The historical study of the text of Quran
By
Dr Kundan Lal Nasir
قرآن کے متن کا تاریخی مطالعہ
مصنف
علامہ ڈاکٹر کے ایل ناصر
Dr Kundan Lal Nasir
1918-1996
انتساب
میں اِس مقالہ کو اپنے والِد ماجِد عالیجناب
پادری بُوٹا مل صاحب مرحُوم
کے نام نامی واسم گرامی سےمنسوُب کرتا ہوُں
جنہوں نے مُجھےقرُآنی علوم کی تعلیم دی اور
اسلامیات کے مطالعہ اور تحقیقات کی طرف راغب کیا۔
اظہارِ تشکر
وجرانوالہ تھیولاجیکل سیمنری شُکریہ کی مستحق ہَے کیونکہ اس مقالہ کے مرتب کرنے میں سیمنری لاُئبریری سے کُتِب احادیث وتفا سیروتواریخ مہیُا کی گی ہیں جناب انور ارنسٹ اکاوُنٹنٹ ویسٹ پاکستان کرسچن کونسل بھی شُکریہ کےمتحق ہَیں جنہوں نےتصنیف کے لکھنےمیں نہات محنت اور عرق ریزی کا اظہار فرمایاہَے
باب اول
قرآن شریف کے متن کے جمع وترتیب کا تاریخی بیان
قرآن شریف کے بعدسب صحیح کتاب صحیح بخاری میں قرآن شریف کےمتن کےجمع کرنے کی داستان قلمبندکی گی ہے ۔حضرت زیدبن ثابت نے روائت بیان کی۔
حدیث میں کچھ اس طرح بیان ہے۔
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن ۔ حدیث 2222
قرآن جمع کرنے کا بیان۔
راوی: موسیٰ بن اسماعیل , ابراہیم بن سعد , ابن شہاب , عبید بن سباق , زید بن ثابت
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَکْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّائِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ کَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ کَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِکَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِکَ الَّذِي رَأَی عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُکَ وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ کَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا کَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ کَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَکْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّی وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَتَّی خَاتِمَةِ بَرَائَةَ فَکَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَکْرٍ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
’’موسی بن اسماعیل، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید بن سباق، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ یمامہ کی خونریزی کے زمانہ میں مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قرآن پڑھنے والے شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سے مقامات میں قاریوں کا قتل ہوگا تو بہت سا قرآن جاتا رہے گا اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم کیونکر وہ کام کرو گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا حضرت عمر نے کہا اللہ کی قسم! یہ بہتر ہے اور عمر مجھ سے بار بار اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے بھی اس میں وہی مناسب خیال کیا جو عمر نے خیال کیا زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک جوان آدمی ہو ہم تم پر بھول یا جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے اور تم رسول اللہ ﷺکے لئے وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو اللہ کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھانے کی تکلیف دیتے تو قرآن کے جمع کرنے سے جس کا انہوں نے مجھے حکم دیا تھا زیادہ وزنی نہ ہوتا میں نے کہا کہ آپ لوگ کس طرح وہ کام کریں گے جس کو رسول اللہﷺنے نہیں کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ کارِخیر ہے اور بار بار اصرار کرکے مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا جس کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے کھولے تھے چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کے پتوں اور پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں (حافظہ) سے تلاش کرکے جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سورت توبہ کی آخری آیت میں نے ابوحزیمہ انصاری کے پاس پائی جو مجھے کسی کے پاس نہیں ملی اور وہ آیت یہ تھی
(لَقَدْ جَا ءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ)
( 9۔ التوبہ : 128) سورت براۃ (توبہ) کے آخر تک۔ چنانچہ یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھالیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زندگی میں پھر حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور زوجہ مطہرہ نبی ﷺ کے پاس رہے‘‘۔(منقُول ازصحیح بخاری جلِددوم مطبوعُہ نوُر محمد کارخانہ تجارتِ کتُب آرام باغ کراچی۔صفحہ ۶۶۶،۶۶۷۔)
امام بخاری کے مندرجہ بالابیان سے مندرجہ ذیل امور اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
۱۔قرآن شریف حفرت محمد صاحب کی حین ِ حیات میں مجموعی صورت میں موجود نہیں تھا۔
۲۔حضرت محمد صاحب نے اپنےصحابہ اور تابعین میں سے کسِی کو بھی قرآن شِریف کو کتابی صُورت میں جمع کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
۳۔قرآن شریف قاریوں کو زبانی یاد (حفظ) کرایا گیا تھا۔ بہت سے قاری قتل یمامہ میں شہید ہوُگئےتھے۔نامعلوم قرآن شرِیف کا کتناِ حصہ کِس کِس قاری کے ساتھ ہمیشہ کے لئے تلف ہوگیا۔
۴۔قرآن شرِیف کو یکجا کرنا آ سان کام نہیں تھا۔
۵۔قرآن شِریف کے متن کو کھجوُرکے پتوں پر سے اور سفید پتھروں پر سے جمع کیاگیا۔
۶۔بعض آیات لوگوں سے پوچُھ کر درج کیں۔
۷۔زید بن ثابت نے قرآن شِریف کے متن کا مجموعہ بمشکل تمام جمع کیا۔
۸۔وہ مجموعہ متن قرآن شِریف حضرت ابوُبکر کے پاس رہا۔
۹۔حضرت ابوُبکر کےبعد وہ مجموعہ حضرت عُمر کے پاس رہا۔
۱۰ْ۔حضرت عُمر کے بعد وہ مجموعہ متن حضرت حفصِہ زوجہ مطہرہ آنحضرت ﷺکے پاس رہا۔
صحیح بخاری کے اِس بیان کو مشکواۃ المصابیح میں بھی درج کیا گیا ہَے۔
دیکھے (مشکواۃ شِریف حدیث ۲۰۱ جلد اوّل ۳۷۲ تابع وناشر نوُر محمد۔اصّح المطابع و کارخانہ تجارت کتُب۔آرام باغ فرئیر روڑ کراچی)۔ پھراسی بیان کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے (ازالتہ التحقاعن خلافہ اٰلخُلفاٰء میں درج کیا ہَے۔دیکھے ۴۲۰ ازالتہ الخفا جلددوم۔محمد سعید اینڈ سنز۔ناشران و تاجران کتُب قرآن محل۔مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی )۔نیز دیکھئے (تاریخ الخلفا،مصنف، جلال الدین سیوطی ذکرجمع القران عربی عبادت ۵۷)۔
فصل اوّل
آنحضرت ﷺکی وفات کے وقت قرآن شریف مصحف میں یکجانہ تھا۔
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔
’’میراث اعظم جو آنحضرت ﷺ سے اُس امت مرحومہ کو ملی وہ قرآن مجید ہَے۔ آنحضرت ﷺکے آخیر زمانہ سعادت تک قرآن مجید مصاحف(مصحف کی جمع ،وہ کتا ب جس میں رسالے اور صحیفے جمع ہوں ) میں جمع نہ تھے ۔جیساکہ کوئی شاعراپنی نظم و نثر اور اپنے قصائدو قطعات کو پرچوں اور بیاضوں میں متفرق طور پر لکھتا یالکھواتا جائےاور اِسی طرح متفرق تلامذہ(تلمیذ کی جمع ،شاگرد) کے پاس چھوڑ کراس عالم سے رخصت ہو جائے۔پھر جس طرح چڑیوں کا غول آندھی چلنے سےمنتشر ہو سکتا ہَےاسی طرح اس شاعرکا کوئی رشید(تربیت یافتہ)ان قصائدو قطعات (قطعہ کی جمع ،ٹکڑا)کو جمع نہ کرےیاتو ان کےتلف و ضائع ہو جانے کا سخت اندیشہ ہَے۔لہذاوُہ اُنہیں بالترتیب جمع کرتا ہَے اور نہایت تصحیح و سعی و کو شش سے جمع کرکے اُس کی اشاعت کرتاہےکہ وہ لوگ اس سے مستفید(فائدہ اُٹھانے والا) ہوں۔اور اسے ان تمام لوگوں پرجواس کلام سے مستفیض (فائدہ اُٹھانے والا) ہَوں،جامع کااحسان و امتنان (احسان کرنا)ہَوتاہَے۔یہی نسبت امام محمدؐ بن حسؒن کوحنیفوں کےساتھ اور بویطیؒ کو شافعیوں کے ساتھ ہَے۔(آمدم برسرمطلب)اسی طرح خلفائے راشدین نے قرآن کریم کے جمع وتدوین مَیں سعی وکوشش کی،اور اسے مصاحف میں لکھوا کر اطراف و اکناف(کنف کی جمع ،کنارے،سمتیں) عالم میں شائع کیا‘‘۔
(اَزالتہ الخفا جلددوم ص۱۶ )
اس کے بعد علامہ شاہ ولی اللہ نے حضرت عُمرفاروق اِعظم کے اسِ کارعظم کو یوں درج کی کیا ہَے:۔
’’یہ کام آپ سے اس خوبی سے واقع ہُوا کہ اس سے زیادہ قوت انسانی سےباہر ہَے۔آج جو بھی مُسلمان قرآن مجید پڑھ رہاہَےآپ کا احسان اُن کی گردن پر ہَے۔جس شخص نے اس کو جان لیاوُہ خداکا شُکریہ بجا لایا،اور جس نے اُس کو نہ جانایا جان کر تعصباً اُس کو چھپا یا (بحکم من لم لیشکرا کناس لم لیشکراللہ) یعنی ’’جس نے آدمیوں کا شُکرادا نہیں کیااُس نے خُداکا شُکرادا نہیں کیا‘‘۔اُس نے کفران نعمت کیا۔جب حضرت ﷺ کا انتقال ہُوا قرآن مجیدمصحف میں یکجانہ تھا۔سورتیں اور آییتں ورقوں میں لکھی ہُوئیں مختلف اصحابہ کرام کے پاس سے ملتی تھیں۔اگرتم اس کی مثال سمجھناچاہتے ہو،تو فرض کرو ایک منشی یاشاعر اپنی انشاء اور قصائد و مقعطات کو مختلف بیانوں اور کتِابوں کی پُشت پرلکھ کر چھوڑگیا جو بمنزلہ چڑیوں کو ہلاکت کےقریب ہوں کہ اَس شاعر یا مُنشی کے ایک شاگرد نے ان سب کو یکجا کر دیا اور اس کی جمع و تصحیح میں غایت درجہ(حددرجہ ،انتہائی) کا اہتمام کیاگویا اُن آثار کی زندگی اُس کےہاتھ سے واقع ہوئی۔سب سے پہلے خُدا نے جس کے دل میں اسکا ارادہ ڈالا اور اس کو اپنے اس وعدہ یعنی ’’انالہ لحاقطون ان علیہینا جمعہ و قرانہ‘‘ کےپورا کرنے کا ذریعہ ٹھہرایا وُہ حضرت فاروق اِعظمؒ تھے‘‘۔(ازالتہ الخفااُردو جلددوم ۴۱۹ تفیسر بیضادی المقدمہ علی البیضادی صہ الفضل خامس فی جمع القرآن۔ محمد سعیداینڈ سنز قرآن محل کراچی )۔ عبارت عربی علامہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوٰی نےاِس حقیت کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایاہَےکہ قرآن شریف آنحضرت کی وفات کے وقت تک کتابی صوُرت میں موجود نہ تھا۔اور حضرت عُمر کی محنت وفکرمندی اورترددّسے قرآن شریف کا منتشر متن یکجا کیا گیا،اس کار ِعظیم کے بعد حضرت عُمر کا دوُسرا کام یہ تھا۔
فصل دوم
قرآن شریف کے متن کی تصحیح
اِس ا مر میں حضرت علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی کا ایک اور بیان ملاحظہ فرمائیے:۔
’’جب قرآن شریف مصحف میں یکجا ہوگیابرسوں آپ اس کی تصحیح میں سرگرم رہَے۔اوربارہاصحابہ سے اس کے متعلق مناظرے(بحث،مباحثہ) کئے۔کبھی حق اِس لکھے ہُوے کے موافق ظاہر ہوتا اور آپ اُس کو اُسی حالت میں رہنے دیتے اور لوگوں کو اُس کی مخالفت سے منع کردیتے۔اور کبھی اُس کے خلاف ظاہر ہوتا۔اِس حالت میں آپ اُس لکھے س ہُوئے کو چھیل ڈالتے اور اس کی جگہ پر جو حق ثابت ہُوتا لکھ دیتے‘‘۔
(ازالتہ الخفا ارُدو جلددوم ۴۲۱)
مُندرجہ بالا بیان کا مفہوم بالکل صاف ہَےکہ جس مصحف کو زیدبن ثابت نے حضرت عمُر اور حضرت اُبو بکر کے حکم سے جمع کیاتھا اُس مجموُعہ متن پر حضرت عُمر کو مطلق اعتبار نہ تھا اور آپ نے کئی برس اُس متن کی اصلاح اور ترمیم کی۔اوراِس تصحیح میں آپ سرگرم رہَے اور صحابہ سے متن کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں مناظرے کرتے رہَے۔یہ آسان کام نہ تھا اور اسِی لئے حضرت ولی اللہ شاہ حضرت عُمر کے اِس کارعظیم پراُن کو بے پناہ خراج تحسین پیش کرتے ہَیں۔حضرت عُمر کیلئے سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ قرآن شریف کاکوئی اصلی اور معتبر نسُخہ مُوجود نہ تھا۔ کیونکہ اگر قرآن شریف کاکوئی مستند نسخہ موجود ہوتا تو حضرت عُمر تصحیح متن کیلئے اتنی کاوش نہ کرتے۔
فصَل سوم
جمع قرآن و تصیح متن قرآن کے بعد قرآن شریف کی کیفیت
(قال ابوعبید حدثنا اسمعیل بن ابراہیم من ایوب عن نافع عن ابن عمر قال یقموین احد کم قداخزت القرآن کلمہ ومایدریہ ماکلمہ قد ذھب مند قرآن کثیر ولکن یقل قد اُخذت مہ ماظہر)
ترجمہ:۔
ابن عُمر سے روایت ہَےکہ کوئی تم میں سے یہ نہ کہے کہ میں نے پوُراقرآن لے لیا۔اُس کو کیا معلوم کہ مکمل قرآن کیا ہَے۔کیونکہ اِس قرآن سے بہت سا حصّہ نکل گیاہَے۔لیکن یہ کہے کہ جو کچھ ظاہر ہوا قرآن سےاُس کو میں نے لے لیا۔
(حوالہ الاتقان فی علوم القرآن ،مضفہ :امام جلال الدین السیوطی الشافی جُزدوم ۲۵ مطبع حجازی بالقاھرہ مصرِ )۔
بعض لوگ حضرت ابن عمر کے اِس قول ’’قدزھب مندقرآن کثیر‘‘ کی تاویل کرتے ہَیں کہ اس سے مراد وہُ آیات ہیں جو منسوخ التلاوت تھیں لیکن یہ تاویل بالکل غلط ہَے۔کیونکہ اگر یہی تاویل مراد ہوُتی تو ’’ذھب ‘‘کے عوض ’’نسخ‘‘ فرماتےاورپھر اُس کو’’قرآن کثیر ‘‘نہ فرماتےاور نہ اُس پر افسوس کرتے ،کیونکہ منسوخ التلاوت آیات تو اس قابل تھیں کہ نکال دی جائیں۔کیا کوئی شخص ایساہوُگا کہ وہ اپنے اُن اشعاریا عبارات پر افسوس کرتا ہو جن کو خود اُس نے کاٹ دیا ہو نکال دیا ہو۔
پس کوئی شخص حضرت ابن عُمر کے بیان کی موجوُدگی میں وثوق اور دلیری کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مروّجہ قرآن شریف میں وہ ُ سب کچُھ ہَے جو حضرت ﷺ کے زمانے میں تھا ۔بلکہ دیانتداری کے ساتھ یہی تسلیم کرنا واجب ہَےکہ اصلی قرآن شریف کا بہت سا حصّہ اِس میں سے نکل گیا ہَے۔ اور موُجودہ متن مکمل اور اصلی قرآن کا بچا کھُچا حصہ ہَے۔
فصَل چہارم
قرآن شریف کے مختلف نُسخے
نُسخہ ِاول
۱۔گُزشتہ بحث میں ہم ایک قطعی نتیجےپر پہنج گئے ہَیں کہ قرآن شریف آنحضرت ﷺ کی حین حیات میں جمع نہ ہُواتھا۔
۲۔حضرت ابُوبکر نےقرآن کو پراگندہ اشیا سے جمع کروایا لیکن اُس وقت تک بہت سے قاری شہیدہو چُکے تھےاور معلوم نہیں کہ کس قاری کے سا تھ قرآن شریف کا کون سا حصہ ضائع ہو گیا۔
۳۔جو کُچھ جمع ہوُا حضرت عُمر فاروق اعظم کمال عرق ریزی سے اُس متن کی تصحیح کرتے رہَے چنانچہ ہم یہ کہہ سکتےہَیں کہ قرآن شریف کا پہلا نُسخہ حضرت ابوُبکر کا قرآن تھا۔یہ نُسخہ حضرت ابوُبکرکے پاس اُن کی زندگی تک رہا۔پھر جب خُدا نےاُن کو وفات دی تو حضرت عُمر کے پاس اُن کی زندگی تک رہا۔اور اس کے بعد حضرت عُمرکی بیٹی حضرت حفصہ کے پاس رہا۔ (سند۔صحیح بخُاری حدیث نمبر۲۰۸۸،مشکواۃ حدیث نمبر۲۱۰۱)
نُسخہ ِ دوم
سالم مولی ابی حذیفہ کا قرآن
’’(قلت)ومن غریب مادردفی اُول من جمعہ من اُخر جد ابن اُشفتاۃ فی کتاب المصاجف من طریق کمس عن ابن بریدۃقال اُول من جمع القرآن فی مصحف سالم مولی الی حذیفتہ اُقسم لایرتدی برداءحتی بجمہ فجمعہ ثم اتمروا مایسمونہ فقال بعفہم سموہ انسفرقال ذلک تسمتہ الیہود فکر ھوہ فقال اُیت مثلہ با لحبثتہ یسمی المصحف فا جنتمع رایم علی ان یسموہ المصحف‘‘۔
ترجمہ
خلاصہ یہ ہَے۔کہ ابن بریدہ کہتے ہَیں کہ جس نے سب سے اوّل قرآن کو کتابی صورت میں جمع کیا وہ سالم مولیٰ ابن حذیفہ تھااور انہوں نے مشورہ کر کے اُسکا نام’’ مصحف‘‘ رکھا۔
(الاَتقان فی علوم القرآن۔ جُزِاوّل ص ۵۹)
اسِ کے ساتھ ہی صحیح بخاری کا بیان ملاخطہ فرمائیے۔
’’مسروق سےروایت ہےکہ عبداللہ بن عمُر نےعبداللہ بن مسعود کا ذکر کیااور کہاکہ میں ہمیشہ سے اُن سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہَوئے سُنا ہَے کہ قرآن شریف چار آدمیوں سے یاد کروں۔عبداللہ بن مسعود اور سالم اور معاذ اور اُبی بن کعب‘‘۔
( صحیح بُخاری حدیث ۲۱۰۰)
نُسخہ سوم
ابن مسعود کا قرآن
صحیح بخُاری میں عبداللہ بن مسعود کا یوُں ذکر آتا ہَے۔ ’’مسروق سے روایت ہَے کہ عبداللہ بن عُمر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اورکہا کہ میں ہمیشہ سے اُن سے محُبت رکھتا ہوں کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہَوئے سُنا ہَے کہ قرآن شریف چار آدمیوں سے یاد کرو۔ عبداللہ بن مسعود اور سالم اور معاذ اُور اُبی کعب‘‘۔( حوالہ صحیح بخاری حدیث ۲۱۰۰،حدیث ۲۱۰۳)
’’عبداللہ ابن مسعود ایسے جلیل القدر صحابی اور قرآن دان کے بارے میں یوُں مرقوم ہَےکہ آپ کے قرآن میں سوُرہ فاتحہ اورمعوذتین موجود نہ تھیں کیونکہ آپ ان سوُرتوں کو جُزوقرآن نہیں ماَنتے تھے‘‘۔
(دیکھئےالاتقا ن علوم القرآن جُزاوّل ۶۶ )
مزید بحث اگلے باب میں کی جائے گی۔
نُسخہ چہارم
ابن اِبی کعب کا قرآن
ابن کعب کی بات صحیح بخاری میں یوُں لکھا ہَے۔ ’’مسُروق سےروایت ہَےکہ عبداللہ بن عمُر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اور کہا کہ میں ہمیشہ سے اُن سے محبت رکھتا ہُوں کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہُوئے سُنا کہ قرآن شریف چارآدمیوں سے یاد کرو۔ عبداللہ بن مسعوداور سالم اور محاذ اور ابی کعب ‘‘۔ (صحیح بخاُری حدیث نمبر۲۱۰۰۔نیز حدیث نمبر۲۱۰۴،نمبر۲۱۰۶)
’’ ابی بن کعب ایسے عظیم المرتبت صحابی اپنے قرآن میں دو سورتیں زیادہ کرتے تھے یعنی سوُرہ خلح وحفد‘‘۔
( حوالہ الاتقان فی علوم القرآن ۶۷ )
مزید بحث اگلے باب میں کی جائے گی۔
نُسخہ پنجم
حضرت علی کا قرآن
قرآن شریف کے متن کے جمع کرنے میں حضرت علی نے غیر معمولی غیرت اور جوش کا اظہارفرمایا۔علامہ جلال الدین السیوطی اُن کی غیرت اور
جوش کے بارے میں یوُں رقمطرازہَیں۔
’’من طریق ابن سیر قال قال لمامات رسوُل اللہ صلی علیہ وسلم آیست اُن لاآخذ علی ردائی الا لصلاۃ جمعۃ حتی اجمع القرآن فجمعہ‘‘۔
ترجمہ
یعنی ’’ابن سیربن کے طریق پر روایت ہَےکہ حضرت علی نے کہا کہ جب آنحضرت ﷺ فوت ہُوئے تو میں نے قسم کھائی کہ چادر نہ اڑھوں گا مگر نماز جمعہ کے لئے جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوُں چنانچہ انہوں نے جمع کیا‘‘۔
(الاتقان فی علوم القرآن جُزّاوّل ۵۹)
’’عن عکرمۃ قال لماکان بحد بیعۃ ابی بکرقعدعلی بن ابی طالب فی بیۃ فقیل لابی بکرقد کرہ بیعتک فارسل الیۃ فقال اُکرھت بیعتی قال لاو اللہ قال مااُقجدک عنی قال وایت کتاب اللہ بن ادفیہ محدثت نفسی اُن لا البس ردائی الا تصلاۃ اجمعہ قال لہ ابوُبکر فانکُ نحم مارایت‘‘
ترجمہ
عکرمہ سے روایت ہَےکہ جب حضرت اُبو بکر خلیفہ ہُوئے تو حضرت علی خانہ نشین ہُوئے۔کسی نے حضرت اُبوبکر سے کہا کہ حضرت علی آپ کی بیعت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔حضرت اُبوبکر نے کسی کو بھیج کر حضرت علی سے دریافت کیا کہ کیا آپ میری بیعت کو مکروہ سمجھتے ہِیں۔ حضرت علی نے جواب دیا کہ نہیں۔ حضرت ابوُبکر نے کہا کہ پھر کس چیز نےآپ کو میری بیعت سے روکا۔حضرت علی نے جواب دیاکہ میں نے دیکھا کہ خُدا کی کتاب میں اضافہ کیا گیا ہَے۔تو میرے دِل میں آیا کہ میں اپنی چادر نہ اوڑھوں گا جب تک کہ اُس کو جمع نہ کر لُوں۔تو حضرت ابوُبکر نے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہَے‘‘۔
(الاتقان فی علوم القرآن جُزٰاوّل ۵۹ )۔
’’قال ابن حجروقدوردعن علی انہ جمع القرآن علی ترتیب النزول عقب موت نبیﷺ اخرجہ ابن ابی داوُد‘‘
ترجمہ
’’حضرت علی کے متعلق واردہَے کہ انہوں نے آنحضرت کی موت کے بعدقرآن کو برترتیب نزول جمع کیا تھا۔اس حدیث کو اُبو داود نے نکالا‘‘۔
( الاتقان فی علوُم القرآن ۷۴)
علامہ جلال الدین سیوطی حضرت علی کے قرآن کے بارے میں مندرجہ ذیل بیان دیتے ہَیں۔
’’اخرج ابن ابی داوُد عن محمد بن سیرین قال لماتوفی رسُول اللہ البطاَ علی غر سبیعنہ ابی بکرفلقیہ ابوبکرفقال اکر ھت امارتی فقال لاولکن الیت ان لا ارتدبے بردائی الاالی الصلوٰۃحتے اجمع القرآن فزبحمواانہ کتبہ علے متنزیلہ فقال محمد لواصیب ذلک الکتاب کاذفیہ العلم‘‘
ترجمہ
مندرجہ ذیل بالا عبارت کا خلاصہ یہ ہَےکہ ابن سیرین کہتا ہَے کہ اگر حضرت علی کاجمع کردہ قرآن شریف ہم تک پہنچا تو حقیقت میں وہ علمِ کا بڑا ذخیرہ تھا۔ اور یہ بھی کہ آپ نے قرآن شریف کو اُسی ترتیب کے ساتھ جمع کیا جس طرح کہ نازل ہُوا تھا۔
(تاریخ الخلفا ، مصنفہ ،مولانا جلال الدین عبداللہ الرحمان سیوطی مطبوعہ مولوی محمد اسحاق صدیقی مالک کتب خانہ رحیمیہ دیوبند یوُپی۔ ہندوستان ۱۳۰)
’’بعضوں نے روایت کی ہَے کہ جب رسُول ﷺ کی وفات ہوگئی تو علی ابن ابی طالب نے اُسے جمع کیا تھا۔ وُہ اُسے اُونٹ پر لاد کر لائےاور کہا کہ یہ وہ قرآن ہَے جومیں نے جمع کیا ہے ‘‘۔
(تاریخ اسلام یعنی تاریخ طبری کا اردو ترجمہ، از عبداللہ العمادی صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ مکتبہ رزاقی نیپئر روڑ کراچی ۔طبع اول مع مئی ۱۹۴۹ ص ۱۵۵۔۱۵۶)
الاتقان ،تاریخ طبری اور تاریخ الخلفاتینوں اس بات کی مصدق ہیں کہ حضرت علی نے بعد از وفات رسول اللہ ﷺ قرآن شریف کا متن جمع کیا تھا ۔
نُسخہ ششم
حضرت عائشہؓ ام المومنین کا قرآن
صحیح بخاری پارہ بیسواں(۲۰) کتاب فضائل القرآن باب دربارہ قرآن شریف کی تالیف اور ترتیب میں حضرت عائشہؓ کے نسخہ کے بارے میں یوں بیان مندرج ہے ۔حدیث ۲۰۹۴۔
یوسف بن ماہک راوی ہیں کہ ایک روز میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔اتنے میں ایک شخص عراق کا رہنے والا آیا اور پوچھا کہ میت کے لیے کیسا کفن اچھا ہوتا ہے ۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا ۔افسوس ہے تجھ پر (کیا وفات کے بعد) کچھ تجھے تکلیف دینے والی چیز ہے ؟ پھر اس نے کہا کہ اے اُم المومنین مجھے اپنا قرآن شریف دکھا دیجئے ۔آپ نے فرمایا کہ کیوں ؟ اس نے کہا کہ اس لیے کہ میں اس کی ترتیب کے موافق اپنا قرآن کرالوں۔ اس لیے کہ لوگ بے ترتیب پڑھ رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ کچھ حرج نہیں جونسی آیت چاہے پہلے پڑھ (ہاں ) سب سے پہلے سٹور تہائے مفصل میں سے وہ نازل ہوئی جس میں دوزخ وجنت کا ذکر ہے ۔پھر جب اکثر آدمی اسلام کی طرف جھکے تو حلال وحرام کا حکم نازل ہوا ۔اس لیے کہ اگر پہلے پہل ہی شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوتا تو لوگ کہہ بیٹھتے کہ ہم نہیں چھوڑتے ہیں اور علیٰ اہذا زنا کرنے کا حکم اگر پہلے ہوتا تو کبھی بھی نہیں مانتے اور جب میں کھیلتی بچی تھی تو اس وقت مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی ۔’بل الساعۃ ہو عدھم و الساعۃ ادھیواسر ‘‘(آخری گھڑی یعنی قیامت ان کے وعدہ کا وقت ہے وہ وقت بہت سخت اور کڑواہے ) اور سورہ بقر ونساء جب نازل ہوئیں تو میں حضرت ﷺ کے یہاں تھی ۔پھر اس شخص کو اپنا مصحف دکھایا اور سورتوں کی چند آیتیں اس شخص کو لکھا دیں ۔
(صحیح بخاری جلد دوم ،مترجم: مرزا حیرت دہلوی ،صفحہ ۶۶۹ ۔تابع وناشر نور محمد اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ فرئیرروڑ کراچی)۔
صحیح بخاری کے مترجم اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہیں ۔
’’یہ قصہ تالیف عثمانی سے پہلے کا ہے اس وقت تالیف عثمانی نہ تھی ۔یہ شخص تالیف ابن مسعود کے موافق پڑھتا تھا۔اس لیے اس نے چاہا کہ حضرت عائشہؓ کے قرآن کی ترتیب جس طر ح ہو ویسا ہی کرلوں ‘‘۔
(صحیح بخاری جلد دوم ص۶۶۹)
یہ حدیث اور یہ تبصرہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ اُم المومنین کے پاس بھی قرآن شریف کا نسخہ موجو د تھا ۔جو حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت کے نسخہ جات سے الگ تھا ۔
نسخہ ہفتم
حضرت عثمان کا قرآ ن و احراق قرآن کا تاریخی واقعہ
صحیح بخاری میں تالیف عثمانی کی بابت یوں مرقوم ہے :۔
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ حذیفہ ابن یمان حضرت عثمان کی پاس آئےاہل شام اور اہل عراق دونوں کو ساتھ ملا کر فتح آرمینیہ اور آذر بایئجان میں جہاد وجنگ کرارہے تھے۔(اور حضرت حذیفہ بھی ان میں شریک تھے) حضرت حذیفہ کو شامیوں اور عراقیوں کے خلاف قرات نے گھبرا دیا تو حضرت عثمان سے آکر کہا کہ ان آدمیوں کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ یہ یہود ونصاری کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف نہ کردیں ۔تو حضرت عثمان غنی نے حضرت حفصہ کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ اپنا قرآن بھیج دو تا کہ ہم اس سے اور نقل کرلیں اور پھر اصل آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے ۔حضرت حفصہ نے اس کو ان کے پاس بھیج دیا اور یہاں اس کی چند نقلیں کی گئیں اور حضرت زید بن ثابت انصاری وعبداللہ بن زبیر وسعید بن العاص اورعبدا لرحمن بن حارث بن ہشام کو اس کے نقل کرنے کا حکم دیا۔حضرت عثمان نے ان تینوں آدمیوں سے کہا کہ جہاں تمہارا زید بن ثابت (انصاری ) سے قرات میں اختلاف ہو تو وہاں اس کو قریش کی زبان کے موافق لکھنا کیونکہ قرآن پاک اُن ہی کی زبان میں نازل ہوا ھے۔اُن لوگوں نے ایسا ہی کیا۔جب نقل کر چُکے۔حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کا قرآن اُن کےپاس بھجوادیا۔اورہرایک طرف نقل شُدہ قرآن پاک میں سے ایک بھجوادیا اور حکم دیا کہ اُن کے سِوا جو کچھُ قرآن،ورقوں اور مصحفوں میں لکھا ہو،جلادیاجائے۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے زید بن ثابت کے بیٹے خارجہ نے خبردی کہ میرے والد فرماتے تھے کہ سورہ احزاب کی ایک آیت جو میں نے رسول اللہﷺسے سنی تھی اس کا نقل کرتے وقت کہیں پتہ نہ چلا ۔اسے تلاش کیا تو خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس نکلی ۔وہ یہ ہے’’من المومنین وجال صد فوائاعاھد واللہ علیہ ‘‘الخ۔’’پھر اس آیت کو قرآن شریف میں اس کی جگہ لکھ دیا ‘‘۔
حوالہ:۔(صحیح بخاری ،مترجم مرزا حیرت دہلوی پارہ بیسوں (۲۰) کتاب فضائل القرآن ،باب قرآن شریف کے جمع کرنے کا بیان حدیث ۲۰۸۹،ص۶۶۷۔۶۶۸ جلد دوم ،طابع وناشر نور محمد احح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ فئیر روڈ کراچی ۔
مشکواۃ المصابیح کا بیان
’’اُنس بن مالک کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یما ن حضرت عثمان کی خدمت میں حاضرہوئے اس زمانہ میں حضرت عثمان شام وعراق کے مجاہدوں کے لیے جو آرمینیہ اور آذر بایئجان کی جنگوں کے لیے تیار ہورہے تھے ۔ساما ن جہاد فراہم ودرست کرنے میں مشغول تھے ۔حذیفہ بن یما ن کو لوگو ں کے اس اختلاف نے جو وہ قرآن مجید کی قراۃ کے متعلق کرتے تھے ۔اضطراب وخوف میں مبتلا کردیا تھا ۔حذیفہ نے حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا امیر المومنین امت مسلمہ کا تدارک کیجئے اس سے پہلے کہ وہ کتاب اللہ کے اندر اختلاف کریں جیسا کہ یہودوانصاری نے اختلاف کیا تھا ۔یہ سن کر حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کے پاس آدمی بھیجا اور کہلایا کہ وہ ان صحیفوں کو (جن کو حضرت ابوبکر نے مرتب کرایا تھا ) ہمارے پاس بھیج دیں ۔ہم ان کی نقل لے کر تم کو واپس کردیں گے ۔چنانچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ نے حضرت عثمان کے پاس بھیج دیئے ۔حضرت عثمان نے زید بن ثابت عبداللہ بن زبیر ،سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو نقل کریں ۔چنانچہ انہوں نے صحیفوں کی نقل کی ۔حضرت عثمان نے زید بن ثابت کے سوا کہ وہ انصار میں سے تھے تینوں قریشیوں کو یہ حکم دیا کہ اگر قرآن میں کسی جگہ یعنی کسی لغت میں تمہارے اور زید بن ثابت کے درمیان اختلاف واقع ہو تو قریش کی زبان کی موافق اس لغت کو لکھو۔ اس لیے کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں اترا ہے ۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ صحیفہ نقل ہو چکا اور اس کی متعدد نقلیں کی جاچکیں تو حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کے صحیفہ کو ان کے پاس واپس بھیج دیا اور اپنے مرتب کیے ہوئے صحیفے تما م اطراف میں بھیج دیئے اور حکم جاری کردیا کہ ا ن صحیفوں کے سوا اور جو مصحف یا صحیفہ پایا جائے اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ابن شہاب کہتے ہیں کہ خارجہ بن زید بن ثابت نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ میں نے زید بن ثابت کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس وقت ہم صحیفوں کو نقل کرنے بیٹھے تو ایک آیت سورہ احزاب کی مجھ کو نہ ملی ،جسے میں نے رسول اللہ کو پڑھتے سنا تھا ۔پس ہم نے اس کو تلاش کیا اور وہ آیت ہم کو حذیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی اور وہ آیت یہ ہے ۔’’من المومنین رجال صد قوا ماعا ہد وااللہ علیہ‘‘ پس ہم نے اس کو اس سورۃ میں صحیفوں کے اندر شامل کردیا ‘‘۔
حوالہ :۔(مشکواۃ شریف جلد اول حدیث ۲۱۰۲ باب قرآ ن کی قراۃ اور لغات میں اختلاف اور قرآن کے جمع کرنے کا بیان ۔تیسری فصل ص ۳۷۳ طابع وناشر نور محمد ۔اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب ،آرام باغ فرئیرروڈ کراچی )۔
الاتقان فی علوم القرآن
میں بخاری کے بیان کو یوں درج کیا گیا ہے ۔عربی عبارت ملاحظہ ہو ۔
’’روی البخاری عن انس ان حذیفہ بن ایمان قدم علی عثمان وکان بغازی اہل الشام فی فتح آرمینیہ واذر بیجان مع اہل العراق فاخرع حذیفۃ اختلافہم فی القراتہ فقال لعثمان ادرک الامتہ قبل ان یختلفوا اختلاف الیہھودو النصاری فارسل الی حفصۃ ان ارسل اینا الصحف نسخہا فی المصاحف ثم نردھا الیک فارسلت بہا حفصۃ الی عثمان خامر زید بن ثابت وعبداللہ بن الزبیر وسعید بن العاص و عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام فنسخو ہا فی المصاحف وقال عثمان للرھط القرشیب الثلاثۃ اذا اختلفتتم انتم وزید بن ثابت فی شی من القرآن فا کتبوہ بلسا ن قریش نانہ اتمانزل بلسانہم فضعلوا صی اذا نسخو ا الصحف فی المصاحف دوعثمان الصحف الی حفصتہ وارسل الی کل افق بمصحف ممانسخواوامر مما سواہ من القرآن نی کل صحیفۃ او مصحف ان حرق قال زید آیۃ من الاحزاب حین نسخنا المصحف ان قد کنت اسمع رسول اللہ یقر الہا فالمتسنا ہا فوجدناہا مع خزیمتہ بن ثابت الانصاری من المومنین (رجال صدقو اماعا ہدوا للہ علیہ) فا لحقنا ہا فی سورلہافی المصحف (قال ) ابن حجروکان ذلک فی سنۃ خمس وعشرین قال وغفل بعض من اسرکناہ فرعم انہ کان فی سنۃ ثلاثین ولم یذکر لہ مسند اانتہی‘‘۔
(الاتقان فی علوم القرآن جز اول ازامام جلال الدین سیوطی اٹھارویں نوع قرآن کی جمع اور ترتیب ص ۶۱۔مطبوعہ مصر)۔
اس عبارت کے اردو ترجمہ کے لیے دیکھئے (الاتقان فی علوم القرآن اردو ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری حصہ اول ص ۱۴۹۔ ناشر نورمحمد ،اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی )۔
تاریخ طبری
تاریخ طبری میں حضرت عثمان کے اس کارنامہ کی بابت یوں مرقوم ہے ۔
’’عثمان نے قرآن جمع کیا اور اسے مرتب کیا ۔طویل سورتوں کو طویل سورتوں کے ساتھ اور چھوٹی سورتوں کو چھوٹی سورتوں کے ساتھ کردیا اور تمام اطراف سے قرآن جمع کرنے کو لکھا ۔یہاں تک کہ وہ جمع کردیئے گئے ۔پھر انہوں نے ان کو گرم پانی اور سرکہ سے دھلو ا ڈالا اور کہا گیا ہے کہ ان کو جلوا دیا ۔سوائے مصحف ابن مسعود کے اور کوئی قرآن نہ بچا جس کے ساتھ یہ عمل نہ کیا گیا ہو ۔ابن مسعود کوفہ میں تھے انہوں نے اپنا مصحف عبداللہ بن عامر کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور عثمان نے عبداللہ بن عامر کو لکھا کہ اگر یہ دین فساد نہیں ہے اور یہ امت تباہ کار نہیں ہے تو عبداللہ بن مسعود کو روانہ کر دو ۔وہ مسجد میں داخل ہوئے اور اس وقت عثمان خطبہ پڑھ رہے تھے ۔عثمان نے کہا کہ تم لوگوں کے پاس ایک بُرا جانور آیا ہے ابن مسعود نے بہت سخت سُست کلام کیا ۔عثمان کے حکم سے انہیں ٹانگ پکڑ کے گھسیٹا گیا یہاں تک کہ ان کی دوپسلیاں ٹوٹ گئیں ۔عائشہ نے اعتراض کیا اور بہت کچھ کہا ۔
عثمان نے اس مصحف کو انصار کے پاس بھیج دیا ۔ایک مصحف کوفہ بھیجا ،ایک مصحف بصرہ، ایک مصحف مدینہ، ایک مصحف مکہ، ایک مصحف مصر ،ایک مصحف شام ،ایک مصحف بحرین ،ایک مصحف یمن اور ایک مصحف جزیرہ بھیجا ۔اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ایک ہی نسخہ کے مطابق پڑھیں اس کا سبب یہ ہوا کہ عثمان کو یہ معلوم ہوا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’آل فلاں کا قرآن ‘‘ اس لیے انہوں نے چاہا کہ ایک ہی نسخہ ہو جائے کہا گیا ہے کہ ابن مسعود نے اس کے متعلق انہیں لکھا تھا ۔مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ مصحفوں کو جلا دیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں چاہتا ۔کہا گیا ہے کہ اس کے متعلق عثمان کو حذیفہ بن ایمان نے کہا تھا ۔
ابن مسعود بیمار ہوئے تو عثمان ان کے پاس عیادت کو آئے اور ان سے کہا کہ وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے معلوم ہوئی ہے ۔اب مسعود نے کہا کہ میں نے اسی فعل کا ذکر کیا جو آپ نے میرے ساتھ کیا ۔آپ کے حکم سے میرا پیٹ روندا گیا ،یہاں تک کہ میں نماز ظہر وعصر کو بھی نہ سمجھا اور آپ نے میری عطا بند کردی ۔عثمان نے کہا میں اپنے آپ کو تمہارے سامنے قصاص (انتقام،خون کے بدلے خون )کے لیے پیش کرتا ہوں ۔تم بھی میرے ساتھ وہی کر و جو تمہارے ساتھ کیا گیا ۔ابن مسعود نے کہا کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جو خلفاء پر قصاص کا دروازہ کھولے ۔عثمان نے کہا کہ لو یہ تمہاری عطا ہے ۔ابن مسعود نے کہا کہ آپ نے یہ اس وقت روکی جب میں اس کا محتاج تھا اور اب دیتے ہیں جب میں اس سے بے نیاز ہوں ۔مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔عثما ن واپس آگئے ۔ابن مسعود عثمان سے برابر ناراض رہے یہاں تک کہ ابن مسعود کی وفات ہوگی ۔عماربن یاسر نے ان کی نماز پڑھائی ۔عثمان غیر حاضر تھے اس لیے ان کا معاملہ پوشیدہ رہا ۔جب عثمان واپس آئے انہوں نےے قبر کو دیکھ کر کہا کہ بغیر مجھے اطلاع دیئے ہوئے انہیں کیسے دفن کردیا گیا ۔لوگو ں نے کہا کہ عمار بن یاسر نے ان کے کام کا ذمہ لے لیا اور یہ بیان کیا کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی وفات کی خبر نہ جائے ۔تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ مقداد کی وفات ہوگی اور ان کی نماز بھی عمار نے پڑھا ئی تھی ۔مقداد نے انہیں وصیت کردی تھی عثمان کو ا ن کی اطلاع بھی نہیں کی گئی ۔عمار پر عثمان کا غصہ بہت بڑھ گیا کہ ’’ابن مسعود پر مجھے افسوس ہے کاش مجھے ان کے متعلق معلوم ہواہوتا ‘‘۔
(تاریخ اسلام یعنی تاریخ طبری کا اردو ترجمہ از عبداللہ العمادی صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ مطبوعہ مکتبہ رزاقی نیپر روڈ کراچی ۲۔ص ۱۹۴۔۱۹۶)
تاریخ خمیس
تاریخ خمیس میں تالیف عثمانی کے واقع کو یوں درج کیا گیا ہے ۔
’’ان عثمان احرق مصحف ابن مسعود ومصحف ابی وجمع الناس علی مصحف زید بن ثابت ولما بلغ ابن مسعود انہ لعرق مصحفہ دکان لہ نسختہ عند اصحاب لہ بالکوفتہ امدھم بحفظھا وقال لھم قرات سبعین سورۃ وان زید بن ثابت بھبی من الصبیان ‘‘۔
ترجمہ
عثمان نے ابن مسعود اور ابی کے قرآنوں کو تو جلادیا اور لوگوں کو زید بن ثابت کے قرآن پر جمع کیا ۔جب ابن مسعود کو اس کے قرآن جلائے جانے کی خبر پہنچی تو کوفہ میں اس کے اصحاب کے پاس اس کے قرآن کی ایک نقل موجود تھی ۔ابن مسعود نے اس نقل کی حفاظت کرنے کے لیے ان اپنے اصحاب کو مامور کیا اور ان سے کہا کہ میں نے ستر (۷۰) سورتوں کی تلاوت کی ہے اور زید بن ثابت جس کے قرآن پر عثمان نے لوگوں کو جمع کیا ہے وہ ابھی بہت چھوٹا بچہ ہے ۔(یعنی ابھی وہ اس قدر قابل اعتماد نہیں ہے کہ اس کے قرآن پر لوگ جمع ہوسکیں )‘‘۔
(تاریخ خمیس جلد دوم مطبوعہ مصر ص ۳۰۴۔ تاریخ الخمیس کے تعارف کے لیے دیکھئے تاریخ ابن خلدون حصہ اول ص۴۷۔ محمد سرشمس الدین تاجر کتب چوک مینار انارکلی لاہور)
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ازالتہ الخفا میں اسی واقع کو یوں درج فرماتے ہیں :۔
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس آئے یہ شامیوں سے آرمینیا اور آذر بائیجان کی فتح میں اہل عراق کے ہمراہ لڑتے تھے ۔حذیفہ ان لوگوں کا اختلاف قرات دیکھ کر گھبرا گئے اور عثمان سے کہا یاامیر المومنین یہود وانصاری کی طرح کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے سے پہلے اس امت کا تدارک کرلیجئے ۔حضرت عثمان نے ام المومنین حضرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ مصحف کو ہمارے پاس بھیج دو ہم اس کی نقلیں کروا کر آپ کے پاس بھیج دیں گے ۔حضرت حفصہ نے اس کو حضرت عثمان کے پاس بھیج دیا ۔حضرت عثمان نے زید بن ثابت ،عبداللہ بن زبیر ،سعد بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو اس کے نقل کرنے کا حکم دیا اور تینوں قریشیوں (یعنی عبداللہ بن زبیر ،سعد بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث ہشام ) سے کہا اور جب تمہارے اور زید بنن ثابت کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوتو اس کو قریش کی زبان کے موافق لکھنا کیونکہ قرآن پاک ان ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے ان لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔جب نقل کرچکے حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کا قرآن ان کے پاس بھیجوا دیا اور ہر ایک طرف نقل شدہ قرآن پاک میں سے ایک بھجوا دیا ۔اور حکم دیا کہ ان کے سوا جو کچھ قرآن ،ورقوں اور مصحفوں میں لکھا ہو جلا دیا جائے ‘‘۔
(اس کو بخاری نے نقل کیا ہے )
(ازالۃ الخفا مقصدِ دوم ۴۲۰)
مظاہرہ الحق جلِد ثانی
مظاہر الحق میں اسِی واقع کو درج کیا گیا ہَے۔دیکھئے (مشکواۃ المصابیج ،مترجم: مع شَرح مظاہرالحق اُردو جلد ثانی۲۵۹ ، ۲۶۰، ۲۶۱)۔
’’جب جمع کیا قرآن زیدبن ثابت نے اتفاق صحابہ کے ساتھ توبیچ متعدد صحیفوں کے یعنی جُزوں کےلکھا گیا۔ہنوز اتفاق جمع کرنے کا ایک مصحف میں نہ ہُوا تھا۔ پس وُہ صحیفے حضرت ابوُبکر کے پاس تادم زلیست رہَے۔پھر حضرت عمر کے پاس اُن کی زندگی بھر رہَے۔پھر اُن کی بیٹی حفَصہ کے پاس رہَے۔پھر حضرت عثمان نے ایک مصحف میں جمع گیا‘‘۔
ص۲۵۹
’’ظاہر حد یث سے معلوُم ہُوتا ہَے کہ حفصہ کے پاس جو صحیفے تھے۔بعد وفائے وعدہ پھرنے کے وہ بھی حضرت عثمان نے جلاڈالےاورکہا سخاوی نے کہ جب فارغ ہَوئےحضرت عثمان لکھوانے مصحف کے تووہُ صحیفے حضرت حفصہ کوپھیر دئیے۔اور سوائے اُن کے اور اپنے مصحف کےارورمصحف جلاڈالے۔پس وہُ صحیفے حضرت حفصہ کے پاس رہے۔
جب مروان مدینے کاحکم ہوُا تو منگوایااُن کوجلانے کیلئے اُنہوں نےنہ دیئے۔جب حفصہ کا انتقال ہُوا تو مروان نے اُن کے بھائی عبداللہ بن عمُر سے منگواکر جلا ڈالےبخوف اس کے کہ اگر ظاہر ہو ں گےتولوگ پھر اختلاف کریں گے‘‘ ۔
ص۲۶۰
فصل پنجم
تالیف عثمانی کی بابت تبصرہ
مندرجہ بلا کتب احادیث وتفاسیر وتواریخ سےظاہر ہَےکہ حضرت عثمان نے سِوا زیدبن ثابت نوجوان کے کِسی اورکوقرآن شریف کےمتن کو جمع کرنے کیلئے شامل نہ کیا۔
حضرت عثمان نے قرآن شریف کی تنزیل کو بدل ڈالا۔آپ نے قرآن شریف کی سات قراتوں کو مٹِادیااورایک قرآت قریش مقررکردی۔
باقی کُل مصاحف اوراوراق وغیرہ جو حضرت محمد ﷺ کے زمانہ میں لکھے گئےاورحضرت شیخین کے زمانے تک محفوظ چلے آتے تھے اور تبرکات وحی تھے جن کو خوُد حضرت محمد ﷺ نے اپنے کاتبوں سے لکھوایا تھا وہُ قابل قدر اور قابل حفاظت تھےاُن سب کوجلادیا۔
حضرت عَثمان نے اِس مہَم میں تعاون نہ کرنے والوں پربےحد سختی کی مثلاً عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ۔مراون بن حاکم نے حضرت اُبوبکر اور حضرت عمر کا محنت ستا کہ سے جمع کیاہوُا قرآن اور عرق ریزی سے تصحیح کیا ہُوا قرآنی متن بھی جلا ڈالا۔
پس کتبُ احادیث وتفاسیر وتواریخ اِس تاریخی واقع کی گواہ ہَں کہ موجوُد ومروّجہ قرآنی متن حقیقتاً تالیف عثمانی ہَے۔اور کوئی شخص یقین محکم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تالیف عثمانی میں (جو مروّجہ قرآن شریف ہے۔) حضرت محمد ﷺ کا مکمل قرآن پایاجاتاہَے۔
باب دوم
مروجہ قرآن شریف (یعنی تالیف عثمانی ) کے متن پر بحث
فصل اوّل: ۔
قرآن شریف کی سورتوں پر بحث
۱۔سوُرہ فاتحہ جزوُقرآن نہیں۔
۲۔سوُرہ خلع اورحفدجوابی بن کعب کے قرآن میں تھیں مروجہ قرآن شریف میں نہیں ہیں۔
۳۔حضرت عائشہ کے بیان کےمطابق مروّجہ قرآن شریف میں سُورہ احزاب کا بیشتر حصہ گُم ہَے۔
۴۔سوُرہ توبہ کا بہت سا حصہ مروّجہ قرآن میں موجوُد نہیں۔s
۵۔سوُرہ نوُرین جو شعیہ مسَلمانوں کے نزدیک قرآن شریف کا جُز تھی مروجہ قرآن شریف میں مفقودہَے۔
فصل دوم:۔
قرآن شریف کی آیات پر بحث ۔
۱۔حضرت عائشہ کا بیان کہ قرآن شریف کی دو آیات بکری کھا گئی۔
۲۔آیت مال جو جزقرآن تھی مروّجہ قرآن میں نہیں ہَے۔
۳۔آیت جاھدہ مروجہ قرآن شریف میں موجود نہیں ہَے۔
۴۔الاتقان کے بیان کے مطابق دو اور آیات مروّجہ قرآن شریف میں موُجود نہیں ہَیں۔
فصل سوم:۔
قرآن شریف کےجملوں پر بحث۔
۲۵مختلف جُملوں پر قاضی بیضاوی کی بحث۔
فَصل چہارم:۔
قرآن شریف کےالفاظ پر بحث۔
۲۲ مختلف الفاظ پر قاضی بیضاوی کی بحث
فُصل پنجم :۔
فُصل پنجم :۔
فصل اوّل
قرآن شریف کی صورتوں پر بحث
سورہُ فا تحہ جزِو قرآن نہیں
مشہور معروف صحابی عبداللہ ابن مسعود کا سورہ فاتحہ کو جزُو قرآن ما ننے سے انکار ۔
مروجہ قرآن شریف میں سورہ فاتحہ کو سب سے اوّل لکھتے ہَیں۔حالانکہ تاریخی حیثیت سے سب سے پہلے سورت ’’اقرا باسم ربک مالم یعلم ‘‘تک ہَے۔جس کا نام سوُرہ علق اور جس کا نمبر مروّجہ قرآن میں ۹۶ ہَے۔اس کےبعد مزّمل نازل ہُوئی جس کا نمبر مروّجہ قرآن میں ۷۴ ہَےاور بعض کہتے ہَیں کہ اوّل اقراء پھر سوُرہ ن جس کا نمبر مروّجہ قرآن میں ۷۳ ہَے پھر مزّمل پھر مدثر اور پھر سوُرہ فاتِحہ نازل ہُوئی (مقدمہ تفسیر حقانی صفحہ ۱۳۷)۔ سورتوں کے نمبروں کے حوالے مولف کے ہَیں۔
سوُرہ فا تحہ کو مروّجہ قرآن شریف میں نہ صرف سب سے اوّل لکھتے ہَیں بلکہ اُس کی پیشانی پر نہایت جّلی حروف میں مکیّ بھی لکھ دیتے ہَیں حالانکہ اس کے مکیّ اور مدنی ہوُنےمیں بہت اختلاف ہَے۔بعض کہتے ہَیں کہ یہ ایکبار مکہ میں اور ایکبار مدینہ میں نازل ہوُئی۔ابواللیث سمر قندی اپنی تفسیر میں جس کے متعلق مولوی عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی لکھتے ہَیں کہ
’’ نہایت عمدہ کتاب ہے۔روایت اور درایت میں خوب اہتمام کیا ہَے‘‘۔
(مقدمہ تفسیر حقاّنی صفحہ ۱۷۳)
لکھتے ہَیں کہ
’’آدھی مکہ میں اور آدھی مدینہ میں نازل ہوُئی‘‘۔
(تفسیر کبیر ،مصنفہ :۔امام فخر الدین رازی جلد اوّل صفحہ ۹۱) اور (الاتقان فی علوم القرآن، مصنفہ:۔ امال جلال الدین السیوطی ،فصل فی تحریر سورۃ المختلف فیہا ،صفحہ ۱۲ ۔مطبہ حجازی قاہرہ مصرِ )
سورہ فاتحہ جیسی عظیم الشان سورت کی جائے نزول میں اختلاف ہونا فی الحقیقت ازبس حیرت انگیز امر ہَے۔علی الخصول جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مورخین قرآن اُس کی ایک نہایت معمولی اور چُھوٹی سے چُھوٹی آیت کی جائے نزول پر نہ صرف انگلی رکھ کر بتلاتے ہَیں بلکہ اُس کے دن یا رات میں نازل ہونے زمستان یا تابستان میں اُترنے،سفر میں یا حضرمیں وارد ہُونے وغیرہ کو نہایت وضاحت کے ساتھ بتلاتے ہَیں۔جب سوُرہ فا تحہ کے ساتھ جو اُم القرآن (قرآن کی ماں) اور قرآن العظیم کہلاتی ہے۔ایسی بے اعتنائی کا سلوک جائز رکھنا کہ اُس کی بجائے نزول لکھنے تک کا کوئی مُورخ فکرمند نہ ہُو تو اسکے اور کیا کہا جا سکتا ہَے۔کہ سوُرہ فاتحہ کا قرآن کے کسی حصّے کے ساتھ تعلق نہیں ہَے۔
عبدالاللہ ابن مسعود کے قرآن سے بھی سے بھی اس امرِ کی تائید ہوُتی ہَےکہ سوورُ فاتحہ جزُو قرآن نہیں۔ابن مسعود کے قرآن میں سوُرہ فاتحہ کے علاوہ معوذ تین بھی نہیں تھیں۔چنانچہ الاتقان کا مصنف یُوں لکھتا ہَے کہ
’’ ابن اشتتہ نے ابن مسعود کے قرآن کی تعداد اور ترتیب سوُرہ بتلا کر کہا’’ ولَیس فیہ الحمد الا المعوذ تان‘‘ یعنی ابن مسعود کے قرآن میں الحمد اور محوذ تین نہیں‘‘
(الاتقان۔ النوع الشامن عَشرمَی جمعہ و ترتیب۔صفحہ۔۶۶)
سوُرہ فاتحہ یعنی سوُرہ الحمد کے ابن مسعودسے خارج ہونے کی بابت مصنف الاتقان لکھتے ہَیں کہ’’و اسقاط اَلفاتحۃ مَنِ مصحفہ اخرخہ ابو عبید بسَند صحیح‘‘ یعنی عبداللہ ا بن مسعود کے سوُرہ فاتحہ کو اپنے قرآن سے ساقط کرنے کو ابو عبید نے بسند صحیح روایت کیا ہَے۔ (النوع۔الحادی والعشرون فی المحرفۃ العالی والنَازل مِن اسایندہ صفحہ ۸۲)
اب اس امر میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ ابن مسعود نے اپنے قرآن سے سوُرہ الحمد یا فاتحہ اور سوُرہ فلق وسوُرہ الناس کو (جن کو معوذتین بھی کہتے ہَیں)اپنے قرآن سے بدیں وجہ خارج کیا تھا کہ یہ تینوں سوُرتیں قرآن شریف میں سے نہیں ہَیں۔
(۲)عبداللہ ابن مسعود صحابی کا مرتبہ و اہمیت اور اُس کی ترتیب القرآن کی و قعت
صحیح مُسلم میں اس صحابی کا مرتبہ یوُں مرقوم ہَے۔’’ سمعتَ مِن رسوُل اللہ صلم یقوَلُ اُستقرَؤاالقُرآن مِن اٰرلبعۃ مِن ابن مسَعودُ وَسٰالمِ مَولیٰ اَبی حذَیفۃ وَاُبیّ بن کعب وَ معٰا ذ بن جَبلٰ ‘‘۔
ترجمہ
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سُنا کہ قرآن چار شخصوں سے سکھیو یعنی ابن مَسعود وسالم مولیٰ وااَبی حذ یفہ واَبی کَعب وابی معا ذِ بن جَبَل‘‘
(صحیح مسُلم ،جزُ السابع باب من فصائل عبداللہ بن مسعود صفحہ ۱۴۸۔۱۴۹، مطبوعہ بمیدان الازھر بمصر)۔
یہ بیان ان دونوں صفحات پر تین دفعہ مرقوم ہے۔ اور انِ تینوں یبان میں ابن مسعود کا نام سِر فہرست ہَے۔
رسول اللہﷺ کے اَس معتمد اور معتبر صحابی کا اپنا بیان یُوں ہَے۔
’’عَن عبداللہ قاٰل وَالذّی الا الَہ غَیرہُ ماٰمِن کشاَب اللہ سورَۃُ الاُّ اَنا اَعُلمَ حَیث نِزَلتَ وُمنِ آ یۃ اِلا اَناَ اَعلمُ فیماٰانزلتِ‘‘۔
ترجمہ
’’ عبداللہ بن مسعود سے روایت ہَےوُہ کہتے تھے کہ قسُم اُس کی جس کےسِوا کوئی خدا نہیں کہ قرآن میں ایسی کوئی سورہ نہیں مگر مجھ کو معلوم ہَے کہ وُہ کہاں نازل ہُوئی اور نہ ہی کوئی ایسی آیت ہے مگر مجھ کو معلوم ہے کہ وُہ کس امرمیں اُتری‘‘۔
(حوالہ ایضاً صفحہ۱۴۸)
پس ابن مسعود کا سوُرہ الحمد معوذ تین کو اپنے قرآن سے خارج کرنا ایسی بات نہیں جس کو باآسانی قطع نظر کیا جا سکتے۔
مِشکواۃ شریف میں عبداللہ بن مسعود کی فضیلت یُوں بیان کی گئی ہَے۔ حدیث نمبر ۵۹۰۷ ۔
’’ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہَے۔چار آدمیوں سے قرآن کو سیکھو یعنی عبداللہ بن مسعود سے،سالم مولیٰ ابوحذ یفہ سے ابی بن کعب سے اور معاذ بن جبل سے‘‘
(بخاری ومسلم ،حدیث نمبر ۵۹۳)۔
’’علی کہتے ہَیں رسوُل اللہ نےفرمایاہَے اگر میں مشورےکے بغیرکسی کو امیروحاکم بناناچاہتاتو میں تمہاراسرداروحاکم عبدکے بیٹے(ابن مسعود) کوبناتا‘‘۔
(ترمذی،ابن ماجہ، حدیث نمبر ۵۹۴۶)۔
’’معاذ بن جبل کہتےہیں کہ جب اُن کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا کہ عِلم کو چار آدمیوں سے حاصل کرو یعنی عویر سے جس کی کنیت ابو دروأہےاورسلمان سے اورابن مسعود سے اور عبداللہ بن سلام سے‘‘ْ۔
حدیث نمبر۵۹۶۱۔
’’علی کہتے ہیں رسول اَللہ ﷺ نے فرمایا ہَے کہ ہر نبی کے ساتھ مخصوص آدمیوں ہوتے ہیں جواُس کے منتخب و برگزیدہ اور رقیب ونگہبان ہوتے ہیں اور مجھ کو ایسے چودہ آدمی دیئے گئے ہیں۔علی سے پوچھا وہُ کون ہیں علی نے کہا۔میں میرے دونوں بیٹے،جعفر،حمزہ،ابوبکر،عمُر،مصحب بن عمیر،بلال،سلمان،عمار،عبداللہ ابن مسعود،ابوزراورمقداد‘‘
(ترمذی۔مشکواۃالمصابیح جلددوم، طابع و ناشر۔نوُر محمدؐ۔اصحّ المطابع وکارخانہ تجارت کُتب۔آرام باغ فرئیر روڑکراچی۔صفحات۔۴۴۵، ۴۵۱۔۴۵۳۔اکمال فی اسماءلرجال صفحہ ۵۳۳، دفعہ نمبر۵۱۰ بحوالہ مشکواۃ جلددوم)۔
الحاصل سورہ فاتحہ جزوقرآن نہیں کیونکہ مشہورومعروف اورمعتمد صحابی عبداللہ ابن مسعود سوُرہ فاتحہ کو جزُوقرآن ماننے سے انکار کرتےہَیں۔اُن کی شہادت کو جھٹلا نا آسان کام نہَیں ہَے۔
عبداللہ ابن مسعود کامزید تعارف۔
صحیح بُخاری
صحیح بخُاری میں عبداللہ بن مسُعود کی بابت یوُں لکھا ہَے۔
’’مسروق سےروایت ہَےکہ عبداللہ بن عمر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اور کہا کہ میں ہمیشہ سےاُن سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ میں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہَے کہ قرآن شریف چار آدمیوں سے یاد کرو۔عبداللہ بن مسعود،سالم اور معاذ اور اُبی بن کعب‘‘ ۔
( حدیث نمبر ۲۱۰۰۔پارہ بیسواں کتاب فضائل القرآن ص۶۷۰، ۶۷۱)
’’مسروق سےروایت ہَےکہ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ قسم ہےذات کی جس کے سوا کوئی معبُود نہیں کہ کوئی سورت ایسی نازل نہیں ہُوئی جس کے متعلق میں سب سے زیادہ یہ نہ جانتا ہوُں کہ کہاں نازل ہُوئی ہے اور کس بارے میں (یعنی میں ہر سُورت کا مقام نزول اور شان نزُول جانتا ہُوں)اور اگر کوئی مجھ سے زیادہ عالم ہواوراُس تک اُونٹ وغیرہ جاسکتا ہےتومیں ضرور اُسکےپاس جاوُں‘‘۔
(ایضاًحدیث نمبر ۲۱۰۳۔ص۶۷۲ )
صحیح مُسلم
صحیح مُسلم میں عبداللہ بن مُسعود کی بابت یُوں لکھاہَے:۔
’’عَنُ عَبد اللہ قاَلَ والذّی لاَالہَ غَیرُہُ مَامِنُ کَتاِب اللہ سُورَۃَ اَلااَناَعُلمہُ حَیُث نزَ لَتُ وَمَاِ مِنُ ا یۃُ الاّآتَا اَعُلمہُ فُیمآ اُنزِلتُ وَلوُ اَعٔلمٰہ اَحدَ اُھؤ اعلم بکَتِابِ اللہ مِنّیِ تُبلغہ الاُبُلِ نزکیُتُ ایتہ‘‘
ترجمہ
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہےانہوں نے کہا قسم اُس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہَے۔اللہ کی کتاب میں کوئی ایسی سورت نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وُہ کس باب میں اُتری اور جو میں جانتا کسی کو وہ اللہ کی کتاب مجھ سے زیادہ جانتا ہَے اور اُس تک اُونٹ پہنچ سکتے تومیں سوار ہوکراُس کے پاس جاتا ‘‘
حوالہ:۔(صحیح مُسلم ،مترجم مع شرح جلد ششم ،ص ۱۳۷ مکتبہ شعیب بنس روڑ کراچی)۔
ترمذی شریف
ترمذی شریف میں عبداللہ بن مسعود کی بابت یوں مرقوم ہَے:۔
’’حضرت ابن مسعود فرماتےہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے اصحاب میں سے اُن لوگوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہَیں۔ ابوبکروعمُر کی اور عمار کے طریقہ پر چلو۔اور ابن مسعود کے عہد کو مضبوط پکڑو‘‘۔
’’حضرت ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی یمن سے آئے اور ایک زمانہ تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرسول ﷺ کے اہل بیت سے ہیں۔ کیونکہ ہم اُن کو اور اُن کی والدہ کو رسُول اللہ کے پاس اندر جاتے دیکھتے تھے‘‘(یہ حدیث حسن صحیح ہَے)
’’کہ ابن ام عبد(یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود )اُن لوگوں میں سے ہَیں جومرتبہ میں سے سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہَیں‘‘
حضرت عبداللہ بن عُمرفرماتےہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایاقرآن چار شخصوں سے حاصل کرو۔ابن مسعود،ابن ابی ابن کعب،
معاذ بن جبل اور سالم مولائےابوحذیفہ سے‘‘۔
(یہ حدیث حَسن صحیح ہَے)حوالہ:۔(ترمذی شریف ،مولفہ امام ابو عیسٰی ،سورۃالترمذی جلددوم، ناشرین۔نوُرمحمداصح المطابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی۔ص ۳۹۱۔۳۹۲)
ابن ماجہ شریف
ابن ماجہ شریف میں عبداللہ بن مسعود کی بابت یہ لکھا ہَے۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے نبی اکرم نے فرمایااگر بغیر کسی مشورےکےمیں کسی کو خلیفہ بناتا تو ابن ام عبد کو بناتا‘‘۔(یعنی عبداللہ بن مسعود کو)
’’حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہَیں حضرت ابوُبکر اور حضرت عُمر نے مجھ کو یہ خوشخبری سُنائی تھی کہ حضور اقدس علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا تھا جو شخص قرآن کو قرآنی طریقہ پر پڑھنا چاہے وہ ابن ام عبد کی قرات پرپڑھے‘‘۔(ابن ام عبد ۔حضرت عبداللہ ابن مسعود کی کنیت ہَے)۔
( ابن ماجہ شریف ،مصنفہ :۔امام ابوعبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ، مکتبہ شعیب برنس روڈکراچی ۔ص ۵۳، حدیث نمبر ۱۴۰۔ ۱۴۱)
مشارق الانوار
مشارق الانوارمیں عبداللہ بن مسعود کی بابت یوُں مرقوم ہے۔
’’عَبدُاللہ بنُ عمرُوخُذُالقرآنَ مِن اَرُبَعہَ مِّنَ عَبدُاللہ وَمَالم وُّامَعِاذوّأبی بُن کَعبُ مَالِمُہَ ھؤ مَولی اَبی حُذیُفِہَ‘‘
ترجمہ
’’بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ لو قرآن کو یعنی چار شخصوں سے سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود سے اور سالم اور معاذ سے اور ابی بن کعب سے ۔سالم وُہ جو ابو حذیفہ کے آزاد غلام اور متبنیٰ تھے‘‘۔
حضرت کے وقت میں یہ چاروں اصحاب قرآن کے بڑے واقف تھے۔اس واسطےحضرت نے اِن کی اُستادی مستندکردی تاکہ لوگ اُن سے سیکھیں۔
(مشارق الانوار،فقہیی ترتیب والا ایڈیشن ،مؤلفہ:۔امام رضی الدین حسن صنعانی رحمۃاللہ ،ترجمہ وفوائد ازحضرت مولینا خرّم علیؒ مرتب:۔مولانا محمدعبدالحلیم چشتی۔ناشرنوُر محمدُاصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۔ص ۵۰۶،حدیث نمبر ۱۵۸۸)۔
ازالۃ الخفا
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عبداللہ ابن مسعود کے بارے میں یُوں لکھتے ہَیں۔
’’کہ عبداللہ بن مسعود علم سے مملو ہیں۔‘‘
(ازالۃ الخفا ،اردُو مقصد دوم۔ص ۳۲۵ محمد سعید اینڈ سنز ۔ناشران وتاجران کتب قرآن محل مقابل مولوی مسافرخانہ،کراچی،نیز دیکھیں ص ۳۷۳۔۳۷۴ )
مندرجہ صدر مستند کتب اس بات کی شاہد ہیں کہ عبداللہ بن مسعود بلند پایہ کے صحابی تھےاور قرآنِ شریف کے متن کی بابت اُن کا بیان آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
دوسورتیں خلع اور حفد جو ابی بن کعب کے قرآن میں تھیں مروّجہ قرآن میں نہیں ہیں۔
ابی بن کعب کا تعارف
یہ ابی کعب الاکر انصاری خزاچی کے بیٹے ہَیں۔یہ حضور ﷺ کے کاتب وحی تھے۔ اور اُن چھ اصحاب میں سے تھے جنہوں نے نبیﷺ کے زمانے میں پورا قرآن حفظ کر لیا تھا۔ اور اُن فقہا میں سے ہَیں جو حضور ﷺ کے زمانہ میں فتوٰی دیتے تھے اور صحابہ میں کتاب اللہ کے بڑے قاری تسلیم کئے جاتے تھے۔اُن کو حضور ﷺ نے ابوالمنذ کی کنُیت سے اور حضرت عمُر نے ابواالطفیل سے خطاب فرمایااورحضورنےآپ کو سید الانصار کا خطاب دیا اور حضرت عُمر سے سید المسلمین کا۔آپ کی وفات مدینہ طیبہّ میں اُنیس ہجری میں ہُوئی۔آپ سے کشیر مخلوق نے روایات کی ہَیں۔
مشکواۃ المصا بیح جلد دوم۔اکمال فی اسماألرجال نمبر۲۴ صفحہ ۴۶۷۔مطبوعہ نورُمحمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۔
ابی بن کعب ایسے جلیل القدر صحابی و کاتب وحی و حافظ قرآن و قاری و فقہیہ کے قرآن میں دو کامل سورتیں خلع اور حفدَپائی جاتی تھیں جو موجودہ قرآن میں نہیں ہَیں۔علامہ جلال الدین السیوطی اپنی تصنیف الاتقان فی علوم القرآن میں یُوں لکھتے ہَیں۔
’’وہ فی مصحف ابن مسعود مائۃو اثتبا عشرۃ سورۃ لانہ لم یک تب المعوذ تین و فی مصحف ابی ست عشرۃ لا نہ کتب فی آخرہ سورتی الحفد والخلع(اُخرج)اُبو عیبد عن ابن سیرین قال کتب اُبی بن کعب فی مصحفہ فاتحۃ الکتاب والمعوزتین واللھم اِنانستعینک واللھم إیاک نعبدوثرکہن ابن مسعود وکتب عثمان منہن فاتحۃالکتاب والموذتین(واُخرج)الطبرانی فی الدعاءمن طریق عنادبن یعقوب الا سدی من یحیی بن یعلی الا سلی عن ابن لھیعۃ عن اُبی ھبیرۃ عن عبداللہ بن زریر الخافق لی عبدالملک بن ھروان لقد علمت ماحملک علی حب اُبی ترآب اِلاانک اُعرابی مجاف فقلت و اللہ لقید جمعت القرآن من قبل أن بجتمع اُبواک ولقد علمی مندعلی بن اُبی طالب سورتیں علمااِ یاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم ما علمتماأنت ولا اُبوک اللھم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک اللہم اِیاک نعبد لضلی ونسجدوالیک نسعی و نحفد نر جو رحمتک ونخشی عذابک اِن عذابک بالکفار ملحق(واخزج)البیہقی من طریق سفیان الثوری من ابن جریج عن عطاء عن عبید بن عمیراُن عمر بن الخطاب قنت بعد الرکوع فقال بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہم اِنا نستعینک و نستغفرک ونثنی علیک ولا نکفرک ونخلع ومتبرک من یفجرک اللہم اِیاک نعبد ولک نصلی والیک نسجدونحفد نرجو رحمتک ونخشی نقمتک ان عذابک بالکافرین ملحق۔‘‘
(الاتقان فی علوم القرآن ،جلداول مطبہ حجازی قاہرہ مِصر صحفہ۶۷)۔
ترجمہ
’’ابن مسعود کے قرآن میں ایک سو بارہ سورتیں تھیں کیونکہ المعوذ تین کو انہوں نے نہ لکھا تھااور ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں۔(موجودہ قرآن میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں)کیونکہ انہوں نے آخر میں سورہُ حفد اور سورُہ خلح کو بھی لکھا تھا۔ابی عبید نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ ابی بن کعب نے اپنے قرآن میں سوُرہ الحمد اور معوذتین کو لکھا تھا۔ابن مسعود نے دو پناہ مانگے کی سورتیں نہیں لکھیں اور عَثمان نے اُن میں سے صرف فاتحہ اور معوذتین کو لکھا۔
اور طبرانی اخراج کیاہے دُعامیں بطریق عبادبن یعقوب الا سدی کے اور عبداالملک بن مروان سے کہ اُس نے کہا عبداللہ بن زریر نحافقی سے کہ باعث محبت ابوطراب تُجھے یہ ہَے کہ تو مرداعرابی جافی ہے۔عبداللہ نے جواب دیا۔خدا کی قسم میں نے قرآن کو اُس وقت جمع کیا قبل اس کے جمع کیا تیرے باپ نے۔اور مجھے تعلیم دی علی بن ابی طالب نے اُن دو سورتوں کی کہ رسول اللہ نے اُنہیں اُس کی تعلیم دی تھی۔ (یعنی سورہُ حفد اور سورہ خلع کی تعلیم دی)کہ نہ تجھے معلوم ہے نہ تیرے باپ کو۔(اُن میں سے سوُرہ خلع یہ ہَے)یا رب ہم تیری مدد چاہتے ہَیں اور ہم تیری معافی چاہتے ہَیں اورہم جھکتے ہیں تیرے سامنے اورر نہیں کُفر کرتے تیری طرف اورہم مٹاتے ہیں اور ترک کرتے ہَیں اُس کو جو گمُراہ کرتا ہَے یا گناہ کراتا ہَے تجھ سے۔(اور سوُرہ حفد یہ ہَے)۔ یا خُدا ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہم سعی کرتے ہیں اور جلدی کرتے ہیں ساتھ آسانی تیری رحمت کے اور ہم ڈرتے ہَیں عذاب سخت سے کہ تیرا عذاب کا فرون سے ملحق ہَے‘‘۔
البہیقی نے بطریق سفیاں ثوری اخراج کیا کہ حضرت عمر بن خطاب بعد رکوع کہتے تھے (یعبی ان دونوں سوُرتوں کوپڑھتےتھے)۔
’’قال ابن جریح حکمۃ البسملۃ أنہما سورتان فی مصحف بعض الصحابۃ(واخرج)محمد بن لضر المروزی فی کتاب الصلاۃ عن ابی بن کعب أنہ کا ن یقنت با لسورتین فذ کر ھماو أنہ یکتہمافی مصحفہ(وقال)ابن الضرسیں(أنبانا)أحمد بن جمیل المروزی عن عبداللہ بن المبارک(اّنبأنا) الا جلع عن عبداللہ بن عبدالرحمن عن ابیہ قال فی مصحف ابن عباس قراۃ أبی موسی بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہم انا نستعینک و نستغفرک ونثنی علیک الخیرولا و نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک و فیہ اللہم إیاک نعبد و لک نصلی و نسجدوإلیک نسحی و نحفد نخشی عذابک ونر جو رحمتک إن عذابک بالکفار ملحق۔(حوالہ ایضاً)
ترجمہ
ابن جریح نے کہا کہ بسم اللہ کی حکمت یہ ہےکہ بعض صحابہ کے قرآ ن میں یہ دو سورتیں ہیں۔اور محمد بن نصرالمعروفی نے کتاب نماز میں ربی بن کعب سے روایت کی ہَےکہ وہ پڑھتے تھے دو سورتوں کو اور ان کو اپنے قرآن میں بھی ان کو لکھا تھا اور ابن فریس نےکہ ابن عباس کے قرآن میں یہ دونوں سورتیں حفداور خلع تھیں۔اوران کو ابی موسی بھی پڑھا کرتے تھے۔
اِس طویل حوالے سے مندرجہ ذیل امُور واضع ہُوتے ہَیں۔
۱۔ کہ دو سورتیں حفد اور خلع جزو قرآن شریف تھیں۔
۲۔یہ دونوں سورتیں ابی بن کعب اور ابن عباس کے قرآن میں موجود تھیں۔
۳۔ابی بن کعب ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرتے تھے۔
۴۔حضرت علی نے ان دونوں سورتوں کے بارے عبداللہ غافقی کو تعلیم دی۔
۵۔عبداللہ غافقی نے تصریح کی کہ یہ دو سورتیں یعنی خلع اور حفد جزُوقرآن ہیں۔
لیکن اب مروّجہ قرآن شریف میں یہ دونوں کامل سورتیں موجود نہیں ہَیں۔
بعض کہ سکتے ہیں کہ شاید ان کی تلاوت منسوخ ہُوگئ تھی لیکن اگر یہ دونوں سورتیں حفداور خلع منسوخ التلاوت ہُوتیں تو ابی بن کعب ایسے جلیل القدر صحابی ،کا تب وحی،حافظ قرآن ،قاری اور فقیہہ ان کو اپنے نسخہ قرآن میں کیوں لکھتے اور پڑھتے۔اور حضرت علی ایسی عظیم المرتبت شخصیت عبداللہ غا فقی کو اس کی تعلیم اور تلقین کیوں کرتے۔
ابی بن کعب کا مزید تعارف
حوالہ جات:۔
۱۔صحیح بخاری ،مترجمہ مرزا حیرت دہلوی جلددوم حدیث نمبر ۲۱۰۰،نمبر۲۱۰۴،ص ۶۷۰۔ ۶۷۱
۲۔صحیح مسلم ،مترجم جلد ششم ترجمہ مولانا وحید الزماں ص ۱۳۹،ا۴۰
۳۔ترمذی شریف، اُردو جلد دوم ص ۳۷۹،حدیث ۱۶۴۹
۴۔مشارق الانوار،ص ۵۰۶، حدیث نمبر۱۵۷۷
۵۔ازالتہ الخفا، مصنفہ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مقصد دوم ،ص ۳۲۴
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے بیان کے مطابق مرّوجہ قرآن شریف میں سوُرہ اِحزاب کا بیشتر حصہّ گُم ہَے۔
حضرت عائشہؓ کا تعارف
یہ اُم المومنین عائشہ صدیقہ ہَیں۔ابوبکر صدیقؓ کی صاحب زادی ہَیں۔آنحضرت ﷺ نے اِن سے ہجرت سے پہلے ہی شوال ۱۰ نبوی میں بمقام مکہّ عقد کیا۔ حضرت عائشہؓ فقیہ،عالمہ،فصیحہ اور فاضلہ تھیں۔حُضور ﷺ سے بکثرت روایت کی ناقل ہَیں۔ و قائع عرب و محاریات اور اشعار کی زبردست ماہر اور واقف کار تھیں۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقے نے ان سے روایت نقل کیں۔
( مشکواۃالمصابیح، جلددوم۔اکمال فی اسمأ الر جال ،حدیث ۶۹۷۔ص۵۵۵، مطبوعہ نوُر محمد اصح المطابع وکار خانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی)۔
سورہ احزاب کی کُل دو سو آیات تھیں۔لیکن مروّجہ قرآن شریف میں صرف تہترآیات پائی جاتی ہَیں باقی آیات گُم ہوُچکی ہَیں۔
اس امر میں حضرت عائشؓہ ایسی فقہیہ،عالمہ،فصیحہ اور فاضلہ کا بیان خاص طورپر قابل ذکر ہَے۔
’’عن عائشہ قالت کانت سورۃ الحزاب تقرفی زمان النبی صلم مایتی آتیہ فلّما کتب عثمان المصاحف لم یقدد منھا الاّ علی ماھوالان‘‘۔
ترجمہ
’’ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ سورہُ احزاب حضرت نبیﷺ کے زمانہ میں دو سو آیات پڑھی جاتی تھیں۔لیکن جب لکھا عثمان نے صحیفہ اُس نے نہیں قدر کی اُس میں سے مگر اُس کی جو وہ اَب ہَے‘‘۔
’’ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ سورہُ احزاب حضرت نبیﷺ کے زمانہ میں دو سو آیات پڑھی جاتی تھیں۔لیکن جب لکھا عثمان نے صحیفہ اُس نے نہیں قدر کی اُس میں سے مگر اُس کی جو وہ اَب ہَے‘‘۔
(الاتقان فی علوم القرآن ،جُزدوم ،ص ۲۵،مطبع حجازی۔قاھر مصِر)۔
امام راغب اصفہائی نے اپنی کتاب محا فرات میں اسی بیان کو یُوں درج کیا ہے۔’’قالت عائشہ کانت الا حزاب تقرء فی زمان رسول اللہ ماتین ایہ فّلماَکتب عثمان المصاحف لم یقدر الا علی مااثبت وکان فیھا آیۃ الرّحیم‘‘
ترجمہ
’’عائشہ نے فرمایا کہ سورہُ احزاب حضرت نبی ﷺ کے زمانے میں دوسوآیتیں پڑھی جاتی تھی۔لیکن حضرت عثمان نے قرآن لکھتے وقت نہیں قدرکی اُس کی جو مثبت کیاگیااورتھی اُس میں آیت رجم‘‘
ابی ابن کعب ایسے جلیل القدر صحابی وکاتب وحی وحافظ قرآن وقاری و فقیہہ بھی حضرت عائشہ کے بیان کی تصدیق کرتے ہَیں۔
’’عن زربن جیش قال قال ابی بن کعب کا ین تعد سورۃ الاحزاب قلت اشین وسبعین آیہ وثلاثاً و سبعین اَیۃ قال ان کانت لتعدل سورۃ البقر‘‘
( الاتقان ،جُزدوم نوع ۴۷ ص ۲۵)۔
ترجمہ
’’زربن جیش نے کہا ہَے کہ ابی بن کعب نے مُجھ سے کہا کہ تم سورہ احزاب کی کتنی آیات شمار کرتے ہو۔میں نے کہا بہتریا تہتر آیات۔ابی کعب نے کہا اگر یہ سورت پُوری رہنے دی جاتی تو بقر کے برابر ہوتی‘‘۔
ابی بن کعب کی معتمد شخصیت کا بیان (مشکواۃ المصابیح، جلددوم صفحہ ۴۴۵،حدیث نمبر ۵۹۰۷، صفحہ ۴۴۶ حدیث نمبر ۵۹۱۲ میں ملاخطہ فرمائیے)۔
الغرض حضرت عائشہ صدیقہ کے ارشاد کے بموجب سوُرہ احزاب کا ایک بہت بڑا حصّہ مروّجہ قرآن شریف میں نہیں ہَے۔ آج تک کسی کو علم نہیں کہ سوُرہ احزاب کی باقی آیات کہاں گئ ہَیں۔اتنی خبر مصدقہ ہےکہ حضرت عثمان نے اپنے مصحف میں صرف تہتر آیات درج کی تھیں۔
سورہ توبہ کا بہت حصہ مروّجہ قرآن شریف میں درج نہیں۔
حتی کہ اس سورہ کے شروع میں بسم اللہ بھی نا پید ہَے۔
سورہ توبہ کے بارے میں (الاتقان فی علوم القرآن )میں مندرجہ ذیل بیانات لکھے ہَیں۔
’’واخزج ابوالشیخ عن عکرمۃ قال قال عمر مافرغ من تنزیل براۃ حتی ظناانہ لا یبقی منا احدالاّ سیترل فیہ وکا نت تسمی الفافیحۃو لحذاب اخرج الحاکم فی المستدرک عن حذیفۃ قال تسمعون سورۃ التوبۃ ھی سورۃ الحذاب۔
اخرج اُبوالشیخ عن زیدبن اسلم ان رجلاقال لابن عمر سورۃ التوبۃ فقال وأیتں سورۃ التوبۃفقال برأۃ فقالی وھل برأۃ فعل بالناس الا فاعیل الاھی ماکنا ندعوھاالا المقشقشۃ ای لمبرئۃ من النفاق والمقیرۃ۔
اخرج اُبوالشیخ عن عبید بن عمیر قال کا نت تسمی برامۃ المنقرۃ نقرت عمافی قلوب المشر کین والبعوث بفتح الباء۔
اخرج اتحاکم عن المقدادأنہ قیل لہ لو قعدت العام عن الخزوقال أنت علینا البعوث یعنی برأۃ لحدیث والحافرۃ ذکرہ ابن الخرس لا نہا حضرت عن قلوب المنا فقین والمثیر۔
اخرج ابن أبی حاتم عن قتادۃ قال کانت ھ زہ السورۃ تسمی الفافعۃ صعۃ المنافقین وکان یقال لھا المتیرۃ أنبات عثابہم وعوراتہم وحکی ابن الخرس من اسمأ لنا المبحژۃ وظنہ تصیحیف المنقرۃ فان ضع کملت الاسماء عثرۃ تم رأتیہ کذلک لمبحثرۃ بخط السخاوی فی جمال القراء وقال لانہابعشرت عن أسراار المنا رقین وذکر فیہ الیفامن أسمائا المخزیۃ والمنکۃ المشردۃ والمدمدمۃ‘‘۔
صفحہ ۵۵۔۵۶۔
ترجمہ
’’اتقان کے محولہ بالابیان کا خلاصہ یہ ہےکہ اِس سورہ کو توبہ بھی کہتے ہَیں۔اور فاصحہ اور عذاب بھی۔کہا حضرت عمر نے نہیں فارغ ہوا یعنی ہمیشہ نازل ہوتا رہا۔سورہِ برأۃ یہاں تک کہ گمان کیا کہ ہم لوگوں میں سے کوئی نہ بچے گا مگر یہ کہ اُس کے بارے میں بہت جلد نازل ہوگااور اُس کو سورہ فاضحہ اور سورہ عذاب کہتے ہَیں اور حذیفہ سے روایت ہَے کہ جسے تم سورہ توبہ کہتے ہو یہ سورہ عذاب ہَے اور حضرت عمر ابن خطاب کے سامنے جب اِس کا ذکر ہوتا او اُسے کوئی سورہ توبہ کہتا تو فرماتے کہ یہ عذاب سے زیادہ قریب ہے یعنی سورہ عذاب کہنا زیادہ مناسب ہَے۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے ابن عمر سے کہا سورہ توبہ،تو انہوں نے کہا سورہ توبہ کیا ہَے۔کہا سورہ برأۃ اور کسی نے بھی یہ کا م نہیں کئےجو اِس سورہ نے کئے۔ہم لوگ تو اس کو مقشقشہ کہتے ہَیں یعنی جُداکرنے والی نفاق سے اور المنقرہ۔عبید ابن عبیر سے روایت ہَے کہ سورہ برأۃکا نام منقرہ ہَے
حافرہ اور المشیرہ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ سورہ فاضحہ بھی کہی گئی یعنی فاضحہ بھی کہی گئی یعنی فاصحثہ المنا فقین اور مثیرہ بھی اِس کو کہتےکیونکہ اُس نے مثالب منافقین کی پوُری خبر لی ہَے۔اس کو المبحثرہ کا نام بھی دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کہ اس نے کھول دیا ہے اسرار منا فقین کو مخزیہ،منکلہ، مشردہ اور دمدمہ کے نام بھی دئیے‘‘۔
بیان مافو ق نہایت صراحت کے سا تھ اس امر پر دلالت کرتا ہے ک ہ اس سورہ برأۃ میں مصائب و فضائح صحابہ کثرت سے نا زل ہُوئے۔یہاں تک کہ ابن عباس اور حضرت عمر وغیرہ کو یہ گمان ہُوا کہ کوئی صحابی نہ بچے گا۔یعنی سب کے سب فضیحت اور طعن و ایوب کا شکار ہوں گے۔اسی وجہ سے اُس کو فاضحہ کہتے ہَیں بلکہ اور دس نام بھی اُس کو دئیے گئے جن کا مطلب یہی ہَے۔لیکن مروّجہ قرآن شریف میں سورہ براۃ یعنی سورہ توبہ میں وہ سب مصائب اور فضائح موجود نہیں ہَیں اور بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سب اِس سورہ میں سے نکا ل دئیے گئے ہَیں۔
بیان مافو ق نہایت صراحت کے سا تھ اس امر پر دلالت کرتا ہے ک ہ اس سورہ برأۃ میں مصائب و فضائح صحابہ کثرت سے نا زل ہُوئے۔یہاں تک کہ ابن عباس اور حضرت عمر وغیرہ کو یہ گمان ہُوا کہ کوئی صحابی نہ بچے گا۔یعنی سب کے سب فضیحت اور طعن و ایوب کا شکار ہوں گے۔اسی وجہ سے اُس کو فاضحہ کہتے ہَیں بلکہ اور دس نام بھی اُس کو دئیے گئے جن کا مطلب یہی ہَے۔لیکن مروّجہ قرآن شریف میں سورہ براۃ یعنی سورہ توبہ میں وہ سب مصائب اور فضائح موجود نہیں ہَیں اور بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سب اِس سورہ میں سے نکا ل دئیے گئے ہَیں۔
بیان مافو ق نہایت صراحت کے سا تھ اس امر پر دلالت کرتا ہے ک ہ اس سورہ برأۃ میں مصائب و فضائح صحابہ کثرت سے نا زل ہُوئے۔یہاں تک کہ ابن عباس اور حضرت عمر وغیرہ کو یہ گمان ہُوا کہ کوئی صحابی نہ بچے گا۔یعنی سب کے سب فضیحت اور طعن و ایوب کا شکار ہوں گے۔اسی وجہ سے اُس کو فاضحہ کہتے ہَیں بلکہ اور دس نام بھی اُس کو دئیے گئے جن کا مطلب یہی ہَے۔لیکن مروّجہ قرآن شریف میں سورہ براۃ یعنی سورہ توبہ میں وہ سب مصائب اور فضائح موجود نہیں ہَیں اور بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سب اِس سورہ میں سے نکا ل دئیے گئے ہَیں۔
(الاتقان، جزواوّل۔ص ۶۷)
ترجمہ
’’ اور مالک سے روایت ہَے کہ جب سورہ توبہ کی ابتدا ساقط ہُوئی تو اُس کے ساتھ بسم اللہ بھی ساقط ہوگیا کیونکہ وہ سورہ بقر کے طوُل کے برابر تھی‘‘۔
’’ اور مالک سے روایت ہَے کہ جب سورہ توبہ کی ابتدا ساقط ہُوئی تو اُس کے ساتھ بسم اللہ بھی ساقط ہوگیا کیونکہ وہ سورہ بقر کے طوُل کے برابر تھی‘‘۔
(تفسیر دُرِ منُشور، مطبوعہ مِصر جلد سوم،ص ۲۰۷ )
ترجمہ
’’حذیفہ سے روایت ہے کہ جس سورہ کو تم توبہ کہتے ہو وہ سورہ عذاب ہَے۔خُداکی قسم اُس نے ہم میں سے کسی کو نہیں چھُوڑاجس کےمتعلق کو ئی نہ کوئی عذاب کی آیت نہ آئی ہو۔اورتم اِس سورہ توبہ میں نہیں پڑھتے ہو جو کچھ کہ ہم پڑھا کرتے تھے مگر اس کا چوتھا حصّہ‘‘
حاصل کلا م یہ ہَے کہ حافظ العصرووحید الدھر الا مام جلال الدین السیوطی الشافعی کی تصنیف (الا تقان )کے بیان کے مطابق مروّجہ قرآن شریف میں سورہ توبہ غیر مکمل ہَے۔
اس کا ابتدائی حصّہ مع بسم اللہ مفقود ہَے۔
یہ سورہ سورہ بقر کے طول کے برابر تھی۔سورۃ بقر میں ۲۷۶، آیات ہَیں۔حضرت حذیفہ کے بیان کے مطابق سورہ توبہ اپنی طوالت میں چوتھائی حصّہ بھی نہیں رہ گئی۔
آج تک کسی کو علم نہیں کہ سورہ توبہ کی باقی آیت کہاں گئی۔اتنی خبر ضرُور ہَے کہ حضرت عثمان کے ترتیب دئیے ہُوئے مروّجہ قرآن شریف میں وہ آیات مفقود ہَیں۔حضرت حذیفہ کی بابت یُوں کیا گیا ہَےکہ وہ آنحضرت صلم کے رازدار تھے۔
(مشکواۃ المصا بیح ،اکمال فی اسمأ الرجال نمبر۱۴۷،ص۴۸۳)
سورہ نورین جو شیعہ مُسلمانوں کے نزدیک قرآن شریف کا جُزو تھی مروّجہ قرآن شریف میں مفقود ہَے
دبستان المذاہب
مصنفہ مرزا محسن کشمیری فانی مطبوعہ بمبئی ،ص ۲۲۰،پر مکمل سورہ نورین مرقوم ہَے۔شیعہ حضرات کہتے ہَیں کہ ’’سورہ نورین جو مکمل سورہ تھی قرآن سے نکال دی گئی ہَے۔اُس میں کئی جگہ کھُلے اور صاف لفظوں میں حضرت علی کا نام اور اُس کی وصایت رسول ﷺ اور ذریت کا ذکر موُجود ہَے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سورہ کی تحریف محض اِس غرض سے ہُوئی ہَے کہ حضرت علی کو منصوص الوصایت سمجھ کر خلافت اور نیابت رسُوﷺ کا حقدار نہ سمجھ لے اور یہ سورہ مبارکہ خلافت اجماعیہ میں مخِل اور قادح نہ ہو سکے‘‘۔
مصنفہ مرزا محسن کشمیری فانی مطبوعہ بمبئی ،ص ۲۲۰،پر مکمل سورہ نورین مرقوم ہَے۔شیعہ حضرات کہتے ہَیں کہ ’’سورہ نورین جو مکمل سورہ تھی قرآن سے نکال دی گئی ہَے۔اُس میں کئی جگہ کھُلے اور صاف لفظوں میں حضرت علی کا نام اور اُس کی وصایت رسول ﷺ اور ذریت کا ذکر موُجود ہَے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سورہ کی تحریف محض اِس غرض سے ہُوئی ہَے کہ حضرت علی کو منصوص الوصایت سمجھ کر خلافت اور نیابت رسُوﷺ کا حقدار نہ سمجھ لے اور یہ سورہ مبارکہ خلافت اجماعیہ میں مخِل اور قادح نہ ہو سکے‘‘۔
شیعہ حضرات اس دعوے میں کیا ں تک حق بجانب ہَیں اور اُن کا دعویٰ کہاں تک مدلل ہَے یہ اسلامی دُنیا کا کام ہَے کہ وہ اس اُلجھن کو سُلجھائے۔تاہم شیعہ مسلمانوں کے دعوےٰ کے پیش نظر کہا جا سکتا ہَے کہ سورہ نورین کو قرآن شریف میں سے نکال دیا گیا ہَے۔
سوُرہ نورین
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
یاایھا الذین امنوا امنوابا النور ین انزلنا ہما علیکم ایاتی ویخد رانکم عذ اب یوم عظیم نوران بعضھما من بعض وانا السمیع العلیم ان الذین یونون بعہد اللہ ورسولہ نی ایات لھم جنات النعیم والذین کفروامن بعد ماامنواینقضھم میثاتہم وما عاھد ہم الرسول علیہ یقذفون فی الجحیم ظلمواانفسھم وعصوالوصی الرسول اذلیک یسقون من حمیم ان اللہ الذی نور السموت والارض بماشا ء واصطفی من الملائکۃ وجعل من المومنین اولیک فی خلقہ یفعل مایشا ء لاالد الاہوالرحمن الرحیم قد مکر الذین من قبلھم بر سلھم ناخذ نہم بمکر ہم ان اخذی شدید الیم ان اللہ قد اہلک عاد اوثمود ابما کسبوا و جعلہم لکم تذکرۃ فلاتتقون وفرعون بما طغی علی موسی واخیہ ہرون اغرقتہ ومن تبعہ اجمعین لیکون لکم ایتہ وان اکثرکم فاسقون ان اللہ یجمعھم فی یوم الحشر قلا یستطیعون الجواب حین یسلون ا ن الجحیم ماواہم وان اللہ علیم حکیم یا ایھا الرسول بلغ انذاری فسون یعلمون قد خسرالذین کانواعن ایاتی وحکمی معرضون مثل الذین یوفون بعہدک انی جز یتحم جنات النعیم ان اللہ لذومغفرۃ واجر عظیم وان علیا من المتقین وانا لنوفیہ حقہ یوم الدین مانحن عن ظلمہ بغافلین وکر مناہ علیٰ اھلک اجمعین نانہ وذریتہ لصابرون وان عدوہم امام المجرمین تل الذین کفر وابعد ماامنوا اطلبتم زینۃ الحیوۃ الدنیا واستعجلتم بھا ونسیتم ماوعد کم اللہ ورسولہ ونقضتم العہود من بعد تو کید ہادقد ضربنا لک الامثال لعلککم تھتدون یاایھا الرسول قد انزلنا الیک ایات بنیات فیھامن یتوقاہ مومنا ومن یتو لیہ من بعد ک یظھرون فاعرض عنھم انھم معرضون انا لھم محضر ون فی یوم لایعنی عنھم شی ولاہم یرحمون ان لھم فی جھنم مقاما عنہ لایعد لون فسبخ باسم ربک وکن من السلجد ین ولقد ارسلنا موسی وہارون یمااستخلف فبغو اہرون فصبر اجمیل نجعلنا ولقد اتینا بک الحکم کالذین من قبلک من المرسلین وجعلنالک منھمدجیا لعلھم یرجعون ومن یتول عن امری نانی مرجعہ فلیتمعوابکفرہم قلیلافلا تسل عن الناکثین یاایھا الرسول قد جعلنا لک فی اعناق الذین امنوا عہد افخذہ وکن من الشاکرین ان علیا قانتا باللیل ساجد ایحذرا لاخرۃ ویر جعو ثواب ربہ قل یستوی الذین ظلمو ادھم بعذابی یعلمون سیجعل الاغلال فی اعناقہم وہم علی اعمالہم یندمون انا بشر نک بذریتہ الصالحین وانہم لامرنا لایخلفون فعلہم منی صلواۃ ورحمتہ احیا ء وامواتا یوم یبعثون وعلی الذین یبغون علیھم من یعد ک غضبی انھم قوم سوء خاسر ین وعلی الذین سلکو امسلکھم منی رحمتہ وہم فی العرفات امنون والحمد للہ رب العالمین۔
فصل اوّل کا خلا صہ
۱۔مشہور ومعروف صحابی عبداللہ ابن مسعود کا بیان کہ سورہ فاتحہ، سورہ قلق اور سورہُ الناس جزوقرآن نہیں۔(صحیح مُسلم اور مشکواۃ المصابیح) کے بیانات کے مطابق ابن مسعود ایک مستند اور معتمد شخصیت کا مالک تھا۔آنحضرت کے نزدیک ابن مسعود اُن اشخاص میں سے تھا جن کو قرآن شریف کی آیات اور سورتوں کے بارے میں صحیح صحیح واقفیت تھی۔
(صحیح مُسلم۔ الجُز السابع(بمیدان الازھزلمصر)۔ص۱۴۸۔۱۴۹،مشکواۃ المصابیح جلددوم، ص ۴۴۵،حدیث نمبر۵۹۰۷،ص۴۵۱،حدیث نمبر۵۹۳۷،ص۴۵۲،حدیث نمبر۵۹۴۶،ص ۴۵۳۔حدیث نمبر ۵۹۶۱،ص ۵۳۳ اکمال فی اسماء الرجال نمبر۵۱۰)۔
۲۔جلیل القدر صحابی کا تب وحی،حافظ قرآن وقاری ابی بن دکعب کا بیان کہ دو کامل سورتیں خلع اور حفد قرآن شریف میں تھیں جو مروّجہ قرآن شریف میں موجود نہیں ہَیں۔ابی بن کعب کے بیان کی صحت اور صداقت کے بارے میں (صحیح مسلم، الجُر۔السابع ،ص۱۴۸۔۱۴۹)اور (مشکواۃ المصابیح، جلددوم ،ص۴۴۵،حدیث نمبر ۵۹۰۷،ص ۴۴۶۔حدیث نمبر ۵۹۱۲اورص ۴۶۸، مطبوعہ نور محمد ا صح المطابع وکارخانہ تجارت کُتب۔ آرام باغ۔کراچی)۔
۳۔اُم المومنین عائشہ صدیقہ کے بیان کے مطابق مروّجہ قرآن شریف میں سورہ احزاب کا بیشتر حصّہ گُم ہوُچکا ہَے۔اور اب یہ سورہ غیر مکمل حالت میں ہَے۔حضرت عائشہ کے بیانات کی صحت اور صداقت کے لئے ملافطہ فرمائیے( مشکواۃ المصابیح، جلد دوم۔ص۴۴۵ ،۵۵۵)۔حضرت عائشہ کے علاوہ ابی بن کعب بھی سورہ احزاب کے بارے میں وہی خیال فرماتے تھے۔
۴۔حذیفہ سے روایت ہَے کہ سورہ توبہ کا بیشتر حصّہ مروّجہ قرآن میں سے مفقود ہَے۔ امام مالک،حضرت عمر اور ابن عباس اس بیان کی تائید کرتے ہَیں ملاخطہ فرمائیے (الاتقانص ۵۵۔۵۶)۔اور( تفسیر دُرِ منِشَورُ، حذیفہ آنحضرت ﷺ کے رازدار تھے۔مشکواۃ المصابیح، ص۴۸۳ )۔
۵۔معتبر شیعہ روایت کے مطابق مروّجہ قرآن شریف میں ایک مکمل سورہ نورین غائب ہَے۔
فصَل دوم
قرآن شریف کی آیات پر بحث
۱۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہَیں۔کہ قرآن شریف کی دو آیات ایک بکری کھا گئ۔
حضرت عائشہ کا تعارف
ابوموسیٰ کہتے ہَیں کہ
’’ہم اصحاب نبی ﷺ پر جب کوئی بات مشتبہ ہوتی یا کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو ہم نے اُس کو عائشہ سے دریافت کر لیا۔اور اُس کے متعلق عائشہ میں کافی علم پایا‘‘
(ترمذی)مشکواۃ المصابیح جلددوم حدیث نمبر ۵۹۰۲ ۔ص۴۴۵ ۔
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے زیادہ فصیح کسی کو نہ پایا (ترمذی)حوالہ :۔(ایضاًحدیث نمبر۵۹۰۳،ص ۴۴۵ ،حوالہ ایضاًاکمال فی اسماّ الرجال نمبر۶۹۷،ص ۵۵۵)
پر حضرت عائشہ صدیقہ کی بابت یوں مرقوم ہے۔
’’یہ اُم المومنین عائشہ صدیقہ ہیں۔ابوبکر صدیقؓ کی صاحب زادی ہَیں۔آنحضرت ﷺ نے ان سے اپنا پیام دیا اور ہجرت سے پہلے ہی شول ۱۰ نبوی میں بمقام مکہّ اُن سے عقد کیا ۔۔۔۔ حضرت عائشہؓ فقہیہ، عالمہ، فصیحہ،فاضلہ تھیں۔حضور ﷺ سے بکثرت روایات کی ناقل ہَیں۔وقائع عرب و محاربات اوراشعار کی زبردست ماہروواقف کار تھیں۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقے نے اِن سے روایات نقل کیں۔۔۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہَیں۔
’’عن عائشہ قالت لقد نزلت ایۃ الرجم والرضاعۃ الکبیر ولقد کا ن صحیف تحت سریری فلما مات رسول اللہ صلعم وتشاغلنا بموتہ دخل واجن فاکلھا‘‘۔
ترجمہ
حضرت عائشہؓ کہتی ہَیں کہ آیت رجم اورر بڑے آدمی کی رضاعت (شیر خواری ،بچوں کے دودھ پلانے کا زمانہ جو دو سال کا ہے)کی آیت جب نازل ہُوئی ہَے تووہ ایک پرچے یہ لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے رکھی ہوئی تھی ۔جب حضور انورﷺ کی وفات ہوئی تو ایک بکری آئی اور کاغذ کھائی گئ کیونکہ ہم حضور ﷺ کی (وفات کی گھبراہٹ میں)مشغول تھے‘‘۔
( سُنن ابن ماجہ شریف کامل، مصنفہ امام ابوعبداللہ محمد بن یزیدبن ماجہ صفحہ۲۹۷،کتاب النکاح حدیث نمبر ۱۹۴۹۔ملنے کا پتہ مکتبہ شعیب بزنس روڑ کراچی،مطبوعہ ضیا پریس کراچی)۔
سُنن ابن ماجہ کا تعارف
کتب حدیث کی مختلف قسمیں ہَیں جن میں سے (۱) جُز (۲) مسند (۳) سُنن(۴) مستدرک (۵) جامع (۶)معجم(۷)رسالہ(۸)اور عربعین مشہور ہَیں۔ سُنن وہ کتاب ہَے جس میں احادیث احکام کا ذکر ہو۔
(نصیر الاصُول فی حدیث الاصول ،مؤلفہ قافی محمد نصیرالدین صاحب، معلم اسلامیات جامع پنجاب لاہور صفحہ نمبر ۲۹ باب سوم)۔
ابن ماجہ
یہ ابوعبداللہ محمد ہَیں یزید بن ماجہ کے بیٹے۔قروین کے باشندہ حافظ حدیث اور کتاب سُنن ابن ماجہ کےمصنف ہَیں۔امام مالک کے شاگردوں اور لیث سے حدیث کی سماعت کی ۔اور اُن سے ابوالحسن قطان اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے حدیث کی سماعت کی۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم، اکمال فی اسمأ الرجال،ص ۶۰۴،حدیث نمبر۱۰۱۹ )۔
قرآن شریف کی کونسی دوآیات بکری کھا گئی۔
پہلی آیت جس کو بکری کھاکر ہمیشہ کیلئے مفقود کردیا آیت رضاعت کہلاتی ہَے۔
آیت رضاعت
مروّجہ قرآن شریف میں موُجود نہیں۔حالانکہ حضرت عائشہ ام المومنین کے بیان کے مطابق یہ آیت قرآن شریف کا جُز تھی اور آنحضرتﷺ کی وفات تک پڑھی جاتی تھی۔صحیح مُسلم میں حضرت عائشہ کا بیان ملا خطہ فرمائیے۔
مروّجہ قرآن شریف میں موُجود نہیں۔حالانکہ حضرت عائشہ ام المومنین کے بیان کے مطابق یہ آیت قرآن شریف کا جُز تھی اور آنحضرتﷺ کی وفات تک پڑھی جاتی تھی۔صحیح مُسلم میں حضرت عائشہ کا بیان ملا خطہ فرمائیے۔
ترجمہ
جناب عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ قرآن میں اُترا تھا کی دَس بار چوسنا دودُھ کا حرمت کرتا ہَے پھر منسوخ ہوگیا اور یہ پڑھا گیا کہ پانچ بار دودُھ چُوسنا حرمت کا سبب ہے۔اور وفات ہوئی رسول اللہ ﷺ کی اور وہ قرآن میں پڑھا جاتا تھا۔
(صحیح مسلم شریف، ترجمہ از حضرت علامہ مولاناوحیدالزماں صاحب ،جلد چہارم،ص ۸۹ ۔مطبوعہ مکتبہ شعیب بزنس روڑ کراچی۔نیز صحیح مسلم الجز الرابع،ص ۱۶۷ کتاب الرضاع باب لتحریم۔نجمس رضات۔مطبوعات محمد علی صبیح وَالاولادہٰ عبدان الازہر لمصرِ)۔
صحیح مسُلم کے علاوہ سُنن نسائی میں بھی یہی بیان ملاخطہ فرمائیے۔
’’عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ قالت کا ن فیما انزل اللہ عزوجل وقال الغارث فیماانزل اللہ من القرآن عشر رضعات معلومات یحرسمن ثم نسخن مجمس معلومات فتو فی رسول اللہ ﷺ وجی ما یقرامن القرآن ‘‘۔
ترجمہ
’’حضرت عائشہ سے روایت ہَے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے یہ آیت اتاری گئ تھی۔ عشررفعات معلومات۔ دس گھونٹ معلوم اور حارس کی روایت میں یُوں ہَے یہ آیت قرآن کی آیتوں میں اُتاری گئ اور حکم ان دس گھونٹ معلومہ کایہ ہَے کہ حرام کرتی ہَیں نکاح کو پھر منسوخ ہوگئ۔آیت خمث معلومات سے۔پھر رسول ﷺ نے وفات پائی اور وہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی تھی‘‘۔
(سُنن نسانی، مترجم جلددوم،ص ۷۱۔ مطبع صدیقی لاہور ۔الاتقان فی علوم القرآن ،جلد دوم،ص ۲۲ ، مطبع حجازی قاہرہ مصر)۔
(سُنن نسانی، مترجم جلددوم،ص ۷۱۔ مطبع صدیقی لاہور ۔الاتقان فی علوم القرآن ،جلد دوم،ص ۲۲ ، مطبع حجازی قاہرہ مصر)۔
۱۔آیت رضاعت یقینی طورپر قرآن شریف کا جزو تھی۔
۲۔یہ آیت حضرت محمد کی وفات تک پڑھی جاتی تھی۔
۳۔اس آٰیت کو بکری کھاگئ اور یُوں تلف ہوگئ۔
۳۔اس آٰیت کو بکری کھاگئ اور یُوں تلف ہوگئ۔
صحیح مُسلِم کا تعارف
مُسِلم بن حجاج ۔ یہ ابوالحسن امام مسُلم ہَیں۔حجاج بن مسلم کے ہَے۔حدیث کے حفّاظ اور ائمہ میں سے ایک ہَیں۔ائمہ اور علمائے حدیث سے حدیث حاصل کی۔ امام مسلم فرماتے ہَیں کہ میں نے مسند صحیح کو تین لاکھ خود اپنی سُنی ہوئی احادیث سے انتخاب کر کے لکھاہے۔محمد بن اسحاق بن مندہ نے کہا کہ میں نے ابو علی نیشاپوری سے سُنا وہ کہتے تھے کہ علم حدیث میں اِس سقف آسمانی کے نیچے کوئی کتاب مسلم سے زیادہ صحیح نہیں ہَے۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
(مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم۔اکمال فی اسما الرجال ۶۰۲ ۔مطبوعہ نوُر محمد اصح المبابع وکارخانہ تجارت کُتب آرام باغ کراچی)۔
ترجمہ
’’لوگوں نے میرے سامنے بخاُری ومسلم کی ترجیح وفضلیت کے بارہ میں گفتگو کی ۔مَیں نے کہا۔’’صحت میں بخُاری اور ترتیب وغیرہ میں مسلم قابل ترجیح ہَے‘‘۔
۲۔ابو عمر بن احمد بن حمدان کہتے ہَیںَ
’’میں نے ابوالعباس بن عقدہ سے پوچھا کہ بُخاری ومسلم میں کون اچھا ہَے‘‘ انہوں نے فرمایا۔’’وہ بھی عالم (ومحدثّ)ہَیں اور یہ بھی ۔میں نے دوبارہ پوچھا تو کہا۔’’بخُاری اکثر غلط بھی لکھ دیتے ہَیںَ اکثر راوی ایسے ہَیں جن کا ذکر بخارُی نے کہیں کنیت سے کہا ہے اور کہیں نام سے جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوراری ہَیں۔لیکن مُسلم نے ایسی غلطیاں نہیں کہیں ہَیں اور ہر شخص کی تحقیق کرکے لکھاہے‘‘۔
۳۔خطیب لغدادیؒ کہتے ہَیں۔
’’امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بخُاری کی پیروی کی ہَے اور بخُاری کے قدم بقدم چلے ہَیں‘‘۔
۴۔حافظ ابو علی نیشاپوری کہتے ہیں۔کہ
’’صحیح مسلم تمام کتب حدیث پر ترجیح رکھتی ہَے۔حافظ ممدوح کا قول یہ ہےکہ ماتحت اویم السمااصح من کتاب مسلمِ (آسمان کے نیچے صحیح مسلم سے زیادہ صحیح کتاب (قرآب کے بعد )کوئی نہیں ہَے‘‘۔
۵۔ابوزرعہ رازی اور ابو حاتم امام کے تجر علم حدیث کے سبب امام مسلمؒ کو امام علم حدیث شمار کرتے اور جماعت اہل حدیث کا سرگروہ مانتے ہیں ‘‘۔
(صحیح مسلم، مترجم جلداوّل ۔ترجمہ از حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب ،ص ۲۔طابع وناشر مکتبہ سعودیہ آڑہیلری میدان نمبر۱۔بنس روڑ،کراچی)۔
سُنن نسائی کا تعارف
’’احمدبن شعیب نسائی۔یہ ابوعبدالرحمن احمد شعیب کے بیٹے اور نسائی ہَیں۔بمقام مکہ۳۰۳ہجری میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہَیں۔اہل حفظ وصاحب علم وقفہ حضرات میں سے ایک یہ بھی ہَیں۔بڑے بڑے مشائخ سے ان کی ملاقات ہوُئی۔انہوں نے قتیبہ بن سعید،ہنادبن السری،محمد بن بشار،محمودبن غیلان،ابوداؤد،سلیمان بن اشعث اور دوسرے اہل حفظ مشائخ سے حدیث حاصل کی۔ان سے بھی بہت سے لوگوں نے (جن میں ابوالقاسم طبرانی،ابوجعفر طحاوی،اورحافظ ابوبکر احمد بن اسحاق السنی داخل ہَیں)حدیث حاصل کی۔حدیث اور علل وغیرہ میں ان کی بہت کتابیں ہَیں۔حافظ مامون مصری نے کہا ہم ابوعبدالرحمن کے ساتھ طرطوس کی طرف گئے۔بہت سے بزرگان دین جمع ہو گئے اور حافظ حدیث میں سے عبداللہ بن احمد بن حنبل اور محمد بن ابراہیم وغیرہ بھی تشریف لے آئے۔اور آپس میں مشورہ کیا کہ شیوخ کے مقابلہ میں ان کے لئےکون شخص سب سے زیادہ مناسب ہَے۔سب کا اتفاق ابوعبدالرحمن نسائی پر ہو گیا اور سب نے اُنہی کا انتخاب تحریر کر دیا۔حکم نیشاپوری نے کہا۔ابوعبدالرحمن کی فقہ وحدیث کے بارے میں گفتگو تو اس سے کہیں بڑھ کر ہَےکہ اس کا بیان کیا جائے(حدیث کے تفقہ میں مسلم ہَیں)لیکن جو شخص بھی ان کی کتاب سنن میں غور کرے گا اُن کے حسن کلام میں حیران ہوکر رہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے حافظ علی بن عمر سے کئی بارسُنا وہ کہتے تھے کہ ابو عبدالرحمن اپنے زمانہ میں ان تمام لوگوں سے مقدم ہَیں ۔جواِس علم میں شہرت یافتہ ہَیں امام نسائی مذ ہساشافعی تھے۔بہت متقی اور سُنت کا ثتج کرنےوالے شخص تھے۔نسانی میں نون پرفتحہ اور سیس بلا تشدیداور الف ہمدودہ و ہمزہ ہَے۔یہ لفظ خراسان کی ایک آبادی نسائی کی جاتب منسوب ہَے‘‘۔
(مشکواۃ المصابیح،جلددو اکمال فی اسمأ الرجال،ص۶۰۳۔۶۰۴ حدیث نمبر۱۰۱۸۔طابع وناشِر۔نورُمحمد ۔اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ فر ئیر روڑ کراچی)۔
دوسری آیات جس کو بکری نے کھا کر ہمیشہ کیلئے مفقود کر دیا آیت رجم کہلاتی ہَے۔
آیت رجم
آیت رجم یعنی سنگسار کرنے کی آیات۔
صحیح مسلم آیت رجم کے بارے میں مندرجہ ذیل بیان مندرج ہَے۔
’’عن عبدااللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھہا یقول عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہو جایس علی منبر رسول اللہ ﷺعلیہ وسلم ان اللہ بعث محمد اصلی اللہ عیہ وسلم بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مماانزل اللہ ایۃ الرجم قرانا ہا دد علینا ہا وعقلنا ھافر جسم رسول اللہ صلی اللہ وعیلہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال ہالناس زمان ان یقول قائل مان جد الرجم فی کتاب اللہ فیضکوابترج فرئضۃ انزلھا اللہ و ان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنا اذا احصن من الرجال و النسآ ال ذاقامت البینۃ اوکان الحبل اوالاعتراف‘‘
ترجمہ
’’عبداللہ بن عباس سے روایت ہے۔حضرت عمر رسول ﷺ کےممبرپر بیٹھے تھے انہوں اللہ نے حضرت محمدﷺکو بھیجا حق کے ساتھ اور اُن پر کتاب اُتاری اس کتاب میں رجم کی آیت تھی۔ہم نے اِس آیت کو پڑھا اور یادرکھا اورسمجھا تو رجم کیا۔رسول ﷺنے اور ہم نے بھی آپ کےبعد رجم کیا۔میں ڈرتا ہوں جب زیادہ مدت گزرے تو کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم نہیں ملتا۔پھر گمراہ ہوجائے اس فرض کو چھوڑ کر جس کو اللہ تعالی نے اتارا۔بے شک رجم حق ہے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اُس شخص پر جومُحسن ہو کر زنا کرے مرد ہو یا عورت۔جب گواہ قائم ہوں زنا پر یا حمل نمود ہو یا خوداقرار کرے‘‘۔
(صحیح مسلم ،مترجم جلد چہارم۔ترجمہ ازحضرت علامہ مولانا وحید الزماں،ص۴۹۸، ۴۹۹ )۔
اسی بیان کو مندرجہ ذیل کُتب احادیث نے بھی درج کیا ہَے۔
(۱)۔المّعلم ،ترجمہ صحیح مسِلم جلد چہارم،ص ۱۷۹۳۔ (۲) رفع لحجاجہ عن سُنن ابن ماجہ، جلد ثانی،ص۲۶۵ باب الرّجم۔(۳) ترجمہ ابوداؤد مطبع صدیقی لاہور،ص ۱۱۲۱ باب فی الرجم۔(۴) ترجمہ جامعہ ترمذی ،جلد اوّل نو لکشورہ باب ماء جانی تحقیق الرّجم،ص ۴۴۹ (۵) کشف المفطاعن کتاب الموطا، مطبع صدیقی لاہور،ص ۵۳۴ کتاب الحدُود اس میں یہ الفاظ زائد ہَیں۔
’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے اختیار میں میری جان ہَے اگر لوگ یہ نہ کہتے عمر نے بڑھا دیا کتاب اللہ میں تومیں اِس آیت کو قرآن میں لکھوادیتا یعنی زانی وزانیہ کو سنگسا رکرو ہم نے اس کو پڑھا‘‘
(۶) تفسیردُر منشور مطبوعہ مِصر جلد پنجم۔ص ۱۸۰ سطر ۱۸ ۔مصنف امام جلال الدین سیوطی۔(۷) فیض الباری ترجمہ صحیح بخاری مطبہ محمدی لاہور باب الرجم،ص ۳۶۔۳۷ (۸) تفسیر اتقان نوع،۴۷ص ۳۱۶ سطر۱۵ ۔
میں بھی یہ فمن نقصان سورہ احزاب بروابت ابی بن کعب قرآن شریف سے آیت رجم مفقود ہے ۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل حقائق منکشف ہونے ہَیں۔
۱ آیت رجم یقینی طور پر قرآن شریف کا جُزتھی۔
۲۔آیت رجم حضرت محمد صاحب کی وفات تک پڑھی گئی۔
۳۔آیت رجم کو بکری کھا گئی۔
۴۔موجودہ قرآن شریف میں آیت رجم ہرگز پائی نہیں جاتی ۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ التلاوت ہَے۔اگر یہ آیت منسوخ التلاوت ہَے تو بتائیے۔
ا۔جب یہ آیت حضرت محمد صاحب کی وفات تک پڑھی گئی۔تو بعد میں کسی کے حُکم سے اُس کو منسوخ کیا گیا؟
ب۔اس آیت کا ناسخ کیا ہَے۔
ج۔ اگر یہ آیت منسوخ التلاوت ہوچکی تھی توحضرت ابوبکر اور حضرت عمر کس حکم سے سنگسار کرتے ہَے جب کہ حکم قرآن شریف میں موجود ہی نہ تھا۔
(د) اس آیت کے منسوخ ہونے کی کیا معقول وجہ ہوسکتی تھی۔لیکن حقیقت یہ ہَے کہ مروجہ قرآن شریف میں سے آیت رجم گم ہو چکی ہے۔
آیت مال جو جزو قرآن تھی مروّجہ قرآن شریف میں موجُود نہیں ہَے۔
آیت مال کے بارے میں الاتقان فی علوم القران میں یوُں مرقوم ہَے۔
’’قال کان رسول اللہ ﷺ اذلاوحی الیہ اتیناہ فعلمنا مما اوحی الیہ قال فجئت ذات یوم فقال ان اللہ یقول انا انزلنا المال لا قام الصلوۃ وایتا ء الزکوۃ ولوان لابن ادم واد یا با لاحب ان یکون اللہ الثانی ولوکان لہ الثانی لاحب ان یکون الیھما الثالث ولا علاجوف ابن ادم الا التراب ویتوب اللہ علی من تاب‘‘
ترجمہ
’’ابی واقد لیثی نے کہا کہ جب رسول خدا ﷺ پروحی نازل ہوتی تھی تو ہم اُن کی خدمت حاضر ہوتے۔پس حضور ﷺ وہ وحی ہمیں تعلیم دیا کرتے ۔لیثی نے کہا کہ حسب معمول ایک روز جب میں پیغمبر ﷺ کی خدمت میں گیا تو فرمایا کہ خدا تعالیٰ ایسا فرماتا ہَے۔‘‘(اس کے بعد مندرجہ بالا عربی عبارت آیت مال کہلاتی ہَے‘‘
(الاتقان ،جُزدوم نوع۴۷،ص۲۵ مطبع حجازی۔قاہرہ مِصر)۔
اب یہ اَمر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آیت مال مروّجہ قرآن شریف میں ہرگز موجود نہیں ہَے۔او نہ ہی اس آیت کے منسوخ التلاوت ہونے کا کوئی ثبوت موُجود ہَے۔
آیت جاہدو مروّجہ قرآن شریف میں موجوُد نہیں ہَے۔
آیت جاہدو کے بارے میں الاتقان فی علوم القراان میں یوُں مرقوم ہے۔
’’قال عمرعبد الرحمن عوف الم تجد فما انزل علینا ان جاہد و اکما جاہد تم اول مرۃ فانا لانجد ہا قال اسقطت فما اسقط من القرآن ‘‘۔
ترجمہ
’’حضرت عُمر نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ آیت ’’ان جاھدواکماجاھد تم اول مرۃ‘‘کو کیا تُوبھی نہیں پاتا۔پس ہم نے (تو بہت تلاش کی)کہیں اس آیت کا پتہ نہ ملا۔عبدالرحمن نے کہا کہ یہ آیت بھی نکال دی گئی ہَے اُن آیتوں کےساتھ جو قرآن سے ساقط کی گئ ہیں‘‘۔
(الاتقان جزثانی،نوع۴۷، ص۲۵ مطبع حجازی،قاہرہ مصر)
الاتقان کے بیان کے مطابق دواور آیتں مروّجہ قرآن شریف میں موُجود نہیں ہَیں۔
’’وقال حد ثنا ابن ابی مریم عن ابن لھیعتہ عن یزید بن عمرو المغافری عن ابی سفیان الکلاعی ا ن مسلمتہ بن مخلدالا نصاوی قال لھم ذات یوم اخبرونی بآ یتین فی القرآن لم یکتبافی المصحف لم بجنبروہ وعند ہم ابو الکنود سعد بن مالک فقال ابن مسلمۃ ان الذین آمنو وہا جرواو جاہد وافی سبیل اللہ ہا موالھم وانفسہم الاابشروا انتم المفلحون والذین آ ودھم ونصر وہم وجادلوا عنہم القوم الذین غضب اللہ علیہم اولیک لاتعلم نفس مااخفی لہم من قرُ اعین جزا ء بما کانوایعملون‘‘
ترجمہ
ابن ابی مریم نے ابی لھیعہ سے اُس نے یزیدبن عمر مغاری سے اُس نے ابی سفیان کہلاعی سے روایت کی ہے کہ ایک روز مسلمہ بن مخلد انصاوی نے اُن سے کہا کہ مُجھے قرآن کی وہ دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں مکتوب نہیں ہُوئی ہَیں۔پس کسی نے اُن کو نہ بتلائیں اُن کے پاس ابوالکنود سعد بن مالک بیٹھا ہوُا تھا۔پس ابن مُسلمہ نے دو آیتیں پڑھ کر سُنائیں‘‘۔(وہ آیتیں اُوپر کی عربی عبارت میں برکیٹ میں مرقوم ہَیں۔)
(الاتقان جز ثانی نوع، ۴۷ص۲۵۔۲۶)
فصل سوم
قرآن شریف کے جملوں پر بحث
۱۔حضرت عائشہ اور حضرت حفِصہ کا بیان
مروجہ قرآن شریف کے پارہ دوم اور رکوع ۱۵ میں آیت صلوۃ میں سے ایک جُملہ مفقود ہَے۔ آیت صلوۃ یہ ہَے۔
’’حافظو اعلیٰ لصلوٰۃ والصلواۃالوسطےٰوقومو اللہ قانتیسن‘‘
ترجمہ
’’اےمسلمانوں تمام نمازوں کا عموما ًاور بیچ کی نماز خصوصا ً تحفظ کر واور نماز میں اللہ کے آگے قنوت میں کھڑے رہو‘‘۔
حضرت عائشہ و حضرت حفصہ فرماتی ہَیں کہ اس آیت میں ’’والصلواۃ العصر‘‘کا جُملہ پایا جاتاتھا۔جو موجُودہ قرآن شریف میں سے نکالا جاچُکا ہَے۔ان دونوں کے بیابات کو امام جلال الدین سیوطی نے یوں رقم فرمایا ہَے:۔ کہ
’’تخریج کیا ہَے مالک ،ابوعبیدہ،عبدبن حمید،ابولعلیے،ابن جریر،ابن الانبازی فی المصاحف اور بیقی سُنن عمرو بن رافع قال کنت اکتب مصحفاً لحفصۃ زوج النبی صلعم فقالت اذابلغت ھذہ الایۃ فآ ذنی حافظواعلی الصلواۃ والصلوۃ الوسط فلما بلغتھاآذنتھافاملت علَّی حافظواعلی الصّلواۃ والصلا ۃ العصرو قومو اللہ قانتین وقالت اشھدانی سمعتھا من رسول صلعم ‘‘
ترجمہ
یعنی عمربن رافع نے کہا کہ حفصہ زوجہ پیغمبر صلعم کیلئے میں قرآن لکھ رہا تھا کہ حفصہ نے کہا جب حافظواعلےٰ الصلواۃوالصلواۃالو سطے تک پہنچو تو مُجھے پوچھ لینا۔عمر کہتا ہَے جب میں اس آیت پرپہنچا تو میں نے حفصہ سے استیندان اُس وقت حفصہ نے یہ آیت مجھے اسطرح املاکی کہ حافظوں اعلے الصلواۃ والصلاۃ الوسطیٰ وصلواۃ العصروقومو اللہ قانتین اور فرمایا میں شہادت دیتی ہوں کہ میں نے اس آیت کو اسی طرح رُسول صلعم سے سُنا ہَے‘‘۔
(تفسیر درمنشور ،مطبوعہ مصر جلد اول،ص ۳۰۲۔سطر۲۱)۔
حضرت حفصہ کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق مروّجہ قرآن شریف کی آیت صلواۃ میں سے والصلواۃ العصر‘‘کا جُملہ مروّجہ قرآن شریف کی متن میں موجود نہیں ۔
اسی سلسلہ میں حضرت عائشہ کی شہادت یُوں ہَے۔جس کوامام جلال الدین سیوطی نے تفسیر درمنشور میں یوں درج کیا ہَے۔کہ ابی یونس جو حضرت عائشہ کے مصحف کا کاتب تھایوں روایت کرتا ہَےکہ حضرت عائشہ نے اُس کو یہ آیت املا کی حافظو اعلے الصلواۃ والصلاۃ الوسطیٰ وصلواۃ العصر وقومواللہ قانیشن۔اورفرمایا عائشہ نےکہ میں نے اسی طرح اس املاکو رسول صلعم سے سُنا ہَے۔اس روایت عائشہ کو تخریج کیا ہَے۔مسلم ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مالک، احمد،عبدبن حمید،ابن جریر، ابن ابی داؤد،ابن الانبازی اور بیقی نے اپنی سُنن میں (تفسیر درمنشور،مطبوعہ مصر۔جلد اول۔ص۳۰۲ ،سطر ۲۷)۔
امام مسلم نے صحیح مسلم میں اس واقعہ کو یوُں درج فرمایا ہَے:۔
’’عن ابی یونس مولی عائِشہ انہ قال آخرتنی عائِشۃ ان اکتب لھا مصحفا و قالت اذا بلغت ہذہ الایۃ فاذنید حافظو اعلی الصلوات والصلوۃ الوسطی قال فلما بلختھھا فا ذ نتھا فاملت علی حافظو اعلی الصلوات والصلوۃ الوسطی وصلوۃ العصر وقومواللہ قانتین قالت عائشۃ سمعتھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔
ترجمہ
’’ ابویونس جومولیٰ ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یعنی آزاد کردہ غلام انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قرآن ہم کو لکھ دواور فرمایاکہ جب تم اس آیت حافظواعلی الصلواۃ پر پہنچو تو مُجھے خبردو۔پھر جب میں وہاں تک پہنچا تو میں نے اُن کو خبردی۔اُنہوں نے مُجھے بتایا کہ یوُں لکھو۔’’حافظواعلےالصلواۃ واالصلواۃ الوسطے وَصلوۃ العصر و قومو اللہ قانشین‘‘۔یعنی حفاظت کرو نمازوں کی اور نماز واسطے اور نماز عصر کی اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے ہو۔اور فرمایاکہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سُنا ہَے‘‘۔
(صحیح مُسلم ،مترجم جلد دوم،۱۹۴۔۱۹۵ ،طابع وناشر:۔ مکتبہ سعودیہّ آرٹیلری میدان ابنس روڑکراچی)۔
امام مسلم کی شہادت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہَے کہ جملہ ’’والصلواۃ العصر‘‘ آنحضرت ﷺ کے حینِ حیات تک آیت صلواۃ کا جزُتھا۔حضرت حفصِہ اور حضرت عائیشہ فرماتی ہَیں کہ اُنہوں نے خوُد یہ جملہ حضرت ﷺ سے سُنا تھا۔یہ جملہ منسُوخ التلاوت آیات اور جملات میں سے بھی نہیں ہَے۔
(افادۃ الشیوخ فی النا سخ والمنسوخ، مطبوعہ مطبع محمدی لاہور،ص۱۴، سطر ۳)۔
پس یہ حقیقت واضع ہوگئی کہ مروّجہ قرآن شریف میں جملہ ’’والصلواۃ العصر‘‘موجوُد نہیں ہَے۔
امام ابوعیسیٰ بن سورۃ الترمذّی ترمذی شریف میں جملہ ’’والصلواۃ العصر‘‘ کی بابت یُوں فرماتے ہَیں۔
’’حضرت عائشہ کے غلام ابو یونس کہتے ہَیں کہ حضرت عائشہ نے مجھے حکم فرمایا کہ میرے لئے ایک مصحف لکھ دو اور فرمایا کہ جب اس آیت پر پہنچو ’’حَافِطُوُ اعَلَی الصّلوَات وَالَصّلَوۃ الوسٰطُی(نمازوں کی خصوصا درمیانی نماز کی حفاظت کرو)تو مجُھے خبر دینا(ابویونس کہتے ہَیں کہ)جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے حضرت عائشہ کو خبردی۔آپ نے مجھے یہ لکھنے کا حکم دیا۔
’’حاَ فِظوُاعَلیَ الصّلوات وااصّلواۃ ابُوسطی وصَلوۃ الُعصُرِ وَقومواللِہِ قاَنتِین‘‘۔حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے یہ رسول اللہ صﷺ سے سُنا ہَے۔اس باب میں حضرت حفصہ سے بھی روایت ہَے۔
(یہ حدیث حُسن صحیح ہَے)
(ترمذی شریف، جلد دوم حدیث نمبر۸۴۱،ص۱۶۱، ناشرین۔نوُر محمد اصحّ المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی)۔
ترمذی شریف کی حدیث سے بھی یہ واضع ہوتا ہَے کہ زیر بحث جمُلہ حضرت محمد صاحب کی زندگی میں جزومتن تھا لیکن مروّجہ متن میں یہ مفقود ہَے۔
۳۔ حضرت حفصِہ کا تعارف
حضِصہ بنت عمر۔یہ اُم المومنین حضرت حفصہ عمر بن الخطابؓ کی صاحبزادی ہَیں اور اُن کی والدہ زینب ہَیں۔یہ مظعون کی بیٹی ہَیں۔آنحضرتﷺ سے پہلے یہ حفصہ خنیس بن حذافہ سلہمی کی بیوی تھی اور خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھیں لیکن خنیس کا انتقال غزوہ بدرکے بعد ہوگیا۔جب اُن کے زوج خنیس وفات پاگئے تو حضرت عمر نے اُن کے رشتہ کا تذکرہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان سے کیا لیکن ان دونوں میں سے کسی نے قبول کرنے کی جرات نہ کی پھرآنحضور ﷺ نے یہ رشتہ منظور فرما لیااور نکاح میں لے آئے۔یہ واقع تیسری ہجری کا ہَے۔آنحضور ﷺ نے ان کو ایک طلاق دےدی تھی لکین جب آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ روزہ بہت رکھتی ہیں،رات کو عبادت کرنے والی ہَیں اور وُہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی تو آپ نے حضرت حفصہ سے رجوُع کر لیا۔صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے ان سے روایت حدیث کی ہَے۔ان کی وفات شعبان ۴۵ھ میں ہوئی جب کہ اُن کی عمر ۶۰ سال کی تھی۔
( مشکواۃ المصابیح ،جلد دوم ،اکمال فی اسمأ الرجال حدیث نمبر ۲۰۶،ص ۴۸۹۔۴۹۰)۔
۴۔امام ترمذی کا تعارف
’’امام ابوعیسٰی محمد بن عیسٰی ترمذی محمد شین کی ایک جماعت میں بڑے پا یہ کے محدث گزرے ہَیں۔امام ترمذی نے بہت سے مشائخ حدیث اور رداۃ حدیث سے احادیث حاصل کیں۔امام بخاری کے حلقہ درس میں بھی شریک ہُوئے اور امام مسلم،ابوداؤد اور اُن کے شیوخ سے بھی حدیث کو حاصل کیا۔امام ترمذی محدثین میں بڑا درجہ رکھتے ہَیں اور امام حدیث مانے گئےہَیں۔آپ نے احادیث کی صحت،رواۃ کی تنقید اور متن حدیث کی تحقیق میں امام بخاری کی روش اختیار کی اور بالکل اُن کے طریقوں پر کاربند ہو کر احادیث کو جمع کیا اور پھر اُن کی تدوین کی۔اسی بنا پر امام ترمذی کو محدثین امام بخاری کا خلیفہ کہتے ہَیں۔خود امام بخاری سے ان کے حق میں بہت سے کلمات تعریف منقولی ہَیں ان کے افتخار کے لئے یہی کا فی ہے۔کی خوُد امام بخاری سے بھی ان سے روایت کی ہَے۔
آپ نے اپنی اس کتاب صحیح ترمذی میں چند خصوصیات رکھی ہَیں جو احادیث کی دوُسری کُتب میں نہیں پائی جاتیں۔اس کی ترتیب سب سے بہتر ہَے اور اس کے فوائد سب سے زیادہ۔آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے مکان میں یہ کتاب موجوُد ہو پس یہ سمجھنا چاہیے کے اس ہاں ایک نبی موجُود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہَیں۔ ترمذی کی مندرجہ بالا حدیث کے آخر میں حُسن وصحیح کے الفاظ لکھے ہیں۔صحیح وہ حدیث ہے جس کی سند راوی سے محمد ﷺ تک متصل ہو۔کوئی راوی نہ چھوٹ گیا ہو۔اور اس کے سب راوی سچے اور حافظے کے مضبوط اور عادل ومتقی ہوں۔حُسن وہ حدیث ہَے جس کے زاویوں میں کسی پر جھوٹ کی تہمت نہ ہو۔نہ روایت کا خلاف ہو اس کا رتبہ صحیح کے رتبے سے کم ہَے‘‘۔حوالہ:۔(ترمذی شریف ،جلد اوّل،ص۳، ۴، ۷)۔
۲۔آیت تبلیغ
’’یاایھاالرسول بلخّ ماانزل الیک من ربک فان لمر تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یحصمک من الناس‘‘۔
پارہ ۶۔رکوع ۱۴۔
ترجمہ
’’یعنی اے پیغمبر ﷺجو (حُکم)تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہُوا ہَے(بلاکم وکاست لوگوں کو) پہنچا دو۔اور اگر تم نے (ایسا)نہ کیا تو (سمجھا جائے گا کہ)تم نے خدا کا (کوئی)پیغام (بھی لوگوں کو) نہیں پہنچایا۔اور اللہ تم کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا‘‘
مروجہ قرآن شریف کی اس آیت میں سےجملہ ’’ان علیا مولی المومنین‘‘ نکالا جاچُکا ہَے۔
امام جلال الدین سیوطی رقمطراز ہَے:۔
’’کہ آخراج کیاہے ابن مردویہ نے ابن مسعود سے قال کنا نقیرأعلی عھد رسوُل اللہ صلعم یا ایھا الرسُول بلغ ماالنزل الیک من ربک ان علیا مولی المومنین وان لمہ تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس‘‘
ترجمہ
’’ابن مردویہ نے ابن مسعود سےاخراج کیا ہَے کہ رسول ﷺکے عہد میں ہم اس آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے
’’یا ایھا لرسول بلغ ماانزل الیک من ربک ان علیا مولی المومنین فان لمہ تفعل فمابلغت رسالۃ واللہ یحصمک من الناس‘‘
کہ اے رسول ﷺ پہنچادے جوکہ تیری طرف نازل کیا گیا ہَے۔کہ یہ تحقیق علی مولی یعنی متولی اُمور ہَے سب مومنین کا۔پس کہ حکم اگر تم نے نہ پہنچایا تو پھر جس قدر تم نے اس وقت تک تبلیغ کی ہے کوئی مُجرانہ کی جائے گی‘‘
(تفسیر دُر منشُور، مطبوعہ مصِر جلد دوم ،ص۲۹۸ سطر۱۰)
ابن مسعود کی روایت اور امام جلال الدین سیوطی کی تفسیر کے مطابق اس آیت میں حضرت علی کی شان بیان کی گئ۔چنانچہ امام فخرالدین رازی المائدہ کی اس آیت ۶۷ کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں کہ
’’نزلت الیت فی فضل علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ولمانزلت ہذہ الایتہ اخذ بیدہ وقال من کنت مولا ہ اللھم وال من والاوعاد من عاداہ فلقیہ عمررضی اللہ عنہ فقال ھنیالک یا بن ابی طالب اصبحت مولائی ومولا کل مومن ومومنۃ وہو قول ابن عباس والبراءبن عازب ومحمد بن علی‘‘۔
ترجمہ
’’یعنی ابن عباس اور براء بن عازب اور محمد بن علی سے منقول ہَے کہ یہ آیت علی کی فضیلت میں نازل ہوئی اور اس آیت کے نازل ہونے پر رسولﷺ نے علی کا ہاتھ پکڑکر فرمایا کی جس کا میں مولی ہوُں اُس کا علی بھی مولی ہے۔خدایا دوست رکھ توجو علی کو دوست رکھے اورد شمن رکھ توجو علی کو دشمن رکھے پس اس کےبعد عمر علی سے ملے اور کہا کہ اے علی آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے صبح کی جب کہ مُجھ پر اورر ہر مومن اورمومنہ پر آپ مولی صاحب اختیار ہوچکے ہَیں‘‘۔
(تفسیر دُر منشُور، مطبوعہ مصِر جلد دوم ،ص۲۹۸ سطر۱۰)
امام رازی کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ سورہ المایدہ آیت ۶۷ میں علی کی شان میں مندرجہ بالا جُملہ جزُومتن تھا۔اور یہ جمُلہ حضرت محمد صاحب کے زمانے میں پڑھا جاتاتھا اور آپ کی وفات کے بعد اس جُملے کو آیت تبلیغ میں سے خارج کر دیا گیا ہے۔آنحضرت نے اپنی زندگی اس جملے کو اس آیت میں سےنکالنے کا کبھی نہیں دیا تھا اور یہ جملہ منسوخ التلاوت آیات کے شُمار میں نہیں ہَے۔دیکھئے (افادیت شیوخ فی الناسخ والمنسوخ مطبوعہ محمدی لاہور، ص۴۰ سطر۱۹ )۔اسی آیت پر مکمل بحث کے لئے پڑھیئے (سّید علی الحائری کا موغطہ پر مرتبہ ،سیدّ محمد رضی الرضوی القمی،۔ملنے کا پتہ۔کُتب حیُسنیہ حلقہ نمبر۵۲ موچی دروازہ لاہور)۔
۳۔آیت صلواعلیہ:۔ سورہ الاحزاب آیت( ۵۶)
اُم المومنین حضرت عائشہ کے مصحف میں (سورہ احزاب آیت ۵۶)۔میں جملہ ’’وعلی الذین لیصلون الصفوف الاول‘‘ موُجود تھا۔جو مروّجہ قرآن شریف میں نہیں ہَے۔امام جلال الدین سیوطی (اتقان فی علوم القرآن) میں یوُں اقتباس پیش کرتے ہیں:۔
’’قال حد ثناحجاج عن ابن جریج اخبرنی ابن ابی حمیدۃ عن حمید بنت ابی یونس قالت قراعن ابی وھوابن ثمانین سنۃ فی مصحف عائشۃ اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا وعلی الذین یصلون الصفوف الاول قال قبل ان یغیرعثمان المصاحف‘‘
ترجمہ
’’حمیدہ بیت ابی یونس نے کہا کہ ابی نے اسی برس کی عُمر میں مُجھے آیت پڑھ کر سُنا ئی کہ مصحف عائشہ میں یوُں ہَے۔
’’حمیدہ بیت ابی یونس نے کہا کہ ابی نے اسی برس کی عُمر میں مُجھے آیت پڑھ کر سُنا ئی کہ مصحف عائشہ میں یوُں ہَے۔
یعنی ’’سلموا تسلیما‘‘ کے بعد (وعلی الذین لیصلون الصفوف الاول) کی عبارت قرآن میں حضرت عثمان کے تغیرو تبدل کرنے سے پہلے موجود تھی۔
حوالہ:۔(الاتقان فی علوم القرآن ،مضفہ امام جلالی الدین سیوطی،جزوثانی، نوع۴۷، ص ۲۵۔مطبع حجازی قاہرہ مصر)۔
امام جلالی الدین سیوطی نے اسی بیان کو (تفسیر دُرمنشور، مطبوعہ مصر ،جلد پنجم ،ص۲۲۰، سطر ۴ )۔میں بھی درج کیا ہَے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ مرواضع ہوجاتا ہَے۔
۱۔کہ جملہ’’وعلی الذین لیصلون الصفوف الاول‘‘(سورہ الاحزاب آیت۵۶ )کا جزتھا۔
۲۔یہ جملہ حضرت عائشہ کے مصحف میں پایا جاتا تھا۔
۳۔یہ جملہ حضرت عثمان کے تغیروتبدل کرنے سے پہلے قرآن شریف میں موجود تھا۔
۴۔یہ جملہ آنحضرت ﷺ کی وفات کےبعد متن قرآن سے الگ کیا گیا۔
۴۔سورۃ توبہ کی آیت( ۱۱۷) کا جمُلہ
’’مِن بَعِدُمَاکاَ دَیزَبغ قلُوبُ فرَیق مّنھمُ‘‘
ترجمہ
حضرت شاہ رفیع الدین صاحب اس جمُلے کا ترجمہ یُوں کرتے ہَیں۔’’پیچھے اس کے کہ نزدیک تھاکہ کبح ہوجائیں دل ایک جماعت کے اُن میں سے‘‘
حضرت شاہ رفیع الدین صاحب اس جمُلے کا ترجمہ یُوں کرتے ہَیں۔’’پیچھے اس کے کہ نزدیک تھاکہ کبح ہوجائیں دل ایک جماعت کے اُن میں سے‘‘
’’عن الثبات علی الایما ن اواتباع الرسول علیہ الصلاۃ والسلام وفی کادضمیر الشان او ضمیر القوم والعائد الیہ الضمیر فی منہم وقرا حمزۃ وحفص یزیغ بالیاء لان تانیت اتھلوب غیر حقیقی وقریء من بعد مازاغت قلوب قرین منہم یعنی المتغلفین‘‘
(تفسیر البیضاوی، جُزاوّل مطبوعہ عبداللہ الحمید احمد حنفی پریس مصر ۱۳۵۵ھ،ص۲۰۳)۔
قاضی البیضاوی کا مطلب یہ ہَے کہ (سورہ توبہ کی ۱۱۷ آیت) کے مندرجہ بالاجملہ کو بعضوں نے یُوں پڑھاہَے۔’’من بعد مازاغت قلوب قرین منہم‘‘
ترجمہ
’’بعد اس کے کہ دل پھر گئے اُن میں سے بعضوں کے‘‘۔
دونوں جملوں کا مقابلہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتاہَے۔
۱۔مروّجہ قرآنی آیت میں لفظ’’ کاَدَ‘‘ موجوُد ہَے جب کہ البیضاوی کے بیان کے مطابق قدیم قرأت میں یہ لفظ مُوجود نہ تھا۔
۲۔مروجہ آیت میں’’ یزیغ ‘‘کا لفظ مستعمل ہَے جب کہ قدیم قرأت میں’’ زاغت‘‘ کا لفظ آیا ہَے۔
۵۔سورہ یُونس کی دوُسری آیت کا جُملہ
’’اِنَ ھَٰذَالَسَحرِ مُبُیّنَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ یُوں ہَے۔’’تحقیق یہ البتہ جادوگر ہے ظاہر‘‘
قاضی البیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں فرماتے ہیں۔
’’وقراابن کثیر ہ الکوفیون لساحرعلی ان الاشارۃ الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وفیہ اعتراف بانہم صادفوامن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم امور اً خارقۃ للعادۃ معجزۃ ایاہم عن المعارفۃ وقری ء ماھذا الاسحرمبین‘‘
(تفسیر بیضاوی، جزاوّل ،ص۲۰۵ )
قاضی بیضاوی فرماتے ہَیں کہ بعضوں نے اس جمُلے کو یُوں پڑھاہَے۔
’’ماھذاالاسحرمبین‘‘یعنی نہیں ہے یہ مگر جادؤ صریح۔
ان دونوں جملُوں کا مقابلہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہَے۔
۱۔مروجہ آیت قرآنی آیت میں لفظ ’’ساحر‘‘ آیا ہَے جب کہ اس آیت کی قدیم قرأت میں لفظ ’’سحر‘‘ آیا ہَے۔جس کی ابن کیثر اور کوفیوں نےبھی تصدیق کی ہَے۔
۲۔مروجہ آیت میں’’ اَنّ ‘‘پایا جاتا ہَےجب کہ قدیم قرأت میں’’ما‘‘ اور ’’الا‘‘ استعمال کئےگئےہیں۔
۶۔سورہ یوُنس کی آیت( ۱۰۰) کا جملہ
’’وَیجُعلُ اُلرِّجُسَ عَلَی ألَذ ین لاَیُعقِلونَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین اسِ کا ترجمہ یُوں کرتے ہَیں:۔’’اور کر دیتا ہَے پلیدی‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کے بارے میں یُوں لکھتے ہَیں۔
’’العذاب أولخذلان فانہ سیہ وقریءبالزای وقرأابوبکرو نجعل بالنون‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جُز اوّل،ص ۲۱۵)
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں کہ بعض نے’’ رجس ‘‘کو’’رجز‘‘پڑھا ہے۔اور اُبوبکر نے ’’یجعل‘‘کو’’ نجعل ‘‘پڑھا ہے۔اوریُوں اس جملے کا ترجمہ یُوں ہوگا۔ ’’ونجعل الرجز‘‘یعنی’’ ہم نے ڈالی پلید گی‘‘۔
ان دونوں جملوں کا مقابلہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتاہَے۔
۱۔مروجہ قرآنی آیت میں لفظ’’ر جس‘‘ آیا ہَے جب کہ اس آیت کی قدیم قرأت میں ’’رجز‘‘ لکھا ہَے۔
۲۔ابو بکر نے اس آیت میں’’ نجعل ‘‘پڑھا جب کہ مروّجہ آیت میں’’یجعل‘‘استعمال کیا گیا ہَے۔
۷۔سورہ انعام کی آیت( ۱۰۹ )کا جملہ
’’وَمَا یشعرِ کُم أنَہَآإذَاجَآءَتُ لاَیوُمنُونَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین اس جملے کا یُوں ترجمہ کرتے ہَیں’’اور کیا چیز معلوم کرواتی ہے تم کو یہ کہ وہ جب آو ئے گی‘‘۔
قاضی الیضاوی اپنی تفسیر میں اِس جمُلے کے بارے یُوں لکھتے ہَیں۔’’وقریء ومایشعرھم انہااذاجاءنہم‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جز اوّل،ص ۱۵۳)
ترجمہ
’’اور پڑھا ہے اور کیا خبر رکھتے ہَیں کہ جب وہ آئیں گے‘‘۔
ان دونوں جملوں کا مقابلہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہَے۔
۱۔کہ سورہ انعام آیت ۱۰۹کے جمُلوں میں ’’یشعرکم‘‘ آتا ہے۔جب کہ بعض نے اس کو’’ یشعرھم ‘‘پڑھاہَے۔
۲۔مروجہ قرآن شریف میں ’’اَذا جآءَت ‘‘پایا جاتا ہَے جب کہ بعض اِس کو’’ اذا جاءلّمِ‘‘پڑھا کرتے تھے۔
۳۔اس تبدیلی کی وجہ سےمعنوں میں کافی فرق آگیا ہَے۔
۸۔سورہؑ اعراف کی آیت( ۱۴۵) کا جملہ
’’نساءوُریکُم‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب نے اس جمُلہ کا یُوں ترجمہ کیا ہَے ’’شتاب دکھاؤں گا میں تم کو‘‘
قاضی بیضاوی فرماتے ہَیں کہ یہ ’’سأورثکُم ‘‘بھی پڑھا جاتا تھا یعنی ’’میں تم کو وارث کردوُں گا‘‘
(تفسیر البیضاوی، جزواوّل،ص ۱۷۳)
ان دونوں جمُلوں میں ایک واضع فرق ہَے۔یعنی’’شتاب دکھاؤں گا میں تم کو‘‘اور’’میں تم کو وارث کرؤں گا‘‘۔
۹۔سورۂ اعراف کی آیت( ۱۹۴ )کا جمُلہ
’’اَلَہُمۡ اَرۡجُلٌ یَّمۡشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمۡ لَہُمۡ اَیۡدٍ یَّبۡطِشُوۡنَ بِہَاۤ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یُوں کرتے ہَیں۔’’کیا واسطے اُن کے پاؤں ہَیں کہ چلتے ہَیں ساتھ اُس کے یاواسطے اُن کے ہاتھ ہَیں کہ پکڑتے ہَیں ساتھ اُس کے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کے بارے میں یوُں لکھتے ہَیں۔
’’وقریٔ اِنَ الّذینَ ‘‘۔یعنی بعض نے <’’اِنَ الّذیِنَ‘‘پڑھا ہَے۔
(تفسیر بیضاوی ،جُزواوّل،ص ۱۷۹)
مروّجہ قرآن شریف میں’’ اَلھُمُ‘‘ آیا ہے لیکن کسی وقت اس کو’’ اِن الذینَ ‘‘پڑھا جاتا تھا۔
۱۰۔سورۂ انفال کی آیت(۳۰ )کا جملہ
’’وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین اس جملے کا یُوں ترجمہ کرتے ہَیں ’’اور جس وقت مکر کرتے تھے ساتھ تیرے وہ لوگ کہ کافر ہُوئے توکہ بٹھارکھیں تجھ کو‘‘
قاضی البیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کے بارے یوُں لکھتے ہَیں ’’وقریء لیثبتوک بالتثدید ولیبیتوک من البیات ولیقید وک‘‘ یعنی’’ للثبتوک‘‘ کو تشدید سے پڑھا اوربعض نے بیات سے’’ لیبیتوکٔ‘‘ (تجھ پرچھپ کےحملہ کریں گے)اور بعض نے ’’لیقیدوکٔ‘‘ (قید کریں گے)پڑھا۔
(تفسیر البیضاوی،ص ۱۸۴)
مروجہ قرآن شریف میں ’’لیثبتوکٔ‘‘ یعنی’’توکہ بٹھارکھیں تجھ کو‘‘
آیا ہَے جب کہ بعضوں نے اِس کو’’ لیبتوکٔ‘‘ (تجھ پر چھپ کے حمُلہ کریں گے) اور ’’ لیقیدوکٔ‘‘(تجھ کو قید کریں گے)پڑھا ہَے۔تینوں میں فرق صاف ظاہر ہَے۔
۱۱۔سورِۂ توبہ کی آیت( ۱۰۴ )کا جمُلہ
’’واللہُ عَلیُم، خکیمُ،‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین اُس کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں’’اللہ جاننے والا اورحکمت والا ہَے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کے بارے یُوں لکھتے ہَیں:۔ ’’وقرَیء واللہ غٖفّور رحیم‘‘۔یعنی بعض نے پڑھا ’’اللہ غفور اور رحیم ہَے‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جزاوّل،ص ۲۰۲ )
مروّجہ قرآن شریف کےجُملے میں’’واللہُ عَلیُم، خکیمُ،‘‘پڑھا جاتاہَے۔لیکن بعٖضوں نے اِس کو ’’وقرَیء واللہ غٖفّور رحیم‘‘پڑھا۔یہ غظیم فرق ہَے۔
۱۲۔سوُرۂ یُونس کی آیت( ۲۲ )کا جمُلہ۔
’’ھَوُالّذیَ لیُسیَرّو کمُ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اِس آیت کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’وُہ ہَے جوچلاتاہَے تم کو‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کےبارے میں یوُں لکھتے ہَیں:۔
’’وقراءابن عامر ینشرکم بالثّون والشین من النشر‘‘۔یعنی ابن عامر نے اِس جمُلے میں ’’ینشر کُم‘‘کو نون اور شین کے ساتھ پڑھاہے۔
(تفسیر بیضاوی، جزَاوّل۔ص۲۰۷ )
اِس تبدیلی کے ساتھ اِس جُملے کے معنی یُوں ہوں گے۔’’وُہ ہے جو پراگندہ کرتا ہے تم کو‘‘۔
مروّجہ قرآن شریف کےجمُلے میں اور اِس میں زمین وآسمان کافرق ہَے۔
۱۳۔سوُرۂ یوُنس کی آیت( ۳۰ )کا جملہ
’’ہُنَالِکَ تَبۡلُوۡا کُلُّ نَفۡسٍ مَّاۤ اَسۡلَفَتۡ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اِس آیت کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔’’اُس جگہ آزما لے گا ہر ایک جی جوپہلے کیا تھا‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جمُلے کی بابت یوُں لکھتے ہَیں:۔
’’وقرأحمزۃوالکمسائی تنلومن التلاوۃ أی تقرأذکرما قدمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقریء نبلوبالنون ونصب کل وابدال مامنہ و‘‘۔یعنی پڑھا حمزہ اور کسائی نے تبلوکی جگہ تتلو (پڑھےگا) اور بعض نے نون سے پڑھا ہَے نبلو۔
یہ تینوں الفاظ بتاتے ہَیں کہ مروّجہ قرآن شریف کی اس آیت میں لفظ تبلوآتا ہَے جب کہ بعضوں نے تتلو اور نبلو پڑھا ہے۔
۱۴۔سوُرۂ ہُود کی آیت (۸۶ )کا جُملہ۔
’’لَبَقیّتُ أللہَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اِس آیت کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں:۔’’باقی رکھا ہُوا اللہ کا‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس جُملے کی بابت یوُں لکھتے ہَیں:۔’’وقریءتقیۃ اللہ بالتاء‘‘۔یعنی بعض نے اس کو ’’تا‘‘کے ساتھ ’’تقیۃ اللہ‘‘ پڑھا جس کا مطلب ہے اللہ کا خوف ۔
(تفسیر بیضاوی ،جزُاوّل،ص ۲۲۴)
’’بقیتّ اللہ‘‘ اور’’ تقیۃ اللہ‘‘ میں نمایاں فرق ہَے۔
۱۵۔سوُرۂ یوُنس کی آیت ( ۹۶ )کاجملہ
’’لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس آیت کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔’’کہ ہو تو واسطے اُن لوگوں کے کہ پیچھے تیرے ہَیں نشانی‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اِس جمُلے کی بابت یُوں لکھتے ہیں۔’’لمن خلقکٔ أی لخالقکٔ آیۃ‘‘۔یعنی بعض نے یوُں پڑھا ہَے’’ کہ واسطے جس نے تجھ کو خلق کیا‘‘یعنی تیرے خالق کے لئے ایک نشانی۔
(تفسیر بیضاوی ،جلد اوّل،ص ۲۱۴)
مروّجہ قرآن شریف میں ’’خلفکٔ ‘‘ کا لفظ استعمال ہُوا ہَے جب کہ قاضی بیضاوی کے بیان کے مطابق ’’خلقکٔ ‘‘پڑھتے رہَے ہَیں۔اس تبدیلی سےپورے جملے کا مطلب ہی تبدیل ہو جاتا ہَے۔
۱۶۔سوُرۂ الکہف کی آیت (۳۳ )کا جملہ
’’کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس آیت کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔’’دونوں باغوں نے میوہ دیا اپنا‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں اس کے جمُلے کے بارے میں یوُں بیان دیتے ہیں:۔
’’وقری ء کل الجنتین آتی أکلہ‘‘۔یعنی بعض نے یُوں پڑھا کہ ہرایک دوباغوں میں سے اپنا میوہ لاتا ہَے۔
(تفسیر بیضاوی ،جزثانی مطبوعہ مصِر۱۳۵۵ ھ ،ص۷)
دونوں جملوں کو غور سے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہَے کہ مروّجہ قرآن شریف میں’’ کَلتا‘‘ کا لفظ آیا ہَے اور بقول قاضی بیضاوی بعض اس کو ’’ کل‘‘ پڑھتے رَہے ہَیں۔نیز مروجہ قرآن شریف میں ’’اتت ‘‘مستعل ہُوا ہَے اور بقول قاضی بیضاوی ’’آنی‘‘ پڑھا جاتا رہا ہَے۔مروجہ قرآنی جُملہ میں’’ اکلہا‘‘ آیا ہَے اور قاضی بیضاوی نے ’’اکلہ‘‘ کا ذکر کیا ہَے۔گویا ایک ہی جملہ میں تین جگہ فرق موُجود ہَے۔
۱۷۔سورہ الکہف کی آیت (۳۸ )کے دو جمُلے
’’لّلُکّنَا ھُوّ اُاللہُ رَبیّ وَالاَاشرُک بَر بیَّ أحَداَ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین اِس کایوُں ترجمہ کرتے ہَیں۔’’لیکن میں کہتا ہُوں کہ وہ ہے اللہ رَب میرا اور نہیں شریک لاتا میں ساتھ اب اپنے کے کسی کو‘‘۔
قاضی بیضاوی اس آیت کے دونوں جمُلوں کے بارے میں یوُں فرماتے ہَیں۔’’وقدقریء لکن ھو اللہ ربی ولکن أنالاالہ الاھوربی‘‘ یعنی تحقیق بعض نے پڑھا لیکن ’’وُہی اللہ میرارب ہَے اور لیکن ہمارا نہیں اللہ مگر وہی میرارَب‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جُز ثانی،ص ۷)
مروّجہ قرآنی آیت کا پہلا جملہ ’’لکنا‘‘ پیش کرتا ہَے۔لیکن قاضی بیضاوی کہتے ہَیں کہ بعض نے اس کو ’’لکن ‘‘پڑھا۔اسی آیت کے دوسرے جمُلے کی عبارت یوُں ہَے۔’’ولاأشرک برلی أحدا‘‘۔لیکن بقول قاضی بیضاوی بعض نے اِس کو ’’ولکن أنالاالہہ الاھوربی‘‘پڑھا۔
دونوں جمُلوں کا مقابلہ کرنے سے فرق نظر آجاتا ہَے۔
۱۸۔سوُرہ احزاب کی آیت (۶۹ )کا جملہ
’’وَکانَ عِندَ اُللہ وَجیھا‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس آیت کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’اور تھا وہ نزدیک اللہ کے آبرووالا‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں:۔’’وقریءوکان عبداللہ وجیھا‘‘یعنی ’’وہ تھا خدا کا بندہ آبرووالا‘‘۔
(تفسیر بیضاوی ،جلد ثانی،ص ۱۱۴)
مروّجہ قرآن شریف میں ’’عند اللہ‘‘ مستعمل ہوُا ہَے لیکن بقول قاضی بیضاوی ’’عبداللہ ‘‘پڑھتے رَہےہیں۔دونوں جُملوں کے معنی میں فرق ہَیں۔
۱۹۔سوُرہ یس آیت( ۸ )کا جملہ
’’فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس آیت کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’پس ڈھانکا ہم نے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں۔’’وقریءفأ عشیناھم من العشاء‘‘ یعنی’’ پس اندھا کردیا ہم نے اُن کو‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جُز ثانی،ص ۱۲۵)
اگر ساری آیت کو پڑھیں توقاضی بیضاوی کا بیان کردہ جملہ زیادہ معتبر اور موزوں معُلوم ہوتا ہَے۔مروّجہ قرآن شریف کے جمُلہ اور قاضی بیضاوی کے بیان کردہ جمُلہ میں نمایاں فرق ہَے۔
۲۰۔سوُرہ یّس کی آیت( ۲۹) کا جُملہ
’’یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ یوں ہے۔’’اے افسوس اُوپر بندوں کے ‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں۔’’وقریءیاحسرۃ العباد بالا ٖضافہۃ إلی الفاعل أوالمفعول ویا حسرہ بالہاء علی العباد ‘‘ یعنی’’ بعض نے پڑھا ہَے کیا افسوس بندوں کو‘‘
(تفسیر بیضاوی، جُزثانی،ص ۱۲۶)
مروّجہ قرآن شریف میں اور قاضی بیضاوی کے بیان کردہ جمُلہ میں نمایاں فرق ہے۔اورخاص طور پر قرآنی جملے میں ’’عَلَی‘‘ کا اضافہ ۔نہایت واضع ہَے۔
۲۱۔سورُۂ یّس کی آیت (۳۸ )کاجملہ
’’وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اِس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں ’’اور سورج چلتا ہے اُس قرار گاہ پر کہ واسطے اُس کے ہَے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں بیان دیتے ہَیں:۔’’وقریء لامستقر لہھا‘‘یعنی ’’بعض نے پڑھا ہے نہیں قرار واسطے اُس کے‘‘
( تفسیر بیضاوی ،جُزثانی،ص ۱۲۷ )
دونوں جمُلوں کا مطالبہ ایک نمایاں فرق پیش کرتا ہَے۔
۲۲۔سورٔہِ ص کی آیت (۶)کا جملہ
’’اَنِ امۡشُوۡا وَ اصۡبِرُوۡا عَلٰۤی اٰلِہَتِکُمۡ ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یوں ترجمہ کرتے ہَیں۔’’یہ کہ چلو اور صبر کرو اُوپر معبودوں اپنے کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں درج کرتے ہَیں:۔ ’’وقری بغیر أن وقری ء لمیشون أن اصبروا‘‘یعنی ’’بعض نے پڑھا۔’’بغیر ان کے‘‘ اور’’ بعض نے پڑھاہَے۔’’یمشوں أن اصبروا‘‘
( تفسیر بیضاوی ،جُزوثانی،ص ۱۳۷)
اس بیان سے صاف ظاہر ہَے کہ مروجہ قرآن شریف میں لفظ’امشو‘‘ ہَے لیکن کسی وقت اس آیت میں ’’یمشون ‘‘پڑھا جاتا تھا۔اس کے لفظ ’’ان ‘‘کا مقام تبدیل ہُوا ہَے اور ’’اصبروا ‘‘سے پہلے’’ و‘‘بھی نہیں۔اوریوُں یہ فرق بے حد نمایاں ہَے۔
۲۳۔سورِۂ الذاریات کی آیت (۵۸) کا جملہ
’’إنّاُللہَ ھَوُاُ لَرّزّاقُ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔ ’’تحقیق اللہ وُہ ہے رزق دینے والا‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں۔’’وقریء انی أناالرزاق‘‘یعنی ’’بعض نے پڑھا ہَے تحقیق میں ہوں رزق دینے والا‘‘۔
(تفسیر بیضاوی ،جزثانی،ص ۱۹۴ )
دونوں جملوں میں عبارت کے لحاظ سے ایک نمایاں فرق ہَے۔
۲۴۔سورہ اعلیٰ کی پہلی آیت کا جملہ
’’سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب نے یوُں ترجمہ کیا ہَے:۔’’پاکی بیان کرساتھ نام پروردگار اپنے بلند کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنے تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں:۔ ’’وقریء سبحان ربی الا علی‘‘ یعنی ’’بعض نےپڑھا ہےپاک ہے میراپروردگار جوسب سے اعلیٰ ہے‘‘۔
(تفسیر بیضاوی ،جزثانی،ص ۲۵۹)
دونوں جملوں کا مقابلہ کرنے سے صاف ظاہر ہَے کہ دونوں میں ایک بہت بڑا فرق ہَے۔مروجہ قرآن شریف میں لفظ’’ سبح‘‘ استعمال کیا گیا ہَے اور بقول قاضی بیضاوی بعضوں کے نزدیک ’’سبحان ‘‘تھا۔اب اس میں اسم کا لفظ ہَے۔بعضوں نے اس کو استعمال نہیں کیا تھا۔موجودہ جملہ میں ’’ربکٔ ‘‘ہَے بعضوں نے اسے ’’ربی ‘‘پڑھا۔
۲۵۔سورۂ الشعرا کی آیت (۶۱ )کا جملہ
’’فَلَمَّا تَرَآءَ الۡجَمۡعٰنِ‘‘
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یُوں ترجمہ کرتے ہَیں۔’’پس جب آپس میں دیکھنے لگیں‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں فرماتے ہَیں۔’’وقریء تراعت الفٔستان‘‘یعنی ’’بعض نے تراعت الفستان پڑھاہے‘‘۔
(تفسیر بیضاوی ،جلد ثانی،ص ۶۹)
دونوں جملوں کو غور سے دیکھیں توفرق نمایاں ہَے۔
(تفسیر القاضی باصر الدین البیضاوی ،جزاوّل وثانی ،عبدالحمید احمد حنفی سنۃ ۱۳۵۵ ھ)۔
فَصل چہارم
قرآن شریف کے الفاظ پر بحث
سوُرۂ ابراہیم کی آیت( ۴۷ )کا لفظ
وَ اِنۡ کَانَ مَکۡرُہُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں ’’اور نہ تھا مکر ان کا کہ ٹل جاویں اُس سے پہاڑ‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں:۔ ’’وقریء وإن کا دمکر ھم‘‘
(تفسیر بیضاوی، جُز اول ،ص ۲۴۸)
مروجہ قرآن شریف میں لفظ ’’کَانَ‘‘ مستعمل ہوُا ہَے لیکن بقول قاضی بیضاوی بعض نے کان کی بجائے ’’کاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہَے۔اس نہ صرف لفظی تبدیلی نظر آتی ہے بلکہ معنی بھی بدل گئے ہَیں۔
سوُرۂ لنحل کی آیت (۹ )کا لفظ
وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔ ’’اور بعضی اس میں کج ہَے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہَیں:۔ ’’وقریءومنکم جائر‘‘
(تفسیر بیضاوی، جزاوّل،ص۲۵۵)
یعنی بعض نے ’’منھا‘‘ کی بجائے ’’منکم‘‘ پڑھا ہے۔اس تبدیلی اس سے جملے کے معنی بھی بدل گئے ہیں۔
سوُرۂ بنی اسرایئل کی آیت (۵ )کا لفظ
فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہَیں:۔’’پس بیٹھ گئے بیچ گھروں کے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہَیں ۔’’وقریءبالحاء المہلۃ‘‘
(تفسیر بیضاوی، جزاول،ص ۲۶۶ )
یعنی بعض نے ’’فجاسوا‘‘ کی بجائے ’’فحاسوا ‘‘پڑھا یعنی ج کو ح سے تبدیل کردیا۔اور یوں یہ نہ صرف لفظی بلکہ معنوی تبدیلی ہَے۔
سورۂِ الکہف کی آیت (۹۷ )کا لفظ
فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یوں ترجمہ کرتے ہیں۔’’پس نہ کر سکیں‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہَیں:۔ ’’وقری تصلَب ایسن صادأ‘‘
(تفسیر بیضاوی ،جز ثانی،ص ۱۲)
یعنی بعضوں نے’’ اسطاعوا ‘‘کی بجائے ’’اصطاعوا ‘‘پڑھا۔یعنی س کو ص میں تبدیل کردیا یہ دونوں لفظی اور معنوی تبدیلی ہے۔
سورۂ الکہف کی آیت (۷۹ )کا لفظ
یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔’’لے لیتاتھا ہرکشتی کوچھین کر‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں:۔’’وقریءکُل سَفیَنۃ صالحۃ ‘‘
(تفسیر بیضاوی، جز ثانی،ص ۱۰)
مروجہ قرآن شریف کی اس آیت میں ’’ غصباً‘‘ آیا ہے۔ جب کہ بقول قاضی بیضاوی بعض نے اس کی جگہ ’’صالحۃ‘‘ پڑھا اور یہ لفظی اور معنوی تبدیلی ہَے۔
سورِۂ الکہف کی آیت (۵۵ )کا لفظ
اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یُوں ترجمہ کرتے ہَیں:۔ ’’یا آوے اُن کے پاس عذاب سامنے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں:۔’’وقرألکوفیون قبلا بحفمتین وھو لفۃ أوجمع قبیل بمعنی أ نواع‘‘یعنی پڑھا کوفہ والوں نے’’ قُبُلاَ‘‘ ساتھ دو پیشوں کے اور اس میں ایک اور لُغت ہَے یا جمع ’’قبیل‘‘ کی بمعنی انواع یا اقسام‘‘
( تفسیر بیضاوی، جز ثانی،ص ۸)
مروّجہ قرآن شریف میں’’ قُبُلاَ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ کیاگیا ہَے سامنے اور بقول قاضی بیضاوی بعضوں نے اس کو انواع کے معنوں میں پڑھا ہَے۔اور یہ نہ صرف لفظ کی تبدیلی ہے بلکہ معنوٰی تبدیلی بھی۔
سورہ مریم آیت( ۲۴ )کا لفظ
فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اِس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں:۔ ’’پس پُکارا اِس کو نیچے اُس کے سے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں۔’’وقرأنافع وحمزۃ والکسائی و حفص۔رُوح من تحہتا بالکسر‘‘یعنی پڑھا نافع اور حمزہ۔کسائی اور حفص اور روح نے ’’من تحتھا ‘‘یعنی’’ پس آوازدی اُس کو اُس نے جو اُس کے نیچے تھا‘‘
(تفسیر بیضاوی، جز ثانی،ص ۱۴)
بقول قاضی بیضاوی ’’مِن ‘‘کو ’’ مَن‘‘ سے تبدیل کردیا گیا ہَے۔اوریہ نہ صرف لفظی تبدیلی ہے بلکہ معنوی بھی ہَے۔
سورِۂ مریم کی آیت( ۶۰) کالفظ
فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’پس یہ لوگ داخل ہوں گے جنت میں‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوں فرماتے ہیں ’’ وقرأابن کثیرو ابوعمر ووابوبکر اور یعقوب علی البناء للمفعول من ادخل‘‘یعنی ’’پڑھا ابن کثیر اور ابو عمر اور ابوبکر اور یعقوب نے اُوپر بنا مفعول کےداخل
ہونے والوں میں سے‘‘
( تفسیر بیضاوی، جز ثانی۔ص ۱۶)
مروّجہ قرآن شریف میں لفظ ’’ید خلون‘‘ استعمال ہَوا ہے جب کہ بعضوں نے بقول قاضی بیضاوی ’’من ادخل‘‘ پڑھا ہے۔اور یہ صریحا الفاظ کی تبدیلی ہَے۔
سوُرِۂ طَہ کی آیت (۱۹ )کا لفظ
وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں۔’’اور پتے جھاڑتا ہوں میں ساتھ اُس کے اُوپر بکریوں اپنی کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں میں لکھتے ہَیں:۔’’ وقریء بالسین من الھس وھوزجر لخنم‘‘۔ یعنی بعض نے س سے پڑھا ہے ’’اھس ‘‘اور وہ روکنا بکریوں کا ہَے۔
(تفسیر بیضاوی، جِز ثانی،ص ۲۱)
مروّجہ قرآن شریف میں لفظ’’ اَھُش ‘‘استعمال ہُوا ہے جس کا مطلب ہَے پتے جھاڑنا۔اور بقول قاضی بیضاوی بعضوں نے ’’اَھُس‘‘ پڑھا ہے جس کا مطلب ہے روکنا یا شور کرکے ٹھہرانا اور یہ لفظی اورر معنوی تبدیلی ہَے۔
سورۂِ طَہ کی آیت (۷۱ )کا لفظ
فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔ ’’پس البتہ کاٹوں گا میں ہاتھوں تمہارے کو‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں:۔ ’’وقریء لافطعن ولا صلبن بالتخفیف‘‘۔یعنی’’ میں صلیب دوں گا‘‘۔
(تفسیر بیضاوی ،جزثانی،ص ۲۴)
مروّجہ قرآن شریف میں لفظ ’’قطعن ‘‘مستعمل ہُوا ہے جب کہ بقول قاضی بیضاوی بعضوں نے ’’صلبن‘‘ پڑھا ہے یہ دونوں لفظ الگ الگ ہیں اور دونوں کےمعنوں میں فرق ہے۔یہ ہردو لفظی اور معنوی تبدیلی ہَے۔
سوُرِۂ طَہ آیت (۹۶ )کا لفظ
فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یوُں کرتے ہَیں:۔’’پس بھرلی میں نےایک مُٹھی خاک نیچے قدم بھَیجے ہوُئےکے سےیعنی جبرائیل کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں:۔ ’’وقریء بالصاد‘‘یعنی ’’اُنگلیوں کے سِروں سے اُٹھایا‘‘۔
(تفسیر بیضاوی، جلد دوم، ۲۶ )
مروّجہ قرآن شریف میں ’’قبض‘‘ روج ہَے۔بقول قاضی بیضاوی بعض اس کو ’’قبص ‘‘پڑھتے رہے۔ہیں۔دونوں حرفوں میں لفظی اور معنوی فرق ہَے۔
سوُرِۂ نوُر کی آیت( ۱۴) کا لفظ
اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یوُں ترجمہ کرتے ہَیں۔ ’’جس وقت لیتے تھے تم اُس کو ساتھ زبانوں اپنی کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں لکھتے ہَیں:۔’’وقریء تتلقونہ علی الاصل و تلقونہ من لقیہ إذالقیفہ وتلقونہ بکسر حرف المضارعۃ وتلقونہ من القائہ بعضہم علی بعض وتالقونہ من الأ لق والالق وھو الکذب وتٔقفونہ من ثقفتہ إذاطلبتہ فوجد تہ وتقفونہ أی تتبعونہ‘‘لفظ ’’تَلقّوُنَہ‘‘ کی آٹھ قرأتیں بیان کی گئی ہَیں۔ان میں سے چھ ایسی ہَیں
جن میں فقط اعراب اور الف وغیرہ کا فرق ہَے۔اور اس فرق سے بھی الفاظ مختلف ہوگئے ہَیں۔ان چھ قرأتوں میں سے ایک کی مثال یہ ہَے۔ ’’وتألقونہ من ألألق والالق وھوالکذب‘‘اس جملہ کے مطابق اس کا یہ مطلب ہوگا۔’’جب جھُوٹ بولنے لگے تم اُس کو اپنی زبانوں پر‘‘یوُں مروّجہ قرآن شریف کے مطلب میں اور قاضی بیضاوی کی بیان کردہ قرأت کے پیش نظر لفظی اور معنوی فرق ہَے۔
قاضی بیضاوی کی باقی عبارت مزید اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہَے۔
( تفسیر بیضاوی ،جلد دوم، ۵۲)
سورِۂ الفرقان کی آیت (۶۸ )کالفظ
وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں۔’’اور جو کوئی کرے یہ کام ملے گا بُرے وبال سے‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں لکھتے ہَیں۔’’وقریء أیا ماأی شدائد‘‘بعض نے ’’اَثاَمَاَ ‘‘کی بجائے ’’ایاما‘‘پڑھا یعنی صعب اور یہ لفظی اورمعنوی فرق ہَے۔
(تفسیر بیضاوی، جُزدوم،ص ۶۵)
سورِۂ الشعراکی آیت (۵۶ )کا لفظ
وَ اِنَّا لَجَمِیۡعٌ حٰذِرُوۡنَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں۔’’اور تحقیق ہم جماعت ہیں بہ اسباب‘‘۔
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں:۔’’وقریء حادرون بالدال المہملۃای اقوباء‘‘یعنی بعض نے’’ خذرون‘‘ کی جگہ ’’حادرون‘‘ دال مہملہ سے پڑھا ہے یعنی زیادہ قوی‘‘
(تفسیر بیضاوی، جز ثانی،ص ۶۸)
مروّجہ قرآن شریف کی اس آیت کے لفظ ’’حذرون ‘‘اور قاضی بیضاوی کے بیان کردہ لفظ ’’حادرون ‘‘میں لفظی اور معنوی فرق ہَے۔a
سورِۂ الشعر کی آیت( ۲۲۷)کا لفظ
وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’اور شتاب جانیں گے وُہ لوگ کہ ظُلم کرتے ہَیں کون سی پھرنے کی جگہ پھر جاویں گے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہَیں:۔’’وقریء ای منقلت ینفلتون من الانفلات وھوالنجاۃ والمعنی أن الظالمین یطمعون ان ینفلتواعن عذاب اللہ وسیعلمون ان یس لہم وجہ من وجود الانفلات‘‘۔یعنی بعض نے پڑھا ہَے’’منفلت ینفلتون انفلات ‘‘سے اور وہ نجات ہَے۔معنی یہ ہَیں کہ ظالمین طمانیت رکھتے ہَیں کہ وہ اللہ کے عذاب سے نجات پائیں گے اور وہ شتابی معلوم کریں گے کہ ان کے لئے کوئی وجہ وجوہ نجات نہیں ہَے‘‘
(تفسیر بیضاوی، جِزثانی،ص ۷۴)
مروجہ قرآن شریف میں الفاظ’’ مُنُقلَب یّنُقَلبُونَ‘‘ آئے ہَیں بقول قاضی بعضوں نے’’ منفلت ینفلتون ‘‘پڑھا ھے۔اور یہ نہات وافع لفظی اور معنوی فرق ہَے۔
سوُرۂ قصِص کی آیت( ۱۴) کا لفظ
فَاسۡتَغَاثَہُ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’پس فریاد کی اُس نے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہَیں۔’’وقریءاستعانہ‘‘یعنی ’’بعض نے پڑھاہَے پس مدد مانگی اُس سے‘‘
(تفسیر بیضاوی، جزثانی،ص ۸۳)
مروّجہ قرآن شریف میں فریاد کرنا آیا ہے اور بقول قاضی بیضاوی بعض نے امداد طلب کرنا استعمال کیا ہَے۔یہ صاف لفظی اور معنوی فرق ہَے۔
سُورہ العنکبوت کی آیت( ۲۴)کا لفظ
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا یُوں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’اور کہا ابراہیم نے سواےاِس کےنہیں کہ پکڑی تُم نے سواے خُداکے بُتوں کو دوستی سے درمیان اپنے بیچ زندگانی دُنیا کے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں فرماتے ہَیں:۔’’وقریء إنمامودۃبینکم‘‘
(تفسیربیضاوی، جُزثانی،ص ۹۲)
قاضی بیضاوی کے بیان کےمطابق اِس آیت میں’’ مودۃ‘‘ سے پہلے’’ انما‘‘ پڑھا جاتا تھا اور یُوں اِس جُملہ میں ایک لفظ کو زائد کیاگیا تھا۔
سوُرہ الروّم کی آیت( ۶۰) کا لفظ
وَّ لَا یَسۡتَخِفَّنَّکَ الَّذِیۡنَ لَا یُوۡقِنُوۡنَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین یوں ترجمہ کرتے ہیں:۔’’اور نہ سبک کریں تجھ کووُہ لوگ کہ نہیں یقین لاتے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں کہتےہیں۔’’وقریءولالیستحقنک‘‘یعنی ’’اور نہیں گمُراہ کریں تم کو‘‘
(تفسیر ِ بیضاوی ،جزثانی،ص ۱۰۱)
بقول قاضی بیضاوی بعض لوگ ’’خ ‘‘کی بجاے ’’ح‘‘ اور’’ ف‘‘ کی بجائے’’ ق ‘‘پڑھا کرتےتھے۔
اور یُوں اِس لفظ میں لفظی اور معنو ی فرق ہَے۔
سوُرہ یِٰس کی آیت( ۵۱) کا لفظ
فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ یُوں کرتے ہیں۔’’پس ناگہاں وہُ قبروں سے طرف پروردگار اپنے کے دوڑیں گے‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں لکھتے ہَیں:۔’’وقریء بالفاء‘‘
(تفسیر بیضاوی، جُزثانی،ص ۱۶۸)
بقول قاضی بیضاوی ’’اجداث‘‘ کی بجائے ’’اجداف ‘‘پڑھا کرتے تھے اور یہ لفظی فرق ہَے۔
سوُرۂ الجاثیۃ کی آیت (۲۷ )کا لفظ
وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہیں:۔ ’’دیکھے گا تُو ہر ایک اُمّت زانوں پر گری ہوئی‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں فرماتے ہَیں:۔ ’’وقریء جَاذیۃ ‘‘
(تفسیر بیضاوی، جُز ثانی،ص ۱۷۶)
جاذیہ کا مطلب ہَے ’’بیٹھے ہوئے انگلیوں کی اطراف پر ہَیں‘‘بقول قاضی بیضاوی یہ لفظی اور معنوی تبدیلی ہَے۔
سورُۂ اِلواقعۃ کی آیت( ۲۹) کا لفظ
وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’اور کیلے تہ بتہ‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یُوں فرماتے ہَیں:۔ ’’وقریء بالعین‘‘
(تفسیر بیضاوی، جُز ثانی،ص ۲۰۷)
بقول قاضی بیضاوی لفظ’’ طَلیح‘‘ کی بجائے >’’طلع ‘‘پڑھا جاتا تھا اور ’’ طلع‘‘ کے معنی کھُجور کےدرخت کا پھل ہَے یہ لفظی اورمعنوی تبدیلی ہَے۔
سوُرۂ الواقعۃ کی آیت (۸۱ )کا لفظ
وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ
ترجمہ
شاہ رفیع الدین صاحب یوُں ترجمہ کرتے ہَیں:۔’’اور کرتے ہوتم حصہّ اپنا یہ کہ تم جھٹلاتے ہو‘‘
قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں یوُں کہتے ہَیں:۔’’وقریء شکرم‘‘
(تفسیر بیضاوی، جز ثانی،ص ۲۰۹)
بقول قاضی بیضاوی بعض رزق کی بجائے شکر پڑھا کرتے تھے اور یہ لفظی اور معنوی تبدیلی ہَے۔
فَصل پنجم
قرآن شریف کے حروُف پر بحث
مشہور شیعہ عالم علامہ سید الحائری صاحب نے اپنی تقریر پر ۲۶ فروری ۱۹۲۳ میں قرآن شریف کےحرُوف پر بحث کرتے ہوُئے ایک بیان دیا۔جیسے سید محمد رضی الرضوی القمی نے موعظہ( تحریف قرآن) کے نام سے ترتیب دیا اور شائع کیا اُس مطبوع میں سے ضروری اقتباس پیش کئے جاتے ہَیں۔
’’فرمایا عزیزو! یاد رکھنا کہ قرآن مجید میں فاتحہ الکتاب سورُۂ فاتحہ ہَے۔جوسات آیتوں سے زیادہ نہیں۔مگر سُنیوں کی مستندومعتبر کتابوں سے ثابت ہوتا ہَے کہ ان کے ہاں ان سات آیتوں میں بھی چار آیتوں کے حروف اور الفاظ میں ضرور تحریف واقع ہوئی ہَے۔
فرمایا!مزے کی بات اس میں یہ ہَے کہ اُن کے اکا برآئمہ نے یہ تسلیم کرلیا ہَے کہ سورۃ الفاتحہ میں نہ کوئی ناسخ ہَے نہ منسوخ جیساکہ افادۃالشیوخ مطبوعہ محمدی لاہور ۱۴ سطر ۲ میں علامہ صدیق حسن خاں نے بھی یہ لکھ دیا ہے کہ ’’سوُرۂ فاتحہ ایں سورہ دوبارہ فرود امدہ بارے درمکہ مکرمہ وبارے درمدینہ منوّرہ مرسما اللہ تعالیٰ ودروے نہ ناسخ اُست نہ منسوخ زیراکہ اوّل اوثناء امت واوسط حصر استحانت درخدااخراودعا‘‘۔انتہیٰ بلفظہ۔
یعنی سورہ فاتحہ دومرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ تو مکہ معظمہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ منّورہ میں۔اور اس سورت میں نہ تو کوئی آیت ناسخ آئی ہے نہ کوئی آیت منسوخ ہوُئی ہَے۔ایساہی( تفسیر اتقان ،مطبوعہ احمدی،ص ۳۱۱ ،سطر ۱۷ ،نوع۴۷ )میں ہے کہ سورُہ فاتحہ میں نہ ناسخ آیا نہ منسوخ۔ارشاد کیا ۔اَب اس سے صاف ثابت ہوُا کہ اس پوری سورت میں نہ تو کسی آیت کا جز منسوخ ہے نہ کوئی پوری اور کل آیت منسوخ ہے۔باوجود ا س کے بنابرروایات اہل سُنت اِس سورت میں جہاں کہیں تغیرّہُوا ہَے۔وہُ لازماَ تحریف پر مبنی ہَے نہ تسیخ پر کیونکہ ناسخ منسوخ تو بروایات اہلسنت اس سورت میں آیا ہی نہیں۔
(تفسیر در منشور، جلد اوّل ،مطبوعہ مصر،ص ۱۲ سطر ۳۳ )میں امام سیوطی رقمطراز ہے۔اخراج ابن مَنصور وعبدبن حمیدو الخباری فی تاریخہ وابن الانیازی عن ابن عباس انہ قرء اھدناالسراط بالسین‘‘۔یعنی ابن عباس اھدنااسراط المستقیم سین کے ساتھ قرأت فرماتے تھے۔ابن انبازی نے کہا ہے کہ عبداللہ بن کثیر بھی سراط سین کے ساتھ قرأت کرتے رہے ہیں۔ابن ابی داؤد۔ابن اعتدر عبد بن حمید۔سعید بن منصور۔وکیع اور ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ حضرت عمر بھی سراط سین کے ساتھ قرأت کرتے رہَے۔
(درمنشور، جلد اوّل،ص ۱۵ سطر ۳۵)۔
فرمایا!کیوں جناب جب اس میں نہ ناسخ ہے نہ منسوخ تو سراط بالسین کو صراط بالصاد کے ساتھ بدل دیا گیا۔یہ تحریف بالحرف نہیں تو کیا ہَے۔دوسری مثال بھی سُن ہیں۔
(ایضاً ۱۳ سطر ۲۹ )میں امام سطیوطی نے لکھا ہَے’’اخرج الترمذی وابن ابی الدنیاوابن الانیازی کلاھافی کتاب المصاحف عن ام سلمہ ان النبّی صلعم کان یقرأ مللُ یوم الدین تعبیر الف‘‘۔
یعنی اخراج کیا ہے ترمذی نے اور ابن ابی الدنیا وابن الانیازی نے کتاب المصاحف میں ام سلمہ سے کہ پغیبر ﷺ ملک یوم الدین بغیر الف کے پڑھا کرتے تھے۔اور سطر ۳۰ میں ہے کہ ابن الانیازی نے اخراج کیا ہَے انس بن مالک سے قراء رسول اللہ صلعم وابوبکر وعمر وطلحہ والزبیروعبدالرحمن بن عوف ومعاذبن جبل ملک یوم الدین بغیر الف ۔یعنی پیغمبر اسلام ﷺاور ابو بکر عمر طلحہ۔زبیر عبد الرحمنٰ بن عوف اور معاذبن جبل نےملک یوم الدین بغیر الف کے قرأت کی ہَے۔
(ایضاً ۱۳ سطر ۳۶ )میں تیسری روایت ابوداؤد۔خطیب نے اخراج کی ہَے۔طریق ابن شہاب سے سعید بن المسیب اور برأء بن عازب سےکہ انہوں نے کہ اقرأرسول اللہ صلعم وابوبکر وعمر ملک یوم الدین بغیر الف۔فرمایا! کیوں صاحب فرمائیے جب اکا برآئمہ اہلسنت مان چُکے ہَیں کہ سورۃ الفاتحہ میں نہ کوئی آیت ناسخ ہے نہ منسوخ تو پھر دوجگہوں میں دو حرفوں کاتغیرّ یعنی صراط میں سین کا صاد سے بدل جانااور مَلک بے الف میں الف زیادہ کر کےمالک بنا دینا حروف قرآنی کی تحریف نہیں توکیا ہَے۔
(موعظہ تحریف قرآن ،جس کو سّید رضی الرضوی القمی نے مرتب کیاہَے ایڈیشن دَوم اگست ۱۹۳۲ء
کہ بلائی شیخ غلام علی شہیدیہ۔مینجر خواجہ بُک ایجنسی لاہور۔
ایڈیشن سوم مطبوعہ ۱۹۵۸ ءص۳۳۔۳۵، مینجر کتُب خانہ حسینیہ حلقہ نمبر ۵۲ موچی گیٹ لاہور۔
ختم شُدہ
کتابیات
اس مقالہ کےتیارکرنےمیں مندرجہ ذیل عربی اور اُردو کُتب سے اقتباس کیا گیا ہَے۔
مقالہ میں مندرج تمام حوالہ جات بغیر مبالغہ صحیح اور مستند ہیں۔ہرایک حوالہ نہایت حزم اور احتیاط سے درج کیا گیاہَے۔
ماخوذ :اوؔل قرآن شریف | |
قرآن شریف بغیر ترجمہ ،پبلشرز۔مولوی فیروزالدین اینڈ سنز۔فیروز پرنٹنگ پریس لاہور۔ | ۱ |
قُرآن مجید مترجم ،اُردو تحت اَللفظ ۔مترجم۔حصزت شاہ رفیح ا لدین صاحب ۔دین محمدی سٹیم پریس۔ لاہور | ۲ |
قرآن مجید معہ ترجمہ ،شاہ رفیح الدین صاحب دہلوی ومولانااشرف علی صا حب تھانوی ،پرنٹر تاج کمپنی لمیٹڈ۔لاہور | ۳ |
ماخوذ:دوم کُتب احادیث | |
صحیح بُخاری، مترجم مرزا حیر ت دہلوی۔ہرسہ جلد۔طابع وناشر؛نُورمحمد اصح المطا بع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ۔فریئرروڈ۔کراچی | ۱ |
مشکواۃالمصابیح ،مع الاکمال فی اسماءالرجال۔مکمل عربی متن۔مطبوعہ۔مطبح مجتبائے دہلی ماہ ربیع الاوّل ۱۳۴۵ | ۲ |
مثکواۃ شریف ،ہردوجلد(اردوترجمہ)طابع وناشر:نورمحمداصح المطابع کارخانہ تجارت کتب۔ آرام باغ فریئرروڈ کراچی۔ | ۳ |
مثکواۃ المصابیح ،مترجم ۔معہ شرح مظاہر الحق اُردو۔چہارجلد،لفظی ترجمہ بین السطور۔ محمدجلال الدین تاجران کتب لاہور۔مطبوعہ۔رفاءعام سٹیم پریس لاہور | ۴ |
صحیح مُسلم مثکول ،مطبوعات:محمد علی صبیح واولادہ بمیدان الازھربمصر۔مکمل عربی متن چہارجلد۔ | ۵ |
الُمعلُم’’ ترجمہ‘‘ صحیح مُسلم۔صدیقی پریس لاہور۔بازارکشمیری۱۳۰۴ | ۶ |
صحیح مسلم شریف ،مترجم۔معہ شرح نودی۔ترجمہ۔ازحضرت العلامہ مولاناوحیدالزماں صاحب۔چھ جلدوں میں مکمل(اصل عربی مع مقابل اُردوترجمہ) طابع وناشر:۔مکتبہ سعودیہ آرٹیلری میدان نمبر(۱)بنس روڈکراچی۔ملنے کاپتہ:۔مکتبہ شعیب بنس روڈکراچی۔ | ۷ |
ترمذی شریف ،موئفہ۔امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ بن سورۃاترمذی(ہردوجلد)ناشرین:۔نُورمحمداصح المطابع ، کارخابہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۔ | ۸ |
مشارق الانوار،(عربی معہ اُردو)موئفہ امام رضی الدین حسن حتبانی رحمتہ اللہ ترجمہِ ،فوائدازحضرت مولیٰناخرم علی۔مرتب۔مولانامحمدعبدالحلیم چشتی ۔ ناشر:۔نورمحمداصح المطابع ، کارخانہ تجارت کتب۔آرام باغ۔کراچی۔ | ۹ |
ابنِ ماجہ شریف مکمل ،موئفہ۔حضرت امام ابنِ ماجہ، ملنے کاپتہ:۔مکتبہ سعودیہ برنس روڈ۔کراچی | ۱۰ |
ماخوذ سوم:کُتب تفاسیر | |
الاتقان فی عُلوم ا لقرآن ، ا ز۔ امام جلال الدین سیوطی ،مکمل عربی متن (ہردو جلد) مطبوعہ حجازی پریس قاہرہ۔مصِر۔ | ۱ |
الاتقان فی عُلوم ا لقُران، اُردو (ہر دوجلد) تالیف:علامہ جلال ا لدین سیوطی، ترجمہ:۔مولانامحمد حلیم ا نصاری۔۔تصحیح و تزئین:مولانامحمدعبدالحلیم چشتی، ناشر:نُورمحمد۔اصح المطابع ،کارخانہ تجارت کتب۔آرام باغ کراچی۔ | ۲ |
تفسیرقرآن مجید، از قاضی ناصرالدین البیضاوی ،(ہردوجلد) مکمل عربی متن۔پبلشرز۔عبدالحمید احمدحنفی مصِر۱۳۳۵ ھ | ۳ |
انوارالتنزیل واسرارالتاویل، المروف باتفسیرالبیضاوی المصنف:۔الامام القاضی ناصرالدین ابوالخیرعبداللہ بن عُمر الشیرازی البیضاوی، پبلشرز:۔محمد سعید اَینڈ سنز۔قرآن محل کراچی۔ | ۴ |
ماخوذ چہارم: کتُب تواریخ | |
تاریخ الخلفاء، مصنف۔مولاناجلال الدین سیوطی، (مکمل عربی متن) پبلشرز:۔مولوی محمد اسحاق صدیقی مالک کُتب خانہ رحیمیہ دیوبند۔یو۔پی(ہندوستان) | ۱ |
بیان الامرا، ترجمہ اُردو تاریخ الخلفا۔مترجم،مولانامولوی شبیراحمد صاحب۔ ناشر:۔محمدعبدالمنان۔مکتبہ۔تھانوی دفتر رسالہ الابقاء متصل مسافرخانہ۔بندروڈکراچی۔ | ۲ |
تاریخ اسلام ،یعنی تاریخ طبری کا اُردوترجمہ ،عبداللہ العمادی صدر شعبہ دینیات۔جامعہ عثمانیہ۔مکتبہ رزاقی۔نیپرءروڈ۔کراچی۔ | ۳ |
ازالتہ الخلفاء ،عَن خلافتہ الخلفاء (مقصداوّل۔دوم) مصنف۔حضر ت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ترجمہ:حعزت مولیٰناعبدالشکور صاحب حضرت مولاناحامدالرحمن صاحب کاندھلوی ،ملنےکاپتہ:۔محمدسعیداینڈسنزتاجران کتب قرآن محل مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی۔ پبلشرز:۔نُورمحمد۔کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۔ | ۴ |
حیات امام احمد بن حنبلؓ ،تالیف:محمد ابوزہرہ پروفیسرلاکالج فواد یونیورسٹی مصِر۔ترجمہ:سیدریئس احمد جعفری۔المکتبہ السلنیہ۔شیش محل روڈلاہور۔ | ۵ |
تاریخ ابِن خلِدون، حصِہّ اوّل۔مترجمہ:ڈاکٹرشیخ عناعیت اللہ۔ایم اے۔پی ایچ ڈی۔ناشَر:شیخ عدنان۔۱۲۔جیل روڈ لاہور۔ | ۶ |
دیگرامدادی کتُب | |
آئینہ مذہب سُنّی ،مولفہ:ڈاکٹر حاجی نُورحسین صابر۔پبلشر:منیجرکُتب خانہ اثناعشری لاہور | ۱ |
موعظہ تحریِف قرآن، تقریر علامہ سعید علی الحائری۔مرتبہ:سعیدمحمدرضی الرضوی القمی۔پبلشر۔منیجرکتُب خانہ حسینیہ حلقہ نمبر۵۲موچی گیٹ لاہور۔ | ۲ |
مَوعظہ حسنہ ،ازعلامہ سعید علی الحائری۔پبلشر۔مینجرکتُب خانہ حسینیہ حلقہ نمبر۵۲موچی گیٹ لاہور۔ | ۳ |
وَفات عثمان ،مولفہ: مولانامرزایوسف حسین۔پبلشر۔منیجرامامیہ کتب خانہ لاہور۔ | ۴ |
موعظہ غدیر ،ازعلامہ سعیدعلی الحائری۔پبلشر:مینجرکتُب خانہ حسینیہ حلقہ نمبر۵۲لاہور۔ | ۵ |
حجیت حدیث، ازمولانامحمدادریس کاندھلوی۔پبلشر:ایم ثنااللہ خاں نمبر۲۶۔ریلوے روڈلاہور۔ | ۶ |
تفصیرالاصُول فی حدیث الرسُول ، مولفہ۔قافی محمد نصیرالدین صاحب۔ پبلشر:ایجوکیشنل پریس۔ڈپو۔پُرانی تحصیل لاہور۔ | ۷ |
تحریِف قرآن، مصنف۔ماسٹررامچندرصاحب دہلوی۔پبلشر؛پادری راجب علی پروپرائٹر:۔شبیرہندپریس۔امرتسر۱۸۷۸ء۔ایڈیشن دوم۔ | ۸ |
تاریخ القرآن،مصنف ،صارم الازہری صاحب | ۹ |
ترتیب نزول قرآن کریم ،از ۔محمد اجمل خان صاحب | ۱۰ |