The Origins of the Quran

An Enquiry into the Sources of Islam

By

The Late Rev W. Goldsack

(1871-1957)
یعنی

اصلیت وماہیت اسلام کی تحیقیق

از

علامہ ڈبلیو گولڈ سیک صاحب

Christian Literature Society for India,
Punjab Branch, Ludhiana 1909.
جسکو
کرسچن لٹریچر سوسائٹی فار انڈیانے
شائع کیا
1909

Rev William Goldsack

Australian Baptist Missionary and Apologist

1871–1957

دیباچہ

اس کتابچہ میں کسی طرح کی نئی تحقیق اورجدت کا دعویٰ نہیں بلکہ اس کے بیانات زیادہ تر گائیگر، ٹسڈل، زویمر، میور، سیل اورعماد الدین صاحبان کی تصانیف پر مبنی ہیں۔ اوراس سے غرض یہی ہے کہ اِن محققین کی تحقیقات کاملہ کے نتائج نہایت مختصر اورارزاں صورت میں اہل ہند کے خواندہ اصحاب تک پہنچ جائیں۔

پس اگر اس کتابچہ کے وسیلہ سے کوئی محقق مسلمان حضرت محمد کے تعلیم کردہ مذہب کی اصلیت کوزیادہ ترصفائی اورسہولت سے سمجھ لیگا تواس کی تصنیف کامطلب بر آئیگا۔

و۔گ

تمہید

لفظ "قرآن" عربی مصدر قَراَ سے مشتق ہے جس کے معنی پڑھنے یا پڑھا جانے کے ہیں۔ اوریہی لفظ سورہ العلق سے لیا گیا ہے۔ بیان کیا جاتاہے کہ پہلے پہل یہی سورہ آنحضرت پر نازل ہوئی تھی۔ ابتدا میں یہی لفظ قرآن کے ایک حصہ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں آنحضرت کے تمام وحی والہام کے مجموعہ پر عائد ہوگیا۔ چنانچہ آج کل انہی آخری معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ آنحضرت پر قرآن کے نازل ہونے کے باب میں احادیث میں بہت سی عجیب وغریب حکایات مندرج ہیں۔ چنانچہ آپ کی زوجات میں سے عزیز ترین بی بی عائشہ سے یوں روایت ہے کہ" (1)شروع میں جو الہامات آنحضرت کونصیب ہوئے وہ سب سچے خواب تھے۔ آپ کے خواب صبح وصادق کی مانند راست ثابت ہوتے تھے۔ اس کے بعد آپ تنہائی پسند کرنے لگے اورکوہ حرا کے غار میں منزوی ہوکر شب وروز عبادت میں مشغول ہوتے تھے۔یہاں تک کہ آخر ایک دن فرشتہ نے آپ پرظاہر ہوکر کہا "پڑھ" لیکن آپ نے کہا " میں پڑھنا نہیں جانتا" ۔ اس پر فرشتہ نے آپ کو پکڑ کر اس قدر دبایا کہ اُس سے زیادہ کی آپ میں برداشت نہ تھی۔ پھرآپ کو چھوڑدیا اور دوبارہ کہا" پڑھ" آپ نے کہا " میں پڑھنا نہیں جانتا" تب فرشتہ نے دوبارہ آپ کو پکڑ کر اُسی طرح دبایا اور پھر چھوڑ کر کہا" پڑھ" آپ نے پھر کہہ دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر فرشتہ نے تیسری مرتبہ آپ کو پکڑ کر پھرویسا ہی دبایا اور کہا" اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (2) ترجمہ : پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔ خلق کیا انسان کو لہو کی پھٹکی سے۔ پڑھ اورتیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کا استعمال سکھایا۔ انسان کوسکھایا جوکچھ وہ نہ جانتا تھا)۔ تب آنحضرت نے خود ان مندرجہ بالا آیات کودہرایا اورکانپتے ہوئے بی بی خدیجہ کے پاس واپس آئے اورکہا " مجھے چھپادو!! چنانچہ اُنہوں نے آپ کو کپڑوں میں لپیٹ دیا اورتاوقتیکہ آپ کا خوف دور نہ ہوا لپٹے رہے"۔

اسی قسم کی احادیثی حکایات اورقرآن کے مکرر بیانات پر اہلِ اسلام کے اس عقیدہ کی بنیاد ہے کہ قرآن خدا کا ازلی غیر مخلوق کلام ہے جوحضرت جبرائیل کے وسیلہ سے معجزانہ طورپر حضرت محمد پر نازل ہوا۔ کہتے ہیں کہ قرآن فلک الافلاک پر خدا تعالیٰ کے تخت کے پاس لوح محفوظ پر ازل ہی سے مرقوم تھا اورپھر ماہِ رمضان میں نچلے آسمان پر بھیجا گیا جہاں سے قریباً ۲۳برس کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے حضرت محمد پر نازل ہوا۔ قرآن اپنی الہٰی اصلیت کے دعویٰ سے بھرا پڑا ہے اورجو اِن دعوؤں کو حق تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کے حق میں بھی قرآن میں بہت سی لعن طعن وموجود ہے۔ بخاری شریف اوربعض دیگرراویوں نے ایسی ایسی احادیث جمع کی ہیں جن سے نزولِ قرآن کے مختلف طریقے معلوم ہوتے ہیں ۔ بعد کے مفسرین ومصنفین مثلاً جلال الدین السیوتی وغیرہ نے الہام ووحی کے نزول کے طریقوں کی تقسیم کی ہے۔


(1) مشکوات المصابیع (2) سورہ العلق پہلی پانچ آیات

چنانچہ ان کے نزدیک الہام فرشہ کے وسیلہ سے، القا سے، خواب سے اور براہ راست بلاواسطہ خدا وپیغمبر کے باہم ہمکلام ہونے سے ہوتاہے۔ لیکن ہم اس مقام پر ان مختلف طریقوں پر بحث نہیں کرینگے۔ ہم اس صاف حقیقت کا بیان کرتے ہیں کہ اہل اسلام کے عام اعتقاد کے لحاظ سے کل بنی آدم میں سے بیس کروڑ قرآن کوخدا کے منہ کے الفاظ مانتے ہیں۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ازل ہی سے قرآن آسمان پرموجود تھا اورپھر خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد کے وسیلہ سے دنیا میں بھیجا گیا۔

اس کتابچہ کا مقصد یہی ہے کہ اِ س عظیم دعویٰ کوپرکھے اوردریافت کرے کہ قرآن اس الہٰی الہام کے عقیدہ وتصور سے بالکل خالی ثابت ہوتاہے یا نہیں۔ہرایک مسلمان کا دل اس قسم کی تحقیق کے خلاف بغاوت کریگا اور وہ ہرگز اس بات کو پسند نہیں کریگا کہ قرآن شریف کے بارہ میں اس طرح کی چھان بین کی جائے۔ لہذا ہم اس مقام پر ایک مسلمان کے الفاظ پیش کرتے ہیں۔ سرسید احمد صاحب اپنی تفسیر بائبل میں لکھتے ہیں کہ "میں کسی طرح سے اس وہمی عقیدہ کوتسلیم نہیں کرسکتا کہ کتب آسمانی، کتب انبیائے سلف یا قرآن کی صداقت ومنجانب اللہ وغیرہ ہونے کے باب میں تحقیق وتدقیق نہیں کرنا چاہیے۔کیا کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ خدا کی سب سے بڑی برکت یعنی قوتِ استدلال جوانسان کودی گئی ہے وہ محض بے فائدہ وبے سود ہے اورہم اُس سے کام نہیں لے سکتے ؟ کیا ہم باقیامِ ہوش وحواس اورصدق عقیدت سے مسیحی یا محمدی ہونے کا اقرار کرسکتے ہیں درحالیکہ ہم اپنے ایمان واعتقاد پر کوئی دلیل نہ رکھتے ہوں؟ جوکتاب ہماری ہدایت ورہبری کیلئے ہم کو دی گئی ہے کیا ہم اُس کو پرکھنے میں اپنی عقل اوراپنے ذہن وفہم کوکام میں نہ لائیں؟بخلاف اسکے میری بڑی آرزو ہے کہ وہ پاک فرشتے نہایت معقول طورپر باادب آزادگی کے ساتھ خوب پرکھے جائيں"۔

ہرایک مسلمان کوجسے یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہولازم ہے کہ سرسید احمد کے قول کے مطابق نہایت ادب اورجائز آزادگی سے اُس کتاب کوپرکھے جس پر اُس کے ایمان کی بنیاد ہے کیونکہ اس کے اس محققانہ امتیاز کے نتائج ابدی ہونگے۔ ہم تویہ مانتے ہیں اورثابت بھی کرینگے کہ قرآن محض اُن خلط ملط تعلیمات وحکایات کا مجموعہ ہے جوحضرت محمد کے زمانہ میں عرب میں مروج تھیں اورجن کوآپ نے کسی قدر حسب موقع وحسب مطلب ادل بدل کرکے وقتہً فوقتہً وحی الہیٰ کے نام سے پیش کیا۔اِ ن حکایات پر کچھ اوامرونواہی کا بھی اضافہ کیا گیا تھا جونازک وقتوں میں اشد ضرورتوں کے تقاضے سے وضع کئے گئے۔ لہذا ہمارا ارادہ ہے کہ بالترتیب مباحثِ ذیل پر بحث کریں۔(۱) قرآن کے وہ حصے جوحضرت محمد نے اپنے وقت کے بدوی مذاہب سے بنالئے(۲) وہ حصے جویہودی اصل کے ہیں اوربائبل ورایات یہود سے لئے گئے ہیں(۳) وہ حصے جوآنحضرت نے اپنے ہمعصر مسیحیوں سے سیکھے اور(۴) قرآن کے وہ حصے جوخاص خاص مواقع پر وضع کئے گئے اورجن سے آنحضرت کی متغائر ومتبائین کارروائیوں کی تائید وتصدیق کی گئی۔

ینَاِبیع القُرآن

بابِ اوّل

بدوی عقائد ورسوم کا قرآن میں اندراج

تمام دنیا میں اسلام

من مانا

مذہب کہلاسکتاہے حضرت محمد بانیِ اسلام نے اُن تمام مختلف اورمطلب کی باتوں کوجن تک آپ کی رسائی ہوئی اسلام میں داخل کرلیاہے۔

عموماً یہی خیال کیا جاتاہے کہ ابتدا میں حضرت محمد نے اپنے اہل وطن کے سامنے یہ بڑی حقیقت پیش کی کہ وہ خدا واحد ہے۔ آپ کا یہ دعویٰ تھاکہ توحید الہٰی وحی کے وسیلہ سے آپ کوسکھائی گئی۔ چنانچہ سورہ انعام کی ایک سوچھٹی آیت میں یوں مرقو م ہے"اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ (توچل اُسی پر جوحکم آوے تجھ کو تیرےرب سے ۔ کوئی معبود سوائے اُس کے ) عرب میں یہودی اورمسیحی موجود تھے جن سے حضرت محمد خدا کی توحید کی تعلیم پاسکتے تھے علاوہ اس کے تواریخِ عرب کی تھوڑی سے واقفیت بتلادیگی کہ حضرت محمد کے زمانہ سے مدتوں پیشتر اہل عرب خدائے تعالیٰ کوجانتے اوراُس کی عبادت کرتے تھے۔ اسلام سے پیشتر کے عربی علمِ ادب میں" اِلہ" عام طورپر معبود کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا لیکن" الالہ" جس کا مخفف" اللہ" ہے ہمیشہ خدائے عزوجل وحدہ لاشریک لہ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا چنانچہ نابغہ اور لبیدبت پرست شاعر لفظ" اللہ" انہی معنوں میں بار بار استعمال کرتے ہیں۔ اورمشہور معلقات میں بھی یہی لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا گیاہے۔پھر ابن ہشام لکھتاہے کہ " قبیلہ قریش کے لوگ" احلال" کی رسم ادا کرتے وقت کہا کرتے تھے " اے خدا ہم تیری خدمت میں حاضر ہیں ۔ تیرے خوف کے سوائے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ تیرا ہے اورجوکچھ اُس کا ہے وہ بھی تیرا ہے" علاوہ بریں یہی امر بھی قابلِ یادہے کہ کعبہ حضرت محمد سے صدہا سال پیشتر ہی سے بیت اللہ یعنی خانہ خدا کے نام سے مشہور تھا اورپھر حضرت محمد کے باپ کے نام عبداللہ سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ اللہ کا بہت استعمال ہوتا تھا۔ سرسید احمد نے اپنی کتاب میں جوقبل ازاسلام کے عربوں کے بیان میں ہے اس بات کوصاف مانا ہے کہ حضرت محمد سے پیشتر عرب میں خدا پرست فرقے موجود تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ " زمانہ جاہلیت میں خدا پرست عربوں کی دوگروہیں تھیں۔ دوسری گروہ کے لوگ سچے خدا کی عبادت کرتے تھے اور، روزِ انصاف وقیامت پرایمان رکھتے تھے۔ وہ یہی بھی مانتے تھے کہ روح غیر فانی ہے اوراس زمینی زندگی کے نیک وبد اعمال کے لئے جزا وسزا ملیگی۔ لیکن وہ نہ نبی کو مانتے تھے اورنہ وحی والہام کے معتقد تھے۔ اسلام سے پیشتر عرب میں چار ایسے خدا پرست فرقے پائے جاتے تھے جووحی الہام کے معتقدتھے اورجنہوں نے وقتہً فوقتہً خوب رواج پایا وہ صائبین ، حنیف ، یہودی اورمسیحی کہلاتے تھے"۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت کے ہمعصر اللہ عزوجل سے بے خبر نہ تھے اورآنحضرت کا خود بھی قبل از دعویٰ نبوت یہی حال تھا کہ آپ نے یہ دعویٰ کیاکہ آپ نے وحی آسمانی سے توحید کی تعلیم پائی۔ ایسی حالت میں کچھ تعجب نہیں اگرعربوں نے کہا (3)أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (پہلے لوگوں کے قصے )سناتے ہو۔ اورجب آپ نے اُن کو اسلام کی دعوت دی اور کہاکہ میرے وحی آسمانی پر ایمان لاؤ تو اُنہوں نے کہا" (4)شَاعِرٌ يعنی آپ شاعر ہیں اوریہ وحی آسمانی نہیں بلکہ آپ کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔

آنحضرت کی ولادت سے تھوڑا ہی عرصہ پیشتر فرقہ حنیف نے رواج پایا۔ اس فرقہ کے لوگوں نے بڑی سرگرمی سے اصلاح شروع کی اوربُت پرستی کوبالکل ترک کرکے واحد سچے خدا کی عبادت کرنے لگے۔ان حق جواصلاح کنند گان کے پیشوا وسرگروہ ورقہ بن نوفل، عبید اللہ ابن حبش، عثمان ابن الحویرث اورزید بن اعمروتھے ایک حدیث میں مرقوم ہے کہ " زید نے لقبِ حنیف یوں اختیار کیاکہ ایک مرتبہ ایک مسیحی اور ایک یہودی اُس کو حنیف ہونے کی ترغیب دے رہے تھے۔ زید اس وقت بت پرستی کوچھوڑچکا تھا اورمسیحی یا یہودی بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس نے پوچھا کہ حنیف کس کوکہتے ہیں ؟ اُن دونوں نے کہا کہ حنیف ابراہیم کا مذہب ہے جوسوائے خدا کے کسی اور کی پرستش نہیں کرتا تھا۔اس پر زید نے کہا اے خدا میں اقرار کرتاہوں کہ میں ابراہیمی مذہب کی پیرو ی کرونگا"۔ ابن ہشام جوآنحضرت کے قدیم ترین اورقابل اعتماد سوانح نگاروں میں سے ہے اپنی کتاب سیرت الرسول میں یوں لکھتا ہے "

ترجمہ: (ورقہ بن نوفل نے نصرانی ہوکر اُس دین کی کتابوں کو خوب پڑھا یہاں تک کہ اہل کتاب کے بڑے بڑے عالموں میں سے ہوگیا)۔

مسلم محدث لکھتاہے کہ یہی ورقہ بی بی خدیجہ کا عم زاد بھائی تھا اوراُس نے انجیل کو عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ ان دلچسپ حقیقتوں سے بآسانی ذیل کے ایک دو نتیجے نکل سکتے ہیں۔اول یہ کہ حضرت محمد کوضرور اکثر اوقات ورقہ سے ملاقات اورگفتگو کا موقعہ ملا۔ دوم فرقہ حنیف کے لوگوں سے صحبت رکھنے سے آپ بآسانی تمام توحید الہٰی کی تعلیم پاسکتے تھے۔ لیکن اس میں ذرا شک نہیں کہ آپ کے جس قدر خیالات خدا کے متعلق تھے وہ زیادہ ترانہی لوگوں کی صحبت سے حاصل ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جب آپ اسلام کے مناد بنے توآپ کی تقریروں کا مضمون زیادہ تر یہی تھاکہ میں ابراہیمی مذہب حنیف کا مناد ہوکر آیاہوں۔قرآن میں اس کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن ہم صرف چند مقام نقل کرتے ہیں۔سورہ انعام کی ایک سو باسٹھویں آیت میں مرقوم ہے قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا" (توکہہ مجھے تومیرے رب نے ملت ابراہیم حنیف سچے دین کی راہ راست کی ہدایت فرمائی ہے)۔ پھر سورہ آل عمران کی ۹۵ویں آیت میں لکھاہے " فَاتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا" اب ابراھیم کے دین کے تابع ہو جاؤ)۔

نہ صرف واحد سچے خداکا خیال ہی آنحضرت کے ہمعصروں میں موجود تھا بلکہ اس میں بھی کلام نہیں اورکسی طرح کے شک وشبہ کوجگہ نہیں کہ بہت سی رسومِ حج بھی مدتوں سے پیشتر بُت پرست عربوں میں رائج تھیں اگرچہ آپ نے دعویٰ کردیا کہ یہ رسوم بھی آپ نے وحی آسمانی سے سیکھیں۔

مشہور مسلمان مورخ ابوالفدا ان حقیقتوں کا نہائت صفائی سے معترف ہے اُس کی مشہور تواریخ میں لکھا ہے" وہ (اسلام سے پیشتر کے عرب) کعبہ کا حج کیا کرتے تھے اور عمرہ واحرام کی رسوم کوبجالاتے تھے اورطواف بھی کرتے تھے۔ صفا و مروہ پردوڑتے اورپتھر پھینکتے تھے اورہرتیسرے سال کے آخر میں ایک مہینہ عزلت و زاویہ نشینی میں بسر کرتے تھے۔۔۔۔ وہ ختنہ کرتے اور چورکا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے" ابوالفدا کی یہ شہادت کسی طرح سے شک کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ آنحضرت کے زمانہ سے پیشتر ہی سے یہ تمام رسوم اورطہارت ووضو وغیرہ کے طریقے اور دستور جاری تھے۔ آپ نے اُن کو لیا اورحسب موقعہ بیان کیا اورفرمایا کہ یہ سب کچھ وحی آسمانی کی معرفت پہنچا ہے۔ آپ کے صحابہ کوبھی آپ کے موحدانہ دین اور بُت پرستی کی پُرانی رسوم کوتطبیق دینے میں بڑی مشکل پیش آئی۔ چنانچہ مسلم سے روایت ہے "

قبل عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ الحجر الأسود فقبله، فقال إني أعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك‏.‏

ترجمہ: (عمران ابن خطاب نے سنگ اسود کو چوما اورفرمایا۔ بخدا میں جانتاہوں کہ تومحض پارہ سنگ ہے۔ اگرمیرے سامنے رسول اللہ نے تجھے نہ چوما ہوتا تومیں ہرگز ہرگز تجھ کو نہ چومتا)۔

لیکن حضرت محمد کا سرقہ رسوم وروایات اہل عرب تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو سیریا اوردیگر مقامات کے سفرکا اتفاق ہوا اوروہاں اہل فارس اوردیگر اقوام ومذاہب کے لوگوں سے آپ کو سابقہ پڑا۔ اس سے آپ کوجنت وجہنم اور روز انصاف اورسزا وجزا کے متعلق بہت سے خیالات مل گئے جوآپ نے بعد میں کچھ ردوبدل کرکے خاص قریشی عربی میں پیش کئے اورفرمایا کہ یہ سب کچھ جبرائيل آسمان سے لایاہے۔ چنانچہ آنحضرت کا سوانح نگار ابن ہشام ایک شخص سلمان نامی کا ذکر کرتاہے جوآخرکار آپ کے صحابہ کرام میں شمار کیا گیا۔ آپ کو اہل فارس کی حکایات وروایات کے سیکھنے کا عرب ہی میں کافی موقع تھا کیونکہ عرب میں اہل فارس کے افسانے مدت سے جاری تھے اور ان کے معتقدات بہت عرصے سے تاثیر کررہےتھے ۔حضرت محمد کے زمانہ سے تھوڑا ہی عرصہ پیشتر فارسی حاکم متواتر حرا، عراق ،اوریمن پر حکومت کرچکے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ان مہذب فاتح، شاہزادوں کے اطوار واخلاق اوردیگر امور نے اہل عرب پر بڑی تاثیر کی ہوگی چنانچہ اس کا ثبوت اس بات میں صاف نظر آتاہے کہ اہل عرب پر میں فارسی روایات وحکایات خوب مروج تھیں اورفارسی اشعار بہت کثرت سے جاری تھے۔ابن ہشام کی تصنیف میں اس ایک نہایت صاف مثال موجود ہے۔ یہ مصنف یہ لکھتاہے کہ ابتدا ئے اسلام میں نہ صرف فارسی حکایات مدینہ میں رائج ہی تھیں بلکہ اہل قریش قرآنی قصوں سے انکا مقابلہ کیا کرتے تھے ۔ ایک دن ناظر ابن حارث نے اہل قریش کے سامنے شاہانِ فارس کی چند حکایات پڑھیں اوربعد میں یوں کہا"

ترجمہ:

(بخدا محمد کی حکایات میری حکایات سے کچھ بہتر نہیں ہیں۔ وہ محض گذشتہ لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کواس نے لکھا لیا ہے جیسے کہ میں نے اپنی کہانیاں لکھ رکھی ہیں)۔روضتہ الاحباب کے مصنف کا بیان اس سے بھی زیادہ صاف ہے۔ چنانچہ وہ لکھتاہے کہ " نبی کی یہ عاد ت تھی کہ جوکوئی ملاقات کو آتا تھا اُس سے اسی کی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ لہذا نتیجہ عربی زبان میں بہت سے فارسی الفاظ پائے جاتے ہیں جو اس طرح سے داخل ہوگئے "۔

اس تباہی خیز اعتراف سے قرآن کے بہت سے حصوں کے لئے کلید القرآن مل جاتی ہے۔ جن حصوں کو سمجھنا بہت مشکل تھا وہ اس اعتراف سے آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ بہت سے فارسی الفاظ وعقائد جوقرآن میں پائے جاتے ہیں اُن کو سمجھنے میں بہت سہولت ہوجاتی ہے۔ قرآن میں جو بہشت دوزخ اورموت وقیامت اور روزِ انصاف وغیرہ کے بیان پائے جاتےہیں اگراُن کا زرتشتی پیدائش عالم سے مقابلہ کیا جائے تواظہر من الشمس ہوجائے گا کہ حضرت محمد نے یہ سب کچھ اُن فارسیوں سے سیکھاجن سے آپ کوربط ضبط نصیب ہوا اور بعد میں ان بیانات کوقریشی عربی میں رنگااور وحی آسمانی کے نام سے اپنے جاہل ہم وطنوں کوسنایا۔ ان زرتشتی عقائد وخیالات کا سراغ اُن فارسی الفاظ سے مل سکتاہے جوقرآن میں استعمال کئے گئے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی نیا عقیدہ غیر زبان کے الفاظ میں بیان کیا ہے توضروروہ عقیدہ اُس غیر زبان کے بولنے والوں کا ہے۔ اب یہ بات نہایت ہی تعجب خیز ہے کہ حضرت محمد کی توقرآن عربی" پکارتے ہوئے زبان خشک ہوجاتی ہےلیکن اُس میں بہت سے غیر عربی الفاظ موجود ہیں اورجن زبانوں سے وہ الفاظ لئے گئے ہیں اُنہی کے بولنے والوں کے عقائد قرآن میں اُن الفاظ کے وسیلہ سے مندرج کرلئے گئے ہیں۔ چنانچہ اب ہم اس امر کے ثبوت میں دوتین مثالیں پیش کرینگے۔

ہرایک مسلمان حضرت محمد کے معراج کے قصہ سے آگاہ ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قرآن میں اس ماجرائے شگرف کی طرف ایک ہی نہایت مختصر اشارہ پایا جاتاہے ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں یوں مندرج ہے "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا"(پاک ہے وہ ذات جواپنے بندے کورات کےوقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا۔ جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ اپنی قدرت کے نمونے دکھاویں) پھراسی سورہ کی ۶۲ ویں آیت میں اسی واقعہ کی طرف اورمختصر سا اشارہ مندرج ہے جیسا کہ لکھا ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ(اوروہ رویا جو ہم نےتجھ کو دکھائی۔ لوگوں کوآزمانے کے لئے بہت ہے۔اس آیت کی تفسیر میں مسلمان مفسرین ومحدثین نے اس قدر طول طویل بیانات لکھے ہیں کہ صرف یہی نہیں مانا کہ آنحضرت رات کےو قت مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک گئے بلکہ ایک خیالی گھوڑے براق پرسوار ہوکر فلک الافلاک پر پہنچے اورترقی کے زینہ پرچڑھتے چڑھتے اورمدراج معراج طے کرتے کرتے خدا کی خاص حضوری میں جاپہنچے اورآسمانی راز ورموز میں دخل پایا"۔

یہ حکایت حضرت محمد نے ضرور فارسیوں سے سیکھی تھی کیونکہ اُن کی ایک کتاب بنام" اردا ویراف نامہ " Arta' Viraf Namak (Book of Arda Viraf) میں جوآنحضرت سے چارسوبرس پیشتر کی تصنیف شدہ ہے ایک حکایت مندرج ہے جوآپ کے معراج کے قصہ سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ چنانچہ لکھاہے کہ ایک مجوسی معلم( جو اس کا مصنف ارتائی ویروف ہے (5)) جوکہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا عابد وزاہد تھا ایک فرشتہ کی رہبری سے آسمان پر چڑھ گیا اورخدائے تعالیٰ کے حضور میں پہنچ کر بے پردہ ملاقات کی اورپھر زمین پر واپس آکرجوکچھ آسمان پردیکھا تھا زرتشتیوں سے بیان کیا۔

پھر حورانِ بہشت کا قرآنی بیان بھی فارسی اصل کا ہے۔ جولوگ قرآن کو پڑھتے اورسمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ قرآن میں جسمانی ونفسانی بہشت کی بڑی خوشرنگ تصاویر پیش کی گئی ہیں ۔ لکھاہے کہ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی حوریں جنت میں تکے لگائے تختوں پر بیٹھی مومنین کا انتظار کررہی ہیں۔ان کا بیان قرآن میں بار بار لکھا ہے ۔لیکن ہم صرف سورہ الرحمٰن سے ایک مقام پیش کرینگے۔ چنانچہ اس سورہ کی ۴۶ویں آیت سے ۷۶ویں تک یوں مرقوم ہے" اورجوکوئی اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرا اُس کے واسطے دوجنت ہیں۔ جن میں بہت سی شاخیں ہیں۔ اُن میں دوچشمے ہیں۔ ان میں قسم قسم کے سب میوے ہیں۔ استبرق کے آستر والےبچھونوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔ اوراُن باغوں کا میوہ جھکا ہوا۔ اُن میں عورتیں ہیں نیچی نگاہ والیاں ۔ مومنوں سے پہلے نہ کسی آدمی نے اورنہ کسی جن نے اُن کو اپنے ساتھ سلایا ہے۔گویاکہ وہ یاقوت ومرجان ہیں۔ نیکی کا بدلہ سوائے نیکی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اوران دوباغوں کے علاوہ دو باغ اور ہیں۔ گہرے سبز ہیں سیاسی مائل ۔ اُن میں اُبلتے ہوئے دوچشمے ہیں۔ اُن میں میوے اورکھجور یں اورانار ہیں۔ اُن میں خوبصورت نیک عورتیں ہیں۔ خیموں میں روکی ہوئی حوریں ہیں جن کوکسی جن وانس نے مومنوں سے پہلے اپنے ساتھ نہیں سلایا۔ خوش وضع وقیمتی بچھونوں اورچاندنیوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔

بہت سے مصنفین ثابت کرچکے ہیں کہ حورانِ بہشت کے یہ قصے اہل فارس کی اُن پُرانی روایات سے لئے گئے ہیں جواُن میں بہشت کی خوبصورت اور آدمیوں کو لبھانے والی عورتوں کی نسبت جاری تھیں۔ حضرت محمد نے بسا اوقات نظم افسانہ میں اُن کا ذکر سناہوگا۔ علاوہ بریں لفظ" حور" فارسی لفظ ہے جوکہ پہلوی " ہور" سے مشتق ہے۔ اس سے بھی حورانِ بہشت کے بیان کی اصلیت معلوم ہوجاتی ہے۔

قرآن میں جنوں یا بدروحوں کے جوقصے مندرج ہیں اُن کی نسبت بھی کہا جاسکتاہے کہ وہ فارسی اصل کے ہیں کیونکہ لفظ جن فارسی جینہ سے مشتق ہے اورفارسی لوگوں کی ایسی بہت سی کہانیاں بھی رائج تھیں لہذا یہ خیال بھی اُن ہی سے لے گیا ہے۔

علاوہ بریں زرتشتی روایات اورقرآنی قصوں میں باہم مشابہت کی اوربہت سی باتیں ہیں۔ لیکن اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کہ قرآن میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا منبع وسرچشمہ فارسی روایات ہیں جوحضرت محمد نے وقتہً فوقتہً اُن فارسیوں سے جن سے آپ کا ربط ضبط ہوا اُس نے لفظ " فردوس" بھی جوقرآن میں بار بار استعمال کیا گیاہے فارسی ہے۔ قرآن میں " صائبین" کا اکثر ذکرآیاہے اورمورخ ابوالفدا نے اُن لوگوں کا بہت ہی دلچسپ بیان لکھاہے۔ جوباتیں اُس نے بیان کی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ دن میں سات مرتبہ نماز پڑھتے تھے اور اُن کی سات نمازوں کے اوقات میں سے پانچ کے اوقات عین وہی تھے جواسلامی نمازوں کے ہیں۔ حضرت محمد نے خود بار بار صائبین کاذکر کیاہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت ان لوگوں سے بہت میل جول رکھتے تھے اورغالباً آپ نے یہ نمازیں جوآج کل تمام اسلامی دنیا میں رائج ہیں اُن ہی لوگوں سے سیکھی تھیں۔


(5) https://en.wikipedia.org/wiki/Book_of_Arda_Viraf

مذکورہ بالا واقعات ایسے مدلل ومبرہین ہیں کہ بڑے بڑے علمائے اسلام نے صاف طورپر ان کی صداقت کوتسلیم کرلیاہے اور ترکیب وتکمیلِ قرآن کے بارے میں اہل زمانہ کے خیال کی تردید کی گنجائش نہیں پائی۔ چنانچہ سید امیر علی کہتاہے کہ " اس میں کلام نہیں کہ آنحضرت کی نبوت کے وسطی زمانہ میں جبکہ ابھی آپ کا ذہن دینی احساس کے کمال کو نہیں پہنچا تھا اورنیز اس امر کی ضرورت تھی کہ بدوی گروہوں کے لئے ان کی سمجھ کے مطابق بہشت ودوزخ کا بیان جسمانی اورمادی صورت میں کیا جائے زرتشتی، صائبینی ،طالمودی اوریہودی مروجہ خیالات کولے کر پیش کردیا گیا اور فروتنی ومحبت کے ساتھ خدا کی عبادت کی حقیقی اوراصلی تعلیم بعد میں دی گئی ۔ چنانچہ حورانِ بہشت اوربہشت کی بنیاد زرتشتی عقائد وروایات پر ہے اورجہنم کا ماخذ طالمود ہے"۔

لیکن اگریہ باتیں جیسی کہ بیان کی گئی ہیں ویسی ہی حق تسلیم کرلی جائیں توپھر یہ کیونکر تسلیم کریں کہ قرآن خدا کا کلام ہے اورلفظ بلفظ جبرائیل فرشتہ کی معرفت حضرت محمد پر نازل ہوا۔ بخلاف اس کے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آنحضرت نے اپنی تعلیمات وخیالات کوفرقہ حنیف، فرقہ صائبین اورزرتشتیوں سے اخذ کیا۔ ہمارا یہی دعویٰ ہے کہ باقی قرآن بھی اسی طرح اِدھر اُدھر سے لیا گیاہے۔ چنانچہ اس کتابچہ کے باقی ابواب میں ہم اس امر کو پایہ ثبوت تک پہنچادینگے۔

باب دُوم

یہودی عقائد ورسوم کا قرآن میں اندراج

یہودی عقائد ورسوم کا قرآن میں اندراج

اس بات کے بیان کی توضرورت نہیں کہ آنحضرت کویہودیوں سے اس قدر کافی میل جول کا موقعہ حاصل تھا کہ آپ اُن سے اُن کی مروجہ حکایات وروایات کوبخوبی وبآسانی سیکھ سکتے تھے۔ اگرقرآنی حکایات کا بائبل کی محرف طالمودی تواریخ سے مقابلہ کیا جائے توصاف عیاں ہوجائیگا کہ مکہ ومدینہ کے یہودیوں نے اپنی روایات ضرور حضرت محمد کوسنائی تھیں جوآپ نے اول بدل کرکے بت پرست ، جاہل عربوں کے سامنے وحی آسمانی کے نام سے پیش کیں۔ یہ بھی خوب یادرکھنا چاہیے کہ آنحضرت سے ایک سوسال پیشتر طالمود کی تکمیل ہوچکی تھی اورجویہودی عرب میں بودوباش کرتے تھے اُن کے دین پر اس سے بہت کچھ تاثیر ہوئی ہوگی۔ قرآن میں حضرت محمد نے ایک یہودی کواپنی رسالت پرگواہ کے طورپربیان کیا ہے۔ بہت سے مقامات میں آنحضرت کے یہودیوں کے ساتھ مباحثوں اورمناظروں کا ذکر پایا جاتاہے اوراس میں کلام نہیں کہ کسی وقت آپ اُن سے بہت گہرا اوردوستانہ تعلق رکھتے تھے۔ پس اب یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت محمد نے بار بار یہودی روایات کوسنا اورپھر اُن کوایسی صورت میں بیان کیا جوعربوں کوپسندیدہ دلچسپ معلوم ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ آپ یہودیوں سے اُن کے دین کے بارہ میں اکثر سوال کیا کرتے تھے چنانچہ مسلم کی ایک حدیث میں یوں لکھاہے "

" (ابن عباس کہتاہے جب نبی اہل کتاب سے کچھ پوچھتے تووہ اُسے پوشیدہ رکھتے اورکچھ اورہی بتادیتے تھے۔ اورآنحضرت کوصرف اس خیال میں چھوڑجاتے تھے کہ جوکچھ پوچھا تھا وہی بتایا گیا ہے۔

علاوہ بریں یہ ایک نہایت ہی بین حقیقت ہے کہ جب آنحضرت پر یہ الزام لگاکہ آپ یہود وغیرہ سے کہانیاں سیکھ کر اُن کا نام وحی آسمانی رکھتے ہیں توآپ نے یہ عذر پیش کیاکہ مجھے خدا کا حکم ہے کہ شک کی حالت میں اہل کتاب سے پوچھوں اوراپنے شکوک رفع کروں۔ چنانچہ سورہ یونس کی ۹۴ویں آیت میں یوں لکھا ہے فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ (توپوچھ نے اُن لوگوں سے جوتجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں) مسلمان مورخ طبری لکھتاہے " خدیجہ( آنحضرت کی پہلی زوجہ ) نے پُرانے پاک نوشتوں کوپڑھا تھا اور قصص الانبیاء سے خوب واقف تھی "اب مقامِ غور ہے کہ یہ آنحضرت دعویٰ نبوت سے پہلے قریباً پندرہ سال بی بی خدیجہ کے ساتھ بسر کرچکے تھے اورخدیجہ کےعمزاد بھائی ورقہ سے بھی کافی میل جورل رہا جویہودی اورمسیحی دونوں رہ چکا تھا اورجس نے مسیحی نوشتوں کا عربی زبان میں ترجمہ بھی لکھا تھا" ان حقیقتوں سے صاف عیاں ہوجاتاہے کہ آنحضرت یہودی ربیوں کی مروجہ حکایات وروایات سے بخوبی واقف تھے۔

اب اس امر کی چند مثالیں پیش کی جائینگی کہ آنحضرت نے اپنے ہمعصر یہودیوں کی مروجہ تواریخی حکایات کوکس طرح اپنے حسب دلخواہ صورت میں پیش کیا۔ لیکن ایسا کرنے سے پیشتر یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر عرب میں یہودیوں کے خیالات کی کیا حالت تھی۔ مدینہ کے گردنواح کے یہودی بے شمار اور صاحب اقتدار تھے لیکن بجائے عہدعتیق کے زیادہ طالمود کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ طالمود یہودی ربیوں کی رایونکی تفاسیر اورروایات وغیرہ کا نہایت بے ترتیب مجموعہ ہے۔ اس مخزن العلوم میں قوم یہود کی ہزاروں سال کی احادیث وروایات اوراُن کے شرائع وخیالات بڑی شرح وبسط کے ساتھ مندرج ہیں۔ لیکن پھربھی طالمود ایک علمی بیان ہے۔اس کے بیانات نہایت بے ترتیب وبے ربط ہیں۔ بہت سے قصے غلط اورمحض بچوں کے افسانے ہیں۔ اورآنحضرت کے زمانہ کے یہودیوں کی ذہنی اورعقلی غذا بیشتر ان افسانوں ہی سے بہم پہنچی تھی۔ان ہی غیر معتبر طالمودی کہانیوں کوسن کر یہودی سامعین خوش ہوتے تھے۔ اوراُن کے مکتبوں اورمدرسوں میں انہی کی تعلیم وتدریس کا رواج تھا۔ پس حضرت محمد نے جوکچھ یہودیوں سے سیکھا وہ بجائے بائبل کے طالمودی قصے وافسانے تھے۔ چنانچہ جن قصوں اوربزرگوں کے حالات سے قرآن لبریز ہورہاہے وہ بجائے بائبل کے طالمودی وگمدہ کی بے بنیاد روایات سے مطابقت رکھتے ہیں۔

مثلاً سورہ مائدہ میں ۳۰ویں آیت میں سے ۳۵آیت تک ہابیل وقابیل کی عجیب حکایات مندرج ہے ۔ ۳۴ویں آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جب قابیل اپنے بھائی کو قتل کرچکا توخدا نے ایک کوئے کوبھیجا کہ قابیل کودفن کرنا سکھائے۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے " فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ(خدا نے ایک کوے کوبھیجا جس نے زمین کوکھودا تاکہ وہ (قابیل) دیکھ لے کہ اپنے بھائی کی لاش کوکیونکر دفن کرے )۔ جنہو ں نے توریت شریف کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ قصہ الہام موسیٰ میں اس طرح نہیں ہے لیکن ہم جانتے یں کہ حضرت محمد نے اس کو روایات سے سیکھا کیونکہ ربیانہ کتاب موسومہ بہ تارگم یوناتن (6)پر کے ربی الیعزر باب ۲۱ میں یوں مندرج ہے" آدم اورحوا بیٹھ کر ہابیل پر ماتم کرنے لگے اورنہیں جانتے تھے کہ اس کی لاش سے کیاکریں۔کیونکہ وہ دفن کرنا نہیں جانتے تھے۔ تب ایک کوا جس کا ساتھی مرگیا تھا آیا اوراُن کے سامنے زمین کھود کر اُس کو دفن کردیا۔ تب آدم نے کہا میں بھی ایسا ہی کرونگا جیساکہ اس کوے نے کیا ہے چنانچہ آدم نے اٹھ کر فوراً ایک قبر کھودی اورہابیل کی لاش اُس میں دفن کردیا"۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حضرت محمد نے یہ کہانی ربیوں کی تصانیف سے سنی تھی اوریہ جان کر کہ یہ بائبل کا بیان ہے تھوڑے سے ردوبدل سے کام لے کر اُسے وحی آسمانی کے نام سے پیش کردیا۔

حضرت ابراہیم کے قصوں سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ یہ قصے بعض امور میں بائبل کے بیانات کے بالکل برعکس ومتناقض ہیں لیکن ربیوں کی روایات سے انکا مقابلہ کریں توبالکل عیاں ہوجاتاہے کہ آنحضرت نے یہ قصے انہی لوگوں سے سیکھے تھے۔ پھرقرآن کا میں بار بار لکھاہے کہ ایک بادشاہ نے (جسے مفسرین نمرود لکھتے ہیں)حضرت ابراہیم کوآگ میں ڈال دیا تھا اوروجہ یہ تھی کہ آپ نے بُت پرستی سے انکار کیا تھا۔ چنانچہ سورہ انبیاء کی ۶۹ویں اور ۷۱ویں آیت میں مرقوم ہے کہ جب حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے توخدائے تعالیٰ نے فرمادیا


(6) https://en.wikipedia.org/wiki/Targum_Jonathan يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الأَخْسَرِينَ وَنَجَّيْنَاهُ

ترجمہ: اے آگ ابراہیم پرسردار اور سلامتی ہوجا ۔۔۔اورہم نے اُسکو بچالیا)۔اب یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ اس افسانے کا بائبل میں تونام ونشان تک نہیں ملتا اوراس کی کوئی بنیاد پائی نہیں جاتی لیکن یہودیوں کی ایک کتاب مسمی بہ مدراش ربا (7)میں مفصل درج ہے۔ توریت سے معلوم ہوتاہےکہ حضرت ابراہیم کنعان کی زمین میں داخل ہونے سے پہلے کسدیوں کے ملک میں شہراُور میں رہتے تھے۔ لیکن خدا نے اُن کو وہاں سے نکال کرملک موعود میں پہنچایا۔ چنانچہ مرقوم ہے" میں خداوند ہوں جوتجھے کسدیوں کے اُور سے نکال لایا" چنانچہ اس غلطی کے سبب سے اُس نے اس آیت کی تفسیر میں ابراہیم کے آگ میں ڈالے جانے اورپھر معجزانہ طورپر بچائے جانے کا قصہ گھڑا۔ ابراہیم کا یہ تمام قصہ مدارش مذکور میں مندرج ہے اورحضرت محمد کے ہمعصر یہودی جوعرب میں رہتے تھے اس قصہ سے خوب واقف تھے۔ مدراش میں لکھا ہے کہ" جب بُت پرستی سے انکار کرنے کے باعث سے نمرود نے ابراہیم کوآگ میں ڈال دیا توآگ کواجازت نہ ملی کہ اُسے کچھ نقصان پہنچائے"۔

اب ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے آگ میں ڈالے اورنکالے جانے کی قرآنی حکائت کہاں سے لی گئی ہے۔ مصنفِ قرآن بھی مدراش کے مصنف کی طرح لفظ اُور کے حقیقی مطلب سے ناواقف ولاعلم معلوم ہوتاہے۔ اس قصہ کی تواریخی بطالت کے ثبوت میں اتنا کہنا کافی ہوگاکہ نمرود حضرت ابراہیم کا ہمعصر نہیں تھا بلکہ اُس سے بہت عرصہ پیشتر ہوگذرا تھا۔

پھرسورہ طہ میں ایک اورحکایت مندرج ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کوہ سینا پر بنی اسرائیل نے ایک بچھڑے کی پرستش کی۔ یہ حکایت بھی یہودی اصل کی ہے کیونکہ اُس میں مرقوم ہے کہ لوگوں نے اپنے سونے چاندی کے زیورات جمع کرکے آگ میں ڈالے اورپھر ۹۰ ویں آیت یوں بیان کرتی ہے " فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ ۔ترجمہ:پھریہ نقشہ ڈالا سامری نے پس بنانکالا اُن کے واسطے ایک بچھڑا۔ ایک جسم گائے کی آواز کے ساتھ) توریت میں اس بات کا مطلق ذکر تک نہیں ملتا کہ وہ بچھڑا باآواز تھا۔ لیکن حضرت محمد کی حکایت کا ماخذ ربی الیعزر کا لکھنا ہے کہ وہ بچھڑا زور کی آواز کرکے نکلا اوربنی اسرائیل نے اُسے دیکھا" ربی یہوداہ ایک اورہی بیان پیش کرتاہے۔ وہ کہتاہے " ایک شخص سموئیل نامی نے بچھڑے کے بت میں چھپ کر بچھڑے کی آواز نکالی تاکہ بنی اسرائیل کوگمراہ کرے"۔ حضرت محمد کے وقت یہودیوں میں جوعرب میں سکونت پذیر تھے یہ کہانی مشہور تھی ۔ اگراس کہانی کا قرآنی قصہ سے مقابلہ کیا جائے توصاف معلوم ہوجائے گا کہ حضرت محمد نے اپنے ہمعصر یہودیوں کی زبانی جوکچھ سنا اُسے کتب آسمانی کا جز خیال کرکے اپنے حسب منشا لکھ رکھا اوربعد میں جاہلوں کے سامنے وحی آسمانی کے نام سے پیش کردیا۔

بیچارے حضرت محمد ٹھیک طور سے سموئیل کی بابت کچھ نہ سمجھ سکے بلکہ اس کی جگہ سامری لوگوں کے خیال میں جا الجھے۔ غالباً اُسکا سبب یہی تھا کہ آنحضرت سامریوں کویہودیوں کے دشمن جانتے تھے ۔ آپ نے سامری کواُس بُرے کام میں حصہ لینے والا بیان لیکن حق تویہی ہے کہ اس بیان میں آپ نے بڑی غلطی کی کیونکہ سامری لوگوں کا تواس وقت کہیں نام ونشان بھی نہ تھا بلکہ سامریوں کا وجود اس واقعہ کے صدہا سال بعد سے ہے۔ اس قرآنی قصہ کووحی آسمانی تسلیم کرنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی سادگی اورسریع الاعتقادی کی ضرورت ہے۔


(7) https://en.wikipedia.org/wiki/Midrash_Rabba

سورہ نمل میں سلیمان اورسبا کی ملکہ کی ایک طویل حکایت مندرج ہے۔ لکھاہے کہ سلیمان نے ملکہ مذکور کوایک پرندہ کے وسیلہ سے ایک خط بھیجا اوراس کا نتیجہ یہ ہواکہ ملکہ نے سلیمان کی ملاقات کا نہایت مصمم ارادہ کرلیا۔ آخرکار جب سلیمان کے محل کے دروازہ پر پہنچی تو ۴۴ویں آیت کے الفاظ یوں ہیں " قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ کسی نے ملکہ سے کہا محل میں داخل ہو پس اُس نے محل کے فرش کو دیکھ کر خیال کیاکہ وہ گہرا پانی ہے اوراپنا پائجامہ پنڈلیوں سے اونچا کھینچ لیا۔ اُس نے کہا یہ پانی نہیں محل کا فرش ہے۔ جس میں شیشے لگے ہیں) یہ سن کر ملکہ نے ایک پکے مسلمان کی طرح جواب دیا" رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ میں نے اپنی جان پرظلم کیا ہے اوراے میرے رب ۔ اورسلیمان کے ساتھ میں اللہ رب العالمین کی فرمانبردار ہوں)۔

کتاب مقدس کے پڑھنے والے سب جانتے ہیں کہ یہ محض افسانہ ہے اورکلام اللہ میں اس کا وجود معدوم ہے۔ لہذا یہ سوال پیش آتاہے کہ اس حکایت کا ماخذ کیا ہے؟ ربیوں کی ایک کتاب قصوں کہانیوں سے پر ہے اور یہ افسانہ جوحضرت محمد نے سنایا یا لفظ بلفظ اس میں موجو دہے۔ چنانچہ اُس کتاب میں لکھاہے کہ" جب سلیمان کو معلوم ہواکہ ملکہ آئی ہے تواٹھا اور آکر شیش محل میں بیٹھا۔ جب سبا کی ملکہ نے دیکھا توشیشے کے فرش کوپانی سمجھی اوراُس کے عبور کرنے کے لئے کپڑے اوپر کھینچ لئے"۔ ہم اُس کتاب سے اوربہت کچھ نقل کرکے دکھاسکتے ہیں۔ جس میں پرندے کوخط دیکر بھیجنے وغیرہ کا مفصل ذکر ہے لیکن جوکچھ ہم لکھ چکے ہیں اُسی سے بخوبی ثابت ہوتاہے کہ یہ حکایت جیسی کہ قرآن میں پائی جاتی ہے بالکل حضرت محمد نے یہودیوں سے سیکھی تھی اس ملکہ اورسلیمان کا سچا تواریخی حال بائبل میں ملے گا۔ دیکھو ۱سلاطین ۱۰باب اور اس سے اظہر من الشمس ہوجائے گا کہ حقیقت اورتصنع میں کیسا زمین وآسمان کا فرق ہے۔

ایک اور ایسی ہی کہانی وہمی وخیالی جوآنحضرت نے یہودیوں سے سیکھی اور قرآن میں درج کرلی ہے کہ خدا نے بنی اسرائیل کوڈرانے کے لئے ایک پہاڑ اُن کے سرپر لاقائم کیا گویا کہ اُن پر گرنے ہی کو تھا۔ چنانچہ سورہ اعراف کی ۱۷۰ ویں آیت میں یوں مرقوم ہے"وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ ترجمہ:اورجس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ اُن کے سرپر جیسے سایہ بان اورڈرے کہ وہ گریگا اُن پر " یہ حکایت فی الحقیقت بالکل بے بنیاد ہے لیکن یہودیوں کے ایک کتابچہ ابوداہ ساراہ میں پائی جاتی ہے۔ توریت میں اس قسم کا بیان کہیں نہیں ملتا۔ فقط یہی لکھاہے کہ جب خدا کوہِ سینا پر موسیٰ کوشریعت دے رہا تھا اُس وقت تمام بنی اسرائیل دامن کوہ میں کھڑے تھے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد یہودی مفسرین نے وہی کہانی وضع کرلی کہ خدا نے پہاڑ کوبنی اسرائیل پر اٹھایا ابوداہ سارہ کی مندرجہ حکایت میں خدا بنی اسرائیل سے کہتاہے " میں نے پہاڑ کوتم پر سرپوش کی مانند رکھاہے"۔ ایک اورکتاب میں یوں مندرج ہے" خدا نے پہاڑ کو اُن پر ہنڈیا کی مانند رکھا اور فرمایا کہ اگرتم شریعت کوقبول کرلو توبہتر ورنہ یہی تمہاری قبر ہے"۔ یہ افسانہ بھی آنحضرت کے ہمعصر یہودیوں میں جوعرب میں آباد تھے رائج تھے۔ آپ نے اُن سے سن کر قرآن میں درج کرلیا اورپھر تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ہمیشہ اسکو کلام اللہ تسلیم کریں جو ازل سے لوح محفوظ پر مرقوم تھا اورجبرائیل فرشتہ کی معرفت آنحضرت پر نازل ہوا"۔

مندرجہ بالا لغوافسانے کی مثال قرآن سے باہر کہیں نہیں ملتی۔ چنانچہ ایسا لغو افسانہ فرشتوں کے گرنے کے بارے میں سورہ الحجر کی ۱۶ویں آیت سے ۱۸ ویں آیت تک نہایت سنجیدگی سے مندرج ہے کہ جوکچھ آسمان پر کہا جاتاہے شیطاطین اُسے سننے کی کوشش کرتے ہیں اور فرشتے اُن پرشہاب پھینک کر اُنہیں بھگادیتے ہیں۔ مثلاً یوں مرقوم ہے وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاء بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ ترجمہ: اورہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اوردیکھنے والوں کے لئے اسے زینت دی ہے اورہرشیطان مردود سے اُسے محفوظ رکھا ہے لیکن جوچوری سے سن جاتاہے روشن شہاب اس کا تعاقب کرتاہے۔ اورپھرسورہ الملک میں یوں مندرج ہے وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ترجمہ: اورہم نے ستاروں کوشیاطین کیلئے ماربنایا" آنحضرت نے شہابِ ثاقب کا خوب بیان کیا اور کل بھید بتادیا آنحضرت نے یہ بھی خیال کیاکہ شیاطین آسمان پرجاکر الہٰی دربار میں فرشتوں کی مشورت اوردیگر رازورموز کی باتیں سن آتے تھے۔ یہ آپ کی جدت پسند طبیعت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہودیوں کی ایک کتاب میں مرقوم ہے کہ شیاطین پردے کے پیچھے سے آئندہ کے متعلق باتیں سنتے ہیں۔ ان افسانوں پر کچھ اورکہنے کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ کوئی باہوش مسلمان ان کو کلام اللہ تسلیم نہیں کریگا۔ ان افسانوں کا قرآن میں پایا جانا ہی بڑا بھاری ثبوت ہے اوراس امر کی اعلیٰ دلیل ہے کہ قرآن اختراع انسانی ہے۔

اس مضمون پر اوربہت کچھ لکھا جاسکتاہے اوربخوبی تشریحاً ثابت ہوسکتاہے کہ آنحضرت کے خیالات کس قدر یہودیوں سے لئے ہوئے تھے جن کو بعد میں اپنے قرآن میں درج کرکے وحی آسمانی کے نام سے نامزد کیا لیکن اس کتابچہ میں ایسے طویل بیانات کی گنجائش نہیں لہذا ہم دوتین اورمثالیں پیش کرکے اس بات کو ختم کرینگے۔

چونکہ یہوداورصائبین دونوں ہرسال ایک مہینہ روزہ رکھتے تھے لہذا یہ دریافت کرنا آسان نہیں کہ آنحضرت نے قرآنی روزے یہودیوں سے لئے یا صائبین سے لیکن روزوں کے بارے میں ایک قاعدہ ایسا موجود ہے جوبالکل یہودی اصل کا ہے۔ چنانچہ سورہ البقر ہ کی ۱۸۷ ویں آیت میں مندرج ہے وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ترجمہ: اورکھاؤ پیو جب تک تم فجر کی سفید دھاری سے سیاہ دھاری صاف جد نظر نہ آئے۔ پھرپورا کرو روزہ رات تک "۔ یہ قاعدہ آنحضرت کوالہام سے حاصل نہیں تھا بلکہ مدتوں پیشتر سے یہودیوں میں روزہ کے متعلق ایسے قواعد موجود تھے اورآپ نے یہ قاعدہ انہی سے سیکھا۔ چنانچہ یہودیوں کی ایک کتاب مسمی بہ مشنہ بیرا کھوتھہ (8)میں لکھا ہے کہ روزہ اُس وقت سے شروع ہوتا تھا جب نیلے اورسفید تار میں تمیز ہوسکتی تھی۔ ہرایک مسلمان کواس بات پر ایمان لانا فرض ہے کہ تصنیفِ قرآن میں آنحضرت کو متعلق دخل نہیں بلکہ تمام قرآن لفظ بلفظ ازل ہی سے لوح محفوظ پر مرقوم تھا اوروہاں سے وحی کی معرفت آپ پر نازل ہوا۔ لیکن بخلافِ اس کے اب ہم یہ ثابت کرینگے کہ لوحِ محفوظ کا خیال تک بھی آپ نے یہودیوں ہی سے اڑالیا تھا۔ سورہ البروج کی ۲۱ویں آیت میں مرقوم ہے بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌفِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ترجمہ: بلکہ یہ قرآن مجید لوح محفوظ پر مرقوم تھا" اس عجیب افسانے کا محمدی احادیث میں بہت طویل بیان پایا جاتاہے۔ نمونہ کے طورپر ہم احادیثی وہمی حکایات کی تشریح کی غرض سے قصص الانبیاء سے ایک حکایت ذیل میں درج کرتے ہیں ۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے کہ" ابتدا میں خدا نے اپنے تخت کے نیچے ایک موتی پیدا کیا اوراس موتی سے اُس نے لوح محفوظ پیدا کی۔ اس کی بلندی سات سوبرس کی راہ تھی اور اس کی چوڑائی تین سوسال کا سفر تھا"۔ پھرقلم کی پیدائش کا بیان کرکے مصنف لکھتاہے" چنانچہ قلم نے خدائے تعالیٰ کی تمام مخلوق کا علم لکھا " یعنی خدا کا علم اُس تمام مخلوق کے بارے میں جووہ پیدا کرنا چاہتا تھا" ہرایک چیز کا علم جوروزقیامت تک خدا کے ارادہ میں تھی۔ یہاں تک ک ہرایک درخت کے ہرایک پتے کاہلنا اورگرنا بھی خدائے تعالیٰ کی قدرت سے لکھا"۔

لوح پر کلامِ خدا کے لکھے جانے کا خیال توریت کے الہامی بیان سے لیا گیا ہے۔ جہاں خدا موسیٰ سے فرماتاہے" اپنے لئے پتھر کی دوتختیاں پہلیوں کی مانند تراش کے بنا اورپہاڑ پر مجھ پاس چڑھ آ اور چوبی صندوق بنا اورمیں اُن تختیوں پر وہی باتیں لکھونگا جوپہلی تختیوں پر جنہیں تونے توڑڈالا لکھی تھیں۔ بعد اس کے تمام ان کو صندوق میں رکھیو"(استشنا ۱۰: ۱سے ۲)۔ یہی بات ازحد قابل غور ہے کہ وہی عبرانی لفظ" لوخ" جوتوریت میں اُن تختیوں کے لئے استعمال ہواہے حضرت محمد نے اپنی خیالی" لوح محفوظ" کے لئے عربی صورت "لوح" میں استعمال کیا ہے۔ آنحضرت نے بسا اوقات یہودیوں سے ان تختیوں کا ذکر سنا تھا جو صندوق میں رکھی گئی تھیں۔ پھر اس خیال سے کہ قرآن کی اصلیت کچھ کم درجہ کی نہ سمجھی جائے آپ نے یہ قصہ گھڑلیا کہ قرآن لکھ کر آسمان پر رکھا گیا اور تاوقت نزول لوح محفوظ پر محفوظ رہا۔پھر آنحضرت نے کوتاہ اندیشی سے خدا کو یوں کہتے ہوئے پیش کیاکہ " اورہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصحیت کے بعد کہ آخر زمین کے وارث ہونگے میرے نیک بندے"۔


(8) Mishnah Berakhot

اس سے ہمیشہ اسلام کے پاؤں اکھڑتے چلے آئے ہیں۔ قرآن شریف کا دعویٰ تویہ ہے کہ اس کی تمام عبارت ازل ہی سے لوح محفوظ پر لکھی تھی اور پھرزبور سے اقتباس کرتاہے جس کا وجود ابھی دوہزار برس کا بھی نہ تھا ۔ بہت سے ذی ہوش اصحاب کے لئے یہی اس بات کا کافی ثبوت ہوگاکہ قرآن ضرور زبور کے بعد کی تصنیف ہے۔

اگراس امر کے مزید ثبوت کی ضرورت ہوکہ قرآ ن طالمودی یہودیت پر مبنی ہے توجوبہت سے عبرانی الاصل الفاظ قرآن میں موجود ہیں اُن میں ملیگا مثلاً ذیل کے الفاظ سب کے سب عبرانی اصل کے ہیں" تابوت ، توراہ ، عدن، جھنم ، احبار، سبت، سکینہ، طاغوت، فرقان، ماعون، مثانی، اورملکوت، اگرکسی کوایسی تحقیق کا اورشوق ہو تو ڈاکٹر عمادالدین کی کتاب ہدایت المسلمین میں ایک سو چودہ غیر عربی الفاظ کی فہرست دیکھ لے جوکہ قرآن میں پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عماد الدین نے ان الفاظ کے پہلے اصلی معانی بھی لکھے ہیں۔

بابِ سوُم

مسیحی عقائد ورسوم کا قرآن شریف میں اندراج

ہم بیان کرچکے ہیں کہ حضرت محمد کے خیالات کا ماخذ زیادہ تر یا تواسلام سے پیشتر کی عربی بُت پرستی تھی یا طالمودی یہودیت، مسیحیت کے آپ اس قدر قرضدار نہیں تھے لیکن پھربھی قرآن شریف سے ظاہر ہوتاہے کہ مسیحیت نے بھی آپ پربہت کچھ تاثیر کی تھی۔چنانچہ سیدنا عیسیٰ مسیح کا بار بار نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر ہواہے اور لکھاہے کہ وہ خدا کی طرف سے نبی ہوکر آئے اورخدا نے اُن کوانجیل دی۔ قرآن شریف میں مسیحیوں کی طرف اس قدر اشارات ہیں اوراُن کا ایسا بار بار بیان ہواہے جس سے بے شبہ یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ لوگ اُن ایام میں عرب میں بکثرت آباد تھے اورآنحضرت اُن سے بہت دوستی رکھتے تھے۔چنانچہ آپ نے جوہدایت اپنے پیرو ان کو دی اُس سے یہ حقیقت صاف کھل جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا" وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَى سورہ مائدہ آیت ۸۲ " اورتوپائے گا سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کی وہ لوگ جوکہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں)۔ حضرت محمد نے جناب مسیح کے ایمانداروں کی اس قدر تعظیم وتکریم اورشکرگزاری بے سبب نہیں کی ۔ جب اہل مکہ کی سختی مسلمانوں کی برداشت کے درجہ سے بہت بڑھ گئی تواے بی سینیا کی مسیحی سلطنت ہی تھی جہاں جاکر آنحضرت کے پیرو پناہ گزیں ہوئے۔

آنحضرت کوملکِ عرب میں بھی اورخصوصاً سیریا کے سفروں میں مسیحی دین کی تعلیم پانے کا بہت موقع ملا۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ورقہ بی بی خدیجہ کا عمزاد بھائی پہلے مسیحی تھا اورمسیحی دین کی تعلیمات کا عالم تھا۔ پھر بعد میں بہت سے مسیحی محمد ی ہوگئے اورآپ کی لوٹ میں آئی ہوئی بیوی مریم بھی آپ کے پاس تھی جس سے آپ بآسانی مسیحی نوشتوں کی بابت کچھ سیکھ سکتے تھے۔ خصوصاً غیر معتبر مروجہ حکائتیں توبسہولتِ تمام آپ کے گوش گذار ہوسکتی تھیں۔پس آنحضرت کے لئے ان مشرقی مسیحیوں کے مروجہ افسانوں کو لے کر اپنی فصیح عربی میں سنانا اور اُس پر وحی آسمانی کا نام چسپاں کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ آنحضرت کے ہمعصر خوب جانتے تھے کہ آپ نے ایسا کیا۔ چنانچہ اُنہوں نے بسا اوقات بعض مشہورومعروف لوگوں سے مدد لینے کا الزام بھی آپ پر لگایا۔ جیساکہ سورہ النحل کی ۱۰۳ اور ۱۰۵ آیت میں یوں مندرج ہے قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ترجمہ: وہ کہتے ہیں یقیناً اسکو کوئی سکھاتاہے۔ جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں اُس کی زبان عربی نہیں اور یہ (قرآن) صریح عربی زبان ہے)۔

اس مشہور آیت پر بیضاوی کی تفسیر قابل غور ہے۔ وہ لکھتاہے۔

کہتے ہیں کہ جس شخص کی طرف اشارہ کرتےتھے وہ جبرایونانی عامر ابن حضرمی کا غلام تھا۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جبراورالسارا دوشخص مکہ میں تلواریں بنایا کرتے تھے اورتوریت وانجیل پڑھا کرتے تھے اورآنحضرت کی یہ عادت ہوگئی تھی کہ اُن کے پاس جاکر اُن کا پڑھنا سنتے تھے)۔ پھرامام حسین یوں تفسیر کرتاہے" کہتے ہیں کہ عامر ابن الحضرمی کا ایک جبرانامی غلام تھا (بعض کے نزدیک دوسرے غلام کا نام یسارا تھا)جوتوریت وانجیل پڑھتا کرتا تھا اور حضرت محمد کا کبھی پاس سے گذرہوتاتوکھڑاہوکر سننے لگتا تھا"۔

اب یہ بات نہائت ہی قابل غور ہے کہ جب آنحضرت پر الزام لگایا گیا توآپ نے صاف انکار کرکے اپنی بریت کا اظہار نہیں کیا بلکہ آپ کا جواب یہ ہے کہ جن کی طرف اشارہ کیا جاتاہے کہ وہ میری مدد کرتے ہیں اُن کی توزبان ہی عجمی ہے اور قرآن ایسی فصیح عربی زبان میں ہے کہ وہ ایسی عربی ہرگز نہیں لکھ سکتے ۔ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ وہ قرآن کی عربی سے عربی لکھ سکتے تھے بلکہ ہمارا کہنایہ ہے کہ آنحضرت نے اُن یہودیوں اورمسیحیوں سے جن سے آپ کومیل ملاقات کا اتفاق ہوتا تھا بائبل کے قصو ں اور مروجہ غیر معتبر افسانوں کوسیکھا اوراپنی شاعرانہ طبع سے قریش کی فصیح عربی میں اُن کو بیان کیا جیسے کہ وہ اب قرآن میں موجود ہیں۔ ہم یہ توصاف ثابت کرچکے ہیں کہ آنحضرت کوایسا کرنے کا کافی موقع تھا۔

اس کتابچہ کے آخری باب میں ہم یہ دکھائینگے کہ آنحضرت کے زمانہ میں جو یہودی عرب میں آباد تھے اُن میں بجائے کلام اللہ کے تواریخی اورسچے بیانات کے زیادہ ترطالمودی غیر معتبر قصے وافسانے مشہور ومروج تھے۔ جومسیحیت عرب میں پائی جاتی تھی جب تک کہ اس کی حقیقت کونہ سمجھ لیا جائے تب تک یہ سمجھنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ اس کی آنحضرت پرکیا تاثیر ہوئی۔ زمینِ عرب "کفر والحاد کی ماں" کہلاتی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ رومی سلطنت نے بہت سے مسیحی فرقوں کو اُن کے کفروالحاد کے سبب سے ملک سے خارج کردیا اوروہ آکر عرب میں آباد ہوگئے چنانچہ عرب میں آنحضرت کے زمانہ کے مسیحی توہمات اورقابل شرم خراہوں میں گرفتار تھے۔ سچے دین کے عوض میں پیرپرستی اورمریم پرستی کا زور تھا اورکلامِ خدا یعنی بائبل کے عوض میں وہمی حکایات وروایات کی کتابیں بکثرت رائج تھیں کسی نے صحیح کہا کہ اگرحضرت محمد کوسچی مسیحیت سے سابقہ پڑتا توغالباً دنیا میں ایک جھوٹا مذہب کم ہوتا اورایک مسیحی مصلح زیادہ حقیقت یہ ہے کہ مسیحیوں کے بدعتی اورملحدفرقوں نے آنحضرت کوبرآشفیتہ کردیا اورآپ نے مسیحیت کوکفروشرک تصورکرکے ردکردیا۔ حضرت محمد کی بدقسمتی اس میں تھی کہ آپ نے اُن وہمی اوربدعتی فرقوں سے سچی مسیحیت کا اندازہ لگایا اورایک ایسے دین کی بنیادرکھی جوپُرانی یہودیت طرف واپس کھینچتاہے۔ بائبل کی سچی تعلیم کی جگہ ان برگشتہ مسیحیوں میں جوحکایات وروایات مروج تھیں اگراُن کا قرآنی افسانوں سے مقابلہ جائے توبخوبی سمجھ میں آجائیگا کہ حضرت محمد نے اُن میں اکثر کوسچ جانا اورکلام خدا یا انجیل کا جزتصور کرکے قرآن میں درج کرلیا۔ چنانچہ ذیل میں ہم اس امر پر نظائر ودلائل پیش کرینگے۔

سورہ الکہف میں ایک نہایت ہی عجیب اوربعید الفہم حکایات مندرج ہے۔ لکھاہے کہ سات جوان ایک غار میں جاکرسوگئے اورتین سونوسال کے بعد بیدار ہوئے چنانچہ آٹھویں سے بارھویں آیت اورپھر پچسیوں آیت میں یوں مرقوم ہے" کیا توخیال کرتاہے کہ غاراور کھوہ والےہماری قدرتوں میں سے اچنبھا تھے جب ہم جابیٹھے۔ وہ جو ان اُس کھوہ میں ۔ پھربولے اے رب دے ہم کو اپنے پاس سے مہر اورہمارے کام کا بناؤ۔ پھرتھپک دئے ہم نے اُن کے کان اُس کھوہ میں کئی برس گنتی کے پھرہم نے اُن کو اٹھایا کہ معلوم کریں کہ دوفرقوں میں سے کس نے یادرکھی ہے جتنی مدت وہ رہے۔۔۔۔۔۔ اوروہ رہے اپنی کھوہ میں تین سونوسال"۔

افسانہ جوبالکل بے بنیاد اورمحض لغوہے آنحضرت کے زمانہ سے مدتوں پیشتر ہی سے عرب میں مشہور تھا اورسیریا کے ایک باشندے یعقوب السروجی (9)نامی کی تصانیف میں پایا جاتا تھا۔ یہ یعقوب ساروج کا رہنے والا تھا اور ۵۲۱ء میں انتقال کرگیا تھا۔اس نے افسس کے سات نوجوانوں کا حال یوں لکھا ہے کہ وہ ڈیسیس رومی بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کرایک غار میں جاچھپے۔ ان پر نیند غالب آئی ۔ چنانچہ وہ سوگئے اورایک سوچھیانوے سال کے بعد بیدار ہوئے تومسیحی دین کوہرجگہ غالب ومسلط پایا۔ آنحضرت نے عرب اورسیریا کے مسیحیوں سے اکثر یہ افسانہ سنا ہوگا۔ آپ نے اُس کو سچ خیال کرکے جبرائیل کے سرپر تھوپ دیا اورلوحِ محفوظ کی تحریر وکلام اللہ کے نام سے نامزد کردیا۔


(9) https://en.wikipedia.org/wiki/Jacob_of_Serugh

حضرت مریم کے بچپن کی قرآنی حکایت بھی مسیحی اصل کی ہے۔ اناجیل میں توسیدنا مسیح کی والدہ کا بچپن مذکور نہیں لیکن جن بدعتی اورملحد نام کے مسیحیوں میں انجیل شریف کی صحیح تعلیمات کے عوض میں توہمات اورمصنوعی افسانوں کا زور تھا اورخدا کی عبادت کے عوض میں مریم پرستی رائج تھی اُن میں مریم طاہرہ کی بابت بہت سی طول طویل حکایات وروایات مشہور تھیں۔ یہ غیر معتبر حکایات عرب کے مسیحیوں میں عام تھیں اورآنحضرت ان سے یقیناً بخوبی واقف تھے۔ رسول عربی انجیل کی صحیح تعلیم سے بے خبر تھے اوراُن میں یہ لیاقت وقابلیت نہ تھی کہ اُن بدعتی مسیحیوں کی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔ لہذا کچھ تعجب کی بات نہیں کہ آپ نے اُن شنیدہ افسانوں کوقرآن میں درج کیا اوروحی آسمانی کے نام کی مہر اُن پربھی لگادی اورکہاکہ یہ الہام پہلی کتابوں کی تائید وتصدیق کرتاہے۔

سورہ آل عمران سے معلوم ہوتا ہے کہ مریم ظاہرہ اپنے بچپن ہی میں بیت المقدس میں لائی گئی اورمسیح کی پیدائش کے وقت تک وہیں رہی۔ قرآن بتاتاہے کہ اُس کی وہاں کی رہائش کے ایام کے لئے قرعہ ڈال کر اُس کا مربی منتخب کیا گیا چنانچہ لکھاہے " وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ " اور تواُن کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم ڈال کردریافت کرتے تھے کہ مریم کا متکفل کون ہو) جنہوں نے انجیل شریف کوپڑھا ہے وہ سب خوب جانتےہیں کہ یہ حکایت الہامی کلام میں نہیں پائی جاتی ۔ لیکن آنحضرت کے زمانہ کے بدعتی عربی مسیحیوں کی غیر معتبر کتابوں میں مفصل مندرج ہے۔ یہ کتابیں پروٹیواگلیوم یعقوب (10)(Protevangelium of James the Less)ورقپتی تواریخ (Coptic "History of the Virgin") سکھلاتی ہیں۔ پس صاف معلوم ہوگیا کہ اس افسانہ کا ماخذ کیا اور کہاں ہے۔ ان بدعیتوں کی روایات کی کتابوں میں مریم کے مربی یاشوہر بننے کے لئے قرعہ ڈالنے کا بیان طوالت وتفصیل کے ساتھ پایا جاتا ہے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جب مریم بارہ برس کی ہوئی تواُس کی آئندہ زندگی کی بابت فیصلہ کرنے کے لئے کاہنوں نے ایک جلسہ کیا۔ اس وقت خدا کاایک فرشتہ زکریا کے پاس آکھڑا ہوا اورکہنے لگا "اے زکریا جا اورقوم کے تمام بے زنوں کوجمع کر۔ وہ سب ایک ایک عصا لائے اورجسکو خداوند خدا کوئی نشان دکھائے گا وہی مریم کا شوہر بنے گا"۔

مریم طاہرہ کے متعلق ایک اورحکایت جوآنحضرت نے غیر معتبر اناجیل یا اپنے جان پہچان مسیحیوں سے سیکھی وہ کھجور کے درخت کی حکایت ہے جوکہ سورہ مریم کی ۲۲ویں آیت سے ۲۵ویں آیت یوں مرقوم ہے۔ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ترجمہ: پھر پیٹ میں لیا اُسکو اورکنارے ہوئے اُسکو لیکر ایک دور کے مکان میں۔ پس لے آیا اُس کو دردزہ کھجور کے درخت کے نیچے۔ بولی کاشکہ میں اس سے پیشتر مرجاتی اورفراموش ہوگئی ہوتی۔ آواز دی اُسکو نیچے سے کہ غم نہ کھا۔ تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ بنادیاہے۔ اورہلالے اپنی طرف کھجور کی جڑ ۔ اُس سے تجھ پر پکی کھجوریں گرینگی۔ اب کھا اور پی اورآنکھ ٹھندی رکھ"۔

لیکن اناجیل سےصاف معلوم ہوتاہے کہ مسیح کی ولادت بیت الحم کی ایک سرائے کے اندریا قریب ہوئی تھی۔حضرت محمد کی اس حکایت مندرجہ قرآن کا ماخذ بھی دریافت ہوسکتاہے کیونکہ بعض بدعتی مسیحیوں کی کتب کی اور روایات میں مسیح کی پیدائش کے باب میں بہت سی غیر معتبر حکایات مرقوم ومشہور ہیں۔ یہ حکایات عرب کے مسیحیوں میں بہت رائج تھیں اور آنحضرت کےکانوں تک ضرور پہنچی ہونگی۔ آپ نے اُن کوبے گمان صحیح انجیلی تحریر تصور کیا۔ ایک غیر معتبر کتاب مسمٰی بہ "تواریخ بودوباش مریم وطفولیتِ مسیحHistory of the Nativity of Mary and the Infancy of the Savior میں کھجور کے درخت کی حکایت مفصل ملتی ہے۔ اس غیر معتبر حکایت اورقرآنی بیان میں بعض خفیف اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن بخوبی مقابلہ کرنے اورسوچنے سے یہ راز منکشف ہوجاتاہے کہ قرآنی بیان اُسی مصنوعی حکایت کی نقل ہے جوآنحضرت نے وحی آسمانی کے نام سے پیش کیا۔ اس مصنوعی حکایت اورقرآنی قصہ کی مشابہت کی تشریح کی غرض سے ہم مصنوعی حکایت سے کچھ ذیل میں نقل کرتے ہیں۔ یسوع طفیل شیر خوار کے ساتھ مریم اوریوسف کے بھاگ جانے کے بیان کے بعد یوں لکھاہے" اوریوسف جلدی کرکے مریم کوکھجور کے درخت پاس لایا اورسواری کے جانور سے نیچے اُتارا ۔ جب مریم نے زمین پر بیٹھ کر درخت کی طرف اوپرنظر کی تواُسے پھل سے لدا ہوا پایا اوریوسف سے کہا میں چاہتی ہوں کہ اگرکسی طرح سے ممکن ہو تو اس کھجور کا پھل توڑیں۔۔۔۔۔ اس پر شیرخوار یسوع نے جونہایت خوش وخرم اپنی ماں مریم کی گود میں تھا کھجور کے درخت سے کہا اے درخت اپنی شاخوں کوجھکادے اوراپنے پھل سے میری ماں کوآسودہ کر فی الفور درخت کی چوٹی جھک کر مریم کے پاؤں سے آلگی اوراُنہوں نے اُس کا پھل توڑا اورآسودہ ہوئے۔ ۔۔۔۔ اوروہ کھجور کا درخت پھرسیدھا کھڑا ہوگیا اوراس کی جڑوں سے نہاتی ٹھنڈے اور ازحد شیریں پانی کا چشمہ جاری ہوگیا"۔


(10) https://en.wikipedia.org/wiki/Gospel_of_James

قرآن کوپڑھنے والے سب جانتے ہیں کہ اُس میں سیدنا مسیح کا بار بار ذکر آتاہے اوراس کی ولادت کی نسبت بہت سی حکایات مندرج ہیں جن میں سے بعض کا وجود انجیل شریف میں بالکل نہیں ملتا۔ یہ حکایات بھی کھجور کے درخت کی حکایت کی طرح غیر معتبر روایات وغیرہ کی کتابوں میں ملتی ہیں اوران سے نہایت صفائی وصراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد نے یہ افسانے کہاں سے لئے جن کو حسب خواہش نئی صورت میں داخل قرآن کرلیا۔ ان افسانوں میں سے ایک میں مسیح کے بچپن کے معجزات کا ذکر ہے۔چنانچہ سورہ المائدہ کی ایک سونویں اوردسویں آیات میں یوں مندرج ہیں إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ترجمہ: جب کہیگا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے یادکر میرا احسان اپنے اوپر اوراپنی ماں پر۔ جب مدد دی میں نے تجھ کو روح پاک سے توکلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اوربڑی عمر میں اورجب سکھائی میں نے تجھ کو کتاب اور پکی باتیں اورتوریت اورانجیل اورجب توبناتا تھا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے پھر دم پھونکتا تھا اس میں توہوجاتا تھا جانور میرے حکم سے"۔

اس افسانے کا اناجیل میں مطلق ذکر نہیں بلکہ بخلاف اس کے صاف یوں لکھا ہے کہ سیدنا عیسیٰ کا پہلا معجزہ عام خدمت کے شروع کے بعد تیس برس کی عمر میں ہوا۔ چنانچہ یوحنا کی انجیل کے دوسرے باب کی گیارھویں آیت میں مرقوم ہے" یہ پہلا معجزہ یسوع نے قانائے گلیل میں دکھاکر اپنا جلال ظاہر کیا" ۔ تامس اسرائیلی (The Gospel of Thomas the Israelite)نے جومسیح کے بچپن کی انجیل لکھی اوردیگر ایسی ہی چند غیر معتبر جھوٹی تصانیف سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ افسانہ آنحضرت کے زمانہ کے بدعتی مسیحیوں میں مشہور تھا اور آپ نے بسا اوقات ان سے سنا اورسچی انجیل کا جزوخیال کرکے قرآن میں درج کرلیاکیونکہ ان افسانوں کا قرآنی قصوں سے مشابہت رکھنا اسی نتیجہ پر پہنچاتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی افسانے کویادرکھئے اورپھرتامس اسرائیلی کی جھوٹی انجیل کوجسے کسی مسیحی فرقہ نے کبھی الہامی نہیں مانا پڑھئے۔ اُس میں لکھاہے" یسوع جب پانچ سال کا ہوا توایک مرتبہ ایک سڑک پرپانی کے ایک گندے نالے کے کنارے کھیل رہا تھا۔ اس نالہ کے تمام پانی کوجمع کرکے صرف ایک لفظ کے فرمان سے پاک ومصفا کردیا۔ پھر کچھ مٹی گوندھ کر اس سے بارہ چڑیاں بنائیں اورتالی بجاکر بلند آواز سے کہا اڑجاؤ۔ اورچڑیاں چہچاتی ہوئی پرواز کرگئیں"۔

اسی جھوٹی انجیل میں یہ بھی لکھاہے کہ سیدنا مسیح نے گہوارے ہی سے اپنی ماں سے کلام کیا اوراسے اپنی نبوت ورسالت کی خبردی ۔

حضرت محمد نے اپنے وقت کے بدعتی اورملحد مسیحیوں سے بہت سے افسانے سیکھے اوراُن کے عقائد سے آگاہی حاصل کی اوروہی عقائد وحکایات آپ نے قرآن میں درج کرکے اُن پر وحی آسمانی کا نام چسپاں کردیا۔ اس کے ثبوت میں اوربہت کچھ لکھا جاسکتاہے لیکن چونکہ اس کتابچہ میں طوالت کی گنجائش نہیں اس لئے ہم صرف ایک ہی اورمثال پیش کرینگے۔ جومزید تحقیقات کا مشتاق ہو اُسے چاہیے کہ ٹسڈل ، سیل اورگائیگر صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کرے۔

قرآن میں" میزان" کا بار بار ذکر آتاہے ۔ لکھاہے کہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال تلینگے۔ جن کے اعمال کا وزن میزان میں زیادہ ثابت ہوگا وہ بہشت میں داخل ہونگے اورجن کے بداعمال زیادہ نکلیں گے وہ دوزخ میں جائینگے ۔ چنانچہ سورہ الاعراف کی ساتویں اورآٹھویں آیات میں مرقوم ہے وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ترجمہ: اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اس لیے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بےانصافی کرتے تھے۔

قرآن کا یہ عقیدہ " ابراہیم کی جعلی انجیل" (11)سے لیا گیا ہے جوکہ غالباً دوسری یا تیسری مسیحی صدی میں لکھی گئی تھی ۔ ابراہیم کے آسمان پر جانے کی وہمی حکایت مندرج ہے۔ لکھاہے کہ اُس نے وہاں اورعجائبات کے علاوہ تخت عدالت کوبھی دیکھا ۔ اُس پر ایک عجیب آدمی بیٹھا تھا۔ اُس کے آگے ایک میز تھی جوبالکل شفاف تھی اوراُس کی ساخت خالص سونے اورباریک کپڑے سے تھی۔ اُ س پر ایک کتاب رکھی تھی جس کی موٹائی چھ ہاتھ اورچوڑائی دس ہاتھ تھی۔ اُس کی دائیں بائیں جانب دوفرشتے کاغذ اورقلم دوات لئے کھڑے تھے۔ اور میز کے سامنے ایک نہایت نورانی فرشتہ ترازولئے بیٹھا تھا اوروہ عجیب آدمی جوتخت نشین تھا خود روحوں کا انصاف کررہا تھا لیکن دائیں بائیں کے دونو فرشتے لکھتے جاتے تھے۔ دائیں جانب کا فرشتہ نیک اعمال لکھتا تھا اوربائیں طرف کا فرشتہ گناہ درج کرتا تھا۔ اورجومیز کے سامنے ترازو لئے بیٹھا تھا روحوں کوتول رہا تھا"۔

قرآن کی اوربہت سی تعلیمات مثلاً مسیح کی موت کی نفی اورمسیحی تثلیث کوباپ بیٹا اورمریم تین جدا جدا خدا قرار دینا حضرت محمد نے اُن ناستک اور بدعتی مسیحیوں سے سیکھی تھیں جوآپ کے زمانہ میں ملک عرب میں بکثرت آباد تھے اب اس امر کے ثبوت میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے کہ قرآن کے بہت سے عقائد وقصص غیر معتبر اورجعلی مسیحی روایات کی کتابوں سے لئے گئے ہیں اورقرآن کا یہ دعویٰ کہ میں کتب پیشین یعنی تورات وزبور اورانجیل کا مصدق ہوں بالکل بے بنیاد باطل ہے۔


(11) https://en.wikipedia.org/wiki/Testament_of_Abraham

باب چہارم

قرآن کے وہ حصے جوبروقت حاجت وضع کئے گئے

ہمیں یقین کامل ہے کہ اگرنہایت غوروفکر اوربے تعصبی سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تواس امر میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ قرآن کے بہت سے حصے حضرت محمد نے حسبِ ضرورت اپنی مطلب براری کے لئے وضع کرلئے تھے۔ یہ بڑا بھاری الزام ہے لیکن ہم اس کی حقیقت کوابھی ثابت کرینگے ۔ اس مقام پر یہ خوب یادرکھنا چاہیے کہ آنحضرت کی عملی زندگی کی تفہیم تامہ کے لئے ازبس ضروری ہے کہ قرآن کے جن حصص سے آپ کے حالات زندگی تعلق رکھتے ہیں اُن کے ساتھ اُن کا خوب اچھی طرح سے مقابلہ کیا جائے ۔اس مقابلہ سے یہ امربھی بخوبی منکشف ہوجاتاہے کہ قرآن نے کس طرح بتدریج ترقی کی اوروحی آسمانی نے کس خوبی اورخوش اسلوبی کے ساتھ موجود ہ حالات زمانہ سے تطابق کھاکر آنحضرت کے اقوال وافعال متناقضہ کواذنِ الہٰی کی سندات ومواہیر کے ساتھ پیش کیا کیونکہ صرف یہ ایک وسیلہ تھا جس سے آنحضرت کی متبدل حکمت عملی پر حرف نہ آتا اورخود بدولت بھی قولی وفعلی تبائن ومغائرت کے الزام سے بری ٹھہرتے۔ صرف اسی قسم کے مطالعہ کے ذریعہ سے یہ مسائل اور تبدلات سمجھ میں آسکتے ہیں کہ یہ یروشلیم کی جگہ مکہ کیوں قبلہ مقرر کیا گیا اور لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (دین میں زبردستی نہیں ہے) کی جگہ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ اورقتل کرو اُن کوجہاں کہیں پاؤ) کیوں فرمادیا ؟ اورعلاوہ بریں آنحضرت کے خانگی امور کے بارے میں بہت سے متضاد ومتناقض احکام ہیں۔ بڑے بڑے مسلمان مفسرین مثلاً ابن ہشام ، طبری ، یحییٰ اورجلال الدین وغیرہ کی یہ شہادت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت پر یہ بُری خواہش غالب آئی کہ خود ہی ایک الہام یا وحی کا بیان گھڑ کر قریش کوسنادیں اورآپ نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے" ایک روز آنحضرت حرمِ کعبہ میں داخل ہوئے اورسورہ النجم پڑھ کر سنانے لگے۔ قریش کی دیرینہ متواتر مخالفت سے آپ پست ہمت ہوگئے اورآپ کے دل میں بڑی زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح سے ان لوگوں سے صلح ہوجائے ۔ یہ مخالفوں کودوست بنانے کی خواہش اتنی زبردست ہوئی کہ آپ مغلوب ہوگئے۔ چنانچہ جب اُس آیت پر پہنچے ۔ جس میں لات وغریٰ ومنات تین بتوں کا ذکر ہے توآپ نے قریش کوخوش کرنے کی غرض سے یہ جملہ زائد پڑھ دیا۔ یہ بزرگ دیویاں ہیں جن سے شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے" اس سے قریشی بہت خوش ہوگئے اوریہ کہتے ہوئے آپ کے ساتھ عبادت کرنے لگے کہ" اب ہم نے جانا کہ صرف خدا ہی ہے جومحی وممیت اورخالق ورازق ہے اوریہ ہماری دیویاں صرف اس کےحضور میں ہماری سفارش وشفاعت کرتی ہیں۔ اورجب تونے اُن کے لئے یہ رتبہ مقرر کردیا ہے توہم تیری پیروی کرنے پر راضی ہیں"۔ لیکن آنحضرت نے بہت جلداپنی اس کوتاہ اندیشی کی صلح سے پیشمان ہوکر اپنے وہ الفاظ جو اُن بُتوں کی تعریف میں استعمال کئے تھے۔ واپس لےلئے اور اُن کے عوض میں ذیل کی عبارت جیسی اب موجودہ قرآن میں پائی جاتی ہے پڑھ سنائی " أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلاَّ أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم" سورہ النجم ۲۱سے ۲۳ویں آیت تک " کیا تمہارے بیٹے اوراس کے لئے بیٹیاں؟ یہ توبہت بیڈھنگی تقسیم ہے۔ یہ سب نام ہیں جوتمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں)پھر اپنی اس غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے آپ نے ایک اورالہام گھڑا جس کی رو سے گویا مانند آپ سے کہتاہے کہ اے محمد خاطر جمع رکھ تیرا حال اچھاہے۔ تجھ سے پہلے نبی بھی اسی طرح آزمائے گئے۔شیطان نے اُن کو بھی ایسی ترغیبیں دیں۔ اس تمام غلطی کا بانی شیطان ہے۔ چنانچہ سورہ الحج میں یوں مرقوم ہے "وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ " (اور جورسول یا نبی ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا۔ جب خیال باندھنے لگا شیطان نے کچھ ملادیا اُس کے خیال میں۔ پس اللہ منسوخ کرتاہے جوکچھ شیطان نے ملادیا)۔

یہ مندرجہ بالا واقعہ ایسا ہے اور اس پر ایسے شواہد موجود ہیں کہ اس سے انکار ناممکن ہے۔ جب آنحضرت ابتدا ہی میں ایسی آرزو کے سامنے مغلوب ہوگئے اورحسب مرضی اور حسب موقعہ وحی آسمانی گھڑلیا توبعد میں جب دینوی شان وشوکت کا دریا موجزن تھا اورایسی آرزوؤں کے غلبہ کا زیادہ موقعہ تھا کیا تعجب کہ آپ نے اسی طرح افترا واختراع سے بار بار کام لیاہو۔ مذکورہ بالا واقعہ کا بیان ہم معالم سے نقل کرتے ہیں"

(ابن عباس اورمحمد ابن کعب القرظی وغیرہ مفسرین نے بیان کیاہے کہ جب رسول اللہ نے دیکھا کہ اُس کی قوم( قریش) اس سے برگشتہ ہوتی اورمخالفت کرتی ہے اورقرآن کوجوخدا کی طرف سے آیا ہے رد کرتی ہے تواس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ خدا کی طرف سے کوئی ایسے الفاظ نازل ہوں جن کے وسیلہ سے اس کی قوم کے لوگ اس سے صلح کرلیں اوراُس کی یہ خواہش بڑھتی گئی کہ وہ ایمان لائیں۔ اورایک دن ایسا ہوا کہ وہ قریش کی مجلس میں تھا اوراسی وقت خدا نے سورہ النجم نازل فرمائی ۔ اوررسول نے اس کو پڑھا اورجب ان الفاظ پر پہنچا" اور کیا تم دیکھتے ہولات وغریٰ اورمنات" توشیطان نے اُس کی دلی خواہش اُس کے لبوں پر رکھدی" یہ بزرگ دیویاں ہیں اور یقیناً اُن سے شفاعت کی اُمید کی جاسکتی ہے" اہل قریش یہ سن کر بہت خوش ہوگئے"۔

یہی حکایت مواہب اللدینہ میں یوں مندرج ہے"

رسول اللہ صلعم مکہ میں سورہ النجم پڑھ رہے تھے اور جب پہنچے" کیا دیکھتے ہوتم لات وغریٰ اورمنات تیسرے کو" توشیطان نے یہ الفاظ اُن کےلبوں پر رکھ دئیے کہ" یہ بزرگ دیویاں ہیں اوران سے شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے"۔ اوربُت پرستوں نے کہا" آج اس نے ہماری دیویوں کے حق میں خوب کہاہے"۔ پس اس نے سجدہ کیا اوراُنہوں نے بھی سجدہ کیا۔پھریہ آیت نازل ہوئی "ہم نے کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں بھیجا جس کے پڑھنے میں شیطان نے کوئی غلطی نہ ملادی ہو")۔

مندرجہ بالا غلطی کا اسقدر جلدی اعتراف کرکے اس سے توبہ کرنا آ نحضرت کے حق میں بہت اچھا ہے اوربعد میں آپ نے ہمیشہ ہرصورتیں بُت پرستی کی تردید کی لیکن اس سے آپ کو بہت ہی کم فائدہ پہنچا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پھربھی آپ اپنی مطلب براری کیلئے بے تامل اپنے اقوال کوبدلتے رہے۔ چنانچہ جب آنحضرت مدینہ میں ہجرت فرماہوئے توبالکل بے یار وغمخوار اور بیکسی کی حالت میں تھے۔ اُن ایام میں مدینہ میں بہت سے باقدرت یہود ی آباد تھے۔ آپ نے اُن سے دوستی ورسوخ کی ضرورت کوفوراً محسوس کیا اوراس سے غرض سے یروشلیم کواپنا قبلہ مقرر کیا اورمدت مدید تک اس شہر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آخرکار جب یہودیوں کواپنا طرفدار بنانے میں کسی طرح سے کامیابی نصیب نہ ہوئی اورآپ کی جمعیت بڑھ گئی توآپ نے قوم قریش کوحاصل کرنے کی ایک مرتبہ پھرکوشش کی اوراس مقصد کے لئے وحی آسمانی کا ایک اورپیغام پیش کیا جس کے رو سے پھر کعبہ ہی قبلہ مقرر کیا گیا ۔ چنانچہ سورہ البقر میں یوں مندرج ہے" وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ

(ترجمہ) (اور وہ قبلہ جس پر توتھا ہم نے اس لئے ٹھہرایا تھاکہ معلوم کریں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے اوریہ بات مشکل تھی سب پر سوائے ان کے جن کو اللہ نے ہدایت دی اوراللہ ایسا نہیں کہ تمہارا یقین لاناضائع کردے۔ البتہ اللہ لوگوں پر شفیق ومہربان ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تیرے منہ کا پھرنا آسمان کی طرف سوالبتہ ہم پھیرینگے تجھ کو جس قبلہ کی طرف توراضی ہے۔ اب پھیر لے اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف اورجس جگہ تم ہواُسی کی طرف اپنا منہ پھیرا کرو)۔

عبدالقادر کابیان ہے کہ آنحضرت پھرمکہ کوقبلہ بنانا چا ہتے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے " چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف نمازپڑھو" ۔ ایسی حالت میں کچھ تعجب نہیں کہ آنحضرت نے اپنی خواہش کے مطابق تبدیلی کرلی اورپھر اس تبدیلی کی تائید وتصدیق میں وحی آسمانی پیش کردیا ۔

آنحضرت نے اپنی مدنی رہائش کے ایام میں ایک جابرانہ حکم یہودی روزوں کے بارہ میں دیا تھا لیکن بعد میں قبلہ کی مانند یہ بھی تبدیل ہوگیا۔ موجودہ حال کی حاجات کودیکھ کر آپ حسب خواہش اپنی مطلب براری کے لئے قوانین وضع کرلیتے تھے اورپھر آپ ہی اُن کو منسوخ بھی کردیا کرتے تھے ۔ لیکن طرفہ یہ ہے کہ اس قسم کی تمام کارروائیوں پر وحی آسمانی کی مہر ہوتی تھی۔ کاظم لکھتاہے"

(روائت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت مدینہ پہنچے اوردیکھا کہ یہودی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں تواُن سے اس کاسبب دریافت کیا۔اُنہوں نے جواب دیا کہ اس دن پر فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا تھا اورموسیٰ کواُس کے ہمراہیوں سمیت نجات ملی تھی۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ میرا موسیٰ کے ساتھ اُن سے زیادہ قریبی رشتہ ہے اورعاشورا کے روزے کا حکم صادر فرمایا ) یہ روزہ جواُب بھی دسویں محرم الحرام کواعلیٰ درجہ کا نیک کام خیال کرکے رکھا جاتاہے اس امر کا نہایت صاف اورصریح ثبو ت ہے کہ آنحضرت دیگر مذاہب کی رسوم کواختیار کرلیتے تھے اوراسی حقیقت سے آپ کا یہ دعویٰ بھی بالکل باطل ٹھہرتا ہے کہ یہ سب کچھ براہ راست وحی آسمانی کی معرفت آپ کو پہنچتا تھا۔

ایک اور بڑی مشہور حکایت ہے جوقرآن کوانسانی تصنیف ثابت کرتی ہے اور یہ حکایت بہت سے بڑے بڑے مشہور مسلمان مفسرین کے بیان کے مطابق آنحضرت کے اپنے متبنےٰ بیٹے زید کی مطلوقہ بیوی زینب سے شادی رچانے کا قصہ ہے۔ زید آنحضرت کا بیٹا مشہور تھا اوراس نے ایک نہایت حسین عورت زینب نامی سے نکاح کیا تھا۔ ایک روز آنحضرت زید کے گھر تشریف فرما ہوئے اور زینب کوایسے لباس میں پایا جس سے اُس کا حسن وجمال مہرنیم روز کی طرح بے حجاب چمک رہا تھا۔ آنحضرت دیکھتے ہی گھائل ہوگئے اورفرمایا" سبحان اللہ مقلب القلوب" (خدائے پاک دلوں کا پھیرنے والا ہے) زینب نے یہ الفاظ سن لئے اور فوراً اپنے شوہر کواس ماجرے سے آگاہ کیا۔ زید نے زینب کوطلاق دیدی اورآنحضرت سے کہا کہ آپ اس سے نکاح کرلیں لیکن آپ نے اپنے متبنیٰ بیٹے کی مطلوقہ بیوی سے نکاح کرنے میں کچھ پس وپیش کیا اورپھر لوگوں کی لعن طعن سے بچنے کے لئے آپ نے وحی آسمانی کا فتویٰ سنادیا اور فوراً زینب سے نکاح کرلیا ۔اس عاشق خانہ خراب نے تیری کیسی مٹی خراب کی۔ چنانچہ وحی آسمانی کا یہ عجیب وغریب فتویٰ سورہ الاحزاب کی ۳۷ویں اور ۳۸ویں آیات میں یوں مندرج ہے<" فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ (پھر جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے وہ تیرے نکاح میں دی تا نہ رہے مسلمانوں کو گناہ نکاح کرلینا اپنے لے پالکوں کی جورؤں سے )کیا کوئی ذی ہوش اور صاحب فہم مسلمان یہ ایمان رکھ سکتا ہے کہ مندرجہ بالا دوآیتیں جوہم نے زینب کے قصے کے بارے میں قرآن سے نکل کی ہیں کلام خدا ہیں؟ کیا یہ خود ہی عیاں نہیں کہ یہ دونوں آیتیں بجائے وحی آسمانی ہونے کے خود حضرت محمد کی گھڑنت ہیں جس کے آنحضرت اپنے عاشقانہ جرم کو چھپانے کی غرض سے مرتکب ہوئے ۔

وحی آسمانی کا ایک اور فتویٰ جوحضرت محمد نے اپنے خانگی معاملات کے تبدلات کی تائید وتصدیق کے باب میں پیش کیا سورہ التحریم کی پہلی دوآیتوں میں پایا جاتا ہے۔ اس فتویٰ کی رو سے آپ کواپنی قسمیں توڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مفسرین اس قصہ کویوں بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت اپنی ایک لونڈی مریم نامی کی بہت قدر کرتے تھے اورآپ اُس پر ایسے فریفتہ ولدادہ ہوئے کہ آپ کی دیگر بہت سی زوجات حسد ورشک سے بھرگئیں اورنہایت سختی سے سرزنش کرنے لگیں اس پر آنحضرت نے قسمیہ وعدہ کیاکہ اب سے مریم سے کچھ سروکار نہیں رکھونگا لیکن کہنا آسان اور کرنا ہمیشہ مشکل ہے۔ آپ نے اپنے نفسانی غلبات کا مغلوب ہوکر پھر رجوع کرلیا اور سب قسمیں کافور ہوگئیں اورآپ کی اس کارروائی کے جواز پر آپ کا فرمانبردار وحی آسمانی فوراً یہ پیغام لایا "اے نبی توکیوں حرام کرتاہے جوحلال کیا اللہ نے تجھ پر ؟ تواپنی عورتوں کی رضامندی چاہتاہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ٹھہرادیا اللہ نے تم کو اُتار ڈالنا تمہاری قسموں کا) ان آیات کی مزید تفسیر وتحقیق کے باب میں ہم کچھ نہیں کہیں گے ۔ ذی ہوش مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ان آیتوں پر خوب سوچیں ۔ کیا قرآن کے یہ الفاظ ازل ہی سے عرش الہٰی کے پاس لوح محفوظ پر مرقوم تھے؟ اس قصہ کے متعلق مسلم کی ایک حدیث قابل غور ہے۔ اس سے آنحضرت کے خانگی معاملات وقوانین پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ مشکوات المصابیح

(12) " (عائشہ نے کہا میں اُن عورتوں کی بابت سوچ رہی تھی جنہوں نے اپنے تئیں رسول کودیدیا۔ پس بیٹے نے کہا یہ کیا بات ہے کہ عورت اپنے تئیں رسول کودیدے اورخدا یہ پیغام بھیجے کہ اپنی موجودہ بیویوں میں سے توجسے چاہے ترک کر اور ترک کردہ شدہ میں سے جسے چاہے پھر اپنی ہمخوابہ بنالے اس میں تیرے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں نے کہا میں توسوائے اسکے اورکچھ نہیں دیکھتی کہ تیرا خدا تیری خواہشیں پوری کرنے میں جلدی کرتاہے۔


(12) سورہ الاحزاب آیت ۵۱

جہاد کے باب میں بھی قرآن میں بہت سے متضاد ومتناقض احکام پائے جاتےہیں جن سے ثابت ہوتاہےکہ آنحضرت ہمیشہ حسب موقعہ وحسب ضرورت جیسا الہام چاہتے تھے گھڑلیتے تھے۔ اگرقرآن کی تواریخی حقیقتوں کومدنظر رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے تو خوب عیاں ہوجائے گا کہ ابتدائے اسلام میں جب آپ بیکس ولاچار اورمظلوم تھے توآپ کی تعلیم اپنے مومنین کویہ تھی کہ جومسلمان نہیں ہیں اُن سے نرمی اوربرُدباری کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ چنانچہ سورہ بقر ہ میں مرقوم ہےلَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے) لیکن جب آنحضرت کے دن پھرے اوربہت سے جنگجو اورلوٹ مار کے مشتاق عرب آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تو وحی آسمانی میں بھی عجیب تبدیلی واقع ہوئی اور جبرائیل نے بآواز بلند پکار کہہ دیا " (13) ترجمہ" کافروں کو قتل کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین خدا قائم ہوجائے) پھرجوسورہ سب سے پیچھے نازل ہوئی اُس کے الفاظ ازبس سختی اورتشدد سے پُر ہیں اورکسی طرح سے صلح ونیک سلوک کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے" (14) ترجمہ: اے نبی توکافروں اورمنافقوں کے ساتھ جہاد کراور اُن پر سختی کرکیونکہ اُن کا مسکن جہنم ہے) پھراس سورہ کی پانچویں آیت بھی قابلِ غور ہے" ترجمہ" مشرکوں کوقتل کرو جہاں کہیں اُنہیں پاؤ اوراُن کو پکڑو اورقید کرو اورتمام گھات کی جگہوں میں اُن کی گھات میں بیٹھو"۔

حضرت محمد نے بسا اوقات قرآن کے طرز بیان اور فصاحت وبلاغت کومنجانب اللہ ہونے کی دلیل اورثبوت کے طورپر پیش کیا لیکن جب کبھی کوئی برجستہ فقرہ آنحضرت کے کان تک پہنچتا تھا توفوراً اُسے داخل قرآن کرلیتے تھے تاکہ قرآنی فصاحت کی قدروقیمت بڑھ جائے۔ اس قسم کے اندراج اورسرقوں کی بہت سی مثالیں عربی علم ادب سے بہم پہنچتی ہیں۔چنانچہ بیضاوی کا بیان ہے کہ

ترجمہ" عبداللہ بن سعد بن ابی سرج آنحضرت کا کاتب تھا۔ جب یہ الفاظ نازل ہوئے کہ ہم نے انسان کوسلالہ خاک سے پیدا کیااورجب یہ الفاظ ختم ہوئے اوریہ الفاظ آئے کہ ہم نے پھر اس کوایک اورمخلوق بنایا۔ اس پر عبداللہ جوش میں آکر بول اٹھا کہ اللہ احسن الخالقین مبارک ہو۔اُس نے انسان کوعجیب طور سے پیدا کیا ہے۔ اسپر آنحضرت نے فرمایا کہ یہ بھی لکھ لو کیونکہ ایسا ہی نازل ہواہے لیکن عبداللہ نے شک کیا اورکہا کہ اگرمحمد سچ کہتاہے تومجھ پر بھی وجہ کا نزول ہوا ہے جیسا کہ اُس پر لیکن اگروہ جھوٹ بولتاہے تومیں نے وہی بات کہی ہے جواُس نے کہی"۔


(13) سورہ البقرہ آیت ۱۸۴ (14) سورہ التوبہ آیت ۴۷

بیضاوی کے اس بیان سے اظہر من الشمس ہے کہ حضرت محمد کو عبداللہ کا یہ فقرہ ایسا پسند آیا کہ فوراً قرآن میں درج کرنے کا حکم دیدیا اورفرمایا کہ ایسا ہی نازل ہوا ہے۔ عبداللہ اس سے بہت خوش ہوا اوراکثر فخر یہ کہا کرتا تھاکہ خدا میرے پاس بھی وحی بھیجتاہے لیکن آنحضرت اس سے بہت ناخوش ہوئے اوروحی آسمانی کی زبانی عبداللہ پراپنے غضب کا یوں اظہار کیا" وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ

ترجمہ: اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر افتری باندھا یاکہا کہ خدا نے میری طرف وحی کو بھیجا درحالیکہ اس کی طرف وحی کو نہیں بھیجا ۔سورہ انعام آیت ۹۳)۔ یہ حکایت امام حسین نے بھی بیان کیاہے اوراس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ قرآن کا طرز بیان یا اُس کی فصاحت وبلاغت کوئی معجزہ نہیں کیونکہ عبداللہ بن سعد کا کلام بھی قرآن کا ہمپایہ مان کر قرآن میں درج کیا گیا اورکسی طرح سے وہ فصاحت کے لحاظ سے کم درجہ کا نہیں سمجھا جاتا۔ علاوہ بریں جب آنحضرت نے اپنے ایک پیرو کے کلام کوسن کر پسند فرمایا اورقرآن میں درج کرانے کے لئے کہہ دیا کہ وحی آسمانی یونہی ہے توکچھ تعجب نہیں بلکہ قرین قیاس ہے جوکہ حکایت وافسانے آپ نے وقتاً فوقتاً یہودیوں اورعیسائيوں سے سنے اُن کو وحی آسمانی کے نام سے داخل قرآن کرلیا۔

مشہور مسلمان مفسر جلال الدین السیوطی لکھتاہے کہ آنحضرت اپنے پیروؤں کے وہ الفاظ وفقرات جوآپ کو پسند آتے قرآن میں درج کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ اتقان میں یوں مرقوم ہے" النوع العاشر فیما نزل من القرآن علیٰ لسان بعض الصحابتہ" (دسویں قسم وہ ہے جس میں قرآن کے وہ حصے مندرج ہیں جوآنحضرت ککے بعض اصحاب کی زبان پر نازل ہوئے)۔

ایک اورحدیث ترمذی نےابن عمر کی روایت سے لکھی ہے کہ رسول اللہ صلمہ قال ان اللہ جعل الحق علی لسان عمروقبلہ "(رسول صلعم نے فرمایا کہ اللہ نے یقیناً سچائی کوعمر کے دل وزبان پر رکھاہے۔ آنحضرت اس قدر عمر کے الفاظ کواستعمال کیا کرتے تھے کہ آپ کے اصحاب کہنے لگے" الانزل القرآن علے نحو ماقال عمر" کیا قرآن ایسا ہی نازل نہیں ہوا جیساکہ عمر بولتاہے)۔مجاہد لکھتاہے" کان عمر یری الریٰ نزل بہ القرآن " (قرآن عمر کی رائے کے مطابق نازل ہوتا تھا)ان احادیث سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ قرآ کے بعض حصوں کا حقیقی مصنف ہی عمر تھا۔ کتب اسلام میں اس قسم کے بیانات بکثرت ملتے ہیں چنانچہ قرآن میں لکھاہے" مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ (15) ترجمہ: جوکوئی جبرائیل یا میکائیل کا دشمن ہے۔ یقیناً خدا کافروں کا دشمن ہے" یہ الفاظ پہلے عمر نے کسی یہودی سے ہمکلام ہوتے وقت استعمال کئے تھے لیکن آنحضرت کوایسے پسند آئے کہ آپ نے فوراً انہیں قرآن کا ایک جزوبیان فرمایا۔ یہ تمام قصہ بیضاوی نے یوں لکھاہے


(15)

Text here

" (کہتے ہیں کہ ایک بارعمر یہودی مدرسہ میں گیا اوراُن سے جبریل کی بابت پوچھا۔ اُنہوں نے کہا وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمارے بھید محمد کو بتاتاہے۔ نیز وہ غضب اورعذاب کا قاصد ہے۔ بخلاف اس کے میکائیل آسودگی اورمرفہ حالی کا فرشتہ ہے۔ تب عمر نے پوچھاکہ خدا کے حضور میں ان کا کیا رتبہ ہے؟ یہودیوں نے جواب دیا کہ جبرائیل خدا کے دائیں طرف اورمیکائیل بائیں طرف رہتاہے اوراُن دونوں میں دشمنی ہے۔لیکن عمر نے کہا خدا نہ کرے کہ تمہارا کہنا سچ ہو۔ وہ دشمن نہیں ہیں لیکن تم نبی حمیر سے بھی بڑھ کرکافرہو۔ جوکوئی ان دونوں فرشتوں میں سے کسی کا دشمن ہے وہ خدا کا دشمن ہے۔ تب عمر وہاں سے لوٹا اوردیکھا کہ جبرئیل اس سے پہلے پیغام لاچکا ہے اورآنحضرت نے فرمایا اے عمر تیرے رب نے تجھ سے اتفاق کیاہے۔

ایک اور صحیح حدیث بخاری سے ملتی ہے جس سے قرآن کے اورتین مقامات کا پتہ ملتاہے اوراُنکی اصلیت معلوم ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بخوبی تما م پایہ ثبوت کوپہنچتی ہے کہ حضرت محمد نے زیادہ تر اپنے اصحاب کے اقوا کوقرآن میں درج کیاہے۔ اگران احادیث کا معقول طور سے ٹھیک مطلب نکالا جائے تووحی آسمانی کی معرفت قرآن کے نازل ہونے کا دعویٰ بالکل باطل ٹھہرتاہے اورجیسا کہ اس کتابچہ کے شروع میں کہا گیا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن آنحضرت کی اپنی طبعیت کے نتائج کا مجموعہ ہے۔ بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں یوں درج ہے:

(بخاری اوربعض اوروں نے لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا تین باتوں میں میں نے خدا سے (یعنی قرآن سے )اتفاق کیا۔ اول یہ کہ میں نے کہا اے رسول اللہ اگرہم مقام ابراہیم پر اپنی نمازیں ادا کیا کرتے توبہتر ہوتا۔ خدا نےنازل فرمایاکہ مقام ابراہیم پر نماز ادا کرو۔ دوم میں نے کہا یارسول اللہ اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ آپ کے گھر پرآتے ہیں اگرآپ اپنی زوجات کوپردہ میں رکھیں توبہتر ہوگا۔اس پرخدا نے آیتہ الحجاب نازل فرمادی۔ سوم جب آنحضرت کی زوجات جھگڑتی تھیں تومیں نے اُن سے کہا کہ ممکن ہے کہ خدا تم کوطلاق دلوادے اوررسول کوتمہارے عوض میں تم سے بہتر بیویاں دے اورتب بالکل جیسا میں نے کہا تھا ویسا ہی خدا کی طرف سے وحی پیغام لایا)۔چنانچہ یہ تینوں آیات جن کا عمر نے ذکر کیا سورہ البقرہ اورسورہ التحریم میں موجود ہیں۔

قرآن کے اوربہت سے مقامات پیش کئے جاسکتے ہیں۔ جوآنحضرت نے اپنے اصحاب سے سن کر داخل قرآن کر لئے لیکن اس کتابچہ میں زیادہ کی گنجائش نہیں۔اگرکوئی اس امر کی مزید تحقیقات کا مشتاق ہوتوڈاکٹر عماد الدین کی کتاب مسمی بہ ہدایت المسلمین کوپڑھ جس میں یہ امر نہایت شرح وبسط کے ساتھ مفصل مندرج ہے۔ تاہم ہم نے اس امر کوبخوبی ظاہر کردیا ہے کہ قرآن کو وحی آسمانی اور جبرائيلی پیغاموں کا مجموعہ ماننے کا عقیدہ بالکل باطل وبے بنیاد ہے۔ ممکن ہے کہ آنحضرت نے اپنے ابتدائے حال میں اور خصوصاً جب آپ نے توحید باری کی حقیقت کومحسوس کیاغلطی سے یہ خیال کرلیاہو کہ میرے خیالات الہٰی الہام پر مبنی ہیں لیکن اس میں بالکل کلام نہیں اور قرآن خود شاہد ہے کہ بعد میں آپ نے دیدہ ودانستہ اپنے ضمیر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بہت سے الہام خود گھڑلئے اوراپنی مطلب براری کی غرض سے اس اختراع وافترا کا نام وحی آسمانی رکھا۔

قرآن کی بہت سی عبارات کا وجود تواس وقت کے دیگر مذاہب کے اُن عقائد ورسوم سے ہے جن تک آپ کی رسائی ہوئی اورآپ کے آس پاس کے بُت پرستوں کی بہت سی باتیں بھی جن کوآپ حسب مقصد ردوبدل کرکے کلام میں لاسکے داخل قرآن کرلی گئیں لیکن آپ بڑے دعویٰ سے یہی کہے چلے جاتے ہیں کہ قران کا لفظ اورحرف حرف جبرائیل آسمان پر سے لایاہے اورقرآن پہلی کتابوں کا مصدق ہے۔ چنانچہ سورہ مائدہ کی ۵۲ ویں آیت میں مرقوم ہے" مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ ترجمہ: تصدیق کرتاہوں پہلی کتابوں کی)۔ یہودیوں اورعیسائیوں کی کتابوں کی بابت جیسا خود حضرت نے تسلیم کیا سورہ الانعام کی ایک ۱۵۵ آیت میں مندرج ہے" تَمَامًا عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً ترجمہ: تمام اچھی باتوں کے لحاظ سے کامل اور تفصیل ہربات کی اورہدایت ورحمت )۔ پس جب یہودیوں اورعیسائیوں کی کتابوں کوآنحضرت بھی ایسا تسلیم کرتے ہیں توہم پوچھتے ہیں کہ پھر قرآن کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگرکوئی بائبل شریف کو غور سے اورتعصب کی عینک اُتار کر پڑھے تومعلوم ہوجائے گا اورکسی طرح کا شک وشبہ باقی نہیں رہیگا۔کہ مسیحی دین کی تعلیمات اُس وقت کے لئے ہیں جب مسیح دوبارہ آکر جہان کا انصاف کریگا۔ انجیل کی منادی کا تمام اقوام تک پہنچنا ضرور ہے اورمسیح کی بادشاہت وہ بادشاہت ہے جس کا کبھی خاتمہ نہیں ہوگا۔ انجیل شریف میں کفارہ کا کام پورا ہوچکا اوراب صرف یہ مسیحیوں کا کام ہے کہ تمام جہان کواُس نجات کی خوشخبری سنادیں جومسیح کے خون کے وسیلہ سے حاصل ہوتی ہے۔ پس اب اور الہام یا قرآن کی نہ گنجائش ہے اورنہ ضرورت۔ مسیحی ہی" اول" اورآخر(16) " ہے اور"آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں "۔(17)

مسلمان محققین سے درخواست ہے کہ ان حقیقتوں پر غورکریں اوراگرایسا کریں تو ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوجائے گی کہ قرآن کا وحی آسمانی اورخدا کی طرف سے ہونا بالکل ناممکن ہے۔ اگرچہ قرآن میں لکھا ہے کہ انجیل پر ایمان لانا ضرور ی ہے یا یوں کہیں کہ قرآن ہرایک مسلمان کوانجیل پر ایمان لانے کا حکم دیتاہےتوبھی انجیل پر ایمان لانے کا نتیجہ قرآن کا ردکرنا ہوگا کیونکہ قرآن بہت سے انجیلی حقائق کا منکر ہے۔ حاصل کلام مسلمان عجیب مشکل میں مبتلا ہیں۔ ان کی دینی کتاب ان کو اس کتاب پر ایمان لانے کا حکم دیتی ہے جس سے اُن کے دین کا پول بخوبی کھل جاتاہے۔ اُن کو حکم ہے کہ دونقیضوں پر ایمان لائیں۔ اُن کوحکم ہے کہ عیسیٰ کونبی قبول کریں اور ساتھ ہی حضرت محمد پربھی ایمان لائیں۔اُن کو یہ بھی حکم ہے کہ پہلی کتابوں کوکلام اللہ مانیں اگرچہ اُن کتابوں میں صاف بیان ہے کہ یہودی تواریخ مسیحیت میں آکر کامل ہوتی ہے پھر اُن کوانجیل پرایمان لانے کاحکم ہے اگرچہ انجیل سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انجیل ہی آخری الہامی کلام ہے اورمحمد کے لئے یہ دعویٰ کرنے کا کوئی موقعہ باقی نہیں ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں ۔ اس کتابچہ کے پڑھنے والے سے التماس ہے کہ ان پہلی مقدس کتابوں کو غور سے پڑھیں جن کی حضرت محمد نے بہت تعریف توصیف کی ہے اوراُن میں حیات کی راہ ملیگی۔


(16) انجیل مکاشفات پہلا باب ۱۷ویں آیت ۔ (17) انجیل اعمال چوتھا باب ۱۲ویں آیت۔

تمت بالخیر