج(۴) |
۵۶ | سورہ الشعرا(۱۹۳) |
۷۳ | سورہ انحل (۱۰۵) |
۵۷ | ۲۔ سورہ الحجر (۲۹) |
۷۰ | سورہ السجدہ (۸) |
۵۹ | سورہ السعد(۷۲) |
۷۳ | ۳۔سورہ النحل(۲) |
۶۷ | سورہ بنی اسرائیل (۸۷) |
۷۸ | سورہ المومن (۱۵) |
۸۳ | سورہ الشوریٰ (۵۲) |
۱۰۶ | سورہ المجادلہ (۲۲) |
۹۱ | ۴۔سورہ البقر(۸۱، ۲۵۴) |
۱۰۰ | سورہ النساء(۱۶۸) |
۱۱۴ | سورہ المائدہ (۱۰۹) |
۶۵ | سورہ الانبیاء (۹۱) |
۱۰۹ | سورہ التحریم (۱۲) |
یہ بہت مفید ہے کہ ہم ان آیات کو ایسی ترتیب سے جمع کرسکتے ہیں اورجن حصوں میں ہم نے اُن کو تقسیم کیاہے وہ اکثر علماء کی رائے کے مطابق سورتوں کی ترتیب نزول ہے ۔ ان دونوں امور واقعی سے صاف طورپرظاہر ہوگاکہ حسب وقت حضرت محمد کے دل میں اس مضمون نے کیسے نشوونماحاصل کیا۔
اُنہوں نے اس مضمون کو زیادہ اہمیت دی لیکن وضاحت کے ساتھ نہیں ۔ اس لئے وہ اپنے تابعین سے اگرزیادہ سے زیادہ کچھ کہہ سکتے تھے تویہ کہہ سکتے تھے :
’’وہ تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں توکہہ دے کہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے۔ اورتم لوگوں کو بس تھوڑا ہی سا علم دیا گیاہے‘‘(سورہ بنی اسرائیل ۸۵)۔
ہمارا منشا یہ ہے کہ ان چار حصوں کو ہم سلسلہ وارلیں اوراُس حصے کی جن آیات میں روح کا ذکرہواُن کو نقل کریں اور مفسروں نے جوتفسیریں اُن مقامات کی کی ہیں اُن کو پیش کریں۔ ہر حصے کے آخر میں ہم اپنی تشریح بھی درج کریں گے۔اورپانچویں فصل میں ہم مسلمان احباب کی خاطر اس مضمون کے متعلق توریت اورانجیل کی تعلیم کا بیان کریں گے۔
فصل اوّل
روح اورجبرائیل
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
(ترجمہ)اس رات ہرایک انتظام کیلئے فرشتے اور روح اپنے پروردگار کےحکم سے اُترتے ہیں۔
(سورہ القدر ۴)
اس آیت کی تفسیر بیضاوی نے یوں کی ہے۔
’’اس آیت میں اس امر کی تشریح ہے کہ شب قدرکوایک ہزار مہینوں پر کیوں فوق دیا۔ اورکیوں فرشتے اورروح سب سے نچلے آسمان پر یا زمین پراُترے تاکہ وہ ایمان داروں کے زیادہ قریب ہوجائیں‘‘۔
جلالین نے اس روح کو جبرائیل فرشتہ سمجھا۔ اوراس تفسیر میں زمحشری کا بھی اُس سے اتفاق ہے کیونکہ اس نے لکھاہے کہ
’’ اس آیت میں روح سے جبرائیل یا فرشتوں کا گروہ مراد ہے جوعام فرشتوں کو سوائے شب قدر کے کبھی دکھائی نہیں دیتے‘‘۔
الطبری نے یہ بیان کیاکہ
’’ مفسرین کو اس آیت کے ٹھیک معنی معلوم نہیں ۔ اکثروں کی یہ رائے ہے کہ شب قدر کو جوروح فرشتوں کے ساتھ اُترتاہے وہ جبرائیل ہے‘‘۔
(دیکھو بیضاوی ۔ جلالین جلد دوم صفحہ ۳۷۸۔ کشاف جلددوم صفحہ ۵۵۵۔طبری ۳۰۔ ۱۴۴)۔
یہ واضح ہوگیاکہ متاخرین مفسر اس آیت میں روح سے جبرائیل فرشتہ مراد لیتے ہیں غالباًاس وجہ سے کہ یہ تشریح سب سے آسان ہے اوران کی مشکل کو حل کردیتی ہے۔
(ب) يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا۔
ترجمہ۔ جب روح اورفرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے کسی کے منہ سے بات تونکلنے ہی کی نہیں مگرجس کورحمان اجازت دے اور وہ بات بھی معقول کہے۔
(سورہ النبا ۳۸)
اس کی تفسیر میں بیضاوی یوں رقم طراز ہے۔
اس کی تفسیر میں بیضاوی یوں رقم طراز ہے۔
جلالین نے یہ بیان کیاکہ
’’اس لفظ سے یہاں یا تو جبرائیل مراد ہے یاآسمانی لشکر‘‘۔
زمحشری کی تفسیر اس مقام میں تقریباًبیضاوی سے مشابہ ہے۔چنانچہ اُس نے یہ لکھا کہ
’’الروح فرشتوں سے کوئی بزرگ تراورمعزز تروجود ہے جو اُن سب سے زیادہ کا مقرب ہے ۔ یاکوئی ایسا بزرگ فرشتہ ہے جس سے بڑھ کر خدا نے سوائے اپنے عرش کے اورکسی کو خلق نہیں کیا۔ یااس سے کوئی ایسا فرشتہ مراد نہیں جوخوراک کھاتاہو۔یا اس سے خود جبرائیل مراد ہے‘‘۔
نیشا پوری کا یہ بیان ہے۔
’’ الروح درجہ میں سب سے اعلیٰ مخلوق ہے اورلفظ صفاً مجموعی طورپر یہاں استعمال ہوا اوراس لئے اس سے ایسا درجہ مراد ہوسکتاہے جس میں الروح اورفرشتے سب کے سب شامل ہوں‘‘۔
الطبری نے اس آیت میں لفظ الروح کے مختلف معنی دئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
’’بعض یہ مانتے ہیں کہ الروح سے اس آیت میں کوئی ایسا وجود مراد ہے جودرجے میں فرشتوں سے بہت اعلیٰ وافضل تھا‘‘۔
مسعود سے روایت ہے کہ الروح چوتھے آسمان میں ایک فرشتہ ہے جوآسمانی سارے لشکروں سے بزرگ تر ہے ۔ اورآسمان کے سارے پہاڑوں اورفرشتوں سے اعلیٰ ہے۔ وہ ہر روز بارہ ہزار دفعہ خدا کی تسبیح کرتاہے اوراُس کے ہر کلمہ تسبیح میں سے خدا ایسے فرشتوں کو پیدا کرتاہے جوبڑھتے بڑھتے فرشتوں کی صف بن جاتاہے۔ (اس مشکل کو حل کرنے کی یہی ایک فلسفانہ کوشش ہے)۔
ابن عباس سے روایت ہے’’ خلقت میں الروح سارے فرشتوں سے اعلیٰ اور افضل ہے‘‘ اوربعض یہ کہتے ہیں’’وہ جبرائیل ہے‘‘ اورالضحاک کا بیان ہے ’’ الروح جبرائیل ہے‘‘ الشعبی نے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے۔ بعض یہ کہتے ہیں ’’ خدا کی خلقت کا یہ مخلوق انسانی صورت میں ہے‘‘ ۔مجاہد نے یہ بھی بیان کیا کہ ’’روحیں انسانی صورت کی مخلوق ہیں۔ وہ کھاتی اورپیتی ہیں۔ اُن کے ہاتھ پاؤں اور سربھی ہیں۔ وہ خوراک کھاتی ہیں اس لئے وہ فرشتے نہیں‘‘ ابن خلدون نے یہ کہا’’ روحیں انسانوں سے مشابہ ہیں۔ لیکن وہ انسان نہیں‘‘ بعضوں کی یہ رائے ہے۔ ’’ روحیں آدمی ہیں ‘‘سعید ابن قتادیٰ نے لکھا ہے’’ جس دن روحیں کھڑی ہوں گی۔ یعنی بنی انسان ‘‘ اورامام حسن بردار امام حسین سے روایت ہے اور سعید ابن قتادیٰ نے اس کا ذکر کیاہے کہ ابن عباس نے یہ روایت چھپالی روایت ہے کہ ابن عباس نے بھی یہ کہا’’ جس دن روحیں کھڑی ہوں گی‘‘ یعنی جس روز آدمیوں کی روحیں فرشتوں کے ساتھ اُس عرصے میں کھڑی ہوں گی جوروحوں کے بدنوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے پیشتر دوصوروں کے پھونکے جانے کے مابین ہوگا‘‘۔ بعضوں کی یہ رائے ہے کہ’’الروح قرآن ہے‘‘۔
پھر اس نے اپنی تشریح پیش کی اوریہ کہا!’’ الروح خدا کی مخلوقات میں سے ایک ہے اورمذکورہ بالا بیانات میں سے کوئی ایک مراد لی جاسکتی ہے‘‘۔ (دیکھوبیضاوی جلد دوم صفحہ ۳۵۷ کشاف جلد دوم صفحہ ۵۲۰۔نیشاپوری سیم جلد صفحہ ۲۔طبری کے حاشیہ کو اورطبری جلد سیم صفحہ ۱۳، ۱۴ کو)۔
(ج۔) تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ
فرشتے اور روح اُس کی طرف چڑھتے ہیں
(سورہ المعارج آیت۴)
بیضاوی نے اس آیت کی یہ تفسیر کی
’’ روح سے یہاں جبرائیل مراد ہے۔ اس کا ذکر علیحدہ اس لئے ہوا کیونکہ وہ دیگر فرشتوں پر فوق رکھتا تھا‘‘۔
ممکن ہے کہ اس لفظ سے ایسا مخلوق مراد ہو جوفرشتوں سے اعلیٰ واشرف ہو۔
جلالین نے بھی الروح سے یہاں جبرائیل ہی مراد لی اورالکشاف نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے یہ ایزاد (اضافہ)کیا
’’ جبرائیل کا ذکر الگ اس لئے کیا گیا کیونکہ وہ اپنی عظمت میں خاص طورسے ممتاز تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں الروح سے فرشتوں کا موکل مراد ہے۔ جیسے فرشتے آدمیوں کے موکل ہیں ویسے الروح فرشتوں کاموکل ہے‘‘۔
الطبری نے صاف طور سے یہ کہہ دیا کہ اس آیت میں الروح سے جبرائیل مراد ہے۔ نیشاپوری نے یہ رقم کیاکہ’’الروح سے اعلیٰ درجے کا فرشتہ مراد ہے۔ خدا کے نور کی شعاع پہلے اُس کو پہنچتی ہے پھر وہاں سے وہ ادنیٰ درجے کے فرشتوں میں تقسیم ہوتی ہے انسان’’ روحوں کی سیڑھی‘‘ کے نیچے کے زینے پر ہیں۔ اس سیڑھی کی چوٹی اور زیرین زینو ں کے مابین دیگر زینے یا فرشتوں کی روحوں اورآسمانی لشکروں کے مختلف درجے ہیں جوصرف خدا ہی کو معلوم ہیں"(دیکھو بیضاوی ۔جلالین جلد دوم صفحہ ۳۳۶۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۴۳۸۔ نیشا پوری ۔طبری کے حاشئے میں جلد ۲۹۔ صفحہ ۴۲۔ اورطبری جلد ۲۹۔ صفحہ ۳۹)۔
(د) ’’کچھ شک نہیں کہ یہ پروردگار عالم کا اتارا ہواہے اس کو روح الامین نے سلیس عربی زبان میں تمہارے دل پر القا کیا‘‘
(سورہ الشعرا آیت ۱۹۲۔ ۱۹۳)۔
اس آیت کی تفسیر بیضاوی نے یہ کی
’’ روح الامین جبرائیل فرشتہ ہے کیونکہ وحی دینے کے لئے یہی امین فرشتہ ہے‘‘۔
جلالین نے صرف اتنا لکھا ہے
’’ روح الامین جبرائیل ہے‘‘
کشاف میں اس لفظ کے حقیقی معنی پر کوئی تفسیر نہیں" (دیکھو بیضاوی جلالین جلد دوم صفحہ ۱۱۲۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۱۳۴)۔
(ہ) ’’ حق تویہ ہے کہ اس کو تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس لے کرآئے ہیں‘‘۔
بیضاوی نے اس آیت کی نسبت یہ لکھا کہ
’’ روح القدس جبرائيل ہے۔ اور وہ قدس یعنی پاک کہلایا‘‘۔
جلالین اورکشاف دونوں میں یہ جبرائیل بیان ہوا۔
بیضاوی اورجلالین کاپھر اس امر میں اتفاق ہے کہ لفظ روح سے جبرائیل مراد ہے۔ کشاف نے روح القدس کی صرفی ترکیب کا ذکر کیا(بیضاوی جلد اول صفحہ ۳ جلالین اورکشاف جلد اول صفحہ ۵۳۷)۔
اس آیت میں پہلی دفعہ یہ نام روح القدس آیاہے جوبائبل مقدس کا خاص محاورہ ہے ۔ مفسروں نے اس نام میں کوئی خصوصیت نہیں دیکھی۔ بیضاوی نے صرف اتنا کہاکہ لفظ قدس کے بڑھانے سے اُ سکی پاکیزگی کوظاہر کیا۔ اس نام کے ٹھیک معنی یہ ہیں۔ ’’قدوسیت کا روح ‘‘ جس کی نسبت کشاف نے بیان کیا کہ اس زور کے باعث یہ نام روح القدس ہوگیا۔
فصل اوّل پرچند خیال
مذکورہ بالا تفاسیر سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ متاخرین مفسر بیضاوی جلالین اورکشاف کا اتفاق رائے اس پر ہے کہ الروح سے جبرائیل مراد ہے۔ غالباً اس وجہ سے اُنہوں نے یہ معنی پسند کئے کیونکہ اس سے وہ بہت تکلیف اوربحث سے بچ جاتے ہیں۔ مگر طبؔری نے اس سے کچھ زیادہ تفسیر کی۔ اوراُس نے ایک معنی کے بجائے کئی ایک معنی بتائے ہیں اوراُس نے اپنے دستور کے موافق ہرمعنی کی تائید میں کسی نہ کسی حدیث کو پیش کیاہے اورحضرت محمد کے صحابہ اوراُن کے بیٹوں کے اقوال سے اقتباسات دئے ہیں۔ اس امر کا یہ قطعی ثبوت ہے کہ حضرت محمد اوراُن کے اصحاب کو لفظ’’ الروح ‘‘کے ٹھیک معنی معلوم نہ تھے۔ اوریہ صداقت کے خلاف نہ ہوگا۔ اگرہم یہ کہیں کہ اُن کے غوروفکر کی غایت صرف یہاں تک ہی پہنچی کہ الروح ایک الگ ہستی تھی جودرجے میں سارے فرشتوں سے اشرف واعلیٰ تھی۔ اورایسی مخلوق تھی جوخدا کے مکاشفے کو آدمیوں تک پہنچادے۔ مذکورہ بالا آیات میں الروح کوجوذکر آیا اُس کی نسبت مفسروں کو یہ کہنا زیادہ آسان معلوم ہوا کہ اُ س سے جبرائيل مرادلیں یاکوئی دوسرا فرشتہ ۔ لیکن خواہ وہ کچھ ہی کہیں یہ امر توچھپ نہیں سکتا کہ اُن کی تشریحیں نہ صرف ناقص ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی باطل ہیں۔ اُن کی یہ مشکل اوربھی بڑھ جاتی اوریہ مسئلہ اوربھی پیچیدہ ہوجاتاہے۔ اس لئے ہم مسلمان صاحبان سے یہ درخواست کرتے ہیں اور یہ جائز درخواست ہے کہ وہ ہمیں اس لفظ الروح کی ٹھیک تشریح بتائیں کہ کن مختلف معنوں میں یہ لفظ قرآن میں مستعمل ہواہے۔ اورجب تک اس امر میں وہ ہماری تشفی نہ کریں تب تک ہم یہی مانیں گے کہ نہ تو حضرت محمد کو الروح کے معنی معلوم تھے نہ اُن کے پیروؤں کو‘‘۔
فصل دوم
روح اورانسان
(۱۔) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ
’’جب میں اس کو پورا بناچکوں اوراُس میں اپنی روح پھونک دوں‘‘
(سورہ الحجر ۲۹)۔
اس آیت کی تفسیر بیضاوی میں یوں آئی ہے۔
’’ میں نے اپنی روح اُس میں پھونک دی حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے اعضا میں سرایت کرگئی اور وہ زندہ ہوگیا۔ چونکہ روح کا حصر(احاطہ ) اپنی ہستی کےلئے ہوئی بخار پر ہے جودل سے نکلتاہے اور زندہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اعصاب میں سرایت کرجاتاہے خدا نے اس کا تعلق بدن کے ساتھ سانس کے وسیلے سے قائم کردیا‘‘۔
جلالین میں یہ تفسیر پائی جاتی ہے ۔
’’ اُس میں اپنی روح پھونک دوں‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ ’’ میں ایسا کروں گا کہ میری روح آدمی کے بدن میں سرایت کرجائے تاکہ وہ زندہ مخلوق ہوجائے۔رُوح کے ساتھ اُس کا تعلق آدم کےلئے عزت کاباعث تھا‘‘۔
کشاف میں اس سے مختلف تشریح ملتی ہے۔ چنانچہ وہاں لکھاہے۔
’’ فی الحقیقت کوئی سانس پھونکنا نہ تھا اورنہ کوئی شے کسی میں پھونکی گئی یہ سارا جملہ ایک طرح کااستعارہ ہے جس میں بیان کیا گیا کہ انسان میں زندگی کس طرح پیدا ہوئی‘‘
(بیضاوی ۔جلالین جلد اول صفحہ ۳۷۶۔ اورکشاف جلد اول صفحہ ۵۱۵)۔
(۲۔) ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ
اور اُس میں اپنی روح پھونکی
(سورہ السجدہ ۹)۔
بیضاوی کہتاہے۔
’’ اُس نے اُس کو اپنے ساتھ رشتہ دیا اور بطور عزت وامتیاز کے۔ ایسا کرنے سے خدا نے یہ ظاہر کردیا کہ انسان ایک عجیب مخلوق تھا اور کسی نہ کسی طرح خدائے تعالیٰ کے ساتھ اُس کا رشتہ تھا۔ جواپنے تئیں جانتا ہے وہ اپنے خداوند کو جانتاہے"۔
جلالین نے یہ تحریر کیا!
’’ اس آیت سے یہ ظاہر ہے کہ انسان محض ایک بے نظام مادہ تھا۔ لیکن خدا نے اُسے زندگی عطا کی اور اُسے ذی فہم اورذی عقل بنادیا ‘‘۔
کشاف نے یہ بیان کیا
’’ روح کا الہٰی ذات کے ساتھ رشتہ ہونے کے ذریعہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتاہےکہ انسان ایک عجیب مخلوق ہے جس کے وجود کوخدا کے سوائے کوئی ادراک نہیں کرسکتا۔کیونکہ یہ لکھاہے کہ وہ تجھ سے روح کے بارے میں سوال کریں گے توکہہ دے کہ روح میرے خداوند کی بات ہے‘‘۔
(بیضاوی جلالین جلددوم۔ صفحہ ۱۵۷۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۴۱۹)۔
(۳۔) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ
’’ جب میں اُس کو پورا کرلوں اوراپنی روح اُس میں پھونک دوں‘‘
(سورہ ص ۷۲)
اس آیت پر بیضاوی نے یہ لکھا
’’ اُس سے مراد یہ ہے کہ میں اُس میں روح پھونک کر اُس میں زندگی ڈال دوں گا۔۔۔ وغيرہ اس جملے’’ اپنی روح ‘‘ سے آدمی کا معززدرجہ اورپاکیزگی ظاہر کی گئی ‘‘۔
جلالین میں یہ تفسیر آئی ہے
’’ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب میں اپنی روح کو بھیجوں گا کہ اُس میں سرایت کرجائے تاکہ وہ زندہ ہوجائے۔ یہ امر کہ یہ روح خداکا روح ہے ۔ آدم کے لئےعزت وفخر ہے۔ روح توایک لطیف مادہ ہے جس کے ذریعہ سے آدمی زندہ رہتاہے‘‘۔
کشاف نے یہ رقم کیاکہ ان الفاظ سے کہ
’’ میں نے اپنی روح اُس میں پھونک دی‘‘ یہ مراد ہے کہ ’’آدمی میں اُس نے زندگی ڈالی اوراُسے صاحب احساس متنفس مخلوق بنادیا‘‘
(بیضاوی جلالین جلددوم صفحہ ۲۱۱۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۲۸۹)۔
فصل دوم پرچند خیالات
یہ جملہ آیات خاص کر قابل لحاظ ہیں اوران سے لفظ الروح کے دوسرے معنی میں استعمال کا پتا لگتاہے۔ ان جملوں کے عین الفاظ ہی بلاشک یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ بائبل سے لئے گئے ہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ قرآن سے صدیوں پیشترومروج تھے۔لیکن جیسے پہلی قسم کی آیات میں روح القدس کو بلاسمجھے استعمال کیا ویسے ہی ان آیات میں لفظ روح کے معنی سمجھے بغیر اُس کو استعمال کیا اورانسان کی خلقت کے ساتھ روح کا جوتعلق تھا اُس کی جوتشریحیں ان تفاسیر میں پائی جاتی ہیں اُن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کے روحانی رشتے کے متعلق گہری صداقت تھی اُسے بھی اُنہوں نے نہیں سمجھا۔بائبل میں یہ لکھا ہے کہ ’’ خداوند خدا نے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اوراُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سوآدم جیتی جان ہوا‘‘ (پیدائش ۲: ۷)۔ اورپھر (یوحنا ۳: ۶ )میں آیاہے ’’ جوجسم سے پیدا ہواہے جسم ہے اورجو روح سے پیدا ہواہے روح ہے‘‘ مادی اورروحانی دونوں کا صاف خیال حضرت محمد کے دل میں پایا نہیں جاتا۔ نفس اورروح کے درمیان جوامتیاز(فرق) ہے اُس کا یاتوخیال ہی نہیں گزرا اوریااُس کو نظر انداز کردیا۔جس سے انسان کی مرکب ذات کا ادراک ناممکن ہوگیا۔
ان آیات کی تشریح کرتے وقت مفسروں نےجبرائیل کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ لاکلام یہاں روح سے نہ جبرائیل مراد ہوسکتی تھی نہ کوئی دوسرا فرشتہ ۔ پھر اس لفظ سے کیا مراد ہوگی؟ اورکیوں خدا نےاسے اپنی روح کہتا ہے ؟ یہ آخری سوال مشکل سوال ہے کیوں خدا نے اس خاص طریقے سے روح کو اپنے سے منسوب کیا؟ اس کے جوجواب دئے گئے وہ نہایت کمزور اورناتسلی بخش ہیں۔ اُن میں تو صرف طبعی اورمادی سانس ہی کا ذکر ہے گویا خدا کو یہ ضرورت پڑی کہ اس معاملے میں اس خاص طور سے اس کو اپنا کہے!
یہ قابل لحاظ ہے کہ بیضاوی کا علم طبعیات کے بارہ میں ویسا ہی ہے جیساکہ روحانی صداقتوں کے بارے میں۔ وہ بیان کرتاہے کہ روح ایک لطیف بخار ہے جوآدمی کے اعصاب میں خون کی طرح ساری ہے اور اسی وجہ سے آدمی جیتا رہتاہے۔ اگراُس کا یہ بیان صحیح ہوتا توہم یہ بھی ماننے پر تیار ہوتے کہ خدا نے اپنا روح حیوانات اورنباتات میں بھی پھونکا کیونکہ وہ بھی زندہ رہتے ہیں۔
یہ حیرت انگیز سوالات ہیں۔ جیسے دنیا میں ایک قفل حیرت انگیز شے ہے۔ جب غلط کنجیوں سے اُس کوکھولنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ کنجیوں کا بڑا گچھا بھی استعمال میں لائیں۔ لیکن درست کنجی سے اس کو کھولو تووہ آسانی سے کھل جائے گا۔ ’’اب اس زیربحث سوال میں جوکلید روح کے مسئلے کے متعلق مسیحی پیش کرتے ہیں۔ وہ صحیح کلید ہے‘‘۔
لیکن ہم خاص طور سے ناظرین کی توجہ بیضاوی کے ان قابل لحاظ الفاظ کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں کہ خدا نے اپنا روح انسان میں پھونکنے سے اُس کو اپنے ساتھ رشتہ دیا اوراس طرح سے ظاہر کردیا کہ وہ خلقت کا سہ تاج تھا اورخدا تعالیٰ سے خاص رشتہ رکھتا تھا ۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو جان لیتاہے وہ اپنے رب کو جان لیتاہے۔ شائد یہ لفظ کسی صوفی نے لکھے ہوں ۔ پھر بھی سنی مفسروں کے خیالات کے لحاظ سے وہ کچھ قدم آگے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیحیت کی طرف دورتک لے جاتے ہیں ۔ کیونکہ مسیحیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر خلق کیا اوریہی وہ رشتہ تھا جس کی طرف بیضاوی نے اشارہ کیا تھا) اورکہ خدا انسان کے دل میں سکونت کرسکتا تھا۔ اورکہ انسان کا خدا کے ساتھ ایک ایسا گہرا رشتہ تھاکہ خدا کے ازلی کلام نے جوفی الذات خدا ہے آدمی میں بسنے اورجسم انسانی کو قبول کرنے سے نفر ت نہ کی۔ پس جب بیضاوی نے مذکورہ بالا تفسیر کی تواُس نے ایسے الفاظ استعمال کئے جواُس کے علم کی رسائی سے بھی پرے تھے۔
فصل سوم
روح اورالہٰام
(۱۔) یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ
وہی اپنے حکم سے فرشتوں کو بالروح (وحی دے کر) اپنے بندوں میں سے جس طرف چاہتا ہے بھیجتاہے۔الخ
( سورہ النحل آیت ۲)
اس پر بیضاوی نے یہ لکھا
’’ روح سے یہ یہاں مراد مکاشفہ یا قرآن ہے جس کے وسیلے سے مرُدہ روحیں جہالت کی حالت سے بیدار کی جاتی ہیں یا دین سے اُس کو وہی نسبت ہے جوروح کو بدن سے ہے‘‘
(بیضاوی جلد اول صفحہ ۳۸۱۔ کشاف جلد اول صفحہ ۵۲۱)۔
جلالین میں یہ آیاہے
’’ جوفرشتوں کو بھیجتاہے وہ جبرائیل ہے اورروح الہٰام یامکاشفہ ہے‘‘۔
الکشاف میں یوں مندرج ہیں
’’ یہاں روح وہ ہے جو مکاشفہ کے ذریعے مردہ دلوں کو جلاتی ہے اوردین کے ساتھ اُس کا وہی تعلق ہے جوروح کا بدن کے ساتھ ہے‘‘۔
(۲۔) وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا
وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں توکہہ دے کہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے۔
(سورہ بنی اسرائيل۸۵)
بیضاوی نے اس کی یہ تفسیر کی
’’ وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھیں گے جس کے وسیلے آدمی جیتے اوراپنے مقاصد پورے کرتے ہیں توکہہ کہ روح میرے پروردگار کاایک حکم ہے يعنی یہ کہ وہ اس ابتدائی ذات سے مخلوق ہوئی جواس حکم کنُ کے ذریعے سے ہست ہوگئی تھی۔ یہ ذات مادہ کے غیر تھی۔ اورنہ اس کا کوئی مادہ چشمہ تھا جیسے کہ بدن کے اعضا کا ہوتاہے۔ پس سوال یہ رہاکہ آیا یہ ازلی ہے یا مخلوق (نہ کہ اس کی حقیقت کیاہے) کیونکہ بعضوں کی یہ رائے ہے کہ یہ اُن امور میں سے ہے جن کا علم خدا نے صرف اپنے لیے ہی محفوظ رکھاہے۔ یہودیوں نے اہل قریش کو یہ پٹی پڑھائی کہ وہ حضرت محمد سے تین سوال پوچھیں ۔ ایک اصحاب کہف کے بارے میں۔ایک سکندراعظم ذوالقرنین کے متعلق اورایک روح کے بارے میں۔ اگراُنہو ں نے ان سوالوں کا جواب دے دیا یااُن میں سے کسی کا بھی جواب نہ دیا تووہ محض نبی نہ ٹھہرے گا (کیونکہ وہ تو اس امر کا مدعی ہوگیا کہ اُسے اُن سب امورات کا علم حاصل ہے جوخدا ہی سے مخصوص ہے)۔اگراُس نے پہلے دوسوالوں کا جواب دے دیا اور تیسرے کے بارے میں خاموش رہا تب وہ نبی ٹھہرے گا۔اس لئے ان سے دوقصے بیان کردئیے اورروح کے بارے میں کوئی واضح جواب نہ دیا۔ اوریہ توریت میں بھی واضح طور سے بیان نہیں ہوا۔ بعضوں کی رائے ہے کہ یہاں روح سے مراد جبرائیل ہے یا فرشتوں سے کوئی اشرف مخلوق ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے اور اس جملے’’ میرے پروردگار کا ایک حکم‘‘ سے الہٰام مراد ہے‘‘۔
جلالین میں یہ بیان ہے
’’ وہ یعنی یہودی تجھ سے روح کے بارے میں پوچھیں گے جس کے ذریعے سے کہ بدن زندہ رہتاہے۔ تو تونے اُن کو یہ جواب دینا’’ روح وہ شے ہے جو میرے پروردگار سے صادر ہوتی ہے۔ یعنی اُس کے عرفان سے اوریہ تم کوحاصل نہیں اورتم کو تو صرف تھوڑا ہی علم دیا گیا ہے بمقابلہ خدا تعالیٰ کے علم کے‘‘۔
الکشاف میں یہ لکھا ہے
’’ ظن(گمان ،بہتان) غالب یہ ہے کہ روح سے وہ شے مراد ہے جوحیوانات میں پائی جاتی ہے ۔ جس کی حقیقت کے بارے میں اُنہوں نے اُ س سے سوال کیا اوراُس نے اُنہیں یہ جواب دیاکہ یہ معاملہ خدا سے علاقہ رکھتاہے۔اس کا علم صرف خدا ہی کو حاصل ہے اورابن ابوبریدہ سے روایت ہے" کہ حضرت بنی نے وفات پائی اوراُن کو یہ علم حاصل نہ ہوا کہ روح کیاہے"بعض عالم یہ بھی کہتے ہیں کہ روح ایک مقتدر روحانی مخلوق ہے جوفرشتوں سے اشرف ہے۔ بعض اُس سے جبرائیل مراد لیتےہیں اور بعض قرآن اس جملے ’’ میرے پروردگار کا ایک حکم‘‘ سے اُس کا (خدا کا ) مکاشفہ مراد ہے اوراس کی زبان آدمیوں کی زبان نہیں‘‘۔
یہودیوں نے قریش کو یہ ترغیب دی کہ تین سوالوں کے ذریعے وہ حضرت محمد کا امتحان لیں۔ اصحاب کہف ،اسکندر اعظم اور روح کے بارے میں ۔اگرحضرت محمد نے تینوں سوالوں کا جواب دے دیا یا اُن کا جواب دینے سے انکار کردیا وہ نبی نہ ٹھہریں گے لیکن اگراُنہوں نے پہلے دوسوالوں کا جواب دے دیا اورتیسرے کے بارے میں وہ خاموش رہے تو وہ فی الحقیقت نبی ٹھہریں گے ۔ ا س لئے حضرت محمد نے صرف پہلے دوسوالوں کا جواب دے دیا اورتیسرے کو موہوم (فرضی ،قیاسی)ساہی رہنے دیا جیساکہ بائبل میں تھا۔ اس سے قریش کو افسوس ہوا کہ انہوں نے یہ سوال کیوں پوچھے۔
اب ہم اس آیت پر رازی کی تفسیر سے اقتباس کریں گے۔
اس آیت میں چند امورقابل غورہیں۔ اوّل۔ مفسروں نے اس آیت میں لفظ روح کی کئی تشریحیں کی ہیں۔ اُن میں سے سب سے صحیح یہ ہےکہ’’ جس کے ذریعے سے زندگی بحال رہتی ہے‘‘ کہتے ہیں کہ یہودیوں نے اہل قریش کو ترغیب دی کہ تین سوالوں کے ذریعے حضرت محمد کا امتحان کریں۔ اگروہ ان میں سے دوکاجواب دیں اور تیسرے کے بارے میں خاموش رہیں تو تو وہ فی الحقیقت نبی ہوں گے وہ تین سوال یہی تھے۔ اصحاب کہف، اسکندر اعظم اورروح کی بابت پس جب اہل قریش نے حضرت محمد سے یہ سوال پوچھے تواُنہوں نے یہ کہا کہ’’ میں کل جواب دوں گا‘‘ لیکن اُنہوں نے ’’انشاء اللہ‘‘ نہ کہا تھا۔ اس لئے چالیس دن تک اُن پر کوئی وحی نازل نہ ہوئي۔ اوراس کے بعد جب وہی آئی تواُنہوں نے اصحاب کہف اوراسکندر اعظم کا قصہ بیان کیا لیکن روح کا مضمون مبہم سا چھوڑا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی’’ وہ تجھ سے روح کی حقیقت کے بارے میں پوچھیں گے ‘‘ وغيرہ یوں اُنہوں نے ظاہر کیا کہ انسانی عقل کیسی محدود تھی اوراس کی ادراک کی رسائی سے پرے تھا کہ روح کیاہے۔ خدا نے یہ خوب کہا کہ ہم کو صرف تھوڑا ہی علم دیا گیاہے‘‘۔
علماء جرح نے اس آیت پر کئی ایک جرح کی ہیں۔
اوّل ۔ یہ کہ الروح عزت وعظمت میں خدا سے بزرگ ترنہیں۔ خواہ اُس کی عظمت کیسی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ اسی وجہ سے خدا کا علم نہ صرف ممکن ہوگیا بلکہ تحصیل کے قابل ۔پھر الروح کا علم حاصل کرنے میں کون سی شے مانع ہوئی ؟
دوم۔ یہودیوں کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اگروہ اصحاب کہف یا اسکندر اعظم کے بارے میں جواب دیں گے تووہ نبی ہوں گے ؟ منطقی نتیجہ نہیں کیونکہ یہ قصے تومحض تاریخی واقعات ہیں اورایسے واقعات کا علم کسی نبیانہ قوت کا ثبوت نہیں۔ پھر برعکس اس کے جو قصہ انہوں نے بیان کیا اگراُس کا وقوع حضرت محمد کے نبی تسلیم کئے جانے سے پیشتر ہوا تھا توسائل اُسے جھوٹا سمجھتے۔(یعنی ایسے قصوں کا علم نبیانہ طاقت کے ثبوت کےلئے پیش کرنے سے ) اوراگر ان کے نبی تسلیم کئے جانے کے بعد اُن وقوع ہوا توتحصیل ماحصل کے لحاظ سے ایسے قصے کا بیان کرنا فضول تھا۔ برعکس اس کے الروح کے بارے میں ان کا جواب نہ دینا دعویٰ نبوت کے ثبوت کے طورپر پیش نہیں ہوسکتا ۔
سوم۔ روح کا مسئلہ ادنیٰ سے ادنیٰ فلاسفر اورچھوٹے سے چھوٹے عالمان الہٰیات کومعلوم ہے اس لئے اگرحضرت محمد کہتے ہیں کہ میں اسے نہیں جانتا تولوگ حقارت اورنفرت کی نگاہ سے اُن کو دیکھنے لگ جاتے ۔ کیونکہ اس قسم کے مسئلہ کی نسبت لاعلمی خواہ کسی شخص کو ہو لوگوں کی نظر حقارت سے بچا نہیں سکتی۔ کجا ایک نبی کو جوفاضلوں کا فاضل اوراعلیٰ سے اعلیٰ سمجھا جاتاہو۔
چہارم۔ خدا نے اپنی کتاب میں فرمایاکہ ’’ رحمت کے خدا نے تجھے قرآن سکھایا‘‘(سورہ رحمن ۱)۔ ’’ تجھ کو ایسی باتیں سکھادی ہیں جوتجھ کو معلوم نہ تھیں۔اورتجھ پر اللہ کا بڑافضل ہے‘‘ (سورہ النساء ۱۱۳)۔ ’’اے میرے رب میرا علم بڑھا‘‘(سورہ طہ آیت ۱۱۳)۔ زمین کےاندھیروں میں جودانہ ہو اور تروخشک کتاب واضح میں ہیں (سورہ انعام ۵۹)۔ اورحضرت محمد یہ دعا کیا کرتے تھے۔ پھریہ کیسے ٹھیک ہوتاکہ جس شخص کی ایسی حالت ہواورجس کی یہ صفات ہوں وہ یہ کہے کہ ’’ مجھے اس کا علم نہیں‘‘ جب کہ یہ سوالات سبھوں کو معلوم تھے؟
بعد ازاں رازی نے ان دلائل کی تردید کی ۔ وہ لکھتاہے
’’ ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ روح کے بارے میں لوگوں نے حضرت محمد سے سوال کیاہو۔ لیکن یہ کہیں گے کہ اُنہوں نے ان سوالوں کا جوبہتر سے بہتر جواب ہوسکتا تھا وہی دیا۔ روح کی نسبت اس سوال کو مختلف پہلوؤں سے سوچ سکتے ہیں۔
اوّل ۔کیا روح مکان گھیرتی ہے ؟ کیا یہ مکان میں محدود ہیں؟کیا مکان گھیرے بغیر یہ وجود رکھ سکتی ہے یامکان میں غیر محدود ہے؟
دوم۔ کیا یہ ازلی ہے یا مخلوق ؟
سوم۔ کیا موت کے بعد روحیں زندہ رہتی ہیں یانیست ہوجاتی ہیں؟
چہارم۔ روحوں کے ثواب وعذاب کی حقیقی حالت کیاہے؟ الغرض روح کے بارے میں جوسوال پیدا ہوتے ہیں وہ بکثرت ہیں۔ لیکن اس جملے میں کہ ’’وہ روح کے بارے میں تجھ سے پوچھیں گے ‘‘ کچھ پایانہیں جاتا کہ اُنہوں نے سارے سوال پوچھے۔ کیونکہ خدا نے جوجواب دیا’’ توکہہ دے کہ روح تیرے رب کا امر ہے‘‘ وہ مذکورہ بالا سوالات میں سے صرف دوپر عائد ہوسکتاہے یعنی روح کی حقیقی ذات اوراُس کی ازلی یا مخلوق ذات پر۔
ان امور میں سے پہلے کی نسبت اُنہوں نے کہا’’ روح کی حقیقی ذات کیاہے؟ کیا انسانی بدن کے اندریہ کوئی ماد ی شے ہے جوعناصر کی ترکیب سے بنی ہو یا بذاتِ خود مخلوط مرکب شے ہے یایہ کوئی دیگر منظر ہے جواس مرکب سے علاقہ رکھتاہے۔ یا یہ منظر ان صورتوں اورحوادث سے بالکل مختلف ہے’’ ان کا جواب خدا نے یہ دیاہے کہ روح ان بدنوں اور حوادث سے ایک مختلف مخلوق ہے کیونکہ یہ بدن اورحوادث تو بعض عناصر کی ترکیب و اختلاط(میل جول) کا نتیجہ ہیں، لیکن روح کا یہ حال نہیں۔ وہ تو شے مفرد اورمطلق ذات ہے جو محض خالق کے اس حکم کنُ فیکن سے وجود میں آگئی۔ اُس دوسرے سوال کا جواب کہ روح دیگر مادی اجرام اورمناظر سے مختلف ہے خدا نے یہ دیا کہ خدا کے حکم سے ایک خاص مخلوق کے طورپر اس کی ہستی ہے اورکہ اس کی خلقت اورتاثیر ان مادی اجرام کے فائدے کےلئے ہے تاکہ اُن کو زندگی دے۔ اوریہ امر کہ آدمیوں کو اس کی حقیقی اور خاص سیرت کا علم نہ تھا اس کے انکار کی دلیل نہیں ہوسکتاکیونکہ دنیا میں اکثر اشیاء کی حقیقت ہم کومعلوم نہیں مثلاً ہم کو یہ علم ہے کہ سکنجبین کی تاثیر یہ ہے کہ صفرا (پت،اغلاط اربعہ میں سے ایک زرد رنگ کا کڑوا مادہ)کو دور کرے لیکن اس کی اس صفت وخاص تاثیر کی حقیقت ہم کو معلوم نہیں ۔ اس سے صاف واضح ہے کہ بہت ایسی اشیاہیں جن کی اصلیت اورحقیقی سیرت کا علم ہم کوحاصل نہیں لیکن اس بنا پر اُن کے وجود کا انکارہم نہیں کرسکتے ۔ یہی حال روح کا ہے اوراس آیت کے یہی معنی ہیں’’ لیکن اُس کا تھوڑا علم تمہیں دیا گیاہے‘‘۔
دوم۔ لفظ امر حکم کے معنی میں بھی آتاہے ۔ مثلاً فرعون کا امر کچھ راہ کی بات توتھانہیں (سورہ ہود ۹۹)۔ اور’’جب ہمارا حکم (امر ) پہنچا‘‘(سورہ ہود ۶۱)۔اگریہ درست ہوتو اس جواب سے ’’ توکہہ دے کہ روح میرے خدا کاحکم ہے‘‘ یہ ظاہر ہوگاکہ اُن لوگوں کا سوال روح کی ازلی یا مخلوق ذات کے بارے میں تھا۔ اورجواب یہ کہ تھاکہ روح مخلوق ہے اورخدا کا حکم اور قوت خالقہ سے خلق ہوئی۔پھر اس آیت کا پچھلا حصہ کہ’’ تھوڑا ہی علم دیا گیاہے‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ روح مخلوق ہے کیونکہ ارواح اپنی ہستی کے پہلے طبقوں میں علم سے معرا ہوتی ہیں لیکن بتدریج اُن کو علم حاصل ہوتاجاتاہے۔ اورطبقہ بہ طبقہ وہ ناقص حالت سے کامل حالت کی طرف ترقی کرتی جاتی ہیں۔ یہ تبدیلی مخلوق ہونے کا نشان ہے اوریوں اس آیت نے ظاہر کردیا کہ اُن کا سوال روح کی خلقت کےمتعلق تھا اور خدا نے جواب دیا کہ وہ مخلوق ہے اورخدا کی قوت خائقہ کے ذریعہ ہست ہوگئی۔ جواب کے الفاظ کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اور روح کی ذات کے مخلوق ہونے کا مزید ثبوت روح کے بتدریح نشوونما میں پایا جاتاہے۔ اوراس آیت کے دوسرے حصے کے یہی معنی ہیں۔ اور صرف خدا ہی کو حقیقت کا علم ہے۔
آیت زیربحث کے لئے رازی نے دوسرے مفسروں سے بھی اقتباس کیا جن کے ذکر کرنے کی کچھ ضرورت نہیں۔
(۳۔) رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ ۚ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ
’’ اور عرش کا مالک اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے اختیار(امر) سے روح بھیجتاہے‘‘۔
(سورہ المومن ۱۵)۔
بیضاوی نے اس پر یہ لکھا
’’ روحانی وجودوں پر اپنا اثر ظاہر کرنے کے لئے خدا کے حکم سے اجازت ملتی ہے اور توحید کے مسئلے کا اقرار کرنے کے بعد یہ الہٰام اورنبوت کے لئے تیاری ہے۔ روح الہٰام ہے اور’’اپنے اختیار‘‘ اُس کی تشریح ہے کیونکہ یا تویہ راستبازی کےلئے حکم ہے یا اُس حکم کا چشمہ ہے جواعلان کرنے والے فرشتے کے ذریعے دیا جاتاہے‘‘۔
جلالین میں یہ شرح ہے
’’ روح الہٰام ہے‘‘۔
کشاف میں یہ ہے
’’ خدا کےحکم کے وسیلے روح زندگی کا چشمہ ہے۔ اس الہٰام سے اُس کی مراد یہ ہے کہ وہ راستبازی کےلئے حکم اور تحریک ہے۔ روح کا ذکر اس آیت میں تشبیہی طورپرآیاہے۔ جیساکہ( سورہ انعام۱۲۲ )میں ’’ کیا مُردے جن کوہم نے جلایا وغيرہ؟ (یعنی اپنی روح کے وسیلے سے )‘‘
طبری کا تفسیر کا خلاصہ اُس کے اس جملے میں پایا جاتاہے۔اس آیت میں روح سے مراد خدا کا الہٰام ہے جواُس کے حکم سے صادرہوتاہے۔روایت ہے کہ قتادہ نے یہ کہا کہ روح سے اس آیت میں مراد مکاشفہ ہے۔ ضحاک کہتاہے کہ یہ ’’الکتاب ‘‘ ہے ابن وہاب سے ابن زید نے یہ روایت کی کہ
’’روح قرآن ہے جسے خدا نے جبرائیل پرمنکشف کیا اورجبرائيل اُسے حضرت محمد کے پاس لے کرآئے۔ کیونکہ یہ لکھا ہے’’ یوں ہم نے تجھے اپنے حکم سے روح کے ذریعہ وحی بھیجی " جوکتابیں خدا نے اپنے نبیوں پر نازل کیں وہ روح ہیں جواُن کو آگاہی کے لئے بھیجی گئیں‘‘۔
روایت ہے کہ السدی نے یہ کہا کہ مذکورہ بالا آیت میں روح سے’’ نبوت‘‘ مراد ہے۔
نیشا پوری نے یہ لکھا اس آیت سے ظاہر ہے کہ خدا اپنے احکام کی بجا آوری کےلئے روحوں کوکام میں لاتاہے جیسے وہ چاہتاہے اُسے بھیجتاہے ۔ (1)
۴۔وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا
’’ ہم نے اپنے حکم سے روح کا مکاشفہ دے کر تیرے پاس بھیجا‘‘
(سورہ شوریٰ آیت ۵۲)
بیضاوی نے یہ شرح تحریر کی ہے کہ ’’خدا نے الہٰام کو روح اس لئے کہا کیونکہ اس کے ذریعہ دلو ں کو زندگی ملتی ہے‘‘۔ بعضوں کا خیال ہےکہ اس مقام میں روح سے’’ جبرائیل‘‘ مراد ہے۔ اُس صورت میں اس آیت کے یہ معنی ہوں گے’’ہم نے اس کو تیری طرف الہٰام دے کر بھیجاہے‘‘ بہر حال روح سے خواہ الہٰام مراد ہو یا کتاب یا ایمان خدا نے اُسے نورٹھہرایا جس کے وسیلے سے وہ جس کو چاہتاہے ہدایت کرتاہے ۔
جلالین میں یہ لکھا ہے
’’ روح سے یہاں قرآن مراد ہے جس کے وسیلے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے‘‘۔
کشاف میں یہ مرقوم ہے
(1) بیضاوی جلد ۲ صفحہ ۲۲۳۔ معہ جلالین ۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۳۱۲۔ نیشا پوری طبری جلد ۴۰ صفحہ ۳۴ کے حاشیہ میں ۔طبری ۲۴۔ ۳۰۔
’’ روح سے یہاں وہ مراد ہے جومنکشف ہوا! کیونکہ دین میں انسان کو زندگی اسی سے ملتی ہے جیسے بدن کو روح کے وسیلے سے ‘‘۔
طبری میں یہ مندرج ہے
’’ اس آیت کے یہ معنی ہیں، اے محمد ہم نے قرآن کے ساتھ وحی دی جیسے ہم نے اپنے ساری نبیوں کو روح کے وسیلے ۔ یعنی اپنے حکم سے الہٰام اوررحمت کے ذریعے‘‘۔
اس آیت میں روح کے معنی کی نسبت مفسروں کا اختلاف رائے ہے۔قتادہ نے حسن سے یہ روایت اقتباس کی کہ اس سے رحمت مراد ہے۔ حالانکہ السدی کا قول ہے کہ اس سے الہٰام مراد ہے ۔ (2)
۵۔ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ
’’ یہی ہیں جن کے دلوں کے اندر خدا نے ایمان کا نقش کردیاہے اوراپنے روح سے اُن کی مدد کی ہے‘‘
(سورہ المجادلۃ ۲۲)
(سورہ المجادلۃ ۲۲)
(سورہ المجادلۃ ۲۲)
جلالین میں یہ لکھا ہے
جلالین میں یہ لکھا ہے
کشاف میں مندرج ہے
’’ روح سے یہاں مراد فضل ہے جس کے وسیلے سے دلوں کو زندگی ملتی ہے۔لفظ ’’اپنے‘‘ سے ایمان کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ دل کی زندگی ہے‘‘۔
طبری کہتاہے کہ
’’ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اُن کو اپنی طرف سے صریح نشان کے وسیلے تقویت دی۔ نور اورہدایت دونوں سے‘‘ ۔ (3)
(2) بیضاوی جلد دوم صفحہ ۲۳۴ معہ جلالین ۔ کشاف جلد دوم۔ صفحہ ۳۴۴۔ طبری جلد ۲۵ صفحہ ۲۵ (3) بیضاوی جلد دوم۔ صفحہ ۳۱۰۔ معہ جلالین کشاف جلد دوم صفحہ ۴۴۴ ۔طبری جلد ۲۷ صفحہ ۱۸۔
فصل سوم پر چند خیالا ت
اس حصے کی جن آیات میں روح کے خالی معنی ہی دئے گئے ہیں اُن سے فوراً اس علم الہٰیات کا سراغ ملتاہے جوازہرعلماکے نزدیک ایسی قدروقیمت رکھتا تھا۔ روح سے محض ایک تاثیر مراد لی گئی جوٹھیک طورسے خدا کے ہم معنی نہیں۔
اب مسیحیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ الروح محض خدا کی تاثیر نہیں بلکہ خود خدا ہے۔ اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ انسان کے ساتھ الروح کا تعلق ایسا شریہ ہے جسے کسی مسلمان مفسر نے نہیں سمجھا۔ لیکن مسیحی تعلیم کے ذریعہ ہم اس تعلق کو سمجھ سکتے ہیں۔ جہاں تک کہ انسانی عقل خلقت کے ساتھ خدا کےر شتے کوسمجھنے کے قابل ہے۔ گویہ تعجب کی بات ہے کہ اگرچہ قرآن نے الروح سے جواعلیٰ رتبہ منسوب کیاکہ اس کو ساری مخلوقات سے اشرف اوراعلیٰ ٹھہرایا۔ محمدی مفسرین اس سے الہٰی رتبہ منسوب کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اوروہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ گوروح القدس فرشتوں اورانسانوں سے اعلیٰ واشرف ہے توبھی خدا نہیں۔ پس اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی ہستی بہت کچھ اسی پر حصر رکھتی ہے کہ وہ بعض مسیحی تعلیموں کا انکار کرے۔اوراس کے مفسر موہوم وغیرموہوم تشریح پر اڑے رہتے ہیں کہ روح نہ توخدا ہے نہ فرشتہ اورنہ انسان بلکہ محض ایک روحانی وجود ہے۔ دیگر الفاظ میں ہم اسے یہ ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ قدیم اتھینیوں (اتھینے کے رہنے والے) کے خدا کی طرح یہ ایک’’ نامعلوم خدا ‘‘ ہے۔ ر از ی کا یہ بیان کہ (سورہ بنی اسرائیل ۸۵آیت )میں روح سے مراد وہ شے ہے جوآدمی میں ہے غلط ہے۔قریش نے حضرت محمد سے عام طورپر الروح کے بارے میں سوال کیا۔ علاوہ ازیں ر از ی کا یہ الزام کہ یہودیوں نے سازش کرکے اہل قریش کو تحریک کی کہ وہ حضرت محمد سے اُن کو پریشان کرنے کے لئے الروح۔اصحاب کہف اوراسکندر اعظم کے متعلق سوال پوچھیں بے بنیاد ہے۔ ہم دوسروں کی طرح یہ کہتے ہیں کہ وفات تک حضرت محمد کو یہ علم نہ تھا کہ روح فی الحقیقت کیا تھی۔
دیگر مثالوں کی طرح اس مثال میں یہ نظر آتاہے کہ توحید کے مسئلے میں مبالغہ کرنے سے اسلام کی توحید کی تائید ہونے کی بجائے ایک خدائے ثانی کے وجود کو ماننا پڑتاہے جوساری صفات الہٰی سے متصف(تعریف کیا گیا،جس کے ساتھ کوئی صفت لگی ہو) ہو اورانسان اوراس کے خالق کے درمیان درمیانی ہو۔ دیگرالفاظ میں وحدت محض کا خدا اسلام کا اللہ نہیں ہوسکتا۔ ایک ایسا وجود مان لیا گیا جوخدائے ثانی کے درجے تک پہنچتاہے اوریہ توشرک سے کچھ کم نہیں۔ مسلم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ وہ قرآن کی بعض آیات کا انکار نہ کرے مثلاً (سورہ مجادلۃ آیت ۲۲ ) اپنے روح سے اُن کی تائید کی’’ الہٰی ثالوت کی تعلیم وحدت محض کے لحاظ سے اسلام کی توحید سے بہتر ہے کیونکہ اس کے وسیلے انسان اورخدا کے مابین ایک درمیانی مل جاتاہے۔ اورچونکہ یہ درمیانی ازلی ہے توضرور یہ خود خدا ہوگا جس کی ذات اورحقیقت میں یہ درمیانی شریک ہے۔ پس ثالوث کا مسئلہ یہ سکھاتاہے کہ خدا واحد ہے باپ بیٹے اور روح القدس ہیں۔ اہل اسلام اس سے تین الگ الگ خدا نہ سمجھیں۔ وہ ایک خدا ہیں ذات میں اوروجود میں‘‘۔
اکثراہل اسلام مشرق جنہوں نے زندگی بھر قرآن کا مطالعہ کیا یہ کہتے ہیں کہ لفظ امر(بمعنی حکم)آرامی لفظ’’ ممرا ‘‘کی صدا ہے جس سے ’’خدا کا ابدی ازلی کلمہ‘‘ مراد ہے۔ ہم کو تحقیق معلوم ہے کہ اسلام کے بانی نے یہودیوں سے بعض دینی اصطلاحیں لیں لیکن اُن کا ٹھیک مطلب اُنہوں نے نہیں سمجھا۔مثلاً اُنہوں نے لفظ’’ حقدش ‘‘بمعنی قدوس لیا جسے اُنہوں نے ورقہ کی زبان سےسناہوگا۔اسی طرح لفظ ’’سکینہ ‘‘(سورہ بقرہ ۲۴۹) ’’ طالوت کے بادشاہ ہونے کی یہ نشانی ہے کہ وہ صندوق جس میں تمہارے پروردگار کی تسلی ہے (سکنتہ)۔۔۔۔ اوربچی کھچی چیزیں ہیں ۔(4)
(4) بعض مفسروں کی رائے ہے کہ اس سے موسیٰ کی جوتیاں اور عصا اورہارون کی پگڑی من کا مرتبان اوران لوحوں کے ٹکڑے جن کوموسیٰ نے توڑ ڈالا تھا۔ اورموسیٰ کے کپڑے مراد ہیں۔ یوں اُنہوں نے خدا کے مقدس خیمہ کو موسیٰ اورہارون کا توشہ خانہ بنادیا؟
ایک مفسر نے سکینہ کے معنی" دل کی تسلی کئے" دیکھو( کاشف القرآن)۔یوں حضرت محمد نے یہودی شکنہ کے معنی کچھ اورہی کے لئے۔ کیونکہ اس لفظ کے معنی توالہٰی نور ہیں لیکن عربی لفظ سکینہ کے معنی خاموشی کے ہیں۔
الغرض اہل مشرق نے جونتائج نکالے اُن کا مطالعہ کرنے سے اورجو الفاظ حضرت محمد نے ارامی زبان سے لئے اُن کا مقابلہ کرنے سے یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ بنی اسلام نے نادانستہ ثالوث کے مسئلہ کو مان لیا کیونکہ اُنہوں نے یہ فرمایاکہ ’’ یہ رب کا امر‘‘ ہے جس کے معنی ارامی زبان میں خدا کا ازلی کلام ہے۔ پس یہ تین نام موجود ہیں۔ خداکلمہ،اورالروح اوریہی وہ مسئلہ ثالوث ہے جس کی وجہ سے وہ مسیحیوں کو طعن کیا کرتے ہیں ۔ کیونکہ واضح رہے کہ جس قدر اس آیت میں حضرت محمد نے تسلیم کرلیا اُس سے زیادہ ثالوث میں اورکچھ نہیں یعنی یہ کہ روح خدا کے امر سے ہے یا ازلی کلمہ اورکہ اس کلمہ نے شاگردوں کے پاس روح کے بھیج دینے کا وعدہ کیا کیونکہ انجیل میں لکھاہے" اگرتم مجھ سے محبت رکھتے ہو تومیرے حکموں پر عمل کروگے اورمیں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے پاس رہے ۔ یعنی سچائی کا روح جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونہک نہ اُسے دیکھتی اورنہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہوکیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتاہے اورتمہارے اندر ہوگا‘‘(یوحنا ۱۴: ۱۵سے ۱۷)۔
" لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا توتم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طر ف سے نہ کہے گا لیکن جوکچھ سنے گا وہی کہے گا۔ اورتمہیں آئندہ کی خبردے گا وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا"۔(یوحنا ۱۶: ۱۳)۔
فصل چہارم
الروح اور جناب مسیح
۱۔تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ
’’ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو ہم نے کھلے معجزے عطا فرمائے اورروح القدس سے اُن کی تائید کی‘‘
(سورہ بقرہ آیت ۸۷ )
(سورہ بقرہ آیت ۸۷ )
’’روح القدس سے یہاں مراد جبرائيل ہے۔ بعض مفسروں کی رائے میں یہ جناب مسیح کا روح ہے جوقدس ہے کیونکہ شیطان نے اُسے آلودہ نہیں کیا‘‘
(کاش کہ سارے محمدی صاحبان یہ مان لیتے !) اس لئے کہ خدا نے اپنے خاص فضل سے اُسے عزت بخشی یا اس لئے کہ وہ انسانی تخم سے پیدا نہ ہوا تھا ۔ (5)اس آیت میں روح سے مراد انجیل بھی ہوسکتی ہے یا خدا کا اسم اعظم جس کے وسیلے مرُدے زندہ کئے جاتے تھے۔
جلالین میں یہ تفسیر ہے
’’یہاں روح القدس سے جبرائیل مراد ہے۔ جہاں کہیں وہ جاتے تھے جبرائیل بھی جاتے تھے‘‘۔
کشاف میں یہ لکھا ہے:
’’ اس آیت میں الروح قدس کہلایا تاکہ ظاہر ہوکہ خدا اورسیدنا عیسیٰ کے مابین خاص رشتہ تھا اوراسی رشتے کی وجہ سے وہ اعلیٰ عزت کے مستحق تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روح اس لئے قدس کہلایا کہ جس طریقے سے سیدنا مسیح حمل میں آئے اورپیدا ہوئے وہ پاک ہے ۔ (6)یہاں روح سے جبرائیل ،یاانجیل یا خدا کا اسم اعظم بھی مراد ہوسکتی ہے جس کے وسیلے سے وہ مرُدوں کو زندہ کیا کرتے تھے‘‘۔
۲۔اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ
’’ مریم کے بیٹے عیسیٰ بس اللہ کے رسول ہیں اوراس کا کلمہ جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اورروح اُس میں سے ‘‘
(سورہ نساآیت ۱۷۱)
بیضاوی نے یہ شرح کی :۔
(5) مخفی نہ رہے کہ حضرت محمد انسانی تخم سے تھے۔ (6) یہاں عربی لفظ کا ترجمہ کرنا چنداں مناسب نہیں کیونکہ اُس سے انسانی نطفہ اور عورتوں کا ماہواری حیض بھی مراد ہے۔
’’ ایسی روح اُن کو ملی جوخدا سے صادر ہوئی اور معمولی طریقے سے نہ ملی تھی۔ یہ اس لئے روح کہلائی کیونکہ یہ انسانوں کے دلوں کی زندگی کا چشمہ ہے‘‘۔
جلالین نے یہ بیان کیا
’’ ایسی روح اُن کو ملی جوخدا سے صادر ہوئی اور معمولی طریقے سے نہ ملی تھی۔ یہ اس لئے روح کہلائی کیونکہ یہ انسانوں کے دلوں کی زندگی کا چشمہ ہے‘‘۔
جلالین نے یہ بیان کیا
’’ ایسی روح حاصل کرنا مراد ہے جس کو اُس نے اپنے سے رشتہ دے کر مسیح کو عزت بخشی لیکن نہ جس طرح سے کہ عیسائی مانتے ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ ابن خدا ہو۔یا خدا کے علاوہ دوسرا خدا یا تیسرا خدا جوحکمرانی میں خدا کے ساتھ شریک ہو۔ کیونکہ جس میں روح ہے وہ مرکب ہے اور خدا مرکب نہیں اورنہ کسی مرکب شے سے اُس کا رشتہ ہے‘‘۔
کشاف میں یہ تفسیر ہےیہ لکھا ہے کہ
’’جناب مسیح کو خدا کی روح حاصل تھی یا اُس کی روح میں سے روح کیونکہ صاحب روح اُس وجود کے فعل سے وجود میں نہ آیا جس میں کہ روح ہوجیسے زندہ باپ سے نطفہ پیدا ہوتاہے۔ بلکہ خدا نے اُس کو اپنی قدرت مطلقہ سے خاص طورپر پیدا کیا‘‘
(بیضاوی جلالین جلد اول صفحہ ۱۸۲۔ کشاف جلد اول صفحہ ۲۴۱)۔
۳۔اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ
" جب کہ ہم نے روح القدس سے تمہاری مد دکی ‘‘۔الخ
(سورہ مائدہ ۱۰۹)
بیضاوی کے مطابق اس جملے میں
’’ روح القدس سے‘‘ کے یہ معنی ہیں جبرائیل سے یا اُن کی باتوں سے جن سے کہ ایمان زندہ ہوتا اورروح ہمیشہ کےلئے گناہ سے پاک ہوکر رہتی ہے‘‘۔
جلالین کے مطابق
’’ روح سے مراد یہاں جبرائیل ہے‘‘۔
کشاف کے مطابق
’’ اس آیت میں روح سے مراد وہ باتیں ہیں جن کے ذریعے سے ایمان زندہ ہوتاہے۔ یہ قدس اس لئے کہلائی کیونکہ ہر طرح کے گناہ کے داغ سے پاک صاف ہوجانے کا یہ وسیلہ ہے‘‘ ۔(7)
۴۔فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا
’’ ہم نے اپنی روح کو اُن کی طرف بھیجا تو وہ آدمی کی شکل بن کر اُن کے روبرو آکھڑا ہوا‘‘
(سورہ مریم آیت ۱۷)
(7) جلالین ۔ جلد اول صفحہ ۲۱۰۔ کشاف جلد اول صفحہ ۲۸۱۔
اس آیت کی جو تشریح بیضاوی نے کی ہے وہ ایسی مادیہ اور نفرت انگیز ہے کہ اس کا اقتباس کرنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا۔ اُس نے مریم اورجبرائیل کے خوبصورت قصے کو بگاڑ کر ایک آدمی اورعورت کا قصہ بنادیا ہے جواُس عورت کو پھسلانا چاہتاہے ۔ جس روح یا سانس سے مریم حاملہ ہوئی وہ آدمی کی صورت میں فرشتے کا مادی سانس سے جومریم تک پہنچایا گیا۔ ویسی ہی گندی اورمادی صورت میں اس کے ساتھ انجیل کے بیان کی آسمانی اور غیر ارضی پاکیزگی کے لہجہ کا مقابلہ کرو۔
جلالین میں یہ شرح ہے
’’ روح سے یہاں مراد جبرائیل مراد ہے ۔ کیونکہ ایمان اُس کے اوراُ س کے الہٰام کے وسیلے زندہ رہتاہے۔ خدا استعارے کے طورپر اُس کو روح کہتاہے کیونکہ خدا اُسے پیار کرتا اور اُس کو اپنے زیادہ قریب لایا چاہتاہے جیسے کوئی اپنے محبوب کو اپنی جان یا اپنی روح کہتاہے‘‘ ۔(8)
۵۔وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
’’ ہم نے اُس میں اپنی روح پھونک دی‘‘۔الخ
(سورہ انبیاء ۹۱)
بیضاوی کی تفسیرکے مطابق
’’روح جوہمارا حکم مطلق یاہماری روح کی بذات سے ہے وہ جبرائیل ہے‘‘۔
جلالین میں لکھا ہے
’’یہاں الروح جبرائیل ہے جس نے مریم کےلبادے میں پھونک ماری اوروہ حاملہ ہوگئی‘‘۔
کشاف نےیہ بیان کیا گیا ہے
’’ یہاں ایک صریح مشعل ہے کیونکہ اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ مریم کو اُس وقت زندگی دی گئی تھی۔ اُس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے اُس کے اندر جناب مسیح میں روح پھونک دی۔یعنی ہم نے اُس کے شکم میں جناب مسیح کو زندہ کیا"یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ " میں نے فلاں یا فلاں گھر میں بانسری میں پھونک ماری"۔ اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جبرائیل کویہ حکم ملا تھاکہ فی الحقیقت اُس میں پھونک مارے۔ کیونکہ اُس نے فی الواقعہ اُس میں پھونک ماری اور اُس کی پھونک اُس کے بدن کے اندرگئی‘‘ ۔(9)
۶۔وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ
’’ عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا توہم نے اُن کے پیٹ میں اپنی روح پھینک دی‘‘
(8) جلالین جلد دوم صفحہ ۲۰۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۴ (9) جلالین جلد دوم صفحہ ۵۴۔ کشاف جلد دوم صفحہ ۵۲
(سورہ تحریم ۱۲)
بیضاوی نے اس کی تفسیر یوں کی ہے
’’ خدا نے اُس روح کونیستی سے پیدا کیا۔مریم نے اپنے رب کی باتوں کا یقین کیا۔ یعنی جناب مسیح میں اورانجیل میں‘‘۔
جلالین کی تفسیر میں کچھ یوں بیان ہے۔
جلالین کی تفسیر میں کچھ یوں بیان ہے۔
کشاف نے صرف صرفی نحوی تفسیر اس آیت کی کی ہے۔ جس کو یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔
فصل چہارم پر چند خیالات
ان آیتوں کو پڑھ کر جن میں سیدنا مسیح کی ذات۔ پیدائش اور زندگی کے متعلق ایسے پرمعنی اورپُراسراسر خیالات بیان ہوئے ہیں ہم تعجب کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ حضرت محمد اورمسلمان علما کو الروح کے حقیقی معنی کا گمان تک نہیں گزرا۔ مسئلہ ثالوث اُن کے لئے ایسا ہُوّا بن گیاکہ مسیحی تشریح کے نزدیک آتے بھی اُن کو خوف آتا تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو سیدنا مسیح کےالقاب کے صحیح معنی سمجھ سکے اورنہ اس کی ذات کا معقول اورمناسب بیان کرسکے۔
اسی وجہ سے وہ کوئی ایسی تسلی بخش رائے نہ نکال سکے جس کے ذریعے الروح کے متعلق امور کی تشریح کرسکتے۔اس مشکل سے کنارے رہنے کی غرض سے انہوں نے روح کے تشبیہی معنی لئے۔ اورطرح طرح کے مختلف قیاس پیش کئے۔ مثلاً کسی نے الروح کو جبرائیل کہا۔ کسی نے اعلیٰ فرشتہ، صدر فرشتہ ، سانس، الہٰام، نور ، ایمان، قرآن ، نبوت ،انجیل ، جناب مسیح ، انسانی وجود ، خالص انسانی ارواح، ایک تاثیر ، فتح، فرشتوں سے کوئی اشرف وجود، خدا کا اسم اعظم سمجھا!۔
اس فصل میں قرآن کی تعلیم کی تفسیر نہایت مشہور مفسروں نے جوکی اس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ الروح بلاوساطت خدا سے صادر ہوتی ہے اور سوائے خدا کے اورکسی کواس کا ادراک حاصل نہیں۔
۲۔ الروح ایک لاثانی وسیلہ تھا جس سے کنواری مریم حاملہ ہوئی۔
۳۔ الروح نے انجیل میں خدا کے کلام کا الہٰام دیا۔
۴۔ الروح جناب مسیح کا مددگار یعنی فارقلیط تھا۔
ان آیات کا مجموعی زوراٹل ہے اورہم کو دونتیجے نکالنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یاتوہم یہ مانیں کہ ایک لاثانی اورالہٰی رشتہ خدا اور مسیح کے مابین قائم تھا اور وہ رشتہ باقی سارے رشتوں سے کہیں اعلیٰ تھا۔ اوراس رشتے میں روح کا درمیانی رشتہ تھا۔یایہ ماننا پڑے گا کہ خدا اورساری خلقت کے مابین ایک اوراعلیٰ مخلوق تھا جوساری خلقت سے اعلیٰ لیکن خدا سے کم ترتھا۔ اس کے مطابق ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ وجود ہمیشہ مسیح کے ساتھ موجود رہتا تھا۔ اُس میں الہٰی صفات تھیں اوروہ جناب مسیح کو تقویت وتسلی دیتا تھا۔ لیکن ان دوقیاسوں میں سے ایک کوبھی مسلمان نہیں مانتے۔پہلا خیال تومسیحی خیال ہے اور دوسرا خیال بدعتی ہے لیکن دونوں خیال اسلام کے مغائر (ناموافق،برخلاف)ہیں۔
اس مسئلہ کا محض منفی پہلو ہی پیش کرنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے اس کا مثبت پہلو اگلی فصل میں پیش کیا جاتا ہے۔
فصل پنجم
الروح کے بارے میں بائبل کی تعلیم
شاید اہل اسلام یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیں کہ چونکہ الروح کا مسئلہ توریت میں مبہم تھا اس لئے اسلام میں بھی یہ مبہم ہی رکھا گیا۔ اگرمسیحیوں کوجناب مسیح کا مکاشفہ نہ ملتا توہم بھی ویسے ہی حیران وپریشان رہتے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ حال نہیں۔ انجیل نے الروح کی ذات اورعہدے کے متعلق ہم کو شک میں نہیں چھوڑا۔
الروح کے متعلق ساری مسیحی تعلیم کا بیان اس چھوٹے رسالے میں نہیں ہوسکتا۔ بہت دوسری کتابوں میں وہ مفصل بیان ہوچکاہے۔ ہم صرف اتنا بیان کریں گے جس سے کہ اہل اسلام قرآن کی مذکورہ بالاآیات اورمسیحی عقیدےکوکسی قدرسمجھ سکیں۔ جولوگ غور سے بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں وہ یہ معلوم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ لفظ روح کتنی دفعہ بائبل میں آیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کرے گا کہ گو ہمیشہ وہ ایک ہی معنی میں مستعمل نہیں ہوا لیکن اکثر اُس سے خدا کا روح مراد ہے اورکئی جگہ فرشتے اور بعض اوقات تشبیہی طورپر ۔ لیکن سیاق عبارت سے بخوبی واضح ہے کہ وہاں اس کے کیا معنی ہیں۔ لیکن قرآن میں قرینے سے بھی کچھ پتا نہیں لگتا۔جیساکہ مذکور ہے۔
اس لئے بائبل میں جب یہ لفظ صیغہ واحد میں حرف تعریف کے ساتھ مستعمل ہوا وہاں اُس کے معنی کبھی جبرائیل یاکوئی فرشتہ نہیں ۔ (10)
لغت کے لحاظ سے عبرانی ،عربی ،یونانی اورلاطینی میں جو لفظ روح کےلئے آئے ہیں اُن کا تعلق سانس یا ہوا سے ہے۔لیکن الہٰی سانس کو ہم مادی نہ سمجھیں۔ انسانی خیال اور زبان کی تنگی کے باعث یہ لفظ جس کے معنی غیر مرئی(وہ جو دیکھائی نہ دے ) لیکن زبردست قوت تھی اس غیر مرئی مجبور کرنے والی دلوں کا حال جاننے والی اور زندہ کرنے والی روح کےلئے مستعمل ہوا۔ یہ توشک نہیں کہ بعض اوقات بائبل کی بعض آیات میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی زندگی اورحیوانی زندگی خدا کے روح کے پھونکے جانے سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ خدا کا روح ساری زندگی کا سرچشمہ ہے خواہ وہ روحانی ہو یا عقلی اور طبعی۔ اوراس لئے کہ انسان نفس اورروح دونوں ہے؟
اہل اسلام سے ہماری یہ درخواست ہے کہ روح القدس کہ تین صفات پر وہ ذرا غور کریں۔ یہ الروح ازلی ہے شخص ہےاور وہ خدا کے ساتھ ایک ہے۔
۱۔ پیدائش کی کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوسکتاہے کہ الروح ازلی ہے۔( پیدائش ۱: ۱، ۲ )میں لکھاہے’’ ابتدا میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا۔۔۔اورخدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی‘‘۔ پھر عبرانیوں کے خط میں الروح غیر مخلوق بیان ہواہے۔’’ تو مسیح کا خون جس نے اپنے آپ کو ازلی روح کے وسیلے خدا کے سامنے بے عیب قربان کردیا۔ تمہارے دلوں کو مردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرے گا تاکہ وہ زندہ خدا کی عبادت کریں‘‘(عبرانیوں ۹: ۱۴)؟ اہل اسلام ومسیحیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا ازلی ہے ۔ پس ازلی روح خود خدا ہے۔
۲۔ بائبل کی کئی آیات سے الروح کی شخصیت ثابت ہے مثلاً( یسعیاہ ۶۳: ۱۰)’’ اُنہوں نے اُس کے روح قدس کو غمگین کیا۔ اس لئے وہ اُن کا دشمن ہوگیا‘‘۔
(10) ۔زبور ۱۰۴: ۴ میں روح فرشتے کے معنی میں آیا ہے لیکن وہاں صیغہ جمع ہے اور حرف تعریف نہیں۔
(افسیوں ۴: ۳۰)’’ خدا کے پاک روح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دن کے لئے مہرہوئی‘‘۔
(یوحنا ۱۴: ۲۶)’’ مددگار یعنی روح القدس۔۔۔۔ وہ تمہیں سب باتیں سکھائے گا‘‘۔
(لوقا ۳: ۲۲)’’ روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اُس پر اترا‘‘۔
(اعمال ۲۰: ۴)’’ وہ سب روح القدس سے بھرگئے‘‘۔
(اعمال ۱۳: ۲)’’ روح القدس نے کہا کہ میرے لئے برنباس اور شاؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کرو‘‘۔
اس تشخص(امتیاز ،ممتاز ہونا) کے بغیر نہ کوئی رنجیدہ ہوسکتاہے۔ نہ تسلی دے سکتا ہے نہ سکھاسکتا۔ نہ اترُسکتا اورنہ آدمی کے دل کو بھرسکتا اورنہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے لئے فلاں فلاں اشخاص کو الگ کروتاکہ جوکام میں نے اُن کے لئے مقرر کیا اُس کو وہ سرانجام دیں۔ فی الحقیقت کتاب مقدس ایسی آیات سے بھری ہے جن سے بخوبی ثابت ہوتاہے کہ روح شخص ہے۔ بخوف طوالت (لمبائی ،زیادتی)زیادہ آیات پیش نہیں کی جاتیں۔
۲۔ الروح کا اورخدا کاایک ہونا۔ مثلاً یہ کہ وہ ہمہ جا حاضر وناظر ہے۔ (زبور ۱۳۹: ۷سے ۱۰)’’ تیری روح سے میں کدھر جاؤں۔ اورتیری حضوری سے میں کدھر بھاگوں اگرمیں آسمان کے اوپر چڑھ جاؤں توتو وہاں ہے اگرمیں پاتال میں اپنا بستر بچھاؤں تودیکھ تووہاں بھی ہے۔ اگرصبح کے پنکھ لے کے میں سمندر کی انتہا میں جارہوں تووہاں بھی تیرا ہاتھ مجھے لے چلے گا‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ الروح ازلی ہما جا حاضر وناظر شخصیت ہے۔ اوریہ قطعی ثبوت ہے کہ یہ شخصیت الہٰی ہے اورخود خدا ہے۔
لیکن یہاں پرہی خاتمہ نہیں بلکہ ایسی آیات بھی ہیں جن سے الروح کی ہمہ دانی(ہر کام کی واقفیت) ثابت ہوتی ہے۔ مقدس پولوس نے (۱۔کرنتھیوں ۲: ۷سے ۱۳ )میں یہ لکھا’’ بلکہ ہم پروردگار کی پوشیدہ حکمت راز کے طور پر بیان کرتے ہیں جو پروردگار نے جہان کے شروع سے پیشتر ہماری عظمت کے واسطے مقرر کی تھی۔جسے اس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو عظمت کے مولا کو مصلوب نہ کرتے۔ بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہواکہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نہ سنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں۔وہ سب پروردگار ِ عالم نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں۔
لیکن ہم پر پروردگار نے ان کو روحِ پاک کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ روحِ پاک سب باتیں بلکہ پروردگار کی تہ کی باتیں بھی دریافت کرلیتاہے۔کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتاہے سوا انسان کی اپنی روح کے جو اس میں ہے؟ اسی طرح پروردگار کے روح کے سوا کوئی پروردگار کی باتیں نہیں جانتا۔ مگر ہم نے نہ دنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہے تاکہ ان باتوں کو جانیں جو پروردگار نے ہمیں عنائت کی ہیں۔ اورہم ان باتوں کو ان الفاظ میں نہیں بیان کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ ان الفاظ میں جو روح ِالہٰی نے سکھائے ہیں اور روحانی باتوں کا روحانی باتوں سے مقابلہ کرتےہیں‘‘۔
اب اس عبارت میں یہ صاف بیان ہے کہ الروح خدا ہے اور اُن میں تشبیہاً انسان کی روح کا ذکر ہے کہ وہ اورانسان ایک ہے اسی طرح خدا کا روح اورخدا ایک ہی ہیں۔ اس عجیب عبارت کا لب لباب یہی ہے۔
اب باپ بیٹے اورالروح کا ایک ہی خدا ہونا ۔ مسیح کے ان الفاظ سے بھی ثابت ہے’’ تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اوراُنہیں باپ اوربیٹے اورروح القدس کے نام پر بپتسمہ دو‘‘ یہاں یہ قابل غور ہے کہ لفظ واحد" نام" آیاہے نہ " ناموں" جس سے ان تینوں شخصوں کی یگانگت ثابت ہے ۔ (11)
ہمارے مقصد کےلئے یہ چند آیات کفایت کریں گی تاکہ ظاہر ہوجائے کہ بائبل میں جو صفات روح کی بیان ہوئی ہیں وہی خدا کی بیان ہوئی ہیں۔ خدا کی ایک مزید مشہور صفت کا بھی نئے عہدنامے میں ذکر ہوا اوراُس کا تعلق خاص طور سے الروح کے ساتھ ہے اور اس عہد میں وہ بالخصوص اس کا اپنا ہے۔ کتاب مقدس میں بار بار مذکور ہےکہ خدا نے فرشتوں کو بعض اوقات خاص خاص پیغام دے کر بھیجا اوراپنی تجویز کو انسان پر منکشف کیا۔ مگر یہ فرشتے اُن تجاویز میں کچھ دخل نہیں دیتے کیونکہ اُن کی رسالت حکم دینا نہیں بلکہ اطاعت کرناہے۔ خدا ہی حکم دیتاہے ۔ خدا ہی عدالت کرتاہے۔ خدا ہی تعریف کرتا اورخدا ہی مجرم ٹھہراتاہے۔ اب انجیل میں یہ مندرج ہے ’’ اور وہ آکر(روح القدس ۔فارقیلط) دنیا کو گناہ اوراستبازی اورعدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا‘‘ (یوحنا ۱۶: ۸)۔ گناہ کے بارے میں دنیا کو اس لئے قصور وار ٹھہرائے گا کیونکہ اُنہوں نے نجات دہندہ کو نہیں مانا۔ اور راستبازی کے بارے میں دنیا میں لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے کر آسمان پر تشریف لے گیا اورعدالت کے بارے میں اس لئے کہ شیطان پر فتویٰ دیا گیا لیکن دنیا اب تک اُس کوترک نہیں کرتی۔ لیکن الروح کا دنیا کو قصور وار ٹھہرانا خاص خدا ہی کا حق ہے۔ پس یہ الروح خدا ٹھہرا۔ فرشتے ، انبیاء یا آدمی اس کلام کے زور کو جوسنایا گیا بڑھانہیں سکتے کیونکہ وہ تو صرف خداکے ایلچی یا اوزار ہی ہیں۔ لیکن الروح کی یہ خاص تاثیر ہے۔ تھسلنیکے کے پہلے خط میں پولوس نے یہ لکھا ’’ ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طورپر پہنچی بلکہ قدرت اور روح القدس میں‘‘(۱۔تھسلنیکیوں ۱: ۵)۔ اورپھر( ۱۔پطرس ۱: ۲)میں یہ لکھا ہے’’ خدا باپ کے علم سابق کے موافق روح کے پاک کرنے سے ‘‘ اس سے صاف واضح ہے کہ الروح کی تاثیر کلام کی اشاعت اور لوگوں کے دلوں کو اس کی منادی کرنے کی تحریک دینے میں ظاہر ہوئی ۔ بے چون وچرا یہ کام سوائے خدا کے کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔پس نتیجہ یہی نکلا کہ الروح خدا ہے۔ پھر (یوحنا ۶: ۶۳ )میں یوں مرقوم ہے’’ زندہ کرنے والی روح ہے‘‘ اور (رومیوں ۸: ۱۱ )میں یہ آیاہے ’’اسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے جناب مسیح کو مردہ میں سے جلایا تووہ تمہارے فانی بدنوں کوبھی اُس روح کے وسیلے سے زندہ کرے گا جوتم میں بسا ہوا ہے’’پس اس سے ظاہر ہے کہ الروح ہی جلانے والا اورزندگی دینے والا ہے۔ اس لئے وہ خودخداہے۔ پھر (رومیوں ۵: ۵) میں لکھا ہے’’کیونکہ روح القدس جوہم کو بخشا گیا ہےاُس کے وسیلے سے خداکی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے‘‘۔ ذرا سوچئے کہ خدا کی محبت آدمیوں کے دل میں خدا کےسوا کون دوسرا ڈال سکتاہے؟اس سے بھی ثابت ہواکہ الروح خودخداہے۔
الاآخر ہم بائبل کی ان آیات کی روشنی اُن چار حصوں پر ڈال سکتے ہیں جن میں کہ ہم نے قرآن کی آیات کو تقسیم کیا تھا۔ اُس وقت اوربھی واضح طور سے ظاہر کرسکیں گے کہ اگرچہ حضرت محمد نے ظاہری لفظ کو تولےلیا لیکن اُس کی حقیقت کو نظر انداز کردیا۔ اس لئے اہل اسلام کے نزدیک جوکچھ مبہم اورغیر معلوم ہے وہ مسیحیوں کے نزدیک نور اور جلال کا راستہ ہے۔
ہم نے اوپرذکر کیا کہ الروح سے کوئی فرشتہ مراد نہیں اس لئے اس غلطی کوہم ترک کرتے ہیں۔
اب ہم مختصر طور سے ان امور پر غورکریں کہ
۱۔ الروح کا تعلق خلقت سے اورخاص کر انسان سے کیاہے۔
۲۔ الروح کا تعلق الہٰام سے کیاہے۔
۳۔ الروح کا تعلق مسیح کے تجسم سے کیاہے۔
(11) اس لئے کہ یہ نجات دہندہ
۱۔ قرآن میں صرف اتنا ذکر ہے کہ الروح انسانی زندگی کا چشمہ ہے اوراس کی تشریح بھی وہاں پورے طورسے نہیں ہوئی۔
لیکن الروح کا یہ کام خلقت میں اس سے کہیں زيادہ وسیع ہے اورساری خلقت پر حاوی ہے۔
ہم نے (پیدائش ۱: ۱، ۲) میں دیکھ لیاکہ الروح نے اپنی زندگی بخش قدرت سے ابتری میں سے ایک ترتیب پیدا کردی اورخدا کے سانس سے انسان جیتی جان ہوگیا۔ اسی طرح (ایوب ۳۳: ۴ )میں لکھا ہے’’ خدا کی روح نے مجھ کو بنایا ہے اور قادرمطلق کے دم نے مجھ کو زندگی بخشی ہے‘‘ الروح کی الوہیت کا یہ مزید ثبوت قاطع(کاٹنے والا) ہے کیونکہ خلقت کا کام اس سے منسوب ہے ٹھیک جس طرح سے کہ کلمہ یا کلام سے اورخود باپ سے منسوب ہوا۔ اور مسئلہ ثالوث کا بھی یہ مزید ثبوت ہے اس لئے خود خدا ہی نے الروح کی صورت میں آدمی کو زندگی عطا کی۔ وہ روحانی زندگی جوانسان کوحیوانات سے ممیز (تمیز کرنے والا)کرتی ہے اورجس کے وسیلے سے انسان کا رشتہ خودخدا سے ہوجاتاہے۔
۲۔ الروح الہٰام کا وسیلہ ہے۔( ۲۔پطرس ۱: ۲۱ )’’ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب خداکی طرف سے بولتے تھے‘‘۔
(اعمال ۱: ۱۶)’’ اس نوشتے کا پورا ہونا ضرور تھا جوروح القدس نے داؤد کی زبانی۔۔۔۔کہا تھا‘‘۔
(اعمال ۲۸: ۲۵)’’ روح القدس نے یسعیاہ نبی کی معرفت تمہارے باپ دادوں سے خوب کہا‘‘۔
(عبرانیوں ۳ : ۷ سے۱۱) ’’جس طرح کہ روح القدس فرماتاہے۔۔۔جہاں تمہارے باپ دادوں نے مجھے آزمایا ۔۔۔اسی لئے میں اس پشت سے ناراض ہوا۔۔۔ میں نے اپنے غضب میں قسم کھائی کہ یہ میرے آرام میں داخل نہ ہونے پائیں گے‘‘۔
یہاں بھی یہی نظر آتا ہے کہ یہ شخص الروح الہٰی اختیار کے ساتھ بولتا اورلوگوں کو تحریک دیتاہے کہ نبوت اورآگاہی کریں۔ یہی آدمیوں کے دلوں کوسننے کےلئے الہٰام دیتا ہے تاکہ خدا کی باتوں کو قبول اور تحریر کریں۔یہا ں کوئی ایسی رائے نہیں کہ مشین (کل) کی طرح کوئی پیغام کاٹنا چھانٹا گراموفون کی طرح نازل ہوا بلکہ خودخدا نبیوں کے دلوں اور ضمیروں میں آتاہے اور وہ اُن کے انسانی اورمختلف مزاج وطبع کے وسیلے انسان کو ایک کتاب عطا کرتاہے جولاثانی اور الہٰی کتاب ہے گووہ کئی کتابوں کا مجموعہ ہے لیکن وہ مقصد اور روح میں ایک ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زيادہ ۔ اُس نے نہ صرف خدا کے کلام کا الہٰام دیا بلکہ اپنی کلیسیا کے ساتھ ابدآباد رہتاہے۔ وہ زندہ ترجمان اورہادی ہے۔
(یوحنا ۱۴: ۱۶، ۱۷ )میں یہ لکھا ہے’’ میں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسر ا مددگار بخشے گاکہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا روح‘‘۔ اب یہ دعویٰ کہ یہ روح ابدتک ایمانداروں کے ساتھ رہے گا۔ محمدیوں کے اس دعویٰ کی تردید کرتاہے کہ اس مددگار سے حضرت محمد مراد ہیں۔ کیونکہ ہم سبھوں کو معلوم ہے کہ حضرت محمد نے باسٹھ (۶۲)سال کی عمر میں وفات پائی اور وہ اپنے پیروؤں کے ساتھ بائیس(۲۲) سال سے زیادہ نہ رہے ۔ لیکن برعکس اس کے یہ الروح ابدتک رہتاہے اورآدمیوں کے ساتھ اس کا رشتہ ایک فوق العادت اورالہٰی معجزے کے ذریعے اُس کی پچوہری سیرت میں قائم ہوگیا۔
(۱۔) شاگردوں نے آسمان سے ایک ایسی آواز سنی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا جس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔
(۲۔) اوراُنہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانی دکھائی دیں اوراُن میں سے ہرایک پرآٹھہریں۔
(۳۔) وہ سب روح القدس سے بھرگئے اورغیر زبانیں بولنے لگے جن کو اُنہوں نے شائد کسی کو بولتے بھی نہ سنا ہوگا کیونکہ یہ لوگ گلیل کے دیہاتوں سے آئے تھے۔ اور غیر زبانوں سے وہ واقف نہ تھے۔
(۴۔) اورپطرس نے کھڑے ہوکر ان رسولوں کی حمایت میں سامعین کے سامنے ایک عمدہ وعظ کیا اور غیر معمولی قدرت اوردلیری سے مسیح کی الوہیت کی گواہی دی اگرچہ چند ہفتے پیشتر وہ ایک لونڈی سے ڈرگیا تھا اور بُری طرح سے مسیح کا انکار کیاتھا۔
(۵۔) پطرس کا وعظ سن کر تقریباً تین ہزار(۳۰۰۰) لوگ ایمان لائے اوراُنہوں نے بپتسمہ پایا۔
روح القدس نے آگ کی زبانوں کا یہ معجزہ اس لئے کیا تاکہ یہ ظاہر کرے کہ مسیحی دین عالمگیر ہوگا اور بائبل ساری قوموں اور قبیلوں کےلئے اخلاقی شرع کی بنیاد ہوگی اور اس لئے ہر زبان میں اس کا ترجمہ کیا جائے گا۔ اسی حکم کی اطاعت کے باعث اب بائبل اور اُس کے حصوں کو آج ہم چارسو سے زيادہ زبانوں اور بولیوں میں پڑھ سکتے ہیں اوراس کا ترجمہ ہوتا رہے گا جب تک کہ آسمان کے تلے ہر بولی میں اس کا ترجمہ نہ ہولے۔
۳۔ تجسم کے ساتھ روح القدس کا یہ رشتہ ہے کہ سیدنا مسیح میں یہ ابدتک بستاہے۔ اوراُسی کی طرف سے اس کا انعام مسیحی کلیسیا کو ملاہے۔
(متی ۱: ۲۰ )’’ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے‘‘۔
(لوقا ۳: ۲۲)’’ روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اُس پر (جناب مسیح) پر اُترا‘‘۔
(اعمال ۱۰: ۳۸)’’ خدا نے جناب مسیح ناصری کو روح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا‘‘۔
(لوقا ۴: ۱)’’ جناب مسیح روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا‘‘۔
(متی ۱۲: ۲۸)’’ اگر میں خدا کے روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہت تمہارے پاس آپہنچی‘‘۔
(عبرانیوں ۹: ۱۴)’’ جس نے اپنے آپ کو ازلی روح کے وسیلے خدا کے سامنے بے عیب قربان کردیا‘‘۔
(۱۔پطرس ۳: ۱۸)’’ جسم کے اعتبار سے تومارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا‘‘۔
(یوحنا ۱۵: ۲۶)’’ جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا روح‘‘۔
(یوحنا ۲۰: ۲۲)’’ جناب مسیح نے اُن سے کہا ۔۔۔روح القدس اور‘‘۔
(اعمال۲: ۳۸)’’توبہ کرو تم میں سے ہرایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے جناب مسیح مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم روح القدس انعام میں پاؤ گے‘‘۔
یہ چند مشہور آیات نمونے کے طورپر ہیں جن میں جناب مسیح مسیح اور روح القدس کے درمیان رشتے کا ذکر آیاہے۔ لیکن ان کا شمار بہت زيادہ ہے اور اُن میں انتخاب کرنا بھی مشکل ہے۔
اس فصل میں جو اقتباسات قرآن سے کئے گئے اگرہم اُن کی طرف توجہ کریں توایسے خالی اورکمزور جوابوں کو دیکھ کر خاص کر سیدنا مسیح کی پیدائش کے احوال ہی ہیں۔ ہمیں تعجب آتاہے اورالروح کے تقویت دینے کے متعلق توبہت ہی تھوڑے حوالے ہیں اور وہ مبہم سے ۔لیکن نئے عہدنامے میں سیدنا مسیح اورروح القدس کے درمیانی رشتے کے متعلق بے شمار اورمکمل اور مفصل حوالے آئے ہیں۔
روح القدس سے وہ شکم مادر میں آیا۔ بپتسمہ کے وقت اُسی روح کا مسح حاصل کیا۔ اُسی روح کے وسیلے قدرت کے کام کئے۔ اُسی ازلی روح کے وسیلے صلیب پر مرا اپنے تئیں قربانی چڑھایا۔ اُسی روح کے ذریعہ وہ مردوں میں سے زندہ کیا گیا اوراپنی پیدائش سے لے کر اپنے صعود تک وہ روح القدس سے معمور تھا۔ اُسی کے وسیلے سے اوراُسی میں باپ کے ساتھ اُس کی مسلسل شراکت تھی۔ یہاں تک کہ مسیح میں روح کی قدرت کے ساتھ خدا دنیا پرمنکشف ہوا۔ یہ ثالوث کا راز ہے ! بیٹے کے تجسم اورروح القدس کے وسیلے جہان کے ساتھ خدا کا وہ رشتہ قائم ہوا جس کےلئے ساری خلقت آرزوسے کراہ رہی اور انتظار کررہی تھی۔ اوراُس وقت تک اس کا کمال نہ ہوگا۔ جب تک آخری نجات یافتہ روح خدا کے خاندان میں شامل نہ ہوجائے ۔ لیکن اس سے ایک اورحیرت انگیز امر بھی ظاہرہوتا ہے ۔ سیدنا مسیح نے باپ کے موعود روح القدس کو نازل کیا جو لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن کو منور زندہ اورپاک کرے۔
یہی روح پنتیکوست کے پہلے دن سے لے کر دنیا میں مسیح کے کام کو سرانجام دے رہاہے۔ اوراُن لوگوں کے لئے یہ خاص وعدہ اورمیراث ہے جوانجیل کو قبول کرکے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ مسیح کے پیروؤں کے دلوں کو اُن سبھوں کی محبت اور ہمدردی سے یہی روح بھردیتاہے جن کی خاطر مسیح نے جان دی اور یہی روح اُن کو تحریک دیتاہے کہ دنیا کی فصل جمع کرنے میں وہ محنت کریں۔
اے مسلمان بھائیو! کیا آپ اُس کے پاس نہ آئیں گے ؟ اوراُس کے چیدہ پیرونہ بنیں گے ؟ جس کا کچھ موہوم ساذکر آپ کی کتاب میں آیاہے۔ ہم نے پورے اور مفصل طور سے اُس کا بیان کردیاہے۔ کوئی فرشتہ خواہ کیسا ہی مقتدر کیوں نہ ہو،نہ کوئی سرّیہ اور ناقابل تلفظ نام ، نہ کوئی موہوم تاثیر نہ مادی سانس اس سے مراد ہے۔ بلکہ زندگی کا بخشنے والا اور خداوند ۔ وہی اب آپ کے دلوں میں داخل ہونا چاہتاہے تاکہ اُن کو منور اور تازہ کرے۔ وہی تم پر ظاہر کرے گاکہ جناب مسیح تمہارے دل اور روح کی گہری ضرورت کو پورا کرسکتاہے اوراس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہرایک دینوی چیز سے بڑھ کر تم اُس کی آرزو رکھو۔ وہ تمہیں نہ چھوڑے گا جب تک کہ تم کو مسیح میں کامل کرکے ازلی باپ کے سامنے پیش نہ کرے۔ اورخدا کی حضوری کے بےنقاب نور میں ہستی کے راز کو ادراک (دریافت)کرسکوگے۔
’’اور روح اوردلہن کہتی ہیں کہ آ۔ اورجو پیاسا ہو وہ آئے اورجوکوئی چاہے آب حیات مفت لے‘‘۔
آئے ناظرین آپ نے سن لیا ہے پس اس الروح سے کہیں کہ آ۔اور وہ یقیناً آئے گا اور ابدتک بچائےگا اور جناب مسیح مسیح کے وسیلے آپ کو خدا کے پاس پہنچائے گا ۔