TRIAL AND DEATH OF
JESUS CHRIST
By
Allama James Stalker
سیدنا مسیح کی گرفتاری اور
موت
مصنفہ
ڈاکٹر جیمس سٹاکر صاحب
پنجاب ریلجیس بک سوسائٹی
انار کلی ۔لاہور
۱۹۰۵
Born: February 21, 1848,
Died: February 5, 1927
ہم اس کتاب میں اپنے خُداوند کی زمینی زندگی کے آخری حالات کا مطالعہ اُس وقت سے شروع کرتے ہیں۔ جب کہ وہ عدالت کے پیادوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو گیا ۔ یہ گرفتاری آدھی رات کے وقت باغِ گتسمنی میں وقوع میں آئی۔
یروشلیم کی مشرقی جانب کو زمین قدرون کے نالہ تک ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ اور اس نالہ کے دوسری جانب کوہ زیتون واقع ہے۔ پہاڑی کی ڈھلوان سطح پر شہر کے باشندوں نے بہت سے باغ اور باغیچے لگا رکھے تھے۔ اور یہ گتسمنی کا باغ بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ ہم پختہ طور پر نہیں کہہ سکتے۔ کہ وہ احاطہ جو آج کل پہاڑی کے دامن میں حاجیوں کو بتایا جاتا ہے۔ درحقیقت وہ وہی مقام ہے۔ نہ یہ کہ وہ چھ پُرانے زیتون کے درخت جو اس باغ میں کھڑے ہیں وہی درخت ہیں جن کے سایہ میں ہماری منجی پر وہ جانکنی کی حالت طاری ہوئی۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ مقام اس مقام سے بہت دُور نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس مقام کا پتہ روایت سے ملتا ہے۔ وہی حقیقی مقام ہو۔
جانکنی کی حالت میں ابھی کچھ تخفیف(کمی ) ہوئی تھی کہ ( جیسا کہ مقدس متی لکھتا ہے ) دیکھو یہوداہ جو بارہ میں سے ایک تھا آیا اور اُس کے ساتھ ایک بڑی بھیڑ۔ وہ شہر کے مشرقی دروازے کے رستہ سے آئے تھے۔ اور اب باغ کے پھاٹک پر پہنچ گئے تھے۔ چاند کی چودھویں تھی۔ اور لوگوں کی دھندلی صورتیں گرد آلود سڑک پر آتی ہوئی صاف نظر آتی تھیں۔
مسیح کی گرفتاری عدالت کے دو تین پیادوں کے ذریعہ وقوع میں نہیں آئی تھی۔ وہ ایک ’’ بڑی بھیڑ ‘‘ تھی۔ گو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کہ یہ لوگوں کا ایک بے ترتیب اژدحام(بھیڑ۔مجمع) تھا۔ چونکہ یہ گرفتاری مذہبی جماعت کی تحریک سے وقوع میں آئی تھی۔ اس لئے اُن کے خادم ۔ یعنی لاویوں کی پولیس جو ہیکل کی حفاظت پر متعین (مقرر)تھی۔ سب سے آگے تھی ۔ لیکن چونکہ اُس وقت یسوع کے ساتھ کم سے کم گیارہ جانباز آدمی موجود تھے۔ اور یہ بھی خوف تھا کہ شہر کو واپسی کے وقت شاید اُس کے پیروؤں کی بے شمار جماعت اُس کی حمایت پر اُٹھ کھڑی ہو۔ یہ مناسب سمجھا گیا تھا۔ کہ رومی گورنر سے درخواست کر کے سپاہیوں کی ایک کمپنی بھی بہم پہنچالی جائے۔ جوعیدِ فسح کے موقع پر انتظامی ضرورتوں کے خیال سے قلعہ انٹونیا میں جو ہیکل کے سر پر واقع تھا ۔ مقیم تھے اُن کے علاوہ صدرِ مجلس کے بعض ممبر بھی بذات خود ہمراہ چلے آئے تھے۔ تا کہ اس کارروائی میں کسی قسم کا خلل واقع نہ ہونے پائے۔ یہ مخلوط (ملُی جُلی)جماعت تلواروں اور لاٹھیوں سے مسلّح (لڑنے کو تیار)تھی۔ یا غالباً یوں کہنا چاہیے ۔ کہ تلواریں رومی سپاہیوں کے پاس تھیں اور لاٹھیاں ہیکل کی پولیس کے پاس ۔ او ر اُن کے پاس لالٹینیں اور مشعلیں بھی تھیں۔ جو وہ غالباً اس خیال سے ساتھ لے آئے تھے۔ کہ شاید یسوع اور اُس کے پیروؤں کی باغ کے کنج تنہائی میں تلاش کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔ الغرض یہ ایک خوفناک جماعت تھی جو ہر طرح سے اس مہم کو کامیابی کے ساتھ سر انجام دینے پر کمر بستہ (تیار)معلوم ہو تی تھی۔
اس جماعت کا رہنما یہوداہ تھا۔ اس شخص کی عام خصلت(فطرت۔عادت ) اور اس کے جرم کی ماہیت کی نسبت آئندہ بہت کچھ ذکر ہو گا۔ لیکن یہاں ہم فقط اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ اس طریق میں جو اُس نے اپنے مقصد کو پورا کرنے میں اختیار کیا۔ کئی ایک پہلو تھے جو خاص کر قابلِ نفرت معلو م ہوتے ہیں۔
اُس نے فسح کی بے حرمتی کی۔ کسی نے خوب کہا ہے ۔ کہ چھے دن میں اچھا کام کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کام بُرا ہو تو ایک مقدس روز میں کرنے سے اُس کی بُرائی اور بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ عیدِ فسح سال بھر میں نہایت مقدس موقع سمجھا جاتا تھا۔ اور فسح کے ہفتہ میں خاص کر یہ شام نہایت مقدس تھی ۔ یہ ایسا ہی ہےجیسے کہ ایک مسیحی ملک میں کوئی شخص خاص کرسمس یعنی عید ِتو لد(پیدائش کی عید) کے روز کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرے۔
اُس نے اپنے آقا پر اُس کے کُنج عزلت(تنہائی میں وقت گزارنے کی جگہ) میں جہاں وہ ذکر و فکر اور عبادت کے لئے جایا کرتا تھا۔ حملہ کیا ۔ گتسمنی کا باغ یسو ع کو بہت ہی مرغوب(پسند) تھا۔ اور یہوداہ کو خوب معلوم تھا کہ وہ وہاں کس مطلب کے لئے جایا کرتا ہے ۔ مگر اُس نے اس امر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا۔ بلکہ برخلاف اس کے اُس نے اپنےآقا کی اس عادت سے فائدہ اُٹھایا ۔
مگر سب سے بُری بات جس کی وجہ سے بنی انسان اُسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ وہ نشان تھا ۔ جس کے ذریعہ سے اُس نے یہ ٹھہرایا تھا ۔ کہ وہ یسوع کو اس کے دشمنوں پر ظاہر کردے گا۔ اغلب (یقینی)ہے کہ وہ اُس بھیڑ سے آگے آگے کچھ فاصلہ پر جارہا تھا۔ گویا یہ دکھانے کو کہ وہ اُن کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اور اُن سے پہلے بھاگ کر اس غرض سے آیا ہے کہ اُس کو اُس کے خطر سے خبردار کر دے۔ اور اُس مصیبت کی حالت میں اس کے ساتھ اپنی ہمدردی ظاہر کرے۔ اور اُس نے اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر اور دھاڑیں مار کر کہنا شروع کیا۔ ’’ خُداوند ۔ خُداوند ‘‘ اور نہ صرف اُسے بوسہ ہی دیا بلکہ بڑی گرم جوشی سے اور کئی بار ۔ جیسا کہ انجیل کے یونانی لفظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک دُنیا میں سچی اور خالص محبت کا وجود ہے۔ ہر ایک شخص جس نے کبھی اس محبت کے نشان ( یعنی بوسہ ) کو استعمال کیا ہے۔ اُس فعل کو سخت نفرت کی نظر سے دیکھے گا۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو دل انسانی اور اُس کی تمام محبتوں کے خلاف سر زد ہوا ہے۔ مگر کوئی شخص اُس کی خوفناک صورت کو محسوس کرنے کی ایسی قابلیت نہیں رکھتا جیسے کہ یسوع ۔ یقیناً یسوع کے دل پر اُس سے سخت چوٹ لگی ہو گی ۔ اُس رات کو اور دُوسرے دن اُس کے چہرہ پر قسم قسم کے دھبے نظر آتے تھے۔ اُس پر خون کے پسینے کی لکیریں ہویدا (ظاہر)تھیں۔ طمانچوں کے گہرے نشان تھے۔ وہ تھوک سے آلودہ ہو رہا تھا ۔ کانٹوں کے تاج سے لہو لہان تھا۔ مگر ان میں سے کسی چیز نے اُس کے دل کو ایسا نہ چھیدا ہو گا۔ جیسا اس بوسہ نے ایک اور شخص ۔ جس کے ساتھ کچھ کچھ ایسا ہی سلوک ہوا ہو گا۔ کہتا ہے۔ دشمن تو نہیں تھا جو مجھے ملامت کرتا ۔ نہیں تو میں اُس کی برداشت کرتا ۔ نہ یہ کینہ رکھنے والا تھا۔ جو مجھ پر بالا دستی(کسی پر اختیار رکھنا) کرتا تھا۔ تب میں اُس سے چھپ جاتا ۔ بلکہ تُو میرا ہم رتبہ آدمی ۔ میرا اُلفتی بند ہ اور میرا جان پہچان تھا۔ کہ ہم مل کے خوش اختلاطی(میل میلاپ ۔پیار محبت) کرتے تھے۔ اور گروہ کے ساتھ خُدا کے گھر میں جایا کرتے تھے۔ ( زبور ۵۵: ۱۲۔ ۱۴) ۔ پیستر اس کے کہ اس نے بوسہ دیا ۔ یسوع نے اُسے اُسی پُرانے لقب یعنی دوست کے نام سے یاد کیا۔ لیکن جب وہ بوسہ دے چکا تو وہ یہ کنپا دینے والا سوال کرنے سے باز نہ رہ سکا ۔ کہ ’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے ؟‘‘۔
بوسہ شاگردی کا نشان تھا۔ مشرقی ممالک میں شاگرد اپنے ربیوں یعنی اُستادوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ اور غالبا یسوع اور حفاظت سے لے جانا۔
________________________________
۔ جو یونانی لفظ یہاں استعمال ہوا وہ وہی ہے۔ جو اس گنہگار عورت کے قصہ میں استعمال ہوا ہے۔ جو خُداوند کے قدموں کو تیل مل کر بوسہ دیتی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ بجائے اُس کے پکڑنے کے وہ خود پکڑے گئے وہ ایک کمینہ اور پُر دغا کام میں مشغول تھے۔ انہوں نے ایک نمک حرام شخص کو اپنا رہنما بنایا تھا۔ اور اُمید کرتے تھے۔ کہ مسیح کو یا تو سوتے میں یا چپ چاپ اور چوری چوری جا پکڑ یں گے اور اگر وہ جاگتا ہو گا تو غالباً وہ بھاگ کھڑا ہو گا ۔ اور آخر کار وہ اُس کا تعاقب (پیچھا)کر کے اُسے کسی کنج تنہائی(ویران جگہ ) میں لزراں و ترسا ں(ڈرنا کانپنا) حالت میں جا پکڑ یں گے۔ وہ اُسے بے خبر جا پکڑنا چاہتے تھے۔ لیکن جب وہ خود بلا دھڑک اُن کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اور اُن سے خود پوچھ پاچھ کرنے لگا تو وہ متحیر(ہکا بکا) ہو گئے۔ اور انہیں اپنا ڈھنگ بدلنا پڑا ۔ جس کے لئے وہ بالکل تیار نہیں تھے۔ اس طور سے گویا اُس نے اُن سب کو وہا ں کھڑا کر کے گویا شرم و خجالت(شرمندگی) کا تختہ ءمشق (کسی مقصد کے لئے کسی کو بار بار استعمال کرنا)بنا دیا۔
اب اُن کی تمام تیاریاں کیسی بے ہودہ معلوم ہونے لگی ہوں گی ۔ یہ سپاہی اور تلواریں اور لاٹھیاں ۔ مشعلیں اور لالٹینیں جو اب چاند کی چاندنی میں پھیکی معلوم ہو رہی تھیں ۔ بھلا کس مصرف(کام) کی تھیں؟ یسوع نے انہیں یہ بات اچھی طرح محسوس کرا دی۔ اور انہیں گویا منوا دیا کہ وہ کس رُوح و مزاج کے آدمی ہیں۔ اور اُس کی مزاج اور رُوح سے کس قدر نا آشنا (نا واقف)ہیں۔ ’’ تم کسے ڈھونڈتے ہو ‘‘ ؟ اُس نے دوبارہ اُن سے یہی سوال کیا تا کہ وہ اس امر کو اچھی طرح معلوم کرلیں ۔ کہ انہوں نے اُسے نہیں پکڑا بلکہ وہ خود اپنے کو اُن کے حوالہ کر رہا ہے۔ یہ موقع بالکل اُسی کے ہاتھ میں تھا۔ اُس نے پھر خاص کر صدر ِمجلس کو مخاطب کر کے جو غالباً اس وقت پس پشت(پیچھے) رہنا زیادہ پسند کرتے۔ اور اُن کی ان تمام تیاریوں کی طرف اشارہ کر کے اُن سے سوال کیا کہ ’’ کیا تم ڈاکو جان کے تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے پکڑنے کو نکلے ہو؟ میں ہر روز تمہارے پاس ہیکل میں تعلیم دیتا تھا۔ اور تم نے مجھے نہیں پکڑا ۔ وہ تن تنہا تھا اور اگرچہ جانتا تھا کہ کس قدر لوگ اُس کے مقابلہ میں ہیں۔ تو بھی ہرگز نہ ڈرا ۔ وہ ہر روز ہیکل میں تعلیم دیتا رہا۔ یعنی سب سے زیادہ عام جگہ میں ۔ اور ایسے اوقات میں جب سب لوگ اُسے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن وہ جو ایسے طاقتو ر اور بے شمار تھے۔ تو بھی اُس سے ڈرتے رہے۔ اور اس لئے انہوں نے اس شرارت کے لئے آدھی رات کا وقت پسند کیا ہے۔ اور پھر فرمایا ۔ یہ تمہاری گھڑی اور ظلمت(تاریکی) کا اختیار ہے۔ یہ آدھی رات کا وقت تمہارا ہے کیونکہ تم ظلمت کے فرزندہو۔ اور جو طاقت تمہیں میرے خلاف حاصل ہے وہ بھی ظلمت کی طاقت ہے۔
اس سبط(یہودی قوم) ’’یہوداہ کے شیر ‘‘ نے اس موقع پر یہ الفاظ فرمائے ۔ مگر یاد رکھو کہ ایسے ہی الفاظ وہ اُس دن بھی کہے گا جب کہ اُس کے دشمن اُس کے پاؤں کے نیچے کئے جائیں گے۔ ’’ بیٹے کو چومو ۔ تانہ ہو کہ وہ بے زار ہو اور تم راہ میں ہلاک ہو جاؤ۔ جب اُس کا قہر یکا یک بھڑکے مبارک وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے ۔ (زبور ۲: ۱۲)۔
اس امر کو بار بار یاد دلانا مناسب نہیں کہ یہ وہی فتح تھی ۔ جو مسیح نے باغ کے اندر حاصل کی تھی۔ جو اس فتح یا بی کا جو اُس نے باغ کے دروازے پر حاصل کی باعث تھی۔ وہ قوت اور دبدبہ(رعُب) جو اُس نے اس موقع پر ظاہر کیا دُعا اور بیداری سے حاصل ہو ا تھا۔
یہ امر اُن لوگوں کی حالت کے ساتھ مقابلہ کرنے سے جنہوں نے دُعا بیداری سے کام نہیں لیا تھا۔ اور بھی زیادہ واضح اور بین(صاف) ہو جاتا ہے۔ اُن کے لئے ہر ایک چیزبطورنا گہانی آفت کے وارد (ظاہر)ہوئی۔ جس سے وہ اندھے اور حیرت زدہ ہو گئے۔ وہ گہری نیند سے جگائے گئے۔ اور آنکھیں ملتے ہوئے اور ڈگمگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب یسوع پر لوگوں نے ہاتھ ڈالا تو اُن میں سے ایک بولا ۔ کیا ہم تلوار چلائیں؟ اور جواب کا انتظا ر کئے بغیر وار کر بیٹھا ۔ لیکن کیسی بے ہودہ ضرب (وار)! نیم خفت(جو نیند سے مکمل بیدار نہ ہو) آدمی سے اور کیا اُمید ہو سکتی ہے۔ سر کے بجائے اُس نے صرف کان کاٹ ڈالا ۔ اور اس ضرب کا اُسے سخت خمیازہ (سزا)بھی اُٹھا نا پڑتا ۔ اگر یسوع کامل اطمینان کے ساتھ پطرس اور اُن تلواروں کے درمیان جو اُس کے مارنے کے لئے اُٹھی ہو ں گی نہ آجاتا ۔ اُس نے فرمایا ۔ کہ یہی بس ہے۔ اس طرح سے سپاہیوں کو روک رکھا۔ اور اُس آدمی کا کان چھو کر اسے بھلا چنگا کر دیا ۔ اس طور سے اپنے بے چارے شاگرد کی جان بچائی۔
یقیناً یسوع ضرور متبسم (مسکرانا)ہوا ہو گا۔ جب اُس نے پطرس سے فرمایا کہ ، اپنی تلوار میان میں رکھ ۔ کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں۔ وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔ تلوار کی جگہ میان کے اندر ہے۔ نہ باہر ۔ اُس کا کھینچنا اس معاملہ میں بے محل (بے موقع)ہے۔ اور جو لوگ کسی معقول وجہ کے یا باختیار حاکم کے حکم کے بغیر تلوار کھینچتے ہیں۔ انہیں جان کے بدلے جان دینی پڑے گی۔
لیکن اس سے بڑھ کر اُس نے اُس اعلیٰ درجے کی فصاحت (خوش کلامی)کے ذریعہ جس سے اُس نے اپنے دشمنوں سے کلام کیا۔ پطرس پر یہ ثابت کر دیا کہ اس کا فعل اس موقع پر کیسا بے محل (غیر مناسب ) تھا۔ یہ فعل اُس کے اُستاد کے رُتبہ کے زیبانہ تھا۔ کیونکہ میں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا۔ اور ایسے بڑے لشکر کے مقابلہ میں یہ چھوٹی سی جماعت جو مشکل سے سو دو سو آدمی کے قریب ہو گی ۔ کیا حقیقت رکھتی ہے؟ اس کے علاوہ یہ فعل نوشتوں کے بھی خلاف ہے ۔
وہ نوشتے کہ یوں ہی ہونا ضرور ہے۔ کیونکر پورے ہو ں گے۔ اور یہ اُس کی اپنی منشاء (مرضی) اور اُس کے باپ کی مرضی کے بھی خلاف ہے ۔جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا کیا میں اُسے نہ پیوں ؟۔
بے چارہ پطر س ! اس موقع پر جو کچھ اُس سے ہوا ۔ وہ ٹھیک اُس کی طبیعت کے تقاضا کے مطابق تھا ۔ اس کے فعل میں ایک قسم کی راستی اور شرافت تو تھی۔ مگر وہ فعل ہی بے موقع تھا۔ کاش وہ گتسمنی کے اندر بھی ایسی ہی آمادگی ظاہر کرتا اور جو کچھ اُسے کہا گیا تھا۔ اُس پر عمل کرتا ۔ جیسا کہ وہ گتسمنی کے باہر جو کچھ اُسے نہیں کہا گیا تھا کر نے کو تیار تھا ! اس سےکہیں بہتر ہو تا اگر وہ باغ کے اندر رو حانی تلوار کھینچتا اور اُس کان کو کاٹ ڈالتا جو ایک لونڈی کے دھمکی سے اُسے گمراہ کرنے کا وسیلہ بنا پطرس کے چلن نے اس موقع پر بھی دوسرے موقعوں کی طرح ثابت کر دیا کہ محض گر م جوشی جب وہ مسیح کی رُوح و مزاج پر مبنی نہ ہو ہماری رہنما بننے کی ہر گز لا ئق نہیں ہے۔
شاید پطرس کو اُس عہدو اقرار نے جب اُس نے سخت قسم کھا کر یہ کہا تھا۔ کہ خواہ اُسے مرنا ہی کیوں نہ پڑے وہ مسیح سے چمٹا رہے گا۔ اس امر پر آمادہ کیا کہ اپنے آقا کے واسطے کچھ نہ کچھ کر بیٹھے۔ مگر اوروں نے بھی تو وہی بات کہی تھی ۔ کیا وہ اب انہیں یاد تھی؟ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ سب اُسے بھول گئے تھےجان کے خطرے کے سامنے وہ سب کچھ بھول گئے۔ اور ہر ایک کو اپنی اپنی پڑگئی ۔ بعض اوقات بیماری کی حالت میں خصوصاً جب کوئی دماغی بیماری ہو۔ تو اس قسم کے عجیب اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ وہ چہرہ جس پر سالہا سال کی تادیب و تربیت نے شائستگی اور وجاہت کی مہر ثبت کی ہوئی تھی۔ دفعتہً (اچانک)سب کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ اور اُس کی جگہ پھر وہی اصلی گنوار پن عود کر آتا ہے۔ اسی طرح اپنے آقا کی گرفتاری کے خوف نے جوان شاگردوں پر جنہوں نے دُعا کے ذریعہ اپنے کو تیار نہیں کیا تھا۔ دفعتہً آن پڑا ۔ کچھ عرصہ کے لئے سالہا سال کی عقیدت کو ضائع کر دیا ۔ اور وہ پھر گلیل کے نر ےمچھوےکے مچھوے ہی رہ گئے ۔ اور مسیح کی گرفتاری کے وقت سے لے کر اس کے جی اُٹھنے تک ان کی یہی حالت رہی۔
اس معاملہ میں بھی اُن کا چلن اُن کے آقا کے چلن سے بالکل مختلف ہے۔ جیسے کہ چڑیا جب اُس کے گھونسلے پر کوئی دشمن حملہ آور ہوتا ہے اُس کے مقابلہ کو نکلتی ہے۔ یا گڈریا خطرے کے وقت اپنے گلے کے آگے آگے ہوتا ہے۔ اسی طرح یسوع نے بھی۔ جب اُس کے گرفتار کرنے والے نزدیک آئے ۔ اپنے کو اُن لوگوں اور اپنے شاگردو ں کے بیچ میں ڈال دیا۔ اور کسی حد تک اسی غرض سے تھا۔ کہ وہ دلیر انہ آگے بڑھا ۔ اور یہ کہہ کر اُن کی ساری توجہ کو اپنی ہی طرف لگا لیا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ جب انہوں نے جواب دیا۔ یسوع ناصری کو ۔ تو اُس نے فرمایا میں ہی ہوں۔ اس لئے اگر تم مجھے ڈھونڈتے ہو تو انہیں جانے دو۔ اس سے جو خوف و د ہشت اُن پر طاری ہوئی وہ اُس کے پکڑنے کی فکر میں اُس کے شاگردوں کو بالکل بھول گئے ۔
اور یہی اُس کا مقصد بھی تھا۔ مقدس یوحنا اس کا ذکر کرتے ہوئے اس بیان میں ایک عجیب فقرہ زیادہ کرتا ہے۔ کہ یہ اُس نے اس لئے کیا کہ اُس کا یہ قول پورا ہو کہ جنہیں تو نے مجھے دیا ۔ میں نے اُن میں سے کسی کو بھی نہ کھویا ۔ یہ قول اُسی سفارشی دُعا میں ہے۔ جو اُس نے سب سے پہلی شراکت اقدس کی میز پر کی۔ مگر اُس موقع پر اُس کے ظاہراً یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ اُس نے روحانی طور پر اُن میں سے کسی کو نہیں کھویا ۔ لیکن یہاں اُس کی تلوار یا صلیب کے ذریعہ نہیں کھویا ۔ جو پکڑے جانے کی صورت میں اُن کا حصّہ ہوتا ۔ تاہم اُس کے ان ظاہر ی معنوں میں بھی ایک گہر ا نکتہ ہے۔ مقدس یوحنا یہ جتانا چاہتا ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی اُس وقت اُس کے ساتھ گرفتار ہو جاتا تو ظن غالب(مضبوط رائے) یہ ہے کہ وہ اُس موقع پر پورا نہ اُترتا ۔ وہ اُس کا انکار کر بیٹھتے ۔ اور اس لئے زیادہ افسوس ناک معنوں میں درحقیقت کھوئے جاتے۔
یسوع نے خوب جان کر کہ اُن کی یہ حالت ہے۔ اُن کے لئے منفر کا راستہ کھول دیا۔ اور وہ سب اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ شاید یہ اُن کے قیاس میں بہتر تھا۔ کیونکہ اگر اس کے ساتھ رہتے ۔تو شاید اس سے بھی کچھ بد تر کام کر بیٹھتے ۔ لیکن یہ امر اُن کے اصلی قول و قرار کے کس قدر برعکس تھا کہ اگر تیرے ساتھ مجھے مرنا ضرور ہو۔ تو بھی تیرا انکار ہر گز نہ کروں گا ۔ مجھے بعض وقت ایسا خیال آیا کرتا ہے۔ کہ مسیحی دین کے لئے یہ کیسی بڑی عزت کا باعث ہوتا اور فطرت ِانسانی کی تاریخی میں کیسی سنہری یاد گار ہوتی ۔ اگر ان میں سے ایک دوہی۔ مثلا ًیہ دونوں بھائی یعقوب اور یوحنا اس کے ساتھ قید خانہ یا موت تک جانے کے لئے حوصلہ کرتے۔ اُس صورت میں یہ تو سچ ہے۔ کہ ہم مقدس یوحنا کی تنصیفات سے محروم رہتے۔ اور اُس کی مکاشفات کی کتاب اور انجیل اور خطوط ہم کو حاصل نہ ہوتے۔ مگر یہ کیسا اچھا مکاشفہ ہوتا۔ کیسی اچھی انجیل ہوتی ۔ اور کیسا عمدہ خط ہوتا ۔
مگر ایسا نہیں ہونا تھا ۔ یسوع کو بے یار مددگار جانا تھا۔ میں نے تن تنہاانگوروں کو کو لھو میں کچا اور لوگوں میں سے میرے ساتھ کوئی نہ تھا ۔ سو وہ ’’ اُسے باندھ کر لے گئے‘‘۔
یہ جماعت یسوع کو اپنے درمیان میں لئے ہوئے قدرون نالے سے پار اُتری اور وہاں سے شہر کی طرف اُوپر چڑھتی ہوئی اور پھر دروازہ میں سے گذر کر شہر کی گلیوں میں جا پہنچی ۔ آدھی رات کا وقت تھا کہیں کہیں کوئی اِکا دُکا چلتا پھر تامل جاتا تھا۔ تو اس جماعت کو دیکھ کر استفسار (پوچھ گچھ) کی غرض سے پاس آتا تھا اور قیدی کی صورت پر غور سے نظر کر کے اپنے گھر کا راستہ نہ لیتا وہ یسوع کو سردار کاہن کے محل پر لے گئے جہاں اُس کی تحقیقات شروع ہوئی۔
یسوع کو دو عدالتوں کے سامنے پیش ہونا تھا۔ ایک تو دینی عدالت کے سامنے دوسراملکی عدالت کے ۔ ایک کائفاسر دار کاہن کے سامنے۔ دوسرے پنطیس پیلا طس رومی گورنر کے سامنے ۔
اس کا سبب یہ تھا کہ اُس زمانہ میں یہودیہ رومی سلطنت کے تابع تھا اور صوبہ سوریہ یا شام کا ایک حصّہ سمجھا جاتا تھا۔ اور ایک رومی حاکم اُس پر حکومت کرتا تھا جو قیصر یہ کے نئے اور شاندار بندرگاہ میں جو یروشلیم سے پچاس میل کے فاصلہ پر تھا سکونت رکھتا تھا۔ مگر یروشلیم میں بھی اُس کا محل تھا۔ جہاں وہ وقتاً فوقتاً سکونت پذیر ہوا کرتا تھا۔
سلطنت روما کی یہ پالیسی نہ تھی۔ کہ جو جو ممالک اُس کے زیر فرمان آتے تھے۔ اُن سے ہر قسم کی حکومت و اختیار چھین لے۔ وہ اُن کا دل لبھانے کے لئے کم سے کم برائے نام سلف گورنمنٹ کا نشان اُن کے ہاتھوں میں رہنے دیتی تھی۔ اور جہاں تک اُس کے اعلیٰ اختیار و حکومت کے اصول اجازت دیتے وہ ملک کے اندرونی معاملات کا نظم و نسق(انتظام) انہیں لوگوں کے ہاتھ میں سپر د کر دیتی تھی۔ خاص کر وہ مذہبی معاملات کا بہت کچھ لحاظ رکھتی تھی۔ اور اُن میں حتی الامکان دست اندازی نہیں کرتی تھی۔ اس لئے یہودیوں کی قدیمی مذہبی عدالت جو سنیڈرن یعنی صدر عدالت کے نام سے مشہور تھی۔ اب بھی یہ اختیار رکھتی تھی۔ کہ مذہبی معاملات کی تفتیش و تحقیقات کرے اور مجرموں کو سزا دے۔ البتہ اگر کوئی اس قسم کا جرم ہوتا ۔ جس میں سزائے موت کا فتویٰ دیا جانا مناسب تھا۔ تو اُس صورت میں مقدمہ گورنر کے سامنے پیش ہوتا ۔ لیکن اگر وہاں بھی سزائے موت بحال رہتی تو اس سزا کا عمل درآمد بھی گورنر کے ہاتھ میں تھا۔
یسوع دینی حکام کے حکم سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اور انہوں نے اس پر موت کا فتویٰ دیا ۔ لیکن اس فتویٰ کی تعمیل کا انہیں اختیار حاصل نہ تھا۔اس لئے ضرور تھا کہ اسے پیلاطس کے سامنے حاضر کریں جو اتفاق سے شہر ہی میں موجود تھا۔ اور اُس نے اس مقدمہ کی ازسر نو تحقیقات کی۔ اور یہ لوگ گویا اُس کے سامنے بطور مستغیث یا مُدعی (دعویٰ کرنے والے ) کے تھے۔
____________________________
۱۔یسوع مسیح کی موت اور گرفتاری۔غالباً وہ چھوٹا سا واقع جو مقدس مرقس نے لکھا ہے۔ اسی قبیل کا تھا۔ ’’ مگر ایک جوان اپنے ننگے بدن پر مہین چادر اوڑھے ہوئے اس کے پیچھے ہو لیا تھا۔ اُسے لوگوں نے پکڑا ۔ مگر وہ مہین چادر چھوڑ کر ننگا بھاگ گیا۔ ( مرقس ۱۴: ۵۱) میں نے اس واقع کو شامل نہیں کیا کیونکہ درحقیقت میں نہیں جانتا کہ اس کی نسبت کیا کہوں۔ غالباً اس کے بیان سے انجیل نویس کو یہ جتانا مقصود تھا ۔ کہ اس موقع پر سپاہیوں کا برتاؤ کیسا وحشیانہ تھا اور کہ اگر یسوع کے شاگردوں میں سے کوئی اُن کے ہاتھ لگ جاتا تو اُس کا کیا حال ہوتا ۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ مقدس مرقس ہی تھا اور جیسے مصور تصویر کے کسی گوشہ میں اپنا دستخط ثبت کر دیتا ہے۔ اسی طرح یہ گویا انجیل کے گوشہ میں مرقس کا دستخط ہے۔
نہ صرف د وقسم کی تحقیقاتیں تھیں ۔ بلکہ تحقیقات میں تین تین علیحدہ مدارج(درجے) تھے۔ یعنی دینی تحقیقات میں یسوع پہلے حنا کے سامنے پیش ہوا۔ پھر قا ئفااور صدر مجلس کے سامنے رات کے وقت ۔ اور پھر اُسے عدالت کے سامنے دوبارہ صبح کے وقت ۔ اور دوسری یعنی ملکی عدالت میں بھی وہ پہلے پیلا طس کے سامنے پیش ہوا جس نے یہودیوں کے فتویٰ کو بحال رکھنے سے انکار کیا۔ تب اپنا پیچھا چُھڑانے کے لئے اُس نے اُسے ہیرودیس حاکم گلیل کے پاس بھیج دیا۔ جو اُس وقت یروشلیم میں مقیم تھا۔ مگر مقدمہ پھر رومی گورنر کے پاس واپس آگیا ۔ اور اُس نے اپنے ضمیر کے خلاف سزا ئے موت کے فتوے کو بحال رکھا۔
لیکن اب میں ذرا الفصیل کے ساتھ مُقدمہ کے اُن تین مدارج جو دینی عدالت کے سامنے پیش آئے بیان کروں گا۔
مُقدس یوحنا بیان کرتا ہے کہ یسوع کو پہلے حنا کے پاس لئے گئے۔ یہ شخص ایک ستر سال کا بڈھا تھا۔ جو اس سے بیس سال پہلے سردار کاہن رہ چکا تھا۔ اس کے بعد اُس کے پانچ بیٹے یکے بعد دیگر ے سردار کاہن ہوئے۔ کیونکہ اُس زمانہ میں یہ عہدہ عمر بھر کے لئے نہیں ہوتاتھا۔ بلکہ ہر ایک شخص صرف تھوڑے تھوڑے عرصہ کے لئے سردار کاہن رہتا تھا۔ اس وقت قائفا جو سردار کاہن تھا وہ اُس کا داماد تھا ۔ حنا اُس وقت بھی بڑا ذی اختیار آدمی تھا۔ اور ایک طرح سے سب دینی معاملات میں درحقیقت وہی مختار سمجھا جاتا تھا۔ اگر چہ برائے نام عہدہ قائفا کے نام تھا ۔ وہ دراصل ہیرودیس اعظم کے بلانے پر اسکندریہ سے آیاتھا۔ اور اس کے خاندان میں سب کے سب لائق فائق مگر بہت ہی پُر ہوس اور مغرور لوگ تھے۔ جُوں جُوں اُن کی تعداد بڑھتی گئی۔ وہ حکومت اور اختیار میں بھی بڑھتے گئے۔ اور رفتہ رفتہ سب قسم کے بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہو گئے ۔ وہ صدوقی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور انہیں اس فرقہ کا کامل نمونہ سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ بڑے سر دمہر مغرور اور دنیا پرست تھے۔ اہلِ ملک کے درمیان وہ ہرگز ہر دلعریز نہ تھے۔ لیکن جتنا لوگ اُن سے نفرت رکھتے تھے۔ اتنا ہی اُن سے ڈرتے بھی تھے۔ وہ بڑے حریص اور لالچی تھے۔ اور اس لئے جہان تک اُن کا داؤچلتا تھا۔ مذہبی ریت و رسوم کے ذریعہ سے لوگوں کو لُوٹتے رہتے تھے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ہیکل کے صحن میں جو کار و بار ِتجارت جاری تھا۔ جس پر یسوع نے اس سے چند روز پہلے ایسا سخت فتویٰ جاری کیا تھا۔ وہ نہ صرف اُن کی اجازت سے ہوتا تھا۔ بلکہ اُس میں اُن کی بڑی مالی منفعت (فائدہ۔منافع)تھی۔ اگر یہ سچ ہے تو ظاہر ہے کہ یسوع کی اس حرکت نے سردار کاہن کے خاندان کے دل میں اُس کی نسبت کس قدر غیظ و غضب(سخت غصّہ) پید ا کر دیا ہو گا۔
غالباً یہ سخت نفرت و عداوت ہی تھی۔ جس نے حنا کو یسوع کے سپرد عدالت کرنے پر آمادہ کیا۔ اغلب (یقینی)ہے کہ اس مکار صدوقی نے یہوداہ کے ساتھ سودا کرنے اور یسوع کی گرفتاری کے لئے سپاہی بھیجنے میں بہت کچھ حصّہ لیا ہو گا۔ اس لئے وہ اپنی تمام کار ستانیوں کا نتیجہ دیکھنے کے لئے رات کو جاگتا رہا ہو گا۔ اور اس وجہ سے وہ لوگ بھی یسوع کو گرفتار کر کے پہلے حنا کے پاس ہی لے گئے ۔ لیکن جو کچھ پوچھ پاچھ حنا نے اُس وقت کی ہو گی وہ باضابطہ نہ تھی۔
مگر صدر مجلس کے ممبران کو جمع کرنے کے لئے وقت چاہیے۔ آدھی رات کے وقت ہی ممبروں کے جمع کرنے کےلئے شہر میں چاروں طرف قاصد دوڑائے گئے۔ کیونکہ مقدمہ ضروری تھا ۔ اور اُس میں دیر کی گنجائش نہ تھی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صبح سویر ے اُٹھ کر جب لوگ اپنے ہر دلعریز معلم(تعلیم دینے والا) کو ان نفرت انگیز دشمنوں کے ہاتھ میں دیکھیں گے۔ تو کیا کچھ نہ کر گذر یں گے۔ لیکن اگر تحقیقات دن نکلنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔ اور یسوع رومیوں کے مضبوط اور طاقتور ہاتھوں تک پہنچ جائے پیشتر اس کے کہ لوگوں کو اس واقع کی خبر ہو۔ تو پھر کچھ خوف نہیں اس لئے صدر مجلس رات کی تاریکی میں جمع ہوئی ۔ اور تمام کارروائی قائفا کے محل میں جہاں اب یسوع کو لے گئے تھے۔ پو پھٹنے سےپہلے ہی وقوع میں آئی ۔
یہ کارروائی بالکل باضابطہ تو نہ تھی۔ کیونکہ شریعت کے الفاظ میں اس مجلس کے رات کو منعقد کرنے کی اجازت درج نہ تھی۔ اس سبب سے اگرچہ تمام کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔ اور رات ہی کے وقت فتویٰ موت پر سب کا اتفاق ہو چکا تھا۔ تو بھی یہ ضروری سمجھا گیا کہ دن نکلنے کے بعد عدالت کا پھر ایک اجلاس ہو ۔ یہ یسوع کی تحقیقات کا تیسرا درجہ تھا۔
مگر اسے گذشتہ کارورائی کی ایک مختصر تکرار (بحث ) ہی سمجھنا چاہیے۔ جو محض ضابطہ کو پورا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس لئے ہم اُس کارروائی کی طرف غور کرتے ہیں جو رات کے وقت وقوع میں آئی ۔ کیونکہ وہی اس سارے معاملے کی جان ہے۔
اب اپنے ذہن میں ایک بڑے دالا ن کا تصور باندھو جو گھر کے صحن کی ایک طرف کو ہے۔ اور جس سے اُسے فقط پیلپاؤں کی ایک قطار جُد ا کرتی ہے۔ اس لئے جو کچھ اندر روشنی میں واقع ہو رہا ہے وہ صحن میں بیٹھنے والوں کو صاف صاف نظر آئے گا۔ یہ کمرہ نصف دائرہ کی شکل میں ہے۔ اس دائرہ کی قوس میں پچاس یا اس سے زیادہ ممبران مجلس فرش پر بیٹھے ہیں قائفا بحیثیت میرِ مجلس اس کی طرف منہ کئے کھڑا ہے۔ اور سپاہی اُس کی ایک طرف اور گواہ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ مگر تحقیقات کس طرح شروع ہونی چاہیے؟ یقیناً اس طرح کہ پہلے صاف طور پر اس امر کا بیان کیا جائے ۔ کہ الزام کیا ہیں جو ملزم پر لگائے گئے ہیں۔ اور اُن کا کیا ثبوت موجود ہے مگر بجائے اس طور پر شروع کرنے کے ’’ سردار کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں اور اُس کی تعلیم کی بابت پوچھا ‘‘۔
خیال یہ تھا کہ وہ کسی خفیہ مقصد کے لئے شاگرد جمع کر رہا ہے ۔ اور انہیں کسی خفیہ مسئلہ کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کو کسی نہ کسی طرح توڑ مروڑ کر انقلابِ سلطنت کی تدبیر ثابت کر دیا جائے۔ یسوع جو ابھی اُس بے حرمتی کے لئے بیتاب ہو رہا تھا۔ کہ انہوں نے اسے رات کی تاریکی میں گرفتارکیا گویا کہ وہ بھاگنے کی فکر میں تھا۔ اور اس کی گرفتاری کے لئے اتنی بڑی جماعت بھیجی ۔ گویا کہ وہ کسی باغی جماعت کا سر غنہ تھا۔ اُس نے بڑی تمکنت (زور۔اختیار)سے جواب دیا۔ تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے۔ سننے والوں سے پوچھ کہ میں نے اُن سے کیا کہا۔ اگر اب تک انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا کہتا اور کرتا رہا ہے۔ تو انہوں نے اُسے پکڑا ہی کیوں ہے؟ وہ اُسے ایک خُفیہ سازش کرنےوالا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر وہ خود جیسا کہ خُفیہ طور پر اُسے گرفتار کرنے اور آدھی رات کے وقت اُس کی تحقیقات کرنے سے ظاہر ہے ۔ ہاں وہ خود تاریکی کے فرزند ہیں۔
ایسے سادہ اور دلیرانہ الفاظ اُس مقام کے سز اوارنہ تھے۔ کیونکہ وہ تو حاجت مندوں کی گڑ گڑاہٹ ۔ درباریوں کی چاپلوسی اور وکیلوں کی مودبانہ تقریر ہیں سننے کے عادی تھے۔ اور ایک سپاہی نےشاید سردار کاہن کی تیکھی چتون (تیوری۔غصّہ) کو تاڑ کر یسوع کے منہ پر طمانچہ مارا اور بولا ۔ تو سردار کاہن کو ایسا جواب دیتا ہے ؟ بے چارہ نوکر اُس کے حق میں اچھا ہوتا کہ اس کا ہاتھ سوکھ جاتا ۔ پیشتر اس کے کہ اُسے یہ ضرب لگانے کا موقع ملتا۔ قریباً ایسا ہی واقع اور اسی مقام میں مقدس پولوس کو بھی پیش آیا ۔ اور وہ غضب ناک ہو کر ایک چبھتا ہو ا جو اب دینے سے باز نہ رہ سکا ۔ مگر یسوع نے اپنے مزاج کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ مگر ایسی عدالت اور وہ بھی دینی عدالت کا کیا کہنا جو کھلی عدالت میں اپنے ایک نوکر کے ہاتھ سے ایک ایسے ملزم کے ساتھ جس پر بھی جرم ثابت نہیں ہوا ایسا سلوک گوارا کرے۔
مگر سردار کاہن اپنے مقصد میں ناکام رہا اور اب اُس نے مجبوراً وہ طریق اختیار کیا جو اُسے پہلے ہی کرنا چاہیے تھا۔ یعنی گواہوں کو بلوایا ۔ مگر اس میں بھی افسوس ناک ناکامی ہوئی ۔ انہیں اس امر کی مہلت ہی نہیں ملی تھی ۔ کہ باقاعدہ طورپر الزام تیار کرتے اور اُس کے لئے گواہ بہم پہنچاتے ۔ لیکن اب وقت بھی نہیں رہا تھا۔ گواہی جو ں توں پیش کرنی ضرو ر تھی۔ اور غالباً یہ دربار کے شاگرد پیشہ اور عدالت کے گواہی پیشہ لوگوں میں سے تھے۔ جو ٹکے ٹکے پر جھوٹ بولا کرتے ہیں۔ مقدس متی نے صاف لکھا ہے کہ ’’ وہ یسوع کو مار ڈالنے کے واسطے اُس کے خلاف جھوٹی گواہی ڈھونڈنے لگے‘‘۔ یہ اُس کا مار ڈالنا تھا جو انہوں نے پہلے ہی سے اپنے دل میں ٹھان لیا تھا۔ اور وہ اُس کے لئے صرف ایک قانونی حیلہ ڈھونڈرہے تھے۔ اور اس امر کی انہیں کچھ پروانہ تھی ۔ کہ یہ حیلہ کیا ہونا چاہیے ۔ مگر اُن کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی۔ گواہوں کی گواہی باہم متفق نہ تھی۔ بہتوں کو آزمایا گیا ۔ مگر معاملہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔
آخر کار دو گواہ ملے جو ایک بات میں جو انہوں نے اُس کی زبانی سنی تھی۔ باہم متفق تھے۔ اور یہ اُمید کی جاتی تھی۔ کہ اُن کی شہادت کی بنا پر فرد ِجرم قائم کی جائے گی۔ انہوں نے اُسے یہ کہتے سنا تھا۔ کہ میں اس مقدس کو جو ہاتھ سے بنی ہے ڈھاؤں گا۔ اور تین دن میں دوسری بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنی ہو۔ یہ ایک فقرہ تھا ۔ جو اُس نے اپنی رسالت کے ابتدا میں کہا تھا۔ جو اعلیٰ درجہ کی فصاحت بلاغت پر دلالت کرتا تھا۔ مگر وہ اُسے اپنے روز مرّہ کے محاورہ میں بیان کر رہے تھے۔ اگر چہ ظاہری معنوں کے لحاظ سے بھی یہ معلوم کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس میں کیا نقص پکڑ سکتے تھے۔ کیونکہ اگر اس کے پہلے حصّے کے یہ معنی تھے۔ کہ وہ ہیکل کو ڈھائے گا ۔ تو دُوسرے حصے میں صاف وعدہ ہے کہ وہ اُسے پھر بنا کھڑا کر ے گا۔ سردار کاہن خوب جانتا تھا کہ اس سے کچھ مطلب براری(مقصد پورا ہونا ) نہ ہو گی ۔ اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر اُس نے یسوع سے دریافت کیا تو کچھ جو اب نہیں دیتا ؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ اس نے ظاہر اً یہ دکھانے کی کوشش کی کہ گویا اُس کے نزدیک اس قول میں کوئی بڑی سخت کفر آمیز بات چھپی ہے ۔
لیکن اس سارے اضطراب (بے چینی)کا اصل باعث یہ تھاکہ وہ جانتا تھا کہ یہ امر بالکل نے بنیاد ہے۔
جب گواہ ایک دوسرے کی گواہی کے بخیےادھیڑ رہے تھے۔ یسوع چپ چاپ سنا کیا۔ اور نہ اس نے سردار کاہن کے اس سوال کا کچھ جواب دیا ۔ اُسے بولنے کی حاجت ہی کیا تھی۔ کیونکہ اُس کی یہ خاموشی بلند آواز سے بھی بڑھ کر صاف صاف پکار رہی تھی۔ اس سے ججوں کو خود اپنی حالت کی شرمناکی اور بے ہودگی کا یقین ہو گیا ۔ اور جب وہ خاموش اور پُراطمینان صورت اُن کی اس کا ر روائی پر بڑی تمکنت (اختیار)کے ساتھ نظر کر رہی تھی۔ تو اُن کا پتھر سا ضمیر بھی خود بخود بے چین ہونے لگ گیا ۔ اور یہ اُس کی اس بے اطمینانی اور بے چینی کی وجہ سے تھا کہ سردار کاہن کو اپنی آواز بلند کرنے اور چلانے کی ضرورت پڑی ۔
قصہ مختصر اس دوسرے طریق سے بھی جو اُس نے اختیار کیا تھا اُسے ایسی ہی زک (شرمندگی ۔شکست)نصیب ہوئی۔ جیسی پہلی طریق میں ۔ مگر بھی اُس کے پاس تاش کا ایک اور پتہ باقی تھا۔ اور وہ اُسے بھی کھیل بیٹھا ۔ وہ اپنی چوکی پر جا کر بیٹھ گیا ۔ اور یسوع کی طرف متوجہ ہو کر بڑی مگر بناوٹی سنجیدگی سے پوچھنے لگا کہ میں تجھے زندہ خُدا کی قسم دیتا ہوں ۔ کہ اگر تو خُدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یا دوسرے لفظوں میں گویا اُس نے اُس سے حلفیہ اقرار مانگا کہ جو کچھ وہ اپنی نسبت دعویٰ کرتا ہے۔ سو بتادے ۔ کیونکہ یہودیوں کے درمیان قیدی نہیں قسم کھا تا تھا۔ بلکہ جج قسم دیتا تھا۔
یہ موقع یسوع کی زندگی میں ایک بڑا اہم تھا۔ ظاہر ہے کہ اُس نے اس امر کو تسلیم کیا کہ سر دار کاہن کو قسم دینے کا حق ہے۔ یا کم سے کم اُس نے یہ سمجھا کہ اگر اب خاموش رہوں تو یہ سمجھا جائے گا۔ کہ میں اپنے دعویٰ سے باز آگیا ہوں۔ وہ درحقیقت جانتا تھا کہ یہ سوال اُسے مجرم ثابت کرنے کی غرض سے پوچھا گیا ہے ۔ اور اس کا جوا ب دینا گویا اپنے لئے مو ت خریدنا ہے۔ مگر جس نے اُن لوگوں کو جنہوں نے مسیح کا خطاب زبردستی اُس پر تھو پنا چاہا تھا تا کہ اُسے اپنا بادشا ہ بنا لیں دم بخود کر دیا تھا ۔ اُس نے اب اُسی خطاب کو قبول کر لیا ۔ جب کہ ایسا کرنا گویا سزائے موت کا سز وار بننا تھا۔ اور اُس نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور بڑے وثوق سے جواب دیا ۔ ہاں میں ہوں۔ اور پھر گویا کہ اس موقع سے اُس کی خود آگاہی اور بھی زور میں آگئی اور وہ بولا ۔ کہ آگے کو تم ابنِ آدم کو قادر ِمطلق کی دہنی طرف بیٹھے ۔ اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے ۔ نیز دیکھو زبور ۱۱۰: ۱۔
اور دانی ایل ۷: ۱۳۔ اس وقت تو وہ اُس کے حج بنے بیٹھے ہیں لیکن ایک دن آنے والا ہے جب وہ اُن کا جج ہو گا۔ وہ صرف اُس کی زمینی زندگی پر اختیار رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اُن کی ابدی زندگی کا فیصلہ کر ے گا۔
لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ مسیحی لوگ یسوع کی نسبت ایسی ایسی باتوں کے دعویدار ہیں جن کا اُس نے خود کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وہ یہ کہتے سنے جاتے ہیں۔ کہ اس نے تو کبھی انسان سے بڑھ کر اور کچھ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر یہ اسے خُدا بنائے دیتے ہیں۔ لیکن یہ عظیم حلفیہ اقرار سن کر ہر ایک حق پسند کو مسیحیوں کے اس اعتقاد کی درستی کا اقرار کرنا پڑے گا۔ اُس کے الفاظ کو اُن کے اصلی معنوں سے خالی کرنے اور اُن کی قیمت کو گھٹانے کی ہر طرح سے کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب سردار کاہن نے سوال کیا کہ کیا وہ ابنِ اللہ ہے۔ تو اُس کا فقط یہی مطلب تھا کہ کیا وہ مسیح ہے ۔ لیکن اس کے جواب میں جو کچھ مسیح نے اپنے حق میں کہا اُسے کیا کریں کہ وہ قادرِ مطلق کے دہنے بیٹھے گا اور آسما ن کے بادلوں پر آئے گا؟ کیا وہ جو انسان کا قاضی ہونے کو ہے۔ اور جو اُن کے دلوں کی تہ تک چھان بین کرے گا۔ اور اُن کے اعمال کا اندازہ لگائے گا۔ اور اس انداز ہ کے مطابق اُن کے ابدی مقام اور درجہ تعین کرے گا ۔ کیا وہ محض انسان ہو سکتا ہے ؟ سب سے عظیم اور عقیل انسان بھی خوب جانتے ہیں کہ ہر ایک انسان کی تاریخ میں بلکہ ایک ننھے بچے کے دل میں بھی ایسے ایسے اسرارودراز مخفی (چُھپے)ہیں۔ جن کی تہ کو وہ کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ محض انسان ایک دوسرے انسان کی خصلت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ نہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کو بھی ٹھیک ٹھیک نہیں جانچ سکتا ۔
مگر یہ عظیم الشان اقرار کس نظارہ کے پایہ کو کس قدر بلند کر دیتا ہے۔ ہم اب اُن چھوٹے چھوٹے آدمیوں اور اُن کی کمینہ کا ر روائیوں کو نہیں دیکھتے ۔ بلکہ وہاں ایک ابنِ آدم تمام عالم کے سامنے اپنے حق میں شہادت دیتا ہو ا نظر آتا ہے ہمیں اب اس کی کیا پرواہے کہ وہ یہودی اُس کے حق کیا کہیں گے۔ یہ عظیم اقرار اُس وقت سے لے کر سب زمانوں میں برابر گونجتا چلا آیا ہے۔ اور ایک عالم بھر کا دل جب اُسے اُس کی زبان سے سنتا ہے تو خواہ مخواہ آمین پکارا ُٹھتا ہے۔ آخر کار سردار کاہن کا مطلب نکل آیا کفر کے کلمات سننے پر جیسا کہ سردار کاہن کو لازم تھا۔ اُس نے اپنے کپڑے پھاڑے۔ اور اپنے رفیقوں(ساتھیوں ) کی طرف متوجہ ہو کر بولا ۔ اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ تم نے یہ کفر سنا ۔ اور ان سب نے اتفاق رائے ظاہر کیا کہ یسوع مجرم ہے ۔ اور سزا ئے موت کا سزاوار ہے ۔
بعض اوقات ایک نیک دل آدمی کو بائبل میں ان واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خیال ستایا کرتا ہے۔ کہ یسوع کےججوں نے جو کچھ کیا اپنے ضمیر کے فتویٰ کی پیروی میں کیا۔ کیا یہ اُن کا فرض نہ تھا۔ کہ جب کوئی مسیح ہونے کا دعویٰ دار ہو کر اُن کے سامنے آئے تو اس بات کی تحقیقات کریں کہ آیا اُس کا یہ دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا ؟ اور کیا وہ سچے دل سے یہ یقین نہ رکھتے تھے۔ کہ یسوع جس امر کا دعویٰ دار ہے وہ درحقیقت نہیں ہے؟ اس میں شک نہیں کہ وہ سچے دل سے ایسا یقین رکھتے تھے۔ مگر ہمیں اس سے پہلے زمانہ کے حالات پر غور کرنا چاہیے پیشتر اس کے کہ ہم اُن کے چال چلن پر صحیح طور سے حکم لگا سکیں۔ اُن کی گمراہی اُس وقت سے شروع ہوئی ۔ جب کہ پہلے پہل یسوع کے دعوے اُن کے سامنے پیش کئے گئے۔ اُسے جیسا کہ وہ تھا۔ فقط اُمید وار اور منتظر پاک دل ہی قبول کرنے کی قابلیت رکھتے تھے۔ مگر یہودیہ کے دینی حاکم اس وقت دل کی اس حالت سے کوسوں دُور تھے۔ وہ اُس کی حقیقت کو سمجھنے کی ہر گز قابلیت نہیں رکھتے تھے۔ اور اُس میں انہیں کوئی ایسی خوب صورتی نظر نہیں آتی تھی۔ کہ وہ اُس کے خواہش مند ہوتے ۔ جیسا کہ وہ خود بھی انہیں کہا کرتا تھا۔ کہ جس حالت میں وہ ہیں۔ اُس حالت میں وہ ہر گز اُس پر ایمان نہیں لا سکتے ۔ قصور اس قدر اس امر میں نہیں تھا۔ کہ انہوں نے کیا کیا۔ بلکہ اس میں کہ اُن کی اپنی حالت کیسی بُری تھی۔ چونکہ انہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ اس لئے وہ آخر تک اُسی راستہ پر چلتے گئے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ جس قدر روشنی انہیں ملی تھی۔ وہ اُسی کے مطابق چلے۔ مگر روشنی جو اُن میں تھی۔ وہ حقیقت تاریکی تھی۔ مگر اُن کے اس موقع کی کاروائی کو دیکھ کر جو شخص اُس پر توجہ سے غورو فکر کرے گا۔ اُس کا دل ہرگز اُن کی طرف نرم نہ ہو گا۔ اُن کی اس وقت کی کار وائی میں ہر گز عدل و انصاف کی بو بھی نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ اُس وقت نہ تو اُس پر کوئی باقاعدہ الزام لگایا گیا ۔ نہ باقاعدہ گواہی پیش کی گئی ۔ اور نہ انہیں اس بات کا ہی خیال آیا کہ ملزم کو بھی اپنی صفائی کی شہادت پیش کرنے کا موقع دیا جائے ۔ وہ خود ہی مدعی تھے۔ اور خود ہی جج۔ فتویٰ پہلے ہی سے مقرر ہو چکا تھا۔ اور اس ساری کاروائی کو ایک طرح کا جال کہنا چاہیے ۔ جو اس غرض سے بچایا گیا تھا۔ کہ کسی نہ کسی طرح سے ملز م کے منہ سے کوئی ایسی بات کہلوائیں جس سے وہ خود پھنس جائے۔ اور انہیں اس پر فتویٰ لگانے کی حجت(موقع) مل جائے۔
لیکن جو کچھ انہوں نے فتویٰ لگانے کے بعد کیا۔ اُس کی وجہ سے وہ آئندہ نسلوں کے فیاض اور انصاف پسند لوگوں کی ہمدردی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے۔ عدالت گاہ میں تمکنت اور عزت کا لحاظ ہونا چاہیے ۔ جب کسی بڑے مُقدمہ کی تحقیقات ہوتی ہو اور ایک سنگین فتویٰ دیا جائے ۔ تو اس کی ججوں کے مزاج پر بھی تاثیر ہونی چاہیے ۔ بلکہ مجرم پر بھی جب کہ اُس پر موت کا فتویٰ دیا جائے ایک قسم کے رُعب د اب کا غلبہ ہونا چاہیے ۔ مگر وہ ضرب جو ایک ادنیٰ ملازم نے تحقیقات کےشروع ہی میں ملزم کے چہرہ پر لگائی ۔ اور اُس سے کسی نے اُس کی باز پُرس نہ کی۔ یہی بات اُن لوگوں کے دل کی اُس وقت کی حالت کو بخوبی آشکار ا کرتی ہے۔
اُن کے دل میں ہرگز کسی قسم کی سنجیدگی یا تمکنت کا ذرہ بھی موجود نہ تھا۔ جو کچھ وہ اس اپنے اندر محسوس کرتے تھے۔ سو فقط انتظام اور کینہ کا جذبہ تھا جس کے پورا کرنے کے لئے وہ اپنے مخالف کو جس نے اُن کو نقصان پہنچایا تھا معدوم(ختم) کرتا چاہتے تھے۔ اس قسم کی حسّات کا سمندر عرصہ سے اُن کے دلوں میں اُمڈ رہا تھا ۔ اور اب جونہی اُس نے موقع پایا ۔ وہ پھوٹ نکلا ۔ انہوں نے اُسے لکڑیوں سے مارا ۔ اُس کے منہ پر تھوکا ۔ اور اُس کے سر پر کپڑا ڈال کر اور ٹھوکریں لگا کر پوچھنا شروع کیا کہ ’’ مسیح نبوت سے بتا کہ تجھے کس نے مارا ۔ کاش کہ یہ فقط ادنیٰ درجہ کے کمینہ لوگ ہی ہوتے ۔ جنہوں نے ایسا برتاؤ کیا ہوتا ۔ مگر انجیلی بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے آقاؤں نے ایسا کیا۔ اور اُن کے نوکروں نے اُن کی تقلید(پیروی)کی۔
آدمی کے اندر خوفناک باتیں بھری پڑی ہیں۔ اُس کی فطرت میں بعض ایسے گہراؤ ہیں۔ جن میں نظر کرنے سے خوف آتا ہے۔ یہ مسیح کی کاملیت تھی۔ جس کے سبب سے اُس کے دشمنوں کی گہری سے گہری شرارت باہر نکل آئی۔ ملٹن کی مشہور نظم متعلقہ نقصان فردوس میں ایک فقرہ ہے ۔ جس میں یہ ذکر ہے ۔ کہ فرشتوں کی ایک جماعت فردوس میں شیطان کی تلاش میں جو وہاں چھپا ہوا تھا۔ بھیجی گئی ۔ انہوں نے اُسے ایک مینڈ ک کی شکل میں حوا کے کان کے پاس بیٹھے ہوئے پایا ۔ اُسے دیکھ کر ایک فرشتے نے جو اُس جماعت میں سے تھا۔ اُسے اپنی برچھی سے چھوا۔ جس پر وہ دفعتاً متنبہ(خبردار ) ہو گیا ۔ اور فوراً اپنی اصلی شکل اختیار کر لی کیونکہ
______________________________
۱،چنانچہ خود جوسٹ نامی ایک یہودی مورخ اس کو خون کے نام سے پکارتا ہے۔ مگر وہ یقین نہیں کرتا ۔ کہ اُس موقع پر کوئی باقادگی تحقیقات کی گئی تھی اور ایڈرشائیم صاحب بھی اس امر میں اُس سے متعلق ہیں۔
۲۔اس سبب سے کہ اُس نے مسیح اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ برخلاف اس کے رومیوں نے اُسے بادشاہ کہہ کر اُس کی تضحیک کی۔
کھو بیٹھتا ہے اور اُلٹ دیتا ہے نقاب
مگر کامل کے مسماس سے اکثر اُلٹا اثر پیدا ہوتا ہے ۔ یہ فرشتے کو مینڈ ک کے صورت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جو بدی کی اصلی صورت ہے۔
مسیح اب اپنے دشمن سے بالکل رُو برُوتھا ۔ جس پر غالب آنے کے لئے وہ اس دُنیا میں آیا تھا۔ اور جب آخری کُشتی کے لئے اُس نے مسیح پر ہاتھ ڈالا تو اپنی تمام بدصورتی اور بھیانک پن کو ظاہر کر دیا اور اپنا ساراز ہر اُس پر اُگل دیا۔ اژدہا کا پنجہ اُس کے گوشت میں گڑ ا تھا ۔ اور اُس کے بدبودار سانس اُس کے منہ پر تھے۔ ہم اُس بے عزتی اور بے حرمتی کا جو اُس وقت مسیح کی شاہانہ طبیعت نے برداشت کی ۔ پورا تصور نہیں باندھ سکتی ۔ لیکن اُس نے اپنے دل کو مضبوط کرلیا کہ سب کچھ برداشت کرے ۔ مگر ہمت نہ ہارے ۔ کیونکہ وہ اس لئے آیا تھا کہ گناہ کے حق میں موت ثابت ہو۔ اور اسی گناہ کے لئے موت بننے سے دُنیا کی نجات تھی۔
ہمارے خُداوند کے دینی عدالت کے سامنے پیش ہونے کے متعلق ایک اور ضمیمہ(زائد پرچہ) سا ہے جس پر تھوڑی دیر کے لئے غور کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ٹھیک اُسی وقت جب کہ سردار کاہن کے گھر کے دالان میں یسوع اپنا عظیم الشان اقرار کر رہا تھا۔ اُس کا ایک شاگرد اُسی مکان کے صحن میں انکار پر انکار کر رہا تھا۔
جب یسوع کو گتسمنی میں باندھ کر یروشلیم میں لے گئے۔ تو اُس کے تمام شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ وہ باغ کے درختوں اور جھاڑیوں میں جا چھپے تھے۔ اور وہاں سے اردگرد کے گاؤں میں یا جہان کہیں جس کے سینگ سمائے بھاگ گئے۔
مگر بارہ میں سے دو یعنی مقدس پطرس اور یوحنا جو یہ قصّہ بیان کرتا ہے بہت جلد پہلی گھبراہٹ کے اثر سے نکل کر کچھ فاصلہ پر اُس جماعت کے پیچھے پیچھے جو اُن کے خُداوند کو پکڑےہوئے لے جا رہی تھی۔ چلے گئے کبھی تو درختوں کے سایہ میں ۔ اور کبھی گھر وں کے سایہ میں پناہ لیتے ہوئے وہ برابر اُس جماعت کے پیچھے پیچھے لگے رہے۔ آخر کار جب وہ منزلِ مقصود پر جا پہنچے یعنی سردار کاہن کے محل پر تو فی الفور بزدوہی تمام آگے بڑھے ۔ اور مُقدس یوحنا جماعت کے ہمراہ مکان کے اندر داخل ہو گیا۔ مگر کسی وجہ سے ۔ شاید اُس وجہ سے کہ اُسے حوصلہ نے جواب دے دیا ۔ مُقدس پطرس باہر گلی میں کھڑارہ گیا ۔ اور دروازہ بند ہو گیا۔
جو کچھ بعد میں واقع ہوا ۔ اُس کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے محل کی ۔ جیسا کہ سردار کاہن کا تھا۔ عمارت کے نقشہ کا سمجھنا ضروری ہےباہر گلی میں ایک بڑا محراب دار دروازہ تھا۔ جس میں بڑے بڑے پھاٹک لگے ہوئے تھے۔ جب دروازہ کھُلتا ہے ۔ تو اندر ایک چوڑا مسقف (چھت دار)راستہ دکھائی دیتا ہے۔ جو سامنے کی عمارت تک چلا گیا ہے۔ اور وہاں ایک صحن میں داخل ہوتا ہے ۔ جو اوُپر سے بالکل کھلا ہے۔ اور جس کے چاروں طرف مکانات بنے ہوئے ہیں۔ اور اُن سب کے دروازہ اور کھڑکیاں اندر کی طرف اُسی صحن میں کھلتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یادرکھنا چاہیے ۔ کہ مذکور بالا راستہ میں بیرونی دروازہ کے اندر ایک طرف کو ایک یا زیادہ چھوٹے چھوٹے کمر ے بنے ہیں۔ جن میں دربان رہتا ہے جس کا کام دروازہ کو کھولنا اور بند کرنا ہے ۔ اور اس بڑے پھاٹک میں ایک اور چھوٹا سا دروازہ ہے۔ جس میں سے لوگ آتے جاتے ہیں۔
جب یہ بڑی جماعت یسوع کو لئے ہوئے محل کے سامنے پہنچی تو بلا شبہ دربان نے اُن لوگوں کے داخل کرنے کےلئے دروازہ کھول دیا اور پھر بند کر دیا گیا ہو گا۔ وہ محرابی راستہ سے ہوتے ہوئے صحن میں جا پہنچے اور اُس میں سے گذر کر ایک دالان میں جا داخل ہوئے۔ مگر پولیس اور دیگر ملازم جو اس گرفتاری میں شریک تھے۔ اُن کا کام اب ہو چکا تھا۔ اس لئے وہ باہر صحن میں ہی کھڑے رہے ۔ اور چونکہ اب آدھی رات کا وقت تھا۔ اور سردی پڑی رہی تھی۔ انہوں نے وہیں باہر آگ جلائی۔ اور اس کے گردا گرد جمع ہو کر تا پنے لگے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ یوحنا جماعت کے ہمراہ اندر چلا گیا۔ مگر پطر س باہر ہی کھڑا رہ گیا۔ یوحنا جو باقی بارہ رسو لوں میں سے زیادہ صاحب ِعزت و ثروت معلوم ہوتا ہے۔ سردار کاہن سے واقف تھا۔ اور اس لئے غالباً محل میں آمددرفت ہونے کے سبب نوکر چا کر اُسے پہچانتے تھے۔ اور جب اس نے دیکھا کہ پطرس باہر رہ گیا ہے۔ تو وہ دربان کے پاس گیا۔ اور اُسے کہہ کر پطرس کو کھڑکی کے راستہ اندر بُلا لیا۔
اُس نے تو اپنی طرف سے دوستی کا حق ادا کیا ۔ لیکن جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوا ۔ یہ پطرس کے حق میں اچھا ثابت نہ ہوا ۔ یوحنا نے ایک طرح پطرس کو آزمائش کے چنگل میں گرفتار کر ا دیا۔ عمدہ سے عمدہ دوست بھی بعض اوقات ایسے فعل کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک موقع جہاں ایک شخص بلا خوف و خطر جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دوسرے کے حق میں نہایت خطر ناک ثابت ہو ۔ ایک آدمی ایک قسم کے لوگوں سے بلاتکلف میل ملاپ رکھے ۔ اور نقصان نہ اُٹھائے ۔ لیکن دوسرے کے لئے اُسی جماعت کی رفاقت زہر ِ قاتل کا کام دے۔ ایسے اشغال ِ تفریح بھی ہیں۔ جن میں ایک مسیحی بلا خوف شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن دُوسرا اگر اُسے چھُو جائے۔ تو برباد ہو جائے۔ ایک پختہ کار اور تربیت یافتہ آدمی ایک قسم کی کتابوں کو بلا خوف و ضرور مطالعہ کر سکتا ہے۔ جو دوسرے آدمی میں جو اُس سے کم تجربہ کارہے۔ دوزخ کی آگ پھونک دیتی ہیں۔ ہمیشہ ہر ایک آزمائش دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک طرف تو خاص قسم کے حالات ہوتے ہیں۔ جن سے آدمی کو سابقہ پڑتا ہے۔ اور دوسری طرف اُس شخص کی۔ جو اُس حالت میں داخل ہوتا ہے۔ خاص خصلت و مزاج اور گذشتہ زندگی کی تاریخ ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے کو یا کسی دوسرے کو کسی آزمائش سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ دونوں باتیں یاد رکھنی چاہئیں ۔
یوحنا بلاشبہ پطرس کو دروازہ کے اندر داخل کر کے فی الفور اُس دالان کی طرف جہاں یسوع تھا چلا گیا تا کہ دیکھے کہ وہاں کیا کاروائی ہو رہی ہے۔ مگر پطر س نے ایسا نہ کیا ۔ وہ اُس مقام سے ایسا واقف نہ تھا۔ جیسا کہ یوحنا ۔ اور وہ غالباً ایسے بڑے محل کے اندرو نہ کو دیکھ کر کچھ ہکا بکا سا رہ گیا جیسے کہ دیہاتی لوگ عمر میں پہلی دفعہ کسی عظیم الشان شہر میں جا کر حیرت زدہ سے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُس کے دل میں یہ خوف بھی تھا ۔ کہ کہیں لوگ اُسے پہچان کر کہ وہ بھی یسوع کے پیروؤں میں سے ہے گرفتار نہ کر لیں ۔ نیز اب اُس کم بخت ضرب نے جو وہ گتسمنی کے دروازہ پر ملکوس کے لگا بیٹھا تھا۔ اُس کی دقت کو اور بھی بڑھا دیا ہو گا ۔ کیونکہ اس کے سبب اُس کے پہچانے جانے کا خدشہ اور بھی زیادہ ہوگیا۔
اس لئے وہ فقط پھاٹک کے اندر ہی سے اور اُسی محرابی راستہ کی تاریکی میں کھڑا ہوا دیکھا کیا کہ اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ مگر اُسے خبر نہ تھی ۔ کہ دربان عورت اپنی چوکی پر بیٹھی اُسے تاڑ رہی ہے۔ اُس کی طبیعت بے چین ہو رہی تھی۔ کیونکہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرے ۔ یوحنا کی طرح اُسے حوصلہ نہ تھا۔ کہ بڑے دالان کے اندر چلا جائے۔ شاید اُس کا دل کچھ کچھ اس امر کا خواہش مند بھی تھا کہ اچھا ہوتا کہ پھر گلی میں نکل جاتا ۔ کیونکہ وہ اپنے کو ایسا محسوس کرتا تھا کہ گویا دام میں جا پھنسا ہے۔
آخر کار وہ آگے بڑھ کر اُس جماعت میں جو آگ کے گردا گرد جھرمٹ کئے ہوئے تھی۔ جا بیٹھا اور آگ تاپنے لگا ۔ اس جماعت میں مختلف قسم کے اشخاص شامل تھے۔ اور اس لئے کسی نے اُس کا کچھ خیال نہ کیا۔ اور وہ بھی اُن میں ایسا جا ملا گویا انہیں میں سے تھا۔
مگر یہ ایک دوسرے معنی میں جس کا اُسے خیال بھی نہیں تھا۔ ایک خوفناک حالت تھی۔ اُسے تو اپنے بدن کا خوف ہو رہا تھا۔ مگر اُسے یہ معلوم نہ تھا۔ کہ اُس کی رُوح معرض ِخطر میں ہے۔ حالانکہ یہ خطرہ اُس کے قریب ہی منڈلا رہا تھا۔ یہ بات ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے۔ جب کہ یسوع کا شاگرد یسوع کے دشمنوں کے درمیان جا بیٹھا ہے۔ مگر انہیں بتاتا نہیں کہ وہ کون ہے۔ مبارک وہ آدمی ہے جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا ۔ اور خطا کاروں کی راہ پر کھڑا نہیں رہتا اور ٹھٹھا کر نے والوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا ۔ یہ اغلب ہے کہ جب پطرس اُن لوگوں کے درمیان جا کر بیٹھا تو تمام مکان یسوع کے خلاف ٹھٹھے اور تمسخر سے گونج رہاتھا ۔ مگر اُس نے انہیں نہ روکا ۔ وہ بالکل خاموش رہا۔ بلکہ ظاہر اً جہاں تک ممکن تھا۔ اُن ٹھٹھا کرنے والوں کی سی صورت بنانے کی کوشش کی ہو گی۔ مگر مسیح کا اقرار نہ کرنا اُس سے انکار کرنے کا پہلا قدم ہے۔
آزمائش جیسا کہ اُس کا قاعدہ (طریقہ)ہے۔ باکل اچانک اور ایک ایسی جانب سے آئی۔ جہاں سے آنے کی ہرگز اُس کو اُمید نہ تھی۔ جیسا کہ ہم اوُپر ذکر کر چکے ہیں جب کہ وہ محرابی راستہ کے نیچے چھپ رہا تھا۔ اُس کی حرکات کو دربان عورت خوب تاڑ رہی تھی۔ ان سے خواہ مخواہ دیکھنے والے کے دل میں شبہ پیدا ہوتا تھا۔ اوروہ اپنی زنانہ سوجھ کے ساتھ فی الفور اُس کے راز کو تاڑ گئی۔ اس لئے جب وہ اپنے پہرہ سے چُھوٹی۔ تو اُس نے نہ صرف دوسری دربان عورت کو اشارہ سے اُسے بتا دیا۔ بلکہ جو کچھ اس کے دل میں اس کی نسبت خیال تھا۔ وہ بھی جتادیا ۔ اور جب اپنے کمرہ کو جانے لگی ۔ تو وہ آگ کی طرف جہاں سپاہی بیٹھے تھے۔ بڑھی ۔ اور پطرس سے آنکھیں دو چار کر کے بڑی کینہ وری سے کہنے لگی ۔ یہ بھی ناصری کے پیرؤں میں سے ہے۔ پطرس یہ سُن کر بالکل حیران و ششدر (ہکا بکا ۔پریشان)رہ گیا ۔ کیونکہ وہ اس کے لئے ہر گز تیار نہ تھا۔ اُسے ایسا معلوم ہو ا کہ گویا اُس کے چہرہ پر سے ایک نقاب اُتار دیا گیا ہے۔ دفعتہ ً (اچانک)خوف و ہراس اُس پر ایسا غالب آیا کہ اور سب کچھ بھول گیا ۔ شاید اس امر سے بھی اُسے کچھ شرم آئی ہو گی ۔ کہ اپنے اپنے کو اُس شخص کا شاگرد ظاہر کرے۔ جس کی سب لوگ ہنسی اُڑا رہے تھے۔ اس میں ایک اور شرم کی بات بھی تھی۔ بھلا وہ اب کس طرح اپنے کو اس شخص کا شاگرد ظاہر کر سکتا تھا۔ جس کی ہتک اور تحقیر کو وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ اور اُس کی حمائت میں اب تک منہ نہ کھولا ۔ وہ پہلے اپنے فعل سے اپنے آقا کا انکار کر چکا تھا۔ پیشتر اس کے کہ اس نے ز بان سے ایسا کیا بلکہ اُس کے فعل نے ان الفاظ کو ایک طرح سے لازمی ٹھہرا دیا ۔ اور اب وہ چنیں بجبیں ہو کر بولا۔ میں نہیں جانتا تُو کیا کہتی ہے۔ اور اُس عورت نے ہنستے ہوئے۔ گویا اس طور سے اپنا کام سرانجام کر کے اپنی راہ لی۔
اس کےبعد کسی نے بھی اس بات کا ذکر نہ کیا۔ مگر پطرس بے چین ہو رہا تھا۔ اور جس قدر جلد ہو سکا۔ آگ کے پاس اُٹھ کر چل دیا۔ وہ پھر اُسی محرابی راستہ میں جا دبکا۔ اور ظاہر اً اُس کا یہ منشا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ہو سکے۔ تو وہاں سے نکل جائے۔ مگر یہاں دام کا دروازہ بند ہو رہا تھا۔اوردوسری عورت جسے ا ُس کے رفیق (ساتھی ) نے پطرس کے حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ اور جو غالباً دور ہی سے اپنے رفیق کی چوٹ پر ہنستی رہی ہو گی۔ دو تین آدمیوں کے ہمراہ اپنے پہرے پر کھڑی تھی۔ اور جب وہ اُس کی طرف بڑھا ۔ تو اشارہ کر کے کہنے لگی ۔ یہ بھی ناصری کے پیرؤں میں سے ہے۔
بےچارہ پطرس! ایک عورت کے ہاتھ نے پھر اُسے زمین پر پچھاڑ دیا۔ لیکن کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت کی کترنی زبان اور تمسخر آمیز قہقہہ آدمی کو اعلیٰ اور مقدس باتوں کی طرف سے شر ما دیتا ہے ۔ پطر س نے غصہ سے قسم کھائی۔ اور اُلٹے پاؤں لوٹ کر پھر آگ کی طرف چلا گیا۔
اب وہ بالکل حواس با ختہ ہو رہا تھا۔ اور خود داری کو کھو بیٹھا تھا۔ اُس کے دل میں مختلف جذبات جو ش مار رہے تھے۔ اور امن چین سے بیٹھنا اُس کے لئے نا ممکن تھا۔ ایسی صورت بنا کر جس سے دلیری اور بے پروائی ظاہر ہوتی تھی۔ وہ بات چیت میں شریک ہو گیا۔ اور سب سے بڑ ھ بڑھ کر بّرانے لگا ۔ تا کہ کوئی شخص اُس پر شک و شبہ نہ کرے۔ مگر ایسا کرنے سے اُلٹا اُس نے اپنے اصلی مُدعا کو کھو دیا۔ کیونکہ اس سے سب کی آنکھیں اُسی کی طرف پھر گئیں ۔ اور جس قدر وہ زیادہ جوش میں آتا گیا۔ اُسی قدر وہ زیادہ غور سے اُسے گھورنے لگے ۔ مالکوس جس کا کان اُس نے اُڑ ا دیا تھا۔ اُس کے ایک رشتہ دار نے اُسے پہچان لیا۔ اُس کی بلند گنوارے آواز او رگلیل کے خاص لہجہ نے دوسروں کے دل میں بھی شک پیدا کر دیا۔ رات کے وقت بیکار بیٹھے بیٹھے انہیں ایک اچھا شغل ہاتھ لگ گیا کہ آؤ اسے پھانسنے کی کوشش کریں۔ اور سب کے سب مل کر اب شکار کے پیچھے ہو لئے۔
پطر اب بالکل اپنے کو کھو بیٹھا تھا۔ جیسا کہ سانڈ کو تماشا گاہ میں ہر طرف سے حملہ کر کے برچھیوں کی ضربیں لگاتے ہیں۔ وہ غضب غصہ اور خوف و شرم کے مارے دیوانہ سا ہو گیا۔ اور انکار پر انکار کرنا شروع کیا۔ اور ساتھ ہی اپنے مخالفوں کو بُرا بھلا کہنے لگا۔
آخر الذکر عادت گویا اُس کی قدیم ماہی گیری کی زندگی کا اعادہ(دہرانا) تھا۔ جو عرصہ سے مر کر دفن ہو چکی تھی۔ پطرس کے سے مزاج والے آدمی سے ہم اُمید کر سکتے ہیں۔ کہ وہ اپنی جوانی کے زمانہ میں ضرور گالی گلوچ اور بد زبانی کا عادی ہو گا۔ وہ ضرور شور ہ سر آدمی ہو گا۔ اور منہ میں جو آتا ہو گا بک دیتا ہو گا۔ یہ ایسا گناہ ہے کہ جس کی قدرت عموماً دل کی تبدیلی کے وقت کے قلم ٹوٹ جا یا کرتی ہے۔ اگر چہ دوسرے گناہ ہیں۔ جو سالہا سال تک پیچھے لگے رہتے ہیں۔ اور اُن کی بوٹی بوٹی کو علیحدہ علیحدہ صلیب پر کھینچنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بد زبانی اکثر آفاًفاناً میں مر جایا کرتی ہے۔ مگر اس صورت میں بھی گذشتہ زندگی کی بُرائیوں سے کامل چھٹکارا مشکل ہے۔ پطرس میں ظاہر اً یہ گناہ اُس کے دل کی تبدیلی کے وقت مُردہ معلوم ہوتا ہو گا۔ سالہا سال تک یہ بالکل مُردہ اور مدفون (دفن) رہا۔ لیکن جب مناسب موقع ہاتھ لگا ۔ تو دیکھو وہ اپنے پور ے زور و طاقت میں نمایاں ہو گیا۔ گناہ کی پُرانی عادتوں کو قتل کرنا مشکل کام ہے۔ کبھی کبھی ایساً معلوم ہوتا ہے۔ کہ گویا ہم نے انہیں مار کر ہرا دیا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ہم کو زمین کے نیچے سے کھٹکھٹانے کی آواز نہیں آیا کرتی ؟ کیا کبھی کبھی ایسا محسوس نہیں ہو تا کہ گویا مُردہ اپنے تابوت میں کروٹ لے رہا ہے۔ اور اُس کی قبر کے اوُپر کی مٹی ہل رہی ہے ۔ جو دن ہم نے جسمانی اور نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں خرچ کئے ہیں۔ اُن کی یہی سزا ہے جو آدمی کبھی شرابی یا زانی ۔ دروغ گویا بدزبان رہ چکا ہے۔ اُسے مرتے دم تک بڑی ہشیاری سے اپنی خبر داری کرنی ضرور ہے۔ اور اُس قبر پر جہاں اُس کی گذشتہ زندگی مدفون ہے۔ پہرا دینا چاہیے۔
مگر اُس کی یہ دیوانگی بھی اُس کے کام آگئی ۔ جب وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا۔ کہ وہ مسیح کا نہیں ہے۔ تو اُس بد زبانی سے بڑھ کر اُسے شاید بہتر علاج نہ ملتا ہے۔ جب اُس نے نہیں یقین دلا نا چاہا کہ وہ اُستا د سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا تو انہوں نے اُس کا یقین نہ گیا ۔ لیکن جب اُس نے اس طرح کی بدزبانی اختیار کی تو انہیں اُس کی بات پر شبہ نہ رہا ۔ وہ جانتے تھے۔ کہ مسیح کا کوئی پیرو اس قسم کی باتیں نہ کرے گا۔ جیسی کہ پطرس کر رہا تھا۔ یہ مسیح کے حق ایک نہایت عمدہ شہادت ہے کہ جو اُس پر ایمان نہیں رکھتے ۔ وہ بھی اُس کے شاگردوں سے نیک گوئی او ر نیک چلنی کی اُمید رکھتے ہیں۔ اور اگر اُن میں سے جو اُس کے نام سے کہلاتے ہیں۔ کوئی شخص ایسے کام کر بیٹھے۔ تو انہیں بڑا تعجب ہوتا ہے۔ جو اگر وہ دوسروں کو ایسا کرتے دیکھے تو ایک معمولی بات سمجھ کر اُس کی کچھ پر وانہ کرتے ۔
جب پطرس اس انکار و بد زبانی کی دحشت میں گرفتار تھا۔ تو دفعتاً اُس نے دیکھا کہ اس کے ستانے والوں کی آنکھیں اُس کی طرف سے ہٹ کر کسی اور چیز کی طرف لگ گئی ہیں یہ یسوع تھا ۔ جس پر اُس کے دشمنوں نے عدالت میں فتویٰ لگا دیا تھا۔ اور اب اُسے گالیاں دیتے اور زدو کو ب کرتے ہوئے صحن میں سے ہوتے ہوئے حوالات کی طرف لے جا رہے تھے۔ جہاں اُسے دو تین گھڑی تک زیر نگرانی رکھنا ضرور تھا۔ پیشتر اس کے کہ وہ دوبارہ عدالت کے رُو بُرو پیش کیا جائے۔ جب یسوع دالان سے نکل کر صحن میں داخل ہوا۔ تو اُس کے کانوں میں اُس کے شاگرد کی آواز پہنچی ۔ اور ایک ناقابل ِ بیان ضرب (چوٹ) سے مجروح(زخمی) ہو کر وہ فی الفور اُدھر کو جدھر سے آواز آئی تھی۔ متوجہ ہوا ٹھیک اُسی وقت پطرس بھی لوٹ کر دیکھنے لگا ۔ اُن کی آنکھیں مل گئیں ۔ اور رُوح نے رُوح کو دیکھ لیا۔
کون کہہ سکتا ہے کہ یسوع کی اس نظر میں کیا تھا۔ ایک نگاہ میں ایک عالم کی سمائی ہے۔ او ر بعض اوقات تو جس قد ر صفائی سے نگاہ ایک بات کو ادا کرتی ہے۔ وہ بے شمار الفاظ سے بھی ناممکن ہوتی ہے۔ وہ ایسی ایسی باتیں سوجھا دیتی ہے۔ جو شاید لبوں سے کبھی نہ نکل سکتیں ۔ رُوح رُوح کے ساتھ آنکھوں ہی کے ذریعہ سے بات کرتی ہے ۔ ایک نگاہ میں یہ طاقت ہے کہ چاہے تو بہشت کا چین بخش دے چاہے مایوسی کے جہنم میں ڈال دے۔
یسوع کی نگاہ نے اُس وقت ایک افسون (جادو)کا کام دیا۔ جس نے اُس جادو کی زنجیر کو جس میں پطرس جکڑا ہوا تھا ۔ پاش پاش کر دیا ۔ گناہ کو ہمیشہ ایک عارضی دیوانگی سمجھنا چاہیے ۔ اور موجودہ صورت میں تو یہ امر صاف ظاہر ہے ۔ پطرس خوف غضب اور بر آشفتگی سے ایسا وحشی اور دیوانہ ہو رہا تھا۔ کہ اُسے سُدبُدنہ تھی۔ کہ کیا کر رہا ہوں ۔ لیکن یسوع کی نگاہ نے اُس کے حواس بجا کر دیئے۔ اور وہ فی الفور آدمی بن گیا ۔ وہ فی الفور سر پر پاؤں رکھ کر دروازہ کی طرف بھا گا۔ اور اب کوئی چیز اُس کی سدراہ نہ ہوئی ۔ وہ بغیر کسی پس و پیش ۔ کے دربان عورت اور اُس کے ہمراہیوں کے پاس سے گذر گیا ۔ کیونکہ اگر سچ پوچھو تو آزمائش کا دام درحقیقت ایک خیالی چیز ہے۔ ایک مستقل مزاج آدمی کے لئے وہ کوئی رو ک پیدا نہیں کر سکتی۔
مگر اس کے علاوہ یسوع کی نگاہ بطور آئینہ کے تھی۔ جس میں پطرس نے اپنے آپ کو دیکھ لیا۔ اُس نے دیکھ لیا کہ یسوع کے دل میں اُس کی نسبت کیا خیال ہے۔ گذشتہ زمانہ کی باتیں اُسے فی الفور یاد آگئیں۔ وہی تھا۔ جس نے ایک عظیم الشان نا قابل ِفراموش موقع پر مسیح کا اقرار کیا تھا۔ اور اُس سے شاباش لی تھی۔ وہی تھا جس نے بھی چند ہی گڑیاں گذریں۔ سب سے بڑھ کر یہ دعویٰ کیا تھا۔ کہ وہ اپنے اُستاد کا کبھی انکارنہ کر ے گا۔ اور اب اُس نے اُسے ترک کر دیا ۔ نہیں بلکہ اُس کے دل کو ایسی بُری بنی کے موقع پر زخمی کر دیا۔ اُس نے اپنے کو اُس کے دشمنوں کے گروہ میں شامل کر دیا ۔ اور قسموں اور لعنتوں کے ساتھ اُس کے مُقدس نام کو پامال کیا۔ وہ شاگردی کے رُتبہ کو چھوڑ کر پھر ایک دفعہ اپنی بیدین جوانی کی حالت کو عود(لوٹ) کر گیا۔
وہ اب عہد شکن اور نمک حرام آدمی تھا۔ یہ سب باتیں اُسے مسیح کی اُس ایک نگاہ میں نظر آگئیں ۔ مگر اُس نگاہ میں اس سے بھی بڑھ کر کچھ تھا ۔ وہ بچانے والی نظر تھی۔ اگر کوئی شخص اُس وقت پطرس کو ملتا ۔ جب کہ وہ اُس مقام سے بھاگا ہوا جا رہا تھا۔ تو وہ ضرور اُس کی سلامتی کے لئے خوفزدہ ہو جاتا ۔
_____________________________
۱۔ یہاں پطر س کی بیداری کا جو حال درج ہے ۔ اُس کے لئے ہم مقدس لوقا کے ممنون ہیں ۔مگر وہ بھی مُرغ کے بانگ دینے کا ذکر کرتا ہے ۔ جو دوسرے انجیل نویسوں کے نزدیک اُ س کے ازسرمتنبہ ہونے کا باعث تھا۔ اس امر پر یقین کرنے میں کچھ مشکل نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی دلی تبدیلی کے واقع ہونے میں وہ مختلف باتوں نے مدد دی ہو۔
بھلا وہ کہاں بھاگا ہوا جا رہاہے؟ کیا اُس کڑاڑے کی طرف جہاں سے چند گھنٹہ بعد یہوداہ نے اپنے کو گر ا کر ہلاک کر دیا؟ پطر س بھی اس سے بہت دُور نہ تھا۔ اگر اُس وقت جب کہ اُن کی آنکھیں دو چار ہوئیں۔ یسوع کی نگاہ غضب آلود نظر آتی ۔ تو غالباً اُس کا بھی یہی حشر ہوتا ۔
مگر یسوع کی نظر میں غصہ کا نام نشان نہ تھا۔ بلا شبہ وہ درد ناک تو تھی۔ اور اُس سے بہت کچھ مایوسی ظاہر ہوتی تھی۔ مگر ان سے بھی گہر ی ۔ ہاں اُن کے نیچے سےنکل کر اور اُن پر غلبہ پاتی ہوئی ۔ اُس کی جان بخش خواہش تھی۔ وہی خواہش جس نے ایک وقت ہاتھ بڑھا کر پطرس کو پکڑ لیا تھا۔ جب کہ وہ سمندر میں ڈوبا جا رہا تھا۔ اسی خواہش کے ساتھ اُس نے اُس وقت بھی اُسے پکڑ لیا۔
اس نگاہ میں پطرس نے معافی اور ناقابلِ بیان محبت دیکھی۔ اگر اُس نے اس میں اپنے کو دیکھا تواُس سے بھی بڑھ کر اُس نے اپنے منجی کو بھی دیکھ لیا اور اُس پر یسوع کے دل کا وہ گہرا بھید کھل گیا ۔ جو شاید پہلے کبھی اُسے معلوم نہ ہو ا تھا۔ اب اُس نے دیکھ لیاکہ میں نے کیسے آقا کا انکار کیا ہے۔ اور اس سے اُس کا دل پارہ پارہ ہو گیا۔ یہی بات ہے جو ہمیشہ دل کو توڑ دیا کرتی ہے۔ یہ ہمارا گناہ نہیں جو ہمیں رُلا د یا کر تا ہے۔ بلکہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نےکیسے اچھے منجی کے خلاف گناہ کیا ہے۔ تو ہم اپنے آنسوؤں کو نہیں روک سکتے ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔ نہ اس لئے کہ اپنے گناہ کو دھو ڈالے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ پہنے ہی دھو یا گیا ہے۔ اوّل الذکر ایسی ہے۔ جیسے بڑے بڑے قطرے والی بارش۔ مگر دوسری قسم کی بارش ہے جیسے جھڑی لگ جاتی ہے۔ اور ہر ایک قطرہ اندرگھسا چلا جاتاہے۔ اور رُوح کے پودوں کو اُن کی جڑوں تک سیراب کر دیتی ہے۔
درحقیقت یہی اُس نیکی کا آغاز تھا۔ جوپطرس کے ذریعہ دُنیاکو پہنچنی تھی۔ لیکن ہم اُس کا یہاں ذکر نہیں کریں گے۔ ہمیں اس وقت اپنے دل میں اُس شخص کے خیال کو جگہ دینی چاہیے ۔جس نے اپنے دُکھ اور تکلیف کی سختی میں بھی جب یہ دیکھا کہ اُس کے نام سے نہ صرف انکار ہی کیا جاتا ہے۔بلکہ اُس پر قسموں اور لعنتوں کی بوچھاڑ بھی پڑ رہی ہے ۔ ایک لمحہ کے لئے بھی کینہ یا انتقام کے خیال کو ۔ جو اس قسم کی نمک حرامی سے پیدا ہو جایا کرتاہے۔ اپنے دل میں جگہ نہ دی بلکہ برخلاف اس کے اپنے رنج و غم کو بھی بھول گیا ۔اور نجات بخشنے کی خواہش رغبت سے بھر کر اپنی نگاہ کو ایسی مہربانی اور محبت سے معمور کر کے اُس کی طرف پھینکا کہ ایک لمحہ میں اُس افتادہ(مصیبت میں گرفتار) شاگرد کو گڑھے سے نکا ل لیا۔ اور اُٹھ کر ایک چٹان پر کھڑا کر دیا ۔ جہاں وہ بعد ازآں ہمیشہ کھڑا رہا ۔ بلکہ اپنے ایمان کی مضبوطی اور اپنی شہادت کی طاقت کے لحاظ سے خود ایک چٹان بن گیا۔
دُوسرے باب میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ صدر ِمجلس نے یسوع پر موت کافتویٰ دے دیا۔ وہ بڑی خوشی سے یہودی قاعدہ کے مطابق یعنی سنگسارکرنے سے اس فتویٰ پر عمل درآمد کرتے۔لیکن جیسا اوپرذکر ہو چکا۔ یہ امر اُن کے اختیار میں نہ تھا۔ رومی حکومت نے اگرچہ دیسی عدالتوں کو یہ اختیار دے رکھا تھا ۔ کہ خفیف (معمولی )جرائم کی تحقیقات کریں اور سزا دیں۔ مگر زندگی موت کے اختیار کو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھاتھا۔ اور ایسا مقدمہ جس میں سنگین سزاکا فتویٰ یہودی عدالت میں دیا جاتا ۔ ملک کے رومی حاکم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ جو ازسر نو تحقیقات کرنے کے بعد اُس فتویٰ کو بحال یار د کر دیتا تھا۔ اس لئے یسوع پر فتویٰ دینے کے بعد صدر مجلس کے ممبران کے لئے ضرور ہوا کہ اُسے گورنر کی عدالت میں لے جائیں۔
اُس وقت رومی حاکم جو فلسطین پر متعین(مقرر) تھا۔ اس کا نام پنطیس پیلاطس تھا۔عہدے کے لحاظ سے اُسے ہندوستان کے ایک کمشنر یا لفٹینٹ گورنر کے برابر سمجھنا چاہیے ۔ صرف اس قدر فرق کے ساتھ کہ وہ ایک بُت پرست حکومت ہے۔ اور اس لئے قدیم روماکی ۔ نہ زمانہ حال کی انگلستان کی روح۔ اُس کے اصول حکومت کی محرک(تحریک دینے والی) تھی۔ اور اس رُوح کا جسے دُنیا پرستی حکمت عملی ۔ابن الوقتی کی رُوح کہناچاہیے ۔وہ ایک عمدنہ نمونہ تھا۔ اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اس عظیم الشان روز میں اپنے اس اصول کا کیسا پکا پابند نکلا۔
پیلاطس اس عہدہ پر بہت سالوں سے متعین تھا۔ مگرنہ تو وہ اپنی رعا یا کوپسند کرتا تھا۔ نہ اُس کی رعایا اُسے پسند کرتی تھی۔ یہودی اہل ِ روم کی تمام محروسہ (ماتحت)ریاستوں میں سب سے زیادہ سخت مزاج اور شورہ پشت(سرکش ۔نافرمان) تھے۔ وہ اپنے قدیم زمانہ کے شان و شوکت کو یاد کر کے۔ اورآئندہ زمانہ میں ایک عالمگیر سلطنت کی اُمید پر اس بیرونی حکومت کے جوئے کو بہت ہی گراں(سخت) سمجھتے تھے۔ اور انہیں ہمیشہ اپنے حاکموں کے رویہ میں ایسی ایسی باتیں دکھائی دیاکرتی تھیں۔ جنہیں وہ اپنے اقتدار کے خلاف یااپنے مذہب کی بے حرمتی سمجھتے تھے۔ وہ بھاری ٹیکسوں کی شکایت کیا کرتے تھے۔ اور اپنے حاکموں کو عرضیاں دے کرہمیشہ دق کرتے رہتے تھے۔ پیلاطس کی ان کے مقابلہ میں بالکل عہدہ برائی نہ ہوئی۔اورنہ اُن کے درمیان باہم کسی قسم کی ہمدردی پائی جاتی تھی۔ وہ ان کے مذہبی جوش و سرگرمی سے متنفر (نفرت کرنا )تھا۔ اورجب کبھی اُن کے ساتھ کوئی تنازعہ پیش آتا۔ اور ایسے تنازعے اکثر ہوتے رہتے تھے۔ تو وہ بلاتکلف خونریزی پر کار بند ہوا کرتاتھا۔ اوربرخلاف اس کے وہ اُسے رشوت ستانی۔ بے رحمی۔ لوٹ مار اوربدعملی کاملزم ٹھہراتے تھے۔
گورنر کامقام ِرہائش یروشلیم نہ تھا۔ بھلا ایسا شخص جوروما کے عیش و عشرت اُس کے تھیٹروں ۔ حماموں ۔کھیل تماشوں۔ لڑیچر اورسوسائٹی کا گرویدہ (عاشق) ہو۔ ایسی جگہ رہنے کاکب خواہاں ہو سکتاتھا۔ اُس کا صدر مقام قیصر یہ تھا۔ جو ساحل بحر پر واقع تھا۔ یہ شہر اپنی شان وشوکت اور سامان عیش و عشرت کے لحاظ سے عین بعین ایک روما ئیے نورد کی مانند تھا۔ لیکن وقتاً فوقتاً کار وبارکے لئے گورنر کو صدر مقام (یروشلیم ) میں جانا پڑتاتھا۔ اور عموماً جیسا کہ اس وقت بھی وہ عیدِ فسح کے موقع پروہاں ضرور جاتاتھا۔
یروشلیم میں وہ ہمیشہ اُس شاہی محل میں جو یہودیہ کے قدیم بادشاہوں کی جائے رہائش تھا۔ فروکش (ٹھہرنا)ہواکرتاتھا۔ اسے ہیرودیسِ اعظم نے تعمیر کیا تھا۔جسے شاہجہان کی طرح بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا ازحد شوق تھا۔ یہ محل اُسی پہاڑی کے جنوب مغربی گوشہ پر جس پر ہیکل واقع تھی۔ بناہواتھا۔ یہ ایک بڑا عالی شان محل تھا۔ اوراپنی خوبصورتی میں ہیکل کا ہم پلہ تھا ۔ اور اس قدر عظیم تھا کہ اس میں ایک چھوٹی سی فوج کی رہائش کی گنجائش تھی۔ اُس کے دو بڑے بڑے بازو تھے۔ جوعمارت کے دونوں طرف کو نکلے ہوئےتھے۔ اور بیچ میں ایک اورعمارت تھی۔جس سے یہ دونوں طرف کو نکلے ہوئے تھے۔ جس سے یہ دونوں باہم ملحق (جوڑنا)کئے گئےتھے۔ اس درمیانی عمارت کے مقابل ایک بڑا میدان تھا۔ اور یہاں کھلی جگہ میں ایک بلند چبوترہ تھا۔ جہاں مسیح کے مُقد مے کی تحقیقات ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ یہودی اس عمارت کے اندر داخل ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اُن کے نزدیک ناپاک تھی۔ پیلاطس کو اُن کے اس مذہبی وسواس کا لحاظ رکھنا پڑتاتھا۔ اگرچہ وہ اپنے دل میں اُن پر ہنستارہتا تھا۔ لیکن علاوہ اس کے رومیوں کے لئے کھلی جگہ میں عدالت کرنا بھی ایک معمولی بات تھی۔ محل کے سامنے کے حصّہ میں بڑے بڑے ستون لگے تھے۔ اور اُس کے گردا گرد ایک وسیع پارک ( سیر گاہ) تھا۔ جو روشوں ۔ درختوں اور تالابوں سے آراستہ تھا۔ اورجس میں فوارے ہر وقت چھوٹتے رہتے تھے۔ اور خوبصورت جانور اپنی راگنیاں گاتے رہتے تھے۔ غرضیکہ ہر طرح سے یہ نہایت دلکش اور پُر فضا مقام تھا۔
الغرض علی الصباح(صبح سویرے) یہودیوں کے سردار قید ی کو درمیان میں لئے ہوئے اس محل کے عظیم الشان پھاٹک کے اندر داخل ہوئے۔ پیلاطس بھی اُن کی ملاقات کے لئے باہر نکل آیا اور اپنی عدالت کی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اُس کے سیکرٹری اُس کے آس پاس تھے۔ اور اُس کی پسِ پشت قوی ہیکل رومی سپاہیوں کی ایک جماعت بھالے لئے ہوئے سروقد حکم کی منتظر کھڑی تھی۔ ملز م کو چبوترے کے اوُپر کھڑا کیا گیا ۔اور اس کے مقابل قائفا کی سر کردگی میں اُس کے الزام لگانے والوں کی جماعت کھڑی تھی۔ کیسا عجیب نظارہ ! یہودی قوم کے سردار اپنے ہی مسیح کو زنجیروں میں جکڑ کر ایک بُت پرست حاکم کے حوالہ کرنے کو لائے ہیں ۔ اور اُس سے یہ التجا کرتے ہیں۔ کہ اُسے قتل کیا جائے ۔ اے بہادر رنیوں کے روحو !تم جو اس قوم سے دلی محبت رکھتے تھے۔ اور اُس پر فخر کرتے ۔ اوراُس کی آئندہ شان وشوکت اور عظمت و جلال کی پیشن گوئی کیا کرتے تھے۔ آخر کار وہ گھڑی آپہنچی ہے۔ مگر اُس کا نتیجہ یہ ہوا۔
یہ فعل ایسا تھا کہ گویا قوم نے ا ُس کے ذریعہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ مگرکیا اس سے بھی بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ کیا خُدا کی تدبیر و عہد بھی اس سے شکستہ و پر اگندہ نہیں ہو گئے ؟ یقیناً ظاہرا ً تو ایسا ہی معلوم ہوتاتھا۔ مگر خُدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا۔ انسان کے گناہوں کے باوجود بلکہ اُن کے ذریعہ بھی اس کا مقصد و منشا تکمیل کو پہنچتا رہتا ہے۔ یہودیوں نے ابن اِ اللہ کو پیلا طس کی کرسی کے سامنے پیش کیا تا کہ یہود ی اور غیر قوم دونوں مل کر اُس پر سزا کا حکم لگائیں ۔کیونکہ یہ نجات دہندہ کے کام کا ایک جز تھا۔ کہ وہ انسانی گناہ کا پروہ پھاڑنے۔ اور یہاں شرارت ہی تمام و کمال بدی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ جب کہ بنی انسان کا ہاتھ اپنے خالق کے خلاف اُٹھا ہوا تھا۔ اور تاہم وہ موت بنی انسان کی زندگی کا باعث ہونے کو تھی۔ اور یسوع یہودی اورغیرقوم کے درمیان کھڑا ہو ااور دونوں کو ایک مشتر کہ نجات کی رفاقت کے بندوں میں جوڑ نے کو تھا۔ واہ خُدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی وسیع ہے اُس کی تجویزیں کس قدر ادراک(سمجھ) سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔
پیلاطس نے الفور دریافت کیا کہ وہ کونسا الزام ہے جس کے لئے تم قیدی کو میرے سامنے لائے ہو۔
جو جواب انہوں نے دیا۔ اس سے اُن کی طبیعت و مزاج کا اظہار ہوتاہے۔ اگر یہ بدکا ر نہ ہو تا تو ہم اُسے تیرے حوالہ نہ کرتے ۔ یہ گورنر کے لئے ایک صاف صاف اشارہ تھا کہ اُسے چاہیے کہ اپنے از سر نو تحقیقات کرنے کے استحقاق (جانچ پڑتال) کو چھوڑ کر انہیں کی تحقیقات کو کافی سمجھے۔ اور فقط اپنے استحقاق کے دوسرے حصّہ کو یعنی سزائے موت کے جاری کرنے کو ہی کام میں لائے۔ بعض اوقات صوبوں کے حاکم ایسا کر دیا کرتے تھے۔ خواہ تواپنی سُستی و کاہلی کی وجہ سے یاویسے حکام کو خوش کرنے کے لئے اور خاص کر ایک مذہبی مقدمہ میں جس کی ماہیت کوسمجھنے کی ایک اجنبی حاکم سے ہرگز اُمید نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس قسم کے لحاظ کی اُمید کر نا کوئی نا مناسب درخواست نہ تھی۔
مگرپیلاطس اس وقت دبنےیا ماننے والی لہر میں نہ تھا۔ اور بولا ۔ تو اسے لے جا کر تم اپنی شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرو۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ اگر میں مقدمہ کو نہیں سن سکتا۔ تو میں اُس پر فتویٰ بھی نہیں دیتا اور نہ سز ا کو جاری کروں گا۔ اگر تم اس پر اصرار کرتے ہو ۔ کہ یہ مقدمہ صرف تمہاری ہی دینی عدالت کے سننے کے لائق ہے ۔ تو اپنے پاس ہی رکھو ۔ اور اگر تم رکھو گے تو تمہیں اُسے ایسی ہی سزا دینی ہو گی۔ جس کے تم مجاز ہو ۔
لیکن یہ بات اُن کے لئے زہر تھی۔ وہ تو مسیح کے خون کے پیاسے تھے۔ او ر وہ خوب جانتے تھے۔ کہ انہیں قید یا کو ڑے لگانے سے بڑھ کر کوئی اختیار نہیں۔ وہ سردمہر اور تیز نظر رومی جو انہیں کی طرح مغرور و متکبر تھا انہیں جتاتا چاہتا تھا۔ کہ روم کا پاؤں اُن کی گردن پر کتنا بھاری ہے۔ اور انہیں کے منہ سے یہ بات کہلوانے میں اُسے ایک قسم کا مزا آتا تھا کہ ہم مجاز نہیں کہ کسی کو جان سے ماریں۔ اپنی مرضی اور اُمید کے خلاف ایک باقاعدہ الزام پیش کرنے پر مجبور ہو کر انہوں نے بڑے غصے میں آکر الزام لگانے شروع کئے۔ جن میں سے آخر کا ر تین الزام زیادہ صفائی کے ساتھ نظر آنے لگے۔ اوّل ۔وہ قوم کو بگاڑ رہا ہے ۔ دوم ۔وہ سرکاری خراج اد ا کرنے سے منع کرتا ہے ۔ سوم ۔وہ اپنے کو بادشاہ ظاہر کرتا ہے۔
یہ بات غو ر کے قابل ہے کہ انہوں نے کہیں بھی اُس جرم کا ذکر نہیں کیا۔ جس کی بنا پر انہوں نے اُس پر خود موت کا فتویٰ لگایا تھا۔ انہوں نے ان تینوں باتوں میں سے کسی کے لئے بھی اُس پر فتویٰ نہیں لگایا ۔ بلکہ صرف کفر بکنے کے لئے ۔ مگر وہ خوب جانتے تھے ۔ کہ اگر وہ اس مقام پر اس قسم کے الزام کا ذکر کر یں گے۔ تو اغلب (یقینی)ہے کہ عدالت اُس کو حقیر سمجھ کر رد کریں گی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پولوس رسول پر بھی رومی گورنر نے اس قسم کے الزام پیش ہونے پر کیا کہا تھا۔ گلیو نے یہودیوں سے کہا ۔ اے یہودیو ! اگر کچھ ظلم یا بڑی شرارت کی بات ہوتی ۔ تو واجب تھا کہ میں صبر کر کے تمہاری سنتا لیکن جب یہ ایسے سوال ہیں جو لفظوں اور ناموں اور تمہاری شریعت سے علاقہ(تعلق) رکھتے ہیں۔ تو تم ہی جانو۔ میں ایسی باتوں کا منصف بننا نہیں چاہتا ۔ اور اُس نے انہیں عدالت سے نکلوا دیا۔ ( اعمال ۱۸: ۱۴۔۱۶) اور اگرچہ پیلاطس ایسی بات کے لئے جسے وہ یہودیوں کا تو ہم باطل سمجھتا تھا۔ ویسے ہی حقارت او ر نفرت ظاہر نہ کرتا تو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ کہ دل سے ایسا ہی سمجھتا ہے۔مگر حقیقی الزام کو پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے کو ایسی نازک اور غیر واقعی حالت میں رکھ دیا۔ جس کے خطرات سے وہ بچ نہ سکے ۔ اُ ن کو خواہ مخواہ جرم گھڑنے پڑنے ۔ اور اس بات میں انہوں نے اپنی ضمیر و ایمان کی کچھ پروا نہ کی۔
اُن کا پہلا الزام کہ یسوع قوم کو بگاڑ رہا ہے۔ بالکل مبہم(غیر واضح) اور بودا (کمزور) تھا۔ مگر ہم دوسرے الزام کے حق میں کیا کہیں کہ وہ سرکاری محصول ادا کرنے سے منع کرتا ہے؟ جب ہم اس کے جواب کو جو اُس نے اُسی ہفتہ میں اُن کےسوا ل پر دیا تھا۔ کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو دو ۔ تو یہ الزام ایک سفید جھوٹ معلوم دیتا ہے۔ مگر ان کے تیسرے الزام میں کہ وہ اپنے کو مسیح بادشاہ ظاہر کرتا ہے ۔ کچھ سچائی کی آمیز ش ضرور تھی ۔ کیونکہ اُس نے اُن کی عدالت کےسامنے سنجیدگی سے اپنے مسیح ہو نے کا اقرار کیا تھا۔ مگر اس صورت میں بھی وہ خوب جانتے تھے۔ کہ ایک رومی کے کان میں مسیح کا یہ دعویٰ کہ وہ ایک بادشاہ ہے مختلف معنی رکھتا ہے ۔ بہ نسبت اُن معنوں کے جو مسیح ہونے کا دعویٰ اُن کے نزدیک رکھتا ہے۔ درحقیقت جو اعتراض اُن کو مسیح کے حق میں تھا ۔ اُس کی تہ میں یہ بات تھی۔ کہ وہ انہیں رومی معنوں کے مطابق بادشاہ بننے کے لئے کافی طور پر تیار نہیں ہے۔ وہ بڑے اشتیاق سے ایک بادشاہ کے منتظر تھے۔ جو بڑا شاندار او ر جنگی آدمی ہو گا۔ تا کہ وہ رومیوں کا جُو اتوڑ کر یر وشلیم کو ایک عالمگیر سلطنت کا دارا لسلطنت بنائے۔ اور چونکہ یسوع کی روح اور مقاصد ایسی حرص وہو ا کے مخالف تھے۔ اس لئے وہ اُسے حقیر جانتے اور اُس سے نفر ت کرتے تھے۔ پیلاطس اُن لوگوں کے مزاج و خو(طور طریقہ )سے خوب واقف تھا۔ جو سرگرمی وہ اُس وقت قیصرکے متعلق دکھا رہے تھے۔ اُسے دیکھ کر دہ دل ہی دل میں ہنستا ہو گا۔ ایک انجیل نویس لکھتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ حسد کے باعث انہوں نے اُس کے حوالہ کیا ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس وقت وہ یسوع کے حالات سے کہاں تک واقف تھا وہ اس تحریک کے سارے زمانہ میں جو یوحنا بپتسمہ دینے والے نے شروع کی اور یسوع نے جاری رکھی برابر گو رنر رہا تھا۔ اورممکن نہیں کہ وہ ان باتوں سے بالکل جاہل و ناواقف رہا ہو۔ اُس کی بیوی کا خواب جس کا ہم آگے چل کرذکر کریں گے۔ اس بات کو ثابت کر تاہوا معلوم دیتا ہے ۔ کہ اس سے پہلے بھی محل میں یسوع کا ذکر ہوتا رہا ہو گا۔ اور غالباً اُس یروشلیم کی رہائش کی بے مزگی کو رفع کرنے کے لئے مشغلہ کے طور پر گورنر اور اُس کی بیوی ۔ اس نوجوان جو شیلے آدمی کی جوان کٹ مُلا کاہنوں کی خبر لے رہا تھا۔ کہانیاں سنا کرتے ہوں گے۔ پیلا طس اس ساری تحقیقات کے اثناہ میں یسوع کا برابر لحاظ اور ادب کرتا رہا ۔ بلا شبہ اس کی وجہ زیادہ تر دہ رویہ ہو گا۔ جو مسیح نے اُس کی عدالت میں بر تا۔ لیکن اُس کا کچھ حصّہ اُن باتوں کی وجہ سے بھی ہو گا۔ جو وہ اُس کی نسبت سنتا رہا تھا۔ خیر خواہ کچھ ہی ہو ۔ مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جو الزام اُس کے سامنے یسوع پر لگا یا گیا تھا۔ اُس نے اُسے بالکل خفیف (معمولی) سمجھا پہلے دو الزاموں کو تومعلوم ہوتاہے وہ خیال میں بھی نہ لا یا۔ مگر تیسرا الزام کہ وہ اپنے کو بادشاہ ظاہر کرتا ہے۔ اور شاید قیصر کا ایک اور رقیب (حریف)کھڑا ہو جائے۔ ایسا نہ تھا کہ وہ اُس سے قطع نظر(نظر چُرانا) کرتا ۔
پیلاطس یہ الزام سن کر یسوع کو الگ محل کے اندر لے گیا۔ تا کہ اُس کی جستجو کرے غالباً یہ اُس نے اس لئے کیا کہ اس طورسے اُس کے الزام لگانے والوں کے سخت اصرار سے پیچھا چھڑائے۔ اور یسوع نے ان کی طرح محل کے اندر جانے میں بھی کچھ پس و پیش نہ کیا۔ کیا ہم اس سے یہ مطلب سمجھیں کہ چونکہ یہودیوں نے اُسے ردکر دیاتھا۔ اس لئے وہ غیر قوموں کی طرف متوجہ ہونے لگا تھا۔ اور تفرقہ کی دیوار گر پڑی تھی اوروہ اب اُس کے کھنڈرات کو پا مال کررہاتھا۔
اب اس اندرونی کمرے کی خاموشی و تنہائی میں پیلا طس اور یسوع ایک دوسرے کے مقابل ہوئے۔ ایک تو قیدی کی ادنیٰ حیثیت میں۔ دوسراصاحب اختیار حاکم کی حیثیت میں۔لیکن جب ہم پیچھے کو نظر مارتے ہیں توکیسے عجیب طور سے دونوں کا مقام بدلہ ہوا نظرا ٓ تاہے۔ یہ پیلاطس ہے جوعدالت کے سامنے ہے ہاں پیلاطس اورروما جس کا وہ قائم مقام تھا۔ اُس صبح توپیلا طس پر برابر حکم لگایا جارہا تھا۔ اور اُس کے عیب آشکار ا ہو رہے تھے۔ اوراُس وقت سے وہ برابر تاریخ کے چبوترہ پربطور ایک مجرم کے کھڑارہا ہے۔ اور ہر صدی کے لوگ اُس پر نظر مارتے رہے ہیں۔ پُرانے عالی دماغ مصوروں کی جوتصوریریں ہم تک پہنچی ہیں۔ انہوں نے مسیح کے بچپن کی تصویروں میں اُس کے چہر ہ کے گردا گرد روشنی کا ایک ہا لہ بنایا ہے۔ جس سے اُس کےاردگرد کی چیزوں پرچند ھیا دینے والی روشنی پڑتی ہے اوریہ سچ ہے کہ سب پر جواُس وقت جب و ہ دُنیا میں تھا مسیح کے قریب آتے تھے۔ ایک قسم کی روشنی پڑتی تھی۔ جس میں اچھے بُرےدونوں آشکار ا ہو جاتے تھے۔یہ ایسی روشنی تھی جس سے ہرایک تنگ وتاریک گو شہ اور ہرایک چین و شکن روشن ہوجاتا تھا۔ آدمی جونہی اُس کے پاس آتے تھے۔ اُن پرحکم لگ جاتاتھا۔ اورکیا اب بھی ایسا ہی نہیں ہے ہم ایسے کامل طور پر اپنے اندرونی حالات کوظاہر نہیں کر دیتے ۔جیسے اُس وقت جب کہ ہم اُس کے قریب آتے ہیں اور دیکھا جاتاہے ۔کہ ہم پر مسیح کا کیسا اثر پڑتا ہے ۔اور ہم اُسے کس طرح قبول کرتے ہیں ۔اورجیسا ہم اُس سے سلوک کرتے ہیں اُس سے گویا ہم اپنے پرفتویٰ لگا تے اور ابدیت کے لئے اپنے حق میں حکم چڑھاتے ہیں۔
پیلاطس نے اُس سے دریافت کیا۔کیا تویہودیوں کابادشاہ ہے؟ جوتیسرا الزام تھاجو اس کے خلاف لگایاگیا تھا۔ یسوع جو جواب دیا۔ اُس میں بڑی احتیاط پائی جاتی ہے ۔ اوراُس نے جواب دینے سے پہلے ایک دوسرا سوال پوچھا کیا تو یہ بات آپ سے کہتا ہے یااوروں نے میرے حق میں تجھ سے کہی ؟ وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔کہ اس سوال کے کیا معنی ہیں۔ آیا وہ رومیوں کےمحل نظر سے پوچھتا ہے ۔یا یہودیوں کے محل نظرسے ۔کیونکہ اس سوال کا جواب کہ کیا وہ بادشاہ ہے ۔اُن معنوں کے لحاظ سے جورومی لوگ اس لفظ کے سمجھتے تھے۔ بالکل مختلف ہوتا ۔ بہ نسبت اُن معنوں کے لحاظ کے جو یہودی سمجھتے تھے۔
مگر اس جواب سے پیلاطس کچھ ہچکچا ساگیا ۔ کیونکہ اس سے یہ پایا جاتا کہ شاید اُس کو اس امر میں زیادہ دلچسپی ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ وہ اس کا اظہار کرنا نا پسند کرتاہے۔ اوراُس نے غصہ سے جوا ب دیا ۔ کیا میں یہودی ہوں؟تیری قوم اور سردار کاہنوں نے تجھ کو میرے حوالہ کیا ۔ اگر اس سے اُس کے غر ض چبھتی ہوئی طنز تھی۔ تو اس کا تیر عین نشانہ پر لگا۔ افسوس یہ ایک بڑی شرم ناک اور تکلیف و ہ بات تھی۔ اس کی اپنی ہی قوم ہاں اُس کی محبوب قوم جس کی خدمت میں اُس نے اپنی زندگی خرچ کر دی۔ اُسی نے اُسے غیر قوم کے حوالے کردیا ۔ اُس نے اس اجنبی شخص کے سامنے ایسی شرمساری محسوس کی جیسے کہ کوئی شخص جسے اُس کے ماں باپ غلامی میں بیچ دیں۔ اپنے خاندان کے لئے محسوس کرتا ہے۔ تاہم یسوع نے فی الفور پیلاطوس کو اس سوال کا جواب دونو ں پہلو ؤ ں سے دے دیا۔ یعنی رومیوں کے پولٹیکل پہلو سے۔ اور نیز یہودیوں کے مذہبی پہلو سے بھی ۔
پہلے اُس نے اس کے منفی پہلو کو ظاہرکیا۔میری بادشاہت دُنیا کی نہیں۔ وہ رومی شاہنشاہوں کارقیب نہیں ۔اگرایسا ہوتا۔توسب سے پہلے وہ ایک فوج جمع کرتا تاکہ ملک کو رومیوں کے قبضہ سے خلاصی بخشے اوراس فوج کاسب سے پہلا فرض یہ ہوتا کہ اپنے بادشاہ کی ذات کی حفاظت کرتی لیکن یہ بات ثابت ہو سکتی ہے کہ اُس کی گرفتاری کےوقت اُس کی حمائت میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اوراُس کے ایک پیرو نے جب تلوار نکالی ۔ تواُسےپھر میان میں کرنے کا حکم دیا گیا اُس کی بادشاہت جسے وہ قائم کرنا چاہتا ہے لشکروں اوراسلاح اوردنیاوی شان و شوکت کی بادشاہت نہیں ہے۔
لیکن اس انکار کے وقت بھی یسوع نے الفاظ میری بادشاہت استعمال کئے تھے۔ جس پرپیلاطس بول اُٹھا ۔پس کیاتو بادشاہ ہے ؟یسوع نے جواب دیا ۔ہا ں میں اسی لئےپیدا ہوا۔ اوراسی واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق کی گواہی دُوں ۔ یہی ملکِ حق و راستی اُس کی مملکت ہے۔اوریہ قیصرکی سلطنت سے بہت ہی مختلف ہے۔قیصر کی حکومت انسانوں کے جسموں پرہے۔ مگر اس کی ان دلوں پر مسلط (قابض)ہے۔قیصر کی مملکت اور قوت کا مدار اُس کی فوجوں ہتھیاروں ۔قلعوں اورجہازوں پرہے۔ مگر اس بادشاہت کی قوت اُس کے اصولوں ۔ خیالوں ۔اورحسّوں پر منحصرہے۔ جوفائدہ قیصر اپنی رعایا کوپہنچا سکتا ہے۔ وہ فقط اُن کےجسم اور مال کی حفاظت ہے۔ مگر مسیح کی بادشاہت کی برکتیں ضمیر کا اطمینان اوررُوح القدس کی شادمانی ہے۔قیصر کی سلطنت باوجود اپنی وسعت کے محدود ہے ۔مسیح کی سلطنت کی کوئی حدنہیں اوروہ آخر کار ہرایک ملک میں قائم ہونے والی ہے ۔قیصر کی سلطنت دوسری زمینی سلطنتوں کی طرح اپنے اچھے دن دیکھ کر آخر کار بالکل نابود ہوگئی۔ مگر حق وراستی کی سلطنت ابدالآباد تک قائم رہے گی۔
بعض کا خیال ہے کہ مسیح کے اس عظیم قوم میں ایک مشرقی نہیں۔ ۔بلکہ مغربی خیال کی بو آتی ہے ایک شریف دل یہودی کو سب سے بڑھ کر یہ خواہش تھی کہ وہ راستبازی کو حاصل کرے ۔ مگر ایک شریف دل یونانی حق وراستی کا خواہاں تھا۔ اس زمانہ میں بھی کئی ایک ایسی روحیں تھیں بلکہ غیر یہودی اقوام میں بھی ۔ جن کے سامنے اگرسچائی کی بادشاہت کاذکر کیاجاتا تواُن کے دل اُچھل پڑتے۔ یسوع اس بات کو تاک رہا تھا۔ کہ آیا اس آدمی کی روح میں بھی اس قسم کی پُر زور خواہش موجود ہے۔
اورجب وہ یہ الفاظ کہنے لگا کہ ۔’’ جو کوئی حق کا ہے وہ میری آواز سنتا ہے ۔تواُس کے ذرا اوربھی قریب ہو گیا ہو گا۔ کیونکہ اس میں بھی ایک اشارہ تھاکہ اگر وہ سچائی کا مشتاق ہے۔ تو اُسے بھی اس پرایمان لانا چاہیے۔ یسوع نے اپنے جج کو بھی منادی کی۔ جیسے کہ پولوس قیدی نے اپنے جج فیلکس کوکانپا دیا۔ اور اُس کاجج اگر پاچلا اُٹھا کہ توُُ تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کرلینا چاہتاہے ۔ویسے ہی اُس وقت یسوع بھی ایک واعظ اورنجات دہندہ کی حیثیت میں پیلاطس کے ضمیر کو ٹٹول رہا تھا۔ جوشخص رُوحوں کے لئے بنسی ڈالتا ہے اُسے بہت قسم کی بنسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوراس موقع پریسوع نے ایک خاص قسم کی بنسی استعمال کی۔
ہمیشہ ایسے آدمی پائےجاتے ہیں جنہیں عام قسم کی دعوتوں کا کچھ اثرنہیں ہوتا ۔لیکن اس قسم کی باریک دعوت سے کھنچے چلے آتے ہیں ۔ کیا سچائی تجھ پر افسون کی طرح کام کرتی ہے؟ کیا تو حکمت کاپیاسا ہے؟ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نظر میں وہ قیمتی چیزیں جن کی جستجو میں عوام الناس رہتے ہیں خاک کے برابر ہیں مالی دولت کے لئےدوڑدھوپ ۔ زندگی کا فخر ۔ سوسائٹی کی نظروں میں عزت حاصل کرنا ۔ جو لوگ ان باتوں کی تلاش میں ہیں شاید اُن پر ہنستے اور انہیں قابلِ رحم سمجھتے ہو۔ مگر ایک ہردلعزیز شاعر کاسنہری صفحہ۔ ایک سچے صاحب ِخیال کا نیا مشکوک اور گرما گرم خیال ایک پُر مضمون فقط جو تمہارے خیال کو ابدیت کی حدوں تک پہنچاتا ہے۔ ایک روشن مسئلہ جو ستارے کی مانند تمہارے عقل وفہم کے اُفق(آسمان ) پر طلوع ہوتا ہے یہ چیزیں تمہاری دولت ہیں۔ دُنیا کی تاریکی سے تمہارے دل پرچوٹ لگتی ہے۔ اورسینکڑوں دقیق(مشکل ) مسائل تمہیں ستاتے ہیں۔ اے حکمت کے فرزند اور عاشق کیا تو شاہ راستی سے واقف ہے؟ یہی وہ ہے جو تیری نورو روشنی کی آرزو کو پورا کر سکتا ہے ۔اورخیال اور غلطیوں کے جال سے رہائی دے سکتا ہے۔
لیکن کیا اُس کا یہ قول جووہ یہاں فرماتا ہے سچ ہے کہ ہرایک جو حق کاہے۔ اُس کی آواز سنتا ہے؟ کیا اس وقت دُنیا ایسے مردو عورتوں سے بھری ہوئی نہیں ہے۔ جوسچائی کی تلاش میں ہیں۔ لیکن پھر بھی مسیح کے پاس سےگذر جاتے ہیں ہاں وہ اور بھی بڑے پُرزور الفاظ استعمال کرتا ہے کہ وہ جو حق سے پیدا ہوئے ۔ کیا تم بھی درحقیقت کبھی حق کی گود میں بیٹھے ہو۔ اُس کی گردن سے لپٹے ہو۔ اُس کا دودھ پیا ہے؟ بہت ایسے لوگ ہیں جو محض اپنے دھن و عقل سے سچائی کی تلاش کرتے ہیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ وہ اُن کے چل چلن پر حکومت کرے ۔ اور اُن کے دلوں کو پاک صاف کر دے۔ مگر صرف وہی لوگ جو اپنی ساری جان سے سچائی کی تلاش کرتے ہیں ۔ اُس کے سچے فرزند کہلانے کے مستحق ہیں ۔ اور انہیں لوگوں کو مسیح کی آواز جب ایک دفعہ سنائی دے جاتی ہے۔ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا سورج نکل آیا یا موسم بہار آگیا ۔
مگر افسوس پیلاطس ایسا آدمی نہ تھا ۔ وہ روحانی اُمنگوں سے بے بہرہ (محروم )تھا وہ زمین سے زمینی تھا ۔وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں نہ تھا ۔ جو آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور نہ ہاتھ چھُو سکتا ہے اُس کی سچائی کی بادشاہت اور سچائی کا بادشاہ محض خیالی الفاظ تھے۔ اُس نے پوچھا کہ حق کیا ہے؟ مگر یہ سوال کرتے ہی وہ اپنے پاؤں پر پھرا۔ اورجواب کا انتظار نہ کیا۔ اُس کا سوال ایسا ہی تھا جیسے کوئی بدکار پوچھ بیٹھے۔ کہ نیکی کیا ہے؟ یا کوئی ظالم کہ آزادی کیا ہے؟
مگر اُسے کامل یقین ہو گیا کہ یسوع بے گناہ ہے اُس نے اُسے فقط ایک نیک مزاج مذہبی ۔جوشیلا آدمی خیال کیا ۔ جس کے ہاتھوں سلطنت روم کو کچھ خوف نہ تھا ۔پس وہ باہر گیا ۔اورجاتے ہی اُس کی بریت کا فتویٰ دے دیا ۔ میں اس میں کوئی قصور نہیں پاتا۔
پیلاطس نے یسوع کی تحقیقات کی اور اُسے بے گناہ پایا ۔ اور اُس نے صدر مجلس کے ممبروں کو بھی صاف صاف کہہ دیا۔ اس طور سے اُس نے گویا اُن کے فتوی کو رد کر دیا۔ اب اُس کا نتیجہ کیاہونا چاہیے تھا؟ البتہ یہی کہ یسوع کو فی الفور رہا کردیا جائے۔ اوراگر ضرورت ہو۔ تواُس کی حفاظت کی جائے ۔ تاکہ یہودی اُسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائیں۔
مگر ایسا کیوں نہ ہوا؟ ایک اورواقعہ جو پیلاطس کی زندگی میں گزر ا اور جوایک موُرخ نے بیان کیا ہے اس امر کو واضح کر دے گا۔ یسوع کی پیشی کے چند سال پہلے پیلاطس نے جو تھوڑا عرصہ پہلے نیا نیا یہودیہ کا گورنر مقرر ہواتھا۔ یہ ارادہ کیا ۔ کہ فوج کی چھاونی قیصر یہ سے اُٹھا کر یروشلیم میں قائم کی جائے ۔اور سپاہی اپنے جھنڈے لئے ہوئے جس پر شاہنشاہ کی تصویر بنی تھی۔ مُقدس شہر میں داخل ہوئے۔ یہودیوں کے نزدیک یہ تصویریں بُت پرستی تھیں۔ اور اُن کا یروشلیم میں داخل ہونا سخت بے ادبی اور ناپاکی کا باعث سجھا جاتاتھا۔ شہرکے لوگ جو ق در جو ق (غول کی صورت میں )قیصریہ کو جہاں پیلاطس مقیم تھا جانےلگے ۔ اوراس کی منت سماجت کی کہ اُن جھنڈوں کو نکال دے۔ مگر اُس نے انکار کیااور پانچ دن تک برابر بحث جاری رہی۔ آخر کار وہ ایسا غصہ میں آیا کہ اُس نے سپاہیوں کو حکم دیا۔ کہ انہیں گھیر لیں اور د ھمکی دی کہ اگر وہ چُپ چاپ اپنے اپنے گھر کا راستہ نہ لیں گے۔ توقتل کئے جائیں گے۔ مگر وہ اس بات سے ہرگز نہ ڈرے ۔ اورسب نے زمین پر گرکر اپنی گردنیں برہنہ کر دیں ۔ اورچلائے کہ ہم جان دینے کو تیار ہیں۔ مگر اپنے شہر کی بے حرمتی گوارا نہیں کرسکتے ۔ اس کا نیتجہ یہ ہوا کہ پیلاطس کواُن کی بات مان کراپنی فوج کو یروشلیم سے بُلا لینا پڑا ۔ یوسیفس ۱۸۔ ۳: ۱۔
یہ گورنر تھا ۔ اوریہ لوگ تھے۔جن کے ساتھ اُسے سے سابقہ پڑا ۔جب اُن کے دل کسی بات پرجم جاتے اور اُن کا مذہبی جوش بھڑک اُٹھتا تووہ اُن سے کسی طرح عہدہ بُرا نہیں ہوسکتاتھا۔ اس موقع پر وہ اُس سے اُسی طرح پیش آئے۔ جیسا گذشتہ موقع پر پیش آئے تھے۔ اُس نے یسوع کو بےگناہ ٹھہرایا۔ اور اس بات پر سارے مُقدمہ کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا ۔مگر انہوں نے غضب ناک ہو کر شورو غوغا مچانا شروع کیا۔ یا جیسا کہ مُقدس لوقا نے لکھا ہے کہ وہ اور بھی تند ہونے لگے ۔ اورانہوں نے قیدی کے خلاف اور بھی زور شور سے الزام لگانے شروع کئے۔
پیلاطس کو اُن کے مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ وہ اس کمزوری کی حالت میں خود یسوع کی طرف پھر ا اورکہنے لگا ۔ کیاتو سنتا ہے۔ کہ لوگ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ مگر یسوع کچھ نہ بولا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک لفظ بول کر بھی اس کار روائی کو اور طول دے ۔ یہاں تک کہ گورنر تعجب کرنے لگا۔ وہ خود ایسا بے ٹھکانے اور حیران و ششدر ہو رہا تھا کہ وہ اُس کے اس پُر استقلال اطمینان کی حقیقت کو سمجھ نہ سکتاتھا۔اس سارے مُقدمہ میں یسوع کو اپنی جان کے لالے پڑرہے تھے۔ مگر باوجود اس کے اس ساری جماعت میں وہی شخص تھا۔ جوبالکل مطمئن اور پُر سکون معلوم ہوتاتھا۔
مگر دفعتاً (اچانک) اس ساری گھبراہٹ کے درمیان پیلاطس کواپنے اس سارے اُلجھن سے بچ نکلنے کی ایک ترکیب سوجھ گئی۔وہ چلا رہے تھے۔ کہ یہ سارے یہودیہ میں۔ بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کوسکھاسکھا کراُبھارتا ہے۔گلیل کا نام لینے سے اُن کی غرض یہ تھی۔ کہ پیلاطس کے دل میں یسوع کے خلاف بدظنی پیدا کر دیں۔ کیونکہ گلیل ہمیشہ بغاوت وسر کشی کا گھر سمجھا جاتاتھا۔ مگر اس سے پیلاطس کے دل میں کچھ اورہی خیال پیدا ہوگیا ۔اوراُس نے بڑی فکر مندی سے پوچھا۔ کیاوہ گلیلی ہے؟ دفعتاً اُس کے دل میں یہ بات آگئی کہ ہیرودیس حاکم گلیل اس وقت عید ِفسح منانے کے لئے یہیں شہر میں موجود ہے ۔ اور چونکہ رومی قانون کے ضابطہ میں داخل تھا کہ ایک قیدی کو اُسی جگہ جہاں کا وہ دراصل رہنے والا ہوتاتھا تحقیقات کے لئے بھیج دیتے تھے۔ اُس کویہ بات سوجھ گئی کہ بہتر ہوگا کہ یسوع کو اُس صوبہ کے حاکم کے پاس جہاں کا وہ باشندہ ہے۔بھیج دیاجائے اور اس طرح سے اپنا پیچھا چھُڑائے ۔ اُس نے فی الفور اس خیال پر عمل کیا اور اپنے سپاہیوں کی زیر نگرانی یسوع اور اُس کے مدعیوں کومکابیوں کے قدیمی محل میں جہاں ہیرودیس فروکش (ٹھہرنا )ہوا کرتا تھا۔ بھیج دیا۔
اس طرح یسوع اس شرمناک روز گیند کی طرح ادھراُدھر پھینکا گیا ۔ حناّ سے قائفا کے پاس ۔قا ئفا سے پیلاطس کے پاس ۔ اور پیلاطس سے ہیرودیس کے پاس ۔اورابھی یہیں بس نہیں۔ اوریہ آمددرفت ایسی حالت میں ہوئی۔ جب کہ وہ زنجیروں سے جکڑا ہوا اورپیادوں کے زیرِ حفاظت تھا۔ اوراُس کے الزام لگانے والے اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ ہاں اُس کے دُکھوں کی فہرست میں ان باتوں کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
عہد جد کے صحیفوں میں ہیرودیس نام کے کئی ایک اشخاص کاذکر آیا ہے۔اس لئے اس بات کو صاف کر دینا چاہیے کہ یہ اُن میں سے کو ن سا تھا۔ سب سےاوّل تو وہ ہیرودیس تھا جس نے بیت لحم کے بچو ں کو قتل کرایا تھا۔ جب کہ یسوع کو اُس کے والدین مصر میں لے گئے تھے۔ اُسے ہیرودیس اعظم کہتے تھے۔ وہ تمام ملک پرحکمران تھا ۔ اگرچہ وہ بھی رومیوں کا مطیع تھا۔ اُس کی وفات پراُس کا ملک اُس کے بیٹوں میں تقسیم کیا کیا اور اس طرح سے رومیوں کاقبضہ ملک پراور بھی مضبوط ہوگیا۔ کیونکہ جس قدر محروسہ(ماتحت) ریاستیں چھوٹی چھوٹی ہوں۔ اُسی قدر سرپرست سلطنت کا اختیار زیادہ مضبوط ہو گا۔ یہودیہ ارخلاوس کودیاگیا۔ مگر تھوڑے ہی عرصہ بعداُس سے لے لیا گیا۔ اور اب رومی حاکم اُس پرحکمرانی کرتےتھے۔ جن میں سے پیلاطس ایک تھا۔ گلیل اور پیر یہ ہیرودیس کے دوسرے بیٹے انتیپاس کودیاگیا۔ اور اُس کے شمال کاعلاقہ فیلبوس (فلپ) کے حصے میں آیا۔ یہ ہیرودیس جس کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔ انتیپاس ہے۔
یہ ایک صاحبِ لیاقت آدمی تھا ۔ اوراپنی سلطنت کے شروع میں اُس نے ظاہر کیا کہ وہ عمدہ طور سے حکومت کرے گا۔ اپنے باپ کی طرح اُسے بھی تعمیر و عمارت کابہت شوق تھا۔ اور اُسی نے شہر طبریاس میں ایک بڑا عالی شان مکان تعمیر کیاتھاجوآج کل بھی زمانہ حال کے مشن کے ساتھ تعلق رکھنے کے سبب خاص شہرت رکھتاہے۔ مگراُس نے ایک حرکت کی ۔جس نے اُس کی ساری لیاقت پر پانی پھیر دیا۔ اوروہ یہ تھی کہ وہ اپنے بھائی فلپ کی جو رو ہیرو دیاس سے مل بیٹھا۔وہ اپنے خاوند کو چھوڑ کراُس کے پاس چلی آئی۔ اور اس نے بھی اپنی جور وکوگھر سے نکال دیا۔ جوار یتاس شاہ عرب کی بیٹی تھی۔ ہیرودیاس اُس کے مزاج پر بڑا غلبہ رکھتی تھی۔ اور وہ عمر بھر ایک چڑیل کی طرح اُس کے پیچھے لگی رہی۔ اس افتاد (مصیبت )سے بھی اُس کی عالی اُمنگیں اُس کے اندر بالکل مُردہ نہیں ہو گئی تھیں۔ جب یوحنا بپتسمہ دینے والے نےملک میں اپنی وعظ و نصیحت سے آگ لگانی شروع کی تو وہ بھی اُس کی وعظ کو بہت دلچسپی سے سُنا کرتا تھا۔ اُس نے اُسے اپنے محل میں بلُا یا۔ اور اُس کی بہت کچھ عزت ومدارات کی۔ اُس وقت تک کہ یوحنا بول اُٹھا۔ کہ تیرے لئے اس (ہیرودیاس ) کا رکھنا جائز نہیں۔ اسی بات کےلئے یہ عظیم الشان و اعظ قید خانہ میں ڈالا گیاتھا۔ لیکن پھر بھی ہیرودیس اکثر اُسے بُلا بھیجا کرتا تھا۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس پر اُس کے وعظ کی تاثیر ہو گئی ہے۔ اور وہ یوحنا کی خصلت اور تعلیم کا مداح تھا ۔ اور لکھاہے کہ یوحنا کے کہنے کے مطابق اُس نے بہت سی باتیں کیں۔ مگرایک ضروری بات تھی۔ جووہ نہ کر سکا اور نہ کی۔اُس نے ہیرودیاس کو اپنے محل سے نہ نکالا۔یہ طبعی بات تھی۔ کہ وہ اس مرد خُدا سے ڈرتی تھی۔ اوراُس سے دشمنی رکھتی تھی۔ کیونکہ وہ اُسے گھر سے نکالنا چاہتا تھا۔ اوراُس نے بڑی سخت کینہ وری سے اُس کے خلاف سازش شروع کی۔ وہ اپنی لڑکی کے ذریعہ اس امر میں کامیاب بھی ہو گئی۔ یہ لڑکی انتیپاس سےنہیں۔ بلکہ اُس کےپہلے خاوند سے تھی۔ بادشاہ کی سالگرہ کے جلسہ میں سلومی ہیرودیس کی مجلس میں آکر ناچی اوراپنے ہنر وفن اور حسن و خوبی سے بادشاہ کوایسا محوو گرویدہ کرلیا کہ وہ ایک جوش کی حالت میں وعدہ کر بیٹھا ۔ جس سے اس آدمی کی خصلت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ کہ وہ جوکچھ وہ لڑکی مانگے گی۔ اُسے دے گا خواہ اُس کی آدھی سلطنت ہی کیوں نہ ہو ۔ اورجب اس افسوں گر(جادو گر ) نے جسے اُس کی ماں نے اس جہنمی فن میں خوب پکا کر چھوڑا تھا۔ اُس مر دِ خُدا کا سر مانگا۔ تواُس نےانکار نہ کیا۔
اس خوفناک گناہ سے اُس کی رعایا ہکا بکا سارہ گئی۔ اور جب اُس کے تھوڑا عرصہ بعد اس کے خسر شاہ اریتاس نے اپنی لڑکی کا بدلہ لینے کےلئے اُسے شکست فاش دے کر اُس کے ملک کو تاخت وتار اج (تباہ کرنا)گیا تو عموما ً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ خُدا کی طرف سے اُس کے کئے کی سزا ملی ہے۔ اس کا دل بھی اس گناہ کی پشیمانی سے آزردہ رہتاتھا۔ جیسا کہ اس امر سے واضح ہوتا ہے کہ جب اُس نے یسوع کی منادی کا حال سُنا توسب سے پہلے اُسے یہی خیال گزرا۔ کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ اب وہ دن بدن برابر بگڑتا چلا گیا۔ اپنی رعایا کی نفرت معلوم کر کے وہ زیادہ زیادہ اجنبی رسم ودستور کو اختیار کرنےلگا ۔ اُس کا دربا ہر بات میں رومیوں کی نقل کرنے کے لئے مشہور تھا۔ وہ ہر طرح کی عیش و عشرت میں مشغول رہتا تھا۔ گانے بجانے اور ناچنے والے اور بھانڈہ جوا ن چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں دور ا کرتے رہتے تھے۔ طبریاس میں اُن کی خوب آؤ بھگت ہوتی رہتی تھی۔ اُس کی خصلت و طبیعت دن بدن کمزور ہوتی گئی۔ اور آخر کار یہ نوبت پہنچ گئی کہ وہ بالکل موم کی ناک بن گیا ۔ اورکوئی بات دیر تک اُس پر اپنا اثر نہ ڈال سکتی تھی۔ ہر سال وہ عیدِ فسح کے موقع پر یروشلیم کو آتا تھا۔ مگر اس میں بھی اُس کی غرض دینی عبادت نہیں ہو تی تھیَ بلکہ فقط سیروتفریح ایسے بڑے مجمع میں اور نہیں تو مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوں گی۔ اور طرح طرح کی خبریں سننے میں آئے گی ۔ اور کون کہہ سکتا ہے۔ کہ وہاں کیا کیا مزیدار اور پُر لطف تماشے دیکھنے میں نہ آئیں گے۔
جس طور سے اُس نے یسوع کی آؤ بھگت کی وہ بھی ٹھیک اُس کے مزاج کا خاصہ تھا۔ اگر اُس کے اندر ایک شریر آدمی کا ساضمیر بھی ہوتا تو اُسے ضرور بپتسمہ دینے والے کے دوست کی ملاقات کرتے شرم دامنگیر ہوتی ۔ ایک زمانہ میں تو و ہ محض یسوع کی افواہی خبریں سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا مگر وہ زمانہ گزر گیا تھا۔ اس قسم کے جذبات کی جگہ اب اورباتیں دخل پا گئی تھیں۔ اور اس لئے اوّل الذکر فراموش ہوگئی تھی۔ اور اس قسم کا آدمی ہمیشہ اپنا دل بہلانے کےلئے اس قسم کی تحریکیوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ دوم یہ گویا رومی حکومت کی طرف سے ایک قسم کا صلح کا پیام تھا۔ کیونکہ لکھا ہے کہ اُس میں اور پیلاطس میں اس سے پہلے شکر رنجی(ان بن ) تھی۔ مگر اس بات سے وہ پھر دوست ہو گئے مگر اُس کی خوشی زیادہ تراس سبب سے تھی۔ کہ اُسے اُمید تھی کہ یسوع اُسے کوئی کرامات دکھائے گا۔ اُس کا علاقہ دوتین سال تک برابر اُن کر اماتوں کی شہرت سے گونجتار ہا تھا۔ مگر ہیرودیس کو اب تک اُس کی زیارت نصیب نہ ہوئی تھی۔ اب اُسے اچھا موقع ہاتھ لگا۔اور بلا شبہ اُس کے ذہن میں بھی تھا ۔ کہ یسوع ضرور اُس کے اس اشتیاق کوپورا کرےگا۔ بلکہ یہ کہ وہ اپنے ہنر وفن کا اُس کے رو برو اظہار کرنااپنا فخر سمجھے گا۔
ہیرودیس کے دل میں یسوع کی نسبت اس قسم کے خیال جاگزین تھے۔ اُس نے اُسے گویا معمولی گانے بجانے اورناچنے والوں کے برابرسمجھا۔ اور اُس نے اُس کے معجزوں کو ایک مداری کے کھیل وتماشے کی مانند خیال کیا۔ اور اُس نے اُس سے اسی قسم کی سیرو تفریح کی اُمید کی جیسے کہ وہ کسی معمولی شعبدہ باز (کرتب دکھانے والے)سے کرسکتا ۔
اُس نے فی الفور اُس سے دوستانہ طورپرگفتگو شروع کی۔اور اُس سے بہت سی باتیں دریافت کیں۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ اُس مدعاکو جس کےلئے پیلاطس نے اُسے اُس کے پاس بھیجا تھابالکل بھول گیا۔ اُس نے اس کے منہ سے جواب کابھی انتظار نہ کیا ۔ بلکہ بکتا چلا گیا۔ اُس نے مذہبی باتوں پربہت کچھ سوچ بچارکی تھی۔ اور وہ یسوع کے سامنے یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ کہ اُسے ان معاملات کے متعلق کس قدرواقفیت حاصل ہے۔ اُس کے ذہن میں بڑ ے بڑے گہر ے سوال پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ اور بہت عقدے (مشکل بات )حل طلب تھے۔ایک ایسا آدمی بھی جس کا کچھ دین و ایمان نہ ہو۔ دینی اُمور کی بابت بہت کچھ بات چیت کر سکتا ہے۔ اوربہت سےآدمی ہیں جو بجائے دوسرے آدمیوں کی گفتگو سننے کے خواہ وہ اُن سے کتنے ہی بڑھ کر د اناکیوں نہ ہوں اپنی ہی شیریں آواز کو سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید ہی کسی شخص کی زبان ایک بے اصول اور بد چلن آدمی کے برابر تیز چلتی ہو گی۔ہیرودیس آخر کار باتیں کرتے کرتے تھک گیا۔ اوراب یسوع کے لب کھولنے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر یسوع کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا ۔ وہ برابر خاموش کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ خاموشی دو بھر معلوم دینے لگی ۔ہیرودیس بھی مارے غصہ کے لال پیلا ہونے لگا ۔ مگر یسوع کے منہ سے ایک حرف نہ نکلا۔
اوّل تو یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ ساری کارروائی بالکل غیرمتعلق تھی۔یسوع ہیرودیس کے پاس تحقیقات کے لئے بھیجا گیا تھا۔ مگر اس امر کی طرف اس نے توجہ بھی نہ کی۔ اگریسوع کی یہ خواہش ہوتی کہ جس طرح ہوسکے۔ اپنے آپ کو دشمنوں کے پنجہ سے چھڑالے۔ تو یقیناً یہ ایک نہایت عمدہ موقع تھا۔ کیونکہ اگروہ فقط ہیرودیس کی خواہش کے موافق کرتا ۔ اور اس کی تفریح کے لئے ایک معجزہ دکھا دیتا ۔ تو اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وہ اُسے نہ صرف فوراً رہا کر دیتا بلکہ طرح طرح کے انعام و اکرام سے مالا مال کر دیتا ۔ مگر ہم یقین نہیں کر سکتے۔ کہ اس قسم کا خیال تک بھی یسوع کے دل میں آیا ہو گا۔ اُس نے اپنی ذاتی غر ض کے لئے آج تک کبھی معجزہ سے کام نہیں لیا تھا۔ اور یہ کبھی خیال میں نہیں آسکتا کہ اس وقت وہ اپنے کو ایسا ذلیل کر دیتا کہ ہیرودیس کے اُس خیال کو جواس نے اُس کی نسبت باندھ رکھا تھا۔ صحیح ثابت کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھا دیتا ۔ یسوع ہیرودیس کی رعا یا تو تھا۔ مگر اُس کے لئے یہ ہرگز ممکن نہ تھا۔ کہ ایسے شخص کو ادب و عزت کی نگاہ سے دیکھتا ۔بھلا ایسے شخص کے لئے سوائے حقارت کے اور کیا خیال دل میں آ سکتا تھا۔ جس نے یسوع کے ساتھ ایسا کینہ دار سلوک کیا او رایسے عظیم الشان اور اہم موقع پر ایسے ہلکے پن کو کام میں لایا۔ ایک ایسے شخص کو جو ہیرودیس کی گذشتہ زندگی سے واقف تھا۔ اُس کو مذہبی اُمور پر گفتگو کرتے سننا کیسا نا گوار معلوم ہوا ہو گا۔ اس شخص میں مردمی یاصدق دلی کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ مذہب اس کےلئے محض ایک کھیل تھا۔
ایسے آدمی کے سامنے مسیح ہمیشہ خاموش رہتا ہے ۔ہیرودیس اُن اشخاص کا قائم مقام ہے۔ جن کے نزدیک زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔ اور جو فقط عیش وعشرت کے لئے جیتے ہیں۔ ایسے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔وہ نہ صرف مذہب میں اور اُس کی اعلیٰ اور سنجیدہ صورت میں کوئی کشش اپنےلئے نہیں پاتے۔ بلکہ وہ ہر ایک بات سےجس میں گہرے غور و فکر یا سنجیدگی یاسر گرمی کی ضرور ت ہو پر ہیز کرتے ہیں۔ جونہی وہ اپنے ذاتی کارو بار سے فارغ ہوتے ہیں عیش و عشرت اور سیرو تفریح کی طرف دوڑتے ہیں۔ اور ایک چیز جس سے وہ از حد خوف زدہ ہیں۔ سو تنہائی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کہیں اپنے آپ سے دو چار نہ ہو جائیں۔ سو سائٹی کے بعض فرقوں میں جہاں روٹی کمانے کے لئے محنت کر نے کی حاجت نہیں۔ یہ مزاج و طبیعت حکومت کر رہی ہے۔ زندگی ایک کھیل ہے۔ ایک تفریح کے بعد دوسری ۔ اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ اور اس امر کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ کہ کوئی ایسی فراغت کی گھڑی نہ ملے۔ جس میں خواہ مخواہ سنجیدہ باتوں پر غور و فکر کرنے کی نو بت آئے۔
اس آوارگی میں مذہب کو بھی جگہ مل سکتی ہے۔ ممکن کہ لوگ گرجے کو بھی اُسی نیت و مدعا سے جائیں۔ جس سے کسی تھیٹر یا تماشہ گاہ کو جایا کرتے ہیں۔ اس امید سے کہ وہاں بھی کوئی مشغلہ ہاتھ آ جائے اور دل بہلانے کا کچھ سامان مل جائے ۔جس سے زندگی کی ایک گھڑی کا بوجھ سر سے اُتر جائے۔ ہمیں شرم سے اس امر کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ کہ اس قسم کے بہتیرے گر جے اور اس قسم کے بہتیرے واعظ ہیں جو اس قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ فصاحت و بلاغت(خوش کلامی) کی آتش بازی اور موسیقی کی افسونگری(جادو گری) یا ریت و رسم کی شان و شوکت سے الہٰی عبادت کو دل بہلانے کا ایک نہایت عمدہ مشغلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اور جماعت جب عبادت کے بعد گھروں کو رخصت ہوتی ہے تواُن کے دل میں قریباً ویسے ہی خیال بھرے ہوتے ہیں جیسے ۔کا نسرٹ ( محفل راگ) کے دیکھنے کے بعد ہوتے ہیں۔ غالباً وہ لوگ اس امر کو ایک بڑی کامیابی خیال کرتےہیں ۔ مگر یہ یادرہے کہ وہاں مسیح نے کلام نہیں کیا۔ وہ ایسے لوگوں کے سامنے جو مذہب کی اس روح و مزاج میں پیروی کرتے ہیں۔ ہرگز ہرگز اپنے ہونٹ نہیں کھولتا۔
بعض اوقات یہی مزاج ایک پہلو میں اپنا رنگ دکھاتا ہے۔وہ مذہبی باتوں پر خیال کے گھوڑے دوڑانے لگتا ۔ اوراُس کے مسائل پر طرح طرح کے شک و شبہ پیدا کرنے لگتا ہے۔ اور ہیرودیس کی طرح بہتیر ی باتیں پوچھنے لگتا ہے۔ جب کبھی میں بعض لوگوں کو مذہبی عقیدوں پر بات چیت اور بحث کرنے سنتا ہوں۔ تواکثر مجھے یہ جواب بن آیا کرتاہے۔ کہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مسیح پر ایمان لا سکو؟ تم نے کون سا ایسا کام کیا ہے جس سے تم اس قسم کے استحقاق کے سزا وار ٹھہرو ؟ تم تو دل میں یہ سمجھ رہے ہو کہ گویا ہم ایمان لا کر مسیح پر کچھ احسان کرتےہیں۔ درحقیقت اُس پراور اس کے کلام پر ایمان لانے کی قدرت و قابلیت رکھنا ایک بڑا استحقاق اور عزت ہے جس کے حاصل کرنے کے لئے غور و فکر ۔ عجز وفر وتنی اور خود انکاری کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ ضرور نہیں کہ ہر ایک شخص کے اعتراضات کا جو وہ ہمارے دین پر کرتا ہے۔ جواب دیں ۔ مذہب در حقیقت ایک ایسا مضمون ہےجس پر گفتگو کرنا ہرایک شخص اپناحق سمجھتا ہے۔ نہایت نا پاک خیال اور بد چلن آدمی بھی اس کی نسبت بات چیت کرتے اور قلم لے کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ گویا کہ انہیں اس میں کسی قسم کاشک و شبہ نہیں۔ مگر درحقیقت یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر بہت تھوڑوں کو گفتگو کرنے کا حق حاصل ہے۔ہم بہتوں کے خیالات کو پہلے ہی سے اُن کے چال چلن سے معلوم کر سکتے ہیں۔
اورسمجھ سکتے ہیں کہ اُن کی کیا وقعت و حقیقت ہے۔
بعض شاید یہ کہیں کہ یسوع کو چاہیے تھا کہ ہیرو دیس کو جواب دیتا اورایسا نہ کرنے سے اس نےایک ایک عمدہ موقع کھو دیا ۔ کیا یہ مناسب تھا وہ اس امر میں اس کے ضمیر کو شاید لاتا۔ اورجس طرح ہو سکتا ۔ اسے گناہ سے متنبہ کرنے کی کوشش کر تا؟ان لوگوں کو میرا جواب یہ ہے کہ اُس کی خاموشی ہی بجائے بولنے کے ایک بڑی صاف اپیل تھی ۔اس میں ذرہ بھر بھی ضمیر زندہ ہوتا تو وہ آنکھیں جو اس کے کو دیکھ رہی تھیں۔ اوروہ الہٰی اختیار و اقتدار جو اس کا اندازہ و مقیاس تھا ضرور اس کے گناہوں کو قبر میں سے نکال کر اس کے سامنے لاتا اور اسے پر یشان حال کر دیتا ۔یسوع خُدا وند خاموش تھا۔ تاکہ مُردہ بپتسمہ دینے آواز صفائی سے سُنائی دے۔۔۔۔
اگر ہم اس کامطلب سمجھ سکتے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یقیناً مسیح کی خاموشی اُس وقت نہایت موثر تقریر سے بھی کہیں بڑھ کر تھی۔ کیا تمہیں وہ وقت یاد ہے جب تم اُس کی آواز سُنا کرتے تھےجب کہ کتاب ِمُقدس اور واعظ گرجے میں تمہارے دل کے اندر تحریک پیدا کیا کرتے تھے۔ گیتوں کو سن کر تمہارے دل میں طرح طرح کی اعلیٰ اُمنگیں اُٹھتیں ۔ جب سبت کا روز تمہارے نزدیک نہایت ایک مقدس دن تھا۔جب خُدا کی رُوح اندر جدوجہد کرتی تھی۔ اورکیا یہ سب گذرگیا یا گذر رہا ہے ؟ کیا وہ تم سے گفتگو نہیں کرتا ؟ اگر کوئی آدمی بیمار پڑا ہو اُس کے اردگرد کے سب لوگ اُسکی حالت دیکھ کردن بدن چھپ جاتے ہیں۔ بیوی کلام سے پرہیز کرتی ہے ۔ملاقاتی دھیمی آواز میں ہیں۔ آنے جانے والے آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہیں۔ اور در وازہ اس طرح بند کرتے ہیں۔ کہ آہٹ نہ ہو۔ تووہ جان لیتا ہے۔کہ اُس کا مرض خوفناک درجہ کو پہنچ گیاہے۔ جب ایک مسافر برفانی طوفان سے جنگ کرتا ہوا آخر کار آرام کے لئے لیٹ جاتا ہے۔ اور سردی اور در د اور بے قراری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس وقت اُسے میٹھی نیند آنے لگے۔ تب وقت ہے کہ اُسے جگایا جائے کہ وہ اُٹھ کر پھر چلنے اورطوفان سے لڑنے میں مشغول ہو۔ ورنہ اُسے قیامت تک کبھی دوبار ہ کھڑا ہونا نصیب نہ ہوگا۔ رُوحانی زندگی میں بھی اسی قسم کی حالت طاری ہو جایا کرتی ہے۔ اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ رُوح نے جدوجہد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اور مسیح نے بُلانا ترک کر دیا ہے۔ اگر اس قم کی نیند تم پر غلبہ پاتی چلی آتی ہے۔ توتمہیں ضرور فکر مند ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اس وقت تمہاری جان معرضِ خطرمیں ہے۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہیرودیس نے کہاں تک یسوع کی خاموشی کا مطلب سمجھ لیا۔ اغلب امر یہ ہے کہ اس نے سمجھنا نہ چاہا ۔ بہر کیف اس کی حرکات سے معلوم ہوتا تھا کہ اُس نے کچھ بھی نہیں سمجھا ۔ اس نے اسے حماقت سمجھا۔ اُس نے خیال کیا کہ یسوع کے معجزہ نہ دکھانے کی وجہ یہ ہے۔ کہ وہ اس پر قادر ہی نہیں ہے۔ جو لوگ اس قسم کے جھوٹے دعویٰ دار ہوتے ہیں۔ جب وہ پولیس کے ہاتھوں پڑ جاتے ہیں ۔ تو اُن کی ساری قدر ت انہیں جواب دے جایا کرتی ہے۔ اُس نے بھی یہی سمجھا۔ کہ یسوع کا پول کھل گیا۔ اُس کا مسیحیت کا دعویٰ باطل(جھوٹ ) ثابت ہوا۔ اور اب اس کے پیرو بھی اپنی غلطی سے خبر دار ہو گئے ہوں گے۔
یہی اُس کا خیال تھا اور ایسا ہی اُس نے ظاہر بھی کیا ۔ اور اُس کے تخت کے ارد گرد کھڑے ہونے والوں نے بھی اُس کے اس خیال کی تائید کی ۔کیونکہ مشکل سے کوئی اور مقام ہو گا۔ جہاں ایک بڑے آدمی کے الفاظ کی ایسی طوطے کی طرح نقل اُتار ی جاتی ہے۔ جیسے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ۔ اور جب ہیرودیس نے یسوع کو پیلاطس کے پاس واپس بھیجنے سے پہلے یہ حکم دیا کہ اُس کے کندھوں پر ایک تلہ دار لباس ڈالا جائے۔ تو یقیناً انہوں نے اس کو ایک ایسا مذاق سمجھا ہو گا ۔ جو بڑی تحسین و آفرین (تعریف )کے قابل ہے۔ غالباً یہ اُس لبا س کی نقل کے طورپر تھا ۔ جو روم میں کسی عہد ہ کے اُمید وار پہنا کرتے تھے۔ اس سے گویا یہ جتانا مقصود تھا۔ کہ یسوع گویا ملک کے تاج و تخت کا اُمید وار ہے۔ مگر وہ ایسا ذلیل و قابل ِتمسخر ہے کہ اُسے حقارت کے سوا کسی اور سلوک کا سزا وا ر سمجھنا سخت غلطی ہو گی۔ اس طر ح قہقہہ کی نعروں کے درمیان یسوع اُس کے حضور سے دھکیل کر لے جایا گیا۔
یسوع کو ہیرودیس کے پاس بھیجنے سے جو پیلا طس کا منشا(مقصد ) تھا پورا نہ ہوا اس لئے قید ی پھر شاہی محل میں واپس لا یا گیا۔ ہیرودیس نے تو اپنی طرف سے یسوع کی بہت تحقیر و تضحیک (بے عزتی )کی مگر حقیقت میں جیسا کہ ہم اب جانتےہیں۔ وہ اس وقت خود قابلِ سزا ٹھہرا اور اُس نے اپنے ہی کورسوا کیا۔ اور اب یسوع پیلاطس کے پاس واپس آیا تا کہ ظاہر کر دے کہ وہ یعنی پیلاطس بھی ا س قسم کا آدمی ہے۔ اگر چہ اس وقت پیلاطس مطلقاً اس امر سے بے خبر تھا کہ کیا کچھ ہونے کو ہے۔ اُسے اس وقت صرف اس امر کا رنج تھا کہ مقدمہ جس سے وہ اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا تھا ۔آخر اُسی کے گلے پڑ گیا ۔ اُسے خواہ نخواہ اُسے کرنا پڑا ۔ اور آخر اُس نے فیصلہ کر کے ہی چھوڑا ۔ مگر پیشتر اس کے کہ اُس مقدمہ کا خاتمہ ہوا اُس کی اپنی خصلت و مزاج اس کی تہ کی تہ تک تک مسیح کی روشنی میں منکشف(ظاہر ہونا ) ہو گیا۔
ہیرودیس کے مزاج میں تو ہا کاین اور دُنیا پرستی سمائی ہوئی تھی۔ ایسی دُنیا پرستی جو ساری زندگی کو ایک کھیل اور مسخر ی سمجھتی ہے۔ مگر پیلاطس کی دُنیا پرستی ایک اور ڈھنگ کی تھی یعنی اس قسم کی جو میں کو اپنا مقصد و مُدعا ٹھہراتی ہے اور سب کچھ اُسی کے حصو ل کے تابع کر دیتی ہے۔ ان دونوں میں سے شاید اس آخر ی قسم کی دُنیا پر ستی زیادہ عام ہے۔ اور اس لئے اُس راز کھول دینے والی روشنی میں جو مسیح سے درخشاں(روشن ) ہوتی ہے۔ اُس کو درجہ بدرجہ اپنی اصلی صورت کو ظاہر کرتے دیکھنادلچسپی اور فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔
پیلاطس شاید اس امرمیں بالکل حق بجانب ہوتا۔ اگر وہ یسوع کی رہائی کو اُس کے ہیرودیس کے پاس سے واپس آنے تک ملتوی کر دیتا کیونکہ اگرچہ اُس نے خود اُس میں کچھ قصور نہ پایا۔ توبھی یہودیوں کی شریعت اور رسوم کی نا واقفیت کےسبب وہ اُس مقدمہ میں فتویٰ لگانے میں تامل کرتا اور مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے ایک ماہر کی رائے کومعلوم کرنے کا خواہش مند ہوتا ۔ لیکن جب اُس نے یہ معلوم کر لیا کہ ہیرودیس کی رائے بھی اس کے ساتھ متفق ہے۔ تو اب اس امر میں زیادہ ڈھیل کرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔ اس لئے اُس نے یہودیوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ اس نے خود قیدی کا امتحان کیا اور اس میں کچھ قصور نہ پایا ۔ اُس نے اُسے ہیرودیس کے پاس بھیجا اور وہاں بھی یہی بات ثابت ہوئی ۔ اس لئے ۔۔۔۔مگر کیا؟ شاید تم یہ سننے کے اُمیدوار تھے۔ کہ اس لئے میں اُسے بالکل بّری کرتا ہوں اور اگر ضرورت ہو تو اُس کی حفاظت کر وں گا تاکہ کوئی اُسے ضرر (نقصان )نہ پہنچائے۔ منطق اور عدل کے لحاظ سے تو اُسے یہی الفاظ کہنے مناسب تھے۔ مگر پیلاطس کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ زیادہ تعجب انگیز تھے۔ اس لئے میں اُسے پٹوا کر چھوڑ دیتا ہوں۔ یا یوں کہو کہ وہ اس بات پر آمادہ (راضی)تھا۔ کہ محض اُن کے غصہ کو دور کرنے کے لئے اُسے کوڑوں کی سخت سزا دے گا۔ اور پھر انصاف کے مطابق اُسے رہا کر وں گا۔
یہ نہایت ہی بے انصافی کی بات تھی۔ لیکن اس سے اس شخص کی طبیعت اور اُس انتظامِ حکومت کی جس کا وہ قائم مقام تھا۔ رُوح کا حال بخوبی آشکار ا (ظاہر)ہوتا ہے۔ سلطنتِ روما کی روح یہ تھی۔ کہ حسبِ ضرورت اور حسب ِموقع جس طرح سے کام نکلے کچھ دے دلا کر اور چھوڑ چھڑا کر بھی مطلب نکال لینا چاہیے ۔ جیسا کہ نہ صرف دُوسری سلطنتوں میں بلکہ کلیسیاء کے انتظام میں بھی اکثر اوقات دیکھا گیا ہے۔ پیلاطس نے بیسیوں مُقدمات اسی اصول کے مطابق فیصلہ کئے ہوں گے۔ اور بیسیوں حاکم روم کی وسیع سلطنت میں اُس وقت اسی اصول کے مطابق عمل درآمد کر رہے تھے۔ صرف پیلاطس کے حصّہ میں یہ آیا کہ اس کمینہ اصول کو ایک ایسے مقدمہ میں عمل میں لائے جہاں اُس کی یہ حالت تاریخ کی روشنی کی نگرانی میں آگئی۔
لیکن کیا ہمیں یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ دوسرے تمام مقدمات میں خواہ مظلوم کیسا ہی گمنام شخص کیوں نہ ہو یہ رُوح جو پیلاطس سے ظاہر ہوئی ۔ خُدا کے نزدیک ویسی ہی نامقبول تھی؟ ہمارے خُداوند نے جو آخری روز عدالت کی تصور کھینچی ہے۔ اُس میں ایک بات ایسی ہے جس پر سب کو خُداوند کے فتویٰ پر تعجب (حیرانگی ) پیداہوتا ہے۔ و ہ جو دہنی طرف کھڑے ہیں اُن سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسیح کو جب وہ بھوکا تھا کھانا کھلایا ۔ جب پیاسا تھا پانی پلایا وغیرہ وغیرہ۔ اوروہ حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ اے خُداوند ہم نےکب تجھے بھوکا دیکھا اور کھانا کھلایا کب پیاسا دیکھا اور پانی پلایا؟ اسی طرح وہ جوبائیں طرف کھڑے ہیں اُن پر یہ الزام لگا یا جاتا ہے۔ کہ انہوں نے مسیح کو بھوکا دیکھ کر کھا نا نہ کھلایا ۔ پیاسا دیکھ کر پانی نہ پلایا وغیرہ۔ یہ بھی پوچھتے ہیں ۔ خُداوند ۔ہم نے کب تجھے بھوکا اور پیا سا دیکھا اور تیری خدمت نہ کی۔ شاید تم یہ خیال کرو کہ وہ اپنےگناہ چھپا ننے کے لئے جن سے وہ خوب واقف ہیں اس قسم کے کلمات کہتے ہیں ہرگز نہیں ۔ وہ سچ مچ عالم ِحیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید کہنے والے نے اُن کی نسبت غلطی کھائی ہے۔ اور اب انہیں ایسے گناہوں کے لئے سزا دی جاتی ہے۔ جوان سےکبھی سر زد نہیں ہوئی۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے فقط چند بچوں اور بڑھیا عورتوں کی طرف سے بے پروائی کی تھی۔ مگر یہ کس حساب میں ہیں۔ لیکن مسیح فرماتا ہے یہ سب میرے جابجا تھے۔ اور اگرتم نے اُن کی طرف سے غفلت کی یا انہیں نقصان پہنچایا ۔ تویہ تم نےمیرے ہی ساتھ کیا۔ اس طور سے ہرایک جان آخر کار ایسی عالی پایہ اور قابِل لحاظ ثابت ہو گی ۔ کہ ہم اس وقت اُس کا تصور بھی نہیں باندھ سکتے ۔ خبر دار رہو کہ تم اپنےبھائی سے کیسا سلوک کرتے ہو! ممکن ہے کہ تم اُس وقت خود خُدا کی آنکھ کی پتُلی کو چھو رہے ہو ۔ خبردار رہو کہ تم ایک بچے سے بھی کس طرح بے انصافی سے پیش آتے ہو ! شاید تم آخر کار یہ دریافت کرو کہ در حقیقت تم نے خود مسیح پر حملہ کیا تھا۔
پیلاطس نے درحقیقت اپنے اصول کو بالائے طاق (پروا نہ کرنا )رکھ دیا تھا۔ جب کہ اُس نے ظاہر تویہ کیا کہ مسیح بے گناہ ہے۔ مگر ساتھ ہی اُسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ مگر اُسے یہ خیال تھا کہ آخر کار وہ اس طریق سے اپنے اصلی مُدعا کو حاصل کر لے گا۔ مگر ہم دیکھیں گے۔ کہ وہ کس طرح اس امر میں قاصر رہا ۔ اور اُس نے آخر کار بالکل منہ کی کھائی ۔ جب وہ اس تحقیقات میں مشغول تھا۔ تواُس کی طرف کئی ہاتھ بڑھے ہوئے تھے۔ بعض تواُس کے بچانے کے لئے ۔اور بعض اُس کے خلاف ۔ مگر اُس نے تو بسم اللہ ہی غلط کی تھی۔ اور اس لئے وہ آخر کار اُسی غلطی کے رُو میں بہتا ہوا چلا گیا اور ہلاک ہوا پہلا ہاتھ جو اُس کی طرف بڑھا ہوا تھا۔ وہ محبت اور امداد کا ہاتھ تھا وہ خود اُس کی اپنی بیوی کا ہاتھ تھا۔ اُس نے اُسے کہلا بھیجا کہ اُس نے اُس قیدی کے متعلق ایک خواب دیکھا ہے۔ اوراس لئے چاہیے کہ تو اس نیک مردسے کچھ واسطہ نہ رکھے۔ اس امر میں بعض لوگ مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔ کہ بھلا اُسے یسوع کی کس طرح خبر مل گئی ۔ مگر اس میں مشکل کو ن سی ہے۔ غالباً جب یسوع ہیرودیس کے پاس بھیجا گیا تھا ۔ توپیلاطس نے محل میں جاکر اپنی بیوی سے اس عجیب مقدمہ کا سب حال بیان کر دیا۔ اورساتھ ہی یہ بھی جتا دیا ہوگا۔ کہ اس کے دل پر یسوع کی صورت دیکھ کر کیا کیا اثرات پیدا ہوئے ۔ جب وہ چلا آیا تو وہ سو گئی ۔ اور اُسی کا خواب دیکھا کیونکہ اگر چہ ہمارے ترجمہ میں لکھا ہے کہ آج رات میں نے اُس کی نسبت خواب دیکھا ہے مگر لفظی ترجمہ ہے ۔ ’’ آج کے روز ‘‘ اور کئی ایک سامان ایسے پیش آسکتے ہیں کہ ایک معزز خاتون دن کے وقت سوجائے۔ اُس کا خواب ایسا تھا کہ اُس سے وہ کچھ خوف زدہ سی ہوگئی ۔ اور اس لئے اُس نے اپنے خاوند کو کہلا بھیجا۔
اس واقع نے مسیحیوں کی قوت و اہمہ (سوچنے کی قوت ) پربہت کچھ اثر پیدا کیا ہے۔ جس سے طرح طرح کی کہانیا ں بن گئیں ایک روایت کہتی ہے کہ پیلاطس کی بیوی کانام کلاڈیاپروکلہ تھا اور کہ اُس نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ جیسا کہ اُس زمانے میں اکثر ہوا کرتا تھا کہ معزز خواتین جو عہد ِ عتیق کی کتابوں سے واقف ہو جاتی تھیں تو اس مذہب کواختیار کر لیتی تھیں۔ یونانی کلیسیاء نے تو یہ خیال کر کے وہ ضرور مسیحی ہو گئی۔ اُسے ولائت کا درجہ دے دیاہے ۔ شاعروں اور مُصوروں نے اُس کے خواب کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ ڈورے جیسے مشہور مُصور کی تصویر اب بھی لندن کے بڑے تصویر خانہ میں موجود ہے ۔ اس تصور میں یہ دکھایا ہے کہ گویا یہ عورت خواب کی حالت میں ایک بالا خانہ پر کھڑی ہے اور ایک ڈھلوان وادی کی طرف جس پر بہت سے لوگ کھڑے ہیں دیکھ رہی ہے۔یہی سالوں اور صدیوں کی وادی ہے ۔اوروہ لوگ مسیحی کلیسیاء کے آئندہ نسلیں ہیں جو بعد کو آنے والی ہیں۔ دفعتاً خود منجی اُس کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اُس کے کندھے پرصلیب ہے ۔اُس کے پیچھے اور گردا گرد بارہ رسول اور مریدوں کی جماعت ہے۔ ان کے بعد ابتدائی صدیوں کی کلیسیاء ہے۔ جن میں مشہور بزرگان دین مثل پولیکارپ ۔ طرطولین۔ اتھناسس ۔گریگری ۔ کرسسٹم اور اگستین کے شامل ہیں۔ ان کے بعد قرون ِوسطی ٰکی کلیسیاء ہے۔ جن میں صلیبی جنگ کے بہادروں کی قد آور اور زرہ پوش صورتیں نظر آتی ہیں۔ ان کے بعد زمانہ حال کی کلیسیاء مع اپنے جوانمردفرزندوں کے ہے۔ پھر گروہوں کی گروہ میں اور جماعتوں کی جماعتیں قطاریں باندھی چلی آتی ہیں۔جنہیں کوئی شخص گن نہیں سکتا ۔یہاں تک کہ اوپر سفید اور مُنور آسمان میں تہ در تہ اوردائرہ بر دائرہ خُدا کے فرشتوں کی جماعتیں اُن کے اُوپر اوردائیں بائیں انہیں گھیرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ اوران سب کے درمیان وہ صلیب جو ظاہر صورت میں وہ شخص ایک مصیبت ناک حالت میں اُٹھائے چلا جاتا ہے۔ ایک روشن ستارہ کی طرح چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
خیر یہ تو سب وہمی اور خیالی باتیں ہیں۔ اس عورت کی اس فکر مندی میں کہ ایک بے گناہ آدمی کو کچھ گزند (نقصان )نہ پہنچے ۔ ہم اُس قدیمی رومی عد ل و انصاف کے آثار پاتے ہیں۔ جو اُس وقت بھی بعض شریف النسب خواتین کے دل میں دیکھے جاتے تھے۔ چنانچہ و المینا اور کورنیلیا کے نام اب بھی صفحۂ تاریخ کو رونق دے رہے ہیں۔ اور اُس کا اپنے خاوند کو گناہ کے فعل سے بچانے کی کوشش کرنا اُس کے نام کو اُن شریف عورتوں کی فہرست میں داخل کرتا ہے جو محافظ فرشتوں کی مانند اپنے خاوندوں کے پہلو میں جو دُنیا کے کاروبار میں غرق اور اُس کی غلاظتوں میں آلودہ ہونے کے خطرہ میں ہیں۔ انہیں برابر اعلیٰ قوانین اور غیر مرئی قدرتوں کو یاد دلاتی رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خواب خُدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ گویا بطور ہاتھ کے تھا۔ جوپیلا طس کو اس ہلاکت سے جس میں وہ کرنے کو تھا ۔بچانے کےلئے پھیلایا گیا تھا۔
اُس وقت ایک اور ہاتھ بھی اُس کی طرف پھیلایا گیا تھا۔ اور اُس نے اُسے فی الفور پکڑ لیا۔ اس خیال سے کہ وہ اُسے بچا لے گا۔ مگر اُس ہاتھ نے دفعتاً (اچانک )اُسے پاتال کی طرف دھکیل دیا۔ یہ یروشلیم کے لوگوں کی بھیڑ کا ہاتھ تھا ۔ اس وقت تک جو اشخاص یسوع کے مقدمہ کی سٹیج پر کھڑے تھے۔ وہ چند ایک ہی تھے۔ یہودی حکام کی دلی خواہش یہ تھی۔ کہ جہاں تک ہو سکےجلدی جلدی اُس مقدمہ کا تصفیہ (فیصلہ ) کر لیں۔ پیشتر اس کے کہ شہر کے عوام الناس کو اور عیدِ فسح کے زائروں(زیارت کرنے والوں ) کو جو شہر میں آئے ہوئے تھے۔ اس معاملہ کی خبر پہنچے ۔ اس لئے اس کی کارروائی رات بھر ہوتی رہی۔ اور اس وقت بھی ا بھی صبح سویرا تھا۔ جب یسوع کو گلیوں میں سے ہیرودیس کے پاس لے گئے اور پھر واپس لائے۔ اور اس کے ساتھ شہر کے سر بر آور دہ(بزرگ ۔معزز) لوگون کی بڑی جماعت بھی تھی۔ اس لئے ان کو دیکھ کو یقیناً بہت سی بھیڑ جمع ہو گئی ہو گی۔ مگر اب ایک اور وجہ سے بھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ رومی گورنر کا یہ دستور تھا کہ عیدِ فسح کی صبح کو لوگوں کی خاطر ایک قیدی رہا کر دیا جاتاتھا ۔ چونکہ عموماً بہت سے پولٹیکل قیدی قید خانہ میں ہوتے تھے۔ جن میں ایسے باغی بھی تھے۔ جنہوں نے کبھی نہ کبھی رومیوں کے جو ئے کو اُتار پھینکنے کے لئے علم ِ بغاوت(سرکشی کا جھنڈا) بلند کیاتھا۔ اور اس سبب سے لوگوں کو بہت عزیز تھے ۔ اس لئے اس استحقاق کو ایک معمولی بات نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور جب کہ یسوع کے مقدمہ کی پیشی کھلی جگہ میں ہو رہی تھی ۔ تو شہر کےلوگ جو ق در جوق (غول کی صورت میں ) محل کے در وازہ کے اندر آگئے اور ا س سالانہ تحفہ کے لئے چلانا شروع کیا۔
_______________________________________
۱۔وہلینیا روم کے مشہور جنرل کوریولانس کی ماں تھی۔ جب اس کا بیٹا جلاوطن ہوا۔ اوروہ مخالفوں کی بڑی فوج لے کر روم پرچڑھ آیا۔ اور اُن سے سخت مطالبہ کرنے لگا۔ تو اُس کی ماں اور بیوی نے منت سماجت کر کے اُسے اپنی زادبوم کو غارت رکھنے سے باز رکھا۔ گو اس امر کے لئے وہ اپنے ہمراہیوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔
۲۔کورنیلیا ایک نہایت شریف اور معزز رومی لیڈی تھی۔ اُس کی نسبت روائت ہے کہ جب اس کی سہیلی نے اپنے زیورات دکھا کر اس سے دریافت کیا کہ اس کے زیورات کہاں ہیں۔ تو اُس نے اپنے دو نوں بیٹوں کو پیش کر کے کہا کہ میرے زیور یہ ہیں۔ اُس کے لڑکے بڑے ہو کر بڑے نامی آدمی ہو ئے۔
اس موقع پر پیلاطس کو ان کو درخواست بہت ہی دل پسند معلوم ہوئی۔ کیونکہ اُس نے خیال کیا کہ اس ذریعہ سے میں اس مشکل سے چھوٹ جاؤں گا۔ وہ اُن کے سامنے یسوع کو پیش کر ے گا۔ جو اس سے چند روز پہلے لوگوں میں اس قدر ہر دل عزیز تھا کہ انہوں نے بڑے جو ش و خروش سے اُس کا استقبال کیا تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ مسیح ہونے کا دعویٰ دار ہے۔ اس لئے لوگ اور بھی خوشی سے اُس کی خلاصی کے لئے خواہش مند ہو ں گے۔
یہ بات خلافِ انصاف تھی ۔ اوّل تو اس لئے کہ وہ یسوع کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا تھا۔ کہ گویا وہ مجرم ہے اور اُس پرسز ا کا حکم صادر ہو چکا ہے۔ حالانکہ وہ خود اس سے چند منٹ پہلے اُس کے بےگناہ ہونے کا فتویٰ دے چکا تھا۔ دوسرے اس طور سے ایک بے گناہ آدمی کی جان کو ایک فرضی بات پر جس کا نتیجہ ممکن ہے کہ ا ُلٹ پڑے ایک عام شہری جماعت کے حوالہ کر رہا تھا۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ پیلاطس نے اس امر کو اُس کے حق میں بہتر سمجھا ۔کیونکہ اُسے لوگوں کےمزاج کی نسبت یقین تھا۔ اور بہر حال اپنا پیچھا چھڑانے کا یہ ایک اچھا موقع اُس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ جسے وہ کھونا نہیں چاہتاتھا۔
مگر یہ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ لوگوں کے دل اپنے ہی ایک اور پسند یدہ شخص پرجمے ہوئے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اُس شخص کا نام بھی یسوع تھا۔ مُقدس متی کے بعض نسخوں میں اُس کا نام یسوع برابا س لکھا ہے۔ وہ ایک مشہور شخص تھا۔ جو شہر میں ایسی بغاوت پھیلانے کا مجرم ثابت ہو اتھا۔ جس میں بہت لوگ مارے گئے تھے۔ اور قید خانہ میں اپنے پیرؤں کی جماعت کے ساتھ محبوس (قید میں رکھنا )تھا۔ ایسے قزّاق (ڈاکو )جو نیم لُٹیرے اور نیم باغی و سرکش ہوں۔ عوام الناس کے نزدیک اکثر بہت مقبول ہوتےہیں۔ لیکن جب پیلاطس نے یسوع کا نام پیش کیا۔تو اُنہوں نے کچھ تامل کیا معلوم ہوتا ہے کہ پیلاطس نے دوسرے قیدی کو بھی وہیں بلا بھیجا تھا۔ تا کہ وہ دونوں کو پاس پاس کھڑے دیکھ کر مقابلہ کر سکیں۔ کیونکہ اُسے یقین تھا۔ کہ اگر وہ دونوں کو دیکھیں گے تو وہ بلا تامل مسیح کے حق میں فیصلہ کردیں گے۔
مگر اس مختصر وقت کو صدر مجلس کے ممبروں نے غنیمت سمجھا اور انہوں نے لوگوں کو ترغیب دینی شروع کی۔ یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ کیا یہ گلیلی لوگ نہیں تھے۔ جو اس قدر دھوم دھام کے ساتھ یسوع کو اس سے چند روز پہلے شہر میں لائے تھے۔بلکہ یروشلیم کے عوام الناس جن پر مذہبی پیشواؤں کو بڑا اثر و اختیار حاصل تھا۔کاہن اور فقیہ اب ان کے درمیان گئے اور ہر طرح کے مکرو فریب سے انہیں اپنے ڈھنگ پر لانا شروع کیا ۔غالباً سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی ہو گی۔ کہ ظاہر ہے کہ پیلاطس یسوع کو چاہتا ہے۔ اور لئے انہیں اُس کے حق میں رائے نہیں دینی چاہیے۔
اگر درحقیقت پیلاطس نے دونوں یسوعوں کو پہلو بہ پہلو اُس چبوترہ پر کھڑا کیا۔ تو یہ کیسا عجیب نظارہ ہو گا۔ ایک تو سرکش اور فسادی شخص تھا۔ جس کے ہاتھ خون سے رنگے تھے۔ دوسرا لوگوں کو شفا بخشنے والا اور راہ حق کی تعلیم دینے والا جو برابر لوگوں کی بھلائی میں مشغول تھا ۔جوابن ِآدم اور ابنِ اللہ تھا۔ اب بتاؤ تم ان دونوں میں سے کسے قبول کرو گے ؟ یسوع کو یا برا باس کو ؟ اور دس ہزار گلوں سے یہ صدا آئی ۔براباس کو ۔ یسوع پر اس کیا اثر ہوا ہوگا؟ یہی وہ یروشلیم کے رہنے والے ہیں جن کے لئے اُس کی یہ خواہش تھی کہ جیسے مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ انہیں اپنے زیر سایہ جمع کر لے۔ یہی اُس کے کلام کو سنا کرتے تھے۔ انہیں پر اُس نے اپنے معجزے دکھائے تھے۔ یہی اُس کے مجبوب تھے۔ اور یہی لوگ ایک خونی اور لُیٹرے کو اُس پر ترجیح دے رہے ہیں۔اسی نظارہ کو اکثر اس امر کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے کہ جمہور کی رائے کا کچھ اعتبار نہیں۔اگر چہ لوگوں کے خوشامدی یہ کہا کرتے ہیں۔
کہ زبانِ خلق کو نقارہ خُدا سمجھو ۔
مگر سامنے نگاہ کرو ۔جب انہیں یسوع اور براباس میں سے ایک کو چننا پڑتا ہے تو وہ ہمیشہ براباس ہی کوچنتے ہیں ۔لیکن اگریہ بات سچ ہے تواس مقدمہ نے امرا کی جماعت کا بھی فیصلہ کر چھوڑا ہے کیا کاہن ورفقیہ اور شرفا عوام الناس سے بہتر ہیں؟ عوام النا س نے تو انہیں کی صلاح پرعمل کیا تھا۔
مگردونوں میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے کو لعنت ملا مت کرنا یا ایک دوسرے پر طعن وتشنیع (بُرا بھلا کہنا )کے پتھر پھینکنا ہر گزنہیں سجتا ۔ یہ بہت بہتر ہوگا۔ کہ اس قسم کے نظارہ سے ہم اپنے لئے اپنی جماعت اوراپنے ملک کے لئے خوف کھانا سیکھیں ۔ہمیں کس کا مداح ہونا چاہیے ؟ کس کی پیرو ی کرنی چاہیے کس میں نجات ڈھونڈنی چاہیے۔ جمہور کے فیصلہ کے لئے بڑے بڑے سوال پڑے ہیں۔ وہ کس کو چنیں گے۔ انقلاب ِ عظیم پیداکرنے والے کو ؟ یا ازسر نو پیدا کرنے والے کو؟ اور وہ کس پر اعتماد کریں گے۔ ؟ چالاک آدمی پر یا نیک طبیعت آدمی پر ؟ وہ کونسا مزاج اختیار کریں گے؟ دست درازی کا یا محبت کا ؟ وہ کون سے وسائل کام میں لائیں گے؟ جو باہر باطن کی طرف جاتے ہیں۔ یا جو باطن سے باہر کی طرف ؟ وہ کس مُد عا کو ڈھونڈیں گے ؟ کھانے پینے کی بادشاہت کو یا اُس بادشاہت کو جو روح قدس میں راستبازی اور اطمینان و سلامتی اور خوشی ہے؟ مگر یہ سوالات فقط جمہور کے واسطے ہی نہیں ہیں۔ تمام جماعتوں ۔ تمام فرقوں ۔ ہرایک نسل اورہرایک ملک کو وقتاً فوقتا ً اُن سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ اور اسی ایک ایک فرد ِ واحد کو بھی مگر زندگی کے سب سے بڑے انتخابات آخر کا ر صرف اس بات میں کھپ جاتے ہیں۔ کہ کس کو انتخاب کرو گے؟ یسوع کو یا براباس کو ؟۔
پیلاطس کو یہ بات کہ انہوں نے براباس کو انتخاب کیا بڑی حیرت ناک معلوم ہوئی ہو گی ۔ اور اُس سے اُسے سخت صدمہ بھی پہنچا ہو گا ۔ اور وہ پوچھنے لگا ۔ تو میں یسوع کو کیا کروں؟ غالباً اُسے اس جواب کی اُمید تھی کہ اُسے بھی ہمیں دے ڈال ۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وہ بڑی خوشی سے اس قسم کی درخواست کو قبول کرتاہے۔ مگر بجائے اس کے گونج کی طرح یہ جواب سنائی دیا۔ اُسے صلیب دے اور یہ ایک درخواست نہیں بلکہ ایک حکم کے طور پر معلوم ہوتا تھا۔
اب اُسے یہ سوجھا کہ جس بات کو وہ بچ نکلنے کا سوراخ سمجھا تھا وہ درحقیقت ایک پھانسی ثابت ہوئی جس میں اُس نے خواہ مخواہ اپنا گلا پھنسا دیا۔وہ اُن سے کہہ سکتاتھا ۔ کہ اُس نے انہیں فقط یہ اختیار دیا تھا۔ کہ دوجانوں میں سے ایک کو بچا لیں ۔ نہ یہ کہ اُن میں سے کسی کو ضائع کریں ۔لیکن ایک طرح سے اُس نے دونوں قیدیوں کو اُن کی رائے پر چھوڑ دیا تھا۔ بہر صورت لوگوں نے اُس کا یہی مطلب سمجھا ۔اور اُس نے بھی اُن کے خیال کی تردید کرنے کی جرأت نہ کی۔
مگر تو بھی اس سے پر بہت ہی اثر ہوا ۔اور اب اُس نے ایک بالکل غیر معمولی حرکت کی ۔ اُس وقت اُس نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھو کر کہنے لگا کہ ۔ میں اس راستباز آدمی کے خون سے پاک ہوں۔ تو جانو یہ ایک بڑا سنجیدہ کام تھا۔ مگر اس کی سنجیدگی ساری دکھاوئے کی تھی۔ اُس نے اپنے ہاتھ دھوئے ۔حالانکہ اُسے اُن ہاتھوں سے کام لینا چاہیے تھا۔ اورخون ایسی آسانی سے دھوئے نہیں دُھلتا ۔ وہ اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کر کے اُسے دوسرے کے کندھے پر نہیں ڈال سکتا تھا۔ گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدہ دار اور بااختیار آدمی اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم عام رائے کے سامنے اپنی گردن جھکاتے ہیں ۔مگر ہم بذاتِ خود اس سے اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا عہد ہ پیلاطس کی طرح اس امر کا متقضی(تقاضا کرنا ) ہے کہ انہیں اُس امر کا اپنے خیال کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ۔نتیجہ خواہ اُن کے حق میں کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ تو ایسے گناہوں کا جرم اُن کے ساتھ برابر لگا رہے گا۔ اور کسی صورت میں اُن سے جدا نہ ہوگا۔ یہ سار ا نظارہ مجسٹریٹوں کے لئے بطور ایک آئینہ کے ہے۔ جس میں وہ دیکھ سکتے ہیں ۔ کہ اگر وہ اپنے کو محض عوام کی رائے کا اوز ار بنا دیں گے۔ تو انہیں کیسے کیسے گہر ے اور تاریک کنوئیں جھانکنے پڑیں گے ۔ پیلاطس کو چاہیے تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ عوام کی رائے کی مخالفت کرتا اور ایسے کام کو کرنے سے جسے وہ درست نہیں سمجھتا تھا انکار کر دیتا ۔ مگر ایسا کرنے سے اُسے نقصان ہونے کا اندیشہ (ڈر)تھا۔ اور اسی وجہ سے اُس نے ایسا نہ کیا۔
لوگوں نے اپنی کامیابی کو معلوم کر لیا۔ اور جب اُس نے یسوع کی موت کے بارہ میں اپنی صفائی ظاہر کی تو انہوں نے گستا خانہ جواب دیا۔ اُس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر۔ پیلاطس کو تواس جرم کو اپنے سر لیتے خوف آیا ۔ مگر انہیں نہیں ۔ کیا عجب کہ اُن کے یہ الفاظ سن کر ان کے سر پر آسمان تاریک ہو جاتا ۔ اور اُن کے پاؤں کے نیچے زمین کا نپ اُٹھتی اس سے بڑھ کرناپاک الفاظ شاید ہی کبھی بولے گئے ہوں گے۔ مگر وہ مارے غضب کے دیوانہ ہو رہے تھے۔ اور سوائے اس کے کہ انہیں اس معاملہ میں فتح حاصل ہو۔ اور کسی بات کی مطلق (بالکل )پر وانہ تھی۔ مگر اُن کے یہ الفاظ اُس عدالت میں جس کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔ فراموش نہ ہو ئے۔ اور ابھی بہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہ لعنت جوانہوں نے اپنے سرلی تھی۔ اُن کے شہر اور اُن کی قوم پر پڑگئی ۔ مگر اُس وقت تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور پیلاطس کی مرضی اُن کے کامل اصر ار کے سامنے شکستہ ہو رہی تھی۔
پیلاطس اپنی ساری کوششوں میں جو اُس نے یسوع کو اُس کے ایذ ا (تکلیف )دینے والوں کے ہاتھ سے چُھڑانے کے لئے کیں ناکام رہا۔ بلکہ جس قدر وہ زیادہ کوشش کرتاتھا۔ اُسی قدر ان کا غصہ اور بڑھتا جاتاتھا۔ اور اب اُسے سوائے اُس کے کوئی چارہ نہ تھا۔ کہ یسوع کو جلادوں کے حوالہ کر دے۔ کم سے کم اُن عقوبتوں (تکلیفوں )اور زدر کوب(مار پیٹ ) کرنے کے لئے جو صلیب دئیے جانے سے پہلے مجرموں پر روا رکھی جاتی تھیں۔
یہ بات زمانہ ٔحال کے مسیحی خیال کے مطابق نہیں کہ مسیح کی اُن جسمانی تکالیف کا بہت کچھ ذکر کیا جائے۔ کسی زمانہ میں لوگوں کا خیال اس بارہ میں مختلف تھا۔ متقدمین شل ٹاؤلر کے ان تکالیف کے ہر پہلو کو بہت کچھ مبالغہ سے بیان کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ صفحہ ٔتحریر خون سے بھر ا معلوم ہوتا اور مارے خوف و دہشت کے پڑھنے والے کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا ۔ مگر ہمارے زمانہ میں زبادہ تر میلان(رجحان) اس طرف ہے کہ ان خوفناک نظاروں پر پردہ ڈال دیا جائے ۔ اور اگر یہ پردہ اُٹھانا روا بھی رکھتے ہیں۔ توصرف اس قدر کہ جس سے اُس کے دل کی حالت کو بخوبی سمجھ سکیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اُس کے تمام تکالیف در حقیقت اُس کے دل کے ساتھ ہی وابستہ تھیں۔
ہمارے خُداوند کے مقدس جسم کو بہت سے صدمے اور بیر حمیاں جھیلنی پڑیں۔پیشتر اس کے کہ وہ صلیب کی خوفناک اور مرکب تکا لیف کی نذر کیا گیا۔ اوّل اُس کی وہ جان کنی تھی جو باغ میں اُس پر طاری ہوئی ۔ پھر اُن زنجیروں کا جن میں وہ گرفتار ہونے پر جکڑا گیا ۔ ذکر چھوڑ کر بھی ۔وہ ضرب تھی جو سردار کاہن کے نو کرنے اُس کے منہ پر لگائی۔ جب رات کے وقت دینی حکام اُس پر فتویٰ لگا چکے۔ تولکھا ہے کہ انہوں نے اُس کے منہ پر تھوکا ۔ اور اُس کے مکےّ مارے۔ اور اور لوگ اُس کے گالوں پر طمانچے مار کر کہتے تھے۔ کہ اے مسیح نبوت سے ہمیں بتاتجھے کس نے مارا ۔ اس لئے یہ چوتھا موقع ہے ۔ کہ اُسے جسمانی تکلیف اُٹھانی پڑی ۔
پہلے انہوں نے اُس کے کوڑے لگائے ۔ یہ رومی سپاہیوں کے ہاتھ سے اُن کے آقا کے حکم سے ہوا ۔ اگر چہ ظن غالب (یقینی امکان) ہے کہ گورنر خود اُس وقت وہاں سے چلا گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی چبوترہ پرجہاں مقدمہ ہو رہا تھا۔ اور سب کے رُو برو وقوع میں آیا ۔ مسیح کے کپڑے اُتار کر اُسے ایک ستون سے باندھا گیا۔ یااُس کے ہاتھ پس پشت باندھ کر ایک کھنبے پر جھکا دیاگیا ۔ تاکہ کسی طرح اپنے کوبچا نہ سکے۔ کوڑے کی شکل یہ تھی۔ کہ ایک لکڑی کے ساتھ کئی ایک تسمے بندھے ہوتے تھے۔ جن کے سروں پر لوہے یا ہڈی کے ٹکڑے لگے تھے۔ ان کوڑوں کی ضربوں سے نہ صرف چمڑا پاش پاش ہو جاتا اور خون نکل آتاتھا۔ بلکہ اکثر اوقات آدمی کو ڑے کھاتے کھاتے جان بحق ہوجایا کرتے تھے۔ بعض کا یہ خیال ہے کہ پیلاطس نے یسوع کا کچھ لحاظ کر کے ان کوڑوں کی تعداد یا سختی کو ہلکا کر دیاہوگا۔ مگر بر خلاف اس کے یہ واضح رہے کہ اُس کی اس تدبیر کا جووہ اپنے زعم(گمان) میں اُس کی رہائی کے لئے کر رہا تھا۔ اصل مُد عا یہ تھا۔ کہ یہودیوں پر یہ ظاہر کر ے کہ وہ آگے ہی بہت کچھ دُکھ اُٹھا چکاہے ۔یسوع کا اپنی صلیب اُٹھا کر لے جانے کے ناقابل ہونا غالباً اسی تکان اور دُکھ کے سبب سے تھا۔ جو کوڑوں کے سبب سے اُس پر واقع ہوا۔ اور ایک محض فرضی خیال کے مقابلہ میں جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ یہ امر اس سزا کی سختی کو پورے طور پر ثابت کر رہا ہے۔
کوڑے لگانے کے بعد سپاہی اُسے محل میں اپنی رہائش گاہ میں لے گئے۔ اور ساری رجمنٹ کو اس تماشے کا لطف اُٹھانے کے لئے جمع کیا ۔ ظاہر اًوہ یہ سمجھتے کہ اُس پر صلیب کا حکم صادر ہو چکا ہے ۔اور ہر ایک آدمی جس پر یہ فتویٰ لگ جاتا تھا۔ کوڑے لگانے کے بعد سپاہیوں کے حوالہ کر دیا جاتا تھا ۔ کہ جس طرح چا ہیں اُس کے ساتھ سلوک کریں جیسے جنگل میں شکار کو پکڑ لیتے ہیں ۔ تو اُسے کتوں کے آگے ڈال دیا کرتے ہیں۔ اور یہ مثال بالکل بر محل (موقع کے مطابق)بھی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ لوتھر نے لکھا ہے اُن دنوں میں آدمیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا کرتاتھا۔ جیسا آج کل حیوانوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہمارے لئے اس کا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ کیوں ساری رجمنٹ کو محض اس لئے جمع کیا گیا کہ اپنے ایک ہم جنس کے دُکھوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اُس کی درد تکلیف پر مضحکے اُڑائیں۔ مگر یہی اُن کا مقصد تھا۔ اور وہ اُس وقت ایسا ہی لطف اُٹھا رہے تھے۔ جیسے سکول کے لڑکے زخمی حیوان کو مرتے دیکھ کر۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ و ہ لوگ تھے جو میدان جنگ میں خون دیکھنے کے بالکل عادی ہو رہے تھے۔ اور جب کبھی روم میں ہوتے تھے۔ تو تماشاگاہ کے کھیل تماشوں میں اور میلوں تیوہاروں کے موقعوں پر تلوار بازوں کو ایک دوسرے کو گھائل کرتے دیکھنا اُن کا پسند مشغلہ تھا۔
اس تمسخر کو انہوں نے ایک تا جپوشی کی رسم میں بدل دیا۔ انہوں نے تحقیقات کے اثناء میں یہ معلوم کرلیا تھا۔ کہ یسوع پر یہ الزام لگا یا گیا ہے۔ کہ وہ بادشاہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اور ایسے آدمی کی طرف سے جو بالکل کمینہ اور غریب ہو اس قسم کے اعلیٰ دعویٰ کا اظہار خواہ مخواہ اُسے یاران ِشاطر کا تختۂ مشق (کسی مقصد کے لئے کسی کو بار بار استعمال کرنا ) بنا دیتاہے۔ اس کے علاوہ اُن کے دل میں اس خیال پرکہ ایک یہودی قیصر سے بڑھ کر بادشاہ بننے کا مُدعی ہو ایک قسم کی نفرت و حقارت بھی پیدا ہو رہی تھی۔ اجنبی سپاہی جو فلسطین میں متعین تھے۔ یہودیوں کو جو اُن سے اس قدر دشمنی رکھتے تھے۔ بھلا کب پسند کرتے تھے۔ اور اس وجہ سے ایک یہودی مُدعی سلطنت کے حق میں اُن کی تحقیر اور بھی تیز ہو گئی ہو گی۔ اب انہوں نے اُس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا شروع کیا کہ گویا وہ سچ مچ بادشاہ ہے۔ بادشاہ کو ارغوانی پوشاک پہننی چاہیے اور اس لئے وہ کسی افسر کا اُس رنگ کا ایک پُرانا کوٹ لے آئے اور اُس کے کندھوں پر ڈال دیا ۔ پھر بادشاہ کے سر پرتاج ہونا چاہیے ۔ اس لئے اُن میں سے ایک باغ میں دوڑا گیا اور چند ٹہنیا ں کسی درخت یا جھاڑی کی توڑ لا یا۔ یہ ٹہنیاں کانٹے دار تھیں مگر انہیں ان کی کیا پروا تھی ۔ بلکہ یہ اور بھی اچھا ہوا ۔ اب انہوں نے انہیں توڑ مروڑ کر ایک تاج کی شکل میں بنا دیا۔ اورپھر اُس کے سر پر رکھ کے اوپر سے دبا دیا ۔ اب سارا سامان پورا کرنے کے لئے بادشاہ کے پاس عصائے شاہی بھی ہونا لازم ہے۔اور اُس کے مہیا کرنے میں انہیں کچھ دقت پیش نہ آئی۔ ایک سر کنڈا جسے غالباً کوئی شخص بطور لاٹھی کے استعمال کرتا تھا۔ پاس ہی تھا۔ سو وہ اُس کے دہنے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا ۔ اب بادشاہ سج سجا کر بالکل تیار ہو گیا۔ اورتب جیسا خاص خاص موقعوں پر انہوں نے رعایا کو شہنشاہ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی بار ی باری آگے بڑھ کر اور گھٹنے ٹیک کر کہنا شروع کیا۔ اے یہودیوں کے بادشاہ سلام ۔لیکن ایسا کرنے کے بعد ہرایک اُن میں قہقہہ لگا تا ہوا پیچھے لوٹتا ۔ اور اُسے ایک ضرب لگا جاتا ۔ اور اس غرض کے لئے اُسی عصائے شاہی یعنی سر کنڈے کو استعمال کرتا تھا۔ جو اس کے ہاتھ سے گر پڑا تھا۔ اور اگرچہ مجھے اس بات کے بتانے میں شرم آتی ہے۔ انہوں نے اُس کے منہ کو تھوکوں سے بھر دیا۔
کیسا عجب نظارہ ! ظاہر میں تو یہ اُمید ہوتی تھی۔ کہ وہ لوگ جو خود غریب اور رذیل(پاجی ۔کمینہ ) تھے۔ اور اس لئے طاقتور لوگوں کے ہاتھوں ظلم سہتے رہتے تھے۔ اپنے درجے کے ایک آدمی کے حق میں جو ظلم کے پاؤں تلے کچلا جا رہا تھا۔ ہمدردی اور رحم کو محسوس کریں گے۔ مگر ادنیٰ نوکروں کی بے رحمی کے برابر شاید ہی کو ئی اور بے رحمی ہو گی۔ سب آدمیوں میں ایک چھپی خواہش ہے جو دوسروں کو اپنے سے ادنیٰ حالت میں دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اور خاص کر ایسے آدمی کے لئےجس نے بڑا بننے کی کوشش کی ہو مگر ذلت میں پڑ جائے ۔ اُس کی افتاد میں ایک قسم کی ذاتی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اس قسم کی کمینہ جذبات ہر انسان کے دل کی تہ میں بھری پڑی ہیں۔ اور اس موقع پر انسان کی کمینہ جذبات کی تہ کی تہ اور اُس کی بڑی خواہشوں کی غلاظت کی غلاظت آشکار ا ہو گئی۔
مگر یسوع پر اس قسم کا نظارہ دیکھنا کیسا شاق و سخت گذرا ہو گا۔ یہ سب باتیں اُس کی آنکھوں کے سامنے پیش کی گئیں۔ نہیں بلکہ خود اُس کی ذات پر وارد کی گئیں۔ اور ایسے طور پر کہ وہ اپنا چھپا چھڑا کر اُن سے دور نہیں جاسکتا تھا ۔ اُس کے نازک اور لطیف جسم اور اُس کے سریع الحس دل (نرم دل )کے لئے ایسے وحشی اور بے رحم آدمیوں کے ہاتھوں میں پڑنا کیا کچھ نہ ہو گا۔ تاہم یہ بات ضروری تھی۔ تا کہ اُس کام کو جس کے سر انجام کرنے کے لئے وہ اس دُنیا میں آیا تھا۔ تکمیل کو پہنچائے ۔وہ بنی انسان کو نجات دینے کے لئے آیا تھا۔ تاکہ گہری سے گہری اور ادنیٰ سے ادنیٰ حالت تک غوطہ لگائے اور کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈے اور بچائے۔ اور اس لئے اسے ضرورتھا۔ کہ فطرت انسانی کے بڑے سے بڑے نمونوں اور ذلیل سے ذلیل خرابیوں سے پوری واقفیت پیدا کرے ۔ و ہ تمام گنہگار وں ہاں ایسے خراب اور ذلیل آدمیوں کا بھی جیسے کہ یہ سپاہی تھے۔ نجات دینے والا تھا۔ اور اس لئے اُسے ضرور تھا کہ اُن سے ملے اور دیکھے کہ وہ کیسے ہیں۔
اس طور سے میں نے حتیٰ الامکان جہاں تک ہو سکے نہایت سہولت کے ساتھ اُس کے دُکھوں کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والے اس سے زیادہ تفصیل کے خواہاں نہ ہوں گے۔ مگر اس موقع پر تھوڑی دیر اور ٹھہرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ تا کہ جو سبق اس نظارہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ اُن کو حاصل کریں۔
اوّل یسوع کے ایذا دینے والوں کے چال چلن میں اس امر کو دیکھو کہ انہوں نے خُدا کی بخششوں کا کیسا بُرا استعمال کیا۔ رومی سپاہیوں کے چلن میں اوّل سے آخر تک خاص کر یہ بات نظر آتی ہے۔ کہ کس طرح وہ ہر ایک موقع پر اپنے منصبی کام کو مسخری اور تماشے میں بدل ڈالتے تھے۔ اب دیکھو ! ہنسی خُدا کی ایک بخشش ہے۔ یہ بطور مصالح کے ہے جوخُدائے تعالیٰ نے اس لئے عطا کیا ہے۔ کہ روز مرہ زندگی کے بے مزہ طعام (کھانے )کے ساتھ بطور چاشنی کے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک بے لطف نظارہ کے لئے بطور سورج کی روشنی کی جھلکوں کے ہے۔ اشیاء زندگی میں اُن کے خندہ انگیز پہلو کو دیکھنے کی قابلیت زندگی کے بوجھ کو بہت ہی ہلکا کر دیتی ہے۔ اور وہ شخص جو لوگوں کو ہنسا سکتا اور اُن میں زندہ دلی پیدا کر سکتا ہے۔ بنی انسان کا ایک سچا مُربی (پرورش کرنے والا )اور فیض رساں(فائدہ پہنچانے والا) ہے۔
لیکن اگر چہ ہنسی اورمزاح خُدا کی بخشش ہے۔شاہد ہی خُدا کی کوئی اوربخشش ہو گی ۔ جس کا ایسا بُرا استعمال کیا جاتا ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ بجائے برکت کے لعنت کا باعث ٹھہرتی ہے۔ جب کہ لوگ مقدس اشیاء اور پاک اشخاص کی ہنسی اُڑاتے ہیں۔ جب وہ اُس کے ذریعہ سے بڑی اور قابل ِ عزت اشیا ء کی توہین و تذلیل کرتے ہیں۔ جب وہ کمزوروں کی ایذا رسانی اور بے گناہوں کی تصحیک و تمسخر کا آلہ بنائی جاتی ہے۔ تب ہنسی بجائے ساغر محفل کی اُبلتی ہوئی جھاگ ہونے کے سم قاتل کا کا م دیتی ہے۔ اس وقت ان سپاہیوں کے بے رحمانہ افعال میں ہنسی ہی اُن کی رہنمائی کر رہی ہے۔ وہ اُن کے افعال کی اصل صورت کو اُن سے چھپائے ہوئے ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے مسیح کے دل پر پیلاطس کے کوڑوں سے بھی زیادہ گہرے زخم لگے ہوں گے۔
دُوسری بات قابل ِغور یہ ہے۔ کہ اس موقع پر منجی کے عہدہ شاہی کے خلاف ان لوگوں کی مخالفت ظاہر ہورہی تھی۔ دینی عدالت کے فتویٰ کے بعد جو اُس کی بے حرمتی ہوئی وہ کچھ اورقسم کی تھی۔ اُس وقت اُس کے عہد ہ نبوت کی ہنسی اُڑائی گئی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے ۔ کہ وہ اُس کا منہ ڈھانپنے اور اُس کے مکّے مارنے اور اُس سے کہنے لگے ۔ نبوت سے بتا کہ تجھے کس نے مارا ۔ لیکن برخلاف اس کے یہاں تمام تمسخر اس امر پر ہو رہا تھا۔ کہ اُس نے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیاتھا۔ سپاہیوں کے نزدیک یہ ایک بےہودہ اورقابلِ تمسخر بات معلوم ہوتی تھی۔ کہ ایک شخص جوایسا ذلیل اور بے یار و مدد گار اور کمزور ہو اس قسم کا دعویٰ کرنے کاحوصلہ کرے ۔
اُس زمانہ سے آج تک بہت دفعہ مسیح کے اسی دعوائے شاہی کی اسی طرح ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔ وہ قوموں کا بادشاہ ہے۔ مگر زمینی بادشاہ اور حاکم اس خیال کی ہنسی اُڑاتے رہے ہیں۔ کہ اُس کی رضا اور اُس کی شریعت اُن کی تدبیر اور حرص وہوا پر حاوی ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ بلکہ جہاں کہیں اُس کے اختیار کو برائے نام مانا بھی جاتا ہے۔ خواہ وہ سلطنت جمہوری ہو یا شاہی ۔ وہ بھی اس امر کے تسلیم کرنے میں سستی ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کے قوانین اور اُن کی رسم و دستور اُسی کے کلام کے مطابق و ضع اور قائم ہونے چاہیے ۔ وہ کلیسیاء کا بادشاہ ہے۔ اینڈر یو ملو ل نے جیمس شاہ ِانگلستان کو کہا تھا۔ کہ سکاٹ لینڈ میں دو بادشاہ اور وہ بادشاہتیں ہیں ایک تو شاہ جیمس ہے جو اپنی مملکت کا حاکم ہے۔ دُوسرا مسیح یسوع ہے جس کی رعایا خود شاہ جیمس ششم ہے اور وہ اُس کی سلطنت میں نہ بادشاہ ہے نہ امیر ۔ نہ سردار ۔ بلکہ ایک معمولی فرد کا رتبہ رکھتا ہے ۔اور سکاٹ لینڈ کی کلیسیاء کی ساری تواریخ کو محض اسی سچائی کے قائم رکھنے کےلئے جدوجہد کی تاریخ کہیں تو بجا ہے۔ اور اس جدوجہد کو بھی قریباً ایسی مخالفت ہوتی رہی ۔ جیسے کہ خود یسوع کی پیلاطس کے محل میں ہوئی تھی۔ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے۔ کہ افراد انسانی کی مملکت میں مسیح کی بادشاہت کو تسلیم کر لیا جائے۔ مگر یہیں زیادہ تر اُس کی مرضی کا مقابلہ کیا جانا ہے۔ ہم باتوں باتوں میں تو اُس کی اطاعت کو تیار ہیں۔ لیکن ہم میں سے کون ایسا ہے جو یہ کہ اس لئے کہ وہ اپنے نفس پرایسی کامل فتح حاصل کر چکا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اُس نے مسیح کے دعویٰ کو کامل طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ کہ وہی ہمارے کاروبار اور فرصت کے گھنٹوں کا انتظام کرے۔ اور وہی ہمیں بتائے کہ ہمارے وقت اور وسائل اور خدمات سے کیا کام لیا جانا چاہیے۔
تیسرا سبق یہ ہے۔ کہ جو کچھ یسوع نے اُس وقت برداشت کیا وہ سب ہمارے لئے برداشت کر رہا تھا۔
اس نظارہ کی تمام باتوں میں سے جس بات نے مسیحیوں کے خیال پر بڑا اثر کیا ہے۔ وہ کانٹوں کا تاج ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی چیز تھی۔ اور بے رحمی کی قوت ایجاد اور شرارت پر شا ہد (گواہ ) تھی۔ اس کے علاوہ چونکہ کانٹے کی چوٹ کو قریباً ہر ایک شخص کبھی نہ کبھی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اس سے ہم منجی کی تکلیف کا بہ نسبت کسی اور چیز کے زیادہ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر اس کی تاثیر کا اثر زیادہ تر اس وجہ سے ہے۔ کہ وہ ایک اعلیٰ خیال کی علامت ہے ۔جب آدم اور حوا باغ ِ عدن سے نکالے گئے اور انہیں ایک خشک اور پُر محنت دُنیا میں زندگی بسر کرنی پڑی تو اُن کو یہ حکم سنا یا گیا تھا۔ کہ زمین
____________________________
1۔اینڈر یوملول ۱۵۴۵ء میں پیدا ہوا ور ۱۶۲۲ء میں مر گیا۔ وہ سکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا۔ اور اپنے علم و فضل کے لئے اپنے زمانہ میں نہایت مشہور تھا۔ وہ علاوہ عالم علم الہٰی ہونے کے مشرقی زبانوں میں بھی کامل مہارت رکھتا تھا۔ وہ فرانس ۔ جنوا اور گلاسکو اور سینٹ اینڈ ریوز کی یونیورسٹیوں میں مختلف اوقات میں پروفیسر کے عہدہ پر رہا۔ اُس کی زندگی کے آخری سال شاہ جیمس کے مقابلہ میں کلیسیائے سکاٹ لینڈ کے حقوق کی حفاظت کے لئے لڑنے جھگڑنے میں خرچ ہوئے۔ سخت کلامی کی وجہ سے وہ چار سال قید رہا اور بعدا زاں اپنے ملک کو واپس جانے کی اجازت نہ ملنے کے سبب وہ فرانس میں چلا گیا اور وہیں مر گیا۔
اُن کے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے پیدا کرے گی۔ کانٹا لعنت کا نشان تھا۔ یا یوں کہو کہ خُدا کی حضوری سےرد کئے جانے کا اور اُن تمام افسوس ناک اور درد انگیز نتائج کا جو اُس سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور کیا یہ کانٹا بھی جب کہ موسم سر ما میں برہنہ شاخ پر سے اپنی بڑی صورت کے ساتھ ڈراتا ہوا نظر آتا ہے۔اور موسم سر ما میں پتوں یا پھولوں میں چھپا ہوا ہاتھ کو چبھتا ہے۔اور مسافر کے کپڑوں اور جسم کو جوجھاڑی میں سے اپنی راہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے پھاڑتا اور گھائل کرتا ہے۔ اور جہاں کہیں جسم میں لگتا ہے جلن سی پیدا کرتا ہے۔ ہاں کیا یہ کانٹا ۔ زندگی کے اس پہلو کی جو گناہ سے وابستہ ہے ۔ ایک مناسب علامت نہیں ہے۔ وہ زندگی جو افکار اور اضطراب ۔ دُکھ اور مایوسی ۔ بیماری اور موت سے بھری پڑی ہے۔ القصہ وہ لعنت کاایک مناسب نشان ہے۔ مگر مسیح اس لئے آیا تھا کہ اس لعنت کو برداشت کرے۔ اور جب کہ اُس نے اُسے اپنے سر پر اُٹھا لیا تو اُس نے اُسے دُنیا کے سر پر سے اُٹھا دیا۔ اُسنے ہمارے گناہ اُٹھا لئے اور ہمارے غم برداشت کئے۔
مگر اس کیا سبب ہے کہ ہم اب جب کبھی کانٹوں کے تاج کاذکر کرتے ہیں تو اُس سے ہمارے دل میں فقط ترس اور دہشت کے خیال ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ اُس کے ساتھ ہی ایک قسم کی شادمانی بھی حاصل ہوتی ہے۔ جسے ہم دبا نہیں سکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ گو سپاہیوں کی مسخری سخت بے رحمی پر مبنی تھی۔ مگر اُن کے اس فعل میں بھی ایک الہٰی کارسازی سمجھنی چاہیے ۔ الہٰی حکمت اُن کے گناہ کے ذریعہ بھی اپنے مقصد و منشاء کو پور ا کر رہی تھی۔ بعض اشخاص ایسے خوبصورت واقع ہوئے ہیں کہ اگر انہیں خراب سے خراب کپڑے بھی پہنا دیئے جائیں جو اگردوسروں کے جسم پر ہو ں توانہیں دیکھ کر خواہ مخواہ ہنسی آئے یا نفرت پیدا ہو ۔ مگر اُن پر بالکل سج جاتےہیں۔ اور ٹوٹے پھوٹے زیور جواُن پر بلا امتیاز لگا دیئے جائیں ایسے دل کش معلوم دیتے ہیں۔ کہ اوروں کی نہایت پر تکلف پوشاک اور زیب و زینت بھی اُن کے سامنے ہیچ (کمتر )معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح مسیح میں ایک ایسی بات ہے۔ کہ جس سے وہ چیزیں بھی جو اُس کی بے ادبی و بے حرمتی کی نظر سے اُس پرپھینکی جاتی تھیں۔ اُس کے لئے زیور کا کام دیتی ہیں۔ جب لوگوں نے اُسے محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا دوست کہا۔ تو اگر چہ یہ نام انہوں نے براہ تمسخر اُسے دیاتھا۔ لیکن آخر کا ریہ لقب ایسا دلکش ثابت ہوا کہ اُس کے سبب سے سینکڑوں نسلیں برابر اُس کی محبت کا دم بھرتی چلی آئی ہیں۔ اور اسی طرح جب انہوں نے اُس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا تووہ انجانے اُس کے سر پر شرافت کا سہرا باندھ رہے تھے۔ جوآج تک کسی کو نصیب نہ ہو ا ہو گا۔ ان زمانوں کے اتراؤ میں یسوع برابرو ہی کانٹوں کاتاج پہنے چلا آتا ہے۔ اور اُس کے عاشق اور پیرو اُس کے لئے کسی اور تاج کے خواہاں نہیں ہیں۔
چہارم ۔ اس نظارہ سے ہم سبق سیکھتے ہیں کہ دُکھ اور درد کے وقت تحمل اور برداشت کوکس طرح کام میں لانا چاہیے۔
میں ایک مُقدس خاتون سے واقف ہوں جس کی واقفیت کی عزت مجھے اپنے خادم الدین کے ابتدائی زمانہ میں حاصل ہوئی۔ اگرچہ وہ غریب اور ناتعلیم یافتہ تھی۔مگر اس کی خُدا داد ذہانت و قابلیت قابلِ تعریف تھی۔ اُس کے خیالات عجیب و غریب اور طبع ز اد اور اُس کی گفتگو ایسی پسند ید ہ تھی۔کہ سننے والوں کا دل خود بخود کھنچا جاتاتھا۔ اگرچہ وہ بہت عمر رسیدہ نہ تھی۔ مگروہ جانتے تھے۔ کہ اُس کی موت کا دن بہت دُور نہیں ہے ۔ اورجس مرض میں وہ مبتلاتھی۔ وہ تمام امراض میں سے جوانسان کو لاحق ہوتی ہیں۔ نہایت دردناک تھا مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتی تھی۔ کہ جب اُس کی تکلیف و جان کنی حدکوپہنچ جاتی تھی۔ تووہ چپکے لیٹے لیٹے منجی کے دُکھ اور تکالیف پر غور کیاکرتی تھی۔ اور اپنے دل میں کہا کرتی تھی ۔کہ یہ چیسیں ایسی بڑی نہیں ہیں۔ جیسے کانٹوں کے تاج کی سولیں تھیں۔
مسیح کے دُکھوں کو دیکھ کر ہمیں اپنی عیش پرستی اور آرام طلبی قابل ِ ملامت معلوم ہوتی ہے ۔ زندگی کی آسائشوں اور عیش و آرام سے حظ (لطف)اُٹھانے میں کچھ بُرائی تونہیں ہے۔ خُدا ہی ہمیں یہ سب کچھ عطا کرتاہے۔ اور اگرہم انہیں شکرگذاری کے ساتھ قبول کریں تو ممکن ہے۔ کہ یہ چیزیں ہمیں اُٹھا کراُس کے زیادہ زیادہ قریب لے جائیں۔ مگر مشکل تویہ ہے کہ ہمیں اُن کی جدائی کا خیال کرنے سے بھی دہشت دا منگیر ہوجاتی ہے۔اور درد اورافلاس (بھوک ) کاذکرکرتے بھی ڈر معلوم دیتاہے۔ خاص کر مسیح کے دُکھوں سے ہمیں حوصلہ ہونا چاہیے کہ خواہ کسی قسم کی تکلیف ہمیں پیش آئے یا لعنت ملامت ہمیں جھیلنی پڑے۔ ہم سب کچھ اُن کی خاطر سے برداشت کرنے کو تیار رہیں۔ بہت آدمی ہیں جو مسیحی بننے کے خواہاں تو ہیں۔ مگراس خوف سے کہ علانیہ اقرار کرنے سے ہم پر ہمارے لنگوٹے یار ہنسیں گے۔ یا دُنیا وی عزت و بہبودی میں نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اس سے باز رہتےہیں۔ مگرمنجی کے دُکھوں پر نظر کر کے ہم کو ایسی بزدلی اور خوف سے شرم آنی چاہیے ۔اگرکانٹوں کا تاج اس وقت بھی مسیح کے سر پر ایسا سہانا معلوم ہوتا ہے۔ کہ آدمی اور فرشتے بھی اس پر فخر کرتے اور اُس گیت گاتے ہیں۔تو یقین جانئیے کہ اُس تاج کی شاخوں کاکوئی ٹکڑا جو ہمیں پہننا پڑ جائے گا۔ وہ کسی نہ کسی دن ہمارے نہایت خوشنما زیورات میں سے شمار کیاجائے گا۔
ہم پیلاطس کے تخت ِ عدالت کے سامنے بہت دیر تک ٹھہرے رہے ہیں۔پیلاطس نے ہمیں بہت ہی دیر تک ٹھہرائے رکھا ہے۔ وہ خوب جانتاتھا بلکہ مُقدمہ پر سرسری نظر ڈالتے ہی اُسے معلوم ہوگیاتھا۔ کہ اس بارہ میں اپنے فرض کی بجا آوری میں اُسے کیا کرنا چاہیے۔ مگر بجائے اسکے کہ فی الفور اپنے یقین کے مطابق عمل کرتا ۔وہ اُسے معرض ِالتو ا (دیر کرنا )میں ڈالتا رہا۔ اس قسم کی دیر و تساہل(سستی ) سے عموماً فائدہ نہیں نکلا کرتا ۔ پیلاطس نے آزمائش کو موقع دیا۔ کہ اُس پر حملہ کرے ۔ اُس نے اُس کا مقابلہ تو کیا ۔ وہ دیر تک بڑی سختی سے اُس سے لڑتا رہا ۔ مگر اُسے سر ے ہی سے اُسے حملہ کرنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔ اور آخر کار وہ نہایت ذلت کے ساتھ اُس کا شکار ہو گیا۔
جب پیلاطس نے یسوع کو کوڑے مارنے کے لئے حوالہ کردیا۔ توایسا معلوم ہوتاتھا۔ کہ گویا اُس نے درحقیقت اُسے صلیب دیئے جانے کو حوالہ کر دیا ہے۔ ۔ اور غالب معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے بھی ایسا ہی سمجھا ۔کیونکہ کوڑے لگانا صلیب دیئے جانے کا شروع ہوا کرتاتھا۔ تاہم اُس نے ابھی یسوع بچانے کی اُمید کو بالکل ہاتھ سے نہ دیا تھا۔ وہ اب بھی اُسی تجویز کو جو اُس نے پیش کی تھی۔ مد نظر رکھے ہوئے تھا کہ اُسے کوڑے لگو ا کر چھوڑ دے۔ شاید جب کوڑے لگائے جانے کے وقت وہ محل میں چلا گیا ہو گا ۔ تو اُس کی بیوی نے ضرو ر اُسے ترغیب دی ہو گی ۔ کہ اس راستباز آدمی کو بچانے کے لئے اوربھی کوشش کرے۔
بہر صورت وہ پھر باہر اُس چبوترہ پر آبیٹھا جس کے ارد گرد یہودی ٹھٹ (ہجوم ۔گروہ) باندھ سے کھڑے تھے۔ اور انہیں مطلع(اطلاع دینا) کیا کہ مقدمہ کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا۔ اور جب کہ یسوع جس کا پیٹنا ابھی ختم ہوا تھا۔ سامنے آیا ۔ تو وہ پھر اور اُس کی طرف اشارہ کر کے بڑے اضطراب (بے چینی )سے پکار ا ۔ اس آدمی کو دیکھو۔ خواہ مخواہ اُس کی زبان سے یہ رحم انگیز کلمات نکل گئے اور اس میں گ گویا یہودیوں سے یہ درخواست کی گئی تھی۔ کہ وہ آخر کار اس امر کو پہچان لیں کہ اس مقدمہ اور زیادہ کچھ کر نا بالکل نا معقول بات ہوگی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ یسوع ہرگز اُن لوگوں میں سے نہیں معلوم ہوتا ۔ جیسا کہ وہ اُسے سمجھے بیٹھے ہیں۔ بہرصورت اُسے کافی دُکھ اور سزا مل گئی ہے۔
مگر مسیحی ذہن ہر زمانہ میں ان الفاظ سے اور بھی زیادہ گہرے معنی نکالتا رہا ہے۔ جیسے کہ قائفا بھی ایک بڑی سچائی کوبیان کر رہا تھا۔ گو وہ خود اُسے نہ سمجھتا تھا۔ جب اُس نے یہ کہا تھا۔ کہ ضرورہے کہ ایک آدمی سب کے لئے مرے۔ اسی طرح ان الفاظ میں رومی گورنر نے بھی بلا جانے ایک نبوت کردی۔ واعظین ہر زمانہ میں انہی الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں اور یسوع کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں۔ اس آدمی کو دیکھو ۔ مصوروں نے بھی اس موقع کو انتخاب کر کے۔ جب کہ یسوع کوڑوں کے مارے خون سے لتھڑا ہوا اور ارغوانی لباس اور کانٹوں کاتاج پہنے ہوئے باہر آیا ۔ اس مر د غم ناک کی تصویر یں کھینچی ہیں۔ اور بہت بیش قیمت صفحہ تصویر پر الفاظ اکسی ہو مو یعنی ۔اس آدمی کو دیکھو ۔ثبت دیکھے جاتے ہیں۔
پیلاطس کی زبان سے دو لفظ نکلے جنہیں دُنیا کبھی نہ بھولے گی۔ اوّل تو یہ سوال کہ ’’حق کیا ہے‘‘؟ اور دوسرے یہ الفاظ ۔ اس آدمی کو دیکھو۔ ایک کو گویا دوسرے کا جواب سمجھنا چاہیے۔ جب کہ یہ سوال سچے دل سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہوتا ہے کہ کون شخص ہمیں خُدا کی معرفت عطا کرے گا؟ کون شخص زندگی کے راز کو کھو لے گا؟ کون شخص آدمی کو اُس کی حقیقت اور انجام سے مطلع کرے گا؟ اور ان سوالوں کا سوائے اس کے اور کیا کوئی جواب ہو سکتا ہے۔ کہ اس آدمی کو دیکھو ! اُس نے ابنائے آدم کو دکھا دیا ہے کہ انسان کو کیا بننا چاہیے ۔ خود اُسی کی وہ کامل زندگی ہے۔ جس کے مطابق ہر ایک شخص کو اپنی زندگی ڈھالنی چاہیے ۔ اُسی نے غیر فانی زندگی کے دروازے کھول دیئے ۔ اور دوسرے عالم کے بھید ظاہر کر دیئے ۔ اور ان سے بھی بڑھ کر ایک عظیم بات یہ ہے۔ کہ اُس نے نہ صرف ہمیں یہ بتا دیا ہے۔ کہ ہماری زندگی اس جہان میں اور اُس جہان میں کیسی ہونی چاہیے ۔ بلکہ یہ بھی کہ ہم کس طرح اس معراج(بلندی ) کو حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ فقط کمالیت کی تصویر ہی نہیں ہے۔ بلکہ گناہ سے نجات دہندہ بھی ہے۔ اس لئے ہم دُنیا کو اُس کی طرف متوجہ کرتے اور کہتے ہیں۔ کہ دیکھو اس آدمی کو ۔
پیلاطس کو یہ اُمید تھی کہ یسوع کے دُکھ اور تکلیف کو دیکھ کر اُس کے ایذا دینے والوں کے دل بھی اُس کے اپنے دل کی طرح پگھل جائیں گے۔ مگر وہاں اُسے فقط یہ جو اب ملا کہ۔ اُسے صلیب دے۔ مگر ا س امر کو یہاں یاد رکھنا چاہیے۔ کہ یہ الفاظ اب سردار کاہنوں اور حاکموں نے کہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ عوام الناس کے دل متاثر ہو گئے تھے۔ اور اگر اُن کے سر گروہ انہیں اجازت دیتے ۔ تو وہ ضرور اپنی ہٹ سے باز آجاتے ۔ مگر ان سنگ دلوں پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ بلکہ خون کو دیکھ کر اُن کا جوش اور بھی بھڑک اُٹھا ۔اور انہیں یقین ہو گیا۔ کہ اگر وہ اپنی بات پر جمے رہیں گے۔ تو پیلاطس کو آخر کار اُن کی بات ماننی ہی پڑیں گی۔
اب اُس کا بالکل قافیہ تنگ ہو گیا۔ اور وہ غصے سے بولا ۔ تو تم اُسے لو اور صلیب دو کیونکہ میں اُس میں کچھ قصور نہیں پاتا ۔ جس سے غالباً اُس کا یہ مطلب تھا۔ کہ وہ قید ی کو اُن کے حوالہ کر دے گا۔ بشرطیکہ وہ اُس کے صلیب دینے کی ذمہ داری کو اپنے سر لے لیں۔ اگر در حقیقت اُس کے دل میں مذکورہ بالا الفاظ کے کچھ معنی تھے۔ اور وہ اُن الفاظ میں محض اپنے غصے کا اظہار نہیں کر رہا تھا۔ تو اُن کے یہی معنی ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے دیکھ لیا کہ اب وہ نازک موقع آپہنچا اور آخر کار انہوں نے اُس کے قتل کرنے کی اصلی وجہ بیان کر دی اور کہنے لگے ۔ ہم اہلِ شریعت ہیں اور شریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہے۔ کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا ٹھہرایا۔
تو یہ بنیاد تھی جس پر انہوں نے اُس پر قتل کا فتویٰ لگا یا تھا۔ اگر چہ اُس وقت تک انہوں نے اُسے برابر چھپائے رکھا ۔ انہوں نے اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔کیونکہ وہ سمجھتے تھے۔ کہ پیلاطس اُس بات کی مسخری اُڑا رہا ہے ۔ مگر اب پیلاطس پر اس بات نے اُلٹا اثر پیدا کیا۔ وہ اُس دن سارے وقت کچھ بے چینی سی محسوس کر تا رہا تھا۔ اور جس قدرزیادہ وہ یسوع کے رویہ پر نظر کرتاتھا۔ اُسی قدر وہ اس مُقدمہ میں اپنے اُلجھاؤ کو نا پسند کرتا تھا۔ اور اب جب انہوں نے ذکر کیا کہ وہ ابن ِاللہ ہونے کا دعویٰ دار ہے۔ تو وہ مارے خوف کے کانپ اُٹھا ۔ اُس کو دفعتاً (اچانک )وہ ساری کہانیاں یا د آگئیں۔ جن سے خود اُس کا اپنا مذہب بھر ا پڑا تھا۔ کہ کس طرح بعض اوقات دیوتا یا دیوتاؤں کے بیٹے بھیس بدل کر زمین پر ظاہر ہوئے ۔ اُن کے ساتھ معاملہ پڑنا خوفناک بات ہے۔ کیونکہ اگر انہیں کچھ ضرر پہنچ جائے۔ گو انجانے ہی کیوں نہ ہو۔ تواُس کا سخت خمیازہ (نقصان )اُٹھا پڑے گا۔ اُس نے پہلے ہی خود یسوع میں بھی کوئی چیز ایسی پُر راز اور ناقابل بیان معلوم کرلی تھی۔ اگر وہ سچ مچ یہوواہ کابیٹا ہو۔ جسے وہ یروشلیم کا محافظ دیوتا خیال کرتا تھا۔ جیسے کہ کا سٹر اور پولکس ۔جوپیٹر یعنی مشتری دیوتا کے بیٹے تھے۔ تو پھر کیا ہو گا؟ اور کیا خود یہوواہ ۔اگر اُسے نقصان پہنچا یا جائے ۔ آدمی کو اپنی لعنت سے برباد نہ کرے گا۔ اب اس قسم کا خوف و دہشت اُس کے دل میں پیدا ہو گیا۔ اور یسوع کو پھر محل کے اندر لے جا کر اور دہشت اور شوق جستجو سے بھر ے ہوئے دل کے ساتھ پوچھنے لگا ۔ توکہاں کا ہے؟
مگر یسوع نے اُسے کچھ جواب نہ دیا ۔ اورپھر وہی خاموشی اختیار کر لی جو ہم اس تحقیقات کے تین موقعوں پر پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ مسیح نے اپنے دُکھ اُٹھانے کے اثناء میں جو رویہ اختیار کیا۔ اُس میں یہ خاموشیاں بہت ہی عجیب وغریب اور عظیم معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن ہر ایک موقع پر اُس کے دل کی حالت کا جس کے سبب سے اُس نے یہ خاموشی اختیار کی اندازہ لگا نا آسان بات نہیں۔اس موقع پر یسوع خاموش کیوں رہا؟ بعض کاخیال ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ اس سوال کا جواب دینا نا ممکن تھا۔ وہ اُس کے جواب میں ہاں یا نہیں نہیں کہہ سکتا تھا۔ کیونکہ اگروہ کہتا کہ خُدا اُس کا باپ ہے ۔توپیلاطس اُس کے وہی سادے اور فحش معنی سمجھتا جیساکہ اُس کا مذہب اُسے تعلیم دیتاتھا۔ تو بھی اس بات سے پہلوتہی کرنے کے لئے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ وہ ابن ِاللہ نہیں ہے اس لئے یہی بہتر تھا کہ کچھ بھی نہ کہے۔
مگر اس امر کی سچی تشریح زیادہ سادہ ہے۔ یسوع نے اپنے ابنِ اللہ ہونے یا نہ ہو نے کی نسبت کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہ اس امر کی بناپررہا کیا جانا نہیں چاہتا تھا۔ ابن ِاللہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بے گناہ آدمی کی حیثیت سے ۔جس کا پیلا طس بھی بار بار اقرار کر چکا تھا۔ وہ رہائی کا خواستگار تھا۔ اور اُس کی خاموشی پیلاطس سے اسی امر کی طلب گار تھی۔
جج کو اب کو بھی تعجب (حیرانی)ہوا ۔اور اس بات پر وہ کچھ کھسیانا سا بھی ہو گیا۔ اور بولا ۔ تومجھ سے بولتا نہیں ؟ کیا تو نہیں جاننا کہ مجھے تیرے چھوڑ دینے کا بھی اختیار ہے اور صلیب دینے کا بھی ؟ بے چارہ پیلاطس ۔ یہ تو ابھی چند منٹ میں ہی ظاہر ہونے والا تھا۔ کہ اُس کا اختیار کیاکچھ ہے۔ اور قدرت جس کا اسے فخر تھا۔ کیا تھی؟ اُس کی بات سے معلوم ہوتاتھا۔ کہ گویا وہ جو کچھ چاہے بلا روک ٹوک کر سکتا ہے ۔کوئی عادل حاکم اس قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ عدل وانصاف ہر قسم کے ایسے میلان (رجحان )کو جو خلاف ِانصاف ہو اُس سے دُور کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور اب جب کہ یسوع نے بڑے اقتدار کے ساتھ اُس کے جواب کے لئے منہ کھولا تو اُس نے اُسے اسی امر کو یاد دلایا۔ اگرتجھے اُوپر سے نہ دیا جاتا تو پھر مجھ پر کچھ اختیار نہ ہو تا ۔وہ اُسے یاد دلاتا ہے کہ جو قدرت اُسے حاصل ہے وہ اُسے خد ا کی طرف سے ملی ہے۔ اس لئے اُسے اُ س کو اپنی خواہش یا ہوس کے موافق استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ عدل کے تقاضاً کے موافق ۔مگر ساتھ ہی اُس نے یہ بھی فرما یا ۔ اس لئے جس نے مجھے تیرے حوالہ کیا اُس کا گناہ زیادہ ہے اُس نے اس امر کو
______________________________________
1۔دیکھو یونانیوں کا علم الا صنام ۔
2۔اس کے اگلے فقرے میں جو لفظ ’’ اس لئے ‘‘ واقع ہوا ہے ۔ اس سے ہمیں خواہ مخواہ یہ وہم گذرتا ہے کہ لفظ ’’اوپر سے ‘‘ کا اشارہ یہودی عدالت کی طرف ہے۔
تسلیم کیا کہ پیلاطس ایسی حالت میں ہے کہ اُسے مجبور اً اس مُقدمہ کی تحقیقات کرنی پڑی ہے۔ اُس نے یہودیوں کے حاکموں کی طرح اپنے آپ اُسے ہاتھ میں نہیں لے لیا۔
اس طور سے یسوع نے اپنے جج کی تمام مشکلات کا اقبال(ماننا ) کر لیا ۔ اور وہ اُس کے لئے ہر ایک مناسب معذرت کرنے کو تیار تھا ۔ یہ وہی شخص تھا جسے پیلا طس نے چند منٹ ہوئے پٹوانے اور عذاب دینے کے لئے حوالہ کردیا تھا۔ بھلا ایسی عظیم الشان اور ناخود غرضانہ رحمت بھی کبھی دیکھنے میں آئی ہے؟ کیا کینہ اور غصہ پر اس سے بھی بڑھ کو کوئی فتح یابی ہو سکتی ہے؟ اگر یسوع کی خاموشی عالی شان تھی۔ تو اُس کے الفاظ بھی جب اُس نے بولنا گوار ا کیا۔ اُس سے کچھ کم عالی شان نہ تھے۔
پیلاطس نے اپنے قید ی کی عظمت و بزرگی اور عالی حوصلہ کو فوراً معلوم کر لیا۔ اوریہ عزم باندھ کر باہر نکلا کہ خواہ کچھ ہی ہو میں اُسے ضرور رہا کروں گا۔ یہودیوں نے اُس کے چہرہ سے اس بات کو جان لیا۔ اور آخر کار انہوں نے وہ آخری ہتھیار نکالا جو انہوں نے اب تک محفوظ رکھا تھا۔ اور جس کا پیلاطس کو برابر خوف لگا رہا تھا۔ انہوں نے یہ دھمکی دی کہ وہ شاہنشاہ کے پاس اُس کی شکایت کریں گے۔ کیونکہ اُن کے ان الفاظ کا یہی مطلب تھا۔ اگر تو اس کو چھوڑ ے دیتا ہے تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں ۔ جو کوئی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا ہے وہ قیصر کا مخالف ہے۔
رومی صوبہ کے حاکم کے لئے کوئی چیز اس سے زیادہ ہولناک نہ تھی ۔کہ قیصر کے حضور میں اُس کے خلاف شکایت کی جائے۔ اور پیلاطس کے حق میں اس قسم کی شکایت کئی وجوہات سے نہایت خوفناک ہوتی ۔ اس وقت شاہی تخت پر ایک ایسا شخص بیٹھا تھا۔ جو بڑا ہی شکی آدمی تھا۔ علاوہ بریں خاص اس زمانہ میں وہ بہت ہی خوفناک ہوگیاتھا۔ اُس کی جسمانی بیماری کے سبب جو عرصہ دراز کے عیش و عشرت کا نتیجہ تھی۔ اُس کا دل بالکل تاریک اور وحشیانہ ہو رہا تھا۔ درحقیقت اُس کی حالت دیوانگی سے کچھ ہی بہتر ہو گی۔ اُس کا مزاج بالکل سٹرا ہوا تھا۔ اور وہ شک و شبہ اور انتقام اور ضرر رسانی پر آمادہ تھا۔ اور اُس کی غضب کی آگ بھڑکانے کے لئے شاید اس الزام سے بڑھ کر اور کوئی دوسرا الزام ایسا بر محل (مناسب )نہ تھا۔ روم میں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی۔ کہ سارے مشرقی ممالک میں ایک آنے والے مسیح کی انتظاری لگی ہوئی ہے۔ اور اگر کسی صوبہ کے حاکم کی نسبت یہ شبہ پیدا ہو کہ وہ کسی اس قسم کے دعویٰ دار کی حمایت کر تا یا اُس دعوؤں سے چشم پوشی کرتا ہے تو اُس کا حکومت سے علیٰحدہ ہونا یقینی تھا۔اور اُس کے بعد غالباً جلا وطنی یا قتل حدا مکان سے خارج نہ تھا۔ قیصر کا خیر خواہ یا دوست ایک ایسا خطاب تھا۔ جس کے حاصل کرنے کے لئے پیلاطس کی حیثیت والے لوگ سخت خواہش مند تھے۔ اور کوئی ایسا فعل کرنا جس سے قیصر کی خیر خواہی ظاہر نہ ہو۔ سب خطروں سے زیادہ خطرناک تھا۔
مگر اس کے علاوہ اور باتیں بھی تھیں۔ جن سے یہودیوں کی اس دھمکی کی دھار اوربھی تیزہوگئی۔ پیلاطس جانتا تھا کہ اُس کے عہدِ حکومت میں بہت سی ایسی باتیں واقع ہوئی ہیں ۔جن کا اُس تفتیش وتحقیقات کے نیچے آنا ۔جس کا ہونا اس قسم کی شکایت کے بعدضروری تھا کسی طرح سے مناسب نہیں۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اُس زمانہ کا ایک دوسرا مورخ (تاریخ لکھنے والا )بھی ایک اور موقع کاذکر لکھتا ہے۔ جب کہ پیلاطس کو اسی قسم کی دھمکی دی گئی تھی۔ اور وہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تحریر کرتا ہے ۔کہ اُسے خوف تھاکہ اگر یہودیوں کی سفارت (سفیر بھیجنا )روما کو بھیجی گئی تو ممکن ہے کہ وہ اُس کی عہدِ حکومت کی بہت سی بے ضابطگیوں ۔ سخت گیریوں ۔ رشوتوں ۔بے انصافیوں ۔ اور بے رحمیوں کی بھی تحقیقات کریں۔پیلاطس کی گذشتہ زندگی اس قسم کی تھی۔ اور اب جب کہ وہ ایک ایسا کام کرنا چاہتا تھا۔ جوانصاف اور انسانیت کے تقاضا کے موافق تھا۔ تو اُس کی پچھلی بدکاریا ں اُس کی سد راہ (رکاوٹ)ہوئیں ۔اچھے ارادوں اور شریفانہ کو ششوں کی راستہ میں کوئی چیز ایسی سخت رُکاوٹ کاباعث نہیں ہوتی جیسے کہ گذشتہ گناہوں کا بوجھ ۔ جولوگ انسان کی زندگی کے خفیہ اور ناقابل بیان حصّوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ اس واقفیت کے زور پر اُ س کو مجبور کر سکتے ہیں۔کہ وہ ہرگز اُس نیک کام کو جسے وہ کرنا چاہتا ہے۔ نہ کر لے ۔ یا وہ اس بدی و شرارت یاشرم ناک حرکت کو عمل میں لائے۔ جس کا وہ اُسے حکم دیتے ہیں۔ ایسی صحبتیں ہوتی ہیں۔ جن میں ایک آدمی ایسے اعلیٰ اور عمدہ فقرے استعمال نہیں کرسکتا جو وہ او ر لوگوں کے سامنے کیا کرتاہے۔ کیونکہ وہاں ایسے اشخاص موجود ہوتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ اُس کی زندگی ان الفاظ کے مخالف ہے۔ وہ کون سی بات ہے جو ہمارے دلوں میں عالی خیالا ت کو اُٹھتے ہی دبا دیتی ہے۔ جو ہمارے ہونٹوں پر شریفانہ کلمات کو روک دیتی ہے۔ جو ہمارے افعال کی طاقت کو جذب کر لیتی ہے؟ کیا یہ وہ اندرونی دھیمی آواز نہیں جو کہتی ہے کہ یاد کر کہ پہلے تُو فلا ں امر میں کس طرح قاصر رہا ؟ یہی گذشتہ گناہوں کی لعنت ہے۔ یہی ہمیں وہ نیکی جو ہم کر ناچاہتے ہیں نہیں کرنے دیتی۔
لیکن اگر کسی شخص نے گذشتہ بد اطوار زندگی کے سبب اپنے کوا س حالت میں گرفتار کردیا ہے۔ تو اُسے کیا کرنا چاہیے؟ بھلا پیلاطس کوکیا کرنا چاہیے تھا؟ اس کا صر ف ایک ہی علاج ہے۔ یہ کہ انسانیت کی ساری ہمت و استقلال کو اکٹھا کر کے اور نتائج کی طرف سے بے پروا ہوکر۔ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو حق اور سچائی کے مطابق عمل کرو ۔ اگر اپنی ضمیر کی پیروی میں ایک قدم بھی اُٹھاؤ گے۔ اور اگر اقراِر گناہ میں ایک کلمہ بھی کہو گے۔ تو دیکھو گے کہ ایک لمحہ میں اس ظالم کی قدرت کا بندٹوٹ جائے گا۔ اور افسوں زدہ آدمی گذشتہ زمانہ کی بدکاریوں کی قید کو توڑ کر باہر کی آزادی میں نکل آئے گا
مگر افسوس ! پیلاطس اس قسم کی جدوجہد کےلئے تیار نہ تھا۔ صداقت کی خاطر ۔ اور اس دل کش اور بے گناہ مگر گمنام اور بے یار و مدد گار گلیلی آدمی کی خاطر۔ اور اس بات کے لئے تیار نہ تھا۔کہ اُس کی شکایت قیصر کے سامنے کی جائے۔ اور وہ جلاو طنی اور افلاس میں مارا مارا پھرے۔ بھلا ایسے دُنیا پرست سے اس سے بڑھ کر اورکیا اُمید ہو سکتی ہے۔ وہ دُنیا کا تھا۔ اور اُسی کے فیشن اور عزت کا گرویدہ(عاشق) تھا۔ اُسی کے عیش و عشرت اور آرام و آسائش گویا اُس کی جان تھے۔ اور جب اُس نے اپنی رعایا کی یہ دھمکی سُنی تو کھلے بندوں اپنے کواُن کے حوالہ کر دیا۔
اس طور سے یہودیوں کا جوش و خروش وار اصرار اور ہٹ آخر کار کامیاب ہوا۔ پیلاطس بھی دیر تک اپنی بات پر جما رہا۔ مگر آخر کاراُسے مجبور اً قدم بقدم پسپا (شکست کھانا)ہونا پڑا ۔ وہ حق کے مطابق عمل کرنا چاہتا تھا۔ وہ یسوع کا گرویدہ ہو گیا تھا۔ اور اُسے اپنے ضمیر کے خلاف کرنا دو بھر معلوم ہوتا تھا۔ مگر اُس کی رعایا نے اُسے اُن کی شرارت کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر اُس کی ناکامی کی اصلی بنیاد خود اُس کے اندر ہی تھی۔ ہاں خود اُس کی دُنیا پرستی اور بے اصول زندگی میں ۔جو اس موقع پراُس کی جڑوں تک آشکارا ہو گئی ۔
اب بہت تھوڑ ا کرنا باقی رہ گیا تھا۔ پیلاطس کے سر میں وحشت سما رہی تھی۔ اور اُس کا دل جل رہا تھا۔ اُس کو اُس وقت سخت زک اُٹھانی پڑی تھی۔ اور اگر موقع ملتا تووہ بہت ہی خوش ہوتا کہ اپنے مخالفوں کو بھی کسی نہ کسی طرح ذلیل کر سکے ۔ اب وہ تخت ِعدالت پر جابیٹھا ۔ جو چبوترہ یا عبرانی زبان میں گپتا کہلاتا تھا۔ غالباً اُس کا یہ فعل ایسا ہی تھا۔ جیسا کہ انگریزی جج موت کا فتویٰ صادر کرنے سے پہلے کالی ٹوپی سر پر پہن لیتے ہیں۔ اور پھر یسوع کی طرف
________________________________
1،یہ ایک عجیب تاریخی واقعہ ہے کہ پیلاطس آخر کار اُسی مصیبت میں گرفتار ہو گیا جس سے بچنے کے لئے اُس نے یسوع پر جو رستم روا رکھا تھا۔ یسوع کے مصلوب ہو نے کے تھوڑا عرصہ بعد اُس کی رعایا نے روم میں اُس کے خلاف عرضی بھیجی ۔ وہ واپس بلا لیا گیا۔ اور پھر کبھی واپس نہ آیا ۔ آخر کار لکھا ہے کہ اُس نے اپنی مصیبت ناک زندگی کا اپنےہی ہاتھ سے خاتمہ کر دیا۔ اُس کے متعلق بہت سی کہانیا ں بیان کی جاتی ہیں۔ اور کئی ایک مقام بتائے جاتے ہیں۔ جہاں اُس کی بے چین رُوح بھٹکتی پھر تی ہے اور لوگوں کو ڈراتی ہے۔
اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ’’ اپنے بادشاہ کو دیکھو ‘‘ ۔ جس سے اُس کا یہ مطلب تھا کہ وہ اُس شخص کو ۔ ہاں اس بے چارے خون آلودہ اور ظلم رسیدہ شخص کو درحقیقت اُن کامسیح سمجھتا ہے۔ وہ انہیں طعن و شنیع کی برچھی سے گھائل کرنا چاہتا تھا۔ اور اس امر میں وہ کامیاب بھی ہوا۔ کیونکہ وہ مارے دُکھ کے چلا اُٹھے کہ ’’ لے جا ۔ لے جا ۔ اُسے صلیب دے ‘‘۔ اور وہ بولا ۔’’ کیا میں تمہارے بادشاہ کو صلیب دُوں ؟ ‘‘ اور نہایت غضب ناک ہو کر وہ چلا اُٹھے کہ ’’ قیصر کے سوا ہمارا کو ئی بادشاہ نہیں ‘‘ ۔ایسی قوم کے قائم مقاموں کے منہ سے جنہیں لے پالک ہونے کا حق اور جلال اور چند عہد اور شریعت اور عبادت اور وعدے ،حاصل تھے اس قسم کے کلمات نکلنا جائے تعجب ہے۔ یہ گویا اپنے حق ولادت کو چھوڑنا اور اپنی تقدیر کو ترک کر دینا تھا۔ پیلاطس خوب جانتا تھا۔ کہ اس طور پر اپنے آباد اجداد کی اُمید وں کو دے ڈالنے اور اپنے فاتحوں کے حق کو تسلیم کرنے میں اُن کے مغروردلوں کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑ ا ہو گا۔ مگر انہیں اس قسم کی تلخ کلامی پر مجبور کرنے میں بھی اُس کو اُس مجبوری و عجز کا بدلہ مل گیا ۔ جس کا وہ خود شکار ہو رہا تھا۔ اور اُس نے اُن کے اس اقرار کو مان لیا۔
خُداوند کی اس روبکاری (پیشی )کا بھی ایک افسوس ناک ضمیمہ (زائد پرچہ )ہے۔جیسا ہم مذہبی عدالت کی روبکاری کے متعلق ایک اور ضمیمے کا ذکر کر چکے ہیں۔سردار کاہن کی عدالت میں جب مسیح نے ایک عظیم الشان اقرار کیا۔ تواُس کے ساتھ ہی مقام عدالت کے باہر عظیم انکار پطرس کی زبانی ہو رہا تھا۔ اور اُسی پیلاطس کی عدالت کی کاروائی کے ساتھ یہوداہ کی دغا بازی کا آخری فعل وقوع میں آیا۔ صرف فرق یہ ہے کہ اس آخری صورت میں ہم بڑی صحت کے ساتھ اُس کے وقوعہ کا وقت اور مقام صحیح صحیح نہیں بتا سکتے ۔
یہوداہ تاریخ انسانی میں ایک ۔۔۔لایخل ہے۔ ڈانٹی شاعر اپنی مشہور نظم ۔۔۔۔کی روائت میں اس عالم ردہ رنج کے تمام طبقوں میں سے جہاں ہر ایک شرارت علیحدہ علیحدہ قسم کی سزا ابھگت ہی ہے۔ آخر کار اپنے رہنما کے ہمراہ طبقہ زیرین میں پہنچتا ہے۔ جو قعر جہنم ہے ۔اور جہاں سخت ترین گنہگار سز ا پا رہے ہیں۔ یہ ایک جھیل ہے۔ آگ کی نہیں۔ بلکہ برف کی ۔جس کی شفاف سطح کے نیچے خوفناک حالتوں میں اُن لوگوں کی یخ بستہ صورتیں نظرآتی ہیں۔ جنہوں نے اپنے آقاؤں سے بیوفائی کی تھی۔ کیونکہ ڈانٹی کی نظر میں یہ گناہ سب گناہوں سے زیادہ قبیح و کر یہ (بُرا ۔شرمناک)ہے۔ ان سب کے درمیان اپنے خوفناک اور گراں ڈیل ڈول میں وہ ’’ شاہنشاہ جواس درد تکلیف کی مملکت کا حاکم ہے‘‘ ۔ یعنی خود ابلیس کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسی گناہ کی وجہ سے وہ فردوس سے نکالا گیا تھا۔ اور اُس کے ساتھ دُوسری صورت یہوداہ اسکر یوتی کی ہے۔ وہ شیطان کے منہ میں ہے۔ جسے وہ اپنے دانتوں میں کاٹتا اور چباتا رہتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں اس شخص کا اور اُس کے گناہ کا یہ خیال لوگوں کے درمیان مُروج (رواج )تھا۔ مگر زمانہ حال میں یہ خیال دو متضاف نقطوں کے درمیان گھوم رہا ہے۔ ہمارا زمانہ اعتدال اور مذہبی تحمل اور برداشت کا زمانہ ہے۔ اور بعض اشخاص کا دل پسند مشغلہ یہ ہے کہ زمانہ گذشتہ میں جو آدمی بدکرداری میں مشہور تھے۔ جہاں تک ہو سکتا ہے اُن کے نیک نامی کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرد و عورت جو صفحہ تاریخ پر مجرموں کے چبوترہ پر کھڑے نظر آتے ہیں۔انہیں وہاں سے اُتارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اُن کے مقدمات کی دوبارہ تحقیقات کی جاتی ہے۔ اور انہیں قابل ِتعریف وتکریم ثابت کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ امر قرین انصاف ہوتا ہے۔ مگر اور صورتوں میں اس کو بے ہود گی کی حد تک پہنچایاجاتاہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہ در حقیقت دُنیا میں کوئی بھی شخص نہیں۔ جو نہایت شریر ہو۔ سخت بدکار اور بدمعاش بھی ایسے ہیں۔ جن کے اصلی مدعا کولوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ اور اُن لوگوں میں سے جن پر سے تاریخ کے فیصلہ کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہوداہ اسکر یوتی بھی ہے۔ اُنیس صدیاں اس بات پر متفق ہیں کہ وہ بنی آدم میں سب سے کمینہ انسان تھا۔ مگر ہماری صدی میں یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ایک قسم کا الوالعزم مرد تھا۔ یہ خیال اہل جو من کی ایجاد ہے۔ مگر انگریزی قوم کے سامنے پہلے ڈی کونزی نے اس خیال کو اپنی تمام فصاحت و بلاغت (خوش بیانی)سے رنگین اور دلکش بنا کر پیش کیاتھا۔
یہ بیان کیا جاتاہے کہ یہوداہ کا اصلی منشا مسیح کی گرفتاری میں اُس امر سے جو اب تک سمجھا جاتارہا ہے۔ بالکل مختلف تھا۔ اُس نے روپیہ کے لالچ سے مسیح کو گرفتار نہیں کرایا تھا۔ وہ حقیر سی رقم جوآج کے حساب سے پچاس ساٹھ روپیہ سے زیادہ نہ ہوگی ۔ جس کے لئے اُس نے اپنے اُستاد کو بیچ ڈالا ۔ثابت کرتی ہے کہ اُس کا اصلی مدعا کچھ اورہی تھا۔ روایت کے ذریعہ جو خیال ہم تک پہنچا ہے۔ وہ اس کے امر کے ساتھ مسیح نے اُسے منتخب کر کے اپنے بارہ شاگردوں کے زمرہ میں داخل کیا بالکل جوڑ نہیں کھاتا۔ اور نہ اس واقعہ سے میل کھاتا ہے ۔ کہ بعد ازاں اُس نے پچھتا کر کس طرح اپنے آپ کو ضائع کر دیا۔ بلا شبہ جو کچھ تصور اُس نے مسیح کے کام کی نسبت باندھا تھا۔ و ہ محض دُنیاوی اور مادی قسم کا تھا۔ اُسے یہ اُمید تھی کہ مسیح بادشا ہ ہو گا۔ اور وہ بھی اُس کے دربار میں اعلیٰ عہد ہ پر مامور ہو گا۔ مگر دوسرے شاگردوں کے بھی تو ایسے ہی خیال تھے۔ اور وہ بھی آخر ی دم تک اسی امر کے منتظر رہے کہ مسیح اب بھی اپنے عجزو فروتنی کا بہروپ اُتار کر عنان ِ سلطنت(سلطنت کی بھاگ دوڑ) کو ہاتھ میں لے لے گا۔ صرف اتنا فرق تھا۔ کہ انہوں نے اس امر کے متعلق وقت اور مکان کا فیصلہ مسیح ہی کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ اور اُس کی کارروائی پر نکتہ چینی نہیں کرتے تھے۔ مگر یہوداہ ایسا صابر نہ تھا۔ وہ چُست و چالاک آدمی تھا اور اُسے یہ خیال پیدا ہو گیا۔ کہ مسیح کی خصلت(عادت) میں ایک قسم کی کو تاہی ہے۔ وہ بہت ہی رُوحانی آدمی ہے۔ اور دُنیا پرستی سے کوسوں دُور ہے۔ اس لئے وہ اُس کام کو ۔ جس کے لئے وہ آیا ہے۔ سر انجام کرنے میں ڈھیل کرتا ہے۔ اُس کا سارا وقت تو مریضوں کے شفا بخشتے۔ وعظ و نصیحت کرنے اور غور و فکر میں خرچ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اچھا تو ہے۔ مگر پہلے سلطنت کاقائم ہو جانا لازمی ہے۔ مگر اس طرح تو وہ اپنا موقع کھو رہا ہے۔ اس کی اس ڈھیل نے اُمر اوشرفا کو اُس کے خلاف بر انگیختہ (طیش میں بھرا ہوا ) کر دیا ہے۔ ایک بڑی طاقت و قدرت یعنی عوام الناس کی عقیدت ۔ اب بھی اُس کی جانب ہے۔ مگر وہ اس سے کچھ بھی کام لیتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ جب کھجور کے اتور کے دن ایک بڑی جماعت ۔ جو مسیح موعود کی منتظر تھی۔ بڑے جوش و خروش کے نعر ے لگاتی ہوئی اُسے یروشلیم میں لے گئی ۔ تو یہوداہ کو خیال گذرا کہ اب اُس کی زندگی کا اصلی مقصد پورا ہونے کو ہے۔ مگر مسیح نے اب بھی کچھ نہ کیا۔ اور جماعت مایوس و نا اُمید ہوکر منتشر ہو گئی۔ یہوداہ کے نزدیک جو کچھ اب یسوع کے لئے ضروری تھا ۔ سو یہ تھا کہ اُسے ایک ایسی حالت میں پھنسا دیا جائے۔ جس میں اُسے مجبور اً کچھ نہ کچھ کر پڑے۔ اُس میں چستی اور قوتِ فیصلہ کی کمی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ حکام کے ہاتھوں میں پڑ جائے ۔ جو اس کی جان لینے کی فکر میں ہیں۔ تو وہ اس تساہل (سُستی)کو چھوڑ دے گا۔ جب وہ اُسے پکڑے کی کوشش کریں گے۔ تو یقیناً وہ اُن کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اور اُس کی معجزانہ قدرت اپنے سارے زور و قوت میں ظاہر ہو گی۔ جس سے سب لوگوں میں ایک عالمگیر جو ش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ اس طور سے اُس کی سلطنت شان و شوکت کے ساتھ قائم ہو جائے گی۔ اور یقیناً وہ اُسی شاگرد کو سب سے بڑھ کر عزت و اقتدار بخشے گا۔ جس کی معاملہ فہمی اور دلیرانہ کار روائی سے یہ سب کام انجام کو پہنچا۔
لیکن اگر مذکور ہ بالا بیان کو یہوداہ کی سچی تاریخ بھی سمجھیں تو بھی اس کا چال چلن الزام سے ایسا بری نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ظاہر میں نظر آتاہے۔ ہمارا خُداوند اپنی زندگی کے اثنا میں اکثر اوقات ایسے اشخاص سے دو چار ہوتا رہا جو گو نیک غرض سے ہی کیوں نہ ہو اُس کے ارادوں اور تجاویز میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اور یہ چاہتے تھے۔ کہ یا تو پیش از وقت اُسے کسی کام کے کرنے پر مجبور کریں۔ یا جب وقت آتا تھا۔ تو اُسے کسی کام سے رو ک رکھیں ۔ لیکن وہ اس قسم کی خلل اندازی اور دخل اور معقولات پر ہمیشہ سخت ناراضگی اورغصہ ظاہر کرتا تھا۔ خود اُس کی ماں بھی جب اُس نے ایسا کرنے کی کوشش کی توا کی س ناراضگی سے نہ بچی ۔ اور اُس کی زندگی کا اصل اصول یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ ٹھیک ٹھیک۔نہ تو افراط کے ساتھ ۔ نہ تفر یط کےساتھ نہ آگے اور نہ پیچھے ۔ خُدا کی مرضی کو جیسی کہ وہ ہے۔ بجا لائے۔ اور جب کوئی اس میں دست اندازی کرتاتھا تو وہ اُسے شیطان کی آزمائش سمجھتا تھا۔
مگر یہ نیا مسئلہ جس کا اُوپر بیان ہو ا کسوٹی پر ٹھیک نہیں اُترتا ۔ پاک نوشتوں میں اس کا کہیں بھی اشارہ تک نہیں ملتا ۔ بلکہ اُن میں جہاں کہیں یہوداہ کا ذکرہوتاہے۔ تواس میں ایک قسم کی نفرت اور حقارت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اُس کے اس فعل کو ایک بالکل مختلف غرض پر محمول کرتے ہیں۔ وہاں صاف لکھا تھا۔کہ یہوداہ چور تھا۔ اور وہ تھیلی میں سے جس میں سے یسوع غریبوں کو دیا کرتا اور اپنی ضروریات کو بھی پورا کرتاتھا۔ چُرا لیا کرتاتھا۔ اور یہ ایسی بدذاتی تھی کہ غالباً اکثر چور بھی اس قسم کے کام سے نفرت کرتے ۔ اور وہ الفاظ جو اُس نے صدر مجلس کے سامنے کہے۔ وہ بھی ٹھیک اس خیال سے مطابقت کھاتے ہیں۔ کہ تم مجھے کیا دو گے۔ یہ امر کہ وہ بالکل تھوڑے پر راضی ہو گیا ثابت کرتا ہے۔ کہ اُس کی طبیعت پر لالچ اور طمع کس قدر غالب ہو رہا تھا۔
یہ بالکل ناممکن معلوم ہوتاہے۔ کہ اس قسم کی طبیعت میں اس قسم کی گرم جوشی جیسا کہ نئے خیال والے اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ گو کہ غلط خیال ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔جگہ پائی۔ بلکہ برخلاف اس کے یہ ممکن ہے کہ مسیحی سلطنت کی اُمیدوں کی مایوسی نے اس لالچ اور طمع کی آگ کواور بھی بھڑکا دیا ہو۔ اور ڈی کونزی کی تحریر اُلٹا اس خیال کو پختہ کرنے کے لئے اور اُس کی زندگی کا بھید کھولنے کے لئے بہت سی دلائل اور اشارات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ٹھہرتی ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک زمانہ میں یہوداہ کی زندگی بالکل ہونہار بروہ کے چکنے چکنے پات کی مصداق معلوم ہوتی تھی۔ یسوع جواپنے پیرؤں کے انتخاب میں بڑا محتاط تھا۔ اُس کو کبھی انتخاب کر کے رسولوں کے دائرہ میں داخل نہ کرتا۔ اگر اُس میں اپنی ذات اور کام کے لئے وہ عقیدت اور سرگرمی نہ پاتا ۔ البتہ یہ تو وہ خوب جانتا تھا۔ کہ اُس کے اغراض میں خود غرضی کی آمیزش ہے۔ مگر اُس کے سارے پیرؤں میں سے کوئی اس سے خالی نہ تھا۔ اور یہ میل اُس کی صحبت کی آگ میں صاف ہو جاتا ۔
دوسرے رسولوں میں تو یہ صفائی واقع ہو گئی۔ وہ اُس کی رفاقت و صحبت میں پاک صاف ہو گئے۔ اُن کی دُنیا پرستی تو درحقیقت اُس کی زمینی زندگی کے خاتمہ تک اُن سے لگی رہی ۔ مگر وہ دن بدن کم ہو تی جاتی تھی۔ اور دوسرے رشتے جو اُن کی زمینی شان و شوکت کی اُمید سے بھی زیادہ مضبوط اور سخت تھے۔اُنہیں یقینی طور پر اُس کے معاملہ کے ساتھ وابستہ کرتے جاتے تھے۔ مگر برخلاف اس کے یہوداہ اوپر پر بالکل اس کے برعکس اثر ہوا۔ جو نیکی اُس میں تھی وہ دن بدن کم سے کمتر ہوتی گئی۔ اور آخر کار اُس کا سار ا تعلق مسیح کے ساتھ فقط یہی رہ گیا کہ وہ اس معاملہ سے کیا کچھ کما سکتا تھا۔
جب پہلے اُس کے دل یہ شبہ وارد ہوا کہ جو مسیحی سلطنت کی اُمید وہ پکا رہا تھا کبھی پوری ہونے والی والی نہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہوداہ کی باطنی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہو گئی۔ مگر یہ بات خاتمہ سے کوئی ایک سال پہلے واقع ہوئی جب کہ یسوع نے اپنے پیرؤں کی اس کوشش کو جو اُسے بجر پکڑ کر بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ مخالفت کی۔ جب کہ بہت سے شاگرد اُسے چھوڑ گئے اور پھر کبھی اُس کے ہمراہ نہ ہوئے۔ اُس وقت یسوع نے یہوداہ کو اُس بُری روح سے جو اُس کے دل پر قابو پاتی جاتی تھی۔ خبردار کیا اور فرمایا کہ کیا میں نے تم بارھوں کو نہیں چُنا اور تم میں سے ایک شیطان ہے۔ مگر شاگرد نے اس تنبیہ پر توجہ نہ کی۔ شاید اس وقت سے اُس نے تھیلی میں سے جو اُس کے سُپرد تھی چوری کرنی شروع کی۔ شاید اُس نے یہ سوچا کہ یسوع کی پیروی میں مجھے اور نہیں کچھ تو فائدہ حاصل ہونا چاہیے ۔ اور غالباً وہ اپنی اس چوری کو اس خیال سے جائز ٹھہراتا ہو گا۔ کہ جو کچھ وہ اس وقت لے رہا ہے۔ اُس رقم سے جس کی اُسے اُمید دلائی گئی تھی۔ بہت ہی کم ہے۔ اور وہ اپنے کو ایسا شخص سمجھنے لگا ہو گا۔ کہ گویا اُس کے ساتھ سخت بدسلوکی ہوئی ہے۔
اس خفیہ گناہ کے متواتر ارتکاب سے ممکن نہ تھا۔ کہ اُس کی خصلت بگڑنے اور تنزل(زوال آنا ) کرنے سے بچی رہتی ۔ یسوع کبھی کبھی تنبیہ کے چند کلمات اشارتاً کہہ دیا کرتا تھا۔ مگر اُس پر اُن الفاظ کا اُلٹا اثر پڑتا تھا۔ یہوداہ کو معلوم تھا کہ یسوع اس بات کو جانتا ہے۔ اور اس لئے اُس کے دل میں اس کی طرف سے نفرت اور عداوت اور بھی بڑھتی گئی۔ یہ علامت بہت ہی ردی تھی۔ دوسرے شاگرد تو دن بدن زیادہ زیادہ اپنے اُستاد کے گروید ہ(عاشق ) ہوتے جاتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے۔ کہ اُس نے اُن پر کس قدر احسان کئے ہیں۔ برخلاف اس کے یہوداہ کا یہ خیال دن بدن بڑھتا جاتا تھا۔ کہ اُس نے دھوکا کھایا ہے۔ اس لئے وہ بھی اُلٹا اُسے دھوکا دے کر اپنا بدلہ کیوں نہ اُتارے شاید مسیح کو اس تھوڑی سی رقم کے عوض بیچ ڈالنے میں ایک قسم کی تحقیر بھی مقصود ہو کہ وہ اُسے بالکل خفیف (معمولی ) سمجھتا ہے۔
ا یک سے زیادہ انجیل نویسوں نے اُس کی اس دغا بازی کو اُس واقع کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ جب کہ مریم نے بیش قیمت عطر خُداوند یسوع کے پاؤں پر ملا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس دل کش اور محبت آمیز حرکت نے اُس کے دل کی ساری بدی کو تحریک دے کر اس امر پر آمادہ کیا کہ اب جو کچھ کرنا ہے کر گزرے ۔ اُس نے اپنے غصے کا اظہار تو ان الفاظ میں کیا یہ روپیہ غریبوں کو دیا جانا چاہیے تھا۔ مگر اصل مقصد اور ہی تھا۔ یہ ایک بڑی رقم تھی۔ اور اگر وہ اُس کی تھیلی میں پڑتے تو اس کا ایک بڑا حصّہ اُس کے ہاتھ لگتا ۔ لیکن غالباً اس وقت اور بھی باتیں تھیں۔ جن سے اُس کا غصہ اور بھی بھڑک اُٹھا ہو گا۔ اُس کو یہ ضیا فتیں اور عطر ملنا ایسے وقت میں جب کہ مسیح کی قسمت کا فیصلہ نزدیک تھا۔ محض ایک حماقت معلوم ہوتی ہو گی۔ اور وہ اس امر کو اپنے نزدیک قابل ِحقارت سمجھتا ہو گا۔ اُس پر یہ ظاہر تھا۔ کہ معاملہ ختم ہو چکا ۔ ایک سر کردہ آدمی جو ایسے موقع پر اس طور سے آوارہ وسر گردان پڑا پھر تا اور بے پروائی جتاتا ہے۔ اُس کے دن پورے ہو چکے۔ اب ایسے ڈوبتے بیڑے میں سے نکل کھڑے ہونا ہی بہتر ہے۔ مگر نکلیں بھی تو اس طور سے کہ انتقام بھی مل جائے اور روپیہ بھی ہاتھ لگے۔
اس طور سے اُس کے جذبات جوش مارتے اور زور آور ہوتے گئے۔ لیکن در حقیقت حرص و طمع (لالچ)بجائے خود بھی ایک نہایت پُر زور چیز ہے۔ منبروں(پلپٹ) پر سے شاید اُس کے متعلق بہت کم وعظ سنائی دیتے ہیں۔ لیکن پاک نوشتوں اور تاریخ عالم میں اُسے ایک بڑی بلند جگہ دی گئی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے۔ کہ جتنی خرابیاں اور بر بادیاں دُنیا میں واقع ہوتی ہیں ۔اُن میں اس حرص و طمع سے بڑھ کر کسی اور چیز کو بھی دخل ہے۔ طمع سارے احکام کو توڑتا ہے۔ قاتل کے ہاتھ میں اکثر یہ طمع تلوار دیتا ہے۔ اس طمع نے دُنیا کے ہر زمانہ اور ہر ملک کی منڈی اور تجارت کے کاروبار کو ایک جھوٹ اورفریب کا بازار بنا رکھا تھا۔ مردوں کے جسم اور عورتوں کے دل اسی چاندی سونے کے عوض بکتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ کہ بڑی بڑی شرارتیں زمانا ً بعد زماناً جاری رہتی ہیں۔اور ایسے ایسے فعل جن کی تائید میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا سوسائٹی کی منظوری سے برابر جاری رہتے ہیں ؟ صرف اس لئے کہ اُن میں روپیہ کو دخل ہے۔ طمع شیطانی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن اس بات کو یاد کر کے کہ یہی گناہ تھا ۔ جس نے یہوداہ کا بیڑا ڈبویا ۔ ممکن ہے کہ ہم اُسے اپنے دلوں سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوں۔
بعض لوگ یہوداہ کی تو بہ کو اُس کی رُوح کی عظمت کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ یقیناً یہ اُس نیکی و خوبی کا ثبوت تو ضرور ہے۔ جو کسی زمانہ میں اُسے حاصل تھی۔ کیونکہ گناہ کی تاریکی کو محسوس کرنے کے لئے نیکی کے چنگارے کا ہونا لازم ہے۔ اور جس قدر ضمیر کو زیادہ روشنی ملی ہو گی ۔ اُسی قدر ضمیر کے خلاف کرنے کے بعد آدمی کو سخت درد و تکلیف محسوس ہو گی۔ جو لوگ کسی درجہ تک مسیح کی صحبت میں رہ چکے ہیں۔ وہ کبھی پھر اُس حالت کو جو اُس کی صحبت سے پیدا ہوتی ہے بھول نہیں سکتے ۔ اور مذہب اگر انسان کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو روح کی بربادی کی حالت میں نہایت بے رحم دُکھ دینے والا ثابت ہوتا ہے۔
یہ ٹھیک طور پرنہیں کہا جا سکتا کہ یہوداہ کے دل میں یہ معکوس(ٹیڑھی ) تبدیلی کس ذلت سے شروع ہوئی۔ یسوع کی تحقیقات میں کئی ایک باتیں واقع ہو ئیں جن سے اُس کے خیالات پربہت کچھ اثر پیدا ہوا ہو گا۔ مگر آخر کا ر ضمیر کی وہ بدلہ لینے والی طاقتیں بالکل جاگ اُٹھیں ۔ جن کے بیان سے تمام افسوس ناک ناٹک اور تاریخی قصے کہانیاں بھری پڑی ہیں۔اور جس کا عمدہ نمونہ بائبل میں قائن ہے۔ جو اپنے بھائی کے خون کی چیخوں کے آگے آگے بھاگتاپھرتا ہے۔ جس کا نمونہ یونانی لٹریچر میں خوفناک یومینانڈس ہیں۔ جن کی شکل بھیانک اور آنکھیں خون آلود ہ ہیں اور بےرحمانہ اپنے شکار کے پیچھے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ جس کی تصور شیکسپیر کے مشہور ڈراموں میکبتھ اور رچرڈ سوم میں نہایت موثر طور پر کھینچی گئی ہے۔ اب اُس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کسی طرح وہ سب جو اُس کے ہاتھوں ہوا ہے نہ ہوا ہوتا ۔ روپیہ جس پر اُس کا دل لگا ہوا تھا۔ ا ب اُس کی قوت و اہمہ کے سامنے سانپ اور بچھو نظرآنے لگا ۔ اور ہر ایک سکہ ایک آنکھ کی طرح دکھائی دینے لگا جس میں سے ابدی انصاف اُس کےجرم پر نظر کرتا معلوم ہوتا تھا۔ اور زبان حال سے انتقام کے لئے پکارتا تھا۔ جیسے کہ قاتل ایک پوشیدہ کشش کے باعث پھر اُسی مقام کی طرف کھنچا جاتا ہے۔ جہاں اُس کا مقتول ایک پوشیدہ کشش کے باعث پھر اُسی مقام کی طرف کھنچا جاتاہے۔ ۔ جہاں اُس کا مقتول پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ بھی مقام کو واپس گیا جہاں اُس کی نمک حرامی کا فعل عمل میں آیا تھا۔ اور اُن لوگوں سے رُوبرو ہو کر جنہوں نے اُسے اس کام کے لئے استعمال کیا تھا۔ اُس نے روپیہ اُن کو واپس دے دیا اور ساتھ ہی بڑے جوش سے یہ اقرار بھی کیا۔ کہ میں نے بے قصور کو قتل کے لئے پکڑوایا ۔ مگر وہ بہت بڑے تسلی دینے والوں کے پاس آیا تھا۔ اور وہ بڑے حقارت آمیز لہجہ میں بولے۔ ’’ ہمیں کیا؟۔ تو جان ‘‘ ۔ جب وہ پہلے آیا تھا تو انہوں نے اُس کی بڑی خاطر وتو اضع کی تھی۔ لیکن اب وہ اپنا کام اُس سے نکال چکے تھے۔ اس لئے اُسے حقارت کے ساتھ الگ ڈال دیا۔ اب وہ کمبخت آدمی اپنے گناہ کے شرکا کے سامنے سے بھاگ نکلا ۔ لیکن وہ اُس روپیہ کو اور زیادہ عرصہ تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ اُس کے ہاتھ میں دہکتے انگارے کی مانند معلوم ہوتا تھا۔ اور اس لئے وہاں سے نکلنے کے پیشتر اُس نے وہ روپیہ اُن کے سامنے پھینک دیا ۔بیان کیا جاتا ہے۔ کہ یہ واقع ہیکل کے اُس حصّہ میں واقع ہوا۔ جہاں صرف کاہن لوگ جا سکتے تھے۔ اس لئے یا تو وہ دوڑ کر ممنوع دروازہ میں سے آگے نکل گیا ہو گا۔ یا اُس نے کھلے دروازہ میں سے باہر ہی سے روپیہ پھینک دیا ہو گا۔ وہ صرف اُس روپیہ سے پیچھا چُھڑانے کاہی خواہش مند نہ تھا۔ بلکہ اُس کے دل میں پُر زور خواہش یہ تھی۔ کہ کاہنوں کے پاس بھی اُن کے گناہ کا حصّہ چھوڑ جائے۔
تب وہ بھاگ کر ہیکل سے باہر نکل گیا مگر وہ کہاں جا رہا تھا؟ کاش کہ اُس کے اندر کوئی چیز ہوتی جو اُسے مسیح کے پاس بھاگ جانے کی تحریک کرتی ۔ کاش کہ وہ سب رُکاوٹوں اور قاعدوں پر پانی پھیر کر اُسی کے پاس جہاں کہیں وہ مل سکتا تھا جاتا اور اپنے کو اُس کے پاؤں پر ڈال دیتا ! ایسا کرنے میں اگر سپاہی اُس کے ٹکڑے بھی کر ڈالتے تو بھی کیا پروا تھی؟ تب تو وہ شہید تو بہ سمجھا جاتا ۔ اور اُسی دن مسیح کے ساتھ فردوس میں ہوتا ۔ یہوداہ اپنے گناہ سے تائب تو ہوا۔ اُس کا اقرار بھی کیا۔ بدکرداری کی اُجرت بھی اپنے سے دُور پھینک دی۔ مگر اُس کی توبہ میں اُس عنصر یا جز کی کمی تھی۔ جو سب سے زیادہ ضروری تھی۔ وہ خُدا کی طرف نہ پھرا ۔ سچی تو بہ فقط اس کا نام نہیں کہ ضمیر خوف زدہ ہو کر اپنے گناہ سے ڈرے اور مضطرب و پریشان ہو جائے۔ بلکہ سچی تو بہ بدی کو چھوڑ دینا ہے۔ اس لئے کہ مسیح نے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ نہ صرف گناہ سے پھر تا بلکہ خُدا کی طرف پھرتا بھی ہے۔ اس میں نہ صرف خوف بلکہ ایمان بھی داخل ہے۔
یہوداہ کے انجام کو بھی بعض لوگ اُس کے حق میں اچھا خیال رکھنے کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں۔ خود کشی کے فعل کو اکثر اوقات ایک قسم کی اُلوالعزمی(مستقل مزاجی ) کے ساتھ وابستہ کیا جاتاہے۔ اور اس رومی طریق سے زندگی سے باہر قدم رکھنے کو بعض مسیحی بھی۔ باوجود یکہ یہ مذہبی طور پر گناہ ہے۔ ایک غیر معمولی عالی حوصلگی اور مستقل مزاجی کا ثبوت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا۔ کہ درحقیقت خود کشی کو بالکل اس کے برعکس سمجھنا چاہیے۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی عقل و دانش کو مراق(جنون ) اور افسر دہ دلی نے کھو دیا ہے۔اس فعل کوانسان کے تمام بُرے افعال میں سے نہایت ہی قابل ِ تحقیر سمجھنا چاہیے۔ اس کے ذریعہ سے انسان گویا زندگی کے بوجھ اور ذمہ داریوں سے خلاصی ڈھونڈتاہے۔ اور یہ بوجھ اور ذمہ داریاں نہ صرف دوسروں کے سر پر چھوڑ جاتا ہے۔ بلکہ اُن کے ساتھ ہی شرم و بے عزتی کی ناقابل ِ برداشت وارثت بھی اُس کے پس ماندوں کے حصّہ میں آتی ہے ۔مذہبی پہلو سے تو خودکشُی اوربھی خراب او ر نازیبا معلوم ہوتی ہے۔ غیرمسیحی مصنفوں کی رائے میں بھی خود کُشی کر نے والا نہ صرف اُس جگہ کو جہاں تقدیر نے اُسے متعین کیاتھا۔ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ بلکہ ایک طرح سے وہ خُدا کی صفات اور اُس کی ہستی کا بھی انکار کرتا ہے۔ وہ اُس کی صفات سے انکار کرتا ہے۔ کیونکہ اگروہ سچ مچ اُس کی رحمت و محبت پر یقین رکھتا تو وہ ضرور اُس کی طرف بھاگتا ۔ نہ اُس سے دُور ۔ وہ اُس کی ہستی کا منکر ہے۔ کیونکہ جوشخص یقین رکھتا ہے کہ اُسے اس پردہ ٔ حیات کی دوسری طرف ضرور خُدا کے رُو برو حاضر ہونا ہوگا۔ وہ اپنے کو اس ناواجب طریق سے اُس کی حضوری میں ہرگز نہ پھینکتا۔
یہوداہ کی خودکشی کا طریق بھی بالکل کمینہ تھا۔ پھانسی یہودیوں کے درمیان ہرگز موت کا معمولی طریق معلوم نہیں ہوتا ۔ سارے عہدِعتیق میں اس قسم کا صرف ایک ہی واقع بیان ہوا ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے۔ کہ یہ بھی اُس شخص کے متعلق جسے اُس کی زندگی کے بُرے فعل کےلحاظ سے بالکل یہوداہ کانمونہ ہی سمجھنا چاہیے۔ اخی تو فل نے جو حضرت داؤد کا دوست اور صلاح کا ر تھا۔ اپنے آقا سے نمک حرامی کی ۔ٹھیک ویسے ہی جیسے یہوداہ نے مسیح سے ۔ اور اُس کا انجام بھی ویسا ہی بُرا ہوا۔
علاوہ بریں یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہوداہ کی پھانسی کے ساتھ اور بھی غیر معمولی دہشت ناک بات واقع ہوئی ۔جس کا کتاب اعمال کے شروع میں ذکر ہے۔ وہاں جو الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اُن سے ٹھیک ٹھیک مطلب نہیں کھلتا ۔ مگر غالباً وہ یہ ظاہر کرتےہیں۔ کہ اس خود کشی کے ساتھ ایک اور حادثہ بھی واقع ہوا۔ جس کے سبب اُس کاجسم جوایک گھاٹی کے اُوپر لٹکا ہوا تھا۔ دفعتہً (اچانک )رستی کے ٹوٹ جانے سے نیچے گرکر ایسا کچلا گیا۔ کہ جو کوئی اُس پر نظر کرتا تھا۔ اُسے دیکھ کر خوف و ہیبت دا ُمنگیر ہوتی تھی۔
اوراُس کے انجام بدکا خیال قدیم مسیحیوں کے ذہن میں اس امر سے اور بھی مضبوط ہو گیا۔ کہ وہ روپیہ جس کے عوض اُس نے مسیح کو بیچ ڈالا تھا آخر کار ایک قبرستان کے خریدنے میں خرچ کیا گیا۔ جس میں اجنبی اور مسافر لوگ گاڑے جاتے تھے۔ کاہنوں نے اگرچہ روپیہ فرش پرسے ۔جہاں یہوداہ اُسے پھینک گیا تھا۔ اُٹھا لیا۔ مگر اُن کی پابند ی شرع نے انہیں یہ اجازت نہ دی کہ اُسے پھر ہیکل کے پاک خزانہ میں داخل کیاجائے۔ اس لئے اُس روپیہ کو اس اس مقصد کے لئے خرچ کر ڈالا لوگوں نے یہ حال سُن کر اُس جگہ کا نام خون کا کھیت رکھ دیا اور اس طور سے یہ قبرستان گویا اُس نمک حرام کی یاد گار کے طور پر ہو گیا۔ جس میں سب سے پہلے وہ خود ہی گاڑا گیا۔
ساری دُنیا کا اس امر پر اتفاق کرتی ہے کہ یہوداہ سب سے بڑا گنہگار تھا۔لیکن اُس پر یہ فتویٰ لگانے میں وہ اپنے اختیار سے آگے نکل گئے ہیں۔ انسان اپنے بھائی کے قاضی بننے کا حق نہیں رکھتا ۔ یہوداہ نےجس بڑے جذبے کے تابع ہو کر یہ فعل کیا وہ نہایت کمینہ تھا۔ ڈانٹے کا یہ خیال بھی صحیح ہو تو ہو کہ نمک حرامی نہایت ہی سخت گناہ ہے ۔ اور مسیح کی اعلیٰ اور بے مثال عظمت کے سبب اُس کے نقصان پہنچانے والے پر بھی ایک بے مثل داغ لگ گیا ہے۔ مگر اُس کے فعل کا منشاء(مقصد) ہم سے مخفی (چُھپا ہو ا)ہے۔ اور ہر ایک فعل کی تاریخ ایسی پیچ در پیچ ہوتی ہے۔ کہ ہم راستی کے ساتھ یہ ہرگز نہیں کر سکتے کہ کون شخص سب سے بڑھ کر سیا ہ کار ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جن کو لوگ اولیا ء اللہ اور نیک ترین بندگانِ خُدا سمجھتے ہیں وہ آخری دن کو جب کہ ہر ایک شخص کو اُس کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ اسی اعلیٰ پایہ کے مستحق سمجھے جائیں گے ۔ اور اسی طرح کوئی نہیں کہہ سکتا کہ گنہگاروں کے حق میں بھی عام رائے کا فتویٰ آخر کار بالکل صحیح ثابت ہو گا۔ یہوداہ کے متعلق دو باتوں کو مد نظر رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اوّل تو یہ کہ اُس کے گناہ کو ایسا خفیف (معمولی) ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں جس سے وہ طبعی اور صحیح نفرت جو اُس گناہ کے خلاف ہمارے دلوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ کمزور ہو جائے۔ دوسرے اُسے ایسا گنہگار نہ سمجھیں کہ وہ اس گنہگار ی میں بالکل یکتا و بے مثل ثابت ہو یا یہ کہ اُس کے گناہ کی ماہیت کوئی ایسی مختلف اور خاص قسم کی ہے۔ جس کے سبب سے وہ ہمارے لئے مثال نہیں ٹھہر سکتا ۔ باقی کے لئے ہم صرف اُس فتویٰ کو دُہر ا سکتے ہیں۔ جو بالکل بجا اور برمحل (مناسب ) ہے ۔ اور جس میں کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ اور وہ پطرس کے ان الفاظ میں ہے کہ وہ ’’اپنی جگہ گیا ‘‘۔
ہم اب اپنی کتاب کا پہلا حصّہ ختم کر چکے۔ ہم نے یسوع کی تحقیقات اور مُقدمہ کا کُل حال بیان کر دیا۔ اور اب ہم دوسرے حصّہ کی طرف جو زیادہ درد ناک ہے۔ یعنی اُس کی موت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تحقیقات کی نسبت سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ عدل و انصاف کی مسخری تھی۔ دینی عدالت تو مقدمہ پیش ہونے سے پہلے ہی اُس پر حکم لگا چکی تھی۔ مگر حاکم فوجداری نے سرے ہی سے عدل و انصاف کا خون کر دیا۔ کیونکہ اُس نے محض اپنی خود غرضی اور پالیسی کا لحاظ کر کے ایک شخص کو جس کی بے گناہی کا وہ خود مُقر (اقرار کرنے والا) تھا قتل کے لئے حوالہ کر دیا۔ لیکن خیر اس ساری تحقیقات کا خاتمہ ہو گیا۔ اور اب صرف اس ظالمانہ فتویٰ کا عمل درآمد باقی رہ گیا ۔ اب پیلاطس کی عدالت دن بھر کے لئے بند ہو گئی۔ لوگ اُس کے محل کی نواحی سے چلے گئے ۔ اور موت کا جلوس تیار ہونے لگا ۔
جن لوگوں پر آج کل سزائے موت کا فتویٰ صادر ہوتا ہے انہیں ابدیت کے لئے تیاری کرنے کے لئے چند روز کی مہلت دی جایا کرتی ہے۔ مگر یسوع کو اُسی روز جب کہ اُس پر فتویٰ لگا یا گیا صلیب پر کھنچا گیا۔ روم میں بھی اُس وقت ایک رحیمانہ قانون جاری تھا۔ جسکی رُو سے سزائے موت اور اُس کے عمل درآمد کے مابین دس دن کا وقفہ دیا جاتا تھا۔ لیکن یا تو اس قانون کا بیرونی صوبہ جات میں میں رواج نہ تھا یا یہ کہ یسوع کو اس قانون کی حدود سے باہر سمجھا گیا تھا۔ اس لئے کہ وہ بادشاہ ہونےکا دعویدار تھا۔ بہر صورت اُسے فی الفور عدالت گاہ سے سیدھے قتل گاہ کو لے گئے۔ اور اُسے تیاری یا دوستوں کو الوداع کہنےکا بھی موقع نہ دیا۔
اس فتویٰ کے جاری کرنےوالے پیلاطس کے سپاہی تھے۔ مُقدس یوحنا کی طرِز تحریر سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ گویا پیلاطس نے اُسے یہودیوں کے حوالہ کر دیا تھا۔ اور انہوں نے سزائے موت کا عمل درآمد کیا۔ مگر اُس کے کلام کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس معاملہ کی اخلاقی ذمہ داری یہودیوں کے سر پر تھی۔ انہوں نے ہر طور سے یہ ظاہر کیا کہ یہ سب کچھ جو ہوا ہے انہیں کے ہاتھوں ہوا ہے۔ وہ یسوع کی موت پر ایسے تُلے ہوئے تھے۔ کہ انہوں نے اس کام کو اُن لوگوں کے ہاتھوں میں بھی نہ چھوڑا جن کا یہ منصبی فرض تھا۔ بلکہ وہ جلادوں کے ہمراہ گئے۔ اور دیکھتے رہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو مناسب طور پر ادا کرتے ہیں۔ مگر اصل کام درحقیقت رُومی سپاہیوں نے ایک صوبہ دار کی نگرانی میں سرانجام دیا۔
اس ملک میں اب پھانسی وغیرہ کی سزا بالکل علیحدہ جگہ میں عموماً قید خانہ کی دیواروں کے اندر ہی عمل میں آتی ہے۔ لیکن ابھی بہت سال کا عرصہ نہیں گذرا جب کہ عوام الناس کے سامنے پھانسی دی جایا کرتی تھی۔ اور اُس سے بھی پہلے یہ دستور تھا۔ کہ جب کبھی کسی کو پھانسی ہوتی تھی۔ تو پہلے اُسے شہر کے سارے گلی کو چوں میں پھراتے تھے۔ تاکہ جہاں تک ممکن ہو سب لوگ اُسے دیکھیں اور اُس پر نفرین (لعنت ملامت) بھیجیں ۔ یسوع کو بھی اسی طور سے مقتل (قتل گاہ ) کی طرف لے گئے۔ رومیوں اور نیز یہودیوں کے درمیان بھی سزائے قتل شہر کے دروازہ کے باہر عمل میں آتی تھی۔ قدیم روائت کے مطابق جو مقام یسوع کے قتل کا بیان کیا جاتا ہے۔ اور جس پر اب مزا رمقدس کی کلیسیاء تعمیر ہے۔ شہر کی موجودہ فصیل کے اندر واقع ہے۔ لیکن جو لوگ اس روایت کو صحیح مانتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اُس زمانہ میں یہ مقام شہر کے باہر واقع تھا۔ مگر یہ روایت مشتبہ (جس پر شک ہو )ہے۔ اور یہ بات بھی تحقیق کے ساتھ معلوم نہیں کہ یہ متصل کون سے دروازہ کے باہر واقع تھا۔ کلوری یا گلگتا کے ناموں سے ظاہر ہے۔ کہ یہ مقام غالباً کھوپڑی کی شکل تھا۔ مگر اس خیال کے لئے کہ وہ مقام اس قدر بلند تھا۔ کہ اُسے کلوری کی پہاڑی کہنا درست ہو۔ کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ درحقیقت اُس شکل و جسامت کی کوئی پہاڑی یروشلیم کے گردونواح میں نہیں پائی جاتی ۔ جس کا تصور عوام الناس نے باندھ رکھا ہے۔ زمانہ حال کے یروشلیم میں ایک کوچہ ہے۔ جو وایا ڈولوروسا یعنی راہِ غم سے مشہور ہے ۔جس میں سے مقتل کو جاتے ہوئے مسیح کا گذرنا بیان کیا جاتا ہے۔مگر یہ امر بھی مشتبہ ہے۔ قدیم رومتہ الکبریٰ کی طرح قدیم یروشلیم بھی صدہا سال کی مٹی کے نیچے دبا پڑا ہے۔ جس مقام پر مُقدمہ کی تحقیقات ہوئی۔ وہاں سے قتل گاہ کوئی ایک میل کے فاصلہ پر ہے۔ اور یہ ممکن معلوم ہوتا ہے۔ کہ یسوع کو اس قدر یا اس سے زیادہ فاصلہ پر جانا پڑا ہو گا۔ اورراستہ میں لوگ جلوس کو دیکھ کر جوق در جو ق جمع ہوتے گئے ہوں گے۔
ایک اور بے عزتی جو صلیبی موت کے ساتھ وابستہ تھی یہ تھی کہ مجرم کو وہ صلیب جس پر وہ لٹکنے کو تھا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر جائے قتل تک لے جانی پڑتی تھی۔ تصویروں میں یسوع کی صلیب اتنی بڑی بنائی جاتی ہے۔ جس کے اُٹھا کر لے جان کے لئے کئی ایک آدمیوں کی ضرورت پڑتی ۔ مگر اصل میں وہ اس سے بالکل مختلف شکل کی ہو گی اُس کی لمبائی غالباً اُس کے جسم کی لمبائی سے کچھ ہی زیادہ ہو گی۔ اور اُس میں اتنی ہی لکڑی لگی ہو گی جو ایک آدمی کے جسم کو اُٹھانے کے لئے کافی ہو ۔ لیکن تو بھی وہ بڑی بوجھل ہو گی۔ اور اُس پیٹھ پر جہاں پہلے ہی اتنے کوڑے لگ چکے تھے۔ اُسے اُٹھانا نہایت ہی دشوار اور باعث ِدرد و تکلیف ہو گا۔
اور اگر اُس کے سر پر کانٹوں کا تاج اب بھی دھرا تھا۔ تو وہ بھی سخت تکلیف کا باعث ہو گا۔ لکھا ہے کہ پیشتر اس کے کہ اُسے قتل گاہ کو لے گئے۔ ارغوانی پوشاک جو مسخری کےطور پہنائی گئی تھی۔ اُتار کر اُس کے اپنے کپڑے اُسے پہنائے گئے تھے۔ مگر یہ نہیں لکھا کہ کانٹوں کا تاج بھی اُٹھا دیا گیا تھا۔ مگر سب سے سخت اور ناقابل ِبرداشت شرم و بے عزتی تھی۔ آدمی سے اُس کی موت کا آلہ اُٹھوانے میں ایک قسم کا سخت و حشی پن تھا۔ اور ہم قدیم لٹریچر میں مصنفین کو اس قسم کے طریق سز اپر بار بار وحشیانہ تمسخر کرتے اور مضحکہ اُڑاتے دیکھتے ہیں۔
اناجیل سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے۔ کہ یسوع کی قوت و اہمہ (سوچنے کی طاقت ) پہلے ہی سے اس قسم کی موت کا تصور باندھتی رہی تھی۔ خاتمہ سے بہت پہلے اُس نے پیشن گوئی کی تھی۔ کہ اُسے کس قسم کی موت سے مرنا ہو گا۔ مگر اس قسم پیشن گوئیوں سے بھی پہلے وہ ان قربانیوں کو جواُس کے پیرو ہونے کے لئے کرنی ضروری ہو ں گی۔ صلیب اُٹھانے سے تشیبہ دے چکاتھا۔ گویاکہ یہ سزا ہر ایک قسم کے کے دُکھ اور تکلیف اور بے حرمتی کی آخری حد تھی۔ کیا اُس نے ان لفظوں کو محض اس سبب سے استعمال کیا کہ جہاں تک اُسے دُنیا کی باتوں کا علم تھا۔ و ہ سمجھتا تھا کہ یہ سزا انسانی زندگی میں سب سے زیادہ شرم ناک ہے؟ یا کیا اس قسم کے الفاظ کے استعمال کی وجہ وہ علمِ غیب تھا۔ جس کے ذریعہ سے اُسے معلوم تھا۔ کہ ایک دن یہی سزا خود اُس پروارد ہونے والی ہے ؟کچھ شبہ نہیں کہ آخری وجہ درست ہے۔ اب وہ گھڑی جس کاپہلے سے تصور باندھا ر کھا تھا ۔ آپہنچی اور کمزوری اور لا چاری کی حالت میں ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اُس پر نفرین (لعنت ملامت )کر رہے تھے۔ اُسے یہ صلیب اُٹھانی پڑی۔ایک شریف مزاج آدمی کے لئے شرم سے بڑھ کر کوئی سخت مصیبت نہیں۔ اُس کے لئے ہنسی و تمسخر کا تختہ مشق بنا یاجانا نہایت شاق (مشکل ۔دشوار)ہوتا ہے۔ یسوع میں وہ عظمت و صلاحیت تھی۔ جس کی وجہ سے کسی کے آگے سر جھکانے یا دب نکلنے کی ضرورت کا محتاج نہ تھا۔ وہ لوگوں سے جس قدر محبت رکھتا اور اُن کی عزت کرتا تھا۔ کہ ممکن نہ تھا۔ کہ اُن سے محبت و عزت کا طالب نہ ہو۔ وہ اچھے دن دیکھ چکا تھا۔ جب کہ سب لوگ اُ س کی عزت کرتے اور اُسے عزیز رکھتے تھے۔ لیکن اب اُس کی جان لوگوں کی ملامت و تحقیر سے معمور ہو رہی تھی۔ اور وہ زبور کے ان الفاظ کو اپنے حق میں لگا سکتا تھا۔ کہ ’’میں توایک کیڑا ہوں نہ انسان آدمیوں کا ننگ ہوں اور قوم کی عار ‘‘۔
اب مسیح کی عار و ننگ (شرمندگی )سب جلال میں بدل گئی ہے۔ اور اس بات کا متحقق (تحقیق ) کرنا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ دراصل کس قدر گہر ی ذلت تھی۔ جواُسے برداشت کرنی پڑی ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت کا ثبوت ہو گا۔کہ دو چوروں کو بھی اُس کے ہمراہ صلیب پر کھینچنے کے لئے بھیجا گیا ۔بعض کا خیال ہے کہ یہ بات پیلاطس نے خاص کر یہودیوں کو ذلیل کرنے کو شش کی تھی ۔ جس سے یہ دکھلا نا مقصود تھا کہ وہ اُس شخص کو جو اُس کے نزدیک اُن کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ دار تھا۔کیسی حقارت سے دیکھتا ہے ۔ مگر میرے نزدیک زیادہ اغلب (یقینی )بات یہ ہے کہ رومی حکام کی نظر میں مسیح کی اُن قیدیوں کی نسبت جو آئے دن ان سپائیوں کے ہاتھ سے سزا یاب ہوتے رہتے تھے۔کچھ بڑی عزت نہ تھی۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پیلاطس کو اس معاملہ میں کچھ زیادہ دلچسپی تو تھی۔ اور وہ اس مقدمہ کے فیصلہ کرنے میں کسی قدر اُلجھا ؤ میں بھی پڑا رہا ۔ لیکن پھر بھی یسوع ایک معمولی یہودی تھا۔جس کی مانند سینکڑوں اُس کے ہاتھوں میں سے نکلتے رہے تھے۔ اور اُس کا صلیب دیا جانا بھی دوسرے مجرموں کے مُقدمہ سے کچھ بڑھ کر وقعت (حیثیت ) نہیں رکھتا تھا۔ اس طور سے تینوں قیدی اپنی اپنی صلیبیں اُٹھائے ہوئے اکٹھے محل کے دروازہ سے نکلے اور راہ ِغم پر روانہ ہوئے۔
لیکن اگر چہ وہ پیلاطس کے محل میں سے اپنی صلیب اُٹھائے ہوئے نکلا ۔ مگروہ اُسے بہت دُور تک نہ لے جا سکا ۔ یاتووہ اُس کے بوجھ کے مارے دب کر زمین پر بیٹھ گیا ۔یاوہ ایسی سُست قدمی سے چل رہا تھا۔ کہ سپاہیوں نے دیری کے خیال سے یہ مناسب سمجھا کہ بوجھ اُس کے کندھے پر سے اُٹھا لیا جائے۔ اُس قسم کی نقاہت اور ماندگی کے لئے کوڑوں کی سختی ہی کافی تھی۔ لیکن اس کے علاوہ ہمیں ساری رات کی بے خوابی اور فکر اور بد سلوکی کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ۔ اور اس سے پہلے گتسمنی کی جانکنی بھی واقع ہوئی تھی۔ اس لئے جائے تعجب(حیرانگی ) نہیں کہ اُس کی کمزوری اس درجہ کو پہنچ گئی تھی۔ کہ ایسا بوجھ اُٹھائے ہوئے آگے بڑھنا اُس کے لئے ناممکن ہو گیاتھا۔ ایک یا د و سپاہی اُسے اس بوجھ سے خلاصی دے سکتے تھے۔مگر شرارت اور تمسخراب بھی اُن پر سوار تھا۔ اور انہوں نے ایک آدمی کوجو اتفاقاً اس راہ سے گذر رہا تھا۔ بے گاری پکڑ کر اس خدمت میں لگا دیا۔وہ انہیں باہر سے شہر کے پھاٹک کے اندر آتاہواملا ۔ اور اس امر میں وہ ایک جنگی قانون یا رسم کے مطابق عمل کر رہے تھے۔
اس آدمی کو تو یہ بات نہایت تکلیف دہ اور شرمناک معلوم دی ہو گی۔ غالباً وہ کسی ضروری کام پر جارہا تھا جو اس وجہ ملتوی کرنا پڑا ۔ اُس کے بال بچے اور دوست آشنا اُس کے منتظر بیٹھے ہوں گے ۔ مگر وہ راستہ میں روک لیا گیا۔ اس موت کے آلہ کو چھُونا اُس کے لئے ایسی ہی قابلِ نفرت بات ہو گی۔ جیسے ہم پھانسی کی رسی کو چُھوتے جھجکتے ہیں۔ شاید اُس وقت اُس کو یہ بات اور بھی بُری معلوم ہوئی ہو گی۔ کیونکہ یہ عید ِفسح کا وقت تھا۔ اور اس کے چھونے سے وہ ناپاک ہو گیا۔ مگر وہ اُس وقت سپاہیوں کی ظرافت(ہنسی مذاق ) کا تختۂ مشق (کسی کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا )بن رہا تھا ۔ جب وہ چوروں کے ساتھ ساتھ چلتا ہو گا تو معلوم ہوتا ہوگا کہ گویا اُسے بھی صلیب پر کھینچنے کو لے جا رہے ہیں۔
یہ اُس صلیب اُٹھانے کی جس کے لئے مسیح کے پیرؤں کو بلایا گیا ہے۔ ایک عمدہ تصویر معلوم ہوتی ہے ۔ ہم جب کبھی کسی قسم کی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں۔ تو اُسے صلیب کے نام سے پکارا کرتے ہیں۔ اور بلا شبہ تکلیف خواہ کسی قسم کی کیوں نہ ہو مسیح کے نام سے اس کا اُٹھانا ایسا دو بھر نہیں معلوم ہوتا ۔مگر صحیح طور پر وہی دُکھ یا تکلیف مسیح کی صلیب کہلانے کی مستحق ہے جو اُس کا اقرار کرنے یا اُس کی خدمت کی بجا آوری میں برداشت کرنی پڑی۔ جب کوئی شخص کسی مسیحی اُصول کی بنا پر کسی بات پر جم کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور اُس سے جو کچھ ذلت اور شرمندگی اُس پر وراد ہو اُس کی کچھ پروا نہیں کرتا تو اُسے مسیح کی صلیب اُٹھانا کہہ سکتے ہیں۔جوتکلیف تمہیں مسیح کے نام سے کسی کے ساتھ کلام کرنے میں محسوس ہو۔ یا مسیح کی خدمت میں جو وقت یا آسائش تمہیں قربان کرنی پڑے۔ یا اپنے مال و دولت کو مسیح کی سلطنت کے لئے اپنے وطن اور دوسرے ممالک میں پھیلنے کے لئے دے ڈالنے سے جو خود انکاری کرنی پڑے ۔ یا جو لعنت ملامت تمہیں ایسے معاملات میں حصّہ لینے یا اشخاص کے ساتھ شریک ہونے میں جنہیں تم مسیح کے طرف دار سمجھتے ہو اُٹھانی پڑے۔ ان سب باتوں کو مسیح کی صلیب کے نام سے پکار سکتے ہیں۔ اس میں تکلیف بے آرامی اور قربانی تو ضرور ہے۔ اس کی برداشت کرنے میں شاید شمعون کی طرح کُڑ ھنا پڑے یا خود مسیح کی طرح اُس کے بوجھ سے گر جائیں ۔ وہ بہت درد ناک۔ بھیانک اور شرمناک تو ہو گی۔ مگر مسیح کا کوئی سچا شاگرد اس سے خالی نہیں رہ سکتا۔ ہمارا آقا فرماتا ہے۔ کہ جو شخص اپنی صلیب اُٹھا کر میری پیروی نہیں کرتا میرے لائق نہیں۔
جو بات شمعون کوصلیب اُٹھانے کا ناکامل نمونہ ٹھہراتی ہے۔ سو یہ ہے کہ ہمیں تحقیق نہیں کہ آیا اُس نے اُسے برضاو رغبت اُٹھایا یا مجبوری سے۔ یہ تو سچ ہے کہ کہ رومی سپاہیوں نے اُسے جبراً اس کام کے لئے پکڑا تھا۔ مگر کیا اس میں محض جبرہی جبر تھا۔ اور اور کچھ نہیں؟
بعض کا خیال ہے کہ وہ مسیح کے پیرؤں میں سے تھا۔ لیکن یہ امر اغلب(یقینی ) نہیں معلوم ہوتا کہ ٹھیک اُس وقت جب کہ سپاہیوں کو اس مقصد کے لئے ایک شخص کی ضرورت پڑی تو یسوع ہی کے پیرؤں میں سے ایک اُن کے ہاتھ لگ گیا ۔ طرز ِبیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض اتفاقی طور پر وہاں آ نکلا تھا۔ اور صرف اُسی وقت اور اپنی مرضی کے خلاف وہ بھی اس ڈراما میں شریک کیا گیا۔
انجیل نویس اُسے قُرینی کا باشندہ لکھتا ہے جو شمالی افریقہ کا ایک شہر ہے۔ اس شہر کے رہنے والوں کا بھی اُس فہرست میں ذکرہوا ہے۔ جہاں عید پنتیکوست کے روز جب کہ رُوح قدس آتشی زبانوں کی صورت میں کلیسیاء پر نازل ہوا۔ اُن لوگوں کا بیان کیا گیا ہے۔ ( جو بیرو نی تجارت سےعید کے موقع پر آئے ہوئے تھے)۔ اور اغلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شمعون بھی اسی طرح اپنے دُور دراز مکان سے عیدِ فسح کے موقع پر یروشلیم میں آیا ہو ا تھا ۔
وہ غالباً وہاں حج و زیارت کے لئے آیا تھا۔ شاید وہ اُن دینداروں میں سے تھا۔ جو اسرائیل کی تسلی کے منتظر تھے۔وہ اپنے دُور دراز گھر واقع قرینی میں مسیح کی آمد کے لئے دعائیں مانگتا رہا ہو گا۔ اور سفر پر روانہ ہونے سے پہلے خُدا کی برکت و رحمت کا طالب ہوا ہو گا۔ خُدا نے اُس کی دعا سُنی اور اب پایہ قبول کو پہنچائی ۔ مگر ایسے مختلف طور پر کہ اُس کو پہلے اُس کا شان و گمان بھی نہ تھا۔
کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح سے اس طور پرسابقہ (واسطہ )پڑ نا اُس کی اپنی اور اُس کے خاندان کی نجات کا باعث ہوا۔ انجیل نویس اُسے ’’اسکندر اور روفس‘‘ کا باپ بتا تا ہے ۔ اور ایسے طور سے ذکرکرتا ہے کہ گویا وہ اُس سے خوب واقف تھا۔ ظاہر ہے کہ اُس کے ان بیٹوں سے وہ لوگ جن کے لئے مقدس مرقس اپنی انجیل کو تحریر کر رہا تھا۔ خوب واقف ہوں گے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ کلیسیاء کے شرکا میں سے ہوں گے۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اُس کے خاندان کا تعلق کلیسیاء سے اُن کے باپ کی زندگی کے اس واقع کے ساتھ وابستہ تھا۔ مقدس مرقس نے اپنی انجیل روم کے مسیحیوں کے لئے تیار کی تھی۔ اور رومیوں کے نام کے خط میں ایک روفس کا ذکرہے۔ جو اپنی ماں کے ہمراہ روم میں مقیم تھا۔ ممکن ہے کہ یہی شخص شمعون کا بیٹا تھا۔ اور اعمال ۱:۱۳ میں ایک اور شمعون کا ذکرہے۔ جو لوکیس قرینوی کے ہمراہ انطاکیہ کے سر برآوردہ (معزز۔بزرگ )عیسائیوں میں سےتھا۔ اُس کے نام کے ساتھ لفظ نیگر ویعنی سیاہ فام بھی استعمال ہوا ہے جو اُس کی رنگت کا جو افریقہ کے گرم سورج کا نتیجہ تھی نشان دیتا ہے۔ عہد ِجدید میں اور بھی کئی اسکندروں کا ذکر ہو اہے۔ مگر یہ نام عام تھا اور اسی لئے ان میں سے کسی ایک کو شمعون کا بیٹا ٹھہرانا ناممکن ہے۔مگر ان تفصیلی باتو ں کوچھوڑ کر ہمارے پاس اس امر کی صاف شہادتیں موجود ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے ۔ کہ شمعون اسی حادثہ کی وجہ سے مسیحی ہو گیا۔
کیا یہ ایک پُرمعنی بات نہیں معلوم ہوتی ۔ جس سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ دُنیا میں کوئی بات اتفاقی طور پر واقع نہیں ہوتی ؟اگر شمعون اس سے ایک گھنٹہ پہلے یا ایک گھنٹہ پیچھے شہر میں داخل ہوتا تو اُس کی زندگی کے بعد کی تاریخ مختلف ہوتی ۔ بعض اوقات نہایت ہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک اتفاقی ملاقات کسی شخص کی زندگی بھر کی خوشی یا غمی کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ بلا شبہ شمعون کو اُس وقت یہ اتفاقی واقعہ نہایت ہی خراب اور مکروہ معلوم ہوا ہو گا۔ کیونکہ اُس کے سبب سے نہ صرف وہ اپنے کام سے رُک گیا ہو گا۔ بلکہ سخت بے عزتی اور شرمندگی بھی اُٹھانی پڑی ۔ لیکن آخر کار وہ اُس کے لئے گویا حیات ِابدی کا دروازہ ثابت ہوا۔ اسی طرح الہٰی برکات بعض اوقات ایک دوسرے بھیس میں آیا کرتی ہیں۔ اور ایک بھوت کی صورت میں سے جسے دیکھ کر ہم مارے خوف کے چلا اُٹھیں ۔ دفعتاً (اچانک ) ابن ِآدم کی صورت دکھائی دی جاتی ہے۔ مگر اس واقع سے شمعون کو فقط
________________________________
1،بہہت سے یہودی جوکسی زمانہ میں قرینی کے باشندے تھے۔اب یروشلیم میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ غالباً اُن میں زیادہ تر وہ ضعیف العمر لوگ تھے۔ جو پاک زمین میں دفن ہونے کی غرض سے وہاں آرہے تھے۔ کیونکہ اعمال کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یروشلیم میں اُن کی اپنی عبادت گاہ تھی۔ اور ممکن ہے کہ شمعون بھی انہیں میں سے تھا۔مگر دوسری بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔
اپنی ہی نجات حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ اُس میں سارا کنبہ شریک ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیح کسی ایک شخص پر جلوہ گرہو تو اس سے کیا کچھ اُمید نہیں ہو سکتی۔ اس ایک شخص کے ایمان لانے میں اُس کے بچوں اور بچوں کے بچوں کی جو ابھی تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ نجات وبہبودی بھی شامل تھی۔
لیکن سوچو تو کہ اگرچہ شمعون کو اُس وقت مسیح کی صلیب اُٹھانا تلخ معلوم ہوا لیکن بعد کی زندگی میں وہ اُس کے لئے خُدا کا کس قدر شکر کرتا ہو گا۔ بلاشبہ وہ اُسے اپنی زندگی کا ایک عجیب ماجرا خیال کرتا ہو گا۔ اور آج کے دن تک کون ہے جو اس امرکے لئے اُس پر رشک نہ کھاتا ہو کہ اُس شخص کو یہ نصیب ہوا کہ اُس نے غش کھاتے ہوئے منجی کا ہاتھ بٹایا۔ اور اُس کی خون آلود اور درد ناک پیٹھ پر سے اُس کا بوجھ اُٹھا کر اپنے سر لے لیا؟اسی طرح سب کی زندگی میں ایک نہ ایک دن آتا ہے جب کہ ہر ایک خدمت جو وہ مسیح کے لئے بجا لا سکتے ہیں ایک ایسی عمدہ یاد گار ہوتی ہے۔ جس کے لئے وہ باقی عمر بھر سب سے زیادہ تر کیا کرتے ہیں۔ زندگی کے خاتمہ پرجب ہم اپنے سارے کارناموں پر نظر کریں گے۔ تو وہ انعامات جو ہم نے حاصل کئے ۔یا وہ عیش و عشرت جس سے محفوظ ہوئے ۔یا وہ تکلیف و مصائب جن سے ہم بچ گئے۔اُن کی یاد ہمیں اتنا خوش و خرم نہیں کرے گی ۔ لیکن اگر ہم نےکبھی خود انکاری کر کے مسیح کی صلیب اُٹھائی ہے۔ تو اُس کی یاد ہمارے بستر مرگ پر ہمارے سر کے نیچے ملائم تکیہ کاکام دے گی۔ اُس وقت ہمارے دل میں یہ خواہش ہو گی کہ کاش وہ منٹ جو ہم نے مسیح کی خدمت میں صرف کئے۔ سال ہوتے اور وہ پیسے اشرفیاں ہوتیں۔ اور اُس وقت ٹھنڈے پانی کا ہر ایک پیالہ اور ہر ایک تسلی آمیز کلمہ اور ہرایک خود انکاری کا کام ایسا خوشنما معلوم ہو گا۔ کہ ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گی۔کہ کاش وہ اُس سے جو ہیں ہزار گناہ زیادہ ہوتے۔
خُدا وند کی زندگی کے اس حصّہ کے متعلق بہت سی حکائتیں کی جاتی ہیں۔
مثلاً یہ بیان کرتے ہیں۔ کہ جب وہ صلیب اُٹھائے ہوئے آہستہ آہستہ جارہاتھا تو راستہ میں سستانے کے لئے وہ ایک گھر کے دروازے سے تکیہ لگا کر کھڑا ہو گیا۔ مگر گھر کے مالک نے اُسے ایک مُکا مار کر ہٹا دیااور کہا کہ چلو اپنا راستہ لو۔ اس پر خُداوند اپنے مارنے والے کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا ۔ تو چلتا ہی جائے گا اور کبھی ٹھہرے گا ۔ جب تک کہ میں پھر نہ آؤں ۔ اور آج کے دن تک نہ اُس شخص کو آرام ملتاہے۔ نہ موت آتی ہے۔ بلکہ یہ کمبخت برابر زمین پر سفر کرتا رہتا ہے۔ اور خُداوند کی آمد ثانی تک ایسا ہی کرتا رہے گا۔ یہی آوارہ گرد یہودی کی حکائت ہے۔ جس پر مختلف صورتوں میں زمانہ گذشتہ میں اور نیز آج کل بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک خیالی تصویر ہے۔ جس میں ایک آدمی کی مثال میں یہودی قوم کی اُس درد ناک قسمت کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ جواُس دن سے جب کہ انہوں نے خُداوند پرہاتھ ڈالے۔ ساری دُنیا میں ماری ماری پھرتی ہے۔ اور جس کے پاؤں کو تختہ ٔ زمین پر کہیں بھی قرار و آرام نصیب نہیں ہوتا ۔
ایک اور کہانی ہے جس کو مُصوری میں وہی جگہ دی گئی ہے۔ جو آوارہ گرد یہودی کو لٹریچر میں حاصل ہے ۔ ویر ونیکا یروشلیم کی ایک معزز خاتون مسیح کو اپنے مکان کے پاس سے گذرتے اور بوجھ کے نیچے دبے دیکھ کر گھر سے باہر نکل آئی اور ایک رومال کے ذریعہ اُس کے چہرہ پر سے خون اور پسینہ پونچھ دیا۔ اور دیکھو جب اُس نے اُس رومال پر جس اُس نے مسیح کا منہ پونچھا تھا نظر کی توکیا دیکھتی ہے کہ اُس پر اس مرد غمناک کی شبیہ عین یعین نقش ہے۔ بعض مشہور اورعا لی قدر مُصوروں نے اس نظارہ کی تصویر کھینچی ہے۔ اور میرے نزدیک اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اس زندگی کی معمولی باتیں بھی جب رحمت کے کاموں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ تو اُن پر مسیح کی صورت کا نقش ہو جاتا ہے۔
رومن کیتھولک گرجاؤں میں عموماً دیواروں پر قریباً ایک درجن تصویروں کا سلسلہ دیکھا جاتاہے۔ جوخُداوند کی زندگی کے اس حصّہ کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان تصویروں کا نام منازل ِصلیب ہے۔کیونکہ لوگ عبادت کے وقت ایک سے شروع کے برابر آخر تک گھوم جاتے ہیں۔ اورایک ایک تصویر کے سامنے تھوڑی تھوڑی دیر تک ٹھہر کر اور اُس پر نظر کرکے خُداوند مسیح کے دُکھوں اور مصیبتوں پر غورو فکر کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں جہاں کیتھلک مذہب زوروں پرہے۔ اسی خیال کو ایک اور طرح سے بھی ظاہر کیاجاتاہے۔ جو زیادہ موثر ہوتا ہے ۔شہر کے قریب ایک پہاڑی کے سرے پر تین صلیبیں نصب کی جاتی ہیں۔ اور شہر کی ایک گلی جس کا نام راہ ِکلوری ہوتا ہے۔ اُس میں کچھ کچھ فاصلہ پرخُداوند کے اس سفر کے مختلف نظاروں کو ظاہر کرنے کے لئے بڑی بڑی تصویریں یا منقش پتھروں کی سلیں نصب کی جاتی ہیں۔
مگر اس راہ ِغم کے صرف دو واقعات ہیں۔ جن کا یقینی علم ہمیں حاصل ہے۔ ایک تو شمعون قرینی کا خُداوند کی صلیب کو اُٹھانا ۔دوسرے یروشلیم کی بیٹیوں کی ہمدردی کا اظہار جس کا ذکر ہم اب کرنا چاہتے ہیں۔
جو شخص خُداوند کی زندگی کی آخری گھڑیوں کا حال پڑھتاہے۔ اُسے ہر قدم پر سخت دہشت نا ک نظاروں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بعض نظارے جن میں سے ہم ابھی ابھی گذرتے آئے ہیں۔ایسا معلوم ہو تا ہے۔ کہ اُن میں ہم آدمیوں سے نہیں بلکہ عفریتوں (بُھوتوں ) اور شیطانوں سے ملاقاتی ہوئے ہیں۔ اور دل اُن کو دیکھ دیکھ کر ایسا دق آجاتا ہے۔ کہ وہ اس امر کا آرزو مند ہو تا ہے کہ کاش کوئی اور چیز نظرآئے جس سے دم بھرکے لئے مذہبی تعصب(مذہب کی بے جا حمایت ) اورخونخواری کے درد ناک نظاروں سے خلاصی ملے۔ اس لئے وہ نظارہ بہت ہی فرحت بخش اور دل کش معلوم ہو تا ہے۔ جس میں اس شب ِغم پر روشنی کی کچھ کرنیں پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں دل انسانی سے بالکل نااُمید نہ ہو جانا چاہیے ۔ بلکہ اُس میں ابھی کچھ کچھ جان باقی ہے۔
یہ فی الحقیقت ایک خلاف ِاُمید اور حیرت میں ڈالنے والا نظارہ تھا۔ اگر اس وقت اُس کا ایسا بین (واضح ) اظہار نہ ہوا ہوتا تو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا کہ یسوع کو یروشلم کے باشندوں کے کسی حصّہ کےدل میں بھی ایسی گہری جگہ حاصل تھی۔ یہودیوں کے صدرمقام میں ہمیشہ اُسے مخالفت سے سابقہ پڑتا رہا تھا۔ اور اُن میں اُس کی تعلیم کی قبولیت کا ما دہ بہت کم دکھائی پڑتا تھا۔ یروشلیم میں ربیوں اور کاہنوں کا زورتھا۔ جواپنے علم اور عہدے پر بڑے نازاں تھے۔ یہی فریسیوں اور صدوقیوں کی جو لا نگاہ تھا۔ اور عوام الناس انہیں کی رائے پرچلتے تھے۔ اور یہاں اوّل سے آخر تک اُس کے صرف چند ہی آدمی پیرو بنے تھے۔ وہ صرف بیرونی علاقہ اور خاص کر گلیل میں کامیاب ہوا تھا۔ وہاں لوگ اُس کی بڑی قدر وعزت کرتے تھے۔ یہ گلیلی حاجی تھے۔ جو عید فسح کے موقع پر آئے ہوئے تھے۔ جو ہوشعنا کے نعرے لگاتے ہوئے اُسے دارالخلافہ کے اندرلے گئے تھے۔ مگر شہر کے باشندے اُس کی طرف سے بے پروا تھے۔ اور یہی لوگ تھے۔ جوپیلاطس کی عدالت کے سامنے چلا رہے تھے۔ اُسے صلیب دے۔ اُسے صلیب دے۔
لیکن اس واقع سے یہ ظاہر ہو تا ہے۔ کہ کم سے کم یروشلیم کی آبادی کے ایک حصّہ کے دل میں اُس نے کچھ اثر پیدا کر لیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ لوگوں کی بڑی بھیڑ اور بہت سی عورتیں جو اُس کے واسطے روتی پیٹتی تھیں۔ اُس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ بعض کو یہ امر ایسا عجیب و غریب معلوم ہوا ہے کہ اُن کا خیال ہے کہ یہ گلیلی عورتیں ہوں گی۔ مگر یسوع نے انہیں ’’ یروشلیم کی بیٹیو ‘‘ کہہ کر خطاب کیا۔ اہل گلیل میں سے جو اُس کی فتح و کامیابی کے گھڑی میں اُسے اس طرح گھیرے ہوئے تھے۔ اب اُس کی مصیبت کے کھڑی میں ایک بھی نظر نہیں آتاتھا۔ مگر یروشلیم کی عورتوں نے مردوں کی اس مثال کی پیروی نہ کی۔ بلکہ علانیہ اُس کی جوانی ۔ نیک چلنی اور مصائب پر آنسو بہائے۔ بیان کرتے ہیں۔ کہ یہودیوں میں ایک قانون تھا۔جس کے مطابق سزا یافتہ آدمی کے ساتھ کسی قسم کے اظہار ہمدردی کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ اگر یہ سچ ہے تو اس اظہار ہمدرد ی کے لئے یہ لوگ اور بھی ذیادہ تعریف کے مستحق (حقدار) ہیں۔ اُن کے جذبات کابہاؤ اس قدر زوروں پر تھا۔ کہ قانون و دستور کے بند اُس کو نہ روک سکے۔
کہا گیا ہے کہ اناجیل میں کوئی بھی ایسی نظیر(مثال ) نہیں پائی جاتی جس میں کسی عورت کا ذکر ہو جو یسوع کی دشمن تھی ۔ کسی عورت کی نسبت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اُسے چھوڑ کر بھاگ گئی یا اُ س نے اُس پکڑا دیا ۔ یا اُسے کسی قسم کا دُکھ دیا یا اُس کی مخالفت کی بلکہ عورتیں اُس کی پیروی کرتی تھیں۔ اپنے مال و دولت سے اُس کی خدمت کرتی تھیں۔ اُس کے پاؤں آنسوؤں سے دھوتی تھیں۔ خوشبو ئیں اُس کے سر پر ملتی تھیں۔ اور اب جب کہ اُن کے خاوند اور بھائی و موت تک اُس کا تعاقب کر رہے تھے۔ وہ روتی ۔ چلاتی اور نوحہ زاری کرتی ہوئی اُس کے متقل تک اُس کے پیچھے پیچھے جا رہی تھیں۔
یہ واقع ایک طرف تومسیح کی خصلت (عادت)کی خوبی کے لئے ایک بڑی بھاری شہادت ہے۔ اور دوسری طرف عورتوں کی خصلت کے لئے ۔ عورت کی عقل و تمیز نے اُسے سمجھا دیا۔ گو وہ ابھی تک اس سچائی کو صاف طور پر نہ بھی سمجھی ہو ں کہ یہی شخص اُس کا رہائی دینے والا ہے۔ کیونکہ اگرچہ مسیح سب کا نجات دینے والا ہے۔ لیکن وہ عورت کا نجات دہندہ خاص معنوں میں ہے۔ اُس کی آمد کے زمانہ میں چونکہ اُس کی ذلت اور بےچارگی مردوں کی نسبت کہیں زیادہ تھی اس لئے وہی اُس کی زیادہ حاجت مند تھی۔ اور اُس وقت سے جہاں کہیں انجیل پہنچی ہے اُس کے لئے گویا رہائی اور آزادی کا پیغام لے کر گئی ہے۔ اُس کی حضوری میں وہ تمام ملائم اور خوب صورت اوصاف جو اُس کی خصلت جو اُس کے باطن میں پنہا ں (چُھپے)ہیں۔ عیاں (ظاہر ) ہو جاتے ہیں۔ اور اُس کے اثر سے اُس کی خصلت و مزاج میں ایک عجیب قسم کی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
بعض یہ اعتراض کرتے ہیں۔ کہ یروشلیم کی بیٹوں کا یہ جذبہ کچھ بہت گہرا نہ تھا۔ اور اس سے انکار کرنا بھی ضروری نہیں۔ اُن کا یہ جذبہ اور یہ آنسو بہانا ایمان و توبہ کا پُرجوش اظہار نہ تھا۔ جس سے عجیب و غریب نتائج اور تبدیلیاں واقع ہو جا یا کرتی ہیں۔ یہ فقط ایک طبعی جوش کا اظہار تھاجو ہر ایک درد ناک نظارہ کو دیکھ کر ہو جایا کرتا ہے۔ یہ اُسی قسم کے آنسو تھے۔ جو آج کل بھی مسیح کے دُکھوں اور مصیبتوں کا حال سن کر نرم دل لوگوں کی آنکھوں سے نکل آیا کرتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے جذبات دیرپا نہیں ہوتے ۔ ہماری طبیعت و مزاج میں کئی ایک تہیں ہیں۔ اور غالباً اس قسم کے جذبات ان سب کے اُوپر کے حصّوں میں واقع ہیں۔ اس لئے یہی کافی نہیں کہ مذہب ان اوپر کی تہوں میں کام کرے۔ بلکہ اُسے ان اُوپر کی تہوں میں سے ہو کر نیچے اُتر جانا چاہیے اور گہری گہری تہوں میں مثلاً ضمیر اور قوتِ ارادی میں اُتر جانا چاہیے۔ اور ان پر قبضہ کر کے اپنی آگ کو روشن کرنا چاہیے ۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب مذہب نے انسان کی کل ہستی پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور اُس میں گویا رچ گیا ہے۔
مگر عورتوں کا مسیح کی بابت اس طور سے رنج و غم ظاہر کر نا محض ایک ابتدائی بات تھی۔ اور اسی میں اس کی خوبی منحصر ہے۔ اُس کے لئے یہ گویا اُس اعلیٰ اور گہری عقیدت کا جو دُنیا کی عورتیں آئندہ زمانہ میں اُس کی نسبت رکھنے کو تھیں ایک پیش خیمہ تھا۔ اُس مصیبت اور تنہائی کے گڑھے میں وہ اُس کے لئے ایسی ہی خوش آئندہ ثابت ہوئی ہو گئی جیسے صحرائے لق دق (ویران و سنسان جنگل ) میں گھاس کی ایک پتی کا نظارہ پیاسے راہ گیر کے لئے ہو تا ہے اس ہمدردی کی آوازوں نے اُس کی رُوح پر ویسا ہی کام کیا ہو گیا جیسے مریم کے محبت آمیز تحفہ نے اُس کے حواس پر کیا تھا۔ جب کہ گھر عطر کی خوشبو سے مہک گیاتھا۔
اس طور سے راہِ غم پر یسوع کو اپنی مصیبت اور دُکھ میں دو دفعہ تسلی وتسکین نصیب ہوئی۔ ایک آدمی کی قوت ِبازو سے اُس کے جسم کو صلیب کے بوجھ سے نجات ملی ۔ اور عورتوں کی ہمدردی سے اُس کی رُوح کے دُکھ کو تسکین ملی۔کیا یہ واقع اس امر کی تمثیل کے طور پر نہیں ہے۔ کہ اب بھی مردو عورت اُس کے لئے کیاکچھ کر سکتے ہیں۔ مسیح کو مردوں کو قوتِ بازو کی ضرورت ہے۔ ہاں ایسے مضبوط اور جفا کش کندھوں کی جو اُس کی خدمت کا بوجھ اُٹھا سکیں۔ اُس کو ایسے ذہنوں اور رعقلوں کی ضرورت ہے۔جو اُس کی بادشاہت کے پھیلانے کے لئے ضروری تجاویز سوچ سکیں۔ اُسے اُن کے مستقل ارادوں کی ضرورت ہے۔ جوباوجود مخالفتوں اور رُکاوٹوں کے استقلال کے ساتھ اُس کی سلطنت کی حدود کو پھیلاتے جائیں ۔اُسے ایسے فیاض ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ جو کھلے دل سے اُس کے مُقدمہ کی کامیابی اور ترقی کے لئے اپنے مال و دولت کو نثار (قربان )کر دیں۔ عورتوں سے وہ ہمدردی اور آنسوؤں کا طالب ہے۔ وہ اُس حس و ملائمت کو دے سکتی ہیں۔ جو دُنیا کے دل کو پتھر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے وہ اُن سےاُس خفیہ علم کا طالب ہے جس کے ذریعہ سے عورتیں فوراً دریافت کر لیتی ہیں کہ کون شخص رحم و ہمدردی کا حاجت مند ہے۔ اور اُس کی حاجتوں کو معلوم کر کے اُن کو پورا کر سکتی ہیں۔ وہ اُس سر گرمی کا خواہاں ہے۔ جومذہبی کا روبار کے دل میں آگ کی طرح جلتے رہتے ہیں۔ اور اُسے زندہ رکھتی ہے۔ عورت کا اثر بہت ہی پوشیدہ اور دُو راز کا ر معلوم ہوتا ہے۔ مگر خاص اسی وجہ سے وہ نہایت طاقت ور ہے۔ کیونکہ وہ انسانی زندگی کے دریاؤں کے منبع پر بیٹھی اُن کے بہاؤ کا رُخ قائم کرتی رہتی ہیں۔ جہاں ایک ذرا سی تبدیلی سے اس کی رَو کا رُخ سے کہیں سے کہیں بدل جاتاہے۔
ہر زمانہ میں یہ دستور رہا ہے۔ کہ جن لوگوں پر سزائے موت کا فتویٰ صادر ہوتاتھا۔ انہیں مرنے سےپہلے یہ اجازت دی جاتی تھی کہ لوگوں سے جو تماشا دیکھنے کو جمع ہوتے تھے۔ جوکچھ چاہیں کہیں۔ اور اس ملک میں بھی جب سزائے موت عام طور پرلوگوں کے سامنے دی جاتی تھی۔ مرتے دم کی سپیچ ساری کارروائی کا لوازمہ (ضروری چیز )سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اُن زمانوں میں بھی جب کلیسیاء پر ظلم و ستم روار کھا جاتاتھا۔ شہیدوں کو عموماً دار پر چڑھنے سے پہلے لوگوں کے سامنے تقریر کرنےکی اجازت دی جاتی تھی۔ اور اس قسم کی مرتے دم کی شہادتیں جن میں سے اکثر بہت ہی پُر زور اور موثر ہوتی تھیں اب تک مذہبی دُنیا میں محفوظ چلی آتی ہیں۔اس لئے یہ کوئی جائے تعجب نہیں کہ یسوع کو بھی اپنے تماشائیوں سے گفتگو کرنے کی اجازت دی گئی۔ یا کم سے کم اُسے اُس سے روکا نہیں گیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ اُس وقت نہایت ہی ضعیف و درماندہ(کمزور ۔مصیبت زدہ) ہو رہا تھا۔ لیکن جب صلیب کے بوجھ سے اُسے چُھٹکاراملا تو اُس کی کچھ جان میں جان آگئی اور وہ تقر یر کرنے کے قابل ہو گیا ۔ اس لمحے سٹرک پر ذر ٹھہر کراور پیچھے پھر کر وہ اُن عورتوں سے جن کے رونے چلانے کی آواز اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ یوں مخاطب ہوا۔
اُس کے الفاظ سے اوّل تو خود اُس کے مزاج کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔اُن سے ظاہر ہوتا ہے۔جیسا کہ ہم مصلوب ہونے کے زمانہ میں اور موقعوں پر بھی باربار اس کاثبوت پاتے ہیں۔ کہ وہ کس طرح قطعی طور پر دوسروں کے فکر و اندیشہ میں اپنے دُکھ اور تکلیف کو بالکل بھول جاتاتھا۔ اُس کے درد تکالیف پہلے ہی حدود کی تھیں۔ اُس کی رُوح بےانصافی اور لعنت ملامت سے سیر ہوچکی تھی۔اور عین اس وقت بھی اُس کی بوٹی بوٹی مارے درد کے کانپ رہی تھی۔ اور اُس کا ذہن آنے والی سخت دردوں کے خیال سے تاریک ہور ہا تھا۔ لیکن جب اُس نے اپنے پیچھے یروشلیم کی بیٹیوں کی آہوں کی صداسُنی اُس کی رُوح پررحمت کی ایک لہر پھر گئی۔ جس کے سبب لمحہ بھر کے لئے اُسے اپنے تمام دُکھ اور تکلیفیں فراموش ہو گئیں۔
ہم اُ س کے کلام میں حب الوطنی کی گہرائی اور جو ش بھی دریافت کرتے ہیں۔جب اُس نے عورتوں کے آنسو بہتے دیکھے۔ تو اس سے اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک اور سماں پھر گیا اور اُسے یاد آیا کہ کس طرح اُس شہر پر جس کی وہ لڑکیاں ہیں ایک سخت آفت و مصیبت کی تلوار جھوم رہی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یروشلیم نے کبھی بھی اُس کی قبولیت کے لئے اپنے بازو نہیں پھیلائے تھے۔ اُس نے اُس کے ساتھ ماؤں کا سا سلوک نہیں کیا تھا۔ مگر باوجود اس کے اب بھی اس کے دل میں اُس کی نسبت فرزند انہ محبت باقی تھی۔ اُس نے اس سے چند روز پہلے بھی اُس کا ثبوت دیا تھا۔ جب کہ عین فتح اور کامیابی کی گھڑی میں ہو کوہ زیتون کی ایک چوٹی پر جہاں سے سارا شہر بخوبی نظر آتا تھا۔ ٹھہر گیا اور زار زار روتے ہوئے وہ شیریں الفاظ زبان سے فرمائے جو شاید ہی کسی اور شہر کے حق میں سُنے گئے ہو نگے ۔ اس کے بعد جب وہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ ہیکل کے مقابل بیٹھا تھا۔ تو اُس نے ظاہر کیا کہ وہ اُس آفت سے جو اُس کے وطن کے صدر مقام پر آنے والی ہے کیسی اچھی طرح واقف ہے ۔ اور اُ س کو یاد کر کے اُس کے دل میں کیسی چوٹی لگتی ہے۔ شہر کی بربادی نزدیک تھی۔ اس بربادی میں پچاس سے بھی ٹھوڑے سال باقی تھے۔ اور یہ بربادی ایسی سخت تھی کہ جس کی نظیر (مثال) مشکل سے ملتی ہے۔ ایک اور یہودی مورخ اس بربادی کا ذکر کر تے ہوئے لکھتا ہے۔ دُنیا میں شاید ہی کوئی قوم ہوئی ہو گی ۔ اور شاید ہی آئندہ ہو گی جس کے مصائب کا یروشلیم کے اُن مصائب سے جو محاصرہ کے دنوں میں اُس پر واقع ہوئے۔ مقابلہ کرنا ممکن ہو۔ اسی مصیبت کو نبیانہ نگاہ سے دیکھ کر یسوع کے منہ سے یہ کلمات نکلے۔ اے یروشلیم کی بیٹیو! میرے لئے مت روؤ۔ بلکہ اپنے لئےاور اپنے بچو ں کے لئے روؤ۔
علاوہ بریں اُس کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے عورتوں اور بچوں کی کس قدر فکر تھی۔ عورتوں کے آنسوؤں سے یہ ظاہر ہوا کہ اُن کے دل میں اُس کی طرف سے محبت و ہمدردی کا مستحق بھی تھا۔ کیونکہ اُ س کے الفاظ سے معلوم ہو تا ہے۔ کہ کس طر ح وہ عورتوں کے مزاج سے واقف اور اُن کا ہمدرد تھا۔ اور ایسے کامل طور پر کہ اُس کی نظیر دُنیا میں نہیں ملتی قوتِ و اہمہ کے اور دل کی ہمدردی کی بنا پر اُس نے خوب تحقیق کر لیا کہ کس طرح آنے والے محاصرہ میں مصیبت کا سب سے بھاری بوجھ شہر کی مستورات (عورتوں )کے حصّہ میں آئے گا۔ اور کس طرح عورتیں اپنے بچوں کی تکالیف کے سبب دُکھ اُٹھائیں گی ۔ اُس ملک میں جہاں بچے عورت کا تاج اور بزرگی سمجھے جاتے تھے۔ بھوک اور درد کے مارے طبعی جذبات ایسے اُلٹ جائیں گے۔ کہ بانجھ ہو نا خوش قسمتی خیال کیا جائے گا۔ اور ایسے ملک میں جہاں عمر کی درازی اعلیٰ سے اعلیٰ برکت سمجھی جاتی تھیَ وہ اس بات کی آرزو مند ہو ں گی۔ کہ کاش ہمیں اچانک اور پیش از وقت موت آئے جائے۔
اور ایسا ہی فی الحقیقت واقع ہوا ۔ مورّخ (تاریخ دان )کے بیان کے موافق یروشلیم کے محاصر ے میں ایک بڑی بات یہ تھی ۔ کہ اُس میں عورتوں اور بچوں پر بڑی سخت مصیبتیں نازل ہوئیں۔ جنگ کے دوسرے وسائل کے علاوہ رومیوں نے اُن کو بھوکوں مارنا شروع کیا اور لوگوں کو بھوک کے مارے نہایت سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی ۔ لوگ اس سے آخر کار ایسے وحشی ہو گئے۔ کہ دوسروں کو کھانا کھاتے دیکھنا ۔ ایک مصیبت ہو گیا اور وہ عورتوں اور بچوں کےمنہ سے لقمے چھین چھین کر کھانے لگے ۔ اس امر کے متعلق یوسیفس کے کئی ایک قصّوں کے بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر وہ ایسے در د ناک اور دہشت انگیز ہیں کہ اُن کا بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں۔
یسوع کی زو د فہم ہمدرد ی نے یہ سب باتیں محسوس کیں۔ اور اُس کے رحم کا چشمہ اُن کے حق میں جن پر یہ سب کچھ وارد ہونے والا تھا۔ اُبل پڑا عورتیں اوربچے ! مگر صفحۂ تاریخ پر نظر کرو تومعلوم ہو گا۔ کہ اُن کی کیسی تحقیر و تذلیل ہو تی رہی۔ اور کیسی بے رحمی سے اُن کے ساتھ سلوک ہوتا رہا ہے مگر ہمیشہ نوع انسان کا سب سے بڑا حصّہ رہے ہیں۔اُسی کی حمد و تعریف ہو جس نے اُن کو اس ذلت اور بدسلوکی کے گڑھے سے اُٹھایا اور اُٹھا رہا ہے۔ اور جس نے اُن کے حق میں عدل و رحم کو کام میں لانے کی تعلیم دی ہے۔ پھران الفاظ میں جو اُس نے یروشلیم کی بیٹیوں سے کہے تو بہ و استغفارکی ترغیب و تحریص بھی پائی جاتی ہے۔ جب یسوع نے فرمایا کہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے رؤو ۔ تووہ صرف اُن آنے والی مصیبتوں ہی کا ذکر نہیں کر رہا تھا۔بلکہ اُن کی گنہگاری کا بھی۔ اور یہ بات خاص کر اُس کی تقریر کے باقی الفاظ سے زیادہ ترعیاں (ظاہر ) ہوتی ہے۔ کیونکہ جب ہرے درخت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ تو سوکھے کے ساتھ کیا نہ کیا جائے گا۔
وہ اپنے کو ’’ہر ا درخت ‘‘ کہہ سکتا تھا ۔ وہ نوجوان اور بے گناہ تھا۔ اور اس امر کی اُن عورتوں کے آنسو بھی شہادت دے رہے تھے۔ کوئی وجہ نہیں تھیَ کہ وہ اُس وقت مارا جائے مگر خُدا نے یہ سب کچھ اُ س پر واقع ہونے دیا ۔ یہودی قوم کو بھی ہر ے درخت کی مانند ہونا چاہیے تھا۔ خُدا نے اُسے لگا یا تھا۔ اور اُس کی رکھوالی کر تا رہا تھا۔ ہر ایک ضروری چیز اُس کے لئے مہیا کرتا تھا۔ لیکن جب وہ پھل ڈھونڈنے کے لئے آیا تو کچھ نہ پایا و ہ کملا رہا تھا۔ نیکی اور راستی کا رس اُس میں بالکل سوکھ گیا تھا۔ اب وہ بالکل خشک اور جلانے کے قابل تھا۔ اور جب دشمن آگ لگانے کو آئے گا ۔ تو خُدا کب اُس کو اس بات سے روکے گا؟ اس طور سے یسوع نے پھر ایک دفعہ انہیں توبہ پر آمادہ کرنے کوشش کی۔ اُس نے چاہا کہ یروشلیم کے دل میں گہری باتوں کا خیال پید ا ہو ۔انہوں نے اُس کے لئے آنسو تو بہائے تھے۔مگر وہ چاہتا تھا۔ کہ اس سے بڑھ کو وہ توبہ کے آنسو بھی بہائیں ۔کیونکہ مذہبی اُمور میں جب تک ضمیر تک اثر نہیں پہنچ جاتا تب تک کسی بہتری کی اُمید کرنا لا حاصل ہے۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ آیا اُن میں سے کسی کے دل پر اُس کے اس قول نے کچھ اثر پیدا کیا یا نہیں ۔ شاید اگر ہوا بھی ہو۔ تو چند ایک ہی پر ہوا ہو گا۔ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ توبہ کرنے سے یہودی سلطنت کی تباہی ضرور رُک جاتی ۔ بہر صورت حملہ کی آگ اُن خشک پتوں پر پڑی اور سب جل کر خاک سیاہ ہو گئے۔ اور اُس زمانہ سے لے کر وہ لوگ جو سزا کا پہاڑ کرنے سے پہلے اپنے گناہوں پر گر یہ زار ی کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج تک برابر روتے چلے آتے ہیں۔ جو لوگ آج کل یروشلیم کی سیر کو جاتے ہیں انہیں ایک مقام دکھا یا جا تا ہے۔ جو مقام گر یہ وبُکا کہلا تا ہے۔ جہاں ہر جمعہ کو اس قوم کے لوگ اپنے شہر اور ہیکل کی بربادی کےلئے گریہ وزاری کرنے کو آتے ہیں۔ اور یہ بات صدیوں سے چلی آئی ہے۔ اور یہ اُس حیرت کے پیالہ کا جو اُن کے لئے لبا لب بھر ا گیا محض ایک نشان ہے جس سے صدہا سال سے بنی اسرائیل کے ہونٹ آشنا (واقف) رہے ہیں۔
گناہ کے لئے رونا ضرور ی ہے ۔ جو سزا کے واقع ہونے سے پہلے نہیں روتا ۔ اُسے بعد میں رونا پڑتا ہے۔ جو اس دُنیا میں نہیں روتا ۔ وہ آئندہ جہان میں روئے گا۔ اور یہ سبق سب کے لئے ہے۔ اور کیا یسوع کے آخری الفاظ اُن لوگوں کو نسبت جن سے وہ کہے گئے تھے۔ زیادہ گہر ے معنی نہیں رکھتے کہ جب ہرے درخت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ تو سوُکھے کے ساتھ کیا نہ کیا جائے گا؟ اگر غم اور جانکنی سے خود ابنِ اللہ بھی نہ چُھوٹا ۔ جب وہ دُنیا کے گناہوں کو اُٹھا رہا تھا۔ تو اُن لوگوں کا حصّہ کیا ہو گا۔ جو خود اپنے ہی گناہ اُٹھا رہے ہیں۔
جو شخص خُداوند کی زندگی پر لکھنے بیٹھتا ہے ۔ وہ ضرور بہت جگہ قلم کو اپنے ہاتھ سے رکھ کر سوچنے لگتا ہے کہ ’’ یہ تو آسمانوں کے برابر بلند ہے میں کیا کر سکتا ہوں ؟پاتال سے زیادہ گہر ی ہے میں کیا جان سکتا ہوں؟ ‘‘ لیکن ہم اب ایسے نقطہ پر پہنچے ہیں۔ جہاں اس قسم کی ناقابلیت کا خیال بڑے زور کے ساتھ دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ آج ہم مسیح کو مصلوب ہوتے دیکھنے کو ہیں۔ مگر کون اس لائق ہے کہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے آنکھ اُٹھائے؟ کس میں طاقت ہے کہ اُس کا بیان کرے ؟ ایسا علم میرے لئے نہایت عجیب ہے ۔ یہ تو بلند ہے۔ میں اُس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس مضمون کے سامنے آدمی اپنے کو ایک چھوٹے سے کیڑے کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔ جو سمندر کی تہ میں پڑا ہو۔ اُس کا اُس بھید کے سمجھنے کا دعوی دار ہونا ایسا ہے۔ جیسا گھونگے کااپنی سیپی کے ذریعہ سے سمندر کو خالی کر دینے کی کوشش کرنا ۔ یہ مقا م جہاں ہم اب کھڑے ہیں۔ سب کا مرکز ہے۔ یہاں ازل و ابد کا ملاپ ہے قدیم تاریخ کے نالے یہیں آ کر مل جاتے ہیں۔ اور زمانہ ٔحال کی تاریخ کا دریا یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
بزرگوں اور نبیوں کی آنکھیں اسی کلوری کو ڈھونڈتی تھیں۔ اور اب تمام قوموں اور تمام نسلوں کی آنکھیں پیچھے پھر کر اُسی پر لگی ہوئی ہیں۔ یہی تما م سڑکوں کا انجام ہے۔ سچائی کا طالب جب علم کی تمام مملکتوں کو کھوج چکتا ہے۔ تو کلوری کےپاس آتا ہے۔ اور معلوم کرتا ہے۔ کہ آخر کا وہ مرکز پر پہنچ گیا ۔آدمی کا تھکا ہارا ادل جس نے محبت اور ہمدردی کی تلاش میں ساری دُنیا چھان ماری ۔ آخر کا ر یہیں پہنچ کر آرام پاتا ہے۔ خیال تو کرو کہ کس قدر بے شمار روحیں ہر ا توار کو گرجوں اور عبادت خانوں میں جمع ہو کر گلگتا کی یاد کرتی ہیں۔ اور بستر بیماری اور مرگ پر سے کس قدر بے شمار آنکھیں اُسی مقام کی طرف اُٹھتی ہیں۔ ’’ خُداوند ہم کس کے پاس جائیں؟ابدی زندگی کا کلام تو تیرے ہی پاس ہے‘‘ ۔
اس لئے اگر چہ یہ مضمون ہماری حیثیت سے بلند و بالا ہے۔ تو بھی ہم آگے بڑھنے کی جُرات کرتےہیں۔ وہ عقل ِانسانی سے کہیں اُونچا ہے۔ مگر اور کہیں عقل کو اس قدر علوم اور شرافت نصیب نہیں ہوتی جس قدر اس مضمون پر غور کرتے ہوئے ۔ کلوری پر شاعروں نے اپنے میٹھے سے میٹھےگیت گائے ہیں۔ مصوروں نے اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ رویا دیکھی ہیں۔ حکماء نے اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ تصور ات باندھے ہیں۔ گھونگا سمندر کی تہ میں پڑا رہتا ہے۔ اور ایک پانی کا عالم اُس کے اوپر سے گذرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے سیپوں میں اس شفاف لہرانے والی چیز کے کالے کووں کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ تو بھی سمندر کا پانی ہی اُس کی سیپی کو بھی بھرتا ہے ۔ اور اُس کے چھوٹے سے جسم کو کامل خوشی سے معمور کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگرچہ ہم بھی اُس نظارہ کے جس کے سامنے ہم کھڑے ہیں ۔تمام مطالب و معافی کو نہیں سمجھ سکتے ۔ تاہم اپنے ذہن اور عقل کو اُس سے لبالب بھر سکتے ہیں۔ اور جب اُس کے ذریعے ہمارے اندر الہٰی زندگی کی تحریکیں پیدا ہوتی ہیں۔تو ہم خوشی سے اقرار کرتے ہیں۔ کہ اُس کی چوڑائی اور لمبائی اُونچائی اور گہرائی ہماری فہم سے باہر ہے۔
وہ طویل سفر جو اُسے گلیو ں میں سے ہو کر قتل گاہ تک کرنا پڑا ۔ آخر کار اختتام کو پہنچا ۔ اور اُس کے ساتھ ہی اُس ایذا رسیدہ کےتکلیف دہ سفروں کا بھی خاتمہ ہوا۔ سپاہیوں نے اب آخری کام کی تیاریاں شروع کر دیں۔ لیکن اسی اثناء میں ایک چھوٹی سی بات وقوع میں آئی ۔جس سے مسیح کے چال چلن پر ایک اور روشنی پڑتی ہے۔
یروشلیم کی مالدار خواتین میں ایک رسم تھی کہ جن لوگوں پر صلیب کی خوفناک سز اکا فتویٰ صادر ہوتا تھا۔ وہ اُن کے لئے ایک قسم کی شراب جس میں کوئی منشی(نشہ آور ) چیزمثل پت یا مُر کے ملی ہوتی تھی مہیا کرتی تھیں۔ تا کہ اُن کے حواس مخبوظ(مدہوش ) ہو جانےسے وہ درد کو محسوس نہ کر سکیں۔ یہ ایک اچھی رسم تھی۔ جس سے اُن کی ہمدردی اور نیک دلی ظاہر ہوتی تھی۔ اور یہ پیالہ سب مجرموں کو بلا لحاظ اُن کےجرم کے دیا جاتا تھا ۔ یہ پیالہ عین اُس وقت جب کہ میخیں ٹھوکی جانے کو ہوتی تھیں پلایا جاتاتھا۔ جب وہ گلگتا پر پہنچا ۔ تو یسوع کو بھی یہ پیالہ دیا گیا ۔ وہ مارے تکان کے بےتاب ہو رہا تھا۔ اور پیاس کی شدت سے جل رہا تھا۔ وہ اس پیالہ کو لے کر بلا تامل منہ کی طرف لے گیا مگر جو نہی اُس نے اُس کا مزا چکھا اور بے ہوش کرنے والی دوائی کی بو سونگھی ۔ اُس نے اُسے نیچے رکھ دیا ۔اور پینے سے انکار کر دیا۔
یہ بات تو معمولی سی تھی۔ مگر اس میں بڑی دلیری پائی جاتی تھی ۔ اُسے اُس وقت ایسی سخت پیاس لگ رہی تھی۔ جب کہ آدمی جوکچھ ملتا ہے بے تحاشا چڑھا جاتاہے۔ اور وہ اب نہایت ایذا و تکلیف سے دو چار ہو رہا تھا۔ اُس کے بعد کے زمانوں میں اُس کے وفا دار شہید جب وہ قتل گاہ کی طرف جاتے تھے۔ خوشی سے اس قسم کی اشیاء کا استعمال کرلیتے تھے۔ مگر اُس نے نہ چاہا کہ مرتے وقت اُس کے ذہنی قویٰ(قوت کی جمع ) پر بادل چھا جائےاُس کی اطاعت و فرمانبرداری ابھی تکمیل کو نہیں پہنچی تھی۔ اُس کی تجاویز ابھی پورے طور پر سر انجام نہیں ہوئی تھیں ۔ وہ موت کا ذائقہ اچھی طرح چکھنا چاہتاتھا ۔ میں نے ایک عورت کا ذکر سُنا ہے جو ایک نہایت درد ناک مرض سے مرنے کو تھی۔ کہ جب اُس کے دُکھ اور تکلیف کو دیکھ کر اُس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’ نہیں میں ہوش میں مرنا چاہتی ہوں‘‘۔ میرے نزدیک اس عورت نے مسیح کے مزاج کو پالیا تھا۔
یہ موقع اس امر کی بحث کے لئے کہ آیا قدرت کی اُن پیداواروں کا جن سے نشہ یا بےہوشی پید ا ہوتی ہے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ کچھ بہت موزوں نہیں معلوم ہوتا ۔ اس خاصیت والی جڑیں یا رس ہمیشہ سے دُنیا کی مختلف قوموں کو خواہ وہ وحشی ہوں یا شائستہ معلوم ہیں۔ اور انسانی زندگی کے معاملات میں ان چیزوں کو بہت کچھ دخل رہا ہے۔ ان کی تاریخ نہایت عجیب و غریب ہے۔ جھوٹے مذاہب کی پُراسرار مجلسوں میں اُن کا استعمال ہوتا تھا۔ اور غیر اقوام کی نبوت اور جادو گری کے ساتھ بھی اُن کا بہت کچھ تعلق پایاجاتاہے۔ حواس کے ذریعہ سے وہ ذہن پر ایسا اثر کرتی ہیں کہ اُس عالم اسرار کے دروازہ کھل جاتے ہیں۔جن کی دہشت و ہیبت سے انسان معمولی حالت میں بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ طبیب بھی اُن کا بہت استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور زمانہ حال میں بھی افیون اور دیگر منشی اشیاء کی صورت میں ان کے سبب سے بہت سے سخت اخلاقی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ جن کا حل کرنا ضروریات سے سمجھا جاتا ہے۔
اس سوال پر کہ آیا اس قسم کی اشیاء کو تفر یح و تازگی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ۔ یا نہیں ۔ہم اس وقت بحث کرنا نہیں چاہتے ۔اس وقت صرف اس امر پر غور کریں گے۔ کہ آیا ہوش و آگاہی کو کم کرنے کے لئے اُن کا استعمال مناسب ہے یا نہیں۔ ہمارے ہی زمانہ میں ایک انگریز نے کلورا فارم کی خاصیت کو دریافت کر کے بنی انسان پر ایک نہایت ہی بڑا احسان کیا ہے۔ جب کہ اس طور پر بے ہوشی پیدا کر کے سر جن ایک عمل جراحی کو کر سکتا ہے۔ جو دوسری صورت میں ناممکن ہوتا ۔ یا جب بخار کی آخری نوبت پر خواب آور دوائی کے ذریعہ بیمار کے تھکے ہارے جسم کو بیماری کے مقابلہ کے لئے مدد مل جاتی ہے۔ اور اس طور اُس کی جان بچ جاتی ہے ۔توہم خُدا کا شکر کرتے ہیں۔ کہ آج کل کے علم وفن کو اس قسم کے مفید سامان حاصل ہو گئے ہیں۔
برخلاف اس کے ان فوائد کے ساتھ کئی ایک سخت نقصانات بھی ملے ہوئے ہیں۔ لاکھوں مرد و عورت ان اشیاء کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔تاکہ اپنی نسوں کی حس کو کمزورکر دیں۔ اور درد و غم کی حالت میں جو خُدا نے اس لئے بھیجے ہیں کہ ہوش و حواس بجا ہونے کی حالت میں دلیر ی کےساتھ اس کا مقابلہ کریں۔ جیسا کہ یسوع نےصلیب پرکیا ۔وہ اپنے دماغی قو اء (قوت )کو دھند لاکر دیتے ہیں۔ طبابت (ڈاکٹری ) پیشہ لوگوں پر اس امر کی ذمہ داری کا مدار ہے کہ وہ اُس سامان کوجو خُدا نے اُن کے ہاتھوں میں ایک اچھی غرض کے لئے رکھا ہے۔ زندگی کے اُن سنجیدہ اور درد ناک موقعوں کے ضائع کرنے میں استعمال نہ کریں ۔ یہ بات ایک ابدی سچائی ہے کہ درد و رنج رُوح کی تربیت کےلئے ہوتے ہیں۔لیکن ایسی حالتوں میں سے نشہ سے بدمست ہو کر گذر جانا ۔ روحانی و اخلاقی نشوونما کے نہایت عمدہ موقعوں کو کھو دینا ہے۔ مردو عورت دُکھ و تکلیف کےوسیلہ سے کامل کئے جاتے ہیں۔ لیکن دُکھ جب ہی اپنا کام کرے گا۔ جب اُسے محسوس کیاجائے۔ اس بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ خُدا کی ضربوں اور صدموں کو سہنے کےلئے آسانی ڈھونڈی جائے ۔ مثلاً خُدا ہمارے کسی عزیز کو اپنے پاس بلاُ لیتا ہے۔ تا کہ اس ذریعہ سے ہمارے گھر کو پاک کرے مگر ممکن ہے کہ خُدا کا یہ مقصد پورا نہ ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ گھر کے لوگ سخت مشغولیت کی حالت میں ہیں۔ یا اس لئے کہ بہت سے لوگ آجارہے ہیں۔ یا ز بانوں کے شورو غوغا سے جو اپنے نزدیک تسلی اور غم خواری کے کام میں مشغول ہیں۔ خُدا کے پیغامبر باہر نکا لے جاتےہیں۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے کہ طبیب اور دوست اقربا (رشتہ دار )ہر طرح سے کوشش کرتےہیں۔ کہ کس طرح غم ناک کا غم ہلکا ہو جائے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس بارہ میں حد سے بڑھ کرکامیابی حاصل کریں۔ اگرچہ یروشلیم کی خواتین کا یہ دستور بہت اچھا تھا۔ مگر اُن کے رحم دل ہاتھوں کا یہ تحفہ ہمارے خُداوند کوآزمائش کا پیالہ معلوم ہوا۔ اور اُس نے اُسے اپنے سے پرے ہٹا دیا۔
اب سب کچھ تیار تھا اور سپاہیوں نے اپنا خوفناک کام شروع کیا ۔میں نہیں چاہتا کہ صلیب کے تمام دُکھوں کو تفصیل وار بیان کر کے خواہ مخواہ اپنے ناظرین کے خیالات اور حسات کو صدمہ پہنچا ؤں ۔ اگرمیں چاہتا بھی۔ تو ایسا کرنا بالکل آسان ہوتا ۔ کیونکہ صلیبی موت ایک نہایت ہی خوفناک قسم کی موت تھی۔ رومی حکیم (سیرو) جو اس سے خوب واقف تھا۔ لکھتا ہے کہ ’’ یہ سب سزاؤں سے زیادہ بے رحمانہ اور شرمناک سزا تھی‘‘ ۔ وہ پھر لکھتا ہے کہ ’’ یہ سزاایک رُومی کے جسم پر کبھی نہ دی جائے۔نہیں بلکہ اُس کے خیالوں یا آنکھوں یا کانوں کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائے‘‘۔ یہ سزا صرف غلاموں یا باغیوں کو دی جاتی تھی۔ جس سے یہ مقصود ہوتا تھا۔ کہ اُن کی موت لوگوں کے لئے خاص کر عبرت کا باعث ہو۔
صلیب کی غالباً وہی شکل تھی۔جوعموماً بنائی جاتی ہے۔ ایک سیدھی لکڑی جس کی چوٹی کے قریب ایک اور لکڑی اُس پر آڑی لگی ہوتی ہے۔ اس کے سوا دو اور شکلیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک تو انگریزی حرف T کی مانند اور دوسری حرف X کی مانند ۔ مگر چونکہ لکھا ہے۔ کہ یسوع کا جرمنامہ اُس کے سر کے اُوپر لگا تھا۔ اس لئے ضرور ہے کہ اُس کے سر کے اُوپر لکڑی کچھ اُبھری ہوئی ہو۔ ہاتھ غالباً دونوں جانب لکڑی سے باندھے گئے ہوں گے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مارے بوجھ کے ہاتھ کے زخم بالکل چر جاتے۔ اسی غرض سے کھڑے ہوئے کھنبے کےنیچے کی طرف بھی لکڑی کا ایک ٹکڑا جسم کو سہارا دینے کے لئے لگا ہو گا۔ پاؤں یا تو اکٹھا میخوں کے ساتھ اس لکڑی پر جڑےگئے تھے۔ یا علیحدہ علیحدہ ۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا جسم صلیب کی لکڑی کے کھڑے کئے جانے اور زمین میں گاڑے جانے سے پہلے اُس پر جڑا گیا تھا۔ یا پیچھے ۔ سر لکڑی سے بندھا ہوا نہ تھا۔ اور اس لئے لٹکنے والا اُن لوگوں کو جو صلیب کے آس پاس کھڑے تھے دیکھ سکتا اور اُن سے بات چیت کر سکتا تھا۔
آج کل جہاں تک ممکن ہو موت کی دردوں کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ انتظام کیا جاتا ہے۔ کہ موت فی الفور واقع ہو ۔ اور اگر کسی وجہ سے جان کنی کی تکلیف زیادہ دیر تک رہے تو اس سے لوگ بہت ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن صلیب کی موت میں سب سے خوفناک بات یہ تھی۔ کہ جان بوجھ کر اس جان کنی کی حالت کو طول دیا جاتا تھا۔ آدمی عموماً دن بھر جیتا لٹکا رہتا تھا۔ اور بعض وقت دو تین تین دن تک اُس کے ہوش و حواس بجا رہتے تھے۔ اور اس اثنا میں ہاتھوں اورپاؤں کے زخموں کی جلن لٹکتے جسم کی بے چینی و بےقراری نسوں کا پھول جانا ۔ اور سب سے بڑھ کر ناقابل ِبرداشت پیا س کی شدت دم بدم بڑھتی جاتی تھی۔ یسوع نے بہت دیر تک تکلیف نہ اُٹھائی ۔تاہم چار پانچ گھنٹہ لٹکے رہ کر جان دی۔
مگر اب میں اس درد ناک اور ہیبت ناک نظارہ کے متعلق اور تفصیلیں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس حد تک یہ تمام تکلیفیں اُس کی ایذا کے پیالہ کا ضروری حصّہ تھیں کیا یہ امر غیر لازمی تھا۔ کہ وہ کس موت سے مرے؟ کیا اگر وہ پھانسی دیا جاتا یا اس کا سر قلم کیا جاتا تو یہ بھی ایسا ہی کام دے جاتا ۔ ہم اس بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ فقط اُس وقت جب ہم کو یہ راز معلوم ہو کہ اُس کی رُوح کو کیا تکلیف ہوئی ۔ اُس وقت ہم کہہ سکیں گے۔ کہ اُس کی جسمانی موت کے لئے ایسی شرمناک اور درد انگیز قسم کی موت کہاں تک مناسبت رکھتی تھی۔
مگر مسیح کی حقیقی تکالیف جسمانی نہیں بلکہ باطنی تھیں۔ اُس کی صورت پر نظر کرنے سے ہمیں کسی اور غم کا سایہ نظر آتا ہے۔جو ظاہر ی جلتے ہوئے زخموں اور نہ بجھنے والی پیاس اور تڑ پتے ہوئے جسم سے کہیں گہرا تھا۔ یہ اُس رد شد ہ محبت کا رنج تھا۔یہ اُس دل کی نااُمیدی تھی ۔ جومحبت و رفاقت کی تلاش میں تھا۔ مگر اُس کے عوض اُسے تحقیر و نفرت سے سابقہ پڑتا تھا۔ یہ اُن بدیوں اور بے عزتیوں کا رنج و غم تھا۔ ہاں یہ وہ ناقاِبل بیان رنج تھا۔جو وہ اُن لوگوں کے لئے کھینچ رہا تھا۔ جنہیں وہ بچانا چاہتاتھا۔ مگر وہ نہیں مانتے تھے۔ مگر یہی سب سے گہر ا سایہ نہیں تھا۔ اُس وقت نجات دہندہ کے دل میں ایک ایسا گہر ا رنج وغم تھا۔ جس کے بیان کر نے کے لئے انسانی زبان میں لفظ نہیں تھا۔ وہ عالم کے گناہوں کے لئے جان دے رہا تھا۔ اُس نے بنی آدم کا گناہ اپنے اُوپر اُٹھا لیا تھا۔ اور اب وہ اُس آخری جدوجہد میں مشغول تھا ۔ تا کہ اُسے دور کر کے نابود کر دے۔ اُس وقت صلیب پر صرف انسان یسوع مسیح کا جسم و خون ہی نہیں لٹک رہا تھا۔ بلکہ اُس کا جسم خفی بھی ۔ یعنی وہ جسم جس کا وہ خود سرسے اور اُس کے لوگ اُس کے اعضاء ہیں۔ اُس جسم میں بھی میخیں گاڑی گئی تھیں۔ اور اُس پر بھی موت نے اپنا انتقام لیا۔ اُس کے لوگ بھی اُس کے ساتھ جسم کی نسبت مر گئے۔ تا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں۔
یہ ایک راز ہے۔ مگر یہی بات اُس نظارہ کی عظمت بھی ظاہر کرتی ہے جب تک کہ وہ اُس پر نہیں لٹکا تھا۔ صلیب غلامی اور شرارت کا نشان سمجھی جاتی تھی۔ مگر اُس نے اُسے بہادری ۔ خود انکار ی اور نجات کے نشان میں بدلہ ڈالا۔ یہ محض لکڑی کی خون آلودہ بلیوں کا ایک ڈھانچہ تھا۔ جسے چھوُنا بھی شرم کی بات سمجھی جاتی تھی۔ مگر اُس وقت سے ایک دُنیا اُس پر فخر کرتی رہی ہے۔ وہ ہر طرح کی خوب صورتی کے ساتھ ہر بیش قیمت چیز پر کھودی جاتی ہے۔ وہ قوموں کے جھنڈوں پر نظر آتی ہے۔ اور بادشاہوں کے تاجوں اور عصائے سلطنت پر منقش دیکھی جاتی ہے۔ جو صلیب گلگتا پر نصب کی گئی تھی۔ وہ تو ایک معمولی خشک لکڑی تھی۔ مگر دیکھو وہ عصائے ہارون کی طرح پھوٹ نکلی ہے۔ اُس نے اپنی جڑیں دُنیا کے دل کے اندر گہر جمادی ہیں۔ اور اپنی ٹہنیاں اُوپر آسمان کی طرف پھیلا دی ہیں۔ یہاں تک کہ آج سارے تختہ زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور قومیں اُس کے سایہ میں آرام کرتی اور اُس کے پُر مزہ میودں کو کھاتی ہیں۔
آخر کار یہ خوفناک تیاریا ں ختم ہو گئیں۔ اور نجات دہندہ کو یہودیوں کی نفرت بھری آنکھوں کے سامنے جو شکاری کُتوں کی طرح اُس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ بلند کر دیا گیا ۔لیکن جب کاہنوں ۔ فریسیوں اور عوام الناس نے اپنی کامیابی سے بھری ہوئی نظروں کے ساتھ اُس پر نظر کی ۔ تو اُن کے دل سرنگوں (جھک )ہو گئے۔ کیونکہ اُس مظلوم کے عین سر پر اُن کو کچھ نظر آیا ۔ جس سے اُن کے دل پاش پاش ہو گئے۔
آلہ قتل کے ساتھ مجرم کے جرائم کا حال لکھ کر چسپاں کرنےکا اکثر ملکوں میں آ ج کل بھی رواج پایا جاتا ہے۔ پادری گلمور صاحب کی سوانح عمری میں جو عرصہ تک منگولیا میں مشنری رہے تھے۔ چین میں کسی مجرم کو سزا ئے قتل دیئے جانے کا ذکر درج ہے۔وہ لکھتے ہیں۔ کہ اُس گاڑی پر جس میں اُس کو قتل گاہ کی طرف لے گئے ایک تختی لگی تھی۔ جس پر اُس کی ساری بداعمالیوں کا ذکر درج تھا۔ رومیوں میں یہ رسم تھی۔ اور عموماً ایک افسر آگے آگے جا یا کرتا تھا اور مجرم کے جرائم کا اعلان کرتا جاتا تھا۔ اناجیل میں اس قسم کے کسی افسر کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ اور نہ وہ کتبہ بھی پیشتر اس کے کہ صلیب پر نصب کیا ہوا دکھائی دیا کسی نے دیکھا تھا۔ یہ صلیب کی سیدھی لکڑی کی چوٹی پر لگا تھا۔ اور پیلاطس نے اس طورسے یہودیوں سے اُس سارے دُکھ و رنج کا انتقام لیا تھا۔ جواُن کےہاتھوں سے اُسے پہنچا تھا۔ وہ غصہ کی حالت میں ان سے جُدا ہوا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اُسے خوب ذلیل کیا تھا۔ مگر اُس نے اُن کے پیچھے پیچھے ایک ایسی چیز بھیجی۔جس نے اس کامیابی کے گھڑی میں بھی اُن کے خوشی کے پیالے میں زہر کے قطروں کا کام دیا ۔جب کہ وہ اُس کی کرسی عدالت کے سامنے کھڑے تھے۔ تواُس کی آخری چوٹ جواُس نے اُن پر کی یہ تھی۔ کہ اُس نے دکھاوئے کے طور پر یہ ظاہر کیا کہ وہ در حقیقت یسوع کواُن کا بادشاہ سمجھتا ہے۔ اسی ضرب کو اب اُس نے اور بھی زور سے لگایا اور کتبہ پر یہ الفاظ لکھ دیئے ۔ یہ یسوع یہودیوں کا بادشاہ ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ جتانا مقصود ہے کہ ’’ جویہودیوں کا بادشاہ ہو اُس کا یہ حال ہو گا۔ رُومی اُس کے ساتھ یہ سلوک کریں گے۔ اس قوم کا بادشاہ ایک غلام اورمصلوب مجرم ہے۔ اور جب کہ بادشاہ کا یہ حال ہے تو جس قوم کا وہ بادشاہ ہے اُس کا کیا حال ہو گا ‘‘؟
یہ دیکھ کر یہودیوں کو ایسا غصّہ آیا کہ انہوں نے فی الفور گورنر کے پاس کچھ لوگوں کو بھیج کر اُس کی منت کی کہ ان الفاظ کو بدل دے ۔
بلا شبہ وہ انہیں دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا ہو گا۔ کیونکہ اُن کے آنے سے اُس پر ثابت ہو گیا ۔ کہ اُس کے الفاظ نے کیسا گہر ا زخم لگا یا ہے۔مگر اُن کی عرض کو سُن کراُس نے فقط ہنس دیا ۔ اوربڑی تمکنت اور اقتدار کےلہجہ میں جورومی حاکموں ہی کا حصّہ تھا۔ یہ کہہ کر اُنہیں ہنکا دیا کہ ’’جوکچھ میں لکھ چکا سو لکھ چکا ‘‘۔
اس وقت تو اُس کا یہ رویہ آزادی اور خصلت (عادت )کی مضبوطی کا اظہار معلوم ہوتا تھا۔ مگردراصل یہ اُس کی کمزوری کے چھپانے کے لئے بطور ایک پردہ کے تھا۔ اُس نے کتبہ کی بابت تو اپنی مرضی کو پورا کر لیا جو ایک ادنیٰ سی بات تھی۔ مگر وہ اُس کے ہاتھوں صلیب کا حکم لکھوانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ وہ انہیں چڑانے یا کھجانے میں تو مضبوط تھا مگر اُس میں اتنی ہمت نہ تھی۔ کہ اُن کی مرضی کو رد کر سکتا ۔
لیکن اگر چہ پیلاطس کے ذہن میں یہ کتبہ محض ایک تمسخر تھا ۔جو اُس نے یہودیوں سے انتقام لینے کے لئے لکھا تھا۔ مگر اس سے بھی الہٰی منشا (خُدا کی مرضی )پورا ہو رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں نے جو کچھ لکھ دیا سولکھ دیا۔ لیکن اگر وہ اصل حقیقت سے واقف ہوتا تو وہ یوں کہتا کہ ’’ جو کچھ میں نے لکھا ہے سو خُدا نے لکھا ہے‘‘۔ بعض اوقات میں اور بعض مقامات میں ساری ہوا الہٰی حضوری کی کہُربائی قوت سے ایسی بھر جاتی ہے ۔ کہ وہاں کی ہرایک چیز مصدر و موردالہام ووحی ٹھہر جا تی ہے۔ اور یہ بات اس صلیب کے موقع پر بوجہ اولیٰ صادق (سچی )آتی ہے ۔ پیلاطس پہلے ہی انجانے نبیوں کی سی باتیں کر چکا تھا۔ جب اُس نے یسوع کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔ کہ ’’ اس آدمی کو دیکھو ‘‘ ۔ اور یہ ایسے الفاظ تھے۔ جو برابر صدیوں میں گونجتے چلے آئے ہیں۔اوراب زبانی نبوت کرنے کے علاوہ اُس نے گویا تحریری نبوت بھی کی۔ کیونکہ کوئی بالائی قدر ت و طاقت اُس کے قلم سے یہ الفاظ لکھوا رہی تھی۔ کہ ’’ یہ یسوع یہودیوں کا بادشاہ ہے‘‘۔
یہ امر اس کتبہ کو اور بھی پُر معنی بنا دیتا ہے ۔ کہ یہ تین زبانوں یعنی عبرانی ۔یونانی اور لاطینی میں لکھاتھا۔ پیلاطس کے ایسا کرنے سے یہ غرض تھی ۔ کہ اپنے طنزیہ الفاظ میں زور پیدا کر دے۔ اُس کی یہ خواہش تھی۔ کہ تمام اجنبی لوگ جو اُس وقت یروشلیم میں عید کے موقع پر آئے تھے۔ اُس کتبہ کو پڑھ سکیں ۔کیونکہ اُن میں سے سب کے سب جو پڑھنے کے قابل تھے۔ ان تینوں زبانوں میں سے ایک نہ ایک سے ضرور واقف ہو ں گے۔ مگر تقدیر کا منشا اس بات سے کا منشا کچھ اور ہی تھا۔ قدیمی دُنیا کی یہی تین بڑی زبانیں تھیں ۔ جنہیں گویا ساری زبانوں کا قائم مقام سمجھنا چاہیے ۔ عبرانی وحی و مذہب کی زبان ہے۔ یونانی تہذیب و شائستگی کی۔ لا طینی قانون اور حکومت کی۔ اور مسیح کو ان تینوں زبانوں میں بادشاہ مشہور کیا گیا ۔ اُس کے سر پر بہت سے تاج ہیں۔ وہ دین و مذہب کا بادشاہ ہے کیونکہ وہ نجات ۔ تقدس اور محبت کا شاہزادہ ہے۔ وہ تہذیب وشائستگی کا بھی بادشاہ ہے۔ اور فنون شریفہ ۔ موسیقی ۔ علم ادب و فلسفہ کے خزانے سب اُسی کی ملکیت ہیں۔ اور سب ایک نہ ایک دن اُسی کے قدموں پر رکھے جائیں گے۔ وہ سیاستی دُنیا کا بھی حاکم ہے۔ کیونکہ وہ بادشاہوں کابادشاہ اور خُداوند وں کا خُداوند ہے۔ اور بدنی تعلقات ۔ تجارت و حرفت غرضیکہ انسان کے تمام کارو بار پر حکمران ہے۔ہم نے الحقیقت اس وقت سب چیزوں کواُس کی تحت میں نہیں دیکھتے ۔ مگر ہم روز بروز دیکھتے رہتے ہیں۔ کہ وہ رفتہ رفتہ اُس کے پاؤں کے نیچے آتی چلی جاتی ہیں۔ یسوع کا نام ہر جگہ صفحہ زمین پر پھیلتا جاتا ہے۔ہزاروں آدمی اُس نام کو لینا سیکھتے جاتےہیں۔ لاکھوں اُس نام کے لئے جان دینے کو تیار ہیں۔ اور یہی پیلاطس کی انجانی نبوت ہے۔ جوبرابر پوری ہوتی چلی جاتی ہے۔
گذشتہ با ب میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ابن ِ آدم کو اس لعنتی درخت کے ساتھ میخوں سے جڑ دیا گیا ۔ یہاں وہ گھنٹوں تک اس بے چارگی اور در ماندگی(لاچاری ۔تکلیف ) کی حالت میں سب کی نظروں کے سامنے برابر لٹکا رہا۔ وہ سارے وقت برابر ہوش میں تھا۔ اور آخری دم تک برابر اُن لوگوں کی صورتوں کو جو وہاں جمع تھے۔ دیکھ سکتا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی جب لوگ عام طور پر پھانسی پر چڑھائے جاتے تھے۔ اس تماشے کو دیکھنے کے لئے بہت سےلوگ جمع ہوتے تھے۔ اس وقت یروشلیم میں بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔ جب یسوع صلیب دیا گیا تو وہ عیدِ فسح کا موقع تھا۔ اور شہر میں بے شمار لوگوں کا جو دور دراز مقامات سے آئے ہوئے تھے۔ بڑ ا مجمع تھا ۔ عوام الناس کے لئے اس قسم کے موقع بہت غنیمت ہوا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یسوع کے مُقدمہ نے نہ صرف دارا لسطنت بلکہ سارے ملک کو ہلا دیا تھا۔
جو گروہ اُس وقت اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئی تھی ۔ اب ہم جانتے ہیں۔ اتنی بڑی شاید اسی قسم کے موقع پر دُنیا بھر میں کبھی اکٹھی نہ ہوئی ہو گی ۔ فرشتے اور مقرب فرشتے اس میں محو ہو رہے تھے۔ کروڑ ہا مردو عورت اس وقت بلکہ ہر روز اُس پر نظر کر رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے دل پر جنہوں نے اُس روز اُسے ملا حظہ کیا کیا تاثیر ہوئی تھی؟اس امر کو معلوم کرنے کے لئے آؤ ہم تین مختلف جماعتوں پر جو صلیب کے قریب کھڑی تھیں ۔ نظر کریں ۔ جس کے خیالات میں اُن کے ارد گرد کے بہت سے لوگ شریک تھے۔
پہلے اُس جماعت پر نظرکرو۔ جو صلیب کے بہت ہی قریب کھڑی ہے یہ رومی سپاہی ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ رومی فوج میں یہ قاعدہ تھا کہ جب سپاہی کسی کو سزائے موت دیتے تھے۔ تو مجرم کے کپڑے اور مملوکات(مجرم کی چیزیں) ان سپاہیوں کے حصّہ میں آتے تھے۔ اگر چہ وہاں بہت سے سپاہی موجو دتھے۔ مگر کھنبوں کا کھڑا کرنا ۔ ہتھوڑے اور میخوں کا استعمال ۔ صلیب کو کھڑا کرنا وغیرہ صرف چار آدمیوں کے ہاتھ سے سرانجام ہوا ہو گا۔ اس لئے اُس کے اسباب کے صرف یہی چار سپاہی حق دار تھے۔ اور اب وہ فی الفور اپنے مال غنیمت کو تقسیم کرنے کی فکر میں لگے ۔ کیونکہ صلیب دئیے جانے کے وقت مجرم کے سب کپڑے اُتار لئے جاتے تھے۔ جو ایک بڑی شرمناک بات تھی۔ ایک لمبا چوڑا جُبہ جو سب سے اُوپر پہنا جاتا تھا۔ شاید ایک عمامہ ایک کمر بند اور نعلین (جوتے ) کا ایک جوڑا ۔اور نیز ایک کُرتہ جیسا کہ عموماً گلیل کے دہقان(مزدور ) پہنتے تھے۔ جو کاٹ کر سیا ہوا نہیں۔ بلکہ سراسر ایک ٹکڑا ہوتا تھا۔ اور اُس کی ماں نے اپنی محبت بھری انگلیوں سے اُس کے لئے بنا ہو گا۔ یہ
________________________________________
1۔چونکہ بالکل برہنہ کرنا یہودیوں کے نزدیک قابل اعتراض تھا۔ اس لئے اور شیم صاحب اس امر پر بحث کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہ کوئی نہ کوئی کپڑا افسر و ر خُداوند کے جسم پر چھوڑا گیا ہو گا۔ اگرچہ وہ بھی اس اُمر کو کامل طور پر پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا سکے۔
سب کپڑے سپاہیوں کے حصّہ میں آئے ہوں گے۔ یہی یسوع کی ساری جائیداد تھی۔ جو اُس نے پیچھے چھوڑی ۔ اور یہ چار سپاہی گویا اُس کے وارث تھے۔ لیکن یہ وہ شخص تھا۔ جس نے ایسا بڑا ورثہ اپنی وصیت میں چھوڑا ۔ جس کے برابر آج تک کسی آدمی نے چھوڑا ہو گا۔ ہاں ایسا ورثہ جو گویا سارے عالم پر حاوی تھا۔ البتہ یہ ایک روحانی وراثت تھی۔ یعنی حکمت ۔ تاثیر اور عمدہ نمونہ کی وراثت۔
سپاہی اپنے خوفناک کام سے فارغ ہو کر صلیب کے نیچے مال غنیمت تقسیم کرنے کو بیٹھ گئے۔ اس سے نہ صرف انہیں کچھ ہاتھ لگا بلکہ مفت میں ایک قسم کا شغل بھی مل گیا ۔ کیونکہ دوسری اشیاء کو جس طرح ہو سکا تقسیم بھی مل گیا۔ کیونکہ دوسری اشیاء کو جس طرح ہو سکا تقسیم کر کے اب انہوں نے قمیص پر جسے وہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کر سکتے تھے۔ چٹھیاں ڈالنی شروع کیں۔ اُن میں سے ایک نے اپنی جیب میں سے پانسہ کا ایک دانہ نکالا۔ کیونکہ جو اکھیلنا رومی سپاہیوں کا عام مشغلہ تھا۔ اور اس طور سے انہوں نے اس مشکل کو حل کیا۔ دیکھو ۔ وہ کیسے ہنسی ٹھٹھا کرتے اور قہقے لگا رہے ہیں۔ اور اُن کے پاس ہی مشکل سے ایک گز کے فاصلے پر وہ صورت اُن کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اور کیسی صورت !ابن ِاللہ دُنیا کے گناہوں کا کفارہ دے رہا ہے۔ اور جب کہ فرشتے اور مقد س ارواح آسمانی شہر کی دیواروں پر سے اس نظارہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اُس کے پا ک جسم سے صر ف ایک گز کے فاصلہ پر سپاہی بے پروائی کے ساتھ اُس کے ناچیز کپڑوں کے ٹکڑوں پر جو اکھیل رہے ہیں۔ ان لوگوں کو حالانکہ اُس سے اس قدر قریب تھے۔اس عظیم الشان ڈراما کا فقط اسی قدر رُخ نظر آیا ۔ کیونکہ گہر ا اثر کرنے کے لئے جس قدر ایک بڑے عظیم نظارہ کی ضرورت ہے۔ اُسی قدر دیکھنے والی آنکھ کا ہونا بھی ضرور ہے۔ ایسے لوگ ہیں۔ جن کی نظر میں یہ زمین نہایت مقدس ہے۔ صرف اس لئے کہ یسوع نے اپنے قوموں سے اُسے چھُوا ۔ آسمان بھی مُقدس ہے۔ کیونکہ یہ اُس پر شامیانہ کئے تھا ۔ تاریخ مقدس ہے کیونکہ اُس کا نام اُس کے صفحوں پر ثبت تھا۔ زندگی کے روز مرہ کے تمام کارو بار مقدس ہیں۔ کیونکہ یہ سب اُس کے نام سے کئے جاتے ہیں۔ مگر کیا خود مسیحی ممالک میں بھی ایسے اشخاص نہیں پائے جاتے جو اس طور سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ گویا اُن کے نزدیک مسیح کبھی اس دُنیا میں نہیں آیا ۔ اور جن کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ اس امر سے کہ یسوع اس دُنیا میں جس میں ہم بودو باش رکھتے ہیں۔ آکر رہا ہمارے لئے کیا کچھ فرق واقع ہو گیا ہے؟
اب دوسری جماعت پر نظر کرو ۔ جو مذکورہ بالا جماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ اور جس میں صدر مجلس کے ممبر شریک ہیں۔
اپنی عدالت میں اُس پر فتوی لگا کر وہ اُسے گورنر کی عدالت میں لے گئے ۔ اور اُس کی تحقیقات کے ہر درجہ پر اُس کے ہمراہ رہے۔ اور آخر کار پیلاطس سے اُس کے قتل کا فتویٰ لینے میں کامیاب ہوئے۔جب آخر کار وہ جلادوں کے حوالہ کیا گیا ۔ تو یہ خیال ہو سکتا تھا۔ کہ اب وہ اس تمام لمبی چوڑی کارروائی عدالت سے ماندہ ہو کر خوشی خوشی اپنے گھر کا راستہ لیں گے۔ مگر اُن کا جوش و غضب اب بھی بھڑک رہا تھا۔ اور اُن کے انتقام کی پیاس ایسی سخت تھی۔ کہ وہ سپاہیوں کو اپنا کام کرنے کے لئے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ بلکہ اپنی عزت و مرتبہ کو بھول کر و ہ عوام الناس کے ہمراہ قتل گاہ میں جا موجود ہوئے۔ اور مظلوم کے درد و دُکھ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے رہے ۔ جب وہ اوُپر صلیب پر بلند کر دیا گیاتھا۔ تب بھی اُن کی زبانوں کو آرام نہ آیا۔ اور مرتے دم تک اُسے تنہا نہ چھوڑا ۔ بلکہ انسانیت اور مناسبت سب کچھ بالائے طاق رکھ کر انہوں نے منہ بنانا اور آوازے کنا شروع کیا۔ عوام الناس نے بھی طبعی طور پر اُن کی نقل کرنی شروع کی۔ یہاں تک کہ نہ صرف سپاہی بلکہ چور بھی جو اُس کے ساتھ صلیب پر لٹکے ہوئے تھے۔ اس میں شریک ہو گئے۔ اس لئے اُس کی آنکھوں کے سامنے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ گویا یہ ساری جماعت لعنت ملامت کا سمندر ہے جس کی غضب ناک لہریں صلیب کے ساتھ ٹکرا رہی تھیں۔
وہ اب سب بڑے بڑے نام جو اُس نے اپنی طرف منسوب کئے تھے۔ یا جن سے لوگ اُسے پکارتے تھے اُسے یاد دلاتے تھے۔ اور اُس کی موجودہ حالت سے اُس کا مقابلہ کرتے تھے۔ ’’خُدا کا بیٹا ‘‘ ۔ ’’خُدا کا برگزیدہ ‘‘ ’’ اسرائیل کا بادشاہ ‘‘ ۔ ’’مسیح ‘‘ ۔ ’’یہودیوں کا بادشاہ ‘‘۔ ’’تو جو ہیکل کو ڈھانے اور تین دن میں بنانے والا ہے ‘‘۔ ان ناموں سے پکار پکار کروہ اُس کا مضحکہ اُڑاتے تھے۔ وہ اُسے للکارتے تھے۔ کہ اب صلیب پر سے اُترا ٓ تو ہم تجھ پر ایمان لائیں گے۔ اس بات کو وہ بار بار دُہراتے تھے۔ کہ اُس نے دوسروں کو بچا یا مگر اپنے کو نہیں بچا سکتا ۔ وہ ہمیشہ سے یہ کہتے تھے کہ وہ شیطان کی قدرت سے اپنے معجزے کرتا تھا۔ مگر ان بدروحوں سے کسی قسم کا تعلق رکھنا نہایت خوفناک بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے کسی کو اپنی قوت مستعار(ادھار)دیں۔ لیکن آخر وہ اُس سے اپنی منہ مانگی قیمت طلب کرتے ہیں۔ اور نازک وقت میں وہ اپنے پیرؤں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ اور اُن کے نزدیک یسوع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ اب آخر ی دم اُ س کا جادو کا عصا ٹوٹ گیا ۔ اور اُس کی ساری جادو گری کی طاقت زائل(ختم ) ہو گئی۔
جب وہ اس طرح سے اپنے دل کا زہر اُگل رہے تھے۔ جومدت سے اُن کے دلوں میں جمع ہو رہا تھا۔ تو اُن کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ وہ درحقیقت وہی الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ جو زبور ۲۲ میں کسی مظلوم کے مخالف اُس کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ’’ اُس نے خد ا پر بھروسہ کیا ۔ وہ اب اُسے چھُڑائے ۔اگروہ اُسے پسند کرتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا تھا۔ کہ میں خُدا کا بیٹاہوں ۔ سرد مزاج مورخوں(تاریخ دان ) نےاس امر میں شک ظاہر کیا ہے کہ آیا ممکن تھا کہ وہ اس قسم کے الفاظ کہتے اور اُن کا مطلب نہیں سمجھتے ۔لیکن عجیب بات یہ ہے ۔ کہ زمانہ حال ہی میں ایک بات واقع ہوئی ہے۔ جوبالکل اُسی کے مطابق ہے جب سو ئٹر ر لینڈ کے مصلحینِ دین (دین کی اصلاح کرنے والے ) میں سے ایک شخص پوپ کی عدالت کے سامنے جواب دہی کر رہا تھا۔ تو صدرِ عدالت نے ٹھیک انہیں الفاظ میں جو قائفا نے صدر مجلس کے ممبروں کو کہے تھے۔ اُسے ٹوکا ۔’’ اُس نے کفر بکا ۔ ہمیں اور گواہوں کی کیا ضرورت ہے تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘۔ اور اُن سب نے جواب دیا کہ ’’ وہ قتل کے لائق ہے ‘‘۔ اور جب تک خود اُس شخص نے اُسے یا د دلا یا اُن کو ہر گز معلوم نہ ہو ا کہ وہ انجیل کے فقرات کو نقل کر رہے ہیں۔
یسوع اگر چاہتا تو اپنے دشمنوں کی ان باتوں کا جواب دے سکتا تھا۔ کیونکہ صلیب پر لٹکنے والے کے لئے نہ صرف سُننا اور دیکھنا بلکہ گفتگو کر نا بھی ممکن تھا۔ مگر وہ ایک لفظ بھی نہ بولا ۔ وہ گالی کھا کر گالی نہ دیتا تھا۔ جیسے بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے آگے بے زبان ہے۔ اُسی طرح اس نے اپنا منہ نہ کھولا ۔ مگر اُس کی یہ وجہ نہ تھی۔ کہ وہ ان باتوں کو محسوس نہ کرتاتھا۔ اُن میخوں کی نسبت جو اُس کے جسم میں گڑی ہوئی تھیں۔ یہ عداوت کے تیر زیادہ تیزی کے ساتھ اُس کے دل میں چبھتے تھے۔ دل ِ انسان نے اپنی نہایت کمینہ اور تاریک گہرائیاں اُس کی آنکھوں کے عین سامنے کھول کر رکھ دیں۔ اور اُس کی تمام گندگی اُس پر پھینکی گئی۔
یہ دیکھ کر تعجب (حیرانگی )ہوتا ہے ۔ کہ جب ہر طرف سے اُسے یہ کہا جاتا تھا۔ کہ صلیب پر سے اُتر آ تو کیا یہ بھی اُس کے لئے ایک قسم کی آزمائش تھی؟ یہ کچھ کچھ اُسی قسم کی آزمائش تھی جو اُس کی رسالت کے شروع ہی میں اُسے پیش آئی تھی۔ جب کہ شیطان نے اُسے ہیکل کے کنکرے پر لے جا کر کہا تھا کہ یہاں سے اپنے کو نیچے گر اد ے۔ یہی آزمائش مختلف صورتوں میں عمر بھر اُس کے پیچھے لگی رہی۔ اور اب اُس کی عمر کے آخر وقتوں میں پھر اُس پر حملہ کرتی ہے ۔ وہ یہ خیال کرتے تھے۔ کہ اُس کا صبر کمزوری کی علامت ہے۔ اور اُس کی خاموشی سے ثابت ہے کہ وہ اب ہارمان گیا ہے۔ وہ کیوں اُس وقت اپنا جلال سارے آب و تاب سے ظاہر کر کے اُن کا منہ بند نہیں کر دیتا؟ ایسا کرنا اُس کے لئے کیسا آسان تھا ! لیکن نہیں۔ وہ ہر گز ایسا نہ کر سکتاتھا ۔جب انہوں نے یہ کلمات استعمال کئے ۔توبالکل سچ کہتے تھے۔ کہ ’’ اُس نے اوروں کو بچا یا۔ مگر اپنے کونہیں بچا سکتا‘‘۔ اگروہ اپنے کو بچا لیتا تونجات دہندہ کب ہوتا ؟ لیکن وہ قدرت جس نے اُسے صلیب پر قائم اور اُس سے جو صلیب پر سے اُتر آنے کے لئے ضروری ہوتی کہیں قوی (مضبوط) تر تھی۔ اُسے وہ میخیں جواُس کے ہاتھوں یا پاؤں میں جڑی تھیں ۔ وہاں پکڑے ہوئے نہ تھیں۔ اور نہ وہ رسیاں جن سے اُس کے بازو بندھے تھے۔ نہ وہ سپاہی جو نیچے کھڑے پہرا دے رہے تھے۔ ہر گز نہیں ۔ بلکہ وہ غیر مرئی پیٹیوں (نظر نہ آنے والی) ۔ ہاں نجات دینے والی محبت اور الہٰی مشیت (خُدا کی مرضی ) کی رسیوں سے جکڑا ہوا تھا۔
مگر اس بات کو اُس کے دشمن کب سمجھ سکتے تھے۔ وہ اُسے ایک نہایت ادنیٰ مقیاس (پیمانہ ) سے تول رہے تھے۔ اُن کے ذہن میں قدرت کا جو خیال جاگزین (بسا ہوا ) تھا۔ وہ محض مادی چیزوں کے متعلق تھا۔ اورجلال اور شان و شوکت اُن کے نزدیک خود غرضی کانام تھا۔ اُن کے ذہن میں جو نجات دہندہ کا خیال تھا۔ کہ وہ انہیں غیر قوم کی حکومت سے آزاد کرے گا۔ نہ یہ کہ وہ گناہ سے رہائی بخشے گا۔ اور آج کے دن بھی مسیح کئی اطراف سے یہی پکا ر سنتا ہے۔ کہ ’’صلیب پر سے اُترآ۔ اور ہم تجھ پر ایمان لائیں گے ‘‘۔ وہ لوگ جور ُوحانی باتوں میں بہت کم سمجھ رکھتے ہیں۔ اور اپنی نالائقی اور قدوس خُدا کی عظمت اور حقوق سے ناواقف ہیں۔ اس قسم کی باتیں کہہ اُٹھتے ہیں۔ وہ گناہ اور سزا ۔ کفارہ اور نجات کے معنوں کو نہیں سمجھتے ۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُس کی موت کے گہرے معنوں کو مسیحی مذہب میں سے خارج کر دیا جائے ۔ تب وہ اُس پر ایمان لا سکیں گے۔ وہ لوگ بھی جو اخلاقی لحاظ سے بزدل اور دُنیا پرست ہیں اسی قسم کی باتیں کہتے ہیں۔ اور وہ بھی ایسے دین کے خواہاں ہیں جس میں صلیب کا نام ونشان نہ ہو۔ اگر مسیحی دین فقط ایک عقائد نامہ ہوتا جسے مان چھوڑتے ۔یاایک طریق عبادت ہوتا جس کے ادا کرنے میں انسان کی نزاکت و لطافت پسند قواء (نرم و ملائم طبعیت)کو حظ(لطف) حاصل ہوتا ۔ یا کوئی ایسی پوشیدہ راہ ہوتی ۔ جس سے آدمی کسی کے دیکھے بوجھےبغیر چپ چاپ آسمان تک جا پہنچتا ۔تووہ خوشی سے ایسے دین کو قبول کر لیتے ۔ لیکن چونکہ اس میں مسیح کا اقرار کرنا اور اُس کے لئے ملامت کو سہنا۔ اُس کے حقیر و ذلیل لوگوں سے ملنا جلنا اور اُس کے مقصد کے پھیلانے میں امداد کرنا بھی شامل ہیں۔ اس لئے وہ اُس سے کچھ غرض وو اسطہ رکھنا نہیں چاہتے ۔ کوئی شخص جس نے گناہ کی ذلت کو محسوس کر کے خاکساری اور فروتنی کے بھید کو معلوم نہیں کر لیا۔ مسیح کی صلیب کی کبھی عزت و توقیر نہیں کر سکتا ۔
اب ہم ایک تیسری جماعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مگر یہ جماعت بھی بالکل مختصر سی ہے۔
جب مسیح کی آنکھ اُن صورتوں کے سمندر پر ۔ جو اُس کی طرف اُٹھی ہوئی تھیَ اور جن پر ہر طرح کی تحقیر و عداوت کے آثار نظر آتے تھے۔ ادھر اُدھر پڑتی رہی۔ توکیا اُسے اُن کے درمیان کوئی بھی ایسا نقطہ نظرنہ آیا۔ جس سے اُس کی کچھ تسکین ہوتی ؟ ہاں ان تمام کانٹوں میں بھی ایک سوسن تھی۔ اس جماعت سے الگ باہر کی طرف اُس کے جان پہچا نوں اور اُن عورتوں کی ۔جو اُس کے پیچھے پیچھے گلیل سے چلی آئی تھیں۔ اور اُس کی خدمت کرتی تھیں۔ ایک چھوٹی سی جماعت کھڑی تھی جہاں تک معلوم ہو سکتا ہے ۔ اُن کے قابل عزت اسما( نام )یہ ہیں۔ مریم مگدلینی ۔ مریم یعقوب اور یوسیس کی ماں ۔ اور زبدی کے بیٹوں کی ماں ۔
اُن کے فاصلہ پر کھڑے ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ خوف کی حالت میں تھیں ۔ اپنے کو ایسے شخص کا رفیق (دوست ) ظاہر کرنا جس کے خلاف حُکام کو اس قدر نفرت اور کینہ ہو ۔ ایسے موقع پر خطرہ سے خالی نہ تھا۔ اور ایسے وقت میں اُن کا الگ تھلگ کھڑے رہنا مناسب بھی تھا۔ جو کچھ ان کو دشمنوں کی طرف سے خوف تھا سوتو تھا۔ اُس کے علاوہ خود اُن کے اپنے دل سخت غم و اندوہ (د کھ۔ فکر )سے بھر رہے تھے۔ ابھی تک وہ پاک نوشتوں کو نہیں سمجھتی تھیں ۔ کہ ضرور ہے کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھے ۔ اور سارے معاملہ کو اس طور پر ضائع ہوتے دیکھ کر جس میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس جہان اور اُس جہان کے لئے دے ڈالا تھا۔ اُن کی حالت دگر گُوں (اُلٹ پُلٹ)ہو رہی تھی۔ انہیں یہ اعتماد تھا کہ یہ وہی ہے۔ جو اسرائیل کو رہائی بخشے گا۔ اور وہ اس رہائی یا فتہ قوم پر ہمیشہ کے لئے سلطنت کر ے گا۔ اور وہی شخص یہاں اُن کی آنکھوں کے سامنے اس شرم و بے عزتی کی حالت میں مر رہا تھا۔ اس صورت میں بھلا اُن کے اس یقین و اعتماد کا کیا ٹھکانا تھا۔ یا یوں کہو کہ جو کچھ اب باقی رہ گیا تھا۔ وہ فقط اُلفت و محبت تھی۔ جو اُن کو اُس کی ذات سے تھی۔ اگر چہ اُن کے خیالات بالکل مضطرب(بے چین) اور پریشان ہو رہے ۔ مگر اُن کے دل میں اُس کو اب بھی وہی جگہ حاصل تھی۔ وہ اُس کی دلدادہ (عاشق ) تھیں ۔ اُس کے دُکھ سے انہیں دُکھ تھا۔ اور اگر ممکن ہوتا تو وہ اُس کے لئے اپنی جان تک دینے میں دریغ نہ کرتیں۔
توکیا ایسا یقین کرنا خلاف عقل ہے کہ یسوع کی آنکھیں جب تک اُن میں بینائی باقی تھیَ اُن وحشی سپاہیوں کی طرف سے جو صلیب کے نیچے بیٹھے تھے۔ اور اُن بگڑی ہوئی صورتوں کے سمندر کی طرف سے ہٹ کر بار بار اُسی جماعت کی طرف پھرتی ہوں گی ۔ ایک طرح سے تو اُن پر نظرکرنا دشمنوں کے نفرت انگیز چہروں کی نسبت اُس کے لئے زیادہ درد کا باعث ہوتا ہو گا۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے۔ کہ ہمدرد ی ایسے شخص کے دل کو جو مخالفوں کے سامنے پتھر بنا رہتا ہے۔ پاش پاش (ٹکڑے ٹکڑے )کر دیاکرتی ہے۔ مگر تو بھی یہ ہمسایانہ ہمدردی اور زنانہ محبت اُس کے لئے نہایت گہری تسلی اور دلدہی کا باعث ثابت ہوتی ہوگی۔ اس دُکھ درد کی حالت میں اُسے اس خیال سے بہت کچھ تسکین ملتی ہو گی ۔ کہ اُن تکلیفوں سے کس قدر بے شمار لوگ فائدہ حاصل کریں گے۔ مگر یہاں اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے اس انعام کا بیعانہ (پہلی قسط )موجود تھا۔ جس میں اُس نے اپنی جان کے دُکھ کا نیتجہ دیکھا اور سیر ہوا۔
ان تین جماعتوں میں ہمیں مختلف قسم کی ذہنی حالتیں نظر آتی ہیں سپاہیوں میں نادردی ۔ صدر مجلس والوں میں بیدردی ۔ اور گلیل والوں میں ہمدردی ۔ کیا آپ کے دل میں بھی کبھی اس قسم کا سوال پیدا ہوا ہے۔ کہ اگر تم وہاں ہوتے تو ان تینوں میں سے کس گروہ میں شامل ہوتے؟ یہ ایک بڑا نازک سوال ہے۔ البتہ اس وقت تو یہ بتا دینا بالکل آسان ہے۔ کہ اُن میں سے کون حق پر تھا۔ اور کون ناحق پر ۔گذشتہ زمانہ کے اُلوالعزم (ثابت قدم )لوگوں کو اور جو معاملات انہیں پیش آئے۔ تعریف و تحسین کی نظر سے دیکھنا آسان ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے۔ کہ ہم ان باتوں کو تو پسند کریں۔ مگر خود ہمارے زمانہ میں جو اُسی قسم کے اُمور واقع ہو رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے بالکل بے پروایا اُن کے مخالف ہوں۔ وہ رومی سپاہی بھی جو صلیب کے نیچے بیٹھے تھے۔ ضرور روملس (بانی روم ) یا بروٹس قاتل جولیس قیصر کے از حد ثنا خواں(تعریف کرنا ) ہوں گے۔ لیکن اُس شخص کے لئے جو بالکل اُن کے پاس تھا ۔ اور ان سب سے بڑا تھا۔ اُن کے دل میں کچھ بھی کشش نہ تھی۔ یہودی جو مسیح کی ہنسی اُڑا رہے تھے۔ موسیٰ اور سموئیل اور یسعیاہ کے بڑے مداح (پسند کرنے والے )تھے۔مسیح اب بھی اپنی صلیب اُٹھائے ہوئے دُنیا کی گلی کوچوں میں سے گذر رہا ہے۔ اور لوگوں کی نظروں کے سامنے لٹکا ہوا اُن کی حقارت اور بدسلوکی برداشت کر رہا ہے۔ اس لئے کہ ممکن ہے۔ کہ ہم بائبل کے مسیح کے تو مداح و ثنا خواں ہوں۔ لیکن اپنی صدی کے مسیح کے مخالف اور دُکھ دینے والے ہوں۔ اس صدی کے مسیح سے مُراد ہے مسیح کی سچائی ۔ اُس کے اُصول اور اُس کا معاملہ اور وہ مرد عورت جن میں یہ باتیں مجسم ہو رہی ہیں۔ ہم یا تو ان تحریکوں کی جن پر مسیح کا دل لگا ہو اتھا۔ مدد کر رہے ہیں۔ یا انہیں روک رہے ہیں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اس امر کو جاننے کے بغیر ایک ایک جانب اپنے لئے چن لیتے ہیں۔ اور وہ برابر تجاویز کو عمل میں لاتے یا گفتگو کرتے یا اُن پر عمل کرتے ہیں جو یا تو مسیح کی طرفداری میں ہوتی ہیں۔ یا اُس کی مخالفت میں ۔ یہی ہمارے زمانہ میں مسیح کا دُکھ اُٹھا ناہے۔ اور یہی ہمارے شہر کا گلگتا ہے۔
مگر وہ اس سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ زندہ مسیح بذات خاص اس وقت بھی اس دُنیا میں ہے۔ وہ ہر ایک دروازہ پر آتا ہے۔ اُس کی رُوح ہر ایک آدمی کی رُوح کے ساتھ کشمکش کرتی ہے۔ اور اب بھی اُس کے ساتھ انہیں تین اقسام کا سلوک ہوتا ہے۔ یعنی نادردی ۔ بے دردی یا ہمدرد ی کا ۔ جیسے کہ مقناطیس ۔ جب ایک ڈھیر پر سے گذرتا ہے ۔ تو اُن اشیاء کو جو اُس کی کشش کو قبول کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ نجات بخش محبت جو مسیح میں ظاہر ہوئی ہے۔ ہر صدی میں بنی آدم کی سطح پر سے گذرتی رہتی ہے۔ اور انسانی دلوں کو اُن کی تہوں تک حرکت دینے اور اُن کی اندر خُدا کی حمد اور نیکی کی خواہش پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اور وہ خود بخود اُس کی طرف کھنچے جا کر اُس سے پیوستہ (جُڑنا )ہوجاتے ہیں۔ اس کھنچے جانے کانام ایمان یا محبت یا روحانیت یا جو چاہو رکھ لو ۔ لیکن یہی ابدیت کا مقیاس (پیمانہ )اور کسوٹی (ناپنے کا آلہ )ہے کیونکہ یہی مردو عورت کو دوسروں میں سے چُن لیتا ۔ اور انہیں ہمیشہ کے لئے خُدا کی حیات اور محبت کے ساتھ متحد(اکٹھا ) کر تا جاتا ہے۔
گذشتہ با ب میں ہم اس امر پر غور کر چکے ہیں کہ مختلف جماعتوں پر جو صلیب کے پاس کھڑی تھیں۔ مسیح کے مصلوب ہونے سے کیا اثر پیدا ہوا ۔ اُن سپاہیوں پر جنہوں نے اُسے صلیب پر کھنچا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔وہ اُس نظارہ کی عظمت اور شان کی طرف سے جس میں وہ خود حصّہ لے رہے تھے۔ بالکل اندھے تھے۔ صدر مجلس کے شرکا اور اُن کے دیگر رفیقوں پر ایک عجیب و غریب قسم کا اُلٹا اثر ہوا۔ نیکی اور روحانی حسن و خوب صورتی کے کامل مکاشفہ نے اُلٹا ان کے دل میں غضب و غصہ اور مخالفت کی تحریک پید ا کی۔ بلکہ یسوع کے دوستوں کی جماعت نے بھی جو فاصلہ پر کھڑی تھی۔ اُس نظارہ کی حقیقت کو جو اُن کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ بہت ہی تھوڑا سمجھا۔ اُن کے آقا کا گناہ اور موت اور دُنیا پر اس طور پر فتح حاصل کرنا اُن کی نظر میں ایک افسوس ناک شکست سے بڑھ کر نہ تھا۔ اس لئے جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ یہ بالکل سچ ہے۔ کہ جب کوئی عظیم الشان واقع ظہور میں آ رہا ہو ۔ تو اُس کے لئے دیکھنے والی آنکھ کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ آئینے میں جو عکس پڑتا ہے۔ اُس کی عمدگی کے لئے نہ صرف ایک چیز کی ضرورت ہے۔ جس کا عکس پڑے۔ بلکہ ساتھ ہی آئینہ کی جِلا (چمک)اور صفائی کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے۔
مگر ہم چاہتے ہیں۔ کہ اُس نظارہ کو جو کلوری پر واقع ہوا۔ اُس اصلی صورت میں ملاحظ کریں۔ مگر یہ کہاں دکھائی دے گی؟ وہاں ایک دل تھا۔ جس میں اُس کا عکس نہایت صفائی سے پڑ رہا تھا۔ اگر ہم صلیب کے عکس کو خود یسوع مسیح کے دل میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ تو اُس کے حقیقی معنی سمجھنے ممکن ہیں۔
لیکن ہم اس امر کو کس طرح معلوم کر سکتے ہیں۔ کہ جب وہ صلیب پر لٹک رہا تھا۔ تو یہ نظارہ اُسے کس طرح دکھائی دیتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُن الفاظ و فقرات سے معلوم ہو سکتا ہے۔ جو اُس نے لٹکتے ہوئے اپنے مرنے سےپہلے فرمائے۔ یہ بطور کھڑکیوں کے ہیں۔ جن کے ذریعہ ہم دیکھ
__________________________________
1۔ اے باپ انہیں معاف کر دے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں۔
سکتے ہیں۔ کہ اُس کے خانہ دل میں اُس وقت کیا گذر رہا تھا۔ یہ تو سچ ہے کہ یہ محض چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں۔مگر وہ نہایت گہرے معافی سے معمور ہیں۔ الفاظ ہمیشہ عکسی تصویروں کا کام دیتے ہیں۔ جو کم و بیش صفائی کے ساتھ اُس شخص کے دل کی حالت کو جس سے وہ نکلتے ہیں۔ ظاہر کرتے ہیں۔ اُس کے الفاظ نہایت سچے اور راست تھے۔ اور اُن پر ان کے بولنے والے کی تصویر ثبت تھی۔
یہ کلمات سات ہیں۔ اور اس لئے اگر ہم اُن پر علیحدہ علیحدہ غور و فکر کریں توہمارے لئے فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ بستر مرگ پر جوالفاظ کہے جاتے ہیں۔ وہ سننے والوں کے لئے ہمیشہ قیمتی اور پُر تاثیر ہوتے ہیں۔ ہمارے والد یا کسی خاص رفیق نے بسترِ مرگ پر جو الفاظ ہم سے کہے ہوں۔ ہم انہیں کبھی نہیں بھولتے ۔ اور مشہور و معروف کے آخری الفاظ بڑی کوشش سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ پاک نوشتوں میں ہم یعقوب ۔ یوسف موسیٰ اور دیگر بزرگان کی نسبت پڑھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنے بسترِ مرگ پر اپنی معمولی حالت سے بھی بڑھ کر عالیٰ خیالات ظاہر کئے اور ان کے الفاظ ایسے معلوم ہوتے تھے۔ کہ گویا عالم بالا سے آرہے ہیں۔ اور قوموں میں مرتے دم کے الفاظ کو ایک قسم کی نبوت سمجھا جاتا ہے۔ اب جو مسیح کے مرتے دم کے کلمات ہیں۔ اور جیسے کہ اُس کا تمام کلام اوروں کے مقابلہ میں سونا اور چاندی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے ہی یہ کلمات اُس کے دوسرے کلمات کے مقابلے میں لعل و جواہر کارتبہ رکھتے ہیں۔
پہلے کلمے میں یہ تین باتیں قابل ِغور ہیں۔ اوّل خطاب ۔دُوم درخواست ۔سوئم دلیل۔
مصلوب آدمی کے لئے صلیب پر سے گفتگو کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔ مگر اُن کے الفاظ میں عموماً تو درد و تکلیف کا اظہار ہوتا تھا۔ یا رہائی کے لئے بے فائدہ التجا و درخواست ہوتی تھی۔ یا وہ خُدا پر اور اُن لوگوں پر جنہوں نے اُنہیں اس مصیبت میں ڈالا لعنتیں بھیجتے تھے۔ مگر جو نہی یسوع کو اُس بے ہو ش کر دینے والے صدمے سے جو اُس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھوکنے سے اُسے ہو ا تھا۔ کچھ افاقہ ہوا اُس کے پہلے الفاظ ایک دُعا کی صورت میں تھے ۔ اور پہلا لفظ جو اُس کی زبان سے نکلا ۔ یہ تھا ’’اے باپ‘‘۔
کیا یہی لفظ اُن لوگوں کے ناواجب سلوک پر جنہوں نے اُسے وہاں لٹکایا تھا۔ ایک قسم کا فتویٰ نہیں تھا انہوں نے یہ ساری کارروائی مذہب اور خُدا کے نام سے کی تھی۔ ۔ مگر اُن میں سے کون ایسا تھا۔ جس پر مذہب نے ایسی گہری تاثیر کی ہو ؟ اُن میں سے کون تھا جو دعویٰ کرسکے کہ اُسے خُدا کے ساتھ گہری اور دائمی رفاقت حاصل ہے؟ اس سے ظاہر ہے کہ دُعا مانگنا یسوع کے لئے ایسا طبعی امر ہو گیا تھا۔ کہ عادتاًاس وقت بھی اُس کی زبان سے وہی الفاظ خود بخود نکل پڑے ۔ جب کبھی کسی مقدمہ میں۔ خاص کر مذہبی مقدموں میں۔ اگر سزا یا فتہ آدمی اپنے ججوں کی نسبت بہتر قسم کا آدمی ہو تو اُس مُقدمہ کی کاررائی میں خواہ مخواہ شبہ پیدا ہوتا ہے۔
لفظ ’’باپ‘‘ سے یہ بھی ثابت ہوتا تھا۔ کہ اس کے ایمان و اعتقاد د میں اُن سب باتوں کے سبب جن میں سے وہ گذر رہاتھا۔ اور اُن تمام تکالیف کے باوجود وہ اس وقت بھُگت ر ہا تھا۔ ہر گز جنبش نہ ہوئی تھی۔ جب راستی و صداقت پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے۔ اور شرارت و ظلم کی فتح ہوتی ہے۔ تو ایماندار کے دل میں خواہ مخواہ یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ آیاسچ مچ کوئی پُر محبت اور دانا خُدا ہے جو اس عالم کے تخت ِ حکومت پربیٹھا ہے۔ یا برخلاف اس کے کیا یہ سب عالم محض اتفاق و حوادث (حادثہ کی جمع )کے زیر حکومت ہے؟ جب آسودگی و د فعتاً بدبختی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور زندگی کی تمام اُمید یں اور تدبیریں چور چور ہو کر زمین پر گر جاتی ہیں۔ تو خُدا کا فرزند بھی خواہ مخواہ الہٰی تقدیر کے خلاف لاتیں مارنا شروع کرتا ہے۔ بڑے بڑے اولیاء اللہ درد اور مایوسی کی حالت میں خُدا کی صداقت پر ایسے ایسے الفاظ میں گلہ شکوہ کرنے لگے ہیں۔ جن کا دُہرانا مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ لیکن جب یسوع کی حالت نہایت ہی خراب ہو رہی تھی۔ جب گرگ نما(بھیڑیا ) آدمی اُس کا تعاقب (پیچھا)کر رہے تھے۔ جب وہ درد و ہلاکت کے اتھاہ سمندر (گہرا سمندر ) میں غرق (ڈوبنا )ہو رہا تھا۔ تو اُس وقت بھی اُس کی زبان سے یہی نکلا کہ ’’اے باپ ‘‘۔
یہ ایمان کا گویا اعلیٰ عروج(بلندی ) تھا۔ اور ہمیشہ کے لئے ایک مثال و نمونہ ٹھہرےگا ۔ کیونکہ اس وقت ایمان کا بڑی عظمت کے ساتھ بول بالا ہوا اگر کبھی ظاہر اً ایسا معلوم ہوا کہ گویا خالق نے کشتی عالم کے پتوار پر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔ اور انسانی کارو بار گھبراہٹ و پر یشانی کی طرف بسرعت (تیزی سے )جا رہے ہیں۔ تو ایسا خیال کرنا اس وقت بر محل (مناسب)تھا۔ جب کہ وہ شخص جو اخلاقی حُسن و خوبی کا مجسم نمونہ تھا۔ ایک چور اور بدکردار کی شرمناک موت رہا تھا۔ کیا نیکی ظلم و شرارت کے ایسے گہر ے گڑھے سےکبھی نکل سکتی ہے؟ مگر ساری دُنیا کی نجات اس میں سے نکلی وہاں صفحۂ تاریخ پر جوبات سب سے زیادہ شریف و نجیب (بزرگ) سمجھی جاتی ہے۔ وہ اسی گڑھے میں سے برآمد ہوئی۔ خد اکے فرزندوں کے لئے ایک نہایت عمدہ سبق ہے کہ خواہ کچھ ہی ہو۔ انہیں ہرگز مایوس نہیں چاہیے۔ ہر طرف تاریکی کیوں نہ چھا جائے ۔ سب معاملہ تباہ برباد ہو تا ہوا کیوں نہ نظر آئے ۔خُدا کے تخت پر بدی کا تسلط (قبضہ )کیوں نہ معلوم ہو۔ تو بھی یقین جانو کہ خُدا موجود ہے ۔ وہ زمانہ حال کے فساد و غوغا سے بلند و بالا تخت نشین ہے۔ اور تاریکی کے پیٹ میں سے جانفزا (تازگی دینےوالی)صبح صادق کو ضرور طلوع کرے گا۔
دُعا جو اس خطاب کے بعد نکلی وہ اور بھی زیادہ عجیب ہے۔ اس دُعا میں وہ اپنے دشمنوں کے لئے معافی کا خواستگار ہوا۔
گذشتہ ابواب میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ کہ وہ اپنی گرفتاری کے وقت سے لے کر اُن کے ہاتھوں کس کس ایذا و بدسلوکی کا مورد بنا رہا۔کس طرح شاگرد پیشہ لوگوں نے اُسے مارا اور اُس کی بے عزتی کی۔ کس طرح سردار کاہنوں نے اُس کے پھنسانے کےلئے قانو ن کو توڑا مروڑا ۔ کس طرح ہیرودیس نے اُس کی بے حرمتی کی۔ کس طرح پیلاطس اُ س کے معاملہ میں پس و پیش کرتا رہا۔ کس طرح عوام الناس اُس پر آوازے کستے رہے۔ جب یکے بعد دیگرے ہم ایک کمینگی و بد اطواری کے نیچے دُوسری ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل غصّہ سے بھر جاتے ہیں ۔اور ہم بڑی مشکل سے اُن س اُن کے حق میں سخت زبانی استعمال کرنے سے اپنی طبیعت کو روکتے ہیں۔ مگر ان سب باتوں پر یسوع کے منہ سے جو کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ ’’ اے باپ انہیں معاف کر ‘‘۔
البتہ وہ اس سے بہت عرصہ پہلے لوگوں کو یہ تعلیم دے چکا تھا کہ ’’ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ جو تم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا کرو جو تم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔ جو تمہاری بے عزتی کریں۔ اور تمہیں ستائیں اُن کے لئے دُعا مانگو۔ مگر یہ اخلاقی تعلیم جو اُس نے اپنے پہاڑ ی وعظ میں دی۔ اُس وقت اہل ِدُنیا کے نزدیک ایک دل پسند خواب و خیال سے بڑھ کر رتبہ نہیں رکھتی تھی۔ اور ا ب بھی لوگ ایسا ہی خیال کرتےہیں۔ ایسے بہت سے معلم گذرے ہیں۔ جو اسی قسم کی باتیں کہہ گئے ہیں۔ مگر تعلیم دینے اور اُس پر عمل کرنے میں کس قدر بڑا فرق ہے! جب تمہیں کسی مصنف کے خیالات بہت ہی عمدہ اور شیریں معلوم ہوں۔ تو اکثر صورتوں میں بہترہو گا۔ کہ تم کو اُس شخص کی نسبت اور زیادہ حالات معلوم نہ ہوں۔ کیونکہ اگر تم اُس کی زندگی کے حالات سے واقف ہو گے۔ تو تمہیں نہایت افسوس ہو گا۔ کیا خود ہمارے زمانہ حال کے علم و ادب کے مطالعہ کرنے والے ہمارے انشا پردازوں کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے خائف(پریشان ) نہیں ہیں۔ تا کہ ایسا نہ ہو کہ جو خوب صورت اور دلفریب خیالات کے سلسلے اُن کی تحریروں میں سے چُن چُن کر جمع کئے گئے ہیں۔ خود اُن کی زندگی کی خرابیوں کے مطالعہ سے بے مزہ نہ معلوم ہونے لگیں ؟ مگر یسوع جو تعلیم دیتا تھا۔ اُس کے مطابق عمل بھی کرتا تھا۔ سارے بنی آدمی میں وہی ایک ایسا معلم ہے۔ جس کے خیال اور فعل میں کامل اتفاق ہے۔ اُس کی تعلیم نہایت ہی عالی اور بلند پایہ ہے۔ ایسی کہ بعض اوقات یہ سمجھا جاتا ہے۔ کہ وہ اس دُنیا کے لوگوں کے لئے حد سے زیادہ بلند ہے۔ لیکن جب ہم اُس کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ تو وہ تعلیم کیسی عملی معلوم ہوتی ہے۔ جب اُس نے صلیب پر سے یہ دُعا مانگی کہ ’’ اے باپ ۔ انہیں معاف کر دے ‘‘ ۔ تو اُس نے ثابت کر دیا کہ اُس کا عمل درآمد اس زمین پر بالکل احاطہ امکان(جس پر عمل کرنا ممکن ہو ) میں ہے۔
شاید ہم میں سےچند ہی لوگ اس امر سے واقف ہو ں گے۔ کہ معاف کرنا کیا ہے۔ ہمارے ساتھ بہت کم کوئی شخص ایسی سخت بدسلوکی کرتا ہے۔ غالباً ہم میں سے کئی ایسے ہو ں گے۔ جن کا دنیا بھر میں ایک بھی دشمن نہ ہو۔ مگر جن کے دشمن ہیں۔ وہی خوب جانتے ہیں۔ کہ اُن کو معاف کرنا کیسا سخت مشکل ہے۔ شاید اُن کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی چیز مشکل نہ ہو گی ۔ طبعی طور پر دل ِ انسان کو انتقام لینا نہایت میٹھا معلوم ہوتا ہے۔ قدیم دُنیا کا کم سے کم عمل کے لحاظ سےیہ قانون تھاکہ ’’ اپنے ہمسائے سےمحبت رکھو۔ اور اپنے دشمن سے عداوت ‘‘ ۔ عہد ِعتیق کے مُقدس لوگوں کی بابت ہم یہی پڑھتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں پر جنہوں نے انہیں ایذا (تکلیف )پہنچائی ۔ نہایت سخت الفاظ میں لعنت بھیجتے ہیں۔ اگر یسوع بھی انہیں لوگوں کے نمونہ پر چلتا۔ اور صلیب پر جب اُس کی زبان میں گویائی کی طاقت آئی ۔ تو اپنے آسمانی باپ سے ایسے طور پر گلہ کرتا ۔ جس میں اپنے دشمنوں کا ایسے الفاظ میں جن کے وہ مستحق تھے ذکر کرتا ۔ تو کون اُس کی اس بات میں نقص نکالنے کا حوصلہ کرتا ؟ یہ بھی خُدا کے مکاشفہ کے مطابق ٹھہرتا ۔ کیونکہ الہٰی ذات میں گناہ کے خلاف غضب کی آگ برابر بھڑک رہی ہے۔ مگر یہ مکاشفہ اُس مکاشفہ کے مقابلہ میں جو اُس نے اب ہمیں دیا ہے۔ کیسا ادنیٰ اور ناچیز ہوتا ۔ وہ اپنی زندگی بھر خُدا کا مکاشفہ ہمیں دیتا رہا۔ لیکن اب اس کا وقت تنگ تھا۔اور اب وہ اُسے جو خُدا کا اعلیٰ سے اعلیٰ مکاشفہ تھا ۔ہم پر ظاہر کرنے کو تھا۔
اس کلمہ میں مسیح نے اپنے آپ کو بھی ظاہر کر دیا۔ مگر ساتھ ہی اُس نے اپنے باپ کو بھی ظاہر کیا۔ اُس کی ساری زندگی بھر باپ اُس میں تھا۔ مگر صلیب پر الہٰی زندگی اور خصلت(فطرت ۔عادت ) اُس کی انسانی فطرت میں سے ایسی درخشاں (روشن ) ہوئی جیسے آگ جلتی ہوئی جھاڑی میں نمایاں ہوئی تھی۔ اُس نے ان الفاظ میں کہ ’’ اے باپ انہیں معاف کر ‘‘۔ اپنے کو ظاہر کر دیا۔ مگر اس قول کے کیا معنی تھے؟ یہی کہ خُدا محبت ہے۔
مرتے ہوئے منجی نے اپنی دُعا و مناجات کے ساتھ اپنے دشمنوں کی معافی کےلئے ایک سبب یا وجہ بھی بیان کی۔ ’’کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں‘‘۔
اس فقرہ سے ہم کو الہٰی محبت کی گہرائیاں اور بھی زیادہ صفائی سے نظر آتی ہیں۔ مظلوم و ایذا رسیدہ لوگ مُقدمہ کے ایک ہی پہلو کو دیکھا کرتےہیں۔ جو اُن کے حسبِ مطلب ہوتاہے۔ اور وہ فقط انہیں واقعات پر نظر کرتے ہیں۔ جن سے اُن کے ایذا دینے والوں کا چال چلن نہایت قابل ِنفرین (لعنت)معلوم ہو ۔ مگر برخلاف اُن کے یسوع ٹھیک اُس وقت جب کہ اُس کا دُکھ درد نہایت زوروں پر تھا۔ وہ اپنے دشمنوں کی بد اطواری کے لئے معذرت کررہا تھا۔
مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس حد تک یہ معذرت اُن لوگوں کے حق میں صادق آتی تھی۔ کیا اُن سب کے حق میں یہ کہنا درست ہوسکتاہے کہ وہ نہیں جانتے تھے۔کہ وہ کیا کر رہے تھے؟ کیا یہوداہ نہیں جانتا تھا؟ کیا سردار کاہن نہیں جانتے تھے؟ کیا ہیرودیس نہیں جانتا تھا؟ ظاہر اً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن سپاہیوں کے حق میں جنہوں نے اُسے صلیب پرکھنیچا ۔ یسوع کے یہ الفاظ کہے گئے تھے۔کیونکہ یہ اُن کے اس کام کے سر انجام کرنے کے موقعہ پر جیسا کہ مُقدس لوُقا کے بیان سے واضح ہو تا ہے کہے گئے تھے۔ وہ جاہل اور نیم وحشی سپاہی جو محض سرکاری حکم کی تعمیل کر رہے تھے۔ یسوع کے سارے حملہ آوروں میں سے کم گنہگار تھے۔ شاید ان سے دوسرے درجہ پر پیلاطس تھا۔اور اس کے بعد ہیرودیس اور صدر مجلس سےلے کر یہوداہ کی کمینہ کا رروائی تک گناہ کے مختلف مدارج تھے۔ مگر مُقدس پطرس نے اپنی تقریر میں جو اعمال کی کتاب کے شروع میں درج ہے۔ اس جہالت وناواقفی کے عذر میں صدر مجلس والوں تک کو شامل کر لیا۔ اور اے بھائیو! میں جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا۔ اور ایسا ہی تمہارے سرداروں نے بھی۔ اور کون اس بات کو مانے گا۔ کہ نجات دہندہ کا دل اپنے شاگرد کی نسبت کم وسعت(گہرائی) رکھتا تھا؟
ہمیں نہیں چاہیے کہ الہٰی رحمت کے لئے حدیں مُقر ر کر دیں۔ ہر ایک گنہگار کے حق میں کسی حد تک یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کیا کرتا ہے۔ اور سچے تائب کے لئے جب وہ تختِ رحمت کے قریب آتاہے۔ اس امر کا یقین بڑی تسلی کا باعث ہوتا ہے۔ کہ اُس کا یہ عذر قبول کیا جائے گا۔ تائب پولوس کو اس سےبڑی تسلی حاصل ہوئی۔ کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ ’’مجھ پر رحم ہو ا۔ اس لئے کہ میں نے بے ایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے‘‘۔ خُدا ہماری ساری کمزوریوں اور اندھے پن سے واقف ہے۔ آدمی تو ان باتوں سے قطع نظر نہیں کریں گے اور نہ انہیں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر وہ ان سب باتوں کو سمجھ لے گا۔ اگر ہم گناہ کے بعد اپنا سر اُس کی گود میں جا چھپا ئیں گے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ اس مبارک سچائی کو ایک نا تائب (توبہ نہ کرنے والا) شخص اس قدر اُلٹا دے کہ اُسے اپنے لئے نقصان کا باعث ٹھہرائے۔ یہ فرانسیی کہاوٹ بالکل غلطی پر مبنی ہے۔ جو کہتی ہے کہ ’’ سب باتوں کو سمجھ لینا سب باتوں کو معاف کر دینا ہے‘‘۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بیرونی حالات کے پنجہ میں گرفتار ہے اور وہ اپنے افعال کے لئے ذمہ دار نہیں۔مگر ہمارے خُداوند کے ذہن سے اس قسم کے خیالات کوسوں دُور تھے۔ جیسا کہ اُس کے اس قول سے ظاہر ہے کہ ’’انہیں معاف کر دے‘‘۔ وہ جانتا تھا کہ وہ عفو (معافی) کے حاجت مند ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے مجرم تھے۔ فی الحقیقت یہ اُن کی خطرناک حالت کا علم تھا۔ جس میں وہ بہ سبب اپنے جرم کے گرفتار تھے۔ جس کے سبب وہ اُس وقت اپنے تمام درد و تکلیف کو بھول گیا ۔ اور اپنے کو اُن کے اور اُن کی سزا کے درمیان ڈال دیا۔
یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’’ کیا یہ دُعا قبول ہوئی ‘‘ ۔ کیا اُس کےصلیب دینے والے معاف کئے گئے؟ اس کا جو اب یہ ہے کہ مغفرت(معافی ) کی دُعا کی قبولیت کے لئے اُن لوگوں کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ جن کے حق میں وہ دُعا کی جائے اگر وہ سچی توجہ کر کے اپنے گناہوں کے لئے خود معافی کے خواستگارنہ ہوں۔ تو خُدا کس طرح انہیں عفو (معاف)کر سکتا ہے ؟ اس لئے یسوع کی دُعا کا یہ مطلب تھا۔ کہ انہیں توبہ کی مہلت دی جائے۔ اورتقدیر الہٰی اور وعظ و نصیحت اُن پر اپنا کا م کر کے اُن کی ضمیروں کو جگا دے ۔ ایسے بڑے خوف ناک جرم کی سز ا دینے کے لئے جیسا کہ ابن ِاللہ کو مصلوب کرناہے۔ خُدا اگر چاہتا تو اُسی وقت زمین کو حکم دیتا کہ اپنا منہ کھول کر اُنہیں نگل لے۔ مگر اس قسم کی کوئی بات واقع نہ ہوئی۔ جیسا کہ یسو ع نے پیشن گوئی کی تھی۔ یروشلیم باحال خستہ و خراب برباد ہو گئی۔ مگر یہ بات بھی اُس کی وفات کے چالیس سال پیچھے واقع ہوئی ۔اور اس اثنا ء میں پنتیکوست کے موقع پر روح القدس کا نزول ہوا۔ رسولوں نے آسمانی بادشاہت کے قائم ہونے کی منادی یروشلیم میں کر کے بڑے اصرار سے قوم کو توبہ کی ترغیب و تحریص دی۔ اور اُن کی محنت بھی بے فائدہ نہ گئی۔ ۔کیونکہ ہزاروں لوگ ایمان لائے ۔ بلکہ پیشتر اس کے کہ صلیب کا واقع ختم ہوا۔ دونو ں چوروں میں سے جو مسیح کے ساتھ مصلب ہوئے تھے۔ ایک چورجوپہلے مسیح کو گولیا ں دینے میں شریک تھا ایمان لے آیا ۔اور صوبہ دار نے جو صلیب دینے پر متعین (مقرر) تھا۔ اس امر کا اقرار کیا کہ وہ درحقیقت ابن ِاللہ ہے۔ جب سب کچھ ختم ہو چکا ۔ تو لوگ جو تماشہ دیکھنے کو آئے تھے۔چھاتی پیٹتے ہوئے اپنے گھر کو واپس گئے ۔اس لئے ہمارے پاس اس امر میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ان معنوں میں بھی اس کی دُعا درحقیقت پایہ ٔقبول کو پہنچی۔
مگر یہ اس قسم کی دُعا تھی جس کی قبولیت دوسرے طور پر ہو سکتی ہے۔ علاوہ اس امر کےکہ دُعا کے ذریعہ خاص خاص حاجتیں جن کے لئے دُعا کی جاتی ہے۔ پوری ہوں۔ وہ دُعا کرنے والے کی اپنی روح پر بھی ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے۔ یعنی اُسے تسلی و تسکین بخشتی اور روحانی قوت عطا کرتی ہے۔ اگر چہ بعض غلطی سے یہ خیال کر بیٹھتے ہیں کہ دُعا سے فقط اسی قدر نفع حاصل ہوتا ہے۔ اور اس طور سے اس امر کے منکر(انکار کرنے والے) ہیں کہ خُدا ہماری درخواستوں پر بھی لحاظ کرتا ہے۔ تاہم ہمیں جو یہ یقین کرتے ہیں کہ دُعا سے بہت کچھ کام نکلتا ہے۔ اس امر کو نظر اندا ز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ دُعا مانگنے سے کہ اس کے دشمن معاف کئے جائیں ۔ یسوع نے غصہ ّ اور انتقام کی روح کو اپنے سے دُور ہٹا دیا ۔ جو اُس وقت اس کے دل میں گھسی چلی آتی ہو گی۔ اور اپنے روح کے اطمینان و چین کو برقرار رکھا۔ خُدا سے اُن کی معانی کے لئے دُعا کر نا گویا اپنے دل سے انہیں معاف کر دینے کی کوششوں کی تکمیل تھی ۔جو شخص دوسروں کو معاف کرتا ہے اپنے دل میں ایک قسم کی رہائی اور اطمینان کو محسوس کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس دُعا کی مقبولیت کسی قدر اس امر سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ کہ زماناً بعد زماناً مظلوم اور رستم رسید ہ آدمی اسی دُعا کو دُہراتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے مقدس ستفتس نے جب وہ مرنے کے قریب تھا ۔ تو اپنے اُستاد کی مانند یہ الفاظ کہے کہ ’’ خُداوند ! یہ گناہ اُن کے حساب میں نہ لکھنا ‘‘ اور اُس کے بعد اور سینکڑوں آدمیوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اور دن بدن یہی دُعا اس دُنیا میں اُس تلخی کی مقدار کو گھٹاتی جاتی ہے۔ اور اُس کی جگہ محبت کی مقدار کو ترقی دیتی جاتی ہے۔
یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کس کا انتظام تھا کہ یسوع کو دو چوروں کے درمیان صلیب پر لٹکایا گیا ۔ ممکن ہے کہ یہ پیلاطس کا حکم تھا۔ جو اس طور سے اُس تضحیک و تحقیر کو بڑھانا چاہتاتھا۔ جو کتبہ کی طرز ِتحریر سے جو صلیب پر لکھا گیا تھا۔ اُس کا مقصود معلوم ہوتا ہے۔ یا شاید اس امر کے ذمہ دار یہودی حُکام تھے ۔ جو گلگتا تک بر ابر ہمراہ چلے آئے تھے۔ انہوں نے سپاہیوں کو کہہ کہا کر اُسے زیادہ ذلیل کرنے کی غرض سے اس طو رپر صلیب دینے کی ترغیب دی ہو گی۔ یا سپاہیوں نے خود بخود ایسا کر دیا ہو۔ صرف اس خیال سے کہ وہ تینوں قیدیوں میں سے زیادہ قابل لحاظ معلوم ہوتاتھا۔ اغلب (یقینی ) یہ ہے کہ اس میں کسی نہ کسی کی شرارت ضرورتھی۔ مگر انسان کے غضب کے عقب(پیچھے ) میں ایک الہٰی مقصد تھا۔ خُدا وند کی زمینی زندگی کی ان آخری گھڑیوں میں بار بار یہ امر سامنے آتا ہے کہ کس طرح ہر ایک لفظ یا کام جو یسوع کو ایذا دینے یا بے عزت کرنے کے لئے کہا یا کیا گیا۔ بجائے اس کے ہماری نظروں میں جب ہم پیچھے لوٹ کر دیکھتے ہیں۔ بالکل عزت و خوبی میں بدلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اور اُس پر ایک ستارے کی مانند چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ جیسے کہ آگ کو ئلے کے ایک بد نما ڈھیلے کو یا کوڑے کر کٹ کے ڈھیر کو جو اس میں پھینکا جاتا ہے لے کر ایک بقعہ نور (وہ مکان جس میں بہت ذیادہ روشنی ہو )میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس وقت مسیح کے اندر کوئی ایسی بات تھی۔ جس سے ہر ایک گالی یا طعنہ جو اُس کی بے عزتی کے لئے دیا جاتا تھا۔ اُس کے لئے عزت کا باعث
_____________________________________
1۔تو آج میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔
بن جاتا تھا۔ بلکہ اس بات نے اُس کے صلیب دیئے جانے کے چھوٹے چھوٹے واقعا ت کو بھی گہرے معنوں سے بھر دیا۔ کانٹوں کا تاج۔ ارغوانی لباس ۔ پیلاطس کا یہ کہنا کہ ’’دیکھو اس آد می کو ‘‘ کتبہ کا مضمون جو صلیب پرلگا یا گیا۔ تماشائیوں کے آوازے ۔اور دوسرے اسی قسم کے واقعات جو اُس وقت شرارت و بدی سے پُر نظر آتے تھے۔ اب یہ سب اُس کے عاشقوں کے حافظہ میں قیمتی جو اہرات کی طرح محفوظ ہیں۔
پس اُس کا چوروں کے درمیان لٹکایا جا نا۔ آدمی اور خُدا دونوں کی طرف سے ٹھہرایا ہو ا تھا۔ اور یہی اُس کا صحیح مقام تھا۔ لوگ اس سے بہت عرصہ پہلے اُسے ’’محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا دوست ‘‘ پکار ا کرتے تھے۔ اور اب اُسے دو چوروں کے درمیان صلیب دے کر انہوں نے اسی خیال کو عملی صورت میں دکھا دیا۔ لیکن جیسے کہ یہ نام جو تمسخر کے طور پر اُس کی طرف منسوب کیا گیا تھا۔ اُس کے لئے ابدی عزت کا باعث ٹھہرا ہے۔ اسی طرح یہ کام بھی ۔ یسوع اس دُنیا میں آیا تا کہ اپنے کو گنہگاروں کے ساتھ ایک کردے ۔ اُن کا مُقدمہ اُس کا مُقدمہ تھا۔ اور اُس نے اُن کی قسمت کواپنا بنالیا۔ اُس نے اُن کے درمیان زندگی بسرکی۔ اور اب یہ مناسب تھاکہ وہ انہیں کے درمیان جان بھی دے۔ آج کے دن تک وہ انہیں کے درمیان ہے۔ اور اُن دونوں چوروں کا جن کے درمیان وہ لٹکا ہو اتھا۔ عجیب سلوک اس امر کا نشان دیتا ہے ۔کہ اُس سے لے کر آج تک ہر روز کیا ہوتا ہے۔ بعض گنہگار اُس پر ایمان لا کر نجات پا گئے۔ مگر اورہیں جو اُس پرا یمان نہیں لاتے ۔ ایک کے لئے اُس کی انجیل جینے کے لئے زندگی کی بوہے۔ دوسرے کے واسطے مرنے کے لئے موت کی بو ہے۔اور آخر تک یہی حال رہے گا۔ اور اُس عظیم الشان روز کو جب کہ اس دُنیا کی ساری تاریخ کا آخری ورق اُلٹا جائے گا۔ وہ اُس وقت بھی ہمارے درمیان میں ہو گا۔ اور توبہ کرنے والا اُس کی ایک جانب ہو گا۔ اور نہ توبہ کرنے والا اُ س کی دوسری جانب ۔
لیکن یہ صرف اسی طور پر نہیں تھا ۔ کہ الہٰی حکمت نے ان پر پُر از توہین واقعات کو کہ یسوع خطا کاروں میں شمار کیا گیا ۔ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے استعمال کیا ۔ اس سے اُسے یہ موقع ملا کہ اس آخری وقت میں بھی وہ اپنے دل کی فیا ض حوصلگی اور اپنی رسالت کے اصلی مُدعا (مقصد)کو ظاہر کر سکے۔ اور ایک ایسے وقت میں جب کہ وہ اس کا بہت ہی حاجت مند(ضرورت مند ) تھا۔ اُ س کے لئے ایک ایسا پیالہ مہیا کر دیا ۔ جو زندگی بھر اُس کے لئے نہایت ہی فرحت بخش تھا۔ اور یہ پیالہ لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کی خوشی کا پیالہ تھا ۔ جیسے کہ مسرف بیٹے کی تمثیل مسیح کے سارے وعظ و تعلیم کا لب لباب ہے۔ اسی طرح صلیب پر ایک چور کو نجات بخشنا مسیح کی ساری زندگی کا خلاصہ ہے۔
معلوم ہو تا ہے کہ صدر مجلس والوں کے نمونہ کی پیروی کر کے دونوں چوروں نے اُسے بُرا بھلا کہنا شروع کیا تھا۔ مگر اس امر میں کئی اشخاص کو شبہ واقع ہو ا ہے۔ بلکہ بہتوں نے تو اس مشکل کی بنا پر اس امر سے انکار کردیا ہے۔ کہ کس طرح ممکن ہے کہ دفعتاً (اچانک )اس قدر انقلاب واقع ہو ۔ اور ایسے چور کا دل ایسے تھوڑے سے وقت میں تبدیل ہو جائے۔ دو انجیل نویسوں نے لکھا ہے ۔ کہ وہ جو اُس کے ساتھ صلیب پرکھینچے گئے تھے۔ اُسے بُرا بھلا کہتے تھے۔ لیکن صرف نحو(گرامر) کے قاعدہ (اُصول)کے موافق اس کی اس طور پر تشریح کرنا بھی جائزہ ہے۔ کہ اس سے صرف ایک ہی شخص مُراد ہو ۔کیونکہ بعض اوقات ایک کام ساری جماعت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اُس سے مراد اُس جماعت کا صر ف ایک شخص ہوتا ہے۔ تاہم ظاہری الفاظ سے صاف یہ مطلب نکلتا ہے کہ دونوں نے ایسا کیا۔ اغلب یہ معلوم ہوتاہے کہ اُس نے جو تائب نہ ہوا۔ اس بات کو چھیڑا ہو گا۔ اور دُوسرا بھی اس میں اُس کے ساتھ شامل ہوگیا۔ محض اپنی خواہش سے نہیں ۔بلکہ فقط اپنے بد طینت رفیق (بُری فطرت والا ساتھی ) کے بُرے نمونہ کے سبب ۔غالباً یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ اس طور سے گناہ کرنے پر راغب ہوا ۔ شاید اُس کا رفیق ہی اُس کا بگاڑنے والا تھا۔ جس نے اُسے تباہ برباد کر کے اس نوبت کو پہنچا یا تھا۔
مگر اس سےبڑھ کر شرارت اور بدمعاشی کی حد کیا ہو گی کہ ایک آدمی مرتے وقت بھی اپنی آخری گھڑیوں کو اپنے ہمرا ہی مرنے والے کے حق میں بُری بھلی باتیں کہنے میں صرف کرے ۔البتہ یہ تو ظاہر ہے کہ درد کی سختی نے ان مصلوبوں کو اس امر سے بالکل بے پروا بنا دیا ۔ کہ وہ منہ سے کیا بکتے ہیں۔ اور اس طور سے کسی کام میں ۔ خاص کر جب وہ اس قسم کا درشتی آمیز (بے رحمی )کام ہو۔ اپنے کو مشغول کرنا گویا کسی حد تک اُس جان کنی کے عذاب سے خلاصی پانا تھا۔ کچھ پروا نہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جس پر حملہ کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کی حالت حیوانو ں کی سی ہو رہی تھی۔ جو سخت درد کی حالت میں جو کچھ سامنے آئے ۔ اُسے کاٹ بیٹھتے ہیں۔ اس غیر تائب چو ر کی یہی حالت تھی۔ مگر دوسرا چور خوف زدہ ہو کر اپنے ہمراہی کا ساتھ چھوڑ گیا ۔ اُس کے گناہ کے حد سے بڑھ جانے نے اُسے اُس کی طرف سے متنفر(بد ظن) کر دیا ۔ اور شاید اپنی ساری عمر میں پہلی دفعہ اُس نےدیکھ لیا کہ وہ کیسا کمینہ اور کمبخت ہے۔ اور یہ بات یسوع کے تحمل اور اطمینان طبع (فطرت )کو دیکھ کر اور بھی زیادہ اُس پر نمایا ں ہو گئی۔ اب تک تو وہ اپنے وحشی دوست کو اپنا نمونہ ٹھہراتا رہا تھا۔ لیکن اب اُس نے دیکھ لیا کہ اُس کی وحشیانہ دلیری مسیح کے پُر اطمینان تحمل و بُردباری کے مقابلہ میں کیسی ہیچ (کمتر )ہے۔
اس فور ی انقلاب و تبدیلی کی معقول وجہ ڈھونڈنے میں لوگوں نے اس امر کے امکان کو فرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے بھی مسیح اور چور میں کئی ملاقاتیں ہوئی ہو ں گی ۔ مگر یہ زیادہ قرین قیاس ہے ۔ کہ ہم اُس چال چلن کا مفصل طور سے ذکر کریں ۔ جو صلیب دیئے جانے کے وقت سے جب کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقی (ملاقات ہونا) ہوئے۔ اُس چور نے مسیح کے رویہ میں کیا ملاحظہ کیا ہو گا۔ اُس نے اُسے اپنے دشمنوں کے حق میں دُعا کرتے سنا تھا۔ جب وہ کلوری کی طرف جا رہے تھے۔ تو اُس نے اُن الفاظ کو جو اُس نے یروشلیم کی بیٹیوں سے مخاطب ہو کر فرمائے تھے۔ سنا تھا ۔ اُس کے دشمنوں نے صلیب کے پاس کھڑے ہو کر جو باتیں کہیں ۔ جب اُن ناموں کو یاد دلا د کر جن کا وہ دعویدار تھا۔ یا لوگوں نے اُس کی طرف منسوب کئے تھے۔ وہ اُسے لعنت ملامت کر رہے تھے۔ انہیں باتوں سے اُسے معلوم ہو گیا ہو گا۔ کہ یسوع کے دعاوی (دعویٰ کی جمع )کیا تھے۔ شاید پیلاطس کے رُوبرو جو ماجرا گذرا۔ اُس نے وہ سب بھی دیکھا ہو گا۔ مگر جب ان معاملات سے بھی پر ے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ہمیں اس امر کے متعلق کوئی معتبر شہادت نہیں ملتی ۔ کیا اُس نے کبھی یسوع کی وعظ و نصیحت سنی تھی؟ کیا اُس نے کبھی اُس کے معجزے دیکھے تھے؟ بھلا وہ اُس بادشاہیت کی ماہیت سے جس کا وہ ذکر کیا کرتا تھا۔ کہاں تک واقف تھا؟ ان سوالوں کے جواب میں لوگوں نے بہتیرے خیال کے گھوڑے دوڑائے ہیں۔ مگر اُن کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔ مگر میں زیادہ وثوق (یقین) کے ساتھ اس سے بھی پرے جانے پر آمادہ(راضی ) ہوں۔ ممکن ہے کہ اُس کے والدین دیندار لوگ تھے۔ اور وہ مسرف بیٹے کی طرف بُری صحبت میں پڑ کر آوارہ ہو گیا تھا۔ شاید یہی آدمی جس کے ساتھ وہ صلیب پر کھینچا ہوا تھا۔ اُس کی خرابی کا ذریعہ تھا۔ جیسے کہ یسوع کی صلیب کے نیچے ایک ماں رو رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس کی صلیب کے نیچے بھی ایک ماں کھڑی ہو جس کی دُعائیں ایسے طور پر پایہ قبولیت کو پہنچیں جن کا اُسے شان و گمان بھی نہ تھا۔
فوری انقلاب یا دل کی تبدیلی کے مسئلے پر دونوں جانب سے ایسے جوش و خروش سے بحث و مباحثہ ہو تا رہا ہے کہ لوگ اصل واقعات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک معنی میں تو ہمارے درمیان اس قسم کی بات کا واقع ہونا قریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ فرض کرو کہ ایک شخص اسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس امر کو محسوس کرے کہ اُس نے ابھی تک سارے دل و جان سے اپنے کو خُدا کے حوالہ نہیں کر دیا اور دوسرا ورق اُلٹنے سے پہلے اپنے کو خُدا کےحوالہ کر دے ۔ تو کیا اسے فوری تبدیلی کہنا جائز ہو گا؟ کیونکر نہیں؟ اس لئے کہ اس قسم کی تبدیلی اُس کے دل میں سالہا سال سے جاری رہی ہے۔ وہ ساری مذہبی تعلیم جو بچپن سے تمہیں ملتی رہی ہے۔ جو دُعائیں تمہارے حق میں مانگی گئی ہیں۔ جو پندو نصیحت (ہدایتیں )تمہیں کی گئی ہیں۔ اور خُدا کی رُوح جو تمہارے باطن میں جد وجہد کرتی رہی ہے۔ یہ سب باتیں اسی غرض کو حا صل کرنے کے لئے تھیں۔ اگر تمہاری دلی تبدیلی اسی لمحہ میں واقع ہو ۔ تو بھی وہ لمحہ اُس لمبے سلسلہ کا جو سالوں سے تمہارے اندر جا ری رہا۔ آخری نقط سمجھا جائے گا۔ لیکن ایک دوسرے معنوں میں اُسے فوری یا دفعتاً کہہ سکتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو ؟ تمہارے پاس کیا معقول وجہ ہے۔ جس کی بنا پر تم اپنا خُدا کی طرف پھر نا ملتوی کر سکتے ہو ؟ مذہب میں دو قم کے تجربات ہوتے ہیں۔جنہیں ایک دوسرے سے امتیاز (فرق) کرنا چاہیے ۔ ایک تو دوسروں کے ذریعہ باہر سے ہمارے دل پر مذہبی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔ اور یہ اثر تعلیم ۔ نمونہ ۔ پندو نصیحت ۔ اور اسی قسم کی دوسری باتوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ دوسرے بات خود ہمارے دل میں مذہبی باتوں کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ہم ان تمام اثرات کی طرف متوجہ ہو کر انہیں اپنا بنا لیتے ہیں۔ اوّل الذکر تجربہ بہت طویل عرصہ لیتا ہے۔ اور بہت آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے ۔موخر الذکر دفعتاً (اچانک)واقع ہونا ممکن ہے۔ اور بعض اوقات ایک نہایت چھوٹی سی بات سے پیدا ہو جاتا ہے۔
اس تبدیلی کی عظمت کو گھٹانے کے لئے ایک دوسرا طریق لوگوں نے یہ اختیار کیا ہے۔ کہ وہ اُس آدمی کے جرم کی بابت سوال کرتےہیں۔ جب ہم اُسے چور کے نام سے پکارتے ہیں۔ تو اس سے ہمارے ذہن میں ایک ایسے عام شخص کا تصور گذرتا ہے۔ جوایک بہت ہی بد چلن مجرم ہو۔ لیکن اُن کے نزدیک اس لفظ کا ترجمہ ’’ڈاکو ‘‘ کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ غالباً یہ شخص ابتدا میں صر ف ایک پولٹیکل آدمی تھا۔ جو انقلا بِ سلطنت کی تحریک کرتا تھا۔ لیکن رومی قانون کی مخالفت کے سبب اُسے سوسائٹی کو چھوڑ کر جنگل میں پنا ہ لینی پڑی ۔ جہاں اپنے گذارے کے لئے اُس نے مجبوراً رہزنی (لوٹ کار )کا پیشہ اختیار کر لیا۔ لیکن اُس ملک میں جس پر ایک بیرونی حکومت زورو جبر کے ساتھ حکومت کر رہی تھی۔ ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے علم بغاوت(سرکشی) بلند کیا تھا ۔ اور اگر چہ وہ شریف مزاج تھے۔ مگر اپنی حالت سے مجبور ہوکر زبردستی اور لوٹ کھسوٹ کر بیٹھتے تھے۔ اس بات میں کسی قدر سچائی ہے۔ اور ممکن ہے کہ یہ تائب چور اور لوگوں سے بڑھ کر شریر و گنہگار نہ ہو۔ مگر اُس کے اپنے الفا ظ جو اُس نے اپنے ہمراہی کو کہے کہ ’’ ہم تو اپنے کئے کی سزا بھُگت رہے ہیں‘‘ ۔ بالکل دوسرے امر کی تصدیق کرتےہیں۔ اُس کے حافظہ میں ایسے کاموں کی یاد موجود تھی جس کی وجہ سے وہ اس بات کا مقر (اقرار کرنا )تھا کہ موت اُن کی واجبی سزا ہے۔ قصہ مختصر اس امر میں شبہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں کہ وہ ایک بڑا گنہگار تھا ۔ اور اُس کے دل میں دفعتاً ایسی بڑی تبدیلی واقع ہو گئی ۔ اور اس لئے اُس کے مثال ہمیشہ بڑے سے بڑے گنہگار کے لئے جب وہ توبہ کر ے حوصلہ افزائی اور تسلی کا باعث ہو گی۔ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے۔ کہ تائب (توبہ کرنے والے)لوگ خد اکے حضور میں آنے سےڈرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے گناہ ایسے بھاری ہیں کہ اُن کی معافی کی اُمید نہیں۔ مگر وہ جو انہیں اس امر کی تحریک کر رہے ہیں۔ اُن کے سامنے ایسے شخصوں کے نام جیسے کہ منسّی اور مریم مگدلینی یا جیسے کہ یہ چورہے ۔ پیش کر سکتے ہیں۔ اور یقین دلا سکتے ہیں۔ کہ وہ الہٰی رحمت جس نے ان کو بخش دیا ۔ سب کے لئے کافی و وافی ہے۔ ’’ یسوع مسیح۔ خُدا کے بیٹے کا خون سارے گناہ سے پاک کرتا ہے‘‘۔
جو لوگ اس عجیب و غریب تبدیلی کے زور کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دل میں یہ خوف ہے کہ مباد ااگر اس بات کو مانا جائے کہ بُرے سے بُرے آدمی میں بھی ایک لمحہ بھر میں جب کہ وہ لب گور(قبر کے منہ پر ) ہوا اس قسم کی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ تو لوگ اس اُمید پر کہ مرتے وقت توبہ کر لیں گے۔ اپنی نجات کی طرف سے بے پروا ہو جائیں گے۔ یہ خوف توبجا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے۔ کہ بعض اوقات خُدا کے فضل کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ مگر یہ ایک دوسری بات ہے۔ جو لوگ اپنے کو اس قسم کے دلائل سے دھوکا دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جب چاہیں ایمان اور اُمید کو اپنے دل میں پید ا کر سکتے ہیں۔ اور جب کبھی وہ چاہیں گے تمام مذہبی حسات کو اپنے اندر پیدا کر لیں گے۔ لیکن کیا تجربہ اس امر کی تائید کرتا ہے۔ برخلاف اس کے کیا اس قسم کے موقع شاذ و نادر نہیں دیکھے جاتے جب کہ مذہب ایک لا مذہب آدمی پر سچ مچھ کچھ اثر پیدا کر تا ہے؟
اور یہ بھی ہر حالت میں نہیں دیکھا جاتا کہ موت کی قربت ہر ایک آدمی میں مذہبی باتوں کی نسبت فکر مندی پیدا کر دیتی ہے۔ دوسرا چور اس بات کا عمدہ نمونہ ہے۔ اگر چہ اُس وقت موت سے دو چار ہو رہا تھا۔ اوریسوع کے اس قدر قریب تھا۔ تو بھی اُس کا دل اور بھی زیادہ سخت ہو گیا ۔ اور اُس شخص کا بھی جو جان بوجھ کر رُوح کو بجھا دیتا ہے۔ اس اُمید پر کہ وہ بستر مرگ پر توبہ کرلے گا ۔ اغلب ہے کہ یہی حال ہو گا۔
مگر اس خیال کے ڈر سے کہ اس سچائی کا ناجائز استعمال ممکن ہے۔ ہم خُدا کے فضل کی شہادت کو جو اس واقعہ میں پائی جاتی ہے۔ ہر گز ہاتھ سے نہ دیں گے۔ کہ ’’ ہمیں نجات دہندہ کی اس دعوت کو کسی طرح سے محدود نہیں کر نا چاہیے کہ ’’ وہ جو میرے پاس آتا ہے۔ میں اُسے کسی صورت سے نکال نہ دُوں گا‘‘ گنہگار خواہ کیسی ہی دیر سے کیوں نہ آئے ۔ اور آتے وقت اُس کے پاس خواہ کتنا ہی تھوڑا وقت کیوں نہ ہو۔ اگروہ فقط آہی جائے ۔ تو یقیناً وہ نکال نہیں دیا جائے گا۔ کسی سلسلہ علم الہٰی اور اُس کے معلموں کی تعلیم کی سچائی کی اس سے بڑھ کر اور کوئی کسوٹی (پیمانہ )نہیں کہ وہ ایک لبِ مرگ آدمی کے لئے ۔ جس کے گناہ معاف نہیں ہوئے ۔ کیا پیغام ِتسلی رکھتے ہیں؟ اگر نجات جو ایک واعظ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ محض اخلاقی ترقی کے بتدریج واقع ہونے کی تعلیم کا نام ہے۔ تو وہ ایسے موقع پر کیا کہے گاَ؟ ہم کو یقین کرنا چاہیے کہ ہماری انجیل (خوشخبری)اُس شخص کی انجیل نہیں ہے۔جس نے ایک تائب چو ر کو بھی تسلی دی ۔ جب تک کہ ہم لبِ گور (مرنے کے قریب ) گنہگار کو بھی ایسی نجات کی خوشخبری نہیں دے سکتی ۔ جو فی الفور حاصل ہو جاتی اور کامل خوشی و خرمی عطاکر سکتی ہے۔
یہ بات کہ اس چورمیں کس قدر کامل تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ خود اُس کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ مُقد س پولوس ایک مقام پر مسیحی دین کو دو باتوں میں بیان کر دیتا ہے۔ خُدا کی حضور تائب ہونا۔ اور یسوع مسیح پر ایمان لانا ۔ اور یہ دونوں باتیں ہمیں اس تائب چور کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ اُس کی توبہ اُن الفاظ میں ظاہر ہوتی ہے۔ جو اُس نے اپنے ہمراہی چور سے کہی ۔ وہ اُسے کہتا ہے ’’ کیا تو خد ا سے نہیں ڈرتا ‘‘۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ خود بھی خُدا کو بھلا بیٹھا تھا۔اور گذشتہ عمر میں اُس کا خیال ہر گز پاس نہیں آنے دیا تھا ۔ لیکن اب اُسے خُدا قریب معلوم ہوتا تھا۔ اور اُس کے نور میں اُس نے اپنی گنہگار ی کو دیکھ لیا۔ اور اُس نے اس کا اقرار کیا۔ فقط اپنے دل میں پوشیدہ طور پر نہیں بلکہ علانیہ طور پر ۔ اس طور سے اُس نے اپنے کو گناہ سے بلکہ اپنے ساتھی سے بھی جو اُس کی گمراہی کا باعث تھا۔ علیحدہ کر دیا ۔ جب کہ اُس نے اُس کی مانند توبہ کرنے سے انکار کیا۔اور ایسی ہی صفائی کے ساتھ اُس کے الفاظ سے اُس کا یسوع مسیح پر ایمان لانا ظاہر ہوتاہے۔ وہ بالکل سادہ الفاظ ہیں اور اُن سے عجز و انکسار ٹپکتا ہے۔ اُس نے صرف یہ درخواست کی کہ جب مسیح اپنی بادشاہت میں آئے۔ تو اُسے یاد رکھے ۔ مگر ان الفاظ سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ مسیح کے جلال و بزرگی کا قائل ہے۔ اور اُس پر کامل اعتماد رکھتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ قوم کے مذہبی پیشوا یہ سمجھ رہے تھے۔ کہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے مسیح کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا ۔ اور جب کہ خود اُس کے اپنے شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اُس وقت یہ بے چار ہ لب ِ گو ر گنہگار اُس پر ایمان لے آیا۔ کا لون صاحب لکھتے ہیں کہ اُن آنکھوں کی نظر کیسی صاف ہو گی۔ جو موت میں زندگی کو ۔ بربادی میں عظمت کو ۔ شرم و بے عزتی میں جلال کو شکست میں فتح کو ۔ اور غلامی میں بادشاہی کو دیکھنے پر قادر تھیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ آیا دُنیا کے آغاز سے کبھی بھی ایسا ایمان سننے میں آیا ہے۔ لوتھر بھی کچھ کم ثنا خواں نہیں ہے او ر لکھتا ہے کہ ’’ مسیح کے لئے یہ بھی اُسی قسم کی تسکین و تسلی تھی جیسے کہ فرشتے نے باغ میں دی ہو گی۔ بھلا خُدا کس طرح دیکھ سکتا تھا۔ کہ اُس کا بیٹا تابعین(پیروی کرنے والے) سے خالی رہے۔ اور اُس وقت اُس کی کلیسیا ء گویا اُس آدمی میں زندہ موجود تھی ۔ جہاں مُقدس پطر س کا ایمان زائل ہوگیا ۔وہاں ایک چور کا ایمان شروع ہو ا‘‘۔ اور ایک اور صاحب پوچھتے ہیں کہ ’’کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایسی نئی پیدا ئش ایسے عجیب گہوارے (جھولے ) میں واقع ہو ؟‘‘۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ یسوع نےاُس شخص کو الفاظ کے ذریعہ مومن نہیں بنا یا۔ اُس نے ہرگز اُس چور سے ایک لفظ بھی نہیں کہا پیشتر اس کے کہ وہ خود اُس سے ہم کلام ہوا ۔ اُس کی تو بہ و پشیمانی مسیح کے بولنے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ لیکن یہ بھی خود اُسی کا کام تھا۔ مگر اُس نے یہ کس طرح کیا ؟ جیسے کہ مُقدس پطر س نے دیندار عورتو ں کو نصیحت کی تھی۔ کہ وہ اپنے بے دین خاوندوں کے ایمان لانے کا ذریعہ بنیں۔ اور یوں لکھا تھا کہ ’’ اے بیویو ! تم بھی اپنے اپنے شوہروں کے تابع رہو ۔ کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ بھی مانتے ہوں ۔تو بھی تمہارے پاکیزہ چال چلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیویوں کے چال چلن سے خد ا کی طرف کھنچ جائیں ‘‘۔ یہ اُس کے صبرو تحمل اُس کی بے گناہی اُس کے اطمینانِ قلب (دل) اور اُس کی عالی حوصللگی کا ذریعہ تھا کہ یسوع اس آدمی کے دل کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ۔اور اس امر میں بھی وہ ہمارے لئے ایک نمونہ چھوڑ گیا ہے کہ ہم بھی اُس کے نقش قدم پر چلیں۔
لیکن اُس کے کلام نے بھی جب وہ اُس سے مخاطب ہوا اس اثر کو اور بھی گہر ا کر دیا۔ اُس کے الفاظ تھوڑے سے تھے۔ مگر ان میں سے ہر ایک اُس کے نجات دہندہ ہونے کا ثبوت تھا۔
یہ چور تو کسی آنے والے دن کا منتظر تھا۔جب کہ مسیح اُس کی سفارش کرے گا۔ مگر مسیح فرماتا ہے ’’آج ‘‘ ۔ یہ اس امر کی نبوت بھی تھی۔ کہ وہ اُسی روز مر جائے گا۔ اور جیسا کہ عموما ً مصلوبوں کا حال ہوتا تھا۔ بہت دنوں تک وہاں صلیب پر نہیں لٹکا رہے گا۔ اور یہ بات پوری ہو گئی۔ مگر اس کے علاوہ یہ اس امر کا وعدہ بھی تھا۔ کہ جیسا ہے موت اُسے اس دُنیا میں سےلے کر ابدیت میں داخل کر دے گی۔ مسیح وہا ں اُس کے استقبال کو کھڑا ہو گا۔’’ آج تومیرے ساتھ ہو گا ‘آسمان کی ساری خوشی اور شان و شوکت انہیں دو لفظوں میں بھری ہے۔ ہمارے نزدیک آسمان اور کیا ہے۔ اور ہم وہاں اور کس چیز کے خواہش مند ہیں سوائے اس کے کہ وہاں ہم ’’مسیح کے ساتھ ‘‘ ہو ں گے۔ مگر اس کے علاوہ ایک او ر لفظ بھی اُس نے کہا یعنی ’’فردوس میں ‘‘ بعض کا خیال ہے کہ اس عام لفظ کے استعمال کرنے میں مسیح گویا اُس تائب چور کے خیال کا لحاظ کر رہا تھا۔ کیونکہ عام طور پر جب دوسرے جہان میں کسی خوب صورت اور پُر آرام مقام کا ذکر کرتے ہیں۔ تو اُس کا تصّور اسی لفظ سے ادا کرتےہیں ۔ کم سے کم اس لفظ کے استعمال سے جس کے اصلی معنی ’’ باغ یا گلشن ‘‘ کے ہیں اور جو اُس مقام کی نسبت بولا جاتا تھا۔ جہاں ہمارے پہلے والدین یعنی آدم و حوا رکھے گئے تھے۔ خود بخود لب ِ مرگ آدمی کے خیال میں ایک ایسی جگہ کا تصور پیدا کرتا ہے جہاں حسن و خوبی ۔ بے گناہی اور امن کی حکومت ہے اور جہاں وہ گذشتہ غلطیوں اور نقصوں کی غلاظت سے پاک صاف ہو کر ایک نئی مخلوق کی مانند زندگی بسر کرنا شروع کر ے گا۔ بعض مسیحیوں کا بھی ایسا خیال ہے۔ کہ ایسی رُوح جیسی کہ چور کی تھی۔کم سے کم شروع شروع میں ۔ جو کچھ آئندہ جہان میں ملنے کی اُمید کر سکتی ہے۔ سو پر گتٹوری یعنی عالم اعراف یا برزخ کی آگ ہے۔ جس میں یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ ارواح گناہوں سے صاف کئے جاتے ہیں۔ مگر مسیح کا فضل اس سے کسی مختلف چیز کا وعدہ کرتا ہے ۔ اُس کا کام عظیم اور کامل ہے اور اس لئے وہ ہمیں کامل نجات عطا کرتا ہے۔
_____________________________
1۔ تھولک صاحب جو جرمنی میں ایک نہایت عالم فاضل شخص گز رے ہیں ۔
اس دوسرے کلمہ سے جو مسیح نے صلیب سے فرمایا خاص طور پر ہمیں نجات دہندہ کی عظمت کا پتہ ملتا ہے۔ اور اگر چہ وہ صاف صاف نہیں بیان ہوا۔ تو بھی اس وجہ سے اور بھی بہت دل نشین معلوم ہوتا ہے چور نے اُس وقت اُسے ایسے طور سے مخاطب کیا گو یا کہ وہ بادشاہ ہے۔ اور اُس سے اس طور پر دُعا و التجا کی گویا کہ وہ خُدا سے کرتا ہے۔ اور اُس نے کس طور پر اُسے جواب دیا ؟ کیا اُس نے اُسے یہ کہا کہ ’’مجھ سے دُعا نہ کر۔ میں تو تیرے ہی جیسا انسان ہوں ۔ اور میں اُس عالم سے جس میں ہم دونوں داخل ہونے کو ہیں۔ ایسا ہی بے خبر ہوں۔ جیسا تو ؟ اگر وہ محض انسان ہی ہوتا ۔ جیسا کہ بعض لوگ اُسے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ تو اُسے یقیناً اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا مناسب تھا۔ مگر اُس نے اپنے فریادی کی اس عقیدت کو قبول کر لیا۔ اور دوسرے عالم کا ایسے طور سے ذکر کیا۔ گویا کہ وہ اُس کا اپنا وطن ہے۔ اور وہ اُس سے خوب واقف ہے۔ اُس نے اُس کو یہ یقین کرنے کا موقعہ دیا کہ اُس عالم میں اُس کو اُسی قدر اختیار و قدرت حاصل ہے ۔ جیسے کہ وہ اُس کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اس بڑے گنہگار نے اپنی جان اور گناہ اور اپنی ابدیت کا بوجھ مسیح پر رکھ دیا ۔ اور مسیح نے اُس کے اس بوجھ کو بخوشی قبول کر لیا۔
ہمارے خُداوند کی زندگی شروع سے آخر تک ایک عجیب قسم کا معجو ن (مرکب)معلوم ہوتی ہے۔ جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سی ادنی ٰ باتیں باہم ملی ہوئی پائی جاتی ہیں ۔ جب کہ اُس کے الہٰی مرتبہ کی ایک شعاع اپنی چمک دمک سے ہماری آنکھوں کو چوندھیا دیتی ہے۔ تو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات بھی واقع ہو جاتی ہے۔ جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وہ ہماری ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہے۔ اور برعکس اس کے جب وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے ۔ جس سے اُس کی انسانی ذات کا خیال ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ تو اُس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات بھی واقع ہو جاتی ہے۔ جس سے ہم کو یہ یقین ہوتا ہے۔ کہ و ہ محض ابن ِآدم ہی نہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ اپنی ولادت کے وقت وہ چرنی میں رکھا گیا ۔ لیکن با ہر بیت لحم کے چراگاہوں میں فرشتے اُس کی حمد و ثنا کا گیت گا رہے تھے۔ اس سے بہت عرصہ بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کشتی میں سو رہا تھا۔ اور تکان سے ایسا ماندہ ہو رہا تھا کہ ایسے خطرہ کی حالت میں بھی وہ جگانے سے جاگا۔ لیکن جاگتے ہی اُس نے ہوا اور لہروں کو ملامت کی اور فوراً طوفان بالکل تھم گیا ۔ جب اُس نے مار تھا۔ اور مریم کا رنج و غم دیکھا تو لکھا ہے کہ ’’ یسوع رویا ‘‘ ۔ لیکن اس سے چند ہی منٹ بعد وہ بولا ’’ لعزر باہر نکل آ ‘‘۔ اور وہ قبر سے باہر نکل آیا ۔ اور اس کی زندگی کے آخری دم تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ اُس کے دوسرے کلمہ پر غور کرتے وقت ہم نے دیکھا کہ اُس نے تائب چور کے لئے فردوس بریں کے در کھول دے ۔ آج ہم تیسرے کلمے پر غور کرتے ہیں۔ جس میں وہ ہم پر ایک عورت کا بیٹا ہونے کی حیثیت میں ظاہر ہو گا۔ جو مرتے دم اپنی ماں کی جسمانی پر ورش کے لئے فکر مند ہو ۔
______________________________
1۔اے عورت دیکھ تیرا بیٹا ۔۔۔۔۔ دیکھ تیری ماں۔
یسوع کی آنکھ اُس مخلوط(ملے جلے ) گروہ پر نظر کرتی ہوئی جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ آخر اپنی ماں پر آکر ٹھہری ۔ جو صلیب کے نیچے کھڑی تھی۔زمانہ وسطیٰ کے ایک عظیم الشان اور پُر زور گیت میں جس کے لئے بڑے بڑے صاحب کمال موسیقی دانوں نے راگ تیار کئے ہیں۔ اس کی حالت کو نہایت درد ناک الفاظ میں بیان کیا ہے۔ جب وہ جوانی کے عالم میں اپنے پہلوٹھے کو ہیکل میں لائی توشمعون نے اُسی وقت پیشن گوئی کی تھی۔ کہ تلوار تیری جان میں سے گذر جائے گی ۔ شاید وہ خوشی و خرمی کے ایام میں اکثر اس بات کو یاد کرکے تعجب کرتی ہوگی ۔کہ اس مخفی و پر اسرار(پوشیدہ اور عجیب) پیشن گوئی کا کیا مطلب ہے۔لیکن اب وہ اس کا مطلب سمجھ گئی ہو گی۔ کیونکہ اب تلوار وار پر وار کر کے اُس کے دل کو چھید رہی تھی۔
ماں کے لئے اپنے بیٹے کو مرتے دیکھنا نہایت ہی سخت صدمہ جانکا (جان لیوا )ہوتا ہے۔ وہ طبعاً یہ اُمید کرتی ہے کہ اُس کا بیٹا اُس کا سر گور(قبر)میں رکھے گا۔ خاص کر اس صورت میں جب کہ وہ اُس کا اکلوتا اور اُس کی قوت کا فرزند تھا۔یسوع کی عمر اس وقت صرف ۳۳ سال کی تھی۔ اور اُس کی ماں اُس عمر کو پہنچ گئی تھی۔ جب کہ مضبوط اور پُر محبت فرزند اُس کے بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔
مگر جس موت وہ مررہا تھا۔ وہ اور بھی اس بسترِ مرگ کو زیادہ درد ناک بنارہی تھی۔ ایک مجرم کی موت۔ بہت سی ماؤں کو اپنے بیٹوں کی موت کی ظاہر ی صورت سے سخت صدمہ پہنچا ہو گا۔ مثلاًجب کہ سخت درد کی حالت میں یا ایسے ہی کسی اور درد ناک طور پر اُن کے پر ان(جان نکلنا) نکلیں۔ مگر مُقدس مریم کے مقابلہ میں دوسری ماؤں کی تکلیفیں اور دُکھ کیا حقیقت رکھتے تھے؟ یہاں اُس کا لڑکا سامنے اُس کی آنکھوں کے رو برو لٹک رہاہے۔ مگر وہ اُس کی کچھ بھی مدد نہیں کر سکتی ۔ اُس کے زخموں سے خون جاری ہے۔ مگر وہ انہیں پونچھ نہیں سکتی ۔ اُس کا منہ سوکھ رہا ہے۔ مگر وہ اُسے تر نہیں کرسکتی ۔ ان ہاتھوں سے جواب صلیب پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی ماں سے بغل گیر(گلے ملنا ) ہوا کر تا تھا۔ وہ ان ہاتھو ں اور پاؤں کو ناز سے چوما کرتی تھی۔ ہاں ! یہ میخیں ۔ صرف اُس کے ہاتھوں میں سے ہی نہیں ۔ بلکہ مریم کے دل میں سے بھی پار ہو گئی ہوں گی ۔ اُس کے سر کے کانٹوں کا تاج اُس کے دل کو آگ کے شعلوں کی طرح جلاتا ہوگا اور جو طعنے مہنے اُس کو دیئے جاتے تھے۔ وہ اُس کے دل میں تیر کی طرح لگتے تھے۔
مگر معاملہ اس سے بھی بد تر تھا۔ اس تلوار کا زخم اور بھی گہرا تھا۔ کیا فرشتے نے اُس کی ولادت سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ ’’ وہ بزرگ ہو گا۔ اور خُدا ئے تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔ اور خُداوند خد ا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا۔ اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کر ے گا۔ اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہو گا‘‘؟ یہ عظمت و بزرگی ۔ یہ تخت و تاج ۔ یہ بادشاہی ۔ یہ سب کیا ہو گئیں۔ ایک زمانہ میں وہ یقین کرتی تھی۔ کہ وہ در حقیقت جیسا کہ فرشتے نے اُسے کہا تھا ’’تمام عورتوں میں سے مبارک ‘‘ ہے۔ جب کہ وہ اُسے بچپن کے حسن و خوبی کے ساتھ اپنی گود میں لیٹا ہوا دیکھتی تھی۔ جب گڑریے اور مجوسی اُس کی پرستش کے لئے آئے ۔ شمعون اور حنا نے اُسے دیکھ کر اس کے مسیح ہونے کا اقرار کیا۔ اس کے بعد وہ طویل زمانہ آیا جو اُس نے گمنامی کی حالت میں ناصرت میں بسر کیا۔وہ ایک معمولی گاؤں کا بڑھئی تھا۔ مگر وہ ہرگز درماندہ (بیچاری ) نہ ہوئی۔ کیونکہ وہ اُس کے ساتھ گھر میں رہتا تھا۔ اور اُسے یقین تھا کہ یہ بزرگی اور تاج و تخت مقررہ وقت پر ضرور اُسے مل کے رہے گا۔ آخر اُس کی گھڑی آ پہنچی ۔ اور اپنے ہتھیار اور اوزار رکھ کر اور اُسے الوداع کہہ کر وہ اُس چھوٹی سی وادی سے نکل کرجس میں اُس کا گھر واقع تھا۔ اس بڑی دُنیا میں چلا گیا ۔ اس وقت اُس نے اپنے دل میں کہا ہوگا کہ اب یہ سب باتیں پوری ہوں گی ۔ مخصوصیت ہی کے دنوں میں اُسے خبر ملی کہ وہ کیسی توفیق وقدرت الہٰی سے بھری ہو ئی باتیں لوگوں کو سنا تا ہے۔ اور لوگوں کی جماعتیں اُس کے پیچھے چلی آتی ہیں۔ قوم جاگتی جاتی ہے۔ اور اندھے اور لُنجے اور بیمار اور ماتم زدہ لوگ اُس کے ہاتھو ں اور شفا تسلی پا کر اُسے اور اُس کی ماں کو مبارک کہتے ہیں۔ یہ سُن کر اس نے کہا ہو گا کہ اب سب کچھ پورا ہوگا ۔لیکن جب اُس کے خلاف خبریں پہنچی ہوں گی کہ لوگ اُسے دق کرتے اور ایذا دیتے ہیں تو اُس کا دل ڈوب گیا ہو گا۔ یہ سن کر وہ اپنے گھر میں آرام نہ کر سکی ۔ اور ناصرت سے روانہ ہو کر خوف سے کانپتی ہوئی آئی کہ دیکھو ں اب وہ کیسا ہے۔ اور اب وہ صلیب کے دامن میں کھڑی ہے ۔وہ مر رہا ہے۔ اور اس کی عظمت اور جلال اور بادشاہت سب کیاہوئیں؟
اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا فرشتے نے اُسے دھوکا دیا۔ یا خُدا کا کلام جھوٹ تھا۔ اور جو عجائبات اُس کے بچپن میں نظر آئے تھے۔ سب خواب و خیال تھے۔ ہم اب ان ساری باتوں کا مطلب سمجھتے ہیں۔ یسوع اُس تخت کی نسبت جو مریم کے خیال میں تھا۔ اور بھی زیادہ بلند پایہ تخت پر چڑھنے کو تھا۔ اور یہ صلب فقط اُس کا ایک زینہ(سیڑھی ) تھی ۔ اس سے چند ہی ہفتہ بعد مریم نے بھی اس کا مطلب سمجھ لیا ۔ مگر اس وقت تو ہر طرف مصر کے جیسی گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اور اُس کے دل کا غم موت کی جانکنی سے کچھ کم نہ ہو گا۔ تلوار فی الحقیقت اُس کے دل میں سے پار ہو گئی تھی۔
مر یم کے ساتھ صلیب کے دامن میں اور بھی کئی ایک عورتیں کھڑی تھیں ۔جن میں سے دو کا نام بھی مریم تھا۔ جیسا کہ ایک قدیمی مصنف لکھتا ہے۔ اس وقت کمزور عورت ذات مردوں سے زیادہ مضبوط بہادر نکلی۔جب رسول اپنے آقا کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تو بھی یہ عورتیں آخری دم تک وفادار ثابت ہوئیں۔ شاید عورت ذات ہونے کے سبب کسی نے اُن سے تعرض (بات کرنا ) نہ کیا۔ عورتیں بعض جگہوں میں بلا تحاشا جا سکتی ہیں۔جہاں آدمی کو جانے کاکبھی حوصلہ نہیں ہو تا ۔ اور اس قابلیت کو بہت سی عورتیں نے اپنے مالک کی خدمت کے لئے استعمال کیا ہے۔جسے آدمی کبھی سر انجام نہ کرسکتے ۔ مگر وہاں ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ جو عورتوں کی طرح محفوظ نہیں تھا۔ اور وہ ضرور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر وہاں تک گیا ہو گا۔
یوحنا بھی معلوم ہوتا ہے۔ رسولوں کے اُس زمرہ میں شامل تھا۔ جن کی بابت لکھا تھا۔ کہ سب اپنے آقا کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ لیکن اگر یہ بات سچ ہے۔ تو اُس کا خوف بہت دیر تک نہیں رہا ہو گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تحقیقاتِ مُقدمہ میں شروع ہی سے وہاں موجودتھا۔ اور یہاں بھی اس آخر ی گھڑی میں بارھوں میں سے وہی اکیلا اپنے آقا کے پاس موجود ہے۔ شاید سردار کاہن کی واقفیت جس کی بنا پر وہ تحقیقات ِ مقدمہ کے وقت محل میں داخل ہو سکا اس وقت بھی اُس کے کام آئی ۔ مگر سب سے بڑھ کر اُس کی اعلیٰ عقید ت اور محبت تھی ۔ جو وہ اپنے آقا سے رکھتا تھا۔ جو اُسے کھینچ کر اُس کے پاس لے آئی ۔ وہ جو اپنے آقا کے سینے پر لیٹا کر تاتھا۔ بھلا وہ کس طرح اُس سے دُور رہ سکتا تھا۔ اور اُسے اس کا اجر بھی مل گیا ۔وہ یسوع کی جان کنی کی حالت میں اُسکی ایک آخری خدمت بجا لا سکا۔ اور اُس سے اُس کی اُلفت و محبت و اعتماد کا ایسا نشان حاصل کیا جسے اُس کے دل نےایک اعلیٰ درجہ کی عزت و استحقاق سمجھا ہو گا۔
مگر سب سے بڑھ کر ہمیں اس امر پرغور کرنا چاہتے ہیں کہ اس واقعہ سے خود یسوع پر کیا اثر ہوا۔ اُس نے اپنی ماں کی طرف نظرکی ۔ مگر ایسی نظر جو اور سب طرف سے ہٹی ہوئی تھی۔ وہ اُس وقت ایسی سخت درد سے بے تاب ہو رہا تھا۔ جو ممکن تھا کہ اُسے اپنے سوااور سب کی طرف سے بے خبر کر دیتی۔یا اگر اُسے سوچنے کی فرصت یا طاقت بھی ہوتی ۔ تو مرتے ہوئے آدمی کے پاس اپنے ہی دل میں اور بہت سی باتیں سوچنے کے لئے ہوتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مسیح کے پاس دُنیا بھر کی باتیں سوچنے کے لئے تھیں۔ کیونکہ وہ اس وقت اُس عقدہ(مشکل کام ) کے حل کرنے میں جس پر اس کی ساری
________________________________________
1۔یہ یقینی طورپر نہیں کہہ سکتے کہ آیا یوحنا ۲۵:۱۹ میں دو عورتوں کا ذکر ہے یا چار کا م کیا دوسری سلومی یوحنا کی ماں تھی ؟
زندگی صرف(خرچ ) ہوئی۔ آخر ی جدوجہد میں مشغول تھا۔ اُس کا اپنے دشمنوں کے حق میں دُعا کرنا ہمیں اس قدر حیرت میں نہیں ڈالتا ۔کیونکہ اُس کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے۔کہ یہ اُس کے گنہگاروں کی شفاعت کے کام کا ایک جز تھا۔ نہ تائب چور سے ہم کلام ہونا ۔ کیونکہ یہ بھی اُس کے نجات کے کام سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر ہمیں تعجب اس امر پر آتاہے۔کہ ایسی گھڑی میں اُسے معمولی زندگی کے کاروبار سر انجام دینے کی فرصت ملی ۔ جو لوگ انسانی ہمدردی یا اصلاح و درستی کی تجاویز میں مشغول ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے۔ کہ وہ اپنے خانگی (گھریلو ) معاملات کی طرف سے غافل (لاپروا )ہو جاتے ہیں۔ اور وہ اس بناپراپنے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یا دوسرے اُن کی طرف سے معذرت کرتےہیں۔ کہ عوام الناس کی بھلائی کی فکر اُن کے خاندانی تعلقات پر غالب تھی۔ کبھی کبھی یسوع کے منہ سے بھی اسی قسم کے کلمات نکلتے تھے۔ جن سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ بھی اسی خیال پر کاربند تھا۔وہ ہرگز نہیں گوار ا کرتا تھا۔ کہ اُس کی تدابیر میں اُس کی ماں کسی طرح سے مخل(خلل ڈالنا ) ہو ۔لیکن اس وقت اُس نے ثابت کر دیا کہ اگرچہ وہ اپنی ماں کی ناواجب دست اندازی کوروکنے پر مجبور تھا۔ مگر وہ ایک دم کےلئے اُس کے جائز حقوق کو نہیں بھولاتھا۔ باوجود اپنی عظمت اور کثرت کاروبار کے وہ اب بھی مریم کا فرزند تھا ۔اور اُس سے ویسی ہی لازوال فرزند انہ اُلفت و محبت رکھتا تھا۔
البتہ اُس کے کلمات تو چند ایک ہی تھے۔ مگر اُن الفاظ سے جو کچھ اُس کے لئے کہنا ضروری تھا۔ کامل طور پر ادا ہو گیا ۔ اس حالت میں ہر ایک لفظ جو اُس کے منہ سے نکلتا ہو گا۔ اُس سے اُسے سخت تکلیف ہوتی ہو گی۔ اس لئے وہ بہت کچھ نہ کہہ سکا ۔ اس کے علاوہ اُن الفاظ کے چند ایک ہونے سے انہیں ایک طرح کا قانونی رُتبہ حاصل ہو گیا ۔جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ گویا اُس کا آخری وصیت نامہ تھا۔ اُس نے اپنی ماں سے مخاطب ہوکر فرمایا۔’’اے عورت ۔ دیکھو تیرا بیٹا ‘‘اور ساتھ ہی اپنی آنکھ سے یوحنا کی طرف اشارہ کیا ۔ اور اپنے شاگرد سے اُس نے صرف یہی فقرہ کہا۔ ’’دیکھ تیری ماں ‘‘ ۔الفاظ تو سادہ تھے۔ مگر اُن سے اُس کا مطلب پورے طور پر ادا ہو گیا۔یہ الفاظ نہ صرف صاف بلکہ قانونی مقررہ الفاظ کی مانند تھے۔ لیکن تاہم وہ مریم اور یوحنا دونوں کے لئے محبت سے معمور تھے۔
خیال کیا جاتا ہے۔ کہ یوسف مریم کا خاوند خُداوند کی پبلک رسالت کے شروع ہونے کے زمانہ سے پہلے ہی مر چکا تھا۔ اور ناصرت میں گھر کا سارا بوجھ یسوع کے کندھوں پر پڑا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اپنی تعلیم و وعظ کے زمانہ میں بھی وہ اپنی ماں کی فکر رکھتاتھا۔ لیکن اب وہ بھی اُسے چھوڑ چلا ۔ اور اب یہ بیوہ بے یار و مدد گار رہ گئی۔ اور اس لئے اُس نے اُس کی پرورش کا بندوبست کر دیا۔
اُس کے پاس زرو مال نہ تھا۔ جو اُس کے واسطے چھوڑ جاتا ۔ اُس کی ساری جائیداد وہ کپڑے تھے۔ جو وہ صلیب دیئے جانے کے وقت پہنے ہوئے تھا۔ اور یہ سپاہیوں نے بانٹ لئے تھے۔ مگر اُن لوگوں کا جو ا گرچہ خود بہت ہی غریب و تنگدست ہوتے ہیں۔ مگر دوسروں کو بیش قیمت رُوحانی تحفوں سے مالا مال کر دیتے ہیں۔ یہ حق ہوتا ہے۔ کہ اُن کو ایسے دوست مل جاتے ہیں۔ جو اُن کے یا اُن کے متعلقین کی امداد و خدمت میں اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ جب اُس نے اپنی ماں کو مُقدس یوحنا کے سپرد کیا۔ تو یسوع جانتا تھا۔ کہ ایسا کرنے میں وہ اپنے شاگرد کو ایک تحفہ عطا کر رہا ہے۔ نہ کہ اُس پر بوجھ رکھ رہا ہے۔
ہم اس کی وجہ نہیں بتا سکتے کہ وہ اپنے دوسرے بیٹوں میں سے کسی کے گھر میں کیوں نہ چلی گئی۔ وہ اُس وقت مومنین کی جماعت میں شامل نہ تھے۔ اگر چہ اس کے بہت جلد بعد وہ بھی اُس پر ایمان لے آئے ۔ لیکن شاید اور بھی وجوہات ہوں جو ہمیں اس وقت معلوم نہیں ہیں۔
بہر صورت ہم یہ امر بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ کہ مقدس یوحنا کو اس خدمت کے لئے چُننا کیسا بر محل (مناسب ) تھا۔ اناجیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ مقدس یوحنا اوروں سے زیادہ مالدار تھا یا کم سے کم دوسروں کی نسبت زیادہ خوش حال تھا۔ اور شاید اس امر کا بھی یسوع نے خیال کیا ہو گا۔ وہ اپنی ماں کو ہرگز ایسی جگہ بھیجنا پسند نہ کرتا ۔جہاں وہ اُن پر بوجھ ہوتی ۔ یہ امر اغلب(یقینی) ہے کہ مقدس یوحنا کی شاد ی نہیں ہوئی تھی۔ مگر اس سے گہری وجوہات بھی تھیں۔ اس شخص کے بازو کے سوا جو اُس کے سینہ پرلیٹا کرتا تھا۔ دوسرا کوئی بازو نہ تھا۔ جس پر وہ ایسے اعتماد کے ساتھ تکیہ کرتی۔ مقدس پطرس جو ایسا گرم مزاج تھا۔اور مچھوؤں کی اکھڑ عادتیں رکھتا تھا۔ اس امر کے لئے ایسی مناسبت نہ رکھتا تھا۔ یوحنا اور مریم دونوں ایک سا مزاج رکھتے تھے۔ خاص کر اُس گہری محبت کے لحاظ سے بھی جو دونوں یسوع کی نسبت رکھتے تھے۔ وہ متحد تھے۔ وہ اُس کی نسبت باہم بات چیت کرنے سے کبھی تنگ نہ آتے ۔ اُس نے اُن کو ایک دوسرے کے سپرد کرنے سے دونوں کو ایک دوسرے کی نظر میں عزت بخش دی۔ اگر اُس نے مریم کو یوحنا بطور فرزند کے عطا کرنے سے اُسے ایک بڑی نعمت بخشی ۔ تو یوحنا کے لئے بھی مریم کا بطور ماں کے ملنا کچھ کم نعمت نہ تھا۔ کیونکہ مریم کی موجودگی سے اُس کے گھر کی رونق و عزت دوبالا ہوگئی۔ علاوہ بریں کیا اُس نے مقدس یوحنا کو بھی ایک خاص معنوں میں اپنا بھائی نہ بنا لیا۔ جب اُسے اپنی جگہ مریم کا فرزند بنا دیا۔
انجیل نویس لکھتا ہے۔ کہ اُسی گھڑی یوحنا اُسے اپنے گھرلے گیا ۔ اکثر اس فقرے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ ملائمت کے ساتھ اُسے اُس جگہ سے لے گیا ۔ تا کہ اپنے بیٹے کی جانکنی کی تکالیف کو دیکھ کر اُسے اور صدمہ نہ پہنچے ۔ اگرچہ وہ آپ پھر کلوری کو واپس چلا آیا ۔ ایک روایت سے معلوم ہو تا ہے۔ کہ وہ دونوں بارہ سال تک یکجا یروشلیم میں رہے۔ اور جب تک مریم زندہ رہی ۔ اُس نے انجیل کی منادی کی غرض سے بھی شہر نہ چھوڑا۔ اور افسس اور اُس کے گردو نواح میں کام کرتا رہا۔ اور اسی مقام کے ساتھ اُس کے بعد کی زندگی وابستہ رہی۔
اس پُر تاثیر نظارہ کے رُوحانی سبقوں کو معلوم کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس وقت اپنی صلیب کے منبر (پُلپٹ) پر سے یسوع نے تمام زمانوں کے لئے پانچویں حکم پر ایک وعظ سنا یا۔
یسوع کی ماں کا دل اس کی تکا لیف کو دیکھ کر گویا تلوار سے چھد گیا تھا۔ یہ بڑا تیز آلہ تھا۔ مگر مریم کے پاس ایک چیز تھی۔ جس پر وہ اپنی رُوح کو سہار ا دے سکتی تھی۔ وہ یہ جانتی تھی کہ وہ بالکل بے گناہ معصوم ہے۔ اور اس بات نے اُس کے غم کی سخت و تاریک گھڑیوں میں بھی اُسے تسلی دی ہو گی۔ وہ ہمیشہ سے پاک دل ۔ شریف مزاج اور نیک طینت (عادت ) لڑکا تھا۔ اور وہ اُس کے صلیب دیئے جانے کے وقت بھی اس امر پر فخر کر سکتی تھی۔ بہت سی ماؤں کا دل اپنے فرزندوں کی بیماری یا بد قسمتی یا پیش از دقت موت سے زخمی ہوتا ہے ۔ مگر وہ اسے برداشت کر سکتی ہیں۔ بشرطیکہ یہ زخم زہر آلود تلوار سے نہ لگا ہو۔ مگر وہ تلوار کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اُسے اپنے بیٹے کی خاطر شرمسار ہونا پڑے جب کہ اُس کا بیٹا اپنی ہی بدکرداریوں کے ہاتھوں اس درجہ کو پہنچے ۔ تو یہ غم موت سے بھی زیادہ نا قابلِ برداشت ہوتا ہے۔
کسی ماں کو اپنے بیٹے کی کامیابی اور نیک نامی کو بطور زیور کے پہنے ہوئے دیکھنا کیسا خوشنما نظارہ ہے۔ اے پڑھنے والے ! اگر اس وقت تیری ماں اور باپ زندہ ہیں۔تو چاہیے کہ یہ بات تیرے لئے مہمیز (گھوڑے کو ایڑ لگا کر چلا نا ) کا کام دے ۔ اور آزمائش کے وقت تیری سپر ہو ۔ بعضوں کو یہ اچھا موقع بھی ملتا ہے۔ کہ بڑھاپے کے وقت اپنے والدین کی پرورش کریں۔ اور یقیناً عمر بھر میں دُنیا میں اس سے بہتر کون سی اچھی یاد ہو گی ۔ رسول لکھتا ہے کہ ’’ اگر بیوہ کے بیٹے یا پوتے ہوں تو وہ پہلے اپنے ہی گھرانے کے ساتھ دینداری کا برتاؤ کرنا سیکھیں۔ اور ماں باپ کا حق ادا کریں کیونکہ یہ خُدا کے نزدیک پسند یدہ ہے ۔۔۔۔ اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبر گیری نہ کرے۔ تو دین کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے ‘‘ ۔۱ یمتھیس۵: ۴،۸ ۔
مگر یہ وعظ جو صلیب کے منبر پر سے دیا گیا اور بھی وسیع مطلب رکھتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ یسوع کو نہ صرف ہمارے ابدی یا روحانی بلکہ عارضی یا دُنیاوی امور سے بھی علاقہ(تعلق) ہے۔ خود صلیب پر سے بھی جہاں وہ ایک عالم کے گناہوں کا کفارہ دے رہا تھا۔ اُسے اپنی بیوہ ماں کے آرام و آسائش کی بھی فکر تھی ۔ محتاج اور متروک (ترک کیے ہوئے) اشخاص اس سے سبق و تسلی حاصل کریں۔اور اپنی تمام فکر کو اُسی پر ڈال دیں۔ کیونکہ اُسے ہماری فکر ہے۔ یہ دیکھ کر اکثر حیرت ہوتی ہے۔ کہ کس طرح بیوہ عورتیں اپنا نبھاؤ کرتی ہیں۔ جب وہ اکیلی یا شاید کئی ایک بچوں کے ہمراہ چھوڑی جاتی ہیں۔ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح اپنا گزارہ کر تی ہیں۔لیکن بہت دفعہ دیکھا جاتا ہے۔ کہ اُن کا خاندان ۔ اوروں کے نسبت جہاں باپ زندہ ہو۔بہتر حالت میں ہوتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ بچے پہلے ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں۔ کہ ہمیں ماں کی اس ذمہ داری میں حصّہ لینا چاہیے ۔ اس لئے وہ اس بات کو سوچ کر بچے نہیں رہتے ۔ بلکہ پورے مرد اور عورت بن جاتے ہیں۔ لیکن بلا شبہ بڑی وجہ یہ ہےکہ انہیں وہ خُداوند فراموش نہیں کرتا ۔ جس نے کہ اپنی جانکنی کی حالت میں بھی مریم کو یاد رکھا۔
سات کلمے جو خُداوند یسوع مسیح نے صلیب پر سے فرمائے ۔دو حصّوں پر تقسیم ہو سکتےہیں۔ پہلے تین کلمات میں۔یعنی صلیب دینے والوں کے حق میں دُعا ئے خیر ۔ تائب چور سے خطاب اور اپنی ماں کے متعلق ہدایات ۔ خُداوند نے دوسرے اشخاص کے متعلقہ معاملات کا ذکر کیا ۔ لیکن آخری چار کلمے جن کا اب ہم ذکر کریں گے۔ اُن میں وہ فقط اُن اُمور کا ذکر کرتا ہے۔جو خود اُسکی ذات سے متعلق تھے۔یہ تقسیم بالکل طبعی معلوم ہوتی ہے۔ بہت سے قریب المرگ آدمی جب وہ اپنے دُنیاوی معاملات کا انتظام کر چکتے ۔ اور اپنے دوست رشتہ داروں کو الوداع کہہ چکتے ہیں۔ تواپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیتےہیں۔ تا کہ تنہا موت سے دو چار ہوں۔ اور اکیلے خُدا کے ساتھ ہوں۔ اس لئے یہ بالکل یسوع کی شان کے مطابق تھا کہ وہ پہلے دوسروں کے معاملات کا فیصلہ کر لے ۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کی طرف متوجہ ہو۔
ان کلمات کے دونوں حصّوں کے درمیان معلوم ہوتا ہے ۔کہ کچھ وقفہ واقع ہوا ہو گا۔ چھ گھنٹے سےنویں گھنٹہ تک یسوع خاموش رہا ۔ اور اس اثناء میں تاریکی تمام ملک پر چھا گئی۔ اس تاریکی کا کیا باعث تھا؟ اس وقت تحقیق کےساتھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن تینوں انجیل نویس جواس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر اً یہ خیال کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ کہ یہ ایک طرح سے اُس ہمدردی کا اظہار تھا۔ جو نیچر کو خُداوند سے تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آفتاب نے ایسے شرمناک واقعہ سے منہ چھپا لیا ہے۔ یہ قرین قیاس ہے کہ اس قسم کے خوفناک ظہور فطرت کےسبب جو شور و غوغا صلیب کے ارد گرد ہو رہاتھاکم ہو گیا ہوگا۔ آخر کار خود مسیح نے اس خاموشی کی مُہر توڑی۔ اوربڑی بلند آواز سے چوتھا کلمہ فرمایا۔یہ کلمہ حیر ت اور جانکنی سے پُر تھا۔مگر ساتھ ہی اس کے اُس سے فتح مندی بھی نمایا ں تھی۔
بھلا اس تین گھنٹے کی خاموشی میں خُداوند کے دل میں کسی قسم کے خیال گزرتے رہے ہوں گے؟کیا وہ اس عرصہ میں اپنے آسمانی باپ کےساتھ ایک مجذوبانہ (خُدا کی محبت میں غرق) رفاقت میں مشغول رہا ؟ اولیاء اللہ کے ساتھ اکثر موت کے وقت ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اور اسکے ذریعے وہ اکثر جسمانی
_____________________________________
1۔ اے میرے خُدا ۔ اے میرے خُدا ۔ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
تکالیف پر قادر ہوتے ہیں۔ شہیدوں کی حالت بعض اوقات ایسی بلند و مرتفع (اونچا)ہو گئی ہے۔ کہ وہ آگ کے شعلوں کے درمیان بھی خُدا کی حمد کی گیت گاتے سنے گئے ہیں۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یسوع کے دل کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی۔ تو ہم پر ایک قسم کی ہیبت اور حیرت چھا جاتی ہے۔جو الفاظ کہ اس خاموشی کے بعد اُس کے منہ سے نکلے اُن سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہے کہ اس سے پہلے گھنٹوں میں اُس کے دل میں کیا گزررہا تھا۔ اور اس آواز سے نہایت ہی گہر ی مایوسی آشکارا ہوتی ہے۔فی الحقیقت ایسی درد ناک آواز مشکل سے کبھی زمین پر سننے میں آئی ہو گی۔
اگرچہ ہم ان الفاظ سے بالکل مایوس ہو گئے ہیں۔مگر اب بھی جب کبھی کوئی سریع الحس (نرم دل ) آدمی اُسے پہلی دفعہ سنتا ہے۔ تو مارے خوف کے کانپ اُٹھتا ہے ساری بائبل میں شاید ہی کوئی اور فقرہ ہو گا۔ جس کی تفسیر و تشریح ایسی مشکل ہے۔واعظ جب اس فقرہ پر پہنچتا ہے۔تو سب سے پہلے اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی عذر (بہانہ )کر کے اس پر سے عبور (آگے چلا جائے )کر جائے۔ اور جب وہ اُسے بیان کرنے بھی لگتاہے۔توجب سب کچھ کہہ چکتا ہے۔ تو آخر میں اقرار کرتا ہے۔ کہ اُس کا اصلی مطلب بیان کرنا اُس کی طاقت سے باہر ہے۔لیکن جو شخص ایسے مشکل فقروں کے حل کرنے میں جدوجہد کرے گا۔ وہ اپنا انعام حاصل کئے بغیر نہ رہے گا۔ کیونکہ کوئی سچائی ہم پر ایسا گہرا اثرنہیں کرتی ۔ جیسے کہ اُس وقت جب کہ ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ جہاں تک ہم اُس کی تہ کو پہنچنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ وہ قدرت صرف ہمیں اُس کے ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اورسچائی کا ناپیدا کنا ر ِ سمندر تو اُس سے بھی پرے پھیلا ہوا ہے۔
خود مسیح کے دل میں ان فقرات کے منہ سے نکالتے وقت جو خیال سب سے اُوپر سطح پر تھا ۔ وہ حیرت و تعجب کا خیال تھا۔ گتسمنی کی حالت کے بیان میں لکھا ہے کہ ’’ وہ نہایت حیران ہونے لگا ‘‘ ۔ اور اس قول کا ڈھنگ بھی ظاہر اً وہی معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں ایسا خیال گزرتا ہے کہ اس قول میں لفظ ’’تو ‘‘ پر زور دیا گیا ہے۔ یسو ع کا اپنی زندگی بھر یہی تجربہ رہا کہ لوگ اُسے چھوڑ جاتے تھے۔ اور وہ اُس کا بالکل عادی ہو رہا تھا۔سب سے پہلے خود اُس کے اپنے گھر کے لوگوں نے اُسے رد کردیا ۔ اور ایسا ہی اُس کے ہم شہریوں ناصرت کے باشندوں نے ۔اور آخر کار ساری قوم نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ گروہیں جو ایک وقت جہاں کہیں وہ جاتا تھا۔ اُس کے پیچھے پیچھے جاتی تھیں۔ آخر کار کسی نہ کسی بات پرناراض ہو کر اُسے چھوڑ جاتی تھیں ۔ آخر کار جب اُس کی زندگی کا آخری وقت آپہنچا ۔ تواُس کے سب سے قریبی شاگردوں میں سے ایک نے اُسے گرفتار کرادیا۔ اورباقی اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مگر ان مایوسیوں کے درمیان ۔ اگرچہ یہ بھی اُس کے دل میں گہرے زخم کرتی تھیں۔ اُس کو ایک بات ہمیشہ تسلی دیتی رہتی تھی۔ اور جب لوگ اُسے چھوڑ جاتے تھے۔ تو وہ ہمیشہ اُن کی طرف سے منہ پھیر کر اعتماد کے ساتھ اپنے کوخُدا کے سینہ پر ڈال دیاکرتاتھا۔ جس قدر انسانی اُلفت میں اُسے مایوسی ہوتی تھی۔ اُسی قدر زیادہ وہ الہٰی محبت کے پیالے زیادہ شوق سے پیا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس امر سے واقف تھا۔ کہ جوکچھ وہ کر رہا ہے۔ یا جوکچھ اُس پربیت رہا ہے۔ وہ سب کچھ رضائے الہٰی کے موافق ہے۔ اُس کی حِسا ت (حِسّ کی جمع )ہمیشہ خُدا کےدل کی حرکتوں کے ساتھ مطابقت رکھتی تھیں۔ خُدا کے خیال اُس کے خیال تھے۔ اور وہ صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ کہ کس طرح الہٰی مشیت و ارادہ (خُدا کی مرضی اور ارادہ ) اُس کی زندگی کے تمام مختلف واقعات میں ایک اعلیٰ قسم کا نتیجہ پیدا کر رہا ہے۔ اس لئے وہ بڑے اطمینان کے ساتھ آخری عشاء کے وقت بھی ۔جب اُس نے بارہ شاگردو ں کے تھوڑے عرصہ میں اُسے چھوڑ کر بھاگ جانے کا ذکر کیا ۔کہہ سکتاتھا ’’دیکھو وہ گھڑی آتی ہے ۔ بلکہ آپہنچی ہے کہ تم سب پراگندہ ہو کر اپنے اپنے گھرکی راہ لوگے ۔ اور مجھے اکیلا چھوڑ جاؤ گے تو بھی میں اکیلا نہیں رہو ں گا کیونکہ باپ میرے ساتھ ہے ‘‘۔ لیکن اب وقت آ پہنچا تھا کیا یہ اُمید پوری ہوئی ؟ وہ پرا گندہ ہو گئے۔ جیسا کہ اُس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ اوروہ اب بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔ لیکن کیا وہ اکیلا نہیں تھا؟ کیا اب بھی باپ اُس کے ساتھ تھا ؟ اُس کے اپنے ہی کلام سے اس بات کاجواب ملتاہے۔ ’’ اے میرے خُدا ۔اے میرے خُدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ‘‘۔
اگرچہ اس موقع ہمارے خُدا وند کی دلی حالت اُس حالت سےجو ہم جانتے ہیں کہ اُس کے لئے ایک معمولی عادت ہو رہی تھی۔ بالکل مختلف معلوم ہوتی ہے۔ تاہم اُس کی زندگی کی تاریخ میں ایسا موقع ایک ہی پیش نہیں آیا۔ ہم کم سے کم دو اور تجربات سے واقف ہیں جو کچھ کچھ اُسی کی مانند تھے۔ اور اُن سے شاید ہم کو اس کے سمجھنے میں مدد ملے ۔ پہلا موقع وہ تھا۔ جب کہ اس کی زندگی کےآخر ہفتہ کے شروع میں چند یونانی لوگ اُس سے ملنے کو آئے ۔وہ اُس کی ملاقات کے خواہاں تھے۔ اور جب اندریاس اور فیلبوس نے انہیں اُس کی خدمت میں حاضر کیا۔تو بجائے اس کے کہ یسوع خوش ہو جیسا کہ اُمید کی جاتی تھی۔ وہ اُلٹا درد و غم میں پڑ گیا اور ایک آہ بھر کر کہنے لگا ۔ آؤ اب میری جان گھبراتی ہے۔ پس میں کیا کہوں؟ اے باپ ! مجھے اس گھڑی سے بچا۔ ان ملاقا تیوں کو دیکھ کر اُسے یا د آگیا کہ غیر اقوام کے لئے ایک عالمگیر مشن قائم کرنا کیسا عظیم الشان اور اُس کے لئے نہایت دلپسند کام ہوتا ۔ ایسا مشن جو وہ بڑی خوشی سے قائم کرتا ۔ بشرطیکہ اُس کی زندگی اُسے موقع دیتی۔ لیکن یہ بات اس وقت ناممکن تھی۔ کیونکہ عین ِ عالم شباب میں اُس کے لئے مرنا ضروری تھا۔ دوسرا موقع گتسمنی کی جانکنی کا موقع تھا۔ اگر ہم اس واقعہ پر بڑے ادب و توجہ سے غور کریں گے ۔ تو معلوم ہو گا۔ کہ اس موقع پر کس طرح مسیح کی مرضی بتدریج ترقی کرکے اپنے باپ کی مرضی کے ساتھ کامل طور پر متحد ہو گئی۔ انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ وہ درجہ بدرجہ و منزل بمنزل ۔
چوتھا کلمہ جو مسیح نے صلیب پرسے فرمایا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ گویا وہ اُس کشمکش کے جو خاموشی اور تاریکی کے تین گھنٹوں کے اثناء میں (جو اُس کے بولے جانے سے پہلے گزرے )نہ صرف آخری حملہ کا ۔بلکہ اُس کشمکش سے اُس کے دل کے خلاصی پانے کا اظہار بھی کرتاہے۔ اس خیال کی مُقدس یوحنا کے طریق بیان سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ جو اس پا نچویں کلمہ کا اس طور پر ذکر کرتا ہے۔ کہ ’’ جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشتہ پورا ہو تو کہا کہ میں پیاسا ہوں‘‘۔
یہ فقرہ ’’تاکہ نوشتہ پورا ہو‘‘ عموماً الفاظ ’’ میں پیاسا ہوں ‘‘ کے ساتھ ملحق (جوڑا)کیا جاتا ہے۔ گویا کہ اُس کا یہ مطلب تھا کہ یہ الفاظ کہ ’’ میں پیاسا ہوں ‘‘ اُس نے کسی اس مضمون کی پیشن گوئی کے پورا ہونے کے لئے کہے تھے۔ اور اس غرض کے لئے لوگوں نے سارا عہدِعتیق چھان مارا ہے ۔
مگر ان الفاظ کا جن کی طرف یہاں اشارہ پایا جاتا ہے۔ کچھ پتہ نہیں چلا ۔ مگر میرے نزدیک اس فقرہ کو اس سے پہلی عبارت آئینہ ٔ ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کی صورت بگڑ جاتی ہے۔
ممکن ہے کہ خُدا کی صورت بھی ایسے آئینہ میں عکس انگن ہو کر جسمانی درد کے غباروں کی وجہ سے بالکل خوفناک نظر آ نے لگ جائے۔
___________________________________________
1۔میں پیاسا ہوں۔
2۔اصل یونانی میں یہ وہی لفظ ہے۔ جو خُداوند نے بعد ازں استعمال کیا کہ ’’پورا ہوا ‘‘۔ جو ممکن ہے کہ چوتھا کلمہ ہوا۔
یسوع کے لئے اس مہلک درد کی دہشت شاید اوروں کی نسبت زیادہ سخت ہو گی ۔ کیونکہ اُس کا مادی جسم بھی زیادہ نازک اور سریع الحس (نرم) تھا ۔ اُس کا جسم گناہ کی وجہ سے کبھی کثیف (گاڑھا۔گندہ)ہونے نہ پایا تھا۔ اور اس لئے موت اُس کے لئے ایک اجنبی اور نا آشنا چیز تھی۔ طبعی زندگی کا رَو جو خُدا کی ایک بیش قیمت بخشش ہے۔ اُس کے جسم میں افراط و پاکیزگی کے ساتھ بہتا رہا تھا۔ لیکن اب وہ کھینچا جا رہا تھا۔ اور اُلٹا بہنے لگا تھا۔ ایک کامل فطرت کی یگانگت میں سخت خلل برپا ہو رہا تھا۔ اور وہ محسوس کرنے لگا کہ اب وہ اس زندہ دُنیا سے ۔ جو اُس کی نظروں میں خُدا کی حضوری اور نیکی سے معمور تھی۔ دُور ہٹتا جاتا ہے۔ اور فنا کی سر دو ز رد مملکت کے قریب ہوتا جاتا ہے وہ موت کی ملکیت نہ تھا۔ مگر اس وقت موت کےپنجہ میں گرفتار ہو رہا تھا۔ کوئی فرشتہ اُسے چھڑانے کےلئے نہ آیا۔ اور وہ اپنی حالت پر چھوڑ ا گیا تھا۔
مگر یہ بآسانی نظرآسکتا ہے کہ اس جانکنی میں جس سے ایسی ہبیت ناک چیخ نکلی ۔ جسمانی درد سے بھی بڑھ کر کوئی بات تھی۔ اگر گتسمنی میں ہم یسوع کی قوت ِ ارادی کی جدوجہد کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح بتدریج اُس نے باپ کی مرضی کے ساتھ کامل اتحاد حاصل کیا۔ تو اس جگہ ہم اُس کے عقلی قواء کی جد وجہد کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ کہ کس طرح صلیب کی گھبراہٹ اور مخالفت کے درمیان وہ آخر کار حکمتِ الہٰی کے ساتھ بالکل متحد ہو گئیں۔ اُس کی درد ناک آوا ز میں جو عقلی عنصر شامل تھا۔ وہ لفظ ’’ کیوں ‘‘ سے بخوبی آشکارا ہوتا ہے۔ اب کبھی اپنے خالق سے لفظ ’’کیوں ‘‘ کہہ کر خطاب کرنا پڑتا ہے۔ تو یہ نہایت درد ناک موقع ہوتا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں۔ کہ وہ اس دُنیا کا شاہنشاہ اور ہماری قسمت کا مالک ہے۔ اور وہ ساری دُنیا کا انتظام اپنی لا محدود حکمت اور محبت کے ذریعہ سے کرتا ہے۔ لیکن اگرچہِ عقل انسانی کے لئے اس قسم کا اعتقاد رکھنا ایک مناسب اور صحیح حالت کا نشان دیتا ہے۔ خاص کر اُن لوگوں میں جو سچے پابند مذہب ہیں۔مگر جب عالم صغیر اور عالم کبیر دونوں کو کبھی کبھی ایسے نازک وقتوں کا سامنا ہوتاہے۔ جب کہ ایمان جواب دے جاتا ہے۔ دُنیا بے ترتیب ہو رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کا سار ا انتظام بگڑ رہا ہے۔ خُدا کے ہاتھ سے باگیں چھوٹ گئی ہیں۔ اور نظام ِعالم کی گاڑی بے بس ہوئی جاتی ہے۔کیونکہ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ دُنیا کی رفتار کسی عقل و حکمت کی پابند نہیں ہے۔ بلکہ اندھی اور بے شعور یا بے رحم قسمت کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے وقت میں بےچارہ انسانی ذہن چلا اُٹھتا ہے کہ ’’کیوں ‘‘؟ ایوب کی ساری کتاب اسی سوال و پکارسے بھری ہے۔ یرمیاہ نبی نے بھی نہایت حیرت بخش دلیری کےساتھ خُدا کو بھی ’’کیوں ‘‘ کہہ کر پکارا ۔ مہلک درد اور جا نکاہ مایوسی اور ایسی جدائیوں میں جب کہ دُنیا اور رُوح بالکل خالی اورتاریک نظر آنے لگتی ہیں لا کھوں آدمی ہر زمانہ میں یہی ’’کیوں ‘‘ کہہ کر فریاد کرتے رہے ہیں۔ اس لفظ سے ظاہراً بالکل بے دینی ٹپکتی ہے۔ جب یرمیاہ نبی پکار اُٹھتا ہے۔ کہ ’’ توُ نے مجھے فریب دیا۔ اور میں نے فریب کھایا ‘‘ یا ایوب یہ سوال کرتا ہے کہ ’’ میں ماں کے رحم میں ہی کیوں نہ مر گیا ؟ جب میں پیٹ سے نکلا تو اُسی وقت میری جان کیوں نہ نکل گئی ؟ تو یہ کسی کفر بکنے والے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ مگر فی الحقیقت یہ گرم جوشی اور لطیف مزاج رُوحیں ہی ہیں۔ جن میں اس قسم کی مایوسی کو گھسنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ جاہل اور اوچھے۔ اور ابنِ الوقت (وقت کے بیٹے)اس قسم کی حالت سے بالکل محفوظ ہیں۔ کیونکہ وہ دُنیا کے معمولی رویہ اور حالت سے بالکل مانوس اور اُس کے دل دادہ ہیں۔ سخت دل والے بغیر کسی قسم کی تحقیق و تفتیش کے دُنیا کی حالت پر قانع(قناعت کرنا) رہتے ہیں۔ مگر جس قدرسچی دینداری زیادہ ہو ۔ اُسی قدر آدمی خد اکے جلال اور عدل کے لئے زیادہ غیر تمند ہو تا جاتا ہے۔ اگردُنیا کی حکومت و انتظام میں کوئی امر خلاف عقل و حکمت نظر آئے۔ تو اُسے شاق (مشکل)گزرتا ہے۔ دُنیا کے انتظام میں خُدا کی رحمت و حفاظت کے نشانِ قدم دیکھنے اُس کی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ اور اس لئے جب اس قسم کی شہادتیں پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔ تو اُسے سخت دُکھ ہوتا ہے۔ اب عالم کی تمام بے اعتدالیاں اور اختلافات
_________________________________
1۔بعض بندگان مصنف کا خیال تھا کہ اس وقت گویا الہٰی اور انسانی فطرت میں جدائی ہونے لگی تھی۔
گلگتا میں متجمع (اکھٹے) ہو رہے تھے۔ بے انصافی کی فتح تھی۔ بے گناہی سے عداوت تھی۔ اور وہ پامال ہو رہی تھی۔ ہر ایک چیز جو کچھ کہ اُسے ہونا مناسب تھا۔ بالکل اُس کے اُلٹ نظر آتی تھی۔ اور ’’ کہا ‘‘ کیوں ‘‘ جو ستم رسیدہ دلوں سے ۔ جو خُدا کی عزت کے لئے غیر تمند مگر اُس کی تقدیر کے بھیدوں سے نا واقف تھے۔ نکلتے رہے ہیں ۔ وہ سب مسیح کے اس ’’کیوں ‘‘ میں جمع ہو رہے تھے۔
مسیح ہم سے کس قدر قریب تر ہے۔ شاید اپنی زندگی بھر وہ کبھی اپنے بے چارے انسانی بھائیوں سے اس قدرقریب اور متحد نہ تھا۔ جیسا کہ اس وقت جب کہ ہم درد یا مصیبت ۔جدائی یا موت سے رُو درو ہوتے ہیں۔ بلکہ جب ایسا دُکھ اُٹھا رہے ہوں۔ جو سب دُکھوں سے پرے ہے۔ اور ایسا ہیبت ناک ہے۔ کہ اُس کی موجودگی میں دماغ چکر ا جاتا ہے۔ اور ایمان و اُمید جو زندگی کی آنکھیں ہیں۔ اندھی ہو جاتی ہیں۔ ہاں وہ ہیبت ناک موقع جب کہ عالم خُدا سے خالی نظر آتا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ گویا وہ ایک ڈراؤنا اور برباد ہونے والا اور مادہ کا ایک بے ترتیب ڈھیلا ہے۔ جس کی نہ تو کوئی عقل رہنمائی کرتی ہے۔ اور نہ کوئی محبت اُسے سہارا دینے والی ہے۔
کیا ہم اس رازلی تاریکی میں ایک اورقدم آگے اُٹھا سکتے ہیں؟سب سے گہرا سوال یہ ہے کہ آیا مسیح کا اس طور سے چھوڑا جانا ظاہر ی تھا یا باطنی یا یوں کہو کہ کیا محض جسمانی کمزوری اور چشم بصیرت کے عارضی طور پر دھند لا جانے کی وجہ سے اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ گویا وہ چھوڑا کیا ہے۔ یا کیا ان الفاظ کے حقیقی معنوں میں خُدا نے سچ مچ اُسے چھوڑ گیا ہے۔ البتہ ہم اس امر سے خوب واقف ہیں کہ خُدا اُس سے از حد راضی و خوش تھا۔ اور شاید ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ جیسا اس وقت جب کہ وہ اپنے کو دوسروں کے لئے قربان کر رہا تھا۔ لیکن کیا اُس کے ساتھ ہی الہٰی ذات کے دوسرے پہلو نے بھی اُسے چمکارا دکھا دیا۔ یا یوں کہو کہ الہٰیِ غضب کی بجلی اُس پر چمکی ۔ کلوری پر دلِ انسانی کا ایک نہایت خوفناک اظہار ہوا ۔جس کی عداوت نے خُدا کی محبت کے کامل مکاشفہ کو جیسا کہ مسیح میں ہو ا ۔ اپنا نشانہ بنا یاتھا۔ وہاں انسان کا گناہ اپنی حد کو پہنچ گیا ۔ اور جو کچھ بدی اُس سے ہونی ممکن تھی کر گزرا ۔ جو کچھ اس محل (موقع) پر مسیح کے خلاف اور خُدا کے خلاف جو مسیح میں تھا۔ ہوا ۔ وہ گویا سارے عالم کے گناہ کا مجموعہ اور اُس کا لب لباب (خُلاصہ)تھا۔ اور بلا شبہ یہ بات تھی۔ جو اس وقت یسوع کو دبارہی تھی۔ ’’ یہی اُس کی جان کا دُکھ تھا۔ وہ اب قریب سے گناہ کی بدصورتی پر نظر کر رہا تھا۔ اُس کی احساس سے اُسے گھن آتی تھی۔ وہ اُس کی وحشت و زبردستی سے پامال ۔ ہاں موت تک پامال ہو رہا تھا۔ مگر یہ انسانی فطرت اُس کی اپنی تھی۔ وہ اُس کے ساتھ ایک ہو گیا تھا۔ وہ اُس کی ہڈی ۔ اور گوشت میں کا گوشت تھا۔ اورجیسے کہ ایک بد اطوار خاندان میں سارے خاندان کے قرضوں اور شرمناک کار روائیوں کا بوجھ ایک بہن کے سرپر جو شائستہ اور لطیف خلقت ہو ۔ پڑتا ہے ۔ اسی طرح اُس نے بھی اُس قوم کی نالائقی اورنااُمیدی کو محسوس کیا۔ گویا کر یہ اُس کی اپنی ہی تھی۔ اور اُس چلاوئے(برّے) کی طرح جن کے سر پر قدیمی شریعت کے مطابق جماعت سے لوگوں کے گناہ رکھے جاتے تھے۔ وہ بھی فراموشی کی زمین میں نکل گیا۔
یہاں تک ہم جا سکتے ہیں۔ اور محسوس کرتے ہیں۔کہ ہمارے پاؤ ں کے نیچے کھڑے ہونے کو پختہ زمین ہے۔ مگر بہت لوگ اس سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔ خود لوتھر اور کولون بھی یہ لکھ گئے ہیں۔ کہ اُن گھنٹوں میں جواس سے پہلے گذرے ۔ ہمارے خُداوند نے وہ عذاب اور ایذائیں سہیں ۔ جو راندہ ٔ درگاہ الہٰی(خُد ا کی حضوری سے نکالا ہوا) کا حصّہ ہیں۔ اور امباخ نامی ایک اور عالم نے جس کے تفکرات بر صعوبات مسیح (تکلیفیں ) سینکڑوں برس تک جرمنی کے دینداروں کی خوراک رہی ہیں۔ لکھا ہے کہ ’’خُدا اُس وقت اُس کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کر رہا تھا۔ جیسا کہ رحیم با پ اپنے بچہ کے ساتھ کرتا ہے۔ بلکہ ایسا جیسا کہ ایک ناراض شدہ راستباز قاضی ایک بدکردار کے ساتھ کرتا ہے۔ آسمانی باپ اس وقت اپنے بیٹے کو سب سے بڑا گنہگار جوسورج کے نیچے ملنا ممکن ہو سمجھتا ہے۔ اور اپنے سارے غضب کو اُس پر اُنڈیل دیتا ہے‘‘۔ لیکن اگر ہم اس قسم کے الفاظ کا استعمال کریں ۔ تو ہم اپنی حد سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاک نوشتوں کی اور بنگل صاحب کی سادہ تشریح زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔ ’’ اس چوتھے کلمہ میں ہمارا نجات دہندہ نہ صرف یہ فرماتا ہے کہ وہ آدمیوں کے ہاتھوں میں سپرد کر دیا گیا بلکہ یہ بھی کہ اُس نے خُدا کے ہاتھوں بھی کوئی ناقابل ِ بیان تکلیف اُٹھائی ہے۔ یقیناً یہاں کوئی ایسی بات ہے جو بالکل ناقابلِ بیان ہے‘‘۔ ہم نے جہاں تک ہماری بساط میں تھا۔ اس راز مخفی(چھپے) کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں۔ کہ ہم ابھی تک اس ناپید اکنارِ سمندر کے ساحل پر پھر رہے ہیں۔ اور یہ گہرا اور نامعلوم سمندر ہمارے سامنے پھیلا ہوا ہے۔
اس فریاد کو کسی معنوں میں ایک فتح کا نعرہ ٹھہرانا شاید بعض اشخاص کو ایک بناوٹی بات معلوم ہو ۔ لیکن اگر جو کچھ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں۔ سچ ہے۔ تویہ موقع جو سب سے سخت دُکھ اور درد کی گھڑی تھی۔ اس گھڑی میں ایک کار نمایا ں بھی سرانجام پا گیا ۔ جیسےکہ پھول کو کچل کر اس میں سے عطر نکالتے ہیں اسی طرح وہ بھی دُنیا کے گناہوں کو اپنے دل میں لے کر دُنیا کے لئے نجات خریدنے کا ذریعہ ہوا۔
اور اگرسچ پوچھو تو ساری تاریخ اس امر کی شاہد(گواہ) ہے کہ یہ اسی گھڑی میں تھا کہ مسیح نے بنی آدم کا دل فتح کرلیا ۔ اس سے بہت دن پہلے وہ فرما چکا تھا کہ ’’ میں اگر میں زمین سے اُوپر اُٹھایا جاؤں ۔ تو سارے آدمیوں کو اپنی طرف کھینچو ں گا‘‘۔ اور اس قول کی صداقت صفحۂ تاریخ سے آشکارا (ظاہر )ہے۔ صلیب پر لٹکتا ہوا مسیح اُس گھڑی سے لے کر ہمیشہ انسان کے دل کو اپنا فریفتہ اور گرویدہ (عاشق و دلدادہ )کرتا رہا ہے۔ بنی آدم کے دل و دماغ ہمیشہ اُس کے طرف کھینچے جاتے ہیں۔ اور اس کا مطالعہ کرتے کرتے کبھی نہیں تھکتے۔ اور اس فریاد کی پکارو ہ اعلیٰ نقطہ ہے۔ جس کی طرف تمام سوچنے والے دل خاص کرمتوجہ ہوتے ہیں۔ تھیالوجی یعنی علمِ الہٰی کا مرکز بھی صلیب ہی ہے۔ البتہ بعض وقت وہ ذرا اس سے پہلوتہی کرتی رہی ہے۔ اوراسے چھوڑ کراور اور مضامین میں بھٹکتی پھری ہے۔ مگر جونہی وہ گہر ی باتوں میں دل لگانے اور عجز و فروتنی کا وطیرہ (طریقہ )اختیار کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ اسی مضمون کی طرف لوٹتی ہے۔
ہاں جب وہ عاجز و فروتن ہوتی ہے۔ تائب (توبہ کرنےوالی )روحیں صلیب کی طرف کھینچی جاتی ہیں۔ اورجس قدر اُن کی توبہ زیادہ گہر ی ہو اُسی قدر اُن کا دل اُس میں زیادہ لگتا ہے۔ وہ مرتے ہوئے نجات دہندہ کے پاس آکر کھڑے ہوتےہیں اور کہتے ہیں۔ یہ مصائب سب ہم پر واقع ہونے چاہیے تھے۔ ہماری زندگی پر ہمارے جرائم کے سبب موت کا فتویٰ لگ چکا تھا۔ اس طور پر ہمار ا خون بہنا چاہیے تھا۔ اور اگرہم ہمیشہ کے لئے اس جلاوطنی کےدشت (صحرا)میں ڈالے جاتے تو عین انصاف ہوتا ۔لیکن جب وہ اس طور پر اقرار کرتے ہیں۔ تو اُن کی وارفتہ زندگی انہیں مسیح کی خاطر سے واپس مل جاتی ہے۔ اور خُدا کا اطمینان اُن کے دلوں پر نازل ہوتا ہے۔ اور محبت اورخدمت کی نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے ۔ سب سے اعلیٰ مسیحی رسم بھی ہمیں اسی مقام پر لاتی اور عین اُسی موقع کی یاد دلاتی ہے ۔’’ یہ میرا نئے عہد کا خون ہے ۔ جو بہتوں کے گناہوں کی معافی کے لئے بہا یا گیا‘‘۔
مگر صرف انہیں گہرے معنوں کے لحاظ سے ہی مسیح کا چوتھا کلمہ فتح ونصرت (جیت) کا نعرہ نہ تھا۔ بلکہ ان معنوں میں بھی کہ اُس کے ذریعہ سےاُسے دل کے غم و غصہ اور بوجھ سے نجات مل گئی۔
بیان کیاجاتاہے۔ کہ جب یونانیوں سے ملاقات کےوقت اُس نے آہ بھر کر کہا کہ ’’ باپ مجھے اس گھڑی سے بچا ‘‘۔ تو اُس نےفی الفور اپنے کو روک لیا۔ اور فرمایا ’’ باپ اپنے نام کو جلال بخش ‘‘ ۔اسی طرح گتسمنی میں جب اُس نے دُعا کی کہ ’’ اگر یہ ممکن ہو ۔ تو یہ پیالہ مجھ سے دُور ہو جائے ‘‘ ۔ تو فی الفور یہ فرمایا کہ ’’ تو بھی میری مرضی نہیں ۔ بلکہ تیر ی مرضی پوری ہو ‘‘ ۔ مگر اس موقع پر اس مایوسی کی فریاد کے ساتھ اُس نے کوئی لفظ نہ فرمایا۔جس سے توکل و تسلیم ظاہر ہو۔ لیکن یہ سمجھنا سخت غلطی ہے۔خود اس آوازہ سے ہے۔ اگریہ وہ مایوسی کی فریاد معلوم ہوتی تھی۔ اُس کے ایمان کی مضبوطی عیاں (ظاہر )ہے۔ دیکھو وہ کس طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے ابدیت کا دامن پکڑتا ہے ۔ ’’ اے میرے خُدا ۔ اے میرے خُدا ‘‘ یہ ایک دُعا ہے ۔ تحقیقا ت و آزمائش کے دنوں میں اُس نے ہزار ہا دفعہ اس تسلی وقوت کے وسیلہ کو ستعمال کیا ہو گا۔ اور وہ اس دکھ کی سخت گھڑی میں ایسا ہی کرتا ہے ۔ ایسا کرنے سے مایوسی جاتی رہتی ہے۔ جو شخص یہ کہہ کر دُعا مانگ سکتا ہے۔ کہ ’’ اے میرے خُدا ‘‘ وہ کبھی نہیں چھوڑا جاتا ۔ جیسے کہ ایک آدمی گہرے پانی میں ہو۔ اور تہ میں اُس کے پاؤں نہ لگیں ۔ تو وہ مایوسی کی حالت میں آگے کو ایک چھلانگ لگاتا ہے۔ اور زمین پر جا پہنچتا ہے۔اسی طرح مسیح نے اس مایوسی کی فریاد کرتے ہوئے اُس پر غلبہ حاصل کرلیا۔ یہ محسوس کر کے خُدا نے اُسے ترک کر دیا ہے۔ وہ خُدا ہی کی گود کی طرف دوڑ ا ۔ اور خُدا کے ہاتھوں نے پدرانہ محبت کے ساتھ اُسے اپنی گود میں چھپا لیا ۔ چنانچہ جب وہ تاریکی جو زمین پر چھا گئی تھی۔ نویں گھنٹہ کے قریب دُور ہو گئی۔ اُسی وقت اُس کا ذہن بھی اس تاریکی سے جس نے اُسے دُھند لا دیا تھا۔ صاف ہو گیا ۔ اور اُس کے آخر ی کلمات معمولی اطمینان اور سلامتی کی حالت میں کہے گئے۔
چوتھا کلمہ جو مسیح نے صلیب پر سے فرمایا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ اُس کشمکش کے (جو خاموشی اور تاریکی کے تین گھنٹوں کے اثنا ء میں جو اُس کے بولے جا نے سے پہلے گزرے ) نہ صرف آخری حملہ کا بلکہ اُس کشمکش سے اُس کے دل کے خلاصی پانے کا اظہار تھا ۔اس خیال کی مقدس یوحنا کے طریق ِ بیان سے بھی تصدیق ہوتی ہے ۔جو اس پانچویں کلمے کا اس طور سے ذکر کرتا ہے کہ ’’جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشتہ پورا ہو تو کہا کہ میں پیاسا ہوں ‘‘یہ فقرہ ’’تاکہ نوشتہ پورا ہو ‘‘ عموماً الفاظ ’’میں پیاسا ہوں ‘‘ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے ۔گویا اس کا یہ مطلب تھا کہ یہ الفاظ کہ ’’میں پیاسا ہوں ‘‘اس نے کسی اُس مضمون کی پیشین گوئی کے پورا ہونے کے لئے کہے تھے ۔اور اس غرض کے لئے لوگوں نے پورے عہدِعتیق کو چھان مارا ہے ۔مگر ان الفاظ کا جن کی طرف یہاں اشارہ پایا جاتا ہے کچھ پتہ نہیں چلا ۔
میرے نزدیک اس فقرہ کو اس سے پہلی عبارت کے ساتھ ملحق (جوڑنا )کرنا بہتر ہو گا کہ ’’یسوع نےیہ جان کر کہ اب سب باتیں پوری ہوئیں ‘‘ یعنی جب اُس کا کام جو خُدا نے مقرر کیا تھا۔ اور جس کی پاک نوشتوں میں ہدایت تھی اختتام کو پہنچ چکا ۔ تو اُسے اپنی جسمانی ضروریات کا خیال آیا۔اور وہ بولا ’’میں پیا سا ہوں‘‘ ۔ جب کبھی کوئی آدمی کسی خیال میں غرق ہوتا ہے تو وہ عموماً اپنی جسمانی ضروریات سے غافل ہو جایا کرتا ہے ۔ بلکہ یہاں تک کہ کسی دلچسپ کتا ب کو پڑھتے ہوئے نیند اور خوراک کا گھنٹوں خیال تک بھی نہیں آتا ۔ اور جب آدمی اُس محویت کے عالم سے نکلتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ کیسا درماندہ (نڈھال )ہو رہا ہے۔ بیابان میں جب مسیح آزمایا گیا ۔ تو اُس وقت بھی وہ ایسا محو ہو رہا تھا۔ کہ اُسے جسمانی ضروریات کی کچھ فکر نہ تھی۔ لیکن جب یہ روحانی تو غّل (ایک کام میں بہت لگے رہنا )دُور ہوگیا۔ تو ’’اُس کے بعد اُسے بھوک لگی ‘‘۔
موجود ہ حالت میں جب وہ اُس روحانی غشی سے برآمد(نکلنا) ہوا۔ تو اُسے پیا س لگی ۔ مجھےایک دفعہ ایک جرمن طالب علم سے جو اُس جنگ میں جو فرانس اور پر شیا کے مابین(درمیان ) واقع ہوئی شامل تھا۔ گفتگو کا اتفا ق ہوا۔ وہ ایک لڑائی میں جو پیرس کے قریب واقع ہو ئی تھی۔ زخمی ہو گیا۔ اور
____________________________________________
1.میں پیاسا ہوں
2.اصل یونانی میں وہی لفظ ہے۔جو خُداوند نے بعد ازاں ستعمال کیا ’’کہ پورا ہوا ‘‘جو ممکن ہے کہ چوتھا کلمہ ہو۔
میدان میں پڑارہ گیا ۔ کیونکہ ہل جُل نہیں سکتا تھا۔ اُسے ٹھیک ٹھیک معلوم نہ تھا۔ کہ اُس کا زخم کس قسم کا ہے مگراُسے یہ خیال گزرا کہ شاید وہ مر رہا ہے۔ درد بشدت ہو رہی تھی۔ اور اُس ارد گرد زخمی اورقریب المرگ آدمی آہ نالہ کر رہے تھے۔ لڑائی ابھی زوروں پر تھی۔ اور گولے ہر طرف گرتے اور زمین کوشق(پھاڑنا) کئے دیئے تھے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد ایک اور قسم کی درد سب دُکھو ں پر حاوی ہو گئی۔ اور وہ بہت جلداپنے زخم اور خوف و دہشت بلکہ اپنے ہمسائیوں کو بھی بھول گیا ۔ یہ پیاس کی شدت تھی۔ وہ اُس وقت دُنیا بھر کو ایک قطرہ پانی کے لئے دے ڈالتا ۔صلیب کے وقت بھی سب سے زیادہ تکلیف اسی سے ہوتی تھی۔ اس خوفناک طریق سزا کی ایذائیں نہایت مختلف اور سخت قسم کی ہوئی تھیں۔مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ سب اسی ایک مرکز یعنی شدت کی پیاس میں ایسی جمع ہو جاتی تھیں۔ کہ پھر سوائے اس کے اورکسی درد کا خیال تک نہ رہتا تھا۔ اور اسی تکلیف کے باعث خُداوند کا پانچواں کلمہ اُس کے منہ سے نکلا ۔
جسمانی درد کے متعلق صرف یہی ایک قول تھا۔جوخُداوند نے صلیب پر سے فرمایا ۔جیسا ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مصلوب آدمی کے واسطے یہ ایک معمولی بات ہوا کرتی تھی۔ کہ جب اُسے میخوں سے صلیب پرجڑنے لگتے تھے۔تو وہ یا تو جلادوں کی بے فائدہ منت سماجت کرنے لگتا تھا۔ کہ اُسے اس مصیبت سے چھڑادیں۔ یا اُلٹا انہیں گالی گلوچ دینے لگتا تھا۔ مگر اُس وقت یسوع نے ایک کلمہ بھی نہیں کہا ۔ اس کے بعد بھی باوجود دیکہ ہر گھڑی اُس کا درد بڑھتا جاتا تھا۔ اُس نے برابر اپنی طبیعت پر قابو رکھا اور اس عرصہ میں وہ یا تو دوسروں کی خبر گیری میں یا خُدا سے دُعا مانگنے میں مشغول رہا۔
یہ صبر و تحمل کی ایک نہایت عظیم الشان مثال ہے۔ اور اس سے ہماری نزاکت پسند ی ۔ اور درو تکلیف سے پہلوتہی کرنے کی عادت پر سخت ملامت ہوتی ہے۔ ہم کیسے ذرا ذرا سی بات پر چلانے لگتے ہیں۔ اور اگر ہمیں ذرا سی بھی تکلیف یا ضرر پہنچے۔ تو ہم کیسے چڑ چڑے اور بد مزاج بن جاتے ہیں۔ اور سر ہو یا درددندان(سر یا دانت کا درد ) ۔ زکام ہو ۔ یا کوئی اور شکایت ۔ بس مزاج پرقابو چھوڑنے کے لئے کافی بہانہ مل گیا۔ اور سارا گھر بھر ہے کہ آپ کے سبب سے بے چین ہو رہا ہے اسی لئے مصیبت سے جو فائدہ ہمیں پہنچنا چاہیے۔ ہم اُس سے محروم رہتے ہیں۔اس سے بعض طبیعتیں تو بالکل ترش اور خود غرض ہوجاتی ہیں۔ اکثر مریض اسی گناہ میں گرفتار ہیں۔ وہ اپنی درد و تکلیف میں ایسے محو ہو جاتے ہیں۔ کہ سارا گھر اُن کے مزاج داری کا غلام بن جاتا ہے۔ مگر بہت ایسے بھی شریف مزاج ہیں کہ وہ اس آزمائش پر غالب آجاتے ہیں۔ اور اس امر میں وہ اپنے نجات دہندہ کے نمونہ پر چلتے ہیں۔ ایسی بیماری کے کمرہ بھی ہیں۔ جہاں جانا انسان کی رُوح کو تقویت بخشتا ہے۔ ہم جانتے ہیں ۔کہ اس جگہ ایک شخص نہایت شدت کی درد سے جان بلب(مر رہا ہے ) ہو رہا ہے۔ مگرجب تکیہ پر نظر کرو ۔ توایک شیریں اور متحمل صورت نظر آتی ہے۔ اُس کی آواز سے بشاشت(خوشی ) اور شکر گزاری ٹپکتی ہے۔ اور بجائے اس کے کہ اپنے آپ میں محو ہو جائے۔ وہ دوسرے کے لئے فکر مند ہو رہا ہے۔ مجھے اس وقت ایک ایسی ہی بیمار کا حال یاد آتا ہے۔ جس کا ذکر ایک دوست نے
_____________________________________________
1۔اُسے اس وقت چار یا اس سے زیادہ گھنٹے صلیب پر لٹکے ہو چکے تھے۔ وہ آدھی رات کے قریب گرفتار ہوا تھا۔ مذہبی عدالت قریب طلوع آفتاب ختم ہوئی۔ پیلاطس کی عدالت میں وہ چھ سے نو بجے تک یا اس سے زیا دہ عرصہ رہا ہو گا۔ وہ دوپہر کے قریب صلیب پر کھینچا گیا ۔ اور دوپہر سے تین بجے تک تاریکی چھائی رہی۔ اور اس وقت اور شام کے درمیان موت اور تدفین واقع ہوئیں ۔ دیکھو متی ۲۷:۱ مرقس ۴۲،۲۴،۳۳،۲۵:۱۵ مقدس یوحنا کے بیان سے وقت کی بابت ۱۴:۱۹ ایک مشکل پیدا ہوتی ہے ۔ وہ کسی اور طریق سے وقت کا شمار کرتاہے۔ دیکھو اینڈیوز صاحب کی حیات مسیح صفحہ ۵۴۵ ۔ اسی آیت میں مقدس یوحنا بیان کرتا ہے کہ ’’ وہ فسح کی تیاری تھی ‘‘۔ کیا اس کے معنی ہیں عید کے شروع ہونے سے پہلے کا دن ۔ یا فسح کے ہفتہ کے شروع ہونے کا سبت ؟ اور بھی ایسے اشارات ہیں۔ جن سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مقدس یوحنا کے نزدیک صلیب فسح کے شروع ہونے کے ماقبل روز میں واقع ہوئی۔ حالانکہ پہلی تین اناجیل اسے اس کے بعد ٹھہراتی ہیں۔ ( خاص کر دیکھو یوھنا ۱۸: ۲۸ سوال یہ ہے کہ آیا فسح کے معنی فسح کا بّرہ ہے یا گلیلر یا عرف جو اُس دعوت کا جو دوسرے دن واقع ہوتی تھی ایک حصّہ تھا اس مسلہ ۔۔۔۔بہت کچھ کہا گیا ہے۔
مجھے سنایا تھا۔ اس کے کمرہ میں ہر طرف بشاشت(خوشی ) اور کار و بار کا دور دورہ نظر آتا تھا۔ سال کے ایک حصّہ میں وہاں سوزن کاری اور اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی جو وہ ہندوستان کے مشن سکولوں کے لئے تیار کیا کرتی تھی۔ ایک خاص نمائش گاہ لگا کرتی تھی۔ اس دو ر دراز ملک کے لڑکوں کی ضرورتوں کا خیال کر نے سے یہ مریضہ نہ صرف اپنی تکالیف کا مقابلہ دلیری سے کر سکتی تھی۔ بلکہ خُدا کے کام اور خُدا کے بندوں کے ساتھ ایک دل پسند تعلق قائم رکھتی تھی۔ لیکن اُس کی حالت ایسی تھی کہ اگر وہ چاہتی تو کچھ بھی کام کاج نہ کرتی ۔ اور اُس کو کوئی بھی قابل الزام نہ سمجھتا ۔ اور بجائے اس کے وہ اپنے گھر کے لوگوں کو دق کرتی اور اُن کے لئے تکلیف دبے آرامی کا باعث ہوتی ۔
لیکن مسیح کے اس کلمہ میں برداشت سے بھی بڑھ کر ایک اور بڑا سبق نکلتا ہے۔ اُس نے جسمانی تکلیف کے اظہار میں گو صرف ایک ہی کلمہ بولا۔ مگر بولا تو سہی۔ اُس کی خودِ ضبطی میں کسی قسم کی بے اعتنائی یا غرور نہ تھا۔ تکلیف کے وقت بعض آدمی فقط اپنی تکلیف کو زور سے دبا کر خاموش رہتے ہیں۔
جب کہ اپنی ہمت کو اس امر (کام)پر آمادہ (راضی)کر کے یہ ٹھان لیتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ کسی کو اُن کے منہ سے اُف سننے کا موقع نہ ملے ۔ وہ اپنی خاموشی کو برقرار رکھنے میں ۔ تو کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر اس میں کچھ لطف نہیں ۔ اُن کے دل میں تو کوئی محبت یا صبروتحمل کا خیال نہیں۔ مگر فقط قوت ارادی کازور دکھا ئی دیتا ہے۔ اس قسم کی آزمائش خاص کر اُس وقت وراد ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص ہمیں نقصان پہنچائے۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ اُس پر ظاہر ہو کہ ہم کو اس سے کس قدر دُکھ پہنچا ہے۔ تا کہ اُسے ہماری تکالیف دیکھ کر خوش ہونے کا موقع نہ ملے ۔ یسوع ایسے آدمیوں سے گھرا ہوا تھا۔ جنہوں نے اُس پر سخت ظلم و ستم کیا تھا۔ نہ صرف اُس کو جسمانی تکلیف پہنچائی تھی۔ بلکہ اُس کی تکلیف پر ہنستے اور پھپتیاں(مذاق کرنا) اُڑاتے رہے تھے۔ اگر وہ چاہتا تو یہ ارادہ کر لیتا ۔ کہ اپنی تکالیف کو اُن پر ظاہر نہ کرے ۔ یا کم سے کم یہ کہ اُن سے کسی قسم کی مہربانی کا طلب گار نہ ہو۔ بعض اوقات کسی سے مہربانی کا طلب گار ہونا بہ نسبت دوسرے پر مہربانی کرنے کے زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے زیادہ تر ایسے مزاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو دوسروں کی تقصیروں (گناہوں )کے معاف کرنے پر آمادہ ہو۔ مگر یسوع نے دوسروں سے مہربانی کی درخواست ہی نہ کی بلکہ اُس کے حاصل ہونےکا بھی اُمید وار تھا۔ اگر چہ اُن لوگوں نے جن سے وہ اُس کا خواہاں(خواہش مند) ہوا۔ اُس کے ساتھ نہایت شرمناک سلوک کیا تھا۔ تو بھی اُسے یقین تھا کہ اُن کے دل کی تہ میں اب بھی شاید کوئی نہ کوئی نیکی کا خیال باقی ہو۔ وہ زندگی بھر اس امر کا عادی رہا تھا۔ کہ جن لوگوں کی نسبت یہ خیال کیا جا تا تھا۔ کہ اُن میں نیکی کا ذرہ بھی باقی نہ ہو گا۔ وہ اُن لوگوں میں کوئی نہ کوئی نیکی دریافت کر لیا کرتا تھا۔ اور آخر دم تک وہ اپنے اس یقین پر قائم رہا۔ دُنیا کا یہ مقولہ ہے کہ سب آدمیوں کو بدمعاش سمجھو۔ جب تک کہ اس کے خلاف ثبوت نہ ملے ۔ خاص کر جب کسی کا کوئی دشمن ہوتا ہے۔ وہ اس کی نسبت بہت ہی بُرا خیال رکھتا ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہو۔ اُس کے چال چلن کی نہایت ہی سیا ہ تصویر جس میں سفیدی کو دخل تک نہ ہو کھینچتا ہے۔ جن سے ہم اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کمینگی اور ادنیٰ مقاصد کو اُن کو طرف منسوب کیا کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی اُن کے حق میں کلمہ خیر کہے تو یقین نہیں کرتے ۔ مگر مسیح کا یہ طریق نہ تھا۔ وہ یقین کرتا تھا۔ کہ ان سنگدل رُومی سپاہیوں میں بھی انسانی محبت و مہربانی کا کوئی نہ کوئی قطرہ ضرور باقی ہو گا۔ اور وہ اس امر میں مایوس نہ ہوا۔
اس فریاد کو سن کر جس سے اس قدر بے چارگی اور عجز ظاہر ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ خُداوند کے دوسرے الفاظ جو اس کے بالمقابل معلوم ہوتے ہیں۔ یاد آجاتے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ یہ وہی شخص ہے۔ جو اس سے تھوڑے ہی روز پہلے یروشلیم میں کھڑا پکار رہا تھا۔ کہ ’’ اگر کوئی آدمی پیا سا ہے تو میرے پاس آئے اور پئے ‘‘ ؟ کیا یہ وہی ہے ۔ جو یعقوب کے کنوئیں پر کھڑا سا مری عورت سے اُس چشمہ کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہاتھا۔ ’’جو کوئی اس پانی میں سے پیئے گا۔ پھر پیسا سا ہو گا۔ مگر جو کوئی وہ پانی جو میں دُوں گا پئے گا کبھی پیا سا نہ ہو گا۔ بلکہ وہ پانی جو میں دُوں گا۔ اس کے اندر پانی کا چشمہ بن جائے گا۔ جو ابدی زندگی تک اُبلتا رہے گا‘‘؟ کیا یہ شخص وہی ہے۔ جو اس طور پر ساری دُنیا کی پیاس بجھانے کا دعویدار تھا۔ اور اب سخت درماندگی کی حالت میں پھسپھسارہا ہے کہ ’’میں پیا سا ہوں ‘‘۔
ہاں یہ وہی ہے۔ اور یہ اختلاف و تقابل خُدا وند کی ساری زندگی بھر اُس کی باطنی دولت مندی اور بیرونی افلاس میں برابر نظر آتا ہے۔ وہ ساری دُنیا کو دولت مند بنانے کی قدرت رکھتا تھا۔ مگر خود اُس کی ذاتی ضروریات اُن عورتوں کی امداد سے جو اُس کی پیرو تھیں۔ پوری ہوتی تھیں۔ وہ یہ کہہ سکتا تھا۔ کہ ’’ میں زندگی کی روٹی ہوں ‘‘ لیکن بعض اوقات وہ روٹی کے نہ ملنے سے فاقہ کرنے پر مجبور تھا۔ وہ اپنے ایماندار وں سے تختوں اور بہتیرے محلوں کا وعدہ کر سکتاتھا۔ لیکن وہ اپنی نسبت کہتا تھا۔ کہ ’’ لومڑیوں کی ماندیں ہیں۔ اور ہوا کے پرندوں کے لئے گھونسلے ۔ مگر ابن آدم کے پاس اتنی جگہ نہیں ۔جہاں اپنا سر رکھے۔
اس دُنیا پرست زمانہ میں جب کہ آدمی کی حیثیت کا اُس کے مال و دولت سے اندازہ کیا جاتا ہے۔ اورجب کہ کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کی فکر ہر دم لوگوں کے سر پر سوار رہتی ہے۔ اس بات کو ہر وقت یاد رکھنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ بنی انسان کے شریف اصحاب بہت کم ایسے گزرے ہیں۔ جنہیں عیش و عشرت میں بسر کرنے کا موقع ملا ہو۔ اور وہ آدمی جنہوں نے عقلی و ذہنی مال و دولت سے بنی انسان کو دولت مند بنا دیا۔ وہ اکثر ٹکڑے ٹکڑے کے محتاج پھرا کرتے تھے۔ اکثر لوگوں نے ہائنی کا نام سُنا ہو گا ۔ جس کا نام علوم ِقدیمہ کی اشاعت کے ساتھ وابستہ ہو رہا ہے جب یہ صاحب طالب علم تھے۔ بلکہ اُس وقت بھی جب وہ علمائے قدیم کی بیش قیمت تصنیفات کے نئے نئے اڈیشن چھاپکرملک جرمنی کے لٹریچر کو مالا مال کر رہے تھے۔ تو وہ بے چارہ بھوکوں مرا کرتا تھا۔ اور بعض اوقات پھلوں کے چھلکوں ۔ یا اور ایسی چیزوں پر جو گلیوں میں سے بٹورلا تا تھا۔ گزارا کیا کرتاتھا۔ ڈاکٹر سموئیل جانسن جس نے پہلے پہل انگریز ی زبان کی لغات اور اُس کے علاوہ اور عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کیں۔ اورجس کی ساری دُنیا مقروض(قرض دار) ہے۔ جب وہ ان اعلیٰ تصانیفات میں مشغول تھا۔ تو اُس کے پاس جوتی تک نہ تھی۔ جسے پہن کر باہر نکلے۔ اور اکثر اوقات یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ شام کا کھانا کیونکر نصیب ہو گا۔ تاریخ اس قسم کے لوگوں کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ جو اگر چہ خود نہایت مفلس ولا چا ر تھے۔ مگر اپنی محنتوں سے دُنیا کو مالا مال کر گئے۔
اس سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکالنا چاہیے ۔ کہ باطنی دولت کے حصّول کے لئے ظاہر اً مفلس و نادار ہونا ضروری ہے۔جو لوگ ظاہراً مفلس ہیں۔ وہ ہمیشہ روحانی دولت سے مالا مال نہیں ہوتے ۔ بلکہ افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے۔ کہ اُن میں سے لا کھوں ایسے ہیں۔ کہ جیسے جسمانی لحاظ سے مفلس ہیں۔ ویسے ہی بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بھی نکمے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کہ بطور قاعدہ کلیہ کے جو لوگ باطنی دولت رکھتے ہیں۔ اس زندگی کی اچھی چیزوں میں سے بھی کچھ نہ کچھ انہیں حاصل ہے۔ کیونکہ دانائی اور سمجھ اور نیک چلنی بازار میں بھی اچھے داموں بکتی ہے۔ اس کے علاوہ روپیہ پیسہ کو بھی رُوح کی اعلیٰ باتوں کے حصول کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں مگر سب سے ذیادہ یاد رکھنے کے لائق یہ بات ہے کہ باطنی دولت ہی حقیقی دولت ہے۔ اور ہمیں اُسی کو ڈھونڈنا اور حاصل کرنا چاہیے ۔ خواہ اُس کے لئے ہمیں بیرونی اشیاء کو ترک ہی کیوں نہ کر نا پڑے ۔اگرہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی شخص بیرونی دولت پر اندرونی دولت کو ترجیح نہیں دے گا ۔ تو یقیناً دُنیا بالکل مفلس اور مادی اشیاء کی غلام ہوجائے گی۔ اور کوئی شخص فنون لطیفہ یا علم ادب یا
_______________________________________
1۔ان صاحب کی سوانح عمری ترقی جلد ۲ میں چھپ چکی ہے۔
مذہب کا سچا خادم نہیں بن سکتا ۔ اگر وہ ان سب کو دُنیا وی مال و دولت پر ترجیح دینے پر آمادہ (راضی)نہیں ہے۔ ہم دانائی فیاضی اور رُوحانی قوت کے ذریعہ سے ہی انسانیت کے اعلیٰ درجوں کو حاصل کرتے ہیں۔ اور سب سے اعلیٰ صفت جو مسیح کی مانند ہے سو یہ ہے۔ کہ ہم میں اس امر کی خواہش اور ارادہ پیدا ہو کہ ہم ایسے کام کر سکیں اور ایسی تاثیر ڈال سکیں۔ جس سے دوسروں کی زندگیوں میں مٹھاس پیدا ہو اور وہ اعلیٰ باتوں کے لئے زیادہ فکر مند ہونا سیکھیں۔
یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ اُس وقت صلیب کےپاس ایسے لوگ بھی کھڑے تھے۔ جو یسوع کی اس درخواست کو رد کرنے پر مائل تھے۔انہوں نے مسیح کے چوتھے کلمہ کا مطلب صحیح نہیں سمجھا تھا۔ اور یہ خیال کرتے تھے۔ کہ وہ الیاس کو بُلا رہا ہے۔ اور انہوں نے یہ تجویز کیا کہ اُسے پانی کا قطرہ بھی نہ دیں ۔ تاکہ دیکھیں کہ الیاس اس کی امداد کو آتا ہے۔ یا نہیں۔ لیکن ایک آدمی میں انسانیت کا غلبہ تھا۔ اور اُس نے یسوع کو جو کچھ اُس نے مانگا تھا دے دیا۔ ہمارے دل میں خواہ مخواہ اس شخص کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے۔ اور دل چاہتا ہے۔ کہ کاش ! میں اُس کی جگہ ہوتا ۔
مگر نجات دہندہ اب بھی پکار رہا ہے۔ کہ میں پیاسا ہوں ’’ کس طرح اور کہاں ؟سنو ‘‘میں پیاسا تھا تم نے مجھے پینے کو دیا ‘‘ ’’خُداوند ہم نے تجھے کب پیاسا دیکھا ۔ اور تجھے پینے کو دیا ‘‘ ۔چونکہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ کیا تو میرے ہی ساتھ کیا‘‘ جہاں کہیں یسوع کے بہن بھائی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔ اور تنگ و تاریک کو ٹھریوں میں بیٹھےاس امر کے منتظر ہیں کہ کوئی انہیں دیکھنے آئے۔ یا بسترِ مرض پر لیٹے اس امر کے حاجت مند ہیں کہ کوئی آکر اُن کی تیمارداری کرے۔ یا اُن کے خشک ہونٹوں کو پانی سے تر کرے۔ تو وہاں خود مسیح ہی یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میں پیاسا ہوں ‘‘۔
شاید وہ ایسا کہہ رہا ہے۔ مگر کوئی اُس کی مدد کو نہیں پہنچتا ۔ بہت سے ایسے ہیں جو زبان سے مسیحی ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے سال بھر میں ایک دفعہ بھی کسی غریب کی امداد نہیں کی۔ وہ خُدا کے گمنام بندوں کی تلاش میں تنگ و تاریک کوچوں میں جانے یا غلیظ سیڑھیوں پر چڑھنے کی کبھی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ انہوں نے ایک غم زدہ گھر کو ایک پھول یا خوش آواز رُوحانی گیت سے ایک وقت کا کھانا دے کر خوشحال کرنے کا ہنر ا بھی تک نہیں سیکھا ۔ اور نہ انہیں مصیبت زدوں کے ساتھ ہمدرد ی کرنی یا انہیں ذرا ہنس بول کر تسلی دینی آتی ہے۔ اگر وہ اس قسم کی ادنیٰ خدمات کو بجا لانا سیکھ لیں۔ تو یقیناً بہتوں کی مسیحیت کچھ کی کچھ بن جائے گی۔ اب اُس میں ایک طرح کی جان پڑ جائے گی ۔ اور خود اُن کے اپنے دل ایک قسم کی خوشی اور مسرت سے بھر جائیں گے۔ جو پہلے کبھی اُن کو نصیب نہ ہوئی تھی ۔کیونکہ مسیح اس امر کا ذمہ دار ہے کہ کوئی شخص جو اُس کی خدمت کرتا ہے ۔ اپنا انعام نہ کھوئے ۔ میرے ایک دوست نے جو امریکہ کا رہنے والا ہے۔ مجھ سے ایک دفعہ ذکر کیا کہ جب وہ یورپ کی سیر کر رہا تھا۔ تو اُسے ایک جہاز پر اُس کا ایک ہموطن مل گیا ۔ وہ ایک دوسرے سے ہم کلام ہوئے۔ اور بہت جلد اُس کو معلوم ہو گیا کہ اُس کا ہم کلام کہاں کا رہنے والا اور کون ہے۔ وہ کئی دن تک اکٹھے سفر کرتے رہے۔ اور میرے دوست پر اُس دوست شخص نےاس قدر عنایت و مہربانی کرنی شروع کی کہ آخر کار وہ اُس سے اس کی وجہ پوچھنے سے باز ہ رہ سکا۔ دوسرے نےجواب دیا کہ ’’ سُنو ! جب ہمارے ملک میں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ تو میں تمہاری ریاست میں خدمت پر مامور تھا۔اورایک دن ہم کوچ کرتے ہوئے اُس شہر میں سے گذرے ۔جو آپ کی جائے ولادت ہے اُس دن ہم نے لمبا کوچ کیا تھا۔ اور گرمی بہت سخت پڑتی رہی تھی۔ میں بالکل ماندہ ہورہا تھا۔ اور مارے پیاس کے جان بلب(مرنے کے قریب ) تھا۔ اُس وقت ایک عورت وہیں ایک گھر سے نکلی ۔ اور اُس نے بڑی مہربانی سے مجھے ٹھنڈے پانی کا
______________________________________
1۔ یعنی ایلی ۔ ایلی ۔ لما شبقتنی ۔
ایک پیالہ دیا اور میں اس وقت تمہارے ذریعہ سے جو اُس کے ہم شہر ی ہو۔ اُس کی مہربانی کا کسی قدر بدلہ اُتارنے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘۔ کیا اس کہانی سے ہمیں ابنِ اللہ کے وہ عظیم الشان الفاظ یاد نہیں آجاتے ۔ کہ ’’ جو کوئی ان چھوٹوں میں سے کسی کو شاگرد کے نام پر صرف ایک پیالہ ٹھنڈا پانی ہی پلائے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ وہ اپنا اجر ہرگز نہیں کھوئے گا‘‘؟
لیکن کیا یہی بس ہے؟ کیا کوئی شخص مسیح سے اس قدر قربت حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اُس کے اعضاء (یعنی اہل کلیسیاء ) کے ذریعہ سے ہی نہیں ۔ بلکہ خود اُس کی لبوں کو ٹھنڈے پانی سے سیراب کرے؟ہاں یہ بھی ممکن ہےیسوع اب بھی فرماتا ہے۔ کہ ’’ میں پیا سا ہوں ‘‘۔ وہ محبت کا پیاسا ہے ۔ وہ دُعا کا پیاسا ہے۔ وہ عزت کا پیاسا ہے۔وہ تقدس کا پیاسا ہے جب کبھی کسی آدمی کا دل سچی توبہ یا محبت یا تقدس کے یہ خیال سے اُس کی طرف پھرتا ہے۔ تو نجات دہندہ اُس میں اپنی جان کے درد کو دیکھتا اور تسلی پاتا ہے۔
پانچویں کلمے کی طرح چھٹا کلمہ بھی یونانی زبان میں فقط ایک ہی لفظ ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے۔ کہ یہ اکیلا لفظ ایسے سب اکیلے الفاظ سے جو کبھی کسی کی زبان سے نکلے ہوں عظیم الشان ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ تمام دُنیا کی نجات پر حاوی ہے۔ اور ہزارہا آدمیوں نے گناہ کی بے قرار ی کے وقت یا دم مرگ ان الفاظ سے ایسا ہی سہارا پایا ہے۔ جیسے کہ ڈوبتا ہوا ملا ح سمندر میں تر یری کا سہارا لیتا ہے۔
بعض اوقات اس سے یہ مطلب بھی سمجھا گیا ہے کہ یہ فقط زندگی کے آخری دم نکلنے کا نشان تھا۔ اور اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے۔ کہ سب ہو چکا ۔یہ جان کا درد کمزوری آخر کار ختم ہوئے مگر یسوع کے آخر ی الفاظ اس لہجہ میں نہیں کہے گئے تھے۔ ہم صاف پڑھتے ہیں۔کہ پانچواں کلمہ بلند آواز سے کہا گیا تھا۔ اور ایسے ہی ساتواں بھی۔ اور اگرچہ چھٹے کلمہ کی نسبت یہ بات صاف طور پر نہیں لکھی گئی۔ توبھی ظن غالب (یقینی امکان) یہ ہے۔ کہ اس امر میں بھی وہ دوسرے دونوں کلموں کے موافق ہو گا۔ یہ شکست کی فریاد نہ تھی ۔ بلکہ فتح و نصر ت(جیت) کی۔
اس وقت ہمارے خُداوند کے دُکھ اور تکلیف اور اُس کے ساتھ ہی اُس کے کام کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔ اور یہ سمجھنا بالکل طبعی بات ہے۔ کہ اس کلمہ میں دونوں کی طرف اشارہ تھا دُکھ اور کام ہر ایک زندگی کے دو پہلو ہیں۔ مگر بعض میں ایک زیادہ ہو تا ہے۔ بعض میں دوسرا ۔ یسوع کے تجربہ میں دونوں زور پر تھے۔ اُس کے پاس ایک بھاری کام کرنے کو تھا۔ اور اُس کے کرنے میں اُس نے سخت دردو دُکھ بھی برداشت کئے۔ لیکن اب دونوں کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچے ۔ اور یہی بات ہے جو چھٹے کلمہ سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے یہ اوّل تو کام کرنے والے کی کامیابی کا نعرہ ہے۔ اور دوسرے دُکھ اُٹھانے والے کے درد سے فراغت پانے کی ٹھنڈی سانس ہے۔
______________________________________
1۔پوراہوا۔
مسیح کے پاس زمین پرایک بڑا بھاری کام کرنے کو تھا۔ جو آب پورا ہوا۔ یہ دم ِمرگ کا کلام ہمیں اُس کی زندگی کے پہلے کلام کو جو ہم تک پہنچا ہے یاد دلاتا ہے کیا تم کو معلوم نہ تھا۔ کہ مجھے اپنے باپ کاکام کرنا ضرورہے۔ بارہ برس کی عمر میں بھی اُسے معلوم تھا۔ کہ اس کے آسمانی باپ نے اُسے ایک کام سپرد کیا ہے۔ جس پر اُس کے تمام خیالات لگے رہنے چاہئیں ۔ شاید ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس وقت وہ اس کام کا مطلب اُس کے وسیع معنوں کے لحاظ سے پورے طور سمجھے ہوئے تھا۔ جو ں جوں وہ عمر میں ترقی کرتا گیا ۔ دُوں دُوں وہ اُس کی حقیقت کو زیادہ زیادہ معلوم کرتا گیا ۔ جب وہ تن تنہا ناصر ت کے کھیتوں اور چراگاہوں میں غور و فکر کے لئے الگ چلا جایا کرتا تھا۔ اُس وقت یہ کام اُس کے دل پرحاوی اور قابض رہتا تھا۔ جب وہ دُعا نماز میں زیادہ زیادہ مشغول ہونے لگا ۔ تو اُس کا عزم و استقلال (مضبوط ارادہ )بھی زیادہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے گیا۔ جس قدر وہ انسانی فطرت سے اور اپنے زمانہ کی حالت اور ضروریات سے زیادہ واقف ہوتا گیا۔ اُسی قدر زیادہ صفائی سے اُس کا کام اُس پر ظاہر ہوتا گیا ۔ جب وہ عہد ِعتیق کے پاک نوشتوں کو سنتا یا خود اُن کا مطالعہ کرتا تھا۔ تو وہ توریت اور انبیاء کی کتابوں میں رسوم و دستورات اور علامتوں میں اُس کا نشان پاتا تھا۔ وہاں وہ دیکھتا تھا کہ اُس کی زندگی کا پروگرام پہلے ہی سے صاف صاف تحریر ہے۔ اور شاید جب اُس کے زبان سے یہ نکلا کہ ’’پورا ہوا‘‘ توجوخیال سب سے زیادہ اُس وقت اُس کے دل پر حاوی تھا۔ سو یہ تھا کہ قدیمی پاک نوشتوں میں جو کچھ اُس کے حق میں پیشن گوئی ہوئی تھی۔ وہ سب پوری ہوگئی۔
اور جب اُس کی پبلک زندگی شروع ہوئی تو یہ خیال کہ اُس کو ایک کام سپرد ہوا ہے۔ جواُسے سر انجام کرنا ہے۔ اُس کی زندگی پر بالکل حاوی ہو رہا تھا۔ یہ اُس کے چہرہ پر بلکہ اُس کی ہر ایک حرکت اور رویہ پر منقش معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ اپنے کام سے جو اُسے دُنیا میں سر انجام کرنا ہے۔ خوب واقف ہے ۔ اور اس لئے وہ بڑے استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ اُسے سر انجام کرنے کو ہے۔ وہ کہا کرتا تھا۔ کہ ’’ مجھے ایک بپتسمہ لینا ہے۔ اور جب تک وہ ہونہ لے میں کیا ہی تنگ رہوں گا۔ ایک عالم محویت میں جب وہ سو خار کے کنوئیں پر سامری عورت سے بات چیت کر چکا تھا۔ اور اُس کے شاگردوں نے کھانا حاضر کیا۔ تو اُس نے یہ کہہ کر اُسے ہٹا دیا کہ ’’میرے پاس کھانے کے لئے ایسا کھانا ہے جسے تم نہیں جانتے ‘‘ ۔اور پھرکہنے لگا ’’ میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں‘‘ ۔ جب وہ آخری بار یروشلیم کو جا رہا تھا۔ تو اپنے شاگردوں کے آگے آگے جاتا تھا۔ اور وہ حیران ہو گئے۔ اور جب وہ پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ تو ڈرنے لگے ۔ اُس کا مُدعا ئے زندگی اُس پر حاوی ہو رہا تھا۔ اور وہ اپنے جسم اور جان اور رُوح سمیت اُس میں غرق تھا۔ اُس نے اپنی قوت کا ہر ایک ذرہ اور اپنے وقت کا ہر ایک لمحہ اُس پر خرچ کر ڈالا ۔ اب زندگی کے خاتمہ پر جب وہ پیچھے کو نظر دوڑاتا ہے تواس کے دل میں کسی قسم کا افسوس پیدانہیں ہوتا کہ ہر ایک قابلیت جو اُسے ملی تھی۔ اُس نے اُس کا بُرا استعمال کیا ہے۔ یا اُسے استعمال کئے بغیر چھوڑ دیا ہے ۔ وہ سب ایک ہی مُدعا کے لئے مرتب کی گئی تھیں۔ اور اُسی ایک ہی کام پر خرچ کردی گئی تھیں ۔ مگر مسیح کا یہ کام کیا تھا؟ کن الفاظ میں ہم اُسے بیان کریں ؟ بہر صورت وہ کام اُن سب کاموں سےجو کسی ابنِ آدم کے سپرد ہوا ہو بزرگ تر تھا۔ آدمی بہت کچھ کر گزرے ہیں۔ اور بعض نے تو اپنے دل پسند کام کے سرانجام کرنے میں سارا زور اور کوشش خرچ کر دی ہے۔ فاتح نے دُنیا کو اپنے زیر نگیں (قبضہ کرنا)کرنے میں اپنے کو مشغول کر دیا ۔ بہی خواہ قوم نے اپنی قوم کو آزاد کرنے میں ۔فلاسفر نے ملک علم کو وسعت دینے میں ۔ موجد اپنی ا نتھک محنت نیچر کے رازوں کو کھوجنے میں خرچ کر رہا ہے۔ ایک دوسرا آدمی غیر معلوم بّرا عظموں کی تحقیقات کرنے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جاتا ہے۔ اور آخر کار اپنی جان اسی کوشش میں گنوا دیتا ہے ۔ مگر ان میں سے کسی کا کام بھی ایسا اہم اور عظیم الشان نہ تھا۔ جسے یسوع کے کام کے مقابل میں رکھ سکیں۔
یہ ایک کام تھا خُدا کے لئے آدمیوں کے ساتھ ۔ اور آدمیوں کے لئے خُدا کے ساتھ ۔
یہ خیال کہ یہ ایک خُدا کا کام ہے۔ جو خُدا نے اُس کے سپر د کیا ہے۔ اکثر مسیح کے لبوں پر رہتا تھا۔ اور یہ آگاہی اُس کے الہام وہمت کے بڑے بڑے وسائل میں سےتھی۔ وہ کہا کرتا تھا۔ مجھے اُس کاکام جس نے مجھے بھیجا ہے۔ دن ہی دن میں کرنا ضرورہے۔ ’’یا ‘‘ اس لئے میرا باپ مجھ سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں۔ جو اُسے خوش آتے ہیں ‘‘ اور اپنی زندگی کےکام کے خاتمہ پر اُس نے اسی قسم کے الفاظ استعمال کئے ۔’’ میں نے زمین پرتیر اجلال ظاہر کیا۔ میں نے وہ کام جو تو نے مجھے کرنے کو دیا تھا۔ پورا کر دیا ‘‘۔ یہی اُس کاکام تھا۔ یعنی زمین پر خُدا کا جلال ظاہر کرنا ۔ باپ کو بنی آدم پر ظاہر کر دینا ۔
مگر ایسا ہی یہ بھی ظاہر ہے۔ کہ اُس کا کام آدمیوں کی طرف سے خُدا کے ساتھ بھی تھا۔ یہ بات اُس کے تمام اقوال اور اُس کی زندگی کے سارے طور و طریق سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ آدمیوں کو خُدا کو پاس واپس لا رہا تھا۔ اور اُسے اُن رُکاوٹوں کو جو سد راہ (رکاوٹ بننا)ہو رہی تھیں دُور کرنا تھا۔ اُسے اُ س قبر پر سے جس میں بنی آدم مدفون ہو رہے تھے۔ پتھر اُٹھا ناتھا۔ اور مُردوں کو پھر زندہ کرکے باہر نکالنا تھا۔ اُسے اپنا سارا زور انسانی جرم کے آہنی دوازہ پر لگا کر اُسے وا (کھولنا )کرنا تھا۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا۔ اور جب کہ اُس نے فرمایا کہ ’’پورا ہوا‘‘ تو وہ اُس وقت سارے بنی آدم سے بھی یوں فرمارہاتھا۔ کہ ’’دیکھو میں نے تمہارے سامنے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ اور کوئی شخص اُسے بند نہیں کر سکتا ‘‘۔
جس قدر کوئی کام زیادہ طویل اور مشکل ہوتا ہے۔ اُسی قدر اُس کے ختم ہونے پر زیادہ تسکین اور فرحت حاصل ہوتی ہے ۔ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ کسی کام کے ختم کرنےپر جس پر بہت سی محنت خرچ ہوئی اور جس پر بہت وقت لگا ۔ کیسا ایک بوجھ سا دل پر سے اُٹھ جاتا ہے۔ اور وہ خود بخود بول اُٹھتا ہے ۔ ’’لو ۔ آخر کار یہ بھی نپٹ گیا ‘‘۔ انسانی عقل و فراست اور قوت کے اعلیٰ قسم کے کاموں کی انجام دہی سے ایک اس قسم کی تسلی و تسکین حاصل ہوتی ہے۔ کہ اُسے دیکھنے اور سننے والوں میں صدہا سال کے بعد بھی ایک قسم کی ہمدرد ی اور جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ شاعر کو اس سے کس قدر لطف حاصل ہوا ہو گا۔ جب کہ زندگی بھر کی محنتوں سے علم کے خزانہ اکٹھے کرتے اور زبان کے استعمال میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد اُس نے اپنی نظم ’’ دوزخ و بہشت کا حال ‘‘یا ’’نقصان فردوس‘‘ پر سالہا سال تک محنت کی ہوگی۔ اور آخر کا ر بہزار و شواری اور جانکا ہی اُسے اختتام کو پہنچا کر اور اپنا قلم کیا کر ۔خاتمہ پر ختم با لخیر لکھ دیا ہو گا؟ کولمبس کو کس قدر مزا آیا ہوگا۔ جب کہ اُس نے پہلے اپنی ساری زندگی لوگوں سے امداد مانگنے میں خرچ کر کے۔اور آخر کار بہت سی مشکلوں اور صعوبتوں اور اپنے جہاز کے لوگوں کی بغاوتوں کا مقابلہ کرنے کے بعد اُس کی نظر ڈراین کی چوٹی پر پڑی ہو گی۔ جس سے اُس پر ثابت ہو گیا ۔ کہ اُس کوششیں محض خواب و خیال نہ تھیں۔ بلکہ آخر کار تکمیل کو پہنچیں؟ جب ہم پڑھتے ہیں کہ کس طرح ولیم و لبرفورس نے جس کی ساری عمر غلاموں کی آزادی کی کوششوں میں گزری ۔ اپنے بستر مرگ پر یہ خبر سُنی کہ آخر انگریزی پارلیمنٹ نے تمام خرچ کی رقم جو اُس امر کی تکمیل کے لئے ضروری تھی۔ جس پر اُس اپنی زندگی قربان کر دی۔ منظور کر لی ہے تو کونسا دل ایسا ہے۔ جواُس کے ساتھ خوشی و ہمدردی میں شریک نہ ہو۔ یہ خیال کر کے کہ کس طرح اُس وقت اُس کے کانوں میں لاکھوں آزاد شدہ غلاموں کے خوشی کے نعرے گونج رہے ہوں گے۔ یہ سب باتیں اس اعلیٰ فتح مندی کے بڑے ہلکے سے نمونے ہیں۔ جو مسیح کو حاصل ہوئی ہو ں گی جب اُس نےاپنا زندگی کا سار ا کام ختم ہوتا ہوا دیکھا اور نعرہ مارا۔کہ’’پورا ہوا‘‘۔
اگر مسیح کے ہاتھوں میں ایک ایسا عظیم الشان کام تھا۔ جسے اُس نے صلیب پرتکمیل کو پہنچتے دیکھا ۔تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایسے ہی خاص طور سے دُکھ اُٹھانے والا بھی تھا۔ اس لئے اُس نے اُسے صلیب پر سے اپنے دُکھ درد کی نسبت بھی کہا کہ ’’ پورا ہوا ‘‘۔
دُکھ تکلیف کام کا دُوسرا پہلو ہے جیسے کہ آدمی کا سایہ اُس کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ اسی طرح اس دُکھ تکلیف کو کام کا سایہ کہنا چاہیے ۔ یہ اُس کے آلہ کی روک ٹوک ہے۔ جس کے ذریعہ سے اس کا رکن کو اپنا کام سرانجام کرنا پڑتا ہے۔
یسوع کی زندگی دُکھ تکلیف سے معمور تھی ۔ کیونکہ اُسے اپنا کام ایک ایسے آلے کے ذریعہ سر انجام کرنا تھا۔ جواُس کا بہت ہی سدراہ (رکاوٹ)تھا۔ اُس کا مُدعا (مقصد ) ایسا فیض رساں(فائدہ پہنچانےوالا) تھا۔ اور وہ دُنیا کی بہتری کے لئے ایسا سر گرم تھا۔ کہ ظاہر اً یہ اُمید ہوتی ہے۔ کہ اُس کو ایسے کام میں ہر طرح کی حوصلہ بڑھانے والی امداد ملنی چاہیے تھی۔ وہ ایسا دیندار تھا۔ کہ چاہیے تھا کہ تمام مذہبی قوتیں اُس کی مدد گار ہوتیں ۔ اور اُس کام میں اُس کا ہاتھ بٹاتیں۔ وہ ایسا محبِ قوم (قوم سے محبت رکھنے والا)تھا۔ کہ طبعی طور پر یہ اُمید کی جاسکتی تھی۔ کہ لوگ ہاتھ پھیلا کر اُسے قبول کرتے ۔ وہ ایسا بہی خواہ انسان تھا۔ کہ چاہے تھا کہ لوگ اُسے سروں پر اُٹھا لیتے ۔ لیکن ہر قدم پر اُس کی مخالفت ہوئی۔ اُس کے ملک اور زمانہ کےسب صاحب ثروت و عزت لوگ اُس کی مخالفت پر ڈٹ گئے۔ اور یہ مخالفت دن بدن بڑھتی گئی حتی ٰکہ کلوری پر وہ اپنی حد کو پہنچ گئی ۔ جب کہ زمین اور دوزخ کی تمام قوتیں جمع ہو کر اُسے پامال اور فنا کرنے کے لئے جُٹ گئیں۔ اور وہ کامیاب بھی ہوئیں ۔
لیکن اگرہم کہیں کہ تکلیف فقط کام کے کام کرنے والے پر اُلٹ کر آپڑنے کا نام ہے۔ تو ہم نے اس راز کو پورے طور پر حل نہیں کر دیا۔ جب کہ کام وہ ہے۔ جو ایک آدمی اپنے سارے ارادہ کی قوت سے کرتا ہے۔ تو تکلیف اُس چیز کانام ہے۔ جو کارندہ (کام کرنے والا ) پر اُس کے ارادہ کے خلاف واقع ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اُس کے مخالفوں اور دشمنوں کے ارادہ سے واقع ہوتی ہے۔ مگر یہی کہہ دُنیا کافی نہیں ہے۔ اس ارادہ سے بھی اُوپر ۔ جو ممکن ہے کہ بالکل بد ہو۔ ایک اور ارادہ کام کر رہا ہے۔ جو نیک ہے۔ اور ہماری تکالیف سے ہمارے لئے فقط نیکی ہی چاہتا ہے۔
تکلیف خُدا کے ارادہ سے ہے۔ یہ اُس کا بڑا اوزار ہے ۔ جس کے وسیلہ وہ اپنی مُقررہ تدبیر کے مطابق اپنی مخلوقات کو ڈھال رہا ہے۔ جب کہ اپنے کام کے ذریعہ سے ہم کو چاہیے کہ جیسا وہ چاہتا ہے ہم دُنیا کو ویسے ہی تر اشتے جائیں۔ تکلیف کے ذریعہ سے وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق تراش تراش کر بنا تا جاتا ہے۔ وہ تکا لیف کے ذریعہ سے ہمارا راستہ کبھی ادھر سے کبھی اُدھر سے بند کر دیتا ہے۔ تا کہ ہم اُس راستہ میں جو اُس نے ہمارے لئے مُقر ر کیا ہے چلیں۔ وہ ہماری خواہشوں اور ہوسوں کو چھانٹتا ہے۔ وہ ہمیں ذلیل کرتا ہے۔ تاکہ ہم حلیم اور فرما نبردار ہوں۔ اور اپنے کام سے ہم دُنیا کے انتظام و درستی میں مدد دیتے ہیں۔ مگر ہماری تکا لیف سے وہ ہمیں درست اور پاک کرتا ہے۔ اور اُس کی نظر میں یہ بات زیادہ عظیم ہے۔
شاید ہماری زندگی کا یہ نصف حصّہ قابو میں رکھنا زیادہ مشکل ہے۔ اگر چہ زندگی کے کام کو تکمیل تک پہنچانا بھی کچھ آسان بات نہیں ۔ مگر تکالیف کو برداشت کرنا اور اُن سے فائدہ اُٹھانا اس سےکہیں مشکل تر ہے۔ کیا تم نے کبھی ایسا آدمی دیکھا ہے۔ جسے نیچر نے بڑی بڑی قابلیتیں اور توفیق الہٰی نے بڑی بڑی خوبیاں عطا کی ہیں۔جنہیں دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوتا تھا۔ کہ اس خوبی و قابلیت کا آدمی کیا کچھ نہ کر گذرے گا۔ اور جس کام کو ہاتھ لگائے گا۔ ضرور کامیاب ہو گا۔ اگروہ مشنری بنے گا تو تاریک براعظموں میں انجیل اور تہذیب و شائستگی کی روشنی پھیلا دے گا۔ اگر پارلیمنٹ میں داخل ہوا۔ تو اپنی فصاحت و بلاغت(خوش بیانی) سے لوگوں کے دل قابو میں کرے گا۔ اور اپنی عقل و حکمت سے قوم کو ترقی کے اعلیٰ زینہ تک پہنچا ئےگا ۔ اور اگر تصنیف و تالیف پر توجہ کی ۔ تو زندگی کے گہر ے گہرے عقدے حل کر ڈالے گا۔ اور جہاں جائے گا۔ نور کا بیج بو تا جائے گا۔ اور اپنے لئے ایک ایسی یاد گار چھوڑ جائے گا ۔ جو کبھی زائل (ختم ہونا ) نہ ہوگی ۔ مگر ہم کیا دیکھتے ہیں۔ کہ یا تو اُسے کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے۔ جو جان لے کر چھوڑتی ہے۔ یا کوئی حادثہ اُسے کچل ڈالتا ہے۔ جس سے اُس کی ساری تدبیریں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اور اُس کی زندگی کا سارا مقصد اپنی صحت کی خبرداری اور موت سے بچنے کی تجاویز میں جو بہت عرصہ تک اُس کو چھٹی نہ دے گی۔ محدود ہو جاتا ہے۔ اور کیا جب تم اُس پر نظر کرتے ہو ۔ تو تمہیں یہ خیال نہیں گزرتا کہ اُس کے لئے اس حالت میں سر تسلیم جھکانا اور راضی برضا ہونا زیادہ مشکل ہے۔ بہ نسبت اُس محنت و تکلیف کے جو اُسے اپنی من بھاتی تجاویز کے سر انجام کرنےمیں اُٹھانی پڑتی ؟ بیکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اکثر اوقات بڑے بڑے مشکل کام کرنے سےبھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اور اطاعت میں سر جھکانے کے لئے کوئی کار نمایاں کر گذرنے کی نسبت زیادہ ایمان کی حاجت (ضرورت )ہوتی ہے۔
مسیح کی زندگی بھی ہر طرف سے اسی طرح گھری اور دبی ہوئی تھی۔ ظاہراً تو یہ سب بدکردار آدمیوں کا کام معلوم ہوتا تھا۔ مگر وہ ان سب کے پس پشت مرضی الہٰی کو دیکھتا تھا۔ اُسے جلال کی جگہ ایک شرمناک زندگی اختیار کرنی پڑی ۔ایک وسیع کار خیر کی جگہ ایک مختصر اور محدود کا م میں مشغول رہنا پڑا ۔ اور بجائے ۔ عالمگیر اور ابدی سلطنت قائم کرنے کے اُسے پیش از وقت اور ہیبت ناک موت سے مرنا پڑا ۔ مگر اُس نے کبھی شکوہ نہ کیا۔ قربانی اگرچہ کئی وجہ سے تلخ معلوم دیتی تھی۔ مگر وہ یہ خیال کر کے کہ میرے باپ کی یہی مرضی ہے۔ اُسے اپنے لئے شربت کا پیالہ سمجھتا تھا۔ اور جب یہ حالت بدتر سے بدترین ہو گئی۔ اور اُس کے منہ سے اس قسم کے کلمات نکلے۔ کہ ’’اگر یہ ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹ جائے‘‘ ۔ تو فی الفور اُس نے یہ بھی کہا کہ ’’ تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو‘‘۔ اور اس طرح سیڑھی کے ہرایک زینہ پر اُس کے خیال اُس کے باپ کے خیالوں کے ساتھ ۔ اور اُس کا ارادہ اُس کے باپ کے ارادہ کے ساتھ با ہم متحد و مطابق تھا۔
اور آخر کا ر وہ پیالہ جسے وہ بار بار زندگی بھرپیتا رہا تھا۔ آخری بار پراُس کے ہاتھ میں دیا گیا ۔ اس دفعہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ لبالب اور سیا ہ اور تلخ تھا۔ مگر اُس نے منہ نہ موڑا ۔ اور سب کا سب پی گیا ۔ اور جب اُس نے اُسے نوش ِجان (خوشی کے ساتھ پینا ) کر لیا۔تو اُس کے اپنے کمال کے دائرہ کی آخری قوس(کمان) کا ٹکڑا مکمل ہو گیا۔ اورجب اُس نے آخری گھونٹ پی کر پیالہ کو پھینک دیا تو وہ پکار ا کہ ’’پورا ہوا‘‘ ۔ اور اُس وقت اُن لوگوں کی طرف سے بھی جو حیرت اور عبودیت(اطاعت ) کی نگاہوں سے اس خصلت کے کامل دائرہ پر نظر ر رہے تھے۔ گونج کی طرح یہ آواز آئی کہ ’’پورا ہوا‘‘۔
اگرچہ مسیح کی زندگی کے یہ دونوں پہلو خیال میں جُدا جُدا کئے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دونوں ایک ہی زندگی کا ظہور ہیں۔ جو کام وہ سر انجام کرنے کو آیا تھا۔ تکلیف اور دُکھ بھی اُس کا ایک حصّہ تھا۔ اور اُس نے اُسے برداشت کر کے اُسے ایک طرح کا رُتبہ اور سرفرازی بخشی ۔ اس کے علاوہ دُکھ اور تکلیف کے ذریعہ کارندہ اپنے کمال کو پہنچا ۔ اوراس طرح سے اُس کے کام کو بھی اُس سے عظمت حاصل ہوئی ۔ دُنیا کے گناہ کے لئے کفارہ دینے میں جو اُس کا سب سے اعلیٰ کام تھا۔ اُس نے تکلیف زدہ آدمی کی حیثیت میں خُدا کی مرضی کو پورا کیا۔ اور اب دونوں کام پورے ہو گئے اور اُس وقت سے دُنیا کو ایک نئی چیز حاصل ہوگئی ۔ اُسے پہلے کئی ایک کمال یافتہ چیزیں حاصل تھیں۔ مگر نہ تو اُس سے پہلے اور نہ اُس کے بعد اُسے ایک کامل زندگی نصیب ہوئی۔
اگر چہ مرنے والوں کی ساری باتیں عزیزوں کے نزدیک خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ تاہم آخری کلمہ کو سب سے زیادہ عظمت دی جاتی ہے۔ خُداوند کا یہ آخری کلمہ ہے۔ اوراس وجہ سے اورنیز دیگر وجوہات کےباعث وہ ہماری خاص توجہ کے لائق ہے۔
بیان کیا جاتا ہے۔ کہ ایک مشہور و معروف انگریز نے اپنے بستر ِمرگ پر اپنے بھتیجے سےکہا تھا۔ کہ ’’ پاس آاور دیکھ کہ کس طرح ایک مسیحی مر سکتا ہے ‘‘۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس کا یہ قول دانائی پر مبنی تھا یا نہیں۔ مگر یقیناً یہ معلوم کر لینا کہ مرنا کیسے چاہیے ۔ ہم فانی آدمیوں کےلئے نہایت ہی ضروری علم ہے ۔ اور اسے ہم ایسے عمدہ طور سے اور کہیں نہیں سیکھ سکتے ۔ جیسا کہ مسیح کی موت پر غورو فکر کرنے سے۔ یقیناً اس آخری کلمہ سے ہمیں تعلیم ملتی ہے کہ مرنا کس طرح چاہیے۔ لیکن ہم اس سے اور بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہمارے پاس اُس کے سمجھنے کے لئے شعور ہو۔ اس سے ہم نہ صرف موت کا ہنر بلکہ زندگی کا ہنر بھی سیکھ سکتے ہیں۔ مرتے ہوئے نجات دہندہ کے آخری الفاظ ایک دُعا کی صورت میں تھے۔
صلیب پر سے جو کلمات اُس نے فرمائے وہ سب کے سب دعائیں نہ تھے۔ ایک کلمہ اُس نے تائب چورسے فرما یاتھا۔ دوسرا اپنی ماں اور پیارے شاگرد سے تیسرا اُن سپاہیوں کے حق میں تھا۔ جو اُسے صلیب پر کھینچ رہے تھے۔ مگر دُعا اُ س کی آخری گھڑیوں کی زبان تھی۔ یہ ایک اتفاقی بات نہ تھی۔ کہ اُس کے آخری الفاظ دُعائیہ تھے۔ کیونکہ اُس کے اندر کے سارے رَو (دھارے ) ہمیشہ خُدا کی طرف ہی بہتے رہتے تھے۔
اگرچہ دعا ہر وقت اور ہر حالت کے شایاں ہیں۔لیکن بعض ایسے ایسے موقع ہیں۔ جن کے ساتھ وہ خاص مناسبت رکھتی ہے۔ دن کے خاتمہ پر جب ہم خواب کے لئے جو موت کی تصویر سمجھنی چاہیے ۔ تیار ہو تےہیں۔ تو دُعا ہمارے کی دل کی خاص حالت ہونی چاہیے ۔ جب کوئی سخت خوف و اندیشہ دامنگیر ہو ۔جیسے کہ تختہ جہازپر جب کہ دفعتہ ً (اچانک )موت سامنے آجاتی ہے۔ تو لوگ خود بخود دُعا کے لئے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ عشاء ربانی کی میز پر جب ایک خاموشی کے عالم میں روٹی اور مے تقسیم ہو رہی ہوتی۔ ہے۔ تو ہرایک سوچ سمجھ والا آدمی دُعا میں مشغول ہوتا ہے۔ مگر اور حالتوں کی نسبت بستر ِمرگ پر خاص طور پر وہ برمحل(موقع کے مطابق) ہوتی ہے۔ اُس وقت ہم خواہے نخوا ہے سب دُنیاوی اشیاء سے جُدا ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوست اور رشتہ دار۔ مال و دولت ۔ گھر کی آسائش اور زمین کی صورت ۔ سب ہم سے رخصت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں اُس کی طرف دل لگا نا جواکیلا ہمارے ساتھ رہے گا۔ بالکل طبعی بات ہے۔ اور یہ بات دُعا سے حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ وہی خُدا کا دامن پکڑتی ہے۔
اُس وقت دُعا مانگنا ایسی طبعی بات ہوتی ہے۔ کہ یہ کہنا بے جانہ ہو گا ۔کہ دُعا کو آخری گھڑی کا ایک ضروری جز سمجھنا چاہیے۔ مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ۔ بستر مرگ خُدا کے بغیر ایک نہایت خوفناک نظارہ ہے۔ مگر ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دل کے تمام خیالات کا زمین کی طرف ایسا پُرزور میلان (رجحان) ہوتا ہے۔ کہ اُس وقت بھی انہیں اُدھر سے ہٹا نا ممکن نہیں ہوتا ۔ ایسے بستر ِمرگ بھی ہیں۔ جہاں خد ا کا خیال کرنے سے بھی دہشت دا منگیر ہوتی ہے۔ اور اس لئے مرنے والا حتی ٰالامکان اُسے اپنے سے دُور رکھنا چاہتا ہے۔ اور بعض وقت اُس کے دوست بھی اس امر میں اُس کی مدد کرتےہیں۔ اور کسی
_____________________________________________
1۔اے باپ ۔میں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔
آدمی کو نہ تو ملنے دیتے ہیں۔ اور نہ کوئی ایسا کلمہ زبان سے نکالتے ہیں۔ جس سے خواہ مخواہ اُسے خُدا یاد آجائے ۔ دُعا اگر چہ طبعی امر ہے۔ مگر یہ فقط انہی لوگوں کے لئے جنہیں اس سے پہلے اس کی عادت ہو رہی تھی۔ یسوع کے واسطے تو یہ اُس کی روز مرہ کی زبان تھی۔ وہ ہمیشہ بلا توقف دُعا مانگتا رہتا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر ہو۔ یا لوگوں کے مجمع گاہوں میں۔ اکیلا ہو۔یا دوسروں کی صحبت میں ۔ اور دم ِمرگ اگر وہ خُدا کی طرف متوجہ ہوا تویہ اُس کی زندگی بھر کی عادت اُسے کھینچ رہی تھی۔
اگر ہم بھی چاہتے ہیں۔ کہ ہمارے آخر ی الفاظ دُعا پرمبنی ہوں ۔ تو ہمیں ابھی سے دُعا کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں ۔کہ بستر مرگ پرخد ا کا چہر ہ ہم پر منور ہو توہمیں ابھی اُس کے ساتھ صلح وو اقفیت پیدا کرنی چاہیے ۔ اگر ہم مرتے ہوئے مسیح یا مرتے ہوئے اولیا ء اللہ پر نظر کر کے یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ کہ ’’کاش میں بھی راستبازوں کی موت مروں اور میرا انجام بھی ویسا ہی ہو ‘‘ ۔ توہمیں ابھی سے چاہیے کہ راستبازوں کی زندگی اختیار کریں ۔ اور انہیں کے نمونہ پر چلیں۔
مرتےہوئے نجات دہندہ کا آخری کلمہ پاک نوشتوں میں سے لیا گیا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہ تھا کہ ہمارے خُداوند نے صلیب پر نوشتوں کی عبارت نقل کی ۔’’اے میرے خُدا ۔ اے میرے خُدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ‘‘۔ کا بڑا نعرہ بھی عہد ِعتیق کے الفاظ میں تھا۔ اور اُس کے دوسرے کلمات میں بھی کتبِ مقدسہ کی آیات کا اشارہ پایا جاسکتا ہے۔
اگر دعا دم ِمرگ ایک طبعی امر ہے تو ویسے ہی پاک نوشتہ بھی ہے۔ مختلف حالات اور مختلف ضروریات کے لئے مختلف زبانیں اور مختلف قسم کے لٹر یچر خاص خاص مناسبت رکھتے ہیں۔ مثلاً لاطینی قانون اور علم کی زبان ہے۔ جرمن فلسفہ کی۔ فرانسیسی گفتگو اور دربار کی ۔انگریزی تجارت کی۔ مگر زندگی کے نہایت پاک اوقات اور کاروبار کے لئے کوئی زبان بائبل سے بڑھ کر مناسب نہیں ۔ خاص کر موت کے متعلق ہر امر کے لئے وہ بہت ہی مناسبت رکھتی ہے۔ مثلاً لوحِ قبر (قبر کا کتبہ )کے لئے کسی اور جگہ سے فقرے نقل کرنا کیسا بے موقع (غیر مناسب)معلوم ہوتاہے۔ مگر پاک نوشتوں کی آئتیں کیسی بر محل (موقع کے مطابق )ہوتی ہیں۔ اور بستر ِمرگ پر بھی اور کوئی ایسے الفاظ نہیں۔ جو مرنے والے کی زبان پر ایسے بر محل ہوں۔
یہ بات مفصلہ ذیل استنباط (نتیجہ )سے جو ایک شخص کے پرائیوٹ روز نامچہ ( ڈائری ) میں سےلئے گئے ہیں۔ بخوبی روشن ہوتی ہے۔ ’’ مجھے یاد ہے کہ جب میں طالب علم تھا ایک شخص کو بسترِ مرگ تھا دیکھنے گیا وہ یونیورسٹی میں میرا رفیق (ساتھی )تھا۔ مگر مجھ سے چند سال آگے تھا۔اور جب وہ کالج کی تعلیم بڑی تعریف کے ساتھ ختم کر چکا ۔تو وہ کسی نو آباد ی کی یونیورسٹی میں پروفیسر فلسفہ مقرر ہوگیا۔ مگر چند ہی سال کے بعد اُس کی صحت بگڑ گئی اور وہ سکا ٹ لینڈ کو جہاں اُس کا گھر تھا۔ اپنی زندگی کے آخری دن کاٹنے کو چلا گیا ۔ اور ایسا اتفاق ہوا کہ میں اُسے ہوا خوری کے لئے باہر لے گیا ۔ اگر چہ پہلے اُس کے بھاری جسم کو اُٹھا کر گاڑی میں بٹھانے کے وقت کچھ تکلیف ہوئی۔ مگر وہ بڑے آرام کے ساتھ گاڑی میں تکیہ لگا کر بیٹھ گیا ۔اور تازہ ہوا کا لطف اُٹھانے لگا ۔ اُس دن دو اور دوست بھی اُس کے ہمراہ تھے۔ اور وہ بھی پُرانے کالج کے رفیق تھے۔ جو اُس کی ملاقات کو شہر سے آئے تھے۔ راستہ میں واپسی کے وقت وہ ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ اور صرف میں ہی اُس کے ہمراہ تھا۔ اُس وقت اُس نے اُن کے دوستانہ سلوک اور مہربانی کا ذکر شروع کر دیا۔ اور مجھ سے کہنے لگا کہ ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ سارا دن کیا کرتے رہے ہیں‘‘؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ۔ وہ بولا وہ مجھے ایک کتاب پڑھ کر سناتے رہے ہیں۔ مگر آہ ۔ میں اس سے بالکل دق آگیا ۔تب وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں میری طرف پھیر کو بولا ۔ یہ ایمان کی بات اور ہر طرح سے ماننے کے لائق ہے۔ کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کے لئے دُنیا میں آیا ۔ جن میں سب سے بڑا میں ہوں۔ اور پھرکہنے لگا ۔ میرے لئے اب اور کوئی چیز کسی کام کی نہیں۔ میں نے خود اس امر کا تذکرہ نہیں چھیڑا تھا۔ شاید میں ایسے شخص سے جو مجھ پر اس قدر فوق(رتبہ) رکھتا تھا۔ اس قسم کی گفتگو کرنے سے خائف(بے زار) تھا۔ مگر میرے یہ کہنے کی حاجت نہیں کہ مجھے اس امر سے کیسی خوشی ہوئی کہ مجھے ایسے بزرگ اور نیک دل آدمی کے دل کا بھید معلوم کرنے کا موقع مل گیا ۔ وہ کتاب جس کا اُس نے ذکرکیا ایک نہایت ہی عمدہ کتاب ہے۔ بہت تھوڑی کتابیں ہیں جو اُس پایہ کی ہیں۔ مگر زندگی میں ایسے مواقع ہیں۔ اور خاص کر وہ جو موت سے پہلے ہو تے ہیں۔ جب کہ ایسی کتاب بالکل بے محل معلوم ہوتی ہے۔ اور فی الحقیقت اور کوئی کتاب اُس وقت سے ایسی مناسبت نہیں رکھتی ۔ جیسی کہ وہ جس میں ابدی زندگی کی باتیں درج ہیں ۔
یہ بات بھی قابل ِلحاظ ہے کہ یہ کلمات جنہوں نے اُس کی زندگی کی آخری گھڑیوں میں اُسے سہارا دیا عہدِ عتیق کے کون سے حصّہ میں سے لئے گئے تھے۔ یہ عبارت اکتیسویں زبور میں ہے۔ دوسرا بڑا کلمہ بھی جس کی طرف میں نے اشارہ کیاہے۔ زبو ر کی کتاب میں سے یعنی بائیسویں زبور میں سے لیا گیا تھا۔ بلا شبہ عہدِعتیق کے تمام صحیفوں میں سے یہ صحیفہ نہایت ہی قیمتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ کتاب مصنف کے خون سے لکھی گئی ہے۔ اس میں انسان کے گہر ے سے گہرے رنج وغم اور اعلیٰ سے اعلیٰ اُمنگوں اور ولولوں کا حال ہے۔ اس میں روحانی تجربات کو نہایت صفائی اور پختگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ سب اولیاء اللہ کاہمیشہ سے دستور العمل اور ورد رہی ہے۔ اور اس کو پڑھنا اور اُس سے اُلفت رکھنا رُوحانی زندگی کی سب سے عمدہ علامات میں سے ہے۔
یسوع خوب جانتا تھا۔ کہ اُس کی زندگی کی مختلف ضروریات کے لئے کتاب مقدس کا کون سا حصّہ مناسبت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ عمر بھر بڑے شوق و محنت سے کتاب ِمُقدس کا مطالعہ کرتا رہا تھا۔ اُس کے کان بچپن سےاُس سے برابر مانوس تھے۔ عبادت خانہ میں وہ اُسے سنتا رہا تھا۔ غالباً وہ عبادت خانہ کے طومار لے کر علیحدگی میں بھی اُس کا مطالعہ کیا کرتاہو گا۔ اس لئے جب اُس نے وعظ و نصیحت شروع کی۔تو اُس کی زبان میں اُسی کا چسکاپایا جاتاتھا۔ اور بحث مباحثہ کے وقت بھی وہ ایسی آیت موقعہ پر نقل کر دیا کرتا تھا۔ کہ اُس کے مخالفوں کا جنہیں اپنی علمیت پربہت گھمنڈتھا۔ منہ بند ہو جاتا تھا۔ مگر وہ اپنے ذاتی کاموں میں بھی ہر ضرورت کے وقت اُس کا استعمال کرتاتھا۔ جب وہ بیابان میں تھا۔ تو اسی کے ذریعہ اُس نے دشمن کا مقابلہ کیا۔ اور اُس پر فتح حاصل کی ۔اور اب دم ِمرگ بھی اُس نے اُس کا اچھا ساتھ دیا ۔ اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے کلام الہٰی کو اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔ اُن کی ہر ضرورت کے وقت وہ اُن کا مدد گار ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی چاہتے ہیں۔ کہ وہ مرتے وقت ہمارا سہارا ہو ۔ تو ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی بھر اُسے اپنا مشیر و صلاح کار بنائے رکھیں۔
یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے۔ کہ یسو ع نے زبور میں سے یہ آیت کس طرح نقل کی۔ اُس نے کچھ اس کے شروع میں زیادہ کیا۔ اور آخر سے کچھ گھٹا دیا۔ شروع میں اُس نےلفظ ’’ باپ ‘‘ بڑھا دیا ۔ یہ لفظ اس زبور میں نہیں ہے۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔ عہدِ عتیق میں افراد انسانی نے ابھی تک خُدا کو اپنا باپ کہنا نہیں سیکھا تھا۔ اگر چہ خُدا کو چند مقامات میں ساری قوم کا مجموعی طور پر باپ لکھا گیا ہے۔ خُدا کے ساتھ نیا تعلق جواس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ مسیح ہی کی ایجاد ہے۔ اور اس آیت میں ایزاد (اضافہ ) کرنے سے اُس نےاُس پر کچھ اور ہی رنگ چڑھا دیا ۔پر ہم بھی عہدِعتیق کے ساتھ ایسا ہی کرسکتے ہیں۔ ہم بھی عہد جدید کے معانی و مطالب کو اُس میں داخل کر سکتے ہیں۔ فی الحقیقت اسی آیت کے متعلق ہمیں اسی قسم کے سلوک کاایک اور بڑا ثبوت ملتا ہے۔ ستفنس جو مسیحی دین کا پہلا شہید گزرا ہے۔ بہت سی باتوں میں اپنے اُستاد کی مانند تھا۔ اور اُس نے اپنی شہادت میں بھی اُسی کی نقل کی ۔ چنانچہ موت کے میدان میں اُس نے بھی اپنے دشمنوں کے لئے دُعا کی ۔ اے خُداوند یہ گناہ ان کے حساب میں نہ لکھنا۔ اسی طرح اُس نےمرتے وقت یہی الفاظ نقل کئے ۔ مگر ایک دوسری صورت میں ’’ اے خُداوند یسوع ۔ میری روح کو قبول کر ‘‘ ۔ یعنی اُس نے آخری دُعا مسیح سے کی۔ جیسے کہ خود مسیح نے باپ سے کی تھی ۔
دوسری تبدیلی جو یسوع نے اس آیت میں کی۔ وہ آخری الفاظ کا اُڑ دینا تھا ۔ جو یہ تھے۔ کہ کیونکہ تو نے مجھے خلاصی بخشی ۔ اُس کے لئے ان الفاظ کا استعمال کرنا مناسب نہ تھا۔ مگر ہمیں ان الفاظ کو چھورنا نہیں چاہیے ۔ اور اگر ستفنس کی مانند ہم بھی یہ دُعا مسیح سے کریں۔ تو ہمارے لئے یہ الفاظ کیسے بیش قیمت اور رقت انگیز (رُلانے والے) ہوں گے۔ اُس شخص سے بھی بڑھ کر جس نے پہلے پہل اُنہیں قلمبند کیا تھا۔
مرتے ہوئے نجات دہندہ نے یہ دُعا اپنی روح کی بابت کی تھی۔
اکثر اشخا ص مرتے اپنے جسم کے لئے بہت فکر مند ہوا کرتے ہیں۔ یہ شاید اُن کے جسمانی دُکھ اور تکلیف کی وجہ سے ہو۔ اور ڈاکٹر کی دوائیں بھی شاید اُن کی توجہ کو اپنی طرف لگائے رکھتی ہیں۔ بعض لوگ اپنے جسم کے لئے اس قسم کی فکر بھی ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ کہ مرنے کے بعد اُس سے سے کیا کیا جائے ۔ اور اس امر کے لے اپنی تکفین و تدفین کے لئے مفصل ہدایات کرنے لگتے ہیں۔ اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے ۔ کہ مرنے والے کا دل دمِ مرگ تک دُنیا وی کاروبار میں اُلجھا رہتا ہے۔ وہ اپنی جائیداد کے بندوبست کے متعلق ہدایات کرتے ہیں۔ اور اپنے خاندان کے لوگوں کی فکر انہیں لگی رہتی ہے۔ یسوع کے نمونہ سے ظاہر ہے۔ کہ اس قسم کے معاملات کی طرف بستر مرگ پر توجہ کرنا مناسب بات نہیں ہے۔ کیونکہ اُس کا پانچواں کلمہ کہ ’’ میں پیا سا ہوں‘‘ ۔اُس کی جسمانی ضروریات کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور نیز جب وہ صلیب پر لٹک رہا تھا۔ تو اُس نے اپنی ماں کے آئندہ آرام و آسائش کا بندوبست کیا۔ مگر سب سے بڑی فکر اُسے اپنی روح کے متعلق تھی۔ اور اُس نے اپنی آخری دُعا میں اُسی کی فکر کی۔
رُوح کیا چیز ہے؟ وہ ہماری ہستی کا سب سے لطیف اور اعلیٰ اور پاک حصّہ ہے۔ عموماً روز مرّہ کی زبان میں تو ہم جان کے لفظ سے اُسے یا د کیا کرتےہیں۔ جیسا کہ انسان کا ذکر کرتے ہوئے ہم کہہ دیا کرتے ہیں۔ کہ وہ جسم و جان سے مرکب ہے۔ مگر پاک نوشتوں کی زبان میں رُوح کو جان سے بھی تمیز کر کے اُسے باطنی انسان کا سب سے اعلیٰ اور لطیف حصّہ ظاہر کیا ہے۔ اُس کو ہماری فطرت کے باقی حصّوں سے وہی نسبت ہے۔ جو پھول کو پیڑ سے یا موتی کو سیپی سے ہے۔ وہ ہمارے باطن کی اُس چیز کا نام ہے۔ جو خصوصیت کے ساتھ خُدا اور ابدیت سے متحد اور ملی ہوئی ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ یہی چیز ہے ۔ جسے گناہ بگاڑنا چاہتا ہے ۔ اور جسے ہمارے رُوحانی دشمن برباد کرنا چاہتے ہیں۔ تو کیا تعجب ہےکہ وہ آخری گھڑی میں اور بھی زیادہ کوشش دکھاتے ہیں۔ کیونکہ یہ اُن کا آخر ی موقع ہوتا ہے۔ اور وہ بہت چاہتے ہیں۔ کہ روح کو جسم سے نکلتے ہی گرفتار کر لیں۔ اور اُسے اس کے اصلی رُتبہ سے نیچے گر اکر ذلت کی طرف لے جائیں ۔ یسوع جانتا تھا کہ اب وہ ابدیت میں داخل ہونے کو ہے۔ اور اپنی رُوح کو ان دشمنوں کے ہاتھوں سے چھین کر جو اس پر قابو حاصل کرنے کو آمادہ (تیار)کھڑے تھے۔ اُس نے اُسے خُدا کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ او وہاں وہ بالکل سلامت تھا ۔ کیونکہ اس ابد ی و ازلی ذات کے ہاتھ مضبوط اور محافظ ہیں۔ مگر ساتھ ہی وہ ملائم اور پُر محبت بھی ہیں۔کیسی محبت و اُلفت کے ساتھ ان ہاتھوں نےیسوع کی روح کو قبول کیا ہو گا۔ خُدا یک قدیمی نبوت
__________________________________________
1۔ کلام اللہ کے مفسر کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ دریافت کر ے کہ ہر ایک آیت اور لفظ کے اس وقت جب کہ وہ لکھا گیا اصل میں کیا معنی و مراد ۔۔۔۔اور اس اصلی استعمال کے دریافت کرنے میں بہت فائدہ ہو گا۔ لیکن اگرچہ شارح کا کام یہاں شروع ہوتا ہے۔ مگر یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا ۔ بائبل ایک ایسی کتاب ہے جو ہر زمانہ اور قوم کے واسطے ہے اور اُس پیغام کو دریافت کرنا جو وہ زمانہ حال کے لئے رکھتی ہے۔ یہ بھی شارح کا ایک ضروری فرض ہے ۔ ایسے شارح بھی آج کل پائے جاتے ہیں۔ جو اپنے قاعدے کو صحیح ٹھہراتے ہیں۔ اور جس کے رو سےپاک نوشتوں کا باغ محض سوکھی ہوئی نبابات کے نمونوں کا مجموعہ ثابت ہوتا ہے ۔ مگر یہ درست نہیں ۔ پاک نوشتوں سے ایسا سلوک کرنا چاہیے ۔ جیسے کہ ایک زمانہ کلام سے کیا جاتا ہے۔
کے صحیفہ میں پنے ایک خادم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ ’’ میں نے تجھے اپنے ہاتھوں کے سایہ میں ڈھانپ لیا ہے‘‘ ۔ اور اب یسوع اپنے سارے مرئی اور غیر مرئی(دیکھے واندیکھے ) دشمنوں سےرہا ئی پا کر جو اُسے گھیرے ہوئے تھے۔ اس نبوت کی تکمیل اپنےحق میں ڈھونڈتا ہے۔
یہ موت کا فن ہے۔ مگر کیا یہی زندگی کا فن بھی نہیں؟ ہر ایک ابن ِآدم کی رُوح مرتے وقت طرح طرح کے خطرات سے گھری ہوتی ہے۔ مگر زندگی بھر بھی یہی خطرا ت اُسے گھیرے رہتے ہیں۔ جیسا کہ کسی کا قول ہے کہ یہ رُوح ہمارا پھول اور ہمارا موتی ہے۔ مگر ہو سکتا ہےکہ موت کےوقت سے بہت پہلے یہ پھول کچلا جائے۔ اور یہ موتی کھو بیٹھیں ۔ ’’ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے‘‘۔ اور ایسے ہی دُنیا کی آزمائشیں اُس پر حملہ کرتی ہیں۔گناہ اُس ناپاک کرتا ہے۔ اس لئے زندہ آدمی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ دُعا نہیں کہ وہ ہر صبح اُٹھ کر اپنے منجی کی یہ دُعا مانگا کرے۔ وہ آدمی بڑا ہی خوش قسمت ہے جو اپنی روح کی نسبت یہ کہہ سکتا ہے۔ کہ ’’ میں اُسےجانتا ہوں جس پر ایمان لا یا ہوں ۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی اُس دن تک حفاظت کر سکتا ہے‘‘۔
ہمار ے نجات دہندہ کے آخری کلمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موت کی نسبت کیا خیال رکھتا تھا۔
وہ لفظ جو یسوع نے اپنی رُوح باپ کو سونپنے میں استعمال کیا اُس سے یہ بھی مراد ہے کہ وہ اپنی روح اُسے اس اُمید سے دے رہا تھا کہ وہ پھر اُسے واپس مل جائے گی۔ وہ گویا ایک محفوظ جگہ میں اپنا خزانہ جمع کر رہا تھا۔ جہاں وہ موت کے بعد جا کر اُسے پھر حاصل کرلے گا۔ اس یونانی لفظ کا یہ مطلب ہے ۔ جیسا کہ مقدس پولوس کے مذکورہ بالا قول سے بآسانی معلوم ہو سکتا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ وہ جاتا ہے کہ خُدا اس امانت کو جو وہ اُس کے سپرد کرتا ہے۔ (یہاں وہ وہی یونانی لفظ استعمال کس دن تک ؟ ظاہر ہے کہ وہ کوئی وقت زمانہ مستقبل میں ہے۔ جب کہ وہ جا کہ خُدا سے اُس چیز کاجو اُس نے اُس کے سپرد کی ہے۔ دعویدار ہو گا۔ اُس وقت مسیح کی نظر میں بھی کوئی ایسی ہی گھڑی تھی۔ جب اُس نے فرمایا کہ ۔ ’’ اے باپ میں اپنی رُوح تیرےسپرد کرتاہوں ‘‘۔ موت سے وہ تمام اجزاء جن سے فطرت انسانی مرکب ہے۔ جُدا جُدا ہو جاتےہیں۔ ایک جز یعنی رُوح خُدا کے پاس جا رہی تھی۔ دوسری جز آدمیوں کے ہاتھ میں تھی ۔ جو اُس پر اپنی ساری شرارت کا زور خرچ کر رہے تھے۔ اور وہ اُس گھر کو جہاں سب نے ایک نہ ایک دن جانا ہے جار رہی تھی۔ مگر یسوع ان متفرق اجزا کےدوبارہ اکٹھے آنے کا اُمید وار تھا۔ جب کہ وہ ایک دوسرے کو پھر پائیں گے۔ اور اُس کی شخصیت کا اتحاد پھر بحال ہو جائے گا۔
سب سے اہم سوال جو ایک قریبِ المرگ آدمی کو پوچھنا چاہیے اور جو ایک زندہ آدمی مو ت پر نظر کرکے پوچھ سکتا ہے۔ یہ ہے کہ ’’ اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر زند ہ ہو گا؟ کیا وہ سب کا سب مر جاتا ہے؟ اور کیا وہ ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے؟ آدمی کے دل میں اس قسم کا سخت خوف و اندیشہ تو ہے کہ شاید ایسا ہی ہے۔ اور ایسے معلم بھی ہمیشہ پائے جاتے ہیں۔ جو ا س شبہ کو ہمیشہ ایک مسلمہ اور ثابت شدہ مسئلہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ یہ تعلیم دیتےہیں ۔ کہ نفس ِ ناطقہ فقط مادہ ایک طاقت کا نام ہے۔ اور اس لئے جب جسم کےاجزا پر ا گندہ ہو جاتےہیں۔تو آدمی تحلیل ہو کر مادی دُنیا میں خلط ملط ہو جا تا ہے۔ اور لوگ ہیں۔ جو اگرچہ مادہ اور نفس ناطقہ (انسانی رُوح )کے درمیان امتیاز (فرق)کرتے ہیں۔تو بھی یہ تعلیم دیتے ہیں کہ جب جسم مٹی میں مل جاتا ہے۔ تو نفس ناطقہ بھی بحر ہستی میں جا ملتا ہے۔ جہاں اُس کی شخصیت زائل ہو جاتی ہے۔ اور ایسا ہو جاتا ہے۔ جیسا ایک قطرہ سمندرمیں جا پڑتا ہے۔ اور پھر ان دونوں میں کوئی ملاپ ممکن نہیں ہے۔ مگر ہمارے باطن میں ایک اعلیٰ اور پاک چیز ہے۔ جو اس قسم کے مسائل کو قبول کرنا گوارا نہیں کرتی ۔ اور بنی انسان کے بہترین معلم ہمیشہ ہمیں حوصلہ دلاتے رہے ہیں۔ کہ ہم اس سے بہت کسی چیز کی اُمید کر سکتے ہیں۔ مگر جو یقین وہ ہمیں دلاتے ہیں۔ اُس کی بنا کسی پختہ بات پر نہیں رکھتے ۔ اور اس لئے وہ بھی اس میں کچھ ہچکچاتے نظر آتے ہیں ۔ اور ان کا اپنایقین بھی کچھ دھندلا سا ہے۔ مگر اس امر کے لئے ہم مسیح کے پاس جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیشہ کی زندگی کی باتین اُسی کے پاس ہیں۔ وہ اس مضمون پر بغیر کسی پس و پیش کے بڑی صفائی کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ اور اُس کے آخری کلمات ثابت کرتےہیں۔ کہ جو کچھ وہ اوروں کو تعلیم دیتا تھا۔ آپ بھی اُس پر کامل یقین رکھتا تھا۔ مگر اُس نے اپنی تعلیم سے فقط حیات اور ابدیت کو ہی آشکار ا (ظاہر )نہیں کیا ۔ بلکہ وہ خود اپنی ذات میں اس مسئلہ کی صداقت کا ثبوت و دلیل ہے۔ کیونکہ وہ خود ہماری غیر فانی زندگی ہے۔ چونکہ ہم اُس کے ساتھ متحد ہیں۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ ہم ہرگز ہلاک وفنا نہ ہوں گے۔ کوئی چیز بلکہ موت بھی ہمیں اُس کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتی ۔کیونکہ اُس نے فرمایا ہے۔ کہ ’’ چونکہ میں جیتا ہوں ۔ تم بھی جیو گے ‘‘۔
مگر ہو سکتا ہے۔ کہ اس کلمہ کے مطالعہ کرنے میں ہم نے لفظی طور پر مرنے کے فن کو سیکھ لیا ہے۔ کا ش کہ ہمارے آخری الفاظ بھی یہی ہوں ۔ بہت سے لوگوں کے یہی آخری الفاظ تھے۔ جب جان ہس کو قتل گاہ کی طرف لے جارہے تھے۔ تو اُس کے سر پر ایک کاغذ لگا تھا۔ جس پر شیطانوں کی تصاد یر کھینچی ہوئی تھیں۔ گویا کہ اُس کے دشمنوں نے اپنے زعم (خیال )میں اُس کی رُوح کو انہیں کے سپر د کیا تھا۔ مگر وہ بار بار چلا تا تھا’’ اے با پ میں تیرےہاتھوں میں اپنی رُوح کو سونپتا ہوں‘‘۔ پولیکارپ اور جیروم ۔ لوتھر اور میلانکتھن اور اور بہت سے اصحاب کے آخری الفاظ یہ تھے۔ اپنی رُوح کے لئے خُداکے حضور جانےکو اس سے بہتر سواری کون ڈھونڈ سکتا ہے؟ لیکن خواہ ہم موت کے وقت اس دُعا کا استعمال کر سکیں یا نہیں ۔ مگر ہمیں چاہیے کہ بڑی کوشش کے ساتھ زندگی بھر اُس کا استعمال کرنے سے باز نہ رہیں۔ اُمید ہے کہ آپ بھی اس کتاب کو بند کرنے سے پہلے یہی دُعا کریں گے۔ کہ اے باپ میں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں‘‘۔
یہ پردہ پانچ ہاتھ لمبا اور سولہ ہاتھ چوڑا تھا۔ اور بابل کی ساخت تھا ۔ اس میں نیلگوں سفید۔ سُرخ اور ارغوانی رنگ عجیب طور سے آمیز (ملانا)کئے گئے تھے۔ جو عالم کے چار عنصروں کا نشان تھے۔ یعنی سرخ رنگ آگ کا ۔ نیلگوں رنگ ہوا کا ۔ سفید کتان زمین کا ۔ اس لئے وہ کہ وہ زمین کی پیداوار ہے۔ اور ارغوان سمندر کا ۔ اس لئے کہ وہ سمندر کی ایک قسم کی مچھلی سے نکلتا ہے۔
یہ بات کہ یہ پردہ اوپر سے نیچے تک پھاڑا گیا ہے۔ ظاہر کرتی ہے۔ کہ یہ خُدا کی اُنگلی سے پھاڑا گیا ۔ لیکن یہ بات کہ آیا اُس میں کسی ظاہری وسیلہ کو بھی دخل تھا یا نہیں ۔ ہم اس کی نسبت کچھ نہیں کر سکتے۔ بعض کا خیال ہے کہ بھونچال جو اُس وقت واقع ہوا ۔ وہ اس کا وسیلہ تھا ۔ا س طور سے کہ اُس سے اُوپر کا شہتیر ہل گیا ۔ یا اور کوئی اسی قسم کی بات واقع ہوئی ۔ جس سے پردہ پھٹ گیا ۔
تاریخ میں ایسے عظیم واقعات کے موقعوں پرجب کہ لوگوں کے دلوں میں عجیب قسم کا اضطراب و تشویش (بے چینی اور فکر مندی )پیدا ہو رہی ہوتی ہے۔ ذرا ذرا اسی باتیں بھی پُر معنی سمجھی جانی لگتی ہیں۔ ایسے حادثات افراد ِانسانی کی زندگیوں کے عجیب و غریب انقلابات کے موقعوں پر بھی ہوتے رہتےہیں۔ اُن کا مدار اور اثر زیادہ تر اُن جذبات پر موقوف ہوتا ہے۔ جو اُس وقت دیکھنے والے کے دل پر مسلط ہوتےہیں۔ بلا شبہ بعض لوگوں کوتو یہ پردے کا پھٹ جانا ایک معمولی سی بات معلوم ہوئی ہو گی ۔ مگر دوسروں کے دلوں میں اس سے سینکڑوں طرح کے خیالات پیدا ہو گئے۔ مگر ہمارے نزدیک بلا شبہ یہ واقعہ ایک اعلیٰ رُتبہ رکھتا ہے۔ اور الہٰی ہاتھوں کا کر شمہ معلوم ہوتا ہے۔ بادل او ر آگ کے ستون کی طرف جو بیابان میں بنی اسرائیل کے ہمراہ رہتا تھا۔ اس کے بھی دو پہلو تھے ۔ ایک عدالت کا ۔ دوسرا رحمت کا۔یہ اس امر کا نشان تھا۔ کہ یہ ہیکل ناپاک ہو گئی ۔ اور الہیٰ حضوری اُس میں سےنکل گئی ہے۔ اور اُس کا محل (موقع ) اور فائدہ اب بالکل جاتا رہا۔ اور یہ ایک عجیب بات ہے ۔ کہ اُس وقت نہ صرف عیسائیوں ہی کے دل اس قسم کےخیالات سے بھرے ہوئے تھے۔ بلکہ یہودیوں کے بھی ۔ یوسیفس یہودیوں کی ایک روایت بیان کرتا ہے۔ جس کی طرف رُومی مورخ ٹاکیٹس بھی اشارہ کرتا ہے۔ کہ اس واقعہ سے چند سال بعد عیدِ فسح کے موقع پر ہیکل کے اندرونی صحن کا مشرقی دروازہ جو ایسا بھاری تھا کہ اُس کے کھولنے کے لئے بیس آدمی درکار ہوتے تھے۔ اور علاوہ بریں اُس وقت مقفل (تالا لگا ہوا ) ہو رہا تھا۔ دفعتاً (اچانک )آدھی رات کے وقت کھل گیا ۔ اور اُس کے بعد کی عید پنتیکوست کے موقع پرکاہن نے جس کا کام رات کے وقت صحن کی خبرداری کرنا تھا ۔ پہلے تو ایک شور سُنا ۔ جیسے کہ پاؤں کی آہٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر ایک بلند آواز سنائی دی۔ گویا کہ بہت سی آوازیں کہہ رہی ہیں۔ کہ آؤ۔ یہاں سے چل دیں‘‘۔ لیکن فقط فلسطین ہی میں یہ خیال جا گزین نہ تھا۔ کہ تاریخ میں ایک انقلاب واقع ہو نے والا ہے۔ اور قدیم دُنیا کا خاتمہ ہو چلا ہے۔ بلکہ پلو طارک بھی ایک روایت بیان کرتا ہے۔ جو اُس نے ایک شخص سے سُنی تھی۔ کہ دفعہ ایک شخص کسی جہاذ پر سفر کر رہا تھا۔ جو ہوا تھم جانے کے سبب ایک ٹاپو کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب وہ وہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ تو اچانک ساحل پر سے ایک بلند اور صاف آواز سنائی دی۔ جو جہاز کے ناخُدا (ملاح) کا نام لےکر پکار رہی تھی۔ دوبارہ تو وہ خاموش رہا ۔ مگر جب تیسری دفعہ وہی آواز آئی ۔ تو اس نے جواب دیا ۔ اس پر وہ اور بھی بلند آواز کہنے لگی ۔ کہ جب تم گھر کو جاؤ تو کہہ دو کہ پان(PAN) مر گئی ۔ پان قدیم علم الاصنام میں نیچر یعنی فطرت کے دیوتا کا نام تھا۔ اس لئے جس کسی نے یہ آواز سُنی۔ نہایت خوف زدہ ہو گیا۔ اور انہوں نے آپس میں مشور ہ کرنا شروع کیا کہ آیا اس حکم کی اطاعت کی جائے یا نہیں ۔ آخر کار یہ قرار پایا کہ اگر واپسی کے وقت طوفانی ہوا چلتی ہو ۔ تو اس حکم کی اطاعت نہ کی جائے ۔ اور اگر ہوا تھمی ہوئی ہو ۔ تو کی جائے ایسا اتفاق ہوا کہ جب وہ وہاں پہنچے تو ہوا بالکل تھمی ہوئی تھی۔ اور اس لئے ناخُدا نے جہاز کے پتوار پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے وہی الفاظ کہے۔ جس پر نہ صرف اُس کی آواز کی گونج اُٹھی ۔ بلکہ ہوا بہت سےلوگوں کی چیخوں اور رونے چلانے سے بھر گئی۔ یہ ناخُدا قیصر طبریاس کے حضور میں طلب کیا گیا تھا۔ جس نے بڑی احتیاط سے اس واقعہ کی صحت (درستی )کی تحقیقات کی۔
اس واقعہ کےتاریک پہلو سے تو اس پردہ کے پھٹنے سے یہ مطلب تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا۔ کہ دیوتاؤں کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔ اور یروشلیم اب آئندہ کو بیت القدس نہیں رہا ۔ جہاں لوگ عبادت کو جا یاکریں۔ مگر ساتھ ہی اس کا ایک روشن پہلو بھی تھا۔ اور اسی پہلو کی وجہ سے یسوع کے رفیقوں (ساتھیوں )نے اس واقعہ کو اپنے دلوں میں بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا۔ جیسا کہ مقدس پولوس لکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب تھا۔ کہ وہ دیوار جو یہودیوں اور غیر قوموں کے درمیان حائل تھی۔ اب شکستہ ہو گئی۔ اور جیسا کہ عبرانیوں کے نام کے خط میں مفصل طور پر بحث کی گئی ہے۔ اس سے یہ مراد تھی۔ کہ اب رسم و دستور اور درمیانیوں کا سلسلہ جس کے مطابق عہدِعتیق کے رُو سے خُدا پر پرست خُدا تک پہنچنے کی کوشش کرتےتھے۔ مگر پھر بھی اُس سے فاصلہ پر رہتے تھے۔ بیچ میں سے اُٹھا دیا گیا ۔ خُدا کا دل اب سب پر آشکار ا (ظاہر )ہو گیا۔ اور یہ دل محبت سے معمور ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انسان کا دل مسیح کی قربانی کے وسیلہ گناہ آلود ضمیر سے رہائی پاکر جو وہ بیلوں اور بکروں کی قربانی سےکبھی حاصل نہ کر سکتا اب خوش و خرم خُدا کے حضور میں حاضر ہو سکتا اور ایک فرزند کی آزادی اور بے تکلفی کے ساتھ وہا ں آ جا سکتا ہے ’’ پس اے بھائیو ! چونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔ جو اُس نے پردے یعنی اپنے جسم کو پھاڑ کر ہمارے واسطے مخصوص کی ہے۔ اور چونکہ ہمارا ایسا بڑا کاہن ہے۔ جو خُدا کے گھر کا مختار ہے ۔ تو آؤ ۔ ہم سچے دل اور پورے ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔ خُدا کے پاس چلیں ‘‘۔ عبرانیوں ۱۰: ۱۹، ۲۲)۔
دوسری علامت بعض مردوں کی قیامت تھی۔ ’’ اور قبریں کھل گیں۔ اور بہت سے جسم اُن مقدسوں کے جو سو گے تھے۔ جی اُ ٹھے اور اُس کے جی اُٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر مقدس شہر میں گئے اور بہتوں کو دکھائی دیئے‘‘۔
خواہ ہیکل کےپردہ کا پھٹنا بھونچال کے باعث ہو یا نہ ہو۔ مگر اس میں شک نہیں کہ یہ دوسرا نشان ضرور اُس سے تعلق رکھتا تھا۔ فلسطین میں قبریں پہاڑوں کی غاروں میں ہوتی تھیں ۔ جن کے منہ پر بڑے بڑے پتھر اپنی جگہ سے ہل گئے ہوں گے۔ اور اجسام جو یا تو تختوں پر دھرے تھے۔ یا طاقوں یا محرابوں میں کھڑے کئے ہوئے تھے۔ اس سبب سے ہل جُل گئے ہوں گے۔ مگر بعض میں اور بھی ہل جُل واقع ہوئی۔ یعنی علاوہ بیرونی جنبش کے اُن کے اندر بھی خُدا کے زندگی بخش دم نے حرکت پیدا کر دی ہو گی۔
بہت سے دیندار علماء کے دل میں مختلف وجوہات سے اس معجزہ نے طرح طرح کے شکوک پیدا کر دیئےہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پاک نوشتوں کے دوسرے بیانات کے خلاف ہے۔ جن کے مطابق مسیح اُن کا جو سوتے ہیں ۔پہلا پھل تھا۔ اگر یہ مُردہ اجسام اس بھونچال کے موقع پر پھر زندہ ہو گئے ۔ تو وہ نہیں ۔ بلکہ یہ پہلے پھل ٹھہرے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ مُقدس متی نے اس بارہ میں احتیاط کی ہے۔ کیونکہ وہ لکھتا ہے۔ کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں سے ’’ اُس کے جی اُٹھنے کے بعد ‘‘ نکلے۔
اس لئے مُقدس متی اس امر میں بھی مُقدس پولوس کے ساتھ متفق ہے۔ اور مسیح ہی کو سب سے پہلے جی اُٹھنے والا ٹھہراتا ہے۔ مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ زندگی حاصل کرنے اور جی اُٹھنے کے درمیانی عرصہ میں اُن کی کیا حالت تھی؟ انجیل نویس کے بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ بھونچال کے وقت زندہ ہو گئے۔ مگر اس کے بعد تیسرے دن تک قبر سے نہ نکلے ۔ جب تک کہ مسیح نہ جی اُٹھا کیا یہ بات قابلِ یقین ہے ؟ یا کیا یہ بھی کوئی ایسی ہی روایت ہے۔ جیسی غیر مستند اناجیل میں پائی جاتی ہیں۔ جو کسی نہ کسی طرح انجیل متی میں گھُس آئی ہے؟ دوسر ے انجیل نویس جب کہ مقدس متی کے ساتھ پردہ کے پھٹنے کے معاملہ میں اتفاق کرتے ہیں۔ اس امر کا کچھ بھی ذکر نہیں کرتے ۔ اور پھر اُن کی رائے میں اس سارے بیان میں اُس احتیاط اور متانت (سنجیدگی) کا کہیں پتہ نہیں ملتا ۔ جو مسلمہ اناجیل کے تصدیق شدہ معجزات میں پائی جاتی ہیں۔ اور نیز وہ زمانہ بعد کے کلیسیاء کے مشہور معجزوں سے مشابہ ہے۔جو اکثر محض بچوں کا کھیل معلوم دیا کرتے ہیں۔
اس کے برخلاف یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدیم سے قدیم نسخے جو مُقدس متی کی انجیل کے پائے جاتے ہیں۔ اُن میں سے کسی سے بھی یہ نہیں پایا جاتا کہ یہ فقرات بعد میں کسی شخص نے ایزاد (اضافہ )کر دئیے ہیں۔ اور بہت سے باریک بین اُن کی نسبت یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ فقرات در حقیقت اس کتاب ہی کا جز اور اپنی جگہ میں بالکل بر محل (مناسب )معلو م ہوتے ہیں۔ وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں۔ کہ اگر وہ شخص جس نے اُس وقت صلیب پر جان دی۔ فی الحقیقت وہی تھا۔ جو وہ اپنی نسبت دعویٰ کرتا تھا۔ اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وہی تھا۔ تو ضرور ہے کہ اُس کی موت سے مُردوں کی سر زمین میں بھی بہت کچھ تحریک اور ہل چل پیدا ہو ۔ دُنیا کے زندہ مرد و عورت اُس واقعہ کی حقیقت سے جو اُن کی آنکھوں کے سامنے واقع ہو رہا تھا۔ محض بے خبر معلوم ہوتے تھے۔ مگر غیر مرئی دُنیا میں اس سے اس قدر تہلکہ مچ گیا کہ نہ ایسا پہلے کبھی ہوا ہو گا۔ نہ پھر کبھی ہو گا۔ یہ کوئی غیر طبعی بات نہ تھی۔ بلکہ عین طبعی امر معلوم ہوتا ہے۔ کہ بعض مردگان اس جوش اور شوق کی حالت میں اُس عالم کی حدود کو توڑ کر اس دُنیا میں آجائیں ۔ تا کہ وہ بھی وہیں رہیں جہاں مسیح تھا۔ اور یہ سوال کہ زندہ ہونے ۔ اور باہر نکل آنے کے درمیانی عرصہ میں وہ کیا کرتے رہے ۔ ایک ایسی ہلکی سی بات ہے کہ بہت غورو فکر کے لائق نہیں ہے۔ بہر صورت وہ اپنے خُداوند کے بعد جی اُٹھے۔ اور کیا یہ ایک مناسب امر نہ تھا۔ کہ چالیس دن کے بعد جب وہ فرشتوں اور مُقرب فرشتوں کے نعرہ ہائے خوشی کےدرمیان آسمان پر چڑھ گیا ۔ تو نہ صرف وہ خود ہی جسم میں ظاہر ہو ۔ بلکہ اُس کے ساتھ ایسے نمونہ بھی پائے جائیں۔ جو اس امر کا ثبوت ہوں۔ کہ اُس کی قیامت کا نتیجہ آخر کار اُس کے مومنین کے حق میں کیا کچھ ہو گا۔ اگر کوئی یہ سوال کرےکہ یہ مبارک مُقدسین کون تھے۔ جن کو یہ فوقیت اور امتیاز بخشا گیا ۔ تو ہم اس کےجواب میں کہیں گے۔ کہ ہمیں معلوم نہیں ۔ تاہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن لوگوں کی خاک جنہیں خُداوند اس قسم کی عزت بخشنے خوش ہوتا ۔ وہاں سے بہت دُور نہ تھی۔ مثلاً بزرگان مثل ابراہیم کے۔ شاہان (بادشاہ)مانند داؤد کے ۔ انبیاء مثل یسعیا ہ کے۔
مگر اس نشان کی حقیقی مُراد اس قسم کے خیالات پر منحصر نہیں ہے۔ اگر کبھی یہ دریافت بھی ہو جائے کہ یہ فقرات مُقدس متی کی انجیل میں بعد ازآں بڑھائے گئے ہیں۔ اور ہم کو یہ ماننا پڑ کہ یہ ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں کی قوت واہمہ (سوچنے کی قوت )ہے۔ تو بھی ہمارےدل میں یہ سوال ضرور پیدا ہو گا۔ کہ ان لوگوں نے ایک ایسی بات کیوں ایجاد کی ۔ اور اس کاجواب صرف یہی ہو گا۔ کہ اس کا باعث وہ مضبوط یقین تھا۔ جو اُن کے دل میں شعلہ زن تھا کہ مسیح کی موت اور قیامت نےموت کے دروازے تمام مقدسین کے لئے کھول دیئے ہیں ۔یہی وہ بزرگ اور جلالی ایمان تھا جو اُن ناقابلِ فراموش دنوں کے تجربوں نے ایمانداروں کے دلوں میں پیدا کردیاتھا۔خواہ اس ایمان کے پیدا کرنے میں ان جی اُٹھے مقدسوں کےنظارہ نے حصّہ لیا ہو یا نہ لیا ہو ۔اور یہی اس وقت بھی کلیسیاء اور تمام ایمانداروں کا ایمان ہے ۔
اگر اس واقعہ کو بھی ایک دوسرے پر دے کا پھٹنا کہیں تو بالکل بجا ہو گا۔ دُنیا میں خُدا کے چہرہ پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا۔ تو ویسے ہی ابدیت کا چہرہ بھی ایک پردہ سے ڈھنپ رہا تھا ۔ اُن کے خیالات وعقائد اس کی نسبت بالکل دھندلے سے تھے۔وہ بالکل اس امر کا یقین نہیں کر سکتے تھے کہ ہم محض مٹی کے ہیں ۔مگر مسیح سے الگ ہو کر سب سے بڑے داناؤں کے خیالات بھی دوسرے جہان کے متعلق کسی طرح سے صحیح یا یقینی کہلانے کے لائق نہیں ہیں ۔اور نہ اُن کو اس سے بڑھ کر کچھ حیثیت حاصل ہے۔ جیسے دو بچے اپنی ماں کے پیٹ میں اس دُنیا کےحالات کے متعلق بحث کریں۔ برخلاف اس کے مسیح اس غیر مرئی (اندیکھی )دُنیا کا ذکر ہمیشہ ایسی آزادی اور یقین کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ کہ گویا وہ وہاں کا رہنے والا ہے۔ اور اُس کے ذرہ ذرہ سے واقف ہے۔ اور اُس کی قیامت اور آسمان پر چلا جانا اُس عالم غیر فانی کا نہایت صحیح اور یقینی نظارہ ہے۔ جو مشکل سے کبھی اس دُنیا کو حاصل ہوا ہو گا۔
البتہ اس نشان میں اُس کی صحت (درستی )کا تعلق اُس کی موت کے ساتھ ہے۔ نہ اُس کی قیامت کے ساتھ ۔ مگر مسیح کی قیامت اُس کی موت کے ساتھ نہایت ہی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ عام طور پر گویا اُس کی راستبازی کا اعلان تھا۔ اس لئے چونکہ وہ فقط اپنے ہی لئے نہیں مرا بلکہ ایک پبلک یعنی عہدہ دار آدمی کی حیثیت سے۔ا ُس کا سارا جسم (یعنی کلیسیاء ) قیامت کا ویسا ہی حق دار ہے۔ اور وقت مقررہ پر یہ ظاہر ہو جائے گا ۔ کہ چونکہ اُس نے اُن کی جانب سے ہر ایک دعویٰ پورا کر دیا ہے اس لئے موت کو اُن کے روک رکھنے پر کوئی اختیار نہیں ہے۔
پہلا نشان اس مادی یا طبعی دُنیا میں واقع ہوا۔ دوسرا مردوں کے پاتال میں۔ مگر تیسرا نشان عام انسانی دُنیا میں واقع ہوا ۔ اور یہ اُس صوبہ دار کےمنہ سے جو اُس کے صلیب دینے پر مامور تھا۔ مسیح کا اقرار تھا۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتےے کہ آیا اس نشان کا تعلق بھی کسی قدر بھونچال سے تھا یا نہیں۔ غالباً یہ بھی بھونچال کے سبب سے ہوا۔ بھونچال سے جو حالت پیدا ہوتی ہے۔ غالباً دُنیا کی کسی اور چیز سے نہ ہوتی ہوگی۔ اور ایک معمولی سیدھے سادے آدمی پر جو اثر اُس کا پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ خُدا قریب ہے۔ اس لئے ظن غالب(یقینی ) ہے کہ صوبہ دار نے اس بھونچال کو گویا اپنے خیالات کے لئے جو اُس کےدل میں پیدا ہو رہے تھے۔ ایک قسم کی تائید ایز دی (خُدا کی حمایت )سمجھا۔ اور اُس نے فی الفور سب کے سامنے اُس کا اقرار بھی کر دیا۔
تاہم اس کا یہ اقرار اُن باتوں کا نتیجہ تھا۔ جو وہ مسیح کے چال چلن میں عدالت میں پیش ہونے کے وقت سےلے کر آخری دم تک دیکھتا رہا تھا۔ اور اس سے ہمارے خُداوند کےے چال چلن کی خوبصورتی پر ایک نہایت عمدہ شہادت ملتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مسیح کی گرفتاری سے لے کر آخری دم تک اُس کے ساتھ رہا ہو۔ ان لاثانی گھڑیوں میں اُس نے اُس کے دشمنوں کے غضب اور بے انصافی کو ملاحظہ کیا ہو گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھا ہو گا کہ اُن کے مقابلہ میں وہ کیسا صابر ۔ بُردبار ۔ حلیم ۔ اور عالی حوصلہ تھا۔ اُس نے اُسے اپنے صلیب دینے والوں کے حق میں دُعا کرتے ۔ چور کو تسلی دیتے۔ اپنی ماں کے گزارہ کا بندو بست کرتے ۔ اور خُدا کی طرف لَو لگاتے سُنا ہو گا۔ اس سے اُس کے دل میں اُس کی طرف زیادہ زیادہ کشش پیدا ہو تی گئی ہو گی۔ اور اُس کا دل اُس پر فریفتہ(عاشق) ہوتا گیا ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ صلیب کے رُو بُرو کھڑے ہو کر بڑے غور سے اُس کی تمام باتوں کو سنتا اور حرکات کو نگاہ رکھتا ہو گا۔ اور جب اُس کی آخری دُعا اُس کے منہ سے نکلی بھونچال نےگویا اُس کا جواب دیا ۔ تو اُس کا یقین پھوٹ نکلا۔ اور وہ اپنی شہادت کو ہرگز روک نہ سکا ۔
مُقدس لوقا اُس کی زبانی صرف یہ الفاظ لکھتا ہے کہ ’’ یہ ایک راستباز آدمی تھا‘‘ ۔ مگر دوسرے انجیل نویس لکھتے ہیں کہ ’’ یہ خُدا کا بیٹا تھا ‘‘ ۔ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ مقدس لوقا کے بیان میں دوسروں کا بیان بھی شامل ہے کیونکہ اگر صوبہ دار کے قول کا یہ مطلب تھا کہ یسوع کا دعویٰ حق تھا۔ تو بتایئے اُس کے دعویٰ کیا تھے؟ پیلاطس کی عدالت کےسامنے اُس نے یہ بیان سُنا تھا کہ یسوع ابنِ اللہ ہونےکا دعویدار تھا ۔ اور شاید اُس نے پیلاطس کے سامنے اُس کے سوال کے جواب میں خود مسیح کو بھی اس امر کا دعویٰ کرتے ہوئے سنا ہو۔ اور وہ برابر سنتا رہا تھا۔ کہ جو لوگ صلیب کےپاس کھڑے تھے۔ وہ برابر یہ نام اور نام لے لے کر اُسے بُرا بھلا کہتے تھے۔
لیکن جب اُس نے اس قسم کا اقرار کیا۔ تو اُس کا مطلب اس اقرار سے کیا تھا؟ یہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہے کہ جو کچھ اُس کی مراد ان الفاظ سے بحیثیت ایک ُبت پرست ہونے کے ہو سکتی ہے۔ سو یہ ہو گی۔ کہ یسوع بھی کسی خُدا یا دیوتا کا بیٹا ہے۔ انہیں معنوں میں جن میں رومی اور یونانی مرگ ہر کو لیز ۔ کاسٹر اور اور ایسے ایسے بہادروں کو دیوتاؤں کےبیٹے سمجھا کرتے تھے۔ یہ بات قرین عقل (وہ بات جسے عقل قبول کرے )معلوم ہوتی ہے۔ مگر اُس کی رُوح میں تحریک پیدا ہو گئی تھی۔ اور اُس کا ذہن کھل گیا تھا۔ اور جب کہ ایک دفعہ اُس کا دل اس راستہ پر چل نکلا۔ تو اُس کا بعد ازاں مسیح کی معرفت(پہچان) میں ترقی کرنا آسان تھا۔ ایک روایت کے روسے اُس کا نام لونگینیس بیان کیا جاتا ہے ۔ اور کہ وہ بعدازاں کپدوقیہ کا بشپ ہو گیا ۔ اور مسیح کے نام پر شہید ہوا۔
کیا یہاں ہم تیسرے پردہ کا پھٹنا نہیں دیکھتے ؟ خُدا کے چہرہ پر ایک پردہ پڑا ہے۔ جو دُور کیا جانا چاہیے ۔ ابدیت کے چہرہ پر پڑا ہے جو دُور کیا جانا چاہیے ۔ مگر سب سے زیادہ مہلک اور خوفناک وہ پردہ ہے جو آدمی کے دل پر پڑا ہے۔ اور جو اُسے مسیح کا جلا ل دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہ پردہ اُس دن قریباً اُس ساری گروہ کے دلوں پر تھا ۔ جو صلیب کے گرد جمع تھی۔ یہ اُن بے چارے سپاہیوں کے چہروں پر تھا۔ جو مرنے والے نجات دہندہ سے چند ہی قدم کے فاصلہ پر بیٹھے جوا کھیل رہے تھے۔ ان کا پردہ بے پروائی کا پردہ تھا ۔اُن مذہبی لوگوں اور عوام الناس پر بھی پردہ پڑا تھا ۔ مگر یہ تعصب کا پردہ تھا۔ اور ایک عظیم الشان نظارہ جس سے بڑھ کر دُنیا کو کبھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ مگر اُن کی آنکھیں بالکل اندھی تھیں۔
اب انسان کی زندگی بھر اُس کے گہوارے(پنگوڑے) سے لے کر قبر تک جو سب سے بڑا نظارہ اُس کو نصیب ہوسکتا ہے۔ سو مسیح کے جلال کا نظارہ ہے اور یہ اب بھی ہم سےایسا ہی قریب ہے۔ جیسا کلوری کے مجمع کے قریب تھا۔ بعض اُسے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے چہرہ پر سے پردہ پھٹ گیا ہے۔ اور وہ اس نظارہ کے سبب محوحیرت ہو کر کچھ اور کے اور ہی بن گئے ہیں۔ مگر اور ہیں جو اس سے اندھے ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے۔ کہ ایک آدمی یسوع سے بالکل قریب ہو ۔ اُس کے معاملہ میں شریک ہو۔ اُس کی زندگی اور تعلیم سےبھی خوب واقف ہو ۔ مگر تو بھی اُس کے جاہ جلال کوجو ا س کو منجی ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے۔ ذاتی طور پر دیکھنا نصیب نہ ہو۔
بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی قدرت کے ایک نہایت ہی عالی شان اور خوب صورت منظر میں اپنی زندگی بسر کر دے۔ مگر اُس کے حُسن و خوبی کی اُسے خبر تک بھی نہ ہو۔ مگر وہاں ایک شاعر یا مصور کہیں سے آ نکلتا ہے۔ اور وہ اس حسن کی شراب کے جام پر جام لُنڈ ھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس سے سرمست ہوکر اُس کی ایسی عمدہ تصویر کھینچتا ہے۔ جو ایک گیت کی طرح ہمیشہ کے لئے لوگوں کے دلوں کو لُبھاتی رہتی ہے ۔ اسی طرح سے ہم میں سے بعض کو ایسا وقت یاد ہو گا۔ جب کہ ایک معنی میں تو وہ یسوع سے خوب واقف تھے۔ مگر اس سے بڑھکر وہ اُن کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ لیکن ایک موقع پر پہنچ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا ایک پردہ پھٹ گیا ہے۔ اور ایک عجیب تبدیلی واقع ہو گئی ہے۔ اور اُس وقت سے وہ جدھر دیکھتے ہیں۔ اُدھر ہی انہیں نظر آتا ہے۔ وہ ستاروں اور پھولوں پر بھی اُسی کا نام لکھا پاتے ہیں۔ جب صبح کو اُٹھتے ہیں تو اُسی کے خیال میں اُٹھتے ہیں۔ اور جب سوتے ہیں۔ تو اُسی کے خیال میں سوتے ہیں۔ گھر میں بھی وہی ہے۔ اور باہر بھی وہی۔ اور وہی اُن کا سب میں سب کچھ ہے۔
اس پردہ کا پھٹنا سب سےبڑا ہم واقعہ ہے۔ کیونکہ جب یہ واقعہ ہوتا ہے۔ تو دوسری بات باتیں خود بخود اس کے پیچھے پیچھے آ جاتی ہیں۔ جب مسیح کے جلال پر نظر کرنے کے لئے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ تو ہم بہت جلد باپ کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ اور ابدیت کے چہر ہ پر سے تاریکی اُٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ ابدیت ہمارے لئے ہمیشہ خُداوند کے ساتھ رہنے کا نام ہے۔
عموماً موت کے بعد لاشیں فی الفور صلیب پر سے اُتاری نہیں جاتی تھیں۔ وہ وہیں صلیب پر لٹکتی رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ سٹرگل کر اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جاتی تھیں۔ یا پرند ےاور جنگلی جانور انہیں چیر پھاڑ کر کھا جاتے تھے۔ اور آخر کار شاید صلیب کے نیچے لکڑیاں رکھ کر آگ لگا دی جاتی تھی ۔ جس سے سب کچھ جل کر خاک ہو جاتا تھا۔ یہ تو رومیوں کا دستور تھا۔ مگر یہودی اس امر میں بہت محتاط تھے۔ اُن کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ ’’ اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو۔ جس سے اُس کا قتل واجب ہو۔ اور وہ مارا جائے۔ اور تو اُسے درخت میں لٹکاوے تو اُس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے۔ بلکہ تو اُسی دن اُسے گاڑدے۔ (کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خُدا کا ملعون ہے) ۔ اس لئے چاہیے کہ تیری زمین جس کا وراث خُداوند تیرا خُدا تجھ کو کرتا ہے ۔ ناپاک نہ کی جائے ۔ ( استثنا ۲۱: ۲۲، ۲۳) ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہودی ہمیشہ جب کبھی اُن کے رومی حاکم اس قسم کی سزا دیتے تھے۔ تو وہ شریعت کے اس حکم کی تعمیل کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر یہ طبعی بات تھی۔ کہ وہ ایسی صورتوں میں جب کہ قتل مُقدس شہر کے قریب واقع ہو ۔ یا عید ِفسح کے موقع پر ہو تو وہ اس کی تعمیل کرانے کی کوشش کریں۔ موجودہ صورت میں ایک اور وجہ بھی تھی۔ کیونکہ دُوسرا دن ایک ایک بڑا سبت تھا۔ یعنی عید فِسح کا سبت تھا ۔ جسے ایک طرح سے دوہرا سبت کہنا چاہیے۔ جس کی اس قسم کی ناپاک چیزوں سے ۔ مثلاً لاش بے کفن و دفن پڑے رہنے سے ناپاکی اور بے حرمتی ہوتی ۔ یہودی ان باتوں کے لئے بڑے غیر ت مند تھے۔ اگر وہ کبھی کسی میت کو چھو بیٹھتے ۔ تو اپنے کو ناپاک سمجھتے تھے۔ اور اس کے لئے انہیں بہت کچھ لمبی چوڑی طہارت (پاکیزگی)کرنی پڑتی تھی۔ تب کہیں جا کر وہ اس ناپاکی سےپاک ہوتے تھے۔ لیکن ایک فسح کے سبت کے موقع پر اگر کوئی مُردہ چیز اُن کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ۔ یا اُن کےشہر کی زمین پر کھلی پڑی رہتی۔ تو وہ اسے اور بھی زیادہ سخت ناپاکی سمجھتے تھے۔ اس لئے اُن کے پیشواؤں نے رومی حاکم کے پاس جا کر یہ التجا کی کہ تینوں مصلوبوں کو لاٹھیوں سے ہلاک کر دیا جائے اور سبت کے شروع ہونے سےپہلے اُن کی لاشیں گاڑدی جائیں۔
بعض کا خیال ہے۔ کہ اس ظاہر ی پاکیزگی کے خیال کے پس پشت اُن کی اصلی خواہش یہ تھی۔ کہ اس طور سے یسوع کو اور بھی دُکھ دیں اور اُس کی بے حرمتی کرائیں۔ جسم کی ہڈیوں کا توڑنا اور انہیں لاٹھیوں سے چکنا چُور کر دینا ایک نہایت خوفناک قسم کی سز اتھی اور رومی بعض اوقات اُسے عمل میں لایا کرتےتھے۔ وہ قریباً ایسے ہی بے رحمانہ اور بے حرمت کرنے والی بھی سمجھی جاتی تھی۔ جیسے صلیب ۔ مگر یہ بجائے خود ایک علیحدہ قسم کی سز ا تھی ۔ جو صلیب کے ساتھ شامل نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن یہودیوں نے اس صورت میں دونوں سزاؤں کو یکجا کرنے کی کوشش کی تا کہ یسوع علاوہ صلیب دیئے جانے کے گویا اس طور سے بھی ایک دوسری موت مرے۔ تاہم انجیل نویس کہیں اُن کی اس قسم کی منشاء کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔ بلکہ صاف یہی لکھتا ہے۔ کہ اُن کے غرض اس سے سبت کو بے حرمتی سے بچانا تھی۔ اور اگرچہ اُن کی عداوت سے یہ اُمید ہو سکتی ہے کہ انہوں نے محض کینہ کی رو سے اُس کو جلد مار ڈالنے کے لئے ہڈی توڑنے کی صلاح دی ہو۔ تو بھی اس امر سے انکار کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس بارہ میں اُن کا مذہبی پاکیزگی کا خیال محض بناوٹی نہ تھا یہ ایک بڑی عجیب مثال اس امر کی ہے کہ کس طرح آدمی کا ضمیر اُسے دھوکے میں ڈال دیتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھو جو ابھی ایک نہایت خوفناک جرم کے مرتکب ہو چکے تھے۔ اور اُن کے ہاتھ ابھی ایک بے گناہ کے خون سے تر ہورہے تھے۔ اور اُن کے ضمیر پر اس کا تو کچھ اثر نہ ہوا ۔ مگر وہ اس امر کے لئے اس قدر فکر مند ہیں۔ کہ وہ سبت کو لائق طور پر مناسکیں۔ اور ا ُن کی زمین رسمی ناپاکی سے محفوظ رہے ۔یہ ایک بہت بڑی مثال اس امر کی ہے کہ انسان دین کی ظاہر ی باتوں کے لئے تو ایسا غیر ت مند ہو ۔ مگر دین کی رُوح و حقیقت کی اُس میں بو بھی پائی نہ جائے۔
اس سے ہمیں ایک عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب ہم مذہب کے متعلق کسی بیرونی رسم و دستور کو ادا کر رہے ہوں ۔ تو اُس کے ساتھ ہی ہمارا دل بھی خُدا کی طرف لگا ہو ۔ اور نیز یہ سبق بھی حاصل کریں کہ اگر ہم اپنے بھائی کو جسے ہم نے دیکھا ہے ۔ محبت نہیں کرتے ۔ تو خُدا سے بھی جسے ہم نے نہیں دیکھا ۔ محبت نہیں کر سکیں گے۔
پیلا طس نے یہودیوں کی درخواست منظور کر لی ۔ اور اسی کے مطابق سپاہیوں کو حکم دیا گیا ۔ اب یہ خوفناک کا م شروع ہوا۔ انہوں نے پہلے اُس آدمی کی جو مسیح کی ایک جانب تھا ۔ دونوں ٹانگیں توڑیں ۔ اور پھر دوسرے کی ۔ تائب چور بھی اس سزا سے نہ بچا ۔ مگر اُس کی توبہ نے اُس کے حق میں کس قدر فرق پیدا کر دیا ۔ اُس کے ہمراہی کے لئے یہ امر فقط اُس کی سزا اور بے حرمتی میں ایک اور ایزا د (اضافہ)تھی۔ مگر اس چور کے لئے ان ٹانگوں کا توڑا جانا ایسا تھا جیسے گویا اُس کی بیڑیا ں کٹ گئیں ۔ اور اُس کی روح کو آزادی مل گئی کہ وہ پرواز کر کے بہشت کو جائے۔ جہاں مسیح اُس کے ملنے کے لئے کھڑا تھا۔
اب یسوع کی باری آئی ۔ لیکن جب سپاہیوں نے اُس کی طرف نظر کی تو معلوم کر لیا کہ اُس کا کام تمام ہو چکا ہے۔ موت اُن سے پہلے ہی اُس کی ملاقات کر چکی تھی۔ اور اُس کے جھُکے ہو ئے سر اور مرجھائے جسم سے ظاہر تھا کہ وہ مرچکا ہے مگر اس بات کو اور بھی یقینی طورپر معلوم کرنے کے لئے اُن میں سے ایک نے اپنی برچھی اُس کے جسم میں گھسیڑدی ۔ اور ایسا بڑا زخم لگا یا کہ جب مسیح جی اُٹھا تو وہ شک کرنے والے تو ما رسول سے کہہ سکتا تھا۔ کہ وہ اپنا ہاتھ اُن میں ڈال دے۔ اور جب یہ ہتھیار باہر نکالا گیا ۔ تو لہواور پانی اُس میں سے بہ نکلا ۔
مُقدس یوحنا جو وہاں موجود تھا اور جس نے یہ سب کچھ واقع ہوتا دیکھا۔ اُس نے اس واقعہ کو غیر معمولی عظمت کی نظر سے دیکھا کیونکہ وہ اپنےبیان کے ساتھ ہی ان الفاط میں اُس کی تصدیق کرتا ہے۔ گویا کہ وہ ایک سرکاری کاغذ پر اپنی مُہر ثبت کر رہا ہے کہ ’’ جس نے یہ دیکھا ہے۔ اُسی نے گواہی دی ہے۔ اور اُس کی گواہی سچی ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہوں تا کہ تم بھی ایمان لاو ٔ ۔ بھلا کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی کہانی کا سلسلہ توڑ کر جملہ معترضہ (قابلِ اعتراض )کے طور پر اس امر کا یقین دلانے کو ٹھہر جاتا ہے۔
بعض کا یہ خیال ہے کہ اُس نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ ایک بدعت کی تردید کرنا چاہتا تھا۔ جو قدیم کلیسیاء میں رواج پا گئی تھی۔ کہ مسیح فی الواقع انسان نہ تھا۔ اور وہ یہ کہتے تھے۔ کہ اُس کی موت ظاہر ہی میں ایسی معلوم ہوتی تھی۔ اس خیال کی تردید میں یوحنا رسول ان تفصیلی باتوں کا ذکر کرتا ہے۔ جن سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ حقیقی انسان تھا ۔ اور کہ اُس کی موت واقعی موت تھی۔ البتہ یہ قدیم بدعت عرصہ ہوا کہ مر چکی ہے۔ اور اس وقت مشکل سے کوئی ایسا ہو گا ۔ جو یسوع کی حقیقی انسانیت سے منکر(انکار کرنے والا) ہو ۔ لیکن یہ ایک عجیب بات ہے۔ کہ اس میلانِ طبع (فطرت کا رجحان)کا کہ اُس کی زندگی کے واقعات کو کسی نہ کسی طرح سے اُڑا دیا جائے۔ اس کا ظہور ہمیشہ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ زمانہ حال میں مقتدر (طاقتور)مسیحی معلم یورپ میں ایسے موجود ہیں۔ جو مسیح کی قیامت کے ساتھ اُسی قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ جو یہ لوگ اُس کی موت کے واقعہ سے کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ محض استعارہ کے طور پر ہے۔ اور اسے لفظی طور پر صحیح نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کے مقابلہ میں کلیسیاء اُس کی قیامت کے واقعات کو پیش کرتی ہے۔ جیسے کہ مقُد س یوحنا نےہمارے نجات دہندہ کی موت کے واقعات کو پیش کیا تھا۔ ہمارے زمانہ میں ہر قسم کے معلم پائے جاتے ہیں۔ جو اپنی تعلیم میں مسیح سے سند (ثبوت۔اختیار)لیتے ہیں۔ اور اُسی کو علم ِالہٰی کا مرکز ٹھہراتے ہیں۔ مگر ہم اُن سے سوال کرتے ہیں۔ کہ یہ کونسا مسیح ہے؟ کیا یہ وہ مسیح ہے ۔ جس کا ذکر پاک نوشتوں میں ہے۔ وہ مسیح جو ابتدامیں خُدا کے ساتھ تھا ۔ جو مجسم ہوا ۔ جو جہان کے گناہوں کے لئے مر گیا ۔ مُردوں میں سے جی اُٹھا ۔ اور ہمیشہ کے لئے سلطنت کرتا ہے؟ ہمیں محض لفظوں سے اپنے کو دھوکا نہیں دینا چاہیے فقط وہی مسیح جس کا ذکر پاک نوشتوں میں ہے ۔ ہمیں وہ نجات جو پاک نوشتوں میں لکھی ہے ۔ عطا کر سکتا ہے۔
بعض یہ خیال ہے کہ اس واقعہ سے جو تعجب و حیرت مُقدس یوحنا کے دل میں پیدا ہوئی ۔ اُس کا باعث عہدِعتیق کی دوآئتوں کا پورا ہونا تھا ۔ جنہیں وہ نقل کرتا ہے۔ ظاہراً یہ محض ایک اتفاقی بات معلوم ہوتی تھی۔ کہ سپاہی یہودیوں کی منشاء کے خلاف یسوع کی ہڈیاں توڑنے سے باز رہے ۔ مگر پاک کلام میں جس کی انہیں کچھ بھی خبر نہیں تھی۔ اس سے سینکڑوں سال پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اُس کی ہڈی توڑی نہ جائے گی۔ یہ بھی ایک اتفاقی امر معلوم ہوتا تھا کہ ایک سپاہی نےیسوع کے پہلو میں برچھی کھبودی۔ مگر ایک قدیمی پیشن گوئی جس سے وہ محض نا بلد(ناواقف) تھا کہہ چکی تھی کہ وہ اُس پر جسے انہوں نے چھید ا نظر کریں گے۔ اس طرح سے خد ا کے مقررہ ارادے کے مطابق یہ سپاہی اپنی وحشیانہ حرکات سے بھی پاک نوشتوں کے بیانات کو پورا کر رہے تھے۔ اور جنہوں نے اس امر کو دیکھا اور نیز پاک نوشتوں سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے جان لیا کہ الہٰی اُنگلی یسوع کو صاف صاف خُدا کا بھیجا ہوا بتا رہی ہے۔
پہلی آیت کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خروج کی کتاب میں سےلی گئی ہے۔ جہاں فسح کی رسم کا حال درج ہے۔ اور دراصل و فسح کے بّرہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس کی بابت یہ حکم تھا کہ وہ ثابت کھایا جائے اور اُس کی ہڈی نہ توڑی جائے ۔ مُقد س یوحنا کا یہ خیال معلوم ہوتا ہے۔ کہ یسوع عہدِ جدید کا بّرہ ہے۔ اور اس لئے انتظامِ الہٰی یہ تھا ۔ کہ اُس کی کوئی ہڈی نہ توڑی جائے تا کہ اصل نمونہ کے ساتھ مشابہت میں فرق نہ آئے ۔ اور ہڈی توڑنے کی صورت میں یہ مشابہت قائم نہ رہتی یہودی تاریخ کے تمام زمانوں میں عیدِ فسح ایک عظیم الشان عید سمجھی جاتی تھی۔ اس سے غرض یہ تھی۔ کہ اُسی کی یاد آوری سے لوگ اُس عجیب و غریب زمانہ کو یاد رکھیں ۔ جب خُدا نے اپنے فضل و قدرت سے اُن کو ایک مستقل قوم بنا دیا ۔ اور اپنے دستِ قدرت(زور آور ہاتھ) سے مصریوں کی غلامی سے رہا کر کے مصر سے باہر نکال لا یا۔ اور اس عید کی خاص رسم فسح کے بّرہ کا ذبح کرنا اور کھا نا تھا۔ اس سے وہ یاد کرتے تھے۔ کہ کس طرح مصر میں اس بّرہ کے خون کے سبب جو اُن کے گھروں کے دروازوں پر چھڑکا گیا تھا ۔ وہ فنا کرنے والے فرشتے کے ہاتھ سے جو ملک میں سے گزر رہا تھا محفوظ رہے۔ اور کس طرح اس بّرہ کا گوشت ایسی حالت میں جب اُن کی کمریں کسی ہوئی تھیں۔ اور لاٹھیاں اُن کے ہاتھ میں تھیں۔ کھایا گیا تھا۔ اور اس کے گوشت سے انہیں اس خوفناک سفر کے لئے قوت حاصل ہوئی۔ اس طرح تمام زمانوں میں اس رسم سے دو باتیں اُن کے ذہن نشین کی جاتی تھیں۔ اوّ ل یہ کہ گذشتہ گناہوں کی معافی ملنی چاہیے ۔ اور دوسری کہ آئندہ سال کے لئے جو اس نئی فسح کے بعد شروع ہوتا تھا۔ انہیں عالم بالا سے زور و قوت عطا ہو نی چاہیے۔ اسی طرح عہدِ جدید میں ہمارے دل ہمیشہ خُدا کے فضل اور قدرت کے اُس عجیب و غریب مکاشفہ کی طرف لگائے جاتے ہیں۔ جس سے مسیحی دین پیدا ہوا۔ اور یہاں بھی عین وسطی(درمیانی) جگہ اُس ذبح شدہ بّرے کو حاصل ہے جو ہمارے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور جس سے آئندہ جدوجہد اور سفر ِ دُنیا کے لئے ضروری طاقت عطا ہوتی ہے۔ اگر ہم نور میں چلیں ۔ جس طرح کہ وہ نور میں ہے۔ تو ہماری آپس میں شراکت ہے۔ اور اُس کےبیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔
دوسری پیشن گوئی جو مقدس یوحنا کے نزدیک اس واقعہ سے پوری ہوئی یہ تھی۔ کہ وہ اُس پر جسے انہوں نے چھیدا نظر کریں گے۔ یہ آیت ذکریاہ نبی کے صحیفہ میں درج ہے۔ اور جو ایسی عجیب و غریب ہے کہ اُسے تمام و کمال یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ اور میں داؤد کے گھرانے پر اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح برساؤں گا ۔ اور وہ مجھ سے جسے انہوں نے چھیدا ہے ۔ نظر کریں گے اور وہ اُس کے لئے ماتم کریں گے ۔ جیسا کوئی اپنے اکلوتے کے لئےمائم کرتا ہے ۔ اور وہ اُس کے لئے تلخ کام ہوں گے ۔ جس طرح سے کوئی اپنے پہلوٹھے کے لئے تلخ کامی میں پڑتا ہے۔
یہوواہ اُس مخالفت کو جو اُس کے اور اُس کے خادموں کے درمیان واقع ہوئی۔ استعارہ کے طور پر اپنے چھیدنے اور دُکھ دینے سے تعبیر کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم بھی جب کوئی ہماری بے عزتی کرے ۔ کہا کرتے ہیں کہ اُس نے میرا دل چھید دیا ۔ مگر مسیح کی موت میں یہ استعارہ ایک حقیقت میں تبدیل ہو گیا ۔ابنِ اللہ کےجسم پاک پر برچھی کا وار کیا گیا اور اُسے چھیدا گیا ۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقدس یوحنا اُسے رومی سپاہیوں کی طرف نہیں۔ بلکہ یہودی قوم کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ مگر نبوت میں نہ صرف لوگوں کے خُدا کو چھیدنے کا ۔ بلکہ اپنے اس کام پر شرمساری اور اشکباری کے ساتھ نظر کرنے کا بھی ذکر ہے۔ یہ بات عید پنتیکوست پر پوری ہونی شروع ہوئی۔ اور اُس وقت سے لے کر ہر زمانے میں یہودی قوم میں ایسےآدمی پائے گئے ہیں۔ جو اس کارروائی کے متعلق اپنے جرم کا اقرار کرتے رہے ہیں۔ لیکن پورا اقرار ابھی تک معرض التواء(رُکا ہوا) میں ہے۔ مگر خُدا کی یہ قدیم اُمت جب کبھی رجوع لا ئے گی ۔ تو اُس کا آغاز اسی گر یہ و فریاد سے ہونا چاہیے۔ درحقیقت ہر ایک انسان جب اُس کو اپنے حقیقی رشتہ کی جو وہ مسیح سے رکھتا ہے۔ خبر ہوتی ہے۔ تو وہ بھی یہی اقرار کرتاہے۔ یہ فقط چند رومی سپاہی یا ایک خاص قوم کے سر بر اہ (بزرگ)وہ لوگ ہی نہیں تھے۔ جنہوں نے مسیح کی طرف سے اپنے دل کو سخت کر لیا تھا۔ جس نے اُسے صلیب پر چڑھا یا ۔ اور اُس کا خون بہایا ۔ اس لئے ہر ایک گنہگار کو یہ محسوس کرنا چاہیے۔ کہ وہ بھی اس میں شریک تھا ۔ اور صرف اُسی وقت جب ہم اپنے گناہ کی نسبت یہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کہ وہ گویا خُدا کے بیٹے کی ذات میں خود ذات ِالہٰی پر حملہ کرتا ہے۔ تو ہم اُس کی حقیقت اور بڑائی کو سمجھ سکیں گے۔ بہت سے اور لوگ ہیں۔ جو یوحنا کی حیرت و تعجب کا باعث اس امر کو سمجھتے ہیں۔ کہ اُس نے مسیح کے پہلو سے خون اور پانی بہتا دیکھا۔
ایک لاش کو اگر چھیدا جائے ۔ کم سے کم اگر اُسے مرے کچھ وقت ہو گیا ہو ۔ تو عموماً اُس میں سے کچھ نہیں بہا کرتا ۔ جس بات نے اُسے فریفتہ (عاشق)کر لیا۔ وہ یہ تھی کہ نجات دہندہ کا جسم گویا چھیدنے سے ایک چشمہ بن گیا ۔ جس میں سے یہ دو قسم کی رطوبت خارج ہوئی جب بیابان میں مو سیٰ نے اپنا عصا چٹان پر مارا ۔ تو اُس میں سے پانی بہ نکلا ۔ جس سے ہلاک ہوتی ہوئی جماعت کو زندگی مل گئی۔ مگر یہ دو چیزیں جو یسوع کے پہلو سے بہ نکلیں۔ وہ یوحنا کی نظر میں گویا اس سے بھی کہیں بہتر تھیں۔ کیونکہ اُس کے نزدیک خون گویا صلح و کفارہ کی علامت تھا۔ اور پانی مسیح کی روح کی ۔ اور ان دونوں باتوں پر ساری نجات کا مدار ہے۔ اسی کے مطابق ہم اپنے ایک مشہور گیت میں گایا کرتے ہیں۔
وہ گناہ کی دوا ہو دوزخ سے بچانے کو
اگر چہ مُقد س یوحنا نے شاید اس امر پر غور نہیں کیا کہ مسیح کے زخمی پہلو سے ان دو چیزوں کے یہ نکلنے کی کیا وجہ تھی۔ مگر اور لوگوں نے اس امر کی طرف توجہ کی ہے۔
بعض نے تو اس بات کو ایک بالکل غیر طبعی واقع سمجھا ہے ۔ اور انہوں نےا س کو اس کو امر پر محمول کیا ہے کہ ہمار خُداوند کی انسانیت ایک خاص تقسیم کی تھی۔ اگر چہ وہ مر گیا ۔ مگر اور انسانوں کی طرح اُس کا جسم سڑا نہیں۔ اُس کا جسم سڑا نہیں۔ اُس کا جسم چند ہی گھنٹہ بعد مُبدل اور جلالی ہو کر موت کے پنجہ سے نکل گیا ۔ یہ تبدیلی کا سلسلہ جو آخر کار اُس کی قیامت پر ختم ہوا۔ اُس کی موت ہی کے وقت سے شروع ہو گیا تھا۔ اور اس برچھی کے زخم نے جو گویا اس تبدیلی کے اثناء میں لگایا گیا جسم کی بالکل غیر معمولی بناوٹ کو ظاہر کر دیا۔
دوسروں نےمسلمہ واقعہ ہی پر لحاظ کرکے اس امر کے لئے اس سے بالکل مختلف مگر نہایت ہی دلچسپ وجہ ٹھہراتی ہے ۔ انہوں نے مسیح کی موت کے دفعتاً واقع ہونے پر خاص طور پر تو جہ کی ہے۔ جو لوگ صلیب دیئے جاتے تھے۔ وہ عموماً کئی کئی دن تک اُس پر جیتے لٹکے رہتے تھے۔ مگر وہ چھ گھنٹہ سے بھی زیادہ نہ جیا۔ مگر موت کے عین پیشتر وہ بار بار بلند آواز سےچلاتا رہا ۔ گویا کہ اُس کی جسمانی قوت ہر گز زائل نہیں ہو گئی تھی۔ لیکن دفعتاً ایک بلند چیخ کے ساتھ ہی اُس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا ۔ اس کا کیا باعث ہو سکتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات جسمانی اور ذہنی دباؤ کی سختی کی وجہ سے دل پھٹ جایا کرتا ہے۔ اور مریض چلاتاہے۔ اور موت ناگہاں واقع ہو جاتی ہے۔ ہم عموماًکہا کرتے ہیں۔ کہ فلاں آدمی تو دل کے ٹوٹنے سے مر گیا ۔ لیکن یہ بات محض استعارہ کے طور پر ہوتی ہے۔ مگر بعض اوقات یہ امر لفظی طور پر بھی صحیح ہوتا ہے۔ دل سچ مچ غم کے مارے شکستہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہ جب موت اس طور سےواقع ہوتی ہے۔ تو خون جو دل میں بھرا ہوتا ہے۔ ایک اور تھیلی میں جو دل کو گھیرے رہتی ہے۔ بہ جاتا ہے۔ اور یہاں وہ دو اجزا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ ایک تو پھٹکی دار چیز جو خون کے رنگ کی ہوتی ہے۔ اور دوسری شفاف بیرنگ چیز جو پانی کی مانند ہوتی ہے۔ اور اس حالت میں اگر اُس تھیلی کو برچھی یا کسی اور چیز سے چھیدا جائے تو ان دونوں اشیاء کی ایک بڑی مقدار بہ نکلے گی جسےایک معمولی دیکھنے والا جو علمی اصطلاح سے واقف نہیں۔ خون اور پانی سمجھے گا۔
یہ مسئلہ پچاس سال ہوئے ایک انگریز ڈاکٹر سٹر وڈ صاحب نے ثابت کیا تھا۔ اور اُس وقت کے بعد بہت سے دوسروں ڈاکٹروں نے بھی جو علم و حکمت میں اُس سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اُس کے ساتھ اتفاق رائے ظاہر کیا ہے۔ مثلاً پروفیسر بیگبی مرحوم اور سر جیمس سمپسن صاحبان ۔ موخر الذکر ڈاکٹر صاحب اپنی ایک کتاب میں نجات دہندہ کی موت کا سال نہایت درد ناک اور موثر الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ کم سے کم مجھے بحیثیت ڈاکٹر ہونے کے ہمیشہ یہ خیال گذرتا ہے۔ کہ وہ طریق جس سے مسیح کی جسمانی موت وقوع میں آئی ۔ ہمارے خیالات اور تصورات کو اس بارے میں بہت ہی گہرا کر دیتا ہے کہ وہ کتنی بڑی قربانی ہو گی ۔ جو اُس نے صلیب پر ہمارے گنہگار ابنائے جنس کے لئے گذرانی ۔ اس سے بڑھ کر اور عجیب و غریب کیا بات ہو گی ۔ کہ کس طرح ہماری خاطر ایک نہایت بے چارگی کے عالم میں خُدا نے انسان بن کر اپنے انسانی جسم کو صلیب کے دُکھوں اور عذابوں کے حوالہ کر دیا۔ لیکن اس قربانی کی عظمت کی نسبت ہمارا تعجب اور بھی ترقی کر جاتاہے۔ جب ہم اس امر پر غور کرتےہیں۔ کہ جب وہ اس طرح ہمارے گناہوں کے لئے نہایت سخت بے رحمانہ تکلیف وہ جسمانی کا متحمل ہو رہا تھا۔ تو وہ آخر کار اپنی جسمانی تکالیف کی سختی کے سبب سے نہیں ہلاک ہوا ۔ بلکہ اپنے دل کے دُکھ کے سبب جو اس سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ اس کے دل کی گوشتین دیواریں جو اُس کی جسمانی ہیکل کے پردہ کی طورپر تھیں۔ پھٹ گئیں جب کہ اُس نے ہمارے لئے اپنی جان کو موت میں لنڈھا دیا۔ اور اس طور سے اُس کی جان کا دُکھ اس گھڑی میں ایک ناقابل بیان تلخی سے معمور اور اُس کے جسم کے دُکھوں سے کہیں زیادہ درد ناک تھا۔
ہم اس باب میں زیادہ تر خیالات اور مفروضات کے عالم میں پھرتے رہے ہیں۔ اور ہم مستقل طور پر یہ تحقیق نہیں کر سکےکہ کونسی بات قابل تسلیم ہے۔ اور کونسی نہیں۔ یہ ایک پُر اسرار موقع ہہے۔ اور جس طرف ہم منہ کرتے ہیں۔ دُھندے مگر دلکش معانی پردہ کے پیچھے سے جھا نکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے اس نظارہ کا نام مُردہ مسیح رکھا ہے۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ مُردہ مسیح ایسا عجیب اور دلچسپ اسی وجہ سے ہے۔ کہ وہ زندہ مسیح بھی ہے؟ وہ زندہ ہے ۔ وہ یہاں موجود ہے ۔ وہ اس وقت ہمار ے پاس ہے۔ مگر اس کا برعکس بھی صحیح ہے۔ زندہ مسیح ہمارے لئے ایسا عجیب اور قابل پر ستش معلوم ہوتا ہے ۔ اس وجہ س کہ وہ مُردہ مسیح بھی ہے۔ یہ بات کہ وہ زندہ ہے ہم میں اُمید اورقوت پیدا کرتی ہے۔ مگر یہ اُس کی موت کی یاد گار ہے ۔ جس کے لحاظ سے وہ ہمارے بوجھ سے لدے ہوئے ضمیر اور ہمارے درد مند دلوں کی محبت کا سہارا ہے۔
صرف سخت دل اور تنگ خیال لوگ ہی موت کے بعد جسم انسانی کو بے پروائی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور تکفین و تدفین کے متعلق ہر قسم کی رسوم و دستورات کو حقیر اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ مگر بنی آدم کی فطرتی خواہش ان لوگوں کی نسبت زیادہ داناہے ۔ قدیم زمانہ میں منساسب طور سے دفن نہ کیا جانا نہایت بد قسمتی کی بات سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر چہ اس خیال کے ساتھ بہت س باطل تو ہمات بھی ملے ہوئے تھے۔ مگرتو بھی اُس کی تہ میں ایک صحیح انسانی جذبہ تھا۔ جسم کو بھی رُوح کی طرح ایک قسم کا رتبہ و عزت حاصل ہے۔ خاص کر جب کہ اُسے روح القدس کی ہیکل مانا جائے ۔ اور موت میں بھی ایک عظمت کا خیال ہے۔ جس کی طرف سے بے پروائی کرنے میں زندوں کا سخت نقصان متصور ہے ۔ اور جب ہم کسی جنازہ کی بابت دیکھتے ہیں کہ اُس کی تیاری میں جلدی اور بے پروائی سے کام لیا گیا ہے ۔تو ہمیں بُرا معلوم ہوتا ہے۔ اور ایسا خیال گزرتا ہے کہ گویا فطر ت انسانی کی بے حرمتی کی کئی ہے۔ برخلاف اس کےہمیں ایک طرح کی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم کسی جنازہ کو بڑی سنجیدگی اور تجمل کے ساتھ لے جاتےدیکھتے ہیں۔ اور جب کوئی ایسا
____________________________________________
1۔یہ عبارت حنا صاحب کی کتاب موسومہ ’’خُداوند کے دُکھوں کا آخری دن ‘‘ سے نقل کی گئی ہے۔
2۔ مختصر سوال و جواب کی کتاب میں اس خیال کو نہایت خوبصورتی سے ظاہر کیا ہے۔ ’’ اور اُن کےاجسام جواب بھی مسیح سے متحد ہیں۔ قیامت کے دن تک قبروں میں آرام کرتے ہیں‘‘۔
شخص گز ر جاتا ہے۔ جس کی زندگی کار ہائے نما یا ں اور فیاضی ، و عالی حوصلگی سے بھر ی تھی۔ اور جس نے اپنی قوم کی بہبودی اور بنی انسان کے فائدے کے لئے عمدہ عمدہ کا م سرانجام دیئے تھے۔ تو جب اُس کی لاش ایک عالم کے نوحہ اور ماتم کے درمیان دفن کی طرف لےجاتے ہیں۔ اور گھنٹے بجتے ہیں۔ اور تو میں داغی جاتی ہیں۔ اور گلیوں میں دوُر و یہ لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ اور علماء و شرفا اُس کی قبر کے گردا گرد کھڑےے ہوتےہیں۔ تو جس شخص کے دل پر اس دلکش نظارہ کا کچھ بھی اثر نہ ہو ۔ ہم کہیں گے ۔ کہ اُس کا دل کسی مرض میں گرفتار ہے۔ یا وہ ابھی تک بالکل کندہ نا تراشیدہ ہے۔
عظیم اور دانا اور نیکو کار لوگوں کی تدفین اسی طور سے ہونی چاہیے۔ تو آؤ۔ ہم دیکھیں کہ وہ جس کے سبب سے زیادہ عظیم اور دانا اور نیکو کار ہونے کا سب کوئی قائل ہ۔ کس طور سے دفن کیا گیا۔
شام کے قریب تینوں لاشیں صلیب پر سے اُتار لی گئیں ۔ پیشتر اس کے کہ یہودیوں کا سبت ۔ جو غروب آفتاب کے وقت سے شروع ہوتا تھا۔ آوئے ۔ غالباً دونوں چور اُسی مقام پر معہ صلیب لکڑی اور دوسری چیزوں کے دفن کر دیئے گئے ہوں گے۔ یا اُن کی لاشیں اُٹھا کر کسی گمنام گوشہ یا خندق میں جہاں مجرموں کی لاشو ں کو زمین میں گڑھے کھو د کر ڈال دیا کرتے تھے۔ لے گئے ہوں گے۔
یسوع کی لاش کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ۔ اگر ایک شخص جس کے آنے کی ہرگز کسی کو پہلے تو قع نہ تھی۔ آکر مداخلت نہ کرتا ۔ رومیوں کے درمیان یہ ایک اچھی رسم تھی کہ مجرموں کی لاشیں اُن کے دوستوں کو اگر وہ درخواست کیں تو دے دی جایا کرتی تھیں۔ اور اس وقت یسوع کی لاش کے لئے بھی ایک شخص دعویدار ہوا ۔ جسے پیلاطس نے بلا تامل لاش حوالہ کر دی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ہم انجیل کی تاریخ میں یوسف ارمتیا کا نام پڑھتے ہیں۔ اور اُس کے ماقبل کی زندگی کا ہمیں کچھ حال معلوم نہیں ہے۔ بلکہ وہ شہر جس کےنام سے وہ کہلاتا ہے۔ اُس کا بھی صحیح طور پر ابھی پتہ نہیں چلا۔ اس بات سے کہ یروشلیم کے نواحی میں ایک باغ اور مکان اُس کی ملکیت تھا۔ یہ امر ثابت نہیں ہو تا کہ وہ وہیں کا باشندہ تھا۔ کیونکہ ہر ایک دیندار یہودی کے دل میں بڑی خواہش تھی۔ کہ بیت المقدس کےے گردو نواح میں مدفون ہوں۔ اور اب بھی اگر دیکھا جائے ۔ تو شہر کا گردنواح قبروں اور مقبروں سے بھرا پڑا ہے۔
یوسف ایک دولت مند آدمی تھا اور اس سے پیلا طس کے نزدیک اُس کی درخواست کے مقبول ہونے میں بھی مدد ملی ہو گی ۔ جن لوگوں کے پاس مال دولت یا مرتبہ یا لیاقت ہے۔ وہ کئی طرح سے مسیح کی خدمت بجا لا سکتے ہیں۔ جو غریب او رنادار لوگوں کی بساط سے باہر ہوتی ہے۔ مگر پیشتر اس کے کہ یہ خدمات مسیح کے نزدیک مقبول ہوں ۔ یہ ضرور ہے کہ وہ لوگ جنہیں یہ قابلیتیں حاصل ہیں۔ اُس کی خاطر سے انہیں نقصان اور کوڑا سمجھیں۔
یوسف ایک مشیر تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ ارمتیا کی کونسل کا مشیر تھا۔ مگر اس بیان میں کہ ’’ اُس نے اُن کی صلاح اور کام کو منظور نہ کیا تھا‘‘۔ ظاہر اً صدر مجلس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ وہ غالباً اُسی مجلس کا مشیر تھا۔ بلا شبہ وہ جان بوجھ کر اُس اجلاس سے جس میں یسوع پر فتویٰ لگا یا گیا ۔ غیر حاضر رہا ہو گا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی سے جانتا تھا۔ کہ یہ ساری کارروائی درد ناک اور نفرت انگیز ہو گی۔ کیونکہ ’’وہ ایک نیک اور راستباز آدمی تھاُ‘‘۔
لیکن اُس کی نسبت ہمیں اس سے بھی زیادہ کچھ بتایا گیا ہے کہ ’’ وہ خُدا کی بادشاہت کا منتظر تھا ‘‘ ۔ یہی فقرہ ایک اور موقع پر عہدِ جدید میں اُس کے فلسطین کے دیندار لوگوں کے حق میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس سے ایک عجیب طور پر اُن کی دیندار کی خصوصیت بھی آشکار ا ہوتی ہے۔ وہ زمانہ روحانی طور پر مُردہ تھا۔ مذہبی جماعت میں یا تو فریسیوں کی طرح احکام شرع کی ظاہر ی پابندی نظر آتی تھیَ یا صدوقیوں کی طرح وہ بالکل بے اعتقاد تھے۔ عبادت خانوں میں لوگ روٹی کے اُمید وار ہو کر جاتے تھے۔ مگر وہاں انہیں پتھر ملتے تھے۔ فقیہ لوگ بجائے اس کے کہ بائبل کی سچائیوں کے خالص اور شفاف دریا کو ملک میں بہنے دیں۔ اُسے اپنی بے جان تفسیروں اور شرحوں کی ریت سے اٹ رہے تھے۔ مگر بُرے سے بُرے زمانوں میں بھی نیک لوگ پائے جاتے ہیں۔ اور اس وقت فلسطین میں بھی سچے دیندار کہیں کہیں موجود تھے۔ وہ اُن روشنیوں کی مانند تھے۔ جو تاریکی میں کہیں کہیں ٹمٹماتی نظر کرتی ہیں۔ یہ لوگ ضرور اپنے دل میں محسوس کرتے ہوں گے۔ کہ وہ اپنے ملک اور اپنے زمانہ میں محض اجنبی اور مسافر کے طور پر ہیں۔ اور وہ گویا زمانہ ماضی اور مستقبل میں زندگی بسر کرتے تھے۔ انبیاء جن کا کلام اُن کی رُوحوں کی خوراک تھا ایک ایسے اچھے آنےوالے زمانہ کی پیشین گوئی کرتے تھے۔ جب کہ اُن لوگوں پر جو تاریکی میں بیٹھے ہیں ۔ بڑا نور چمکےگا ۔ اور وہ اسی بہتر زمانہ کی انتظار میں تھے۔ وہ اس بات کے منتظر تھے۔ کہ نبوت کی آواز کو پھر ایک بار ملک میں گونجتا ہوا سنیں۔ جو لوگوں کو اُن کی رُوحانی نیند سے جگا ئے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ایک مسیح کے منتظر تھے۔ اور اس بات کے اُمید وار تھے کہ کاش وہ ہمار ے ہی زمانہ میں جلوہ گر ہو۔
ایسے ہی لوگ تھے۔ جن کے درمیان یوحنا اور یسوع دونوں کو اپنے شاگرد ملے۔ ایسے لوگوں نے بپتسمہ دینے والے اور اُس کے جانشین کو بڑی خوشی سے قبول کیا ہو گا۔ کم سے کم انہیں اُن نبیوں میں سے سمجھا ہو گا ۔ جو اُن کے زمانے کی بُرائیوں کے دفعیہ (دفع کرنا )کے لئے مبعوث(نبی برپا ہونا ) ہوئے ہوں ۔ لیکن اس بارے میں کہ آیا یسوع ہی وہ ہے۔ جو آنے والا تھا ۔ یا اُنہیں اور کی راہ تکنی چاہیے ۔ وہ بھی شبہ میں تھے۔ یوسف بھی شاید ان لوگوں میں سے ہو گا۔ اُس کی بابت یہ لکھا ہے۔ کہ وہ یسوع کے شاگردوں میں سے تھا۔ مگر یہودیوں کے خوف سے اس بات کو پوشیدہ رکھتا تھا۔ اُس کے پاس ایمان تو تھا۔ مگر یہ ایمان ایسا کافی نہیں تھا ۔ کہ وہ یسوع کا عام طور پر اقرار کر سکے۔ اور اُس سےجو کچھ مصیبت اُس پر پڑے۔ اُس کے اُٹھانے کو آمادہ (راضی )ہو ۔ یسوع کی تحقیقات کے وقت بھی اُس نے اپنی ضمیر کی تلافی کے لئے یہی کافی سمجھا ہو گا ۔ کہ صدرِ مجلس سے غیر حاضر رہے۔ بجا ئے اس کے کہ اپنی جگہ پر حاضر ہو اور علانیہ اپنے یقین و عقیدہ کا اظہار کرے۔
اُس وقت تو وہ جیسی حالت میں رہا ۔ لیکن اب باوجود خوف خطرے کے اُس نے اپنے کو یسوع کے پیرؤں میں سے ظاہر کر دیا۔ اس امر پر غور کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ کہ وہ کیا بات تھی۔ جس نے اُسے اس بات پر آمادہ کیا ہو گا۔ کہ اب زیادہ تامل (دیر )کرنا مناسب نہیں بعض اوقات مذہبی اُمور میں کامل طور پر فیصلہ کرنے کے لئے اسی قسم کے واقعات ممد(مدد گار ) ہوتےہیں۔ مثلاً ایک شخص جو دورائیوں کے درمیان میں ٹھہرا ہوا ہو تا ہے۔ یا اُسے اپنے یقین کا عام طور پر اقرار کرنے کی کبھی جرات نہیں ہوتی۔ ایک دن جب کہ وہ اپنے ہم مشرب(مذہب ) لوگوں میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ تو مذہبی اُمور پر بات چیت چھڑ جا تی ہے۔ اور بعض لوگ اُس کی مسخری اُڑاتے اور مسیح کے بندوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔ اُس کی تعلیم و مسائل پر ٹھٹھا کرتے اور اُس کے نام پر کفر بکتے ہیں۔ لیکن آخر کار وہ اس امر میں حد سے بڑھنے لگتے ہیں۔ تب یہ خاموش اور نیم اعتقاد شاگرد اپنے کو ضبط نہیں کر سکتا ۔ وہ غضب ناک ہو کر بول اُٹھتا ہے۔ اور اس طرح سے اُس کا مسیحی ہونا طشت از بام (مشہور ہونا )ہو جاتا ہے۔ یوسف کے دل میں کسی ایسے ہی طور سے یہ تبدیلی پیدا ہوئی ہو گی ۔ اُسے سارے صدر ِمجلس کی مخالفت کرنی پڑی ۔ اور خود اُس کی جان بھی معرض خطر میں تھی۔ مگر اب وہ باز نہ رہ سکا ۔ اور سب خوف کو پس پُشت ڈال کر وہ بذات خودپیلاطس کے پاس گیا ۔ اور یسوع کی لاش مانگی۔
مسیح کا دلیری سے علانیہ اقرار کرنے سے دو نتیجے پیدا ہو ا کرتے ہیں۔
ایک طرف تو اس سے مخالف دب جاتے ہیں۔ یہ نہیں لکھا کہ اس موقع پر ایسا کرنے سے یوسف کو کچھ نقصان پہنچا ۔ یا یہ کہ صدر ِمجلس والوں نے فی الفور اُس کے ستانے اور ایذا دینے پر کمر باندھی وہ درحقیقت بڑے جو ش و غضب سے بھر ے ہوئے تھے۔ اور اُس کے مقابلہ میں ستر اور ایک کی نسبت رکھتے تھے۔ مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک اکیلا دلیر آدمی اس سے بھی زیادہ مضبوط مخالفت کو نیچا دکھا دیتا ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے۔ کہ اُن میں سے بہتوں کے ضمیر انہیں اس کا م کے لئے نفرین (ملامت ) کر رہے تھے۔ اور وہ اس امر کے لئے تیار نہ تھے۔ کہ ایسے مستقل مزاج اور معقول آدمی سے جس کے مزاج سے وہ خوب واقف تھے۔ خواہ مخواہ اس مُقدمہ میں بحث مباحثہ کرنے پر آمادہ ہوں۔ جو لوگ مسیح کے اقرار پر کمر باندھ لیتے ہیں۔ انہیں ایک بڑا فائدہ یہ حاصل ہے۔ کہ اُن کے مخالفوں کا ضمیر بھی ایک طرح سے انہیں کا طرفدار ہوتا ہے۔
مسیح کا دلیری سے اقرار کرنے کا دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ اور لوگ بھی جن کے سینے میں اتنی گرمی وحرارت نہیں ہوتی کہ وہ خود بخود ایسا کرنے کی جرات کریں۔ اُس کی مثال و نمونہ کو دیکھ کر اس امر کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس صورت میں بھی یوسف کے نمونہ سے نیکدیمس کوبھی اپنی وفاداری دکھلانے کی جرات ہوئی۔
نیکدیمس بھی وہی عہدہ رکھتا تھا۔ جو یوسف کا تھا۔ کیونکہ وہ بھی صدرِ مجلس کا ممبر تھا۔ اور وہ بھی خفیہ طور پر مسیح کا شاگرد تھا۔ وہ انجیلی تاریخ کے صفحہ پر اس وقت پہلی دفعہ ہی ظاہر نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ہم پڑھتے ہیں کہ وہ یسوع کے آغاز رِسالت ہی میں اُس کی طرف کھنچا گیا تھا۔ یہاں تک کہ خفیہ طور پر اُس سے ملاقات بھی کر آیا تھا۔ جس کا تذکرہ انجیلِ یوحنا کا ایک قیمتی جزو ہے۔ اور جس کو پڑھ کر نہ طرف ہزار ہا ہز ار آدمی یسوع پر ایمان لائے ہوں گے۔ بلکہ اُس کے گواہ بھی بن گئے ہو ں گے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس کلا م سے اُس شخص کو جس سے مخاطب ہو کر دراصل مسیح نے وہ کلام کیا تھا ۔ اس قدر فائدہ حاصل نہ ہوا ۔ جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ نیکدیمس کو مسیح کے سب سے پہلے شاگردوں ک زمرہ میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ اور اس کے مرتبہ اور مقام سے رسولوں کی جماعت کو بہت ہی تقویت پہنچتی ۔ مگر وہ شش و پنج میں تھا۔ اور اس لئے خفیہ طور پر شاگرد بنا رہا ۔ ایک موقع پر وہ ضرور بو ل اُٹھا ۔ یعنی اُس وقت جب کہ ایک نہایت نا واجب بات صدرِ مجلس کے سامنے مسیح کے حق میں کہی گئی تھی۔ تو لکھا ہے کہ اُس نے یہ سوال کیا کہ ’’ کیا ہماری شریعت کسی شخص کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ جب تک پہلے اُس کی سُن کر جان نہ لے کہ وہ کیا کرتا ہے ‘‘؟ لیکن جب انہوں نے غصّہ سے یہ جواب دیا کہ ’’ کیا تو بھی گلیلی ہے‘‘؟ تو وہ دب گیاا ور بالکل خاموش ہو رہا۔ بلا شبہ یوسف کی طرح وہ بھی اُس جلسہ سے جس میں یسوع پر فتویٰ لگا یا گیا غیر حاضر رہا ہو گا۔ مگر صدر ِمجلس کی بے انصافی ایسی سخت درجہ کی تھی۔ کہ وہ عام طور پر اُس کے خلاف کہنے کو آمادہ تھا۔ لیکن شاید وہ اپنے یقین کے مطابق کبھی عمل نہ کرتا ۔ اگر یوسف اُس کی اس طرف رہنمائی نہ کرتا ۔
مگر نیکدیمس میں یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ وہ ایک ترقی کرنے والا آدمی تھا۔ اگر چہ وہ کچھ عرصہ کے لئے رُکا رہا۔ لیکن آخر کا ر وہ نکل ہی آیا۔ اور دیر سے آنا نہ آنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ جب وہ یوسف سے ملاقی (ملاقات ہونا )ہوا۔ تو اُس کے لئے یہ بڑی خوش قسمتی کی گھڑی سمجھنی چاہیے ۔ بہت سے دوستوں کے مجمعے ایسے ہیَ جن میں سب کے سب تہ دل سے سچائی پر یقین رکھتے اور اُسی کی طرف مائل ہیں۔ اور اگر اُن میں سے ایک بھی دلیری کر کے نکل آتا ہے۔ تو باقی بڑی خوشی سے اُس کی پیروی کرتے ہیں۔ یوسف اور نیکدیمس کے ہاتھ منجی کی لاش پر ایک دوسرے سے مل گئے۔ جب انہوں نے مل کر اُسے اُٹھایا ۔ اور کوئی ایسی محبت یا دوستی مضبوط یا گہری نہیں ہو گی۔ جیسی کہ وہ جس کا مدار مسیح کے رشتہ اور تعلق پر ہو۔
مُصوروں نے خُداوند کی تدفین کا نقشہ بڑی تفصیل کے ساتھ کھینچا ہے ۔ مگر وہ زیادہ تر قوت و اہمہ (سوچنے کی قوت )پر مبنی ہے۔ انہوں نے اسے مختلف سینوں پر تقسیم کیا ہے۔
پہلے صلیب پر سے اُتارا جانا ہے۔ جس میں علاوہ یوسف اور نیکدیمس کے کم سے کم مُقدس یوحنا اور بعض اوقات اور لوگ بھی دکھائے جاتے ہیں۔ جو میخیں نکالتےاور لاش کو نیچے اُتارتے ہیں۔ اور صلیب کے نیچے مُقدس عورتیں ۔ جن میں مُقدس کنواری مریم اور مریم مگدلینی خاص طور پر دکھائی جاتی ہیں۔ جو نیچے سے اس قیمتی بوجھ کو پکڑتی ہیں۔
ایک اور تصویر میں عورتوں کے لاش پر ماتم کرنے کا نظارہ دکھا یا جاتا ہے۔ اس میں مُقدس ماں عموماً اپنے بیٹے کا سر گود میں لئے ہوتی ہے۔ اور دوسری عورتیں ہاتھوں کو پکڑے ہوتی ہیں۔ پھر سب مل کر اُسے قبر کی طرف لے جاتےہیں۔ اور آخر کار اُسے دفن کرتےہیں۔ جس کی تصویر مختلف طور پر کھینچی جاتی ہے۔
ان نظاروں کے کھینچنے پر مشہور و مصروف مصوروں نے اپنی ساری حکمت اور صنعت خرچ کی ہے ۔مگر اناجیل کا بیان بالکل مختصر اور سادہ ہے۔ اُس میں مُقدس کنواری کانام بھی نہیں لیا۔ اور اگرچہ دوسری مُقدس عورتوں کا وہاں موجود ہونا لکھا ہے۔ مگر اس کا کہیں اشارہ بھی نہیں کیا کہ انہوں نے اُس کی تدفین میں کسی قسم کی امداد کی۔ بلکہ صرف یہ کہ وہ لاش کے پیچھےگئیں۔ اور جہاں وہ دفن ہوا تھا۔ اُس مقام کو دیکھا۔ فقط یوسف اور نیکدیمس کا خاص طور پر ذکر پا یا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ فرض کر لینا بھی قرین قیاس (وہ بات جسے عقل قبول کرے )ہے۔ کہ اُن کے نوکروں نے اس کام میں اُن کی مدد کی ہوگی ۔ اور سپاہیوں نے لاش کے اُتار نے میں ہاتھ بٹایا ہو گا۔
خُدا وند کی لاش ایک نئی قبر میں جو ایک چٹان میں سے تراشی گئی تھی۔ اور یوسف نے بعد مُردن اپنے دفن کئے جانے کےلئے تیار کروائی تھی۔ رکھی گئی۔ وہاں پہلے کبھی کوئی لاش نہیں رکھی گئی تھی۔ ایک خارج شدہ اور مصلوب آدمی کے لئے یہ ایک بڑا احسان سمجھنا چاہیے۔ اور یہ بہت مناسب تحفہ بھی تھا۔ کیونکہ یہ واجب تھا کہ پاک اور بے گناہ آدمی کی لاش جو سب چیزوں کو نئے سر سے بنانے آیا تھا۔ اور اگرچہ مُردہ تھی۔ مگر سڑنے والی نہیں تھی۔ ایک ایسی ہی پاک قبر میں رکھی جائے۔ ایسے ہی نیا کتانی کپڑا بھی جو یوسف اُس کی لا ش کو لپیٹنے کے لئے لایا تھا۔ بالکل برمحل اور مناسب موقع تھا ۔مگر نیکدیمس بھی اظہارمحبت و عقیدت میں پیچھے نہ رہا ۔ وہ مُراور لوبان کا مرکب لایا۔ جس کا وزن قریباً پچاس سیر تھا‘‘۔ یہ مقدار بہت ہی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ مگر اُس زمانہ میں مصالحو ں کی ایسی ہی بڑی بڑی مقداریں استعمال کرنے کا رواج تھا۔ مثلاً لکھا ہے کہ ہیرودیس کے جنازہ پر جو مصالح استعمال کئے گئے۔ وہ پانچ سو آدمی اُٹھا کر لائے تھے۔
یہ قبر ایک باغ میں تھی۔ اور اس سے بھی ایک مناسبت اور خوب صورتی ظاہر ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ صلیب کے مقام سبے بہت دُور نہ تھی۔ لیکن اس امر پر شبہ ہو سکتا ہے ۔ کہ وہ اس قدر قریب تھی۔ جیسی کہ وہ جگہ ہے۔ جو روایت کے مطابق ٹھہرائی گئی ہے۔ مر قد مُقدس کا گرجا جو اس وقت یروشلیم میں موجود ہے اس کے احاطہ میں نہ صرف قبر کی جگہ بلکہ وہ سوراخ بھی جس میں صلیب کی لکڑی گڑی تھی۔ پایا جاتا ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے سے فقط تیس گز کے فاصلہ پر ہیں۔ مگر اس امر میں شبہ ہے کہ آیا ان دونوں مقاموں کا صحیح طور پر دریافت ہونا ممکن ہے۔ تاہم زمین کا یہ ٹکڑا دُنیا بھر نہایت ہی مشہور مقام ہے۔ مسیحی دُنیا نے اس راویت کو جو شہنشاہ قسطنطین کے زمانہ سے چلی آتی ہے۔ صحیح مان لیا ہے۔ اور اُس وقت سےلے کر حاجی لوگ برابر اُس مقام کی زیارت کو جاتے رہے ہیں۔ اسی مقام پر قبضہ کرنے کی غرض سے مشہور و معروف صلیبی جنگ واقع ہوئے تھے۔ اور آج کےدن بھی مسیحیوں کی مختلف کلیسیائیں وہا ں فٹ فٹ بھرجگہ حاصل کر نے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتی ہیں۔
اگرچہ ہمیں ان حاجیوں اور ججوں کے ساتھ کچھ بھی ہمدردی نہ ہو۔ اور ان پاک مقاموں کے اصلی موقع کو دریافت کرنے میں کچھ بھی دلچسپی نہ ہو۔ مگر مرقد اقدس کی طرف خواہ مخواہ ایماندار کا دل کھینچا جاتا ہے۔ گذشتہ زمانوں میں دیندار لوگ قبرستا ن میں جا کر غورو فکر کیاکرتے تھے۔ مگر زمانہ حال کے دیندار زیادہ خوشنما مقامات کو اس غرض کے لئے انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور ہم اُمید کرتے ہیں۔ کہ وہ اس طور سے بھی روحانی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہر ایک آدمی جس کے دل میں طبعی محبت جاگزین ہے۔ وہ ضرور اپنے محبوب اور رشتہ دار کی قبر کے پاس ٹھہرنا دوست رکھتا ہے۔ اور ہر ایک سنجیدہ مزاج آدمی کو کبھی کبھی اپنی قبر کا ضرور خیال آتا ہو گا۔ اور ایسے موقعوں پر اس سے بڑھ کر اور کون سی چیز سے مد د مل سکتی ہے ۔ کہ ہم عالم خیال میں اُس شخص کی قبر کا حج کیا کریں۔ جس نے یہ فرمایا تھا کہ ’’قیامت اور زندگی میں ہی ہوں‘‘۔
دُنیا کے بڑے بڑے آدمیوں کے مقابلہ میں یسوع کا جنازہ ایک معمولی غریب آدمی کا جنازہ تھا۔ لیکن اُن لوگوں کی حیثیت کے لحاظ سے جن کو اُس کے آخری کفن و دفن کی عزت ملی ۔ کوئی اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا ۔ اور جو کچھ انہوں نے کیا دلی محبت و اُلفت سے کیا ۔ گو ظاہر اً دھو م دھام کا وہاں کچھ نام و نشان نہ تھا۔ اس طور سے آخر کار وہ اُس نئی قبر میں۔ جس میں پہلے کوئی نہیں رکھا گیا تھا۔ خوشبودار مصالحوں کے انبار میں۔ اور مہکے ہوئے پھولوں کے باغ کے درمیان رکھا گیا ۔ اُس کا جسم سفید کتان میں لپٹا ہو ا تھا۔ اور اُس کے سر پر رومال بند ھا تھا۔ جو اُس کے سر کے کانٹوں کے زخموں کو چھپائے ہوئے تھا۔ اور قبر کے دروازے پرایک بڑا پتھر رکھا تھا۔ اور یہ اُس کی آرام گاہ تھی۔ شام کا وقت تھا ۔اور سبت شروع ہو چکا تھا۔ اُس کا کام تمام ہو چکا تھا ایذا اور دُشمنی اب اُس کا پیچھا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اُس جگہ پہنچ گیا تھا۔ جہاں شریر دُکھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تھکے ماندے آرام کرتےہیں۔